Language: UR
حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1949ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ میں فرمایا : ‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : <span class="quranic">اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ</span>۔ عام طور پر اس کے یہ معنی کئے جاتے ہیں کہ مُردوں کی برائی بیان نہیں کرنی چاہئے وہ فوت ہوگئے ہیں اور ان کامعاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے۔ یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن درحقیقت اس میں قومی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے<span class="quranic"> اُذْکُرُوْا مَوْتیٰ بِالْخَیْرِ</span> نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے<span class="quranic"> مَوْتَاکُمْ</span> کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی اپنے مُردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو۔ جس کے معنی ہیں کہ آپؐ نے یہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔‘‘ اس ارشاد کی روشنی میں محترم ملک صلاح الدین صاحب نے ’’اصحاب احمدؑ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کیا جس میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے مختصر حالات شائع کئے جاتے تھے۔ رسالہ کانام حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے نے تجویز فرمایا تھا۔ بعد ازاں بزرگانِ سلسلہ کی تجویز پر ان سوانح کو مفصل اور کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1955ء کے جلسہ سالانہ میں آپ کی اس خدمت کاذکر کرتے ہوئے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور بعض ضروری نصائح فرماکر احباب جماعت کوصحابہ کرام کے حالات زندگی اور تاریخ کے متعلق ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ درجنوں صحابہ کے ابتدائی تعارف پر مشتمل زیر نظر یہ مجموعہ 12 جلدوں پر محیط ہے جو دیدہ زیب ٹائپ شدہ ہیں اور قریبا اڑھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مفید سلسلہ کتب میں معزز مرحومین کی تصاویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بعض جگہ ضروری نقشے اور وضاحتی خاکے بھی بناکر شامل کئے گئے ہیں۔ صحابہ کی خود نوشت تحریرات یا مطبوعہ مواد پر مصنف کتاب کے شامل کردہ حوالہ جات اور ضروری وضاحتی حواشی نے کتاب کی افادیت کو اور بڑھا دیا ہے اور بلاشبہ یہ صرف صحابہ کے حالات زندگی ہی نہیں بلکہ جماعت احمد یہ کی تاریخ کا اہم ذخیر ہ ہے اور مصنف کی طرف سے جماعت کی ابتدائی تاریخ کا قیمتی خزانہ محفوظ کرنے کی ایک نہایت ہی قابل قدر سعی ہے۔
وَمُبَشِّرًا ابِرَسُولٍ يَا تِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ اصحاب احمد جلد سوم ( طبع ثانی بعد اضافه ) مولفه ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے
شائع کرده صلاح الدین ملک ایم.اے قادیان ( پنجاب ) بھارت
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم عرض حال طبع اوّل سوانح مرتب کرنیکی ضرورت سید نا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے نبی کی بعثت کی خبر تمام صحف سابقہ میں دی گئی تھی.آپ عین وقت پر مبعوث ہوئے اور آپ نے ایک انقلاب برپا کر کے ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین پیدا کر دی.اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے شجرہ طیبہ کو ہر موسم میں پھل لانے والا اور سدا بہار قرار دیا ہے اور اس کی تجدید کے لئے ہر صدی کے سر پر مجدد پیدا کرنے کا سلسلہ جاری فرمایا.اس تعلق میں اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کی پیشگوئی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کی خبر دی گئی تھی.جو اپنے وقت پر مسیح موعود مہدی معہود سید نا حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات بابرکات کی بعثت سے پوری ہوئی.اس وقت جبکہ آنحضرت صلعم کی پیشگوئی کے عین مطابق اسلام کا فقط نام ہی باقی رہ گیا تھا اور مساجد ویران ہو رہی تھیں اور نور ایمان کی جگہ کفر و عصیان نے گھیر لی تھی اور ہر بدی ایک تناور درخت بلکہ یوں کہیں کہ ایک تلاطم خیز سمندر کی شکل اختیار کر چکی تھی.ایسے تناور درختوں کا استیصال اور بحر ذخار کا مقابلہ سہل امر نہیں تھا اور ظاہر ہے کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ کی حالت پیدا ہونے پر قدرت کے دست غیب کی امداد ہی مشکل کشائی کرتی ہے اور انسانی تدابیر اوّل تو سوجھتی نہیں اگر سو جھیں بھی تو آسمانی پانی کے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوتیں.سو ان حالات میں جب کہ ہر قوم پکار رہی تھی کہ کوئی مصلح ربانی آنا چاہئے تا ان کی ڈوبتی ہوئی نیا کو پار لگائے موعود اقوام عالم مبعوث ہوئے اور کشتی نوح ہماری نجات کے
لئے لائے.حضور نے کیا انقلاب پیدا کیا؟ اس کا سب سے بڑا جواب پاکبازوں کی وہ جماعت ہے جن کو کو اغیار اَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّاءِ کہتے ہوں.لیکن یہی لوگ حقیقی مومن اور راستباز ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی زندگی ایک مفتوح کتاب ہے جس میں حضور کی معجز نمائی نظر آتی ہے.وہ ایک آئینہ ہے جس میں حضور کی اپنی مطہر حیات کا عکس دکھائی دیتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ اس مقدس گروہ کے سوانح حیات محفوظ کئے جائیں قبیل از میں حضرت عرفانی صاحب نے ایک نادر خزینہ جمع کیا ہے.کچھ عرصہ سے خاکسار بھی اس امر میں تگ ودو کر رہا ہے.اس کام کی تکمیل میں احباب بہت کچھ مدد دے سکتے ہیں.اول جو صحابہ وفات پاچکے ہیں یا زندہ ہیں اُن کے سوانح خاکسار کو تحریر کر کے ارسال فرما ئیں.دوم جو کتب شائع ہوں ان کو خریدیں تا کہ جلد از جلد کتب شائع کر کے مواد محفوظ کر دیا جائے.ہر دو امور کی طرف سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۵ء میں خاکسار کا ذکر کر کے توجہ بھی دلائی تھی.ذیل میں محترم خان صاحب منشی برکت علی صاحب شملوی ان کی والدہ محترمہ اور ان کی اہلیہ محترمہ گویا تین صحابیوں کے سوانح درج کئے جاتے ہیں.یہ سوانح خان صاحب محترم سے حاصل ہوئے ہیں.حوالجات تنگئی وقت کے باعث خاکسار زیادہ تلاش نہیں کر سکا.مضمون کی تدوین میں آپ کے عزیز محترم شیخ خورشید احمد صاحب نائب مدیر الفضل نے بھی میری مددفرمائی ہے.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنُ الْجَزَاء.
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ المَوْعُود عرض حال طبع دوم الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمُدَا كَثِيرًا که خاکسار بفضل اللہ تعالیٰ و عونه اصحاب احمد جلد سوم کے طبع ثانی کی توفیق پا رہا ہے.طبع اول میں یہ جلد محترم خان صاحب منشی برکت علی صاحب شملوی کی زندگی میں ۱۳۳۶ اہش بمطابق ۱۹۵۷ء میں شائع کی گئی تھی.اور آپ ، آپ کی والدہ ماجدہ اور آپ کی اہلیہ محترمہ کے حالات زندگی پر مشتمل تھی.چونکہ خاکسار نے اس وقت اسے بہت جلدی میں مرتب کیا تھا.اس لئے متعدد امور تشنہ رہ گئے تھے.خاکسار نے حسب توفیق اب اُن کی تکمیل کر دی ہے.اور چونکہ کتاب کا حجم بہت چھوٹا تھا اور وہ صرف اڑتالیس صفحات پر مشتمل تھی.اس لئے اب خاکسار نے محترم با بو فقیر علی صاحب اور محترم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی دو بزرگان کے سوانح حیات بھی اس جلد میں شامل کر دئے ہیں.احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالٰی خاکسار کو اصحاب احمد کے کام کی تکمیل کی توفیق عطا کرے اور اسے خاکسار کے لئے بھی اجر وڈ خر کے رنگ میں بہت مبارک کرے اور ہم سب کو ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی قوت عطا کرے.اور جو صحابہ کرام زندہ ہیں ان کو تا دیر سلامت رکھ کر اس مبارک دور کو ممتد فرمائے.آمین یا رب العالمین.خاکسار اصحاب احمد کے اہتمام وانصرام کے تعلق میں اخویم چوہدری محمد صدیق صاحب ایم اے دار الرحمت شرقی ربوہ اور اخویم مرزا فتح دین صاحب ربوہ اور عمزاد ملک مبارک احمد صاحب ارشاد حال مقیم کراچی کا بے حد ممنون ہے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ تَعَالَى اَحْسَنُ الْجَزَاء.بيت الدعاء دار المسیح قادیان بھارت خاکسار ملک صلاح الدین يوم الجمعه وکیل المال و سیکرٹری انجمن احمد یہ تحریک جدید بتاریخ ۲۶ تبوک ۱۳۴۸ هش ور کن انجمن احمد یہ وقف جدید مطابق ۲۶ ستمبر ۱۹۶۹ء
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مختصر تعارف نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُود با بو فقیر علی صاحب رضی اللہ عنہ حضرت بابو فقیر علی صاحب نے جو ضلع گورداسپور کے باشندہ تھے.سندھ سے جہاں آپ ریلوے میں ملازم تھے ۱۹۰۵ء کے اواخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.اور دوبار قادیان آکر زیارت کی.۱۹۲۸ء میں قادیان تک ریل گاڑی جاری ہونے پر آپ اولین سٹیشن ماسٹر مقرر ہوئے.بعمر قریباً اسی ۸۰ سال ۱۴دسمبر ۱۹۵۹ ء کو آپ نے وفات پائی.قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی.اور ربوہ میں مدفون ہوئے.آپ کی سیرۃ کے درخشندہ پہلو یہ تھے کہ آپ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے سچے فدائی عابد و زاہد.باجماعت نماز اور تہجد کا التزام کرنے والے.دینی مطالعہ کے شائق.منکسر المزاج.رشوت خوری کے بحر عصیاں میں گھرے رہنے کے باوجود سختی سے اس سے اور کسب حرام سے بلکہ مال و منال سے نفور.سیر چشم.قناعت پسند.عُسر میں بھی انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے.ملازمت کے مفوضہ فرائض کی ادائیگی دیانتداری.جرات مندی اور با اصول طور پر کرنے والے.تحریکات سلسلہ میں حسب استطاعت بڑھ بڑھ کر حصہ لینے والے.نہایت مستعدی کے ساتھ بے باک تبلیغ کا جوش رکھنے والے بزرگ تھے.اور دل بہ یار و دست به کار کا ایک عجیب نمونہ تھے.رضی اللہ عنہ آپ کے سوانح میں جو بیان کردہ امور کسی کی طرف منسوب نہیں کئے گئے.وہ آپ کے مرقومہ قلمی حالات سے اخذ کئے گئے ہیں.آپ نے تین کا پیوں وغیرہ پر حالات تحریر کئے تھے.جو مجھے آپ کے فرزند مکرم میاں بشیر احمد صاحب (امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع جھنگ) سے ملیں.ان میں تکرار یا ایک جگہ اختصار اور دوسری جگہ تفصیل اور کسی کسی مقام پر معمولی سا اختلاف ہے.خاکسار نے کتاب ہذا میں حسب ضرورت
خاندانی کوائف.وطن اور ولادت حضرت با بو فقیر علی صاحب نے دفتر صدر قانون گوگورداسپور میں ملازم ہونے پر بقیہ حاشیہ: اختصار وغیرہ کیا ہے.قلمی کا پیوں وغیرہ کی تاریخ تحریر کے متعلق تفصیل درج ذیل ہے: (۱): ایک کاپی پر ساڑھے دس صفحات میں کچھ حالات درج کئے ہیں اور اس کے آغاز میں لکھا ہے کہ ۱۳ مارچ ۱۹۴۹ء کو حالات قلمبند کرنے شروع کئے ہیں.(۲): اوراق کی شکل میں سوا نو صفحات لکھے ہیں.وہاں کوئی تاریخ آغاز یا اختتام درج نہیں.البتہ ذیل کے امور سے تاریخ یا عرصہ تحریر کا اندازہ ہوتا ہے.(۱): قادیان سے ہجرت کا ذکر ہے گویا ۱۹۴۷ء کی آخری سہ ماہی سے قبل نہیں لکھی گئی.(ب): اہلیہ دوم کا ذکر ہے (۱۹۱۲ء) ( ج ) : مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو ” آنجہانی“ لکھا ہے.(مولوی ثناء اللہ صاحب کی تاریخ وفات ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء بحوالہ سیرت ثانی ۲۹۹) (۳): ایک کاپی میں سوا سینتالیس صفحات پر حالات رقم کئے ہیں.اس میں بھی کوئی تاریخ درج نہیں.البتہ صفحہ ۴۱ پر حضرت ملک مولا بخش صاحب اور حضرت چوہدری اللہ بخش صاحب مالک اللہ بخش سٹیم پرلیس قادیان ہر دو کو مرحوم لکھا ہے.( ہر دو کی تاریخ ہائے وفات علی الترتیب ۲۷ یا ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۰ء ( بحوالہ اصحاب احمد جلد اوّل) اور ۶ اکتوبر ۱۹۵۷ء ( بحوالہ الفضل ۱۱ اکتوبر ۵۷ ) ہیں.نیز صفحه ۴۶ پر مولوی عبد المنان صاحب (پسر حضرت خلیفہ اوّل) کے فتنہ کا ذکر ہے.اور ان کا اخراج از جماعت اگست ۱۹۵۶ء کا ہے.کاپی کے صفحات گیارہ بارہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولین زیارت کا حال درج کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: آج زائد از پچاس سال کے بعد ان سطور کو لکھتے ہوئے ) سوہنی وجدانی کیفیت قلب میں پا رہا ہوں.“ گویا صفحات گیارہ باره ۱۹۵۵ یا ۱۹۵۶ء یا قدرے اسکے بعد تحریر کئے گئے ہیں اور صفحہ ۴۱ تک پہنچتے پہنچتے اکتوبر ۱۹۵۷ء ہو چکا تھا.
L بند و بست اراضی ۱۸۶۵ء کے ریکارڈ میں اپنے خاندان کے شجرہ میں یہ امر مرقوم پایا کہ آپ کے دادا کے ایک بھائی نے خاندان کی چھتیں چالیس گھماؤں جدی اراضی واقعہ موضع سوچانیاں ضلع گورداسپور کے متعلق افسر بندو بست کو یہ بیان دیا تھا کہ بار بار بیگار اور معاملہ کی ادائیگی وغیرہ کی وجہ سے بحالات حاضرہ ہمارے لئے اراضی سنبھالنا مشکل ہے.چنانچہ یہ اراضی ایک کھتری خاندان کے نام درج کر دی گئی.بابو صاحب بیان کرتے ہیں کہ قریب میں سکھ حکومت تبدیل ہوئی تھی.دیہات میں غربت.ملازمت.وحشت بیگار اور آثار ظلم تحصیل نمایاں تھے.یہ موضع ہندو کھتریوں کا تھا.جس کے قریب موضع کوٹلہ چاہلاں گورداسپور میں آپ کے والدین محترم میاں شادی و محترمہ کریم بی بی سکونت پزیر تھے.یہ موضع چاہل ہندو جاٹوں کا تھا.اور اس ذات کے متعدد مسلمان گھرانے بھی وہاں آباد تھے.بابو صاحب کے جد اللہ بخش ولد خدا بخش ولد امام بخش یا امام بخش ولد خدا بخش با بوصاحب عند التحریر سرکاری شجرہ کی یہ بات بھول گئے ) کے جدا مجد سدھر نام جو گل جاٹ زمیندار ہندو قوم سے اسلام سے مشرف ہوئے تھے.سدھر گل خاندان علاقہ دریائے راوی.رمداس اور علاقہ سیالکوٹ میں آباد ہیں.بابو صاحب کی ولادت ماہ پھاگن مطابق ماہ فروری میں ۱۸۸۲ ء یا ۱۸۸۴ء میں موضع کوٹلہ مذکور میں ہوئی تھی اور والدہ صاحبہ کے بیان کے مطابق چلہ نہا کر ایک میل کے فاصلہ پر چھینہ ریلوے سٹیشن سے گورداسپور کے لئے روانہ ہوئی تھیں.اور امرتسر ، پٹھانکوٹ یا امرتسر ، گورداسپور ریل گاڑی غالباً پہلے ہی روز یا قریب میں جاری ہوئی تھی.گورداسپور شہر سے تین میل کے فاصلہ پر موضع گاڈریاں میں آپ کے نانا حکیم صو با سکونت پذیر تھے.جو مع دو برادران وہاں چالیس گھماؤں اراضی کے مالک تھے حکیم صاحب قرآن مجید ناظرہ کے علاوہ گورمکھی میں طب پڑھے ہوئے تھے.اور ریاست چمبہ کے ایک رئیس کے کامیاب علاج کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے.آپ یہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ ریل ۱۸۸۲ء میں جاری ہوئی تھی.نیز یہ کہ میری پیدائش ماہ پھاگن ۱۸۸۲ء ہے.شائد پھاگن ۱۸۸۴ء ہو.اور تعلیمی شوق سے داخلہ سکول کے واسطے عمر زیادہ لکھا دی گئی ہو.آپ کی بیان کردہ روایات میں آپ کی ولادت ۱۸۷۹ء درج ہے.اس ریل کی اجراء کی تاریخ طبع ثانی تک
والدین کی طرف سے نیک تربیت بابو صاحب کے والد ماجد اپنے گاؤں میں ذی عزت شخصیت تھے.اور آپ کی دلیری اور جرات مندی مشہور تھی.آپ سے آپ کے بھائی مرعوب تھے.بلکہ موضع او جلہ نز دگورداسپور میں اپنے بھائی میاں منگو کے معاملات اور ان کے تنازعات رفع کرنے انہی کے ذمہ تھے.نیز اپنے خاندان کے کام دونوں میاں بیوی سرانجام دیتے تھے.ایک دفعہ آپ کے ایک بھائی رات کو آرہے تھے.کہ ان کا نام پکار کر آوازیں دی گئیں کہ آؤ تمہیں دُودھ دہی دیں.وہ سمجھے کہ چڑیل ، بھوت کی آوازیں ہیں اور وہ اس صدمہ سے بیمار پڑ گئے.بوڑھی والدہ اور بیوی جسم دبارہی تھیں کہ آپ گھر پہنچے اور یہ ماجرائن کر سخت جوش میں آگئے.آپ نے اپنے بھائی کا لحاف اُتار کر دور پھینک دیا.اسے پکڑ کر بٹھلا دیا.اور کہنے لگے.چرواہے لڑکوں نے تمہیں ڈرا دیا اور تم بخار لئے پھرتے ہو.چڑیل ، بھوت کہاں ہیں؟ چنانچہ اس طرح آسیب زدہ وہی صدمہ سے نجات پا گیا.اور اس کا بخار فوراً اُتر گیا.ان کی دلیری کے دو اور واقعات بھی معروف تھے.ایک تو یہ کہ چلتے ہوئے ان کے منہ سے ہوں.ہوں“ کی آواز نکلتی تھی.جو رات کو زیادہ اونچی ہو جاتی تھی.ایک دفعہ نصف شب کے قریب آپ سفر سے واپس آرہے تھے.آپ کے گاؤں کا ایک چور گل شیر نام اس وقت موضع گھمن خورد کی مڑھیوں میں بیٹھا روشن چتا پر مکی کے کھٹے بُھون کر کھا رہا تھا.ارد گر د ملگی اور کماد کی فصلیں ایستادہ تھیں.گل شیر نے دُور سے آپ کی آواز سنی تو یقین جانا کہ آپ کو ڈرانے کا ایک نادر موقعہ ہاتھ لگا ہے.آپ یقین کریں گے کہ چتا کی آگ میں سے جو آواز آرہی ہے وہ کسی ڈائن کی ہے.چنانچہ اس نے آواز دے کر کہا کہ اوشادی! آمیں تجھے دُودھ دہی دوں.لیکن میاں شادی لمحہ بھر کے لئے بھی تو دہشت زدہ نہ ہوئے.آپ نے قریب پہنچ کر اسے کہا تم چوری کی نیت سے نکلے ہو.باز نہیں آتے.وہ آپ کی بے خوفی سے ششدر رہ گیا.اور دوسرے روز اس نے لوگوں سے اس بقیہ حاشیہ: معلوم کرنے سے صحیح تاریخ ولادت معین ہو سکے گی.انشاء اللہ تعالی.ریکارڈ وصیت بہشتی مقبرہ میں آپ کی ولادت کی تاریخ ۱۸۷۹ء اور بوقت وفات عمر اسی ۸۰ سال مرقوم ہے.
۹ بات کا ذکر کر کے کہا مجھے یقین تھا کہ آپ خوف کے مارے چیخ اٹھیں گے.لیکن آپ پر ذرہ بھر اثر نہیں ہوا.دوسرا واقعہ یہ ہے کہ گاؤں میں ایک سرکاری ڈاکٹر ٹیکے لگانے کے لئے آیا.لوگ بلائے گئے.میاں شادی قدرے دیر سے پہنچے تو وہ سختی سے پیش آیا اور اس نے گالی دی.اس وقت سرکاری افسروں کا بہت دبدبہ ہوتا تھا.اور یہ افسر ایسے ہی رویہ کے عادی ہوتے تھے.اسے توقع تھی کہ دیہاتی لوگوں کی طرح میاں شادی بھی ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کر کے معذرت خواہ ہوں گے.لیکن آپ نے اسے پکڑ لیا اور وہ کانپ اٹھا مبادا آپ اسے زدو کوب کریں.لیکن لہنا سنگھ نمبردار آڑے آیا.اس نے آپ کو باز رکھا.اور ڈاکٹر کو بھی اس کی غلطی پر تنبیہ کی اور کہا میاں شادی ہمارے گاؤں میں معزز ہیں آپ نے ان کو گالی کیوں دی.گومیاں شادی کی مالی حالت اچھی نہ تھی.لیکن آپ اور آپ کی اہلیہ محترمہ کریم بی بی اپنے گاؤں میں نمایاں اسلامی رنگ رکھتے تھے.صوم وصلوٰۃ.تراویح اور عیدین کی ادائیگی کا التزام رکھتے تھے.میاں شادی کے سُسرال بھی صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے.اور خود میاں موصوف عیدالاضحیہ پر قربانی کرتے تھے.اور آپ کی رفیقہ حیات لازماً ہر سال ایک بار چاول پکا کر گاؤں کے بچوں میں تقسیم کرتی تھیں.موصوفہ ۱۸۹۹ ء یا ۱۹۰۰ء میں وفات پا کر موضع سچائیاں میں دفن ہوئیں.(بابو صاحب نے ان کی قبر پر چالیس روز دعائیں کیں.گویا قبول احمدیت سے قبل بھی آپ دعاؤں میں مصروف رہتے تھے ) میاں شادی صاحب نے ۱۹۰۱ء میں وفات پائی.ہیر آپ نے دو کا پہیوں میں یہ درج کیا ہے کہ ۱۹۰۱ء میں میں سمہ سٹہ ریلوے سٹیشن پر متعین تھا کہ میرے ہاں وطن میں میرے بیٹے بشیر احمد پیدا ہوئے اور میری بیماری کی وجہ سے والد صاحب میری اہلیہ اور بیٹے کو چالیس دن گذرنے سے پہلے میرے پاس لے آئے اور پھر واپس جا کر ایک ماہ میں وفات پاگئے.لیکن ایک کاپی میں یہ بھی لکھا ہے کہ بوقت بیعت ۱۹۰۵ء میں میرے بیٹے بشیر احمد کی عمر دو سال کی تھی اس طرح ولا دت اس فرزند کی اور وفات والد ماجد کی ۱۹۰۳ء بنتی ہے.جو بات بابو صاحب مدت العمر نہیں بھول سکتے تھے وہ یہ تھی کہ سمہ سٹہ کی تعیناتی کے عرصہ میں
ہنود میں تعلیم کا چرچا دیکھ کر آپ کے والد اس امر کے متمنی تھے کہ آپ کا بیٹا تعلیم حاصل کرے.موضع کھمن خورد سے ایک معمر بزرگ جو نمازی اور محمد تین تھے آپ کے گاؤں میں آتے جن سے بابو صاحب نے گھر پر اُردو قاعدہ وغیرہ پڑھا.پھر موضع کھمن کلاں کے سرکاری پرائمری مدرسہ میں آپ کو داخل کیا گیا.چونکہ آپ کا ننھیال نرینہ اولاد سے محروم تھا اور آپ کے ددھیال میں بھی صرف آپ ہی اکلوتے بچے تھے.اس لئے بہت لاڈلے تھے.اڑہائی تین میل کا فاصلہ روزانہ پیدل طے کرنا اور سارا دن والدہ سے الگ رہنا اور سب زیر تعلیم بچوں سے خوردسال ہونے کی وجہ سے ان کا مشق ستم ہونا.شاید ان وجوہات سے ابتداء میں آپ مدرسہ نہ جانے پر اصرار اور ضد کرتے تھے.بھی والد آپ کو چھوڑنے جاتے.کبھی خالہ نصف راستہ تک الوداع کہنے جاتیں.کبھی مدرس بچوں کو بھجوا کر بلواتے.لیکن ننھا فقیر علی بچوں کو کہتا کہ تم میرے زیور لے لو لیکن میں مدرسہ نہیں جاؤنگا.اور راستہ میں سے واپس آجاتا.بالآخر آپ کو موضع نوشہرہ مجا سنگھ کے مدرسہ میں داخل کیا گیا.آپ نہایت ذہین طالب علم ثابت ہوئے.ایک ہی سال میں آپ نے جماعت اوّل و دوم پاس کر لیں.پرائمری کے امتحان میں آپ نے دوروپے ماہوار وظیفہ حاصل کیا.اب آپ کو بمقام گورداسپور میونسپل بورڈ ہائی سکول میں داخل کیا گیا.آپ ہر جماعت میں مضامین کے علاوہ اعلیٰ چال چلن کے لحاظ سے بھی اوّل آتے تھے.اور ہر دو کے انعامات میں اپنی جماعت میں سب سے قیمتی کتب انعام پاتے.انگریزی مڈل کے امتحان میں ۱۸۹۷ء میں یونیورسٹی سے چھ روپے ماہوار وظیفہ پایا.آپ کے ایک استاد ماسٹر بالمکند نام نہایت بقیہ حاشیہ: ان کے ہاں پہلا بچہ ہوا.دوسرے والد صاحب بچہ اور بچہ کی والدہ کو وہاں چھوڑنے آئے.سومیاں بشیر احمد صاحب کی ولادت کی صحیح تاریخ سے یہ بات حل ہو جاتی ہے.میاں صاحب موصوف بتلاتے ہیں کہ ان کا سنِ ولادت ۱۹۰۱ء (انیس سو ایک) ہے.اب تک بھی بعض جگہ چھوٹے لڑکوں کو پیار سے معمولی زیور پہنانے کا رواج آن پڑھ لوگوں میں دیکھا گیا ہے.
دیانتداری سے پڑھاتے تھے.اور آپ سے محبت بھی رکھتے تھے.ایک دفعہ انگریز ہیڈ ماسٹر آپ کی جماعت میں آئے اور پوچھا کہ اس انگریزی نظم میں فلاں لفظ کے متعلق کیا کوئی طالب علم بتا سکتا ہے کہ یہ کونسی قسم کا کلمہ (Part of speech) ہے.آپ کی طرف ماسٹر صاحب نے اشارہ کیا تو ہیڈ ماسٹر صاحب آپ کو جماعت دہم کی طرف لے کر چل دیئے اور وہاں درست جواب پا کر آپ کو تھپکی دی اور ان طلباء کو کہا کہ دیکھو اس بچہ نے جو چھوٹی کلاس کا ہے صحیح جواب دیا ہے.حساب اور اقلیدس کے استاد ماسٹر ناتھو رام تبدیل ہو گئے اور ان کی جگہ ماسٹر مرلید ھر گورداسپور آ گئے.جن سے آپ نے یہ مضامین آٹھویں سے دسویں تک پڑھے.ایک دفعہ ماسٹر ناتھو رام گورداسپور آئے تو کلاس دیکھنے آگئے.اقلیدس کا ایک سوال حل کرتے ہوئے ماسٹر مُر لیدھر رُک گئے اور حل نہ کر سکے اس نوجوان طالب علم کو حل سوجھ گیا اور اس نے فوراً بورڈ پر اسے حل کر دیا.ماسٹر ناتھو رام نے ان کی کمال ذہانت کا ذکر کرتے ہوئے ساتھ ہی شکایت بھی کر دی کہ غیر استاد کے سامنے اس طرح نہ کرنا چاہیئے تھا.ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا کہ فقیر علی آخر انہی کا شاگرد ہے.اس لئے کوئی امر خلاف ادب نہیں ہوا.اقلیدس کے معموں میں بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے کہ استاد بھی چکر میں پڑ جاتا ہے.ہیڈ ماسٹر صاحب لدھیانہ تبدیل ہو گئے اور انہوں نے پُر زور تحریک کی کہ یہ ذہین طالب علم ان کے ساتھ لدھیانہ چلا جائے.اور وہ اس کے اخراجات کے ذمہ دار ہوں گے.میٹرک کے امتحان سے قبل ڈیڑھ ماہ کی تعطیلات ہوئیں.اس وقت والدین نے نہایت شوق سے آپ کی شادی رچادی.کتب نصاب تو آپ پہلے ہی بمقام او جلہ (جو گورداسپور شہر سے ایک دو میل کے فاصلہ پر ہے) چھوڑ آئے تھے.جہاں آپ نے اپنے چامسمی منگو کے ہاں ۱۸۹۴ء سے ۱۸۹۹ء تک قیام رکھا تھا.جب امرتسر جا کر امتحان دینے کے لئے طلباء گورداسپور سے ریز روڈ بہ میں روانہ ہوئے تو آپ چھینہ ریلوے سٹیشن سے سوار ہوئے.اس وقت کی دیہاتی زندگی اور عام ناواقفیت کی وجہ سے ایک لاڈلے اور اکلوتے بیٹے کا سفر امرتسر بھی عجوبہ متصور ہوتا تھا.چنانچہ والدہ کے ہمراہ گاؤں کی مستورات بابو صاحب تحریر کرتے ہیں کہ یہ ماسٹر مرلید ھر سرمہ چشم آریہ کے مباحثہ والے تھے اور میں نے ان کی تقاریر سنیں.ایک دفعہ انہوں نے کلاس میں غلط دعویٰ کیا تھا کہ لیکھرام کا قاتل کشمیر میں پکڑا گیا ہے.
آپ کو ریلوے سٹیشن پر الوداع کہنے آئیں.اور ایک دوسرے سے کہتی تھیں کہ یہ لڑکا پردیس جا رہا ہے آؤ الوداع کہہ آئیں.ڈیڑھ ماہ کی تعطیلات میں آپ نے کتابوں کی شکل تک نہ دیکھی تھی.پہلے پرچہ سے ایک روز قبل آپ کو اس قدر شدید تپ چڑھا کہ سپروائزر آپ کے والد صاحب کو اطلاع بھیجنے والا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے حالت بہتر ہو گئی.گو پہلا پرچہ آپ نے نیم بخار کی حالت میں ہی حل کیا.ان حالات میں بھی آپ فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوئے اور آٹھ روپے ماہوار وظیفہ یونیورسٹی کی طرف سے آپ کو حاصل ہوا.یہ ۱۸۹۹ء کی بات ہے.مدرسہ کے آزمائشی امتحان میں آپ کلاس میں اول آئے تھے.اور دوم سے اسی ۸۰ نمبر زیادہ پائے تھے.وکلاء اور اساتذہ نے لوگوں سے روپیہ جمع کر کے آپ کو اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لے دیا.ماسٹر مرلیدھر صاحب نے روسا سے چندہ جمع کرنے میں اس بناء پر خاص کوشش کی تھی کہ آپ ماسٹر صاحب کے مضامین ریاضی.الجبرا اور اقلیدس میں اتنے ہوشیار تھے کہ ڈیڑھ صد میں سے ڈیڑھ صد نمبر ہی لیتے تھے کبھی ایک نمبر بھی کم نہ لیا تھا.اب یورنیورسٹی کی طرف سے آپ کو آٹھ روپے جو بلی سکالرشپ حاصل ہوا.لیکن حضرت منشی عبد الغنی صاحب او جلوی کا خط ملنے پر اہلبیت کی کشش غالب آئی اور آپ کا لج کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر گھر واپس چلے گئے.مسلمانوں کی مذہبی حالت اور آپ کا دینی جذبہ بچپن سے جوانی تک آپ کی تربیت جس رنگ میں ہوئی اس کی تفصیل میں آپ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت پنجاب اور بقیہ ہندوستان میں مسلمان دھڑا دھڑ عیسائی بلکہ آریہ بن رہے تھے.عام ماحول اسلامی رنگ نہ رکھتا تھا.آپ کے جدی گاؤں کے تمام افراد نا خواندہ تھے.اس گاؤں کے سمیت اردگرد کے دیہات کی اکثریت ہندو آبادی پر مشتمل تھی.کئی دیہات کا ایک مشترک مولوی ہوتا.نکاح خوانی اور جنازہ خوانی اور دو تین دیہات کو عیدین پڑھانا.اور بچہ کی ولادت پر اس کے کان میں اذان کہنا ہی صرف اس کا فرض منصبی ہوتا تھا.نکاح میں خطبہ پڑھنا اور اعتکاف یا سارا سال بالالتزام نمازیں ادا کرنا
بالکل مفقود تھا.تعمیر مساجد اور اذان کے معاملات میں مسلمان جوش میں آتے ہندو آبادی مسلمانوں کو اذان سے منع کرتی تھی.دتی.امرتسر.لاہور سکھر.کراچی اور حیدر آباد سندھ میں آپ نے صرف کہیں کہیں کسی مشہور مولوی کو درسِ قرآن دیتے دیکھا.وبس.کثرت سے نمازیں پڑھنا.درس.خطبے.مناظرے.جمعتہ الوداع میں کثرت سے شرکت سے مسلمان قطعی نا آشنا تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد آپ ہی کے طفیل مسلمانوں کو ان سب امور کی طرف توجہ ہوئی ہے.آپ کی بعثت سے قبل شہروں اور دیہات میں معدودے چند لوگ نمازوں اور روزہ کی پابندی کرتے تھے.البتہ میلا دشریف کی مجالس اور تکیوں وغیرہ پر قوالیاں اور خانقاہوں پر مجالس درود وغیرہ منعقد ہوتی تھیں.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ بابو صاحب کو عہد طفولیت میں اور پھر دورانِ تعلیم میں نیک ماحول میسر آیا.آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کو زبانی پانچ کلمے اور صفت ایمان پڑھائے.دس سال کی عمر میں آپ نے گاؤں کے چھپڑ پر نہا کر پہلی نماز فجر.عید الفطر کے روز والد ماجد کی معیت میں ادا کی یہ نماز کچھ ایسے جذبہ سے آپ نے پڑھی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت سے نماز کی محبت آپ کے دل میں گھر کر گئی اور پھر کبھی ناغہ نہیں ہونے پایا.باوجود ہندو آبادی کے بُرا منانے کے آپ کے والد کبھی کبھار مسجد میں اذان دلواتے تھے.بابو صاحب نے جو ایک بار گاؤں کی مسجد میں اذان دی تو ہندو جاٹ زمینداروں نے آپ کو پکڑ کر زدو کوب کرنا چاہا اور والدہ نے آپ کو اناج کی کوٹھی ( سٹور ) کے عقب میں چُھپا دیا.اور والد نے تھانہ دھار یوال میں رپورٹ لکھوائی.پولیس آئی اور جائوں کو تنبیہ بھی کی لیکن ساتھ ہی مسلمانوں کو بھی کہا کہ مسجد میں اذان دینے کی رسم جاری کرنے کی کیا ضرورت ہے.خاموشی سے نماز پڑھ لیا کرو.نوشہرہ مجا سنگھ میں دورانِ تعلیم میں میاں محمد عیسی ایک دیندار اور پابند صوم وصلوٰۃ استاد آپ کو میسر آئے.ان کی تربیت سے آپ کو اسلام سے خاص وابستگی پیدا ہوئی.چند بجے بشمولیت بابو صاحب ان کی امامت میں جمعہ بھی ادا کرتے اور خدمت کے طور پر میاں جی کے کپڑے بھی اپنے پار چات کے ساتھ جو ہر پر دھو دیتے اور موضع تصہ غلام نبی سے چارہ اور
۱۴ ایندھن لا دیتے.(اس زمانہ میں اور اب بھی دیہات میں امام مسجد یا مولوی کو میاں جی کہہ کر پکارتے ہیں ) گورداسپور میں میٹرک میں ایک مدرس مولوی احمد بخش صاحب تھے جو کسی زمانہ میں چیفس کالج لاہور میں پروفیسر رہ چکے تھے.اُن سے بابو صاحب نے دینی باتیں اور درود شریف پڑھنا سیکھا.صوفی منش لوگوں کی ملاقات اور اس ماحول کے مطابق حصول روحانیت کے لئے نواح گورداسپور اور اپنے ننھیال میں ہونے والی مجالس وعظ و فقراء میں آپ اس عمر میں خاص شوق سے شرکت کرتے تھے.ریلوے ملازمت سے قبل با وجود متاہل زندگی کے ایک نیک اہلکار کی صحبت میں لمبے عرصہ تک آپ اپنے سسرال کے گاؤں موضع منگل کوٹلی کی مسجد میں رات دن عبادت کے لئے مقیم رہے.لاہور میں آپ تا ربا بو بننے کے لئے جو تربیت حاصل کرنے گئے تو اس وقت بھی آپ مسجد وزیر خان.سنہری مسجد.داتا گنج بخش.اور خانقاہوں کی تمام تقاریب.میلاد شریف وغیرہ میں شرکت کرتے تھے.اور امام سنہری مسجد سے ایک روپیہ فی پارہ کے عوض آپ نے پانچ پاروں کا ترجمہ بھی پڑھا.کسب معاش اس زمانہ میں فرسٹ کلاس میٹرک اعلیٰ سرکاری ملازمت حاصل کر سکتا تھا.لیکن چونکہ آپ کا کوئی مشیر اور سفارشی نہ تھا اس لئے آپ محروم رہے.البتہ دوا میر زادوں کی اتالیقی کھانے اور بارہ روپے مشاہرہ کے عوض آپ نے کی.ان میں سے ایک کا دادا اس وقت ضلع کٹھوعہ (ریاست جموں) کا وزیر وزارت (ڈپٹی کمشنر ) تھا.اس اتالیقی کی وجہ سے دربار میں بھی آپ عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے.اس طبقہ کے لوگوں کے حالات آپ کو دیکھنے کا موقعہ ملا.وزیر وزارت شیعہ تھا.اُس نے حضرت علیؓ اور حضرت عائشہ کا ذکر کر کے آپ کی رائے دریافت کی.اس پر آپ نے اس بارہ میں مطالعہ کیا.۱۹۰۰ ء میں آپ نے پٹوار پاس کی.اور دفتر صدر قانونگو گورداسپور میں نائب کلرک متعین ہوئے.کچھ عرصہ تک موضع نمین کرال تحصیل گورداسپور میں آپ عارضی طور پر پٹواری مقرر ہوئے.لیکن اس کام میں بے طرح کی بے ضابطگیاں اور غیر اسلامی حالات دیکھ کر آپ کی طبیعت نفور ہوگئی اور آپ نے لاہور میں ریلوے سکنیر زمیں بھرتی ہونے کے لئے مقابلہ کا امتحان دیا اور کام
۱۵ سیکھ کر ۱۹۰۱ء میں سمہ ستہ ریلوے سیشن پر لگائے گئے.جہاں آپ سٹیشن ماسٹر اور عملہ کے امام الصلوۃ بھی رہے.تراویح بھی پڑھاتے تھے.اس وقت آپ کی عمر سترہ اور بائیں برس کے درمیان تھی گویا بالکل نوجوان تھے.داڑھی رکھنے کی وجہ سے مولوی کے نام سے پکارے جاتے تھے.آپ لاہور پھر ملتان کے ڈی ، ٹی ، ایس کے دفاتر میں اور پھر سمہ سٹہ کے سٹیشن پر بطور سکنیلر اور وہاں سے احمد پور (جسے بعد میں ڈیرہ نواب کہا جانے لگا) اور سکھر ، روہڑی، جھٹ پٹ، سٹھارجہ، گور دست ستلانی، مغلپورہ، سوہل، کوٹ لکھپت، کوٹ کپورہ، نور پور روڈ، چھانگا مانگا، امرتسر اور قادیان کے ریلوے سٹیشن پر تعینات رہے.احمدیت کا ذکر سنا اور حضور کی زیارت ہونا آپ تحریر کرتے ہیں کہ میرے والد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عمزاد مرزا کمال الدین کے مُرید تھے.لیکن ایک روز انہوں نے میری موجودگی میں میری والدہ سے کہا کہ لوگ قادیان والے مرزا صاحب کو بُرا بھلا کہتے ہیں.میں تو دیکھ کر آیا ہوں.بڑا نورانی چہرہ ہے.ایک روپیہ ہاتھ پر رکھ کر میں تو ان کی اقتداء میں جمعہ پڑھ آیا ہوں.اوپر کے بیان کے بارے میں اس سے پہلے لکھتے ہیں کہ اپنی چھوٹی عمر میں اپنے والد صاحب کی میری والدہ کے ساتھ کچھ ایسی گفتگو ہوئی ہے پھر یہ بات بیان کر کے لکھتے ہیں کہ یہ بہت خفیف میری یاد ہ خدا کرے یہ میری ذاتی امنگ ہے کہ ہاتھ پر روپیہ رکھنا اور مگر ( مگر یعنی آپ کے پیچھے اور اقتدا میں.مؤلف ) جمعہ پڑھنا والد صاحب کا حضرت مسیح موعود کے ساتھ ہو قادیان میں جماعت کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنا تو مرزا کمال الدین صاحب ( کا) شاید واقعہ نہیں.خود حضرت مرزا صاحب مسیح موعود کا واقعہ ہو.واللہ اعلم با الصواب.بابو صاحب کا خیال درست ہے اوّل مرزا کمال الدین صاحب بے دین اور ملحد شخص تھے.نماز وجمعہ سے وہ اپنے تئیں بے نیاز سمجھتے تھے.دوم - نورانی چہرہ بوجہ بزرگی کسی نے بھی مرزا کمال الدین کے متعلق بیان نہیں کیا اور نہ یہ کہا جاسکتا تھا.بلکہ حضرت مسیح موعود کے متعلق ہی بیان کرتے تھے.سو تم.بُرا بھلا اور مخالفت حضور ہی کی ہوتی تھی.مرزا کمال الدین کی نہ ہی مذہبی لحاظ سے شہرت تھی نہ ان سے مذہبی لحاظ سے کسی کو خطرہ تھا کہ جماعت بن جائیگی اور ترقی کرینگے تو کیا ہوگا.چہارم.والد مرزا کمال الدین صاحب کے مُرید تھے اس لئے اگر مرزا کمال الدین نماز جمعہ وغیرہ
۱۶ بچپن میں بابو صاحب نے موضع تھہ غلام نبی میں احمدی علماء کا چر چائنا تھا.پھر گورداسپور شہر میں جس زمانہ میں آپ زیر تعلیم تھے اس وقت آپ کا قیام قریب کے موضع او جلہ میں اپنے ایک چچا کے ہاں تھا.اس موضع کے دو بزرگ صحابی تھے.ایک تو حضرت منشی عبد الغنی صاحب تھے.ا جن سے آپ کے مراسم رفاقت عمر بھر رہے.اور جن کی دوستی کو نیز بعض دیگر احباب کی دوستی کو آپ اللہ تعالیٰ کے افضال میں شمار کرتے تھے.دوسرے بزرگ حضرت منشی عبد العزیز صاحب تھے.ہر دومنشی صاحبان کے پاس سیکھوانی برادران حضرت میاں امام الدین صاحب ،میاں جمال الدین صاحب ومیاں خیر الدین صاحب آمد ورفت رکھتے تھے.بابو صاحب وہاں مسجد میں مغرب وعشاء کے وقت اذکار درود شریف پڑھتے تھے.آپ کو اچھا دیندار اور پابندِ صلوۃ پاکر او جلہ کی مسجد میں ان تینوں بھائیوں میں سے ایک نے آپ کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ لڑکا بہت نیک اور سعید ہے یہ ضرور احمدی ہو جائے گا.اس پر آپ نے عدم معرفت کی وجہ سے کہا کہ میں اس طرح آپ کے جھانسے میں نہیں آتا.اور مرزائی نہیں ہوتا.ایک مومن نے خدا داد فراست سے ۱۸۹۶ء سے ۱۸۹۸ء کے عرصہ میں کسی وقت ایک کم عمر نوجوان کے متعلق جو بات کہی تھی وہ آٹھ دس سال کے بعد ۱۹۰۵ء میں پوری ہوگئی.آپ تحریر کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے.ایک دن حضرت ام المومنین بھی منشی عبد العزیز صاحب کے گھر او جلہ آئی تھیں.ان ایام میں حضور مقدمات کے تعلق میں گورداسپور آیا کرتے تھے.ایک دفعہ میرے سُسرال موضع منگل کوٹلی کے سامنے میاں (شیخ) بقیہ ہمہ صفحہ ۱۶ : پڑھتے پڑھاتے تھے تو بوجہ مُریدی گھر میں ان کی اقتدا میں نمازیں کئی بار پڑھنے کا بار ہا ذکر آنا چاہئے تھا نہ کہ ایک بار.چونکہ والد صاحب حضرت مسیح موعود کے مُرید نہ تھے.اس لئے ایک بار جو زیارت کی تو نورانی چہرہ اور نذرانہ پیش کرنے اور جمعہ ساتھ پڑھنے کا ذکر خاص طور پر کیا.بیان سے ظاہر ہے کہ بابو صاحب والد صاحب کے مخاطب نہ تھے اس وجہ سے یا مرورِ زمانہ سے ساری بات انہیں یاد نہیں رہی.نیز حضور کا جمعہ پڑھانا ابتدائی ایام کا واقعہ ہوگا.بروئے نقل رجسٹر بیعت میاں جمال الدین صاحب، میاں امام الدین صاحب، میاں خیرالدین صاحب کی تاریخ بیعت ۲۳ ہے تاریخ وفات ۱۳ ۱۴ و ۸ و ۳ ۸ ( بروئے الفضل و ۲۳۱۸ ۱۷۱۲ م هم ۱۰۵ و ۵۳ (۱۵) ولادت میاں خیر الدین صاحب ۱۸۶۴ء ہے.
۱۷ علی احمد صاحب وکیل کی باغ والی کوٹھی میں حضور نے قیام فرمایا تھا.میں نے خود دیکھا تھا.قبول احمدیت آپ ۱۹۰۵ء میں بلوچستان کے پہلے سٹیشن جھٹ پٹ پر اسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر متعین ہوئے.اس زمانہ میں پٹ سیکشن کا یہ پہلا اسٹیشن اُجاڑ بیابان تھا.چھپیں تھیں میل اردگرد تک آبادی.پانی اور گھاس تک نہ تھا.ستی سٹیشن تک صرف ریلوے سٹیشنوں پر پانی دستیاب ہوتا تھا.جہاں ریلوے ٹینک میں یا تالاب میں پانی ذخیرہ رکھا جاتا تھا.منشی عبد الغنی صاحب او جلوی نے وہاں آپ کو حضرت مسیح موعود کا اشتہار الانذار بھجوایا.سے آپ کو حضور کی کوئی کتاب یا مضمون بھی ملا.ان کے مطالعہ سے آپ کا دل حضور کی صداقت کا قائل ہوتا.لیکن علماء ومخالفین کے اعتراضات کے مطالعہ سے آپ کے دل میں اضطراب پیدا ہوا کہ صداقت کدھر ہے.آپ سنسان مقامات میں جاکر دعائیں کرتے کہ اے اللہ ! تو میری رہنمائی فرما! اگر مرزا صاحب تیری طرف سے ہیں اور میں ان کو قبول کئے بغیر مر گیا تو کیا بنے گا.اور اگر بیعت کرلوں اور یہ امر نا درست ہو تو کیا ہوگا.اس زمانہ میں خصوصا سندھ کے مسلمانوں میں بے حد بے علمی تھی.سٹھا رجہ سٹیشن کے قریب کا واقعہ آپ لکھتے ہیں کہ میری بکری پر رہی تھی اس کی وجہ سے مال گاڑی روکنی پڑی.ڈرائیور سخت غصہ میں تھا اور اس نے کہا کہ پھاٹک والا جھوٹ کہتا ہے کہ یہاں ایک بابومسلمان ہے اور یہ اس کی بکری آپ یہ بھی بتاتے ہیں کہ آپ کو احمدیت سے قبل الحکم و بدر سے الفت تھی گویا آپ کو اس وقت ان کا مطالعہ کرنیکا موقعہ ملا.لیکن کاپیوں کے حالات میں ان کا مطالعہ کا ذکر نہ ہونے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھار ان کا مطالعہ ہوا ہوگا.اس علاقہ میں پڑھا لکھا مسلمان نیز کوئی احمدی قریب میں نہ تھا اسلیئے آپ کے علاقہ میں یہ اخبارات کسی اور سے برائے مطالعہ میسر آنے بظاہر ناممکن معلوم ہوتے ہیں.آپ لکھتے ہیں: ”خاکسار کو الحکم اور بدر کے ساتھ قدیم سے الفت ہے جبکہ میں احمدی نہ تھا ( بدر ۲۶ جولائی ۱۹۰۷ ء ص ۵ کالم ۳) اور تحریک کرتے ہیں کہ اخبارات سلسلہ میں دنیوی اخبار بھی درج کی جائیں کیونکہ جہاں دور دراز علاقوں میں تعلیم یافتہ آدمی ملنا بھی مشکل ہے ہم دنیا سے کس طرح باخبر رہ سکتے ہیں ( مراد البدر ہوگی ) البدر اس وقت ابھی بدر میں تبدیل نہیں ہو ا تھا.
۱۸ ہے اور اسے انجن میں بٹھلا کر سٹیشن پر لایا کہ دکھاؤ مسلمان بابو کہاں ہیں مجھے دیکھ کر کہنے لگا کہ یہ تو پنجابی ہیں.گویا سندھی بابو ( پڑھا لکھا) ہونا ناممکن تھا.اسی طرح ایک سندھی ملازم گھر سے واپس آیا تو پوچھا کیا غسل واجب کر لیا ہے تو کہنے لگا کہ گھر پر بیوی تھی نہ کہ پرائی عورت کہ غسل کرتا.ان حالات میں جب کہ اس سٹیشن پر سٹاف اور سٹیشن ماسٹر سب ہندو تھے اور کوئی مشیر کا رنہ تھا.آپ نے اپنی رفیقہ حیات سے کہا کہ ان ایام میں میری موت واقع ہونے لگے تو حضرت مرزا صاحب کی فلاں تحریر میرے سامنے کر دینا.ایک دن اپنی چچی دادی محترمہ مریم صاحبہ اور اہلیہ اور ایک عزیز رشتہ دار کی معیت میں نماز فجر ادا کر کے آپ نے انہیں کہا کہ آپ سب گواہ رہیں کہ آج میں حضرت مرزا صاحب کے متعلق فیصلہ کے لئے قرآن مجید کھولتا ہوں جو حضور اور مخالفین دونوں کا مشترک و مسلم کلام الہی ہے.دائیں صفحہ کی تیسری سطر فیصلہ کن ہوگی.چنانچہ سورۃ یوسف کا یہ حصہ نکلا - ما هذا بشراً ان هذا الا ملک کریم اللہ کا تقرف یوں ہوا کہ برملا آپ نے کہہ دیا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیان والے صادق من اللہ اور مسیح موعود مہدی مسعود ہیں.اور معا اپنی اور اہلیہ صاحبہ کی بیعت کا خط ( مؤخر الذکر سے نشانِ انگوٹھا ثبت کرا کے کیونکہ وہ ان پڑھ تھیں) بھیج دیا جس میں تفصیل بالا بھی درج کر دی تھی.اور چند دن میں منظوری کا جواب بھی موصول ہو گیا.آپ نے سٹیشن ماسٹر سمیت تمام عملہ ریلوے میں قبول احمدیت کا اعلان کر دیا.بعد بیعت حضور کی ملاقات آپ تحریر کرتے ہیں کہ بیعت کے کچھ روز بعد میں چند دن کی رخصت پر موضع گھسیٹ پور ضلع ہوشیار پور پہنچا.اور کرایہ پر ایک گھوڑا حاصل کر کے براستہ پین نوشہرہ ( جو گورداسپور اور مکیریاں کے درمیان دریائے بیاس پر واقع ہے ) اور براستہ کا ہنووان بیٹ حضور کی اولین ملاقات کے لئے روانہ ہوا.ایک دو دفعہ گھوڑا اڑ گیا تو خیال آیا کہ میں رضائے الہی میں یہ سفر نہیں کر رہاور نہ گھوڑا کیوں نہیں چلتا ؟ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے میں نے ایک شارخ درخت لے کر اسے تحریک کی تو وہ زور سے چل پڑا اور میں قادیان کے مہمان خانہ میں پہنچ گیا.منتظم مہمان خانہ نے میرا گھوڑا سنبھال لیا.اور مجھے ٹھہرنے کو جگہ دی.اور
۱۹ مہمان بھی موجود تھے.مسجد مبارک میں حضرت مولوی نورالدین صاحب یا مولوی محمد احسن صاحب کی امامت میں تمام نمازیں ادا کیں.ناسازی طبع کی وجہ سے حضور اس روز نمازوں میں تشریف نہیں لا سکے.نہ ہی دوسرے روز نماز فجر میں.میں مغموم حالت میں مہمان خانہ میں بیٹھا ہوا تھا.کیونکہ ایام رخصت قریباً ختم تھے میں نے جھٹ پٹ واپس پہنچنا تھا.میں حضور کی ملاقات کے لئے آیا تھا جو نہ ہوسکی تھی.ایک مہمان نے مجھے مشورہ دیا کہ میں حضور کے خادم حضرت شیخ حامد علی صاحب کو گھر پر ملوں.ممکن ہے وہ ملاقات کرا دیں.چنانچہ میں نے شیخ صاحب سے ذکر کیا اور یہ بھی بتایا کہ میں نے آج ہی واپس جانا ہے.انہوں نے کہا کہ سُورج نکل چکا ہے.حضور مع حضرت ام المؤمنین وخواتین سیر کو نکلے ہوئے ہیں آئے میں آپ کی ملاقات کرا دیتا ہوں.اور مجھے ساتھ لے کر ڈھاب میں سے گذر کر مقبرہ بہشتی کی طرف باغ میں کنوئیں کے پاس لے گئے جو حضرت اماں جان کا کنواں کہلاتا تھا.کچی ٹنڈوں والا (اور لکڑی کا ) رہٹ چل رہا تھا.* اور اس کی چیں چیں کی آواز آرہی تھی.حضرت صاحب ایک دو مستورات اور بچوں سمیت مقبرہ بہشتی کے جنوبی کنارے پر کھولوں کے پودوں میں کھڑے تھے.شیخ صاحب نے کنوئیں کی پختہ منڈیر پر ایک پختہ اینٹ کھٹکھٹائی اس کی آواز سے حضرت صاحب ہماری طرف متوجہ ہوئے.اور حضور نے سمجھ لیا کہ کوئی مہمان شیخ صاحب کے ساتھ کھڑا ہے جو مجھے ملنا چاہتا ہے.سو حضور خراماں خراماں ہماری طرف تشریف لے آئے.حضور نے اس وقت رُومی سُرخ ٹوپی پہنی ہوئی تھی.اور ہاتھ میں عصا تھا.میں ریلوے کی وردی میں ملبوس تھا.میں نے حضور سے مصافحہ کیا اور عرض کیا حضرت اقدس نے الوصیتہ بابت قیام بہشتی مقبرہ تالیف فرمائی.جس کی تاریخ تالیف ۲۰ دسمبر ۱۹۰۵ء اور ضمیمہ کی ۶ جنوری ۱۹۰۶ ء ہے.کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ اس قبرستان سے شمالی طرف بہت پانی ٹھہرا رہتا ہے جو گذرگاہ ہے اس لئے وہاں ایک پل تیار کیا جائے گا.(بیان شرط اول ) یہ روایت قیام بہشتی مقبرہ اور تعمیر پل سے قبل کے عرصہ سے متعلق ہے جس کا علم ڈھاب میں سے گذر کر سے ہوتا ہے.بابو صاحب نے جو بہشتی مقبرہ کی طرف ذکر کیا ہے وہ اسلئے کہ بیان روایت کے وقت بہشتی مقبرہ قائم تھا.
میں سندھ سے آیا ہوں اور کل کا قادیان آیا ہوا ہوں لیکن حضور سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی.گو میں نے بذریعہ خط بیعت کی ہوئی ہے جس کا جواب بمقام جھٹ پٹ مجھے مل چکا ہے.لیکن ابھی تک حضور سے ملاقات نہیں ہوئی تھی.حضور نے سب سے پہلے دریافت فرمایا کہ مجھے حضور کی شناخت کیونکر ہوئی.اور بیعت کرنے کا خیال کس طرح ہوا.میں نے اپنے دوست منشی عبدالغنی صاحب اوجلوی کا مجھے اشتہار بھجوانا.دعائیں کرنا وغیرہ ساری تفصیل سُنا دی.حضور احوال سُن کر مسکرائے اور فرمایا : " آپ نے خوب کیا.اللہ تعالیٰ سے دعاؤں کے بعد قرآن شریف سے رہنمائی طلب کی.اگر وہاں شیطان کا لفظ نکل آتا تو آپ شاید (ساری عمر ) میری شکل بھی نہ دیکھ سکتے.لیکن چونکہ آپ نے قرآن شریف سے رہنمائی حاصل کرنے کی غرض..سے جملہ حضور نے ایسے پیارے (1) آپ کی قلمی کاپی میں واوین میں دیا گیا نا مکمل فقرہ درج ہے اور اسی طرح وہاں نقطے دیئے ہوئے ہیں.جن کے بعد ” سے تا آخر الفاظ مرقوم ہیں.خطوط وحدانی میں الفاظ (ساری عمر اور (کہے ) خاکسار مؤلف کی طرف سے ہیں.(ب): حضور کے ارشاد کا یہ مفہوم معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید سے اس طرح فال لینا اور جو کچھ نکل آئے اسے حق میں یا خلاف ایک محکم دلیل یقین کرنا صحیح مسلک نہیں.(ج): بہشتی مقبرہ میں اولین تدفین حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی ۱۳۵ ۲۵ کو ہوئی تھی (الحکم (۱۰) یہ بیان کرنا اس لئے ضروری ہے کہ روایت میں بہشتی مقبرہ کا ذکر آیا ہے.بوقت ملاقات ابھی اس کا قیام عمل میں نہ آیا تھا.البتہ بوقت روایت چونکہ بہشتی مقبرہ قائم تھا اس لئے بابو صاحب نے اس کا ذکر کیا ہے.(د): ۱۹۰۵ء میں زیارت کی تاریخ تو معین نہیں.البتہ اشتہار الانذار مورخہ ۱۸اپریل آپ کو ڈاک میں سندھ میں موصول ہوا تھا.۴ اپریل کے شدید زلزلہ کے بند ہونے پر حضور نے بڑے باغ میں ڈیرہ لگا لیا تھا.( بحوالہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص ۲.روایت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) اور ۲ جولائی کو ظہر کے بعد حضور باغ سے قادیان واپس تشریف لائے تھے (بحوالہ الحکم ۶۰ ۳۰ ص۲) بابو صاحب کی روایت سے ظاہر ہے کہ حضور باغ میں مقیم نہ تھے بلکہ قصبہ سے سیر کے لئے تشریف لے گئے تھے.گویا با بوصاحب قادیان میں ۲ جولائی تک نہیں آئے.بابو صاحب ذکر کرتے ہیں کہ نمازیں حضرت مولوی نور الدین صاحب
۲۱ سوہنے الفاظ (کہے ) ایسے حسین وقار کے ساتھ حضور نے میرا حال سنا اور پیارے مسکراتے چہرہ سے مجھے وہ الفاظ فرمائے کہ جب کبھی اس پہلی ملاقات بقیہ حاشیہ یا مولوی محمد احسن صاحب نے پڑھائی تھیں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جو مستقل امام الصلوۃ تھے یا تو بیمار ہوں گے یا وفات پاچکے ہوں گے.جو مرض الموت میں اواخر اگست میں مبتلا ہو کر ۱۱ اکتوبر کو فوت ہوئے تھے ( بحوالہ الحکمی ۳۱۸ ص ۷۹ ۷۱ اص۱) گویا با بوصاحب اگست سے ۱۱ اکتوبر تک بھی قادیان نہیں آئے تھے.ورنہ ان کی جلالت شان کی وجہ سے بوقت روایت ان علالت کا ذکر کرتے.نہ ہی بابو صاحب ۲۲ اکتوبر سے ۱۰ نومبر تک قادیان آئے کیونکہ اس دوران حضور دہلی.لدھیانہ اور امرتسر کے سفر پر رہے اور ۱۰ نومبر کو مراجعت فرما ہوئے.سو بابو صاحب کے قادیان آنے کا عرصہ ۲ جولائی تا آخر جولائی اور ۱۲ اکتوبر تا ۲۱ اکتوبر اور ۱۰ نومبر تا قبل جلسہ سالانہ متعین ہوتا ہے.اور اس کی توثیق آپ کے اس تحریری بیان سے ہوتی ہے کہ آپ ۱۹۰۸ء کے جلسہ سالانہ پر قادیان آئے.اور پھر ہمیشہ جلسہ سالانہ پر پہنچتے رہے.گویا اس سے قبل کسی جلسہ سالانہ پر نہیں آئے.نیز اس امر سے بھی توثیق ہوتی ہے کہ مجھے آپ کے چندہ کا اولین اندراج ۲۵ نومبر ۱۹۰۵ء کی رسیدات آمدنی میں ملا ہے.اور آپ کے بیان سے ظاہر ہے کہ صداقت احمدیت کے متعلق آپ متذبذب تھے تا آنکہ آپ نے فال لے کر فوراً فیصلہ کر کے بیعت کا خط تحریر کر دیا اور چند دن کے اندر قادیان پہنچ کر زیارت کی.اسلئے قبول احمدیت سے قبل چندہ دینے کا امکان نہیں.گویا ۲۵ نومبر ۱۹۰۵ء سے قبل قریب کے عرصہ میں آپ نے بیعت کی ہوگی.(جس کا اندراج الحکم وغیرہ سے دستیاب نہیں ہو سکا) اور اس تاریخ کے قریب ہی قادیان آئے ہوں گے.بلکہ ممکن ہے کہ یہ چندہ آپ نے قادیان ہی میں ادا کیا ہو.چندہ ان الفاظ میں درج ہے.با بو فقیر علی صاحب اسٹنٹ سٹیشن ماسٹر جھٹ پٹ یا“.( الحکم ۲۴ دسمبر ۱۹۰۵ ص ۱۰.کالم ۲) (ھ): آپ کے قلمی حالات میں مرقوم ہے کہ بیعت کے وقت آپ کے بیٹے ایم بشیر احمد صاحب کی عمر دو سال اور مولوی نذیر احمد علی صاحب کی عمر ایک دو ماہ کی تھی.(ایم بشیر احمد صاحب اپنی تاریخ ولادت ۱۹۰۱ء بتلاتے ہیں) مولوی نذیر احمد علی صاحب کی تاریخ ولادت ۶۰۵ ۱۰ ہے.(ماہنامہ خالد بابت جون ۱۹۵۵ء آخری سرورق ) گویا تاریخ بیعت اند از آمارچ یا اپریل ۱۹۰۵ء نکلتی ہے.گویا اس امر کی تو توثیق ہوتی ہے
۲۲ کہ بیعت ۱۹۰۵ء ہی کی ہے.لیکن اپنے بچے کی اس وقت کی عمر کے متعلق قریباً نصف صدی بعد حالات پیار سے مسکراتے چہرہ سے مجھے وہ الفاظ فرمائے کہ جب کبھی اس پہلی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے.میرے دل میں ایک ایسی لہر پیدا ہو جاتی ہے کہ جس کا الفاظ میں میں اظہار نہیں کرسکتا.آج زائد از پچاس سال کے بعد ان سطور کو لکھتے ہوئے سوہنی.وجدانی کیفیت قلب میں پارہا ہوں.الحمد اللہ.صد الحمد للہ حضور فقیر کے ساتھ ساتھ ڈھاب پر سے گذرتے واپس شہر ہو لئے.میں اور مکرم شیخ حامد علی صاحب حضور کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے.پیچھے تھوڑے فاصلہ پر حضرت اماں جان معہ ایک خادمہ اور بچوں کے آرہی تھیں.مہمان خانہ تک حضور میرے ساتھ رہے.میں یہ تمام وقت اپنی کئی باتیں حضور کو سناتا رہا.آپ میری تمام باتیں نہایت محبت سے سنتے چلے آئے.وقت ملاقات سے مہمان خانہ میں مصافحہ تک حضور کے اپنے الفاظ تو مجھے یہی یا در ہے جو میں نے اوپر لکھ دیئے ہیں.حضور نے مجھے اجازت دی اور کھانا کھا کر میں گورداسپور ہو کر مع عیال جھٹ پٹ پہنچ گیا.میں نے اپنے نام الحکم اور ریویو آف ریلیجنز اردو جاری کرا دیئے.بقیہ قلمبند کرتے ہوئے آٹھ نو ماہ کا سہو ہو جانا مستبعد نہیں.اور قرائن قویہ ایسے سہو پر دال ہیں اور یہ سہوثا بت ہے.کیونکہ ابتداء میں اشتہار مورخہ ۸۴ والا آپ کو ملا تھا.آپ لکھتے ہیں کہ ان ایام میں حضور کی کوئی کتاب یا مضمون بھی مجھے ملا.جب حضور کی تحریر پڑھتا تو دل صداقت کا قائل ہو جاتا.پھر مخالفین وعلماء کے اعتراضات پڑھتا تو گھبرا جاتا کہ صداقت کدھر ہے.کئی دن جھٹ پٹ کے تنہا.سنسان مقامات میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر کے رہنمائی چاہی کہ اگر حضور صادق ہیں تو بغیر قبول کئے میری وفات ہو گئی تو کیا ہوگا.یا بیعت کرلوں جو درست نہ ہو تو کیا ہوگا.میرا قلب مضطرب تھا.وہاں ہند و سٹیشن ماسٹر اور ہندوسٹاف کے سوا کسی اور کی محبت نہ تھی.میں نے اپنی بیوی کو جو میری مشیر تھی اور نیک تھی کہہ دیا تھا کہ اگر ان ایام میں میری موت واقع ہو جائے ( مراد یہ کہ ہونے لگے ) تو حضور کا فلاں مضمون اور تحریر میرے سامنے کر دیں.سو ۱۸ اپریل کے اشتہار کے ملنے کے بعد لمبا عرصہ گزرنے پر آپ نے بیعت کی ہوگی بلکہ نومبر کے قریب کی ہوگی جیسا کہ اوپر نتیجہ پیش کیا گیا ہے.
۲۳ دوسری اور آخری ملاقات آپ لکھتے ہیں : 1904ء میں میری تبدیلی ریاست خیر پور میر میں سٹھا رجہ ریلوے سٹیشن پر ہوگئی.اس سٹیشن سے رخصت لے کر میں گھر اور پھر جمعرات کے روز قادیان پہنچا.مجھے حضرت مسیح موعود کی دوسری ملاقات نصیب ہوئی.میں نے کئی نمازیں مسجد مبارک میں پڑھیں.جن میں حضور بھی شامل ہوئے.امام کے ساتھ ہی حضرت صاحب کو دائیں طرف کھڑا ہوتے میں نے دیکھا ہے.اکثر نمازیں ان ایام میں میرے سامنے حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی مسجد مبارک میں اور حضرت مولوی نورالدین صاحب مسجد اقصیٰ میں پڑھاتے تھے.مسجد مبارک ان ایام میں بہت چھوٹی سی تھی.جمعہ مسجد اقصیٰ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب نے پڑھایا.حضرت صاحب نماز میں شامل تھے.میں نے نماز جمعہ پڑھی.حضرت صاحب نے بعد نما ز کسی دوست کا باہر سے بیعت کا آیا ہوا کا رڈ ہاتھ میں لے کر احباب کو سنایا اور فرمایا کچھ عرصہ پہلے اس دوست نے مجھے سخت الفاظ میں مخاطب کیا تھا.( مجھے تو یاد پڑتا ہے کہ فرمایا گالیاں لکھی تھیں ) اب بیعت کا خط لکھا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ پہلے خط میں جو سخت الفاظ لکھے وہ بھی اپنے اس وقت کے حال میں نیک نیتی ہی سے لکھے تھے.اگلے دن صبح ہم تین مہمانوں نے حضور سے اجازت لینے کے واسطے مسجد مبارک میں داخل ہو کر ایک دروازہ کو دستک دی.حضور باہر تشریف لے آئے.میں آخر میں بائیں طرف کھڑا تھا.ہم نے السلام علیکم کہا.حضور نے وعلیکم السلام فرمایا.ہم نے باری باری مصافحہ کیا.دائیں طرف کے پہلے دوست نے حضور کے ہاتھ میں روپوں کی لگی پیش کی.ایک کاپی میں آپ نے اس سٹیشن پر ۱۹۰۶ء اور ۱۹۰۷ء میں متعین رہنے کا ذکر کیا ہے.
۲۴ دوسرے نے بھی کچھ روپے پیش کئے.میں فقیر نے صرف تین روپے حضور کے ہاتھ پر پیش کرتے ہوئے مصافحہ کیا.حضور نے ہم تینوں کو بعد دُعا اجازت فرمائی.بس یہی میری آخری ملاقات حضور سے ۱۹۰۷ء میں ہوئی.میں نے حضور کے مکان کی گلی میں واقع کھڑکی سے حضور کو اپنے ایک خادم سید مہدی حسین صاحب مہتم کتب سے اندر باتیں کرتے دیکھا.جدید صداقت شعاری کی برکت سٹیشن سٹھا رجہ کی بات ہے کہ ایک رات ایک گاڑی گزرنے کے بعد آپ اور کانٹے والے وغیرہ سب سو گئے.ڈاک گاڑی کو پینتیس منٹ باہر رُکنا پڑا.آخر گارڈ نے سیکنڈ گارڈ بھجوایا.اتنے میں آپ بیدار ہو گئے اور جلدی سے کانٹے والے کو بھجوایا.دوسرے سٹیشن سے لائن کلیئر لیا.آپ نے تاخیر والا وقت درج کیا اور ادھر گارڈ نے رپورٹ کر دی کہ اسٹنٹ سٹیشن ماسٹر کے سو جانے کی وجہ سے گاڑی کو تاخیر ہو گئی.اور اسے جگانے کے لئے مجھے سیکنڈ گارڈ بھیجوانا پڑا.آپ نے صبح ہی اس افسر کو درخواست بھجوادی که گذشته رات اپنی بیوی کی زچگی کی وجہ سے میں سونہیں سکا تھا.اس لئے آج رات ڈیوٹی پر سو گیا.یہ قصور در گذر فرمائیں.میں شرمسار ہوں اصلاح کرلوں گا.اور سزا سے بھی اصلاح ہی مقصود ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ بھی بندہ کے بہت سے گناہ معاف کر دیتا ہے.ایسی چٹھی بھجوانے پر آپ کو تریلی کی افواہ پہنچی.آپ نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں دُعا کے لئے تحریر کر دیا اور آپ سکھر پہنچے.دفتر بند تھا.ہیڈ وفات سید صاحب ۳۱۸/۴۱ مدفون قطعه صحابه بهشتی مقبره قادیان (الفضل ۴۱ (۲۹) بیعت ۱۸۹۳ ء - آپ ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے.
۲۵ آفس کے ہیڈ کلرک سے جو ہندو تھا اُس کے گھر پر ملے.تو اس نے ملتے ہی مبارکباددی کہ آپ کی چٹھی پڑھنے سے پہلے ڈی ٹی افسر نے تنزلی کا حکم دیا تھا مگر آپ کی چٹھی پڑھ کر اسے منسوخ کر کے صرف دور و پیہ جرمانہ کیا ہے.میں نے کہا آپ مذاق نہ کریں لیکن اس نے یقین دلایا.واپس آنے پر ڈاک میں یہ حکم موصول ہوا.چنانچہ لائن کے ریلوے سٹاف میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ یہ امر حضرت مرزا صاحب قادیان کا معجزہ ہے.ڈاک گاڑی کو پانچ منٹ تاخیر کرنے کا مجرمانہ پانچ روپے ہوتا ہے.جو بعض دفعہ بذریعہ تار کیا جاتا ہے اور یہاں پینتیس منٹ روکنے اور ڈیوٹی پر سو جانے کا جرمانہ صرف دو ۲ روپے ہوا.ایک روایت آپ لکھتے ہیں کہ : ” میرے دوست منشی عبدالغنی (صاحب ) نے مجھے بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعودؓ نے منشی عبدالعزیز صاحب او جلوی کو گورداسپور مولوی محمد علی صاحب کے رشتہ کے واسطے مہر ماہیا گورداسپوری کے ہاں لڑکی دیکھنے کے واسطے بھیجا تھا.ہمیں یہ شاید ان دنوں کا ذکر ہے جب میں اوجلہ ( میں رہائش رکھتا تھا اور ) گورداسپور پڑھا کرتا تھا.مہر ماہیا کا گھر گورداسپور ( میں ) بنگالی کی دکان کے بالمقابل شہر کی آبادی میں تھا.منشی عبدالعزیز صاحب نے مطلب یہ ہوگا کہ لڑکی کے حالات گورداسپور جا کر معلوم کر لئے جائیں.یعنی اقارب اور ہمسایوں سے.مہر صاحب اور منشی عبدالعزیز صاحب ہم قوم تھے.اس لئے ان کے لئے حالات معلوم کرنے کی سہولت حاصل تھی یہ مطلب نہیں کہ وہ خود لڑکی کو دیکھیں.خدا تعالیٰ کی شان محترمہ فاطمہ صاحبہ بہشتی مقبرہ میں چاردیواری مزار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں دفن ہیں.اور مولوی محمد علی صاحب بعد میں خلافت سے وابستگی اور قادیان میں قیام سے از خود محروم ہو گئے.
۲۶ حضرت صاحب کو بتایا تھا کہ حضور ! خاندان تو معمولی ہے لیکن لڑکی اچھی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا تھا (کہ) ہمیں خاندان کی مالی حالت اچھی ہونے کی ضرورت نہیں.اگر لڑ کی اچھی ہے تو مولوی صاحب کے واسطے رشتہ کی کوشش کر لی جاوے.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب کی شادی گورداسپور ہوگئی.لڑکی کا نام فاطمہ تھا.“ حضور کا سانحہ ارتحال آپ لکھتے ہیں میری اہلیہ امید سے تھیں.انہوں نے تھوڑے تھوڑے کر کے نو روپے جمع کئے تھے کہ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں بھجوا کر خیریت سے فراغت کی دُعا کے لئے عرض کریں گے.حضوڑا لاہور تشریف لے گئے.میں نے ان سے کہا حضور کے قادیان واپس تشریف لے جانے پر رقم ارسال کروں گا.پھر لاہور سے بدر میں الرحیل ثم الرحیل ہے کا الہام پہنچا ہو تو میں نے گھر بتایا رقم تیار رکھیں.الہام حضور کو ہو گیا ہے.حضور اب قادیان واپس جائیں گے.دوسرے روز اللہ دتا نام گارڈ سے (شیعہ) نے دوسرے اسٹنٹ کو کہا کہ اپنے مرزائی (یعنی بابو صاحب.ناقل ) کو کہہ دیں کہ اس کا مرزا قادیان مرگیا ہے.رات کے پہلے حصہ میں میری ڈیوٹی تھی.اس وقت دوسرے اسٹنٹ کی ڈیوٹی تھی ۲۶۵۸ کو سٹیشن پر گیا تو اس نے اللہ دتا کا یہ پیغام دیا.یہ دہشت ناک خبر سنتے ہی جسم لرز کر بے حسن ہوگیا اور مجھے خشی سی ہوگئی ہو ہیں.میں نے یہ جوابی ارجنٹ ڈبل نار بدر نولکھا.لاہور کو دی.بابو صاحب کی مراد ۲۰ مئی والے الہام سے نہیں.کیونکہ وہ پرچہ ۲ جون میں شائع ہوا.بلکہ مئی والا الہام مُراد ہے جو بدر مورخہ ۲۶ مئی میں درج ہے گویا یہ پر چہ ۲۶ مئی کو آپ کو پہنچ چکا تھا.: حضور کی وفات ۲۶ مئی کو دن چڑھے ہوئی اس لئے ۲۶ یا ۲۷ کی درمیانی شب ہی پہلی شب تھی.جب گارڈ نے آپ کو اطلاع بھجوائی جو ۲۷ مئی کو ملی نہ کہ ۲۶ کی صبح کو جیسا کہ سہو ا بابو صاحب نے روایت میں درج کیا ہے.*** بدر ۲۴ مئی و ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کھتری سماچار مشین پریس لاہور میں طبع ہوا.۲۴ مئی کے پرچے میں مرقوم ہے کہ تا اطلاع ثانی دفتر اخبار بدر.احمد یہ بلڈنگ.نولکھا کے پتہ پر خط و کتابت کی جائے.
۲۷ BAD RUMOURS WIRE HAZRATS HEALTH سکھر ریلوے تار کا تعلق براہ راست لاہور سے تھا اس لئے سکھر کے سکنیلر کو جلد تار بھجوا کر جواب حاصل کرنے کے لئے بھی کہہ دیا.تمام دن غم کی حالت میں جواب کا انتظار کیا.چار بجے بعد دو پہر سکھر سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ جواب نہیں آیا.ریل گاڑیوں کی آمد ورفت میں کچھ وقفہ تھا.جنگل میں جا کر نفلوں میں بے اختیار ڈھائیں مار کر دُعائیں کیں کہ اے اللہ ! یہ خبر جھوٹی ہو!! ڈھائیں رکتی نہ تھیں.آپ بیان کرتے ہیں کہ شام تک جواب نہ آنے پر میں نے سٹیشن ماسٹر سے اجازت لی تا خیر پور میرس شہر جاؤں اور محمد ابراہیم صاحب اسٹنٹ انجینئر احمدی سے مل کر کروں.وہاں پہنچا تو معلوم ہوا وہ تبدیل ہو چکے ہیں.میں وہاں کے ہسپتال میں بٹالہ کے رہنے والے مسلمان ڈاکٹر سے ملا تو اُن کے ہاں اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور میں حضور کی وفات کی خبر پڑھی کہ : MIRZA GHULAM QADIAN DIED.....AHMAD OF.AT LAHORE میری تار کے جواب میں ۲۸ مئی کو سیکرٹری صدر انجمن کا تار بٹالہ سے ارسال کردہ ملا.HAZRAT DEPARTED NURDIN KHALIFA اگلے روز صدر انجمن کا اعلان بھی حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خلافت اور تحریک بیعت کے متعلق موصول ہوا.سوئیں نے اپنی اہلیہ کو آہستہ آہستہ خبر بتا دی تا کہ اسقاط نہ ہو.اور اپنی اور ان کی بیعت کا خط تحریر کر دیا.اردگرد کے سٹیشنوں سے ریلوے سٹاف نے آکر مجھ سے تعزیت کی.میری اس گریہ وزاری کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے سلسلہ سے تعلق اور اخلاص عطا کر دیا.نصرت الہی کا ایک واقعہ آپ لکھتے ہیں ۱۹۰۹ء میں ریلوے سٹاف میں تخفیف بوجہ کی آمد یا بخیال بچت ہونے لگی.اور ہرمز کے جونیئر کارکنان کو چھ چھ ماہ کی لازمی رخصت بلا تنخواہ دی گئی میں بھی
۲۸ تخفیف کی زد میں آگیا تنخواہ سے بھی بمشکل گزارہ ہوتا تھا.اور کوئی ذریعہ آمد نہ تھا.بھلا بغیر تنخواہ گزارہ کیسے ہو سکتا.میں نے اہلیہ اور یتیم بہنوں سمیت الحاج سے دعائیں کیں اور حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بھی دُعا کے لئے تحریر کیا.میری ایک ہمشیرہ نے کہا آپ درخواست دیں کہ حسن کارکردگی کے نتیجہ میں مجھے ترقی دے کر سٹیشن ماسٹر کر دیا گیا تھا.اس وجہ سے میں جو نیئر بطور سٹیشن ماسٹر ہوں.میں چھ ماہ گزارہ کیسے کروں؟ مجھے بیشک اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر کر دیا جائے.تنخواہ تو ملے گی.چنانچہ میں نے اسے القاء الہی سمجھتے ہوئے درخواست دے دی.انگریز افسر کا دل درخواست سے دہل گیا حق رخصت چھتیں دن جو بنتا تھا مجھے با تنخواہ دے دیا اور ڈبل الاؤنس پندرہ روپے ماہوار بچت میں دکھا دیا.میں فری پاس لے کر قادیان اور اقارب کے پاس گیا.میرے سوا کسی ایک شخص کو بھی با تنخواہ حق رخصت نہ دیا گیا تھا.واپس آکر سکھر ڈی.ٹی.ایس کے دفتر میں حاضر ہو گیا.ہیڈ کلرک نے کہا کہ چھ ماہ میں سے بقایا حصہ کے لئے جبری رخصت پر آپ کو جانا ہوگا.میں سارا دن دعائیں کرتا رہا.جو یوں قبول ہوئیں کہ روہڑی سکھر کے دریا پار ہے.اور ہیڈ کوارٹر کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ریلیونگ ڈیوٹی والے کو الاؤنس نہیں ملتا تھا.اس لئے ریلیونگ ڈیوٹی والے بابو چند دن کام کر کے بیماری کا سرٹیفیکیٹ دے کر فارغ ہو جاتے تھے.اس روز دوسری یا تیسری تارٹیشن ماسٹر روہڑی کی طرف سے ہیڈ کوارٹر میں آئی کہ میرا اسٹنٹ کئی روز سے بیمار ہے.کام محال ہو رہا ہے.وہاں کام بہت زیادہ تھا.اور ہوشیار شخص درکار تھا.میں ٹرین ورکنگ میں ہوشیار اور پھر ضرورت مند تھا.اس روز چونکہ ہیڈ کوارٹر بلکہ لائن پر کوئی ریلیونگ کلرک فارغ نہ تھا.مجھ کو لگا دیا گیا.میرے کام سے سٹیشن ماسٹر بہت خوش ہوا.اس طرح کچھ وہاں اور کچھ دوسری جگہ بطور ریلیونگ میں کام کرتا رہا.اور ایک دن کے لئے بھی مجھے جبری اور بلا تنخواہ رخصت پر نہ جانا پڑا.نصرت الہی کا ایک اور واقعہ آپ لکھتے ہیں کہ دس سال پنجاب سے باہر رہنے کے بعد میں نے درخواست دی کہ مجھے بھی میرے وطن میں تبدیل کر دیا جائے چنانچہ مجھے لاہور ڈویژن میں تبدیل کر
۲۹ دیا گیا.سٹیشن ماسٹر بڑے سٹیشنوں پر بطور اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر متعین کر دئے جاتے ہیں.گو وہ ٹرین در کنگ سے تنگ پڑ جاتے ہیں.لیکن میں نے اس کے لئے درخواست دے دی اور مغلپورہ ریلوے سٹیشن پر میرا تقر ر ہوا.ایک دفعہ میری رخصت منظور ہوئی.ابھی انتظار تھا کہ میری جگہ کوئی شخص آئے تو میں رخصت پر جاؤں.اس عرصہ میں میری ایک ٹانگ پر پھوڑا نکل آیا اور میں لنگڑا کر سوٹی کے سہارے ڈیوٹی پر حاضر ہوتا.بیماری کی رپورٹ میں نے نہیں کی کہ اس طرح رخصت منسوخ ہو کر بیماروں کی فہرست پر نام درج ہو جاتا.ایک روز دس منٹ تاخیر سے ڈیوٹی پر پہنچا.مجھ سے قبل کے ڈیوٹی والے اسٹنٹ سٹیشن ماسٹر نے دس منٹ پہلے تک کے حالات ٹرینوں کے لکھے تھے.اور میں نے اسکے کہنے پر دستخط کر دئے تھے.اور اس کے زبانی کہنے پر لاہور سٹیشن کو ایک سواری گاڑی کا لائن کلیئر دے دیا حالانکہ اس وقت ایک مال گاڑی لاہور مغلپورہ کے درمیان لائن پر تھی اور ایک مال گاڑی جلو روانہ ہونے والی مغلپورہ سٹیشن پر کھڑی تھی.لائن کلیر دینے کا نتیجہ خطرناک تصادم کی صورت میں نکلتا.مجھے غلطی کا علم ہوا تو فورا سجدہ میں گر گیا.اور دُعا کی کہ اے میرے خدا! میرے اللہ !! تو اپنی مخلوق کو بچالے.اے اللہ کریم ! میں اپنی فاش غلطی کی وجہ سے مارا گیا.سو اللہ تعالیٰ نے مجھے قید سے اور مخلوق کو مرنے سے اور ریلوے کو اس طرح بچا لیا کہ پھاٹک والے نے دُہائی دی اور سواری گاڑی کو ڈرائیور نے دور کھڑا کر دیا.یورپین سٹیشن ماسٹر نے مجھے فورا معطل کر دیا اور افسران بالا کو تصادم ہوتے ہوتے رُک جانیکی اطلاع بذریعہ تار کر دی.مجھ سے دریافت کیا گیا تو بذریعہ تار ہی میں نے بھی جواب دیا کہ اس کیس میں میں مجرم ہوں.مفصل جواب پھر لکھوں گا.اگلے روز ڈی ، ٹی ، او کے بلانے پر میں نے ساری تفصیل بتائی کہ کس طرح ہینڈ سگنل پر جمعدار ایک گاڑی لایا جو دراصل پہلے ہی یارڈ کے اندر تھی.پہلے بابو کو جو ڈیوٹی پر تھا غلط فہمی ہوئی اور اس کے کہنے کے مطابق میں نے لائن کلیئر دے دیا.آپ دیکھتے ہیں کہ میں لنگڑا بیمار ہوں.منظور شدہ رخصت کی منسوخی کے خوف سے بیماری کی رپورٹ پر گھر آرام کرنے کی بجائے خاص ہمت کر کے لنگڑا کر سوٹے کے ساتھ ڈیوٹی پر تو آ گیا.لیکن دس منٹ تاخیر سے پہنچا.میرا فرض تھا کہ میں با ہر نکل کر دیکھتا لیکن بوجہ لنگڑا پن میں نے دوسرے پر اعتبار کر لیا.چونکہ ٹرین بک وغیرہ پر
میرے دستخط تھے اس لئے اس بابو نے میری منت کی تھی کہ میں اسکا نام نہ لوں.کیونکہ قانونا وہ بری ہے میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ ابتداء میں میں اس کا نام نہ لوں گا.لیکن اصل حالات ظاہر کرتے وقت مجھے سب کچھ بتانا پڑے گا.قانون کی رو سے گاڑی اندر آجانے پر پچھلی بر یک خود دیکھنی چاہیے تھی.کہ سگنل گذر آئی ہے نہ میں نے یہ دیکھا.نہ کیبن مین - دریافت کیا.نہ گارڈ سے ملا.نہ لائن کیلیئر دیتے وقت کیبن مین کو اطلاع دی اور اس کی ساری وجہ میر لنگڑا پن تھا.میں بار بار اُٹھ نہیں سکتا تھا.قانونا میں مُجرم ہوں.چونکہ میں نے تمام حالات صاف صاف بیان کر دئے ہیں.اس لئے ریلوے قانون کی رُو سے جو انکوائری کمیٹی ضروری ہے وہ نہ بلائی جائے کہ اس سے سرکار کے مزید اخراجات ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے خود حادثہ سے لوگوں کو محفوظ رکھ لیا ہے.اللہ تعالیٰ نے انگریز افسر کا دل پگھلا دیا اور اس نے انگریز سٹیشن ماسٹر سے کہا کہ مجھے بحال کر دے.چنانچہ اس نے اگلے روز مجھے دفتر حاضر ہونے کا حکم دیا.ہیڈ کلرک نے افسر کو بتایا کہ چونکہ یہ واقعہ سواری گاڑی کے متعلق ہے اس لئے بابو صاحب کو بحال کرنے کے مجاز ٹی ، الیس لاہور ہیں.آپ نے جملہ تفصیل حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں تحریر کر کے دُعا کی درخواست کی اور خود با بو منظور الہی صاحب سے جو ٹیلیگراف افسر تھے ملنے گئے.انہوں نے بتایا کہ حضرت خلیفہ اول نے مجھے آپ کے تعطل کی اطلاع دیتے ہوئے رقم فرمایا ہے کہ میں نے اُن کے واسطے دعا کی ہے.محکمانہ طور پر آپ سے جو کچھ ہوسکتا ہے.ان کے لئے کریں.بڑے افسر سے ملیں.اور میں نے جواب دیا ہے مسافر گاڑی کا حادثہ بڑا بڑا کیس ہے.اس لئے میں کچھ نہیں کر سکتا.حضور دُعا ہی فرمائیں.حضور کی دُعا ہی کچھ کرلے تو کرے.حضرت خلیفہ اول کی ہمدردی معلوم کر کے آپ بہت خوش ہوئے اور الحمد للہ کہتے ہوئے آگئے کہ اب جو کچھ ہوگا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوگا.اللہ تعالیٰ کا فضل عجیب در عجیب طور پر ہوا.اول صرف ایک سال کے لیئے تنزلی کر کے اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر سے گڈس کلرک بنا کر امرتسر تبدیل کر دیا گیا اور تنخواہ میں صرف پانچ روپے ماہوار کی کمی ہوئی.دوئم اس ڈسٹرکٹ ٹرانسپورٹ آفیسر نے یہ رپورٹ کی کہ مسل
۳۱ پر آمدہ بیانات کے صحیح ہونے کے متعلق مجھے ذاتی طور پر تسلی ہے.بابو فقیر علی نے حالات درست بیان کئے ہیں.اس لئے آفیسرز انکوائری اور اس کے اخراجات غیر ضروری ہیں.سوئم عام طریق یہی ہے کہ مسافر گاڑی سے متعلق حادثہ پر قصور وار اسٹنٹ سٹیشن ماسٹر کو ہمیشہ کے لیئے تنزل کر کے کلرک یا ٹرین کلرک کر دیا جاتا ہے.لیکن مجھ سے یہ خاص سلوک ہوا کہ مجھ پر یہ پابندی صرف ایک سال تک رہی.بعد ازاں مجھے گڈس کلرک سے سٹیشن ماسٹر کے گریڈ میں بحال کر کے ٹرین ڈسپیچر مقرر کر دیا گیا.اور مجھے بحال کرنے والے مہربان افسر نے کہا کہ مزید پندرہ روپے الاؤنس ملنے کی وجہ سے میری سابق تخفیف بھی پوری ہو جائیگی.چنانچہ میں سات سال تک امرتسر میں متعین رہا.اور یورپین اسٹنٹ سٹیشن ماسٹر اور میں باری باری ڈیوٹی دیتے تھے.حضرت خلیفہ اول کی شفقت آپ تحریر کرتے ہیں.میری ہمشیرگان کی منگنیاں اس زمانہ کے رواج کے مطابق اس وقت کی گئی تھیں جبکہ وہ ابھی گود میں تھیں.لیکن میں نے احمدیت کی وجہ سے اپنے غیر احمدی اقارب سے قطع کر لی تھی.اور ان کے رشتوں کے لئے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں عرض کیا تھا.آپنے پہلے یہ مشورہ دیا کہ اقارب کو احمدی بنانے کی کوشش کی جائے.لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی.اور حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں عرض کیا گیا.اور اخبارات الحکم یا بدر میں بھی اعلان کرایا تھا.حضرت خلیفہ اول کے مشورہ سے بھیرہ کے ایک احمدی سے جو پولیس میں محر ر تھا.ہمشیرہ فاطمہ صاحبہ کا رشتہ طے ہوا.جب رخصتا نہ دینے کے لئے میں مع کنبہ سکھر سے قادیان آیا تو اس شخص کی ہمشیرہ نے دوسری بہن ریشیم بی بی صاحبہ کا رشتہ اس کا رنگ قدرے خوبصورت ہونے کی وجہ سے طلب کیا.یہ مطالبہ سخت تکلیف دہ تھا.فیصلہ اور تیاری ایک کی شادی رچانے کی تھی.اور عین وقت پر مطالبہ دوسری کے متعلق کر دیا گیا.ان دنوں حضرت خلیفہ اول حضرت مسیح موعود کے مکان کے پچھواڑے میں قیام رکھتے تھے.اور آپ کی عادت تھی کہ نماز عشاء کے بعد کسی کے ساتھ کوئی گفتگو نہ کرتے تھے.خاموش جلدی گھر چلے جاتے تھے.بابو صاحب دروازہ کے پاس جا کھڑے ہوئے اور دریافت کرنے پر
۳۲ یہ قصہ عرض کیا.فوراً فرمایا.آپ میرے مُرید ہیں.ابھی جا کر اُسے کہہ دیں کہ ہم تمہیں کوئی بھی رشتہ نہیں دیتے.آپ نے اپنی اہلیہ صاحبہ کو بھی اطلاع کر دی جو حضرت اماں جان کے پاس قیام رکھتی تھیں.چنانچہ دونوں میاں بیوی کی ڈھارس بندھ گئی.حضرت خلیفہ اول کی ناراضگی کا علم پا کر اس شخص کی ہمشیرہ محترمہ اہل بیت حضرت خلیفہ اول کے پاس پہنچیں اور کہا ہم پہلا رشتہ ہی قبول کرتے ہیں.ہم بُھول گئے.حضرت مولوی صاحب ہمیں معاف کر دیں.ان کی طرف سے اہل بیت حضرت مولوی صاحب نے بہت منت سماجت کی حتی کہ رات بارہ ایک بجے آپ نے معافی دے دی اور بعد نماز فجر نکاح پڑھنے کا وعدہ فرمایا.اور اسی وقت اس شخص نے بابو صاحب کو بھی اطلاع دے دی.اور قبل فجر آپ نے دار اسی میں اپنی اہلیہ کو بھی مطلع کر دیا.حضرت خلیفہ اول نے خطبہ نکاح میں دردناک زبان میں فرمایا کہ اس رشتہ کے بارہ میں ہمیں بہت تکلیف ہوئی ہے.ہمارا دوست فقیر علی سندھ سے آیا ہے.بہت نیک اور سادہ ہے.انہیں اور ان کے گھر والوں کو بہت تکلیف ہوئی ہے.میں نے بہت دُعا کی ہے.یا تو اچھی اصلاح ہو جائے گی یا طرفین میں سے کسی کو خدا خود سنبھال لے گا.چنانچہ حضرت خلیفہ اول کے گھر میں رخصتانہ ہو ا.چند دن ہمشیرہ مع خاوند حضرت خلیفہ اول کے ہاں مقیم رہیں.اہلیہ بابو صاحب کا قیام دار اسیح میں اور بابو صاحب کا مہمان خانہ میں تھا.دوبارہ رخصتی (مکلا وہ) لینے کے لئے یہ صاحب سکھر آئے اور بابو صاحب نے میاں بیوی کے لئے پار چات بنوائے لیکن ان صاحب نے بہت بد دماغی دکھائی مفتی کہ ایک روز با بوصاحب سے سخت کلامی کی.اور آپ کی ہمشیرہ اس رویہ کی وجہ سے سخت مغموم ہوئیں بابو صاحب رات بھر ڈیوٹی دے کر صبح گھر آئے تو دیکھا ہمشیرہ کو رات سے ہیضہ ہو چکا ہے.ڈاکٹر نے کہا حالت خطر ناک ہے.اور شراب کی ایک خوراک پلانا چاہی.لیکن ہمشیرہ نے جو آپ کی اہلیہ صاحبہ اور دوسری بہن کی طرح بہت دعا گو اور نوافل پڑھنے والی تھیں شراب پینے سے انکار کر دیا اور جان بحق ہو گئیں.چونکہ سکھر میں اور کوئی احمدی نہ تھا اس لئے بابو صاحب اور مرحومہ کے خاوند دونوں نے ہی ان کا جنازہ پڑھا اور دفن کیا.بابو صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بذریعہ تار اطلاع دے کر دعا کی درخواست
۳۳ کی.ماشکن نے بتایا گذشتہ رات مرحومہ کو سجدہ میں روروکر یہ دعا کرتے میں نے سُنا کہ اے خدا تعالیٰ ! میرے خاوند کا رویہ میرے بھائی کے ساتھ سخت کلامی کا اچھا نہیں.تو اب بھی قادر ہے.اگر میرا بھیرہ جانا اچھا نہیں ہے تو بہتری کردے ایک دن قبل مرحومہ کو یہ خواب بھی آیا تھا کہ فرشتہ اس کی ڈولی لے جا رہا ہے.اس طرح حضرت خلیفہ اول کی نکاح میں بیان کردہ بات پوری ہوئی.آپ نے اسکے خاوند کے ہاتھ پار چات حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بھجوائے تا مقبرہ بہشتی کے فنڈ میں شمار کئے جائیں.بقیہ سامان جہیز.آپ جب قادیان آئے تو حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں پیش کیا.حضور حیران ہوئے اور فرمایا کہ مرحومہ کے خاوند نے ہمیں ایسی کوئی اشیاء نہیں دیں.بابو صاحب کے خط لکھنے پر اس نے جواب دیا کہ یہ اشیاء ایک کنسٹیل کے پاس رکھی ہیں جو اب رخصت پر ہے.بالآخر یہ اشیاء اس نے مرکز میں نہ پہنچائیں دوبارہ اس کی شادی نہ ہو سکی.اور وہ سلسلہ احمدیہ سے بھی بے تعلق ہو گیا.چھوٹی ہمشیرہ محترمہ ریشم بی بی صاحبہ کے رشتہ کے لئے بھی آپ نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے میاں مہرالدین صاحب سکنہ خلجیاں مغلاں ضلع سیالکوٹ کے لئے تحریک فرمائی.قادیان میں انہیں دیکھنے پر ان کی عمر زیادہ پا کر جب کہ آپ کی ہمشیرہ تیرہ چودہ سال کی ہونگی.بابو صاحب نے عرض کیا کہ ان کی عمر زیادہ ہے.آپ کے اہل بیت کو آپ کے جواب کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ بشیر کے ابا ! آپ سنا کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی عمر بہت چھوٹی تھی.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے شادی کی تھی.بالفرض میری وفات واقع ہو جائے.اور آپ کو صاحب اولاد ہونے کے باوجود شادی کرنی پڑے اس پر بھی لوگ اعتراض کریں گے.اس پر بابو صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کر دیا کہ مجھے یہ رشتہ منظور ہے.لاہور واپس جانے پر آپ کو علم ہوا کہ موصوف کا سلوک اپنی پہلی بیوی سے اچھا نہیں تھا.اس لئے جماعت ان کی سفارش نہیں کرے گی.چنانچہ آپ نے نکاح روکنے کے لئے حضور کی خدمت میں تار ارسال کیا.میاں مہرالدین صاحب کے خطوط حضور کی خدمت میں نیک سلوک کی یقین دہانی کے بارے میں آتے رہے.حضور نے قادیان سے تین احباب حضرت ڈاکٹر سید.
۳۴ عبدالستار شاہ صاحب کے پاس بمقام رعیہ ضلع سیالکوٹ بھجوائے اور ڈاکٹر صاحب کی تسلی بخش رپورٹ آنے پر بابو صاحب سے دوبارہ اجازت حاصل کر کے تین صد روپیہ مہر پر نکاح پڑھ دیا.بابو صاحب نے نہایت سادگی سے حضرت خلیفہ اول کے گھر میں ہی ہمشیرہ کا رخصتانہ کر دیا.حمید بھاگ ناڑی زلزلہ کی زد میں جن دنوں آپ قادیان ہمشیرہ فاطمہ صاحبہ کی شادی کے لئے آئے ہوئے تھے.اس عرصہ کے دوران کا یہ واقعہ بھی آپ تحریر کرتے ہیں کہ کوئٹہ والے منشی نور محمد صاحب سے قادیان میں ملاقات ہوئی اور انہوں نے سنایا.ایک قصاب نے احمدیت قبول کی تو علماء کے فتویٰ کے مطابق لوگوں نے ان کا مقاطعہ کر دیا جس سے اس کی دکان کا کام بند ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خواب میں اس قصاب دوست کو نظر آئے.اور فرمایا میاں! بھاگ ناڑی پر کدھر سے حملہ کروں ؟ منشی صاحب نے جو بھاگ ناڑی کے مجسٹریٹ کے ریڈر تھے زبانی یا اشتہار کے ذریعہ اعلان کر دیا کہ عنقریب یہاں تباہی آئے گی.چنانچہ زلزلہ سے بھاگ ناڑی ایک تہائی آبادی سمیت تباہ ہو گیا.سرکاری بنگلہ، ریلوے سٹیشن گر گیا.ریلوے لائن پر شگاف پڑ گئے.ریل گاڑی کی آمد ورفت رُک گئی منشی صاحب نے اعلانیہ کہا کہ صداقت احمدیت ظاہر ہوئی ہے.علماء بلوچستان نے حکومت کے پاس شکایت کی کہ قدرتی طور پر زلزلہ سے تباہی آنے پر مرزائی نور محمد کہتا ہے کہ ہماری پیشگوئی پوری ہوئی چونکہ بلوچستان میں پولیٹیکل قانون جاری تھا.اس لئے سرکاری حکم سے منشی صاحب اور ایک احمدی چپڑاسی نورالدین کو ملازمت سے موقوف کر دیا گیا.اور چوبیس گھنٹے کے اندر بلوچستان سے نکال دیا گیا.منشی صاحب نے قادیان آ کر حضرت خلیفہ اول سے ماجرا کہہ سنایا.آپ اس بات سے خوش نہ ہوئے اور فرمایا کہ بددعا کیوں کی؟ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے واسطے بد دعا نہیں کرنی چاہئے تھی.: حضرت ڈاکٹر صاحب کے مختصر سوانح کے لیئے دیکھئے تابعین اصحاب احمد جلد سوم (یعنی سیرۃ اتم طاہر ) منشی صاحب صحابی تھے.گلگت میں بھی سرکاری ملازم رہے ہیں.قادیان ہجرت کر آئے تھے
۳۵ حضرت خلیفہ اول کی سادگی آپ تحریر کرتے ہیں کہ خلافت اولی میں میں ایک روز بعد دو پہر حضرت خلیفہ اول کے مطب میں حاضر ہوا.آپ احباب میں دری چٹائی پر بچھائے تشریف فرما تھے.آپ کا ایک بچہ ننگے پاؤں.خاک آلود جسم کے ساتھ ایک کھلونا جولکڑی کا گڑوا تھا.لے کر آیا.اس میں کھنے ہوئے چنے تھے.اور گود میں بیٹھ کر کہا کہ ابا جی ! ابا جی ! چنے کھا لو.آپ نے گڑوا پکڑ کر چنے کھانے شروع کئے.اور فرمایا.الحمد للہ.اللہ تعالیٰ نے نورالدین کو رزق بھیج دیا آج ہم گھر میں کھانا کھانے گئے اور بیٹھ کر چلے آئے.معلوم ہوتا تھا کہ بچے ہمارا کھانا کھا گئے ہیں.آپ یہ بھی تحریر کرتے ہیں کہ ایک جمعہ کے روز میں امرتسر سے قادیان پہنچا اور جاتے ہی نماز جمعہ سے پہلے حضرت خلیفہ اول کے حضور السلام علیکم عرض کیا.فرمایا آجائیے.کون صاحب ہیں؟ آجائیے : حاضر ہوا.تو دیکھا کہ آپ بہت معمولی چھوٹی مونج کی چار پائی پر بیٹھے جمعہ کے واسطے کپڑے پہن رہے ہیں.آپ نے وعلیکم السلام فرمایا.اور مصافحہ کے ساتھ ہی اسی چارپائی پر بٹھا لیا.اور میری کوشش کے باوجود مجھے نیچے نہ بیٹھنے دیا.یہ کپڑے گھر کے دُھلے ہوئے تھے.انہیں استری کرنا تو درکنار سُوکھنے کے بعد جو بعض مستورات ڈنڈے سے گوٹ دبا کرئہ بٹھا لیتی ہیں.ایسا بھی نہیں کیا گیا تھا.آپ نے قمیص پر گھلا کوٹ پہنا.پھر پگڑی باندھنا شروع کر دی.پگڑی کے کچھ حصے میرے بیٹھنے پر میرے نیچے آگئے تھے.جب پگڑی میرے نیچے سے نکلی تو میں بہت شرمندہ ہوا.لیکن مولوی صاحب کچھ نہیں.کچھ نہیں.کچھ نہیں.فرماتے ہوئے پگڑی لیٹتے ہوئے جمعہ کے لئے جانے کو دروازے سے باہر نکلے.میں آپ کے پیچھے جارہا تھا.راستہ میں اور احباب بھی ساتھ شامل ہو گئے.بقیہ حاشیہ: اور صدرانجمن احمدیہ کے کارکن کے طور پر ایک عرصہ تک کام کرتے رہے تقسیم ملک کے وقت ہجرت کر کے کوئٹہ چلے گئے.اور وہیں بتاریخ / ۲۴۸ وفات پائی ( الفضل ۱۹ ص ۷ ) سلسلہ سے محبت رکھنے والے اور دعا گو بزرگ تھے بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.
۳۶ آپ یہ بھی لکھتے ہیں کہ میری موجودگی میں کسی نے حضرت خلیفہ اول سے آپ کے مطب میں دریافت کیا کہ پردے کے لئے بُرقعہ کیسا ہونا چاہیئے.آپ نے کسی کو اپنے گھر بھیجوایا اور کہا کہ والدہ عبدالحی ( آپ کے اہل بیت) کا بُرقعہ لے آؤ.حضرت اماں جی آپ کے اہل بیت نے کہا کہ مجھے تو آپ نے کوئی برقعہ بنا کر نہیں دیا ہوا.اور لٹھہ کی ایک کھلی چادر لا کر دے دی.حضرت مولوی صاحب نے یہ چادر اس طرح اوڑھی کہ تمام بدن.چھاتی وغیرہ چُھپا کر اور سر سے کچھ گھنڈ نکال کر بتایا.میرے نزدیک تو ہماری مستورات کو باہر نکلتے وقت اس طرح پردہ کر لینا چاہیئے.بعد ازاں حضور نے اماں جی کو معمولی سادہ سفید لٹھے کا برقعہ بنوا دیا تھا.آپ یہ بھی تحریر کرتے ہیں کہ امرتسر میں ایک متمول مشخص ملامتی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے.ایک دفعہ قادیان میں حضرت خلیفہ اول سے انہوں نے آکر ملاقات کی تھی.اور حضور نے ان کی ایک کاروائی پر انہیں نصیحت کی تھی کہ انسان کو منافق نہیں ہونا چاہیئے.ایک دفعہ انہوں نے مجھے ایک مکتوب دکھایا.جس میں حضرت مولوی صاحب نے انہیں اس رنگ میں نصیحت فرمائی ہوئی تھی کہ آپ فلاں معزز قوم کے فرد ہیں جو وعدے کے بڑے پکے ہوتے ہیں.اور نصیحت کے طور پر چند پنجابی بیت بھی رقم فرمائے تھے.ان میں ایک بیت یہ تھا.تلکن بازی ویرا اے دنیا منهل سنجل کے چلنا اے آخری شعر یہ تھا.نوردین نمانیاں او ہو چنگیاں جیہڑیاں لنگھ ایتھوں ہوشیار کیاں حضرت خلیفہ اول و حضرت صاحبزادہ صاحب کا ورود امرتسر آپ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ بمشورہ جماعت حضرت خلیفہ اول کو امرتسر میں مولوی محمد علی صاحب ایم اے کے خسر کے خسر با بوصفدر جنگ صاحب کے ہاں بوجہ وسعت مکان اتارا گیا.آپ کا وہاں پوری طرح خیال نہ رکھا جا سکا.اور آپ کو تکلیف
۳۷ ہوئی.آپ نے اس امر کا اظہار بھی فرمایا کہ غیروں کے گھر میں آپ کو ٹھہرایا گیا.اس تجربہ کے مدنظر ۱۹۱۳ء سے حج سے مراجعت پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین صاحب (بعدۂ خلیفۃ المسیح الثانی) کو حضرت میاں محمد ابراہیم صاحب مس گر کے ہاں اتارا گیا.اور بفضلہ تعالیٰ آپ جماعت امرتسر سے بہت خوش ہو کر تشریف لے گئے.ابتداء میں جب آپ سے امرتسر میں وارد ہونے اور دعوتِ طعام قبول کرنے کی درخواست جماعت نے کی تو آپ نے معذرت کر دی.بعدۂ جماعت نے میری تجویز پر مجھے اور محترم چوہدری اللہ بخش صاحب بعده مالک اللہ بخش سیٹم پر لیس قادیان ) کو لاہور بھجوایا.چنانچہ حضرت میاں چراغ دین صاحب کے مکان پر جہاں آپ فروکش تھے.ہم دونوں نے ملاقات کی اور میں نے عرض کی کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی دعوت رو نہیں کی.اس پر آپ نے فورا دعوت قبول کر لی.اور ہم فرحاں و شاداں واپس کوئے.اور جماعت امرتسر کو یہ مرہ دہ جانفزا سُنایا.حمد قادیان تک ریل گاڑی جاری ہونا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو قادیان میں ریل گاڑی آنے کی خبر دی تھی.چنانچہ میاں چراغ دین صاحب نے بیان کیا: ایک دفعہ حضوڑ میاں صاحب ( یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب.ناقل ) کی انگلی پکڑ کر سیر کے لئے بسراواں تشریف لے گئے.جہاں پر آج کل چھپر ہے وہاں پہنچ کر فرمایا کہ: دیکھو میاں گاڑی کی آواز آرہی ہے.۵ پھر آپ یہ کہہ کر چل دیئے.چنانچہ آپ ہی کے عہد خلافت میں ریل گاڑی قادیان تک جاری ہوئی.خدا کے فضل سے آج کل یہاں گاڑی کی آواز سنائی دیتی ہے.الحکم مورخہ ۱۴ رے جنوری ۱۹۱۳ء میں مرقوم ہے.۱۲ جنوری ۱۹۱۳ء لا ہور آئے احباب امرتسر کے اصرار سے آپ پونے نو بجے کی گاڑی پر امرتسر اتر گئے.وہاں بھی آپ کی تقریر ہوئی اور پھر دو بجے بٹالہ پہنچے (ص۱۰.کا)
۳۸ ریل گاڑی کے جاری ہونے کے موقعہ پر مخالفین نے سرتوڑ کوشش کی کہ ریلوے سٹیشن قصبہ سے جانب جنوب بنایا جائے کیونکہ وہاں جماعت احمدیہ کی اراضی نہ تھیں اور اس طرح جماعت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے دریافت فرمایا آیا کسی دوست نے خواب وغیرہ میں دیکھا ہے کہ سٹیشن کس طرف بنا ہوا ہے.تو حضرت مرزا محمد اشرف صاحب نے اپنا ایک خواب اور حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے اپنی قبول احمدیت سے قبل کا اپنا ایک خواب سنایا.ہر دو نے موجودہ مقام پر ریلوے سٹیشن دیکھا تھا.اور یہی ہوا.حضرت صاحبزادہ صاحب کی مساعی سے موجودہ مقام پر بطرف شمال سٹیشن بنوانے میں کامیابی ہوئی.بٹالہ سے بوٹاری تک کی بجائے صرف قادیان تک ریلوے لائن تعمیر ہوئی اور کچھ عرصہ بعد بوٹاری تک کی خرید کردہ اراضی برائے تعمیر ریلوے لائن وغیرہ بھی فروخت کردی گئیں اس طرح اللہ تعالیٰ نے سینتیس ۳۷ سال سے یہ نشان نمایاں طور پر جاری رکھا ہوا ہے کہ یہ ریل گاڑی اس نے سلسلہ احمدیہ کی خدمت کے لئے جاری کی تھی.اور اب بھی اس کی بین الاقوامی شہرت کی خاطر اسے قائم رکھا ہوا ہے.یو ہ مختصر کوائف کے لیئے دیکھیں اصحاب احمد جلد اول (ص ۱۰۴،۱۰۳) : الحمد للہ ۱۹۵۶ء سے قادیان بٹالہ سٹرک پختہ بن چکی ہے اور چند سالوں سے امرتسر اور بٹالہ کی بس کمپنیوں اور پنجاب گورنمنٹ کس روڈ ویز کی بسوں کی آمد و رفت امرتسر اور جالندھر ( براستہ بابا بکالہ ) اور بٹالہ سے قادیان بلکہ موضع ہر چووال اور بھیٹ کے پین تک شروع ہے.چونکہ اندرون قبصہ میں سابق سٹار ہوزری کے پاس کمیں گھلی جگہ میں ٹھہرتی ہیں.اس لئے مسافروں کی اکثریت کو یکہ یا آدمی رکشا کے سٹیشن تک کے کرایہ کی بچت ہو جاتی ہے.اور وہ بسوں کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں.بٹالہ اور نواح تک یکے اور بعض دفعہ ٹیکسیاں بھی چلتی ہیں.چند سال سے ایک آدمی رکشا بھی قادیان میں موجود ہے اور اناج منڈی قادیان ایک وسیع و عریض علاقہ کی واحد منڈی ہے.اور اس کا تمام مال گندم.دھان.گڑ.شکر.مسور.ماش.تل اور جوار وغیرہ بٹالہ اور یوپی تک جاتا ہے اور امرتسر اور بٹالہ کا تجارتی مال اور پھل اور سبزیاں لڑکوں پر آتی ہیں.ریلوے کی آمد اس سے متاثر ہونے پر تین چار سال قبل نارتھ ریلوے کے سب سے بڑے
۳۹ حضرت بابو فقیر علی صاحب قادیان میں اولین سٹیشن ماسٹر متعین ہوئے.۱۹ دسمبر ۱۹۲۸ء کو امرتسر سے قادیان کو ریل گاڑی جاری ہوئی.بعض ڈبے ریز رو کرنے کے لئے محکمہ کو لکھا گیا تھا.پہلے روز گاڑی کے جاری ہونے پر احمدی مردوزن اور بچے اتنی کثیر تعداد میں امرتسر سٹیشن پر پہنچ گئے کہ گاڑی میں مزید چند ڈبے زائد کئے گئے.اس میں کل الفضل ۱۲/۸ ۱۱ (زير مدينة اُسی ) آپ کے صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب کا بیان ہے کہ والد صاحب نے غالباً اس بارہ میں کوشش کی تھی.بقیہ حاشیہ صفحہ ۳۹: افسر جو سکھ تھے ریلوے حکام کی ایک کثیر تعداد کی معیت میں ریلوے موقت لائحہ عمل کے علاوہ اپنی سپیشل ٹرین میں جو ایک بوگی پر مشتمل تھی.قادیان آئے.ان کی آمد کا مقصد یہ تھا کہ رپورٹ کر کے بٹالہ قادیان ریل گاڑی بند کرا دیں.قادیان کے کوئی نصف صد غیر مسلم معززین بھی پر جمع ہوئے.افسر موصوف نے صرف دو تین افراد کو ملاقات اور معروضات پیش کر نیکی اجازت دی.ان احباب نے خاکسار کو تر جمان مقرر کیا اور خاکسار نے ان کی خدمت میں قادیان کی بین الاقوامی اہمیت واضح کی اور بتایا کہ تقسیم ملک کے بعد بھی دور دراز کے ممالک سے احمدی احباب قادیان کی زیارت کے لئے آتے ہیں.اور گاڑی بند کرنے سے سرکار پر حرف آئے گا.اور اس طرف توجہ دلائی کہ ایک کثیر تعداد بغیر ٹکٹ کے سفر کرتی ہے.اس کے مؤثر انسداد سے آمد میں معتد بہ اضافہ ہے.چنانچہ انہوں نے موقعہ پر ہی کہہ دیا کہ قادیان بٹالہ ریلوے لائن بند کرنے کی تجویز فی الحال ترک کی جاتی ہے.الحمد اللہ علی ذالک.ہو سکتا جناب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ۱۹۵۹ء میں برطانیہ سے سرکاری دعوت پر بھارت آئے تو آپ دہلی سے قادیان بھی تشریف لائے.واپسی کے وقت آپ نے دارالانوار میں مدرسین کے وقار عمل کا بھی معائنہ کیا اور ایک منٹ تقریر بھی کی.ان دنوں ڈیڑھ دوصد مدرسین تحصیل بٹالہ وغیرہ کا قادیان میں کیمپ لگا ہوا تھا.کیمپ کے منتظم کیپٹن سردار کرتا رسنگھ فزیکل انسٹرکٹر سکھ نیشنل کالج قادیان نے ڈاکٹر صاحب کو الوداع کہتے ہوئے بتایا کہ قریب میں ریلوے مجسٹریٹ نے بٹالہ میں ایک کثیر تعداد بلا ٹکٹ سفر کرنے والوں کی گرفتار کی.اور جب بعض لوگوں نے اپنی سکونت قادیان بتلائی تو اس نے انہیں کہا کہ آپ لوگوں کو شرم نہیں آتی.اتنے سالوں سے قادیان میں رہتے ہو.وہاں کے احمدیوں سے اتنا سبق نہیں سیکھا ؟ ان کا ایک بھی فرد بلا ٹکٹ سفر کرتے دیکھا ہے؟.
پانچ ہوگیاں ( تین سنگل ڈبے اور دو بر یک دان ) تھے.انجن ایس ، ٹی کلاس تھا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین بجے بعد دو پہر وہاں تشریف لائے اور آپ کو احباب نے بکثرت ہار پہنائے.گاڑی کے پاس ہی اذان کہی گئی.اور حضور نے پلیٹ فارم پر بہت بڑے مجمع کو ظہر وعصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.پھر احباب نے آپ سے مصافحے کئے.بعد ازاں آپ نے اپنے ڈبہ کے دروازے میں کھڑے ہوکر یہ فرماتے ہوئے کہ دوست دعا کریں.اللہ تعالٰی ریل کا قادیان میں آنا مبارک کرے.ہاتھ اٹھا کر چند منٹ تک مجمع سمیت نہایت توجہ اور الحاح کے ساتھ دعا کی.آپ کے آنے کے بعد گاڑی کی روانگی تک مدرسہ احمدیہ کے سکاؤٹ نہایت خوش الحانی سے اردو اور پنجابی نظمیں پڑھتے رہے.نیز انہوں نے کئی ایک قطعات سے جو سُرخ رنگ کے کپڑوں پر چسپاں تھے.گاڑی کو خوب سجا رکھا تھا.یا بعض قطعات یہ تھے: (۱): أَلَا إِنَّ رَوْحَ اللَّهِ قَرِيبٌ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ يَأْتُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ يَأْ تِيْكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ.(۲) إِذَا الْعِشَارُ عُطِلَتْ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ (۳): دنیا میں ایک نذیر آیا.پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا.(۴): أَهْلَا وَّ سَهْلاً وَمَرْحَبًا.(۵): خوش آمدید.(۶): غلام احمد کی ہے.(۷) یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے یہ میرے صدق دعویٰ پر مہرالہ ہے.خاکسار بھی مدرسہ احمدیہ کے ان سکاؤٹس میں شامل تھا.قادیان سے ہم سب شدید سردی میں میں صبح منہ اندھیرے پا پیادہ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ تو بٹالہ اور وہاں سے سوار ہو کر امرتسر پہنچے تھے.خاکسار کے برادر خورد ملک برکت اللہ صاحب ایڈوکیٹ ساہیوال ( سابق منٹگمری) جو ان دنوں مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں زیر تعلیم تھے.باوجود نہایت خوردسالی کے باصرار ہمارے ساتھ ہو لئے تھے.خاکسار نے مدت مدید تک اس روز کا اپنا ریلوے ٹکٹ امرتسر تا قادیان سنبھالے رکھا اور سفر کے چشم دید حالات بھی.لیکن غالباً یہ سب کچھ تقسیم ملک کی نذر ہو گیا.
۴۱ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے ریل گاڑی کے جاری ہونے کے متعلق ایک چو ورقہ تقسیم کرایا.اور ایک بھائی نے پنجابی میں منظوم ٹریکٹ اس بارے میں شائع کیا.جماعت احمدیہ کے معاند مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری بھلا چُپ کیوں رہتے.انہوں نے بھی کاغذ کا ایک پرزہ تقسیم کر دیا جس میں لکھا.” خلیفہ قادیان اور قادیانی اس خر د قبال کا استقبال کرنے کو امرتسر سٹیشن پر 66 آتے ہیں.گاڑی نے مقررہ وقت پر بعد دو پہر تین بج کر بیالیس منٹ پر حرکت کی.جس کے ساتھ اللہ اکبر کا نہایت پُر جوش نعرہ بلند ہوا.ریلوے یارڈ سے نکلنے تک نعرے جاری رہے وہاں پیل پر گاڑی دیکھنے والوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ پل پر سے گزرنا ناممکن ہو گیا تھا.اللہ اکبر اور غلام احمد کی جے کے نعرے راستہ کے ہر گاؤں اور ہر سٹیشن پر بلند ہوتے تھے.اگر چہ گاڑی امرتسر میں ہی بالکل بھر پور ہو چکی تھی.لیکن قادیان کے بہت سے احباب بٹالہ سٹیشن پر پہنچ چکے تھے.بوجہ کثرتِ ہجوم ایک حصہ گاڑی پر سوار ہونے سے رہ گیا.حالانکہ بہت سے احباب پائیدانوں پر بھی سوار ہو گئے تھے.درمیانی سٹیشن وڈالہ گرنتھیاں سے بھی قادیان کے کچھ افراد جوں توں کر کے سوار ہوئے.وہاں اردگرد کے بہت سے احمدی مردوزن جمع تھے.گاڑی وقت مقررہ پر چھ بجے شام قادیان سٹیشن پر پہنچی.حضور مع اہل بیت.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مع اہل بیت.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب.خاندان حضرت مسیح موعود کے متعدد نو نہال.حضرت نواب زادہ میاں محمد عبد اللہ خان صاحب.حضرت مولانا شیر علی صاحب.حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق.حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر بیت المال اور بہت سے بزرگان اس گاڑی میں سوار تھے.اور گوجرانوالہ.لاہور اور امرتسر کے علاوہ بعض دور دراز کے احباب بھی اس سفر میں شریک ہوئے.سب سے دُور فاصلہ کے ٹکٹ دو عدد نوشہرہ چھاؤنی کے تھے.امرتسر سے بٹالہ تک اور بٹالہ سے قادیان تک گاڑی کی رفتار علی الترتیب چھپیں اور پندرہ میل فی گھنٹہ تھی.وسیع پلیٹ فارم کے علاوہ سٹیشن کے آس پاس مردوں عورتوں اور بچوں کا ایک بہت بڑا ย
۴۲ ہجوم تھا.سٹیشن جھنڈیوں اور گملوں سے خوب آراستہ کیا گیا تھا.اللہ اکبر اور غلام احمد کی بے کے نعروں سے فضا بہت دیر تک گونجتی رہی.حضور کی خدمت میں امرتسر سٹیشن پر کئی احباب نے پھلوں کی ٹوکریاں پیش کیں.جو آپ نے تمام کی تمام راستہ میں گاڑی کے ڈبوں میں تقسیم کرا دیں.کے ازدواجی زندگی آپ کے ماموں مکرم حکیم محمد بخش صاحب کی دختر محترمہ برکت بی بی صاحبہ سے آپ کی شادی ۱۸۹۹ء میں ہوئی.ان کی وفات کے بعد آپ نے ۱۹۱۶ء میں محترمہ اللہ رکھی صاحبه دختر مکرم حکیم غلام نبی صاحب ساکن موضع شاہ پور ضلع گورداسپور سے شادی کی.جن کے بطن سے کوئی اولاد نہیں.موصوفہ ربوہ میں قیام رکھتی ہیں.اور حضرت بابو صاحب کی وصیت کے مطابق آپ کے فرزند مکرم میاں بشیر احمد صاحب ان کے اخراجات کے متحمل ہیں.محترمہ برکت بی بی صاحبہ کے بطن سے آپ کی ذیل کی اولاد ہوئی: (1) مکرم میاں بشیر احمد صاحب.آپ ۱۹۴۴ء سے تا تقسیم ملک جماعت ڈیرہ دون کے صدر رہے اور ۱۹۵۵ء سے تا حال امیر جماعت جھنگ ہیں.(۲) مکرم مولوی نذیر احمد علی صاحب.آپ نے قریباً ایک ربع صدی مغربی افریقہ میں میدان جہاد میں گزار کر وہیں وفات پائی.آپ وہاں رئیس التبلیغ تھے.جید (۳) محترمہ حلیمہ بی بی صاحبہ (اہلیہ مکرم با بو غلام رسول صاحب لاہوری کلرک ریلوے ) آپ نے ۵ جولائی ۱۹۲۳ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.ان کی شادی کا واقعہ بہت ایمان افروز ہے.۱۹۱۸ء کے قریب کی بات ہے کہ حضرت بابو صاحب نے مسجد احمدیہ امرتسر میں سنا کہ بابو غلام رسول صاحب سے کہا گیا ہے کہ وہ احمدیت سے انکار کر دیں تو انہیں رشتہ دیا جائے گا.لیکن انہوں نے یہ شرط قبول نہ کی.اس لئے شادی نہ ہوسکی.حضرت بابو صاحب کا احمدیت سے عشق اور اسکے لئے غیرت قابل داد تھا.انہوں نے یہ بات سنتے ہی کہا میں انہیں اپنی بچی نکاح میں دیتا ہوں.اس شادی سے ایک ہی بچی محترمہ : آپ کے سوانح کے لئے دیکھئے تا بعین اصحاب احمد جلد چہارم.
۴۳ سیدہ بیگم صاحبہ (اہلیہ اخویم شیخ عبد القادر صاحب لائیل پوری محقق عیسائیت خلف حضرت شیخ عبدالرب صاحب لائیلپوری ) پیدا ہوئیں.(بیان ایم بشیر احمد صاحب) ( ۴ تا ۶ ) : تین بچے محمود احمد.شریف احمد اور عبداللہ کم سنی میں تین سے دس سال تک کی عمر میں عالم جاودانی کو سدھار گئے.ایک دفعہ سکھر میں بابو صاحب چار خوردسالہ بچوں کو لے کر دریائے سندھ پر چلے گئے اللہ تعالیٰ نے سب کی حفاظت کا سامان غیب سے فرمایا.ورنہ کسی کو علم بھی نہ ہوتا کہ وہ کیا ہوئے.آپ کے اہلِ بیت کو بھی اس بات کا علم نہ تھا.ہوا یوں کہ دریا میں آپ نہانے لگے اور بچی کو نہلا کر جو کھڑا کیا تو وہ خود ہی گہرے پانی کی طرف چلی گئی.اُسے ڈوبتا دیکھ کر آپ اس کی طرف بڑھے تو خود ڈوبنے لگے باقی تینوں بچے بھی بڑھے.اچانک ایک ملاح مٹی کے بڑے گھڑے سمیت (جس کے سہارے یہ لوگ تیرتے ہیں ) آ گیا.اس نے آپ کو اور بچی کو جس کی صرف گت (چوٹی ) نظر آرہی تھی بچا لیا.اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارے افراد بچ گئے.آپ کی اہلیہ اولیٰ کو زیارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا موقعہ نہیں ملا تھا.لیکن سلسلہ سے بہت اخلاص رکھتی تھیں.نمازوں کا پورا التزام رکھتی تھیں.انفاق فی سبیل اللہ.مہمانوں کی تواضع اور سادہ زندگی بسر کرنا وغیرہ جملہ امورِ خیر میں آپ کے خاوند محترم کو آپ کا پورا تعاون حاصل تھا.سل یا دق سے بیمار ہو کر امرتسر سے موضع منگل کوٹلی (اپنے وطن ) چلی گئیں.جہاں ۱۰ اپریل ۱۹۱۵ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئیں.اس زمانہ میں کس.ٹرک وغیرہ کی موجودہ سہولتیں میسر نہ تھیں.انہوں نے بابو صاحب سے وعدہ لیا تھا کہ ان کی نعش ہر ممکن کوشش سے قادیان پہنچائی جائے.چنانچہ آپ نے حضرت ملک مولا بخش صاحب متعین گورداسپور کو اطلاع دے کر چند آدمی اُجرت پر منگوائے اور ان کے ذریعہ نعش چار پائی پر اٹھوا کر قادیان لائے.اس طرح ان کی تدفین (بمطابق وصیت نمبر ۳۲۰) بہشتی مقبرہ میں عمل میں آئی.مرحومہ کے جدی اقارب میں سے کوئی احمدی نہ تھا.ان کے بڑے بھائی کو اللہ تعالیٰ مطابق ریکارڈ از دفتر بہشتی مقبره تاریخ تدفین ۲۶۱۲/۱۳ نقل کتبہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم مسماة حلیمہ بی بی بنت با بو فقیر علی صاحب قوم سدھر سکنہ قادیان عمر ۱۷ سال وفات ۵۷/۲۳ وصیت نمبر ۲۰۷۶
۴۴ نے اس موقع پر وطن پہنچنے سے روک دیا ان کی نیت تھی کہ جنازہ قادیان لے جانے سے روک دیں.وہ چلتی گاڑی میں سوار ہونا چاہتے تھے لیکن سوار نہ ہو سکے.سلسلہ کے لڑیچر میں ذکر سلسلہ کے لڑیچر میں آپ کا ذکر بہت سے مقامات پر آیا ہے.درخشنده سیرت تنگی سے گذر اوقات کے باوجود آپ کا قلب صافی صبر و شکر کے جذبات سے معمور رہتا تھا.چنانچہ آپ کی اہلیہ ثانیہ سُناتی ہیں کہ ایک رات میں بیدار ہوئی تو آپ کو سجدہ کی حالت میں بارگاہ الہی میں یہ عرض کرتے پایا کہ اے اللہ تعالیٰ ! نہ معلوم دمِ واپسیں کے وقت مجھے ہوش رہے یا نہ رہے.اس وقت جب کہ میرے ہوش وحواس بجا ہیں.میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے عمر بھر تیری دنیا میں بہت مزے کئے اور سکھ پایا.آپ ۱۹۴۹ء میں حالات زندگی قلمبند کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں : ” جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے.تا ایں دم اللہ کریم کے بے شمار افضال.اکثر محض ( رحمانیت اور ربوبیت کے رنگ میں پائے ہیں کہ میں (اور) میرا خاندان کیا تھا اور کس قدر افضال الہی متواتر ہمارے شامل حال ہوئے.موت قریب دیکھتے ہوئے میں اس طرح اعتراف کرتا ہوں کہ جس طرح ایک لڑکی والدین کے گھر سے پہلی بارسسرال : مثلاً (۶۱) ادائیگی چنده اعانت ریویو آف ریلیجنز (اردو) با بو فقیر علی صاحب جھٹ پٹ.از مقام سٹھارجہ (پرچہ اپریل و اکتوبر ۱۹۰۶ء سرورق آخر ) (۳ تا ۷) قیمت رساله تحمید الاذهان از خیر پور میر سندھ وغیرہ (پرچہ اکتوبر ۱۹۰۸ء سرورق اول اندرون مئی ۱۹۱۰ء ص ۲۰۰ کالم ۲ جنوری ۱۹۱۲ء سرورق صفحه ب جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ و کالم اور مئی ۱۹۱۳ء صفحہ و کالم ".(۸ تا ۱۰) شرکت شوری بطور نمائندہ امرتسر رپورٹ اجلاس اوّل ۱۹۳۶ء ص ۱۵۵.واجلاس ثانی ص ۸۴)
۴۵ روانہ ہوتی ہوئی زبانِ حال سے کہے.با بلا تیرے گھر بڑا سکھ پایا.“ میں نے اپنے رب کی دنیا میں بہت بہت سکھ پایا ہے.میرے وہم (و) گمان سے بالا تر بے شمار مواقع پر اللہ کریم نے دین و دنیا میں خاص یاوری کی ہے.میں تو مر کر خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا لطف پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار ولله الحمد والمنة آپ کے فرزند محترم بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ بالعموم یہ نصیحت فرماتے تھے کہ اللہ تعالے برحق ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام برحق ہیں اور خلافت سلسلہ احمدیہ برحق ہے.اللہ تعالیٰ کے متعلق کبھی شکوہ نہ کرنا چاہیئے.جو کچھ عرض کرنا ہو اس کے حضور عرض کرنا اور ہمیشہ شاکر رہنا چاہیئے اور بچی کا رشتہ اس کے جوان ہوتے ہی کر دینا چاہیئے.ایک عزیز کے تاثرات ذیل کے اوراق میں آپ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے.آپ کے ہمشیرہ زاد بابو اللہ بخش صاحب ریلوے گارڈ ( متعین رحیم یارخاں) بیان کرتے ہیں کہ : آپ شب زندہ دار تھے.کئی بار اعتکاف بھی بیٹھے.بمقام بہت پور مکیریاں (ضلع ہوشیار پور ) سلسلہ کی طرف سے تبلیغی مرکز قائم ہونے سے قبل آپ وہاں تبلیغ کرنے جاتے.تبلیغی وفد بھی لے جاتے اور جلسے منعقد کراتے تھے.وہاں آپ کی ہمشیرہ رہائش پذیر تھیں.آپ کی مساعی کے نتیجہ میں وہاں جماعت کا قیام عمل میں آیا (میاں بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہماری یہ پھوپھی صاحبہ اور ان کی اولاد آپ کی تبلیغ سے آغوش احمدیت میں آگئے تھے ) ایک دفعہ رخصت لے کر بعض احمدیوں کے ہمراہ آپ تبلیغ
۴۶ کے لئے علاقہ بیٹ میں گئے.ایک پٹواری کی شرانگیزی سے مخالفین نے زدوکوب کیا.لیکن آپ نے صبر سے کام لیا اور معینہ مدت پوری کر کے واپس لوٹے.پھر اس پٹواری کی تعیناتی آپ کے سرال کے علاقہ میں ہوئی تو وہاں کے احمدی زمینداروں نے پٹواری سے انتقام لینے کا ارادہ کیا لیکن بابو صاحب نے نہ صرف اجازت نہ دی بلکہ سختی سے انہیں منع کر دیا اور فرمایا یہ اس کی نادانی تھی.میں نے اُسے معاف کر دیا ہے اس کا اُس پر بہت اثر ہوا اور وہ سخت نادم ہوا.قادیان میں تعیناتی کے دوران آپ کے اعلیٰ نمونہ سے متاثر ہوکر اسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر پنڈت رگھبیر چند اسلام کے گرویدہ ہو گئے تھے.اور حضرت منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی سے انہوں نے سبقا سبقا قرآن مجید پڑھا.پیر محمد اقبال صاحب سٹیشن ماسٹر سناتے ہیں کہ والٹن ٹرینگ سکول میں بابو صاحب کی تبلیغ کے نتیجہ میں میں نے اور میرے خاندان کے بیس پچیس افراد نے بیک وقت احمدیت ☆ قبول کر لی تھی.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد پر عمل پیرا تھے کہ تقویٰ کی باریک را ہیں اختیار کرو.معلوم نہیں تم کس راہ سے قبول کئے جاؤ.آپ محکمہ ریلوے کے قوانین کی سختی سے پابندی کرتے تھے اور اس محکمہ کے مفاد کا پورا خیال رکھنا فرض جانتے تھے.چنانچہ باوجود یکہ قادیان کا ریلوے سٹیشن چھوٹا سا تھا اور اسکے پلیٹ فارم ٹکٹ کی ضرورت نہ تھی.لیکن قادیان کی شہرت کی خاطر اور اس لئے کہ نوجوان طبقہ اسٹیشن پر آکر بلا مطلب گھومتا نہ رہے.آپ نے پلیٹ فارم ٹکٹ جاری کروا دیا تھا.آپ اس اسٹیشن پر بھی وقت کی پابندی کرتے تھے اور وقت ختم ہو جانے پر مال گودام بند کر دیتے اور بعد از وقت مال نہ بھرنے دیتے اور نہ ہی ڈیمریج کے بغیر چھوڑتے.آپ دیگر ریلوے ملازمین کی طرح کبھی پہلا ٹکٹ سفر نہ کرتے.نہ آپ کے اقارب میں سے کسی کو یہ جُرات ہوتی تھی کہ پہلا ٹکٹ سفر کر کے آپ کے پاس پہنچے.آپ کی اہلیہ بغیر بک کرائے ایک مُرغی لے آئیں.کھانے کے وقت گھر آئے تو علم ہوا تو فورا آپ نے اس کے کرایہ کی رسید کاٹ کر رقم ادا کر دی.جب جناب چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر مواصلات تھے تو ان کے آپ کے مفصل حالات کے لئے دیکھئے اصحاب احمد جلد اول.
۴۷ سیلون میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دو تین افراد نے سفر کیا.بابو صاحب نے یہ خیال کر کے کہ مبادا چوہدری صاحب ان سب احباب کے لئے ٹکٹ حسب قانون خرید نا بھول گئے ہوں اپنی طرف سے فرسٹ کلاس کے ٹکٹ خرید کر چوہدری صاحب محترم کی خدمت میں پیش کر دئے.اس پر چوہدری صاحب نے بتلایا کہ وہ ٹکٹ پہلے ہی خرید چکے ہیں.حکام بالا نے احراریوں کی اس شکایت پر کہ قادیان کے پوسٹ ماسٹر اور سٹیشن ماسٹر دونوں احمدی ہیں.وہ تبلیغ کرتے ہیں اور احمدیوں کو نا جائز فائدہ پہنچاتے ہیں آپ کو نور پور روڈ ریلوے سٹیشن ضلع کانگڑہ تبدیل کر دیا.ملازمت سے سبکدوش ہونے پر آپ دار البرکات قادیان میں رہائش پذیر ہوئے.اور اعزازی طور پر نظارت امور عامہ میں شعبہ رشتہ ناطہ میں کام کرنے لگے.لیکن کچھ عرصہ کے بعد صحت کی کمزوری کی وجہ سے آپ اس کام کو جاری نہ رکھ سکے.ایک دفعہ نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے آپ کو علاقہ سرگودھا میں ایک جھگڑے کے نپٹانے کے لئے بھجوایا گیا تھا.ہو حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب ( سابق مہر سنگھ ) پر جو مقدمہ حضرت بابا نانک کے متعلق ایک کتاب کی وجہ سے دائر ہوا تھا.آپ ان کی طرف سے پیروی کے لئے ہر پیشی پر جاتے تھے.سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے.“ کے آپ مصداق تھے.دُور دُور کے اقارب کے رشتہ ناطہ کے آپ ہی ذمہ دار تھے.اور اقارب بھی آپ کو پریشانی کے وقت : ۱۹۴۴-۴۵ء میں نظارت تعلیم تربیت کے ہیں اعزازی کارکنان میں آپ کا نام ( بطور مقیم دار البرکات قادیان) درج ہے ( رپورٹ سالانہ ص ۴۹ آپ چار سال تک امور عامہ میں کام کرتے رہے اور غالباً سارا عرصہ آپ انچارج شعبہ رشتہ ناطہ رہے.(سالانہ رپورٹ ۴۰ - ۱۹۳۹ ء ص ۴۵ -۴۴ ۱۹۴۱-۴۲ء ( ص ۹۴-۸۵-۸۴) یہاں سابق سال کی کارکردگی بھی مذکور ہے ) ۴۳ - ۱۹۴۲ء (ص ۸۶) : حضرت ماسٹر صاحب کے حالات کے لئے دیکھئے اصحاب احمد جلد ہفتم.
۴۸ اطلاع دے کر مطمئن ہو جاتے تھے.آپ نے میری اور میرے چھوٹے بھائی مہر محمد عبد اللہ صاحب مقیم کراچی ہر دو کی اچھی طرح پرورش کی اور قادیان میں ہماری تعلیم کے دوران با قاعدگی سے اخراجات بھجواتے تھے.میں نے میٹرک اور بھائی نے ایف اے پاس کی.اور پھر آپ نے ہماری شادیاں علی الترتیب اپنی بھانجی اور پوتی کے ساتھ کر دیں.شدید جذبہ تبلیغ آپ شدید جذبہ تبلیغ رکھتے تھے.چنانچہ آپ نے ارتداد علاقہ ملکانہ کے وقت وہاں تبلیغ کی اس وقت اپنے خرچ پر وہاں قیام کرنا ہوتا تھا.۱۹۳۷ء میں آپ ملک ایران میں آنریری طور پر تبلیغ کیلئے گئے.آپ لکھتے ہیں کہ جب میں سٹھا رجہ سٹیشن پر متعین تھا تو بوجہ داڑھی کے مولوی یا بوجہ احمدیت کے مرزا کے نام سے معروف تھا.اس سٹیشن کے پاس ریاست خیر پور کا اناج کا ذخیرہ تھا.اس لئے مال ڈبوں کی آمد ورفت کثرت سے ہوتی تھی.اور مجھے ان لوگوں کو تبلیغ کرنے کا موقعہ ملتا تھا.ایک سندھی دوست منشی محمد یعقوب صاحب پٹواری یہ سن کر کہ میں احمدی ہوں میرے پاس آئے اور حضور کے زمانہ میں ہی انہوں نے تحریری بیت کر لی.اور رانی پور کے ایک مشہور پیر کے خلیفہ محمد صدیق صاحب نے بھی میرے ذریعہ احمدیت قبول کی تھی.امرتسر کے تعیناتی کے سات سالہ عرصہ میں آپ سیکرٹری تبلیغ اور تعلیم وتربیت تھے.شہر کے طبقہ امراء اور سٹیشن پر آنے والے معززین اور راہنماؤں علی برادران گاندھی جی.پنڈت موتی لال نہرو.مسٹر گو کھلے اور مذہبی رہنماؤں سے آپ نے بالمشافہ مذہبی گفتگوئیں کیں.آپ بڑے بڑے قومی اور مذہبی جلسوں میں شرکت کرتے تھے.ایک دفعہ مسجد غزنویہ میں مخالفین کا جلسہ تھا اس میں شرکت خطرے سے خالی نہ تھی.پہلے تو حضرت ڈاکٹر کرم الہی صاحب صدر جماعت جی نے آپ کو شرکت سے روک دیا.لیکن آپ کا جوش دیکھ کر آپ کو اجازت دے دی اور حفاظت کے لئے ساتھ چند احباب بھجوائے.کوچہ وکیلاں والی مسجد احمد یہ میں نمازیں اور جمعہ پڑھنے کا موقعہ بابو صاحب کو بھی ملتا تھا.شہر میں کرایہ کے مکان میں آپ کا قیام تھا.بابو صاحب کی تحریر کے مطابق اس وقت کے احمدی احباب یہ تھے.مدفون بہشتی مقبره وفات ۱۰/۲۸ الفضل ۸/۲۸ ۴ از یر مدینه ایح) ازمیر
۴۹ میاں محمد ابراہیم صاحب پسر مستری قطب الدین صاحب مس گر.چوہدری اللہ بخش صاحب (جو اس وقت مستری کے نام کے ساتھ معروف تھے ).غلام رسول صاحب کشمیری.عبد الخالق برادران شربت فروش حکیم غلام غوث صاحب.مولوی عبد العزیز صاحب ہیڈ کلرک پوسٹ سارنگ برانچ شیخ اللہ بخش صاحب کلاه فروش.ملک مولا بخش صاحب اور ان کے خسر میاں اللہ بخش صاحب پٹویلی **.ڈاکٹر عباداللہ صاحب میاں غلام محمد احب کشمیری.میاں غلام نبی صاحب مس گر.اور مولوی نبی بخش صاحب کشمیری - - آپ لکھتے ہیں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سے میرا متعدد بار مقابلہ ہوا.ایک مجمع میں مولوی صاحب مذکور نے فخریہ انداز میں اپنی ایک مزعومہ فتح کا ذکر کیا.اور کہا کہ میری زندگی میں مرزا مر گیا.میں نے مولوی صاحب کو ان کا اپریل ۱۹۰۷ ء کا پرچہ اہل حدیث یاد دلایا جس میں مولوی صاحب نے نہایت تحدّی سے شائع کیا تھا کہ مرزا صاحب کی شرط ہمیں منظور نہیں.قرآن مجید کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نافرمانوں کو مہلت ملتی ہے.میں تو زندہ رہ کر معجزہ دیکھنا چاہتا ہوں.اس پر مولوی صاحب خاموش ہو گئے.اور ایک روز مولوی صاحب کلکتہ جانے کے لئے کلکتہ ایکسپرس کے مالک اللہ بخش سٹیم پریس قادیان.ولادت ۱۸۸۷ء بیعت ۱۸۹۸ء وفات ۴۵۷ ۶- مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ.: میاں عبدالخالق صاحب کا ۳۱۳ صحابہ میں اٹھارواں نمبر ( انجام آتھم ) ملک مولا بخش صاحب اور ان کے خسر صاحب کے سوانح کے لئے دیکھئے اصحاب احمد جلد اول ****: میاں نبی بخش صاحب رفوگر امرتسری کا نمبر ۳۱۳ صحابہ میں ستر ہواں ہے ( انجام آتھم ) : بدر ۱۴ اپریل ۱۹۰۷ء میں شائع ہوا: مولوی ثناء اللہ صاحب کو بشارت دیتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے ان کے اس چیلنج کو منظور کر لیا ہے.وہ بیشک قسم کھا کر بیان کریں کہ یہ شخص اپنے دعوئی میں جھوٹا ہے اور بیشک یہ بات کہیں کہ اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو لعنتہ اللہ علی الکاذبین.قرآنی مباہلہ کی بنیاد جس قرآنی آیت پر ہے اس میں تو صرف لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ہے.بقیہ اگلے صفحہ پر
منتظر تھے کاندھے پر سُرخ رومال اور منہ میں پان کی گلوری ڈالے.مجھے دیکھ کر مطراق سے کمرہ میں آدھمکے اور پوچھا بابو صاحب ! دجال کا گدھا کتنا لیٹ ہے؟ اگر چہ ٹرین ڈسپیچر کی ڈیوٹی پر میں سخت مصروف تھا.ایک ایک لمحہ بعد کیبن مینوں کو گاڑیوں کی آمد ورفت شنٹنگ انجن.لائنوں اور سگنلوں کے متعلق ہدایت دے رہا تھا کہ فلاں لائن پر انجمن آنے دو.فلاں سیکنل ڈاؤن کر دو.فلاں لائن شٹنگ جمعدار سے صاف کراؤ وغیرہ با وجود نحیف الجنۃ ہونے کے میں نے بقیہ حاشیہ صفحہ نمبر ۵۰ : مولوی ثناء اللہ نے جواباً اہلحدیث ۱۹ اپریل ۱۹۰۷ء میں لکھا : دمیں نے آپ کو مباہلہ کے لیئے نہیں بلایا میں نے تو قسم کھانے پر آمادگی کی ہے.مگر آپ اس کو مباہلہ کہتے ہیں.حالانکہ مباہلہ اس کو کہتے ہیں جو فریقین مقابلہ پر قسم کھا ئیں.میں نے حلف اٹھانا کہا ہے.مباہلہ نہیں کہا.قسم اور ہے.مباہلہ اور ہے.(ص۴) مذکورہ بالا ثنائی فرار کے ظہور پذیر ہونے سے قبل حضور نے ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء کو آخری فیصلہ“ کے عنوان سے اپنی طرف سے دعائے مباہلہ شائع کرتے ہوئے لکھا کہ : ”مولوی صاحب اس اشتہار کو اہلحدیث میں شائع کر کے جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں.اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے.مولوی صاحب نے اہلحدیث ۲۶ اپریل ۱۹۰۷ء میں لکھا.اوّل اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی اور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا.اور تمھاری یہ تحریر کسی صورت بھی فیصلہ کن نہیں ہوسکتی.خدا کے رسول چونکہ رحیم وکریم ہوتے ہیں اور ان کی ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہلاکت میں نہ گر پڑے.مگر اب کیوں آپ میری ہلاکت کی دعا کرتے ہیں.مختصر یہ کہ: یہ تحریر تمھاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے.نائب ایڈیٹر نے اسی پر چہ میں لکھا کہ خدا تعالیٰ جھوٹے دغا باز مفسد اور نا فرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی بُرے کام کر لیں.“ اور مولوی صاحب نے اس عبارت کی تصدیق کی کہ میں اس کو صحیح جانتا ہوں.(پرچہ الحدیث ۳۱۷/۸)
۵۱ بھاری بھر کم مولوی صاحب کی کلائی مضبوطی سے پکڑ کر کہا کہ حضرت مرزا صاحب کے نزدیک حدیث شریف میں مذکور دجال کا گدھا یہی ریل گاڑی ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم کہ اپنے علم کی رُو سے بتائیں کہ دجال کا گدھا کیا ہے.مولوی صاحب نے ٹیلیفون کے متعلق بات کر کے ٹالنا چاہا.انگریز اسٹنٹ سٹیشن ماسٹر کے دریافت کرنے پر میں نے اسے یہ سوال و جواب بتایا تو اس نے بھی مولوی صاحب سے دریافت کیا.لیکن وہ کچھ نہ بتا سکے.البتہ ایک روز راستے میں مل گئے تو کہنے لگے.بابو صاحب ! اچھے آدمی ہیں.آپ کے اخلاق اچھے ہیں.آپ مجھے اچھے تو لگتے ہیں.لیکن مجھے دُکھ ہوتا ہے.آپ کو بندگی کہوں یا رام رام کہوں؟ میں نے ہنس کر کہا کہ آپ تصدیق کرتے ہیں کہ میں اچھا آدمی ہوں.میرے اخلاق اچھے ہیں.لیکن میری احمدیت کیوجہ سے آپ کو دُکھ ہے اور میری اچھائی احمدیت ہی تو ہے.مجھے آپ کے دُکھ پر آپ سے ہمدردی ہے.بندگی وغیرہ کہنے پر آپ کو کس نے مجبور کیا ہے؟ آپ کو یہ دُکھ کیوں ہے؟ کہنے لگے.بابو صاحب ! چھوڑیں.آپ تو فلسفہ اور دلائل چھیڑ بیٹھے ہیں.میں نے تو یونہی بات کی تھی.آپ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ اسلامیہ ہائی سکول امرتسر کے ایک سالانہ جلسے میں مولوی صاحب مذکور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ نظم سُریلی آواز سے پڑھی.جمال وحسنِ قرآں نور جان ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے میں کھڑا ہو گیا اور پوچھا کہ یہ اشعار رکن صاحب کا کلام ہے.سوال سُن کر پہلے تو مولوی صاحب نے تقریر شروع کر دی.لیکن ایک دو منٹ بعد کہا کہ ایک مرزائی دوست نے سوال کیا ہے.میں اس مرزائی دوست کی خوشی کے واسطے کہتا ہوں.کہ یہ نظم مرزا صاحب آنجہانی کی کہی ہوئی ہے.لیکن یہ انہوں نے اس وقت کہی تھی جب وہ ہمارے تھے.ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ نظم براہین احمدیہ میں شائع ہوئی تھی.جب حضور کا ابھی دعوئی مہدویت ومیسحیت نہیں تھا.گویا یہ اس امر کا اقرار تھا کہ حضور کی ذات سے مخالفین کو عداوت ہے ورنہ حضور کی تحریرات و دلائل کا سکہ بیٹھ چکا ہے.آپ لکھتے ہیں کہ ہال بازار میں جہاں کرموں ڈیوڑھی کا بازار شروع ہوتا
۵۲ ہے.وہاں کونے کی بالائی چھت پر ایک پبلک احمد یہ لائبریری کھولی گئی تھی.میں اس کا لائبریرین تھا.بالمقابل بالا خانہ میں ایک نوجوان بازاری عورت کا ٹھکانہ تھا.نیچے دوکان میں بھانڈ وغیرہ ہوتے تھے.موقعہ پا کر میں اُسے آیات قرآنیہ سُنا کر نصائح کرتا اور بتاتا کہ بڑھاپے میں ان بوڑھی بازاری عورتوں کا سا تمہارا حشر ہوگا.اس نوجوانی میں کسی نیک نوجوان سے شادی کرلو.ورنہ پھر یہ ایام واپس نہ آئیں گے.بعض دفعہ وہ آبدیدہ ہو جاتی.اور بالآخر اس نے گندی زندگی کو خیر باد کہہ کر نکاح کر لیا اور چلی گئی.اس پر وہ بھانڈ میرے پیچھے پڑ گئے اور کہتے کہ اس مرزائی نے ہمارا کام خراب کر دیا ہے.پ لکھتے ہیں کہ سکھر میں پنجاب سے آمدہ ایک مولوی کی تقریر کا اعلان ہوا.چونکہ سکھر میں علم کی کمی تھی اور عالم شاذ ہی تھے.اس لئے پنجابی عالم بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا.اس نے چند عربی فقرات کہنے کے بعد کہا پنجاب میں ایک شخص مرزا نے اسلام کے خلاف ایک فرقہ بنایا ہے اور خدائی کا دعویٰ کیا ہے.میں جھٹ بول اٹھا کون کہتا ہے؟ کس کتاب میں یہ لکھا ہے؟ نا واقف عوام میں کیوں غلط بیانی کرتے ہو؟ مولوی صاحب چونک پڑے اور پوچھنے لگے کیا تم مرزائی ہو؟ تمھارا بولنے کا کیا حق ہے؟ تمھارا کتنا علم ہے؟ میں نے بلند آواز میں کہا حضرت مرزا صاحب کا مذہب قرآن و اسلام کے مطابق ہے اور ان کی تمام کتابوں میں اسلام ہی بیان ہوا ہے.ان صاحب نے ان کے متعلق غلط بیانی کی ہے.مولوی صاحب نے کہا یہ مرزائی ہے اسے نکال دو.چنانچہ لوگوں نے مجھے دھکے دے کر نکال دیا.میری پگڑی بھی اُتر گئی.اگلے روز مولوی صاحب پنجابی محلہ میں آئے میں وہاں بھی پہنچا اور سوال کیا.آیا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے حضرت عیسی کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا ہوا ہے؟ میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ مولوی صاحب بھڑک اٹھے اور کہنے لگے شاید یہ کل والا مرزائی ہے اسے مسجد سے باہر نکال دو.میں نے بہت جتن کئے.کلمہ شریف پڑھا اور کہا کہ میں نے چند باتیں کرتی ہیں.لیکن لوگوں نے دھکے دے کر مجھے مسجد سے نکال کر ہی دم لیا.چند دن بعد میں پل پر ڈیوٹی پر تھا کہ مولوی صاحب گزرے میں نے کھڑے ہو کر خوش آمدید کہا.اور از راہ شرافت کرسی پیش کی.مولوی صاحب اپنے کردار کی وجہ سے خائف تھے.ان کا رنگ فق ہو گیا.مبادا میں اپنے ماتحتوں کے ذریعہ پٹواؤں
۵۳ اور خوشامدانہ رنگ میں کہنے لگے.بابو صاحب! میں آپ کی مومنا نہ جرات کی داد دیتا ہوں.آپ نے چائے کی دعوت دی تھی.دل چاہتا تھا لیکن کیا کریں ہم مولوی جو ہوئے ہمارا گزارہ لوگوں کے چندوں پر ہے.میں نے کہا سنت اللہ کے مطابق الہی فرستادوں کے ساتھ لوگ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں.آپ لکھتے ہیں کہ قادیان کے ایک دوست میرے پاس سکھر آئے تو میں اُن کے ساتھ سکھر بند پر سیر کے لئے گیا.وہ دوست میرے کہنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار خوش الحانی سے پڑھنے لگے.ایک سماں بندھ گیا اور کئی لوگ سننے کے لئے ٹھہر گئے.اتنے میں سکھر کے مشہور استان مولوی عبد الکریم جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے خلاف فتویٰ کفر دیا تھا گذرتے ہوئے ٹھہر گئے اس وقت وہ دوست اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی والا شعر وجد سے پڑھ رہے تھے.مولوی صاحب اس مضمون پر اور خوش الحانی پر تو ہو گئے.میں درخت کے سایہ میں ہو گیا تھا.اور مولوی صاحب مجھے دیکھ نہیں پائے تھے.مولوی صاحب جیسی کاپی میں یہ اشعار تحریر کرنے لگے.انہوں نے پوچھا یہ اشعار کس بزرگ کے ہیں.اس دوست نے کہا کہ میرے آقا کے ہیں.مولوی صاحب نے دریافت کیا آپ کے آقا کہاں کے رہنے والے ہیں؟ ان کا اسم شریف کیا ہے؟ اس دوست نے کہا میرے آقا کا مقام رہائش دار الامان ہے.یہ سنتے ہی مولوی صاحب کا چہرہ فق ہو گیا اور کہنے لگے اوہ ! یہ شعر مرزا کے ہیں اور جھٹ کا پی جیب میں ڈال کر چلتے بنے.میں نے یہ سب کچھ دیکھ کر انہیں آستین سے پکڑ لیا اور حاضرین کے سامنے کہا مولوی صاحب آپ کو حضرت مرزا صاحب کے نام سے اتنا ہیر کہ ان کے مضمون پر تھو ہوتے ہیں لیکن ان کا نام سُن کر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں.مولوی صاحب آستین چھڑا کر چلے گئے اور میں نے مجمع سے کہا علماء کا یہ حال ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے مضامین و تحریرات پر تو فریفتہ ہیں لیکن ان کی ذات سے عداوت ہے.امرتسر کے ایک ریلوے انسپکٹر مسٹر لانگ مین نے جو انگریز یا اینگلو انڈین تھا.تبلیغی گفتگو میں کہا آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں؟ عیسائی ؟ میں عیسائی نہیں.میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ قیامت آگئی ہے اور میں اور میری بیوی دونوں دوزانو ہو کر عیسی مسیح اپنے نجات دہندہ کو
۵۴ پکارنے لگے.اتنے میں آسمان سے ایک تخت اترا میں خوش ہوا کہ ہماری نجات کا سامان ہو گیا ہے لیکن پردہ اٹھا کر کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اس دن سے میں صداقت اسلام کا قائل ہو چکا ہوں.آپ نے کہا تب تو آپ کو مسلمانوں کے ساتھ نمازیں پڑھنی چاہئیں.انسپکٹر موصوف نے جواب دیا یہ مسلمان ادنی لوگ ہیں.آپ جیسا مسلمان ہو تو میں نماز میں شرکت کر سکتا ہوں.اس پر آپ نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی اور پوچھا آیا خواب میں تخت والے نبی اس شکل کے تھے.تو اس نے حیرانی سے پر انگلی رکھ لی اور کہا نہ میں انکار کرتا ہوں نہ میں اقرار کرتا ہوں.خدمت خلق آپ کے صاحبزادہ ایم بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ امرتسر کی تعیناتی کے عرصہ میں خصوصاً احمدی مسافروں کی خدمت کا آپ کو خوب موقعہ ملا.بابو صاحب لکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں گارڈ.ریلوے انسپکٹر اور بڑے سٹیشنوں کے سٹیشن ماسٹر انگریز ہوتے تھے.پڈعیدن سے خان پور تک کا ریلوے عملہ سوائے دو مسلمانوں کے سارا ہندو تھا.البتہ چونکہ مال گاڑیوں کے گارڈ یا انجنوں کے سٹاف معمولی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ان میں سے کچھ مسلمان بھی تھے اس زمانہ میں میٹرک پاس ہونے کی وجہ سے میں تعلیم یافتہ شمار ہوتا تھا اور یہ ریلوے عملہ مجھ سے درخواستیں لکھواتا تھا.ریلوے عملہ کے ہر ملازم کے لئے حصول ثواب کے بیشمار مواقع میسر آتے ہیں.آپ تحریر کرتے ہیں کہ دورانِ سفر میں جھٹ پٹ سے ایک سٹیشن قبل ایک مسلمان ہیڈ ماسٹر کی اہلیہ کو زچگی شروع ہوگئی.ہندو اسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر نے اُسے بتایا کہ اگلے سٹیشن پر ایک مسلمان اسٹنٹ سٹیشن ماسٹر ڈیوٹی پر ہے.آپ وہاں پہنچیں.چنانچہ گاڑی آئی تو میں نے اس خاتون کو پلنگ پر اٹھوا کر اپنے گھر بھجوا دیا.اور ساتھ ہی اپنے افسرسٹیشن ماسٹر اور اس کی اہلیہ کو بھی بلوالیا.اور ایک بلوچ لیوی سوار کو ایک تیز رفتار گھوڑے پر بھجوا دیا تا پچیس میل کے فاصلہ سے دایہ کو لے آئے.میری اہلیہ نے اس خاتون کو اچھی طرح سنبھال لیا.خدمت کی.اور اللہ تعالیٰ نے اُسے چار لڑکیوں کے بعد بیٹا عطا کیا.دایہ بعد مسافت کی وجہ سے بعد
۵۵ میں پہنچ سکی.اس خوشخبری کی وجہ سے ہیڈ ماسٹر صاحب کے کئی اقارب ہمارے ہاں آئے اور یہ خاندان دس روز تک میرے ہاں مقیم رہا.جرات و اصول پرستی ایم بشیر احمد صاحب موصوف بیان کرتے ہیں کہ والد صاحب ریلوے قوانین کی نہ صرف خود سختی سے پابندی کرتے تھے بلکہ دوسروں سے بھی پابندی کراتے تھے.تھی جو گھر سے سٹیشن پر آپ کا کھانا لاتا.آپ اس کا معاوضہ بھی ادا کرتے تھے.ہندوؤں کی طرف سے آپ کی مخالفت ہوتی تھی.چنانچہ ۱۹۱۹ء کے مارشل لاء کے ایام میں جس کا آغاز ہی امرتسر سے ہوا تھا.آپ اپنے فرائض کو ادا کرتے رہے اور ریل گاڑیوں کی آمد و رفت سنبھالے رکھی.لیکن ان حالات کی وجہ سے اور آپ کی تبلیغی مساعی کے باعث ہندوؤں کی طرف سے جو تمام محکموں پر چھائے ہوئے تھے.آپ کی ترقی میں رُکاوٹ پیدا ہوتی رہی اور زیادہ ترقی نہ ہو سکی.البتہ گرفت میں لینے کی مساعی ان مخالفین کی ناکام رہتی تھی.چنانچہ جب آپ کا تبادلہ سکھر سے لاہور ہوا.اس وقت والد صاحب کے انتقال کی وجہ سے آپ کی ہمشیرہ آپ کی سر پرستی میں تھیں.اس لئے جب ان کا پاس لینا چاہا تو ہیڈ آفس نے دریافت کیا کہ سٹھا رجہ سکھر کو تبادلہ ہوا تو آپ نے ہمشیرہ کا پاس نہیں لیا تھا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بلا ٹکٹ سفر کرایا تھا.آپ نے مطلع کیا کہ بینک پیپر پر نصف ٹکٹ اس تاریخ کو جو بنایا گیا تھا وہ اسی بچی کا تھا.میاں صاحب موصوف یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ آپ سٹیشن گور دست ستلانی پر تبدیل ہوئے تو پہلے ہی روز با وجود نحیف ہونے کے آپ نے چار موٹے تازے سکھ جائوں کو روک لیا.اور کہا تم نے بغیر ٹکٹ سفر کیا ہے.رقم ادا کرو.انہوں نے کہا ہم نے آج تک کبھی ٹکٹ نہیں لیا.آپ نے کہا کہ میں سرکاری ملازم ہوں.آپ سے ٹکٹ لوں گا یا رقم اور باتیں کرتے ہوئے انہیں اپنے کمرے میں لے گئے اور تار کے ذریعہ اٹاری سٹیشن پر اطلاع دی.چنانچہ دو میل کا فاصلہ طے کر کے پولیس پہنچ گئی.آپ نے میمو بنا کر پولیس کے سپرد کر دیا.ان لوگوں نے اس یقینی خطرہ کے پیش نظر کہ اب پولیس ہتھکڑی لگا کر لے جائے گی
۵۶ رقم ادا کر دی اور بابو صاحب کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقعہ ہے کہ ہم سے رقم وصول کی گئی ہے.ہم آج رات ہی آپ سے یہ رقم وصول کر لیں گے.بابو صاحب نے کہا باپ کے بیٹے ہو تو کوتاہی ہرگز نہ کرنا.انہوں نے حیران ہوکر ایک قلی سے کہا کہ یہ مولوی کیا مصیبت آگیا ہے.ہم آج ہی اس کا گھر لوٹ لیں گے.اس نے کہا کہ ان کے گھر میں ٹوٹی ہوئی صف مٹی کا لوٹا مٹی کی کنالی.اور مٹی ہی کی ہنڈیا ہے.دھات کا کوئی برتن نہیں.انکی بیوی کے پاس پیتل تک کا زیور نہیں.البتہ اگر انہیں زدو کوب کرنے کا ارادہ کیا تو یہ جان لو وہ جماعت احمدیہ کے فرد ہیں.ان کی جماعتی تنظیم ان کی مدد کرے گی.اور آپ کا سارا گاؤں اس ظلم کی پاداش میں تباہ ہو جائیگا.چنانچہ آپ کئی سال تک اس سٹیشن پر متعین رہے اور آپ کا بال تک پی کا نہ ہوا.اور کبھی کسی کو بغیر ٹکٹ وہاں اترنے کی جرات نہ ہوئی.میاں صاحب ذکر کرتے ہیں کہ والد صاحب جب کوٹ لکھپت کے سٹیشن ماسٹر تھے تو ایک ہندو سٹال والے کی شکایت پر کہ اس کے گھڑے ایک مسلمان نے بھرشٹ کر دیئے ہیں.آپنے اس مسلمان سے قیمت دلا دی.چند روز بعد اس ہند وسٹال والے نے مسلمانوں والے گھڑے کو ہاتھ لگا دیا.آپ نے اسے کہا کہ تم مسلمانوں سے زیادہ گندے ہو.اس روز میں نے ایک مسلمان سے گھڑے کی قیمت دلائی تھی اب تم رقم ادا کرو.چنانچہ نیچے ہندوؤں کی ایسی شکایات رُک گئیں.با بو اللہ بخش صاحب ریلوے گارڈ بیان کرتے ہیں کہ حضرت بابو صاحب نور پور روڈ سٹیشن ( ضلع کانگڑہ) پر متعین تھے.ایک سب ڈویژنل آفیسر کے عہدہ پر متعین شخص وہاں سے تین چارسٹیشن تک روزانہ بلا ٹکٹ سفر کرتا تھا.آپ نے اس سے کرایہ چارج کر لیا.اور آئندہ اسے اس طرح سفر کرنے سے سختی سے منع کیا.اس نے مشتعل ہو کر پہلے آپ کے ہاں چوری کروادی پھر ایک تانگہ والے سے تحصیلدار کی عدالت میں آپ کے خلاف استغاثہ دائر کروا دیا.کہ فلاں روز سیر کے دوران بابو صاحب نے مجھے بلا وجہ گالیاں دیں.اور مجھے مار پیٹ کی تحصیلدار بھی بابو صاحب کا مخالف تھا.آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا.آپ نے دعا فرمائی نیز مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈوکیٹ گورداسپور (حال امیر صوبائی.مقیم سرگودھا) کو اپنا وکیل مقرر کرنے کا مشورہ
۵۷ دیا.اور فرمایا.اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ تحصیلدار کے تبادلہ کے احکام صادر ہو گئے اور اس نے یہ سوچ کر کہ مقدمہ تو جھوٹا ہی ہے.نیا تحصیلدار اسے ضرور خارج کر دے گا.میں ہی کیوں نہ خارج کر دوں.آپ کو باعزت بری کر دیا.مال و منال سے نفرت اور کسب حلال سے محبت آپ نے کسی مولوی سے یہ بات سنی تھی کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کاشتکاری کرنا نا پسند فرمایا ہے.سو جو تھوڑی سی اراضی باقی تھی اور اس سے آپ استفادہ کر سکتے تھے.اس کے قبضہ میں لینے کی بھی آپ نے کوشش نہیں کی اسی طرح کسی مولوی سے آپ نے یہ بھی سنا تھا کہ حضور صلعم نے فرمایا قیامت کے روز میں غرباء کے ساتھ اٹھوں گا یا ہوں گا.اس بات کا آپ کے قلب صافی پر یہ گہرا اثر ہوا کہ زیادہ فارغ البالی کی نسبت غریبانہ زندگی روحانیت کے لئے مفید ہوتی ہے.چنانچہ احد پورٹیشن پر تعیناتی کے عرصہ میں آپ یہ دعائیں کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے امیر نہ کیجیو.بلکہ غریب ہی رکھیو اور تمہیں روپے ماہوار سے میری تنخواہ بڑھنے نہ پائے.اس زمانہ میں سٹیشن ماسٹر کی تنخواہ کی آخری حد یہی تھی.اس وقت کے سٹیشن ماسٹر کا لڑکا جو آپ کا ہم عمر اور ان دعاؤں کا شاہد تھا.پندرہ سال بعد آپ سے امرت سر میں ملا اس نے یہ یاد دلا کر دریافت کیا کہ اب آپ کی ماہوار تنخواہ کیا ہے؟ آپنے بتایا کہ اس وقت میری تنخواہ باسٹھ روپے ہے جو اس زمانہ کے تئیں روپے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی.اور میرے حالات اور طرز بود و باش حسب سابق غریبانہ ہے.سکھر کا واقعہ ہے کہ سفر پر جانے کے لئے کچھ سامان آپ.آپ کی اہلیہ صاحبہ اور ہمشیرگان اٹھائے ریلوے سٹیشن کو جارہے تھے.کہ راستہ میں چند ریلوے بابو ملے.انہوں نے تمسخرانہ انداز سے سلام کیا اور قہقہے لگائے.بعد میں بھی وہ دفتر میں اور پلیٹ فارم پر اسی رنگ میں آپ کا مذاق اڑا کر آپ کو تنگ کرتے اور کہتے مولوی فقیر علی صاحب اسٹیشن ماسٹر کے عہدہ کو بدنام کرتے ہیں.تانگہ وغیرہ کی بجائے مولویانی صاحبہ اور لڑکیوں سے سامان اٹھواتے ہیں اور خود بھی سامان اٹھاتے ہیں.آخر تنگ آکر ایک روز آپ نے ان بابو صاحبان سے کہا کنجوس اور بے شرم میں ہوں.یا تم لوگ جو ریلوے محکمہ کا تیل اور سامان نیز
۵۸ لوگوں کے پارسل.بوریوں اور گاڑیوں سے سامان اور پھل چوری کرتے ہو.بلٹیوں کی رشوت لیتے ہو.ریل گاڑی میں ٹکٹ کے بغیر سفر کرتے ہو؟ کیا آپ نے کبھی مجھے ان نا واجب امور کا مرتکب ہوتے دیکھا ہے؟ جب میرے پاس زیادہ روپیہ نہ ہو تو میں کہاں سے خرچ کروں؟ اور میں نے اور مستورات نے اپنا سامان خود اُٹھا لیا تو اس میں کون سی ذلت ہے.تم حرام کماتے اور حرام کھاتے ہو.لوگوں کی موجودگی میں یہ باتیں سُن کر وہ لوگ بہت شرمندہ ہوئے اور نہ صرف یہ کہ اس روش سے باز آ گئے بلکہ عزت و احترام سے پیش آنے لگے.آپ اسراف سے احتراز کرتے نہ کہ انفاق فی سبیل اللہ سے.اس کا ذکر دوسری جگہ آئے گا.سمہ سٹہ کے سٹیشن پر ایک فقیر نے آپ سے ایک نئی دو تہی مانگی.آپ نے نہ دی.لیکن پھر دیہات میں جا کر اسے تلاش کر کے اور منت سماجت کر کے دے دی.آپ حصول مال کے ناجائز طریقوں سے قطعی مجتنب رہتے تھے.چنانچہ آپ لکھتے ہیں اس زمانہ میں ریلوے سٹاف کی بہت قدر تھی.پبلک ٹیلیگراف ڈاکخانہ میں نہ تھا.ریلوے ٹیلیگراف ہی پبلک کے لئے بھی تھا.موٹر کاریں اور بسیں اور ٹرک ابھی جاری نہ ہوئے تھے.سفر اور حمل نقل کے ذرائع اندرونِ ملک میں ریل گاڑی تک ہی محدود تھے.سٹیشن ماسٹر امراء حکام میں نہایت معزز و محترم سمجھا جاتا تھا.نواب.راجے اور مہاراجے ریل گاڑی سے ہی سفر کرتے تھے.چنانچہ نواب صاحب بہاولپور نے احمد پور کے سٹیشن ماسٹر کو ذاتی استعمال کے لئے دو گھوڑوں والی ایک رفٹن مع کو چوان دے رکھی تھی.نواب صاحب کے سفر کے لئے ریز روڈ بہ آتا.اس موقعہ پر وہ سٹیشن ماسٹر کو پچاس روپیہ اور دیگر عملہ ریلوے کو پانچ پانچ دہ روپے دیتے.ان حالات میں بھی بابو صاحب کی سادگی اور عدم حرص کا یہ حال تھا کہ آپ نے نواب صاحب بہاولپور کے ہاں ولی عہد کی ولادت کی تار رات کو وصول ہونے پر ایک چپڑاسی کے ہاتھ بھجوادی.صبح کو اس بات کا علم ہونے پرسٹیشن ماسٹر حیران ہوا.اور کہا یہ خاص تار بڑی کر و فر کے ساتھ فٹن میں جا کر پہنچانی چاہئے تھی.چنانچہ وہ آپ کو فٹن میں لے جا کر دربار میں پہنچے.جہان نواب کو امراء واہل کا رتہنیت دے رہے تھے.سٹیشن ماسٹر نے نذرانہ
۵۹ پیش کر کے مبارک باد دی اور بابو صاحب کو بھی پانچ روپے دے کر مبارک باد پیش کرنے کو کہا چنانچہ با بوصاحب کو بھی ایک پگڑی اور ایک تھال مٹھائی کا انعام ملا.سیر چشمی.قناعت.سادگی اور عسر میں انفاق فی سبیل اللہ دور اول میں نادار صحابہ کرام انفاق فی سبیل اللہ کی تحریک ہونے پر محنت مزدوری کر کے جو مٹھی بھر جو یا کھجوریں ملتیں انشراح صدر اور بے پایاں مسرت کے ساتھ پیش کر دیتے تھے.بابو صاحب کی زندگی میں اس اُسوہ حسنہ کی جھلک نظر آتی ہے.چنانچہ آپ کے فرزند ایم بشیر احمد صاحب آپ کی سیر چشمی.قناعت اور تنگی میں انفاق فی سبیل اللہ کے تعلق میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب دورے کر کے ضروریات سلسلہ کے لئے روپیہ احباب سے جمع کرتے تھے.چنانچہ حضرت میر صاحب نے ایک ایسے موقعہ پر آپ سے امرتسر میں چندہ مانگا کہ آپ تہی دست تھے.آپ نے بتایا کہ میرے پاس کچھ نہیں تھا.لیکن حضرت ممدوح تحریک کرتے ہوئے بار بار فرماتے کہ کچھ دو.سوال و جواب ہوتا رہا.ڈیوٹی کا وقت ختم ہونے پر آپ کو ساتھ لے کر بابو صاحب گھر پہنچے اور آٹے والا ٹین لا کر دکھایا جس میں صرف آدھ سیر کے قریب آٹا تھا اور حلفاً عرض کیا کہ ہمارے پاس یہی کچھ ہے.حضرت ممدوح نے اپنے کپڑے میں وہی انڈیل کر قبول کر لیا.اس گھرانے کے لئے یہ بھی بڑی قربانی تھی.انہیں رات بغیر کھانے کے بسر کرنی پڑی.ہو اسی طرح جب حضرت مولوی شیر علی صاحب قادیان سے لندن روانہ ہوئے تو : خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت میر صاحب قطرہ قطرہ دریا می شود کی حقیقت سے واقف تھے.اس وقت معدودے چند افراد کے سوا ساری جماعت ہی غرباء پر مشتمل تھی.خاکسار کو یاد ہے کہ ایک دفعہ آپ ۱۹۱۸ء کے لگ بھگ پاک پتن (ضلع منٹگمری) تشریف لائے.حضرت چوہدری غلام احمد خاں صاحب مرحوم ایڈوکیٹ صدر جماعت کے ہاں ملاقات کے لئے محترم والد صاحب جاتے ہوئے مجھے بھی ساتھ لے گئے.میں نے والد صاحب سے کہا کہ مجھے بھی کچھ دیں تو میں پیش کروں.چنانچہ انہوں نے مجھے ایک آنہ دیا.میری عمر پانچ سال کی تھی.حضرت میر صاحب کھانا تناول کر کے ہاتھ دھو رہے تھے.بعد فراغت آپ نے ایک آنہ مجھ سے قبول فرمایا.
امرتسر ریلوے سٹیشن پر بابو صاحب نے آپ کو اپنے ہاں چائے پینے کی دعوت دی.دیگر بہت سے احباب بھی ساتھ چل پڑے.گھر پر چائے تو تیا ر ہو گئی لیکن اتنے افراد کے لئے اس غریب صاحب خانہ کے ہاں پیالیاں کہاں تھیں.اور اس زمانہ میں چائے کا رواج بے حد کم تھا.سو گھر میں میسر برتنوں حتی کہ گھڑوں کے ڈھکنوں وغیرہ تک میں آپ نے چائے پلائی.آپ کے بیٹے ایم بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ چھوٹے ریلوے سٹیشنوں پر زمیندار بالعموم بلا ٹکٹ سفر کرتے اور بلا کرایہ سامان لاتے یا لے جاتے ہیں.اور اس پر چشم پوشی کے عوض سٹیشن ماسٹر کو بھینس کے لئے بھوسہ اور گھر کے لئے اناج مفت فراہم کرتے ہیں.لیکن بابو صاحب ایسی ناجائز مراعات نہیں دیتے تھے.نیز آپ کی دیانتداری کی وجہ سے سٹیشن کا تیل مٹی اور سٹیشنری وغیرہ کا خرچ کم ہو جاتا تھا.کیونکہ آپ گھر کے لئے ان سرکاری اشیاء کا استعمال حرام سمجھتے تھے.تبادلہ ہونے پر جو نیا سٹیشن ماسٹر آتا وہ ملنے پر بہت سٹ پٹاتا.کیونکہ اپنے گھر کی ضروریات پر صرف کرنے کی گنجائش نہ پاتا.اور غصہ میں کہتا کہ باب فقیر علی نے تو اس سٹیشن کا بیڑا غرق کر دیا ہے.چونکہ رشوت نہ لیتے.دوسروں کی طرح ٹریفک انسپکٹر کو حصہ نہ دے سکتے تھے.اس لئے اسکے عتاب کے مورد بنتے اور وہ اس قسم کی جھوٹی رپورٹیں آپ کے خلاف کرتا کہ سٹیشن کے سگنلز کے شیشے صاف نہیں.روشنی مدھم ہے وغیرہ.آپ نے ۲۹ دسمبر ۱۹۰۸ء کو اپنی آمد و جائیداد کے ٫۵ا حصہ کی وصیت حق صدر انجمن احمد یہ قادیان کی آپ کا وصیت نمبر ۳۱۹ ہے دفتر اول چندہ تحریک جدید میں آپ کا.آپ کی اہلیہ اولیٰ اور اہلیہ ثانیہ کا علی الترتیب تین صدتیں روپے.باون روپے اور ایک صد گیارہ روپے ادا ہوئے پانچیزاری مجاہدین.ص ۱۷۴، ۱۷۵) جہاد علاقہ ملکانہ کے دوران میں ان کے لئے عید الاضحی کے موقعہ پر قربانیوں کی تحریک جماعت میں کی گئی.باوجود وقت کی تنگی کے دوسو سولہ قربانیوں کی رقوم بحساب چھ روپے فی قربانی) پہنچی.بعض احباب نے آخری وقت علم ہونے پر بذریعہ تار رقوم بھجوائیں بابو صاحب نے ایک قربانی کی رقم ادا کی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف سے چالیس ہزار روپیہ چندہ خاص کی تحریک ہونے پر بابو صاحب نے دس روپے نقد چندہ دیا ہر دو موقع پر آپ سو اہل سٹیشن پر متعین تھے
۶۱ دل به یار و دست به کار آپ دل بہ یار و دست بہ کار پر عمل پیرا تھے.ایم بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ جس زمانہ میں آپ امرتسر میں متعین تھے.انگریز سٹیشن ماسٹر آپ کو بہت تنگ کرتا تھا.اس زمانہ میں انگریزوں کا رُعب داب بھی بہت تھا.وہ کہتا تھا.مولوی صاحب ! کوئی حادثہ کروا دو گے.ہر وقت نماز پڑھتے رہتے ہو.آپ اس کی ایسی باتوں سے بہت تنگ پڑے.ایک روز دروازہ اور کھڑ کی آپ نے بند کی اور اس کے قریب ہو کر بات کرنے لگے.تو وہ گھبرا گیا.مبادا آپ حملہ کر دیں.آپنے اسے اطمینان دلایا کہ میرا ایسا ارادہ نہیں.میں علیحدگی میں بات کرنا چاہتا ہوں.جو یہ ہے کہ آپ دفتر میں قضائے حاجت پر وقت صرف کرتے ہیں.اسی طرح چائے سگریٹ پینے پر بھی.پھر مجھ پر معترض کیوں ہیں؟ کہنے لگا یہ امور تو مقتضائے طبیعت ہیں.آپ نے کہا میں آپ کے ماتحت ہوں.آپ کی فرمانبرداری کروں گا.لیکن صرف الہی احکام جو فرض منصبی سے متعلق ہوں.دیگر امور کے متعلق اطاعت مجھ پر فرض نہیں.اس لئے نمازوں سے آپ کے کہنے پر میں رُک نہیں سکتا.میری غفلت سے حادثہ رونما ہو یا ٹرین میں تاخیر ہو جائے تو بے شک آپ مجھ سے نرمی کا سلوک نہ کریں.یہ کہہ کر آپ نے دروازہ اور کھڑ کی کھول دی.وہ آپ کی گفتگو سے بہت حیران ہوا.آپ کا طریق یہ تھا وقت ملنے پر لوٹا بھر لاتے پھر وضو کر لیتے پھر نماز ادا کر لیتے.اللہ تعالیٰ مقلب القلوب ہے اور اپنے بندوں کا معین و مددگار ہے.اس گفتگو کا.اس پر ایسا اثر ہوا کہ آپ کے لوٹے کو ہاتھ ڈالتے ہی وہ کہتا.مولوی صاحب ! آپ تسلی.نماز پڑھیں.میں آپ کے کام کا خیال رکھوں گا.ایک دن آپ کا روکھا سوکھا کھانا دیکھ کر بھی اس پر بہت اثر ہوا کہ ان کا یہ حال ہے.بقیه حاشیه صفحه ۲۶: (الفضل ۲۳/ ۲۱۸، ص۲، ک ۲۱۳۲۴۴۱، ص، ایک (۱) ۱۹۴۷ء میں حضرت مصلح موعود کی تحریک وقف جائیداد کے تحت قادیان کی جائیداد وقف کی اور قیمت کا ۱۰ را نقد ادا کیا.ریٹائرڈ ہونے سے قبل پانچ سوروپیہ قرض لے کر ایران میں تبلیغ کے لئے اعزازی طور پر گئے کئی مہینے وہاں قیام کیا.
۶۲ انتقال و تدفین وو محترم بابو فقیر علی صاحب رضی اللہ عنہ ریٹائر ڈسٹیشن ماسٹر وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.کے زیر عنوان الفضل رقم طراز ہے: ر بوہ ۱۴ دسمبر.نہایت افسوس سے لکھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی محترم جناب بابو فقیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کل مورخه ۱۴ دسمبر ۱۹۵۹ء بروز اتوار علی الصبح تین بج کر چالیس منٹ پر قریباً اسی سال کی عمر میں وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.آپ ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے سلسلہ احمد یہ میں داخل ہوئے تھے.”نماز جنازہ کل نماز عصر کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد مدظلہ العالی صاحب نے پڑھائی.جس میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد.صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے ناظر وکلاء صاحبان.دفاتر کے کارکنان اور دیگر اہل ربوہ کثیر تعداد میں شریک ہوئے.مرحوم موصی تھے.لہذا جنازہ بہشتی مقبرہ لے جایا گیا.حضرت میاں صاحب مد ظلہ العالی نے بھی جنازہ کو خاصی دور تک کندھا دیا.کثیر التعداد احباب کے علاوہ محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی جنازے کے ہمراہ مقبرہ بہشتی تشریف لے گئے.جہاں محترم بابو صاحب کی نعش کو قطعۂ صحابہ میں سپرد خاک کیا گیا.قبر تیار ہونے پر مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس نے دعا کروائی.بابو صاحب محترم احمدیت کے نیچے فدائی.نیک اور عابد وزاہد بزرگ تھے.نماز با جماعت اور تہجد کا خاص التزام فرماتے.زندگی بھر سلسلہ کی جملہ تحریکات میں حسب استطاعت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے.خاص طور پر تبلیغ کا بے حد شوق تھا.جہاں کہیں بھی رہے نہایت مستعدی اور بے
۶۳ باکی سے فریضہ تبلیغ ادا کیا.ہی دینی ذوق وشوق اور مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ امسال بھی جب کہ آپ عمر کے تقاضے اور مسلسل بیماری کی وجہ سے بہت نحیف اور کمزور ہو گئے تھے.مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے امتحان ترجمہ قرآن مجید میں شریک ہوئے اور جملہ انصار میں دوم پوزیشن لے کر اجتماع کے موقع پر انعام حاصل کیا.۱۹۲۸ء میں جب پہلی بار بٹالہ سے قادیان تک ریلوے لائن ممتد ہوئی تو اس وقت آپ ریلوے میں ملازم تھے.آپ محکمے کی طرف سے قادیان کے پہلے اسٹیشن ماسٹر مقرر ہوئے.آپ کی سب سے بڑی خوش بختی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو محترم جناب مولوی نذیر احمد صاحب علی مرحوم جیسا قابل فخر فرزند عطا کیا.جنہوں نے مغربی افریقہ میں سالہا سال تک رئیس التبلیغ کے طور پر نہایت اخلاص.محنت و جانفشانی اور کامیابی کے ساتھ اپنے مفوضہ فرائض کو سرانجام دیا.اور بالآخر ۱۹۵۵ء میں وہیں وفات پا کر شہادت کا مرتبہ پایا.آپ کے دوسرے فرزند مکرم جناب با بو بشیر احمد صاحب قیامِ پاکستان کے بعد سے اپنے تجارتی کاروبار کے سلسلہ میں مگھیا نہ میں مقیم ہیں.اور امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع جھنگ کے طور پر خدمات بجالا رہے ہیں.سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی تحریک پر کہ احمدی احباب غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کیلئے نکل جائیں، آپ تبلیغ کا فریضہ سرانجام دینے کی خاطر اپنے خرچ پر ملک ایران تشریف لے گئے تھے.آپ نے وہاں کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دن طہران میں ایک مجلس میں میں تبلیغ کر رہا تھا.اور میں نے جب یہ بات بیان کی کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ السلام ہی امت محمدیہ کے مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں.اور میں نے آپ کو خود دیکھا ہے تو مجلس سے ایک آدمی اٹھا اور میرے قریب آکر اس نے پوچھا ' آغا ! آن مسیح موعو و مہدی شما خود یدی تو میں نے جواب دیا.خود دیدم تو پھر اس ایرانی شخص نے میری آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دریافت کیا.کیا آپ نے اپنی ان آنکھوں سے مسیح موعود کو دیکھا ہے.تو وہ شخص محبت اور عشق سے میرے کندھوں کو چومنے لگا.“
۶۴ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محترم بابو صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اپنے خاص قرب سے نوازے.نیز پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا کرتے ہوئے دین و دنیا میں ہر طرح اُن کا حافظ و ناصر ہو.آمین
شجرہ نس اللہ دتا اللہ بخش امام بخش عائشہ بی بی ( مدفون کراچی) عزیز داین شاه دین ( وفات قبل شادی ) ان کی ساری نسل احمدی ہے) حضرت با بو فقیر علی فاطمہ بیگم منگو ( ان کی ساری نسل احمدی ہے ) کا کا اولاد: غلام احمد ، غلام محمد مرحوم، دل محمد، جان محمد (وفات قبل شادی) ریشم بیگم فاطمه ابی بی مرحومه محمد ابراهیم صالحہ بیگم ( صحابی - مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ.اولا دار ابن اہلیہ اول (وفات قبل شادی به نکاح حکیم مہر دین سکنہ چلیچاں بعد وفات حکیم مہردین به نکاح اولاد امتہ العزیز، امتہ الکریم فوت ہوگئی بچپن میں فوت ہو گیا اللہ اللہ بخش برکت بی بی مدفون بہشتی مقبره قادیان ۱۹۱۴ ء وفات دوسری ضلع سیالکوٹ چوہدری علی محمد ساکن احمد نگر سابق ریلوے گارڈ خانپور شادی ۱۹۱۶ء اہلیہ دوئم اللہ رکھی سے کوئی اولاد نہ ہوئی ) اولاد: عائشہ بیگم، فاطمه بیگم (اہلیہ عزیز دین گھسیٹ پورہ ضلع ہوشیار پور شریف احمد، رشید احمد، لطف الدین، حمید الدین میاں بشیر احمد علی حضرت مولوی نذیر احمد علی محمود احمد (امیر جماعت ضلع جھنگ) اولاد: رشید احمد ، سعید احمد، اللہ بخش مہر گارڈ ( متعین ) محمد عبداللہ مہر متعین کراچی ) امتہ القیوم، کلثوم بیگم اولاد : بشارت احمد اعطاء اللہ اولاد نصر الله ذکاء اللہ، رضاء اللہ اکرام اللہ نصرت جہاں، قدسیہ بیگم المیہ عطاء اللہ شریف احمد حلیمہ بی بی ( اہلیہ غلام رسول صاحب لاہوری مدفون بہشتی مقبره قا دیان) (رئيس التبليغ مغربی افریقہ ) فوت شده ۱۹۱۸ء فوت شد ۱۹۰۳، سید و دیگر اہلیہ شیخ عبدالقادر لائلپوری مخلف حضرت شیخ عبدالرب لائی پوری.و اولاد : صالحہ بیگم، ماجدہ بیگم ، سعد الدین سعدی، نصیر احمد، عبد الماجد عبد الوحید ) ، صفیہ بیگم | محمود احمد علی حمید احمد علی بی ایس سی حمیدہ بیگم امتہ الحفظ رشید احمد بی ایس سی مبارک احمد بی ایس سی بشارت احمد منیر احمد لطیف احمد کریم احمد المیہ حمد عبداللہ مہر کراچی اولاد: مریم محمود ، شهناز امته النور الیہ رشید احمد اہلیہ مبارک احمد اسٹنٹ کیمسٹ سٹوئی گیس ( پروفیسر احمد یہ سیکنڈری سکول تنویر، بشری صدیقہ، مقصود احمد علی نصیر احمد علی ( بی ایس سی) ( بی ایس سی) اولاد امتہ الحفیظ نصیر ، بیگم، بمقام سیرالیون رو ببینه ناصر و صبیحہ ناصره ) بچه شاہ زید حمید احمد سعید و بیگم فرید احمد، اولاد منور احمد رفیق احمد سعید احمد ، رشید و بیگم میاد که بیگم خلیل احمد
۶۶ حوالہ جات وفات بتاریخ ۷ ۱۹ (الفضل ۳۰۸۱ ص۵) : تین سو تیرہ صحابہ میں سے تھے.تاریخ وفات ۱۱۴/۴۶ الفضل ۱۲ و ۱۳ اپریل ۱۹۴۶ء زیر مدینتہ اسیح ) ۳: مورخہ ۱۸اپریل ۱۹۰۵ء ۴: تذکره طبع ۱۹۴۹ ( ص ۷۵۵) ۵: تذکره طبع ۱۹۴۹ صفحه ۸۱۲ : تذکره طبع ۱۹۴۹ صفحه ۸۱۲ تا ۸۱۳ ی مشخص از الفضل ۲۵۱۲۸ ۸: الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۵۹ و الفضل مؤرخه ۱۳۵۹ ۱۵
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تعارف نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوُد شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالہ میں پیدا ہوئے.گندمی رنگ خوبرو کتابی چہرہ، مشرع داڑھی درمیانہ قد، پتلے دبلے سنجیدہ مزاج ہنس مکھ ، زیرک اور دلیر طبع.جانبازی کی حد تک تبلیغ کے شائق تھے.خصوصاً بنوں اور لاہور میں اس بارے میں خاص مساعی کیں.اپنے انگریز افسران اور مسلم، ہندو وغیرہ عوام کو بھی پیغام احمدیت پہنچانے کا شغف تھا.لاہور میں آپ سیکرٹری تبلیغ مقرر رہے.حضرت خلیفہ اول کی مجالس میں کثرت سے بیٹھنے کے باعث حضور کی سیرت کے متعلق انمول باتیں کیں.خلافت اولی سے ہی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی سے گہرا رابطہ تھا.آپ کی قائم کردہ مجلس انصار اللہ میں شامل ہوئے.اور اس اسیح غیر مبائعین کی تردید میں شائع ہونے والے ٹریکٹوں میں آپ کا نام شامل تھا.قیامِ خلافت ثانیہ پر غیر مبایعین کے سربراہ مولوی محمد علی صاحب کے نکسر اور دست راست ، ڈاکٹر بشارت احمد صاحب راولپنڈی میں تھے.آپ نے ان کا اور ان کے رفقاء کا کامیاب مقابلہ کیا اور متعدد افراد کو مبائع بنایا.لاہور میں مولوی محمد علی صاحب کے آپ سے متعدد مرتبہ حالات زندگی خاکسار مؤلف نے بالمشافہ طلب کئے.فرماتے کہ لکھ کر رکھے ہوئے ہیں.اور میں نے کہہ چھوڑا ہے کہ میری وفات کے بعد آپ کو دے دئے جائیں.سواب آپ کے صاحبزادہ محترم ملک محمد احمد صاحب نے نقل کر کے بھجوائے ہیں.فجزاہ اللہ احسن الجزاء خاکسار نے ترتیب تبدیل کی ہے اور اکثر مقامات پر اصل عبارت کا خلاصہ دے دیا ہے یا مفہوم درج کیا ہے یا مفہوم سمجھ کر اسکی معمولی تفصیل بھی دے دی ہے جو عبارت سے مترشح ہوتی ہے.آپنے اپنی سوانح عمری میں بعض باتوں کے متعلق خطوط وحدانی میں (مفہوم) لکھا ہے.وہ اس اس جگہ اسی طرح درج کیا گیا ہے.قریباً تمام حوالے خاکسار نے ایزاد کئے ہیں.یہ بھی عرض ہے کہ سکے زکی قوم کے افراد ملک بھی کہلاتے ہیں اور شیخ بھی.
۶۸ ایک اور دست راست ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب کا گفتگو میں ناطقہ بند کر دیا.مشاورت میں کئی بار شریک ہوئے ارتداد ملکانہ کے وقت آپ نے وہاں بھی خدمت کی اور ایک خاص فریضہ سپرد ہونے پر آپ نے براہ راست حضرت خلیفہ ثانی کے ماتحت کام کیا.انفاق فی سبیل اللہ کی توفیق پائی.چندہ منارہ اسیح میں شرکت کے باعث آپ اور آپ کی زوجہ اول کے اسماء اس پر کندہ ہیں.آپ دفتر اول کے تحریک جدید کے مجاہد ہیں.وقف جدید کے چندہ میں حصہ لیتے رہے.ارتداد ملکانہ کے موقعہ پر ممتاز طور پر مالی خدمت کی.خلافت ثانیہ میں خصوصاً معروف وممتاز احباب میں شمار ہوتے رہے.بعد پنشن مرکز سلسلہ میں وقف زندگی کی پیش کش کی.اور اراضیات سندھ اور دفتر امانت کے تعلق میں آپ نے خدمات کیں.خصوصاً بعد تقسیم برصغیر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشاد پر صیغہ امانت صدر انجمن احمد یہ میں جو لاکھوں روپیہ اور زیورات وغیرہ کی امانتیں تھیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ہدایت پر آپ خاص تائید و نصرت الہی سے قادیان سے لاہور لے جانے میں کامیاب ہوئے.خلفاء سلسلہ اور ابناء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ بزرگان سلسلہ کے ساتھ آپ کے گہرے مراسم تھے.۳۰ اگست ۱۹۶۸ء کو ربوہ میں بھر چوراسی سال وفات پائی اور قطعہ خاص میں دفن ہوئے.اللَّهُمَّ اغْفِرُ لَهُ وَارْحَمْهُ.آمین خاندانی اور تعلیمی حالات آپ رقم فرماتے ہیں : خاکسار شیخ فضل احمد بٹالوی ولد شیخ علی بخش صاحب ولد شیخ گل محمد صاحب ولد شیخ غلام حسین صاحب، قوم لگتے زئی کی ولادت بمقام بٹالہ (ضلع گورداسپور ) غالبا ۱۸۸۳ء میں ہوئی تھی.وہیں میں نے پرورش پائی.والدہ مرحومہ بیان کرتی تھیں کہ تمہاری پہلی والدہ کے بطن سے تمہارے والد کی صرف لڑکیاں تھیں.میرے ہاں بھی پہلے لڑکی فیض بتول نام ہوئی.انہوں نے اپنے مُرشد کی خدمت میں (جو رتر چھتر والے مشہور تھے اور بمقام دھرم کوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور میں رہتے تھے.اور ان کی تعریف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمائی ہے ) اولاد نرینہ کے لئے درخواست دعا کی.بعد دُعا مرشد موصوف نے بتلایا کہ تمہیں ایسا لڑکا ملے گا جو بڑی عزت اور برکت پائے
۶۹ گا.خاکسار کا یقین ہے کہ خاکسار کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت غلامی سے یہ عزت اور برکت حاصل ہوئی.خاکسار قریباً چھ سال کا تھا کہ غالباً ۱۸۸۹ء میں والد ماجد انتقال فرما گئے.آپ تجارت کرتے تھے مجھے یاد ہے کہ آپ کی وفات پر آپ کی دوکان سے کتاب پند نامہ عطار نکلی جس کو میں بڑے شوق سے پڑھتا تھا.والدہ ماجدہ بتاتی تھیں کہ تمہارے والد تجد گزار اور بڑے عبادت گزار تھے.نماز تہجد مسجد میں جا کر پڑھتے تھے.میں نے بٹالہ میں پانچویں جماعت تک گورنمنٹ ہائی سکول میں اور پھر چھٹی سے نویں تک مشن ہائی سکول میں تعلیم پائی.مڈل میں کامیابی کے بعد ایک ہندو ہائی سکول میں داخلہ لیا.لیکن میٹرک کے امتحان میں کامیابی نہ ہوئی پھر امرتسر میں مخدومی محسنی جناب شیخ محمد عمر صاحب بیرسٹر کی مدد سے ایک کمرشل سکول میں داخلہ لیا.لیکن محنت نہ کرنے کی وجہ سے کامیابی نہ ہوئی.پھر دہلی میں ”اے.برکت اینڈ کمپنی میں ملازمت ملی مگر دہلی کی مرچوں سے تنگ آکر میں ملازمت چھوڑ آیا اور اپنے طور پر امتحان دے کر ۱۹۰۱ء میں میٹرک کے امتحان میں کامیاب ہوا.۱۹۰۱ء تا ۱۹۰۳ء میں مختلف مقامات پر ملازم رہا.۱۹۰۴ء میں آبزرور پریس لاہور میں بطور پروف ریڈر ملازم ہو گیا.یہاں سے بھی دل برداشتہ ہو کر ملتان چلا گیا.اور افریقہ جانے کے خیال سے کراچی گیا.چونکہ افریقہ جانے کی صورت نہ بنی اس لئے چند ماہ بعد.ہانسی.حصار.سہارنپور ہوتا ہوا انبالہ چھاؤنی پہنچا وہاں مخدومی برادرم عطاء اللہ خان صاحب مرحوم تھے.انہوں نے مجھے انبالہ چھاؤنی میں ملازم کرا دیا.یہ غالباً ۱۹۰۵ ء کی بات ہے.۱۹۰۶ء میں لاہور جانا پڑا.پھر ہمارا یونٹ واپس انبالہ چھاؤنی گیا.جہاں جنوری تا اپریل ۱۹۰۸ء قیام رہا.ایک نہایت شریف انگریز مسٹر اے ڈبلیو ڈی ہیر نگٹن ہماری یونٹ کے کمان افسر ہو کر آئے.حضرت چوہدری رستم علی صاحب کی زیارت ہوگئی اور ان سے بہت فیض حاصل کیا.پھر کمان افسر کے ساتھ مئی میں کسولی پہاڑ پر جانے پر اپنے عزیز دوست اور بھائی ڈاکٹر غلام مصطفے صاحب کے ساتھ رہنے کا موقعہ ملا.اور ڈاکٹر لعل دین صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی.
عیسائیت کے رعب کا زمانہ آپ لکھتے ہیں کہ غالباً ۱۸۸۰ء میں یا اس کے قریب ایک عیسائی خاتون جس کو مس ٹکر کہتے تھے.بٹالہ میں آئی وہ بقول بعض کے ملکہ وکٹوریہ کی خالہ زاد بہن تھی اس نے ایک مشن سکول بنام اے.ایل.او.ای OF LADY (A (ENGLAND ہائی سکول قائم کیا.میں نے اس بوڑھی عورت کو دیکھا ہے.اس کا شاہانہ حال ان باتوں سے ظاہر ہے کہ بچپن میں سنتا تھا کہ وہ معزز گھروں میں جا کر ان کی مستورات کو شال پشمینہ کی گرم چادروں یا قمیصوں کے قیمتی کپڑے ریشمی وغیرہ کے تحائف دیا کرتی.اور بڑی محبت سے نرم نرم باتیں کرتی تھی.اس زمانہ میں انگریزوں کا بڑا رعب تھا.اُسے بعض گھروں میں جاتے دیکھنا مجھے بھی یاد پڑتا ہے.لوگ بہت عزت سے اس کے ساتھ پیش آتے تھے.وہ محلہ کے بچوں کو اکٹھا کر کے ان میں مٹھائی تقسیم کرتی.اس کے ساتھ ایک نوجوان عیسائی عورت غالباً بنام نور نشالی ایک پالکی میں آتی اور یسوع مسیح کے گیت گاتی تھی.اس طرح اس کا دخل گھروں میں ہو گیا تھا.اور عورتیں عیسائیت کی تبلیغ اپنے گھروں میں سُنا کرتی تھیں.بازاروں میں عیسائی مناد بڑی بڑی تقریریں اور وعظ کرتے تھے.کسی کی کیا مجال کہ کوئی ان سے جھگڑے یا بحث مباحثہ کرے ہر معزز قوم کے افراد مرد و زن آغوشِ عیسائیت میں آنے لگے.اسی زمانہ کی بات ہے کہ ایک مسجد کے امام الصلوۃ مولوی قدرت اللہ صاحب نے عیسائیت قبول کر لی.لیکن پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوشش سے دوبارہ قبول اسلام کی برکت پائی.اس مشن ہائی سکول کے علاوہ ایک سکول بنام بیرنگ ہائی سکول بھی قائم کیا گیا تھا.جو خالصہ عیسائی بچوں کی تعلیم کے لئے تھا.اس زمانہ میں پادری وائٹ بر سخٹ بھی جو بعد میں غالباً لاٹ پادری ہو کر لاہور میں مقیم رہے بٹالہ میں بطور بڑے پادری کے متعین تھے.مشن ہائی سکول کا مینیجر پادری کا ورڈیل تھا.جو اکثر مشن سکول کے بچوں کو عیسائیت کی تبلیغ کے لئے شام کو بلا لیا کرتا تھا.اور انہیں جرابیں ، رومال ، مٹھائیاں ، فالودے وغیرہ دیا کرتا تھا.اس طرح تالیف قلوب کر کے لڑکوں کو مانوس کرلیا جاتا اور پھر ان کی سفارشیں
21 کر کے ان کو سرکاری ملازمت دلائی جاتی تھی اس وعدہ پر کہ وہ عیسائی ہو جائیں.غرض عورتوں اور مردوں میں عیسائیت کی تبلیغ سے ایک قیامت برپا تھی.جس کا آج کسی کو اندازہ اور خیال بھی نہیں آتا.چونکہ میں نے عیسائیت کا یہ رُعب داب دیکھا ہوا تھا.اور مجھے ادنی اقوام نہیں بلکہ بٹالہ کے ان معزز خاندانوں کا بھی علم تھا جن کے چشم و چراغ عیسائی بن کر دجال بن گئے تھے.اس لئے میرے دل پر بھی عیسائیت کا یہ اثر تھا کہ اتنی بڑی بلا کو خدا ہی دور کرے تو کرے کسی انسان کی مجال نہ تھی.غالبًا ۱۹۲۰ ء یا ۱۹۲۱ء تھا کہ بٹالہ میں میں نے سنا کہ یہ مدرسہ فروخت ہو رہا ہے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی اس کو خرید رہے ہیں.یہ بات میرے لئے اس قدر حیرت انگیز اور تعجب خیز تھی کہ سنتے ہی میرے دل نے چاہا کہ میں سٹرک پر ہی سجدہ ریز ہو جاؤں.میرے وہم میں بھی یہ بات نہ آئی تھی کہ یہ مشن سکول جو مس ٹکر کے لاکھوں روپے کے سود پر چلا کرتا تھا اور جس کی شان و شوکت اور عیسائیت کی ہیبت اور رُعب کی کیفیت میں نے دیکھی ہوئی تھی آج بک رہا ہے.نیلام ہورہا ہے.خاک میں مل رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت کا یہ ایک عظیم الشان نشان تھا.جن لوگوں نے عیسائیت کا وہ رُعب بٹالہ میں نہ دیکھا ہو وہ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ نہ معلوم یہ بات کیونکر مشہور ہوگئی.کیونکہ یہ عمارت اس طرح فروخت نہیں ہوئی.پہلے کا تو علم نہیں.لیکن تقسیم برصغیر کے نتیجہ میں برطانوی راج کی جو حمایت اس کو حاصل تھی وہ جاتی رہی.اور اب تمام عیسائی مشن ہی زوال پذیر ہیں چمبہ شہر کے دیسی پادری نے پندرہ سال قبل سنایا تھا کہ مشن کی آمد بہت کم ہوگئی ہے.جو عمارات مشنوں کی ہیں ان کی مرمت اور غور و پرداخت مشکل ہورہی ہے.اور نیز یہ ایک کھلی حقیقت ہے.جس کا ذکر اخبارات میں آتا رہتا ہے.کہ غیر ملکی اور دیسی پادریوں میں ایک دوسرے کی مخالفت شروع ہے.اور دیسی پادری علی الاعلان اس بارے میں مضامین و خطوط ، اخبارات میں بھجواتے ہیں.دوسری طرف با وجود یکہ قادیان سے حضرت امام جماعت احمد یہ رضی اللہ عنہ اور جماعت کی اکثریت کو اعلام الہی کے مطابق ۱۹۴۷ء میں ہجرت کرنا پڑی پھر بھی قادیان کی عظمت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص
۷۲ فضل سے بحال رکھا ہوا ہے.اور اس کی عظمت کے سامنے بارہ میل کے فاصلہ پر بٹالہ میں عیسائیت کا وہ رُعب موجود نہیں بلکہ وہ تقسیم ملک سے قبل ہی ختم ہو چکا تھا.بٹالہ میں کچھ پادری SEVENTH DAY ADVENTIST مشن کے اور کچھ مکتی فوج کے رہتے ہیں.اور چند میل پر دھار یوال میں بھی کچھ پادری مقیم ہیں.اور ایک بڑا شفا خانہ بھی جاری ہے.لیکن تبلیغی سرگرمیاں صفر کے برابر ہیں.ایک گروہ امریکن یونائیٹڈ پریس بٹیرین چرچ امریکہ متعدد ریاستوں سے انہیں خواتین اور سات مردوں پر مشتمل ہندوستان کے دوماہ کے سفر پر آیا جس کا مقصد عیسائی تبلیغی سرگرمیوں کا جائزہ لیتا اور دیگر مذاہب کے مراکز کو دیکھنا تھا.اور اس گروپ نے امریکہ سے اپنے لائحہ سفر میں قادیان آنا شامل کیا اور بیرنگ کالج کے پرنسپل کے ذریعہ اس کی اطلاع بھجوائی.اور وہ بتاریخ ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۹ء قادیان بٹالہ سے سات کاروں پر آئے.اور انہیں تبلیغ ہوئی اور لٹریچر دیا گیا.تقسیم ملک کے بعد مرکز قادیان کے ذریعہ اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے کم و بیش ایک کروڑ روپیہ جمع ہوا.سیرت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تبلیغ احمدیت کے متعلق کئی لاکھ روپیہ کا لٹریچر ہی شائع ہوا جو انگریزی، اردو، ملیالم ، ہندی اور گورمکھی میں ہے.ایک درجن سے زائد مبلغ تیار ہوئے.مبلغ تیار کرنے والا مدرسہ احمد یہ جاری ہے.ہفتہ وار بدرسترہ سال سے قادیان سے جاری ہے.غیر مسلموں پر اس مرکز اور اس کے ساکنین کا اخلاقی اور روحانی نہایت گہرا اثر ہے.اور غیر مسلم دعاؤں کے لئے رجوع کرتے رہتے ہیں.اور ہندوستان کے متعد د صوبوں میں جلسہ ہائے سالانہ بھی منعقد ہوتے ہیں.مثلاً اس دفعہ کیرالہ.یوپی اور اڑیسہ میں منعقد ہو چکے ہیں.فالحمد للہ علی ذالک حضور کی زیارت اور قبول احمدیت پھر آپ لکھتے ہیں بچپن میں مجھے خواب میں کسی نے کہا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھانیدار محمد علی صاحب کے بیٹے ڈاکٹر محمد طفیل خان صاحب کے مکان پر تشریف لائے ہوئے ہیں.میں بھی اُن کے مکان پر گیا تو مجھے آواز تو آتی تھی یا مجھے خیال آتا تھا کہ
۷۳ ورصلی اللہ علیہ وسلم کسی سے باتیں کر رہے ہیں مگر مجھے زیارت نصیب نہ ہوئی ہے.بچپن میں ایک دفعہ بٹالہ میں پانی کا سیلاب آیا اور میں بھی بچوں کے ساتھ لیک والے تالاب کے پاس جس کے مغرب کی جانب ذیل گھر ہوا کرتا تھا پہنچا تو کسی لڑکے نے مجھے کہا وہ دیکھو قا دیان والے مرزا صاحب بیٹھے ہوئے ہیں.میں نے بھی ذیل گھر کے نچلے کمرہ کی طرف نگاہ کی تو مجھے حضور کی زیارت ہوئی.حضور بیٹھے ہوئے تھے.دراصل میری احمدیت کی ابتداء لا ہور میں ۱۹۰۴ء میں ہوئی تھی.جہاں برادرم ڈاکٹر محمد طفیل صاحب نے مجھے آبزرور پریس میں تبلیغ کی تھی.انہوں نے مجھے ریویو آف ریلیچز کا کوئی پرچہ پڑھنے کے لئے دیا تھا.جس کا اثر میرے دل و دماغ پر ایسا پڑا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا کہ ریویو میرے نام پر جاری کر دیں حضور علیہ السلام نے گذشتہ سارے پرچے ۱۹۰۴ء تک کے مجھے بھجوا دیئے جن کے مطالعہ سے میرے دل نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے بیعت کر لینی چاہئیے.اور شاید میں نے بیعت کا خط بھی لکھ دیا.کیونکہ میں نے ۱۹۰۶ء میں ہی دوسرے دوستوں کو تبلیغ کرنی شروع کر دی تھی.جن سے میں ایک تو برادرم ڈاکٹر عطاء اللہ خاں صاحب تھے.چونکہ آج سے ساٹھ سال پہلے کی بات ہے اس لئے پوری طرح تو یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ حضرت ڈاکٹر محمد علی صاحب وٹرنری اسٹنٹ (جو ابوالمنیر نور الحق صاحب دارالمصنفین کے دادا کے چھوٹے بھائی تھے ) ہمیں انبالہ چھاؤنی میں قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے اور یہ بھی شبہ پڑتا ہے کہ ان کی تبلیغ سے ماسٹر عبدالعزیز صاحب نوشہروی اور ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب نے بیعت کی تھی.اور شاید میں نے بیعت دوبارہ تحریری طور پر کی تھی.تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ مثیل حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں لیکن شیخ صاحب کو ابھی زیارت کا موقعہ میسر نہیں آیا.نیز یہ کہ تھانیدار محمد علی صاحب کے گھرانہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے.جو گویا ابھی ظاہر نہیں سو تھانیدار صاحب کے فرزند حضرت ڈاکٹر صاحب کے قبول احمدیت کی توفیق ملنے پر یہ تعلق ظاہر ہو گیا.ڈاکٹر صاحب قادیان میں مدرسہ احمدیہ کے سیکنڈ ماسٹر رہے.جلسہ سالانہ پر ناظم نظامت اندرون ہوتے تھے.قائم مقام صدر عمومی یا نائب نیز صدر محله دارالفضل بھی بعد ہجرت پاکستان میں وفات ہوئی.
۷۴ غالباً ۱۹۰۶ ء میں حضرت چوہدری رستم علی صاحب نے مجھے سیکرٹری بنا دیا اور تبلیغ کرنے کی ہدایت فرمائی.اس زمانہ میں بابو عبد الرحمن صاحب ہیڈ ٹریژری کلرک انبالہ شہر زندہ تھے.اور ان کے ساتھ ٹھیکیدار محمد یوسف صاحب بھی تھے.ماسٹر عبد العزیز صاحب نوشہروی کے مکان پر جو غالباً تو پخانہ بازار میں رہتے تھے.ہمارے اجلاس ہوا کرتے تھے ہو.حضرت چوہدری رستم علی صاحب کی ایک بات مجھے یاد پڑتی ہے.ان دنوں وہ کورٹ انسپکٹر تھے.یا کورٹ سب انسپکٹر.فرمانے لگے کہ میرے پاس ایک تھانیدار صاحب آئے اور انہوں نے مجھے اپنے حلقہ کے متعلق بعض باتیں بتلائیں جن میں سے کچھ کسی چوکیدار کے خلاف تھیں.تھانیدار کے جانے کے بعد وہی چوکیدار آگیا.اور اس نے تھانیدار کے خلاف کچھ باتیں کیں.مجھے اس چوکیدار پر غصہ آیا.اور میں نے اُسے ایک چپت لگائی.وہ روتا ہوا چلا گیا.تو مجھے خیال آیا کہ ممکن ہے کہ یہی سچا ہو اور تھانیدار جھوٹا.میں نے چوکیدار کو واپس بلایا دوروپے اسے دیئے.دودھ پلایا اور اس سے افسوس کا اظہار کیا.اس زمانہ میں تو سپاہی بھی بڑا بارعب ہوا کرتا تھا.پھر تھانیدار تو اپنے آپ کو فرعون سے کم نہ جانتا تھا.اس کے اوپر کے مرتبہ والے کورٹ انسپکٹر خدا ہی جانے کس شان کے ہوا کرتے تھے.مگر با وجود ایسی شان کے حضرت چوہدری صاحب ایسے منکسر المزاج تھے کہ ایک چوکیدار کا دل دُکھانا بھی انہیں گناہ کبیرہ نظر آیا.اور جب تک چوکیدار خوش نہ بابوعبد الرحمن صاحب بعدہ امیر جماعت انبالہ اور ماسٹر عبدالعزیز صاحب نوشہرہ سگے زئیاں وفات پاچکے ہیں اور ۲۲۳ ۲۲۴ پر منارۃ اس پر آپ کا اور آپ کی اہلیہ محترمہ کے اسماء کندہ ہیں غالباً آپ ہی اپنے قبول احمدیت کے حالات میں بیان کرتے ہوئے کہ کن احمدی احباب سے ملاقات ہوئی لکھتے ہیں.فروری ۱۹۰۳ء میں دفتر بدل کر انبالہ چھاؤنی آگیا.ان دنوں یہاں طاعون کا سخت زور تھا با بوفضل احمد صاحب سکنہ بٹالہ و بھائی شیخ عطاء اللہ صاحب سکنہ دھرم کوٹ بگہ سے ملاقات ہو گئی.اور انکی صحبت میں اخبار بدر کے پرانے فائلوں کے مطالعہ کرنے کا خوب موقعہ نصیب ہو ا.۱۹۰۶ء میں بابو فضل احمد صاحب بحصول رخصت چند یوم خادم ہی کے غریب خانہ میں مہمان ہوئے.چونکہ آپ پہلے سے احمدی تھے آپ کی صحبت سے مجھے بہت ہی فائدہ حاصل ہوا.‘ے
۷۵ ہوا آپ اس کی خاطر مدارت کرتے رہے.یہی بات ایک شعر میں بیان ہوئی ہے..گر به دولت پرسی مست نه گردی مروی ور به پستی برسی مست نه گروی مروی خاکسار کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ جب کبھی حضرت چوہدری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا تو انہیں حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی فارسی سوانح عمری سنایا کرتا تھا.پھر آپ پنشن لے کر قادیان میں آگئے وہاں بھی میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا.اپریل ۱۹۰۷ء میں میری شادی بٹالہ میں محتر مہ سردار بیگم صاحبہ ہمشیرہ شیخ اکبر علی صاحب کے ساتھ ہوئی چونکہ میں نے دستی بیعت ۱۹۰۷ء میں کی تھی اور طبیعت پر ان دنوں بڑا اثر تھا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری مرحومہ بیوی نے بھی بیعت کر لی.اور اس کو دیکھ کر ان کی والدہ محترمہ اور بھائیوں اکبر علی صاحب اور اصغر علی صاحب مرحوم بھی احمدیت میں داخل ہو گئے.یہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر بڑا حسان ہوا کیونکہ آگے ان کی اولا د بھی احمدی ہے ہے.۱۹۰۷ء کی ابتداء میں حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اول) کی خدمت میں بعض عریضے میں نے لکھے جن کا اثر آپ کے مبارک اور پاک دل پر اتنا پڑا کہ آپ کی محبت میرے دل میں بیٹھ گئی.غالباً اگست ۱۹۰۷ء میں مجھے قادیان جانے کا موقعہ خدا تعالیٰ نے محض اپنے رحم سے بخشا.اور میں نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنی چاہتا ہوں.آپ نے فرما یا مسجد مبارک میں چلے جاؤ اور بیعت کرلو.میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی معرفت بیعت کرنی چاہتا ہوں.تو آپ نے فرمایا مسجد مبارک میں جا کر میرا انتظار کرو.میں مسجد مبارک میں چلا گیا.اس کی جنوبی کھڑکی میں حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل بیٹھے ہوئے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہلے سے تشریف لائے ہوئے تھے یا اسی وقت آئے : ملک محمد احمد صاحب پسر با بو فضل احمد صاحب بتاتے ہیں کہ اکبر علی صاحب واصغر علی صاحب دونوں وفات پا چکے ہیں.مکرم اکبر علی صاحب لاہور میں ۱۶ جون ۱۹۶۹ء کو فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.الفضل میں ان کی وفات کے ذکر میں مرقوم ہوا کہ اپنے بہنوئی شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی کے ذریعہ ۱۹۰۸ء میں حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدی ہوئے تھے.الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۶۹ص۶
24 تھے اور بیعت ہونے لگی.قاضی صاحب نے مجھے مخاطب کر کے کہا کیا آپ بھی بیعت کرنے کی غرض سے آئے ہوئے ہیں؟ میں اس وقت مسجد کے دروازہ میں حضرت مولوی صاحب کے انتظار میں کھڑا ہوا تھا.میں نے اثبات میں جواب دیا تو قاضی صاحب نے مجھے کہا کہ بیعت ہورہی ہے.بیٹھ جاؤ اور اپنے سے آگے بیٹھے ہوئے دوست کی کمر پر ہاتھ رکھ لو.اور الفاظ دہراتے جاؤ.میں نے تعمیل کی.جب بیعت اور دعا ہو چکی تو میں پھر دروازہ میں آکر کھڑا ہو گیا.اور حضرت مولوی صاحب کا انتظار کرنے لگ گیا.اتنے میں آپ تشریف لائے.اور میرا ہاتھ پکڑ کر آگے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کھڑ کی مسجد کی جانب شمال تھی لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک میں میرا ہاتھ ڈال کر عرض کیا حضور !یہ کا لکا سے بیعت کرنے کے لئے آئے ہیں.( میں ان دنوں ابنالہ سے کا لکا گیا ہوا تھا.اور چونکہ میں ا کا لکا سے بھی حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں درخواست ہائے دعا بھیجا کرتا تھا.اس لئے آپ نے کا لکا کا نام لیا.جہاں ہمارا یونٹ گیا ہو ا تھا ) حضور نے میری طرف نگاہ فرمائی اور فرمایا کیا آپ نے ابھی جو بیعت ہوئی تھی اس میں شامل ہو کر بیعت نہیں کی (مفہوم) خاکسار نے عرض کیا حضور! کر لی ہے.اس کے بعد میں اسی جگہ بیٹھا رہا اور حضور کے چہرہ مبارک کو دیکھ دیکھ کر درود شریف پڑھتا رہا.اس وقت حضور مولوی محمد علی صاحب سے انگریزی اخبار غالباً سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور کی خبریں سن رہے تھے.جب حضور مسجد سے تشریف لے گئے تو میں انبالہ چلا گیا.پھر حضور کی خدمت میں درخواست کیا کرتا تھا کہ دعا فرمائیں کہ میرا دل دنیا سے نہ لگے.۱۹۰۸ء میں جب میں کسولی پہاڑ پر گیا وہاں مجھے بابو عبد الحمید صاحب پٹیالوی ملے انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کی خبر سنائی ہے.ایک معنی خیز رویا آپ بیان کرتے ہیں کہ غالباً ۱۹۰۶ ء میں میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی ہمارے محلہ میں گھوم رہے ہیں.چند روز بعد مجھے بٹالہ سے خط ملا کہ ہمارے محلہ میں طاعون کے کیس ہو رہے ہیں.میں نے دُعا مانگی پھر خواب دیکھا کہ بٹالہ میں ہمارے مراد حضرت شیخ عبدالحمید صاحب ریلوے آڈیٹر جو قریب میں وفات پاگئے ہیں.
22 محلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور ایک کرسی پر تشریف رکھتے ہیں کرسی کے پاؤں کے نیچے پیسے لگے ہوئے ہیں اور کرسی کے پاس ہی کھڑا ہوا میں حضور علیہ السلام سے باتیں کر رہا ہوں.کرسی چلنے لگی اور میں بھی حضور کے ساتھ ساتھ چلنے لگا.حضور ہمارے محلہ میں پھرتے رہے.اور جب واپس ہونے لگے تو مجھے مخاطب کر کے جو کچھ فرمایا.اس کا مفہوم تھا کہ تم صادقوں میں سے ہو.چند روز گذرے کہ بٹالہ سے خط آیا کہ اب خدا کے فضل و احسان سے طاعون نہیں رہی.محلہ میں امن ہے.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ گویا عند اللہ جو مقام صدق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اور جو مقام اس کے خلاف حضور کے مکفر مولوی بٹالوی صاحب کو حاصل ہے وہ اس عجیب رنگ میں ظاہر کیا گیا ہے.روایات آپ بیان کرتے ہیں: (۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خادم حضرت حافظ حامد علی صاحب نے سنایا کہ ابتدائی زمانہ میں جب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ابھی چھوٹے بچے تھے.آپ کی آنکھوں میں سوزش وغیرہ سے بہت تکلیف ہوگئی تو حضور انہیں اور حضرت اتم المؤمنین کو لے کر بٹالہ علاج کرانے کے لئے تشریف لے گئے.میں بھی خدمت میں ساتھ تھا.بٹالہ پہنچ کر مجھے فرمایا کہ شیخ محمد علی صاحب (والد ڈاکٹر محمد طفیل خاں صاحب) کے پاس جا کر پچاس روپے قرض لے آئیں.میں شیخ صاحب کے پاس گیا باتوں باتوں میں الہام کا ذکر آ گیا.شیخ صاحب نے کہا کہ الہام کی بات کچھ ایسی نہیں جس کو بہت وقعت دی جائے.مجھے بھی الہام ہوتے ہیں.اور بڑی خشکی اور لاپرواہی سے حضرت اقدس کا ذکر کیا.بات بڑھ گئی تو میں اُن سے ناامید ہو کر بیزاری کے ساتھ واپس آگیا.اور حضور کی خدمت میں تفصیلی عرض کی حضور نے خاموشی اختیار فرمائی یا کچھ جواب دیا.مجھے راوی کو یاد نہیں رہا.ایک دو روز کے اندر کی بات ہے کہ میں بازار کسی کام کے لئے گیا ہوا تھا کہ ایک چٹھی رسان نے آواز دے کر کہا کہ بھئی! مرزا صاحب کے تم ملازم ہو! میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے کہا کہ میں دو تین روز سے مرزا صاحب کی تلاش کر رہا ہوں.مجھے ان کا
۷۸ پتا نہیں لگ سکا مجھے ان کے پاس لے چلو ان کا پچاس روپے کا منی آرڈر آیا ہوا ہے.میں اسے حضور کے پاس لایا.اور حضور نے یہ رقم وصول کی.حافظ صاحب فرماتے تھے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے چٹھی رسان اس روز سے تلاش کر رہا تھا.جس روز شیخ محمد علی صاحب بات ہوئی تھی.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ رزق غیب اور مَنْ يَتَوَكَّلُ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ کا یہ کیسا ایمان افروز واقعہ ہے ہیں.(۲): مکرم شیخ فتح محمد صاحب نے جو کسی زمانہ میں احمد یہ سٹور کے مینیجر تھے.ابتدائی زمانہ کے تعلق میں مجھے بتلایا کہ میں جموں کے علاقہ میں کسی جگہ ملازم تھا کہ مجھے بعض مشکلات کے سلسلہ میں قادیان جانا پڑا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اندر بلا لیا.جہاں حضور اشتہارات وغیرہ کے خود ہی پیکٹ بناتے تھے.اور پتہ وغیرہ بھی ان پر خود ہی لکھتے تھے.میں نے عرض کیا کہ میں یہ کام کرتا ہوں.حضور میری عرض سُن لیں.فرمایا.آپ بھی میرے ساتھ یہ کام کرتے جائیں اور باتیں بھی کرتے جائیں.اس زمانہ میں حضور کے پاس کام کرنے والا عملہ نہ تھا.اور حضور خود ہی سارے کام کرتے تھے اور انتہائی محنت سے کام کرتے تھے.اللہ تعالیٰ حضور پر اپنے انعامات کی بارش برسائے.آمین کہا ہے.(۳): ربوہ میں اگست ۱۹۵۵ء میں ایک روز میں مفتی محمد صادق صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے سنایا کہ لاہور کے ایک احمدی دوست صوفی نبی بخش صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے.جب قادیان سے جانے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ساتھ چل پڑے.صوفی صاحب نے مالی تنگی کا ذکر کیا.فرمایا کہ آپ اللهُم اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَامَنُ رَوْعَاتِی کی دعا مانگتے رہا کریں.کہ اے اللہ تعالیٰ ! میرے گناہ بخش دے اور میرے خطرات دور ہٹا دے دور کر دے.: حضرت حافظ حامد علی صاحب کے سوانح کے لئے دیکھئے اصحاب احمد جلد دہم.: آپ کے فرزند مکرم شیخ صالح محمد صاحب سابق صدر جماعت ممباسه ومشرقی افریقہ آج کل برطانیہ میں مقیم ہیں ہ: حضرت صوفی نبی بخش صاحب مدفون بہشتی مقبره تاریخ وفات ۲ دسمبر ۱۹۴۴ء
و سفر و قیام ڈلہوزی میں بعض عجائبات آپ نے تحریر فرمایا کہ : ۱۹۰۹ء کا ابتدائی عرصہ انبالہ میں گذار کر گرمیوں میں شملہ سے چار پانچ میل پر چتو گ پہاڑ پر جانا پڑا.تو مجھے شوق ہوا کہ میں اپنی تبدیلی ڈلہوزی کے دفتر اے ڈی ، الیس اینڈ ٹی.لاہور ضلع میں کرالوں تا کہ مجھے قابل پنشن جگہ مل جائے.اس کے لئے میں نے کوشش کی اور ایس اینڈ ٹی کے دفتر میں بطور کلرک لگ گیا.۱۹۱۰ء کے موسم گرما میں مجھے ڈلہوزی اس دفتر کے ساتھ جانا پڑا.اس سفر میں اور قیام ڈلہوزی میں عجیب واقعات پیش آئے جو میرے ایمان کی تقویت کا موجب ہوئے.سفر ڈلہوزی میں میرے ہمراہ میری اہلیہ اوّل ، ان کے بھائی اکبر علی صاحب اور میرے بھائی امیر احمد صاحب سفر کر رہے تھے.( ہم ایک سرکاری پردہ دار بیلوں والے ٹانگہ میں تھے.ہم سب قریبا لیٹ کر سفر کر رہے تھے ) تین چار ٹانگے ہندو کلرکوں کے تھے.ہم شام کے وقت دُنیرا کے پڑاؤ پر پہنچے.وہاں کے ہندو سٹور کیپروں نے اپنے ہندو بھائیوں کو خیمے دے دیئے جن میں اُن کے اہل وعیال اتر پڑے اور میں کھڑا رہ گیا.ہر چند اِدھر اُدھر مکانات اور خیموں کی تلاش کی مگر بے سود.اکبر علی صاحب نے گھبرا کر مجھے کہا رات سر پر آگئی ہے اب کیا ہوگا؟ میں نے کہا خدا داری چہ غم داری.خدا ضرور کوئی سامان کرے گا.اتنے میں ایک گھوڑ سوار آیا.اور اس نے مجھے محبت سے سلام کیا.اور کہا.ہیں آپ کہاں؟ میں نے قصہ سُنایا تو کہنے لگا آپ ذرا ٹھہریں میں ابھی آتا ہوں.تھوڑی دیر میں وہ ایک خیمہ اور گھاس لایا اور چند سپاہی بھی.جن کے ذریعہ اس نے خیمہ لگوایا اور گھاس اس میں بچھا کر کہا اپنے گھر والوں کو اس میں اتار دیں.پھر ایک اور خیمہ بطور بیت الخلاء کے لگوا دیا.پھر کہا کہ میں آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں مگر کچھ دیر ہو جائے گی آپ معاف کریں.چنانچہ ضروری سامان پانی وغیرہ بھجوا کر خود قریباً گیارہ بجے رات کے کھانا زردہ، دال، روٹی وغیرہ لایا.اور معذرت کرنے لگا کہ چونکہ دیر ہو گئی تھی.گوشت نہیں مل سکا.دال ہی مل سکی ہے آپ یہی قبول فرما ئیں.پھر پوچھنے پر کہنے لگا.آپ مجھے نہیں جانتے میں نے کہا
۸۰ معاف کریں مجھے آپ سے ایک دفعہ کی ملاقات کا شبہ پڑتا ہے.وہ بھی کچھ یاد نہیں کہاں ہوئی تھی.تو اس نے کہا آپ نے میری درخواست لکھی تھی جس پر مجھے دفعداری مل گئی تھی.اس لئے میں آپ کا شکر گزار ہوں.اور کہا اب رات بہت ہوگئی ہے.میں جاتا ہوں.چند آدمی چھوڑے جاتا ہوں جو رات کو آپ کا پہرہ بھی دیں گے تاکہ سامان چوری نہ ہو.اور بعد روانگی خیمہ وغیرہ بھی سنبھال لیں گے.میں نے سجدات شکر ادا کئے.اور اللہ تعالیٰ کی اس بندہ نوازی نے میرے ایمان میں بڑی ترقی بخشی.دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ڈلہوزی میں میں ایک ایسے مکان میں اترا جہاں قریب کوئی احمدی نہ تھا.کو تو ال عبد الغفار صاحب کا مکان راستے میں پڑتا تھا.وہ مجھے آتے جاتے دیکھتے رہتے تھے.ان کے مکان پر اکثر مہمان اور وہ بھی بڑے بڑے لوگ اتر تے تھے.ایک مہمان شیخ دین محمد صاحب وکیل گوجرانوالہ تھے.جو بعد تقسیم ملک سندھ کے گورنر مقرر ہوئے تھے.میں کو توال صاحب کو سلام کر کے گذرتا.مگر کبھی ان کے پاس نہ بیٹھتا.ایک روز انہوں نے کہا آپ میرے پاس کیوں نہیں بیٹھتے؟ دیکھو میرے پاس مہمان اتر تے رہتے ہیں.کھاتے پیتے ہیں.آپ کبھی نہیں آتے.میں نے کہا کہ جن چیزوں کی آپ کے پاس افراط ہے اور جنہیں آپ کے مہمان پسند کرتے ہیں.میں ان اشیاء کا نہ شائق ہوں نہ طلبگار مجھے تو ایسے لوگوں کے پاس بیٹھنے کی خواہش ہوتی ہے جو خدا کی باتیں کریں یا سنیں.اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور مجھے کہا کہ مجھے تو آپ جیسے لوگ پسند ہیں.میں انہیں باہر لے گیا.انہوں نے دل کھول کر باتیں کیں.اور کہا کہ یہ دنیا دار تو میرے پاس کھانے پینے کے لئے آجاتے ہیں.حقیقت میں ان کو نہ میرے ساتھ محبت ہے نہ مجھے ان کی خواہش.مجھے تو با خدا لوگوں کی خواہش ہے.سوشکر ہے کہ آپ مل گئے ہیں.میں نے کہا ہمارے سلسلہ میں ایک نوجوان ایسا ہے جس کا تعلق خدا کے ساتھ ہے.کہنے لگا وہ کون؟ میں نے کہا ”مرزا محمود احمد صاحب آف قادیان اس پر اس نے ملنے کی بڑی خواہش ظاہر کی اور دل سے چاہا کہ آپ پہاڑ پر ہی اُن سے ملیں.اس خواہش صادق کو اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا.اور وہ اس طرح کہ جب ۱۹۱۰ ء میں میں ڈلہوزی سے ملا زمت چھوڑ کر بٹالہ آگیا تو قادیان جانے پر دیکھا کہ ایک یکہ مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے پاس کھڑا ہے
ΔΙ معلوم ہوا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود صاحب ( یعنی خلیفہ ثانی جوان دنوں میاں صاحب کہلاتے تھے ) ڈلہوزی تشریف لے جارہے ہیں.تھوڑی دیر میں آپ تشریف لائے.میرے پوچھنے پر یہ فرمایا کہ ڈلہوزی جا رہا ہوں.میں نے عرض کیا وہاں کا کو تو ال عبد الغفار خاں آپ سے ملنے کا بے حد مشتاق ہے.غرض تھوڑی دیر میں یکہ روانہ ہو گیا.اور میں نے اسی وقت ڈاک میں کو تو ال صاحب کو اطلاع دی کہ وہ نوجوان صالح جن کا میں نے ذکر کیا تھا اور جن کا اسم گرامی " مرزا محمود احمد صاحب آف قادیان“ ہے ڈلہوزی آ رہے ہیں آپ اُن کو ملیں.اس خط کی روانگی کے بعد کے واقعات کا علم مجھے خود حضرت صاحبزادہ صاحب سے ہی ہوا.میرا لفافہ ملنے پر کوتوال شہر و چھاؤنی نے اپنے آدمی بھیجے کہ مرزا محمود احمد آف قادیان کا پتہ لگا ؤ کہ وہ کہاں اُترے ہیں.ان لوگوں نے سمجھا کہ وہ ایک بڑے پیر کے لڑکے ہیں اس لئے کسی خاص اہتمام اور خاص خدام کے ذریعہ آئے ہوں گے.آخر کو تو ال صاحب ڈلہوزی شہر گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ آپ ایک احمدی بھائی کے مکان پر اُترے ہوئے ہیں.حضرت نے فرمایا کہ جب میں ڈلہوزی شہر پہنچا تو سیدھا ایک مسجد کو گیا.وہاں میں نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک احمدی بھائی نے مجھے دیکھ لیا.نماز کے بعد سلام کر کے بڑی خوشی کا اظہار کیا.اور مجھے اپنے مکان پر لے گیا.ایک دو روز کے بعد کو تو ال صاحب آئے اور آپ کا لفافہ دکھلا کر کہا کہ میں آپ کی تلاش کر رہا ہوں.اب جو آپ مل گئے ہیں تو میرے مکان پر تشریف لائیں.غرض وہ مجھے بیلون بازار چھاؤنی میں لائے اور شہر و چھاؤنی کے شرفاء کو دعوت دے کر بلایا اور مجھے کہا کہ آپ ان کو پہلے تبلیغ کریں.بعد میں کھانا کھلایا جائے گا.پھر مساجد میں لے جا کر تبلیغی گفتگو کرائی.ڈلہوزی میں مستعفی ہونا آپ مزید لکھتے ہیں : چونکہ میری طبیعت میں مذہب کی طرف توجہ ان دنوں زیادہ ہو رہی تھی اور میں چاہتا تھا کہ شوق سے نمازیں پڑھوں اور نماز کے لئے دفتر سے جایا کرتا تھا اس لئے مجھے ہندو کلرک اچھی نگاہ سے نہ دیکھتے تھے.اتفاق ایسا ہوا کہ میری تبدیلی میجر جائرس کنٹریکٹ آفیسر کے
۸۲ دفتر میں ہوگئی.میں جب کبھی نماز کے لئے ظہر کے وقت جاتا تو سکھ ہیڈ کلرک نہال سنگھ بُرا مناتا.چنانچہ ایک روز اس نے میری شکایت کر دی اور افسر مذکور نے مجھے بلا کر کہا کہ کیا تم نماز کے لئے دفتر کے وقت میں چلے جاتے ہو؟ میں نے کہا یہ درست ہے وہ کہنے لگا.جب تک میں اجازت نہ دوں تم نہیں جاسکتے.اس وقت نماز ظہر کا وقت تھا.اس پر میں نے کہا.صاحب! میں نماز ضرور پڑھوں گا.اور اگر آپ کو میری یہ بات ناگوار ہو تو میں آپ کو کہے دیتا ہوں کہ اب میں نماز کے لئے جاتا ہوں اور آپ مجھے اس سے روک نہیں سکتے.یہ کہہ کر میں اسی کے سامنے دفتر سے نکل گیا اور سارے دفتر نے یہ نظارہ دیکھا.اس کے بعد میں چند روز تک دفتر نہ گیا.تو ہیڈ کلرک نے مجھے ایک رقعہ لکھا کہ دفتر میں آکر جواب دو تم کیوں غیر حاضر ہورہے ہو.میں نے چپڑاسی کو جو چٹھی لایا تھا کہدیا کہ کہ ہیڈ کلرک سے کہدو کہ اگر میرے ساتھ خط و کتابت کرنی ہے تو افسر کو کہو وہ مجھے لکھیں.پھر میں جواب دوں گا.افسر نے دوسرے روز مجھے رقعہ لکھ کر دفتر بلایا.اور پوچھا کہ غیر حاضر کیوں ہو اور کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا دفتر سے اس لئے غیر حاضر ہوں کہ آپ مجھے نماز پڑھنے سے روکتے ہیں اور آپ جیسے افسر کے سامنے مجھے کسی قسم کی درخواست کرنے کی ضرورت نہیں.حضرت صاحب نے میرے اس واقعہ کا ذکر اپنی کتاب ملا لگتہ اللہ میں صفحہ پچاس پر کیا ہے.افسر مذکور پر کچھ ایسا اثر ہوا جیسے کوئی ڈر جاتا ہے.زبان سے کچھ نہ بولا.اور مجھے جرنیل کے دفتر میں لے گیا.اور بغیر میری پیشی کے جو جرنیل کے پاس ہوئی تھی اور جس کے لئے میں تیار تھا میرا استعفاء منظور کرالیا.اور میں بٹالہ چلا آیا.قادیان میں ملازمت اور اہلیہ کی شفایابی مزید تحریر فرماتے ہیں: اگست ۱۹۱۰ء میں میری بیوی بیمار ہوگئی.انہیں بٹالہ پہنچانا پڑا.ڈلہوزی واپس آنے پر میرے ساتھ افسر کا مذکورہ بالا واقعہ پیش آیا اور مجھے استعفی دینا پڑا.میں بٹالہ چلا آیا.ملازمت چھوڑنے کی وجہ سے میری بیمار بیوی کے دل پر اور بھی بُرا اثر پڑا.اور انہیں تپ محرقہ ہو گیا.میں انہیں اور ان کی والدہ محترمہ کو لے کر قادیان گیا.جہاں مجھے صدر انجمن
۸۳ کے دفتر محاسب میں بطور کلرک ہیں روپے ماہوار پر جگہ مل گئی.حضرت مرزا محمد اشرف صاحب کے ماتحت کام کرنے لگا.مولوی محمد علی صاحب سیکرٹری صدر انجمن نے مجھے خطوط لکھ کر ڈلہوزی میں ہی طے کر لیا تھا کہ مجھے ملازمت دے دی جائے گی.بلکہ ترقی وغیرہ کا وعدہ بھی کیا تھا.شیخ نور احمد صاحب سکنہ کھارا نے میری بڑی مدد کی.مجھے ایک مکان کرایہ پر لے کر دیا.اور دیگر ضروری سامان بھی مہیا کیا.اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں بیش از بیش ترقیات دے.آمین ہے.لیکن ہیں روپے کے قلیل مشاہرہ میں گزارہ کرنا محال ہو گیا.بظاہر تو یہ ابتلاء تھا.مگر حقیقت میں انعام - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ خدا کے بندے آلام کو برنگ انعام دیکھتے ہیں.خدا کا شکر ہے کہ میں بھی اس تکلیف کو برنگ انعام ہی دیکھتا ہوں.غرض میں قادیان میں کام کرتا رہا.یہاں تک کہ میری بیوی کی بیماری نے طول پکڑا.حضرت خلیفہ اول نے علاج بھی بہت کیا.مگر ان کا بخار نہ ٹوٹا.معلوم ہوتا تھا کہ میری بیوی مرضِ دق سال کی آخری منزل پر پہنچ چکی ہے.حضرت مولوی غلام محمد صاحب امرتسری حضرت خلیفہ اول سے ہدایات لے کر علاج کیا کرتے تھے.ایک دفعہ ان کو حضور نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل دعا کے پڑھنے کا ارشاد فرمایا.جو سات روز تک پوری توجہ سے پڑھی جاتی ہے: اسئل الله العظيم رب العرش العظيم ان يشفيك جس کی تعمیل کی گئی مگر بخار پھر بھی نہ ٹوٹا.حکیم مولوی غلام محمد صاحب موصوف نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کو حضرت خلیفہ اول نے میری اہلیہ کو دیکھنے کا حکم دیا.انہوں نے سینہ بین لگا کر دیکھا اور کہا دونوں پھیپھڑے خراب ہو چکے ہیں اور لا علاج ہیں.کچھ دنوں کے بعد ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب قادیان آئے.ہر دوڈاکٹر صاحبان ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے پاس مہمان خانہ میں موجود تھے.حضرت شیخ نور احمد صاحب ولد شیخ مہتاب خان مختار عام خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام - مدفون بہشتی مقبرہ.تاریخ وفات ۲۹ فروری ۱۹۳۶ ء موضع کھارا قادیان کے قریب جانب مشرق ایک گاؤں ہے.
۸۴ حضرت خلیفہ اول نے حکیم مولوی غلام محمد صاحب کے ذریعہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کو کہا کہ وہ میری بیوی کو دیکھیں.اور بتلائیں کہ کیا حالت ہے.ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے انہیں کہا کہ میں اس مریضہ کو دیکھ چکا ہوں اس میں اب کچھ نہیں رہا.دیکھنے کی ضرورت نہیں.تو ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب نے دیکھنے سے انکار کر دیا.مولوی غلام محمد صاحب فرماتے تھے کہ حضرت خلیفہ اول کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے ڈاکٹر صاحب موصوف پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے.پھر فرمایا کہ اب ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب سے کہیں کہ وہ دیکھیں.چونکہ ابھی تینوں ڈاکٹر اسی جگہ مہمان خانہ میں اکٹھے بیٹھے تھے اور ان کے سامنے ہی ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب نے دیکھنے سے انکار کیا تھا اس لئے یا کسی اور وجہ سے ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب نے بھی دیکھنے سے انکار کر دیا.اس کی اطلاع پہنچنے پر بھی حضرت خلیفہ اول نے ناراضگی کے وہی الفاظ دہرائے جو سید محمد حسین شاہ صاحب کے متعلق کہے تھے.میرے دل میں حضرت خلیفہ اول کے اخلاق حسنہ اور احسانات کی وجہ سے عشق کا رنگ پیدا ہو گیا تھا.اور میں خواہش مند رہتا تھا کہ ہر وقت آپ کے پاس ہی بیٹھا رہوں.ایک دفعہ رات کے تین بجے میری بیوی کا بخار بہت تیز ہو گیا.۱۸ نومبر ۱۹۱۰ء کو گھوڑی سے گرنے کی وجہ سے تکلیف کے باعث ان دنوں حضور مردانہ حصہ میں سوتے تھے اور احباب کو خدمت کرنے کا موقعہ ملتا تھا.میں حضرت کے حضور حاضر ہو کر چار پائی کے پاس خاموش ہو کر بیٹھ گیا.اتنے میں حضور کی آنکھ کھلی تو حضور نے اسلام علیکم کہا اور فرمایا.کیا بات ہے.میں نے بخار کا حال عرض کیا تو فرمایا پانی میں کپڑا تر کر کے ریڑھ کی ہڈی پر ملو یہاں تک کہ بخار کم ہو جائے اور فرمایا ہم دعا کریں گے.حضور کی دعا اور ارشاد سے بخار کم ہو گیا.اور میں نے اسی حالت میں ایک کشف دیکھا جس میں میرے بھائی امیر احمد مرحوم کی موت کی طرف اشارہ تھا.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ یہ بیان حضرت خلیفہ اول کی سیرت کے ایک درخشندہ پہلو پر روشنی ڈالتا ہے.حضور شدید بیمار ہیں.گھوڑے سے گر کر ی شیخ فضل احمد صاحب کہتے ہیں کہ شاید نا راضگی اس وجہ سے تھی کہ انہوں نے تعمیل حکم نہ کی اور دیکھنے سے انکار کر دیا.
۸۵ زخمی ہوئے ہیں اور مردانہ میں سونے کی تبھی ضرورت پڑی ہے.تا ساری رات بھی احباب خدمت میں رہ سکیں.ایسی حالت میں شیخ صاحب تبھی طبی مشورہ کے لئے حاضر ہو سکتے ہیں اور خدمت میں حاضر خدام بھی تبھی اجازت دے سکتے ہیں.جب سب کو حق الیقین ہو کہ حضور خدمت خلق کے لئے وقف ہیں اور ایسی شدید تکلیف میں بھی ایسے بے وقت مشورہ لینے کو ہرگز نا پسند نہ فرمائیں گے نہ صرف یہی بلکہ اسے باعث ثواب و موجب راحت سمجھیں گے.نیز یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ محترم شیخ فضل احمد صاحب حضور سے گہرا رابطہ رکھنے میں اور صاحب عزت ہونے میں خدام میں معروف تھے.آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ میری زوجہ اول کی بیماری کے ایام میں مجھے بڑی پریشانی رہی تھی اور یہ بُت میرے دماغ اور دل پر حاوی تھا کہ حضرت خلیفہ اول کے علاج سے مریضہ کو شفاء ہو جائے گی.دیگر وجوہات کے علاوہ دو بڑی بڑی وجوہات یہ تھیں کہ حضرت خلیفہ اول میرے مُرشد ہیں اور باخدا ہیں اور پھر طبیب بھی اعلیٰ درجہ کے ہیں.میں حضور کو بار بار دعا کے لئے عرض کیا کرتا تھا.ایک روز بوقت عصر حضور نے مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے پاس میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی جوان کو پیٹ درد ہوتی ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ ذرا چلنے پھرنے یا ورزش کرنے سے دور ہو جائیگی.جب دور نہیں ہوتی تو اپنی بیوی سے ذکر کرتا ہے جو کہتی ہے کہ میں ابھی چائے وغیرہ تیار کر کے دیتی ہوں اس سے آرام ہو جائے گا.جب اس سے بھی آرام نہیں آتا تو محلہ کے کسی طبیب سے دوائی پیتا ہے.پھر بھی آرام نہیں آتا تو شہر کے بڑے طبیب کے پاس جاتا ہے.اس کے علاج سے بھی آرام نہیں آتا تو اسے خیال آتا ہے کہ علاج سے تو شفاء نہیں ہوئی تو وہ کسی باخدا بزرگ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا حال عرض کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دنیا کے علاج معالجوں سے تو کچھ نہیں ہوا.اگر حضور نے دعا کی تو امید ہے شفاء ہو جائے گی.مگر جب اس باخدا بزرگ کی دعاؤں سے بھی فائدہ نہیں ہوتا تو وہ خدا کے حضور سجدہ میں گر جاتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ اے خدا میں نے سارا جہان دیکھ لیا مگر میری مصیبت دور نہیں ہوئی.اب تیرے دروازہ پر آیا ہوں.اب تو رحم فرما اور میرے گناہ بخش کر مجھے شفاء دے تو اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرتا ہے اور اسے شفا دے دیتا
۸۶ ہے.یہ فرما کر حضور مسجد مبارک کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگ گئے.اور میں بھی ساتھ مسجد مبارک میں چلا گیا.اغلبا ۱۹۱۳ء میں میں راولپنڈی سے مع اہلیہ اول دوماہ کی رخصت لے کر قادیان آیا.اور محترم قاضی عبدالرحیم صاحب کے مکان پر بطور کرایہ دار مقیم ہوا.ایک روز گھر آنے پر اہلیہ نے بتلایا کہ مولوی عبدالحی صاحب خلف الصدق حضرت خلیفہ اول آئے تھے اور مجھے گھر پر نہ پا کر واپس چلے گئے.مجھے فکر پیدا ہوا کہ کوئی خاص بات ہی ہوگی جو وہ میرے مکان پر آئے تھے.میں جلدی جلدی گیا تو وہ حضرت خلیفہ اول کے مکان کے بیرونی دروازہ پر ہی مل گئے.میں نے عرض کیا کہ آپ کو میرے مکان تک تکلیف کرنے کی کیا وجہ ہوئی.خیر تو تھی انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ چونکہ ابا جان کو آپ سے محبت ہے.اس لئے میں آپ کے دولت خانہ پر آپ کی ملاقات کے لئے گیا تھا.اور پھر باتوں باتوں میں مجھے کہا کہ آپ کی صحت اچھی نہیں.میں نے کہا کہ اپنی صحت کی طرف سے کچھ لا پر واہ سا ہوں.تو اس پر انہوں نے تعجب سے کہا کہ یہ جسم تو اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے اس کی ناقدری کرنی مناسب نہیں.خدا تعالیٰ نے یہ جسم اپنے کام کے لئے عطا کیا ہے.پس وہ چاہتا ہے کہ ہم اسے اچھی حالت میں رکھ کر اس کا کام کریں.مجھے اُن کے کلام سے تعجب ہوا کہ چھوٹی سی عمر میں کیسی باتیں کرتے ہیں ہیں.انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے ابا جان نے سورہ فاتحہ کے بہت سے معانی یاد کرائے ہیں یا پڑھائے ہیں.جن میں سے سینتیں مجھے یاد ہیں.پھر کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی اہلیہ صاحبہ کو بیماری سے شفاء کس طرح ہوئی.میں نے کہا نہیں تو بتایا کہ جن ایام میں آپ ابا جان کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا کرتے تھے.اُن ہی دنوں ایک روز ابا جان گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ فضل احمد کو اپنی بیوی سے بڑی محبت ہے اور ہمیں فضل احمد سے محبت ہے.ان کی بیوی کا ہر چند ہم نے علاج کیا مگر فائدہ نہیں ہوا.اس لئے ان کے لئے اب اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہیں.یہ کہہ کر حضور ایک مصلی پر جو صحن میں پڑا تھا سجدے ان کی تاریخ ولادت ۱۵ فروری ۱۸۹۹ء ہے.
۸۷ میں گر گئے اور بڑی دیر تک دُعا کی جس کے بعد وہ صحت یاب ہو گئیں.دوبارہ سرکاری ملازمت کرنا آپ نے رقم فرمایا: 1911ء میں ایک روز میری بڑی ہمشیرہ فیض بتول مرحومہ نے حضرت خلیفہ اول کے حضور عرض کیا کہ بھائی سرکاری نوکری چھوڑ کر آ گیا ہے اور اب گذارہ بڑی تنگی سے ہوتا ہے.قادیان میں تنخواہ کم ہے.اور کنبہ زیادہ ہے.آپ ان کو مشورہ دیں دریافت کرنے پر میں نے حالات عرض کئے.فرمایا کہ کیا کوئی افسر واقف ہے.اور ایجاب میں جواب دینے پر فرمایا.اس کو لکھو اور ملازمت کے لئے کوشش کرو.اور اس کے ساتھ ہی حضرت مولوی غلام محمد صاحب امرتسری اور حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری شاگردان خاص کی طرف اشارہ کر کے عجیب انداز اور جلال کے ساتھ فرمایا ہم تو ایسے لوگوں کو پسند کرتے ہیں اور ان کی محبت ہم جنت میں ساتھ لے جائیں گے (مفہوم) خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ مراد یہ ہوگی کہ اس قسم کے لوگ جو ہر تنگی ترشی میں گزارہ کر سکیں اور فدائیت اور بے قے کا ایک خاص مقام رکھتے ہوں ہے.چنانچہ میں نے اپنے ایک افسر کو نوشہرہ خط لکھا شاید دو روز میں ہی مجھے اس کا تار ملا کہ فورا نوشہرہ حاضر ہو کر رپورٹ کروں تار دکھلانے پر حضور خوش ہوئے اور اجازت دی میں نفسی نوشہرہ پہنچا تو فوراً چکدرہ بھجوایا گیا.پھر در گئی.پھر مالا کنڈ اور پھر چکدرہ بھیجا گیا.قلعہ چکدرہ میں میں بطور نائب سٹور کیپر کام کرتا تھا.میری شہرت ہو چکی تھی کہ احمدی ہوں اور احمد یوں کو لوگ مرزائی مرزائی کہتے اور کافر جانتے تھے.اس لئے وہاں کے نان بائی نے جو پٹھان تھا روٹی نہ دی اور جس آدمی کو میں نے روٹی لینے کے لئے بھیجا تھا کہ دیا کہ ہم اس کو روٹی نہیں دیں گے جب روٹی لانے والا وا پس آیا تو کافی رات ہو چکی ل استاذی المحترم حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری مدرس مدرسه احمد یہ قادیان بعد تقسیم ملک ربوہ میں فوت ہوئے.قریب کی اصحاب احمد کی ایک جلد میں آپ کے حالات شائع ہوں گے.بتوفیقہ تعالیٰ
تھی.چنانچہ چند پیڑے منگوا کر صبح بطور سحری کھا کے روزہ رکھ لیا.مگر بہت ضعف ہو گیا.دوسرے تیسرے روز سٹور کیپر کو جو ہندو تھا اس تکلیف کا علم ہوا تو اس نے سحری اور شام کی روٹی کا انتظام کر دیا.اور پھر وہ نانبائی بھی روٹی دینے لگ گیا.یوں اللہ تعالٰی نے احمدیت کا نام بھی پہنچا دیا اور مجھے مفت میں ثواب بھی عطا کر دیا.جب میں چکدرہ جانے لگا تو کسی نے بتایا کہ وہاں کا ملیریا کا موسم بہت خطرناک ہے اور وہاں تو پتھروں کو بھی ملیریا ہو جاتا ہے مجھے بہت فکر ہوا اور میں نے عاجزی سے دعائیں مانگیں دوسرے روز چکدرہ روانہ ہوا تو بہت خوف زدہ ہوا.اور چکدرہ آنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی دعا اللهُم رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْع (الخ) بہت عاجزی سے پڑھی اور بہت سوز سے دعائیں کیں.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ اگر کسی وباء زدہ شہر میں جانا پڑے تو اس دعا کے پڑھنے والے کو اللہ تعالیٰ اس وباء سے بچالے گا.قلعہ چکدرہ کے پاس دریا کا پانی وہاں کی فصل والی زمین میں سے گذرتا ہے جسے سب پیتے ہیں اس لئے ملیریا ہو جاتا ہے.وہاں میرے ایک ہم جماعت ہندو ڈاکٹر نے بتایا کہ مجھے چکدرہ میں متعین کیا گیا تو میں بہت فکر مند ہوا.کیونکہ سخت ملیریا کی وجہ سے یہاں کے ایک سو میں سواروں میں سے توے فیصدی بیمار ہو جاتے ہیں.مگر میری کوشش کے باعث اس دفعہ میں فیصدی کے قریب ہی بیمار ہوئے.میں نے کہا کہ اس کا باعث یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعانے میرے جیسے گنہگار کی زبان پر آکر اپنا خاص اثر دکھلایا ہے.اس ملازمت میں تین ماہ گزارنے پر میرے ایک مہربان افسر میجر اے ، ڈبلیو، ڈی، ہیر نگٹن کمانڈنٹ کیمل کور، راولپنڈی کی چٹھی آئی کہ جلدی ان کے پاس پہنچوں.شکر گزار ہوں کہ نوشہرہ والے افسر نے راولپنڈی جانے کی اجازت کے ساتھ پیشگی تنخواہ دلوائی.اور غالباً نومبر 1911ء میں راولپنڈی پہنچا.میجر صاحب مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے.اور حکم دیا کہ رہائش اُن کی کوٹھی پر ہی رکھوں.لیکن کسی کو علم نہ ہو کہ مجھے انہوں نے بلایا ہے.فیصلہ تقرری سے ایک روز پہلے مجھے راجہ راج ولی خاں صاحب کے ہاں بطور مہمان بھیجوا دیا.اور کہا کہ کل آفس آرڈر کروں گا.غرض حضرت خلیفہ اول کی دعاؤں کی برکت سے
۸۹ افسر مذکور نے مجھے ہی ملازم رکھا.جب کہ اس اسامی کے لئے دوسرے لوگ بڑی کوششیں کر رہے تھے.کیمل کور میں ہم دو ہی کلرک تھے اور پچاس پچاس روپے مشاہرہ پاتے تھے.دوسرے سردار ہری سنگھ ساکن پنڈی گھیپ تھے جو اکا ؤنٹنٹ کا کام کرتے تھے.اور میں باقی کا کام جو ہیڈ کلرک کا ہوتا ہے.اس افسر کے زمانہ میں میں نے بہت آرام پایا.مگر اس کے ماتحت ایک لفٹینٹ پر تھی سنگھ جو راجپوتانہ کے کسی ہندو سردار کی اولاد سے تھے.تبدیل ہو کر آگئے یہ شخص بڑا متعصب تھا.اور مجھے نفرت سے دیکھتا تھا.میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی سکھ ہمارے مکان میں سے گذرتا ہے.میری بیوی صحن میں بیٹھی ہوئی ہے اور اس کے بار بار گذرنے سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے.مگر پھر وہ ایسا گیا کہ پھر نہ آیا.میں نے اس خواب کی تشہیر کی اور بتایا کہ یہ لیفٹینٹ مذکور کے متعلق ہے.تھوڑے عرصہ کے بعد میجر ہرنگٹن کی جگہ میجر وارڈل تبدیل ہو کر آگئے.اُن کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ ڈاک وغیرہ لیفٹینٹ صاحب کھولا کرتے ہیں کہنے لگے.کہ آئیندہ سے میری ڈاک میری میز پر رکھا کریں.اور اس کو نہ دیں میرے اس حکم کی تعمیل کرنے پر لیفٹینینٹ پر تھی سنگھ کو بہت دکھ پہنچا.اور وہ ایک سال کی رخصت پر چلا گیا.واپس آیا تو کہنے لگا کہ ہم فضل احمد کی خبر لیں گے.یہ تو کہتا تھا میں واپس نہیں آؤں گا مگر دیکھ لو میں آگیا ہوں.اس کی خواب غلط نکلی ہے.خدا تعالیٰ کی قدرت ابھی چند ہی روز گذرے تھے کہ فیلڈ پر جانے کا حکم میرے ذریعہ میجر وارڈل صاحب نے اسے بھجوایا.اس طرح خدا تعالیٰ نے اسے دور کر دیا.اور اپنی بشارت پوری کر دی.حضرت خلیفہ اول کی طرف سے حضرت صاحبزادہ صاحب کا اکرام آپ بیان کرتے ہیں کہ میں اُس خطبہ جمعہ میں موجود تھا جس میں حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ سلیمان تونسوی بائیس ۲۲ سال کی عمر میں خلیفہ ہوئے اور اٹھہتر سال انہوں نے خلافت کی.(مفہوم) یہ خطبہ آپ نے غالباً غیر توسیع شدہ مسجد اقطے میں دیا تھا.حضرت خلیفہ اول حضرت صاحبزادہ صاحب ( خلیفہ ثانی) کا بہت احترام فرماتے تھے.اور اس بارے میں مکرم شیخ فضل احمد صاحب متعدد چشم دید واقعات تحریر کرتے
۹۰ ہیں.مثلاً آپ بیان کرتے ہیں : (1): ایک جلسہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ہوا تھا حضرت خلیفہ اول غالباً ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے.اور حضرت میاں صاحب نے کوٹ پہنے کا ارادہ کیا تو مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ حضرت خلیفہ اول آپ کو کوٹ پہنے میں مدد دے رہے ہیں.یہ نظارہ مجھے یاد ہے.(۲): غالبا ۱۹۱۳ء میں حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں خاکسار آپ کے دولت خانے میں حاضر تھا.اتنے میں حضرت میاں محمود احمد صاحب (خلیفہ ثانی) جو اُن دنوں میاں صاحب کہلاتے تھے.آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ کی آمد پر حضرت خلیفہ اول اپنی جگہ سے پہلے جیسے کوئی معزز مہمان کے لئے جگہ خالی کرتا ہے.اور خود سرک کر تھوڑا پرے ہو جاتا ہے.حضور نے ایسا کیا.ایسی عزت افزائی آپ کو کسی اور کی کرتے میں نے نہیں دیکھا.چونکہ میں حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بہت حاضر ہوتا رہا ہوں.اس لئے میں سمجھتا ہوں که دیگر افراد جو حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے ہیں.میری اس بات کی تصدیق کریں گے.(۳):۶، ۷ مئی ۱۹۱۱ء کو احمد یہ انجمن بٹالہ کا پہلا سالانہ جلسہ تھا.مکرم شیخ محمد عبد الرشید صاحب نے مجھے قادیان میں پیغام بھیجا کہ ہمیں یہ اطلاع تو مل چکی ہے کہ حضرت میاں صاحب ( یعنی حضرت خلیفۃ اسیح الثانی) امرتسر سے بٹالہ آئیں گے.(آپ امرتسر میں اپنے ماموں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اسٹنٹ سرجن سول ہسپتال امرتسر کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے ) اور جلسہ میں ایک تقریر کریں گے.احباب کی خواہش ہے کہ ایک کی بجائے یہ دونوں دن حضرت صاحبزادہ صاحب کی زیر صدارت جلسہ ہوا جس کے اہتمام میں حضرت شیخ عبدالرشید صاحب اور حضرت ڈاکٹر ماسٹر محمد طفیل صاحب کا خاص حصہ تھا.دیگر تقاریر حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ، حضرت حافظ روشن علی صاحب ، سردار محمد یوسف صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی وغیرہ ھم کی ہوئیں حضرت صاحبزادہ صاحب کی تقریر اول حقیقی مذہب کونسا ہے.“ پر تھی اور.جس قابلیت اور مؤثر طریق پر آپ نے اس مضمون کو ادا کیا وہ آپ ہی کا حق تھا اور حصہ تھا.دوسری.ضرورت الہام پر تھی یہ مضمون ایسے مؤثر اور پُر جوش طریق سے پیش کیا گیا کہ بعض آنکھیں بے اختیار پر نم تھیں.اور ایسا معلوم ہوتا تھا گویا حاضرین ایک سکتہ کے عالم میں ہیں سے
۹۱ آپ دو تقریر میں کریں.سو آپ حضرت خلیفہ اول سے جو آپ پر بہت مہربان ہیں اس کی منظوری حاصل کرنے کے لئے درخواست کریں.میں نے عرض کیا تو فرمایا کہ اس میں تو باپ والا رنگ ہے.میں اس کی ایک تقریر برداشت نہیں کر سکتا تو بٹالہ والے ایسے کہاں.آگئے کہ اس کی دو تقریر میں سُن لیں گے.(مفہوم) (۴): ۱۹۱۱ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بنیا د رکھنے کے لئے حضرت خلیفہ اول تشریف لائے.خاکسار بھی ان دنوں قادیان میں اور اس موقعہ پر موجود تھا.حضرت خلیفہ اول نے خود بھی بنیادی اینٹیں رکھیں اور ارشاد فرمایا کہ.(۱): حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (۲) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب (۳): حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب (رضی اللہ عنہم ) سے بھی رکھوائیں.اس موقعہ پر غالباً چالیس سے زیادہ افراد موجود تھے.آپ نے تقریر فرمائی کہ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نیک کام کے لئے چالیس مومن دعا کریں اللہ تعالیٰ وہ دعا قبول کر لیتا ہے.آؤ ہم بھی دُعا کریں کہ یہ عمارت بابرکت ہو اور اس میں نیک بچے تعلیم پائیں وغیرہ وغیرہ.پھر حضور نے بڑی دیر تک دُعا کی.سيرة حضرت خلیفہ اول آپ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی مجلس میں مجھے بکثرت بیٹھنے کا موقعہ ملا پہلے تو حضور مجھے ” آپ کے لفظ سے مخاطب فرماتے تھے.پھر ”اوئے“ کہہ کر جو اردو میں ”ارے کے مترادف ہے پکارنے لگے.جس سے مجھے بڑی خوشی ہوتی.کیونکہ اس لفظ سے خاص خادم یا بے تکلف کو پکارتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی دوسری تقریر کی بھی اجازت حاصل کر لی گئی ہوگی جس کا با بوفضل احمد صاحب کو علم نہیں ہوا ہوگا.یا یاد نہیں رہا ہوگا.بدرا امئی ۱۹۱۱ء (ص۱) میں اس جلسہ کا اور ۲۷ اپریل (ص1) میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی علالت کے باعث حضرت ام المؤمنین اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے امرتسر جانے کا ذکر ہے.تفصیل کے لئے دیکھیے البدر۳ اگست ۱۹۱۲ء یہ بنیاد ۲۵ جولائی ۱۹۱۲ء کو رکھی تھی نہ کہ ۱۹۱ء میں.
۹۲ حضور اس امر سے متاثر تھے کہ شیخ صاحب خطوط کے ذریعہ محبت بڑھاتے ہیں.چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں.ایک زمانہ تھا کہ میں آپ کی خدمت میں جلدی جلدی عریضہ دعا بھیجا کرتا تھا.ان دنوں کارڈ کی قیمت ایک پیسہ تھی.میں کارڈ لیتا اور بطور مثال یوں لکھتا: سیدی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ دعا کا محتاج ہوں اور طلب گار بقول آنانکه خاک را با نظر کیمیا کنند آیا بود که گوشه چشم بما کند مفہوم اس شعر سے میرے دل میں یہ ہوا کرتا تھا کہ حضور کو تو خدا تعالیٰ نے وہ توجہ اور کشش بخشی ہے کہ اگر آپ میرے جیسے خاک سے بھی بدتر انسان پر دعا اور توجہ فرمائیں تو میں سونا بن سکتا ہوں.پھر کبھی لکھتا.بحاجتے کہ خواہست با خدا! جانا چه حاجت آخر دے پرس که مارا کہ اے میرے پیارے ! اس حاجت اور دعا کو مد نظر رکھ لیں جو حضور کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنی ہے.اور سائل کی تڑپ کا اندازہ کر کے دیکھ لیں کہ آخر ہماری بھی حاجتیں اور خواہشیں ہیں.گو ہم گنہگار ہی سہی.پر آخر طلب اور تڑپ تو ہمارے اندر بھی ہے.غرض اس قسم کے اشعار گا ہے گاہے میں لکھتا رہتا تھا.آپ کے دل پر میرے ان عریضوں کا اثر ہوتا تھا.مگر مجھے علم نہ تھا کہ اثر ہے بھی کہ نہیں.اور اگر ہے تو کتنا.غالباً ۱۹۰۹ ء میں لاہور کے احباب جماعت نے احمد یہ بلڈنگز کے پاس ایک میدان میں جلسہ کیا.اس جلسہ میں حضرت خلیفہ ثانی نے (جن کو ان دنوں ہم میاں صاحب کہا کرتے تھے ) بھی تقریر کی.جس کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے تقریر کی اور اس میں کہا کہ ابھی آپ نے ایک بچے کی تقریر سنی ہے.اس سے اندازہ کر لیں کہ اس بچے میں وہی حضرت عیسے والی صفت ہے (مفہوم) میں حکیم فضل حق صاحب بٹالوی کو ساتھ ساتھ لئے جلسہ دکھا رہا تھا.انہوں
۹۳ نے ابھی تک احمدیت قبول نہ کی تھی.وہ گھبرا کر اور تنگ آکر کہتے تھے کہ چلو چلیں.بہت کچھ سُن لیا.مگر میں ان کو ایک جانب سے ہٹا کر دوسری جانب لے جاتا.اور چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ کوئی کلام سُن کر احمدی ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کی نظر دلوں پر ہوتی ہے.ہم جلسہ کے اردگرد پھر رہے تھے کہ جناب خواجہ کمال الدین صاحب کی تقریر شروع ہوئی.اب حکیم صاحب نے مجھے کہا کہ ہم کہیں بیٹھ جائیں.اور تقریر سنیں.میں خوش ہو گیا.اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.خواجہ صاحب کی تقریر کے بعد کسی اور کی تقریر ہوئی یا نہیں مجھے یاد نہیں.مگر شام ہونے کو آئی تھی.کہ حکیم فضل حق صاحب نے مجھے کہا ابھی ابھی کہیں سے کارڈ لیں اور میری بیعت کا خط حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں لکھ دیں باتیں کرتے کرتے ہم ڈبی بازار میں پہنچے.وہاں ہمارے بٹالہ کے ایک مفتی صاحب سب پوسٹ ماسٹر تھے.اُن سے کارڈ لیا اور بیعت کی درخواست تحریر کر کے سنہری مسجد کے پاس لیٹر بکس میں ڈالی.اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.کچھ دنوں بعد بٹالہ جانے پر میں حکیم صاحب کو حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں لے گیا.مسجد اقصٰے میں حضور تشریف فرما تھے.حضور نے حکیم صاحب کو میری طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ خطوط کے ذریعہ محبت بڑھانا ان سے سیکھیں.اس وقت مجھے سمجھ آیا کہ میرے خطوط کا حضور کے دل پر اتنا اثر تھا کہ حضور نے توجہ دلائی کہ اپنے مُر شد و آقا کو عریضہ دعا بھیجتے رہنا چاہیئے.آپ نے حضرت خلیفہ اول کے متعلق بہت مفید باتیں رقم کی ہیں جو حضور کی سیرت کے سلسلہ میں نہایت بیش قیمت اور انمول ذخیرہ کا اضافہ ہے جو مندرجہ ذیل گوشوں کو نمایاں کرتا ہے اللہ تعالیٰ سے مستقل تعلق ہونا ، ذکر الہی میں مشغولیت قرآن مجید اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور اس کا علم عطا ہونا ، آپ کی جاز بیت الحب والبغض والتصح للہ تحدیث بالعمة، غریب و یتیم پروری ، تلقین صبر و رضا بالقضاء مشفقانہ امتحان لینا، بائیبل کی تعظیم، تکلفات سے نفرت.اکرام ضیف ، انکسار، کام کو عار نہ سمجھنا، پُر اُمید رہنا جانوروں سے حسن سلوک، بطلان وحدۃ الوجودیت، خدمت کا دوسروں کو موقعہ دینا، مہاراجہ سے خائف نہ ہونا بلکہ مہاراجہ کا آپ سے مرعوب ہونا ، غرباء کے السابقون بالا یمان ہونے کی حکمت، حسابا بسیرا کی لطیف تفسیر شام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل کبھی بھوکا نہ رہنا، اللہ تعالیٰ سے خائف ہونا، آپ کے خدام میں مثیل سلیمان ہونا.انہی عنوانات سے ان ذیل
۹۴ کی باتوں کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے آپ نے بیان فرمایا : (۱) ذکر الہی حضرت خلیفہ اول نماز عصر سے نماز مغرب تک تنہائی میں درود شریف پڑھا کرتے تھے.اور فرماتے تھے کہ جمعہ کے روز نماز عصر میں ایک خاص گھڑی دعا کی قبولیت کی آتی ہے.(۲) قبولیت دعا ایک روز آپ نے فرمایا کہ ایک احمدی فوجی انڈین آفیسر ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ حضور دعا فرمائیں کہ میں لڑائی میں بھی نہ جاؤں اور مجھے تمغہ بھی مل جائے.میں نے کہا کہ ہمیں تو آپ کے قواعد کا علم نہیں.معلوم نہیں تمغہ کس طرح ملا کرتا ہے.اس نے کہا کہ میڈل اسے ملتا ہے جو لڑائی میں جائے.میں نے کہا کہ پھر آپ کو بغیر لڑائی میں جانے کے کیونکر مل سکتا ہے.وہ کہنے لگے کہ حضور دعا فرمائیں.ہم نے کہا کہ اچھا ہم دعا کریں گے کچھ عرصہ کے بعد وہ آئے اور بتلایا کہ حضور کی دعا سے مجھے تمغہ مل گیا ہے اور دریافت کرنے پر بتلایا کہ میں BASE میں تھا.کہ میرے نام حکم پہنچا کہ لڑائی کے میدان میں پہنچو.میں ڈرا مگر چل پڑا.ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا مگر وہ حد پار کر چکا تھا.جس کے عبور کرنے پر ایک فوجی افسر تمغہ کا حقدار متصور ہوتا ہے کہ پھر حکم ملا کہ واپس چلے آؤ.صبح ہوگئی ہے اور لڑائی بند ہے.اس طرح حضور کی دعا سے میں لڑائی پر بھی نہیں گیا اور مجھے تمغہ بھی مل گیا.میں اپنی جوانی اور بچپن میں بہت دبلا پتلا تھا.جب میں ڈلہوزی سے استعفاء دے کر آیا اور حضرت خلیفہ اول سے پھر ملازمت کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے استعفاء کا حال سن کر فرمایا کہ تم نے انبالہ سے کیوں تبدیلی کرائی تھی.عرض کیا کہ وہ نوکری پنشن والی نہ تھی.تو فرمایا کہ تم کو کیا علم ہے کہ تمہاری زندگی اتنی ہی لمبی ہوگی کہ تم پنشن پاؤ گے.مجھے یقین ہے کہ حضور نے میری اس خواہش کا خیال رکھتے ہوئے جہاں میری ملازمت وغیرہ کے لئے دعا فرمائی ہوگی.وہاں میری عمر اور پنشن کے لئے بھی دعا کی ہوگی.کیونکہ میرے وہم میں بھی نہ آتا تھا کہ میں اتنی عمر پاؤں گا.یعنی چوراسی سال اور میں قریباً تیس سال سے پنشن
۹۵ پا رہا ہوں.(۳) عشق رسول اللہ صلعم ایک روز میں آپ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا دیکھا کہ آپ ایک ہلکے گلابی رنگ کے پھول کو کبھی بوسہ دیتے ہیں اور پھر اسے اپنی آنکھ پر رکھتے ہیں اور بار بار ایسا کرتے ہیں کچھ دیر بعد فرمایا کہ مجھے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد آرہی تھی.حضور کے رخسار مبارک بھی ایسے ہی گلابی رنگ کے تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پاک لوگوں کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر محبت ہوتی ہے.(۴) بائکمیل کی تعظیم شیخ محمد تیمور صاحب ایم اے حضرت خلیفہ اول کے ہاں رہتے تھے اور آپ ان سے بڑے پیار اور محبت سے پیش آتے تھے.انہوں نے ایک دن کوئی کتاب آپ کے مکان میں ایک طاق میں کتابوں کے اوپر رکھ دی حضرت کی نظر پڑ گئی.چونکہ وہ کتاب بائیبل کے او پر رکھی گئی تھی.فرمایا کہ تو رات اگر چہ محرف و مبدل ہے مگر پھر بھی خدا کی کتاب ہے.اس کا ادب کرنا چاہیئے.اور اس کے اوپر کوئی معمولی کتاب نہیں رکھنی چاہیئے.(مفہوم) (۵) تکلفات سے نفرت ایک دفعہ مطب سے آپ جانے لگے تو ہم سب اُٹھ کر کھڑے ہو گئے.اور آپ کی واپسی پر پھر کھڑے ہو گئے.فرمایا کہ میں تمھارے اٹھنے بیٹھنے پر خوش نہیں ہوتا.(مفہوم) گویا حضور اسے ایک رسمی عزت سمجھتے تھے.اس لئے ایسی عزت افزائی کو کچھ خیال میں نہ لاتے تھے.(۶) اکرام ضیف ایک موقعہ پر آپ کی زیارت کے لئے بہت سے احباب آپ کے مکان پر جمع تھے.بابا عبدالحمید صاحب پٹیالوی اور میں پیچھے سے آئے.بابو صاحب موصوف نے کہا
۹۶ کہ کھڑے ہوئے احباب کے پیچھے بیٹھ جاؤ.ہمیں آپ تک پہنچنے میں قریباً ایک گھنٹہ لگ گیا.جب ہم دونوں آپ کے پاس پہنچے تو بابو صاحب کو دیکھتے ہی آپ نے پوچھا کہ آپ کے مزاج اچھے ہیں.اتنے میں کوئی دوست سنگترے لایا.فرمایا کہ اتنے سنگترے بیوی صاحبہ ( یعنی حضرت ام المومنین ) کو بھیج دیئے جائیں اور کچھ اندر زنانہ میں.اور ایک سنگترہ مجھے دیا.جس سے میں نے سمجھا کہ حضور کو میرے حال پر توجہ ہے.(۷) الحُبّ والبغض لله را ولپنڈی سے آمدہ ایک احمدی دوست سے عند الملاقات حضرت خلیفہ اول نے کمال مہربانی سے خاکسار کا حال پوچھا تو ان صاحب نے اپنی خاص طرز سے جس میں مذاق کا رنگ زیادہ ہوتا تھا.عرض کیا کہ فضل احمد تو کوئی راجہ اترا ہوا ہے.اس کے مکان پر بڑے کھانے تیار ہوتے رہتے ہیں.فرمایا کہ اگر ان کے پاس اتنا روپیہ ہے تو وہ ہمیں کیوں نہیں بھیج دیتے تا کہ غرباء پر خرچ کیا جائے.واپس آکر ان صاحب نے یہ واقعہ سنایا تو مجھے بہت رنج ہوا.میں نے خیال کیا کہ میں حضرت کی دعاؤں سے محروم ہو گیا ہوں اور حضور مجھ پر ناراض ہیں.میں نے کہا کہ میں کہاں کا راجہ ہوں.آپ نے یہ کیا کہہ دیا ؟ اسی انداز میں یہ صاحب کہنے لگے.کہ قادیان جانے سے پہلے میں آپ کے پاس آیا تو دیکھا کہ بڑے کھانے پک رہے ہیں.میں نے بتایا کور (CORPS) والے میری دعوتیں بار بار کر رہے تھے.اس لئے میں نے بھی سب کی دعوت کر دی تھی.کچھ عرصہ بعد میں قادیان گیا تو حضور کو اپنے مکان کے صحن میں کھڑا پایا.السلام علیکم عرض کیا.تو فرمایا کہ ہم آپ پر خوش ہیں.مگر قدرے ناراض بھی.عرض کیا کہ خوشی تو خوشی ہی ہے.میں حضور کی ناراضگی کو بھی اس رنگ میں دیکھتا ہوں کہ آخر حضور مجھے اپنا خادم ہی سمجھتے ہیں.جبھی تو ناراضگی کا ذکر فرماتے ہیں.اگر یہ خادم غیر ہوتا تو حضور ناراض نہ ہوتے.اس پر حضور بڑے خوش ہوئے.الحمد للہ کہ غالبا ان صاحب کی بات سے پیدا شدہ ناراضگی کی بات آئی گئی ہوگئی.اور حضور بھی خوش ہو گئے.
۹۷ (۸) احباب سے محبت ایک روز آپ اپنے مکان کے صحن میں قرآن کریم کا درس دے رہے تھے کہ شیخ عبدالرزاق صاحب برادر زادہ مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب مالک بمبئی ہاؤس لاہور بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے ولایت سے آئے حضور اٹھ کر اُن سے گلے ملے اور بڑی محبت سے خوش طبعی سے فرمایا کہ آپ لندن کا حج کر آئے ہیں آپ سے بھی معانقہ کر لیں (مفہوم)...میرے ایک عریضہ کے جواب میں تحریر فرمایا: دو میں تمہارا خیر خواہ ہوں.مجھے کبھی شوق نہیں ہوا کہ میں کسی کا علاج کروں.(۹) دوسروں کو خدمت کا موقعہ دینا آپ کا کھانا حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی طرف سے آیا کرتا تھا.ایک شام کھانا آیا.تو اس میں شامی کباب بھی تھے.حضور نے ایک روٹی پر شامی کباب رکھ کر سید عابد علی صاحب بد و ملهوی کو دی.انہوں نے یہ روٹی اور کباب مجھے دے دیئے میں نے اس تبرک میں سے کچھ کھایا.اور بقیہ سید صاحب کو واپس کر دیا.انہوں نے دیگر احباب میں یہ تبرک تقسیم کر دیا.غالبا ۱۹۰۸ء میں خاکسار قادیان آیا.میرے پاس زیادہ روپیہ نہ تھا.میں نے چند پیسوں کے کیلے بٹالہ سے خریدے.مگر یہ کیلے تازہ نہ تھے.بلکہ سیاہ رنگ کے ہو چکے تھے اور تھے بھی چھوٹے چھوٹے.وہی لے کر شرمندہ شرمندہ حضرت خلیفہ اول کے حضور پہنچا.جب یہ کیلئے پیش کئے اور دل ہی دل میں خوف زدہ ہو رہا تھا کہ حضور شاید نا پسند کریں گے.مگر میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی کہ حضرت نے خوشی سے لے کر کھانے شروع کر دئے.ایک یا دو حضور نے میرے سامنے کھائے اور باقی اپنے پاس رکھ لئے.الحمد لله ثم الحمد لله محترم شیخ فضل احمد صاحب اس میں لکھتے ہیں کہ اس قسم کی محبت اور بات سے نوجوان عاشق و شیدا ہو جاتے ہیں.آگے حصہ خط کا پڑھا نہیں جاتا.(فضل احمد )
۹۸ (۱۰) تعبیر رویا ایک دفعہ میں نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں اپنی یا اپنی اور زوجہ اول کی خواب لکھی جس میں یہ ذکر تھا کہ وہ حج کر کے آئی ہیں.اور اپنی خواب میں بیت الخلاء کا ذکر کیا.جواب میں آپ نے رقم فرمایا: " آپ کی بی بی انشاء اللہ تعالیٰ اپنے کسی مطلب میں کامیاب ہوگئی ہے.یا کامیاب ہو جائے گی.آپ کے متعلق بھی کامیابی کی امید ہے.مگر بیت الخلاء سے پتہ لگتا ہے کہ کچھ آپ کا خرچ ہو جاوے.۲۸ جون ۱۹۱۰ء 1911ء میں یہ تعبیر ظاہر ہوئی کہ میں کامیاب ہو کر کیمل کور میں بطور کلرک ملازم ہو گیا اور بعد میں ہیڈ کلرک ہو گیا.(11) اصبح الله ایک دفعہ درخواست پر تحریر فرمایا: میں نے آپ کا اخلاص بھرا رقعہ پڑھا.قرآن میں لکھا ہے.وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ اَبْوَابِهَا ہر ایک کام کا ایک دروازہ ہوتا ہے.اور اس ذریعہ سے وہ کام بابرکت ہوتا ہے.میری سمجھ میں ایسا آتا ہے کہ آپ اس آیت کو نہیں سمجھے سمجھ ( دینا) ہے اصل میں اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے.میں نے تینوں کے لئے دعا کی ہے.اللہ تعالیٰ سمجھ دے دے گا.خطوط وحدانی کا لفظ خاکسار مؤلف کی طرف سے ہے.والسلام نورالدین راقم فضل الرحمن اگست ۱۹۰۸ء : متینوں سے مراد زوجہ اول.میری چھوٹی ہمشیرہ حمیدہ مرحومہ اور خاکسار فضل احمد.
۹۹ (۱۲) مشفقانه امتحان ایک روز میری آنکھ میں سُرخی اور درد پیدا ہو گیا.میں نے حاضر ہو کر حال عرض کیا.حضرت حکیم مولوی غلام محمد صاحب امرتسری کو جو طبیب تھے اور حضور کے خادم خاص بھی.فرمایا کہ ان کی آنکھ میں وہ دوائی ڈالو جو کل یا پرسوں کسی نے بھیجی تھی.میں دوسرے روز آیا تو میری آنکھ بہت سوجی ہوئی تھی.اور بالکل بند تھی.حضرت خلیفہ اول نے مجھے فرمایا کہ اندر کے کمرہ میں میری کتابیں درست کر کے رکھی جارہی ہیں.تم بھی وہاں جا کر دوسرے احباب کے ساتھ کام کرو.میں نے کام کرنے کے لئے حکیم غلام محمد صاحب کو کہا.تو انہوں نے کہا کہ فلاں کتاب فلاں جگہ رکھ دو.حضور کے ارشاد کی تعمیل ہو جائے گی.ورنہ آپ کی آنکھ کی تکلیف تو کسی کام کی اجازت نہیں دیتی.یہ حضور نے آپ کا امتحان لیا ہے.جب سب احباب کام کر کے آگئے.اور میں بھی حاضر ہو گیا.تو میری آنکھ دیکھ کر حکیم صاحب کو فرمایا کہ ان کی آنکھ تو بہت خراب ہے اب فلاں دوائی ان کی آنکھ میں ڈالیں.(۱۳) پُر اُمید ہونا جس روز حضرت خلیفہ اول کو چوٹ لگی تھی.میں اسی دن بٹالہ سے قادیان پیدل جا رہا تھا.اور بھائی عبدالرحمن صاحب قادیان سے پیدل بھاگتے جاتے ہوئے نہر کے پل کے قریب مجھے ملے.قادیان جا کر علم ہوا کہ آپ کو بہت سخت چوٹ آئی ہے.جس سے سخت صدمہ ہوا.کچھ عرصہ کے بعد آپ قدرے صحت یاب ہو گئے.مگر کبھی کبھی تکلیف بڑھ جاتی تھی.ایک روز تکلیف زیادہ تھی.حضور کا حکم تھا کہ جو دوست اندر آئے السلام علیکم کہے.اپنا نام بتلائے اور واپس چلا جائے.خاکسار نے بعد سلام مسنون اپنا نام بتلایا تو فرمایا.فضل فضل فضل معلوم ہوتا ہے کہ میرے نام سے حضور نے فال لی ہوگی کہ اب فضل ہو جائے گا.(۱۴) قرآن مجید سے عشق حضرت خلیفہ اول کے گھوڑے سے گرنے کے بعد ایک شام آپ حفاظ سے قرآن "
کریم سُن رہے تھے.حافظ قاضی عبدالرحمن صاحب نے سورہ محمد سنائی.فرمایا کہ عام طور پر حفاظ یہ سورت نہیں پڑھا کرتے کیونکہ اس میں ترنم کم ہوتا ہے.(مفہوم) غالباً اسی شام حافظ محمود اللہ شاہ صاحب اور حافظ عزیز اللہ شاہ صاحب نے قرآن سنایا تو فرمایا کہ مجھے تمہارے ماں باپ پر رشک آتا ہے.کہ کیسی نیک اولا د اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے ہو.(۱۵) بطلان وحدت الوجودیت ایک موقعہ پر باتیں کرتے ہوئے آپ کو علم ہوا کہ حکیم فضل حق صاحب بٹالوی کے والد شیخ نور احمد خان صاحب میرے ماموں زاد بھائی ہیں.تو آپ نے مجھ سے ان کے حالات دریافت فرمائے.میں نے کہا کہ حضور کے وہ عاشق ہیں.مگر ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے خدا تعالیٰ ہی کراتا ہے.فرمایا کیا چکلے خدا تعالیٰ نے خود بنوائے ہیں.میں نے عرض کیا کہ حضور اتفاق سے میری زبان سے بھی اسی قسم کے الفاظ نکلے تھے.(۱۲) تلقین صبر ورضا بالقضاء غالب خیال ہے کہ میں اس درس میں موجود تھا.جبکہ حضرت خلیفہ اول نے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے اولم خم شکست و شکست و سر که بریخت من نه که این زیانم کرد ر منظم بعد از آن عوضم خم صافی صد و شادمانم کرد داد ہر دو فرزندان حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب یہ قدرے تفصیل کے لئے دیکھئے.تا بعین اصحاب احمد جلد سوئم ( یعنی سیرت حضرت ام طاہر ) ** محترم حکیم صاحب تقسیم ملک کے بعد لاہور میں فوت ہوئے.آپ حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب مجاہد مغربی افریقہ کے خسر تھے.منارة امسیح پر نمبر ۱۰۰ پر آپ کا نام کندہ ہے.
1+1 کہ پہلے تو اس نے میرا خم توڑ دیا اور میرا سر کہ جو اس میں تھا گرا دیا.مگر میں نے کوئی گلہ نہ کیا.کہ کیوں میرا نقصان کر دیا.اس کے بعد یک صد خم عمدہ سر کہ کے مجھے صبر کے بدلہ میں دیئے اور مجھے خوش کر دیا (مفہوم) اس سے حضور نے سمجھایا کہ صبر کرنے والوں کو صبر سے بڑا انعام ملتا ہے.(۱۷) ایک دفعہ میں حضرت خلیفہ اول کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے اپنی پریشانی حال کا ذکر کیا.اس وقت اکبر شاہ خاں صاحب بھی حضور کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے.حضور نے ان سے کہا کہ ان کو اس شعر کے معنی و مطلب سمجھائیں.سرنوشت ما بدست خود نوشت خوش نویس است و نخواهد بد نوشت اکبر شاہ خاں صاحب نہ سمجھا سکتے تھے.حضور کے سامنے کچھ بیان کرنا کارے دارد تھا.اس لئے حضور نے بیان فرمایا کہ جو خوش نویس ہوتا ہے وہ معمولی سی قلم سے بھی کچھ لکھے تو دوسروں کی نسبت اچھا لکھ لیتا ہے.بُرا لکھ ہی نہیں سکتا.جو کچھ بھی لکھے گا اچھا ہی ہو گا.(مفہوم) اور اس طرح سائل کو تسلی دلائی.(۱۸) کام کو عار نہ سمجھنا مسجد اقصیٰ کی توسیع خلافت اولی میں ہوئی تو اس موقعہ پر میں بھی قادیان میں تھا.میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول خود نیچے اترے اور ٹوکری مٹی کی بھری ہوئی اٹھانے لگے.احمدی احباب نے جلدی ہی وہ جگہ صاف کر دی.مٹی باہر نکلوائی گئی.اور تعمیر کا کام شروع ہوا.(۱۹) یتیم پروری و غریب پروری ایک روز میاں عبدالوہاب صاحب حضرت کے پاس آئے.آپ کوئی کتاب مطالعہ
۱۰۲ کر رہے تھے.اور پیسے مانگے.آپ خاموش رہے.پاس ہی ایک زمیندار بھائی بیٹھے تھے وہ اپنے پاس سے کچھ دینے لگے.آپ نے انہیں منع فرمایا.انہوں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ اس طرح بچوں کے اخلاق خراب ہو جاتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے والد کے پاس جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں.وہ ہمیں کچھ نہ کچھ دیں گے.تھوڑی دیر تک آپ نے اپنے بچے کو کچھ نہ دیا اور وہ خاموش کھڑے رہے.اس وقت ان کی عمر غالباً تین چار سال ہوگی.مگر تھوڑی دیر میں ایک یتیم بچہ آیا اور اس نے شاید رضائی بنوانے کے لئے پندرہ ہیں روپے کا مطالبہ کیا جو آپ نے فوراً پورا کر دیا.ایک دن میں آپ کی خدمت میں حاضر تھا.وہاں ایک نوجوان لڑکا جو زمیندار معلوم ہوتا تھا.اور بہت غریب تھا بیٹھا تھا.اتنے میں ہمارے بعض احمدی بھائی جن میں ایک ذیلدار اور کچھ معزز زمیندار تھے آئے.اور تھوڑی دیر بعد اس غریب لڑکے کے متعلق سفارش کے طور پر عرض کیا کہ یہ واقعی غریب ہے.حضور خاموش رہے.جب ان افراد نے دوبارہ یہی بات کہی تو آپ نے حضرت حکیم صوفی غلام محمد صاحب امرتسری کو ارشاد فرمایا کہ وہ بتلائیں کہ ہم اس نوجوان کے لئے کیا کر رہے ہیں.صوفی صاحب نے بتایا کہ آپ نے اس کے لئے پہلے فلاں اٹھارہ یا بیس روپے کی دوائی لاہور سے منگوائی جو موافق نہ آئی.پھر آپ نے فلاں دوائی منگوائی جس پر اتنے روپے خرچ ہوئے.پھر اس کے لئے پر ہیزی کھانے کا انتظام کیا ہوا ہے.اور اسے علیحدہ مکان دیا ہوا ہے اور اس پر بہت سا خرچ اب تک کیا ہے.حضور نے ان زمیندار بھائیوں سے کہا کہ اگر ہمیں الہی خوف یا فرمایا الہی محبت نہ ہوتی تو کس طرح ہم اتنا خرچ اس پر کرتے.یہ بیچارہ تو بالکل نادار ہے.تمام حاضرین حضور کی فیاضی پر متعجب ہوئے.(۲۰) جانوروں سے حسنِ سلوک جانوروں سے حسنِ سلوک کا آپ کو ہمیشہ خیال رہتا تھا.آپ کے سامنے کوئی بھینس لے کر آیا.اس نے گوبر کر دی.لوگوں نے بُرا مانا اور تھوکنے لگے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ تمہارے پاخانہ سے تو زیادہ بد بودار نہیں.
۱۰۳ (۲۱) جاذبیت غالباً ملتان کے رہنے والے حضرت خلیفہ اول کے ایک غیر احمدی دوست جو بیمار تھے آپ کے پاس آئے.آپ نے بڑی محبت اور محنت سے ان کا علاج کیا.شفایاب ہو کر انہوں نے بعض داڑھی منڈے نوجوانوں پر اعتراض کرتے ہوئے آپ سے کہا کہ ایسے لڑکوں کو تنبیہ کرنی چاہیئے فرمایا آپ بھی عالم ہیں آپ کا بھی حق ہے کہ نصیحت کریں.انہوں نے مسجد اقطے میں غالباً صوبہ سرحد کے ایک نوجوان کو کچھ تنبیہ کی.تو وہ نوجوان غصہ سے بھر گیا.اور کہنے لگا ہم کو تو صرف حضور کا ڈر ہے.ورنہ تمہیں اٹھا کر مسجد سے باہر پھینک دیتے.مولوی صاحب نے آپ کی خدمت میں یہ بات سنائی تو فرمایا کہ یہ دن ہمارے ہی قابو میں ہیں.مراد یہ تھی کہ آپ لوگوں کی نصیحت پر یہ بے قابو ہو جاتے ہیں.ہمارے کہنے پر عمل کرتے ہیں.غیروں کے بس میں نہیں.(مفہوم) (۲۱) غرباء کے السابقون بالایمان ہو نیکی حکمت ایک روز فرمایا کہ اگر انگلستان کا بادشاہ جو ان دنوں ایڈورڈ ہفتم تھا.احمدی ہو جائے اور اس کے دل میں جوش پیدا ہو کہ میں اپنے مُرشد و آقا کی زیارت کے لئے قادیان جاؤں اور وہ اپنے وزیر اعظم کو حکم دے کہ ہم قادیان جائیں گے.ہمارے لئے جہاز تیار کیا جائے.تو وزیر اعظم بھی فوراً کہے گا کہ مجھے بھی اجازت ہو کہ آپ کے ہمراہ جاؤں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جہازوں کا ایک قافلہ قادیان آنے کے لئے تیار ہو جائے گا.اور وہ آخر کار جہازوں سے اتر کر سپیشل ٹرینوں میں بٹالہ آئے گا.تو پہلا حکم یہ ہوگا کہ بادشاہ سلامت قادیان جارہے ہیں.کوئی شخص بٹالہ قادیان کی سٹرک پر نہیں چل سکتا.پھر فرمایا قادیان پہنچ کر بادشاہ حضرت کے حضور حاضر ہوتا ہے.بے شمار تحفے تحائف حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کرتا ہے.اور کچھ روز رہ کر واپس ولایت چلا جاتا ہے.وہاں جا کر اسے خیال آتا ہے کہ میں نے حضرت صاحب کو کیا کچھ دیا.بیشمار تحفے تحائف اور اُنھوں نے مجھے کیا دیا کچھ نہیں.میں جیسا پہلے بادشاہ تھا.اب بھی ویسا ہی بادشاہ ہوں.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس
۱۰۴ کے دل میں وہ عزت اور عظمت نہ رہے گی.اور ایک منافقانہ کیفیت دل کی ہو جائے گی.دوسری طرف یہ معاملہ ہے کہ ایک غریب شخص حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو کر ایمان لاتا اور بیعت کرتا ہے.حضور کی دعاؤں کی برکت سے اعلیٰ سے اعلیٰ عہدہ پر پہنچتا ہے.تو وہ حضور کے احسان کو دیکھ کر قربان ہو جاتا ہے اور کہتا ہے.میں غریب اور نادار تھا.حضور کی غلامی سے کیا سے کیا بن گیا.اور وہ اخلاص میں ترقی کر جاتا ہے.پھر فرمایا کہ یہ حکمت الہی ہے جو بڑے بڑے لوگ سابقون میں نہیں آتے.غرباء ہی آتے ہیں.اگر پہلے بادشاہ آئیں تو وہ منافق بن جائیں گے.مگر غرباء ایمان لا کر بادشاہ بن جاتے ہیں اور ایمان میں ترقی بھی کر جاتے ہیں.(مفہوم) (۲۲) حساباً يسيراً كى لطيف تفسیر ایک روز حکیم غلام محمد صاحب امرتسری نے عرض کیا کہ قرآن شریف میں جو حساباً يسيراً آتا ہے اس کی تفسیر کیا ہے.سمجھائیں کہ وہ کس طرح ہوگا فرمایا.اچھا.کچھ دن گذر گئے اور اس اثناء میں جو رقم حضور کے پاس نذرانہ وغیرہ کی آئی.آپ حکیم صاحہ موصوف کو اپنے پاس رکھنے کی ہدایت کرتے اور جو خرچ آپ کی طرف سے ہوتا اُٹھی کے ہاتھ سے کرواتے.ایک دن حضور نے ان سے کہا کہ نذرانے وغیرہ کی جو رقم آپ کے پاس ہے اس کے حساب لکھ کر لائیں کہ کیا کچھ آیا.کیا خرچ ہوا اور باقی کیا ہے.چونکہ موصوف کو یہ خیال اور وہم بھی نہ تھا کہ آپ حساب طلب فرمائیں گے.اس لئے وہ نذرانہ وغیرہ کی رقم لے لیتے اور مطابق حکم خرچ کرتے رہے تھے.حساب مانگنے پر بہت گھبرائے اور لگے حساب لکھنے.مگر حساب لکھا ہوا تو تھا نہیں.محض یاد کی بناء پر کچھ لکھا.کچھ یاد نہ آیا.دیر ہوگئی.آپ بار بار حساب طلب فرماتے.ایک روز جب فرمایا کہ جلدی حساب لاؤ.تو وہی جو تھوڑا بہت لکھا تھا ڈرتے ڈرتے لے گئے.تو حضور نے دیکھ کر پوچھا کہ حساب میں فلاں فلاں آمد اور فلاں فلاں خرچ درج نہیں تو حکیم صاحب کی گھبراہٹ کی کوئی حد نہ رہی.یہ حال دیکھ کر فرمایا.مولوی صاحب ہم جانتے ہیں آپ دیانت دار ہیں.آپ نے خیانت نہیں کی.جاؤ حساب ٹھیک ہے.پھر فرمایا آپ حساباً يسيراً کی تفسیر پوچھتے تھے.اسی طرح قیامت
۱۰۵ میں بھی ہو گا.تب مولوی صاحب کی جان میں جان آئی.یہ مفہوم تھا اس واقعہ کا جو خود مولوی غلام محمد صاحب نے مجھے سنایا تھا.(۲۳) برکت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھوکا نہ رہنا فرمایا کہ ایک دفعہ ہم مہاراجہ کشمیر کے ساتھ سفر میں تھے کہ راستہ میں لوگ منتشر ہو گئے.اور مہاراجہ اور میں اور مہاراجہ کے ایک دو ملازم باقی رہ گئے.رات کو ایک ڈاک بنگلہ پر پہنچے تو دل لگی سے راجہ نے کہا کہ آپ کہا کرتے ہیں کہ میں رات کو بھوکا نہیں رہ سکتا.اب دیکھئے کیا ہوتا ہے.میں نے کہا کہ یہ درست ہے.میرے ساتھ بادشاہ ہے میں بھوکا نہیں رہ سکتا.راجہ نے خیال کیا بادشاہ سے مراد وہ خود ہیں.اور اپنے ساتھ جو ملازم تھے ان کو حکم دیا کہ مولوی صاحب کے لئے کھانا لاؤ خواہ کہیں سے لا ؤ اور ان کو رات ہرگز بھوکا نہ رکھا جائے.ملازم میرے لئے کہیں سے کھانا لائے اور مجھے جگا کر کھلایا.صبح ہوئی تو میں نے مہاراجہ سے کہا کہ آپ نے دیکھ لیا کہ کس طرح میرے بادشاہ ( مراد حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے رات کھانا بھجوایا.غالبا ۱۹۱۲ ء میں میں حضرت خلیفہ اسیح اول کے درسوں میں شامل ہوتا رہا.ایک درس غالباً نماز عشاء کے بعد ہوتا تھا.جو آپ اپنی چھوٹی سی بیٹھک میں جس کا دروازہ ڈیوڑھی کے اندر کی طرف کھلتا تھا دیا کرتے تھے.اس درس میں مجھے یاد پڑتا ہے کہ حکیم نظام جان صاحب بھی موجود تھے.رات آٹھ اور نو بجے کے درمیان کا وقت تھا کہ احمدی شیر فروش مستمی محمد بخش صاحب آئے.جن کی دوکان بھائی شیر محمد صاحب کی دوکان کے ساتھ تھی.اُن کے ہاتھ میں ایک پیالہ تھا.جو بالائی سے بھرا ہوا تھا.وہ کمرہ میں آکر کھڑے ہو گئے.آپ نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو انہوں نے کہا.حضور ! آج سارا دن میرے دل میں یہی خواہش پیدا ہوتی رہی کہ آپ کے لئے بالائی لاؤں.سو دودھ کو جوش دیتا رہا.اور جب ہلکی سی بالائی آجاتی تو اسے اتار کر پیالہ میں ڈال دیتا.حضور قبول فرمائیں.آپ نے پیالہ لے لیا اور فرمایا کہ ہم اندر ( گھر میں ) گئے تھے.کھانا مانگنے پر کہا گیا کہ کھانا تو ختم ہو چکا ہے.بچوں نے کھا لیا ہے.مگر چونکہ ہمارا رات کا کھانا حضرت نبی
1+4 کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ ہے.اس لئے وہ بالائی کی شکل میں آگیا ہے.اور یہ بھی فرمایا کہ ہلکی بالا کی ثقیل نہیں ہوتی.اور پھر وہیں درس میں بالائی کھالی.(۲۴) مہا راجہ سے مرعوب نہ ہونا بلکہ مہاراجہ کا مرعوب ہونا حضرت خلیفہ اول نے بیان کیا کہ ایک دفعہ مہاراجہ صاحب جموں و کشمیر کشتی میں جھیل ڈل کی سیر کر رہے تھے.مہاراجہ کو پوجا کرانے والا پنڈت اور چند اور افراد بھی ہمراہ تھے.عصر کی نماز کا وقت ہونے پر میں نماز پڑھنے لگا.پنڈت نے کہا.مہاراج! آپ نے دیکھا کہ مولوی صاحب نے آپ سے اجازت لئے بغیر نماز پڑھنی شروع کر دی ہے.مہاراجہ نے بات سنی لیکن جواب نہ دیا.تھوڑی دیر بعد پنڈت نے پھر یہی بات دہرائی.مگر مہا راجہ نے خاموشی اختیار کئے رکھی جب میں نے نماز پڑھ لی تو مہاراجہ نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ مولبی جی! ( یعنی مولوی جی ! وہ مولبی تحقیر کے لئے نہیں کہتا تھا.بلکہ اس کی طرز تکلم ایسی ہی تھی ) کیا آپ نے سُنا اس پنڈت نے کیا کہا ؟ میں نے کہا کہ میں نے تو نہیں سنا.پھر تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے پوچھا اور تیسری بار بھی پوچھا.میں نے ہر بار یہی جواب دیا.مہاراجہ کو غصہ پر غصہ آ رہا تھا.اور اس کا جوش بڑھتا جا رہا تھا.پھر مجھے مخاطب کر کے کہنے لگا.مولبی جی! آپ لوگ عالم ہیں اور ہم عالموں سے بہت ڈرتے ہیں.آپ کو علم ہے کہ فردوسی شاعر تھا.اور سلطان محمود بادشاہ.اور بیگم کا بیٹا تھا.مگر فردوسی نے اپنے شاہنامہ میں لکھ دیا.اگر مادر شاه بانو بدے مرا سیم وزر تا بزانو بدے اگر شاه را شاه بودے پدر بر زر نہا دے مرا تاج یعنی سلطان محمود لونڈی کا بیٹا تھا.اور اس کا باپ بھی شاہ نہ تھا.غلام تھا ہم لوگ جو راہے اور نواب ہوتے ہیں ہمارے پاس بادشاہوں کے شجرہ نسب ہوتے ہیں.اور ہم کو خوب علم ہے کہ سلطان محمود بادشاہ کا بیٹا تھا اور اس کی ماں شہزادی تھی.مگر جہاں میں کیا مشہور ہو گیا.کہ سلطان لونڈی زادہ تھا.اسی پر قیاس کر کے میں کہتا ہوں کہ آپ کب تک ہمارے ملازم رہیں گے.ایک
1+2 دن یہاں سے چلے جائیں گے.اور باہر جا کر ہماری نسبت جو کچھ کہیں گے لوگ اس پر یقین کرلیں گے.اور اس طرح ہماری عزت پر حرف آئے گا اگر آپ نے ہمیں بُرا بنایا.پھر پنڈت کی طرف غصہ سے دیکھ کر ایک خاص قسم کی گالی نکال کر جس کی عادت تھی کہا کہ یہ نہیں جانتا کہ آپ ہم سے ڈرنے والے نہیں.اگر آپ ڈرنے والے ہوتے تو پہلے اجازت مانگتے پھر نماز پڑھتے مگر آپ نے تو خدا کی نماز پڑھنی تھی اس لئے آپ کو خدا کا ڈر تھا ہمارا نہ تھا.پھر فرمایا کہ جھیل ڈل کا کنارہ آ گیا تو مہاراجہ کشتی سے اترا اور پنڈت کی جان چھوٹی (مفہوم) (۲۵) علم قرآن عطا ہوتا ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے قرآن کریم کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مولانا روم ( یعنی مولانا جلال الدین رومی) کو قرآن کریم کے سات بطن سمجھائے تھے.مگر میں تحدیث بالعمہ کے طور پر کہتا ہوں کہ میرے مولا نے مجھے بڑا آدمی بلکہ بہت بڑا آدمی بنایا ہے.اور مجھے قرآن کریم کا بڑا علم عطا کیا ہے.(مفہوم) مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان سے بڑھ کر مجھے علم قرآن عطا کیا ہے.(۲۶) غلاموں میں مثیل سلیمان ہونا ایک موقعہ پر حضرت حکیم محمد عمر صاحب نے بعض سوالات کئے.ان میں سے ایک یہ تھا کہ قرآن کریم میں حضرت سلیمان کا ذکر کیوں کیا گیا ہے.کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں حضرت سلیمان جیسے آنے والے تھے؟ اس پر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تو بڑی شان ہے.نورالدین کے غلاموں میں سے ایسے ایسے سلیمان پیدا ہوں گے جو حضرت سلیمان سے شان میں کئی درجہ بڑھ کر ہوں گے.(مفہوم) (۲۷) اللہ تعالیٰ سے مستقل و مسلسل تعلق ہونا ایک روز آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ نے کسی بات پر فرمایا کہ اولیاء اللہ عام طور پر خلوت کو پسند کرتے ہیں.تم اپنے مرزا ہی کو دیکھ لو.کہ وہ کس طرح خلوت پسند
۱۰۸ ہیں.بخلاف ان تمام اولیاء اللہ کے ایک نورالدین ہے جو جلوت میں رہتا ہے.مگر اس کی تار خدا کے ساتھ ہر وقت لگی رہتی ہے.(مفہوم) حضرت خلیفہ ثانی سے تعلقات اور خلافت کی سرگرم تائیدات آپ بیان کرتے ہیں: (۱): جب حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ( خلیفہ ثانی.جو ان دنوں میاں صاحب کہلاتے تھے ) ۱۹۱۲ء میں حج کے لئے قادیان سے روانہ ہو کر بٹالہ اور بٹالہ سے ریل کے تیسرے درجہ میں سوار ہو کر امرتسر پہنچے.ساتھ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی تھے.جو غالباً بمبئی تک گئے تھے.اور سید عبداشتی صاحب غالبا مصر تک ساتھ گئے تھے.تجویز یہ تھی کہ پہلے آپ مصر جائیں اور وہاں سے پھر حج کے لئے جائیں.خاکسار بھی ریل میں آپ کے پاس ہی بیٹھ کر امرتسر تک گیا.اور راستہ میں دعا کے لئے بار بار عرض کرتا رہا.آپ حج میں اور سفر میں میرے لئے دعا فرمائیں.امرتسر سے گاڑی روانہ ہونے لگی.تو مجھے بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے کچھ رقم دی اور ایک تار فارم دیا جو حضرت صاحب کے کسی احمدی رشتہ دار کو (جن کے نام سے پہلے مرزا لکھا تھا ) دی گئی تھی.کہ ہماری گاڑی فلاں روز ں سٹیشن پر پہنچے گی.آپ سٹیشن پر ملاقات کیلئے آئیں یہ تار مجھے دے کر ہدایت کی تھی کہ رسٹیشن سے ہی بھجوا دوں.غرض یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لئے رحمت کے سامان ہوئے تھے کہ مجھے یہ توفیق ملی کی میرا نام بھی حضور نے سفر اور حج کی دعاؤں میں رکھ لیا.مجھے اُس زمانہ میں بھی حضور سے محبت کا گہرا تعلق تھا.میرا خیال ہے کہ ان دعاؤں کے نتیجہ میں مجھے وہ مواقع نصیب ہوئے جن سے میری محبت آپ کے ساتھ دن بدن بڑھتی گئی.اور مجھے دینی و دنیوی انعامات بھی حاصل ہوئے ہی ہے.یہ جو فرمایا کہ تم اپنے مرزا ہی کو دیکھ لو.یہ ایک خاص محبت اور عشق کے رنگ میں حضور کا قول تھا.محض یہ دکھلانے کے لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو اولیاء اللہ سے بڑے ہیں.وہ بھی خلوت پسند ہیں.مقابلہ بات نہ کہی تھی.فضل احمد.: مكرم عبد العزیز صاحب بھی بمبئی تک ساتھ گئے تھے.قادیان سے ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ ء کو
1+9 (۲): غالباً ۱۹۱۲ء میں میں نے آپ سے قرآن مجید پڑھنے کی خواہش کی.لیکن آپ کی عدیم الفرصتی مانع ہوئی.اور آپ نے اس کا غذر کیا.لیکن آپ کی توجہ سے مجھے قرآن مجید کی محبت مل گئی.(۳): جولائی تا ستمبر ۱۹۱۳ء کو ہ مری میں میرا قیام رہا.انہی ایام میں مولوی محمد علی صاحب ایم اے.ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اور صفدر جنگ صاحب بھی وہاں مقیم تھے.مولوی صاحب تفسیر القرآن انگریزی کا کام کرتے تھے.اور نماز مغرب کبھی مجھ سیکرٹری جماعت مری کے مکان پر ورنہ دیگر نمازوں کی طرح اکثر مولوی صاحب کے مکان پر ہوتی تھی.ایک دفعہ مولوی صاحب نے مجھے آٹھ یا دس روپے دیئے اور کہا کہ یہ چندہ ہے رسید کاٹ دیں اور پوچھنے پر بھی چندہ دہندہ کا نام نہ بتایا.بلکہ کہا کہ نا معلوم اسم لکھ کر رسید کاٹ دیں.چنانچہ اسی ہدایت کے ساتھ مولوی صاحب مجھے چندہ دیتے رہتے تھے.اور میں حیران ہوتا تھا کہ یہ نامعلوم الاسم شخص بڑا ہی مخیر ہے جو اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتا.ایک شب مولوی محمد علی صاحب کوہ مری سے سنی بنک روانہ ہوئے ان کے ساتھ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب تھے.اور خاکسار بھی.غالباً ایک اور شخص بھی تھا سنی بنک میں شیخ حسن محمد صاحب ( مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ لاہور سابق امیر جماعت و حج مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے نانا) کی کوٹھی میں سے حافظ فضل احمد صاحب گجراتی باہر آئے اور انہوں نے کم و بیش بارہ صد روپے دیئے جو مولوی صاحب نے لے کر اپنے نام پر سیونگ بینک پوسٹ آفس مری میں جمع کرا دیئے.کہا گیا تھا کہ یہ روپیہ رشوت کا تھا.جو اس نا معلوم الاسم صاحب کا ہے جن کی رقم مجھے چندہ میں ملا کرتی تھی.کوہ مری پر مجھے مولوی محمد علی صاحب کی خدمت کا کافی موقعہ ملتا تھا.مولوی صاحب مجھے سلسلہ کا سرگرم کارکن دیکھ کر چاہتے تھے کہ مجھے اپنا ہم خیال بنالیں.مگر چونکہ مجھے حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے بھی بڑی محبت تھی اس لئے کبھی کبھی جوش کے ساتھ میری زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے تھے جن سے حضور کی محبت کا پتہ مولوی صاحب کو بھی لگ جاتا.انہی ایام میں بقیہ حاشیہ: حضرت صاحبزادہ صاحب روانہ ہوئے تھے.اور حج میں آپکے ساتھ نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب اور عبد الحئی صاحب بھی شامل تھے.
11.کانپور کی مسجد کا قضیہ شروع ہوا.حضرت خلیفہ ثانی نے مجھے ان دنوں کئی خطوط لکھے جس میں سے ایک یہ ہے: مکرم منشی صاحب! السلام علیکم اس اخبار (الفضل ) میں جو لیڈر درج ہے اسے غور سے پڑھیں اور لوگوں کو سناد میں خواہ کوئی سنے یا نہ سُنے.یہ مضمون اصل میں حضرت خلیفہ اسیح کا لکھوایا ہوا ہے.مگر آپ نے فرمایا اپنی طرف سے لکھو اس میں کچھ حکمت ہے اور فرمایا خوب زور سے لکھو.ڈرنا نہیں.مخالفت ہوگی مگر حق کی مخالفت ہوا ہی کرتی ہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد “ ہے مولوی محمد علی صاحب ان دنوں بڑے جوش میں تھے اور کسی کی نہیں سنتے تھے.اور پیغام صلح میں کانپور کے متعلق حضرت خلیفہ ثانی کے مضامین کے خلاف لکھا کرتے تھے.جیسا کہ اس خط سے ظاہر ہے گویا دراصل حضرت خلیفہ اسیح اول کی ہی مخالفت ہوا کرتی تھی.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ یہ امر خارج از امکان ہے کہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کو مسجد کانپور کے تعلق میں حضرت خلیفہ اول کے خیالات کا علم تک نہ ہوا ہو.یہ لوگ ہمیشہ واقف رہتے تھے اور اطلاعات انہیں ملتی رہتی تھیں.ستمبر ۱۹۱۳ء کے آخر میں خاکسار واپس راولپنڈی آگیا.ان دنوں انصار اللہ کے ٹریکٹ شائع ہوا کرتے تھے.میرا نام بھی ان میں شائع ہوتا تھا.حالانکہ میں نے خود اپنا نام نہیں لکھوایا تھا.مجھے یہ حضرت حافظ روشن علی صاحب نے بتلایا کہ جب ٹریکٹ انصار اللہ لکھے جانے لگے تو میں نے اور حضرت خلیفہ ثانی نے آپ ( فضل احمد ) کا نام لے کر پوچھا کہ اُن کی تحریر تو کوئی نہیں آئی.نام لکھا جائے یا نہ.تو آپ نے فرمایا.کہ ان کا نام شائع کرا دیں ان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کو خاکسار پر بڑا اعتماد تھا جے ہیں.مجھے دفتری محاسب قادیان میں کام کرنے کا موقعہ ملا تھا.اور قادیان میں محررین کو ششی کہہ کر پکارتے تھے نیز اس مکتوب پر غالباً اگست یا ستمبر ۱۹۱۳ء کی تاریخ درج تھی ( فضل احمد ) خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ یہ اعتماد صحیح تھا اور شیخ صاحب نے ان ٹریکٹوں کی تائید کی کبھی مخالفت
(۴): ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کو انصار اللہ کے ٹریکٹوں سے بڑی نفرت تھی اور وہ پسند نہ کرتے تھے کہ میں بھی انصار اللہ میں شامل رہوں.اس غرض کے لئے انہوں نے بعض باتیں بیان کیں.تا کہ میرے ایمان کو متزلزل کیا جائے.میں نے ان کے بیان کردہ تمام اعتراضات بطور سوالات حضرت خلیفہ ثانی کی خدمت میں لکھ کر جواب کے لئے عرض کیا.تو آپ نے جواب میں ایک مفصل خط لکھا.ان ایام میں ڈاکٹر بشارت احمد صاحب سے بھی مجھے بڑی محبت تھی اور عام طور پر راولپنڈی میں ہمیں یک جان و دو قالب سے تعبیر کیا جاتا تھا.جب حضرت میاں صاحب کا خط میں نے ان کو سنایا تو انہوں نے گھبرا کر کہا بابو صاحب آپ نے ایک عظیم الشان آدمی (یعنی خلیفہ ثانی کا دل دکھا دیا ہے.میں نے کہا کہ مجھے تو اپنے ایمان سے غرض ہے اور جو اس کو بچائے اور اس میں ترقی کا موجب ہو وہ مجھے پیارا ہے.اور چونکہ آپ بھی میرے محبوب ہیں اور مرزا محمود احمد صاحب بھی.مگر آپ دونوں میں اختلاف ہے اس لئے میں دوکشتیوں میں پاؤں نہیں رکھ سکتا.آج سے آپ کو مرزا محمود احمد صاحب پر قربان کرتا ہوں.یہ کہتے ہوئے میں بائیسکل پر سوار ہو کر چلا گیا.اس وقت سے ڈاکٹر صاحب کے دل میں میری نسبت بغض پیدا ہو گیا.دراصل میرے لئے یہ کانپور والا جھگڑا خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک خاص نعمت بن گیا کیونکہ اگر ڈاکٹر صاحب موصوف سے میرے تعلقات قائم رہتے تو وہ میرے لئے بدترین ساتھی بنتے.اور مجھے گمراہ کر دیتے.اور پیغامیوں میں ملا لیتے.(۵) : مارچ ۱۹۱۴ء میں ہمیں اطلاعات قادیان سے ملنے لگیں کہ حضرت خلیفہ اول کی طبیعت علیل ہے اور ایسا اتفاق ہوا کہ غالباً ۱۳ مارچ کو مجھے دفتر میں جب تاریا خط ملا تو وہ تاریخ ہمارے دفتر کے معائنہ ہونے کی تھی.اور میرے لئے رخصت حاصل کرنا قریب ناممکن تھا.ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کو تو مولوی علی صاحب کی طرف سے خاص اطلاع ملتی تھی.وہ مولوی علی احمد صاحب حقانی کو ساتھ لے کر قادیان چلے گئے اور وہاں ان کو مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی پر ہی رکھا.اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے رفقاء سے ملنے ہی نہ دیا گیا.بقیہ حاشیہ : نہیں کی اور اس اعتماد کے باعث آپس کی خط و کتابت بھی تھی.اس موقعہ پر قلت وقت کے باعث دریافت نہ کیا جاسکا ہوگا.
۱۱۲ حضرت خلیفہ اول کی وفات ۱۳ مارچ کو ہوئی اور ۱۴ مارچ کو حضرت خلیفہ ثانی تخت خلافت پر متمکن ہوئے.میں نے اطلاع پاتے ہی بیعت کا خط لکھ دیا.مگر راولپنڈی کے کسی اور کے بیعت کرنے کا مجھے علم نہ ہو سکا.۲۰ مارچ کو ڈاکٹر صاحب ابھی قادیان میں تھے.اس لئے جب احباب نے مجھے جمعہ پڑھانے کو کہا تو میرا خیال تھا کہ دوست خوش نہ ہوں گے.کیونکہ ڈاکٹر صاحب کا احباب پر اثر بھی تھا اور وہ خوش الحان بھی تھے.میں نے خطبہ کے شروع میں کہا کہ جن دوستوں نے نماز ڈاکٹر صاحب کے پیچھے پڑھنے کی نیت کی ہوئی ہے وہ سمجھ لیں کہ ان کی نماز اللہ تعالٰی کی نماز نہیں.اللہ تعالٰی کی نماز وہ ہے جو محض اسی کے لئے پڑھی جائے.پڑھانے والا خواہ کوئی احمدی ہو.بڑا ہو یا چھوٹا.خوش الحان ہو یا بھری آواز والا.بڑے علم والا ہو یا کم علم والا وغیرہ وغیرہ.اس کا اثر دوستوں کے دلوں پر ہوا.ڈاکٹر بشارت احمد واپس آکر اس امر کی تشہیر کرنے لگے کہ قادیان میں سوائے چند قادیانیوں کے اور لوگوں نے بیعت نہیں کی.دوست مولوی محمد علی صاحب کے ساتھ ہیں وغیرہ وغیرہ.چونکہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے ساتھ ہی اہل پیغام نے ایک گمنام ٹریکٹ کی عام اشاعت کر دی تھی.جس سے احباب بیعت کرنے سے رُک گئے تھے.اور اس کا زیادہ اثر راولپنڈی میں تھا.وہاں ڈاکٹر بشارت احمد صاحب درس دیا کرتے تھے.۲۷ مارچ دوسرے جمعہ کو ڈاکٹر صاحب نے نماز پڑھائی.خطبہ میں حضرت مولوی محمد احسن صاحب پر پھبتیاں اڑائیں اور کہا کہ ان کو تو قرآن کریم کی ہر ایک آیت سے خلافت محمود ہی نکلتی نظر آتی ہے.نماز کے بعد میں نے احباب کو کہا کہ میری بات سُن کر جائیں.میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کا مولوی محمد احسن صاحب پر ہنسی اڑانا بہت نا پسندیدہ امر ہے.آپ دوست ڈاکٹر صاحب سے پوچھیں کہ ایسے شخص کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں جو رشوت کا روپیہ لے کر اپنے پاس جمع کر رکھتا ہے.یہ شخص مولوی محمد علی صاحب ہیں.اور اس واقعہ کے میرے ساتھ خود ڈاکٹر بشارت احمد صاحب بھی گواہ ہیں.اس پر لوگوں میں ایک شور پڑ گیا.مگر اسی وقت گجرات کے ایک غریب دوست نے جو راولپنڈی میں پھیری کا کام کرتے تھے.مجھے بتایا کہ انہوں نے بھی بیعت کر لی ہے.اور سید محمد اشرف صاحب نے بھی اسی دن مجھے بتلایا کہ وہ بھی بیعت کا خط لکھ چکے ہیں.مگر وہ اس کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے.
۱۱۳ میں نے بازار میں بعض احمدی احباب سے کہا کہ اب ہم تین احمدی مبائع ہو گئے ہیں ہماری جماعت بن جائے گی انشاء اللہ تعالیٰ.بحثیں بڑے زور سے گرم ہونے لگیں.میں نے ان میں اتنا حصہ لیا کہ قریباً روزانہ حضرت خلیفہ ثانی کی خدمت میں رپورٹ بھجواتا.اور میں نے سُنا کہ حضور میرا ذکر قادیان میں کیا کرتے تھے.یہ ایام میرے لئے ایام جہاد تھے.میں ہر وقت اس کوشش میں رہتا تھا کہ کسی پیغامی کو اپنے اندر جذب کیا جائے.مولوی علی احمد صاحب حقانی جو عالم متبحر اور خاکسارانہ طرز کے انسان تھے اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے ساتھ قادیان گئے تھے.اور انہی کا اثر لے کر واپس آئے تھے.انہوں نے ان ایام میں خواجہ صاحب کی مدح سرائی میں بعض اشعار بھی کہے.میں اُن سے ملنے گیا تو اپنی عادت کے مطابق بڑی محبت سے پیش آئے.مولوی علی احمد صاحب پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں احمدی رہ چکے تھے.مگر ایک خواب کی بناء پر جس میں انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں احمدیت سے علیحدہ ہو گئے تھے.پھر حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی اور سلسلہ میں دوبارہ داخل ہوئے.مگر ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی صحبت کی وجہ سے اب پھر ابتلاء میں پڑ گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے دستگیری فرمائی اور میرے ذریعہ ان کے دل میں احمدیت کو پختہ کرنے کا سامان پیدا کر دیا.فالحمدالله ثم الحمد لله ملاقات میں معلوم ہوا کہ حقانی صاحب پیغامی حضرت کو راہ راست پر سمجھتے ہیں.میں نے پوچھا کہ اگر میں آپ کی غلط فہمیوں کی وجہ سے غلط راہ پر پڑ گیا اور میرے ساتھ وہ جو مجھ پر حسن ظن رکھتے ہیں وہ بھی گمراہ ہو گئے تو کیا آپ ان تمام گمراہ لوگوں کے گناہوں کا عذاب اپنی گردن پر اٹھا سکیں گے؟ کیا آپ میں ایسی طاقت اور ہمت ہے.ایک نیک انسان کی طرح مولوی صاحب گھبرا گئے.اور پھر میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے اُس شخص سے ملاقات کی جو اپنے آپ کو خلیفہ اسیح کہتا ہے.اور بانگ دہل اپنا دعوئی پیش کرتا ہے.اور خدا تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتا ہے کہ میرے منکر خدا تعالیٰ کی گرفت میں آجائیں گے؟ کہنے لگے نہیں انہیں تو میں نہیں مل سکا.میں نے کہا آپ تب تک صبر کریں جب تک میں آپ کی ان سے علیحدگی میں ملاقات نہ کرا دوں.وہ مان گئے.اور وعدہ کیا کہ
۱۱۴ قادیان جائیں گے.میں اور سید محمد اشرف صاحب ان کو اپریل ۱۹۱۴ء میں قادیان لے گئے.میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ میں مولوی علی احمد صاحب حقانی کو اس وعدہ پر لایا ہوں کہ حضور سے علیحدگی میں ان کی ملاقات کرائی جائے گی.حضور نے فرمایا میں آج رات آپ دونوں کو بلاؤں گا.مسجد مبارک میں رات کے وقت انتظار کریں.ہم لوگ بڑی رات تک بیٹھے رہے.مگر ہمیں کسی نے نہ بلایا.دوسرے دن میں نے عرض کیا کہ ہمیں نہیں بلایا گیا.فرمایا آج رات بلاؤں گا.مگر وہ رات بھی گزرگئی اور ہم دونوں انتظار میں بڑی دیر تک مسجد مبارک کی چھت پر بیٹھے رہے.اب تیسرا دن آیا تو میں نے عرض کیا کہ ہماری رخصت کا یہ آخری دن ہے.کل صبح ہم نے ضرور واپس جانا ہے.فرمایا آج رات ضرور بلایا جائے گا.غالبا ۲۰ اپریل تیسری رات تھی.ہم دونوں پھر مسجد مبارک میں انتظار میں بیٹھے رہے.رات کے دس بجے ہماری حالت اس شعر کی مصداق تھی.وعده وصل چوں آتش شود نزدیک شوق تیز تر گردد! کہ کسی نے کہا فضل احمد صاحب کون ہیں.ان کو حضرت نے بلایا ہے.خوشی خوشی ہم دونوں گئے.دستک دینے پر حضور نے دروازہ کھولا اور ہم دونوں کو اپنے پاس بیٹھنے کا ارشاد فرمایا.ہمارا دل ابھی خوشی کی لذت محسوس ہی کر رہا تھا کہ دروازہ پر پھر دستک ہوئی اور حضرت صاحب خود ہی دروازہ کھولنے گئے.دیکھا تو مولوی محمد علی صاحب ہیں.اور ان کے ساتھ ماسٹر فقیر اللہ صاحب.حضرت ان دونوں کو ہمراہ لے کر کمرے میں تشریف لائے.بیٹھنے پر مولوی محمد علی صاحب نے کہا میں چند روز کے لئے لاہور جارہا ہوں.میری طرف سے مائی صاحبہ (یا کہا بیوی صاحبہ) کی خدمت میں میرا سلام عرض کر دیں.اس کے بعد ہر دو صاحبان رخصت ہو گئے.حضرت صاحب دروازہ تک گئے.اور دروازہ بند کر کے آگئے ہے.اب میں نے مولوی علی احمد صاحب سے کہا کہ لیجئے مولوی صاحب! میں نے اپنا وعدہ حضرت ام المومنین کے لئے بیوی صاحبہ کا لفظ اس وقت عام طور پر بولا جاتا تھا.مثلاً ”جنابہ بیوی صاحبہ آپ کے متعلق اخبار بدر ۲۷ اپریل ۱۹۱۱ء زیرا اخبار احمد یہ مرقوم ہے.
۱۱۵ پورا کر دیا.اور حضرت صاحب سے عرض کیا کہ مولوی علی احمد صاحب حضرت خلیفہ اول کی وفات پر قادیان آئے تھے.اور مولوی محمد علی صاحب کے مکان پر ٹھہرے تھے.اب حضور کے سامنے بیٹھے ہیں.سوال کر کے اپنی تسلی کر لیں.مولوی صاحب نے کہا کہ میں تین روز تقریر میں سنتا رہا ہوں.میرا دل صاف ہو گیا ہے.اور کوئی بات پوچھنے والی باقی نہیں رہی.میں نے خوش ہو کر حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ! یہ بات الگ رہی.میں چاہتا ہوں کہ مولوی صاحب حضور سے کچھ سوالات کر کے جواب لیں.پھر مولوی صاحب نے انکار کیا اور کہا کہ میرے دل میں کوئی شبہ نہیں رہا.مجھے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی.میں نے زور دیا نیز حضور سے عرض کیا کہ مولوی صاحب کو کہیں کہ ضرور سوال کریں تو حضرت صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامات کی کاپی جوازالہ اوہام طبع اول کے سائیز کی تھی اور قریباً اتنی ہی موٹی تھی کھول کر اس کا ایک صفحہ ہمیں دکھلایا اور پڑھا جس میں تحریر تھا کہ آج محمود نے مجھے اپنی خواب سنائی.اور فرمایا کہ دیکھو یہ تحریر حضرت صاحب کی ہے میں اس وقت بچہ تھا.میری تحریر نہیں.اور خواب کی تعبیر یہی ہے کہ میں خلیفہ بنوں گا اور ہمیں یہ دکھلا کر اس کے دوسرے صفحہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے الہامات حضور کی اپنی قلم سے لکھے ہوئے ہیں.جن سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے.فرمایا کیا یہ کام بھی میں خود ہی کر سکتا تھا کہ خود ہی خواب بنالوں اور اسکی تعبیر بھی یہ ہو کہ میں خلیفہ بنوں گا.بعد ازاں پھر میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ کوئی سوال تو کریں.آخر تنگ آکر مولوی صاحب نے کوئی سوال کیا جس کا حضور نے جواب دیا.اتنے میں بڑی رات ہو گئی.میں نے کہا کہ حضور میں حضرت خلیفہ اول کی وفات پر نہ آسکا.اور حضور کی تحریری بیعت کر لی تھی.اب دستی بیعت کرنا چاہتا ہوں.تو حضور نے ہاتھ بڑھایا.اور میں نے حضور کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی.اس کے بعد حضور نے دُعا فرمائی.جب دُعا ہو چکی اور میں تعجب اور حیرت میں ہی گرفتا ر تھا کہ یہ کیا ہوا کہ مولوی صاحب کہتے تو یہ ہیں کہ میرا دل صاف ہو گیا ہے، مگر بیعت بھی نہیں کرتے.اتنے میں مولوی صاحب نے عرض کیا کہ میں بھی بیعت کرنا چاہتا ہوں.حضور نے ان کی بیعت بھی قبول فرمائی.اور دعا کی.اب میری خوشی
کی کوئی انتہا نہ تھی.میرا دل کہتا تھا لله الحمد ہر آن چیز که خاطر میخواست آخر آمد زپس پردہ تقدیر پدید میں نے حضرت کے حضور کسی وقت عرض کیا کہ مولوی صاحب میں سادگی بہت ہے مجھے ڈر رہتا ہے کہ کبھی پیغامی انہیں دھوکا نہ دے دیں.ان دنوں نماز جمعہ میں ہی پڑھایا کرتا تھا.حضور نے فرمایا ان کو امام بنالو.مجھے اور بھی خوشی ہوئی اور مولوی صاحب موصوف کو نمازوں میں امام بنا دیا گیا ہے.(1): غالباً ۱۹۱۶ء کی بات ہوگی کہ ایک دفعہ حضرت مولوی علی احمد صاحب حقانی راولپنڈی سے قادیان تشریف لے گئے.حضرت خلیفہ ثانی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر واپس راولپنڈی آگئے.خاکسار ان دنوں بنوں میں تھا.انہوں نے مجھے بنوں خط لکھا کہ دوران ملاقات حضور نے آپ کا ذکر کیا تھا میں نے مولوی صاحب کی خدمت میں لکھا کہ کیا ذکر آیا تھا.اس کے جواب میں مولوی صاحب مرحوم نے یہ شعر تحریر فرمایا مانی از تصویر یار دلستان خواهد کشید حیرتے دارم که نازش را چہاں خواہد کشید ملاقات کیلئے دودن وقت دینے پر بھی نہ بلانے کی کوئی وجہ ہوگی.ممکن ہے عند الملاقات حضور نے اس کا ذکر کیا ہو.اب حضرت بابو صاحب زندہ نہیں کہ دریافت کیا جا سکے (مؤلف) الحمد للہ کہ حضرت حقانی صاحب کا انجام بخیر ہوا.ان کے ایک فرزند مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب حقانی بی اے ایل ایل بی قریب میں غالبا لا ہور میں فوت ہوئے ہیں.وہ کچھ عرصہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے تھے.ایک اور فرزند مکرم ماسٹر نذیر احمد صاحب رحمانی مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان ور بوہ بھی بہت مخلص بزرگ تھے.ربوہ میں ۸ نومبر ۱۹۵۹ء کو وفات ہوئی.اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے.حضرت حقانی صاحب کے دو پوتے چوہدری محمد اسلم صاحب اور چوہدری محمد اکرم صاحب لاہور میں سرکاری ملازم ہیں اور اسلامیہ پارک میں سکونت پذیر ہیں.حضرت حقانی صاحب کی ایک نظم قادیان کے متعلق نہایت وجد انگیز ہے جسکا ذکر مسجد دار الفضل قادیان میں بار ہا خاکسار مؤلف نے بعض صحابہ سے سنا اور وہ محترم رحمانی صاحب سے اس کے اشعار جو انہیں زبانی یاد تھے سکتے تھے.رضی الله عنهم اجمعین
112 یعنی میں حضرت خلیفہ ثانی کے اس انداز محبوبانہ کی کس طرح تصویر کھینچوں جو حضور کے بیان کے وقت حضور کے چہرہ اور بشرہ سے ظاہر ہوتا تھا.مجھے یاد ہے کہ میں مدتوں یہ شعر ہی پڑھ کر مزے لیتا رہا.(۷): غالباً ۱۹۲۰ء میں حضرت خلیفہ ثانی نے مجھے مخاطب کر کے حضرت مولوی علی احمد صاحب حقانی کا یہ شعر پڑھال صورت عکس پر آئینہ کو الٹا غرور! ہے منہ تو دکھلائے ادھر جب رُخ جاناں نہ ہو اور فرمایا کہ حقانی صاحب کا یہ شعر بہت عمدہ ہے خاکسار فضل احمد بیان کرتا ہے کہ حقانی صاحب نے اس شعر میں خواجہ کمال الدین صاحب کی تقاریر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اپنی تقاریر میں حضرت مسیح موعود کے بیان فرمودہ مضامین کو چھوڑ کر کچھ بیان تو کر کے دیکھیں کہ کلام میں کوئی چاشنی بھی باقی رہ جاتی ہے.(۸): حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مصرع میں فرمایا ہے.ع گر چہ بھاگیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے ساتھ ہوا.راولپنڈی میں ۱۹۱۸ء یا ۱۹۱۹ء میں بعد نماز جمعه سید حسن شاہ صاحب سے دوران گفتگو لاہور کے پیغامی احباب کے متعلق میری زبان سے کچھ سخت الفاظ نکل گئے اس پر سید حسن شاہ صاحب نے جو ان دنوں میں پیغامی خیالات رکھتے تھے غصہ منایا میں نے جوش سے دس روپے کا نوٹ نکال کر اُن کے سامنے کیا اور کہا کہ یہ لیں اور قادیان جا کر اس شخص کو تو دیکھیں جو خلافت کا دعویدار ہے.پھر اگر دل پر اثر نہ ہو تو آپ بری الذمہ انہوں نے کہا میں روپے نہیں لیتا.آپ میرے ساتھ چلیں.دونوں قادیان چلتے ہیں.میں نے کہا بہت اچھا چنانچہ ہم دونوں قادیان گئے.اور انہوں نے قادیان میں نہ صرف بیعت ہی کی بلکہ قادیان کے ہی ہو گئے.اور وہیں رہ پڑے اندیشہ تو یہ تھا کہ میرے سخت الفاظ کی وجہ سے فساد ہو جاتا مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے مفت کا انعام دے دیا.یہ اللہ تعالیٰ کا جبر یہ انعام تھا.الحمد للہ.(۹) : ایک دفعہ تمام جماعت کے احباب اور بعض پیغامی احباب کو بلا کر کیمل کور
۱۱۸ راولپنڈی میں دعوت دی اور ساری رات بحث میں گزار دی مگر پیغامی احباب پر کچھ اثر نہ ہوا.اللہ تعالیٰ نے مجھے ثواب دے دیا.(۱۰): ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب لاہور جو مولوی محمد علی صاحب کے بڑے مضبوط باز و تھے اور جن کے مکان میں مولوی محمد علی صاحب رہتے تھے کوہ مری تبدیل ہو کر آگئے تھے.غالبا ۱۹۲۵ء میں ایسا اتفاق ہوا کہ بابوشاہ عالم صاحب احمدی ہیڈ کلرک نمبر ۵۲ کیمل کو ر جہلم بھی میرے پاس کوہ مری تشریف لے آئے.انہوں نے چاہا کہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تبادلہ خیال کیا جائے.اور مجھے گفتگو کرنے کو کہا.پہلے تو میں نے بہت عذر کیا اور کہا کہ شاہ صاحب بہت سخت ہیں اور ان کی بے ادبی اور زبان درازی سے حضرت خلیفہ ثانی کا ذکر کرنے سے اشتعال آجاتا ہے.بات کرنی مشکل ہو جاتی ہے.مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی.اور مجھے اُن کی کوٹھی پر لے گئے.تعارف کرانے پر شاہ صاحب نے کہا کہ وہ مجھے جانتے ہیں.بارہا میری غائبانہ تعریف مولوی محمد علی صاحب نے اُن کے سامنے کی ہے.یہ سُن کر میں نے دُعا کی کہ الہی یہ مجھے کسی بیچ میں لا کر خراب نہ کریں اور میں تعریفی الفاظ سُن کر خاموش نہ ہو جاؤں.بلکہ حق پر قائم رہوں.نماز ظہر کے وقت میں نے شاہ صاحب سے کہا کہ میں آپ کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا.انہوں نے کہا کہ اگر آپ یہ بات نہ کہتے تو میں آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کو تیار تھا.مگر اب چونکہ آپ نے انکار کر دیا ہے اس لئے میں بھی الگ نماز پڑھوں گا.غرض میں اور بابو شاہ عالم صاحب ہر دو نے اُن سے الگ نماز پڑھی.اس کے بعد گفتگو شروع ہوئی.میں نے عرض کیا کہ آپ صدر انجمن احمدیہ کے رُکن تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر قریباً تمام ارکان انجمن نے ہم لوگوں کو ہدایت کی تھی کہ سب احمدی حضرت خلیفہ اول کی اسی طرح فرمانبرداری کریں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرتے تھے.ہم نے آپ کی ہدایت کی تعمیل کی.اب ہم پر اعتراض ہے کہ تم محمودی ہو کر مشرک ہو گئے ہو.اب خدا کے سامنے آپ کا گریبان ہوگا اور ہمارا ہاتھ.یہ کہتے ہوئے کہ الہی ! یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہم کو خلیفہ کا فرمانبردار بنایا اور اب اگر اس فرمانبرداری کا نام خلیفہ پرستی ہے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو انہیں سزا ملنی چاہیئے نہ کہ ہمیں.ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے کہا کہ میرا نام ان اشتہارات میں چھاپا گیا
۱۱۹ ہے حالانکہ میں نے شمولیت کا اظہار نہیں کیا.میں نے کہا کہ یہ اور بھی ظلم ہے کہ ۱۹۰۸ء سے یہ شائع ہو رہا ہے اور اب کہ ۱۹۲۵ء ہے سترہ سال بعد آپ نے ظاہر کیا ہے کہ یہ غلط اشتہار ہے.آج تک آپ نے کیوں حق کو چھپایا.اور لوگوں کو دھوکے میں رکھا؟ وہ اس کا کچھ جواب نہ دے سکے پھر میں نے کہا اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ ایک مومن ہی سمجھ لیں تو آپ کو ماننا پڑیگا کہ ایک پچھتر سال کا مومن جو آخر عمر میں بات کہے گا وہ زیادہ پختہ ہوگی.مگر یہ عجیب بات ہے کہ بقول آپ کے حضور نے انجمن کو اپنا جانشین بنایا اور اس خلیفہ نے جسے آپ نے بھی مطاع مانا اپنی خلافت کے زمانہ میں صاف صاف کہہ دیا کہ جانشین میں ہوں نہ کہ انجمن.ایسا کیوں ہوا؟ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ حضور مسیح موعود علیہ السلام کی آخری بات زیادہ وزن دار ہوتی اور خلیفہ اس کی تائید کرتا.شاہ صاحب نے کہا کہ پہلی دفعہ مریض کو دوا کی تین خوراک دیتے ہیں زیادہ نہیں اور لا جواب ہو کر گفتگوختم ہوگئی.(۱۱) : غالبا اپریل ۱۹۱۴ء کی بات ہے کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی مسجد مبارک میں تشریف لاتے اور پھر کسی کام کے لئے اندرون خانہ تشریف لے جاتے مگر کسی کو اجازت نہیں تھی کہ راستہ میں یعنی محراب مسجد مبارک سے بیت الفکر تک حضور سے مصافحہ کرے یا کوئی بات چیت کرے.حضور کے پیچھے پیچھے جو خادم حضور کیساتھ جاتا تھا اسے میں نے ایک چھوٹے سے پرزہ کاغذ پر یہ شعر لکھ کر دیا.دیدار می نمانی و پرہیز کی سی بازار خویش و آتش ما تیز می گنی تو حضور نے فرمایا کہ آپ اندر یعنی بیت الفکر میں آجائیں.آپ کو کس نے روکا ہے؟ یہ حضور کی نوازش خسروانہ تھی.اندر چند احباب بیٹھے ہوئے تھے.میں بھی وہاں جا بیٹھا.حضور کا کھانا آیا تو حضور نے مجھے بھی کھانے میں شمولیت کا شرف بخشا.الحمد لله ثم الحمد لله.(۱۲): ۱۹۱۸ء میں جب خلیفہ اسیح الثانی پر انفلوئنزا کے مرض کا سخت حملہ ہوا یہاں تک کہ آپ نے وصیت بھی لکھ دی تو ان دنوں میں نے ایک خط آپ کی خدمت میں لکھا.اس میں یہ دعا کی تھی کہ خدایا ! میری نابکار زندگی کس کام کی ہے.میری عمر جو باقی ہے
۱۲۰ وہ حضور کو دے دے.اس دعا کے چند سال بعد قادیان میں ایک نوجوان نے جو اس وقت حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے.ملاقات ہونے پر بڑی گرم جوشی سے بغلگیر ہو کر مجھے بتلایا ان کچھ کرنے کہ آپ ان چھ دوستوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی زندگی حضور پر قربان کرنے کے لئے دعا کی تھی.ان چھ احباب میں حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی صحابی بھی تھے.خدا تعالیٰ نے ان کی قربانی قبول کر لی اور وہ وفات پاگئے.اور آپ پانچ جو باقی رہ گئے ان کو ثواب مل گیا.میں نے ان کی بات سُن کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.اور اپنی زندگی کے لمبا ہونے پر یہی دلیل کبھی کہ چونکہ میں نے زندگی پیش کی تھی خدا نے زندگی بڑھا دی.اور حضرت خلیفہ ثانی کے ساتھ مماثلت اور مشابہت بھی پیدا کر دی.الحمد لله ثم الحمد لله (۱۳): ۱۹۱۹ء یا ۱۹۲۰ء میں ایک دفعہ میں حضور کی زیارت کے لئے قادیان گیا.حضور نے میری اور بابو عبد الحمید صاحب پٹیالوی کی دعوت کی.اس دعوت میں حضرت خلیفہ ثانی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.بابو صاحب اور خاکسار تھے.وہ کمرہ جس میں حضور تشریف لائے تھے سنا گیا تھا کہ محترمہ سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ سلمها اللہ تعالیٰ کا تھا.حضور نے ایک مرغ بریاں ہماری طرف کر کے فرمایا کہ چھری سے کاٹ کر کھائیں.پھر خود ہی اس کو کاٹنے لگے اور فرمایا کہ سخت ہے نرم نہیں.باقی اور کھانے بھی تھے.جو ہم سب نے کھائے.مگر بابو صاحب اور میں نے مرغ بریاں نہ کھایا.(۱۴): ایک دفعہ حضرت خلیفہ ثانی نے مجھے راولپنڈی لکھا کہ ایک اونٹ اور ایک ویلر گھوڑا ٹانگہ کے لئے نیلام سے خرید کر بھجواؤ.قادیان سے بٹالہ تک کچی سڑک ہے.معمولی گھوڑا کام نہیں دے سکتا.یا فرمایا تھا تھک جاتا ہے.خاکسار نے اونٹ تو بھجوا دیا مگر گھوڑا ویلر نہ مل سکا.(۱۵): ۱۹۱۷ء میں بنوں میں مجھے چند روز بخار آیا تو میجر ڈیلی نے جو عارضی طور پر کمانڈر ہو کر آئے تھے.بڑی محبت سے کہا کہ آپ تبدیل آب و ہوا کے لئے کسی پہاڑ پر چلے جائیں.مجھے خیال آیا ان دنوں حضرت خلیفہ ثانی شملہ میں ہیں.میں آپ کے پاس چلا جاؤں.افسر موصوف نے مجھے ریل کا پاس وہاں سے بٹالہ اور بٹالہ سے شملہ اور اسی طرح
۱۲۱ واپسی کے لئے دیا.میں خوشی خوشی شملہ چلا گیا.ٹوٹی کنڈی کوٹھی حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے کرایہ پر لی ہوئی تھی اور اسی کے ایک حصہ میں حضور قیام فرما تھے.میں حضور کے پاس جا ٹھہرا.ان دنوں مکرم معظم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ایم اے بھی وہاں تھے.ایک ماہ کے قریب میرا وہاں قیام رہا.واپسی پر میں نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو واپسی پر بٹالہ کے سٹیشن پر حضور کے قافلہ کے لئے کھانا میں لاؤں گا.فرمایا کہ کھانا گھر سے سٹیشن پر کس طرح لاؤ گے.میں نے نا کبھی اور اخلاص میں کہا کہ میں لے آؤں گا.آپ نے منظور فرمالیا.میں دو تین روز پہلے چلا آیا.اور حضور کے قافلہ کے لئے جن میں حضرت ام المومنین اور حضور کے حرم بھی تھے.کھانا تیار کروایا.جب اُسے سٹیشن پر لے جانے لگے تو بڑی دقت پیش آئی.شور بے کا بڑا پتیلا چھلکنے لگا.فرنی رگر گر پڑتی.ویسا ہی باقی اشیاء کا حال تھا.غرض بڑی مشکل سے بڑی دیر میں سٹیشن پر پہنچا تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھے ملتے ہی کہا کہ حضرت صاحب ناراض ہیں.آپ نے کھانا لانے میں بہت دیر کر دی.میں نے حضور کے پیش ہوتے ہی کہا.ع از خوردان خطا و زبزرگان عطا آپ خاموش ہو گئے اور فرمایا.اچھا ہمارے فلاں مہمان کو جو ریل میں جارہے ہیں کھانا جلدی دو.گاڑی چھوٹنے والی ہے.میں نے اسے بھی کھانا دیا اور حضور کو اور قافلہ کو بھی کھانا پیش کیا.جو سب نے کھایا.میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.تو (۱۶): میرے ایک داماد نے خلافت ثانیہ کے خلاف فتنہ انگیزی کرنے والوں کے ساتھ شرکت کی.میں نے اس کے ساتھ بیزاری کا اظہار کیا.حضور نے خوشی کا اظہار فرمایا اور میرا یہ جواب الفضل میں شائع کروایا..(۱۷) : قالبا ۱۹۲۱ء میں کشمیر سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی واپس تشریف لائے تو حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے جو ساتھ تھے.قافلہ کو ریل گاڑی پر سوار کرانے وغیرہ ضروری امور انجام دینے کا ارشاد فرمایا.راولپنڈی سٹیشن کے بعض کلرکوں کی شرارت سے تکلیف پہنچی.مگر قافلہ بخیریت روانہ ہو گیا.البتہ ریلوے سٹاف نے لاہور تا ردی کہ قافلہ کے سامان کی پڑتال کی جائے.اس لئے لاہور میں اتروا کر تلوایا گیا.لیکن غفلت سے حضور کا
۱۲۲ بستر وہیں رہ گیا.جس کا علم قادیان پہنچنے پر ہوا.مکرم عبد اللہ صاحب ٹیلر نے جو بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.مجھے بتلایا تھا کہ انہوں نے راولپنڈی کے سٹیشن پر خود یہ بستر اُٹھا کر سیکنڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں رکھا تھا.جہاں حضور معہ اہل وعیال سوار تھے اور یہ بھی بتایا کہ ایک عرصہ بعد نیلامی کے وقت اس بستر میں سے ایک لفافہ دیکھ کر جس میں حضور کا اسم مبارک اور پتہ درج تھا.آپ کی شان اور حیثیت کو مدنظر رکھ کر بستر حضور کی خدمت میں بھجوا دیا.مجھے جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو میں گھبرا جاتا ہوں.کہ کہیں حضور کے دل میں یہ خیال نہ آیا ہو کہ میری غفلت اس کی گمشدگی کا باعث بنی تھی.اللہ تعالیٰ ہی غفلتوں سے بچائے اور اس بات سے بھی کہ اپنی شامت اعمال سے یہ دن نہ آئے کہ غفلت کسی کی ہو اور نام کسی اور کا لگ جائے اور کسی پاک انسان کے دل پر میل آجائے اور گنہگار کو اس پاک دل کے پریشان ہونے کی وجہ سے تکلیف پہنچے خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ محترم شیخ فضل احمد صاحب کے قلب صافی کی جھلک اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے.کیونکہ ایک مومن کی قلبی کیفیت.الایمان بین الخوف والرجاء والی ہوتی ہے.خاندان حضرت مسیح موعود کے نونہالوں کا میرے ہاں قیام آپ نے بیان کیا کہ: خدائے قدوس کی نظر قلوب پر ہوتی ہے.میرا خیال ہے کہ چونکہ میں نے ۱۹۱۳ء میں خلیفہ اسیح الثانی کو دعوت دی تھی کہ کوہ مری میں میرے پاس تشریف لائیں.اور آپ نے معذوری ظاہر کی تھی ، ۱۹۲۵ء میں آپ کی اولا د اور خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر افراد کو بھجوا کر اللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کر دی.چنانچہ غالبا جولائی ۱۹۲۵ء میں ذیل کے افراد پر مشتمل قافلہ میرے مکان پر اترا: (۲۱): حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمر صاحب (خلیفہ ثالث ) - مکرم مرزا مبارک احمد صاحب ابناء حضرت خلیفہ اسیح الثانی.(۴۳) : مکرم مرزا مظفر احمد صاحب و مکرم مرزا حمید احمد صاحب.ابناء
۱۲۳ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب.(۵ تا ۷ ) : مکرم مرزا منصور احمد صاحب و مكرم مرزا ظفر احمد صاحب ومكرم مرزا داؤ د احمد صاحب ابناء حضرت مرزا شریف احمد صاحب.(۸) مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل جٹ مدرس مدرسہ احمدیہ حال امیر جماعت احمدیہ قادیان) (۹) مکرم ماسٹر نذیر احمد صاحب مرحوم بی، اے.( مدرس مدرسہ تعلیم الاسلام) (۱۰): مکرم ماسٹر گل محمد صاحب ( مدرس مدرسہ تعلیم الاسلام ) (۱۱) مکرم میاں محمد عبد اللہ صاحب حجام بطور باورچی ( حال مقیم ربوہ) ایک اور احسان اللہ تعالیٰ کی جناب سے ہوا.وہ یہ کہ انہی دنوں حضرت چوہدری محمد نصر اللہ خان صاحب معہ اہل بیت اور محترمی چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب پنڈی پوائنٹ مری میں واقع ایک کوٹھی میں تشریف لے آئے اور یوں کوہ مری پر ایک نہایت خوش نما نظارہ پیدا ہو گیا.صاحبزادگان کی موجودگی سے ہر ایک قسم کی برکت اور رونق ہوگئی.مجھے یاد ہے کہ ایک روز مکرم چوہدری صاحب نے مجھے انگریزی میں کہا.کاش میں آپ کی جگہ ہوتا.مراد یہ تھی کہ جس طرح یہ صاحبزادگان آج آپ کے مہمان ہیں یہ نعمت مجھے بھی میسر آتی.واقعی یہ اللہ تعالیٰ کا احسان تھا.ورنہ میرے جیسا بے حیثیت کب اس لائق تھا.بقول غالب وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں خدا کے فضل اور احسان سے ایسا ہوا.فالحمدللہ علی ذالک.برکت خلفاء کرام قرض سے نجات اور دوسری شادی اور اس کی برکات آپ بیان کرتے ہیں : خاکسار کی پہلی شادی اپریل ۱۹۰۷ء میں ہوئی تھی.اس کا سارا خرچ مجھ پر ہی تھا.اقارب کے اصرار پر مجھے اپنی ساری برادری میں گری تقسیم کرنا پڑا جس سے میں زیر بار ہو گیا.اس بارے میں دُعا کے لئے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں عرض کرتا
۱۲۴ رہا.اور جواب مجھے ملتے رہے.چنانچہ بقلم مفتی فضل الرحمن صاحب ایک عریضہ کے جواب میں تحریر فرمایا: اگر قرضہ ادا کرنے کی سچی نیت ہو اور اس فکر میں آدمی لگا ر ہے اور جس قدر ممکن ہو اس کو ادا کرتا رہے.تو خدا تعالیٰ ضرور سامان مہیا کر دیتا ہے کہ وہ ادا ہو جائے.توبہ استغفار اور لاحول کی کثرت کیا کریں.نمازوں میں عجز اور زاری سے دعائیں مانگا کریں.“ ایک خط کا یہ جواب ملا : والسلام قادیان ۳ مئی ۱۹۰۷ء " آپ قرضہ کیلئے تو بہ، استغفار ، لاحول سے کام لیں اور ا دا ( کرنے ہیں) کا ارادہ کر لیں جب تک خود دس ۱۰ بارہ ۱۲ روز یہاں آپ نہ رہیں دعا کا منگوانا مشکل ہے.“ اگست ۱۹۰۷ء ایک دفعہ اسی قرضہ کے بارے میں اپنی گھبراہٹ کا ذکر ایک خط میں کر کے دُعا کی درخواست کی تو جوا با تحریر فرمایا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ " آپ استغفار کریں جس کے معنی ہیں.الہی ! میں نے غفلت کی اس کے بدنتائج سے مجھے محفوظ رکھ اور غفلت سے بچا.اسْتَغْفِرُ الله اور لَا حَولَ جس کے معنی ہیں.الہی ! تیرے فضل وکرم کے سوا کچھ نہیں بن سکتا.تو بدی سے پھیر اور نیک بنا.لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا باللہ اور الحمد شریف بلحاظ معنی اور درود بایں خیال کہ الہی ! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے بڑے دُکھ درد اٹھائے اور بڑی محنت سے ہم تک تیرا دین پہنچایا الہی! اس کے بدلہ ہماری طرف سے اس پاک انسان خطوط وحدانی کا لفظ از مؤلّف.
۱۲۵ پر خاص خاص اور عام رحمتیں اور سلام اور برکات پہنچا دے.آمین یہ چار باتیں آپ اختیار فرما دیں.“ اسی طرح ایک بار تحریر فرمایا: نورالدین ۲ اگست کے آپ استغفار اور لاحول ( پڑھا ) کریں دعا تو ہر صورت مفید ہے.مگر مسلمان خود فضول خرچیاں فرماتے ہیں اور دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں.میں بھی انشاء اللہ دعا کروں گا.“ ۱۲ رمضان شریف.مطابق ۲۲/۱۰/۷ ان نصائح پر اللہ تعالیٰ نے مجھے عمل کرنے کی توفیق عطا کی.اور حضرت خلیفہ اول کی توجہ اور دعا سے میرا قرضہ اُتر گیا.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے.آمین.ایک دفعہ تحریر فرمایا : اللہ تعالیٰ آپ کو صحت بخشے.آپ کی اولاد نہیں.اور آپ کی بہن کے گھر بچہ علیل ہے.اس کا فکر آپ پر واجب ہے.بہت استغفار، صدقہ کے بعد دعا پر زور دو.اس کا باعث آپ کی مخفی روحانی بات ہے.فکر کرو.میری بات پر آپ نے عظمندانہ توجہ نہیں کی.یہ تو ہوا اصل علاج.ہے" ۱۹۱۹ ء یا ۱۹۱۸ء میں میں نے ایک خط کے ذریعہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کو دعا کی تحریک کی تا صاحب اولاد ہو جاؤں.آپ نے جواب میں تحریر کیا کہ میں نے دعا کی معلوم ہوا کہ موجودہ بیوی سے اولاد نہ ہوگی.البتہ دوسری بیوی سے اولاد ہوگی.ابھی دوسری شادی نہیں ہوئی تھی.۱۹۱۹ء میں مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے لئے کوئی متبنی تجویز ہورہا ہے.میں نے اہلیہ اول سے کہا کہ میں اس خلاف شریعت امر پر عمل پیرا ہونے کی بجائے لا ولد مرنا بہتر سمجھتا ہوں.لیکن بات مان لو تو میں نکاح ثانی کرلوں.ممکن ہے اس طرح ہمیں اللہ تعالیٰ اولا د عطا کر دے.لیکن وہ ناراض ہوگئیں.ان ایام میں میں نے جو خطوط حضرت صاحب کی : اس کے بعد حضور نے کوئی نسخہ تحریر فرمایا تھا جو میں نے پھاڑ دیا کوئی اور مشورہ دیا تھا جواب موجود نہیں.فضل احمد.
خدمت میں لکھے تھے ان میں سے ذیل کا ایک جواب مجھے ملا ہے : مکرمی.السلام علیکم.آپ کی طرف سے ۱۰۰ روپیہ پہنچ گیا تھا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.آپ کی اہلیہ کی طرف سے بھی دس روپے پہنچ گئے.جزاکم اللہ احسن الجزاء چونکہ اس وقت روپیہ کی خاص ضرورت تھی.اور خدا تعالیٰ سے دعا کرنے پر وہ روپیہ آیا تھا.اس لئے خاص طور پر دعا کی گئی." آپ کے نکاح ثانی کے متعلق دعا کروں گا.استخارہ کر لیں تو اطلاع آنے پر اگر ممکن ہو ا تو کوئی جگہ بھی بتلا سکوں گا.“ خاکسار مرزا محمود احمد ۴/۱۱/۱۹۲۰ اس گرامی نامہ کے آنے پر میں نے استخارہ شروع کر دیا اور قریباً ڈیڑھ پونے دو سال تک کرتا رہا.اور حضور کی خدمت میں گاہے گاہے عریضے بھی روانہ کرتا رہا.جولائی ۱۹۲۲ء میں حضور نے سری نگر سے تحریر فرمایا کہ دو خیمے بھجواؤں.میں نے تعمیل ارشاد کی.وقت گذرتا گیا.اور میرا دل نکاح ثانی کی طرف زیادہ مائل ہوتا چلا گیا.آہستہ آہستہ یہ معامله اکتوبر ۱۹۲۲ء تک پہنچ گیا.اور میں انتظار کرتے کرتے تھک کر قادیان آگیا.ان ایام میں حضور مسجد مبارک کے نیچے گول کمرہ میں دفتری کام سرانجام دیتے تھے.جناب مولوی عبد الرحیم صاحب درڈ پرائیویٹ سیکرٹری سے میں نے عرض کیا کہ آپ حضرت کے حضور عرض کریں کہ مجھے باریابی کا موقعہ بخشیں.انہوں نے کہا حضور سخت مصروف ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہم نے راولپنڈی کے پتہ پر خط لکھ دیا ہے.وہاں جا کر پڑھ لیں.میں نے عرض کیا آپ مجھے خط کے مضمون سے مطلع فرمائیں.اور زیادہ نہیں تو چند منٹ حاضر ہونے کی اجازت بخشیں.چنانچہ ملاقات میں ہنس کر فرمایا کہ میں نے آپ کی خواب کی وجہ سے پہلی تجویز کو چھوڑ دیا ہے.( یہ تجویز ایک خاتون سے متعلق تھی.جو کسی اور شخص سے شادی ہو کر چھ ماہ کے اندر فوت ہوگئی) نیز فرمایا.ابھی کوئی اور جگہ میرے علم میں نہیں اور محترم درد صاحب سے فرمایا کہ مولوی سراج الحق صاحب پٹیالوی نے اپنی لڑکی محمدی بیگم کے متعلق لکھا تھا.کیا اس کا رشتہ کہیں ہو گیا ہے.پھر فرمایا کیا آپ کو یہ رشتہ منظور ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں محض حضور
۱۲۷ کی پسندیدگی پر ہی یہ معاملہ رکھوں گا.کیونکہ میں نے پہلی شادی اپنی خواہش سے کی تھی.مگر اس کا نتیجہ جو کچھ نکلا وہ ظاہر ہے.حضور نے پھر فرمایا کیا آپ کو یہ رشتہ پسند ہے.پھر بھی میں نے منظوری کا معاملہ حضرت پر ہی رکھا.تو حضور نے فرمایا کہ جب میرے پہلے نکاح کا وقت آیا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے بلا کر پوچھا کہ محمود کیا تمہیں فلاں جگہ رشتہ ( یعنی حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کا پسند ہے.میں نے خاموشی اختیار کی حضور نے دوبارہ فرمایا تو پھر بھی میں نے شرم سے خاموشی اختیار کی.تیسری بار حضور نے فرمایا محمود تمہارا نکاح ہونا ہے.بولو تمہیں وہ جگہ پسند ہے.(یہ مفہوم تھا) میں بھی اُسی طرح آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کو یہ رشتہ پسند ہے کیونکہ آپ کا نکاح ہوتا ہے.اس پر میں نے عرض کیا پسند تو حضور ہی کی ہوگی.البتہ مجھے کوئی اعتراض نہیں.غرض یہ تجویز ہو کر غالباً ۲۲ اکتوبر ۱۹۲۲ء کو بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں درس قرآن سے پہلے نکاح کا اعلان کیا اور دعا فرمائی.ان کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے ۲۰ دسمبر ۱۹۲۳ء کو پہلی اولا د عزیزہ صادقہ سلمها عطا کی.یہ در حقیقت حضرت امیر المومنین کی دعا کا نتیجہ تھا.میں نے کہا.للہ الحمد ہر آن چیز که خاطر میخواست آخر آمد زپس پردہ تقدیر پدید! ۱۹۲۵ء میں کوہ مری میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل واحسان سے عزیزم محمد احمد سلمہ پہلے بیٹے کی ولادت کی خوشی دکھائی.حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر جب حج پر تشریف لے گئے.تو جدہ کے قریب کشف میں انہوں نے دیکھا کہ میری گود میں ایک لڑکا ہے.اور ایک ہاتھ میں روپوں کی تھیلی ہے.عزیز کی ولادت سے یہ کشف محمد اللہ پورا ہو گیا ہے.۱۹۱۴ء تا ۱۹۳۳ء ملازمت اور سرگرم تبلیغ احمدیت آپ رقم فرماتے ہیں: اعلان نکاح کا ذکر الفضل سے نہیں ملا.لیکن یہ اندراج مہمانوں کی آمد میں موجود ہے کہ ہفتہ اا تا ۱۷ اکتوبر میں آپ اور آپ کے خسر محترم دونوں قادیان آئے تھے.غالباً اسی شادی کے موقعہ پر حضرت حافظ روشن علی صاحب مع مبلغین طلبا، پٹیالہ تشریف لے گئے تھے.
۱۲۸ (۱) دسمبر ۱۹۱۴ء میں مجھے جنگ پر اپنی کور کے ہمراہ بنوں اور میراں شاہ وغیرہ جانا پڑا.میں نے کمانڈنگ افسر میجر وارڈل کو اسلامی اصول کی فلاسفی (انگریزی) دی تو بعد مطالعہ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب بہت عمدہ تالیف ہے.میں چاہتا ہوں کہ اس کا اردو ترجمہ کر دو تا کہ اپنی یونٹ کے عہدہ داروں میں اس کی نقول تقسیم کر دوں.مجھ سے یہ معلوم کر کے که اصل کتاب اردو کی ہے.اس کی سینتیس ۳۷ جلدیں سرکاری خرچ پر وی، پی منگوائیں.باوجودیکہ میں نے ان سے کہا کہ اس کی تقسیم سے فتنہ پیدا ہوگا.اور غیر احمدی شکایت کریں گے کہ یہ احمدی با بوان لوگوں کا مذہب تبدیل کرانا چاہتا ہے.افسر موصوف نے بقیہ حاشیہ محترم مولوی سراج الحق صاحب ابن محمد عبد اللہ صاحب صحابی ابن صحابی تھے.موصی نمبر ۹۹۷۷ وفات ۳۰ نومبر ۱۹۵۴ء بعمر ستر سال.مدفون مقبره بهشتی ربوہ منشی سراج الحق صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح کے ایک صاحبزادہ کی ولادت کی خوشی میں قادیان کے تیموں کی پُر تکلف دعوت حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے مکان پر کی (الفضل ۱۹۲۳ صفحہ ۲ ).اہلیہ اول سے آپ کا حسن سلوک آخر تک قائم رہا.موصوفہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہیں: کتبہ کی نقل سطر به سطر درج ذیل کی جاتی ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمه سردار بیگم صاحبه زوجہ شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی حال قادیان عمر ۴۷ سال وفات ۴۹۳۹ وصیت نمبر ۱۶۴۱
شجرہ نسب علی بخش هیچ فضل احمد فیض بتول امیر احمد نو جوانی کی عمر میں فوت ہوئے ( کوئی اولاد نہ تھی ) اہلیہ ثانی محمدی بیگم بنت مولوی سراج الحق صاحب پٹیالوی سردار بیگم اہلیہ اول ( کوئی اولاد نہ تھی ) سلیم اللہ خاں سیکینہ بیگم + ↑ صادقہ بیگم ملک محمد احمد صالحہ اختر اہلیہ بشری بیگم اہلیہ ملک ملک مبارک احمد ملک لطیف خالد ملک رشید ناصر امینہ خالد لیق احمد طاہر اہلیہ قریشی نائب افسرامانت محمد صالح نور صاحب رشید احمد صاحب لاہور اسٹنٹ ٹیکسٹ مینیجر اسلامک بک ڈپو العین اہلیہ نعیم اللہ خانصاحب مبلغ سلسلہ عبدالمنان صاحب تحریک جدید ربوہ ۱.صادق نور ا.منیر احمد بک بورڈ لاہور فری ٹاؤن ابوظمی سٹیسٹ خالد.لاہور نائب امام نیلا گنبد.لاہور ۱.امتہ النصیر ۲- ثریا بیگم ۲.سلمہ بیگم ا.بشری سیرالیون ( غیر شادی شده) لنڈن مشن ا.قامتہ بیگم ۲.سلطان احمد مبشر ۳.عارف نور نصیر احمد ۲.مبشر احمد ا محمود خالد ۲.صادق احمد ۳.امتہ الرفیق ۴.خالد نور ۴.طاہرہ ۳.راشدہ بیگم ۴- امتہ الطیف ۵.ثریا ۶.بشیر احمد ۴.مبارکہ بیگم ۵- محمود احمد اطہر ۵.مبارک احمد ۶ امتہ الباسط بشری ۶ - عزیز احمد ے.فرحت نعیمه (غیر شادی شده) ۱۲۹
کہا ہم کچھ پرواہ نہیں کرتا.میں نے کہا کہ آپ برطانوی افسر ہیں.آپ کو تو کوئی نہیں پوچھے گا لیکن ساری بلا میرے گلے آپڑے گی.مگر وہ نہیں مانے.اور کہا کہ ہم حکم دیتے ہیں.میجر رسالدار راجہ راج ولی اور خاکسار بنوں پہنچے تو وہاں تمام غیر احمدی عہدہ داروں نے شکایت کی کہ بابو فضل احمد کا فر ہے.ہم اس کے ساتھ کام نہیں کر سکتے.یہ ہمارا مذہب خراب کر رہا ہے.اس کا تبادلہ کر دیا جائے.رپورٹ پہنچنے پر راجہ موصوف ہنس کر کہنے لگے.کہ اگر میں یہ رپورٹ صاحب تک پہنچاؤں تو ڈر ہے.مبادا بے عزتی ہو.کیونکہ وہ آپ کے ہاتھ پر ہیں.اور آپ جو کہیں گے وہ اسے درست سمجھیں گے.آپ جتلائیں کہ آپ اس شکایت کا کیا جواب دیتے ہیں.میں نے کہا کہ میں کہوں گا کہ صاحب! آپ دیکھیں.قرآن کریم عیسائیوں کو پکا کا فر کہتا ہے.پس جب آپ بڑے کا فر ہوئے اور آپ کے ساتھ ان لوگوں کا گزارہ ہو سکتا ہے.تو میرے ساتھ کیوں نہیں ہوسکتا.حالانکہ میں بقول ان کے چھوٹا کافر ہوں.رسالدار صاحب سمجھ گئے.اور وہ ان لوگوں کو کہنے ہی لگے تھے کہ شکایت نہ کرنا کہ اتنے میں سامنے سے افسر موصوف آگیا.اور رسالدار نے فال ان FALL) (IN کرا دیا.اور صاحب نے ہر ایک کو ایک ایک نسخہ دیا.اور ہر ایک نے شکریہ ادا کیا.اور سلام کیا اور کتاب لے لی.اس کے بعد صاحب نے اس کتاب کی تعریف کی اور کہا کہ اسے پڑھا کرو.میری میم صاحب تو اس کتاب کی عاشق ہے.چند روز بعد صاحب موصوف کے تبادلہ پر ہم الوداع کہنے بنوں ریلوے سٹیشن پر گئے تو موصوفہ نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ میں آپ کی اس کتاب کو ساتھ لے جا رہی ہوں.میں اس سے علیحدگی پسند نہیں کرتی.اور اس کی بہت تعریف کی.اس افسر کا یہ کہنا تھا کہ میرے دل پر اس کتاب کا ایسا اثر ہوتا ہے جیسے دہکتے ہوئے کوئلوں پر پانی گرنے سے ٹھس ٹھس کی آواز آتی ہے.ایسا ہی میرے دل کے شعلے اس سے ٹھنڈے ہوتے ہیں.(۲): ۱۹۱۵ء مارچ میں تیں تینتیس ہزار افراد اقوام منگل ہمارے بریگیڈ متعین میراں شاہ پر حملہ آور ہوئے.مگر جنرل فین (FANE) کے ہاتھوں شکست کھا کر بھاگ گئے.بریگیڈ کے تو پخانہ کو جنرل مذکور نے راتوں رات پہاڑی کے عقب میں جانے کا حکم دیا.لیکن وہ راستہ بھول گیا.البتہ تباہ ہوتے ہوتے بچ گیا.میں نے قادیان آنے پر حضرت
۱۳۱ صاحب سے حالات جنگ کا ذکر کیا.فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اگر انگریز احتیاط نہیں کریں گے تو نقصان اٹھائیں گے.پھر تو پخانہ کا حال سُن کر کہ تباہ ہونے لگا تھا.فرمایا شاید اسی کی طرف اشارہ تھا.(۳): پھر ایک تدبر کرنے والے افسر میجر جی ایچ ، ڈیوس تبدیل ہو کر آئے.ایک جمعہ کے روز میں ان کو حساب لکھوا رہا تھا کہ نماز جمعہ کا وقت ہو گیا.میں نے کہا کہ آپ مجھے نماز پڑھ لینے دیں.وہ کہنے لگے کہ میں نے سفر پر جانا ہے.میں نے کہا کہ یہ نماز بڑی اہم ہے.اور اس کا وقت جا رہا ہے.سوچ سوچ کر کہنے لگا.بہت اچھا.نماز پڑھ لو.میں حساب پھر کبھی لکھ لوں گا.یہی افسر جب کشمیر گیا تو اس نے مجھے وہاں سے ایک مصلی لا کر دیا اور کہا کہ اس پر نماز میرے دفتر میں پڑھا کرو.یہ ذکر میرا ہی ہے جو بغیر نام کے حضور نے ملا ئکتہ اللہ میں کیا ہے.فرماتے ہیں: اگر دفتر میں کام کرتے ہوئے نماز کا وقت آجائے تو بے شک وہاں پڑھ لو.مگر جہاں کوئی مجبوری نہیں اس حالت کے متعلق میرا یہی عقیدہ ہے کہ نماز نہیں ہوتی.بعض دفعہ ملازموں کو ان کے افسر نماز نہیں پڑھنے دیتے.ایک افسر تھا.وہ ایک احمدی کو نماز نہیں پڑھنے دیتا تھا.اس نے ملا زمت چھوڑ دی.اور دوسری جگہ کر لی.دوسری جگہ اسے ایسا انگریز افسر ملا جس نے خود مصلی لاکر دیا.اور کہا اس پر میرے سامنے نماز پڑھا کرو.تو جو شخص خدائے تعالیٰ کے لئے کوئی کام کرتا ہے.خدا تعالیٰ خود.اس کا انتظام کر دیتا ہے ۱۰ پھر میجر ای سی.چیزنی آگئے اور شروع ۱۹۱۷ء میں ہم لوگ بنوں سے واپس راولپنڈی آگئے بنوں میں ۱۹۱۵ء تا ۱۹۱۷ء مجھے تبلیغ کی بہت توفیق ملی.میرے ساتھ مولوی محمد عبد اللہ صاحب ساکن فتح پور ضلع گجرات تھے جو بعد میں درویش قادیان بن گئے.اور لائبریرین کا کام ان کے سپر د ر ہا.اور وہیں وفات پا کر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے.یہ اس کتاب میں حضور کی جلسہ سالانہ ۱۹۲۰ء کی تقریر درج ہے ملا زمت ترک کرنے کا ذکر پہلے گزر چکا ہے
۱۳۲ ابتدا میں بحیثیت دفتری راولپنڈی میں آئے تھے.پھر اپنی نیکی محنت ، لیاقت اور شرافت کی وجہ سے دفعدار بن گئے.رسائیدار ہو جاتے مگر ملازمت کا زمانہ ختم ہو گیا.میں اُن کے احسانات کا بہت شکر گزار ہوں.انہوں نے حق دوستی خوب ہی نبھایا.آپ بڑے معزز خاندان برلاس سے تھے.اور بہت منکسر المزاج.اللہ تعالیٰ اُن پر اور ان کی اولاد پر بڑے افضال وانوار کی بارش برسائے.آمین.جو انعامات اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کئے ان میں سے ایک دفعدار صاحب کی محبت اور دوستی بھی تھی.یہ شخص میرے لئے مجسم الحب اللہ تھا.میاں عبداللہ صاحب درزی جن کو اللہ تعالیٰ نے نوازا اور بہشتی مقبرہ میں جگہ دی.ہم تینوں دوست تھے.ہم اکثر اکٹھے ہوتے اور حضرت خلیفہ ثانی کے مبارک کاموں کا ذکر کر کے لطف اُٹھاتے.انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چھڑی دی تھی.جس کا دستہ ابھی تک بطور تبرک میرے پاس محفوظ ہے.فجزاہ اللہ خیراً.(۴) : بنوں میں ہم دفتر جاتے ہوئے اپنے ساتھ سلسلہ کے ٹریکٹ لے جاتے اور انگریز.پٹھانوں.مسلمانوں اور ہندوؤں میں تقسیم کرتے تھے.وہاں عبدالہادی صاحب اور شیخ اللہ بخش دو غیر مبائع صاحبان تھے.کئی دن رات ان سے بحث ہوتی رہی.ایک شب میرے مکان پر ان سے بحث ہو رہی تھی کہ نماز عشاء کا وقت ہو گیا.میں امام تھا اور یہ دونوں مقتدی.میں نے دعا کی کہ الہی ! ان دونوں میں سے ایک دے دے.قدرت الہی کہ شیخ صاحب نے بیعت کر لی.اور عبدالہادی صاحب غیر مبایعین کے بڑے بھاری رُکن بن گئے.سُنا تھا کہ بعد میں کسی نے ان کو قتل کر دیا تھا.(۵) لکی مروت کے ایک شریف الطبع مولوی بتوں تشریف لائے.کسی نے ان کے پاس شکایت کی کہ یہاں ایک مرزائی بابو آیا ہوا ہے جس کی وجہ سے بعض لوگ احمدی ہورہے ہیں.انہوں نے کہا کہ اس کو میرے پاس لاؤ میں اس سے بات کروں گا.میں نے سُنا تھا کہ یہ مولوی صاحب حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید کے خاص دوستوں میں سے تھے اور جب وہ آپ کے وطن خوست گئے تھے تو حضرت مروح نے ان کو چار صد روپیہ کی قیمت کا گھوڑا بطور تحفہ دیا تھا.مکرم عبدالکریم صاحب سیکرٹری تبلیغ جو ان دنوں ہماری کور میں ملازم تھے.رات کے دس بجے کے بعد مجھے بیدار کر کے یہ بتا کر لے گئے کہ فلاں مکان میں
۱۳۳ سے پٹھان مولوی جمع ہیں اور آپ کو بحث کے لئے بلا رہے ہیں.ہم پہنچے تو دیکھا کہ ایک بڑی ڈیوڑھی میں بڑی بڑی چارپائیوں پر بڑے بڑے پٹھان مولوی بیٹھے ہیں.ان مولوی صاحب نے جو میانہ قد شکیل اور شریف نظر آتے تھے.مجھے اپنے پاس جگہ دی.اور رسمی گفتگو کے بعد پوچھا کہ ہم لوگ کیا کہتے ہیں.میں نے کہا کہ مرزا صاحب نے ہمیں بتلایا ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں.کہنے لگا کوئی دلیل؟ میں نے غالباً یہ آیت فلمّا تو فیتنی پڑھ کر اس کی تفسیر بیان کی.فرمایا اور دلیل؟ میں نے ایک اور آیت پڑھ دی.پھر کہا کوئی اور میں نے ایک اور آیت پڑھ کر تغییر شروع کر دی.اللہ تعالیٰ نے مجھے خوب تبلیغ کر نیکی تو فیق بخشی جس پر میں بھی اور میرے ساتھی بھی متعجب تھے.جب رات بہت گذر گئی تو میں نے کہا کہ میں ایک عقلی دلیل دیتا ہوں.کہ اگر یہ کہا جائے کہ جب تک پہلا جرنیل جو ابھی تبدیل ہوا ہے نہ بُلایا جائے.اس علاقہ کا انتظام نہیں ہوسکتا.اور سب کام خراب ہو جائے گا تو کیا موجودہ جرنیل کی کوئی عزت باقی رہے گی ؟ خدا جانے کس طرح مولوی صاحب کے منہ سے نکل گیا.نہ سہی.نہ رہے.اس پر لوگوں نے مجھے کہا کہ اب آپ جائیں اور وہ پٹھان سخت شرمندگی محسوس کرنے لگے کہ مولوی صاحب نے یہ کیا کہہ دیا ہے.میں اور میرے ساتھی وہاں سے چلے آئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ تبلیغ کی توفیق ملی.حالانکہ موقعہ بڑا خطرناک تھا.یہ لوگ ہمیں مار بھی ڈالتے تو کوئی گواہ نہ ملتا اور نہ مقدمہ ہو سکتا.(4): بنوں میں جب ہر طرف یہ شور اُٹھا کہ مرزائی یہاں تبلیغ کر رہے ہیں تو میں نے حضرت کے حضور عریضہ لکھا کہ حضرت حافظ روشن علی صاحب اور کسی اور مبلغ کو بھجوائیں.حضور نے درخواست کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے حضرت حافظ صاحب اور حضرت میر محمد اسحق صاحب کو بنوں بھجوا دیا.دونوں بزرگوں نے خوب تبلیغ کی اور سارے علاقہ میں شور پڑ گیا.غرض اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ سے یہ کام کرایا.جب کہ اس زمانہ میں صوبہ سرحد میں تبلیغ احمدیت کرنا بڑا مشکل کام تھا.فالحمد الله علیٰ احسانہ جو طلب میں نے کیا اپنی عنایت سے دیا تیرے قربان میرے ناز اٹھا نے والے (۷): بنوں میں غالباً اواخر ۱۹۱۶ء میں ایک روز میں اپنے ساتھی کلرک بابو ہری
۱۳۴ سنگھ کیساتھ دفتر سے گھر کی طرف آرہا تھا.ان کے ساتھ اکثر مذہبی گفتگو رہتی تھی.انہوں نے پوچھا کیا آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے.میں نے کہا کہ آپ سوال کی تصیح کر کے یہ پوچھیں کہ آپ کا میرے مقابل پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ تعلق ہے.انہوں نے کہا یونہی سہی.اثبات میں جواب دینے پر انہوں نے ثبوت طلب کیا.میں نے کہا یہ کہ آپ میرے ہاتھ سے ڈسچارج ہوں گے.یہ بات تو میرے منہ سے نکل گئی اور میں خود حیرت میں ڈوب گیا کہ یہ کیا بات میرے منہ سے نکلی تھی.ادھر یہ سکھ بھی حیران تھا کہ یہ کیا جواب ملا ہے.اللہ تعالیٰ کی شان تھوڑے عرصہ میں ان کی آنکھوں میں تیز گرے پڑ گئے.اور وہ کئی ماہ تک شفا خانہ میں داخل رہے.وہ صحت یاب ہوئے تو میں رخصت لے کر قادیان آگیا.اور وہ کور کے ساتھ راولپنڈی آگئے میں ابھی رخصت پر تھا کہ بشمول بر چهار ہندوستانی سرداران یعنی افسریه سازش کی گئی کہ مجھے ہری سنگھ کے ماتحت کر دیا جائے تو میں تنگ آکر ملازمت ترک کر دوں گا.رخصت سے واپسی پر مجھے اس بات کا علم ہوا میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور بڑے الحاح سے دعا کی کہ میں گنہگار ہوں.میرے گناہ معاف فرما کر میری عزت رکھیو.میں گھر سے دفتر کی طرف جارہا تھا تو یکے بعد دیگرے چاروں ہندوستانی سرداروں سے سامنا ہوا.اور ہر ایک نے معذرت کر کے شرارت کسی دوسرے کی بتائی اور بتایا کہ اس میں میں قصور وار نہیں.دفتر میں پہنچا تو بابو ہری سنگھ نے کہا کہ افسر آپ پر مہربان ہے.اس کو کہیں کہ وہ مجھے ہسپتال لے جاکر طبعی طور پر مجھے نا قابل ملازمت قرار دلا دے تا کہ مجھے پنشن مل جائے.چنانچہ میرے کہنے پر افسر نے ایسا ہی کیا.جب ان کی ملازمت سے فراغت اور وظیفہ (پنشن) کے کاغذات بن گئے اور میں ان کے ساتھ گھر کو آرہا تھا تو اچانک بنوں والی بات مجھے یاد آگئی.اور میں نے ان کو کہا کہ لو بابو صاحب! آج وہ بات پوری ہو گئی کہ آپ میرے ہاتھ سے ڈسچارج ہوں گے اور یہ اسلام کی سچائی کا ثبوت ہے وہ خاموش رہے.اے خدا قربان احسانت شوم کان احسان بقربانت شوم (۸): ۱۹۱۸ء میجر چینی کے بعد کپتان پارس آگئے.اور ہمیں ماری فیلڈ فورس ( ہرنائی سے ڈگی ) جانا پڑا.اس افسر نے مخفی کتاب میں تحریر کیا کہا اگر کبھی بابو فضل احمد اور
۱۳۵ یونٹ میں اختلاف پڑ جائے تو میں پُر زور سفارش کرتا ہوں کہ فضل احمد کی بات پر کمان افسر عمل کرے.کیونکہ یہ بہت دیانتدار اور سچا آدمی ہے.وغیرہ.۱۹۱۴ء میں افسر مذکور کے بعد لیفٹیننٹ اینڈ رسن آئے اور ہمیں نوشہرہ جانا ہوا.یہاں ایک روز ایک رسالدار مجھے ایک سید کے مکان پر لے گئے.وہ نوشہرہ کا رئیس تھا.اس بد زبان نے حضرت ام المومنین کی شان میں بے ادبی کے کلمات کہے.جس سے میرا دل جل گیا.اور ابھی تیسرا دن نہ گذرا تھا کہ میرے دل کا شعلہ اس سید کے ٹال پر جاپڑا.اور اسے آگ لگ جانے سے اس کا ایک لاکھ روپے کا نقصان ہو گیا.میں اس کی پریشانی کو دیکھتا اور اللہ تعالیٰ کے حضور حضرت ام المؤمنین کی قدرو منزلت کو محسوس کرتا.اور اس کی قدرتوں کا تصور کر کے محو حیرت ہو جاتا کہ شدید البطش نے کتنی جلدی اس رئیس کو پکڑا اور اس کا سینہ جلا دیا.ع میرے دل کی آگ نے آخر دکھایا یہ اثر ان کے بعد ایک اور کمان افسر کپتان ڈیمیٹر آگئے.میں راولپنڈی میں تھا اور ہمارا کور جلال آباد کے قریب.وہاں چارج لینے پر میری غیر حاضری میں بعض ہندوستانی افسران نے ان کو کہا کہ آپ کی کور کا کمان افسر تو دراصل با بو فضل احمد ہی ہے.جو یہاں کا ہیڈ کلرک ہے.اس نے جوش میں آکر کہا کہ ہم اسے دیکھیں گے.اور وہ ہمارے زمانے میں نہ رہ سکے گا.تھوڑی دیر کے بعد وہ ایک بڑے افسر کو جلال آباد میں ملنے گیا.جس نے اسے اس یونٹ کا چارج لینے پر مبارک باد دی کہ وہاں ایک بابو فضل احمد نام ہے اور کہا کہ تم اس کی بات مانا کرنا اور اس کے خلاف کسی کی شکایت نہ سُنتا.وہ حیران ہوا.چند دن بعد راولپنڈی آیا تو ہمارے یونٹ کے سرداروں کے متعلق میری رائے پوچھی.مجھے علم تھا کہ وہ کہہ چکا ہے کہ ہمارے زمانہ میں فضل احمد نہیں رہے گا.اور اب وہی افسر پوچھ رہا ہے کہ انڈین افسروں کے متعلق اپنی رائے بیان کروں.پہلے تو میں خوفزدہ ہوا.مگر اس کے اصرار پر میں نے اپنی رائے بیان کی تو اس نے بہت خوش ہو کر کہا کہ آپ ہمارے زمانہ میں بھی ویسے ہی معزز رہیں گے.جیسے پہلے افسران کے زمانہ میں رہے ہیں.میں اللہ تعالیٰ کے اس کام پر ابھی حیران ہی تھا کہ افسر نے واپس جا کر اپنے پاس مجھے بلانا چاہا.میں نے روزانہ کی تلاوت
۱۳۶ میں ایک روز سورۃ فتح پڑھی.اور جب پڑھا اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحاً مُّبِينًا.تو میرے دل میں گذرا کہ مجھ پر کوئی انعام الہی نازل ہوگا.تلاوت سے فارغ ہوا تھا کہ اس کا تار کے ذریعہ میرے نام حکم آیا کہ کچا گڑھی ( نزد پشاور) میں پہنچوں.میں وہاں پہنچا تو افسر مذکور کو جلال آباد جانے کا حکم آگیا.اسی جگہ پر ہمارے یونٹ کا قیام تھا.اتفاق ایسا ہوا کہ لڑائی سے ڈر کر بعض بار گیر بھاگ گئے.اور اپنے مالکوں کے اونٹ چھوڑ گئے ہیں.چونکہ وہ لڑائی کے دن تھے.کمان افسر نے مالکان شتران کو حکم بھیجا کہ وہ اپنے فرار کردہ بارگیروں کی جگہ اور بار گیر بھیجیں.مگر کوئی نہ آیا اور نہ مالکان نے جواب ہی دیا.اس پر کمان افسر نے ناراض ہو کر ان کے اونٹ فروخت کر دیئے.اور اپنے ماتحتوں کو دے دیئے.اس کمان افسر نے میرے نام پر دو آسامیاں (چھ اونٹ ) لکھ دیئے.اور اسی طرح دیگر عہدیداران مثلاً انڈین افسروں وغیرہ کے نام پر اونٹوں کا اندراج کر دیا.جس سے مجھے قریباً دو ہزار روپیہ مفت میں مل گیا.ع اے خدا قربان احسانت شوم لیفٹیننٹ اینڈرسن تبدیل ہو کر آئے اُن کا زمانہ میرے لئے بڑی عزت اور حکومت کا تھا.۱۹۲۰ء میں میجر براٹسن آئے.سنا گیا کہ یہ بڑا سخت افسر ہے.میں ان دنوں مری میں تھا.اس کی تار آئی کہ دفتر نیچے لاؤ.میں راولپنڈی میں آیا اور اُن سے ملا.افسر مذکور کو خدا نے ایسا موم کر دیا جیسے کوئی مرید ہوتا ہے.اور ہر بات مانتا ہے.مجھے ان ایام میں تنخواہ گورنمنٹ سے پچھتر روپے اور یونٹ سے الاؤنس ڈیڑھ سو روپیہ گویا گل سوا دوصد روپے ماہوار ملتے تھے.ملٹری آڈٹ نے یہ سوال اٹھایا کہ سرکاری ملازمین کو دو جانب سے تنخواہ نہیں مل سکتی.کیمل کور کے کلرکوں کی طرح ہم تین احمد یوں (۱) حضرت مولوی فخر الدین صاحب نمبر ۴ ۵ کیمل کو لاہور چھاؤنی.(۲) با بوشاہ عالم صاحب نمبر ۵۲ کیمل کو ر جہلم.اور (۳) خاکسار فضل احمد نمبر اہ کیمل کو راولپنڈی کو بڑا نقصان پہنچا.کیونکہ حکومت ہند نے بھی یہی فیصلہ کر دیا کہ صرف تنخواہ ملا کرے گی.الاؤنس نہیں دیا.جائے گا.اس طرح مجھے سوا دوسو کی بجائے صرف پچھتر روپے ملنے لگے.چونکہ مجھے سب.: اونٹوں کے مالک سردار اور ان کے ملازم بار گیر کہلاتے تھے ( فضل احمد )
۱۳۷ زیادہ الاؤنس ملا کرتا تھا اس لئے مجھے نقصان بھی سب سے زیادہ پہنچا.خاکسار نے ہر چند چاہا کہ ملازمت چھوڑ کر تجارت شروع کر دوں اور استعفیٰ دے دوں مگر حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی نے اجازت نہ دی اور فرمایا ملازمت ہی کرتے رہو.گو اس وقت مجھے اس کا سخت صدمہ ہوا.کیونکہ میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میں اس حالت میں تھوڑی سی تنخواہ پر کام کروں.مگر اللہ تعالیٰ اپنے پاک بندوں کے کلام میں برکت رکھتا ہے.یہ اس کا اثر اور حضور کا احسان ہے کہ مجھے ۱۹۳۶ء سے پنشن مل رہی ہے.الحمد للہ علی ذالک.۱۹۲۶ء کوہ مری اور پھر بنوں میں قیام رہا.۱۹۲۷ء چند ماہ بنوں رہا.پھر کوئٹہ تبادلہ ہوا.۱۹۲۹ء نمونیہ کی وجہ سے داخل شفاخانہ کیا گیا.میری زندگی کی امید منقطع ہوگئی تھی.مگر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی دعا اور توجہ سے دوبارہ زندگی پائی.اور حضور کی توجہ سے ہی جماعت نے میری بے حد خدمت کی.تین احمدی ڈاکٹر.حضرت ڈاکٹر خان صاحب محمد عبداللہ صاحب مرحوم و مکرم ڈاکٹر محمد عبدالرشید صاحب مرحوم پسر حضرت منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی.اور مکرم ڈاکٹر عبدالمجید خان صاحب.شاہجہانپوری مقیم قلات میری دیکھ بھال میں مصروف تھے.اور حضرت مولوی فخر الدین صاحب سابق ہیڈ کلرک نمبر ۵۴ کیمل کو ر بابو محمد اسمعیل صاحب معتبر ہو ہیں ہیں اور بابو محمد سعید رح - صاحب حال ربوہ نے بہت خدمت کی.رات کو باری باری کئی گھنٹے میرے جسم کو دباتے رہتے اور تمام رات اسی خدمت میں گزار دیتے اور ساتھ ہی یہ اپنے گھروں کے کام کرتے.اور اپنے : آپ نے بتیس ۳۲ سال پنشن پائی.: آپ قادیان ہجرت کر کے دارالبرکات میں مقیم تھے.بعد ہجرت پھر کوئٹہ چلے گئے.اور چند سال - قبل وہاں وفات پائی.: چند سال قبل وفات پائی.ان کے والد ماجد کے حالات میں ان کا ذکر اصحاب احمد جلد اول میں آتا ہے.: آپ قلات میں قیام رکھتے ہیں.: مدفون بہشتی مقبرہ قادیان.فون مقبره بهشتی ربوہ.چند سال قبل فوت ہوئے.
۱۳۸ دفتر بھی حاضر ہوتے تھے.اور بھی بہت سے احمدی بھائی خدمت کرتے رہے.فجزاهم الله احسن الجزاء.بحالی صحت پر جب میں نے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں حالات لکھے اور احباب کے ایثار اور قربانی سے اطلاع دی تو حضور نے جماعت کو مبارک باد کا خط لکھا.ایک غیر احمدی نے جب اس خدمت کا نظارہ دیکھا تو سمجھا کہ سب میرے رشتے دار ہیں.اور یہ معلوم کر کے حیران رہ گیا کہ یہ سب اخوت اسلام اور احمدیت کی برکت ہے.یہ خدمت اور محبت دیکھ کر میں بارہا ان احباب کے لئے دعائیں کرتا اور کہتا رہا.ع تیرے کاموں پر مجھے حیرت ہے اے مولا کریم میرے جیسا گنہگار انسان اور تیری یہ عنایت ! ذالک فضل الله يؤتيه من يشاء ۱۹۳۰ء غالبا جون میں کوئٹہ سے میری تبدیلی لاہور چھاؤنی ہوگئی.لاہور میں مجھے سیکرٹری تبلیغ منتخب کیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی صدارت میں انتخاب ہوا اور محترم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے امیر جماعت لاہور مقرر ہوئے.انہی ایام میں مکرم ملک عبدالرحمن صاحب خادم مرحوم اور مکرم قاضی محمد نذیر صاحب لائیلپوری ( حال ناظر اصلاح وارشاد ) لاہور میں تشریف لاکر مباحثات کیا کرتے تھے.بہت کام ان دونوں معزز احباب نے کیا.اور میرے زمانہ سیکرٹری شپ میں لاہور میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے خوب تبلیغ ہوئی.فالحمد للہ علی ذالک.میں اکثر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں دعا کے لئے لکھتا رہتا ہوں.ایسے ہی ایک موقعہ پر دعا کے لئے درخواست کی.جس سے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا.غالباً اگست میں میری زوجہ ثانیہ بیمار ہو گئیں.ہمارے کمانڈنٹ کرنل رائس نے میرے مطالبہ پر سپرنٹنڈنٹ لیڈی ایچیسن ہاسپٹل کے پاس پر زور سرکاری چٹھی لکھی کہ وہ ان کا علاج توجہ سے کریں.لیکن ساتھ ہی بتایا کہ وہ ان سے واقف نہیں ہیں.لیڈی ڈاکٹر انچارج نے چٹھی پڑھ کر کہا کہ کرنل صاحب تو میرے بڑے دوست ہیں.انہیں شاید علم نہیں کہ میں انچارج ہو کر ابھی ایک ہفتہ ہوا ہے لاہور آئی ہوں.اور اسی وقت جوا با چٹھی لکھ کر مجھے دی کہ میں توجہ سے علاج کروں گی اور اپنے ولایت سے لاہور آنے کا بھی ذکر کیا.اور مجھے ہر طرح سے تسلی
۱۳۹ دی.یہ اتنی بارعب لیڈی ڈاکٹر تھی کہ کسی کو شفا خانہ کے احاطہ کے اندر آنے کی اجازت نہ دیتی تھی.مگر بخلاف عادت میرے لئے شفاء خانہ کے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کو ہر وقت اندر آنے کی اجازت ہے.بلکہ میرے بچوں کو صوفہ وغیرہ پر کھیلنے سے منع نہ کرتیں.خوشی سے دیکھتی رہتیں.میری بیوی کا علاج ہر طرح مہربانی اور محبت سے کیا.بلکہ اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ انہی دنوں میں بعض احمدی بھائیوں کو لیڈی موصوفہ کے پاس لے جاتا تو بڑی توجہ کرتیں.فیس نہ لیتیں.ہر طرح امداد کرتیں.حالانکہ دوسروں پر اس کی سختی کا یہ عالم تھا کہ لوگ احاطہ شفاخانہ سے باہر کھڑے رہتے.دس روپے اس کی فیس اس کو بھیج دیتے.بڑی دیر کے بعد وہ اپنے اردلی کے ذریعہ مریض کو بلواتی.بلکہ میں دو چار بار کسی مریضہ کے ساتھ گیا.تو موصوفہ نے کہا کہ آپ خود نہ آیا کریں.خود آنے میں تکلیف ہوتی ہے.اپنا رقعہ مریضہ کو دے دیا کریں.میں آپ کے مریض کو دیکھ لیا کروں گی.اور حقیقت موصوفہ نے ایسا ہی کیا.ایک شام جب میں گھر کو آنے لگا.جو احمد یہ مسجد بیرون دہلی دروازہ کے قریب تھا تو معلوم ہوا کہ مولوی تاج دین صاحب (سابق ناظم دارالقضاء ربوہ) اپنی اہلیہ کو جو سخت بیمار ہیں لائے ہوئے ہیں.پر بھروسہ کرتے ہوئے ایک چارپائی پر مریضہ کو لٹا کر اسی ہسپتال میں لے گئے.مریضہ کی حالت سخت نازک تھی.اتوار کے روز لیڈی ڈاکٹر ہسپتال نہ آتی تھی.اس کی نائب انگریز لیڈی ڈاکٹر نے کہا کہ اتوار کو ہم کسی مریض کو داخل نہیں کرتے.مگر آپ کا لحاظ ہے.ہم اس مریضہ کو داخل تو نہیں کرتے مگر رات اس کی دیکھ بھال کریں گے.کل لیڈی ڈاکٹر صاحبہ آئیں گی.رات بھر مولوی صاحب اور دیگر احباب فکر مند رہے.مگر دوسری صبح لیڈی ڈاکٹر نے میرا نام سن کر مریضہ کو داخل کر لیا.اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل و احسان سے صحت یاب ہو گئیں.اللہ تعالیٰ ایک روز حضرت قریشی محمد حسین صاحب امیر جماعت لاہور موجد مفرح عنبری نے مجھے کہا سنا ہے کہ یہ لیڈی ڈاکٹر آپ کی سفارش پر بہت توجہ کرتی ہے.میری بہو بیمار ہے.سو میں نے سفارش کرتے ہوئے لکھا کہ مریضہ امیر عورت ہے.اس سے فیس لے لیں.جس پر اس نے ایسا ہی کیا اور مریضہ کا علاج کیا.
۱۴۰ جب وہ واپس ولایت جانے لگی تو میں نے اسلامی اصول کی فلاسفی، (انگریزی) تحفہ پیش کی اور شاید کوئی اور کتاب بھی.اور اُن کا بہت بہت شکریہ ادا کیا کہ آپ نے میری بڑی امداد فرمائی اور میری درخواستوں پر مریضوں پر رحم کیا.اس نے شکریہ کے ساتھ لٹریچر قبول کیا.میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ حضرت صاحب کی دعاؤں کی برکت تھی.ع وگرنه من آنم کہ من دانم غالباً ۱۹۳۲ء کے آخر میں لاہور سے ڈیرہ اسماعیل خان میرا تبادلہ ہوا.اور ۱۹۳۳ء کی گرمیوں میں رزمک جانا پڑا.ان دنوں محمد صادق صاحب ایم ای ایس میں سٹور کیپر تھے.میں اپنی فرصت کے اوقات ان کے پاس گزارا کرتا.ان کی طبیعت بہت نرم تھی.اور یہ سلسلہ کی گفتگو میں ذوق اور شوق کا اظہار کیا کرتے تھے.ان کے ذریعہ بعض اوقات تبلیغ بھی ہو جاتی تھی.علاوہ ازیں وہاں فیروز دین صاحب فورمین اور نصر اللہ خاں صاحب الیکٹریشن تھے.یہ سب دوست سلسلہ کے فدائی تھے اور بڑی محبت سے پیش آیا کرتے تھے.یہ زمانہ میرے لئے پریشانی کا تھا.اور میری توجہ دعاؤں کی طرف تھی.ہم ایک خیمہ میں سات آٹھ کلرک رہتے تھے.ان میں سے ایک ہندو کلرک مجھے بار بار نماز پڑھتے دیکھتا تو متاثر ہو کر بے اختیار ہو کر کہتا کہ یہ شخص تو دنیا سے منہ پھیر کر عبادت میں ہی مصروف رہتا ہے.کاش ہم ہند و کلرک بھی ایسے ہی ہوتے.اس زمانہ میں لیفٹیننٹ نذیر احمد بھی وہاں تھے اور وہ نئے نئے لیفٹیننٹ ہو کر گورا فوج میں کمانڈر دستہ مقرر ہوئے تھے.اور ہر فرصت کے موقعہ پر ورزش جسمانی ہی کرتے رہتے تھے.مجھ سے بہت محبت رکھتے تھے.اور چاہتے تھے کہ میں اُن کی سفارش خاں بہادر محمد دلاور خانصاحب کے پاس کروں تا کہ انہیں وہ اپنے محکمہ میں لے لیں.خان بہادر صاحب اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ بھی انہی دنوں رزمک میں تھے.یہ بالکل پیغامی خیال کے تھے.میری ان کے ساتھ اکثر بحث ہوتی رہتی تھی مگر میں نے دیکھا کہ وہ دل کے بہت نرم اور حد درجہ کے شریف طبع تھے.حضرت خلیفہ ثانی کے ذکر پر باتیں تو کرتے رہتے تھے مگر.
۱۴۱ خلاف شان کبھی کوئی بات نہ کرتے.ایک احمدی بھائی ملک الطاف خان صاحب محلہ دار الفضل قادیان میں رہتے تھے.ان کے بہت مداح تھے اور ان کے الہامات کا بھی اکثر ذکر کرتے.یہی وجہ تھی کہ خدا نے ان کو پھر جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے.حضرت مصلح موعود کی قبولیت دعا کا نشان اللہ تعالیٰ کے مجھ پر بے حد احسان ہوئے.ایک یہ کہ ۳ نومبر ۱۹۵۷ء کو بندش بول سے کوئی ایک ماہ سے اوپر شدید بیمار رہا.ایک وقت مجھ پر ایسا آیا کہ میری آنکھیں پتھرا گئیں.اور نزع کی سی کیفیت وارد ہو گئی.چھت کی ایک کڑی پر میری نظر تھی.لیکن بول نہ سکتا تھا.میرے تمام بیٹے خدمت میں مصروف تھے.حضرت مصلح موعود.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب (رضی اللہ تھم ) اور دوسرے بہت.بزرگ میرے حق میں دعائیں کرتے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا منشاء تھا کہ لاہور جا کر میوہسپتال میں علاج کروایا جائے.پسرم عزیز محمد احمد سلمہ نے عرض کی کہ اڈہ بس تک لے جانے پر ہی ابا جان کی وفات ہو جائے گی.ایک روز میاں غلام محمد صاحب اختر عیادت کے لئے آئے.میری حالت بہت نازک تھی.میں نے چشم پر آب ہو کر کہا کہ حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہوں تو میری طرف سے بعد السلام علیکم عرض کریں کہ بادشا ہوں کے ہاں شادی وغیرہ خوشی کی تقریبات پر قیدی رہا کئے جاتے ہیں.حضور کے خاندان میں بھی ایک ایسی ہی تقریب ہے.میں مرض کا اسیر ہوں.دعا کر کے مجھے مرض سے آزاد کرائیں.اختر صاحب نے بعد میں بتایا کہ جب میں نے یہ پیغام عرض کیا تو حضور کے چہرہ سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ حضور نے دعا کی ہے.اللہ تعالیٰ نے قبول دعا کا یہ نشان دکھایا کہ ایک ماہ سے زائد عرصہ سے آلہ کے ساتھ پیشاب خارج کیا جاتا تھا.اس واقعہ کے بعد : حضرت ملک محمد الطاف خان صاحب ہجرت کر کے دار الفضل میں مقیم ہو گئے تھے.بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.خان بہادر صاحب چند سال قبل وفات پاچکے ہیں.زیر اخبار احمد یہ الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۵۷ء میں آپ کو بندش پیشاب بخار اور اسہال ہونے کا ذکر ہے.
۱۴۲ مجھے خیال آیا کہ خود پیشاب کر کے دیکھوں.میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب کہ پیشا خود ہی خارج ہو گیا.اور بعد ازاں باقاعدہ آنے لگا.فالحمد للہ علی ذالک.میرے دل پر یہ غالب اثر ہے کہ یہ حضور کی قبولیت دعا کا نشان تھا.جس میں دوسرے بزرگوں کی دعائیں بھی شامل تھیں.انہی ایام میں ایک روز حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی تشریف لائے.حالات سُن کر دعا کی جس کے دوران میں اللہ اکبر کا نعرہ زور سے ان کی زبان سے بلند ہوا.اور آپ نے بتایا کہ میں نے دعا کے دوران دیکھا کہ آپ کو فرشتے نور کے پانیوں سے غسل دے رہے ہیں.جس سے مراد غسل صحت نکلا.فالحمد لله جہاد ملکانہ میں شرکت ۱۹۲۳ء میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی کا ارشاد پہنچا کہ احمدی احباب رخصت لے کر آگرہ آجائیں.جہاں آریہ قوم نے بہت سے مسلمانوں کو شدھ کر لیا ہے.مجھے اس ارشاد کے ملنے سے خوشی بھی ہوئی لیکن فکر بھی.اس وجہ سے کہ کوہ مری میں اکیلا میں کمانڈنگ افسر میجر برائٹسن کے ساتھ تھا اور دفتر کا کام کمان افسر صاحب خود نہ کرتے تھے.ان کا کام محض دستخط کرنے کا تھا.میں نے ڈرتے ڈرتے افسر موصوف سے ذکر کیا کہ یہ مذہبی معاملہ ہے اور میرے مُرشد کا حکم آیا ہے کہ میں بھی آگرہ جاؤں اور ایک ماہ تک وہاں کام کروں.افسر نے کہا کہ آپ کے سوا اور کوئی کلرک بھی یہاں نہیں دفتر کا کام کون کرے گا.میں نے کہا مجبوری ہے.یہ مذہبی معاملہ ہے.افسر نے سوچ سوچ کر کہا اچھا چلے جاؤ.مگر اس شرط پر کہ مجھے ضرورت پڑے گی تو آپ کو تار دیا جائیگا.آپ کو واپس آنا ہوگا.میں نے کہا کہ اگر آپ نے مجھے واپس بلایا تو کرایہ آمد و رفت آپ کے ذمہ ہونا چاہیئے.افسر نے یہ منظور کر لیا.سو میں آگرہ گیا.اور واپس بلایا گیا.اپنے مرشد کی فرمانبرداری کے نتیجہ میں میں نے کام کا ثواب بھی حاصل کر لیا اور میرا خرچ کچھ بھی نہ ہوا.بلکہ سفر الاؤنس کی وجہ سے مجھے فائدہ بقیہ حاشیہ: اور ۷ انومبر کے پرچہ میں افاقہ کا اور ۲۱ نومبر کے پرچہ میں بندش پیشاب اور اسہال میں اضافہ ہو کر نقاہت بہت بڑھنے کا.
۱۴۳ رہا.فالحمد للہ.آگرہ جانے کے لئے میں قادیان پہنچا.حضرت امیر المومنین کے ارشاد پر آگرہ گیا.تو حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے جو ملکانہ کیمپ کے انچارج تھے.مجھے حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب.اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے ساتھ ریاست بھرت پور بھیجا.جہاں دونوں بزرگوں نے مہاراجہ کے وزیر اعظم سے ملاقات کی.میں ان کے ہمراہ رہا.اور مفت کا ثواب حاصل کیا.ہندو وزیر اعظم نے بڑی عہد شکنی کی تھی اور بے اعتنائی بھی.آگرہ میں چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے پاس کچھ نہیں تھا.اور وہ روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت تنگ تھے.مجھے انہوں نے قادیان بھیجا کہ میں ان کی طرف سے عرض کروں کہ روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت تکلیف ہے.حضور اخراجات کیمپ کے لئے مزید رقم عنایت کریں.حضرت نے مجھے فرمایا کہ چوہدری صاحب پہلے روپیہ کا حساب دیں کہ کہاں کہاں خرچ ہوا.پھر ہم مزید رقم دیں گے.میں نے عرض کیا کہ حضور وہ تو سخت تنگ آئے ہوئے ہیں.حضور ضرور کچھ رقم عنایت فرما ئیں.حضرت نے فرمایا کہ ہم اس شرط : دوسری سہ ماہی کے پہلے وفد میں شیخ فضل احمد صاحب ہیڈ کلرک راولپنڈی کا نام درج ہے.یہ وفد ۲۰ جون ۱۹۲۳ء کو بعد نما ز عصر روانہ ہوا.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصره حسب دستور سابق بیرونِ قصبہ تک الوداع کہنے کے لئے تشریف لے گئے.قادیان کے قریباً تمام احمدی احباب ساتھ تھے.حضور نے ارکان وفد کے لئے تقریر فرمائی اور دعا کی.اور سب سے ہاتھ ملا کر رخصت کیا.اس فہرست کے ۲۱.احباب قادیان سے روانہ ہوئے اور باقی آگرہ پہنچ چکے ہیں !! حضور کا یہ خطاب تین صفحات پر درج ہے ایسی نصائح فرمائی ہیں کہ ہدایات پر عمل کئے بغیر فائدہ مرتب نہیں ہوتا بہت سی چھوٹی باتیں بڑا ثر رکھتی ہیں.مومن بزدل نہیں ہوتا.خود فساد کھڑا نہ کرو.افسروں کی کامل اطاعت کرو.لوگوں سے میل ملاقات کی عادت ڈالو تبلیغی مقام نہ چھوڑو.جس جگہ متعین ہو اس کے ماحول کو بھی اپنا ہی علاقہ سمجھو.آریوں کے ایجنٹوں سے ہوشیار رہو.دعاؤں پر خاص زور دو.معترض کو عام فہم جوا.دو.لوگوں سے ہمدردی کرو.اپنی کارگزاری کی یاداشت رکھو.پہلے مبلغین کا جنہوں نے سخت مشکلات میں کام کیا شکر گذار بنو.۱۲
۱۴۴ پر ایک ہزار روپیہ دیتے ہیں کہ وہ پچھلا حساب دیں.اور آپ جا کر اور کوئی کام نہ کریں محض اُن سے حساب لے کر پڑتال کریں.اور ہمیں رپورٹ کریں.آج سے آپ اُن کے ماتحت نہیں رہیں گے.براہ راست ہمارے ماتحت ہوں گے.اور ہمارے احکامات کی تعمیل کریں گے.ورنہ یہ ایک ہزار روپیہ آپ سے لیا جائے گا.میں روپیہ لے کر آگرہ پہنچا اور چوہدری صاحب کو حضرت کا ارشاد سُنایا اور حساب مانگا.انہوں نے مجھے کاغذات حساب دے دیئے.جو میں نے پڑتال کر کے حضرت کے حضور پیش کئے تو مشکل حل ہوگئی.حسابات دیکھنے سے معلوم ہوا کہ حضرت چوہدری صاحب موصوف کی اپنی رقم بھی خرچ ہو چکی ہے.جو چوہدری صاحب کو یاد نہیں رہی تھی.اور وہ رقم میں نے ان کو واپس دلائی.یک صد سے زیادہ تھی.انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک احمدی دوست کسی گاؤں میں ملکانہ کی شدھی روکنے کے لئے متعین تھے.وہاں دیو بند کے علماء کی طرف سے کوئی چپڑاسی یا چوکیدار بھی تھا.جو ہمارے مسلمانوں کو جوش دلا کر جھگڑا پیدا کر دیتا تھا.مجھے چوہدری صاحب موصوف نے حکم دیا کہ میں دہلی جا کر مولانا کفایت اللہ صاحب سے جو علماء دیو بند کے سرگر وہ تھے ملوں اور ان سے ذکر کروں کہ وہ اپنے آدمی کو سمجھا دیں کہ وہ ہمارے کام میں رکاوٹ نہ ڈالے.میں دہلی پہنچا وہاں ایک احمدی دوست عبدالرحمن صاحب فرنیچر ڈیلر کو ہمراہ لے کر مولانا صاحب سے ملاقات کی وہاں مولانا سعید احمد صاحب یا احمد سعید صاحب سے بھی ملا.مولانا کفایت اللہ صاحب نے حالات سن کر مولوی سعید احمد صاحب کو کہا کہ اپنے آدمی کو تنبیہ کریں کہ وہ جھگڑا نہ کریں.انہوں نے مجھے فرمایا کہ فلاں بازار میں ہمارا دفتر ہے اور فلاں مولوی صاحب دفتر کے انچارج ہیں.آپ ان کو یہ رقعہ دے دیں ہم دونوں وہاں جانے لگے تو مولانا احمد سعید صاحب کہنے لگے کہ یہ شدھی کا قصہ ختم ہوئے تو ہم تمام احمدیوں کے خلاف ایک محاذ قائم کریں گے.اور آپ لوگوں کی ایسی خبر لیں گے کہ آپ کو ہوش آ جائے گی.میں نے جوش سے عرض کیا کہ مولانا ہم تو خدا تعالیٰ سے چاہتے ہیں کہ آپ ہماری مخالفت میں سارا زور لگا لیں اور پھر آپ بھی دیکھیں گے اور ہم بھی دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کس کی مدد کرتا ہے.مولانا کفایت اللہ صاحب بھی میری بات سُن رہے تھے.مگر انہوں نے کوئی بات نہ
۱۴۵ کہی.راستہ میں مجھے عبدالرحمن صاحب نے کہا کہ خدا نے ہی تصرف کیا ورنہ یہ احمد سعید صاحب بڑے جوشیلے اور لڑا کے ہیں.خدا جانے یہ سب کچھ سن کر کیسے خاموش رہے.ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر کیا کہ بات نے طول نہ پکڑا اور قصہ و ہیں ختم ہو گیا جب ہم دونوں دفتر علماء دیو بند پہنچے اور وہاں کے انچارج مولوی صاحب کو پیغام دیا تو انہوں نے کہا کہ میں اس چوکیدار کو ہدایت کروں گا کہ وہ جھگڑا نہ کرے.وہاں بہت سے علماء جمع تھے اور وہ ان کی دعوت وغیرہ کا انتظام کر رہے تھے.مگر وقت بچا کر ہمیں کہنے لگے.ایک بات تو آپ لوگ جتلائیں.ہم حیران ہیں کہ جس کسی مولوی کو کسی گاؤں میں شدھی وغیرہ روکنے کے لئے بھیجتے ہیں.اس کو معقول تنخواہ دیتے ہیں.سفر خرچ دیتے ہیں.کسی گاؤں میں رہنے کے دیگر ضروری اخراجات بھی دیتے ہیں.مگر وہ مولوی تھوڑے دنوں کے بعد ہمیں کہتا ہے کہ میں وہاں نہیں رہ سکتا وہاں یہ آرام نہیں.فلاں سہولت نہیں ، فلاں تکلیف ہے.یہ ہے وہ ہے.غرض وہ وہاں نہیں رہتا.اور ناراض ہو کر چلا آتا ہے.آپ لوگوں کے پاس وہ کونسا جادو ہے جس کے اثر سے آپ کے آدمی اپنی تنخواہ اور اپنا کرایہ خرچ کر کے اپنے خرچ پر گاؤں گاؤں پھرتے ہیں بھوکے پیاسے رہتے ہیں.ماریں کھاتے ہیں.دُکھ اُٹھاتے ہیں.پھر بھی خوش بخوش ہیں.اس میں کیا راز ہے.ہم تو آپ لوگوں کے متعلق سوچ کر حیران رہ جاتے ہیں.یہ بات کہنے والے بڑے عالم تھے.ہم نے کہا آپ دانا ہیں خود ہی سوچ لیں.وہ مسکرا پڑے اور ہم چلے آئے.اسی ذکر میں کہ احباب نے علاقہ ملکانہ کے جہاد میں کیسی کیسی جاں شاری دکھلائی اور کیسی مشکلات کی زندگی کائی.میں حکیم فضل حق صاحب بٹالوی مرحوم کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں.میں جن دنوں آگرہ میں حسابات تیار کر رہا تھا حکیم فضل حق صاحب مرحوم آگرہ آئے.انہوں نے مجھے بتلایا کہ میں الور میں متعین ہوں جو اس پہاڑ کے دامن میں ہے.جہاں حضرت کرشن جی مہاراج عبادت کیا کرتے تھے.وہاں بے شمار سانپ ہیں.اور کہتے تھے کہ ہم لوگ نماز عشاء پڑھ کر جب چار پائیوں پر سو جاتے ہیں تو صبح تک چار پائی سے نیچے نہیں اتر تے کہ مبادا نیچے سانپ ہو اور وہ ہمیں کاٹ کھائے.
۱۴۶ بعد پنشن خدمات سلسلہ اور رزق غیب کا سامان آپ رقم فرماتے ہیں: ” غالباً آخر ۱۹۳۴ء میں مجھے لاہور چھاؤنی تبدیل کر دیا گیا.بار بار کے تبادلوں سے میری طبیعت اُکتا گئی تھی.میں چاہتا تھا کہ کسی طرح مجھے پنشن مل جائے اور میں قادیان میں بقیہ زندگی گزاروں.سو اللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کردی اور میں طبی لحاظ سے نا قابل ملازمت قرار دیا جا کر لاہور چھاؤنی سے غالب ستمبر ۱۹۳۵ء میں قبل سبکدوشی طویل رخصت پر اپنے گھر قادیان آگیا.مجھے یاد ہے کہ میں نے کمرہ بند کر کے دعا مانگی کہ انہی! تو مجھے اپنے رحم خاص سے میری خواہش کے مطابق قادیان لے آیا ہے.اب ایک اور نظر رحم کر کہ مجھے کسی کے در پر رزق اور ملا زمت وغیرہ کے لئے جانا نہ پڑے حتی کہ خلیفہ کے در پر بھی نہ لے جائیو.اور اپنے فضل سے میرے رزق کے سامان کر یو.دعا کے بعد میں نے کمرے کا دروازہ کھولا تو ایک احمدی بھائی کو کھڑے پایا.جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی چٹھی لائے تھے.جس میں مرقوم تھا کہ آپ مجھے کسی وقت آکر ملیں.میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی کہ یہ قبولیت دعا کا نشان ہے.ملاقات میں آپ نے فرمایا کہ میں احمد آباد سنڈیکیٹ کا سیکرٹری ہوں.میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے دفتر میں کام کریں.میں نے خوشی اور شکریہ کے ساتھ تعمیل ارشاد کی.مجھے علاوہ پنشن کے ۳۰ روپے ماہوار الاؤنس ملنے لگا.نیز مجھے احمد یہ سٹور کا مینجر مقرر کیا گیا اور پندرہ روپے الاؤنس مقرر ہوا.اور مجھے اتنی ہی آمدنی ہونے لگی جتنی پنشن سے پہلے تھی.الحمد للہ کہ اللہ تعالٰی نے دعائن کر میری دستگیری فرمائی.“ احمد آبادسنڈیکیٹ میں ۱۹۳۶ء اور چند ماہ ۱۹۳۷ء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
۱۴۷ کے ماتحت اور پھر جنوری ۱۹۴۱ء تک محترم خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے ماتحت میں نے کام کیا.حضرت میاں صاحب نے اگر کبھی ایک لفافہ بھی ذاتی طور پر کسی کے نام لکھا تو اپنے پاس سے ڈاک خرچ دیا اور اپنا حساب اتنا پاک صاف رکھا کہ مجھے اس پاکیزگی کا علم ہو کر بے حد خوشی ہوئی.اور کیوں نہ ہو آخر کس کے صاحبزادے تھے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے! سبحان اللہ ! فروری ۱۹۴۱ء میں محترم مرزا شفیع صاحب محاسب صدر انجمن احمدیہ نے بطور نگران افسر امانت مجھے لگانا چاہا.۱۹۴۲ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مجھے علاقہ ناگپور میں پنڈھورنا مقام پر بھجوا دیا.۱۹۵۰ء میں مجھے افسر امانت بنا دیا گیا ہے.اس وقت مکرم مرزا عبد الغنی صاحب مرحوم محاسب تھے.چونکہ آنکھوں میں موتیا بند اتر رہا تھا اس لئے ۱۹۵۰ء میں ہی درخواست دے کر میں نے فراغت حاصل کر لی اور چنیوٹ میں خانہ نشین ہو گیا.گویا ۱۹۳۶ء سے ۱۹۵۰ء تک خدمت کی توفیق پائی.اس فراغت کے باعث میری آمدنی یکدم بہت کم ہو گئی.مگر اللہ تعالیٰ نے میرے بھانجے عزیزم سلیم اللہ خان سلمہ کے دل میں ایسی محبت ڈال دی کہ انہوں نے ماہوار تھیں روپے بھیجنے شروع کر دئے اور اس کے علاوہ بھی امداد کی.اس طرح غالباً ایک ہزار روپیہ یا اس سے زیادہ کی امداد کی.اللہ تعالیٰ اس کے مال.اولاد.ایمان اور عزت میں ترقی بخشے اور ہر طرح اس کا حافظ و ناصر ہو آمین.غرض میرے مولا نے جس کی نسبت کسی نے کہا ہے.ع چویک در به بند و گشاید دگر میرے حال پر رحم کھا کر اس طرح اپنے فضل کا دروازہ کھول دیا.پھر اپنے رحم سے میرے لڑکے عزیز مبارک احمد سلمہ کو میٹرک کر کے ایک سو روپیہ ماہوار کی ملازمت دلا دی.غرض کچھ پنشن کچھ عزیزوں کی طرف سے رقم ملنے لگی.اور خدا تعالیٰ کے رحم نے میری دستگیری کی اور میری ماہوار آمد کافی ہو گئی.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ عملہ محاسب میں میزانیہ ۴۹ - ۱۹۴۸ء تا ۵۱.۱۹۵۰ء میں اور صیغہ امانت میں میزانیہ ۵۲-۱۹۵۱ء میں آپ کا نام درج ہے.
۱۴۸ مومن کو اللہ تعالیٰ آفاق اور خود اس کے نفس میں نشانات دکھاتا ہے مگر کا فرنشانات سے ایسے گزر جاتا ہے کہ اس کو نظر ہی نہیں آتے.بس میں یہ بھی اس کا نشان سمجھتا ہوں کہ اس نے محض رحم سے میری اور میرے بچوں کی پرورش کے سامان کر دئے حالانکہ بظاہر کوئی سامان نہ تھے.مگر میرے خدا نے مجھے ہر طرح نوازا اور میرے ایمان میں ترقی اور تقویت بخشی اس کی عطا اور بخشش سے آسمان اور زمین فیض اٹھا رہی ہے.جیسے مولانا روم فرماتے ہیں.اے خدا اے خالق عرش بریں! شام را دادی تو زلف عنبریں! روز را شمع روشن اے کریم! کردی روشن تر از عقل سلیم اے خدا قربان احسانت شوم کان احسانی بقربانت شوم اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر اگر میں ہر وقت شکر ادا کرتا رہوں پھر بھی اس احسان کا کماحقہ شکر ادا نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ کا ایک خاص احسان مجھ پر یہ ہوا کہ مجھے احمد یہ سٹور قادیان کا مینجر ۱۹۳۵ء بنایا گیا تھا.اور مجھے یہ توفیق ملی کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زیر ہدایت میں نے سٹور کے مکانات و دو کانات کی نیلامی کا بندو بست کیا.اور اس وقت عام خیال یہ تھا کہ احمد یہ سٹور کی اراضی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے ہی خریدی گئی تھیں.جب ہم ۱۹۴۷ء کے انقلاب کے بعد ربوہ آئے اور الائمنٹ وغیرہ کی قیمتوں کا سرکار سے مطالبہ کیا گیا تو میں نے تمام خریدارانِ ارضیات و دوکانات و مکانات کو بحیثیت مینجر خرید کی تصدیقات دی تھیں.اس میں ایک ٹکڑا اراضی میرے ایک لڑکے کے نام پر میں نے خریدا ہوا تھا.جب میرا مطالبہ پیش ہونے کا وقت آیا تو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اراضیات کے ریکارڈ سے یہ پتا نہیں لگتا تھا کہ سٹور کی اراضی اس خاندان سے خرید کی گئی تھی.میں سخت حیران ہوا کیونکہ مجھے یہ خوف دامن گیر ہوا کہ افسر متعلقہ نے مجھ سے پوچھ لیا کہ بطور مینجر
۱۴۹ احمد یہ سٹور یہ اراضی کس سے خریدی تھی تو میں کیا جواب دوں گا.اور ثبوت نہ دے سکا تو وہ مجھ پر مقدمہ بنادے گا کہ یہ خود اپنی ملکیت ثابت نہیں کر سکتا.اس لئے اس کو جواب دہ ہونا ہوگا.کہ یہ اراضی کسی غیر کی تو نہ تھی جو اس نے نیلام کردی.میں نے جب اس معاملہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے سامنے رکھا اور عرض کیا کہ مجھے اپنی رقم کا تو فکر نہیں.فکر اس امر کا ہے کہ کہیں مجھ پر مقدمہ ہی نہ بن جائے.آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری مدد فرمائے اور مجھے اس غم سے عزت کے ساتھ خلاصی بخشے.آپ نے دعا کا وعدہ فرمایا اور میں کاغذات احمد یہ سٹور لے کر جھنگ گیا افسر نے حالات سُن کر ابھی یہ فیصلہ کرنا ہی چاہا تھا کہ صدر انجمن احمدیہ کا ریکارڈ پیش کریں کہ اتفاق حسنہ سے میری بحیثیت مینیجر احمد یہ سٹور کاپی پیش کی گئی.اور اس نے بغیر پس و پیش کئے اسے درست تسلیم کر کے مجھے گیارہ صد روپیہ کی ڈگری دے دی جس وقت وہ افسر حکم لکھ رہا تھا میں محو حیرت تھا کہ اگر اس نے صفحہ الٹ کر دیکھا اور بحیثیت مینیجر میرے دستخط اور مہر کو دیکھا تو ممکن ہے اس کے دل میں خیال آئے کہ اصل مالک سے ملکیت کا ثبوت مہیا کیا جائے مگر تصرف الہی نے اسے ایسا کرنے سے روکے رکھا.میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.ربوہ آکر میں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو یہ واقعہ سنایا تو آپ نے نہایت خوشی سے فرمایا کہ آپ کے ساتھ وہی معاملہ ہوا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیش آیا تھا.جب مرزا امام دین صاحب نے مسجد مبارک کے سامنے دیوار بنادی تھی.اور الہام ہوا تھا کہ چکی چلی اور فتح ہوئی.۱۹۵۲ء میں خاکسار نے ارادہ کیا کہ جو اراضی دو قطعے دارالرحمت شرقی میں میری خرید کردہ ہے کہ اس پر مکان تعمیر کروں.لیکن اس قدر روپیہ نہ تھا.سوارادہ کیا کہ ایک قطعہ فروخت کر دوں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں میں نے اس کا ذکر کیا.آپ کے دریافت کرنے پر عرض کیا کہ اس ایک کنال کے قطعہ کی قیمت اٹھارہ صد روپیہ کے قریب مجھے مطلوب ہے.فرمایا یہ تو زیادہ قیمت ہے.عرض کیا کہ دعا فرمائیں کہ مجھے اتنی رقم مل جائے.آپ نے قطعہ دیکھ کر دعا کا وعدہ فرمایا.اور اللہ تعالیٰ نے چند روز میں پونے انیس سوروپیہ میں اس کی فروخت کا سامان کر دیا.اور اس سے مجھے تعمیر مکان کی توفیق عطا کی.فالحمد للہ علی ذالک.
۱۵۰ ابتداء ۱۹۵۰ء میں بائیں آنکھ میں نزول الماء کا آغاز ہونے کے باعث میں نے دفتر امانت کے کام سے فراغت حاصل کرلی.اور اکتو بر ۱۹۵۶ء میں گنگا رام ہسپتال لاہور میں مکرم ڈاکٹرمحمد بشیر صاحب برادر مکرم قاضی محمد اسلم صاحب ( حال پر نسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ ) نے آپریشن کیا.اپریل ۱۹۵۹ء میں اسی شفا خانہ میں دوسری آنکھ پر عمل جراحی کیا گیا.ایسے موقع پر کسی حاضر باش خدمت گزار کی ضرورت ہوتی ہے.ہر دو بار پسرم عزیزم رشید نا صر صاحب عین وقت پر پہنچ جاتے رہے.دیگر کوئی بیٹا فارغ نہ ہو سکتا تھا.مالی تنگی بھی تھی.پھر نفخ کی تکلیف بھی.بعد عمل جراحی چوبیس ۲۴ گھنٹے سیدھے لیٹا رہنا پڑتا ہے.اور حرکت سے زخم متاثر ہوتا ہے.اور اپریشن کامیاب نہیں ہوتا.ہر دو مواقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعا بھی فرمائی.اور نصف نصف صد روپیہ کی امداد بھی کی.سو بحمد للہ اپریشن کامیاب ہوئے.میرے دفتر امانت کے بعض افسران کا خیال تھا کہ ترک ملازمت سے میری آمد کم ہونے کے باعث مجھے پریشانی ہوگی.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم سے دستگیری فرمائی.اور میری آمد دو چند ہو گئی.سرکاری پنشن نصف صد روپیہ کے علاوہ میرے ہمشیرہ زاد عزیزم سلیم اللہ خاں سلمہ کچھ عرصہ نصف صد اور کچھ عرصہ تمہیں روپے ماہوار کی امداد کرتے رہے پھر مجھے ایک بچے سے تہیں روپے اور پھر دوبچوں سے ساٹھ روپے ماہوار ملنے لگے.فالحمد للہ علی ذالک.قادیان سے ہجرت تقسیم برصغیر کے نتیجہ میں کیسے ہولناک مصائب کا سامنا ہوا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت کیسے ایک قلیل تعداد اور اموال والی جماعت کے نفوس واموال کی حفاظت کا باعث بنی.شیخ صاحب کا اس بارے میں یہ بیان ہے جو خود شیخ صاحب کی سیرة پر بھی روشنی ڈالتا ہے آپ بیان کرتے ہیں: اگست ۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک ہوئی اور قادیان سے نکلنے کا سامان ہونے - لگا.یہ بڑی مصیبت کے دن تھے.مگر خدا تعالیٰ نے ہمارے دلوں پر اپنی
۱۵۱ رحمت کے مرہم کا پھاہا رکھا.حضرت امیرالمومنین خلیفہ امسیح الثانی لاہور تشریف لے گئے اور وہاں سے صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو ( جو قادیان میں بحیثیت امیر تمام امور کے منتظم تھے ) پیغامات بھیجے کہ قادیان میں جولوگوں کی امانتیں ہیں لاہور بھجوائی جائیں.اس پر حضرت ممدوح نے مجھے حکم دیا کہ میں وہ امانتیں لاہور لے جاؤں.ان دنوں حضرت خلیفہ اسی لاہور سے ٹرک بھجوایا کرتے تھے.جن میں قادیان کی مستورات اور بچے لاہور جاتے تھے.مگر ان ٹرکوں میں لاہور جانا کار دارد والا معاملہ تھا.قادیان کے غیر احمدی لوگ بڑا بڑا کرایہ دے کر ٹک والوں سے جگہ لے لیتے تھے.اور بہت سے احمدی جگہ نہ پا کر واپس آجاتے تھے.یہی حالت میری تھی.میں صبح کو امانتوں کے ٹرنک دفتر سے حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی کوٹھی پر لاتا.جگہ نہ ملتی تو شام کو واپس خزانہ صدرانجمن میں لے جاتا.آخر ۲۰ ستمبر کو مجھے جگہ مل گئی.اور میں یہ ٹرنک لے کر قادیان سے روانہ ہوا.جب ہم قادیان سے ایک میل باہر آئے تو اس چھ بسوں والے قافلہ کو روکا گیا.اور سامان اور ٹرنک وغیرہ چیک ہونے کا انتظار کرنا پڑا.اتنے میں میاں روشن دین صاحب زرگر میرے پاس آئے اور منت سماجت سے کہنے لگے کہ میرا پارسل لاہور لے جائیں.اس میں سونے کی تین سلاخیں ہیں.میں نے مان لیا اور ان کا پارسل اپنے کیش بکس میں رکھ لیا.اتنے میں ایک ڈوگرہ لیفٹیننٹ آگیا اور سامان چیک کرنے لگا.اس نے مجھ سے پوچھا کہ اس کیش بکس میں کیا رکھا ہے میں نے کہا کہ ایک شخص نے یہ کہہ کر پارسل بطور امانت دیا ہے کہ اس میں تین سلاخیں سونے کی ہیں.اس نے پارسل کھولا اور میری طرف مخاطب ہو کر کہا کہ یہ دیکھ لیں.میں آپ کی سونے کی سلاخیں آپ کو واپس دے رہا ہوں.اور پھر بس کے اندر دوسرے سامان کو چیک کرنے لگا.اس میں فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے چستی ٹرنک اور بڑے بڑے
۱۵۲ صندوق تھے.ان میں کتا بیں ہی کتابیں تھیں.وہ جس صندوق کو کھولتا اوپر سے نیچے تک چیک کرتا کہ کتابوں کے علاوہ کوئی اور چیز اسلحہ وغیرہ تو نہیں.جب وہ دو تین ٹرنک دیکھ چکا اور اس کو اطمینان ہو گیا تو میری طرف آیا اور جہاں میرے والے امانتوں کے چستی ٹرنک تھے.ان کو دیکھ کر از خود ہی کہنے لگا یہ بھی ریسرچ کا ہی سامان ہے اور اس نے قافلہ کو جانے کی اجازت دے دی.بسیں روانہ ہوئیں.میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.کیونکہ میرے ساتھ جو امانت کے ٹرنک جارہے تھے اُن میں لاکھوں روپے کی ڈبیاں اور پارسل تھے.کسی کے زرو جواہر کسی کے زیور کسی میں پونڈ وغیرہ وغیرہ.واللہ اعلم کیا کچھ نہ تھا.اور اگر اس افسر کو شبہ بھی ہو جاتا کہ ٹرنکوں میں لاکھوں کا مال ہے تو وہ ضرور روک لیتا اور ٹرنک کھلواتا اور اندر سے ہر ایک ڈبہ کھولتا.تو خدا جانے وہ لالچ میں آکر کہتا کہ ہم جانے نہیں دیں گے.بھارت سرکا رکور پورٹ ہوگی.اگر سرکار نے اجازت دی تو یہ مال جائے گا.ورنہ نہیں.یہ ایسی مصیبت تھی جس کے تصور سے ہی میری جان پر بن جاتی تھی.کہ کسی کو میری بات کا یقین کیسے آئے گا کہ یہ مال فلاں نے لے لیا ہے.نہ مجھے کوئی رسید دی جائے گی نہ کوئی اور صورت اطمینان کی ہوگی.مگر میں اپنے خدا پر قربان جاؤں کہ حضرت خلیفہ امسیح کی توجہ سے یہ مشکل یوں حل ہوئی کہ فوجی افسر نے بغیر دیکھے ہی یہ سمجھ لیا کہ یہ ریسرچ کا سامان ہے.اور چونکہ وہ ریسرچ کے ٹرنک دیکھ کر اطمینان کر چکا تھا کہ ان میں کتابیں ہیں اور کچھ نہیں اس لئے اس نے یہی گمان کیا کہ ان میں بھی کتا بیں ہیں.یہ کس قسم کا زمانہ تھا.اور کیسی مصیبت کا وقت تھا.جن لوگوں نے وہ مصیبت نہیں دیکھی وہ اس کا قیاس بھی نہیں کر سکتے اور میں نے چونکہ یہ نظارے دیکھے تھے.اس لئے میرے دل پر یہی اثر ہے کہ یہ محض خدا کا رحم اور فضل تھا.جو حضرت خلیفہ ثانی کی توجہ اور دعاؤں سے مجھ پر ہوا.کیونکہ حضور چاہتے تھے کہ امانتیں
۱۵۳ لاہور پہنچ جائیں اور اس پر زور دیتے تھے جیسا کہ میں نے سُنا ہے.یہ کہتے ہوئے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت فرمائی تھی تو حضرت علی کو حکم دیا تھا کہ امانتیں جلد اُن کے مالکوں تک پہنچا دیں.یہ تڑپ تھی جو احمدیوں کا مال بچا کر لانے کا ذریعہ بن گئی.ورنہ بظاہر مجھے کوئی صورت نظر نہ آتی تھی.” جب ہمارا قافلہ موضع مقتلے کی نہر کے پل پر پہنچا تو بس کے کلینز نے شور کرنا شروع کر دیا کہ سر نیچے کرو سامنے سکھ بندوقیں لے کر مورچے بنائے بیٹھے ہیں.قریب ہے کہ قافلہ پر حملہ کر دیں ایک آفت سے تو مرمر کے ہوا تھا چینا! پڑ گئی اور یہ کیسی میرے اللہ نئی !! کہیں جب پل سے پار ہوئیں تو قافلہ کے انچا رج حوالدار نے حکم دیا کہ بسیں اسی جگہ ٹھہر جائیں اُس نے اُتر کر اپنی بُرین گن سیٹ کی اسی طرح اُس کے ایک ماتحت نے بھی.سکھوں نے جو کھیتوں کی منڈیروں کی اوٹ میں بیٹھے ہوئے تھے اور ایک قسم کا مورچہ بنائے ہوئے تھے.گولیاں چلانی شروع کر دیں مگر خدا تعالیٰ نے بچالیا قافلہ کے کسی فرد کو نہ لگیں.اور حوالدار اور اس کے ساتھی نے فائر کرنے شروع کئے.کہا جاتا تھا کہ تھیں بتیں سکھ مارے گئے اور باقی بھاگ گئے.واللہ اعلم.غرض قافلہ سے روانہ ہوا.اور کچھ ہی دور گیا تھا کہ سامنے سے سکھوں یا ڈوگروں کی فوج کے افسر ایک جیپ میں آرہے تھے.ہمیں خیال آیا کہ جب وہ سکھوں کی لاشیں دیکھیں گے تو ہمارے قافلہ کا تعاقب کر کے ہمیں روک لیں گے.مگر خدا تعالیٰ نے رحم کیا اور ہم بٹالہ پہنچ گئے.وہاں سٹرک پر دیکھا کہ ایک ڈھیر لگا ہوا ہے.اور اس میں سینکڑوں قرآن مجید پڑے ہوئے ہیں.ہم نے وہاں سے چند قرآن شریف اٹھا لئے.بٹالہ میں قافلہ کو روکا گیا.بڑی دیر میں چلنے کی اجازت ملی ہم نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا وہاں
۱۵۴ اور روانہ ہوئے.امرتسر پہنچے تو وہاں بڑی دیر لگی.وہاں سے چلے تو راستہ میں چھ بسوں میں سے ایک خراب ہوگئی.غرض خدا خدا کر کے لاہور بارڈر پہنچے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا جنت میں آگئے ہیں.رات کے دس بجے ہم جو دھامل بلڈنگ پہنچے.الحمد لله ثم الحمد لله چنیوٹ کی امارت آپ بیان کرتے ہیں کہ بوجہ نزول الماء دفتر امانت سے فارغ ہونے پر تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ انتخابات ہوئے.چنیوٹ میں مکرم حاجی تاج محمود صاحب ایک نہایت نیک اور پاک بزرگ تھے.میں نے ان کا نام پیش کیا.مگر مکرم صوفی محمد ابراہیم صاحب امیر جماعت نے جو چنیوٹ سے ربوہ منتقل ہورہے تھے.امارت کے لئے میرا نام پیش کیا اور مجھے متفقہ طور پر منتخب کر لیا گیا.چونکہ مجھے وہم گمان بھی نہ تھا کہ چنیوٹ جیسی جگہ میں جہاں مجھ سے بدرجہا بہتر.لائق اور قابل احمدی احباب موجود ہیں.مجھے امیر بنایا جائیگا.اس لئے مجھے حیرت پر حیرت ہوئی.اور میں نے دعا مانگی کہ یا الہی تجھے علم ہے کہ میں نے اس امارت کی خواہش نہیں کی یہ تیری تقدیر کے ماتحت ہوا ہے.مگر میں عرض کرتا ہوں کہ اگر اس کا نتیجہ ذلت اور گناہوں کی سزا ہے تو تیری صفات کا واسطہ دیتا ہوں کہ رحم فرما اور مجھے اس ذلت سے بچا اور میرے گناہ معاف فرما جن کی سزا مجھے ملنے لگی ہے.اور اگر یہ کام تیرے دین کی خدمت کا ذریعہ بنے گا تو تیرا احسان وکرم ہے.پھر میری مدد کر اور میرا معین ہو جا سوالحمد للہ کہ ۲۵ اکتوبر ۱۹۵۱ء تک وہ میری مددفرماتا رہا جس کے بعد میں ربوہ منتقل ہو گیا.انفاق فی سبیل اللہ آپ کو انفاق فی سبیل اللہ کی توفیق ملی اور اس بارے میں آپ کے معیار اور تعہد سے ایک آریہ سماجی افسر بھی متعجب و متاثر ہوا آپ تحریر فرماتے ہیں : (۱): ڈیرہ اسماعیل خان میں جہاں میں ۱۹۳۴ ء میں متعین تھا ایک عجیب لطیفہ
۱۵۵ ہوا.ہمارا کرنل (جو انگریز تھا ) رخصت یا پنشن پر ولایت جانے لگا تو اس کو پارٹی دینے کی تجویز کلرکوں نے کر کے ایک فیصلہ کیا کہ چیف کلرک ہر ایک کلرک کی تنخواہ سے کچھ رقم کاٹ لے اور یہ ساری رقم جمع کر کے پارٹی کے اخراجات میں صرف کی جائے.اس کے مطابق ایک فہرست بنائی گئی اور ہر ایک کلرک سے اس کے نام کے سامنے رقم لکھ کر دستخط کرائے گئے.میرے نام پر جو رقم لکھی گئی وہ اتنی زیادہ تھی کہ میں اس کام کے لئے اس کو ادا کرنا پسند نہ کرتا تھا.اس لئے میں نے اپنا نام کاٹ دیا.اس پر دفتر میں شور پڑ گیا.قریباً تمام کلرک اکٹھے ہو گئے ان کو دیکھ کر چیف کلرک آیا.اس نے جب فہرست کئی ہوئی دیکھی تو کہنے لگا آپ نے یہ کیا کیا.میں نے کہا آپ دیکھ رہے ہیں جو میں نے کیا ہے کہنے لگا کیا آپ کرنیل صاحب کو پارٹی دینا نہیں چاہتے.میں نے کہا کہ میں اتنی رقم نہیں دے سکتا.کہنے لگا کیا آپ باقی کلرکوں کا ساتھ نہیں دیں گے.میں نے کہا یہ کوئی مذہبی بات نہیں جو مجھے مجبور کرے کہ میں ضرور دوں کہنے لگا یہ بعد میں فیصلہ کریں گے پہلے کر نیل صاحب سے پارٹی کا وقت معلوم کر لیں.پوچھنے پر کرنیل نے کہا کہ پارٹی کے لئے میرے پاس کوئی وقت نہیں وہ لٹکتا ہوا منہ لے کر واپس آ گیا دفتر بند ہونے پر ہم گھروں کو روانہ ہو گئے.مگر تمام کلرک میری اس جرات پر تعجب کرتے تھے.بازار میں پہنچنے پر چیف کلرک نے مجھ سے پوچھا کہ اس قسم کی دلیری کی وجہ کیا ہے.میں نے کہا میں احمدی ہوں اور ہر ایک احمدی ماہوار چندہ دیتا ہے.اس لئے وہ اپنے اخراجات پر غور کرتا ہے کہ کیا میرے چندہ پر اثر تو نہیں پڑے گا.میں نے بھی سوچا تو مجھے خیال آیا کہ یا میں چندہ نہ دوں یا گھر والوں کو مقررہ خرچ نہ دوں.تب میں اتنی رقم جو آپ مانگ رہے ہیں آپ کو دے سکتا ہوں.اس لئے میں نے فیصلہ کیا چندہ ضرور دینا ہوگا.آپ لوگ ناراض ہو جاتے ہیں تو ہوں.چیف کلرک مجھ سے پوچھنے لگا کہ کہ کتنا چندہ تم ماہوار دیا کرتے ہو.میں نے جب بتایا تو تعجب سے کہنے لگا میں تو اتنی رقم آریہ سماج کو ( وہ آریہ تھا ) سال بھر میں بھی نہیں دیتا.جتنی آپ ایک ماہ میں دیتے ہیں.اور پھر کہا کہ اب مجھے سمجھ آئی کہ آپ لوگ اتنے دلیر کیوں ہیں یہ کہہ کر اور کچھ اثر لے کر چلا گیا.(۲): اللہ تعالیٰ کے بعض انعامات بالکل اسی رنگ میں ملتے ہیں.جیسے حضرت مسیح
۱۵۶ موعود علیہ السلام نے فرمایا.ع گرچہ بھا گئیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار منارة المسیح کی تعمیر کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ : اب جو دوست اس منارہ کی تعمیر کے لئے مدد کریں گے میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بھاری خدمت کو انجام دیں گے.اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ ایسے موقعہ پر خرچ کرنا ہرگز ہرگز ان کے نقصان کا باعث نہیں ہوگا.وہ خدا کو قرض دیں گے اور مع سود واپس لیں گے.۱۴ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے اور میری زوجہ اول سردار بیگم کو اس چندہ کے ادا کرنے کی اس حال میں توفیق بخشی جب کہ ہمارے پاس زیادہ مال نہ تھا اور ہمارا نام منارہ پرلکھوا دیا.میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ جیسا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ مع سود واپس لیں گئے ایسا ہی اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ معاملہ کیا.مجھے اس چندہ کے ادا کرنے کے بعد بہت سا روپیہ دیا اولاد بھی دی اور زوجہ اول کو بھی بہت سا روپیہ دلایا.الحمد الله ثم الحمد الله *.(۳): آپ نے ۲۰.۱۹۱۹ء میں مدرسہ احمدیہ کے طلباء کے لئے فنڈ میں دو روپے ماہوار وظیفہ دیا حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب جنرل سیکرٹری صدر انجمن احمد یہ ایسے بزرگوں کے متعلق جنہوں نے اس مبارک تحریک میں حصہ لیا تحریر کرتے ہیں: میں اس جگہ ان اصحاب کا شکر یہ ادا کئے بغیر نہیں رہ سکتا.جو اگر چہ اپنے لڑکے تو مدرسہ میں نہیں بھیج سکے.لیکن انہوں نے اس خاکسار کی تحریک پر ایسے لڑکوں کے گل یا بعض اخراجات اپنے ذمہ لے لئے ہیں.جن کو انجمن خرچ نہیں دے سکتی.اللہ تعالیٰ ان کے مالوں میں برکت دے اور ان کے روپوں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو توفیق دے کہ وہ ان کی خواہشوں کے مطابق دین کے بچے خادم بنیں اور ان کے لئے خدمت دین میں صدقہ جاریہ ہوں.آپ دونوں کے اسماء یوں کندہ ہیں: ۱۴۱ شیخ فضل احمد بٹالہ، ۱۴۲ اہلیہ فضل احمد بٹالہ رپورٹ ( ص ۶۳ تا ۶۵) ان اکیس افراد میں سے تین نے ایک روپیہ دیا.چار نے دوروپے.
۱۵۷ (۴) : علاقہ ملکانہ کے ارتداد کے سلسلہ میں ہنود کے جو منصوبے تھے ان کو ناکام بنانے کے لئے مالی قربانی بھی درکار تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مشاورت ۱۹۲۳ء میں فرمایا کہ اسلام پر یہ نازک وقت آیا ہے.جیسے بچہ مری ہوئی ماں کو طمانچہ مارتا ہے.اور سمجھتا ہے کہ وہ محول کر رہی ہے.اگر وہ سمجھ جائے کہ ماں مرگئی ہے تو خیال کرو کہ اس کا کیا حال ہوگا.اسی طرح اسلام پر دشمن کا جو حملہ ہے اگر اسے پورے طور پر سمجھ لیا جائے تو کوئی قربانی مسلمان اس کے انسداد کے لئے اٹھا نہ رکھیں.اس فتنہ کے انسداد کے لئے چندہ خاص نصف لاکھ روپیہ کی فراہمی منظور کی گئی.اور اس کا اقل چندہ ایک سو روپیہ رکھا گیا.جنرل اوصاف علی خان صاحب مالیر کوٹلہ کے نصف ہزار روپیہ کے چیک کا حضور کی طرف سے اعلان کرنے پر احباب نے رقوم پیش کرنا شروع کیں.جن کی تعداد قریباً ساڑھے دس ہزار ہو گئی.با بوفضل احمد صاحب نے سوا دوصد روپیہ لکھوایا ہی ہے.(۵): چندہ تحریک جدید میں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے دفتر اول میں شمولیت کی توفیق بخشی.حالانکہ میری حالت بہت کمزور ہو چکی تھی.اسی طرح خدائے رحیم و کریم نے چندہ وقف جدید میں شامل ہونے کی توفیق بھی عطا کی ہے.آپ نے ۱۹۱۳ء میں وصیت کی تھی گویا اس رنگ میں پچپن سال تک مالی قربانی کا موقعہ آپ نے پایا *** بقیہ حاشیہ: دونے تین روپے تین نے پانچ روپے.تین نے چھ روپے ایک نے دس روپے اور پانچ نے بارہ روپے ماہوار کا ذمہ لیا تھا.آپ کا نام بابو فضل اللہ ہیڈ کلرک کیمل کو نمبر ۵۱ چھاؤنی نوشہرہ مرقوم ہے فضل احمد کی بجائے سہو کتابت ہے.رپورٹ مشاورت (صفحہ نمبر ۵۵) مزید اس وقت سینتیس ۳۷ افراد نے ایک ایک صد دو نے ڈیڑھ ڈیڑھ صد دو نے بشمول حضور دو دوصد.جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اڑہائی صد.ایک نے تین صدایک نے چار صد تیرہ.پانچ نے پانچ پانچ صد اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے ایک ہزار روپیہ پیش کیا.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں آپ کی محترمہ اہلیہ دوم کا چندہ انیس سالہ سات سو اٹھتہر روپے درج ہے.۱۵ نمبر وصیت ۵۹۷ تاریخ وصیت ۱۹ جولائی ۱۹۱۳ء.
۱۵۸ خاندان حضرت مسیح موعود سے رابطہ غالبا ۱۹۲۲ء میں ایک دفعہ حضرت اُم المؤمنین واقعہ محلہ دارالامان میں میرے مکان پر تشریف لائیں.اہلیہ اول گھر میں موجود تھیں.میں آپ کے لیے مٹھائی لایا.آپ نے از راہ کرم اسے قبول فرمایا.اور آپ کے ارشاد کے مطابق آپ کے ہاں پہنچا دی.غالباً ۱۹۲۱ء میں خاکسار نے حضرت خلیفہ ثانی اور صاحبزادگان حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مرزا شریف احمد صاحب.حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب.اور بعض دیگر معزز احباب کی دعوت کی.اور میاں مولا بخش صاحب باورچی کے ذریعہ کھانا تیار کروایا اور ان سے کہا کہ کوئی ایسی چیز بھی تیار کریں جسے حضرت صاحب خاص طور پر پسند کرتے ہوں.تو انھوں نے سالم مرغ بریانی تیار کیا جسے حضرت نے پسند فرمایا اور کچھ تناول فرمایا.الحمد اللہ اس دعوت کے بعد میں نے قادیان کے ان دوستوں کی دعوت کی جو کہ بظا ہر غریب معلوم ہوتے تھے.الحمد اللہ.شاید ۱۹۲۳ء میں خاندان مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین محترمات کی دعوت کی جس میں حضرت ام المومنین بھی تشریف لائی تھیں.الحمد للہ.قادیان گائیڈ میں اس محلہ کا نام ”باب الامن، مرقوم ہے تقسیم ملک سے بہت پہلے یہ بہت سے نام عام طور پر متروک تھے جن میں سے ایک یہ بھی ہے: ا.سابق دکان محمد بخش صاحب عرف مهند انتگلی مرحوم ۲.سابق دکان بھائی شیر محمد صاحب حال در ویش قادیان.مکان ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب ۴، ۵ - دکانات مملوکہ حضرت خلیفہ اول ۷،۶.دو مکانات مکان میاں عبداللہ صاحب مرحوم عرف بوڑی جس کا ذکر صادق محلہ میں ہے ( قادیان گائیڈ ۱۰۴) ۹ - مکان شیخ فضل احمد صاحب چوبارہ سمیت اب بھی قائم ہے.اس میں دعوتیں ہوئیں.معلوم ہوتا ہے کہ شیخ
۱۵۹ سلسلہ کے لٹریچر میں ذکر متفرق امور کے تعلق میں آپ کا ذکر جو سلسلہ کے لڑیچر میں آیا ہے.یہاں درج کیا بقیہ حاشیہ: صاحب نے یہ مکان تالیف قادیان گائیڈ (نومبر ۱۹۲۰ء) کے بعد بنایا اس لئے اس میں تذکرہ نہیں.حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ امیر قادیان بتاتے ہیں کہ شیخ صاحب نے مکان خود تعمیر کرایا تھا.ا.مکان سردار محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور ٢.۴.2.و.- 1 + ا.// نقشہ بلا پیمائش منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نوٹ: خاکسار نے یہ خاکہ تیار کیا ہے.مکان کے بڑے اور ار مولوی محمد جی صاحب ہزاروی چھوٹے ہونے کا اندازہ یہاں سے نہ کیا جائے.ثمال // // // // // ماسٹر عبدالرحمن صاحب ( مہر سنگھ ) میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق شیخ نوراحمد صاحب مختار عام میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں سید عزیز الرحمن صاحب شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی والد صاحب محترم تا یا جان حکیم دین محمد صاحب -۱۲ در مولوی غلام نبی صاحب المصری میاں علی گوہر صاحب ۱۴.// // مولوی رحیم بخش صاحب تلونڈی جھنگلاں مکان ۴ پیر محمد یوسف صاحب سٹرک بطرف تعلیم الاسلام کالج وغیره کوٹھی دارالعلوم مشرق.+ جنوب مغرب تعلیم الاسلام کالج معہ میدان ہائے کھیل اور مسجد نور راسته مدرسه تعلیم الاسلام گیٹ شفا خانه راسته راسته راسته سٹرک بطرف بورڈ نگو
17.جاتا ہے.مثلاً آپ جماعت میں ممتاز تھے اس لئے قادیان میں آمد پر الفضل میں ذکر ہوتا رہا.بزرگوں سے خاص مراسم تھے.مشاورت میں آپ نے اپنی جماعت کی نمائندگی کی.اعزازی انسپکٹر بیت المال مقرر ہوئے.آپ نے اپنی زندگی وقف کی.ریویو آف ریلیچز کی اشاعت میں مدد خریدار پیدا کر کے کی.اور اس رنگ میں اشاعت اسلام میں شریک ہوئے ہے.:☆ (۱): قادیان میں آمد کا ذکر راولپنڈی سے (الفضل ۱۰ اگست ۱۹۱۵ء زیر مدینہ مسیح سات احباب کا ذکر ہے ) نیز ۹ اکتوبر ۱۹۲۲ء (ص۲ کالم ۱) یہاں ہیڈ کلرک کیمل کو راولپنڈی کا عہدہ درج ہے.(۲): آپ پنشنز محلہ دار الفضل قادیان کی بچی کی سخت علالت اور درخواست دعا ( الفضل ۲۹ مئی ۱۹۴۳ء زیر مدینه ای) (۳): ریویو کے لئے ایک ایک خریدار مہیا کرنا ( ریویو آف ریلیجنز اور دو جولائی ۱۹۱۳ء ص ۲۷۲ بمقام کوہ مری.نیز ستمبر ص ۳۳۹) پہلی بارسات دوسری بار آٹھ ایسے افراد مرقوم ہیں.(۴): جماعتوں کے معائنہ اور وصولی بقایا کے لئے انتالیس اعزازی انسپکٹر بیت المال مقرر ہوئے.آ.لاہور میں قیام رکھتے تھے.اور جماعت امرتسر کے لئے انسپکٹر مقرر کئے گئے.(الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۳۱ء.ص ۸ کالم ۲) (۵): مشاورت ۱۹۲۳ء میں شرکت از طرف جماعت راولپنڈی اور کمیٹی بیت المال کی رکنیت.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس شوری میں فرمایا کہ نظارتوں کے قیام کے اعلان کے ساتھ میں نے کہا تھا کہ کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو کبھی کبھی ان محکموں کا معائینہ کریں تا غلطیوں کی اصلاح ہو سکے.سو جو احباب دفاتر کے کام سے واقف ہوں.میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے نام پیش کریں.اس پر چارا حباب نے بشمول شیخ فضل احمد صاحب نام پیش کئے.(رپورٹ ص۲، ۲۸ ۴۲۰ ۴۳) چھاؤنی لاہور سے شرکت رپورٹ مشاورت ۱۹۳۰ء ص ۴۱۲) مشاورت اجلاس ثانی اکتوبر ۱۹۳۶ء میں شرکت قادیان سے (رپورٹ ص ۷۹ ) (۶): آپ کے خلفاء کرام اور ابناء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ بہت سے بزرگوں سے مخلصانہ مراسم تھے.تقسیم ملک سے قبل بعد پنشن خاکسار ان کا ہمسایہ تھا.دیکھا حضرت ملک مولا بخش صاحب ناظم
۱۶۱ انتقال پر ملال آپ کے انتقال کے متعلق مؤقر الفضل رقمطراز ہے: حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی وفات پاگئے.انا للہ وانا اليه راجعون.ربوہ ۳۱ ظہور نہایت افسوس اور رنج کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی جو کہ اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں سے تھے.کل صبح سات بجے بھمر قریباً پچاسی ۸۵ سال لاہور میں وفات پاگئے.انا لله وانا اليه راجعون.جنازه ربوہ لایا گیا.بعد نماز جمعہ محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائکپوری امیر مقامی نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں احباب شامل ہوئے بعد ازاں مقبرہ بہشتی کے بقیہ حاشیہ : جائیداد کے ساتھ ایسے ہی گہرے تعلقات تھے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے بھی تھے.آپ جب امریکہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے تشریف لے گئے تو نامہ صادق میں بعض احباب کے خطوط کا ذکر تے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: (۷) : با بو شیخ فضل احمد صاحب نوشہرہ.آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے جس کے لئے آپ کو اور بھی شکر گذار ہونا ضروری ہے.یہ بات میں نے کسی خاص ذوق اور نمایاں فرق کو مد نظر رکھ کر لکھا ہے.(۸) : جماعت سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے خدمت دین کے لئے مطالبہ وقف پر آپ نے وقف زندگی کی.ایسے احباب کی معیت میں آپ کا نام الفضل ۲۰ مئی ۱۹۴۴ء (ص ۵ کالم ۳) میں مرقوم ہے.(۹) آپ اپنے اوپر بہت سے افضال الہی کا ذکر کرتے ہیں جو اس کتاب میں متفرق طور پر درج ہو چکے ہیں.ان میں یہ بھی بیان ہے کہ حضرت خلیفہ ثانی کے زمانہ میں آپ پر بہت اللہ کے فضل ہوئے.مثلاً انتخاب خلیفہ میں رائے دینے کا.چنانچہ آپ انتخاب خلافت ثالثہ میں شامل ہوئے.
۱۶۲ قطعہ صحابہ " میں تدفین عمل میں آئی." حضرت شیخ صاحب نہایت مخلص نیک بے ضرر اور دعا گو بزرگ تھے ۱۹۰۵ء میں بیعت سے مشرف ہوئے.پانچ لڑکے اور چار لڑکیاں یادگار چھوڑے ہیں جن میں سے ایک مکرم محمد احمد صاحب واقف زندگی وکالت تبشیر کے کارکن ہیں اور دوسرے مکرم لئیق احمد صاحب طاہر انگلستان میں مبلغ اسلام کے طور پر کام کر رہے ہیں.احباب دعا فرما دیں کہ اللہ تعالے حضرت شیخ صاحب کو درجات عالیہ عطا فرمائے.اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق بخشے.آمین.“ حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی رضی اللہ عنہ کے زیر عنوان آپ کے صاحبزادہ مکرم ملک محمد احمد صاحب کی طرف سے ذیل کے حالات زندگی بسلسلہ تذکرہ اصحاب حصہ مسیح موعود علیہ السلام شائع ہوئے: ” میرے والد حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے تھے بعارضہ بندش پیشاب جولائی کے پہلے ہفتہ میں بیمار ہوئے.قریبا دو ماہ میوہسپتال لاہور میں زیر علاج رہنے کے بعد ۳۰ اگست بروز جمعہ صبح سات بجے وفات پاگئے.انالله واناالیه راجعون.اسی روز آپ کی نماز جنازہ بعد نماز جمعه محترم قاضی محمد نذیر صاحب لانکپوری نے پڑھائی اور بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص صحابہ میں آپ الفضل یکم ستمبر ۶۵ کتبہ کی عبارت سفر بہ سطر درج ذیل ہے: مزار شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی ربوه ولادت ۱۸۸۴ء بیعت ۱۹۰۴ء وفات ۳۰/۸/۱۹۶۸ عمر ۸۴ سال نمبر وصیت ۵۹۷
۱۶۳ کی تدفین ہوئی بوقت وفات آپ کی عمر ۸۵ سال تھی." آپ کی پیدائش ۱۸۸۳ء میں بٹالہ ضلع گورداسپور میں ہوئی.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میری والدہ مرحومہ سنایا کرتی تھیں کہ میں تمھارے والد کی دوسری بیوی تھی.پہلی بیوی کی اولا دلڑ کیاں ہی لڑکیاں تھیں.میرے ہاں بھی پہلی ولادت لڑکی ہوئی تمھارے والد نے اپنے مرشد ( جو پیر رنڑاں چھتڑاں والے کے نام سے مشہور تھے اور دھرم کوٹ رندھاوا میں رہتے تھے.ان کی تعریف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی کی ہے ) کی خدمت میں اولاد نرینہ کے لیے درخواست دعا پیش کی تو انھوں نے بعد دعا بتلایا کہ تمھیں ایک ایسا لڑکا ملے گا جو بڑی عزت اور برکت پائے گا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ خاکسار کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت اور غلامی سے وہ عزت اور برکت مل گئی جس کی انھیں خبر دی گئی تھی.آپ چھ سال کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا آپ کی والدہ مرحومہ نے آپ کو تعلیم دلائی.اور آپ پندرہ برس کے تھے کہ والدہ بھی گند وفات پائیں.190 ء میں آبزرور پریس لاہور میں آپ پروف ریڈر کے طور پر ملازم ہو گئے.وہاں محترم ڈاکٹر محمد طفیل صاحب نے آپ کو تبلیغ کی اور ریویو آف ریلیچز کا ایک پرچہ پڑھنے کے لئے دیا.اس کا اثر آپ کی طبیعت پر ایسا پڑا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ لکھا کہ ریویو میرے نام پر جاری فرمایا جائے.چنانچہ حضور نے گزشتہ سب پرچے ( ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۴ء تک ) آپ کو بھجوا دیئے ان کو پڑھنے کے بعد آپ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.قبول احمدیت کے بعد ۱۹۰۶ء میں جب آپ اپنی ملازمت کے سلسلہ میں انبالہ چھاؤنی میں مقیم تھے حضرت چوہدری رستم علی صاحب نے آپ کو سیکرٹری تبلیغ بنا دیا اور تبلیغ کرنے کی ہدایت فرمائی.اس طرح آپ کو احمدیت کی تعلیم کے گہرے مطالعہ کا موقع
۱۶۴ ملا.جب آپ حضرت چوہدری رستم علی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے تو انہیں حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی سوانح عمری جو فارسی میں تھی سنایا کرتے تھے.فارسی زبان سے آپ کو خاص لگاؤ تھا.اور ہزاروں اشعار زبانی یاد تھے.اپنے آخری ایام میں بھی محترم میاں عبدالحق صاحب رامه ناظر بیت المال کے سامنے قریباً روزانہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ درثمین فارسی بڑے ذوق وشوق سے پڑھا کرتے تھے.190ء میں آپ کی پہلی شادی ہوئی اور نہ صرف یہ کہ آپ کی تبلیغ سے ہماری والدہ نے بیعت کر لی بلکہ ان کی والدہ اور بھائیوں نے بھی اور اس طرح آپ کے خاندان میں احمدیت کا سلسلہ جاری ہو گیا، مگر ہماری پہلی والدہ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی 1919ء کا ذکر ہے کہ جب والد صاحب نے حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی سے دعا کی درخواست کی تو آپ نے کشف میں دیکھا کہ اس بیوی سے کوئی اولاد نہ ہوگی.البتہ دوسری بیوی سے ہوگی.اس کا ذکر انھوں نے اپنی کتاب حیات قدسی میں بھی کیا ہے.ہماری پہلی والدہ مرحومہ کے رشتہ داروں نے چاہا کہ کسی عزیز کے بچے کو متبنی بنایا جائے مگر آپ اس پر رضا مند نہ ہوئے اور کہا کہ اس سے تو لا ولد رہنا ہی بہتر ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے آپ کا ابتدائی زمانہ سے ہی گہرا تعلق تھا.۱۹۲۰ء میں ایک خط میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کو تحریر فرمایا: "آپ کی طرف سے ۱۰۰ روپیہ پہنچ گیا چونکہ اس وقت روپے کی خاص ضرورت تھی.اور خدا تعالی سے دعا کرنے پر وہ روپیہ آیا تھا اس لئے خاص طور پر دعا کی گئی.آپ کے نکاح ثانی کے متعلق دعا کروں گا.اگر ممکن ہوا تو کوئی جگہ بھی بتلا سکوں گا.“ اسی ضمن میں حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر نے جب وہ حج کے 66
۱۶۵ لئے تشریف لے گئے والد صاحب کو لکھا کہ میں نے جدہ کے قریب کشف میں دیکھا ہے کہ آپ کی گود میں لڑکا ہے اور ایک ہاتھ میں روپوں کی تھیلی ہے نکاح ثانی کے سلسلہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے میرے نانا حضرت مولوی سراج الحق صاحب پٹیالوی کے ہاں رشتہ تجویز کیا اور والد صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو اس جگہ رشتہ پسند ہے؟ آپ نے عرض کیا کہ میں تو حضور کی پسندیدگی پر ہی یہ معاملہ رکھوں گا کیونکہ میں نے یہ پہلی شادی اپنی خواہش ہے کی تھی.اور اس کا جو نتیجہ نکلا وہ ظاہر ہے.۱۹۲۳ ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے خود ہی درس قرآنِ کریم سے پہلے مسجد اقصیٰ میں نکاح کا اعلان فرمایا.احمدیت میں شامل ہونے کے بعد آپ کی طبیعت مذہب کی طرف بہت زیادہ مائل تھی اور آپ نمازیں اور دیگر عبادات بڑی باقاعدگی سے بجالاتے تھے ظہر کے وقت نماز با جماعت کے لئے دفتر سے جایا کرتے تھے.ہندو اور سکھ کلرک اسے پسند نہ کرتے تھے.۱۹۱۰ء میں ایک سکھ ہیڈ کلرک نے افسر اعلیٰ کے پاس شکایت کی اس نے دریافت کیا کہ کیا تم نماز کے لئے جاتے ہو؟ آپ نے فرمایا یہ درست ہے وہ کہنے لگا.جب تک میں اجازت نہ دوں تم نہیں جاسکتے.اس پر آپ نے فرمایا کہ نماز تو میں ضرور پڑھوں گا اور اب بھی نماز کے لئے ہی جارہا ہوں.آپ عبادت سے مجھے نہیں روک سکتے.اس کے بعد آپ دفتر نہ گئے اس افسر نے آپ کو ملا زمت سے برخاست کر دیا.جس کے لئے آپ پہلے ہی تیار تھے.مگر اس کے بعد اللہ تعالی نے آپ کو پہلے سے بہتر ملازمت غیر معمولی حالات میں عطا فرمائی اور کمانڈنگ افسر نے خود جائے نماز خرید کر دیا اور کہا کہ میرے دفتر میں نماز پڑھا کرو، یہ حضرت خلیفہ اسیح اوّل کی دعاؤں کی برکت تھی ایسے ہی واقعات آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت اور دعاؤں پر یقین بڑھانے کا موجب بنتے گئے.۱۹۱۰ء کی گرمیوں میں آپ
۱۶۶ کو دفتر کی طرف سے لاہور سے ڈلہوزی جانے کا آرڈر ملا.آپ لکھتے ہیں کہ میرے ہمراہ میری بیوی.اس کا بھائی اکبر علی اور میرے بھائی امیراحمد سفر کر رہے تھے ایک ٹانگے میں ہم تھے اور تین ٹانگوں میں ہند و کلرکوں کے اہل وعیال تھے جب دنیرہ پڑاؤ پر پہنچے تو شام ہوگئی.وہاں کے ہندو کلرکوں نے اپنے ہندو بھائیوں کو اپنے خیموں میں جگہ دے دی اور میں کھڑا کا کھڑا رہ گیا.ہر چند مکان یا ٹینٹ کی تلاش کی مگر کچھ نہ ملا.اکبر علی نے گھبرا کر کہا رات سر پر آگئی ہے اب کیا ہو گا میں نے کہا.ع خدا داری چه غم داری خدا تعالی ضرور کوئی سامان کر دے گا.اتنے میں ایک گھوڑ سوار آیا اور اس نے مجھے محبت سے سلام کیا.اور پوچھا آپ یہاں کہاں؟ میں نے قصہ سنایا تو وہ کہنے لگا کہ میں ابھی آتا ہوں تھوڑی دیر میں وہ چند سپاہیوں کے ساتھ ایک ٹینٹ لایا اور خیمہ لگوا کر اس میں گھاس بچھوا دیا اور پانی وغیرہ رکھوا کر چلا گیا اور رات کے قریباً گیارہ بجے دال روٹی اور زردہ لے کر آیا اور معذرت کر نے لگا کہ دیر ہو گئی تھی اس لئے گوشت نہیں مل سکا.پھر میرے پوچھنے پر کہا آپ مجھے نہیں جانتے ؟ آپ نے ہی تو میری درخواست لکھی تھی جس پر مجھے دفعداری مل گئی تھی.پھر وہ چند آدمی پیچھے چھوڑ گیا کہ رات کو پہرہ دیں اور صبح کو خیمہ سنبھال لیں.آپ کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور دیگر افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے غیر معمولی محبت و عقیدت تھی.مندرجہ ذیل دو واقعات سے اس تعلق پر روشنی پڑتی ہے.ڈلہوزی پہنچ کر میں ایسے محلہ میں اترا جہاں کوئی احمدی نہ تھا.کوتوال عبدالغفار صاحب کا مکان راستے میں پڑتا تھا.ان کے مکان پر بڑے بڑے لوگ اترا کر تے تھے.میں آتے جاتے ہوئے کو توال صاحب کو سلام کر کے گزر جاتا مگر ان کے پاس نہ بیٹھتا.ایک روز انہوں نے مجھے
۱۶۷ پوچھا کہ آپ میرے پاس کیوں نہیں بیٹھتے.دیکھو میرے پاس مہمان آتے رہتے ہیں خوب کھاتے پیتے ہیں.آپ کبھی نھیں آتے.میں نے عرض کیا کہ جن چیزوں کی آپ کے پاس افراط ہے.میں ان اشیاء کا نہ شائق ہوں نہ طلب گار مجھے تو ایسے لوگوں کے پاس بیٹھنے کی خواہش ہوتی ہے جو خدا کی باتیں کریں اور سنیں.اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگے کہ مجھے تو آپ جیسے لوگ پسند ہیں.میں انھیں ایک ٹیلے پر لے گیا.وہاں انہوں نے دل کھول کر باتیں کیں.اور کہا کہ یہ دنیا دار تو میرے پاس کھانے کے لئے آتے ہیں.حقیقت میں نہ ان کو میرے ساتھ محبت ہے نہ مجھے ان کی خواہش.سوشکر ہے کہ تم مل گے.میں نے اسے کہا کہ ہمارے سلسلے میں ایک نوجوان ایسا ہے جس کا تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے.پوچھنے لگا وہ کون ہے؟ میں نے کہا کہ مرزا محمود احمد صاحب آف قادیان.اس پر اس نے ملنے کی بڑی خواہش ظاہر کی.اس خواہش صادق کو خدا تعالیٰ نے اس طرح پورا کر دیا کہ جب میں ملازمت چھوڑنے کے بعد قادیان گیا تو دیکھا کہ ایک یکہ مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے پاس کھڑا ہے.پوچھنے پر معلوم ہوا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی (جوان دنوں میاں صاحب کہلا تے تھے ( ڈلہوزی تشریف لے جا رہے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد آپ تشریف لائے پوچھنے پر فرمانے لگے ڈلہوزی جا رہا ہوں.میں نے عرض کیا کہ وہاں کا کوتوال عبد الغفار خاں آپ سے ملنے کا بے حد مشتاق ہے.جب یکہ روانہ ہو گیا تو میں نے اسی وقت ایک لفافہ لکھ کر کوتوال صاحب موصوف کو اطلاع دی کہ اس ڈاک کے ساتھ وہ نوجوان صالح جن کا ذکر میں نے کیا تھا.اور جن کا اسم گرامی مرزا محمود احمد صاحب آف قادیان ہے ڈلہوزی آ رہے ہیں آپ ان سے ملیں.بعد کے واقعات کا علم مجھے خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے ہوا.حضور نے فرمایا کہ میرا لفافہ ملنے پر کوتوال نے اپنے آدمی بھیجے کہ آپ کی جائے
۱۶۸ رہائش کا پتہ لگائیں ان لوگوں نے سمجھا کہ ایک بڑے پیر کے لڑکے ہیں اس لئے خاص اہتمام اور خاص خدام کے ساتھ آئے ہوں گے.مگر کچھ پتہ نہ چلا.آخر کو توال صاحب شہر گئے تو انہیں علم ہوا کہ آپ ایک احمدی کے مکان پر اترے ہوئے ہیں کو تو ال صاحب وہاں آئے اور تمہارا لفافہ دکھا کر مجھے کہا میں آپ کی تلاش کر رہا تھا اب آپ مل گے ہیں تو میرے مکان پر تشریف لے چلیں غرض وہ مجھے اپنے مکان پر لے آیا اور شہرو چھاؤنی کے شرفاء کو دعوت دے کر بلایا اور کہا کہ پہلے آپ تقریر فرما ئیں بعد میں کھانا کھلایا جائے گا.والد صاحب اپنے حالات میں لکھتے ہیں کہ : اللہ تعالی کی ذات پاک دلوں پر نظر رکھتی ہے.۱۹۲۵ء میں اللہ تعالیٰ نے حضور ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی) کی اولاد اور خاندان مسیح موعود علیہ اسلام کے متعدد دیگر افراد کو میرے پاس بھجوا کر میری خواہش پوری کر دی اور وہ اس طرح کہ غالباً جولائی ۱۹۲۵ء کی کسی تاریخ کو ایک قافلہ کی صورت میں ، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سات صاحبزادگان جن میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بھی شامل تھے میرے ہاں تشریف لائے.ان صاحبزادگان کی موجودگی سے ہر قسم کی برکت اور رونق ہو گئی یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان تھا ورنہ بے حیثیت کب اس لائق تھا.آپ اپنی ملازمت کے سلسلے میں کوئٹہ ، لاہور، راولپنڈی ،شملہ، انبالہ، رز مک نیز کئی شہروں میں رہے لیکن جہاں بھی آپ گئے.وہاں کی جماعت کے سرگرم رکن رہے اور مختلف عہدوں پر خدمت سلسلہ سر انجام دیتے رہے.ملکانہ کی تحریک میں بھی شامل ہو کر نمایاں خدمت بجالائے.اور کسی دنیاوی خطرے کو دین کے مقابل کبھی خاطر میں نہ لائے.حضرت خلیفہ اسیح اول کی علالت کے آخری ایام میں آپ اور ڈاکٹر بشارت احمد
۱۶۹ صاحب (غیر مبائع ) راولپنڈی میں تھے.اللہ تعالی نے آپ کو توفیق دی کہ جماعت کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے مولوی محمد علی صاحب اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب جو کوششیں کر رہے تھے ان کو بے نقاب کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ متعدد احباب کو بیعت کرا کے خلافت ثانیہ سے وابستہ کرنے کا ذریعہ بنے ان میں خاص طور پر حضرت مولوی علی احمد صاحب حقانی کی بیعت کا واقعہ ہے جو ابتلاء میں پڑ گئے تھے بلکہ ایک وقت جماعت سے منقطع بھی ہو گئے تھے.مگر اللہ تعالیٰ نے دستگیری فرمائی اور آہستہ آہستہ تمام شکوک وشبہات رفع ہونے پر والد صاحب کے ساتھ جا کر خلیفۃ المسیح الثانی کی بیعت سے مشرف ہو گئے.آپ اپنی ملازمت کے دوران ہمیشہ اپنے انگریز افسروں تک پیغام حق پہنچاتے رہے.اور وہ آپ کی غیر معمولی جرأت ایمانی.فرض شناسی اور حق گوئی سے بہت متاثر ہوتے تھے بلکہ بعض خیالات کے لحاظ سے قریباً مسلمان ہو گئے تھے.مذہبی مخالفت کے باوجود آپ کی فوجی خدمات کے اعتراف کے طور پر آپ کو متعدد میڈل ملے.جب آپ بنوں میں تھے تو یونٹ کے بعض مخالف غیر احمدی عہد یداروں نے ایک عرضداشت پیش کرنی چاہی کہ ہمیں ان ( شیخ فضل احمد صاحب ) کے خلاف ایک شکایت ہے یہ ہمارا مذہب خراب کر رہا ہے ہم اس کے ساتھ کام نہیں کر سکتے.انہوں نے ایک رسالدار کو بطور نمائندہ منتخب کیا اور وہ والد صاحب کے احترام کی وجہ سے وہ عرضداشت لے کر پہلے ان کے پاس آیا اور وہ کاغذ دکھا کر پوچھا کہ آپ اس کا کیا جواب دیں گے.آپ نے فوراً کہا میں صاحب سے کہوں گا کہ دیکھ لیں قرآن کریم عیسائیوں کو پکا کا فر کہتا ہے.پس جب آپ بڑے کا فر ہوئے اور ان لوگوں کا آپ کے ساتھ گزارہ ہو سکتا ہے تو میرے ساتھ کیوں نہیں ہوسکتا.حالانکہ میں بقول ان کے چھوٹا کا فر ہوں.ان لوگوں کو یہ علم نہ تھا کہ کمانڈنگ آفیسر میجر وارڈل بھی والد
صاحب کے زیر تبلیغ ہے اور اسلام کی تعلیم سے حد درجہ متاثر ہے آپ اسے اسلامی اصول کی فلاسفی اور دیگر کتب دے چکے تھے.میجر وارڈل پر اسلامی اصول کی فلاسفی (انگریزی) کا اتنا اثر تھا کہ اس نے والد صاحب سے کہا کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ کر دیں میں اپنے عہدیداروں کو یہ کتاب پڑھانا چاہتا ہوں تا کہ انھیں قرآن کی خوبیوں کا علم ہو.جب آپ نے بتایا کہ اصل کتاب اردو میں ہی ہے تو اس نے کہا کہ آرڈر دے کر ۳۷ کا پیاں منگوائیں اس کے اصرار پر قادیان سے ۳۷ کتابوں کا VP منگوایا گیا اور کمانڈنگ آفیسر کے حکم سے دفتر نے ہی VP چھڑا کر صاحب کو بھجوایا.ابھی وہ عرضداشت رسالدار کے ہاتھ میں ہی تھی کہ کمانڈنگ افسر آگیا.اور رسالدار نے سب کو FALL In ہونے کا حکم دیا اور کمانڈنگ افسر نے ہر ایک کو ایک ایک کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی دینی شروع کی اور ہر ایک نے صاحب کا شکریہ ادا کیا.اس کے بعد صاحب نے کتاب کی تعریف بڑے عمدہ پیرا یہ میں کی.آپ کو دعاؤں کی قبولیت پر غیر معمولی یقین تھا.جب ۱۹۳۵ء میں پنشن لے کر قادیان میں آگئے تو آمدنی میں کمی سے پریشانی اور تنگی لازمی تھی.آپ تحریر فرماتے ہیں کہ : میں نے کمرے کا دروازہ بند کر کے دعا مانگی کہ الہی تو مجھے اپنے رحم خاص سے میری خواہش کے مطابق قادیان لے آیا ہے.اب ایک اور رحم کی نظر کر.کہ مجھے کسی کے دروازے پر رزق اور ملازمت کے لیے جانا نہ پڑے اور اپنے فضل سے میرے رزق کے سامان کر.دعا کرنے کے بعد کمرے کا دروازہ کھولا تو باہر ایک احمدی بھائی کو کھڑے پایا اس کے ہاتھ میں ایک چٹھی تھی وہ کہنے لگا کہ یہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھیجی ہے میں نے پڑھی تو اس میں حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف نے لکھا تھا کہ آپ مجھے کسی وقت آکر ملیں.میرے دل میں خدا نے ڈالا کہ یہ قبولیت دعا کا نشان ہے.
121 حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف ( رضی اللہ عنہ ) نے آپ کو اپنے دفتر میں لگا لیا.آپ وہاں ۱۹۳۶ء سے جنوری ۱۹۴۱ء تک کام کرتے رہے اور پھر ۱۹۵۰ء تک صیغہ امانت میں غرضیکہ اس طرح آپ کو ۱۵ سال کے طویل عرصہ تک پنشن کے بعد سلسلے کی خدمت کرنے کا موقع بھی ملا.جسے ,, آپ نے نہایت دیانت داری اور احساس ذمہ داری کے ساتھ نبھایا.۱۹۴۷ء میں قادیان سے ہجرت کے وقت آپ کو ایک اہم ذمہ داری سپرد ہوئی.یعنی لاکھوں روپے کی مالیت کے زیورات جو لوگوں نے بطور امانت صدر انجمن احمد یہ میں جمع کروائے ہوئے تھے انہیں پاکستان لانا تھا.اور کوئی یقینی انتظام موجود نہ تھا.آپ ان زیورات کے بکسوں کو صبح کے وقت دفتر سے لاتے اور کسی ٹرک میں جگہ نہ ملنے پر نا کام واپس لے جاتے.یہ دن رات آپ نے نہایت پریشانی اور دعاؤں میں گزارے نہ ہی کسی کو اپنا ہمراز بنا سکتے تھے.آخر کئی دن کے بعد ایک ٹرک میں جگہ ملی.اس میں ریسرچ کی کتب اور دوسرے سامان کے بکس بھی چڑھا دیے گئے یہ خاص مشیت ایزدی تھی.اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی دعاؤں کا عجیب نشان، جب اس قافلہ کی تلاشی لی گئی.اور سامان کھلوانے کے لئے جس ٹرنک کو بھی ہندوستان ملٹری نے کھلوایا.اس میں ریسرچ کا سامان ہی نکلا.اور اس طرح معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ توفیق دی.کہ ان امانتوں کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خواہش کے مطابق بحفاظت پاکستان میں منتقل کر سکیں.جن لوگوں نے وہ مصیبت نہیں دیکھی.وہ ان حالات کا اب قیاس بھی نہیں کر سکتے.آپ کی دیانتداری کی ایک مثال میاں روشن دین صاحب زرگر کا ہزاروں روپے کا سونا بغیر کسی تحریر کے دینا اور پاکستان میں آپ کا اسے واپس کرنا اور اصرار کے باوجود کوئی معاوضہ قبول نہ کرنے کا ذکر مکرم محمد شفیع صاحب اسلم کے مضمون میں آچکا ہے.
۱۷۲ ایک دفعہ قادیان میں آپ کو درد گردہ ہوا.تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ہومیو پیتھک دوائی ٹنکچر پیر برا بر ہوا استعمال کر نیکی ہدایت فرمائی.اس سے تین پتھریاں خارج ہوئیں اور پھر کبھی یہ تکلیف نہ ہوئی.درد گردہ کے بعض مریضوں کو حضور فر مایا کرتے تھے کہ شیخ فضل احمد صاحب کو ایک دوائی میں نے بتائی ہوئی ہے.ان سے پوچھ لیں.دراصل یہ حضور کی ذرہ نوازی تھی تا کہ ایک شفایاب مریض سے مل کر وہ زیادہ مطمئن ہو جائیں.ورنہ دوائی تو خود حضور بھی بتا سکتے تھے.نومبر ۱۹۵۷ء میں آپ کو بندش پیشاب کی تکلیف ہو گئی.اور ایک ماہ سے زائد عرصہ تک صبح و شام کی تھیڑا کے ذریعہ پیشاب خارج کر وایا جاتا تھا.تمام ڈاکٹری علاج بے نتیجہ رہے اور آپ اس قدر کمزور ہو گئے کہ بغیر سہارے کے آپ کروٹ بھی نہیں لے سکتے تھے.چہ جائیکہ ڈاکٹری مشورہ کے مطابق اپریشن کے لیے آپ کو لاہور لے جایا جاتا.بعض ڈاکٹر صاحبان نے اپنے اس خیال کا اظہار بھی کر دیا تھا کہ ایک دو دن سے زیادہ یہ زندہ نہیں رہ سکیں گے.اور اب کسی علاج یا پر ہیز کی ضرورت نہیں ہے.بیڈ سور کی تکلیف بھی ہوگئی تھی.اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت کہ تد بیر جاری رکھنی چاہیئے.ہومیو پیتھک علاج شروع کر دیا گیا مگر آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر روپے پیسے انسان کو موت سے بچاسکیں تو بادشاہ کبھی نہ مریں.اور اگر ڈاکٹر موت سے بچا سکتے ہوں.تو وہ خود اور ان کے خاندان کے لوگ کبھی نہ مریں مگر یہ تقدیر خدا تعالیٰ چاہے تو دعا سے ٹل سکتی ہے.آپ کو حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اور حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہ جہانپوری ( اللہ تعالیٰ حضرت حافظ صاحب کی عمر میں برکت دے) سے بہت محبت تھی اور دوسرے کام چھوڑ کر بھی ان بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہو کر فیض حاصل کیا کرتے تھے.جب بیماری طویل ہوگئی اور آثار نومیدی ظاہر ہونے لگے.تو ایک دن آپ نے
۱۷۳ حضرت مولانا راجیکی صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی.میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا.اور آپ تشریف لے آئے.بیماری کی کیفیت کو سنا اور پھر اللہ تعالیٰ کی صفات اور قدرتوں کے جلوے اور قبولیت دعا کے مضمون پر آپ نے تقریر فرمائی اور اسی دوران نہایت بلند اور پُر شوکت آواز سے اللہ اکبر" کا نعرہ بلند کیا اور اس وقت آپ بے حس وحرکت جھکے ہوئے تھے.پگڑی چار پائی پر اور سوٹی زمین پر گر پڑی تھی.چند لمحوں کے بعد جب یہ کیفیت دور ہوئی تو آپ نے فرمایا.میں نے کشف میں دیکھا ہے کہ فرشتے نور کے پانی کی مشکیں بھر کر آپ کو غسل دے رہے ہیں اس کی دو ہی تعبیریں ہیں.اور دونوں مبارک یا تو مرض دھل کر جسم سے نکل جائے گا.اور صحت ہو جائے گی.یا پھر انجام بخیر ہو جائے گا.میرے والد محترم فرماتے تھے کہ انہی دنوں جب مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر میری عیادت کے لئے آئے تو میں نے چشم پر آب ہو کر کہا کہ اگر آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں حاضر ہوں تو میری طرف سے بعد سلام مسنون عرض کریں کہ وہ کہتا ہے.بادشاہوں کے ہاں جب کبھی شادی وغیرہ کی خوشی کے ایام آتے ہیں تو وہ قیدیوں کو رہا کیا کرتے ہیں (ان دنوں حضرت مصلح موعودؓ کے خاندان میں کوئی خوشی کا موقعہ تھا) حضور کے خاندان میں خوشی کا موقع آیا ہے.میں مرض کا اسیر ہوں.خدا کے حضور دعا کر کے مجھے مرض سے آزاد کرائیں.مجھے میاں غلام محمد صاحب اختر نے بعد میں بتایا کہ جب میں نے یہ پیغام پہنچایا تو حضرت اقدس کے چہرے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ نے سُن کر دعا کی ہے.آپ فرمایا کرتے تھے.ایک روز مجھے خیال آیا کہ خود پیشاب کر کے دیکھوں.میری حیرت کی انتہا نہ رہی.جب میں نے دیکھا کہ خود بخود پیشاب آگیا.اور پھر کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہوئی.میرے دل پر غالب اثر یہ ہے کہ یہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی قبولیت دعا کا نشان ہے
۱۷۴ اور دوسرے بزرگوں کی دعائیں بھی اس میں شامل ہیں.اس بیماری سے شفا پانے کے بعد آپ دس سال تک زندہ رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کی دعاؤں کی برکت سے وافر حصہ ملا.خدا تعالیٰ نے آپ کو بہت سی اولاد سے نوازا بلکہ ان کی اولاد اور آگے ان کی اولاد کو بھی دیکھ لیا.آپ کی خواہش تھی کہ میرے لڑکے خادم دین بنیں سو اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی میں ہی ہم تین بھائیوں کو خدمت سلسلہ بجالانے کی توفیق دی.آپ نے اپنے حالات اور واقعات کو اپنی زندگی میں کبھی شائع کروانا پسند نہیں کیا.بلکہ مکرم ملک صلاح الدین صاحب کے اصرار پر آپ نے کچھ حالات قلم بند تو کئے مگر یہ وصیت کر دی کہ میری وفات کے بعد انہیں شائع کرنے کے لئے دئے جائیں." آپ نے اپنی علالت کے آخری ایام نہایت صبر سے.خدا تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہتے ہوئے دن رات تسبیح و تحمید اور دعاؤں میں گزارے کبھی کوئی کلمہ ناشکری کا آپ کی زبان سے نہ سُنا.آخری وقت تک چہرے کی بشاشت قائم رہی.آپ کو کچھ عرصے سے ایسی خوا میں آرہی تھیں.جن میں وفات کی طرف اشارہ تھا.رحیم وکریم خدا نے جو زندگی بھر ان کی دستگیری کرتا رہا آخری ایام میں بھی بڑے معجزانہ طور پر اپنی نصرت کا اظہار فرمایا.اللہ تعالیٰ نے ایسے غیر معمولی حالات پیدا کر دئیے کہ میرے ایک بھائی رشید ناصر کو یہ توفیق دی کہ ہزاروں روپے ان کے علاج پر خرچ کر سکے.اور دوسرے عزیزوں کو جن میں میرے بھائی اور بہنوئی شامل ہیں.دو مہینے تک دن رات بڑے خلوص اور ہمت کے ساتھ ان کی خدمت کی توفیق دی.ہم خاص طور پر حضرت خلیفہ المسح ایدہ اللہ تعالی کے شکرگزار ہیں جنہوں
۱۷۵ نے مسلسل اپنی دعاؤں سے نوازا اور خدا تعالیٰ کی رحمت کو ہمارے شامل حال کیا ، ہمارے غم میں شریک ہو کر ہمیں سہارا دیا.اور دیارِ غیر میں مقیم میرے بھائیوں سے تار کے ذریعہ اپنی طرف سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار فرمایا.خدا تعالیٰ اس بابرکت وجود کو صحت و تندرستی سے تا دیر سلامت رکھے.اور ہمیں حضور کی مکمل اطاعت کی توفیق عطا فرمائے.آمین ”ہم ان تمام بزرگوں اور بھائیوں کے بھی احسان مند ہیں جنہوں نے والد صاحب مرحوم کی علالت کے دوران دعائیں کیں.اور ان کی وفات پر اظہار ہمدردی کے لئے تشریف لائے یا خطوط بھیجوائے اور نہ صرف پاکستان کے کئی شہروں میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی جنازہ غائب پڑھا.احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے والد محترم کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے والد مرحوم کے نقش قدم پر چلیں.اور ہماری زندگیاں بھی دین کی خدمت میں بسر ہوں.اور خلافت کی برکات سے ہمیشہ فیض اٹھاتے رہیں آمین کا.
حوالہ جات ا: بدر ۱۶ اکتوبر ۱۹۴۹ء ۲: الحکم ۲۱ جولائی ۱۹۳۴ء ص ۱۱ ۳: الحکم ۱۴مئی ۱۹۱۱ء ص ۱۰ آے یہ وقار عمل اامارچ ۱۹۱۰ء کو ہوا تھا.البدر ۱۷/۲۴ مارچ ۱۹۱۰ صفحہ ۲ مندرجه تاریخ احمدیت جلد چهارم (ص۵۸۳) الفضل ۷ جنوری ۱۹۵۸ء (ص ۸ کالم ۱) کے آپ لکھتے ہیں کہ یہ ۱۹۰۷ ء کا مکتوب ہے.اس کے عکس کیلئے ملاحظہ ہو تا ریخ احمدیت جلد چہارم (ص۶۴۴) : الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۲۲ء ص ۱۲ کالم ۲ ۹ ۱۵ فروری ۱۹۲۳ ء زیر مدینه اسح ۱۰: ملا مگه الله صفحه ۵۰ بار اول ۱۱: الفضل ۲۵ جون ۱۹۲۳ صفحه ا ۱۲: الفضل ۳ جولائی ۱۹۳۳ء.١٣ الفضل ۱۵ اگست ۱۹۵۰ء ( ص نمبر ۵) ۱۴: مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۲۹۵ زیر نمبر ۲۲۱ ۱۵ فهرست دار الرحمت ربوه - ص ۱۱۴ ، ۱۱۵ °1):14 الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۲۱ء ص ۹) ا الفضل ۱/۸/۶/۵ خاء ۱۳۴۷اهش (اکتوبر ۱۹۶۰ء)
122 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم خان صاحب منشی برکت علی صاحب شملوی محترمہ صاحب جان صاحبه والده محترمه عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ تعارف حضرت منشی برکت علی صاحب ساکن بستی شیخ ضلع جالندھر شملہ میں ملازمت کی وجہ سے شملوی کہلاتے تھے.شروع سے متدین تھے.قبول احمدیت سے پہلے ہی چندہ میں شرکت کرنے لگے.۱۹۰۱ء میں آپ نے اور آپ کے جلد بعد آپ کی والدہ محترمہ اور اہلیہ محترمہ نے احمدیت قبول کر لی.آپ متعدد بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت مشرف ہوئے.۱۹۰۶ء میں دس بارہ دن کے قیام قادیان میں ہر دو خواتین کو حضور اور حضرت اما المؤمنین کی ملاقات نصیب ہوئی.صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کے ہمراہ آپ کی کمسن بچی کھیلتی تھی.حضور نے اسے گود میں اٹھایا اور پیار کیا.والدہ صاحبہ مخیر تھیں.اور صوم وصلوٰۃ کی پابند بعمر بیاسی برس ۱۹۱۵ء میں وفات پائی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی.اور آپ بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئیں.آپ کی اہلیہ محترمہ شعائر اللہ کی تعظیم کرنے والی.چندہ جات اور زکوۃ ادا کرنے میں با قاعدہ.بزرگوں اور خاوند کے اقارب کا زیادہ خیال رکھنے والی ، سادگی پسند ، دل کی صاف، قناعت پسند ، تقویٰ میں مشہور ، غرباء کا خاص خیال رکھنے والی اور خاوند کی ایسی خدمت کرنے والی تھیں کہ گھر بہشت کا نمونہ نظر آتا تھا.لجنہ اماء اللہ شملہ کی صدر رہ چکی تھیں.دسمبر ۱۹۴۹ء میں چھیاسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی.جلسہ سالانہ پر آمدہ ہزاروں
۱۷۸ احباب سمیت حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے نماز جنازہ پڑھی اور جنازہ کو کندھا دیا.اور فرمایا کہ میں ایک ضروری کتاب لکھ رہا ہوں.ورنہ قبرستان تک ساتھ جاتا.آپ مقبرہ بہشتی ربوہ میں مدفون ہوئیں.محترم خاں صاحب نے جماعت شملہ میں سیکرٹری ، جنرل سیکرٹری اور امیر کے طور پر محنت اور اپنے بہترین نمونہ سے ایک تہائی صدی تک خدمات ادا کیں.لاٹری کے سائرھے سات ہزار روپیہ کی خطیر رقم حضرت اقدس کے ارشاد پر آپ نے فور اتقسیم کر دی.منارة اسبیح پر دونوں میاں بیوی کے اسماء بھی کندہ ہیں.ریویو آف ریجنز کے اجراء پر آپ نے تجارتی حصص خریدے جو ارشاد مبارک پر سلسلہ کو دے دیئے.اور ربوہ کا پانچ ہزار روپے کی مالیت کا مکان سلسلہ کو ہبہ کر دیا.خود بمعہ اہلیہ صاحبہ مجاہدین تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج میں شامل تھے.موصی تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی قائم کردہ انجمن کے آپ رکن بنے جس کا نام حضور نے تحیۃ الاذہان رکھا تھا.اور اس نام کے رسالہ اور الفضل کے حضرت صاحبزادہ صاحب کی طرف سے جاری کرنے پر خریدار بنے اور الفضل کی خریداری بڑھائی.تبلیغی مقصد کے لئے محترم صاحبزادہ صاحب کی قائم کردہ انجمن انصار الله کے رکن بنے.حضرت خلیفہ اسی اول بھی اُس کے رکن بنے تھے.آپ کے زیر اثر جماعت شمله مؤیدین خلافت میں سے تھی.مرکز سلسلہ میں نظارت علیا میں دفاتر کی نگرانی کے لئے نائب ناظر اور نظارت بیت المال میں بطور نائب.جائنٹ ناظر اور قائم مقام ناظر اور نیز کچھ عرصہ صدر مجلس کار پرداز مصالح قبرستان بہشتی مقبرہ اور قائم مقام ناظر ضیافت اور ایک بار افسر جلسہ سالانہ ربوہ اہم ذمہ داریاں آپ کے سپرد ہوتی رہیں.اور جماعت شملہ اور مرکز کی طرف سے شوریٰ میں نمائندگی کی.اور عموماً اس کی سب کمیٹیوں کے رکن مقرر ہوتے رہے.ایک بار ایک کمیشن حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے آپ کی صدارت میں تشکیل دیا.دہلی میں منعقد ایک سالانہ جلسہ کی صدارت کرنے والوں میں آپ بھی تھے.سرکاری ملازمت سے بریٹائر ہونے پر آپ نے لسانی و قلمی خدمات بھی کیں.ایک جماعتی تقریب میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے دہلی میں آپ کو جماعتہائے شملہ دہلی کی جماعت کی طرف سے ایک قرآن شریف عطاء فرمایا.حضور نے ایک دفعہ جماعت کو بتایا کہ مرکز میں معدودے چند پنشنر
۱۷۹ ہیں.جن میں آپ کا نام بھی لیا اور فرمایا تھوڑے سے عرصہ میں انہیں اتنا کام کرنا پڑا ہے کہ جتنا انہوں نے ساری عمر نہ کیا تھا.آپ عادات میں سادہ، نرم خو سنجیدہ طبع ، باوقار محنتی ، مدبر اور مخلص تھے.آر نے ۷ اگست ۱۹۵۸ء بوقت گیارہ بجے صبح راولپنڈی میں وفات پائی.جنازہ راولپنڈی سے بذریعہ ٹرک ربوہ لایا جا رہا تھا لیکن سیلاب کے باعث خوشاب سے آگے نہ آسکا.اس لئے خوشاب میں امانتاً دفن کئے گئے اور بعد میں ۱۸ اپریل ۱۹۵۹ء کو آپ مقبرہ بہشتی قطعہ خاص ربوہ میں دفن ہوئے.رضی اللہ عنھم اجمعین.مختصر حالات زندگی آپ کی ولادت ۱۸۷۲ء میں بستی شیخ ضلع جالندھر میں ہوئی.آپ کے والد بزرگوار میاں محمد فاضل صاحب آپ کی طفولیت ہی میں داغ مفارقت دے گئے.آپ قدرے بڑی عمر میں یعنی آٹھویں سال میں ایک دیہاتی سکول میں تعلیم پانے لگے.طبیعت ذہین پائی تھی.انسپکٹر مدارس غالباً سردار دلیپ سنگھ نے اپنے دورہ میں پرائمری کی تیسری جماعت کا امتحان لیا تو آپ کی پڑھائی انہیں پسند آئی اور انہوں نے کتاب رسومِ ہند آپ کو انعام دی.پانچویں پرائمری میں جماعت کا مانیٹر ہونے کی وجہ سے آپ کو مانیٹری یعنی بوجہ مانیٹر ہونے کے نصف روپیہ ماہوار ملتا رہا.پانچویں جماعت میں آپ غالبا ضلع بھر میں اول رہے.تو دورو پیہ ماہوار وظیفہ ملنے لگا چونکہ اس دیہاتی سکول میں انگریزی کی تعلیم کا انتظام نہیں تھا.سو آپ مڈل کلاس میں جالندھر کے ایک سرکاری مدرسہ میں داخل ہوئے اور انگریزی کی کمی پورا کرنے کے لئے ایک سال پیش کلاس میں صرف ہوا.گویا تیسرے سال ۱۸۸۹ء یا ۱۸۹۰ء میں آپ نے مڈل کا امتحان دیا جو اس وقت یو نیورسٹی لیتی تھی.آپ بفضلہ تعالیٰ بہت اعلیٰ نمبر پر کامیاب ہوئے اور چار روپے وظیفہ منظور ہوا.لیکن چونکہ پیشل کلاس میں پڑھنے سے عمر مقررہ حد سے بڑھ چکی تھی اس لئے عملاً وظیفہ نہ مل سکا.انٹرنس تک تعلیم پا کر ۱۸۹۲ء کے آخر میں آپ نے شملہ میں محکمہ موسمیات میں ملازمت اختیار کر لی.
۱۸۰ دوسال کے بعد کوشش کر کے آپ نے دفتر ڈائریکٹر جنرل انڈین میڈیکل سروس میں تبدیلی کرالی.اور یہیں بقیہ مدت ملازمت گذری.پہلی جنگِ عظیم میں آپ کو خوب تندہی سے کام کرنے کی توفیق ملی.اور بغیر آپ کی کسی کوشش یا علم کے انہی خدمات کے پیش نظر افسران دفتر نے سفارش کر کے آپ کے لئے حکومت ہند سے ۱۹۲۰ء میں ”خان صاحب کا خطاب منظور کروایا.۱۹۳۲ء میں پنشن پا کر آپ قادیان ہجرت کر آئے.اور قیام پاکستان پر ربوہ ہجرت کی اور وہیں دفن ہوئے.آپ وجیہ اور شکیل باوقار اور سنجیدہ طبع تھے.سانولا رنگ دراز قد نرم خو کم سخن صحت مند تھے.خضاب لگاتے تھے.داڑھی مشرع تھی.ہاتھ میں چھڑی رکھتے تھے.۱۹۴۱ء کے قریب خاکسار نے آپ کے ماتحت ایک ڈیڑھ ماہ تک بطور قائم مقام معاون ناظر بیت المال کام کیا اور آپ کو بااصول ، باتدبیر، ٹھنڈے مزاج اور محنتی.معاملات پر پوری توجہ دینے والے اور دفتری اوقات کا پابند پایا نہایت قابلیت سے آپ نظارت بیت المال کا کام سرانجام دیتے تھے.آپ کو خاکسار نے صبح کے وقت بالعموم سیر کرتے دیکھا تھا.آپ کے ذریعہ گو آپ کے جدی اقارب میں سے کسی کو احمدیت کی سعادت نصیب نہ ہوئی.لیکن آپ کے بہنوئی مکرم مولوی عمر دین صاحب ساکن موضع صریح ضلع جالندھر آپ کی تبلیغ سے احمدی ہو گئے.وہ پہلے ہی بہت متقی اور متدین تھے.اور اپنے علاقہ کے قاضی تھے اور اہل حدیث خیالات کے تھے.انہیں بھی سلسلہ کی بہت سی خدمات کا موقعہ ملا جن کا ذکر صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹوں اور مشاورت کی رپورٹوں میں آتا ہے.بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں ہے.ان کی اہلیہ محترمہ یعنی خان صاحب کی ہمشیرہ جعفرہ بیگم صاحبہ ( جن کا نام رجسٹر بہشتی مقبرہ میں سہو ! زعفران بیگم درج ہوا ہے ) بھی بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.محترم مولوی عمر الدین صاحب اپنے فرزند محترم خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں تبلیغ کرتے رہے اور مکرم خان صاحب منشی برکت علی صاحب بھی.ان کو قبول احمدیت کی سعادت خلافت اولی میں میسر : تاریخ وفات ۶ اپریل ۱۹۲۹ء.
۱۸۱ آگئی اور پھر فیروز پور کی جماعت میں اور بعد پنشن انگلستان میں اور مراکز قادیان در بوہ میں نائب امام لندن، امام مسجد لندن، ناظر بیت المال، ناظر امور عامہ اور ناظر اعلیٰ وغیرہ جلیل القدر مناصب پر کامیاب طور پر خدمات کی توفیق ملی اور اب مقبرہ بہشتی قطعہ خاص ربوہ میں مدفون ہیں.نیز آپ کی اولاد اور اولاد در اولاد کو بھی خدمات سلسلہ کی توفیق مل رہی ہے.اولیت حضرت منشی برکت علی صاحب کو حاصل ہوئی اور الدال على الخير كفاعله کے قول نبوی کے مطابق آپ عظیم ثواب کے عند اللہ مستحق ہوں گے.بفضلہ تعالیٰ.قبول احمدیت آپ بیان کرتے ہیں: جہاں تک مجھے یاد ہے.سب سے پہلے ۱۹۰۰ء میں جب میں شملہ میں تھا.مجھے احمدیت کے متعلق بعض باتیں سنے کا اتفاق ہوا اور انہی دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام بھی سُنا.اتفاق سے میں مجرد رہتا تھا.اور ایسی جگہ رہتا تھا جہاں دو چار کمرے پہلو بہ پہلو تھے.ایک برآمدہ تھا.اور وہاں ایک ایک دو دو کر کے ہم رہتے تھے ایک کمرہ میں دو تین احمدی دوست تھے اور باقی سب غیر احمدی تھے.میرے کمرہ میں جو دوسرے دوست تھے وہ غیر احمدی تھے.اخراجات میں کفایت کی غرض سے ہم نے میس بنایا ہوا تھا.جہاں کھانے کے اوقات میں کھانا کھانے کے لئے ہم سب اکٹھے ہوتے اس طرح میں احمدیوں کا واقف ہو گیا.چونکہ ایک احمدی احمدیت کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا.اس لئے لازماً جب ہم اکٹھے ہوتے تو احمدیت کا ذکر چھڑ جاتا.طبعی طور پر طبیعت میں رُشد تھا.نئی روشنی کی کتابیں اور اخبار پھر اسی طرح احمدیت کی کتب بھی میں دیکھ لیا کرتا تھا.سرسید احمد خاں کا رسالہ ”نئی روشنی بھی زیر مطالعہ رہا.انہوں نے قرآن کریم کی تفسیر بھی لکھی ہے.اس کا بھی میں نے ایک پارہ پڑھا.جس سے مجھے ان کے
۱۸۲ خیالات اور دلائل کا علم ہو گیا.ان دنوں ہمارے درمیان زیادہ تر وفات مسیح کے مسئلہ پر گفتگو ہوا کرتی تھی.اور احمدیوں کے ساتھ عموماً بات چیت میں ہی کیا کرتا تھا.عربی تو مجھے آتی نہیں تھی.ہاں قرآن کریم ناظرہ پڑھ لیتا تھا.احمدی دوست عموماً آیات قرآنیہ کا حوالہ دیتے تھے.گو غیر احمدی دوست میری خوب پیٹھ ٹھونکتے.اور کہا کرتے تھے کہ تم احمدیوں کی خوب خبر لیتے ہو.مگر میں خود سمجھتا تھا کہ میرے دلائل کمزور ہیں.میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ قرآن کریم کا ترجمہ تو اب سیکھنا مشکل ہوگا.اس میں زیادہ دیر لگے گی.ہاں عربی دانوں نے جو تر جمہ قرآن کریم کا کیا ہوا ہے.اس پر ایک دفعہ ہم عبور کرلیں تو پھر تبلیغی گفتگو کا لطف آئے گا.ورنہ اب کوئی لطف نہیں.احمدی دوست آیات قرآنیہ پیش کرتے ہیں.لیکن ہم ان کے معنوں سے بھی واقف نہیں.چنانچہ میں نے شروع سے آخر تک قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا.اور میں سچ کہتا ہوں کہ وہ احمدی دوست تو وفات مسیح پر دس پندرہ آیات سے استدلال کرتے تھے.لیکن مجھے یوں محسوس ہوا کہ قرآن کریم میں کئی اور ایسی آیات ہیں جن سے وفات مسیح پر استدلال کیا جا سکتا ہے.مثلاً میں نے غور کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر قرآن کریم میں دوسرے فوت شدہ انبیاء کے ساتھ کیا گیا ہے.اور کسی جگہ بھی وہ منفرد نہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی ان فوت شدہ انبیاء کے زمرہ میں ہیں.ورنہ اگر وہ دوبارہ آنے والے ہوتے تو آپ کا قرآن کریم میں امتیازی طور پر ذکر ہوتا.بہر حال میری توجہ احمدیت کی طرف پھر گئی.انہی دنوں میں نے پیر مہر علی شاہ صاحب کے بعض اشتہار دیکھے.چنانچہ ان کی طرف سے ایک بہت بڑا اشتہار شائع ہوا.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے حوالہ جات پیش کر کے غالباً ۲۴ با تیں لکھی گئی
۱۸۳ تھیں کہ یہ مرزا صاحب کے اعتقادات ہیں.جن کی وجہ سے وہ ملحد اور کافر ہیں.مجھے غیر احمدیوں نے احمدیوں کے ساتھ گفتگو کرنے کے لئے اُکسایا.لیکن میں نے کہا.اس طرح لطف نہیں آتا.جن کتابوں کے حوالہ جات یہاں دئے گئے ہیں.انہیں مہیا کرو.میں خودوہ حوالے پڑھوں گا.چنانچہ وہ کتابیں مہیا کی گئیں.میں نے اشتہار کا اصل کتابوں سے مقابلہ کیا تو دیکھا کہ بعض حوالے تو بے شک ٹھیک تھے.لیکن اکثر حوالے ایسے تھے.جن میں اپنی مطلب براری کے لئے قطع و برید کی گئی تھی.اس سے مجھے مولویوں سے بدظنی پیدا ہوئی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عقیدت پیدا ہوگئی.انہی دنوں میں ایک دو اور باتیں ایسی پیدا ہوگئیں جن کی وجہ سے مجھے احمدیت کی طرف زیادہ رغبت ہوگئی اور چونکہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عقیدت پیدا ہو چکی تھی.اس لئے میں نے احمدیوں کو چار آنہ ماہوار چندہ بھی دینا شروع کر دیا ہے.اس کی وجہ محض حسنِ ظن تھا.جو مجھے ان لوگوں پر تھا کہ یہ لوگ روپیہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.چنانچہ میں نے کئی ماہ تک چندہ دیا.میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی میرے رستہ میں خرچ کرتا ہے.تو میں اُسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر دیتا ہوں.اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ دوسرے جہان میں بڑھا چڑھا کر دے گا.لیکن بہت سے صاحب تجربہ اولیاء اور صوفیاء نے کہا ہے.اور قرآن کریم سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں بھی کئی گنا بڑھا چڑھا کر بدلہ دیتا ہے.میں نے خیال کیا کہ میں نے یہ تھوڑی سی رقم خدا تعالیٰ کے رستہ میں دی ہے.اگر یہ سلسلہ فی الواقعہ سچا ہوا تو خدا تعالیٰ مجھے اسی دنیا میں اس سے بڑھ چڑھ کر روپیہ الحکم بابت 1900ء میں آپ کے چندہ کا اندارج نہیں ملا.البتہ فروری.اپریل اور مئی وجون ۱۹۰۱ء | میں پونے چار روپے چندہ دینا مذکور ہے.
۱۸۴ دیگا.لیکن حیران تھا کہ یہ کیسے ہوگا.میں ملازم ہوں سوائے تنخواہ کے زائد آمد کی کوئی صورت نہیں.پھر میں رشوت نہیں لیتا.پھر یہ بڑھ چڑھ کر روپیہ کس طرح ملے گا.لیکن آخر وہ روپیہ مجھے ملا.۱۹۰۱ء میں مردم شماری ہوئی.مردم شماری کی کتاب میں کئی باب ہوتے ہیں اور مختلف محکموں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا اپنا حصہ لکھیں حفظانِ صحت کا باب ہمارے محکمہ کے ساتھ تعلق رکھتا تھا.چنانچہ ہدایت ملی کہ یہ باب تم لکھو.ہماری برانچ کا افسر انچارج ایک انگریز تھا.جس کا نام کیپٹن رابرٹس تھا.اس نے مجھے بلا کر کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم اس کے لئے مصالحہ تیار کرو.مجھے یہ یہ اعداد و شمار چاہئیں اور یہ یہ نقشے درکار ہیں.یہ تم مہیا کرو.میں نے اس کی ہدایت کے مطابق اور کچھ اپنی ذہانت سے کام لے کر اُسے تمام مواد بہم پہنچایا جس سے وہ بہت خوش ہوا اور اس نے بطور انعام چھپیں روپیہ ماہوار کے حساب سے ڈیڑھ سو روپیہ مجھے انعام دیا.اب دیکھو میں خود خیال کرتا تھا کہ بظاہر کوئی ایسی صورت نہیں کہ مجھے زائد روپیہ مل سکے.لیکن خدا تعالیٰ نے وہ روپیہ دلوا دیا.اس طرح مجھے یقین پیدا ہو گیا کہ یہ سلسلہ سچا ہے.آپ مزید بیان فرماتے ہیں: اگر انسان کی نیت نیک ہو اور اس میں اخلاص پایا جاتا ہو.تو اللہ تعالیٰ انسان کو سیدھے رستہ پر ڈال دیتا ہے.چنانچہ وہ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلُنَا.میرے علاوہ ایک اور شخص برکت علی نام کا بھی تھا.جو گورنمنٹ آف انڈیا کے ایک دفتر میں ملازم تھا.اس نے بھی چار آنہ ماہوار چندہ دینا شروع کیا تھا.میں بیعت کر چکا تھا کہ.میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا اور یہ خواب مجھے اب تک اسی طرح یاد ہے کہ گویا میں نے وہ واقعہ عالم بیداری میں بچشم خود آپ کے بیان کے مطابق آپ نے نصف سال میں ڈیڑھ روپیہ چندہ دیا ہوگا.اور اس کا اجر ظاہر ابھی ایک سو گنا یعنی ڈیڑھ صد روپیہ پا لیا.سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيم.
۱۸۵ دیکھا تھا.میں نے دیکھا کہ ہم قادیان گئے ہوئے ہیں وہاں ہزاروں اور مسلمان ہیں.میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکان ایک قلعہ کی شکل میں ہے جیسے پھلور کا قلعہ ہے.اور مہمان اس کی پشت کی جانب چھوٹے چھوٹے کمروں میں رہتے ہیں.قریباً شام کا وقت ہے کہ حضور حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر سے تشریف لائے.آپ ایک سفید تراق گھوڑے پر سوار ہیں.اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک بہت بڑے جرنیل ہیں.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف بھاگا گیا.اور وہ برکت علی بھی گیا.میں نے سلام کیا اور پھر دوسرے برکت علی کو حضور نے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.اب موقعہ ہے بیعت کرلو.“ اس نے کہا.ہرگز نہیں.چنانچہ زندگی بھر اسے بیعت کرنا نصیب نہ ہوا.میں نے چندہ دیا.خدا تعالیٰ نے بیعت کی توفیق دی.اور اپنے پاس سے بڑھ چڑھ کر اس کا بدلہ بھی دے دیا.لیکن دوسرا شخص سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہونے سے محروم رہا.اس سے صاف معلوم ہو گیا کہ اس میں اخلاص نہیں تھا..انہی دنوں میں نے ایک اور خواب دیکھا.اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر انسان میں اخلاص ہو تو خدا تعالیٰ خواب کے ذریعہ بھی اس کی راہنمائی کر دیتا ہے.میں نے خواب میں دیکھا کہ ساتھ والے کمرہ میں جہاں احمدی دوست رہتے رہے تھے.وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں کسی نے مجھے بتایا کہ مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں.اُن سے مل لو.چنانچہ میں گیا اور میں کیا دیکھتا ہوں کہ آپ نہ بند باندھے ) ایک چارپائی پر بیٹھے ہیں.اور آپ کے سر کے بال لمبے لمبے ہیں (اور سر اور جسم پر کپڑا نہیں ) میں نے اس وقت تک آپ کی شکل نہیں دیکھی تھی.بلکہ آپ کی تصویر بھی نہیں دیکھی تھی.خواب میں آگے بڑھا اور عرض کیا حضرت ! السلام علیکم.فرمایا ( وعلیکم السلام ) ''برکت علی تم ہماری طرف کب آؤ گے.میں نے عرض کیا ”حضور ! اب آہی جاؤں گا.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور یہ صبح کا وقت تھا.میں پھر اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے واقعہ میں اور یقینی طور پر یہ خواب دیکھی ہے اور اگر میں نے اس میں اپنی طرف
۱۸۶ سے کچھ ملایا ہو تو مجھ پر اسی دنیا میں اور نیز آخرت میں عذاب الہی ہو.میں نے اس خواب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی ہدایت کے لئے اشارہ سمجھا ہیں.پھر ایک واقعہ پیش آیا: ۱۹۰۱ء کی مردم شماری ہو رہی تھی.غالباً مارچ کا مہینہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اشتہار شائع کیا کہ اب مردم شماری ہونے والی ہے.بعض لوگ ایسے ہیں جنہیں یقین ہو چکا ہے کہ میں سچا ہوں.اور احمدیت کی صداقت ان پر ظاہر ہو چکی ہے.لیکن کسی وجہ سے انہوں نے بیعت نہیں کی.ایسے لوگ گو انہوں نے ابھی بیعت نہیں کی اپنے آپ کو احمدی لکھا سکتے ہیں یا لکھا دیں.صحیح الفاظ یاد نہیں ہیں.میں نے وہ اشتہار پڑھا اور اپنے آپ کو احمدی لکھا دیا اور خیال کیا کہ جب اجازت ہوگئی ہے تو اس بارہ میں کیوں انتظار کیا جائے.چند دنوں کے بعد میں نے تحریری بیعت بھی کرلی ہو ہے.بیعت کے بعد جب پہلا جلسہ سالانہ آیا تو میں قادیان گیا.اس وقت کوئی وسیع مہمان خانہ نہیں تھا مہمان مختلف جگہوں پر ٹھہرے ہوئے تھے.ہمیں حضرت میاں بشیر احمد صاحب کے مکان ) کی بیٹھک ) میں رہنے کا اتفاق ہوا.وہاں بھی جلسہ کے موقعہ پر مہمان ٹھہرا کرتے تھے.ایک دن صبح چار پائی سے جو اٹھے.آٹھ بجے کے قریب وقت تھا.ہمیں پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں.( بیٹھک کی ) چھت پر ایک شہ نشین ( چبوترہ ) بنا ہوا تھا.(اور سامنے صحن تھا ) آپ اس پر تشریف فرما تھے.حضور نے وسمہ لگایا ہوا تھا.اور ابھی نہا کر آئے تھے اور بال کھلے تھے.(صرف ئہ بند باندھا ہوا تھا ) آپ کو دیکھ کر مجھے اپنا خواب یاد آ گیا.یہ وہی شکل تھی جو مجھے اس خواب میں دکھائی گئی تھی ایمان تازہ ہوا.اور اس کے بعد بہت سے نشان اللہ تعالیٰ نے صداقتِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام طبع اوّل کے حالات میں خانصاحب کے بیان کردہ حالات بابت قبول احمدیت بہت مختصر تھے اور وہ حلفا تھے اس مختصر بیان کی جگہ الفضل سے مفصل بیان درج کیا گیا ہے جس کی ابتداء میں حلف کا ذکر نہیں.طبع اوّل کی کتاب میں خواب بیان کر کے پھر آپ نے خواب کے متعلق دوبارہ قسم کھائی ہے اور یہ عبارت کتاب سے یہاں خطوط وحدانی میں شامل کی گئی ہے.الفضل ۱۴ اگست ۱۹۲۸ء میں مندرج آپ کے ایک بیان میں ہے کہ آپ نے ۱۹۰۱ء کے آخر میں بیعت کی تھی.: الحکم بابت ۱۹۰۱ء ۱۹۰۲ء میں آپ اور آپکی والدہ ماجدہ اور اہلیہ محترمہ کی بیعتوں کا اندراج نہیں ملا.
۱۸۷ کے دکھائے اور کئی واقعات ایسے پیش آئے جو از دیاد ایمان کا باعث ہوئے دعا ہے اللہ تعالیٰ احمدیت پر خاتمہ کرے اور موت کے بعد حضور کے قدموں میں جگہ دے.آمین.خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بدن پر جو میں نے کپڑا نہیں دیکھا بلکہ صرف نکہ نبد بندھا ہوا دیکھا تو اس کی تعبیر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے یہ بتائی کہ حضور علیہ السلام دنیا کی زیب وزینت سے آزاد ہیں اور درویشانہ زندگی رکھتے ہیں ہے.قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ انبیاء کے زمانہ میں روحانیت کا عام انتشار ہوتا ہے.فرشتے مستعد طبائع کو صداقت کی طرف مائل کرتے ہیں.اور ساتھ ہی یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ ہر انسان اپنی اپنی طبیعت کے مطابق اس سے فائدہ اٹھاتا ہے.جس شخص کو دلائل سے دلچپسی ہوتی ہے.وہ اس میں ترقی کر جاتا ہے.بعض کو عبادات سے دلچپسی ہوتی ہے وہ اس میں ترقی کرتے ہیں.بعض طبائع مالی قربانی کی طرف مائل ہوتی ہیں.اور وہ اس میں ترقی کر جاتی ہیں.میں نے کہا.برکت علی ! تو کس گروہ میں آتا ہے.پھر خیال آیا کہ برکت علی ! تو سمجھ لے کہ تجھے دلائل دے کر اور معقولیت سے بات کرنے کا شوق تھا اور خدا تعالیٰ نے تجھے اس میں ترقی دے دی ہے ہی ہیں.ذكر حبيب محترم خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں محترم خاں صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے صرف اتنی تعبیر ہی بیان کی تھی جو یہاں درج کی گئی ہے.ایک صاحب نے جو اس سے زائد تعبیر شائع کی ہے وہ درست نہیں.(مؤلف) الفضل ۱۴ جون ۱۹۵۱ء (ص ۴ ،۷) مجلس خدام الاحمدیہ بلاک ب ربوہ کے ایک اہم " " اجلاس میں زیر صدارت مکرم مولانا تاج الدین صاحب قاضی سلسلہ عالیہ احمد یہ آپ نے ذکر حبیب کے موضوع پر تقریر کی تھی جو مکرم مولوی سلطان احمد پیر کوٹی ( زودنویس ) کی طرف سے مرتب کر کے شائع کی گئی.الفضل سے بوقت طبع ثانی اسے نقل کیا ہے اور طبع اول سے اس میں خطوط وحدانی میں اضافہ کیا ہے.
۱۸۸ مجھے قدر معلوم نہ تھی.اور نہ یہ خیال آیا کہ یہ باتیں کسی زمانہ میں نہایت قیمتی خیال کی جائیں گی.اس لئے نہ انہیں یاد رکھنے کی کوشش کی.نہ کوئی نوٹ رکھا.نہ کوئی ڈائری بنائی محض یا داشت کی بناء پر میں یہ باتیں بیان کر رہا ہوں ہیں.(۱): اس زمانہ میں مہمان کوئی زیادہ تعداد میں نہیں ہوتے تھے.لیکن اس وقت یہ عام دستور تھا کہ جو مہمان بھی آتا حضور کو اطلاع کر دیتا.چاہے خود مل کر اطلاع کرتا.یا کسی خادم کے ذریعہ اندر اطلاع بھیج دیتا اور پھر جب واپس جانے لگتا تو بھی آپ کو اطلاع کر کے جاتا.ایک دفعہ میں قادیان آیا دو تین دن قیام کیا.جس دن واپس جانا تھا.اس سے ایک دن قبل شام کو میں نے ایک رقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں تحریر کیا کہ میں صبح جانا چاہتا ہوں.آپ نے واپس جانے کی اجازت مرحمت فرمائی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ صبح جاتے وقت مجھے اطلاع دینا.کئی اور دوست بھی واپس جانے والے تھے.انہوں نے بھی اجازت کے لئے رقعے بھیجے ہوئے تھے.چنانچہ صبح ہم نے اطلاع کر دی.آپ باہر تشریف لے آئے اور بھی کئی دوست ہمراہ تھے اور ہمارے ساتھ الوادع کہنے کے لئے چل پڑے.بعض دوستوں نے تانگے کرایہ پر لئے ہوئے تھے.لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیدل چل پڑے تو وہ بھی ساتھ ساتھ پیدل ہو لئے.آپ بٹالہ جانے والی کچی سڑک کے پہلے موڑ تک جو غالباً دو میل کا فاصلہ ہے تشریف لے گئے.اور رستہ میں اپنے غلاموں سے گفتگو فرماتے رہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے دوستوں کا کس قدر اعزاز مد نظر تھا کہ ان کو رخصت کرنے کے لئے آپ دو میل تک ان کے ساتھ تشریف لے گئے.خاں صاحب کی روایات کے مآخذ ذیل ہیں: (۱) مجلس خدام الاحمدیہ بلاک ب ربوہ کے ایک اجلاس میں خود آپ کی بیان کردہ روایات جنہیں مکرم مولوی سلطان احمد پیر کوئی (زود نویس) نے مرتب کر کے الفضل ۱۷،۱۶ جون ۱۹۵۱ء میں شائع کیا.(۲) روایات مندرجہ الفضل ۱۳۰۹ جنوری ۱۹۴۰ء (۳) اصحاب احمد جلد سوم طبع اول میں خانصاحب کی عطا کردہ روایات.خاکسار نے بوقت طبع ثانی ان سب سے روایات کو مرتب کر کے شامل کیا ہے.بعض جگہ ترتیب تبدیل کی ہے بعض جگہ اختصار کیا ہے.بعض جگہ من وعن اصل عبارات ہی قائم رکھی ہیں.بعض باتوں میں ان حوالہ جات میں بالعموم معمولی اختلاف ہے ان میں سے ایک کو اپنی سمجھ کے مطابق
۱۸۹ (۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں جو لطف آتا تھا اور آپ کی ملاقات میں جو لذت آتی تھی وہ کسی اور جگہ کہاں نصیب ہوسکتی ہے.جب آپ باہر تشریف لاتے تو لوگ آپ کے کپڑوں کو چھوتے اور اس سے برکت حاصل کرتے.ایک دن جب کہ حضور مسجد مبارک سے غالباً نماز ظہر سے فارغ ہو کر کھڑکی کے راستہ سے اندر تشریف لے جارہے تھے کہ حسب دستور احباب نے آپ کو گھیر لیا.جب دوسرے لوگ کپڑے چُھو رہے تھے.اور ہاتھ چوم رہے تھے اور کوئی جسم مطہر کو ہاتھ لگا کر منہ اور سینہ پر ملتا تھا.تو میں بھی آگے بڑھا.حضرت خلیفہ اسیح اول جو پاس ہی تھے.اٹھے اور پاس سے گذرتے ہوئے فرمایا.اخلاص چاہئے اخلاص.یہ الفاظ اب تک مجھے یاد ہیں میں نے دل میں کہا.یہ بات سچی ہے.کپڑوں کو چھونا اور ہاتھوں کو چومنا کوئی فائدہ نہیں دیتے جب تک اخلاص نہ ہو.یہ ظواہر ہیں.مغز نہیں.چنانچہ اس دن سے میں اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھتا ہوں.(۳): حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود بہت کم نماز پڑھایا کرتے تھے.نماز اکثر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت خلیفہ اسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھایا کرتے تھے.ایک دفعہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے عذر کیا کہ مجھے شک ہے کہ میرے کپڑے صاف نہیں.اس لئے میں نماز نہیں پڑھاتا.نما ز کوئی اور پڑھا دے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا.ان کپڑوں میں کیا آپ کی نماز ہو جائے گی.مولوی صاحب نے عرض کیا.ہاں نماز تو ہو جائے گی اس پر حضور نے فرمایا کہ اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کی نماز ان کپڑوں میں ہو جائے گی تو پھر نماز پڑھائیں آپ کی اقتداء میں ہماری نماز بھی ہو جائے گی.(۴) حضور کی صحت اچھی ہوتی تو نماز ظہر اور مغرب کے بعد مسجد مبارک میں دوستوں میں بیٹھ جاتے تھے.اور جتنی دیر تشریف رکھتے مذہبی معاملات کے متعلق ذکر واذکار جاری رہتا.بعض لوگ آتے اور کہتے کہ ہم نے اشعار بنائے ہیں اور آپ کو سُنانا چاہتے ہیں.بقیہ حاشیہ: قبول کرلیا ہے.استفسار پر خاکسار مؤلف کو محترم خانصاحب نے بتایا کہ اس دن واپس جانے والوں میں میرے سوا تین اور بھی تھے.ان میں سے حضرت میر محمد سعید صاحب حیدر آبادی کا نام مجھے یاد ہے.
۱۹۰ پڑھ حضور موقعہ عطا فرما دیتے بعض اردو کے اشعار اور بعض پنجابی زبان میں منظوم کلام سناتے.ایک روز موسم گرما میں حضور چھت پر شاہ نشین پر رونق افروز تھے.اس بات پر گفتگو شروع ہوگئی کہ امام کے پیچھے الحمد جائز ہے یا نہیں.حضرت مولوی نورالدین صاحب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب مرحوم بھی مجلس میں موجود تھے.مخالف و موافق آراء کا اظہار کیا جا رہا تھا.کوئی کہہ رہا تھا کہ ہر حالت میں الحمد کا پڑھنا ضروری ہے اور اگر امام اونچی آواز سے پڑھ رہا ہو تو مقتدی ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ پڑھتا رہے.یا وقفہ میں لے.اور کوئی کہتا تھا کہ جب امام اونچی آواز سے پڑھ رہا ہو تو خاموش رہنا چاہیئے.جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اس طرح کر لیا جائے کہ جب امام بلند آواز سے الحمد پڑھے تو مقتدی خاموشی سے سختا ر ہے.اور جب ظہر اور عصر کی نمازوں میں خاموشی سے پڑھے تو مقتدی بھی اپنے طور پر آہستہ پڑھ لے.اس طرح دونوں باتوں پر عمل ہو جائے گا.(۵): حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا دستور تھا کہ آپ اکثر ظہر اور مغرب کے بعد مسجد میں ہی بیٹھ جاتے اور دوستوں سے گفتگو فرماتے.ایک دفعہ مغرب کے بعد آپ مسجد میں ہی تشریف فرما تھے کہ کسی نے عرض کیا.چار پانچ آریہ ملاقات کے لئے آئے ہیں.آپ نے فرمایا انہیں بلا ؤ.یہ لوگ ہوشیار پور کے رہنے والے تھے.اور : فاتحہ خلف الامام پڑھنے کے بارہ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا معروف اور عمومی فتویٰ یہی ہے کہ جہری و تری ہر دو قسم کی نمازوں میں مقتدی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھے گا.اور اسی پر جماعت کا تعامل ہے.چنانچہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ہمارا مذھب تو یہی ہے کہ لاصلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب.آدمی امام کے پیچھے ہو یا منفرد ہو ہر حالت میں اس کو چاہیئے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے.مگر امام کو نہ چاہیئے کہ جلدی جلدی سورۃ فاتحہ پڑھے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھے تا کہ مقتدی سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے یا ہر آیت کے بعد امام اتنا ٹھہر جائے کہ مقتدی بھی اس آیت کو پڑھ لے.بہر حال مقتدی کو یہ موقعہ دینا چاہیئے کہ وہ سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے.سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے.کیونکہ وہ ام الکتاب ہے.“
191 قادیان میں کسی برات میں آئے تھے.تاریخ پر بات چیت شروع ہوئی.میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا رعب اس قدر غالب تھا کہ وہ ٹھیک طور پر بات بھی نہیں کر سکتے تھے.حضور اس بات پر زور دیتے تھے کہ نجات کے لئے اللہ تعالی.قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے.جب آپ ذرا جلال میں آگئے اور جوش سے سمجھانے لگے.تو ان لوگوں نے سر جھکا دیا.اور کہا کہ نجات کے لیئے ویدوں کا ماننا ضروری نہیں.جو کوئی اچھے اعمال بجالائے گا.نجات پا جائے گا.حضور نے فرمایا اچھے اعمال کی علامتیں بھی قرآن کریم ہی بتا تا ہے.اور قرآن کریم سے ہم معلوم کر سکتے ہیں.کہ اچھے اعمال کو نسے ہیں جنہیں ہم بجالائیں تو نجات پائیں.لیکن ویدوں پر عمل کر کے تمہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ اچھے اعمال کون سے ہیں.اور جب تمہیں پتہ نہیں کہ اچھے اعمال کون سے ہیں تو پھر تم اچھے اعمال کس طرح بجالا سکتے ہو.بہر حال نجات کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کریم پر ایمان لایا جائے.اس پر وہ لوگ خاموش ہو گئے اور اُٹھ کر چل دئے.(۶): حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب شہ نشین پر تشریف فرما ہوتے تو بعض اوقات پانی پینے کے لئے منگواتے.اس میں سے تھوڑا سا پانی تو خود پی لیتے جو بچ رہتا خدام کی خواہش ہوتی تھی کہ اسے بطور تبرک ہیں.چنانچہ تھوڑا تھوڑا حاضرین پی لیتے.چنانچہ ایک دفعہ مجھے بھی اس نعمت میں سے حصہ ملا ہے.خدام کے قلوب میں حضور کی جو محبت تھی اس کو وہی جان سکتے ہیں.جنہوں نے ان محفلوں کا لطف اٹھایا.خدام پروانہ وار نثا ر ہوتے تھے.کوئی ہاتھ چومتا.کوئی جسم مظہر کو ہاتھ لگا کر سینہ اور ہاتھوں پر ملتا.کوئی ہاتھ پاؤں یا کندھے دباتا.غرض ہر ایک اپنی اپنی محبت کے اظہار کے لئے علیحدہ علیحدہ راہیں تجویز کرتا.میں نے خیال کیا کہ میں اس شرف سے کیوں محروم رہوں چنانچہ میں ایک دن آگے بڑھا اور آپ کا پاؤں مبارک دبانے لگا.آپ خاموش بیٹھے رہے.یعنی میری اس جرات پر کچھ نہیں فرمایا.اور میں پاؤں دباتا رہا.
۱۹۲ (۷): میں نے محفل میں حضرت مسیح موعو علیہ السلام کو دیکھا کہ حضور کی آنکھیں نیچے جھکی ہوئی ہوتی تھیں.اور قریباً بند معلوم ہوتی تھیں.مگر جب کسی وقت حضور میری طرف اٹھا کر دیکھتے تھے تو میں برداشت نہیں کر سکتا تھا.اور اپنی نظر نیچی کر لیتا تھا.(۸): حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کئی دفعہ مسجد میں تشریف فرما ہوتے تو دل میں خیال آتا کہ آپ کی طرف اچھی طرح ٹکٹکی لگا کر دیکھوں.چنانچہ کئی دفعہ نظر اٹھائی.مگر ٹکٹکی لگا کر نہ دیکھ سکا جو نبی میں آپ کے چہرہ کی طرف دیکھتا.یوں محسوس ہوتا کہ حضور میرے دل کو دیکھ رہے ہیں.میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے دل کے گناہ حضوڑ پر ظاہر ہوں.اس لئے میں فوراً آنکھیں نیچی کر لیتا.(۹): ایک دفعہ جب میں قادیان آیا ہوا تھا تو ایک دن صبح کے وقت مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے ہیں میں بھاگا تا آپ سے سیر کے دوران مل جاؤں.جب میں آپ سے ملا تو آپ اس وقت واپس تشریف لارہے تھے.لیکن میں نے دیکھا کہ حضور اتنا تیز چلتے تھے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب آپ کے ساتھ نہیں مل سکتے تھے.مولوی صاحب دوسروں کو تو کہتے کہ حضرت صاحب کے ساتھ ساتھ چلو لیکن خود پیچھے رہ جاتے.میں نے دیکھا کہ حضور نہایت اطمینان سے اور بظاہر نہایت معمولی چال سے چل رہے تھے.لیکن دراصل کافی تیز تھے.اکثر لوگ آپ کے ساتھ تیزی سے جارہے تھے.اور کوشش کر کے ساتھ دے رہے تھے.اور بعض بچے ساتھ شامل ہونے کے لئے بھاگے جا رہے تھے.کوئی حضور کے عصا سے چمٹا ہوا تھا.کوئی آپ کے دامن کو تھامے ہوئے تھا.کوئی آپ کے کپڑوں کے ساتھ مس کر رہا تھا.گردو غبار بھی بہت اڑ رہا تھا.مگر حضور کو ان باتوں کی مطلق خبر نہ تھی.اور نہ شکایت تھی نہ شکوہ.بلکہ بڑے اطمینان کے ساتھ جارہے تھے.اس طرح آپ اکثر سیر کے لئے تشریف لے جاتے اور احباب آپ کے ساتھ ہو جاتے تھے.(۱۰): ایک دفعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ ادا کرنے کا موقعہ ملا جمعہ کی نماز غالباً حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اسبح اول نے پڑھائی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبر کے قریب بیٹھ گئے.میں بھی موقعہ غنیمت سمجھتے
۱۹۳ ہوئے آپ کے پاس بیٹھ گیا اور دیکھتا رہا کہ حضور کس طرح نماز ادا فرماتے ہیں.میں نے دیکھا کہ آپ نے اس طرح سینہ پر ہاتھ باند ھے کہ اُنگلیاں کہنی تک نہیں پہنچتی تھیں.آپ کی گردن ذرا دائیں طرف جھکی رہتی تھی.جب آپ قعدے میں ہوتے تو دائیں ہاتھ کی انگلیاں بند رکھتے اور جب کلمہ شہادت پڑھتے تو شہادت کی انگلی کھڑی کرتے.جہاں تک مجھے یاد ہے.آپ آمین بالجبر کرتے تھے.اسی دن دوسری بات یہ پیش آئی کہ جب نماز جمعہ پڑھ چکے غالباً موسم اچھا نہیں تھا.یا اور کوئی بات تھی.تو یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا عصر کی نماز جمعہ کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے یا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نور الدین صاحب سے دریافت فرمایا.آپ نے کیا جواب دیا.وہ مجھے یاد نہیں رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عصر کی نماز جمع کر کے پڑھ لو.چنانچہ وہ دونوں نمازیں جمع کر کے ادا کی گئیں.(۱۱): ایک دفعہ بعد نماز مغرب حضور شاه نشین پر تشریف فرما تھے کسی دوست نے عرض کیا کہ تحصیلدار صاحب علاقہ کل صبح منارہ کی تعمیر کے سلسلہ میں موقعہ دیکھنے کے لئے آرہے ہیں.قادیان کے ہندوؤں نے مخالفت میں درخواست دی ہوئی ہے.کہ مینارہ کی تعمیر کی اجازت نہ دی جائے.کیونکہ اس سے ان کی بے پردگی ہوگی.فرمایا بہت اچھا.سارے دوستوں کو چاہئے کہ وہ ان کا استقبال کریں اور انہیں موقع دکھا دیں.باقی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے کہ مینارہ ضرور تعمیر ہوگا.اور اس کو کوئی روک نہیں سکتا.ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں.چنانچہ تحصیل دار صاحب آئے اور موقع دیکھ کر چلے گئے ہیں.: ۸ مئی ۱۹۰۳ء کو ایک اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر اور ایک تحصیلدار صاحبان مینار کی تعمیر کے ملاحظہ کے لئے آئے حضرت اقدس سیر سے واپس آئے تو ہر دو نے ملاقات کی اور مینار کے تعلق میں تحصیلدار صاحب نے چند امور کے بارے میں استفسار کیا.حضور نے فرمایا کہ مینارہ کی تعمیر میں ایک یہ برکت ہے کہ اس پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے گا.جو باعث برکت ہے.چنانچہ اسی لئے آج کل سکھوں نے اذانیں دلوائی ہیں ( یہ طاعون کے ایام تھے اور اس سلسلہ میں بھی گفتگو ہوئی تھی ) اور مسلمانوں کو اپنے گھروں میں بلا کر قرآن شریف پڑھوایا ہے.مینار پر روشنی کی جائے گی اور گھنٹہ لگایا جائے گا.یہ غلط ہے کہ لوگ اس پر چار پائیاں بچھائیں گے.یہ بھی غلط ہے کہ اس سے بے پردگی ہوگی.ہمارے سامنے ڈپٹی
۱۹۴ (۱۲) تعمیر مارہ کے خرچ کا اندازہ غالباً بائیس ہزار روپیہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دوست سوسو روپیہ کے حصے لیں.جو دوست سو روپیہ چندہ دیں گے ان کے نام مینارہ پر کندہ کرائیں گے.چنانچہ مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میں نے اپنی طرف سے سور و پہیہ چندہ دیا اور اپنی بیوی کی طرف سے بھی سور و پیہ چندہ دیا.چنانچہ ہم دونوں کے نام مینارہ اسی پر کندہ ہیں.(۱۳): ۱۹۰۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جس طرح بقیه حاشیه: شنکر د اس کا مکان ہے جو اس قدر اونچا ہے کہ اس کی چھت پر چڑھنے سے ہمارے گھر میں نظر پڑتی ہے تو کیا ہم اس وجہ سے اس کے گرانے کا مطالبہ کریں.پردہ کا انتظام ہمیں خود کرنا چاہیئے.ہمارا پردہ زیادہ ہے.تو کیا ہم خود بے پردگی برداشت کریں گے اور ایسا کام کریں گے جس سے دوسروں کو بھی نقصان پہنچے اور ہمیں بھی.حضرت حافظ روشن علی صاحب جو اس ملاقات کے وقت موجود تھے بیان کرتے ہیں کہ اس ملاقات کے وقت شکایت کنندہ بھی ہمراہ تھے فرمایا: دو ہمیں ان غیر مسلموں سے ہمدردری ہے ان کا ہم علاج کرتے ہیں.کبھی ان کے مذہبی معاملات میں نقیض نہیں کی.یہ بڈھا مل بیٹھا ہے اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے آج تک اسے فائدہ پہنچانے کا موقعہ مجھے ملا ہو اور میں نے فائدہ پہنچانے میں کوئی کمی کی ہو اور پھر اسی سے پوچھیں کہ کبھی مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقعہ ملا ہو اور اس نے کسر چھوڑی ہو.“ بڑھامل صاحب شرم کے مارے سر زانوؤں میں دئے ہوئے تھے.چہرہ کا رنگ سفید پڑ گیا تھا.اور ایک لفظ بھی نہ بول سکے.مخالفت کرنے والے ناکام رہے.ڈپٹی کمشنر نے فیصلہ کیا کہ فی الحال کوئی امرایسا نہیں ہے کہ جس سے نقص امن کا احتمال ہو.جن لوگوں کو عذر ہے وہ بذریعہ عدالت دیوانی اپنی دادرسی کر سکتے ہیں.اینجانب فی الحال دست اندازی نہیں کرتے ہے.“ اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ اس کٹر آریہ سماج کے بیٹے نے جو ابھی زندہ ہیں مقامی آریہ سماج کے خلاف ایک طویل بیان دیا.اور کہا کہ اسے شائع کرنے کی میری طرف سے اجازت ہے اور اسے اصحاب احمد جلد نہم میں شائع کیا گیا.
۱۹۵ ہندوستان میں اخبارات اور کتب کے ذریعہ احمدیت کی تبلیغ ہورہی ہے.اسی طرح امریکہ اور یورپ میں بھی ہونی چاہیئے.چنانچہ اس مقصد سے آپ نے ریویو آف ریلیجز انگریزی وارد و کا اجراء فرمایا.اس کا اجراء ابتداء بطور تجارت کے ہوا تھا.اور پانچ پانچ روپے کے حصے مقرر ہوئے تھے.میں نے بھی دس حصے خرید کئے تھے.کچھ عرصہ بعد آپ نے فرمایا.یہ روپیہ در حقیقت کچھ بھی نہیں.اور اگر خدا تعالیٰ دوستوں کو حوصلہ اور ہمت دے تو وہ نفع کا خیال چھوڑ دیں اور یہ رقوم بطور امدا در سلسلہ کو دیدیں.چنانچہ دوسروں کی طرح میں نے بھی نفع کا خیال چھوڑ کر اپنے پچاس روپے بطور امدادر سلسلہ کے پاس رہنے دئے.سو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ عاجز بھی ریویو آف ریچز کے اجراء میں شامل ہے.خواجہ کمال الدین صاحب ہماری جماعت کے سرگرم رکن تھے.خلافت ثانیہ کے وقت وہ الگ ہو گئے.وہ چیف کورٹ کے مشہور وکیل تھے.اور بہت ذہین تھے.بالعموم ایسا ہوتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دو باتیں لیں اور اس پر اچھا خاصہ لیکچر تیار کر لیا.حضور فرمایا کرتے تھے کہ خواجہ صاحب فصیح البیان ہیں.خواجہ صاحب نے انہی دنوں میں اردو اخبار وطن“ لاہور کے مالک سے بات چیت کر کے یہ تجویز کی کہ اگر ریویو آف ریلیچز کے دو حصے ہو جائیں یعنی ایک حصہ میں محض اسلام کا ذکر ہو.احمدیت یا صداقتِ مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر نہ ہو.دوسرے حصہ میں احمدیت یا صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر ہو تو اخبار وطن کا مالک اس رسالہ کی اشاعت میں مدد دے گا.خواجہ صاحب نے جب حضور کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی تو آپ نے فرمایا : خواجہ صاحب یہ تو غور کریں کہ میرے ذکر کو چھوڑ کر کیا مردہ اسلام پیش کریں گے.“ خواجہ صاحب اپنی تقریروں میں احمدیت کا نام نہ لیتے تھے.یہی وجہ ہے کہ نب ولایت گئے تو انہوں نے کہا کہ یہاں احمدیت کا نام لینا سم قاتل ہے.غرض ریویو آف ریلیچز کا اجراء اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے متعدد ممالک میں ہمارے مشن قائم ہو چکے ہیں ہے.: مغربی ممالک میں اسلام کی آواز پہنچانے کے لیئے احباب سے مشورہ کے بعد ۱۵ جنوری ۱۹۰۱ء کو
۱۹۶ (۱۴): غالباً ۱۹۰۴ء میں شیخ محمد حسین صاحب ریٹائرڈ سب جج نے شملہ میں دوستوں کو یہ واقعہ سنایا کہ ایک ہندو بنام چھینکن پنجاب سیکریٹریٹ میں ملازم تھا.اس کو مسمر یزم میں بڑا دخل تھا.وہ بعد ازاں تبدیل ہو کر شملہ سیکریٹریٹ میں چلا گیا تھا.اس نے اپنے دوستوں کے اصرار پر قادیان میں جا کر حضور پر اپنا عمل کرنا چاہا.حضور دوستوں کی مجلس میں تشریف فرما تھے.وہ بھی آکر ایک کنارے پر بیٹھ گیا.اور اپنا عمل شروع کیا.تھوڑی دیر کے بعد حضور نے اس کی طرف دیکھا کہ وہ نیا شخص کون ہے.آگے آجائے ، چنانچہ وہ آگے آگیا.تو حضور نے فرمایا کہ دیکھو ہم تمہیں ایک قصہ سناتے ہیں.ایک دفعہ ایک جنگل بیابان میں ایک شیر تھا.جب حضور نے شیر کا نام لیا تو وہ قدرے پیچھے ہٹ گیا.حضور نے فرمایا کہ آگے آؤ پیچھے کیوں ہے ہو.چنانچہ جب وہ آگے آیا تو حضور نے پھر ذکر شروع کیا.لیکن پھر وہ شیر کا نام سنتے ہی ذرا اور پیچھے ہٹ گیا.آخر تیسری دفعہ جب حضور نے یہ ذکر سنانا شروع کیا تو وہ شیر کا نام سنتے ہی بھاگ گیا.اور اس نے واپس جا کر دوستوں کو بتا یا کہ مرزا صاحب کے سامنے دال نہیں گلتی.چنانچہ جب وہ شیر کا نام لیتے تھے تو میں ڈر کر بیٹھا نہیں رہ سکتا تھا.اور مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیر واقعی مجھ پر حملہ کرنے لگا ہے.بعد میں تیسری دفعہ آپے سے باہر ہوکر میں بھاگ آیا.(۱۵): غالباً ۱۹۰۴ء میں جب کہ کسی سیاسی مصلحت کی وجہ سے لارڈ کرزن کے ذریعہ تقسیم بنگالہ ہوئی اور اس کا بڑا چرچا تھا ہے.ملک میں ایک شور مچا.جابجا ہڑتالیں ہوئیں.بنگالی لوگ پہلے غیر منقسم صوبہ کی تقسیم نہیں چاہتے تھے.کیونکہ اس طرح ان کی مجموعی قوت کمزور ہوتی تھی.حضور کی ہدایت کے ماتحت ہم نے بھی شملہ میں ایک جلسہ کیا اور بقیہ حاشیہ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک انگریزی کا رسالہ جاری کرنیکا اعلان کیا.اور پھر مزید مشورہ سے ایک انگریزی رسالہ اور حضور کے کتب کے انگریزی تراجم شائع کرنے کیلئے انجمن اشاعت اسلام قائم کی گئی جس کے لئے دس ہزار روپیہ فراہم کرنے کے لیئے دس دس روپے کے ایک ہزار حصص فروخت کئے جانیکا فیصلہ ہوا.آپ کے خرید حصص کا یوں اندارج ہے.بابو برکت علی صاحب (یعنی شملہ ) ۵ ( یعنی حصص ) کے ی صحیح سن ۱۹۰۵ء ہے.
۱۹۷ تقریروں میں اس بات کا اظہار کیا کہ حکومت نے جو کچھ کیا ہے خواہ وہ درست نہ بھی ہو لیکن اسلام ہڑتال کی اجازت نہیں دیتا.حضور بغاوت کو سخت نا پسند فرماتے تھے.اور اپنی جماعت کو ہدایت فرماتے تھے کہ وہ وفادار رہے.ان احکام کی روشنی میں میں نے "حقوق انسانی پر مضمون لکھ کر حضور کی خدمت میں بھیجا کہ اگر حضور پسند فرما ئیں تو اس کو اخبار میں اشاعت کے لئے بھجوا دیں.چنانچہ حضور نے البدر میں شائع کروا دیا تھا.(۱۶): حضور کے آخری ایام میں جماعت بڑھ گئی تھی.اور چھ سات سو دوست جلسہ سالانہ پر تشریف لائے تھے.حضور نے پیغام بھیجا کہ جب جلسہ ختم ہو تو سب احباب بازار میں سے گذر کر واپس آئیں.تاکہ غیر احمدی اور ہندو مشاہدہ کریں کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی وحی کی باتیں پوری ہو رہی ہیں.اور دور دور سے لوگ ہماری طرف کھنچے چلے آرہے ہیں اور چند ہی سیال میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت ہزاروں تک پہنچ گئی ہے.چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل کی گئی.یہ ارشاد اسلام کی صداقت اور اپنی سچائی کے اظہار کے لئے تھا.نہ کہ کسی ریا کی وجہ سے.(۱۷) جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ہم ایک دفعہ اس مہمان خانہ میں جہاں بعد میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے سکونت رکھتے تھے.اُترے ہوئے تھے.تھوڑے سے مہمان تھے.حضور کی تشریف آوری کا انتظار تھا.حضور کی تشریف آوری پر خدام نے عرض کیا کہ حضور تقریر فرما کر مستفید فرما ئیں.آپ نے تقریر فرمائی.شروع میں ذرا لکنت معلوم ہوتی تھی.مگر بعد میں آواز بلند اور صاف ہوتی گئی.یخنی کہ حضور بڑی دیر تک بلا تکلف تقریر فرماتے رہے.(۱۸): ان دنوں طاعون شروع ہو چکی تھی.حضور کی طرف سے ایک الہام شائع ہوا.یا مسیح الخلقِ عدوانا.چنانچہ اس کے بعد پنجاب میں بڑے زور سے پلیگ پڑی اور بہت سے لوگوں نے حضور کی بیعت کی ہے.(۱۹): ایک واقعہ ایک دوست نے جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا مجھے سنایا کہ ایک خانصاحب کی مراد یہ ہے کہ ان کے قبول احمدیت کے بعد طاعون کے متعلق یہ الہام ہوا.سو ( قبل از بیعت کا ) ۱۸۹۸ء کے الہام نہیں بلکہ ۲۱ اپریل ۱۹۰۲ء والا الہام مراد ہے.
۱۹۸ دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں مجلس میں تشریف فرما تھے اور خدام سے مختلف دینی باتیں کر رہے تھے کہ حضور اچانک اُٹھ کر سیڑھیوں سے اُتر کر ڈھاب کی طرف تشریف لے گئے.دو تین احباب بھی ساتھ گئے.انہوں نے بتایا کہ ڈھاب میں بہت پانی تھا.لڑکے نہا اور کھیل رہے تھے.ایک لڑکا ڈوبنے کو تھا کہ حضور نے جھٹ ہاتھ بڑھا کر اسے باہر نکال لیا.واپس آکر مجلس میں بیٹھ کر بات چیت میں مصروف ہو گئے ہو.(۲۰) : شملہ میں ایک صاحب سائیں خدا بخش نام سرکاری چھاپہ خانہ میں ملازم تھے.اس کا لڑکا غالبا محمد حسین نام تھا.جو اٹھارہ انیس سالہ نوجوان تھا اور اسے کالے علم یعنی جادو وغیرہ اور تسخیر جن کے علم کا بہت شوق تھا.اور اس میں اسے بہت مہارت حاصل تھی.وہ غیر احمدی تھا اور اس نے بیعت نہیں کی تھی اس نے ایک دفعہ ہمیں سنایا کہ میں قادیان میں حضرت مرزا صاحب کو ملنے کیلئے گیا اور جب میں نے بعد السلام علیکم کے مصافحہ کیلئے حضور کے ہاتھ میں ہاتھ دیا.تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گویا وہ سارا علم سر سر کر کے جس طرح کسی کے بدن سے ہوا نکل جاتی ہے میرے جسم میں سے نکل گیا.اور بعد ازاں میں بالکل کورے کا کورا رہ گیا.حضور کی نظر میں آپ کا اخلاص ۱۵ جون ۱۹۰۷ء کو حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے جو ان دنوں قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خط و کتابت کا کام کرتے تھے.منشی برکت علی صاحب کو شملہ ایک پوسٹ کارڈ لکھا کہ : حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب چار پانچ آدمیوں کے ساتھ شملہ آتے ہیں.ڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے کہ ایسا کریں.کل جب خانصاحب نے اجلاس خدام الاحمدیہ میں یہ روایت بیان کی تو قاضی عبدالرحمن صاحب معاون ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ ربوہ نے اٹھ کر بتایا کہ میرے چچا زاد بھائی قاضی عبدالرحیم صاحب بیعت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس گئے ہوئے تھے.انہوں نے یہ واقعہ مجھ سے بیان کیا تھا اور بعد میں بدر میں بھی شائع کیا گیا تھا.
۱۹۹ شام کو اتوار کے دن انشاء اللہ یہاں سے چلیں گے یا ایک دو روز بعد ان کے واسطے رہائش و آسائش کا انتظام مناسب کر دیں.“ اس پر حضور علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے کنارے پر تحریر فرمایا: ” میری طرف سے مخلص دوستوں کو تاکید ہے کہ مکان وغیرہ آرام کے اسباب میرے لڑکے محمود احمد کے لئے میسر کریں.مرزا غلام احمد " خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ ظاہر ہے حضور نے یہ خط لکھوایا تھا اور اس کی اہمیت کے باعث حضرت مفتی صاحب نے حضور کو لکھ کر دکھا دیا یا حضور کے قریب ہی بیٹھ کر تحریر کیا اور تاکید کی خاطر حضور نے اپنی قلم مبارک سے چند الفاظ رقم فرمائے.چونکہ ان الفاظ میں مخلصین کو تاکید کی ہے تو گویا خانصاحب ضرور بطور ایک مخلص مُرید کے حضور کو معروف تھے.تبھی ان کے ذریعہ دیگر احباب کو مخاطب کیا گیا.وصال سے دو چار دن قبل کی تحریر آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کے لئے کئی بار خطوط لکھے مگر وہ محفوظ نہیں.۲۰ مئی ۱۹۰۸ء کو میں نے دعا کے لئے ایک چٹھی لکھی تو اس پر حضور نے اپنے دست مبارک سے (گویا وصال سے دو چار روز قبل.مؤلف ) تحریر فرمایا:.السلام علیکم اسی طرح کبھی کبھی یاد دلاتے رہیں.مرزا غلام احمد یہ خط بھی بطور تبرک میرے پاس موجود ہے.اصل میں تبرک اخلاص اور عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں.اگر اخلاص اور عقیدہ نہ ہو تو تبرک کسی کام کا نہیں.اگر اخلاص اور عقیدہ ہو تو تبرک سونے پر سہا گہ کا کام دیتا ہے.لیکن اگر سونا ہی نہ ہو تو سہا کہ کیا کام دے گا.مرتب روایات لکھتے ہیں کہ یہ کارڈ خان صاحب نے بعض احباب کو دکھایا.
تصدیق نبوت شہادت دی: آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی نبوت کے متعلق ذیل کی حلفیہ میں خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا احمدی ہوں.اور میں نے ۱۹۰۱ء میں بیعت کی تھی.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے زمانہ میں جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے.صحیح طور پر اور اصلی معنوں میں اللہ کا رسول اور نبی یقین کرتا تھا.نہ کہ محض استعارہ اور مجاز کے رنگ میں جہاں تک یاد پڑتا ہے اس عقیدہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک غلطی کا ازالہ اور حقیقۃ الوحی“ تھے.“ 66 اسی طرح آپ نے بیان کیا کہ : حضور کی نبوت کے متعلق پہلے بعض لوگوں کا یہ خیال معلوم ہوتا تھا کہ آپ کی نبوت پہلے انبیاء جیسی حقیقی نبوت نہیں.مگر ایک غلطی کا ازالہ شائع ہونے پر جماعت کا رحجان اس طرف ہو گیا کہ حضور بھی ویسے ہی نبی ہیں جیسے پہلے تھے.گو ذریعہ حصول نبوت میں فرق ہے.یعنی اگر پہلے انبیاء کو براہ راست نبوت تفویض ہوئی تھی تو آپ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طفیل اور اقتداء سے یہ منصب ملا.اس وقت بعض اصحاب اپنے ایسے غیر احمدی دوستوں یا رشتہ داروں کی نماز جنازہ جو سلسلہ کی مخالفت نہیں کرتے تھے.اور نہ کسی صورت میں بُرا کہتے تھے احمدی امام کے پیچھے پڑھ لیا کرتے تھے.مگر جہاں تک مجھے یاد ہے.ایک غلطی کا ازالہ کی اشاعت کے بعد میں نے نہ کبھی سُنا نہ حضور کی کسی تحریر میں پڑھا کہ حضور نے کبھی کسی کو کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنے کی یا کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنے کی کسی حالت میں بھی اجازت دی ہو.انجمن تشحمید الاذھان کی رکنیت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ۱۹۰۰ء میں ایک انجمن قائم کی جس کا
۲۰۱ مقصد نو جوانوں کو اشاعت اسلام کے لئے تیار کرنا تھا.اس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تفخیذ الاذھان رکھا.محترم صاحبزادہ صاحب اس کے صدر منتخب ہوئے.منشی صاحب بھی اس انجمن کے ایک رُکن تھے ہیں.حضرت خلیفہ اول کا زمانہ اور غیر مبایعین کا رویہ غیر مبایعین کے فتنہ کے حالات ذیل میں محترم خاں صاحب کی طرف سے بیان کردہ درج ہیں کیونکہ اس تعلق میں آپ کو بھی بعض خدمات کا موقعہ ملا.آپ فرماتے ہیں کہ غیر مبایعین کو یہ زعم تھا کہ حضرت خلیفہ اول کا انتخاب ان کے زور پر ہوا ہے.اور انہیں ایک طرح خلیفہ وقت پر تفوق حاصل ہے یعنی انہوں نے انتخاب کیا ہے.اور وہ اپنی کثرت رائے سے انہیں معزول بھی کر سکتے ہیں.حضرت خلیفہ اول کو جب ان باتوں کا علم ہوا تو آپ نے ان کے سر بر آوردہ لوگوں کو قادیان میں بلوایا.اور برسر عام فرمایا کہ ان لوگوں کا خیال غلط ہے.مجھے کسی نے منتخب نہیں کیا.میں کسی کا ممنون احسان نہیں ہوں.بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے مسند خلافت پر متمکن فرمایا ہے.میں ایسے لوگوں کے خلیفہ بنانے پر تھوکتا بھی نہیں.میں ایسا ہی خلیفہ ہوں جیسے آدم تھا.جیسے داؤد تھا.جیسے ابوبکر صدیق تھا.پس فرشتے بن کر میری اطاعت کرو.شیطان بن کر مخالفت مت کرو.ورنہ میرے پاس ایسے ایسے خالد بن ولید ہیں کہ تمہیں سیدھا کر دینگے دوبارہ میری بیعت کرو.چنانچہ جن جن کو حکم ہوا ان سب نے تجدید بیعت کی.بنشی برکت علی صاحب چندہ ممبری چار آنے (رسالہ مئی و جون ۱۹۰۹ ء سرورق ما قبل آخر ) انجمن تشحیذ الاذھان کا چندہ ادا کرنے کا ذکر رسالہ تشحیذ الاذھان بابت اپریل ۱۹۰۸ء مئی ۱۹۰۹ء جولائی ۱۹۱۲ ء | وسرورق صفحہ ماقبل آخر میں ہے.آپ کی معرفت اس کا چندہ ادا ہوا.رسالہ فروری ۱۹۰۹ء.ص۴۴) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (صدر انجمن ہذا و مدیر رسالہ ہذا) نے ایک دار الکتب احمدیہ قائم کیا.ایک بار جو آپ نے اس کی مالی حالت کی طرف احباب کو توجہ دلائی تو ساڑھے چھیاسی ۸۶ روپے وصول ہوئے دو افراد کی طرف سے دس دس.جماعت پشاور.ایک تحصیلدار صاحب اور گیارہ افراد بشمول خاں صاحب کی طرف سے پانچ پانچ اور تین افراد کی طرف دو.اڑھائی اور تین روپے 9.
پیغام صلح اور الفضل کا اجراء انہی ایام میں اخبار پیغام صلح جاری ہو چکا تھا.اور جماعت شملہ کے بعض لوگوں نے بھی پانچ پانچ روپے کے کئی حصے کئے تھے.چنانچہ ایک دوست کے متعلق مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے بھی کچھ حصے لئے تھے اور میری معرفت ان کی رقم ادا کرنا چاہی.مگر میں نے وہ حصے ان کے چندہ میں محسوب کر لئے اور کہا کہ چندہ فرض ہے.جب تک فرض ادا نہ کرو اور جگہ خرچ نہیں کر سکتے اس کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے حضرت خلیفہ اول کے مشورہ سے اخبار الفضل جاری کیا.مگر اس کی خریداری کی طرف دوستوں کو بہت کم توجہ ہوئی.انہی دنوں میں یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب شملہ تشریف لائے اور میں نے ایک جلسہ آپ کی کوٹھی پر بلوایا اور اس میں دیگر امور کے علاوہ الفضل کے مسئلہ کو پھر ان کے سامنے جماعت میں پیش کیا.اور بزور کہا کہ اگر پیغام صلح کے مقام میں الفضل کو سمجھا جاتا ہے تو اس کو بھی ضرور خریدنا چاہیئے تا کہ ہمیں پوری حقیقت معلوم ہو جائے.چنانچہ اس موقعہ پر کچھ میری تحریک پر اور کچھ حضرت میاں صاحب کے ادب اور لحاظ کی خاطر بعض دوستوں نے خریداری منظور کی.خواجہ صاحب اور ان کے رفقاء کا رویہ انہی دنوں میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک دفعہ حضرت میاں صاحب گرمیوں کے دنوں میں شملہ تشریف لائے ہوئے تھے اور بعض دوستوں کے ہمراہ سیر کر رہے تھے میں آپ کے آگے آگے تھا.چنانچہ میں نے دریافت کیا کہ حضرت یہ کیا بات ہے.خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے رفقاء آپ سے ناراض کیوں ہیں.آپ نے فرمایا یہ ان کی غلطی ہے.خدا جانے ان کو کیا غلط فہمی ہوئی ہے بلکہ وہ میرے ساتھ ایک حقارت کا سلوک رکھتے ہیں.اور سلام کا جواب بے رغبتی سے دیتے ہیں.ایک سوال میں نے غالباً اسی موقعہ پر یہ کیا کہ حضرت مولوی صاحب کے بعد آپ کے خیال میں کون خلافت کے لئے زیادہ موزوں ہے.آپ نے فرمایا کہ خلیفے کی زندگی میں
۲۰۳ اس قسم کا سوال اٹھانا غلطی ہے.اور میں اسے گناہ سمجھتا ہوں اور کوئی جواب نہ دیا.انجمن انصار اللہ کا قیام ایک واقعہ انہی دنوں میں یہ پیش آیا کہ حضرت میاں صاحب کو تبلیغ کا شوق تھا اور تبلیغ کی غرض سے آپ نے حضرت خلیفہ اول کی منظوری سے انجمن انصار اللہ بنائی اور خود حضرت خلیفہ اول بھی اس کے ممبر بنے.اس کے ممبر بننے کی سب سے ضروری شرط یہ تھی کہ درخواست دینے سے پیشتر کم از کم ایک ہفتہ متواتر استخارہ کیا جائے.میری خواہش تھی.مگر محض استخارہ نہ کرنے کی وجہ سے دیر تک ممبر بننے سے محروم رہا.آخر میں نے ایک دفعہ بڑی ہمت اور حوصلہ کر کے سات دن استخارہ کیا اور شامل انجمن ہو گیا.لاہوری دوستوں کے گمنام ٹریکٹوں اور الزاموں کے متعلق جو انصار اللہ نے جواب دیا اس میں میرے دستخط بھی ہیں.اس بارے میں الفضل میں زیر عنوان انصار اللہ یوں درج ہے: اللہ تعالیٰ کے فضل سے ممبران انجمن انصار اللہ اپنا خوب کام کر رہے ہیں پچھلے میں دنوں بعض ممبروں کی کوشش سے چھ آدمی احمد یہ جماعت میں داخل ہوئے منشی برکت علی صاحب شملہ اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب قادیان.میاں وزیر محمد صاحب اور میاں خدا بخش صاحب لاہور سے جماعت انصار اللہ میں نئے داخل ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی خدمت کا بڑھ بڑھ کر موقعہ دے.احباب اپنی فہرستوں میں ان کا نام لکھ لیں.فیروز پور کے حلقہ کے سیکرٹری صاحب منشی 66 فرزند علی صاحب کی رپورٹ آئی ہے.آپ تبلیغ میں مشغول ہیں.1.“ خواجہ صاحب وغیرہ کے دورے حضرت خلیفہ اول کے آخری ایام میں بعض عمائد غیر مبایعین مثلاً خواجہ کمال الدین صاحب مولوی محمد علی صاحب مولوی صدرالدین صاحب.مرزا یعقوب بیگ صاحب وغیرہ نے بعض بڑے بڑے شہروں میں پھر کر لیکچر دینے شروع کئے تھے.ان شہروں میں
۲۰۴ شملہ بھی شامل تھا.اور وہ کئی مواقع پر شملہ آکر بھی لیکچر دیا کرتے تھے.اس وقت عام طور پر جماعت میں امیر اور پریذیڈنٹ نہیں ہوتے تھے.اور سوائے سیکرٹری کے اور کوئی عہدہ دار نہ ہوتا تھا.بلکہ عموماً سیکرٹری ہی سب کاموں کا ذمہ دار ہوتا تھا.چنانچہ شملہ میں اُن دنوں میں سیکرٹری تھا.ان دوروں میں ان عمائدین کی دو خصوصیتیں تھیں.اوّل یہ کہ ان کے لیکچر احمدیت کے متعلق نہیں ہوتے تھے بلکہ عام مضامین پر ہوتے تھے اور عام مضامین میں بھی اگر کوئی موقعہ احمدیت کے ذکر کا ہوتا تھا تو وہ اس کے ذکر سے بچتے تھے.خواجہ صاحب مرحوم کہا کرتے تھے کہ میں احمدیت کا نام اس لئے نہیں لیتا کہ احمدیت کے نام سے لوگ آتے نہیں.میں عام مضامین سُنا کر سفر مینا کا کام کرتا ہوں.یعنی لوگوں کو احمدیت کے لئے تیار کرتا ہوں.تاکہ بعد میں جو لوگ احمدیت کی تبلیغ کریں ان کو کامیابی حاصل کرنے میں آسانی ہو.لیکن میں ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ دین کے معاملہ میں ایسی پالیسی کی ضرورت نہیں.اور نہ ہم ایسے لیکچر چاہتے ہیں.جن میں احمدیت کا ذکر نہ ہو.علاوہ ازیں ہم نے دیکھا ہے کہ جہاں جہاں سفر مینا کا کام کیا ہے.وہاں کوئی بھی کامیابی نہیں ہوئی.آخر بڑی مشکل سے یہ لوگ اس بات پر رضا مند ہوئے اور انہوں نے احمدیت پر بھی ایک دو لیکچر دیئے.ایک دفعہ ان کے ساتھ حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی بھی گئے ہوئے تھے.ان دنوں وہ لاہور میں جماعت احمدیہ کے امام الصلوۃ ہوا کرتے تھے.چنانچہ ان کا بھی ایک لیکچر ہوا.انہوں نے بڑے زور شور سے احمدیت کی تبلیغ کی نتیجہ وہی ہوا جس کا غیر مبایعین کو ڈر تھا.یعنی لوگ کم آئے اور جو آئے ان میں سے بعض نے ان لیکچروں کو پسند کیا.لیکن بعض نے اظہار نا راضگی کیا.خواجہ صاحب کو یہ بات بہت ناگوار گذری اور ان کی یہ کوشش رہی کہ کوئی ایسا مضمون بیان کیا جائے جس سے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو دلچسپی ہو.چنانچہ جس دن یہ سارے عمائد قیام کے بعد واپس لاہور جارہے تھے.اس دن بھی راستے میں خواجہ صاحب نے چاہا کہ پھر واپس جا کر ایک دن کسی خاص مضمون پر لیکچر دیں.اور حضرت مولوی راجیکی صاحب کو بھی ترغیب دی.مگر انہوں نے کہا جانے دیں اب واپسی کے ارادہ سے چل پڑے ہیں پھر کبھی دیکھا جائے گا.:Sappers and Miners: سرنگ لگانے اور کھودنے کا کام کرنے والی پلٹن
۲۰۵ دوسری خصوصیت یہ تھی کہ یہ لوگ باتوں باتوں میں حضرت صاحبزادہ صاحب کا ذکر چھیڑ دیتے تھے اور بظاہر تعریف کر کے یہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کرتے کہ وہ لیڈر بننے کے اہل نہیں.ان کی کاروائیوں سے ظاہر ہوتا تھا.کہ ان کو یہ خوف تھا کہ حضرت خلیفہ اول کے بعد کہیں وہ خلیفہ نہ ہو جائیں اور ان کو پہلے ہی جماعت میں خاصا رسوخ حاصل تھا.پھر بھی انہوں نے دورہ کر کے تمام جماعت میں اپنے رسوخ کو اور بڑھانا چاہا.اور ساتھ ہی یہ بھی کوشش کرتے رہے کہ لوگوں کے دلوں سے حضرت میاں صاحب کی محبت کم کر کے ان کی عزت گھٹا دیں مجھے چونکہ حضرت میاں صاحب کے بعض حالات معلوم تھے.اور مجھے ان سے محبت تھی.اس لئے میں غیر مبایعین کی باتوں کو پسند نہیں کرتا تھا اور ہمیشہ ان کی مخالفت کیا کرتا تھا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے میرے سامنے ایسی باتیں کرنا ترک کردیں.میری عدم موجودگی میں دوستوں سے ایسی باتیں کرتے اور جب میں ہوتا تو خاموش ہو جاتے.حضرت خلیفہ اول کا خواجہ صاحب کے متعلق خیال حضرت خلیفہ اول جب آخری ایام میں بیمار ہوئے تو اس وقت حضرت میاں صاحب شملہ گئے ہوئے تھے.حضرت خلیفہ اول نے لکھا کہ اس قدر لمبا عرصہ آپ کا باہر رہنا میں پسند نہیں کرتا.اس لئے اب آپ واپس آجائیں.چنانچہ جب آپ ۱۹۱۳ء کے اخیر میں شملہ سے واپس گئے.تو حضرت خلیفہ اول نے اور باتوں کے علاوہ یہ بھی پوچھا کہ شملہ کی جماعت کس طرف ہے ہماری طرف ہے یا خواجہ صاحب کی طرف کیونکہ نبوت وغیرہ کے مسئلہ کے متعلق جو اختلاف جماعت میں شروع ہو گیا تھا.اس کا حضرت خلیفہ اول کو بھی علم تھا.حضرت میاں صاحب نے جواب دیا کہ حضور وہ تو کچھ خواجہ صاحب کی طرف جھکے ہوئے معلوم ہوتے ہیں.اس کے بعد حضرت خلیفہ اول نے پوچھا کہ برکت علی کدھر ہے؟ حضرت میاں صاحب نے جواب دیا کہ وہ تو ہماری طرف ہیں اس پر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ ہاں بے شک ہم جانتے ہیں کہ وہ ہماری طرف ہوگا.کیونکہ وہ بڑا مخلص ہے.
۲۰۶ اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں.ا.حضرت مولوی صاحب کو اختلاف کا علم تھا.۲.حضرت مولوی صاحب حضرت خلیفہ ثانی سے متفق تھے.۳.خواجہ صاحب کے ہم خیال لوگوں کو اپنا مخالف جانتے تھے.۴.ان کا یہ یقین تھا کہ جو احمدی مخلص ہو گا.وہ ضرور خواجہ صاحب کے خلاف اور حضرت خلیفہ ثانی کے ساتھ ہو گا لا.حضرت خلیفہ اول کی وفات اور جماعت شملہ جب مارچ ۱۹۱۴ ء میں حضرت خلیفہ اول کے وصال کی خبر بذریعہ تار شملہ میں آئی.تو نماز جنازہ کے بعد میں نے دوستوں کو سمجھایا کہ یہ ہمیں معلوم ہے کہ جماعت میں اختلاف ہے.اور اختلاف کی حالت میں یہ ناممکن ہے کہ خلیفہ کے انتخاب کے متعلق اتفاق رائے ہو.پس ہمیں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے نمونہ پر قدم مارتے ہوئے اس بات کے لئے تیار رہنا چاہیئے کہ جدھر کثرت رائے ہو ہم اُدھر ہو جائیں.بظاہر معاملہ مولوی محمد علی صاحب ، صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب وغیرہ کے درمیان معلوم ہوتا ہے.پس ان میں سے کوئی بھی ہو جس کی طرف کثرت رائے ہوگی ہم اس کو قبول کر لیں گے.دوستوں نے اس تجویز کو پسند کیا.اگلے روز قادیان سے تار موصول ہوئی کہ رائے عامہ سے حضرت میاں صاحب خلیفہ منتخب ہوئے ہیں.میں نے اسی وقت دوستوں کے مکانوں پر جا کر بیعت کے لئے دستخط کرالئے.جو لوگ لاہوری عمائد کی طرف مائل تھے انہوں نے مخالفت کی.مگر میں نے سمجھایا کہ اس وقت تو ہمیں زیادہ حالات معلوم نہیں.صرف اتنا جانتے ہیں کہ کثرت رائے حضرت صاحبزادہ صاحب کی طرف ہے جس وقت مخالف تفصیلات آئیں.تو ممکن ہے کہ ہم میں سے بعض تردد میں پڑ جائیں اس لئے فوراً بیعت کر لینی چاہیئے.آخر بڑی رڈوکر کے بعد انہوں نے بھی دستخط کر دیئے.دوسرے دن صبح ہی مخالفین کی طرف سے ”ضروری اعلان اور دیگر کا غذات کی بھر مار آئی.جن میں حضرت خلیفہ ثانی کے خلاف لوگوں کو بہت بُری طرح مشتعل کرنے کی "
۲۰۷ کوشش کی گئی تھی.چنانچہ کئی دوست متذبذب ہو گئے.اور دوڑے دوڑے میرے پاس آئے کہ ابھی بیعت کا خط نہ بھیجنا.چنانچہ میں نے وہ خط روک لیا اور جن لوگوں نے شرح صدر سے آپ کی اطاعت قبول کی ان کی طرف سے بیعت کا خط لکھ دیا.اب گویا آیت وَمَنْ ہوا كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ کے ماتحت جماعت دو فریق میں ہوگئی.ایک خلافت حقہ کے ماننے والے اور دوسرے انکار کرنے والے یعنی غیر مبایعین اور ان دونوں میں خلیفہ کے انتخاب کے متعلق بحث مباحثہ شروع ہو گیا.میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا کہ انتخاب صحابہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ پر صحیح ہے.غیر مبایعین کے سرغنہ مولوی عمر الدین صاحب تھے مگر وہ ہمیشہ اصول انتخاب کو نظر انداز کر کے کفر و اسلام کی بحث چھیڑ دیا کرتے تھے.اس تفرقہ کے چند روز بعد غیر مبایعین کی طرف سے لاہور سے جماعت شملہ کے پریذیڈنٹ کے نام تار آیا کہ لاہور میں تمام جماعتوں کے اہل الرائے کے مشورہ سے فیصلہ کیا جائے گا.اس لئے جماعت شملہ کی طرف سے نمائندہ بھیجا جائے.میں نے اس کی سخت مخالفت کی اور کہا جو ہونا تھا ہو چکا اب کسی مزید کاروائی کی ضرورت نہیں اور نہ ہمیں جماعت کی طرف سے کسی نمائندے کے بھیجنے کی ضرورت ہے.جہاں تک مجھے یاد ہے غیر مبایعین کی اس مجلس شوریٰ میں صرف ساٹھ کے قریب نمائندگان جمع ہوئے جنہوں نے اپنی طرف سے مختلف مقامات کے لئے چار پانچ خلفاء مقرر کئے.مگر خدا کی شان تھوڑے ہی عرصہ میں یہ سب خلیفے ختم ہو گئے اور صرف خلافت حقہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم کی گئی تھی قائم رہی اور اب تک خدا کے فضل سے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کے ساتھ قائم ہے.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ سوائے اس خلافت حقہ کے جس قدر خلافتیں تھیں وہ سب مٹ گئیں اور خدا کی غیرت نے نہ چاہا کہ اسکی مقرر کردہ خلافت حقہ مشتبہ رہے.اسی زمانہ میں مولوی عمر الدین صاحب نے میرے خلاف اخبار ”پیغام صلح میں ایک مضمون شائع کرایا جس میں ظاہر کیا کہ میں نے خدانخواستہ چالاکی سے دوستوں سے بیعت کے دستخط کرائے تھے وغیرہ وغیرہ میں نے اس کا جواب لکھ کر ایڈیٹر صاحب پیغام صلح کو بھیجا کہ اگر واقعی آپ کا اخبار اسم بامسمی ہے اور آپ اسلام کے مختلف فرقوں میں
۲۰۸ صلح کے متمنی ہیں تو پھر میرے جواب کو چھاپ دیں.مگر انہوں نے نہ چھاپنا تھا اور نہ چھاپا.پہلے تو کئی طرح کے بہانوں سے ٹالتے رہے آخر کچھ عرصہ کے بعد کہہ دیا کہ وہ مضمون گم ہو گیا ہے.اس عرصہ میں غیر مبایعین نے کوشش کی کہ جب تک اختلاف کا فیصلہ نہ ہو فریقین میں سے دو امام الصلوۃ ہوں جو باری باری جمعہ پڑھا ئیں.جس سے غرض انکی یہ تھی کہ انکا امام بہر حال خطبہ میں کوئی نہ کوئی بات اپنے مطلب کی کہہ دیا کریگا.جس سے جماعت میں ان کے خیالات کی تبلیغ ہو جایا کریگی.مگر میں نے اس کی اجازت نہ دی.اتنے میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت شملہ کی اصلاح کے لئے حضرت مولوی سرورشاہ صاحب کو بھیج دیا.میں خود بھی کسی بزرگ کو اس غرض سے دارالامان سے بلوانا چاہتا تھا.مگر خیال تھا کہ اس وقت لوگ بھڑ کے ہوئے ہیں ان کو زیادہ چھیڑنا اچھا نہیں.جب ان کی مخالفت ذرا نرم ہوگی تو دیکھا جائے گا.مگر یہ غلط تھا.خلیفہ وقت نے جو اسی وقت عالم مختلف مقامات پر جماعت کی اصلاح کے لئے بھیج دیئے وہی تجویز درست تھی.کیونکہ جو لوگ اسی وقت سنبھل گئے.سنبھل گئے.اور جو لوگ رہ گئے وہ الا ما شاء اللہ سب ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہو گئے.میں نے حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کو ان دوستوں کے پاس بلوایا جو مبایعین سے اختلاف رکھتے تھے.چنانچہ ان کی کوشش سے خدا کے فضل سے تھوڑے ہی عرصہ میں مولوی عمر الدین صاحب اور دیگر کئی دوست راہِ راست پر آگئے اور انہوں نے بیعت کر لی.اور جن کے لئے ازل سے ہی یہ سعادت مقدر نہ تھی وہ نہ مانے.اس کے بعد مولوی عمر الدین صاحب مبایعین کی طرف سے نبوت اور کفر و اسلام کے متعلق بحث مباحثہ کرتے رہے اور ایک مباحثہ انہوں نے غیر مبایعین کے ساتھ کیا.یہ مباحثہ بہت دیر تک جاری رہا آخر ثالث صاحب نے نبوت کے متعلق فیصلہ صریح طور پر ہمارے حق میں کیا.چنانچہ یہ فیصلہ قول فیصل کے نام سے چھپوا دیا.مگر مسئلہ کفر کے متعلق وہ قدرے غیر مبایعین سے رعایت کر گئے.حالانکہ صاف ظاہر تھا کہ کفر نبوت سے انکارکا نتیجہ ہے.
۲۰۹ مولوی عمر الدین صاحب کا انجام مگر مولوی عمر الدین صاحب کی طبیعت میں بحث مباحثہ میں مشغولیت کی وجہ سے ایک قسم کی رعونت اور خود پسندی آگئی تھی.اور ان کی حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ سے گفتگو بھی بعض دفعہ بحث کا رنگ اختیار کر لیتی تھی.جس سے ان کے دل میں زنگ لگ گیا.چنانچہ وہ نظام سلسلہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جماعت میں حضور کے خلاف خیالات کی اشاعت کرنے لگ گئے.یہاں تک کہ بعد میں بعض معاملات میں انہوں نے حضور کے حکم کی صریح نافرمانی کی آخر حضور نے طویل انتظار کے بعد جب ان کی طرف سے اصلاح کی امید نہ رہی.ان کو جماعت سے خارج کر دیا.مولوی عمر الدین کا خیال تھا کہ بعض لوگ ان کے ہم خیال ہیں بلکہ ایک موقعہ پر انہوں نے مجھ سے کہہ بھی دیا یہ مت سمجھو کہ جماعت سے اگر میں نکل گیا تو اکیلا نکلوں گا.مگر اخراج کے بعد انہیں معلوم ہو گیا کہ جماعت کو حضور سے حد درجہ کی وابستگی ہے اور ان کا یہ خیال ایک باطل خیال تھا.کیونکہ اخراج کے بعد ان سے کسی نے پوچھا تک نہیں کہ تم کون ہو اور جماعت نے اس طرح انہیں متروک کر دیا کہ گویا وہ جماعت میں کبھی تھے ہی نہیں وہ پہلے جماعت کے ساتھ ملتے رہے اور نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھتے رہے آخر جب دیکھا کہ جماعت میں ان کی کوئی عزت و توقیر نہیں.اور کوئی انہیں منہ نہیں لگاتا تو انہوں نے غیر مبایعین کے گروہ کی طرف رُخ کیا.اور ان کے صدر مولوی محمد علی صاحب کو لکھا کہ مسئلہ نبوت اور کفر و اسلام کے متعلق میرا آپ سے اختلاف ہے.کیا اس صورت میں بھی مجھے آپ اپنے ساتھ شامل کر سکتے ہیں.انہوں نے جواب دیا تشریف لائیے.چنانچہ اب وہ غیر مبایعین کے اول درجہ کے مبلغ ہیں.اور اپنے پہلے خیالات کے خلاف غیر مبایعین کے خیالات کی تبلیغ کرتے ہیں.مجھے اس پر کسی حاشیہ آرائی کی ضرورت نہیں ناظرین خود غور کر سکتے ہیں کہ کبرو خود پسندی اور دنیا کا لالچ انسان کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیتا ہے ہو.مولوی عمر الدین صاحب ۱۹۵۷ء سے پانچ سال قبل بڑی حسرت ویاس اور کس مپرسی کی حالت میں علاقہ بمبئی میں وفات پاچکے ہیں.(مؤلف)
۲۱۰ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے وقت خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم ولائیت میں تھے اور انہیں غالبا یہ حسرت تھی کہ وہ تفرقہ کے وقت یہاں ہوتے تو نتیجہ وہ نہ ہوتا جو ہوا.چنانچہ ولائیت سے آکر انہوں نے بڑی شدومد کے ساتھ مخالفت جاری رکھی.اور پیغامیوں نے اپنا جلسہ سالانہ قادیان کے جلسہ کے مقابل پر انہی تاریخوں میں لاہور میں منعقد کیا اور خواجہ صاحب نے اختلاف کے متعلق ایک کتاب لکھی تھی.وہ احباب میں مفت تقسیم کی گئی اور تحریک کی گئی کہ احباب لاہور کا جلسہ دیکھ کر قادیان جائیں یا کم از کم ایک دن کا جلسہ ہی سُن لیں.لیکن سوائے شاذ و نادر کے کوئی احمدی ان کے جلسہ میں شامل نہیں ہوا.دونوں جلسوں کے بالمقابل ہونے سے یہ ظاہر ہو گیا کہ کثرت سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے.میں نے خواجہ صاحب کی کتاب پڑھی تو دل میں امنگ پیدا ہوئی کہ خلیفہ کے انتخاب کے متعلق کم از کم مسئلہ کثرت وقلت پر ایک مختصر سا مضمون ان آیات کے ماتحت لکھوں وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَ يَتَّبِعُ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْ مِنِيْنَ نُوَلِّهِ مَاتَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مُصِيرًا (سورۃ نساء) مگر یہ مضمون آہستہ آہستہ اس قدر طویل ہو گیا کہ اخبار میں چھپ نہ سکا.آخر کار جلسہ سالانه ۱۹۱۵ء پر انتخاب خلافت کے نام سے ایک رسالہ کی شکل میں چھوا دیا.اور تقریباً پانچ سو کا پہیاں اس کی جماعت میں مفت تقسیم کیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ یہ مت خیال کرو.کہ جسقد رلوگ اس وقت بیعت سے باہر ہیں.وہ سب ضدی اور متعصب ہیں بلکہ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو محض دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں اور اگر ان پر حقیقت آشکار ہو جائے تو وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے لئے آمادہ ہیں.اس رسالہ میں میں نے سب سے زیادہ قلت اور کثرت کے مسئلہ پر بحث کی ہے اور میری مد نظر وہی لوگ تھے جن کی طرف حضور کا اشارہ تھا اور میں نے لکھا کہ : ذات باری تعالیٰ کے مقابلہ میں دنیا کی مخلوق کچھ حقیقت نہیں
۲۱۱ رکھتی.اس لئے مامورانِ الہی گوا کیلے ہوتے ہیں.مگر چونکہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے.اور وہ اللہ کی باتیں پیش کرتے ہیں اسلئے ان کو دنیا کے تمام لوگوں پر فوق ہوتا ہے.اس کے بعد جو لوگ یکے بعد دیگرے ان کے ساتھ شامل ہوتے جاتے ہیں.گووہ تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں.مگر چونکہ ان کے ساتھ اللہ اور اس کا رسول ہوتا ہے.اس لئے وہ غلبہ کا حکم رکھتے ہیں.جب ہم مومنوں اور منکروں کا مقابلہ کریں تو ضرور قلت کو کثرت پر ترجیح دیں.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے متعدد مواقع پر بتایا ہے کہ نیکو کار اور دیندار بندے ہمیشہ تھوڑے ہوتے ہیں.اور بدوں کی خواہ کتنی ہی کثرت ہونیکو کاروں پر انہیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی عزت نہیں.مگر اختلاف کی صورت میں جب ہم (ایک جماعت کے ) ہر دو گروہوں کے افعال اور معتقدات پر جدا گانہ فیصلہ چاہیں تو ضرور کثرت رائے اختیار کرنی پڑے گی.یہ غلط اصول ہے کہ ہر حالت میں اور ہر زمانہ میں قلت کو کثرت پر ترجیح ہوتی ہے.اور اس پر بے فائدہ زور دیا جاتا ہے.قلت اسی حالت میں فوق رکھتی ہے جب اللہ اور رسول کی معیت میں ہو.یعنی جب وحی الہی ان کے ساتھ ہو اور مقابلہ مخالفین سے پڑے ورنہ دوسرے اوقات میں جماعت کے افراد یکساں حیثیت رکھتے ہیں.اور متنازعہ فیہ مسائل میں کثرت رائے کو ترجیح دینی پڑے گی.” میرے خیال میں یہ بھی غلط ہے کہ صادقین شروع میں تھوڑے ہوتے ہیں.اور بعد ازاں غلبہ پا جاتے ہیں.غلبہ کے یہ معنے تو ہو سکتے ہیں کہ وہ دینداری اور نیکوکاری میں بہتر ہوں اور دلائل سے مخالفین پر بھاری ہوں.مگر یہ نہیں کہ تعداد میں ان سے بڑھ جائیں یہ بے شک مقدر ہے کہ بالآخر مومنین اور صادقین تعداد کے لحاظ سے بھی فوق لے جائیں.مگر اس کے لئے لمبا عرصہ درکار ہے.ابھی تک اسلام کے پیرومردم شماری کی رپورٹوں کی رو سے بعض دیگر مذاہب کے پیرووں سے کم ہیں اور احمدی تو
۲۱۲ آٹے میں نمک بھی نہیں.تاہم اگر منکرین خلافت کے اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو بھی ان کا غلطی پر ہونا ثابت ہوتا ہے.انہوں نے شروع میں لکھا تھا کہ حضرت میاں صاحب کے ساتھ بہت تھوڑے لوگ ہیں اور قریباً صرف ۱۲ را حصہ جماعت نے ان کی بیعت کی ہے.مگر گذشتہ جلسوں نے جو انہی تاریخوں میں لاہور اور قادیان میں بالمتقابل ہوئے بتا دیا کہ کثرت حضرت میاں صاحب کے ساتھ ہے.گو یہ اصول غلط ہے مگر چونکہ منکرین اسے تسلیم کرتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس راہ سے بھی ان پر حجت پوری کر دی.یہ معاملہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے معاملہ سے مشابہ ہے.اس نے اوّل تو مباہلہ سے انکار کیا اور کہا کہ بد اور شریر کو لمبی مہلت ملتی ہے.مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس کے معیار کے مطابق اس پر اتمام محبت کی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہو گیا.تو جھٹ پھر گیا.اور حضور مغفور کے وصال کو اپنی صداقت کی دلیل ٹھہرانے لگا.قرآن شریف میں وارد ہے کہ مومنوں پر شیطان کا غلبہ نہیں ہوگا.چنانچہ ملاحظہ ہوں آیات ذیل: إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ.( پاره ۱۴ رکوع ۳) إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَنِّ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمُ يَتَوَكَّلُونَ.(پاره ۱۴ رکوع ۱۹) ان عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنٌ وَ كَفَى بِرَبِّكَ وَكِيلاً.(پاره ۱۵ رکوع ۷ ) مگر ایک دل میں جس قدر شیطان کا دخل کم ہوتا ہے اسی قدر فرشتوں کا نزول زیادہ ہوتا ہے.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزِّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ (۲۴/۱۸)
۲۱۳ اور فرشتوں کی تحریک ہی نشان الہی ہوتی ہے.اسی واسطے قرآن شریف میں حکم ہے اور مسلمانوں کے ایمانیات میں داخل ہے کہ فرشتوں پر ایمان لاؤ.یعنی ان کی تحریکات پر عمل کرو.محض زبان کے انکار اور اقرار سے کچھ فائدہ یا نقصان نہیں عائد ہوتا فرشتوں پر ایمان لانے سے مقصودان کی تحریکات کی پیروی ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے بہتر اور خالص مومن وہ ہوتے ہیں جنہوں نے مامورمن اللہ کو اس کے وقت میں پہچانا اور اس کی صحبت میں رہے ہوں اور وحی الہی کے نیچے پرورش پائی ہو.ایسے مومن کو عالم فاضل نہ ہوں.سائنسدان اور فلسفی نہ ہوں.ایم اے.بی اے نہ ہوں اور جہاندیدہ اور تجربہ کار نہ ہوں.مگر چونکہ وہ دیندار اور متقی اور پر ہیز گار ہوتے ہیں.اس لئے جو قول اور فعل کثرت سے ان میں رائج ہوگا.وہ فرشتوں کی تحریک سمجھی جائے گی.اور خدا کی منشاء متصور ہوگا.کیونکہ یہ تو اغلب ہے کہ ایک مامور من اللہ کی صحبت میں رہنے والے چند ایسے اشخاص ہوں جنہوں نے اس کی تعلیم وتربیت سے فائدہ نہ اٹھایا ہو.جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں منافق تھے یا کمزور مسلمان تھے مگر یہ ناممکن ہے کہ کثرت سے ایسے اصحاب ہوں جن کے دل ایمان سے خالی ہوں.اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ اکثر حصہ جماعت فریبی اور نفس پرست ہے تو پھر اس مامور کی ماموریت باطل ہو جاتی ہے اور وہ جھوٹا قرار دینا پڑتا ہے.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.اگر کثرت سے پھل گندے ہوں تو اس درخت کے گندہ ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے.غرض ایک مامور کے صحابہ کثرت سے دیندار ہوتے ہیں.ان کے قلوب دین کی ملونی سے خالی ہوتے ہیں.ان پر شیطان کا تسلط نہیں ہوتا.ان کا دل خدا کا تخت گاہ ہوتا ہے.ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور ان کی تحریکیں عین منشائے الہی ہوتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی
۲۱۴ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد جس معاملہ میں قول اور فعل میرا ثابت نہ ہو.صحابہ کی پیروی کرو.یعنی جس عقیدہ اور تحریک پر کثرت سے صحابہ قائم ہوں وہی خدا کی طرف سے سمجھو اور یہی وجہ ہے کہ خلفائے را شدین کو خدا کی طرف سے خلیفہ سمجھا گیا.اور آیت استخلاف کے ماتحت ان کے منکرین کو فاسق قرار دیا گیا.وہ لوگ سخت غلطی کرتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی خلافت محض دنیا وی رنگ کی تھی جہاں تک مجھے معلوم ہے تمام بزرگوں کا اس پر اتفاق ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی لکھا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے دینی خلیفہ تھے اور ان کا منکر یقیناً فتویٰ فسق کے نیچے ہے.اور نیز جہاں تک میراعلم ہے صوفیائے کرام کے جملہ فرقے اپنے سلسلوں کو انہی چار خلفاء کی طرف منسوب کرتے ہیں.یہ بھی ایک دلیل ہے.ان کے دینی خلیفہ ہونے کی اور یہ خلافت ان کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبھی ہوئی کہ صحابہ کرام نے کثرت سے ان کو اپنا پیشوا تسلیم کر لیا ورنہ ان کو خدا کی طرف سے خلافت کی وحی نہیں ہوئی تھی.حضرت خلیفہ اول تو ان کی اور اپنی خلافت کو ایسا سمجھتے ہیں.جیسے حضرت آدم اور داؤد علیہ السلام کی خلافت.کیونکہ صحابہ کا ایک بات پر متفق ہونا وحی الہی کی مانند ہے.اس عقیدہ کا انہوں نے زور سے اعلان کیا.اور یہ کہا.فرشتہ بن کر میری اطاعت کرو.ابلیس کی طرح بغاوت نہ کرو.یہ تحریر موجود ہے.اس کا انکار نہیں ہوسکتا.غرض یہ ناممکن ہے کہ ایک مامور من اللہ کے بعد صحابہ کا اجماع غلطی پر ہو البتہ جوں جوں صحابہ کم ہوتے جاتے ہیں اور بعد زمانہ سے ایمان کی رنگت نہیں رہتی جو اول المومنین کو حاصل ہوسکتی ہے اسی طرح ان کی کثرت کی اہمیت کم ہوتی جاتی ہے.یہی وجہ ہے کہ جو درجہ حضرت نبی کریم کے چار خلفاء کو ملا وہ یزید کو نہ نصیب ہوا اور جہاں تک مجھے معلوم ہے اس کو کسی فرقہ اسلامی نے دینی خلیفہ تسلیم نہیں کیا.یہ سچ ہے کہ اس کی
۲۱۵ ذات میں وہ جو ہر نہیں تھے.جو خلافت کے لئے ضروری ہیں.مگر آخر نتیجہ تو یہی نکلا.کہ نہ صحابہ کی کثرت تھی اور نہ انہوں نے اس کو دینی پیشوا مانا.اب ہم اپنے سلسلہ کی طرف توجہ کرتے ہیں تو ہمیں کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ جس طرح آیت وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ کے ماتحت احمد کو محمد سے مناسبت ہے.اسی طرح احمد کے خلفاء کو محمد کے خلفاء سے مناسبت نہ ہو اور اگر خلیفہ اول حضرت آدم.حضرت داؤد اور حضرت ابوبکر علیہم السلام کی مانند خدا کی طرف سے خلیفہ تھے تو خلیفہ ثانی حضرت عمر کا مثیل کیوں نہ ہو افسوس ہے کہ منکرین خلافت نے اس راز کو نہیں سمجھا.نیتوں کا مالک خدا ہے.مگر بظاہر تو یہ معاملہ ایسا صاف ہے کہ اس میں شبہ کی گنجائش نہیں.یہ سچ ہے کہ غیر مامور خلیفہ غلطی کر سکتا ہے کیونکہ جب بعض اوقات ایک مامور بھی اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتا ہے تو اس کا خلیفہ اس کمزوری سے کیونکر بچ سکتا ہے.میں یہ بھی مانتا ہوں کہ کثرت غلطی پر ہو سکتی ہے.مگر دیکھنا یہ ہے کہ غلطی کا امکان کس طرف ہے.سوصاف ظاہر ہے کہ مامور کے خلاف غلطی کا امکان زیادہ تر عوام الناس کی طرف سے ہے.اور غیر ماموریت کی حالت میں قلیل گروہ کی طرف سے.میں نے پیشتر بیان کیا ہے کہ صحابہ کا اجماع خلافت پر ہوا تھا اگر یہ اصل صحیح ہے اور یقینا صحیح ہے تو پھر ماننا پڑے گا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کے مسئلہ پر جس امر میں صحابہ کا اجماع ہوا وہی حق ہے.اگر تمہارا یہ ایمان ہے کہ ان کا اجماع غلطی پر ہو گیا.یا نعوذ بااللہ انہوں نے چالا کی اور منصوبہ بازی سے خلافت قائم کی.تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہوا.یعنی مامور جولوگوں کی درستی ایمان اور تزکیہ نفس کے لئے مبعوث ہوا تھا اس سے وہ کام سر انجام نہ ہوا.بلکہ برعکس اس کے اسکے ہم نشین جو شب و روز اس کی تعلیم اور تربیت کے نیچے
۲۱۶ تھے وہ بے ایمان نکلے اور ان کے دلوں میں بجائے جبرائیل کے شیطان نکلا استغفر اللہ غرض یہ تو ممکن ہے کہ چند اشخاص نہ سمجھیں.مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ کثرت غلطی میں ہو.سچ پوچھو تو جب ہم منکرین کی طرف غور کرتے ہیں تو صرف ایک دو ہی ایسے پاتے ہیں جو مسیح موعود اور خلیفہ اول کی صحبت میں رہے.حقیقت میں غور کیا جائے تو منکرین خلافت رافضی ہیں اور خارجی بھی.رافضی اسی لحاظ سے کہ انہوں نے خلافت اولیٰ کو غلطی پر سمجھا اور خارجی اس لئے کہ اہل بیت سے عداوت روا رکھی.کہتے ہیں کہ بعض عقائد مثلاً وفات مسیح کے مسئلہ میں جب تیرہ سو سال تک غلطی رہ سکتی ہے تو چھ سال کی غلطی بڑی بات نہیں.ایک طرف تو یہ بتاتے ہیں کہ ہم نے خلیفہ اول کی بیعت ان کے تقدس اور تبحر علمی کی وجہ سے کی تھی.اور دوسری طرف یہ بھی اقرار ہے کہ غلطی کی.یہ سچ ہے کہ تیرہ سو سال تک وفات مسیح کے متعلق غلطی رہی مگر وہ عوام الناس کی تھی نہ کہ صحابہ کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ثبوت دیا ہے اور ہم ہمیشہ مخالفین کے مقابلہ میں پیش کرتے رہے ہیں کہ صحابہ کا اجماع وفات مسیح پر تھا.اور پھر اسی غلطی کو وحی الہی نے درست کیا.مگر تمہارے پاس کوئی بھی سند وحی کی ہے جس سے یہ سمجھا جائے کہ اب تمہارا قول و فعل درستی پر مبنی ہے.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پنجوقتہ نماز میں سمجھا دیا ہے کہ امام امیر یا خلیفہ وقت کی بیعت یا اطاعت کس طرح ہونی چاہیئے اگر امام غلطی کرے تو مقتدی کو نہایت ادب سے بتادینا چاہیئے اور اگر وہ سمجھ لے اور اس غلطی کو درست کر لے تو خیر ورنہ مقتدی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ نماز سے الگ ہو جائے کیونکہ اس سے جماعت ٹوٹتی ہے.بلکہ اسے حکم ہے کہ امام کی پیروی کرے اس طرح باوجود یکہ اس نے اپنی سمجھ کے مطابق غلطی کی مگر
۲۱۷ چونکہ اس نے جماعت بندی نہیں توڑی.اس لئے وہ ثواب کا مستحق ہے اور اگر امام نے جان بوجھ کر غلطی سے انحراف نہیں کیا تو وہ خود اس کا ذمہ دار ہے نہ کہ مقتدی.اسی طرح خلافت کا معاملہ ہے.جب جماعت نے اپنے میں سے ایک کو منتخب کر لیا تو سب کو اس کی اتباع واجب ہے.اگر غلطی کرے تو ادب سے بتادیں.مگر اس سے بغاوت کبھی نہ کریں.اس طرح قومی شیرازہ بنا رہتا ہے.اور ا س میں بڑے بڑے فائدے ہیں.ایک تو یہی کہ قوت متحدہ قائم رہتی ہے.انتشار میں کمزوری لاحق ہو جاتی ہے.ایک سوال ایمان واتقا اور علم کا رہ جاتا ہے.خلیفہ وہ ہونا چاہیئے جوان صفات میں ممتاز ہو یوں تو محنتوں کی طرح بزدل پس پردہ حضرت میاں صاحب کے انقاء پر حملے کرتے ہیں.جن کا تسلی بخش جواب پانے پر اکثروں کی زبانیں بند ہوگئی ہیں.(اور یہ حملے اسی نوع کے تھے جو بعض متعصب غیر احمدی حضرت مسیح موعود پر کیا کرتے تھے ) مگر ظاہر طور پر ابھی تک کوئی بے ایمانی بدمعاشی فریب دہی وغیرہ کا الزام (استغفر اللہ ) ہماری نظر سے نہیں گزرا.برعکس اس کے سلسلہ کے بڑے بڑے بزرگوں نے اور ایسے بزرگوں نے جو قادیان میں رہتے ہیں.اور حضرت میاں صاحب کے چال چلن سے خوب واقف ہیں علی الاعلان کہا ہے کہ خدا کے فضل سے آپ کے ایمان اور اتقاء میں کوئی دھبہ نہیں.اور آپ کا ایمان اور انقاء اعلیٰ پایہ کے ہیں." رہا علم.سو دنیا وی علم میاں صاحب کے پاس نہیں.وہ انگریزی کے ایم، اے ، بی اے نہیں نہ عربی کے مولوی فاضل.البتہ جو علم دینی خلیفہ میں ہونا چاہیئے وہ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کے ماتحت جانچ لو.امتحان تو انتخاب میں ہو نہیں سکتا پر اس میں کیا شک ہے کہ بڑے بڑے علماء نے آپ کے تبحر علمی کو مانا ہے.اور ان کے علم کے آگے اپنی
۲۱۸ گردنیں جھکائی ہیں.اور غافلو! ذرا آپ کے خطبات کو دیکھو.تقریروں کا مقابلہ کرو.درس قرآن کو سنو اور تحریر میں پڑھو.پھر ایمان سے بتاؤ کہ تم میں سے کوئی ہے جو ایسے نکات معرفت بیان کر سکے خدا کے فضل سے آپ کے کلام میں وہ بلند خیالی اور باریک بینی ہے کہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی وہ وہ نکات معرفت نکالے ہیں کہ بڑے بڑے عالم فاضل ششدر رہ جاتے ہیں محو ہو جاتے ہیں حیرت میں ڈوب جاتے ہیں.اور پھر اپنے الہامات اور مکاشفات اور رویا بھی شائع کئے ہیں.جو لفظاً اور معنا پورے ہوئے جو سچ کہتا ہوں ایمان سے کہتا ہوں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے تو علم قرآن علم آں طیب زباں علم غیب از وحی از وحی خلاق جہاں این سه علم چون نشانها داده اند ہر بیچو شاہداں استاده اند کے مصداق نظر آتے ہیں.یعنی پورے طور پر اپنے والد علیہ السلام کے روحانی وارث ہیں.اللهم صلی علی محمد و على آله واصحابه وخلفائه اجمعين غرض حضرت میاں صاحب کو خدا کے فضل سے کئی فضیلتیں حاصل ہیں.(۱) حضرت مسیح موعود کے لڑکے ہیں (۲) عالی نسب ہیں (۳) صحابہ میں سے ہیں (۴) متقی پرہیز گار ہیں (۵) عالم ہیں (۶) حضرت خلیفہ اوّل نے بارہا ان کو امامت کے لئے منتخب کیا (۷) بعض اوقات قرآن شریف پڑھانے کے لئے مقرر کیا (۸) شب و روز حضرت مسیح موعود کی تعلیم وتربیت کے نیچے رہے (۹) حضرت خلیفہ اول نے خاص طور پر ان کی تعلیم میں کوشش کی (۱۰) حضرت خلیفہ اول کے بڑے فرمانبردار تھے (۱۱) حضرت خلیفہ اول اپنے لڑکوں کی نسبت ان سے زیادہ پیار و محبت اور تعظیم کرتے تھے (۱۲) حاجی
۲۱۹ ہیں (۱۳) حضرت خلیفہ اول ان کو حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کا مصداق یعنی مصلح موعود سمجھتے تھے.(۱۴) جماعت نے ان کو خلیفہ تسلیم کیا.یہ فضیلتیں مجموعی طور پر اور کسی میں نہیں ہیں.ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يُشَاءُ اس میں شک نہیں کہ محض کسی مامور کی اولاد ہونا بے حقیقت ہے.اور نہ ہی اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمُ کے ماتحت عالی نسب ہونا کوئی فخر ہے.مگر مذکورہ صفات کے علاوہ اگر یہ صفات بھی ہوں تو نور علی نور ہے اور ایسے شخص کو زیادہ مستحق امارت قرار دیتی ہیں.”جہاں تک مجھے معلوم ہے.تمہارے امیر کو حضرت مسیح موعود اور خلیفہ اول کے وقت کبھی یہ فخر حاصل نہیں ہوا کہ انہوں نے جمعہ کی امامت یا ان کے حکم سے کسی نماز کی امامت کرائی ہو یا درس قرآن کے لئے انہیں کہا گیا ہو.یا کوئی فتویٰ ان کے سپرد کیا گیا ہو.وہ سیکرٹری ضرور تھے اور انجمن کے دنیاوی کام سرانجام دیتے تھے گو وہ دین سے تعلق رکھتے تھے.مگر میرا مدعا یہ ہے کہ یہ کام ان کے اس قسم کے نہیں تھے جن سے روحانی امامت مقصود ہو.ایک ترجمۃ القرآن کا کام ان کو دیا گیا تھا.وہ بھی اس لحاظ سے کہ وہ انگریزی جانتے ہیں.تبھی تو ان پر اعتماد نہیں کیا گیا.اور حضرت خلیفہ اول نے حکم دیا کہ ہمیں سنا دیا کرو.اور اصلاح کرالیا کرو.بلکہ عالموں کی ایک کمیٹی مقرر کی کہ اس کو دکھا لیا کرو." غرض اے منکرین خلافت ! وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعُ غَيْرَ سَبِيلَ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مُصِيرًا کے ماتحت سبیل المومنین اختیار کرو.مومنین کی جماعت کثرت سے جس طرف جھکی ہوئی ہے اس راستہ پر قدم مارو اگر اس کو چھوڑ کر غیروں کی جانب مائل ہوئے تو پھر انہی میں جذب ہو جاؤ گے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو وعید ان کے حق ہیں تم پر بھی عائد ہوں گے.
۲۲۰ ”دیکھو! کثرت وقلت کا راز میں نے تمھیں سمجھا دیا ہے یہی وہ راز ہے جس سے صحابہ کے اجماع کو منشائے الہی سے تعبیر کیا گیا اور خلفائے راشدین کی خلافت حضرت آدم اور حضرت داؤد کی مانند منجانب اللہ ٹھہری.اس طرح حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کے خلفاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں.جس حکم کے ماتحت پہلے خلیفہ کے منکرین فاسق قرار دیئے گئے.وہ حکم منسوخ نہیں ہوا.غور کرو! اور اپنے آپ کو گمراہی میں مت ڈالو! ہے“ والدہ محترمہ آپ کی والدہ محترمہ صاحب جان صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ میں سکھوں کے راج میں قریباً بارہ سال کی تھی.اُن کے زمانہ میں غیر مذاہب والوں اور خصوصاً مسلمانوں کو کسی قسم کی آزادی حاصل نہ تھی.حتی کہ وہ مسجدوں میں اونچی آواز سے اذان بھی نہیں دے سکتے تھے.ان کا کوئی فوجی دستہ یا چند سپاہی کسی گاؤں کے پاس سے گزرتے اور باہر ڈیرہ ڈال دیتے.تو گاؤں میں آکر لوگوں کے گھروں سے چار پائیاں اور دیگر اسی قسم کی ضروری اشیاء لے جاتے اور جاتے ہوئے وہیں چھوڑ جاتے اور بعض اشیاء ساتھ لے جاتے تو کسی کو مزاحمت کی جرات نہ ہوتی.کبھی کبھی گھر کے چھوٹے بچے روتے پیٹتے اور بعض چیزوں کے ساتھ چمٹ جاتے کہ ہماری ہیں نہ لے جاؤ تو یہ سپاہی ان بچوں کو جھڑک دیتے.آپ شادی سے پہلے بمقام نور محل ضلع جالندھر اپنے والدین کے ہاں رہتی تھیں.سکھوں کے راج کے آخری دنوں کا چشم دید حال آپ سناتی تھیں کہ نور محل میں ہم نے دیکھا کہ سکھوں کے سپاہی بھاگے جارہے ہیں.کیس ( یعنی ان کے سر کے بال ) گھلے ہوئے ہیں.اور بدن سے خون جاری ہے.اُن کے پیچھے انگریزی فوج کا دستہ آیا.اُن کے ساتھ گتے تھے.کچھ اونٹ تھے اور دیسی سپاہی بھی تھے قصبہ کے لوگ اپنے گھروں کی چھتوں : آپ کے مضمون ” جماعت احمد یہ شملہ نے خلافت ثانیہ سے کس طرح وابستگی اختیار کی مندرجہ الفضل ۳ فروری ۱۹۴۰ء میں جماعت شملہ کے متعلق تفصیلی کوائف موجود ہیں.
۲۲۱ پر چڑھ کر دیکھ رہے تھے.اور یہ دیسی سپاہی ہاتھ اٹھا کر انہیں کہتے جاتے تھے کہ خوش ہو کہ اب انگریزوں کا راج آ گیا ہے.سکھ پاؤ گے.چنانچہ بعد میں ہم نے دیکھا کہ انگریزوں کے راج میں لوگوں کو بہت آزادی ہوگئی.سناتی تھیں کہ خاوند کے مرنے پر میں نے یہ عہد کر لیا کہ ساری عمر صوم وصلوٰۃ کی پابند رہوں گی.محنت کر کے بھی اولاد کی پرورش کروں گی.اولا د تین لڑکے اور چار لڑکیاں تھیں.سب سے بڑی لڑکی قریباً سترہ سال کی شادی شدہ تھی.اور منشی برکت علی صاحب سب سے چھوٹے تھے اور اڑہائی تین سال کے تھے.خاوند کے ملنے والوں سے کہہ دیا کہ اب کسی کا میرے ساتھ تعلق نہیں جو ان کی زندگی میں تھا.ماسوا ضروری کام کے میرے پاس کوئی نہ آئے.اس عہد کے مطابق انہوں نے ساری عمر گذاری اور ہمیشہ نماز روزہ کی پابند ر ہیں.گھر میں کھانا پکانے کا سب کام خود کرتی تھیں.ان دنوں آٹا پائی کی مشین رائج نہ تھی.سب سے پہلا کام منہ اندھیرے چکی پینے کا کرتیں.محلہ کے کنوئیں سے پانی لاتیں اور بچوں کے بیدار ہونے سے پہلے نماز سے فارغ ہو جاتیں.ساری عمر سب کام اپنے ہاتھ سے کرتی رہیں حتی کہ پچھلی عمر میں جب عام تمدن میں تغیر آگیا تو چکی پیسنا وغیرہ کام ترک کر دیا.اس زمانہ میں برادری کے لوگ تقریباً ایک ہی حیثیت کے ہوتے تھے.اور میل ملاپ رکھتے تھے.آپ کے گھریلو کاروبار میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر برکت دی کہ سناتی تھیں کہ میں نے تھوڑا تھوڑا کر کے نوصد روپیہ جمع کر لیا اور خاوند سے کہا کہ اب ہم مکان پختہ بنالیں.وہ حیران ہوئے کیونکہ ان کو اس قدر رو پیہ جمع ہونے کا علم نہ تھا.موصوفہ نے کہا کہ آپ شروع تو کریں اللہ تعالیٰ برکت دے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت دی کہ ایک مکان تیار ہو گیا.محترم خاں صاحب نے ۱۹۰۱ء میں بیعت کی.اس کے جلد بعد آپ کی والدہ محترمہ بھی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئیں.ابتداء تو انہوں نے صرف اس وجہ سے بیعت کی کہ آپ سمجھتی تھیں کہ میرا لڑکا نیک ہے اس لئے اس نے جس شخص کی بیعت کی ہے وہ بھی ضرور نیک اور صادق ہوگا.وہ پڑھی لکھی نہ تھیں اور نہ زیادہ استدلال کر سکتی تھیں.لیکن حقیقت
۲۲۲ دیکھا جائے تو جس دلیل کو سامنے رکھ کر انہوں نے بیعت کی وہ بھی بذات خود ایک بڑی دلیل ہے.چنانچہ بیعت کے بعد سلسلہ کی صداقت کے اور دلائل بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں سمجھا دیئے.ان کی بیعت کر لینے سے خان صاحب کو گھر میں اور محلہ میں تعصب و غیرہ کی وجہ سے کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی.کیونکہ موصوفہ کا طرز زندگی اپنوں اور دوسروں کے ساتھ اس قسم کا اعلیٰ تھا کہ سب اس نیک منش خاتون کی عزت کرتے تھے.والدہ صاحبہ قادیان آنے کا شوق رکھتی تھیں.ایک دفعہ آپ کے ساتھ قادیان آئیں.آپ کی اہلیہ صاحبہ اور بچی بھی ساتھ تھیں.قریبا بارہ تیرہ روز قادیان میں قیام رہا.اور قریباً روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اندرونِ خانہ جاتی تھیں.اور حضور کی کئی باتیں خاں صاحب کو سناتی تھیں جن میں سے انہیں صرف اس قدر یا د رہا کہ گھر میں حضور عموما لکھنے پڑھنے میں مشغول رہتے ہیں.ایک دفعہ موسم گرما میں خاں صاحب والدہ کو لے کر قادیان آئے.وہ بیعت کر چکی تھیں.پتہ چلا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو کسی مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے گئے ہیں.ان دنوں طاعون کا زور تھا.کسی نے بتایا کہ بیرونی مستورات کو حضور کے گھر جانے کی اجازت نہیں.حضرت خلیفہ اسیح اول نے اپنے مکان میں ایک کمرہ والدہ صاحبہ کے لئے مرحمت فرمایا.اور جب سُنا کہ خاں صاحب کی والدہ صاحبہ ضعیف العمر اور حقہ پینے کی عادی ہیں تو حقہ مہیا کر دیا.اور حکم دیا کہ ان کے پاس ہر وقت آگ اور تمبا کو تیار رہے.کھانا دونوں وقت آپ اپنے گھر سے پکوا کر بھجوا دیتے.دارالامان پہنچنے پر میں نے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے ذکر کیا کہ ہم تو زیارت کے لئے حاضر ہوئے تھے.حضور یہاں نہیں.اور میں ایک دو دن سے زیادہ یہاں ٹھہر نہیں سکتا.اس لئے افسوس ہے کہ بغیر ملاقات کے ہی جانا پڑے گا.فرمایا مجبوری ہے کیا کیا جائے.پھر اسی رنگ میں حضرت خلیفۃ اسیح اوّل سے عرض کیا.فرمایا میاں ! آپ کی والدہ صاحبہ ضعیف ہیں تو کیا حرج ہے.یہاں تک پہنچے ہی ہو.گورداسپور بھی ہو آؤ.مگر والدہ صاحبہ کی ضعیف العمری کے مدنظر خاں صاحب کو حوصلہ نہ پڑا.علاوہ ازیں موسم بھی خراب تھا.اس دن بارش ہو رہی تھی.
۲۲۳ گرمیوں کے دنوں میں عموماً آپ خاں صاحب کے پاس شملہ چلی جاتی تھیں.مجالس وعظ سننے کا شوق تھا.آخری عمر میں ایک دفعہ حضرت حافظ روشن علی صاحب شملہ میں آئے ہوئے تھے.جماعت نے خواتین کے لئے بھی وعظ کا انتظام کیا.آپ اس وقت اچھی طرح چل پھر نہیں سکتی تھیں.اس لئے ڈولی میں بیٹھ کر گئیں.دل کی مخیر تھیں.مگر زیادہ شوق مساجد وغیرہ کے لئے انفاق کا تھا.حج کرنے کا شوق تھا.مگر جانے کا انتظام نہ ہوسکا.تو آپ نے خاں صاحب کو کچھ روپیہ دے دیا.کہ جب حج کرنے جاؤ تو میری طرف سے بھی حج کرا دینا.چنانچہ ایک عرصہ کے بعد جب خان صاحب کو ۱۹۳۴ء میں حج کی توفیق ملی تو آپ نے والدہ ماجدہ کی طرف سے حج بدل کرا دیا.و آخری عمر میں موتیا بند ( نزول الماء) کی وجہ سے نظر میں نقص واقع ہو گیا.ان ایام میں حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب امرتسر میں متعین تھے.اور اس وقت وہاں ایک انگریز سول سرجن آنکھوں کے بنانے میں اپنی مہارت کی وجہ سے مشہور تھا.اور اس وجہ سے بھاری فیس لیتا تھا.لیکن حضرت میر صاحب نے اسی سے تھوڑی فیس دلوا کر آنکھیں بنوادیں.علاوہ ازیں موصوفہ کو بجائے شفا خانہ میں داخل کرانے کے اپنے گھر میں رکھا.اس دو تین ہفتہ کے قیام کے عرصہ میں میر صاحب نے خود بڑی احتیاط سے دیکھ بھال کی اور آپکے اہلبیت کلاں نے بھی بہت خاطر و مدارات کی.حضرت میر ناصر نواب صاحب غالباً مسجد نور اور شفا خانہ نور کے لئے فراہمی چندہ کے سلسلہ میں شملہ میں تشریف لے گئے.تو موصوفہ نے وصیت کر کے اسی وقت حصہ وصیت آپ کی خدمت میں پیش کر دیا.ان کے جنازہ کے متعلق یہ عجیب بات ہے کہ وفات سے پہلے جب وہ اپنے وطن جالندھر میں بیمار ہوئیں تو خاں صاحب کو خیال ہوا مبادا یہ مرض الموت ہو اور وہ وہیں فوت ہو جائیں.ایسی صورت میں میرے لئے ان کا جنازہ قادیان لے جانا مشکل ہوگا.کیونکہ غیر احمدی اقارب مزاحم ہوں گے.سو خاں صاحب روزانہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں لکھتے رہے کہ حضور دعا فرمائیں کہ اگر ان کی موت مقدر ہے تو وہ شملہ آجائیں.اور وہیں ان کی وفات ہو.تا میں آسانی سے جنازہ قادیان پہنچا سکوں.چنانچہ حضور کی یہ دعا قبول ہوئی.خان صاحب انہیں بحالت مرض
۲۲۴ ہی شملہ لے گئے اور وہ شملہ جا کر فوت ہوئیں.اس طرح قادیان جنازہ پہنچانے میں اللہ تعالیٰ نے سہولت پیدا کر دی.آپ کے تار کے مطابق اقارب جالندھر ریلوے اسٹیشن پر آگئے.جہاں چند گھنٹے کے لئے جنازہ ٹھہرا لیا گیا.اور اقارب نے چہرہ دیکھ لیا.اور لڑ کے اور داماد جو جا سکتے تھے وہ جنازہ کے ساتھ ہو لئے.اور نماز جنازہ میں شریک ہو گئے.مرحومہ قریباً چالیس سال کی عمر میں بیوہ ہوئیں.قریباً بیالیس سال بیوہ رہیں.اور بیاسی سال کی عمر میں راہی ملک بقا ہو نہیں حضور نے جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں.۱۲ زیر مدینہ اسیح “ مرقوم ہے: مکرمی با بو برکت علی صاحب سیکرٹری جماعت شملہ کی والدہ ماجدہ فوت ہوگئی تھیں.انا للہ وانا اليه راجعون.ان کا جنازہ مقبرہ بہشتی میں دفنانے کے لئے قادیان لایا گیا.حضور نے نماز جنازہ پڑھائی.احباب بھی جنازہ غائب پڑھیں ۱۳ ہے.موصوفہ محترمہ نے ۱۰.۱۹۰۹ء میں نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب کی شملہ میں تشریف آوری پر شفا خانہ اور دار الضعفاء قادیان کی تعمیر کے لئے پچاس روپے دئے تھے ۱۴.آپ کی وصیت کا نمبر ۹۹۰ ہے قطعہ نمبر ۳ حصہ لے نمبر ۴ قبر ہے.کتبہ کا پلستر مرور زمانہ سے کچھ اتر چکا ہے.اس کی نقل سطر به سطر درج ذیل ہے.جہاں عبارت باقی نہیں رہی وہاں نقطے ڈال دیئے گئے ہیں.كل من عليها فان ويبقى الله اكبر ربک ذوالجلال والأكرام بسم اللہ الرحمن الرحيم محمد والده منشی برکت علی صاحب جالندھری امیر جماعت شمله جمعہ واقعہ ۷ استمبر ۱۹۱۵ء مطابق ۷ ذلقیعد ۱۳۳۳ ہجری کو شملہ میں بھمر ۸۲ سال فوت ہوئیں.۱۹ ستمبر ۱۹۱۵ء کو بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئیں.۱۹۰۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی.لا اله الا هو كل شيئ هالک الا وجهه له الحكم واليه يرجعون.
۲۲۵ آپ کی رفیقہ حیات آپ کی اہلیہ محترمہ کے جدی اقارب احمدیت سے محروم رہے اور خاں صاحب محترم کے تعلق سے مرحومہ احمدیت سے وابستہ ہوئیں اور انہوں نے اخلاص میں بہت ترقی کی.آپ لجنہ اماء اللہ شملہ کی صدر تھیں.۱۵ آپ کے حالات ذیل میں درج ہیں جن سے ظاہر ہے کہ آپ ایک مخلص صحابیہ تھیں.اور دین العجائز پر قائم تھیں.اور اخلاق عالیہ سے بہرہ ور تھیں.خانصاحب بیان کرتے ہیں: میری اہلیہ عزیزہ بیگم منشی مولا بخش صاحب محافظ دفتر ضلع کچہری ہوشیار پور کی دختر نیک اختر تھیں میں نے ۱۹۰۱ء میں بیعت کی.اس کے بعد جلدی ہی مرحومہ نے بھی محض اس وجہ سے بیعت کر لی کہ میرا خاوند نیک ہے.جب اس نے بیعت کر لی ہے تو مجھے ان سے الگ رہنا مناسب نہیں.وہ زیادہ لکھی پڑھی نہ تھیں اور نہ زیادہ استدلال کر سکتی تھیں.لیکن اگر حقیقتا دیکھا جائے تو جس دلیل کو اولاً انہوں نے سامنے رکھ کر بیعت کی وہ بھی بڑے پایہ کی دلیل ہے.چنانچہ بیعت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو اور دلائل بھی صداقت سلسلہ کے سمجھا دیئے.۱۹۰۶ ء میں میں ایک دفعہ محترمہ والدہ صاحبہ.اہلیہ صاحب اور اکلوتی بچی بعمر قریباً چھ سال کو لے کر قادیان گیا.اور بارہ تیرہ روز وہاں قیام رہا.ہمیں رہنے کے لئے جو مکان ملا وہ شہر میں تھا.اور پختہ دومنزلہ مکان تھا جس میں کبھی پریس بھی ہوتا تھا.ہر دو نے وہاں دستی بیعت کی.میرے گھر سے روزانہ حضور کے گھر جاتیں.اور اندرونِ خانہ کی بہت سی باتیں مجھے بتا تیں.افسوس کہ ان کو محفوظ نہ کر سکا.جہاں تک یاد ہے بتاتی تھیں کہ حضرت صاحب عموماً گھر میں مطالعہ یا تحریر میں مصروف رہتے تھے.اکثر ایسا ہوتا تھا کہ آپ کمرے کے دو تین طاقچوں میں دوا تیں رکھ لیکن یہ معلوم نہیں کہ کتنا عرصہ وہ صدر رہیں.
۲۲۶ لیتے اور ٹہلتے ٹہلتے تحریر کا کام کرتے جہاں سیاہی لگانے کی ضرورت ہوتی.دوات میں قلم ڈبو لیتے.اور پھر ٹہلنا شروع کر دیتے.ان دنوں انڈی پنڈنٹ ( قلم ) نہیں ہوتے تھے.(باہر سے آئی ہوئی عورتیں گھر میں تکلف پھرتی اور حضور سے باتیں کر لیتی ہیں) حضور کو دردسر اور ذیا بیطس کا عارضہ لاحق ہے.جب کبھی شدت مرض کی وجہ سے باہر تشریف نہیں لے جاسکتے.تو اندر ہی مستورات کو باجماعت نماز پڑھا دیتے ہیں.آپ کی طبیعت میں استغناء ہے.کسی کیطرف اونچی نگاہ کر کے نہیں دیکھتے بلکہ نظریں نیچی کئے ہوئے اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب حضور کی مصروفیت کے وقت بھی اور نماز کے اوقات میں بھی حضور کے آگے پیچھے کھیلتے رہتے ہیں.اور حضور کبھی منع نہیں کرتے.ہماری لڑکی قریباً اسی عمر کی تھی وہ بھی کبھی صاحبزادہ صاحب کے ساتھ کھیلتی ہے تو کئی دفعہ حضور از راہ شفقت اسے بھی اپنی گود میں بٹھا لیتے اور پیار کرتے ہیں ہے.) ۱۹۰۷ء میں یہ بچی بیمار ہوگئی.دُعا کے لئے لکھنے کا موقع نہ ملا مگر دل میں تڑپ تھی کہ اسے حضور کے صدقے سے ہی آرام ہو جائے.مگر بقضائے الہی وہ جانبر نہ ہوسکی.بلکہ بعمر ساڑھے سات سال وفات پاگئی.اس کا مجھے بڑا قلق ہوا.کیونکہ اس سے قبل بھی کوئی اولاد نہ تھی اور نہ بعد میں ہوئی.دوسرے تیسرے دن میں نے اخبار میں پڑھا کہ حضور کو الہام ہوا ” میں ان کے رونے کی آواز سُن رہا ہوں، مجھے اس وقت کچھ ایسا یقین ہوا کہ یہ میرے ہی متعلق ہے.طبع اول ( ص ۱۰ میں ) والدہ صاحبہ اور اہلیہ دونوں کی طرف سے یہ بیان کرنا درج ہے کہ کئی دفعہ حضور نے بچی کو اٹھایا اور پیار کیا.خاکسار کو پہلے محترم خانصاب نے حالات زندگی بھجوائے.بعد ازاں کتابت شدہ کا پیاں آپ کو خاکسار نے راولپنڈی جا کر دیں.آپ نے ساری پڑھیں اور اسے درست قرار دیا.سو طبع اول کا بیان قابل ترجیح ہے بجائے ۱۹۵۱ء کے بیان کے جس میں والدہ صاحبہ کی طرف سے آپ نے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ بچی کو گود میں اٹھایا تھا.
۲۲۷ میں نعش کو بہشتی مقبرہ میں دفن کرنے کے لئے لانا چاہتا تھا.حضور کی خدمت میں تحریر کیا.مگر حضور نے تحریر فرمایا کہ کچھ ضرورت نہیں.بچے جہاں بھی دفن ہوں جنتی ہوتے ہیں.جنازہ قادیان لانے کی اجازت نہیں.” میرا اُن کا ساتھ اس دنیا میں قریباً ۵۲ سال رہا اور وہ ۲۱ دسمبر ۱۹۴۹ء مطابق ۲۸ صفر ۱۳۶۹ھ راولپنڈی میں قریباً ۶۶ سال کی عمر میں فوت ہوئیں.۲۲ دسمبر کو جنازہ ربوہ میں لایا گیا اور اگلے روز نماز جمعہ کے بعد مقبرہ بہشتی ربوہ میں مدفون ہوئیں.جنازہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہزار ڈیڑھ ہزار کے مجمع کے ساتھ پڑھایا.کیونکہ بہت سے لوگ قرب جلسہ کی وجہ سے نماز جمعہ میں شامل ہونے کی غرض سے دو تین روز پہلے ہی آگئے تھے.حضور نے جنازہ کو کندھا دیا اور فرمایا کہ میں قبرستان تک جاتا.مگر میں اس وقت ایک بڑی ضروری کتاب لکھ رہا ہوں.ہم دونوں میاں بیوی دست بدعا رہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی جگہ موت دے کہ جنازہ مرکز میں پہنچ جائے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ جنازہ پڑھا ئیں اور ہم بہشتی مقبرہ میں دفن ہوں.مرحومہ کی مرض الموت میں اس دعا کی طرف زیادہ توجہ ہوگئی.چنانچہ مرحومہ کے حق میں تو یہ دعا خدا کے فضل سے منظور ہوگئی.اور ایسی صورت میں منظور ہوئی کہ اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے قبولیت دعا کا خاص نشان ظاہر ہوتا ہے.مرحومہ ۲۱ دسمبر کو راولپنڈی میں دن کے ایک بجے فوت ہوئیں.تابوت وغیرہ بمشکل رات کے آٹھ بجے تک تیار ہوسکا.اس لئے جنازہ کو ربوہ لانے کے لئے رات بھر انتظار کرنا پڑا.۲۲ دسمبر کی صبح کو پونے آٹھ بجے راولپنڈی سے تابوت لے کر روانہ ہوئے.اور شام پونے چھ بجے ربوہ پہنچے.روانگی سے قبل میں دفتر بہشتی مقبرہ کو فوری تار دے آیا تھا کہ ہم
۲۲۸ جنازہ لا رہے ہیں.مگر یہ تار ہمارے پہنچنے کے بعد دفتر والوں کو ملا.اس کے دو فائدے ہو گئے.اول یہ کہ اگر تا رجلدی مل جاتا.اور قبر تیار ہوگئی ہوتی.تو غالباً اُسی وقت جنازہ پڑھا دیتے اور میت دفن کر دی جاتی لیکن اب ہمیں انتظار کرنا پڑا اور دوسرے دن جو جمعہ کا دن تھا.حضور ایدہ اللہ نے بعد نماز جمعہ جنازہ پڑھایا اور حضور کے ساتھ ہزار ڈیڑھ ہزار کے قریب احباب بھی جنازہ میں شریک ہو گئے.اس ضمن میں یہ ذکر کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق نماز جمعہ کے بعد ایسی ساعت شروع ہو جاتی ہے جو دعاؤں کی خاص قبولیت اور برکت کی ہے.اس لئے امید ہے کہ حضور اور دیگر احباب کی دعائیں خدا کے فضل سے مرحومہ کے حق میں ضرور منظور ہوں گی.اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں خاص جگہ دے گا.دوسرا فائدہ تار جلدی نہ پہنچنے کا یہ ہوا کہ میں جمعرات والے دن ۲۲ دسمبر کو راولپنڈی سے اپنے اعزہ و اقارب کو تاریں دے آیا تھا.کہ مرحومہ فوت ہوگئی ہیں اور میں جنازہ ربوہ لے جارہا ہوں.چنانچہ وہ سب یہ خیال کر کے کہ جنازہ بہر حال دوسرے دن بعد از نماز جمعہ ہوگا.نماز جمعہ سے پہلے پہنچ گئے.مرحومہ کا منہ دیکھ لیا.اور جنازہ میں بھی شریک ہو گئے.جیسا کہ عام طور پر عورتوں کی خواہش ہوتی ہے.مرحومہ بھی یہ چاہتی تھیں اور دُعا کیا کرتی تھیں کہ میں اپنے خاوند سے پہلے اس کے ہاتھوں میں وفات پاؤں تاکہ بعد میں کسی اور کی محتاجی نہ کرنی پڑے.چنانچہ یہ دعا بھی ان کی منظور ہو گئی.میں اپریل ۱۹۴۹ء میں اپنی بیماری کی وجہ سے ربوہ کے پہلے جلسہ سالانہ میں شریک نہ ہو سکا اور اس دوسرے جلسہ میں بھی مرحومہ کی بیماری کی وجہ سے شمولیت کی امید نہ تھی.مگر اُن کی موت ایسے وقت میں ہوئی کہ اس
۲۲۹ جلسہ میں شریک ہونے کا باعث ہوگئی اور میں جلسہ کی برکات سے متمتع ہو سکا.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا اور جہاں مرحومہ کے مجھ پر کئی اور احسان ہیں جاتی ہوئی یہ احسان بھی کر گئیں.غرض مرحومہ کی وفات کے متعلق ہم دونوں میاں بیوی کی سب دعائیں منظور ہو گئیں.البتہ افسوس ہے ہماری ایک خواہش پوری نہ ہوئی یعنی مرحومہ اپنی وفات سے پہلے کوئی بات نہ کر سکیں نہ کوئی وصیت کر سکیں اور نہ اپنی کسی خواہش کا اظہار کر سکیں اور دنیا میں ایسا کون ہے جس کی سب دعائیں اور خواہشیں پوری ہوں مگر ان کے متعلق یہ عجیب بات ہے کہ ہم کوئی خاص دُعا بھی نہ کر سکے.مجھے ان کی دل شکنی کی وجہ سے حوصلہ نہ پڑا.کہ ان سے دریافت کروں اور اسی خیال میں رہا کہ خدا تعالی آرام دے گا.تو دیکھا جائے گا.ایک دفعہ انہوں نے کوشش کر کے کچھ کہنا چاہا مگر ایک یا دو باتیں کر کے یہ کہہ کر خاموش ہو گئیں کہ طبیعت گھبراتی ہے.باقی باتیں بعد میں بتاؤں گی.اور انشاء اللہ لکھا کر جاؤں گی مگر افسوس ہے کہ مہلت نہ ملی.وفات سے قبل دس بارہ گھنٹے بے ہوشی طاری رہی اور بے ہوشی میں کچھ باتیں کرتی رہیں.مرنے سے پہلے کچھ منٹ جو طبیعت سنبھلی تو صرف اتنا کہہ سکیں کہ کمزوری از حد ہوگئی ہے اتنے میں آنکھیں پتھرا گئیں.اور نبض ساکت ہوگئی.انا للہ وانا اليه راجعون.سو مرحومہ کی وفات کے متعلق سوائے ایک خواہش کے ہماری سب دعا ئیں خدا تعالیٰ کے فضل سے منظور ہوئیں مرحومہ کا تعلق دنیا میں میرے ساتھ قریباً ۵۲ سال رہا دل چاہتا ہے اور اس کے لئے خدا کی درگاہ میں دست بدعا ہوں کہ آخرت میں بھی وہ ہمیں اپنے بہشت بریں میں اکٹھا رکھے امید ہے.میری یہ دعا بھی خدا کے فضل سے منظور ہوگی.کیونکہ بظاہر اس کی بنیاد بھی رکھ دی گئی ہے یعنی حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی اجازت سے مرحومہ کی قبر کے ساتھ ہی
۲۳۰ میری قبر کے لئے بھی جگہ مخصوص کردی گئی ہے.ناظرین سے درخواست ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے تو دعا کریں کہ میری یہ خواہش اور دعا بھی پوری ہو.وو مرحومہ میری بہت خدمت گزار تھیں.میری صحت اور کھانے پینے کا بہت خیال رکھتی تھیں.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اُن کا یہ سلوک میرے ساتھ عشق کی حد تک پہنچ گیا تھا.اور خویش و اقرباء اور دوسرے ملنے والوں میں یہ بات ایک ضرب المثل ہو گئی تھی کہ وہ اپنے خاوند کا بہت ہی فکر رکھتی ہیں.تقویٰ میں بھی اپنے ملنے والوں میں مشہور تھیں.مجمع میں جانا محض اس وجہ سے پسند نہ کرتی تھیں کہ عورتوں اور بچوں کے شوروغل کی وجہ سے ان کی طبیعت گھبراتی تھی.اور عورتیں جو عموماً ایک دوسرے کا گلہ شکوہ کرتی ہیں.انہیں بُرا معلوم ہوتا.کسی کا احسان لینا پسند نہ کرتی تھیں.خواہ کوئی رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار اور اگر کوئی کسی وجہ سے خاص حسن سلوک کرتا تو جب تک اس سے بڑھ کر بدلہ نہ دیتیں چین نہ آتا کسی کا حق مارنا تو ایک طرف ہمیشہ دوسرے شخص کو اس کے حق سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں.غرباء کی امداد کا خاص شوق تھا اور جو روپیہ پیسہ بھی میں بطور جیب خرچ وغیرہ دیتا وہ غرباء کو دے چھوڑتی تھیں اور احسان جتلانا تو الگ دل میں بھی اس کا خیال نہ رکھتیں.اگر کوئی ان کے سامنے ان کے احسان کا ذکر کرتا.تو بُرا مناتیں.کھانے پینے اور لباس میں ازحد سادگی پسند تھیں.بالکل سادہ اور چھوٹا موٹا لباس پہنتیں.اگر کوئی رشتہ دار یا ملنے والی عورت کہتی کہ خدا کا فضل ہے.کسی چیز کی کمی نہیں پھر آپ کو لباس میں کفایت کی کیا ضرورت ہے.اچھا کپڑا پہنا کریں تو جواب دیتیں کہ طبیعت ہی نہیں چاہتی.زیورات خدا کے فضل سے بنائے ہوئے تھے بلکہ بعض اچھے پار چات بھی تھے مگر پہن کر مجمع میں بہت کم جاتیں.اور جب کہا جاتا کہ ان کے رکھ چھوڑنے کا کیا فائدہ استعمال کرو تو جواب
۲۳۱ دیتیں.پہن کر عورتوں میں جانے کو دل نہیں چاہتا.مبادا وہ خیال کریں کہ دکھانے کے لئے پہن کر آئی ہیں.صفائی اور پاکیزگی کا از حد خیال رہتا تھا.گھر میں کوڑا کرکٹ پڑا دیکھ نہ سکتی تھیں.ہم عموما گھر کے کام کاج کے لئے کوئی لڑکا یا لڑکی ملازم رکھتے تھے.مگر پھر بھی جب کبھی موقعہ ملتا اپنے ہاتھ سے بھی کام کرتیں.چھوٹا موٹا کپڑا دھولیتیں اور برتن صاف کرلیتیں.کپڑا دھوتے اور برتن صاف کرتے ہوئے کئی دفعہ کلمہ طیبہ پڑھتیں کیونکہ وہ بجھتی تھیں کہ جب تک کلمہ طیبہ نہ پڑھا جائے چیز صاف اور پاک نہیں ہوتی.بزرگوں کی خدمت کا خاص خیال رکھتیں.اپنے سسرال کے رشتہ داروں کا تو بہت ہی لحاظ رکھتیں اور ان کے مقابلہ میں اپنے میکے کے رشتہ کی بھی پرواہ نہ کرتیں.چنانچہ میری والدہ مرحومہ کی مرض الموت میں دن رات خدمت کی اور میری والدہ مرحومہ کو بھی اُن کے بغیر چین نہ آتا تھا.میری مرض کو اپنی مرض پر حتی الوسع ترجیح دیتی تھیں.شروع میں ہمارے غیر احمدی ہونے کی حالت میں میری بعض بے قاعدگیاں برداشت کیں.لیکن بیعت کرنے کے بعد میرا کسی قسم کا تشدد گوارا نہ کرتی تھیں.اور کہہ دیتی تھیں کہ اگر ایسا کرو گے تو حضرت صاحب کو لکھ دوں گی.اس لئے مجھے دینا پڑتا تھا.صوم وصلوٰۃ کی پابند تھیں.بلا وجہ نماز کبھی ترک نہ کرتیں.اور روزہ رکھنے سے اگر معذور ہوتیں تو فدیہ ضرور ادا کرتیں نماز کا ترجمہ سیکھ لیا تھا.اور نماز ادا کرتے وقت ترجمہ کا بھی ساتھ ساتھ خیال رکھتی تھیں.دعاؤں کی بہت عادت تھی اور تقریباً ہر نماز میں فرضوں کی آخری رکعت کے سجدہ میں لمبی لمبی دعائیں کرتی تھیں.خود تبلیغ کا ملکہ نہ رکھتی تھیں.مگر احمدیت کے خلاف بھی کسی کی بات سننا برداشت نہ کرتی تھیں اس لئے کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار کو اُن کی موجودگی میں سلسلہ کے متعلق بدگوئی کی جرات نہ ہوتی تھی.
۲۳۲ شعائر اللہ کا بہت احترام کرتی تھیں مگر دل کی قدر تا از حد درجہ کمزور واقعہ ہوئی تھیں.اس لئے بہشتی مقبرہ کی زیارت کے لئے بہت کم جاتیں.اور جب کبھی حوصلہ کر کے جاتیں.تو ایک دو عورتیں ساتھ لے کر جاتیں.اور بہت لمبی لمبی دعائیں کرتیں.بلکہ اسی کمزور کی دل کی وجہ سے میرے ساتھ حج کو نہ جاسکیں.کیونکہ حاجیوں کو طاعون و ہیضہ کے لئے دو ٹیکے کرانے پڑتے تھے.اور وہ ٹیکہ کو برداشت نہ کر سکتی تھیں.محلہ کی عورتوں نے سمجھایا کہ خاوند ساتھ ہے.اس سے بڑھ کر اور کون سا اچھا ساتھ مل سکتا ہے.خوش قسمتی کی بات ہے ساتھ چلی جاؤ.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم نے ایک دو دفعہ فرمایا کہ میں ٹیکہ گھر آکر کر جاؤں گا.اور ایسی طرز سے کروں گا کہ ذرہ بھی تکلیف نہ ہوگی.اتفاقاً ان دنوں چیچک کا ٹیکہ ہو رہا تھا.کئی خوردسال بچے سامنے آکر دکھاتے کہ دیکھو ہم نے ٹیکہ کرایا ہے.اور کوئی ایسی تکلیف نہیں ہوئی.مگر ان کی طبیعت نہ مانی.اور تنگ آکر کہنے لگیں کہ مجھے بار بار کیوں گناہ گار کرتے ہو.میں ٹیکہ نہیں کراسکتی بلکہ سمندر کا نظارہ بھی برداشت نہیں کرسکتی.اندریں حالات مجھے مجبوراً اکیلے ہی حج کو جانا پڑا.مگر میں نے ان کی طرف سے حج بدل کرا دیا.میں ۱۸ فروری ۱۹۳۴ء کو جا کر ۱۸ اپریل کو واپس آیا.اس دو ماہ کے عرصہ میں وہ مسلسل اور زیادہ شدت سے مصروف عبادت رہیں.اور ایک دن بھی گھر سے باہر نکلنا گوارا نہ کیا.خاندان حضرت مسیح موعود کی بہت تعظیم و تکریم کرتی تھیں.حضرت ام المومنین مدظلہ العالیٰ کے ساتھ از حد عقیدت تھی اور کبھی بغیر نذرانہ کے ان سے ملنا پسند نہ کرتی تھیں.حضرت ام المومنین خود ان کے ملنے کے لئے ہمارے ہاں تشریف لے آتی تھیں تو اس وقت بھی نذرانہ ضرور پیش کر دیتی تھیں.آخری ایام میں رضائے مولیٰ پر راضی معلوم ہوتی تھیں.کیونکہ بیماری
۲۳۳ کے دنوں میں سوائے ایک دو دفعہ صحت کے لئے دعا کرنے کے کوئی شکوہ وشکایت نہ کیا.بس اتنا کہا کہ جو ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا.ان کی بیماری میں ایک دو دفعہ میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے.تو دیکھ کر کہنے لگیں کہ کیوں روتے ہو.کیا یہ ہماری خواہش نہیں کہ میں آپ سے پہلے وفات پاؤں.غرض عام حالات میں ان کی سب عادات قابل تو تحسین تھیں.اور جو عورت بھی احمدی یا غیر احمدی اُن سے ملیں ان کے اخلاق کی گرویدہ ہو گئیں.ان کے استغناء اور سیر چشمی کا یہ عالم تھا کہ باوجود یکہ میں ساری تنخواہ ان کے حوالے کر دیتا تھا.اور کہہ دیتا تھا کہ مقررہ جیب خرچ کے علاوہ جس طرح چاہو خرچ کرو.مجھے کوئی اعترض نہ ہوگا.مگر وہ میری اجازت کے بغیر ایک پیسہ بھی اس میں سے خرچ کرنا گناہ سمجھتی تھیں.اور کہتیں کہ جو اپنے ہاتھ سے دو گے وہی خرچ کروں گی.بڑی مہمان نواز تھیں.خود کسی کے ہاں جائیں تو زیادہ خاطر تواضع پسند نہ کرتیں لیکن اگر کوئی ہمارے گھر میں آتا تو حتی الوسع مہمان نوازی کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتیں.جن دنوں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب امرت سر کے ہسپتال میں تعینات تھے.ان دنوں والدہ مرحومہ نے وہاں جا کر آنکھیں بنوائیں.حضرت میر صاحب مرحوم نے بڑی شفقت سے اپنے زیر اہتمام انگریز سول سرجن صاحب سے آنکھیں بنوادیں.وہ سول سرجن صاحب آنکھیں بنانے میں خاص مہارت رکھتے تھے.چاروں طرف ان کی شہرت تھی.اور دور دور سے سینکڑوں لوگ آنکھیں بنوانے کے لئے آتے تھے.والدہ مرحومہ کو حضرت میر صاحب نے بجائے ہسپتال میں جگہ دلوانے کے اپنے گھر میں رکھا.جہاں ہم دواڑھائی ہفتہ رہے اور جہاں حضرت میر صاحب مرحوم کی بڑی بیوی اور میری بیوی مرحومہ نے
۲۳۴ والدہ مرحومہ کی بڑی خدمت کی.والدہ مرحومہ نے مرتے وقت میری بیوی مرحومہ کو علاوہ اور باتوں کے یہ وصیت کی کہ میرا یہ زیور اور نقدی اس اس طرح تقسیم کر دینا اور ہر ہفتہ میری طرف سے کسی غریب کو کھانا کھلا دیا کرنا.چنانچہ مرحومہ نے اس کی پوری تعمیل کی اور جب تک زندہ رہیں ہر ہفتہ ایک آدمی کا کھانا کسی نہ کسی غریب کو دیتی رہیں اور اگر کبھی کوئی ایسا آدمی نہ ملتا تو اندازہ کر کے اس کی نقدی غرباء میں تقسیم کر دیتیں."طبیعت بڑی مخیر واقع ہوئی تھی.غرباء میں صدقہ وخیرات کے علاوہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چاول وغیرہ پکا کر غرباء کو کھلا دیتی تھیں جس کے لیئے ہر ماہ پیسے جمع کرتی رہتی تھیں اور رقم خاصی جمع ہوتی.ہر بار ایسا کرتی تھیں.چندہ با قاعدہ ادا کرتی تھیں.البتہ ادائیگی کا طریق یہ تھا کہ مجھے کہہ رکھا تھا کہ میری طرف سے بھی دریافت کئے بغیر ہی ادا کر دیا کرو.چنانچہ میں اپنے چندہ کے ساتھ ہی اس کا ہر قسم کا چندہ بھی ادا کر دیا کرتا تھا.میری اجازت کے بغیر کہیں باہر نہیں جاتی تھی.اور اگر کبھی جانا پڑ جائے تو مجھے بتا دیتی تھی.زکوۃ با قاعدہ ہر سال زیور پر اور نقدی پر ادا کر دیتی تھی.گھر کے عام استعمال کی چیزیں اگر کوئی مانگے تو خوشی سے دے دیتی تھی.مگر خود لینا حتی الوسع پسند نہ کرتی تھی.بلکہ اگر کسی چیز کی ضرورت پڑے تو خود خرید لیتی تھی.نیز کبھی کسی کا کینہ دل میں نہ رکھتیں.نہ کسی کی بدسلوکی کا بدلہ لینے کی کوشش کرتیں.اگر کوئی بھتیجا یا بھائی گستاخی کرتا تو میں کہتا کہ میں اس سے پوچھوں گا.تو جھٹ مجھے منع کر دیتیں اور کہتیں کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہی ہے وہ سب کے اعمال دیکھتا ہے.غرض مرحومہ کے اخلاق حمیدہ اور عاداتِ حسنہ کہاں تک بیان کئے جائیں.وہ ایسی نیک طینت اور فرشتہ خصلت بی بی تھیں کہ مجھے ان کی
۲۳۵ وجہ سے کبھی تکلیف نہیں ہوئی.اور ان کی موجودگی میں ہمارا گھر ایک بہشت کا نمونہ بنا ہوا تھا.اللہ تعالیٰ ان کی خر بت پر اور ان کے ساتھیوں کی خر بت پر جو بہشتی مقبرہ میں لیٹے ہوئے ہیں.ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل کرے اور اُن کو اپنے قرب خاص میں جگہ دے.آمین ہے محترم خاں صاحب کی مالی خدمات اور سلسلہ کی بغیر معاوضہ خدمت کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمگیر جنگ دوم کے باعث حد درجہ کی مہنگائی اور بوجہ ہجرت از قادیان مال و متاع سے محرومی کے باوجود پنشن پر گزارہ.ان سب میں آپ کے اہل بیت اپنی سادگی پسندی تقطف اور للہیت کی وجہ سے برابر کی شریک تھیں.اور ہر طرح آپ کی معین و مددگار تھیں.آپ نے ۱۹ دسمبر ۱۹۲۸ء کو ۱٫۸ حصہ کی وصیت حق صدر انجمن احمدیہ کی.آپ کا وصیت نمبر ۲۹۲۰ تھا.الفضل ۱۴، ۱۵ جنوری ۱۹۵۰ء، ۱۶ جون ۱۹۵۱ء واصحاب احمد جلد سوم ( ص ۱۰) طبع اول سے یہ حالات مرتب کیئے ہیں.مقبرہ بہشتی میں کتبہ کی عبارت یوں ہے.اس عبارت کی منظوری حضرت خاں صاحب نے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے حاصل کر لی تھی.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وجه ربك ذو الجلال والاکرام عزیزہ بیگم صاحبہ زوجه خان صاحب منشی برکت علی صاحب سابق امیر جماعت احمد یہ شملہ و جوائنٹ ناظر بیت المال صد را منجمن احمدیہ.مرحومہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیہ تھیں.۱۹۰۶ ء میں حضور کے دست مبارک پر بیعت کی.۲۱ دسمبر ۱۹۴۹ء مطابق ۲۸ صفر ۱۳۶۹ھ کو بھمر تقریباً ۶۶ سال را ولپنڈی میں فوت ہوئیں اور جمعه واقعه ۲۳ دسمبر ۱۹۴۹ء کو یادگار بہشتی مقبرہ قادیان واقعہ ربوہ میں دفن ہوئیں.انا لله وانا اليه راجعون
۲۳۶ قلمی و لسانی جہاد میں شرکت اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت سلطان القلم مسیح موعود علیہ السلام کی فوج ظفر موج میں شامل ہو کر محترم خاں صاحب کو قلمی جہاد میں شریک ہو کر قابل قدر خدمات کا موقعہ عطاء ہوا.نیز لسانی جہاد کا بھی حضور کے عہد مبارک میں تین مضمون و تقاریر بدر میں شائع ہوئیں.اسی مبارک عہد میں آپ نے چھ تقاریر شملہ میں کیں.جو خلافت اولی میں کتا بچوں کی شکل میں شائع ہوئیں.خلافت اولی و ثانیہ میں بھی آپ نے قلمی و لسانی خدمات کی توفیق پائی ہے.بعض تالیفات وغیرہ کا ذکر قدرے تفصیل سے کیا جاتا ہے: قدامت روح و مادہ اور تناسخ “.اس نام کی اس موضوع پر آپ کی تصنیف کے 66 متعلق علامہ حضرت سید محمد اسحاق صاحب اپنی معرکۃ الآراء کتاب " حدوث روح مادہ کے دیباچہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ جو شخص اس مسئلہ کی تحقیق بطور خود کرنا چاہے.اس کے بقیه حاشیه مرحومه بود وصال صد وصف احمدی در کار خیر مستعد مجتبر زز شر - صبر و وفا غنا و قلات زوصف او ساده مزاج وصاف دل زکیر کے خیر پر نور باد مرقوش از نور کریگار.یا صد ہزار رحمت.خلاق بود بر.اے خدا بر تربت او بارش رحمت پیار.داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم - معلوم ہوتا ہے کہ آپ زبانی تقریر نہیں کرتے تھے بلکہ مضمون تحریر کر کے اسے پڑھ دیتے تھے.(۱) حقوق انسانی اس کا ذکر روایات میں ہوا ہے.(۲) مسئلہ تقردیه بدر ۲۸ نومبر ۱۹۰۷ء) سوا چار کالم پر مشتمل یہ تقریر بمقام شملہ ہوئی تھی.(۳) ”موت بدر ۳۰ جنوری (۱۳۰۶ فروری ۱۹۰۸ء گویا متواتر تین نمبروں (پرچوں) میں یہ مضمون شائع ہوا.(۴) مضمون ”حقیقت معجزه ، وتشحید الاذهان نومبر و دسمبر ۱۹۰۸ء.(۶۵) قدامت روح دما دہ اور تناسخ “ اور گوشت خوری کے متعلق آپ کی تین تین تقاریر ۱۹۰۴ء میں بمقام شملہ ہو ئیں.(۷ تا ۹) ضرورت نبی.انتخاب خلافت اور اصول قرآن فہمی ، آپ کی تصانیف ہیں.اور اسلام بذریعہ تبلیغ پھیلایا بزور شمشیر ایک تقریر جو بصورت کتاب شائع ہوئی.(۱۱،۱۰) اسلام اور سیاسی حکومت پر آپ نے ایک مضمون جلسه پیشوایان مذاہب میں پڑھا ( مندرجہ الفضل ۲۱ ،۲۳ نومبر ۱۹۴۳ء) ذکر حبیب پر آپ کی تقریر اس کتاب میں درج ہو چکی ہے.
۲۳۷ لیئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے علاوہ فلاں فلاں بائیس کتب ورسالہ جات کا ضرور مطالعہ کرے.اس فہرست میں خانصاحب کی اس تصنیف کا نام بھی شامل ہے.جس سے اس کا بلند پایہ علمی مرتبہ ظاہر ہے.آپ نے یہ کتاب حضرت خلیفہ اول کے نام سے معنون کی تھی ہیں.رسالہ ” گوشت خوری اکتوبر ۱۹۰۴ء کی آپ کی تین تقاریر کا مجموعہ ہے.ماہنامہ تفخیذ الاذھان میں جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی ادارت میں شائع ہوتا تھا.اور آپ ہی کا جاری کردہ تھا.ذیل کا تبصرہ شائع ہوا: یہ ایک مدتل رسالہ ہے جو منشی برکت علی صاحب شملوی نے چھپوایا ہے گوشت کھانے کو عقلی و نقلی طور پر آریوں کے مقابلہ میں جائز ثابت کیا گیا ہے.ہر ایک احمدی کے پاس یہ رسالہ ہونا چاہیئے.ہمارے پاس چند نسخے آگئے ہیں.۶۰ صفحے کا رسالہ نہایت عمدہ چھپا ہوا ہے اور ہم قریباً اصل لاگت پر ۰۲ کے حساب سے دے دیں گے.66 ریویو آپ ریجنز (اردو) میں یوں تبصرہ ہوا: اس نام کا رسالہ حال میں منشی برکت علی صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ شملہ نے شائع کیا ہے.اس رسالہ میں منشی صاحب نے اپنی ان تین تقریروں کو نقل کیا ہے جو انہوں نے اکتو بر ۱۹۰۴ء آریہ سماج کے ساتھ ایک مباحثہ کے موقعہ پر پڑھیں.تقریریں نہایت معقول اور مدلل ہیں.علاوہ ازیں آریوں کی کتابوں سے نہ صرف گوشت خوری کو جائز ثابت کیا ہے بلکہ یہ بھی دکھایا ہے کہ ویدوں کے زمانہ میں گائے کا گوشت بھی آریہ ورت میں عام طور پر استعمال کیا جاتا تھا.اور جا بجا ہندوؤں کی :۱۹۰۴ء میں آریہ سماج شملہ کی گھاس پارٹی کی دعوت پر کہ متنازعہ مسائل پر دوستانہ گفتگو کی جائے.اس موضوع پر خانصاحب کی یہ تین تقاریر ہوئیں.مطبوعہ ۱۹۱۱ء.صفحات ۸۱.اکتوبر ۱۹۱۱ء (ص ۴۰۰) فروری ۱۹۱۲ء ( ص ۸۹) اور اپریل ۱۹۱۲ء ( ص ۱۴) میں نہایت مختصر اعلان ہوا ہے.
۲۳۸ دوکانوں میں بکتا تھا لا ہے.اس بارہ میں اخبار الحق دہلی نے تبصرہ کے طور پر لکھا کہ : د و منشی صاحب موصوف نے تین زبر دست دلائل سے گوشت خوری کو ثابت کیا ہے.اور نیچر کے مطالعہ سے کام لے کر گوشت خوری کی تائید میں جو عنوان قائم کئے ہیں ان کو دیکھ کر کوئی آر یہ مہاشہ معقول اور اطمینان بخش جواب نہیں دے سکتا.منشی صاحب کا یہ دعوی کہ گوشت کھانا انسانی فطرت میں طبعی طور پر داخل ہے.بالکل ٹھیک ہے اور اس کو آپ نے نیچرل طریقہ سے انسانی بناوٹ سے اور حکم الہی سے ثابت کر دیا ہے.اہل ہنود گوشت خوری کی ممانعت میں جو امور پیش کیا کرتے ہیں ان کی خوب دھجیاں اڑائی ہیں.غرض یہ چھوٹی سی کتاب ہر مسلمان کے غور سے پڑھنے کے قابل ہے.“ جناب مولوی فقیر محمد صاحب بیجا پوری نے تحریر کیا: ایک رسالہ گوشت خوری مجھے کو ملا جس کو دیکھ کر مجھ کو از حد خوشی حاصل ہوئی.یہ رسالہ مدلل بدلائل قویہ عقلیہ و نقلیہ معقول ہے اور آپ نے امتِ مرحومہ پر بڑا احسان کیا ہے.“ جناب ابوالفاروق سید محمد عسکری صاحب نے تحریر فرمایا کہ: اس کو بالاستیعاب مطالعہ کر کے نہایت درجہ خوشی اور مسرت ہوئی کہ آپ نے نہایت قابلیت اور کامیابی کے ساتھ جو از گوشت خوری کو ثابت فرمایا ہے.اور نہایت وضاحت کے ساتھ ہر ایک پوائنٹ پر بحث فرمائی ہے.الحمد للہ کہ جیسے رسالہ کی اس مسئلہ پر میں عرصہ سے تلاش میں تھا وہ آپ کی مساعی جمیلہ کی بدولت نصیب ہو گیا.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور ہمیشہ تائید دین متین کی ( توفیق ) : بابت فروری ۱۹۱۱ء (ص۷۳ ۷۴ )
عطا فرمائے.۲۳۹ : رساله گوشت خوری کا کچھ اقتباس اس کے دلائل کی پختگی کے اظہار کے لئے پیش کیا جاتا ہے: معترض سوال کر سکتا ہے کہ اگر انسان کے لئے گوشت کھانا جائز ہے تو یہ تمیز کیوں رکھی ہے کہ فلاں حرام ہے اور فلاں حلال سو اس کا جواب یہ ہے.........حیوانات اپنے افعال............میں...حیوانی عقل کے ماتحت ہیں.اس کے باہر نہیں جاسکتے.(وہ) طبعاً اپنی خوراک کو جانتے ہیں.مگر انسان کا یہ حال نہیں.نیچر نے انسان کو عقل دیکر اس سے یہ توقع رکھی ہے کہ وہ اسی کے ذریعہ مفید اور مضر غذا کو جانچے (پھر) انسان ناقص ہستی ہے.اسکی عقل عقل کل نہیں.محتاج ہے...که (دوسرے) اس کو بھلے بُرے سے مطلع کریں.جسم پر غذا کا اثر ہوتا ہے..روح پر بھی.جس کے ساتھ ہی اخلاق بدل جاتے ہیں.پس اخلاق کا اصلاح کر نیوالے کا فرض ہے کہ اخلاقی تعلیم کے ساتھ ہی یہ بھی تعلیم دے کہ خوراک کس قسم کی کھانی چاہیئے.مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ جن لوگوں نے آسمانی تعلق پیدا کر کے..خلق اللہ کی اصلاح کا دعویٰ کیا انہوں نے گوشت کھانے سے منع نہیں کیا.“ (ص ۶ تا ۹).” جب سب حکیم ڈاکٹر اور بید متفق ہیں کہ گوشت مفید غذا ہے تو اس کو کوئی فلسفی دلیل رو نہیں کر سکتی..جو عقل تجربہ کے مخالف چلتی ہے وہ عقل نہیں بلکہ اس کی ضد ہے.ایک اعتراض یہ ہے کہ ذبح کرنے سے روح کو تکلیف پہنچتی مذبوح کو تکلیف نہیں ہوتی...(جواب) تیز ہتھیار سے..ہے.مثلاً ایک نہایت تیز.استرے سے اپنے جسم پر گہری کاٹ دے..دیں.آپ کو اس وقت ہرگز در دمحسوس نہ ہوگا.البتہ کچھ دیر بعد درد معلوم ہوگا.مگر.گردن پر اس طرح وار کرنے سے تو اتنی دیر میں روح خارج ہو جاتی ہے.کلور و فام سنگھا کر عضو کاٹ دیتے ہیں مگر وہ ہوش میں آکر عضو کاٹ دینے کی کوئی تکلیف بیان نہیں کرتے.یہی حال مذبوح کا
۲۴۰ ضرورت نبی اور اسلام ان کے متعلق ذیل کا تبصرہ شائع ہوا یہ مؤخر الذکر بقیہ حاشیہ: ہے.“ (ص۱۵،۱۴) وہ نہیں...ایک دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ انسان کا طبعی طور پر گوشت سے متنفر ہونا ایک بچہ سے ثابت ہو سکتا ہے.اگر ایک بچہ کے سامنے گوشت اور ایک..سیب رکھ دیں تو..( جواب ) بچہ تو عموماً مٹی کو زیادہ پسند کرتا سیب کو اٹھا لیگا (جواب) بچہ تو عموماً.تو کیا..یہ سمجھا جائے کہ مٹی کھانا انسان کی طبعی خوراک ہے.ہرگز..بعض اوقات.بچے ) پاخانہ ہ منہ میں ڈال لیتے ہیں.غرض بچہ کی مثالوں سے سبق سیکھنا غلطی ہے.“ ( ص ۲۶،۲۵) ایک دلیل یہ تھی کہ گوشت کھانے سے عمر کم ہو جاتی ہے.میں نے پنجاب کی مردم شماری ہے...کی رپورٹ دیکھی کیونکہ پنجاب میں اور صوبہ جات کی نسبت آریہ دھرم کا زیادہ چرچا ہے.اس میں تو لکھا ہوا ہے کہ مردوں میں ساٹھ برس سے اوپر کی عمر والے بہ نسبت ہندوؤں کے سکھ اور مسلمان زیادہ ہیں اور یہی امر واقع ۱۸۹۱ء کی مردم شماری سے ظاہر ہوتا ہے.رپورٹ مردم شماری ( میں ایک اور بات عجیب نظر آئی کہ حالانکہ پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے مگر مخبوط الحوس یعنی سودائی ہندوؤں میں زیادہ ہیں.“ ( ص ۳۱ ۳۳) ایک صاحب نے بیان کیا کہ اگر گئو کونہ مارا جائے تو گھی اور دودھ کی خوب بہتات ہو اور وہ سستے بھی ہوں.(جواب) جب آپ ایسے رحمدل ہیں.تو دودھ کیوں استعمال کرنے لگے.(جو) اس کے بچے کی خوراک ہے.اگر گٹو کے ذبح کا سلسلہ منقطع ہو جائے تو گنو کے پر وار سے جنگل اور گھر بھر جائیں اور زراعت اور کاشت کے واسط...زمین نہ رہے.“ ( ص ۳۵) " (اعداد و شمار ) اگر ہندوؤں اور مسلمانوں کے اعداد کا مساوی حالت کے اندر موازنہ کیا جائے تو ظاہر ہوگا.کہ مسلمانوں میں اموات کم ہوتی ہیں.ہندوؤں کی نسبت مسلمانوں میں اس بیماری (طاعون) سے مقابلہ کی طاقت زیادہ ہے مسلمانوں میں غالباً اموات کا نسبت کم ہونا زیادہ تر اس وجہ سے ہے کہ
۲۴۱ حضرت خلیفہ اول کے نام سے معنون کی گئی ہے.معزز ناظرین! یہ دور سالے جن کا حجم علی الترتیب ۴۲-۹۲ ہے.ضرورت نبی میں منشی برکت علی صاحب سیکرٹری انجمن احمد یہ شملہ نے بدلائل عقلیہ ونقلیہ ثابت کیا ہے کہ دنیا و آخرت میں کامیاب زندگی حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات پر اطلاع پانے کے لئے ایک رہبر.ایک نبی کی ضرورت ہے.اور پھر شناخت نبی کے کچھ طریق بتائے ہیں.یہ رسالہ غیر مذاہب میں اسلام کی تبلیغ کے لئے بہت مفید ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ.اسلام بذریعہ تبلیغ پھیلایا بزور شمشیر.اس سوال پر ایک زبردست تقریر ہے.جو منشی برکت علی صاحب نے انجمن اسلامیہ شملہ میں کی.آپ نے اس میں عقلی و نقلی دلائل سے روزِ روشن کی طرح ثابت کر دیا کہ دینِ اسلام کی ترقی محض قوت قدسیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ودلائل و براہین سے ہوئی نہ کہ شمشیر سے.یہ مضمون بھی بہت مفید ہے اور بہت خوشخط.عمدہ کاغذ پر چھاپا گیا ہے.“ انتخاب خلافت.“ اس بارہ میں ذیل کا تبصرہ قابل توجہ ہے: بقیہ حاشیہ: انکی خوراک اچھی اور مختلف قسم کی ہوتی ہے.(ص۵۰) مطبوعه ۱۹۱۰ء سائز ۲۲/۸ × ۱۸ قیمت تین آنے آپ کے قلم سے مرقوم ہے.الفضل ۸ جون ۱۹۱۵ء (ص ۵) ضرورت نبی کی قیمت بجائے اڑھائی آنے کے ایک آنہ کر دی گئی ہے.سائز ۱۸۷۲۲/۸ مطبوعہ ستمبر ۱۹۱۳ء یہ تقریر انجمن احمد یہ شملہ کی تقاریر کے ضمن میں ٹاؤن ہال میں ۲۲ اکتوبر ۱۹۱۰ء کو پڑھی گئی.اسلام بذریعہ تبلیغ پھیلایا یا بزور شمشیر.سائز ۲۲/۸× ۱۸ مطبوعہ مئی ۱۹۱۲ء انجمن شبان المسلمین وبعدۂ انجمن اسلامیہ شملہ میں عملی مذاق پیدا کرنے اور قوت بیانیہ بڑھانے کیلئے بحث کی جاتی تھی.اوائل ۱۹۰۸ء میں موضوع عنوان کتاب کے تعلق میں آپ کے سپرد یہ مضمون ہوا کہ عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کریں کہ دینِ اسلام کی ترقی تبلیغ سے ہوئی.یہ دو تقاریر کا مجموعہ ہے.
۲۴۲ یہ ۴۸ صفحہ کا مختصر سا رسالہ اخویم منشی برکت علی صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ کی تصنیف ہے.جس میں مسئلہ خلافت کے متعلق نہایت متانت اور عمدگی سے بحث کی گئی ہے.منشی صاحب موصوف اپنے اندر سلسلہ عالیہ کے متعلق خالص جوش اور دردمند دل رکھتے ہیں.اس لئے ان کی تحریر میں بھی یہی رنگ پایا جاتا ہے.اور یہی ایک ایسی چیز ہے جو اس رسالہ کے پڑھنے اور اس سے مستفیض ہونے کے متعلق کافی شہادت ہے تاہم میں وثوق سے کہتا ہوں کہ جس خوبی سے اس مختصر سے رسالہ میں ضروری مسائل کے متعلق روشنی ڈالی گئی ہے.وہ ہر ایک صاحب بصیرت کے لئے بہت مفید ہے.اور خاص کر ان لوگوں کے لئے جو غیر مبائع ہیں.منشی صاحب موصوف کی اس دینی حمیت اور دلی جوش نے جو انہیں اپنے غیر مبائع اصحاب سے ہے، اس بات کا تقاضا کیا ہے کہ وہ اس رسالہ کے تمام خرچ خود برداشت کر کے اُن تک مفت پہنچا ئیں.اس لئے تمام احباب کو ان کے اس ارادہ میں مدد کرنی چاہیئے.فی رسالہ دو پیسے کے ٹکٹ ڈاک کے لیے ارسال کرنے سے دفتر الفضل قادیان سے مل سکتا ہے ۱۸.“ اصول قرآن فہی.رسالہ مطبوعہ جنوری ۱۹۵۷ء سائز ۳۰/۱۶×۲۰ صفحات ۸۴ موقر الفضل میں ذیل کا تبصرہ اس کے بارے میں شائع ہوا: اس رسالہ میں مصنف نے قرآن کریم ہی کے بیان کردہ دس اصول قرآن فہمی پیش کئے ہیں.جن کی روشنی میں اسلام اور احمدیت کی صداقت واضح کی گئی ہے.اس موضوع پر اس سے قبل کوئی رسالہ ہماری نظر سے نہیں گذرا.حالانکہ یہ نہایت اہم ضروری اور وسیع موضوع ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے خلفاء کی کتب و تقاریر میں نہایت قیمتی مواد موجود ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تمام مواد کو مناسب صورت میں اکٹھا کر دیا جائے.بہر حال مصنف کی یہ کوشش قابل داد ہے کہ انہوں
۲۴۳ نے اس پیرانہ سالی میں یہ خدمت سرانجام دی.یہ رسالہ تبلیغی اغراض اور قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے یقیناً مفید اور کارآمد ہے 19.“ 66 ماہنامہ خالد میں اور الفضل مورخہ ۲۲ فروری میں بھی اس پر تبصرے شائع ہوئے ہیں.اسی تاریخ کے الفضل میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے ذیل کا تبصرہ شائع ہوا: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوُد میں نے خان صاحب منشی برکت علی صاحب شملوی حال ربوہ کا رسالہ اصول قرآن فہمی دیکھا ہے مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے منشی صاحب موصوف کو اس عمر میں جبکہ وہ چوراسی سال کی عمر کو پہنچے ہوئے ہیں.اس علمی خدمت کی توفیق دی ہے.فجزاه الله احسن الجزاء خان صاحب منشی برکت علی صاحب موصوف نے اس رسالہ میں بعض اُن قرآنی آیات پر بحث کی ہے.جن سے قرآن مجید کے معانی اور تفسیر پر اصولی روشنی پڑتی ہے.اور ان اصولی آیات کی روشنی میں قرآن کا سمجھنا اور صداقت کا شناخت کرنا آسان ہوجاتا ہے.رسالہ کے آخر میں احمدیت کی تبلیغ بھی عمدہ پیرایہ میں کی گئی ہے.کیونکہ دراصل احمدیت کے اصول ہی قرآن ہی کی عملی تفسیر ہیں.اس عمر میں محترمی منشی برکت علی صاحب کی ہمت قابل داد ہے.انہوں نے ایک اچھوتے مضمون پر قلم اٹھایا ہے.اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو.فقط خاکسار مرزا بشیر احمد.ربوہ ۵۷
۲۴۴ مالی خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کے زمانہ میں جو جو کا ایک دانہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے.بعد میں آنے والے اگر سونے کا پہاڑ بھی خرچ کریں گے.تو جو کا دانہ خرچ کرنے والے کے ثواب کو نہیں پاسکیں گے.اس کی تشریح ظاہر ہے.ایک شخص پیاس سے پڑا تڑپ رہا ہے.جو بھی ایسے وقت میں اسے چند گھونٹ پانی پلا کر اس کی جان بچائے گا.اس کے نزدیک عام حالات میں اسے پانی کے چشمہ یا دریا پر پہنچانے والے سے یہ چند گھونٹ دینے والے کی قدر ہزار ہا گنا ہوگی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام احیاء اسلام کیلئے مبعوث ہوئے اس وقت والیان ریاست اور امراء تک اسلام کی خاطر ایک جبہ بھی خرچ نہیں کرتے تھے.لیکن اپنے عیش و طرب اور لہو ولعب میں منہمک و مستغرق تھے اور اس پر اموال کو پانی کی طرح بہاتے تھے اور تو اور لغویات مثلاً بٹیر بازی.شادی بیاہ پر آتش بازی وغیرہ فضولیات پر تفاخر کا اظہار کیا جاتا.لیکن صرف اسلام ہی ایسا ٹیکس تھا.جس پر خرچ کرنا ان کو موت احمر نظر آتی تھی.چنانچہ حضور نے براہین احمدیہ جیسی عظیم الشان تالیف تائید اسلام میں طبع فرمائی لیکن دل کے اندھوں نے اپنے چند پیسوں کو انمول سمجھا اور اس کتاب کو جو خود مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو تیرہ سو سال میں بے نظیر نظر آئی حقیر سمجھا اور روی حالت میں کتب واپس کر کے اپنی رقوم واپس لیں اور ہمیشہ اعتراضات کرتے رہے.اس وقت حضور کی توجہات اور برکات سے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی جماعت کو قائم کیا جو اسلام کے لئے مال و منال بھی فدا کریں.چونکہ ہمیشہ ابتداء میں غرباء ہی انبیاء کو قبول کرتے ہیں.اس لئے ان کی قربانیاں گو دوسروں کی نظر میں جو ان مومنین کو اراذلنا قرار دیتے ہیں حقیر ہوں اور کہا جائے کہ ان کا رب فقیر ہے جو ان سے چندے طلب کرتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور بظاہر حقیر نظر آنے والی قربانیاں دین کے قیام کے لئے مضبوط اساس کا حکم رکھتی ہیں.اور عظیم الشان قرار پاتی ہیں.اسی لئے حضور نے ایک پیسہ دو پیسے چندہ دینے والوں کے اسماء بھی نہایت قدر و احترام کے ساتھ اپنی تحریرات میں درج فرمائے ہیں.بفضلہ تعالیٰ خان صاحب کو ذیل کی مالی خدمات کی بھی بہت توفیق ارزاں ہوئی:
۲۴۵ (1) آپ بیان کرتے ہیں کہ ۱۸۹۷ء سے ۱۸۹۹ء کے عرصہ کی بات ہے کہ دفتر پی.ڈبلیو.ڈی یعنی بارک ماسٹری شملہ میں بتیس ہزار روپیہ کی لاٹری آئی جسکا شملہ میں بہت چرچا ہوا.ہمیں بھی لالچ پیدا ہوا کہ ہم بھی لاٹری میں شرکت کریں میں نے اپنے چیف سپرنٹنڈنٹ کو جو انگریز تھا رقعہ لکھا کہ ہم اپنے دفتر میں FORTUNE فنڈ کھول دیں جس میں جو کلرک چاہے ماہوار آٹھ آنے دیگر شریک ہو جائے اور کچھ رقم جمع ہونے پر ہم لاٹری وغیرہ کے ٹکٹ خرید لیا کریں جہاں اس میں ہماری برانچ کے قریباً سارے کلرک جو ان دنوں چودہ پندرہ ہوں گے.شریک ہو گئے.پہلے تو چند سال کوئی قابل ذکر رقم نہ ملی.۱۹۰۳ ء یا ۱۹۰۴ء میں ہمارے نام لاٹری آئی.پہلے کلکتہ سے ہمیں ایک شخص نے تار دی کہ تمہارے نام فلاں گھوڑا ہے اور میں اسے خریدنا چاہتا ہوں.تم مجھے اسی ہزار روپیہ دے دو اور میں یہ رقم پیشگی بنک میں تمہارے نام جمع کرا دیتا ہوں.ہم نے مشورہ سے فیصلہ کیا کہ گھوڑا فروخت نہ کیا جائے بلکہ اسکی قیمت کا نصف دیا جائے اور اسے تار دیا کہ یہ منظور ہو تو چالیس ہزار روپیہ فوراً ہمارے نام پر جمع کرا دو.چنانچہ اس نے ایسا ہی کر دیا.جب لاٹری نکلی تو اس کا نصف حصہ جو قریباً سوا لاکھ روپیہ تھا ہمیں ملا.اور ہم میں سے ہر ایک کے حصہ میں قریباً ساڑھے سات ہزار روپیہ آیا.میں نے خیال کیا کہ روپیہ تو آگیا ہے لیکن پتہ نہیں کہ اس کا اپنے استعمال میں لانا جائز بھی ہے یا نہیں.سو میں قادیان آیا اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو جن کی عمر اس وقت تیرہ چودہ سال تھی.بلایا اور عرض کیا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پرائیویٹ طور پر دو تین باتیں کرنا چاہتا ہوں.میری علیحدہ ملاقات کرا دیں.چنانچہ آپ اندر گئے اور عرض کیا کہ فلاں شخص علیحدہ ملنا چاہتا ہے.چنانچہ حضور نے اپنے پاس اوپر کمرہ میں بلوالیا.میں نے تین باتیں دریافت کیں.جن میں سے ایک لاٹری کے متعلق تھی اور تفصیل بالا بیان کر کے عرض کیا کہ غیر احمدی ہونے کی صورت میں ہم چندہ کر کے روپیہ جمع کرتے رہے اور اس سے لاٹری کا ٹکٹ خریدتے رہے.اب لاٹری ہمارے نام آئی ہے.مگر مجھے شبہ پڑ گیا کہ واللہ اعلم یہ جائز بھی ہے یا نہیں.فرمایا.یہ روپیہ تمہارے لئے جائز نہیں.یہ تو جوا ہے.آپ اس میں سے اپنی ذات پر ایک پیسہ بھی
۲۴۶ خرچ نہیں کر سکتے.مگر اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی چیز حرام نہیں.اس لئے فی سبیل اللہ مساکین ویتامی میں تقسیم کر دیں.اپنے غریب رشتہ داروں میں دیدیں قادیان کے غرباء دیتا می کو دے دیں کسی قومی مدرسہ یا کالج میں بطور امداد دے دیں.اسلام اس وقت غربت کی حالت میں ہے اس لئے یہ روپیہ اشاعت اسلام پر بھی خرچ ہو سکتا ہے.میں نے پہلے ہی نیت کر لی تھی کہ حضور اجازت بخشیں گے.تو یہ روپیہ میں اپنے مصرف میں لاؤں گا.ورنہ نہیں.چنانچہ میں نے وہ سب روپیہ ایک ایک سو.دو دو سو کر کے غرباء میں تقسیم کر دیا.کچھ روپیہ اپنے غریب رشتہ داروں کو دے دیا.اور چار سو روپیہ حضرت خلیفہ اسیح اول اور تین سو روپیہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو غرباء میں تقسیم کے لئے بھیج دیا.اور اس طرح وہ تمام روپیہ حضور علیہ السلام کے فتویٰ کے مطابق تقسیم کر دیا ہے.از مؤلف ) مومن اور غیر مومن میں یہی فرق ہوتا ہے.مومن علم نہ ہونے کے با وجود ماحاک فی صدرک کو گناہ سمجھتا ہے.اور فتویٰ کا طالب ہوتا ہے.مبادا وہ لا علمی.سہو یا عدم احتیاط کے باعث اکل حرام کا مرتکب ہو جائے.لیکن آج کل کے ایمان کے مدعی اکل حرام کو شیر مادر کی طرح حلال اور جائز حق یقین کرتے ہیں.اور ایک ایک جبہ کے حصول کے لئے مکر و حیل سے کام لیتے ہیں.یہ بشاشت ایمان کی علامت ہے.اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عملی نمونہ ہے.آج سے چھیاسٹھ سال قبل (۱۹۰۳ء میں ) ساڑھے سات ہزار یقیناً آج کے قریباً پون لاکھ کے برابر قیمت رکھتا تھا.آپ نے بغیر فتویٰ لئے اپنے نفس پر خرچ نہ کرنا چاہا.اور حقیقت مسئلہ معلوم ہونے پر خاں صاحب کے قلب صافی نے جو لازماً صبر و استقامت اور انقیاد و اطاعت سے بھر پور تھا.حضور کے ارشاد پر فوراً لبیک کہا اور ارشاد کی روشنی میں بلا تذبذب چند ہی دن میں فی سبیل اللہ خرچ کر دیا.(۲) مدرسہ تعلیم الاسلام اور کالج کے لئے آپنے چندہ دیا ہی ہو.کتاب طبع اول میں آپ کا بیان (ص۳۳) اور بیان مندرجہ الفضل ۱۶ جون ۱۹۵۱ء ( صفحه ۵) (ملخص) ہ ہے: یوں اندراجات ہیں: از بابت فروری با بو برکت علی صاحب ( یعنی شملہ پرنٹنگ پریس ) ایک روپیہ (احکم ۳ مارچ ۱۹۰۱ء ص ۱۶
۲۴۷ (۳) تعمیر منارۃ المسیح کی تحریک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی.اس تحریک میں ایک سو روپیہ دینے والوں کے نام منارہ مبارکہ پر کندہ کئے جانے تھے.دونوں میاں بیوی بھی ان خوش قسمت نفوس میں سے ہیں کہ جنہیں اس پیشگوئی کے پورا کرنے میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ہے.(۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شدید خواہش کا اظہار کیا تھا کہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز (اردو اور انگریزی) کی خریداری بڑھائی جائے.چنانچہ خانصاحب نے بھی اس کی تعمیل کر کے ثواب حاصل کیا.اور خود بھی اس کی مالی اعانت کرتے رہے.بقیہ حاشیہ: کالم ۱) یہ چندہ قبول احمدیت سے قبل آپ کے بیان کے مطابق معلوم ہوتا ہے.۲.بابت اپریل معرفت نبی بخش صاحب بابو برکت علی صاحب شملہ گورنمنٹ پریس بارہ آنے (الحکم ۱۷ جون ۱۹۰۱ء ص ۱۶ کالم ۲)..بابت مئی جون "بابو برکت علی صاحب ایک روپیہ (الحکم ۲۴ جولائی ۱۹۰۱ء ص ۱۶ کالم ۲) ۴.۱۹۰۵ء اور ۱۹۰۶ء میں آپ نے مدرسہ اور کالج کی بارہ روپے ایک آنہ کی اعداد مجموعہ کی (الحکم ۳۱ اگست ۱۹۰۵ء ص ۱۲ کالم ۳، رسالہ تعلیم الاسلام) جولائی واگست ۱۹۰۶ء سرورق صفحه آخری) : وہاں اسماء یوں کندہ ہیں :- ۱۳۱ خانصاحب منشی برکت علی شملہ.۲۶۸.عزیز بیگم اہلیہ خان صاحب منشی برکت علی بستی شیخ جالندھر ناظر صدر انجمن احمد یہ قادیان.: آپ خود خریدار تھے.( نیز اس کا چندہ جماعت ادا کیا.ریویو آف ریلیجنز اردو نومبر ۱۹۰۶ ء سرورق ماقبل آخر ) چار بار میں مجموعہ قریباً بارہ روپے اعانت کی "جون و اکتوبر ۱۹۰۵ء.اپریل ۱۹۰۶ء.ہرسہ سرورق آخری صفحہ اور جنوری ۱۹۰۷ء سرورق ماقبل آخر ) چھ چھ خریدار بنائے ( جولائی ۱۹۰۵ء زیر " معاونین میگزین دسمبر.زیرہ شکریہ معاونین) اس کی خریداری بڑھانے کی تحریک کے نتیجہ میں ایام جلسہ سالانہ سے ۲۱ فروری ۱۹۱۸ء تک اٹھائیں افراد نے انچاس اور دو اور تین انگریزی کے خریدار مہیا کئے.انگریزی والے خانصاحب کے مہیا کردہ تھے.( ریویوار دو.فروری ۱۹۱۸ء ص ۸۳ ) پھر انگریزی ریویو کا ایک مزید خریدار دیا ( مئی ۱۹۱۸ء ص ۲۰۰)
۲۴۸ (۵): آج سے ساٹھ باسٹھ سال قبل آپ نے چار سال میں قریباً سترہ صد روپیہ چندہ دیا.جو جماعت شملہ کے اس عرصہ کے مجموعی چندہ کا قریباً ایک تہائی تھا.جماعت کا چندہ مبلغ پانچ ہزار پچاسی روپیہ تھا.جید ۱۹۰۸-۰۹ء میں آپ نے اور ایسے دیگر افراد نے جو خاص مالی خدمت کی رپورٹ میں اس کی تعریف کی گئی ہے.اس رپورٹ کے مطالعہ کے بعد مؤقر الحکم نے تحریر کیا : دد بعض اوقات چندوں کے دینے میں تو ایک فرد بھی بے نظیر کام کر جاتا ہے.جیسا کہ شملہ کی انجمن کی رپورٹ میں وہاں کے درخشندہ گوہر بابو برکت علی کا نام ہے ۲.“ (۲): آپ بھی موصی تھے.نیز اہلیہ صاحبہ سمیت تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے.احرار کی یورش اور شورش کو زائل کرنے میں مقامی تبلیغ نے کار نمایاں سرانجام دیا اور ماحول قادیان کی فضاء میں احرار کے مخالفانہ اثر و نفوذ میں بہت بڑی کمی پیدا کر دی تھی.صدر انجمن احمدیہ کی مالی امداد قلیل تھی.اور اس کمی کو احباب کی مالی اعانت پورا کرتی تفصیل یہ ہے: ۰۸-۱۹۰۷ء چندہ جماعت شمله جماعتی چندہ میں شامل خانصاحب کا چندہ رپورٹ جلسہ سالانه ۱۹۰۸ء) قریباً تیره صد روپیه چار صد سے زائد 81901-09 سترہ صد تریسٹھ روپے قریباً آٹھ صد روپیہ رپورٹ جلسہ سالانہ ص۲۲) پونے نو روپے 81910-11 رپورٹ سالانہ ص ۷۱ ۳۰) آٹھ صد تمیں روپے د وصد گیارہ روپے + چوبیس روپے ۱۲-۱۹۱۱ء ( رپورٹ سالانہ ص ۸۹) گیارہ صد بانوے روپے دوصد چھپن روپے ۱۹۱۰-۱۱ ء میں مرکز کی طرف سے اکتیں طلباء کو سات صد اٹھاسی روپے دئے جاتے تھے.ایک کو وظیفہ دو روپے ماہوار ملتا تھا جو منشی برکت علی صاحب سیکرٹری انجمن احمد یہ شملہ نے مقرر فرمایا ہوا ہے.کیا بہتر ہو کہ دیگر احباب بھی آپ کی طرح اس قسم کے وظائف کی طرف متوجہ ہوں تو خرچ میں بہت کمی ہوسکتی ہے اس.
۲۴۹ تھی.محترم خاں صاحب بھی اس کارخیر میں شامل تھے ہیں.(۷): حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے بعض ایسی تحریکات کی تھیں جن کے نتیجہ میں قلبی اور ذہنی طور پر جماعت کو خدمت اسلام کے لئے تیار کرنا مقصود تھا.تا موقعہ آنے پر امام جماعت کی ایک ہی صدا پر صد ہزار احباب اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اپنا مال نچھاور کر دیں.اور ہر چہار جوانب سے لبیک لبیک کی والہانہ آوازیں بلند ہوں.اس تربیت و تلقین کے نتیجہ میں عدیم المثال مالی قربانی کے نظارے دیکھ کر اعداء سلسلہ انگشت بدنداں ہیں.آپ کی ایک تحریک آمد اور جائیدادیں وقف کرنے کی بھی تھی.چنانچہ منشی برکت علی صاحب نے ایک ماہ کی پنشن وقف کی تھی ۲۲.آپ کی یہ پیشکش صدق دلی سے تھی.جو اس لہر سے ثابت ہے کہ آپ نے دس گیارہ سال بعد سلسلہ کی طرف سے مطالبہ کے بغیر رضا کارانہ طور پر پانچ ہر روپیہ کا مکان سلسہ کو دے دیا.اس سے قبل آپ چھ ہزار روپیہ کا ایک ٹرسٹ قائم کر چکے تھے جو ہے.(۱) آپ کا وصیت نمبر ۲۹۱۹ تاریخ ۹ استمبر ۱۹۲۸ء ماہوار آمد کے ۱/۱۰ اور جائداد کے ۱/۸ کی وصیت تھی.(۲) پنج ہزاری مجاہدین (ص۲۷۲) (۳) بابت امداد مقامی تبلیغ (رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ ۴۳-۱۹۴۲ء ص ۷ ) الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۵۵ء میں ناظم جائیداد صدر انجمن احمد یہ ربوہ کی طرف سے مکرم خانصاحب منشی برکت علی صاحب شملوی کا عطیہ.احباب کی خدمت میں درخواست دعا “ کے عنوان کے تحت اعلان ہوا: یہ امر نہایت خوشی کا موجب ہے کہ مکرم خاں صاحب منشی برکت علی صاحب شملوی نے اپنا مکان واقعہ محلہ دار الرحمت ربوہ قیمتی ۵ ہزا رو پید اغراض سلسلہ کے لئے صدر انجمن احمدیہ کے پاس ہبہ کر دیا ہے.اس سے پیشتر وہ ایک ٹرسٹ چھ ہزار روپیہ کا اپنی اہلیہ صاحبہ مرحومہ کی طرف سے صدر انجمن احمد یہ میں قائم کر چکے ہیں.چنانچہ آج کل اس کا نفع تین سو روپیہ سالانہ مل رہا ہے.جو اُن کی خواہش کے مطابق صدقہ جاریہ کے طور پر صیغہ نشر و اشاعت میں دین کے کاموں میں خرچ ہورہا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کو منظور فرمائے اور انہیں بہت بہت نیک اجر دے.آمین
۲۵۰ شملہ میں خدمات شملہ میں آپ ابتدائی احمد یوں میں سے تھے.اور معلوم ہوتا ہے کہ قبول احمد بیت کے جلد بعد آپ نے اپنی سرگرمی کی وجہ سے ایک ممتاز درجہ حاصل کر لیا تھا.سلسلہ کے اور اخبارات کے چندے آپ کے ذریعہ مرکز میں بھجوائے جاتے تھے ہیں.سلسلہ احمدیہ کے ابتداء میں صدر اور امیر کے عہدے نہیں تھے.بلکہ سیکرٹری جماعت کا سربراہ ہوتا تھا.اور صدر اور امیر والے فرائض سرانجام دیتا تھا.چنانچہ خاں صاحب اس جماعت کے سیکرٹری اور پھر جنرل سیکرٹری تھے.پھر ۱۹۱۲ء میں اُمراء کے تقرر کا طریق جاری ہونے پر آپ امیر مقرر ہوئے.اور ۱۹۳۲ء میں پنشن پانے تک اس ذمہ داری کو نہایت کامیابی سے ادا کر کے سُرخرو ہوئے.آپ نے جماعت کی تنظیم و تربیت بہترین رنگ میں کی.آپ کی لائق تحسین ہمت و مساعی اور قابل رشک اسوہ اور روح مسابقت کی وجہ سے یہ جماعت قابل قدر مالی و تبلیغی وغیرہ خدمات کی توفیق پاتی رہی.آپ کی قلمی و لسانی خدمات کا بیشتر حصہ قیام شملہ کے زمانہ سے متعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ معروف تھے اور مخلص بھی ہیں ہیں.بقیہ حاشیہ صفحہ ۲۴۲." مکرم خان صاحب کی عمر اس وقت ۸۲ سال سے تجاوز کر چکی ہے.جس کی وجہ سے وہ کمزور ہو گئے ہیں اور اچھی طرح چل پھر نہیں سکتے.اس کے علاوہ انہیں بعض عوارض مثلاً فتق موتیا وغیرہ بھی ہیں.جن کے باعث انہیں کچھ تکلیف رہتی ہے.اس لئے احباب مکرم خاں صاحب کو اپنی دعاؤں میں خاص طور پر یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت دے.ان پر رحم کرے اور ان کی باقی زندگی کے دن خیریت سے گزار دے اور ان کا انجام بخیر کرے.آمین.“ مثلاً (۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے مرکز کے ایک اخبار کے لئے جماعت شملہ نے چار روپے خاں صاحب کی معرفت بھجوائے.(البدر ۱۸ ستمبر ۱۹۰۳ء ص ۳۴) آپ کی معرفت کسی کا چندہ بدر اور چندہ ریویو آف ریلیجنز ادا ہونا ( بدر ۱۰ جون ۱۹۰۵ء ) ( ص ۸ کالم ۲) ریویونومبر ۱۹۰۲ء سرورق صفحه ماقبل آخر : شوری ۱۹۲۶ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امراء جماعت کا تقرر میعادی
۲۵۱ جماعت شملہ میں آپ نے جو خدمات انجام دیں ان کا ایک حصہ بیان کیا جاتا ہے: (۱) آپ بیان کرتے ہیں کہ میری نظر سے گذرا که مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یا کسی اور نے قادیان کوق سے لکھنے کی بجائے ک سے لکھا اور اس کے ثبوت میں ڈاکخانہ کی گائیڈ کا حوالہ دیا کہ اس میں بھی Q کی بجائے K استعمال کیا گیا تھا.میں نے اس محکمہ کے ذمہ دار افسران کی توجہ دلائی تو بعد کی طباعت میں اس میں تصحیح کر دی گئی اور قادیان بجائے کے Q سے تحریر کیا گیا.اس سال جب کہ میں دارالامان سے ٹانگہ پر واپس جارہا تھا تو ساتھ والے ٹانگہ میں دو چار دوست گفتگو کر رہے تھے.ان میں سے ایک نے کہا کہ شملہ سے بابو برکت علی صاحب نے بہت اچھا کیا قادیان کے انگریزی ہجے درست کروائے.وہ ڈاکخانہ کے ملازم معلوم دیتے تھے.اُن کی گفتگو سُن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ مجھ جیسے بیچ مدان سے بھی اس نے دینی خدمت کی ہیں.(۲): ۱۹۰۷-۰۸ء کے اواخر میں بشمول شملہ اڑتیں جماعتوں کو انجمن ضلع قرار دیا گیا.بقیہ حاشیہ: شملہ میں صرف گنتی کے چند دوست ہیں اور ضلع میں غالباً کوئی احمدی نہیں.مگر سال گذشتہ میں قریب تیرہ سو روپے کے چندہ جمع کر کے انہوں ہونا چاہیئے.اور مدت معیاد تین سال مقرر فرمائی.چنانچہ مرکز سے اعلان ہوا کہ جن جماعتوں میں پہلے امراء مقرر ہوئے تھے وہ بھی پھر اپنے امراء تجویز کر کے منظوری حاصل کریں اور جن امراء کے تقرر کا اعلان شوری میں کیا گیا ان میں آپ کا نام بطور امیر جماعت شملہ کے شامل تھا ۲۲.خلافت ثانیہ میں تا تقسیم ملک دلی اور نئی دلی کی جماعتیں اور ان کے امراء الگ الگ مقرر ہونے لگے تھے.کیونکہ نئی دتی کی جماعت سرکاری ملازموں پر مشتمل تھی جن کا ایک حصہ موسم گرما میں شملہ میں منتقل ہو رہتا تھا.سو شملہ اور نئی دتی کی ایک جماعت تھی.: "آئینہ حق نما جواب الہامات مرزا تصنیف مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں کہ مولوی صاحب نے یہ جھوٹ بولا کہ محکمہ ڈاک میں قادیان کی مُہر تبدیل کرانے کی کوشش کی گئی مگر درخواست نا منظور ہوئی.“ (ص۳)
۲۵۲ نے بھیجا ہے جس میں سے چار سو سے زائد کی رقم خود اس انجمن کے سیکرٹری با بو برکت علی صاحب نے ادا کی ہے.جزاہ اللہ خیرا لجزاء (۳): ۱۹۰۸-۰۹ء سالانہ رپورٹ میں مرقوم ہے: انجمن احمد یہ شملہ.سیکرٹری با بو برکت علی صاحب کلرک دفتر سینیٹری کمشنر بہادر رقم مدخله خزانہ ۱۷۳۳ روپے پونے ۹ آنے ، بیشی سال گذشتہ سے ۶۱۲ روپے ۱۲ آنے سے بقائے کوئی نہیں.لائبریری ہے.سال زیر رپورٹ میں چندہ دہندگان کی تعداد ۵۱ ہے.جن میں سے سات غیر احمدی اور پانچ باشندگانِ جالند ہر ہیں جن سے سیکرٹری صاحب چندہ وصول کر کے لائے.پانچ نئے اشخاص سلسلہ میں داخل ہوئے.سال رواں کے چندہ میں سے ۱۱۱۰ روپے ا آنے صرف تین ممبروں کا ہے.یعنی بابو برکت علی صاحب سیکرٹری ۷۹۲ روپے ۱۵ آنے بابو عبدالرحمن صاحب ۲۰۵ رپے صوفی کرم الہی صاحب ۱۶ اروپے باقی ۶۴۲ روپے پونے ۹ آنے باقی احباب کی طرف سے ہے.جزا ہم اللہ خیرا.با بو برکت علی صاحب نے اس سال پانچ سو روپیہ مڈٹریکٹ سیریز میں سورو اور ایک سو روپیہ مد یادگار مسیح میں یکمشت خاص طور پر چندہ عطا فرمایا.خداوند کریم ان تمام بزرگوں کو جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائم کردہ سلسلے کی کسی رنگ میں تائید کی اور امداد دے کر آپ کی روح کو خوش کیا ہے.جزائے خیر دے.اور ان کے مالوں میں برکات عطا فرمائے.اور ان کے ہر کام میں وہ سچا جوش اور اخلاص پیدا کرے اور تمام کاروبار اس کی رضا کے لئے ہو.اور پھر وہ مولیٰ کریم اپنے فضل سے سب کو دنیا اور آخرت میں اپنی رضاء کے اعلیٰ مقام پر پہنچائے یہاں تک کہ حصول رضائے الہی سے دنیا اور آخرت جنت رپورٹ جلسہ سالانہ صدر انجمن احمد یہ منعقدہ دسمبر ۱۹۰۸ء جس میں رپورٹ سالانہ ۰۸-۱۹۰۷ ء بھی درج ہے (ص۵،۳)
۲۵۳ ہو جائے.آمین.اس انجمن کے دوست یہی نہیں کہ مالی امداد میں ہی بڑھ بڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.بلکہ بڑے جوش سے تبلیغ میں بھی مصروف رہتے ہیں.اس انجمن کا حساب و کتاب بڑا با قاعدہ ہے.حساب کتاب کے نقشوں میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس احمدی نے ہر ماہ مدوار کیا چندہ دیا.اور سال بھر میں اس کا کس قدر مدوار چندہ وصول ہوا.“ (ص۲۲ ،۲۳) (۴): ۱۹۰۹-۱۰ء سالانہ رپورٹ میں یوں مذکور ہے: انجمن احمد یہ شملہ سیکرٹری بابو برکت علی صاحب.رقم مدخله خزانہ صدر انجمن ۸۶۰ روپے ۱/۲ ۸ آنے مقامی چندہ ۱۱۵ روپے ۱۴ آنے ۹ پائی یہ انجمن انجمن ضلع ہے.مگر شاخ کوئی نہیں.کیونکہ آبادی زیادہ تر اہل ہنود کی ہے.اور سوائے خاص شملہ کے علاقہ میں کہیں احمدی نہیں ہیں.لائبریری ہے جس میں حدیث اور تفسیر کی کتب مہیا کی گئی ہیں اس جماعت نے ۱۰۹ روپے کی رقم میر صاحب (حضرت میر ناصر نواب صاحب ناقل) کو تعمیر ہسپتال ودور الضعفاء کے لئے دی.اس میں سے پچاس کی رقم سیکرٹری صاحب کی والدہ صاحبہ نے عطا فرمائی.جزاھم الله خيرا اس انجمن کے ہفتہ وار اجلاس ہوتے ہیں.اور احباب کے لیکچر بھی ہوتے ہیں.یہ انجمن گورنمنٹ کی بڑی شکر گزار ہے کہ بوقت ضرورت ان کو ٹاؤن ہال میں لیکچر دینے کی اجازت ملتی ہے جس حال میں کہ جاہل مسلمان مساجد میں وعظ کرنے سے روکتے ہیں.اس انجمن کا حساب با قاعدہ رکھا جاتا ہے.“ *****.......آپ کی شائع کردہ روئیداد میں مرقوم ہے کہ گذشتہ سال ایک احمدی مقرر کی تقاریر کے اثر مٹانے کے لئے غیر احمدیوں نے ایک مولوی کو بلا یا تھا.لیکن نیچے چار افراد نے احمدیت قبول کر لی تھی.اس دفعہ بھی اس مولوی کو بلایا گیا.لیکن اس نے نہ تو تقریر ص ۶.نیز مختصر چندہ کی رقم ص ۳۸ پر بھی درج ہے.
۲۵۴ کی اور نہ بزدلی کی وجہ سے عام اعلان کیا.ہم نے اعلان کر دیا کہ حضرت مرزا صاحب کے خلاف کچھ کہا گیا تو جواب دینا ہمارا فرض ہوگا.اور مباحثہ تحریری کیا جا سکتا ہے تا بعد میں شائع کیا جا سکے.احمدی مقرر کی تقریر ہوئی.رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی.مسجد کے متولی نے تو وہاں تقریر کرنے کی اجازت دے دی تھی لیکن متوتی کے شملہ سے باہر جانے پر دوسروں نے اجازت منسوخ کر دی.اللہ تعالیٰ نے یہ سامان کر دیا کہ ٹاؤن ہال ایک انگریز نے کرایہ پر لیا ہوا تھا اور فارغ نہ تھا.اس انگریز نے بغیر کرایہ کے جلسہ کر لینے کی اجازت دے دی.باوجو د سخت مخالفت کے حاضرین کثیر تعداد میں شامل ہوئے ۲۴.(۵):۱۹۱۰-۱۱ء سالانہ رپورٹ میں یوں ذکر آتا ہے: شملہ سیکرٹری بابو برکت علی صاحب.رقم مدخله خزانہ بابت ۱۰-۱۹۰۹ء ۸۶۰ روپے ۱۲ ۸ آنے بابت ۱۱-۱۹۱۰ء۸۳۰ روپے ۳ آنے....بابو برکت علی صاحب نے سال بھر میں ۲۱۰ روپے ۲ آنے چندہ دیا.مقامی چندہ ۲۱۰ روپے آنے ۲۶۵ روپے کرایہ مکان پر خرچ ہوئے.قریباً ۱۲۵ روپے اس خرچ کو پورا کرنے کے لئے خاص چندہ کیا گیا.تعداد مبایعین ۳۹ ہے.پانچ غیر احمدی احباب چندہ میں شامل ہیں.ہفتہ وار عام جلسے ہوئے ہیں.سال حال میں اہم جلسے ہوئے سالانہ جلسہ کے علاوہ اور بھی جلسے ہوتے رہے.“ (صا۷) (۶):۱۹۱۱-۱۲ء سالانہ رپورٹ میں یوں تحریر ہوا ہے: " دو شملہ میں رقم مدخلہ خزانہ بابت ۱۱-۱۹۱۰ء۸۳۰ روپے وبابت ۱۹۱۱-۱۲ء۱۱۹۱ روپے سیکرٹری با بو برکت علی صاحب ہیڈ کلرک.رقم مدخلہ خزانہ گذشتہ سال سے ۲۹۴ روپے ۵۱۲ زیادہ ہے جس کی وجہ یہ کہ ۱۸۱ روپے کی رقم سیکرٹری صاحب کی ساس نے جو جولائی 1911ء میں فوت ہو گئی تھیں مسجد کے مصرف کے لئے دی...بابو برکت علی صاحب نے سال بھر میں ۲۵۶ روپے ۸ آنے یعنی پچھلے سال سے ۳۵ روپے ۶ آنے
۲۵۵ زیاده...چندہ دیا تعداد ممبران کے لحاظ سے یہ چندہ بہ نسبت دیگر جگہ کی انجمنوں کے زیادہ ہے.مفتی محمد صادق صاحب ناظر صدر انجمن احمدیہ نے اس سال حساب کی کتاب کو چیک کیا اور قابل اطمینان پایا.چندہ مقامی ضروریات ۲۳۲ روپے ۱ آنه ۹ پائی خرچ ہوا.تعداد ممبران جس سے چندہ وصول ہوا ۵۸ ہے.جن میں سے ۴۵ احمدی اور ۱۳ غیر احمدی ہیں.ہر اتوار کو جلسہ ہوتا ہے.یعنی سال زیر رپورٹ میں ۳۸ جلسے اور ۲۳ تقریریں ہوئیں.“ (ص۹۹) شمله دو تین انجمنیں ایسی ہیں جن کا چندہ سال گذشتہ میں ایک ہزار سے کم تھا.مگر اس سال ایک ہزار سے زیادہ ہوا.یعنی مردان.لائکپور.شملہ کا چندہ / ۱۱۹۱ روپے ہے جو سال گذشتہ سے -/ ۳۶۱ روپے بڑھ کر ہے.ایک ہزار سے زیادہ چندہ دینے والی انجمنوں کی فہرست میں گوشملہ کا نام سب سے آخر ہے.مگر شملہ کے احمدی احباب کی تعداد کے لحاظ سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو نسبت احباب شملہ کے چندے کو اُن کی آمدنیوں سے ہے وہ دوسری سب جماعتوں سے بڑھ کر ہے.خود اس جماعت کے سیکرٹری منشی برکت علی صاحب اس کام میں ایک قابل رشک نمونہ ہیں جو ہمیشہ چندہ دینے کے لئے کسی نہ کسی موقعہ کی تلاش میں لگے رہتے ہیں.“ (ص۸۶) (۷): خاں صاحب کی طرف سے شائع شدہ روئیدادوں میں بیان ہوا ہے کہ مکرم میاں محمد سعید صاحب سعدی لاہور کا اپنے غیر مبائع بھائی سے بمقام شملہ مباحثہ ہوا.سعدی صاحب کو جماعت کی امداد کے لئے حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے بھجوایا تھا.شیخ محمد عمر صاحب وکیل اس مباحثہ میں ثالث تھے.ان کے فیصلہ دینے سے قبل مکرم با بو فضل محمد خاں صاحب ملازم دفتر ڈائرکٹر میڈیکل سروسز نے خلافت ثانیہ کی بیعت کر لی.بعدہ مکرم با بو عبد الواحد صاحب نے بھی بیعت کی.اور ایک اور صاحب بھی متاثر ہوئے ہیں.غیر مبائع حلقہ میں اس سے فکر پیدا ہوا.ایک ہفتہ
۲۵۶ سے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب آئے ہوئے ہیں.دال نہ گلتی دیکھ کر انہوں نے اپنے ایک خاص مدد گار کو بذریعہ تار بلوایا.نیز ثالث موصوف پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے.- سو (۸): ۱۹۱۸-۱۹ ء اس وقت شاخہائے صدرانجمن احمدیہ کی تعداد ایک اٹھانوے تھی.جماعت شملہ کے سیکرٹری ''بابو برکت علی صاحب ہی تھے.اور اس سال ایک ہزار تریسٹھ روپے سوا چھ آنے وہاں کا چندہ مرکز میں موصول ہوا تھا.( رپورٹ ص ۵۹،۵۷) ( ۹ ) : جماعتِ شملہ ان جماعتوں میں سے تھی جو ادائے چندہ کے لحاظ سے اول درجہ کی تھیں.یعنی ان کا چندہ میزانیہ کے برابر یا اس سے بڑھ کر وصول ہوا تھا.۲۵ (۱۰) مارچ ۱۹۲۹ء میں جماعت احمد یہ دہلی کا آٹھواں سالانہ جلسہ منعقد ہوا.غیر احمدی حکیم امجد علی صاحب آنریری مجسٹریٹ ورئیس دہلی.اور مولوی محمد شفیع صاحب داؤدی رکن لیجسلیٹو اسمبلی دہلی.اور احمدی بزرگان بابو اعجاز حسین صاحب امیر جماعت دہلی.چوہدری نعمت خاں صاحب سینئر سب بیج دہلی.بابوا کبر علی صاحب انسپکٹر آف ورکس دہلی ( بعدۂ مہاجر قادیان) اور خان صاحب منشی برکت علی صاحب امیر جماعت شملہ اور کرنل اوصاف علی خاں صاحب سی، آئی ، ای سابق کمانڈر انچیف نابھہ سٹیٹ ( برادر نسبتی حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے مختلف اجلاسوں کی صدارت کی.علمائے سلسلہ حضرت صوفی غلام محمد صاحب (سابق مجاہد ماریشس ) حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اور حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیز (سابق مجاہد برطانیہ عظمی الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۱۵ء (ص۴) ۲۰ جولائی (ص ۵،۴) ۲۹ جولائی (ص ۵) ۱۷ اگست (ص ۶) بحمد للہ ثالث نے فیصلہ کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صریح طور پر نبی ہونے کا اقرار کیا ہے.(الفضل ۱۹ دسمبر ص ۲) یہ مباحثہ شملہ کتابی صورت میں شائع ہوا.اور بحمد للہ مکرم سعدی صاحب کے برادر کو اللہ تعالیٰ نے بیعت خلافت کی توفیق دی.اور اب وہ بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں یعنی محترم حکیم محمد حسین صاحب المعروف بہ مرہم عیسی علیہ السلام.
۲۵۷ و مغربی افریقہ ) وغیرھم کی تقریریں ہوئیں.اسی جلسہ سالانہ میں سیرۃ النبی کے مضمون پر بطور انعام ایک طلائی تمغہ اور گھڑی خواجہ حسن نظامی صاحب نے حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے رائے بہادر لالہ پارس داس صاحب رئیس دہلی کو پیش کی.۳۶ے (۱۱) جماعت شملہ کی نمائندگی میں آپ نے شوری میں ۱۹۲۸ء، ۱۹۳۰ء اور ۱۹۳۲ء میں شرکت کی.۱۹۳۰ ء کی مشاورت میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آپ کو کمیٹی کا رکن مقرر فرمایا.تا مختلف سرکاری دفاتر کے طریق کو دیکھ کر مشورہ دیں کہ محاسب اور آڈیٹر کا طریق کار کیا ہونا چاہیئے اور ناظر بیت المال کے ساتھ ان کا تعلق کہاں تک اور کس رنگ میں ہونا چاہیئے.دیگر ارکان کمیشن بابو محمد امیر صاحب مرحوم را ولپنڈی اور مرزا محمد صادق صاحب اکاوٹنٹ سیالکوٹ تھے ہیں.جماعت احمدیہ شملہ کا ایڈریس خانصاحب منشی برکت علی صاحب کی خدمت میں اس عنوان کے تحت مرقوم ہے: چونکہ جناب خانصاحب منشی برکت علی صاحب امیر جماعت احمدیہ شملہ گورنمنٹ کی طویل اور قابلِ تعریف ملازمت کے بعد ریٹائر ہوکر شملہ چھوڑنے والے تھے.اس لئے جماعت احمد یہ شملہ نے جس کی بنیا د خاں صاحب ہی کے ہاتھوں پڑی اور جس نے ان کی رہنمائی اور سر پرستی میں قابل ذکر ترقی کی.ان کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا.اور نقرئی گھڑی بطور تحفہ دی.خاں صاحب نے ایڈریس کا بہت موزوں جواب دیا.ذیل : رپورٹ مشاورت ۱۹۲۸ء (صفحہ ۴۱ وصفحہ ۵) رپورٹ مشاورت ۱۹۳۰ء (ص۳۰) رپورٹ سالانہ ۳۱ - ۱۹۳۰ء (ص ۲۱۳) ور پورٹ ۱۹۳۲ء (ص ۱۱۱) اسمیں آپ رکن کمیٹی بیت المال تھے ( ص ۵۵) نیز الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۳۲ء میں مرقوم ہے.” خانصاحب بابو برکت علی صاحب آف شملہ اور بابو محمد امیر صاحب نے دفتر آڈیٹر اور محاسب کا معائنہ شروع کیا.(زیر مدینہ اسیح)
۲۵۸ میں ہم ایڈریس اور اس کا جواب درج کرتے ہوئے جماعت احمد یہ شملہ کی تعریف کرتے ہیں جس نے اپنی جماعت کے ایک دیرینہ اور نہایت مخلص کارکن کی خدمات کا کھلے طور پر اعتراف کیا.اور دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ خاں صاحب موصوف کو بیش از پیش خدمات دین سرانجام دینے کی توفیق بخشے.“ (ایڈیٹر ) مخدوم مكرم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته " آج ہم ایک ایسی تقریب کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں.جو کہ جماعت احمد یہ شملہ کے لئے ایک تاریخی اہمیت رکھتی ہے.یعنی ہم ممبرانِ جماعت احمد یہ شملہ اپنے اس دلی خلوص کے اظہار کے لئے جو کہ آپ کی ذات ستودہ صفات سے ہم لوگوں کو ہے.آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں.آپ ان احباب میں سے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مبارک چہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور حضور کے دست مبارک پر بیعت کرتے ہوئے.يَدُ اللَّهَ فَوقَ اَيْدِ يُهِمُ “ کے مصداق بنے.آپ نے ہماری اس انجمن کی اپنے مبارک ہاتھوں سے بنیاد ڈالی اور ایک طویل عرصہ کے لئے جو کہ ۲۵-۲۶ سال سے کم نہیں.اس کی ہر ایک مشکل وقت میں رہنمائی فرمائی.ہماری جماعت پر بڑے بڑے ابتلاء اور امتحانات آئے.لیکن آپ کی صائب رائے اور غیر متزلزل وفاداری سے جو کہ آپ کو جماعت کے موجودہ خلیفہ وامام حضرت امامنا وسید نا مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ بنصرہ کے ساتھ ہے.ہماری جماعت کی کشتی جو کہ بسا اوقات متلاطم سمندر میں بادِ مخالف کی وجہ سے موجوں کے تھپیڑے کھانے کو تھی.صحیح وسلامت پار ہوئی.نہ صرف
۲۵۹ ہماری کشتی سلامتی سے پار ہوئی.بلکہ آپ کی لگا تا رسعی اور شبانہ روز کی دعاؤں کی برکت سے ہماری جماعت کیا بلحاظ مال اور کیا بلحاظ حسن عقیدت اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اول درجہ کی جماعتوں میں شمار ہوتی رہی.اور حضرت امام ایدہ اللہ بنصرہ کی نظروں میں ایک ممتاز جماعت ٹھہری." آپ نے جماعت کے لئے نہایت قیمتی اور بیش بہا خدمات انجام دی ہیں.اور ہم در حقیقت اللہ تعالیٰ کے ناشکر گزار بندے ہوں گے.اگر ہم آپ کی خدمات حسنہ کا گھلے گھلے الفاظ میں اعتراف نہ کریں.کیونکہ دو جہان کے سردار حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مَنْ لَّمُ يَشْكُرُ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرُ الله ، یعنی جو آدمی خدا کے بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا عبد مشکور نہیں بن سکتا." آپ کو اللہ تعالیٰ نے نہایت اعلیٰ انتظامی قابلیت عطا فرمائی ہے.اور آپ نے اس خدا داد قابلیت کو جس احسن طریق سے استعمال کیا ہے.اس پر ہم جس قدر فخر کر سکیں بجا ہے.خدا کرے آپ کا جانشین بھی ان ہی صفات حسنہ کا جامع ہو جو کہ آپ کی ذات بابرکات میں ہم پاتے ہیں.آپ نے اپنے زمانہ امارت میں ہر ایک بھائی کی رائے کا خواہ وہ کس قدر بھی غریب کیوں نہ ہو اور اس کی رائے کیسی ہی کیوں نہ ہو.احترام فرمایا ہے.اور جماعت کا نظام حتی الامکان بگڑنے نہیں دیا.جماعت کا بڑے سے بڑا اور غریب سے غریب فرد آپ کی نظر میں یکساں ممتاز اور واجب الاحترام رہا ہے.آپ نے کسی کو ناراضگی کا کبھی موقعہ نہیں دیا.ہر ایک بھائی کے ساتھ آپ نے ہمدردی اور اخوت کا ثبوت دیا.اور اپنی قیمتی نصائح سے ہر ایک کو مستفید کیا اور ہر ایک کو بشری لغزشوں سے بچانے کے لئے کوشش کی.آپ نے ہر ایک موقع پر جماعت کو تاکید کی کہ مرکز سے وابستہ رہے.کیونکہ مرکز سے انقطاع ہی
۲۶۰ ہمارے غیر احمدی بھائیوں کے لئے ذلت اور موت کا پیغام لا چکا تھا.آپ کی یہ حکمت عملی جماعت احمد یہ شملہ کے لئے کامیابی کا باعث بنی.خدا نہ کرے ہم احمدیوں پر کبھی یہ موقع آئے کہ ہم اپنے مرکز سے منقطع ہوں.کیونکہ اسی مبارک شجر سے پیوند میں جماعت احمدیہ کی حیات مضمر ہے.آپ نے اپنا زمانہ ملازمت بھی نہایت کامیابی سے گزارا.یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ نے آپکی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو خاں صاحب کا خطاب دیا.اب جب کہ آپ اپنی خدمات جلیلہ سے سبکدوش ہونے والے ہیں.ہم آپ سے مؤدبانہ استدعا کرتے ہیں کہ اس جماعت کو جس کا پودا اپنے اپنے ہاتھوں لگایا.اور جس کی آبیاری اپنی شبانہ روز کی دعاؤں سے آپ نے فرمائی.اور جس نے فی الحال اپنی کونپلیں ہی نکالی ہیں.اور جو کہ ابھی اس قدر نازک ہے کہ بادِ صرصر کی لپیٹ سے ابھی مامون ومصئون نہیں.اپنی دعاؤں میں فراموش نہ کریں.اور اس کی ترقی کے لئے حتی الامکان ساعی رہیں.اور حضرت خلیفہ اسیح کی خدمت اقدس میں اس کی ترقی کے لئے تحریک فرماتے رہیں.”ہم اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مستورات کی طرف سے جناب کی بیگم صاحبہ کا بھی تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں.جنہوں نے ہمیشہ جماعت کی بہنوں کے ساتھ نہایت اعلیٰ درجہ کا سلوک فرمایا.اور ہمیشہ اپنی سچی ہمدردی کا ثبوت دیتی رہیں.امید ہے کہ آپ یہ اظہار شکر یہ ان تک پہنچا کر جماعت کو رہین منت فرمائیں گے.بالآخر ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صدقے جن کے مقدس نام پر ہم دوبارہ ایک سلک میں منسلک کئے گئے ہیں.آپ کو
۲۶۱ اور آپکی بیگم صاحبہ کو اور آپ کے دیگر متعلقین کو اپنے فضل اور رحمت کے سایہ میں رکھے.اور عمر طویل عطا فرمائے اور دینی خدمات سرانجام دینے کی توفیق بخشے.”جناب مکرم ! یہ ایک نہایت حقیر تحفہ یعنی ایک نقرئی گھڑی جو کہ دیکھنے میں واقعی حقیر ہے مگر اس کے آئینہ میں آپ کو جماعت کی محبت کا عکس ہمیشہ دکھائی دیتا رہے گا.بطور یادگار جماعت کی طرف سے پیش خدمت ہے.امید ہے آپ اس کو قبول فرمائیں گے.گر قبول افتد زہے عزو شرف جواب منجانب خاں صاحب برادرانِ کرام! میں آپ کی اس عزت افزائی کا ازحد ممنون ہوں اور آپ کی مہربانی کا شکریہ ادا کرتا ہوں.آپ نے صرف ایڈریس ہی نہیں دیا.بلکہ ساتھ ایک تحفہ بھی عنایت کیا ہے.اس لئے یہ موقعہ میرے لئے دوہرے فخر کا موجب ہے.ایڈریس کے کاغذ نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں.اور ایک عرصہ کے بعد اُن کی یاد مدھم پڑ جاتی ہے.مگر یہ تحفہ جو آپ نے عنایت کیا ہے ایسا تحفہ ہے.جو ہر وقت میرے سینے کے ساتھ رہے گا.اس کی دید مجھے ہمیشہ آپ کی مہربانیوں کو یاد دلاتی رہے گی.اور اس برادرانہ اور محبت کے تعلق کو فراموش نہیں ہونے دے گی.جو ایک عرصہ تک آپ کے ساتھ قائم رہا ہے.اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تحریک کرتی رہے گی.کہ اے خدا ! جس طرح دوستوں نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا ہے.اور میری عزت افزائی کی تو دین و دنیا میں ان کی عزت کو بڑھا.ان کے مال میں اور اُن کے ایمان میں ترقی دے.ان کے بیوی بچوں کو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا.اور انہیں آفات زمانہ سے محفوظ رکھ.برادران! دنیا میں ایڈریس ہوتے ہیں اور مجھے بھی دئے جاتے
۲۶۲ ہیں.مگر ایک خاص بات جو آپ کے ایڈریس اور تحفہ میں ہے.جس کی وجہ سے میرا دل ایک خاص خوشی محسوس کر رہا ہے.وہ یہ ہے کہ اس کا محرک محض ایک دینی محبت کا تعلق ہے.کوئی دنیاوی نمود مدنظر نہیں.اور نہ کوئی دنیاوی فائدہ پیش نظر ہے.بلکہ اس محبت کا اظہار ہے جو آپ کو محض دین کی وجہ سے اس عاجز کے ساتھ ہے.یہ وہ بات ہے جس کے لئے میں جس قدر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاؤں تھوڑا ہے.اس کا فضل ہے.کیونکہ اس کے فضل کے بغیر دلوں میں حقیقی محبت پیدا نہیں ہو سکتی.برادران ! آپ نے میری خدمات کا ذکر کیا ہے.اس میں شک نہیں کہ مجھے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے تقریباً چھبیس سال ہوگئے ہیں.میں نے ۱۹۰۱ء کے اواخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی.حضرت خلیفہ اول کا زمانہ دیکھا.اور اب خلافت ثانیہ کا دور دورہ ہے، جہاں تک مجھے یاد ہے.سلسلہ میں داخل ہوتے ہی مجھے سیکرٹری مقرر کر دیا گیا.اور ایک باقاعدہ انجمن قائم ہوگئی.اس سے پہلے کوئی باقاعدہ انجمن نہیں تھی.اب نئے انتظام کے ماتحت قریباً پانچ سال سے دوستوں کی سفارش پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے امیر جماعت مقرر کر دیا ہے.اور ساتھ کئی سیکرٹری ہیں.غرض میں پہلے سیکرٹری تھا.اور اس وقت سیکرٹری ہی ہر قسم کے کام کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا.اور اب امیر جماعت ہوں.مگر میں کیا اور میری خدمات کیا.اور نہ میں اپنے آپ میں کوئی خاص لیاقت پاتا ہوں.بلکہ جب میں اپنے اندرونہ کی طرف دیکھتا ہوں تو ہزارہا عیبوں سے پر پاتا ہوں.میں نہیں جانتا کہ دوستوں نے مجھ میں کونسی صفت کا مشاہدہ کیا.جو مجھے سیکرٹری شپ یا امارت کے قابل سمجھا.یا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے کون سی قابلیت دیکھی کہ مجھے امیر مقرر کر دیا.اللہ تعالیٰ کی بے نیازی
۲۶۳ ہے.وہ نکتہ نواز ہے.اسے کون سی ادا پسند آگئی وہی جانتا ہے.مگر جیسا آپ نے اشارہ کیا ہے.یہ ایک نعمت الہی ہے اور ہزار ہا دنیاوی نعمتوں سے بڑھ کر جس کے لئے میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہوں.برادران ! آپ نے اشارہ کیا ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے ابتلاء جماعت پر آئے.مگر آپ نے ہر موقعہ پر مجھے صائب رائے اور مستقل مزاج پایا یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو اپنے فضل سے محفوظ رکھا.برادران ! میں پھر عرض کرتا ہوں.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.انسانی کوششوں کا بے شک دخل ہوتا ہے.مگر انسانی کوشش اسی حد تک بارآور ہوتی ہے جس حد تک قلبی کیفیت رہنمائی کرتی ہے.انسان دماغ سے کام لیتا ہے.لیکن اگر دل صاف نہ ہو تو ہدایت نہیں ملتی.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جگہ جگہ دماغ کو اپیل کیا ہے.انبیاء اور ان کی امتوں کا تذکرہ کیا ہے.اور ان کی مثالیں بیان کر کے ہدایت کی طرف دعوت دی ہے.مگر قلب سلیم کو زیادہ پسند کیا ہے.اور قرآن شریف کے آخر میں اس دعا کو رکھا ہے.قل اعوذ برب الناس (الخ) یعنی ہزا رہا دلائل اپنی ہستی کے اور ملائکہ کے دیئے.انبیاء و مرسلین اور کتابوں کی ضرورت بیان کی.روزِ جزا کا ثبوت پیش کیا.مگر پھر بھی انسان کو اس بات کا محتاج رکھا کہ وہ وسواس الخنّاس من الجنة والناس سے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگے."برادران ! آپ اپنے دل میں غور کریں کیا آپ نے محض اپنے علم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو شناخت کیا ؟ نہیں ہرگز نہیں.بلکہ ایک انکسار تھا.آپ نے نیک ظنی کی.اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو شناخت کی توفیق دی.اگر انبیاء کی شناخت محض دنیاوی علم پر منحصر ہوتی تو ہزار عالم فاضل اس نعمت سے محروم نہ
۲۶۴ رہتے.جو آپ کو حاصل ہے.آپ میں سے ہر ایک ایک آیت اللہ ہے.اور ہر ایک نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خاص نشان سے پہچانا ہے.میں مختصراً اپنا ذکر کرتا ہوں.میں بیعت سے پیشتر احمدیوں سے خوب بحث مباحثہ کیا کرتا تھا اور اکثر سننے والے غیر احمدی میری ذہانت کی داد دیا کرتے تھے.مگر میں نے شرافت کو کبھی ہاتھ سے نہیں دیا.حضور علیہ السلام کی شان میں کبھی گستاخی نہ کی.بلکہ محض مسائل پر بحث کیا کرتا تھا.وفات مسیح اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام کا مسئلہ عموماً زیر بحث ہوتا تھا.مگر میرے دل میں خیال آیا کہ احادیث کا اور دوسری کتابوں کا ایک طویل سلسلہ ہے.ان کے مطالعہ کے لئے اتنا وقت کہاں.قرآن شریف جو مختصر مگر جامع ہدایت نامہ ہے.اس سے ہر قسم کی مدد ملنی چاہیئے.گو عربی نہیں آتی.مگر عربی دانوں نے ترجمہ کیا ہوا ہے.فیصلہ کرنے سے پیشتر اس کو ایک دفعہ پڑھ لینا چاہیئے.چنانچہ جب میں نے پڑھا تو بیسیوں آیات وفات مسیح اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر پائیں.انہی دنوں میں میں نے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا.اس وقت تک میں نے آپ کی شکل نہیں دیکھی تھی.اور نہ آپ کی کوئی تصویر دیکھی تھی.آپ میرے ساتھ والے احمدیوں کے مکان میں ایک چارپائی پر تشریف فرما تھے.میں نے جا کر السلام علیکم عرض کیا.آپ نے جواب دیا اور فرمایا.برکت علی ! تم ہماری طرف کب آؤ گے.“ میں نے عرض کیا حضور ! اب آہی جاؤں گا.اس کے بعد میں نے تحریری بیعت کر لی.اور پھر دارالامان جانیکا اتفاق ہوا.تو دیکھا کہ آپ کی صورت ویسی ہی تھی جیسی کہ میں نے خواب میں دیکھی تھی.جس سے دل میں یقین پیدا ہوا کہ اللہ تعالٰی نے محض اپنے فضل سے حق کی طرف رہنمائی کی.یہ اللہ تعالیٰ کا
۲۶۵ پہلا فضل تھا.آپ کے وصال پر بعض لوگوں کو ابتلا آیا.اور اس کے بعد حضرت خلیفہ اول کی وفات پر کئی ایک کو لغزش ہوئی.اور اب حضرت خلیفہ ثانی کے وقت میں بعض واقعات ایسے پیش آئے جن سے بعض کمزور طبیعت لوگوں کے دلوں میں تزلزل پیدا ہوا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو بچالیا.اگر غور کیا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ ابتلاء صرف ان لوگوں کو پیش آتا ہے جو محض اپنے دماغ سے کام لینا چاہتے ہیں.اور دل کی کیفیت کو مد نظر نہیں رکھتے.واقعہ ایک ہی ہوتا ہے.مگر سبب مختلف ہوتے ہیں.جو لوگ ابتلاء میں پڑتے ہیں.وہ عموماً وہ ہی ہوتے ہیں جن کے دل میں کدورت ہوتی ہے.اور وہ بدظنی کر کے اس واقعہ کو ایسے اسباب پر مبنی سمجھ لیتے ہیں.جو حقیقی نہیں ہوتے.یا ابتلاء ان لوگوں کو آتا ہے جو اپنے دل و دماغ سے کام نہیں لیتے.بلکہ دوسروں کے سہارے چلتے ہیں.اگر وہ ذرا شبہات پیدا کریں تو ان کے دل بھی ڈانواں ڈول ہو جاتے ہیں.اور ان کے ساتھ ہی یہ بھی پھسل جاتے ہیں.اصل میں ایسے لوگ جو محض اپنے علم سے اور اپنے دماغ سے حقیقت کو پہنچنا چاہتے ہیں.یا محض دوسروں کے سہارے چلتے ہیں.وہ بنیادی اصول بھول جاتے ہیں.صداقت کے نشان کا ذبوں کیساتھ شامل نہیں ہوتے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نبی ہونا ثابت ہو گیا.تو پھر جو بھی بدی حضور کی طرف منسوب کی جائے گی وہ غلط ٹھہرے گی.کیونکہ نبی معصوم ہوتا ہے.اسی طرح گو خلیفہ معصوم نہیں ہوتا.مگر جب اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو خلیفہ بنایا.اور انہوں نے نبوت کے کام کو جاری رکھا بلکہ نبوت کے ساتھ جو بعض پیشگوئیاں وابستہ تھیں وہ انہی کے ہاتھ سے پوری ہوئیں.تو پھر شیعوں کے اعتراضات فضول ٹھہرے.اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ
۲۶۶ السلام کا دعویٰ ثابت ہو گیا تو مکڈ بین کے سب الزامات غلط قرار پائے.اور آپ کے وہ خلفاء بھی جن کے ہاتھ پر بعض پیشگوئیاں حضور کی پوری ہوئیں معصوم ٹھہرے.یا د رکھو.اس وقت دنیا میں ایک ہی خلافت حقہ ہے.اس کے علاوہ کوئی اور دینی خلافت نہیں.اس خلافت حقہ کی غیرت ایسی اللہ تعالیٰ کو ہے کہ باقی سب خلافتیں اس نے مٹا دیں.ترکوں کی خلافت نہ رہی ، شاہ حسین کی خلافت جاتی رہی.لوگوں نے پھر خلافت قائم کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے.اور اب بھی اگر کوشش کریں گے تو یقیناً نا مراد رہیں گے.مجھے غیر مبایعین کی خلافتوں پر جنسی آیا کرتی ہے.نا سمجھوں نے مسیح موعود علیہ السلام کو کیا سمجھا کہ اس کی خلافت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ (میں) لے بیٹھے.وہ نبی ہے.اور نبی بھی ایسا کہ بروز محمد ہے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی اور کی خلافت چل سکی کہ تم حضور کے بروز کی خلافت کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہو.اللہ تعالیٰ کی غیرت نے خلافت کے نام پر جو سلطنتیں اٹھیں ان کو تباہ کر دیا تو تمہاری کیا ہستی ہے؟ برادران ! میں نے یہ قصہ کیوں دہرایا ہے محض اس لئے کہ واقعات سے جو سبق ملتا ہے.اُسے یاد رکھنا چاہیئے.شیطان ہر وقت پیچھے لگا ہوا ہے.قدم قدم پر ٹھوکر کا اندیشہ ہے.ایسا نہ ہو کہ غافل دیکھ کر ہمیں مصیبت میں مبتلا کر دے.برادران ! آپ نے اپنے ایڈریس میں یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ میں ہمیشہ اس امر کے لئے کوشاں رہا ہوں کہ ہمارا تعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ کے ساتھ مضبوط ہو.اگر نظر غور سے دیکھا جائے تو یہی دین و دنیا کی کامیابی کی کلید ہے.نظام قومی ایک بڑی بابرکت ہے ہے.اس لئے جس قدر محبت اور فرمانبرداری کا تعلق حضور سے بڑھایا جائے گا.اسی قدر اس نظام میں استحکام پیدا ہوگا.اور پھر میں نے یہ بھی ذہن نشین
۲۶۷ کرنے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ خلیفہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ایسا ملا ہے.جو ہرامر میں کمال رکھتا ہے.محض عربی خوان نہیں.بلکہ موجودہ علوم سے پوری واقفیت رکھتا ہے.یہی نہیں کہ نمازیں پڑھا دیں اور امامت کرا چھوڑی.بلکہ اصلاح اخلاق اور اصلاح تمدن کا بھی پورا خیال رکھتا ہے.تبلیغ حق اور اعلائے کلمتہ اللہ کی جو تجاویز کیں.کمال کر دیا.اور سیاست میں دخل دیا تو دشمن بھی عش عش کر اُٹھے.غرض ہر پہلو میں بے نظیر ہے.جہاں تک ہو سکے.اس کی قدر کرنی چاہیئے.کوتا ہی کی تو پچھتائیں گے.بعد میں آنے والے تمنا کریں گے.کہ کاش ہمیں بھی ایسا خلیفہ ملتا.” برادران ! میں نے جو اکثر کوشش کی ہے کہ امیر جماعت کا خاص طور پر احترام کیا جائے اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ اگر لوکل عہدیداروں کا احترام نہ کیا جائے تقر مرکزی عہدیداروں کی عزت بھی کم ہو جاتی ہے.اور اس کے بعد خلیفہ اسیح کی تو قیر بھی اتنی نہیں رہتی.چنانچہ دیکھ لو.جن لوگوں نے جماعت کی پروا نہ کی.وہ بالآخر مرکزی عہدیداروں پر نکتہ چینی پر آمادہ ہو گئے.بلکہ حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات ستودہ صفات کو بھی نہ چھوڑا.” برادران ! اللہ تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ اتنے لمبے عرصہ میں ہمارے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں.اور ہماری جماعت اخلاص میں ممتاز رہی ہے.انتظامی حالت ہماری نہایت اعلیٰ رہی ہے.اور جن دوستوں کو یہاں سے الگ ہوکر دوسری جگہ جانا پڑا ہے.انہوں نے اس امر کی شہادت دی ہے کہ ایسا انتظام بہت کم جماعتوں میں پایا جاتا ہے.بلکہ انہوں نے خود جا کر جو کام کئے ان سے اعلیٰ تربیت کا ثبوت دیا.جو انہیں اس جماعت میں رہ کر حاصل ہوئی.شیخ فضل کریم صاحب مرحوم.صوفی فضل الہی صاحب، چوہدری عبدالکریم صاحب اور منشی عبد الرحیم صاحب
۲۶۸ اس کی مثالیں ہیں ہے.جہاں چار دوست اکٹھے ہوں وہاں کبھی نہ کبھی کشمکش ہو جانا ناممکن نہیں ہے.مگر میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ پارٹی فیلنگ نہ ہو.دھڑا بندی نہ ہو.اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ اس کے فضل سے کامیاب ہوا.گذشتہ دو تین سالوں میں بے شک بعض ناگوار واقعات پیش آئے.مگر پارٹیاں نہیں بن سکیں.اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے.اس میں محض ہماری کوششیں ہی نہیں بلکہ زیادہ تر حصہ حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی توجہ اور دعا کا ہے.اللہ تعالیٰ عرصہ دراز تک حضور کا سایہ ہمارے سروں پر رکھے.اور حضور کی دینی اور دنیوی کوششوں میں جو وہ جماعت کی بہبودی کے لئے کر رہے ہیں برکت دے.” برادران! میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے ہمیشہ میرے ساتھ مہربانی کا برتاؤ رکھا.اور ان احباب کا خاص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں.جنہوں نے اپنے قیمتی مشوروں سے میری رہنمائی کی.اور جماعت کے جملہ کاموں میں بڑی خوش دلی تپاک سے میری امداد کی.میرے عہدہ کا خاص طور پر احترام کیا.بلکہ میں یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ بحیثیت سیکرٹری یا امیر جو میں نے فیصلہ کیا.انہوں نے اسے بطور حکم مانا.بلکہ بعض اوقات ان کی رائے کے خلاف بھی اگر کوئی امر طے ہوا تو انہوں نے خوشی سے قبول کیا.برادران! عہدہ امارت چاہتا ہے کہ کسی کی بے جا طرفداری نہ کی جائے.اور نہ کسی کے خلاف محض ضد اور عناد کی وجہ سے کینہ رکھا جائے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جہاں تک ہوسکا میں نے جماعت کے معاملہ میں ذاتی اغراض کو نہیں آنے دیا.اور ہمیشہ جماعت کے مفاد کو شیخ فضل کریم صاحب مرحوم بعد ازاں حیدر آباد دکن میں ڈپٹی اکا ؤنٹنٹ جنرل رہے.صوفی فضل الہی صاحب کی بیعت ۱۹۰۶ء سے قبل کی تھی.ریٹائر ہونے کے بعد سلسلہ کے تجارتی اداروں میں خدمات کرتے رہے.۴ جنوری ۱۳ ء کو لاہور میں وفات پائی اور ربوہ میں دفن ہوئے.
۲۶۹ مد نظر رکھا ہے.چنانچہ آپ کو یاد ہوگا.کہ میں نے بعض اوقات جماعت کا احترام کرتے ہوئے اپنی رائے کو ترک کر دیا.تا ہم اگر کسی دوست کو میری وجہ سے رنج پہنچا ہو.تو میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ میری کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے معاف کردیں گے.کیونکہ میں نے دانستہ کسی کو رنج پہنچانے کی کبھی کوشش نہیں کی.اور کوئی انسان کمزوری سے خالی نہیں."برادران ! آپ نے میری اہلیہ محترمہ کو بھی عزت کے الفاظ سے یاد کیا ہے.بعض باتیں جو میں نے آپ کے ایڈریس کے جواب میں عرض کی ہیں.وہ ان کی طرف سے بھی ہیں.میں ان کی طرف سے اور کچھ عرض کرنا نہیں چاہتا.سوائے اس کے کہ وہ آپ کی اس مہربانی کی بڑی ممنون ہیں.نیز آپ کے ذریعہ سے جملہ احمدی بہنوں کا شکر یہ ادا کرتی ہیں.اور دل سے دعائیں دیتی ہیں.کہ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور آپ کے بال بچوں کو دین و دنیا کی نعمتوں سے مالا مال کرے.” برادران ! آخیر میں پھر آپ کی مہربانی اور عزت افزائی کا شکریہ ادا کرتا ہوں.جس کا اظہار آپ نے ایڈریس کے پیش کرنے اور تحفہ عنایت کرنے میں کیا ہے.“ ۲۷ مطابق ارشاد مزید ملازمت آپ حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے درس القرآن میں شرکت کے لئے قادیان آئے.اور اس میں شرکت کی.یہ ایک ماہ کا درس ۸.اگست ۱۹۲۸ء سے شروع ہوا.اور اپنی مثال آپ تھا.احباب کا ذوق و شوق قابل دید تھا.الحمد اللہ کہ خاکسار مؤلف کو بھی دیکھنے اور اس کا ایک حصہ سننے کا موقعہ ملا ہے.درس میں باقاعدہ شامل احباب کو دار مسیح میں حضور کی طرف سے دعوتِ طعام دی گئی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر نونہالوں نے کھانا کھلایا.اور ے ستمبر کو درس کے
۲۷۰ آخری روز سارے مجمع کا حضور سمیت فوٹو اتارا گیا.اختتام درس پر محترم خاں صاحب نے حضور کی خدمت میں پنشن کے ارادہ کا ذکر کیا.تو حضور نے فرمایا کہ آپ کی صحت اچھی ہے آپ کو اور ملازمت کرنی چاہیئے.یہ ارشاد خواہ آپ کی بہتری کے لئے تھا یا جماعت اور سلسلہ کی بہتری کے لئے.ہر صورت میں آپ کے لئے واجب اذعان و عمیل تھا.سو آپ شملہ واپس چلے گئے.وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ آپ کے ریٹائر ہو جانے کی خبر سُن کر ایک ہندو آپ کی جگہ لگنے کی کوشش کر رہا ہے.کیونکہ آپ کی اسامی کے گریڈ میں اضافہ ہو گیا تھا.لیکن جن افسروں سے خان صاحب کو ہمدردی اور مدد کی توقع تھی وہ رخصت پر تھے.تا ہم آپ نے کوشش شروع کر دی اور حضور کی خدمت میں ہر روز ایک خط دعا کے لیئے لکھنے لگے.آپ نے بالا افسر کو اس امر پر رضامند کر لیا کہ وہ ان افسران کی رخصت سے واپسی تک اس معاملہ کو التوا میں رکھے.اسی اثناء میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آ گیا.اور اس نے آپ کے کاغذات منگوائے.وہ آپ کے کام سے کچھ واقف تھا.گو اس سے آپ کی خاص واقفیت نہ تھی.تاہم اس نے آپ کے معاملہ میں غیر معمولی دلچسپی لی.اب خط کی بجائے بذریعہ تار آپ روزانہ حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کرنے لگے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالآخر آپ کے حق میں فیصلہ ہو گیا.یہ فیصلہ سُن کر آپ کے دفتر کے ایک ہندو نے برملا کہا کہ ہم جانتے تھے کہ آخر فیصلہ آپکے حق میں ہوگا.کیونکہ آپ کا پیر بہت زبر دست ہے.گویا حضور کا ارشاد بالآخر صداقت اسلام کا ایک نمایاں نشان بن گیا.جماعت کی طرف سے پھر الوداعی تقریب ۱۹۳۲ء میں آپ کی وظیفہ یابی (پنشن) کے موقعہ پر بوجہ موسم سرما آپ کا دفتر دہلی میں تھا.اور حضور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے وہاں تشریف لے گئے تھے ۲۸.احباب کے اصرار پر حضور نے باوجود مصروفیت کے ایک تقریب میں شامل ہو کر خاں صاحب کو احباب کی طرف سے ایک بڑے سائز کا اردو اور فارسی کے پانچ تراجم والا قرآن شریف اپنے دست مبارک سے عطا کیا.چنانچہ مرقوم ہے: 4 مارچ جماعت احمد یہ شملہ ودہلی نے جناب خاں صاحب منشی برکت علی
۲۷۱ صاحب کو جو ایک لمبی اور قابل تعریف ملا زمت کے بعد پنشن پر جارہے رہیں.تالکٹورہ پارک میں ایک شان دار گارڈن پارٹی دی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے باوجود اپنی بے حد مصروفیتوں کے اس تقریب میں شمولیت فرمائی.دونوں جماعتوں کے افراد کے علاوہ بہت سے معزز غیر احمدی اصحاب بھی مدعو تھے.جماعت دہلی کا ایڈریس جناب با بو اکبر علی صاحب جنرل سیکرٹری نے پڑھا اور جماعت شملہ کی طرف سے بابو عبدالسلام صاحب نے پڑھ کر سنایا.اور ایک نسخہ قرآن کریم جماعت کی طرف سے بطور تحفہ پیش کیا ہے.جسے خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مبارک ہاتھوں سے خاں صاحب کو عطا فرمایا.اس کے بعد خاں صاحب منشی برکت علی صاحب نے دونوں ایڈریسوں کا جواب دیا.“ آخر میں حضرت اقدس نے ایک مختصر تقریر فرمائی جس کا خلاصہ درج ذیل ہے.فرمایا : قادیان میں اس قسم کی دعوتوں پر میں عموماً تقریر کیا کرتا ہوں کیونکہ وہاں میری حیثیت میزبان کی ہوتی ہے اور ہر جانے والے کو الوداع اور آنے والے کو خیر مقدم کہہ سکتا ہوں.لیکن یہاں بوجہ مختصر قیام کے میں خود مہمان کی حیثیت رکھتا ہوں.اس لئے میں نہیں سمجھتا میں کن جذبات کا اظہار کروں.آپ لوگ خاں صاحب سے جدا ہورہے ہیں.اور جدائی کو محسوس کر رہے ہیں.لیکن آپ سے جدا ہو کر خاں صاحب میرے پاس : محترم بابوا کبر علی صاحب بعد میں قادیان ہجرت کر آئے تھے.اور سٹار ہوزری در کس کو کامیاب طور پر انہوں نے چلایا بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.بابو عبد السلام صاحب یعنی حافظ عبد السلام صاحب اس وقت جماعت شملہ میں بعہدہ سیکرٹری تبلیغ کام کرتے تھے.بعد میں ۴۳ ء تک امیر جماعت شملہ اور تقسیم ملک کے بعد ایک سال تک نائب امیر کراچی اور ۴۹ ء تک کراچی کے امیر جماعت رہے پھر مرکز ربوہ میں وکیل الا علی بھی رہے اس وقت وکیل المال ثانی ہیں.
۲۷۲ قادیان آرہے ہیں.اس لئے نہ تو میں ان کو الوداع کہہ سکتا ہوں.اور نہ جدائی کے متعلق وہ جذبات میرے اندر پیدا ہو سکتے ہیں.جو آپ لوگوں کے دلوں میں ہیں میرے اندر تو اس وقت خوشی کے جذبات ہیں.اور باوجود آپ کے رنج کے مجھے خوش ہونا چاہیئے لیکن چونکہ دوستوں کی خواہش ہے اس لئے کچھ بیان کرتا ہوں.وو پہلی بات ایڈریس کے ایک فقرہ کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ لکھنے والے نے جان بوجھ کر نہیں بلکہ غلطی سے لکھا ہے.لیکن چونکہ وہ قابل اصلاح ہے اس لئے میرا فرض ہے کہ میں اس کی اصلاح کروں.بلکہ اس سے پہلے بھی میری خواہش تھی کہ جب کبھی موقعہ ملے اس بات کی اصلاح کروں اب چونکہ ایسا موقعہ میسر آگیا ہے.اس لئے میں اس کی اصلاح ضروری سمجھتا ہوں.وہ فقرہ اس رنگ کا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور خلیفہ کی دعاؤں سے ایسا ہوا.یعنی خدا کے فضل کے ساتھ خلیفہ کی دعاؤں کو شریک بنایا گیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کسی خدا کے بندے کو شریک کرنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ یہ شرک ہے.یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ خلیفہ کی دعاؤں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوا.لیکن جس فقرہ کا میں ذکر کر رہا ہوں اس میں خلیفہ کی دعاؤں کو خدا کے فضل کے برابر قرار دیا گیا ہے.حالانکہ ہر کام خدا کے فضل کے ساتھ ہی ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجالس میں بھی بعض لوگوں نے اس قسم کے فقرے کہے تو آپ نے اصلاح فرما دی.اور فرمایا.اللہ کے ساتھ ہمارا ذکر مت کرو.ہاں دعاؤں کے ساتھ خدا کا فضل نازل ہوتا ہے.میں جانتا ہوں کہ لکھنے والے کے دل میں یہ خیالات نہ تھے.لیکن میرا بحیثیت خلیفہ فرض ہے کہ اس غلطی کی طرف توجہ دلاؤں.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جدائی پر رنج ایک طبعی امر
۲۷۳ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادہ حضرت ابراہیم جب فوت ہوئے تو حضور کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے.اس پر صحابہ نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! آپ تو ہمیشہ ہمیں صبر کی تعلیم دیا کرتے ہیں.مگر آج آپ کی آنکھوں سے بھی آنسو بہ رہے ہیں.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.ایسے موقعہ پر آنسوؤں کا جاری ہونا ایک طبعی امر ہے.پس وہ جو جدائی کا احساس نہیں رکھتا.طبعی جذبات سے خالی ہے جس کا فقدان سنگ دلی کی علامت ہے.صبر سنگدلی کا نام نہیں.بلکہ جزع فزع سے اپنے آپ کو روکنے کا نام ہے.پھر فرمایا.جدائی دو قسم کی ہوتی ہے.ایک مومن کی اور ایک غیر مومن کی.غیر مومن کی جدائی میں تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے اور وہ اپنے ساتھ حسرتیں لے جاتا ہے.برخلاف اس کے مومن جدائی میں بھی اپنے ساتھ بہت سی خوشیاں رکھتا ہے.مثال کے طور پر دیکھو ایک سپاہی جو اپنے ملک کی خاطر لڑتا ہے اسے میدانِ جنگ میں جب گولی لگتی ہے تو اسے سوائے تاریکی کے اور کیا نظر آتا ہے.وہ ملک یا قوم جس کی خاطر وہ لڑا تھا.وہ ابھی آزاد نہیں ہوتی.عزیز واقارب سے وہ علیحدہ ہو گیا.لیکن اسے نہیں معلوم کہ بعد میں ان سے کیا معاملہ ہو نیوالا ہے.نہ ہی اسے اپنے متعلق علم ہوتا ہے کہ مستقبل میں اس کا کیا حشر ہوگا.غرضیکہ اسے تسلی دینے والی کوئی چیز نہیں ہوتی.اور چاروں طرف اس کے لئے تاریکی ہی تاریکی ہوتی ہے.اور اس طرح وہ بے حد حسرتوں کے ساتھ جان دیتا ہے.لیکن ایک مومن جو جہاد میں اس لئے جاتا ہے کہ وہ خدا کے دین کی حفاظت کرے.اسے جب موت آتی ہے تو اس کے لئے اپنے محبوب حقیقی سے ملنے کا رستہ کھول دیتی ہے.بیشک وہ اپنے عزیز واقارب سے جدا ہوتا ہے.لیکن وہ اس یقین کے ساتھ جدا ہوتا ہے کہ وہ انبیاء سے ملنے والا ہے.جو ان اعزا سے بہت بہتر رفیق ہیں.پھر وہ سمجھتا ہے کہ جدائی
۲۷۴ عارضی ہے.تھوڑے دنوں کے بعد وہ اعزا بھی اس کے ساتھ آمیں گے.وہ جانتا ہے کہ موت اس کے لئے اس دنیا سے بہتر گھر کا دروازہ کھولنے والی ہے.اس لئے مومن کی جدائی میں بھی ایک خوشی ہوتی ہے.جو دوسروں کی جدائی میں نہیں ہوتی.دنیاوی جدائیوں اور صدموں پر بھی مومن خیال کرتا ہے کہ قرآن کہتا ہے وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ کہ مومن ایسے موقعہ پر صبر کرتا ہے.کیونکہ خدا کا وعدہ ہے کہ اگر تم کسی چیز کی جدائی کے غم پر صبر کرو گے تو اس سے بہتر چیز ملے گی.پس دنیا کی جدائی میں بھی ایک اور سامانِ راحت پیدا کیا جاتا ہے.اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ صادق الوعد اور کون ہوسکتا ہے.چونکہ خدا نے مومن کی کامیابی کے دروازے کھول رکھے ہوتے ہیں اس لئے وہ کسی بات سے گھبرا تا نہیں.ہر رنج اور تکلیف کو اپنے لئے بہتر خیال کرتا ہے.کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے.ہر بلا کیں قوم را حق داده است زیر آں سنج کرم بنهاده پس مومن کے لئے ہر تکلیف ایک ترقی کا پیش خیمہ ہوتی ہے است ( نوٹ ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیت میں تمام مجمع کا فوٹو لیا گیا.نیز اسی الوداع کے سلسلہ میں ۵ مارچ کو خان صاحب کی اہلیہ محترمہ کو جو لجنہ اماء اللہ شملہ کی صدر ہیں.احمدی مستورات شملہ و دہلی نے پُر تکلف پارٹی دی اور ایڈریس ایک نقر کی طشتری میں پیش کیا جس کا موصوفہ نے نہایت موزوں جواب دیا.۲۹ توفیق حج بیت الله حضرت بھائی شیخ عبدالرحیم صاحب اور آپ کو ۱۹۳۴ء میں حج پر جانے کی توفیق ملی.خاں صاحب بیان کرتے تھے کہ ان دنوں یہ مشہور تھا کہ شاہ ابن سعود جو قریب میں ہی
۲۷۵ تخت نشین ہوئے تھے.کسی احمدی کے حج پر جانے کو پسند نہیں کرتے.چنانچہ اس بارہ میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف سے خط و کتابت کے جواب میں شاہ موصوف محترم نے مطلع کیا کہ مجھے کسی کے بھی حج پر اعتراض نہیں.البتہ تبلیغ کی کسی کو اجازت نہ ہوگی.میں نے اس بارے میں حضور سے دریافت کیا کہ اگر کوئی شخص احمدیت کے متعلق ہم سے سوال کرے تو ہم کیا جواب دیں تو حضور نے فرمایا کہ اسے کہہ دیں کہ وہ افسرانِ متعلقہ سے اجازت حاصل کر لیں.آپ دونوں بفضلہ تعالٰی ۱۸ فروری کو حج کے لئے روانہ ہوئے.اور ۱۸ اپریل کو واپس آئے.ہر دو مواقع پر دفا تر صدرانجمن احمد یہ اور مدارس میں تعطیل کی گئی اور بہت سے احباب الوداع واستقبال کے لئے ریلوے سٹیشن قادیان پر حاضر تھے.مراکز سلسلہ میں خدمات سرکاری ملازمت پر ایک اعلیٰ عہدہ پر متمکن رہنے کے ساتھ ہی آپ کو جماعتی تنظیم وتربیت اور تبلیغ کا نہایت سرگرم اور فعال رنگ میں خدمت کا ایک تہائی صدی تک مفید اور کامیاب تجربہ حاصل ہوا تھا.اور ایک ربع صدی سے آپ ممتاز احباب سلسلہ میں شمار ہوتے تھے.بعد وظیفہ یابی (پنشن) قادیان میں اور بعد تقسیم برصغیر لاہور میں متعدد و اعلیٰ مناصب سلسلہ مثلاً نائب ناظر نظارت ہائے علیا و بیت المال، جوائنٹ ناظر و قائم مقام ناظر بیت المال اور قائم مقام ناظر ضیافت اور صدر مجلس کار پرداز بہشتی مقبرہ پر کامیابی کے ساتھ متمکن رہنا آپ کی حسن کارکردگی پر ایک تین دلیل ہے.بعد ہجرت آپ کو لاہور میں بطور ناظر بیت المال ذمہ داری سونپی گئی.۱۹۴۸ء میں آپ نے رخصت حاصل کی اور پھر بعض مجبوریوں کی وجہ سے باقاعدہ مزید خدمت کے لئے حاضر نہ ہو سکے.البتہ کبھی کبھار پھر بھی کچھ خدمت کر پائے.۱۹۳۲ء تا ۱۹۴۸ء آپ کی یہ سولہ سالہ خدمت محض حصول روانگی کا پروگرام ( الفضل ۱۵ فروری) الوداع کے وقت احباب کی شمولیت اور دعا ( ۲۰ فروری) اور دونوں کی مراجعت پر کثیر جماعت کا سٹیشن پر استقبال کرنا (۱۲۲ اپریل ) زیرہ مدینہ اسیح "
رضائے الہی کے لئے رضا کارانہ اور اعزازی اور بغیر کسی معاوضہ کے تھی.اور یہ امر مال و منال سے بے رغبتی ، حوصلہ اور صبر اور قناعت اور ہمت اور فدائیت کا ایک شاہکار تھا.اس عرصہ میں جنگ عظیم دوم کا زمانہ بھی آیا جس کے آخر میں حد درجہ کی مہنگائی کے سیلاب نے آلیا اور بعد ازاں تقسیم ملک کے باعث آپ کا بھی مال و متاع قادیان میں ضائع ہوا اور ازسر نو آبادکاری کا آپ کو سامان کرنا پڑا.آپ کا گزارہ پنشن پر تھا ہے.بعض خدمات کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے: (1) : ابتدا میں مرکز میں جو ذمہ داری آپ پر عائد ہوئی اس بارے میں ۱۹۳۳ء کی سالانہ رپورٹ میں مرقوم ہے: فی الحال فروری ۳۳اء سے حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے المسیح خاں صاحب با بو برکت علی صاحب شملوی پنشنر کو نائب ناظر کے عہدہ پر مقرر فرما کر دفاتر کی نگرانی ان کے سپرد فرمائی ہے.ان کا کام سردست ابتدائی حالت میں ہے.اور انہوں نے دفتری کاروبار کی اصلاح و ترقی کے متعلق ایک سکیم صدرانجمن احمدیہ میں پیش کر کے منظور کرالی ہے.جس پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے ہو.(۲): چندہ دہند افراد کے بجٹ آمد کی تشخیص ہر سال بذریعہ مقامی جماعت اور انسپکٹر ان نظارت بیت المال ہوتی تھی.بعض افراد ناد ہند تھے اور بعض با شرح چندہ نہ دیتے تھے.صدر انجمن احمد یہ پر بہت بھاری بار ہو گیا.تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے میزانیہ صدر انجمن احمدیہ میں سوائے ایک دو سال کے ہر سال عملہ میں آپ کا نام درج ہو کر ہمیشہ ساتھ ہی یہ تحریر ہوتا تھا کہ آپ اعزازی کا رکن ہیں نیز ذیل کی سالانہ رپورٹوں میں بھی یہ امر مرقوم ہے کہ سات یا آٹھ ایسے احباب میں سے آپ ایک تھے جو اعزازی طور پر بلا معاوضہ سلسلہ کی خدمت بجالاتے تھے.(سالانہ رپورٹ ۳۴ ۱۹۳۳ء ( ص ۲۵۹) ۳۵ - ۱۹۳۴ء (ص) (۱۵) ۳۷-۱۹۳۶ء (ص۳۰۳) رپورٹ ۳۳-۱۹۳۲ صفحہ ۱۸۲ یہ روئیداد آپ کے تقرر کے جلد بعد کی ہے.چنانچہ الفضل میں مرقوم ہے خاں صاحب منشی برکت علی صاحب پنشن لینے کے بعد شملہ سے مستقل طور پر اب قادیان تشریف لے آئے ہیں.اہل وعیال بھی ہمراہ ہیں.۲۹
۲۷۷ مشاورت ۱۹۳۳ء میں فرمایا: صحیح طریق عمل یہ ہے کہ ہر جماعت کے متعلق طے کر لو کہ اس کے لئے کتنا چندہ ادا کرنا واجب ہے.اگر وہ جماعت اسے پورا نہیں کرتی بغیر کسی معقول وجہ کے تو جو کچھ باقی رہتا ہے وہ اس پر قرض یہ طریق عمل یا تو بجٹ کی کمی پوری کر دے گا یا منافقین کو ہے.جماعت سے جدا کر دے گا..اس طرح وہ جماعت مجبور ہوگی کہ جو لوگ نا دہند ہیں انہیں ہمارے سامنے پیش کرے اسے تشخیص آمد کی با قاعدگی اور اصلاح کے لئے یہ کام آپ نے دس جائنٹ ناظران بیت المال مقرر کر کے ان کے سپرد فرمایا.ان میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت مرزا شریف احمد صاحب، حضرت میر محمد الحق صاحب اور حضرت منشی برکت علی صاحب شامل تھے.چنانچہ بجٹ آمد قریباً ساڑھے چھیاسی ہزار روپیہ پہلے سال میں اضافہ ہو کر دولاکھ ساڑھے چھیالیس ہزار سے قدرے بڑھ گیا.چند سال تک یہ ہنگامی طریق کار جاری رہا اور دوسال خاں صاحب کے سپرد یہ کام رہا ہے.(۳): شوری ۱۹۳۸ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک کمیٹی اس بارے میں مشورہ پیش کرنے کے لئے مقرر کی تھی کہ جس طرز پر تحریک جدید کے ماتحت واقفین زندگی کو خدمت سلسلہ کے لئے لیا جاتا ہے.کیا اسی طرز پر صدرانجمن کے لئے کارکنان کو لیا جانا مناسب ہوگا یا نہیں.اصل ناظر صاحب بیت المال کے حضور کی معیت میں سفر پر جانے کے باعث منشی برکت علی صاحب نے بطور جائنٹ ناظر بیت المال اس کمیٹی کے سیکرٹری کے فرائض سرانجام دئے.۳۲ے رپورٹ ہائے سالانہ ۳۴-۱۹۳۳ء (ص ۹۰ تا ۹۵ و ۳۶ - ۱۹۳۵ء (ص۱۹۲ تا ۱۹۶) آپ اس سال نظارت ہائے علیا بیت المال میں نائب نا ظر متعین تھے.اور صدر انجمن کے سات اعزازی کارکنوں میں سے تھے.(ص۲۶۳) جائنٹ ناظر صاحبان کا ایک حصہ ہر سال نیا ہوتا تھا.اور حضور ان کا تقرر فرماتے تھے.۳۵-۱۹۳۴ء میں آپ کا نام ان میں شامل نہیں تھا.لیکن آپ اس وقت نظارت بیت المال سے وابستہ تھے.
۲۷۸ (۴) تقسیم ملک کے وقت جو قیامت منظر حالات رونما ہوئے.اس وقت جو احباب پھر بھی خدمت سلسلہ میں جُٹ گئے.ان کی خدمات نہایت قابلِ قدر ہیں.محترم خاں صاحب بھی ایسے احباب میں سے تھے.میزانیہ صدرانجمن احمدیہ پاکستان بابت ۴۹ - ۱۹۴۸ء کی عرض داشت“ کا ایک حصہ حالات کی وضاحت کرنے کے لئے ذیل میں نقل کیا جاتا ہے: وو وسط اگست سال گذشتہ کے بعد ہی دشمن اسلام نے جوشر انگیزیاں کیں اس کے نتیجہ میں جہاں اور لاکھوں اسلام کے نام لیواؤں نے نقصان اٹھایا وہاں ہم پر بھی ایسے مظالم ڈھائے گئے.کہ مجبوراً ہم میں سے ایک بڑی جماعت کو جو ہمارے مقدس مرکز میں رہا کرتی تھی.وہاں سے نکلنا پڑا.تقسیم پنجاب کے فیصلہ کے معا بعد ہی حالت یہ ہوگئی کہ ہمارے مقدس مرکز کو تمام دنیا تو الگ.قریب قریب کے گاؤں سے بھی کاٹ دیا گیا.ریل گاڑی پہلے ہی بند کر دی گئی تھی.ڈاک بھی بند کر دی گئی.تار بھی کاٹ دی گئی.اور ٹیلیفون سسٹم بھی بند کر دیا گیا.کچھ دن ہوائی جہاز کے ذریعہ ڈاک آتی جاتی رہی.لیکن پھر جہازوں کا آنا بھی ممنوع قرار دیا گیا.اور حالت ایسی ہو گئی کہ جیسے پرانے زمانے میں سمندر میں ایک کشتی کے سواروں کی خیال کی جاسکتی ہے.جب کہ اس کشتی کے اردگرد سمندری درندے منڈلا رہے ہوں حتی کہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ قادیان سے باہر جا کر ایسی سبیل کریں کہ ان درندوں سے بھی نجات ملے اور کشتی بھی ساحل پر لگے.پس حضور ۳۱ اگست کی شام کو ساڑھے چار بجے کے قریب لاہور تشریف لے آئے دوسرے دن صبح گیارہ بجے جو دھامل بلڈنگ میں جہاں آج کل ہمارے دفاتر ہیں حضور نے چند احباب کو طلب فرمایا اور اس وقت کے حالات کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ پاکستان میں ایک علیحدہ صدرانجمن قائم کی جائے اور ذیل کے احباب کو ان کا ممبر
۲۷۹ مقرر فرماتے ہوئے ہدایات دیں کہ یہاں پر دفاتر کس طرح کام کریں: نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب ا.ناظر اعلیٰ ۲.ناظر بیت المال خاں صاحب منشی برکت علی صاحب...۳.ناظر دعوت تبلیغ نواب محمد دین صاحب قادیان میں وسط اگست ۱۹۴۷ء تک ہماری مالی حالت بہت ہی گر گئی.کیونکہ قادیان میں شروع اگست سے باہر سے کوئی رقم نہ آنے دی گئی.اس لئے دفتر محاسب...کی ایک شاخ لاہور میں کھلوادی گئی.لیکن یہاں بھی فسادات کی وجہ سے نہ تو ڈاک کا خاطر خواہ انتظام تھا اور نہ ہی آمد و رفت کا اور جب یکم ستمبر ۱۹۴۷ء کو صدرا مجمن احمدیہ پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تو آمد دس اور پندرہ روپیہ روزانہ رہ گئی تھی.حالانکہ قادیان میں اوسط آمد عام حالات میں اڑھائی ہزار روپیہ روزانہ سے بھی اوپر تھی ہی ہے." بہر حال قیام صدرانجمن احمد یہ پاکستان پر صدر انجمن احمد یہ پاکستان ی: دیگر ناظر وارکان میں چوہدری سر محمد ظفر اللہ خانصاحب شیخ بشیر احمد صاحب (ایڈوکیٹ لاہور ) مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم.اے محمد صدیق صاحب (حال انچارج خلافت لائبریری ربوہ ) ملک سیف الرحمن صاحب ( حال مفتی سلسلہ ربوہ ) مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب ربوہ وغیرہ تھے.محترم مرزا عبدالحق صاحب ایڈوکیٹ (حال امیر جماعت ہائے سابق پنجاب و بہاولپور ) آخری قافلہ میں بتاریخ ۱۶ نومبر ۱۹۴۷ء قادیان سے گئے تھے.۳ اکتوبر کو قادیان پر حملہ کے بعد ایک مکتوب قلمی حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے نام موصول ہوا تھا ( جو افسوس کہ ان کے پاس اب محفوظ نہیں) جو میں نے بھی پڑھا تھا.اس میں ذکر تھا کہ کس طرح صدرانجمن احمدیہ کی آمد ایک یا دو صد ر و پیر ماہوار رہ گئی ہے.قادیان وغیرہ سے جو احباب ہجرت کر کے آتے ہیں ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام بھی کرنا ہوتا ہے.بہت مشکل پیش آرہی ہے.اور اب اضلاع سیالکوٹ وغیرہ میں بعض احباب کو بھجوایا گیا ہے تا جماعتوں کو تلقین کریں کہ وہ چندے بھجوائیں.
۲۸۰ نے جس کا عارضی طور پر لاہور مرکز مقرر کیا گیا تھا.یہ مناسب سمجھا کہ جب تک آمد کی خاطر خواہ صورت نہ نکلے احباب جماعت سے آنریری خدمات حاصل کی جائیں تا ایک طرف حضور کی ہدایات کو عملی جامہ پہنایا جا سکے اور دوسری طرف احباب جماعت کو بھی ثواب کا موقع مل جائے.چنانچہ ان ایام میں کئی احباب نے اپنے آپ کو پیش کیا.صدرا جمن احمد یہ قادیان کے لئے آمد کا انتظام کرنا آج کل کے حالات کے ماتحت خطرہ سے خالی نہیں.اس کی آمداب صرف انہی درویشوں کے چندوں کی رہ گئی ہے جن کو تخت گاہِ رسول کی حفاظت کی سعادت حاصل ہے اور جن کی تعداد ۳۱۳ کے لگ بھگ 66 رہتی ہے.(۵): جماعت احمدیہ کے اکسٹھویں سالانہ جلسہ دسمبر ۱۹۵۱ء پر ربوہ کے بے آب و گیاہ میدان میں ممالک غیر اور پاکستان کے تیس ہزار افراد کا عظیم الشان اجتماع ہوا.اور احباب نے علم و عرفان کے انمول موتیوں سے اپنے دامن بھر لئے.انتظام کے تعلق میں مرقوم ہے: یہاں یہ بھی ذکر ہے کہ بعض احباب نے اپنے کاروبار بند کر کے یا رخصت لے کر کام کیا ان میں ذیل کے اسماء درج ہیں.(۱) چوہدری فضل احمد صاحب کراچی (۲) چوہدری لطیف احمد صاحب کراچی ( جو چند سال قبل ایک ہوائی حادثہ میں جاں بحق ہو گئے تھے ).(۳) قریشی محمد طفیل صاحب اختر کراچی.(۴) شیخ محبوب الہی صاحب لاہور (اصل متوطن کشمیر ).(۵) بابو عبد الحمید صاحب آڈیٹر لاہور ( حضرت موصوف اکتوبر ۱۹۶۹ء میں وفات پاگئے رضی اللہ عنہ ).(۶) عبد الحمید صاحب عارف لاہور.(۷) چوہدری عبدالرحمن صاحب حال مقیم لندن خلف حضرت چوہدری غلام محمد صاحب مینیجر نصرت گرلز ہائی سکول ( قادیان).: ص ۲۱.صدر بجٹ کمیٹی ناظر بیت المال خاں صاحب منشی برکت علی صاحب اور دیگر ارکان محاسب مرزا عبد الغنی صاحب مرحوم و چوہدری عزیز احمد صاحب ( حال ناظر بیت المال خرج ربوہ ) و آڈیٹر سید محمود عالم صاحب مرحوم کی طرف سے یہ میزانیہ شائع ہوا.(ص۶)
۲۸۱ ا.افسر جلسہ سالانہ خاں صاحب منشی برکت علی خاں صاحب.۲.کوارڈینیٹنگ آفیسر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ملک غلام فرید صاحب.۳.ناظم جلسہ سالانہ صوفی محمد ابراہیم صاحب...شوری کی عظیم اہمیت " وشاورھم“ کے ارشاد کے الہی کے مطابق حضرت خلیفہ المسح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۱۹۲۲ء سے نمائندگان جماعت ہائے کی باقاعدہ مشاورت کا اہتمام فرمایا.جس میں بعض سالوں میں جماعت شملہ اور مرکز کی نمائندگی کرنے کی خاں صاحب کو توفیق ملی.اس کی عظیم اہمیت کے تعلق میں ۱۹۲۶ء کی شوری میں حضور نے فرمایا تھا: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ خصوصیت بیان فرمائی ہے کہ وہ تمام امور باہمی مشورہ سے طے کیا کرتے ہیں.سب سے پہلی سب کتاب قرآن ہی ہے جس نے توجہ دلائی ہے کہ ایمان اور اسلام کی شاخوں میں سے ایک شاخ مشورہ بھی ہے.....(گویا) بسا اوقات خدا تعالیٰ خاص لفظی الہام اور وحی کی بجائے اپنے ارادوں کو دوسروں کے ارادہ میں مخفی کر کے ظاہر کرتا ہے.کیونکہ اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر مشورہ کرنا مومنوں کے ایمان کا جزو نہیں ہوسکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشورہ کی یہاں تک تاکید فرمائی ہے کہ جس امر میں مشورہ نہیں ہوتا اس میں خدا تعالیٰ کی برکات نہیں ہوتیں.آپ نے فرمایا.دیکھو خدا اور اس کا رسول تمہارے مشورہ کا محتاج نہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے پاس سب کچھ ہوتا ہے.اس لئے وہ بھی محتاج نہیں.مگر فرمایا مشورہ رحمت ہے.اس لئے کہ رسول...اوہ ہوتا ہے.اگر رسول مشورہ نہ کرتا تو جب استبدادی زمانہ آتا لوگ کہتے ہیں رسول نے کبھی مشورہ نہیں لیا تھا.ہم اس سنت پر عمل کریں گے.
۲۸۲ تقبل ”ہماری (اس) مجلس مشاورت کی پوری عظمت محسوس نہیں کی جاسکتی.کیونکہ یہ ابھی پیج کی طرح ہے.ہمارے سامنے جو ہے.اس سے بھی زیادہ شاندار ہے جو آج تک کسی فاتح قوم نے دیکھا ہے.کیونکہ کبھی کسی قوم کے متعلق یہ وعدہ نہیں دیا گیا کہ ترقی کرتے کرتے اس مقام پر اس مقام پر پہنچ جائے گا کہ دوسرے ایسے کمزور ہو جائیں گے کہ ان کی مثال چوہڑے، چماروں کی سی ہو جائے گی.مگر ہمارے مستقبل کے متعلق یہی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دی گئی ہے.کہ دوسرے مذہب والے اتنے قلیل رہ جائیں گے کہ ہم کہہ سکیں گے کہ اسلام ہی اسلام دنیا میں نظر آتا لوگ...ہے...ہمارے مشوروں کا تعلق اسی مستقبل سے نہیں.بلکہ (انہیں) آج بھی ویسی ہی اہمیت حاصل ہے بلکہ آج اس وقت سے بھی زیادہ ہے.آج ہم جو فیصلے کریں گے.آنے والے لوگ ان کے بدلنے کی آسانی سے کوشش نہیں کرسکیں گے.بعد میں آنے والے لوگ پہلوں کا ادب واحترم کرتے ہیں اور یہ بھی سنت ہے کہ نبی کے قریب کے زمانہ کے فیصلوں کو اسلام اور دین بھی خاص وقعت دیتا ہے.اور اس کا نام اجماع اور سنت رکھا جاتا ہے.( جس طرح کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت ابو ہریرۃ وغیرھما صحابہ نے فلاں بات غلط کی یا کہی) اسی طرح...آپ میں سے بہتوں کا یہی ادب اور یہی احترام کیا جائے گا.اس وقت بڑے بڑے حاکموں کی قدر نہ ہوگی کہ یہ کہہ سکیں پہلے لوگوں نے فلاں فعل غلط کیا.اور اگر کوئی کہے گا تو ساری رعایا اس کے خلاف کھڑی ہو جائے گی کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حواریوں یا ان کے دیکھنے والوں کی ہتک کرتے ہو گویا...دنیا کی فتح کا ارادہ رکھنے والے بلکہ دنیا کو فتح کر کے دکھا دینے والے ایک طرف تو دنیا فتح کر رہے ہوں گے.مگر دوسری طرف ان میں اتنی ہمت نہ
۲۸۳ ہوگی کہ تم لوگ جو مر کہ سینکڑوں من مٹی کے نیچے دفن ہو گے.تمہاری رائے کو رڈ کرسیکں.جب یہ حالت ہوتی ہے تو سوچ لو کہ تمہیں کس قدر خشوع وخضوع کے ساتھ دعا کر کے رائے دینی چاہیئے.اور کس قدر غور و فکر کے بعد اپنا خیال ظاہر کرنا چاہیئے." خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا اپنی قوم سے کہو وہ اپنے نمائندے بھیجے جنہیں میں اپنا کلام سناؤں.جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں یہ کہا تو انہوں نے کہد یا موسیٰ تو جا ہم نہیں جاتے.اس پر خدا تعالیٰ نے کہا.اب میں انہیں کلام نہیں سناؤں گا.اور ان کے بھائیوں میں سے نبی بر پاکروں گا.ایسے لوگ جو سلسلہ کے مقام کا ادب و احترام نہیں سمجھتے.یہ نہیں جانتے کہ یہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ کسی کو اس مجلس میں نمائندہ بنایا جاتا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا انہیں اتنی بڑی عزت...دینا ہے کہ ہفت اقلیم کا بادشاہ بھی ہو تو وہ اس مجلس کی ممبری جسے آئندہ دنیا کو ڈھالنا ہے.بہت بڑی عزت سمجھے گا ہیں.“ خدمات مرکز طائرانہ نظر میں مراکز سلسلہ میں خدمات اور اس تعلق میں شوری میں شرکت کا ایک مختصر نقشہ حاشیہ میں پیش کیا گیا ہے جید ہے.احمد یہ گزٹ ۲۶ فروری ۱۹۲۷ء (ص ۱ تا ۳) **: اس نقشہ کے تعلق میں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مشاورت کے ذکر میں اس سال کی مشاورت کی رپورٹ کے صفحات مرقوم ہیں.اور دیگر صفحات سالانہ رپورٹوں کے ہیں.(۱) فروری تا اپریل ۱۹۳۲ء نظارت عکیا میں نائب ناظر ( رپورٹ سالانہ بابت ۳۳-۱۹۳۲ء ص ۱۸۲) مشاورت ۱۹۳۲ء نمائندہ جماعت شملہ ( ص ۱۱۱) کمیٹی نظارت بیت المال میں نام بابو برکت علی صاحب شملوی حال قادیان (ص۵۵) (۲):۱۹۳۳-۳۴ ء نائب نا ظر نظارت علیا ( ص ۲۵۹) بجٹ آمد جماعت ہائے چند اضلاع کے لئے
۲۸۴ وفات و تدفین ۱۹۵۸ء کے موسم گرما میں آپ راولپنڈی تشریف لے گئے ہوئے تھے مختصرسی بقیہ حاشیہ مقررہ جائنٹ ناظر صاحبان بیت المال میں آپ بھی تھے.(ص ۹۵،۹۴) مشاورت ۱۹۳۳ء فہرست مرکزی نمائندگان میں اول نام ناظر اعلیٰ کے بعد دوسرے نمبر پر آپ کا نام بطور نائب ناظر مرقوم ہے.(ص ۱۳۷) گویا مراد نائب ناظر نظارت علیا ہیں.آپ کا نام کمیٹی امور عامہ نمبر ۲ میں شامل تھا.یہ بھی درج ہے کہ آپ قادیان نہیں آسکے آپ نے بہت افسوس اور معذرت ظاہر کی (ص۱۲۳) گویا آپ کسی وجہ سے قادیان سے باہر گئے ہوئے تھے.(۳): ۱۹۳۴-۳۵ء دفاتر کی بعض شقوں کی نگرانی کا کام جو دفاتر کے محررین سے متعلق تھیں.ناظر اعلیٰ یا آپ نائب ناظر نظارت علیا کی زیر ہدایت سپرنٹنڈنٹ دفا تر کرتے تھے.(ص۱۳) نائب ناظر بیت المال بھی تھے.خانصاحب منشی برکت علی صاحب شملوی نائب نا ظر بیت المال نے جو تبدیلئی آب و ہوا کے لئے کشمیر گئے تھے.واپس آ کر ۵ نومبر سے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا.(الفضل ۸ نومبر ۱۹۳۴ء زیر مدینه ای (۴): ۳۶ - ۱۹۳۵ء تشخیص میزانیہ آمد کے لئے منجملہ جائنٹ ناظر صاحبان بیت المال آپ بھی تھے.(ص) ۱۹۵) مشاورت ۱۹۳۵ء بطور جائنٹ ناظر بیت المال رکن کمیٹی نظارت ہذا ( ص ۳۹، فہرست میں عہدہ نائب ناظر درج ہے.ص ۱۰۷) (۵): ۱۹۳۶-۳۷ء نظارت ہائے عکیا و بیت المال میں نائب ناظر اور کچھ عرصہ قائم مقام ناظر بیت المال اور اسی قائمقام حیثیت سے سالانہ رپورٹ آپ کی طرف سے درج ہے.(ص ۲۰۵ ،۲۴۴،۳۰۳) شوری اپریل ۱۹۳۶ء رُکن کمیٹی نظارت بیت المال (ص۹۲) (۶): ۱۹۳۷-۳۸ء جائنٹ ناظر بیت المال و زائد از نصف سال قائم مقام ناظر بیت المال اور بطور قائم مقام رپورٹ درج ہے.(ص ۲۴۰ وغیرہ مشاورت ۱۹۳۷ء شرکت بطور نائب ناظر بیت المال (ص۱۹۲ء ) (۷): ۳۹ - ۱۹۳۸ء جائنٹ ناظر بیت المال و سات ماہ تک قائم مقام ناظر بیت المال (ص۳۲ ۲۴۲) مشاوت ۱۹۳۸ء بطور قائم مقام ناظر بیت المال رکن کمیٹی بیت المال (ص۱۴، ۱۵۷) بطور قائم مقام آپ
۲۸۵ علالت کے بعد وہاں ہی مؤرخہ ۷ اگست ۱۹۵۸ء آپ کی وفات ہوئی.بوقت وفات بقیہ حاشیہ کی طرف سے میزانیہ صدرانجمن برائے ۳۹ - ۱۹۳۸ء شائع ہوا.(۸): ۱۹۳۹-۴۰ء جائنٹ ناظر اور کچھ عرصہ قائم مقام ناظر بیت المال اور اسی حیثیت سے یہ سالانہ رپورٹ آپ کی طرف سے درج ہے.(ص۲ وغیرہ) مشاورت ۱۹۳۹ء رُکن کمیٹی نظارت بیت المال ( ص ۲۱، ۱۳۵) میزانیہ ۴۰ - ۱۹۳۹ء آپ جائنٹ ناظر بیت المال کی طرف سے شائع ہوا.(۹): ۴۱ - ۱۹۴۰ء جوائنٹ ناظر اور کچھ عرصہ ناظر بیت المال (ص ۴۷) یہ سالانہ رپورٹ آپ کی طرف سے بطور ناظر بیت المال درج ہے (ص۸۱) منظور شدہ میزانیہ کی جلد برائے آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ سپریٹنڈنٹ دفاتر سید محمد اسمعیل صاحب مرحوم کی قلم سے ریز رو بنک کے چودہ حصہ داروں کے اسماء میں خاں صاحب کا نام بھی مرقوم ہے ( یہ جلد اس وقت نظارت بیت المال خرچ) قادیان میں موجود ہے.مشاورت ۱۹۴۰ ء نائب نا ظر بیت المال ور کن کمیٹی نظارت بیت المال (ص۱۹۳۱۲) (۱۰): ۱۹۴۱-۴۲ء جوائنٹ ناظر اور چند ماہ ناظر بیت المال (ص ۲۸) یہ سالانہ رپورٹ بطور ناظر آ کی طرف سے درج ہے.آپ کے متعلق الفضل میں زیر مدینہ اسیح ، مرقوم ہے.حسب سابق ناظر بیت المال.کام کر رہے ہیں.( مورخہ ۱۰ اکتوبر ۱۹۴۱ء ) مشاورت ۱۹۴۱ ء بطو جو ائنٹ ناظر بیت المال رکن کمیٹی نظارت ہذا ( ص ۱۴۰،۶۴) (۱۱): ۱۹۴۲-۴۳ء قریباً نصف نصف سال جائنٹ ناظر و ناظر بیت المال وصدر مجلس کارپرداز بہشتی مقبره ( ص ۵۸، ۷۹ ) مشاورت ۱۹۴۲ء بطور جوائنٹ ناظر بیت المال رکن کمیٹی نظارت ہذا (ص۳) میزانیہ برائے ۴۳ - ۱۹۴۲ء آپ جو ائنٹ ناظر بیت المال کی طرف سے برائے شوری شائع ہوا.(۱۲): ۱۹۴۳-۴۴ء ( آئندہ سال میں مشتر کا مرقوم ہے ) مشاورت ۱۹۴۳ء بطور جوائنٹ ناظر بیت بقیہ حاشیہ: المال ورکن کمیٹی نظارت ہذا و بہشتی مقبره (ص)(۱۸) شوری کیلئے آپ قائم مقام ناظر بیت المال کی طرف سے میزانیہ برائے۴۴-۱۹۴۳ء شائع ہوا.(۱۳): ۴۵ - ۱۹۴۴ء جوائنٹ ناظر بیت المال تین ماہ کی رخصت پر رہے.اس سال اور گذشتہ سال قریباً تین تین ماہ بطور ناظر کام کیا ( ص ۱۵۱) رخصت سے واپس آکر کام پر آجانے کا ذکر.(الفضل ۲۸ اکتوبر ۱۹۴۳ء زیر مدینہ اسی مشاورت ۱۹۴۴ء بطور جوائٹ ناظر بیت المال رکن کمیٹی نظارت ہذا ( ص) (۱۸۶،۸۹،۲۵
۲۸۶ آپ کی عمر ۸۶ سال تھی.آپ کی وفات کی خبر موقر روزنامہ الفضل نے حسد ذیل الفاظ میں دی: محترم خانصاحب برکت علی صاحب شملوی رضی اللہ عنہ وفات پاگئے دو انا لله وانا اليه راجعون یہ خبر جماعت میں نہایت افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے اور مخلص صحابی محترم خاں صاحب (۱۴): ۴۶ - ۱۹۴۵ ء رپورٹ سالانہ غالبا طبع نہیں ہوئی.مشاورت ۱۹۴۵ ء رکن کمیٹی نظارت بیت المال بطور جوائنٹ ناظر بیت المال (ص۱۷۲،۲۰،۳) (۱۵): ۴۷ - ۱۹۴۶ء ڈیڑھ ماہ کیلئے قائم مقام ناظر ضیافت مقرر ہوئے.آپ جوائنٹ ناظر بیت المال دوماہ کی رخصت پر قادیان سے باہر گئے.اور بعد رخصت واپس آئے وزیر مدینہ امسیح ، الفضل ۲۸ فروری و ۳۰ اپریل ۱۹۴۷ء ) (۱۶) ۴۸ - ۱۹۴۷ء جوائنٹ ناظر بیت المال.مئی تا اکتوبر ۱۹۴۷ء قائم مقام ناظر بیت المال ( ص ۲۰) (۱۷): ۱۹۴۸-۴۹ء’ خاں صاحب منشی برکت علی صاحب جوائنٹ ناظر بیت المال بھی اس عرصہ میں صرف سات یوم کام کر سکے.اس کے بعد بوجہ علالت طبع رخصت پر چلے گئے عملاً سال تمام رخصت بیماری پر ہی رہے.“ ( ص ۴۷) اس سال کا میزانیہ برائے شوری آپ ناظر بیت المال و صدر بجٹ کمیٹی کی طرف سے شائع ہوا.(۱۸): ۵۰ - ۱۹۴۹ء بوجہ علالت طبع وضعیف العمری کے تمام سال رخصت پر ہی رہے.(ص ۶۹،۶۸) (۱۹): ۱۹۵۰-۵۱ء مکرم جناب قاضی عبداللہ صاحب مستقل ناظر ( ضیافت کے وقت صاحب.فوقتا رخصت پر جانیکی وجہ سے مکرم خاں صاحب منشی برکت علی صاحب اور مکرم با بومحمدعبداللہ صاحب علی الترتیب قائم مقام ناظر ضیافت مقرر ہوتے رہے.“ (ص۸۱) (۲۰): ۱۹۵۲-۵۳ء منظور شده میزانیہ میں آپ کا نام بطور اعزازی افسر جلسہ سالانہ کے مرقوم ہے (ص۳۹)
۲۸۷ برکت علی صاحب شملوی رضی اللہ عنہ مورخہ ۷ اگست ۱۹۵۸ء گیارہ بجے صبح راولپنڈی میں وفات پاگئے.انا لله وانا اليه راجعون.وفات کے وقت آپ کی عمر ۸۶ سال تھی.آپ ۱۹۰۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے تھے.آپ محترم خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے حقیقی ماموں تھے.آپ ایک زمانے میں عرصہ دراز تک جماعت احمد یہ شملہ کے امیر رہے اور اپنے زمانہ امارت میں بہت اہم خدمات سرانجام دیں.سرکاری ملا زمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ ایک لمبا عرصہ مرکز سلسلہ میں آنریری جوائنٹ ناظر بیت المال کے طور پر خدمت سرانجام دیتے رہے.آپ علم دوست.مخیر اور سلسلہ احمدیہ کے لئے بڑھ چڑھ کر قربانی کرنے والے بزرگ تھے.اپنی اہلیہ صاحبہ محترمہ کی وفات پر ان کی یاد میں آپ نے اشاعت اسلام کی غرض سے ہزاروں روپے کا ایک ٹرسٹ قائم کیا نیز ربوہ میں ایک پختہ مکان تعمیر کرا کر اسے صدرانجمن احمدیہ کے نام ہبہ کر دیا.اسی طرح آپ اپنے طور پر غرباء کی مالی امداد میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے اور اکثر وظائف اور امدادی رقوم عطا فرماتے.سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد پہلے قادیان میں اور قیام پاکستان کے بعد ربوہ میں سکونت اختیار کی.اس سال موسم گرما میں عارضی طور پر راولپنڈی تشریف لے گئے اور وہیں وفات پائی.۳۳۴ آپ کی وفات کی خبر سن کر حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ نے حسب ذیل نوٹ الفضل میں شائع کروایا.آپ تحریر فرماتے ہیں: ”ابھی ابھی فون پر محمود احمد خاں صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی نے اطلاع دی ہے کہ آج صبح گیارہ بجے پنڈی میں خاں صاحب برکت علی خان صاحب شملوی کا انتقال ہوگیا ہے.اور ان کا جنازہ آج ۸۵۸ ۷ شام کو بذریعہ ٹرک پنڈی سے روانہ ہو کر انشاء اللہ
۲۸۸ تعالیٰ کل صبح ربوہ پہنچے گا.انا للہ وانا اليه راجعون.خان صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور بہت نیک اور مخلص اور سادہ مزاج بزرگ تھے ان کی بیعت ۱۹۰۰ ء یا ۱۹۰۱ء کی ہے ان کو دو زمانوں میں سلسلہ کی خاص خدمت کا موقعہ میسر آیا.اولاً.جماعت احمد یہ شملہ کے صدر اور امیر کی حیثیت میں.جب کہ انہوں نے شملہ کی جماعت کو غیر معمولی حسن تدبر کے ساتھ سنبھالا اور ۱۹۱۴ء کے فتنہ خلافت کے ایام میں خصوصیت کے ساتھ قابل قدر خدمات سرانجام دیں.اور جماعت کے کثیر حصہ کو لغزش سے بچا لیا شملہ کی جماعت میں ان کی صدارت اور امارت کا زمانہ اپنے نتائج کے لحاظ سے بڑا امتیاز رکھتا ہے.اس کے بعد جب وہ پنشن پاکر قادیان تشریف لائے تو مرکز میں لمبے عرصہ تک جوائنٹ ناظر بیت المال کے عہدہ پر بہت مخلصانہ خدمات سرانجام دیں.شملہ میں تنظیم اور باقاعدگی اور حسن تدبیر کی خوبیاں ان کے کام کی طرہ امتیاز تھیں.خانصاحب مرحوم خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب کے حقیقی ماموں تھے.خاں صاحب برکت علی صاحب نے ۸۶ سال کی عمر میں وفات پائی ہے مگر ہمت اور جذبہ خدمت کا یہ عالم تھا کہ غالباً دو سال ہوئے انہوں نے قرآنی علوم کے فہم کے متعلق ایک رسالہ تصنیف کر کے شائع کیا تھا جس کے بعض مضامین واقعی عمدہ اور اچھوتے تھے.اسی طرح ان کی اکثر روایات بھی غالباً چھپ چکی ہیں.خاں صاحب مرحوم نے اپنے پیچھے کوئی اولا د نہیں چھوڑی ان کی اہلیہ جو وہ بھی خاوند کی طرح بہت نیک اور مخلص تھیں.ان کی زندگی میں ہی چند سال ہوئے فوت ہو گئی تھیں.اور ربوہ کے مقبرہ بہشتی میں مدفون ہیں.مرحومہ کو حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے ساتھ بہت عقیدت تھی.اللہ تعالیٰ دونوں کو غریق رحمت کرے اور اپنے خاص افضال سے نوازے
۲۸۹ اور جماعت میں ان کے امثال پیدا کر کے ان کے نیک عمل کو جاری رکھے آمین.خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه آپنے اپنی وفات سے قبل سید نا حضرت امیر المؤمنین علیہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حسب ذیل کتبہ وفات کے بعد اپنی قبر پر نصب کئے جانے کی باقاعدہ تحریری اجازت اور منظوری حاصل فرمائی تھی.چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق بہشتی مقبرہ میں آپ کی قبر پر حسب ذیل کتبہ نصب کیا گیا.نقل کتبہ خاں صاحب منشی برکت علی صاحب موصی نمبر ۲۹۱۹ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم كل من عليهافان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاکرام خاں صاحب منشی برکت علی صاحب سابق امیر جماعت احمد یہ شملہ جو ائنٹ ناظر بیت المال انجمن احمدیہ مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے ۱۹۰۱ء میں حضور کے دست مبارک پر بیعت کی ۷ اگست ۱۹۵۸ء مطابق ۲۰ محرم ۱۳۷۸ ہجری کو بعمر تقریباً ۸۹ سال وفات پائی اور ۱۸ اپریل ۱۹۵۹ء کو یادگار بہشتی مقبرہ قادیان واقعہ ربوہ میں دفن ہوئے.انا لله وانا اليه راجعون اے خدا بر تربیت او بارش رحمت بیار داخلش کن از کمال فضل در بیت النعيم!
۲۹۰ حسنِ خاتمہ خدمات جلیلہ کے بعد آپ کی وفات ان خدمات کے شرف قبول پانے اور آپ کے حسنِ خاتمہ پر دلیل ہے.۱۹۱۰ء سے آپ جماعت احمدیہ کے ممتاز ترین افراد میں شمار ہوتے تھے ہیں.آپ ان احباب میں سے تھے جو بعد پنشن خدمت سلسلہ میں مرکز میں مصروف ہوئے.اور انہوں نے عمر بھر کی محنت توجہ اور جانفشانی سے کام کرنے کی توفیق پائی.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مشاورت منعقدہ اپریل ۱۹۳۶ء میں افتتاحی تقریر میں فرمایا : جو دوست پیشنز ہیں وہ قادیان میں آکر سلسلہ کا کام کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس وقت کام بہت زیادہ ہے اور کام کرنے والے کم ہیں.پانچ سات ایسے دوست اب بھی کام کر رہے ہیں.جن کا بیان ہے کہ تھوڑے سے عرصہ میں انہیں اتنا کام کرنا پڑا جتنا انہوں نے ساری عمر نہ کیا تھا.خاں صاحب فرزند علی صاحب اور خاں صاحب برکت علی صاحب کی شہادت ہے کہ انہیں یہاں سرکاری ملازمت کی نسبت بہت زیادہ کام کرنے کی توفیق حاصل ہورہی ہے.(رپورٹ ص ۱۳۳) ابھی آپ کو مرکز میں آئے صرف چار سال ہی ہوئے تھے اور اس کے بعد بارہ تیرہ سال مزید خدمات کا آپ کو موقعہ ملا.جب آپ بعد پنشن قادیان آنے والے تھے تو حضور نے جذبات مسرت محسوس کرنے کا اظہار فرمایا تھا.مناصب جلیلہ پر خاں صاحب کا حضور کی طرف سے فائز رہنا اس امر پر شاہد ناطق ہے کہ حضور آپ کی خدمات سے مسرور و مطمئن تھے.مارچ ۱۹۱۰ء میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ پر آنے والے چھپن ممتاز ترین احباب میں ''بابو برکت علی صاحب و برادران شملہ یعنی بابو صاحب شمار کئے گئے تھے.(بدر ۳۱ مارچ ۱۹۱۰ ء.ص۱)
۲۹۱ صحابہ کا پاک گروه حضرت مسیح موعود علیہ السلام تذکرۃ الشہادتین میں رقم فرماتے ہیں: خدا اس جماعت کو ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے جس کے نمونہ سے لوگوں کو خدا یاد آوے اور جو تقویٰ اور طہارت کے اول درجہ پر قائم ہوں اور جنہوں نے در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہو.“ (ص۷۶) نیز فرمایا: اس (بیعت) کی برکات اور تاثیرات اسی شرط سے وابستہ ہیں جیسے ایک تخم زمین میں بویا جاتا ہے.تو اس کی ابتدائی حالت یہی ہوتی ہے کہ گویا وہ کسان کے ہاتھ سے بویا گیا اور اس کا پتہ نہیں کہ اب وہ کیا ہوگا.لیکن اگر وہ عمدہ ہوتا ہے.تو خدا کے فضل سے اور اس کسان کی سعی سے وہ اوپر آتا ہے اور ایک دانہ کا ہزار دانہ بنتا ہے.اسی طرح سے انسان بیعت کنندہ کو اول انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنی خودی اور نفسیا نیت سے الگ ہونا پڑتا ہے.تب وہ نشو و نما کے قابل ہوتا ہے.۳۵ حضور اشتہار ۴ مارچ ۱۸۸۹ء میں تحریر فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں اور اس ناچیز کی توجہ کو ان کی پاک استعدادوں کے ظهور و بروز کا وسیلہ ٹھہرا دے اور اس قدوس جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا ہے.تا میں اُن طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہو جاؤں اور ان کی آلودگیوں کے ازالہ کے لئے دن رات کوشش کرتا رہوں.اور ان کے لئے وہ نور مانگوں جس سے انسان نفس اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے.اور بالطبع خدا تعالیٰ کے راہوں سے محبت کرنے لگتا ہے.اور ان کے لئے وہ روح قدس طلب کروں.جو ربوبیت تامہ اور عبودیت
۲۹۲ خالصہ کے کامل جوڑ سے پیدا ہوتی ہے اور اس روح خبیث کی تسخیر سے ان کی نجات چاہوں کہ جو نفس امارہ اور شیطان کے تعلق شدید سے جنم لیتی ہے.سو میں بتوفیقہ تعالیٰ کاہل اور ست نہیں رہوں گا.اور اپنے دوستوں کی اصلاح طلبی سے جنہوں نے اس سلسلہ میں داخل ہونا بصدق قدم اختیار کر لیا ہے.غافل نہیں ہونگا.بلکہ ان کی زندگی کے لئے موت تک دریغ نہیں کروں گا اور ان کے لئے خدا تعالیٰ سے وہ روحانی طاقت چاہوں گا جس کا اثر برقی مادہ کی طرح ان کے تمام وجود میں دوڑ جائے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے لئے جو داخلِ سلسلہ ہو کر صبر سے منتظر رہیں گے.ایسا ہی ہوگا.کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے.تا دنیا میں محبت الہی اور تو بہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہو گا.اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا.اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا.اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا.وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے.اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے.دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو 66 پھیلائیں گے.اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے.“ یہ صحابہ کرام ان برکات وانوار کے حامل تھے اور ہمارے لئے قابل تقلید اسوہ.اور رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کے مصداق تھے.واخر دعوانا ان الحمد الله رب العلمين
۲۹۳ حوالہ جات بحواله الفضل ۲۶ اکتوبر ۱۹۲۸ء زیر مدینتہ السیح : ملفوظات جلد اول صفحه ۴۴۸ بلخص از اخبار البدر ۲۲ مئی ۱۹۰۳ء صفحه ۱۳۹ سيرة المهدی حصہ اوّل.روایت ۱۴۸ ۵: الحکم ۱۰ جون ۱۹۰۳ء ص ۱۰ : الحکم ۱۷ اپریل ۱۹۰۱ ء ص ۸، ۹ کے الحکم ۱۷ اپریل ۱۹۰۱ ء ص ۱۰ کالم ا ماهنامه فرقان بابت نومبر ۱۹۴۲ء (ص ۲۲،۲۱) رساله ستمبر ۱۹۰۹ء سر ورق اول اندرون ا الفضل جلد انمبر ۵.مورخہ ۱۶ جولائی ۱۹۱۳ء (ص۶) ال: " انتخاب خلافت (ص ۴۶،۴۵) الفضل ۳ اپریل ۱۹۵۱ء ہفت روزہ الرحمت ۱۹اپریل والفضل ۱۲ جون ۱۹۵۱ء یه سارے حالات خاں صاحب کے تحریر کردہ یا بیان کردہ ہیں جنہیں خاکسار نے مرتب کیا ہے.۱۳: الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۱۵ء.۱۴: رپورٹ سالانہ - ص ۶ ها الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۳۲ء (ص۵) ۱۶: فروری ۱۹۱۱ ص ۷۳،۷۴ کا مورخه ۲ دسمبر ۱۹۱۰ء ۱۸ ریویو آف ریلیجنز (اردو) فروری ۱۹۱۶ء (سرورق صفحه ماقبل آخر ) سائز
۲۹۴ ۱۸۲۲۲/۸ مطبوعہ دسمبر ۱۹۱۵ء 19 مورخہ ۲۰ جنوری ۱۹۵۷ء :۲۰ مورخه ۱۴ تا ۱۲۸ اکتوبر ۱۹۱۰ء (ص ۵ کالم ۲) ۲۱: رپورٹ صفحہ ۳۰ ۲۲: الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۴۴ء ( ص ۵ کالم۱) :۲۳ رپورٹ مشاورت ۱۹۲۷ ء ص ۲۰،۱۹ ۲۴: بد رو / ۲ ستمبر ۱۹۱۰ء (ص ۳ تا ۵) ۲۵: رپورٹ مشاورت ۱۹۲۸ء میں مندرج روئیداد نظارت بیت المال (ص ۳۳) ۲: الفضل ۹ اپریل ۱۹۲۹ء (ص۲) ۲۷: الفضل ۱۴ اگست ۱۹۲۸ء ۲۸: الفضل ۳ مارچ ۱۹۳۲ء ۲۹: الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۳۲ء ( ص ) ۳۰ مورخه ۶ دسمبر ۱۹۳۲ ء زیر مدینه اسح اس رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء صفحه ۱۱۹ ۳۲ اس کی روئیداد مندرجہ رپورٹ مشاورت ۱۹۳۹ء (ص۳۲-۳۳-۱۶۳) ۳۳: الفضل ۹ اگست ۱۹۵۸ء ۳۴: الفضل ۱۰۸۵۸ :۳۵: البدر ۱۶ نومبر ۱۹۰۳ء ص ۳۳۳
الف ابن مسعود : صفحه ۲۷۴ انڈکس اصحاب احمد جلد سوم ابوالفاروق سیده محمد عسکری: صفحه ۲۳۸ اسماء مرتبہ: عبد المالک ) منارة المسیح کے لئے چندہ کی تحریک : صفحہ ۱۹۴ ریویو آف ریلیجنز کا اجراء : صفحہ ۱۹۵ الہام بابت طاعون : صفحہ ۱۹۷ احمد (حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا حکم : صفحہ ۲۰۰ معہود): صفحه ۱۵، ۱۶، ۲۶،۲۳،۲۰،۱۹،۱۷، ۴۱،۴۰،۳۷، ۴۵، مستورات کو نماز باجماعت پڑھانا : صفحہ ۲۲۶ ۷۷،۷۶،۷۵،۷۳،۷۰،۶۸، ۸۵،۸۴،۷۸، ۱۸۵،۱۱۹، احمد بخش مولوی صفحه ۱۴ ،۲۱۵،۲۰۰،۱۹۹ ، ۱۹۸ ،۱۹۶ ،۱۹۳ ، ۱۹۲ ۱۹۱ ،۱۸۹ ،۱۸۸ احمد علی وکیل: صفحہ ۱۷ ۲۲۵،۲۲۲،۲۱۹،۲۱۸، ۲۳۶، ۲۴۴،۲۳۷، ۲۴۵، ۲۴۷ آدم علیه السلام : صفحه ۲۲۰،۲۱۵ ۲۹۱،۲۶۴،۲۵۱ اصغر علی: صفحہ ۷۵ مولوی ثناء اللہ امرتسری کا ایک جلسہ میں آپ کی نظم اعجاز حسین ، بابو : صفحہ ۲۵۶ پڑھنا : صفحہ ۱۵ اکبر علی : صفحه ۲۷۱،۱۶۶،۷۹،۷۵ با بو فقیر علی صاحب کا آپ کی بیعت کرنے کے لئے اکبر شاہ خاں: صفحہ ۱۰۱ قرآن سے فال لینا: صفحہ ۱۸ قبولیت دعا: صفحه ۲۵ الطاف خاں صاحب، ملک : صفحه ۱۴۱ اللہ بخش: صفحه ۳۷، ۴۵ اپنے ماننے والوں کو مردم شماری میں احمدی“ لکھوانے اللہ بخش، چوہدری صفحه ۴۹،۶ کا کہنا صفحہ ۱۸۶ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا : صفحہ ۱۹۱ غض بصر : صفحه ۱۹۲ اللہ بخش صاحب، پٹویلی: صفحہ ۴۹ اللہ بخش، شیخ صفحه ۱۳۲،۴۹ اللہ دیتا : صفحہ ۲۶ نماز ادا کرنے کا طریقہ: صفحہ ۱۹۳ اللہ رکھی : صفحہ ۴۲
امام الدین صاحب : صفحه ۱۶ امام دین ، مرزا: صفحه ۱۴۹ امجد علی، حکیم : صفحه ۲۵۶ امیر احمد: صفحه ۱۶۶،۷۹ بشیر احمد صاحب، مرزا : صفحه ۵ ،۲۰، ۴۱،۳۸ ۴۲ ۶۸،۶۲، ،۱۷۰،۱۵۸،۱۵۱،۱۴۹ ،۱۴۸ ،۱۴۷ ، ۱۴۶ ،۱۴۱،۱۲۳ ،۹۱ ۲۸۹ ،۲۸۷ ،۲۸۱،۲۷۷ ،۲۶۹ ،۲۴۳،۱۹۷،۱۸۷،۱۸ اوصاف علی خانصاحب، کرنل : صفحه ۲۵۶ پارس داس، لالہ : صفحه ۲۵۶ اینڈرسن : صفحه ۱۳۵، ۱۳۶ بالکمند : صفحه ۱۰ بڑھامل ، لالہ : صفحه ۱۹۴ برانسن : صفحه ۱۴۲ برکت بی بی صاحبہ : صفحه ۴۲ برکت علی: صفحه ۱۸۵ برکت علی صاحب مشملوی: صفحه ۱۸۰،۱۷۹،۱۷۸،۱۷۷، ،۱۹۳،۱۹۲،۱۹۱،۱۸۸ ،۱۸۶،۱۸۵،۱۸۴،۱۸۳،۱۸۲،۱۸۱ ،۲۰۵،۲۰۴،۲۰۳،۲۰۲،۲۰۱ ،۲۰۰،۱۹۹ ،۱۹۶ ،۱۹۵،۱۹۴ ،۲۲۵،۲۲۴ ۲۲۳ ۲۲۲ ۲۲۱ ۲۲۰ ۲۱۰،۲۰۸ ،۲۰۷،۲۰۶ ،۲۴۶،۲۴۵،۲۴۴ ۲۴۳ ،۲۴۱ ،۲۳۷ ، ۲۳۶،۲۲۷ ،۲۲۶ پارس ، کپتان : صفحه ۱۳۴ پر تھی سنگھ : صفحه ۸۹ تاج الدین صاحب، مولوی صفحه ۱۸۷ ملکر، مس : صفحه ۷ ۷۱ ثناء اللہ امرتسری، مولوی : صفحه ۴۹ ۲۵۱،۲۱۲ ریل کو مت دجال کہنا: صفحه ۴۱،۵۰ چ چ جائرس ، میجر : صفحه ۸۱ جعفرہ بیگم: صفحه ۱۸۰ جلال الدین رومی: صفحہ ۱۰۷ جمال الدین صفحه ۱۶ ۲۴۷، ۲۴۸، ۲۵۲،۲۵۱،۲۵۰،۲۴۹ ۲۵۵،۲۵۴،۲۵۳، جھینگن : صفحه ۱۹۶ چراخ دین : صفحه ۳۷ قادیان میں ریل جاری ہونے کی روایت : صفحہ ۳۷ ،۲۷۷ ،۲۷۶،۲۷۵ ،۲۷۱،۲۷۰ ۲۶۹۰۲۶۴۲۵۷ ،۲۵۶ ،۲۸۹ ،۲۸۸ ،۲۸۷ ، ۲۸۶ ،۲۸۴،۲۸۳،۲۸۱،۲۸۰،۲۷۹ ۲۹۰ بر سخٹ ، پادری: صفحہ ۷ بشارت احمد ، ڈاکٹر: صفحہ ۸۴،۸۳،۶۷، ۱۱۲،۱۱۱،۱۰۹، ۱۶۸،۱۱۳ بشیر احمد ایڈوکیٹ : صفحہ ۲۷۹ چرزنی ، میجر : صفحه ۱۳۱ ۱۳۴۰ ح خ حسن نظامی ، خواجہ: صفحه ۲۵۶ خالد بن ولید: صفحه ۲۰۱ خدا بخش، سائیں: صفحہ ۱۹۸ بشیر احمد ، میاں: صفحہ ۴۳،۳۹،۲۱،۹، ۵۹،۵۵،۵۴،۴۵، خدا بخش صاحب ،میاں: صفحہ ۲۰۳ ۶۳۶۰
ویڈ سلطان احمد صاحب پیر کوئی: صفحہ ۱۸۷ داؤد علیہ السلام، حضرت صفحه ۲۰۱، ۲۲۰،۲۱۵ سلطان محمود: صفحه ۱۴۵ داؤ د احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا: صفحه ۱۲۳ سیف الرحمن صاحب ،مفتی صفحه ۲۷۹ دلیپ سنگھ ، سردار : صفحه ۱۷۹ دین محمد ، شیخ : صفحه ۸۰ ڈگی : صفحی۱۳۴ ڈیلی ، میجر : صفحه ۱۲۰ ڈیمیٹر ، کپتان : صفحه ۱۳۵ ڈیوس ، جی.ایچ صفحہ ۱۳۱ بر ابرٹس، کیپٹن : صفحه ۴ ۱۸ راج ولی خاں: صفحہ ۱۳۰٬۸۸ رائس، کرنل: صفحه ۱۳۸ رحمت اللہ ، شیخ صفحه ۹۷ رستم علی : صفحه ۶۹ ۴ ۷ ۱۶۳ ۱۶۴ رگھبیر چند، پنڈت صفحه ۴۶ روشن دین زرگر ، میاں: صفحہ ۱۷۱ سلیمان: صفحہ ۱۰۷ سلیمان تونسوی: صفحه ۸۹ سلیم اللہ خان : صفحہ ۱۴۷ سید احمد ، سر صفحه ۱۸۱ شاہ عالم، با بو: صفحه ۱۱۸، ۱۳۶ شریف احمد : صفحه ۴۳ شریف احمد صاحب، مرزا: صفحه ۱۴۱،۱۲۳،۱۲۱،۹۱،۴۱، ۲۷۷،۱۵۸،۱۵۱ شفیع صاحب، مرزا: صفحه ۱۴۷ شنکر داس: صفحه ۱۹۴ شیر علی صاحب، مولوی: صفحه ۴۱، ۵۹ شیر محمد : صفحه ۱۰۵ ص روشن علی صاحب ، حافظ صفحه ۱۱۰،۹، ۱۹۴،۱۳۳،۱۲۷، صاحب جان صاحبہ: صفحہ ۷ ۲۲۰،۱۷ ۲۲۲ ۲۲۳ ۲۲۴ ۲۲۳ رشید الدین، خلیفہ: صفحه ۲۰۳٬۱۵۶ ریشم بی بی : صفحه ۳۱ ۳۳۰ سدھر : صفحہ سیش سراج الحق صاحب پٹیالوی: صفحه ۱۶۵،۱۲۶ سردار بیگم : صفحه ۷۵، ۱۵۶ سعدی صاحب: صفحه ۲۵۵ ۲۵۶ سعید احمد ، مولانا: صفحه ۱۴۴، ۱۴۵ سعیدہ بیگم : صفه ۴۳ صالح محمد، شیخ صفحه ۷۸ صدرالدین صاحب ، مولوی صفحه ۲۰۳ صفدر جنگ: صفحه ۱۰۹،۳۶ صلاح الدین صاحب ایم.اے صفحہ ۱۷۴ صوبا، حکیم: صفحہے ظ ظفر احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا: صفحه ۱۲۳ ظہور الدین صاحب اکمل، قاضی: صفحہ ۷۵ عابد علی بد و ملهوی: صفحه ۹۷ ع
۴ عائشہ صفحه ۳۳،۱۴ عباداللہ صاحب، ڈاکٹر : صفحہ ۴۹ عبدالحق ایڈوکیٹ : صفحہ ۲۷۹،۵۶ عبد الحق را مه صاحب: صفحه ۱۶۴ عبدالحمید آڈیٹر: صفحہ ۲۸۰ عبدالحمید پٹیالوی صفحه ۱۲۰،۹۵ عبدالحمید عارف : صفحه۲۸۰ عبدالحئی صفحہ ۸۶،۳۶، ۱۰۸ ، ۱۰۹ عبد الخالق: صفحه ۴۹ عبدالرحمن صاحب (سابق مہر سنگھ ) عبد الرحمن : صفحه ۴۷، ۷۴ عبد السلام صاحب، ڈاکٹر: سرکاری دعوت پر انڈیا کا دوره صفحه ۳۹ عبد الطیف صاحب، شہید، صاحبزاده: صفحه ۱۳۲ عبد العزیز : صفحه ۱۶، ۲۵ ، ۷۴،۴۹، ۱۰۸ عبدالعزیز نوشہروی صفحه ۷۳ عبد الغفار کو توال: صفحه ۱۶۶، ۱۶۷ عبد الغنی ، مرزا: صفحه ۲۸۰ عبد الغنی منشی: صفحه ۲۵ عبد القادر، شیخ صفحه ۴۳ اشعار پر لٹو ہونا صفحه ۵۳ عبد الرحمن ( فرینچر ڈیلر ): صفحه ۱۴۵،۱۴۴ عبدالرحمن جٹ : صفحہ ۱۵۹ عبدالرحمن، چوہدری: صفحه ۲۸۰ عبدالرحمن خادم : صفحه ۱۳۸ عبد الرحمن فاضل: صفحه ۱۲۳ عبدالکریم ( غیر احمدی مولوی): حضرت مسیح موعود" کے عبد الکریم : صفحه ۱۳۴ عبدالکریم ، چوہدری: صفحہ ۲۶۷ عبد الکریم صاحب ، مولوی صفحه ۲۲۲،۱۹۰،۱۸۹،۲۱،۲۰، ۲۴۶ عبد الله : صفحه ۴۳ عبداللہ صاحب ، درزی: صفحه ۱۳۳ عبدالرحمن صاحب قادیانی صفحه ۱۰۸،۹۹ عبدالله غزنوی: صفحه ۱۶۴،۷۵ عبد الرحمن، قاضی: صفحه۱۰۰ عبدالرب : صفحه ۴۳ عبدالمجید پٹیالوی: صفحہ ۷۶ عبدالمجید خانصاحب، ڈاکٹر : صفحہ ۱۳۷ عبد الرحیم ، بھائی : صفحہ ۲۷۴ عبدالمغنی: صفحه ۴۳ عبدالرحیم صاحب درد: صفحه ۱۲۶ عبدالواحد : صفحه ۲۵۵ عبدالرحیم صاحب قاضی صفحه ۸۶ عبدالوہاب ، میاں: صفحہ ۱۰۱ عبدالرحیم منشی: صفحہ ۲۶۷ عبدالہادی صفحه ۱۳۲ عبدالرحیم صاحب نیر : صفحه ۱۶۴،۱۲۷، ۲۵۶ عزیز احمد، چوہدری صفحه ۲۸۰ عبدالرزاق، شیخ صفحہ ۹۷ シ عزیز احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا: صفحه ۱۲۱ عبدالستار، شاہ صاحب، ڈاکٹر صفر ۱۰۰،۳۴ عزیز اللہ شاہ: صفحہ ۱۰۰ عبد السلام، با بو: صفحہ ۲۷۱ عزیزہ بیگم صفحہ ۷ ۲۲۵،۱۷، ۲۷، ۲۲۸، ۲۳۵،۲۲۹،
3 ۲۸۸،۲۷۴،۲۴۸ عطاء اللہ خان، ڈاکٹر : صفحہ ۷۳ عطاء اللہ، شیخ صفحہ ۷۴ علی ، حضرت : صفحه ۱۴ فاطمه ( محترم با بو فضل احمد صاحب کی ہمشیرہ): صفحہ ۳۴۲۳۱ فتح محمد صاحب سیال : صفحه ۱۴۳ فتح محمد صاحب سیال: صفحه ۱۴۳ فتح محمد صاحب، شیخ صفحہ ۷۸ علی احمد حقانی صفحہ ۱۱۱ ۱۱۳ ۱۱۶،۱۱۵،۱۱۴، ۱۶۹،۱۱۷ فخر الدین صاحب، مولوی: صفحه ۱۳۶، ۱۳۷ علی احمد ، شیخ صفحہ ۱۷ عمر، حضرت امیر المومنین : صفحه ۲۶۵،۲۱۵ عمر الدین صاحب ، مولوی : صفحه ۱۸۰ عمر الدین ، مولوی صفحه ۲۰۷، ۲۰۹،۲۰۸ عیسی علیہ السلام، حضرت صفحه ۵۲ ۱۳۳٬۹۲٬۵۳ غ غلام احمد صاحب: صفحه ۲۵۶ غلام احمد خان: صفحه ۵۹ غلام حسین: صفحه ۶۸ غلام رسول: صفحه ۴۹،۴۲ غلام رسول صاحب راجیکی صفحه ۹، ۱۶۴،۱۴۱،۱۲۵ء را : ۲۵۶،۲۰۴،۱۷۳،۱۷۲ : غلام فرید صاحب، ملک: صفحه ۲۸۱ غلام محمد اختر صفحه ۱۷۳،۱۴۱ غلام محمد صاحب: صفحه ۲۵۶ فردوسی: صفحه ۱۰۶ فرزند علی صاحب ، مولوی : صفحه ۲۰۳،۱۸۰،۱۴۷، ۲۸۷، ۲۹۰،۲۸۸ فضل احمد صاحب بٹالوی ، شیخ : صفحه ۷۳۰۶۷ ۷۴ ۷۵ ،۹۱،۸۹،۸۸۰۸۷،۸۶،۸۵،۸۴،۸۳،۸۰،۷۹،۷۷،۷۶ ،۱۱۲ ۱۱۱ ۱۱۰ ۱۰۸ ، ۱۰۷ ، ۱۰۰ ، ۹۸ ،۹۷ ،۹۵ ، ۹۴ ۹۳ ۹۲ ،۱۲۸ ۱۲۷ ۱۲۶ ۱۲۵،۱۲۱ ۱۲۰ ۱۱۷ ،۱۱۶ ۱۱۵ ۱۱۴ ۱۱۳ ،۱۴۴ ۱۴۳ ۱۴۲،۱۳۹،۱۳۸،۱۳۶ ۱۳۵ ۱۳۴ ۱۳۲،۱۳۰ ،۱۶۱،۱۵۶،۱۵۴ ۱۵۳ ۱۵۰ ، ۱۴۹ ، ۱۴۸ ،۱۴۷ ، ۱۴۶ ۱۴۵ تقسیم برصغیر کے بعد صدر انجمن احمدیہ کی امانتیں قادیان سے لاہور لانا: صفحہ ۶۸ بیعت کرنا : صفحہ ۷۶ ادا ئیگی نماز سے روکے جانے پر ملازمت سے مستعفی ہوتا : صفحہ ۸۲ غلام محمد امرتسری : صفحه ۱۰۴،۱۰۲،۹۹،۸۷،۸۴،۸۳،۴۹ حضرت خلیفہ اول کی دعا کی بدولت آپ کی اہلیہ کی غلام مصطفی ، ڈاکٹر : صفحہ ۷۳۶۹ غلام نبی امرتسری: صفحه ۸۷ غلام نبی حکیم : صفر ۴۲۰ غلام نبی صاحب مس گر : صفحه ۴۹ شفایابی: صفحه ۸۷ اپنی زندگی حضرت خلیفہ ثانی پر نثا ر کرنے کی دعا: صفحہ ۱۲۰،۱۱۹ خلافت ثانیہ کے خلاف فتنہ انگیزی کرنے پر اپنے داماد سے بیزاری کا اظہار : صفحہ ۱۲۱ فاطمه ( مولوی محمد علی صاحب کی اہلیہ ): صفحہ ۲۶،۲۵ خاندان حضرت مسیح موعود کے افراد کا آپ کے ہاں
قیام : صفحه ۱۲۲ کرشن جی ، مہاراج: صفحه ۱۴۵ حضرت خلیفہ اول کی طرف سے آپ کے خطوط کے کرزن، لارڈ : صفحہ ۱۹۶ جوابات : صفحه ۱۲۴ آپ کی اولاد: صفحہ ۱۲۹ کرم الہی ، ڈاکٹر صفحہ ۴۸ کریم بی بی : صفحہ ۷ حضرت مصلح موعودؓ کی دعا کی بدولت صحت یابی : صفحه ۱۴۱ کفایت اللہ ، مولانا : صفحه ۱۴۴ جہاد ملکانہ میں حضرت خلیفہ ثانی کے بر اور است کمال الدین صاحب، خواجہ صفر ۹۳، ۱۱۷ ،۲۰۲،۱۹۵ ماتحت صفحه ۱۴۴ فضل احمد، چوہدری صفحه ۲۸۰ فضل الہی صاحب : صفحہ ۲۶۸،۲۶۷ فضل الرحمن صاحب، حکیم : صفحه ۱۰۰ ۲۱۰،۲۰۵،۲۰۴،۲۰۳ کمال الدین، مرزا: صفحه ۱۵ گ فضل حق صاحب ، حکیم : صفه ۹۲ ۱۰۰،۹۳، ۱۳۵ گاندھی: صفحه ۴۸ گل شیر : صفحه ۸ فضل الرحمن صاحب،مفتی صفحه ۱۲۴٬۹۸ گل محمد ، شیخ : صفحه ۲۸ فقیر علی صاحب ، بابو : صفحه ۱۱،۱۰،۵، ۱۹،۱۸،۱۶، ۲۴۲۱، گل محمد ، ماسٹر: صفحه ۱۲۳ ۴۴،۴۳،۴۲،۳۵،۳۴،۳۲،۳۱،۳۰،۲۹،۲۷ ۴۵ ، ۴۷، گوکھلے صفحہ ۴۸ ۶۴۶۳،۶۱،۶۰،۵۹،۵۷ ، ۵۴ ۵۲،۵۱،۵۰۰ ۴۹ ۴۸ لانگ مین: صفحه ۵۳ ل لطیف احمد، چوہدری: صفحه ۲۸۰ لعل دین، ڈاکٹر : صفحہ ۶۹ فضل، کریم، شیخ صفحه ۱۸،۲۶۷ فضل محمد خان: صفحه ۲۵۵ فقیر اللہ ، ماسٹر : صفحه ۱۱۴ فقیر محمد صاحب بیجا پوری: صفحه ۲۳۸ فیروز دین: صفحه ۱۴۰ فیض بتول : صفحه ۸۷،۶۸ فین، جنرل صفحه ۱۳۰ قیک قاسم علی صاحب ، میر : صفحه ام قدرت اللہ صاحب ، مولوی: صفحہ ۷ قطب الدین صفحه ۴۹ کرتار سنگھ : صفحہ ۳۹ لہنا سنگھ : صفحہ 9 لیکھرام: صفحہ 1 : لیق احمد طاہر : صفحه ۱۶۲ مبارک احمد : صفحه ۱۴۷ م مبارک احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا: صفحه ۱۲۲ محبوب الہی، شیخ صفحه ۲۸۰ محمد ابراہیم ، صوفی: صفحه ۲۸۱ محمد ابراہیم حس گر : صفحه ۳۷، ۴۹
L محمد احسن صاحب، مولوی صفحه ۱۹ ، ۲۱ ،۱۱۲،۲۳، ۲۰۶،۱۹۰ محمد صادق: صفحه ۱۴۰ محمد احمد : صفحه ۱۲۷،۷۵،۶۷، ۱۶۲،۱۴۱ محمد صادق، مرزا: صفحه ۲۵۷ محمد اسحاق صاحب، میر: صفحه ۲۷۷،۱۳۳ محمد اسلم: صفحہ ۱۱۶ محمد صدیق: صفحه ۴۸ محمد اسلم صاحب، قاضی : صفحہ ۱۵۰،۱۳۸ محمد صدیق (لائبریرین ) : صفحه ۲۷۹ محمد صادق صاحب ، مفتی صفحه ۲۵۵،۱۹۸،۱۶۱،۷۸ محمد اسماعیل صاحب معتبر : صفحہ محمد اسماعیل ، منشی صفحه ۴۶ محمد طفیل صاحب، ڈاکٹر : صفحہ ۱۷۳٬۹۰۷۷،۷۳۷۲ محمد طفیل اختر ، قریشی صفحه ۲۸۰ محمد اسماعیل صاحب میر ، ڈاکٹر : صفحہ ۲۳۲٬۲۲۳ ۲۳۳ محمد ظفر اللہ خانصاحب، چوہدری صفحه ۴۶ ۱۲۱ ۱۲۳، محمد اشرف صاحب، سید : صفحه ۱۱۲ محمد اشرف ، مرزا: صفحه ۸۳٬۳۸ محمد اقبال، پیر: صفحه ام محمد اکرم : صفحه ۱۱۶ محمد امیر: صفحه ۲۵۷ محمد بخش: صفحه ۱۰۵ محمد بخش، حکیم : صفحه ۴۲ محمد بشیر ، ڈاکٹر : صفحہ ۱۵۰ محمد تیمور، شیخ صفحه ۹۵ محمد حسین: صفحه ۱۹۶ ۲۷۹،۱۵۷ محمد ظہور الدین اکمل ، قاضی ، صفحہ ۷۵ محمد عبدالرشید، ڈاکٹر : صفحہ ۱۳۷ محمد عبدالرشید صاحب، شیخ صفر ۹۰ محمد عبد الله ، با بو : صفحہ ۲۸۶ محمد عبد اللہ صاحب حجام : صفحه ۱۲۳ محمد عبداللہ صاحب، ڈاکٹر : صفحہ ۱۳۷ محمد عبد اللہ ، قاضی : صفحه ۲۸۶ محمد عبد اللہ صاحب ، مہر : صفحہ ۴۸ محمد عبد اللہ خانصاحب، نواب : صفحه ۴۱ ، ۲۷۹،۱۵۸ محمد حسین بٹالوی ، مولوی : صفحہ ۷۶ ۷۷ ۲۵۱ محمد علی صاحب : صفحہ ۷۲ محمد حسین شاہ، سید: صفحه ۸۴،۸۳٬۶۸، ۱۱۸ محمد علی صاحب ، ڈاکٹر : صفحہ ۷۳ محمد حسین صاحب قریشی صفحه ۱۳۹ محمد دلاور خانصاحب : صفحه ۱۴۰ محمد دین صاحب، نواب : صفحه ۲۷۹ محمد سرور شاہ صاحب : صفحه ۴۱،۳۸، ۲۰۸ محمد سعید ، با بو : صفحہ ۱۳۷ محمد شفیع اسلم : صفحه ۱۷۱ محمد شفیع داودی: صفحه ۲۵۶ محمد علی خانصاحب ، نواب : صفحه ۹۱، ۱۵۱،۱۲۱،۹۷ محمد علی، شیخ صفحہ ۷۷ محمد علی صاحب ، مولوی: صفحه ۲۶،۲۵، ۳۶، ۷۶،۶۷، ،۱۶۹،۱۱۸،۱۱۵،۱۱۴ ۱۱۲ ۱۱۱ ۱۱۰ ، ۱۰۹ ،۹۲،۸۳،۷۷ ۲۰۹،۲۰۳ محمد عمر صاحب ، حکیم : صفحہ ۱۰۷ محمد عمر، شیخ صفحه ۲۵۵
محمد عیسی : صفحه ۱۳ محمد فاضل ، میاں: صفحہ ۱۷۹ منصور احمد صاحب، صاحبزاره مرزا: صفحه ۱۲۳ منظور الهی: صفحه ۳۰ محمد نزیر صاحب، قاضی: صفحه ۱۳۸ ۱۶۱ ۱۶۲ مہتاب خان صفحه ۸۳ محمد نصر اللہ خانصاحب، چوہدری صفحه ۱۲۳ مهدی حسین ، سید : صفحه ۲۴ محمد یعقوب منشی: صفحه ۴۸ محمد یوسف ٹھیکیدار: صفحه ۹۰۷۴ محمود احمد : صفحه ۴۳ محمود احمد خان: صفحه ۲۸۷ مہر الدین : صفحه ۳۳ مہر سنگھ : صفحہ ۴۷ منگو، میاں: صفحہ ۱۱۰۸ موتی لال نہرو، پنڈت : صفحہ ۴۸ محمود احمد صاحب ، مرزا خلیفہ اسیح الثانی) صفحہ ۴۰،۳۷، موسیٰ (علیه السلام) حضرت : صفحه ۲۸۳ ۴۱ ۴۲ ، ۵۶،۴۷، ۶۷، ۱،۶۸، ۷۷ ۸۲،۸۱،۸۰، ۸۹، مولا بخش صاحب: صفحه ۲۲۵،۴۳،۶ ۹۲،۹۱،۹۰ ، ۱۲۹،۱۲۱،۱۱۷،۱۱۹،۱۱۳،۱۱۲،۱۱۱،۱۱۰،۱۰۹، مولا بخش، میاں: صفحہ ۱۵۸ ۱۲۷، ۱۳۷، ۱۴۱،۱۳۸، ۱۵۱،۱۵۰،۱۴۷، ۱۷۸،۱۷۲،۱۶۷، مہر علی شاہ، پیر : صفحه ۱۸۲ ۲۰۵،۲۰۳،۲۰۲،۲۰۰،۱۹۹،۱۹۸، ۲۲۳،۲۱۲،۲۰۶ ۲۲۴ مهر ماهیا: صفحه ۲۵ ،۲۷۱،۲۶۹،۲۵۸،۲۵۷ ،۲۵۱ ،۲۴۹ ،۲۴۵،۲۳۷ ،۲۲۷ ۲۸۱،۲۷۸،۲۷ آپ کی قبولیت دعا: صفحہ ۱۷۳ نا تھورام : صفحہ 1 ن ناصر احمد صاحب، مرزا ( حضرت خلیفہ امسح الثالث) حضرت خلیفہ الثانی کی فضیلتیں : صفحہ ۲۱۵ صفحه ۱۶۸،۱۲۲،۱۲۰ حج کے لئے روانگی: صفحہ ۱۰۸ ناصر نواب صاحب ، میر : صفحه ۲۲۳،۱۰۹،۵۹ ۲۵۳،۲۲۴ حضرت مسیح موعود کی کاپی الہامات سے اپنی خلافت ناصرہ بیگم صاحبہ، سیده: صفحه ۱۲۰ کے بارہ میں ایک خواب دکھلانا: صفحہ ۱۱۵ محمود عالم : صفحه ۲۸۰ محمود اللہ شاہ صاحب صفحه ۱۰۰ محمدی بیگم: صفحه ۱۲۶ مختار احمد شاہجہانپوری صفحه ۱۷۲ مرلید هر صفحه ۱۲۱۱ مریم صفحه ۱۸ صاحبہ،سیده: بنی بخش صاحب: صفحه ۲۴۷ نبی بخش صاحب کشمیری: صفحه ۴۹ نبی بخش ، صوفی صفحه ۷۸ نزیر احمد صاحب مرحوم ، ماسٹر : صفحه ۱۲۳ نزیر احمد رحمانی ، ماسٹر : صفحه ۱۱۶ نزیر احمد علی صاحب : صفحه ۴۲،۲۱ ۶۳۰ نزیر احمد ، لیفٹیننٹ : صفحه ۱۴۰ مظفر احمد صاحب، صاحبزاره مرزا: صفحه ۱۲۲ نصر اللہ خان : صفحه ۱۴۳،۱۴۰
۹ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ( حضرت ام المومنین ) : صفحه ۱۶، نور محمد منشی صفحه ۳۴ ۲۸۸،۱۵۸،۱۳۵،۱۱۴،۷۷ ،۲۲ نور نشالی: صفحه ۷۰ نظام جان ، حکیم: صفحه ۱۰۵ نعمت خانصاحب، چوہدری صفحه ۲۵۶ نور احمد، شیخ صفی ۱۰۰،۸۳ نہال سنگھ : صفحه ۸۲ وارڈل، میجر : صفحه ۸۹، ۱۲۸ ،۱۷۰،۱۶۹ نور الدین صاحب حکیم (حضرت خلیفہ امسیح الاول وزیر محمد صاحب ، میاں : صفحه ۲۰۳ صفحه ۷۶،۷۵،۳۶،۳۵،۳۴،۳۳،۳۲،۳۱،۲۷،۲۳،۲۱،۱۹، وکٹوریہ، ملکہ: صفحہ ۷۰ ،۹۹ ،۹۸،۹۳ ،۹۱،۹۰،۸۹ ،۸۸ ،۸۷ ،۸۵،۸۴،۸۳ ،۱۲۵،۱۱۲،۱۰۸ ۱۰۷ ۱۰۶ ۱۰۵ ۱۰۴ ۱۰۳ ۱۰۲ ۱۰۱ ۱۰۰ ۲۴۶،۲۰۶،۲۰۵،۲۰۳، ۲۰۱ ،۱۹۳ ۱۹۲ ۱۹۱ ،۱۹۰،۱۸۹ ہری سنگھ، با بو: صفحه۱۳۳٬۸۹ ہرنائی: صفحه ۱۳۴۰ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بنیا درکھنا صفحہ 9 نماز عصر سے نماز مغرب تک تنہائی میں درود شریف پڑھنا صفحه ۹۴ آپ کا عشق رسول : صفحه ۹۵ آپ کی غربا پروری: صفحہ ۱۰۲ ہیر نگٹن ،اے.ڈبلیو.ڈی: صفحہ ۸۸،۶۹، ۸۹ ی یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر : صفحه ۲۰۳٬۸۳ یعقوب علی صاحب، رخانی صفحه ۲۵۱،۱۴۳٬۹۰،۴۱
الف احمد پور ، صفحه ۵۸،۵۷،۱۵ اڑیسہ ، صفحہ ۷۲ افریقہ، صفحہ ۶۹،۴۲ آگره، صفحه ۱۴۴،۱۴۳،۱۴۲، ۱۴۵ الور، صفحه ۱۴۵ امرتسر، صفحه ۳۱،۳۰،۲۱،۱۵،۱۳،۱۱،۷، ،۴۳،۴۲،۴۱ ،۴۰،۳۹،۳۷ ،۳۶،۳۵ ،۵۹،۵۷،۵۵ ،۵۴،۵۳،۵۱،۴۴ ،۱۶۰،۱۵۴،۱۰۸،۹۰،۶۹ ،۶۱،۶۰ ۲۳۳،۲۲۳ مقامات بیت با با بکاله ، صفحه ۳۸ بٹالہ ، صفحہ ۲۷، ۳۷، ۳۸، ۴۱،۴۰،۳۹، ،۷۳ ۷۲ ۷۱ ۷۰ ۶۹،۶۸،۶۷ ،۶۳ پاکپتن ،صفحه ۵۹ پاکستان ، صفحه ۷۳، ۱۷۵،۱۷۱، ۱۸۰، ۲۸۷ ،۲۷۸ پٹھان کوٹ ، صفحہ ے ،۹۷ ،۹۳ ،۹۱،۹۰،۸۲،۷۷ ۷۶ ۷۵ ،۱۶۳،۱۵۳،۱۲۱،۱۲۰، ۱۰۸ ، ۱۰۳ ،۹۹ VVI پٹیالہ ، صفحہ ۱۲۷ پڈعیدن ، صفحه ۵۴ پیشاور ، صفحه ۱۳۶، ۲۰۱ برطانیہ، صفحه ۷۸،۳۹ پھلور ، صفحه ۱۸۵ بلوچستان ، صفحه ۳۴۱۷ بمبئی ، صفحہ ۱۰۸ پنجاب ، صفحه ۱۲ ، ۱۹۹،۵۲،۲۸ ، ۲۴۰ ، ۲۷۹،۲۷۸ بنوں ، صفحہ ۱۲۰،۱۱۶،۶۷، ۱۳۰،۱۲۸، الله الله له الله الله الله له الهدا پنڈھوڑ نا ، صفحہ ۱۴۷ پنڈی گیپ، صفحه ۸۹ امریکہ ،صفحه ۱۹۵،۱۶۱،۷۲ انبالہ ، صفحہ ۷۹،۷۶،۷۳۶۹ ۱۶۳۹۴، بوٹاری، صفحہ ۳۸ تھ غلام نبی ، صفحہ ۱۳، ۱۶ بھارت ، صفحہ ۳۹ ج - چ - ح - خ ۱۶۸ بھاگ ناڑی ، صفحہ ۳۴ جالندھر، صفحہ ۳۸، ۱۸۰،۱۷۹،۱۷۷، انگلستان ، صفحه ۱۸۱،۱۶۲،۱۰۳ بہاولیور ، صفحہ ۲۷۹ ۲۵۲،۲۴۷ ،۲۲۴ ۲۲۰ اوجله صفحه ۱۱،۸، ۲۵،۱۶ بھیٹ ، صفحہ ۳۸ جده ، صفحه ۱۲۷، ۱۶۵ ایران صفحه ۴۸ ۶۳ انڈیا صفحہ ۱۸۴ بھرت پور ، صفحه ۱۴۳ جلال آباد، صفحه ۱۳۵ بھیرہ ،صفحہ ۳۳،۳۱ جموں ، صفحہ ۱۴، ۱۰۶،۷۸
11 جھٹ پٹ،صفحہ ۲۲،۲۰،۱۹،۱۷،۱۵، ۵۴۴۴ جہلم ، صفحہ ۱۳۶،۱۱۸ جھنگ ، صفحه ۱۴۹،۶۳،۴۲،۵ چکدره ، صفحه ۸۷، ۸۸ چمبہ ، صفحہ ۷، ۷۱ چنیوٹ ، صفحہ ۱۵۴،۱۴۷ چھانگا مانگا، صفحہ ۱۵ چھینہ ، صفحہ حیدر آباد، صفحه ۱۳، ۲۶۷ خان پور ، صفحه ۵۴ خلجیاں مغلاں ، صفحہ ۳۳ خوست ، صفحه ۱۳۲ خوشاب ، صفحہ ۱۷۹ خیر پور میرس ، صفحه ۲۳، ۴۸ دو در گئی ،صفحہ ۸۷ دنیرہ ، صفحہ ۷۹ دھار یوال ، صفحہ ۷۲ رانی پور، صفحہ ۴۸ راولپنڈی ، صفحہ ۸۶،۶۷، ۹۶،۸۸ سوچانیاں ، صفحہ ۷ ، ۹ سہارنپور، صفحه ۶۹ سیالکوٹ، صفحہ ۳۳ شاہ پور ، صفحه ۴۲ شمله صفحه ۷۹ ۱۶۸،۱۲۱،۱۲۰، ۱۷۷، ،۲۰۲،۱۹۸ ،۱۹۶ ،۱۸۱،۱۷۹،۱۷۸ ،۲۲۳،۲۲۰،۲۰۸ ،۲۰۶ ۲۰۵ ،۲۰۴ ،۱۲۱،۱۲۰،۱۱۸،۱۱۷ ،۱۱۶ ،۱۱۲،۱۱۱ ،۱۱۰ ،۱۶۸،۱۶۰،۱۳۶،۱۳۵،۱۳۴،۱۳۲ ،۲۳۵،۲۲۸،۲۲۷ ،۲۲۶ ،۱۷۹،۱۶۹ ۲۸۷ ،۲۸۴ ربوه، صفحه ۸۷،۷۸،۶۸،۶۲،۳۵،۵، ، ۲۴۷ ،۲۴۵ ،۲۴۱ ،۲۳۷ ،۲۳۵ ،۲۲۴ ،۲۵۴،۲۵۳،۲۵۲ ۲۵۱ ،۲۵۰،۲۴۸ ،۲۸۱،۲۷۴،۲۶۰،۲۵۸ ،۲۵۶،۲۵۵ ۲۹۰،۲۸۹،۲۸۸،۲۸۷ ،۲۸۳ ،۱۶۱،۱۵۴،۱۴۸ ،۱۳۹،۱۳۷ ،۱۲۸ ،۱۱۶ ،۲۲۷،۱۸۷ ،۱۸۱،۱۸۰،۱۷۹،۱۷۸ ،۲۷۱،۲۶۷ ،۲۴۹،۲۴۳، ۲۳۵،۲۲۸ ۲۸۹،۲۸۸،۲۸۷ ،۲۸۰،۲۷۹ رحیم یار خان ، صفحه ۴۵ رز مک، صفحه ۱۶۸،۱۴۰ رعیہ، صفحه ۳۴ روہڑی ، صفحه ۱۵ سیش ساہیوال ، صفحه ۴۰ ستی ،صفحہ ۱۷ دہلی ،صفحه ۱۴۴،۲۱،۱۳، ۲۵۱،۱۷۸، سٹھا رجہ ، صفحہ ۲۴،۲۳،۱۷،۱۵، ۴۸ ۲۷۴،۲۷۰،۲۵۷ ،۲۵۶ سرگودھا، صفحه ۵۶،۴۷ فق فتح پور ، صفحہ ۱۳۱ فیروز پور ، صفحه ۲۰۳،۱۸۱ قادیان ،صفحه ۲۱،۲۰،۱۸،۱۵،۶،۵، ،۳۵،۳۴،۳۳،۲۸،۲۶ ۲۵ ۲۴ ۲۳ ،۴۳،۴۲،۴۱،۴۰،۳۹،۳۸،۳۷،۳۶ ،۶۳،۶۱،۶۰،۵۹ ،۵۳،۴۹ ،۴۷ ، ۴۶ ،۸۰ ،۷۸ ،۷۵،۷۳،۷۲،۷۱،۶۸ ،۹۹ ،۹۷ ،۹۶ ،۱۱،۸۷،۸۳٬۸۲،۸۱ ،۱۱۵،۱۱۴ ۱۱۳ ۱۱۲،۱۱۱ ، ۱۰۸ ، ۱۰۳۱۰۱ دھرم کوٹ ، صفحہ ۱۳ ۴۰ ۷ ۱۶۳ سکھر،صفحہ ۳۲،۲۸،۲۷،۲۴،۱۵،۱۳، ا، ۱۱۷ ، ۱۲۰ ۱۲۳ ۱۲۸،۱۲۶،۱۲۴ ، ڈلہوزی صفحه ۱۶۶،۸۱،۸۰،۷۹، ۱۶۷ ۵۷،۵۳،۵۲،۴۳ ڈیرہ اسماعیل خان ،صفحہ ۱۵۴۱۴۰ سمہ سٹہ،صفحه ۵۸،۱۵،۹ الدلله الداء الله الله له الله االله ،۱۵۹،۱۵۸،۱۵۱ ۱۵۰ ۱۴۸ ، ۱۴۶ ،۱۸۰،۱۷۲،۱۷۱ ،۱۷۰ ،۱۶ ،۱۶۰ ،۲۰۳،۲۰۱،۱۹۲،۱۹۱،۱۸۶،۱۸۵،۱۸۱ ڈیرہ دون ، صفحه ۴۲ سندھ، صفحه ۸۰،۶۸،۲۰،۱۳،۵ ڈیرہ نواب ، صفحہ ۱۵ سوہل صفحه ۱۵
،۲۲۵ ،۲۲۴ ۲۲۳ ۲۲۲،۲۱۲،۲۱۰ ۱۲ گوجرانوالہ، صفحه ۸۰،۴۱ میریاں ، صفحہ ۴۵،۱۸ ،۲۴۷ ،۲۴۶،۲۴۵ ،۲۴۱،۲۳۵ ،۲۲۷ ، ۲۷۵،۲۷۱،۲۷۰،۲۶۹،۲۵۶ ،۲۵۱ ،۲۸۴،۲۸۳،۲۸۰ ،۲۷۹ ،۲۷۸ ،۲۷۶ ۲۹۰،۲۸۹،۲۸۸ ،۲۸۷ گورداسپور، صفحه ۶،۵، ۱۱،۱۰،۸،۷، مگھیانہ، صفحہ ۶۳ ،۴۳،۴۲،۲۶،۲۵،۲۲،۱۸ ،۱۶،۱۴ ۲۲۲۱۶۳،۶۸،۵۶ گور دست ستلانی ، صفحه ۵۵،۱۵ ک میگ گھسیٹ پور، صفحہ ۱۸ کانگا، صفحہ ۷۶ گھمن خورد، صفحه ۱۰،۸ ملتان ، صفحه ۱۰۳،۶۹ ملکانه ، صفحه ۴۸ ، ۱۴۲،۶۸ ۱۴۳ ۱۴۴ ، ۱۵۷ ممباسه، صفحه ۷۸ کانگڑی صفحه ۵۶،۴۷ کانپور، صفحہ ۱۱۰ کا ہنودان ، صفحہ ۱۸ کچا گڑھی ،صفحہ ۱۳۶ کراچی، صفحه ۱۳، ۴۸، ۲۸۰،۲۷۱،۶۹ کسولی ، صفحہ ۷۶،۶۹ کشمیر ، صفحه ۱۱، ۲۷۰،۱۲۱،۱۰۶،۱۰۵، ۲۸۴،۲۸۰ کلکته ، صفحه ۲۴۵،۴۹ کوٹ رندھاوا، صفحہ ۶۸ منگمری صفحه ۵۹،۴۰ گھمن کلاں ، صفحہ ۱۰ لمن موضع متلے ، صفحه ۱۵۳ موضع صریح، صفحه ۱۸۰ لاہور، صفحه ۲۶،۱۵،۱۴،۱۳،۱۲، ۲۷، ،۶۸،۶۷ ،۴۱،۳۷ ،۳۰،۲۹،۲۸ ،۹۷ ،۹۲،۷۹ ،۷۸ ،۷۳۷۰ ،۶۹ ،۱۳۸،۱۳۶،۱۲۱،۱۱۸ ،۱۱۷ ، ۱۱۴،۱۰۲ ،۱۵۱،۱۵۰،۱۴۶،۱۴۱ ،۱۴۰،۱۳۹ ،۱۶۳،۱۶۲،۱۶۱،۱۶۰،۱۵۴ ۱۵۳ ،۲۱۰،۲۰۶،۲۰۳،۱۹۵،۱۷۲،۱۶۶ مہت پور ، صفحه ۴۵ میراں شاہ ، صفحہ ۱۳۰،۱۲۸ ناگپور، صفحه ۱۴۷ منگل کوٹلی ، صفحہ ۱۴، ۴۳۱۶ نور پور، صفحه ۴۷، ۵۶ نورمحل ،صفحه ۲۲۰ نوشہرہ،صفحہ ۴۱ ،۱۵۷،۱۳۵،۸۸٬۸۷، 171 ۲۸۰،۲۷۹،۲۷۸ ،۲۷۵،۲۵۵،۲۱۲ نوشہرہ مجا سنگھ ، صفحہ ۱۳،۱۰ کوٹ کیورہ ، صفحہ ۱۵ لدھیانہ ، صفحہ ۲۱،۱۱ کوٹ لکھپت ، صفحہ ۵۶،۱۵ لمین کرال ، صفحه ۱۴ و.ہ.ی کو ٹلہ چاہلہ ، صفحہ ے لندن ،صفحه ۱۸۱،۹۷،۵۹ والٹن ،صفحہ ۴۶ کوئٹہ صفحه ۳۵،۳۴، ۱۳۸،۱۳۷ مالا کنڈ ، صفحہ ۸۷ وڈالہ گرنتھیاں،صفحہ ۴۱ کھٹوعہ ، صفحه ۱۴ مالیر کوٹلہ ،صفحہ ۱۵۷ ہر چووال ،صفحہ ۳۸ کیرالہ ، صفحہ ۷۲ مری ، صفحه ۱۲۳،۱۲۲،۱۱۸،۱۰۹، ۱۲۷، ہندوستان ، صفحه ۱۹۵،۱۷۱،۷۲،۱۲، گاڈریاں ، صفحہ ے ۱۴۲،۱۳۷،۱۳۶ ہوشیار پور ، صفحہ ۱۹۰،۴۵،۱۸، ۲۲۵ کجرات ، صفحہ ۱۳۱ مصر، صفحه ۱۰۸ یو.پی ، صفحہ ۷۲۳۸ گلگت صفحه ۳۴ مغلیوره، صفحه ۹۲،۱۵ یورپ ،صفحہ ۱۹۵