Language: UR
حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1949ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ میں فرمایا : ‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : <span class="quranic">اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ</span>۔ عام طور پر اس کے یہ معنی کئے جاتے ہیں کہ مُردوں کی برائی بیان نہیں کرنی چاہئے وہ فوت ہوگئے ہیں اور ان کامعاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے۔ یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن درحقیقت اس میں قومی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے<span class="quranic"> اُذْکُرُوْا مَوْتیٰ بِالْخَیْرِ</span> نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے<span class="quranic"> مَوْتَاکُمْ</span> کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی اپنے مُردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو۔ جس کے معنی ہیں کہ آپؐ نے یہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔‘‘ اس ارشاد کی روشنی میں محترم ملک صلاح الدین صاحب نے ’’اصحاب احمدؑ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کیا جس میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے مختصر حالات شائع کئے جاتے تھے۔ رسالہ کانام حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے نے تجویز فرمایا تھا۔ بعد ازاں بزرگانِ سلسلہ کی تجویز پر ان سوانح کو مفصل اور کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1955ء کے جلسہ سالانہ میں آپ کی اس خدمت کاذکر کرتے ہوئے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور بعض ضروری نصائح فرماکر احباب جماعت کوصحابہ کرام کے حالات زندگی اور تاریخ کے متعلق ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ درجنوں صحابہ کے ابتدائی تعارف پر مشتمل زیر نظر یہ مجموعہ 12 جلدوں پر محیط ہے جو دیدہ زیب ٹائپ شدہ ہیں اور قریبا اڑھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مفید سلسلہ کتب میں معزز مرحومین کی تصاویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بعض جگہ ضروری نقشے اور وضاحتی خاکے بھی بناکر شامل کئے گئے ہیں۔ صحابہ کی خود نوشت تحریرات یا مطبوعہ مواد پر مصنف کتاب کے شامل کردہ حوالہ جات اور ضروری وضاحتی حواشی نے کتاب کی افادیت کو اور بڑھا دیا ہے اور بلاشبہ یہ صرف صحابہ کے حالات زندگی ہی نہیں بلکہ جماعت احمد یہ کی تاریخ کا اہم ذخیر ہ ہے اور مصنف کی طرف سے جماعت کی ابتدائی تاریخ کا قیمتی خزانہ محفوظ کرنے کی ایک نہایت ہی قابل قدر سعی ہے۔
اصحاب احمد جلد دوم سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحب مؤلف ملک صلاح الدین ایم.اے
نام مصنف: اصحاب احمد جلد دوم ملک صلاح الدین ایم
i فہرست عنوانات صفحہ نمبر ۵ ۸ ۹ ۹ ۱۲ ۱۳ ۲۲ ۲۲ ۲۲ ۲۳ ۲۵ ۲۵ ۲۵ ۲۷ ۲۹ ۲۹ ۲۹ ۳۱ ۳۲ عرض حال جلد اوّل پر تبصرہ جلد دوم کے متعلق جلد دوم کی خصوصیت مسودہ کی نظر ثانی شکریہ مالی اعانت مشکلات ضروری گزارش عناوین صحابہ کرام کا مقام مکتوبات احمدیہ بابت عرض حال جلد اوّل ایک روایت کے بارہ میں صحیح بابت مقدمه کرم دین مزید بابت سفر لد ہیانہ مزید بہ تعلق علی گڑھ مزید به تعلق ۳۱۳ صحابه حضرت عرفانی صاحب کا تبصرہ ضمیمہ دیباچہ اصحاب احمد مزید لبعض امور چار روایات بابت مقدمه کرم دین نواب صاحب کا شہر والا مکان
صفحہ نمبر ۳۳ ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۵ 13 7 7 8 8 9 11 11 12 14 15 15 17 21 24 28 36 39 46 لله ج این ان ت به لام له له ها هم 13 عناوین مزید بابت فونوگراف بابا عبدالکریم صاحب عطار حضرت مولوی عبد القادر صاحبان مرزا رحمت اللہ بیگ صاحب قاضی زین العابدین صاحب محمد سعید صاحب طرابلسی و غیره حضرت نواب محمد علی خان صاحب خاندانی حالات شجر ونسب ازالہ اوہام میں مذکورہ حالات ولادت نواب صاحب اور آپ کے بھائی بہن بچپن میں موت سے نجات والدہ محترمہ کا ذکر خیر والد بزرگوار کی طرف سے اعلیٰ تربیت آپ کی تعلیم بچپن میں اخلاق فاضلہ، عزم ، قوم کے لئے غیرت وغیرہ والدین کا انتقال اور بہن بھائیوں کی پرورش کا بارگراں ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات طفولیت سے شرک ، بدعات ہمکروہات سے طبعی نفرت پہلی شادی اور ترک رسوم طفولیت سے مذہب کی طرف رجحان شیعیت میں تربیت لیکن اس سے نفرت کا اظہار سرسید کی خدمات کا اعتراف براہین احمدیہ اور نواب صاحب مالیر کوٹلہ حضور کی مالیر کوٹلہ میں تشریف آوری حضرت مسیح موعود سے تعلقات کا آغاز قادیان میں پہلی آمد بغرض تحقیقات حضرت اقدس سے استفسار اندراج رجسٹر بیعت بیعت کا اخفاء
صفحہ نمبر 48 57 ة الله امین و ای ای دی 8 8 8 لا له وه 50 50 54 55 56 57 61 62 65 66 71 75 81 86 95 99 102 111 112 113 119 121 121 123 127 129 عناوین حضرت کی تحریک میں اعلانِ بیعت کلیه ترک شیعیت کب اور کیونکر کی حضرت مسیح موعود کا مکتوب اور نواب صاحب کو قادیان آنے کی تحریک پہلا جلسہ سالانہ جلسہ ۱۸۹۲ء کن حالات میں ہوا حضرت مسیح موعود کی تحریک سے نواب صاحب کی جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شمولیت کوائف جلسہ سالانه ۱۸۹۲ء تین سو تیرہ صحابہ کا جلسہ جلسہ پر آنے والے مخلصین اور آنحضرت کی پیشگوئی نواب صاحب کا تین سو تیرہ صحابہ میں سے ہونا کسوف و خسوف آتھم کی پیشگوئی پر ابتلاء طلب ثبوت نا پسندیدہ نہیں حضرت عمرؓ سے مماثلت حکومت کی وفاداری اور ملکہ وکٹوریہ کی جو بلی وغیرہ حضرت مولوی صاحب مالیر کوٹلہ میں حضرت مولوی صاحب کی شادی کے لئے کوشش حضرت اقدس کی طرف سے نواب صاحب کو ملاقات کی بار بار ترغیب ہجرت کے محرکات ہجرت میں التواء ہجرت ہجرت کے متعلق آپ کے جذبات قادیان کے قیام میں مشکلات ہجرت کی قبولیت حضور کی شفقت شفقت کا ایک عجیب نظارہ قادیان میں مکان بنانے کی تحریک آپ کی عمارات کا بابرکت ہونا
صفحہ نمبر 136 137 139 140 142 142 142 143 145 146 148 148 149 150 150 153 154 155 156 158 160 161 161 166 166 166 167 168 iv عناوین حضرت اقدس کا باغ میں قیام انجمن مصلح الاخوان اور مدرسۃ الاسلام کا قیام حضرت اقدس کی طرف سے قادیان میں مدرسہ کے قیام کی تجویز اشتہار ایک ضروری فرض کی تعمیل“ تسمیہ مدرسہ مدرسہ کا اجراء مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان مدرسہ کی مالی امداد کی تلقین مدرسہ کی بہتری کے لئے حضرت نواب صاحب کی ایک تجویز ہجرت کر کے آجانے کی تحریک با وجود التوائے ہجرت حضرت نواب کا تقر ر بطور ڈائریکٹر بطور ڈائریکٹر نواب صاحب کے وسیع اختیارات شاخ دینیات کا اجراء اور بعض دیگر کوائف کن حالات میں آپ گوڈائریکٹر بنایا گیا جماعت کی خدمت میں مدرسہ تعلیم الاسلام کے سیکرٹری کی درخواست انتظام مدرسه بعد از هجرت چندہ کی تقسیم حضرت اقدس کے نام اور حضرت نواب صاحب کے نام چندہ کے متعلق مشکلات حضرت اقدس کا مدرسہ کے چندہ کے متعلق اعلان مدرسہ کی مالی مشکلات اور نواب صاحب کی طرف سے امداد انسپکٹر مدارس کی رپورٹ اوورسیئر کلاس کا اجراء ارشاد حضرت اقدس درباره امداد مدرسه تعلیم الاسلام کالج قادیان کا قیام وافتتاح تقریب افتتاح پر سادگی حضرت اقدس کی علالت اور دعا کا وعدہ تقریر نواب محمد علی صاحب تقریر حضرت مولوی نورالدین صاحب
صفحہ نمبر 173 174 174 175 176 180 180 186 186 191 192 194 195 198 199 207 209 210 219 221 222 223 224 226 230 231 243 244 V عناوین کالج کے لئے حضرت اقدس کی دعا ڈائریکٹر صاحب کا عریضہ حضرت اقدس علیہ السلام کا جواب تعلیم وانتظام مدرسه و کالج مدرسہ کے کام میں شغف آپ کی مدرسہ سے مجبور علیحدگی مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کا نیا انتظام مدرسہ کا نیا انتظام نواب صاحب کی توجہ نواب صاحب کی اہلیہ کی وفات مرحومہ کے بطن سے اولاد دوسری شادی شادی سے سکونِ قلب اہلیہ ثانی کی وفات مرحومہ کی تدفین مرحومہ کی حضرت اقدس کی طرف سے تربیت مرحومہ کی تدفین اور اخلاق وغیرہ ورثہ کی تقسیم نواب صاحب کی بلند اقبالی نواب صاحب کا پردہ کے متعلق تشدد پردہ کے تشدد کی وجہ اسلامی پرده سیده مبارکہ بیگم صاحبہ کے رشتہ کے متعلق جنبانی نکاح کی بابت خط و کتابت حضور کی طرف سے مہر کی تعیین اعلان نکاح خطبہ نکاح اخراجات برموقع نکاح اس نسبت فرزندی پر نواب صاحب کا تشکر
صفحہ نمبر 246 248 251 252 253 256 264 265 266 269 273 273 274 278 279 280 293 294 296 301 301 302 308 308 310 311 vi عناوین رخصتانه نواب مبارکه بیگم صاحبه ڈائری نواب صاحب بابت رخصتانہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے رشتہ کی تحریک اس رشتہ کے لئے نواب صاحب کی قربانی حضرت اقدس کی طرف سے جلد نکاح ہو جانے کی تحریک اعلان نکاح مبارک مبارک تقریب نواب صاحب کی مہلت طلبی پر رخصتانہ کے لئے مہلت ملنا حضرت مرز اشریف احمد کی شادی مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کے غیر احمدی رشتہ کا انفاخ میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کے رشتہ کے متعلق خط و کتابت نواب صاحب کی طرف سے سلسلہ جنبانی نواب صاحب گوذ مہ داری کا حد درجہ احساس نواب صاحب کی طرف سے یاددہانی حضور ایدہ اللہ کا جواب نواب صاحب کی طرف سے دوبارہ تحریک اور اس کی قبولیت اعلان نکاح رخصتانه دعوت ولیمہ شجرہ نسب ( اولا د نواب صاحب) خلافت اولی میں فتنہ اختلاف ابتداء کیوں کر ہوئی حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی مولوی محمد علی صاحب کا حضرت مسیح موعود کے گھر کو اپنا گھر نہ سمجھنا نواب صاحب کا بیان خواجہ صاحب کے متعلق حضرت مسیح موعود کی وفات کے چھٹے روز اس گروہ کی حالت ۱۳ جنوری ۱۹۰۹ ء کا معرکۃ الآراء دن.حضرت خلیفہ اول کے عزل کی کوشش
vii عناوین اس روز کی اہمیت اور احباب کا کرب و اضطراب خواجہ صاحب اور محمد علی صاحب کی از سر نو بیعت لینا اور ان کی باطنی حالت خفیہ ریشہ دوانیاں کتوب نواب محمدعلی خاں صاحب نام حضرت خلیق مسیح نواب صاحب وصی حضرت خلیفتہ اسی اول وانتخاب حضرت خلیفہ اسیح الثانی اہلبیت حضرت خلیفہ اول کے اخراجات استحکام خلافت کے لئے نواب صاحب کی مساعی انتخاب خلافت ثانیہ و تحریک بیعت کا اعلان تحریک بیعت خلافت کے لئے ایک اور اعلان شرائط بیعت خلافت کے متعلق غلط بیانیوں کی تردید شرائط بیعت الفاظ بیعت مخالفین کے اعتراضات کی تردید میں اعلان خلافت ثانیہ میں پہلی شوری کا بلایا جانا اور قواعد صدرانجمن میں تبدیلی مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق نواب صاحب کی شہادت صدر انجمن سے استعفاء حضرت اقدس کے مقام کے متعلق نواب صاحب کا بیان حضرت نواب صاحب کا مقام اور خلافت ثانیہ سے عقیدت علمی مذاق.علماء کی تکریم بچوں کے لئے تالیفات.بچوں کی تربیت کا شوق انکسار خدام و ملازمین سے حسنِ سلوک دوسروں کی عفت اور جماعت کی عزت کا خیال غرباء پروری رفاہ عام کے کام بزرگوں کی خدمت اقارب سے حسن سلوک صفحہ نمبر 313 314 316 329 364 370 371 371 372 372 372 373 375 375 378 379 380 384 385 386 394 396 402 403 405 406 407
صفحہ نمبر 412 423 424 426 430 430 431 432 432 435 435 436 436 443 444 445 448 448 449 452 454 454 454 457 460 462 462 viii خدمات سلسلہ عناوین تبلیغ تبلیغ کو خلافت وقار نہ سمجھنا حمہ اللہ کا خطاب پہلا با تنخواہ مبلغ جماعت احمدیہ قادیان کے دو جلیل القدر انسان آگرہ میں اقارب کو تبلیغ ہمشیرہ بوفاطمہ صاحبہ کا قبول احمدیت بوصاحبہ موصوفہ کا تقویٰ بوصاحبہ موصوفہ کی استقامت بعض دیگرا قارب کا قبول احمدیت کرنل اوصاف علی خاں صاحب کا قبولِ احمدیت مرض الموت میں تبلیغ تجویز میموریل انفاق فی سبیل اللہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی طرف سے تعریف سلسلہ کی ضروریات اور نواب صاحب کی مالی حالت دوصدا کیاسی رو پیه چنده پانچ صدر و پیر قرض دینا الہام وسع مکا تک کے تعلق میں انفاق ۹۸ء میں مدرسہ کی اعانت حضرت اقدس کی خدمت میں دو صد روپیہ بھیجا حضور کی خدمت میں تین صد روپیہ بھیجا حضور کی طرف سے تعریف.سفر نصیبین کے لئے اعانت منارة اسبیح کے لئے چندہ مرکز میں لائبریری کے قیام میں اعانت بمقد مہ کرم دین حضور کے جرمانہ کی رقم ادا کی پانصد روپیہ بھیجنا
صفحہ نمبر 463 465 466 466 467 467 468 469 470 471 481 482 483 485 492 495 501 506 517 520 609 609 613 615 618 620 621 623 ix عناوین بزرگان سلسلہ کی طرف سے تحریکات معزز الحکم کی اعانت دار الضعفاء کے لئے زمین دینا الفضل کے اجراء میں اعانت ۱۹۱۳ء کا افسوسناک سال سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت فتنہ ملکانہ کے موقعہ پر ایک ہزار روپی دینا تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج میں شمولیت نواب صاحب کا دوسروں کو چندہ کی تحریک کرنا فونوگراف سے تبلیغ حضور کے سفر سیالکوٹ کے لئے خدمت قیام قادیان.ایک خدمت قادیان میں فنانشنل کمشنر کی آمد حضرت خلیفہ اول سے محبت اور آپ کی خدمت اور آپ کی نواب صاحب سے محبت خدمات صدر انجمن احمد سیہ وغیرہ غیبت سے نفرت ،صاف گوئی ، جرات، بزرگوں کی قدر صبر و استقامت ، توکل اور عفاف احمدیت کے لئے جذبۂ قد رو احترام، الحب اللہ و البغض اللہ ، غیروں سے حسن سلوک پابندی صوم وصلوۃ ، تہجد گزاری اور تلاوت قرآن مجید حضرت نواب صاحب کی ڈائری.(۹ جنوری ۱۸۹۸ تا ۲۹ مئی ۱۹۰۸ء) نشانات معجزہ شفایابی میاں عبدالرحیم خاں صاحب خاندانی حقوق کے متعلق معجزانہ کامیابی ایک پیشگوئی کے شاہد مزید ذکر لٹریچر میں مرض الموت وفات اور تجہیز وتدفین آپ کی ایک نیکی اور اللہ تعالیٰ کا فضل
صفحہ نمبر 625 627 629 631 632 633 637 638 639 639 640 641 642 648 657 667 669 667 X مرض الموت کے حالات عناوین حضرت مسیح موعود جتنی عمر پانے کی خواب الفضل میں ذکر خیر الطارق میں ذکر خیر نوائے پاکستان میں ذکر خیر حضرت عرفانی صاحب کے تاثرات جرات اور طلب حق رشوت سے نفرت ایثار نفس آخری علالت ووفات وصیت کتبہ کی عبارت حسن خاتمه دین سے محبت اور دعاؤں میں شغف حضور کی طرف سے تربیت حضور اور حضرت ام المؤمنین کی طرف سے شفقت نواب صاحب کا اخلاص حضرت نواب صاحب حضرت اقدس کی نظر میں حضرت اقدس کی دعا ئیں نواب صاحب کے لئے
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَّلِي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُود مع التسليم عرض حال میں اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجو دہوں کہ محض اس کے فضل اور رحم سے اصحاب احمد کی جلد دوم پا یہ تکمیل کو پہنچ رہی ہے.اور آئندہ بھی اسی سے استعانت کرتا ہوں رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعِلَّى الْعَظِيمِ جلد اوّل پر تبصرے جلد اول کے متعلق بزرگانِ کرام اور سلسلہ کے اخبارات کے بعض تاثرات کا ذیل میں اندراج کیا جاتا ہے: ۱- قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: " کتاب بہت خوب ہے.اللہ تعالی آپ کے اخلاص اور محنت کو قبول فرمائے اور اس ( کی ) اشاعت کو مثمر ثمرات حسنہ بنائے.آمین.“ پھر تحریر فرماتے ہیں : " آپ کی تصنیف اصحاب احمد مجھے مل گئی تھی.جزاکم اللہ بہت اچھی اور محنت سے لکھی ہوئی ہے.مگر بعض خفیف غلطیاں ہوگئی ہیں جن کے متعلق کتاب کو دوبارہ پڑھ کر اطلاع دے سکوں گا.اللہ تعالیٰ آپ کو اس محنت کا اجر عطا فرمائے.“ ۲- حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتی ہیں: اللہ تعالیٰ آپ کے کام اور محنت اور ارادوں میں برکت دے اور یہ مبارک کام اُس کی نصرت سے احسن طور پر آپ کے ہاتھوں سے انجام کو پہنچے اور ہمیشہ ہمیش تک دُنیا کے لئے بابرکت اور آپ کے لئے ثواب خیر کا موجب ہو.آمین.“
.حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بنت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریرفرماتی ہیں: یہ کام آپ کا تاریخ احمدیت میں قیامت تک یاد گار ہے گا.اس سے استفادہ اٹھانیوالے آپکو مسلسل ثواب پہنچانے والے ثابت ہو نگے.انشاء اللہ.اس قسم کی کتب جو دراصل تاریخ ہیں آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دُہرا اجر دینا ہے انشاء اللہ.ایک تو قادیان کی بابرکت رہائش اور پھر اسی ضمن میں یہ شاندار خدمات.جزاكم الله احسن الجزاء.“ - حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری مقیم ربوہ تحریر فرماتے ہیں: میں اس نہایت مفید تالیف پر بڑی مسرت سے آپ کو مبارک باد دیتا ہوں.اللہ کرے زور قلم اور زیادہ بعض صاحبوں نے اس کی ترتیب کے متعلق مجھ سے کلام کیا ہے....بڑی ہستیوں کے حالات لکھنے پر تو بہتوں کو توجہ ہو سکتی ہے مگر جو لوگ زیادہ شہرت نہیں رکھتے ان کی طرف توجہ کرنے والے بھی کم ہوتے ہیں اور ان کے حالات کا علم بھی کم لوگوں کو ہوتا ہے اگر ان کے حالات محفوظ نہ کر لئے جائیں تو اکثر رہ جاتے اور پھر محفوظ نہیں کئے جاسکتے.“ ۵- حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نزیل پشاور تحریر فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے تصنیف کے بعض پہلوؤں کے لحاظ سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے اس کارِ خیر میں بہت ہی بڑی محنت اور جد و جہد سے کام لیا ہے.“ حضرت مولوی صاحب کا ممنون ہوں کہ آپ نے اس مفضل مکتوب میں مفید ہدایات رقم فرمائی ہیں.- حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پراونشل امیر صوبہ سرحد ( پاکستان ) تحریر فرماتے ہیں: ان کی زندگی کے حالات مختصر صورت میں جمع کرنے میں کا مش طبع سے کام لیا ہے.سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اصحابی کا لنجوم بایھم اقتديتم اهتدیتم یعنی میرے اصحاب ستارے ہیں ان میں سے جس کی اقتدا کرو گے ہدایت پاؤ گے.اسی طرح حضرت احمد قادیانی نے فرمایا ہے.صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
-2...پس ان کے حالات کا جمع کرنا اور شائع کرنا جماعت احمدیہ کی آنے والی نسلوں کے واسطے موجب ازدیاد ایمان و عرفان ہونگے اور تقوی وطہارت میں ترقی کا موجب ہو نگے اور دعوت وتبلیغ میں ممد ہو نگے.اس کمی کو پورا کرنے کا عملی ثبوت ملک صلاح الدین صاحب نے دیا.جزاهم الله احسن الجزاء....دارا مسیح اور مساجد قادیان وغیرہ کے نقشوں نے کافی محنت کی ہے اور ایک ضروری ریکارڈ محفوظ کر لیا ہے.موقع بر موقع صحابہ کی تصاویر بھی شامل ہیں جن پر ضرور بڑا خرچ آیا ہوگا....کتاب کو پڑھ کر دل مسرور اور محظوظ ہوا اور بے اختیار ملک صاحب موصوف کے حق میں دُعا نکلی.اللہ تعالیٰ ان کو عمر دراز صحت کامل اور ہمتِ عالیہ دے کہ وہ اس سلسلہ کو تکمیل تک پہنچاسکیں.آمین.‘“ معزز الفضل نے ذیل کا تبصرہ شائع کیا: اب تک احمدیہ لٹریچر میں کوئی ایسی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے سوانحی حالات ایک جگہ مرتب کئے گئے ہوں.اس ضرورت کو ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ناظر تعلیم و تربیت قادیان نے محسوس کیا اور عرصہ دراز کی محنت و کاوش کے بعد ” اصحاب احمد“ کے نام سے صحابہ مسیح موعود کا تذکرہ بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا.یہ اس مقدس تذکرہ کی پہلی جلد ہے جس میں چودہ صحابہ مسیح موعود کے مفصل و مکمل حالات.آٹھ عدد تصاویر، قادیان کے مقدس مقامات کے پندرہ نقشے اور حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ تعالیٰ بنصر العزیز و حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے کئی خطوط کے عکس شامل ہیں.بحیثیت مجموعی کتاب نہایت دلچسپ اور سبق آموز ہے.یہ عظیم الشان کام اگر اس وقت نہ کیا جا تا تو پھر کبھی اس کے ہونے کی امید نہ تھی.اللہ تعالیٰ ملک صلاح الدین صاحب کو جزائے خیر دے جنہوں نے اس کی ترتیب و تالیف میں پہلے کافی محنت برداشت کی اور پھر بڑی مشکلات اٹھا کر قریباً دو ہزار روپیہ اس کی طباعت اور تیاری میں خرچ کیا جب جا کر یہ نایاب چیز زیور طبع سے آراستہ ہو سکی.اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر احمدی کے گھر میں یہ کتاب موجود ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس صحابہ کے ذاتی حالات سے ہر شخص نصیحت اور سبق حاصل کرے اور ان کی زندگیوں کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے.‘ I -^ مکرم شیم احمد صاحب کی طرف سے اصلح کراچی میں ذیل کا تبصرہ شائع ہوا: اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ناظر تعلیم و تربیت قادیان
دار الامان کو نوازے اور انہیں اپنی رحمت خاص سے جزا عطا فرمائے جنہوں نے اصحاب احمد کی پہلی جلد حال ہی میں شائع کر کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے حالات کی اشاعت کا مبارک کام شروع کیا ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے حالات کو محفوظ کرنے کیلئے ہمارے بزرگوں نے اس زمانے میں جب کہ نہ تو سفر کی سہولتیں میسر تھیں اور نہ چھاپے خانوں کی جس محنت اور جانفشانی سے کام کیا ہے وہ بے نظیر ہے.حقیقت یہ ہے آج تمام سہولتیں میسر ہونے کے باوجود ہم اس وقت تک اس بارے میں اس مقدس کام کا عشر عشیر بھی سرانجام نہیں دے سکے جو ہمارے بزرگوں نے کوئی بھی سہولت میسر نہ ہونے کے باوجود اس بے سروسامانی کی حالت میں دنیا کو مکمل کر دکھایا تھا.یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو نبی کے ساتھ پیوست کر دیتے ہیں.وہ خدا تعالیٰ کی برکات سے حصہ پا کر دنیا کے لئے ابر رحمت بن جاتے ہیں اور دنیا کے لوگ ان کی وجہ سے بہت سی بلاؤں اور آفات سے محفوظ ہو جاتے ہیں.آج مغربیت کے اثر کے ماتحت گو ہم ان مقدس انسانوں کے مدارج کی حقیقت کو کما حقہ نہ سمجھ سکیں لیکن خوب یا درکھیں کہ وہ وقت دور نہیں جب کہ ہم کو پچھتانا پڑے گا.اور کفِ افسوس مل کر کہنا پڑے گا کہ کاش ہم وقت پر اُن خدا تعالیٰ کے زندہ نشانوں سے فائدہ اُٹھاتے.ہم وقت پر ان کی قدر کرتے اور اُن کے نقش قدم پر چل کر اپنے تئیں اُن کے رنگ میں رنگین کر لیتے.وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے آخری زمانہ کے مامور اور مرسل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے کی سعادت بخشی ان کی زندگیوں کے ایمان افزا اور رُوح پرور واقعات کے نظارے صدیوں بعد ہی مشاہدے میں آسکتے ہیں.ایسے انسانوں کی زندگی کے حالات کو قلمبندا اور محفوظ کرنے کے لئے جو بھی سعی کی جائے وہ قابل قدر ہے.آنے والی نسلیں اس انسان پر دُعا اور سلام بھیجیں گی جس نے صحابہ کے حالات محفوظ کر کے دنیا کو ایک بیش بہا نعمت سے متمتع ہونے کا موقع بہم پہنچایا ہے.‘ (بابت ۵۱-۹-۲۳) ان کے علاوہ اور بھی بہت سے احباب نے خوشی کا اظہار فرما کر میری حوصلہ افزائی فرمائی ہے.فجزاہم اللہ تعالی.سارے خطوط محفوظ نہیں رہ سکے چنانچہ ایسے خطوط مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ربوہ.مکرم سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوة و تبلیغ ربوہ.اخویم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ وکیل الا علی ربوہ سابق امام مسجد لندن - اخویم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ.اخویم مولوی عبدالرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور اخویم چوہدری ظہور احمد صاحب معاون ناظر بیت المال ربوہ کی طرف سے موصول ہوئے تھے.
یہ حقیقت ہے کہ اپنے پیارے آقا علیہ وعلی مطاعہ الصلوۃ والسلام کی محبت ان تاثرات کا باعث ہوئی ہے.پیارے اور محبوب سے تعلق رکھنے والی ہر بات دل کو بھاتی ہے اور چونکہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے اقوالِ مبارکہ وغیرہ اس کتاب میں درج تھے اس لئے احباب نے کتاب کو بصد شوق قبول فرمایا.جلد دوم کے متعلق حضرت نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات کی فراہمی کیلئے میں نے اپنی بساط کے مطابق کافی کوشش کی.حالات کی فراہمی آپ کی وفات کے جلد بعد شروع کر دی تھی.فسادات میں اس ضمن میں میں نے کام جاری رکھا چنانچہ ۳ اکتو بر ۴۷ ء کو جب کہ قادیان پر حملہ ہوا میں اس تعلق میں ڈائری کی نقل کر رہا تھا ضیاع کے خوف سے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی خدمت میں لاہور بھجوا دی.اس ضمن میں تین دفعہ مالیر کوٹلہ کا سفر کر کے بہت سی مفید معلومات مکرم میاں محمد عبد الرحمن خان صاحب سے حاصل کیں اور بہت سی خط و کتابت بھی کرنی پڑی.سرسید کی تحریک کے تعلق میں علیگڑھ سے بھی بعض کوائف حاصل کئے.علاوہ ازیں سلسلہ کی مطبوعات پر بھی وسیع نظر ڈال کر سلسلہ کے اخبارات ورسائل الحکم ، البدر، بدر، ریویو آف ریلیجنز ، تحی الا زبان، افضل ، رسالہ تعلیم الاسلام کے علاوہ برا من احمدیہ ازالہ او ہم آئینہ کمالات اسلام، انجام آنتم، اوہام ، انوار الاسلام، ضیاء الحق ، نزول اسی ، جلسه احباب، حقیقۃ الوحی تبلیغ رسالت، مکتوبات احمدیہ، مکتوبات امام بنام غلام، منصب خلافت ، برکات خلافت ، القول الفصل ، انوارِ خلافت، حقیقۃ الامر، آئینہ صداقت،اظہارحقیقت، کشف الاختلاف ، اہل پیغام کے بعض خاص کارنامے ، سیرۃ مسیح موعود ، سیرۃ المہدی، تذکرۃ المہدی، ذکر حبیب اور آئینہ حق نما سے استفادہ کیا اور غیر مبائیعین کی کتب میں مسجد داعظم اور اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب اور مخالفین کے لٹریچر میں سے ایک امر کے لئے رسالہ اشاعۃ السنہ کو مدنظر رکھا گیا.جلیل القدر صحابہ کے تعلق میں خصوصاً بہت زیادہ محنت اور جانفشانی درکار ہے اور مجھے اس اقرار میں باک نہیں کہ اس سلسلہ میں ابھی مزید محنت کی گنجائش تھی.جو قلت علم اور قلت وقت کے پیش نظر یا مجبوری حالات نہیں کی جاسکی.جلد دوم کی خصوصیات جلد ہذا کی بعض خصوصیات احباب کے علم کے لئے درج ذیل کی جاتی ہیں : (1) الحمد للہ کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو درجن کے قریب غیر مطبوعہ مکتوبات شائع کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے جن میں حضور کی غیر مطبوعہ وحی درج ہے اسی طرح حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا
ایک غیر مطبوعہ مکتوب درج کیا ہے جس میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی غیر مطبوعہ وحی درج ہے.(۲) خلافت اولی میں پیدا ہونے والے فتنہ کے متعلق نئی پود کی خاطر بہت سی تفصیل دی گئی ہے.حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا اعلان اخبار الرحمت میں ایک مضمون کے شائع ہونے کے سلسلہ میں اس امر کی اہمیت ظاہر کرتا ہے اس فتنہ کے تعلق میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت نواب صاحب کے بعض غیر مطبوعہ مکتوبات شائع کئے گئے ہیں.(۳) میری خوش قسمتی ہے کہ اس کتاب میں مجھے مندرجہ ذیل صحابہ کرام سے استفادہ کر کے اس کتاب کو زنیت دینے کا موقعہ ملا.(۱) حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی (۲) حضرت ام المومنین اطال اللہ بقاء ها (۳) حضرت اماں جی اہلبیت حضرت خلیفہ اسی اول (۴) قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (۵) سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ (۶) سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ (۷) شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی (۸) مفتی محمد صادق صاحب (۹) مولانا مولوی غلام رسول صاحب راجیکی (۱۰) میاں محمد الدین صاحب واصل باقی نویس درویش مرحوم (۱۱) بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی درویش (۱۲) بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی درویش (۱۳) مولوی محمد الدین صاحب بی.اے سابق مبلغ امریکہ و ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام قادیان حال ناظر تعلیم و تربیت ربوہ (۱۴) ملک غلام فرید صاحب ایم.اے سابق مبلغ جرمنی و انگلستان و مدیر ریویو آف ریلیجنز (اردو و انگریزی) حال ربوہ (۱۵) نواب میاں محمد عبداللہ خاں صاحب (۱۶) مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ امیر مقامی و ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ قادیان (۱۷) نواب میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب (۱۸) چوہدری نور احمد خاں صاحب ( سابق سکنہ سٹروعہ ضلع ہوشیار پور ) کارکن پنشنر صد را مجمن احمدیہ حال مقیم بمقام درہٹہ.ڈاکخانہ حرم گیٹ لیستی نیل کوٹ ضلع ملتان(۱۹) ڈاکٹر عطر الدین صاحب درولیش ( ۲۰ ) میاں محمد عبداللہ خاں صاحب پٹھان درویش کا رکن دفتر محاسب قادیان (۲۱) سید عبدالرحمن صاحب متوطن امریکہ (پسر سید عزیز الرحمن صاحب منصوری) (۴) حضرت خلیفہ اسیح " اول اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحب اور حضرت حافظ احمد اللہ صاحب کے بعض غیر مطبوعہ خطوط محفوظ کرنے اور بعض کے چر بے شائع کرنے کا موقع ملا ہے.-۵- ضمناً ۳۱۳ صحابہ اور بعض دیگر صحابہ کے سوانح بھی درج کئے گئے ہیں.اور مجھے اُمید نہیں کہ ان احباب میں سے ایک کثیر تعداد کے متعلق کہیں سے اور کچھ مواد دستیاب ہو سکے.گویا کہ ان کے حالات جتنے ملنے ممکن ہیں سارے درج کئے گئے ہیں.
4- قادیان کے جن مقامات مقدسہ کا ذکر آیا ہے ان کے نقشے دیئے گئے ہیں.یہ نقشے اصحاب احمد کے بغیر ہمارے لٹریچر میں شائع نہیں ہوئے.مالیر کوٹلہ کے جس محل میں حضرت اقدس نے نواب ابراہیم علی خاں سے ملاقات کی تھی اس کے نقشہ کی خاطر خاکسار جمعیت مکرم مرزا برکت علی صاحب وہاں گیا لیکن والئی ریاست کے وہاں نہ ہونے کی وجہ سے حاصل نہ ہو سکا.ے.براہین احمدیہ کے تعلق میں نواب اقبال الدولہ اور سردار عطر سنگھ صاحب رئیس بھڈور نے اعانت کی تھی جس کا حضور نے وہاں ذکر فرمایا ہے.ان دونوں کا مختصر حال مع تصاویر درج کیا گیا ہے.یہ تصاویر اور حالات سلسلہ کے لٹریچر میں پہلی دفعہ شائع ہورہے ہیں.-^ ی تعیین کی گئی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کن چند ایام کے اندر۸۴ء میں پہلی بارسفر لدھیانہ پر اور وہاں سے مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے تھے.- بعض مکتوبات کے زمانہ تحریر کی تعین کی گئی ہے.۱۰- حضرت مولوی نورالدین صاحب حضرت نواب صاحب کو قرآن مجید پڑھانے کے لئے تشریف لے گئے تھے.آپ کے عرصہ قیام کی تعین کی گئی ہے.-11 ذیل کی تصاویر بھی درج کی گئی ہیں :.(الف) حضرت اقدس و خلفاء کرام.(ب) نواب ابراہیم علی خاں صاحب.(ج) حضرت نواب صاحب.آپ کے برادران و صاحبزادگان.(1) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب.حضرت نواب صاحب اور جماعت شملہ کی ۱۹۱۳ء کی تصویر.مسودہ کی نظر ثانی قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم سے ہر کٹھن امر کے متعلق مجھے بہترین مشورہ حاصل ہوتا رہا ہے میں آپ کا ازحد ممنون ہوں.از راہ کرم حضرت عرفانی صاحب نے از خود ہی مسودہ ملاحظہ کرنے کی پیشکش کر دی تھی.بعد میں صدر انجمن احمد یہ قادیان نے بھی ان سے درخواست کی آپ باوجود حد درجہ کی مصروفیت کے بہت ہی تیز رفتاری سے اور پوری توجہ سے مسودہ ملاحظہ فرماتے رہے ہیں حتی کہ ایک روز آپ کو سکندر آباد (دکن) میں
قریباً دوصد صفحات کا مسودہ پہنچا.آپ نے راتوں رات ملاخطہ فرما کر صبح مجھے واپس بھجوا دیا.حق یہ ہے کہ آپ کی نظر ثانی کے بغیر کتاب میں بہت سقم رہ جاتے جو آپ کی نظر ثانی سے ہی میری سمجھ میں آئے ہیں.میں آپ کا بہت ممنون ہوں.یہ کہنا بیجا نہیں کہ تاریخ سلسلہ کے تعلق میں آپ کا وجود بالکل نادر ہے.نیز میں بہت ہی ممنون ہوں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا کہ آپ کے ساتھ دار المسیح میں ایک ہی جگہ رہنے کے باعث ہر وقت آپ سے استفادہ کرتا رہتا ہوں اور کاتب کے سپر د کر نے سے قبل آپ کو مسودہ سُنا دیتا ہوں اور بہت سے مفید مشورے حاصل کرتا ہوں.نقشے خالصہ آپ کی نگرانی اور مشورہ سے تیار کئے گئے ہیں.فجزاه الله احسن الجزاء اسی طرح گذشتہ کتاب کی طرح مکرم مرزا برکت علی صاحب اسٹنٹ انجنیئر اینگلو میرا نین آئل کمپنی ایران رخصتی کا بھی بہت ممنون ہوں.کہ گذشتہ کتاب کے لئے بھی انہوں نے بہت سے مقامات مقدسہ کے نقشے تیار کئے تھے اور کتاب ہذا کے لئے نقشے بھی انہوں نے ہی تیار کئے ہیں.ایران کے حالیہ تنازعات کے باعث اللہ تعالیٰ نے دو تین ماہ بعد ہی پھر قادیان آجانے اور اس نادر اور قیمتی خدمت سرانجام دہی کا موقعہ عنایت کیا.فجزاه الله احسن الجزاء جلد اول کی طباعت کے لئے مکرم شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی اور جلد دوم کی طباعت کے لئے مکرم مولوی علی محمد صاحب اجمیری فاضل ( سابق ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز ) حال راولپنڈی اور کا پیاں پڑھنے اور مسودات کا مقابلہ کرنے وغیرہ امور کے لئے مکرم مولوی محمد عبد اللہ صاحب در ولیش افسر لنگر خانه ( سابق سکنه دینا پور ضلع ملتان ) مکرم مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری فاضل درویش ( معاون ناظر دعوة و تبلیغ و صدر حلقه مسجد فضل قادیان ) مکرم چوہدری فیض احمد صاحب درویش ( معاون ناظر تعلیم و تربیت قادیان و نائب افسر بہشتی مقبرہ) اخویم شریف احمد صاحب شیخو پوری در ویش ( کلرک دفتر ناظم جائداد ) اور اخویم چوہدری محمد احمد صاحب گجراتی درویش ( حلقہ اقصے ) کا اور بلا تاخیر فائل وکتب لائبریری سے مہیا کرنے کے لئے مکرم دفعدار مرز امحمد عبد اللہ صاحب گجراتی لائبریرین درویش و مکرم ملک ضیاء الحق صاحب دوالمیالی درویش کا ممنون ہوں.اسی طرح مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ امیر مقامی و ناظر اعلی قادیان وا خویم سیٹھ محمداعظم صاحب حیدر آباد دکن کی طرف سے مجھے بہت مفید مشورے اور کئی قسم کی اعانت حاصل ہوئی.دکن کی تمام اعانت اخویم مولوی
محمد اسمعیل صاحب وکیل ہائیکورٹ یادگیری (دکن) کی توجہ کا اور سرگودھا والی اعانت مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ پراونشل امیر جماعت احمدیہ (سرگودھا) کی توجہ کا نتیجہ ہیں.اخویم شیخ مبارک احمد صاحب فاضل رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے دوصد نسخے وہاں کے احباب کے لئے خرید کئے.فجزاهم الله احسن الجزاء.مالی اعانت ا جلد دوم کی طباعت کے لئے ذیل کے احباب نے اعانت فرمائی ہے.(ان کے علاوہ ان احباب کا میں نے ذکر یہاں نہیں کیا جنہوں نے مہربانی کر کے مجھے قرض عنایت کیا ہے )فجزاهم الله احسن الجزاء.حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندرآباد (دکن) دو صد ر و پیر اور کئی صد روپیہ کی کتب -1 ۲- اخویم سیٹھ محمد معین الدین صاحب تاجر چینت کند (دکن) چار صد روپیہ.گذشتہ سال انہوں نے جو کئی صدر و پیہ قرض دیا تھا اسے بھی اعانت میں تبدیل فرما دیا ) -- اخویم شیخ محمد دین صاحب ٹھیکہ دار بھٹہ سیکرٹری تحریک جدید جماعت احمد یہ سرگودھا.دوصد روپیه -۵ اخویم مولوی محمد سلیم صاحب فاضل مبلغ کلکته اخویم ڈاکٹر حافظ بدرالدین احمد صاحب بور نیو یکصد روپیه یکصد شلنگ -۶- محترمه خانم زبیده پروین صاحبہ رڑ کی چھاؤنی ( جو محترم خان عبدالمجید خاں صاحب مجسٹریٹ کپورتھلہ پنشنر کی صاحبزادی اور کرنل اوصاف علی خاں صاحب مرحوم کی بہو ہیں ) پچاس روپیہ -2 -^ پچاس روپیه ا خویم ٹھیکہ دار بشیر احمد صاحب درویش مکرم سید عبد الرحمن صاحب متوطن امریکہ (پسر سید عزیز الرحمن صاحب منصوری رضی اللہ عنہ ) نے ایک سو ڈالر کی اعانت کا وعدہ کیا.اس میں سے یکصد روپیدا دا کر چکے ہیں.مشکلات اس کتاب کی کتابت و طباعت میں گونا گوں مشکلات تھیں اس لئے بامر مجبوری کتابت کچھ قادیان میں یں مجھے دسمبر ۵ء میں مکرم چوہدری محمد شریف صاحب فاضل مبشر فلسطین کے مکتوب سے معلوم ہوا کہ وہاں کی اقتصادی حالت کا یہ حال ہے کہ ان کو دو وقت صرف خشک روٹی میسر آتی ہے اس پر مولوی محمد سلیم صاحب فاضل مبلغ کلکتہ نے میری تحریک پر پچاس روپے بھجوانے کے لئے دیئے اور پچیس روپے میں نے بھجوانے کا ارادہ کیا لیکن چوہدری صاحب موصوف نے تحریر کیا کہ انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا.اگر مجھے رقم دینے پر اصرار ہو تو
اور کچھ دہلی میں اور طباعت کا (انتظام) راولپنڈی میں کرنا پڑا.دوسری مشکل یہ ہے کہ مصنف حضرات اس امر سے ناواقف نہیں کہ تصنیف کے کام کے لئے کتب و فائل وغیرہ پاس ہونے چاہئیں کہ میری طرح دو دو ہفتہ کا عرصہ بعض کتب کی تلاش میں صرف نہ کرنا پڑے اِسلئے بمشورہ یہ صلاح ٹھہری ہے کہ مستقل کام شروع کرنے کے لئے اخبارات ورسائل کے سابقہ فائل اور کتب سلسلہ وغیرہ خرید کی جائیں جس پر ایک ہزار روپیہ کے لگ بھگ رقم صرف ہونے کا اندازہ ہے.نیز احتیاط کی خاطر میں نے اپنے مسودات منگوا کر ان کی نقول کروائیں تا ہندوستان و پاکستان ہر دو جگہ مسودہ کی ایک ایک نقل رکھی جاسکے.اسی طرح کتاب کا مسودہ بھی وقت بچانے کے لئے نقل کروانا پڑتا ہے.کیونکہ مجھے متعدد دفاتر کا کام کرنا پڑتا ہے.سلسلہ کی ضروریات کے لیئے بسا اوقات سفر بھی کرنے پڑتے ہیں اس لئے صرف فارغ اوقات میں ہی تصنیف کا کام کیا جا سکتا ہے سو ان نقول و غیرہ پر قریباً سات صد روپیہ خرچ آیا ہے.کتاب راولپنڈی میں چھپوانی پڑی ہے.اور کتابت دہلی میں ہورہی ہے اور مسودہ نظر ثانی کے لئے رکن بھجوایا جاتا ہے.اسی طرح فراہمی حالات کے تعلق میں ڈاک کے کافی اخراجات کرنے پڑے گذشتہ سال سے اس مد میں اس وقت تک تین صد روپیہ صرف کرنا پڑا ہے.ان اخراجات کے علاوہ کتابت طباعت اور کاغذ اور بلاک بنوائی کے کثیر اخراجات یہ سب کچھ میری حد برداشت سے باہر ہے.جب میں نے کتابت شروع کروائی اس وقت میرے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا.ایک روز یکدم زور سے تحریک دل میں اُٹھی کہ کتابت شروع کروا دوں.چنانچہ اگلے دن جمعہ کے روز مسجد مبارک میں حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی سے دعا کرا کے کتابت شروع کرادی.اور اللہ تعالیٰ نے امداد و قرض کے رنگ میں سامان کر دیا.لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ وقت جو کہ اس کام کے لئے صرف کیا جاسکتا ہے.اس کا بیشتر حصہ مالی مشکلات کے حل کے لئے صرف کرنا پڑتا ہے.میرا پہلا تجربہ تو یہ ہے کہ فروخت کی رقم سے اخراجات پورے نہیں ہو سکتے ایک حصہ تصنیف کا مفت بھی دینا پڑتا ہے.اعانت کی رقوم سمیت بمشکل اخراجات پورے ہوتے ہیں یہ کام ایسا نہیں کہ جس میں تعویق کی جاسکے.جلیل القدر صحابہ کرام بقیہ حاشیہ: - پچاس روپے اصحاب احمد کے لئے اور چھپیں روپے ایک اور کار خیر میں ان کی طرف سے دے دوں.اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص میں لمحہ بہ لحہ ترقی عطا کرے.میں اس خط کو پڑھ کر شرمندہ ہوں کہ گجا میری حالت اور گجا ایسے اخلاص والے لوگ.اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی رحم فرمائے.میں ان کی اس پیش کش کے قبول کرنے سے معذور ہوں.جزاه الله احسن الجزاء.
میں سے صرف چند ایک باقی ہیں ان کے زمانہ میں جو کچھ شائع ہوگا اس کی تصحیح بھی ہو سکے گی.اور ان سے مدد بھی مل سکے گی جو بعد میں حاصل نہ ہو سکے گی.سو یہ قلیل زمانہ بہت قیمتی ہے.اخراجات کا انتظام ہونے پر ایک سال میں دو بلکہ زیادہ جلدیں شائع کی جاسکتی ہیں.اور اس طرح کام زیادہ تیزی سے ہوسکتا ہے.میرے بس میں جو کچھ ہے وہ تو میں کرتا ہوں مثلاً اپنی نیند کم کر دوں.اپنے ذاتی کاموں کے حرج کی پرواہ نہ کروں دوستوں سے میل ملاقات کم کروں.اسی طرح باوجود ڈاکٹری مشورہ کے اور بار بار کے مشورہ کے سیر و تفریح ترک کئے رکھی.کاغذ کی بچت کی خاطر مستعمل لفافے نوٹ وغیرہ کے لینے کے لئے استعمال کرتا ہوں.جو کچھ احباب کے ذمہ ہے اس کے متعلق وہ خود سمجھ سکتے ہیں مجھے اس امر سے تکلیف ہوتی ہے بعض صحابہ کے حالات کی فراہمی میں ان کے اقارب تعاون نہیں کرتے اور خطوط کا جواب تک نہیں دیتے.مجھے ایک بزرگ کا مشورہ ملا ہے کہ اس کام میں قرض لینے سے احتراز کروں اور نہ کسی وقت مشکل میں پھنس جاؤں گا.اور آئندہ میں اسی پر عمل پیرا ہونے کا ارادہ رکھتا ہوں.بہر حال اس کام کی اہمیت احباب پر واضح کر دی گئی ہے.میرے لئے بحالات موجودہ جتنا ممکن ہے انشاء اللہ تعالیٰ اتنا شائع کرتا جاؤنگا.ولا حول ولاقوة الا بالله العلى العظيم بعض دوستوں نے تحریر فرمایا ہے کہ پہلے صرف اولین اور جلیل القدر صحابہ کے حالات یا ۳۱۳ صحابہ کے حالات شائع کرنے مناسب تھے میں نے جلد اوّل کے عرضِ حال میں تفصیلاً عرض کیا ہے کہ حالات کی فراہمی میں صد با مشکلات درپیش ہیں.۳۱۳ صحابہ میں سے بعض کے متعلق کسی ایک بات کا بھی علم نہیں ہوتا.چنانچہ اس کتاب میں جلسہ سالانہ ۹۲ ء کے ضمن میں متعد د۳۱۳ اصحاب کے حالات میں نے درج کئے ہیں.ہمارے موجودہ قدیم ترین صحابہ بھی ان میں سے بعض کے متعلق ایک لفظ نہیں بتا سکے اور بعض کے متعلق جو تفصیل ملی ہے وہ چند سطور سے زیادہ نہیں.اس صورت میں دوسروں کے حالات کو روکے رکھنا میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اب وقت غنیمت جان کر جتنے اصحاب کے حالات شائع کئے جاسکیں اس میں تعویق مفید ثابت نہ ہوگی لیکن میں نے یہ التزام رکھا ہے کہ اصحاب احمد میں مقصود بالذات وفات یافتہ صحابہ کے حالات کا شائع کرنا ہے.بعض دوستوں نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ حالات زیادہ مبسوط نہیں ہونے چاہئیں لیکن میری رائے میں اگر غیر مطبوعہ مو اداس وقت طبع نہ کیا جائے تو سلسلہ کی تاریخ کا ایک کارآمد حصہ بغیر مفید جرح وقدح کے رہ جائے گا میرے لئے یہ امر باعث مسرت ہے کہ اصحاب احمد کی تصنیف حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کے سوانح موسومہ حیات قدسی حصہ اول دوم کے جنوری اور ستمبر ۵۷ء میں شائع ہونے کا موجب ہوئی.یہ سوانح جس قدر ایمان افروز ہیں قارئین کرام سے مخفی نہیں.اسی طرح اصحاب احمد جلد اول کی
۱۲ اشاعت کے بعد حضرت عرفانی صاحب کو تحریک ہوئی کہ حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب رضی اللہ عنہ کا تذکرہ لکھنے کے متعلق اپنا وعدہ پورا کریں.چنانچہ آپ نے اخویم مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل وکیل یادگیری کی امداد سے اڑھائی صد صفحات پر مشتمل ” تذکرہ حسن، تصنیف فرمایا ہے جس کی قیمت تین روپے ہے.حضرت مصنف کسی تعریف کے محتاج نہیں کہ ان کی تصنیف کے متعلق کچھ لکھا جا سکے آپ کے نام سے ہی آپ کے کام کے علو مرتبت کا اندازہ ہوسکتا ہے جلد اول میں میں نے بھی مختصر ا حضرت سیٹھ صاحب کے حالات دیئے تھے.یہ خوشی کی بات ہے کہ حضرت عرفانی صاحب کے قلم سے خوب مفصل حالات ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئے ہیں.ہر دو کتب ہندوستان میں میر رفیع احمد صاحب دار مسیح قادیان سے اور پاکستان میں شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی رام گلی نمبر ۳ مکان نمبر ۱۸لا ہور سے دستیاب ہوسکتی ہیں.ضروری گذارش میرے مخاطب تابعین کرام ہیں ان کی خدمت میں مودبانہ التماس ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا خيــر الـقـرون قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم “ کو بعد میں ظاہری فتوحات اور اسلامی عروج اور شان و شوکت کا زمانہ آنیوالا ہے.لیکن روحانیت کے لحاظ سے میری صدی بہترین ہے.پہلی صدی وہ تھی جس میں آنحضرت صلعم اور آنحضرت صلعم کے صحابہ تھے جن کے عشق و محبت کا نظارہ دنیا نے کبھی نہ دیکھا تھا.اے میرے دوستو جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فدا نفسی وابی واقعی ) کے مثیل علیہ السلام کا زمانہ نہیں پایا.یہ زمانہ پھر نہ لوٹے گا.حضور کی ولادت پر ایک سوسترہ سال آغاز بیعت پر تریسٹھ سال اور حضور کے وصال پر چوالیس سال بیت چکے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ ہم اس زمانہ سے دُور جارہے ہیں.اب بھی حضور کے صحابہ کرام کی وجہ سے ہمارے لئے خیر القرون کے زمانہ کا ایک حصہ باقی ہے.ہم ان چلتے پھرتے عشق و فدائیت کے مجسموں کو بعد میں تلاش کریں گے اور محروم رہیں گے.اگر ہم ان موتیوں کی قدر نہیں کرتے ان سے پوری طرح مستفیض نہیں ہوتے اور ان کی پاک صحبتوں سے استفادہ نہیں کرتے تو بعد میں سوائے حسرت کے ہمارے لئے کچھ نہ ہوگا.ان سے فائدہ اُٹھانا چاہئیے.ان سے پاک باتیں سُن کر.اُن سے دُعائیں لیکر.ان کے بابرکت دور کے ممتد ہونے کے لئے دعائیں کر کے.ان کی باتوں کو محفوظ کر کے.ان کے سوانح اور سلسلہ کی تاریخ محفوظ کر کے اور سب سے بڑھ کر کہ ان کی سی فدائیت للہیت اور عشق و محبت اور جذ بہ قربانی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے کہ روحانی سلسلے بہترین جانشینوں کے ساتھ جلدی ترقی کرتے ہیں مبادا کوئی دوسری قوم بہترین جانشین ثابت ہو اور وہ ہم سے گوئے سبقت لے
جائے.اللهم وفقنا لما ترضى - آمین صحابہ کرام کا مقام ۱۳ صحابہ کرام کا جو مقام ہے اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ؎ مُبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا مجھ کو پایا وہی مے اُن کو ساقی نے پلادی فسبحان الذي اخزى الاعادي اسی طرح حضور علیہ السلام ڈاکٹر عبدالحکیم کے جواب میں فرماتے ہیں: آپ کہتے ہیں کہ صرف ایک حکیم مولوی نورالدین صاحب اس جماعت میں عملی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں دوسرے ایسے ہیں اور ایسے ہیں میں نہیں جانتا کہ آپ اس افترا کا کیا خدا تعالیٰ کو جواب دینگے میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ نیچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیروؤں سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزار ہادرجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہرہ پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں.ہاں شاذونادر کے طور پر اگر کوئی اپنی فطری نقص کی وجہ سے صلاحیت میں کم رہا ہو تو وہ شاذ و نادر میں داخل ہے میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے ہزار ہا آدمی دل سے فدا ہیں اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دستبردار ہو جاؤ تو وہ دستبردار ہو جانے کے لئے مستعد ہیں پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سُنا تا.مگر دل میں خوش ہوں.اس بارہ میں حضرت امیر المونین خلیفہ مسیح الثانی ید اللہ تعالی فرماتے ہیں: لوگوں کو یہ احساس ہونا چاہئیے کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
۱۴ دعوی کے ابتدائی ایام میں آپ پر ایمان لائے آپ سے تعلق پیدا کیا اور ہر قسم کی قربانیاں کرتے ہوئے اس راہ میں انہوں نے ہزاروں مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ان کی وفات جماعت کے لئے کوئی معمولی صدمہ نہیں ہوتا.میرے نزدیک ایک مومن کو اپنی بیوی.اپنے بچوں.اپنے باپ.اپنی ماں اور اپنے بھائیوں کی وفات سے ان لوگوں کی وفات کا بہت زیادہ صدمہ ہونا چاہئے.پس ایسے لوگوں کی وفات ایک بہت بڑا اور اہم مسئلہ ہوتا ہے اور ان لوگوں کے لئے دُعا کرنا ان پر احسان کرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنے اوپر احسان ہوتا ہے کیونکہ جو شخص ان لوگوں کے لئے دُعا کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کا بدلہ دینے کے لئے اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس دُعا کرنے والے کے لئے دُعا کریں اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ تمہاری دُعا سے خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی دُعا زیادہ سُنی جائیگی.حدیثوں میں آتا ہے کہ جب کوئی مومن نماز میں اپنے بھائی کے لئے دُعا کرتا ہے تو اس وقت وہ اپنے لئے دُعا سے محروم نہیں ہوتا بلکہ اس وقت فرشتے اس کی طرف سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جو کچھ خدا تعالیٰ سے وہ اپنے بھائی کے لئے مانگتا ہے اور کہتا ہے کہ خدایا اسے فلاں چیز دے وہی دُعا فر شتے اس کے لئے مانگتے ہیں اور کہتے ہیں یا اللہ ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ تو اس دعا کو مانگنے والے کو بھی وہ چیز دے جو یہ اپنے بھائی کیلئے مانگ رہا ہے....میں آج کا خطبہ بھی اسی مضمون کے متعلق پڑھنا چاہتا ہوں اور جماعت کے دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ابتدائی زمانہ میں خدمات کی ہیں ایسی ہستیاں ہیں جو دنیا کے لئے ایک تعویذ اور حفاظت کا ذریعہ ہیں چونکہ یہ مغربیت کے زور کا زمانہ ہے اس لئے لوگ اس کی قدر نہیں جانتے اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ کا کس طرح یہ قانون ہے کہ پاس کی چیز بھی کچھ حصہ ان برکات کا لے لیتی ہے جو حصہ برکات کا اصل چیز کو حاصل ہوتا ہے.قرآن کریم نے اس مسئلہ کو نہایت ہی لطیف پیرایہ میں بیان فرمایا اور لوگوں کو سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں.یہ بات تو ظاہر ہی ہے کہ نبی کی بیویاں نبی نہیں ہوتیں پھر ان کو مومنوں کی مائیں کیوں قرار ددیا گیا ہے.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر برکات لے کر آتے ہیں ان کے ساتھ
۱۵ گہرا تعلق رکھنے والا انسان بھی کچھ حصہ ان برکات سے پاتا ہے جوا سے حاصل ہوتی ہیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب کبھی بارش نہیں ہوتی تھی اور نماز استسقاء ادا کرنی پڑتی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طرح دُعا فرمایا کرتے تھے کہ اے خدا پہلے جب کبھی بارش نہیں ہوتی تھی اور ہماری تکلیف بڑھ جاتی تھی تو ہم تیرے نبی کی برکت سے دُعا مانگا کرتے تھے اور تو اپنے فضل سے بارش برسا دیا کرتا تھا مگر اب تیرا نبی ہم میں موجود نہیں.اب ہم اس کے چچا حضرت عباس کی برکت سے تجھ سے دعا مانگتے ہیں.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی تو ابھی آپ نے اپنے ہاتھ نیچے نہیں کئے تھے کہ بارش برسنی شروع ہو گئی.اب حضرت عباس خدا تعالی کی طرف سے کسی عہدے پر قائم نہیں کئے گئے تھے ان کا تعلق صرف یہ تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چاتھے.اور جس طرح بارش جب برستی ہے تو اس کے چھینٹے اردگرد بھی پڑ جاتے ہیں بارش صحن میں ہورہی ہوتی ہے تو برآمدہ وغیرہ بھی گیلا ہو جاتا ہے اسی طرح خدا کا نبی ہی اس کا نبی تھا مگر اس سے تعلق رکھنے والے.اس کی بیویاں اور اس کے بچے.اسکی لڑکیاں اس کے دوست اور اس کے رشتہ دار سب انسان برکات سے کچھ نہ کچھ حصہ لے گئے جو اس پر نازل ہوئی تھیں کیونکہ یہ خدا کی سنت اور اس کا طریق ہے کہ جس طرح بیویاں بچے اور رشتہ دار برکات سے حصہ لیتے ہیں اسی طرح وہ گہرے دوست بھی برکات سے حصہ لیتے ہیں.جو نبی کے ساتھ اپنے آپ کو پیوست کر دیتے ہیں یہ لوگ خدا کی طرف سے ایک حصن حصین ہوتے ہیں اور دنیا ان کی وجہ سے بہت سی بلاؤں اور آفات سے محفوظ رہتی ہے مجھے جو شعر بے انتہا پسند ہے ان میں سے چند شعر وہ بھی ہیں جو حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے وقت ایک مجذوب نے کہے.تاریخوں میں آتا ہے کہ حضرت جنید بغدادی جب وفات پاگئے تو ان کے جنازہ کے ساتھ بہت بڑا ہجوم تھا اور لاکھوں لوگ اس میں شریک ہوئے.اس وقت بغداد کے قریب ہی ایک مجذوب رہتا تھا بعض لوگ اسے پاگل کہتے اور بعض ولی اللہ سمجھتے وہ بغداد کے پاس ہی ایک کھنڈر میں رہتا تھا کسی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا اور نہ لوگوں سے بات چیت کرتا مگر لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ
۱۶ گئے کہ جب جنازہ اٹھایا گیا تو وہ بھی ساتھ ساتھ تھا.راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا وہ نماز جنازہ میں شریک ہوا قبر تک ساتھ گیا اور جب حضرت جنید بغدادی کو لوگ دفن کرنے لگے تو اس وقت بھی وہ اسی جگہ تھا جب لوگ حضرت جنید بغدادی کو دفن کر چکے تو اس نے آپ کی قبر پر کھڑے ہو کر یہ چار شعر کہے.وَاسَفَا على فراق قوم والمدن والمزن والرواسي لم تَتَغَيَّر لنا الليالي هم المصابيح والحصون والخير والامن والسكون حتى توقهم المنون فكل جمر لنا قلوب وكل ماء لنا عيون اس کے معنے یہ ہیں کہ :.ہائے افسوس ان لوگوں کی جدائی پر جو دنیا کے لئے سورج کا کام دے رہے تھے اور جو دنیا کے لئے قلعوں کا رنگ رکھتے تھے اور انہی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے عذابوں اور مصیبتوں سے دنیا کو نجات ملتی تھی وہ شہر تھے جن سے تمام دنیا آباد تھی وہ بادل تھے جو سو کبھی ہوئی کھیتیوں کو ہرا کر دیتے تھے وہ پہاڑ تھے جن سے دنیا کا استحکام تھا.اسی طرح وہ تمام بھلائیوں کے جامع تھے اور دنیا ان سے امن اور سکون حاصل کر رہی تھی.ہمارے لئے زمانہ تبدیل نہیں ہوا مشکلات کے باوجود ہمیں چین ملا.آرام حاصل ہوا اور دُنیا کے دُکھوں اور تکلیفوں کے لئے ہمیں گھبراہٹ میں نہ ڈالا مگر جب وہ فوت ہو گئے تو ہمارے سکھ بھی تکلیفیں بن گئے اور ہمارے آرام بھی دُکھ بن گئے...پس اب ہمیں کسی آگ کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے دل خود انگارا بنے ہوئے ہیں اور ہمیں کسی اور پانی کی ضرورت نہیں کیونکہ ہماری آنکھیں خود بارش برسا رہی ہیں.یہ ایک نہایت ہی عجیب نقشہ ایک صالح بزرگ کی وفات کا ہے اور کہنے والا کہتا ہے کہ یہ اشعار اس مجذوب نے کہے اور پھر وہ وہاں سے چلا گیا.جب دوسرے دن اس کھنڈرکو دیکھا گیا تو وہ خالی تھا اور مجذوب اس ملک کو ہی چھوڑ کر چلا گیا تھا.تو یہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ کے انبیاء کی صحبت حاصل ہوتی ہے.یہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے انبیاء کا قرب رکھتے ہیں خدا تعالیٰ کے نبیوں اور اس کے قائم کردہ خلفاء کے بعد دوسرے درجہ
۱۷ پر دنیا کے امن اور سکون کا باعث ہوتے ہیں.یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ بڑے لیکچرار ہوں ، ایسے لوگ خطیب ہوں.یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ پھر پھر کر لوگوں کو تبلیغ کرنے والے ہوں ان کا وجود ہی لوگوں کے لئے برکتوں اور رحمتوں کا موجب ہوتا ہے اور جب کبھی خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی نافرمانی کی وجہ سے کوئی عذاب نازل ہونے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس عذاب کو روک دیتا ہے اور کہتا ہے ابھی اس قوم پرمت نازل ہو کیونکہ اس میں ہمارا ایسا بندہ موجود ہے جسے اس عذاب کی وجہ سے تکلیف ہوگی.پس اس کی خاطر دنیا میں امن اور سکون ہوتا ہے.مگر یہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائے یہ تو اس عام درجہ سے بھی بالا تھے ان کو خدا نے آخری زمانہ کے مامور اور مرسل کا صحابی اور پھر ابتدائی صحابہ بننے کی توفیق عطا فرمائی اور ان کی والہانہ محبت کے نظارے ایسے ہیں کہ دنیا ایسے نظارے صد یوں دکھانے سے قاصر رہے گی.پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے نقش قدم پر جماعت کے دوستوں کو چلنے کی کوشش کرنی چاہیئے.کہنے والے کہیں گے کہ یہ شرک کی تعلیم دی جاتی ہے یہ جنوں کی تعلیم دی جاتی ہے.یہ پاگل پن کی تعلیم دی جاتی ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ پاگل وہی ہیں جنہوں نے اس رستہ کو نہیں پایا اور اس شخص سے زیادہ عقلمند کوئی نہیں جس نے عشق کے ذریعہ خدا اور اس کے رسول کو پالیا اور جس نے محبت میں محو ہو کر اپنے آپ کو ان کے ساتھ وابستہ کر دیا.اب اسے خدا سے اور خدا کو اس سے کوئی چیز جد انہیں کرسکتی کیونکہ عشق کی گرمی ان دونوں کو آپس میں اس طرح ملا دیتی ہے جس طرح ویلڈنگ کیا جاتا ہے اور دو چیزوں کو جوڑ کر آپس میں بالکل پیوست کر دیا جاتا ہے مگر وہ جسے محض فلسفیانہ ایمان حاصل ہوتا ہے اس کا خدا سے ایسا ہی جوڑ ہوتا ہے جیسے قلعی کا ٹا نکا ہوتا ہے کہ ذرا گرمی لگے تو ٹوٹ جاتا ہے مگر جب ویلڈنگ ہو جاتا ہے تو وہ ایسے ہی ہو جاتا ہے جیسے کسی چیز کا جزو ہو.پس اپنے اندر عشق پیدا کرو.اور وہ راہ اختیار کرو جو ان لوگوں نے اختیار کی پیشتر اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو صحابی باقی ہیں وہ بھی ختم ہوجائیں....یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہزاروں نشانوں کا چلتا پھرتا ریکارڈ
۱۸ تھے.نہ معلوم لوگوں نے کس حد تک ان ریکارڈوں کو محفوظ کیا ہے مگر بہر حال خدا تعالیٰ کے ہزاروں نشانات کے وہ چشم دید گواہ تھے ان ہزاروں نشانات کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ اور آپ کی زبان اور آپ کے کان اور آپ کے پاؤں وغیرہ کے ذریعہ ظاہر ہوئے.تم صرف وہ نشانات پڑھتے ہو جو الہامات پورے ہوکر نشان قرار پائے مگر ان نشانوں سے ہزاروں گنے زیادہ وہ نشانات ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی زبان.ناک کان ہاتھ اور پاؤں پر جاری کرتا ہے اور ساتھ رہنے والے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ خدا کے نشانات ظاہر ہورہے ہیں وہ انہیں اتفاق قرار نہیں دیتے کیونکہ وہ نشانات ایسے حالات میں ظاہر ہوتے ہیں جو بالکل مخالف ہوتے ہیں اور جن میں ان باتوں کا پورا ہونا بہت بڑا نشان ہوتا ہے.پس ایک ایک صحابی جو فوت ہوتا ہے وہ ہمارے ریکارڈ کا ایک رجسٹر ہوتا ہے جسے ہم زمین میں دفن کر دیتے ہیں اگر ہم نے ان رجسٹروں کی نقلیں کرلی ہیں تو یہ ہمارے لئے خوشی کا مقام ہے اور اگر ہم نے ان کی نقلیں نہیں کیں تو یہ ہماری بدقسمتی کی علامت ہے.بہر حال ان لوگوں کی قدر کرو.ان کے نقش قدم پر چلو اور اس بات کو اچھی طرح یا درکھو کہ فلسفیانہ ایمان انسان کے کسی کام نہیں آتا وہی ایمان کام آ سکتا ہے جو مشاہدہ پرمبنی ہو اور مشاہدہ بغیر عشق نہیں ہوسکتا جو شخص کہتا ہے کہ بغیر مشاہدہ کے اسے محبت کامل حاصل ہو گئی ہے وہ جھوٹا ہے مشاہدہ ہی ہے جو انسان کو عشق کے رنگ میں رنگین کرتا ہے اور اگر کسی کو یہ بات حاصل نہیں تو وہ سمجھ لے کہ فلسفہ انسانوں کو محبت کے رنگ میں رنگین نہیں کرسکتا.فلسفہ صرف دُوئی پیدا کرتا ہے.“ اسی طرح حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اگر نبی کے زمانہ میں لوگ خصوصیت سے عزتیں اور رتبے حاصل کرتے ہیں تو اس کی وجہ ہوتی ہے کہ ان کو دوسرے لوگوں سے زیادہ قربانیاں کرنے کا موقع ملتا ہے ور نہ خدا لحاظ دار نہیں...یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی قربانیوں کو ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا تھا کہ جس سے زیادہ انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں آتا.بھلا ان باتوں کا خیال بھی تو کرو اور اندازہ لگاؤ ان قربانیوں کا جو ان لوگوں نے کیں.ہمارے ہاں اگر کسی کو پانچ بجنے کے بعد کسی دن دفتر میں ایک آدھ گھنٹہ کام کرنا پڑے تو گھبرا جاتا
۱۹ ہے.مگر ذرا ان لوگوں کی حالت تو دیکھو....جنگ احد کے موقع پر جب ایک غلط فہمی کی وجہ سے صحابہ کا لشکر میدان جنگ سے بھاگ گیا اور کفار کو یہ معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف چندا فراد کے ساتھ میدانِ جنگ میں رہ گئے ہیں تو قریباً تین ہزار کا فروں کا لشکر آپ پر چاروں طرف سے امڈ آیا.اور سینکڑوں تیراندازوں نے کمانیں اُٹھا لیں اور اپنے تیروں کا نشانہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ کو بنالیا تا کہ تیروں کے بوچھاڑ سے اس کو چھید ڈالیں.اسوقت وہ شخص جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو کھڑا کیا وہ طلحہ تھا.طلحہ نے اپنا ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کھڑا کر دیا اور ہر تیر جو گرتا تھا بجائے آپ کے چہرہ پر پڑنے کے طلحہ کے ہاتھ پر پڑتا تھا.اس طرح تیر پڑتے گئے یہاں تک کہ زخم معمولی زخم نہ رہے اور زخموں کی کثرت کی وجہ سے طلحہ کے ہاتھ کے پٹھے مارے گئے اور اُن کا ہاتھ مفلوج ہو گیا.طلحہ سے کسی نے پو چھا ایک تیر پڑنے سے انسان کی جان نکلنے لگتی ہے لیکن آپ کے ہاتھ پر پے در پے اور متواتر تیر پڑ رہے تھے کیا آپ کو درد نہیں ہوتی تھی اور آپ کے منہ سے سی سی نہیں نکلتی تھی.طلحہ نے کہا درد بھی ہوتی تھی اور دل سی سی کرنے کو بھی چاہتا تھا مگر میں اس لئے ایسا نہیں کرتا تھا کہ جب انسان ہائے کرتا ہے یا سی سی کرتا ہے تو درد کی وجہ سے ہاتھ ہل جاتا ہے اور میں ڈرتا تھا کہ میرا ہاتھ ہلا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیر لگ جائے گا.یہی وہ قربانیاں تھیں جنہوں نے صحابہ کوصحابہ بنایا.یہی وہ قربانیاں تھیں جنہوں نے ان کو وہ درجہ عطا کیا کہ دنیا کے پردہ پر کم ہی مائیں ایسی ہونگی جو شاذ و نادر کے طور پر ایسے بچے جنیں.دنیا کے لئے دوسرا بہترین موقع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے اتر کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بعثت کا زمانہ ہے.جو برکتیں دنیا میں کسی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے سوا حاصل نہیں ہوسکتی تھیں آج حاصل ہو سکتی ہیں...مومن کی علامت یہ ہوتی ہے کہ ہر دوزخ اس کے لئے جنت بن جاتی ہے....جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیالکوٹ سے واپس آرہے تھے تو لوگوں نے آپ پر پتھر پھینکے جب لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چھوڑ کر واپس آ رہے تھے تو انہیں لوگوں نے طرح طرح کی تکالیفیں دینی شروع کیں اور
دق کیا.مولوی برہان الدین صاحب انہی میں سے ایک تھے.جب وہ واپس جارہے تھے تو کچھ غنڈے ان کے پیچھے ہو گئے اور ان پر گند وغیرہ پھینکا.آخر بازار میں ان کو گرا لیا اور ان کے منہ میں گوبر ڈالا.دیکھنے والوں نے بعد میں بتایا کہ جب مولوی بر ہان الدین صاحب کو جبراً پکڑ کر ان کے منہ میں زبر دستی گوبر اور گند ڈالنے لگے تو انہوں نے کہا ”الحمد للہ.ایہ نعمتاں کتھوں.مسیح موعود نے روز روز آناں وے؟ یعنی الحمد للہ ی نعمتیں انسان کو خوش قسمتی سے ہی ملتی ہیں.کیا مسیح موعود جیسا انسان روز روز آ سکتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ ایسا موقعہ ملے.یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے دوزخ پیدا کی ہی نہیں جاسکتی.کیونکہ خد تعالیٰ نے ان کو ایسا بنا دیا ہے کہ ان کی برکات کی وجہ سے ہر دوزخ ان کے لئے برکت بن جاتی 66 ہے اور راحت کا موجب ہوتی ہے.جب میں تصور کرتا ہوں کہ یہ بزرگ ایک ایک کر کے ہم سے جد اہور ہے ہیں تو میرے جیسا شخص جوان سے بہت کم مستفیض ہو سکا اور جسے صحابہ کبار کے بیشتر حصہ کو دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا اس کا دل بھی بیٹھنے لگتا ہے اور وہ سوچتا ہے اور سخت بیقرار ہو کر سوچتا ہے کہ کیا وہ دُنیا تاریک و تار نہ ہوگی اور کیا اس کی زندگی تکلیف دہ نہ ہوگی کہ جب حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی پاک محبتوں سے فیض یافتہ صحابہ کرام سے خالی ہو جائے گی اور ہم اس آواز سے محروم ہو چکے ہونگے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے مُرسل علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ بات سنی.آپ سے مصافحہ کیا.آپ کو یوں کرتے دیکھا.آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور فدائی تھے.آپ سے سنا کہ آپ سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے.آپ کی زبانِ مبارک سے وحی سنی اور پھر پوری ہوتی دیکھی.حضور کے ہمراہ سیر کرنے کا اور مجالس میں بیٹھنے کا اور نمازیں ادا کرنے کا موقعہ ملا.سو میں بھرے دل سے نئی پود کی خدمت میں عرض پرداز ہوں کہ اے پیارو! وقت عزیز کو ہاتھ سے نہ جانے دو اور ان بزرگوں سے فائدہ اُٹھالو اور اپنے تئیں ان کا عکس بنا لو تا کہ وہ بھی خوش ہوں کہ انہوں نے بہترین ہاتھوں میں عنانِ سلسلہ سونپی ہے اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ ، حضرت ام المومنین اطال اللہ بقاء ہا اور تمام صحابہ کے لئے خاص طور پر اپنی دعاؤں کو وقف کر دیں تا سلسلہ کی ترقی کے الہی وعدے ان کی زندگیوں میں پورے ہوں.اے اللہ تو تو فیق عطا کر.آمین اللہ تعالیٰ نے جبکہ ہمیں بتا دیا ہے کہ وہ زمانہ آ رہا ہے کہ جب بادشاہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے جو کہ فقط کچھ عرصہ حضور کے جسم مبارک سے چھو چکے ہونگے برکت ڈھونڈ ینگے تو اس سے ہم بخوبی
۲۱ سمجھ سکتے ہیں کہ حضور کی پاک محبت اور انفاس قدسیہ سے ابدال واقطاب کے رنگ میں مستفیض ہونے والے صحابہ کا مقام کتنا بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ ہے.کاش ہم ان کی کما حقہ قدر کریں.اے اللہ تو تو فیق عطا کر ! آمین !! جلد ہائے زیر تالیف جلد دوم کے بعد کی جلدیں بھی زیرہ تالیف ہیں جن میں ذیل کے صحابہ کرام کے حالات شائع کرنے کا ارادہ ہے.وباللہ التوفیق.ان میں سے اکثر کے حالات میرے پاس موجود ہیں: (۱) منشی احمد جان صاحب لد ہیا نوی اور آپ کے صاحبزادگان پیرافتخار احمد صاحب و پیر منظور محمد صاحب موجد لیسرنا القرآن.(۲) مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی.(۳) منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی.(۴) منشی محمد خان صاحب کپور تھلوی - (۵) مولوی شیر علی صاحب.(۶) مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب.(۷) قاضی سیدامیرحسین صاحب.(۸) حافظ حامد علی صاحب.(۹) منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی.(۱۰) ٹھیکہ دار محمد اکبر صاحب بٹالہ اور ان کے برادران ٹھیکہ دار اللہ یا ر صاحب ٹھیکہ دار محمد بخش صاحب.(۱۱) شیخ حبیب الرحمن صاحب سکنہ حاجی پورہ.(۱۲) حافظ محمد امین صاحب (۱۳) چوہدری غلام احمد صاحب کر یام (۱۴) سید ارادت حسین صاحب مونگھیری (۱۵) ماسٹر مولا بخش صاحب قادیان (۱۲) ڈاکٹر ماسٹر محمد طفیل خاں صاحب بٹالوی (۱۷) ماسٹر ہدایت اللہ صاحب جہلم (۱۸) میاں مہرالدین صاحب ظفر وال ( سیالکوٹ ) (۱۹) چوہدری بدرالدین صاحب مبلغ ملکانه (۲۰) صوفی محمد علی صاحب (۲۱) سید عزیز الرحمن صاحب منصوری (۲۲) اخوند محمد اکبر صاحب (۲۳) اخوند محمد رمضان صاحب سندھ (۲۴) میاں محمد الدین صاحب واصل باقی درویش اور ان کے بھائی میاں احمد الدین صاحب (۲۵) بابا شیر محمد صاحب در ولیش (۲۶) با با محمد احمد صاحب ( سابق بمبو خاں) درویش (۲۷) بابا اللہ دتا صاحب درویش (۲۸) ملک برکت علی صاحب گجرات (۲۹) حیدرآباد کے صحابہ میر محمد سعید صاحب وغیره (۳۰) شہزادہ عبدالمجید صاحب مجاہد ایران (۳۱) ملک خدا بخش صاحب لاہور (۳۲) مستری محمد موسیٰ صاحب لاہور (۳۳) شیخ عبدالرشید صاحب بٹالہ (۳۴) سید اختر الدین احمد صاحب موضع کو سمبی ( پرگنہ سونگھڑہ) (۳۵) میاں حامد صاحب قادیان (۳۶) ڈاکٹر قاضی کرم الہی صاحب امرتسر (۳۷) بابا جیون بٹ صاحب امرتسر (۳۸) میاں غلام قادر صاحب سیالکوٹی (۳۹) مولوی رحیم بخش صاحب تلونڈی جھنگلاں ( گورداسپور ) ( ۴۰ ) بابا امیر الدین صاحب دار الفضل قادیان رضی اللہ عنہم اجمعین.
۲۲ مکتوباب احمدیہ حضرت عرفانی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکتوبات کی کئی جلد میں شائع کر کے تاریخ سلسلہ کا ایک بیش بہا خزانہ محفوظ کر دیا ہے.اس سلسلہ میں خاکسار بھی ایک جلد غیر مطبوعہ مکتوبات کی شائع کر رہا ہے.چونکہ یہ مکتوبات حد درجہ بوسیدہ ہو رہے ہیں اس لئے چربے بھی دیئے جائیں گے.یہ کتاب انشاء اللہ تعالی جلسه ۵۲ء پر احباب تک پہنچ سکے گی.اسی کتاب میں یا الگ کتاب میں بعض صحابہ کرام کے مکتوبات بھی درج کئے جائینگے بالخصوص ایسے مکتوبات کا چربہ جن سے بعض غیر مطبوعہ الہامات کا علم ہوتا ہے یا ان کی تاریخ نزول کی تعیین ہوتی ہے.وبا الله التوفيق.بابت عرض حال جلد اول صفحه ۲۲۰ ۱۰-۵۰-ے کو جو نقشہ کے متعلق نشاندہی کی گئی تھی اس میں سہوا حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا نام درج ہونے سے رہ گیا.دراصل یہ سب انتظام انہی کی طرف سے تھا اور خیمہ گاہ اور جنازہ گاہ کی نشاندہی میں انہی نے زیادہ اہم حصہ لیا تھا.ایک روایت کے بارہ میں اصحاب احمد جلد اول حاشیہ صفحہ ۷۷، ۷۸ پر ایک روایت شائع ہوئی ہے اسکے متعلق حضرت عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں: مہدی کے حملہ کے وقت صحیح یہ ہے کہ سید فصیلت علی شاہ مرحوم نے اسے پکڑا تھا مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب کا یہ واقعہ نہیں.میں اسوقت وہاں موجود تھا.یہ واقعہ جمعہ کی نماز کے بعد ہوا تھا اور یہ فروری ۱۸۹۲ء کی بات ہے.“ خاکسار نے اس بارہ میں دوبارہ حضرت مفتی صاحب سے استفسار کیا تو آپ نے تحریر فرمایا :.مجھے یہ بات یقینی طور پر یاد ہے کہ مہدی ہونے کا دعویٰ کرنے والا جو تھا اس کو یقیناً شیخ رحمت اللہ صاحب نے ہٹایا تھا.اس میں کوئی شک نہیں.میں وہاں موجود تھا.“ ہر دو روایات درج کر کے خاکسار عرض کرتا ہے کہ اصل واقعہ کے بارہ میں جہاں تک قرائن کا تعلق ہے حضرت مفتی صاحب کو ذہول ضرور ہوا ہے اور وہ قرائن یہ ہیں.(۱) حضرت مفتی صاحب ذکر حبیب میں تحریر
فرماتے ہیں کہ (۱) غالبا ۹۲ء میں میں مولوی محمد صادق صاحب مولوی فاضل اور خان بہادر غلام محمد صاحب کے ہمراہ قادیان آیا اسوقت ان دونوں نے بیعت کی.اور ہم قادیان سے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے ہمراہ لاہور گئے اور پھر قادیان آئے.(ص ۷ ) اس ضمن میں آپ مہدی والے واقعہ کا ذکر نہیں فرماتے.حقیقت یہ ہے کہ حضرت اقدس لاہور سے پھر سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے.(۲) پھر آپ ان دونوں اصحاب کی بیعت کے لئے قادیان آنے کا زمانہ غالباً ۱۸۹۱ء کا دسمبر کا مہینہ تحریر کر کے فرماتے ہیں کہ ہم حضور علیہ السلام کے ہمراہ قادیان سے لاہور آئے.پہلے حضور میراں بخش کی کوٹھی پر اترے اور پھر اور مکان لیا گیا.حضور کی تشریف آوری پر بڑا شور مچا.یہاں حضرت مفتی صاحب مہدی والے واقعہ کا ذکر فرماتے ہیں ساتھ ہی لاہور میں اپنے قیام کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ہم صرف ایک یا دو دن وہاں رہ کر چلے گئے اور حضرت صاحب بہت دن لاہور ٹھہرے.“ ( صفحہ ۱۹ ،۲۰) (۳) حقیقت یہ ہے کہ حضرت اقدس جنوری ۹۲ء میں لا ہور تشریف لے گئے اور وہاں مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے حضور کا مباحثہ ہوا اور اسی سفر میں حضور نے کوٹھی میراں بخش پر قیام فرمایا تھا نہ کہ دسمبر ۹۱ء میں.(دیکھئے اشتہارات بابت ۲۸ /جنوری ۳۰ / فروری ۹۲ (۴) نیز یہ واقعہ مہدی والا چونکہ حضرت مفتی صاحب ان دو اصحاب مذکورہ بالا کی بیعت کے معاًبعد کے سفر لاہور کے وقت کا بیان فرماتے ہیں اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بیعت کس وقت کی ہے.ان دونوں کی بیعت ۲۰ جنوری ۱۸۹۲ء کی ہے ( رجسٹر بیعت ) اور حضوڑ کے ہمراہ لاہور میں صرف ایک یا دو دن تک حضرت مفتی صاحب اپنا قیام کرنا ذکر فرماتے ہیں (۵) مکرم ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے مرزا ایوب بیگ صاحب کے حالات والے مسودہ میں جو ابتداء 1911ء میں تحریر کیا تھا ( اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۶۳ حاشیہ ) ڈاکٹر صاحب بھی مہدی والے واقعہ میں شیخ رحمت اللہ صاحب کا ذکر نہیں کرتے.سوان تمام قرائن سے حضرت عرفانی صاحب کی روایت قرین صحت معلوم ہوتی ہے.واللہ اعلم بالصواب.صحیح بابت مقدمه کرم دین جلد اول کے صفحہ ۱۳۳ پر بمقدمہ کرم دین جو کچھ درج ہے اس بارہ میں حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پراونشل امیر صوبہ سرحد نے ایک تصحیح ارسال کی تھی جو افسوس کہ اسوقت مل نہیں سکی.میں نے حضرت عرفانی صاحب کی خدمت میں ارسال کی تھی تا اس بارہ میں کتاب میں جو غلطی ہوئی ہو اسکی تصحیح ہو سکے.حضرت عرفانی صاحب نے اس بارہ میں تحریر فرمایا ہے: ’ آپ کے خط پر میں نے اصحاب احمد کا صفحہ ۱۳۳ دیکھا اسکے واقعات صحیح ہیں مگر
۲۴ -1 کچھ غلط ہوا ہے وہ میں بعد میں ذکر کرونگا پہلے قاضی صاحب کے بیان کی اصلاح کرتا ہوں.میں نے قاضی صاحب کے خط پر نمبر دیدیئے ہیں تا کہ اصل بات آسانی سے سمجھ میں آجاوے.“ - مکرم قاضی صاحب کو سخت مغالطہ ہوا ہے.کرم دین کے خطوط قادیان آئے تھے ان میں پیر گولڑوی کی کتاب سیف چشتیائی کی قلعی کھولی گئی تھی کہ یہ کتاب کرم دین کے بہنوئی فیضی کی یاداشتوں سے مُرتب کی گئی ہے.اسکے ثبوت میں گولڑوی کے خط وغیرہ قادیان بھیجے تھے.وہ خطوط میں نے الحکم میں غالباً اکتو بر۱۹۰۲ء یا آخری سہ ماہی کے قریب شائع کر دیئے جس سے گولڑوی پر لازمی اثر پڑا.انہوں نے کرم دین کو اکسایا ان خطوط کا تذکرہ حضرت نے اپنی کتاب میں بھی کیا جو چھپ رہی تھی.کرم دین نے جہلم میں رائے سنسار چند کی عدالت میں مجھ پر اور حکیم فضل الدین (صاحب) اور حضرت صاحب پر مقدمہ کیا.اس مقدمہ کی پیشی پر حضرت مواہب الرحمن شائع کر کے لے گئے تھے.مقدمہ قانونی پوائنٹ پر خارج ہو گیا کہ اسے حق نہیں.ہم سب باعزت بری ہو گئے.۲- مواہب الرحمن کے الفاظ کذاب اور لئیم کی بناء پر کرم دین نے گورداسپور مقدمہ کیا ازالہ حیثیت عرفی کا.اور میں نے سراج الاخبار جہلم کے ۶ اور ۱۳ اکتوبر کی اشاعتوں کی بناء پر جن میں کہا گیا تھا کہ ایڈیٹر الحکم نے جعلی خطوط بنائے ہیں وغیرہ ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ گورداسپور میں دائر کیا.حضرت اقدس نے ان مقدمات کے انجام کے متعلق پیشگوئی شائع کی جور یو یو اور ہمارے اخبارات میں شائع ہو چکی تھی قبل از وقت.اور الہام ہوا تھا ان الله مع الذين اتقوا والذين هم محسنون - اس پیشگوئی کی بناء پر فقیر محمد اور کرم دین پر جرمانہ ہوا.اس کی اپیل ہو ہی نہیں سکتی تھی.حجر مانہ قائم رہا اور کرم الدین کے مقدمہ میں پانچسو روپیہ حجر مانہ ہوا جو امرتسر کے ڈویژنل جج نے واپس کیا اور کرم الدین کے خلاف فیصلہ کیا کہ وہ اس سے بھی زیادہ الفاظ کا مستحق تھا.مکرم ماسٹر ( ملک.مولف) مولا بخش صاحب نے جو بیان دیا ہے اس میں صفحہ ۱۳۳ ، سطر ، ادا ہو گیا تک درست ہے.مگر اس کے بعد ہی حضور کو ایک اور فوجداری مقد مہ...جہلم جانا پڑا غلط ہے خلط ہو گیا ہے میاں عزیز اللہ کا واقعہ بھی صحیح ہے مگر وہ امرتسر کا نہیں خود قادیان ہی کا ہے.باقی ملک صاحب امرتسر میں مترجم تھے یہ درست ہے اور جو کچھ انہوں نے بیان کیا ہے صحیح ہے یہ حقیقت ہے ( ڈاکٹر ) بشارت احمد (صاحب مصنف مجدد اعظم) نے اس خصوص میں صحیح واقعات لکھے ہیں اور اخبارات میں شائع شدہ ہیں.الحکم ۱۹۰۲ء کی آخری سہ ماہی اکتو بر۱۹۰۲ء اور شروع ۱۹۰۳ء میں سفر جہلم کے واقعات درج ہوں گے.
۲۵ میرے پاس یہاں فائل نہیں ہیں.“ مزید بابت سفر لدھیانہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لدھیانہ کے سفر اول کے تعلق میں جلد ہذا کے حاشیہ صفحه ۴۷، ۴۸ میں حضور کے دو مکتوبات مورخه ۲۱ فروری ۸۴ء مطابق ۲۲ ؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ ء ھ اور ۲۶ فروری ۸۴ء مطابق ۷ امر ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ کا ذکر آیا ہے.اسلامی تاریخ کا رؤیت ہلال کی رُو سے ایک دن کی تقدیم و تاخیر ممکن ہے اس لئے ۲۱ ؍ فروری مطابق ۲۲ ؍ ربیع الثانی درست ہے گو جنتری کی رو سے ۲۳ / ربیع الثانی ہونا چاہیئے.لیکن ۲۶ فروری کو جنتری کی رو سے مطابق ۲۸ / ربیع الثانی یا ۲۱ فروری والی تاریخ کی رو سے مطابق ۲۷ ؍ربیع الثانی ہونا چاہیئے تھا اس لئے اس مکتوب کی عیسوی اور اسلامی تاریخوں میں سے کسی ایک میں کسی مرحلہ پر سہو ہوا ہے.اس کتاب میں قریب کے مکتوبات تاریخوار سمجھے جائیں تو عیسوی تاریخ میں سہو ہوا ہے کیونکہ یہ مکتوبات ۱۳.۲۱.۲۶ اور ۲۸ فروری کے ہیں ورنہ اسلامی تاریخ میں سہو سمجھا جائے گا.ہر دوصورتوں میں لدھیانہ کے سفر اول کے متعلق جو کچھ میں نے کتاب میں تحریر کیا ہے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا.مزید بہ تعلق علی گڑھ جلد ہذا میں سرسید احمد کے ذکر میں میں نے یہ تحریر کیا تھا کہ با وجو دقبول احمدیت کے حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت نواب صاحب تعلیمی امور کی خاطر اُن سے تعلق رکھتے تھے.چنانچہ ۹۳-۱۲-۲۳ کا ایک مکتوب حضرت مولوی صاحب کا حاصل ہوا ہے جس سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے.آپ اس میں نواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: میں تو علی گڑھ نہ جاسکوں گا.مگر آپ غالباً عبداللہ کو ملیں گے.میں ان دنوں اس پر ناراض ہوں کس قدر آزاد ہوا جاتا ہے.اگر مناسب سمجھیں کچھ نصیحت کر دیں.“ مراد شیخ عبداللہ صاحب وکیل علی گڑھ ہیں.مزید بتعلق ۳۱۳ صحابه جلد ہذا میں ۳۱۳ صحابہؓ میں سے بعض کے متعلق معلومات بہ سلسلہ جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں نے درج کی ہیں ان میں نمبر ۳۱ میاں فتح محمد صاحب کا بھی ذکر ہے.ان کے متعلق الفضل بابت ۵۲-۲-۱۶ سے معلوم ہوتا
۲۶ ہے کہ فتح محمد خاں صاحب مولوی فاضل ولد ماموں خان صاحب ساکن چنگن ضلع لد ہیا نہ موصی نمبر ۹۴۱۳‘ کا موجود وہ پستہ سیکرٹری مجلس کار پرداز ربوہ کو مطلوب ہے.خاکسار کو بہت تگ و دو کے بعد معلوم ہوا ہے کہ آپ پلنگ پور ڈاکخانہ نوکھر ضلع گوجرانوالہ میں مقیم ہیں.بالآخرا حباب کی خدمت میں بادب والحاح دُعا کی درخواست ہے.هـو نـعـم المولى ونعم النصير وعليه التكلان - والسلام خاکسار نا چیز ملک صلاح الدین در ولیش ۱۳هش ۵۲-۲-۱۴ بيت الدعاء ( دار ا شیخ ) قادیان دارالامان ( مشرقی پنجاب.بھارت )
۲۷ حضرت عرفانی صاحب کا تبصرہ! اصحاب احمد (جلد دوم) اصحاب احمد کی پہلی جلد کی اشاعت پر میں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا تھا میں نے اس ضرورت کو ہمیشہ محسوس کیا مگر میرے مختلف مشاغل اور عوایق نے اس سلسلہ کو تعویق میں رکھا.اگر چہ الحکم کے ذریعہ بہت سے صحابہ کے حالات قلمبند بھی ہوئے مگر ضرورت تھی کہ مستقل طور پر ایک سلسلہء تالیفات اس خصوص میں ہو.میں جب ائمہ سلف کی خدمتوں اور کوششوں کو دیکھتا تو میرا سر ندامت سے جھک جاتا کہ انہوں نے باوجود ہر قسم کی مشکلات کے صحابہ کرام کے حالات کو محفوظ کیا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ملک صلاح الدین کو نوازے کہ انہوں نے میرے قلب پر جو بوجھ تھا اُسے دُور کر دیا میں نے ان کے ساتھ تعاون کو خوش قسمتی اور سعادت یقین کیا.میں یقین رکھتا ہوں کہ مجھے اس نیت کا جو پہلے سے حالات صحابہ کے جمع کرنے اور شائع کرنے کی رکھتا آیا ہوں اجر ملے گا.مگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے عملاً ( خواہ کتنا ہی خفیف ہو ) حصہ لینے کا موقعہ مل گیا.جلد دوم کے مسودہ جات کی میں نے نظر ثانی محبت اور اخلاص سے کی اور مفید مشورے اور معلومات دینے میں لذت محسوس کی.میں تالیفات کی مشکلات سے خوب واقف ہوں اس لئے کہ 6** عمر گذری ہے اسی دشت کی سیاحی میں جیسا کہ عزیز مکرم ملک صاحب نے مشکلات کا اظہار کیا ہے اس قسم کے کام قومی تعاون اور فراخدل دوستوں کی اعانت سے آسان ہوتے ہیں مگر یہاں تالیف ہی نہیں اسکی طباعت کے اخراجات کا فکر سب سے زیادہ ہوتا ہے میں اس کتاب کے پڑھنے والوں کو کہوں گا کہ اس کام میں دلچسپی لیں اول تو خود صدر انجمن کے صیغہ تالیف و اشاعت کو سر پرستی کرنی چاہیئے لیکن احباب کو اس امید پر نہیں رہنا چاہیے.جیسا کہ ملک صاحب نے لکھا ہے کتاب کی پوری فروخت بھی سرمایہ کا ذریعہ نہیں ہوسکتی اس لئے اس کے لئے خاص طور پر ضرورت ہے کہ وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے دل دیا ہے اور مال بھی دیا ہے وہ اس مقصد کے لئے آگے بڑھیں.
۲۸ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ملک صاحب کو اس کام کیلئے فارغ کر دیا جاوے اور دوسرے کام کسی اور صاحب کے سپر د ہوں.بہر حال میں ملک صاحب کی کوشش اور محنت کا ایک عینی گواہ ہوں اور میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس وقت اس کام کو وہی خوش اسلوبی سے کر سکتے ہیں ان میں مذاق تحقیق ہے.مجھے اس سے بھی خوشی ہوئی کہ انہوں نے بعض غیر مطبوعہ مکتوبات کو جمع کیا ہے.ان کے عکس دینے کا کام نہایت پسندیدہ ہے.میرے زیر نظر یہ تھا چنانچہ الحکم کے جو بلی نمبر میں اس کی طرف بھی اشارہ تھا.میں تو چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی جس قدر تحریر یں مل سکتی ہیں ان سب کے فوٹوز لے کر بلاک بنوائے جائیں.میں نے لنڈن کے میوزیم میں پرانے مخطوطات دیکھے.ایک علم نواز علم دوست قوم کے لئے یہ چیز میں ضروریات زندگی میں سے ہیں.بالآخر میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے محترم ملک صلاح الدین صاحب کو صحت توانائی دے اور اشاعت حالات صحابہ کیلئے ہر روک کو دور کر دے.میں اپنی ہر اعانت کیلئے خوشی محسوس کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر کہ میری دیرینہ آرزو اس رنگ میں پوری ہو رہی ہے اور میں اس طرح پر دوسری تالیفات کے لئے وقت دے سکوں گا.با اللہ التوفیق.خاکسار عرفانی الكبير! 26/11/51
۲۹ مزید اعانت ضمیمہ دیباچہ اصحاب احمد برادر عزیر محمد عبد القدیر صاحب کارکن ناصر آباد اسٹیٹ (سندھ ) خلف حضرت مولوی رحیم بخش صاحب سکنہ تلونڈی جھنگلان ضلع گورداسپور نے از خود تحریک کر کے مندرجہ ذیل احباب سے ایک سو روپیہ بطور اعانت بھجوایا ہے جس کے لئے میں ان کا نیز اعانت کرنے والے احباب کا از حد ممنون ہوں.فــجــر اهـم الله احسن الجزء.-1 -۲ -٣ -۴ -۵ -Y -6 مکرم محمد عبدالقدیر صاحب موصوف مکرم مرزارشید احمد صاحب (خلف حضرت مرز اسلطان احمد صاحب) مالک نسیم آباد اسٹیٹ (سندھ) پچاس روپے چھپیں روپے مکرم مرزا اکمل بیگ صاحب نسیم آبا داسٹیٹ ساڑھے دس روپے مکرم چوہدری محمد اقبال صاحب اکا ؤنٹنٹ نسیم آباد اسٹیٹ تین روپے مکرم چوہدری محمد افضل صاحب - مکرم مرزا منظور احمد صاحب ڈیڑھ روپیہ ایک روپیہ مکرم چوہدری عبد الرحمن صاحب ایک روپیہ آٹھ روپے - متفرق مزید بعض امور بعض امور کا طباعت کے دوران میں علم ہوا.جن کو یہاں درج کیا جارہا ہے.چار روایات حضرت نواب صاحب کی تین روایات اور آپ کے صاحبزادہ مکرم میاں محم عبد الرحمن خاں صاحب کی
ایک روایت افادہ کی خاطر یہاں درج کی جاتی ہیں.حضرت نواب صاحب فرماتے ہیں.غالباً پہلی یا دوسری دفعہ میرے قادیان آنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کے بعد میرے ہاں تشریف لائے تو آپ موم بتی لے کر اس کی روشنی میں آئے.میرے ملازم صفدر علی خاں نے چاہا کہ بتی کو بجھا دیا جائے تا کہ بے فائدہ جلتی نہ رہے اس پر آپ نے فرمایا جلنے دو روشنی کی کمی ہے.دنیا میں تاریکی تو بہت ہے.( قریب قریب الفاظ یہ تھے.) -٢ ایک دفعہ مرزا خدا بخش صاحب کے ہاں بچہ پیدا ہوا.انہوں نے لڈو میرے ہاں بھیجے میں نے واپس کر دیئے کہ عقیقہ کا کھانا تو میں لے لوں گا مگر یہ میں نہیں لیتا.تھوڑے عرصہ بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہ رکابی خود لئے تشریف لائے اور فرمایا کہ بات ٹھیک ہے جو تم نے کہی.یہ بچہ کی پیدائش کے لڈو نہیں بلکہ اُس شکریہ کے ہیں کہ ماں کی جان بچ گئی.میں نے نہایت تکریم سے وہ رکابی لے لی.اس وقت میرے مکان زنانہ کے صحن میں ایک دروازہ تھا اس پر کھڑے کھڑے یہ باتیں ہوئی.۳.”ایک دفعہ ابتداء میں جب میں قادیان میں مستقل طور سے رہنے لگا تو مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں باہر سے برات آئی تھی ، اس کے ساتھ کہنی بھی تھی اور ناچ وغیرہ ہوتا تھا میں ایسی رسوم شادی وغیرہ ( میں ) نہ خود شریک ہوتا ہوں اور نہ ہی اپنی چیز دیتا ہوں.مرزا نظام الدین نے مجھ سے غالباً کچھ دریاں اور چکیں مانگی تھیں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا.آپ نے فرمایا دے دو کیونکہ اس شادی سے اغلب ہے دولھا کی اصلاح ہوگی.“ شفقت کا ایک نظارہ کے ذیل میں مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب کی علالت اور حضرت اقدس کے شفقت بھرے خطوط کا ذکر کیا کیا گیا ہے.میاں صاحب موصوف کو نواب صاحب جب قادیان لائے تو رات إ۳ بجے کا عمل تھا کہ حضرت اقدس اسی وقت تشریف لائے اور حال دریافت فرماتے رہے.یہ بیان مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کا ہے جسے حاشیہ ص ۱۳۷ پر درج کیا گیا ہے.اس بارہ میں مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیاں کرتے ہیں کہ ” میری صحت یابی کے بعد حضرت والد صاحب مجھے لاہور سے بٹالہ اس گاڑی پر لائے جو لاہور سے تین ساڑھے تین بجے شام روانہ ہوکر نو ساڑھے نو بجے رات بٹالہ پہنچتی تھی.بٹالہ سے رتھ پر سوار ہو کر اڑھائی تین بجے رات ہم قادیان پہنچے.
با بومحمد افضل صاحب ایڈیٹر البدر رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ہمراہ تھے.میری کمزوری کی وجہ سے والد صاحب مجھے سیدہ ام متین صاحبہ والے مکان میں لے گئے جہاں ہمارا قیام تھا.اس وقت حضرت اماں جان نوراللہ مرقدہا کے صحن کی طرف کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا، والد صاحب نے دریافت کیا کون ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جواب دیا.دروازہ کھلنے پر حضور تشریف لائے اور کچھ دیر تک میرا حال دریافت فرماتے رہے.“ بابت مقدمه کرم دین صفحہ ا پر زیر اتصیح بابت مقدمہ کرم دین“ میں نے تحریر کیا تھا حضرت قاضی محمد صاحب کی چٹھی نہیں مل سکی ، اس دوران میں وہ دستیاب ہوگئی ہے اس لئے اسے درج کیا جاتا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.ملک مولا بخش صاحب کے حالات کے ذیل میں صفحہ ۱۳۳ پر فیصلہ اپیل مقدمہ مولوی کرم الدین کے عنوان کے نیچے لکھا ہے کہ حضرت احمد علیہ السلام جہلم مواہب الرحمن میں چند الفاظ استعمال شدہ کے بناء پر تشریف لے گئے تھے حالانکہ یہ واقعہ غلط ہے.حضرت احمد نے کتاب اعجاز امسیح شائع کی.پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے اس کے جواب میں سیف چشتیائی شائع کی جو دراصل مولوی محمد حسن صاحب ساکن بھیں کے تحریر کردہ نوٹوں کا مجموعہ تھا اور اس کو مولوی محمد غازی صاحب نے ترتیب دے کر پیر صاحب کی طرف سے شائع کیا.مولوی کرم دین صاحب ساکن بھیں (کے ) اس سلسلہ میں کچھ خطوط اخبار سراج الاخبار میں شائع کئے گئے جس کے ایڈیٹر فقیر محمد صاحب تھے.حضرت حکیم فضل الدین صاحب اور ایڈیٹر صاحب الحکم نے مولوی کرم الدین صاحب کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا.۱۵/ جنوری ۱۹۰۳ء اس مقدمہ کی بمقام جہلم سماعت مقرر ہوئی.حضرت احمد علیہ السلام بطور گواہ اس مقدمہ میں جہلم تشریف لے گئے تھے.اپنے ساتھ نو تصنیف کتاب مواہب الرحمن بھی لے گئے اور راستہ میں تقسیم کی گئی جس میں اس مقدمہ کے بارہ میں ایک کشف کا ذکر تھا اور مولوی کرم دین صاحب کے بارے میں کذاب اور لیم اور رجل مھین کے الفاظ استعمال فرمائے تھے.
۳۲ مولوی کرم دین صاحب نے ان الفاظ کے خلاف گورداسپور میں حضرت احمد اور حکیم فضل دین صاحب کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ دائر کیا جس میں آریہ مجسٹریٹ نے حضرت احمد کو پانچ صدر و پید اور حضرت حکیم فضل دین صاحب کو دوصد روپیہ جرمانہ کیا.جہلم والے مقدمہ میں مولوی کرم دین کو پچاس روپیہ اور فقیر محمد کو چالیس روپیہ جرمانہ ہوا.اپیل امرتسر میں دائر ہوئی کرم دین اور فقیر محمد کا جرمانہ بحال رہا.حضرت احمد قادیانی اور حکیم فضل الدین صاحب کا جرمانہ معاف ہوا، اور مولوی کرم دین کے حق میں الفاظ کذاب ولیم اور مہمین بحال رہے ہیں میں امید کرتا ہوں کہ اس غلطی کی اصلاح کر لی جائے گی.“ نواب صاحب کا شہر والا مکان صفحہ ۱۳۹ پر جو کچھ میں نے اس کے وقوع کے متعلق لکھا ہے اس بارہ میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب تحریر فرماتے ہیں: محترم حضرت نواب صاحب کا اندرون شہر مکان الدار میں شامل ہے کیونکہ (۱) وہ افتادہ حصہ مکانات بھی سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حصہ میں آیا ہوا تھا اور (۲) الدار کی ڈیوڑھی کے بالمقابل جانب شرق واقع تھا (۳) اس جگہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ (ابتدائی زمانہ غالباً ( 9 ) میں حضور کا لنگر خانہ بھی رہا ہے اور آثار سے پتہ چلتا ہے کہ کسی وقت یہ حصہ مکانات افتادہ حضور پُر نور کا خاندانی دیوان خانہ تھا.(۴) صحن حضرت نواب صاحب کے اس مکان کا بھی یقیناً الدار میں شامل تھا ( عبدالرحیم صاحب سوڈا واٹر کی دکان اور اس کے ملحقہ کچھ حصہ کی جگہ پہلے حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے رہائشی مکان حضور نے بنوایا تھا جس کے جنوبی حصہ کی طرف چھوٹا سا صحن تھا اور اس میں ایک پودا ئد کا بھی تھا.الدار کی ڈیوڑھی کے سامنے مشرق میں جو کوچہ ہے اور وہ مکرم حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے مکانات دیوان خانہ اور مشہور روایت والا کنواں اور شرقی صحن وغیرہ کی طرف جاتا ہے.اس کو چہ کے شرق اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکانات رہائشی کے جانب غرب کی ساری زمین سیدنا حضرت اقدس نے حضرت نواب صاحب کو رہائش کے لئے مکان بنانے کو دیدی تھی اور اس پر حضرت نواب صاحب نے کچے اور خام عمارت کے کوارٹرز بنائے تھے بعد میں موجودہ پختہ عمارت تیار کر والی تھی.
٣٣ مزید بابت فونوگراف ص ۴۷۴ تا ص ۴۸۰ پر فونوگراف سے تبلیغ کا ذکر ہے: اس بارہ میں مزید الحکم بابت ۱ نومبر ۱۹۰۱ء ( ص ا کالم ۱ ) میں مرقوم ہے ( یہ کلمات طیبات حضور نے اس کتوبر کوفرمائے تھے ) حضرت اقدس حسب معمول سیر کو تشریف لے گئے ، راستہ میں فونوگراف کی ایجاد اور اس سے اپنی تقریر کو مختلف مقامات پر پہنچانے کا تذکرہ ہوتا رہا.چنانچہ یہ تجویز کی گئی کہ اس میں حضرت اقدس کی ایک تقریر عربی زبان میں بند ہو جو چار گھنٹہ تک جاری رہے اور اس تقریر سے پہلے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی تقریر ایک انٹروڈ کٹری نوٹ کے طور پر جس کا مضمون اس قسم کا ہو کہ انیسویں صدی مسیحی کے سب سے بڑے انسان کی تقریر آپ کو سنائی جاتی ہے جس نے خدا کی طرف سے مامور ہونے کا دعوی کیا ہے اور جو مسیح موعود اور مہدی معہود کے نام سے دنیا میں آیا ہے اور جس نے ارضِ ہند میں ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور جس کے ہاتھ پر ہزاروں تائیدی نشان ظاہر ہوئے خدا تعالیٰ نے جس کی ہر میدان میں نصرت کی ، وہ اپنی دعوت بلا دا سلامیہ میں کرتا ہے.سامعین خود اس کے منہ سے سن لیں کہ اس کا کیا دعویٰ ہے.اور اسکے دلائل اس کے پاس کیا ہیں.اس قسم کی ایک تقریر کے بعد پھر حضرت اقدس کی تقریر ہوگی اور جہاں جہاں یہ لوگ جائیں اسے کھول کر سناتے پھریں.“ رض بابا عبدالکریم صاحب عطار ( متعلق ص ۵۱۰) حضرت عرفانی صاحب دو خطوط میں تحریر فرماتے ہیں: عبدالکریم عطار اور عبدالکریم ولد مولا بخش جدا جدا ہیں.عبدالکریم عطار بعد میں بابا عبدالکریم مشہور ہوا.بڑا خوش الحان اور لال سوداگر تھا.اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب میں جگہ دے.“ عرف عام میں لال سوداگر اسے کہتے ہیں کہ موقعہ اور وقت کے لحاظ سے جس قسم کی تجارت ممکن ہو کر لے، کسی خاص تجارت کا کرنے والا نہ ہو، وہ عطار تو تھے مگر کبھی لوئیاں کوٹ وغیرہ لے آتے.“
۳۴ حضرت مولوی عبد القادر صاحبان: ( متعلق ص ۵۲۸) فہرستوں میں ان بزرگوں کے نام یوں درج ہیں: (الف) آئینہ کمالات اسلام نمبر ۶۱ مولوی عبد القادر صاحب جمال پور ضلع لدھیانہ (مدرس) نمبر ۶۵ میاں عبدالقادر صاحب جیکن ضلع لدھیانہ مدرس مدرسہ جمالپور (ب) ضمیمہ انجام آتھم نمبر ۱۳۰ مولوی عبدالقادر خاں صاحب جمالپورلدھیانہ نمبر ۱۳۱ مولوی عبد القادر صاحب خاص لدھیانہ مذکورہ بالا کے متعلق استفسار پر حضرت عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں: حضرت مولوی عبد القادر مجن کا ذکر آئینہ کمالات اسلام کے نمبر ۶ ، ۶۵، انجام آتھم کے نمبر ۱۳۰ پر ہے ایک ہی شخص ہے.نمبر ۶۵ ان کے گاؤں کا پتہ ہے.بڑے مخلص آدمی تھے.گلاب شاہ کی شہادت کے ذکر میں ان کی شہادت ازالہ اوہام میں ہے اور حضرت نے ازالہ اوہام ( میں ) بعض مخلص احباب کے ذکر میں جو دوسرے حصہ کے آخر میں ہے نمبر ۲۹ پر ان کا ذکر کیا ہے.“ " ایک اور خط میں ان کے متعلق حضرت عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں: وہ عبد القادر صاحب مولوی عبد القادر نہیں.منصور ان ضلع لدھیانہ کے رہنے والے تھے.جمال پور میں مدرس تھے نیک اور مخلص تہجد گزار تھے.ازالہ اوہام میں کریم بخش جمال پوری کی جو شہادت ہے یہی انہیں لائے تھے میں اور حضرت حاجی شہزادہ عبدالمجید جمالپور میں ایک جلسہ کرنے گئے تھے ان کے ہی پاس ٹھہرے تھے.یہ بھی حضرت منشی احمد جان کے مرید تھے.اس کی مزید تشریح میں ایک اور مکتوب میں حضرت عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں: لودھیانہ میں حضرت منشی احمد جان کے مریدوں نے ایک انجمن انوار احمد یہ قائم کی تھی اس کے لئے چندہ کرنے اور رسالہ انوار احمد یہ جس کا مجھے ایڈیٹر مقرر کیا گیا تھا اس کے لئے تحریک کرنے گئے تھے اور ہم نے وہاں تقریریں کیں.“ ضمیمہ انجام آتھم کے نمبر ۱۳۱ حضرت مولوی عبد القادر صاحب حکیم محمد عمر صاحب کے باپ تھے.جو نوٹ صفحہ ۵۲۸ پر دیا ہے وہ صحیح ہے گو ان کے متعلق بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے.ان کی وفات کا سال اس وقت ذہن میں نہیں.“
۳۵ مرز ارحمت اللہ بیگ صاحب متعلق حاشیه ص ۵۴۲) مزید حضرت عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں: وو مرزا رحمت اللہ بیگ صاحب حضرت کے خاندان میں بطور مختار کام کرتے تھے اور یہ رڑ کی مغلان کے مغل خاندان کے ممبر تھے ، یہ وہ خاندان تھا جس کے ساتھ اس خاندان کی رشتہ داری تھی حضرت اقدس کی پہلی بیوی، مرزا سلطان احمد صاحب کی بیوی 66 اور مرز افضل احمد مرحوم کی بیوی یہ سب اسی خاندان سے متعلق تھیں.“ ۲۰ستمبر ۱۹۰۵ء کی رؤیا بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ:.والد صاحب کا ایک پرانا نوکر مرزا رحمت اللہ نام جو قریباً پچاس سال تک والد صاحب کی خدمت میں رہا تھا اور جس کو فوت ہوئے بھی قریباً چالیس سال ہوئے ہیں وہاں موجود ہے.قاضی زین العابدین صاحب محمد سعید صاحب طرابلسی و غیره ہر دو نیز مولوی عبداللہ صاحب اور نواب خاں صاحب ( ص ۱۱۷ - ۱۱۸-۴۶۴) کے متعلق قدرے تفصیل مکتوبات اصحاب احمد جلد اول میں ملاحظہ فرمائیں.
حصہ نقشہ مشرقی پنجاب پیمانه ۲۰ میل=۱ اینچ ٹالہ بیاس لوہا نہ مشرق شمال + رادی ریلوے لا ہویہ.....حدود بھارت بهدور ( متعلق صفحہ ۳۷ ضمیمہ )
حصہ نقشه نمبر ۱۳ مقامات مقدسه قادیان عم البدل 2 مکان بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی استه بطرف دار الانواع امریکان با بود وزیر تصاحب حجم الدین پیمانه ۸۰فٹ = 1 اینچ صاحب الریان سمجھوں مكان اسکان حضرت دائر مجمعیل صاحب معرق مکانات سالب ۳۷ شرق شمال راسته اطراف قصر خلافت ه است بر بازاده مکان فرا تر نیز حرفتان ستفید نوعی مکان نمرا عزیز احمد ا متفرق مكانات راسته به طرف مسجد مبارک دار حضرت خلیفہ اول مقام فیل قدیم ایگاه بی اراده و در تخمدان نام منشی رودرا خان صاحب کپور تھلوی * کمرہ وفات میاں محمد اکبر صاحب بٹالوی نمبر ۳ ۴ بھی دار حضرت خلیفہ اول کا حصہ ہیں.نمبر ۴ کچھ عرصہ سے دکان میں تبدیل ہو چکا ہے.نمبر ۳ لائبریری روم حضرت خلیفہ اول نمبر ۵ میں دونوں طرف ملحقہ کمرے شامل ہیں جو مطبع ضیاء الاسلام مطب حضرت خلیفہ اوّل کتب خانہ قدیم وغیرہ کے طور پر استعمال ہوتے تھے.گیٹ ۴۷ ء میں بنایا گیا تھا.فصیل قدیم کا مقام ظاہر کیا گیا ہے.جہاں وہ ہوتی تھی.جہانی انه قدیم دار و بهار که میگم دایه متفرق مكانات
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَنُصَّلِى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُود حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ خاندانی حالات حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ہمارا خاندان غوری ہے.شاہ حسین جو شاہ محمد غوری کا بھتیجا تھا.بعد زوال خاندان غور کابل آ گیا.اس کے دو بیٹے جو شاہ کابل کی بیٹی سے تھے ان کا نام غلزی اور (الف) خاکسار مولف نے حضرت نواب صاحب کی حیات کی تدوین کیلئے مواد کی فراہمی کا کام آپ کی وفات کے معا بعد شروع کر دیا تھا.وفات پر آپ کے صاحبزادہ مکرم میاں محمد عبدالرحمن خاں صاحب قادیان تشریف لائے تو خاکسار نے اس موقعہ سے فائدہ اُٹھایا.قریب کے عرصہ میں آپ شملہ گئے تو وہاں میری درخواست پر اخویم مرزا محمد حیات صاحب تاثیر فاضل (حال چنیوٹ) نے مکرم میاں محمد عبداللہ خاں صاحب کی زبانی میرے نوشتہ حالات سُنائے اور بہت سی مزید معلومات حاصل کیں.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے مجھے زبانی استفسار کر کے آپ کے جوابات آپکو دوبارہ سُنانے کا موقعہ ملا.حضرت ممدوحہ نے دونوں میاں صاحبان کے بیانات اور اپنے لکھوائے ہوئے حالات بھی بالاستیعاب پڑھے اور ان میں بہت سا مفید اضافہ کیا.اور تقسیم ملک کے بعد خاکسار کے استفسارات پر سیدہ موصوفہ نے ہر طرح معاونت فرمائی.تالیف کے دوران میں باعث فراہمی حالات مجھے مکرم میاں محمد عبدالرحمن خاں صاحب کے پاس دو دفعہ مالیر کوٹلہ بھی جانا پڑا.(ب) نواب صاحب کی روایات جو نظارت تالیف و تصنیف کے ریکارڈ میں ہیں ان کا اکثر حصہ الفضل جلد ۲۶ نمبر ۱۳۳ پر پرچه ۱۴ جون ۱۹۳۸ء میں چھپ چکا ہے.
2 لودھی تھا.تیسرا بیٹا جو ایک دوسری بیوی کے بطن سے تھا اس کا نام سروانی تھا.ہمارا مالیر کوٹلہ کا خاندان سروانی کی اولاد ہے.سروانی کچھ عرصہ بعد درابن میں آباد ہو گئے تھے.شیخ صدرالدین صدر جہان جو اپنے فقر اور متصوفانہ طریق میں مشہور تھے.درابن سے ہندوستان آئے.اور ایک گاؤں بھومستی نام کے قریب اپنی جھونپڑی بنالی.یہ جگہ دریائے ستلج کی شاخ بڑھا دریا ( جواب لدھیانہ کے قریب بہتا ہے اور اُس وقت اُس گاؤں کے قریب بہتا تھا ) کے کنارے تھی.شیخ صاحب موصوف وہاں پر عبادت الہی میں مصروف رہتے تھے.انہی ایام میں بادشاہ بہلول لودھی بارادہ فتح دہلی جارہا تھا.اس جھونپڑی کے قریب سے گزر ہوا ایک بار خدا کا نام سُن کر شیخ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور فتح کامرانی کے حصول کے لئے درخواست دُعا کی.بعد ازاں دہلی فتح ہونے پر اپنی لڑکی کی شادی شیخ صاحب سے کر دی اور چند پرگنہ جات بطور جہیز دیئے.شیخ صدر جہاں کی دو بیویاں تھیں ایک شہزادی یعنی بہلول لودھی کی بیٹی اور دوسرے رائے کپورتھلہ کی بیٹی.راجپوت شہزادی کی اولاد سے صوبہ سر ہند قتل ہو گیا اس پاداش میں پر گنہ جات مذکورہ ضبط ہو گئے اور سلطنت بھی بدل چکی تھی.رائے کپورتھلہ نے اپنے نواسوں کو وہ ضبط شدہ پر گنہ جات خرید کر دیدیئے اس طرح ریاست مالیر کوٹلہ کی بنیاد پڑی.شیخ صدر جہاں رحمۃ اللہ علیہ نے مالیر آباد کیا.چند پشتوں بعد بوجہ ناچاقی برادران با یزید خانصاحب دہلی جا کر ملازم ہو گئے.اور بصلہ خدمات جا گیر واجازت بنائے قلعہ حاصل کی اور بعہد شاہجہاں کوٹلہ آبا د کیا.اس طرح دونوں آبادیاں مالیر کوٹلہ کہلانے لگیں.خدمات شاھاں مغلیہ کے صلہ میں ریاست کو وسعت ہوئی اور روپڑ اور پائل وغیرہ علاقہ جات زیر حکومت مالیر کوٹلہ رہے.سکھوں کی طوائف الملو کی کے زمانہ میں بہت سا علاقہ قبضہ سے نکل گیا.چنانچہ احمد شاہ درانی کے آنے پر موجودہ علاقہ مالیر کوٹلہ مسلم ہوا.اور سکہ بھی عطا ہوا.اس کے بعد ۱۸۰۸ء میں جنرل اختر لونی نے موجودہ علاقہ مالیر کوٹلہ کی تصدیق اور توثیق کر دی اور ریاست مالیر کوٹلہ زیر اقتدار حکومت برطانیہ آگئی.احمد شاہ درانی کے وقت رئیس مالیر کوٹلہ زمیندار کہلاتے تھے مگر نظم ونسق حکومت میں خود مختار تھے.شیخ صدر جہاں کی چند پشت بعد نواب جمال خاں کو حکومت ملی چنانچہ موجودہ حکمران خاندان بقیہ حاشیہ :- (ج) بعض جگہ خطوط واحد نی میں ع.م.ان درج کئے گئے ہیں.جن سے مراد یہ ہے کہ امر مذکور میاں عبدالرحمن خاں صاحب.مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب یا سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے معلوم ہوا ہے.(1) چونکہ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر چہارم ( مرتبہ مکرم عرفانی صاحب) کا حوالہ بار بار ہے اسلئے اکثر صرف مکتوبات کا نمبر درج کیا گیا ہے.مکتوبات کے تمام حصص مکرم عرفانی صاحب کی سعی و توجہ سے زیور طبع سے مزین ہوئے ہیں اور جماعت احمد یہ کیلئے ایک بیش بہا خزانہ ہیں فجزه الله احسن الجزا.
3 نواب جمال خاں کی اولا د ہونے کی وجہ سے جمال خانی کہلاتا ہے حکومت برطانیہ کے عہد میں یہ امر طے شدہ تھا کہ جب تک اس خاندان کے افراد موجود ہیں ریاست انہی کے پاس رہے گی.شجرہ نسب شجرہ نسب ذیل میں درج کیا جاتا ہے تاکہ ریاست کے معاملات آسانی سے سمجھے جاسکیں.نوٹ: یہ شجرہ مکتوب نواب صاحب بایزید خاں | مورخہ ۳۱-۵-۲۷ بنام حضرت ایک ماں کے بیٹے فیروز خاں امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ وغیرہ | سے لیا گیا ہے جو رئیس یا نواب شیر محمد خاں ہوئے ان پر نمبر دیے گئے ہیں اور نواب جمال خاں نمبرا دو لکیریں اس طرح دی گئی ہیں.م || ♥ نواب بھیکن خاں نواب بہادر خاں نواب عمر خاں نواب اسد اللہ خاں نواب عطاء اللہ خاں || نواب وزیر خاں نواب المیر خاں یہ دونوں شاخیں کچھ چل 1 کر لا ولد ر ہیں نواب محبوب علی خاں ہمت خاں دلیر خاں رحمت علی خاں (عمر خاں.اسداللہ خاں.عطاء اللہ خاں ایک ماں دلاور علی خاں کے بیٹے تھے.) غلام محمد خاں نواب ابراہیم علی خالی عنایت علی خاں نواب سکندر علی خاں ( لا ولد ) لا ولد ) (لا ولد ) نواب احمد علی خاں" جعفر علی خاں افتخار علی خاں ممتاز علی خاں الطاف علی خاں ( موجودہ والٹی ریاست مالیر کوٹلہ ) احسن علی خاں باقر علی خاں محمد علی خاں سرذوالفقار علی خاں ( لا ولد ) احسان علی خاں حسین علی خاں یوسف علی خاں لا ولد رشید علی خاں خورشید علی خاں
4 نوٹ : نواب غلام محمد خاں صاحب کی چار بیگمات تھیں.علی الترتیب ان کی ذیل کی اولا دذ کو روانات تھی.پہلی بیگم کے بطن سے امیر بیگم.احسن علی خاں.باقر علی خاں ( لا ولد ) دوسری بیگم کے بطن سے حسینی بیگم (لاولد ) تیسری بیگم کے بطن سے نواب بیگم ( بیگم نواب ابراہیم علی خاں ) یہ تیسری بیگم اور والدہ نواب ابراہیم علی خاں سگی بہنیں تھیں.چوتھی نواب بیگم بنت سردار خاں کے بطن سے فاطمہ بیگم.محمد علی خاں.ذوالفقار علی خاں.یوسف علی خاں.نواب جمال خاں کے پانچوں بیٹے یکے بعد دیگرے حسب ترتیب بالا نواب ہوئے.نواب عطاء اللہ خاں کے بعد نواب وزیر خاں جو نواب بھیکن خان کے بڑے بیٹے تھے مسند نشین ہوئے اور نواب سکندر علی خان تک ریاست نواب وزیر خاں کی اولاد میں رہی.نواب سکندر خاں لا ولد تھے.انہوں نے نواب محمد علی خاں کو متبنے بنانا چاہا لیکن نواب غلام محمد خاں کو اپنا بیٹا بہت پیارا تھا.جدائی گوارا نہ ہوئی.دوسرے انہیں یہ بھی یقین تھا کہ سب سے بڑا ہونے کے سبب سے اور نواب جمال خان کے فرزند ثانی کی اولاد ہونے اور والدہ کی طرف سے بھی نواب سکندر علی خاں کا اقرب ہونے کی بناء پر خود ان کو ریاست کا حق پہنچتا ہے.نواب سکندر علی خاں نے نواب ابراہیم علی خاں کو متنبہ بنالیا اور نواب سکندر علی کے فوت ہونے پر گڈی کے متعلق جھگڑا پیدا ہوا.مقدمات پر بیوی کونسل تک گئے نواب غلام محمد خاں نے شرعا متبنیت ناجائز ثابت کر دی اور گڑی کا حق فریق ثانی کاٹوٹ گیا.تذکر روسائے پنجاب مصنفہ سرلیپل گریفن جلد دوم ( اردو ) میں نواب محمد علی خاں صاحب اور آپ کے بھائی خاں ذوالفقار علی خاں صاحب کی تصاویر دی گئی ہیں اور لکھا ہے کہ ” یہاں فرمانروائے مالیر کوٹلہ کے اُن یکجری رشتہ داروں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو خوانین“ کے لقب سے مشہور ہیں اور ان میں سے اب صرف خان صاحب غلام محمد خاں کی اولاد باقی ہے.غلام محمد خانصاحب کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے نواب سکندر علی خانصاحب کے نواب ابراہیم علی خاں کو متنبنی بنانے پر جھگڑا اٹھایا تھا کوٹلہ میں غلام محمد خاں صاحب کی وفات پران کی جاگیریں اور ریاست کے مالیہ کا حصہ ان کے پانچ صاحبزادوں کومل گیا.اور سب سے بڑے صاحبزادے احسن علی خاں صاحب اپنے والد ماجد کی جگہ پراونشل درباری بنائے گئے.احسن علی خاں ۱۹۰۷ء میں فوت ہوئے.اُن کے چھوٹے بھائی محمد علی خاں صاحب اور ذوالفقار علی خاں صاحب نے انھیسن کالج میں تعلیم پائی.محمد علی خاں صاحب علوم مشرقیہ کے مطالعہ میں مصروف ہو گئے.خاں ذوالفقار علی خاں صاحب لدھیانہ میں آنریری اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر مقرر کئے گئے.جس عہدے پر انہوں نے چند سال تک بہت اچھا کام کیا.(۷۵۵) نوٹ: صرف خان غلام محمد خانصاحب کی اولا د کا باقی ہو نا غلط ہے.(مولف کتاب ہذا )
5 شمال مختلف آبادی ملازمان و غیره مکان جعفر علی شان کا بلی از لو دیانه پلٹن ه چاه آسمانی مکانات قلعه راسته پہیلیوں کی جگہ استری خاوند روانی سروانی کوٹ وغیرہ مكانات الطبل رسالہ حیرای ما مضرات منها جواب محمد علی خاں باره جیل خانه دو کانات صاحب کے حصہ میں آیا..آپ نے یہ دیکھ کر کہ سیدوں کی بے پردگی ہوتی سفید زمین چاه ابرو والہ باغ سینگل شفاة.مکا من م خان محمد باقر علی خانصاحب آبادی ہے انہیں ماجد و مدرسہ کے جاناں پاس تھانہ وغیرہ کی جگہ پر آباد کر دیا.
6 لیکن حکومت نے فیصلہ کیا کہ ریاست میں انتخاب ہو.چونکہ نواب غلام محمد خاں کی مالی حالت اچھی نہ رہی تھی اور شرکاء کے پاس کافی روپیہ تھا اس لئے انہوں نے روپیہ خرچ کر کے زیادہ ووٹ حاصل کر لئے اور کامیاب ہو گئے.بناء بریں اور نیز اس لئے بھی کہ ریاست سنی تھی اور آپ شیعہ تھے.ہر وقت تنازعات کے رونما ہونے کا خطرہ لاحق رہتا تھا اور گدی کے حصول میں ناکامی کے بعد علاقہ کوٹلہ کے عوض ریاست سے باہر جاگیر حاصل کرنے میں بھی کامیابی نہ ہوئی تھی.نواب غلام محمد خاں نے بنجرات سکندر پورہ وغیرہ دیہات میں جو ورثہ میں نواب سکندر علی خاں کی وفات پر حاصل ہوئے تھے.۱۸۷۵ء میں سروانی کوٹ کی بنیاد ڈالی.جس کا نقشہ صفحہ ۵ پر ملاحظہ فرمائیں : ۱۸۷۲ ء تک تمام حصہ داران یعنی اولادنواب جمال خاں میں تمام کلکٹری اور فوجداری اختیارات موجود تھے.ان میں جائداد مساوی حصص میں تقسیم ہوتی تھی اور ان میں سے ہر ایک فوجدار با اختیار رئیس ہوتا تھا.لیکن گورنمنٹ نے یہ چاہا کہ چونکہ آپس میں تنازعات وفسادات ہوتے ہیں ایک ہی نواب رہے جسے فوجداری اختیارات بھی حاصل ہوں باقیوں کو صرف کلکٹری اختیارات رہیں.چونکہ نواب غلام محمد خاں سمجھتے تھے کہ آئندہ وہ خود نواب ہونگے انہوں نے بھی اس تجویز کو مناسب قرار دیا.اس لئے احکام جاری ہوئے کہ نواب غلام محمد خاں کی وفات کے بعد فوجداری اختیارات صرف نواب والئی مالیر کوٹلہ کو حاصل ہوا کرینگے.چنانچہ ۱۸۷۸ء میں ان کی وفات کے بعد یہ اختیارات جملہ خوانین سے جاتے رہے لیکن بعد میں کلکٹری کے اختیارات بھی نواب والئی ریاست کی طرف منتقل کر دیئے گئے کیونکہ پہلے بٹائی کا طریق جاری تھا.بعد ازاں اس طریق کو حکومت نے لگان میں تبدیل کر دیا.۱۸۹۹ء سے اولاد بہادر خاں کے حصص مساوی تقسیم ہوتے ہیں.مگر اولاد عطاء اللہ خاں میں سوائے والٹی مالیر کوٹلہ کے باقی اولاد کے لئے گزارہ تجویز ہوتا رہا.نواب سکندر علی خاں صاحب کا ترکہ اس طرح حسب رواج خاندان تقسیم ہوا: ایک حصہ سالم نواب غلام محمد خاں کو.ایک حصہ سالم بطور رئیس نواب ابراہیم علی خاں.ایک حصہ سالم بطور ورثاء نصف نواب ابراہیم علی خاں.نصف خاں محمد عنایت علی خاں کو.صورت آمدنی جو پہلے تھی اور جو نواب سکندر علی خاں کا ترکہ ملنے پر ہوگئی حسب ذیل تھی.نمبر شمار انوب ابراہیم علی خاں خان عنایت علی خاں خان غلام محمد خاں جا گیر جدی حصہ وراثت نواب سکندر علی بطور رئیس // ۲۰۰۰۰ // Yo...// ۲۰۰۰۰ // Yo...//....11 M....میزان // ۱۲۰۰۰۰ // ^....// ^....۴۰۰۰۰ // ۲۸۰۰۰۰ ٹوٹل:
7 نواب غلام محمد خاں اپنے والد کی وفات کے بعد پیدا ہوئے تھے.ان کی ولادت سے قبل ہی اقارب نے والد کی جائداد آپس میں تقسیم کر لی اور یہ خیال کیا کہ شاید لڑکی پیدا ہو.ان کی ولادت پر بھی ساری جائیداد کی بجائے صرف سات ہزار روپے سالانہ آمد کی جاگیر واپس ملی.لیکن کچھ تو یہ ترکہ ملا اور کچھ انہوں نے اپنی خدا داد قابلیت سے پیدا کی حتی کہ وفات پر ایک لاکھ روپیہ سالانہ آمد کی جائداد پنی اولاد کیلئے چھوڑی.ازالہ اوہام میں مذکورہ حالات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نواب صاحب سے حاصل کر کے ذیل کے حالات ازالہ اوہام حصہ دوم میں درج فرمائے تھے.جی فی اللہ نواب محمد علی خان صاحب رئیس خاندان ریاست مالیر کوٹلہ.یہ نواب صاحب ایک معزز خاندان کے نامی رئیس ہیں مورث اعلیٰ نواب صاحب موصوف کے شیخ صدر جہاں ایک باخدا بزرگ تھے جو اصل باشنده جلال آباد سروانی قوم کے پٹھان تھے.۱۴۶۹ء میں عہد سلطنت بہلول لودھی میں اپنے وطن سے اس ملک میں آئے شاہ وقت کا ان پر اس قدر اعتقاد ہو گیا کہ اپنی بیٹی کا نکاح شیخ موصوف سے کر دیا اور چند گاؤں جاگیر میں دے دیئے.چنانچہ ایک گاؤں کی جگہ میں یہ قصبہ شیخ صاحب نے آباد کیا جس کا نام مالیر ہے.شیخ صاحب کے پوتے بایزید خاں نامی نے مالیر کے متصل قصبہ کوٹلہ کو تقریباً ۱۵۷۳ء میں آباد کیا.جس کے نام سے اب یہ ریاست مشہور ہے.بایزید خاں کے پانچ بیٹوں میں سے ایک کا نام فیروز خان تھا اور فیروز خان کے بیٹے کا نام شیر محمد خاں اور شیر محمد خاں کے بیٹے کا نام جمال خاں تھا.جمال خان کے پانچ بیٹے تھے مگر ان میں سے صرف دو بیٹے تھے جن کی نسل میں باقی رہی یعنی بہادر خان اور عطاء اللہ خان.بہادر خان کی نسل سے یہ جوان صالح خلف رشید نواب غلام محمد خان صاحب مرحوم ہے جس کا عنوان میں ہم نے نام لکھا ہے.☆ ولا دت نواب صاحب اور آپ کے بھائی بہن نواب محمد علی خان صاحب یکم جنوری ۱۸۷۰ء ( مطابق ۲۸ یا ۲۹ رمضان ۱۲۸۶ھ ) غالبا شنبه و یکشنبہ کی نواب صاحب کے خاندانی حالات کے ماخذ درج ذیل ہیں: (۱) ازالہ اوہام...(۲) مکتوب نواب صاحب مورخه ۲۷ رمئی ۱۹۳۱ء....بنام حضرت امیر المومنین ایده اللہ تعالی (۳) بیان مکرم میاں محمد عبد اللہ خان صاحب ( مولف)
8 درمیانی رات کو پیدا ہوئے.آپ اپنے والد کی چوتھی بیگم نواب بیگم صاحبہ بنت سردار خاں کے بطن سے جو خاندان کی شاخ نصرت خانی سے تعلق رکھتی تھیں ) پیدا ہوئے آپ اپنی والدہ کے پہلے لڑکے اور بھائیوں میں تیسرے تھے.دو بڑے بھائی خاں احسن علی خان صاحب اور خاں باقر علی خاں صاحب بڑی والدہ کے بطن سے تھے اور نواب صاحب سے کافی بڑے تھے.جو پہلی اولاد ہونے کی وجہ سے خاندان کے بزرگوں اور اپنی پھوپھیوں کے لاڈلے رہے.اس لئے باوجود والد کی خواہش کے ان کی تعلیم و تربیت اُن کے منشاء کے مطابق نہ ہوسکی اور نواب غلام محمد خاں مرحوم جن کو خاص طور پر بڑے بیٹے سے بہت لگاؤ تھا آخر کار ان کے خلاف توقع اور نا مناسب رجحان اور افتاد کی وجہ سے بہت دل شکستہ ہو گئے اور اُن سے رنجیدہ رہنے لگے تھے.ان سے چھوٹے بھائی سرنواب ذوالفقار علی خاں صاحب ( وفات ۱۹۳۳ء) تھے جو عمر میں ان سے ساڑھے تین سال چھوٹے تھے اور ان سے چھوٹے تیسرے بھائی یوسف علی خاں تھے جن کا بیس سال کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا.نواب صاحب سے بڑی ایک بہن فاطمہ بیگم صاحبہ مرحومہ تھیں جن کو آخر کار نعمت احمدیت نصیب ہوئی.(ن) بچپن میں موت سے نجات ایک بار چار پانچ سال کی عمر میں ایک سواری کی ہتھنی جو بہت بدمزاج تھی بگڑ گئی اور آپ کولیکر بھاگی.حالت خطرناک تھی مگر خدا نے فضل کیا کہ ایک تنگ کو چہ میں ایک کوٹھڑی میں گھستے گھستے وہ لوٹی اور پھر سیدھے رستے پر ہولی اور گھیر کر پکڑلی گئی.اندر گھر میں قیامت برپاتھی.والد سخت پریشان تھے کہ یہ صحیح سلامت واپس لائے گئے.بہت کچھ خوشی کی گئی اور بہت صدقہ و غیر تقسیم کیا گیا.(ن ) والدہ محترمہ کا ذکر خیر فرماتے.والدہ سے ہم زیادہ ڈرتے تھے.ان کے سامنے دن میں صرف دوبار سلام کو لے جایا جاتا تھا.باقی وقت نوکروں میں یا مردانہ میں گزرتا.والدہ بہت شفیق تھیں مگر صفائی وغیرہ کی ذرہ ذرہ بات دیکھنا اور نوکروں کو آکر تنبیہ کرنا یہ باتیں ہم پر بھی ان کا خوف زیادہ طاری رکھتی تھیں.وہ لاڈ پیار اور بے تکلفی والد کی طرح نہ کرتی تھیں.(ن)
9 والد بزرگوار کی طرف سے اعلیٰ تربیت نواب صاحب سے ان کے والد بزرگوار کو بے حد محبت تھی اور ان کو بھی اپنے والد سے بہت ہی زیادہ تعلق تھا.اب تک ان کا ذکر بہت پیار سے کرتے تھے اور اس طرح بات کرتے گویا کل کی بات ہے.اپنے گاؤں اور مکان واقعہ سروانی کوٹ سے نواب صاحب کو بہت محبت تھی فرماتے تھے کہ اگر کوٹلہ کی کسی چیز سے مجھے دلچسپی رہ گئی ہے وہ یہ مقام ہے کیونکہ والد نے میرے سامنے اس کو آباد کیا اور تعمیر کی اور اس میں ان کی وفات ہوئی.ریاستی معاملات میں اگر کوئی ذکر ہوتا اور کوئی ان کے والد کے خلاف بات کرتا تو جوش آجا تا تھا.اُن کے متعلق کوئی الزامی بات سُن ہی نہ سکتے تھے.فرماتے تھے والد کا زمانہ ان کی صورت.ان کی باتیں مجھے اس طرح یاد ہیں کہ خود حیرت ہوتی ہے.حالانکہ اب اس زمانہ کی اکثر باتیں بھول جاتا ہوں.اپنے والد کو ” میاں“ کہتے تھے اور اسی نام سے ان کا ذکر بہت ہی محبت سے فرماتے تھے.جہاں تک ان سے اور محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ مرحومہ سے باتیں سنیں ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ نواب غلام محمد خان صاحب کا طریق تربیت نہایت ہی اعلیٰ تھا اور وہ بہت عمدہ اخلاق کے مالک تھے اور سخاوت اور حوصلہ عالی نواب محمد علی خان صاحب نے انہی سے ورثہ میں پایا تھا.فرمایا کرتے تے کہ والد کو مجھ سے نہایت درجہ محبت تھی.چونکہ اپنے بڑے فرزند سے بھی ان کو بہت محبت تھی اس لئے حسرت سے سرد آہ کے ساتھ ان بدعنوانیوں کا ذکر کرتے اور کہتے تھے کہ خدا کرے میرے یہی بچے اچھے نکلیں.اور میری تمنا اولاد کے متعلق ان ہی کے ذریعہ پوری ہو جائے.فرماتے تھے کہ باوجود بیحد محبت کے ہمارے والد کا ہم پر بہت رُعب تھا.ان کی منشاء کے خلاف کوئی بات بچپن میں بھی ہم نہیں کر سکتے تھے.طرح طرح کے کھلونے اور دلچسپی کی چیزیں وہ میرے لئے مہیا کرتے اور خود بھی دلچسپی لیتے اپنے سامنے کھیل کھلواتے اور خوش ہوتے.اکثر ایسا ہوتا کہ کھلونا دیا اور میں نے چلا کر دکھایا تو کہا کہ لو! میاں نے ہمیں تماشا دکھایا ہے.اس کا انعام دینا چاہئے.روپے دیتے کہ اپنے نوکروں میں تقسیم کر دو.اکثر میرے ہاتھ سے چیزیں تقسیم کرواتے کہ اس سے دادوستد کی عادت پڑتی ہے ایک دفعہ میں نے اپنے اتالیق کی غیر موجودگی میں اپنے قیمتی کپڑے نکال کر خادم لڑکوں میں تقسیم کر دیئے بلکہ اُن کو پہنا دیئے ( بہت سے خادم لڑکے ساتھ پرورش پاتے اور ساتھ کھیلتے تھے ) والد نے دیکھا تو خفا نہیں ہوئے.بلکہ ان لڑکوں سے کہا کہ گھروں کو بھاگ جاؤ.شیخ قاسم علی آجائیں گے اور دیکھ لیا تو سب اتر والیں گے.تمہیں میاں نے دیئے ہیں لے جاؤ.مگر وہ بچے اتراتے ہوئے وہیں پھرتے رہے اور شیخ صاحب نے آن کر اکثر سے چھین ہی لئے.فرماتے تھے کہ ہم کو نوکروں کا ادب کرنا سکھلایا جاتا تھا.اپنے کھلائیے وغیرہ کے تھپڑ کھا کر بھی ہم شکایت
10 نہیں کر سکتے تھے.اور والد کے پُرانے نوکروں اور خاص کر جن سے رشتہ ہوتا تھا ان کو تو کھڑے ہو کر تعظیم دینا اور سلام کرنا ہوتا تھا.ایک بار کھلائیے نے تھپڑ زور سے مارا.نشان رخسار پر پڑ گیا.والد نے پوچھا یہ کیا ہے؟ میں نے کہا شیخ جی نے مارا ہے.کہا میاں !تم نے شرارت کی ہوگی.کہنا مانا کرو.غرضیکہ میرے سامنے مجھی کو سمجھا یا ذرا بھی رنج کا اظہار نہ کیا.گو ان کو الگ بلا کر ضرور سمجھایا ہوگا.دائی وغیرہ نوکروں کو حکم تھا کہ چیز سامنے زیادہ رکھو مگر زیادہ کھانے نہ دو تا کہ معدہ نہ بگڑے.بلکہ بہلا پہلا کر ان کے ہاتھوں سے تقسیم کروا دیا کرو.روز یہی نقشہ ہوتا کہ ناشتہ وغیرہ کی مٹھائی سب بنٹوائی جاتی.میاں اس کو دومیاں اس کو دو.اور آخر میں میرے حصہ میں اکثر جلیبی کی ایک شاخ ہی آتی.(ن) ایک دفعہ کا واقعہ بیان کرتے تھے کہ بھائی ذوالفقار علی خان دو اڑھائی سال کے تھے اور ہم دونوں کھیل رہے تھے کہ میرے بڑے بھائی آگئے.ان کے خلاف روائتیں نوکروں سے سُن رکھی تھیں.پانچ چھ سال کی میری عمر تھی.بچپن کا زمانہ.میں نے جلدی سے بھائی کو گھسیٹ کر کوٹھری میں گھس کر کنڈی لگالی.چھوٹے بھائی نے رونا شروع کیا.آخر کار نوکروں نے زبر دستی دروازہ کھلوایا.والد کو خبر ہوئی.پوچھا کہ یہ کیا حرکت کی تم نے.بند کیوں ہوئے تھے؟ میں نے کہا دشمن جو آگیا تھا میں نے اپنے بھائی کو چھپالیا.والد نے خفگی کا سامنہ بنایا اور بہت سنجیدگی سے سمجھایا کہ وہ بھائی ہے تمہارا.جس نے تم کو یہ بات سکھائی ہے اس نے جھک ماری آگے کو کبھی بھائی کو دشمن نہ کہنا.فرماتے تھے کہ اپنی اس حرکت پر میں نے ندامت محسوس کی اور بڑے ہو کر تو میں نے ہمیشہ ان دونوں بھائیوں کو باپ کی جگہ سمجھا.اتنا ادب کیا اتنی اپنائیت ان سے برتی کہ آخر ان کا رویہ ہی بدل گیا اور وہ محبت بلکہ خاص عزت مرتے دم تک کرتے رہے اور ہر معاملہ میں مجھ سے مشورہ لیتے تھے اور اپنا سچا یہی خواہ جانتے تھے.(ن) اس سے ظاہر ہے کہ نواب غلام محمد خان تربیت اولاد کا کیسا خیال رکھتے تھے اور کیسے عالی ظرف اور کریم الاخلاق تھے.محترم عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے لدھیانہ میں ایک شخص نے نواب غلام محمد خان کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ شیعہ تھے اور محرم میں ان کے ہاں مجالس وغیرہ ہوتی تھیں.ایک محرم میں میں بھی مجلس میں بطور تما شائی موجود تھا.اختتام مجلس پر کشمش و غیرہ میوہ بطور تبرک تقسیم ہورہاتھا.ایک شخص نے کہا کہ مجھے بھی دو میں رافضی ہوں شیعہ حضرات کے نزدیک رافضی کہنا تو گویا گالی ہے.مگر نواب صاحب کچھ مسکرائے اور کہا کہ بھٹی ! اس رافضی کو دوہرا حصہ دو.چنانچہ اسے بہت سا میوہ دیا گیا اور کچھ نقد بھی دیا.یہ تھی ان کی سیر چشمی اور خود داری.
11 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کے متعلق فرماتے ہیں :." مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو کہ باوجود بہم پہنچنے تمام اسباب اور وسائل غفلت اور عیاشی کے اپنے عنفوان جوانی میں ایسا پر ہیز گار ہو.“ آپ کی تعلیم چھ سات سال کی عمر میں والد ماجد نے چیفس کالج میں (جو اس زمانہ میں روسائے پنجاب کے لڑکوں کے لئے انبالہ میں ہوتا تھا اور بعد میں لاہور میں منتقل ہو گیا ) بھیج دیا تھا.ساتھ ملازم اور ا تالیق گھوڑے اور سواری کافی عملہ بھیجا گیا تھا.جدائی والدین کو گوارا نہ تھی لیکن تعلیم کا خیال مقدم تھا.وہاں تینوں بھائی اکٹھے نہایت شان وشوکت کے ساتھ رہتے تھے.فرماتے تھے کہ جس قدر فراخی اور آرام ہمیں اس زمانہ میں محسوس ہوتا تھا بعد میں کبھی محسوس نہیں ہوا.آپ کی ساڑھے سات سال کی عمر تھی کہ والد نے وفات پائی.(نم) طرز تعلیم انبالہ تک تو نہایت ناقص تھی.سالہا سال وہاں ضائع ہی ہوئے.لاہور آن کر با قاعدگی ہوئی مگر بے قاعدہ تعلیم کا اثر باقی تھا.یہاں کا فی ذلت محسوس ہوئی بمشکل کورٹ کھلنے تک میٹرک کا امتحان دیا جاسکا.اس سے پہلے اُنہوں نے ولایت بیرسٹری کے لئے جانا چاہا تھا.بہت اصرار کیا مگر کورٹ والوں نے مانا نہیں.بہت بد دل سے ہو گئے.پڑھنے میں دل لگانا ہی ترک کر دیا تھا.چنانچہ میٹرک کے امتحان میں کامیاب نہ ہو سکے.فرمایا کرتے تھے کہ وہ میرے لئے بہتر ہی ہوا.ورنہ جیسی میری طبیعت ہے اگر اس کم عمری میں یورپ کا رنگ چڑھ جاتا تو مشکل سے ہی اُتر تا اور غالب تھا کہ مذہبی اثر بھی دل سے دُور ہو جاتا.(ن ) بچپن میں اخلاق فاضلہ عزم.قوم کیلئے غیرت وغیرہ فرماتے تھے سکول میں استادوں نے ہمیشہ مجھ سے عزت کا سلوک کیا.میں باوقار طور پر الگ تھلگ رہتا تھا نہ کسی سے دوستانہ رکھتا.نہ لڑکوں کے جھگڑوں میں پڑتا.نہ قانون شکنی کرتا.اس وجہ سے شکایت کا موقعہ ہی نہ آتا تھا.کسی لڑکے پر خاص طور پر کسی مسلمان لڑکے پر کبھی بے وجہ زیادتی ہوئی تو ایسا بھی ہوا کہ اس کے لئے میں استادوں بلکہ کالج کے گورنر تک سے جھگڑ پڑا.اور بالاخر اکثر دفعہ انہیں میری بات ہی مانی پڑی.(ن) فرماتے تھے کہ بچپن میں ہی میری طبیعت میں عزم تھا.جس بات کو درست سمجھتا تھا اس پر پورے طور پر قائم رہتا.اور کسی استاد کے کہنے سے ہلتا نہیں تھا.ایک دفعہ ایک استاد نے طمانچہ مارا.میں اس طرح بیٹھا
12 رہا.پھر استاد مارتا ہی گیا.آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے لیکن میری طرز میں کوئی فرق نہ آیا حتی کہ استاد خود ہی تھک کر مارنے سے باز آ گیا.(م) بچپن میں ہی قوم کے لئے غیرت تھی اور غلامی کو بُرا سمجھتے تھے.ایک دفعہ علیگڑھ کالج کا پرنسپل مسٹر آرنلڈ جو انگریز تھا.یو.پی کے دیسی لباس میں لاہور آیا تو ایچی سن کالج کے گورنر مسٹر بلیک نے اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھا.اس پر نواب صاحب کے دل پر بہت اثر ہوا.اور آپ نے سوچا کہ آخر ہم ان لوگوں کا لباس کیوں اختیار کریں.چنانچہ آپ نے کبھی انگریزی لباس نہیں پہنا تھا.آپ ٹینس کھیلنے جاتے تھے.آپ کو مجبور کیا گیا کہ اس کا مخصوص انگریزی لباس پہنیں.آپ نے اس سے انکار کیا اور کوشش کر کے اپنے آپ کو کھیل سے مستشٹے کرالیا.لیکن آدھ گھنٹہ کے لئے حاضری ضروری قرار دی گئی.آپ گھڑی لے کر وہاں پہنچتے اور آدھ گھنٹہ کے گزرتے ہی واپس چلے آتے (م) (لطیفہ ) جب نواب صاحب ابتداء میں انبالہ تعلیم کے لئے گئے تو اس وقت آپ کی عمر بہت چھوٹی تھی.آپ کے ہم جماعت بڑے بڑے سکھ رئیسوں کے لڑکے تھے وہ اکثر اپنے ساتھیوں کو بہت ستاتے اور چھیڑتے تھے.ایک ہندو استاد جو آپ سے بہت مہربانی سے پیش آتے تھے انہوں نے آپ کو ایک شعر یاد کروا دیا کہ جب تم کو یہ ناحق ستائیں تو خوب اکثر کر یہ شعر پڑھا کرو اوران کامنہ نوچ لیا کرو.وہ شعر یہ تھا ہم شیر ہیں قتسم اسد کردگار کی رکھتے ہیں ناخنوں میں بُرش ذوالفقار کی (ن) والدین کا انتقال اور بہن بھائیوں کی پرورش کا بار گراں نواب صاحب کی ساڑھے سات سال کی عمر تھی کہ آپ کے والد بزرگوار نے وفات پائی.گونواب صاحب کو انبالہ سے بلوا بھیجا تھا مگر حالت اس قدر تشویشناک نہ تھی اچانک ہی چند گھنٹوں میں حالت بگڑ کر سینتالیس سال کی عمر میں ان کی وفات ہوگئی اور سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا.فرماتے تھے کہ اس وقت مجھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی سہارا نہیں رہا اور میں تنہا رہ گیا ہوں اور اتنی عمر میں یہ احساس تھا کہ اب اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا تمام فکر اور ذمہ داری مجھ پر ہی ہے.اس دن کے بعد جب تک وہ بالغ ہو کر خود مختار نہیں ہو گئے گھر پریا وہ بھی جب سکول پہنچ گئے تو وہاں ایک رات نہیں گزری کہ میں نے راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر بھائیوں کو نہ دیکھا ہو.ذرا بڑے ہوئے تو یہ فکر دامن گیر رہا کہ کسی خراب صحبت میں نہ چلے جائیں کیونکہ زمانہ بہت خراب تھا.والدہ ماجدہ کی شفقت اور توجہ والد کے بعد بہت بڑھ گئی تھی.اُنہوں نے اپنے بچوں کا ہر صورت سے
13 بے حد خیال رکھا.ہر وقت اُن کی کوشش تھی کہ اُن کو کوئی تکلیف نہ ہو نہ کوئی کمی انکی تعلیم وتربیت میں رہ جائے.مگر اپنے شوہر کی وفات کے بعد وہ ایک دن بھی اچھی نہ رہیں.صحت گرتی ہی گئی.آخر ان کے پورے چھ سال کے بعد وہ بھی اولاد کو داغ مفارقت دے گئیں.انہوں نے کل تمہیں سال عمر پائی.فرمایا کرتے تھے کہ اس وقت دل کو احساس اس قسم کا تھا کہ گویا ایک سایہ تھا جو سر سے ہٹ گیا اور ہمارا بچپن بکلی رخصت ہوگیا ہے.اس کے بعد سے میری ذمہ داریاں بڑھ گئیں بھائی برابر کے بھائی تھے حکمت اور محبت سے ہی ان کو قابو میں رکھنا اور اپنے حسب منشاء چلانا ہوتا تھا.زمانہ خراب.گھر سے باہر سب جگہ بُری ہی صحبت اور گندے صلاح کار جن باتوں سے مجھے فطرتی نفرت تھی کوئی وجہ نہ تھی کہ دوسرے خود مختار بھائی بھی اس کے پابند ہوں.مثلاً تہواروں کی فضول رسوم ہیں.عید کے دربار پر رنڈیوں کے ناچ ہیں.بھائیوں کو مفت خورے شوقین سکھا رہے ہیں کہ فلاں بات تو ضرور ہو.ادھر وہ خود بچے.رونق اور دلچسپیاں کس کو پسند نہ ہونگی.وہ مصر ہیں کہ ایسا ضرور ہو اور ادھر ہم متنفر ہیں.غرض کبھی تو حکمت سے سمجھا کر ان کو منالیا جا تا کبھی ان کی ضد ماننا پڑتی مگر بعد میں ان کو پھر سمجھاتا اور حسن و فتح سے آگاہ کرتا تو وہ مان لیتے اور رفتہ رفتہ وہ خود بڑی حد تک ان باتوں سے دور ہوتے گئے.منجھلے بھائی (سر) ذوالفقار علی خان کی طبیعت میں بہت سعادت تھی.فطرتاً خود بھی نیک تھے اور نیک صلاح کو فورامان لیتے تھے چھوٹے بھائی سے زیادہ مغز زنی کرنی پڑتی تھی.(ن) ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات.طفولیت سے شرک ، بدعات مکروہات سے طبعی نفرت آپ کو ہر چیز کی دریافت کا فطر تا شوق تھا.کھلونے آتے اور فورا تو ڑ کر ان کو جوڑنے کی ترکیبیں سوچی جاتیں.فلاں چیز کیسے بنی.کس چیز سے بنی کھیل میں بھی یہی خیال رہتا تھا.سوچنے کی عادت عہد طفولیت سے تھی.فرماتے تھے ضد اور بات پر اڑ جانے کی عادت مجھے ہمیشہ سے تھی مگر یہ ضرور تھا کہ میں بعد میں فورا سو چتا کہ کیا مجھ سے صادر شدہ حرکت مناسب تھی اور مجھے جو کہا گیا یا روکا گیا تو کیا یہ ٹھیک نہ تھا؟ اور جب اپنی خطا سمجھ میں آجاتی تو پھر دوبارہ کبھی وہ بات نہ کرتا.اسی لئے چھوٹی سی عمر میں ہی میں ڈانٹ ڈپٹ کے دور سے گذر چکا تھا اور بڑوں کو بہت کم ہی کچھ کہنے کی ضرورت پڑتی تھی.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ نواب صاحب فرماتے تھے کہ ہمارے سرہانے اس زمانہ کے امراء کے دستور کے مطابق.اناج.تیل اور نقدی وغیرہ رکھا جاتا اور صبح یہ صدقہ جو غرباء کے لئے فرض
14 کیا جاتا تھا نوکر لے جاتے.میں سوچا کرتا تھا کہ صدقہ کی طرز ٹھیک نہیں.یہ لوگ تو ہر طرح فائدہ اٹھاتے ہیں.تلاش کر کے اصلی حقداروں کو دینا چاہئے.بچپن سے بدچلن لوگوں کی باتیں سُن کر ایسی نفرت پیدا ہوئی تھی کہ جس عورت کا ذکر بری طرح سُنا ہو خواہ بات سمجھ میں نہ ہی آتی ہو مگر دل پر ایسا اثر پڑا کہ اس کے دشمن ہی ہو جاتے اور اپنے کمروں یا اپنے خاص نوکروں کے پاس گھنے نہ دیتے تھے ہمشیرہ فاطمہ بیگم صاحبہ جو بہت پیار سے ان کی بچپن کی باتیں سنایا کرتی تھیں.اکثر کہتیں کہ یہ بڑے ہو کر تو مولوی بنے ہی مگر جب بالکل چھوٹے سے تھے جب ان سے پوچھا جاتا کہ تم بڑے ہو کر کیا کرو گے تو کہا کرتے تھے کہ ظالم اہلکاروں کو اور بدمعاش عورتوں کو پھانسی دے دونگا.فرماتے تھے کہ اس ماحول میں اور اس زمانہ میں ایک خاص بات محض خدا کے فضل سے ہی میری طبیعت میں پیدا تھی کہ بچپن اور بالکل بے ہوشی کے زمانہ سے ہی بلا سمجھے مجھے تعویذ گنڈوں سے نفرت تھی.جتنے تعویذوں کے ہار لا دیئے جاتے میں اتار کر پھینکتا ایک بار ایک خاص منت کا ہارا تار کر چلتی ریل سے باہر پھینک دیا تو والدہ کو بہت صدمہ ہوا.اور وہم گذرا مگر پھر انہوں نے کہا کہ یہ بچہ چونکہ ہمیشہ ایسی حرکت کرتا ہے تو کہیں کسی گستاخی کا عذاب ہی نہ پڑ جائے.اس لئے اس سے تو بہتر ہے کہ اس کو کچھ نہ پہنایا جائے.ایک امر بروایت مکرم میاں مسعود احمد خاں صاحب.عہد طفولیت میں رسومات سے متنفر کرنے کا موجب یہ ہوا کہ والدہ فقراء کی بہت معتقد تھیں ایک فقیر اپنے ہاں رکھا ہوا تھا.وہ تو شہ خانہ میں رہتا تھا.اس کا لحاف پر انا ہو گیا نیا حاصل کر نیکی اس نے یہ ترکیب کی کہ اسے وہیں آگ لگادی اور باہر نکل کر شور مچانے لگا کہ دروداُلٹ گیا ہے اس طرح دوسری چیزیں بھی آگ سے ضائع ہو گئیں.اور ایسے امور کا ردعمل یہ ہوا کہ آپ ان رسومات واعتقادات کے مخالف ہو گئے.فرماتے تھے کہ ہم نے بہت رسومات دیکھیں حتی کہ ہندوؤں کو تہواروں میں گدھوں تک کی پوجا کرواتے پایا.پہلی شادی اور ترک رسوم نکاح چودہ سال کی عمر میں اپنی خالہ زاد مہر النساء بیگم صاحبہ سے ہو چکا تھا جن کی عمر اس وقت سات آٹھ سال کی تھی.۲۱ سال کی عمر میں کورٹ گھلنے کے بعد تقریب رخصتانہ عمل میں آئی جس میں نواب صاحب نے حتی المقدور کسی قسم کی رسوم نہیں ہونے دیں.اور جب سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے شادی ہوئی ہے.اس زمانہ تک خاندان کی بڑی بوڑھیوں کی زبان پر گویا نعوذ باللہ ان کی اس وقت کی بے شرمی اور منہ زوری کے قصے تھے کہ کسی کی نہیں مانی اور جو چاہا کیا.پھر بھی بوڑھے صاحب اقتدار اہلکاروں اور ہمشیرہ وغیرہ نے کچھ نہ کچھ کر ہی لیا مگر پھر تو یہ ایسے سخت ہوئے کہ کوٹلہ میں گویا ایک ضرب المثل بن گئے.(ن)
15 جو لوگ کہتے تھے کہ رسمیں چھوڑنا پیسہ بچانے کا بہانہ ہوتا ہے ان کا منہ تو انہوں نے یوں تو ڑا کہ جہاں شریعت کی اجازت تھی یعنی عقیقہ وغیرہ اس میں خوب دل کھول کر خرچ کیا.اور سارے خاندان کے علاوہ ہند و مسلمان متعلقین کو بڑی بڑی دعوتیں دیں.غرباء میں کھانا اور روپی اتنا تقسیم کیا کہ معترضین قائل ہو گئے.یہ طریق اختیار کیا کہ اگر شریعت کے مطابق تقریب پر غریب سے غریب اور ملازم تک بلاتا تو چلے جاتے حتی کہ ایسے لوگوں کے ہاں بھی جہاں اور اہل خاندان جانا بہتک جانتے لیکن رسوم پر قریب ترین اور بڑے سے بڑے کو جواب صاف ملتا.نہ خود شرکت کرتے نہ گھر والوں کو شرکت کرنے دیتے.(ن) فرماتے تھے جوں جوں ذرا ہوش آتا گیا.مجھے شرک سے سخت نفرت ہوگئی.جس بات میں ذرا بھی مشرکانہ پہلو نظر آتا میرا دل اس سے نفرت کھاتا تھا اور یہ جذبہ طبیعت میں پیدا ہونا محض خدا داد تھا اور اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہی تھا.اس ضمن میں ایک واقعہ محترمہ ہمشیرہ فاطمہ بیگم نے کئی بار سُنایا اور خود ان سے بھی تصدیق ہوئی.جب نواب صاحب کی پہلی لڑکی امتہ السلام ۷ روز کی ہو کر فوت ہو گئی تو جس دن چلہ نہانے کا دن تھا ہمشیرہ نے کچھ پھل بھیجا کہ بھاوج کی گود میں یہ پھل ڈال دیا جائے.یعنی بعد غسل شگون نیک کے طور پر تو نواب صاحب نے بہت جوش اور غصہ سے کہا کہ یہ پھل لے جاؤ.یہ تو ایک اٹھوانسی لڑکی تھی اگر سات جوان بیٹے قابل ہو کر بھی میرے سامنے مرجائینگے تو شرک ہرگز نہیں ہونے دونگا.(ن ) طفولیت سے مذہب کی طرف رجحان فرماتے تھے کہ مجھے بچپن سے سوچ بچار کی عادت تھی والد کے دل میں بزرگان دین کا ادب اور محبت بہت تھی نیز علماء کی صحبت کا شوق تھا اور ان سے بہت مودبانہ سلوک کرتے تھے.مجھے بچپن سے ہی جب کوئی مولوی یا مجتہد آتا ضرور ملواتے اور باتیں ہوتیں تو پاس بٹھلائے رکھتے.اسی عمر سے ان صحبتوں کی ہی وجہ سے مجھ میں مذہبی مذاق پیدا ہو گیا تھا.جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے.شرک و بدعات وغیرہ سے بھی آپ بچپن سے ہی شدید طور پر متنفر تھے.(ن ) شیعیت میں تربیت لیکن اس سے نفرت کا اظہار والد چونکہ شیعہ تھے انہوں نے آپ کے نام کا مجمع بھی بنوایا تھا جو یہ ہے: بحق جانشین محمد علی“ ایک بار تین چار سال کی عمر میں ایک دو اشعار مرثیہ کے حفظ کرا کے منبر پر کھڑا کروا کے پڑھوائے اور اس
16 کی بہت خوشی منائی.مگر یہ علم نہ تھا کہ اس بیٹے کے مقدر میں تو غلام مسیح موعود ہونا لکھا ہے اور چودھویں برس سے ہی یہ شیعیت کو ترک کرنے کی بنیا درکھ دے گا.(ن) فرماتے تھے کہ چودہ سال کی عمر میں محرم کا زمانہ تھا ایک مجلس کے بعد ماتم زور شور سے ہو رہا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ ہاتھ تو میرا تھک گیا دل میں ذرا بھی اصلی جوش نہ درد.نہ ہی رونا آرہا ہے نہ ماتم کی خواہش ہے.تو یہ ماتم کیوں؟ صرف اس لئے کہ لوگ دیکھ رہے ہیں؟ تو یہ گویا اصلی ما تم حسین نہیں محض دکھاوا ہے ( ریا کاری سے سخت متنفر تھے ہی کیونکہ یہ مادہ ہی طبیعت میں نہ تھا) دل میں اپنے ہی اس فعل سے شدید نفرت سی پیدا ہوئی.فوراً ہاتھ روک لیا.وہ دن تو خیر گذرے مگر آئندہ محرم کرنا صرف رسم کا رہ گیا.بھائیوں کی خاطر یا اس کو مجبوری سمجھو کہ ابھی با اختیار نہ تھے.کورٹ نہ کھلا تھا.اسی طرح اس نفرت کی شدت کا موجب یہ امر بھی ہوا کہ آپ کے سوتیلے بھائی عزاداری کا علیحدہ انتظام کرتے تھے.اور آپ علیحدہ اور بعد میں فخر یہ رنگ میں بیان کیا جاتا تھا کہ ہمارے ہاں عزا داری دوسروں سے اچھی ہوئی.ہمارے مرثیہ گوزیادہ اچھے تھے ہمارے ہاں ماتم بہتر رنگ میں منایا گیا.آپ کو خیال آیا کہ اگر یہ مذہبی بات ہے تو علیحدہ علیحدہ ماتم منانے کی کیا وجہ ہے.دوسرے آپ نے دیکھا کہ جب میں زور سے سینہ کوبی کرتا ہوں تو لوگ بھی زور سے کرتے ہیں.اور آہستہ کرتا ہوں تو وہ بھی آہستہ کرتے ہیں.آپ نے سوچا کہ ما تم حب حسین کی وجہ سے ہوتا تو پھر ایسا کیوں ہوتا.معلوم ہوتا ہے کہ حُب حسین اس کا موجب نہیں ہے.اسی زمانہ میں مالیر کوٹلہ میں مولوی عنایت علی شاہ آئے ہوئے تھے جو کہ شیعوں میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.آپ نے ان سے پوچھا کہ عزاداری کیسے ہونی چاہئے تو ان کے جواب کے الفاظ تھے کہ عزاداری امام آن طور باید کرد که طریقہ ائمہ بود.آپ نے کہا کہ آئمہ کا طریق کیا تھا.اُنہوں نے کہا کہ وہ بیٹھتے تھے اور کر بلا کے واقعات کا ذکر کرتے تھے.اور غم مناتے تھے وبس.اس پر نواب صاحب نے ماتم منانا چھوڑ دیا.وہاں کے کھوجے جو کہ شیعہ تھے آپ کے پاس آئے وجہ معلوم کر کے مُلاں صاحب کے پاس گئے انہوں نے کہا کہ نواب صاحب کا کہنا درست ہے زیادہ اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ تو سگ ہستی تم گتے ہو.(م) اب کیا تھا دریا کے بلبلوں کی مانند یکے بعد دیگرے اعتراض دل میں اُٹھنے لگے.سوچنے اور غور کرنے کی عادت تو تھی جس سے ایک ایک بات میں بات نکلنے لگی.اعتراض پیدا ہوتا مجتہدین سے سوال کرتے کتابیں دیکھتے اس کا حل کرتے کرتے اور کئی عقدے حل ہو جاتے اسی سلسلہ میں مذہبی میلان اور بھی بڑھتا گیا.تاریخ اسلام کا شوق ہوا.صحابہؓ کے کار ہائے نمایاں دیکھے دل نے تبر ابازی پر لعنت کی.پھر دل نے کہا یہ نیازیں وغیرہ
17 اماموں کی سب أهـل لـغیر اللہ میں شامل ہیں.پس ان کا ترک کیا.یہاں تک کہ کورٹ کھلتے کھلتے دل تو بیزار ہو ہی چکا تھا کھلم کھلا بھی رسوم محرم بند کرنے کا قدم اُٹھا لیا گیا.صرف محبت علی جو گھٹی میں پڑ گئی تھی اس کا نکالنا آسان کام نہ تھا.اور طبیعت میں جھجک بھی پیدا ہوتی تھی کہ آخر یکدم مولا علی کا مرتبہ نسبتا کم کیسے کر دیں آخر تفضیلی شیعہ بنے رہنے کا فیصلہ کیا.مگر عمل اب ایک بھی شیعیت کا باقی نہ تھا اور شیعہ برادری اور خاندان میں ایک شور مخالف بر پا تھا.ساتھ ہی عام رسوم کے ترک کا فیصلہ سنا دیا تھا.اور رسوم میں شرکت چھوڑ دی تھی.تو اس سبب سے بھی عام طور پر مخالفانہ جوش تھا.بھائی بندا الگ خفا تھے اور نائی مراثی سنا گیا ہے کہ کھلم کھلا گالیاں دیا کرتے تھے کہ اس شخص نے ہمارا رزق ماردیا.غرض کئی سال مخالفت کی فضاء میں زندگی گزارنا پڑی مگر طبعاً بہادر اور نڈر انسان کب کسی مخالفت سے ڈرنے والا تھا؟ ایسا سختی سے مقابلہ کیا کہ آخر سب خود ہی جھک گئے.اب یہ حالت تھی کہ یہ کسی کے ہاں نہ جائیں کوئی شکوہ نہیں اور یہ عقیقہ وغیرہ پر بلائیں تو سب بھاگتے آتے ہیں.وہ سخت بدلہ لینے والے پٹھان کسی نے نہیں دیکھا کہ کبھی کسی نے ان سے بھی بدلہ لیا ہو.یہی کہتے کہ نواب محمد علی خان صاحب کا کیا ہے؟ ان سے گلہ کیا ؟ وہ تو شریعت پر چلتے ہیں.سرے سے رسمیں ہی نہیں کرتے.نوبت یہاں تک پہنچی کہ مالیر کوٹلہ کے خاندان میں اگر کسی نے برادری کے جھگڑوں سے تنگ آکر کبھی رسوم چھوڑیں تو یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ شریعت پر چلنے لگا بلکہ یہ کہ محمد علی خاں کے طریق پر چل پڑا ہے“.یا جب کوئی قصہ جھگڑا ہوتا تو تنگ آکر اکثر کہتے سنا گیا کہ وہی محمد علی خاں سچا تھا.اُس نے بہت ہی اچھا کیا کہ رسمیں ترک کر دیں.ہم تو عذاب میں پھنسے ہیں وغیرہ.جس کو بلا نا منظور ہوتا اور نواب صاحب کی شرکت کی خواہش ہوتی سب رسوم ترک کر کے ان کے زیر ہدایت تقریب کرتا اور بلا تا.خود اُن کے بھانجے والٹی ریاست نواب احمد علی خاں نے دو تین بچوں کی شادیاں شاید قادیان سے بھی کچھ زیادہ ہی سادگی سے کیں اور ہمنت حضرت نواب صاحب کو اور ان کے اہل بیت کو شمولیت کے لئے لے کر گئے.(ن) سرسید کی خدمات کا اعتراف نواب محمد علی خاں صاحب کی تعلیم ایچیسن کالج لاہور میں ہوئی تھی.اور ان کے اساتذہ میں مولانا حالی مرحوم بھی تھے جن کی وجہ سے مسلمانوں کی عام تعلیمی اور معاشرتی بدحالی کا ذکر اور اس خصوص میں سرسید کی خدمات کا عام چرچا تھا.نواب صاحب کے دل میں اسلامی ہمدردی اور مسلمانوں کی فلاح کے لئے ایک خاص جوش تھا اور ایچیسن کالج میں بعض اصلاحی امور میں وہ پیشروا در لیڈر ہوتے تھے.چنانچہ محمڈن ایجوکیشنل
18 کانفرنس بابت سال سوم کے اجلاس منعقدہ ۲۷ تا ۳۰ دسمبر ۱۸۸۸ء بمقام لاہور کی روئداد میں دوصد اٹھاون ممبران کے اسماء درج ہیں جن کا ایک سال کا زر چندہ پانچ روپے وصول ہوا.ان میں حضرت مولوی نور الدین صاحب (خلیفہ امسیح اول) - نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ متعلم چیفس کالج لاہور اور آپ کے بھائی نواب محمد ذوالفقار علی خاں صاحب متعلم چیفس کالج لاہور کے اسماء بھی شامل ہیں.۳۰ دسمبر ۱۸۸۸ء کو سرسید کی خدمت میں لاہور کے کالجوں کے کل مسلمان طلباء کی طرف سے ایک ایڈریس پیش کیا گیا جس میں سرسید کی مساعی کو سراہا گیا.اور توقع ظاہر کی گئی کہ ان کی کوشش سے مسلمان قوم ترقی کر سکے گی.یہ ایڈریس پچپیس افراد کے وفد کے ذریعہ پیش کیا گیا تھا جن میں سب سے پہلا نام حضرت نواب صاحب کا تھا حالانکہ سیکرٹری کوئی اور شخص تھا.اس دوران میں نواب صاحب کو سرسید کے کام اور تعلیمی نظام سے دلچسپی پیدا ہوگئی اور آپ نے ایک حد تک سرسید کے بعض معتقدات کا شروع شروع میں اثر بھی قبول کیا.لیکن با ینہمہ سرسید کے مخصوص نیچری اعتقادات کے ساتھ زیادہ لگاؤ اور دلچسپی نہ تھی.بلکہ ان دنوں دوسرے فرقہ ہائے اسلام کے معتقدات کے حسن و فتح کی جانچ پڑتال کا بھی آپ کو زیادہ خیال نہ تھا.اور بیعت کے وقت آپ کی لوح قلب تقریباً صاف تھی جس پر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پر معارف تعلیم آسانی سے مرتسم ہوگئی.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اگر چہ سرسید کے بعض مذہبی خیالات سے اختلاف تھا مگر آپ سرسید کی قومی ہمدردی اور مسلمانوں کی مخلصانہ خدمت کے مداح تھے.اور اس لحاظ سے انہیں قابل عزت اور لائق مدح وستائش خیال فرماتے تھے.یہی نقطہ نظر بیعت راشدہ کے بعد حضرت نواب صاحب کا تھا.چنانچہ اس امر کی تائید آپ کی رفیقہ حیات حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ آپ کا سرسید احمد پر اعتقاد مذہبی نہیں بلکہ اور قسم کا تھا.آپ ان کو مسلمانوں کی دنیوی اور تعلیمی ترقی کا بانی اور قوم کا مخلص کارکن جانتے تھے.اس سے زیادہ کچھ نہیں.مذہب اور روحانیت کا سلسلہ اس سے الگ تھا.ان کے جملہ اعتقادات کے آپ بھی قائل نہ ہوئے تھے.طبیعت میں یہ مادہ تھا کہ قابل جو ہر اور قربانی کرنے والے آدمی کے خواہ کسی مذہب وملت سے تعلق رکھتا ہو قدردان ہوتے تھے.بلکہ اس کے غائبانہ محبت.اور یہی وجہ آپ کے سرسید کے ساتھ قریبی مراسم کے بڑھنے کی تھی.اسی اسلامی ہمدردی کے جوش میں نوجوانی کے عالم میں ایک بار علیگڑھ کے جلسہ میں نواب صاحب نے شہنشاہ اور نگ زیب کے سوانح پر تقریر کی اور جو الزامات مخالفین ان پر لگاتے ہیں ان کا رڈ کیا.یہ تقریرہ بہت پسند کی
19 گئی.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب تقریر سے اتنے متاثر ہوئے کہ اس تقریر کے بعد خاص طور پر نواب صاحب کی ملاقات کو آئے یہ دونوں بزرگوں کی اولین ملاقات تھی.فرماتے تھے کہ میں نے سبز پشمینہ کا شملہ باندھ رکھا تھا.آتے ہی مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں دیکھنے آیا ہوں کہ یہ سبز پگڑی والا نو جوان کون ہے جس نے اس موضوع پر اتنی اچھی روشنی ڈالی ہے.“ ہیں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی روا ئیدادیں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نواب صاحب کا تعلق سرسید کی تعلیمی تحریک سے ۱۸۸۷ء سے ۱۸۹۴ ء تک رہا.چنانچہ ان روئیدادوں میں ذیل کے چندہ جات کا ذکر ہے ان سالانہ اجلاسات میں صرف وہی شخص شریک ہو سکتا تھا جس نے پانچ سے دس روپیہ تک چندہ ممبری دیا ہو.لیکن چندہ دینا اور اجلاس میں شرکت کرنا لازم ملزوم نہ تھا.ممکن ہے کہ چندہ دیا ہولیکن اجلاس میں شرکت نہ کی ہو.جیسا کہ چندہ دہندگان اور اجلاسات میں شرکت کرنے والوں کی تعداد مندرجہ کے تفاوت سے یہ امر بپایہ ثبوت پہنچتا ہے.ان مطبوعہ روائید دوں میں جو چندوں کا ذکر ہے درج ذیل کیا جاتا ہے: (الف) تیسرا سالانہ اجلاس دسمبر ۱۸۸۷ء میں لاہور میں منعقد ہوا اس میں ۲۳۲ نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ متعلم چیفس کالج لاہور اور ۲۴۳ مولوی حکیم نورالدین صاحب حکیم ریاست جموں نے پانچ پانچ روپے چندہ دیا.(ب) چوتھا سالانہ اجلاس بمقام علیگڑھ ۲۷ تا ۳۰ / دسمبر ۱۸۸۹ء کو منعقد ہوا.۱۹۴ مولوی عبد الکریم صاحب مدرس میونسپل بورڈ اسکول سیالکوٹ نے پانچ اور ۳۶۹ نواب محمد علی خاں صاحب بہادر رئیس مالیر کوٹلہ متعلم ایچیسن کالج لاہور نے دس روپے چندہ ممبری نیز پچاس روپے کا عطیہ دیا.۴۰۲ حکیم نورالدین معرفت دل احمد صاحب اسلامیہ بورڈنگ ہاؤس لاہو نے پانچ روپے چندہ دیا.(ج) پانچویں سالانہ اجلاس منعقدہ ۱۸۹۰ء بمقام الہ آباد میں.’۹۴۵ نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ضلع لدھیانہ نے دس روپے ۹۷۶ حکیم نورالدین صاحب از جموں نے پانچ روپے چندہ دیا.(1) آٹھویں سالانہ اجلاس منعقدہ ۱۸۹۳ء بمقام علی گڑھ میں ۵۰ مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹ نے دو روپے اور (۵۰۳) نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ نے دس روپئے اور ۶۲۱ مولوی حکیم نورالدین صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور نے پانچ روپے چندہ دیا.(ھ) نویں اجلاس منعقدہ ۱۸۹۴ء بمقام علیگڑھ میں ۳۲۳ نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ“ نے دس رویے چندہ دیا.
20 20 اس امر کی تائید کہ سرسید کے مخصوص معتقدات سے نواب صاحب نے صرف ابتدائی زمانہ میں کسی قدر اثر قبول کیا اور بعد میں سرسید کی قومی خدمت اور تعلیمی مساعی کی قدردانی ہی رہ گئی اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ سلسلہ بیعت ۱۸۸۹ء میں شروع ہوا اور اسی سال حضرت خلیفتہ امسیح اول اور اگلے سال حضرت نواب صاحب اس سلسلہ میں داخل ہو گئے.اور حضور نے سرسید کے اعتقادات نیچریت کی تردید میں اپریل ۱۸۹۳ء میں ایک کتاب برکات الدعا تصنیف فرمائی.لیکن حضرت مولوی صاحب و حضرت نواب صاحب نے سالانہ ممبری کے چندے روئیدادوں کی رو سے ۱۸۹۴ء میں بھی ادا کئے جو ۱۸۹۵ء کے لئے تھے جس سے صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معتقدات سرسید سے ان بزرگوں کو کوئی غرض نہ تھی بلکہ ان کی تعلیمی مساعی میں تعاون و امداد مقصود تھی.اس کی تصدیق جناب شیخ عبداللہ صاحب حال میجر گرلز ہائی سکول علیگڑھ کے بیان سے بھی ہوتی ہے انہوں نے مولوی بشیر احمد صاحب کو بتایا کہ مجھے حضرت مولوی نورالدین صاحب نے پرورش کیا تھا اور پھر سرسید کے مشورہ سے مجھے حصول تعلیم کیلئے ۱۸۹۱ء میں علیگڑھ بھیج دیا تھا.اس سنہ کے بعد مجھے یاد نہیں کہ حضرت مولوی صاحب اور حضرت نواب صاحب اجلاسات میں شرکت کے لئے کبھی علیگڑھ آئے ہوں کیونکہ جماعت احمد یہ اور سرسید میں کافی اختلاف ہو گیا تھا.گویا شیخ صاحب کے نزدیک یہ دونوں بزرگ اختلاف معتقدات کی بناء پر ۱۸۹۱ء کے بعد علی گڑھ نہیں گئے لیکن دونوں چند ہ۱۸۹۴ ء تک دیتے رہے جس سے ظاہر ہے کہ معتقدات میں اختلاف کے باوجود بھی سرسید کی تعلیمی کارگزاریوں کی خاطر تعاون کیا جاتا تھا.چنانچہ نواب صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ” میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جس وقت بیعت کی ہے میری حالت ایک صاف زمین کی سی تھی جس پر سے پرانے عقائد کا اثر دور ہو چکا تھا.جو کچھ ازالہ اوہام میں آپ نے میری عبارت کو بقیہ حاشیہ: - میرا ارادہ محض روا ئدادوں کے مطالعہ کیلئے خود علی گڑھ جانے کا تھا کہ حسنِ اتفاق سے اس اثناء میں مکرم مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ و امیر جماعت دہلی کو وہاں جانے کا موقعہ ملا.میری استدعا پر انہوں نے تکلیف فرما کر مکرم ڈاکٹر سید عنایت اللہ شاہ صاحب لیکچرار طبیہ کالج کی معاونت سے یہ حوالہ جات تلاش کئے.میں ہر دو کا بہت ممنون ہوں.فالحمد لله وجزاهم الله احسن الجزاء.آئینہ کمالات اسلام کی فہرست میں ( نمبر ۲۹۹ پر شیخ صاحب کا نام درج ہے جنہوں نے جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شمولیت کی تھی.لیکن شیخ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی بیعت نہیں کی.اور مکرم عرفانی صاحب اس کی تصدیق فرماتے ہیں.
21 پڑھا ہے وہ میری اسوقت کی کیفیت تھی اور شیعیت کے متعلق جو میری حالت باقی رہ گئی تھی وہ تھی.میں اس وقت اہل حدیث متبع سرسید احمد خاں بھی تھا مگر یہ سب تحقیقی حالت میں تھے.چنانچہ سرسید احمد خاں کا وہ اثر جو پہلے تھا بعد میں ویسا نہ رہا نواب صاحب سرسید کی تعلیمی مساعی میں دل کھول کر چندہ دیا کرتے تھے.اور سرسید کے مذاح تھے.اور ان کے باہمی گہرے تعلقات تھے.چنانچہ علی گڑھ کے سٹریکچی ہال کی تعمیر کیلئے جن ایک سوا حباب نے پانچ پانچ سور و پیہ چندہ دیا تھا ان کی یاد گار اس عمارت میں بصورت قطعات (SLABS) محفوظ کر دی گئی ہے.ان میں تیسرے نمبر پر نواب صاحب کی یادگار ان الفاظ میں موجود ہے: پانصد روپیہ عطیہ خاں صاحب محمد علی خاں رئیس مالیر کوٹلہ بشکر یہ ولادت برخودار محمد عبد الرحمن خاں ۱۹ اکتوبر ۱۸۹۴ء براہین احمدیہ اور نواب صاحب مالیر کوٹلہ براہ راست حضرت اقدس سے تعلق کا آغاز ہونے سے قبل نواب محمد علی خاں صاحب کے خاندان کے ایک معز ز فرد کے حضرت اقدس سے ایک گونہ مراسم پیدا ہو چکے تھے.جو بالآخر حضور کے مالیر کوٹلہ تشریف لے جانے کا موجب ہوئے.تفصیل یہ ہے کہ جس وقت دیگر اسلامی ریاستوں کے صاحب اقتدار لوگوں نے براہین احمدیہ کے لئے مالی مدد نہ دی اور بے تو جنگی برتی تو اس گروہ میں سے صرف نواب ابراہیم علی خاں صاحب والئی مالیر کوٹلہ اور ایک دور کیسوں نے ہی کچھ توجہ کی.چنانچہ حضور میر عباس علی صاحب کو اس بارہ میں تحریر فرماتے ہیں: ابتدا میں جب یہ کتاب چھپنی شروع ہوئی تو اسلامی ریاستوں میں توجہ اور مدد کیلئے لکھا گیا تھا بلکہ کتا بیں بھی ساتھ بھیجی گئی تھیں.سواس میں سے صرف نواب ابراہیم علی خاں صاحب نواب مالیر کوٹلہ اور محمود خان صاحب رئیس چھتاری اور مدارالمہام جونا گڑھ نے کچھ مدد کی تھی.دوسروں نے اوّل توجہ ہی نہیں کی اور اگر کسی نے کچھ وعدہ بھی کیا تو اس کا ایفاء نہیں کیا بلکہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھوپال سے ایک نہایت مخالفانہ خط لکھا.“ اسی طرح طبقہ روساء کی بے تو جہگی کا شکوہ کرتے ہوئے زیر عنوان ”مسلمانوں کی نازک حالت اور
22 22 انگریزی گورنمنٹ حضور نے ایک لمبا مضمون براہین احمدیہ حصہ چہارم کے شروع میں تحریر فرمایا.اس کا ایک مختصر حصہ حالات کا پوری طرح علم دینے کی خاطر ہم ذیل میں درج کر دیتے ہیں.حضور فرماتے ہیں: پست ہمت مسلمانوں کو لازم ہے کہ جیتے ہی مر جائیں.اگر محبت خدا اور رسول کی نہیں تو اسلام کا دعویٰ کیوں کرتے ہیں؟ کیا خباثت کے کاموں میں اور نفس امارہ کی پیروی میں اور ناک کے بڑھانے کی نیت سے بے اندازہ مال ضائع کرنا اور اللہ اور رسول کی محبت میں اور ہمدردی کی راہ میں ایک دانہ ہاتھ سے نہ چھوڑ نا بھی اسلام ہے؟ نہیں یہ ہرگز اسلام نہیں یہ ایک باطنی جذام ہے.یہی ادبار ہے کہ مسلمانوں پر عاید ہورہا ہے.اکثر مسلمان امیروں نے مذہب کو ایک ایسی چیز سمجھ رکھا ہے کہ جسکی ہمدردی غریبوں پر ہی لازم ہے اور دولتمند اس سے مستفے ہیں.جنہیں اس بوجھ کو ہاتھ لگانا بھی منع ہے.اس عاجز کو اس تجربہ کا اس کتاب کے چھپنے کے اثناء میں خوب موقعہ ملا کہ حالانکہ بخوبی مشتہر کیا گیا تھا کہ اب بباعث بڑھ جانے ضخامت کے اصل قیمت کتاب کی سور و پیہ ہی مناسب ہے کہ ذی مقدرت لوگ اس کی رعایت رکھیں.کیونکہ غریبوں کو یہ صرف دس روپیہ میں دی جاتی ہے.سو جبر نقصان کا واجبات سے ہے.مگر بجز سات آٹھ آدمی کے سب غریبوں میں داخل ہو گئے.خوب جبر کیا.ہم نے جب کسی منی آرڈر کی تفتیش کی کہ یہ پانچ روپیہ بوجہ قیمت کتاب کس کے آئے ہیں یا یہ دس روپیہ کتاب کے مول میں کس نے بھیجے ہیں تو اکثر یہی معلوم ہوا کہ فلاں نواب صاحب نے یا فلاں رئیس اعظم نے ہاں نواب اقبال الدولہ صاحب حیدرآباد ( ان کے حالات آخر کتاب میں درج ہونگے.مؤلف ) نے اور ایک اور رئیس نے ضلع بلند شہر سے جس نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے.ایک نسخہ کی قیمت میں سوسور و پیہ بھیجا ہے اور ایک عہدہ دار محمد افضل خاں نام نے ایک سو دس اور نواب صاحب کوٹلہ مالیر نے تین نسخہ کی قیمت میں سور و پیہ بھیجا اور سردار عطر سنگھ صاحب رئیس اعظم لدھیانہ نے جو کہ ایک ہند ورئیس ہیں یا اپنی عالی ہمتی اور مکرم عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں کہ سردار عطر سنگھ صاحب رئیس بھروڑ ضلع لدہیا نہ تھے انہوں نے ایک لائبریری فائدہ عام کیلئے لد ہیا نہ میں قائم کی ہوئی تھی.اس لائبریری کے لائبریرین مولوی عمر دین صاحب رضی اللہ عنہ احمدی تھے.ان کا معمول تھا کہ جو لوگ مطالعہ کیلئے آتے انہیں براہین احمدیہ اور سرمہ چشم آریہ کی تعریف کر کے پڑھنے کی تحریک کرتے.خاکسار عرفانی جو ان ایام میں طالب علم تھا عموماً دو تین مرتبہ ہفتہ میں ان کے پاس جا تا تھاوہ منشی عمر الدین کے نام سے مشہور تھے.مگر بڑے ذی علم اور مرتاض احمدی تھے.ابتداء حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کے مرید تھے پھر ان کی عام ہدایت کے ماتحت احمدی ہو گئے.بڑے مخلص اور عملی احمدی تھے " اللهم نور مرقده و اوسع مضجعه منشی عمر الدین صاحب کے متعلق مختصر بیان مکرم عرفانی صاحب کی طرف سے حیات احمد جلد دوم نمبر اول ۵۵ پر بھی موجود ہے.اگر سردار صاحب کے کچھ مزید حالات مل سکے تو آخر کتاب میں درج کر دیئے جائیں گے.*
23 حضور چشم پوشی.اغماض اور عضو میں اپنی نظیر آپ تھے.باوجود اپنی تمام وسعت قلبی کے چونکہ اس طبقہ کی طرف سے غایت درجہ اذیت قلبی پہنچی تھی.جس کا باعث اس طبقہ کی اسلام سے شدید بیگانگی تھا حضور نے ان کا شکوہ کیا.حضرت اقدس نے جب مالیر کوٹلہ کا سفر کیا تو نواب ابراہیم علی خاں صاحب کی علالت کے سلسلہ میں کیا.اور آپ نے اس سفر کو محض اس لئے اختیار کیا تھا کہ نواب ابراہیم علی خاں صاحب نے براہین احمدیہ کی اشاعت میں حصہ لیا گو بحیثیت ایک خریدار کے.اور دراصل جب ہم اس امر کو سوچیں کہ بڑی عمر میں زیادہ سنجیدگی اور متانت کی توقع ہوتی ہے اور اس وقت انسان لہو ولعب سے اکتا کر از خود بھی امور دینیہ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے لیکن اس عمر کو پہنچے ہوئے طبقہ امراء کے افراد نے جو نمونہ دکھایا وہ ظاہر وباہر ہے.لیکن ان حالات میں چودھویں صدی میں نواب ابراہیم علی خاں صاحب ناز و نعم کے پروردہ اور اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہیں جسے عام طور پر سوائے لہو و لعب کے اور کسی امر سے واسطہ نہیں ہوتا.عمر کے لحاظ سے وہ نوخیز ہیں.ان تمام امور کے باوجود اس نوجوانی کے عالم اور اس ماحول میں براہین احمدیہ کی ان کی طرف سے اعانت خواہ تھوڑی اور بحیثیت ایک عام خریدار کے تھی.حضرت اقدس کی نگاہ میں قابل قدر ٹھہری کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی فطرت شکور ہوتی ہے.آپ نے اس کی قدر فرمائی اور نواب ابراہیم علی خان صاحب کو سلسلہ کے لٹریچر میں ایک زندگی عطا کی اور ان کی بیماری کی خبر پا کر دعا کے لئے بھی تشریف لے گئے تا کہ عیادت اور اس شکریہ کی عملی روح نمایاں ہو.اور نواب صاحب کو بھی براہین سے اتنا شغف تھا کہ سب سے پہلی بات یہ پوچھی کہ کیا براہین کا چوتھا حصہ چھپ گیا ہے.......بقیہ حاشیہ: - فیاضی کی وجہ سے بطور اعانت ۲۵ روپے بھیجے ہیں.ہاں اسلامی امیروں میں ایسے لوگ بہت ہی کم پائے جائیں گے کہ جن کو اپنے بچے اور پاک دین کا ایک ذرہ خیال ہو.کچھ تھوڑا عرصہ گذرا ہے کہ اس خاکسار نے ایک نواب صاحب کی خدمت میں کہ جو بہت پارسا طبع اور متقی اور فضائل علمیہ سے متصف اور قال اللہ اور قال الرسول سے بدرجہ غایت خبر رکھتے ہیں کتاب براہین حمدیہ کی اعانت کے لئے لکھا تھا.سو اگر نواب صاحب ممدوح اس کے جواب میں یہ لکھتے کہ ہماری رائے میں کتاب ایسی عمدہ نہیں جس کے لئے کچھ مدد کی جائے تو کچھ جائے افسوس نہ تھا مگر صاحب موصوف نے پہلے تو یہ لکھا کہ پندرہ ہیں کتا بیں ضرور خریدیں گے اور پھر دوبارہ یاد دہانی پر یہ جواب آیا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا ان میں کچھ مدد دینا خلاف منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے اس لئے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں.سو ہم بھی نواب صاحب کو امید گاہ نہیں بناتے بلکہ امید گاہ خداوند کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے.“
24 الله حاشیہ میں جس نواب کا ذکر آتا ہے کہ اس نے کہا کہ اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں وغیرہ بلکہ براہین چاک کر کے واپس بھیجدی تھی.یہ نواب صدیق حسن خان تھے.انہیں اپنے کئے کی جو سزا ملی اور کس طرح ان کی عزت حضرت اقدس کی دعا سے سرکوبی سے بچائی گئی.ہر احمدی کو معلوم ہے حضور نے اس کا ذکر حقیقتہ الوحی پر کیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے واقعات کی وجہ سے حضور نے ۲۴ راکتو بر ۱۸۸۳ء کو میر عباس علی صاحب کو ایک مکتوب میں ایسے لوگوں کے پاس اشاعت براہین کے لئے جانے سے روک دیا جن کے نفس غرور اور استکبار سے بھرے ہوئے ہیں اور فرمایا کہ: آپ اس طریق کو ترک کر دیں اگر کسی دنیا دار مالدار کو کچھ کہنا ہوتو کلمہ مختصر کہیں اور آزادی سے کہیں اور صرف ایک بار پر کفایت رکھیں...اور مناسب ہے کہ آپ یہ سلسلہ غریب مسلمانوں میں جاری رکھیں.دوسرے لوگوں کا خیال چھوڑ دیں.“ " لیکن باوجود اس کے خود حضور والئی مالیر کوٹلہ کو اپنے وعدہ کی یاد دہانی کراتے رہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ان کو طبقہ امراء میں سے اس قسم کا فرد نہ خیال فرماتے تھے کہ جس میں غرور واستکبار وغیر ہ پایا جا تا ہو اور اس سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ بعد کی خط و کتابت میں اسی لئے ہی اس وعدہ کے عدم ایفاء یا وعدہ کی یاددہانی کا ذکر نہیں کہ وہ پورا ہو چکا ہوگا اور یہ وعدہ سابقہ سو روپیہ کے علاوہ تھا اور سابقہ روپیہ جیسا کہ حضوڑ نے تحریر فرمایا ہے ادا ہو چکا تھا و حضور کی مالیر کوٹلہ میں تشریف آوری ۱۸۸۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پہلی بار لدھیانہ بمعنیت مولوی جان محمد صاحب حافظ حضور کی طرف سے نواب ابراہیم علی خاں صاحب کے وعدہ کی یاد دہانی ایک دفعہ امئی ۱۸۸۴ء کو ہوئی جبکہ آپ نے نواب علی محمد خاں صاحب آف جھجھر کو تحریر فرمایا: نواب صاحب مالیر کوٹلہ کا اب تک روپیہ نہیں آیا.مناسب ہے کہ آں مخدوم تاکیدی طور پر ان کو یاد دلائیں.“ اسی طرح حضور نے میر عباس علی صاحب کو ۲۶ رمئی ۱۸۸۴ء کو تحریر فرمایا:.نواب علی محمد خاں صاحب کی ارادت اور شب در روز کی توجہ اور اخلاص قابل تعریف ہے خدا تعالیٰ ان کو ہر ایک غم سے خلاصی بخشے اور حسن عاقبت عطا فرما دے.آپ نواب صاحب کو یہ بھی اطلاع دیدیں کہ مالیر کوٹلہ سے نواب ابراہیم علی خاں صاحب
25 25 حامد علی صاحب اور لالہ ملا وامل صاحب تشریف لے گئے کہ وہاں سے والدہ نواب ابراہیم علی خاں صاحب کی درخواست پر حضور مالیر کوٹلہ گئے.میر عنایت علی صاحب لد بیانوی رضی اللہ عنہ جوسفر مالیر کوٹلہ میں حضور کے رفقاء میں سے تھے بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مالیر کوٹلہ بھی تشریف لے گئے تھے قریب آٹھ دس آدمی حضوڑ کے ہمراہ تھے.اس وقت ابھی مالیر کوٹلہ کی ریل جاری نہیں ہوئی تھی.میں بھی حضور کے ہمرکاب تھا.حضرت صاحب نے یہ سفر اس لئے اختیار کیا تھا کہ بیگم صاحبہ یعنی والدہ نواب ابراہیم علی خاں صاحب نے اپنے اہلکاروں کو لدھیانہ بھیج کر حضرت صاحب کو بلایا تھا کہ حضور مالیر کوٹلہ تشریف لا کر میرے لڑکے کو دیکھیں اور دُعا فرما دیں.کیونکہ نواب ابراہیم علی خاں صاحب کو عرصہ سے خلل دماغ کا عارضہ ہو گیا تھا.حضرت صاحب لدھیانہ سے دن کے دس گیارہ بجے قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر تین بجے کے قریب مالیر کوٹلہ پہنچے اور ریاست کے مہمان ہوئے.جب صبح ہوئی تو بیگم صاحبہ نے اپنے اہلکاروں کو حکم دیا کہ حضرت صاحب کے لئے سواریاں لے جائیں تا کہ آپ باغ میں جا کر نواب صاحب کو دیکھیں مگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہمیں سواری کی ضرورت نہیں ہم پیدل ہی چلیں گے.چنانچہ آپ پیدل ہی گئے.اسوقت ایک بڑا ہجوم لوگوں کا آپ کے ساتھ تھا.جب آپ باغ میں پہنچے تو معہ اپنے ساتھیوں کے ٹھہر گئے نواب صاحب کوٹھی سے باہر آئے اور پہلی دفعہ حضرت صاحب کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے.لیکن پھر آگے بڑھ کر آئے اور حضرت صاحب سے سلام علیکم کیا.اور کہا کہ کیا براہین کا چوتھا حصہ چھپ گیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ابھی تو نہیں چھپا مگر انشاء اللہ عنقریب چھپ.بقیہ حاشیہ: والئی مالیر کوٹلہ کے ایک سررشتہ دار کا خط آیا ہے کہ وہ مبلغ پچاس روپیہ بطور امداد بھیجیں گے مگر ابھی آئے نہیں.یہ روپیہ انشاء اللہ پیٹالہ میں عبدالحق صاحب کو بھیجا * جاوے گا اور پھر بعد اس کے ان کا قرضہ دوسورو پیہ باقی رہ جاوے گا.لالہ ملا وامل صاحب جو حضرت اقدس کے دعوی سے بہت قبل کے ملاقاتی اور جلیس تھے اور بہتر سفروں میں رفیق سفر رہے تھے اور وہ حضور کی متعدد پیشگوئیوں کے گواہ تھے اور اس سفر کے رفقاء میں سے صرف وہی زندہ تھے افسوس کہ ۵۱-۹-۲۹ کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے.ان کی وفات کے بعد حضور کے دعویٰ سے قبل کا کوئی ملاقاتی باقی نہیں رہا.الحکم جلد نمبر ۱۴ اپر چہ ۱۹ اپریل ۱۸۹۹ء مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم مکتوبات تو دونوں جگہ اختلاف کے باعث یہاں عبارت اور تاریخ الحکم سے نقل کی گئی ہے.*
26 جائیگا.اس کے بعد نواب صاحب نے کہا کہ آئیے اندر بیٹھیں.چنانچہ حضرت صاحب اور نواب صاحب کو ٹھی کے اندر چلے گئے اور قریباً آدھ گھنٹہ اندر رہے.چونکہ کوئی آدمی ساتھ نہ تھا اس لئے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ اندر کیا کیا باتیں ہوئیں.اس کے بعد حضرت صاحب مع سب لوگوں کے پیدل ہی جامع مسجد کی طرف چلے آئے اور نواب صاحب بھی سیر کے لئے باہر چلے گئے.مسجد میں پہنچ کر حضرت صاحب نے فرمایا کہ سب لوگ پہلے وضو کریں اور پھر دورکعت نماز پڑھ کر نواب صاحب کی صحت کے واسطے دُعا کریں کیونکہ یہ تمہارے شہر کے والی ہیں اور ہم بھی دُعا کرتے ہیں.غرض حضرت اقدس نے مع سب لوگوں کے دعا کی اور پھر اس کے بعد فوراً ہی لدھیانہ واپس تشریف لے آئے.اور باوجود اصرار کے مالیر کوٹلہ میں نہ ٹھہرے.(الف) مکرم میاں محمد عبد الرحمن خان صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ نواب ابراہیم علی خاں صاحب کی والدہ محترمہ فضیلت بیگم صاحبہ موضع جھل ریاست پیالہ کے ایک راجپوت خاندان سے تھیں.بہت منتظم خاتون تھیں چنانچہ نواب غلام محمد خاں کے بالمقابل اپنے بیٹے کے الیکشن میں سب انتظام انہی کا تھا.نواب صاحب اپنی بیوی اور بڑے بچہ مہر محمد خاں کی وفات کے صدمہ سے مختل الدماغ ہو گئے تھے اور ۲۳ اگست ۱۹۰۸ء کو وفات تک اسی عارضہ میں متبلا رہے.ان کی شادی والد صاحب کی تیسری والدہ کی اکلوتی بیٹی نواب بیگم سے ہوئی تھی.تیسری والدہ اور والدہ نواب ابراہیم علی خاں سگی بہنیں تھیں.میرے نزدیک اللہ تعالیٰ نے حضور کو ان کی عدم شفایابی کا علم دیدیا ہوگا تبھی حضور نے باوجود اصرار کئے جانے کے ٹھہر نا مناسب نہ جانا.حضور نے جامع مسجد میں دعا کی تھی اور جامع مسجد شہر میں ہے اور مجھے حضرت میر عنایت علی صاحب نے بتایا تھا کہ حضور کی ملاقات نواب صاحب سے ” سکندر منزل میں ہوئی تھی.یہ کوٹھی اب بھی موجود ہے اور نواب سکندر علی خاں کی تعمیر کردہ ہے.خاندان یا ریاست میں ایسا کوئی ریکارڈ یا ڈائری نہیں جس سے اس سفر کی تاریخ وغیرہ کا علم ہو سکے.نواب احمد علی خاں صاحب مرحوم والئی مالیر کوٹلہ جو میرے خسر بھی تھے نواب ابراہیم علی خان صاحب کے صاحبزادہ تھے.“ تذکرہ رؤسائے پنجاب میں نواب ابراہیم علی خاں صاحب کی وفات بعارضہ ہیضہ اگست ۱۹۰۸ ء میں ہونا مرقوم ہے.(ب) حضرت مسیح موعود جب پہلی بارلد ہیانہ تشریف لے گئے تھے تب ہی مالیر کوٹلہ جانا ہوا تھا.چنانچہ اس سے قبل کی روایت نمبر ۳۳۸لد ہیا نہ جانے کے متعلق بھی میر عنایت علی صاحب لد ہیا نوی کی ہے.میر عباس علی صاحب لد ہیانوی کے نام مکتوبات کے اقتباسات و دیگر قرائن ذیل میں درج کر دیئے ہیں جن سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضور کب لد ہیا نہ اور مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے تھے (۱) مکتوب نمبر ۹ میں حضوڑ نے سفر لد ہیانہ کے
27 حضرت اقدس کا یہ سفر مالیر کوٹلہ جولدھیانہ کے پہلے سفر کے دوران میں ہوا ۱۸۸۴ء کی پہلی سہ ماہی میں بلکہ خاکسار کی تحقیق میں ۱۴ اور ۲۰ فروری ۸۴ء کے درمیان ہوا تھا.بقیہ حاشیہ: - التوا کا ذکر فرمایا ہے گو مکتوب کی تاریخ درج نہیں لیکن بعض قرائن سے سن تحریر کا اندازہ ہو جاتا ہے.حضورا فرماتے ہیں: (الف) ”اب بالفعل لو دھیانہ میں اس عاجز کا آنا ملتوی رہنے دیں.آپ کے تشریف لے جانے کے بعد چند ہندؤوں کی طرف سے سوالات آئے ہیں.اور ایک ہند وصوابی ضلع پشاور میں کچھ رڈ لکھ رہا ہے.پنڈت شونرائن بھی شاید عنقریب اپنا رسالہ بھیجے گا.سواب چاروں طرف سے مخالف جنبش میں آرہے ہیں.غفلت کرنا اچھا نہیں.ابھی دل ٹھہر نے نہیں دیتا کہ میں اس ضروری اور واجب کام کو چھوڑ کر کسی اور طرف خیال کروں.الا ماشاء الله ربی.اگر خدا نے چاہا تو آپ کا شہر کسی دوسرے وقت میں دیکھیں گے.حضور مکتوب نمبر ۲ میں رقم فرماتے ہیں : چند ہندو اور بعض پادری عناد قدیم کی وجہ سے رڈ کتاب کیلئے ہاتھ پاؤں مار ہے ہیں مگر آپ تسلی رکھیں.اور مسلمانوں کو بھی تسلی دیں کہ یہ حرکت ان کی خالی از حکمت نہیں میں امید رکھتا ہوں کہ ان کی اس حرکت اور شوخی کی وجہ سے خداوند کریم حصہ چہارم میں کوئی ایسا سامان میسر کر دیگا کہ مخالفین کی بدرجہ غایت رسوائی کا موجب ہوگا.“ ۲۵ ان دونوں حوالہ جات میں براہین احمدیہ کے پہلے تین حصص کا ہندؤوں کی طرف سے رڈ لکھا جانے اور حصہ چہارم کے ابھی مکمل نہ ہونے کا ذکر ہے.پنڈت شو نرائن اگنی ہوتری مذکور نے اخبار دھرم جیون میں (بحوالہ حاشیہ ۳۲۹ براہین احمدیہ حصہ چہارم ) جنوری ۱۸۸۳ء میں براہین احمدیہ کا رڈلکھا تھا لیکن حضور کی تحریر بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ بوقت تحریر گو پنڈت مذکور کا مضمون رسالہ مذکور میں چھپ چکا تھا اس کی کاپی حضور کو ابھی نہیں آئی تھی اس لئے حضور لکھتے ہیں کہ پنڈت مذکور شاید عنقریب اپنا رسالہ بھیجے گا.اور صوابی ضلع پشاور کے ہندو پنڈت لیکھرام) کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ وہ کچھ رڈ لکھ رہا ہے جس سے معلوم ہوا کہ مکتوب نمبر ا ا ا پریل ۱۸۸۳ء کے قریب کا ہے.چنانچہ مکرم عرفانی صاحب کی تحقیق مندرجہ حیات احمد جلد دوم نمبر دوم (۶) سے یہی اس کی تصدیق ہوتی ہے.(ب) ایک اور قریہ مکتوب نمبر ۹ کے اپریل ۸۳ء کے قریب کا ہونے کا یہ ہے کہ اس سے پہلے مکتوب میں جس کا نمبر بھی 9 مرقوم ہے جس کی تاریخ تحریر ۱۵ را پریل ۸۳ ء ہے.حضور نے درود شریف پڑھنے کے طریق
28 حضرت مسیح موعود سے تعلقات کا آغاز سب سے اول بچپن میں تین چار سال کی عمر میں آپ نے اپنے ایک استاد سے جو شیعہ مذہب مولوی بقیہ حاشیہ پر بحث فرمائی ہے.اور مکتوب نمبر ۱۲ ( محر ر ہ ۲۶ را پریل ۸۳ء) میں معلوم ہوتا ہے کہ میر صاحب کی طرف سے استفسار پر حضور نے تحریر فرمایا کہ حضور کے نزدیک کونسا درود بہتر ہے.مکتوب مورخہ ۱۵ اپریل میں حضور میر صاحب کو نصیحت فرماتے ہیں کہ استعداد قریبہ پیدا کرنے کیلئے اپنے دل کو ماسوا اللہ کے شغل اور فکر سے بکلی خالی اور پاک کر لینا چاہئے.اور کسی کا حسد اور نقار دل میں نہ رہے اور مکتوب نمبر11 زیر بحث میں بھی تحریر فرماتے ہیں کہ ایک بات واجب الاظہار ہے اور وہ یہ ہے کہ وقت ملاقات ایک گفتگو کی اثناء میں بنظر کشفی آپ کی حالت ایسی معلوم ہوئی کہ کچھ دل میں انقباض ہے اور نیز آپ کے بعض خیالات جو آپ بعض اشخاص کی نسبت رکھتے ہیں حضرت احدیت کی نظر میں درست نہیں.اسی طرح مکتوب نمبر ۹ اور مکتوب مورخہ ۸۳-۴-۱۵ کا مضمون مشابہ ہے اور مقدم الذکر ہی میں لدھیانہ کے سفر کے التواء کا ذکر ہے.یہ امر بنظر کشفی حضور نے میر صاحب کے قادیان میں قیام کے وقت دیکھا تھا اور مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ سفر میر صاحب نے ابتدا ۸۳ء میں کیا تھا.اور مولف تذکرہ نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے.۲- حضور اپنے مکتوب نمبر ۱۵ میں میر عباس علی صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: (الف) ”اب حصہ چہارم کے طبع کرانے میں کچھ تھوڑی تو قف باقی ہے اور موجب توقف یہی ہے کہ جو تین جگہ سے بعض سوالات لکھے ہوئے آئے ہیں ان سب کا جواب لکھا جائے.یہ عاجز ضعیف الدماغ آدمی ہے بہت محنت نہیں ہوتی آہستہ آہستہ کام کرنا پڑتا ہے.“ (ب) اس مکتوب میں ایک خواب کا ذکر بھی حضور نے فرمایا ہے.جس میں حضور نے دیکھا کہ حضور محافظ دفتر کا عہدہ رکھتے ہیں نیز اس مکتوب میں حضور نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ : ر بھی مولوی ( عبد القادر ) صاحب کا اس جگہ تشریف لانا بے وقت ہے یہ عاجز حصہ چہارم کے کام سے کسی قد رفراغت کر کے اگر خدا نے چاہا اور نیت صحیح میسر آگئی تو غالباً امید کی جاتی ہے کہ آپ ہی حاضر ہوگا.اس خط میں حضور نے مولوی عبد القادر صاحب کو قادیان آنے سے منع فرما دیا اور امید ظاہر کی ہے کہ خود لدھیانہ تشریف لے جائینگے.چونکہ اسوقت تک براہین احمدیہ حصہ چہارم کے پایہ تکمیل کو نہ پہنچنے کا بھی ذکر ہے اس لئے یہ مکتوب ۱۸۸۳ء کا ہی معلوم ہوتا ہے.اس مکتوب میں ایک رؤیا کا ذکر ہے جسے مولف تذکرہ اور
29 29 سید گل علی شاہ صاحب بٹالوی کے فرزند تھے حضرت مسیح موعود کا ذکر سُنا.اس لئے کہ نواب صاحب کے والد بزرگوار شیعہ تھے اور شیعہ علماء کی ان کے ہاں آمد و رفت تھی.مولوی سید گل علی شاہ کا خاندان علمی امتیاز رکھتا تھا اس لئے آپ کی تعلیم کے لئے ان کے صاحبزادہ کو منتخب کیا.اس سلسلہ میں وہ فخر یہ اظہار کے لئے کہ میرے بقیہ حاشیہ: مکرم عرفانی صاحب نے بھی ۸۳ ء میں درج کیا ہے.پہلی بار براہین احمدیہ حصہ چہارم کی طباعت کے شروع ہو نیکا ذکر مکتوب نمبر ۱۹ میں پایا جاتا ہے چنانچہ حضور تحریر فرماتے ہیں الحمد للہ کہ کام طبع کا شروع ہے اور یہ مکتوب ۱۵ جون ۸۳ ء کا ہے لیکن مکتوبات مذکورہ بالا سے ظاہر ہے کہ ابھی طباعت کا کام شروع نہیں ہوا تھا.اس لئے معلوم ہوا کہ مکتوبات مذکورہ بالا اپریل ۸۳ء کے قریب کے اور ۵ ارجون ۸۳ء سے پہلے کے ہیں.(۳) مکتوب مورخه ۲ ستمبر ۸۳ء میں حضور تحریر فرماتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اگر خدا نے چاہا تو لدھیانہ مولوی صاحب کی ملاقات ہوگی.(۴) اسی طرح مکتوب مورخہ ۹ نومبر ۸۳ء میں حضور فرماتے ہیں یہاں سے ارادہ کیا گیا تھا کہ امرتسر جا کر بعد اطلاع دہی ایک دو دن کے لئے آپ کی طرف آؤں مگر چونکہ کوئی ارادہ بغیر تائید الهی انجام پذیر نہیں ہو سکتا اس لئے یہ خاکسار امرتسر جا کر کسی قدر علیل ہو گیا نا چار وہ ارادہ ملتوی کیا گیا.‘ (۵) مکتوب مورخہ ۲۰ نومبر ۸۳ء میں حضور تحریر فرماتے ہیں کہ دل میں ارادہ تو ہے کہ ایک دو روز کے لئے آپ کے شہر میں آؤں مگر بجز مرضی باری تعالیٰ کیونکر پورا ہو.(۶) مکتوب مورخہ ۱۹دسمبر ۸۳ء میں تحریر فرماتے ہیں کہ ” آج میرا ارادہ تھا کہ صرف ایک دن کیلئے آنمخدوم کی ملاقات کے لئے لد ہیانہ کا قصد کروں لیکن خط آمدہ مطبع ریاض ہند سے معلوم ہوا کہ حال طبع کتاب کا ابتر ہورہا ہے....ناچار اس بندو بست کیلئے کچھ دن امرتسر ٹھہر نا پڑے گا اور دوسری طرف یہ ضرورت درپیش ہے کہ ۲۶ دسمبر ۸۳ ء تک بعض احباب بطور مهمان قادیان میں آئیں گے اور ان کے لئے اس خاکسار کا یہاں ہونا ضروری ہے...اور کچھ وقت میسر آ گیا تو انشاء اللہ القدیر ایک دن کیلئے امرتسر میں فراغت پا کر آنمخدوم کی طرف روانہ ہوں گا.‘‘ (۷) نیز فرماتے ہیں کہ عاجز اگر چہ بہت چاہتا ہے کہ آن مخدوم کے بار بار لکھنے کی تعمیل کی جائے مگر کچھ خداوند کریم ہی کی طرف سے ایسے اسباب آپڑتے ہیں کہ رک جاتا ہوں.“ (۸) یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مولوی عبد القادر صاحب رضی اللہ عنہ نے حضور کو لدھیانہ آنے کی تحریک کی لیکن حضور نے ۲۲ جنوری ۸۴ ء کے مکتوب میں لد ہیا نہ آنے سے معذرت فرمائی.66 براہین احمدیہ جو چھ سات ماہ سے زیر طبع تھی سفر لدھیانہ و مالیر کوٹلہ تک ابھی اس کی طباعت زیر تکمیل تھی اور ۲۱ فروری ۸۴ ء کے مکتوب میں حضور علماء دہلی کو حصہ چہارم بھیجوانے کا ذکر فرماتے ہیں معلوم ہوا کہ حضور کا سفر
30 والد صاحب رئیس قادیان کے بھی استاد رہے ہیں اور آپ کے والد صاحب کے بھی قادیان کا ذکر کیا بقیہ حاشیہ : - لدہیا نہ ومالیر کوٹلہ ۲۳ / جنوری ۸۴ء سے ۲۰ فروری ۸۴ ء کے درمیان ہوا ہے اور مصنف مجددِ اعظم کا یہ لکھنا کہ " آخر ۴ ۱۸۸ء میں آپ پہلی مرتبہ لدھیانہ تشریف لے گئے.‘۲۳ واقعاتی لحاظ سے صحیح ثابت نہیں ہوتا ۲۰ فروری ۸۴ کے بعد کے مکتوبات میں پہلی بار سفر لد ہیانہ کے التواء وغیرہ کے متعلق پھر کوئی ذکر نہیں.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقوع پذیر ہو چکا تھا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب روایت مذکورہ (نمبر ۳۳۸) کے آخر پر سفر لدھیانہ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں.کہ ”غالبا ۱۸۸۴ء کے قریب کا ہوگا.مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ سفر ۸۴ ء کی پہلی سہ ماہی میں ہوا تھا.اور مکتوبات جن کا حوالہ پہلے دیا گیا ہے انکے یکجائی مطالعہ سے یہ مسیح ثابت ہوتا ہے.گو میں نے اوپر ۲۳ / جنوری ۸۴ء سے ۲۰ فروری ۸۴ء کا عرصہ سفر لد ہیانہ و مالیرکوٹلہ کیلئے معین کیا ہے لیکن اس عرصہ میں سے بھی بعض دنوں کا استثنا ء ثابت ہے یعنی (الف) ۱۳ فروری ۸۴ ء کو حضور نے میر عباس علی صاحب کو قادیان سے خط لکھا اس میں فرماتے ہیں یہ عاجز دو دن کے رفع انتظار کی غرض سے یہ خط لکھا گیا اور اب میں تَوَ كُلا عَلَى الله امرتسر کی طرف روانہ ہوتا ہوں.گویا کہ ۱۳ / فروری اور اس سے قبل دو دن یعنی ۱۱ ۱۲ فروری کو حضور لد ہیا نہ میں ۳۳ 66 نہیں تھے.(ب) حضور مورخه ۱۵ فروری ۸۴ ء کے مکتوب میں میر صاحب کو اپنے امرتسر میں ہونے کا ذکر فرماتے ہیں.پس سوائے ۱۱ ۱۲ ۱۳، ۱۵ فروری کی تاریخوں کے ۲۳ جنوری سے ۲۰ فروری ۸۴ء کے درمیانی عرصہ میں حضور کے سفر لد بیانہ کی تعیین ہوتی ہے.حضور ۱۴ اکتوبر ۸۴ء کو میر عباس علی صاحب کی عیادت کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے تھے.لیکن یہ دوسرا سفر تھا کیونکہ اس سے بہت قبل براہین احمدیہ حصہ چہارم چھپ چکا تھا (۱۴ اکتوبرکو جانے کے ارادہ کا اظہار حضور نے اپنے مکتوب مورخہ ۱/۸ اکتو بر ۴ ۸ء میں کیا ہے نیز اس ضمن میں ملاحظہ ہو حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحه ۲۰۰۱۹) مزید یہ کہ پہلے سفر کی مزید تعیین بھی بعض امور سے ہوتی ہے.حضور نے یہ سفر اہل اسلام لدھیانہ کی استدعا پر کیا تھا.لیکن اس کے بعد مولویان لدھیانہ نے شدید مخالفت کا طریق اختیار کیا چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنے رسالہ اشاعت السنتہ میں براہین احمدیہ پر ریویو لکھتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ( نوٹ لائق توجہ گورنمنٹ) اس انکار وکفران پر باعث لدہیانہ کے بعض مسلمانوں کو تو صرف
31 کرتے.نواب صاحب کی پرورش ابتدا سے ہی مذہبی ماحول میں ہوئی تھی.آپ پر مذہب کا عملی اثر تھا.رفتہ رفتہ حضرت مسیح موعود کا ( جن کا اس وقت کوئی دعوی نہ تھا ) ذکر آپ تک پہنچا.اور جب حضور نے مالیر کوٹلہ کا.سفر کیا تھا تو اسوقت بھی آپ کا نام ایک متقی اور خدارسیدہ بزرگ کی حیثیت میں سُنا ہوگا.نواب صاحب افسوس کیا کرتے تھے کہ حضور کی مالیر کوٹلہ میں آمد کے موقعہ پر وہ مالیر کوٹلہ میں نہ تھے بلکہ تعلیم کی خاطر مالیر کوٹلہ سے باہر گئے ہوئے تھے.نواب صاحب نے حضرت اقدس سے خط و کتابت ۱۸۸۹ء میں شروع کی لیکن حسنِ ظنی کا دور بقیہ حاشیہ : - حسد و عداوت ہے جس کے ظاہری دو سبب ہیں ایک یہ کہ ان کو اپنی جہالت ( نہ اسلام کی ہدایت ) سے گورنمنٹ انگلشیہ سے جہاد و بغاوت کا اعتقاد ہے اور اس کتاب میں اس گورنمنٹ سے جہاد و بغاوت کو نا جائز لکھا ہے.لہذا وہ لوگ اس کتاب کے مؤلف کو منکر جہاد سمجھتے ہیں.اور از راہ تعصب و جہالت اس کے بعض و مخالفت کو اپنامذہبی فرض خیال کرتے ہیں.مگر چونکہ وہ گورنمنٹ کے سیف واقبال کے خوف سےا علانیہ طور پر ان کو منکر جہاد نہیں کہہ سکتے اور نہ سر عام مسلمانوں کے روبرو اس وجہ سے ان کو کافر بنا سکتے ہیں.لہذا وہ اس وجہ سے کفر کو دل میں رکھتے ہیں اور بجز خاص اشخاص ( جن سے ہم کو یہ خبر پہنچی ہے ) کسی پر ظاہر نہیں کرتے اور اس کا اظہار دوسرے لباس و پیرایہ میں کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ براہین احمدیہ میں فلاں فلاں امور کفر یہ دعوی نبوت اور نزول قرآن اور تحریف آیات قرآنیہ پائی جاتی ہیں ) اس لئے اس کا مؤلف کا فر ہے.موقعه جلسه دستار بندی مدرسہ دیوبند پر یہ حضرات بھی وہاں پہنچے اور لمبے لمبے فتویٰ تکفیر مؤلف براہین احمدیہ کے لکھ کر لے گئے اور علماء دیوبند گنگوہ وغیرہ سے ان پر دستخط ومواہیر ثبت کرنے کے خواستگار ہوئے مگر چونکہ وہ کفران کا اپنا خانہ ساز گفر تھا جس کا کتاب براہین احمدیہ میں کچھ اثر پایا نہ جاتا لہذا علماء دیوبند و گنگوہ نے ان فتوؤوں پر مہر و دستخط کرنے سے انکار کیا اور ان لوگوں کو تکفیر مؤلف سے روکا اور کوئی ایک عالم بھی ان کا اس تکفیر میں موافق نہ ہوا جس سے وہ بہت ناخوش ہوئے اور بلا ملاقات وہاں سے بھاگے اور گانهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ کے مصداق ہے.لا ناظرین ان کا یہ حال سُن کر متعجب اور اس امر کے منتظر ہونگے کہ ایسے دلیر اور شیر بہا درکون ہیں جو سب علماء وقت کے مخالف ہو کر ایسے جلیل القدر مسلمان کی تکفیر کرتے ہیں اور اپنی مہربان گورنمنٹ کے (جس کے ظل حمایت میں با امن شعار مذہبی ادا کرتے ہیں ) جہاد کو جائز سمجھتے ہیں.ان کے دفع تعجب اور رفع انتظار کے لئے ہم ان حضرات کے نام بھی ظاہر کر دیتے ہیں.وہ مولوی عبدالعزیز ومولوی محمد وغیرہ پسران مولوی عبد القادر ہیں.......
32 اس سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا.چنانچہ ازالہ اوہام حصہ دوم میں آپ کا بیان مرقوم ہے کہ: ابتداء میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے موید نہیں بلکہ مخالفانِ اسلام کے بقیہ حاشیہ: دوسرا سبب یہ کہ انہوں نے باستعانت بعض معزز اہل اسلام لد ہیانہ (جن کی نیک نیتی اور خیر خواہی ملک وسلطنت میں کوئی شک نہیں ) بمقابلہ مدرسہ صنعت کاری انجمن رفاہ عام لدھیانہ ایک مدرسہ قائم کرنا چاہا تھا اور اس مدرسہ کیلئے لوہیانہ میں چندہ جمع ہو رہا تھا کہ انہی دنوں مؤلف براہین احمدیہ باستد عا اہل اسلام لدھیانہ میں پہنچ گئے اور وہاں کے مسلمان ان کے فیض زیارت اور ان کے شرف صحبت سے مشرف ہوئے ان کی برکات واثر صحبت کو دیکھ کر اکثر چندہ والے ان کی طرف متوجہ ہو گئے اور اس چندہ کے بہت سے رو پی طبع واشاعت براہین احمدیہ کے لئے مؤلف کی خدمت میں پیشکش کئے گئے اور مولوی صاحبان مذکور تهیدست ہوکر ہاتھ ملتے رہ گئے اس امر نے بھی ان حضرات کو بھڑ کا یا اور مولف کی تکفیر پر آمادہ کیا جن کو ان باتوں کے صدق میں شک ہو وہ ہم کو اس امر سے مطلع کرے ہم لدھیانہ سے عمدہ اور واضح طور پر ان باتوں کی تصدیق کریں گے.اس سے یہ ظاہر ہے کہ حضور کا لد ہیا نہ کا سفران مخالف مولویوں کو مخالفت پر آمادہ کرنے کا باعث ہوا اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان مولویوں کی طرف سے کب مخالفت میں شدت اختیار کی گئی تو یہی امر اس عرصہ کی تعیین کا موجب ہوگا کہ جس میں حضرت اقدس اس سفر پر تشریف لے گئے تھے.حضور میر صاحب کو ۱۳ / فروری ۸۴ء کو تحریر فرماتے ہیں: اور یہ عاجز دو دن کے رفع انتظار کی غرض سے یہ خط لکھا گیا.اور اب میں تو گلا على الله امرتسر کی طرف روانہ ہوتا ہوں.“ معلوم ہوتا ہے حضور نے کسی مکتوب کے ذریعہ جو اب محفوظ نہیں یا کسی زبانی پیغام کے ذریعہ میر صاحب کو اطلاع دی کہ حضور لدھیانہ آئیں گے ورنہ کسی امر کے انتظار کا علم مکتوبات سے نہیں ہوتا.دودن حضور نہ جا سکے تو اس کا ذکر اس مکتوب میں کیا اور یہ بھی لکھا کہ اب حضور امرتسر جا رہے ہیں اور ۲۱ فروری ۸۴ ء تک براہین حصّہ چہارم طبع ہو چکا تھا جو کہ گودیر سے زیر طبع تھا لیکن سفر زیر بحث تک ابھی چھپا نہیں تھا.سو معلوم ہوا کہ حضوڑ کا سفر لدھیانہ و مالیر کوٹلہ ۱۴ اور ۲۰ فروری ۸۴ ء کے درمیان ہوا ہے اور مولویان لدہیانہ نے حضور کے سفرلد ہیا نہ کے باعث مخالفت کا جو طوفانِ بدتمیزی برپا کیا تھا ہمیں ۲۶ فروری ۸۴ء کے حضور کے مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ
33 مقابل پر کھڑے ہیں.مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا اور نہ انکار.پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں نے سوچا کہ آپ نے بڑے دعوے کئے ہیں.یہ سب چھوٹے نہیں ہو سکتے تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط و کتابت شروع کی.۳۵ حضرت مسیح موعود سے خط و کتابت کیونکر شروع ہوئی اس بارہ میں آپ فرماتے ہیں کہ : ” مجھے پہلا موٹا اشتہار بابت براہین احمدیہ ۱۸۸۵ء میں نظر سے گذرا مگر کوئی التفات نہ ہوا.۸۸-۱۸۸۷ء میں حضرت کا شہرہ سنتا رہا.۱۸۹۰ء میں اپنے استاد مولوی عبد اللہ فخری کی تحریک پر استدعاء دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی.اس طرح خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا.اس میں نواب صاحب ابتدائے خط و کتابت ۱۸۹۰ء بیان کرتے ہیں.مگر یہ صحیح نہیں اس لئے کہ حضور کا پہلا مکتوب آپ کے نام ۷ اگست ۱۸۸۹ء کا ہے جو نواب صاحب کے مکتوب کا جواب ہے اس لئے آپ کی بقیہ حاشیہ: - اس وقت یہ طوفان برپا ہو چکا تھا سولا ز ما حضور لدھیانہ کا سفر کر آئے تھے.چنانچہ اس مکتوب میں حضور تحریر فرماتے ہیں: آل مخدوم کا خط بعد وا پسی از امرتسر مجھ کو ملا.آں مخدوم کچھ تفکر اور تر ڈونہ کریں اور یقیناً سمجھیں کہ وجود مخالفتوں کا حکمت سے خالی نہیں.بڑی برکات ہیں کہ جن کا ظاہر ہونا معاندوں کے عنادوں پر ہی موقوف ہے اگر دنیاوی معاند اور حاسد اور موذی لوگ نہ ہوتے تو بہت سے اسرار اور برکات مخفی رہ جاتے.کسی نبی کے برکات کامل طور پر ظاہر ہوئے جب تک وہ کامل طور پر ستایا نہیں گیا.اگر لوگ خدا کے بندوں کو کہ جو اس کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں یوں ہی اُن کی شکل ہی دیکھ کر قبول کر لیتے تو بہت عجائبات تھے کہ ان کا ہر گز دُنیا میں ظہور نہ ہوتا.(الف) یہ عبارت قدرے بتغیر الفاظ الفضل مورخہ ۳۸-۶-۱۴ چھپ چکی ہے.یہاں نواب صاحب کے اصل الفاظ درج کئے گئے ہیں (ب ) اار جولائی ۱۸۸۳ء کے مکتوب بنام میر عباس علی صاحب لد ہیا نوی میں حضرت اقدس کی طرف سے جو نواب محمد علی خاں صاحب کا ذکر ہے وہ دراصل نواب علی محمد خاں صاحب آف جھجر کا ہے.
34 خط و کتابت حضرت اقدس سے ۱۸۸۹ء میں (جو آغاز بیعت کا سال ہے ) شروع ہو چکی تھی.حضور سے خط و کتابت کا آغا ز مولوی عبداللہ صاحب فخری کی تحریک پر ہوا.جو خود۴ رمئی ۱۸۸۹ء کو بیعت کر چکے تھے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خط و کتابت کا آغا ز ۴ رمئی ۱۸۸۹ء کے بعد ہوا ہے اور جہاں تک مکتوبات کے سلسلہ سے معلوم ہوتا ہے اگست کے اوائل یا جولائی کے اواخر میں یہ سلسلہ شروع ہوا اس لئے کہ حضرت کا مکتوب ۷ راگست کا ہے اور اس سے پہلے نواب صاحب کے ایک خط کا جواب جاچکا تھا اور یہ وہی خط ہے جو فخری صاحب کی تحریک پر لکھا اور جس میں استدعاء دعا معصیت سے رستگاری کے لئے تھی.‘اس امر کی تائید خود نواب صاحب کے دوسرے بیان سے بھی ہوتی ہے.آپ فرماتے ہیں: میں نے بہ تحریک اپنے استاد مولوی عبداللہ فخری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں غالباً آخر ۱۸۸۹ ء یا ابتدائے ۱۸۹۰ ء ( میں ) خط دعا کے لئے لکھا تھا.جس پر حضرت نے جواب میں لکھا کہ دعا بلا تعلق نہیں ہوسکتی آپ بیعت کر لیں اس پر میں نے جواباً ایک عریضہ لکھا تھا کہ میں شیعہ ہوں اور اہل تشیع ائمہ اثناعشر کے سوا کسی کو ولی یا امام نہیں تسلیم کرتے اس لئے میں آپ کی کس طرح بیعت کر سکتا ہوں* مولوی عبداللہ صاحب فخری کا نمبر بیعت ۹۳ اور تاریخ بیعت ۴ رمئی ۱۸۸۹ء ہے یہ کاندھلہ ضلع مظفر نگر کے باشندہ تھے (رجسڑ بیعت ) چیفس کالج میں مدرس تھے جلد احمدیت سے برگشتہ ہو گئے تھے.چنانچہ فخری صاحب کو نواب صاحب نے ۱۲ / فروری ۱۹۰۲ء کو ایک مکتوب میں لکھا کہ ”اس سعادت عظمی کے رہنما آپ ہی تھے.مگر بمصداق آگ لگا جما لوڈ ورکھڑی.آپ الگ ہوئے.نہایت تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ میرے اسطرف آنے کی ابتدا اور آپ کے الگ ہونے کی ابتدا اسی تاریخ سے شروع ہوتی ہے.“ یہ مکتوب تحریک بیعت کا جس کا ذکر نواب صاحب کے نام حضوڑ کے مکتوب مورخہ ۷ /اگست ۱۸۸۹ء میں بھی آتا ہے کہیں سے دستیاب نہیں ہو سکا.* اس کا جواب نواب صاحب کے الفاظ میں یوں مذکور ہے: اس پر حضرت نے ایک طولانی خط لکھا جس کا ماحصل یہ تھا کہ اگر برکات روحانیہ محض ائمہ اثناعشر پر ختم ہو گئے تو ہم جو روز دعامانگتے ہیں اهــدنـا الـصـراط المستقيم صراط الذین انعمت علیھم یہ سب بیکا ر ہے اور اب سے تو ہو چکی درد باقی ہے.کیا ہم درد کیلئے اب مشقت ریاضات کریں.حضرت نے یہ بھی لکھا کہ منجملہ ان لوگوں کے جو
35 اس کے جواب میں ذیل کا مکتوب حضور نے رقم فرمایا: بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَنُصَّلِى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ از طرف عائد باللہ الصمد غلام احمد عافاه اللہ والید - با خویم محمد علی خاں صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کا خط پہنچا.اس عاجز نے جو بیعت کے لئے لکھا تھا.وہ محض آپ کے پہلے خط کے حقیقی جواب میں واجب سمجھ کر تحریر ہوا تھا.کیونکہ آپ کا پہلا خط اس سوال پر متضمن تھا کہ پر معصیت حالت سے کیونکر رستگاری ہو.سو جیسا کہ اللہ جل شانہ نے اس عاجز پر القاء کیا تحریر میں آیا.اور فی الحقیقت جذبات نفسانیہ سے نجات پانا کسی کے لئے بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ عاشق زار کی طرح خاکپائے محبان الہی ہو جائے اور بصدق وارادت ایسے شخص کے ہاتھ میں ہاتھ دے جس کی روح کو روشنی بخشی گئی ہے تا اس کے چشمہ صافیہ سے اُس فرد ماندہ کو زندگی کا پانی پہنچے.اور اس تر و تازہ درخت کی ایک شاخ ہو کر اس کے موافق پھل لاوے.غرض آپ نے اپنے پہلے خط میں نہایت انکسار اور تواضع سے اپنے روحانی علاج کی درخواست کی تھی.سو آپ کو وہ علاج بتلایا گیا تھا جس کو سعید آدمی بصد شکر قبول کرے گا.مگر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آپ کا وقت نہیں آیا.معلوم نہیں کہ ابھی کیا کیا دیکھنا ہے.اور کیا کیا ابتلاء در پیش ہے.اور یہ جو آپ نے لکھا ہے کہ میں شیعہ ہوں اس لئے میں بیعت نہیں کر سکتا.سو آپ کو اگر صحبت فقراء کاملین میسر ہو تو آپ خود ہی سمجھ لیں کہ شیعوں کا یہ عقیدہ کہ ولایت اور امامت بارہ اماموں پر ختم ہو چکی ہے اور اب خدا تعالیٰ کی یہ نعمت آگے نہیں ہے بلکہ پیچھے رہ گئی کیسا لغو اور حقانیت دور ہے اگر خدائے کریم و رحیم کو بھی منظور تھا کہ ولایت اور امامت بارہ شخصوں پر محدود ہو کر آئندہ قُرب الہی کے دروازوں پر مُبر لگ جائے تو پھر اس سے تمام تعلیم اسلام عبث ٹھہرتی ہے اور اسلام ایک ایسا گھر ویران اور سنسان ماننا پڑتا ہے جس میں کسی نوع کی برکت کا نام ونشان نہیں.اور اگر یہی سچ ہے کہ خدا تعالیٰ تمام برکتوں اور امامتوں اور ولایتوں پر مہر لگا چکا ہے اور آئندہ بکلی وہ راہیں بند ہیں.تو خدائے تعالیٰ کے سچے طالبوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی دل توڑنے والا واقعہ نہ ہوگا.گویا وہ جیتے ہی مرگئے اور اُن کے ہاتھ میں بجز چند خشک قصوں کے اور کوئی مغز اور بات نہیں.اور اگر شیعہ لوگ اس عقیدہ کو سچ مانتے ہیں تو پھر کیوں بقیہ حاشیہ: - حضرت امام حسینؓ کے ہم پلہ ہیں میں بھی ہوں بلکہ ان سے بڑھ کر.“ (القول الفصل ۶۴) حضرت امام حسین کے متعلق جو یہاں ذکر آیا ہے وہ دراصل دوسرے مکتوب میں حضوڑ نے تحریر فرمایا ہے جیسا کہ متن کتاب میں مکتوبات مندرجہ سے ظاہر ہے.(مولف)
36 36 پنج وقت نماز میں یہ دعا پڑھتے ہیں اهدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت عليهم.كيونكہ اس دُعا کے تو یہی معنی ہیں کہ اے خدائے قادر ہم کو وہ راہ اپنے قرب کا عنایت کر جو تو نے نبیوں اور اماموں اور صدیقوں اور شہیدوں کو عنایت کیا تھا.پس یہ آیت صاف بتلاتی ہے کہ کمالات امامت کا راہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے تھا.اس عاجز نے اسی راہ کے اظہار ثبوت کے لئے ہیں ہزار اشتہار مختلف دیار وامصار میں بھیجا ہے.اگر یہ برکت نہیں تو پھر اسلام میں فضیلت ہی کیا ہے.یہ تو سچ ہے کہ اکثر امام کامل اور بزرگ اور سید القوم تھے.مگر یہ ہرگز سچ نہیں کہ کمالات میں اُن کے برابر ہونا ممکن نہیں.خدائے تعالیٰ کے دونوں ہاتھ رحمت اور قدرت کے ہمیشہ کھلے ہیں اور کھلے رہیں گے.اور جس دن اسلام میں یہ برکتیں نہیں ہونگی.اس دن قیامت آجائیگی.خدائے تعالیٰ ہر ایک کو راہ راست کی ہدایت بخشے.پرانا عقیدہ ایسا موثر ہوتا ہے کہ بجائے دلیل مانا جاتا ہے اور اس سے کوئی انسان بجر فضل خداوند تعالیٰ نجات نہیں پاسکتا.ایک آدمی آپ لوگوں میں اس مدعا کے ثابت کرنے کے لئے موجود ہے.کیا آپ لوگوں میں سے کسی کو خیال آتا ہے کہ اس کی آزمائش کرے.کتاب براہین احمدیہ کا اب تک حصہ پنجم طبع نہیں ہوا ہے.امید کہ خدائے تعالیٰ کے فضل سے جلد سامان طبع کا پیدا ہو جائے.صرف کتاب کے چند نسخے باقی ہیں اور قیمت بطور پیشگی لی جاتی ہے اور بعد تکمیل طبع باقی حصے انہیں کو ملیں گے جو اول خریدار ہو چکے ہیں.قیمت کتاب سو روپیہ سے پچیس روپیہ تک حسب مقدرت ہے یعنی جس کو سو روپیہ کی توفیق ہے وہ سور و پید ادا کرے اور جس کو کم توفیق ہے وہ کم مگر بہر حال پچیس روپیہ سے کم نہ ہو اور نا دار کو مفت اللہ ملتی ہے آپ جس صیغہ میں چاہیں لے سکتے ہیں اور چاہیں تو مفت بھیجی جائے * والسلام احقر العباد اللہ غلام احمد از لود بانہ محلہ اقبال گنج مکان شاہزادہ حیدرے اگست ۱۸۸۹ء.2 قادیان میں پہلی آمد بغرض تحقیق ۳۷ مذکورہ خط و کتابت کے بعد نواب صاحب پہلی بار قادیان آئے.اس امر سے کون شناسا نہ ہوگا کہ طبقہ امراء کیونکر عیش و تھم میں مستغرق رہتا اور غافلانہ زندگی بسر کرتا ہے.اس طبقہ میں سے ایسا فرد جو لاکھوں روپیہ مکتوب نمبر ا.اختلاف کے باعث یہاں یہ مکتوب الحکم جلد ۶ نمبر ۹ (ص۲) پر چه ۶۳-۳-۱۰ سے نقل کیا گیا ہے.البتہ حضور کے نام کے بعد کا حصہ یعنی ازلد ہیا نہ محلہ اقبال گنج مکان شاہزادہ حیدر ۷/اگست ۶۸۹‘الحکم میں درج نہیں.
37 * کی جائیداد کا مالک اور عز و جاہ سے مالا مال ہو.جسے عیش و آرام کے سارے سامان حاصل ہوں.بیس سالہ عمر اور عنفوان شباب کا عالم ہو سر پر کوئی روک ٹوک کرنے والا نہ ہو.بھلا ایسا رئیس اپنے آرام کو الوداع کہہ کر کچے راستہ کے ہچکولے کھاتا اور خاک وگرد پھانکتا قادیان جود نیوی اسباب جاذبیت سے یکسر خالی تھا بلکہ جہاں معمولی سامان زندگی بھی مشکل ہی سے میسر آتا تھا.کیوں آنے لگا؟ سوائے اس کے کہ اس کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سعادت ودیعت ہوئی ہو.ان ایام کی قادیان کا اندازہ ایک سال بعد سفر کے بیان میں نواب صاحب کی زبانی سنئے.فرماتے ہیں:.دو میں پہلی دفعہ ۱۸۹۱ء میں قادیان گیا.حضرت نے ایک سینس میرے لئے ایک بہلی بھیجی تھی.پنڈور سے آگے نکل کر جو راستہ حضرت کے مکان کو جاتا تھا جواب بھی ہے جس پر میاں محمد اسمعی" ☆☆ جلد بند کا مکان ہے اور مفتی محمد صادق صاحب کے مکان کے پاس چوک احمدیہ کی طرف مڑتا ہے جسکے مشرقی طرف مدرسہ احمدیہ ہے اور غربی طرف دوکانیں ہیں اس تمام راستہ میں ایک پہیہ خشکی میں اور دوسرا پانی میں یعنی جو ہڑ میں سے گذرتا تھا اور یہ حد آبادی تھی اور میرے مکان کے آگے اس وقت ایک ویرانہ تھا اور گلی چھت کر جو کمرہ بنا ہوا ہے میری فرودگاہ تھی اور یہ بس حد آبادی تھا.“ * ** ایک جگہ نواب صاحب فرماتے ہیں کہ " پہلی دفعہ غالبا فروری ۱۸۹۱ء کو قادیان گیا حضرت کی سادگی نے مجھ پر خاص اثر کیا.“ ( یہاں نواب صاحب کے اصل الفاظ درج ہیں الفضل مورخہ ۳۸-۶-۱۴ میں.جغییر الفاظ یہ روایت درج ہے.نواب صاحب کے جولائی ۱۸۹۰ ء اور فروری ۱۸۹۱ء میں قادیان آنیکا ذکر حضرت اقدس نے اپنے مکتوبات بنام حضرت مولوی صاحب.(خلیفہ اوّل) میں کیا ہے ۲۵ اس لئے ۱۸۹۱ء کی زیارت قادیان کو پہلی بار کی زیارت لکھنا سہو ہے یہاں پہلی بار کا ذکر درست نہیں البتہ سنہ درست ہے کیونکہ اس میں معتین طور پر ۹۱ء میں ماہ فروری میں قادیان آنے کا ذکر ہے جس کی تصدیق حضرت اقدس کے مکتوب سے ہوتی ہے.مراد خاکروبوں کے گھر.یہ محلہ بعد میں دارالصحت کے نام سے موسوم ہوا.سیدہ نواب مبارکہ بیگم صابہ فرماتی ہیں اس کمرہ سے مرادسیدہ ام متین صاحب والا کمرہ ہے جو دار مسیح کا حصہ ہے.** یہ نواب صاحب کی روایت کے اصل الفاظ ہیں.تغییر الفاظ الفضل مورخہ ۳۸-۶-۱۴ میں چھپ چکی ہے (ب) اس راستہ وغیرہ کا نقشہ اس کتاب میں دوسری جگہ دیدیا گیا ہے.
38 یہ سفر آپ نے یقینا تحقیق حق کی خاطر کیا ہوگا کیونکہ ابھی آپ حلقہ بگوش احمدیت نہ ہوئے تھے.یہ وہ زمانہ تھا کہ حضوڑ نے وفات عیسے اور اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان فرمایا تھا جس پر مخالفین کی طرف سے حضور کو معاذ اللہ ضال.جہنمی اور کافر کہنے کا آغاز ہو چکا تھا اور مخالفین سخت جوش میں تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو علی بصیرت اس امر کا ببانگ دہل اپنے رسالہ میں اعلان کر چکے تھے.کہ حضور جیسی جانی.مالی.قلمی اور لسانی خدمت اسلام کرنے والا ان تیرہ صدیوں میں کوئی نہیں گذرا یہی شخص اب حضور کو معاذ اللہ ضال قرار دینے لگا تھا اور حضور اتمام حجت کے جذبہ کے ماتحت خود مولوی صاحب کے ہاں جانے کو تیار تھے.ایسے نازک ایام میں جبکہ مخالفت کا طوفان بے تمیزی برپا ہو چکا تھا حضور کا نواب صاحب سے مشورہ کرنا اور مشورہ بھی احمدیت کے ایک بنیادی عقیدہ کے بارہ میں ایک شدید مخالف کے افہام و تفہیم کے متعلق یہ ظاہر کرتا ہے کہ نواب صاحب کا اس وقت بھی حضور کے متعلق حسن ظن اتنا قوی تھا کہ اس کے آثار حضرت کے نزدیک کلیۂ ظاہر وباہر تھے.اس سعادت بزور بازو نیست! تانه بخشد خدائے بخشنده چنانچہ اس بارہ میں حضور اپنے مکتوب مورخہ ۱۵ جولائی ۱۸۹۰ء میں حضرت مولوی صاحب (خلیفۃ المسیح اول) کو تحریر فرماتے ہیں: مولوی محمد حسین صاحب نے پختہ ارادہ مخالفانہ تحریر کا کرلیا ہے اور اس عاجز کے ضال ہونے کی نسبت زبانی طور پر اشاعت کر رہے ہیں.مرزا خدا بخش صاحب جو محمد علی خاں صاحب کے ساتھ آئے ہیں، ذکر کرتے ہیں کہ میں نے بھی ان کی زبانی ضال کا لفظ سُنا ہے.کل بمشورہ مرزا خدا بخش ومحمد علی خاں صاحب ان کی طرف خط لکھا گیا ہے کہ پہلے ملاقات کر کے اپنے شکوک پیش کرو.معلوم نہیں کیا جواب لکھیں.میں نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ اگر آپ نہ آسکیں تو میں خود آسکتا ہوں.مگر اُن کے اس فقرہ سے سب کو تعجب آیا کہ میں عقلی طور پر مسیح کا آسمان سے اتر نا ثابت کر دوں گا.غرض ان کی طبیعت عجیب جوش میں ہے اور ایک قسم کا ابتلاء ہے جو انہیں پیش آ گیا ہے.غز نوی صاحبوں کا جوش اس قدر ہے کہ نا گفتہ بہ.ایک صاحب محی الدین نام لکھو کے میں ہیں انہوں نے اس بارے میں اپنے الہامات لکھے ہیں...در حقیقت ان الہامیوں نے اپنی پردہ دری کی ہے اور ان.....کے الہامات کا یہی خلاصہ ہے کہ یہ شخص ضال ہے.جہنمی ہے.اور میں نے سُنا ہے کہ ان لوگوں نے کچھ دبی
39 زبان سے کا فر کہنا شروع کر دیا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ ایک بڑے امر کو ظاہر کرنا چاہتا ہے.ایک شخص محمد علی نام شاید گوجرانوالہ کا رہنے والا ہے.مولوی تو نہیں مگر خوش الحان واعظ ہے.اس نے سنا ہے کہ بٹالہ میں بڑی بدزبانی شروع کی ہے.مولوی محمد حسین بدزبانی نہیں کرتے مگر ضال کہے جاتے ہیں.“ حضرت اقدس سے استفسار اندراج رجسٹر بیعت نواب صاحب کی قادیان سے واپسی کے قلیل عرصہ بعد ہی حضرت اقدس لدھیانہ تشریف لے گئے.وہاں آپ نے پھر ملاقات کی اور آپ کو ایک گونہ اطمینان وانشراح عطا ہوا.سو آپ نے بذریعہ خط و کتابت بعض امور کے متعلق استفسار چاہا.مثلاً آیا ایک شیعہ حضوڑ کی بیعت میں داخل ہوسکتا ہے.جواباً حضور نے تحریر فرمایا کہ بیعت کرنے والے کو قال الرسول کا پابند ہونا ضروری ہے گو یہ ضروری نہیں کہ حنفی یا شافعی وغیرہ ہو.کلام اللہ پر ایمان اور حسب طاقت اس پر.آثار صحیحہ نبویہ کی اتباع ضروری ہے اور یہ ضروری ہے آنحضرت صلعم کو رسول برحق اور قرآن مجید کو کتاب اللہ اور جامع الکتب اور آخری شریعت یقین جانے اور یہ سمجھے کہ ولایت.امامت اور خلافت کی راہیں قیامت تک کے لئے کھلی ہیں.مجرد کسی رشتہ سے جو خواہ کسی رسول سے ہو کوئی فضیلت حاصل نہیں ہو سکتی.قرآن شریف ہر ایک تصرف سے بکلی محفوظ ہے.اور کوئی ایسا قرآن نہیں جو کوئی شخص اس کو لے کر غار میں چھپا بیٹھا ہے اور خلفاء اور صحابہ کرام کی تکریم کے وجوہات بیان فرمائے ہیں اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اس قدر اختلاف کہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی جائے بیعت کا کچھ ہارج نہیں ہے ہم ذیل میں اس سارے مکتوب کو درج کر دیتے ہیں.حضور فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم : نحمده ونصلى على رسوله الكريم: از عاجز عايذ بالله الصمد غلام احمد بخدمت عزیزی اخویم خاں صاحب محمد علی خاں صاحب سلمہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ و بر کاتہ عنایت نامہ پہنچ کر موجب مسرت و انشراح خاطر ہوا.اگر چہ طبیعت اس عاجز کی کسی قدر علیل تھی اور نیز ضعف بہت تھا مگر میں نے نہ چاہا کہ آپ کو بہت انتظار میں رکھوں اس لئے بلحاظ اختصار آپ کے سوالات کا جواب دیتا ہوں.(۱) جو شخص اس عاجز سے بیعت کرے اس کو قال اللہ اور قال الرسول کا پابند ہونا ضروری ہے یہ ضروری نہیں کہ وہ حنفی ہو یا شافعی وغیرہ وغیرہ.مگر یہ نہایت ضروری ہے کہ اللہ جل شانہ کے کلام عزیز پر ایمان لاوے اور جہاں تک ممکن ہو اس پر عمل کرے اور آثار صحیحہ نبویہ کا اتباع کرے.(۲) بیعت کرنے والے کے لئے ان عقائد کا ہونا ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رسول برحق اور قرآن شریف منجانب اللہ کتاب اور جامع الکتب ہے.کوئی نئی شریعت اب نہیں آسکتی اور نہ کوئی نیا رسول
40 40 امور مُستَفسَرَہ کا اطمینان بخش جواب پا کر نواب صاحب نے بلا تامل نومبر ۱۸۹۰ء میں بیعت کا خط لکھ دیا.بقیہ حاشیہ: - آسکتا ہے مگر ولایت اور امامت اور خلافت کی ہمیشہ قیامت تک راہیں کھلی ہیں اور جس قدر مہدی دنیا میں آئے یا آگے آئیں گے ان کا شمار خاص اللہ جل شانہ کو معلوم ہے وحی رسالت ختم ہو گئی مگر ولایت و امامت و خلافت حقہ کبھی ختم نہیں ہوگی یہ سلسلہ ائمہ راشدین اور خلفاء رہا مین کا کبھی بند نہیں ہوگا.کسی کو گذشتہ لوگوں میں سے بجز رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے جمیع فضائل و کمالات میں بے مثل نہیں کہہ سکتے اور ممکن نہیں کہ کسی کمال یا کسی نوع کی خدمت گزاری میں آئندہ اس سے بہتر پیدا ہو.ہاں ! جزئی فضیلت کے لحاظ سے بعض لوگ بے مثل ٹھہر سکتے ہیں جیسے صحابہ اور اہلیت کی یہ فضلیت جو انہوں نے زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تنہائی کے وقت میں ایسی وفاداری دکھلائی کہ اپنے خونوں کو پانی کی طرح بہا دیا آنحضرت کے چہرہ مبارک کو دیکھا اور اس چہرہ سے عاشقانہ طور پر زندگی بسر کی اور اسلام پر پہلے پہل مخالفوں کے حملے ہوئے تو اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر ان کو روکا اور اسلام کو زمین پر جمایا اور اسلامی ہدایتوں کو زمین پر پھیلایا اور کفر کے زور کو مٹایا اور قرآن شریف کو دیانت اور امانت سے جمع کر کے تمام ملکوں میں رواج دیا اور اسلام کی صداقت پر اپنے خون سے مُہر میں کر کے اس دار فانی سے کوچ کر گئے.بلاشبہ ان کی اس فضیلت کو بعد میں آنے والے نہیں پاسکتے و ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء مگر اس کے سوا ہر ایک کمال کے حاصل کرنے کے لئے در و دروازے کھلے ہیں.خدا تعالیٰ کے مقبول اور نہایت اعلیٰ درجے کے پیارے بندے اور امام الوقت اور خلیفتہ اللہ فی الارض اب بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے پہلے ہوئے تھے اور اب بھی خدا تعالیٰ کے انعام واکرام کی وہ راہیں کھلی ہیں جو پہلے کھلی تھیں.کمالات نبوت ورسالت بھی ظلمی طور پر حاصل ہو سکتے ہیں جس قد ر سالک کی استعداد ہوگی ضرور پر تو نور کا پڑے گا.زندہ اسلام اسی عقیدہ کا نام ہے مگر جو لوگ امامت وخلافت وصد یقیت کو پہلے اماموں پر ختم کر چکے ہیں ان کے ہاتھ میں اب مردہ اسلام ہے یا یوں کہو کہ اسلام کی بیجان تصویر ان کے ہاتھ میں ہے.یا د رکھنا چاہئیے کہ جو مذہب آئندہ کمالات کے دروازے بند کرتا ہے وہ مذہب انسانی ترقی کا دشمن ہے.قرآن شریف کی رُو سے انسان کی بھاری دُعا یہی ہے کہ وہ روحانی ترقیات کا خواہاں ہو غور سے پڑھنا چاہئیے اس آیت کو اهدنا الصراط المستقم صراط الذین انعمت علیھم دوسرے یہ عقیدہ بھی ضروری ہے کہ مجرد کسی قسم کے رشتہ سے خواہ کسی رسول سے رشتہ ہو ، کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ فقط رشتہ کی فضیلت پر ناز کرنا نا مردوں کا کام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور ذوالقربی میں سے ہر ایک شخص جو قابل تعریف ہے وہ رشتہ کے لحاظ سے ہرگز نہیں وقال اللہ تعالیٰ ان اكرمكم عند الله اتقاكم.
41 گونواب صاحب بیان کرتے ہیں کہ ”میں نے غالباً ستمبر یا اکتوبر ۱۸۹۰ء میں بیعت حضرت کی کر لی.“ تیسرے یہ عقیدہ بھی ضروری ہے کہ یہاں نواب صاحب کے اصل الفاظ درج کئے گئے ہیں جو الفضل مورخه ۳۸-۶-۱۴ مندرجہ ذیل الفاظ سے قدرے مختلف ہیں.بقیہ حاشیہ - قرآن شریف اب تک ہر ایک قسم کے تصرف سے بکلی محفوظ ہے اور کوئی ایسا قرآن نہیں جو کوئی شخص اس کو غار میں لیکر اب تک چھپا بیٹھا ہے یہ ان لوگوں کا بہتان ہے جن کو خدا تعالیٰ کا خوف نہیں.چوتھے یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاروق عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب کے سب واقعی طور پر دین میں امین تھے.ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسلام کے آدم ثانی ہیں اور ایسا ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اگر دین میں بچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لئے مشکل تھا کہ قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی منجانب اللہ بتا سکتے.بلا شبہ یہ سچ بات ہے کہ ہم قرآن شریف سے اسی قدر محبت اور عشق پیدا کرینگے جس قدر ہمیں ان تینوں بزرگواروں کے امین ہونے پر ایمان ہوگا.اگر ہم ذرا بھی کمالات ایمانیہ میں ان کو کم سمجھیں گے تو وہی کمی قرآن شریف کی عظمت کے بارہ میں ہمارے دلوں میں پیدا ہو جائے گی.یہی وجہ ہے کہ جس پیار سے اور محبت سے سنت جماعت قرآن شریف کو دیکھتے ہیں اور اس کو بصد محبت حفظ کر لیتے ہیں یہ بات شیعہ لوگوں میں ہرگز نہیں پائی جاتی.مثلاً مجھے تخمینا معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ملک پنجاب میں ایک لاکھ سے زیادہ سنت جماعت میں سے قرآن شریف کا حافظ ہوگا مگر کیا کوئی اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ اسی ملک میں شیعہ لوگوں میں سے دس پندرہ بھی حافظ ہیں؟ بلکہ میرے خیال میں ایک حافظ بھی بمشکل ہے.اس کا کیا سبب ہے؟ وہی ابوبکر وعمر وعثمان رضی اللہ عنہم.پس اس سے معلوم ہوا کہ ان بزرگواروں کو بنظر تخفیف دیکھنے میں سرا سرایمان کا گھاتا ہے والــعـــاقــل تكفيه الاشارة.پانچویں بیعت کے لئے یہ ضروری عقیدہ ہے کہ شرک سے بکلی پر ہیز کرے اگر یہ تمام عقائد کسی شیعہ میں پائے جاویں تو بلاشبہ اس کی حالت عمدہ ہے اور وہ اس لائق ہے کہ بیعت میں داخل ہو.(۳) بیعت کے مقاصد میں سے ایک بھاری مقصد یہ ہے کہ انسان راہ راست پر آوے اور خدا تعالیٰ کے غضب سے ڈر کر ہر ایک طریق نا انصافی کو چھوڑ دیوے جو شخص عمداً نا انصافی پر جمار ہنا چاہتا ہے وہ دراصل حقیقت بیعت سے غافل ہے ہم اس مسافرخانہ میں تھوڑے عرصہ کے لئے آئے ہیں اور اس غرض سے بھیجے گئے ہیں کہ اپنے اخلاق اور عقائد اور اعمال کو درست کر کے اور حسب مرضیات الہی اپنے نفس کو بنا کر اس مولیٰ کریم کی رضا مندی حاصل کریں.سو ہر ایک بات میں یہ دیکھ لینا چاہئیے کہ کیا ہمارے قول اور فعل ظلم اور زیادتی سے
42 لیکن یادداشت کی بناء پر قریباً نصف صدی بعد کے بیان کی بجائے ابتدائی رجسٹر بیعت جس پر بیعت کے وقت یا بقیہ حاشیہ: - خالی ہیں ؟ یا ہم انصاف کا خون کر رہے ہیں.جن بزرگ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ضعف و ناتوانی اور تنہائی اور غربت کے ایام میں آنجناب کی رفاقت اختیار کی اس رفاقت اور اس ایمان کے پاس کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا ئیں اپنی ریاستوں ملکیتوں سے بے دخل کئے گئے وطن سے نکالے گئے اور اعلاء کلمہ اسلام کے لئے صدہا مرتبہ اپنے تئیں معرض ہلاکت میں ڈالا ان کی شان کو جیسا کہ چاہئیے نہ سمجھنا سخت درجہ کی نا انصافی ہے در حقیقت اگر ہم انصاف سے دیکھیں اور عدالت کی نگاہ سے نظر کریں تو ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ لوگ اعلیٰ درجہ کے مقدس ہیں ہر ایک شخص کی فضلیت باعتبار اس کے حسن خدمات اور ذاتی لیاقتوں کے ہوا کرتی ہے.سو جیسے صحابہ کرام کی فضلیت اس قاعدہ مستمرہ کی رو سے بپایہ ثبوت پہنچ گئی ہے کسی اور دوسرے کی فضیلت ہر گز ثابت نہیں ہو سکتی.مثلاً امام حسین رضی اللہ عنہ نے جو بھاری نیکی کا کام دنیا میں آکر کیا وہ صرف اس قدر ہے کہ ایک نابکار دنیا دار کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت نہ کی اور اسی کشاکش کی وجہ سے شہید ہو گئے.مگر یہ ایک شخصی ابتلا ء ہے جو انہیں پیش آ گیا.اگر اس کو حضرت صدیق اکبر کی ان جانفشانیوں کے ساتھ جانچا جاوے جو انہوں نے تمام عمر محض اعلائے کلمہ اسلام کے لئے اکمل اور اتم طور پر پوری کی تھیں.تو کیا ایک شخصی ابتلاء کو کچھ اُس سے نسبت ہو سکتی ہے.اللہ جل شانہ کا کسی سے رشتہ نہیں ہے.جو شخص اعلیٰ درجہ کا وفادار ہے اور خدمت گزار ہے وہی اس کا مقرب ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بیٹا زندہ نہیں رہا.البتہ نوا اسے زندہ رہے ہیں.جیسے حضرت فاطمہ کی اولاد یا دوسری بیبیوں کی اولاد.سوخدا تعالیٰ کے نزدیک ان کے مدارج ان کے اعمال کے موافق ہیں.خواہ نخواہ کا درجہ کسی کو دیا نہیں جاتا.جو شخص محض خدا تعالیٰ کے لئے کسی سے محبت کرتا ہے اس کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ سے خوف کر کے دیکھے.کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اس نے کیا کیا محمد ہ کام کیا ہے ناحق فضیلت ان کو نہ دیوے.کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ محض رشتہ سے کیونکر فضیلت پیدا ہو جاتی ہے خاص کر کے ذرا سے رشتہ سے جو نواسہ ہوتا ہے.کنعان حضرت نوح کا بیٹا تھا اور آذر حضرت ابرا ہیم کا باپ پس کیا یہ رشتہ انہیں کچھ کام آیا؟ پس یہ مجھ لینا چاہیئے کہ اہل بیت ہونا اپنے نفس میں کچھ بھی چیز نہیں ہے.بے شک امام حسن و حسین ان لوگوں میں سے ہیں جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے ان کی راستبازی کی وجہ سے کامل کیا ہے نہ اس وجہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں.کیونکہ نواسے تو اور بھی تھے.نواسہ ہونا خدا تعالیٰ کے نزدیک یا خلقت کے نزدیک کیا حقیقت رکھتا ہے.لیکن بلاشبہ کمالات صدیقی و فاروقی کے مقابل پر حسینی کمالات مستزل ہیں ان بزرگواروں نے اسلام پر بڑا احسان کیا اور اسلام کی شوکت کو دنیا میں قائم کیا.اور وہ جانفشانی
43 بیعت کے جلد بعد اندراجات کر لئے جاتے تھے تاریخی لحاظ سے اقرب الی الصحیۃ ہے.جہاں آپ کی بیعت نمبر ۲۱۰ بقیہ حاشیہ: - کے کام کئے جو نبی اور رسول کرتے ہیں جو شخص ان کے احسانات کا منکر ہو وے وہ خدا تعالیٰ کا کا فرنعمت ہے اگر ہم ذبح بھی کئے جاویں تو ہر گز راستی کو چھوڑ نہیں سکتے.عوام کا قاعدہ ہے کہ وہ کورانہ تقلید پر چلتے ہیں یہ سراسر غلط ہے.تمام صحابہ کرام کے مناقب سے کتابیں بھری پڑی ہیں اور قرآن کریم شاہد ہے.صدیق اکبر اور عمر فاروق کے حق میں اس قدر پر تعریف کلمات نبوی پائے جاتے ہیں کہ گویا ان دونوں بزرگواروں کو نبی قرار دیا گیا ہے مگر ہماری نظر میں مُجر ڈ مناقب کوئی چیز نہیں صرف طرح طرح کے پیرایوں میں سچے مومنوں کی تعریفیں کی ہیں اور اس بات کا فیصلہ کہ ان میں سے زیادہ بزرگ کون ہے؟ اور ان بزرگوں کی خدمات سے کرنا چاہئیے کہ اسی کی طرف اللہ جلشانہ ہدایت فرماتا ہے.اب حاصل کلام یہ ہے کہ بیعت کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان ہر ایک قولی و فعلی و اعتقادی نا انصافی سے بکلی دست بردار ہو جاوے کیونکہ بیعت راہ راست حاصل کرنے کے لئے ہے اگر بہر حال اسی راہ پر قائم رہتا ہے جو تقلیدی طور پر اختیار کیا گیا ہے تو پھر بیعت سے حاصل ہی کیا ہے.ہر کجا شمع ہدایت یافتی پروانه باش گر خرد مندی پے راہ ہدا دیوانہ باش -۴- اگر چہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہوتا اور دست بستہ کھڑا ہونا قانون فطرت کی رُو سے بھی بندگی کے لئے مناسب ہی معلوم ہوتا ہے.لیکن اگر ہاتھ چھوڑ کر بھی نماز پڑھتے ہیں تو نماز ہو جاتی ہے.مالکی بھی شیعوں کی طرح ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں.مسنون وہی طریق ہے جو اوپر بیان ہوا.اس قدر اختلاف بیعت کا کچھ ہارج نہیں اگر چہ احادیث صحیحہ میں اس کا نام ونشان بھی نہیں.۵- یہ ہمیشہ سے قاعدہ رہا ہے کہ نشانوں کے چاہنے والے دو ہی قسم کے آدمی ہوتے ہیں یا غایت درجہ کے دوست.یا غایت درجہ کے دشمن یعنی جب کوئی انسان مقبول خدا تعالیٰ سے غایت درجہ کی دوستی و محبت اختیار کرے یہاں تک کہ اس کی راہ میں قربان ہو جائے اور اس کی خاکپا ہو جائے تو وہ اپنے حوادث اور مصائب کے وقت یا تکمیل مدارج ایمان کے لئے رحمت کے نشان پاتا ہے اور اس کی برکت اور صحبت سے جذبات نفسانی کم ہوتے جاتے ہیں اور ذوق اور محبت بڑھتی جاتی ہے اور دنیا کی محبت کم اور ٹھنڈی ہوتی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے نشانوں کے ذریعہ سے اس پر ظاہر کرتا جاتا ہے کہ یہ شخص محبوبان اور مقبولان الہی میں سے ہے اور عادت اللہ قدیم سے ایسی ہی جاری ہے کہ جب اس درجہ پر کسی کی ارادت پہنچ جائے تو اس کا ایمان کامل کرنے کے لئے کسی قسم کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ پیشتر آزمائش صدق کے محققین حقیقت پر نظر ڈالتے ہیں.
44 اور تاریخ بیعت ۱۹ نومبر ۱۸۹۰ء مرقوم ہے بقیہ اندراج یوں ہے.‘ خاں صاحب محمد علی خاں ولد نواب غلام محمد خاں بقیہ حاشیہ : - عوام جلدی سے کسی کو کافر اور کسی کو بے دین کہہ دیتے ہیں اور محققین اس کی ذرا پرواہ نہیں کرتے اگر ہم صدیقی اور فاروقی خدمات کو جو اپنی زندگی میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کیس لکھیں تو بلا شبہ وہ ایک دفتر میں بھی ختم نہیں ہوسکتیں.لیکن اگر ہم امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمات کو لکھنا چاہیں تو کیا ان دو تین فقروں کے سوا کہ وہ انکار بیعت کی وجہ سے کربلا کے میدان میں رو کے گئے اور شہید کئے گئے.کچھ اور بھی لکھ سکتے ہیں؟ بے شک یہ کام ایسا عمدہ ہوا کہ ایک فاسق دنیا دار کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت نہیں کی مگر اعتراض تو یہ ہے کہ وہ اپنے باپ بزرگوار کے قدم پر کیوں نہ چلے باپ نے تو بقول شیعوں کے تین فاسق آدمیوں کے ہاتھ پر جو بزعم ان کے مرتد سے بدتر تھے اور بقول ان کے صرف معمولی بادشاہوں میں سے تھے بیعت کر لی اور بیٹے نے تو اپنے باپ کے طریق سے اعراض کر کے ایک فاسق کی بیعت بھی نہیں کی اور انکا رہی میں جان دی.بہر حال یہ اتفاقی حادثہ تھا جو امام صاحب کو پیش آ گیا اور بڑا بھاری ذخیرہ ان کے درجہ کا صرف یہی ایک حادثہ ہے جس کو محض غلو اور نا انصافی کی راہ سے آسمان تک کھینچا جاتا ہے اور وہ بزرگوارصحابہ جو رسولوں کی طرح دنیا میں کام کر گئے اور ہر میدان میں جان فدا کرنے کے لئے حاضر ہوئے ان سے بقول آپ کے لا پرواہی تو آپ کا طریق ہے یہ فیصلہ تو آسانی سے ہو سکتا ہے.چونکہ دنیا دارالعمل ہے اور میدان حشر میں مراتب بلحاظ اعمال ملیں گے.پس جس کے دل میں امام حسین و حسن کی وہ عظمت ہے کہ اب وہ دوسرے صحابہ سے لا پرواہ ہے اس کو چاہیے کہ ان کی خدمات شائستہ دین کی راہ میں پیش کرے اگر ان کی خدمات کا پلہ بھاری ہے تو بلاشبہ وہ دوسرے صحابہ سے افضل ٹھہر ینگے ورنہ ہم اس بات کے تو قائل نہیں ہو سکتے کہ خواہ نخواہ کسی کو افضل ٹھہرایا جاوے اور یہ خیال کرنا کہ اُن کی فضیلت یہی کافی ہے کہ وہ نواسے تھے یہ خیال کوئی عظمند نہیں کر سکتا.کیونکہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ نواسہ ہونا کچھ بھی چیز نہیں ایک ذرا سا رشتہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی لڑکیاں تھیں اور نوا سے بھی کئی تھے کس کس کی ہم پرستش کریں یہ آیت کریمہ ہمارے لئے کافی ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُم مجھے اللہ جل شانہ نے کھو دیا ہے کہ اس زمانہ کا انتقاصدیق اکبر ہے بعض لوگوں کو یہ بھی دھو کہ لگا ہوا ہے کہ وہ مناقب کسی بزرگ کے پیش کر دیا کرتے ہیں.یعنی کہتے ہیں کہ مثلاً حضرت علی کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے اور امام حسین کے حق میں یہ فرمایا ہے.مگر یہ خیال کہ کیونکر اعلیٰ درجہ کی ارادت و محبت کسی کی نسبت پیدا کی جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ در حقیقت طبعی اور حقیقی طور پر اعلی درجہ کی ارادت اور فرمانبرداری بغیر پوری آزمائش کے نہیں ہو سکتی مگر طالب حق اللہ جل شانہ کی
45 پٹھان شیروانی - رئیس مالیر کوٹلہ.اصلی سکونت مالیر کوٹلہ ماتحت لدھیانہ اور پیشہ ریاست و جاگیرداری.“ بقیہ حاشیہ:- توفیق سے کسی قدر قرائن سے بہ تکلف ارادت مندوں کا پیراہن پہن لیتا ہے پھر عنایت الہی سے بمشاہدہ برکات حق وہ تکلف طبیعت میں داخل ہو جاتا ہے.صحابہ اور اہل بیت بھی آہستہ آہستہ مراتب عرفان کو پہنچے ہیں مگر روز ازل سے انہوں نے وہ خدمات اپنے ذمہ لیں جو بجز کامل ارادت کے ظہور میں نہیں آسکتیں اور پھر غائیت درجہ کی دشمنی پر.اور جو مر دمقبول کی کرامات کا ظہور ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب دشمن نادان ایک ولی اللہ سے عداوت شروع کرتا ہے اور ہر وقت قول یا فعل سے اس کے در پے آزار رہتا ہے تو آخر ایک دن غیرت الہی جوش مارتی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.مَنْ عَادَ أَوْلِيَائِی فَقَدْ أَذَنْتُهُ بِالْحَرُب اس لئے یہ اصول نہایت صحیح ہے کہ جس کو کرامات کے دیکھنے کا شوق ہو وہ یا تو غایت درجہ کا دوست ہو جائے یا غایت درجہ کا دشمن.کرامات بازیچہ اطفال نہیں ہے کہ خواہ نخواہ کھیل کی طرح دکھلائی جائیں.اللہ جلشانہ اور اس کے فرمانبردار بندے غیر اللہ سے لا پرواہ ہیں اور خواہ نخواہ بازیگروں کی طرح کرشمہ نمائی ان کی عادت نہیں اگر چہ اولیاء اللہ پر کرامات الہی بارش کی طرح برستی ہیں لیکن غیر جب تک کہ پورا دوست یا پورا دشمن نہ ہوان انوار کے مشاہدہ سے بے نصیب رہتا ہے اس عاجز نے جو سولہ ہزار اشتہا ر کرامت نمائی کے لئے شائع کیا تھا اور شرط کی تھی کہ اگر کوئی مخالف منکرِ کرامات ہو تو ایک برس تک ہمارے دروازہ پر آکر بیٹھے اس کا ہرجہ دیا جائے گا.اس اشتہار سے اللہ جلشانہ کی غرض یہی تھی کہ اس پابندی سے وہی شخص آکر ایک سال تک بیٹھے گا جو تمہارا دشمن ہو گا..اس میں شک نہیں ہے اور خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ یہ عاجز نبیوں کی طرح اصلاح خلق اللہ کے لئے مامور ہوکر آیا ہے اور دل میں بہت خواہش ہے کہ وہ کرامات الہی جو یہ عاجز دیکھ رہا ہے لوگ بھی دیکھیں لیکن خدا تعالیٰ اپنے قانون قدیم سے تجاوز نہیں کرتا دوست کامل بنا چاہیے یا دشمن کامل تا آسمانی نشان ظاہر ہوں ہاں ایک طریق ہے اور اس کو آپ ہی بجالا سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ آپ کا اب تک عقیدہ یہ ہے کہ بارہ اماموں کو جس قدر فضیلت ہے وہ اصحاب کبار کو حاصل نہیں غائیت درجہ اصحاب کبار بادشاہوں کی طرح ہیں اور اس عاجز کا عقیدہ ہے کہ اصحاب کبار کے درجہ کے مقابل بارہ امام کچھ بھی چیز نہیں بلکہ اصحاب کہار کی محبت اُن کا فخر اور ان کے ترقی ایمان کا موجب ہے.قرآن شریف میں بجز ابوبکر صدیق خاص طور پر کسی اہل بیت کا ذکر نہیں اور یہ بھی میرا عقیدہ ہے کہ صحابہ کے بعد جس قدر اہل بیت میں امام ہوئے ہیں وہ اپنے کمالات میں بے مثل نہیں بلکہ ایسے لوگ ہمیشہ ہوتے ہیں یہ میرے لئے شکر کا مقام ہے اور اس بات کا کہنا اپنے محل پر ہے کہ ان اماموں کے درجہ کے موافق ایک میں بھی ہوں اور اس سے زیادہ بھی مجھ پر انعامات الہی ہیں جس کو آپ سمجھ نہیں سکتے اور نہ اس
46 بیعت کا اخفاء بعض مشکلات کے پیش نظر نواب صاحب نے بیعت کو مخفی رکھنے کی درخواست کی بیعت مخفی رکھنے کے وجو ہات یہ تھے کہ آپ کی سب جائیداد کورٹ آف وارڈ کے سپرد تھی اور ابھی کورٹ نہیں گھلا تھا اس لئے صدہا مشکلات سد راہ تھیں لیکن حضور نے یہی ارشاد فرمایا کہ اس اخفاء کو اس وقت تک رکھیں جب تک کوئی اشد مصلحت در پیش ہو.یہ زمانہ ایسا تھا کہ نوابوں اور رؤساء کو ارباب بست و کشاد کا چاپلوس اور ہر امر میں نبض شناس ہونا پڑتا تھا.ورنہ صدہا الجھنیں پیدا ہونے کا قوی امکان رہتا تھا.مزید برآں ابتدا میں حکومتِ وقت حضور کے دعادی پر حسن ظن نہ رکھتی تھی.۱۸۹۱ء میں دعوئی مہدویت کی بناء پر حکومت گونا گوں شبہات وشکوک میں مبتلا ہوئی.کیونکہ حکومت برطانیہ اس سے قبل سوڈانی مہدی کی وجہ سے کافی پریشانی اٹھا چکی تھی.اور اس قسم کے نئے باب کے آغاز سے اعضاء حکومت بیحد خوف و ہراس محسوس کرتے تھے چونکہ اخفاء میں ایک قسم کا ضعف اور اظہار میں نصیحت للخلق ہوتی ہے اس لئے حضور نے تحریر فرمایا کہ گو آپ کی اجازت کے بغیر کسی کو بیعت کی خبر نہیں دی جائے گی لیکن مناسب ہے کہ اخفاء صرف اسی وقت تک رکھیں کہ جب تک کوئی اشد مصلحت در پیش ہو.چنانچہ حضور تحریر فرماتے ہیں : بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم بخدمت اخویم عزیزی خانصاحب محمد علی خاں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بقیہ حاشیہ زمانے کی خلقت سمجھ سکتی ہے.اب اگر میں اس دعوے میں راستی پر نہیں ہوں تو میری طرف سے عام منادی ہے کہ شیعوں کے بزرگ لوگ میرے اشتہار کے موافق مباہلہ اور مقابلہ کے لئے آویں.بے شک اگر وہ آویں تو اللہ جلشانہ ان کی پردہ دری کرے گا.اور اپنے بندہ کی تائید میں وہ انوار دکھلائے گا جو ہمیشہ اپنے خادم بندوں کے لئے دکھلاتا رہا ہے اس طریق سے آپ کرامات کو مشاہدہ کر سکتے ہیں.اور آپ مقدرت رکھتے ہیں کہ کسی شیعہ کے مجتہد کو دو چار ہزار روپیہ دے کر میرے دروازے پر بٹھا دیں اور مقابلہ کرا دیں.تاسیہ روی شود هر که در دنش باشد.ے موافق شرائط مطبوعہ کے تحریری بیعت بھی ہوسکتی ہے اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے وقت صفا میسر آیا تو انشاء اللہ آپ سب صاحبان کے لئے دُعا کرونگا.( والسلام علی من اتبع الہدی).خاکسار مرزا غلام احمد نوٹ : سب سے پہلے یہ مکتوب تشخیز الاذہان جلد نمبر ا تاس شائع ہوا اور وہیں سے یہاں نقل کیا گیا ہے.گو بعد میں بدر جلد نمبر ۲۴ صفحه ۳ پر چه ۰۶-۶-۱۴ (۳) پرچه ۰۶-۶-۱۴ میں ایک حصہ شائع ہوا اور مکتوبات امد یہ جلد پنجم نمبر نیم نمبر۱۹۴/۱۰ پر درج ہے.
47 عنایت نامه متضمن به دخول در سلسلہ بیعت این عاجز موصول ہوا.دعا ثبات و استقامت در حق آں عزیز کی گئی.ثبتكم على التقوى والايمان وفتح لكم ابواب الخلوص والمحبة والعرفان امين ثم امين اشتہار شرائط بیعت بھیجا جاتا ہے.جہاں تک وسعت و طاقت ہو اس پر پابند ہوں اور کمزوری کے دور کرنے کے لئے خدائے تعالیٰ سے مدد چاہتے رہیں اپنے رب کریم سے مناجات خلوت کی مداومت رکھیں اور ہمیشہ طلب قوت کرتے رہیں.جس دن کا آنا نہایت ضروری اور جس گھڑی کا وارد ہو جانا نہایت یقینی ہے.اس کو فراموش مت کرو اور ہر وقت ایسے رہو کہ گویا تیار ہو کیونکہ نہیں معلوم کہ وہ دن اور وہ گھڑی کس وقت آجائینگی.سواپنے وقتوں کی محافظت کرو اور اس سے ڈرتے رہو جس کے تصرف میں سب کچھ ہے.جو شخص قبل از بلا ڈرتا ہے اس کو امن دیا جائے گا مگر جو شخص بلا سے پہلے دنیا کی خوشیوں میں مست ہو رہا ہے وہ ہمیشہ کے لئے دُکھوں میں ڈالا جائے گا.جو شخص اس قادر سے ڈرتا ہے.وہ اس کے حکموں کی عزت کرتا ہے پس اس کو عزت دی جائے گی مگر جو شخص نہیں ڈرتا اس کو ذلیل کیا جائے گا.دنیا بہت ہی تھوڑا وقت ہے بے وقوف ہے وہ شخص جو اس سے دل لگاوے اور نادان ہے وہ آدمی جو اس کے لئے اپنے رب کریم کو ناراض کرے.سو ہوشیار ہو جاؤ تا غیب سے قوت پاؤ.دُعا بہت کرتے رہو اور عاجزی کو اپنی خصلت بناؤ.جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زبان سے دعا کی جاتی ہے یہ کچھ بھی چیز نہیں اس میں ہرگز زندگی کی روح نہیں.جب دعا کرو تو بجر صلوٰۃ فریضہ کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جاؤ اور اپنی ہی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک ادنے سے ادنے' بندہ ہوتا ہے خدائے تعالیٰ کے حضور میں دُعا کرو کہ اے رب العالمین ! تیرے احسان کا میں شکر نہیں کر سکتا.تو نہایت رحیم وکریم ہے اور تیرے بے نہایت مجھ پر احسان ہیں.میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں.میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے.میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو.رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے.آمین ثم آمین.آپ کی اس بیعت کی کسی کو خبر نہیں دی گئی.اور بغیر آپ کی اجازت کے نہیں دی
48 جائے گی.لیکن مناسب ہے کہ اس اخفاء کو صرف اسی وقت تک رکھیں کہ جب تک کوئی اشد مصلحت در پیش ہو.کیونکہ اخفا میں ایک قسم کا ضعف ہے اور نیز اظہار سے گویا فعلاً نصیحت للخلق ہے.آپ کے اظہار سے ایک گروہ کو فائدہ دین پہنچتا ہے.اور رغبت الی الخیر پیدا ہوتی ہے خدائے تعالیٰ ہر ایک کام میں مددگار ہو.کہ بغیر اس کی مدد کے انسانی طاقتیں بیچ ہیں.والسلام ☆ خاکسار.مرزا غلام احمد حضرت کی تحریک پر اعلان بیعت ازالہ اوہام کی تصنیف کے وقت حضور نے لکھا کہ مجھ کو اس طرح آپ کا پوشیدہ رکھنا نا مناسب معلوم ہوتا ہے میں آپ کے حالات ازالہ اوہام میں درج کرنا چاہتا ہوں آپ اپنے حالات لکھ کر بھیج دیں.اب ۱۸۹۱ء میں آپ کا کورٹ کھل چکا تھا اور آپ نے جو کہ مومنانہ شجاعت سے حصہ وافر رکھتے تھے ضعف ایمان والی صورت کو اپنے لئے پسند نہ کیا.اور حضور کی تحریک پر آمنا وصدقنا کہتے ہوئے حالات تحریر کر کے بھیج دیئے جو ازالہ اوہام میں درج ہوئے.اس طرح آپ کی بیعت کا اعلان ہو گیا.اس کتاب میں درج ذیل کے حالات مرقوم ہیں: ابتدا میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے موید نہیں ہیں بلکہ مخالفان اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا اور نہ انکار.پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں نے سوچا کہ آپ نے بڑے دعوے کئے ہیں یہ سب جھوٹے نہیں ہو سکتے تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط و کتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریباً اگست میں آپ سے لدھیانہ ملنے گیا تو اس وقت میری تسکین خوب ہوگئی اور آپ کو ایک باخدا بزرگ پایا.اور بقیہ شکوک کا بعد کی خط و کتابت میں میرے دل سے بکتی دھویا گیا.اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثلثہ کی کسر شان نہ کرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو سکتا ہے تب میں نے آپ سے بیعت کر لی.اب میں اپنے آپ کو نسبتاً بہت اچھا پاتا ہوں اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آئندہ کے مکتوبات نمبر ۶- اختلافات کے باعث یہاں مکتوب الحکم جلد ۵ نمبر ۲ پرچہ ۷ ارجنوری ۱۹۰۱ ء سے نقل کیا گیا ہے.
49 49 لئے تو بہ کی ہے مجھ کو آپ کے اخلاق اور طرز معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ ایک سچے مسجد داور دنیا کیلئے رحمت ہیں..(الف) ۷۹۰۷۷۸۹ اس کا ابتدائی حصہ جو خاندانی حالات پر مشتمل ہے پہلے ایک جگہ نقل ہو چکا ہے.(ب) القول الفصل سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نواب صاحب نے دریافت کیا آیا ایک شیعہ حضور کی بیعت کر سکتا ہے.پھر بمقام لدھیانہ ملاقات کی جس کے بعد بیعت کا خط لکھ دیا.چنانچہ مرقوم ہے: میں نے پھر حضرت کو لکھا کہ کیا ایک شیعہ آپ کی بیعت کر سکتا ہے.تو آپ نے تحریر فرمایا کہ ہاں.چنانچہ پھر بمقام لدھیانہ ستمبر یا اکتوبر ۱۸۹۰ء میں حضرت سے ملا.اور اس ملاقات کے بعد میں نے حضرت صاحب کو بیعت کا خط لکھ دیا.مگر ساتھ ہی لکھا کہ اس کا اظہار سر دست نہ ہو.“ لیکن از اہالہ اوہام کا حوالہ بدیں وجہ زیادہ قرین صحت معلوم ہوتا ہے کہ قریب ترین زمانہ میں جب کہ ابھی یہ امر بالکل تازہ تھا قلمبند کر لیا گیا تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ ہوتے ہوئے بیعت میں داخل ہونے کے متعلق مستفسر ا نہ خط نواب صاحب نے لدھیانہ کی ملاقات کے بعد تحریر کیا تھا اس کی تائید نواب صاحب کے ذیل کے بیان سے بھی ہوتی ہے : غالباً ستمبر ۱۸۹۰ء میں میں بمقام لدھیانہ حضرت موصوف سے ملا اور چند معمولی باتیں ہوئیں وہاں سے واپسی پر میں نے حضرت کو لکھا کہ میں شیعہ ہوں گو اس وقت ایک طرح بفضلہ (لفظ تفضلی معلوم ہوتا ہے.ناقل ) شیعہ ہوں یعنی حضرت علیؓ کو دوسرے خلفاء پر فضیلت دیتا ہوں کیا آپ ایسی حالت میں میری بیعت لے سکتے ہیں یا نہیں؟ آپ نے لکھا کہ ہاں ایسی حالت میں آپ بیعت کر سکتے ہیں.باقی اگر ہم ان خدمات کی قدر نہ کریں جو خلفاء راشدین نے کیں تو ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ قرآن وہی قرآن ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا کیونکہ ان کے ذریعہ قرآن و اسلام و حدیث و اعمال ہم تک پہنچے ہیں چنانچہ میں نے غالباً ستمبر یا اکتوبر ۱۸۹۰ء میں بیعت حضرت کی کر لی.ابتدائے خط وکتابت ( میں ) حضرت کو میں نے ایک خط میں لکھا تھا کہ میں شیعہ ہوں اور شیعوں کے ہاں ولایت ختم ہو گئی ہے اس لئے جب ہم کسی کو ولی نہیں مانتے تو بیعت کس طرح کر سکتے ہیں.تو آپ نے لکھا کہ ہم جو ہر نماز میں اهدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت علیھم کی دعا مانگتے ہیں.اس کا کیا فائدہ؟ کیونکہ مے تو پہلے پی گئے اب تو ڈر درہ گیا.تو کیا ہم مٹی کھانے کیلئے رہ گئے؟ اور جب ہمیں انعام ملنا نہیں تو یہ دعا عبث ہے بلکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ انعامات کا سلسلہ اب تک جاری ہے.“ یہ نواب صاحب کی روایت کے اصل الفاظ ہیں جو تغیر الفاظ الفضل مورخہ۳۸-۶-۱۴ میں شائع ہو چکے ہیں
50 گلینڈ ترک شیعیت کب اور کیونکر کی اس میں کوئی شک نہیں کہ نواب صاحب نے شیعہ رہتے ہوئے بیعت کی تھی چنانچہ ازالہ اوہام والے بیان میں اس کا ذکر ہے.دوسری جگہ فرماتے ہیں: حضرت نے لکھا کہ مجھے کو اس طرح آپ کا پوشیدہ رکھنا نا مناسب معلوم ہوتا ہے میں آپ کے حالات ازالہ اوہام میں درج کرنا چاہتا ہوں.آپ اپنے حالات لکھ کر بھیج دیں.چنانچہ میں نے حالات لکھ دیئے اور باوجود بیعت اور تعلق حضرت اقدس میں ۱۸۹۳ء تک شیعہ ہی کہلاتا رہا.نماز وغیرہ بھی سب ان کے ساتھ ہی ادا کرتا تھا.بلکہ یہاں قادیان اس اثناء میں آیا تو نماز علیحدہ ہی پڑھتا تھا ۱۸۹۳ء سے میں نے شیعیت کو ترک کیا ہے.“ اس خصوص میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے حضرت مولوی صاحب ( خلیفہ اول) کے نام مکتوب مورخہ ۱۲ فروری ۱۸۹۱ء میں یوں ذکر آتا ہے: چند روز سے نواب محمد علی خاں صاحب رئیس کو ٹلہ قادیان میں آئے ہوئے ہیں.جو ان صالح الخیال مستقل آدمی ہے.انٹرنس تک تحصیل انگریزی بھی ہے.میرے رسالوں کو دیکھنے سے کچھ شک و شبہ نہیں کیا بلکہ قوت ایمانی میں ترقی کی حالانکہ وہ دراصل شیعہ مذہب ہیں مگر شیعوں کے تمام فضول اور ناجائز اقوال سے دستبردار ہو گئے ہیں.صحابہ کی نسبت اعتقاد نیک رکھتے ہیں شاید دو روز تک اور اسی جگہ ٹھہریں.مرزا خدا بخش صاحب ان کے ساتھ ہیں.الحمد للہ اس شخص کو خوب مستقل پایا اور دلیر طبع آدمی ہے.۴۳ شیعیت کیونکر ترک کی اس بارہ میں نواب صاحب تحریر فرماتے ہیں: ۱۸۹۳ء میں میں نے خاص طور پر سے شیعیت کی بابت تحقیقات کی اور شیعیت کوترک کر دیا.“ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا مکتوب اور نواب صاحب کو قادیان آنے کی تحریک ۱۸۹۲ء میں نواب صاحب نے حضرت کی خدمت اقدس میں ایک خط تحریر کیا جس میں ذیل کی عبارت
51 لکھ کر بعض سوالات کئے ہیں: جب سے کہ دعوئی مثیل مسیح کی اشاعت ہوئی ہے ہر ایک آدمی ایک عجیب خلجان میں ہو رہا ہے گو بعض خواص کی یہ حالت ہو کہ ان کو کوئی شک پیدا نہ ہوا ہو.بندہ جھی سے شش و پنج میں ہے.کبھی آپ کا دعویٰ ٹھیک معلوم ہوتا ہے اور کبھی تذبذب کی حالت ہو جاتی ہے گویا قبض اور بسط کی سی کفیت ہے اب قال وقال بہت ہو چکی اپنی تو اس سے اطمینان نہیں ہوتی کیونکہ مخالف اور موافق باتوں نے دل کی عجب کیفیت کردی ہے بلکہ بعض اوقات اسلام کے سچے ہونے میں شبہ ہو جاتا ہے.وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جس نے ہماری راہ میں کوشش کی ہم اس کو اپنا راستہ دکھاتے ہیں.اور دوسری طرف یہ حیرانی ہے کہ وہ وعدہ پورا نہیں ہوتا.گو کسی نے استخارہ نہ کیا ہو لیکن سینکڑوں آدمی دل و جان سے کوشاں ہیں کہ ہم کو سیدھا راستہ معلوم ہو جاوے اور سچائی ظاہر ہو.“ حضوڑ اس خط کے متعلق تحریر فرماتے ہیں ذیل میں ہم خط محجی نواب سردار محمد علی خاں صاحب کا لکھتے ہیں.یہ خط نواب صاحب موصوف نے کسی اور طالب حق کی تحریک سے لکھا ہے.ورنہ خودنواب صاحب اس عاجز سے ایک خاص تعلق اخلاص و محبت رکھتے ہیں اور اس سلسلہ کے حامی 66 بدل و جان ہیں.“ بعد ازاں حضور اپنے جواب کے متعلق نواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: اس خط کو کم سے کم تین مرتبہ غور سے پڑھیں یہ خط اگر چہ بظاہر آپ کے نام ہے لیکن اسکی بہت سی عبارتیں دوسروں کے اوہام دور کرنے کے لئے ہیں.گو بظا ہر آپ ہی مخاطب ہیں.۴۷ سو چونکہ بعض باتیں نواب صاحب سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ستائیس صفحات کے لمبے مکتوب میں سے بعض ضروری اقتباس درج ذیل کئے جاتے ہیں.کہ ان سے نواب صاحب کا اخلاص اور حضور کی ان کی طرف خاص توجہ کا علم ہوتا ہے: ایک ہفتہ سے بلکہ عشرہ سے زیادہ گذر گیا کہ آں محب کا محبت نامہ پہنچا تھا چونکہ اس میں امور مستفسرہ بہت تھے اور مجھے باعث تالیف کتاب آئینہ کمالات اسلام
52 بغایت درجہ کی فرصت تھی کیونکہ ہر روز مضمون طیار کر کے دیا جاتا ہے.اس لئے میں جواب لکھنے سے معذور رہا اور آپ کی طرف سے تقاضا بھی نہیں تھا.آج مجھے خیال آیا کہ چونکہ آپ ایک خالص محب ہیں اور آپ کا استفسار سراسر نیک ارادہ اور نیک نیت پر مبنی ہے اس لئے بعض امور سے آپ کو آگاہ کرنا اور آپ کے لئے جو بہتر ہے اس سے اطلاع دینا ایک امر ضروری ہے.۴۸ مباہلہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے نواب صاحب کے ارادہ کا توارد ہوا.جو کہ آپ کی طہارت قلب اور صفائی باطن پر دال ہے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں: وو مباہلہ کی نسبت آپ کے خط سے چند روز پہلے مجھے خود بخود اللہ جل شانہ نے اجازت دیدی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے ارادہ سے آپ کے ارادہ کا تو ارد ہے کہ آپ کی طبیعت میں یہ جنبش پیدا ہوئی." نیز حضور فرماتے ہیں: مجھے دلی خواہش ہے اور میں دُعا کرتا ہوں کہ آپ کو یہ بات سمجھ آجاوے کہ در حقیقت ایمان کے مفہوم کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ پوشیدہ چیزوں کو مان لیا جائے اور جب ایک چیز کی حقیقت ہر طرح سے کھل جائے یا ایک وافر حصہ اس کا کھل جائے تو پھر اس کا مان لینا ایمان میں داخل نہیں.حضرت نواب صاحب کے استخارہ کے متعلق دعا کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: میں یہ عہد نہیں کر سکتا کہ ہر یک شخص کو ہر ایک حالت نیک یا بد میں ضرور خواب آجائے گی.لیکن آپ کی نسبت میں کہتا ہوں کہ آپ چالیس روز تک رو بھت ہوکر بشرائط مندرجہ نشان آسمانی استخارہ کریں تو میں آپ کے لئے دعا کروں گا.کیا خوب ہو کہ یہ استخارہ میرے روبرو ہو.تا میری توجہ زیادہ ہو.آپ پر کچھ ہی مشکل نہیں لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں.مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطر.کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی.حضور نواب صاحب کو اس امر کی مزید ترغیب دیتے ہوئے کہ وہ حضوڑ کے پاس رہ کر استخارہ کریں.تحریر فرماتے ہیں: بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص سچی خواب دیکھتا ہے اور خدا تعالیٰ اس
53 کے کسی مجلسی کو بطور گواہ ٹھہرانے کے وہی خواب یا اس کے کوئی ہم شکل دکھلا دیتا ہے تب اس خواب کو دوسرے کی خواب سے قوت مل جاتی ہے.سو بہتر ہے کہ آپ کسی اپنے دوست کو رفیق خواب کر لیں جو صلاحیت اور تقویٰ رکھتا ہو اور اس کو کہد ہیں کہ جب کوئی خواب دیکھے لکھ کر دکھلا دے اور آپ بھی لکھ کر دکھلا دیں.تب امید ہے کہ اگر سچی خواب آئے گی تو اس کے کئی اجزاء آپ کی خواب میں اور اس رفیق کی خواب میں مشترک ہونگے اور ایسا اشتراک ہوگا کہ آپ تعجب کرینگے.افسوس کہ اگر میرے رو برو آپ ایسا ارادہ کر سکتے تو میں غالب امید رکھتا تھا کہ کچھ عجو بہ قدرت ظاہر ہوتا.میری حالت ایک عجیب حالت ہے بعض دن ایسے گزرتے ہیں کہ الہامات الہی بارش کی طرح برستے ہیں اور بعض پیشگوئیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک منٹ کے اندر ہی پوری ہو جاتی ہیں.اور بعض مدت دراز کے بعد پوری ہوتی ہیں.صحبت میں رہنے والا محروم نہیں رہ سکتا.کچھ نہ کچھ تائید الہی دیکھ لیتا ہے جو اس کی باریک بین نظر کے لئے کافی ہوتی ہے.اب میں متواتر دیکھتا ہوں کہ کوئی امر ہونے والا ہے میں قطعا نہیں کہہ سکتا کہ وہ جلد یا دیر سے ہوگا مگر آسمان پر کچھ طیاری ہورہی ہے تا خدائے تعالیٰ بدظنوں کو ملزم اور رسوا کرے.کوئی دن یارات کم گذرتی ہے جو مجھ کو اطمینان نہیں دیا جاتا یہی خط لکھتے لکھتے یہ الہام ہوا ہے يُحى الحق ويكشف الصدق ويخسر الخاسرون ياتي قمر الانبياء امرك يتأتى ان ربك فعّال لما يريد - يعنی حق ظاہر ہوا اور صدق کھل جائیگا اور جنہوں نے بدظنوں سے زبان اُٹھایا وہ ذلت اور رسوائی کا زبان بھی اٹھائیں گے.نبیوں کا چاند آئیگا اور تیرا کام ظاہر ہو جائے گا تیرا رب جو چاہتا ہے کرتا ہے.مگر میں نہیں جانتا کہ یہ کب ہوگا.اور جو شخص جلدی کرتا ہے خدائے تعالیٰ کو اس کی ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں.وہ غنی ہے دوسرے کا محتاج نہیں اپنے کاموں کو حکمت اور مصلحت سے کرتا ہے.“ مکرر میں آپ کو کہتا ہوں کہ اگر آپ چالیس روز تک میری صحبت میں آجائیں تو مجھے یقین ہے کہ میرے قرب و جوار کا اثر آپ پر پڑے اور اگرچہ میں عہد کے طور پر نہیں کہ سکتا مگر میرادل شہادت دیتا ہے کہ کچھ ظاہر ہوگا جو آپ کو کھینچ کر یقین کی طرف لے جائیگا اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کچھ ہونے والا ہے.مگر ابھی خدا تعالیٰ اپنی سنت قدیمہ سے دوگر وہ بنانے چاہتا ہے ایک وہ گروہ جو نیک ظنی کی برکت سے میری طرف آتے جاتے
54 ہیں.دوسرے وہ گروہ جو بدظنی کی شامت سے مجھ سے دُور پڑتے جاتے ہیں.پہلا جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء 66 ۵۳ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے ۱۸۹۱ء میں جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی جا چکی تھی جس میں پچھتر احباب نے شمولیت کی تھی.حضور نے ۳۰ دسمبر ۱۸۹۱ء کو ایک اعلان شائع فرمایا جو کتاب آسمانی فیصلہ میں موجود ہے اس میں ان جلسوں کی غرض و غایت حضور نے یہ بیان فرمائی ہے: اور چونکہ ہر یک کے لئے بباعث ضعف فطرت یا کئی مقدرت یا بعد مسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ مصلحت معلوم صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اُٹھا کر ملاقات کے لئے آئے.لہذا قرینِ مع ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے.بشرط صحت و فرصت و عدم موانع تو یہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں.سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ ۲۷ دسمبر سے ۲۹؍ دسمبر تک قرار پائے.یعنی آج کے دن کے بعد جو۳۰ دسمبر ۱۸۹۱ ء ہے آئندہ اگر ہماری زندگی میں ۲۷ / دسمبر کی تاریخ آجاوے تو حتی الوسع تمام دوستوں کو محض اللہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آجانا چاہیئے.اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں.اور نیز ان دوستوں کے لئے خاص دُعا ئیں اور خاص توجہ ہوگی.اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدا تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے.اور پاک تبدیلی ان میں بخشے.اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر ایک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہونگے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تو ڈ دو تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائیگا.اس جلسہ میں اس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی.اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور ان کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اُٹھا دینے کے لئے بدرگاہ حضرت عزت جل شانہ کوشش کی جائے گی اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے اور کم مقدرت احباب کے لئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہی سے اس جلسہ میں حاضر ہونے کا فکر رکھیں.اور اگر تدبیر اور قناعت شعاری سے کچھ تھوڑا تھوڑا سر مایہ خرچ سفر کے لئے ہر روز یاماہ بماہ جمع کرتے جائیں اور الگ رکھتے جائیں تو بلا دقت سرمایہ سفر میتر آوے گا.گویا یہ سفر مفت میسر ہو جائیگا.۵۴
55 جلس ۱۸۹۲ء کن حالات میں ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے پر علماء کہلانے والوں نے جوشور وشتر بر پا کیا اور عوام کو حضور کے خلاف برانگیختہ کرنے کے لئے کذب بیانی اور دروغگو ئی جیسے گندے ہتھیار استعمال کرنے شروع کئے.یہ امر کسی پر مخفی نہیں حتی کہ آپ یہ سن کر حیران ہو نگے اور تو اور ایک معین تاریخ پر جلسہ کے انقعاد کو بھی بدعت قرار دیا گیا.چنانچہ حضوڑ نے ۷ اردسمبر ۱۸۹۲ء کو اس فتوی کی تردید میں ایک اشتہار بعنوان ” قیامت کی نشانی شائع کیا.اس زمانہ کے حالات کو سامنے لانے کے لئے اس اشتہار کا ایک بہت ہی مختصر اقتباس درج ذیل کیا جاتا ہے.حضور فرماتے ہیں : چونکه سال گذشتہ میں بمشورہ اکثر احباب یہ بات قرار پائی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگ کم سے کم ایک مرتبہ سال میں یہ نیت استفادہ ضروریات دین و مشوره اعلاء کلمه اسلام و شرع متین اس عاجز سے ملاقات کریں اور اس مشورہ کے وقت یہ بھی قرین مصلحت سمجھ کر مقرر کیا گیا تھا کہ ۲۷ / دسمبر کو اس غرض سے قادیان میں آنا انسب اور اولی ہے کیونکہ یہ تعطیل کے دن ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ ان دنوں میں فرصت اور فراغت رکھتے ہیں اور باعث ایام سرمایہ دن سفر کے مناسب حال بھی ہیں.چنانچہ احباب اور مخلصین نے اس مشورہ پر اتفاق کر کے خوشی ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ یہ بہتر ہے اب ۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کو اسی بناء پر اس عاجز نے ایک خط بطور اشتہار کے تمام مخلصوں کی خدمت میں بھیجا جو ریاض ہند پر لیس قادیان میں چھپا تھا جس کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض یہ بھی ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو با لمواجہ دینی فائدہ اُٹھانے کا موقعہ ملے.اور ان کے معلومات دینی وسیع ہوں اور معرفت ترقی پذیر ہو.اب سنا گیا ہے کہ اس کا رروائی کو بدعت بلکہ معصیت ثابت کرنے کے لئے ایک بزرگ نے ہمت کر کے ایک مولوی صاحب کی خدمت میں جو رحیم بخش نام رکھتے ہیں اور لاہور میں چینیاں والی مسجد کے امام ہیں ایک استفتاء پیش کیا جس کا یہ مطلب تھا کہ ایسے جلسہ پر روز معین پر دور سے سفر کر کے جانے میں کیا حکم ہے اور ایسے جلسہ کے لئے اگر کوئی مکان بطور خانقاہ کے تعمیر کیا جائے تو ایسے مدد دینے والے کی نسبت کیا حکم ہے.استفتاء میں یہ آخری خبر اس لئے بڑھائی گئی جو مستفتی صاحب نے کسی سے سُنا ہوگا تمی فی اللہ اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب نے اس مجمع مسلمانوں کے لئے اپنے صرف سے جو غالباً سات سو روپیہ یا کچھ اس سے زیادہ ہو گا.قادیان میں ایک مکان بنوایا جس کی امداد خرچ میں اخویم حکیم فضل دین صاحب بھیروی نے بھی تین چار سو روپیہ دیا ہے.اس استفتاء کے جواب میں میاں رحیم بخش صاحب نے ایک طول طویل عبارت ایک غیر متعلق حدیث شد و حال کے حوالہ سے لکھی ہے جس کے مختصر الفاظ
56 یہ ہیں.کہ ایسے جلسہ پر جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور ایسے جلسوں کا تجویز کرنا محدثات میں سے ہے جس کے لئے کتاب اور سُنت میں کوئی شہادت نہیں.اور جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے.“ حضور اس اشتہار میں شرح وبسط کے ساتھ اس فتویٰ کی تردید میں لکھتے ہیں کہ احادیث طـلــب الـعـلـم فريضة على كل مسلم ومسلمة اور اطلبوا العلم ولو كان بالصین کی رُو سے حصول علم دین کے لئے بھی سفر فرض قرار دیا گیا ہے اور حضرت امام بخاری کے سفر طلب علم حدیث کے لئے مشہور ہیں.زیارتِ صالحین کے لئے بھی سفر کیا جاتا ہے جیسے حضرت عمر نے حضرت اویس قرنی کی ملاقات کے لئے سفر کیا اور اپنے مرشدوں سے ملنے کے لئے اولیائے کبار مثلاً حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ".حضرت بایزید بسطامی.حضرت معین الدین چشتی اور حضرت مجدد الف ثانی نے سفر کئے.اس طرح اقارب کی ملاقات تلاش معاش شادی پیغام رسانی، جہاد، مباحثہ ، مباہلہ ، (قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ کے مطابق ) عجائبات دنیا کے دیکھنے ، عیادت، علاج کرانے ، مقدمہ اور تجارت کے لئے بھی سفر کئے جاتے ہیں وغیرہ.حضور کی مشرح اور مدل تردید ہی اس امر پر شاہد ناطق ہے اس زمانہ میں کس قسم کی مخالفت ہو رہی تھی اور وہ احباب جو باوجود ان حالات کے جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شرکت کے لئے قادیان آئے یقیناً مخالفت کے اس طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے جلسہ کے لئے آئے بعد ازاں بھی جو ایمان اور اخلاص پر قائم رہے ان کا مقام بہت ہی بلند ہے.اس جلسہ میں شریک ہونے والوں کی تعداد پانصد تھی.ان میں سے سوا تین صد مخلصین کے اسماء درج کتاب کئے گئے ہیں.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کا پورا کرنے والا قرار دیا ہے جیسا کہ آگے ذکر آئیگا.حضرت مسیح موعود کی تحریک سے نواب صاحب کی جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شمولیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مکتوب میں جس کا قبل ازیں ذکر ہو چکا ہے نواب صاحب کو بار بار تحریک فرمائی کہ کچھ عرصہ حضوڑ کی صحبت میں آکر رہیں.چنانچہ حضور اس مکتوب کو ذیل کی سطور سے ختم کرتے ہیں.میں نہیں جانتا کہ میرے اس خط کا آپ کے دل پر کیا اثر پڑیگا مگر میں نے ایک واقعی نقشہ آپ کے سامنے کھینچ کر دکھلا دیا ہے.ملاقات نہایت ضروری ہے.میں چاہتا ہوں کہ جس طرح ہو سکے ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۲ء کے جلسہ میں ضرور تشریف لاویں.انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے بہت مفید ہو گا.اور جو للہ سفر کیا جاتا ہے وہ عند اللہ ایک قسم کی عبادت کے ہوتا ہے
57 ۵۶ اب دعا پر ختم کرتا ہوں ایدكم الله من عنده ورحمكم في الدنيا والآخرة “ اس زمانہ کے امراء رؤساء کا طور وطریق کسی سے مخفی نہیں ان کا سارا دھیان اور سارا وقت صرف عیش و نغم ہوتا ہے.عمر بھر میں چندلحات فی سبیل اللہ صرف کرنا ان کے لئے موت احمر سے زیادہ وبالِ جان ہوتے ہیں.اس طبقہ میں خدا پرست لوگوں کا وجود کبریت احمر سے بھی نایاب تر ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے نواب صاحب قادیان کی گمنام بستی میں محض حصول رضاء الہی کے جذبہ سے معمور ہو کر پہلے تحقیق حق کے لئے ۱۸۹۰ء میں قادیان آئے.اسی طرح آپ جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء کے موقعہ پر تشریف لائے اور آپ جیسے ناز و نعمت کے پروردہ شخص نے جلسہ کے اوقات جو متعدد ساعات پر ممتد تھے پورے انشراح وانبساط کے ساتھ نیچے فرش پر مسلسل بیٹھ کر گزارے اور یہ بات حصول رضاء الہی کے جذ بہ سے معموریت کے بغیر ممکن نہ تھی.کوائف جلسه سالانه ۱۸۹۲ء ہم ذیل میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء کے کوائف پیر سراج الحق صاحب نعمانی رضی اللہ عنہ کی زبانی درج کر دیتے ہیں فرماتے ہیں: تین سو تیرہ صحابہ کا جلسہ ایک بڑے جلسہ پر جس میں تین سو تیرہ احباب علاوہ مخالفوں کے یا ان کے جو حسن ظن رکھتے تھے دار الامان قادیان میں حاضر ہوئے تھے.ایک اونچا تخت چوبی حضرت اقدس علیہ السلام کے لئے بچھایا گیا اور اس پر ایک قالین کا فرش کرایا گیا اور آپ اس پر جلوہ افروز ہوئے اور چاروں طرف احباب فرش پر بیٹھے.چاند کے گرد تارے.سامنے حضرت خلیفہ اسی " یعنی شمال کی طرف اور مغرب کی طرف حضرت مولانا مولوی برہان الدین جہلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تخت کے قریب گوشہ مغرب و جنوب میں یہ عاجز اور اس عاجز کے داہنی مجھے یہ بات ۳۱۳ صحابہ میں سے میاں محمد الدین صاحب و اصلبانی * درویش نے منشی محمد جلال الدین صاحب بلانوی رضی اللہ عنہما سے روایت سنائی اور یہ بھی ان سے روایتا مجھے سنایا کہ جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ ء اس جگہ ہوا تھا جہاں مکرم ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کے مکان کے ملحق مہمان خانہ کا چو بارہ ہے.حضور کے لئے کرسی لائی گئی تو فرمایا از بهر ما گری که ماموریم خدمت را افسوس میاں صاحب موصوف طباعت کتابت کے دوران میں ۵۱-۱۱-۱ کو ہمیں داغ مفارقت دے گئے.انا اللہ وانا الیه راجعون.
58 طرف حضرت مخدوم مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب فاضل امروہی تشریف رکھتے تھے.اور حضرت اقدس علیہ السلام نے توضیح مرام کتاب کا وہ مقام نکالا کہ جس پر مولویوں نے ملائکہ کی بحث پر نادانی سے اعتراض کیا تھا اور تقریر شرح وبسط سے فرمائی.حضرت فاضل امر وہی پر ایک رقت اس وقت ایسی طاری ہوئی کہ جس سے حاضرین کے دل بھی پگھل گئے اور سب پر عجیب و غریب کیفیت طاری ہوگئی اس تقریر پر تاثیر سے بعض کے دلوں میں جو شک و شبہ تھے وہ نکل گئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ دیکھو میر ادعولی مہدی ومسیح موعود ہونے کا میری طرف سے نہیں ہے جیسا کہ تمام انبیاء اللہ علیہم السلام کا دعویٰ نبوت و رسالت اپنی طرف سے نہیں تھا ان کو خدا نے فرمایا تھا اور مجھ کو بھی اپنی اسی سنت کے موافق علی منہاج النبوت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.میں نے حسب ارشاد خداوندی کیا ہے میری اس میں کوئی خواہش یا بناوٹ نہیں ہے.مخالف لوگ اگر غور کریں اور اپنے بستروں پر لیٹ کر اور تخلیوں میں بیٹھ کر سوچیں تو ان کو معلوم ہو جائیگا کہ جیسا انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا دعوئی اللہ تعالیٰ کے حکم اور فرمودہ سے تھا بعینہ اسی طرح میرا دعوی عین وقت پر اللہ جل شانہ کے فرمودہ سے ہے اور لوگوں کے سامنے اتنی نظیریں متقدمین کی موجود ہیں کہ اگر سب ایک جگہ لکھی جائیں تو لکھ نہیں سکتے ہم تھک جائیں مگر وہ ختم نہ ہوں.پس ان کو ان نظائر پر غور کرنے سے صاف صاف کھل جاوے اور ظاہر و باور ہو جائے کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اپنے دعویٰ میں کا ذب نہیں مفتری نہیں ہوں.بلکہ صادق ہوں راستباز ہوں.“ اس جلسہ پر حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اول) نے وفات اور حقیقت نزول عیسے علیہ السلام کے متعلق تقریر فرمائی.پھر حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی نے ایک قصیدہ مدحیہ سُنایا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقریر فرمائی.جس میں علماء کی ان چند باتوں کا جواب دیا جو ان کے نزدیک بنیاد تکفیر ہیں اور آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے اپنے مسیح موعود ہونے کا ثبوت دیا.اور مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی وفات کی بابت ۱۸۸۸ء کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر کیا.نیز جماعت کو باہمی محبت اور تقویٰ وطہارت کے متعلق نصائح کیں.اسی طرح اس جلسہ میں یورپ و امریکہ میں اسلام کی تبلیغ کے لئے ایک رسالہ کی تالیف اور قادیان میں اپنا مطبع قائم کرنے اور اشاعت اسلام کے لئے ایک اخبار جاری کرنے کے متعلق فیصلے ہوئے اور ان احباب کی چندہ کی فہرست مرتب کی گئی جو وہ اعانت مطبع کے طور پر بھیجتے رہیں گے.حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ جو اس وقت تک سلسلہ احمدیہ کے سخت مخالف تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اصرار پر جلسہ پر تشریف لائے اور حضوڑ کے اخلاق کریمانہ نے ان کے قلب پر خاص تجلی فرمائی اور وہ دشمن آئے تھے دوست نہیں بلکہ خادم بن گئے گوان کا مقام بوجہ رشتہ بلند
59 تھا.اُنہوں نے بیعت کر لی.حضرت نانا جان نے اس جلسہ کی کیفیت رقم فرماتے ہوئے حضور کی صداقت کے متعلق بہت سے دلائل بیان کئے ہیں.ان میں تحریر فرماتے ہیں: اس جلسہ پر تین سو سے زیادہ شریف اور نیک لوگ جمع تھے جن کے چہروں سے مسلمانی نور ٹپک رہا تھا.امیر ، غریب، نواب، انجئیر ،تھانہ دار، تحصیلدار، زمیندار، سوداگر، حکیم غرض ہر قسم کے لوگ تھے.مرزا صاحب کے سینکڑوں ایسے دوست ہیں جو مرزا صاحب پر دل و جان سے قربان ہیں.اختلاف کا تو کیا ذکر ہے رو برواُف تک نہیں کرتے.“ سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے!.....اب مولوی صاحب غور فرما دیں کہ یہ کیا، تھر پڑ گئے کہ مولوی اور خصوصاً مولوی محمد حسین صاحب سر آمد علماء پنجاب ( بزعم خود) سے لوگوں کو اس قدر نفرت کہ جس کے باعث مولوی صاحب کو لاہور چھوڑنا پڑا اور مرزا صاحب کے پاس ( جو بزعم مولوی صاحب کا فر بلکہ اکفر اور دجال ہیں) گھر بیٹھے لاہور...بمبئی.ممالک شمال ومغرب اودھ.مکہ معظمہ وغیرہ بلاد سے لوگ گھر سے بوریا بدھنا باندھے چلے آتے ہیں.پھر آنے والے بدعتی نہیں مشرک نہیں.جاہل نہیں.کنگال نہیں بلکہ موحد،اہلحدیث ،مولوی، مفتی ، پیرزادے، شریف، امیر، نواب ، وکیل اب ذرا سوچنے کا مقام ہے کہ باوجود مولوی محمد حسین صاحب کے گرانے کے اور اکثر مولویوں سے کفر کے فتوے پر مُہر لگوانے کے اللہ جل شانہ نے مرزا صاحب کو کس قدر چڑہایا اور کس قدر خلق خدا کے دلوں کو متوجہ کر دیا کہ اپنا آرام چھوڑ کر وطن سے جد اہوکر روپیہ خرچ کر کے قادیان میں آکر زمین پر سوتے بلکہ ریل میں ایک دورات جاگے بھی ضرور ہونگے...میں نے ایک شخص کے بھی منہ سے کسی قسم کی شکایت نہیں سنی.مرزا صاحب کے گرد ایسے جمع ہوتے تھے جیسے شمع کے گرد پروانے.جب مرزا صاحب کچھ فرماتے تھے تو ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے.“ بر خلاف اس کے مرزا صاحب نے شرقاً غر با مخالفین اسلام کو دعوت اسلام کی اور ایسا نیچا کر دکھایا کہ کوئی مقابل آنے جو گا نہیں رہا.اکثر نیچریوں کو جو مولوی صاحبان سے ہرگز اصلاح پر نہیں آسکے تو یہ کرائی اور پنجاب سے نیچریت کا اثر بہت کم کر دیا اب وہی نیچری ہیں جو مسلمان صورت بھی نہیں تھے مرزا صاحب کے ملنے سے مومن سیرت ہو گئے.اہلکاروں.تھانہ داروں نے رشوتیں لینی چھوڑ دیں نشہ بازوں نے نشے ترک کر دیئے کئی لوگوں نے حلقہ ترک کر دیا.مرزا صاحب کے شیعہ مریدوں نے تیرا ترک کر دیا.صحابہ سے محبت کرنے لگے.تعزیہ داری مرثیہ خوانی موقوف کردی.یہ چار ورقہ رپورٹ آئینہ کمالات اسلام کے آخر پر درج ہے اور دیگر حالات جلسہ سالانہ بھی اسی کتاب میں مرقوم ہیں.
60 60 اس وقت کی قادیان اور جلسہ کے متعلق نواب صاحب کی زبانی سنئے فرماتے ہیں: سمبر۱۸۹۲ء میں قادیان گیا تو مدرسہ احمد یہ مہمان خانہ اور حضرت خلیفۃ امسیح اول کے مکان کی بنیادیں رکھی ہوئی تھیں اور یہ ایک چبوترہ سالمبا بنا ہوا تھا.اسی پر جلسہ ہوا تھا.اور کسی وقت گول کمرہ کے سامنے جلسہ ہوتا تھا یہ چبوترہ بھرتی ڈھاب میں سے ڈال کر بنایا گیا تھا.اور اس کے بعد جتنے مکان بنے ہیں بھرتی ڈال کر بنائے گئے ہیں.“ نیز فرماتے ہیں: دسمبر ۱۸۹۲ء میں پہلے جلسہ میں شریک ہوا.ایک روز میں نے حضرت سے علیحدہ (بات) کرنی چاہی گو بہت تنہائی نہ تھی.مگر حضور کو بہت پریشان پایا یعنی حضرت کو علیحد گی میں اور خُفیہ طور سے بات کرنی پسند نہ تھی.آپ کی خلوت اور جلوت میں ایک ہی بات ہوتی تھی.اسی جلسه ۱۸۹۲ء میں حضرت بعد نماز مغرب میرے مکان پر ہی تشریف لے آتے تھے اور مختلف امور پر تقریر ہوتی رہتی تھی.احباب وہاں جمع ہو جاتے تھے.اور کھانا بھی وہاں ہی کھاتے تھے.نماز عشاء تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا.میں علماء اور بزرگانِ خاندان کے سامنے دوزانو بیٹھنے کا عادی تھا بسا اوقات گھٹنے دُکھنے لگتے.مگر یہاں مجلس کی حالت نہایت بے تکلفانہ ہوتی تھی جس کو جس طرح آرام ہوتا بیٹھتا تھا.بعض پچھلی طرف لیٹ بھی جاتے مگر سب کے دل میں عظمت.ادب اور محبت ہوتی تھی.چونکہ کوئی تکلف نہ ہوتا تھا اور کوئی تکلیف نہ ہوتی تھی اس لئے یہی جی چاہتا تھا کہ حضرت تقریر فرماتے رہیں اور ہم میں موجود ہیں.مگر اذان عشاء سے جلسہ برخاست ہوتا تھا.“ حضرت نواب صاحب کے مکان پر تقریر وغیرہ کی تصدیق حضرت نانا جان کے بیان مندرجہ آئینہ کمالات اسلام سے بھی ہوتی ہے جو صرف ایک دن یعنی ۲۷ / دسمبر کی کارروائی کے متعلق ہے.فرماتے ہیں: رات کو مرزا صاحب نے نواب صاحب کے مقام پر بہت عمدہ تقریر کی اور چند اپنے خواب اور الہام بیان فرمائے.چندلوگوں نے صداقت الہام کی گواہیاں دیں جن ۵۸ کے رو برو وہ الہام پورے ہوئے.“
61 جلسہ پر آنیوالے مخلصین اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی جلسہ سالانه ۱۸۹۲ء پر پانصد کی تعداد میں لوگ آئے ان میں سے تین صد ستائیس مخلصین کے متعلق جو للہ اس جلسہ میں شریک ہوئے حضور ضمیمہ انجام آتھم میں تحریر فرماتے ہیں: ایک اور پیشگوئی کا پورا ہونا چونکہ حدیث صحیح میں آچکا ہے کہ مہدی موعود کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہوگی جس میں اس کے تین سو تیرہ اصحاب کا نام درج ہوگا اس لئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ پیشگوئی آج پوری ہو گئی.یہ تو ظاہر ہے کہ پہلے اس سے اس امت مرحومہ میں کوئی شخص پیدا نہیں ہوا کہ جو مہدویت کا مدعی ہوتا.اور اس کے وقت میں چھاپہ خانہ بھی ہوتا.اور اس کے پاس ایک کتاب بھی ہوتی جس میں تین سو تیرہ نام لکھے ہوئے ہوتے اور ظاہر ہے کہ اگر یہ کام انسان کے اختیار میں ہوتا تو اس سے پہلے کئی جھوٹے اپنے تئیں اس کا مصداق بنا سکتے مگر اصل بات یہ ہے کہ خدا کی پیشگوئیوں میں ایسی فوق العادت شرطیں ہوتی ہیں کہ کوئی جھوٹا ان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا اور اس کو وہ سامان اور اسباب عطا نہیں کئے جاتے جو سچے کو عطا کئے جاتے ہیں.و شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی اپنی کتاب جواہر الاسرار میں جو ۸۴۰ء میں تالیف ہوئی تھی مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ ذیل عبارت لکھتے ہیں.در اربعین آمده است که خروج مهدی از قریه کدعہ باشد - قال النبي صلى الله عليه وسلم يخرج المهدى من قرية يقال لها كدعه ويصدقه الله تعالى ويجمع اصحابه من اقصى البلاد على عدة اهل بدر بثلاث مائة وثلاثة عشر رجلاً ومعه صحيفة مختومة اى مطبوعة فيها عدد اصحابه با سمائهم و بلا دهم و خلالهم - یعنی مهدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے ( یہ نام دراصل قادیان کے نام کو مغرب کیا ہوا ہے ) اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کریگا اور دُور دُور سے اس کے دوست جمع کرے گا.جن کا شمار اہل بدر کے
62 شمار سے برابر ہوگا.یعنی تین سو تیرہ ہونگے.اور ان کے نام بقید مسکن وخصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہونگے.اب ظاہر ہے کہ کسی شخص کو پہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ وہ مہدی موعود ہونے کا دعوی کرے اور اس کے پاس چھپی ہوئی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں لیکن میں پہلے اس سے بھی آئینہ کمالات اسلام میں تین سو تیرہ نام درج کر چکا ہوں اور اب دوبارہ اتمام حجت کے لئے تین سو تیرہ نام ذیل میں درج کرتا منصفه ہوں تا ہر ایک سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی اور بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کر دینا پہلے سے ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلت صدق وصفار رکھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع ا کی اللہ اور سرگرمئی دین میں سبقت لے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی رضاء کی راہوں میں ثابت قدم کرے.“ ۵۹ نواب صاحب کا ۳۱۳ صحابہ میں سے ہونا نواب صاحب بھی ان مخلصین میں سے ہیں بلکہ آپ ان معدودے چند ممتاز اصحاب میں سے ہیں کہ جن کے اسماء ہر دو فہرستوں میں شامل ہیں بلکہ اس سے قبل ازالہ اوہام میں بھی درج ہو چکے ہیں ازالہ اوہام حصہ دوم میں حضور زیر عنوان ” بعض مبائیعین کا ذکر اور نیز اس سلسلہ کے معاونین کا تذکرہ اور اسلام کو یورپ و امریکہ میں پھیلا نیکی احسن تجویز تحریر فرماتے ہیں: ”پیار و یقیناً سمجھو کہ خدا ہے اور وہ اپنے دین کو فراموش نہیں کرتا بلکہ تاریکی کے زمانہ میں اس کی مدد فرماتا ہے.مصلحت عام کے لئے ایک کو خاص کر لیتا ہے اور اس پر علوم لدنیہ کے انوار نازل کرتا ہے سواسی نے مجھے جگایا اور سچائی کے لئے میرا دل کھول دیا میری روزانہ زندگی کا آرام اسی میں ہے کہ میں اسی کام میں لگا رہوں.بلکہ میں اسکے بغیر جی ہی نہیں سکتا کہ میں اس کا اور اُس کے رسول کا اور اس کی کلام کا جلال ظاہر کروں.مجھے کسی کی تکفیر کا اندیشہ نہیں اور نہ کچھ پروا.میرے لئے یہ بس ہے کہ وہ راضی ہو جس نے مجھے بھیجا ہے.ہاں میں اس میں لذت دیکھتا ہوں کہ جو کچھ
63 اس نے مجھ پر ظاہر کیا وہ میں سب لوگوں پر ظاہر کروں اور یہ میرا فرض بھی ہے کہ جو کچھ مجھے دیا گیا وہ دوسروں کو بھی دوں اور دعوت مولیٰ میں ان سب کو شریک کرلوں جو ازل سے بلائے گئے ہیں میں اس مطلب کے پورا کرنے کے لئے قریباً سب کچھ کرنے کے لئے مستعد ہوں اور جانفشانی کے لئے راہ پر کھڑا ہوں لیکن جوامر میرے اختیار میں نہیں میں خداوند قدیر سے چاہتا ہوں کہ وہ آپ اس کو انجام دیوے.میں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ ایک دست غیبی مجھے مدد دے رہا ہے اور اگر چہ میں تمام فانی انسانوں کی طرح نا توان اور ضعیف البنیان ہوں تاہم میں دیکھتا ہوں کہ مجھے غیب سے قوت ملتی ہے اور نفسانی قلق کو دبانے والا ایک صبر بھی عطا ہوتا ہے اور میں جو کہتا ہوں کہ ان الہی کاموں میں قوم کے ہمدرد مدد کریں وہ بے صبری سے نہیں بلکہ صرف ظاہر کے لحاظ اور اسباب کی رعایت سے کہتا ہوں ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل پر میرا دل مطمئن ہے اور اُمید رکھتا ہوں کہ وہ میری دُعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا اور میرے تمام ارادے اور اُمید میں پوری کر دے گا.اب میں ان مخلصوں کا نام لکھتا ہوں جنہوں نے حتی الوسع میرے دینی کاموں میں مدددی یا جن پر مدد کی امید ہے یا جن کو اسباب میسر آنے پر طیار د یکھتا ہوں.“ اس کے بعد حضور نے انتالیس احباب کے تفصیلاً حالات درج فرمائے ہیں اور پینتیس احباب کے صرف نام تحریر فرمائے ہیں.نواب صاحب کے حالات با تفصیل آٹھویں نمبر پر درج ہیں جو ہم دوسری جگہ نقل کر چکے ہیں دوسری دو کتب میں آپ کے متعلق اندراجات یوں ہیں: 66 (۳۰۱) جناب خان صاحب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ.“ ( آئنیہ کمالات اسلام ) ۴۳.سردار نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ.“ (ضمیمہ انجام آتھم ) معلوم ہوتا ہے کہ غالباً آپ ہی کے اثر کی وجہ سے ایک درجن کے قریب اشخاص جو آپ کے یا آپ کے بھائیوں کے خدام میں سے تھے قادیان میں آئے اور شریک جلسہ ہوئے.چنانچہ حضرت نانا جان کے الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے فرماتے ہیں کہ نواب صاحب مالیر کوٹلہ اس وقت...مع چند اپنے
64 ہمرا ہیاں شریک جلسہ تھے.66 ان خدام کے اسماء آئینہ کمالات اسلام سے اس تفصیل سمیت جواب مجھے بعض کے متعلق معلوم ہوسکی درج ذیل کئے جاتے ہیں.(۳۰۲) شیخ ولی محمد صاحب شاه آباداہلکار خانصاحب موصوف مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ بالآخر احمدی ہو گئے تھے.مکرم محمد عبد الرحمن خانصاحب بیان کرتے ہیں کہ شیخ صاحب بعمر قریباً ستر سال ۱۹۰۴ء یا ۱۹۰۵ء میں فوت ہوئے.شاہ آباد ضلع انبالہ کے رہنے والے تھے.حضرت والد صاحب کے اہلکار تھے اور دادا جان کے وقت سے ہمارے ہاں تھے.حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانوی رضی اللہ عنہ کے مریدوں میں سے تھے شیخ صاحب کی اولا د غیر احمدی تھی پاکستان جا چکی ہے.“ (۳۰۳) شیخ فضل محمد صاحب.ملازم خان صاحب محمد ذو الفقار علی صاحب ومحمد یوسف علی خاں صاحب“ شیخ ولی محمد صاحب مذکورہ بالا کے چھوٹے بھائی تھے.پندرہ سولہ سال ہوئے فوت ہو چکے ہیں.“ (۳۰۴) سید شیر شاہ صاحب ملازم خانصاحب مالیر کوٹلہ.“ (۳۰۵) میاں صفدر علی صاحب // (۳۰۶) میاں عبدالعزیز صاحب (۳۰۷) میاں جیوا صاحب ر احمدی ہو گئے تھے.// //.“ معروف احمدی ہیں.وفات پاچکے ہیں." -// ار مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ مکرم میاں محمد عبدالرحمن خانصاحب بیان کرتے ہیں کہ ”میاں جیوا گاڑی بان مالیر کوٹلہ کے رہنے والے تھے.رتھ پر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قادیان سے گورداسپور تشریف لے جاتے تھے تو یہی میاں جیوا لے جاتے تھے.حضور کے زمانہ میں ہی احمدی ہو گئے تھے افسوس کہ ان کی اولا د احمدی نہیں.“ مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بھی تصدیق فرماتے ہیں کہ حضور کو رتھ پر یہی لے جایا کرتے تھے اور مخلص احمدی تھے.ان کا مدرسہ کے لئے چندہ دینے کا ذکر الحکم جلد ۵ نمبر ۳ ( صفحه ۱۶ کالم ۳) و نمبر ۴ ( صفحه ۱۶ کالم) بابت جنوری ۱۹۰۱ء میں مرقوم ہے.(۳۰۸) میاں قا در بخش صاحب ملازم خان صاحب مالیر کوٹلہ.“ (۳۰۹) میاں برکت شاہ صاحب (۳۱۰) میاں کتنے خان صاحب (۳۱۱) میاں فتح محمد صاحب 66 -// // // // 11 66 -// 66 ار مکرم عرفانی صاحب اور
65 کسوف و خسوف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے موافق حضرت مسیح موعود دمہدی مسعود علیہ السلام کی صداقت کی تائید میں ایک ہی رمضان مبارک میں چاند گرہن اور سورج گرہن ہوا.اور مقررہ تاریخوں پر ہوا.سورج گرہن کے متعلق ( جو ہر پریل ۱۸۹۴ء کو ہوا ) نیز ان مبارک ایام کی تہجد خوانی وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ بیان کرتے ہیں کہ میں قادیان میں سورج گرہن کے دن نماز میں موجود تھا.مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے نماز پڑھائی تھی اور نماز میں شریک ہونے والے بے حد رور ہے تھے.اس رمضان میں یہ حالت تھی کہ صبح دو بجے سے چوک احمدیہ میں چہل پہل ہو جاتی.اکثر گھروں میں اور بعض مسجد مبارک میں آموجود ہوتے جہاں تہجد کی نماز ہوتی.سحری کھائی جاتی اور اول وقت صبح کی نماز ہوتی.اس کے بعد کچھ عرصہ تلاوت قرآن شریف ہوتی اور کوئی آٹھ بجے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر کو تشریف لے جاتے سب خدام ساتھ ہوتے.یہ سلسلہ کوئی گیارہ بارہ بجے ختم ہوتا.اس کے بعد ظہر کی اذان ہوتی اور ایک بجے سے پہلے نماز ظہر ختم ہو جاتی.اور پھر نماز عصر بھی اپنے اوّل الفضل پر چه ۳۸-۶-۱۴.سورج گرہن اور نماز کا ذکر ذکر حبیب اور اصحاب احمد جلد اول (صفحہ ۸۱ حاشیہ) میں بھی ہے.سورج گرہن کی نماز کی ادائیگی کے مقام کے متعلق اختلاف ہے.مکرم عرفانی صاحب مجھے تحریر ☆ فرماتے ہیں کہ ”میرے علم میں صحیح بات یہ ہے کہ مسجد مبارک کی چھت پر یہ نماز ادا کی گئی تھی.“ بقیہ حاشیہ: مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی فرماتے ہیں کہ یہ احمدی تھے.مکرم میاں محمد عبدالرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ مولوی فتح محمد خانصاحب مولوی فاضل تھے.ضلع لدھیانہ کے باشندہ تھے.صاحب اولاد تھے.مصلح الاخوان جو مالیر کوٹلہ میں حضرت والد صاحب نے جاری کیا تھا اس میں ملازم رہے اور ریاست پٹیالہ میں محکمہ چونگی بھی ملازم رہے.احمدی تھے ۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک تک زندہ تھے اب معلوم نہیں.“ مدرسه 66 (۳۱۲) میاں عبدالکریم صاحب تمام ملازم خان صاحب ملیر کوٹلہ.“ (۳۱۳) میاں عبدالجلیل خانصاحب شاہجان آباد ملازم خان صاحب ملیر کوٹلہ “ مکرم میاں محمد عبدالرحمن خانصاحب بیان کرتے ہیں کہ نواب یوسف علی خانصاحب کے خزانچی تھے.فوت ہو چکے ہیں.“
66 وقت میں پڑھی جاتی.بس عصر اور مغرب کے درمیان فرصت کا وقت ملتا تھا.مغرب کے بعد کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر ساڑھے آٹھ بجے نماز عشاء ختم ہو جاتی اور ایسا ہو کا عالم ہوتا کہ گویا کوئی آباد نہیں مگر دو بجے سب بیدار ہوتے اور چہل پہل ہوتی.“ آتھم کی پیشگوئی پر ابتلاء ۱۸۹۳ء میں بمقام امرتسر ڈپٹی عبد اللہ آتھم سے اسلام اور مسیحیت کے متعلق حضرت اقدس کا ایک معرکۃ الآراء مناظرہ ہوا جس میں اسلام کو عظیم الشان فتح نصیب ہوئی.اسکے اختتام پر آتھم صاحب کے متعلق حضور نے جو پیشگوئی فرمائی وہ حضور کے الفاظ میں جنگ مقدس سے درج ذیل ہے : آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الہی میں دُعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور بچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لیکر یعنی ۱۵ ماہ تک ہادیہ میں گرایا جاویگا.اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.اور جو شخص سچ پر ہے اور بچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب یہ پیشگوئی ظہور میں آوے گی بعض اندھے سو جا کھے کئے جاویں گے.اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سننے لگیں گے.اس پیشگوئی میں یہ شرط تھی کہ بشر طیکہ آتھم رجوع نہ کرے پندرہ ماہ کی مدت میں ہاو یہ میں گرایا جائیگا اور اس نے رجوع کر لیا.انھم کا رجوع اس امر سے ثابت ہے کہ جب اعداء احمدیت نے زبان طعن دراز کی اور حضور کو یہ کہ کر اعتراضات کا نشانہ بنایا کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تو حضور نے بڑی قوت اور شوکت سے فتح اسلام وغیرہ کے عنوان سے بار بار انعامی اشتہار ایک ہزار سے چار ہزار تک کے انعام کے شائع کئے اور تحریر فرمایا کہ اگر آتھم حلفا یہ کہدے کہ اس نے اس عرصہ میں رجوع نہیں کیا تو اس صورت میں ایک سال کی قطعی میعاد کے اندر مر جائیگا لیکن آتھم اور اس کے معاونین کو ہمت نہ ہوئی کہ وہ مقابل میں آئیں اور وہ قسم کھانے پر آمادہ نہ ہوا.لیکن چونکہ سزا سے بچ کر اس نے حق پوشی کی راہ اختیار کی اس لئے کتمان حق کی وجہ سے حسب پیشگوئی آخری اشتہار کے سات ماہ کے اندر ۱۸۹۶ء میں وہ مر گیا.جہاں پیشگوئی کے آخری دن بعض کو شکوک پیدا ہوئے وہاں حضرت اقدس کی تقریر سے جس میں آپ نے الہام کے بعد صراحت فرمائی بعض نئے آدمی داخل سلسلہ ہوئے اور بعض مخلصین نے ازدیاد ایمان کے لئے بیعت ثانی
67 کی.اس ابتلاء کی نوعیت کا اندازہ منشی محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہوتا ہے.فرماتے تھے: ” جب آتھم کی میعاد کا آخری دن تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد مبارک کی چھت پر تشریف لائے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو بلایا اور فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے اطلع الله على همة وغمة اور اس کی تفہیم یہ ہوئی کہ ؟ کی ضمیر آتھم کی طرف جاتی ہے اس لئے معلوم ہوا کہ وہ اس میعاد کے اندر نہیں مریگا.مولوی صاحب نے قادیان میں آمدہ احباب کو اس بات کی اطلاع دیدی.خلیفہ رجب الدین صاحب (خواجہ کمال الدین صاحب کے نخسر ) سے(جو بعد میں مکرم عرفانی صاحب مجھے تحریر فرماتے ہیں کہ ” خلیفہ رجب الدین صاحب نے اس سے پہلے بیعت نہ کی تھی وہ اہلحدیث کے لیڈروں میں سے تھے.ان کے متعلق حضرت منشی محمد اسمعیل صاحب کا بیان بجائے خود صحیح ہوسکتا ہے (کہ) اسوقت تک خلیفہ رجب الدین صاحب بیعت نہ کر چکے تھے یہ پہلا موقعہ تھا.ایسے کلمات کہہ دیئے ہونگے مگر تقریر کے بعد وہ شکوک جاتے رہے.“ ذیل میں نواب صاحب کا مذکورہ بالا خط درج کیا جاتا ہے.آپ لکھتے ہیں : بسم الله الرحمن الرحيم مولا نا مکرم مسلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم آج ۷ ستمبر ہے اور پیشگوئی کی میعاد مقررہ ۵ ستمبر ۱۸۹۴ تھی.گو پیشگوئی کے الفاظ کچھ ہی ہوں لیکن آپ نے جو الہام کی تشریح کی ہے وہ یہ ہے: میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے یہ سزائے موت ہاو یہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا اُٹھانے کے لئے تیار ہوں.مجھ کو ذلیل کیا جاوے.روسیاہ کیا جائے.میرے گلے میں رستہ ڈال دیا جاوے.مجھ کو پھانسی دیا جاوے ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں.اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ضرور وہ ایسا ہی کرے گا.ضرور کرے گا.ضرور کرے گا زمین و آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ملیں گی.“ اب کیا یہ پیشگوئی آپ کی تشریح کے موافق پوری ہوگئی ؟ نہیں ہرگز نہیں عبد اللہ آتھم اب تک صحیح و سالم موجود ہے اور اس کو بہ سزائے موت ہاو یہ میں نہیں گرایا گیا.اگر یہ سمجھو کہ پیشگوئی الہام کے الفاظ کے بموجب پوری ہوگئی.جیسا کہ مرزا خدا بخش صاحب نے لکھا ہے اور ظاہری معنے جو سمجھے گئے تھے وہ ٹھیک نہ تھے اول تو کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس کا اثر عبداللہ آتھم صاحب پر پڑا ہو.دوسری پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں 66
68 خلافت ثانیہ میں جماعت سے الگ رہے ) خود میں نے سنا کہتے تھے کہ اب ہم ان چالوں میں نہیں آسکتے.اس بات کی اطلاع مولوی صاحب نے حضور علیہ السلام کو دیدی.حضور اُسی وقت باہر تشریف لے آئے اور فصیل والے پلیٹ فارم پر جو موجودہ درزی خانہ سے لیکر ڈاکٹر غلام غوث صاحب کے مکان تک ہوتا تھا ٹہلنے لگے اور فرمایا بقیہ حاشیہ:." اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک ماہ لیکر یعنی ۱۵ ماه تک ہاو یہ میں گرایا جائیگا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور بچے خدا کو مانتا ہے اس کی عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب پیشگوئی ظہور میں آئینگی بعض اندھے سو جاکھے کئے جائیں گے بعض لنگڑے چلنے لگیں گے بعض بہرے سنے لگیں گے.‘ پس اس پیشگوئی میں ہاویہ کے معنے اگر آپ کی تشریح کے بموجب نہ لئے جائیں اور صرف ذلت اور رسوائی کی جائے تو بیشک ہماری جماعت ذلت اور رسوائی کے ہادیہ میں گر گئی اور عیسائی مذہب سچا...جو خوشی اس وقت عیسائیوں کو ہے وہ مسلمانوں کو کہاں ؟ پس اگر اس پیشگوئی کوسچا سمجھا جاوے تو عیسائیت ٹھیک ہے.کیونکہ جھوٹے فریق کو رسوائی اور بچے کو عزت ہوگی اب رسوائی مسلمان کو ہوئی...میرے خیال میں اب کوئی تاویل نہیں ہوسکتی دوسرے اگر کوئی تاویل ہوسکتی ہے تو یہ بڑی مشکل بات ہے کہ ہر پیشین گوئی کے سمجھنے میں غلطی ہولڑ کے کی پیشین گوئی میں تفاول کے طور پر ایک لڑکے کا نام بشیر رکھا وہ مر گیا تو اس وقت بھی غلطی ہوئی اب اس معرکہ کی پیشین گوئی کے اصلی مفہوم کے سمجھنے میں تو غضب ڈہایا.اگر یہ کہا جائے کہ احد میں فتح کی بشارت دی گئی تھی آخر شکست ہوئی تو اس میں ایسے زور سے اور قسموں سے معرکہ کی پیشین گوئی نہ تھی اور اس میں لوگوں سے غلطی ہوگئی تھی اور آخر پھر جب مجمتع ہو گئے تو فتح ہوئی.کیا کوئی ایسی نظیر ہے کہ اہل حق کو بالمقابل کفار کے ایسے صریح وعدے ہو کر اور معیار حق و باطل ٹھہرا کرایسی شکست ہوئی ہو مجھ کو تو اب اسلام پر شہے پڑنے شروع ہو گئے.لیکن الحمد للہ ! کہ اب تک جہاں تک غور کرتا ہوں اسلام بالمقابل دوسرے اڈیان کے اچھا معلوم ہوتا ہے لیکن آپ کے دعادی کے متعلق تو بہت ہی شبہ ہو گیا.پس میں نہایت بھرے دل سے التجا کرتا ہوں کہ آپ اگر فی الواقعہ بچے ہیں تو خدا کرے کہ میں آپ سے علیحدہ نہ ہوں اور اس زخم کے لئے کوئی مرہم عنایت فرما دیں کہ جس سے تشفی کلی ہو.باقی جیسا لوگوں نے پہلے ہی مشہور کیا تھا کہ اگر پیشین گوئی پوری نہ ہوئی تو آپ ہی کہہ دیں گے کہ ہادیہ سے مراد موت نہ تھی الہام کے مفہوم سمجھنے میں غلطی ہوئی براہ مہربانی بدلائل تحریر فرما دیں ورنہ آپ نے مجھ کو ہلاک کر دیا.ہم لوگوں کو کیا منہ دکھا وہیں برائے استفادہ یہ نہایت دلی رنج سے تحریر کر رہا ہوں.( راقم محمد علی خاں )
69 کہ باوجود یکہ حضرت یونس کی پیشگوئی میں کوئی شرط نہ تھی قوم کی عاجزی اور تضرع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کا عذاب ٹال دیا اور چونکہ آٹھم نے بھی اس میعاد کے اندر بہت عاجزی اور تضرع کا اظہار کیا بلکہ جس وقت مباحثہ کے آخر پر میں نے کہا تھا کہ ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں اسے پندرہ ماہ کے عرصہ میں ہادیہ میں گرایا جائیگا تو اس نے اسی وقت کان کو ہاتھ لگا کر کہا تھا کہ نہیں میں نے ان کی کوئی بے ادبی نہیں کی.وہ اس معیاد میں ہر وقت ڈرتا رہا.اس طرح اس نے رجوع کر لیا اور شرط رجوع پوری ہو گئی اس لئے اس پر سے عذاب ٹل گیا.انداز ادو گھنٹے تک حضوڑ نے تقریر فرمائی اور لوگوں کو تسلی ہوگئی.“ اس موقع پر حضرت نواب صاحب کو بھی ابتلا آیا اور انہوں نے حضرت اقدس کو ایک خط لکھا جس میں ۶۳ اظہار تذبذب تھا.بہر حال نواب صاحب نے اپنے شکوک کو مخفی نہیں رکھا بلکہ اسے حضرت کے حضور پیش کر دیا جس کا جواب حضور نے ان کو اس طرح پر دیا:.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم محبی اخویم نواب صاحب سردار محمد علی خاں صاحب سلمہۂ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ مجھ کو آج کی ڈاک میں ملا.آتھم کے زندہ رہنے کے بارے میں میرے دوستوں کے بہت خط آئے لیکن یہ پہلا خط ہے جو تذبذب اور تر ڈد اور شک اور سوء ظن سے بھرا ہوا تھا.ایسے ابتلاء کے موقعہ پر جو لوگ اصل حقیقت سے بے خبر تھے جس ثابت قدمی سے اکثر دوستوں نے خط بھیجے ہیں تعجب میں ہوں کہ کس قد رسوز یقین کا خدائے تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈال دیا اور بعض نے ایسے موقعہ پر نئے سرے بیعت کی اس نیت سے کہ تا ہمیں زیادہ ثواب ہو ( ان دوبارہ بیعت کرنے والوں میں چوہدری رستم علی رضی اللہ عنہ کا نام مجھے معلوم ہے.عرفانی) بہر حال آپ کا خط پڑھنے سے اگر چہ آپ کے ان الفاظ سے بہت ہی رنج ہوا بقیہ حاشیہ: - نوٹ : ( آئینہ حق نما صفحه ۱۰۰ تا ۱۰۳) مکرم عرفانی صاحب نے یہ کتاب بجواب الہامات مرزا تصنیف مولوی ثناء اللہ امرتسری ۱۹۱۲ء میں شائع کی.نواب صاحب کے اس مکتوب سے استشہاد کر کے جو اعتراضات آتھم کی پیشگوئی پر کئے ہیں ان کا بھی رڈ اس کتاب میں کیا گیا ہے.یہاں مکتوب نواب صاحب کا نقل کرتے ہوئے دو جگہ نقطے ڈال دیئے گئے ہیں اس لئے کہ یہ مکتوب کتاب الہامات مذکورہ سے نقل ہوا ہے جس کے مصنف نے بعض تعریفی فقرات خطوط وحدانی میں اپنی طرف سے درج کئے تھے.” مؤلف
70 جن کے استعمال کی نسبت ہرگز امید نہ تھی لیکن چونکہ دلوں پر اللہ جل شانہ کا تصرف ہے اس لئے سوچا کہ کسی وقت اگر اللہ جل شانہ نے چاہا تو آپ کے لئے دعا کی ہے.نہایت مشکل یہ ہے کہ آپ کو اتفاق ملاقات کا کم ہوتا ہے اور دوست اکثر آمد ورفت رکھتے ہیں.کتنے مہینوں سے ایک جماعت میرے پاس رہتی ہے جو کبھی پچاس کبھی ساٹھ اور کبھی سو سے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور معارف سے اطلاع پاتے رہتے ہیں اور آپ کا خط کبھی خواب خیال کی طرح آجاتا ہے اور اکثر نہیں.اب آپ کے سوال کی طرف توجہ کر کے لکھتا ہوں کہ جس طرح آپ سمجھتے ہیں ایسا نہیں بلکہ در حقیقت یہ فتح عظیم ہے مجھے خدا تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ عبد اللہ آتھم نے حق کی عظمت قبول کر لی اور سچائی کی طرف رجوع کرنے کی وجہ سے سزائے موت سے بچ گیا ہے.اور اس کی آزمائش یہ ہے کہ اب اس سے ان الفاظ میں اقرار لیا جائے تا اس کی اندرونی حالت ظاہر ہو یا اس پر عذاب نازل ہووے.میں نے اس غرض سے اشتہار دیا ہے کہ آتھم کو یہ پیغام پہنچایا جاوے کہ اللہ جل شانہ کی طرف سے یہ خبر ملی ہے کہ تو نے حق کی طرف رجوع کیا ہے اور اگر وہ اس کا قائل ہو جائے تو ہمارا مدعا حاصل ورنہ ایک ہزار روپیہ نقد بلا توقف اس کو دیا جائے کہ وہ قسم کھا جاوے کہ میں نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا اور اگر وہ اس قسم کے بعد ایک برس کے بعد ( تک عرفانی ) ہلاک نہ ہو تو ہم ہر طرح سے کا ذب ہیں اگر وہ قسم نہ کھاوے تو کا ذب ہے.آپ اس کو سمجھ سکتے ہیں کہ اگر تجربہ سے اس نے مجھ کو کا ذب یقین کر لیا ہے.اور وہ اپنے مذہب پر قائم ہے تو قسم کھانے میں اس کا کچھ بھی حرج نہیں لیکن اگر اس نے قسم نہ کھائی اور باوجود یکہ دوکلمہ کے لئے ہزار روپیہ اس کے حوالے کیا جاتا ہے اگر وہ گریز کر گیا تو آپ کیا سمجھیں گے؟ اب وقت نزدیک ہے اشتہار آئے چاہتے ہیں میں ہزار روپے کے لئے متر د تھا کہ کس سے مانگوں ایسا دیندار کون ہے جو بلا توقف بھیج دے گا ؟ آخر میں نے ایک شخص کی طرف لکھا ہے اگر اس نے دید یا تو بہتر ہے.ورنہ یہ دنیا کی نابکار جائداد بیچ کر خود اس کے آگے جا کر رکھوں گا تا کامل فیصلہ ہو جائے اور جھوٹوں کا منہ سیاہ ہو جائے اور خدائے تعالیٰ نے کئی دفعہ میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اس جماعت پر ایک ابتلاء آنے والا ہے تا اللہ تعالیٰ دیکھے کہ کون سچا ہے اور کون کچا ہے اور اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میرے دل میں اپنی جماعت کا انہیں کے فائدہ کے لئے جوش مارتا ہے ورنہ اگر کوئی میرے ساتھ نہ ہو تو مجھے تنہائی میں لذت ہے بے شک فتح ہوگی.اگر ہزار ابتلاء درمیان ہو تو آخر ہمیں فتح ہو گی ان ابتلاؤں کی نظیر آپ مانگتے ہیں ان کی نظیر میں بہت ہیں.آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے بادشاہ ہونے کا جو وعدہ کیا اور وہ ان کی زندگی میں پورا نہ ہوا تو ستر آدمی مرتد ہو گئے.حدیبیہ کے قصہ میں تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ کئی بچے آدمی مرتد ہو گئے.وجہ یہ تھی کہ اس پیش گوئی کی کفار مکہ کوخبر ہوگئی تھی اس لئے انہوں نے شہر کے
71 اندر داخل نہ ہونے دیا اور صحابہ پانچ چھ ہزار سے کم نہیں تھے.یہ امر کس قدر معرکہ کا امر تھا مگر خدائے تعالیٰ نے صادقوں کو بچایا مجھے اور میرے خاص دوستوں کو آپ کے اس خط سے اس قدر افسوس ہوا کہ اندازہ سے زیادہ ہے.یہ کلمہ آپ کا کہ ”مجھے ہلاک کیا کس قدر اس اخلاص سے دور ہے جو آپ سے ظاہر ہوتا رہا.ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ اگر ایک مرتبہ نہیں کروڑ مرتبہ لوگ پیش گوئی نہ سمجھیں یا اس رات کے طور پر ظاہر ہو تو خدائے تعالیٰ کے صادق بندوں کا کچھ بھی نقصان نہیں آخر وہ فتح یاب ہو جاتے ہیں.میں نے اس فتح کے بارے میں لا ہو ر پانچ ہزار اشتہار چھپوایا ہے اور ایک رسالہ تالیف کیا ہے جس کا نام انوار الاسلام ہے وہ بھی پانچ ہزار چھپے گا.آپ ضرور اشتہار اور رسالہ کو غور سے پڑھیں اگر خدا تعالیٰ چاہے تو آپ کو اس سے فائدہ ہوگا.ایک ہی وقت میں اور ایک ہی ڈاک میں آپ کا خط اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کا خط پہنچا.مولوی صاحب کا اس صدق اور ثبات کا خط جس کو پڑھ کر رونا آتا تھا ایسے آدمی ہیں جن کی نسبت میں یقین رکھتا ہوں کہ اس جہان میں بھی میرے ساتھ ہوں گے اور اس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ( مکتوب نمبر۷ ) طلب ثبوت نا پسندیدہ نہیں حضرت نواب صاحب نے جو کچھ آتھم کی پیش گوئی کے تعلق میں لکھا اس سے آپ کی اعلی اخلاقی جرات کا ضرور اندازہ ہوتا ہے حضرت اقدس کے اس مکتوب ( نمبر ۱۰) پر مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں: حضرت نواب صاحب نے جس جرات اور دلیری سے اپنے شکوک کو پیش کیا ہے.اس سے حضرت نواب صاحب کی ایمانی اور اخلاقی جرات کا پتہ لگتا ہے.انہوں نے کسی چیز کو اندھی تقلید کے طور پر مانا نہیں چاہا جو شبہ پیدا ہوا اس کو پیش کر دیا.خدائے تعالیٰ نے جو ایمان انہیں دیا ہے وہ قابل رشک ہے.خدائے تعالیٰ نے اس کا اجر انہیں یہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نسبت فرزندی کی عزت نصیب ہوئی.یہ موقعہ نہیں کہ حضرت نواب صاحب کی قربانیوں کا میں ذکر کروں جو انہوں نے سلسلہ کے لئے کی تھیں : اس مکتوب پر کوئی تاریخ درج نہیں لیکن چونکہ اشتہار ایک ہزار انعام والا ۹ ستمبر ۱۸۹۴ء کو اور انوار الاسلام ۵ ستمبر کو تصنیف ہوئے مکتوب سے ظاہر ہے کہ اشتہار چھپ چکا تھا اور گورسالہ پہلے لکھا گیا تھا لیکن ابھی چھپنا باقی تھا اس لئے اس مکتوب کی تاریخ و ستمبر کے قریب کی ہوگی اور یہ نواب صاحب کے سے ستمبر کے مرقومہ خط کا جواب ہے.
72 ی معیال دروازه دروازه والف مين دروازه دروازه شرق 1 دروازه قسم 9-9*7-6 سیڑھیاں (ب) دروازه دروازه سم 9-9×10-3 8-3×7-7 سقف گول کمرہ شمال صحن گول کمره (سط) حصہ نقشہ نمبر ۳ منزل اول مقامات مقدسه پیمانہ 8 فٹ = 11 لنچ اور داره قة.دروازه انه کمره
الله 73 تفصیل حصہ کا نمبر ۳ منزل اول مقامات مقدسه ( دارایح) قادیان پیمانہ فٹ =۱ اینچ جس میں حضرت نواب صاحب رہتے تھے.حضرت نواب صاحب کے ملحقہ مکان میں جانے والی سیڑھیاں ہیں.سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو بوقت نوٹ: حضرت نواب صاحب ہجرت کر کے رخصتانہ انہی سیڑھیوں سے حضرت ام المؤمنین دارا میسج میں جس حصہ میں مقیم رہے اس کا ذکر آپ اطال اللہ بقاء ہا حضرت نواب صاحب کے مکان کی......کی روایت میں...پر آیا ہے.وہاں بغیر پیمائش منزل اوّل میں چھوڑنے کے لئے لے گئی تھیں.کے خاکہ دیا گیا ہے اور وہ خاکہ آپ کی روایت کا (ب) یہ سیڑھیاں پہلے چوبی تھیں آج کل پختہ ایک حصہ ہے.اب یہاں پیمائش کے مطابق نقشہ دیا اینٹوں کی ہیں.یہ نچلے صحن میں جس میں الدار کا جاتا ہے.اس کا ایک حصہ صفحہ ۷۲ پر ہے.نمبرا تا ۸ کا کو آں ہے جاتی ہیں.ذکر اس روایت میں ہے اور اس کے مطابق یہاں (ج) مسجد مبارک کی قدیمی سیڑھیاں جو اپنی اصل نمبر دئیے گئے ہیں.حالت میں ہیں.ان سیڑھیوں میں گول کمرہ کا غربی تفصیل : (۱) کمرہ نمبر 1 میں حضرت نواب دروازہ کھلتا ہے.صاحب رہتے تھے.(د) یہ سیڑھیاں مسجد مبارک سے اس کی چھت کی (۲) کمرہ نمبر ۲ میں بھی حضرت نواب صاحب طرف جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں نہیں تھیں.یہ مسجد مبارک کی توسیع رہتے تھے.(۳) کمروہ نمبر ۳ بھی حضرت نواب صاحب کے اوّل کے وقت (۱۹۰۷ء میں ) تعمیر ہوئیں.زیر استعمال تھا.(ه) یہ سیٹرھیاں مسجد مبارک کے سامنے کے حصہ (۴) کمرہ نمبر ۴ میں مولوی سید محمد احسن صاحب کی سے نیچے چوک میں جاتی ہیں.۱۹۰۷ء میں توسیع رہائش تھی.اول کے وقت یہ سیڑھیاں تعمیر ہوئی تھیں.لیکن کمرہ نمبر ۳ ۴ کے مغرب کی طرف جو ملحقہ برآمدہ توسیع ثانی (۱۹۴۴ء) کے وقت ان سیٹرھیوں کو وسیع اور کمرہ ہے یہ دونوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کر کے قریب ڈ گنا کر دیا گیا.کے عہد مبارک کے بعد خاندانی ضروریات کے نوٹ : یہ نقشہ دارا سیح" منزل اول کا ایک حصہ ہے ما تحت تعمیر ہوئے.جس کا ملحقہ مغربی حصہ صفحہ ۲ پر دکھایا گیا ہے.سیٹرھیاں: (الف) دار مسیح کے اس صحن سے
74 بہت ہیں جن کے دل میں شبہات پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کو اخلاقی جرات کی کمی کی وجہ سے اُگل نہیں سکتے.مگر نواب صاحب کو خدا تعالیٰ نے قابل رشک ایمانی قوت اور ایمانی جرأت عطا کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ اگر کسی شخص کے دل میں کوئی شبہ پیدا ہو تو اُسے قے کی طرح باہر نکال دینا چاہیے.اگر اسے اندرہی رہنے دیا جائے تو بہت برا اثر پیدا کرتا ہے.غرض حضرت نواب صاحب کے اس سوال سے جو انہوں نے حضرت اقدس سے کیا ان کے مقام اور مرتبہ پر کوئی مضر اثر نہیں پڑتا بلکہ ان کی شان کو بڑھاتا ہے اور واقعات نے بتادیا کہ وہ خدائے تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اپنے ایمان میں بہت بڑے مقام پر تھے.اللَّهُمَّ زِدْفَزِدْ - مولوی عبدالحق غزنوی نے جو صوفی اور صاحب الہام مشہور تھا سلسلہ احمدیہ کی مخالفت کی اور کچھ الہامات شائع کئے اور حضوڑ کے دعویٰ محیت پر مباہلہ کا اعلان کر دیا.یہ ۱۸۹۱ء کا ذکر ہے.نواب صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں مباہلہ کی درخواست منظور کرنے کے لیے تحریر کیا تو حضور نے جو جواب تحریر فرمایا اس سے بھی نواب صاحب کی اس اخلاقی جرات اور اعلیٰ مقام کا علم ہوتا ہے.اور یہ کہ حضور طلب ثبوت کو نا پسند نہ فرماتے تھے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم میرے پیارے دوست نواب محمد علی خاں صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.آپ کا محبت نامہ عین انتظار میں مجھ کو ملا جس کو میں نے تعظیم دیکھا اور ہمدردی اور اخلاص کے جوش سے حرف حرف پڑھا.میری نظر میں طلب ثبوت اور استکشاف حق کا طریقہ کوئی ناجائز اور نا گوار طریقہ نہیں ہے.بلکہ سعیدوں کی یہی نشانی ہے کہ وہ ورطہ مذبذبات سے نجات پانے کے لئے حل مشکلات چاہتے ہیں لہذا یہ عاجز آپ کے اس طلب ثبوت سے ناخوش نہیں ہوا.بلکہ نہایت خوش ہے کہ آپ میں سعادت کی وہ علامتیں دیکھتا ہوں جس سے آپ کی نسبت عرفانی ترقیات کی امید بڑھتی ہے.اسی طرح جب دعوی مسیحیت کے بارہ میں حضرت نواب صاحب نے کسی اور طالب حق کی تحریک سے بعض امور دریافت کئے تو حضرت اقدس نے ۱۰؍ دسمبر ۱۸۹۲ء کو جواب تحریر فرمایا جو آئینہ کمالات اسلام میں درج ہے اس میں فرماتے ہیں.
75 معنی ہے..آپ ایک خالص محب ہیں اور آپ کا استفسار سراسر نیک ارادہ اور نیک نیت پر حضرت عمرؓ سے مماثلت یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت نواب صاحب کا استفسار سراسر نیک نیتی پر مبنی تھا آپ ہر ایک امر کو علی وجہ البصیرت تسلیم کرنا چاہتے تھے.آتھم کی پیش گوئی کے تعلق میں جو نواب صاحب نے خط حضور کی خدمت میں تحریر کیا.اس سے بھی یہ امر ہویدا ہے.چنانچہ آپ اس میں کس در دو کرب اور الحاج سے ہدایت کے لئے تڑپ کا اظہار کرتے ہیں.فرماتے ہیں: میں نہایت بھرے دل سے التجا کرتا ہوں کہ آپ اگر فی الواقعہ بچے ہیں تو خدا کرے کہ میں آپ سے علیحدہ نہ ہوں اور اس زخم کے لئے کوئی مرہم عنایت فرما دیں کہ جس سے تشفی کھلی ہو....برائے استفادہ یہ نہایت دلی رنج سے تحریر کر رہا ہوں.“ چنانچہ حضرت اقدس کے ایک مکتوب سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نواب صاحب نے پر محبت و پُر جوش مکتوب لکھ کر سابقہ خط کی تلافی کر دی تھی.حضور نے اپنے مکتوب میں نواب صاحب کی مماثلت حضرت عمر سے قرار دی ہے اور فرماتے ہیں کہ ”میرے ظاہری الفاظ صرف اس غرض سے تھے کہ تا میں لوگوں پر یہ ثبوت پیش کروں کہ آں محب نہایت استقامت پر ہیں.“ چنانچہ حضوڑ کا یہ مکتوب درج ذیل کیا جاتا ہے حضور فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی مجی عزیزی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ آں محبت کا محبت نامہ پہنچا جو کچھ آپ نے اپنی محبت اور اخلاص کے جوش سے لکھا ہے درحقیقت مجھ کو یہی امید تھی اور میرے ظاہری الفاظ صرف اس غرض سے تھے کہ تا میں لوگوں پر یہ ثبوت پیش کروں کہ آں محبت اپنے دلی خلوص کی وجہ سے نہایت استقامت پر ہیں.سوال حمد اللہ کہ میں نے آپ کو ایسا ہی پایا میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسا کہ اپنے فرزند عزیز سے محبت ہوتی ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اس جہاں کے بعد بھی خدا تعالیٰ ہمیں دار السلام میں آپ کی ملاقات کی خوشی دکھاوے.اور جو ابتلاء پیش آیا تھا وہ حقیقت میں بشری طاقتوں کو اگر وہ سمجھنے سے قاصر ہوں معذور رکھتا
76 ہے.حدیبیہ کے قصہ میں ابن کثیر نے لکھا ہے کہ صحابہ کو ایسا ابتلاء پیش آیا کہ کادوان يُهْلَكُوا یعنی قریب تھا کہ اس ابتلاء سے ہلاک ہو جا ئیں یہی ہلاک“ کا لفظ جو حدیث میں آیا ہے.آپ نے استعمال کیا تھا گویا اس بے قراری کے وقت میں حدیث کے تلفظ سے تو ارد ہو گیا ہے بشری کمزوری ہے جو عمر فاروق حدیبیہ جیسے قوی الایمان کو بھی حدیبیہ کے ابتلاء میں پیش آگئی تھی یہاں تک انہوں نے کہا کہ عملت لذالک اعمالاً یعنی یہ کلمہ شک کا جو میرے منہ سے نکلا تو میں نے اس قصور کا تدارک صدقہ خیرات اور عبادت اور دیگر اعمال صالحہ سے کیا.مولوی محمد احسن صاحب ایک جامع رسالہ بنانے کی فکر میں ہیں شاید جلد شائع ہو اور مولوی صاحب یعنی مولوی حکیم نور دین صاحب آپ سے ناراض نہیں ہیں آپ سے محبت رکھتے ہیں.شاید مولوی صاحب کو بشریت سے یہ افسوس ہوا ہوگا کہ آپ اول درجہ کے اور خاص جماعت میں سے تھے.آپ کے نزدیک یہ خیال تک آنا نہیں چاہیئے تھا کیونکہ ہماری غائبانہ نگاہ میں آپ اول درجہ کے محبوں اور مخلصوں میں سے ہیں جن کی روز بروز تر قیامت کی امید ہے اور مولوی صاحب اپنے گھر کی بیماریوں کی وجہ سے بڑے ابتلاء میں رہے ہیں اور ان کے گھر کے لوگ مرمر کے بچے ہیں اس لئے وہ زیادہ خط و کتابت نہیں کر سکے اور اب وہ شاید ہمیں روز سے سندھ کے ملک میں ہیں اور پھر غالباً بہاولپور میں جائیں گے.اور اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب شاید ہفتہ عشرہ تک یہاں پر تشریف رکھتے ہیں اور اس عاجز کا نیک ظن اور دلی محبت آپ سے وہی ہے جو تھی اور امید رکھتا ہوں کہ دن بدن ترقی ہو.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ ( مکتوب غیر مطبوعہ ) اس مکتوب پر تاریخ درج نہیں حضرت مولوی نورالدین صاحب ( خلیفہ اول) نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو ایک مکتوب میں مئی ۱۸۹۶ء کو تحریر کیا کہ آتھم صاحب کی معیاد گذرنے پر میں بہاولپور میں تھا.( آئینہ حق نما تصنیف مکرم عرفانی صاحب صفحہ ۹۵) اس پیش گوئی کے متعلق تذبذب والا خط نواب صاحب نے حضور کی خدمت میں سے ستمبر ۹۴ کو تحریر کیا تھا اور وہ سب سے پہلا خط تھا جو پیش گوئی کی میعاد گذرنے کے بعد نواب صاحب نے حضور کی خدمت میں تحریر کیا تھا اور اسی سے حضور کو ان کی اس پیش گوئی کے متعلق خیالات کا * یہ لفظ اصل مکتوب میں خاکسار سے پڑھا نہیں گیا انداز انگاہ سمجھا ہے.
77 عہد رفاقت کو حضرت اقدس مقدس سمجھتے تھے اور اس کی بہت رعایت رکھتے تھے.چنانچہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دن فرمایا میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص ایک دفعہ مجھ سے عہد دوستی باند ھے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہوا اور کچھ ہی کیوں نہ ہو جاوے میں اس سے قطع نہیں کر سکتا ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لا چار ہیں ورنہ ہمارا مذ ہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں سے کسی نے شراب پی ہواور بازار میں گرا ہوا ہو اور لوگوں کا ہجوم اُس کے گرد ہو تو بلا خوف لومتہ لائم کے اسے اٹھا کر لے آئیں گے.فرمایا عہد دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے.اس کو آسانی سے ضائع کر دینا نہ چاہئے اور دوستوں سے کیسی ہی نا گوار بات پیش آوے اسے اغماض اور حمل کے محل میں اتارنا چاہیئے.(سیرۃ مسیح موعود ) گو حضرت نواب صاحب کی طرف سے تعلقات میں اس کے بعد کچھ کمی واقع ہوئی لیکن حضرت اقدس رابطہ قائم رکھنے کی سعی بلیغ فرماتے رہے اور ان کو حسنات کی ترغیب دیتے رہے چنانچہ 19 دسمبر۱۸۹۴ء کو تحریر بقیہ حاشیہ :.علم ہوا اور اس امر کا ذکر حضور نے اس کے جواب میں مکتوب نمبرے میں کیا ہے.سو یہ غیر مطبوعہ مکتوب نمبرے کے بعد کا ہی ہو سکتا ہے ایک امر قابل حل ہے اور وہ یہ کہ حضرت مولوی صاحب ذکر کرتے ہیں کہ آتھم کی معیاد گذرنے پر میں بہاولپور میں تھا اور یہ تاریخ ۵ ستمبر ۱۸۹۴ تھی لیکن اس معیاد کے گذرنے کے بعد پہلے نواب صاحب نے سے ستمبر کو خط لکھا اور حضور نے اس کا جواب دیا اور پھر یہ مکتوب زیر بحث تحریر کیا لیکن اس میں حضور حضرت مولوی صاحب کی بابت رقم فرماتے ہیں کہ آب وہ شاید بیس روز سے سندھ کے ملک میں ہیں اور پھر غالبا بہاولپور میں جائیں گے.گویا کہ ے ستمبر کے کم از کم چند روز بعد تک بھی ابھی حضرت مولوی صاحب بہاولپور نہ گئے تھے لیکن یہ اشکال یوں حل ہوتا ہے کہ حضور کو پہلے اطلاع ملی ہوگی کہ حضرت مولوی صاحب سندھ اور پھر بہاولپور جائیں گے بعد میں اطلاع نہیں آئی اس لئے سابقہ اطلاع کی بناء پر حضور نے یہ بات تحریر فرمائی اور حضور کے الفاظ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ حضور کو صرف پروگرام کا علم ہے اسی لئے حضور حضرت مولوی صاحب کے بیس روز سے سندھ میں ہونے کے متعلق بھی شاید “ کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس سے ظاہر ہے کم از کم بیس روز سے حضور کو حضرت مولوی صاحب کے متعلق کوئی اطلاع نہ آئی تھی.حضور کے الفاظ یہ ہیں : اب وہ شاید بیس روز سے سندھ کے ملک میں ہیں اور پھر غالبا بہاولپور جائیں گے.“
فرماتے ہیں: 78 نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی نواب صاحب سلمہ.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ چونکہ اس عاجز نے پانچ سو روپیہ آں محب کا قرض دینا ہے مجھے یاد نہیں کہ میعاد میں سے کیا باقی رہ گیا ہے اور قرضہ کا ایک نازک اور خطرناک معاملہ ہوتا ہے.میرا حافظہ اچھا نہیں.یاد پڑتا ہے کہ پانچ برس میں ادا کر نے کا وعدہ کیا تھا اور کتنے برس گزر گئے ہوں گے.عمر کا کچھ اعتبار نہیں آپ براہ مہربانی اطلاع بخشیں کہ کس قدر میعاد باقی رہ گئی ہے تا حتی الوسع اس کا فکر رکھ کر تو فیق باری تعالیٰ میعاد کے اندر اندر ادا ہو سکے اور اگر ایک دفعہ نہ ہو سکے تو کئی دفعہ کر کے میعاد کے اندر بھیج دوں امید کہ جلد اس سے مطلع فرما دیں تا میں اس فکر میں لگ جاؤں.کیونکہ قرضہ بھی دنیا کی بلاؤں میں سے ایک سخت بلا ہے اور راحت اسی میں ہے کہ اس سے سبکدوشی ہو جائے.دوسری بات قابل استنفار یہ ہے کہ مکرمی اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب قریباً دو ہفتہ سے قادیان تشریف لائے ہوئے ہیں اور آپ نے جب آپ کا اس عاجز کا تعلق اور حسن ظن تھا بیس روپے ماہوار ان کو اسی سلسلہ کی منادی اور واعظ کی غرض سے دینا مقرر کیا تھا.چنانچہ آپ نے کچھ عرصہ ان کو دیا امید کہ اس کا ثواب بہر حال آپ کو ہوگا.لیکن چند ماہ سے ان کو کچھ نہیں پہنچا اب اگر اس وقت مجھ کو اس بات کے ذکر کرنے سے بھی آپ کے ساتھ دل رُکتا ہے مگر چونکہ مولوی صاحب موصوف اس جگہ تشریف رکھتے ہیں اس لئے آپ جو مناسب سمجھیں میرے جواب کے خط میں اس کی نسبت تحریر کر دیں.حقیقت میں مولوی صاحب نہایت صادق دوست اور عارف حقائق ہیں وہ مدراس اور بنگلور کی طرف دورہ کر کے ہزار ہا آدمیوں کے دلوں سے تکفیر اور تکذیب کے غبار کو دور کر آئے ہیں اور ہزار ہا کو اس جماعت میں داخل کر آئے ہیں اور نہایت مستقیم اور قومی الایمان اور پہلے سے بھی نہایت ترقی پر ہیں.ہماری جماعت اگر چہ غرباء اور ضعفاء کی جماعت ہے لیکن (انشاء اللہ.ناقل ) العزیز یہی علماء اور محققین کی جماعت ہے اور انہی کو میں متقی اور خدا ترس اور عارف حقائق پاتا ہوں اور نیک روحوں اور دلوں کو دن بدن خدا تعالٰی کھینچ کر اس طرف لاتا ہے.فالحمد اللہ علی ذالک.خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان - ۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء اسی طرح حضور ایک نیک کام کی تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.مولوی صاحب کو کل ایک دورہ
79 مرض پھر ہوا.بہت دیر تک رہا.مالش کرانے سے صورت افاقہ ہوئی.مگر بہت ضعف ہے اللہ تعالیٰ شفا بخشے.اس جگہ ہماری جماعت کا ایک قافلہ تحقیق السنہ کے لئے بہت جوش سے کام کر رہا ہے اور یہ اسلام کی صداقت پر ایک نئی دلیل ہے جو تیرہ سو برس سے آج تک کسی کی اس طرف توجہ نہیں ہوئی.اس مختصر خط میں میں آپ کو سمجھا نہیں سکتا کہ یہ کس پایہ کا کام ہے.اگر آپ ایک ماہ تک اس خدمت میں مرزا خدا بخش صاحب کو شریک کریں اور وہ قادیان میں رہیں تو میری دانست میں بہت ثواب ہوگا آئندہ جیسا آپ کی مرضی ہو، دنیا کے کام نہ تو کبھی کسی نے پورے کئے اور نہ کرے گا.دنیا دار لوگ نہیں سمجھتے کہ ہم کیوں دنیا میں آئے اور کیوں جائیں گے؟ کون سمجھاوے جب کہ خدا تعالیٰ نے نہ سمجھایا ہو دُنیا کے کام کرنا گناہ نہیں.مگر مومن وہ ہے جو در حقیقت دین کو مقدم سمجھے اور جس طرح اس ناچیز اور پلید دنیا کے کام یابیوں کے لئے دن رات سوچتا یہاں تک کہ پلنگ پر لیٹے بھی فکر کرتا ہے اور اس کی ناکامی پر سخت رنج اٹھاتا ہے.ایسا ہی دین کی غم خواری میں مشغول رہے.دنیا سے دل لگا نا بڑا دھوکا ہے.موت کا ذرا اعتبار نہیں موت ہر یک آئے سال نئے کرشمے دکھلاتی رہتی ہے.دوستوں کو دوستوں سے جدا کرتی اور لڑکوں کو باپوں سے اور باپوں کو لڑکوں سے علیحدہ دیتی ہے.مورکھ وہ انسان ہے جو اس ضروری سفر کا کچھ بھی فکر نہیں رکھتا.خدا تعالیٰ اس شخص کی عمر کو بڑھا دیتا ہے جو سچ مچ اپنی زندگی کا طریق بدل کر خدا تعالیٰ کا ہی ہو جاتا ہے ورنہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.قُلْ مَا يَعْبَتُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمُ یعنی ان کو کہ دو کہ خدا تعالیٰ تمہاری پر واہ کیا رکھتا ہے اگر تم اس کی بندگی اور عبادت نہ کرو.سو جا گنا چاہیئے اور ہوشیار ہونا چاہئے اور غلطی نہیں کھانا چاہیئے کہ یہ گھر سخت بے بنیاد ہے.میں نے اس لئے لکھا کہ میں اگر غلطی نہیں کرتا تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان دنوں میں دنیوی ہم و غم میں اعتدال سے زیادہ مصروف ہیں اور دوسرا پلہ ترازو کا کچھ خالی سا معلوم ہوتا ہے میں نہیں جانتا کہ یہ تحریر میں آپ کے دل پر کیا اثر کریں یا کچھ بھی اثر نہ کریں.کیونکہ بقول آپ کے وہ اعتقادی امر بھی اب درمیان نہیں جو بظاہر پہلے تھا.میں نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت میں سے کوئی بھی ہلاک ہو.بلکہ چاہتا ہوں کہ خود خدا تعالیٰ قوت بخشے اور زندہ کرے.کاش اگر ملاقات کی ہی سرگرمی آپ کے دل میں باقی رہتی تو کبھی کبھی کی ملاقات سے کچھ فائدہ ہو جاتا.مگر اب یہ امید بھی مشکلات میں پڑ گئی کیونکہ اعتقادی محرک باقی نہیں رہا.اگر کوئی لاہور وغیرہ میں کسی انگریز حاکم کا جلسہ ہو جس میں خیالی طور پر داخل ہونا آپ اپنی دنیا کے لئے مفید سمجھتے ہوں تو کوئی دنیا کا کام آپ کو اس شمولیت سے نہیں روکے گا.خدا تعالیٰ قوت بخشے.بیچاره نورالدین جو دنیا کو عموماً لات مار کر اس جنگل قادیان میں آبیٹھا ہے بے شک قابل نمونہ ہے.بہتیری تحریکیں ہوئیں کہ آپ لاہور میں رہیں اور امرتسر میں رہیں دنیاوی فائدہ طبابت کی رو سے بہت ہوگا مگر کسی کی
80 بات انہوں نے قبول نہیں فرمائی میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ انہوں نے کچی تو بہ کر کے دین مقدم رکھ لیا ہے.خدا تعالیٰ ان کو شفا بخشے اور ہماری جماعت کو توفیق عطا کرے کہ ان کے نمونہ پر چلیں.آمین.کیا آپ بالفعل اس قدر کام کر سکتے ہیں کہ ایک ماہ کے لئے اور کاموں کو پس انداز کر کے مرزا خدا بخش صاحب کو ایک ماہ کے لئے بھیج دیں.والسلام.خاکسار غلام احمد از قادیان ۲۸ را پریل ۱۸۹۵ء 21 حضرت نواب صاحب کا شبہ نیک نیتی اور اخلاص پر مبنی تھا نہ کہ محض تعصب اور بے جا ضد پر اور حضرت اقدس کے دل میں آپ کے لئے درد تھا.سو اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور ان کے دل کو نور سے منور کر دیا.نواب صاحب جنہوں نے لکھا تھا کہ : میں نہایت بھرے دل سے التجا کرتا ہوں کہ اگر فی الواقعہ بچے ہیں تو خدا کرے کہ میں آپ سے علیحدہ نہ ہوں.وہ ہمیشہ کے لئے حضور کے ہو گئے اور حضور جو فر زندوں کی طرح ان کو عزیز سمجھتے تھے حضور نے ظاہراً بھی ان کو فرزندی میں لے لیا.نواب صاحب کی سابقہ حالت جو ہر ستمبر ۹۴ء کو آتھم کی میعاد کے ختم ہونے پر شروع ہوئی تھی دسمبر ۹۵ء میں بکلی متغیر بخیر ہو چکی تھی اور آپ کا پورا رجوع حضرت اقدس کی طرف ہو چکا تھا.اور یہ امر حضور کے دسمبر ۹۵ء کے ذیل کے مکتوب سے ظاہر ہے.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم عزیزی مجی اخویم خانصاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا محبت نامہ پہنچا.میں بوجہ علالت طبع کچھ لکھ نہیں سکا کیونکہ دورہ مرض کا ہو گیا تھا اور اب بھی طبیعت ضعیف ہے خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت میں ترقی بخشے اور اپنی اس جاودانی دولت کی طرف کھینچ لیوے.جس پر کوئی زوال نہیں آسکتا.کبھی کبھی اپنے حالات خیریت آیات سے ضرور اطلاع بخشا کریں.کہ خط بھی کسی قدر حصہ ملاقات کا بخشتا ہے.مجھے آپ کی طرف دلی خیال ہے اور چاہتا ہوں کہ آپ کی روحانی ترقیات بچشم خود دیکھوں مجھے جس وقت جسمانی قوت میں اعتدال پیدا ہوا تو آپ کے لئے سلسلہ توجہ کا شروع کروں گا.اللہ تعالے اپنا فضل اور توفیق شامل حال کرے آمین والسلام.غلام احمد عفی عنہ.عاجز غلام احمد عفی ۱۴ دسمبر ۱۸۹۵ء روز پنجشنبه (مکتوب نمبر ۶) اس کی تاریخ ۱۴ار دسمبر ۱۸۹۵ء درج ہے لیکن جنتری کے لحاظ سے اس روز شبنہ تھا.۱۸۹۰ء سے ۱۹۰۷ ء تک
81 علاوہ ازیں اس کی تصدیق اس طرح بھی ہوتی ہے کہ نواب صاحب نے شیروانی کوٹ کی مسجد کے متعلق حضرت مولوی نورالدین صاحب سے مشورہ مانگا اور آپ کو مالیر کوٹلہ آنے کی دعوت دی.حضرت مولوی صاحب کا جواب ۳۰ / جنوری ۹۶ء کا ہے.حکومت کی وفاداری اور ملکہ وکٹوریہ کی جو بلی وغیرہ حضرت اقدس نے یہ امر جماعت کے قلوب میں پوری طرح راسخ فرمایا ہے کہ ملک میں قیام امن کا صحیح طریق یہ ہے کہ حکومت سے تعاون اور ہر ایک نوع کی باغیانہ تحریکات سے احتراز کرنا چاہیئے چونکہ انگریزوں کی حکومت سے پہلے حد درجہ بے امنی کا دور دورہ ہو چکا تھا جس کی تلخ یاد سے ہی دل دہل جاتے تھے.سو انگریزوں کی حکومت میں جو امن و انصاف نصیب ہوا کہ جس میں بلا تفریق مذہب و ملت ہر ایک کو مذہبی حریت حاصل تھی اس لئے حضور اس حکومت کے ان اوصاف کی وجہ سے مداح تھے.جون ۱۸۹۷ء میں ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جو بلی کے موقعہ پر آپ نے قادیان میں ایک جلسہ منعقد کر کے احباب کو وفاداری اور پُر امن رہنے کی تلقین کی اور ملک کے امن وامان اور ملکہ کے قبول اسلام کے لئے دعا کی اور غربا میں کھانا تقسیم کیا.اور رات کو چراغاں کیا گیا اس کے علاوہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے ایک کتاب ” تحفہ قیصریہ تحریر کر کے عمدہ طور پر جلد کرا کے ایک چٹھی کے ساتھ ملکہ کی خدمت میں ارسال کی ملکہ موصوفہ نے اس کے پڑھنے کا وعدہ کیا اور شکر یہ ادا کیا اس کتاب میں حضور نے جو بلی پر مبارکباد دینے کے ساتھ مذہب اسلام کی فضیلت بیان کی اور ملکہ معظمہ کو اس کے قبول کرنے کی دعوت دی اور مسلمانوں کے جہاد کے غلط نظریہ کی تغلیط کر کے اس کی حقیقت آشکار کی.بقیہ حاشیہ : - جنتری دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۴ دسمبر اور پنجشنبہ کا اجتماع ۱۸۹۳ء،۱۸۹۹ ءاور ۱۹۰۵ء میں ہوا اگر یہ مکتوب ان تاریخوں میں سے کسی ایک کا ہو تو امر زیر تحریر کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں.اور اگر بلالحاظ روز اس کی تاریخ درست سمجھی جائے تو اس کا تعلق امر زیر ذکر سے ہوتا ہے کہ ۱۴دسمبر ۱۸۹۵ ء تک حضرت نواب صاحب کی حالت یقیناً بدل چکی تھی.البتہ یہ ۱۲ دسمبر ۹۵ء کا ہوسکتا ہے کہ اس روز پنجشنبہ تھا اور نقل کنندہ نے ۱۳ یا ۱۲ کی بجائے ۱۴ پڑھا.یہ دونوں عدد ایک دوسرے سے مشابہ ہیں.حضور کا قلمی مکتوب نہیں مل سکا کہ حقیقت معلوم ہوسکتی (مولف) جشن جو بلی کی تفصیل کے لئے حضرت اقدس کی کتاب ” جلسہ احباب ملاخطہ فرمائیے.
شمال مغرب دروازه حصہ نقشه نمبر ۳ منزل اول مقدمات مقدسه قادیان پیمانہ ۸ فٹ =۱ اینچ برآمده دروازه بيت الفكر دروازه الماري ( بروایت حضرت اما جان ) بیرست الدعاء انگیٹی درواره برآمدہ کی ٹواٹ 23×23 برآمده دروازه دروازه دروازه الماري دروازه درواز بیت ال دروازه 5×9 دروازه راسة کو 10-5× 16-10 F دروازه دروازه الماري نگیٹھی 11-9 × 14-5 دروازه الماري الماری دریچه 82
83 حصه نقشه نمبر ۳ منزل اوّل مقامات مقدسه ( دار مسیح ) قادیان پیمانہ ۸فٹ = ۱ اینچ نوٹ: اس کے تعلق کے لئے صفحہ ۷۳ کے آخر کا نوٹ دیکھئے تفصیل: -Y -2 -6/1 صحن جو نمبرے کے ساتھ متعلق ہے.دالان حضرت ام المؤمنین اطال اللہ بقاء ھا جس کو بروایت سیدہ موصوفہ حضرت اقدس علیہ السلام بیت الفکر کا حصہ فرماتے تھے.2/1.اس دریچہ سے نچلے حصہ میں جانے کے لئے چوبی زمینہ تھا جس سے حضرت اقدس کی آمد ورفت ہوتی تھی.اب یہ پختہ زینہ ہے اور دریچہ کمرہ میں اینٹوں سے بند کر دیا گیا -^ -9 -1+ ہے.بیت الفکر ( براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۸ حاشیہ نمبر ملاحظہ فرمائیں) بيت الدعاء ( تعمیر ۱۹۰۳ء) کمرہ جہاں سید نا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے حقیقۃ الوحی تصنیف کی.
84 ۱۸۹۹ء میں حضور نے ستارہ قیصریہ کتاب تصیف کر کے ملکہ کی خدمت میں بھجوائی.اس میں بھی تحفہ قیصریہ کی طرح حق تبلیغ ادا کیا گیا تھا.جیسا کہ ہم نواب صاحب کی نوجوانی اور طالب علمی کے حالات میں ذکر کر چکے ہیں آپ کی طبیعت میں اس قسم کا جوش تھا کہ خصوصاً مسلمانوں پر ظلم ہوتا برداشت نہیں کر سکتے تھے.لیکن فطرت صحیحہ کے علاوہ حضرت اقدس کی تعلیم کے زیر اثر آپ باغیانہ خیالات کے حد درجہ مخالف رہے چنانچہ ایک عزیز کو آپ نے ایسے خیالات میں مبتلا پا کر اس بارہ میں بہت کچھ وعظ ونصیحت کی جشن جو بلی کے موقعہ پر نواب صاحب نے مالیر کوٹلہ میں بہت خوشی منائی اس بارہ میں آپ کی رپورٹ حضرت اقدس نے جلسہ احباب میں شائع فرمائی ہے.جو درج ذیل ہے: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم طبیب روحانی مسیح الزمان مکرم معظم مسلمکم اللہ تعالی.السلام علیکم.حسب الحکم حضور کل حال متعلق جو بلی عرض کرتا ہوں.۲۱ ۲۲ / جون یعنی دو دن جشن جو بلی کے لئے مقرر ہوئے تھے چونکہ گورنمنٹ کا حکم تھا کہ کل رسوم متعلق جو بلی ۲۲ جون ۱۸۹۷ء کو پوری کی جائیں.اس لئے سب کچھ ۲ کو کیا جانا قرار پایا.ریاست مالیر کوٹلہ میں جیسے رئیس اعظم وفادار رہے ہیں ویسے ہی خوانین بھی وفادار اور عقیدت مند گورنمنٹ کے رہے ہیں.اور بہت مواقع میں اس کا ثبوت دیا ہے بلکہ بعض جگہ خود لڑائی میں شریک ہو کر گورنمنٹ کی اعانت کی ہے.اب چونکہ لڑائی کا موقعہ تو جاتا رہا ہے اب بموجب حالت زمانہ ہم لوگ ہر طرح خدمت کے لئے حاضر ہیں اور ہم ایسا کیوں نہ کریں جب کہ اس گورنمنٹ کا ہم پر خاص احسان ہے وہ یہ کہ سکھوں کے عروج کے زمانہ میں سکھوں نے اس ریاست کو بہت دق کیا تھا اور اگر وقت پر جنرل اختر لونی صاحب ابر رحمت کی طرح تشریف نہ لے آتے تو یہ ریاست کبھی کی اس خاندان سے نکل کر سکھوں کے ہاتھ میں ہوتی.پس ہمارا خاندان تو ہر طرح گورنمنٹ کا مرہون منت ہے اور اب یہ سلسلہ بسبب حضور اور زیادہ ہو گیا اور جو احسانات گورنمنٹ کے ہماری جماعت پر ہیں وہ قند مکرر کا لطف دینے لگے تو مجھ کو ضروری ہوا کہ اپنے ہمسروں سے بڑھ کر کچھ کیا جائے.اول.چراغاں صرف قریب کی مسجد پر اور اپنے رہائشی مکان پر بہت زور سے کیا گیا.بلکہ ایک مکان بیرون شہر جو ایک گاؤں سروانی کوٹ نام میں میرا ہے اس پر بھی کیا گیا.کل مکانوں پر اول سفیدی کی گئی اور مختلف طرز پر چراغ نصب کئے گئے اور ایک دیوار پر چراغوں میں یہ عبارت لکھی گئی.Empress یعنی خدا تعالی ہماری قیصرہ کو سلامت رکھے.قریباً تمام شہر سے بڑھ کر ہمارے ہاں روشنی کا اہتمام تھا مگر عین وقت پر ہوا کے ہونے سے ۲۲ کو وہ روشنی نہ ہوسکی.اس لئے تمام شہر میں ۲۳ کو روشنی ہوئی مگر اس روز God save our
85 بھی ہوا کے سبب اونچی جگہ روشنی نہ ہوسکی.دوم.تین ٹرائفل آرچ.ایک برسر کو چہ اور دو اپنے مکان کے سامنے بنائے گئے اور ان پر مندرجہ ذیل عبارات سنہری لکھ کر لگائی گئیں اول بر سر کو چہ ” جشن ڈائمنڈ جوبلی مبارکباد دوم اپنے رہائشی مکان کے دروازہ پر انگریزی میں wel come یعنی خوش آمدید لکھا تھا.سوم دروازہ کے مقابل تیسری محراب پر لکھا تھا.قیصرہ ہند کی عمر دراز.اور سروانی کوٹ میں بھی ایک ٹرائفل آرچ بنائی گئی تھی.سوم.۲۲ جون کو شام کے چھ بجے اپنی جماعت کے اصحاب کو جمع کر کے خداوند تعالے سے حضور ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کے بقائے دولت اور درازی عمر اور یہ کہ جس طرح حضور ممدوحہ نے ہم پر احسان کیا ہے.خدا وند تعالے بھی حضور ممدوحہ پر احسان کرے اور الَّذِينَ آمَنُوا میں داخل کرے یعنی اسلام کے آفتاب سے وہ فیضیاب ہوں.دعا کی گئی.چہارم.میں نے ایک نوٹس اپنی جماعت کے لوگوں کو دیدیا تھا کہ سب صاحب جو کم سے کم مقدرت رکھتے ہوں وہ بھی سو چراغ سے کم نہ جلائیں اور جن کے پاس اتنا خرچ کرنے کو نہ ہو وہ مجھ سے لے لیں چنانچہ پانچ اصحاب کو میں نے خرچ چراغانہ دیا اور باقیوں نے خود چراغا نہ کیا.پنجم.میرے متعلق جو سروانی کوٹ میں معافی دار تھے ان کو بھی میں نے حکم دیا کہ چراغا نہ کریں چنانچہ انہوں نے بھی کیا اور یہ ایسا امر ہے کہ ریاست کے اور دیہات میں غالباً ایسا نہیں ہوا.ششم : ۲۳ / جون کو اس خوشی میں آتشبازی چھوڑی گئی.ہفتم: ۲۲ جون کی شام کو معز ز ا حباب کی دعوت کی گئی.هشتم : ۲۳ کومساکین کو غلہ اور نفذ خیرات کیا گیا.نہم.ایک یادگار کے قائم کرنے کی بھی تجویز ہے.جب اس کی بابت فیصلہ ہوگا وہ بھی عرض کروں گا.را قم محمد علی خاں مالیر کوٹلہ ۲۵ جون ۱۸۹۷ء) ۲۴ رمئی ۱۸۹۹ء کو ملکہ موصوفہ کی سال گرہ کے موقعہ پر مسجد میں احباب کو جمع کر کے حضرت نواب صاحب نے تقریر میں حکومت برطانیہ کے پُر امن زمانہ کا ذکر کیا اور شکر ادا کرنے کی تلقین کی اور ملکہ موصوفہ کی سعادت دارین کے لئے دعا کی.حمید اس جلسہ کی رپورٹ حکیم محمد زمان صاحب کی طرف سے الحکم پر چہ ۹۹ - ۵-۲۶ میں شائع ہو چکی ہے.
86 حضرت مولوی صاحب مالیر کوٹلہ میں حضرت نواب صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب سے قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں.چنانچہ حضرت اقدس کے ارشاد پر حضرت مولوی صاحب ۱۸۹۶ء میں تشریف لے گئے اور چند ماہ تک وہاں قیام رہا.جدید (الف) یہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا بیان ہے کہ حضرت اقدس کے ذریعہ نواب صاحب نے حضرت مولوی صاحب کھالیر کوٹلہ جانے کے لئے کہلوایا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ ہجرت کے بعد حضرت اقدس کے ارشاد کے بدوں حضرت مولوی صاحب اپنی مرضی سے وہاں نہ جاسکتے تھے.(ب) عرصہ قیام حضرت مولوی صاحب کا ذیل کے امور سے تعین ہوسکتا ہے:.۱.حضرت مولوی صاحب بہر حال جنوری ۹۶ء میں اس لمبے قیام کے لئے نہیں گئے.آپ نواب صاحب کو ۳۰ جنوری ۹۶ء کو تحریر فرماتے ہیں : میں تو چاہتا ہوں کہ مالیر کوٹلہ میں پہنچوں مگر اس عشق و محبت کو کیا کہوں جو مجھے قادیان سے نکلنے کی اجازت نہیں دیتا.بہر حال کوشش کروں گا اگر خدا تعالیٰ نے مدددی 66 تو باہر نکلوں.“ اس مکتوب میں ایک سابقہ سفر مالیر کوٹلہ کا ذکر اشار تا نکلتا ہے لیکن اس کا سفر زمیہ بحث سے کوئی تعلق نہیں.۲- حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے یکم مئی کے مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب اس وقت مالیر کوٹلہ میں تھے.( یہ مکتوب آگے درج کیا گیا ہے) ۳ - ۶ را پریل ۹۶ ء کو حضرت مولوی صاحب قادیان میں تھے حضرت اقدس ۹۶ - ۴-۶ کو نواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: یقین کہ مولوی صاحب کا علیحدہ خط آپ کو پہنچے گا.(مکتوب نمبر ۵۲ ) -۴- حضرت اقدس نے چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کو جو مکتوب ۳ / جولائی ۹۶ء کو ارسال فرمایا اس میں رقم فرماتے ہیں ”مولوی صاحب کو ٹلہ مالیر کی طرف تشریف لے گئے ہیں.نواب صاحب نے چھ ماہ کے لئے مولوی صاحب کو بلایا ہے.مگر شاید مولوی صاحب ایک ماہ یا دو ماہ تک رہیں یا کچھ زیادہ رہیں.“ ۷۳ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب و حضرت اقدس کی مذکورہ تحریرات پر یکجائی نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا
87 آپ کے ہمراہ آپ کے اہل بیت بھی تھے.کچھ عرصہ آپ کا قیام شہر میں رہا.پھر آپ کے قیام کا انتظام بقیہ حاشیہ: - ہے کہ حضرت اقدس کی تحریر کے وقت دوماہ کا عرصہ قیام تو ہو چکا تھا.( بلکہ جیسا کہ آگے تفصیل آئے گی اس سے بھی زیادہ ) باوجود اس کے حضور کا تحریر فرمانا کہ شاید مولوی صاحب ایک یا دو ماہ تک رہیں یا کچھ زیادہ رہیں.یہ کل عرصہ قیام کے متعلق نہیں بلکہ مستقل قیام کے متعلق تھا.مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب ( درویش ) ذکر کرتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب کے کوٹلہ جانے سے میرا سبق بند ہو گیا.میرے لکھنے پر آپ نے مجھے مالیر کوٹلہ بلوالیا.-۵ -Y مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ( درویش ) کا بیان ہے.کہ اکتوبر یا نومبر ۱۸۹۵ء میں میں حضرت اقدس کے حکم سے والد صاحب کے ہمراہ قادیان سے واپس گیا اور مارچ یا اپریل ۱۸۹۶ء میں واپس قادیان پہنچا.یہ مجھے بخوبی یاد ہے کہ لکڑی کے موسم کا آغاز ہو چکا تھا اور میرے واپس آنے کے بعد میرے سامنے حضرت مولوی صاحب مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے.میں مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب سے قرآن مجید کا سبق لیا کرتا تھا اور وہ مجھ سے پدرانہ شفقت سے پیش آتے تھے ان کے جانے سے میں اداس ہوا.سبق بھی چھٹ گیا.کم سن تھا.میں نے ان کو لکھا کہ حضرت اقدس تو سارا دن اندرون خانہ ہوتے ہیں آپ کے جانے سے قرآن مجید کا سبق بھی رک گیا.انہوں نے حضرت مولوی صاحب سے اجازت حاصل کر کے مجھے کرایہ بھیج کر مالیر کوٹلہ منگوالیا.جلسہ اعظم مذاہب کے تعلق میں سوامی شوگن چندر صاحب غالباً اکتوبر یا نومبر میں قادیان آئے اس وقت تک حضرت مولوی صاحب ہمارے سمیت مالیر کوٹلہ سے واپس آچکے تھے.سوامی صاحب جلسہ سے قبل کئی بار قادیان آئے اور حضرت اقدس سے مشورہ اور جلسہ کے انعقاد کے اخراجات کے لئے مالی امداد لے جاتے رہے.۲۱ / دسمبر ۹۶ء کو مضمون کے غالب رہنے کے متعلق اشتہار جو حضور نے شائع فرمایا تھا میں ہی لے کر لاہور گیا تھا.“ حضرت مولوی صاحب کی اس جلسہ میں شمولیت امر معلوم ہے ان امور سے حضرت مولوی صاحب کا قیام مالیر کوٹلہ میں اپریل سے اکتو بر تک کے درمیان معلوم ہوتا ہے.مکرم بھائی صاحبان اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں حضرت مولوی صاحب مالیر کوٹلہ میں دردگردہ سے شدید بیمار ہوئے تھے تفصیل مذکورہ سے یہ ظاہر ہے کہ حضرت مولوی صاحب کے جانے کے کچھ عرصہ بعد مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب اجازت منگوا کر گئے اور ان کے کچھ عرصہ بعدا جازت منگوا کر مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب وہاں گئے.اور ان دونوں کے سامنے یہ بیماری ہوئی اور اس کی اطلاع قادیان میں پہنچی اور چند دن تک پھر کوئی اطلاع نہ آنے سے قادیان میں تشویش ہوئی جس پر یکم مئی کو
88 شیروانی کوٹ میں ہوا جہاں ہر طرح کا مکمل انتظام تھا.گھوڑا گاڑی بھی آپ کی ضرورت کے لئے وہاں تھی.حضرت نواب صاحب شہر سے روزانہ شیروانی کوٹ جاتے تھے اور آپ سے قرآن مجید پڑھتے اور دو پہر کا کھانا آپ کی معیت میں تناول کر کے واپس آتے.مکرم میاں محمد عبد الرحمن خان صاحب ذکر کرتے ہیں کہ قریباً نصف سال میں حضرت والد صاحب نے قرآن مجید ختم کرلیا.مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب و مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب سے تحصیل علم کی خاطر وہاں کئی ایک آپ کے شاگرد جمع ہو گئے تھے اور وہ با قاعدہ آپ کے درس و تدریس سے قادیان کی طرح مستفیض ہوتے تھے سب کے قیام و طعام کا انتظام کمال شفقت سے حضرت نواب صاحب کی طرف سے تھا.ہم سب شاگردوں کی ہر طرح خاطر و تواضع ہوتی تھی اور بہترین کھانے ہمارے لئے تیار ہوتے تھے.ایسی مرغن غذاؤں کے عادی نہ ہونے کی وجہ سے ہماری خواہش ہوتی تھی کہ بعض اوقات دال وغیرہ ملے اور ہم بعض دفعہ باورچیوں سے کھانا تبدیل کر لیتے تھے لیکن حضرت نواب صاحب یہ پسند نہ کرتے تھے کہ ان کے مہمان ان کی مہماں نوازی میں بہترین کھانے سے محروم رہیں.چنانچہ انہوں نے ایسی شدید فہمائش بقیہ حاشیہ : حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے حضرت نواب صاحب کو اس بارہ میں خط لکھا.سو 4 اپریل کے جلد بعد حضرت مولوی صاحب ضرور وہاں پہنچ چکے ہوں گے.ہم ذیل میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا مکتوب اور اس کا چپہ بہ درج کر دیتے ہیں فرماتے ہیں.بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نحمده و نُصَلّی مکرم معظم خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.حضرت مولوی صاحب کی بیماری کی خبر نے جو کئی روز ہوئے یہاں پہنچی تھی تمام متعلقین کو فعل در آتش کر رکھا ہے اور سب کے سب اس حیرت میں ہیں کہ پھر بعد اس کے کوئی خبر ان کی نسبت نہیں ملی.آپ ازارو کرم کچھ اطمینان آمیز خبر دے سکتے ہیں؟ جناب مولوی محمد احسن صاحب جناب امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں اپنی شکستہ حالی اور اس پُر زور * لکھ کے عرض کر چکے ہیں اور رائے ٹھہری کہ حضرت اقدس ان کی طرف سے آپ کے نزدیک شفیع مشفع ہوں لہذا مجھے حکم ہوا کہ میں حضرت شفیع کی طرف سے ترجمان ہوں.آپ کیا اس وقت ضعیف الحال مولوی پر رحم کر کے کچھ رہاسہا ان کا انہیں دے سکتے ہیں.والسلام اصلی خط کا عکس پشت پر ملاحظہ فرمائیے.* یہ لفظ پڑہا نہیں گیا.(مؤلف) عاجز عبدالکریم.سیالکوٹی یکم مئی.از قادیان
89 بع طبیعی تری یک موسی مکرم معظم خان کا اللہ کی فلم دنگار حضرت تھری کی پیاری مرکی خبر نے جو کئی اندر شہر یا پہنتی تھی تمام متقین کو نو در آتش گو یک بین اور پکے سب اس میت میں بین آغیر فیر و سکتے ہیں ؟ کتاب عمر محمد حسین همه جانبه ایم که مایه ای وقت میں این شکسته مالی ور پر زور نال شوند حروف کہ کے پی اور ہم تقریر که معرفت استیک ائیں طرف سے آم کی نزدیک شفیع مشقت ہو.یہ امر کی ہے رحم کر کے کچھہ رہا سہا اُن کا انہیں درسکتے ہیں ؟ والسلام عاشر عبد الکریم سیالکوٹی به عہد ایکری یا کوئی اگر تورقات
90 باورچی خانہ میں کر دی کہ ملازم باوجود ہماری منت سماجت کے ہم سے کھانا تبدیل کرنے سے رک گئے.جو مکرم میاں عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ : ” حضرت نواب صاحب فرماتے تھے کہ ان ایام میں مالیر کوٹلہ میں بھیرہ کے رہنے والے ڈاکٹر بھگت رام ساہنی پریکٹس کرتے تھے.ہموطن ہونے کے علاوہ وہ کشمیر میں بھی ملازم رہ چکے تھے وہ حضرت مولوی صاحب کی بہت عزت و تکریم کرتے تھے.ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا کہ میں کہیں نہیں جاتا اور مجھے ایک ہزار روپیہ ماہوار آمد ہو جاتی ہے.اس پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں بھی کہیں نہیں جاتا پھر بھی مجھے اتنی ہی آمد ہو جاتی ہے.ان ایام کا ذکر کر کے حضرت مولوی صاحب ایک مکتوب میں نواب صاحب کو نصیحت کرتے ہوئے اپنی آمد اور غیب سے رزق کا سامان ہونے کا یوں ذکر فرماتے ہیں: ”میرا عریضہ توجہ سے پڑہیں اور ایک آیت ہے قرآن کریم میں اس پر آپ پوری غور فرماویں وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًالٌ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ یہ نابکار خاکسار راقم الحروف متقی بھی نہیں ہاں متقی لوگوں کا محبت اور پورا محبت.مجھے بھی بمقام مالیر کوٹلہ بڑی بڑی ضرورتیں پیش آتی رہیں اور قریب قریب اٹڈ ہائی ہزار کے قریب خرچ ہوا.مگر کیا آپ معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ کہاں سے آیا.شاید دو تین سو سے کچھ زائد کا آپ کو پتہ ہوگا مگر باقی کا علم سوائے میرے مولیٰ کریم کے کسی کو بھی نہیں.حتی کہ میری بی بی کو بھی نہیں.جلسہ اعظم مذاہب میں شمولیت کے بعد جنوری ۱۸۹۷ء میں حضرت مولوی صاحب پھر مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے.آپ کے اہل بیت بھی اس دوسری دفعہ کے قیام میں آپ کے شریک تھے.حضرت ام المؤمنین مکرم بھائی صاحبان بتاتے ہیں کہ ان طلباء میں سے ہمیں حکیم محمد زمان صاحب حکیم غلام محمد صاحب رضی اللہ عنھما اور حکیم دین محمد ملتانی اور خا کی شاہ یاد ہیں حکیم غلام محمد صاحب اس وقت احمدی تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حکیم محمد زمان صاحب بعد میں حضرت نواب صاحب کے ملازم ہو گئے تھے مخلص احمدی تھے.حکیم غلام محمد صاحب خاکسار کے سب سے بڑے تایا تھے بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.مکرم بھائی صاحبان فرماتے ہیں کہ حکیم دین محمد ملتانی نے بعد ازاں خلاف شرع نکاح کر لیا اور احمدیت سے منقطع ہوگیا...غلام محی الدین عرف خا کی شاہ کے متعلق عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ وہ قادیان سے نکالا گیا اور مرتد مرا.( نوٹ بر مکتوب نمبر ۱۳) پیاروں کی ہر بات پیاری ہوتی ہے اس لئے ایک واقعہ اگر یہاں حضرت مولوی صاحب کے تعلق میں ذکر کر دوں تو امید ہے کہ قارئین کرام معاف فرمائیں گے مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ( درویش) بیان فرماتے ہیں کہ میں حضرت مولوی صاحب کے گھر کے ایک حصہ میں رہتا تھا.حضرت پیر منظور محمد صاحب
91 اطال اللہ بقاء ہا کے نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی ولادت پہ علیل ہونے کے باعث آپ کو بذریعہ تار مارچ میں وہاں سے حضرت اقدس نے بلوالیا سو اس دفعہ آپ کا قیام کم از کم ڈیڑھ ماہ تک رہا.جی حضرت نواب صاحب کی خواہش تھی کہ حضرت مولوی صاحب جیسے بابرکت وجود سے مستفیض ہوتے رہیں لیکن اس میں روکیں پڑتی رہیں چنانچہ حضرت اقدس اس بارہ میں ۷ ا ا پریل۱۸۹۰ء کو تحریر فرماتے ہیں : بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نحمده نصلى على رسوله الكريم مجی عزیز اخویم نوب صاحب سلمہ تعالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آخر مولوی صاحب 66 شیہ: - کے مکان سے شمال مشرق کی طرف کی سڑک تک جگہ خالی تھی ان ایام میں احباب بھرتی ڈلوا کر مکان بنا لیتے تھے.میں نے بھی ایسا ہی کیا.ایک روز میں حضرت مولوی صاحب کے پاس مطب میں بیٹھا تھا.فرمانے لگے کہ یہ جگہ مجھے دے دو.مریضوں کی رہائش کے لئے درکار ہے.یہ حضرت مولوی صاحب کے مکان کے ملحق ہے.میں نے عرض کیا کہ جیسے آپ پسند فرماویں دریافت فرمانے پر کہ کتنا خرچ آیا ہے میں نے نوے روپے گنوائے تو مجھے مطب کے مغربی دروازے سے نکل کر پچھواڑے کی طرف آنے کے لئے فرمایا اور خودمکان کے مشرق کی طرف سے آئے اور بک ڈپو کے پچھواڑے میں کنوئیں کے پاس ملے اور مجھے سوروپے کا ایک نوٹ دے کر فرمایا کہ دس روپے مجھے واپس دے دینا.میں سمجھتا ہوں کہ یہ رزق غیب کی صورت ہوگی.مطب میں روپیہ رکھنے کی کوئی جگہ نہ تھی اور اگر گھر میں کسی جگہ رکھتے تھے یا جیب میں تھے تو مجھے ایک طرف سے بھیج کر خود دوسری طرف سے آنے کی کیا ضرورت تھی.“ مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب اور مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ دوسری بار قیام مالیر کوٹلہ کے اثناء میں میاں عبدالرحیم خاں صاحب کی ولادت ہوئی انہیں سانس نہ آیا.حضرت مولوی صاحب کے ارشاد پر انہیں باری باری ایک ٹھنڈے اور ایک گرم پانی کے ٹب میں ڈبویا گیا جس سے سانس جاری ہو گیا.میاں عبدالرحیم خان صاحب کی تاریخ ولادت ۱۳ یا ۱۴ جنوری ۱۸۹۷ء اور نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی تاریخ ولادت ۲ مارچ ۹۷ء ہے.سیدہ موصوفہ فرماتی ہیں کہ یہ امر یقینی ہے کہ میری ولادت کے موقعہ پر حضرت اماں جان کی طبیعت ناساز ہو گئی تھی.اس لئے تار دے کر حضرت مولوی صاحب کو مالیر کوٹلہ سے بلوالیا تھا.مکرم میاں محمد عبدالرحمن خاں صاحب بھی اس دفعہ کا قیام اند از اڈیڑھ ماہ تک کا بتاتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب وسط جنوری تک دوبارہ مالیر کوٹلہ تشریف لے جاچکے ہوں گے.حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں کہ یکم فروری ۱۸۹۷ء کو ذیل کی پیشگوئی بیان کی گئی جو مارچ ۱۸۹۷ء میں پوری ہوئی.
مشرق شمالی (الف) دروازه دروازه کمرہ تصنیف حقیقة الوحی دروازه الماري دروازه حقه نفت ببت انزل اول مقامات مقدشه (دار المشتی) قادیان پیمانه در فٹ آرنچ سیڑھیاں جو کوچہ میں کھا واره a محن دروازه الماري دروازه دروازه برآمده اقعے الماری دریچہ الماری دروازه دروازه 92 92
93 تفصيل:- نوٹ: -11 -۱۲ حصہ نقشه ۳ منزل اوّل مقامات مقدسه (دار مسیح) قادیان پیمانہ ۸ فٹ = ۱ اینچ کمرہ.عرصہ درویشی میں مکرم صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب نائب امیر مقامی و ناظر اعلیٰ اسے بطور دفتر استعمال کرتے تھے.صحن.کمرہ جہاں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کچھ عرصہ قیام فرمایا.۱۴- حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے رہائشی کمرے بوقت شادی.اس تمام بالائی حصہ کا نام سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دارالبرکات تجویز فرمایا چنا نچہ کھڑکی کے باہر اب تک یہ نام لکھا ہوا موجود ہے.بعد میں یہ سیدہ ام طاہر صاحبہ کی رہائش گاہ تا وفات رہی.آج کل بوقت تصنیف کتاب ہذا یہاں بورڈ نگ مدرسہ تعلیم الاسلام ہے.
94 کی وہ پیاری لڑکی جس کی شدت بیماری کی وجہ سے مولوی صاحب آ نہ سکے کل نماز عصر سے پہلے اس جہان فانی سے کوچ کر گئی.انا للهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.اس کی والدہ بقیہ حاشیہ: ”جب میری لڑکی مبارکہ والدہ کے پیٹ میں تھی تو حساب کی غلطی سے فکر دامنگیر ہوا اور اس کا غم حد سے بڑھ گیا کہ شاید کوئی اور مرض ہو تب میں نے جناب الہی میں دعا کی تو الہام ہوا کہ ” آید آں روزے کہ مخلص شود، اور مجھے تفہیم ہوئی کہلڑکی پیدا ہوگی چنانچہ اس کے مطابق ۲۷ رمضان ۱۳۱۴ھ کوٹڑ کی پیدا ہوئی جس کا نام مبارکہ رکھا گیا.“ ( نزول مسیح صفحہ۲۰۲) اور اس پیشگوئی کی تصدیق میں زندہ گواہوں میں حضرت مولوی صاحب کا نام بھی درج ہے.اس سے شاید کسی کو یہ غلط نہی ہو کہ تاریخ بیان پیشین گوئی یکم فروری ۹۷ ء ہے اور اس تاریخ کو حضرت مولوی صاحب غضرور قادیان میں ہوں گے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ان تمام پیشگوئیوں کے سننے والوں کے اسماء دریافت کر کے لکھے گئے ہوں گے چنانچہ مفتی محمد صادق صاحب ذکر حبیب میں تحریر فرماتے ہیں کہ نزول مسیح کا یہ نقشہ میں نے تیار کیاتھا ( صفحہ ۱۵۸) اس میں کیا شک ہے کہ اکثر احباب کو مرکز سے آمدہ خطوط کے ذریعہ ہی حالات اور پیش گوئیوں کی اطلاع ہوتی رہتی تھی.سونزول امسیح میں اسماء کے اندراج کا یہ مفہوم نہیں کہ ان احباب نے حضرت اقدس سے براہ راست پیشگوئیاں سنیں بلکہ یہ مراد ہے کہ ان کے پورا ہونے سے قبل ان کو پیشگوئی کا علم ہو چکا تھا.اس کی تصدیق مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کے بیان سے بھی ہوتی ہے.وہ فرماتے ہیں کہ مالیر کوٹلہ میں قیام کے دوران میں میاں عبدالرحیم صاحب پیدا ہوئے تھے اور نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی ولادت پر حضرت اماں جان کی علالت کے باعث حضرت مولوی صاحب کو قادیان بلوایا گیا تھا.چنانچہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ مجھے اپنے مکتوب مورخه ۵۱-۸-۱ میں تحریر فرماتی ہیں کہ: ”حضرت خلیفہ اول مارچ ۹۷ ء تک مالیر کوٹلہ ٹھہرے عبدالرحیم خاں ان کے سامنے پیدا ہوئے.یہ امر بالکل ثابت شدہ ہے حضرت اماں جی (اہل بیت حضرت خلیفہ اول.مؤلف ) بیمار تھیں ، لاہور ان سے ملنے گئی.انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہم سال بھر قریباً وہاں ٹھہرے تھے.عبدالرحیم خاکی ہمارے سامنے پیدا ہوئے.دوسری بار کے جانے کی تاریخ اُن کے علم میں بھی نہیں.اُس وقت غالبا تنہا تھے.عیال ساتھ نہ تھے.حضرت اُمّاں جان (أم المؤمنین ) کے نام بھی آپ کا خط ملا.آپ بہت ضعیف ہو چکی ہیں.کسی وقت تو کچھ بات یاد آ جاتی ہے کبھی کچھ نہیں.ان کو اکثر ضعف رہتا ہے.زیادہ بات چیت بھی نہیں فرماسکتیں.اے اللہ ! تو انہیں اور جملہ صحابہ کو دیر تک صحت و عافیت کے ساتھ ہمارے سروں پر سلامت رکھ.(آمین.مؤلف).صرف اتنا دریافت کرنے پر فرمایا کہ کوٹلہ سے بلوایا تھا.جب تم پیدا ہوئی تھیں.تفاصیل وہ بیان نہیں کر سکتیں.اس سے زیادہ اس وقت تک کچھ معلوم نہیں ہوسکتا.شاید کسی کاغذ وغیرہ سے کبھی پتہ لگ سکے.ترجمہ قرآن شریف اس اثناء میں ختم ہو چکا تھا یہ مجھے میاں (مراد حضرت نواب صاحب ہیں.مؤلف) سے
95 سخت مصیبت کی حالت میں ہے اللہ تعالیٰ اس کو صبر بخشے و السلام ( مکتوب نمبر ۱۳) اسی طرح مکتوب نمبر ۱۳ میں جو مکرم عرفانی صاحب کے نزدیک مئی ۱۸۹۸ء کا ہے نواب صاحب کو حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں: افسوس کہ مولوی صاحب اس قدر تکلیف کی حالت میں ہیں کہ اگر اور کوئی سبب بھی نہ ہوتا تب بھی اس لائق نہیں تھے کہ اس شدت گرمی میں سفر کر سکتے.ہفتہ میں ایک مرتبہ سخت بیمار ہو جاتے ہیں.پیرانہ سالی کے عوارض ہیں اور مولوی صاحب کی بڑی لڑکی سخت بیمار ہے کہتے ہیں کہ اس کو سن ہو گئی ہے علامات سخت خطرناک ہیں.نواسی بھی ابھی بیماری سے صحت یاب نہیں ہوئی ان وجوہ کی وجہ سے درحقیقت وہ سخت مجبور ہیں.اسی طرح مکتوب مورخه ۶ را گست ۱۸۹۸ء میں حضور" تحریر فرماتے ہیں : ”مولوی صاحب کی دوسری لڑکی انہیں دنوں سے بیمار ہے جب کہ آپ نے بلایا تھا.اب بظاہر ان کی زندگی کی چنداں امید نہیں.جو اس میں بھی فرق آگیا ہے اور مولوی صاحب بھی ہفتہ میں ایک مرتبہ بیمار ہو جاتے ہیں بعض دفعہ خطر ناک بیماری ہوتی ہے.حضرت مولوی صاحب کی شادی کیلئے کوشش حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کے نرینہ اولاد نہ تھی.آپ حضرت اقدس کے فدائی تھے بقیہ حاشیہ: سن کر علم ہوا ہے.خاکسار یہ عرض کرتا ہے کہ مذکورہ بالا بیانات سے یہ ظاہر ہے کہ حضرت اماں جی.(اہل بیت حضرت مولوی صاحب) بوقت ولادت میاں عبدالرحیم خاں صاحب ۱۳/۱۴ جنوری ۱۸۹۷ء کو مالیر کوٹلہ میں تھیں.ان کو دوسرے سفر کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ وہ ان دونوں سفروں کو ایک ہی تسلسل میں سمجھتی تھیں کیونکہ یہ واقعہ ولادت تو دوسرے سفر کا ہے اس لئے یہ بات درست نہیں کہ حضرت مولوی صاحب اُس وقت اکیلے مالیر کوٹلہ گئے تھے یا تو حضرت اماں جی اُس عرصہ میں جبکہ حضرت مولوی صاحب قادیان اور لاہور گئے مالیر کوٹلہ میں ہی رہیں یا حضرت مولوی صاحب کے ساتھ دوبارہ تشریف لے گئیں.چنانچہ مکرم عبدالرحیم صاحب ( درویش) بیان کرتے ہیں کہ قیام مالیر کوٹلہ میں حضرت مولوی صاحب ایک بار کچھ عرصہ کے لئے وہاں سے تشریف لے آئے تھے لیکن میں ۱۸۹۷ء میں ہی واپس آیا اور حضرت مولوی صاحب کے اہلِ بیت بھی ۱۸۹۶ء میں جا کر ۱۸۹۷ء میں ہی قادیان واپس آئے.عبدالرحیم خاں صاحب کی ولادت میرے قیام مالیر کوٹلہ کے دوران میں ہوئی تھی میں جلسہ اعظم مذاہب میں بھی شامل نہیں ہوا.
96 جیسے نبض قلب سے متابعت تامہ رکھتی ہے.یہ ہی حال آپ کا تھا حضور چاہتے تھے کہ اگر دوشادیوں سے نرینہ اولا د نہیں ہوئی تو تیسری شادی کر لی جائے شاید اس سے میسر آجائے چنانچہ حضور کے حکم سے حکیم مولوی فضل الدین صاحب بھیروی رضی اللہ عنہ نے ذیل کا خط حضرت نواب صاحب کو تحریر کیا.حضرت نواب صاحب کو اس بارہ میں تحریر کرنے کا موجب یہ امر بھی ہوگا کہ حضرت نواب صاحب حضرت مولوی صاحب کیلئے حد درجہ احترام رکھتے تھے اور یہ خواہش بھی رکھتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب مالیر کوٹلہ تشریف لایا کریں.مکرم معظم جناب نواب صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ حضرت امام حجتہ الاسلام سلہم اللہ تعالیٰ وَأَيَّدَه کا منشاء ہے کہ مولوی نورالدین صاحب کی شادی تیسری ہو جاوے اس فکر میں بہت طرف خیال کیا تو ایک امریہ بھی خیال ہیں آیا کہ کھیرو میں نور محمد کی لڑکی بھی ہے آپ ایک لائق سمجھدار راز دار عورت بھیج کر دریافت فرما دیں کہ وہ لڑکی کیسی ہے مفصل پتہ لے کر اطلاع فرما دیں.حاشیہ حاشیہ میں اس کا حہ یہ دیا جاتا ہے: ۶ ر جون ۹۷ ء.خاکسار فضل دین حسب الحکم امام صادق ایدہ اللہ تعالی از دارالامان قادیان کرم منظم جناب نواب صاحب السلام علیکم و رحمہ اللہ سے حضرت امام حجتہ الاسلم سلیم ال تعالے واہد کا مت رہے 2 مولور لوز الدور صاحب کے مشادی تیری ہو جاء اسرینگر می بست طرف خیال کیا تو ایک اور چیه بر جنب میرا کر کبیر میں نو محمد کی نا کی یہی ھے.آپ ایک لائق سمجھ دار راز دار عورت پیکر دریافت نمایوسی کہ وہ لڑکی کیسی سے مطلب پتہ کے کی اطلاع نمادی با جون سمیع خاک و تصمیم حب الحلم امام های ایده الدراسته از اهم الدوران قادریان
97 اوپر کے خط کے دوسری اور پھر اگلے صفحہ پر ذیل کا مکتوب مرقوم ہے: نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالٰی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کو معلوم ہوگا کہ مولوی صاحب کے پانچ لڑکے ہو کر فوت ہو گئے ہیں اب کوئی لڑکا نہیں.اب دوسری بیوی سے ایک لڑکی پیدا ہوئی ہے.اس صورت میں میں نے خود اس بات پر زور دیا کہ مولوی صاحب تیسری شادی کر لیں.چنانچہ برادری میں بھی تلاش در پیش ہے.مگر میاں نور محمد کھیر والے کے خط سے معلوم ہوا کہ ان کی ایک نا کدخدا لڑکی ہے اور وہ بھی قریشی ہیں.اور مولوی صاحب بھی قریشی ہیں اسلئے کچھ مضائقہ معلوم نہیں ہوتا کہ اگر وہ لڑ کی عقل اور شکل اور دوسرے لوازم زنانہ میں اچھی ہوتو وہیں مولوی صاحب کے لئے انتظام ہو جائے.پس اس غرض سے آپ کو تکلیف دی جاتی ہے کہ آپ کوئی خاص عورت بھیج کر اس لڑکی کے تمام حالات دریافت کرا دیں اور پھر مطلع فرما دیں اور اگر وہ تجویز نہ ہو اور کوٹلہ میں آپ کی نظر میں کسی شریف کے گھر میں تعلق پیدا ہو سکے تو یہ بھی خوشی کی بات ہے کیونکہ اس صورت میں مولوی صاحب موصوف کو کوٹلہ سے ایک خاص تعلق ہو جاوے گا مگر یہ کام جلدی کا ہے اس میں اب تو قف مناسب نہیں آپ بہت جلد اس کام میں پوری توجہ کے ساتھ کارروائی فرماویں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ (۶ جون ۹۷ غیر مطبوعہ ) اس بارہ میں نواب صاحب کی طرف سے ایک مکتوب آنے پر ۲۷ جون ۱۸۹۷ء کو حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں : ا خویم مگر می حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کے لئے مجھے ابھی تک آں محب کی طرف سے کچھ تحریر نہیں آئی.میں نے سُنا ہے کہ مولوی صاحب کی نسبت انہیں کی برادری میں سے ایک پیغام اور آیا ہے اور ایک جگہ اور ہے.سو آپ کو یہ بھی تکلیف دی جاتی ہے کہ اگر وہ مقام جو آپ نے سوچا ہے قابل اطمینان نہ ہو یا قابل تعریف نہ ہو یا اس کا ہونا مشکل ہو تو آپ جلد اس سے مطلع فرما دیں.تا دوسرے مقامات میں سلسلہ جنبانی کی جائے.22
98 نواب صاحب نے ایک خط اس تعلق میں ارسال کیا جس کے جواب میں حضور تحریر فرماتے ہیں : نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس وقت مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا.اس کو پڑھ کر اس قدر خوشی ہوئی کہ اندازہ سے باہر ہے.مجھے اول سے معلوم ہے کہ نور محمد کی لڑکی کی شکل اچھی نہیں اور نہ ان لوگوں کی معاشرت اچھی ہے.اگر سادات میں سے کوئی لڑکی ہو جو شکل اور عقل میں اچھی ہو تو اس سے کوئی امر بہتر نہیں.اگر یہ نہ ہو سکے تو پھر کسی دوسری شریف قوم میں سے ہو.مگر سب سے اول اس کے لئے کوشش چاہیئے اور جہاں تک ممکن ہوجلد ہونا چاہئے.اگر ایسا ظہور میں آ گیا تو مولوی صاحب کے تعلقات کو ٹلہ سے پختہ ہو جائیں گے اور اکثر وہاں رہنے کا بھی اتفاق ہوگا.یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور چند ہفتہ میں یہ مبارک کام ظہور میں آئیں تو کیا تعجب ہے کہ یہ عاجز بھی اس کارخیر میں مولوی صاحب کے ساتھ کوٹلہ میں آوے.سب امر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے امید کہ پوری طرح آں محب کوشش فرما دیں کیونکہ یہ کام ہونا نہایت مبارک امر ہے.خدائے تعالیٰ پوری کر دیوے آمین ثم آمین.ZA پھر حضور نے ۴ ستمبر ۱۸۹۸ء کو مزید تاکید کرتے ہوئے تحریر فرمایا: افسوس کہ مولوی صاحب کے لئے نکاح ثانی کا کچھ بندوبست نہیں ہو سکا.اگر کوٹلہ میں یہ بندوبست ہو سکے تو بہتر تھا.آپ نے سن لیا ہوگا کہ مولوی صاحب کی جوان لڑکی چند خوردسال بچے چھوڑ کر فوت ہو گئی ہے.حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ 66 مالیر کوٹلہ میں سیدوں کا ایک خاندان تھا جو رئیس خاندان کے پیر کہلاتے تھے.ان کے خاندان میں سے ایک کو خط حضرت نواب صاحب نے لکھا تھا لیکن کسی جگہ کامیابی نہ ہوئی اور پھر اولا دنرینہ بھی ہونے لگی اس لئے بالآ خر اور شادی کا خیال رہ گیا.
99 حضرت اقدس کی طرف سے نواب صاحب کو ملاقات کی بار بار ترغیب انبیاء کی صحبت تمام امراض روحانیہ کے دفعیہ کے لئے تریاق اور اکسیر کا حکم رکھتی ہے.صحبت صالحین والے اثرات بدرجہ اولئے ان کی صحبت سے مترتب ہوتے ہیں.حضرت اقدس ہمیشہ احباب کو بار بار قادیان آنے اور زیادہ سے زیادہ قیام کرنے کی تلقین فرماتے تھے ان کی آمد سے آپ کے دل کی کلی کھل جاتی تھی اور ان کی واپسی کی جدائی آپ کے قلب رقیق کو مغموم کئے بغیر نہ رہ سکتی تھی.چنانچہ آپ نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی رحمہ اللہ ) کے ختم قرآن کی آمین کے موقعہ پر بیرونی دوستوں کو بھی شرکت کے لئے مدعو کیا ان کی واپسی کا خیال کر کے آپ اپنے غم کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے ہیں : مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يُرَانِي دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑیگا جو ملا ہے گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے شکوہ کی کچھ نہیں جایہ گھر ہی بے بقا ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يُرَانِي نواب صاحب کو بھی حضرت اقدس بار بار ملاقات کی تلقین فرماتے تھے اور حضور کی تو جہات سے نواب صاحب کو قادیان بار بار آنے کا موقعہ ملا.چنانچہ بیعت کے ذکر میں گذر چکا ہے کہ بیعت سے قبل ۱۵ جولائی ۱۸۹۰ء کو اور بعد بیعت ۱۴ فروری ۱۸۹۱ء کو آپ کے قادیان میں ہونے کا ذکر حضرت اقدس نے اپنے مکتوبات میں کیا ہے.اسی تعلق میں حضور نے ۹ جنوری ۱۸۹۲ء کو آپ کو تحریر فرمایا: یہ عاجز انشاء اللہ العزیز ۲۰ جنوری ۱۸۹۲ء کو لاہور جائیگا اور ارادہ ہے کہ تین چار ہفتہ تک لاہور رہے.اگر کوئی تقریب لاہور میں آپ کے آنے کی اس وقت پیدا ہو تو یقین کہ لاہور میں ملاقات ہو جائے گی.پھر ۱۰ دسمبر ۱۸۹۲ء کو تحریر فرمایا: مکرر میں آپ کو کہتا ہوں کہ اگر آپ چالیس روز تک میری صحبت میں آجائیں تو مجھے یقین ہے کہ میرے قرب و جوار کا اثر آپ پر پڑے اور اگر چہ میں عہد کے طور پر نہیں کہ سکتا.مگر میرا دل شہادت دیتا ہے کہ کچھ ظاہر ہوگا جو آپ کو کھینچ کر یقین کی طرف لے جائے گا.
100 مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں : جنوری ۹۲ء میں حضرت اقدس لاہور تشریف لے گئے ابتدا چونے منڈی میں منشی میران بخش کی کوٹھی میں فروکش ہوئے.وہاں آپ نے ایک تقریر کی اور حضرت حکیم الامہ نے بھی تقریر کی تھی.اس کے بعد محبوب رایوں کے مکان واقعہ ہیرا منڈی میں تشریف لے گئے اور وہاں قیام فرمایا.فروری میں مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے حضرت اقدس کا مباحثہ ہوا.اس عرصہ میں حضرت نواب صاحب کو لا ہور آنے کا موقعہ نہیں ملا.البتہ آپ جلسہ سالانہ ۹۲ء میں شریک ہوئے.“ مارچ ۹۳ء میں حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نے بھی دو روز کے لئے دعا کی خاطر قادیان آنے کی آپ کو تحریک فرمائی چنانچہ فرماتے ہیں: بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وآله واصحابه لتسلیم.خاکسار نور الدین اللهم اجعله اسمه آمین.بگرامی خدمت حضرت نواب صاحب مکرم معظم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ.گذارش پرداز ا.عرق اور افسنتین.دونوں وقت سحر اور افطار کے وقت کھانے سے اول گودس منٹ ہی پہلے کیوں نہ ہو کھالیں.۲- معدہ پر روغن کا ملناخلو معدہ کے وقت انسب ہے اور رمضان شریف میں وہ دو پہر اور رات کے دس بجے کافی ہے.اگر دو وقت نہ ہو سکے تو ایک ہی وقت کافی ہے.دوپہر کے وقت.یہاں تک آپ کے ۱۳ مارچ ۹۳ ء کے کرم نامہ کا جواب ہے.اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں اپنی صفات میں اپنے افعال باہمہ کامل عدل اور کامل رحم کے بالکل مستغنی ہے اور صاف ظاہر ہے کہ کامل علم کامل قدرت کامل خدائی کو غنالازمی ہے.پھر بائیں ہمہ اللہ تعالیٰ حتی اور سیتر ہے.کیا معنی بڑا حیا والا اور پردہ پوش ہے.یہ میری باتیں سرسری نہیں بلکہ واقعی ہیں.حضرت جب آپ کے لئے دعا پر زور دیتے تب ہی آپ کے لئے صبر اور تقویٰ کا حکم نازل ہوتا حضرت حیران رہ جاتے کہ یہ کیا معاملہ ہے آخر یہ صلاح ٹھہری کہ پیارا نواب صرف دو روز کے واسطے یہاں آجاوے.مطلب یہ تھا کہ بعض وقت رو برو ہونے سے حجاب جلد اُٹھ جاتا ہے.ان چند روزوں میں آپ کے لئے توجہ پیش تھی آپ زیادہ تر خوف الہی اور خشیت ربانی سے کام لیتے اور مجھے یقین
101 ہے کہ اب آپ تلافی کریں گے.استغفار.لاحول اور نماز میں دعا سے زیادہ کام لیں گے.رمضان شریف زیادہ موقعہ دیگا.سنو بھائی ! جو عذر آپ نے بیان فرمائے ہیں وہ خود ہی کیا ہیں.بحمد اللہ ہماری حالت بھی بہت امیروں ، دولتمندوں ، آسودوں سے کم نہیں اور علم وفہم اور اس پر مختلف مجلسوں مختلف بلاد اور مختلف باتوں کے سنے کا موقعہ ہم کو بہ نسبت امراء کے زیادہ تر حاصل ہے.پھر آپ جانتے ہیں ان دنوں مجھے علاج معالجہ کے واسطے زیادہ فرصت نکالنی مناسب تھی.مگر پھر بھی مرزا جی کی صحبت کو کتنا مقدم کر لیا.آپ کی ضرورتیں مجھ سے زیادہ نہیں مگر یہ فقرہ تفسیر طلب ہے تو میں تفسیر کو حاضر ہوں.“ حضرت نواب صاحب کی ڈائری سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸ جنوری ۹۸ ء کو آپ کوٹلہ سے روانہ ہو کر اگلے روز قادیان - پہنچے ۲۸ جنوری کی ڈائری سے بھی آپ کے قادیان میں ہونے کا علم ہوتا ہے اور گوابتداء جولائی ۹۸ء میں بھی آپ قادیان آئے تھے * پھر بھی حضور نے ۲۱ / جولائی ۱۹۸ء کو آپ کو تحریر فرمایا کہ: ان دنوں التزام نماز ضروری ہے.مجھے تو یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ دن دنیا کے لئے بڑی بڑی مصیبتوں اور موت اور دُکھ کے دن ہیں اب بہر حال متنبہ ہونا چاہیئے.عمر کا کچھ بھی اعتبار نہیں.میں نے خط کے پڑھنے کے بعد آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور امید ہے کہ خدا تعالیٰ قبول فرمائے گا مجھے اس بات کا خیال ہے کہ اس شور قیامت کے وقت جس کی مجھے الہام الہی سے خبر ملی ہے حتی الوسع اپنے عزیز دوست قادیان میں ہوں مگر سب بات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.حضور ۲۹ جنوری ۱۹۰۰ء کو تحریر فرماتے ہیں کہ : ۸۲ 66 اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے اور کامل طور پر قوت ایمان عطا فرمادے اور ہر طرح سے امن میں رکھے تب اس کے باقی ہموم وعموم کچھ چیز نہیں.میرا دل بہت چاہتا ہے کہ آپ دو تین ماہ تک میرے پاس رہیں نہ معلوم کہ یہ موقعہ کب ہاتھ آئے گا.۱۸۳ فروری ۹۸ء میں حضرت نواب صاحب کے قادیان آنے کا علم الحکم پر چہ ۹۸-۳-۱۳ (صفحہ ۲ کالم ۱) سے اور جولائی میں آنے کا علم حضرت اقدس علیہ السلام کے ایک غیر مطبوعہ مکتوب مورخہ ۴ جولائی ۹۸ ء سے ہوتا ہے جس میں حضرت اقدس اگلے روز قادیان سے جانے کی اجازت نواب صاحب کو مرحمت فرماتے ہیں.
102 اور ۷ اگست ۱۹۰۰ء کو تحریر فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں اپنے بے انتہا اور نہ معلوم کرم اور فضل آپ پر کرے اور لباس التقویٰ سے کامل طور سے اولیاء اور صلحا کے رنگ سے مشرف فرمادے.ایک بڑی خواہش ہے کہ آپ فرصت پاکر تشریف لاویں کیونکہ اب تک یک سوئی اور مخاطبت کی صحبت کا آپ کو اتفاق نہیں ہوا.نواب صاحب ۱۳ نومبر ۱۹۰۱ء کو روانہ ہو کر اگلے روز قادیان پہنچے اور آخر ماہ تک آپ کا قیام قادیان میں رہا.پھر آپ کچھ دنوں کے لئے چلے گئے بعد ازاں دسمبر کے اواخر میں دوبارہ قادیان تشریف لائے.ہجرت کے محرکات حضرت نواب صاحب کی ہجرت کی راہ میں متعد د موانع تھے.ظاہری دولت وحشمت ،مال ومنال، عز و جاہ ، اقارب، جاگیریں اور وطن جہاں آپ کی ایک طرح کی حکومت تھی.قادیان آنا ایک حد تک ان سب علائق دنیویہ سے انقطاع چاہتا تھا اور یہاں آکر قیام کرنے سے ان میں کمی آتی تھی.سو اگر قادیان میں لانے کا باعث کوئی باطنی اور روحانی کشش نہ تھی اور کون سی ظاہری جاذبیت تھی کہ جس نے ان سے سب کچھ چھڑا کے دو چھوٹے چھوٹے کمروں میں جن کے قریب ایک دو اور کچھ کمرے بنوا لئے تھے رہنے پر آمادہ کر لیا اور آپ کے دل نے اپنے محلات چھوڑ کر اس تنگ جگہ کی بود و باش کو اپنے لئے باعث صدعز وفخر جانا اور ہر طرح اطمینان پایا.اسوقت قادیان کی کیا حالت تھی پانچ سال بعد کی ہی حالت سے اندازہ لگا لیجئے جب کہ مئی ۱۹۰۵ء میں مولانا ابوالکلام آزاد ( وزیر تعلیم بھارت) کے بھائی مولانا ابوالنصر آہ قادیان آئے آپ تحریر کرتے ہیں: آپ کی ڈائری ۰۱-۱۱-۱۳ سے ۰۱-۱۱-۲۶ تک ملی ہے اس کے بعد ۰۲-۱-ا سے شروع ہوتی ہے.اس سفر میں ساتھ آنے والوں میں مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب کا نام بھی درج ہے.میاں صاحب موصوف ذکر کرتے ہیں کہ آمین کے وقت میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے ساتھ چوکی پر کھڑا ہوا تھا.سیدہ موصوفہ اور آپ کے بھائیوں کی آمین ۰۱-۱۱-۳۰ کو ہوئی تھی.اور سیدہ موصوفہ تصدیق فرماتی ہیں کہ میاں صاحب موصوف کا آمین کے وقت موجود ہونا مجھے بھی یاد ہے گویا کہ نواب صاحب کا قیام اس تاریخ تک ہونا یقینی ہے.قادیان سے جانے کی تاریخ کا کوئی ریکارڈ نہیں.
103 نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی شاندار اور بلند عمارت تمام بستی میں صرف ایک ہی عمارت ہے.راستے کچے اور نا ہموار ہیں.بالخصوص وہ سڑک جو بٹالہ سے قادیان تک آئی ہے اپنی نوعیت میں سب پر فوق لے گئی ہے.آتے ہوئے یکہ میں مجھے تکلیف ہوئی تھی.نواب صاحب کے رتھ نے کوٹتے وقت اس میں نصف کی تخفیف کر دی.اگر مرزا صاحب کی ملاقات کا اشتیاق میرے دل میں موجزن نہ ہوتا تو شاید آٹھ میل تو کیا آٹھ قدم بھی آگے میں نہ بڑھ سکتا.“ ۱۸۵ مولا نا موصوف کے بیان سے اس وقت کی حالت ظاہر ہے جن دوستوں نے مذکورہ مکان حضرت نواب صاحب کا دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ معمولی حیثیت کا ہے جب وہ سارے قادیان میں اس وقت ایک ہی شاندار عمارت سمجھا جاتا تھا تو اس وقت کی قادیان کی جو حالت ہوگی ظاہر ہے.سو ہجرت کے محرکات کیا تھے؟ دنیا سے روگردانی.بے پناہ مذہبی جذ بہ اور صحبت صالحین سے استفادہ کا جوش * یہ حقیقت ہے کہ دل حضرت نواب صاحب میں جو دین کے لئے جذبہ تھا وہ حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کے ذیل کے مکتوب سے عیاں ہوتا ہے.تحریر فرماتے ہیں: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.یہ وساوس ہیں اور سالک کو ضرور پیش آتے ہیں.ان میں تجدید نکاح کی ضرورت نہیں اور ہرگز نہیں.آپ ذرہ بھی توجہ نہ فرما دیں.یہ کیا وساوس ہیں کیا اچھا ہوتا اگر آپ گا ہے گا ہے قادیان آجایا کرتے.کوئی بھی تکلیف آپ کو یہاں انشاء اللہ تعالیٰ نہ ہوتی نہ غسل خانہ کی نہ پاخانہ کی اور میں انشاء اللہ تعالیٰ یہ چیزیں تیار کر دونگا.باقی قصہ ایسا ہے کہ جلد طے ہوسکتا ہے.یہ شیطانی وساوس ہیں ان کا کیا بقا ہے.ثبوت اشیاء کا اس طرح بھی ہوتا ہے کہ راست باز اور بکثرت راست باز شہادت دیں اور ان کی شہادت میں کوئی کارستانی نہ ہو.نواب ! میں راستباز ہوں اور بڑوں کسی طمع و غرض کے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی آواز اور کلام میں نے خود سنی ہے.میرے دوستوں میں مرزا خدا بخش بھی ہیں ان کو السلام علیکم عرض کر دیں اور یاد دلا دیں کہ القول المستحسن میاں یوسف علی خاں صاحب کو دیدی پہنچادی یا نہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے کنبہ کو صحت و عافیت بخشے.نورالدین ۹؍ دسمبر ۹۷ از قادیان
104 میں نور پیدا ہوتا ہے تو آسمانی نور بھی نازل ہوتا ہے.آپ کا قلب صافی صحبت صالحین کے شوق میں بار بار حضرت مولوی نورالدین صاحب کو مالیر کوٹلہ آنے کی تحریک کرتا تھا.حضرت نواب صاحب کا نور قلب حضرت اقدس علیہ السلام کی تو جہات شفقت اور دعاؤں کے لئے جاذب ہوا اور اللہ تعالے نے اپنے فضل سے حضرت نواب صاحب کے لئے تمام مشکلات سہل کر دیں.اور انشراح قلب کے ساتھ ہجرت کا عزم کر لینے کی توفیق ارزاں کی لیکن جب تک آپ کا قادیان ہجرت کر آنا متعذر رہا.آپ المکتوب نصف الملاقات سے کماحقہ فائدہ اٹھاتے رہے.چنانچہ حضرت اقدس کے علاوہ دیگر بزرگانِ کرام سے بھی آپ کی خط و کتابت تھی اور ان سب کی طرف سے آپ کو ترغیب حسنات کی جاتی.سلسلہ کے حالات سے آگاہ کیا جاتا.ایک عرصہ تک نواب صاحب نے اپنے نمائندہ کے طور پر اپنے ملازم مرزا خدا بخش صاحب کو قادیان بھیجا تا کہ حضرت اقدس کی خدمت میں دعاؤں کی تحریک ہوتی رہے اور قادیان کے حالات کی اطلاع بھی آتی رہے.اور بعض اوقات حضرت اقدس بھی بطور نمائندہ مرزا صاحب کو بلوا لیتے تھے یہ چنانچہ حضور ۱۸ را پریل ۱۸۹۹ء کو حضرت نواب ذیل میں احباب کے علم کے لئے اور فائدہ کے لئے ان ایام کے مکتوبات درج کر دئے جاتے ہیں ان میں بعض غیر مطبوعہ رویا بھی ہیں اور وعظ ونصیحت وغیرہ بھی.مرزا خدا بخش صاحب کے متعلق سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ نواب صاحب نے بطور نمائندہ انہیں قادیان میں بھیجا تھا.وہ سال بھر قادیان میں رہے.حضرت اقدس کے حالات نواب صاحب کو لکھا کرتے تھے.انہیں ساٹھ روپے مشاہرہ ملتا تھا جو اس زمانہ کے لحاظ سے بہت بڑی رقم تھی ان کو حضرت اقدس نے سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ والے حصہ میں دار امسیح میں ٹھہرنے کے لئے جگہ دی اور ان کا خاص خیال رکھتے تھے اور یہ سب احترام نواب صاحب کی وجہ سے تھا اور بعد میں بھی یہی امر مرزا صاحب کے ابتلا کا موجب بنا کہ وہ سمجھنے لگے کہ ان میں کوئی خاص خوبی پائی جاتی ہے.یہ چونکہ ان کا بعد میں حال ہوا اس لئے پہلے کے ایام کے ان کے نوشتہ حالات درج کرنے میں حرج نہ دیکھ کر انہیں بھی شائع کیا جا رہا ہے.۱- مرزا خدا بخش صاحب حضرت نواب صاحب کو تحریر کرتے ہیں : بسم الله الرحمن الرحيم قادیان ۲۲ / مارچ ۹۳ء نحمده ونصلى على رسوله الكريم آقائے نامدار عالی وقار - السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.آج کل حضرت اقدس با وجود ضعف و بیماری کے جناب کے واسطے سخت مجاہدہ میں مصروف رہے.کل شب کو ایک خواب اور کچھ تحریری طور پر لکھا ہوا پیش
105 صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: بقیہ حاشیہ : - ہوا.لکھا ہوا تو سوائے ن وض کے اور کچھ پڑھا نہ گیا اور خواب بھی سارا یاد نہیں رہا.اخیری فقرہ یا در ہاوہ یہ تھا.ان اللہ علیم حکیم آج شب کو خداوند تعالیٰ ) نے ) فیصلہ ہی کر دیا ہے اور اب حضرت اقدس فرماتے ہیں.اب بار بار اسی مطلب کے واسطے دعا کرنا اللہ تعالیٰ کے سامنے گستاخی کرنا ہے.الہام جو آج رات کو ہوا وہ یہ ہے ان الله علی کل شی قدیر.پھر کشفی طور پر یہ معلوم ہوا قُل كُونو اللہ قَانِتِنُ - اول کے تو یہ معنی ہیں کہ اللہ سب چیز پر قادر ہے.دوسرے کے یہ ہیں کہہ دے کہ وہ اللہ کے فرمانبردار ہو جائیں یعنی دعا تو قبول ہو چکی ہے اور اللہ تعالیٰ کی منشاء جناب کے مدعا براری کے لئے پائی جاتی ہے.مگر شرط یہ لگائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پورے پورے فرماں بردار ہو جاؤ.اب سب بات آپ پر آن پڑی ہے آپ کو چاہیئے کہ ہر امر میں اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کو اپنا شیوہ بنائیں.حضرت اقدس کل خود ایک خط جناب کی خدمت میں تحریر فرما دیں گے...أخر العباد خدا بخش.نوٹ : حضرت اقدس کے ۹۳ - ۳ - ۲۵ کے مکتوب میں کُونُوا نہیں بلکہ قُومُوا مرقوم ہے.۲- حضرت مولوی عبد الکریم صاحب تحریر فرماتے ہیں.بسم الله الرّحمن الرّحيم الحمد لولّيه والصلوة والسلام على نبيه و آله ـ جناب مکرم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عبداللہ فخری کا خباثت اور شرارت اور نا قابل عفو گستاخی سے بھرا ہوا خط خدمت میں ارسال کرتا ہوں جو کل کی ڈاک میں موصول ہوا مجھے افسوس ہے کہ اس ناپاک خط کے پڑھنے سے آپ کو تکلیف ہوگی.گستاخ بے ادب کو اتنا تو سمجھنا چاہئے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اس میں مخاطب کرنے کا کونسا حل ہے.بہر حال امید ہے کہ آپ اسے سمجھائیں گے.ایک ہفتہ ہوا لا ہور سے ایک بی اے نو جوان بنوں کا رہنے والا بڑا تیز طبع ہمارے حضرت کو دیکھنے کے لئے ( آیا ) دوسرے روز جمعہ تھا.بعد از جمعہ اس نے رخصت مانگی.حضرت کے دل میں القاء ہوا کہ اس کے لئے دعا کرو.دعا کی معاً اس کا قلب تبدیل کیا گیا اور بیعت کی درخواست کی اور بفضل اللہ زمرہ مخلصین عباد میں شامل ہو گیا.والحمد لله علی ذلک رسالہ دعا ابھی لکھا جارہا ہے.آپ کے کرم سے انگریزی اخبار برابر دیکھنے میں آتا ہے.اگر مرزا خدا بخش صاحب خدمت میں ہوں سلام علیکم اور میری امانت جلد مجھے پہنچا ئیں مجھے سخت ضرورت ہے.عاجز عبدالکریم ۱۹ را پریل.
106 عید کی تقریب پر اکثر احباب قادیان آئیں گے اور بعض دینی مشورے بھی اسی دن پر موقوف رکھے گئے ہیں.سو اگر آں محب آ نہ سکیں جیسا کہ ظاہری علامات ہیں بقیہ حاشیہ:.نوٹ: رسالہ دعا سے مراد کتاب ایام صلح ہے جس میں دعا کے متعلق حضرت اقدس نے بہت کچھ رقم فرمایا ہے اور اس کا ترجمہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کر رہے ہونے کا ذکر پہلی بار الحکم پرچہ ۲۷ مارچ ۹۸ ء ۶ را پریل میں آتا ہے اور طبع شدہ ہے.حضرت مولوی صاحب کے اسی ماہ کے ایک اور مکتوب میں رسالہ دعا کے ساتھ مولوی سید محمد احسن صاحب کی کتاب مسلک العارف کا بھی ذکر ہے اور وہ بھی ۱۹۸ء کی تصنیف ہے.- حضرت مولوی نورالدین صاحب نے رقم فرمایا: شامی صاحب کا معاملہ.شامی صاحب کی شادی میں دو آدمیوں کے خرچ کا ذمہ دار یہ خاکسار ہوا ہے اور یہی وعدہ میرا تھا جس پر میں بدل قائم ہوں اور انشاء اللہ تعالیٰ قائم رہوں گا.یہ انشاء اللہ تا کیدی اور قسم ہے نہ حیلہ سازی لفظ.مجھے یاد پڑتا ہے اگر میری یادداشت غلطی نہیں کرتی اور اگر غلطی ہو آپ اصلاح فرما دیں کہ آپ نے فرمایا تھا چھ روپیہ دو آدمیوں کے لئے کافی ہیں پس اس کی دو صورتیں ہیں.آپ کے دو آدمی مولوی عبداللہ صاحب میاں نواب خاں ہمارے پاس کھانا لیا کریں اور آپ اسکے بدلہ میں شامی کی بی بی اور اس کی والدہ کو دیں.جناب من.شامی کے ہاتھ اگر خزانہ قارون ہو کفایت نہیں کرتا.اور ہم اس کے فضول خرچ کے ذمہ دار نہیں نہ شرعاً نہ عرفاً.جب اس کو اپنے اخراجات کے لئے مجبور نہ کیا جاویگا وہ فضولی میں ترقی کریگا جس کی حد نہیں.پس یہ ہماری غلطی ہوگی اور ہے.شامی کے ہاتھ نقد روپیہ ہرگز نہ دیجئے اور کہہ دیجئے کہ ہم نے شادی کر دی تم اپنا فکر کرو.بی بی کا فکر نہ کرو نہ شادی کا.یہ ہماری طرف سے سلوک کم نہیں.میں تو شامی کو خوب جانتا ہوں مگر اس کی شادی کو اس کی اصلاح کا باعث خیال کرتا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ میرے ظن کو صحیح کر دے میں دل سے عرض پرداز ہوں کہ شامی صاحب کی بی بی اور ساس کا خرچہ جہاں تک مجھ میں توفیق ہے ۶ روپیہ ماہانہ یا آپ مجھے امداد کریں تو پانچ روپے.۱۶ دسمبر ۹۳ ء سے میرے ذمہ ہوا.اگر طالب علموں کا تبادلہ منظور ہو تو پھر روپیہ ششماہی یا ماہانہ جس طرح آپ فرماویں روانہ کروں.والسلام جو نا بینا قابل رحم ہے اس کو آپ دیں.“ نوٹ: یہ خط اکمل ہے.
107 تو مناسب ہے کہ ایک ہفتہ کے لئے مرزا خدا بخش صاحب کو بھیج دیں تا ان مشوروں بقیہ حاشیہ: - -۴- ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ کے تعلق میں مرزا خدا بخش صاحب تحریر کرتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم گورداسپور ۲۱ اگست ۹۷ء نحمده ونصلی مخدوم و مکرم جناب نواب صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے دشمنان دین کا منہ کالا کر دیا.اس مخبر نے محض تائید الہی سے صاف صاف بیان کر دیا کہ فلاں فلاں پادری نے مجھے سکھلایا اور اس وکیل نے جو عیسائیوں کی طرف سے عدالت میں پیرو کار تھا.امرتسر کے مقام پر یہ یہ باتیں سکھلائیں اور مجھے بہت ڈرایا اور دھمکایا گیا اور میرا تین دفعہ فوٹو لیا گیا اور کہا گیا کہ اگر تو بھاگ جائیگا تو تجھے گرفتار کرایا جاوے گا.غرض ان سے کل (لفظ پڑھا نہیں گیا) کے ساتھ ہر ایک عیسائی کے سامنے بڑی جرات سے کل راز سر بستہ کوکھول کر عیسائیوں کے مکر اور فریب اور بے ایمانی کو اظہر من الشمس کر دیا.والـحـمـد الله علی ذلک.حضرت اقدس سے جواب دعوی ہی نہیں لیا گیا.صاحب مجسٹریٹ نے اس مخبر کو رہا کر دیا اور ہدایت کی تم اپنے وطن کو چلے جاؤ.کپتان صاحب نے بڑی عمدہ شہادت دی کہ اس مخبر کی خاص نگرانی کی گئی.حضرت مرزا صاحب کا کوئی آدمی نزدیک نہیں آنے پایا.جب میں نے بحکم صاحب مجسٹریٹ اس مخبر سے اصلیت کی تحقیق کے لئے اس سے دریافت کیا تو برابر اپنے سابقہ بیان...پر مصر رہا.ایک روز میں نے بذات خود دریافت کیا.دو دفعہ تو یہی کہا کہ میرا وہی بیان ہے جو تیسری مرتبہ کپتان نے (کہا) کہ تم ٹھیک ٹھیک بیان کر دو اس پر یک لخت اس....پگڑی کو سر سے اتار کر کپتان صاحب کے پاؤں پر گر پڑا اور زار زار رونے لگا....اگر مجھے معافی ہو تو میں صاف صاف بیان کر دیتا ہوں.کپتان نے کہ دیا کہ اچھا تمہیں معافی دی جاتی ہے تم راست راست ایمان سے کہو چنانچہ اس نے صاف صاف بیان کر دیا اور پھر مجسٹریٹ کے سامنے بھی اس نے بڑی جرات کے ساتھ اصل حقیقت بیان کر دی ہے.کپتان کے روبرو اس نے محمد حسین بٹالوی کا نام بھی لیا تھا کہ اس نے مجھے بہت کچھ سمجھایا تھا.مگر عدالت میں اس نے اس کا نام بیان نہیں کیا.شاید سہوا بھول گیا.اس کم بخت بدنصیب شیخ کا انجام بد ہی نظر آتا ہے مخالفت اور عدوات میں اس کی یہاں تک نوبت پہنچی ہے لیکن چونکہ اس کی نسبت الہام مدت سے ہے کہ انی مهین من اراد اهانتک اس کی کرات مرات تصدیق ہونی ضروری ہے کیونکہ وہ اب تک اپنی سرکشی سے باز نہیں آیا.اس موقعہ پر جو ذلت اور خواری اس نا اہل مولوی کو نصیب ہوئی اس کی کوئی انتہا ہی نہیں چونکہ منشی یعقوب علی صاحب نے کل کارروائی کو چھاپ دیا ہے.اس واسطے اس کا لکھنا ضروری
108 ۱۸۷ میں شامل ہو جائیں.“ اسی طرح حضور ۲۹ جنوری ۱۹۰۰ء کو تحریر فرماتے ہیں : دعا تو بہت کی گئی اور کرتا ہوں مگر ایک قسم دعا کی ہوتی ہے جو میرے اختیار بقیہ حاشیہ : نہیں معلوم ہوتا اللہ تعالیٰ نے بے مانگے حضرت اقدس کو کرسی دلوادی اور جہاں جہاں سے گذر ہوا لوگ زیارت کے لئے آتے اور بڑے ادب سے تعظیم و تکریم کرتے.بٹالہ کے اسٹیشن پر جب پہنچا تو اسٹیشن پر حضرت اقدس مع ایک کثیر جماعت کے موجود تھے.اسٹیشن ماسٹر باوجود ہندو ہونے کے ان کی اس قدر تعظیم کرتا تھا کہ جس کی حد نہیں اور لوگ بہت ہی جھک جھک کر سلام کرتے اور گورداسپور تک جس قدرٹیشن تھے.لوگ ان کے آنے کے منتظر اور زیارت کے خواہاں موجود تھے اور ہندو اور سکھ وغیرہ آن کر سلام کرتے اور کہتے کہ بڑے مہاتما بڑے ولی ہیں.گورداسپور میں ادنے سے اعلیٰ تک خواہ حکام تھے.یا غیر حکام حضرت اقدس کی تعظیم کرتے تھے.اس مقدمہ سے حضرت اقدس کی مماثلت حضرت مسیح علیہ السلام سے کامل طور سے ثابت ہوئی ( پانچ سطر چھوڑ کر ناقل ) اسی طرح یہاں پر محمد حسین نے کہا کہ بغاوت کا ارادہ اور بادشاہ بننے کی خواہش کرتے ہیں.جیسے حضرت مسیح کے ساتھ حاکم معہ اپنے ملازمان کے طرفداری کرتے تھے ایسا ہی یہاں پر ہوا کہ چپڑاسیوں تک خیر خواہ تھے جیسے وہاں ایک معتقد نے گرفتار کروایا تھا ایسا ہی یہاں پر ہوا.اسی طرح یہاں پر بھی جمعہ کے روز فیصل ہوا.جیسے جمعہ کے روز وہ مقدمہ فیصل ہوا تھا اس جمعہ کو بوجہ عید یہودیان تعطیل تھی اسی طرح اس جمعہ کو جنم اسمٹی کی وجہ سے رخصت تھی.مگر باوجود اس کے دونوں موقعوں پر مقدمہ پیش ہوا.غرض ہر طرح مماثلت ثابت ہوتی ہے.اس دفعہ جس قدر ذلت محمد حسین کی ہوئی ہے ایسی شاید کسی کی نہیں ہوئی..اللہ تعالی (نے) سب کو شرمندہ کیا.محمد حسین تو اگر ذرہ بھی شرم اور حیا رکھتا ہو ڈوب کر مر جائے.مگر خدا معلوم ابھی اور ذلتوں کا منہ دیکھنا باقی ہوگا...صاحب مجسٹریٹ نے مخبر کو رہائی دیگر جہلم کو سوار کرا کر بھیج دیا ہے اور ہمارے وکلاء کو کہہ دیا ہے کہ غالباً تمہارے آنے کی ضرورت نہیں ہوگی اتوار کو فیصلہ لکھوں گا اور پیر کو سناؤں گا.ہماری جماعت کے بہت لوگ آئے ہوئے ہیں.والسلام عاجز مرزا خدا بخش ۵- مرزا خدا بخش صاحب تحریر کرتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی دارالامان قادیان ۲۳ فروری ۱۹۰۰ء مخدوم مکرم جناب نواب صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ...حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ
109 میں نہیں.غالبا کسی وقت کسی قدر ظہور میں آئی ہوگی اور اس کا اثر یہ ہوا ہوگا کہ پوشیدہ آفات کو خدا تعالیٰ نے ٹال دیا.لیکن میری دانست میں ابھی تک اکمل اور اتم طور پر ظہور میں نہیں آئی.مرزا خدا بخش صاحب کا اس جگہ ہونا بھی بہت یاد دہانی کا موجب بقیہ حاشیہ: - عید الاضحیٰ یہاں آن کر پڑ ہیں.اگر سارا ڈیرہ ہمراہ نہ ہو تو صرف مجر دہی ایک دو روز کے لئے ضرور آجائیں.اس موقعہ پر تمام جماعت کا فوٹو بھی لیا جائے گا.مسجد بڑی کو وسعت دے دی گئی ہے.غالباً عید بھی اسی مسجد میں پڑھی جائے گی.ٹرانسوال کے زخمیوں کے لئے چندہ اب تک کو ٹلہ سے وصول نہیں ہوا.ادھر حضرت اقدس نے خاکسار کو تاکید ا حکم دیا ہے کہ جس قدر فہرست تیار ہو چکی ہے وہ روئیداد کے ساتھ شائع کر دو.روئیداد میں نے کا تب کو دے دی ہے.اگر وہاں سے فہرست چندہ دہندگان آ جائے تو ساتھ ہی شائع ہونا مفید ہوگا.کل حضرت اقدس کو چار پانچ مریدوں کی قسمت دکھلائی گئی جن کو وہ خوب جانتے ہیں اور ایک کی عمر صرف چار سال باقی ہے اس سے زیادہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا.ایک یہ الہام بھی ہوا ہے کہ مَا اهْلَک اللهُ أَهْلَكَ یعنی اہل سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو دارالامان میں رہتے ہیں.معنی اللہ تیرے اہل کو ہلاک نہیں کرے گا.اور ایک الہام یہ بھی ہو او قادرٌ عَلَى الْإِجتماع والاجماعِ والجمعِ نظام الدین و امام الدین نے جو رستہ بند کر رکھا ہے اس کی اپیل چیف کورٹ میں ہماری طرف سے دائر ہے چیف کورٹ سے فریق مخالف کے نام نوٹس جاری ہوا ہے اور ۱۲ را پریل تاریخ مقرر ہے.اس تاریخ کو مجھے بھی چیف کورٹ میں حاضر ہونا ہوگا.ہماری طرف * مارٹین جو ایک لائق بیرسٹر کی طرح مشہور ہے.مقرر کیا گیا ہے.مقدمہ فوجداری میں ہے.دیکھئے کیا ہوتا ہے.اس کارروائی سے ڈپٹی کمشنر گورداسپور جو ایک شرابخور اور کینہ ور آدمی ہے ناراض سا ہے.پانچ روز ہوئے حضرت اقدس نے دیکھا ہے کہ ایک آدمی قتل ہو گیا ہے اور کل اس کا وقوعہ ہو گیا.یہاں کے زمیندار با ہم لڑپڑے اور ایک آدمی مارا گیا.ہماری جماعت سے ان کو تعلق نہیں ہے.کچھ یہاں دیوار مکان مرمت کر دی گئی ہے اور کچھ باقی ہے.روپیہ آنے پر مرمت کر دی جائے گی.اب ٹھیکہ کی کیا صورت ہے؟ صوفی صاحب کی اہلیہ کی وفات کا افسوس ہوا.عاجز مرزا خدا بخش.4 - حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ کا یہ مکتوب دعاؤں کے تعلق میں قیمتی شے ہے فرماتے ہیں:
110 ہے.میں امید کرتا ہوں کہ کسی وقت کوئی ایسی گھڑی آ جائے گی کہ یہ مدعا کامل طور پر ظہور میں آ جائے گا.“ ۸۸ بقیہ حاشیہ: - قادیان یکم جنوری.مکرم بندہ خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.دل میں سخت درد پہنچتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کا وجود اور اس کی صفت سمیع الداعین پر پُر از بصیرت یقین نہ ہو تو ایک رنجیدہ دل سے تو اس دنیا کی زندگی سے تلخ تر کوئی چیز نہ ہو.جب یہ صحیح ہے کہ جوش کا دل میں پیدا کرنے والا وہی ہے اور دل محسوس کرتا ہے کہ حقیقی اور بلا تصنع جوش سے لبریز ہے تو کیونکر اس یقین سے سیرابی نہ ہو کہ آپکے حق میں جو دعا ئیں جار قلب سے نکل رہی ہیں ضرور ایک دن پھل لائیں گی.مجھے اس تصور سے درد ضرور پہنچتا ہے پر تعجب نہیں پیدا ہوتا کہ آپ کے ابتلاؤں نے لنبی ( مراد لمبی ) اور بھیانک شکل پیدا کر لی ہے.اس لئے کہ بڑوں کے ابتلاء بھی بڑے ہوتے ہیں اور اسی مقدار پر دعائیں بھی بڑی ہوتی ہیں.رہا دعاؤں کے قبول میں توقف واقع ہونا یہ کوئی حیرت کی بات نہیں.یہ مسلم امر ہے کہ قبول دعا میں جتنی تاخیر ہو قبول کا ہونا یقینی اور قطعی ہو جاتا ہے.ہاں کرب اور قلق کی بات یہ ہے کہ ہمارے اخلاص اور انابت اور تنبل میں کوئی کوتا ہی ہوا اور ابتلاء اصطفاء کے رنگ میں نہ ہو.یہ بھی ہمارے علم اور احاطہ ادراک سے باہر بات ہے.ہم کہاں تک مغالطات نفس سے واقف ہو سکتے یا بچ سکتے ہیں.بہر حال ہمارا کام آستانہ الوہیت پر سر رکھے رہنا ہے.والسلام.امید ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کو خط لکھا ہو گا.کل میں ( نے ) عرض تو کیا تھا کہ اپنے ہاتھ سے تحریر فرما ئیں.مولوی صاحب کی حالت صحت اطمینان رہ نہیں.بائیں بازو کا درد بہت خوفناک مرض ہے.اس کی شدت اکثر ہو جاتی ہے.میری حالت الحمد اللہ ر و با فاقہ ہے.پنج شنبہ کے دن بڑی مسجد میں حضرت نے بڑی مؤثر تقریر کی جمعہ کے دن بھی بیعت کے بعد کچھ تقریر فرمائی کل میرے سوال پر فرمایا کہ اب پیشاب میں بھی بہت فرق پیدا ہوگیا ہے.والسلام.خاکسارعبدالکریم.نوٹ: میرے نزدیک یہ خط یکم جنوری ۱۹۰۵ء کا ہے.اس کے سنہ کی تعیین یوں ہوسکتی ہے کہ یہاں پنجشنبہ اور جمعہ کا ذکر کر کے پھر کل کا ذکر کیا ہے.گویا جمعہ کے بعد کل کا دن تھا یعنی ہفتہ اور روز تحریرا تو ار تھا.سوا تو ار اور یکم جنوری کا اجتماع ۹۳ء ،۹۹ء اور ۱۹۰۵ء میں ہوا ہے.میرے نزدیک یہ ۰۸ ء کا ہے.قرائن یہ ہیں: ا مالی ابتلا ء ۱۹۰۰ ء کے ٹھیکہ سے شروع ہوا.-1
111 ہجرت میں التوا مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ نواب صاحب عرصہ سے ہجرت کر کے قادیان آلیسنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن اس وقت آپ کی ہمشیرہ بو فاطمہ بیگم صاحبہ جو آپ سے شدید محبت رکھتی تھیں اور علیحدگی گوارا نہ کرتی تھیں اور آپ کی پہلی اہلیہ سے بھی محبت رکھتی تھیں.جو اس وجہ سے ان کے بہت زیر اثر تھیں، دونوں ہجرت سے مانع رہیں.اہلیہ گو اس امر پر رضا مند تھیں کہ آپ اکیلے قادیان ہجرت کر جائیں لیکن خود جانا پسند نہ کرتی تھیں معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اہل وعیال کے بغیر مستقل طور پر دوسری جگہ قیام کر نا محال نظر آتا تھا اور خاص طور پر یہ مشکل بھی نظر آتی ہوگی کہ ماحول نامناسب تھا وہاں اہل وعیال کو مستقل طور پر اکیلے چھوڑ آنا ان کے لئے اور اپنے لئے ہر وقت کی پریشانی کا موجب ہوگا.اس لئے آپ اس وقت ہجرت نہ کر سکے.چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے ۱۸ نومبر ۹۸ ء کے مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب صاحب کو یہ تحریک کی جا چکی تھی کہ وہ ہجرت کر کے قادیان آجائیں تا مدرسہ کا انتظام بہتر ہو سکے.اس وقت مدرسہ سیکنڈ مڈل تک کھل چکا تھا.۱۷ یا ۱۸ نومبر نواب صاحب کی اہلیہ اول کی وفات کی تاریخ ہے.حضرت مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں.-٣ قیه حاشیه -۲ نواب صاحب ۰۴-۸-۲۳ کو قادیان سے گئے.۱۰-۰۴ - ۸ کو بمقدمہ کرم دین حضرت اقدس اور حکیم فضل الدین صاحب کو سات صد روپیہ جرمانہ ہوا تھا.یہ رقم نواب صاحب نے لاہور سے بھجوائی تھی.۴ - ۲۴-۱۰-۰۴ کو حضرت اقدس نے نواب صاحب کو سفر سیالکوٹ کے بعض امور کی سرانجام دہی کے لئے مرزا خدا بخش صاحب کو منگوانے کے لئے لکھا.۵- نواب صاحب کو عنایت نامہ آنے پر حضرت اقدس نے ۰۵-۱-۱۲ کو ان کے لئے ابتلاء کے بارہ میں خط لکھا اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب والا خط بھی اسی مضمون کا ہے.-4 ۲۴-۱۰-۰۴ سے ۰۵-۱-۱۲ نواب صاحب کا قادیان آنار یکارڈ سے ثابت نہیں بلکہ یہ ثابت ہے کہ کئی ماہ کے بعد اپریل ۰۵ء میں واپسی ہوئی.-2 پنج شنبہ کی تقریر جس کا اوپر ذکر ہے حضور کا ۰۴-۱۲-۰۹ کومسجد اقصی میں احباب کی درخواست پر کرنا ثابت ہے.
112 میں نے مدرسہ کے متعلق بہت فکر کی ہے.میری رائے میں اس کی الجھنوں کا سلجھانا ایسا دشوار ہے کہ ایک لحاظ سے محال کے قریب قریب جا پڑتا ہے معا اس یقین سے لبریز ہوں کہ اللہ تعالیٰ پر اسکا آسان کرنا آسان ہے.نیت کے تمام گوشوں کو خوب مطالعہ کر کے کامل اخلاص اور خدا ترسی کو مد نظر رکھ کر دلیری سے آپ ایک بات فیصلہ کر دیں.پھر دیکھ لیں کوئی بھی حرج و ہر ج پیدا نہ ہوگا.میں سالہا سال کے تجربہ سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ شجاعت سے ایک امر طے کرنے والا آخر اپنی راہ صاف اور ہموار دیکھ لیتا ہے بہر حال آپ کا یہاں آنا از بس ضروری ہے خواہ تنگی کے ساتھ گذران کر لیں.آپ کی ذات کے لئے بھی مفید ہے اور دیگر مصالح کے لئے بھی.آپ نے چند روز بعد دوسری شادی کر لی آپ کی یہ رفیقہ حیات آپ کے ہمراہ ہجرت کر آنے پر رضامند تھیں.میر عنایت علی صاحب لدھیانوی رضی اللہ عنہ نے سنایا کہ ۱۹۰۰ء میں نواب صاحب ہجرت کرنے کے لئے تیار تھے کہ نواب لوہارو نے جو ان ایام میں ریاست مالیر کوٹلہ کے سپرنٹنڈنٹ لگے ہوئے تھے آپ کو کہا کہ ریلوے لائن کی تعمیر کا ٹھیکہ آپ لیں.میر صاحب نے خواب دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا کہ نواب صاحب کیوں نہیں آئے.میر صاحب نے ٹھیکہ کی وجہ بتائی تو فرمایا خیر یہ دھوکہ کی ٹی ہے.چنانچہ میر صاحب قادیان آئے تو حضور نے یہی سوال کیا اور میر صاحب کے ٹھیکہ کی وجہ بتانے پر خاموش رہے دوسرے ٹھیکیدار تو افسران کی منت خوشامد کر کے رشوت دے کر مال پاس کرا لیتے ہیں نواب صاحب فطرتا اس امر سے متنفر تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کا اول درجہ کا مال دوم اور سوم درجہ میں پاس کیا گیا چنانچہ اس ٹھیکہ میں نقصان عظیم برداشت کرنا پڑا.(ع) ہجرت حضرت نواب صاحب کے بلند روحانی مقام کا کون اندازہ کرے جس نے ایک رئیس کے گھر میں پیدا ہو کر تھیں اکتیس برس کی عمر میں جب رئیس زادوں کو لہو ولعب کے سوا اور کوئی کام نہیں ہوتا دنیا اور اس کی لذات یہ غیر مطبوعہ مکتوب بتمامہ مدرسہ کے تعلق میں نقل کیا گیا ہے.گذشتہ صفحات میں حاشیہ میں مندرجہ مرزا خدا بخش صاحب کے خط میں بھی ۱۹۰۰ء میں حضرت نواب صاحب کے ٹھیکہ لینے کا ذکر آتا ہے.
113 سے منہ موڑ کر خدا کے مسیح کے در پر آدھونی رمائی اور پھر ایسا آیا کہ وہاں کا ہی ہورہا صرف یہی بات آپ کی زندگی کی ایک مکمل تفسیر ہے.۱۸۹۸ء میں ہی آپ کو قادیان ہجرت کر آنے کی تحریک ہو چکی تھی اور آپ بھی اس کی خواہش رکھتے تھے اور پھر ۱۹۰۰ء میں ہجرت کا ارادہ تھا کہ ریلوے کی تعمیر کا ٹھیکہ لینے کی وجہ سے یہ ارادہ عملی جامہ نہ پہن سکا.آپ نومبر ۱۹۰۱ء میں قادیان آئے اور قریباً دو ہفتہ کے قیام کے بعد واپس چلے گئے اور پھر اواخر دسمبر ۱۹۰۱ء میں اہل وعیال سمیت چھ ماہ کے قیام کے ارادہ سے تشریف لائے.ابھی ہجرت کا قطعی فیصلہ کرنا باقی تھا.چنانچہ آپ مولوی عبد اللہ صاحب فخری کو ۱۲ فروری ۱۹۰۲ء کو تحریر فرماتے ہیں: وو یہاں ہندو اور عیسائی مسلمان بن کر فیض اٹھا ر ہے ہیں قریباً ہر قسم اور ہر ملک کے لوگ آگئے ہیں.ہر روز قدم آگے ہے پیچھے نہیں میں نے بھی ارادہ کیا ہے کہ ہجرت کر کے یہاں ہی رہوں خداوند تعالیٰ پورا کرے“.ہجرت کے متعلق آپ کے جذبات سو بعد میں ہجرت کا عزم کر لیا چنانچہ آپ فرماتے ہیں.۱۹۰۱ء میں میں قادیان مع اہل وعیال آگیا اور پھر مستقل رہائش یہاں اختیار کر لی.آپ کے اقارب جن کو امورد نیو یہ میں آپ کے صلاح و مشورہ کی ضرورت تھی.اس کلی انقطاع کے مخالف تھے.اور انتہائی کوشش کرتے تھے کہ آپ مالیر کوٹلہ واپس چلے جائیں لیکن گو آپ کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جن کی خاطر آپ بار بار اور سالہا سال تک حضور کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے عرض کرتے رہے لیکن آپ کے ہجرت کے عزم کو مشکلات کا کوہ گراں کسی صورت میں بھی متزلزل نہ کر سکا اور آپ نے اشارتا اور کنایہ بھی کبھی اس امر کا اظہار نہیں کیا کہ ان دنیوی امور کی جبر و اصلاح آپ کے قادیان سے باہر قیام رکھنے کی متقاضی ہے.ذیل میں چند اقتباسات و خطوط پیش ہیں.جن معزز الحکم میں دارالامان کا ہفتہ کے زیر عنوان مرقوم ہے کہ ”عالی جناب نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ مع جناب بیگم صاحبہ وصاحبزادگان کے مکرر تشریف فرما ہوئے.اس مرتبہ امید کی جاتی ہے کہ کئی مہینے تک آپ کا قیام دارالامان میں رہے گا.چار ماہ بعد مہاجرین کا ذکر کرتے ہوئے پیر سراج الحق صاحب رضی اللہ عنہ نے تحریر کیا.نواب محمد علی خاں صاحب مع اپنے رفقاء واہل بیت و ملازمین بہت مدت سے یہاں ہیں اور بہت سا اپنا رہنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں.
114 سے حضرت نواب صاحب کے ہجرت کے متعلق پاک جذبات کا ہمیں علم ہوتا ہے.آپ کے بھائی خان محمد احسن علی خاں صاحب نے لکھا کہ آپ آئیں بعض مقدمات کا انفصال آپ کے آنے پر موقوف ہے تو آپ نے جوا با تحریر فرمایا کہ: فی الحال میں کوئی تاریخ اپنے آنے کی عرض نہیں کر سکتا....امراض روحانی کا علاج حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود امام آخر الزمان علیہ الصلوٰہ والسلام فرماتے ہیں.ایسے چشمہ روحانی سے طالبان حقیقت کا علیحدہ ہونا گویا کہ سکندر کا آب حیوان سے علیحدہ ہونا ہے یا ایک طالب کا مطلوب سے علیحدہ ہونا.ہم لوگ جس شخص کا انتظار کر رہے تھے اور جس کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہونے کا ہم کو ارمان تھا وہ امام الوقت آگیا اور خدا وند تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے ہم کو وہ چشم بینا عطا فرمائی کہ ہم نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ) اور ( اللہ تعالیٰ نے ) اس کی جماعت میں داخل فرمایا فالحمد علی ذالک.پھر ۱۶ / فروری ۱۹۰۲ء کو تحریر فرماتے ہیں : باقی رہا میرے بغیر انفصال مقدمات کا التواء سواگر کوئی معاملہ خلاف شریعت نہیں محض ریاستی ہے تو جب آپ تین صاحب ہیں تو پھر میری رائے کی ضرورت ہی کیا ؟ آپ تینوں صاحب ایسے امور میں جو کریں گے وہی میری رائے ہوگی.“ اسی طرح آپ نے اپنی ہمشیرہ کے خط کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ: علاج روحانی کا یہاں سماں ہے.دعا کے لئے موقع حاصل.دعا کے لئے میں مختصر عرض کرتا ہوں کہ دعا کرنے کرانے کا قاعدہ لوگ بالکل نہیں جانتے.دعا کرنے کے لئے تو چاہئے صبر اور استقلال.اس طرح دعا مانگے جس طرح فقیر لوگوں سے مانگتے ہیں.فقیر دو طرح کے ہوتے ہیں.ایک خر گدا جوا ڑ کر لیتے ہیں.جب تک ان کو دیا نہ جائے ٹلتے نہیں.ایک ہوتے ہیں ٹر گدا جو صدا کی اور چل دئے.تو دعا کرنے والے کو خر گدا بننا چاہئے...پس انسان کو مرتے دم تک دعا کرنی چاہئے اور دعا سے تھکنا نہیں چاہیئے.یاتن رسد بجاناں یا جاں زتن بر آید یعنی یا تو مطلوب تک انسان پہنچ جائے اور مطلب حاصل ہو جائے یا جان تن سے نکل جائے.اب رہا دعا کرانا اس کے لئے ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح کرے.جس سے دعا کرائی جاوے اس سے گہرا تعلق پیدا
115 وو کیا جائے.....لاتعلق انبیاء سے بھی دعا کم نکلتی ہے.پس دعا کے لئے تعلق کا پیدا کرنا ضروری ہے.کیونکہ دعا اپنے اختیار میں نہیں ہوتی.اسکے لئے بھی وقت اور تحریک کی ضرورت ہوتی ہے.پس پاس رہنے سے تحریکیں ہوتی رہتی ہیں.اکثر حضرت اقدس کا قاعدہ ہے کہ کوئی شخص معمول پر اگر حاضر نہیں ہوا تو دریافت فرماتے ہیں کہ فلاں کیوں نہیں آیا اگر وہ بیماری کی وجہ سے حاضر نہیں ہوا تو ان کو تحریک ہوتی ہے.یا اگر اور ذرائع سے معلوم ہوا کہ فلاں شخص بیمار ہے تو آپ جس طرح ایک بہت ہی محبت کرنے والی ماں بے چین ہوتی ہے اس سے کہیں بڑھ کر بے چین ہوتے ہیں اور اس لئے تحریک پیدا ہوتی ہے یا کسی وقت دعا کا عمدہ وقت مل گیا تو جن کے نام یا د ہوتے ہیں نام لے لے کر دعا فرماتے ہیں اور اب جو دور ہے ممکن ہے کہ اس کا نام بھول جائے.پس جو ہر وقت سامنے رہتے ہیں.ان کے لئے دعاؤں کا زیادہ موقعہ ملتا ہے.اس لئے یہاں کے علاج میں بڑا فائدہ ہے جو دوسری جگہ حاصل نہیں ہو سکتا.“ آپ کے بڑے بھائی خان احسن علی خاں صاحب نے آپ کو ذیل کا خط واپس بلانے کے لئے تحریر کیا: برادر بجاں برابر بلکه از صد جانم بهتر خوشتر عزیزی محمد علی خاں صاحب سلمہ.بعد دعائے ازدیاد عمر و دولت مطالعہ کرے کہ اس جگہ بفضلہ تعالیٰ خیریت ہے.خیر و عافیت اس عزیز کی درگاہ رب العزت سے شب و روز نیک خواہاں وجویان.عرصہ ہوا کہ وہ عزیز مع اہل وعیال ریاست گاہ کو چھوڑ کر دار الامان قادیان میں سکونت پذیر ہے.اولاً خیال طبیعت کو یہ تھا کہ بعد گذر نے ایام گرما کے آپ اپنے مکان پر آجائیں گے لیکن ابھی تک یہ صرف خیال ہی خیال ہے.چونکہ آپ کا اپنی ریاست میں آنا ہی ضروریات سے ہے.اس واسطے میں اپنی شخصی رائے ظاہر کرتا ہوں کہ مع اہل وعیال کو ٹلہ آجائیں اور اس جگہ اپنے ارکان مذہبی کو پورے طور پر ادا کریں اور جس وقت طبیعت رغبت کرے آپ بذات خود شوق سے ہمیں دن مہینے کے واسطے قادیان چلے جایا کریں اور پھر واپس ریاست کو آجایا کریں.مجھ کو کامل امید ہے کہ آپ میری اس رائے کو پسند کریں گے اور مجھ کو اپنی تاریخ روانگی سے اطلاع دیں گے تاکہ میں ہی قادیان پہنچوں اور تم کو ہمراہ لے کر کوٹلہ کو چلا آؤں.بہت ایسے معاملات ہیں کہ جن میں تمہارے مشورہ سے ان کی اصلاح ضروری ہے.اسی خیال سے ایک خط بخدمت جناب مرزا صاحب بھی روانہ کیا گیا ہے بقیہ وہ بھی تم سے تذکرہ کریں گے.باقی خیریت بچوں کو دعا و پیار
116 اس کے جواب میں نواب صاحب تحریر فرماتے ہیں: بسم اللہ الرحمن الرحیم دار الامان قادیان ۲۷ ستمبر ۱۹۰۲ء بھائی صاحب مکرم معظم سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم.والا نامہ پہنچا.جواباً عرض ہے جناب نے شفقت بزرگانہ سے جو کچھ تحریر فرمایا جناب کی شفقت اس کی مقتضی تھی.مگر جناب کو غالبا ان امور کی اطلاع نہیں جن امور کے لئے میں نے قادیان میں سکونت اختیار کی ہے.میں نہایت صفائی سے ظاہر کرتا ہوں کہ مجھ کو حضرت اقدس مسیح موعود مهدی مسعود کی بیعت کئے ہوئے بارہ سال ہو گئے اور میں اپنی شومی طالع سے گیارہ سال سے گھر ہی میں رہتا تھا اور قادیان سے مہجور تھا.صرف چند دنوں گاہ گاہ یہاں آتا رہا اور دنیا کے دھندوں میں پھنس کر بہت سی اپنی عمر ضائع کی.آخر جب سوچا تو معلوم کیا کہ عمرتو ہوا کی طرح اڑ گئی اور ہم نے نہ کچھ دین کا بنایا اور نہ دنیا کا اور آخر مجھ کو شعر یاد آیا کہ ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں این خیال است و محال است و جنوں یہاں میں چھ ماہ کے ارادہ سے آیا تھا مگر یہاں آکر میں نے اپنے تمام معاملات پر غور کیا تو آخر یہی دل نے فتوی دیا کہ دنیا کے کام دین کے پیچھے لگ کر تو بن جاتے ہیں.مگر جب دنیا کے پیچھے انسان لگتا ہے تو دنیا بھی ہاتھ نہیں آتی اور دین بھی برباد ہو جاتا ہے اور میں نے خوب غور کیا تو میں نے دیکھا کہ گیارہ سال میں نہ میں نے کچھ بنایا اور نہ میرے بھائی صاحبان نے کچھ بنایا اور دن بدن ہم با وجود اس مایوسانہ حالت کے دین بھی برباد کر رہے ہیں.آخر یہ سمجھ کر کہ کار دنیا کسے تمام نہ کرد.کوٹلہ کو الوداع کہا.اور میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ میں ہجرت کرلوں.سوالحمد للہ میں بڑی خوشی سے اس بات کو ظاہر کرتا ہوں کہ میں نے کوٹلہ سے ہجرت کر لی ہے اور شرعا مہاجر پھر اپنے وطن میں واپس اپنے ارادہ سے نہیں آسکتا.یعنی اس کو گھر نہیں بنا سکتا ویسے مسافرانہ وہ آئے تو آئے.پس اس حالت میں میرا آنا محال ہے.میں بڑی خوشی اور عمدہ حالت میں ہوں.ہم جس شمع کے پروانے ہیں اس سے الگ کس طرح ہو سکتے ہیں؟ کہاں کوٹلہ تنہا رہنا یا اگر کوئی ملا تو وہ ہم مذاق نہیں.بری صحبت.خلاف شریعت امور میں مبتلا.آخر ایسے لوگوں کی صحبت سے جو زنگ ایک شخص کے دل پر بیٹھ سکتا ہے اس کو وہی سمجھ سکتے ہیں جن کو اس کا تجربہ ہے.ہمنشین تو از تو باید تا ترا عقل و دین بفزائد تا
117 آپ صاف آئینہ کو ایک صاف مکان میں رکھ دیں تھوڑے عرصہ کے بعد آپ دیکھیں گے کہ اردگرد سے نا معلوم طور سے گرد آکر اس پر جم گئی ہے.اور اگر چند ایام اس کو اسی طرح رکھا رہنے دیا جائے.تو آخر کار اس کی حالت ایسی ہوگی کہ اس میں سے کوئی چہرہ نہ دیکھ سکے گا.یہی حالت انسان کے قلب کی ہے اس پر بھی نامعلوم طور سے زنگ جمتی رہتی ہے.پھر وہ نہایت مکدر ہو جاتا ہے.اگر بہت ہی مدت گذر جائے تو پھر ایسی زنگ جمتی ہے کہ خَتَمَ الله عـلـى قلوبهم وعلى سمعهم كا مصداق بن جاتا ہے کہ پھر اس کا مینقل ہونا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے پس جس طرح ہر ایک آئینہ کے لئے ضروری ہے کہ اس پر ہر روز ہاتھ پھرتا رہے اسی طرح قلب کی بھی ہمیشہ صفائی ہوتی رہے تب وہ ٹھیک رہتا ہے.ایمان کا معاملہ ایسا نازک ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص اعمال صالحہ کرتا ہے یہاں تک کہ بہشت اور اس میں ایک بالشت کا فرق رہ جاتا ہے پھر اس میں تغیر آتا ہے اور وہ برے کام شروع کرنے لگتا ہے آخر دوزخ میں پڑتا ہے اسی طرح ایک شخص نہایت برے کام کرتا ہے.یہاں تک کہ دوزخ اور اس میں ایک بالشت کا فرق رہ جاتا ہے اور وہ پھر اچھے کام کرنے لگتا ہے اور بہشت میں داخل ہوتا ہے ) نتیجہ اس کا یہ ہے کہ تمام کاموں کا اعتبار خاتمہ پر ہے پس جس شخص کا خاتمہ بخیر ہوا، اس نے سب کچھ پایا قرآن شریف میں آیا ہے کہ ما خلقت الجن والانس الا ليعبدون پس جب ہمارا مقصو دخلقت عبادت ہے اس سے ہم کس طرح الگ ہو سکتے ہیں اور اس مقصود اصلی کو ہم بلا ایک ہادی برحق کے ہرگز نہیں پاسکتے اور اعتقادات صحیحہ اور اعمال صالحہ بلا ہدایت ہادی ہرگز میسر نہیں ہو سکتے وہ توحید جو اسلام نے قائم کی ہے تمام معبودینِ باطلہ سے نکال کر انسان کو ایک خدا کی حکومت میں داخل کیا اور سوائے اس خدا کے جورب العالمين الرحمن الرحیم مالک یوم الدین ہے کسی معبود کی پرستش جائز نہیں رکھی کس طرح قائم ہوتی اگر حضرت رسول کریم محمد مصطفے صل اللہ علیہ وسلم مبعوث نہ ہوتے اسی طرح اس سے قبل انبیاء کے ذریعے سے ہدایت نہ آتی ؟ پس انسان کے لئے ایک ہادی اور نمونہ کی ضرورت ( ہے) جس کی ہدایت پر وہ عمل کرے اور جس کے نمونہ کو دیکھ کر وہ اس کی پیروی کرے.چنانچہ حضرت رسول کریم صلعم نے اعتقادات صحیحہ کو بتلایا اور اعمال صالحہ کو کر کے دکھلایا تا کہ اس طرح پر کریں اس لئے ضروری ہے کہ ہادی کی صحبت میں انسان رہے تا کہ اعتقاد اور اعمال کی اصلاح ہوتی رہے.اور اس کا آئینہ دل ہمیشہ گردو غبار گناہ سے پاک وصاف رہے.چونکہ جیسا میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ جس مسیح موعود اور امام آخر زماں مہدی معہود کی تمام دنیا منتظر تھی.جب کہ ہم نے اس کو پالیا تو کس طرح ہم اس کے قدموں سے علیحدہ ہو سکتے ہیں؟ اب تو ہماری دعا یہی ہے کہ اسی بابرکت آستانہ پر ہمارا خاتمہ بخیر ہو.آمین ثم آمین میں اپنی بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہوں خداوند تعالیٰ نے مجھے اس سعادت کے حاصل کرنے کا موقعہ دیا اور میں ان لوگوں کی بڑی بد قسمتی سمجھتا ہوں جو اس آستانہ مبارکہ سے الگ ہیں.
118 مندرجہ بالا تو میرے آنے اور جانے کی بابت ہے.میں جناب کی شخصی رائے کی بڑی قدر کرتا اگر رَبُّ العالمین - مالک الملک - حتی وقیوم خدا کی طرف سے اس کے خلاف حکم نہ ہوتا.اب جناب ہی غور فرمائیں میں اپنے مالک حقیقی کا حکم مانوں یا جناب کے ارشاد کی تعمیل کروں.باقی رہا جناب کا تشریف لانا.سو یہ میرے لئے موجب سعادت ہے.ہمائے اوج سعادت بدام ما افتد گر ترا گذری بر مقام ما افتد مگر اگر میرے لے جانے کے لئے ہی آنا مقصود ہے تو جو کچھ میں نے عرض کیا وہی ہے اور ویسے جناب کے آنے میں میری اور آپ کی دونوں کی سعادت ہے.خداوند تعالیٰ آپ کو بھی ہدایت عطا فرمائے اور جس طرح مجھ کو اس خدائے رحیم و کریم نے اپنے فضل اور کرم سے اور محض اپنی رحمانیت سے شرک سے نکال کر مجھ کو اس رسول ظل محمد صلعم جری اللہ فی حلل الانبیاء کے فرماں برداروں میں داخل کر دیا ہے آپ کو بھی داخل کرے.میرے پیارے بزرگ بھائی میں یہاں خدا کے لئے آیا ہوں اور میری دوستی اور محبت بھی خدا ہی کے لئے ہے.میں کوٹلہ سے الگ ہوں.مگر کوٹلہ کی حالت زار سے مجھ کو سخت رنج ہوتا ہے.خداوند تعالیٰ آپ کو ہماری ساری برادری اور تمام کوٹلہ والوں کو سمجھ عطا فرمائے کہ آپ سب صاحب اسلام کے پورے خادم بن جائیں اور ہم سب کا مرنا اور جینا محض اللہ ہی کے لئے ہو.ہم خداوند تعالیٰ کے پورے فرماں بردار مسلم بن جائیں.کاش آپ قرآن شریف پڑھے ہوئے ہوتے تو میں آپ کو دکھلاتا کہ قرآن شریف میں ایک مامور من اللہ کی تکذیب کرنا اور اس طرح علیحدہ رہنا خطرناک (ہے) چہ جائیکہ اس پاک وجود کو جو امت محمدیہ میں سوائے حضرت رسول کریم صلعم سب سے مرتبہ اور فضائل میں بڑھ کر ہو.جس کے لئے حضرت رسول کریم صلعم نے وصیت کی ہو کہ اس کو میر اسلام کہنا افسوس صد افسوس کہ لوگ تبرہ کے عادی ہیں اس مقدس پر تبرہ کر کے گناہ میں مبتلا ہوتے اور حضرت (رسول) کریم کی وصیت کے خلاف کرتے ہیں.میرے پیارے بزرگ ابھی وقت ہے دیکھو سنبھلو بڑا نازک زمانہ ہے یہ خدا کے دن ہیں.خداوند تعالیٰ کا غضب نہایت جوش میں ہے.اپنے آپ کو منعم علیہم میں بناؤ اور ضالین اور مغضوب علیہم سے بچاؤ یہ میری باتیں آپ کو معمولی اور شاید بُری معلوم ہوں.مگر میں یہ سچی باتیں کہہ رہا ہوں جس میں آپ کا فائدہ ہے، آؤ اور اس امامِ برحق کے غلام بن جاؤ تا کہ نجات پا جاؤ.کیونکہ یہ مرتبہ جو اس امام مرسل من اللہ کو ملا ہے حکماً عدلاً ہونا یہ آج تک امت محمدیہ
119 میں کسی کو نصیب نہیں ہوا.اگر کسی کو حاصل ہوا ہے تو پیش کرے اب آخر میں اس بات کا جواب بھی عرض کرتا ہوں کہ میں اپنے امور دنیا وی کو ٹلہ سے غافل نہیں.مجھ کو وہاں کی ذرہ ذرہ خبر ملتی ہے اور میں خدا کے فضل سے اسی طرح اپنا کام چلا رہا ہوں جس طرح کوٹلہ میں بلکہ اس سے بہتر.اسی طرح میں مناسب مشورہ بھی دے سکتا ہوں پھر وہ کون سی بات ہے جس کے لئے میں کوٹلہ میں رہوں اور اس برکت کو چھوڑوں جو خداوند تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے اور خدائے رحیم و کریم نے ہم کو وہ نیک گورنمنٹ بھی عطا فرمائی جس کے سایہ عاطفت میں اس طرح آرام سے ہم اپنے ارکان مذہبی ادا کرتے ہیں اور نہایت عمدہ طور سے بے دغدغہ روحانی فائدے حاصل کر رہے ہیں.ہمارا اپنا ایمان ہے کہ اگر ہم اس گورنمنٹ کے شکر گزار نہ ہوں تو بموجب لا يشكر النَّاسَ لا يشكر الله ہم خداوند تعالیٰ (کے) انعام کی ناقدری کریں گے.کیونکہ یہ خداوند تعالیٰ ہی کے انعامات میں سے ہے اور ہماری شرائط بیعت میں ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کریں اور اپنی مہربان گورنمنٹ کے شکر گذار ہوں اس کی پوری اطاعت کریں یہی چیز مجھ کو یہاں رکھ رہی ہے کہ جوں جوں مجھ میں ایمان بڑھتا جاتا ہے اسی قدر دنیا بیچ معلوم ہوتی جاتی ہے اور دین مقدم ہوتا جاتا ہے خداوند تعالیٰ اور انسان کے احسان کے شکر کا احساس بھی بڑھتا جاتا ہے اسی طرح گورنمنٹ عالیہ کی فرمانبرداری اور شکر گذاری دل میں پوری طرح سے گھر کرتی جاتی ہے.قادیان کے قیام میں مشکلات راقم محمد علی خاں قادیان کی آبادی گو احمدیت کی وجہ سے روز بروز ترقی کر رہی تھی لیکن یہ ترقی ابھی بالکل ابتدائی حیثیت کی تھی.مولانا ابوالنصر آہ کی زبانی چار سال بعد کی قادیان احباب دیکھ چکے ہیں اس وقت پہلے سے کافی ترقی ہو چکی ہوگی لیکن کافی عرصہ تک یہ حال رہا کہ روز مرہ کی ضروریات زندگی بھی پورے طور پر مہیا نہ ہوسکتی تھیں.چنانچہ ۱۹۰۲ء میں پیر سراج الحق صاحب رضی اللہ عنہ نے اخبار میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ باہر سے آنے والے دوست ان کے لئے پان لے آیا کریں پان تو الگ رہا وہ تو ضروریات زندگی سے نہیں لیکن معمولی کپڑا اور طعام و قیام کی حوائج ضرور یہ بھی یہاں سے پوری نہیں ہو سکتی تھیں.چنانچہ مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب فرماتے ہیں کہ مہمانوں کے لئے آتا میں حضرت اقدس کے ارشاد پر دہار یوال سے لایا کرتا تھا.دہار یوال قادیان سے چھ میل کی مسافت پر ہے.سو تھم کی زندگی بسر کرنے والے رئیس اور ان کی بیگم اور صاحبزادگان کے لئے یہ کوئی معمولی قربانی نہ تھی وہی شخص ایسی قربانی پر آمادہ ہو سکتا تھا جس کے مدنظر محض امور آخرت ہوں
120 اور جس نے نفس کشی کر کے خشن پہننے اور زخشن کھانے کو اختیار کر لیا ہو ان تکالیف کے ذکر میں مکرم میاں محمد عبداللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ نواب صاحب نے ایسی قربانی کیونکر کی تھی آپ فرماتے ہیں: شروع شروع میں جب والد صاحب قادیان آئے تو ملازموں کی اور خاص کر تربیت یافتہ خادمات کی از حد دقت تھی.مالیر کوٹلہ سے یہاں آنا کوئی پسند نہیں کرتا تھا.قادیان کے اُجڈ لوگ ہمیں پسند نہ تھے.اس ضمن میں بھی والد صاحب اور خالہ صاحبہ نے بہت تکلیف برداشت کی.والد صاحب جب یہاں آئے تو آپ کو قریبا ایک دس بارہ فٹ مربعہ کمرہ اور ایک کوٹھری شاید ۸× ۸ مربعہ فٹ ملی ( یعنی حضرت سید ہ اتم متین والا حصہ دار مسیح کا غسل خانہ اور ٹی بھی جو کہ آرام کا موجب ہو سکے بعد میں بنوانی پڑی ورنہ پہلے انتظام بہت معمولی تھا.یہ اس رئیس اور ان کی بیگم کی قادیان میں جائے رہائش تھی جو کہ ایک بڑے محل کو مالیر کوٹلہ میں چھوڑ کر آئے تھے.میں نے والد صاحب سے دریافت کیا کہ آپ نے اس قدر بڑے مکان کو چھوڑ کر قادیان میں اتنے تنگ مکان میں آکر کسطرح گزارہ کیا.میرے جیسا آدمی جس نے وہ آرام و آسائش نہیں دیکھے جو آپ نے اپنی زندگی میں دیکھے تھے.اس تنگ جگہ میں گزارہ کرنا مشکل سمجھتا ہے.آپ نے کس طرح گذران کی؟ فرمانے لگے کہ وہ زمانہ ایسا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو داغ ہجرت کا الہام ہوا تھا.گورنمنٹ بھی ہمارے خلاف تھی لوگوں کی مخالفت بھی زوروں پر تھی.تو میں نے مالیر کوٹلہ اس عزم وارادہ سے چھوڑا تھا کہ اب وہاں واپس نہیں جانا.اب معلوم نہیں کہ آئندہ زندگی ہمیں ہجرت کرنے کی وجہ سے کہیں جنگلوں وغیرہ میں گزارنی پڑے گی اور جو کچھ ہمارے پاس ہے یہ بھی ہمارے پاس رہے گا یا نہیں.سو جو کچھ ہمیں ملتا تھا.وہ بھی غنیمت معلوم ہوتا تھا اس لئے مجھے کسی قسم کی تنگی اور تکلیف کا احساس نہیں ہوا.“ میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب اس تعلق میں بیان کرتے ہیں کہ: اس مکان کی تنگی کی یہ حالت تھی کہ ایک کوٹھڑی میں جس میں صرف ایک پلنگ کی گنجائش تھی.حضرت والد صاحب اور خالہ جان رہتے تھے اور ہم تینوں بھائی ساتھ کے کچھ کمرہ میں رہتے تھے.دوسرا کچا کمرہ حضرت والد صاحب کا دفتر تھا.جب بارش ہوتی تو ان کے گرنے کا خطرہ ہوتا.اس لئے ہمیں حضرت والد صاحب دار ا سیخ میں اپنے پاس بلا لیتے اور ساتھ کے کمرہ میں ہم فرش پر سوتے اور موسم سرما میں تو موسم بھر ہم چاروں بہن بھائیوں کو وہاں فرش پر سونا پڑتا کیونکہ سب کے لئے چار پائیاں کمرہ میں نہ سا سکتی تھیں بیت الخلاء مکان سے بالکل باہر تھا ہمیں بان کی چار پائیاں استعمال کرنی پڑتی تھیں.قادیان سے ضروریات دستیاب نہ ہوتی تھیں حتی کہ جلانے کے لئے ایندھن بھی حضرت والد صاحب مالیر کوٹلہ سے منگواتے تھے.ہری کین لیمپ کے سوار وشنی کا کوئی انتظام نہ تھا.تین چار سال اسی راہبانہ حالت میں گذر کی.“
121 ہجرت کی قبولیت آپ کی ہجرت جس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور جس طرح آپ کو نوازا یہ آپ کی زندگی کا ایک کھلا ورق ہے.حضرت اقدس کی فرزندی میں آنے کے تعلق میں دوسری جگہ تفصیل دی گئی ہے.نواب صاحب کی یہ زندگی راہبانہ اور چلہ کشی کی سی تھی چنانچہ یہی نظارہ آپ کی ہمشیرہ بوفاطمہ بیگم صاحبہ کو خواب میں دکھایا گیا.اُنہوں نے یہ چار سال کا عرصہ بہت بے قراری سے تڑپ کر گزارا اور پرانے طریق کے مطابق چلے وغیرہ کرواتیں.صدقے خیرات کرتیں منتیں مانتیں تا کہ کسی طرح بھائی واپس آجائیں اور حضرت اقدسن کی خدمت میں بھی لکھتی رہیں کہ نواب صاحب کو واپسی کی اجازت دیں.بیان کرتی تھیں کہ میں نے ان ایام میں ایک دفعہ خواب میں دیکھا تھا کہ قادیان آئی اور ایک مسجد کی سیڑھیاں چڑھی ہوں ( نقشہ بعینہ مسجد مبارک کی سیڑھیوں تک کا بالکل ٹھیک بتلاتی تھیں ) نواب صاحب جس کمرہ میں ہیں وہاں پہنچی اور دروازہ کھٹکھٹایا تو نواب صاحب نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا اور اندر سے ہی آواز دے کر کہتے ہیں کہ میں چار سال کا چلہ بیٹھا ہوں میں ملوں گا مگر چلہ پورا ہونے پر اس پر مجھے پورا یقین ہو گیا کہ میرا بھائی ایک عرصہ گذرنے پرمل سکے گا....بالاخر دونوں کی ملاقات ۰۵ء میں ہوئی (ن ) حضور کی شفقت حضرت اقدس تمام احباب کو اپنے گھرانہ کے افراد سمجھتے تھے اور ہمیشہ یہی خواہش رہتی تھی کہ تمام لنگر خانہ سے کھانا کھائیں اور بار بار اجازت مانگنے پر بھی ہمیشہ اس خواہش کا اظہار ہوتا تھا کہ دوستوں کے کھانے کا و ہیں انتظام ہومزید برآں نواب صاحب مزید خصوصیات بھی رکھتے تھے.مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب سناتے ہیں کہ : والد صاحب نے بڑی کوشش کی کہ حضور اجازت دیں کہ کھانے کا انتظام اپنا کریں اور عرض کیا کہ میرے پاس باورچی ہیں لیکن حضور نہ مانے اور قریباً چھ ماہ تک حضور کے ہاں سے کھانا آتا رہا جس کا انتظام حضرت ام المومنین اطال اللہ بقاء با خود فرمائیں.پھر یہاں تک ہی بس نہیں حضور نواب صاحب کے خدام سے بھی دریافت فرمایا کرتے کہ نواب صاحب کونسا کھانا شوق اور رغبت سے کھاتے ہیں تاکہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.پھر وہ کھانا بھجواتے اعلیٰ مہمان نوازی لمبے عرصے تک کرنا بہت مشکل
122 ہوتا ہے.لیکن حضور کی مہمان نوازی اعلیٰ درجہ کی تھی اور برابر چھ ماہ تک رہی.کھانا بہترین ہوتا تھا اتنے لمبے عرصہ کی مہمان نوازی کے بعد بھی حضور نے بصد مشکل اور والد صاحب کے بار بار اصرار کرنے پر گھر پر کھانے کا اپنا انتظام کرنے کی اجازت دی ور نہ حضور یہی پسند فرماتے تھے کہ یہ مہمان نوازی بدستور جاری رہے.“ مکرم میاں محمد عبداللہ خاں صاحب فرماتے ہیں کہ چھ ماہ تک پانچ پانچ چھ چھ کھانے حضور کے ہاں سے روزانہ تیار ہو کے آتے تھے اور والد صاحب نے بتایا کہ میں اپنے طور پر لنگر خانہ کے لئے رقم دے دیتا تھا تا کہ سلسلہ پر بوجھ نہ ہو.“ مکرم میاں صاحب موصوف یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ : ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء میں جب حضرت نواب صاحب قادیان آئے تو اپنے ساتھ خیمے بھی لائے تھے اور غالبا مدرسہ احمد یہ والی جگہ پر لگوائے تھے.جب ہجرت کے ارادہ سے قادیان آئے اور حضرت اقدس نے دار امسیح کے سیدہ ام متین صاحبہ والے حصے میں آپ کو ٹھہرایا تو حضور نے اس کا ایک کمرہ قالین اور گاؤ تکیہ سے آراستہ کروایا.دسمبر کے دن تھے مغرب کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب آتے تھے اور مجلس لگتی تھی اور کھانا بھی وہیں کھایا جاتا عجیب پر کیف وسرور مجلس ہوتی تھی.نواب صاحب فرماتے تھے کہ حضور کا طریق اور سلوک اس قسم کا تھا جیسے مشفق باپ کا اپنے بیٹوں سے ہوتا ہے بے تکلفی والی فضاء ہوتی تھی (سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ اسے پڑھ کر تحریر فرماتی ہیں کہ یہی ذکر اور نقشہ نواب صاحب بیان کرتے تھے کمرہ میں ایک گاؤ تکیہ بھی تھا لیکن حضور ایک کونہ میں بیٹھ جاتے تھے پھر تکیہ کون استعمال کرتا میں بھی ایک کو نہ میں بیٹھ جاتا.تکلف اس مجلس میں نہیں ہوتا تھا.“ حضور کی شفقت بے پایاں کا گونا گوں رنگ میں اظہار ہوتا رہتا تھا.حضور کی ہر حرکت وسکون مجسم شفقت اور رحمت تھی اور ہوتی بھی کیونکر نہ جب کہ آپ رحمتہ للعالمین صلعم کے مظہر اتم تھے اور آنحضرت صلحم کے خلق عظیم آپ کے وجود باجود میں جلوہ گر تھے.آنحضرت صلعم بچوں کے ساتھ ان کے مناسب حال پیار اور شفقت کی باتیں کرتے تھے جیسے ایک بچہ سے اس کی چڑیا کی بابت دریافت کرتے ہوئے فرمایا ی بــا عُمير مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ اسی طرح مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب سناتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اور میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب حضور کے پاس گئے تو حضور نے لفظ مرغی “ لکھ کر ہمارا امتحان لیا اور فرمایا کہ پڑھ کے بتاؤ.چنانچہ ہم میں سے ایک نے پڑھ لیا.پھر حضور نے دریافت فرمایا کہ ہمیں جیب خرچ ملتا ہے یا نہیں.ہم نے
123 -1 عرض کیا کہ نقدی نہیں ملتی البتہ جس چیز کی ضرورت ہو ہمیں والد صاحب لے دیتے ہیں.والد صاحب کا خیال تھا کہ نقدی بچوں کے ہاتھ دینے سے ان کی تربیت میں نقص واقع ہونے کا احتمال ہوتا ہے.حضرت اقدس کا یہ طریق تھا کہ آپ کے بچے پیسے مانگتے اور آپ رو مال میں سے کھول کر دیتے.“ شفقت کا ایک عجیب نظارہ مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس کے ارشاد پر بمقدمہ کر مدین کمشنر اینڈ رسن سے ملاقات کیلئے حضرت والد صاحب لاہور گئے.مجھے بھی ساتھ لے گئے میں وہاں جا کر شدید بیمار ہو گیا.میری علالت کے باعث حضرت والد صاحب کو لاہور میں رُکنا پڑا.اس عرصہ میں حضرت اقدس قادیان میں ہمارے گھر کی ضروریات کا ہر طرح خیال رکھتے اور ہمارے ہاں خود جا کر روزانہ گھر کے حالات سے اطلاع دیتے.ان مکتوبات کے مطالعہ سے انسان پر عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے ایک میں حضور رقم فرماتے ہیں شب بیداری اور دلی تو جہات سے جو عبد الرحمن کے لئے کی گئی میرا دل و دماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے بسا اوقات آخری دم معلوم ہوتا تھا یہی حقیقت دعا ہے.“ یه مکتوبات از بس مفید ہیں، ان سے حضرت اقدس کی نواب صاحب اور آپ کی اولاد سے قلبی تعلق کا اظہار ہوتا ہے اس لئے درج ذیل کئے جاتے ہیں : نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالی.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.ایسے وقت آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا کہ میں دعا میں مشغول ہوں اور امیدوار رحمت ایزدی.حالات کے معلوم کرنے سے میری بھی یہی رائے ہے کہ ایسی حالت میں قادیان میں لانا مناسب نہیں امید کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد وہ دن آئے گا کہ با آسانی سواری کے لائق ہو جائیں گے.لیکن یہ ضروری ہے کہ جس وقت عزیزی عبد الرحمن ڈاکٹروں کی رائے سے ریل کی سواری کے لائق ہو جائیں تو بٹالہ میں پہنچ کر ڈولی کا انتظام کیا جائے کیونکہ یکہ وراستہ وغیرہ ضعف کی حالت میں ہرگز سواری کے لائق نہیں.میں خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے بہت توجہ سے دعا کرتا رہوں گا.دو خاص وقت ہیں (۱) وقت تہجد (۲) اشراق.ماسوا اس کے پہنچ وقت نماز میں انشاء اللہ دعا کروں گا اور جہاں تک ہو سکے آپ تازہ حالات سے ہر روز مجھے اطلاع دیتے رہیں.کیونکہ اگر چہ اسباب کی رعایت بھی
124 -۲ ضروری ہے مگر حق بات یہ ہے کہ اسباب بھی تب ہی درست اور طبیب کو بھی تب ہی سیدھی راہ ملتی ہے جب کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہو اور انسان کے لئے بجز دعا کے کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو خدائے تعالیٰ کے ارادہ کو انسان کی مرضی کے موافق کر دے.ایک دعا ہی ہے.اگر کمال تک پہنچ جائے تو ایک مُردہ کی طرح انسان اس سے زندہ ہوسکتا ہے.خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ دعا کمال کو پہنچ جائے.وہ نہایت عمدہ چیز ہے.یہی کیمیا ہے اگر اپنی تمام شرائط کے ساتھ متحقق ہو جائے.خدا تعالیٰ کا جن لوگوں پر فرض ہے اور جولوگ اصطفاء اور اجتہاء کے درجہ تک پہنچتے ہیں اس سے بڑھ کر کوئی نعمت ان کو نہیں دی گئی کہ اکثر دعائیں اُن کی قبول ہو جائیں مشیت الہی نے یہ قانون رکھا ہے کہ بعض دعائیں قبول کی بھی مقبول نہیں ہوتیں لیکن جب دعا کمال کے نقطہ تک پہنچ جاتی ہے جس کا پہنچا نا محض خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے یہ کبریت احمر ہے جس کا وجود قلیل ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان 1 نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم مجبی عزیزی نواب صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.یہ مضمون پڑھ کر کہ عزیزی عبدالرحمن خاں کو پھر بخار ہو گیا ہے نہایت قلق ہوا.خدا تعالیٰ شفا بخشے.اب میں حیران ہوں کہ اس وقت جلد آنے کی نسبت کیا رائے دوں.پھر دعا کرنا شروع کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ شفا بخشے.اس جگہ طاعون سخت تیزی پر ہے.ایک طرف انسان بخار میں مبتلا ہوتا ہے اور صرف چند گھنٹوں میں مرجاتا ہے.خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کب تک یہ ابتلا دُور ہو.لوگ سخت ہراساں ہورہے ہیں.زندگی کا اعتبار اٹھ گیا ہے ہر طرف چیخوں اور نعروں کی آواز آتی رہتی ہے.قیامت برپا ہے اب میں کیا کہوں اور کیا رائے دوں.سخت حیران ہوں کہ کیا کروں.اگر خدائے تعالیٰ کے فضل سے بخار اتر گیا ہے اور ڈاکٹر مشورہ دے دے کہ اس قد رسفر میں کوئی حرج نہیں تو بہت احتیاط اور آرام کے لحاظ سے عبدالرحمن کو لے آویں.مگر بٹالہ سے ڈولی کا انتظام ضرور چاہیئے.اس جگہ نہ ما جیور ڈولی بردار ملتا ہے نہ ڈولی کا بندوبست ہو سکتا ہے.بٹالہ سے کرنا چاہئے.آپ کے گھر میں ہر طرح خیریت ہے.اُم حبیبہ مرزا خدا بخش کی بیوی برابر آپ کے گھر میں سوتی ہے اور بچے چھوڑ کر چلی جاتی ہے وہ اکثر روتے چیختے رہتے ہیں کوئی عورت نہیں جو ان کی حفاظت کرے.اس لئے یہ تجویز خیال میں آتی ہے کہ اگر ممکن ہو تو چند روز مرزا خدا بخش آکر اپنے بچوں کو سنبھالیں.وہ بالکل ویرانہ حالت میں * غالباً ما چھی جھیو ر لفظ ہے.اصل مکتوب نہیں مل سکا کہ مقابلہ کیا جاسکتا.(مؤلف)
125 ہیں.باقی سب طرح خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکرر یہ کہ آتے وقت ایک بڑا بکس فینائل کا جو سولہ یا بیس روپے کو آتا ہے ساتھ لے آویں.اس کی قیمت اس جگہ دی جاوے گی اور علاوہ اس کے آپ بھی اپنے گھر کے لئے فینائل بھیج دیں اور ڈس انفیکٹ کے لئے رس کپور اس قدر بھیج دیں جو چند کمروں کے لئے کافی ہو.نحمده ونصلى على رسوله الكريم تفکر اور بسم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی نواب صاحب سلمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس وقت تار کے نہ پہنچنے سے بہت تن تر درد ہوا.خدا تعالیٰ خاص فضل کر کے شفاء بخشے.اس جگہ دور بیٹھے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اصل حالت کیا ہے.اگر کوئی صورت ایسی ہو کہ عبدالرحمن کو ساتھ لے کر قادیان آ جاویں تو رو برود یکھنے سے دعا کے لئے ایک خاص جوش پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ شفاء بخشے اور وہ آپ کے دل کا درد دور کرے.باقی سب طرح سے خیریت ہے.والسلام.- خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۵ / مارچ ۱۹۰۴ء نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی نواب صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج کی ڈاک میں آپ کا خط مجھ کو ملا.اس وقت تک خدا کے فضل و کرم اور جود اور احسان سے ہمارے گھر اور آپ کے گھر میں بالکل خیر و عافیت ہے.بڑی غوناں کوتپ ہو گیا تھا.اس کو گھر سے نکال دیا ہے.لیکن میری دانست میں اس کو طاعون نہیں ہے.احتیاطا نکال دیا ہے اور ماسٹر محمد الدین * کوتپ ہو گیا اور گلٹی بھی نکل آئی اس کو بھی باہر نکال دیا ہے.غرض ہماری اس طرف بھی کچھ زور طاعون کا شروع ہے، بہ نسبت سابق کچھ آرام ہے.میں نے اس خیال سے پہلے لکھا تھا کہ اس گاؤں میں اکثر وہ بچے تلف ہوئے ہیں جو پہلے بیمار یا کمزور تھے اسی خیال نے مجھے اس بات کے لکھنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ دو ہفتہ تک ٹھہر جائیں یا اسوقت تک کہ یہ جوش کم ہو جائے.اب اصل بات یہ ہے کہ محسوس طور پر تو کچھ کی نظر نہیں آتی.آج ہمارے گھر میں ایک مہمان عورت کو جو دہلی سے آئی تھی بخار ہو گیا ہے.لیکن اس خیال سے کہ آپ سخت تفرقہ میں مبتلا ہیں اس وقت یہ خیال آیا کہ بعد استخارہ مسنونہ خدا تعالیٰ پر زوجہ نور محمد صاحب باور چی مدفو نہ بہشتی مقبرہ قادیان.(مؤلف) * مُراد مولا نا محمد الدین صاحب پنشنز ہیڈ ماسٹر مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان حال ناظر تعلیم ربوہ.(مؤلف)
126 تو کل کر کے قادیان آ جاویں.میں تو دن رات دعا کر رہا ہوں اور اس قدر زور اور توجہ سے دعائیں کی گئی ہیں کہ بعض اوقات میں ایسا بیمار ہو گیا کہ یہ وہم گذرا کہ شاید دو تین منٹ جان باقی ہے اور خطر ناک آثار ظاہر ہو گئے.اگر آتے وقت لاہور سے ڈس انفیکٹ کے لئے کچھ رس کپورا اور کسی قدر فینائل لے آویں اور کچھ گلاب اور سر کہ لے آویں تو بہتر ہوگا.والسلام -Y خاکسار مرزا غلام احمد ۶ را پریل ۱۹۰۴ء نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی نواب صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکانہ.عنایت نامہ مجھ کو ملا.الحمد الله والمنته کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے عزیزی عبدالرحمن خان کو صحت بخشی.گویا نئے سرے زندگی ہوئی ہے اب میرے نزدیک تو یہی بہتر ہے کہ جس طرح ہو سکے قادیان میں آجائیں لیکن ڈاکٹر کا مشورہ ضروری ہے.کیونکہ مجھے دور بیٹھے معلوم نہیں کہ حالات کیا ہیں اور صحت کس قدر ہے؟ بظاہر اس سفر میں چنداں تکلیف نہیں کیونکہ بٹالہ تک تو ریل کا سفر ہے اور پھر بٹالہ سے قادیان تک ڈولی ہوسکتی ہے.اور گوڈولی میں بھی کسی قدر حرکت ہوتی ہے.لیکن اگر آہستہ آہستہ یہ سفر کیا جائے تو بظاہر کچھ حرج معلوم نہیں ہوتا.اور قادیان کی آب و ہوا بہ نسبت لاہور کے عمدہ ہے آپ ضرور ڈاکٹر سے مشورہ لے لیں اور پھر ان کے مشورہ کے مطابق بلا توقف قادیان میں چلے آویں باقی اس جگہ زور طاعون کا بہت ہو رہا ہے.کل آٹھ آدمی مرے تھے.اللہ تعالیٰ اپنا فضل و کرم کرے آمین.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱۶ اپریل ۱۹۰۴ء 1 نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی نواب صاحب سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاته - الـحـمـد لله والـمـنـتــه عزیز عبدالرحمن خاں صاحب کی طبیعت اب روبہ صحت ہے.الحمد لله ثم الحمد الله.اب میرے نزدیک (واللہ اعلم ) مناسب یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر مشورہ دیں تو عبدالرحمن کو قادیان میں لے آویں.اس میں آب و ہوا کی تبدیلی بھی ہو جائے گی.ریل میں تو کچھ سفر کی تکلیف نہیں.بٹالہ سے ڈولی کی سواری ہوسکتی ہے.بظاہر بات تو یہ عمدہ ہے، تفرقہ دور ہو جائے گا.اس جگہ قادیان میں آج کل طاعون کا بہت زور ہے.اردگرد کے دیہات تو قریباً ہلاک ہو چکے ہیں.باقی اس جگہ سب خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
127 -۷ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ.آپ کا خط آج کی ڈاک میں پہنچا.پہلے اس سے صرف بہ نظر ظاہر لکھا گیا تھا.اب مجھے یہ خیال آیا ہے کہ تو کلا علیٰ اللہ اس ظاہر کو چھوڑ دیں.قادیان ابھی تک کوئی نمایاں کمی نہیں ہے.ابھی اس وقت جو لکھ رہا ہوں ایک ہند و پیج ناتھ نام جس کا گھر گویا ہم سے دیوار به دیوار ہے چند گھنٹہ بیمار رہ کر راہی ملک بقا ہوا.بہر حال خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کر کے آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ آپ بخیر و عافیت تشریف لے آویں.شب بیداری اور دلی تو جہات سے جو عبدالرحمن کے لئے کی گئی میرا دل و دماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے.بسا اوقات آخری دم معلوم ہوتا تھا یہی حقیقت دعا ہے.کوئی مرے تا مرنے والے کو زندہ کرے یہی الہی قانون ہے.سو میں اگر چہ نہایت کمزور ہوں لیکن میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ آپ جب آویں تو پھر چند روز درد انگیز دعاؤں سے فضل الہی کو طلب کیا جائے.خدا تعالیٰ صحت اور تندرستی رکھے.سو آپ بلا توقف تشریف لے آویں.اب میرے کسی اور خط کو انتظار نہ کریں.قادیان میں مکان بنانے کی تحریک والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ١٠٢ حضرت اقدس نے نواب صاحب کو بار بار قادیان آنے کی ترغیب کے علاوہ قادیان میں مکان بنانے کی بھی تحریک فرمائی تھی.چنانچہ حضور اپریل ۹۹ء میں تحریر فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم ۱۸ / اپریل ۱۸۹۹ء نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجھی اخویم نواب صاحب سلّمۂ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، عنایت نامہ پہنچا.اگر چہ آں محبت کی ملاقات پر بہت مدت گزرگئی ہے اور دل چاہتا ہے کہ اور دوستوں کی طرح آپ بھی تین چار ماہ تک میرے پاس رہ سکیں لیکن اس خانہ داری کے صدمہ سے جو آپ کو پہنچ گیا ہے بڑی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں.یہ روک کچھ ایسی معلوم نہیں ہوتی کہ ایک دو سال تک بھی دور ہو سکے بلکہ یہ دائمی اور اس وقت تک ہے حمد مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب حضرت اقدس کی شفقت کا ان الفاظ سے ذکر کرتے ہیں کہ والد صاحب مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب کو جب حضور کے ارشاد پر قادیان لائے تو رات کے ساڑھے تین بجے کا وقت تھا.حضرت اقدس اس وقت تشریف لائے اور حال دریافت فرماتے رہے اور کچھ دیر بیٹھے رہے.
128 کہ ہم دنیا سے چلے جائیں.غرض سخت مزاحم معلوم ہوتی ہے.صرف یہ ایک تدبیر ہے کہ آپ کی طرف سے ایک زنانہ مکان بقدر کفایت قادیان میں تیار ہوا اور پھر کبھی کبھی معہ قبائل اور سامان کے اس جگہ آ جایا کریں اور دو تین ماہ تک رہا کریں لیکن یہ بھی کسی قدر خرچ کا کام ہے اور پھر ہمت کا کام ہے.اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اسباب پیدا کر دے اور اپنی طرف سے ہمت اور توفیق بخشے.دنیا گذشتنی و گذاشتنی ہے.وقت آخر کسی کو معلوم نہیں اس لیئے دینی سلسلہ کو کامل کرنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے.دانشمند کے لئے فجر سے شام تک زندگی کی امید نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے کسی سے یہ عہد نہیں کیا کہ اس مدت تک زندہ رہے گا.ماسوا اس کے ہمارے ملک میں طاعون نے ہی ایسے پیر جمائے ہیں کہ دن بدن خطرناک حالت معلوم ہوتی ہے مجھے ایک الہام میں معلوم ہوا تھا کہ اگر لوگوں کے اعمال میں اصلاح نہ ہوئی تو طاعون کسی وقت جلد پھیلے گی اور سخت پھیلے گی.ایک گاؤں کو خدا محفوظ رکھے گا.وہ گاؤں پریشانی سے بچایا جائے گا.میں اپنی طرف سے گمان کرتا ہوں کہ وہ گاؤں غالباً قادیان ہے.اور بڑا اندیشہ ہے کہ شاید آئندہ سال کے ختم ہونے تک خطرناک صورت پر طاعون پھیل جائے اس لئے میں نے اپنے دوستوں کو یہ بھی صلاح دی تھی کہ وہ مختصر طور پر قادیان میں مکان بنالیں.مگر یہی وقت ہے اور پھر شاید وقت ہاتھ سے جاتا رہے." اسی طرح حضور نے 99ء میں ماہ ستمبر میں یا اس کے قریب نواب صاحب کو تحریر فرمایا: کوئی ایسی تجویز ہو آپ کے لئے اس جگہ کوئی سامان تیار ہو جائے.خدا تعالیٰ ہر ایک شے پر قادر ہے.“ ۱۰۴ سو حضور کے ارشادات کی تعمیل میں حضرت نواب صاحب نے ہجرت سے قبل دو ایک کچھے کمرے دار مسیح سے ملحق جانب مشرق تعمیر کر وائے اور بعد ازاں چند سال بعد انہیں گروا کر ایک پختہ چوبارہ تعمیر کروایا.خلافت اولی میں آپ نے قادیان کی اس وقت کی آبادی سے باہر ایک کھلی جگہ پر دار السلام کو بھی تعمیر کرایا.جس میں باغ بھی لگوایا.یہ کوٹھی اور باغ کئی گھماؤں زمین میں ہے.سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ قادیان کی کوٹھی کا نام دار السلام مالیر کوٹلہ کے شہر والے مکان کا نام دار الفضل اور شیروانی کوٹ والی کوٹھی کا نام دارالاحسان حضرت صاحب نے رکھے تھے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کی عمارات کو بھی اپنے فضل سے نوازا ہے.چنانچہ مکرم میاں محمد
129 عبدالرحمن خاں صاحب ذکر کرتے ہیں کہ جب شہر کے مکان کی تعمیر ہو چکی تو حضرت ام المؤمنین اطال اللہ بقاء ہانے فرمایا کہ ہم آپ کا مکان دیکھنا چاہتے ہیں.چنانچہ آپ جمعیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام و حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب تشریف لائیں.حضرت اماں جان کے پردہ کی خاطر حضرت والد صاحب نچلے حصے میں ٹھہرے رہے اور خالہ جان نے حضرت اماں جان کو اوپر کا حصہ دکھایا.پھر اس کی تعمیر کی خوشی میں حضرت والد صاحب نے کھانا تیار کرا کے حضور کے ہاں بطور دعوت بھجوایا.آپ کی عمارات کا بابرکت ہونا یہ چوبارہ حضرت اقدس کی پرانی ڈیوڑھی کے اوپر ہے اس لئے دار کا ہی حصہ ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اقدس کے لخت جگر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے رخصتانہ کے ساتھ بابرکت ہوا.کوٹھی دارالسلام حضرت خلیفہ اسی اول کے بار بار ہاں جانے مرض الموت میں وہاں قیام رکھنے، خلافت کے قیام کے متعلق مشوروں ، نیز حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور نونہالانِ خاندان مسیح موعود کی آمد ورفت ، سیدہ موصوفہ کے لمبے قیام اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے لختہائے جگر کے وہاں پر مستقل قیام ہونے سے بابرکت ہوتا رہا ہے.اسی طرح شیروانی کوٹ بھی ان بزرگوں کے قیام و آمد و رفت سے بابرکت ہو چکا ہے.یہ برکات مخصوص ہیں اور عدیم المثال اور قابل رشک.حضرت اقدس کے قلب اطہر میں احباب کے لئے جس قدر جذ بہ شفقت و رحمت موجزن تھا.اس کا کون اندازہ کر سکتا ہے.اس کا ایک مظاہرہ یہ تھا کہ حضور کوشش فرماتے کہ جس قدر ممکن ہوا حباب دار کے اندر ہی اقامت رکھیں.چنانچہ بیک وقت بہت سے احباب اہل وعیال سمیت دار میں مقیم رہتے تھے باوجود یکہ اس سے گھر میں تنگی ہو جاتی تھی لیکن نہ حضور اور نہ ہی احباب اس تنگی کو محسوس کرتے تھے.اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی وحی إِني أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِی الدَّار نے کشتی نوح کی طرح طاعون کے خطرناک ایام میں اس کے ساکنین کے محفوظ و مصون رہنے کا وعدہ دیا تھا اس لئے بھی حضور اقدس اور احباب کی خواہش دار کے اندر مقیم ہونے کے متعلق تیز تر ہو گئی تھی.دار کا حضرت نوح کی فُلْكِ الْمَشْحُونِ کی طرح بھرے رہنا امر معلوم ہے.حضور بھی مولوی عبد اللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ کو اس بارہ میں تحریر فرماتے ہیں: ۱۰۵ اس جگہ بڑی مشکل یہ ہے کہ مکان نہیں ملتا اکثر لوگ شرارت سے دیتے نہیں.ہمارے گھر میں ہیں کے قریب عورتیں بھری ہوئی ہیں نواب صاحب بھی مع عیال و
130 اطفال اس جگہ ہیں.سو اس گھر میں تو بالکل گنجائش نہیں.طاعون کا دورہ ساٹھ ساٹھ ☆ ستر ستر ، اسی اسی برس ہوتا ہے.چونکہ حقیقت یہی تھی کہ ساکنین دار کے لئے بوجہ اثر دہام کثرت ساکنین تنگی تھی.اس لئے حضرت نواب مکتوبات حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام مولوی عبد اللہ صاحب سنوری مکتوب نمبر ۶۶.اس مکتوب پر مولوی محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ نے ایک نوٹ دیا ہے جسے مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم میں بھی نقل کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے : نوٹ اس خط پر حضور نے تاریخ نہیں دی ہے ( ہاں اس بات سے اس سال کا اندازہ ہو سکتا ہے جس میں یہ خط حضور نے لکھا ہے کہ یہ طاعون کے حملے کے پہلے سال کا واقعہ ہے.حضور اپنے مکتوب مورخہ ۲۵ راپریل ۹۸ء بنام جناب سیٹھ حاجی عبد الرحمن اللہ رکھا صاحب مدراس میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس طرف طاعون کا بہت زور ہے سنا ہے کہ ایک دو مشتبہ وارد تیں امرتسر میں بھی ہوئی ہیں.اور مکتوب مورخہ ۵ رمئی ۹۸ء بنام سیٹھ صاحب موصوف نیز فرماتے ہیں کہ : اس طرف طاعون چمکتی جاتی ہے.اب اتنی کے قریب گاؤں ہیں جن میں زور شور ہورہا ہے.قادیان میں یہ حال ہے کہ لڑکوں اور جوانوں اور بڑھوں کو بھی خفیف سا تپ چڑھتا ہے.دوسرے دن کانوں کے نیچے یا بغل کے نیچے یا بن ران میں گلٹی نکل آتی ہے.گلٹی تیسرے چوتھے روز خود بخود تحلیل ہو کر کم ہو جاتی ہے.مگر اس خط بنام مولوی عبداللہ صاحب میں یہ کوئی ذکر نہیں کہ اس علاقہ میں بھی طاعون نمودار ہو رہی ہے جس سے بطور تخمینہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خط مارچ یا اپریل ۹۸ ء کا لکھا ہوا ہے.مؤلف ہذا کے نزدیک یہ مکتوب ۱۴/ نومبر ۱۹۰۱ء سے ۱۳ راگست ۱۹۰۴ ء تک کی کسی تاریخ بلکہ غالباً ۱۹۰۲ء کا ہی خود سیٹھ صاحب کے قادیان کے نواح میں طاعون کے شدت پکڑنے کا ذکر ہے چنانچہ حضوڑ ۰۲-۴-۳ کو تحریر فرماتے ہیں: اس وقت قادیاں کے چاروں طرف طاعون ہے قریباً دوکوس کے فاصلہ پر اور قادیان اس وقت ایک ہی کشتی کی طرح ہے جس کے اردگر دسخت طوفان ہو اور وہ دریا
131 صاحب نے رہائش کے لئے پختہ گو مخصر ترین عمارت کی تعمیر کا ارادہ کر لیا.ہر امر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے ذیل کے مکتوب سے ظاہر ہے کہ نواب صاحب کو دیئے ہوئے دار ا مسیح کے حصہ کو حضرت اقدس میں چل رہی ہے.ہر ایک ہفتہ میں شاید بیس ہزار کے قریب آدمی مرجاتا ے“.( مکتوب نمبر ۸۰) اور ۰۲-۵-۲۰ کو تحریر فرماتے ہیں اس طرف طاعون کا اس قدر زور ہے کہ نمونہ قیامت ہے.گرمی کے ایام میں بھی زور چلا جاتا ہے.( مکتوب نمبر (۹۱) اور ۰۲-۱۰-۲۶ کو تحریر فرماتے ہیں.سنا گیا ہے کہ امرتسر میں طاعون دن بدن چمکتی جاتی ہے.معلوم نہیں کہ طاعون سے خدمتِ مفوضہ لینا کس مدت تک حضرت احدیت کا ارادہ ہے“.( مکتوب نمبر ۱۸۹.سو ظاہر ہے کہ پنجاب میں ۹۸ء میں طاعون کا زور ہوا پھر شدت کم ہو گئی تھی اور پھر دوبارہ چمک اٹھی تھی اس لئے اب دیگر وجوہات جس عرصہ سے اسے متعلق کر دیں گے درست ہوگا سو میرے نزدیک جو وجوہات ہیں درج ذیل ہیں.ا.یہاں حضرت مولوی عبد اللہ صاحب کے نام کے مکتوب کی تاریخ کی تعیین کا ذکر ہے.آپ کو بھی حضور ۰۲-۹-۱۸ کو تحریر فرماتے ہیں.ٹیکہ اگر چہ بیہودہ سا علاج ہے اور کہتے ہیں کہ خطرہ سے خالی نہیں اور بعض اس سے مجذوم اور دیوانہ بھی ہو گئے ہیں بعض طاعون کو خود بلا کر جانِ عزیز کھوتے ہیں.مگر آپ ملازم ہیں آپ کو شاید تو كلاعلی اللہ لگانا ہی پڑیگا.( مکتوب نمبر ۷۳ ) گویا کہ حضرت مولوی صاحب والے علاقہ میں بھی اس وقت طاعون تھی * اس طرح ۰۲-۱-۲۰ کو حضرت اقدس حضرت سید فضل شاہ صاحب کو تحریر فرماتے ہیں.اگر جموں میں طاعون کی ترقی کا خطرہ نہیں تو خیر ور نہ ضرور عیال کو اس جگہ سے نکالنا چاہیئے.( مکتوب نمبر ۳ /۱۶۱).اس مکتوب میں نواب صاحب کے اہل وعیال کے دار امسیح میں مقیم ہونے کا ذکر ہے.نومبر ۹۸ء میں آپ کی پہلی اہلیہ فوت ہوئیں اور وہ کبھی قادیان نہیں آئیں اور نواب صاحب کے اہل وعیال میں سب سے پہلے میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب اور اغلب یہ ہے کہ اسوقت کے قریب یہ خط لکھا گیا ہوگا.اس سال طاعون کی شدت کے باعث حضرت اقدس نے ضروری خیال فرمایا کہ جلسہ سالانہ بھی منعقد نہ ہو.
132 ان سے دریافت کئے بغیر کسی اور کو ان کی غیبوبت میں دینا پسند نہیں فرماتے تھے اور ان سے دریافت کر کے بھی صرف عرصہ غیو بت کے لئے دینے کا منشاء تھا چنانچہ حضرت مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں: قادیان ۵ / مارچ خاں صاحب مکرم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.حضرت اقدس علیہ السلام ایک ہفتہ سے درد شکم کے سبب سے بیمار ہیں کل ظہر کے وقت کئی دن کے بعد تشریف لائے.مجھے فرمایا کہ میں ان کی طرف سے آپ کو لکھوں.محمد علی شاہ صاحب نے حضرت سے درخواست کی ہے کہ انہیں حضرت اپنے دار میں جگہ دیں اس لئے کہ ان کے گھر کے پاس چند واقعات طاعون کے ہو گئے ہیں.حضرت نے فرمایا.اگر نواب صاحب کو ایک ماہ اور لاہور میں ٹھہر نا ہو تو ان کا مکان شاہ صاحب کے لئے فارغ کیا جاسکتا ہے.پرسوں آپ کے مولوی خدا بخش صاحب کے خط سے معلوم ہوا کہ نواب صاحب دوماہ تک نہیں آ سکتے.حضرت نے اس خط پر اعتماد نہیں کیا اور فرمایا جب تک نواب صاحب خود نہ لکھیں جب تک وہ مکان محمد علی شاہ صاحب کو نہیں دے سکتے آپ از راہ کرم واپسی اطلاع دیں کہ آپ کا کیا منشا ہے.کل سند ر سے معلوم ہوا کہ وہ بہت سے روپے کی منظوری آپ سے عمارت پر لگانے کے لئے لے آیا ہے وہ کہنے لگا ہزار تم لوگ نصیحت کرو آخر وہ بادشاہوں کے بیٹے نیه قادیان آئے اور ان کی آمد کی تاریخ ۱۴ نومبر ۱۹۰ ء ڈائری میں مرقوم ہے اور ان کے بہن بھائی اور ان کی دوسری والدہ یعنی خالہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ دسمبر ۱۹۰۱ء میں قادیان آئے اور پہلی بار آئے.میاں صاحب موصوف اپنی اور ان کی پہلی آمد کے نومبر دسمبر ۱۹۰۱ء میں ہونے کی تصدیق کرتے ہیں.اس لئے حضرت مولوی صاحب سنوری کے نام کا مکتوب کسی طور سے ۱۹۸ء کا نہیں قرار پاتا..نواب صاحب ۱۴/ نومبر ۱۹۰۱ء کو قادیان مع اہل و عیال تشریف لائے صرف چند دن کے لئے سفر پر گئے پھر ۲۳ اگست ۱۹۰۴ء کو کئی ماہ کے لئے لاہور گئے تھے.
133 ہیں وہ کہاں مانتے ہیں.والسلام.خاکسار عبدالکریم جدید آپ بعض ذاتی امور کی سر انجام دہی کے لئے ۲۳ اگست ۰۴ کو قادیان سے باہر تشریف لے گئے اور آپ کو کئی ماہ تک واپس آنے کا موقعہ نہ ملا.یقینا یہ غیب بت بامر مجبوری ہوگی.آپ کی قلبی کیفیت ہم ہجرت کے ذکر میں سابقہ اوراق میں دیکھ چکے ہیں.اس سفر کے قریب بھی آپ نے اپنے ایک بھائی کو اس خط کے جواب میں تحریر کیا کہ آپ کیوں قادیان سے باہر نہیں جانا چاہتے.اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حد درجہ مجبوری کے بغیر یہ غیو بیت نہ ہوئی ہوگی.آپ تحریر فرماتے ہیں: دار الامان قادیان بسم الله الرحمن الرحيم برا در عزیز مسلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم.آپ کا ایک خط پہلے اور ایک کل مجھ کو ملا.ان دنوں میں بیمار ہوں.آپ جانتے ہیں کہ ہر ایک قسم کے نفع نقصان کو جو آپ جانتے ہیں میں بھی جانتا ہوں.اگر آپ سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں جانتا اور خوب سمجھتا ہوں.مجنوں نہیں خداوند تعالیٰ کے فضل سے اب تک جیسا کچھ ہے دماغ صحیح ہے مگر باوجود اس کے میں سب نقصانوں کو برداشت کرتا رہا ہوں اور کرتا ہوں.اب اس وقت کوٹلہ میں نہ رہنے سے میرے مالی اور جائداد وغیرہ کے دنیاوی نقصان بہت سے ہورہے ہیں.مگر جب میں نے قادیان میں رہنے کا ارادہ کیا تو ساتھ ہی ان سب نقصانات کے برداشت کرنے کا ارادہ کر لیا.انسان کے جسم میں ایک دل ہے دو نہیں.پس وہ ایک طرف ہی لگ سکتا ہے یا دنیا کی طرف یا دین کی طرف.میری رہائش قادیان میں بڑھتی جاتی ہے.اسی قدر دنیا سے سردمہری ہوتی جاتی ہے اور امراض کا سلسلہ ہر وقت موت کی یاد قائم رکھتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ایک ماہ سے تو بالکل کوئی خواہش دنیا قلب میں نہیں رہی.اب میں دل میں سوچتا ہوں تو صرف عاقبت کی فکر قلب میں نظر آتی ہے اور اس کے سوا کوئی خواہش نہیں رہی اس کا قدرتی نتیجہ یہ ضروری ہے کہ ہر قسم کی دنیاوی عزت اور امور سے نفرت قطعی ہوگئی ہے.اور اب جتنا کچھ جا گیر وغیرہ کا تعلق ہے.یہ بھی وبال نظر آتا ہے بلکہ ہر وقت یہ فکر لگی رہتی ہے کہ کوئی ایسی سبیل نکلے کہ میں ان علائق سے بھی سکبد وش ہو جاؤں تو آپ خیال کر سکتے ہیں کہ جب کہ موجودہ حالت ہی وبال معلوم ہوتی ہے تو اس سے زیادہ دنیا میں ترقی میرے لئے کیسی وبال جان ہو سکتی ہے.اب ہم کیا چاہتے ہیں بس یہی کہ ہماری حالت دنیا کے یہ مکتوب ۵/ مارچ ۱۹۰۵ء کا ہے کیونکہ حضرت نواب صاحب بعد ہجرت ۰۴-۸-۲۳ سے ۰۵-۴-۲۷ تک قادیان سے باہر رہے تھے.اس سفر کا ذکر احکام پر چہ ہما را گست ۱۹۰۴ صفحہ ۶ کالم میں آتا ہے.
134 لحاظ سے حقوق ملکیت اور حقوق ریاست میں بہت کمزوری آگئی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہم پھر اسی حالت میں ہو جائیں جو پہلے تھی یا کم از کم موجودہ حالت سے کچھ تو حالت اچھی ہو جائے اب میری حالت اس موجودہ حالت سے ترقی کو بالکل نا پسند کرتی ہے کیونکہ مجھ کو تو موجودہ حالت بھی خطرناک معلوم ہوتی ہے اس لئے زیادہ حالت بڑھی تو اور زیادہ ذمہ داریاں بڑھیں گی اور مجھے موجودہ ذمہ داریاں ہی نبھتی نظر نہیں آتیں اس سے زیادہ کہاں نبھیں گی اس لئے میں تو ذمہ داریوں کے بڑھانے میں کوشش کرنا اور ان کو چاہنا اپنے لئے سم قاتل سمجھتا ہوں اور موجودہ حالت چونکہ میری خواہش کے بغیر ملی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھ کر شکریہ کے ساتھ اس پر قانع.مگر ہے یہ میرے لئے بڑی مشکل چیز.مسلمانوں کی یہی حالت ہے کہ وہ خواہش دنیا نہیں کرتے اور نہ اس کے لئے کوشش ہاں اللہ تعالیٰ دے دیتا ہے تو پھر الأمُرُ فَوقُ الْأَدَبِ اس کو ایک امانت سمجھ کر گلے پڑا ڈھول بجاتے ہیں ورنہ ان کی دلی خواہش صرف دین ہوتا ہے.تو آپ ان مندرجہ بالا سطور سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ میں دنیاوی امور میں کس قدر آپ کا شریک ہوسکتا ہوں.سب کام خواہش پر ہوتے ہیں جب وہ دل ہی نہیں کہ جس میں خواہش ہوا اور کوئی امنگ پیدا ہوتو پھر اس کو کسی کام میں کوشش کی کیا ضرورت ہے؟ اگر کوئی کہے کہ اچھا اپنے لئے نہیں تو اولا د کے لئے ہی سہی تو اس کا جواب وہی (ہے).آنچه بر خود نمی پسندی بر دیگراں ہم مپسند.پس اس لحاظ سے مجھ کو تو اب قطعاً امور سے نفرت ہے اور میرا دل اس طرف آتا ہی نہیں کہ میں اس دنیا کے میدان میں قدم رکھوں جن کو ریاست اور جا گیر اور عزت دنیا کی ضرورت ہو وہ کوشش کریں ان کو مبارک ہو.میں تو ایک طرف ہو کر اور دنیا کے علائق کو ( چھوڑ ) چھاڑ کر اپنی عاقبت کی فکر میں ہوں معلوم نہیں کب موت آجائے پھر میری یہ کوشش وغیرہ کس کام آئیں.مجھ کو نہ عزت دنیا کی ضرورت ہے اور نہ کسی قسم کی دنیاوی امور کی.ہماری حالت یہ ہے کہ مصفا قطره باید که تا گوہر شود پیدا کجا بیند دل نا پاک روئے پاک حضرت را باید مرا یک ذرہ عزت ہائے دین ودنیا نمی منه از بهر ما کرسی که ماموریم خدمت را اگر دل میں جب دنیا ہے تو دین مشکل اور اگر دین کی خواہش ہے کہ جو پھر دنیا کی ناپاکی سے دل صاف ہو تو خدا نظر آئے اور میری طبیعت اب گل ان امور سے سیر ہے.میں تو اب اس (کے) لئے تیار بیٹھا ہوں کہ خداوند تعالیٰ جس قدر فرصت دے اس میں اپنی محبت اور ذکر کی توفیق دے.اور ایمان کے ساتھ خاتمہ بخیر کرے اور دین کی خدمت میں اور ایمان کے ساتھ مدت العمر رہوں اور آخر سر خر وخدا کی جناب میں پہنچوں دنیا کے لحاظ سے اب ہم لوگ مرچکے اور آپ اگر دنیا کے لحاظ سے میرا وجود چاہیں تو سمجھ لیں کہ ایک بھائی
135 مر گیا وہ دنیا میں موجود نہیں.بھائی یوسف علی خاں مرحوم مر گئے تو آخر دنیا کا کام رکا نہیں رہا اور آخر ہم میں سے بھی سب نے یکے بعد دیگرے مرنا ہے مگر دنیا ہے کہ اسی طرح چلتی رہے گی پس آپ فرض کر لیں کہ میں بھی یوسف علی خاں صاحب کی طرح مر گیا میں سچ کہتا ہوں کہ مجھ کو ذرا بھی دنیا کی ہوس نہیں ہے اور (نہ) عزتِ دنیا کا کوئی خیال.اگر ایسا ہوتا تو کوئی جانے بوجھے کنوئیں میں گرتا ہے؟ اگر مجھ کو اپنے نقصانات دنیاوی کا کوئی خیال ہوتا تو میرے دل میں ایک تپش ہوتی جس سے میں دوڑتا پھرتا.مگر وہ کیا چیز ہے کہ جس نے مجھ کو اس بات سے ہٹا دیا وہ یہی کہ دنیا کی طرف سے میرا دل مر گیا ہے اور یہ حالت خدا کرے کہ ترقی کرے...میں صاف صاف آپ صاحبوں کو کہتا ہوں کہ میں ہرگز ہرگز ان دنیاوی امور میں پڑنا نہیں چاہتا کیونکہ یہ امور میری دینی منزل میں قزاقوں کا کام کرتے ہیں اور میں اپنا دین لگا نا نہیں چاہتا ہپس جو کچھ آپ صاحبوں نے کرنا ہے میرے وجود کو اپنے میں سے خارج کر کے کریں.ہاں مگر آپ صاحبوں کی خاطر بادل ناخواستہ اس قدر میں کر سکتا ہوں کہ میں اپیل پر دستخط کر دوں اور سوائے ایسے معاملات کے جن سے مجھ کو قطعاً اختلاف نہ ہو میں خرچ کا شریک رہوں اور دستخط کر دوں.میرے پیارے بھائی ! میں کیا کروں میری حالت ایسی ہو رہی ہے کہ میں آپ کے منشا کو پوری نہیں کر سکتا.اور ہماری حالت بالکل مختلف ہے معشوق من آنست که بنزدیک تو زشت است آپ کو بُرا نہ منانا چاہیئے کیوں کہ اصول و مقاصد کا اختلاف اس علیحدگی کا موجب ہے.اگر میرے مقاصد بھی وہی ہوتے جو آپ کے ہیں تو مجھ کو کوئی عذر نہ ہوتا آگے میں ہمیشہ ایسے کاموں میں آگے قدم رکھتا تھا.دعا کے لئے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اکثر یاد دلاتا رہا ہوں اور وہ فرماتے ہیں کہ ہم دعا کرتے ہیں پس جو صورت ہمارے لئے خدا نکالے گا.وہ مبارک ہوگی میں بھی انشاء اللہ جو کچھ مجھ سے ہوگا دعا میں مشغول رہوں گا مگر میں ایسے دنیاوی امور میں ایکٹو پارٹ لینے سے معذور ہوں خدا کرے کہ آپ کو میری اس تحریر سے رنج نہ ہو اور مجھ کو واقعی معذور سمجھیں گے اور اپنے کاموں میں اسی طرح لگیں گے کہ گویا میں دنیا میں نہیں.راقم محمد علی خاں جو د یه مکتوب ۱۴ جون ۱۹۰۴ ء یا زیادہ سے زیادہ ۰۴-۸-۲۳ تک کا ہے اسلئے کہ نقول روبکار کے رجسٹر سے صفحات مسلسل ہوتے ہیں، اور اس سے قبل کی چٹھی پر تاریخ ۰۴-۶-۴ ادرج ہے.مکتوب ہذا اس رجسٹر کی آخری چٹھی ہے.یہ بہر حال ۲۳ اگست ۰۴ ء تک کا ہے.کیونکہ اس تاریخ کو حضرت نواب صاحب قادیان سے باہر گئے اور ۰۵ ء میں واپس آئے.
136 حضرت اقدس کا باغ میں قیام ایک شدید زلزلہ نے وادی کانگڑہ میں عظیم تباہی مچادی تھی اور مزید زلازل کے متعلق حضور کو الہام ہو چکے تھے اس لئے حضور مع خدام بڑے باغ میں خیمہ زن ہو گئے تھے.مدرسہ بورڈنگ، دفتر ریویو، درس حضرت مولوی نورالدین صاحب غرضیکہ اب سب کچھ وہیں تھا.چونکہ ان ایام میں قادیان اور نواح میں طاعون زوروں پر تھی.اس لئے حضرت اقدس نے تحریر فرمایا: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمۂ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ قادیان میں تیزی سے طاعون شروع ہوگئی ہے.آج میاں محمد افضل ایڈیٹر اخبار البدر کا لڑکا جاں بلب ہے.نمونیا پلیگ ہے آخری دم معلوم ہوتا ہے.ہر طرف آہ وزاری ہے.خدا تعالیٰ فضل کرے.ایسی صورت میں میرے نزدیک بہت مناسب ہے کہ آپ اخیر اپریل ۱۹۰۵ ء تک ہرگز تشریف نہ لاویں دنیا پر ایک تلوار چل رہی ہے خدائے تعالیٰ رحم فرمادے باقی خدا تعالیٰ کے فضل سے سب خیریت ہے.والسلام.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ.قادیان میں قیام کے متعلق جن جذبات کا ذکر ہم اور اق سابقہ میں پڑھ چکے ہیں ان سے ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ نواب صاحب حضرت اقدس اور قادیان سے دوری کو آب حیواں سے بُعد یقین جانتے تھے اس لئے اس عرصہ مہجوری اور سر چشمہ علم و عرفان سے دوری میں آپ ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہوں گے یہ خیالی امر نہیں بلکہ حقیقت ثابتہ ہے.چنانچہ بدر میں مکرم مفتی محمد صادق صاحب رقم فرماتے ہیں ۴ اراپریل ۱۹۰۵ء نواب محمد علی خاں صاحب کا خط آیا جس میں انہوں نے الحاج کے ساتھ لکھا ہوا تھا کہ میں اب لاہور میں ہر گز نہیں رہ سکتا.مجھے باغ کے کسی گوشہ میں جگہ دے دیں.عاجز راقم کو حکم دیا کہ ان کو تحریر کر دو کہ آجائیں اور باغ کے کسی حصہ میں جہاں چاہیں جگہ کر لیں“.۱۰۷ سو آپ قادیان تشریف لے آئے چنانچہ معزز بدر میں مرقوم ہے: حضرت نواب محمد علی خاں صاحب بمعہ ڈیرہ لاہور سے واپس قادیان آگئے اور حضرت کے قریب باغ میں اپنا خیمہ لگایا.۱۰۸
137 آپ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب والے باغیچہ میں خیمہ زن ہوئے جہاں آپ نے پندرہ سولہ خیمے لگوائے اور قناتیں لگوائیں اور نمازوں وغیرہ کی ادائیگی کے لئے ایک بہت بڑا خیمہ بھی لگوایا.باغ میں پہرہ خواجہ عبدالرحمن صاحب رینجر سابق پروانشل امیر کشمیر مرحوم.ڈاکٹر عطرالدین صاحب حال در ولیش ڈاکٹر فضل الدین افریقوی اور دیگر طلبا دوسرے احباب کے علاوہ دیا کرتے تھے.حضرت نواب صاحب نے بھی کچھ پہرہ دار پہرہ کی خاطر رکھے ہوئے تھے جن میں سے ایک حاکم علی سپاہی تھا جو سرکار کی طرف سے قادیان میں متعین تھا.اسے حضرت نواب صاحب کچھ الاؤنس اپنے طور پر دیدیتے تھے (ع) انجمن مصلح الاخوان اور مدرستہ الاسلام کا قیام صلاح خلق اور بے لوث خدمت کا جو جذ بہ بے پایاں نواب صاحب کے قلب صافی میں متموج تھا اس سے مجبور ہو کر آپ نے مالیر کوٹلہ میں ایک انجمن بنام مصلح الاخوان ۱۸۹۶ء کے قریب اور اس انجمن کی زیر نگرانی ایک مدرسہ بنام مدرستہ الاسلام ۱۸۹۸ء کے لگ بھگ جاری کیا.انجمن میں آپ نے معززین کو شامل کیا.اس وقت نواب احمد علی خاں صاحب ولیعہد نابالغ تھے اس لئے بوجہ علالت نواب ابراہیم علی خاں ریاست کا کام چلانے کے لئے نواب امیر الدین خاں والی لوہارو سپرنٹنڈنٹ مقرر ہو چکے تھے.حضرت نواب صاحب اس انجمن کے سیکرٹری بنے اور نواب لوہارو کو اس کا صدر بنایا.اس مدرسہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا تھا لیکن بعد میں مرزا خدا بخش صاحب کو.اس سے مولوی صاحب ناراض ہو کر وہاں سے چلے معزز الحکم میں مرقوم ہے: عالی جناب نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ جو کئی ماہ سے اپنے بعض ذاتی کاروبار کے لئے لا ہور تشریف لے گئے ہوئے تھے ۲۷ / اپریل کی شب کو خیر و عافیت سے دار الامان واپس آ پہنچے اور باغ کے مغربی جانب ایک دوسرے باغیچہ میں خیمہ زن ہیں (۳) میاں حاکم علی کانٹیبل * متعینہ قادیان اس وقت نہایت مستعدی سے حفاظت قصبہ کر رہا ہے کیونکہ اکثر حصہ باہر نکلا ہوا ہے اور وہ بھی مختلف حصوں میں ساری رات اسے ادھر ادھر بھاگنا پڑتا ہے غرض ہر طرح سے تسلی بخش انتظام ہورہا ہے اور ایسے وقت میں یہ نہایت قابل قدر ہے“.مکرم بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی و مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ امیر مقامی بیان کرتے ہیں کہ یہ فوت ہو چکے ہیں احمدی نہیں ہوئے تھے فیض اللہ چک کے باشندے تھے.*
138 گئے.حکیم محمد زمان صاحب مرحوم بھی بطور مدرس وہاں کام کرتے تھے.حضرت نواب صاحب کی رواداری کا یہ حال تھا کہ دونوں احمدیوں کی مولوی صاحب کے ساتھ احمدیت کے تعلق میں بحث و تمحیص ہوتی رہتی فی.مولوی صاحب جس طینت کے مالک تھے وہ ان کے مخالفانہ لٹریچر سے واضح ہے لیکن ان سے کبھی تعرض نہیں کیا جاتا تھا.انجمن کے رجسڑرات فسادات ۱۹۴۷ء کی نذر ہو چکے ہیں.انجمن مصلح الاخوان اور مدرستہ الاسلام کے نیک اغراض و مقاصد حضرت نواب صاحب کی قلم سے سنئے تحریر فرماتے ہیں: انجمن مصلح الاخوان مالیر کوٹلہ انجمن مصلح الاخوان مالیر کوٹلہ چار سال سے قائم ہے اور اپنے فرائض کو ایک حد تک پورا کر رہی ہے.یہ انجمن اہل اسلام کی دینی تمدنی اور اخلاقی اصلاح اور ترقی و بہبودی کی غرض سے بہ سر پرستی رئیسان قائم ہوئی ہے اس انجمن کے مقاصد اعلیٰ ہیں.اسلام کے اصول مقدسہ کی حمایت اور رسوم خلاف اسلام کا ترک کرنا اور رسوم مسنونہ اسلام کا تعدیل کرنا مسلمانوں میں دینداری ، تہذیب، اخلاق ، معاشرت اور تمدن کے اعلیٰ درجہ پر پہنچانے کی کوشش کرنا اور قرونِ اولیٰ کے قدم بقدم چلنے کی ترغیب دینا اور مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم دینے اور اعلی تعلیم انگریزی کے پھیلانے کی کوشش کرنا.اس انجمن کے متعلق ایک مدرسہ بھی دوسال سے جاری ہے جس میں کوشش کی گئی ہے کہ طالب علم آٹھ سال میں انگریزی میں انٹرنس پاس کر لے اور حدیث.فقہ تفسیر اور ادب میں منتہی ہو جائے.یعنی حدیث میں صحاح ستہ اور فقہ میں ہدایا اور تفسیر میں بیضاوی اور ادب میں حماسہ اور منتی تک طالب علم پڑھ لے.اس مدرسہ کا نام مدرستہ الاسلام مالیر کوٹلہ ہے.پس اے ہمدردان قوم اس انجمن اور مدرسہ کی امداد فرمائیں اور جو کچھ آپ میں وسعت ہو اس قدر آپ امداد فرمائیں.“ الملتمس محمد علی خاں رئیس مالیر کوٹلہ ولائف جنرل سیکرٹری انجمن مصلح الاخوان مالیر کوٹلہ میں یہ اعلان حضرت نواب صاحب کے شائع کردہ عربی اردو کا قاعدہ کے آخر پر ہے جو آپ نے مدرستہ
139 حضرت اقدس کی طرف سے قادیان میں مدرسہ کے قیام کی تجویز ابتدا میں احمدی بچے آریہ مدرسہ میں تعلیم پاتے تھے لیکن وہاں کا ماحول ان بچوں کی مذہبی روح کے لئے حد درجہ مضر پاکر حضرت اقدس نے اشتہار مورخہ ۱۵ ستمبر ۱۸۹۷ ء کے ذریعہ قادیان میں ایک مڈل سکول یا بشرط وسعت سرمایہ انٹرنس سکول کھولنے کی تجویز فرمائی اس مدرسہ کی اہمیت کا اندازہ حضور کے اشتہار کے پڑھے بغیر نہیں ہو سکتا اس لئے درج کیا جاتا ہے حضور فرماتے ہیں: بقیہ حاشیہ: - التعلیم الاسلام قادیان و مدرستہ الاسلام مالیر کوٹلہ کی پہلی جماعت کے لئے تالیف کیا.اور اس امر سے سن تصنیف وسن قیام انجمن و قیام مدرسہ کا علم ہوتا ہے قرائن درج ذیل ہیں (۱) مدرسہ تعلیم الاسلام جنوری ۹۸ء میں قائم ہوا.(۲) ۵ ستمبر ۱۹۰۰ء کو نواب صاحب مدرسہ تعلیم الاسلام کے ڈائرکٹر مقرر ہوئے (۳) مدرسہ تعلیم الاسلام سے گہرا تعلق آپ کا ہو چکا تھا.جب یہ قاعدہ تالیف ہوا.اور وہ گہرا تعلق بصورت ڈائرکٹر ہونے کے ہی ہو سکتا تھا (۴) دسمبر ۱۹۰۱ ء میں نواب صاحب ہجرت کر آئے اور مدرستہ الاسلام بند کر دیا.ان سب امور سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۰۰ء میں یہ قاعدہ تالیف ہوا اس سے دو سال قبل یعنی ۱۸۹۸ء میں مدرستہ الاسلام کا اور چار سال قبل یعنی ۱۸۹۶ء میں انجمن مصلح الاخوان کا قیام عمل میں آیا تھا.حمد اس کے اجراء کی وجہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: ایک وہ زمانہ تھا کہ ہمارے لئے ہائی کلاسز کو جاری کرنا بھی مشکل تھا.یہاں آریوں کا مڈل سکول ہوا کرتا تھا.شروع شروع میں اس میں ہمارے لڑکے جانے شروع ہوئے تو آریہ ماسٹروں نے ان کے سامنے لیکچر دینے شروع کئے کہ تم کو گوشت نہیں کھانا چاہیئے.گوشت کھانا ظلم ہے وہ اس قسم کے اعتراضات کرتے تھے جو اسلام پر حملہ تھے.لڑکے سکول سے آتے اور یہ اعتراضات بتلاتے یہاں ایک پرائمری سکول تھا اس میں بھی اکثر آریہ مدرس آیا کرتے اور یہی باتیں سکھلایا کرتے تھے.پہلے دن جب میں اس سرکاری پرائمری سکول میں پڑھنے گیا اور دو پہر کو میرا کھانا آیا تو میں سکول سے باہر نکل کر ایک درخت کے نیچے جو پاس ہی تھا کھانا کھانے کے لئے جا بیٹھا.مجھے خوب یاد ہے کہ اس روز کلیجی پکی تھی اور وہی میرے کھانے میں بھجوائی گئی اس وقت میاں عمر الدین صاحب مرحوم جو میاں عبداللہ صاحب حجام کے والد تھے.وہ بھی اسی سکول میں پڑھا کرتے تھے لیکن وہ بڑی جماعت میں تھے اور میں پہلی جماعت میں تھا میں کھانا کھانے بیٹھا تو وہ بھی آپہنچے اور
140 الله الرحمن الرحيم بسم ایک ضروری فرض کی تبلیغ نحمده ونصلی اگر چہ ہم دن رات اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ لوگ اس بچے معبود پر ایمان لاویں جس پر ایمان لانے سے نور ملتا اور نجات حاصل ہوتی ہے لیکن اس مقصد تک پہنچانے کے لئے علاوہ ان طریقوں کے جو بقیہ حاشیہ: - دیکھ کر کہنے لگے ہیں ماس کھاندے او ماس“.حالانکہ وہ مسلمان تھے اس کی یہی وجہ تھی کہ آریہ ماسٹر سکھلاتے تھے کہ گوشت خوری ظلم ہے اور بہت بری چیز ہے.ماس کا لفظ میں نے پہلی دفعہ ان سے سنا تھا اسلئے میں سمجھ نہ سکا کہ ماس سے مراد گوشت ہے.چنانچہ میں نے کہا یہ ماس تو نہیں بھیجی ہے.انہوں نے بتایا کہ ماس گوشت کو ہی کہتے ہیں.پس میں نے ماس کا لفظ پہلی دفعہ ان کی زبان سے سنا اور ایسی شکل میں سنا کہ گویا ماس خوری بُری ہوتی ہے اور اس سے بچنا چاہیئے.غرض آر یہ مدرس اس قسم کے اعتراضات کرتے رہتے اور لڑ کے گھروں میں آ آکر بتاتے کہ وہ یہ اعتراض کرتے ہیں.آخر یہ معاملہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا جس طرح بھی ہو سکے جماعت کو قربانی کر کے ایک پرائمری سکول قائم کہ کر دینا چاہیئے.چنانچہ پرائمری سکول کھل گیا اور یہ سمجھا گیا کہ ہماری جماعت نے انتہائی مقصد حاصل کر لیا ہے.اس عرصہ میں ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خاں صاحب مرحوم و مغفور ہجرت کر کے قادیان آگئے.انہیں سکولوں کا بڑا شوق تھا چنانچہ انہوں نے مالیر کوٹلہ میں بھی ایک مڈل سکول قائم کیا ہوا تھا.انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں اس کو مڈل کر دیا جائے میں وہاں سکول کو بند کر دونگا اور وہ امداد یہاں دید یا کروں گا چنانچہ قادیان میں مڈل سکول ہو گیا.پھر بعد میں کچھ نواب محمد علی خاں صاحب اور کچھ حضرت خلیفتہ امیخ اول رضی اللہ عنہ کے شوق کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا کہ یہاں ہائی سکول کھولا جائے.چنانچہ پھر یہاں ہائی سکول کھول دیا گیا.لیکن یہ ہائی سکول پہلے نام کا تھا کیونکہ اکثر پڑھانے والے انٹرنس پاس تھے اور بعض شاید انٹرنس فیل بھی.مگر بہر حال ہائی سکول کا نام ہو گیا.زیادہ خرچ کرنے کی جماعت میں طاقت نہ تھی اور نہ ہی یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا.
141 استعمال کئے جاتے ہیں ایک اور طریق بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک مدرسہ قائم ہو کر بچوں کی تعلیم میں ایسی کتابیں ضروری طور پر لازمی ٹھہرائی جائیں جن کے پڑھنے سے اُن کو پتہ لگے کہ اسلام کیا شے ہے اور کیا کیا خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے اور جن لوگوں نے اسلام پر حملے کئے ہیں.حملے کیسے خیانت اور جھوٹ اور بے ایمانی سے بھرے ہوئے ہیں اور یہ کتابیں نہایت سہل اور آسان عبارتوں میں تالیف ہوں اور تین حصوں پر مشتمل ہوں.پہلا حصہ ان اعتراضات کے جواب میں ہو جو عیسائیوں اور آریوں نے اپنی نادانی سے قرآن اور اسلام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے ہیں.اور دوسرا حصہ اسلام کی خوبیوں اور اس کی کامل تعلیم اور اس کے ثبوت میں ہو اور تیسرا حصہ ان مذاہب باطلہ کے بطلان کے بیان میں ہو جو مخالف اسلام ہیں اور اعتراضات کا حصہ صرف سوال اور جواب کے طور پر ہوتا بچے آسانی سے اس کو سمجھ سکیں اور بعض مقامات میں نظم بھی ہوتا بچے اس کو حفظ کر سکیں ایسی کتابوں کا تالیف کرنا میں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور جو طرز اور طریق تالیف کا میرے ذہن میں ہے اور جو غیر مذاہب کی باطل حقیقت اور اسلام کی خوبی اور فضیلت خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر فرمائی ہے، میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ایسی کتابیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے میں تالیف کروں گا بچوں کو پڑھائی گئیں تو اسلام کی خوبی آفتاب کی طرح چمک اٹھے گی اور دوسرے مذاہب کے بطلان کا نقشہ ایسے طور سے دکھایا جائے گا جس سے ان کا باطل ہونا کھل جائے گا.اے دوستویقیناً یا درکھو کہ دنیا میں سچاند ہب جو ہر ایک غلطی سے پاک اور ہر ایک عیب سے منزہ ہے صرف اسلام ہے یہی مذہب ہے جو انسان کو خدا تک پہنچاتا اور خدا کی عظمت دلوں میں بٹھاتا ہے ایسے مذہب ہرگز خدا تعالی کی طرف سے نہیں ہیں جن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے جیسے انسان کو خدا کر کے مان لو یا جن میں یہ تعلیمیں ہیں کہ وہ ذات جو مبدء ہر ایک فیض ہے وہ تمام جہان کا خالق نہیں ہے.بلکہ تمام ارواح خود بخو دقدیم سے چلے آتے ہیں گویا خدا کی بادشاہت کی تمام بنیاد ایسی چیزوں پر ہے جو اس کی قدرت سے پیدا نہیں ہوئیں بلکہ قدامت میں اس کے شریک اور اس کے برابر ہیں.سو جس کو علم اور معرفت عطا کی گئی ہے اس کا فرض ہے جو ان تمام اہل مذاہب کو قابل رحم تصور کر کے سچائی کے دلائل ان کے سامنے رکھے اور ضلالت کے گڑھے سے ان کو نکالے اور خدا سے بھی دعا کرے کہ یہ لوگ ان مہلک بیماریوں سے شفا پاویں اس لئے میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بچوں کی تعلیم کے ذریعہ سے اسلامی روشنی کو ملک میں پھیلاؤں اور جس طریق سے میں اس خدمت کو انجام دونگا میرے نزدیک دوسروں سے یہ کام ہرگز نہیں ہو سکے گا.ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اس طوفان ضلالت میں اسلامی ذریت کو غیر مذاہب کے وساوس سے بچانے کے لئے اس ارادہ میں میری مدد کرے.سو میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بالفعل قادیان میں ایک مڈل سکول قائم کیا جائے.اور علاوہ تعلیم انگریزی کے ایک
142 حصہ تعلیم کا وہ کتا بیں رکھی جائیں کہ جو میری طرف سے اس غرض سے تالیف ہوں گی کہ مخالفوں کے تمام اعتراضات کا جواب دے کر بچوں کو اسلام کی خوبیاں سکھلائی جائیں اور مخالفوں کے عقیدوں کا بے اصل اور باطل ہونا سمجھا یا جائے.اس طریق سے اسلامی ذریت نہ صرف مخالفوں کے حملوں سے محفوظ رہے گی بلکہ بہت جلد وہ وقت آئے گا کہ حق کے طالب سچ کی روشنی اسلام میں پا کر باپوں اور بیٹوں اور بھائیوں کو اسلام کے لئے چھوڑ دیں گے مناسب ہے کہ ہر ایک صاحب توفیق اپنے دائگی چندہ سے اطلاع دیوے کہ وہ اس کار خیر کی امداد میں کیا کچھ ماہواری مدد کر سکتا ہے اگر یہ سرمایہ زیادہ ہو جائے تو کیا تعجب ہے کہ یہ سکول انٹرنس تک ہو جائے.واضح رہے کہ اول بنیاد چندہ کی اخویم مخدومی مولوی حکیم نورالدین صاحب نے ڈالی ہے کیونکہ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ میں اس سکول کے لئے دس روپے ماہواری دوں گا اور مرزا خدا بخش صاحب اتالیق نواب محمد علی خاں صاحب نے دورو پید اور محمد اکبر صاحب نے ایک روپیہ ماہواری اور میر ناصر نواب صاحب نے ایک روپیہ ماہواری اور اللہ داد صاحب کلرک شاہ پور نے ۸ اللہ ماہواری چندہ دینا قبول کیا ہے.المشتہر میرزا غلام احمد از قادیان ۱۵ر ستمبر ۱۸۹۷ء- تسمیہ مدرسہ حضور کے ارشاد کے بموجب ایک خاص سب کمیٹی ۲۷ دسمبر ۱۸۹۷ء کو ہوئی اس کمیٹی نے تجویز کیا کہ یکم جنوری ۱۸۹۸ء سے پرائمری سکول کھولا جائے جس کا نام حسب ارشاد حضرت اقدس مدرسہ تعلیم الاسلام رکھا جائے.چنانچہ مدرسہ کا اجراء جنوری ۱۸۹۸ء سے ہوا جو کہ پرائمری تک تھا.مدرسہ کا اجراء چنانچہ یہ مدرسہ جاری ہوا پونے دوماہ بعد اس بارہ میں جو کوائف شائع ہوئے درج ذیل ہیں : رست تعلیم الاسلام قادیان دارالامان مدرسه جس مدرسہ کی ضرورت اجراء پر اکتوبر ۱۸۹۷ء میں اشتہار دیا گیا تھا جنوری ۱۸۹۸ء سے اس کا افتتاح ہو گیا ہے.اس وقت ساٹھ طالب علم درج رجسٹر ہیں اور چار مدرس جو سید نا مرزا صاحب کے مشن کے خادم ہیں تعلیم دیتے ہیں.مدرسہ کے
143 نصاب تعلیم میں دینیات لازمی مضمون قرار دیا گیا ہے اور عام مدرسوں کی نسبت یہ لحاظ اور خیال رکھا گیا ہے کہ طالب علم ۶ سال کے اندر پنجاب یونیورسٹی کے امتحان مدل میں داخل ہو سکے اور انگریزی تعلیم حروف تہجی شروع کرتے ہی شروع ہوتی ہے.مدرسہ کا انتظام ایک مجلس ناظم التعلیم کے سپر د ہے جس کے جنرل سیکرٹری خواجہ کمال الدین بی اے ایل ایل بی سابق پرو فیسر اسلامیہ کالج لاہور مقرر ہوئے ہیں اور میر مجلس جناب مولا نا مولوی نورالدین صاحب بھیروی اور پیٹرن اور سر پرست حضرت اقدس حجتہ اللہ سید نا مرزا صاحب مسیح موعود...دوسو سے زائد ممبروں کے نام درج رجسٹر ہو چکے ہیں اس وقت دوسری مڈل تک مدرسہ میں تعلیم دی جاتی ہے.بورڈنگ ہاؤس کی تجویز ہورہی ہے عنقریب کھلنے والا ہے.ہمارے احباب اور عوام لوگ جو دینی و دنیاوی برکات سے بہرہ مند اور متمتع ہونا چاہتے ہیں اپنے لڑ کے بھیجیں.اس وقت تک مدرسہ میں کوئی فیس بھی نہیں لی جاتی گو کچھ عرصہ کے بعد بہت قلیل فیس لگائی جاوے گی.مدرسہ کی مالی امداد کی تلقین چار ماہ بعد مدرسہ کے لئے مالی امداد کی تحریک کرتے ہوئے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب تحریر فرماتے ہیں : اشتہار ضروری الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم اے برگزیدہ جماعت کے ممبر و اور اے اسلام کے سچے حامیو! بموجب ریزولیوشن کمیٹی منتظمہ منعقدہ ۵ مئی ۱۸۹۸ء آپ کی خدمت مبارک میں گذارش ہے کہ یہ امر آپ پر مخفی نہیں کہ حضرت اقدس جناب امام الزمان مسیح موعود مهدی مسعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اہل اسلام کے بچوں کی حالت زار کو دیکھ کر اور اس امر کی اشد
144 ضرورت محسوس کر کے ان کی تعلیمی حالت نہایت ناقص اور خراب ہے.ایک اشتہار شائع کیا تھا کہ ضرورت بالا کے پورا کرنے کے لئے ایک مدرسہ قادیان میں جاری کیا جائے چنانچہ بعض ہمدردان قوم نے اپنی حیثیت کے بموجب چندہ سے امداد کی مگر جس سٹینڈرڈ کا مدرسہ فی الحال تجویز کیا گیا تھا وہ آمد اس کے لئے غیر ملتفی تھی.اس لئے ابھی مدرسہ مڈل کی دوسری جماعت تک یکم جنوری ۱۸۹۸ء سے جاری کر دیا گیا اور اسی مدرسہ میں اس وقت دارالامان اور گردونواح کے دیہات کے طلباء تعلیم پاتے ہیں لیکن بہت سے برادرانِ بیرونی نے اس امر کی بھی خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ اپنے اپنے بچوں کو وہاں بھیجنا چاہتے ہیں لیکن جہاں مکان مدرسہ اور بورڈنگ ہاؤس کی عمارت تیار نہیں علاوہ اس کے بہت سے مساکین طلبا بھی ہیں جن کی تعلیم وتربیت کی سخت ضرورت ہے لہذا ذیل کی مدین قائم کر کے آپ صاحبان کی خدمت میں اطلاع دی جاتی ہے کہ ہر ایک صاحب مقدور ہر مدیا جس مد کے لئے چاہیں امداد فرما کر سعادت دارین کے مستحق ہوں (۱) عام اغراض مدرسه (۲) تعمیر مکان مدرسہ وبورڈنگ ہاؤس (۳) مساکین فنڈ.آپ صاحبان پر روشن ہے کہ ایسے کام سوائے قوم کی مجموعی امداد کے چل نہیں سکتے اور یہ امداد بھی کسی غیر کی امداد نہیں ہے بلکہ یہ امداد اپنے نفس کے لئے ہے کیونکہ آپ ہی لوگوں کے بچے یہاں تعلیم پا کر دنیا کے لئے نمونہ بن کر نکلیں گے.اس امداد سے دُگنا ثواب ہے.ایک تو دنیا وی کہ آپ کے بچے دنیا میں خاص امتیازی فخر حاصل کریں گے.دوسرا دینی جس سے ہمارا مالک ہمارا خالق.ہمارا پاک پروردگار ہم پر راضی ہوگا.اور انجمن امید کرتی ہے کہ جہاں تک جلد ممکن ہوڈو نمیشن اور ماہانہ یا سالانہ رقوم ارسال فرما کر مشکور و ممنون فرماویں گے اور تساہل اور سہل انگاری کو دور کر کے بہت جلد اس کی تعمیل میں کوشش فرما دیں گے.المشتهر عبدالکریم جائنٹ سکرٹری انجمن تعلیم الاسلام ( دارالامان قادیان مورخہ ۷ رمئی ۱۸۹۰ء (الحکم بابت مئی ۱۸۹۰ء) اسوقت جس قدر مالی اعانت در کار تھی وہ ذیل کے اعلان سے بھی ظاہر ہے ، بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد اللہ العلی
145 مدرسہ کی بہتری کے لئے حضرت نواب صاحب کی ایک تجویز حضرت نواب صاحب باوجود یکہ مدرسہ کے انتظام میں ابھی شریک نہ تھے معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ کی محبت کی وجہ سے آپ کو اس سے پوری دل چسپی تھی اور آپ کا دردمند دل اس کے فنڈز کی کمی کو پورے طور پر محسوس کرتا تھا اور اس مشکل کے حل کے لئے غلطان و پیچاں رہتا ہو گا.سوہ رستمبر ۱۹۰۰ء کو جس دن بعد کے ایک فیصلہ کے رو سے آپ ڈائرکٹر مقرر کئے گئے آپ کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے مدرسہ کی آمد کو بڑھانے کے لئے کمیٹی نے ایک فیصلہ کیا اس تجویز کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نواب صاحب کے کسی لمبے غور وفکر کا نتیجہ ہے.آپ کی تجویز کے مطابق ایک کونسل ٹرسٹیاں ان اصحاب پر مشتمل مقرر کی گئی جو مدرسہ کو کم از کم ساٹھ روپیہ سالانہ مدددیں یامدرسہ کے لئے چندہ وصول کریں.یا مدرسہ کی علمی مدد کریں چنانچہ اس کے مطابق اکیس اشخاص کونسل ٹرسٹیاں کے ممبر قرار دئے گئے جن میں سے اب صرف مکرم عرفانی صاحب ہی زندہ ہیں.اطال اللہ بقاہ ۲۹ دسمبر ۱۹۰ء کو بیت السلام قادیان میں بصدارت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کونسل ٹرسٹیان کے بقیہ حاشیہ: - العظیم و نصلی علی رسولہ الکریم دوستو اک نظر خدا کیلئے مسیح موعود کے جان نثار خادم حضور مدوح ایدہ اللہ کے مقاصد سے واقف دینی ضرورتوں کے مہیا کر نیکی پیاس رکھنے والی قوم.پھر میں ناحق کا دردسر اٹھا کر قصہ کو لمبا کروں.زمانہ کے معروف چکنے چپڑے فقرے لکھوں کیا حاصل.صاف اور سیدھی بات کہے دیتا ہوں کہ مدرسہ تعلیم الاسلام کو آ پکی ہمدردی کی سخت ضرورت ہے.ممکن ہے کہ ابتک بعض کو معلوم نہ ہو کہ مدرسہ کا خرچ کہاں تک بڑھ گیا ہے اور یہی وجہ انکی بے التفاتی کی ہو.سوسن لو یکم اگست سے مدرسہ کا ماہوار خرچ ایک سو گیارہ روپیہ آٹھ آنہ ہو گیا ہے.علاوہ ماسٹر شیر علی صاحب بی.اے کے ایک لائق ٹرینڈ انڈر گریجوایٹ سیکنڈ ماسٹر منگوایا گیا.ان سب پر بورڈنگ ہاؤس بنانے کے لئے روپیہ درکار ہے.کیونکہ مدرسہ کی ترقی طلباء قطعاً اسی پر موقوف ہے.دائمی چندہ دینے والے مقرر رقم میں کچھ اضافہ کریں.غافل ہوشیار ہو جائیں اور خدا کے لئے مافات کی تلافی کریں اور مقدور والے اچھی یک مشت رقموں سے اعانت کر کے اجر لیں.والسلام.المشتہرعبدالکریم سیالکوٹی منجانب سیکرٹری مدرسہ تعلیم الاسلام
146 اجلاس میں ذیل کے عہدہ دار منتخب ہوئے.(۱) پریزیڈنٹ حضرت نواب صاحب (۲) وائس پریزیڈنٹ حضرت مولوی نورالدین صاحب مرزا خدا بخش صاحب (۳) سکریڑی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب (۴) جائنٹ سکرٹری مولوی محمد علی صاحب اور آئندہ سال کے لئے اٹھارہ اشخاص علاوہ ٹرسٹیاں کے مجلس منتظمہ کے ممبر قرار دیئے گئے.اور ۱۹۰۱ء کے لئے پانچ ہزار تین سو اٹھارہ کا بجٹ (بشمول ڈیڑھ ہزار روپیہ برائے عمارت مدرسہ و بورڈ نگ ) منظور ہوا.(۱) میر مجلس حضرت مولوی نورالدین صاحب نائب میر مجلس حضرت مولوی عبد الکریم صاحب حضرت میر ناصر نواب صاحب اور سید محمد احسن صاحب جنرل سیکرٹری مولوی محمد علی صاحب جائنٹ سیکرٹری مرزا خدا بخش صاحب.اسٹنٹ سیکرٹری.مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اگزامینر آف اکاؤنٹس منشی تاج الدین صاحب.انجینئر حضرت میر ناصر نواب صاحب.فنانشیل سیکرٹری حضرت مولوی نورالدین صاحب.اسٹنٹ فنانشل سیکرٹری مکرم شیخ عبدالرحیم صاحب مہتمم حضرت حکیم فضل دین صاحب.انسپکٹر مدرسہ مولوی محمد علی صاحب.اسسٹنٹ انسپکٹر مدرسہ مرزا خدا بخش جنرل انسپکٹر جائداد مرزا خدا بخش صاحب سٹور کیپر حضرت میر ناصر نواب صاحب مقرر ہوئے.ان ایام میں یہاں جو قلیل مشاہرہ دیا جارہا تھا اس کا علم اس سے ہوتا ہے کہ ابتدائی مدرس سے لے کر ہیڈ ماسٹر تک کا مشاہرہ چھ سے پچاس روپے تک تھا.ہجرت کر کے آجانے کی تحریک حضرت نواب صاحب کو تعلیمی امور سے حد درجہ شغف تھا آپ انجمن مصلح الاخوان کے زیر انتظام مالیر کوٹلہ میں مدرسہ کا قیام عمل میں لائے تھے.ہر دو کے متعلق آپ کو تجربہ تھا اور کامیاب تجربہ تھا.ادھر قادیان کے مدرسہ کی حالت مالی لحاظ سے اور انتظامی لحاظ سے اس امر کی مقتضی تھی کہ حضرت نواب صاحب جیسا انسان اس کی باگ ڈور سنبھال لے.چنانچہ ابھی مدرسہ کے اجراء پر سال بھی نہیں گزرا تھا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے زور دیا کہ حضرت نواب صاحب قادیان چلے آئیں اس سلسلہ خط و کتابت کا صرف ایک مکتوب مورخہ ۱۸/ نومبر ۱۸۹۸ء دستیاب ہو سکا ہے نہ معلوم یہ خط و کتابت کس وقت سے ہو رہی تھی حضرت مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں: قادیان جمعه ۱۸/ نومبر مکرم خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.جناب کے دو خط کل مجھے مراد مکرم بھائی عبد الرحیم صاحب قادیانی حال درویش قادیان.آپ اس امر کی تصدیق فرماتے ہیں.
147 ملے.عصر کے وقت محراب میں جناب کی تکلیفوں کے متعلق میں نے حضرت کی خدمت میں عرض کی اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا اور نہ کوئی خط ہی دکھایا.فرمایا میری طرف سے انہیں لکھ دیں کہ میں نے التزام کیا ہوا ہے کہ پانچوں نمازوں میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ وقت پر آثار دکھائے گا.میں نے جو آپ کو لکھا تھا کہ حضرت اقدس نے آپ کا خط پڑھ کر اس سے اتفاق کیا وہ وہ خط تھا جو آپ نے مرزا خدا بخش صاحب کے متعلق لکھا تھا کہ ان کی نسبت ایسا اور ایسا ارادہ کیا گیا ہے اور کہ انہیں چندہ کی گرداوری کے لئے بھیجنا مناسب نہیں اور یہ کہ ہر شہر میں سر بر آوردہ لوگ اس کام پر مقرر ہونے چاہئیں اور کوئی خط غلام حسین کے ز دو گوب اور انتظام مدرسہ کے متعلق مجھے نہیں ملا.میں نے مدرسہ کے متعلق بہت فکر کی ہے میری رائے میں اس کی الجھنوں کا سلجھانا ایسا دشوار ہے کہ ایک لحاظ سے محال کے قریب قریب جاپڑتا ہے معاً اس یقین سے لبریز ہوں کہ اللہ تعالیٰ پر اس کا آسان کرنا آسان ہے.نیت کے تمام گوشوں کو خوب مطالعہ کر کے کامل اخلاص اور خدا ترسی کو مد نظر رکھ کر دلیری سے آپ ایک بات کا فیصلہ کر دیں.پھر دیکھ لیں کوئی بھی حرج وھرج پیدا نہ ہوگا.میں سالہا سال کے تجربے سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ شجاعت سے ایک امر طے کرنے والا آخر اپنی راہ صاف اور ہموار دیکھ لیتا ہے.مدرسہ کے متعلق بعض لوگوں نے ایسی ناجائز کا رروائی کی ہے کہ اس کے تصور سے بھی دل کانپتا ہے.غلام حسین کا معاملہ ایک فیصلہ چاہتا ہے.جو آپ کے یہاں آنے پر عرض خدمت کیا جائے گا جس صورت میں اب لپیٹ دیا گیا ہے وہ مفید نہیں بلکہ مضر ہے.بہر حال آپ کا یہاں آنا از بس ضروری ہے.خواہ تنگی کے (ساتھ ) گذران کرلیں.آپ کی ذات کے لئے بھی مفید ہے اور دیگر مصالح کے لئے بھی.والسلام.خاکسار عبدالکریم * ( غیر مطبوعہ ) اس مکتوب کی تاریخ ۱۸ نومبر بروز جمعہ درج ہے جنوری ۱۸۹۱ ء میں مدرسہ کا اجراء ہوا.۱۸۹۸ء میں ۱۸/ نومبر کو جمعہ تھا ۱۸۹۹ ء اور ۱۹۰۰ ء کے سالوں میں اس تاریخ کو جمعہ نہ تھا ۱۹۰۱ء میں نومبر کو نواب صاحب ہجرت کر کے قادیان پہنچ چکے تھے.
148 با وجود التوائے ہجرت حضرت نواب صاحب کا تقر ربطور ڈائریکٹر آپ بعض موانع اور عوائق کی وجہ سے اسوقت ہجرت نہ کر سکے.ایک روک تو یہ ہوئی کہ اسی نومبر ۹۸ء میں آپ کی زوجہ محترمہ داغ مفارقت دے گئیں.اسی طرح بعض اور موانع بھی ہوں گے.لیکن اب انٹرنس کلاس فروری ۱۹۰۰ء میں کھل چکی تھی ایسے ادارے کے لئے دو ضروریات مہیا ہو نی لازم تھیں.اول روپیہ جو اس کی ضروریات کا متقی ہو.دوسرے ایسا شخص جو کما حقہ اس کی نگرانی کر سکے اور پوری دلچسپی سے اس کے انتظام کو چلانے کی اہلیت رکھتا ہو.اب آپ کی ہجرت کا مزید انتظار نہیں کیا گیا یہ دونوں ضروریات حضرت نواب صاحب کے وجود با جودت میں بدرجہ اتم پوری ہوتی دکھائی دیں اور یہ یقین ہوا کہ آپ اس درجہ ا نتظام وانصرام امور کی قابلیت کے مالک ہیں کہ دور مالیر کوٹلہ بیٹھے ہی تمام امور تسلی بخش طور پر سرانجام دے سکیں گے.ریز ولیوشن نمبر ۳۰۲ مورخہ ۵ ستمبر ۱۹۰۰ ء سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب صاحب نے مدرسہ کو ایک ہزار روپیہ سالانہ مدد دینے کا وعدہ فرمایا.اس امداد کی قدرو قیمت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ جیسا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے ایک مضمون میں مرقوم ہے.اس وقت تک سب سے زیادہ چندہ مدرسہ کے لئے حضرت مولوی نورالدین صاحب دے رہے تھے جو دس روپیہ ماہوار تھا اور باقی چارا حباب کا ذکر کیا ہے جو پانچ روپیہ یا اس سے زیادہ چندہ دیتے تھے.نواب صاحب کی امداد کی اہمیت کا اندازہ ہمیں اس سے بھی ہوتا ہے کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے اس مضمون میں تحریک کی ہے کہ ان پانچ کے علاوہ بھی لوگ ٹرسٹی بنیں تا مدرسہ کے اخراجات پورے ہو سکیں.سو اس وقت جب کہ ساٹھ روپیہ سالانہ دینے والے بھی معدودے چند تھے اس وقت حضرت نواب صاحب نے ایک ہزار روپیہ سالانہ چندہ دینے کی پیش کش فرمائی.آپ کی امداد کے بارے میں الحکم میں مرقوم ہے: مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کی امداد کے لئے عالی جناب محمد علی خاں صاحب رئیس اعظم مالیر کوٹلہ نے سر دست ایک ہزار روپیہ سالانہ کی امداد منظور فرمائی ہے.جس کو وہ بارہ سو تک بڑھا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں.یہ امداد مدرسہ کی پابحالی کے لئے مردے از غیب بیروں آید و کاربے بکند کا مصداق ہے.اللھم زدفزد بطور ڈائرکٹر نواب صاحب کے وسیع اختیارات یہ صرف وعدہ ہی نہیں تھا بلکہ عملاً آپ اس کا ایفاء کرتے تھے.چنانچہ حضرت اقدس نے اپنے اشتہار
149 مورخہ ۱۶ راکتو بر ۱۹۰۳ء میں نواب صاحب کے مدرسہ کے لئے اتنی روپیہ ماہوار دینے کا ذکر کیا ہے اس مدد کے وعدہ پر به اختیارات ذیل حضرت نواب صاحب کو ڈائرکٹر مدرسہ مقرر کیا گیا کہ -1 ا.دس روپے ماہوار سے زیادہ تنخواہ کے ملازمین کی تقرری اور موقوفی اور عمارت یا متفرق اخراجات کے لئے پچاس روپے سے زیادہ کا خرچ ان کی منظوری کے بغیر نہ ہو گا.عدم موجودگی کونسل ٹرسٹیاں کی صورت میں وہ بجٹ کی منظوری دیں گے مکانات کے نقشوں میں ان کا مشورہ لیا جائے گا اور ان کی رائے کو تر جیح دی جائے گی سکیم میں اگر وہ کوئی مناسب ترمیم کریں تو کمیٹی اسے منظور کرے گی.انسپکٹر مدرسہ نائب ڈائرکٹر متصور ہوگا اور ڈائرکٹر صاحب کو اختیار ہوگا کہ اگر کوئی دقت دیکھیں تو مناسب ہدایات دے کر انسپکٹر کو معائنہ مدرسہ کی ہدایت کریں.مدرسہ کی مفصل رپورٹ نواب صاحب کے پاس پہنچتی رہے گی اور ان کی رائے پر خاص توجہ دی جایا کرے گی.کمیٹی منتظم کونسل ٹرسٹیاں کے ماتحت ہوگی.تفصیل بالا سے بھی ظاہر ہے کہ مدرسہ کے تعلق میں وسیع اور کلی اختیارات حضرت نواب صاحب کو تفویض کر دیئے گئے تھے.حالانکہ ابھی آپ مالیر کوٹلہ میں ہی تھے اور اس کے سوا سال بعد آپ نے ہجرت کی گویا کہ یہ یقین کر لیا گیا تھا کہ نواب صاحب با وجود مالیر کوٹلہ میں ہونے کے اس حسن انتظام کی قابلیت رکھتے ہیں کہ مدرسہ کو باحسن طریق جاری رکھ سکیں گے.شاخ دینیات کا اجراء اور بعض دیگر کوائف اب جب کہ مدرسہ حضرت نواب صاحب کے زیر انتظام آچکا تھا یکم نومبر ۱۹۰۰ء سے اس میں شاخ دینیات کی کھولی گئی گو اس کے کھولنے کی تجویز مارچ ۱۹۰۰ء میں ہو چکی تھی.اور اس کے لئے مارچ یا اپریل میں نواب صاحب نے پانچ صد روپیہ کی اعانت بھی کی تھی.جس میں سات طالب علم تعلیم پانے لگے.مدرسہ میں آخر سالہائے ۱۸۹۸ ء و ۱۸۹۹ء اور ۱۹۰۰ء میں علی الترتیب ۳۹ - ۱۰۵ اور ۲۴ طلبا تھے ، ۱۹۰۰ء میں مڈل کے تینوں طلباء کامیاب ہو گئے تھے جب کہ آریہ سکول قادیان کے دس طلباء میں سے صرف ایک کامیاب ہوا تھا پہلے دو سال فیس نہیں لگائی گئی.مئی ۱۹۰۰ء سے بورڈنگ کا مستقل طور پر انتظام کیا گیا.فہیں بورڈنگ مدرسہ سے قریباً یک صدتر اسی روپے کی آمد ہوئی کل آمد ۱۹۰۰ ء مع بقایا قریباً پونے تین ہزار روپیہ اور کل خرچ اس سے قریباً پنتالیس روپے زیادہ ہوا.اس میں قریباً نو صد رو پیدا اخراجات عمارت بھی تھے جو گذشتہ دوسالوں میں مجموعتہ قریباً سوا گیارہ صد کئے گئے تھے گویا کہ کل اخراجات کے تہائی سے زیادہ کے پورا کرنے کے کفیل ذاتی طور پر
حضرت نواب صاحب تھے.150 کن حالات میں آپ کو ڈائرکٹر بنایا گیا ان حالات کا جائزہ لینے کے لئے جن میں سے اس وقت مدرسہ گذر رہا تھا.یہ ذکر کر دینا خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ ۳۱ مارچ ۱۹۰۰ء کو چار پانچ کالم کے طویل اداریہ میں الحکم کے ایڈیٹر صاحب محترم نے احباب کو تلقین کی کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کو پیش نظر رکھ کر مدرسہ کی امداد کے لئے مالوں کو قربان کریں کیونکہ اس قدر روپیہ بھی نہیں کہ جو ایک ماہ کی تنخواہوں کا کفیل ہو سکے.مزید ہم حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی ایک تحریک من و عن نقل کر دیتے ہیں.اس سے اس معاملہ کی پوری وضاحت ہو جاتی ہے آپ تحریر فرماتے ہیں: جماعت کی خدمت میں مدرسہ تعلیم الاسلام کے سیکرٹری کی درخواست اس وقت مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کا ماہوار خرچ دوسو روپیہ ہے اور بہت جلد اس سے بھی زیادہ ہوتا نظر آتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بہت سے بھائی ایسے ہیں جنھیں خصوصاً اس طرف توجہ کرنے کی فرصت نہیں ملی شاید ان کی فکر اور رویت نے اس کو زیادہ گراں قدر اور اہم نہیں سمجھا اگر کوئی یہاں حضرت اقدس کی صحبت میں چند روز بسر کرے تو جس طرح اس کو یقین ہوگا کہ اس دور رس امر کی طرف حضرت اقدس کی خاص توجہ معطوف ہے اسے معایہ بھی یقین ہو جائے گا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام کو حضرت اقدس بہت ضروری اور اپنی غرض اور غایت کی مہمات میں سے سمجھتے ہیں.جہاں تک میں غور کرتا ہوں اس وقت تک اس کی بقاء محض حضرت اقدس کی دعاؤں پر منحصر رہی ہے ورنہ ہمارے بھائیوں کی غفلت نے اس کو ضعف پہنچانے میں کوئی کوتا ہی نہیں کی.ہر مہینہ میں ہمیں دلدوز فکر لگتی ہے مذکورہ بالا تمام کو ائف رپورٹ مورخہ ۲۹ دسمبر ۱۹۰۰ء مرتبہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جائنٹ سیکرٹری مجلس منتظمہ اور رپورٹ مولوی محمد علی صاحب سکرٹری کونسل ٹرسٹیاں مندرجہ ضمیمہ الحکم (۱ تا ۲۲) پر چہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۱ ء ماخوذ ہیں (ب ) گوالحکم بابت ۱۹۰۰-۳-۱۷ ( صفحہ ۳ کالم ۳) سے معلوم ہوتا ہے کہ دینیات کی شاخ اس وقت کھول دی ہے ( اور مجدد اعظم میں بھی اس کے کھلنے کا زمانہ مارچ ہی قرار دیا گیا ہے ) لیکن خود دالحکم بابت ۱۹۰۰-۴-۱۰ کے اداریہ میں صاف مرقوم ہے کہ ابھی شاخ دینیات کے کھلنے کی تجویز ہی تھی اور رپورٹ مندرجہ الحکم بابت ۱۰ر جنوری ۱۹۰۰ میں بھی یہی مرقوم ہے کہ یہ شاخ یکم نومبر ۱۹۰۰ء کو کھولی گئی.
151 کہ استادوں کی تنخواہ کہاں سے بہم پہنچائیں.حضرت اقدس آج کل بہت بڑے کاموں میں مصروف ہیں.آپ کا ایک ایک لمحہ ایک عظیم الشان پہاڑ کے پاش پاش کرنے میں مصروف ہے.ایسے وقت میں ان کے اوقات گرامی میں تشویش ڈالنا ایک عارف خادم کو سخت گراں معلوم ہوتا ہے.بایں ہمہ سکول کی حالت نے کئی دفعہ مجھے اور برا در مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو مضطر کر دیا ہے کہ ہم حضرت کے اوقات گرامی میں خلل انداز ہوں اور مدرسہ کی زار حالت کا نقشہ ان کی خدمت میں پیش کریں.حضرت اقدس نے آخر ایک تدبیر سوچی ہے جس کی نسبت عنقریب اشتہار دیں گے.اور نیز حضرت کی دعا سے ایک اور تجویز پیدا ہوگئی ہے یعنی خان محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ نے مدرسہ کو ایک ہزار روپیہ سالانہ دینا کیا ہے جس کے کچھ اوپر اسی روپے ماہوار ہوتے ہیں مگر نواب صاحب نے یہ سوچ کر مدرسہ کے اخراجات کے لئے یہ رقم بہت ناکافی ہے.اپنی نکتہ رس تیز فہم طبیعت سے کمیٹی کو یہ مددی کہ ٹرسٹیوں کے مقرر کرنے کی تجویز نکالی یعنی جو شخص پانچ روپیہ ماہوار چندہ دے.وہ مدرسہ تعلیم الاسلام کا ٹرسٹی قرار دیا جاوے.اگر چہ اس سے پہلے بھی چند دوست ایسے ہیں جو پانچ روپے ماہوار یا اس سے بھی زیادہ چندہ دیتے ہیں.جیسے شیخ رحمت اللہ صاحب بمبئی ہاؤس لاہور اور خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے پلیڈ ر پشاور اور حضرت مولوی نور الدین صاحب دس روپے ماہوار دیتے ہیں اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب پانچ روپے ماہوار دیتے ہیں اور چوہدری رستم علی خاں صاحب کورٹ انسپکٹر انبالہ پانچ روپے ماہوار دیتے ہیں مگر یہ تعداد یہیں تک محدود ہے کمیٹی نے حسن ظن اور وثوق کی بناء پر بعض مخلص دوستوں کے نام انتخاب کئے ہیں جن سے چاہا ہے کہ وہ از راہ کرم ٹرسٹی بننے کے لئے درخواستیں بھیجیں گے اور حضرت اقدس کے منشا کو پورا کر کے خدا تعالیٰ کی رضاء حاصل کریں گے.اس وقت بھائیوں کو توجہ دلانے اور تحریک عام کی غرض سے یہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مدرسہ کی اور بھی ضرورتوں کو بیان کر دیں جن کے انصرام کے لئے ہمیں جانکاہ فکر لگی ہوئی ہے.مدرسہ اور بورڈنگ کی عمارت بالکل نا کافی ہے اور مدرسہ کے مقصد کو ہرگز پورانہیں کرتی.اس کی توسیع کی از بس ضرورت ہے.خصوصاً بورڈنگ کی توسیع بہت جلد اور سب سے زیادہ ضروری ہے، اس لئے مدرسہ کی ترقی بیرونی طلباء کے اجتماع پر موقوف ہے اور یا سامان اور موزوں بورڈنگ ہی ایک ایسی جگہ ہے جو ان کو اکٹھا کر سکتی ہے.سو ہماری بے سامانی کا یہ حال ہے کہ عجالہ ہم نے ایک کچا بورڈنگ قریباً بارہ سو روپے کے خرچ سے تیار کیا تھا جسے برسات کی غیر مترقب بارشوں نے خصوصاً سخت صدمہ پہنچایا ہے اور اب بہت سا حصہ از سرنو بنانے اور بعض حصہ ترمیم کے قابل ہو گیا ہے.قادیان میں کوئی ایسا مکان بھی نہیں ملتا جسے کرایہ پر لے کر بورڈ نگ قرار دیا جا سکے علاوہ برآں مدرسہ میں مدرسہ کی تعلیمی ضروریات کے متعلق بھی ہنوز کوئی سامان نہیں
152 ہے.نیز کمیٹی نے بہت سے مسکین طالب علموں کا خرچ اپنے ذمہ لے رکھا ہے جس کے لئے بھی اسے اپنے بھائیوں کی امداد کی سخت ضرورت ہے.غرض یہ زار نا لے قوم کی خدمت میں عرض کر کے التماس کیا جاتا ہے کہ ہر ایک بھائی اللہ تعالیٰ کے لئے.اس کے مسیح کے لئے اور قوم کے لئے مدرسہ کی تائید کی فکر کرے اور مستقل فنڈ کے بہم پہنچانے کے لئے اپنی اپنی جگہ میں ایک عام تحریک کرے.جو بھائی ٹرسٹی بننے کا مقدور رکھتا ہے وہ بلا تذبذب ٹرسٹی بنے اور جو یک مشت ایک کافی رقم بھی دے سکتا ہے وہ اس سے بھی دریغ نہ کرے.غرض ہر ایک اپنی اپنی استعداد کے موافق جوانمردی دکھائے.وباللہ التوفیق.خادم قوم عاجز عبد الکریم سیالکوٹی“ ۱۱۵ اس درد انگیز اپیل کے بعد بھی مدرسہ کی جو مالی حالت تھی اس کا اس امر سے علم ہوتا ہے کہ اس کے دو ماہ بعد۷ ارنومبر کو معزز ایڈیٹر صاحب الحکم نے اپنے اخبار میں تحریر کیا کہ چالیس ٹرسٹی ہوں جو ماہوار پانچ روپیہ چندہ دیں تب مدرسہ کے اخراجات چل سکتے ہیں ہمیں مقرر ہو چکے بقیہ میں کی تعداد کیونکر پوری ہو اور اپنی طرف سے یہ تجویز پیش کی کہ ٹرسٹی چونکہ بارسوخ ہیں اس لئے ان میں سے ہر ایک مدرسہ کے لئے ایک ایک ہمدرد مہیا کرے جو دورو پیہ ماہوار کی اعانت کرے، اگر ایسے پچاس معاون مہیا ہوجا ئیں تو بقیہ رقم مہیا ہو سکے گی.جنوری کو سیکرٹری مجلس منتظمہ مدرسہ کی طرف سے الحکم بابت ۰۱-۱-۱۰ میں ان احباب کا شکر یہ ادا کیا گیا جنھوں نے عالی حوصلگی سے محصل کو خیر مقدم کہا ، ان میں سے دو نے ۲۵ روپے.ایک خاتون نے ہمیں عدد نقر کی چوڑیاں دیں.یہ سب سے زیادہ چندہ تھا.اس میں بھی مذکور ہے کہ اسی ماہ میں حضرت نواب صاحب پانصد روپیہ بھیج چکے تھے پھر بھی آپ نے محصل کو پچاس روپے مزید چندہ دیا.یہ مدرسہ کا اس وقت حال ہے جب کہ ایک ہزار روپیہ سالانہ کی امداد حضرت نواب صاحب کی طرف سے پیش ہو چکی تھی.ان حالات کا مزید علم حضرت نواب صاحب کی ۱۶ نومبر کی ۱۹۰۱ء ڈائری سے بھی ہوتا ہے جس میں ذکر کرتے ہیں کہ حضرت اقدس نے سیر میں مدرسہ کے لئے چندہ فراہم کرنے کے متعلق تقریر کی بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جو ایسے چندے سے احتراز کرتے ہیں وہ گویا ہمارے مرید نہیں.اس وقت کی کیفیت کا علم معزز الحکم کے ذیل کے نوٹ سے بھی ہوتا ہے جو مذکورہ سیر کے متعلق ہے.تحریر فرماتے ہیں :.حضرت اقدس نے گذشتہ ہفتہ میں مدرسہ اور دیگر ضروریات سلسلہ عالیہ کے متعلق سیر کے وقت لطیف اور مؤثر تقریر فرمائی تھی اور اس امر پر زور دیا تھا کہ ہر ایسے آدمی پر جو سلسلہ بیعت میں داخل ہے فرض ہے کہ وہ چندہ میں شریک ہو.ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب نے واپس آکر دار الامان میں چندہ کرنا چاہا.تھوڑی ہی دیر میں
153 تیس کے قریب چندہ ہو گیا اس دن کے بعد آج تک مدرسہ کا چندہ ہر روز کچھ نہ کچھ آجاتا ہے.یہ خدا کا فضل ہے اور بے شک خارق عادت امر “ انتظام مدرسه بعد از ہجرت ۱۶ دسمبر ۱۹۰۱ء میں حضرت نواب صاحب قادیان ہجرت کر آئے اور مدرسہ تعلیم الاسلام کی باگ ڈور مزید اختیارات کے ساتھ آپ کو سونپی گئی.اب آپ نے مدرستہ الاسلام مالیر کوٹلہ کو بند کر کے اس کا سارا ساز و سامان قادیان منگوالیا اور مدرسہ تعلیم الاسلام کو دیدیا.اب مالیر کوٹلہ کے مدرسہ کا بند ہونا لازمی امر تھا کیونکہ نواب صاحب کی مالی امداد اور ذاتی توجہ سے وہ برقرار تھا اور نہ آپ کو یہ کیونکر اختیار حاصل تھا کہ مدرسہ بند کر کے اس کا جملہ سامان قادیان لے آتے.اب تو انجمن مصلح الاخوان کے رجسٹرات ضائع ہو چکے.سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ جنھوں نے دیکھے تھے فرماتی ہیں کہ آپ نے اس میں بہت روپیہ خرچ کیا اور بڑی حد تک کامیابی حاصل کی مگر آپ کے آجانے کی وجہ سے وہ انجمن چل نہ سکی.سو قادیان آجانے پر مدرسہ تعلیم الاسلام کے لئے نئے قواعد تجویز ہوئے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں.ان سے ظاہر ہے کہ مدرسہ کے تعلق میں حضرت نواب صاحب کو پہلے سے بھی وسیع تر اختیارات سونپ دئے گئے تھے: مدرسہ کے مربی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہوں گے ( گواس کے ذکر کی ضرورت نہ تھی کیونکہ حضور اپنے مقام کے لحاظ سے جماعت کے ہر نیک کام کے مربی تھے ) اس مدرسہ کا انتظام حسب منشا و خواہش و تحریک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاں صاحب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کو ٹلہ کریں گے جو ڈائرکٹر کہلائیں گے.“ معاونین مدرسہ کی تین اقسام ہوں گی: ا ٹرسٹی جو وقتا فوقتا اپنی آراء سے ڈائرکٹر کو اطلاع دے سکتے ہیں اور ڈائرکٹر بھی ان سے رائے لے سکتے ہیں.وہ ہوں گے جو ساٹھ یا اس سے زائد چندہ سالانہ دیں یا با جازت وصول کر کے ارسال کریں یا مدرسہ کے لئے کتا ہیں تالیف کر کے حق تالیف مدرسہ کو مفت عنایت کر دیں یا نصیحت و غیره وعظ وغیرہ ایسی خدمت مدرسه کی مفت کریں جس میں ملازم کی ضرورت ہو مثلاً مدرس.علاج انجینئری وغیرہ یا صدر صاحبان مقامی انجمن ہائے وصولی چندہ مدرسہ.۲- وزیٹر جنھیں مدرسہ کے دیکھنے کا اختیار ہوگا.اور انتظام میں نقص کی اطلاع ڈائرکٹر کو دے سکتے تھے.وہ
154 ہوں گے جو ایک روپیہ ماہوار چندہ دیتے ہوں اور مدرسہ سے خاص دل چسپی رکھتے ہوں یا جو کوئی عمدہ تجویز سمجھا ئیں جس سے مدرسہ کو مالی یا علمی معتد بہ فائدہ حاصل ہو.-٣ حامی یعنی جو کم از کم ماہوار چندہ دیتے ہوں.(۸) انتظام مدرسه بموجب حکم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مرقومه بالا تاریخ موصوله ۲ دسمبر ۱۹۰۱ء سے خانصاحب محمد علی خاں صاحب ڈائرکٹر کے سپرد ہوا.بمنشاء حکم ہذا خانصاحب کو اختیار ہے کہ بطور خود یا بذریعہ کسی کمیٹی کے انتظام مدرسہ یا بذریعہ چند اصحاب کے ان کو جدا کام سپر د کر کے اپنی نگرانی میں انتظام مدرسہ کرائیں اور تمام ممبران فرقہ احمد یہ پابند رہیں کہ جن سے انتظام مدرسہ وغیرہ میں خاں صاحب مدد لینا چاہیں وہ بلا عذر اس امر میں مدد دیں یا جو کام ان کے سپر د کیا جائے انجام دیں.(۹) ٹرسٹیاں کو سال بھر میں ایک دفعہ دارالامان میں جمع ہونا ہوگا ان کے مطابق رپورٹ مدرسہ پڑھ کر سنائی جایا کرے گئی اور ٹرسٹیاں مدرسہ کے لئے تعلیم اور دیگر ضروریات مدرسہ مثل تعمیر وغیرہ کے لئے فنڈ مہیا کرنے کے واسطے تدابیر سوچیں گے اور اس پر بحث کریں گے اور جو ریزولیوشن اس غرض سے پاس کریں گے ان کو عمل میں لا کر فنڈ جمع کر کے مدرسہ کو دیں گے اور اسی طرح اور مفید مدرسہ ریزولیوشن پاس کر کے ان پر عملدرآمد کریں گے اور جو ریزولیوشن مفید متعلق تعلیم انتظام مدرسہ پاس کریں گے اس کی ڈائرکٹر کو ( اطلاع) دیں گے.اور حسب مصلحت وقت جو ریزولیوشن عملاً مفید سمجھے جائیں گے ان کے بموجب ڈائر کٹر صاحب اصلاح کریں گے.“ چندہ کی تقسیم حضرت اقدس کے نام اور حضرت نواب صاحب کے نام ۱۱۷ انبیاء پر ابتداء میں اکثر غریب طبقہ کے لوگ ایمان لاتے ہیں اور دنیا پر یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ عزت و جاہ اور مال و منال کے زور پر الہی سلسلہ کو ترقی نہیں ہوئی.ابتدائے اسلام کے وقت ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف قیصر و کسری کی پُر شوکت سلطنتوں کے مسلمانوں کے قبضہ میں آنے کی خبر دی جارہی تھی لیکن اکثر ایمان لانے والے حد درجہ غریب تھے.حتی کہ چندہ کے لئے ایک مٹھی بھر جو ، یا کھجور دینے کی بھی انہیں بمشکل توفیق ہوتی تھی حضرت ابو ہریرہ جیسے بہت سے صحابہ پر فاقوں پر فاقہ آتا تھا.اسی طرح جماعت احمدیہ ابھی بالکل طفولیت میں تھی.کفر میدان میں ہر چہار سودند نا تا پھرتا تھا.سلسلہ کے؟ ہر ایک کام کے لئے اور اسی طرح مدرسہ کے لئے روپے کی ضرورت تھی جس کے لئے بار بار تحریک کی جاتی تھی چنانچہ اب یہ اعلان کیا گیا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام کے متعلق ہر قسم کا روپیہ حضرت نواب صاحب کے نام آنا چاہئے اور لنگر خانہ کے متعلق کل روپیہ حضرت اقدس کے نام حضرت اقدس نے بھی مختلف مدات کے چندوں کی اہمیت کا ذکر کر کے ان کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:
155 ”ہمارے ساتھ مدرسہ کا بھی تعلق ہے اور اس کا انتظام خرچ بھی ناقص اور بالکل نا قابل اطمینان ہی ہے.“ وو یادر ہے کہ مدرسہ کا قیام اور بقا بھی چونکہ بہت سے مصالح پر مبنی ہے.لہذا از بس ضروری ہے کہ حسب استطاعت ہر شخص اس کے لئے بھی ایک ماہوار رقم اپنے اوپر لازم کر لے اور اس کی تجدید اور تعیین چندہ کی سب درخواستیں اخونیم مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس آنی چاہیں.چندہ کے متعلق مشکلات ۱۹ چندہ کے متعلق جو مشکلات تھیں وہ حضرت اقدس کے ذیل کے مکتوب سے ظاہر ہیں.بسم الله مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اشتہار کے بارے میں جو مدرسہ کے متعلق لکھا ہے چند دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ لکھوں اور ایک دفعہ یہ مانع اس میں آیا کہ دو حال سے خالی نہیں کہ یا تو یہ لکھا جائے کہ جس قدر مدد کا لنگر خانہ کی نسبت ارادہ کیا جاتا ہے.اسی رقم میں سے مدرسہ کی نسبت ثلث یا نصف ہونا چاہئے.تو اس میں یہ قباحت ہے کہ ممکن ہے کہ اس انتظام سے دونوں طرف خرابی پیدا ہو یعنی نہ تو مدرسہ کا کام پورا ہو اور نہ لنگر خانہ کا.جیسا کہ دو روٹیاں دو آدمیوں کو دی نہ جائیں تو دونوں بھو کے رہیں گے اور اگر چندہ دینے والے صاحبوں پر یہ زور ڈالا جائے کہ وہ علاوہ اس چندہ کے مدرسہ کے لئے چندہ دیں تو ممکن ہے کہ ان کو ابتلا ء پیش آوے اور وہ اس تکلیف کو فوق الطاقت تکلیف سمجھیں.اس لئے میں نے خیال کیا ہے کہ بہتر ہے کہ مارچ اور اپریل دو مہینے امتحان کیا جائے کہ اس تحریک کے بعد جو لنگر خانہ کے لئے کی گئی ہے.کیا کچھ ان دو مہینوں میں آتا ہے.پس اگر اس قدر روپیہ آ گیا کہ جو لنگر خانہ کے تخمینی خرچ سے بچت نکل آئے تو وہ روپیہ مدرسہ کے لئے ہو گا.میرے نزدیک ان دو ماہ کے امتحان سے ہمیں تجربہ ہو جائے گا کہ جو کچھ انتظام کیا گیا ہے کس قدر اس سے کامیابی کی امید ہے اگر مثلاً ہزار روپیہ ماہوار چندہ کا بندوبست ہو گیا تو آٹھ سو روپیہ لنگر خانہ کے لئے نکال کر دوسور و پیہ ماہوار مدرسہ کے لئے نکل
156 آئے گا.یہ تجویز خوب معلوم ہوتی ہے کہ ہر ایک روپیہ جو ایک رجسٹر میں درج ہوتا رہے اور پھر دو ماہ بعد سب حقیقت معلوم ہو جائے.والسلام حضرت اقدس کا مدرسہ کے چندہ کے متعلق اعلان غلام احمد عفی عنہ دو ماہ تک چندہ دینے کی مقدار کا جو علم حاصل ہوا ہو گا اسے حضور نے دیکھ لیا ہوگا.چنانچہ حضور نے ذیل کا اعلان جماعت کے لئے فرمایا.اس اعلان سے مدرسہ کی اہمیت اور نواب صاحب کی اس بارے میں ذمہ داری کا اندازہ ہوجاتا ہے حضور فرماتے ہیں : حضرت اقدس کا خط بسم الله الرحمن الرحيم ال احمدی قوم کے نام نحمده و نصلى على رسوله الكريم بخدمت جمیع اخوان واحباب ایں سلسلہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،سب سے پہلے مجھے اللہ تعالیٰ کا شکر دل میں جوش مارتا ہے جس نے میری جماعت کو سچی ارادت اور محبت اور ہمدردی عطا فرمائی ہے، اگر خدا تعالے کا فضل ان کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ تو فیق ان کو ہرگز نہ دی جاتی کہ وہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے قدم پر اس درجہ پر اطاعت کرتے کہ باوجود اپنی مالی مشکلات اور کی آمدن کے اپنی طاقت سے بڑھ کر خدمت مالی میں مصروف ہوتے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان سب کے مالوں میں برکت دے اور یہ نصرت اور عانت جو وہ دینی اغراض کی تکمیل کے لئے کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ دونوں جہانوں میں ان کی بھلائی کا موجب کرے آمین ثم آمین.بعد اس کے اے عزیز ان اس وقت اخویم مرزا خدا بخش صاحب کو آپ صاحبوں کی خدمت میں اس غرض کے لئے روانہ کیا جاتا ہے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ مدرسہ قادیان کی قائمی کے لئے جو آمدن ہونی چاہئے اس کی حالت بہت ابتر ہے اور اگر یہی یہ مکتوب حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے پاس محفوظ ہے یہ فروری ۱۹۰۲ء کا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ اس کی خط کشیدہ عبارت اور اشتہار حضرت اقدس مندرجہ الحکم ۲۴ جون ۱۹۰۲ء جو آگے درج کیا گیا ہے کے ملانے سے ظاہر ہے مکتوبات میں یہ مکتوب نمبر ۶۰ ہے لیکن یہاں اصل سے نقل کیا گیا ہے.
157 حال رہا تو پھر اس مدرسہ کا قیام مشکل ہے اگر چہ ہمارے سلسلہ کے لئے جو اصل غرض ہماری زندگی کی ہے کوئی عمدہ نتیجہ معتد بہ ابھی تک اس مدرسہ سے پیدا نہیں ہوا.مگر اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ اگر پوری احتیاط اور انتظام سے کام لیا جاوے تو پیدا ہوسکتا ہے زمانہ حال میں حکمت عملی پر چلنے والے جس قدر فرقے ہیں انہوں نے مان لیا کہ سادہ دلوں پر اثر تعلیم ڈالنے کے لئے جس قدر سریع الاثر اور جاندار یہ طریق ہے.اور کوئی طریق نہیں اسی لئے وہ لڑ کے جو پادریوں کے سکولوں کالجوں میں پڑھ کر اور ایک مدت تک ان کے زیر اثر رہ کر جس قدر خراب ہوتے اور نفرت دل سے اسلام کے دشمن ہو جاتے ہیں اس قدر وہ لوگ خراب اندرون نہیں ہوتے جو محض روپیہ کے لالچ سے عیسائی ہوتے ہیں.سو جب کہ دلوں پر اثر ڈالنے کا ایک یہ بھی طریق ہے تو ہم کیوں پیچھے رہیں.بہر حال اس مدرسہ کا قائم رہنا اسی بات پر موقوف ہے کہ ہماری جماعت کی اس طرف بھی پوری توجہ ہو.باعث اس سلسلہ کی ابتدائی حالت کے ہر یک شاخ میں مشکلات تو بہت ہیں.مینار کے لئے بھی ابھی روپیہ کافی نہیں.بعض کتابیں جن کے لئے ارادہ ہے کہ کم سے کم ہیں ہزار چھپ جائیں ان کے لئے کچھ بھی سامان نہیں.مہمان خانہ کے لئے بعض ضروری عمارتوں کی ضرورت ہے ان کے لئے روپیہ مہیا نہیں یہ ایسے امور ہیں کہ ابھی ہماری جماعت کی طاقت سے خارج معلوم ہوتے ہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ ان غموں کو خدا تعالیٰ ہمارے دل پر سے دور کر دے لیکن ہماری جماعت کی توجہ ہو تو قادیان کے مدرسہ کے قائم رہنے کے لئے بالفعل بہت مدد کی ضرورت نہیں.اگر ایک ہزار آدمی چار چار آنے ماہواری اپنے ذمہ قبول کر لے تو اڑ ہائی صد روپیہ ماہواری مدرسہ کومل سکتا ہے اور رونق کے بعد فیس کی آمدنی بھی ہو سکتی ہے.غرض اس مشکل کے دور کے لئے مرزا خدا بخش صاحب کو روانہ کیا جاتا ہے ہر ایک صاحب جو اس کام کے لئے کوئی مدد تجویز فرمائیں وہ لنگر خانہ سے اس مدد کو مخلط نہ کر دیں.یہ اختیار ہوگا کہ اگر مقدرت نہ ہو تو لنگر خانہ کی رقم سے جوان کے ذمہ ہے کچھ کم کر کے اس میں شامل کر دیں.مگر اس کو بالکل الگ رکھیں اور یہ رقم بخدمت مجی عزیزی اخویم نواب محمد علی صاحب بمقام قادیان یا جس کو وہ تجویز کریں.آنی چاہئے.تا حساب صاف رہے کیونکہ لنگر خانہ کا روپیہ میرے پاس پہنچتا ہے اور یہ کام
158 وقت سے خالی نہیں کہ پہلے مدرسہ کا روپیہ میرے پاس پہنچے اور پھر میں وہ روپیہ کسی دوسرے کے حوالے کر دوں.بالفعل یہ تمام کا روبار مدرسہ کا نواب صاحب موصوف کے ہاتھ میں ہے.پس ان ہی کے نام روپیہ آنا چاہئے.بہر حال اس مدرسہ کے لئے کوئی خاص رقم مقرر ہونی چاہئے جو ماہ بماہ آیا کرے میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ قائمی مدرسہ بامید اس نیک نتیجہ کے ہے جس کے ہم امید وار ہیں اسی لئے ہم اس سلسلہ کے ضروری اخراجات میں اس کو شریک کرتے ہیں.والسلام علی من اتبع الھدی - الراقم المتفقر الی اللہ الصمد غلام احمد عافاه الله واید - 1 مدرسہ کی مالی مشکلات اور نواب صاحب کی طرف سے امداد مدرسہ کا انتظام سہل امر نہ تھا ہر وقت کی پریشانی اور تفکر کا موجب تھا اخراجات کو پورا کرنے کے لئے احباب کو بار بار یاد دہانی کرائی جاتی تھی خود نواب صاحب حد درجہ فیاضی سے ہر قسم کی کمی کو ذاتی طور پر پورا یہ امر ذیل کے اعلان سے بھی ظاہر ہوتا ہے : دار الامان کی ضرورتیں یو مافیو مابڑھ رہی ہیں.خصوصاً مدرسہ اور مہمان خانہ کی وسعت کا سوال آج کل خصوصیت سے قابل غور ہو رہا ہے.مدرسہ کی حالت یہاں تک کمزور ہورہی ہے کہ اگلے مہینہ غالبا مدرسہ کے ماہواری اخراجات بھی مشکل سے پورے ہوں“.۱۲۲ یہ امر ذیل کے دو اقتباسات سے بھی ظاہر ہے.چنانچہ ایک عید کے موقعہ پر ذیل کا اعلان کیا گیا: عید آ گئی.اظہار مروت کا وقت آیا.سیالکوٹ کی معزز اور مقتدر جماعت کی یہ پاک تحریک ہمیشہ اس کی نیکیوں میں از دیا دثواب کا باعث رہے گی.جو مدرسہ تعلیم الاسلام کی امداد کے لئے اس نے عملی طور پر دو سال ہوئے پیش کی تھی کہ ہر فرد احمدی جماعت کا عید کے دن ایک روپیہ مدرسہ تعلیم الاسلام کی امداد کے لئے دے.اہل ثروت حسب استطاعت اس سے زیادہ اور کم استطاعت اس سے کم بھی دے سکتے ہیں.اب چونکہ عید قریب آگئی ہے اور الحکم کا اس سال کا یہ آخری نمبر ہے.اس لئے ہم تمام احمدی قوم کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ اس تقریب پر حسب معمول اپنی قوم کے خادم مدرسہ تعلیم الاسلام کو نہ بھولیں اور عید فنڈ کے بہم پہنچانے میں پوری کوشش کریں اگر ہر ممبر اس قوم کا اس وقت ۴ فی کس بھی دے تو ۲۵ ہزار سے زیادہ روپیہ جمع ہوسکتا ہے.بحالیکہ اکثر ایسے بھی ہیں جو کئی کئی روپے دیا کرتے ہیں.بہر حال دینی ضروریات سے آگاہ قوم کو اسی قدر یاددہانی کافی ہے.
159 کرتے تھے اور وظائف جاری کر رکھے تھے.بقیہ حاشیہ: کل روپیہ خاں صاحب نواب محمد علی خاں صاحب ڈائرکٹر مدرسہ کے نام آنا چاہئے اور کو پن منی آڈر پر عید فنڈ لکھا جاوے اگر صدقہ فطر بھی بھیجا جاوے تو اس کی تفصیل الگ ہو.اسی پر چہ میں ایسی تحریک نواب صاحب کی طرف سے بھی شائع ہوئی ہے.۱۲۳ اسی طرح مکرم مفتی محمد صادق صاحب سپر نٹنڈنٹ کالج و ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی اسکول نے غریب طلباء کے لئے چندہ جمع کرنے کی تحریک کرتے ہوئے تحریر فرمایا: غرض یہ نہایت ضروری امر ہے کہ غریب طلباء کو وظائف کے ساتھ مدد دے کر ان کو اس مدرسہ کی تعلیم اور حضرت اقدس مسیح علیہ السلام اور آپ کے پاک حاشیہ نشینان کی مقدس صحبت سے موقعہ دیا جاوے تا کہ آئندہ نسلوں کے واسطے ایک ہرا بھرا باغ طیار ہو جاوے.مگر یہ کام روپے سے ہوتا ہے اور یہاں بہ مشکل اتنا چندہ جمع ہوتا ہے کہ استادوں کی تنخواہیں ، معمولی سامان اور عمارت کے لئے کافی ہو، یا کافی سے بھی کچھ کم ہو تو نواب محمد علی خاں صاحب اپنے خزانہ میں سے اس میں کچھ ڈالتے رہا کریں.جب سے مکرمی مخدومی نواب صاحب یہاں تشریف لائے ہیں میں دیکھتا ہوں کہ وہ اکثر کتب سامان عمارت، عملہ میں اس قدر مدد دے رہے ہیں کہ اگر اس مدرسہ کے بانی حضرت امام علیہ الصلوۃ والسلام اور اس کا مقصد خدمت دین نہ ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ ان کی مدد کے بغیر مدرسہ شاید بڑی رڈی حالت میں ہوتا چہ جائے کہ کالج تک ترقی کر کے اس قابل بن جائے کہ علامہ دہر واجب التعظیم برخور دو کلاں ماہر علوم دینیہ و دنیو یہ حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب اور مسلمانوں کے لیڈر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب.....ایسے ایسے بزرگ اس کالج کے طلباء کی تعلیم صاحب اپنے ذمہ لیں.معلوم ہوتا ہے کہ نواب صاحب نے علاوہ مالی امداد اور ظاہری تدبر و تفکر کے اندر ہی اندر اپنی کوٹھڑی کے دروازے بند کر کے اللہ تعالی کے آگے دستِ دعا کچھ ایسے انداز سے پھیلائے ہیں کہ ہاتھ خالی نہیں پھر اور نہ بغیر فضل الہی یہ ترقی محال ہے.
160 انسپکٹر مدارس کی رپورٹ اسی طرح انسپکٹر مدارس نے ۱۱ فروری ۱۹۰۴ء کو مدرسہ تعلیم الاسلام کا معائنہ کر کے رپورٹ میں تحریر کیا کہ سکول کی بنیاد حضرت صاحب نے ۹۸ء میں پرائمری کی شکل میں رکھی.99ء میں مڈل سکول بن گیا.۱۹۰۰ ء میں ہائی سکول اور ۱۹۰۳ء میں کالج کی پہلی جماعت کھولی گئی جس میں تین لڑکے ہیں اکا ؤن لڑکے سکنڈری میں اور ا کا نوے پرائمری میں ہیں.کل خرج مدرسہ سال گذشتہ کے لئے ۳۹۸۶ روپے تھا.حالانکہ چندہ موعودہ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی اور آئندہ ہر طرح سے امید ہے کہ وہ با قاعدہ آتا رہے گا.کیونکہ اس کے حامی اور مینیجر باثروت و قابل وثوق آدمی ہیں جن میں کہ ایک نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ بھی ہیں.کل فیس سال گذشتہ کی ۵۲۶ روپے تھی.مگر معاف طلباء کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے قریباً ۴۵ فی صدی معاف ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکثر طلباء کو مفت تعلیم دینے کی طرف زیادہ رغبت پائی جاتی ہے.“ ۱۲۴ بقیہ حاشیہ:- اس جگہ مجھے تین بزرگوں کا شکریہ کے ساتھ ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.ایک تو حضرت استاذی المعظم مولانا مولوی نور الدین صاحب جو کئی طلباء کو وقتاً فوقتا ما ہوائی اور ایک مشت مدد دیا کرتے ہیں.دوم مخدومی نواب محمد علی خان صاحب جو اپنی جیب خاص سے مدرسہ کے چار طلباء کو ماہواری معقول وظیفہ دیتے ہیں اور تیسرے مکرم و مخدوم نواب فتح نواز جنگ مولوی مهدی حسن صاحب بیرسٹرایٹ لالکھنو جنہوں نے کالج کے واسطے ایک مستقل وظیفہ مبلغ پچاس روپیہ ماہوار مقرر کر دیا ہے.فجزاهُمُ اللهُ اَحْسَنِ الْجَزَاء فِى الدّنْيَا وَالْعُقْبى.۱۲۵ 66 نوٹ : مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ نواب فتح نواز جنگ مولوی مہدی حسن صاحب نے بیعت کر لی تھی.یہ نواب سر وقار الامراء امیر پائیگاہ اور مدار المهام حیدر آباد دکن کے خاص معتمد تھے.اور قادیان حضرت اقدس) کے عصر سعادت میں حاضر ہوئے تھے.اور اس طرح پر صحابی تھے.ان کے آنے پر حضرت نے تقریر فرمائی تھی.ان کی وفات کا علم البدر پر چہ ۰۴-۲- اص ۱۰ کالم ۳ سے ہوتا ہے.اسی طرح الحکم بابت ۲۴-۱-۰۴ ( صفحہ ۱۱،۱۰) سے ان کی وفات اور قبول احمدیت کا علم ہوتا ہے.
161 اوور سیری کلاس کا اجراء آپ کی کوشش سے ماہ جون ۱۹۰۳ء سے مدرسہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں ایک اوورسیئر طلباء کو نقشہ نویسی سکھلانے کے لئے متعین کئے گئے تا کہ اوورسیٹری وغیرہ امتحان کے لئے طلباء تیار کئے جاسکیں.ارشاد حضرت اقدس درباره امداد مدرسه ۱۲۶ اس وقت مالی مشکلات میں کسی قسم کی تخفیف نہ ہوئی تھی لیکن باوجود اس کے نواب صاحب مدرسہ کی ترقی کے لئے ہر وقت کوشاں تھے.چنانچہ اس وقت کالج بھی مدرسہ کے ساتھ کھل چکا تھا.ان مشکلات کا ذکر آپ حضرت اقدس کے الفاظ میں سنیئے فرماتے ہیں: ارشاد حضرت اقدس مسیح موعود علیه السلام درباره امداد مدرسه تعلیم الاسلام قادیان بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم ایک ضروری امرا اپنی جماعت کی توجہ کیلئے اگر چہ میں خوب جانتا ہوں کہ جماعت کے بعض افراد ابھی تک اپنی روحانی کمزوری کی حالت میں ہیں.یہاں تک کہ بعضوں کو اپنے وعدوں پر بھی ثابت رہنا مشکل ہے لیکن جب میں اس استقامت اور جانفشانی کو دیکھتا ہوں جو صاحبزادہ مولوی محمد عبد اللطیف مرحوم سے ظہور میں آئی تو مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف یہ مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کر گئے.اس خدا کا یہ صریح منشا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی روح رکھتے ہوں اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودہ ہوں جیسا کہ میں نے کشفی حالت میں واقعہ شہادت مولوی صاحب موصوف کے قریب دیکھا کہ ہمارے باغ میں سے ایک بلند شاخ سرو کی کاٹی گئی ہی اس سے پہلے ایک صریح وحی صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی نسبت ہوئی تھی جب کہ وہ زندہ تھے.بلکہ وہ قادیان ہی میں موجود تھے اور یہ وحی الہی میگزین انگریزی ماہ فروری ۱۹۰۳ء میں اور الحکم ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ء اور البدر ۱۶ جنوری ۱۹۰۳ء کالم ۲ میں شائع ہو چکی ہے جو مولوی صاحب کے مارے جانے کے بارے میں ہے اور وہ یہ ہے قتل خیبَةً وَزِيدَ هَيْبَةً یعنے ایسی حالت میں مارا گیا کہ اس کی بات کو کسی نے نہ سُنا.اور اس کا مارا جانا ایک ہیبت ناک امر تھا.یعنی لوگوں کو بہت ہیبتناک معلوم ہوا اور اس کا بڑا اثر دلوں پر ہوا.
162 اور میں نے کہا کہ اس شاخ کو زمین میں دوبارہ نصب کرد و تا وہ بڑھے اور پھولے.سو میں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ خدا تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دیگا.سو میں یقین رکھتا ہوں کہ کسی وقت میرے اس کشف کی تعبیر ظاہر ہو جاو گی مگر ابھی تک یہ حال ہے کہ اگر میں ایک تھوڑی سی بات بھی اس سلسلہ کے قائم رکھنے کے لیے جماعت کے آگے پیش کرتا ہوں تو ساتھ ہی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ مبادا اس بات سے کسی کو ابتلاء پیش نہ آوے.اب ایک ضروری بات جو اپنی جماعت کے آگے پیش کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ لنگر خانہ کے لئے جس قدر میری جماعت وقتا فو قامدد کرتی رہتی ہے وہ قابل تعریف ہے.ہاں اس مدد میں پنچاب نے بہت حصہ لیا ہوا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ پنجاب کے لوگ اکثر میرے پاس آتے جاتے ہیں اور اگر دلوں میں غفلت کی وجہ سے کوئی سختی آ جائے تو صحبت اور پے در پے ملاقات کے اثر سے وہ بختی بہت جلد دور ہوتی رہتی ہے اس لئے پنجاب کے لوگ خاص کر بعض افراد ان کے محبت اور صدق اور اخلاص میں ترقی کرتے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے ہر ایک ضرورت کے وقت وہ بڑی سرگرمی دکھلاتے ہیں اور سچی اطاعت کے انثاران سے ظاہر ہوتے ہیں.اور یہ ملک دوسرے ملکوں سے نسبتاً کچھ نرم دل بھی ہے.بائیں ہمہ انصاف سے دور ہوگا اگر میں تمام دور کے مریدوں کو ایسے ہی سمجھ لوں کہ وہ ابھی اخلاص اور سرگرمی سے کچھ حصہ نہیں رکھتے کیونکہ صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف جس نے جان شاری کا یہ نمونہ دکھلایا وہ بھی تو دور کی زمین کا رہنے والا تھا جس کے صدق اور وفا اور اخلاص اور استقامت کے آگے پنجاب کے بڑے بڑے مخلصوں کو بھی شرمندہ ہونا پڑتا ہے کہ وہ ایک شخص تھا کہ ہم سب سے پیچھے آیا اور سب سے آگے بڑھ گیا.اسی طرح بعض دور دراز کے مخلص بڑی بڑی خدمت مالی کر چکے ہیں اور ان کے صدق و وفا میں کبھی فتور نہ آیا.جیسا کہ اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب تاجر مدراس اور چند ایسے اور دوست لیکن کثرت تعداد کے لحاظ سے پنجاب کو مقدم رکھا گیا ہے کیونکہ پنجاب میں ہر ایک طبقہ کے آدمی خدمت دینی سے بہت حصہ لیتے ہیں اور دور کے اکثر لوگ اگر چہ ہمارے سلسلہ میں داخل تو ہیں مگر بوجہ اس کے کہ ان کو صحبت کم نصیب ہوتی ہے ان کے دل بکلی دنیا کے گند سے صاف نہیں ہیں.امر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو آخر کار وہ گند سے صاف ہو جائیں گے اور یا خدا تعالیٰ ان کو اس پاک سلسلہ سے کاٹ دیگا اور ایک مردار کی طرح مریں گے.بڑی غلطی انسان کی دنیا پرستی ہے.یہ بد بخت اور منحوس دنیا کبھی خوف دلانے اور کبھی امید دینے سے اکثر لوگوں کو اپنے دام میں لے لیتی ہے اور یہ اسی میں مرتے ہیں نادان کہتا ہے کہ کیا ہم دنیا کو چھوڑ دیں اور یہ غلطی انسان کو نہیں چھوڑتی جب تک کہ اس کو بے ایمان کر کے ہلاک نہ کرے.اے نادان کون کہتا ہے کہ تو اسباب کی رعایت چھوڑ دے مگر دل کو دنیا اور دنیا کے فریبوں سے الگ کرلور نہ تو ہلاک شدہ ہے اور جس عیال کے لئے تو حد سے زیادہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ خدا کے فرائض کو
163 بھی چھوڑتا ہے اور طرح طرح کی مکاریوں سے ایک شیطان بن جاتا ہے اس عیال کے لئے تو بدی کا بیج ہوتا ہے اور ان کو تباہ کرتا ہے اس لئے کہ خدا تیری پناہ میں نہیں کیونکہ تو پارسا نہیں.خدا تیرے دل کی جڑ کو دیکھ رہا ہے سو تو بے وقت مرے گا اور عیال کو تباہی میں ڈالے گا.لیکن وہ جو خدا کی طرف جھکا ہوا ہے اس کی خوش قسمتی سے اس کے زن و فرزند کو بھی حصہ ملے گا اور اس کے مرنے کے بعد وہ بھی تباہ نہیں ہوں گے.جو لوگ مجھ سے سچا تعلق رکھتے ہیں وہ اگر چہ ہزار کوس پر بھی ہیں تا ہم ہمیشہ مجھے لکھتے رہتے ہیں اور دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں موقعہ دے تا وہ برکات صحبت حاصل کریں مگر افسوس کہ بعض ایسے ہیں کہ میں دیکھتا ہوں کہ قطع نظر ملاقات کے سالہا سال گزر جاتے ہیں اور ایک کارڈ بھی ان کی طرف سے نہیں آتا اس سے میں سمجھتا ہوں کہ ان کے دل مر گئے ہیں اور ان کے باطن کے چہرہ پر کوئی داغ جذام ہے میں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے اور بخیل اور ممسک اور غافل اور دنیا کے کیڑے نہیں ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ میری دعائیں خدا تعالے قبول کرے گا اور مجھے دکھائے گا کہ اپنے پیچھے میں ایسے لوگوں کو چھوڑتا ہوں.لیکن وہ لوگ جن کی آنکھیں زنا کرتی ہیں اور جن کے دل پاخانہ سے بدتر ہیں اور جن کو مرنا ہر گز یاد نہیں ہے میں اور میرا خدا ان سے بیزار ہیں.میں بہت خوش ہوں گا اگر ایسے لوگ اس پیوند کو قطع کر لیں.کیونکہ خدا اس جماعت کو ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے جس کے نمونے سے لوگوں کو خدا یاد آوے اور جو تقویٰ اور طہارت کے اول درجہ پر قائم ہوں اور جنھوں نے در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہو لیکن وہ مفسد لوگ جو میرے ہاتھ کے نیچے ہاتھ رکھ کر اور یہ کہ کر کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا پھر وہ اپنے گھروں میں جا کر ایسے مفاسد میں مشغول ہو جاتے ہیں کہ صرف دنیا ہی دنیا ان کے دلوں میں ہوتی ہے نہ ان کی نظر پاک ہے اور نہ ان کا دل پاک ہے اور نہ ان کے ہاتھوں سے کوئی نیکی ہوتی ہے اور نہ ان کے پیر کسی نیک کام کے لئے حرکت کرتے ہیں اور وہ اس چوہے کی طرح ہیں جو تاریکی میں ہی پرورش پاتا ہے اور اسی میں رہتا اور اسی میں مرتا ہے.وہ آسمان پر ہمارے سلسلہ سے کاٹے گئے ہیں وہ عبث کہتے ہیں کہ ہم اس جماعت میں داخل ہیں کیونکہ آسمان پر وہ داخل نہیں سمجھے جاتے جو شخص میری اس وصیت کو نہیں مانتا کہ در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم کرے اور در حقیقت ایک پاک انقلاب اس کی ہستی پر آ جائے اور درحقیقت وہ پاک دل اور پاک ارادہ ہو جائے اور پلیدی اور حرامکاری کا تمام چولہ اپنے بدن پر سے پھینک دے اور نوع انسان کا ہمد در اور خدا کا سچا تابعدار اور اپنی تمام خود داری کو الوداع کہہ کر میرے پیچھے ہولے میں اس شخص کو اس کتے سے مشابہت دیتا ہوں جو ایسی جگہ سے الگ نہیں ہوتا جہاں مردار پھینکا جاتا ہے اور جہاں
164 گلے سڑے مردوں کی لاشیں ہوتی ہیں.کیا میں اس بات کا محتاج ہوں کہ وہ لوگ زبان سے میرے ساتھ ہوں اور اس طرح پر دیکھنے کے لئے ایک جماعت ہو؟ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام لوگ مجھے چھوڑ دیں اور ایک بھی میرے ساتھ نہ رہے تو میرا خدا میرے لئے ایک اور قوم پیدا کرے گا جو صدق اور وفا میں ان سے بہتر ہوگی.یہ آسمانی کشش کام کر رہی ہے جو نیک دل لوگ میری طرف ڈوڑتے ہیں کوئی نہیں جو آسمانی کشش کو روک سکے بعض لوگ خدا سے زیادہ اپنے مکر و فریب پر بھروسہ رکھتے ہیں.شاید ان کے دلوں میں یہ بات پوشیدہ ہو کہ نبوتیں اور رسالتیں سب انسانی مکر ہیں اور اتفاقی طور پر شہر تیں اور قبولیتیں ہو جاتی ہیں اس خیال سے کوئی خیال پلید تر نہیں اور ایسے انسان کو اس خدا پر ایمان نہیں جس کے ارادے کے بغیر ایک پتہ بھی گر نہیں سکتا.لعنتی ہیں ایسے دل اور ملعون ہیں ایسی طبیعتیں.خدا ان کو ذلت سے مارے گا کیوں کہ وہ خدا کے کارخانے کے دشمن ہیں ایسے لوگ در حقیقت دہریہ اور خبیث باطن ہوتے ہیں وہ جہنمی زندگی کے دن گزارتے ہیں اور مرنے کے بعد بجر جہنم کی آگ کے ان کے حصہ میں کچھ نہیں.اب مختصر کلام یہ ہے کہ علاوہ ہنگر خانہ اور میگزین کے جو انگریزی اور اردو میں نکلتا ہے جس کے لئے اکثر دوستوں نے سرگرمی ظاہر کی ہے ایک مدرسہ بھی قادیان میں کھولا گیا ہے اس سے یہ فائدہ ہے کہ نو عمر بچے ایک طرف تو تعلیم پاتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے سلسلہ کے اصولوں سے واقفیت حاصل کرتے جاتے ہیں اس طرح پر بہت آسانی سے ایک جماعت طیار ہو جاتی ہے بلکہ بسا اوقات ان کے ماں باپ بھی اس سلسلہ میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن ان دنوں میں ہمارا یہ مدرسہ بڑی مشکلات میں پڑا ہوا ہے باوجود یکہ محبی عزیز ی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ اپنے پاس سے روپیہ ماہوار دیگر اس مدرسہ کی مدد کرتے ہیں مگر پھر بھی استادوں کی تنخواہیں ماہ بماہ ادا نہیں ہوسکتیں صد بار روپیہ قرضہ سر پر رہتا ہے.علاوہ اس کے مدرسہ کے متعلق کئی عمارتیں ضروری ہیں جو اب تک تیار نہیں ہو سکیں یہ تم علاوہ اور غموں کے میری جان کو کھا رہا ہے.اس کی بابت میں نے بہت سوچا کہ کیا کروں آخر یہ تدبیر میرے خیال میں آئی کہ میں اس وقت اپنی جماعت کے مخلصوں کو بڑے زور کے ساتھ اس بات کی طرف توجہ دلاؤں کہ اگر وہ اس بات پر قادر ہوں کہ پوری توجہ سے اس مدرسہ کے لئے کوئی ماہانہ چندہ مقرر کریں تو چاہئے کہ ہر ایک ان میں سے مستحکم عہد کے ساتھ کچھ نہ کچھ مقرر کرے جس کے لئے وہ ہر گز تخلف نہ کرے مگر کسی مجبوری سے جو قضا و قدر سے واقع ہو اور جو صاحب ایسانہ کرسکیں ان کے لئے بالضرورت یہ تجویز سوچی گئی کہ جو کچھ وہ لنگر خانہ کے لئے بھیجتے ہیں اس کا چہارم حصہ براہِ راست مدرسہ کے لئے نواب صاحب موصوف کے نام بھیج دیں لنگر خانہ میں شامل کر کے ہر گز نہ بھیجیں بلکہ علیحدہ منی آرڈرکرا کر بھیجیں.اگر چہ لنگر خانہ کا فکر ہر روز مجھے کرنا پڑتا ہے اور اس کا غم براہ راست میری طرف آتا
165 ہے اور میری اوقات کو متنسوش کرتا ہے لیکن یہ غم بھی مجھ سے دیکھا نہیں جاتا اس لئے میں لکھتا ہوں کہ اس سلسلہ کہ جواں مرد لوگ جن سے میں ہر طرح امید رکھتا ہوں وہ میری التماس کو ردی کی طرح نہ پھینک دیں اور پوری توجہ سے اس پر کار بند ہوں.میں اپنے نفس سے کچھ نہیں کہتا بلکہ وہی کہتا ہوں جو خدا تعالیٰ میرے دل میں ڈالتا ہے میں نے خوب سوچا ہے اور بار بار مطالعہ کیا ہے میری دانست میں اگر یہ مدرسہ قادیان کا قائم رہ جائے تو بڑی برکات کا موجب ہوگا اور اس کے ذریعہ سے ایک فوج نئے تعلیم یافتوں کی ہماری طرف ہو سکتی ہے اگر چہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اکثر طالب علم نہ دین کے لئے بلکہ دنیا کے لئے پڑھتے ہیں اور ان کے والدین کے خیالات بھی اسی حد تک محدود ہوتے ہیں مگر پھر بھی ہر روز کی صحبت میں ضرور اثر ہوتا ہے اگر ہیں طالب علموں میں سے ایک بھی ایسا نکلے جس کی طبیعت دینی امور کی طرف راغب ہو جائے اور وہ ہمارے سلسلہ اور ہماری تعلیم پر عمل کرنا شروع کرے تب بھی میں خیال کروں گا کہ ہم نے اس مدرسہ کی بنیاد سے اپنے مقصد کو پا لیا.آخر میں یہ بھی یادر ہے کہ یہ مدرسہ ہمیشہ اس ستم اور ضعف کی حالت میں نہیں رہے گا بلکہ یقین ہے کہ پڑھنے والوں کی فیس سے بہت سی مد دل جائے گی یا وہ کافی ہو جائے گی.پس اس وقت ضروری نہیں ہوگا کہ لنگر خانہ کی ضروری رقوم کاٹ کر مدرسہ کو دی جائیں.سو اس وسعت کے حاصل ہونے کے وقت ہماری یہ ہدایت منسوخ ہو جائے گی.اور لنگر خانہ جو وہ بھی درحقیقت ایک مدرسہ ہے اپنے چہارم حصہ کی رقم کو پھر واپس پائے گا اور یہ مشکل طریق جس میں لنگر خانہ کو حرج پہنچے گا.اس لئے میں نے اختیار کیا کہ بظاہر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر مدد کی ضرورت ہے شاید جدید چندہ میں وہ ضرورت پوری نہ ہو سکے لیکن اگر خدا کے فضل سے پوری ہو جائے تو پھر اس قطع برید کی ضرورت نہیں اور میں نے جو یہ کہا کہ لنگر خانہ بھی ایک مدرسہ ہے یہ اس لئے کہا کہ جو مہمان میرے پاس آتے جاتے ہیں جن کے لئے لنگر خانہ جاری ہے وہ میری تعلیم سنتے رہتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جو لوگ ہر وقت میری تعلیم سنتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے گا اور ان کے دلوں کو کھول دے گا.اب میں اسی قدر پر بس کرتا ہوں اور خدا تعالے سے چاہتا ہوں کہ جو مدعا میں نے پیش کیا ہے میری جماعت کو اسکے پورا کرنے کی توفیق دے.اور ان کے مالوں میں برکت ڈالے اور اس کارخیر کے لئے ان کے دلوں کو کھول دے آمین ثم آمین.والسلام علیٰ من اتبع الهدی الراقم میرزا غلام احمد.۱۶ اکتوبر ۱۹۰۳ء 2 نوٹ : مدرسہ کے متعلق تمام زر چنده بنام خاں صاحب محمد علی خاں صاحب ڈائرکٹر مدرسہ آنا چاہئے اور تعلیم طلباء کے متعلق تمام خط و کتابت مفتی محمد صادق صاحب سپر نٹنڈنٹ کا لج تعلیم الاسلام سے ہونی چاہئے.“
166 تعلیم الاسلام قادیان کا قیام وافتتاح با وجود تمام مالی مشکلات کے نواب صاحب کی عالی ہمتی سے قادیان میں کالج کا قیام ہوا.اس کے افتتاح کے متعلق معزز البدر رقم طراز ہے: دو تعلیم الاسلام کالج اور بورڈنگ کے درمیان جو میدان ہے اس میں اس جلسہ کا انتظام ہوا تھا.شمالی جانب ایک چبوترہ بنا کر اس پر اراکین مدرسہ و دیگر معزز احباب کی خاطر کرسیاں رکھی گئیں.جنوبی جانب اس چبوترہ کے ایک بڑی میں تھی جس پر دہنی طرف قرآن کریم اور بائیں طرف کرہ ارض رکھا ہوا تھا.میدان کی دھوپ سے حفاظت کے واسطے ایک سائبان لگایا گیا تھا اور میز کے بالمقابل ایک لمباستون کل تھا.تقریب افتتاح پر سادگی ۱۲۸ حضرت اقدس کی علالت کے باعث حضرت مولوی نورالدین صاحب کی صدارت میں کارروائی شروع ہوئی.اس تقریب کے لئے نہ کوئی دعوتی کارڈ جاری ہوئے نہ اس میں کسی پارٹی کا اہتمام کیا گیا بلکہ محض دعا کے لئے اور طلبا اور اساتذہ اور دیگر کارکنوں کی ہدایت کی خاطر جلسہ کیا گیا.حضرت اقدس کی علالت اور دعا کا وعدہ ۱۲۹ ہم معزز ایڈیٹر صاحب البدر کے الفاظ میں افتتاح کی کارروائی درج کر دیتے ہیں.وہ لکھتے ہیں : ۱۵ مئی ۱۹۰۳ء کو کالج تعلیم الاسلام کا افتتاحی جلسہ ہونا تھا مگر چونکہ حضرت اقدس کی طبیعت ناساز تھی اور آپ شریک جلسہ نہ ہو سکتے تھے ، اس لئے وہ تاریخ ملتوی کر دی گئی.لیکن گزشتہ ایام سے آپ کی طبیعت رو بصحت تھی اس لئے آج کی تاریخ اس جلسہ کے لئے مقرر کی گئی.ساڑھے چھ بجے کے بعد احاطہ سکول میں جلسہ کا انتظام ہوا اور ہر ایک پروفیسر اور مدرس اور لڑکے کی آنکھ خدا کے محبوب اور برگزیدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد آمد پرلگی ہوئی تھی کہ اس اثناء میں مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے آکر اطلاع دی کہ حضرت اقدس نے مجھے ایک پیغام دے کر روانہ کیا ہے اور وہ اس طرح سے ہے کہ میں نے حضرت خلیفتہ اللہ مرا د ورزش کی لکڑی.مولف
167 علیہ السلام کی خدمت میں تشریف آوری کے واسطے عرض کی تھی آپ نے فرمایا کہ میں اس وقت بیمار ہوں حتی کہ چلنے سے بھی معذور ہوں لیکن وہاں حاضر ہونے سے بہت بہتر کام یہاں کر سکتا ہوں کہ ادھر جس وقت جلسہ کا افتتاح شروع ہوگا میں بیت الدعا میں جا کر دعا کروں گا.یہ کلمہ اور وعدہ حضرت خلیفتہ اللہ علیہ السلام کا بہت خوش کن اور امید دلانے والا ہے.اگر آپ خود تشریف لاتے تو بھی باعث برکت تھا اور اگر اب نہیں لائے تو دعا فرماویں گے اور یہ بھی خیر و برکت کا موجب ہوگی اس قدر تقریر فرما کر مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کرسی پر بیٹھ گئے اور اس کے بعد تعلیم الاسلام کالج کے ڈائرکٹر عالی جناب نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ نے اٹھ کر ذیل کی تقریر فرمائی.“ تقریر نواب محمد علی خاں صاحب ”جناب میر مجلس و حضار جلسہ.میں اس وقت کالج کے افتتاح کے متعلق عرض کرنا چاہتا ہوں مگر بوجہ علالت طبع کے زیادہ دیر نہ بول سکوں گا.سب سے اول خدا کا احسان ہم پر ہے کہ جس کے فضل سے سب کام چل رہے ہیں.یہ اُسی کا فضل ہے کہ ہمیں اس سلسلہ میں داخل ہونے کی ہدایت ہوئی اور آخری زمانہ کے آخری امام یعنی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سایہ عاطفت میں ہمیں جگہ ملی.خدا کرے کہ ہم کامل طور پر آخرین منھم میں سے ہو جاویں.اس کالج کی غرض کوئی عام طور پر یہ نہیں ہے کہ معمولی طور پر دنیاوی تعلیم ہو اور صرف معاش کا ذریعہ اسے سمجھا جائے بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ ایک عالم اس سلسلہ کی تعلیم سے مستفید ہو جو کہ خدا نے قائم کیا ہے دنیوی تعلیم کا اگر کچھ حصہ اس میں ہے تو اس لئے کہ مروجہ علوم سے بھی واقفیت ہو جس سے خدا تعالیٰ کی معرفت میں مدد ملے ورنہ اصل غرض دین اور دین کی تعلیم ہی ہے اور ایک بڑی غرض یہ بھی ہے کہ اپنی احمدی جماعت کے کم سن بچے ابتدا سے دینی علوم سے واقف ہوں اور حضور مسیح موعود کے فیضان صحبت سے فائدہ اٹھا دیں اور بڑے ہو کر اس پاک چشمہ سے ایک عالم کو سیراب کریں جس سے وہ خود سیراب ہو چکے ہیں.یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ کالج کی موجودہ حالت سب احباب پر ظاہر ہے اس کے کارکنوں نے جو کچھ آج تک کیا ہے وہ کسی انسانی طاقت کا نتیجہ نہیں ہے.بلکہ سب کچھ محض خدا کے فضل سے ہی ہوا ہے مدرسہ کو کھلے ہوئے پانچ سال ہو گئے.یکم جنوری ۱۸۹۸ء میں پرائمری سکول کھلا تھا.اس کے چار ماہ بعد ہی یعنی ہمئی ۱۸۹۸ء سے مدرسہ کو مڈل تک ترقی دی گئی پھر فروری ۱۹۰۰ء میں ہائی سکول ہوا اب اس امر کے اظہار کی خوشی ہے کہ آج وہ دن ہے کہ ہم اسے کالج بنا رہے ہیں یہ ایک فوق العادت ترقی ہے اور صرف حضرت مسیح موعود کی دعاؤں کا نتیجہ ہے.علی گڑھ کالج ہندوستان میں ایک بڑا کالج ہے مگر اس نے بھی اس طرح ترقی نہیں کی اور
168 امید ہے جیسے کہ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا ہے کہ حضرت اقدس نے دعاؤں کا وعدہ کیا ہے.خدا کی ذات سے بڑی امید ہے کہ یہ کالج بہت جلد ایک یونیورسٹی ہوگا اور اس احمدی جماعت کے لئے ایک بڑا مفید دارالعلوم ثابت ہوگا.اگر چہ یہ سب کام خدا کے ہی ہیں اور وہی ان کو چلا رہا ہے.مگر تا ہم ظاہری اسباب کے لحاظ سے طلباء اور ان کے والدین کو اس طرف بہت متوجہ ہونا چاہئے اور اس ثواب کے موقعہ کو ہاتھ سے نہ دینا چاہئے گو کہ یہ کالج چلے گا اور دعاؤں کے ذریعہ سے اس کا نشود نما ہو گا.مگر تا ہم بدیں خیال کہ ہر ایک اس کارخیر کے ثواب میں سے حصہ لیوے کہا جاتا ہے کہ وہ مالی طور سے امداد دیو ہیں.یہ تقریر فرما کر ڈائرکٹر صاحب کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور ان کے بعد احمدی جماعت کے فخر حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب نے تقریر فرمائی.تقریر حضرت مولوی نورالدین صاحب آپ نے فرمایا: اَشْهَدُ أَنْ لا إِله إِلَّا الله وحده لا شريكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحمّدًا عبده ورسوله اما بعد ہم تو ہر روز تم کو وعظ سناتے ہیں اور سارا دن اسی میں صرف ہو جاتا ہے.قرآن شریف کا وعظ بھی خدا کے فضل سے مستقل طو پر جاری ہے.مگر اس وقت خصوصیت سے مجھے ارشا د ملا ہے کہ کچھ سناؤں تمہید کی ضرورت نہیں ہے.اس وقت یہ نظارہ میرے سامنے موجود ہے ایک طرف قرآن شریف اور دوسری طرف کرہ ارض پڑا ہوا ہے پھر اوپر سائبان ہے اور ایک طرف وہ لمبی لکڑی کی ہے.یہی مضمون کافی ہے انسان کو خدا نے بنایا ہے اور اس کے اندر اس قسم کی اشیاء رکھی ہیں کہ اگر ان سب کا نشو و نما نہ ہوتو پھر وہ انسان انسان نہیں رہتا ایک ذلیل مخلوق ہو جاتا ہے لیکن اگر ان خدا کی عطا کردہ قوتوں کا عمدہ نشو و نما ہوتو وہی انسان خدا کا مقرب بن سکتا ہے اور اس کے یہی ذرائع ہیں جو تمہارے سامنے ہیں ( قرآن کی طرف اشارہ کر کے ) یہ پاک کتاب جب نازل ہوئی اس وقت ساری دنیا میں اندھیر تھا.عرب خصوصیت سے ایسی حالت میں تھا کہ کل دنیا کا روبر است ہو جانا آسان مگر اس کا سدھرنا مشکل سمجھا جاتا تھا.پر میابنی کے نوحہ میں یہ ایک فقرہ موجود ہے جس میں وہ اپنی قوم کو نصیحت کرتا ہے کہ تم نے بچے خدا کو چھوڑ دیا دیکھو تمہارے پاس عرب موجود ہیں وہ جھوٹے خداؤں کو نہیں چھوڑ سکتے.لیکن یہ ایک کتاب ہے جس نے ان عربوں کو ایسا بنایا اور وہ عزت دی کہ وہ دنیا کے ہادی مصلح ، نور اور ہدایت بن گئے.اس کا ذریعہ صرف قرآن کریم ہی تھا جو ان کے واسطے شفا ،نور اور رحمت ہوا.ید مراد ورزش کی لکڑی اس کا ذکر الحکم پر چہ ۰۲-۶-۲۴ (ص۱۰) پر ہے.مؤلف
169 قرآن کریم کا دائیں جانب ہونا تمہارے لئے خوش قسمتی کی فال ہے اور یہ وہی کتاب ہے جو کہ دائیں جانب ہونی چاہئے اس سے یہ تفاول ہے کہ تمہارے دائیں ہاتھ میں ہو ( کرۂ ارض کی طرف اشارہ کر کے ) دوسری طرف یہ ہے جس پر زندگی چل رہی ہے.کتاب اللہ میں بھی اس کی ترتیب اس طرح سے ہے کہ اول آسمان کا ذکر ہے تو پھر زمین کا موجودہ ضرورت کے لحاظ سے جس سے عرب کی نابود ہستی بود ہو کر نظر آئی وہ ذریعہ قرآن کریم ہے کہ جس سے اس کرہ پر ان کو حکمرانی حاصل ہوئی تھی اس وقت اس کے بڑے حصہ ایشیاء اور افریقہ اور یورپ ہی تھے جن کو مخلوق جانتی تھی اور اس قرآن کی بدولت ان معلوم حصص پر ان کی حکمرانی ہوئی مگر اس کے ساتھ ہی اصلی جڑ فضل الہی کا سائبان بھی ان پر تھا ور نہ قرآن تو وہی موجود ہے اور اس وقت اہل اسلام کی تعداد بھی اس وقت اضعاف مضاعفہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں پڑھے لکھوں کی تعداد ۱۳۵ سے زیادہ ہر گز نہ تھی.خطرناک قوم کے مقابلہ پر سخت جنگ کی حالت میں ۳۱۳ سے زیادہ سپاہی نہ تھے.غزوہ خندق میں چھ سو تھے اب باوجود اس کے اس وقت سے بہت بہت زیادہ تعداد موجود ہے مگر وہ بات نہیں ہے نہ وہ عزت نہ آبرو نہ اندرونی خوشی نہ بیرونی.تو اس بات کی جڑ یہ ہے کہ اس زمانہ میں جس وقت فرمان نازل ہوا.اس کی قدر کی گئی اس کو دستور العمل بنایا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل عرب جو اول کچھ نہ تھے پھر سب کچھ بن گئے.قرآن شریف کے ابتدائی الفاظ میں لکھا ہے ذَالِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيْهِ نبی کریم نے اس کتاب کا ادب اس طرح سے کیا کہ آپ کے زمانہ میں سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب نہ کھی گئی اس وقت بھی خوش قسمتی سے وہی کتاب موجود ہے اگر کوئی اور بھی اس وقت کی لکھی ہوئی ہوتی تو پھر یہ جوش نہ ہوتا.یاخدا اور کوئی راہ کھول دیتا.غرضیکہ اس کتاب کی عزت سے فضل الہی کا وہ سایہ قائم ہوا جیسے اس وقت تم لوگ آسائش سے بیٹھے ہو سائبان تم پر ہے دھوپ کی تپش سے محفوظ ہو.اس طرح وہ لوگ جو کہ جنگلوں میں اور دور دراز بلاد میں رہتے تھے وہ اس کے ذریعہ سے امن کی زندگی بسر کرنے لگے.تمام ترقیوں عزت اور حقیقی خوشی کی جڑ یہ کتاب ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہم اس ( کرۂ ارض) پر حکمرانی کرتے ہیں اور اسی کے ذریعہ سے فضل الہی کا سایہ ہم پر پڑسکتا ہے.یہ نہ خیال کرو کہ ایرانی سلطنت ایسی راحت میں ہے.ہرگز نہیں جس قدر وہ اس کتاب سے دور ہے اسی قدر اس میں گند ہے.مگر تم کو ان باتوں کا علم نہیں ہے بڑے بڑے لائق چالاک اور پھرتی سے بات کرنے والوں کے ساتھ نا چیزی کی حالت میں میرا مقابلہ ہوا ہے مگر اس قرآن کے ہتھیار سے جب میں نے ان سے بات کی ہے تو ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ نے لگ گئیں ایک انسان جو کہ بیماریوں میں مبتلا ہو بظاہر تم اسے خندہ اور خوش دیکھ سکتے ہومگر اندر سے دیکھ اسے ملامت کا نشانہ بنا رہے ہیں یا درکھو خوشی کا چشمہ قلب.پھر عقل پھر حواس ہیں اس کے بعد جسم میں
170 خوشی ہوتی ہے.مگر جو لوگ غموں میں مبتلا ہوں ان کو حقیقی خوشی نہیں ہوا کرتی.میں تم کو ایک بچہ کا قصہ سناتا ہوں کیونکہ تم بھی بچے ہو مگر وہ عمر میں تم سب سے چھوٹا تھا اس کا نام یوسف ہے جس وقت بھائیوں نے اسے باپ سے مانگا اور چاہا کہ اسے باپ سے الگ کر دیں اور جنگل میں جا کر ایک کنوئیں میں اتار دیا اب تم سمجھ سکتے ہو کہ اس کی کیا عمر تھی.اگر چہ وہ چھوٹا تھا اور نا واقف تھا مگر پھر بھی بچوں کی طرح باپ سے الگ ہونے اور نکالے جانے کا اسے علم تھا اور یہ جانتا تھا کہ اس سے دکھ ملتا ہے ذرا سوچو تو جب ایک بچہ کو اس کی ماں سے الگ کیا جاتا ہے تو بچہ کا کیا حال ہوتا ہے پھر بچہ ہونے کے نام سے دب جاتے ہیں سہم جاتے ہیں اور اس کو وہ تاریک کنواں دکھایا گیا جس میں اسے اتارا گیا.نہ اس وقت کوئی یار اور نہ آشنا نہ ماں اور نہ باپ.اگر ہوتے بھی تو اسے وہ بات نہ بتلا سکتے جو خدا نے بتائی اور ان کو کیا علم تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا.مگر خدا کا سایہ اس پر تھا اور خدا نے اسے بتایا تُنَبِنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ کہ اے یوسف دیکھ تجھے باپ سے الگ کیا تیری زمین سے تجھے الگ کیا اور اندھیرے کنوئیں میں ڈالا مگر میں تیرے ساتھ ہوں گا اور اس علیحدگی کی تعبیر کو تو بھائیوں کے سامنے بیان کرے گا اور ان کو اس بات کا شعور نہیں ہے.دیکھو یہ باتیں باپ نہیں کر سکتا نہ وعدہ دے سکتا ہے کہ یوں ہوگا یا جاہ وجلال کے وقت تک یہ تندرستی بھی ہوگی ایک باپ بچے سے پیار تو کر سکتا ہے مگر وہ اس کی آئندہ حالت کا کیا اندازہ لگا سکتا ہے ان باتوں کو جمع کر کے دیکھو اگر کوئی انسان تسلی دیتا تو بچہ کو پیار کرتا گلے میں ہار ڈالتا اور اسے کہتا کہ ہم نیچی دیویں گے مگر خدا کی ذات کیا رحیم ہے وہ فرما تا لتُبنهُمُ بِأَمْرِهِمُ هَذَا.ہم وہ عروج دیویں گے کہ تو ان احمقوں کو اطلاع دیوے گا.یہ حقیقت ہے اس سایہ کی جسے میں چاہتا ہوں تم پر ہو.علوم کی تحصیل آسان ہے.مگر خدا کے فضل کے نیچے تحصیل کرنا یہ مشکل ہے کالج کی اصل غرض یہی ہے کہ دینی اور دنیوی تربیت ہو.مگر اول فضل کا سایہ ہو پھر کتاب پھر دستورالعمل ہو، اس کے بعد دیکھو کہ کیا کامیابی ہوتی ہے.فضل الہی کے لئے پہلی بشارت پیارے عبدالکریم نے دی ہے وہ کیا ہے؟ حضرت صاحب کی دعائیں ہیں.میں ان دعاؤں کو کیا سمجھتا ہوں یہ بہت بڑی بات ہے اور یقیناً تمہارے ادراک سے بالا تر ہوگی مگر میں کچھ بتلاتا ہوں.مخالفتوں سے انسان نا کامیاب ہوتا ہے گھبراتا ہے.ایک لڑکا ماسٹر کی مخالفت کرے تو اسے مدرسہ چھوڑنا پڑتا ہے.جس قدر مہتم مدرسہ کے ہیں اگر وہ سب مخالفت میں آویں تو زندگی بسر کرنی مشکل ہوا گر چہ افسر بھی لڑکوں کے محتاج ہیں مگر ایک ذرا سے نکتہ سے اسے بورڈنگ میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے.اب اس پر اندازہ کرو کہ ایک کی مخالفت انسان کو کیسے مشکلات میں ڈالتی ہے.لیکن ہمارے امام کی ساری برادری مخالف ہے رات دن یہی تاک ہے کہ اسے دکھ پہونچے پھر گاؤں والے مخالف حالانکہ ان کو نفع پہنچتا ہے.میں نے.
171 ایک شریر سے پوچھا کہ اب مرزا صاحب کی طفیل تمہاری کتنی آمدنی ہوگئی ہے تو کہا کہ بیس روپیہ ماہوار زیادہ ملتے ہیں علی ہذا القیاس ، ان گدھے والوں اور مزدوروں سب سے دریافت کرو تو یقین ہوگا کہ ان کے واسطے ہمارا یہاں رہنا کیسا بابرکت ہے.مگر ان سب کے دلوں میں ایک آگ بھی ہماری طرف سے ہے باوجود ہم سے متمتع ہونے کے پھر بھی ان کے اندر ایک کپکپی ہے کہ یہ یہاں کیوں آگئے ابھی ایک مینار بن رہا ہے اگر کوئی میرے جیسا خلیق ہوتا تو راستہ کو توڑ کر مینار ایک کونے میں بناتا.مگر اس مجسم رحم انسان ( مرزا غلام احمد ) نے اسے مسجد کے اندر بنایا کہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو ان لوگوں کو غیرت نہیں آتی کہ کیا ان دروازے سے آنے والوں کی عقل ماری گئی ہے کہ دوڑے چلے آرہے ہیں؟ یہ کہاں کے فلاسفر ہوئے جوایسی بات کرتے ہیں؟ کیا ان کے تجارب ہم سے زیادہ ہیں.یا معلومات میں ہم سے بڑھ کر ہیں؟ شرم کے مارے کچھ جواب تو نہیں دے سکتے یہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی مت ماری گئی ہے کہ رو پید اپنا کھاتے ہیں اور یہاں رہتے ہیں.یہ حال تو گاؤں کی مخالفت کا ہے پھر سب مولوی مخالف گدی نشین مخالف،شیعہ مخالف ،سنی مخالف، آریہ مخالف مشنری مخالف.دہریوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر وہ بھی مخالف اور نہایت خطرناک دشمن اس سلسلہ کے ہیں.ان تمام مشکلات کے مقابلہ میں دیکھو وہ (حضرت مرزا صاحب ) کیسے کامیاب ہے.کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تم اس طرح کامیاب ہو؟ یہاں ہمارا رہنا تمہارا رہنا اسی کے نظارہ ہیں کہ باوجود اس قدر مخالفت کے پھر پروانہ وار اس پر گرتے ہیں اس کا باعث یہی ہے کہ وہ کتاب اللہ کا سچا حامی ہے اور رات دن دعا میں لگا ہوا ہے اس لڑکے سے بڑھ کر کوئی خوش قسمت نہیں ہے جس کے لئے یہ دعائیں ہوں مگر ان باتوں کو وہی سمجھتا ہے جس کی آنکھ بینا اور کان شنوا ہو.(۱۹/ جون ۱۹۰۳ء) " لتنبتهُمْ بِأَمْرِهِمُ هذا کی صدا یوسف کے کان میں پڑی.اسی سے سوچو کہ جب خدا کا فضل ساتھ ہوتا ہے تو کوئی دشمن ایذا نہیں پہنچا سکتا.کس طرح کا جاہ وجلال اور بحالی یوسف کو ملی اور سب سے عجیب بات یہ کہ ان بھائیوں کو آخر کہنا پڑا اِنَّا كُنَّا خَاطِئِین اس کا جواب یوسف نے دیا لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ الله لَكُمُ یہ اللہ پر یقین کا نتیجہ تھا تم بھی اللہ پر کامل یقین کرو اور ان دعاؤں کے ذریعہ جو کہ دنیا کی مخالفت میں سپر ہیں فضل چاہو.کتاب اللہ کو دستور العمل بناؤ تا کہ تم کو عزت حاصل ہو باتوں سے نہیں بلکہ کاموں سے.اس کتاب کے تابع اپنے آپ کو ثابت کرو.ہنسی ، تمسخر، ٹھٹھا، ایذاء گالی یہ سب اس کتاب کی تعلیم کے برخلاف ہے جھوٹ سے لعنت سے تکلیف اور ایذا دینے سے ممانعت اور لغو سے بچنا اس کتاب کا ارشاد ہے.صوم اور صلوٰۃ اور ذکر و شغل الہی کی پابندی اس کا اصول ہے.تمہاری تربیت کی ابتدائی حالت ہے اور اگر چہ تربیت کرنے والے اس قابل نہیں ہیں کہ تم کو اعلیٰ منازل تک پہنچا دیں مگر کوئی کمزوری اور نقص
172 اگر انتظام میں ہے تو اس کی اصلاح تمہارے ہی ہاتھ میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَكَذَلِكَ نُوَلَّى بَعْضَ الظَّلِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ یعنی اس طرح ہم ظالموں پر ظالموں کو ولی کرتے ہیں تا کہ اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتیں پھر فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ پس اپنی اصلاح میں لگو کہ مصلح تمہارا متولی اللہ تعالیٰ تم کو توفیق دے کہ فضل خدا کا سایہ تم پر ہو اس کی کتاب تمہارا دستور العمل ہو.کرہ زمین پر عزت سے زندگی بسر کرو دنیا کے لئے کمال نور اور ہدایت ہو جاؤ ، اپنی کمزوریوں کے لئے دعا کرو اور کوشش کرو کہ یوسف کی طرح بن جاؤ.(۲۶ جون ۱۹۰۳ء) یہ تقریر فرما کر حضرت مولانا حکیم صاحب کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور مدرسہ تعلیم الاسلام کے مدرس جناب مولوی مبارک علی صاحب اور مولوی عبداللہ صاحب کشمیری نے باری باری نظمیں پڑھیں.بعد اختتام نظم جناب ڈائرکٹر صاحب نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ خدا کے فضل واحسان سے افتتاح کالج کی رسم ادا ہو چکی ہے اور اس خوشی میں آج مدرسہ کو رخصت دی جاتی ہے اس کے بعد دعا کی گئی اور جلسہ برخاست ہوا.☆** ذیل میں مولوی مبارک علی صاحب کی نظم درج کی جاتی ہے.نظم مراسد ذکر بنازم بخت بیدارم کہ آفرید مسلماں مرا خدائے جہاں دریں زمانہ بخشید خلعت ہستی که دارد آن شرف بعثت مسیح زماں به فزوں تر از ہمہ جو دو عطا ہمیں کرے که پیش روئے حبیبم شگفتہ دل خنداں نہ از لیاقتم این است و نے ز خوبی من که ست رحمت ایزد کشیدم از احسان بیائے بوسی آن دلستاں مرا آورد بعر معرفت حق نواختم شاداں کر پر آستانه دولت سراسر افگندم چو دیدم از سر طارم خورہدی رخشاں عطا نمود مرا منصب بمدرسته اش نشاند برسر کرسی مجمله استاداں مبارک است پے افتتاح ایں کالج که بر کشاد خدایش میان دار اماں مزد که گوئیمش اکنوں کمال گاه علوم بجا است گرشمرم جنبش پئے صبیاں ہزار رفعت وبرکت نصیب او بادا کہ ہست بانی و حامیش مرسل یزداں
173 کالج کے لئے حضرت اقدس کی دعا کالج کی امداد و اعانت کی تحریک کرتے ہوئے معزز الحکم رقم طراز ہے.قوم کی خدمت میں التماس افتتاح کالج کی روئداد ناظرین الحکم کے سامنے پیش کرنے کے بعد ہم اپنی قوم کی خدمت میں التماس کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس وقت تک تعلیم الاسلام ہائی سکول نے جس قدر ترقی کی ہے اس کا جہاں تک اسباب سے تعلق ہے وہ قوم کی سرپرستی اور عنایت سے ہوئی ہے اگر چہ ان ساری ترقیوں کی جڑ حضرت اقدس کی دعائیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فیض اور فضل کو جذب کرتی رہی ہیں اور آئندہ جو کچھ ترقی ہوگی وہ بھی محض خدا ہی کے فضل سے اور حضرت مسیح موعود کی دُعاؤں کی برکت سے.لیکن ہماری قوم کا فرض ہے کہ بلحاظ اسباب کالج کی ہر قسم کی اعانت کے لیے فیاضی سے کام لیں.حضرت حجتہ اللہ کالج کی بہتری اور ترقی کے لئے تو یہاں تک خواہشمند ہیں کہ آپ نے لنگر خانے کے چندہ سے وضع کر کے مدرسہ کو چندہ دینے کی بھی تاکید کر دی تھی جن سے بڑھ کر اور کوئی طریق اس ہمدردی اور دلچسپی کے اظہار کا نہیں ہو سکتا تھا جو آپ کو مدرسہ کے ساتھ ہے.گویا لنگر خانہ کے پہلو بہ پہلو حضور مدرسہ کی ضروریات کو محسوس کرتے ہیں تو قوم خود سمجھ سکتی ہے کہ اس کو کس درجہ تک سمجھنا چاہئے اب ہم اس روئداد کو اس بات پر ختم کر دیتے ہیں کہ کالج کے پروفیسروں میں حضرت حکیم الامت دبیات کے پروفیسر.حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب ادب عربی کے پروفیسر اور حضرت مولوی محمد علی صاحب ایم اے ریاضی کے پروفیسر ہیں جو آنریری طور پر محض خدا کے لئے کام کرتے ہیں جس کی جزاء اللہ تعالی ہی ان کو دیگا.اس سے ثابت ہو سکتا ہے کہ اعلیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی توجہ کے ساتھ بقیہ حاشیہ:- نجسته منزل و فرخ نثراد و خوش محضر جناب خان معظم امیر دالا شاں باهتمام و نظامش بعزم دل پر داخت فزود رونق و رنگ و بهار این بستاں چو فکر از پئے سال کشادش کر دم بگفت باتف نیم بگوش دل غفراں نوٹ : جملہ کا رروائی افتتاح مع تقارير البدر بابت ۰۳-۵-۶ اور ۰۳-۶-۱۹ اور ۰۳-۶-۲۶ میں درج ہے مکرم ایڈیٹر صاحب الحکم اس موقع پر قادیان سے باہر تھے بعد میں انہوں نے بھی اس کا رروائی کو الحکم پر چہ ۲۶-۶-۰۳ میں شائع کر دیا
174 بزرگان ملت بھی اس جوش اور ہمت کے ساتھ اس کام میں لگے ہوئے ہیں جس کالج کے پروفیسر ایسے ایسے بزرگان ملت ہوں اس کے طلباء کی اخلاقی اور عملی حالت کس پایہ اور درجہ کی ہوگی ، اب قوم کا فرض ہے کہ وہ ہر طرح سے اپنے اس قومی کالج کی بہتری اور پا بحالی کے لئے دامے درمے اور سب سے بڑھ کر دعاؤں سے مدد کریں.ہم کا فرٹھہریں گے اگر اس آرٹیکل کو ختم کرتے ہوئے جناب ڈائرکٹ صاحب کی سعی اور جانفشانی کا جو وہ کالج کے لئے کرتے رہتے ہیں شکریہ ادا نہ کریں.نواب صاحب کا قریباً سارا وقت ان تجاویز اور امور کے سوچنے میں صرف ہوتا ہے جو کالج کے لئے مفید ہو سکتے ہیں اور قطع نظر اس کے جو گرانقدر عطیہ آپ کالج کے لئے دیتے ہیں وہ ناظرین سے مخفی نہیں اور پھر کالج کی بہت سی ضروریات کا تکفل آپ کرتے ہیں ہماری وہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کارخیر میں سعی اور سرگرم رہنے کی اس سے بھی بڑھ کر توفیق دے.اور آپ کے ارادوں میں استقامت اور اپنے مقاصد میں آسانیاں پیدا کرے (آمین ).جلسہ سے فراغت پا کر عالی جناب نواب صاحب قبلہ نے اعلیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے حضور افتتاح کالج کا اطلاعی عریضہ لکھا جس کو معہ جواب حضرت اقدس ہم ذیل میں درج کرتے ہیں.ڈائر یکٹر صاحب کا عریضہ سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.مولانا مولوی عبد الکریم صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ حضور کی طبیعت نصیب اعداء علیل ہے اس لئے حضور تشریف نہیں لا سکتے گو کہ اس سے ایک گونہ افسوس ہوا مگر وہ کلمات جو مولانا موصوف نے نیابتاً فرمائے ان سے روح تازہ ہوگئی اور خداوند تعالیٰ اور حضور کی دعاؤں کے بھروسہ پر کارروائی شروع کی گئی جلسہ نہایت کامیابی سے تمام ہوا اور کالج کی رسم افتتاح ہو گئی اطلاعاً گذارش ہے.خداوند تعالیٰ حضور کو صحت عطا فرمائے حضور نے...دعا فرمائی ہوگی اب بھی استدعائے دعا ہے.راقم محمد علی خاں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا جواب بسم نحمده و نصلى على رسوله الكريم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالی.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.رات مجھ کو دل کے مقام پر درد ہوتی تھی اس لئے حاضر نہیں ہو سکا لیکن میں نے اسی
175 حالت میں بیت الدعا میں نماز میں اس کالج کے لئے بہت دعا کی غالباً آپ کا وہ وقت اور میری دعاؤں کا وقت ایک ہی ہوگا خدا تعالیٰ قبول فرما دے آمین ثم آمین و السلام.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ.تعلیم وانتظام مدرسه و کالج مکرم مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کالج کے پروفیسر مقرر ہوئے تھے اور میں اس کا مینیجر نیز وہاں پروفیسر بھی تھا اور مدرسہ کا ہیڈ ماسٹر بھی مکرم مولوی محمد الدین صاحب ناظر تعلیم و تربیت ربوہ فرماتے ہیں کہ اس کالج میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بھی تعلیم دیتے تھے حضرت حکیم مولوی عبید اللہ صاحب بسمل فارسی.مولوی محمد علی صاحب ریاضی.مفتی صاحب لاجک ( منطق ) حضرت مولوی سرور شاہ صاحب عربی اور دینیات ( اور تھوڑا عرصہ حضرت مولوی نور الدین صاحب دینیات ) اور مولوی شیر علی صاحب انگریزی کے پروفیسر تھے.اور آپ کی بیماری کے ایام میں دو ماہ تک آپ کے برادر اکبر حضرت حافظ عبد العلی صاحب انگریزی پڑھاتے رہے.غالبا در زمیخانہ والا کمرہ کلاس روم.مگر اس کے علاوہ پرانے صحن مدرسہ کا مشرقی کمرہ بھی استعمال ہوتا رہا.درزی خانہ کا اوپر والا کمرہ بھی بعض دفعہ لیکچروں اور بعض دفعہ کالج کے بورڈروں کی رہائش کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے.اس کالج میں حافظ صوفی غلام محمد صاحب مرحوم ( مبلغ ماریشس ) ڈاکٹر غلام محمد صاحب ایم بی بی ایس لاہور ( غیر مبائع ) شیخ عالم الدین صاحب بی اے ایل ایل بی مرحوم شیخو پوره ( غیر مبائع اور شاید مرزا محمود بیگ صاحب پٹی والے بھی پڑھتے رہے ہیں میں صرف چند روز تک پرائیویٹ طور پر بیٹھتا رہا مگر میں نے جلدی چھوڑ دیا.مکرمی ( حکیم ) مولوی فضل الدین صاحب بھی کچھ عرصہ پڑھاتے رہے اور مولوی یا رمحمد صاحب ایم اوایل وکیل بھی کچھ عرصہ ریاضی پڑھاتے رہے.یو البدر بابت ۵-۱-۱ (صفحہ ۲ کالم ۲) میں ” مولوی غلام محمد صاحب‘ کے ایف اے کے امتحان کے داخلہ کا اور بدر بابت ۰۵-۴-۲۰ ( صفحہ کالم۲) میں طفیل حسین.غلام محمد اور علم دین کے ایف اے میں کامیاب ہونے کا ذکر آتا ہے.مکرم مفتی محمد صادق صاحب سپر نٹنڈنٹ تعلیم الاسلام کالج کی طرف سے اعلان ہوا کہ فی الحال کالج میں دو سال تک فیس نہیں لی جائے گی.مضامین دینیات ، عربی ، انگریزی ، فارسی ، فلاسفی ، تاریخ اور ریاضی ۱۳۲ ہوں گے.
176 مکرم مولوی محمد الدین صاحب فرماتے ہیں کہ یہ کالج صرف دو سال ہی جاری رہا یعنی صرف ایک ہی کلاس نے تعلیم پائی یہ کالج یونیورسٹی کمیشن کی جو لارڈ کرزن کے ماتحت قائم ہوا تھا ھدایات کے ماتحت بند کرنا پڑا کیوں کہ اس نے شرطیں کڑی کر دی تھیں جن کی پاپندی ممکن نہ تھی.نواب صاحب کو تعلیم کا خاص شوق وشغف تھا.مدرسہ اور کالج کا انتظام عام طور پر اچھا تھا.آپ ہمیشہ نئی نئی تجاویز سوچا کرتے تھے.گواس وقت کالج بند کرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ نے تقریباً چالیس سال بعد پھر تعلیم الاسلام کالج قادیان میں اور ہجرت کے بعد لاہور میں کھولنے کی توفیق جماعت کو عطا کی اور سنا ہے کہ اب قریب میں مغربی افریقہ میں بھی کھلنے والا ہے اللَّهُم زدفرد.شروع میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ہیڈ ماسٹر تھے مگر چونکہ حضرت اقدس ان کو عموماً کر مدین کے مقدمہ میں ساتھ ساتھ رکھتے تھے اس لئے مدرسے کا ہرج ہوتا تھا.لہذا مولوی شیر علی صاحب کو ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا.پہلے طلباء اگر بیمار ہوتے تو حضرت مولوی نورالدین صاحب سے دوائی وغیرہ لیتے مگر نواب صاحب نے مدرسہ کی ڈسپنسری کا علیحدہ انتظام کیا.اور ڈاکٹر عبد اللہ صاحب ( نومسلم ) کو ملا زم رکھا جو بورڈنگ کے ٹیوٹر بھی تھے.(ع) مدرسہ کے کام میں شغف مدرسہ اور کالج کے امور میں حضرت نواب صاحب کو جس قدر شغف تھا وہ ان کی چند دن کی ڈائری کے ذیل کے اقتباسات سے ظاہر ہے: بروز جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۰۱ء نو بجے کے (وقت ) مدرسہ اور بورڈنگ ہاؤس دیکھا مکان نہایت بے ترتیب بنے ہوئے ہیں“.”نماز جمعہ کے بعد گھر آئے.مولوی نورالدین (صاحب) میری درخواست پر تشریف لائے ، ان سے اپنے حالات امراض اور مدرسہ پر گفتگو ہوتی رہی.“ ۱۶/ نومبر ۱۹۰۱ء بعد نماز ( فجر ) ایک خط بابت حالات مدرسہ لکھا جس کا یہ خلاصہ تھا کہ حضرت اقدس کا اس مدرسہ سے کیا مقصد ہے.
177 اس خط کے بھیجنے کے تھوڑے عرصہ بعد حضرت اقدس سیر کے لئے تشریف لائے یہ کوئی ساڑھے آٹھ بجے تھے.حضرت اقدس نے میرے خط ہی کی تمہید پر تمام سیر میں نہایت عجیب گفتگو فرمائی اس میں سے میرے خط کے متعلق خلاصہ تو یہ تھا کہ ہمارا اصل مقصد دینی تعلیم ہے مگر اس کو بسہولت مدرسہ میں داخل کرنا چاہئے تا کہ بچے گھر نہ جائیں.اور ہمارا مقصد صرف جاہل مولوی بنانا بھی نہیں کہ باجود کتابوں کے پڑھنے کے عقل سے کام نہیں لیتے ثبوت کے بعد ہماری مخالفت پر اڑے ہوئے ہیں اور ہم کو اس سے بڑا افسوس رنج ہوتا ہے جب ہم اپنی جماعت میں اختلاف سنتے ہیں ہم تو یہ دعائیں کرتے ہیں کہ تم میں اتفاق ہواور وہ گندی باتیں تم میں نہ ہوں جو دوسرے دنیا داروں میں ہیں.اب تک اپنے مریدوں پر یہ حسن ظن کرتا ہوں ان سب کی نیت بہتر ہے گو اختلاف ہے اور اگر یہ حالت نقار تک پہنچی ہے تو پھر گویا ہم سے تم نے کچھ فائدہ ہی نہیں اٹھایا وغیرہ وغیرہ.الحمد کی تفسیر اس دوران گفتگو میں عجیب ہی کی.فرمایا کہ مخالف ہی معارف کے ظاہر کرنے کا باعث ہوتے ہیں ابوبکر نے کیا معارف ظاہر کرانے تھے جو بلا دلیل دریافت مان بیٹھے تھے فرمایا کہ اگر مخالفت نہ ہوتی تو قرآن شریف کے یہ تمیں پارے نہ ہوتے ہماری کتابیں بھی مخالفین ہی نے لکھوائی ہیں الحمد بھی آئندہ کے مخالفین نے لکھوائی ہے فرمایا عیسائی الرحمن اور الرحیم کے منکر ہیں اور غیر المغضوب عليهم ولا الضالين میں پیشگوئی ہے مغضوب علیہم سے مراد مخالف یہودی اور الضالین سے مراد عیسائی ہیں تو اشارہ کہ چونکہ مسلمانوں نے یہودیوں ( کی ) مماثلت کرنی ہے اس لئے ان کے لئے ان ہی میں سے مسیح آنا چاہئے تھا اور عیسائیت کا بھی عروج.واپسی پر مدرسہ کے لئے چندہ فراہم کرنے کی تقریر کی بلکہ یہاں تک کہ جو ایسے چندے (سے) پہلو تہی کرتے ہیں وہ گویا ہمارے مرید نہیں، ہم پھر مدرسہ دیکھنے گئے جونیئر ہائی اور مڈل کلاس دیکھی جونیئر ہائی کو ہیڈ ماسٹر پڑھارہے تھے.مضمون انگریزی تھا جماعت میں ترجمہ میں کمزوری اور مطالعہ کی کمی دیکھی.طرز تعلیم استاد اچھا تھا طالب علم ذ کی کم تھے.مڈل کلاس میں حساب میں حساب مفتی محمد صادق پڑھارہے تھے چونکہ جزر کا قاعدہ سمجھا رہے تھے اس لئے پوری حالت معلوم نہیں ہوسکی قاعدہ نشست ٹھیک نہ تھا.بعد نماز ظہر اور عصر....مدرسہ کے متعلق مولوی عبد الکریم اور مولوی نورالدین صاحب سے گفتگو ہوئی.اس کا ذکر الحکم پر چہ ۰۱-۱۱-۲۴ میں آتا ہے اور گذشتہ اوراق میں نقل کر چکا ہوں.(مؤلف)
178 ۱۷ نومبر ۱۹۰۱ء مولوی محمد علی صاحب سے تخلیہ میں مدرسہ کے متعلق گفتگو ہوئی انہوں نے اس جھگڑے کو مٹانے کے لئے اپنی علیحدگی کی پسندیدگی ظاہر کی جس سے مفہوم ہوتا تھا کہ مولوی نورالدین صاحب کا کمیٹی میں ہونا ان کو پسند نہیں عصر کے بعد ڈکسن نے حضرت کی مع مریدین تصویر کھینچی.اس سے واپس آ کر مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی نورالدین صاحب سے گفتگو کی.۱۸/ نومبر ۱۹۰۱ء مولوی محمد علی صاحب آئے اور میں نے اور انہوں ( نے ) مل کر کچھ قواعد انجمن بنائے.۱۹/ نومبر ۱۹۰۱ء میں ( نے ) تمام مدرسہ کا معائنہ کیا.ڈسپلن اور طریق تعلیم کے محتاج استادوں کو پایا ویسے سٹاف عمدہ ہے.شام کو مولوی محمد علی اور نواب خاں صاحب تشریف لائے.اور مدرسہ کے قواعد کے متعلق گفتگو ہوتی رہی.☆ ۲۱ / نومبر ۱۹۰۱ء بروز جمعرات شام کو مولوی نورالدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے یکے بعد دیگرے گفتگو مدرسہ کے متعلق ہوتی رہی.اس وقت بھی نماز عشاء سے پہلے مولوی صاحب سے مدرسہ کے متعلق اور بعد نماز بھی باتیں ہوتی رہیں.“ ۲۲ نومبر ۱۹۰۱ء بروز جمعہ صبح...بعد نماز پھر کمیٹی مجلس منتظمہ مدرسہ ہوئی اور ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوئی ، مدرسہ کے نئے قواعد کی تجویز ہوئی اور سکیم کے لئے سیلیکٹ کمیٹی مقرر ہوئی.“ محمد الحکم پر چہ ۰۱-۱۱-۲۴ میں مرقوم ہے.عالی جناب خاں صاحب نواب محمد علی خاں صاحب نے بحیثیت ڈائرکٹر مدرسہ تعلیم الاسلام کا معائنہ فرمایا اور مبلغ تین سور و پیہ مدرسہ کی امداد کیلئے اپنے معمول کے موافق عطا فرمایا.
179 ۲۵/نومبر ۱۹۰۱ء بروز سوموار سیر سے پہلے میں سیکیم مدرسہ بناتا رہا بعد ظہر و عصر سکیم بنائی.سیلیکٹ کمیٹی کا جلسہ ہوا اور پانچ بجے کے قریب تک رہا.“ ۲ جنوری ۱۹۰۲ء۲۱ رمضان المبارک بعد نماز ظہر و عصر مدرسہ کے متعلق قواعد مرتب کرتا رہا.“ جنوری ۲۲۰۱۹۰۲ رمضان المبارک " ( صبح ) قواعد مدرسہ لکھے نماز عصر کے بعد مولوی محمد علی صاحب سے مشورہ متعلق قواعد مدرسہ کیا.“ ۴ جنوری ۱۹۰۲ ۲۳ رمضان المبارک سیر سے آکر مولوی محمد علی صاحب (سے) عہدہ داران مدرسہ وغیرہ کے متعلق گفتگو ہوتی رہی.پھر مولوی نورالدین صاحب تشریف لے آئے.پھر بعد نماز بھی مولوی محمد علی صاحب سے کتابوں وغیرہ کے متعلق گفتگو ہوئی.“ مدرسہ کا انتظام اس عرصہ میں کس خوش اسلوبی سے سرانجام پا تا رہا.مکرم مفتی محمد صادق صاحب کی زبانی سنئے.کچھ اعداد وشمار بھی اس ضمن میں معلوم ہو جائیں گے فرماتے ہیں کہ : مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان جنوری ۱۸۹۸ء سے گھلا.اس وقت وہ پرائمری تک تھا.اول مدرس کی تنخواہ پندرہ اور آخری مدرس کی پانچ روپے ماہوار تھی.۱۸۹۸ء میں مڈل ۱۹۰۰ء میں ہائی کی پہلی.۱۹۰۱ء میں ہائی کی دوسری کھولی گئی.“ ” جب حضرت نواب محمد علی خاں صاحب ہجرت کر کے قادیان آگئے تو حضرت اقدس نے مدرسہ کا کام ان کے سپر د کر دیا.اور ۲ دسمبر ۱۹۰۱ ء سے مجلس منتظمہ کی بجائے تمام انتظام مدرسہ حضرت نواب صاحب موصوف کے ہاتھ میں ہو گیا.جنھوں نے اس خدمت کو تین سال تک نہایت محنت اور کوشش سے ادا کیا لیکن جبکہ ابتدائے ۱۹۰۵ء میں نواب صاحب کو اپنے بعض خانگی امور طے کرنے کے واسطے ایک عرصہ تک لاہور میں ٹھہر نا پڑا تو مدرسہ کا انتظام بحکم حضرت اقدس دوبارہ ایک کمیٹی کے سپر د کیا گیا.“ نیز فرماتے ہیں کہ دو سال تک کا لج کا قیام رہا اور نتیجہ بھی عمدہ رہا.لیکن یو نیورسٹی کے نئے قوانین کے انتظار
180 میں جو اسوقت بن رہے تھے.اس کے بعد کوئی جماعت نہ کھولی گئی.۱۹۰۵ء میں کالج کے پانچ طلباء میں سے تین کامیاب ہوئے.کالج کے پرنسپل مولوی شیر علی صاحب بنے اور مفتی صاحب کو ہیڈ ماسٹر اور سپرنٹنڈنٹ کالج مقرر کیا گیا.مدرسہ کے کھلتے وقت طالب علم ۳۸ تھے.بعد میں مندرجہ ذیل سالوں کے آخر پر طلباء کی تعداد یہ تھی.۱۹۰۱ ء۱۴۶.۱۵۰۶۱۹۰۲ - ۱۵۲۶۱۹۰۳ - ۱۳۲۶۱۹۰۴ - ۱۹۰۵ء۱۳۸.۱۹۰۶ء۲۰۸.۹۸ء میں جب مدرسہ شروع ہوا اس وقت مدرسہ کے واسطے کوئی عمارت نہ تھی.صرف مہمانخانہ میں طلباء کو بٹھایا گیا تھا لیکن جلد ہی مہمان خانے کے متصل دو تین کمرے مدرسہ کے واسطے بنوائے گئے وہ کمرے بعد میں بورڈنگ ہاؤس کے کام آئے.پھر ۹۹ء اور ۱۹۰۰ء میں اور عمارت بنوائی گئی.۱۹۰۱ ء میں جب مدرسہ کا انتظام نواب محمد علی خاں صاحب کے سپر د ہوا تو نواب صاحب نے مدرسہ کی عمارت میں ضروری اصلاح کر کے ایک عمدہ اور خوشنما پیرا یہ میں بنا دیا اور ڈھاب کو پُر کر کے بورڈنگ اور ملازمان بورڈنگ کے واسطے کوارٹر بنائے.آپ کی مدرسہ سے مجبور اعلیحدگی آپ کو مجبور الاہور قیام کرنا پڑا اس لئے آپ کو مدرسہ وغیرہ کے کام سے اس کے مفاد کی خاطر علیحد ہ ہونا پڑا.چنانچہ مرقوم ہے: مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کا نیا انتظام بھائیوں کو معلوم ہے کہ کچھ عرصہ سے مدرسہ کا انتظام جناب نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے زیر اہتمام تھا.خاں صاحب موصوف نے محنت اور سعی سے جہاں تک خدا تعالیٰ نے انہیں موقعہ دیا اور توفیق بخشی اس کو چلایا اور بعض مصالح اور مجبوریوں کے سبب سے خاں صاحب کو قادیان سے باہر رہنا ضروری معلوم ہوا.اس لئے وہ مدرسہ کا انتظام اور نگرانی جیسا کہ چاہئے نہیں کر سکتے تھے.اور یہ امر ان کی طبیعت پر شاق تھا کہ وہ اس طرح ان فرائض کے ادا کرنے سے قاصر تھے.جنہیں وہ نہایت ضروری سمجھتے تھے.حضرت اقدس حجتہ اللہ امام علیہ السلام نے ان کی تکلیف اور مجبوریوں پر نظر کر کے انہیں اس بارگراں سے سبکدوش فرمایا اور مدرسہ کا انتظام پھر ایک کمیٹی کے سپر د کیا جس کے ممبر اصحاب ذیل ہیں.مولوی نورالدین صاحب.مولوی محمد علی صاحب شیخ یعقوب علی صاحب اور خاکسار راقم.اب نہایت ضروری بات جس پر تمام قوم کو توجہ کرنی چاہئے یہ ہے کہ مدرسہ کے لئے مستقل سرمایہ کی ضرورت ہے بعض اوقات ایسے واقعات پیش آ جاتے ہیں کہ قیام مدرسہ کی صورت دشوار معلوم ہوتی ہے.
181 اس میں شک نہیں کہ مومنین کے کام ابتداء میں ایسی مشکلیں اختیار کرتے ہیں کہ ان کی نسبت کامیابی کی پیشگوئی کرنا ماڈسین ( یعنی Naturalists مولف) کی نگاہ میں دور از کار را مرمعلوم ہوتا ہے.مگر آخر کا رخدا تعالیٰ کی نصرتیں حسب وعدہ ان کی دستگیری کرتی اور ان کے بگڑے ہوئے کاموں کو زمینی مدبروں کے کاموں سے بڑھ کر سنوار دیتی ہیں.کیا ہی مبارک اور ایمانوں کو بڑھانے والی تقریر فرمائی حضرت امام علیہ السلام نے اس سے اگلے دن جب کہ مدرسہ کو اپنے خدام کے سپرد کیا.فرمایا اس وقت جو مالی مشکلات ہیں ان کے لحاظ سے مضطرب نہ ہونا چاہئے دیکھو سکھوں نے کتنا سرمایہ جمع کر لیا اور دکھایا ہے کہ ان کے مدرسہ کی بنیاد مضبوط ہوگئی ہے.یہ حال ہے اس قوم کا جن کی ترقی زمینی اسباب کی بناء پر اور زمین پر ہے.ہماری ترقی خدا تعالیٰ کے وعدوں کے موافق اور آسمان پر لکھی جا چکی ہوئی ہے.ہمیں کبھی نا امید نہیں ہونا چاہئے.اور فرمایا ہمارے تمام کا روبار کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ تمام رکاوٹوں کو ہماری راہ سے اُٹھا دے گا.کوشش کرو اور کوشش سے نہ تھکو.اور نہ ہارو.خدا تعالے کے مقرر کردہ اسباب اور جائز وسائل کو مضبوط پکڑو، اور دعائیں بھی کرو، وہ اپنے وعدوں کے موافق خود سب کچھ کر دے گا.اس وقت نہایت ضروری بات یہ ہے کہ دو ہزار روپیہ ہمارے پاس موجود ہو اور یہ یک مشت چندوں سے بہت جلد جمع ہو جائے اور ماہوار چندہ با قاعدہ ہو.اور کوئی فرد بھی احمدی جماعت کا چندہ سے باہر نہ رہ جائے.خواہ کتنی ہی قلیل مقدارا اپنے ذمہ لے.بہت واضح اور پھاڑ کر لکھنا ضروری نہیں.مناسب وقت اور تقاضائے مصلحت یہ ہے کہ ہمارے بھائی ہر ایک کام سے اسے اہم سمجھ کر کمر ہمت باندھ لیں اور ہر شہر میں کارروائی کر کے قوم اور خدا تعالے کے نزدیک ثواب اور اجر کے مستحق بنیں.آخر میں اللہ تعالے کی جناب میں دعا ہے کہ وہ ان چند حرفوں میں اپنی طرف سے برکت رکھ دے اور قوم کے دلوں کو اس کارخیر کی طرف مصروف کرے اور ان کے قلب میں الہام کرے کہ ایک دفعہ ہی غفلت کو چھوڑ کر پوری سعی میں لگ جائیں.(خاکسار عبدالکریم) ۱۳۴
182 جعه نقشه نمیتر منزل اول مقامات مقدسہ قادیان پیمانه د نشته ، اپنے شمال دریچه 10×10-4 بیت الریاضته دروازه سطح زمین دار حضرت نواب مبار لوچه بطرف مکالمه قامی صاحبہ باورچی خانه لصلوة والسلام - دروازه الماری صحن اقدار دروازه دروازه n دروازه در داره دردانی روازه شدم دروازه F " (4) دروازه
183 تفصیل حصه نقشه نمبر ۳ منزل اول -1 ا بیت الریاضتہ.جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے کئی ماہ تک حکم الہی سے روزے رکھے تھے.اس کے ملحقہ جانب شمال کی نچلی منزل میں حضور کے برادر اکبر محترم مرزا غلام قادر صاحب کی رہائش تھی.جن کے ہاں سے کھانا آتا تھا اور جن کی اہلیہ محترمہ تائی صاحبہ کا الہام میں ذکر آتا ہے.کسی خانگی تقسیم سے بیت الریاضتہ مرزا سلطان احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آیا تھا.جو بعد میں اسی تقدس کی وجہ سے جنوبی حصہ میں شامل کر لیا گیا تھا.-٣ یہ کمرہ سٹور تھا.یقین اس حصہ دار مسیح کا ہے جواب سیدہ ام متین صاحبہ کی جائے رہائش تھی.اس حصہ میں حضرت نواب صاحب ۱۹۰۱ء میں ہجرت کر کے آنے پر مقیم ہوئے تھے.۱۸۹۵ء میں اس میں حضرت حافظ احمد اللہ صاحب کو حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے مقیم دیکھا ہے.- یہ جنوبی سیڑھیاں صحن مذکور ۳) سے ملحقہ چوبارہ حضرت نواب صاحب کو جاتی تھیں اور اب بھی موجود ہیں.اور انہی سیڑھیوں کے راستہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا رُخصتانہ ہوا تھا.ملحقہ چوبارہ کا مقام بطور دار حضرت نواب مبارکه بیگم صاحبہ اس نقشہ میں ظاہر کیا گیا ہے.- اس کمرہ کا ذکر روایت حضرت نواب صاحب میں بطور کمرہ نمبر ۳ دوسری جگہ آچکا ہے.یہ سیٹرھیاں جو نچلی منزل کو جاتی ہیں حضرت اقدس کے زمانہ میں پہلے چوبی تھیں جو بعد میں حضور کے زمانہ میں ہی پختہ تعمیر ہوگئی تھیں جواب بعینہ موجود ہیں.-۵
دار حضرت 4 184 کو ٹھی حضرت نواب محمد علی خان صاحب رصد شمال مینور 2 7 محدد ارام متفرق مرکانات متفرق مکانات 15 بہیمانہ ، وفت 8 11 12 متفرق مكانات متفرق مکانات کچا نا لاب
185 تفصیل حصہ نقشہ جات نمبر ۱۲ مقامات مقدسه قادیان نوٹ : جن صفحات پر ذیل میں سے کسی کا ذکر ہے انہیں خطوط وحدانی میں درج کر دیا گیا ہے.1 دار السلام یعنی کوٹھی حضرت نواب محمد علی خاں صاحب.جہاں حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے وفات پائی اور اس کوٹھی میں بیماری کے آخری چند ایام بسر فرمائے ( ص ۳،۱۳۹ ۳۵ ۴۰ ۴۹۰،۴۸) -۲ ۴ مقام جہاں حضرت خلیفتہ ایسی اول کا جنازہ پڑہا گیا.تعلیم الاسلام کا لج (یہ عمارت پہلے تعلیم الاسلام ہائی اسکول کی تھی ( ص ۴۹۲۱۸۳) کوٹھی حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۵- مسجد نور ( ص ۳۶۷) -Y تقسیم ملک سے قبل یہ تعلیم الاسلام کا لج کا فضل عمر ہوسٹل تھا اس سے پہلے سالہا سال تک جامعہ احمد یہ تھا اور ابتدا میں مولوی محمد علی صاحب (بعد ازاں لیڈ ر غیر مبائعین ) اسمیں سکونت پذیر تھے ے.جلسہ گاہ سالانہ -^ بورڈ نگ تعلیم الاسلام ہائی سکول پرائمری.پرائمری حصہ مدرسہ تعلیم الاسلام درمیان میں کچھ عرصہ کیلئے ہوٹل جامعہ احمد یہ بھی یہاں منتقل رہا.قریباً اٹھائیس سال قبل طاعون کی وجہ سے چند ہفتوں کے لئے مدرسہ احمدیہ و بورڈ نگ شہر سے باہر کچھ عرصہ اس میں اور کچھ عرصہ بورڈ نگ تعلیم الاسلام ہائی اسکول میں منتقل کیا گیا تھا ) - 1+ نصرت گرلز ہائی اسکول 11- نور ہسپتال -١٢ -١٣ مملوکہ مکانات موسومہ بیت البرکات مملوکہ مرزا برکت علی صاحب آف ابادان اسسٹنٹ انجینئر دفتر میونسپل کمیٹی -۱۴ مکان حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ.۱۵- یعنی مکان حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ.نوٹ : بقیہ حصہ نقشہ صفحہ ۳۲ پر درج کیا گیا ہے.
186 مدرسہ کا نیا انتظام اور نواب صاحب کی توجہ چونکہ حضرت نواب صاحب کو قادیان سے باہر کچھ عرصہ کے لئے مجبورا رہنا پڑا تھا.اس لئے آپ مدرسہ کے انتظام سے سبکدوش ہو گئے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ اسی لئے آپ کو مجلس منتظمہ میں شامل نہیں کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں پھر آپ جیسے آزمودہ کار کی خدمات سے فائدہ اٹھانا ضروری معلوم ہوا.چنانچہ بدر بابت ۰۶-۶-۱۴ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسوقت مدرسہ کی انتظامیہ کمیٹی میں اصحاب مذکورہ بالا کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب و حضرت نواب صاحب بھی شامل کئے جاچکے تھے.البتہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اسوقت وفات پاچکے تھے.آپ مدرسہ کے کام میں پوری دلچسپی لیتے تھے.چنانچہ رسالہ تعلیم الاسلام (سرورق ج) بابت ستمبر ۱۹۰۶ ء میں مرقوم ہے : ایک قابل تقلید نمونہ.گذشتہ دسمبر کے جلسہ پر جبکہ اس امر میں تقریریں ہو رہی تھیں کہ سب احمدی احباب جو اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہوں وہ اپنے بچوں کو مدرسہ تعلیم الاسلام میں تعلیم دیں تا کہ علاوہ بچوں کے دینی فائدہ کے مدرسہ کو مالی امداد پہنچے تو اس وقت نواب محمد علی خاں صاحب نے ایک یہ تجویز پیش کی تھی کہ جو احباب کسی عذر سے مدرسہ میں اپنے بچوں کو نہ بھیج سکتے ہوں وہ اس قدر نقد روپیہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں دے دیا کریں.جو کہ ان کے اپنے بچوں کی فیس میں دینا لازم ہوسکتا ہو.اور وعدہ فرمایا تھا کہ میں اپنے تینوں بچوں کی فیس مدرسہ میں داخل کر دیا کروں گا.چنانچہ اس دن سے حضرت نواب صاحب ممدوح مبلغ و روپیہ ماہوار بطور فیس مدرسہ ہذا میں داخل فرماتے ہیں.اس قابل تقلید تجویز کو اگر چہ سب حاضرین جلسہ نے منظور فرمایا تھا اور اس کی بڑی تحسین کی تھی لیکن افسوس کہ سوائے نواب صاحب مدوح کے کوئی مہربان اس کو عمل میں نہیں لایا.حالانکہ بہت سے ایسے احباب ہیں جو کہ اس تجویز کے ماتحت ہیں“.نواب صاحب کی اہلیہ کی وفات جیسا کہ مذکور ہوا نواب صاحب کی شادی اپنی خالہ زاد محتر مہ مہر النساء بیگم صاحبہ سے ہوئی تھی.وہ بہت شریف اور منتظم خاتون تھیں لیکن اعزہ کا اثر ان پر بہت تھا.آٹھ سال ان کی تربیت میں ہی گزرے اور آخر یہ ہوا کہ انہوں نے چوری چھپے کی رسوم اور تعویذ گنڈا جو ان کی والدہ نواب صاحب کی خالہ کبھی دے جاتی تھیں
187 ترک کر دیا تھا.اتفاق ایسا ہوا کہ جب کبھی کسی چلہ یا علالت کے موقعہ پر ایسی کوئی چیز گھر میں آئی با وجود نہایت درجہ پوشیدہ رکھنے کے حضرت نواب صاحب کو علم ہو گیا.لطیفہ بیان فرماتے تھے کہ ایک کپڑے کی باریک سیون میں ایک بار خالہ نے تعویذ سی دیا اس پر بھی میرا ہاتھ پڑا اور فوراً اس سیون کے کرارا پن سے شبہ پیدا ہوا.اسی وقت اُدھیڑ ڈالا اور دیکھا تو تعویذ.اس پر ان کو ایک اعتقاد سا ہو گیا تھا کہ نواب صاحب کو ایسی چیز کا پتہ لگ جاتا ہے کچھ ہر وقت کی صحبت اور نصیحت کا اثر پڑا.اور آخر میں انہوں نے اپنے آپ کو بالکل نواب صاحب کے مزاج کے مطابق بنا لیا تھا.(ن) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو ہمیشہ اپنے عزیزوں کی طرح نواب صاحب کی تربیت میں مشغول رہتے تھے.اہل بیت سے حسن سلوک کی تلقین کرتے ہوئے ۱۸/ نومبر ۱۸۹۸ء کے مکتوب میں رقم فرماتے ہیں: آپ نے اپنے گھر کے لوگوں کی نسبت جو لکھا تھا کہ بعض امور میں رنج پیدا ہوتا ہے سو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میرا یہ مذہب نہیں ہے میں اس حدیث پر عمل کرنا علامت سعادت سمجھتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے خَيْرُ كُمُ خَيْرُ كُمُ لِأَهْلِهِ یعنی تم میں سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو عورتوں کی طبیعت میں خدا تعالیٰ نے اس قدر بھی رکھی ہے کہ کچھ تجب نہیں کہ بعض وقت خدا اور سول یا اپنے خاوند یا خاوند کے باپ یا مرشد یا ماں یا بہن کو بھی برا کہہ بیٹھیں اور ان کے نیک ارادہ کی مخالفت کریں.سوایسی حالت میں بھی کبھی ، مناسب رعب کے ساتھ اور کبھی نرمی سے ان کو سمجھا دیں اور ان کی تعلیم میں بہت مشغول رہیں لیکن ان کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کریں.اور مروت اور جواں مردی سے پیش آویں اور ان کو سمجھاتے رہیں کہ مسلمان کے لئے آخرت کا فکر ضروری ہے تا خدا تعالیٰ مصیبتوں سے بچاوے وہ ہیبت ناک چیز جو خاوند اور بیوی اور بچوں اور دوستوں میں جدائی ڈالتی ہے جس کا دوسرے لفظوں میں نام موت ہے دعا کرنا چاہئے کہ وہ بے وقت نہ آوے اور تباہی نہ ڈالے اور دل نرم رکھنا چاہئے اور ان کو سمجھا دیں کہ نماز کی پابندی کریں نماز جناب الہی میں عرض معروض کا موقع دیتی ہے اپنی زبان میں دنیا اور آخرت کے لئے دعائیں کریں بد تقدیروں سے ڈرتے رہیں خدا تعالے ان پر رحم کرتا ہے جو امن کے وقت ڈرتے ہیں اور نیز آپ ان کے واسطے نماز میں دعائیں کریں یہ نازیبابات ہے کہ ادنیٰ لغزش دیکھ کر دل میں قطع تعلق کریں.بلکہ وفاداری سے اصلاح
۱۳۵ 188 کی کوشش کریں اور سچی ہمدردی سے کام لیں.یہ مکتوب مرحومہ کی وفات سے دس روز قبل کا ہے مرحومہ تعویز وغیرہ کو اس وقت تک ترک کر چکی تھیں اور مکرم میاں محمد عبد الرحمن صاحب کے بیان کے مطابق نماز کی پابند تھیں.اس لئے بعض امور جن سے نواب صاحب کو رنج پہنچتا تھا یہ رسومات نہ تھیں بلکہ در اصل نواب صاحب ہجرت کر کے قادیان آنا چاہتے تھے لیکن مرحومہ کا کہنا تھا کہ میں آپ کو جانے سے منع نہیں کرتی لیکن خود جانا پسند نہیں کرتی اسی طرح نواب صاحب کی ہمشیرہ کو فاطمہ بیگم صاحبہ بھی اس امر میں مرحومہ کی رائے کے حق میں تھیں اور دونوں سے بُو صاحبہ کو محبت تھی اور ان سے جدائی انہیں حد درجہ نا گوار تھی.اس لئے نواب صاحب اہل و عیال کے بغیر مستقل قادیان ہجرت کر کے نہ آسکتے تھے.جیسا کہ حضرت اقدس نے تعزیتی مکتوب میں رقم فرمایا ہے.نواب صاحب کے متعلق آپ نے کچھ بلا اور غم دیکھا تھا.شاید یہی وجہ ہو کہ مکتوب زیر ذکر میں حضور نے نواب صاحب کو توجہ دلائی کہ اہلیہ کوا مور آخرت کی طرف متوجہ کریں اور موت کا خوف دلائیں یا شاید اللہ تعالےانے ہونے والے واقعہ کا اظہار خودہی حضور کی قلم سے کروادیا نواب صاحب نے یقیناً اس کی تعمیل کی ہوگی.جس کے نتیجے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مرحومہ کا انجام بخیر ہوا.چنانچہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ مرحومہ نے عہد کیا تھا کہ میں احمدیت کو سچا جانتی ہوں اور اس دفعہ زچگی سے فراغت کے بعد بیعت کر لونگی لیکن اجل نے مہلت نہ دی اور میاں عبد الرب کی نومبر ۱۸۹۸ء میں ولادت پر زچگی میں وفات پا گئیں.* انا اللہ و انا اليه راجعون.دونوں بزرگ اور میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ نواب صاحب مکتوب نمبر ۳۵.یہاں الحکم جلدے نمبر ۳۲ صفحہ۱۳.پر چہ۰۳-۸-۱۳ سے نقل کیا گیا ہے.ہ اس زچگی کی تصدیق حضرت اقدس کے ذیل کے مکتوب نمبر ۳۶ سے بھی ہوتی ہے بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی اخویم نواب سردار محمد علی خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکانہ.عنایت نامہ پہنچا.خدائے تعالی فرزند نوزاد کو مبارک اور عمر دراز کرے.آمین ثم آمین.میں نے سنا ہے کہ جب کم دنوں میں لڑکا پیدا ہوتا ہے تو دوسرے تیسرے روز ضرور ایک چمچہ کیسٹڑ ائل دے دیتے ہیں اور لڑکے کے بدن پر تیل ملتے رہتے ہیں.حافظ حقیقی خود حفاظت فرما دے اور آپ کے لئے مبارک کرے آمین ثم آمین.دعا میں آپ کے لئے مشغول ہوں.اللہ تعالیٰ قبول فرما دے.والسلام خاکسار.مرزا غلام احمد از قادیان ۱۱ نومبر ۱۸۹۸ء |
189 نے نہیں بتایا تھا کہ حضرت اقدس نے مرحومہ کا جنازہ غائب پڑھا تھا.راقم کے استفسار پر حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تحریر فرمایا کہ مجھے اس جنازے کے پڑھے جانے کا علم نہیں.در حقیقت ۱۸۹۸ء کا زمانہ ایسا ہے کہ اس میں خاموش اور احمدی اقارب کے زیر اثر اور ان میں ملے جلے اور ان میں گھرے ہوئے اور مصدق اقارب کے متعلق زیادہ بختی نہ تھی جیسا کہ اوائل میں غیر احمدیوں کی اقتداء میں نماز کی ادائیگی کے متعلق بھی سختی نہ تھی.سو مر حومہ چونکہ ایک مخلص احمدی کی مصدق بیوی تھیں.اس لئے حضرت اقدس نے جنازہ پڑھ دیا ہوگا.چنانچہ مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں: حضرت اقدس نے ان کا جنازہ پڑھا تھا اور بیگم صاحبہ مرحومہ کے اس خیال کا اظہار ہو چکا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود کو سچا یقین کرتی ہیں اور یہ کہ زچگی کے بعد بیعت کرلیں گی انہوں نے بیعت کو ملتوی اسلئے کیا تھا کہ زچگی اور نفاس میں طہارت کامل نہیں ہوتی اور وہ بیعت کو اعلیٰ درجہ کی عبادت یقین کرتی تھیں اس لئے وہ در حقیقت مبائعہ ہی تھیں صرف مصدقہ نہ تھیں.“ مرحومہ کی خوشی قسمتی دیکھئے کہ بعد میں آپ کے ایک صاحبزادہ حضرت اقدس کی فرزندی میں آئے جن کی اولاد کی شادیاں بھی حضور کے خاندان میں ہی ہو رہی ہیں غالبا یہ اس دعا کا اثر ہو جو حضور نے توجہ اور الحاح سے ان کی مغفرت کے لئے فرمائی چنانچہ حضور نے نواب صاحب کو تحریر فرمایا کہ انشاء اللہ آپ کی بیوی مرحومہ کے لئے توجہ اور الحاح سے دعائے مغفرت کرونگا“.(مکتوب نمبر ۲۰) نیز مرحومہ کی وفات کی خبر موصول ہونے پر حضور نے جو تعزیتی مکتوب ارسال فرمایا اس میں مرحومہ کے غریق رحمت ہونے کے لئے دعا کی اور نواب صاحب کو استقامت کی تلقین فرمائی.اس مکتوب سے ظاہر ہے کہ حضور بہت لطیف پیرایوں میں صبر جمیل کی تلقین فرماتے تھے ورنہ ایسے اندوہناک مواقع پر بسا اوقات بعض لوگ صبر کا دامن چھوڑ دھریت اور کفر کے عمیق گڑھوں میں گرتے اور ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں.مکتوب درج ذیل ہے.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمۂ تعالیٰ تقیہ حاشیہ: - اہلیہ کی وفات پر حضرت اقدس کے تعزیتی مکتوب نمبر ۲۵ کی تاریخ ۸ نومبر طبع ہوئی ہے.مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ در اصل ۱۸ نومبر ہے چھاپہ کی غلطی کی وجہ سے ۸ نومبر چھپ گئی ہے.
190 السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.آج صدمہ عظیم کی تار مجھ کوملی اناللہ وانا الیہ راجعون.اللہ تعالیٰ آپ کو صبر جمیل عطا فرمادے اور اس کے عوض کوئی آپ کو کوئی بھاری خوشی بخشے.میں اس درد کو محسوس کرتا ہوں جو اس ناگہانی مصیبت سے آپ کو پہنچا ہو گا اور میں دعا کرتا ہوں کہ آئندہ خدا تعالیٰ ہر ایک بلا سے آپ کو بچائے اور پردہ غیب سے اسباب راحت آپ کے لئے میسر کرے.میرا اس وقت آپ کے درد سے دل دردناک ہے اور سینہ نظم سے بھرا ہے خیال آتا ہے کہ دنیا کیسی بے بنیاد ہے ایک دم میں ایسا گھر کہ عزیزوں اور پیاروں سے بھرا ہوا ہو، ویران بیابان دکھائی دیتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ اس رفیق کو غریق رحمت کرے اور اسکی اولا د کوعمر اور اقبال اور سعادت بخشے لازم ہے کہ ہمیشہ ان کو دعائے مغفرت میں یا درکھیں.میری یہ بڑی خواہش رہی کہ آپ ان کو قادیان میں لاتے اور اس خواہش سے مدعا یہ تھا کہ وہ بھی سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر اس گروہ میں شریک ہو جاتے کہ جو خدا تعالیٰ تیار کر رہا ہے.مگر افسوس کہ آپ کی بعض مجبوریوں سے یہ خواہش ظہور میں نہیں آئی اس کا مجھے بہت افسوس ہے.میں نے کچھ دن ہوئے خواب میں آپ کی نسبت کچھ بلا اور غم کو دیکھا تھا.ایسے خوابوں اور الہاموں کو ظاہر نہیں کر سکتا مجھے اندیشہ تھا آخر اس کا یہ پہلو ظاہر ہوا.یہ تقدیر مبرم تھی جو ظہور ر میں آئی.معلوم ہوتا ہے علاج میں بھی غلطی ہوئی یہ رحم کی بیماری تھی اور باعث کم دنوں میں پیدا ہونے کے زہریلا مواد رحم میں ہوگا.اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو علاج یہ تھا کہ ایسے وقت پچکاری کے ساتھ رحم کی راہ سے آہستہ آہستہ یہ زہر نکالا جاتا اور تین چار دفعہ روز پرکاری ہوتی اور کیسٹر آئل سے خفیف سی تلین طبع بھی ہوتی اور عنبر اور مشک وغیرہ سے ہر وقت دل کو قوت دی جاتی اور اگر خون نفاس بند تھا تو کسی قدر رواں کیا جاتا اور اگر بہت آتا تھا تو کم کیا جاتا اور نر بسی اور ہینگ وغیرہ سے تشنج اور رشی سے بچایا جاتا.لیکن جب کہ خدا تعالی کا حکم تھا تو ایسا ہونا ممکن نہ تھا.پہلی دوتاریں ایسے وقت میں پہنچیں کہ میرے گھر کے لوگ سخت بیمار تھے اور اب بھی بیمار ہیں.تیسرا مہینہ ہے دست اور مروڑ ہیں.کمزور ہو گئے ہیں.بعض وقت ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ غشی پڑ گئی اور حاملہ کی غشی گویا موت ہے.دعا کرتا ہوں.مجھے افسوس ہے کہ آپ کے گھر کے لوگوں کے لئے مجھے دعا کا موقعہ بھی نہ ملا.تاریں بہت بے وقت پہنچیں.اب میں یہ خط اس نیت سے لکھتا ہوں کہ آپ پہلے ہی بہت نحیف ہیں میں ڈرتا ہوں کہ بہت غم سے آپ بیمار نہ ہو جائیں اب اس وقت آپ بہادر بنیں اور استفقا مت دکھلا ئیں.ہم سب لوگ ایک دن نوبت بہ نوبت قبر میں جانے والے ہیں.میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ غم کو دل پر غالب ہونے اس کے جگہ آپ کے چاہئے.جیسا کہ سیرت مسیح موعود حصہ دوم (۲۰۷) میں مرقوم ہے.
191 نہ دیں.میں تعزیت کے لئے آپ کے پاس آتا.مگر میری بیوی کی ایسی حالت ہے کہ بعض وقت خطرناک حالت ہو جاتی ہے.مولوی صاحب کے گھر میں بھی حمل ہے.شاید چھٹا سا تواں مہینہ ہے.وہ بھی آئے دن بیمار رہتے ہیں.آج مرزا خدا بخش صاحب بھی لاہور سے قادیان آئے شاید اس خط سے پہلے آپ کے پاس پہنچیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد قادیان ۸/نومبر ۳۶۹۸ مرحومہ کے بطن سے اولاد مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب و مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہماری پھوپھیوں کے ہاں اولاد نہ تھی انہوں نے والد صاحب سے کہا کہ حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کریں نواب صاحب نے عرض کیا بعد ازاں حضور نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ مجھے گولیاں ملی ہیں کچھ میں نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو دیدیں کچھ آپ کو لیکن میں نے نواب عنایت علی خاں صاحب (خاوند بوفاطمہ بیگم صاحبہ ) کو تلاش کیا لیکن وہ نہ ملے اس وقت حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاں کئی لڑکے ہو کر فوت ہو چکے تھے اس کے بعد آپ کو نرینہ اولاد عطا ہوئی اسی طرح حضرت نواب صاحب کے ہاں دولڑ کیاں ہی ہوئی تھیں.اور اس کے بعد نرینہ اولاد ہوئی لیکن نواب عنایت علی خاں صاحب کے ہاں ہماری پھوپھی بو فاطمہ بیگم صاحبہ کے بطن سے اولاد نہ ہوئی البتہ ایک دوسری بیگم کے بطن سے دولڑ کیاں ہوئیں حضرت نواب صاحب کے تعلق میں اس خواب کے پورا کرنے کا سامان بروایت مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب یوں ہوا کہ جب متواتر دولڑ کیاں تولد ہوئیں ایک امتہ السلام جو چند ماہ بعد وفات پاگئیں.دوسری بوزینب بیگم صاحبہ اہل بیت حضرت مرزا شریف احمد صاحب ولادت ۱۹ مئی ۱۸۹۳ء ) اور لڑ کا کوئی نہ ہوا.تو والد صاحب کو فکر ہوا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب سے ذکر کیا چنانچہ آپ نے نسخہ دیا جس کے چار جزو مکتوب نمبر ۳۴ سیرۃ مسیح موعود حصہ ( دوم ۲۰۷) پر بھی اس کا ایک حصہ درج ہے یہاں احکام جلد ۷ نمبر (۳۶ پر چہ ۰۳-۷-۳) سے نقل کیا گیا ہے.مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ خواب میں نے مرزا صفدر علی صاحب ملازم اور غالباً والد صاحب سے بھی سنی تھی.صاحب موصوف نے یہ خواب میری موجودگی میں میاں نجم الدین صاحب بھیروی کو سنائی تھی.*
192 تھے جو کہ ہماری والدہ صاحبہ نے استعمال کئے اور اس کے استعمال کے بعد ہر دفعہ لڑکا پیدا ہوتا رہا جن کے نام حسب ذیل ہیں عبد الرحمن خاں (ولادت ۱۹ را کتوبر ۱۸۹۴ء) عبداللہ خاں (ولادت یکم جنوری ۱۸۹۶ء) عبد الرحیم خاں ( ولادت ۱۳ یا ۱۴ جنوری ۱۸۹۷ء) اور عبدالرب جو ۱۸۹۸ء میں والدہ کی وفات کے چند روز کے اندر ہی فوت ہو گئے تھے.دوسری شادی جیسا کہ حضرت اقدس کے تعزیتی مکتوب میں ہم پڑھ چکے ہیں حضرت اقدس متفکر تھے کہ مبادا نواب صاحب فرط غم سے بیمار ہو جائیں اور ان کو بہادر بنے اور استقامت دکھلانے کی تلقین کی تھی.اس مکتوب کے تین روز بعد ۲۱ نومبر کو پھر حضوڑ نے تحریر فرمایا کہ آپ حسب تحریر میرے استقامت اور استواری سے کام لے کر جلد تر تجویز شادی فرماویں ( مکتوب نمبر ۳۷) اس سے اگلے روز پھر صبر واستقامت کی تلقین کرتے ہوئے حضور نے جلد تر شادی کرنے کی نصیحت پر مشتمل مکتوب ارسال فرمایا اور اس میں کیا شک ہے کہ مونس و غم گسار رفیقہ حیات کے آنے سے غم غلط ہونے کا یقینی امکان ہوتا ہے چنانچہ اس مشورہ کو قبول کرتے ہم اس مکتوب کو مندرجہ ذیل میں درج کرتے ہیں حضور فرماتے ہیں الله الرحمن الرحيم ☆ نحمده و نصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا اللہ تعالی آپ کو صبر اور استقامت بخشے اور اس مصیبت کا اجر عطا فرما دے.دنیا کی بلائیں ہمیشہ نا گہانی ہوتی ہیں.یہ نہایت ضروری ہے کہ جہاں تک جلد ممکن ہو آپ دوسری شادی کی تجویز کریں.میں ڈرتا ہوں کہ آپ کو اس صدمہ سے دل پر کوئی حادثہ نہ پہنچے جہاں تک ممکن ہو کثرت غم سے پر ہیز کریں.دنیا کی یہی رسم ہے.نبیوں اور رسولوں کے ساتھ بھی ہوتی آئی ہے.اللہ تعالیٰ جس سے پیار کرتا ہے اس کو کسی امتحان میں ڈالتا ہے اور جب وہ اپنے امتحان میں پورا نکلتا ہے تو اس کو دنیا و آخرت میں اجر دیا جاتا ہے.ایک آپ کو اطلاع دینے کے لائق ہے کہ آج جو پیر کا دن ہے یہ رات جو پیر کی گذری ہے اس میں غالباًا تین بجے کے قریب آپ کی نسبت مجھے الہام ہوا تھا اور وہ یہ ہے فَبِايِّ عَزِيزِ بَعْدَهُ تَعْلَمُونَ ا یہ اللہ جل شانہ کا کلام ہے وہ آپ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اس حادثہ کے بعد اور کون سا بڑا حادثہ ہے جس سے تم عبرت پکڑو گے اور دنیا کی بے ثباتی کا تمہیں علم حاصل ہوگا.در حقیقت اگر چہ بیٹے بھی پیارے ہوتے ہیں اور بھائی بہن بھی
193 ہوئے آپ نے اپنی خالہ کو راضی کر کے اس صدمہ کے پندرہ دن بعد ہی مرحومہ کی چھوٹی بہن محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ سے (جن کا اصلی نام حمید النساء بیگم تھا ) شادی کر لی.مکرم میاں محمد عبد الرحمن صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ نکاح حضرت مولوی نورالدین صاحب نے پڑھا تھا اور اس تقریب پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی سید محمد احسن صاحب بھی مالیر کوٹلہ آئے تھے.موصوفہ اس وقت بارہ سال کی کم سن لڑکی تھیں اور بقیہ حاشیہ: - ہوتے ہیں لیکن میاں بیوی کا علاقہ ایک الگ علاقہ ہے جس کے درمیان اسرار ہوتے ہیں.بیوی میاں ایک ہی بدن اور ایک ہی وجود ہو جاتے ہیں.ان کو صد ہا مرتبہ اتفاق ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی جگہ سوتے ہیں.وہ ایک دوسرے کا عضو ہو جاتے ہیں.بسا اوقات ان میں ایک عشق کی سی محبت پیدا ہو جاتی ہے.اس محبت میں با ہم انس پکڑنے کے زمانہ کو یاد کر کے کون سا دل ہے جو پُر آب نہیں ہو سکتا.یہی وہ تعلق ہے جو چند ہفتہ باہر رہ کر آخر فی الفور یاد آتا ہے.ایسے تعلق کا خدا تعالیٰ نے بار بار ذکر کیا کہ باہم محبت اور انس نہ کرنے کا یہی تعلق ہے.بسا اوقات اس تعلق کی برکت سے دنیوی تلخیاں فراموش ہو جاتی ہیں.یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام بھی اس تعلق کے محتاج تھے.جب سرور کائنات صلے اللہ علیہ وسلم بہت ہی مسلمین ہوتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی ران پر ہاتھ مارتے تھے اور فرماتے تھے کہ اَرِحُنَايَا عَائِشَہ یعنے یا عائشہ ہمیں خوش کر کہ ہم اس وقت غمگین ہیں.اس سے ثابت ہے کہ اپنی پیاری بیوی یار موافق انہیں عزیز ہی ہے جو اولاد کی ہمدردی میں شریک غالب اور غم کو دور کرنے والی اور خانہ داری کے معاملات کی متولی ہوتی ہے جب وہ یک دفعہ دنیا سے گذر جاوے تو کیسا صدمہ ہے اور کیسی تنہائی کی تاریکی چاروں طرف نظر آتی اور گھر ڈراؤ نا معلوم ہوتا ہے اور دل ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے.سواس الہام میں خدا تعالیٰ نے یہی یاد دلایا ہے کہ اس صدمہ سے دنیا میں قدم آگے رکھو.نماز کے پابند اور سچے مسلمان بنو.اگر ایسا کرو گے تو خدا جلد اس کا عوض دیگا اور غم کو بھلا دے گاوہ ہر یک بات پر قادر ہے.یہ الہام تھا اور پیغام تھا.اس کے بعد آپ تازہ نمونہ دینداری کا دکھلا ئیں.خدا بر حق ہے اور اس کے حکم بر حق.تقویٰ سے غموں کو دور کر دیتا ہے.* * والسلام خاکسار.مرزا غلام احمد از قادیان ۲۲ / نومبر ۱۶۹۸ مکتوب میں ” نہ کرنے بجائے کپڑنے‘ درج ہے.جو صحیح معلوم ہوتا ہے( مولف) 66 مکتوبات میں پیارا رفیق اور انہیں عزیز ہے مرقوم ہے (مؤلف) مکتوبات میں دین درج ہے اور یہی ہونا چاہئے.
194 عملاً والد کی وفات کی وجہ سے سب بہن بھائی نواب صاحب کے زیر تربیت تھے.اس وجہ سے وہ نواب صاحب کے زیر اثر تھیں اور بہت مطیع رہیں.شادی سے سکون قلب یه شادی با برکت ثابت ہوئی اور اس سے نواب صاحب کا غم غلط ہوا.آپ کو ان سے بہت محبت تھی اور فرماتے تھے کہ میرے ہر حکم کی بلا چون و چرا تعمیل کرتی تھیں اور میرے دینی عزائم اور ارادوں میں کبھی حارج نہیں ہوئیں.نیز گوان کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی لیکن اپنی سوتیلی اولاد سے بہترین سلوک کرتی تھیں جس کا اولا دکو بھی احساس ہے چنانچہ اس کا علم نواب صاحب کے ایک مکتوب سے بھی ہوتا ہے جو آپ نے اپنے ایک بھائی کو ایک ایسے صدمہ کے موقعہ پر رقم فرمایا تھا.اس مکتوب سے نواب صاحب کی عفت کے اعلی معیار اور اس خصوص میں اقارب کی زبوں حالی بھی مترشح ہوتی ہے.امراء کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہوئے پھر ایسے امور سے نفرت یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا.یہ مکتوب ذیل میں درج کیا جاتا ہے: بسم الله الرحمن الرحيم دارالامان قادیان ۵/جنوری ۱۹۰۲ء برادر عزیزم سلمکم اللہ تعالی.السلام علیکم.عرصہ سے آپ کی حالت پر غور کرتا رہا ہوں مگر مجھ کو کوئی پیرایہ نہیں ملا سوجھتا تھا کہ کس پیرایہ اور تمہید سے آپ کو لکھوں، اس لئے اب تک کوئی خط نہ لکھ سکا.اب بھی ایک ہفتہ سے اسی سوچ بچار میں تھا.میں نے بڑے غور کے بعد آج تو کل علی اللہ آپ کو یہ خط لکھنے کا ارادہ کیا.آپ کی غمگین حالت پر جب غور کرتا ہوں تو عجیب اثر مجھ پر ہوتا ہے جو موقعہ آپ کو پیش آیا ہے وہی موقعہ تقریباً تین سال ہوئے مجھ کو پیش آیا تھا.گو اس غم کا اندازہ آپ اُس وقت نہ کر سکتے ہوں گے مگر اب آپ بخوبی کر سکتے ہیں کہ بیوی خاوند کے کیا تعلقات ہوتے ہیں.اور اس کی علیحدگی کیسی غمناک ہوتی ہے مگر کیا وجہ کہ آپ کو اس قد راور مجھ پر بظاہر کوئی صدمہ نہ معلوم ہوا اس کی بڑی وجہ جب میں غور کرتا ہوں یہ ہے کہ آپ کو (آپ معاف فرمائیں ) مذہب اسلام سے بے خبری ہے جبکہ آپ کسی مذہب کے بھی پابند نہیں.میں اس لئے یہ جملہ کہتا ہوں کہ مان لینا کسی چیز کا کافی نہیں جب تک اس کا یقین نہ ہو اور پھر اس پر عمل نہ ہو.مثلاً اگر کوئی یہ تو
195 اہلیہ ثانی کی وفات محترمہ موصوفہ نواب صاحب کے ہمراہ جب وہ ۱۹۰۱ء میں ہجرت کر کے قادیان چلے آئے ساتھ ہی بقیہ حاشیہ: - مانتا ہے کہ آفتاب ہے مگر اس نے کبھی اس کی شکل نہیں دیکھی یا کم از کم اس کے فوائد سے فائدہ نہیں اٹھایا اور ایک اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھا ہوا مانتا ہے کہ آفتاب ہے اور اس کے فوائد ہیں اور اس کی روشنی سے فائدہ نہیں اٹھاتا.پس ایسے کا ماننا کچھ مفید نہیں ہوسکتا دوسرا شخص مانتا ہے کہ آفتاب ہے اور اس میں روشنی اور فائدے ہیں وہ آفتاب کو دیکھتا اور پھر اس روشنی سے فائدہ اٹھاتا.طرح طرح کے رنگ دیکھتا مقسم قسم کی چیزیں دیکھتا اور اس روشنی سے اپنے ہزاروں کا روبار کرتا اس کی کشش اور تعلقات سیارگان کا مطالعہ کرتا.اور زمین کی گردش سالا نہ محوری سے دن اور رات مہ و سال کا حساب لگا تا اور پھر زراعت وغیرہ میں روشنی سے کام لیتا (ہے) چنانچہ اب سنا ہے کہ امریکہ میں شیشوں کے ذریعہ آفتاب کی حرارت سے کلوں کے چلانے کا کام لیا جانا ایجاد ہوا ہے اور ارادہ ہے کہ اس ذریعے سے ریلیں اور کیس چلائی جاویں پس اس دوسرے شخص اور پہلے شخص میں کتنا فرق ہے یہ کامیاب اور وہ محروم.پس اس طرح خدا کومانن مگر اس کو ہر چیز پر قادر نہ ماننا اور اس کی صفات پر ایمان نہ لانا.گو آفتاب کو ماننا اور اس کی روشنی اور حرارت سے انکار کرنا ہے اور اس طرح اصلی چیز سے انکار ہے ، اور خداوند تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرنا اس سے فائدہ نہ اٹھانا ہے.کیا وہ غلام جو اپنے آقا کا آقا ہونا تو مانتا ہے.مگر اس کے اختیارت سے ہی انکاری ہے اور اس کے احکامات کو نہیں مانتا کیا ایسا ملازم اس قابل ہے کہ آقا سے کوئی فائدہ اٹھائے ، پس اللہ تعالیٰ کی ایک بے حس و حرکت و بے اختیار ہستی مانی نہ ماننے کے برابر ہے.بلکہ خود نہ ماننا ہے.اسی طرح کسی مذہب میں ہونا اور اس سے الگ رہنا ٹھیک نہیں بلکہ خطرناک ہے.ہاں اگر ایک مذہب بعد تحقیقات خداوند تعالیٰ کی طرف سے ثابت ہو اس کو قبول کیا جاوے اور پھر اس کی پیروی پوری طرح سے کرنی چاہئے لیکن کسی ہی مذہب سے بھی تعلق نہ رکھنا اور اس کے احکامات کی تعمیل نہ کرنی نہایت ہی خطرناک ہے.آخر ہم نے مرنا ہے جس طرح پہلے لوگ ہم سے مرچکے پھر خدا وند تعالے کے سامنے جانا ہے.مبارک وہ شخص جو وہاں جا کر شرمندہ نہ ہو.خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ کو مذہب سے تعلق نہیں اور چونکہ مجھے ( گو میں سخت گنہ گار ہوں مگر ) مذہب سے تعلق تھا.تو خداوند تعالے نے میرے کئی سامان کر دئے کہ مجھ کو اپنی بیوی کا مرنا زیادہ رنج کا موجب نہ ہوا (۱) یہ بات تھی کہ خداوند تعالے نے ان کی صحت ہی کی حالت میں میرے دل میں یہاں تک ڈال دیا کہ مجھ کو یقین بے اختیاری ہو گیا تھا کہ اس دفعہ یہ زندہ نہ رہیں گی اور اس
196 آگئیں تھیں اور بظاہر گویا سب خاندان سے قطع تعلق ہی کر لیا تھا.قادیان میں جو اس وقت تک معمولی گاؤں تھا بقیہ حاشیہ: - لئے ان کی موت میرے لئے کوئی مرگ مفاجات نہ ہوئی گوتین دن کے اندر خا تمہ ہو گیا.(۲) مذہب کی ڈور ہاتھ میں تھی دل کو فورا تسلی ہوگئی کہ خدا وند تعالیٰ نے اتنی ہی عمران کی رکھی تھی.آخر اپنے اپنے وقت پر سب نے مرنا ہے اور ان کا یہ وقت تھا جو آ گیا پس اب بجائے رنج کے ان کے لئے مغفرت کا سامان کرنا چاہئے.چنانچہ میں نے ان دنوں میں اور اب جب موقعہ لگتا ہے.ان کے لئے دعا کرتا ہوں آپ خیال کر سکتے ہیں کہ دس سال کا مونس یک لخت الگ ہو گیا مگر دل پر کوئی ایسا صدمہ نہ پڑا جو میرے حواس پر کوئی اثر ڈالتا کیونکہ خداوند تعالیٰ نے مذہب کی ڈور پکڑائی ہوئی تھی (۳) جب یہ حادثہ ہوا تو میں نے پڑہا ہوا تھا کہ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ یعنی وہ عورتیں تمہارے لباس اور پردہ ہیں اور تم ان کا لباس اور پردہ ہو تو میری حالت ایسی ہوئی کہ میں جب اپنے پر خیال کرتا تھا.تو مجھ کو اپنا آپ عریاں معلوم ہوتا تھا اور اس حالت نے فوراً مجھ کو مجبور کیا کہ میں جلد دوسرا نکاح کر لوں نکاح کا کرنا تھا کہ وہ غم بالکل جاتا رہا گواب تک کسی وقت پرانے مونس کی یاد ستاتی ہے وہی خدا تعالیٰ پر بھروسہ اس کو دور کر دیتا ہے.مگر چنانچہ آپ کے پاس یہ دوا نہیں ہے اس لئے آپ کو یہ صدمہ اچانک معلوم ہوا دوسرے مذہب سا کوئی تسلی دہندہ نہ تھا اور نہ اب مذہبی مجبوریاں آپ کو جلد نکاح پر آمادہ کر سکتی ہیں تو اب دل کی دھڑکن کم ہو تو کس طرح ؟ ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ ایسے صدمات انسان کو جگانے کے لئے ہوتے ہیں تا کہ وہ دنیا کی بے ثباتی پر غور کر کے اپنی اصلاح حال کرے اور اگلے جہان کی تیاری کے لئے طیار ہو، ان گروں کو ہم کو اس امام زمان نے بتلایا ہے جس نے بلند آواز سے کہہ دیا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا اور اس نے دعوی کیا کہ میں اسلام میں حضرت محمد مصطفے واحمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہو کر محمد مسیح بن کر آیا ہوں اور اس وقت اگر کسی مذہب کو اسلام کے مقابلہ پر دعویٰ ہے تو سامنے آئے اور اس کو پاش پاش کر دوں گا اور اسلام ہی کا بول بالا ہوگا.پھر خونی مسیح نہیں بلکہ احمدی مسیح صلیب کو توڑنے کے لئے آیا ہے اس کی زبان میں عجب شیرینی ہے اس کے افعال و اعمال میں تاثیر ہے.پھر روحانی اور جسمانی مرضوں کا طبیب ہے.اس چشمے سے جو محمد کے بڑے چشمے سے نکلا ہے.عجب معرفت کا پانی نکلتا ہے پس ایسے وقت میں وہ شخص بڑا ہی محروم ہے جو تحقیقات مذہبی کر کے اس امام سے فائدہ نہ اٹھائے اور اس سے تعلقات پیدا نہ کرے.آپ نے دیکھا کہ دنیا کیسی بے ثبات چیز ہے.پس اس کے لئے انسان (کو) اس قدر کاوش نہ چاہئے.میرے پیارے بھائی میں نہایت درد دل سے لکھتا ہوں کہ آپ اپنے روحانی جسمانی علاج کے لئے کم از کم بطور سیاحت ہی آجائیں گو یہاں تکلف اور آرام کے وسیع مکانات نہیں ایک فقیرانہ حالت ہے مگر آئیں اور
197 جہاں معمولی اشیاء ضروریات زندگی کی بھی نہ ملتی تھیں.ہر طرح کے عیش و آرام کو جواب دے کر چلے آنا اور تمام زندگی یہاں گذار دینا بہت بڑی قربانی تھی.ہجرت کے بعد صرف ایک بار ۵ء میں وہ مالیر کوٹلہ گئیں اور واپس آکر ۱۹۰۶ء میں وفات پائی (م) مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ خالہ جان کی اس بیماری میں حضرت اقدس نے حضرت مولوی نورالدین کے ذریعہ نواب صاحب سے کہا کہ بڑے باغ میں کھلی ہوا میں جا کر رہنا مفید ہو گا.باغ والے مکان میں چلے جائیں.چنانچہ نواب صاحب خالہ جان کو وہاں لے گئے.ان دنوں باغ کا انتظام میر ناصر نواب صاحب کے سپر دتھا.انہوں نے باغ کی حالت بہت عمدہ بنارکھی تھی.حضور نے ان کو کہہ دیا کہ نواب صاحب یہاں آئے ہیں ان کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں.اگر کسی قسم کا نقصان کریں تو اغماض فرما ئیں ، وہاں جو ہی کے پھول بھی تھے جو ہر روز حضور کے لئے لے جائے جاتے تھے.مگر ہم صبح سویرے اُٹھتے ہی تو ڑ لیا کرتے تھے.اس عرصہ میں علاج حضرت مولوی نورالدین صاحب کا تھا.مگر حضور خود بھی بعض دوائیں تجویز فرماتے اور ہر دس بارہ دن کے بعد خود عیادت کے لئے تشریف لاتے تھے.جب خالہ صاحبہ فوت ہو گئیں حضور بھی تشریف لائے فرمایا.”مجھے تو پہلے ہی اللہ تعالے انے رؤیا کے ذریعہ خبر دیدی تھی.اور اس کی تفصیل بیان فرمائی گویا کہ مرحومہ کی وفات حضرت اقدس کی صداقت کے نشانات میں سے ایک نشان تھا جو باوجود صدمہ کے خصوصاً نواب صاحب کے لئے از دیا دایمان کا موجب ہوا ہو گا.اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے لئے مصائب کو سہل کر دیتا ہے اور انہیں اجر عظیم کا موجب بنا دیتا ہے.بقیہ حاشیہ: - دیکھیں کہ کیا ہورہا ہے مجھ کو یقین ہے ) کہ جب آپ یہاں آ کر تحقیقات کریں گے تو آپ کے امراض اور غم میں نمایاں فائدہ ہو گا خدا کرے کہ آپ پر اس خط کا اثر ہو اور آپ یہاں تشریف لے آئیں یہاں پر روحانی علاج امام زماں کریں گے اور حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب جسمانی علاج کے لئے ہیں ، آپ ضرور تشریف لائیں.یہاں ایک انگریزی میگزین نکنے والا ہے اس کا پراسپیکٹس عنقریب آپ کے پا س پہنچے گا.سوائے نزلہ اور کھانسی کے ہم سب اچھے ہیں.راقم محمد علی خاں.حضور نے اس نشانات کا ذکر کر تمہ حقیقۃ الوحی میں ان الفاظ میں کیا ہے.مجملہ ان نشانوں کے یہ نشان ہے کہ نواب محمد علی خاں صاحب رئیس کوٹلہ مالیر کی نسبت میرے پر خدا تعالیٰ نے یہ ظاہر کیا کہ ان کی بیوی عنقریب فوت ہو جائے گی اور موت کی خبر دیگر یہ بھی فرمایا کہ دردناک دکھ اور دردناک واقعہ
198 مرحومہ کی تدفین مرحومہ کا جنازہ حضور نے دار الضعفاء (ناصر آباد) کے متصل مرزا علی شیر صاحب کی زمین میں پڑھایا تھا اور یہ جگہ میاں شادی خاں صاحب رضی اللہ عنہ کے مکان کے شمال کی طرف ہے جب نعش قبر میں رکھنے لگے تو حضور زمین پر ہی سنگتروں کے لکھتے میں جو کہ بہشتی مقبرہ کے ورلی طرف تھا، بیٹھ گئے ،نواب صاحب بھی وہیں بیٹھے رہے.مگر حضرت مولوی نورالدین صاحب قبر پر تشریف لے گئے اور جب تک قبر پوری طرح تیار نہ ہو گئی وہیں رہے.یہ قبراب حضرت اقدس کے مزار والی چار دیواری کے اندر آ گئی ہے.چنانچہ اسے نقشہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں.( نقشہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں) بقیہ حاشیہ :.میں نے اس خبر سے سب سے پہلے اپنے گھر کے لوگوں کو مطلع کیا ، اور پھر دوسروں کو اور پھر اخبار بدر اور الحکم میں پیشگوئی شائع کرادی اور یہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی جب کہ نواب صاحب موصوف کی بیوی ہر طرح تندرست اور صحیح وسالم تھی ، پھر تخمینا چھ ماہ کے بعد نواب محمد علی خان صاحب کی بیوی کو سال کی مرض ہوگئی.اور جہاں تک ممکن تھا ان کا علاج کیا گیا.آخر رمضان ۱۳۲۴ھ میں وہ مرحومہ اسی مرض سے اس نا پائیدار دنیا سے گذر گئیں.اس پیشگوئی سے نواب صاحب کو بھی قبل از وقت خبر دی گئی تھی اور ہمارے فاضل دوست حکیم مولوی نوردین صاحب اور مولوی سید محمد احسن صاحب اور اکثر معزز اس جماعت کے اس پیشگوئی پر اطلاع رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے فلا يظهر على غَيْبِهِ احد الا من ارتضى من رسول یعنی خدا تعالیٰ صاف صاف اور کھلا کھلا غیب بجز اپنے رسولوں کے کسی پر ظاہر نہیں کرتا اور ظاہر ہے کہ دعوی کے ساتھ کسی پیشگوئی کو بتمام تر تصریح شایع کرنا اور پھر اس کا اسی طرح بکمال صفائی پورا ہونا اس سے زیادہ روشن نشان کی اور کیا علامت ہو سکتی ہے" IM.
199 بهشتی مقبره قادیان دارالامان جنت نشان پیمانہ ۳۲ فٹ : ۱۱اینچ چار دیواری مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۲) (۳) -1 مزار مبارک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ۲ - مزار حضرت خلیفتہ المسیح الاول مزار صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ۴- مزار حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ۵- مزار زینب صاحبہ اہلیہ مولوی عبد الکریم صاحب -۶ مزار امتہ الحمید بیگم صاحبہ اہلیہ نواب صاحب ے.مزار حضرت نواب صاحب مرحومہ کی حضرت اقدس کی طرف سے تربیت ۱۹۰۲ء کا واقعہ ہے کہ حضرت اقدس شدید بیمار ہو گئے لیکن محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ عیادت کے لئے نہ جا سکیں ،اس سے حضرت اقدس کو قلق ہوا اور حضور نے دونوں گھروں کے درمیان کا دروازہ بند کر وا دیا یہ دروازہ کے تعلق میں حضرت نواب صاحب کی ایک روایت درج کی جاتی ہے (تفصیل مع نقشہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین صاحب کی خدمت میں بھیجنے پر حضرت محدوح نے جو کچھ تحریر فرمایا وہ روایت کے ساتھ خطوط وحدانی میں درج کر دیا گیا ہے.الفضل اور نقل روایت جو مجھے حاصل ہوئی دونوں میں نقشہ موجود ہے لیکن یہاں مکرم مرزا برکت علی صاحب سے مطابق پیمائش بنوا کر درج کیا گیا ہے.اور یہ ان دونوں سے زیادہ مکمل ہے بلکہ ان دونوں میں سیڑھیاں غلط درج ہیں لیکن یہاں صحیح درج کی گئی ہیں ) نواب صاحب
200 طبعی امر ہے کہ جس کے ساتھ زیادہ تعلق اور رابطہ ہو اس سے زیادہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں اور اگر کوئی ادنی سا امر بھی ان توقعات کے خلاف ظہور پذیر ہو تو اس سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ اگر کسی اور سے بقیہ حاشیہ: - فرماتے ہیں : ”حضرت جس مکان میں رہا کرتے تھے اب اس میں ام المومنین علہیا السلام رہتی ہیں ( اس ) کے صحن اور میرے مکان کے صحن میں صرف ایک دروازہ حائل تھا.گویا اس وقت نقشہ یہ تھا: کمرہ ۱ ۲ ۳ میں میری رہائش تھی درست ہے گوس کے متعلق یقینی یا د ( نہیں ) ۴ میں مولوی محمد احسن صاحب رہا کرتے تھے (پختہ یاد نہیں مگر شاید درست ہی ہے ) وہ میرا صحن تھا ( درست ہے ) وہ حضرت صاحب کا صحن ( درست ہے ) الف دونوں صحنوں کے درمیان دروازہ تھا ( درست ہے ) اور ے میں آپ کا رہائشی کمرہ اور 8 میں بیت الفکر تھا ( درست ہے ) حضرت اماں جان فرمایا کرتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کمرہ ے کو بھی بیت الفکر میں شامل فرماتے تھے یعنی ۷ (۸ دونوں عرف عام میں ۸ ہی بیت الفکر کہلاتا ہے ) (۵) دروازه دروازه (۳) صحن حضرت ایران جان من و الان حضرت اماں جان را (4) برآمده (9) (۴) (۲) اور ے آپ کا رہائشی کمرہ اور ۸ بیت الفکر تھا.تو اس طرح حضرت صاحب جب کوئی بات کرتے تو ہمیں صاف سنائی دیتی ویسے کوئی بات ہو یا عورتوں میں تقریر ہو رات دن میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا ہے تو آپ کے منہ سے یہی کلمہ نکلتا تھا.” ہمارے رسول کریم ہمارے رسول کریم ،
201 ظاہر ہوتا.نواب صاحب اور آپ کے اہل بیت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنا عزیز سمجھتے تھے.اور اپنے قرب میں دار میں ٹھہرایا ہوا تھا اور ذرا ذراسی بات کا خیال رکھتے تھے.اس لئے ہر ایسے امر کے پیدا ہونے پر توجہ دلاتے تاکہ تربیت و اصلاح میں کسی قسم کا نقص پیدا نہ ہو اور وہ بھی اس شفقت بھرے طریق کو اپنے لئے اطیب واعلی یقین رکھتے تھے.سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ کوئی غلط فہمی یا شکائیت پیدا ہو جاتی تو فوراً حضور اس کو ظاہر فرماتے.دریافت فرماتے اور پھر حقیقت کا علم ہونے پر نہایت محبت سے عذر کو قبول فرما کر پھر زیادہ دلداری شروع کرتے کہ سر، اس ابر کرم کے بار احسان سے اور بھی جھک جاتا.میاں عبدالرحیم خاں صاحب کی علالت کے دنوں میں حضرت نے بے حد فکر اور توجہ مبذول رکھی.ہر وقت خود آتے اور دیکھتے اور بھی ہر موقعہ پر خبر گیری اور ویسے بھی ہر تکلیف کو پوچھتے رہنا، نواب صاحب بیان کرتے تھے کہ سیر کو جاتے ہوئے مسجد مبارک کے قریب ٹھہر کر حضور میرے آنے کا انتظار فرماتے اور میرے آنے پر روانہ ہوتے اور مجھے ذرا دیر لگ جاتی تو مجھے بے حد شرم آتی ہے نواب صاحب جس ذات والا صفات کی خاطر سب کچھ چھوڑ کر اس کے در پر دھونی رمائے بیٹھے تھے بھلا اس کی ناراضگی کی حالت کب برداشت کر سکتے تھے.آپ نے بمشورہ حضرت مولوی نورالدین صاحب ذیل کا عریضہ معذرت خواہی کے لئے حضرت کی خدمت اقدس میں بھیجا.* سیدی مولائی مگر می معظمی طبیب روحانی سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم.جو رنج اور قلق اس واقعہ سے جو ہماری بدقسمتی اور بے سمجھی سے پیش آیا ہے یعنی میرے گھر سے حضور کی علالت کے موقعہ پر حاضر نہیں ہوئے اب اس کے وجو ہات کچھ بھی ہوں ہم کو اپنے قصور کا اعتراف ہے.ہم اپنی روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے حاضر ہوئے ہیں ،اب تک جو معافی قصور کے لئے درخواست کرنے میں دیر ہوئی وہ میرے گھر کے لوگوں کو بہ سبب ایسے واقعات کے کبھی پیش نہ آنے کی وجہ سے اور زیادہ حجاب واقع ہو گیا اور ان کو شرم ہر ایک سے آنے لگی.میں اب تک خاموش رہا کہ جب تک اس جھوٹی شرم سے خود ہی باز نہ آئیں گے جب تک میں خاموش رہوں تا کہ دل سے ان کو یہ اثر محسوس ہو اور خود دل سے نواب صاحب فرماتے ہیں پہلے جب سیر کو تشریف لیجاتے تو میرا انتظار فرماتے بعض وقت بہت دیر بھی ہو جاتی تھی جب سے مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح مجھ سے ہوا تو آپ نے پھر میرا انتظار نہیں کیا یا تو حیا فرماتے اور اس کی وجہ سے ایسا نہیں کیا یا مجھے فر زندگی میں لینے کے بعد فرزند سمجھ کر انتظار نہیں کیا) * اس مشورہ کا ذکر مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب کرتے ہیں.۱۴۲
202 معافی چاہیں چنانچہ انہوں نے ایک پر چہ اپنے حال کا لفافہ میں رکھ بھیجا ہے تا کہ حضور کی خدمت میں پیش کروں پس اب عرض ہے بقول بر ما منگر پر کرم خویش نگر از خورداں خطا واز بزرگان عطا آپ میری بیوی کا یہ قصور معاف فرما دیں.راقم محمد علی خاں جوا با حضور نے رقم فرمایا: مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.جو کچھ میں نے رنج ظاہر کیا تھا وہ درحقیقت ایسا ہی تھا جیسا کہ باپوں کو اپنی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے چونکہ میں تربیت کے لئے مامور ہوں سو میری فطرت میں داخل کیا گیا ہے کہ میں ایک معلم ناصح اور شفیق مربی کی طرح اصلاح کی غرض سے کبھی رنج بھی ظاہر کروں اور خطا کو معاف نہ کرنا خود عیب میں داخل ہے.اس لئے میں پورے دل کی صفائی سے اس خطا کو معاف کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا آپ کو اور آپ کے اہل بیت کو اپنے فضل سے کچی پاکیزگی اور کچی دینداری سے پورے طور پر متمتع فرمائے.آمین ثم آمین اور اپنی محبت ۱۴۳ اور اپنے دین کی التفات عطا فرمائے.آمین.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی.نواب صاحب نے اس واقعہ کو ڈائری میں تحریر کیا ہے کہ حضور علیہ السلام...سخت بیمار ہو گئے پہلے مرض درد گردہ تصور کی گئی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ریاحی اور عصبی درد تھا جس کو گردہ سے کوئی تعلق نہ تھا، اس مرض کے ایام ( میں ) ہم لوگ برابر دعاؤں ( میں ) مشغول رہے اور جب موقعہ ملتا تھا میں عیادت کے لئے جاتا رہا.مگر میرے گھر سے چند وجوہات سے نہ گئے اول وجہ یہ تھی کہ میں نے ان کوتاکید کی ہوئی تھی کہ ان کے سامنے نہ ہوں.کیونکہ وہ اب بالغ ہیں اور..میرے گھر سے بندش کے عادی تھی (۲).میرے گھر سے گو تحریری بیعت کر چکے ہیں مگر میری بد اعمالی کی وجہ سے میرا اثر ان پر پورا نہیں ہو سکا.اس لئے ایک حد تک کیا بلکہ جہاں تک مجھے خیال ہے وہ معتقد نہیں اور نہ اب تک ہیں ، ان کے خیالات نہایت سطحی ہیں میں نے کئی دفعہ سمجھانا چاہا مگر ان کی عقل میں کچھ نہیں آیا کچھ...بے تعلقی کی وجہ سے وہ نہ گئے.(۳).چونکہ وہ پہلے سے کسی جگہ جانے کے عادی نہ تھے اور عورتوں میں جاتے شرم ان کو آتی تھی ، ایک یہ وجہ رکاوٹ (کی ) ہوئی...بہر حال ایسے وجو ہات پیش آئے کہ وہ عیادت کے لئے نہ جاسکیں اور اس سے حضور علیہ السلام کو رنج ہوا.حضور مجھ پر بھی ناراض ہوئے.تین ماہ تک عہد کر لیا کہ دروازہ جس ( سے ) حضور علیہ السلام کی طرف سے عورتیں آتی جاتی تھیں بند کر دیا اور اس کو قفل لگوا دیا آخر
203 میں نے جا کر معذرت کی اور حضور علیہ السلام نے معاف فرما دیا مگر دروازہ تین ماہ تک بند رہا تین ماہ کے بعد دروازہ کھلا پھر میری بیوی نے ایک خط عذر تقصیر بھیجا اور حضور علیہ السلام نے ان کو بھی معاف فرما دیا.معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ حضور نے یہ خیال فرمایا ہوگا کہ مرحومہ کو شفقت کی پوری طرح قدر نہیں ہوگی اس کا احساس دلانے کے لئے معاف کر دینے کے باوجود تین ماہ تک حضور نے دروازہ بند رکھا ہوگا بعد کے واقعات اور بیگم صاحبہ محترمہ کے حسنِ خاتمہ نے ظاہر کر دیا کہ حضور کی توجہ نتیجہ خیز ثابت ہوئی ایسا ہی ایک واقعہ ۱۹۰۳ ء یا ۱۹۰۴ء کا ہے جس کا علم حضور کے ایک مکتوب نمبر ۶۴ سے بھی ہوتا ہے.جو بیگم صاحبہ کے نام ہے.حضور تحریر فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده على رسوله الكريم السلام علیکم رحمۃ اللہ و بر کاتہ.خط میں نے پڑہا.اصل بات یہ ہے کہ اس بات کے معلوم ہونے سے کہ جس قدر بوجہ ہمسائیگی ہمدردی ضروری ہے وہ آپ سے ظہور میں نہیں آئی یعنی والدہ محمود جو قریباً دس ماہ تک تکالیف حمل میں مبتلا رہیں اور جان کے خطرہ سے اللہ تعالیٰ نے بچایا اس حالت میں اخلاق کا تقاضا یہ تھا کہ آپ سب سے زیادہ ایسے موقعہ پر آمد ورفت سے ہمدردی ظاہر کرتے اور اگر وہ موقعہ ہاتھ سے گیا تو عقیقہ کے موقعہ پر برادرانہ تعلق کے طور پر آنا ضروری تھا بلکہ اس موقعہ پر کم تعلق والی عورتیں بھی مبارکباد کے لئے آئیں مگر آپ کی طرف سے ایسا دروازہ بند رہا گویا سخت ناراض ہیں اس سے سمجھا گیا کہ جب کہ اس درجہ تک آپ نواب صاحب نے موسم گرما ۱۹۰۲ء میں ڈائری نہیں لکھی یکم نومبر ۱۹۰۲ء کی ڈائری کی موقوفی کی وجوہات تحریر کر کے اس عرصہ کے بعض واقعات تحریر فرمائے ہیں ان میں مندرجہ بالا بھی ہے.بعض قرائن دونوں کے علیحدہ واقعات ہونے پر دلالت کرتے ہیں مثلاً ڈائری میں (۱) حضرت اقدس کی علالت کا ذکر ہے.(۲) بیگم صاحبہ کی علالت کا ذکر نہیں.(۳) بیگم صاحبہ کی طرف سے دروازہ بند کئے جانے کا ذکر نہیں (۴) یہ ذکر ہے کہ معذرت پر معافی دینے پر بھی دروازہ تین ماہ تک بند رہا.لیکن حضور کے مکتوب نمبر ۴۲ میں (۱) حضرت ام المومنین اطال الله بقاء ہا کی علالت کا ذکر ہے (۲) بیگم صاحبہ کی طرف سے پہلے دروازہ بند ہونے کا ذکر ہے (۳) بیگم صاحبہ کی شدید علالت کا ذکر ہے ان کی وفات ۱۹۰۶ء میں ہوئی تھی اور ڈائری والا واقعہ ۱۹۰۲ ء کا ہے (۴) مکتوب میں عذر ہونے پر حضور کی طرف سے دروازہ کھلوا دینے کا ذکر ہے.مزید غور کرنے سے معلوم ہوا کہ حضور کے مکتوب میں ایک بچہ کی ولادت کا ذکر ہے.۱۹۰۲ء میں حضور کے ہاں کوئی ولادت نہیں ہوئی البتہ ۱۹۰۲ء میں صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ اور ۱۹۰۴ء میں صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ کی ولادت ہوئی اس لئے یہ مکتوب ان دونوں سالوں میں سے کسی ایک موقعہ کا ہے.کیونکہ مرحومہ قادیان ۱۹۰۱ء میں آئی تھیں.
204 ۱۴۴ ناراض ہیں تو پھر دروازہ کا کھلا رہنا نا مناسب ہے.ایسے دروازے محض آمد ورفت کے لئے ہوتے ہیں اور جب آمد ورفت نہیں تو ایسا دروازہ ایسی ٹہنی کی طرح ہے جس کو کبھی کوئی پھل نہ لگتا ہو اس لئے اس دروازہ کو بند کر دیا گیا لیکن خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سخت بیمار تھے اس وجہ سے آنے سے معذوری ہوئی اس عذر کے معلوم ہونے کے بعد میں نے وہ دروازہ کھلا دیا ہے اور در حقیقت ایسی بیماری جس سے زندگی سے بھی بیزاری ہے.خدا تعالیٰ شفا بخشے.میں نے والدہ محمود کو بھی سمجھا دیا ہے کہ ایسی سخت بیماری کی حالت میں کیونکر آسکتے تھے.امید ہے کہ جس طرح نواب صاحب کچی ہمدردی رکھتے ہیں آپ بھی اس میں ترقی کریں خدا تعالیٰ ہر ایک آفت اور بیماری سے بچاوے.آمین.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ محترمہ بیگم صاحبہ کی طرف سے دروازہ بند کئے جانے کے تعلق میں حضرت سیدہ نواب مبار کہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ فتنہ پرداز اشخاص ہر زمانہ میں ہوتے ہیں اس وقت بھی ایک شخص اور اس کی اہلیہ اس قسم کے تھے کہ جھوٹ سچ کہنے سے انہیں باک نہ تھا اور اس سے وہ لطف اندوز ہوتے تھے.انہوں نے حضرت اقدس کی طرف ایک غلط بات منسوب کر کے کہہ دی اور وہ یہ کہ حضور کا منشا ہے کہ فلاں فلاں مستورات جو کہ بیچاری شریف نیک احمدی خواتین تھیں آپ کے ہاں نہ آئیں جائیں نہ ان سے ملا جائے.اب محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ کو دقت ہوئی کہ کس طرح انہیں روکیں.ایک گھر کا سا معاملہ ٹھہرا.اور اگر کوئی چاہے تو ہر وقت آ جا سکتا تھا اس لئے انہوں نے یہ تدبیر کی کہ دروازہ کا گنڈا بند رکھیں.اس طرح ممنوعہ خواتین کوحتی الوسع ٹال دیا قبل ازیں چونکہ خانہ واحد کی صورت پر درمیانی دروازہ کھلا رہتا تھا ، اس لئے ان ہی فتنہ پردازوں نے بیگم صاحبہ کی طرف باتیں منسوب کر کے کہ وہ دراصل آنا جانا ملنا پسند نہیں کرتیں وغیرہ حضرت ام المومین اطال اللہ بقاء ہا کو بھی پہنچا دیں.حضرت اقدس کو قدر تاریخ ہوا.آپ نے نواب صاحب کو بیٹوں کی طرح گھر میں رکھا ہوا تھا اس لئے آپ نے بھی دروازہ بند کرا دیا.لیکن معاملہ کھل جانے پر دروازہ کھول دیا گیا.یہ فتنہ پرداز بار با رفتنہ پھیلانے کی کوشش کرتے تھے پھر انہیں قادیان سے نکال دیا گیا تھا.ذیل کے مکتوب سے بھی حضور کی ان سے شفقت کا علم ہوتا ہے.تحریر فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم عزیزہ سعیدہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں نے آپ کا خط غور سے پڑھ لیا ہے اور جس قدر آپ نے اپنی عوارض لکھی ہیں غور سے معلوم کر لئے ہیں انشاء اللہ صحت ہو جائے گی.میں نہ صرف دوا بلکہ آپ کے لئے بہت توجہ سے دعا بھی کرتا ہوں مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پوری شفاء دیگا.یہ تجویز جو شروع ہے آپ کم از کم
205 معلوم ہوتا ہے کہ شاید اسی بارہ میں بیگم صاحبہ محترمہ نے حضور کی خدمت میں ایک خط تحریر کیا جس کے جواب میں حضور فرماتے ہیں.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم عزیزہ امتہ الحمید بیگم زاد عمر ہا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا خط مجھ کو ملا میں نے اول سے آخر تک پڑھ لیا ہے.یادر ہے کہ میں آپ کی نسبت کسی قسم کی بات نہیں سنتا.ہاں مجھے یہ خیال ضرور ہوتا ہے کہ جن کو ہم عزیز سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین اور دنیا میں ان کی بھلائی ہو ان کی نسبت ہمیں یہ جوش ہوتا ہے کہ کوئی غلطی ان میں ایسی نہ ہور ہے جو خدا تعالیٰ کے سامنے گناہ ہو جس میں ایمان کا خطرہ ہو اور جس قدرکسی سے میری محبت ہوتی ہے اسی قدر امر مذ کو رفتنہ پردازوں کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھا ورنہ حضور مرحومہ کا خاص خیال رکھتے تھے چنانچہ مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور جب بھی سفر سے تشریف لاتے تو بالعموم خود ہی ملنے کے لئے تشریف لے آتے حضور کی توجہ جاذب فضل الہی ہوئی چنانچہ حضور تحریر فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ.السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج بوقت چار بجے صبح کو میں نے ایک خواب دیکھا.میں حیرت میں ہوں کہ اس کی کیا تعبیر ہے میں نے آپ کی بیگم صاحبہ عزیزہ سعید ہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ کو خواب میں دیکھا کہ جیسے ایک اولیاء اللہ خدا سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں اور ان کے ہاتھ میں نحمده و نصلى على رسوله الكريم بقیہ حاشیہ: - چالیس روز تک اس کو انجام دیں اور دوسرے وقت کی دوا میں آپ ناغہ نہ کریں وہ بھی خون صاف کرتی ہے اور دل کی گھبراہٹ کو دور کرتی ہے اور آنکھوں کو بھی مفید ہے.مگر آپ بیچ میں ناغہ کر دیتے ہیں جیسا کہ کل آپ نے دوا نہیں پی ناغہ نہیں ہونا چاہئے اور.نیز مصالحہ، مرچیں اور لونگ اور لہسن وغیرہ نہیں کھانا چاہئے.یہ آنکھوں کے لئے بھی مضر ہیں.آپ کیلئے یہ غذا چاہئے.انڈا ، دودھ، پلاؤ گوشت ڈال کر ، گوشت جس میں کچھ سبزی ہے.ثقیل یعنی بوجھل چیزوں سے پر ہیز چاہئے.بہت میٹھا یعنی شیرینی نہیں کھانی چاہئے.ایک جگہ بیٹھے نہیں رہنا چاہئے.کچھ حرکت چاہیئے.عمدہ ہوار بیع کی لینی چاہئے.غم نہیں کرنا چاہئے.اس علاج سے پھنسیاں وغیرہ انشاء اللہ دور ہو جائیں گی.والسلام یہ مکتوب نمبر ۶۲ مکمل طبع نہیں ہوا.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ الله
206 دس روپیہ سفید اور صاف ہیں یہ میرے دل میں گذرا ہے کہ دس روپیہ ہیں میں نے صرف دور سے دیکھے ہیں تب انہوں نے وہ دس روپیہ اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف پھینکے ہیں اور ان روپیوں میں سے نور کی کرنیں نکلتی ہیں جیسا کہ چاند کی شعاعیں ہوتی ہیں وہ نہایت تیز اور چمکدار کر نہیں ہیں جو تاریکی کو روشن کر دیتی ہیں اور میں اس وقت تعجب میں ہوں کہ روپیہ میں سے کس وجہ سے اس قدر نورانی کرنیں نکلتی ہیں اور خیال گزرتا ہے کہ ان نورانی کرنوں کا اصل موجب خود وہی ہیں اس حیرت سے آنکھ کھل گئی.گھڑی بگڑی ہوئی تھی ٹھیک اندازہ نہیں ہوسکتا مگر غالبا چار بج گئے تھے اور پھر جلد نماز کا وقت ہو گیا اور تعجب میں ہوں کہ اس کی تعبیر کیا ہے شاید اس کی یہ تعبیر ہے کہ ان کے لئے خدا تعالیٰ کے علم میں کوئی نہایت نیک حالت در پیش ہے اسلام میں عورتوں میں سے بھی صالح اور ولی ہوتی رہی ہیں جیسا کہ رابعہ بصری رضی اللہ عنہا اور یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ شاید اس کی یہ تعبیر ہو کہ زمانہ کے رنگ بدلنے سے آپ کو کوئی بڑا مرتبہ مل جائے اور آپ کی یہ بیگم صاحبہ اس مرتبہ میں شریک ہوں آئندہ خدا تعالے کو بہتر معلوم ہے.والسلام.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ( مکتوب غیر مطبوعہ ) اس پر نواب صاحب نے تحریر عرض کیا کہ بسم الله الرحمن الرحیم.سیدی دمولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم.رات حضور کا والا نا مہ پہنچا.خداوند تعالیٰ سے امید کہ حضور کی فیض صحبت اور دعاؤں سے ہم میں خاص تبدیلی پیدا ہو گی.خدا کرے کہ ہم حضور کے قدموں میں نیکی اور عمدگی سے بسر کریں اور ترقیات روحانی ہم کو حاصل ہو.راقم محمد علی خاں چنانچہ حضور نے جوا بار قم فرمایا: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مجھے تو رات کے خواب سے کہ ایک قسم کا کشف تھا نہایت خوشی ہوئی کہ اندازہ سے باہر ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے.کل سے میں نے ارادہ کیا ہے کہ آپ کی دعا کے ساتھ ان کو بھی شریک کر دوں.شاید خدا تعالیٰ نے یہ نمونہ اس لئے دکھایا ہے کہ میں ایک مستعد نفس کے لئے نماز میں دعا کرتا رہا ہوں.اصل میں دنیا اندھی ہے کسی شخص کی باطنی حالت کو معلوم نہیں کر سکتی بلکہ دنیا تو دنیا خود انسان جب تک وہ دن نہ آوے، اپنی حالت سے بے خبر رہتا ہے.ایک شاہزادہ کا حال لکھا ہے کہ شراب پیتا اور سارنگی بجایا کرتا تھا.اتنے میں ایک بزرگ باخدا اس کو چہ میں سے گذرے اور قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی اَلَمْ يَانِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ
207 یعنی کیا اب تک وقت نہیں آیا کہ مومنوں کے دل خدا کے لئے فروتنی کریں اور اس سے ڈریں پس جب آیت اس شاہزادہ نے سُنی فی الفور سارنگی کو توڑ دیا اور خدا کے خوف سے رونا شروع کیا اور کہا کہ وقتم رسید وقتم رسید.اور کہتے ہیں کہ وہ آخر کار بڑے اولیاء سے ہو گیا.سو یہ کشف کچھ ایسی ہی خوش خبری سنا رہا ہے اس لئے کل میں نے ارادہ کیا کہ ہماری دولڑ کیاں ہیں.مبارکہ اور امتہ النصیر.پس امتہ الحمید بیگم کو بھی اپنی لڑکی بنالیں اور اس کے لئے نماز میں بہت دعائیں کریں تا کہ ایک آسمانی روح خدا اس میں پھونک دے.وہ لڑکیاں تو ہماری کم سن ہیں شاید ہم ان کو بڑی ہوتی دیکھیں یا عمر وفا نہ کرے.مگر یہ لڑکی جوان ہے ممکن ہے کہ ہم باطنی توجہ سے اس کی ترقی بچشم خود دیکھ لیں.پس جب کہ ہم ان کو لڑکی بناتے ہیں تو پھر آپ کو چاہئے کہ ہماری لڑکی (کے) ساتھ زیادہ ہمدردی اور وسیع اخلاق سے پیش آدیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مرحومہ کی تدفین اور اخلاق وغیرہ مرحومہ کی تدفین وحسن اخلاق کے بارہ میں معزز بدر رقم طراز ہے: وو دردناک دکھ اور دردناک واقعہ بیگم صاحبہ مرحومہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی اہلیہ صاحبہ قریباً پانچ ماہ سے بعارضہ امراض سل و دق بیمار تھیں اور آخر وہ صدمہ کا دن جس کا خوف دامنگیر ہو رہا تھا آ گیا اور بیگم صاحبہ نے گذشتہ شنبہ کے دن ۲۷ نومبر ۱۹۰۶ء کو نماز فجر کے وقت اس جہان فانی سے کوچ کیا.انا للہ وانا الیہ راجعون.مرحومہ کی عمر صرف ۲۰ سال کی تھی.بارہ سال کی عمر میں شادی ہوئی تھی.اور آٹھ سال کے عرصہ میں جس قدر محبت اطاعت اور ہمدردی کے ساتھ مرحومہ اپنے خاوند کے واسطے قرۃ العین کا موجب ہوئیں وہ نیک بیویوں کے واسطے ایک اعلیٰ نمونہ تھا.مرحومہ کا اس چھوٹی سی عمر میں ایسا جلد انتقال کر جانے کا حال تو اسی دن سے ظاہر ہورہا تھا جس دن کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت نواب صاحب کو ایک رقعہ میں لکھا تھا کہ دردناک دُکھ - اور دردناک واقعہ والا الہام ( جو کہ اخبار بدر مورخہ ۲ مارچ ۱۹۰۶ء میں شائع ہو چکا تھا ) آپ کی بیگم صاحبہ کے مطابق ہے.اس الہام کے علاوہ مرحومہ کے متعلق حضرت اقدس کو ایک الہام یہ بھی ہوا تھا کہ امتہ الحفیظ اور یہ تینوں مکتوبات بغیر تاریخ کے ہیں چونکہ ولادت صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ کی ۱۹۰۳ء کی اور وفات اس کے چند ماہ بعد کی ہے اور ان کا اس میں ذکر ہے.اس لئے انداز عرصہ کی تعین ہو جاتی ہے.
208 اس پر آپ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس الہام میں حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور خدا کے وعدے سچے ہیں مگر اس جگہ یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ حفاظت سے مراد حفاظت جسم ہے یا حفاظت روح.مرحومہ کے متعلق چندروز گذرے حضرت ام المومنین نے بھی ایک رؤیا دیکھا تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ کب وہ وقت قریب ہے کہ بیگم صاحبہ حسنِ خاتمہ کے ساتھ اور ایمانی حالت کی عمدگی کے ساتھ اس جہاں سے کوچ کر جائیں.مذکورہ بالا وحتی الہی جو کہ اخبار بد نمبر ۹ مورخہ ۲ / مارچ ۱۹۰۶ء میں شائع ہوئی تھی اور مرحومہ کے متعلق تھی اس کے الفاظ جیسا کہ درج اخبار ہوئے تھے اس طرح سے ہیں: ۲۵ / فروری.الہام.درد ناک دکھ اور دردناک واقعہ.اس کے بعد رویا میں دیکھا کہ کوئی خادمہ عورت جو اپنے تعلق والوں میں سے کسی گھر کی ہے.آئی ہے اور کہتی ہے کہ میری بیوی یکا یک مرگئی یہ سن کر میں اٹھا ہوں کہ اپنے گھر میں اطلاع کر دوں کہ پہلا الہام پورا ہو گیا اور پگڑی اور عصا ہاتھ میں لیا اور چلنے کو تھا کہ بیداری ہوگئی.اس الہام الہی میں ریکا یک کا مرنا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مرحومہ کی عمر بہت تھوڑی تھی اور بیمار بھی تھوڑا عرصہ ہی رہی اور وہ بھی اوائل میں کوئی خطرناک معلوم نہ ہوتی تھی بلکہ معمولی معلوم ہوتی تھی.صرف آخری دنوں میں زیادہ تر خوف ناک ظاہر ہوئی ورنہ سل دق کے مریض برسوں تک زندہ رہتے ہیں.مرحومہ ایک ذہین عورت تھی اور تعلیم یافتہ تھی اور تعلیم کا اکثر حصہ اپنے پیارے خاوند نواب صاحب سے حاصل کیا تھا.جس کا سبب یہ ہوا تھا کہ مرحومہ نواب صاحب موصوف کی دوسری بیوی تھی.اور آپ کی پہلی بیوی مرحومہ کی بڑی بہن تھی جس کی وفات پر نواب صاحب موصوف کا نکاح مرحومہ کے ساتھ ہوا تھا.اور اپنی بڑی بہن کے ایام زندگی میں بھی مرحومہ کی رہائش زیادہ تر نواب صاحب کے گھر میں اپنی بہن کے پاس ہوتی تھی اور نواب صاحب موصوف سے تعلیم حاصل کرتی تھی.اس تعلق کے علاوہ مرحومہ نواب صاحب کی خالہ کی بیٹی تھی مرحومہ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی لیکن نواب صاحب موصوف کی پہلی اولاد کے ساتھ ( جو کہ مرحومہ کے ہمشیرہ زاد ایک لڑکی تین لڑکے ہیں ) اس کو بہت محبت اور انس تھا.اور ہر طرح سے ان کی تربیت اور حفاظت میں ساعی رہتی تھیں.مرحومہ میں یہ سب خوبیاں تھیں لیکن سب سے بڑی بات جو اس کے متعلق قابل ذکر ہے یہ ہے کہ مرحومہ کو حضرت اقدس مسیح موعود کے ساتھ نہایت مخلصانہ ارادت کا تعلق تھا.اور آپ کے دعاوی پر اس کو سچا ایمان تھا اور باوجود ایک دولتمند ہونے کے اس تعلق بیعت کے نباہنے میں کوئی شئے اس کے واسطے یہ الحکم جلد نمبرے مورخہ ۰۶-۲-۲۴ میں بھی چھپ چکا ہے.
209 سد راہ اور حجاب کا موجب نہ ہوتی تھی.اپنے قابل فخر خاوند کے ساتھ اس لئے اپنے وطن کو ترک کر کے اور عالی شان وسیع مکانات کو چھوڑ کر دین کی خاطر گویا تنگ اور تاریک مکانوں میں زندگی بسر کرنا دل کی خوشی کے ساتھ قبول کیا ہوا تھا یہی وجہ کہ اللہ تعالے نے اس کو بہشتی مقبرہ میں جگہ دی اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کے ساتھ قادیان کے باہر باغ کے متصل میدان میں اس کے واسطے نماز جنازہ ادا کی اور مرحومہ کے دفن ہونے تک اس کی قبر پر موجود رہے.اللہ تعالیٰ اس محتر مہ کو جنت میں جگہ عطا فرمائے اور اس کی مغفرت کرے آمین ثم آمین.حضرت اقدس جب بمعہ جماعت جنازہ کے واسطے قادیان سے باہر تشریف لائے.تو نواب صاحب موصوف کو مخاطب کر کے فرمایا کہ خدا تعالے کی قضا و قدر میں جو مقدر تھا وہ ہو کر رہا لیکن آپ نے بے شک خدمت کا حق پورے طور سے ادا کر دیا ہے فرمایا افسوس ہے کہ ان کی بیماری کے ایام میں میں خود بھی بیمار رہا اور حق دعا کا جو تھا وہ پورے طور پر ادا نہ ہو سکا اگر چہ نمازوں میں بھی میں نے ان کے واسطے دعا کی مگر مجاہدہ کے ساتھ ایک دورات نے ان کے واسطے دعا میں نہ لگا سکا.اللہ تعالے آپ کو صبر دے اور صبر کا اجر دے اور نعم البدل عطا فر مائے خدا رحیم و کریم ہے مگر اس کے ہر کام میں کوئی حکمت مخفی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی مصائب پر جو لوگ صبر کرتے ہیں اللہ تعالے ان کو اجر عظیم دیتا ہے اور دنیا اور آخرت میں ان کو برکات عطا کرتا ہے.☆ اغفرها مرحومہ نے اپنی وصیت میں اپنے تمام مال کا دسواں حصہ اشاعت اسلام کے واسطے لکھا ہوا تھا.اللھم ورثہ کی تقسیم مرحومہ کے ورثہ کے تعلق میں نواب صاحب فرماتے ہیں: ”میری دوسری بیوی کا انتقال ہو گیا تھا میں نے اپنی بیوی کے ورثہ کی تقسیم کی بابت دریافت کیا تو فرمایا کہ غیر احمدی ورثہ کو روثہ نہ دیا جائے.تبرع اور اصل میں اسی طرح کچھ جگہ خالی ہے ( ناقل ) بدر جلد ۴۴ پر چہ یکم نومبر۱۹۰۶ء مرحومہ نے رسالہ الوصیت کی اشاعت کے پون سال کے اندر۳ / تمبر ۱۹۰۶ء کو وصیت کر دی تھی اس وقت ان کے پاس پانچ ہزار روپیہ نقد اور اتنی ہی مالیت کے زیورات تھے.آپ کی وصیت کا نمبر ۱۳۸ ہے
210 احسان کے طور پر دیا جائے تو حرج نہیں یہ بات چوک احمدیہ میں ہوئی تھی.حضرت سیر کے لئے تشریف لائے تھے زیادہ لوگ ابھی نہ آئے تھے.مولوی محمد علی صاحب موجود تھے.انہوں نے کہا کہ غیر احمدی اقرباء کا احمدی ورثہ لیں یا نہ لیں؟ تو فرمایا ایسا موقعہ جب آئے گا تو اس وقت بتلائیں گے.مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے باوجو د بطور احتیاط کے ان کے قیمتی زیور وغیرہ کا شرعی حصہ والد صاحب نے ان کی والدہ اور ہمشیرہ کو دیدیا عجیب اتفاق کی بات ہے کہ جن کو یہ ورثہ ملا سب احمدی ہو گئے.یعنی ہمارے ماموں کرنل اوصاف علی خاں صاحب اور خالہ رقیہ بیگم صاحبہ احمدی ہو چکے ہیں اور ان کی سوتیلی بہن دوسری خالہ بھی جو نشی نواب خاں صاحب ثاقب مرحوم کی بھانجی ہیں.نواب صاحب کی بلند اقبالی کسی نے کیا خوب کہا ہے.ہر بلا کیں قوم را حق داده اند زیر آن گنج کرم بنهاده اند چنانچہ پہلی اہلیہ کے بعد دوسری اہلیہ کا صدمہ ایسا ہی ثابت ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نواب صاحب کی بلندی کے متعلق جو کشف دیکھا تھا ان پے بہ پے صدمات کے بعد وقت آن پہنچا کہ اب اس کے پورا ہونے کا عجیب طریق پر سلسلہ شروع ہو.تا یہ ثابت ہو کہ آپ شتاب بازا در بے وفا نہیں.حضور نے کیا کشف دیکھا حضور کے الفاظ میں سنئے ۲۲ ؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کو رقم فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مشفقی عزیزی محبی نواب صاحب سردار محمد علی خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا.الحمد الله والمنتہ کہ خدائے تعالیٰ نے آپکو صحت بخشی.اللہ جل شانہ آپ کو خوش رکھے اور عمر اور راحت اور مقاصد دلی میں برکت اور کامیابی بخشے ، اگر چه حسب تحریر مرزا خدا بخش صاحب آپ کے مقاصد میں سخت پیچیدگی ہے.مگر ایک دعا کے وقت کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ آپ میرے پاس موجود ہیں اور ایک دفعہ گردن اونچی ہو گئی.اور جیسے اقبال اور عزت کے بڑھنے سے انسان اپنی گردن کو خوشی کے ساتھ ابھارتا ہے.ویسی ہی صورت پیدا ہوئی.میں حیران ہوں کہ یہ بشارت کس وقت روایت غیر مطبوعہ.
211 اور کس قسم کے عروج سے متعلق ہے.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ظہور کا زمانہ کیا ہے مگر میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی وقت میں کسی قسم کا اقبال اور کامیابی اور ترقی عزت اللہ جل شانہ کی طرف سے آپ کے لئے مقرر ہے.اگر اس کا زمانہ نزدیک ہو یا دور ہو.سو میں آپ کے پیش آمدہ ملال سے گو پہلے غمگین تھا مگر آج خوش ہوں.کیوں کہ آپ کے مال کار کی بہتری کشفی طور پر معلوم ہوگئی.واللہ علم بالصواب نیز دوسری جگہ اسی کشف کے تعلق میں حضور رقم فرماتے ہیں.بسم الله الرحمن الرحيم ۱۱۴۸ نحمده و نصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی نواب صاحب سردار محمد علی خاں سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.مبلغ ۲۸۱ روپیہ آں محب کل کی ڈاک میں مجھ کو مل گئے.جزاکم اللہ خیر اجس وقت آپ کا روپیہ پہنچا ہے مجھ کو اتفاقا نہایت ضرورت در پیش تھی.موقعہ پر آنے کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ خدا وند کریم و قادر اس خدمت للّہی کا آپ کو بہت اجر دے گا.والله يُحِبُّ المحسنین - آج مجھ کو صبح نماز کے وقت بہت تضرع اور ابتہال سے آپ کے لئے دعا کرنے کا وقت ملا.یقین کہ خدائے تعالیٰ اس کو قبول کرے گا اور جس طرح چاہے گا اس کی برکات ظاہر کرے گا.میں آپ کو خبر دے چکا ہوں کہ میں نے پہلے بھی بشارت کے طور پر ایک امر دیکھا ہوا ہے.گو میں ابھی اس کو کسی خاص مطلب یا کسی خاص وقت سے منسوب نہیں کر سکتا.تاہم بفضلہ تعالے جانتا ہوں کہ وہ آپ کے لئے کسی بہتری کی بشارت ہے اور کوئی اعلیٰ درجہ کی بہتری ہے جو اپنے مقرہ وقت پر ظاہر ہوگی.واللہ اعلم بالصواب.خدا وند ذوالجلال کی جناب میں کوئی کمی نہیں.اس کی ذات میں بڑی بڑی عجائب قدرتیں ہیں اور وہی لوگ ان قدرتوں کو دیکھتے ہیں کہ جو وفاداری کے ساتھ اس کے تابع ہو جاتے ہیں.جو شخص عہد وفا کو نہیں تو ڑتا اور صدق قدم سے نہیں ہارتا اور حسن خن کو نہیں چھوڑتا اس کی مراد پوری کرنے کے لئے اگر خدا تعالیٰ بڑے بڑے محالات کو ممکنات کر دیوے تو کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ ایسے بندوں کا اس کی نظر میں بڑا ہی قدر ہے کہ جو کسی طرح اس کے دروازہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے اور شتاب باز اور بے وفا ۱۴۹ نہیں ہیں“.
212 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی عزیزی مجی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب سلمہ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کے دو عنایت نامے پہنچے یہ عاجز باعث شدت کم فرصتی و علالت طبع جواب نہیں لکھ سکا اور نیز یہ بھی انتظار رہی کہ کوئی بشارت کھلے کھلے طور پر پالینے سے خط لکھوں چنانچہ اب تک آپ کے لئے جہاں تک انسانی کوشش سے ہوسکتا ہے توجہ کی گئی اور بہت سا حصہ وقت کا اس کام کے لئے لگایا.سوان درمیانی امور کے بارہ میں اخویم مرزا خدا بخش صاحب اطلاع دیتے رہے ہوں گے اور آخر جو بار بار کی توجہ کے بعد الہام ہواوہ یہ تھا ان الله على كل شئ قدير - قل قوموا الله قانتین - یعنی اللہ جل شانہ ہر ایک چیز پر قادر ہے.کوئی بات اس کے آگے ان ہونی نہیں.انہیں کہد و....جائیں اور یہ الہام ابھی ہوا ہے.اس الہام میں جو میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے فعلی طور پر کئے وہ یہی ہیں کہ ارادہ الہی آپ کی خیر اور بہتری کے لئے مقدر ہے لیکن وہ اس بات سے وابستہ ہے کہ آپ اسلامی صلاحیت اور التزام صوم وصلوٰۃ و تقوی وطہارت میں ترقی کریں بلکہ ان شرائط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امرخفی نہایت ہی بابرکت امر ہے جس کے لئے یہ شرائط رکھے گئے ہیں.مجھے تو اس بات کے معلوم کرنے سے بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ اس میں آپ کی کامیابیوں کے لئے کچھ نیم رضا مجھی جاتی ہے.اور یہ امر تجربہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ اس قسم کے الہامات اس شخص کے حق میں ہوتے ہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ ارادہ خیر فرماتا ہے اس عالم سفلی میں اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی کسی معزز عہدہ کا خواہاں ہو....وقت اس کو اس طور سے تسلی دے کہ تم امتحان دو ہم تمہارا کام کر دیں گے.سو خدا تعالیٰ آپ میں اور آپ کے دوسرے اقارب میں ایک صریح امتیاز دیکھنا چاہتا ہے اور چونکہ آپ کی طبیعت بفضلہ تعالیٰ نیک کاموں کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے اس لئے یہی امید کی جاتی ہے کہ آپ اپنے مولیٰ کریم کو خوش کریں گے میں نے مرزا خدا بخش صاحب کو رمضان کے دنوں تک اس لئے ٹھہرالیا ہے کہ تا پھر بھی ان مبارک دنوں میں وقتا فوقتا آپ کے لئے دعائیں کی جائیں.مجھے ایسا الہام کسی امر کی نسبت ہو تو میں ہمیشہ سمجھتا ہوں کہ وہ ہونے والا ہے.اللہ جَلَّ شَانه طاقت سے زیادہ کسی پر بار نہیں ڈالتا بلکہ رحم کے طور پر تخفیف کرتا ہے اور ہنوز انسان
213 پورے طور پر اپنے تئیں درست نہیں کرتا کہ اس کی رحمت سبقت کر جاتی ہے گویا نیک بندوں کے لئے یہ بھی ایک امتحان ہوتا ہے چونکہ اللہ جل شانہ بے نیاز ہے نہ کسی کی اس کو حاجت ہے اور نہ کسی کی بہتری کی اس کو ضرورت ہے اس لئے جب.....فرما تا ہے کہ کسی بندہ پر فیضان نعمت کرے تو ایسے وسائل پیدا کر دیتا ہے جس کی رو سے اس نعمت کو پانے کے لئے اس بندہ میں استحقاق پیدا ہو جائے تب وہ بندہ خدا تعالیٰ کی نظر میں جو ہر قابل ٹھہر کر مورد رحم بننے کے لئے لیاقت پیدا کر لیتا ہے سو اس خیال سے بے دل نہیں ہونا چاہئے کہ ہم کیونکر با وجود اپنی کمزوریوں کے ایسے اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ بجالا سکتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ کو راضی کر سکیں اور ہرگز خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ایسی شرط تعلیق بالمحال ہے کیونکہ خدا تعالے اپنے بندوں کو جن کے لئے کارخیر کا ارادہ فرما تا ہے آپ توفیق دے دیتا ہے.مثل مشہور ہے کہ ہمت مرداں مدد خدا.سو نیک کاموں کے لئے بدل و جان جہاں تک طاقت ہے متوجہ ہونا چاہئے خدا تعالیٰ کو ہر ایک چیز اور ہر ایک حال اور ہر شخص پر مقدم رکھ کر نماز با جماعت پڑھنی چاہئے کہ قرآن کریم میں بھی جماعت کی تاکید ہے اگر بانفراد نماز پڑھنا کافی ہوتا تو اللہ جل شانہ یہ دعا نہ سکھاتا کہ اهدنا الصراط المستقيم بلکہ یہ سکھاتا اهدنى الصراط المستقیم اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ کونوامع الصادقين...( واَركَعُوا ) مع الراكعين اور واعتصموا بحبل الله جميعاً ان تمام آیات میں جماعت....سو اللہ جل شانہ کے احکام میں کسی سے شرم نہیں کرنا چاہئے.تقویٰ کے یہ معنی ہیں کہ اس...قائم ہو جائے پھر اس کے مقابل پر کوئی ناموس یا ہتک یا عار یا خوف خلق یا کسی کے لعن و طعن کی کچھ حقیقت نہ رکھے.ایمان تقویٰ کے ساتھ زندہ ہوتا ہے اور جو شخص اللہ تعالے کے ساتھ کسی دوسرے شخص یا کسی دوسری چیز کو یا کسی دوسرے خیال کو کچھ حقیقت سمجھتا ہے اور اس سے ڈرتا ہے وہ تقویٰ کے شعار سے بالکل بے بہرہ ہوتا ہے ہمارے لئے کامل خدا بس ہے.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ * ۲۵ / مارچ ۱۸۹۳ء ☆ یہ غیر مطبوعہ مکتوب ہے مجھے اس کی نقل دیکھنے کا موقعہ ملا ہے جس پر درج ہے کہ اصل بعض جگہ دریدہ ہے چنانچہ وہاں نقطے ڈال دئے گئے ہیں.
214 یہ کشف اور الہام گونا گوں طریق پر پورے ہوئے مثلاً آتھم کی پیشگوئی پر نواب صاحب کو تذبذب ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور آپ کو اس گروہ میں شامل فرمایا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کا مصداق تھا جس کا ذکر ہم تین سو تیرہ صحابہ کے تعلق میں گذشتہ اوارق میں کر چکے ہیں اور یہ فضیلت نہ ایک بار بلکہ دوبار آپ کو حاصل ہوئی.سلسلہ کی مالی خدمات کا خوب موقعہ ملا.اور باوجود نوابی شان کے اس وقت کی قادیان جیسی بستی میں آپ ہجرت کر آئے جب کہ والی مالیر کوٹلہ و دیگر ا قارب آپ کو واپس بلا کر آنکھوں پر بٹھلانے کے لئے تیار تھے.آپ کو مدرسہ تعلیم الاسلام کے ڈائر یکٹر کے طور پر خدمت سلسلہ کا موقعہ ملا.خلافت ادلی وثانیہ میں مخالفین خلافت کے خلاف اہم پارٹ ادا کرنے اور ملکانہ کی شدھی کے ایام میں اس علاقہ میں دورہ کرنے اور حضرت خلیفتہ اسیح اول کی مرض الموت میں خدمت کی توفیق ملی وغیرہ ان سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فِی بَيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ ( سورة النور ) کا اس رنگ میں مصداق بنایا کہ جو بے نظیر ہے اور اس فضیلت سے ابدی طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ ہی کو نواز دیا ہے و ذلك فضل الله يـوتـيـه من يشاء والله ذو الفضل العظيم.میری مراد یہ ہے کہ موعود اقوام عالم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن کی تیرہ سو سال بلکہ ہزار ہا سال سے انتظار تھی اور جن کا علوشان گو قارئین کرام سے مخفی نہیں لیکن پھر بھی جیسا کہ حضور نے ایک مکتوب میں نواب صاحب کو تحریر فرمایا تھا ، ہم پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہیں اور مرور زمانہ سے حضور کی شان اور علوم مرتبت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوتی جائے گی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "لولاک لما خلقت الافلاک “ اور یہ کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے اور جسے پاک اور مطہر اولا دوئے جانے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ن يَتَزَوَّجُ وَيُوْلَهُ لَهُ کے الفاظ میں پیشگوئی فرمائی تھی حضور کو انـت مـنـى بـمـنـزلة توحيدى و تَفْرِيدِى جرى الله في حلل الا نبیاء ليحمدك الله من عرشه الارض والسماء ۱۵۴ 66 وو ۱۵۳ ۱۵۵ ۱۵۶ 66 ۱۵۲ 109 معک کما هو معی آسمان پر سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا اور جس سے تو بہت پیار کرتا ہے میں اس سے بہت پیار کرونگا اور جس سے تو ناراض ہے میں اس سے ناراض ہونگا کے خطابات سے نواز گیا.سواللہ تعالیٰ نے نواب صاحب کو اس فضیلت سے مشرف فرمایا کہ آپ کی بڑی بیٹی حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے عقد میں آکر حضور کی صاحبزادی بن گئیں.اس کا مفصل ذکر آگے آتا ہے پھر اس نبی آخر الزماں کی بڑی صاحبزادی آپ کے عقد میں آئیں اور آپ نے حضور پر اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ افضال میں سے حصہ وافر پا یا وہ افضال اشکر نعمتی رئیت خديجتي اور الحمد لله الذي جعل لكم الصهر ولنسب “.سے ظاہر ہے.سیدہ نواب مبارکہ صاحبہ کے متعلق بھی حضرت اقدس
215 کو کئی مبشرات ہوئے جن سے ان کے علو مرتبت وغیرہ کا علم ہوتا ہے چنانچہ حضور حقیقتہ الوحی میں رقم فرماتے ہیں: سینتیسواں نشان یہ ہے کہ بعد اس کے خدا تعالیٰ نے حمل کے ایام میں ایک لڑکی کی بشارت دی اور اس کی نسبت فرما یا تُنشّاء فِي الْحِليةِ یعنی زیور میں نشو ونما پائے گی یعنی نہ خود سالی میں فوت ہوگی اور نہ تنگی دیکھے گی.چنانچہ بعد اس کے لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مبارکہ بیگم رکھا گیا.۱۶۲ اس طرح حضور تحریر فرماتے ہیں کہ : میں نے خواب میں دیکھا کہ مبارکہ پنجابی زبان میں بول رہی ہے کہ منیوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ ایسی آئی جس نے ایہہ مصیبت پائی." حضورا اپنی مبشر اولاد کے تعلق میں فرماتے ہیں: یہ پانچوں جو کہ نسل سیّدہ ہیں ۱۶۳ یہی ہے پنج تن جس پر بنا ہے چونکہ ان سے اور ان کی اولاد سے حضرت نوابصاحب اور آپ کی اولاد کو تعلق قرابت پیدا ہوا اسلئے ان جب تیرا نور آیا.جاتا رہا اندھریا تو نے یہ دن دکھایا محمود صد شکر ہے خدایا صد ہو پڑھ شکر کے آیا ہے خدایا کے بارے میں حضور نے جو دعا فرمائی ہے اس کا نقل کر دینا غیر موزوں نہ ہو گا آپ فرماتے ہیں: کیوں کر ہوشکر تیرا تیرا ہے جو ہے میرا تو نے ہر اک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی دل دیکھ کر یہ احسان تیری ثنائیں گایا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی شکر تیر ا کیونکر اے میرے بندہ پرور تونے مجھے دئے ہیں یہ تیرے تین چاکر تیر ا ہوں میں سراسر تو میرا رب اکبر یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی ہے آج ختم قرآں نکلے ہیں دل کے ارماں تو نے دکھایا یہ دن میں تیرے منہ کے قرباں اے میرے رب محسن کیونکر ہو شکر احساں یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی تیرا یہ سب کرم ہے تو رحمت اتم ہے کیونکر ہوحمد تیری کب طاقت قلم ہے تیر اہوں میں ہمیشہ جب تک کہ دم میں دم ہے یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی اے قادر و توانا! آفات سے بچانا ہم تیرے در پہ آئے ہم نے ہے تجھ کو مانا غیروں سے دل غنی ہے جب سے کہ تجھ کو جانا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی احقر کو میرے پیارے اک دم نہ دور کرنا بہتر ہے زندگی سے تیرے حضور مرنا
216 تہ رکھیو واللہ خوشی سے بہتر غم سے ترے گذرنا روز کر مبارک سبحان من یرانی سب کام تو بنائے لڑکے بھی تجھ سے پائے سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے تو نے ہی میرے جانی خوشیوں کے دن دکھائے روز کر مبارک سبحان من یرانی یہ تین جو پسر ہیں تجھ سے ہی یہ ثمر ہیں یہ میرے بارو بڑ ہیں تیرے غلام در ہیں تو سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت کر ان کی خود حفاظت ہو ان پہ تیری رحمت دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی اے میرے بندہ پرور کر ان کو نیک اختر رتبہ میں ہوں یہ برتر اور بخش تاج و افسر تو ہے ہمارا رہبر تیرا نہیں ہے ہمسر یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی شیطاں سے دور رکھیو بھیو اپنے حضور رکھیو جاں پر زنور رکھیو دل پر سرور ان پر میں تیرے قرباں رحمت ضرور رکھیو یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی میری دعائیں ساری کریو قبول باری میں جاؤں تیرے واری کر تو مدد ہماری ہم تیرے در پہ آئے لے کرامید بھاری یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی ہے میرا محمود بندہ تیرا دے اس کو عمر و دولت کر دور ہر اندھیرا نور ہو سویرا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی اسکے ہیں دو برادر ان کو بھی رکھیو خوشتر تیرا بشیر احمد تیرا شریف اصغر کر فضل سب پہ یکسر رحمت سے کر معطر یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی یہ تنیوں تیرے بندے رکھیو نہ ان کو گندے کران سے دور یارب دنیا کے سارے پھندے چنگے رہیں ہمیشہ کریو نہ ان کو مندے روز کر مبارک سبحان من یرانی اے میرے دل کے پیارے اے مہرباں ہمارے کر ان کے نام روشن جیسے کہ ہیں ستارے یہ فضل کر کہ ہو ویں نیکو گہر یہ سارے یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی اے میری جاں کے جانی اے شاہ دو جہانی کر ایسی مہربانی ان کا نہ ہووے ثانی دے بخت جاودانی اور فیض آسمانی روز کر مبارک سبحان من یرانی سُن میرے پیارے باری میری دعائیں ساری رحمت سے ان کو رکھنا میں تیرے منہ کے واری لخت جگر دن ہوں مرادوں والے پر
217 اپنی پنہ میں رکھیو سن کر یہ میری زاری روز کر مبارک سبحان من یرانی اے واحد و یگانہ اے خالق زمانہ میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی فکروں سے دل حزیں ہے جاں درد سے قریں ہے جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے ہر غم سے دور رکھنا تو ربّ عالمیں ہے روز کر مبارک سبحان من یرانی اقبال کو بڑہانا اب فضل لے کے آنا ہر رنج سے بچانا دکھ درد سے چھڑانا خود میرے کام کرنا یا رب نہ آزمانا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی یہ تینوں تیرے چاکر ہوویں جہاں کے رہبر ہادی جہاں ہوں یہ ہوویں نور یکسر یہ مرجع شہاں ہو ں یہ ہوویں مہر انور یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی اہل وقار ہوویں فخر دیار ہوویں حق پر شار ہوویں مولی کے یار ہوویں با برگ و بار ہوویں اک سے ہزار ہوویں روز کر مبارک سبحان من یرانی تو ہے جو پالتا ہے ہر دم سنبھالتا ہے سے نکالتا ہے دردوں کو ٹالتا ہے کرتا ہے پاک دل کو حق دل میں ڈالتا ہے یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی تو نے سکھایا فرقاں جو ہے مدار ایماں جس سے ملے ہے عرفاں اور دور ہووے شیطاں یہ سب ہے تیرا احساں کہ تجھ پر شار ہو جاں روز کر مبارک سبحان من یرانی تیرا نبی جو آیا اُس نے خدا دکھایا دین قویم لایا بدعات کو مٹایا حق کی طرف بلایا مل کر خدا ملایا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی قرباں ہیں تجھ پہ سارے جو ہیں میرے پیارے احساں ہیں تیرے بھارے گن گن کے ہم تو ہارے دل خوں ہے غم کے مارے کشتی لگا کنارے یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی اس دل میں تیرا گھر ہے تیری طرف نظر ہے تجھ سے ہوں میں منور میرا تو تو قمر ہے تجھ پر میرا توکل در پر ترے یہ سر ہے روز کر مبارک سبحان من یرانی جب تجھ سے دل لگایا سو سو ہے غم اُٹھایا تن خاک میں ملایا جاں پر وبال آیا پر شکر اے خدایا جاں کھو کے تجھ کو یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی دیکھا ہے تیرا منہ جب چکا ہے ہم پہ کوکب مقصود مل گیا سب ہے جام اب لبالب تیرے کرم سے یارب میرا بر آیا مطلب یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی احباب سارے آئے تو نے یہ دن دکھائے تیرے کرم نے پیارے یہ مہرباں بلائے پایا
218 تہ یہ دن چڑھا مبارک مقصود جس میں پائے یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت روز کر مبارک سبحان من یرانی دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی اے دوستو پیارو عقبی کو مت بسارو کچھ زاد راہ لے لو.کچھ کام میں گذارو دنیا ہے جائے فانی دل سے اسے اتارو روز کر مبارک سبحان من یرانی جی مت لگاؤ اس سے دل کو چھڑاؤ اس سے رغبت ہٹاؤ اس سے بس دور جاؤ اس سے یا رویہ اثر رہا ہے جاں کو بچاؤ اس سے یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی قرآن کتاب رحماں سکھلائے راہ عرفاں جو اسکے پڑھنے والے ان پر خدا کے فیضاں ان پر خدا کی رحمت جو اس پر لائے ایماں یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی ہے چشمہ ہدایت جس کو ہو یہ عنایت یہ ہیں خدا کی باتیں ان سے ملے ولایت یہ نور دل کو بخشے دل میں کرے سرایت یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی قرآں کو یاد رکھنا پاک اعتقاد رکھنا فکر معاد رکھنا پاس اپنے زاد رکھنا ہے پیارے صدق و سداد رکھنا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی صرف یہ ایک ہی کوئی کم فخر نہ تھا.لیکن اللہ تعالے انے اس سے بھی بڑھ کر آپ پر افضال و رحمت نازل کئے اور موسلا دھار بارش کی طرح کئے.اب حضور کی ایک ہی صاحبزادی باقی تھیں ان کے متعلق ” دخت کرام“ کا الہام ہوا تھا.جدی طور پر نھیال اور ددھیال دونوں طرف سے پہلے ہی کریم بنت کریم تھیں.اس الہام سے سسرال کے لحاظ سے دختر کرام بننا اور اپنے اخلاق کریمانہ کے لحاظ سے دُخت کرام ثابت ہونا مراد تھا چنانچہ وہ بھی نواب صاحب کے ایک صاحبزادے کے عقد میں آئیں.بعد ازاں رشتوں کا سلسلہ اس طور پر چلا کہ اللہ تعالے نے نواب صاحب کی صرف اس اولاد کی نسل جاری کی کہ جو حضرت اقدس کے تعلق اور وساطت سے وابستہ ہے.چنانچہ میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب کے ہاں کسی اولاد کا نہ ہونا افسوس کا باعث ضرور ہے مگر ممکن ہے کہ یہ امر اس وجہ سے ہو کہ اُن کی اہلیہ احمدیت میں داخل نہیں اسی طرح میاں محمد عبدالرحیم خاں صاحب کے ہاں بھی اولا د نہیں ، ان کے گھر سے بھی غیر احمدی ہیں.اس طرح پر اللہ تعالے نے چاہا کہ آئندہ نواب صاحب کی وہی اولا د بڑھے گی جو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صاحبزادیوں کی اکیسر
219 اولاد ہے اور یہ دراصل اس پیشگوئی کے موافق ہے جو خود حضرت اقدس کی اولاد کثیر کے متعلق ہے.جب حضور چالیس روز تک بمقام ہوشیار پور خلوت گزیں ہو کر خاص طور پر عبادت واذکار میں مصروف ہوئے اور اسلام کی ترقی کے لئے دعائیں کیں ان کو قبول کر کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو ایک خاص شان کے فرزند کی ولادت کی خبر دی.اس الہام کو حضور نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء کے اشتہار میں شایع کیا.اس کا ایک حصہ یہ ہے.تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین ۱۶۴ مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا.تیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا ؟ سونو اب صاحب کی کئی صاحبزادیاں پوتیاں اور ایک نواسی حضور کے خاندان میں نکاح میں آ کر موعود خواتین مبارکہ کے زمرہ میں شامل ہوئیں نیز خذوا التوحيد التوحید یا ابناء الفارس کے الہام میں جو ابناء فارس مخاطب ہوئے ہیں ان کا ایک حصہ آپ کی اولاد میں سے ہونے والی خواتین مبارکہ کے بطن سے ہونے کے باعث یہ امر نواب صاحب کی علومشان کو اور بھی چار چاند لگاتا ہے اور مرورزمانہ سے یہ فخر نواب صاحب کا بڑھتا رہے گا اور ان امور میں کبھی کوئی شخص آپ کا مماثل نہیں ہوسکتا.جف القلم بما هو كائن.شجرہ نسب سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس سے آپ کو اس وقت تک پندرہ قرابیں ہو چکی ہیں چنانچہ دو رشتوں سے آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سمدھی اور ایک رشتہ سے حضور کے داماد.دو رشتوں سے حضرت خلیفۃ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے کے سمدھی.دو رشتوں سے قمر الا بنیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے سدھی اور ایک رشتہ سے آپ حضرت اقدس کے سسرال میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کے سمدھی ہوتے ہیں آپ کی صاحبزادی محترمہ بو زینب بیگم صاحبہ ایک رشته سے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے کی اور ایک رشتہ سے حضرت اقدس کے نبیرہ مکرم صاحبزادہ مرزا عزیز احمد کی سدھن ہوئیں اور نواب صاحب کے صاحبزادہ مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب حضرت اقدس علیہ السلام کی فرزندی میں آنے کی فضیلت کے علاوہ ایک رشتہ سے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور دورشتوں سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے سمدھی ہونے کا شرف بھی رکھتے ہیں.نواب صاحب کا پردہ کے متعلق تشدد محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ کے وفات کی بعد حضور نے نواب صاحب کے ایک جگہ رشتہ کرا دینے کی
220 انتہائی کوشش کی.چنانچہ آپ کا بیان ہے کہ: ” میری دوسری بیوی کے انتقال پر حضرت نے بتوسل حضرت مولانا (مولوی) نورالدین صاحب شیخ فضل الہی صاحب سوداگر راولپنڈی کی سالی سے میرا رشتہ کرنا چاہا مجھے یہ رشتہ پسند نہ تھا کیونکہ مجھے ان کے اقربا اچھے نہ معلوم ہوتے تھے.مگر حضرت کو یہ رشتہ بہت پسند تھا.زور دیا.شیخ فضل الہی صاحب نے خود یہ بات اٹھائی کہ وہ ان کی سالی بہنوئیوں سے پردہ نہ کرے گی اور سخت پردہ کی پابندی نہ ہوگی (میرے متعلق کہا ) کہ نواب صاحب سنا جاتا ہے پردہ میں سختی کرتے ہیں.حضرت میرے پاس میرے مکان پر خود تشریف لائے اور فرمایا کہ وہ یہ کہتے ہیں میں نے عرض کی قرآن شریف میں جو فہرست دی گئی ہے میں اس سے تجاوز کرنا نہیں چاہتا.فرمانے لگے کہ کیا بہنوئی سے بھی پردہ ہے میں نے عرض کیا کہ حضور مجھ سے زیادہ جانتے ہیں.جہاں تک مجھے معلوم ہے قرآن شریف کی فہرست میں بہنوئی نہیں چنانچہ آپ خاموش ہو گئے.اور پھر اس رشتے کے متعلق آپ نے کچھ نہیں فرمایا اور شیخ صاحب چلے گئے مکرم عرفانی صاحب اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ در شیخ فضل الہی صاحب مع اپنے اہل وعیال کے قادیان آئے تھے اور بڑے ٹھاٹھ سے رہتے تھے.حضرت اقدس کو ان کی خاطر منظور تھی اور وہ لڑکی بڑی خوب صورت مگر کسی قدر آزاد طبیعت نئے تمدن اور ماحول کی وجہ سے تھی اس لئے ایسی صورت پیش آئی.اس رشتہ میں نواب صاحب کی ناپسندیدگی کے وجوہات پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں مگر ایک بات جو ان کی پاکیزہ فطرتی پر دلالت کرتی ہے اس کا ذکر نہ کرنا ایک ظلم ہوگا.لڑکی نہایت خوب صورت.خاندان دنیوی حیثیت سے ممتاز.مگر نواب صاحب کے مد نظر اگر یہ چیزیں ہوتیں تو ضرور پسند کرتے مگر ان کے زیر نظر تو دین اور صرف دین تھا اور وہ بات من وجہ موجود نہ تھی علاوہ ازیں یہ امر سرار الهیة یہ نواب صاحب کی روایت کے اصل لفاظ ہیں تغییر الفاظ یہ روایت الفضل مورخہ ۳۸-۶-۱۴ میں شائع ہو چکے ہیں شیخ صاحب خلافت ثانیہ کے قیام پر جماعت سے وابستہ نہیں ہوئے اور اب فوت ہو چکے ہیں.
221 میں سے ہے.اللہ تعالے اکے علم میں تو یہ مقام حضرت سیدہ مبارکہ صاحبہ کے لئے تھا اور اس وقت حضرت اقدس کے بھی وہم و گمان میں نہ تھا ورنہ حضرت فضل الہی صاحب کی سالی کے رشتہ پر زور نہ دیتے مگر آگے چل کر اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر کا ظہور ہوا اور بہت مبارک ہوا.‘“ مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب کا بیان ہے کہ نواب صاحب ہمیشہ فرماتے جو قرآن کریم نے فہرست اقارب پردہ کے تعلق میں پیش کی ہے اس پر عمل کرنا فرض ہے جب والدہ صاحبہ زندہ تھیں تو اول تو وہ خود گھر سے باہر جانا پسند نہ کرتی تھیں اور آپ بھی ان کو رشتہ داروں کے ہاں جانے سے احتراز کی تلقین کرتے لیکن اگر کبھی ضرورت ہوتی اور شیروانی کوٹ وغیرہ جانا ہوتا تو گاڑی میں بٹھا کر اسے قفل لگواتے پھر ایک بہت بڑی چادر سے گاڑی کو لپیٹ دیا جاتا.اور ایک جمعدار کو اس کی چابی دی جاتی جو کو چوان کے علاوہ اسی کام کے لئے مقرر ہوتا.خالہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ بھی اسی طرح پردہ کرتیں.ایک دفعہ خالہ جان لاہور گئیں تو گاڑی کے ڈبے سے اتارتے وقت بہت بڑی چاندنیاں استعمال کی گئیں جو ڈبے کے اوپر سے پلیٹ فارم پر ڈولی تک تان دی گئیں اور اس پر دہ تلے وہ ڈولی میں سوار ہوئیں.اسی طرح پہلی دفعہ جب قادیان آئیں تو ڈبہ ریز رو تھا.جب بٹالہ اسٹیشن پر باہر آنے لگیں تو اسی طرح پردہ کر کے اتار کر فینس بلا میں سوار کیا گیا.اور اوپر سے چادر میں لپیٹ دی گئیں.مجھے بھی خالہ جان کے ہمراہ اس میں سوار کیا گیا تھا.باوجو د موسم سرما کی سردی کے میرا اس جس میں گرمی سے بُرا حال ہوا.اور میں نے چلتی فمینس سے نیچے چھلانگ لگا دی.پردہ کے تشدد کی وجہ نواب صاحب کا پردہ کے بارے میں تشد د بلا وجہ نہ تھا.مالیر کوٹلہ میں اقارب خلیج الرسن ہو کر ہر قسم کی رنگ رلیوں میں مشغول ہو چکے تھے اور زمانہ کا رنگ اچھا نہ تھا بعض اقارب کنچنیاں رکھتے تھے اور ان کے ملاقاتی آتے تو کنچنوں کی موجودگی میں بے حجابانہ ان سے ملتے اور ہنسی مذاق ہوتا.نواب صاحب کی تقوی شعاری اور ایسے امور سے اجتناب کا ان لوگوں پر گہرا اثر تھا.اور باوجود یکہ یہ لوگ خاندانی لحاظ سے بزرگوں کا درجہ رکھتے تھے.مگر کیا مجال کہ ان عورتوں کی موجودگی میں نواب صاحب سے ملاقات کریں.مگر میاں محمد عبداللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ چونکہ دوسرے اقارب کے بُرے چال چلن کی وجہ سے والد صاحب شکرم کی طرز کی گاڑی جس کو آٹھ کے قریب کہا ر ا ٹھاتے ہیں.
222 پردہ کے نہایت سختی سے پابند تھے حتی کہ خادمات کی عفت و عصمت کی بھی بہت تشدد سے حفاظت کرتے تھے.خادمات کے مردوں سے خلائلہ کی اجازت نہ تھی.ڈیوڑھی پر پانچ چھ معمر آدمی پہرہ دار کے طور پر متعین ہوتے جن پر ایک جمعدار جو داروغہ ڈیوڑھی کہلاتا.افسر ہوتا.خادمات جو اندر سے آتیں یا اندر جاتیں ان کے لئے با قاعدہ اجازت نامے بنے ہوئے تھے.والد صاحب ناچ گانے بجانے سے انتہائی نفرت رکھتے تھے اور بیاہ شادی یا ولادت کسی موقعہ پر بھی اجازت نہ دیتے تھے.ایک دفعہ مالیر کوٹلہ میں آپ دو پہر کے وقت آرام کر رہے تھے.ایک میراشن نے گانا بجانا شروع کیا.اور آپ نے بھی آواز سن لی چنانچہ اُسے سختی سے تنبیہ کی.مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم اے حال ربوہ نے مجھے سنایا کہ قادیان کے نیک ماحول میں چونکہ ایسے تشدد کی ضرورت نہ تھی.اس لئے بعد میں میں نے نواب صاحب کو سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے ہمراہ اپنی کوٹھی سے شہر پیدل جاتے بھی دیکھا ہے.ملک صاحب کے بیان سے پردہ کے تشدد کی توجیہ کی تصدیق ہو جاتی ہے.اسلامی پرده پردہ کے تعلق میں حضرت اقدس کے متعلق نواب صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پردہ کے متعلق دریافت کیا اس وقت میں ایک کام کے لئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تھا.اس وقت صرف میں اور حضرت صاحب ہی تھے اور یہ اس مکان کا صحن تھا جو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے رہائشی مکان کا صحن تھا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے جنوبی جانب بڑے کمرے کی چھت پر تھا.حضرت اس وقت وہاں تشریف رکھتے تھے.حضور نے دستار کے شملہ سے مجھے ناک کے نیچے کا حصہ اور منہ چھپا کر بتلایا کہ اس طرح ہونا چاہئے.گویا آنکھیں کھلی رہیں اور باقی سب ڈھکا ر ہے.اس سے قبل حضرت مولانا نورالدین صاحب سے میں نے ایک دفعہ دریافت کیا تھا اور آپ نے گھونگٹ نکال کر دکھلایا تھا.“ یہ روایت کے اصل الفاظ ہیں جو بادنی تغیر الفضل مورخہ ۳۸-۲-۱۴ میں شائع ہو چکے ہیں.
223 سیده مبارکه بیگم صاحبہ کے رشتے کے لئے سلسلہ جنبانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا ہے.ترے اے مرے مربی کیا عجائب کام ہیں گرچہ بھا گیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار حضور خود نواب صاحب کا رشتہ کسی اور جگہ کرنا چاہتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر اپنا کام کر رہی تھی.پہلے ہم ذکر کر چکے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نواب صاحب کی صاحبزادی کو اپنی بہو کے طور پر انتخاب فرمایا.حضور نواب صاحب کے نکاح کے لئے بھی کوشش میں تھے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے بیان کے مطابق اس کی تفصیل یوں ہے کہ اس دوران میں نواب صاحب کی شادی کے ذکر کئی جگہ اٹھے کوئی نہ کوئی بات پیدا ہو کر ختم ہوئے.غیر احمدی خاندان کی ایک لڑکی کو خود حضرت مسیح موعود نے ایک نظر حسب حکم شریعت کہلا بھی دیا مگر بعض وجوہ سے یہ رشتہ بھی نا پسند ہی رہا.میری عمر اس وقت چھوٹی تھی.مگر لڑکیاں اور خصوصاً اچھی اٹھان کی لڑکیاں بچپن کی حد سے نکل کر جب بڑھنے لگتی ہیں تو پھر واقعی لکڑی کی طرح بڑھتی ہیں.اللہ تعالیٰ کی تقدیر یوں کام کر رہی تھی کہ ادھر ان کی شادی کا سوال ہر جگہ اُٹھ کر رہ جاتا تھا اور ادھر سال پلٹتے پلٹتے کافی بڑی ہو گئی تھی اور غالبا یہ دیکھ کر ہی کہ یہ سوال بھی قابل غور ہو سکتا ہے سب سے پہلے یہ خیال حضرت خلیفہ اول کے دل میں پیدا ہوا.میاں فرماتے تھے کہ ایک جگہ خط لکھوانے کو میں حضرت مولوی صاحب کے پاس حاضر ہوا اور ذکر کیا تو بے دلی سے قلم اٹھا کر فرمایا کہ اچھا لکھ دیتے ہیں مگر دل نہیں چاہتا.ہمارا تو کچھ اور دل چاہتا ہے.مگر زبان جلتی ہے.کہتے تھے جب آپ نے فرمایا کہ زبان جلتی ہے.تو میں فور اسمجھ گیا اور پھر آپ سے پوچھا بھی نہیں کیونکہ آپ کے ادب کو میں جانتا تھا اور کہا کہ نہیں پھر آپ نہ لکھیں اور اٹھ کر آ گیا اور اس کے بعد قطعی اور طرف خیال ترک کیا ، دعا شروع کی.مگر حضرت خلیفہ اول کے شاگرد تھے جائے ادب سمجھ کر زبان پر لفظ نہ لا سکتے تھے.آخر جرات کی اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کی بیوہ حضرت مولویا نی صاحبہ سے ( جو اسی نام سے مشہور تھیں اور بہت ہمدردطبع تھیں اور اکثر نواب صاحب کے ہاں بوزینب صاحبہ کو دیکھنے جاتی تھیں.بات کی اور سخت تاکید کردی کہ میرا نام نہ لینا اور پیام کی طرح سے نہ کہنا صرف اپنے طور پر عندیہ لینا کہ ایسا ہو سکتا ہے ؟ مگر وہ صاف گو اور حضرت سے بے تکلف تھیں میرا نام لے کر ہی کہ دیا اور آ کر بتلا بھی دیا اور کہا کہ حضور نے جواب دیا ہے کہ میری لڑکی ابھی چھوٹی ہے.بیس سال کی عمر میں اس کی شادی ہم تو کریں گے وہ اتنا انتظار کر سکتے ہیں؟ گویا ایک ٹالنے کی ہی بات سمجھی جاسکتی تھی.مگر کہتے تھے کہ اب میرے لئے بھی دوسری جگہ سوچنا تک مشکل ہو گیا تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق پیدا
224 ہو جانے کی سخت خواہش پیدا ہو گئی تھی.پھر حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ کا اشارہ ہی میں سمجھ گیا تھا اور یہ معاملہ اس طرح ہوا.وہاں سے قریباً جواب ہی ملا ہے.انہوں نے فرمایا کہ آپ کہلا بھیجیں کہ جتنے سال بھی فرمائیں گے بڑی خوشی سے انتظار کروں گا.اب یہ سلسلہ غالبا استاذی المکرم پیر منظور محمد صاحب کی معرفت چلا.دوسری بار حضور نے فرمایا کہ کم از کم چار سال ( غالبا ) کو میں تو شادی کر سکتا ہوں.حضرت خلیفہ اول نے سن کر فرمایا کہ سال کم تو ہوئے جو بھی فرما ئیں آپ منظور کر لیں.آخر کار ایک دن خود ہی خط لے کر پیر محمد صاحب آگئے کہ اس شرط مہر پر رشتہ منظور ہے نکاح ہو جائے رخصتانہ ایک سال کے بعد.اس وقت میری عمر صرف گیارہ سال بلکہ چند دن کم ہی تھی.نکاح کی بابت خط و کتابت اس مبارک نکاح کے بارے میں جو خط و کتابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت نواب صاحب کے مابین ہوئی ہم ذیل میں درج کر دیتے ہیں.نواب صاحب نے مالیر کوٹلہ جانے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے حضور کی خدمت میں تحریر کیا.بسم الله الرحمن الرحيم سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالے.السلام علیکم.میں نے چونکہ آج غسل کیا ہے.اور سردی کی برداشت بہ سبب اس کے، ابھی نزلہ وغیرہ سے فارغ ہوا ہوں کہ نہیں ہے.اس لئے سیر سے آج معافی چاہتا ہوں.دوم.چونکہ میری ابتلا ئیں آج کل بہت بڑھی ہوئی ہیں اور خصوصاً مالی مشکلات اس لئے اس انتظام کے لئے ضروری طور پر مجھ کو کوٹلہ جانے کی سخت ضرورت ہے.میں اب تک جا بھی آیا ہوتا مگر بخار ہو جانے کی وجہ سے رک گیا.اب چونکہ اچھا ہوں اور فصل کا موقعہ ہے وہاں میری سخت ضرورت ہے اس لئے چاہتا ہوں کہ اگر حضور اجازت فرمائیں تو کل کوٹلہ چلا جاؤں اور ۲۶ یا ۲۷ تک واپس آ جاؤں گویا اس طرح زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ لگے گا.سوم.چونکہ بعض اسباب ایسے پیش آگئے کہ بعض ملازم میرے ساتھ جائیں گے.یہاں ملازموں کی کمی ہوگی اسلئے عرض ہے کہ ایک ہفتہ کے لئے اگر حضور نور محمد کو اجازت فرما دیں تو وہ میرے بچوں کے پاس ایک ہفتہ رہے.چہارم.رتھ کی بھی اجازت چاہتا ہوں.پنجم.حضور جانتے ہیں کہ سخت ابتلا کی وجہ سے میں ایسے نازک وقت میں جاتا ہوں ورنہ ایسے موقعہ میں رض
225 کہ جلسہ سر پر ہے ، اور سردی سخت ہے مجھ کو جانا پڑا ہے بس استدعاء دعا ہے کہ میرے بچوں اور متعلقین کو حسنات دین دنیا حاصل ہوں اور ہر طرح صحت رہے اور ہر طرح خیر رہے اور جس کام کے لئے میں جاتا ہوں وہ بخیر و خوبی ہو جائے.حضور نے جوابا تحریر فرمایا: راقم محمد علی خاں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ.آپ کو اجازت ہے آپ چلے جائیں.نور محمد بے شک اس وقت تک رہے صرف اس قدر کام کر دیا کرے کہ پانچ چار روٹیوں کے لئے جو پھلکے پکاتا ہے وہیں آٹا لے جائے اور پکا کر بھیج دے اور لال ٹمینوں میں تیل ڈال دیا کرے.رتھ تو آپ کا مال ہے جب چاہیں لے جائیں اور میں اب ایک مدت سے ہر یک نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور کل میں نے سنا ہے کہ میری لڑکی مبارکہ کے (لئے ) آپ کی طرف سے پیغام آیا تھا اس میں ابھی دو مشکلات ہیں.-1 ایک یہ کہ ابھی وہ صرف گیارہ سال عمر پورے کر چکی ہے اور پیدائش میں بہت ضعیف البنیان اور کمزور ہے کھانسی ریزش تو ساتھ لگی ہوئی ہے جب تک کہ پندرہ سال کی نہ ہو جائے کسی صورت سے شادی کے لائق نہیں.اگر پہلے ہو تو اس کی عمر کا خاتمہ ہو جائیگا.-۲ دوسرے نہایت خوفناک امر جو ہر وقت دل کو غمناک کرتا رہتا ہے ایک پیشگوئی ہے جو چند دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو چکی ہے.میں نے بجز گھر کے لوگوں کے کسی پر اس کو ظاہر نہیں کیا.اس پیشگوئی کے ایک حصہ کا حادثہ ہم میں اور آپ میں مشترک ہے بہت دعا کرتا ہوں کہ خدا اس کو ٹال دے.اور دوسرے حصہ کا حادثہ خاص ہم سے اور ہمارے گھر کے کسی شخص کے متعلق ہے یہ بھی الہام کسی حصہ کی نسبت ہے کہ ۲۷ تاریخ کو وہ واقعہ ہوگا.نہیں معلوم کس مہینہ کی تاریخ اور کونسا سن ہے.اخبار میں میں نے چھپوا دیا ہے اور آپ کو معلوم ہوگا کہ شاید ایک مہینہ کے قریب ہو گیا کہ میں نے ایک الہام اخبار میں صرف اشارہ کے طور پر چھپوایا تھا جس کی یہ عبارت تھی کہ ایک نہایت چھپی ہوئی خبر پیش کرتا ہوں دراصل وہ خبر ان ہی حوادث کے متعلق ہے یہ بھی دیکھا کہ گھر میں ہمارے ایک بکرا ذبح کیا ہوا کھال اتاری ہوئی ایک جگہ لٹک رہا ہے پھر دیکھا کہ ایک ران لٹک رہی ہے.یہ سب بعض موتوں کی طرف اشارات ہیں.میں دعا کر رہا ہوں.والسلام مرزا غلام احمد نوٹ : اس خط کا جواب میں نے یہ دیا تھا کہ جو کچھ حضرت اقدس نے تحریر فرمایا ہے درست اور قبول و
226 منظور اور انتظار ممکن.محمد علی خاں یا داشت ارذوالحجہ ۱۳۲۵ھ مطابق ۱۵ جنوری ۱۹۰۸ء آج مرزا خدا بخش حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السّلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میری شادی کے متعلق تذکرہ ہوا.اور مبارکہ بیگم کی نسبت جو میرا پیغام گیا ہوا تھا اس کے متعلق ذکر ہوا.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم بھی ایک برس کو جواب دیں گے.یہ مرزا خدا بخش صاحب ( نے ) مجھے آ کر کہا اب دیکھئے کب شادی ہوتی ہے.محمد علی خاں.حضور کی طرف سے مہر کی تعیین بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.میری لخت جگر مبار کہ بیگم کی نسبت جو آپ کی طرف سے تحریک ہوئی تھی میں بہت دنوں تک اس معاملہ میں سوچتا رہا.آج جو کچھ خدا نے میرے دل میں ڈالا ہے اس شرط کے ساتھ اس رشتے میں مجھے عذر نہیں ہوگا اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کو بھی اس میں تامل نہیں ہوگا ، اور وہ یہ ہے کہ مہر میں آپ کی دو سال کی آمدن جا گیر مقرر کی جائے یعنی پچاس ہزار روپیہ اور اس اقرار کے بارے میں ایک دستاویز شرعی تحریری آپ کی طرف سے حاصل ہو.میں خوب جانتا ہوں کہ آپ نہایت درجہ اخلاص میں گداز شدہ ہیں اور آپ نے ہر ایک پہلو سے ثبوت دے دیا ہے کہ آپ کو جان فشانی تک دریغ نہیں.مگر جو کچھ میں نے تحریر کیا ہے وہ اول تو آپ کی خدا دا د حیثیت سے بڑھ کر نہیں اور پھر آپ کی ذات کی نسبت نعوذ باللہ اس میں کوئی بدگمانی نہیں.محض خدا نے میرے دل میں ایسا ہی ڈال دیا ہے.اور ظاہری طور پر اس کے لئے ایک صحیح بناء بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ موت حیات کا اعتبار نہیں اور آپ کے خاندان کے عمل درآمد کی رو سے عورتیں اپنے شرعی حقوق سے محروم ہوتی ہیں اور اگر بعد میں کچھ گزارہ تجویز کیا جائے تو وہ مشکوک اور (نہ) اپنے اختیار میں ہوتا ہے اور خدا آپ کی اولاد کی عمر دراز کرے وہ بعد بلوغ اپنے اپنے خیالات اور اغراض کے پابند ہوں گے.اور حق مہر کا فیصلہ ایک قطعی امر ہے اور ایک قطعی حق ہے جو خدا نے ٹھہرا دیا ہے اور عورتیں جو بے دست و پا ہیں اس حق کے سہارے سے ظلم سے محفوظ رہتی ہیں.آپ کی زندگی میں اس مہر کا مطالبہ نہیں لیکن خدانخواستہ اگر لڑ کی کی عمر ہو اور آپ کی عمر وفا نہ کرے تو اس کی تسلی اور اطمینان کے لئے اور پریشانیوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ طریق اور اس قدر مہر کافی ہوگا.تا کہ دوسروں کے لئے صورت رعب قائم رہے.یہ وہ امر ہے جس کو سوچنے کے لئے میں آپ کو اجازت نہیں دیتا.ایک قطعی فیصلہ ہے اور میں نے ارادہ کیا ہے کہ اگر ان دونوں باتوں کی
227 آج آپ تکمیل کر دیں تو گولڑ کی ایک سال کے بعد رخصت ہومگر پیر کے دن نکاح ہو جائے.یہ ایک قطعی فیصلہ ہے جو میری طرف سے ہے اس میں کسی طرح کمی بیشی نہیں ہوگی.اس وجہ سے میں نے اس خیال سے اور اسی انتظار سے عزیزی سید محمد اسمعیل ( مراد حضور کے برادر نسبتی حضرت ڈاکٹرمحمد اسمعیل صاحب مولف ) کو پیر کے دن تک ٹھہرالیا ہے.مگر آپ کی طرف سے اس شرط کی نا منظوری ہوگئی تو پھر وہ کل ہی اپنی نوکری پر چلا جائے گا.والسلام راقم مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱۲ فروری ۱۹۰۸ء ( مکتوب غیر مطبوعہ ) نوٹ: اس خط کا جواب زبانی پیر منظور محمد صاحب حامل خط ہذا کو یہ دید یا تھا کہ مجھ کو بلا عذ رسب کچھ منظور ہے.محمد علی خاں.حضور نے نکاح کے موقعہ کے تعلق میں حکیم محمد حسین صاحب قریشی رضی اللہ عنہ کو ذیل کا مکتوب ارسال فرمایا: "بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.اس وقت رات کا وقت ہے.میں قیمت نہیں بھیج سکتا.آپ مفصلہ ذیل کپڑے ساتھ لے آویں.آپ کے آنے پر قیمت دیدی جاوے گی.بہر حال اتوار کو آ جائیں والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ ہے تحریراسٹامپ مہر نامہ مہر نامہ جواسٹامپ پر اس بارہ میں ضبط تحریر میں لایا گیا نیز اخراجات وغیرہ کی یادداشتیں درج ذیل کی جاتی ہیں.یہ سب کچھ تاریخی حیثیت رکھتا ہے.نیز یہ امر بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کام کو پورے حزم واحتیاط سے اور مکتوبات امام بنام غلام.اس میں پار چات کی فہرست درج نہیں.ذیل کا نوٹ درج ہے فرماتے ہیں، نوٹ : یہ اس موقعہ پر حضور پر نور نے مجھ خاکسار کو کمال مہربانی سے یاد فرمایا تھا جبکہ صاحبزادی مبارکہ بیگم کے نکاح کی تقریب سعید اگلے روز قرار پا چکی تھی اور الحمد للہ کہ ہم چند خادمان لاہور جن کو حضور نے یا د فرمایا تھا موقعہ پر پہنچ کر اس مبارک تقریب میں شامل ہوئے.قریشی خاکسار مولف عرض کرتا ہے کہ قریشی صاحب کو مکتوب کی تاریخ کے بارے میں سہو ہوا ہے کہ نکاح سے ایک روز قبل کا ہے کیونکہ نکاح ۷ار فروری ۱۹۰۸ء کو بروز سوموار ہوا اور پارچہ جات خرید کر اتوار کو قادیان پہنچنے کا حضور قریشی صاحب کو ارشاد فرماتے ہیں اس لئے یہ مکتوب نکاح سے ایک روز نہیں بلکہ کم از کم دور وز قبل کا معلوم ہوتا ہے.
228 اونچ نیچ پر سوچ بچار کر کے اور عواقب کو زیر غور لا کر سر انجام دینا تو کل کے منافی نہیں بلکہ تو کل کا ایک اہم اور لا بدی جزو ہے.مہر نامہ از جانب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ خلف خاں صاحب غلام محمد خاں صاحب مرحوم رئیس مالیر کوٹلہ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم باعث تحریر آنکه چونکہ آج بتاریخ ۱۴ محرم الحرام ۱۳۲۶ ہجری مطابق ۷ ارفروری ۱۹۰۸ء بروز دوشنبہ کو میر ا عقد نکاح مبارکه بیگم دختر سید نا ومولانا وامامنا حضرت میرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام رئیس قادیان ضلع گورداسپور سے بعوض مہر مبلغ چھپن ہزار روپیہ ۵۶۰۰۰ کلدار جس کے نصف مبلغ اٹھائیس ہزار ۲۸۰۰۰ روپیہ ہوتے ہیں ہوا ہے یہ چھپن ہزار روپیہ مہر مبارکہ بیگم صاحبہ مذکور کا بطور مؤجل مقرر ہوا ہے.جو میرے اور میرے ورثاء پر حق واجب ہے.پس زوجہ ام مذکور جب چاہیں اس رقم کو مجھ سے یا مرے ورثاء سے وصول کر سکتی ہیں پس یہ چند کلمات مہر نامه واقرار نامہ وسند کے لکھ دئے ہیں کہ عند الحاجت کام آئیں.المرقوم ۱۷ار فروری ۱۹۰۸ء بقلم خود محمد علی خاں خلف خانصاحب غلام محمد خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ گواه شد نورالدین پسر حافظ غلام رسول قریشی فاروقی ساکن بھیرہ ضلع شاہ پور حال قادیان ضلع گورداسپور گواه شد KH Kamaluddin Pleader witness to prompt dower Rs fifty six thousand Tajuddin Acct N.W.Ry گواه شد گواه شد S.Rehmatullah Ahmadi Proprietor the English ware house The Mall Lahore SimlA مکرم عرفانی صاحب بطور تحديث بالنعمته بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے تکمیل دستاویزات ضرور یہ اور خطبہ نکاح کا تاریخی موقعہ عطا فرمایا.رجسٹر وغیرہ کو میں خود جا کر لایا اس لئے کہ ان ایام میں اس قسم کے تمام امور جو آج نظارت امور عامہ و خارجہ کرتی ہے اسی خاکسار کے عملاً سپر دتھے.اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی حمد ہے کہ مجھے اس مبارک تحریک میں اہم خدمت اور ثواب کا موقعہ دیا.
گواه شد 229 گواه شد Muhammad Ali Editor Review of بابتہ چھپن ہزار روپیہ مہر موجل مذکورہ بالا محمد Religions Qadian.صادق عفی اللہ عنہ عثمانی قریشی ولد مفتی عنایت اللہ ایڈیٹر اخبار بدر قادیان ضلع گورداسپور گواه شد محمد حسین انسپکٹر ڈاکخانجات گواه شد گواه شد گواه شد یعقوب علی ایڈیٹرو ما لک الحکم قادیان بقلم خود حکیم محمد حسین قریشی کارخانه رفیق الصحت محمد سرور سپر نٹنڈنٹ بورڈنگ ہاؤس تعلیم الاسلام گواه شد لاہور گواه شد د معراج الدین عمر مالک اخبار بدر قادیان خلیفہ رجب الدین تاجر ورئیس لا ہو ر حالوار قادیان گواه شد گواوش مرزا نظام الدین بقلم خود ولد مرزا غلام محی الدین شیر علی ہیڈ ماسٹر مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان قادیان گواه شد گواهش غلام محمد فورمین ریلوے پریس لاہور حال وارد قادیان فضل دین حکیم ساکن بھیرہ شاہ پور حال قادیان ضلع گورداسپور گواه شد Chiragh uddin Govt pensioner گواه شد گواه شد شیخ عبدالرحیم اتالیق صاحبزادگان محمد علی خان صاحب حکیم شیخ نورمحمد منشی عالم ما لک ہمدم صحت لاہور رئیس مالیر کوٹلہ موری دروازہ لال حویلی
230 گواه شد سید محمد علی شاه از قادیان یه درخواست حسب درخواست مسمی محمد علی خاں صاحب خلف غلام محمد خاں رئیس و جا گیر دار مالیر کوٹلہ حال وارد قصبہ قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور ان کی جائے سکونت پر بمقام قصبہ قادیان آج بتاریخ ۲۱ فروری ۱۹۰۸ ء یوم جمعہ تا ۹ بجے دن رو بر وصاحب سب رجسٹرار بٹالہ پیش ہوئی.| ـط محمد علی خاں مقر مسمی محمد علی خاں ولد غلام محمد خاں قوم افغان ساکن قصبہ قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور نے جس کو مسمیاں نظام الدین نمبر دار ولد مرزا غلام محی الدین قوم مغل پیشه نمبرداری و شیخ یعقوب علی ولد شیخ محمد علی قوم شیخ ساکنان قصبہ مذکور نے جن کے اعتبار سے اطمینان ہو گیا ہے.شناخت کیا.تکمیل دستاویز کا اقبال کیا.العبد محمد علی خاں مقررئیس و جاگیر دار مالیر کوٹلہ.محبوب علی شاہ صاحب سب رجسٹر از بٹالہ ۲۱ فروری ۱۹۰۸ء مقر موجود نہیں مرز ا نظام الدین گواه بقلم خود شیخ یعقوب علی گواه محبوب علی شاہ رجسٹرار بٹاله ۲۱ فروری ۱۹۰۸ء دستاویز ہذا بہ نمبر ۱۱ بهی ۴ جلد ۳ صفحه ۴ ۲۸ و ۲۸۵ پر آج بتاریخ ۲۲ فروری ۱۹۰۸ء یوم شنبہ درج رجسٹر ہوئی اور نشانات انگوٹھا دست چپ ہمارے روبرو لگائے گئے.اعلان نکاح محبوب علی شاہ سب رجسٹرار بٹالہ اس بارہ میں معز زبدر کے الفاظ پڑھئے.لکھتے ہیں: مبارک ۷ار فروری ۱۹۰۸ء بروز سه شنبه (سه شنبه معلوم ہوتا ہے سہواً مرقوم ہوا یہ دوشنبہ کا دن تھا ) بعد از نماز عصر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بڑی صاحبزادی مبارکہ بیگم کا عقد نکاح حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے ساتھ ہوا.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے خطبہ پڑھا جس میں آپ نے اول عربی زبان میں حمد الہی کے
231 بعد چند آیات قرآنی پڑھیں اور پھر عربی زبان کی ضرورت اور خوبیوں پر مختصر ریمارکس کرتے ہوئے عربی عبارت کی تفسیر اور تشریح کی اور نکاح کی ضرورت اور اس کے فوائد پر بحث کی..اللہ تعالے اپنے فضل و کرم سے اس تعلق کو جانبین کے واسطے اپنی رحمتوں اور برکتوں کا موجب کرے.آمین ہم ذیل میں اس مبارک نکاح کا خطبہ درج کرتے ہیں.خطبہ نکاح جو حضرت حکیم الامتہ نے صاحبزادی صاحبہ مبارکہ بیگم کے نکاح کی تقریب پر ۱۷ فروری ۱۹۰۸ء کو ۶ ۵ ہزار مہبر پر نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ سے ہوا مسجد اقصی میں پڑھا.ایڈیٹر خطبہ نکاح الحمد لله نحمده ونستعينه ونستعفره ونومن به ونتوكل عليه ونعوذ بالله من شرور انفسنا و من سيّات اعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضلله فلا هادى له واشهد ان لا اله الا الله وحده لاشریک له و اشهد ان محمداً عبده ورسوله اما بعد اعوذ بالله من الشيطان الرحيم بسم الله الرحمن الرحیم (خطبہ مسنونہ کی آیات پڑہیں ) نکاح نام ہے اس تقریب کا جب کسی عورت یالڑ کی کا کسی مرد کے ساتھ رشتہ یا عقد کیا جاتا ہے اس میں اولا اللہ تعالے کی رضامندی دیکھ لی جاتی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ہے یا نہیں؟ پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ضابطہ اور عملدرآمد کے موافق ہے یا نہیں؟ پھر لڑکیوں کے ولی کی رضامندی ضروری ہے اگر ولی رضامند نہ ہوں اور پھر کوئی نکاح ہو تو ایسے نکاح بدیوں میں مل جاتے ہیں اور ان کے نتائج خراب اور نا گوار ہوتے ہیں ایسا ہی لڑکیوں اور لڑکوں کی رضامندی بھی ضروری ہے ان پانچ رضامندیوں کے بعد گویا نکاح ہوتا ہے ، اور اگر ان میں کسی ایک کی بھی رضا مندی اور مخالفت ہو تو پھر اس میں مشکلات پیدا ہوتے ہیں.یہ پانچ رضامندیاں کیا ہیں حق سبحانہ اللہ تعالیٰ کی اجازت ( یعنی ان رشتوں میں نہ ہو جن کی ممانعت کی گئی ہے ) آپ کے مہبط وحی جناب محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا عملدرآمد ولیوں اور طرفین کی رضامندی کے بعد جب ایک فریق منظور کرتا ہے اور دوسرا اس کو قبول کرتا ہے تو یہ نکاح ہوتا ہے.قسم قسم کی بدیوں اور شرارتوں کو روکنے کے لئے اعلان اور خطبہ نکاح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی
232 اسی طرح دوسری جگہ مرقوم ہے.مبارک گذشتہ ہفتہ میں مختصراً نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کا نکاح صاحب زادی مبارکہ بیگم کے بقیہ حاشیہ: - اعلان نکاح میں دوست دوشمن کو خبر ہو جاتی ہے اور اس سے جہاں ایک دوسرے کی غلطیوں سے آگا ہی ہو جاتی ہے وہاں وراثتوں اور جائدادوں کے جھگڑوں میں کوئی دقت پیدا نہیں ہوتی اور خطبہ کے کئی اغراض ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ عربی زبان کی حفاظت.سو یہ زبان ایسی زبان ہے جس کے ساتھ دین رسول اور قوم رسول کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کی کتاب اسی زبان میں ہے اس کتاب کی حفاظت کے مختلف سامان اور ذریعے ہیں ان میں ایک اس زبان کی حفاظت بھی ہے اس لئے اس کو مسلمانوں کے لئے تمام عظیم الشان کاموں سے تعلق ہے ان کے دینی عظیم الشان کام نماز، اقرار باللسان ، حج ، روزہ زکوۃ ہے.سوشل معاملات میں نکاح سب سے بڑا کام ہے تمدنی امور میں تجارت زراعت بھی اعلیٰ کام ہیں ، ان سب امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ، تابعین، تبع تابعین ائمہ دین ، اولیاء امت سلف صالحین اور حضرت امام الزماں نے کچھ نہ کچھ الفاظ عربی زبان کے لازمی قرار دئے ہیں.مثلاً اقرار باللسان میں لا اله الا الله وحده لا شریک له واشهد ان محمدا عبده و رسوله امام صاحب جب بیعت لیتے ہیں تو بہت سے عربی الفاظ بیان فرماتے ہیں اور معاہدہ لیتے ہیں.عربی کے الفاظ کی سنت متوارثہ مجدد الوقت نے بیعت کے الفاظ اور معاہدات میں لازم رکھا ہے.عورتوں کی بیعت میں بھی میں نے سنا ہے ایسا ہی کرتے ہیں اور مردوں کی بیعت میں تو دیکھا ہے.اقرار باللسان کے بعد اعلیٰ شان کی چیز نماز ہے.اگر کسی نے ضائع کی تو اس نے اپنا دین ضائع کیا اور سچ تو یہ ہے کہ کفر اور اسلام کا تفرقہ اسی میں واقع ہوا ہے.اس کا سارا ہی حصہ دیکھ لو.سوائے اس حصہ کے جو انسانی ضرورتوں حاجتوں اور مشکلات کے لئے دعاؤں کا ہے اس کے لئے امام نے اجازت دی ہے کہ اپنی زبان میں دعائیں مانگ لو اور اس سے پہلے امام ابو حنیفہ نے بھی اجازت دی ہے مگر پھر بھی اگر چہ ضرورتا اپنی زبان میں دعاؤں کی اجازت تو دی ہے لیکن مسنون دعاؤں کے ساتھ عربی کو ضائع نہیں کیا.یہ اجازت نہیں دی کہ نماز اپنی زبان میں پڑھو ایسا ہی حج میں لبیک اللهم لبیک لاشریک لک وغیره کلمات عربی زبان میں ہیں جمعہ کے خطبے.عیدین کے خطبے تم نے سنے ہیں ایک حصہ عربی میں ہوتا ہے اسی طرح روزہ کے متعلق جو دعائیں ہیں وہ عربی میں ہیں.اسی طرح ہر ایک کام میں یہاں تک کہ بول و برار کے
233 ساتھ ۱۷ار فروری کو ہونا ذکر کیا گیا تھا.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے خطبہ نکاح میں کیا خوب فرمایا تھا بقیہ حاشیہ : - وقت کے لئے بھی ایک حصہ عربی کا رکھا ہے.ایسا ہی خطبہ نکاح جو جوانوں بڑھوں کے لئے لازمی ہے اس میں عربی کا ایک حصہ رکھا ہے.بنوامیہ نے عربی زبان کی وسعت اور حفاظت میں بڑی کوشش کی کہ انہوں نے اپنی سلطنت میں اس کو مادری زبان بنا دیا.یہاں تک کہ الجزائر.مارکش فارمس میں اس کو مادری زبان ہی بنا دیا.مشرق میں البتہ یہ وقت رہی کہ درباری زبان ( فارسی ) کو بڑہاتے بڑہاتے اصل زبان کا درس تدریس مشرق سے مفقود ہو گیا.میں نے بارہا کوشش کی ہے کہ اگر عام مسلمان اور خاص کر ہمارے امام کی جماعت روز مرہ کے کاموں کے الفاظ کو یاد کر لے تو اسے قرآن شریف کا ایک حصہ یاد ہو جاوے لیکن افسوس سے کہا جاتا ہے کہ اس طرف بہت کم توجہ ہے اور جو یہاں رہتے ہیں وہ بھی پوری توجہ نہیں کرتے لغات القرآن جو یہاں چھپی ہے ایک مفید اور عمدہ کتاب ہے جو بڑی محنت سے لکھی گئی ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ حضرت امام نے بھی اس کی تعریف کی ہے لیکن اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی اس کتاب سے فائدہ اٹھایا جاوے تو قرآن شریف میں سمجھنے میں بڑی مددملتی ہے غرض قرآن مجید کی حفاظت کا ایک ذریعہ عربی زبان کی حفاظت بھی ہے.اور اس طرف مسلمانوں کو توجہ کرنی چاہئے اور خصوصاً ہماری جماعت کو بہت متوجہ ہونا چاہئے.میں نے اس نکاح کی تقریب پر اسی سنت متوارثہ پر عمل کرنے کے لئے عربی زبان میں خطبہ پڑھا ہے.مگر طرفین ہی ایسے ہیں کہ نہ خطبہ سننے کی ضرورت نہ کہنے کا موقعہ ایک طرف حضرت امام علیہ الصلوۃ والسلام ہیں ان کو ہم سنانے نہیں آئے بلکہ ان سے سننے آئے ہیں پس اگر میں تصریح کروں تو میر انفس مجھے ملامت کرتا ہے آج جو کچھ میں عرض کروں گا یا کہا ہے یہ محض حضرت امام کے حکم کی تعمیل ہے.عربی زبان کی تائید میں اس لئے کہا ہے اس متوارث سنت کو تمہارے کانوں تک پہنچاؤں جس سے رسول کی زبان محفوظ رہے اور تم قرآن کریم کی ارفع اطیب زبان میں ترقی کرو.اب اس کے بعد میں ان آسان کلمات کا آسان ترجمہ سناتا ہوں جو ابھی میں نے پڑھے ہیں.اللہ جل شانہ چونکہ ربّ ہے بے مانگے اس نے نعمتیں دی ہیں اور پھر مقدرت قوت اور استطاعت بھی اس نے دی ہے اور اس امکان سے جو يُمَكِّنَنَّ میں وعدہ دیا ہے.اس قدرت سے جو پاک نتیجے مترتب ہوں اس کے فضل سے ہوتے ہیں ہاں اسی کے فضل سے ہوتے ہیں اس کی ربوبیت عامہ.رحم فضل وسیع اور بلا مبادلہ ہے اور وہ رحم جو بالمبادلہ ہے وہ مالکیت چاہتی ہے.ان سب نوازشوں اور مہر بانیوں پر نگاہ کر کے بے اختیار دل سے نکلتا ہے.الحمد اللہ.یعنی سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے.مومن تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرتا ہے
234 کہ ایک وقت تھا جب کہ حضرت نواب صاحب موصوف کے ایک مورث اعلیٰ صدر جہاں کو ایک بادشاہ نے بقیہ حاشیہ: کیا بلحاظ اس کے کہ اس کو پیدا کیا ہے اور یہ ایک عظیم الشان انعام انسان پر ہے کیونکہ ساری خوشیاں اور خوش حالیاں اس کے بعد ملتی ہیں کہ پیدا ہو.پھر پیدا بھی اپنے رب کے ہاتھ سے ہوا جو بتدریج کمال تک پہنچاتا ہے.چونکہ وہ فی الواقع حمد کا مستحق ہے اس لئے ہم بھی نحمدہ کہتے ہیں یعنی ہم بھی ایسے رب کی حمد میں دلی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں.بہت سے وجوہات ہیں جو ہم پر فضل الہی کا فرض ٹھہراتے ہیں منجلمہ جناب الہی کی حدوں کے یہ ہے کہ انسان کا حوصلہ ایسا وسیع نہیں کہ وہ ساری دنیا سے تعلق رکھے اور محبت کر سکے.نبیوں اور رسولوں کو بھی جب تباہ کا رسیاہ روزگار شریروں نے دکھ دیا تو آخر ان میں سے ایک بول اٹھا رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارًا - فی الحقیقت ان پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ شریر نفوس کی حیاتی بھی پسند نہیں کرتے.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کا اتنا حوصلہ کہاں ہو سکتا ہے کہ سارے جہان سے اس کا مخلصانہ تعلق ہو پس اس سلسلہ کو وسیع کرنے کے باوجود محدود کرنے کے لئے نکاح کا ایک طریق ہے جس سے ایک خاندان اور قوم میں ان تعلقات کی بناء پر رشتہ اخلاص اور محبت پیدا ہوتا ہے نکاح میں جو تعلق خسر کو داماد سے ہوتا ہے.یا فرزندانہ تعلقات داماد کو خسر سے ہوتے ہیں.وہ دوسرے کو نہیں ہوتے.یہ سچی بات ہے کہ....و تعلق جو علمی اولاد اور داماد کے ساتھ ہو سکتا ہے اس میں سارا جہان کبھی شریک نہیں ہو سکتا.مگر اللہ تعالیٰ نے شعوب اور قبائل بنائے ہیں اور قوم در قوم بنا کر محبت کے تعلق اور سلسلہ کو وسیع کر دیا ہے اسی لئے جو لوگ نکاح نہیں کرتے احادیث میں ان کو بطال کہا گیا ہے کیونکہ ان کے تعلقات نوع انسان کے ساتھ بچے نہیں ہو سکتے.مگر جن کے تعلقات بچے اور اسلام پر مبنی ہیں وہ جانتے ہیں کہ رشتہ کے سبب سے مخفی در مخفی محبت کا تعلق بڑھتا جاتا ہے اور پھر اولاد کی وجہ سے یہ تعلقات اور بھی بڑھتے ہیں اور اس طرح پر یہ دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے ایسا ہی رنج مصیبت میں یار غم گسار اور ایسے احباب کی ضرورت ہے جو اس میں شریک ہو کر اسے کم کریں ان صورتوں میں اس قسم کے تعلقات اور روابط مفید ہیں.ان ساری باتوں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو پھر بے اختیار محمدہ کہتے ہیں.اس حمد کے بھی مختلف رنگ ہیں یہاں ہی دیکھو کہ کچھ لڑکے ہیں وہ صرف اسی لئے جمع ہوئے ہیں کہ کچھ چھوہارے ملیں گے.ان کا الحمد اپنے ہی رنگ کا ہے.یہ بھی ایک مرتبہ ہے اور عوام اور بچوں کا یہیں تک علم ہے ایک وہ ہیں جنھوں نے الحمد ہی سے نبوتوں کو ثابت کیا اور مذاہب باطلہ کا رد کیا ہے.تین مرتبہ میں نے حضرت صاحب کی تفسیر الحمد پڑھی ہے ایک براہین میں اور پھر کرامات میں اور پھر اعجاز مسیح میں.اسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ الحمد کا اعلیٰ مقام وہ ہے جہاں یہ پہنچے ہیں.یہ بھی الحمد کے ایک معنی ہیں اور ایک متوسط لوگ
235 اپنی لڑکی نکاح میں دی تھی اور وہ بزرگ بہت ہی خوش قسمت تھا مگر ہمارے دوست نواب محمد علی خان صاحب اس سے زیادہ خوش قسمت ہیں کہ اُن کے نکاح میں ایک نبی اللہ کی لڑکی آئی ہے.نواب صاحب موصوف کے بقیہ حاشیہ : - ہیں میں بھی ان ہی میں ہوں یہ اپنے رنگ میں الحمد کے معنے سمجھتے ہیں اور ان کی حمد اپنے رنگ کی ہے.یہاں ناطے رشتے ہوتے ہیں اور ان تقریبوں پر مجھے حضرت امام کے حکم سے موقعہ ملتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں اس لئے میں اس فضل پر ہی حمد الہی کرتا ہوں.میں یوں تو عجیب عجیب رنگوں میں حمد کرتا ہوں مگر اس وقت کے حسب حال یہی وجہ ہے جو میں نے بیان کی ہے اور یہ معمولی فضل نہیں ہے مگر یہ توفیق اور فضل اللہ ہی کی مدد سے ملتا ہے.اس لئے نَسْتَعِينُه ہم اس کی مدد چاہتے ہیں خدا تعالے کی مدد بھی شامل حال ہو تو بات بنتی ہے.ورنہ واعظ میں ریا.سمعت.دنیا طلبی پیدا ہوسکتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر عاجز مخلوق کو اپنا معبود اور محبوب بنا لیتا ہے جب اس کے دل میں مخلوق سے اپنے کلام اور وعظ کی داد کی خواہش پیدا ہو.واعظ کے لئے یہ امر سخت مہلک ہے.پس میں خدا کی حمد کرتا ہوں اور اسی کے فضل سے حمد کرتا ہوں کہ اس نے محض اپنے فضل ہاں اپنے فضل ہی سے مجھے مخلوق سے مستغنی کر دیا ہے.یہ بات بھی یا درکھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی مدد کب ملتی ہے.یہ مدد اُسی وقت ملتی ہے.جب انسان میں بدی نہ ہو.بد کار ایک وقت نیکی بھی کر سکتا ہے مگر نیکی اور بدی کے میزان اور ہر ایک کی کثرت اور قلت اسے نیک یا بد ٹھہراتی ہے.نیکیاں بہت ہوں تو نیک اور بدیاں زیادہ ہوں تو بد کار کہلاتا ہے بدی چونکہ بدی ہے اور درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اس لئے جب حمد الہی کی توفیق اور جوش پیدا نہ ہو یا اللہ تعالے کی مد داور نصرت نہ ملے تو ایسی حالت میں ڈرنا چاہئے.اور سمجھ لینا چاہئے کہ بدیاں بڑھ گئی ہیں.اس کا علاج کرنا چاہئے اور وہ علاج کیا ہے استغفار.اس لئے فرمایا نستغفرہ.اللہ تعالیٰ کے وسیع قانون اور زبر دست حکم اس قسم کے ہیں کہ انسان بعض بدیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے بڑے بڑے فضلوں سے محروم رہ جاتا ہے.جب انسان کوئی غلطی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کیسی حکم اور قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ غلطی اور کمزوری اس کی راہ میں روک ہو جاتی ہے اور یہ عظیم الشان فضل اور انعام سے محروم کیا جاتا ہے.اس لئے اس محرومی سے بچانے کے لئے یہ تعلیم دی کہ استغفار کرو.استغفار انبیاء علیہم السلام کا اجماعی مسئلہ ہے.ہر بنی کی تعلیم کے ساتھ اَسْتَغْفِرُوا رَبَّكُم ثُمّ تُوبُوا إِليه - رکھا ہے ہمارے امام کی تعلیمات میں جو ہم نے پڑھی ہیں استغفار کو اصل علاج رکھا ہے.استغفار کیا ہے؟ پچھلی کمزوریوں کو جو خواہ عمد ا ہوں یا سہو غرض مَا قَدَّمَ وَمَا أَخَّرَ جو نہ کرنے کا کام آگے گیا.اور جو نیک کام کرنے سے رہ گیا ہے.اپنی تمام
236 خاندان میں حق مہر کے متعلق دستور ہوتا ہے کہ کئی کئی لاکھ روپے مقرر کیا جاتا ہے اور انہوں نے اپنی قومی رسم کے مطابق اب بھی یہی کیا تھا مگر حضرت اقدس نے پسند نہ فرمایا تا ہم نواب صاحب کی وجاہت کے لحاظ سے چھپن بقیہ حاشیہ: - کمزوریوں اور اللہ تعالے کی ساری رضا مندیوں کو م أَعْلَمُ وَمَا لا أَعْلَمُ کے نیچے رکھ کر اور آئندہ کے لئے غلط کاریوں کے بدنتائج اور بداثر سے مجھے محفوظ رکھ اور آئندہ کے لئے ان بدیوں کے جوش سے محفوظ فرما.یہ ہیں مختصر معنی استغفار کے پھر ایک اور بات بھی قابل غور ہے.حضرت امام نے اس زمانہ کو امن کے لحاظ سے نوح کا زمانہ کہا ہے.حضرت نوح نے جب اپنی قوم کو وعظ کیا اور خدا تعالے کا پیغام اسے پہنچایا تو کیا کہا اَسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ عَفَّارًا لا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَّ بَنِينَ وَتَجْعَلُ لَّكُمْ جَنَّتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا - استغفار کے برکات اور نتائج ان آیات میں حضرت نوح علیہ السلام نے انسانی ضروریات کی جہت سے بیان فرمائے ہیں غور کر کے دیکھ لو کہ انسان کو ان ہی چیزوں کی ضرورت دنیا میں نہیں ہے؟ پھر ان کے حصول کا علاج استغفار ہے.امن کے زمانہ میں چیزوں میں گرانی ہوتی ہے اور یہ امن کے لئے لازمی امر ہے.نادان کہتا ہے ایک وقت روپیہ کا من بھر گیہوں ہوتا تھا اور پانچ سیر گھی.مگر وہ نہیں سمجھتا کہ وہ زمانہ امن کا نہ تھا.اس لئے تبادلہ تجارت کے لئے لوگ گھر سے مال نکال نہ سکتے تھے.اور جب امن ہوتا ہے تو تبادلہ اشیاء کی وجہ سے اموال بڑھ جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی فضولیاں بھی بڑھتی ہیں.غرض استغفار ایسی چیز ہے جو انسان کی تمام مشکلات کے حل کے لئے بطور کلید ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی حمد اور اس کی استعانت کے لئے استغفار کرو.مگر استغفار بھی اس وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالے پر ایمان ہو اس لئے فرمایا ونومن به اور ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ جمیع صفات کا ملہ سے موصوف اور تمام بدیوں سے منزہ ہے وہ اپنی ذات میں اپنے صفات میں اسماء اور محامد اور افعال میں وحدہ لاشریک ہے وہ اپنی ذات میں یکتا ہے.صفات میں بے ہمتا اور افعال میں لیس کمثله شی اور بے نظیر ہے اور اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنی رضامندی اور نارضامندی کی راہوں کو ظاہر کرتا رہا ہے اور ملائکہ کے ذریعہ اپنا کلام پاک اپنے نبیوں اور رسولوں کو پہنچاتا رہا ہے.اور اس کی بھیجی ہوئی کتابوں میں آخری کتاب قرآن شریف ہے جس کا نام فضل.شفاء.رحمت اور نور ہے اور آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو خاتم النبیین ہیں اور اب کوئی نبی اور رسول آپ کے سوا نہیں ہو سکتا اس وقت بھی جو آیا وہ آپ کا غلام ہو کر آیا ہے.اللہ تعالیٰ پر ایمان کا یہ خلاصہ ہے.ایمان باللہ جب کامل ہوتا ہے کہ اللہ تعالے پر بھروسہ ہو اس لئے یہ تعلیم دی ونتوكل عليه اور ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور توکل کرتے ہیں تو کل سے یہ مطلب ہے کہ ہم میں یہ بات پیدا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں جس مطلب اور غرض کے لئے بنائی ہیں وہ اپنے نتائج اور ثمرات اپنے ساتھ ضرور رکھتی ہیں
237 ہزار روپیہ حق مہر موجل مقرر ہوا ( نوٹ حضرت اقدس اور نواب صاحب کی خط و کتابت کے پیش نظر بدر کا مہر کے متعلق بیان کسی غلطی پر مبنی معلوم ہوتا ہے.چنانچہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت نواب صاحب بقیہ حاشیہ : اس لئے اس پر ایمان ہونا چاہئے کہ لابد ایمان کے ثمرات اور نتائج ضرور حاصل ہوں گے اور کفر اپنے بدنتائج دیئے بغیر نہ رہے گا.انسان بڑی غلطی اور دھوکا کھا جاتا ہے جب وہ اس اصل کو بھول جاتا ہے.اعمال اور اس کے نتائج کو ہرگز ہرگز بھولنا نہیں چاہئے.سعی اور کوشش کو ترک نہیں کرنا چاہئے.یہ سب کچھ بھی ہو.مگر اصل بات یہ ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں پر پوری اطلاع نہیں رکھتا اور اندرونی بدیوں میں ایسا مبتلا ہو جاتا ہے جو خبط اعمال ہو جاتا ہے اور اصل مقصد سے دور جا پڑتا ہے.شیطان انسان کو عجیب عجیب راہوں سے گمراہ کرتا ہے اور نفس ایسے دھو کے دیتا ہے اس لئے ی تعلیم دی نَعُوذُ بِااللَّهِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئاتِ أَعْمَالِنَا یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں.بڑی پناہ اور معاذ اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ ہے جو ساری قوتوں اور قدرتوں کا مالک ہے اور ہر نقص سے پاک ہے اور ہر کامل صفت سے موصوف ہے کس بات سے پناہ چاہتے ہیں مِن شُرُورِ أَنْفُسِنَا انسان کی اندرونی بدیاں اور شرا تیں اس کو ہلاک کر دیتی ہیں مثلاً شہوت کے مقابلہ میں زیر ہو جاتا ہے اور ترک عفت کرتا ہے.بدنظری اور بدکاری کا مرتکب ہو جاتا ہے.حلم کو چھوڑتا اور غضب کو اختیار کرتا ہے وہ اور کبھی قناعت کو جو سچی خوش حالی کا ایک بڑا ذریعہ ہے.چھوڑ کر حرص وطمع کا پابند ہوتا ہے غرض یہ نفس کا شر عجیب قسم کا شر ہے اس کے پنجہ میں گرفتار ہو کر انسان بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی بنالیتا ہے اور ہر شخص کو اس کے حسب حال دھوکا دیتا ہے مولویوں کو ان کے رنگ میں اور میرے جیسے انسان کو اپنے رنگ میں.غرض عجیب عجیب امتحان ہوتے ہیں.تعوذ ایسا ضروری ہے کہ اللہ تعالے انے قرآن مجید کو تعوذ پرختم فرمایا ہے اس لئے کبھی اس سے غافل نہیں رہنا چاہئے.نفس کا شر اور اعمال کا شر اس کے بد نتائج ہوتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں انسان نہ آجاوے تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے.اور پھر کوئی اسے بامراد نہیں کر سکتا.اور نہ بچا سکتا ہے اور اسی طرح اخلاص اور نیکی کے ثمرات نیک ہوتے ہیں ایسے شخص کو جب وہ اللہ تعالے کی پناہ میں آ جاتا ہے کوئی ہلاک نہیں کر سکتا.اس لئے فرما يا من يهدى الله فلا مضل له ومَنْ يُضْلِلْهُ فلا ها دى له ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے ونشهد ان محمدا عبده ورسولہ یہ خلاصہ اور اصل عظیم الشان اصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اپنا معبود، محبوب اور مطاع نہ بناؤ اور زبان ، آنکھ ، کان، ہاتھ ، پاؤں غرض کل جوارح اور عضاء اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری میں لگے ہوئے ہوں کوئی خوف اور امید مخلوق سے نہ ہو.اللہ تعالے کے فرماں بردار بنیں اور اس کے حکم کے مقابل کسی اور حکم کی پروانہ کریں فرماں برداری کا اثر
238 بتاتے تھے کہ جب حضرت اقدس نے دو سالہ آمدنی کی جمع ۵۶ ہزار روپیہ تمہارا مہر مقرر فرمایا تو اس وقت میری آمدنی کم تھی مگر میں خاموش ہور ہا اور حضرت کے اندازے کی تردید مناسب نہ سمجھی لیکن اس سال کے اندر ایک ورثہ کے شامل ہو جانے سے ٹھیک اتنی ہی آمد ہو گئی جس کا دو سالہ حساب ۵۶ ہزار بنتا تھا.کئی بار مجھ سے اس بقیہ حاشیہ : - اور امتحان مقابلہ کے وقت ہوتا ہے.ایک طرف قوم اور رسم و رواج بلاتا ہے دوسری طرف خدا تعالیٰ کا حکم ہے.اگر قوم اور رسم و رواج کی پروا کرتا ہے تو پھر اس کا بندہ ہے اور اگر خدا تعالیٰ کی فرماں برداری کرتا ہے اور کسی بات کی پروا نہیں کرتا تو پھر خدا تعالے پر سچا ایمان رکھتا ہے اور اس کا فرماں بردار ہے اور یہی عبودیت ہے قرآن مجید نے اسلام کی یہی تعریف کی ہے.مَنْ أَسْلَمُ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ - چی فرماں برداری یہی ہے کہ انسان کا اپنا کچھ نہ رہے.اس کی آرزوئیں اور امیدیں اس کے خیالات اور افعال سب کے سب اللہ تعالیٰ ہی کی رضا اور فرماں برداری کے نیچے ہوں.میرا اپنا تو یہ ایمان ہے کہ اس کا کھانا پینا.چلنا پھرنا سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہو تو مسلمان اور بندہ بنتا ہے.خدا تعالیٰ کے فرماں بردار اور رضامندی کی راہوں کو بتانے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں چونکہ ہر شخض کو مکالمہ الہیہ کے ذریعہ الہی رضامندی کی خبر نہیں ہوتی.اگر کسی کو ہو بھی تو اس کی وہ حفاظت اور شان نہیں ہوتی جو خدا تعالے کے ماموروں اور مرسلوں کی وحی میں ہوتی ہے اور خصوصاً سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ جس کے دائیں بائیں آگے پیچھے ہزاروں ہزار ملائکہ حفاظت کے لئے ہوتے ہیں.اس لئے کامل نمونہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور وہی مقتدا اور مطاع ہیں.پس ہر ایک نیکی تب ہی ہو سکتی ہے کہ جب وہ اللہ تعالے یہی کے لئے ہو.اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نیچے ہو.اس کے بعد میں نے کچھ آیتیں پڑھی ہیں.ان میں عام لوگوں کو نصیحت ہے کہ نکاح کیوں ہوتے ہیں.اور نکاح کرنے والوں کو کن امور کا لحاظ رکھنا چاہئے.مخلوق کو اللہ تعالے انے معدوم سے بنایا ہے اور یہ شان ربوبیت ہے.نکاح میں ربوبیت کا ایک مظہر ہے.اس لئے اللہ تعالی فرماتا ہے.يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُم مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةً.یہ ایک سورۃ کا ابتدا ہے اس سورۃ میں معاشرت کے ۱۷۴ اصولوں اور میاں بیوی کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے.یہ آیتیں نکاح کے خطبوں میں پڑھی جاتی ہیں اور غرض یہی ہوتی ہے کہ تا ان حقوق کو مدنظر رکھا جاوے.اس سورۃ کو اللہ تعالیٰ نے یا ایھا الناس سے شروع فرمایا ہے.الناس جو انس سے تعلق رکھتا ہے تو میاں بیوی کا تعلق اور نکاح کا تعلق بھی ایک انس ہی کو چاہتا ہے تا کہ دو اجنبی وجود متحد فی الارادہ ہو جائیں غرض فرمایا لوگو ! تقویٰ اختیار کرو.اپنے رب سے ڈرو.وہ رب جس نے تم کو ایک جی سے بنایا.اور اسی جنس سے تمہاری بیوی بنائی اور پھر دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیں.
239 واقعہ کا ذکر کیا.اس کے بعد ان کی آمد سالانہ اور زیادہ ہو گئی تھی قریباً ۳۷ ہزار سالانہ.) جس پر ایجاب وقبول مسجد اقصی میں ہوا.یہ تعلق نواب صاحب کے واسطے بہت ہی خوش قسمتی کا موجب ہوا.اس تعلق سے بقیه حاشیه - خلق منها زوجھا سے یہ مراد ہے کہ اسی جنس کی بیوی بنائی اس آیت میں اتقواربکم جوفر مایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کی اصل غرض تقوی ہونی چاہئے اور قرآن مجید سے یہی بات ثابت ہے.نکاح تو اس لئے ہے کہ انسان احسان اور عفت کے برکات کو حاصل کرے.مگر عام طور پر لوگ اس غرض کو مد نظر نہیں رکھتے بلکہ وہ دولت مندی حسن و جمال اور جاہ و جلال کو دیکھتے ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علیک بذات الدین بہت سے لوگ خط و خال میں محو ہوتے ہیں جن میں جلد تر تغیر واقع ہو جاتا ہے.ڈاکٹروں کے قول کے موافق تو سات سال کے بعد وہ گوشت پوست ہی نہیں رہتا.مگر عام طور پر لوگ جانتے ہیں کہ عمر اور حوادث کے تحت خط و خال میں تغیر ہوتا رہتا ہے اس لئے یہ چیز نہیں جس پر انسان محو ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی اصل غرض تقومی بیان فرمائی دیندار ماں باپ کی اولاد ہو، دیندار ہو.پس تقویٰ کرو.اور رحم کے فرائض کو پورا کرو میں تمہارے لئے نصیحتیں کرتا ہوں.یہ تعلق بڑی ذمہ داری کا تعلق ہے میں نے دیکھا ہے بہت سے نکاح جو اغراض حُبّ پر ہوتے ہیں ان سے جو اولادہوتی ہے وہ ایسی نہیں ہوتی جو اس کی روح اور زندگی کو بہشت کر کے دکھائے ان ساری خوشیوں کے حصول کی جڑ تقویٰ ہے اور تقوی کے لئے یہ گر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے رقیب ہونے پر ایمان ہو چنانچہ فرمایا ان الله كان عليكم رقيباً.جب تم یہ یاد رکھو گے کہ اللہ تعالے تمہارے حال کا نگران ہے تو ہر قسم کی بے حیائی اور بدکاری کی رہ سے جو تقویٰ سے دور پھینک دیتی ہے بچو گے.دوسری آیت یہ ہے يَآيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُواللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا - اس میں بھی اللہ تعالیٰ ۱۷۵ تقویٰ کی ہدایت فرماتا ہے اور ساتھ ہی حکم دیتا ہے کہ پکی بات کہو.انسان کی بات بھی ایک عجیب چیز ہے جو گا ہے مومن اور گا ہے کا فر بنا دیتی ہے.معتبر بھی بنا دیتی ہے اور بے اعتبار بھی کر دیتی ہے اس لئے حکم ہوتا ہے کہ اپنے قول کو مضبوطی سے نکالو.خصوصاً نکاحوں کے معاملہ میں.اس معاملہ میں پوری سوچ بچار اور استخاروں سے کام لو اور پھر مضبوطی سے اُسے عمل میں لاؤ.جب تم پوری کوشش کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا.يُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ = تمہارے سارے کام اصلاح پذیر ہو جائیں گے.تمہاری غلطی کو جناب الہیٰ معاف کر دیں گے.کیونکہ جب تقویٰ ہو تو اعمال کی اصلاح کا ذمہ دار اللہ تعالے ہو جاتا ہے اور اگر نا فرمانی ہو جائے تو وہ معاف کر دیتا ہے ان معاملات نکاح میں عجیب در عجیب کہانیاں سنائی جاتی ہیں.اور دھوکہ دیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کا ہی
240 نواب صاحب موصوف خدا تعالیٰ کے مسیح کی دعاؤں سے بیش از پیش فیض اٹھائیں گے اور خدا تعالیٰ کے ان انعام واکرام سے حصہ لیں گے.جو مبارکہ بیگم کی ذات بابرکات کے لئے اللہ تعالے نے اپنے موعود مامور کے ذریعے وعدہ فرمائے ہوئے ہیں کیونکہ مبارکہ بیگم کے واسطے بہت سے ایسے الہام ہوئے تھے جو اخباروں نیہ حاشیہ: - فضل ہو تو کچھ آرام ملتا ہے ورنہ چالا کی سے کام کیا ہو اور دنیا میں بہشت نہ ہو.پھر فرمایا بہت لوگ پاس ہونے کے لئے تڑپتے ہیں وہ یا درکھیں کہ اصل بات تو یہ ہے کہ جو اللہ اور رسول کا مطیع ہوتا ہے وہ ہی حقیقی با مراد ہوتا اور یہی حقیقی پاس ہے.پھر اس معاملہ میں تیسری آیت یہ ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ اس تیسری آیت میں بھی تقویٰ کی تاکید ہے کہ تقویٰ اللہ اختیار کرو اور ہر ایک جی کو چاہئے کہ بڑی توجہ سے دیکھ لے کہ کل کے لئے کیا کیا.جو کام ہم کرتے ہیں ان کے نتائج ہماری مقدرت سے باہر چلے جاتے ہیں اس لئے جو کام اللہ تعالے کے لئے نہ ہوگا تو وہ سخت نقصان کا باعث ہو گا لیکن جو اللہ کے لئے ہے تو وہ ہمہ قدرت اور غیب دان خدا جو ہر قسم کی طاقت اور قدرت رکھتا ہے اس کو مفید اور مثمر ثمرات حسنہ بنا دیتا ہے.یہ سب باتیں تقوے اسے حاصل ہوتی ہیں.اس وقت جو مجمع ہے میں اس کی خوشی کا اظہار کروں تو بعض نادان بدظنی کرینگے مگر بدظنیاں تو ہوتی ہی ہیں.مجھے ان کی پروا نہیں اور میں کسی رنگ میں مخلوق کی پروا کرنا اپنے ایمان کے خلاف یقین کرتا ہوں.یہ امرا خلاص اور اسلام کے خلاف ہے.پس میں صاف طور پر کہتا ہوں کہ اس تقریب کی وجہ سے مجھے بہت ہی خوشی ہے اور کئی رنگوں میں خوشی ہے.نواب محمد علی خاں میرے دوست ہیں.یہ نہ سمجھو کہ اس وجہ سے دوست ہے کہ وہ خاں صاحب یا نواب صاحب یا رئیس ہیں میں نے کسی دنیوی غرض کے لئے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقفہ کے لئے کبھی ان سے دوستی نہیں کی وہ خوب جانتے ہیں اور موجود ہیں مجھے ان کے ساتھ جس قدر محبت ہے محض خدا کے لئے ہے.کبھی بھی نہ ظاہری طور پر اور نہ باطنی طور پر ان کی محبت میں کوئی غرض نہیں آئی.ایک زمانہ ہوا میں نے ان سے معاہدہ کیا تھا.کہ آپ کے دکھ کو دیکھ اور سکھ کو سکھ سمجھوں گا.اور اب تک کوئی غرض اس معاہدے کے متعلق میرے واہمہ میں نہیں گذری.ان کا یہ رشتہ کا تعلق حضرت امام علیہ السلام سے ہوتا ہے یہ سعادت اور فخران کی خوش قسمتی اور بیدار بختی کا موجب ہے ان کے ایک بزرگ تھے.شیخ صدر جہاں ( علیہ الرحمتہ ) ایک دنیا دار نے ان کو نیک سمجھ کر اپنی لڑکی دی تھی.مگر یہ خدا کے فضل کا نتیجہ ہے اور اس کی نکتہ نوازی ہے کہ آج محمد علی خاں کو سلطان دین نے اپنی لڑکی دی ہے یہ اس بزرگ مورث سے زیادہ خوش قسمت ہیں.یہ میر اعلم میرا دین اور ایمان بتاتا ہے کہ وہ حضرت صدر جہاں سے زیادہ خوش قسمت ہیں.
241 میں شائع نہیں ہوئے ان میں سے صرف ۱۹۰۱ء میں ایک الہام اس بارے میں اخبار الحکم میں شایع ہوا تھا جب کہ مبارکہ بیگم کی عمر صرف چار برس کی تھی اور نواب محمد علی صاحب کی پہلی بیوی صحیح و سالم ان کے گھر میں آباد تھی اور وہ الہام یہ ہے.نواب مبارکہ بیگم.یہ الہام دو الگ الگ فقرے ہیں.ایک (نواب ) دوسرا فقرہ مبارکہ بیگم ) اس الہام میں دونوں فقروں کو ایک جگہ بالمقابل لکھ کر یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ مبارکہ بیگم نوابی خاندان میں بیاہی جائے گی.اس الہام کو شایع کئے چار برس ہو گئے اور یہ پیشگوئی نہایت صاف اور واضح ہے اور دونوں نام بالمقابل بیان کرنے سے جو اشارہ کیا گیا ہے وہ ایسا اشارہ ہے جو اس سے بڑھ کر باوجودا جمال بقیہ حاشیہ: - میں نہیں جانتا کہ میری کون قوم ہے.مگر میر اعلم بتا تا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اولاد ہوں.حضرت عمر میرے جد امجد بڑے مہروں کو پسند نہیں کرتے تھے.مگر ایک مرتبہ جب ایک عورت نے کہا.قَنَاطِيرُ الْمُقَنْطَرُةٌ بھی مہر ہو تو خدا نہیں روکتا تو عمر کون روکنے والا ہے.اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ عمر سے تو مدنیہ کی عورتیں بھی افقہ ہیں.پس ایک فاروقی کے منہ سے اس وقت ۵۶ ہزار کے مہر کو خفیف سمجھنا ضر ور قابل غور ہے کیا میرے جیسے آدمی کا میرا اتنا باندھا جا سکتا ہے جس نے آیا تو کھالیا کپڑ مل گیا تو پہن لیا اس کا مہر تو اُسی حیثیت کا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر ایک صحابی کو کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے اس نے جواب دیا نہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ اچھا لوہے کی انگوٹھی ہی لے آ جب اس نے اس سے بھی انکار کیا اور کہا کہ صرف نہ بند ہے تو اس کا مہربما منك من القرآن فرمایا فقہاء نے اس پر اختلاف کیا ہے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تیری قرآن دانی کے بدلے اور بعض کہتے ہیں کہ قرآن کی تعلیم دینے کے لئے.بہر حال مہروں کا اندازہ انسان کے حالات پر ہوتا ہے.چار سو درہم یا دوسو درہم یا پانچ سوٹ کا سلطانی یہ کوئی شرعی حدود یا قیود نہیں ہیں پس جو لوگ کل کی بات کو غور سے سوچتے ہیں ان کو اور بھی مشکلات ہوتے ہیں.بہر حال حضرت صاحب نے تمام امور کو مد نظر رکھ کر ۵۶ ہزار روپیہ مہر تجویز فرمایا ہے اور میری اپنی سمجھ میں یہ مہران حالات کے ماتحت جو خوانین کے ہاں پیش آتے ہیں.کچھ بھی نہیں اور بہت تھوڑی رقم ہے.تاہم حضرت صاحب نے بڑی رضامندی سے اس مہر پر مبارکہ بیگم کا نکاح کر دینا قبول فرمایا.اس سے یہ اجتہاد نہیں ہوسکتا کہ نور دین جیسے کا بھی یہی مہر ہو.مہر حالات کے لحاظ سے ہوتا ہے اس کے بعد ایجاب وقبول ہوا اور حضرت اقدس نے دعا فرمائی.نوٹ : یہ خطبہ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۵ پر چه ۲۶ فروری ۱۹۰۸ء میں درج ہے اور وہاں سے بدر جلدے نمبر ۹ پر چہ ۱۵ مارچ ۱۹۰۸ء میں شائع ہوا.
242 کے طریق کے تو ضیح اور زیادہ نہیں ہوسکتا.مبار کہ بیگم کے متعلق اللہ تعالیٰ کے ان الہامات کی طرف حضرت نے اپنی ایک نظم میں بھی اشارہ فرمایا تھا جو کہ ۱۹۰۱ء میں چھپی تھی.چنانچہ ان میں سے چند اشعار اس جگہ نقل کئے جاتے ہیں.خدایا! اے میرے پیارے خدایا یہ کیسے ہیں پ تیرے مجھ پر عطایا کہ تو نے پھر مجھے یہ دن دکھایا کہ بیٹا دوسرا بھی پڑھ کر آیا بشیر احمد جسے تو نے پڑھایا شفادی آنکھ کو بینا بنا یا شریف احمد کو بھی یہ پھل کھلایا کہ اس کو تو نے خود فرقاں سکھایا چھوٹی عمر پر جب آزمایا کلام حق کو ہے فرفر سنایا تو برس میں ساتویں جب پیر آیا سر پر تاج قرآں کا سجایا ترے احساں ہیں اے ربّ البرایا مبارک کو بھی تو نے پھر جلایا جب اپنے پاس اک لڑکا بُلایا دے کر چار جلدی سے ہنسایا غموں کا ایک دن اور چار شادی فسبحان الذى اخرى الا عادى اور ان کے ساتھ کی ہے ایک دختر ہے کچھ کم پانچ کی وہ نیک اختر کلام اللہ کو پڑھتی ہے فر فر خدا کا فضل اور رحمت سراسر ہوا اک خواب میں مجھ پر یہ اظہر کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر یہی روز ازل سے ہے مقدر لقب عزت کا پاوے وہ مقر ر خدا نے چارلڑکے اور یہ دختر عطا کی پس یہ احسان ہے سراسر اس تقریب سعید کی شمولیت کے لئے لاہور سے معزز دوست شیخ رحمت اللہ صاحب، خواجہ کمال دین صاحب، خلیفہ رجب الدین صاحب، میاں چراغ دین صاحب ( ناظر محاسبہ دفاتر صدرانجمن احمد یہ ) ڈاکٹر حکیم نور محمد صاحب، حکیم محمد حسین صاحب قریشی ، بابو غلام محمد صاحب ، مستری محمد موسیٰ صاحب وغیر ہم بھی ۱۷۸ تشریف لائے تھے.چونکہ جملہ امور تاریخی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے ان کے اندراج میں کوئی حرج نہیں.جیسا کہ خط و کتابت سے ظاہر ہے نکاح بالکل غیر متوقع طور پر اچانک ہوا اس لئے نواب صاحب کو تیاری کا موقعہ نہیں ملا.اس لئے آپ نے پہلے زیورات مستعار حاصل کئے اور اپنی طرف سے تیار ہو گئے تو مستعار زیورات واپس کر دئے.زیورات کی تفصیل نواب صاحب کی نوشتہ درج ذیل کی جاتی ہے.
243 فروز یور جو مستعار لیا گیا نتھ میر منصب علی صاحب او د یا نہ یک.بذریعہ یہ سب زیور جن سے مستعار لیا تھا وہ سب میر عنایت علی اہلکار ان کو دیا گیا جلجل وضع عام ہندی برا در مرز ا خدا بخش صاحب یک ۲۰/ جون ۱۹۰۸ء بذریعہ مرزا خدا بخش صاحب لاہور پہنچیاں طلائی ایضاً ایضاً یک جوڑی محمد علی خاں مندرجہ بالا زیور حضرت اقدس کے ہاں بھیجا گیا نوٹ : اب حضرت اقدس کی جانب بجائے ان زیورات کے ( جو ) نکاح کے وقت بھیجے گئے مندرجہ ذیل پانچ زیور ہیں جو محض ہمارے ہیں کسی سے مستعار لئے ہوئے نہیں.نتھ مرصع جلجل ہندی مرصع باز و بند سلمانی مرصع کھ ساخت انگریزی مرصع یک یک یک جوڑی یک انگشتری ساخت انگریزی مرضع یک ۲۰ / جون ۱۹۰۸ ء محمد علی خاں اخراجات بر موقعہ نکاح نکاح کے موقعہ پر حضرت نواب صاحب کی طرف سے جو اخراجات ہوئے وہ آپ کی ایک یادداشت سے بعینہ درج ذیل ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ آپ نے جو دیگر امراء کی طرح لغویات اور رسوم میں روپیہ ضائع کرنے کی بجائے اس موقعہ کے مناسب حال جو کچھ اخراجات کئے اس کے قریب قریب آپ نے صدقہ وخیرات.دعوت مساکین.امداد مستحقین.انعام ملازمین اور اشاعت اسلام کے لئے روپیہ خرچ کیا.اور ان مذات میں صرف کثیر کا وصف ممتاز طور پر زندگی بھر آپ کے شامل حال رہا ہے.فرد اخراجات یوں ہے.
244 فرد اخراجات بروز نکاح خاں صاحب محمد علی صاحب رئیس مالیر کوٹلہ با دختر کلاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بروز دوشنبه ۷ افروری ۱۹۰۸ء شیخ عبدالرحمن صاحب ۲۰ روپے حاجی تفضل حسین ۲۵ روپے ۵ روپے ۵ روپے چھوہارے مٹھائی عطر ۲۲ روپے شیرینی طلباء مدرسه مساکین مدرسه ۲۰ روپے ۱۵ رو روپے مہندی روپے نقذ جوڑا کے ساتھ اشرفیاں جو حضرت اقدس کے ہاں بھیجا گیا ۷۵ روپے مفت میگزین برائے ارسال بہ ممالک غیر ۲۰ روپے ایضاً برائے جو تہ ازار بند ۱۰ روپے 2 دین محمد بگا مائی تابی انعام خادمان و خادمات حضرت اقدس ۲ روپے ۲ روپے شیخ عبدالرحیم صاحب ۱۵۰ روپے * اخراجات رجسٹری مہر نامہ ۱۹ روپے مرزا خدا بخش صاحب خیرات روپے ۷۴ روپے دعوت مساکین قیمت نتھ ۲۰ روپے ۱۵ آنے ۹ پائی ۳۵۰ روپے اس نسبت فرزندی پر نواب صاحب کا تشکر زہے قسمت کہ اللہ تعالے نے نواب صاحب کو خاص الخاص فضل سے نوازا اور حضرت مسیح زماں سے نسبت فرزندی عطا کی.نواب صاحب اس پر رب محسن و کریم کے حددرجہ شکر گزار تھے.چنانچہ آپ کے جذبات تشکر و امتنان کا علم ہمیں آپ کی ڈائری اور ان خطوط سے ہوتا ہے جو اس موقعہ پر آپ نے اپنے اقارب کو ارسال کئے.ڈائری میں تحریر فرماتے ہیں.نوٹ : شیخ عبدالرحیم صاحب سے مراد مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب نو مسلم حال درویش ہیں اور انہیں اور مکرم بھائی عبد الرحمن صاحب کو اس سے اتفاق ہے اور شیخ عبدالرحمن صاحب سے مراد عبدالرحمن صاحب فرید آبادی مرحوم خادم اولا د نواب صاحب ہیں.مکرم بھائی عبد الرحمن صاحب کو اس سے اتفاق ہے.دونوں بزرگ بھائی صاحبان نکاح کی تقریب میں شامل تھے.مولف.
245 فروری ۱۹۰۸ء ۱۷/ پیر کا دن الحمد للہ کہ آج وہ دن ہے جس روز میرا نکاح حضرت کی بڑی صاحبزادی مبارکہ بیگم صاحبہ سے بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں بالعوض ۵۶۰۰۰ روپیہ ہو گیا.یہ وہ فضل اور احسان اللہ تعالے کا ہے کہ اگر میں اپنی پیشانی کو شکر کے سجدے کرتے کرتے گھسا دوں تو بھی خدا وند کے شکر سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا.میرے جیسا نابکار اور اس کے ساتھ یہ نوریہ خداوند تعالے کا خاص رحم اور فضل ہے.اے خدا.اے میرے پیارے مولا جب تو نے اپنے مرسل کا مجھ کو داماد بنایا ہے اور اس کی لخت جگر سے میرا تعلق کیا ہے تو مجھ کوبھی نور بنا دے تا کہ اس کے قابل ہوسکوں.اقارب کے نام خطوط میں سے بطور نمونہ دو درج ذیل کئے جاتے ہیں جو آپ نے اپنے چھوٹے بھائی خان محمد ذوالفقار علی خاں صاحب کو تحریر کئے فرماتے ہیں.بسم الله الرحمن الرحيم الـ دارالامان قادیان (۱۶ / فروری ۱۹۰۸ء) برادر عزیز مسلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ.آپ نے چند روز ہوئے ایک تار بھیجا تھا کہ ہماری اپیل منظور ہوگئی اور احکامات بذریعہ کمشنر صاحب پہنچ گئے.اس سے اس قدر خوشی حاصل ہوئی کہ کوئی حد نہیں اور سجدات شکر اللہ کے آگے کئے گئے.مگر یہ ایسا خدا کا فضل ہوا ہے کہ اگر سجدے کرتے کرتے ہمارے ماتھے گھس جائیں تو بھی تھوڑے ہیں اور خاص کر آپ مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ جس قدر سعی اور تکلیف آپ نے اس امر میں اٹھائی وہ بہت ہی بڑی تھی.خداوند نے آپ کی سعی مشکور کی اور تکلیف کا معاوضہ بہت اچھا دیا.ہم کو آپ کو یہ فتح اور بالخصوص آپ کو مبارک ہو.آپ کو بہت ہی خداوند کے سامنے جھک جانا چاہئے کیونکہ یہ خاص فضل اللہ تعالیٰ کا ہوا اور نہ فریق مخالف کے مقابلہ میں ہماری کیا حقیقت تھی.یہ محض اللہ تعالے کے دست قدرت نے کام کیا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اب زیادہ نازک وقت ہے پس ہم کو بہت سنبھلنا چاہئے اور خدا وند تعالیٰ کا بہت بہت شکر ادا کرنا چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَئِن شَكَرْتُمُ لَا زِيدَنَّكُمُ اگر تم قدر کرو تو میں تم کو اور بھی زیادہ دوں گا.مفصل پھر لکھوں گا.کیا اچھا ہو میں مجمل و مفصل سن لوں اور اس طرح آپ کے حظ میں بھی شامل ہو جاؤں.آپ کے پتہ کے معلوم نہ ہونے سے اس وقت التواء جواب ہوا.ایک اور امر کی آپ کو اطلاح دیتا ہوں جو میرے لئے نہایت خوشی کا موجب ہے وہ یہ ہے کہ کل بتاریخ ۷ارفروری ۱۹۰۸ء کو میرا عقد سید نا مولانا امامنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی لڑکی سے قرار پایا ہے
246 اور ۶۰۰۰ ۵ ہزار روپیہ مہر مقرر ہوا ہے.اس وقت تک میں نے کوئی رشتہ پسند نہ کیا تھا اس میں بھی یہی لم " تھی کہ میں اس کوشش میں تھا.راقم محمد علی خان اسی طرح انہیں دوسری بار تحریر کیا: بسم الله الرحمن الرحيم دارالامان قادیان ۲۲ فروری ۱۹۰۸ء برا در عزیز مسلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم.آپ کی تار کے بعد کوئی تفصیلی خط وغیرہ نہیں آیا.تا کہ میں اور خوش ہو جاتا.کیا اچھا ہوتا کہ اصل حکم کی مجھ کو بھی نقل آپ بھجوا دیتے تا کہ مجھ کو قند مکرر کا لطف آتا.یہ ایک خوشی مجھ کو حاصل ہوئی تھی اس کہ اس سے چند روز بعد دوسری خوشی مجھ کو حاصل ہوئی چنانچہ اس کی بابت میں آپ کو پہلے اطلاع کر چکا ہوں وہ یہ کہ میرا نکاح ہونے والا ہے.چنانچہ بروز دوشنبه ۱۷ فروری ۱۹۰۸ء کو بعد نماز عصر میرا نکاح حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان ضلع گورداسپور کی بڑی لڑکی سے ہو گیا ہے اور مہر ۵۶۰۰۰ ہزار روپیہ قرار پایا ہے.یہ نکاح اس....اعتقادی لحاظ سے جو ہم کو ہے نہایت ہی غیر مترقبہ اور میرے لئے فخر کا موجب ہے.اطلاعاً آپ کو اطلاع دی گئی.میں اسی روز اطلاع دیتا اور آپ کو شرکت کے لئے بھی تکلیف دیتا.مگر جب مجھ کو اپنے نکاح کی اطلاع ملی تو صرف دو دن میرے نکاح میں تھے.اور آپ کا پتہ مجھے کو معلوم نہ تھا اس لئے شرکت کے لئے تکلیف نہ دے سکا.اور اب بھی مجھ کو یوم نکاح سے ہی زکام ہے اس وجہ سے خط نہ لکھا سکا.بہتر ہو کہ آپ کی نقل وحرکت جب کبھی ہوا کرے مجھ کو اطلاع صحیح ملتی رہے تا کہ خط وغیرہ بھیجنے میں دقت نہ ہو.راقم محمد علی خاں رخصتانه نواب مبار که بیگم صاحبه نواب صاحب لاہور گئے ہوئے تھے.رخصتانہ کے لئے وہاں سے قادیان آئے.رخصتانہ کے تعلق میں مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ والد صاحب کا شادی بیاہ کے معاملہ میں یہ خیال تھا کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ابتدائی زمانہ ہے اور ہم ابتدائی لوگ ہیں.ہماری معمولی سی بے احتیاطی بھی بعد میں بُرے نتائج پیدا کر سکتی ہے.حضور نے بدقت ہمیں رسوم سے آزاد کرایا ہے اگر ہم پھر بھی ان رسوم کے پابند ہو گئے جس طرح پہلے مسلمان فرائض کی پابندی چھوڑ کر رسوم میں گرفتار ہو گئے.تو ہم * یعنی وجہ.مؤلف
247 بھی اسی طرح ہو جائیں گے.ہمارے خاندان میں رواج ہے کہ ولیمہ کی دعوت نہیں کی جاتی لیکن لڑکی کے والدین برات کی دعوت ضرور کرتے ہیں یعنی اصل کو ترک کر دیا اور رسم کو اختیار کر لیا گیا ہے.والد صاحب کا یہ خیال تھا کہ لڑکی کے رخصتانہ کے متعلق ہمیں وہی طریق اختیار کرنا چاہئے جو حضرت عائشہ کی شادی پر کیا گیا تھا کہ ان کی والدہ دلہن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں خود پہنچا آئیں ، بعد میں والد صاحب حضرت حافظ روشن علی صاحب سے تحقیقات کرانے کے بعد اس امر کے قائل ہو گئے تھے کہ برات لے جائی جاسکتی ہے.اور انصار میں برات کا طریق جاری تھا.سو والد صاحب اس وقت کی اپنی رائے کے مطابق کوئی برات رخصتانہ کے لئے لے کر نہیں گئے.بلکہ حضرت اماں جان دلہن کو ساتھ لائیں اور رقت آمیز الفاظ میں نواب صاحب سے کہا کہ میں یہ یتیم بچی آپ کے سپرد کرتی ہوں حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ : افسوس کہ نکاح کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اسی سال ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء کو ہم اس سایہ رحمت مجسم سے محروم ہو گئے.میرا رخصتانه ۱۴/ مارچ ۱۹۰۹ء کو حضرت والده صاحبہ مکرمہ کے ہاتھوں اور حضرت خلیفہ اول کی دعا کے ساتھ نہایت سادگی کے ساتھ عمل میں آیا.اب میاں (یعنی نواب صاحب) کا اندرون شہر والا مکان بن چکا تھا اور کافی عرصہ سے (آپ) اسی میں مقیم تھے اور وہ بھی تقر یب دار کا ہی حصہ ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود کی ڈیوڑھی کی ہی زمین پر ہے اور بیچ میں ہی راستہ بھی ہے.مجھے خود حضرت والدہ اصاحبہ ساتھ لے کر ان کے گھر چھوڑ آئی تھیں اور دروازہ تک حضرت خلیفہ اول بھی آئے تھے ،، 66 اس مبارک تقریب پر معزز الحکم نے ایک خاص پر چہ میں ذیل کا تہنیت نامہ شائع کیا: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مبارکباد قران السعدین اللہ تعالیٰ ہی کی حمد اور ستائش ہے جس نے صبر اور نسب کو بنایا اور اس کے رسول پر صلوٰۃ اور سلام ہو جس نے رحمت للعالمین ہو کر دنیا میں صبری رشتوں کی عظمت اور قدر کو قائم کیا اور پھر خدا تعالے اکے اپنے ہاتھ سے معطر کئے ہوئے مسیح موعود اور ہمارے شید و مولی امام پر سلام ہو جس کے نبی اور صہری شرف کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام سے شہادت دی الحمد لله الذي جعل لكم الصهر و النسب یعنی وہ
248 ڈائری نواب صاحب بابت رخصتانه رخصتانہ کے تعلق میں حضرت نواب صاحب کی ڈائری کا اندراج از سب ضروری ہے اس لئے ہدیہ قارئین کرام کی جاتی ہے.تحریر فرماتے ہیں: بقیہ حاشیہ: - خدا سچا خدا اور ساری تعریفوں کا سزاوار ہے جس نے تمہاری دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے کیا اور خود تمہارے نسب کو شریف بنایا جو فارسی خاندان اور سادات سے معجون مرکب ہے.اللہ تعالیٰ کی یہ وحی ایک لمبا زمانہ گزرا حضرت مسیح موعود پر نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے موافق (جیسا کہ صراحت کے ساتھ پیشگوئیوں میں مذکور تھا اور حضرت مسیح موعود نے کھول کر اپنی تصانیف میں لکھا ہے) حضرت جری اللہ کا صہری تعلق دہلی میں حضرت خواجہ میر درد کے صحیح النسب اور دیندار اور خدا پرستی میں ممتاز خاندان کے ساتھ ہوا.اور وہ محترم خاتون جواب ہماری ام المؤمنین ہے ( خدا کی رحمتیں اس پر ہوں اور اس کا سایہ ہمارے سروں پر ) خدیجہ اللہ کے لقب سے خدا تعالیٰ کی وحی کی رو سے نامزد ہوئی اور اللہ تعالے نے ہر طرح سے اس کے دامن مراد کو بھر دیا.چنانچہ کئی بچے جو اپنے رنگ میں آیت من آیات اللہ تھے اور ہیں (وہ با خدا اور با مراد ہوکر دنیا کے رہنما اور پیشوا ہوں ) ان میں سے حضرت بنت رسول صاحبزادی مبار کہ بیگم صاحبہ کا نکاح ۱۷ فروری ۱۹۰۸ء کو حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ سے ہوا تھا.جیسے کہ یہ خبر مبارک اثر شائع ہو چکی ہے.آج پھر مجھے موقعہ ملا ہے کہ اس مسرت بخش خبر کی اشاعت کی تجدید کروں جب کہ حضرت صاحبزادی صاحبہ کی تقریب رخصت کا مبارک دن ہے.میں نے مختلف اوقات پر تہنیت نامے.مباکبادیں خاندان نبوت کے نونہالوں کی تقریبوں پر شایع کی ہیں.میری غرض ہمیشہ ان سے یہی ہوا کرتی ہے کہ آیات اللہ کے تذکرہ اور یاددہانی سے اپنے احباب کو ایمان بڑہانے کا موقعہ دوں اسی نیت سے پھر اس مبارکباد کو شایع کرتا ہوں.میں اس موقعہ پر حضرت نواب صاحب قبلہ کو خصوصیت سے مبارکباد دیتا ہوں اس لئے کہ جو فضل ان پر ہوا ہے اور خدا کے برگزیدہ رسول مہدی اور مسیح نے جس شفقت اور اکرام سے ان کو نوازا ہے وہ لانظیر ہے.اگر چہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے بھی ایک شرف اور بزرگی بخشی تھی.مگر یہ فضل نور علی نور کا مصداق ہے اس لئے میں پھر خصوصیت سے ان کو مبارکباد دیتا ہوں.تعلق ان کے لئے بیش از پیش انعامات اور برکات کا موجب ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی ذات بابرکات کے لئے اپنے موعود مامور کے ذریعہ جو وعدے فرمائے ہیں وہ ضرور پورے
249 ۱۴/ مارچ ۱۹۰۹ ء اتوار الحمد لله و المنته لله الحمد هر آن چیز که خاطر می خواست آخر آمد زپس پرده تقدیر پدید تمیہ حاشیہ: - ہوں گے.چنانچہ میں یہاں حضرت مسیح موعود علیہ صلوۃ والسلام کے دوشعر درج کرتا ہوں جو حضور نے نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے متعلق لکھے ہیں: ہوا ایک خواب میں مجھ پر یہ ظاہر کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر مقدر لقب عزت کا پاوے وہ مقرر یہی روز ازل ہے نواب مبار کہ بیگم بھی الہامی اعزاز ہے اور اللہ تعالے جس طرح پر چاہے گا اپنے وعدوں کو پورا کرے گا.بہر حال نواب صاحب کی سعادت اور خوشی قسمتی جس سے اس تعلق سے دور جدید شروع ہوا ہے بہت ہی مبارکباد کے قابل ہے.میں الفاظ نہیں پاتا جس میں انعام عظیم کی عظمت کا اظہار کرسکوں.بجز اس کے کہ میں اپنے آقا وامام حضرت خلیفتہ اسی مدظلہ تعالیٰ ( جن کے ہاتھوں حضرت مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح ہوا اور جن کے ہاتھوں مبارکہ کی تقریب رخصت کا ادا ہونا مقدر تھا) کے وہ الفاظ درج کر دوں جو آپ نے خطبہ میں فرمائے تھے.ایک وقت تھا جب کہ نواب محمد علی خاں صاحب کے مورث اعلی شیخ صدر جہاں علیہ الرحمۃ کو ایک رئیس اعظم نے اپنی لڑکی دی تھی.مگر یہ خدا کے فضل کا نتیجہ ہے اور اس کی نکتہ نوازی ہے کہ آج محمد علی خاں صاحب کو سلطان دین نے اپنی لڑکی دی ہے اور یہ اس بزرگ مورث سے زیادہ خوش قسمت ہیں.یہ میرا دین میراعلم، میرا ایمان بتاتا ہے کہ وہ حضرت صدر جہاں سے زیادہ خوش قسمت ہیں فی الجملہ یہ بڑی ہی خوش قسمتی اور سعادت ہے نواب صاحب پہلے بھی ہمارے محسن و مخدوم ہیں مگر اس رشتہ نے احمدی قوم کے لئے انہیں بہت ہی زیادہ واجب الاحترام بنا دیا ہے ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَآءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظیم.آخر میں خاندان نبوت کی سردار سیدۃ النساء خدیجہ اللہ حضرت ام المومنین اور آپ کے تمام خاندان کو ایسی تقریب پر صدق دل سے مبارکباد دیتا ہوں.اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس قران السعدین کو اپنے انعامات و فیوض و برکات سے بہرہ ور کرے اور وہ ہمارے سید و مولا امام کی ان دعاؤں کے ثمرات سے متمتع و ہوں جو آپ نے ان کے لئے کیں اور جو ہمارا موجودہ امام خلیفتہ اسیخ کر رہا ہے.ہ این دعا از من واز جمله جہاں آمین باد گذارنده خاندان نبوت ایک ادنی خادم یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم قادیان - A
250 کہ آج مبارکہ بیگم صاحبہ صاحبزادی صاحبہ کلاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جن کا نکاح مجھ سے ۱۷ فروری ۱۹۰۸ء کو بروز شنبہ ہوا تھا.رخصت ہو کر میرے گھر آئیں اور میرے کلبۂ احزان کو منور کیا.یہ رخصتانہ بوقت تین بجے وقوع میں آیا.میں نے ان میں حسن صورت و حسن سیرت دونوں کا پایا.لیاقت علمی بھی خاصی ہے الحمد الله علی ذالک.یہ خدا کا عجیب فضل ہے کہ میرے جیسے ناکارہ کے ساتھ اس درج برج نبوت سے میرا پیوند کر دیا ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَآءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم رخصتانه نهایت سیدھی سادی طرز سے ہو ا مبارکہ بیگم صاحبہ کے آنے سے پہلے مجھ کو حضرت ام المومنین علیہا السلام نے فہرست جہیز بھیج دی اور دو بجے حضرت ام لمومنین علیہا السلام خود لے کر مبارکہ بیگم صاحبہ کو میرے مکان پر ان سیڑھیوں کے راستہ سے جو میرے مکان اور حضرت اقدس کے مکان کو ملحق کرتی تھیں تشریف لائیں.میں چونکہ مسجد میں تھا اس لئے اُن کو بہت انتظار کرنا پڑا.اور جب بعد نماز میں آیا تو مجھ کو 66 بلا کر مبار کہ بیگم صاحبہ کو بایں الفاظ نہایت بھری آواز سے کہا کہ ”میں اپنی یتیم بیٹی کو تمہارے سپر د کرتی ہوں.“ اس کے بعد ان کا دل بھر آیا اور فور اسلام علیک کر کے تشریف لے گئیں.۱۵/ مارچ ۱۹۰۹ء دوشنبه آج میں نے تمام احمدی بھائیوں کو جو قادیان میں ہیں.اور بعض عمائد قصبہ کو دعوت ولیمہ دی ہے مبارکہ بیگم صاحبہ کے ساتھ میں نے شادی محض خداوند تعالیٰ کی رضا جوئی اور حضرت اقدس کے تعلقات کے بڑہانے کے لئے کی مگر خداوند تعالیٰ نے ماسوائے اس کے مجھ پر بہت فضل کئے حسب کے لحاظ سے مبار کہ بیگم صاحبہ بیٹی ہیں حضرت اقدس کی.ایک معزز قوم مغل برلاس سے اور پھر اناث کی جانب سے دو داد یال حضور ممدوح کی سیدانی تھیں اور آپ حضرت ام المومنین علیہا السلام جو والدہ مبارکہ بیگم صاحبہ ہیں سیدانی ہیں.میر ناصر نواب صاحب کی بیٹی ہیں جو نبیرہ خواجہ میر درد صاحب ہیں.اس طرح مبارکہ بیگم صاحبہ کا ددھیال اور نھیال دونوں آفتاب و ماہتاب ہیں.اور احمدیوں میں تو اس سے معزز گھرانا نہیں ہو سکتا اور فی الواقعہ دنیا بھر میں بسبب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی گھرانہ نہیں کہ ایسا خدا کے نزدیک معزز ہو.پھر صورت کے لحاظ سے اور روحانی لحاظ سے بھی حالت معزز ہے اور سیرت کے لحاظ سے کس باپ کی بیٹی ہیں پس نہایت پیارا انداز اور عجیب دلکش طبیعت ہے محبت کرنے والی بیوی ہیں.پھر مجھ کو کیوں محبوب نہ ہوں خدا وند تعالیٰ ہمارے بہت ہی بڑے تعلقات کر دے اور غایت درجہ کا عشق آپس میں پیدا کر دے اور بہت بڑی مدت تک خداوند تعالیٰ ہم کو نیکی محبت اور عزت آبر و صحت اور خوشی و خوش حالی اور دین کی خدمت میں اکٹھارکھے.آمین.
251 ۱۶ مارچ ۱۹۰۹ منگل آج بھی قادیان میں قیام رہا.اور مبارکہ بیگم صاحبہ کا جہیز جس قدر ہے بہت اچھا اور کار آمد ہے.ے ار مارچ ۱۹۰۹ء بدھ آج بھی قادیان میں قیام رہا.۱۸ / مارچ ۱۹۰۹ء جمعرات آج میں مبارکہ بیگم صاحبہ کو ساتھ لے کر لاہور روانہ ہوا.حضرت ام المومنین علیہا السلام نے مبارکہ بیگم صاحبہ کے ساتھ بسم اللہ دختر قدرت اللہ خاں اور بسم اللہ کی دولڑ کیاں ولیہ اور رفیعہ ساتھ کر دی ہیں.کریمہ اور حلیمہ کو میں ساتھ لایا ہی تھا.مرز ا خدا بخش مع اہل وعیال میں لاہور سے ساتھ لایا تھا.رحم دین.مددخاں صفدر بھی ساتھ آئے تھے اور ساتھ گئے.یہ مختصر قافلہ قادیان سے کوئی دو بجے گاڑی اور یوں وغیرہ میں روانہ ہوا اور بخیریت بٹالہ پہنچا.وہاں سے جو ریز روگاڑی فرسٹ کلاس لی گئی تھی اس میں سوار ہو گئے اور لاہور بخیر پہنچ گئے.ہم چھ بجے شام بٹالہ سے روانہ ہو کر نو بجے لاہور پہنچے.وہاں اسٹیشن سے ہم چلے تھے کہ اتفاقا عبد الرحمن کی آواز سنی معلوم ہوا کہ بچے شیخ عبدالرحیم کو لے کر بائیسکلوں پر سوار ہو کر لینے آئے ہیں ان سعادت مند بچوں کی اس بات سے مجھے بہت خوشی ہوئی کہ انہوں نے اپنی نئی ماں کا خوشی اور محبت سے استقبال کیا اور پھر کوٹھی پر پہنچ کر اور بھی طبیعت خوش ہوئی کیونکہ زینب نے یہ بھی نہایت عمدہ طرح سے مبارکہ بیگم صاحبہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا.زنیب اور بچوں نے خوب کو ٹھی سجائی تھی جس سے ان کی خوشی اور محبت کا انداز ہ لگتا تھا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ بچوں نے ان کو اپنی اصلی ماں کی طرح برتاؤ کیا فالحمد للہ علی ذالک یہ سفر قادیان سے لا ہور تک نہایت مزے سے گذرا.۱۸۲ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے رشتہ کی تحریک حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی شادی کا سلسلہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے بیان کے مطابق بوزینب بیگم صاحبہ حضرت نواب صاحب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں جو صاحبزادہ حضرت میاں شریف احمد صاحب کے عقد میں ہیں.شیخ عبدالرحیم صاحب سے مراد مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب حال درویش ہیں.
252 یوں ہوا کہ دوسری بیوی کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول کو اور خود حضور اقدس کو بے حد خیال تھا کہ نواب صاحب کی اور شادی جلد ہو جائے اور خود نواب صاحب کو اپنی بیٹی بوز نیب صاحبہ کی وجہ سے بہت ہی فکر تھا کہ قریب بہ بلوغت لڑکی تنہا ہے.اس قسم کی کسی بات پر جو اظہار فکر کیا تو یہ بات کسی نے حضرت مسیح موعود کو پہنچائی.حضرت کو خود ہی ان کا بہت خیال تھا.اور اکثر ذکر بہت فکر اور خیال کے ساتھ فرماتے اور یہ مجھے بھی یاد ہے.مگر اس دن کے ذکر پر حضرت اقدس کو خاص طور پر بوزنیب بیگم صاحبہ کے معاملہ کی جانب توجہ ہوئی اور چھوٹے بھائی مرزا شریف احمد صاحب کا پیام دیا.اس رشتہ کے لئے نواب صاحب کی قربانی اس رشتہ کی تحریک کو نواب صاحب نے قبول کر لیا.دوست شاید خیال کریں کہ یہ حلوائے شیر میں تھا.اس میں کوئی ابتلا کا سامان نہ ہوا ہو گا.نہیں بلکہ مرد مومن کو عمر بھر مختلف انواع واقسام کے ابتلا پیش آتے ہیں.جن سے اللہ تعالے اپنے بندے کا اخلاص ظاہر کرتا اور اس کی قوت ایمانیہ میں ترقی بخشتا ہے.بے شک یہ رشتہ تھا نعمت غیر مترقبہ لیکن ظاہری ریاست کے فخر میں اور روحانی بصیرت سے محرومی کے باعث نواب صاحب کے اقارب نے اسے نا پسند کیا.لیکن نواب صاحب نے جرأت ایمانی اور شجاعت سے کام لیتے ہوئے ان کی بات کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا.چنانچہ اس بارے میں مجھے مفتی محمد صادق صاحب تحریر فرماتے ہیں: ” جب حضرت نواب صاحب کی صاحبزادی زینب بیگم کے نکاح کی تجویز حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے ساتھ قرار پائی تو نواب صاحب کے بھائی اپنے قومی خیالات کی وجہ سے اس رشتہ کی مخالفت کرنے کے لئے قادیان میں آئے اور نواب صاحب کو اس کام سے روکا.مگر انہوں نے جواب دیا کہ جب میں ایک شخص کو مسیح موعود مان چکا ہوں تو آپ خیال کرو کہ میری پوزیشن کیا ہے اور میں ان کو رشتہ دینے سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں چنانچہ وہ بھائی ناراض ہو کر چلے گئے اور حضرت نواب صاحب نے اس بارہ میں ان کی کوئی بات نہ مانی اس روایت کی تصدیق سیدہ نواب مبارکہ صاحبہ کے بیان سے بھی ہوتی ہے فرماتی ہیں: نواب صاحب کو زینب بیگم صاحبہ سے بہت محبت تھی اور اب تک چھوٹے بچوں میں سے زیادہ تر ان ہی کی بچپن کی باتیں بڑی محبت سے سنایا کرتے تھے.نواب صاحب کے تمام عزیز لڑکی کی شادی یہاں کر دینے سے بے حد ناراض
253 تھے.کہتے تھے کہ ایسا کبھی نہ ہوا تھا اس نے غضب کر دیا.نواب صاحب کے بھائیوں کو سخت غصہ اور صدمہ تھا.فرماتے تھے کہ میرے بھائی نے کہا کہ آپ نے کیا دیکھ کر لڑکی کو جھونک دیا ہے؟ میں نے کہا جو میں نے دیکھا ہے وہ آپ کو نظر نہیں آ سکتا.اتنا آپ سن لیں کہ اگر شریف احمد ٹھیکرا لے کر گلیوں میں بھیک مانگ رہا ہوتا (اور دوسری جانب ایک بادشاہ رشتہ کا خواستگار ہوتا ) تب بھی شریف احمد کو ہی بیٹی دیتا.یہ بات خود نواب صاحب نے مجھے سنائی اور میرے دل پر اس وقت ایک عجیب اثر ان کے ایمان کا ہوا تھا.“ خیر یہ تو آپ کے اقارب کا خیال اور آپ کے ایمان کا حال تھا.لیکن اس میں کیا شک ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نواب صاحب کی فرزندی میں ایسا وجود دیا جو مبشر اولاد میں سے ہے اور جس کے بارے میں متعد دمبشر بشارات الہیہ موجود ہیں کہ حضرت اقدس کی طرف سے جلد نکاح ہو جانے کی تحریک حضرت اقدس نے نواب صاحب کو تحریک فرمائی کہ عمر نا پائیدار کا کوئی اعتبار نہیں نکاح منسون طور پر کر دیا آپ کی ولادت سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو یہ بشارت ملی تھی.معمر انا نبشرك بغلام - ۱۸۳ اور اس خوش خبری کے پورا ہونے کے متعلق حضور فرماتے ہیں: ہمیں خدا تعالیٰ نے عبدالحق کی یاوہ گوئی کے جواب میں بشارت دی تھی کہ تجھے ایک لڑکا دیا جائے گا جیسا کہ ہم اسی رسالہ انوار الاسلام میں اس بشارت کو شائع بھی کر چکے ہیں.سو الحمد اللہ والمنتہ کہ اس الہام کے مطابق ۲۷ رذی قعد ۱۳۱۲ھ مطابق ۲۴ مئی ۱۸۹۵ء میں میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا.جس کا نام شریف احمد رکھا گیا." پھر فرمایا: جب یہ پیدا ہوا تھا تو اس وقت عالم کشف میں آسمان پر ایک ستارہ دیکھا تھا جس پر لکھا تھا الله ۸۵
254 جائے.دونوں کے بلوغ کے بعد رخصتانہ ہو جائے گا چنانچہ اس بارہ میں حضور نے تحریر فرمایا:.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی عزیزم اخویم نواب صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کا نہ آپ کا خط مرسلہ پہنچا.اس کے رقعہ کی کچھ ضرورت نہ تھی لیکن میں جانتا ہوں کہ جس طرح انسان دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک فیصلہ کر کے مطمئن ہو جاتا ہے اور پھر اس درد سے نجات پاتا ہے کہ جو تنازعہ کی حالت میں ہوتی ہے اسی طرح انسان کا نفس بقیہ حاشیہ : - اسی طرح حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی بیماری کی حالت میں ان کی نسبت یہ الہامات ہوئے : ا - عَمَّرَهُ اللَّهُ عَلَى خِلَافِ التَّوَفَّعِ - أَمَّرَهُ اللَّهُ عَلَى خِلَافِ التَّوَفَّعِ ٣- اَءَ نُتَ لَا تَعْرِفِينَ الْقَدِيرَ -۴- مُرَادُكَ حَاصِلٌ ۵ - اللهُ خَيْرٌ حَافِظاً هُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ AY ترجمہ الہامات (۱) اس کو یعنی شریف احمد کو خدا تعالیٰ امید سے بڑھ کر عمر دیگا.(۲) اس کو اللہ تعالیٰ امید سے بڑھ کر امیر کریگا.(۳) کیا تو قادر کو نہیں پہچانتی ( یہ ان کی والدہ صاحبہ کی نسبت الہام ہے ) (۴) تیری مراد حاصل ہو جائے گی (۵) خدا سب سے بہتر حفاظت کرنے والا ہے اور وہ ارحم الراحمین ہے رؤیا.شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ بادشاہ آیا.“ دوسرے نے کہا کہ ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے.فرمایا.قاضی حکم کو بھی کہتے ہیں قاضی وہ ہے جو تائید حق کرے اور باطل کو ر ڈ کرے.فرمایا چند سال ہوئے ایک دفعہ ہم نے عالم کشف میں اس لڑکے شریف احمد کے متعلق کہا تھا کہ اب تو ۱۸۸ ہماری جگہ بیٹھے اور ہم چلتے ہیں.اور جب یہ پیدا ہوا تھا تو اس وقت عالم کشف میں میں نے دیکھا کہ آسمان پر سے ایک روپیہ اترا اور میرے ہاتھ پر رکھا گیا اس پر لکھا تھا معمر الله
255 خدا تعالے نے ایسا بھی بنایا ہے کہ وہ بھی اپنے اندر کئی مقدمات بر پا رکھتا ہے.اور ان مقدمات سے نفس انسانی بے آرام رہتا ہے لیکن جب انسان کسی امر کے متعلق ایک فیصلہ کر لیتا ہے تب اس فیصلہ کے بعد ایک آرام کی صورت پیدا ہو جاتی ہے آپ کی رائے میں صرف یہ کسر باقی ہے کہ ہمیں زندگی کا اعتبار نہیں جیسا کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر فرمایا ہے ایسا ہی آپ بھی زندگی پر بھروسہ نہیں کر سکتے.اور اس بارے میں یہ شعر شیخ سعدی کا بہت موزوں ہے.مکن تکیه بر عمر ناپائدار مباش ایمن از بازی روزگار پس اگر ہمیں موت آگئی تو ہم اس رشتہ کی خوشی سے محروم گئے اور نیز اس دعا سے محروم رہے کہ جو ہماری زندگی کی حالت میں اس رشتہ کے مبارک ہونے کے لئے کر سکتے تھے کیونکہ وہ دعا اس وقت سے مخصوص ہے جب نکاح ہو جاتا ہے.علاوہ اس کے ہریک کو اپنی عمر پر اعتماد کرنا بڑی غلطی ہے آج سے چھ ماہ پہلے آپ کے گھر کے لوگ صحت کے ساتھ زندہ موجود تھے.کون خیال کر سکتا تھا کہ وہ اس عید کو بھی نہ دیکھ سکیں گے.اسی طرح ہم میں سے کس کی زندگی کا اعتبار ہے اگر موت کے بعد اس وعدہ کی تکمیل ہو تو گویا میری اس بات کو یاد کر کے خوشی کے دن میں رونا ہو گا.مگر میں آپ کی رائے میں کچھ دخل نہیں دیتا.صرف عمر کی بے ثباتی پر خیال کر کے یہ چند سطریں لکھی ہیں کیونکہ بقول شخصے در اے ز فرصت بے خبر هر چه باشی زود باش وقت فرصت کو ہاتھ سے دینا بسا اوقات کسی دوسرے وقت میں موجب حسرت ہو جاتا ہے میری دانست میں تو اس میں کچھ ہرج نہیں اور سراسر مبارک ہے کہ رمضان کی ۲۷ تاریخ کو جو بظن غالب لیلتہ القدر کی رات اور دن ہے مسنون طور پر نکاح ہو جائے اور اس میں کیا حرج ہے کہ اس سے لڑکی کو اطلاع دی جائے مگر وداع نہ کیا جائے.لڑکی بجائے خود پرورش اور تعلیم پاوے اور لڑ کا بجائے خود.جب دونوں بالغ ہو جائیں تب رخصت کیا جائے.کیونکہ فی التاخیر آفات کا ہی مقولہ صحیح ہے جو تجر بہ اس کی صحت پر گواہی دیتا ہے.زندگی کا کچھ بھی اعتبار نہیں.شیخ سعدی نے اس میں کیا عمدہ ایک غزل لکھی ہے اور وہ یہ ہے.زار زار ے نالید گفتمش صبر کن که باز آید گفت ترسم بقا وفا نکند اسی طرح شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سال دیگر را که می داند حساب بر فراق بہار و وقت خزاں آں زماں شگوفہ و ریحاں ورنہ ہر سال گل دهد بستان تا کجا رفت آں کہ با ما بود یار
256 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِهِ عِلم یعنی ان باتوں کے پیچھے مت پڑ جن کا تجھے علم نہیں پس ہمیں کیا علم ہے کہ سال آئندہ میں ہم زندہ ہوں گے یا نہ ہوں گے اور جب قائم مقاموں کے ہاتھ میں بات جاتی ہے تو وہ اپنی ہی رائے کو پسند کرتے ہیں.میں نے یہ محض میں نے اپنی رائے لکھی ہے اور آپ اپنی رائے اور ارادہ میں مختار ہیں.خاکسار مرزا غلام احمد ۸/نومبر ۱۹۰۶ء ۲۰ ماه رمضان المبارک ۱۳۲۴ ء 198 اعلان نکاح چنانچہ نکاح کا اعلان ہوا.اس بارہ میں معزز ایڈیٹر صاحب الحکم تحریر فرماتے ہیں: قران السعدین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے حمد رب العالمین تجھے حمد و ثناء زیبا ہے پیارے کہ تو نے کام سب میرے سنوارے ہیں وہ سب جیسے ستارے ترے احساں مرے سر پر ہیں بھارے گڑھے میں تو نے سب دشمن اتارے ہمارے کر دیئے اونچے منارے مقابل میں مرے یہ لوگ ہارے کہاں مرتے تھے تو نے ہی مارے شریروں پر پڑے ان کے شرارے نہ ان سے رک سکے مقصد ہمارے انہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی فسبحان الذي اخزي الادعادى ہم ذیل میں خطبہ نکاح درج کرتے ہیں.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے خطبہ نکاح کی مسنونہ آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا ” خطبہ نکاح میں ان آیات کا پڑھنا مسنون ہے اور ہمیشہ سے مسلمانوں کا پر عملدرآمد چلا آیا ہے.ان آیات میں تقویٰ کا حکم ہے تقویٰ سے مراد اول عقاید کی اصلاح ہے.اللہ تعالیٰ کا نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے نہ صفات میں کوئی شریک ہے اور نہ افعال میں کوئی شریک ہے.عبادت میں اس کا کوئی شریک بنانا نا جائز ہے یہ عقاید میں مرتبہ اول ہے اور مرتبہ دوم ملائکہ پر ایمان لانا ہے.اس پر
257 اما بعد.نہایت مسرت اور دلی انبساط کے ساتھ یہ خبر فرحت افزا شایع کی جاتی ہے کہ ۲۷ / رمضان المبارک ۱۳۲۴ ء ہجری المقدس کو بعد نماز عصر پنجشنبہ کے دن حضرت صاحبزادہ شریف احمد سلمہ اللہ الا حد کے بقیہ حاشیہ: - ملائکہ ہمارے دلوں پر نیکیوں کی تحریک کرتے ہیں جو شخص اس تحریک کو قبول کرتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے.اس کا تعلق ملائکہ کے ساتھ بڑھ جاتا ہے اور پھر ملائکہ زیادہ سے زیادہ نیک تحریکات کا سلسلہ اس کے دل کے ساتھ لگائے رکھتے ہیں.جو لوگ شیطان کی تحریک بد کو قبول کرتے ہیں ان کا تعلق شیطان کے ساتھ بڑھ جاتا ہے اور جولوگ ملائکہ کی تحریک نیک پر عمل درآمد کرتے ہیں اُن کا تعلق ملائکہ کے ساتھ بڑھ جاتا ہے.بیٹھے بیٹھے بغیر کسی بیرونی محرک کے جو انسان کے دل میں ایک نیک کام کے کرنے کا خیال پیدا ہو جاتا ہے اور اس طرف توجہ ہو جاتی ہے وہ فرشتے کی تحریک ہوتی ہے اور جو بد خیال دل میں اچانک پیدا ہو جاتا ہے.وہ شیطان کی تحریک ہوتی ہے جس طرف انسان توجہ کرے اسی میں ترقی کر جاتا ہے.ملائکہ پر ایمان لانے کا مطلب یہی ہے کہ جب کسی کے دل میں نیک تحریک پیدا ہو تو فوراً اس نیکی پر عملدرآمد کرے برخلاف اس کے جب بد خیال دل میں آئے تو لا حول پڑھنا یا اعوذ پڑھنا اور بائیں طرف تھوکنا شیطان کی شرارت سے بچاتا ہے کیونکہ شیطان طرف راست سے نہیں آتا وہ راستی کا دشمن ہے بلکہ ہمیشہ طرف چپ سے آتا ہے جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اور ملائکہ کی نیک تحریکات سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی کتاب کو تد بیر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور مرسلین کا نیک نمونہ اختیار کرتے ہیں ان کو خدا تعالے صراط مستقیم پر قدم مارنے کی توفیق دیتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ترقی کرتے ہوئے مکالمہ ومخاطبہ کی نعمت کے حصول تک پہنچ جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کی توحید اور ملائکہ پر ایمان کے بعد تیسری بات ایمان بالآخرۃ ہے.جزا وسزا کا عقیدہ انسان کے واسطے ترقی کا موجب ہے اور اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو یہ ترقی بتدریج انسان حاصل کر سکتا ہے.اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ترقی کے واسطے بہت سے سامان بآسانی مہیا کر دئے ہیں.دیکھو خدا کا مامور ہمارے سامنے موجود ہے اور خود اس مجلس میں موجود ہے.ہم اس کے چہرے کو دیکھ سکتے ہیں یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ ہزاروں ہزار ہم سے پہلے گذرے جن کی دلی خواہش تھی کہ وہ اس کے چہرے کو دیکھ سکتے پر انہیں یہ بات حاصل نہ ہوئی اور ہزاروں ہزا ر اس زمانے کے بعد آئیں گے جو یہ خواہش کریں گے کہ کاش وہ مامور کا چہرہ دیکھتے.پر ان کے واسطے یہ وقت پھر نہ آئے گا.یہ وہ زمانہ ہے کہ عجیب در عجیب تحریکیں دنیا میں زور وشور کے ساتھ ہو رہی ہیں اور ایک ہل چل مچ رہی ہے.عربی زبان دنیا میں خاص طور پر ترقی کر رہی ہے.کتابیں کثرت سے شائع ہو رہی ہیں وہ عیسائیت کی عمارت جس کو ہاتھ لگانے سے خود ہمارے ابتدائی عمر کے زمانے میں لوگ خوف کھاتے تھے آج خود عیسائی قو میں اس مذہب کے عقائد سے متنفر ہو کر اس کے برخلاف کوشش میں ایسے سرگرم ہیں کہ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِايْدِهِمْ کے مصداق بن رہے ہیں اور شرک کے
258 نکاح کی مبارک تقریب عمل میں آئی.یہ مبارک رشتہ میرے محسن و مخدوم جناب خان صاحب نواب محمد علی خاں صاحب رئیس اعظم مالیر کوٹلہ کی دختر نیک اختر صاحبزادی زینب بیگم صاحبہ سے ہوا.اور ایک ہزار روپیہ مہر مقرر بقیہ حاشیہ ناپاک عقائد سے بھاگ کر ان پاک اصول کی طرف اپنا رخ کر رہے ہیں جن کے قائم کرنے کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوئے تھے.یہ سب واقعات قرآن شریف کی اس پیشگوئی کی صداقت کو ظاہر کر رہے ہیں کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ تحقیق ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں جیسا کہ الفاظ کی حفاظت یا دکر نے والوں اور لکھنے والوں کے ذریعہ سے ہوئی.ویسے ہی معانی کی حفاظت مجہ دوں کے ذریعہ سے ہوئی اور ہورہی ہے یہ سب کچھ موجود ہے مگر خوش قسمت وہی ہے جو ان باتوں سے فائدہ اٹھائے.جذبات نفس پر قابورکھ کر خدا تعالے کے احکام پر عمل کرے.مساکین اور یتامیٰ کو مال دیوے قسم قسم کے طریقوں سے رضا جوئی اللہ تعالیٰ کی کرے.ایک وقت کا عمل دوسرے وقت کے عمل سے بعض دفعہ اتنا فرق رکھتا ہے کہ اوّل مہاجرین نے جہاں ایک مٹھی جو کی دی تھی بعد میں آنے والا کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا دیتا تھا تو اس کی برابری نہ کر سکتا تھا.سائل کو دو، دکھی کو دو، ذوی القربی کو دو، نماز سنوار کر پڑھو.مسنون تسبیح اور کلام شریف اور دعاؤں کے بعد اپنی زبان میں بھی عرض معروض کرو تا کہ دلوں پر رقت طاری ہو، غریبی میں.امیری میں مشکلات میں.مقدمات میں.ہر حالت میں مستقل رہو اور صبر کو ہاتھ سے نہ دو.تقویٰ کا ابتدا ء دعا، خیرات اور صدقہ سے ہے اور آخر ان لوگوں میں شامل ہونے سے ہے جن کی نسبت فرمایا إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا جن لوگوں کے کہا کہ ہما را رب اللہ ہے اور پھر استقامت دکھائی.تقومی کرنے کے متعلق حکم کے بعد یہ حکم ہے کہ وَلَتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ چاہئے کہ ہر ایک نفس دیکھ لے کہ اس نے کل کے واسطے کیا تیاری کی ہے انسان کے ساتھ ایک نفس لگا ہوا ہے.جو ہر وقت متبدل ہے کیونکہ جسم انسان ہر وقت تحلیل ہو رہا ہے.جب اس نفس کے واسطے جو ہر وقت تحلیل ہورہا ہے اور اس کے ذرات جدا ہوتے جاتے ہیں اس قدر تیاریاں کی جاتی ہیں اور اس کی حفاظت کے واسطے سامان مہیا کئے جاتے ہیں تو پھر کس قدر تیاری اس نفس کے واسطے ہونی چاہئے جس کے ذمہ موت کے بعد کی جواب دہی لازم ہے اس آنی فنا والے جسم کے واسطے جتنا فکر کیا جاتا ہے کاش کہ اتنا فکر اس نفس کے واسطے کیا جاوے جو کہ جواہد ہی کرنے والا ہے.اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ : اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے.اس آگاہی کا لحاظ کرنے سے آخر کسی نہ کسی وقت فطرت انسانی جاگ کر اسے ملامت کرتی ہے اور گناہوں میں سے گرنے سے بچاتی ہے.۱۹۳
259 ہوا نکاح کی مسنون تقریب ادا کرنے کے لئے دار البرکات کا صحن تجویز ہوا تھا.جہاں دارالامان کی موجودہ جماعت حاضر ہوئی اور حضرت حجۃ الاسلام امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام کی موجودگی میں حضرت حکیم الامت نے خطبہ نکاح پڑہا اور اس طرح پر یہ مبارک تقریب ادا ہوئی اس تقریب سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ہر فر دکو جو مسرت ہوسکتی ہے وہ ایک ظاہر امر ہے.میں بحیثیت خادم قوم حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور بقیہ حاشیہ: - اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو اور سیدھی بات بولوتو خدا تعالے تمہاری کمزوریوں کو معاف کرے گا اور تمہاری غلطیوں کی سنوار اور اصلاح ہو جائے گی انسان کو چاہئے کہ ہر وقت اپنے اعمال کی اصلاح میں کوشش کرتا رہے.جب مرنے کا وقت قریب آتا ہے تو انسان کے حقیقی اعمال جو خدا تعالیٰ کے نزدیک پسند یا غیر پسند ہوں پیش ہوتے ہیں نہ کہ وہ اعمال جو لوگوں کے سامنے وہ دکھاتا ہے اور ظاہر کرتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو اور خدا تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کرو کہ اس نے آدم کو پیدا کیا اور اس سے بہت مخلوق پھیلائی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام والبرکات پر اس کا خاص فضل ہوا.اور ابراہیم کو اس قد را ولا ددی گئی کہ اس کی قوم آج تک گئی نہیں جاتی اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ خدا نے ہمارے امام کو بھی آدم کہا ہے اور بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا کی آیت ظاہر کرتی ہے کہ اس آدم کی اولا د بھی دنیا میں اسی طرح پھیلنے والی ہے.میرا ایمان ہے کہ بڑے خوش قسمت وہ لوگ ہیں جن کے تعلقات اس آدم کے ساتھ پیدا ہوں.کیونکہ اس کی اولا د ( میں ) اس قسم کے رجال اور نساء پیدا ہونے والے ہیں جو خدا تعالیٰ کے حضور میں خاص طور پر منتخب ہو کر اس کے مکالمات سے مشرف ہوں گے.مبارک ہیں وہ لوگ.مگر یہ باتیں بھی پھر تقویٰ سے حاصل ہوسکتی ہیں اور تقویٰ کے ذریعہ سے فائدہ پہنچا سکتی ہیں کیونکہ خدا کسی کا رشتہ دار نہیں ہے.مجھے سب سے بڑھ کر جوش اس بات کا ہے کہ میں مسیح موعود کی بیوی بچوں.متعلقین اور قادیان میں رہنے والوں کے واسطے دعائیں کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو رجالاً کثیراً اور تقوی اللہ والے کا مصداق بنائے.آج کی تقریب ایک خاص خوشی کا موقعہ ہے اور خاص خوشی.خان صاحب نواب محمد علی خاں کے لئے ہے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کی قسمت میں یہ بات کر دی کہ وہ اس تعلق میں شمولیت حاصل کریں.آج یہ تقریب ہے کہ ہمارے امام آدم وقت کے اس شریف لڑکے کا نکاح نواب صاحب کی اکلوتی بیٹی زنیب کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اس کا مہر وہی ایک ہزار روپیہ مقرر کیا جاتا ہے جو کہ حضرت کے دوسرے لڑکوں کا مقرر ہوا ہے.کہ آپ کو ( نواب صاحب کی طرف توجہ کر کے ) منظور ہے؟ ( نواب صاحب نے کہا منظور ہے.پھر صاحبزادہ شریف احمد صاحب سے پوچھا گیا اس نے بھی کہا منظور ہے ) اس کے بعد حضرت نے بمعہ جماعت دعا کی.“
260 حضرت ام المومنین علیہا السلام کے حضور نہایت ادب سے مبارکباد عرض کرتا ہوں اور ایسا ہی صاحبزادہ کے واجب الاحترم نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب سلمہ اللہ الوہاب اور اس معز ز محترم خاتون ( جسے خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے یہ شرف عطاء فرمایا کہ وہ حضرت ام المومنین کی واجب الاحترام والدہ بنی اور مسیح موعود جیسا جلیل الشان انسان رشتہ میں اس کا بیٹا قرار پایا) کو صدق دل سے مبارکباد دیتا ہوں اس تعلق اور رشتہ میں میرے مخدوم نواب صاحب سب سے زیادہ مبارک باد کے قابل ہیں کہ جنھوں نے عملی طور پر اپنی وفا داری اور ارادت واخلاص کا وہ کامل نمونہ دکھایا جو ان کی حیثیت کے لوگوں کو بہت کم ملتا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ابھی وہ کچھ دیکھا ہے جس کو ایک زمانہ کچھ عرصہ کے بعد دیکھنے والا ہے.حقیقت میں نواب صاحب پر یہ خدا کا خاص فضل ہے کہ ان کی لخت جگر کے لئے وہ شوہر تجویز ہوا جو جری اللہ فی حلل الانبیاء کا لخت جگر ہے اور جس کی رگوں میں فاطمی خون گردش کر رہا ہے اور اسی وجہ سے میں اس تعلق کو قران السعدین کہتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس تعلق کو ہر طرح اور ہر پہلو سے نہایت ہی مبارک اور مسعود بنادے.آمین.دنیا میں نکاح ہوتے ہیں.امراء اور رؤسا کے بھی ہوتے ہیں بادشاہ اور غربا کے بھی ہوتے ہیں.مگر اس نکاح میں مجھے بہت سی خصوصیتیں نظر آتی ہیں.اول یہ کہ صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کا وجود ایک آیت اللہ ہے ان کی پیدائش کی خبر قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے دی اور ایسے وقت دی جب کہ عبدالحق غزنوی سے مباہلہ ہو چکا تھا اور اس نے بھی اپنے ہاں اولاد پیدا ہونے کی پیش گوئی کی تھی چنانچہ ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء کو انوار الاسلام کے صفحہ ۳۹ کے حاشیہ پر حضرت اقدس نے یہ الہام شائع کیا انا نبشرک بغلام یعنی ہم تجھ کو ایک لڑکا پیدا ہونے کی خوشخبری دیتے ہیں اور یہ رسالہ پانچہزار کے قریب شایع ہوا اور جب خوب اشاعت ہو چکی تو ۲۴ مئی ۱۸۹۵ء مطابق ۲۷ ذی قعد ۱۳۲۴۰ھ کو یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور صاحبزادہ صاحب کی ولادت باسعادت ہوئی اور شریف احمد نام رکھا گیا اور ضیاء الحق کے سرورق پر اسے شایع کر دیا گیا.وو پھر ایک خصوصیت اور ہے نواب صاحب کے مورث اعلیٰ ایک با خدا بزرگ تھے.جن کا نام شیخ صدر جہاں (رحمۃ اللہ علیہ ) تھا جو بہاول لودھی کے دوران سلطنت میں اسی ملک میں آئے اور بادشاہ وقت نے ان کے زہد و تقا کو دیکھ کر اپنے حسن اعتقاد کی وجہ سے انہیں اپنی لڑکی دیدی اسی طرح پر نواب صاحب نے محض خدا کی رضاء کو اس موقعہ پر مقدم کیا اور اسی طرح شیخ صدر جہاں ایسے با خدا بزرگ کی پوتی مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے کے نکاح میں آئی جو میرا یقین ہے کہ بزرگ موصوف کی روحانیت کا خاص اقتضا اور ان کے اپنے زمانہ کی دعاؤں کا اثر ہو گا جو حضرت مسیح موعود کے کمالات کشفی رنگ میں دیکھ کر ان سے پیوند کے لئے کرتے ہوں گے.اور پھر جب صاحبزادہ شریف احمد صاحب کے ننھیال کی طرف نظر کرتے ہیں تو وہ
261 حضرت خواجہ میر در صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا با خدا خاندان ہے اس طرح پر یہ تعلق جس پہلو سے دیکھا جاوے مقدسوں اور راست بازوں کے خون کا اجتماع ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تعلق کے مبارک اور مثمر بہ ثمرات ہونے کی بڑی بڑی امیدیں ہیں.یہ امیدیں یقین کے رنگ میں ہو جاتی ہیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے اس سلسلے کو دیکھتے ہیں جو حضور نے آمین میں اولاد کیلئے کی ہیں.نظر بہ حالات تمام میں ایک بار پھر نواب صاحب قبلہ کو صدق دل سے مبارکباد دیتا ہوں کہ ان کی خوش قسمت اور بیدار بخت صاحبزادی کو قابل نازشو ہر ملا ہے اور یہ خدا کا فضل ہے وہ عطا کرتا ہے جسے چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو بہت ہی مبارک کرے (آمین) اسی طرح معز ز بدر میں مرقوم ہے بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم مبارک سب حمد اس رب العالمین کے واسطے ہے جس نے انسان کے واسطے تعلقات نسب و صھر بنائے اور صلوٰۃ اور سلام اس کے رسول محمد پر ہوں جس نے ان تعلقات کی احسن نگہداشت کی ہم کو راہ دکھائی اور خدا کی نصرت اور تائید اس رسول کے خلیفہ پر ہو جس نے اس زمانہ میں گم شدہ ایمان کو دوبارہ دنیا میں قائم کیا.اور خلقت کو خالق کا چہرہ دکھایا.اما بعد آج ہم اس خوشخبری کو شایع کرتے ہیں کہ ۲۷ ماہ رمضان المبارک ۱۳۲۴ء على صاحبها التحیة والسلام روز پنجشنبہ کو بعد نماز عصر صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کا نکاح حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی اکلوتی بیٹی زینب بیگم کے ساتھ ہوا اور مبلغ ایک ہزار مہر مقرر ہوا.اس مبارک تقریب پر تمام جماعت احمد یہ جو قادیان حاضر ہے نئے مہمانخانہ کے اوپر کے صحن میں جمع ہوئی جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود صدرنشین تھے اور حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب نے خطبہ پڑہا ( جو انشاء اللہ تعالے ناظرین اخبار میں ملاحظہ فرماویں گے ) صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کا وجود بھی ایک آیت اللہ ہے کیونکہ اس کی پیدائش سے پہلے اس کے متعلق خدا تعالیٰ کے الہام کے مطابق پیشگوئی شائع کی گئی تھی.اس مبارک تقریب پر ہم مبارکباد کہتے ہیں حضرت امام کی خدمت میں اور حضرت ام المومنین اور حضرت میر صاحب اور والدہ محمد الحق کی خدمت میں اور ان کے تمام لواحقین اور اہل بیت کی خدمت میں اور تمام احباب احمدیہ کی خدمت میں اور حضرت نواب صاحب کی خدمت میں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس تعلق میں اپنے فضل وکرم سے برکات عظیم ڈالے.آمین ثم آمین.
262 اسی طرح مزید معزز بدر میں مرقوم ہے: ”مبارک تقریب صاحبزادہ شریف احمد صاحب کے نکاح پر مبارکبا د ناظرین نے اخبار ہذا کے صفحہ دو پر دیکھی ہوگی.یہ تقریب بہت سے پہلوؤں سے بڑی خوشی اور خدا تعالیٰ کی حمد وستائش کا موجب ہے منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ جناب خان صاحب محمد علی خاں نے سلسلہ حقہ کے ساتھ جب بچے اخلاص اور عقیدت کے سبب اپنے وطن مالوف پر اور اپنی جاگیر کے اندر سکونت اختیار کرنے پر قادیان کی رہائش کو ترجیح دی اور ہجرت کر کے حضرت امام علیہ السلام کے قدموں میں آبیٹھے تو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے ان کا ایک تعلق اس خاندان کے ساتھ کرایا.جس کے واسطے قیامت تک برکتوں اور رحمتوں کے بڑے بڑے عظیم الشان وعدے خدا نے کئے ہیں.خدا تعالیٰ کی مشیت نے جو عزت حضرت مرزا صاحب کے طفیل اس خاندان کو بخشی ہے وہ تو ظاہر ہی ہے کہ عنقریب بڑے بڑے بادشاہ اس خاندان کے ممبروں کی کفش برداری اپنے واسطے فخر سمجھیں گے اور جو روحانی درجہ خدا تعالیٰ نے اس آدم کو عطا فرمایا ہے وہ بہین ہے کہ زمین کے چار کونوں میں سے خدا تعالی نے اپنی رسالت کے واسطے اس ایک شخص کو برگزیدہ کیا ہے لیکن اس عزت روحانی کے علاوہ خدا تعالیٰ نے اپنی سنت قدیمہ کے مطابق اپنے مامور کو ایک اعلیٰ خاندان سے برگزیدہ کیا ہے جس کے ممبر تخت شاہی پر بیٹھنے والے اور ریاستوں اور جاگیروں کے مالک گزرے ہیں اور پھر آج اس گھر کو خدا تعالیٰ نے اپنی برکات کا ایسا نزول گاہ کیا ہے کہ جس قدر عزت آرام اور آسائش کے سامان اس گھر کے واسطے زمین کے ہر طرف سے مہیا ہو رہے ہیں وہ بڑے بادشاہوں کے واسطے بھی نصیب نہیں.پس ہر پہلو سے یہ خدا تعالے کا ایک خاص فضل جناب خان صاحب اور ان کی دختر نیک اختر کے واسطے ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ یہ تعلق جانبین کے واسطے خدا تعالیٰ کی بڑی رضا مندیوں کے حصول کا ذریعہ اور اس کے قرب کے حاصل کرنے کا موجب ہو اور قیامت تک اس پر برکات نازل ہوں.“ رخصتانہ کی بابت خط و کتابت 199 محترمہ بوزنیب بیگم صاحبہ کے جلد رخصتانہ کو حضرت اقدس پسند فرماتے تھے تا موصوفہ کے پاس ہونے سے ان کے لئے دعا کا موقعہ مل سکے.اس بارہ میں حضور کے زبانی پیغام پر نواب صاحب نے ذیل کی چٹھی حضور کی خدمت میں ارسال کی.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالی.السلام علیکم.پیر منظور محمد صاحب تشریف لائے اور فرمایا
263 کہ حضور نے دریافت فرمایا ہے کہ زینب کے رخصتانہ کے متعلق اتنی ہی بات ہے جتنی پہلے طے ہو چکی ہے یا کیا.اس سوال سے مجھ کو تین خیال گزرے.۱.یہ کہ حضور اس قرارداد سے قبل رخصتا نہ چاہتے ہیں.۲.یہ کہ حضور نے مزید تاکید کے لئے ان کو بھیجا ہے اس وقت پر رخصتا نہ ہو جائے.۳.یہ کہ حضور کچھ اور مہلت عطا فرمانا چاہتے ہیں.میں نے پیر جی سے دریافت بھی کیا کہ اس کا کیا منشا ہے تو انہوں نے سوائے اس کے کوئی روشنی نہ ڈالی کہ شاید حضور جلدی رخصتانہ چاہتے ہیں.چونکہ کوئی صاف بات پیر جی نے نہیں کہی.اس لئے میں نے عرض کیا کہ میں خود حضور کی خدمت ( میں ) تحریر ا عرض کروں گا.میں برابر سوچتا رہا.مگر کوئی صاف بات میری سمجھ میں نہیں آئی.پس یہ تین باتیں جو میری سمجھ میں آئی ہیں ان کی بابت عرض ہے مگر پیشتر اس کے کچھ عرض کروں اصولاً یہ عرض ہے اول تو نکاح کے بعد لڑکی پر میکے والوں کا کوئی زور ہوتا ہی نہیں.سسرال والے جب چاہیں لے جاسکتے ہیں.میکے والوں کو اس امانت کے ادا کر نے میں عذر ہو ہی نہیں سکتا.پس جب عام قاعدہ یہ ہے تو پھر حضور کے معاملہ میں تو یہ حالت ہے جب سے بیعت کی ہے معہ جان، مال، عزت اپنے آپ کو بیچ چکا ہوں.حضور پر سب کچھ قربان ہے اور ہرج ہو یا نہ ہو.نفع ہو یا نقصان ہر حالت میں حضور کے حکم کی فرماں برداری فرض ہے بلکہ اس میں دل میں بھی کچھ ہرج رکھنا گناہ.تو پھر ایسی حالت میں کیا عرض کر سکتا ہوں.میں نے جو کچھ عرض کرنا ہو گا وہ بھی حضور ہی کو سوچنا ہے اور جو نہیں عرض کرنا وہ بھی حضور ہی کے سپرد.میری اپنی رائے کسی بھی معاملہ میں اپنی نہیں.میں تو حضور کے حکم پر ہی چلنا چاہتا ہوں.پس جب ہر معاملہ میں یہ حال ہے تو پھر اس معاملہ میں بھی حضور ہی جو حکم صادر فرمائیں گے وہی صائب ہوگا مگر چونکہ حضور نے دریافت فرمایا ہے اس لئے الامر فوق الادب عرض ہے.۱.اوّل معاملہ میں کہ اگر حضور رخصتانہ قبل چاہتے ہیں تو عرض ہے کہ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ حضور کو ہر وقت اختیار ہے کہ جب چاہیں رخصت نہ کرا لیں اگر حضور فرما ئیں تو ان ہی کپڑوں میں رخصت کر دوں.مگر اگر حضور کا خیال ہو ( کہ جس طرح حضور نے اس دفعہ میرے حاضر ہونے پر فرمایا تھا کہ ہمارا منشا اس سے یہ ہے کہ آپ کو اطلاع دیدیں کہ آپ رخصتانہ کی تیاری کرلیں ہم مکان بنوائیں گے اور اس میں پانچ چھ ماہ گزرجائیں گے ) کہ میں نے تیاری کر لی ہوگی.سو اس میں عرض ہے کہ میں اب تک کوئی تیاری نہیں کرسکا.پس یہ حضور کا رحم اور عنایت ہوگی پہلے کی طرح مجھے مہلت ہو.حضور میری ابتلاؤں سے واقف ہیں اگر مجھ کو اس وقت جلدی کا خیال ہوتا تو میں جس طرح ہوتا خواہ کتنی تکلیف ہوتی تو بھی تیاری کرتا.کیونکہ حضور کے حکم میں تکلیف عین راحت ہے.مگر پھر بھی مجھ کو اس وقت پر حضور کے حکم کی تعمیل کرنی ہے خواہ کچھ ہو.
264 -٣ ۲.رہی دوسری بات کہ حضور نے بطور یاد دہانی اور تاکید یہ فرمایا تا کہ اس وقت رخصت ہو جائے تو عرض ہے کہ حضور کا اس وقت کا حکم سوتا کید کی ایک تاکید تھا.میں اسی دن سے دن رات اسی فکر میں ہوں.رہا تیسرا امر کہ حضوڑا اپنے رحم اور فضل سے مجھ کو اس معاملہ میں اور مہلت عنایت فرمانا چاہتے ہیں اور ان ابتلاؤں کے زمانہ میں کچھ سہولت محض اس ہمدردی کی وجہ سے جو حضور کو مجھ سے ہے دینا چاہتے ہیں تو نہایت عجز اور ابتہال سے عرض ہے کہ اگر ایسا ہو تو حضور کی نہایت ہی بندہ نوازی ہو کیونکہ اس طرح سب معاملہ سہولت سے طے ہو اور مجھ کو دقت پیش نہ آئے.زینب کی صحت بھی چھ ماہ سے بہت خراب ہو رہی ہے اس میں بھی کچھ خداوند تعالیٰ عافیت کی صورت نکال دے اور میں بھی انتظام کافی کرسکوں.بہر حال یہ عرض سب محض تعمیل حکم ہے ورنہ میری پہلی عرض ہے کہ ؎ سپردم بتو مایه خویش را اور میری ابتلاؤں اور تکالیف کا بھی حضور کو ہی خیال ہے.تو دانی حساب کم و بیش را راقم محمد علی خاں اس کے جواب میں حضرت اقدس علیہ السلام نے حسب ذیل مکتوب ارسال فرمایا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.یہ تجویز آپ کی خدمت میں اس لئے پیش کی گئی تھی کہ فی التاخیر آفات “ کا مقولہ یاد آتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ میں نے بعض خواہیں دیکھی ہیں اور بعض الہام ہوئے ہیں جن کا میں نے مختصر طور پر آپ کی خدمت میں کچھ حال بیان کیا تھا اگر میرے پاس زینب ہو تو دعا کا موقعہ ملتا ر ہے گا.میں دیکھتا ہوں کہ لڑکا بھی جوان ہے.ابھی مجھے نیا مکان بنانے کی گنجائش نہیں اسی مکان میں میں نے تجویز کر دی ہے لیکن چونکہ تجربہ سے ثابت ہے کہ اگر لڑکیاں والد کے گھر سے سرسری طور سے رخصت ہوں تو ان کی دل شکنی ہوتی ہے اس لئے میں اس وقت تک جو آپ مناسب سمجھیں اور رخصت کے لئے تیاری کر سکیں مہلت دیتا ہوں.مگر آپ اس مدت سے مجھے اطلاع دے دیں.میرے نزدیک دنیا کے امور اور اُن کی الجھنیں چلی جاتی ہیں لڑکیوں کی رخصت کو ان سے وابستہ کرنا مناسب نہیں ہے.والسلام.مراز غلام احمد نواب صاحب کی مہلت طلبی پر رخصتانہ کے لئے مہلت ملنا اس کے جواب میں نواب صاحب نے جو خط لکھا درج ذیل ہے.
بسم الله الرحمن الرحيم 265 سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالے.السلام علیکم.میری اپنی رائے تو یہی تھی کہ حضور ہی کوئی مہلت معقول عطا فرما دیتے.مگر حضور ( نے مجھ پر چھوڑا تو یہ امر زیادہ ذمہ داری کا ہو گیا اس لئے جہاں حضور نے یہ عنایت فرمائی ہے اتنی مہربانی اور ہو کہ میں ایک ماہ کے اندر سوچ کر عرض کر دوں کہ میں کب تک رخصتانہ کا انتظام کر سکتا ہوں.اس کی صرف یہ ضرورت ہے کہ میں انتظام میں لگا ہوں.پس اس عرصہ میں مجھ کو انشاء اللہ تعالیٰ ٹھیک معلوم ہو جائے گا کہ کس قدر عرصہ میں انتظام مکمل ہو جائے گا.حضور بھی دعا فرما ئیں کہ میں اس میں کامیاب ہوں میں آج کل ہر طرح کی ابتلاؤں (کے ) نرغے میں ہوں.راقم محمد علی خاں مکرر.اس عرصہ بعد مجھ کو جتنی مہلت کی ضرورت ہوگی عرض کر کے تاریخ مقرر کر دوں گا.باقی اختیار اللہ تعالیٰ کے ہیں وہی سامان کرنے والا ہے حضور کی دعا کے ہم سب ہر وقت محتاج ہیں.اس بارہ میں حضور نے فرمایا: محمد علی خاں السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.مجھے منظور ہے.امید ہے آپ ایک ماہ کے بعد مطلع فرمائیں گے.والسلام والسلام.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ یادداشت - ۱۰ارز دالحجه ۱۳۲۵ء مطابق ۱۵ جنوری ۱۹۰۸ء مرزا خدا بخش صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام حالات عرض کئے اور دقتیں سروست زینب کے رخصت کرنے میں تھیں، ان کو عرض کیا.اس پر زبانی مرزا صاحب مذکور یعنی مرزا خدا بخش، یہ معلوم ہوا کہ حضرت اقدس نے ان تمام امور کو سُن کر ایک سال کی مہلت عطا فرمائی ہے.پس زینب کا رخصتانہ ایک سال کو ہو گا.فقط محمد علی خاں حضرت مرزا شریف احمد کی شادی جس خوف کا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا وہ وقوع پذیر ہوا.اور یہ رخصتانہ حضور کے عہد مبارک میں تو نہ ہوسکا بلکہ 9 مئی ۱۹۰۹ء کو ہوا.اس بارہ میں معزز بدر قمطراز ہے : قران السعدین.برادران سلسلہ احمدیہ کو معلوم ہے کہ صاحبزادہ شریف احمد کا نکاح خان محمد علی خاں
266 صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کی دختر سے ہو چکا ہے آج ۱۰ مئی ۰۹ ء کو اس کا ولیمہ ہے کیونکہ 9 مئی کو رخصت عمل میں آئی اللہ تعال یہ قران السعدین مبارک کرے اور میرے سید و مولی امام کی ذریت آسمان فضل و کمال کا چاند بن کر ایک جہان کو منور کرے.“ مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کے غیر احمدی رشتہ کا انفاخ حضرت نواب صاحب کی قلبی تمنا تھی کہ ان کے بچوں کے رشتے احمدیوں کے ہاں ہوں اور حضرت خلیفۃ المسیح اول اس رائے میں ان سے متفق تھے اس کی تفصیل میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کی زبانی درج ذیل ہے فرماتے ہیں : والد صاحب کی خواہش تھی کہ ہم بھائیوں کے رشتے احمدیوں میں ہوں تا ہم احمدیت میں راسخ ہو جائیں اور دنیوی تعلقات میں پھنس کر احمدیت سے بیگانہ نہ ہو جائیں لیکن اس وقت احمدیوں کے بعض رشتے جو ہمارے سامنے پیش کئے گئے ہمیں بعض وجوہ سے پسند نہ تھے نواب موسیٰ خاں صاحب جو کہ نواب مزمل اللہ خاں صاحب سابق وائس چانسلر علی گڑھ یونیورسٹی کے رشتہ داروں میں سے تھے اور شیروانی خاندان سے ہی ہیں اور عرصہ سے علی گڑھ جا کر آباد ہو چکے ہیں ان کی ایک لڑکی ہمارے خاندان میں مالیر کوٹلہ میں نواب صاحب والی مالیر کوٹلہ کے چھوٹے بھائی صاحبزادہ جعفر علی خاں صاحب سے بیاہی ہوئی تھی ان کی خواہش تھی کہ ہمارے رشتے ان کے ہاں ہوں.چنانچہ میاں محمد عبد الرحمن صاحب اور میرے رشتے کی گفتگو ہوئی.والد صاحب کو خیال تھا کہ ریاست کے بعض اقارب جو اپنے ہاں رشتہ کرانے کے خواہشمند ہیں.رشتہ زیر تجویز میں مزاحم ہوں گے اس لئے ابتداء میں ہی علی گڑھ لکھ دیا تھا کہ اگر آپ کسی مرحلہ پر ہمارے ان اقارب کے زیر اثر آئے تو سلسلہ جنبانی فور اقطع کر دی جائے گی.ہمارے رشتے طے ہو گئے سب سامان بنا لیا گیا اور ۱۹۱۲ ء یا ۱۹۱۳ء میں قادیان سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ، صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سیده نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ یو زینب بیگم صاحبہ کا رخصتانہ نہایت سادگی سے ہمارے دار اسیخ سے ملحق مکان سے عمل میں آیا حضرت اماں جان نے سامان کپڑا زیور وغیرہ ہمارے ہاں بجھوا دیا تھا اور چونکہ نواب صاحب کا منشاء تھا کہ حضرت فاطمہ کی طرح رخصت نہ ہو.سودُلہن تیار ہو گئی تو نواب صاحب نے پاس بٹھا کر نصائح کیں اور پھر مجھے کہا کہ حضرت ام المومنین کی طرف چھوڑ آؤں.سیدہ ام ناصر صاحبہ والے صحن میں جو سیدہ ام وسیم صاحبہ کی طرف سے سیٹرھیاں اترتی ہیں وہاں حضرت اماں جان نے استقبال کیا اور دلہن کو دارالبرکات میں لے گئیں.
267 اور حضرت اماں جان طال اللہ بقاء ہامالیر کوٹلہ برات میں شامل ہونے کے لئے پہنچے.ہم نے علی گڑھ جانا تھا حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے خطبہ نکاح پڑھنا تھا لیکن علی گڑھ سے اطلاع آئی کہ کچھ مہلت دی جائے لیکن والد صاحب نے بذریعہ تارا نہیں اطلاع دے دی کہ رشتے منسوخ سمجھے جائیں کیونکہ والد صاحب کو یقینی وجوہ سے معلوم ہوا کہ وہ ان ہی اقارب کے زیر اثر آگئے ہیں.ان اقارب میں سے کسی نے جو اپنے ہاں رشتہ کرنا چاہتے تھے ایک اہلکار کو علی گڑھ بھیجا کہ انہیں رشتہ کرنے سے روکے (ان کیطرف سے بھی بعض قریبی رشتہ دار سخت مخالف ہو گئے تھے ) ہم سب طالب علم تھے تعطیلات ختم ہونے پر قادیان چلے آئے اور حضرت والد صاحب نے مالیر کوٹلہ سے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں لکھا کہ میں پہلے بھی اس بات کا خواہشمند تھا کہ میرے لڑکوں کے رشتے احمدیوں کے ہاں ہوں تا کہ ان میں دینی جذبہ قائم رہے اور وہ غیر احمد یوں کی طرف مائل ہوتے ہیں جو مجھے نا پسند ہے اب جو یہ رشتے ٹوٹے ہیں مجھے اس کی وجہ سے بہت تکلیف ہوئی ہے.ہم درس میں گئے تو میاں محمد عبدالرحمن خاں صاحب اور میاں محمد عبد الرحیم خاں صاحب اور مجھے تینوں بھائیوں کو آپ نے مغرب کے بعد اپنے ہاں آکر ملنے کے لئے فرمایا ہم گئے تو آپ نے تین دفعہ فرمایا کہ مجھے تمہارے والد سے بڑی محبت ہے اور والد صاحب کا خط دکھایا اور کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ تمہارے رشتے احمدیوں کے ہاں ہوں اور ان کو ان رشتوں کے ٹوٹنے کی وجہ سے بہت تکلیف ہوئی ہے.نوابوں اور رئیسوں کی طرف تم لوگ رغبت نہ کرو ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے عبرت کے طور پر قائم رکھا ہوا ہے.یہ تباہ ہونے والے لوگ ہیں.اُن کی بھی خیر نہیں جو ان سے واسطہ قائم کرے گا.وہ بھی اپنے آپ کو تباہی کی طرف لے جائے گا.تم مغرب اور عشاء کے درمیان دورکعت نفل پڑھا کرو اور دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ نواب صاحب کی مالی تکلیف دور کرے اور اپنے رشتوں کے لئے دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ بہتر جگہ کر دے.میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب اور میاں محمد عبد الرحیم خاں صاحب کا تو مجھے علم نہیں.میں کچھ عرصہ باقاعدہ نفل پڑھتارہا اور بہت دعائیں کیا کرتا تھا چونکہ حضرت خلیفہ اول جمعہ کے روز عصر سے مغرب تک مسجد میں یا اپنے گھر میں علیحدگی میں دُعا کیا کرتے تھے اس لئے جماعت میں بھی ایسی رو چلی ہوئی تھی میں بھی کبھی جنگل کی طرف چلا جاتا یا مکان پر ہی دعا کرتا.ایک روز میں دو پہر کے وقت آرام کر رہا تھا.کہ مجھے خواب میں کسی نے کہا حضرت مسیح موعود کے گھر میں.حضرت خلیفہ اول نے جو فرمایا تھا مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب نے استفسار پر کہا کہ ”مجھے یہ بات یاد نہیں.میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب نے عمل کیا اور فائدہ بھی اٹھالیا.“
268 کہ ان نوابوں اور رئیسوں کی طرف رغبت نہ کرو جو ان سے تعلقات بڑہائے گا، اس کا بھی وہی حال ہوگا.بعینہ پورا ہوا.میرے دونوں بھائیوں کے نوابوں کے ہاں رشتے ہوئے اور ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی اور بفضلہ تعالیٰ ان تمام بیٹوں کی جن کے احمدیوں کے ہاں رشتے ہوئے اولا د ہے.پہلے والد صاحب کو میاں محمد عبد الرحیم خاں صاحب کا رشتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں کرنے کا خیال تھا.لیکن ایک دفعہ مجھے ایک خط لکھا کہ جس میں تحریر تھا کہ میری دیرینہ خواہش تھی کہ میرے لڑکوں میں سے کسی کی شادی حضرت مسیح موعود کے گھر میں ہو.پہلے میرا خیال تھا کہ عبد الرحیم خاں کے لئے پیغام دیا جائے لیکن اپنے لڑکوں میں سے تم کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ تمہارا پیغام دوں لیکن اس کے متعلق تمہاری رائے پوچھنا چاہتا ہوں.لیکن رشتہ کرنے سے پہلے تمہیں یہ سوچ لینا چاہئے کہ بہت ہی مشکل مرحلہ ہے جس میں سے تم گذرو گے.اگر تم پورا حسن سلوک کر سکو گے اور اپنے آپ کو اپنی بیوی کے برابر نہیں سمجھو گے بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کا محض فضل سمجھو گے.تب اس امر کا تہیہ کرو ورنہ میں ڈرتا ہوں کہ کسی ابتلاء میں نہ پھنس جاؤ.اور مجھے نصیحت کی کہ اپنے آپ کو ان کے برابر نہ سمجھنا.مجھے چونکہ پہلے خواب میں آچکا تھا اور اس سے بڑھ کر میری خوش قسمتی کیا ہو سکتی تھی کہ میرا رشتہ حضور کے ہاں ہو.میں نے والد صاحب کی تمام شرائط کو مانتے ہوئے ہاں کہہ دی اور بہت سوچ بچار اور استخارہ کے بعد یہ رشتہ ہو گیا.اس سے پہلے نواب صاحب والی مالیر کوٹلہ نے حضرت نواب صاحب گولکھا تھا کہ میری ایک بیٹی اور دو بھانجیاں ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ کے تینوں بیٹوں سے بیاہ دی جائیں.لیکن آپ نے کہا کہ آپ اس خیال کو حرف غلط کی طرح دل سے مٹادیں لیکن بعد میں بہت زور دینے پر مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب کے لئے رشتہ منظور کر لیا.سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ نواب صاحب ابھی اس رشتہ کے مخالف تھے کہ مجھے خواب آیا کہ محمودہ بیگم ان کی بہو بیت الدعا میں بیٹھی ہوئی ہیں حضرت خلیفتہ ای اول تشریف لائے اور ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ رشتہ کر لیں یہ اپنے باپ جیسی نہیں ہے.چنانچہ محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ بنت نواب احمد علی خاں صاحب مرحوم والی مالیر کوٹلہ سے وا کو نکاح ہوا اور میاں عبدالرحمن خاں صاحب ذکر کرتے ہیں کہ وہ گو اپنے والد صاحب کے کہنے کی وجہ سے احمدیت میں داخل نہیں ہوئیں لیکن احمدیت کے متعلق خیالات کے لحاظ سے اپنے والد سے اچھی ہیں اور میاں محمد عبدالرحیم خاں صاحب ( حال ڈپٹی کمشنر کریم نگر ریاست حیدرآباد دکن ) کی شادی محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ بنت نواب جعفر علی خاں صاحب مالیر کوٹلہ سے ہوئی.
269 میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کے رشتہ کے متعلق خط و کتابت مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کے رشتے کے لئے حضرت نواب صاحب نے جو سلسلہ جنبانی کی اور اس تعلق میں جو خط و کتابت ہوئی وہ کئی لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے اس لئے اسے یہاں درج کیا جاتا ہے.آپ نے میاں صاحب کو تحریر کیا: بسم الله الرحمن الرحيم دار السلام / ۹ مئی ۱۹۱۴ء یا اپنی سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم میں چاہتا ہوں کہ تمہارا رشتہ امتہ الحفیظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بقیہ حاشیہ: چونکہ میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب کے متعلق حضرت نواب صاحب کے خطوط آپ کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہیں اور اسلام سے عجیب وابستگی ظاہر کرتے ہیں اس لئے یہاں درج کر دئے جاتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم یا اپنی سلمکم اللہ تعالی.السلام علیکم.دربارہ رشتہ کور وائی میری رائے یہ ہے کہ انسان کو ایسے امور میں چند امور کا خیال رکھنا چاہئے.اول دین.دوم علم.سوم اچھی عادات.چہارم آخری درجہ صورت.اس لئے میں نے بوصاحبہ سے ان امور مندرجہ بالا کی نسبت دریافت کیا ہے مگر انہوں نے جواب نہیں دیا.کل پھر خط لکھا ہے.پس اب تم سے مندرجہ ذیل امور دریافت طلب ہیں.اول.اگر تم کو مندرجہ ذیل امور کی دریافت کی ضرورت نہیں تو میں کل ہی لکھ دوں ورنہ امور مندرجہ بالا کے جواب آنے پر بعد غور فیصلہ کیا جائے.دوم.یہ اب تم سمجھ لو کہ یہ لوگ سخت دنیا دار ہیں اور ان لوگوں سے کم از کم میرے جیسے انسان کے لئے نبھنا مشکل ہے اور پھر یہ بھی نواب صاحب مالیر کوٹلہ کے متعلق عین ممکن ہے کہ وہ کوئی روک ڈالیں اور پھر تم کو ملال ہو اور رشتہ نہ ہو سکے.پس تم کو اس کے متعلق قوی امید پہلے ہی قائم نہ کر لینی چاہئے.شرائط حسب ذیل ہوں گی.۱- نکاح بروز جمعہ عصر اور مغرب کے درمیان کوئی احمدی بزرگ پڑہائیں گے.کسی قسم کی رسم سوائے سادہ نکاح کے نہ ہو گی.ہماری جانب سے بموجب شریعت ایک جوڑا پارچہ اور خوشبو ہوگی اور ادھر سے بھی بے فائدہ جہیز نہ ہو گا.محض ضروری زیور اور پارچہ کا رآمد.باقی کے لئے نقد.مہر دس ہزار سے زیادہ نہ ہوگا.پس یہ تمہارے علم کے لئے لکھ دیا ہے تا کہ کچھ شکایت نہ ہو.-۲ راقم محمد علی خاں ۱۵ را پریل ۱۹۴۱ء
270 کی صاحبزادی سے ہو اور مجھ کو اس لئے یہ تحریک ہوئی ہے کہ اس وقت میں تم کو نسبتا دیکھتا ہوں کہ دوسرے بھائیوں کی نسبت تمہیں دین کا شوق ہے اور اس سے میں خوش ہوں مگر ساتھ ہی میں یہ کہتا ہوں میری خوشی اور ناراضگی حالات پر مبنی ہے جس طرح اب میں تم سے خوش ہوں اگر تم خدانخوستہ اب حالت بدل دو تو پھر میں بقیہ حاشیہ محترمہ بیگم صاحبہ نواب احمد علی خاں صاحب حضرت نواب صاحب کی بھانجی تھیں ان کو اس رشتہ کے متعلق آپ نے ذیل کا مکتوب ارسال فرمایا: بسم الله الرحمن الرحيم دار السلام دارالامان قادیان ضلع گورداسپور (۲۱ / اپریل ۱۹۴۱ء) عزیزہ ام سلمک اللہ تعالیٰ.السلام علیکم.ہمشیرہ صاحبہ نے کئی بار آپ کی صاحبزادی کے متعلق تذکرہ کیا.لیکن بعض ایسے ہی حالات کے سبب سے اس طرف میری توجہ نہیں ہوئی.ہر ایک بات کا ایک وقت ہوتا ہے غالبا اللہ تعالیٰ کے حکم میں یہ وقت آ گیا کہ میں آپ کو اس طرف متوجہ کروں کہ آپ میرے لڑکے عبدالرحمن کو اپنی فرزندی میں لے لیں یعنی میرے لڑکے عبد الرحمن کا رشتہ اپنی لڑکی کے لئے قبول کریں.آپ میری بیٹی ہیں اس لئے بے تکلفی (سے) یہ ظاہر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کو میری انوکھی طرز کا علم ہو گا مجھے بہت کچھ شریعت اور کچھ زمانہ کی حالت ( نے ایسا کر دیا ہے کہ بہت ہی کم لوگ میرے ساتھ متفق ہو سکتے ہیں ، دو دفعہ پہلے اپنے لڑکے کے رشتہ میں اس انوکھے پن سے رشتہ قائم کر کے رشتہ سے دستبردار ہونا پڑا ہے قریباً دوسروں کو میرے طرز کی برداشت نہیں ہوتی.جب مردوں کو میری طرز کی برداشت نہیں تو آپ کو جو عورت ہیں اور جن کو رسم رسوم کا زیادہ خیال ہوتا ہے کہاں برداشت کر سکتی ہیں.مگر میں اپنے اصول میں مجبور ہوں اس لئے چند باتیں لکھتا ہوں ان پر غور کر کے رشتہ کی منظوری یا عدم منظوری سے اطلاع دیں.اول: مہر پانچ ہزار ۵۰۰۰ ہوگا.میں تو اس سے بھی کم پسند کرتا ہوں مگر یہاں تک ہرج نہیں.دوم: نکاح کسی جمعہ کو عصر اور مغرب کے درمیان ہوگا اور کوئی احمدی صاحب نکاح پڑہا ئیں گے.سوم کوئی نام و نمود کی رسم اور نہ ہی کوئی مروجہ رسوم یا شگون ہوں گے.بالکل سادہ شرعی نکاح ہوگا.یعنی اس طرح کہ ہماری جانب سے محض ایک جوڑا پار چہ اور کچھ خوشبونکاح کے وقت ہوگا.سوائے اس کے سگائی ہوگی اور نہ اس کے متعلق کسی قسم کی رسم اور نہ بری اور دوسری رسوم بس ہماری جانب سے وہی ایک جوڑا
271 ناراض ہوں گا.......اب میں پھر رشتہ کے متعلق لکھتا ہوں اس معاملہ ( میں) ایک مشکل بھی ہے اگر تم اس مشکل کی برداشت بقیہ حاشیہ : - اور خوشبو ہوگی کسی قسم کا زیور ہماری جانب (سے) نہ ہوگا.آپ کو اختیار ہے جو چاہیں جہیز میں دیں.ہاں بے تکلفی سے کہا جاتا ہے.بے کا رسمی کھڑاک رشتہ داروں کے جوڑوں دوسری الڑ کھلٹر نہ ہونے چاہئیں.زمانہ حال کے مطابق قابل استعمال لباس و زیور اور باقی اگر آپ کو دینا منظور ہی ہو تو نقد کی صورت میں کیونکہ مثلاً بعض لوگ سامان دیتے ہیں وہ بے فائدہ ہوتا ہے اور بے کار اور بعض مقامات کے مناسب حال نہیں ہوتا اس کی بجائے اگر نقد ہو تو لاہور وغیرہ سے قریب کا قریب مناسب سامان مل سکتا ہے اور مناسب زیور کے سوازیور کا بھی روپیہ ہونا چاہئے یہ صرف بے تکلفی سے لکھا ہے کہ زمانہ حال کے مطابق بات ہو اور جو سامان ہولڑ کی کے لئے کارآمد ہو.پرانی طرز میں بہت سامان بے کار جاتا ہے (لفظ پڑہا نہیں گیا ناقل ) اور سوائے صرف بے جا کے کوئی نتیجہ نہیں مثلاً چاندی کے پلنگ کی بجائے اگر آج کل کے طرز کے پلنگ ہوں تو وہ زیادہ خوب صورت اور کارآمد ہوتے ہیں اسی طرح برتنوں کا حال ہے مثلاً چاندی کے برتن شرعاً نا جائز ہیں اسی طرح اور بعض فضول امور.ان امور کی تشریح کی ضرورت نہ تھی.صرف آپ کو سمجھانے کے لئے لکھا ہے کہ بعد میں رشتہ منظور ہونے کے بعد پھر ان امور میں بدمزگی ہو ورنہ اصل امور ہر سہ گا نہ بالا میں سب کچھ آگیا.پہلے اوپر کی تین باتوں کے بموجب رشتہ کی منظوری ہو جائے تو پھر بعض امور موقع (کے) مناسب موقع کے مطابق مجھ کو طے کرنے ہوں گے.مگر وہ انہی اوپر کی باتوں کے ماتحت ہیں.پس اگر آپ کو میری اس طرز خاص کی حالت میں رشتہ منظور ہوا اور آپ اس میں مختار ہوں تو پھر ایک ہفتہ کے اندر ہاں نا سے مطلع کریں اور اگر آپ کو روائی میں مشورے کی ضرورت ہو تو جہاں تک جلد ممکن قبولیت یا عدم قبولیت سے مطلع کریں اور بات مجھ سے کریں مجھ سے براہ راست بلا تو سل غیرے کریں اور لپیٹ کی یا گول بات نہ ہو پس جو کچھ ہوصاف صاف ہو ور نہ مجھے الجھن ہوگی اور ممکن ہے کہ بنی بنائی بات بھی بگڑ جائے فقط را قم محمد علی خاں نواب احمد علی صاحب نے گراں بہا جہیز دیا اور حضرت نواب صاحب کو کہا کہ آپ جا کر دیکھ لیں لیکن آپ نے دیکھنے سے انکار کر دیا.لڑکی والوں کا کڑی شرائط کی وجہ سے خیال تھا کہ غالباً جہیز کا سارایا بیشتر حصہ لڑکی کو نہ دیا جائے گا.لیکن آپ نے کبھی بھی اسے نہیں دیکھا بلکہ سب لڑکی کے پاس ہی رہنے دیا جو لوگ جہیز چھوڑنے آئے تھے انہیں ڈیڑھ ہزار روپیہ انعام دیا اسی طرح جو دلہن کو چھوڑنے آئے تھے انہیں بھی ڈیڑھ دو
272 کر سکتے ہو تو رشتہ کی طرف توجہ کرنا ورنہ پھر بہتر ہے کہ تم ہاں نہ کرنا.دوسرے، رشتہ کے بعد حضرت مسیح موعود یا اہل بیت حضرت مسیح موعود سے ہمسری اور ہم گئی کا خیال اکثر لوگ کر بیٹھتے ہیں اور اس سے ابتلاء آتا ہے.قابل غور امر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ رشتہ کیوں چاہا جاتا ہے.صاف بات ہے کہ جب ان کے کپڑے تک بابرکت ہیں تو ان کے جگر کے ٹکڑے کیوں نہ بابرکت ہوں گے اور نبی جن کی وجہ سے ان کی بیوی ماں بن گئیں تو پھر اس ماں کی کیا کچھ عزت ہونی چاہئے.تعلق رشتہ کو موجب برکت و فخر سمجھنا چاہئے اور اپنے آپ کو وہی من آنم کہ من دائم سمجھنا چا ہئے.....میں نے رشتہ کیا اور زینب کو حضرت صاحب کے ہاں دیا ان دونوں رشتوں میں برابری کا خیال بالکل دل سے نکال دیا جس طرح میں حضرت اقدس کی عزت کرتا تھا وہی عزت و ادب بعد رشتہ رہا اور ہے.اور جس طرح حضرت ام المومنین علیہا السلام کا ادب اور عزت کرتا تھا اسی طرح اب مجھ کو عزت اور ادب ہے اور اس سے بڑھ کر.اسی طرح جس طرح پاک وجود کے ٹکڑوں کی میں عزت کرتا تھا ویسی اب ہے میں تمہاری والدہ کی ناز برداری اس لئے نہیں کرتا کہ وہ میری بیوی ہیں گو مجھ کو شریعت نے سکھلایا ہے.مگر میں جب میاں محمود احمد صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب اور میاں شریف احمد صاحب کو قابل عزت سمجھتا ہوں اور مجھ کو ان کا ادب ہے اسی طرح مجھ کو تمہاری والدہ اور امتہ الحفیظ کا ادب ہے بلکہ مجھ کو سلام.مظفر احمد.ناصر احمد.اور حاشیہ: - ہزار روپیہ انعام دے کر رخصت کیا.اور جواہل کا رساتھ آئے تھے ان کی پانچ چھ ماہ تک خوب خاطر تواضع کی اور کئی کئی کھانے روزانہ ان کے لئے تیار کئے جاتے تھے اور ان اقارب کی امید سے بڑھ کر آپ نے حسن سلوک کیا لڑکی کی والدہ نے بار بار کہا کہ میں ماموں صاحب کی سختی سے بہت ڈرتی تھی مگر کیا سمجھا تھا اور کیا نکلا اور بہت خوش رہیں (م) مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ والد صاحب نے بعض اخلاقی مصالح کی بنا پر میری شادی کے لئے سخت شرائط طے کی تھیں.والد صاحب رُخصتانہ کے موقعہ پر برات میں منشی احمد الدین صاحب گوجرانوالہ میر عنایت علی صاحب لدھیا نوی حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی (حال درولیش) اور ہم دونوں بھائیوں اور ایک دو خادم کو لے کر گئے.انہوں نے برات کے لئے کھانا تیار کیا ہوا تھا.والد صاحب نے کھانا کھانے سے صاف انکار کر دیا.اس کی وجہ یہ تھی کہ والد صاحب کا خیال تھا شرعا برات کا لڑکی والوں کے ہاں جا کر کھانا کھا نانا جائز ہے سوائے اس کے برات کسی اور شہر سے آئی ہو.والد صاحب اس پر سختی سے عمل پیرا تھے.میری شادی بغیر رسوم کے سادگی سے ہوئی.
273 ناصرہ اور منصور احمد وظفر احمد کا ادب ہے اور پھر چونکہ بیوی خاوند کا رشتہ نازک ہے اور الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ کی تعمیل بھی مجھ پر ضروری ہے اس لئے میں ادب اور عزت کے ساتھ اس کی بھی حتی الوسع تعمیل کرتا ہوں پس اگر یہی طرز تم بھی برت سکو تو پھر اگر تمہاری منشاء ہو تو میں اس کی تحریک بعد استخارہ کروں.ورنہ ان پاک وجودوں کی طرف خیال لے جانا بھی گناہ ہے اور تم بھی استخارہ کرو.نواب صاحب کی طرف سے سلسلہ جنبانی راقم محمد علی خاں حضرت نواب صاحب نے ذیل کے عریضہ کے ذریعہ سلسلہ جنبانی کی : دار السلام ۱۰ رمئی ۱۹۱۴ء بسم الله الرّحمن الرّحيم سیدی حضرت خلیفہ مسیح علیہ السلام فضل عم مكرم معظم لكم الله تعالی سیدی حضرت ام المومنین علیها السلام مکرمہ معظمہ سلمہا اللہ تعالی السلام علیکم.عرصہ سے خاکسار کو خیال تھا کہ اپنے کسی لڑکے کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فرزندی میں دوں مگر حالات زمانہ اور لڑکوں کی حالت پر غور کرتا تھا اور جب تک کسی لڑکے پر اطمینان نہ ہو جرات نہ کر سکتا تھا اب جہاں تک میرا خیال ہے عبداللہ خاں کو اس قابل پاتا ہوں.پس بلاکسی لمبی چوڑی تمہید کے بادب میجی ہوں کہ حضور اپنی فرزندی میں لے کر حضور بعد مشورہ حضرت ام المومنین علیہا السلام عبد اللہ خاں میرے لڑکے کا رشتہ عزیزہ امتہ الحفیظ کے ساتھ منظور فرمائیں اور بعد استخارہ مسنونہ جواب سے مشکور فرمائیں.نواب صاحب کو ذمہ داری کا حد درجہ احساس راقم محمد علی خاں اپنی بھاری ذمہ داری کے احساس کی وجہ سے حضرت نواب صاحب میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کو اپنے اطمینان کی خاطر مزید تحریر فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم یا ابنی سلمکم اللہ تعالٰی.السلام علیکم تم کو میں نے تمام (امور ) کھول کر لکھ دیئے تھے اور تم نے اس امر کو پسند کیا تھا کہ تمہارا رشتہ امتہ الحفیظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لڑکی سے کیا جائے اور تم کو میں نے استخارہ کے
274 لئے کہا تھا آج تقریباً ہفتہ ہو گیا ہے.میں نے تمہاری پسند کے اظہار پر درخواست کر دی ہے اور آج چالیس دفعہ استخارہ ختم ہو گیا ہے پس مزید احتیاط کے لئے تم کو لکھتا ہوں کہ مجھ کو تم پر جو حسن ظن ہے اس کی بناء پر میں نے یہ تعلق چاہا ہے پس تم سمجھ لو کہ یہ میری اور تمہاری بڑی ذمہ داری کا کام ہے.اگر تم اپنے میں پورا حوصلہ رکھتے ہو کہ جس طرح میں نے لکھا ہے تم نبھا سکو گے تو اس جگہ قدم رکھنا چاہئے ورنہ دین دنیا کا خسارہ ہے.یا مکن با پیل باناں دوستی یا بنا کن خانه در خورد بیل میرے نقشِ قدم پر چلنا ہوگا.ی تعلق میں صرف اس لئے چاہتا ہوں کہ تم لوگ بھی اہلبیت میں داخل یہ کہ.ہو جاؤ اور یہ بڑی سعادت ہے مگر اگر ذرا مزلّت قدم ہوا، پھر دین بھی گیا پس خوب سوچ سمجھ لو.دوسری (بات) مجھے خوش کرنے کیلئے یہ تعلق نہ کرنا بلکہ اگر تم واقعی سچے دل سے پسند کرتے ہو اور محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایسا کرتے ہو تو مجھ کو جو تمہارے دل میں ہے صحیح لکھوتا کہ مجھ کو اطمینان ہو اور اگر بدل تم کو پسند نہیں اور محض میرے خوش کرنے کو مانا تو باز آ جاؤ اور میں انکار کر بھیجتا ہوں ابھی وہاں سے جواب نہیں آیا.بات گومگو میں رہ جائے گی.مگر پھر دقت ہوگی اور اگر واقعی تمہاری اپنی ہی اصل غرض ہے کہ رشتہ امتہ الحفیظ سے ہو تو مجھ کو پوری طرح مطمئن کرو.میں سوائے اس کے اور کسی خیال سے نہیں لکھتا.صرف اپنے اطمینان قلب کے لئے لکھا ہے اور مزید احتیاط کے طور سے کیونکہ بھاری ذمہ داری (ہے) اس لئے ایک دفعہ اور تم سے پوچھنا مناسب سمجھا.راقم محمد علی خاں نواب صاحب کی طرف سے یاددہانی سلسلہ جنبانی کے دو ہفتہ بعد نواب صاحب نے دوسری بار ذیل کے ذریعہ سے یاد دہانی کرائی : دار السلام ۲۵ مئی ۱۹۱۴ء بسم الله الرحمن الرحيم سیدی حضرت خلیفتہ مسیح علیہ السلام مکرم معظم سلکم اللہ تعالی.ایک عریضہ حضور کی خدمت میں دربارہ رشتہ امتہ الحفیظ پیش حضور کیا تھا مگر تا حال جواب باصواب سے سرفراز نہیں ہوا.جس سے گمان غالب تھا کہ استخارہ ومشورہ کے سبب جواب میں تاخیر ہوئی اور غالباً میر محمد اسمعیل صاحب کے آنے کا بھی انتظار ہو گا.اب میر صاحب بھی آ کر چلے گئے مگر جواب کے متعلق ہنوز روز اول ابھی یہ معلوم ہی نہیں کہ حضور کی جانب سے انکار ہوگا یا اقبال مگر تمام جگہ شہرت عام ہو گئی.خواہ یہ ہماری جانب سے کسی کی بے احتیاطی ہو گئی یا اس طرف
275 سے اور گو اس شہرت کا چنداں خیال نہیں اور میرے جیسی طبیعت والے کو تو چنداں تر قد نہیں ہوتا.مگر ایسی شہرت کا اثر بچوں پر سخت ناگوار پڑتا ہے عبد الرحمن کو جو ابتلا آئی ہے وہ ایسی ہی شہرت کی وجہ سے ہے اس لئے بہر حال اس امر کا فیصلہ ہو جانا چاہئے تا کہ لوگ خواہ مخواہ کی مبارکبادوں سے رک جائیں.چونکہ ابھی یہ معاملہ گومگو میں ہے اور اگر میرے ہاں یہ رشتہ کی گفتگو نہ ہوتی تو ضرور تھا کہ میں بھی شاید مشورہ دینے کی عزت حاصل کر سکتا مگر چونکہ یہ معاملہ میری ہی جانب سے اٹھا ہے اس لئے حضور مشورہ میں شریک نہیں فرما سکے.مگر میں مناسب سمجھتا ہوں کہ خواہ مخواہ دخل در معقولات کی معافی چاہ کر کچھ عرض کر دوں تا کہ اس معاملہ میں حضور کو اور حضرت ام المومنین علیہا السلام کو رائے قائم کرنے کا زیادہ موقعہ مل جائے اور ممکن ہے کہ عمدہ نتیجہ پر پہنچنے کے لئے یہ مددگار ہو اور اللہ تعالیٰ خاص اپنے فضل سے اس میں برکت ڈال دے.اوّل اس رشتہ کی تحریک دراصل میں ۱۹۰۸ء میں بحضور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مرحوم مغفور بذریعہ مرزا خدا بخش صاحب کر چکا ہوں جس کے جواب میں حضرت اقدس نے فرمایا تھا کہ 'والدہ محمود نے تو خواب میں دوسرے بچے یعنی عبداللہ خاں کو دیکھا ہے اور آپ عبدالرحیم کی بابت کہتے ہیں اور فرمایا کہ سردست جب تک مبارکہ کی رخصت نہ ہولے اس بارہ میں سر دست گفتگو نہیں ہو سکتی.جب مبارکہ رخصت ہو جائے گی اس وقت اس کی بابت گفتگو کی جائے گی.اس وقت مجھ کو معلوم ہوا تھا کہ حضرت ام المومنین علیہا السلام کو دیا ہوئی ہے کہ عبد اللہ کا رشتہ حفیظ سے ہو جائے ورنہ مجھ کو اس کا کوئی علم نہیں تھا.معلوم نہیں کہ اس کا تذکرہ حضرت اقدس ( نے) حضرت ام المومنین سے فرمایا یا نہیں.دوم: ایک دنیاوی اور کچھ مصلحت کا خیال مجھ کو اس رشتہ کا محرک ہوا تھا وہ یہ کہ حضرت اقدس نے میرے رشتہ کے وقت لکھا تھا کہ تمہاری جانب سے تو ہم کو اطمینان ہے.مگر ورثاء کا خیال کر کے ہم مناسب تصور کرتے ہیں کہ مہر دو سال کی آمدنی چھپن ہزار روپیہ ہو میں نے عرض کیا کہ میری یہ آمدنی اس وقت نہیں تو فرمایا مضائقہ نہیں.خداوند تعالے نے پھر آمدنی بھی بڑھا دی بجائے اکیس کے اٹھائیس ہزار سالا نہ ہو گئی پس اس مصلحت سے مجھ کو خیال آرہا ہے کہ موت و حیات کا پتہ نہیں.عام قاعدہ کے مطابق بعد میں وراثت کے جھگڑے پڑتے ہیں ، اور اس وقت جو بظاہر پہلے مطیع یا متفق نظر آتے ہیں وہ بیگانے بن جاتے ہیں موجودہ میری اولا دنہایت خورد سال اور مبارکہ بیگم صاحبہ بھی نا تجربہ کار دوسری اولاد بڑی.اس لئے اگر ان میں بھی ایسی بات پیدا ہو جائے کہ ان کو بھی حضرت اقدس کی اولاد اور میری اولاد سے بے تعلقی نہ ہو جائے یا کم از کم ایک کو جس کا رشتہ ہو جائے گا.اس کو تو نہیں ہوگی اور وہ تو کسی قدر ممد و معاون ہو سکتا ہے.اس خفیف سی مصلحت سے بھی میں اس رشتہ کو مناسب سمجھتا تھا.دوسرے میں اپنی پہلی اولا د کو حضرت اقدس کی دعاوں میں شامل کرنا چاہتا تھا
276 کیونکہ اس طرح میری پہلی نصف اولا د حضرت اقدس کے متعلق ہو سکتی تھی.کیونکہ چار بچوں میں سے دو بچے حضرت اقدس کے اہل بیت میں داخل ہو سکتے تھے تیسرے بہنوں بہنوں کو آپس میں ملنے جلنے میں دقت نہ ہو گی.یہ خیالات تھے جو مجھ کو اس امر کے محرک تھے.سوم : مگر اس کے مقابلہ میں مجھ کو یہ خیال ڈراتا تھا کہ میرے لڑکوں کی عمر بڑی خصوصاً عبداللہ خاں کی اور امتہ الحفیظ کی چھوٹی اتنا عرصہ انتظار مشکل اور پھر معلوم نہیں کہ بچے احمدی رہیں گے یا ان کے کیا خیالات ہوں گے.اس لئے میں جرات نہیں کرتا تھا بلکہ میں نے دوسری جگہ قائم کر دیا.مگر وہ رشتے ٹوٹ گئے اور جس قدر جلد میں شادی ان بچوں کی کرنا چاہتا تھا وہ نہ کر سکا اور التواء ہو گئی اس پر مجھ کو خیال آیا کہ اب انتظار تو کرنا ہی پڑا ، اب کیوں نہ امتہ الحفیظ صاحبہ کا ہی انتظار نہ کروں اور اس طرح بعض رؤیا بھی پورے ہو جائیں گے.مگر بچوں کے خیالات سے ڈرتا رہا اب چونکہ کسی قدر عبد اللہ کی بابت اطمینان پیدا ہو گیا.اور ادھر سنا کہ حضرت اُم المومنین علیها السلام امتہ الحفیظ کے رشتہ کے متعلق فکرمند ہیں تو مجھ کو خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی جگہ خطبہ ہو جائے اور اس وقت میں کچھ عرض بھی نہ کر سکوں اس لئے میں نے یہ جرات کی کہ اس رشتہ کی تحریک پیش کر دی.چہارم: مجھ کو یہ خیال ضرور رہا ہے کہ امتہ الحفیظ کا وہ اٹھان بظاہر اس وقت نظر نہیں آتا جو اکثر حضرت اقدس کی اولاد کا ہے بلکہ کچھ کمزور معلوم ہوتی ہیں اور پھر چھوٹی عمر سے لڑکیوں کے رشتوں سے ان کی آزادی میں فرق آ جاتا ہے اور اتنا عرصہ انتظار کرنے میں ممکن ہے کہ لڑکے کا چال چلن ٹھیک نہ رہے اور اسی خیال سے میں ( نے ) کسی احمدی کے ہاں رشتہ اپنے بچوں کا کرنے میں بہت زور نہیں دیا.کیونکہ گو میرے لڑکے ہیں مگر میرا دل تو وہ نہیں رکھتے.مگر غیر احمد یوں سے تعلقات میں ان کے ایمان کو خطرہ میں پاتا تھا اس لئے میں کچھ عجیب تذبذب میں تھا اور ہوں اور اسی لئے بدرجہ اولی میں حضرت اقدس کی اولاد کے متعلق اور بھی محتاط رہا ہوں اور ہوں.اور اب بھی بہت عہد و پیمان کے بعد اور ایک لڑکے کو عرصہ تک آزمانے کے بعد پیش کیا ہے چنانچہ اس کے خطوط اور اپنے خطوط جو اس بارہ میں لکھے گئے ہیں ارسال حضور ہیں ایک خیال نے مجھ کو اور بھی مجبور کیا کہ موت وحیات کا پتہ نہیں بقول حضرت اقدس فی التاخیر آفات میں نے اپنی زندگی میں اس تعلق کو پسند کیا اور ان ہی مصالح سے مجھ کو ان دنوں اور ضرورت محسوس ہوئی.پنجم : حضرت خلیفہ مسیح الاوّل مولانا نورالدین صاحب مرحوم نے بھی اشارہ اس رشتہ کے متعلق فرمایا تھا.چنانچہ عبداللہ کے خط سے ظاہر ہوگا.اس نے بھی جرات کو بڑھایا.ششم اس خیال کی تردید کہ لڑکی کی آزادی رک جاتی ہے اور اسی خیال سے زینب کا رشتہ میں نے جلدی نہیں کیا.مگر میں نے دیکھا کہ ہندوستان کی لڑکیوں میں فطرتاً آزادی طبیعت میں نہیں.یا یوں
277 کہنا چاہئے کہ عورت ذات میں فطرتا آزادی نہیں میں نے زینب کو بارہ سال کی عمر تک پردہ نہیں کرایا اور ابھی اور کچھ عرصہ پردہ کرانا نہ چاہتا تھا مگر زینب ایک سال قبل سے خود ہی باہر جانے سے رک گئی.ہم بھیجتے تھے تو بھی بادل ناخواستہ جاتی تھی اس لئے ہم نے یہ دیکھ کر (کہ) خود پردہ کرتی ہے اس کو پردہ میں بٹھلا دیا.یہی حالت امتہ الحفیظ کی دیکھتا ہوں.پس اب اس سے زیادہ اور کیا آزادی چھن سکتی ہے ، باقی یہ کہ اہل ہنود کی رسم کے مطابق جہاں رشتہ ہو وہاں آنا جانا لڑکیوں کا بند ہو جائے اور جوں جوں تعلقات بڑ ہیں تو کہیں کونے میں گھس جائیں اور آخر ایک کوٹھڑی میں بند ہو کر روپ چڑہا ئیں.یہ میرے خیال میں طرز ہی نہیں آتی.ہندوؤں میں اس لئے یہ پردہ داری تھی کہ سرال والوں کو لڑکیوں کے عیوب کا پتہ نہ مل جائے.مگر مسلمانوں میں اس کا کہاں رواج ہے.شریعت نے اس کا کہاں حکم دیا ہے.پس ہم احمدی قوم کو ضروری ہے کہ اصل اسلام کو پیش کریں اور اہل ہنود کی رسوم کو پس پشت ڈال دیں پس میری سمجھ سے موجودہ حالت میں نہیں آتا کہ لڑکی ( کی) آزادی کیوں رو کی جائے یار کے.ہفتم: میرے خیال کی تردید کہ لڑکی چھوٹی ہے خود حضرت اقدس فرما چکے ہیں وہ یہ کہ میاں شریف احمد صاحب زینب سے قریباً دو سال چھوٹے ہیں اور لڑکے کا چھوٹا ہونا بہ نسبت لڑکی کے چھوٹا ہونے کے زیادہ خطرناک ہے جس کا تجربہ شاہد ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے اولا د حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گی چنانچہ یہ تفاوت عمر کچھ مضر ثابت نہیں ہوتی.پھر میرے رشتہ کے متعلق حضرت نے اس سے پہلے انیس سال کی عمر میں شادی کا ارادہ فرمایا.مگر میں خاموش نہیں ہوا.کیونکہ حضرت نے ناپسندیدگی ظاہر نہ فرمائی تھی پھر پندرہ سال کی عمر میں شادی کا اظہار فرمایا.پھر ایک سال اور اس طرح میری امید بڑھتی گئی اور آخر و عدہ الہی کہ حضرت کی اولاد جلد جلد بڑھے گی.مجھ کو محض تین دن کی مہلت دی گئی.اور شادی فرما دی اسی طرح میں خیال کرتا ہوں کہ امتہ الحفیظ گو اس وقت کمزور ہے مگر اسی وعدہ کے مطابق جلد بڑھ جائے گی.یہ اب ایسی عمر آئی ہے کہ وہ بہت جلد بڑھ جائے گی.ہشتم: سوال که چال چلن یا ایمان اس کے متعلق موجود وقت حالت پر ہی قیاس ہوسکتا ہے ورنہ اعتبار انجام پر ہے اور قبر میں جا کر تو رشتہ قرابت ہو نہیں سکتی اور اس سے قبل کا اعتبار کیا؟ اس وقت کا تجر بہ ظاہر ہے اور پھر جن کی بابت حضرت اقدس کو بڑے بڑے الہام ہوئے وہ مرتد ہو گئے پس اس کے متعلق بھی خداوند تعالیٰ کا فضل ہی ہو تو کچھ ہو سکتا ہے ورنہ انسان کی تدابیر کیا کام کر سکتی ہیں اس لئے بھی مجھ کو جرات ہوئی پس اب حضور غور فرما کر جو پہلو قوی نظر آئے مجھ کو اس کی بابت حکم فرمایا جائے.اگر رشتہ قابل قبولیت ہو تو قبول فرما کر جلد تر مجھ کو مطمئن فرمایا جائے اور اگر نا قابل قبولیت ہو تو اس سے مطلع فرما کر سبکدوش فرمایا جائے تا کہ دوسری جگہ تلاش رشتہ کروں..
278 میرا بہت خیال مبارکہ بیگم صاحبہ کے لئے تھا مگر میں اور رشتوں کی تلاش میں بھی تھا کیونکہ میرا ایمان ہے کہ بعد دعا جو کام ہو وہ با برکت ہوتا ہے.پس اگر منشاء خداوندی ہے وہ بہر صورت ہوکر رہے گا ورنہ نہ ہوگا.اس لئے میں مایوس ہونے والا نہیں.ہاں اگر منشاء الہی نہیں تو پھر رضا بقضا مجھ کومنشاء الہی کے ماتحت چلنا ضروری ہے.راقم محمد علی خاں حضور ایدہ اللہ کا جواب حضرت امیر المومنین خلیفہ امتی الثانی ایدہ اللہ تعلی نے جوا با حضرت نواب صاحب کو رقم فرمایا: مکرمی و عظمی نواب صاحب السلام علیکم.عزیزی عبد اللہ خاں صاحب کے لئے امتہ الحفیظ کے متعلق آپ کی چند ایک تحریر میں ملیں لیکن مشورہ اور استخارہ کا انتظار تھا اب اس قابل ہوا ہوں کہ آپ کو کوئی جواب دے سکوں امتہ الحفیظ کی عمر اس وقت بہت چھوٹی ہے اور سر دست ظاہر ا طور پر وہ شادی کے قابل نہیں یعنی اس حالت میں صرف نکاح بھی نامناسب معلوم ہوتا ہے.عزیز عبد اللہ خاں صاحب نہایت نیک اور صالح نوجوان ہے اور اس کے متعلق ہمیں کسی قسم کا اعتراض نہیں بلکہ ہم سب اس رشتہ کو پسند کرتے ہیں اور خوش ہیں کہ اللہ تعالے تو فیق دے تو یہ رشتہ ہو جائے لیکن پھر بھی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ ابھی سے یہ رشتہ کر دیا جائے.ہاں اس قدر وعدہ کر سکتے ہیں کہ اگر آپ کو اور آپ سے زیادہ لڑکے کو یہ رشتہ منظور ہو اور وہ عزیزہ کے بلوغ تک انتظار کرنا منظور کرے تو اس وقت تک کہ عزیزہ امتہ الحفیظ بالغ ہو.ہم اس رشتہ کا انتظار کریں گے.الا ما شاء اللہ اور اس کو دوسری جگہوں پر ترجیح دیں گے.آگے آئندہ کے حالات کا اللہ تعالے کو علم ہے.ہاں اگر کچھ مدت کے بعد عزیزہ کے ڈیل ڈول میں کوئی خاص تغییر معلوم ہو جس سے جلد بڑھنے کی امید ہوتو اس وقت تک پھر اس تجویز پر غور ہو سکتی ہے موجودہ حالات میں عزیز عبداللہ خاں صاحب کو ایک ایسے عہد ( سے ) جکڑنے کی جس کے پورا ہونے کے لئے ابھی سالہا سال کے انتظار کی صورت در پیش ہے کوئی ضرورت نہیں معلوم ہوتی.امید ہے کہ آپ ان جوابات کو مناسب سمجھ کر ابھی اس معاملہ پر زور نہ دیں گے.والسلام.خاکسار مرزا محمود احمد آپ کے لئے دعا کر رہا ہوں آپ تشریف لے جائیں اللہ تعالے کا میاب واپس لائے.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد ہاں ایک نہایت ضروری امر ہے جس کے لئے آپ کے آنے تک انتظار نہیں ہوسکتا.اس کے لئے اگر
279 آپ چند منٹ کے لئے کسی وقت آسکیں تو گفتگو ہو جائے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد نواب صاحب کی طرف سے دوبارہ تحریک اور اس کی قبولیت ایک سال تک اس بارہ میں خموشی رہی جس کے بعد حضرت نواب صاحب نے پھر تحریک کی اور ذیل کا عرضیہ تحریر کیا: بسم الله الرحمن الرحيم سیدی حضرت خلیفتہ امسیح مکرم معظم سلمکم اللہ تعالئے السلام علیکم.حضور کو یاد ہو گا ایک درخواست بدین مضمون کہ اگر میرے بیٹے عبداللہ خاں کا رشتہ عزیزی امتہ الحفیظ سے منظور فرمایا جائے تو عنایت سے بعید نہ ہوگا جس پر از راہ کرم حضور نے تحریر فرمایا تھا ( کہ ) بوجوہ چند در چند سر دست یہ معاملہ ملتوی رہنا چاہئے.جب مناسب وقت ہوگا تو اول آپ کو ترجیح دی جائے گی میں حضور کے فرمانے کے بموجب خاموش تھا.مگر چونکہ مجھ پر اکثر ہموم و غموم کا وفور رہتا ہے اور صحت بھی اچھی نہیں رہتی اور رہی سہی امید کو منذ رخوابوں نے توڑ دیا ہے جس سے دنیا سے طبیعت سرد معلوم ہوتی ہے اور زندگی کا بھروسہ کم.پس اگر میری حیات میں یہ کام ہو جائے تو کم از کم ایک لڑکے سے تو میں بے فکر ہو جاؤں.آج کل امتحان دینے کی وجہ سے لڑکے فارغ بھی ہیں اگر ان ایام فراغت میں حضور یہ رشتہ منظور فرما کر نکاح کر دیں تو عنایت ہو اور پھر عبداللہ کم از کم پابند تو ہو جائے گا.تو دیع بعد بلوغ ہو سکتی ہے.امید ہے کہ حضور میری اس درخواست کو منظور فرمائیں گے.محمد علی خاں نواب صاحب کی تحریک کو شرف قبولیت بخشا گیا چنانچہ حضرت خلیفہ اسی الثانی ایده ال تعال نے تحریر فرمایا: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم امتہ الحفیظ اس وقت بہت کمزور اور کم عمر ہے اس لئے ابھی تین سال تک وہ رخصت ہونے کے نا قابل ہے.اس لئے اگر آپ اور میاں عبداللہ خاں اس بات پر راضی ہوں کہ رخصت کرنا تین سال تک ہمارے اختیار میں ہوگا اور یہ کہ مہر اسی طرح جس طرح عزیزہ مبار کہ بیگم کو کھا گیا تھا لکھا جائے گا.گو مقدار کم مثلاً پندرہ ہزار ہو تو یہ رشتہ ہمیں منظور ہے.موخر الذکر شرط صرف حضرت صاحب کی احتیاط کے مطابق ہے.دوم جب لڑکی رخصت ہو تو الگ مکان میں الگ انتظام میں رہے.کیونکہ بصورت دیگر بہنوں میں اختلاف کا خطرہ ہوتا ہے.خاکسار مرزا محمود احمد اس خط کا جواب آج ہی مل جانا چاہئے.
280 نواب صاحب نے جوا با عرض کیا: دار السلام دارالامان قادیان ۱۴ جون ۱۹۱۵ء بسم الله الرحمن الرحيم سیدی حضرت خلیفۃ امسیح علیہ السلام سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم.حضور کا والا نامہ پہنچا.محمد عبد اللہ خاں کو بھی دکھلا دیا ہم دونوں کو حضور کی شرائط ہرسہ گا نہ میں کوئی عذر نہیں.مہر ۱۵۰۰۰ روپے منظور.الگ مکان سے عذر نہیں کیونکہ قرآن شریف سے اشارہ معلوم ہوتا ہے تین سال تک تو دیع نہ تو یہ بھرنا نا قابل پذیرائی نہیں.حضور کو تو یہ لکھنا ہی مناسب نہ تھا کیونکہ میرے سابقہ عمل کے حضور واقف پھر بہ سبب رشتہ داری اور دینی یعنی حضور مخدوم ہیں اور عبداللہ خادم حضور پیر ہم مرید.اس لئے حضور کوئی ایسا معاملہ کر ہی نہیں سکتے کہ ایک فریق کا نفع اور دوسرے کا نقصان ہو.پس جیسے حضور اس طرف ذمہ دار اور وکیل و مربی.اسی طرح اُس طرف بھی.پھر میں اپنے اوپر کیوں رکھوں میں حضور ہی کے سپر د کرتا ہوں کہ جو حضور مناسب تصوؤ رفرما ئیں مجھ کو اس میں کوئی عذر نہیں.حضور تین سال پانچ بعد تو دلع تصور فرمائیں الفاظ پڑھے نہیں گئے.ناقل ) یہ * بعد بلوغ تو دیع مناسب تصؤ ر فرما ئیں عین مقصود ہے.ایک احاطہ مکان جد امناسب تصوّ ر فرما ئیں.یہ قبول.بالکل جدا تصور فرمائیں.وہ مناسب.خلاصہ یہ کہ جو آپ مناسب تصور فرمائیں.وہ ہی مناسب.پس آپ ہی اس طرف سے وکیل ، ذمہ دار، مربی ، ولی ،سب کچھ، میں حضور ہی پر چھوڑتا ہوں.میں نے نہ مبارکہ بیگم صاحبہ کے موقع پر عذر کیا نہ اب.حضرت نے ایک سال فرمایا وہ منظور کیا.پانچ سال کہا اس سے انکار نہیں کیا.ایک سال فرما یا اس سے منہ نہ پھیرا.تین دن فرمایا نہایت شکریہ سے قبول کیا.بس اب حضور جو کچھ مجھ کو کہنا چاہیں خود ہی میری جانب سے اپنے ارشاد کا جواب دیں.کیونکہ میں حضور کی رائے کے خلاف عذر ہی نہیں کرتا.* اعلان نکاح محمد علی خاں اس نکاح کا اعلان سے رجون ۱۹۱۵ء کو مکرم مولا نا مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے مسجد اقصیٰ میں فرمایا اس موقعہ پر آپ نے جو خطبہ پڑھا ذیل میں ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے آپ نے خطبہ مسنونہ پڑھ کر الفاظ پڑھے نہیں گئے.ناقل نکاح کے متعلق حضور ایدہ اللہ نے تحریر فرمایا: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم مکتر می نواب صاحب السلام علیکم.آپ کا خط مل گیا چونکہ ڈاکٹر صاحب بھی آئے ہوئے ہیں اس لئے بہتر
281 فرمایا ” آج کا دن خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقتوں میں سے ایک عظیم الشان صداقت اور آیات اللہ میں سے ایک آیت اللہ ہے دنیا میں بہتیرے نکاح ہوئے ہیں ☆ حضرت مسیح موعود کا الہام ہے.يوم الاثنين....يايوم الاثنين جس کا ترجمہ آپ نے یوں فرمایا کہ دوشنبہ مبارک ہے، دوشنبہ اور چونکہ یہ نکاح دوشنبہ کے دن قرار پایا جس سے ایک پیشگوئی پوری ہوئی.اس لئے یہ دن مسیح موعود کے صداقت کی نشانوں میں سے ایک نشان قرار دیا گیا.بقیہ حاشیہ : - ہے کہ پیر کے دن نکاح ہو جائے والسلام نوٹ : مراد ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ (مولف) اس کے متعلق ذیل کا اشٹام ضبط تحریر میں لایا گیا."بسم الله الرحمن الرحيم مهر نامه از جانب محمد عبداللہ خاں صاحب خاکسار مرزا محمود احمد نحمده ونصلى على رسوله الكريم باعث تحریر آں کہ جو کہ ۷ جون ۱۹۱۵ء بروز دوشنبہ کو میرا نکاح امته الحفیظ بیگم دختر سید نا مولانا واما منا حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مهدی مسعود علیہ السلام مرحوم مغفور رئیس قادیان ضلع گورداسپور سے بعوض مہر مبلغ ۱۵۰۰۰ پندرہ ہزار روپیہ کلدار جس کے نصف ساڑھے سات ہزار ہوتے ہیں ہوا ہے یہ پندرہ ہزار روپیہ مہر امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ مذکورہ کا بطور مہر متوجل مقرر ہوا ہے جو میرے اور میرے ورثاء پر حق واجب ہے پس زوجہ ام مذکورہ جب چاہیں اس رقم کو مجھ سے یا میرے ورثاء سے وصول کر سکتی ہیں پس یہ چند کلمات بطور مہر نامہ وا قرار نامہ وسند کے آج لکھ دئے کہ عند الحاجت کام آئیں.وقت نکاح کے متعلق استفساراً نواب صاحب نے تحریر کیا: دار السلام ۶ / جون ۱۹۱۵ء بسم الله الرحمن الرحيم سیدی حضرت خلیفتہ المسح مکرم معظم سلمکم اللہ تعالی.اسلام علیکم.غالبا نکاح بعد عصر ہو گا مگر احتیاطاً حضور سے ملتیجی ہوں کہ کیا بعد عصر ہوگا یا کسی اور وقت تا کہ اس وقت حاضر ہو جائیں.محمد علی خاں.جوا با حضور نے تحریر فرمایا : ” انشاء اللہ نماز عصر کے بعد بڑی مسجد میں ہوگا.مرز امحمود احمد
282 اور ہوں گے مگر یہ نکاح جس کے پڑھنے کے لئے میں مامور ہوا ہوں کچھ اور ہی شان رکھتا ہے.حضرت عزیزہ مکرمہ امتہ الحفیظ کہ جس کے نکاح کا خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں حضرت مسیح موعود کے نشانوں میں سے ایک بہت بڑا نشان ہے آپ کی پیدائش کے متعلق حضرت صاحب کا الہام ہے ” دخت کرام اور اللہ تعالیٰ کے فضل نے اس دخت کرام کو ایک اور رنگ میں حضرت مُبارک احمد کا رنگ بھی دیا ہے.کرام کریم کی جمع ہے اور اس کو جمع میں خدا تعالیٰ نے اس لئے رکھا کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک نبی کی حیثیت نہیں بقیہ حاشیہ: نکاح کے اعلان کی خبر معزز الفضل نے شائع کرتے ہوئے لکھا: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی رسوله الكريم رحمة الله وبركاته عليكم اهل البيت انه حميد مجيد قران السعدین ۲۰۴ آج ۷ جون ۱۹۱۵ ء مطابق ۲۳ رجب المرجب ۱۳۳۳ ء ھ دوشنبہ مبارک دوشنبہ ہے.جب کہ خدا کے بزگزیدہ نبی مسیح موعود کی صاحبزادی امتہ الحفیظ ( جن کو خدا تعالے انے اپنے کلام پاک میں دُخت کرام فرمایا ہے اور جو خدا کے نشانوں میں ایک نشان ہیں کا نکاح مکرم معظم جناب خاں صاحب محمد علی خاں صاحب کے صاحبزادہ میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب سے ہوا.حضرت نواب صاحب اور ان کا فرزند ارجمبند نہایت ہی خوش قسمت ہیں کہ ان کو وہ شرف ملا جو تیرہ سو سال میں کسی فرد بشر کو حاصل نہیں ہوا.اور پھر میاں عبداللہ خاں صاحب جو بلحاظ اپنے اخلاق حمیدہ وصفات نکوهیده و پابندگی احکام کتاب و سنت و اطاعت مسیح موعود فرمانبرداری خلفاء مسعود کے ایک قابل تعریف نوجوان ہیں.ہزار ہا مبارکباد کے مستحق ہیں جن کے حبالہ نکاح میں وہ مبارک خاتون آتی ہے کہ اس کے بعد لوگ ہزاروں لاکھوں نکاح کریں گے.مگر یقیناً وہ خدا کے مسیح موعود خدا کے رسول.خدا کے نبی جری اللہ فی حلل الانبیاء کی بیٹی نہ ہوگی.پس یہ بہت بڑا انعام الہی ہے جو اس خاندان پر ہوا.اور جتنا بڑا انعام ہو اتنی بڑی ذمہ واری ہوتی ہے اس لئے ہم جماعت احمدیہ کی طرف سے تمام خاندان رسالت اور خاندان حضرت نواب صاحب کو مبارکباد دیتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ الہی یہ قران السعدین مبارک ہو اور ان سے مسیح موعود کی نسل بڑھے پھلے اور پھولے اور وہ تمام ان کمالات اور انعامات کی وراث ہو جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کی اولا دوا حفاد سے وعدہ ہے.اللھم آمین یا رب العالمین.نئی ذمہ داریوں کو اختیار کرنے کے موقعہ پر حضرت نواب صاحب نے جو قیمتی نصائح تحریر کی ہیں وہ اس ۲۰۵
283 رکھتے تھے بلکہ جری اللہ فی حلل الا بنبیاء علیہم السلام کی شان کے حامل تھے جیسا کہ حضرت مسیح موعود کے الہام كتب الله لا غلبن انا ورسلی سے ظاہر ہے.چنانچہ اس کی تشریح میں حضرت صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : بقیہ حاشیہ :- قابل ہیں کہ یہاں درج کر دی جائیں تحریر فرماتے ہیں : نحمده و نصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم یا ابنی سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم.اب تک تم اور زندگی میں تھے اور اب اور زندگی اختیار کرنے والے ہو اور نیا علم تمہیں سیکھنا ہے اس لئے چند امور کا لکھنا میں ضروری سمجھتا ہوں اور میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ تم کو بعض امور سے خبر دار کر دوں اب تمہاری شادی ہونے والی ہے اور تاہل کے جوئے میں آنے والے ہو، دنیا کی گاڑی تاہل سے چلتی ہے جس میں میاں بیوی جو تے جاتے ہیں پس اگر ایک بیل کا ندھا ڈال دے تو گاڑی چلنی مشکل ہے اس لئے اس معاملہ میں خود کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتا.پہلے میں وہ تحریر کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ علیم وخبیر نے فرمایا ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر کون ہمیں بتلا سکتا ہے اور پھر سنت محمد مصطفے صلحم سے بڑھ کر ہمارے لئے کونسا اُسوہ ہو سکتا ہے.لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.پیشتر اس کے کہ میں تاہل کے متعلق کچھ تحریر کروں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ پہلے یہ بتلاؤں کہ انسان کے پیدا کرنے کی اللہ تعالیٰ نے کیا غرض بتلائی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ غرض خلقت جن وانس کی عبادت بتلائی ہے یعنی انسان کی پیدائش کی غرض عبادت ہے اس کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کرے اسلام بھی اسی کا مترادف ہے کیونکہ اسلام کے معنی بھی فرماں برداری کے ہیں چنانچہ حضرت ابرا ہیم کو اللہ تعالے فرماتا ہے.اسلم فرماں بردار بن جاوہ مقدس وجود جواب میں فرماتا ہے اسلَمُتُ میں فرماں بردار بن گیا.چونکہ غرض پیدائش انسان فرماں برداری اللہ تعالیٰ ہے اور فرماں برداری دو طرح ہی ہوتی ہے ایک بجبر اور ایک بحجبت جو فرمانبرداری جبر سے کرائی جاتی ہے وہ اصلی نہیں ہوتی اور جب موقعہ لگتا ہے ایسے لوگ جو جبر سے مطیع کئے جاتے ہیں اطاعت کو چھوڑ دیتے ہیں.مگر جو لوگ اپنی نشاط طبع اور دلی میلان اور محبت سے اطاعت کرتے ہیں ان کی اطاعت مستحکم ہوتی ہے اور وہ فرماں برداری پوری طرح سے کرتے ہیں اسی لئے انبیاء کو اللہ تعالی خوش خلقی کی ہدایت فرماتا ہے چنانچہ قرآن شریف میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ اگر تو بد مزاج اور سخت دل ہوتا تو تیرے قریب بھی کوئی نہ پھٹکتا اور فرمایا کہ مومنوں کے لئے اپنے کاندھے جُھکا دے اور یہی وجہ ہے کہ شریعت میں جبر و اکراہ نہیں رکھا تا لوگ محبت قلبی سے انبیاء کی اطاعت کریں اور شریعت کو نشاط طبع کے ساتھ اختیار کریں لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ : اور اگر جبر سے اطاعت کرائی جائے تو پھر اطاعت کرنے والے میں عمدہ اخلاق نہیں پیدا ہو سکتے اور نہ وہ ترقی کر سکتا ہے.دیکھ لوغلاموں میں
284 اس وحی الہی میں خدا نے میرا نام رسل رکھا کیونکہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیهم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف مسنوب کئے ہیں.میں آدم نیہ حاشیہ: اور جو لوگ جبراً مطیع کئے جاتے ہیں ان کے اخلاق ہمیشہ رذیل ہوتے ہیں حیوانات کو دیکھ لو کہ ان کی فطرت ہی اللہ تعالے انے ایسی بنائی ہے کہ وہ مجبور ہیں کہ اپنی فطرت کے مطابق کام کریں اس لئے وہ ترقی بھی نہیں کر سکے مگر انسان جس کو خداوند تعالے انے گو حیوان بنایا مگر اس میں سیکھنے کا مادہ رکھ دیا اور ایک حد تک آزاد بنا دیا اور جبراً اس سے کام لینا نہ چاہا.اس لئے وہ ترقی کرتا ہے اور یہاں تک خدا نے اس کو ترقی کا سامان رکھ دیا.کہ وہ خلیفتہ اللہ بنا.پس اللہ تعالے چاہتا ہے کہ انسان محبت کے ساتھ اللہ تعالے کی فرماں برداری کرے اور نشاط طبع سے اطاعت گزار ہو اور پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ اپنی محبت کا محبط اللہ تعالے کو ہی صرف قرار دے کوئی محبت اللہ تعالے کی محبت پر غالب نہ آئے.اللہ تعالیٰ ہی محبوب ہو تمام فانی چیزوں سے منہ موڑ لے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے امید دلا کر بھی اطاعت کا حکم فرمایا چنانچہ فرماتا ہے کہ میں نے مومنوں کی جان اور مال کو بہشت کے بدلے میں خرید لیا.اب سمجھ لو کہ غلام کی جان و مال جب پک گئی تو اس کا کیارہ گیا اور پھر اسی لئے حکم بھی دیا.کہ اگر تم کو اللہ اور اس کے رسول سے تمہارے ماں باپ.بیٹے ، بیٹی ، بیوی ، رشتہ ، مال و دولت باغات جو تم نے بڑے چاؤ سے لگائے اور مکانات جو بڑے اہتمام سے بنائے اور تجارتیں جن کے گھاٹے کا تم کو خوف ہے.زیادہ پیارے ( ہیں ) تو پھر اللہ تعالے کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جاؤ.یعنی اللہ تعالیٰ پھر سزا دے گا ان وجوہ سے صاف ظاہر ہے کہ محض اللہ تعالیٰ سے ہی محبت ہو اور اس بڑھی ہوئی محبت سے اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری انسان کرے.ہاں دوسری چیزوں سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت محبت سلوک نیکی کرے اور یہ سمجھ کر کہ محبوب کی چیزیں ہیں.لوگ غلطی سے شادی بیاہ کے تعلقات کو محبت کی بناء پر کرتے ہیں.حالانکہ اسلام میں محبت محض اللہ تعالیٰ کے لئے وقف ہے کیونکہ انسان دل کے ہاتھوں مجبور ہے جب کسی سے محبت بڑھ جاتی ہے پھر دین وایمان جان و مال سب اس پر قربان کر دیتا ہے اور بتوں کو سجدہ کرتا ہے اس لئے اللہ تعالے نے دل کو اپنا مہبط بنایا اور غیر اللہ سے لگانے سے ہٹایا تا ہم اسی محبوب حقیقی پر دین و ایمان و جان و مال فدا کر یں بیوی بچوں سے حسن سلوک کریں مگر اسی قدر جس قدر اللہ تعالے انے اپنے فضل سے اجازت دے دی.پس محبت کی بناء پر شادی نہ ہونی چاہئے.دل کے ہاتھوں غیر اللہ کو کعبہ نہ بنائیں اس لئے اللہ تعالے انے بعض قوانین باندھ دئے تا ہم اللہ تعالیٰ کو جب جان اور مال بیچ چکے ہیں اور اس میں سے اس نے اپنے فضل (سے) باوجو دخرید کے
285 ہوں.میں شیث ہوں.میں نوح" ہوں.میں ابراہیم ہوں.میں اسحاق“ ہوں.میں اسمعیل ہوں.میں یعقوب ہوں.میں یوسف ہوں.میں موسی ہوں.میں داؤد ہوں.میں عیسی“ ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بقیہ حاشیہ: - خرچ کی اجازت دی ہے.کچھ جان و مال خرچ کریں پس شادی کے متعلق فرماتا ہے اور پہلا اصول بھی قائم کرتا ہے مُحْصَنِيْنَ غَيْرَ مُسْفِحِين - پاکباز ہو کر خواہشات کو مد نظر رکھ کر...حصین کہتے ہیں قلعہ کو یعنی قلعہ بند ہو کر.قلعہ کیوں ہوتا ہے.اپنے بچاؤ کے لئے پس اپنے قومی اور طاقتوں کو قائم رکھ کر صحت اور عافیت کا لحاظ رکھ کر تمام تعلقات کو قائم کرنا چاہئے.پھر شیطان کے پنجے سے بھی بچانا چاہئے اور نہ صرف اپنے آپ کو بچانا بلکہ بیوی کو بھی.اس کی صحت عافیت کا خیال بھی رکھنا.اس کو بھی شیطان سے بچانا.پس پہلا اصول یہی ہے کہ حیوانات کی طرح ہر وقت خواہشات کا گرویدہ نہ رہنا چاہئے.اور پھر حضرت انسان تو حیوانات سے بھی بڑھ گئے ہیں.قوانین قدرت کو توڑ دیا ہے.پس قوانین قدرت کا لحاظ رکھنا چاہئے.لطیف طرز سے اللہ تعالیٰ نے شادی کو ظاہر فرمایا ہے اور اسی سے تعلقات زن و شوئی کے کل شعبوں پر روشنی ڈال دی اور جو ایک کتاب میں بھی بیان نہیں ہو سکتے.ایک آیت میں بیان کر دئے اور وہ یہ کہ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَاتُوا حَرُ تَكُمْ أَنَّى شِئْتُم عورتیں تمہاری کھیتی ہیں پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کھیتی سے کیا غرض ہے بس یہی کہ اناج پیدا ہو اور اس اناج سے فائدہ اٹھایا جائے پس عورتیں کھیتی ہیں ان سے اولا د لی جائے بس غرض شادی کی اصل اولا د ہے.پھر یہ کہ تعلقات زن وشوئی کی حد یہاں تک ہونی چاہئے ( کہ ) اولا د ہو.پس حیض ، رضاعت میں اجتناب لازم ہے حیض کی بابت تو صاف حکم دیا اور تمدن انسانی کی مشکلات کی وجہ سے حمل ورضاعت کے متعلق اس آیت بالا میں لطیف طرز سے بیان کر دیا اور ایک جگہ مدت کا بھی اشارہ فرمایا کہ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَا ثُونَ شَهْرًا - پس اس حد تک استعمال قومی ہے جہاں تک اولاد حاصل ہو اور بس اور مواقع ایسے ہیں کہ اولاد کی غرض نہ ہو تو اس سے پر ہیز لازم.قیام صحت و عافیت بھی لازمی امر ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا.انسان چونکہ متمدن مخلوق ہے اس لئے اس کو بیوی بچوں سے تعلقات بھی لمبے ہوتے ہیں.اس لئے بیوی کو تسکین کا باعث بتلایا ہے اور اس میں بھی بہت حکمتیں ہیں بیوی سے حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے.پس ان امور کے متعلق مجھ کو پوری طرح لکھنے کا وقت نہیں میں نے ایک رسالہ بنوایا ہے تم کو بھیجتا ہوں اس کو پڑھ لو اور یہ خط اور وہ محفوظ رکھو.اگر اللہ تعالے نے چاہا اور توفیق اللہ تعالیٰ ( نے ) دی تو میں اپنی طرز پر اس کو مرتب کروں گا بعض جگہ میں نے نشان لگا دئے ہیں ، وہ سر دست واجب العمل با تیں ہیں ان کا لحاظ لازمی ہے M اب میں آخر میں چندا مور اور لکھنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ دین کے لحاظ سے یا دنیا کے لحاظ سے جو بڑے ہوں ان
286 کے نام کا میں مظہر اتم ہوں یعنی ظلمی طور پر محمد اور احمد ہوں.66 ۲۱۲ اس لئے دُخت کرام کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہوئے کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تمام انبیاء کا مفہوم صادق آتا ہے اس لئے گویا عزیزہ امتہ الحفیظ سارے انبیاء کی بیٹی ہیں دوسرے پہلو کے ساتھ صاحبزادہ مبارک احمد کے رنگ میں اس طرح سے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے.پانچوں جو کہ نسل سیدہ ہیں یہی ہیں پنجتن جن پر بنا ہے حضور نے جب یہ فرمایا صاحبزادہ مبارک احمد اس وقت زندہ تھے اور مبارک احمد کے سمیت پنجتن تھے لیکن جب مبارک احمد فوت ہو گئے تو اب یہ جو پنجتن کا لفظ تھا اگر مبارک احمد کے فوت ہو جانے پر عزیزہ امتہ الحفیظ ہوئی نہ ہوتی تو ایک مخالف کہ سکتا تھا کہ بتاؤ اب پنجتن کون ہیں سوخدا کے فضل سے پنجتن کے عدد کی صداقت کو بحال رکھنے کے لئے خدا کی طرف سے عزیزہ مکرمہ کا وجود مبارک احمد کے قائم مقام ظہور میں لایا گیا.بقیہ حاشیہ: - سے تعلقات میں بہت مشکلات ہوتی ہیں میری شادی بھی دین کے لحاظ سے ایک بڑے مقدس محبوب الہی کی بیٹی سے ہوئی ہے اور اسی کی بیٹی سے تمہاری.یہ ایک بڑا مشکل مرحلہ ہے اس کا نبھانا ۲۱۵ ۲۱۴ ۲۱۳ سوائے اللہ کے فضل کے نہیں ہوسکتا.پہلے اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمان برداری که الرِّجَالُ قَوْمُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ اور يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَارًا اور حدیث كلكم راع وكلكم مسئول عن رعیتہ پر عمل ہونا چاہئے یعنی بیوی مرد کی محکوم ہو اور مرد حاکم ہو.دوسری طرف حسن سلوک کا حکم.اللہ تعالیٰ فرماتا (ہے) کہ اگر تم کو بیوی میں کچھ نقص بھی معلوم ہو تو میری خاطر درگزر کرو.عَسَى أَنْ تَكْرُ هُوًا شِيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ، وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شِيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ اور حدیث خیر کم خیر کم لا هله اور پھر یہ کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے پس اگر تم اس کو سیدھا کرنا چاہو تو یہ ٹوٹ جائے گی پس جس قدر مشکل ہے کہ ایک طرف حاکم بنو دوسری طرف حسن سلوک کرو اور یہاں تک کہ بہت سیدھے کرنے کی کوشش بھی نہ کرو.پھر ایسے بڑے انسان کی بیٹی سے شادی تو اس سے سلوک اور بھی مشکلات میں ڈالتا ہے پس اس کی تطبیق اور طرز یہی ہوسکتی ہے کہ ایسی طرز اختیار کرو کہ بیوی تمہارے احسانات میں دب جائے حسن سلوک سے سر نہ اٹھا سکے اور محبت نشاط طبع سے تمہاری فرما بردار ہو جائے...پس جس طرح میں مسیح کی بڑی بیٹی سے سلوک کرتا ہوں اور عزت و آداب کرتا ہوں تم کو بھی مسیح کی چھوٹی بیٹی کا ادب اور حسن سلوک کرنا چاہئے اور اس کو نبھانا چاہئے اب میں اس خط کو ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ شادی تمہارے لئے اور ہمارے لئے اللہ تعالیٰ با برکت کرے.راقم محمد علی خاں
287 پس عزیزہ امتہ الحفیظ کا وجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صداقت کے نشانوں میں سے ایک بہت بڑانشان ہے ، اس لئے میں نے یہ عرض کیا ہے کہ اس نکاح کو دوسرے نکاحوں پر فضیلت اور خصوصیت حاصل ہے اور ان معنوں میں یہ نکاح ایسا ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کا اور کوئی نکاح اس شان اور مرتبہ کا نہ ہو گا.کیونکہ یہ نکاح اللہ تعالیٰ کے ایک نبی بلکہ عظیم الشان بنی کی صداقتوں میں سے ایک صداقت ہے میں نے جو یہ چند آیات پڑھی ہیں ان کا خطبہ نکاح میں پڑہا جانا مسنون اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات سے ثابت ہے.ان آیات میں زن و مرد کے تعلقات نکاح کے اغراض اور آئین پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا کہ ایک مسلم جو نکاح کرتا ہے اور اسلام زن و شوہر کے تعلقات قائم کرنے کی ہدایت دیتا ہے تو وہ کس غرض پر مبنی ہونے چاہئیں.ان آیتوں میں ایک لفظ کا بڑا تکرار آیا ہے اور وہ تقویٰ کا لفظ ہے.گویا خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے نکاح کی غرض ہی تقویٰ رکھی ہے.تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا یعنی اگر انسان کے راستہ میں کسی قسم کی مشکلات ہوں اور وہ ان سے نکلنا چاہے اور وہ نکلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو تقویٰ کرے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس کے لئے وہ سامان پیدا کر دیگا جن کی وجہ سے ان مشکلات سے مخلصی پا جائے گا.پھر فرمایا يَرُزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ اور اس کو تقوی اختیار کرنے کی وجہ سے بلا حساب اور بلا تکلیف رزق دیا جائے گا گویا اس میں یہ بتایا کہ اگر ایک ایسا انسان ہو جس کو نکاح کرنے کی ضرورت ہو لیکن نکاح کرنے کے سامان موجود نہ ہوں اور وہ عاجز مفلس اور کنگال ہو تو اسے چاہئے کہ تقویٰ اختیار کرے.تقوے اسے یہ ہوگا کہ جس قدر مشکلات بھی اس کے راستہ میں روک ہوں گی خدا تعالیٰ ان کو دور کر دے گا اور اس کو ان سے نکال دیگا، دوسرا زن و شوہر کے تعلقات کے بعد بھی مشکلات بڑھ جاتی اور پیدا ہو جاتی ہیں مثلاً رزق کے متعلق اور ایسا ہی اولا دوغیرہ کے متعلق تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے بھی فرماتا ہے کہ جب تمہارے تعلقات قائم ہونے سے تمہیں یہ مشکلات پیش آئیں گی تو تقومی کرنے سے یہ بھی دور ہو جائیں گی اور اللہ تعالے خود تمہیں رزق دے گا اور اس قدر دے گا جو بغیر حساب کے ہوگا اور بلا محنت ہوگا بشرطیکہ تم متقی ہو جاؤ.اس لحاظ سے یہ بات اولا د پر بھی چسپاں ہوسکتی ہے کہ جو نکاح تقومی کی غرض سے کیا جائے گا اس سے جو اولاد ہو گی وہ بہت پاکیزہ اور کثرت سے ہوگی اور ایسے رنگ میں ہوگی کہ تمہیں اس کا وہم و گمان بھی نہ ہوگا کہ کس طرح سے نیک ہو گئی ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق مشاہدات سے اور نیز تاریخ سے ثابت ہے کہ ان کی اتنی اولاد ہوئی کہ شاید ہی کسی اور نبی کی ہوئی ہوگی اس کا باعث یہی تھا کہ انہوں نے تقویٰ کے لئے نکاح کیا اور ان کا تقویٰ بہت بڑا تقویٰ تھا.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.میں کبھی آدم کبھی موسئی کبھی یعقوب ہوں نیزا ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
288 یعنی ابراہیم علیہ السلام کی طرح میری اولاد بھی بے شمار ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرز پر جو نکاح ہوتا ہے یعنی تقوی پر جس کی بناء ہوتی ہے اس سے اولاد بے حساب اور پاکیزہ ہوتی ہے.یہ تقویٰ کے فوائد ہیں ان آیتوں میں ان ہی فوائد کو کھول کر پیش کیا گیا ہے.اللہ تعالے فرماتا ہے : يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةً اے لوگو تم اپنے اس رب کے لئے تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک نفس اور سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کے زوج کو پیدا کیا.آگے فرمایا.بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا تمہارے نکاح کی یہ غرض بھی ہو کہ تم تقویٰ اختیار کرو لیکن یہ بھی ہو کہ تم میں سے رجال اور نساء بھی ہوں اور تم سے یہ سلسلہ چلے لیکن یہ سلسلہ بھی تقویٰ کے نیچے ہو ، ورنہ کیا کفار کی اولاد نہیں ہوتی.یا حیوانوں کی اولاد نہیں ہوتی اور ان سے سلسلہ نہیں چلتا.پھر مسلمانوں اور دوسرے لوگوں اور حیوانوں میں فرق ہی کیا ہوا؟ مسلمانوں کا تو یہ کام ہے کہ نکاح تقویٰ کے تحت کریں تا کہ نیک اولاد پیدا ہو اسی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح کرو اور ضرور کرو چنانچہ فرمایا: النکاح من سنتی فمن رغب عن سنتي فليس مني یعنی نکاح کرنا میری سنت ہے اور جو اس میری سنت سے اعراض کرتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے.پس اگر کوئی تقویٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ملحوظ خاطر رکھ کر نکاح کرے تو بڑے فائدہ اور بڑے ثواب کا مستحق ہوگا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتنا كحو اوتوالد وا کہ نکاح کرو اور اولاد بڑھاؤ.میں قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا.اب ان اغراض اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد کو مدنظر رکھ کر جو نکاح ہو بہت ہی بابرکت ہوگا.اور بہت اچھی اولاد ہو گی.خدا تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے.نساء كُم حرث لكم عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں یعنی جیسے کاشتکار اپنی کھیتیوں میں پاکیزہ اور اعلیٰ درجہ کی پیداوار کاشت کرتا ہے تمہیں بھی اپنی ان کھیتیوں میں پاکیزہ پیداوار کے لئے کاشت کرنا چاہئے.یعنی یہ کا شت تقویٰ کے طرز پر ہونی چاہئے.اگر کوئی تقوی سے یہ کاشت کرے گا تو اس کی اولاد ضرور اعلیٰ درجہ کی ہوگی.پھر خدا تعالیٰ نے عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کے اور بھی کئی اغراض بیان فرمائے ہیں چنانچہ فرمایا هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ کہ وہ تمہارے لئے لباس کا فائدہ دیتی ہیں اور تم ان کے لئے لباس کا فائدہ دیتے ہولباس کا فائدہ بھی خدا تعالیٰ نے خود ہی بتا دیا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْ اتِكُمْ وَرِيْشًا کہ لباس سے انسان کی شرم گاہیں ڈھکی جاتی ہیں اسی طرح زن و مرد کے تعلقات کی وجہ سے بہت سے مرد اور عورت کی برائیاں ڈھانپی جاتی ہیں اگر یہ مرد و عورت کا تعلق نہ ہو تو ممکن ہے کہ وہ جذبات اور طبعی تقاضے جو مرد و عورت کو لگے ہوئے ہیں.غلط طور پر استعمال کئے جائیں.اور آنکھ زبان کان ہاتھ سے گذر کر انسان کو کبیرہ گناہ کا بھی مرتکب بنا دیں اور جب کوئی بدی ہوگی تو گویا وہ بدی کرنے ۲۲۵
289 والا انسان ننگا ہو جائے گا کیونکہ ہر ایک گناہ کے سرزد ہونے سے انسان اسی طرح شرمندہ ہوتا ہے جس طرح کہ نگا ہونے سے شرمندہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ان بدیوں کو ڈھانپنے کے لئے عورتوں کو مردوں کا لباس بنایا ہے اور یہ جذبات جو بدیوں کی طرف لے جاتے ہیں صرف مردوں کو ہی نہیں لگے ہوئے بلکہ عورتوں کو بھی لگے ہوئے ہیں اسی لئے جیسے عورتیں تمہارا لباس ہیں تم بھی ان کا لباس ہو اسی لئے یہ فرمایا تـسـاء لــون بـــه و الارحام اس میں یہ اشارہ ہے کہ کچھ عورت کے حقوق مرد پر ہیں اور کچھ مرد کے حقوق عورت پر ہیں.پس تم آپس میں ایک دوسرے سے اپنے اپنے حقوق مانگ لو.اس میں ایک دوسرا پہلو وہ بھی ہے جو جذبات سے تعلق رکھتا ہے وہ یہ کہ ان جذبات کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے تقاضوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں کہ ایسا ایسا ہو.ایسے وقت میں اگر کوئی انسان جذبات کی تحریک سے اپنے طبعی تقاضوں کو پورا کرنے کی خواہش کرے تو ممکن ہے کہ وہ جائز ہو یا نہ جائز.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے نکاح اس لئے رکھا ہے کہ مرد کی فطرت میں ان جذبات کے نیچے جو تقاضے پائے جاتے ہیں وہ ان کو عورت سے جائز طور پر مانگ لے اور جو عورت کی فطرت میں تقاضے ہیں وہ مرد سے مانگ لے.نکاح کے موقعہ پر ایک اور آیت بھی پڑھی جاتی ہے جو سورۃ احزاب کے آخر میں ہے کہ یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوُ اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا یعنی ایمان والو تقوی اللہ کو اختیار کرو اور منھ سے بات کہو تو صاف اور سیدھی کہو بعض نکاح اس قسم کے ہوتے ہیں جن میں مبالغہ دھوکہ اور فریب کو کام میں لا کر اپنے فائدہ کی غرض سے دوسرے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اس لئے فرمایا کہ تم جو یہ نکاح کا معاہدہ کرو تو یہ اس بناء پر ہو کہ سب سے پہلے تقویٰ تمہارے مد نظر ہو.تقویٰ سب بُرائیوں کی جڑ کاٹتا ہے.خدا تعالیٰ نے تقویٰ کا لفظ بیان فرما کر پھر اس کی تائید میں کئی اور الفاظ اور آیتیں ساتھ رکھی ہیں، ان ہی میں سے ایک یہ آیت ہے فرمایا اس معاملہ میں بیچ دار طبیعت کے ساتھ مغالطہ اور خطرناک طرز عمل اختیار نہ کرو بلکہ بہت صاف اور سیدھی اور وہ بات جوحسن معاشرت اور حسن معاملت کے اعلی پیمانہ پر قائم ہو وہ کہو نہ کہ پیچیدہ ، دھوکہ دینے والی اور شریعت کے خلاف، پھر فرمایا اس کے فوائد یہ ہوں گے کہ یصلح لکم اعمال لكم ويغفر لكم ذنوبكم تمہارے اعمال کو جو تقوی اور زبان کی راستی کے نیچے ہوں گے ان کی اصلاح کی جائے گی دنیا میں فساد تقویٰ کے چھوڑنے اور زبان کی ناراستی کی وجہ سے ہوتے ہیں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں اس شخص کے بہشت میں جانے کے لئے ضامن ہوتا ہوں جو دو چیزوں کو قابو میں رکھے ایک زبان کو دوسرے وہ جو دونوں رانوں کے درمیان ہے واقعہ میں انسان سے جس قدر شرور سیات اور جرائم سرزد ہوتے ہیں ان کا بہت بڑا ذریعہ یہی
290 دونوں چیزیں ہیں اور اگر اللہ کے فضل سے ان پر قابو پا لیا جائے تو انسان کی بہت سی اصلاح ہو جاتی ہے خدا تعالیٰ اس دوسری چیز کے لئے تو فرمایا کہ تقویٰ کرو اور زبان کے لئے فرمایا کہ قولوا قولا سدیداس سے تمہارے گناہ بخشے جائیں گے آگے فرمایا کہ کس رنگ میں تقویٰ ہو ممکن ہے لوگ اپنے رسوم و رواج پر عمل کر کے ہی کہہ دیں کہ ہم تقویٰ کی راہ پر چل رہے ہیں اس لئے اس کی تشریح فرما دی و من يطع الله ورسوله یعنی تقوی اور قول سدید وہی ہے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کے نیچے ہو اور قرآن اور سنت کے مطابق.ان آیتوں کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک اور آیت بھی پڑھتے تھے.اس میں بھی تقوی پر ہی زور دیا گیا وہ آیت یہ ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ واتقوا الله ان الله خبير بما تعملون اس آیت میں حصول تقویٰ کا طریق بتایا ہے اور وہ دو طرح پر ایک ولتنظر نفس ما قدمت لغد یعنی ہر ایک نفس کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل کے لئے کیا فکر کی اس سے اعمال کردہ کی جزا و سزا کی طرف توجہ دلا کر ہوشیار کیا ہے کیوں کہ نیکی بدی کی جزا سزا پر ایمان ہونے سے ضرور ہے کہ انسان تقومی کرے اور بدعملیوں سے بچنے کی کوشش کرے.دوسرے ان الله خبير بما تعملون یعنی اللہ تعالی تمہارے اعمال سے خبر دار ہے.خدا تعالیٰ کی صفت خبیر پر ایمان لانے سے بھی انسان میں تقویٰ پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ جب انسان اس بات کا یقین کرے گا کہ خدا تعالیٰ میری ہر حرکت و سکون میرے ہر قول و فعل اور ہر نیت و عمل سے خبر دار اور آگاہ ہے تو وہ ضرور بدی سے بچنے کی کوشش کرے گا.غرض تقویٰ کا ہونا نہایت ہی ضروری امر ہے اور تقویٰ کے بغیر سب کچھ بیچ.لیکن یہ نکاح جس کا خطبہ پڑھنے کے لئے مجھے حکم دیا گیا.اس کے متعلقین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ جو مجھ سے تقویٰ کی باتیں سننے کا محتاج ہو کیونکہ جو خدا تعالے کا رسول ہوتا ہے جب سب پاک ہدایتیں اور بچی علیمیں وہ خود دینے والا ہوتا ہے اور کوئی کام ایسا نہیں ہوتا جس میں رسول کی طرف سے کامل نمونہ پیش نہ ہوتا ہو تو اس نمونہ کے جب پہلے وارث یہی متعلقین ہیں پھر ان کو مجھ سے کچھ سنے کی احتیاج کیسے؟ خدا کا رسول ہر کام کا نمونہ اور زندگی کا طرز عمل اپنے نمونہ سے بتاتا ہے.ہمارے سامنے اول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے اور آپ کے بعد آج پھر تازہ ترین ہمارے سامنے ایک عظیم الشان نبی (مسیح موعود ) کا نمونہ موجود ہے جس سے سب سے زیادہ مستفیض ہونے والے اہل بیت اور آپ کے تم تعلقین ہیں اس لئے اب کسی بات میں ان کی راہ نمائی کرنا اور خاندان نبوت کو ہدایت کے طور پر کچھ سنانا یہ ہمارا کام نہیں ہے اور نہ ہی خاندان نبوت ہماری تقریروں تحریروں اور ہدایتوں کا محتاج ہے بلکہ ہم خود ان کے محتاج ہیں اور
291 ہمیں خود ان کی ضرورت ہے، اس لئے میری تقریر کسی کی احتیاج کے لئے نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی ایسی بات ہے.ہاں ایک عظیم الشان بات یہ ہے کہ اس عزیزہ کا نکاح ہے جو خدا تعالے کے نشانوں کا ایک نشان ہے پھر اس عظیم الشان انسان کی صداقت کا نشان ہے جو خدا کا عظیم الشان مرسل اور عظیم الشان نبی ہے.جس کی صداقت اور آیات صداقت کی تجلیات سے زمانہ منور اور بھرا ہوا ہے اور کوئی ملک کوئی علاقہ اور کوئی جگہ خالی نہیں اور کوئی زمین کا خطہ اور آسمان کا افق ایسا نہیں جہاں آپ کی صداقتیں جلوہ گر نہ ہوں اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو کیا حضرت عزیزہ کا وجود اور کیا نکاح کوئی معمولی بات نہیں.حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء کا وجود جو تمام رسولوں کے کمالات کی حقیقت جامع ہے، آپ کی بیٹی کا نکاح ایک عظیم الشان چیز اور نہایت ہی مبارک تقریب ہے اور بہت بڑی سعادت ہے ان لوگوں کی جن کو یہ تعلق حاصل ہوا ہے.حضرت مسیح موعود ۲۳۲ ۲۳۳ فرماتے ہیں طوبی لعین رَأَتُنِي قبل وقتی اور فطُوبَى لِلَّذِي عَرَضَنِي أَوْعَرَفَ مَنْ مبارک ہے وہ جس نے مجھے دیکھا اور مبارک ہے وہ جس نے مجھے پہچانا یا میرے پہچاننے والے کو پہچانا.یہ بہت بڑی سعادت ہے ایک وقت آئے گا جب کہ لوگ حضرت مسیح موعود کے صحابہ کو تلاش کریں گے اور یہ التجا کریں گے کہ کاش ہمیں حضرت مسیح موعود کو دیکھنے والا ہی کوئی دکھائی دے.ایک وقت آئے گا.جس وقت بادشاہ کہیں گے کہ کاش ہم مفلس ہوتے.تنگ دست اور محتاج ہوتے.مگر مسیح موعود کے چہرہ پر نظر ڈالنے کا موقعہ پالیتے اور ہم مسیح موعود کے صحابہ میں شامل ہوتے اور وہ بادشاہ جو اس سلسلہ میں آنے والے ہیں اس بات پر رشک کریں گے کہ کاش ہمیں یہ تخت حکومت اور سلطنت نہ ملتی مگر مسیح موعود کے در کی گدائی حاصل ہو جاتی.وہ نہایت حسرت سے اس طرح کہیں گے لیکن ان باتوں کو نہ پاسکیں گے لیکن کیا آپ لوگ کچھ کم درجہ رکھتے ہیں نہیں بلکہ آپ کا درجہ تو یہ ہے.بندگان جناب حضرت او سر بسر تا جدا در می بینم آپ ان کی حضرت کے غلام ہیں کیا یہ آپ لوگوں کے لئے کچھ کم سعادت ہے کہ روحانی رنگ میں آپ کو تاجدار کہا گیا ہے؟ اب فرمائیے کہ حضرت مسیح موعود کے دیکھنے والا انسان کس سعادت کا مستحق ہے.پھر جس نے آپ کو دیکھا اور آپ کے ہاتھ سے ہاتھ ملایا اس کا کیا درجہ ہے؟ پھر ایک اور گروہ ہے جو سعادت میں بہت اس رویت اور معرفت مراد مر تبہ رویت و معرفت ہے جس کی نسبت حضرت مسیح موعود نے خطبہ الہامیہ میں فرمایا ہے کہ من فرق بینی وبین المصطفى فما عرفنى ومارائی کہ جس نے میرے اور حضرت محمد مصطفی کے درمیان فرق کیا اور دونوں کو الگ الگ سمجھا اس نے نہ مجھے شناخت کیا اور پہچانا اور نہ ہی دیکھا اور سمجھا پس حضور کے ارشاد کے مطابق حضور کا دیکھنا اور پہچانا ان ہی معنوں میں ہے کہ حضور کومحمد مصطفی " ہی یقین کیا جائے.
292 ہی بڑھ گیا ہے اس میں ایک وہ مبارک انسان ہے جس کے ہاں حضرت مسیح موعود کا علاوہ روحانی تعلق کے خونی رشتہ کا بھی تعلق ہے اسے دامادی کا فخر حاصل ہے اور اس نبی سے تعلق ہے جو جری اللہ فی حلل الا بنیاء ہے اور جسکی پیشگوئی کئی انبیاء کرتے آئے ہیں اور جسکی صداقت کو آسمان اور زمین کے جلالی اور جمالی رنگ کے آیات اور مختلف حالات کے واقعات اور انقلابات بڑے زور سے ظاہر کر رہے ہیں اور جو کہتا ہے کہ آسمان اور زمین میرے لئے نئے بنائے جائینگے.آپ نے تمثیلی انکشاف کے ذریعہ ایسا ہی دیکھا اس کے مطابق اب جو تغیرات دنیا میں ہونگے ان کا بہت بڑا موجب حضرت مسیح موعود کا وجود اور ظہور ہی ہے آپ کا الہام لو لاک لما خلقت الافلاک ہے اگر آپ نہ ہوتے تو یہ جو ذرات عالم کی موجودہ رفتار اور گردش ہے یہ بھی نہ ہوتی.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تو نہ ہوتا تو یہ بھی نہ ہوتے یہ دنیا کی رفتار اور طرز تیری ہی نصرت اور تائید کے لئے ہے.اب بتلاؤ کہ ایسے عظیم الشان انسان کا ایسا لخت جگر اور خونی رشتہ جو صرف مبارک احمد کے رنگ میں ہی نہیں بلکہ بجائے خود بھی ایک عظیم الشان نشان ہے.جس انسان کے ساتھ ہوگا وہ کتنا خوش نصیب ہوگا.وہ تو اگر اس نعمت کے بدلے تمام عمر سجدہ شکر میں پڑار ہے تو بھی میرے خیال میں شکر ادا نہیں کرسکتا.اور نعمتوں اور انعاموں کو جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ کسی کومیں ان کو جانے دو صرف یہی ایک عظیم الشان نعمت اور فضل کیا کم ہے کہ حضرت مسیح موعود کو ایک دفعہ دیکھنے اور آپ کے چہرہ مبارک پر نظر ڈالنے کا موقعہ مل گیا اور اگر کوئی ساری عمر اسی نعمت کا شکر یہ ادا کرنا چاہئے تو نہیں کر سکتا.پھر ہم سے کب شکر یہ ادا ہو سکتا ہے جنہوں نے آپ کو بار بار دیکھا اور مدتوں آپ کی صحبتوں اور مجلسوں سے حظ اٹھایا ایک تو یہ ہم میں اور ایک اور ہیں جن کو اس سے بہت بڑی سعادت نصیب ہوئی ہے.ایں سعادت بزور بازو نیست نه بخشد خدائے بخشنده ی محض خدا تعالے کے فضل کے نیچے حاصل ہوئی ہے.ذالک فضل الله يو تيه من يشاء یہ خدا کی عظیم الشان نعمت اور رحمت ہے اور ان کو نصیب ہوئی جن کو خدا تعالیٰ نے حجتہ اللہ فرمایا اس سے میری مراد حضرت نواب ہیں.حضرت مسیح موعود کی ایک بیٹی جس کے گھر جائے اس کو کس قد رسعادت ہے لیکن بتاؤ اس کی سعادت کا کس طرح اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس کی طرف حضرت مسیح موعود کی دوسری بیٹی بھی خدا تعالیٰ کا فضل لے جائے اگر ہزار ہا سلطنتیں اور بادشاہتیں بھی حضرت نواب صاحب کے پاس ہوتیں اور انہیں آپ قربان کر کے حضرت مسیح موعود کا دیدار کرنا چاہتے تو ارزاں اور بہت ارزاں تھا لیکن اب تو انہیں خدا تعالیٰ کا بہت ہی شکر کرنا چاہئے کہ انہیں خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان نبی کی بیٹی مل گئی ہے.اور دوسری بیٹی بھی ان ہی کے صاحبزادہ کے نکاح میں آئی ہے.نکاح پندرہ ہزار روپیہ مہر پر محمد عبد اللہ خان صاحب سے ہوا.
293 رخصتانه قارئین کرام پڑھ چکے ہیں کہ حضرت اقدس کی ہر دو صاحبزادیوں کے رشتہ میں تقومی ملحوظ رکھا گیا نہ کہ امارت و تمول.حضرت اقدس حضرت نوابصاحب کے رشتہ کے لئے دوسری جگہ کوشش فرماتے رہے اور بعض ایک کے قبول کرنے پر زور بھی دیا گیا اسی طرح پہلے سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی عمر کی وجہ سے مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کا رشتہ زیر غور نہ لا گیا اور بعد میں فریقین کی طرف سے دُعاؤں اور استخارہ کے بعد ہی ی تعلق منظور کیا گیا.یہ ذکر کر دینا خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ صاحبزادی صاحبہ محترمہ کا رخصتانہ بہت ہی سادگی سے عمل میں آیا چنانچہ میاں عبداللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ : ” میری شادی کے روز شام کو حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بلا بھیجا چونکہ حضرت والد صاحب ابھی برات کے طریق کو اپنی تحقیقات میں اسلامی طریق نہیں سمجھتے تھے.اس لئے شہر پہنچا ہی تھا کہ آپ نے واپس بلا بھیجا اور میں حضور ایدہ اللہ کی اجازت سے واپس چلا گیا اور بعد میں سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور ہمشیرہ بوزنیب بیگم صاحبہ دلہن کو دارا مسیح سے دار السلام لے گئیں.جو 66 حضرت نواب صاحب کا برات کے متعلق جو خیال تھا سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے رخصتانہ کے تعلق میں جو خط آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تحریر کیا اس سے ظاہر ہے اس میں تحریر فرماتے ہیں: میری تحقیق یہی ہے کہ مسنون طریق یہ نہیں کہ دولہا دلہن کو رخصت کرا کے لائے حرام میں نہیں سمجھتا ہاں سنت یہ نظر نہیں آتی...چونکہ شادی کو میں ایک مقدس چیز سمجھتا ہوں اس لئے اس میں میرا ایمان یہ ہے کہ مسنون طریق ہی ہونا چاہئے.“ بعد میں حضرت نواب صاحب برات کے طریق کو بھی اسلامی سمجھنے لگتے ہیں.اس موقعہ پر آپ نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ حضور کے نزدیک اگر یہ طریق مسنون ہے کہ دولہا سسرال کے ہاں دلہن کی رخصت کے لئے جائے تو اس پر عمل کیا جا سکتا ہے لیکن پیغام رساں نے جو بعد میں فتنہ پرداز ثابت ہوا اور مرتد مرا ادھورا پیغام دیا لیکن اس اثناء میں سیدہ محترمہ رخصت ہو کے آگئیں اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ سے فریقین کو ہر طرح محفوظ و مصون رکھا.فالحمد اللہ علی ذالک.
دعوت ولیمہ 294 دعوت ولیمہ کی بابت جو کوئی دار السلام میں کیا گیا معزر الفضل میں زیر عنوان "عدسة السمع مرقوم بقیہ حاشیہ: - رخصتانہ کے بارے میں محترم ایڈیٹر صاحب الفضل تحریر کرتے ہیں : رحمة الله وبركاته عليكم اهل البيت انه حميد مجيد مبارکباد ۲۲ فروری ۱۹۱۷ ء مطابق ۲۹ ربیع الثانی ۱۳۳۵ھ ہجری المقدس بروز پنچشنبه حضرت جناب صاحبزادی امتہ الحفیظ صاحبہ کی جن کا نکاح سے رجون ۱۹۱۵ء بروز دوشنبہ مکرم معظم خاں صاحب نواب محمد علی خانصاحب کے صاحبزادے میاں محمد عبداللہ خاں صاحب سے ہوا تھا.تقریب تو دریع عمل میں آئی.ہم خادمان الفضل نہایت خلوص قلب اور دلی مسرت کے ساتھ اپنی اور تمام جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بارگاہ عالی میں اور حضرت ام المومنین نیز حضرت قبلہ نواب صاحب کی خدمت اقدس میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس مبارک اور مسعود جوڑے کو صحت وعافیت کے ساتھ ہمیشہ خوش و خرم رکھے اور اپنے خاص انعامات کا وارث بنائے.ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل بڑھے پھلے پھولے اور پروان چڑھے.اللهم ربنا امين يارب العالمين ! خاندان رسالت کے دیگر معز ومحترم بزرگوں کی خدمت میں بھی نہایت جوش اور خلوص کے ساتھ اس تقریب سعید پر مبارکباد عرض کرتے ہیں“.۲۳۷ ایک مبارک شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری اور آخری صاحبزادی حضرت امتہ الحفیظ صاحبہ کا نکاح کے جون ۱۵ء کو بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں پندرہ ہزار مہر پر حضرت نواب محمد علی خاں صاحب قبلہ کے صاحبزادہ خان عبداللہ خاں صاحب سے ہوا.خطبہ نکاح کی عزت مولوی غلام رسول صاحب فاضل را جیکی کو ملی.الحکم کی طرف سے یہ غیر معمولی پر چہ شائع ہوا.غیر معمولی پر چہ الحکم مورخہ ۷/جون ۱۵ء جو بعد عصر شائع ہوا.
295 ہے ۲۳ و ۲۴ تاریخ جناب قبلہ نواب محمد علی خاں نے احباب قادیان کو اپنے صاحبزادے محمد عبد اللہ خاں صاحب کی دعوۃ ولیمہ دی.66 ۲۳۸ میہ : حضرت نواب محمد علی خاں صاحب اور حضرت مسیح موعود کے خاندان ایک رشتہ میں مبارکباد یہ روز کر مبارک شبـــحـــــان مــن يـــرانـــی نہایت مسرت اور دلی انبساط کے ساتھ یہ خبر شائع کی جاتی ہے کہ آج کے جون ۱۵ء کو بعد نماز عصر حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء مسیح موعود کی دوسری اور آخری صاحبزادی حضرت امتہ الحفیظ کا نکاح ساعت سعید میں حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی پہلی بیگم کے بطن کے دوسرے صاحبزادے سردار عبداللہ خانصاحب سے ہو گیا والحمد للہ علی ذلک.صاحبزادی امتہ الحفیظ خدا تعالیٰ کی پاک وحی دخت کرام کے معزز خطاب سے یاد کی گئی ہے اور قبل از وقت اس کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی اس لئے وہ ایک آیتہ اللہ ہے.حضرت مسیح موعود کیسا تھ صبری تعلقات خدائے تعالے کے خاص فضل اور برکات کا نشان ہیں اور یہ سعادت ازل سے حضرت نواب محمد علی صاحب اور ان کے صاحبزادہ عبداللہ خاں کیلئے مقدر تھی.بخشند ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے حضرت مسیح موعود کے ساتھ رشتہ کے رنگ میں فرزندی کے تعلقات کے حصول کی بیہودہ کوششیں بعض بدقسمتوں کے لئے ابدی محرومی کا موجب ہو گئیں مگر وہ خدا تعالیٰ کی نظر سے اس کے ہاتھ سے ممسوح اور معطر کئے ہوئے بندے کی فرزندی کے قابل روحیں تھیں، ان کے لئے آسمان پر پہلے سے لکھا گیا تھا.الحمد اللہ وہ نوشتہ پورا ہو گیا اس کے بعد اب دنیا کے آخر ہونے تک یہ سعادت کسی کو نہیں مل سکتی اس لئے کہ مسیح موعود آپ کا اور اس کی پاک اولا د جوخدا تعالیٰ کے نشانات ہیں ، ہو چکی.دنیا میں بہت نیک اور اعلیٰ درجہ کی خواتین ہونگی مگر حضرت ام المومنین کا درجہ حضرت مسیح موعود کے تعلق کے باعث حضرت میر ناصر نواب قبلہ کی بیٹی کے سوا اب نہیں مل سکتا.ایسا ہی مسیح موعود کی فرزندی کے شرف میں اب حضرت نواب محمد علی خاں صاحب اور سردار عبداللہ خاں صاحب منفرد ہو چکے.اس لئے اس عزت اور شرف پر میں ناظرین الحکم کی طرف سے حضرت نواب صاحب اور ان کے خاندان کو بہت بہت مبارکباد دیتا
شجرہ نسب 296 ذیل میں حضرت نواب صاحب کی اولا د شجرہ کی صورت میں دکھائی جاتی ہے.حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نے ۲۲ جنوری ۱۹۰۵ء کو حضرت نواب صاحب کو تحریر کیا.مکانات کا بنانا شیروانی کوٹ اور مالیر کوٹلہ میں آپ کے لئے رحمت بخش نظر نہیں آیا اور میرے لئے بھی خموشی بہتر ہے میں نے آج رؤیا دیکھی ہے کہ آپ کے مکانات بڑے بڑے سلسلہ میں بن رہے ہیں.یہ رویا جہاں فی بیوت اذن الله ان ترفع پر دلالت کرتی ہے اللہ تعالیٰ نے ظاہری رنگ میں اس طرح پورا کر دیا کہ آپ کو اس کے بعد کوٹھی دار السلام قادیان میں بنانے کا موقعہ ملا جو ہر لحاظ سے بابرکت ہوئی اور آپ کی اولاد میں سے متعدد کو قادیان میں کوٹھیاں میسر ہوئیں ذیل میں اولا د شجرہ میں ظاہر کی گئی ہے.مجرف جن کی تاریخ ولادت معلوم ہو سکی خطوط وحدانی میں درج کر دی گئی ہے.بعض جگہ الفضل میں مندرجہ تاریخوں سے اختلاف نظر آئے گا.سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ بعض اوقات وہاں صحیح تاریخیں شائع نہیں ہوئی ہیں.یہاں درج شدہ صحیح ہیں.بقیہ حاشیہ : ہوں کہ یہ بہت ہی بڑا انعام ان پر ہوا ہے وہ جسقد رسجدات شکر بجالائیں کم ہے اور حضرت ام المومنین اور حضرت مسیح موعود کے خاندان کے تمام ممبروں اور حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ کے خاندان کے تمام ممبروں کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے اپنے فضل و کرم سے اس رشتہ کو ہر قسم کی برکات اور فضلوں کا ذریعہ بنائے.آخر میں حضرت امام سید نافضل عمر کے حضور مبارکباد عرض کرتے ہوئے اپنے لئے درخواست دُعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت ان کے لئے مقدر کی تھی صاحبزادی امتہ الحفیظ کی آمین اور نکاح انکے ہاتھ پر ہوا.الحمد اللہ خاکسار یعقوب علی تراب (ایڈیٹر الحکم قادیان)
حضرت نواب محمد علی خاں صاحب از باطن محترمہ مہر النساء بیگم صاحبہ بنت مکرم بھاول خاں صاحب) بوزینب بیگم (۹۳-۵-۱۹) میاں محمد عبد الرحمن صاحب (۹۴-۱۰-۱۹) میاں محمد عبد اللہ خاں (۹۶-۱-۱) میاں محمد عبد الرحیم خان (۹۷-۱-۱۴) اہلبیت حضرت مرزا شریف احمد صاحب) (لاولد ) ( اولاد صفحه ۳۰۳ پر ) (لاولد ) مرزا منصور احمد (۱۱-۳-۱۷) مرز اظفر احمد (۱۳-۷-۱۰) مرز اداؤ داحمد ( ۱۴-۸-۲۰) صاحبزادی امۃ الودود صاحبزادی امۃ الباری بیگم صاحبزادی امتہ الوحید بیگم (۱۵-۱۰-۱۸) ( ۱۷-۱۰-۲۸) زوجہ میاں عباس احمد خاں ار بطن صاحبزادی ناصرہ بیگم البطن صاحبزادی نصیرہ بیگم البطن صاحبزادی نصیر و بیگم بنت حضرت خلیفۃ اسیح الثانی) بنت مرز ا عزیز احمد ) بنت میاں محمد عبد اللہ خاں) (مدفونه بہشتی مقبره ) لاولد صفحه ۳۰۳ پر ) (۳۱-۸-۳۵) صاحبزادی امتة صاحبزادی امۃ الناصر صاحبزادی امتہ المصور صاحبزادی امتہ المعزا الشافی (۴۴-۳-۵) (نومبر یا دسمبر ۶۴۵) (آخر فروری ۶۴۹) ( شروع اکتوبر ۶۵) صاحبزادی امۃ المومن صاحبزادی امتہ الصمد مرزا قمر احمد صاحبزادی امتہ الودود صاحبزادی امۃ الشکور (10-11-01) (۲۸-۹-۴۹) (۳۱-۳-۴۶) (۲۶-۷-۴۳) (۱-۳-۴۱) صاحبزادی امۃ الرؤف مرزا اور میں احمد صاحبزادی امتہ القدوس مرزا مغفور احمد مرزا مسرور احمد (۱۵-۹-۵۰) (۲۲-۸-۴۷) (۳-۲-۴۰) (۱-۴-۳۷) (۲۳-۸-۳۵) 297
حضرت نواب محمد علی خاں صاحب از بطن سیده نواب مبارکہ بیگم صاحبه ) + میاں محمد احمد خان (۱۰-۷-۱۱) صاحبزادی منصورہ بیگم (۱۱-۹-۲۷ ) میاں مسعود احمد خاں (۱۳-۴-۱۷) صاحبزادی محمودہ بیگم (۱۸-۸-۱۵) صاحبزادی آصفه مسعوده بیگم (۲۹-۹-۲) زوجہ مرزا نا صراحمد البطن صاحبزادی طیبہ صدیقہ بیگم (زوجہ ڈاکٹر مرزا منور احمد از بطن صاحبزادی امتہ الحمید بیگم بنت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) ابن حضرت خلیفہ اسیح الثانی) بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب) ابن حضرت خلیفہ اسیح الثانی) زوجہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد ابن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) میاں مودود احمد خاں صاحبزادی نصرت جہاں بیگم میاں منصور احمد خاں صاحبزادی امۃ الوسع رعنا ( الله - له - لدا ) ( الله - ۱۱- لدلله ) (۷-۹-۴۶) (۲۷ -۱-۵۱) مرزا الس احمد صاحبزادی امتہ الشکور صاحبزادی امتہ الحلیم مرزا فرید احمد مرز القمان احمد (۱۷-۴-۳۷) (اپریل ۴۰) (۲۹-۱-۴۳) (۴-۳-۵۰) میاں حامد احمد خاں صاحبزادی راشده مبارکه میاں محمود احمد خاں مرزا اکبر احمد طارق (۵۱-۹-۶) (۱۷-۱۲-۴۲) (۴-۱۰-۳۹) ۳۱-۳-۳۷) مرزا مبشر احمد مرزا مظہر احمد صاحبزادی امتہ الحی مرزا عمر احمد مرزا مظفر احمد ۷۸ - الله - لدالله (۱۰-۵-۴۶) (۱۷-۱۰-۴۷) (۶-۱۰-۵۰) (۷-۸-۵۲) 298
میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب ( از بطن سیّدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبه ) 299 میاں عباس احمد خاں صاحبزادی طیبہ آمنہ بیگم صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبزادی زکیہ بیگم صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبزادی شاہدہ بیگم میاں شاہد احمد خاں صاحبزادی فوزیہ بیگم میاں مصطفی احمد خاں (۲-۶-۲۰) (۸-۳-۱۹) (۳-۶-۲۱) (۲۳-۱۱-۲۳) (۲۰-۶-۲۷) از بطن صاحبزادی امتہ الباری بیگم زوجہ مرزا مبارک احمد ابن زوجہ مرزا منیر احمد ابن زوجہ مرزا منیر احمد ابن زوجہ مرزا مجید احمد ابن بنت حضرت مرزا شریف احمد صاحب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مرزا بشیراحمد صاحب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مرزا مجیب احمد صاحبزادی امتہ الباقی عائشہ (۱۶-۱۰-۳۹) (۱۶-۱۰-۵۰) صاحبزادی امتہ الحسیب (نومبر یا دسمبر ۶۴۴) مرز انصیر احمد (آخر نومبر ۴۸) (۳۱-۱۰-۳۴) (۱۹-۱۰-۳۵) (۲۲-۱۱-۴۱) (۱۰-۷-۴۳) نصرت جہاں بیگم ( حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھے تحریر فرمایا تھا کہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے امتہ الواسع نام رکھا (اپریل ۶۵۲) میاں جعفر احمد خاں میاں فاروق احمد خاں صاحبزادی با سمه منصوره ہے.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے اب تحریر فرمایا ہے کہ حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہا کی وفات کے بعد نصرت جہاں کر دیا گیا ہے.استفسار پر حضرت میاں صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ ایک رؤیا کی بنا پر جو عزیز مجید احمد نے دیکھا تھا نصرت جہاں رکھا گیا.“ (۲۴-۸-۵۱) ( ۴-۴-۵۰) (۲-۳-۴۹)
ڈیاسب ی آر چینی مرزا علی شیر نام مستعان المیه اول نواب صاحب ) - بچوں کا 300 حصہ نقشہ مقامات مقدسہ قادیانی اپنے شمال مشرق أ جنوب (9) مکاری ادیان ( متعلق نمبر 1) حصہ بارغ شمالی (۷) کنوان جنازه گاه حصہ بارغ جنوبی شدنشین (۳) دیوار -1 حالم دیوار چار دیواری مزار حضرت اقدس -۲ -۴ جس درخت سے قیام باغ میں چور باندھا گیا - -۵- نارنگی کے معجزہ کی جگہ (سیرۃ المہدی ) جہاں حضور نے ایام زلزلہ میں قیام کیا 11- ایام زلزلہ میں نواب صاحب کے کیمپ کی جگہ (صفحہ ۴۶) ( خام دیوار جو دکھائی گئی ہے ۴۷ء میں اس کی تعمیر شروع ہو کر ۴۸ء میں مکمل ہوئی
301 خلافت اولی میں فتنہ اختلاف حضرت نواب صاحب کے سوانح حیات کا جزو اعظم وہ معرکہ ہے جو تاریخ سلسلہ میں خلافت حقہ کے خلاف فتنہ انگیزی کہلاتا ہے چونکہ حضرت نواب صاحب نے اپنی استطاعت کے موافق اس فتنہ کے مقابلہ اور استیصال اور تمکین خلافت کے لئے صف اول میں کام کیا ہے.اور اس کے ذکر کے بغیر ان کی کتاب حیات کی تکمیل نہیں ہوسکتی اس لئے میں مجبور ہوں کہ ان حالات کو تفصیل سے بیان کروں اور اس لئے بھی کہ نئی نسل کو حقیقی واقعات سے آگاہ کیا جائے.میرا مقصد کسی شخص کی نیت پر حملہ کرنے کا نہیں اور نہ میں اسے اپنا حق سمجھتا ہوں.البتہ میں واقعات کو پیش کرونگا ان کو پڑھ کر ہر شخص صحیح رائے قائم کر سکے گا.میں واقعات بالاختصار بیان کروں گا.میں یہاں یہ کہہ جانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ فتنہ اسوقت کی صدرانجمن کے بعض اکابر سے اُٹھا.جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو گا.ابتدا کیوں کر ہوئی؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے بجر بعض کے عام طور پر جماعت کے قلوب کو اس امر پر جمع کر دیا کہ خلافت راشدہ کو قائم کیا جائے اور سلسلہ کی قیادت اور سیادت حضرت خلیفہ اسیح کی نامزدگی سے ہو جو بذریعہ انتخاب ہو.چنانچہ جیسا کہ آگے معلوم ہوگا بالاتفاق حضرت مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مسیح اول منتخب کر کے بیعت کر لی گئی.اور صدر انجمن کی مجلس معتمدین نے عام اعلان بیعت خلافت کر دیا اور خود بھی بیعت کر لی.مگر اس کے کچھ عرصہ بعد بعض نے جو اس وقت صدرانجمن حمد جو دوست ان حالات و مسائل سے مکمل واقفیت حاصل کرنا چاہیں وہ سلسلہ کے اخبارات کے علاوہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر منصب خلافت اور کتب برکات خلافت ،حقیقته النبوة، القول الفصل، انوار خلافت - حقیقتہ الامر.آئینہ صداقت.اظہار حقیقت اور حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی کتاب کشف الاختلاف اور حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب کی کتاب ”اہل پیغام کے بعض خاص کارنا ہے.“ اور مضمون بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی مندرجہ الحکم جوبلی نمبر بابت دسمبر ۱۹۳۹ء نشان رحمت نشان فضل پسر موعود تصنیفات حضرت پیر منظور محمد صاحب مطالعہ فرمائیں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے اعلان سے جو الفضل مورخہ ۵۱-۱۰-۲۸ میں اور بعد میں متعدد بار شائع ہوا ہے خلافت کے متعلق نئی پود کو واقفیت حاصل کرنا جس قدر ضروری ہے ظاہر ہے.
302 کے کرتا دھرتا اور لیڈر تھے محسوس کیا کہ ہم نے صحیح قدم نہیں اٹھایا اور اب اس اٹھے ہوئے قدم کو پیچھے ہٹانا بھی مشکل تھا اس لئے انہوں نے ایک مستقل منصوبہ کی بنیاد رکھی کہ خلافت کے اثر ونفوذ کو زائل کیا جائے.اور دراصل انجمن ہی کو تمام اختیارت کا اہل قرار دیا جائے.اس مقصد کے لئے جو پروگرام انہوں نے اپنے عمل سے پیش کیا وہ یہ تھا کہ صدرانجمن کے فیصلہ جات کو خلیفہ کے احکام پر حاکم قرار دیا جائے اس کی مثالیں آگے آئیں گی.وہ حضرت خلیفہ اُسی اول رضی اللہ عنہ کی ذات اور شخصیت پر تو کوئی حملہ نہ کر سکتے تھے.آپ کا علم.سلسلہ کے لئے آپ کی بے مثال قربانیاں ایسی نہ تھیں کہ کسی شخص کو بھی کوئی بات متاثر کر سکتی اس لئے اپنے عمل بیعت پر مشکوک طبقہ نے انجمن ہی کے ذریعہ اعتراضات کا منصوبہ سوچا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی عجیب بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کے بعد پیدا ہونے والے فتن سے اللہ تعالیٰ نے آگاہ کر دیا تھا.آپ کے الہامات اور کشوف کے پڑھنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے.نامناسب نہ ہوگا کہ میں ان میں سے بعض کا یہاں ذکر کروں.چنانچہ حضور فرماتے ہیں: -1 میں نے دیکھا کہ اپنی جماعت کے چند آدمی گشتی کر رہے ہیں.میں نے کہا آؤ میں تم کو ایک خواب سُنا ؤں مگر وہ نہ آئے.میں نے کہا کیوں نہیں سنتے.جو شخص خدا کی باتیں نہیں سنتا وہ دوزخی ہوتا -۲ ۲۳۹ اسی طرح بعض احمدی کہلا کر بد گمانی کی طرف دوڑنے والوں کی نسبت حضور تحریر فرماتے ہیں : و بعض بد قسمت ایسے ہیں کہ شریر لوگوں کی باتوں سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں اور بدگمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں.جیسے کتامُر دار کی طرف مجھے وقتاً فوقتاً ایسے آدمیوں کا علم بھی دیا جاتا ہے مگر اذن نہیں دیا جاتا کہ ان کو مطلع کروں.کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے.پس مقام خوف ہے.-٣ ۲۴۰ 66 اسی طرح جماعت میں پھوٹ اور اہل حق کے ساتھ نصرت الہی کی خبر حضور کو ان الفاظ میں دی گئی: ” خدا دو مسلمان فریق میں سے ایک کا ہوگا پس یہ پھوٹ کا ثمرہ ہے انی مع الا فواج آتیک بغته.انى مع الله الكريم طوفان آیا وہی طوفان شر آئی.“ مندرجہ بالا الہامات و کشوف میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کے بعد پیدا ہونے والے فتنہ اور اس کے پیدا کرنے والوں کے متعلق خبر دی گئی تھی اور بعض اکابر کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے آپ پر rm
303 بعض انکشافات کئے.ان کی تعبیر و تاویل ہر شخص اپنے خیال کے موافق کر لیتا ہے.لیکن دیکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ واقعات کس کی تائید کرتے ہیں.بعض اکابر سلسلہ کے متعلق مندرجہ ذیل رویا اور کشوف قابل غور ہیں.اگر یہ لوگ ایک مخالف خلافت محاذ قائم نہ کرتے تو ہم ان کشوف کا مطلب اور سمجھ سکتے تھے.لیکن جب انہوں نے الہی نظام کے خلاف ایک عملی منصو بہ قائم کیا تو یہ واقعات ان کی تائید نہیں بلکہ ان کے خلاف ہیں.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب کے متعلق حضور کے رویا سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے وہ صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے.اور دوسری رؤیا کے ساتھ ملا کر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بعد ازاں ان پر انقلاب آ کر ان کی مشابہت بشپ سے ہو جانی تھی.چنانچہ حضور فرماتے ہیں : میں نے دیکھا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم آ رہے ہیں.مولوی صاحب مرحوم نے ایک چیز نکال کر مجھے بطور تحفہ دی اور کہا کہ بشپ جو پادریوں افسوس مولوی صاحب اس حالت میں ۵۱-۱۰-۱۳ کو کراچی میں وفات پاگئے اور لاہور جسے یہ لوگ مدینہ قرار دیتے تھے.وہاں وفات پانے سے بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں محروم رکھا.ان کی وفات پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک پرائیویٹ خط مکرم امیر صاحب مقامی قادیان کے نام تحریر کیا جو درج ذیل ہے: مکتوب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بنام مکرم امیر صاحب مقامی قادیان.بسم الله الرّحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود مکرمی محترمی مولوی صاحب السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اطلاع ملی ہے کہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے امیر غیر مبائعین کراچی میں وفات پاگئے ہیں.ان کی عمر ۷۷ سال کے قریب ہوگی.جنازہ لاہور لایا گیا ہے.انا للہ وانا اليه راجعون.افسوس کہ مولوی صاحب کی وفات خلافت کے انکار پر ہوئی اور نبوت کے عقیدہ سے بھی وہ منحرف رہے.گو ممکن ہے کہ آخری وقت میں دل میں کوئی ندامت پیدا ہوئی ہو.بہر حال اب ان کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کو ان کے متعلق شروع میں ہی جو الہام ہوا تھا کہ لنمزقنهم پورا ہوا.کیونکہ غیر مبائعین میں سخت افتراق پیدا ہو چکا ہے بلکہ آخری چند ماہ میں تو کتابوں کے ٹرسٹ کے معاملہ میں یہ افتراق انتہا کو پہنچ گیا تھا.جس سے ڈر کر مولوی صاحب موصوف کو اپنی وفات سے چند دن پہلے ٹرسٹ تو ڑنا پڑا بلکہ معلوم ہوا ہے کہ مولوی صاحب کی ایک پرائیویٹ تحریر میں یہاں تک ذکر تھا کہ اس تفرقہ نے میری کمر توڑ
304 کا افسر ہے وہ بھی اسی سے کام چلاتا ہے.وہ چیز اس طرح سے ہے جیسا کہ خرگوش ہوتا ہے.بادامی رنگ.اس کے آگے ایک بڑی نالی لگی ہوئی ہے اور نالی کے آگے ایک قلم لگا ہوا ہے.اس نالی کے اندر ہوا بھر جاتی ہے جس سے وہ قلم بغیر محنت کے بہ آسانی چلنے لگتا ہے.میں نے کہا کہ میں نے تو یہ قلم نہیں منگوایا.مولوی صاحب نے فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب نے منگوایا ہو گا.میں نے کہا اچھا میں مولوی صاحب کو دے دوں گا.ایسا ہی جناب خواجہ کمال الدین صاحب کی جماعت سے دُوری اور حملہ آور ہونے کے متعلق حضور نے ایک رؤیا کا ذکر کیا.اگر چہ یہ رویا شائع نہیں ہوا مگر بہت سے لوگ اس کے گواہ ہیں اور حضرت مولانا مولوی بقیہ حاشیہ : - دی ہے اور میں شاید اس صدمہ سے جانبر نہ ہوسکوں.سو بعینہ وہی ہوا.اس تعلق میں مجھے بھی اپنا ایک رؤیا یاد آیا.غالباً ۱۹۱۴ء میں ہی میں نے دیکھا تھا کہ مولوی صاحب نے اپنے سر پر روٹیوں ( کا ) دکھا رکھا ہوا ہے اور اس وقت میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ فیــضــلَـبُ چونکہ ظاہری اور معروف صلیب تو اب ختم ہو چکی ہے اور مولوی صاحب کے متعلق اسے قبول بھی نہیں کرتی اس لئے اس کے معنی استعارہ کے رنگ میں ہی ہو سکتے ہیں اور وہ یہی کہ مولوی صاحب کسی معاملہ کے تعلق طبیعت میں گویا مصلوب ہو جائیں گے یعنی ان کی کمر ٹوٹ جائے گی.کیونکہ مصلوب کے معنی کمر کے ٹوٹنے کے بھی ہیں اور ٹرسٹ والے معاملہ میں بعینہ یہی صورت پیدا ہوئی.بہر حال افسوس ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پرانے صحابی کو یہ حالت پیش آئے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ روحانی کمال ہے کہ آپ کی صحبت کے طفیل مولوی صاحب کو بھی ( جو اپنے بعض معتقدات چھوڑ چکے تھے ) ظاہراً ساری عمر دینی مشغلہ کا انہاک رہا.نبوت اور خلافت میں صداقت کا رشتہ ترک کر دینے کے باوجود ان کے اندر حضرت مسیح موعود کی صحبت کے اثر کے ماتحت دینی کام کا جذبہ اس قدر راسخ ہو چکا تھا.کہ عملاً ساری عمر میں اسی کے لئے وقف رہے.دوستوں کو یہ خبر پہنچا دی جائے.اب اُمید نہیں کہ ان کے غیر مبائعین میں دینی خدمت اور دینی تنظیم کا ظاہری خاکہ بھی قائم رہے اور اگر قائم بھی ہوا تو غالباًا جلد مٹ جائیگا کیونکہ تمزیق کے آثارا اپنے پورے زور پر ہیں.فقط والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد !!
305 سرور شاہ صاحب نے اپنے رسالہ کشف الاختلاف میں اس کا ذکر کیا اور کسی نے اس کی تردید نہیں کی اور برکات خلافت میں شائع ہوا اور کسی کو انکار کی جرات نہ ہوئی.آپ نے فرمایا : میں نے دیکھا کہ خواجہ پاگل ہو گیا ہے اور مجھ پر اور مولوی ( نور الدین) صاحب پر مسجد کی چھت پر چڑھ کر حملہ کرنا چاہتا ہے.میں نے کسی کو کہا کہ اس کو مسجد سے باہر نکال دو مگر وہ خود ہی سڑھیوں سے نیچے اتر گیا.صدرانجمن کے یہی اکابر تمام کاروبار کو اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے اور رکھنا چاہتے تھے.ان کے نزدیک خلافت کا قیام ان کے مقام اور مرتبہ کو باقی نہیں رکھ سکتا تھا.یہ ان لوگوں کی غلط فہمی تھی ساری سعادت اور عظمت تو خلافت کی اطاعت سے وابستہ تھی.بہر حال انہوں نے کچھ ایسا ہی سمجھا.لیڈر یہی تھے باقی بعض احباب کے مقتدی تھے.اس لئے خصوصیت سے مندرجہ بالا کشوف میں ان کا ذکر آیا.اصل یہ ہے کہ ایک قسم کی سو ظنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آخری ایام میں شروع کی گئی ا.چنانچہ لدھیانہ کے ایک صاحب بابو محمد صاحب نے حضرت اقدس کو ایک خط لکھا جس میں آپ پر اسراف وغیرہ کا الزام تھا.اس کے جواب میں آپ نے ایک مبسوط خط لکھا جو الحکم میں انہی ایام میں شائع ہوا.قبل اس کے کہ میں اس کا ایک حصہ درج کروں ایک بات صاف کر دینا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ایک عجیب معاملہ ہوا ہے بعض لوگ جنہوں نے ابتدا میں بڑے اخلاص کا اظہار کیا اور آپ کی تائید کے لئے ہر قسم کی قربانی کی مگر ان کے اعمال میں معلوم ہوتا ہے کہ کو ئی مخفی نقص تھا جو بالآخران کے اندرونی گند کے اظہار کا باعث ہو گیا.مثلاً مولوی محمد حسین بٹالوی.اس نے براہین احمدیہ کی اشاعت کے وقت اس پر جور یو یولکھا وہ اس کا ایک شاہکار ہے.میر عباس علی صاحب کی خدمات اور اخلاص ضرب المثل تھا.ڈاکٹر عبدالحکیم خاں بھی ابتداء ایک جذ بہ اخلاص لیکر آیا.منشی الہی بخش.حافظ محمد یوسف اور منشی عبدالحق صاحبان یہ بڑے فدائی تھے اور اپنے رنگ میں دیندار تھے مگر پنہانی معصیت ایسی معلوم ہوتی ہے کہ آخر وہ کٹ گئے.بابو محمد صاحب سلسلہ کی مالی امداد میں پیش پیش تھے.مگر معلوم ہوتا ہے کوئی مخفی کبر تھا جس نے آخر ان سے یہ حرکت کروائی کہ معترضانہ خط لکھا.پس اس سے تعجب نہیں کرنا چاہئے.دراصل ربانی سلسلے کسی کے مفہوم از رساله کشف الاختلاف صفحه ۱۲ و برکات خلافت صفحه ۳۱ مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی درویش فرماتے ہیں کہ حضور کی یہ رویا حضور کے عہد مبارک میں ہی شائع اور متعارف تھی.مجھے خواب اچھی طرح یاد نہیں.
306 محتاج نہیں ہوتے.وہ تو بجائے خود ہر اس شخص پر احسان کرتے ہیں جس کو ان میں شمولیت کی تو فیق ملتی ہے.قرآن کریم سورۃ الحجرت کے آخر میں فرماتا ہے يَمُنُّونَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوا قُلْ لَّا تُمُنُّوا عَلَى ۲۴۳ إِسْلَامُكُمْ بَلَ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلإِيمَانِ إِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ تا ثابت ہو کہ الہی سلسلوں کا مدار انسانوں پر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید ہی اس کے نشو ونما کا ذریعہ ہوتا ہے.ہاں اس کا ظہور انسانوں کے لئے ہی ہوتا ہے.بدقسمت انسان خدمت کا موقعہ پا کر اتراتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس مقام پر گرا دیتا ہے.سو با بومحمد صاحب نے خط لکھا اور حضرت اقدس نے اس کا جواب دیا.اس جواب کو پڑھ کر ایک سلیم الفطرت انسان کی روح بول اُٹھتی ہے کہ یہ شخص صادق اور مُرسل من اللہ ہے.غرض وہ جواب جو حضرت نے دیا حسب ذیل ہے.میری نسبت آپ نے کی جماعت کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا تھا کہ روپیہ کے خرچ میں بہت اسراف ہوتا ہے.آپ اپنے پاس روپیہ جمع نہ رکھیں اور یہ روپیہ ایک کمیٹی کے سپر دہو جو حسب ضرورت خرچ کیا کرے.اور یہ بھی ذکر تھا کہ اسی روپیہ میں سے باغ کے چند خدمتگار بھی روٹیاں کھاتے ہیں اور ایسا ہی اور کئی قسم کے اسراف کی طرف اشارہ تھا جن کو میں سمجھتا ہوں.آپ نے اپنی نیک نیتی سے جو لکھا بہتر لکھا.میں ضروری نہیں سمجھتا کہ اس کا رد لکھوں.میں آپ کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں جس کو پورا کرنا مومن کا فرض ہے اور اس کی خلاف ورزی معصیت ہے کہ آپ کی تمام جماعتوں کو اور خصوصاً ایسے صاحبوں کو جن کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہوا ہے بہت صفائی سے اور کھول کر سمجھا دیں کہ اس کے بعد ہم....کا چندہ بکتی بند کرتے ہیں اور ان پر حرام ہے اور قطعاً حرام ہے اور مثل گوشت خنزیر ہے کہ ہمارے کسی سلسلہ کی مدد کے لئے اپنی تمام زندگی تک ایک حتہ بھی بھیجیں ایسا ہی ہر شخص جو ایسے اعتراض دل میں مخفی رکھتا ہے اس کو بھی ہم یہی قسم دیتے ہیں.یہ کام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جس طرح وہ میرے دل میں ڈالتا ہے خواہ وہ کام لوگوں کی نظر میں صحیح ہے یا غیر صحیح درست ہے یا غلط میں اسی طرح کرتا ہوں.پس جو شخص کچھ مدد دے کر مجھے اسراف کا طعنہ دیتا ہے وہ میرے پر حملہ کرتا ہے ایسا حملہ قابل برداشت نہیں.اصل تو یہ ہے کہ مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں اگر تمام جماعت کے لوگ متفق ہو کر چندہ بند کر دیں یا مجھ سے منحرف ہو جائیں تو وہ جس نے مجھ سے وعدہ کیا ہوا ہے وہ اور جماعت ان سے بہتر پیدا کر دے گا جو صدق اور اخلاص رکھتی ہوگی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے: بنصرك الله من عنده - ينصرك رجال نوحى اليهم من السماء یعنی خدا تیری اپنے
307 پاس سے مدد کرے گا.تیری وہ مدد کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ وحی کریں گے اور الہام کریں گے.پس اس کے بعد میں ایسے لوگوں کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بھی نہیں سمجھتا.جن کے دلوں میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں.اور کیا وجہ کہ اُٹھیں جب کہ میں ایسے ایسے خشک دل لوگوں کو چندہ کے لئے مجبور نہیں کرتا جن کا ایمان ہنوز نا تمام ہے.مجھے وہ لوگ چندہ دے سکتے ہیں.جو اپنے سچے دل سے مجھے خلیفہ اللہ سمجھتے ہیں اور میرے تمام کاروبار خواہ ان کو سمجھیں یا نہ سمجھیں.ان پر ایمان لاتے اور ان پر اعتراض کرنا ہو موجب سلب ایمان سمجھتے ہیں.میں تاجر نہیں کہ کوئی حساب رکھوں.میں کسی کمیٹی کا خزانچی نہیں کہ کسی کو حساب دوں میں بلند آواز سے کہتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو ایک ذرہ بھی میری نسبت اور میرے مصارف کی نسبت اعتراض دل میں رکھتا ہے اس پر حرام ہے کہ ایک کوڑی بھی میری طرف بھیجے.مجھے کسی کی پرواہ نہیں جب کہ خدا مجھے بکثرت کہتا ہے گویا ہر روز کہتا ہے کہ میں ہی بھیجتا ہوں جو آتا ہے.اور کبھی میرے مصارف پر وہ اعتراض نہیں کرتا تو دوسرا کون ہے جو مجھ پر اعتراض کرے ایسا اعتراض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی تقسیم اموال غنیمت کے وقت کیا گیا تھا.سو میں آپ کو دوبارہ لکھتا ہوں کہ آئندہ سب کو کہہ دیں کہ تم کو اس خدا کی قسم ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور ایسا ہی ہر ایک جو اس خیال میں ان کا شریک ہے کہ ایک حبہ بھی میری طرف کسی سلسلہ کے لئے بھی کبھی اپنی عمر تک ارسال نہ کریں پھر دیکھیں کہ ہمارا کیا حرج ہوا.اب قسم کے بعد میرے پاس نہیں کہ اور لکھوں.خاکسار مرزا غلام احمد “ ۲۴۵ محولہ بالا مکتوب میں حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کے اس بیان کی بھی تائید ہوتی ہے جو انہوں نے مولوی محمد علی صاحب کو مخاطب کر کے تحریر کیا ہے کہ گجرات سے کڑیا نوالہ کو جاتے اور واپس آتے ٹانگہ کے بیٹیس چھتیس میل کے سفر بھر میں خواجہ کمال الدین صاحب نے آپ کو مخاطب کر کے میری موجودگی میں حضرت اقدس پر مالی اعتراضات کئے اور کہا: پہلے ہم اپنی عورتوں کو یہ کہکر کہ انبیاء اور صحابہ ولی زندگی اختیار کر نی چاہئے کہ وہ کم اور خشک کھاتے اور خشن پہنتے تھے اور باقی بچا کر اللہ کی راہ میں دیا کرتے تھے.اسی طرح ہم کو بھی کرنا چاہئے.غرض ایسے وعظ کر کے کچھ روپیہ بچاتے تھے اور پھر وہ قادیان بھیجتے تھے.لیکن جب ہماری بیبیاں خود قادیان گئیں وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا تو واپس آکر ہمارے سر چڑھ گئیں کہ تم بڑے جھوٹے ہو ہم نے قادیان میں جا کر خود انبیاء اور صحابہ کی زندگی کو دیکھا ہے جس قدر آرام کی زندگی اور تعیش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے اس کا تو عشر عشیر بھی باہر نہیں.حالانکہ ہمارا روپیہ اپنا کمایا ہوتا ہے اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے وہ قومی
308 اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے.لہذا تم جھوٹے ہو جھوٹ بول کر اس عرصہ دراز تک ہم کو دھوکہ دیتے رہے ہو.اور آئندہ ہم ہر گز تمہارے دہو کہ میں نہ آویں گی.پس اب وہ ہم کو روپیہ نہیں دیتیں کہ ہم قادیان بھیجیں.اس پر خواجہ صاحب نے خود ہی فرمایا تھا کہ ایک جواب تم لوگوں کو دیا کرتے ہو.پر تمہارا وہ جواب میرے آگے نہیں چل سکتا.کیونکہ میں خود واقف ہوں.اور پھر بعض زیورات اور بعض کپڑوں کی خرید کا مفصل ذکر کیا اور مجھے خوب یاد ہے کہ اس طویل سفر میں آتے اور جاتے ہوئے ان اعتراضات کے باعث مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ غضب خدا نازل ہو رہا ہے اور میں متواتر دعا میں مشغول تھا.تیرا غضب جو نازل ہو رہا ہے اس سے مجھے بچانا ‘“ ”جناب کو یاد ہوگا میں نے جناب کو کہا تھا کہ آج مجھے پختہ ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گھر میں بہت اظہار رنج فرمایا ہے کہ باوجود میرے بتانے کے کہ خدا کا منشاء یہی ہے کہ میرے وقت میں لنگر کا انتظام میرے ہی ہاتھ میں رہے.اور اگر اس کے خلاف ہوا تو لنگر بند ہو جاوے گا.مگر یہ ( خواجہ وغیرہ) ایسے ہیں کہ بار بار مجھے کہتے ہیں کہ لنگر کا انتظام ہمارے سپر د کر دو اور مجھ پر بدظنی کرتے ہیں.“ ۲۴۶ مولوی محمد علی صاحب کا حضرت مسیح موعود کے گھر کو اپنا گھر نہ سمجھنا جب انسان ایک غلطی کا ارتکاب دانستہ یا نادانستہ کرتا ہے اگر چی تو بہ نہ کرے تو وہ اور آگے بڑھتا ہے سو ابتداء تو لنگر وغیرہ کے معاملات میں حضرت اقدس پر معترض ہوئے اور رفتہ رفتہ یہ مرض بڑھتا گیا.دراصل لنگر کے سوا باقی شعبہ ہائے تعلیم وغیرہ انجمن کے ہاتھ ہی میں تھے وہ اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور انتظامی نقائص کے حیلہ کے بغیر اس میں کامیاب نہ ہو سکتے تھے اور یہی ڈھنگ اُنہوں نے اختیار کیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ بالآخر جناب مولوی محمد علی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دار کو جہاں انہوں نے ہر قسم کا آرام اور اکرام پایا اپنا گھر نہ سمجھا.یہ الفاظ شاید قدرت ان کے منہ سے نکلوارہی تھی.کیونکہ وہ اُس گھر سے جو ان کے لئے دارالا من رہا نکل جائینگے.مولوی صاحب نے اپنی اہلیہ کی وفات پر خاندان مسیح موعود کے افراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر کیا کہ : ہاں سب برابر نہیں ہوتے.اگر کسی نے میرا احسن ہونے کے باوجود بجائے اظہار غم و ہمدردی کے کسی گذشتہ رنج کا اظہار اس وفات کے وقت کیا تو یہ شاید میرے لئے سبق تھا کہ دنیا کے کسی گھر کو اپنا گھر سمجھنا غلطی ہے.“ ۲۴۷
309 نواب صاحب کا بیان خواجہ صاحب کے متعلق یہ تمام بیان تو مجھے حضرت نواب صاحب کے سوانح حیات کے سلسلہ میں کرنا پڑا.نواب صاحب فرماتے تھے کہ انجمن کے بنتے ہی بعض ممبران اعتراض کی باتیں حضرت نانا جان مرحوم اور حضرت اماں جان کے متعلق کرنے لگے تھے.فرماتے تھے ان لوگوں کے دلوں میں نفاق کا بیچ پرانا تھا.فرماتے تھے کہ مقدمہ گورداسپور کے بعد ہی میں نے خواجہ صاحب کا رویہ بدلا ہوا پایا اور خیالات خراب ہوتے محسوس کر لئے تھے.اس سے پہلے کبھی ایسا محسوس نہ ہوا تھا.اور دہلی کے سفر کے بعد خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بہت ناگوار الفاظ استعمال کئے.اور لنگر کے اخراجات کے متعلق بھی یہ لوگ اعتراض کر دیتے تھے.فرماتے تھے کہ دہلی سے واپس آکر خواجہ صاحب نے کہا کہ اس شخص نے ہمیں وہاں بہت ذلیل کیا.گویا حضور کے متعلق ” اس شخص کا لفظ استعمال کیا.یہ اتنا سخت لفظ انہوں نے محض خادمات کے کام کے لئے باہر مردانہ میں چلے جانے وغیرہ چھوٹی باتوں پر مُنہ سے نکال دیا تھا.مرزا خدا بخش صاحب کی بیوی حضرت اماں جان کی حد سے زیادہ نقل کرتی تھی اور مرزا صاحب نواب صاحب سے کہتے کہ میرا خرج پورا نہیں ہوتا میں کیا کروں میری بیوی اماں جان کو جو کپڑے پہنے دیکھتی ہے وہی پہننے پر اصرار کرتی ہے؟ حالانکہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی دونوں بیویاں وہاں رہتی تھیں ان پر کوئی اثر نہیں تھا.ایک دفعہ حضور سے ذکر کیا گیا کہ ایک غیر احمدی عورت کہتی ہے کہ حضور بادام ، انڈے وغیرہ اچھی خوراک کھاتے ہیں تو حضور نے بہت غصہ سے فرمایا کہ کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نعمتیں اس کے پیاروں کے لئے نہیں ہیں ان لوگوں کے لئے ہیں؟ نواب صاحب فرماتے تھے کہ جب خواجہ صاحب نے سفر دہلی کے متعلق ان الفاظ میں اعتراض کیا تو میں کانپ اُٹھا اور قیام انجمن کے بعد میں نے محسوس کر لیا تھا کہ انجمن کی وجہ سے چونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں کام آ گیا ہے اس لئے اور تکبر پیدا ہو گیا (ن ) نیز فرماتے تھے کہ اماں جان سے ان لوگوں کو جو بعد میں کٹ گئے کافی نقار معلوم ہوتا تھا.جو ان کی باتوں سے ظاہر ہو جا تا تھا.اگر لباس یا کوئی زیور بن گیا اس کا ذکر کر کے علاوہ ازیں حضرت اقدس کے حضرت اماں جان کی دلداری کرنے اور خیال رکھنے پر بھی اعتراض کے رنگ میں بات کر دیتے تھے.حالانکہ ہم لوگ بھی گھر میں رہتے اور دیکھتے تھے کہ بجز صفائی اور شریفانہ.حسب حیثیت خوش پوشی کے کوئی تکلف نہ تھا کوئی قابل اعتراض اسراف کسی لباس اور زیور وغیرہ میں زیادتی یا انہماک ہم نے نہ تو دیکھا نہ سُنا بلکہ ساری معاشرت میں سادگی ہی تھی.اکثر یہ باتیں عورتوں سے چلتی تھیں.جو اپنے خاوندوں سے کہتی تھیں کہ بیوی
310 صاحبہ کے پاس فلاں چیز دیکھی.فلاں رنگ کا کپڑا دیکھا.تو وہ شاید اثر ڈالنے کو حضرت اماں جان کا نام لے لیا کرتی ہونگی لیکن ان کے خاوندوں پر الٹا اثر پڑتا تھا.(ن) نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ ستا زمانہ تھا.ریشمی ململ قادیان میں چار آنہ گز مل جاتی تھی اگر کسی خدمت گذار لڑکی کو جواکثر محض اخلاص سے کام کرنے والے لوگ تھے تنخواہ دار نوکر ہی نہ تھے.کسی خوشی کے موقعہ پر کپڑے بنوا دیئے گئے یا ان کو ان کی عزت کے مطابق شریفانہ لباس میں رکھا گیا تو اس پر بھی اعتراض کر دیئے جاتے تھے.ان باتوں کا نواب صاحب کے دل پر اتنا سخت اثر پڑا تھا کہ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ ان کو اعتراض کرنے کی عادت سے انتہائی نفرت تھی.وہ اس کو ایک خطر ناک مہلک علامت کہا کرتے تھے.جہاں کسی نے کسی دوسرے پر ڈال کر بھی گول مول الفاظ میں کوئی ایسی بات کی انہوں نے فورآمنہ بند کیا اور ان کو غصہ آجاتا تھا.اس تعلق میں بہت جوش سے کام کرتے تھے.اگر کوئی کہتا کہ لوگ کہتے ہیں تو بہت خفا ہوتے کہ لوگ نہیں کہتے.تم کہتے ہو.لوگوں کا نام لے کر بات کرنا اپنے نفس کی کمزوری ہے.اعتراض کرنے والے میں نے تباہ ہی ہوتے دیکھے ہیں میں اس علامت سے بہت ڈرتا ہوں.نواب صاحب خلافت کیلئے حد درجہ غیرت رکھتے تھے.جہاں بھی موقعہ ملتا ان مخالفین خلافت کے متعلق لکھنے یا زبانی بتانے سے نہ چوکتے تھے بیسیوں بارایسا موقعہ گھر میں آیا کسی لڑکے نے بات کی یا کسی غیر احمدی عزیز نے ہی پوچھنے کی خاطر ان لوگوں کے متعلق سوال کر دیا پھر جب تک انکی ہسٹری کھولکر نہ سُنا لیتے چین نہ آتا تھا.اس فتنہ سے وہ سخت متنفر تھے کہتے تھے کہ بعض کی فریب خوردہ ہونے تک تو خیر مگر جو لوگ ان میں سے سب کچھ جان کر محض ضد اور تعصب سے یہ ڈھونگ رچا رہے ہیں.مجھے تو ان پر غصہ آتا ہے.نواب صاحب اس فتنہ کی اصل جڑ محض ” حسد “ اور ”غرور جتلایا کرتے تھے کہتے تھے کہ اپنی ذات کی قیمت لگانے نے ان لوگوں کو ڈ بود یا ور نہ یہ کونسی بات نہیں سمجھتے.حضرت مسیح موعود کی تدفین کے چھٹے روز اس گروہ کی حالت حضور کے وصال پر اس گروہ کا بھی اس امر پر اتفاق تھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ منتخب کیا جائے اور یہ کہ بغیر خلیفہ کے جماعت کا گزارہ نہ ہوگا.لیکن انتخاب کے چھٹے روز کے متعلق ذیل کے بیان سے ان کی زود پشیمانی عیاں ہوتی ہے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ: ”ہمارے کرتے دھرتے اور اصحاب حل و عقد پھر قادیان تشریف لائے.شہر سے سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کو اور مولوی محمد علی صاحب اور بعض اور ہم خیال آدمیوں کو انہوں نے ساتھ لیا اور مزار سید نا اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جا کر دُعا کی کچھ دیر ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد شہر کو لوٹے مگر باغ کے شمال
311 مشرقی کونہ پر پہنچ کر خواجہ صاحب نے مغربی جانب رخ کر لیا اور ادھر اُدھر ٹہلنے لگے.ٹہلتے ٹہلتے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو مخاطب کر کے بولے: میاں ہم سے ایک غلطی ہو گئی ہے جس کا تدارک اب سوائے اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ہم کسی ڈھنگ سے خلیفہ کے اختیارات کو محدود کر دیں وہ بیعت لے لیا کریں.نماز پڑھا دیا کریں.خطبہ نکاح پڑھ کر ایجاب و قبول اور اعلان نکاح فرما دیا کریں یا جنازہ پڑھ دیا کریں.بس.☆" حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس امر کوسختی سے رڈ کیا اور کہا کہ خواجہ صاحب ! ہم کون ہیں جو خلیفہ کے اختیارات کی تقسیم کریں.خلیفہ بن جانے کے بعد وہ حاکم ہیں نہ کہ ہم.اب ہم کون ہیں جو ان کے اختیارات میں دخل دیں یا ان کو محدود کریں؟ اس پر خواجہ صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کو جا کر کہا کہ ”میاں سے تو نا اُمید ہو جاؤ.وہ تو اب ہمارے ہاتھ سے گیا.۱۳ / جنوری ۱۹۰۹ ء کا معرکتہ الآراء دن اور حضرت خلیفہ اول کے عزل کی کوشش جلسه سالانه ۱۹۰۸ء پر اس گروہ کے سرکردہ اصحاب نے اپنی تقریروں کے ذریعہ یہ امر جماعت کے ذہن نشین کرانا چاہا کہ صدرانجمن ہی خدا کے مامور کی مقرر کردہ خلیفہ اور جانشین ہے.مکرم عرفانی صاحب کبیر فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ آپ بھی تقریر کریں اور میں نے نظام قومی پر لیکچر لکھا.* نواب صاحب کے مکان پر خواجہ صاحب نے مجھے بلایا اور کہا کہ اپنی تقریر مجھے دکھا دو.میں نے کہا آپ لوگوں نے اپنی تقریریں مجھے دکھائی تھیں ؟ جو میں صحیح سمجھتا ہوں بیان کروں گا.ان کو خطرہ تھا کہ میری تقریر ان کی مساعی پر پانی پھیر دیگی.بہت رد و قدح ہوئی خود جناب محمد علی صاحب بھی موجود تھے.بالآخر میں نے کہا خواجہ صاحب الوصیت کو پڑھو.حضرت صاحب نے جن لوگوں کے متعلق الوصیت میں فرمایا ہے: ا.انجمن کے تمام ممبران ایسے ہوں گے جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوں اور مکرم عرفانی صاحب کبیر فرماتے ہیں ” حضرت خلیفہ اول کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کا دوسرا مصرعہ شاید وہ بھول گئے کہ یہ کام کیا کرے اور کھایا بھی گھر سے کرے.چونکہ حضرت خلیفہ امسیح اول اپنی ضروریات کیلئے انجمن سے کچھ نہ لیتے تھے اسلئے آپ نے اظہار نا راضگی کو اسطرح پر قومی کر دیا.“ (مؤلف) ہ و الحکم جوبلی نمبر ۲۹ نیز اس گفتگو کا ذکر آئینہ صداقت ۲۷اور ۱۲۸ پر یہی ہے.* یہ چھتیں صفحات کا لیکچر ۲۸ دسمبر ۱۹۰۸ء کو ہوا تھا اور اسی نام سے ۲۸ دسمبر کو ہی چھپ گیا تھا.(مؤلف)
312 پارسا طبع اور دیانتدار ہوں اور اگر آئندہ کسی کی نسبت یہ محسوس ہوگا کہ وہ پارسا طبع نہیں ہے یا یہ کہ وہ دیانتدار نہیں یا یہ کہ وہ ایک چال باز ہے اور دنیا کی ملونی اپنے اندر رکھتا ہے تو انجمن کا فرض ہوگا کہ بلا توقف ایسے شخص کو اپنی انجمن سے خارج کرے اور اس کی جگہ اور مقرر کرے.“ ان میں پہلے آپ ہوں گے.اس پر ڈا کٹر سید محمد حسین صاحب مرحوم سجدہ میں گر گئے اور باقی احباب کے چہرے بھی فق ہو گئے.قصہ کوتاہ نواب صاحب نے فرمایا کہ دکھا دو.کچھ حرج نہیں.وہ میرے محسن تھے میں نے لیکچر دکھا دیا.اور دو تین سطروں کے نکال دینے کی خواجہ صاحب نے خواہش کی.وہ مطبوعہ کاپی میں کٹی ہوئی ہیں.اور اظہا ر مطلب کرتی ہیں.عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے حضرت نواب صاحب کی صلح پسند فطرت کا پتہ لگتا ہے.غرض اس قسم کی چہ میگوئیوں کی بناء پر حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے کچھ سوالات حضرت خلیفتہ المسیح اول کی خدمت میں پیش کئے جن میں خلافت کے متعلق روشنی ڈالنے کی درخواست کی.حضور نے یہ سوالات مولوی محمد علی صاحب کے پاس جواب دینے کے لئے بھیج دیئے ان کا جواب حضور کو حیرت میں ڈالنے کے لئے کافی تھا.کیونکہ اس میں خلیفہ کی حیثیت کو ایسا گرا کر دکھایا گیا تھا کہ سوائے بیعت لینے کے اس کا کوئی تعلق جماعت سے باقی نہ رہتا تھا.حضور نے ان سوالات کی نقول جماعتوں کو بھی بھجوا کر جواب طلب کئے اور ۲۱ جنوری ۱۹۰۹ ء کی تاریخ مقرر کی کہ اس دن مختلف جماعتوں کے قائمقام قادیان میں مشورہ کے لئے جمع ہوں.اس موقعہ پر بیرونجات سے آنے والے اصحاب سے معلوم ہوا کہ انہیں یہ سمجھانے کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ اصل جانشین انجمن ہی ہے خلیفہ صرف بیعت لینے کے لئے ہے جماعت سخت خطرہ میں ہے.چند شریر اپنی ذاتی اغراض کو مد نظر رکھکر یہ سوال اُٹھا رہے ہیں اور جماعت کے اموال پر تصرف کر کے من مانی کارروائیاں کرنی چاہتے ہیں.چنانچہ لاہور میں خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنے مکان پر ایک خاص جلسہ کر کے سب سے دستخط لئے اور محضر نامہ تیار کیا.صرف دو دوستوں نے دستخط سے انکار کیا خوب تیاری کر کے خواجہ صاحب قادیان پہنچے.چونکہ دین کا معاملہ تھا اور لوگوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ اس وقت اگر تمہارا قدم پھسلا تو جماعت ہمیشہ کے لئے تباہ ہوئی.لوگوں میں سخت جوش تھا اور بہت سے لوگ اس کام کے لئے اپنی جان دینے کے لئے بھی تیار تھے.اور بعض صاف کہتے تھے کہ اگر حضرت خلیفہ اسیج اول نے خلاف فیصلہ کیا تو انہیں اسی وقت خلافت سے علیحدہ کر دیا جائیگا.باہر سے آنے والے خواجہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کی تلقین کی وجہ سے
313 تقریباً سب کے سب اور قادیان والوں کا ایک حصہ اس امر کی طرف جھک رہا تھا کہ انجمن ہی جانشین ہے اس روز کی اہمیت اور احباب کا کرب و اضطراب اس وقت کی اہمیت اور نزاکت کا اندازہ اس امر سے ہوسکتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ (خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) نے دُعائیں کر کے ان سوالات کا جواب لکھا آپ خلافت کی ضرورت کے عقلاً قائل تھے.لیکن طبیعت سخت بے قرار تھی آپ فرماتے ہیں کہ سب لوگ مُردہ کی طرح ہورہے تھے اور ہم میں سے ہر ایک اس امر کو بہت زیادہ پسند کرتا تھا کہ وہ اور اس کے اہل و عیال کو لہو میں پیس دیئے جائیں بہ نسبت اس کے کہ وہ اختلاف کا باعث بنیں.اس دن دنیا با وجود فراخی کے ہمارے لئے تنگ تھی اور زندگی با وجود آسائش کے ہمارے لئے موت سے بدتر ہو رہی تھی.میرا حال یہ تھا کہ جوں جوں رات گزرتی جاتی تھی اور صبح قریب ہوتی جاتی تھی کرب بڑھتا جاتا تھا اور میں خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑا گڑ گڑا کر دُعا کرتا تھا کہ خدایا میں نے گوایک رائے کو دوسری پر ترجیح دی ہے مگر الہی میں بے ایمان بنا نہیں چاہتا.تو اپنا فضل کر اور مجھے حق کی طرف ہدایت دے.میں نے فیصلہ کر لیا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے کچھ نہ بتایا تو جلسہ میں شامل ہی نہ ہوں گا.میری زبان پر قل ما يعبؤ بكم ربي لولاد عاء کم کے الفاظ جاری ہو کر اطمینان وانشراح حاصل ہوا.یہ رات بہتوں نے قریباً جاگتے ہوئے کائی اور قریباً سب ہی تہجد کے وقت سے مسجد مبارک میں جمع ہو گئے تا کہ دعا کر کے اللہ تعالیٰ سے استقامت چاہیں.اسقد دردمندانہ دعائیں کی گئیں کہ عرش عظیم ہل گیا ہو گا.سوائے گریہ و بکا کے اور کچھ سُنائی نہ دیتا تھا.نماز فجر کے وقت حضرت خلیفتہ امسیح اول کی آمد سے قبل خواجہ صاحب کے رفقاء نے پھر وہی سبق پڑھا کر اونچ نیچ سمجھائی.نماز میں سورۃ البروج کی تلاوت میں حضور جب اس آیت پر پہنچے کر إِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ اس وقت تمام جماعت کا عجیب حال ہو گیا یوں معلوم ہوتا تھا گویا یہ آیت اسی وقت نازل ہوئی ہے اور ہر شخص کا دل خشیتہ اللہ سے بھر گیا.مسجد ماتم کدہ معلوم ہونے لگی.باوجو دسخت ضبط کے بعض لوگوں کی چھینیں اس زور سے نکل جاتی تھیں کہ شاید کسی ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کی وفات پر بھی اس طرح کرب کا اظہار نہ کیا ہو گا خود حضور کی آواز بھی شدت گریہ سے رُک گئی اور کچھ اس قسم کا جوش پیدا ہوا کہ آپ نے پھر ایک دفعہ اس آیت کو دُہرایا اور تمام جماعت نیم بسمل ہوگئی.سوائے ازلی اشقیاء کے سب کے دل ڈھل گئے اور ایمان دلوں میں گڑ گیا اور نفسانیت بالکل نکل گئی.نماز کے بعد حضرت خلیفہ امی اول کی غیر موجودگی میں ان لوگوں نے پھر حضرت مسیح موعود کی ایک تحریر
314 دکھا کر سمجھانا چاہا کہ انجمن ہی آپ کے بعد جانشین ہے.لوگوں کے دل چونکہ خشیتہ اللہ سے معمور ہورہے تھے اور وہ اس تحریر کی حقیقت سے ناواقف تھے وہ یہ دیکھ کر کہ حضور نے صدر انجمن کی جانشینی کا فیصلہ کر دیا تھا اور بھی زیادہ جوش میں بھر گئے.جلسہ کے وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے حضرت صاحبزادہ صاحب ( خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ ) سے کہا کہ آپ حضرت خلیفتہ اسیح اول سے جا کر کہیں کہ اب فتنہ کا کوئی خطرہ نہیں رہا کیونکہ سب لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ انجمن ہی حضرت مسیح موعود کی جانشین ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے خاموشی مناسب سمجھی ، تو ڈاکٹر صاحب خود گئے اور عرض کیا کہ مبارک ہو سب لوگوں کو سمجھا دیا گیا ہے کہ انجمن ہی جانشین ہے.یہ سُن کر آپ نے فرمایا کونسی انجمن ؟ جس انجمن کو تم جانشین قرار دیتے ہو وہ تو خود بموجب قواعد کچھ حیثیت نہیں رکھتی.اس فقرہ کو سُن کر شاید خواجہ صاحب کے ساتھیوں کو پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ معاملہ ویسا آسان نہیں جیسا کہ وہ مجھے تھے.گوہر ایک خطرہ کو سوچ کر انہوں نے لوگوں کو اس امر کے لئے تیار کر لیا تھا کہ اگر حضرت خلیفتہ المسیح اول ان کی رائے تسلیم نہ کریں تو مقابلہ کیا جائے لیکن عموما یہ لوگ یہی خیال کرتے تھے کہ حضور ان کے خیالات کی تائید کریں گے.اب مسجد مبارک کی چھت پر دو اڑھائی صدا حباب جن میں سے اکثر احمد یہ جماعتوں کے قائمقام تھے جمع ہوئے اس دن آئندہ کے لئے امن کی بنیاد پڑنی تھی یعنی یہ فیصلہ ہونا تھا کہ احمد یت دنیا کی عام سوسائیٹیوں کا رنگ اختیار کرے گی یا رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی جماعت کا رنگ.حضرت خلیفہ اسیخ اول کے لئے مسجد میں جو جگہ تیار کی گئی تھی حضور نے وہاں کھڑے ہونے سے انکار کر دیا اور ایک طرف جانب شمال اس حصہ مسجد میں کھڑے ہو گئے.جسے حضرت مسیح موعود نے خود تعمیر کروایا تھا.اس تقریر میں آپ نے فرمایا کہ خلافت ایک شرعی مسئلہ ہے اس کے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی.مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ان لوگوں میں سے اگر کوئی مرتد ہو جاوے گا تو میں اس کی جگہ تجھے ایک جماعت دوں گا.خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کے جوابوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام نماز پڑھا دینا یا جنازہ یا نکاح پڑھا دینا یا بیعت لے لینا ہے.یہ جواب دینے والے کی نادانی ہے اور اس نے گستاخی سے کام لیا ہے.اسے تو بہ کرنی چاہئے ورنہ نقصان اُٹھائے گا.خواجہ صاحب اور محمد علی صاحب کی از سرنو بیعت لینا اور انکی باطنی حالت تقریر کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب اور حضرت نواب صاحب سے رائے دریافت کی.ان
315 دونوں نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی ان خیالات کے موید ہیں.حضرت نے خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کو دوبارہ بیعت کرنے کے لئے کہا اور مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو بھی اس لئے کہ شیخ صاحب نے بلا اجازت وہ جلسہ کیا جس میں خلافت کی تائید میں دستخط لئے گئے تھے ہیں نواب صاحب قادیان سے باہر گئے ہوئے تھے.حضرت خلیفہ اول نے انہیں تار دے کر اس موقعہ پر بلایا.جب حضور نے تقریر فرمائی تو تمام حاضرین روتے تھے.اور ان لوگوں (یعنی خواجہ صاحب وغیرہ) سے دوبارہ بیعت لی گئی.نواب صاحب بیان کرتے تھے کہ وہاں سے اتر تے ہوئے سیڑھیوں میں ہی مولوی محمد علی صاحب نے اعتراض کے رنگ میں کوئی بات کہی تو نواب صاحب نے کہا کہ ابھی تو آپ روتے تھے تو کہنے لگے کہ میں غصہ کی وجہ سے روتا تھا.ان لوگوں نے دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ہو نہار ہیں اور ان کے ایک وقت ان لوگوں سے بڑھ جانے کا امکان ہے اس لئے ذاتی طور پر مخالف ہو گئے اور بہت حسد کرتے تھے.نواب صاحب کہتے تھے کہ خلافت کے خلاف بغاوت کا بیج ان لوگوں کے دلوں میں حضرت مکرم عرفانی صاحب نے مجھے لکھا ہے کہ ” مجھے جب لاہور کے جلسہ کی کیفیت معلوم ہوئی تو میں نے قادیان کی جماعت کو اپنے مکان پر جمع کر کے اصل حالات سے واقف کر دیا.اور ان کو اپنی رائے کے اظہار کے لئے آزادی دی.دو کے سوا سب نے میری تائید کی اور میں ان آدمیوں میں سے ایک تھا جن کو حضرت خلیفہ اسیخ اول نے سوالات کا جواب دینے کے لئے مخصوص کیا تھا.میرے پاس جب سوالات اس مقصد کے لئے آئے تو میں سیدھا دارا سیخ میں پہنچا.جہاں ان ایام میں حضرت خلیفہ اول مقیم تھے اور ان سے عرض کیا کہ ان سوالات کا جواب تو آپ کو دینا ہے کہ خلیفہ اور انجمن کا کیا تعلق ہے.آپ نے میرے پاس کیوں بھیجے ہیں.فرمایا میں تو جواب دوں گا مگر میں تم لوگوں کے خیالات بھی معلوم کرنا چاہتا ہوں.تم نے کیا سمجھا ہے.میں نے کہا میرا جواب تو بہت واضح ہے اللہ تعالیٰ نے آدم کا واقعہ بیان کیا ہے اور ملائکہ کو اس کی فرمانبرداری کا حکم دیا خلافت کا مقام تو اتنا بلند ہے (کہ) انجمن اگر فرشتہ بھی ہو ( تو ) اسجدوا لآدم کا حکم ہے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا جواب ان سوالات کا لکھو اور مجھے دیدو.چنانچہ میں نے جوابات بالتفصیل لکھ کر دیدئیے.میرے خلاف تو خطرناک منصوبہ تھا کہ اس کو قادیان سے جلا وطن کر دیا جاوے.لاہور میں یہی طے ہوا تھا اور مجھے مکرم سید محمد اشرف صاحب نے اس کی اطلاع میرے گھر پر آ کر دی.اتبداء یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ سوالات کس نے کئے ہیں اس لئے وہ مجھ ہی کو اس کا بانی قرار دیتے رہے اور بعد میں اس حقیقت کے معلوم ہو جانے پر بھی کہا کہ اس ( یعقوب علی ) نے اپنے بچاؤ کے لئے حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ کو آگے کر دیا تھا.حالانکہ مجھے اس کی کچھ خبر نہ تھی جب تک حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے وہ سوالات مجھے نہ بھجوائے.(مولف)
316 مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پیدا ہو گیا تھا.نواب صاحب کے پاس صاحبزادہ صاحب گھنٹوں یہاں دار السلام آکر اس فتنہ کے متعلق باتیں کرتے تھے.پھر حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی معیت میں ۱۹۱۳ء میں شملہ آئے.تو وہاں بھی نواب صاحب سے اس بارہ میں بہت لمبی گفتگو ہوتی رہتی تھی.اس وقت صرف یہی خیال تھا کہ کسی طرح فتنہ دب جائے اور جماعت میں زہر یلا مواد پیدا نہ ہو.لوگوں کے ایمان سلامت رہ جائیں اور وہ صحیح عقائد پر قائم رہیں.کسی خاص خلافت کا وہم و گمان بھی اس فکر کے سامنے نہ آ سکتا تھا نہ آتا تھا.فریق مخالف کو ناحق کی بدظنی حسد کی بناء پر تھی.ایک خلیفہ کی زندگی میں ایسی بات زبان پر لانا ویسے بھی نواب صاحب کو اچھانہ لگتا تھا (ن) مولوی محمد علی صاحب کے متعلق نواب صاحب کے بیان کی تصدیق مولوی عبدالرحیم صاحب نیز کے بیان سے بھی ہوتی ہے.فرماتے تھے کہ بیعت کر کے نیچے اترتے ہی مولوی محمد علی صاحب نے خواجہ صاحب کو کہا کہ آج ہماری سخت ہتک کی گئی ہے میں اس کی برداشت نہیں کر سکتا.ہمیں مجلس میں جو تیاں ماری گئی ہیں.چنانچہ چند روز بعد حضرت صاحبزادہ صاحب کی موجودگی میں مولوی صاحب کا پیغام حضرت خلیفتہ امسیح اول کی خدمت میں آیا کہ وہ قادیان سے جانے کا ارادہ کر چکے ہیں کیونکہ ان کی بہت ہتک ہوئی ہے.تعجب کہ بعد ازاں خواجہ صاحب نے اپنی کتاب میں اس بیعت کو بیعت ارشاد اور علامت تقرب اور عزت افزائی قرار دیا اور یہ بھی تحریر کیا کہ اس موقعہ پر حضرت صاحبزادہ صاحب اور حضرت نواب صاحب سے بھی بیعت لی گئی تھی حالانکہ یہ امر خلاف حقیقت ہے.خُفیہ ریشہ دوانیاں اب ان لوگوں نے ظاہری مخالفت ترک کر کے خفیہ ریشہ دوانیوں کی راہ اختیار کر لی.چنانچہ صدر انجمن کے معاملات میں جہاں کہیں حضرت خلیفہ امسیح اول کے کسی حکم کی تعمیل کرنی پڑتی وہاں کبھی حضرت خلیفتہ امسیح نہ لکھا جاتا بلکہ یہ لکھا جاتا کہ پریذیڈنٹ صاحب نے اس معاملہ میں یوں سفارش کی ہے اس لئے ایسا کیا جاتا ہے تا کہ صدر انجمن کے ریکارڈ سے یہ ثابت نہ ہو کہ خلیفہ بھی انجمن کا حاکم رہا ہے.پھر مولوی حکیم مولوی فضل الدین صاحب بھیروی کے مکان کی فروخت کا معاملہ اٹھنے پر انجمن کی ان کا رروائیوں کے سلسلہ میں بلی کے بھاگوں چھینکاٹو ٹا کی مثال پیدا ہوگی.اس کی تفصیل تو آگے آئیگی اور ان واقعات سے پتہ لگے گا کہ اس مکان کی فروخت کی آڑ لیکر حضرت خلیفتہ امسیح اول پر قومی مال کے نقصان کا الزام پیدا کرنا چاہتے تھے تا کہ لوگوں میں بد عقیدگی پیدا ہو.کبھی کوئی الزام دیا جا تا اور کبھی کوئی اور علی الاعلان لاہور میں یہ ذکر اذکا رہتے
317 کہ اب جس طرح ہو حضور کو خلافت سے علیحدہ کر دیا جائے.عید قریب تھی ان واقعات کی اطلاع ہونے پر آپ نے انہیں قادیان بلوایا اور عید کے خطبہ میں انہیں جماعت سے نکالنے کا اعلان کرنے کا ارادہ کیا.چنانچہ اس موقعہ پر ان لوگوں کی جو قلبی کیفیت تھی وہ ذیل کے خطوط سے ظاہر ہے جو علی الترتیب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب و ڈاکٹر سید محمد محسین صاحب نے ۰۹-۹-۲۹ اور ۰۹-۱۰-۱ کو حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کو تحریر کئے : ”سر دست تو قادیان کی مشکلات کا سخت فکر ہے خلیفہ صاحب کا تلون طبع بہت بڑھ گیا ہے اور عنقریب ایک نوٹس شائع کرانے والے ہیں جس سے اندیشہ بہت بڑے ابتلاء کا ہے اگر اس میں ذرہ بھر بھی تخالف خلیفہ صاحب کی رائے سے ہو تو برافروختہ ہو جاتے ہیں.سب حالات عرض کیئے گئے مگر ان کا جوش فرونہ ہوا اور ایک اشتہار جاری کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں.آپ فرما دیں ہم اب کیا کر سکتے ہیں ان کا منشاء یہ ہے کہ انجمن کالعدم ہو جائے اور ان کی رائے سے ادنی متخالف نہ ہو مگر یہ وصیت کا منشاء نہیں.شیخ صاحب اور شاہ صاحب بعد سلام مضمون واحد ہے.“ قادیان کی نسبت دل کو بٹھا دینے والے واقعات جناب کو شیخ صاحب نے لکھے ہونگے وہ باغ جو حضرت اقدس نے اپنے خون کا پانی دے کر کھڑا کیا تھا ابھی سنبھلنے ہی پایا تھا کہ باد خزاں اس کو گرایا چاہتی ہے حضرت مولوی صاحب ( خلیفہ ایچ اول.ناقل ) کی محبت میں ضد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ دوسرے کی سُن ہی نہیں سکتے وصیت کو پس پشت ڈالکر خدا کے فرستادہ کے کلام کی بے پروائی کرتے ہوئے شخصی وجاہت اور حکومت ہی پیش نظر ہے.سلسلہ تباہ ہو تو ہو مگر اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات نہ ملے پر نہ ٹلے.وہ سلسلہ جو کہ حضرت اقدس کے ذریعہ بنایا تھا اور جو کہ بڑھے گا اور ضرور بڑھے گا وہ چند ایک اشخاص کی ذاتی رائے کی وجہ سے اب ایسا گرنے کو ہے کہ پھر ایک وقت کے بعد ہی سنبھلے تو سنبھلے.سب اہل الرائے اصحاب اپنے اپنے کا روبار میں مصروف ہیں اور حضرت مرزا صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کے مرتے ہی سب نے آپ کے احسانات کو بھلا دیا.آپ کے رتبہ کو بھلا دیا آپ کی وصیت کو بھلا دیا.اور پیر پرستی جس کی بنیاداً کھاڑنے کے لئے یہ سلسلہ اللہ نے مقرر کیا تھا قائم ہو رہی ہے اور مین یہ شعر مصداق اس کے حال کا ہے.بیکیسے شد دین احمد پیچ خویش و یار نیست ھر کسے درکار خود بادین احمد کا رنیست کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ بھائی یہ وصیت بھی کوئی چیز ہے یا نہیں؟ یہ تو اللہ کی وحی کے ماتحت لکھی گئی تھی کیا یہ پھینک دینے کے لئے تھی ؟ اگر پوچھا جاتا ہے تو ارتداد کی دھمکی ملتی ہے اللہ رحم کرے....حالات آمده از قادیان سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب فرماتا ہے کہ بمب کا گولہ دس دن تک چھوٹنے کو ہے جو کہ سلسلہ کو تباہ و
318 چکنا چور کر دے گا.اللہ رحم کرے.تکبر اور نخوت کی کوئی حد ہوتی ہے نیک ظنی کی ، نیک ظنی کی تعلیم دیتے دیتے بدظنی کی کوئی انتہاء نظر نہیں آتی.ایک شیعہ کی وجہ سے سلسلہ کی تباہی.اللہ رحم کرے.یا الہی ہم گنہگار ہیں تو اپنے فضل و کرم سے ہی ہمیں بچا سکتا ہے اپنی خاص رحمت میں لے لے اور ہم کو ان ابتلاؤں سے بچا لے.آمین.اور کیا لکھوں بس حد ہورہی ہے وقت کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص تائید الہی ہوتا کہ یہ اس کا سلسلہ صدمہ سے بچ جاوے.آمین.“ اس فتنہ صماء کے وقت جس کا مختصر ذکر آپ سابقہ اوراق میں پڑھ چکے ہیں جہاں ایسے فتنہ ساز اور اختلاف پرور لوگ جماعت میں موجود تھے وہاں حضرت رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بروز علیہ السلام کی جماعت میں مخلصین کی بھی کمی نہ تھی بلکہ اکثر حصہ مخلصوں پر ہی مشتمل تھا اور انہیں اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کی آگ سے اپنے فضل سے ہر طرح مامون ومصنون رکھا.ان بہی خواہان خلافت کی صفت اول میں حضرت نواب صاحب بھی تھے.جنہوں نے استحکام خلافت کے لئے پوری سعی کی.یہ امر حضرت خلیفتہ امسیح اول پر واضح تھا اور اسی لئے حضور نواب صاحب کی قدر فرماتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا شیخ رحمت اللہ صاحب تا جر لا ہور سے ان کی عمارت کا سنگ بنیا درکھنے کا وعدہ تھا.جس کے ایفاء کی خاطر باو جود علالت کے حضرت خلیفتہ اسیح اول لا ہور تشریف لے گئے وہاں آپ نے ایک تقریر میں فرمایا :.اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے.اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں.تم ان سے بچو.پھر سُن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے.پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا کو مجھ سے چھین ہے.“ اب سوال ہوتا ہے کہ خلافت حق کس کا ہے؟ ایک میرا نہایت ہی پیارا محمود ہے جو میرے آقا اور محسن کا بیٹا ہے.پھر دامادی کے لحاظ سے نواب محمد علی خاں کو کہہ دیں پھر خسر کی حیثیت سے ناصر نواب کا حق ہے یا ام المومنین کا حق ہے جو حضرت صاحب کی بیوی ہیں.یہی لوگ ہیں جو خلافت کے حق دار ہو سکتے ہیں.“ مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جو لوگ خلافت کے متعلق بحث کرتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ ان کا حق کسی اور نے لے لیا وہ اتنا نہیں سوچتے کہ یہ سب کے سب میرے فرمانبردار اور وفادار ہیں اور انہوں نے اپنا دعویٰ میرے سامنے پیش نہیں کیا.“ ہر دو خطوط آئینہ صداقت ۲۴ تا ۱۶۶ میں مندرج ہیں.
319 وو مجھے بدر کے ایک فقرہ سے بہت رنج ہوا ہے کہ کوئی مرزا صاحب کا رشتہ دار نورالدین کا مرید نہیں.یہ سخت غلطی ہے جو کی گئی ہے مرزا صاحب کی اولا د دل سے میری فدائی ہے میں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود، بشیر ، شریف ، نواب ناصر.نواب محمد علی خان کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا ! میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ میں ایک امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں ان کو خدا کی رضا کے لئے محبت سے ۲۴۹ عمارت کی بنیا در کھتے وقت اپنی تقریر میں فرمایا: ہم اس وقت حضرت صاحب کے خاندان کے پانچ آدمی موجود ہیں (خلیفہ مسیح.صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب.صاحبزادہ بشیر احمد صاحب صاحبزادہ شریف احمد صاحب.نواب محمد علی خاں صاحب ) اور میں نے کہا ہے کہ ساری قوم کا اس عمارت میں حصہ ہے میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ درد دل سے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو با برکت کرے..اب میں دعا کر کے ایک اینٹ رکھ دیتا ہوں.پھر میرے بعد صاحبزادہ مرزا محمود اور بشیر احمد اور شریف اور نواب صاحب دعا کر کے ایک ایک اینٹ رکھ دیں.یہ فرما کر آپ نے ایک اینٹ لی اور نہایت توجہ الی اللہ کے ساتھ دعا کر کے اسے ایک مقام پر رکھ دیا اور پھر صاحبزادہ صاحبان نے ارشاد کے موافق ایک ایک اینٹ رکھی اور بالآ خر نواب صاحب نے رکھی.اس موقع پر نواب صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا : دامادوں کے متعلق تو بڑی بڑی بحثیں ہوئی ہیں.اس لئے آپ ضرور دعا کر کے اینٹ رکھ دیں.میں دعاؤں کا بڑا معتقد ہوں...66 سنگ بنیاد کی تقریب جب حضرت (صاحب) فرمانے لگے تو صاحبزادگان کو بلا کر اپنے پاس کھڑا کیا اور پھر نواب صاحب ( جو پیچھے کھڑے تھے ) کو بلایا کہ آگے آؤ.ان میں ان کو کھڑا کیا.اور پھر خود گر سیاں لانے کے لئے حکم دیا اور ان چہار بزرگوں کو اپنے سامنے بیٹھنے کا حکم دیا.ان کو بیٹھنے میں تر ڈ دتھا کہ حضرت دیا خلیفہ امسیح کھڑے ہیں.فرمایا: میں تو تمہاری خدمت کرتا ہوں اور تمہاراہی کام کر رہا ہوں.تمہارے باپ کی جو میر انحسن اور آ تا ہے 66 میرے دل میں بڑی عظمت ہے آپ بیٹھ جاویں.افسوس صد افسوس کہ اس گروہ نے انہی امور کو اختیار کیا تھا کہ جن کے اظہار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
320 والسلام نے ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی کو مرتد اور خارج از جماعت قرار دیا تھا.اور اہلبیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن کو اللہ تعالیٰ نے مطہر قرار دیا تھا اور ان کی معیت کا وعدہ کیا تھا اور مبشر اولا د حضرت مصلح موعو ایدہ اللہ تعلی کی مخالفت پر کمر بستہ ہوا اوران کا شجر ایمان جسے عرصہ دراز سے گھن لگ پکا تھا آخر قیام خلافت ثانیہ پر نیچے آن گرا اور یہ لوگ ہمیشہ کے لئے جماعت سے الگ ہو گئے.حضرت خلیفہ المسیح اول اپنے عہد میں ان لوگوں سے نرمی پر نرمی اور عفو، در گذرا ور چشم پوشی کا سلوک کرتے چلے گئے کہ شاید کسی وقت ان کی اصلاح ہو جائے لیکن افسوس انہوں نے اپنے اندر پاک تبدیلی نہ کی اور اس جماعت کو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ پر جمع کیا تھا جسے اللہ کا ہاتھ کہا جاتا ہے اس گروہ نے اس میں تفرقہ پیدا کر دیا.اس حقیقت کو ایک حد تک وہ خط و کتابت واضح کرتی ہے جو حضرت صاحبزادہ صاحب (خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) اور حضرت نواب صاحب کے مابین ہوئی اور جسے میں یہاں بِأصلها درج کر دیتا ہوں اور اس پر میں خود رائے زنی کرنا نہیں چاہتا بلکہ اسے پڑھنے والوں کی ضمیر پر چھوڑ دیتا ہوں.ہاں اتنا میں نے ضروری سمجھا کہ بعض امور کی تکمیل بغرض تسلسل حاشیہ میں کر دی جائے.حضرت صاحبزادہ صاحب تحریر فرماتے ہیں: Qadian 9th Oct 1909 بسم الله الرحمن الرحيم مکر می نواب صاحب السلام علیکم.آپ کے خطوط گو برائے جواب نہ تھے اور آپ کی غرض جواب سے نہ تھی مگر میرا ارادہ تھا کہ میں جواب لکھوں.بوجہ کثرت کام کے جواب نہ دے سکا کیونکہ رمضان میں سونا بھی ایک کام ہوتا ہے پھر تعلیم الگ رہی.ہر روز ارادہ کرتا تھا مگر پھر رہ ہی جاتا تھا.یہاں تک کہ کل تو پکا ارادہ کر کے بیٹھا مگر آخر شام ہو گئی اور لکھنے کا موقعہ نہ ملا.آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ میں اعتکاف میں ہوں اور اس لئے اور بھی کم فرصتی ہوتی ہے.آج ارادہ تھا کہ آپ کا محبت آمیز عتاب نامہ ملا.اس لئے سب کام چھوڑ کر پہلے آپ کو اصل حالات سے آگاہ کرتا ہوں.خیر خیریت تو والدہ کے خطوط سے مل ہی جاتی ہوگی میرا ارادہ بھی اس معاملہ کے متعلق خط لکھنے کا تھا سنیئے.اس مکتوب کا چربہ دیا گیا تھا اس کا ایک حصہ اُڑ گیا اور دوبارہ مکتوب مل نہیں سکا اس لئے وہ حصہ بغیر چربہ کے درج کر دیا گیا ہے (مولف)
دفتر یا بیل کلی مابین دار البرکات و 321 15 14 رتی جھلہ راسته با این داراله ودار المرحم نقشہ نمبر مقامات مقدسہ قادیان شمال t مکان چہردین آشتیاز جنوب پیمانه..سوفٹ : ۱ اینچ ہندو محله و راسته بطرف دار الانوار 25 راسته بطرف لیل کلان
322 تفصیل حضه نقشه نمبر ۱۲ مقامات مقدسه نوٹ : نقشہ کے جس حصہ کا ذکر کتاب کے جس صفحہ پر آیا ہے اسے آخر پر درج کر دیا گیا ہے.-۱۴ مکانات حضرت مولوی شیر علی صاحب ( تعمیر شده در خلافت اولی ۱۵ مکان حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب موسومه به الصفة ( تعمیر شده در خلافت اولی) - ڈسٹرکٹ بورڈ سکول جس میں کچھ عرصہ تک حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ نے تعلیم پائی عرصہ تک اس مدرسہ کے مدرس کے سپر دڈاکخانہ کا کام بھی رہا (صفحہ ۱۳۸) ۱۷.اس عمارت میں جو مملو کہ حضرت ام المومنین نور اللہ مرقدھا ہے کافی عرصہ سے ڈاکخانہ منتقل ہو چکا ہے.مسجد اقصیٰ کے مشرق میں کچھ عرصہ ڈاکخانہ رہاوہاں سے نمبر۱۷ میں منتقل ہوا ۱۸ حضرت خلیفہ اسیح اول کے گھوڑے سے گرنے کی جگہ (حاشیه صفحه...) مکرم سید عبدالرحمن صاحب حال امریکہ نے ۷ جنوری ۵۲ کومکرم مرزا برکت علی صاحب اور خاکسار موئف کو گھوڑے سے گرنے کی یہ جگہ موقعہ پر دکھائی.اور بیان کیا کہ اس حادثہ کا میری طبیعت پر گہرا اثر ہوا اور اب تک اس کا نقشہ مجھے پوری طرح یاد ہے آپ نے ذیل کا تحریری بیان اس بارہ میں دیا: حضرت خلیفتہ امیج اول جب تنگ گلی میں سے گزر کر شیخ رحمت اللہ صاحب کوئلہ فروش کے مکان کے سامنے دروازہ کی جانب جنوب قریباً دس فٹ کے فاصلہ پر نالے کے نیچے پہنچے.تو وہاں ایک بڑا کھنگر پڑا تھا جس سے گھوڑی نے ٹھوکر کھائی اور حضور زمین پر آ رہے اور اسی کھنگر سے حضور زخمی ہو گئے.باہر سے کسی کی آواز آپ کے گرنے کے متعلق سن کر فوراً شیخ صاحب کی اہلیہ محترمہ گھر سے باہر نکل آئیں.میرحسین صاحب بریلوی میرے پھوپھا گلی کے سرے پر آتشباز مہر دین کے مکان کے ملحق رہتے تھے اور والدہ اور میں وہاں آئے ہوئے تھے اہلیہ محترمہ شیخ صاحب وہاں بھی بتانے آئیں.گھر میں مرد صرف میں ہی تھا.میں فوراً حضور کے پاس پہنچا تو حضور زمین پر گرے پڑے تھے اور اُٹھنے کی کوشش کر رہے تھے اتنے میں شیخ صاحب چار پائی لیکر آ گئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو مجھ سے پہلے علم ہو چکا تھا.اب چار پائی پر ڈال کر وہاں سے احباب لے گئے اب اس وقت کافی لوگ جمع ہو چکے تھے“
323 خاکسار کے استفسار پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دَرمَ ضُهُمْ تحریر فرماتے ہیں کہ : اس زمانے میں اس گلی میں اور اس کے قریب کھنگر پڑے ہوئے تھے.‘ اور حضرت عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ وہ گلی جو اسکول کو جاتی یا سکول سے الحکم سٹریٹ میں آتی ہے اس گلی سے آئے تھے اور شیخ رحمت اللہ کے گھر کے قریب گرے تھے.“ 19- قصر خلافت ( تعمیر شده در خلافت ثانیه) ۲۰ چاه چوک ہندو بازار -۲۱ مسجد اقصیٰ ۲۲ - منارة امسیح (۴۵۷) -۲۳ مکان ڈپٹی شنکر داس جو خلافت ثانیہ میں خریدا جا کر دفاتر صدرانجمن احمد یہ میں تبدیل ہوا.۲۴- بیت الذکر ( مسجد مبارک) -۲۵ مکان نواب محمد علی خاں صاحب جس میں سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا رخصتانہ ہوا ( صفحه ۲۵۳) - ۲۶- مکانات مرز امام الدین و مرز انظام الدین صاحبان وغیرہ ۲۷ مدرسہ تعلیم الاسلام و کالج بعد ازاں مدرسہ احمدیہ صفحہ...- و مدرسه...........۲۸- مکان مکرم ڈاکٹر غلام غوث صاحب حال مهاجر ربوہ (صحابی) ۲۹ مکان حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب حال مهاجر ر بوه ( صفحه.....مکان میاں محمد اسمعیل صاحب جلد بند مرحوم والد میاں عبداللہ صاحب جلد ساز حال مہاجر مغربی پنجاب ربوه (.......) ۳۱ پرانا اڈہ ۳۲- پنڈورہ خاکروباں ( دارالصحت ) ( صفحه.....)
324 جھگڑا تو آپ جانتے ہیں کبھی دبا ہی نہ تھا.صرف پر پر زہ سنبھالنے کے لئے ذراسی مہلت ڈھونڈی گئی تھی.ورنہ دلوں میں تو وہی بغض بھرا ہوا تھا.جب اپنے دوستوں میں ملے تو اور ، اور جب مولوی صاحب کے سامنے ہوئے تو اور ، جھگڑے بڑھتے گئے اور مولوی صاحب دباتے گئے.ہر دفعہ جب کوئی جھگڑا اُٹھتا تو مولوی صاحب کا ”مقدس‘ وجود الگ ہی رکھا جاتا تھا.اشاروں اور کنایوں میں باتیں ہوتی تھیں.مولوی صاحب خوب سمجھتے تھے مگر جیسا کہ آپ نے بارہا میرے سامنے بیان فرمایا آپ چاہتے تھے کہ آپ کی زندگی میں کوئی فساد نہ ہو اور آپ کا زمانہ با امن یا بظاہر امن کی حالت میں گزر جائے عمر مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی.مولوی صاحب کی خاموشی نے ان کو یہ موقعہ دیدیا کہ ریشہ دوانیاں برابر شروع رہیں اور ایک مدت سے یہ کارروائی شروع ہوئی کہ ایک معاملہ میں مولوی صاحب کی مخالفت کی مگر آپ کے کہنے پر فور أشرح صدر ہو گیا.کچھ دنوں کے بعد مان تو لیا مگر شرح صدر نہ ہوا.پھر ما نا مگر وجہ پوچھی کہ کیوں مانیں اور شرح صدر بتانے پر بھی نہ ہوا جب دیکھا کہ طاقت اور بھی مضبوط ہوگئی ہے تو پھر بظاہر تو کچھ عذر کر دیا مگر اندرونی طور سے مولوی صاحب کے برخلاف کام کیا.اس سے بھی بڑھے تو صاف الفاظ میں پریذیڈنٹ شپ کا نوٹس دیدیا.مولوی صاحب نے ڈانٹا تو صاف کہدیا کہ اصل خلیفہ ہم ہیں وہ ہوتے کون ہیں.جھگڑا بڑھا تو یہاں تک پہنچے کہ مولوی صاحب کی عقل ماری گئی ہے (نعوذ بااللہ ) یہ تو خلاصہ ہے اب اصل سنیے.آپ کے جانے کے بعد جھگڑوں نے اور بھی زور پکڑا اور اونٹ کی پیٹھ کا آخری تنکا حکیم فضل الدین صاحب کا مکان بنا.ایک شخص زمان شاہ نے کہا کہ یہ مکان ایک مصیبت کے وقت ہم نے حکیم صاحب کے پاس نو سور و پیہ کو بیچا تھا اب یہ ہمارے پاس دوبارہ فروخت کر دیا جائے.قیمت ساڑھے چار ہزار مقرر ہوئی.مولوی محمد علی صاحب نے تین ماہ کی مہلت پر اس سے فیصلہ ٹھہرایا.مولویصاحب نے سفارش فرمائی.کمیٹی میں بات پیش ہوئی.مولوی صاحب موجود تھے.جب اس معاملہ میں باہر کی رائیں دیکھنے لگے تو ایک رائے مولوی غلام حسین صاحب کی تھی جس میں مولوی غلام حسین نے لکھا تھا کہ یہ مکان تو بارہ ہزار کا ہے قوم کا روپیہ اس طرح کیوں ضائع کیا جاتا ہے.مولوی صاحب نے فرمایا کہ انہوں نے نہایت گستاخی سے کام لیا ہے میں نے سفارش کی ہے اور انہوں نے میری بیعت کی ہوئی ہے.پھر وہ اس بات کے معلوم ہونے پر اس گستاخی سے لکھتے ہیں.اگر مکان اس قیمت پر بکتا تھا.تو پھر اب تک بیچ کیوں نہ لیا اس لئے میں اب اس معاملہ پر رائے نہیں دیتا اور یہ کہہ کر آپ اُٹھ کر چلے گئے.مناسب تو یہ تھا کہ اس معاملہ کو برقرار رکھا جاتا.مولوی صاحب کے اس فیصلہ کو کہ اب میں رائے نہیں دیتا ایک آڑ بنا کر فیصلہ کر دیا کہ مکان اس کے
325 پاس نہ بیچا جائے.میں نے مخالفت کی آخر یہ فیصلہ ہوا کہ اچھا اگر پندرہ دن تک قیمت لا وے تو دیا جائے اور تین مہینہ والی مہلت فسخ کی جائے.اس کے بعد وہ شخص ساڑھے تین ہزار روپیہ اور پانچ سوروپیہ کی ایک ہنڈی لایا اور مولوی صاحب سے کہا کہ یہ روپیہ اور ہنڈی تو لو اور باقی روپیہ بھی میں جلد لاتا ہوں.ابھی مدت سے کچھ دن باقی تھے.مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہنڈی شاید وہ لوگ نہ لیں تم جا کر روپیہ ہی لاؤ.اور اگر ایک دو دن زیادہ بھی ہو گئے کچھ حرج نہیں وہ شخص گیا اور مولوی صاحب نے میرے سامنے مولوی محمد علی سے کہا کہ میں اس سے یہ کہہ بیٹھا ہوں.جس پر انہوں نے کہا کہ جب ساڑھے تین ہزار روپیہ دے گیا ہے تو پھر دس پندرہ دن کی بھی اس کو مہلت دے سکتے ہیں.خیر وہ شخص مدت کے ایک یا دو دن کے بعد آیا اور پانچ سو رو پید اور دے کر کہا کہ باقی پانچ سو بھی لاتا ہوں.اس کے دوسرے دن کمیٹی تھی.چونکہ یہ لوگ بار بار لکھ رہے تھے کہ قوم کا روپیہ تباہ کیا گیا ہے.اس لئے مولوی صاحب نے ناراضگی میں ان کو یہ لکھا کہ اگر ایسا ہی ہے تو اب مُدت گذر چکی ہے تم اس فیصلہ کو موقوف کر دو.اتنے میں حکیم فضل الدین صاحب کا بھائی آیا اور اس نے کہا کہ دونوں چیزیں یعنی مکان اور زمین ہمارے حوالہ کر دو اور دونوں چیزوں کی قیمت گیارہ ہزار پڑی.کمیٹی میں معاملہ پیش ہوا اور فیصلہ ہوا کہ اس کا سودا فسخ کیا جائے اور حکیم صاحب کے بھائی کے پاس فروخت کیا جائے.میں نے تو کہہ دیا کہ میں اس معاملہ میں کچھ رائے نہیں دیتا.جس پر ڈاکٹر سید محمد حسین بہت کچھ تلملائے کہ یہ تقوے کے برخلاف ہے.مگر میں خاموش ہور ہا اور کہہ دیا کہ خواہ کچھ ہو میں اس معاملہ میں کچھ رائے نہیں دے سکتا.خیر فیصلہ ہوا اور مولوی صاحب کو سُنانے کے لئے سب مل کر گئے میں تو نہ گیا.ایک کام کے لئے مولوی محمد علی کے کمرہ میں آیا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک لڑکے نے آ کر کہا کہ مولوی صاحب بُلاتے ہیں.گیا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگوں نے باوجود میری رائے کے جاننے کے پھر میرے برخلاف فیصلہ کر دیا اور مجھے سے پوچھا تک نہیں میں نے عرض کر دیا کہ میں نے تو اس معاملہ میں رائے نہیں دی.خیر پھر مولوی صاحب انہیں کہتے رہے کہ تم لوگ مجھ سے اس طرح سلوک کرتے ہو.مگر انہوں نے سُنا تک نہیں اور آگے سے خود ہی بولتے گئے.آخر جو کہ دیر ہوئی کچھ اسی لئے وہ لوگ چلے گئے.پیچھے مرزا یعقوب بیگ صاحب نے لا ہور سے خط لکھا کہ آپ ہمارے خلیفہ ہیں لیکن صرف پرائیویٹ طور کے اور ذاتی طور کے معاملات کے فیصلہ کے لئے ایک صرف پریذیڈنٹ ہونے کی حیثیت میں دیکھتے ہیں اور آپ کی کوئی حیثیت نہیں.اس پر بات اور....یہاں تک پہنچی کہ مولوی محمد علی نے حکیم فضل الدین صاحب کے سمجھانے پر کہا کہ فیصلہ ہم خود ہیں.ہم مولوی صاحب
326 کے کہنے پر ایک پیسہ بھی نہیں چھوڑ سکتے اور لاہور کے چھ ممبروں کی نسبت ایک معتبر آدمی نے لکھا کہ انہوں نے اس سے...پوچھا کہ سُنا ؤ قادیان کا کیا حال ہے.خدا تعالیٰ خلیفہ صاحب کی عقل پر رحم کرے اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ لوگ مشورہ کر رہے ہیں کہ کوئی اور خلیفہ مقرر کر لیا جائے اور مولوی صاحب کو معزول کر دیا جائے تا کہ خلافت والی بات بھی بنی رہے اور کام بھی ہو جائے.مولوی صاحب نے ارادہ کیا ہے کہ عید پر ایسا فیصلہ کریں گے.ارادہ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ممبر نکال دیئے جائیں اور خود مولوی صاحب کمیٹی سے علیحدگی ظاہر کریں تا کہ لوگوں کو دھوکا نہ لگے کہ خود مولوی صاحب بھی ممبر ہیں.خواجہ صاحب کا خط آیا تھا کہ میرے آنے تک معاملہ ملتوی رہے.مگر مولوی صاحب نے لکھا ہے کہ کیوں اپنے آپ کو ابتلاء میں ڈالتے ہو غرض حالت خراب ہے.خدارحم کرے.عجیب بات ہے کہ بہت سے لوگوں نے بڑی کثرت سے اس معاملہ کی بہت خواہیں دیکھی ہیں.واللہ اعلم بالصواب.اگر کوئی بات اور ہوئی تو وہ بھی تحریر کر دوں گا.اس وقت تک کے تو یہی حالات ہیں.آپ بھی ان واقعات کے کچھ نہ کچھ ذمہ دار ہیں.اگر ہم لوگ مصر تھے تو اس طرح تم میں ھیٹی تو نہ ہوتی نہ یوں فتنہ ہوتا.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد
327 معالم میں رائے نہیں دیا.خیر پھر مولوی جناب انہیں میسہ بھی نہیں چھوڑ سکتے.اور لاہور کے کا مجروں کا کہتے رہے کہ تم لوگ جلد سے الطرح سلوک کرتے ہو.مگر انہوں نسبت ایک امیر آدمی نے لکھا ہے کہ انہوں نے اس کے ہے نے مالک نہیں اور آئی یا خود ہی ب دیتے گئے.مردہ کر دیر بھی ہو کی کچھ آئی لئے وہ لوگ چلے گئے.پیچھے مرزا بعقوب بیاید یا پو چھا کہ سندا دا تا دیانت کا کیا حال ہے خدا تولی نے خلیفہ حجاب کیا تھکا و کرم کرے.اور یہ بھی لکھا ہے کہ ہ لوگ مشورہ صاحب نے لاہور کے خط لکھا کہ آپ ہماریے سلیقہ سے مکتی صورت پرائیوٹ فور کے اور ذاتی طور سے تومیں حالات کے بھید کر رہے ہیں کہ کوئی اور طبقہ ترک کر یا ان اردو اور مایہ مقرر کردیا کے لیئے آپ صرف پریذیڈنٹ ہو نیکی بہشت میں دیتے کو سفریال کردیا جائے تا کہ خلافت والی بات بھی بنی رہے اور کام بانی ہو جائے.مولوی صاحب نے ارادہ کیا ہے کہ پیر پیر امات اور انک انی که مولو امور این اے کی فضل الدین کے کھاتا ہے ایسا فصیلہ کرینگے.ادارہ کا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ میرو نکال دیئے کہا کہ بسیار کم فرو می کنم مولوی کے کہنے پر
328 کے علی ہو گی ظاہر کریں تا کہ لوگوں کو دو کھانے لگے کہ قصد مونوز صاحب بھی مجری که نوز به مرجب کا خط آیا تھا کہ کرہے آنتیک معاملہ ملتوی رہے گر مونو یا صاحب نے لکھا ہے کہ کیوں اپنے آپکو اینکا، میں ہی رہتے ہوں عریضی حالت خراب ہے مقداری رہے عجیب بات ہے کہ بہت سے لوگوں نے بڑی کثرت ہے اسی معاملہ کی محبت خدا میں گیلی ہیں بھی ، والله اعلم بالصواب.اگر کوئی بات کریں
329 محمدعلی خلیفہ مکتوب نواب محمد علی خاں صاحب بنام حضرت خلیفتہ اسیح نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم سیدی حضرت خلیفۃ امسیح علیہ السلام مکرم و معظم سلمہ اللہ تعالیٰ ہیں السلام علیکم.حضور کا والا نامہ دربارہ اس کے کہ حضور کے گوش گزار ہوا ہے کہ صدرا مجمن احمد یہ میں یہ بحث اٹھتی رہتی ہے کہ خلیفہ اور صدرانجمن کے با ہم کیا تعلقات ہیں اس کو صاف کرنا چاہئے.سواس کی بابت عرض ہے کہ جس شخص نے یہ بات کہی کہ انجمن میں خلیفہ اور انجمن کے تعلقات کی بحث اٹھتی رہتی ہے اس نے غلط بیانی سے حضور کی خدمت میں کام لیا ہے انجمن میں کوئی امر حضور جانتے ہیں بلاتحریر نہیں ہوتا اور حضور ایجنڈوں کو منگوا کر دیکھ سکتے ہیں کہ آیا کوئی ایسا ریزولیوشن انجمن میں پیش ہوا ہے کہ جس میں انجمن اور خلیفہ کے تعلقات کی صفائی چاہی گئی ہے اور چونکہ معلوم ہوا ہے کہ سوائے میرے حضور نے کسی کو تحریر نہیں فرمایا اس لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شکایت کنندہ نے مجھے کو اس کا بانی مبانی قرار دیا ہے.چونکہ اس معاملے میں سب سے پہلے مجھ سے خلیفہ اور انجمن کے متعلق ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب نے تذکرہ بعد وفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا تھا اور سب سے پہلا شخص جس نے اس معاملہ میں لب کشائی نا پسند کی تھی اور اس امر کو قوم میں سخت تفرقہ کا موجب قرار دیا تھا یہی عاجز تھا اور برابر اس پہلو سے بچتا رہا کہ کوئی اور میرے سبب سے تفرقہ کا موجب نہ ہو.چنانچہ جب یہ دیکھا کہ باوجود حضور کے احکامات اور وعظوں کے لوگ اس خیال کو نہیں چھوڑتے اور اب تک تفرقہ کی آگ بجھی نہیں بلکہ دب گئی ہے میں نے رفع فتنہ کے لئے انجمن میں جانا چھوڑ دیا تھا اور جب حضور قرائن سے یہ مکتوب دسمبر ۱۹۱۰ء کا معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس میں ذکر ہے کہ اب دسمبر میں حضور کی جگہ دوسرا میر مجلس مقرر ہوا اور آئینہ خلافت (صفحہ ۱۴۶) سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب (خلیفۃ اسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) حضرت خلیفتہ امسیح اول کی جگہ میر مجلس ۱۹۱۰ ء میں مقرر ہوئے تھے.دوسرے یہ کہ حضور کی شدید علالت میں مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی پر مشورہ کا ذکر ہے.اور آئینہ صداقت (صفحہ مذکورہ ) کے مطابق یہ مشورہ بھی ۱۹۱۰ء کے آخری مہینوں میں ہوا تھا جب حضور گھوڑے سے گر پڑے تھے.نواب صاحب کی ایک یادداشت میں مرقوم ہے کہ دسمبر۱۹۱۰ء سے حضرت مرزا محمود احمد صاحب میر مجلس مجلس معتمد بین صدرانجمن احمد یہ بحکم حضرت خلیفہ المسیح مولانا مولوی نورالدین خلیفہ اول مقرر ہوئے.“
330 نے کئی بار اشار تا میری انجمن کی علیحدگی کو نا پسند فرمایا.چنانچہ ایک روز حضور نے بحوالہ خط ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ خان صاحب محمد ذوالفقار علی خاں صاحب نے مجھ کو آج نہایت شرمندہ کیا کہ میرے بھائی محمد علی خان نہ دنیاوی کاموں میں حصہ لیتے ہیں اور نہ دینی کاموں میں.چنانچہ صدر انجمن میں بھی نہیں جاتے.اسی طرح پھر ایک موقعہ پر شرکت کو فرمایا.جب میں نے یہ دیکھا تو حضور سے دسمبر میں یہ عرض کیا کہ میں محض رفع فتنہ کے لئے اور اس لئے کہ ایک خیال کے آٹھ اصحاب تیرہ ممبروں میں سے ایک جانب ہیں اور اس طرح کثرت رائے ہمارے خلاف رہے گی.انجمن میں جانا ترک کیا ہوا ہے تو حضور نے فرمایا تھا کہ علیحدگی بہتر نہیں باقی کثرت سے نہ ڈرو حق کی تائید کرو.چنانچہ محض حضور کے حکم کی تعمیل میں انجمن میں جانا شروع کیا اب حضور خیال فرما سکتے ہیں کہ جب محض رفع فساد کے لئے انجمن میں شریک ہونا تک گوارا نہیں کیا تو پھر ہماری جانب سے یہ شر کس طرح پیدا ہوسکتا تھا.پس میں حضور کی خدمت میں دادخواہ ہوتا ہوں کہ حضور اس مفتری سے جس نے مجھ پر یہ افترا باندھا ثبوت مانگ کر اس کو سزا دیں اور اگر میراقصور ثابت ہو تو پھر مجھ کو سزا دیں.حضور خلیفہ ہیں اس معاملہ کی پوری تحقیق فرما کر قطعی فیصلہ فرما ئیں تا کہ پھر فتنہ پردازوں اور مفتریوں کو یہ موقعہ نہ ملے کہ اس طرح کسی پر افترا باندھیں.میں پھر دوبارہ صاف صاف عرض کرتا ہوں کہ انجمن میں کوئی ایسا معاملہ پیش نہیں ہوا جس میں انجمن اور خلیفہ کے تعلقات پر بحث کی گئی ہو یا کی جاتی ہو.اور جس میں میں محرک ہوں.پس حضور خدا کے لئے میری داد کو پہنچیں.حضور خوب جانتے ہیں کہ یہ انہی لوگوں کی شان ہے جو پہلے بار بار ایسی باتیں کرتے رہے ہیں اور پھر حیرت کہ حضور کے سامنے اپنے آپ کو بے لوث بھی ظاہر کرتے ہیں.حضور پر ظاہر ہے کہ اس سلسلہ میں جس قدر لوگ ہیں.ان کا کوئی تعلق دنیا وی نہیں اور اگر دوستی یا دشمنی یا اختلاف آپس میں ہے تو محض دین کے لئے ہے ورنہ دنیا وی دوستی دشمنی کے لئے پہلی برادریاں اور تعلقات کافی تھے تو پھر ہمارا کوئی اختلاف ہو دین کے سوا نہیں ہوسکتا تو پھر انجمن میں اگر کوئی بات ہوگی تو محض اپنے فرائض یا انجمن کے فائدہ کے متعلق ہوگی.اب یہ بات کہ اصل واقعہ کیا ہے وہ یہ ہے اور اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ جب سے خلافت کا جھگڑا چھڑا ہے اس وقت سے دو خیال کے لوگ کئی لوگ ہو گئے ہیں اور یہ قابل افسوس امر ہے کہ کیوں دو خیال اب تک باقی ہیں لیکن بد قسمتی سے ایسا ہے ضرور بعض کا خیال ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعد انجمن ہی خلیفہ ہے اور خلیفہ جو بنایا گیا ہے وہ ہمارا منتخب کردہ ہے اور اس کی اطاعت ہر بات میں ضروری نہیں.گو خلیفہ موجودہ کی بزرگی کی وجہ سے اس کو خلیفہ بنایا گیا.اور اس کی اطاعت کرتے ہیں یا اس کی سفارش مان لیتے ہیں مگر دراصل خلیفہ انجمن ہے اور آئندہ خلیفہ یا سرے سے نہ ہو یا اس کو ایسی وقعت نہ دی جاوے.اور بعد میں
331 جب حضور نے بار بار ایسے خیالات کے لوگوں کی بیعت لی اور سرزنش کر کے روکا اور قوم کو اپنا پورا ہم خیال نہ پایا تو بظاہر اتنے پر آگئے کہ واقع میں اتفاق قومی کے لئے ایک خلیفہ کی ضرورت ہے اور موجودہ خلیفہ کی اطاعت ہم بہر نوع کرتے ہیں.مگر عمل یہ رہا کہ حضور کو دسمبر تک میر مجلس ہی رکھا.جس کی وجہ سے حکیم فضل دین صاحب کے مکان کا جھگڑا پیدا ہوا اور حضور نے اپنی شفقت سے مجھ کو کراچی میں اس کی اطلاع دی تھی.اور اب دسمبر میں حضور کی جگہ محض حضور کے حکم سے دوسرا میر مجلس ہوا اور پھر اس تغیر سے لازمی تھا کہ قواعد پر اثر پڑتا اور جہاں حضرت مسیح موعود کا قواعد میں ذکر ہے وہاں خلیفتہ اسیح کا ذکر ہوتا مگر وہاں جوں کا توں یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر ہے یا انجمن کو خود مختار رکھا اور وہ نہیں چاہتے کہ خلیفہ سے وہ سلوک کریں جو انجمن حضرت مسیح موعود سے کرتی تھی اور وہ اپنے دائرے کو بڑھارہے ہیں صرف موقع کا انتظار ہے.دوسرے خیال کے لوگ وہ ہیں کہ جو بلالحاظ شخصیت اور بلالحاظ خلیفه موجوده یا آئندہ محض منصب خلافت کے ماتحت انجمن کو سمجھتے ہیں اورخلیفہ کو تمام قوم پر حکمران تسلیم کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ جو قواعد انجمن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق تھے.وہ قو اعداب نائب رسول خلیفہ اسیح کے متعلق بھی ہوں.پس ان دو خیال کا اب تک ہونا حضور پر ہویدا ہے کہ ان دو خیالوں کے لوگ موجود ہیں.اب جب حضور کے حکم سے دسمبر سے میں جانے لگا تو انہی دنوں میں انہی بعض اصحاب جو اول الذکر خیال کے اصحاب ہیں کی خلاف مرضی انتخاب ممبر اور انتخاب میر مجلس حضور کے حکم سے ہوا تھا اور اس سے یہ چڑے ہوئے تھے.چنانچہ میری موجودگی انجمن میں ان کو سخت شاق گزری اور بات بات پر کج بحثی کر کے جو کچھ انہوں نے مجھ کو ذلیل کیا وہ اگر ان سے حلف دے کر پوچھا جاوے تو شاید وہ بھی نہ چھپا سکیں.چنانچہ شیخ رحمت اللہ صاحب نے نہایت سخت الفاظ میرے متعلق استعمال کئے وہ اور بڑھ جاتے اگر میاں صاحب نہ روکتے.اس طرح بسم اللہ ہی غلط ہوگئی اور اس دن سے آج تک برابر جلسہ انجمن میں وہ سب یک زبان ہوکر وہ سلوک جو مجھ سے کرتے رہے ہیں جو ایک ذلیل سے ذلیل انسان کے ساتھ ہوتا ہے.جو باتیں محض پابندی مقواعد اور انتظام انجمن کے لئے کی گئیں اور جن کے خلاف ان کے پاس کوئی دلیل نہ تھی اور محض اس لئے کہ میں نے کیوں سیکرٹری یا بعض مہران انجمن کے عملدرآمد کے خلاف قواعد کی پابندی کی یک زبان بلا کسی استثنائی موقعہ کے گو یا قسم کھائی تھی کہ جو کچھ یہ کہے بس اس کے خلاف کرنا ہے.پس جہاں ان کے ایک ممبر ہم خیال کے منہ سے ایک بات نکلی اور سب نے یک زبان تائید کی.اس امر کے لئے کہ میرے خلاف کرنا ہے خواہ کچھ ہو فوری طور سے قواعد توڑے گئے اور نئے قواعد فوراً تجویز کئے گئے.اور ان کا اثر اگلی پچھلی سب کا رروائی پر ڈالا گیا..مجھ کو بالکل بیوقوف بنایا گیا کہ میں قواعد کے مفہوم کو نہیں سمجھتا.آخر میں نے ایک موقعہ پر خواجہ صاحب کو ہی حکم بنایا کہ جو کچھ میں کہتا
332.ہوں آپ ہی ایمان سے کہ دیں کہ میں غلطی پر ہوں تو اس پر خواجہ صاحب نے باوجود اس امانت کے سپرد کرنے کے باوجود یہ کہنے کے کہ جو کچھ تم کہتے ہو ٹھیک ہے اور اسی طرح ہونا چاہئے.پھر میرے خلاف ووٹ دیا اور فیصلہ مخالف کیا.مجھ کو افسوس نہ ہوتا اگر کثرت رائے کی وجہ سے فیصلہ میرے خلاف ہوتا.مگر ایسا شخص جس کو میں نے ایما نا فیصلہ چاہا تھا وہ اگر حق میری طرف جانتا تھا تو ووٹ تو میری طرف دیتا مگر باوجود حق میری جانب تسلیم کرنے کے پھر میرے خلاف رائے دی.اب حضور خود انصاف فرما ئیں کہ کیا یہ دیانت کی کارروائی ہے؟ پس میں اس حالت کو دیکھ کر حیران ہوا کہ وہ کون سا میں نے جرم کیا ہے کہ یہ سب میرے خلاف یک زبان ہو کر تل پڑے.آخر ان سے یہ کہا گیا کہ انجمن میں دھڑے بندی نہ چاہئے.ہاں اگر میں نے کوئی غلطی کی ہے تو مجھ سے اس کا جواب مانگا جاوے.قواعد کی رو سے بتلایا جاوے کہ قواعد کی خلاف ورزی کی وجہ سے میں قابل تعزیر ہوں.اس کا جواب نہیں.پس جواب یہی کہ قواعد ہم نے بنائے ہیں اب ہم اس قاعدے کو بدل دیتے ہیں.مگر حیرت کہ اس کی وجہ کیا کہ محض ایک آدمی کی تجویز کی وجہ سے سب کچھ جائز ونا جائز وسیلے ڈھونڈے گئے مگر اس کی وجہ کا پتہ مشکل سے لگتا تھا.چنانچہ شنبہ کو یعنی پرسوں انجمن میں نہ میری بلکہ میاں صاحب کی بھی یہی گت بنائی گئی اور معمولی سے معمولی بات پر ہم سے جھگڑتے رہے.گویا انہوں نے یہ فرض کر لیا ہے کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں وہ محض بدنیتی سے انجمن کے کام میں روڑا اٹکانے کے لئے کرتے ہیں.میں کل واقعات کہاں تک لکھوں اور بلا اظہار واقعات حضور پر اصلیت بھی نہ کھل سکے گی.مگر حضور ا تصنیع اوقات سامی کا ڈر ہے.ہمارے ساتھ بعینہ اس طرح وہ کا رروائی کرتے ہیں جس طرح نقل ہے کہ مہا راجہ کو سودائی بنانے کے لئے بعض ملازموں نے اتفاق کیا اور گورنمنٹ میں رپورٹ کی جس کی وجہ سے کمشنر صاحب اور ڈاکٹر آئے.جس وقت کمشنر اور ڈاکٹر عین دروازہ پر پہنچے راجہ ان کے آنے سے بے خبر تھا ایک چپراسی اس جرگہ کا راجہ کے پاس آیا اور اس کے کان میں نہایت گندی گالی نکال کر کہا کہ اب تو سیدھا ہو کر بیٹھنا اب کوئی سودائی والی بات نہ کرنا.کمشنر اور ڈاکٹر آتے ہیں.اب راجہ کو سخت غصہ آیا اور وہ اس کو پیٹنے لگا.اتنے میں کمشنر اور ڈاکٹر ( آگئے ) اور یہ چلانے لگا کہ حضور ہم سخت مصیبت میں ہیں.ہمارے ساتھ روز یہ گت ہوتی ہے.باوجود اس کے ہم نے حضور تک نہ پہنچایا بلکہ ہم سوچتے تھے کہ آیا حضور کے یہ واقعات پیش کریں کہ نہیں کیونکہ حضور ایسا خیال نہ فرمائیں کہ انہوں نے بزدلی اور بے حوصلگی سے کام لیا.چنانچہ کل بجٹ کے پیش ہونے پر کل ایک معاملہ میں ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب نے صاف لفظوں میں کہا کہ اگر آپ لوگوں کی نقل مطابق اصل.(مؤلف)
333 نیت صاف ہے اور یہ معاملہ آپ نیک نیتی سے پیش کرتے ہیں تو میں تائید کروں گا.چنانچہ خواجہ صاحب نے بھی صاف یہ کہا کہ ہماری اس میں مصلحت ہے کہ یہ معاملہ اسی طرح نہ ( ہو ) اور شیخ رحمت اللہ نے بھی تائید کی.مگر جب ہم نے کہا کہ چونکہ ہماری نیت پر حملہ کیا گیا ہے اور ہماری نیت کی بابت پہلے فیصلہ ہو جائے پھر ہم شریک ہو سکتے ہیں ورنہ ہم شریک جلسہ نہیں ہوتے اس کے بعد مولوی محمد علی افسوس ظاہر کرنے لگے کہ یہ غلطی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایسا کہا مگر ڈاکٹر صاحب نے اپنی بات کو واپس نہیں لیا اور نہ دوسرے مویدین نے.اب حضور خود انصاف فرمائیں کہ اس میں ہمارا قصور ہے یا دوسروں کا.وہ ایک جگہ ثابت کر دیں کہ ہم چار پانچ نے بھی کبھی یا دو نے بھی ایسا اتفاق کیا ہے جس طرح وہ ہمارے ذلیل کرنے کے لئے اتفاق کر کے فیصلہ کرتے ہیں.اور کل صاف انہوں نے ہماری نیت پر حملہ کر دیا گو پہلے اشار تا حملے کرتے رہے.اب حضور خود انصاف فرما ئیں کہ ان کو ہم سے کیا عنا دو اختلاف ہے اور ہمارا ان سے کیا اختلاف ہے اور کیا وجہ محض وہی لوگ ہمارے خلاف اتفاق رکھتے ہیں جو معاملہ خلافت میں خلاف تھے.اس سے صاف اور بین معاملہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہم محض اس جرم کے مجرم ہیں کہ ہم نے دربار خلافت کی تائید کی تھی اور اس کا بدلہ اس طرح نکالا جاتا ہے.اس کے سوا حضور خود غور اور انصاف فرما ئیں کہ کیا وجہ کہ محض ان لوگوں نے ہمارے خلاف ایکا کیا ہے جو خلافت کے بھی خلاف ( ہیں ) دوسروں نے اس طرح اتفاق کے ساتھ انکار نہیں کیا اور کل صاف طور سے ایکے کی وجہ انہی میں سے ایک نے ظاہر کر دی کہ تم صفائی نیت سے معاملات پیش نہیں کرتے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کو شبہ ہے یا یقین ہے کہ ہم محض ان کے خلاف ہیں اور ان کی عداوت کی وجہ سے یہ امور پیش کرتے ہیں حالانکہ اب تک جو معاملے پیش ہوئے ہیں وہ محض اختیارات عہدہ داران یا اور قواعد کی تشریح یا ان کی پابندی کے متعلق ہوئے ہیں.کوئی تعلق ان کا خلافت یا انجمن سے نہ تھا.پھر انہوں نے محض ارادتاً ہمارے خلاف کمر ہمت باندھی اور اگر حضور چاہیں تو اس کا ثبوت خود ایجنڈوں سے مل سکتا ہے.پس یہ ظاہر اور بین ہے کہ محض اس وجہ سے وہ ہمارے خلاف ہیں کہ ہم نے ان کی تائید خلافت کے معاملہ میں نہیں کی ورنہ وہ کون سا جرم ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے خلاف بالاتفاق تل پڑے.پس حضور خود انصاف فرما ئیں کہ عملاً خلافت کے مسئلہ کو وہ خود چھیڑتے ہیں یا ہم.زبانی تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خادم ہیں مگر عملاً پھر کیوں محض اس جرم کی وجہ سے ہم کو ذلیل کرتے ہیں.جب ان کے اس رنگ کو ہم نے دیکھا اور صاف ہم کو نظر آ گیا کہ محض خلافت کی وجہ سے یہ ہم سے کاوش رکھتے ہیں.اس لئے ان سے کہا گیا کہ جب ہمارے دلی خیالات کا اثر انجمن میں پڑ کر روز تو تو میں میں ہوتی ہے جو ٹھیک نہیں.پس پرائیویٹ طور سے ان اختلافات کی بابت با ہم تصفیہ کیا جائے تا کہ ہم پھر اسی طرح جس
334 طرح پہلے تھے ایک دل بھائی بھائی ہو جائیں.چنانچہ یہ امر قرار پایا کہ سب ایک جگہ اس معاملہ میں ابھی گفتگو کریں.مگر میں نے کہا کہ انجمن کو اس سے علیحدہ رکھنا چاہئے.انجمن سے باہر ہم آپس میں گفتگو کریں اور اختلافات کی بابت تبادلہ خیالات کر کے پہلے ان کو کھوئیں.اور پھر عملاً بھی کھودیں.اور سب کی گفتگو میں شاید ملال بڑھ جائے اس لئے پہلے میں اور خواجہ صاحب گفتگو کر لیں.اگر ہم دونوں کسی نتیجہ پر پہنچ سکے تو پھر سب مل کر فیصلہ کریں.چنانچہ خواجہ صاحب پرسوں میرے پاس رات کو آٹھ بجے آئے اور ان کو واقعات بیان کر کے کہا گیا کہ سوائے خلافت کے دراصل کوئی بڑا معاملہ اختلاف کا موجب نظر نہیں آتا تو پھر با وجود فیصلہ کے اب آپ کو ہم سے اس بارہ میں کیا اختلاف ہے تو انہوں نے ایک طرف تو یہ کہا اس معاملہ میں گفتگو کرنے سے حضرت خلیفہ اسیح نے روکا ہے.پھر ان سے کہا گیا کہ خیر یہ نہ ہی عملا اگر ہو کہ جن قواعد میں حضرت اقدس مسیح موعود کا نام تھا وہاں خلیفتہ امسیح علیہ السلام کا نام ہو کیونکہ اس طرح موجودہ حالات میں انتظام انجمن میں فساد بڑھ رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مامور تھے.اور ان کا حکم ہر ایک ( پر ) واجب التعمیل تھا جو خلیفہ کی حالت میں نہیں ہو سکتا.اور پھر یہ بھی کہا کہ خلیفہ موجودہ کی اطاعت ہم کریں گے آئندہ دیکھا جائے گا مگر قواعد میں ایسا کرنے سے ہم معذور ہیں اور پھر یہ بھی کہا کہ سوچیں گے اور قواعد میں تبدیلی نہ ہونے دیں گے.خلاصہ یہ کہ انہوں نے کوئی اختلاف نہ بیان کیا جس کی وجہ سے ہم قابل تعزیر ہیں.یہ ایک پرائیویٹ گفتگو تھی اور محض شرمنانے کے لئے تا کہ یہ بات جاتی رہے جو روز ایک دوسرے کو لڑاتی ہے اور محض اپنی عزت بچانے کے لئے تھا اور اخوت کو بڑھانے کے لئے کیونکہ خلافت کے جھگڑے سے پہلے ان کا ہمارے ساتھ یہ سلوک نہ تھا پھر اس کے بعد کیوں ایسا کرنے لگے ہیں؟ یہ واقعات ہیں جو بے کم و کاست حضور کی خدمت میں عرض کر دیئے ہیں اب آخر میں چند اور واقعات بھی عرض کرتا ہوں.اول جب حضور سخت خطرناک علیل تھے تو خواجہ صاحب نے بذریعہ ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی پر حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کو اور میر ناصر نواب صاحب کو بلا کر کہا کہ ہم آپ سے ایک بات کہتے ہیں وہ کسی دوسرے پر ظاہر نہ ہو.وہ یہ کہ ہم حضور کے خادم ہیں.اور میرا اور مولوی محمد علی صاحب کا کوئی خیال نہیں کہ ہم خلیفہ بنیں اور اگر خدانخواستہ مولوی صاحب کی دگرگوں حالت ہوتو آپ اتنا کریں کہ جب تک ہم نہ آئیں کوئی فیصلہ نہ ہو اور ہمارے آنے کا انتظار کیا جائے.اور ہم کو فوراً اطلاع دیں.اس پر میاں صاحب نے فرمایا کہ اس وقت ایسی باتیں میں سننا بھی نہیں چاہتا.پس میاں صاحب کو
335 خصوصیت سے بلانا صاف ظاہر کرتا ہے کہ اس سے مندرجہ ذیل نتائج پیدا ہوں....ایک یہ کہ میاں صاحب ان کے خیال میں خلافت کے متمنی ہیں دوسرے وہ ان کے خیال میں خواہش مند ہیں کہ کب خدانخواستہ حضور کا سایہ ہے اور کب یہ خلیفہ ہوں.پھر یہ کہ ہم مدعی خلافت نہیں.اب جائے غور ہے کہ اس کے اظہار کی کیا ضرورت تھی.اور پھر حضور کی موجودگی میں یہ امور ان کو کس طرح شایان تھے.پھر جب ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب انہی ایام میں علالت حضور میں میرے پاس آئے اور کہا کہ میں نے لاہور جانے کی اجازت لیتے وقت کہا کہ حضور کو لاہور سے کسی چیز کی ضرورت ہو تو فرمایا جاوے تو حضور نے فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ خدا مجھ سے راضی ہو جاوے اور تم اپنا عمل قرآن کے بموجب کرد وغیرہ وغیرہ تو ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ کیا یہی حضور کی وصیت ہے تو حضور نے فرمایا کہ ہاں یہی میری وصیت ہے.چنانچہ مجھ سے کہا کہ حضرت نے فرمایا ہے کہ حاضر غائب کو کہہ دے چنانچہ میں آپ کو پہنچا تا ہوں اور مجھ سے انہوں نے یہ صاف کہا اس کے بغیر حضرت کی کوئی وصیت یا تحریر نہیں اور آج یہ معاملہ صاف ہو گیا.اور ان کا اس وقت رنگ خلافت کے متعلق وصیت کا تھا.اور چنانچہ حضور نے وہ مضمون پڑھا ہوگا جو شائع ہوا.گو میں نے بدر میں بجائے وصیت کے نصیحت پڑھا.اب ان واقعات سے حضور غور فرمائیں کہ یہ لوگ خلافت کے مسئلہ کو چھیڑتے ہیں یا ہم ؟ اور تعجب یہ کہ الزام ہم پر.یہ وہی حالت ہوئی کہ چہ آفت است دزدے کہ بلف چراغ دارد.قصور ان کا اپنا اور الزام ہم پر.اور پھر حضور نے کبھی اس معاملہ کو ہمارے ذریعہ چھڑتا دیکھا سوائے اس کے کہ ان لوگوں کے ذریعہ چھڑے؟ پھر جب یہ تجربہ شدہ امر ہے پھر حضور ہم پر گلہ کیوں فرماتے ہیں؟ اس سے زیادہ بدبختی ہماری کیا ہو کہ وہ لوگ بھی ہم کو ذلیل کریں اور حضور کے بھی معتوب ہوں؟ حضور اللہ ہماری داد ( کو ) پہنچیں.اس سے زیادہ کیا سامعہ خراشی کروں کہ راقم محمد علی خاں لاہوری دوستوں کو ارشاد یہ کاپی پتھر پر جم چکی تھی اور کسی وجہ سے ۲ کی صبح کوچھنے کوتھی کہ ۲ کو ایک بجے کے قریب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت خلیفہ اسیح نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے اس سوال پر کہ آپ کو کوئی خواہش ہے کچھ ارشاد فرمایا ہے.میں جس وقت حضرت کے پاس پہنچا ہوں تو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مندرجہ ذیل مضمون بدر کے لئے لکھوا رہے تھے.میں نے اس کی اشاعت کو مقدم سمجھ کر آج اخبار کو روک کر اس مضمون کو پتھر پر سابقہ مضمون کو کاٹ کر لکھوا دیا ہے.ڈاکٹر صاحب نے حضرت صاحب کے جن الفاظ کو قلمبند کیا وہ آگے آتے ہیں.یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ سلسلہ کلام جیسا کہ احباب موجودہ نے بتایا جن میں خصوصیت
336 اسی طرح نواب صاحب نے تحریر کیا : بسم الله الرحمن الرحيم سیدی حضرت خلیفہ مسیح علیہ السلام مر معظم سلمکم اللہ تعالی.السلام علیکم کل شام حضرت صاحبزادہ بقیہ حاشیہ : - سے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کے علاوہ شیخ تیمور صاحب ایم.اے مولوی فضل دین ، میاں غلام حسین وغیرہ بہت سے دوست جمع تھے ایسے طور پر شروع ہوا جس سے حضرت صاحب کی صاف گوئی اور للہیت کی یہی عجیب مثال اس وقت پیش آئی ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ میں،خواجہ صاحب اور شاہ صاحب آج جاویں گے حضرت صاحب نے فرمایا کہ خواجہ صاحب نے جو ایک مضمون لکھا ہے اس کے خلاف کچھ کہنا چاہتا ہوں اس کے خلاف میرے دل میں کئی دن سے مضامین آرہے ہیں.اس وقت طاقت ہوتی تو لکھوا دیا (نقل بمقابق اصل.ناقل ) افاقہ ہونے پر کسی کو لکھا دوں گا یا سنا دوں گا.بہر حال حضرت نے اپنے ان کلمات کو ڈاکٹر صاحب کے استفسار پر مناسب موقعہ دیکھ کر جو فرمایا ہے.امید ہے قوم اس پر عمل کرے گی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے.آمین.حضرت کی یہ نصیحت ساعات عسر میں انشاء اللہ کام آئے گی.اس پر مفصل پھر لکھوں گا.وباللہ التوفیق‘ (ایڈیٹر ) خدا کا فضل ہے کہ دورہ ماشرہ (ری سپلس ) جو کہ دوبارہ چیرہ دینے کے بعد چہرہ پر ہو گیا تھا اب قریباً سب اتر گیا ہے اور بخار بھی اتر گیا ہے طاقت پہلے کی نسبت بہت اچھی ہے.غذا بھی خوب کھا لیتے ہیں ہوش وحواس بالکل درست ہیں اور ہر طرح سے بیماری رو بصحت ہے.آج قریباً ساڑھے بارہ بجے دن کے جب میں رخصت ہونے لگا تو میں نے پوچھا کہ حضور کا دل کس چیز کو چاہتا ہے آپ نے بجواب فرمایا کہ میرا دل یہی چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جاوے.پھر اس کے بعد فرمایا کہ میرا دل یہی چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جاوے پھر فرمایا کہ میرا اللہ راضی ہو.پھر یہ فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم فرمانبردار رہو.اختلاف نہ کر یو.جھگڑا نہ کرنا.پھر فرمایا میں دنیا سے بہت سیر ہو چکا ہوں.کوئی دنیا کی خواہش نہیں.مرجاؤں تو میرا مولا مجھے سے راضی ہو.فرمایا کہ سب کو سنا دو.پھر فرمایا میں دنیا کی پرواہ نہیں رکھتا.میں نے بہت کمایا.بہت کھایا بہت خرچ کیا.دنیا کی کوئی حرص باقی نہیں.پھر فرمایا میں نے بہت کمایا بہت کھایا.بہت لیا بہت دیا.کوئی خواہش باقی نہیں.کبھی کبھی صحت میں اس لئے چاہتا ہوں کہ گھبراہٹ میں ایمان نہ جاتا رہے.پھر بہت دفعہ دردانگیز لہجہ میں فرمایا کہ ( نوٹ از ایڈیٹر ) اس موقعہ پر حضرت کے دل میں ایسا جوش تھا کہ آپ بے اختیا ر روپڑے کہ اللہ تو راضی ہو جاوے.پھر کئی بار فرمایا اللهم ارض عنی اللهم ارض عنِّى - اللَّهُمَّ ارض عنِّی.اس کے بعد میں نے عرض کی کہ میں حضور کے الفاظ سنادیتا ہوں.جب دوبارہ یہاں تک سنا چکا تو
337 مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ حضور کو میرے عریضہ سے جو بجواب حضور کے والا نامہ بقیہ حاشیہ فرمایا مجھے شوق یہ ہے کہ میری جماعت میں تفرقہ نہ ہو.دنیا کوئی چیز نہیں میں بہت راضی ہوں گا اگر تم میں اتفاق ہو.سجدہ نہیں کر سکتا پھر بھی سجدہ میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں.میں نے تمہاری بھلائی کے لئے بہت دعائیں کیں.مجھے طمع نہیں.پھر فرمایا مجھے تم سے دنیا کا طمع نہیں مجھے میرا مولیٰ بہت رازوں سے دیتا ہے اور ضرورت سے زیادہ دیتا ہے خبر دار جھگڑا نہ کرنا.تفرقہ نہ کرنا اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا.اس میں تمہاری عزت باقی رہے گی نہیں تو کچھ بھی باقی نہ رہے گا.پھر فرمایا میں نے کبھی کسی کو حکم دیا ہے تو اپنے دلی طمع سے حکم نہیں دیا خدا کا حکم سمجھ کر دیا ہے.نمازیں پڑھو ، دعائیں مانگو، دعا بڑا ہتھیار ہے.تقویٰ کرو بس.پھر فرمایا دعائیں مانگو نمازیں پڑھو.بہت مسئلوں میں جھگڑے نہ کرو.جھگڑوں میں بہت نقصان ہوتا ہے بہت جھگڑا ہوتو خاموشی اختیار کرو اور اپنے لئے اور دشمنوں کے لئے دعا کرو.پھر فرمایالا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اکثر پڑھا کرو.قرآن کو مضبوط پکڑو.قرآن بہت پڑھو اور اس پر عمل کرو.پھر فرما یاد ضیت بالله ربا (و) بالاسلام دینا وبمحمد رسولا.اس کے بعد میں نے پوچھا کہ کیا یہ لکھ دیا جاوے کہ یہی حضور کی وصیت ہے فرمایا ہاں فرمایا جاؤ حوالہ بخدا.“ نوٹ.حضرت نے جیسا کہ ان نصائح کا طرز بیان بتاتا ہے عام طور پر یہ فرمایا اور محض ڈاکٹر صاحب کے کہنے پر جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے خود ہی لکھا ہے کہہ دیا کہ یہ وصیت ہے.یہ ایسی ہی وصیت ہے جیسی ایام جلسہ میں آپ نے فرمائی وَإِلَّا یہ امر صفائی سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ ایک جانے والے آدمی کو خطاب کر کے وصیت نہیں ہوتی.حضرت صاحب کا عام معمول ہے کہ جب کوئی دوست ان سے رخصت ہوا کرتا ہے کہ اوصیک بتقوى الله کہا کرتے ہیں.اسی طرح اب بھی انہیں خطاب ہے.پس یہ صرف عام نصیحت کے رنگ میں ہے.وصیت کے لئے آپ نے ایک اور مرتبہ پہلے فرمایا تھا.پس لفظ وصیت سے کوئی شخص دھوکا نہ کھاوے یہ سلسلہ کلام محض ایک خاص امر سے شروع ہوا اور یہ محض حضرت کی لاہوری دوستوں کو رخصتی نصیحت ہے.احباب وصیت کے لفظ سے گھبرائیں نہیں گو بظاہر یہ ڈاکٹر صاحب کو خطاب اور وصیت ہے تاہم سب کے لئے یہ اسوۂ حسنہ اور واجب العمل ہے.ہاں اس میں ہمارے لئے ہدایت اور نور ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے.آمین.“ (ایڈیٹر ) الحکم جلد ۱۵ نمبر ۳ صفحہ ۸ بابت ۲۱ جنوری ۱۹۱۱ء ) سوائے مکرم ایڈیٹر صاحب الحکم کے اپنے الفاظ کے باقی الفاظ نصیحت بدر جلد ۱۰ نمبر ۱۳ صفحہ۱ ۲ پر چہ ۲۶ / جنوری ۱۹۱۱ء میں بھی چھپ چکے ہیں.اس نصیحت سے قبل
338 کے میں نے لکھا تھا بہت رنج ہوا ہے.حضور کو معلوم ہے کہ میں نے انہی وجوہ سے انجمن میں شرکت بعد اس معاملہ خلافت کے چھوڑ دی تھی اور کنج عافیت میں بسر کرتا تھا.گزشتہ دسمبر سے محض حضور کے حکم سے پھر شریک ہونے لگا تھا اور جیسا کہ میرا خیال تھا پھر نا گوار امور پیش آگئے جو حضور کے رنج کا موجب ہوئے میں نے اس لئے عریضہ نہ لکھا تھا کہ فساد بڑھے بلکہ محض اپنی غلطی پر تنبیہ کا خیال تھا.اسی طرح میں نے عرض کیا تھا تا کہ جو کچھ میرے خیال میں غلطی ہو اس کی حضور اصلاح فرماویں تا کہ ان غلط خیالات سے اجتناب کیا جائے اور جو طریق ثواب ہو اس کو اختیار کیا جائے.مگر وائے برحال ما کہ بجائے اس کے کہ حضور ہماری غلطی سے متنبہ فرماتے یا خاموشی اختیار فرمائی یا اب موجب رنج ہوا اس حالت میں اب بھی مناسب خیال کرتا ہوں اور نہایت ادب والتجا سے عرض ہے کہ حضور اب مجھ کو اجازت فرمائیں کہ میں انجمن کی ممبری وغیرہ سے مستعفی ہو جاؤں تا کہ نہ دو خیال ہوں گے نہ کوئی جھگڑ پڑے گا اور نہ حضور کی ناراضگی کا موجب ہوگا.باقی انجمن میں شریک ہونا اور پھر جھگڑا نہ ہونا اس کی ایسی مثال ہے کہ درمیان قعر دریا تخته بندم کرده بازمی گوئی کہ دامن ترمشو ہوشیار باش بقیہ حاشیہ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے اس واقعہ سے چند روز قبل ایک وصیت لکھ کر شیخ محمد تیمور صاحب کے پاس امانت رکھوادی تھی تا کہ وفات کے وقت کھولی جائے.اور جیسا کہ جماعت کے احباب جانتے ہیں اس میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو خلیفہ بنانے کا ارشاد تھا.اس وصیت کو کالعدم کرنے کی خاطر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے جو کچھ کیا وہ محولہ بالا اقتباس سے ظاہر ہے." مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی فرماتے ہیں کہ یہ وصیت کہیں چھپی نہیں اور کچھ عرصہ بعد حضرت خلیفہ امسیح اول نے شیخ محمد تیمور صاحب سے لے کر تلف کر دی تھی.(مؤلف) * ڈاکٹر صاحب کے خیال کی تردید خود حضرت خلیفہ اول نے کر دی.چنانچہ اسی پر چہ الحکم میں (صفحہ ۱۰ کالم ۲ پر ) مرقوم ہے.۲۲ / جنوری ۱۹۱۱ء ۹ بجے رات.شیخ تیمور صاحب نے عرض کیا کہ حضور نے جو چند کلمات ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کو رخصت کرتے وقت فرمائے تھے ان کی نسبت کچھ شور ہوا ہے اور ڈاکٹر صاحب نے جو یہ کہا تھا کہ حضور کی یہی وصیت ہے اس کا بھی چرچا ہے.فرمایا کہ لوگ تو بے سمجھ ہیں.یہ تو چند ضروری باتیں تھیں.“
339 انجمن کے قواعد نہایت مجمل و مہمل اور حسابات و دفاتر کی حالت نہایت قابل اصلاح اور کثیر گروہ اصلاح کے خلاف.پھر اگر انجمن خلیفہ کے ماتحت ہے تو اصلاح کی اور صورت ہے.اور اگر انجمن خود مختار ہے تو اور صورت ہے.پس اس صورت میں یا تو مجھ کو اپنی غلطی کا پتہ لگ جائے جس کو میں صحیح سمجھتا ہوں اس پر لازمی ماً کار بند ہوں اور اگر باوجود اس کے کہ حضور مجھ کو میری غلطی سے متنبہ فرماویں پھر اس غلطی کا اعادہ کیا جائے تو پھر بے شک قصور وار ہوں مگر جب تک غلطی معلوم نہ ہو اور سمجھ میں نہ آجائے.پھر اس سے اجتناب مشکل اور جب انجمن میں ہر قدم پر اصلاح کی سخت ضرورت ہے ورنہ کسی سخت معاملہ کے پیش آنے کا اندیشہ تو اسی حالت ( میں ) اصلاحات ضروری اور ان میں مجبوراً لبعض ایسے امور آ جاتے ہیں کہ معاملہ ہو کیونکہ انجمن رجسٹرڈ ہے اگر رجسٹر ڈ نہ ہوتی تو ایسی دقت نہ تھی.پس بہتر یہی ہے کہ حضور از راہ الطاف وکرم مجھ کو انجمن سے مستعفی ہونے کی اجازت فرمائیں.( راقم محمد علی خاں) مکرم مقطع نواب و حمد السلام علیکم.الہ بھی اسے یہ نقل ہے امید ہے کہ اخبار کا بغیر ضمانت 0 اجازت ملجا لگی.انشاء الله خریدار کی زرقا ور بہت بہت ہے اور یک ایجنٹ کے بھیجنے کی اشد ضرورت ہے آپ سے نت فلام محمد کے مستحق ذکر کیا تھا
انا کو ضرور بھیجیں.لیکن وقدر جلد ہو سکے کیونکہ کے لئے بھیجے ہیں، 340 سکے بڑے بڑے شہر میں شاہ صاحب ایک ایک قود بال و وسط مادر ایک اینٹ دو دو دن ٹھہرتے ملے جائیں.زیادہ نہیں تمام پر جانا پارکت لیکن یہ باتیں ملحوظ تہی دست زکر کے جواگری کے روس سے دو سرونا و تہ دریاست روشی صاحب کو آپ اپنی طرف سے انفعال کی اس کر کے ایک دو دن میں سب کا پاکی چرمی میں میرا نہ , پھرما
341 خیال ہے کہ اول قبالہ - امر ستر - لاہور گوجرانوالہ ، جہلم.وزیر آباد - کلاه معاشی گجرات پر سیالکون اولینڈی اور پھر گجرات.اور پھر سیا لکوٹ جموں اور ان شہروں میں کوئی اور مناسب جگہ ہو تو اسمجھی جلد سے جلد ملکی وقت پر پھر بائیں.۴ - اس چکر کا انہیں اگر انفصال کی طرف سے غالباً زايد الاؤنس دیدیا جائے تو ظا لیا انکے لئے ایک محرک ہو جائیگا.اسیر بھی آپ غور فرمائیں حقد رجلد سوئے جائیں.سکتی کی چود دیگر آج الفضیل کی تیاری میں مشغول ہوں اسی کا در نہ زبانی کنگو ہوائی والله م نامی رسد محمد د احمد
342 نیم الدوائر حل یہ ہیم جوایا نواب صاحب نے تحریر کیا : ان الله العظم الله عليم م نے شہر ملکی اقدام کے بھیجنے کا انتظام کرنا تھا مگر ایک دار اپس نہ آئیں نہیں جا گے.اب آپ تجوریر اس کے کیا دیا.دو شیرین کا کچھ بال کی تیزی سے سلام مزایای رام لولی است وقت نے سب اسطاع لگاڑ دیا.وہ تشریفات ہر اوروہ خوست سے گئی ہیں اسکے لحلق عقاد کم از کم ایکا سے پیشتر بہانے سے منور کرتے ہیں گئے اور رہتے ہیں کہ تھے کہ وہ انکو دکان پر کر گئے ہیں اسلئے جنت کرده کا کرنا اور اب تو ٹھیک نہیری نه تور ایران کیا ہیں اور نہ ان کے اخراجات برداست اکیلے
" 343 ہیں میری کب ہو رہی تھی کہ کوئی کمی نہیں امان پیدا شد فرمائیے بعد ہی کوئی بند دست کر دے.8 آج تو خریدار اور بھی کی آنی سرا توقت تک کی 10 فرما ہوتے ہیں.الکی بھی کوئی الہ ترانے کی حکمت تر ہے منہ کی چھ امید ہے انشاء الله ہے؟ اختبارک اجرا میں ترقی ہو جائیگی فالک نواب صاحب کا ایک اہم مکتوب : بسم الله الرحمن الرحيم اخویم شیخ صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ مرزا محمود احمد دار السلام دار الامان قادیان - مارچ ۱۹۱۴ ء السلام علیکم.آپ کی تارپہنچی.اس سے قبل حضرت خلیفہ اسیح علیہ السلام یعنی صاحبزادہ مرزا بشیرالدین نواب صاحب کا یہ مکتوب الفضل جلد ۳۳ نمبر ۴۳ پر چه ۱۹ فروری ۱۹۴۵ء میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی طرف سے اس نوٹ کے ساتھ شائع ہوا تھا کہ مجھے مکتوب الیہ کا علم نہیں.خاکسار کے نزدیک ذیل
344 محمود احمد صاحب فضل عمر کے پاس بھی آپ کا تار اور خط پہنچا تھا.اور اس وقت میں وہاں موجود تھا اس لئے مضمون خط سے وہیں مجھ کو اطلاع ہو گئی تھی.گھر آنے پر میرے نام کا تار بھی ملا.معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس بہت بقیہ حاشیہ کے قرائن سے یہ مکتوب جناب شیخ محمد تیمور صاحب ایم.اے ( حال وائس چانسلر خیبر یونیورسٹی صوبہ سرحد مغربی پاکستان ) کے نام لکھا گیا تھا.1- اتنا طویل مکتوب نواب صاحب نے کسی ایسے شیخ صاحب کے نام لکھا ہوگا کہ جو جماعت میں معزز شمار ہوتے ہوں گے اور نواب صاحب نہ چاہتے ہوں گے کہ شیخ صاحب حالات سے ناواقف رہ کر بیعت خلافت ثانیہ سے محروم رہیں.سو واضح رہے کہ جناب شیخ صاحب ایسے ہی احباب میں شمار ہوتے تھے.چنانچہ ہم یہ مرقوم پاتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب (خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی سے منشی فرزند علی صاحب اور شیخ محمد تیمور صاحب ایم.اے درس قرآن پڑھتے ہیں ( بدر جلد نمبر ۳ صفحه و زیر مدینہ اسی ، پرچه ۷ ارنومبر ۱۹۱۰ء) نیز بوجہ اعزاز آپ کے متعلق مرقوم ہے " شیخ تیمور صاحب بھی یہیں تشریف رکھتے تھے شیخ صاحب کا حضرت خلیفتہ امسیح اول سے بہت تعلق تھا.مکرم مولا نا مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے مجھ سے ذکر فر مایا تھا کہ خلافت اولی میں ایک دفعہ ہمیں ہندوستان میں دورہ پر بھیجا گیا تو امیر وفد شیخ صاحب موصوف مقرر ہوئے تھے.-٣ ۲۵۲ ۲۵۱ ۲ نواب صاحب کے مکتوب بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ صاحب ( مکتوب الیہ ) کی موجودگی میں یا ان کی آمد سے قبل حضرت خلیفہ مسیح اول نے ۴ / مارچ ۱۹۱۴ ء کو آخری وصیت رقم فرمائی تھی.اور ہمیں الفضل سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ محمد تیمور صاحب اس ہفتہ قادیان آئے تھے.- لاہور میں مخالفین خلافت کی طرف سے ۲۴ مارچ ۱۹۱۴ ء کو جلسہ شوری منعقد کیا گیا.اس میں چار تاریں سنائی گئیں.جن میں سے دو شیخ محمد تیمور صاحب کی طرف سے تھیں ( الفضل جلدا خاص نمبر.پر چہ ۲۸ مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ۲) گویا کہ امر خلافت کو شیخ صاحب کے نزدیک اتنی اہمیت تھی کہ انہوں نے اس کی مخالفت میں لا ہور دو تاریں روانہ کیں اور نواب صاحب کے مکتوب میں بھی قادیان میں مکتوب الیہ کی طرف سے دو تاریں موصول ہونے کا ذکر ہے.۴.راقم کے استفسار پر شیخ محمد تیمور صاحب کی طرف سے دو خطوط موصول ہوئے جن میں انہوں نے تحریر کیا ہے کہ چالیس سال قبل کے واقعات یاد نہیں رہے انتخاب خلافت ثانیہ کے وقت میں قادیان میں نہیں تھا مجھے
345 سے غلط واقعات پہنچے ہیں جس نے آپ سے یہ تار اور خط لکھوائے اس لئے ضروری ہوا ( کہ ) میں نہایت صحیح واقعات جن کا مجھ کو مسیح علم ہے اور جس پر میں حلف بھی کر سکتا ہوں عرض کروں.وھو ھذا.آپ کے آنے سے پہلے غالبا وصیت لکھی جا کر میرے پاس بطور امانت حضرت خلیفہ مسیح علیہ السلام صدیق مرحوم مغفور یعنی مولانا مولوی نورالدین صاحب نے میرے سپرد کی ہوئی تھی جو حسب ذیل ہے.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى آله مع التسليم خاکسار بقائمی حواس لکھتا ہے لا اله الا الله محمد رسول اللہ میرے بچے چھوٹے ہیں ہمارے گھر مال نہیں ان کا اللہ حافظ ہے ان کی پرورش یا پرورش یامی و مساکین سے نہ ہو.کچھ قرضہ حسنہ جمع کیا جاوے لائق لڑکے ادا کریں یا کتب ، جائیداد وقف علی الاولاد.میرا جانشین متقی ہو.ہر دلعزیز عالم باعمل ہو.حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی و درگزر کو کام میں لاوے.میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ بقیہ حاشیہ پوری طرح یاد نہیں آیا علی گڑھ کالج سے جہاں میں لیکچرار تھا میں نے کوئی برقیہ قادیان ارسال کیا تھا.غالباً میں نے ایک برقیہ روانہ کیا تھا لیکن یہ بات مجھے بالکل یاد نہیں رہی کہ تارکس کے نام روانہ کی تھی.-۵- راقم نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے استفسار کیا تھا آیا شیخ حمد تیمور صاحب نے حضور کے خلیفہ منتخب ہونے پر کوئی تار حضور کو روانہ کیا تھا اور اس کا مضمون کیا تھا.حضور رقم فرماتے ہیں' یہ تا ر تھا کہ حد سے نہ بڑھو.اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ سے صلح کرو.یا ایسا ہی مضمون اور میں نے جواب دیا تھا کہ جو طریق آپ نے اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ دہریت تک جاتا ہے جس کا نتیجہ ایک ماہ میں انہوں نے خدا تعالیٰ سے انکار کر دیا.چربہ به ماری تھا کہ دو سے نہ بڑھو اور بولوں گھر علی صاحب یہیں سے صلح کر دیں کی مضمون اور ہیو نے جواب دیا تھا کہ طرفہ پورانا ایا کیا رات کا یم دہریت کا جاتا ہے جنکا نتیجہ ایک ماہ خدا تعالے سے انکار کر دیا.
ہووے.قرآن حدیث کا درس جاری رہے.346 گواه شد محمد علی خان ۱۴-۳-۴ گواه شد مرزا یعقوب بیگ ۱۴-۳-۴ اس بارہ میں موقر الحکم رقمطراز ہے.والسلام نورالدین - ۴ مارچ بعد اعلان گواه شد مرزا محمود احمد ۱۴-۳-۴ گواه شد محمد علی /۴ / مارچ ۱۹۱۴ء کو بعد نماز عصر یکا یک آپ کو ضعف محسوس ہونے لگا اسی وقت آپ نے مولانا مولوی سید سرور شاہ صاحب کو حکم دیا کہ قلم دوات لاؤ.چنانچہ سید صاحب نے قلم دوات اور کا غذ لا کر آپ کی خدمت میں پیش کیا آپ نے لیٹے ہوئے ہی کاغذ ہاتھ میں لیا اور قلم لے کر لکھنا شروع کیا اس وقت بہت سے احباب مثلاً مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، مولوی سید سرور شاہ صاحب ، قاضی سید امیرحسین صاحب،نواب محمد علی خاں صاحب، میاں عبدالحی صاحب، حضرت صاحبزادہ ڈاکٹر حافظ خلیفہ رشید الدین صاحب اور بہت سے بھائی قریباً جماعت قادیان کے سب لوگ موجود تھے اور باہر سے بھی میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور.حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسے اور منشی محبوب عالم صاحب، چوہدری چھچھو خاں صاحب ملازم محکمہ جنگلات.....و غیر ہم موجود تھے.اولاً آپ نے مختصر سا حصہ وصیت کا لکھا لیکن چونکہ قلم درست نہ تھا دیسی قلم منگایا گیا.آپ نے ایک وصیت اپنے قلم سے تحریر کر دی اور مولوی محمد علی صاحب کو دی کہ وہ اسے سنا دیں.چنانچہ انہوں نے بآواز بلند ا سے پڑھ کر سنا دیا.پھر آپ نے فرمایا کہ تین مرتبہ سنا دو.چنانچہ تین مرتبہ اس وصیت کو پڑھ کر سنایا گیا.جب وصیت پڑھی جاتی تھی حاضرین پر رقت کا عجیب اثر تھا دل اور آنکھیں روتی تھیں اور خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت کا مشاہدہ کر رہی تھیں...غرض وصیت جو تین مرتبہ پڑھی جا چکی تو آپ نے فرمایا کہ نواب صاحب کے سپرد کر دو وہ اسے محفوظ رکھیں گے.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے حاضرین کی موجودگی میں اصل کا غذ نواب صاحب کے سپر د کر دیا.پھر نواب صاحب نے عرض کیا کہ اس پر دستخط کرالئے جائیں اور اس مطلب کے لئے وصیت پھر حضرت کی خدمت میں پیش کی گئی.آپ نے اس پر دستخط کر دئے.جیسا کہ وصیت کے پڑھنے سے معلوم ہوگا.بہر حال ۴ / مارچ ۱۹۱۴ء کو بعد عصر
347 یا آپ بھی اس وقت موجود تھے بہر حال یہ واقعہ آپ کی موجودگی یا ایک آدھ روز پہلے کا ہے مجھ کو صحیح یاد نہیں غالباً آپ موجود تھے کیونکہ حضرت میاں صاحب نے مجھ کو کہا تھا کہ آپ نے ان کو اس طرف متوجہ کیا تھا بقیہ حاشیہ: - حضرت خلیفتہ امیج اول نے پاک وصیت کر دی اور یہ بھی فرمایا کہ جیتے رہے تو اور بھی کچھ کہیں گے.“ وصیت کے منقولہ الفاظ میں قدرے اختلاف ہے.مثلاً 1 - مکتوب نواب صاحب والحکم آئینه صداقت ۲ مکتوب نواب صاحب آئینہ صداقت.الحکم - مکتوب نواب صاحب والحکم آئینه صداقت ۴.مکتوب نواب صاحب آئینه صداقت ۵ مکتوب نواب صاحب آئینہ صداقت.الحکم ۶.مکتوب نواب صاحب آئینه صداقت والحکم ے.مکتوب نواب صاحب آئینہ صداقت والحکم - مکتوب نواب صاحب آئینه صداقت والحکم ۹ - مکتوب نواب صاحب آئینه صداقت دو بقائمی حواس“ بقائمی ہوش و حواس“ ”ہمارے گھر مال نہیں“ ”ہمارے گھر میں مال نہیں“ وو ان کی پرورش یا پرورش یتامی و مساکین سے نہ ہوگا“ ان کی پرورش یامی و مساکین سے نہیں، قرضہ حسنہ جو جمع کیا جاوے“ قرض حسنہ جمع کیا جائے“ قرض حسنہ جمع جمع کیا جاوے“ جائیدا دوقف علی الاولاد جائیدا دوقف علی الاولاد ہو“ ” عالم باعمل ہو“ ”عالم با عمل ” وہ بھی خیر خواہ ہووے“ ” وہ بھی خیر خواہ رہے“ قرآن حدیث " قرآن و حدیث نور الدین ۴ مارچ بعد اعلان نورالدین ۴ مارچ ۱۹۱۴ء نور الدین ۴/ مارچ ۱۹۱۴ء بعد از اعلان
348 کہ وصیت میں حضرت مولانا مرحوم نے اپنی بیوی کے متعلق کچھ نہیں لکھا.آپ کے جانے کے بعد کے واقعات حسب ذیل ہیں.حضرت خلیفہ اسیح علیہ السلام مرحوم مغفور دن بدن نهایت کمزور ہوتے گئے اور جہاں تک میرا خیال ہے علاج میں بھی وہ توجہ نہیں رہی.خوراک نہایت ہی کم ہو گئی.سوائے چند تولہ کے غذا نہیں ملتی تھی.اس پر بہت کچھ گفت وشنید ہوئی ایک اطباء کی کمیٹی بیٹھی اور چند نسخے تجویز ہوئے.مگر حضرت کو غالبا یہ ادویات نہیں ملیں.منگل یا بدھ سے یعنی وفات سے دو تین روز قبل حضرت موصوف کو قے شروع ہوگئی اور بدھ سے پیچکی بھی شروع ہوگئی.اب اور بھی زیادہ ضعف ہو گیا ادھر عیادت کے لئے مہمان بہت آئے اور لوگ اضطراب سے آئندہ واقعات پر تشویش ظاہر کرنے لگے.جہاں چار آدمی اکٹھے ہوئے اور مسائل اختلافی پر بحث شروع ہوگئی.حضرت صاحبزادہ صاحب اور ہم بھی اضطراب سے سوچنے لگے اور جب کوئی صورت اصلاح نظر نہ آئی کیونکہ ایسی افواہیں اڑیں کہ بیرونجات سے لوگ بلائے جار ہے ہیں.چنانچہ آدمیوں سے معلوم ہوا کہ وہ سیکرٹری صاحب کے بلانے پر آئے ہیں.پھر میر عابد علی شاہ صاحب اور چوہدری عبداللہ خاں صاحب نمبر دار نے آکر بیان کیا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے وڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب سے گفتگو ہوئی.انہوں نے صاف کہا کہ ہم اول تو خلیفہ ہی پسند نہیں کرتے اور اگر خلیفہ ہو بھی تو اس سے شرائط طے کی جائیں گی اور یہ اطلاع انہوں نے تحریراً بھی بطور شہادت ہم کو دے دی اور یہ واقعہ کوئی پانچ چھ روز قبل از وفات حضرت کا تھا.ان امور سے سخت تشویش ہوئی اور ادھر دیکھا کہ لوگ مختلف طور پر کج بحثیاں کرتے ہیں.اس لئے میاں صاحب نے سب احباب کو کہا کہ دعا سے کام لیا جائے کہ خداوند تعالیٰ حضرت مولانا کو شفاء دیدے اور اگر اس کی مثیت میں حضرت موصوف کا وقت ہی آگیا ہے تو خدا وند تعالیٰ تفرقہ سے قوم کو بچائے اور کوئی مناسب خلیفہ عطا کرے.اس پر تمام احباب نے بدھ کی اور جمعرات کی مشترکہ رات کو اٹھ کر دعائیں کیں.صبح کے وقت میاں صاحب کو تحریک ہوئی کہ اختلافات کو سر دست چھوڑ دیا جائے.چنانچہ بعد نماز صبح مجھ سے تنہائی میں فرمایا کہ میرا منشاء ہے کہ چونکہ اس وقت دو مختلف خیال کے لوگ موجود ہیں ہر ایک فریق یہ سمجھتا ہے کہ اگر ہمارے خلاف خیالات کا خلیفہ ہوا تو پھر ہماری خیر نہیں اس لئے رفع فتنہ کے لئے ہم ایسے شخص (کو) خلیفہ منتخب کریں جس کو دونوں طرف قریباً ارادت ہو.اور انہوں نے فرمایا کہ میرے خیال میں سید حامد شاہ صاحب بقیہ حاشیہ: - حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا بیان ہے کہ یہ اصل وصیت اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے پاس ہے اسے دیکھ کر اصل الفاظ معلوم ہو سکتے ہیں.لیکن وہ مجھے دستیاب نہیں ہوسکی.( احباب اس کا چربہ صفحہ ۳۶۶-۳۶۷ پر ملاحظہ فرمائیں) (مؤلف)
349 سیالکوٹی کو پیش کیا جائے (ادھر میرے خیال میں بھی تحریک تھی کہ میں حضرت میاں صاحب سے دریافت کروں کہ رفع فتنہ کے لئے ہم کہاں تک اپنے خیالات چھوڑ سکتے ہیں.چونکہ میاں صاحب نے خود ہی میرے سوال کا جواب دینا شروع کر دیا اس لئے مجھے کو دریافت کرنے کی ضرورت نہ ہوئی ) اور پھر میاں صاحب نے فرمایا کہ اگر وہ اس کو بھی نہ مانیں تو پھر ان میں سے جس کسی کو وہ پسند کریں خواہ خواجہ کمال الدین صاحب ہوں یا مولوی محمد علی صاحب یا کوئی اور.ہم بدل اس کو منظور کریں گے.اور بموجب آیت کریمہ يايها الذين امنوا اطيعوا الله واطيعوا الرسول واولى الامر منكم فان تنازعتم - الخ ہم اپنے اختلافی مسائل کو ضرور پیش کریں گے.ہاں اگر خلیفہ ہم کو ان مسائل سے روک دے گا تو ہم خاموشی اختیار کریں گے اور یہی ادب عمل صحابہ سے ثابت ہے اور ہم پورے مطیع خلیفہ کے ہوں گے.ہاں یہ شرط ضرور ہے کہ خلیفہ بلا شرط ہو اور مقتدر ہو خواہ ہمارے خیال سے متفق ہو یا نہ ہو اس سے ہم کو غرض نہیں.مگر مقتدر ہونا ضروری ہے اور وصیت سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ مقتدر ہی درگز ر اور چشم پوشی کر سکتا ہے.جب یہاں تک میاں صاحب کا میں (نے) خیال دیکھا تو میں نے ان سے اتفاق رائے ظاہر کر کے کہا کہ آج میرا دل ایک بڑے بوجھ سے ہلکا ہو گیا اور اس وقت سے برابر میاں صاحب اور میں کسی خاص شخص کی خلافت سے بالکل خالی الذہن ہو گئے.اس تصفیہ کے بعد میاں صاحب مکان میں آئے اور ایک مضمون لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت ہم کو سر دست تمام اختلافی امور چھوڑ دینے چاہئیں اور اس وقت تک کہ حضرت خلیفۃ اسیح علیہ السلام یعنی مولوی نورالدین صاحب تندرست ہوں یا ان کی جگہ اللہ تعالیٰ کوئی خلیفہ مقرر کر دے کسی قسم کا تذکرہ اور اختلاف نہ رکھیں اگر کوئی شخص اس قسم کی بات چھیڑے تو اس کے پاس سے اٹھ جائیں اور تمام جماعت دعاؤں میں لگ جائے.یہ ایک مصیبت کا وقت ہم پر ہے پس اللہ تعالیٰ سے ہی اس کی استمداد چاہیں تاوہ ہماری نصرت فرمائے اور ہم کو تفرقہ سے بچائے.اس وقت ہمارا آقا بیمار ہے اور وہ ہمارے اختلافات کے متعلق کچھ خبر نہیں رکھتا اور نہ وہ اس کا تدارک کر سکتا ہے اس لئے اس وقت ایسی گفتگو اور خیالات نہایت نامناسب ہیں.چنانچہ یہ مضمون لکھ کر میاں صاحب نے مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کے پاس بھیج دیا کہ “ آپ اگر مناسب تصور کریں اپنے اور دیگر احباب کے دستخط کر دیں اور کرا دیں تا کہ قوم میں جواس وقت اضطراب پھیلا ہوا ہے وہ جاتا رہے.اس پر مولوی صاحب نے لکھا کہ بیرونجات ( میں ) یہ اختلاف نہیں ہے اس تحریر سے خواہ مخواہ اختلاف پیدا ہو گا.ہاں قادیان میں ایک طوفان بے تمیزی آیا ہوا ہے اور لاہور میں بھی ہے اس لئے آپ ایک تقریر کر دیں اور میں بھی ایک تقریر کر دوں گا اور یہ آپ کو بہت عمدہ خیال پیدا ہوا ہے.اس پر اس مضمون کو التوا میں ڈال دیا گیا اور بعد عصر حضرت میاں صاحب نے اسی مضمون بالا کی تقریر کی
350 اور اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے تقریر کی مگر اس میں اختلاف کی طرف بھی اشارہ کر گئے اس کے بعد گویا تمام جماعت میں سکون آگیا اور وہ ٹولی بندیاں اور کج بحثیاں بند ہوگئیں.اور یہ پنجشنبہ کا واقعہ ہے.اس کے بعد اسی روز میں نے میاں صاحب سے عرض کی کہ یہ مولوی محمد علی صاحب کا خیال صحیح نہیں کہ باہر اختلاف نہیں میرے خیال میں یہ مضمون شائع کر کے باہر بھی بھیجا جائے.چنانچہ اس کے طبع کرنے کا انتظام کیا گیا.رات کو پھر تمام احباب دعا میں مصروف ہوئے.حضرت خلیفہ امسیح علیہ السلام کو نیکی اور قے اور کھانسی کی سخت تکلیف رہی.صبح یعنی جمعہ کے روز بعد نماز ہم جب کوٹھی پر آئے تو حضرت کی طبیعت کچھ زیادہ ضعیف تھی مگر ڈاکٹر کہتے تھے آج کھانسی سے آرام رہا مگر مجھ کو زیادہ ضعف محسوس ہوتا تھا.اس کے بعد کوئی سات بجے آدمی آیا کہ ڈاکٹر صاحب بلاتے ہیں.میاں صاحب اور میں حضرت خلیفہ اسیح علیہ السلام کے کمرے میں گئے وہاں مولوی محمد علی صاحب بھی آگئے اور شیخ رحمت اللہ صاحب بھی.اس وقت حضرت صاحب کی طبیعت اور بھی نحیف معلوم ہوئی اور بلغم سانس کے ساتھ بولتی تھی مگر یخنی وغیرہ آپ ( نے اٹھ کر کھایا لیٹے لیٹے نہیں کھایا.کوئی دس بجے وہاں سے ہم سب با ہر آئے.میں شیخ رحمت اللہ صاحب کو الگ لے گیا اور ان سے عرض کیا کہ بجائے اس کے کہ وقت پر باہم بحث ہو، بہتر ہے کہ ہم سب بیٹھ کر طریق انتخاب خلیفہ کی بابت تصفیہ کر لیں اور جوطریق باہمی اتفاق سے قائم ہو اس پر آئندہ کا روائی کی جائے انہوں نے کہا کہ بعد جمعہ سب اکٹھے ہو جا ئیں میں بھی اپنے احباب کو کہہ دوں گا.اس کے بعد ہم کھانا کھانے گئے اور اس وقت میاں صاحب نے فرمایا کہ کچھ ہم ( میں ) سے یہاں بھی رہیں مگر حضرت کی طبیعت کسی قدر بحال دیکھ کر میں بھی جمعہ کو چلا گیا اور حضرت خلیفہ اسیح علیہ السلام کے پاس صرف ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب رہ گئے.جمعہ سے ہم واپس آرہے تھے اور میاں صاحب اور میں گاڑی میں تھے کہ مولوی شیر علی صاحب کے مکان کے قریب میر املازم ملا.اور اس نے اطلاع دی کہ حضرت خلیفۃ امسیح علیہ السلام کا انتقال ہو گیا.میاں صاحب نے گاڑی کو دوڑانے کی تاکید کی اور انا اللہ وانا الیہ راجعون پڑھنا شروع کیا.بورڈ نگ کے کواٹروں کے قریب گاڑی کو سست پا کر میاں صاحب اور میں پا پیادہ تیز قدمی چلے آخر کوٹھی پر پہنچے اور وہاں مولوی محمد علی صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور شیخ رحمت (اللہ ) صاحب اور کئی احباب بیٹھے رو ر ہے تھے.اور میاں عبدالحی کو لئے بیٹھے تھے.ہم بھی وہاں بیٹھ گئے.میاں حب حضرت خلیفہ اسی مرحوم کے کمرے میں چلے گئے.اسی حالت رنج و افسوس میں عصر کی اذان ہوگئی اور سب مسجد نور میں جمع ہو گئے.بعد تمام عصر میاں صاحب نے پھر ایک تقریر کی اور اس میں اس بات پر بھی زور دیا کہ کل جو صاحب روزہ رکھ سکیں وہ روزہ بھی رکھیں.یہ تقریرہ پہلی تقریر کا قریباً اعادہ تھا اور نہایت یہ تقریر الحکم جلد ۱۸ نمبر ۳ صفحه ۹ بابت ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء میں طبع ہو چکی ہے..(مؤلف)
351 تضرع اور رقت اہل مجلس پر طاری تھی.اس کے بعد میں نے میاں صاحب سے عرض کی کہ اب ہم سب کو جمع ہو کر مناسب تجویز کرنی چاہئے.میاں صاحب نے فرمایا کہ میرے سر میں درد ہے میں ذرا تھوڑی دور پھر آؤں جب سب آجا ئیں مجھ کو بھی بلا لیا جائے.میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب و مولوی محمد علی صاحب وڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب و مولوی شیر علی صاحب و مولوی صدرالدین صاحب کی طرف آدمی بھیج دیا.شیخ صاحب نے کہلا بھیجا کہ مولوی محمد علی میاں صاحب سے گفتگو کرنے جاتے ہیں ) اس کے بعد ہم سب آجائیں گے.پھر میں خود شیخ صاحب کے پاس چلا گیا تو انہوں نے کہا کہ مولوی صاحب میاں صاحب سے گفتگو کرنے گئے ہیں.ممکن ہے کہ ان دونوں کی گفتگو ہی (سے) تمام اختلاف جاتا رہے.اس لئے میں بھی وہاں کھڑا ہو گیا اور میاں صاحب اور مولوی صاحب الگ ٹہلتے ہوئے تنہائی میں گفتگو کرتے رہے.مغرب کے وقت وہ ایک دوسرے سے الگ ہوئے میاں صاحب نے آکر فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب سے گفتگو ہوئی ہے اور وہ وہی بات کہتے ہیں جو چوہدری عبد اللہ خاں صاحب نے آکر بیان کی تھی اور اب میں تصفیہ کر کے آیا ہوں کہ مولوی صاحب بجائے خود اپنے احباب سے مشورہ کریں اور میں اپنے احباب سے مشورہ کروں اور ہم سوچیں کہ کہاں تک ہم اپنے خیالات چھوڑ سکتے ہیں اس لئے اب مشورہ کرنا چاہئے.چنانچہ بعد مغرب قریب پچاس آدمیوں کو بلایا گیا.اور چونکہ مولوی محمد علی صاحب اور میاں صاحب کا باہمی تصفیہ ہوا تھا کہ احباب کے مشورہ کو عام نہ کیا جائے اس لئے میرے مکان میں علیحدہ جگہ یہ مشورہ ہوا اور سب کے سامنے میاں صاحب نے پیش کیا کہ میری اور مولوی صاحب کی گفتگو ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ” خلیفہ.اول تو ہونا نہ چاہئے اور اگر ہو تو تمام احمد یوں کو اس کی بیعت نہ کرنی ہو.یعنی جو پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اسیح علیہ السلام مرحوم کی بیعت کر چکے ہیں وہ دوبارہ اب نئے خلیفہ کی بیعت نہ کریں.اور مسئلہ کفر و اسلام میں خلیفہ ہمارے سد راہ نہ ہو یعنی ہمارے خیالات کے اظہار میں روک نہ ڈالے.اور کم از کم میں ( مولوی محمد علی صاحب) تو بیعت نہ کروں گا.اس پر میاں صاحب نے فرمایا کہ خلیفہ ہونا ضروری ہے اور چونکہ میرا اعتقاد ہے کہ خلیفہ ضرور ہونا چاہئے اس لئے میں اس پر متفق نہیں ہو سکتا.اور چونکہ میرا یہ بھی اعتقاد ہے کہ خلیفہ مشروط نہیں ہوسکتا بلکہ خلیفہ مقتدر چاہئے تا کہ فتنہ کے وقت وہ اپنے اختیارات سے فتنہ کو روک سکے.اس لئے اس پر بھی میں متفق نہیں ہو سکتا.رہے اختلافی مسائل اس کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں اختلافات ہمیشہ سے رہے اور رہتے ہیں.مولوی محمد علی صاحب نے کہا پھر مہلت کافی ہونی چاہئے کم از ( کم ) پندرہ ہیں روز اس پر میاں صاحب نے فرمایا کہ خلافت مقتدر ہونی چاہئے اور ضرور ہونی چاہئے.اور خلیفہ دوم قبل از دفن خلیفہ اول منتخب ہو جانا چاہئے.اور یہی میرا اعتقاد ہے
352 اس پر مجھ کو اصرار ہے اختلافی مسائل ان امور پر سد راہ نہیں ہو سکتے.مسئلہ کفر پر اختلاف حضرت خلیفۃ السیح مرحوم کے وقت میں بھی رہا ہے اور وہ خلیفہ بھی رہے ہیں.اس پر مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ نہیں جلدی نہیں چاہئے کافی وقت ملنا چاہئے تا کہ شوری سے خلیفہ مقررہو.میاں صاحب نے کہا کہ حضرت مولانا کے دفن پہلے جس قدر مشورہ ہونا ہو ہو جائے اور حضرت خلیفہ اسی مرحوم نے بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ ( السلام) کی وفات پر اس پر زور دیا تھا.کیونکہ خلیفہ کی ہر وقت ضرورت ہے.اگر ہم کو یہ علم ہو کہ مولوی صاحب مرحوم فلاں کام کیا کرتے تھے اور اس میں خلیفہ کی ضرورت تھی یا کوئی خاص کام آج سے چھ ماہ کو پیش آنے والا ہے کہ جس میں خلیفہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ چلو چھ ماہ انتظار کر لو.کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کوئی ایسا امر ہے اور ہم کو علم ہے اس وقت خلیفہ کی ہم کو ضرورت نہیں چند روز بعد ہوگی ؟ تو پھر بیشک انتظار ممکن ہے اس پر مولوی محمد علی صاحب نے فرمایا کہ ایسا تو نہیں.پھر میاں صاحب نے فرمایا کہ نظام سلسلہ کے لئے پھر ایک منٹ بھی بلا خلیفہ درست نہیں پس خلیفہ دوم خلیفہ اول کے دفن سے پہلے مقرر ہو جانا چاہئے.اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے کہا مسئلہ کفر و اسلام کا ضرور تصفیہ ہو جانا چاہئے اور بیعت پر ہم کو مجبور نہ کیا جائے (جس پر اسی طرح کوئی دو گھنٹہ دونوں میں گفتگو رہی جس کا یہ اوپر خلاصہ ہے ) میاں صاحب نے فرمایا کہ آخر یہ تصفیہ ہوا ( کہ ) احباب سے مشورہ لیا جائے جس پر آپ صاحبوں کو تکلیف دی گئی ہے اب آپ تصفیہ کریں کہ ہم کہاں تک اپنا خیال چھوڑیں اور کہاں تک نہیں.اس پر متفق اللفظ سب نے یہ تصفیہ کیا کہ.خلیفہ بلا شرط ہونا چاہئے.اس کی بیعت ہر احمدی پر واجب ہے اور سب کا یہ مطاع ہوگا.چنانچہ ایک کاغذ پر مندرجہ ذیل عبارت لکھی جا کر دستخط کئے گئے.بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ نحمده ونصلى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيم اللهُمَّ صِلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّبَارِكْ وَسَلَّم ’ہم سب اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اقرار کرتے ہیں کہ ہم سب کے نزدیک حضرت خلیفتہ امسیح کا جانشین ایک شخص ہونا ضروری ہے اور اس کی بیعت کرنی ہر ایک احمدی پر واجب ہے.اور ہمارے نزدیک اس خلیفہ سے کسی قسم کی شرائط طے کرنا جوحضرت خلیفہ اسی اول کی خلافت کے وقت طے نہیں کی گئیں بالکل جائز نہیں.بلکہ اس کی بیعت اسی طرح ہوگی جس طرح صحابہ نے کی یا جس طرح خلیفہ اسی اول کی بیعت کی گئی.جو کوئی بھی خلیفہ مقرر ہو وہ کل جماعت اور صدرانجمن کا مطاع ہوگا اور سب جماعت کو اس کے احکام کی اطاعت کرنی ضروری ہوگی.“ اب یہ قرار پایا کہ صبح مولوی ( محمد ) علی سے میاں صاحب اس تصفیہ کے متعلق گفتگو کریں گے اور پھر جو فیصلہ ہوگا اس پر کارروائی ہوگی.صبح تین بجے ایک ٹریکٹ میاں صاحب کو ایک شخص نے دیا کہ یہ تمام 66
353 اسٹیشنوں اور مضافات میں شائع اور تقسیم ہوا ہے.اس ٹریکٹ پر مولوی محمد علی صاحب کے دستخط تھے جس کے پڑھنے سے معلوم ہوا کہ وہ ان کی ہی جانب سے ہے اور ان کی تصدیق مولوی غلام حسن صاحب کی ( کی ) ہوئی ہے.اس پر میاں صاحب نے خیال کیا کہ فتنہ بہت بڑھ گیا ہے اس لئے سب احباب ( کو ) جو کو ٹھی میں موجود تھے اٹھایا کہ دعا کرو.مجھ کو بھی اٹھایا اور ٹریکٹ بھی دیا میں اور سب احباب حیران ہوئے کہ اس اصلاح والی تحریر کو جو میاں صاحب شائع کرنا چاہتے تھے (اور بوجہ مولوی محمد علی صاحب کے روکنے کے اور حضرت خلیفہ المسیح مرحوم کی وفات کے سبب سے شائع نہ ہوسکی ) کو شائع کرنا باعث فتنہ مولوی محمد علی صاحب نے قرار دیا اور اپنا ٹریکٹ جو سراپا اختلاف ہے اس کو شائع کر دیا.اور ٹریکٹ سے معلوم ہوا کہ یہ حضرت خلیفہ اسیح مرحوم کے انتقال سے کوئی ہفتہ عشرہ پہلے لکھا جاچکا اور طبع بھی حضرت کی زندگی میں ہوا.اور ادھر حضرت کی وفات کی تار پہنچی اور یہ شائع ہو گیا کیونکہ اس پر مولوی غلام حسن صاحب کے بھی دستخط ہیں.بس جب وہ آئے تھے اسی وقت یہ منصو بہ ہوا اور یہ مضمون لکھا گیا اور طبع کرا کر رکھا گیا.اب آپ خود غور فرمائیں کہ میاں صاحب اور ہمارا کیا ارادہ تھا.اور ادھر سے کیا ہوا.باوجود اس کے میاں صاحب نے صبح آٹھ بجے بروز شنبہ بتاریخ ۱۴ مارچ مسجد نور میں ایک نہایت دلسوز اور پر اثر تقریر کی اور اس میں بھی جماعت کو دعا کے متعلق زورد یا کسی اختلاف کا تذکرہ نہیں کیا.لیکن مولوی محمد علی صاحب نے نہایت غیظ و غضب سے ایک تقریر نہایت جوش سے کی اور اس میں اختلافات کا تذکرہ کیا.اس کے بعد ہم سب آگئے.پھر میاں صاحب نے اپنے رشتہ داروں کو الگ مشورہ کے لئے اکٹھا کیا.چنانچہ مندرجہ ذیل اشخاص اس میں شریک تھے حضرت صاحبزادہ بشیر الدین اس ٹریکٹ کا ذکر الحکم جلد ۱۸ نمبر ۴ صفحه ۳ بابت ۲۱ مارچ ۱۹۱۴ء میں ہے.مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا بیان ہے کہ یہ ٹریکٹ میں نے لا کر حضور کی خدمت میں پہنچایا تھا.چنانچہ ان کی طرف سے اس امر کا ذکر الحکم جوبلی نمبر (صفحه ۳۳) میں ہو چکا ہے.اور مکرم عرفانی صاحب بھی اس امر کی تائید کرتے ہیں.(مؤلف) ** آئینہ صداقت صفحہ ۱۸۷ پر اس مشورہ کا ذکر ہے لیکن وہاں ان کے اسماء درج نہیں.حضرت مولوی شیر علی صاحب کا بیان ہے کہ اہل خاندان کے ساتھ مشورہ کیا کہ خواہ کوئی خلیفہ ہو ہم بیعت کریں گے.اور اس مشورہ میں نواب صاحب، صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب، اور صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کے نام بیان کئے ہیں.نواب صاحب کا بیان خود مشورہ میں شامل ہونے کی وجہ سے مشرح ہے.(مؤلف) ۲۵۴
354 مرزا محمود احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب، حضرت میر ناصر نواب صاحب، میر محمد الحق صاحب، مرزا عزیز احمد صاحب خاکسار راقم الحروف.اوراس میں گفتگو ہوئی اور فرمایا کہ حضرت صاحب کو الہام ہوا ہے کہ انی معک ومع اهلک پس آپ مشورہ دیں کہ ہم کو کیا کرنا چاہئے چنانچہ مندرجہ ذیل تصفیہ ہوا.-۲ ۲۵۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کے خلاف جنہوں نے اظہار کیا ہے اس کو نہیں مان سکتے.خلیفہ ضروری ہے.خلیفہ مشروط نہ ہو.سب متعلقین حضرت مسیح موعود انتخاب میں حصہ لیں گے.اور یہ بھی تصفیہ ہوا کہ کسی شخصیت پر زور نہ دیا جائے.کوئی بھی خلیفہ ہواس کی اطاعت کریں گے اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب کے ٹریکٹ کے شائع تسلسل کے قائم رکھنے کی خاطر ذیل کا واقعہ درج کیا جاتا ہے.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں کہ اقارب سے مشورہ کے بعد مولوی محمد علی صاحب کا رقعہ مجھے ملا کہ کل والی گفتگو کے متعلق ہم پھر کچھ گفتگو کرنی چاہتے ہیں.میں نے ان کو بلوالیا.اس وقت میرے پاس مولوی سید محمد احسن صاحب، خان محمد علی خان صاحب، ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب موجود تھے.مولوی صاحب بھی اپنے بعض احباب سمیت وہاں آگئے اور پھر کل کی بات شروع ہوئی.میں نے پھر اس امر پر زور دیا کہ خلافت کے متعلق آپ لوگ بحث نہ کریں.صرف اس امر پر گفتگو ہو کہ خلیفہ کون ہو.اور وہ اس بات پر مصر تھے کہ نہیں ابھی کچھ نہ ہو کچھ عرصہ تک انتظار کیا جاوے.میرا جواب وہی کل والا تھا اور پھر میں نے ان کو یہ بھی کہا کہ اگر پھر بھی اختلاف ہی رہے تو کیا ہوگا.اگر کثرت رائے سے فیصلہ ہونا ہے تو ابھی کیوں کثرت رائے پر فیصلہ نہ ہو....جب سلسلہ گفتگو کسی طرح ختم ہوتا نظر نہ آیا اور باہر بہت شور ہونے لگا اور جماعت کے حاضر الوقت اصحاب اس قدر جوش میں آگئے کہ دروازہ توڑے جانے کا خطرہ ہو گیا اور لوگوں نے زور دیا کہ اب ہم زیادہ صبر نہیں کر سکتے آپ لوگ کسی امر کو طے نہیں کرتے اور جماعت اس وقت تک بغیر رئیس کے ہے تو میں نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ بہتر ہے کہ باہر چل کر جولوگ موجود ہیں ان سے مشورہ لے لیا جائے ہم اس پر مولوی محمد علی صاحب کے منہ سے - حاشیه در حاشیہ مکرم عرفانی صاحب روایت کرتے ہیں (جس کی تصدیق مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کرتے ہیں ) کہ یہ مشورہ نواب صاحب کی کوٹھی کے ایک کمرے میں ہورہا تھا اور جماعت مسجد نور میں جمع تھی تو لوگوں نے کہا کہ شیخ صاحب! ان کو باہر لاؤ.بند کمرہ میں کیا کر رہے ہیں.یہ سوال جماعت کا
355 ہونے کے سبب سے اس دریافت کے لئے کہ آیا موجودہ جماعت جو قادیان میں ہے اور آئی ہوئی ہے بقیہ حاشیہ: - بے اختیار نکل گیا کہ آپ یہ بات اس لئے کہتے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ وہ لوگ کسے منتخب کریں گے.اس پر میں نے ان سے کہا کہ نہیں میں تو فیصلہ کر چکا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلوں.مگر اس پر بھی انہوں نے یہی جواب دیا کہ نہیں آپ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کی کیا رائے ہے یعنی وہ آپ کو خلیفہ مقرر کریں گے.اس پر میں اتفاق سے مایوس ہو گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ کا منشاء کچھ اور ہے کیونکہ باوجود اس فیصلہ کے جو میں اپنے دل میں کر چکا تھا میں نے دیکھا کہ یہ لوگ صلح کی طرف نہیں آتے.اور مولوی صاحب کے اس فقرہ سے میں یہ بھی سمجھ گیا کہ مولوی محمد علی صاحب کی مخالفت خلافت سے بوجہ خلافت کے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ ان کے خیال میں جماعت کے لوگ کسی اور کو خلیفہ بنانے پر آمادہ تھے جب فیصلہ سے مایوسی ہوئی تو میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ چونکہ ہمارے نز د یک خلیفہ ہونا ضروری ہے اور آپ کے نزدیک خلیفہ کی ضرورت نہیں اور یہ ایک مذہبی امر ہے اس لئے آپ جو مرضی ہو کریں ہم لوگ جو خلافت کے قائل ہیں اپنے طور پر ا کٹھے ہو کر اس امر کے متعلق مشورہ کر کے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں.یہ کہہ کر میں کھڑا ہوا اور مجلس برخواست ہوئی.“ اس بارہ میں مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی تحریر فرماتے ہیں: roy حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اکثر بیان فرمایا کرتے تھے کہ حضور پرنور کے وصال کے بعد جب دوسرے روز صبح ۲۷ مئی کو خواجہ صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحبان وغیرہ قادیان میں آئے سخت گرمی کے دن تھے ان کی خدمت، تواضع اور ناشتہ پانی وغیرہ کا کام میرے ذمہ لگایا گیا.چنانچہ میں مناسب طریق پر کہ سن کر ان سب کو باغ سے شہر میں لے آیا.حضرت نواب صاحب کے مکان کے نچلے حصہ کے جنوب مغربی خام دارلان میں بٹھایا...اس موقعہ پر خواجہ کمال الدین صاحب نے کھڑے ہو کر نہایت ہی پر سوز تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ خدا کی طرف سے ایک انسان منادی بن کر آیا جس نے لوگوں کو خدا کے نام پر بلایا.ہم نے اس کی آواز پر لبیک کہی اور اس کے گرد جمع ہو گئے مگر اب وہ ہم کو چھوڑ کر اپنے خدا کے پاس چلا گیا ہے سوال ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے.“ بقیہ حاشیہ در حاشیہ: ہے اور اگر وہ نہیں آتے تو ہم دروازہ توڑ دینگے.میں نے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا تو دروازہ کھول دیا اور میں نے جماعت کا پیغام پہنچادیا.وہ سب مسجد میں آگئے اور اسی کے موافق فیصلہ ہو گیا.(مؤلف)
356 ( کا) خیال کیا ہے.ایک کاغذ پر دستخط کرائے گئے.چنانچہ اس کے بعد کے واقعات تمام مولوی محمد احسن صاحب کے اظہار حق (سے) جولف ہذا ہے آپ کو ظاہر ہوں گے اور آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ پیغام صلح میں بقیہ حاشیہ: - خواجہ صاحب کا انداز بیان طریق خطاب اور تقریر کچھ ایسا در دبھرا، رقت آمیز اور زہرہ گداز تھا کہ ساری مجلس پر ایک سناٹا چھا گیا سکتہ کا عالم اور خاموشی طاری ہوگئی.آخر شیخ رحمت اللہ صاحب نے سکوت کو توڑا اور کھڑے ہو ( کر ) ٹھیٹھ پنجابی زبان میں جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ مطلب اردو میں یہ ہے کہ میں نے قادیان آتے ہوئے راستہ میں بھی بار بار یہی کہا ہے اور اب بھی اسی کو دہراتا ہوں کہ اس بڑھے کو آگے کرو.اس کے سوا یہ جماعت قائم نہ رہ سکے گی.“ و شیخ صاحب کے اس بیان پر خاموش رہ کر گویا سبھی نے مہر تصدیق ثبت کی اور سرخم تسلیم کر دیا.کسی نے اعتراض کیا نہ انکار.اس اتفاق کے بعد انہی اصحاب نے معہ دیگر اکا بر صحابہ و بزرگان جماعت سید نا نورالدین اعظم رضی اللہ عنہ کے حضور درخواست کی جو باغ سے شہر تشریف لائے ہوئے تھے.مگر حضور ممدوح نے کچھ سوچ اور تردد کے بعد فرمایا کہ میں دعا کے بعد جواب دوں گا.چنانچہ وہیں پانی منگایا گیا.حضرت نے وضو کر کے دو نفل نماز ادا کی اور دعاؤں کے بعد فارغ ہو کر فرمایا.۲۵۷ ”چلو ہم سب وہیں چلیں جہاں ہمارے آقا کا جسد اطہر اور ہمارے بھائی انتظار میں ہیں.“ چنانچہ یہ مجلس برخواست ہو کر پھر باغ پہنچی جہاں امیر خلافت کے متعلق موجودہ جماعت کے تمام مردوں اور عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے انشراح بخش کر خلافت حقہ پر متفق و متحد کر کے سلک وحدت میں پرو دیا.“ باغ میں جب کہ جنازہ رکھا ہوا تھا اور احباب جمع تھے.مکرم مفتی محمد صادق صاحب نے ذیل کی تحریر حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں بطور درخواست پڑھی ان درخواست کنندگان میں سے پچاس کے قریب کے اسماء درج اخبار ہو چکے ہیں ان میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ ) حضرت نانا جان ، حضرت مولوی شیر علی صاحب، نیز حضرت نواب صاحب کے اسماء بھی درج تھے.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم الحمد لله ربّ العلمين والصلوة والسَّلام عَلى خاتم النبيين محمد المصطفى وعلى المسيح الموعود خاتم الاولياء - اما بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المہاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور اتنی ہیں اور حضرت امام کے
357 کس قدر غلط بیانی ہے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ بلا خلیفہ کیا دقت ہوتی ہے.اس وقت چونکہ کوئی خلیفہ نہ تھا اس لئے کون تھا جو کسی کو روک سکتا تھا.اور میاں صاحب کی جو شکایت کی جاتی ہے قبل از خلافت ان قیہ حاشیہ: سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوہ حسنہ قرار فرما چکے ہیں.جیسا کہ آپ کے شعر چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر یک پر از نور یقیں بودے ۲۵۸ سے ظاہر ہے ، کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود مهدی مسعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.“ جب حضرت مولوی نورالدین صاحب سے احباب نے درخواست کی کہ بیعت خلافت لیں تو آپ نے اس پر اپنی تقریر میں چھ اور احباب کے جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی ایده اللہ ) حضرت نانا جان اور نواب صاحب کے نام بھی شامل تھے نام لئے اور فرمایا کہ میں چاہتا تھا کہ ان میں سے کسی کے یہ کام سپر د کیا جائے.نواب صاحب کے متعلق یہ وجہ بتائی کہ حضرت صاحب کی فرزندی میں داخل ہیں.اس بارہ میں خواجہ کمال الدین صاحب سیکرٹری صدر انجمن کی طرف سے ذیل کا اعلان کیا گیا.اطلاع از جانب صد را مجمن وو برادران السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.حضرت سیدی و مولائی عالی جناب مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام بتاریخ ۲۴ ماه ربیع الآخر ۱۳۲۶ ہجری علی صاحبها التحية والسلام مطابق ۲۶ ماه مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل بوقت پا ۱۰ بجے صبح کے بمقام لاہور احمد یہ بلڈنگ میں اس دار فانی سے بعارضہ پرانی بیماری اسہال رحلت کر کے اپنے محبوب حقیقی سے جاملے انا للہ وانا اليه راجعون.آپ کا جنازہ بذریعہ ریلوے گاڑی ۵ بجے شام کے لاہور سے بٹالہ لایا گیا.اور اسٹیشن بٹالہ سے رات کے آخری حصہ میں احباب جنازہ کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر قادیان لائے اور دارالامان قادیان میں بعد نماز جنازہ پانچ بجے شام کے درمیان بتاریخ ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء مقبرہ بہشتی میں دفن کئے گئے اناللہ وانا الیہ راجعون.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ
358 کی بھی کیا وقعت ہوسکتی ہے.اور پیغام صلح نے یہ غلط لکھا ہے کہ میاں صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کو تقریر سے روک دیا اور میں حلفاً کہتا ہوں کہ میاں صاحب بولے تک نہیں اور میں بالکل ان کے قریب بیٹھا تھا.یہ ہیں کل واقعات جو میں نے عرض کر دئے ہیں.اب تھوڑا میں اور عرض کرتا ہوں وہ یہ ہے حضرت خلیفہ اسیح علیہ السلام یعنی مولا نا مولوی نورالدین صاحب مرحوم مغفور نے اپنی وصیت میں لکھا ہے کہ آپ کا جانشین عالم باعمل ہو.متقی اور ہر دلعزیز ہو.میں نے وصیت سناتے وقت اسی لئے علماء کے گروہ کو اپنے قریب کر لیا تھا علماء تمام متفق اللفظ تھے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب خلیفہ ہوں اور جب میں نے کہا کہ کون خلیفہ ہو تو سب طرف سے سوائے میاں صاحب کے کسی اور شخص کے لئے آواز نہیں آئی.اور پھر مولوی احسن صاحب نے میاں صاحب کو پیش کیا.عام رائے اس طرح اس وقت میاں صاحب کی جانب تھی کہ مولوی صاحب کی تقریر پوری ختم بھی نہیں ہوئی کہ لوگ بیعت کے لئے آگرے اب یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ صحابہ میں بھی انتخاب خلفاء مرکز کے لوگ بقیہ حاشیہ: - قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشوره معتمدین صدر انجمن احمد یہ موجودہ قادیان و اقرباء حضرت مسیح موعود و به اجازت حضرت ام المؤمنین کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سو تھی.والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شرفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.معتمدین میں سے ذیل کے اصحاب موجود تھے.مولانا حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب،صاحبزاده بشیرالدین محمود احمد صاحب، جناب نواب محمد علی خاں صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ، ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب، خلیفہ رشید الدین صاحب وخاکسار خواجہ کمال الدین ) موت اگر چہ بالکل اچانک تھی.اور اطلاع دینے کا بہت ہی کم وقت ملا.تاہم انبالہ، جالندھر، کپورتھلہ ، امرتسر ، لاہور، گوجرانوالہ، وزیر آباد، جموں، گجرات، بٹالہ، گورداسپور مقامات سے معزز احباب آگئے.اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ ایک کثیر جماعت نے قادیان اور لاہور میں پڑھا.حضرت قبلہ حکیم الامت سلم کو مندرجہ بالا جماعتوں کے احباب اور دیگر کل حاضرین قادیان نے جن کی تعدا داو پر دی گئی ہے بالاتفاق خلیفہ اسی قبول کیا.یہ خط بطور اطلاع کل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم الامتہ خلیفہ امسیح والمہدی کی خدمت بابرکت میں بذات خود یا بذریعہ تحریر حاضر ہو کر بیعت کریں.“
359 ہی کیا کرتے تھے اور انہی کے انتخاب پر سب بیعت کرتے تھے.حضرت ابو بکر کی خلافت کے وقت صرف تین آدمیوں نے بیعت کی اور انہی کی بیعت سے دوسروں نے بیعت کی اب پھر حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب مرحوم مغفور خلیفہ اسیح علیہ السلام کے انتخاب کے وقت جو ہواوہ عرض کرتا ہوں.پہلے لاہور میں مولوی محمد احسن صاحب نے حضرت خلیفہ اسی مرحوم کو کہا انت صدیق و نحن متبعوک.اور پھر مولوی محمد سعید صاحب حیدر آبادی نے ایک کاغذ پر دستخط کرائے کہ مولوی نورالدین صاحب خلیفہ ہوں پھر خود حضرت موصوف نے مجھ کو کہا کہ کوئی خلیفہ مقرر ہو جانا چاہئے.اس کے بعد میں اور خواجہ کمال الدین صاحب اور ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب نے لاہور سے قادیان ( آکر ) اس امر پر گفتگو کر کے فیصلہ کیا کہ خلیفہ قبل از دفن حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقرر ہو جانا چاہئے.بلکہ جب ہم قادیان پہنچے اور یہ بات چلی تو مولوی محمد علی صاحب نے اس وقت کہا کہ اتنی جلدی کی کیا ضرورت ہے تو خواجہ صاحب نے کہا ) کہ نہیں خلیفہ ضرور قبل از دفن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہو جانا چاہئے.پھر میرے مکان پر آ کر مندرجہ ذیل اصحاب نے مشورہ کیا.خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب، مولوی محمد علی صاحب، خاکسار راقم الحروف اور مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ تجویز کیا اور پھر مولوی محمد احسن صاحب کو بھی بلایا گیا.انہوں نے بھی حضرت مولانا موصوف کو تجویز کیا.پھر حضرت میاں صاحب کو بلایا.انہوں نے بھی یہی امر پیش کیا کہ مولوی نورالدین صاحب خلیفہ ہوں.پھر ہم سب حضرت میر ناصر نواب صاحب کے پاس باغ میں گئے.انہوں نے بایں الفاظ حضرت مولانا مرحوم کو خلیفہ تجویز کیا کہ ”جس کو تم خلیفہ بنانا چاہتے ہو وہ بھی چراغ سحری ہے.دو ڈھائی برس زندہ رہیں گے.پھر خواجہ صاحب حضرت ام المؤمنین علیہا السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور ان سے مشورہ چاہا تو حضرت ام المؤمنین نے بھی مولوی صاحب کو ہی تجویز کیا.پس یہ کل مشورہ تھا اور پھر خواجہ صاحب اور ہم مولوی صاحب مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ ہم آپ کو خلیفہ بنانا چاہتے (ہیں) آپ بیعت میں مولوی صاحب نے پہلے مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بیان کرتے ہیں کہ یہ مشورہ حضرت نواب صاحب کے مکان کے اس کمرہ میں ہوا جو کہ محمد یا مین صاحب تاجر کتب کی دکان کے ملحق جانب شمال ہے اس کمرہ کا ایک دروازہ عین گول کمرہ کے صحن کے بالمقابل کھلتا ہے.(مؤلف) مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول حضرت اقدس کے جنازہ مبارک کے پاس ہی ٹھہرے رہے اور تدفین کے بعد ہی وہاں سے شہر تشریف لائے.البتہ کھانا کھانے کے
360 کھڑے ہو کر تقریر کی اور کہا کہ حضرت اقدس کی اولا د کیا ذکور کیا اناث مستحق خلافت ہیں.پھر میر ناصر نواب صاحب اور پھر میرا نام لیا اور فرمایا کہ میں تو امتہ الحفیظ کی بیعت کرنے کو بھی تیار ہوں اور پھر بیعت لی.اس کے بعد تمام جماعت موجودہ نے بیعت کی.اب جائے غور ہے کہ اس وقت تو محض چند اشخاص نے مشورہ کر کے خلیفہ بنالیا اور اب تو قریباً ڈھائی ہزار آدمی کے سامنے معاملہ پیش کیا گیا اور انہوں ( نے ) خلیفہ منتخب کیا اور اس قدر جوش ظاہر کیا کہ دوسری بات بھی سنے کا انتظار نہ کیا اور بیعت (کے) لئے آن پڑے اور کسی کو اس قدر مہلت بھی نہ دی کہ اپنی جگہ سے ہل سکے.میاں صاحب بھی بیچ میں دب گئے اور رنگ فق ہو گیا اور گھبرا کر فرمایا کہ مولوی صاحب ( مولوی سرورشاہ صاحب مجھ کو تو بیعت کے الفاظ یاد نہیں آپ بتلائیں چنانچہ مولوی سرور شاہ صاحب بتلاتے گئے اور میاں صاحب بیعت لیتے گئے ہیں یہ امر بھی قابل اظہار ہے کہ میاں عبداحی صاحب بھی ہمارے تمام مشوروں میں شریک رہے اور ان کے شریک ہونے کی وجہ سے حضرت خلیفتہ امسیح علیہ السلام کی وصیت تھی جو حضرت نے اپنے انتقال سے پانچ چھ گھنٹے پہلے عبدالحی کو کی تھی اور وہ یہ تھی کہ میں اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ پر ایمان رکھتا ہوں اور مرزا صاحب کو مسیح موعود اور نبی مانتا ہوں اور مجھ کو حضرت مسیح موعود کی اولاد تم سے کہیں زیادہ پیاری ہے.پھر ایک مصر کے خط پر لکھا کہ اب ہمارا علم بہت بڑھ گیا ہے ہم تم کو پڑھائیں گے اور اگر ہم نہ ہوئے تو میاں محمود احمد صاحب سے پڑھنا.* پھر ایک دفعہ فرمایا کہ شاہ سلیمان صاحب ۲۲ برس کی عمر میں خلیفہ ہوئے.میں (نے ) یہ امر ایک خاص بقیہ حاشیہ: - لئے اور ظہر کی نماز کے لئے جو مسجد مبارک میں آپ نے پڑھائی تھی آپ شہر تشریف لائے تھے اور جو نفل پڑھنے کا اوپر ذکر آیا ہے یہ فضل آپ نے اپنے مکان میں پڑھے تھے.(مؤلف) حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے الفاظ بیعت بتلاتے جانے کا ذکر حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے آئینہ خلافت میں صفحہ ۱۹۱،۱۹۰ اپر اور مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے الحکم جو بلی نمبر میں صفحہ ۳۵ کالم ۳۲ پر کیا ہے.(مؤلف) اس وصیت کا مفصل ذکر (الفضل جلد نمبر ۴ صفحہ اکالم ۱) پرچہ ۱۸ مارچ ۱۹۱۴ء میں موجود ہے.(مؤلف) * حضرت خلیفہ المسیح اول نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو فرمایا اگر زندگی باقی ہے تو تمہیں ہفتہ کے روز قرآن ختم کر دینے کا ارادہ ہے ورنہ میرے بعد اپنے بھائی سے ختم کر لینا.“ (مؤلف)
361 وجہ سے کہا ہے.اس کو یا درکھوتمہارا بھلا ہوگا.وصیت میں بھی غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے حضرت نے اشارہ کر دیا ہے کیونکہ آپ نے اپنی اولاد اور حضرت صاحب کے نئے پرانے احباب کی بابت وصیت وسفارش کی مگر اہل بیت کی بابت کچھ نہ لکھا.اور تعجب ہے کہ جن کو وہ اس قدر محبت کرتے ہیں ان کی بابت کچھ نہ تحریر فرما ئیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ خلیفہ حضرت موصوف اہل بیت سے سمجھتے تھے.اسی طرح بہت سے شواہد ہیں.خودحضرت مسیح موعود علیہ (السلام) کے الہامات بھی شاہد ہیں.اور ( یہ ) امر بھی قابل لحاظ ہے کہ موافقین تو خیر میاں صاحب کی طرف خیال رکھتے ہی تھے مخالفین کا بھی تو یہی خیال تھا کہ میاں صاحب ہی قابل خلافت ہیں.کیونکہ مولوی محمد علی صاحب کے اعلان ضروری کو پڑھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ ایک خاص شخص کی طرف تمام قوم کا رجحان ہے اور ان کو خوف ہے (کہ) وہ خلیفہ ضرور ہو گا.کیونکہ قابل وہی ہے اس لئے کوئی ایسی پابندی لگائی جائے کہ ان کے اظہار خیالات کو وہ نہ روک سکے اس سے عام قبولیت ظاہر ہے.اب میں اس طرف آتا ہوں کہ مولوی محمد علی صاحب وغیرہ جیسا کہ ان کے اعلان سے معلوم ہوتا ہے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کو تین چار امور میں اختلاف ہے.اول مسئلہ کفر، اول تو یہ مسئلہ ایسا اہم نہیں کہ جس کی وجہ سے قوم کے دو ٹکڑے ہوں.اور پھر خود میاں صاحب سے وہ بعد از خلافت بھی گفتگو کر سکتے تھے اور بعد کی مولوی محمد علی صاحب کی گفتگو جو مولوی فضل دین صاحب مولوی فاضل مختار بٹالہ سے ہوئی اس کا ماحصل یہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکر مسیح موعود کے کافر ہیں اور میاں صاحب بھی اس کے قائل ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کفر دراصل حضرت رسول کریم کا کفر ہے کیونکہ حضرت مرزا صاحب بروز محمد تھے اور وہ ظلی نبی تھے.اسی طرح ان کا کفر بھی ظلمی کفر ہے.اور کفر دوں کفر صحیح امر ہے.پھر آپ ہی بتلائیں کہ اختلاف کیا ہے؟ یہ صرف اختلاف کے لئے حیلہ ہے.دوسری بات انہوں نے یہ درج کی ہے کہ انجمن کو تو ڑنا چاہتے ہیں.اول تو سوال یہ ہے کہ انجمن کیا ہے.قواعد کی رو سے تمام جماعت انجمن ہے کیونکہ تمام افراد احمدی انجمن کے ممبر ہیں تو کیا تمام سلسلہ کو توڑنا چاہتے ہیں؟ اور پھر مجلس معتمدین کیا یہ صرف سات آدمیوں خواجہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب،مولوی غلام حسین صاحب، سید حامد شاہ صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب کا نام ہے؟ کیا اس میں میاں صاحب اور خاکسار اور مولوی احسن صاحب، ڈاکٹر رشید الدین صاحب ، ڈاکٹر سید محمد اسمعیل، مرزا بشیر احمد صاحب، مولوی شیر ( علی ) اور سیٹھ عبدالرحمن صاحب نہیں.اور کیا اتنے ہی ممبر دوسرے خیال کے نہیں؟ اور پھر سب سے زیادہ بدر جلد ۹ نمبر ۱۴ صفحہ ۹ کالم ۳ پر چہ ۲۷ / جنوری ۱۹۱۰ء میں یہ ارشاد چھپ چکا ہے.(مؤلف)
362 مخالف موجودہ طرز کی انجمنوں کا یعنی جو باتباع قواعد یورپ ہیں میں یعنی خاکسار راقم الحروف ہے جس کا ایمان ہے کہ انجمنوں کا قیام نفاق کے بغیر نہیں رہ سکتا اس لئے یہ مسلمانوں کے لئے ناموافق ہیں اور یہ ایمان انجمنوں میں رہ کر خود انجمنیں بنا کر اور ان کے سیکرٹری وغیرہ رہ کر تجربہ کے بعد حاصل ہوا.مگر چونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم کی ہے اس لئے میں اس کے قیام کو ضروری سمجھتا ہوں اور دراصل ایک طرح اس انجمن کا بانی بھی میں ہی ہوں شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ الوصیت سے چند روز پہلے میں نے تحریک کر کے ایک مجمع کرایا تھا اور اس میں یہ تجویز ہوئی تھی کہ ایک صدر انجمن ہو.اور اس کی شاخیں تمام اضلاع میں ہوں اور آخر اس کے لئے تصفیہ ہوا تھا (ابھی اس انجمن کے متعلق تصفیہ نہ ہوا تھا ) کہ حضرت اقدس نے الوصیت تحریر فرمائی.اور ایک کمیٹی چودہ آدمیوں کی بہشتی مقبرہ کے انتظام کے لئے مقرر فرمائی دیکھ لیجئے الوصیت.مگر میں (نے) مولوی محمد علی صاحب صاحب اور خواجہ صاحب سے کہا کہ کیوں نہ درخواست کی جائے کہ تمام انتظام دیگر مدات بھی اسی کے سپرد ہوں اور وہ انجمن جو ہم بنانا چاہتے تھے وہ اس طرح قائم ہو جائے چنانچہ ہم نے قواعد بنا کر حضرت اقدس سے دستخط کرالئے.پس یہ ہمارا وہم بھی نہیں جاتا کہ انجمن کو تو ڑا جائے اور نہ میاں صاحب کا کبھی یہ خیال ہوا اور نہ ہے کہ انجمن توڑی جائے اور اب بھی اس طرح انجمن چل رہی ہے.ہاں میں نے اس وقت جب قواعد انجمن بن رہے تھے یہ کہا تھا کہ یورپین طرز کی انجمن ( نہ ) بناؤ بلکہ مجلس شوری ہو.اور پھر میں نے ہی کانفرنس کی تجویز کی تھی.سوال تو یہ ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو انجمن کے موید کہتے ہیں اور انجمن کو خلیفہ قرار دیتے ہیں انہوں نے انجمن کو کس قدر قوم کے لئے مفید بنایا ہے جس سے قوم میں اس کی کوئی اہمیت پیدا ہوا ؟ انجمن محض ایک چندہ وصول کرنے والی اس وقت ہے.ہم جن کو انجمن توڑنے والا کہا جاتا ہے.وہ باوجود اختلاف وہ اہمیت انجمن کی قوم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ جس سے ایک قوم قوم کہلائے.ہاں یہ امر ہماری رائے میں خلیفہ کی ماتحتی سے ہوسکتا ہے.اور اسی لئے انجمن اسی طرح مطیع خلیفہ ہے جس طرح تمام قوم.اب آپ ذرا بار یک نظری ( سے ) بھی غور فرمائیں.اور ( یہ ) جماعت اور انجمن کوئی دو چیزیں نہیں.پھر جب خلیفہ تمام قوم کا مطاع ہوا تو انجمن کیا مطبع نہیں ؟ فرض کرو کہ انجمن اور خلیفہ میں جھگڑا ہے.خلیفہ اپنے مریدوں سے کہتا ہے کہ تم انجمن کی اطاعت نہ کرو.پھر بتلاؤ کون ہے جو انجمن کی اطاعت کرے گا؟ دراصل یہ لوگ خلافت اڑانا چاہتے ہیں.اور خود خلیج الرسن ہونا چاہتے (ہیں) پھر آپ ہی بتلائیں کہ کسی فتنہ کو روکنے والا کون ہوگا؟ مرکز بلا خلیفہ قائم نہیں رہ سکتا.انجمن جس کو کہا جاتا ہے.وہاں تو پارٹی فیلنگ اور اختلاف ہے اور یہ ہونا ضروری ہے.پھر جب تک کسی ایک پر متحد نہ ہوں کس طرح امن سے رہ سکتا ہے؟ افسوس کہ لوگ یورپ کی اندھی تقلید
363 میں شعائر اسلام کو چھوڑ بیٹھے ہیں.آپ نے لکھا ہے کہ بطور پریذیڈنٹ خلیفہ رہے.آپ نہیں جانتے کہ انجمنوں میں پریذیڈنٹ کی کیا وقعت ہے؟ سرد دل سے غور فرمائیں.یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انجمن رہے گی اور ضرور رہے گی.کوئی شخص با وجود اس اختیار (کے ) کہ انجمن کو توڑ سکے بہ سبب اس ارادت کے جو مسیح موعود سے ہر فرد کو ہے.خصوصاً ان کی اولا د کوکس طرح ممکن ہے کہ اس پیارے کی قائم کردہ چیز کو بر با دکر دے مگر ہم اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ سات آدمیوں کا نام انجمن ہے اور جوان کی مخالفت کرے وہ انجمن کا مخالف ہے.رہی تیسری بات کہ میاں صاحب مداہنت سکھاتے ہیں.وہ مداہنت نہیں سکھاتے بلکہ وہ ادب سکھاتے ہیں جس پر چل کر صحابہ کامیاب ہوئے اور جس کو مسیح موعود اور حضرت خلیفتہ امسیح علیہ السلام نے سکھلایا.آپ کا یہ تحریر فرمانا کہ میں میاں صاحب کی خدمت میں عرض کروں میں تو جب عرض کروں جب میں نے میاں صاحب کو خلیفہ بنایا ہو.جس کو خدا نے خلیفہ بنایا ہے اس کو وہی کہہ سکتا ہے آپ خدا وند تعالیٰ سے عرض کریں میں نے مفصل لکھ دیا ہے کہ خدا کرے کہ مفید ہو.محمد علی خاں ( مکرر ) بعض لوگوں کو یہ شک بھی ہورہا ہے کہ حضرت مولانا نورالدین صاحب کی خلافت کے وقت اختلاف نہ تھا اور اب اختلاف تھا.اصل میں بعض دفعہ انسان غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے اور اس کو یاد نہیں رہتا.حضرت مولانا مرحوم کے وقت بھی یہ اندیشہ تھا کہ لوگ الوصیت کے سمجھنے میں دھوکے میں نہ پڑیں.اور جہاں چالیس آدمیوں کا کسی پر حسن ظن ہو وہاں بیعت کر لیں اس لئے یہ ضروری ہوا کہ اس کا موقعہ نہ دیا جائے.اور اس وقت ملہمین سے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک خائف تھے اور انہی کی زبان بندی کے لئے حقیقۃ الوحی لکھی گئی تھی.چنانچہ بعد میں کئی شخصوں نے قدرت ثانی کا دعوی کیا اور اب تک مدعی ہیں.پس جس طرح اس وقت ایک مسلک میں منسلک کرنے کی ضرورت بہت جلد تھی اسی طرح اس وقت بھی ضرورت تھی.مولوی محمد علی صاحب نے یہ جو لکھا ہے کہ خواجہ صاحب کے پوچھنے پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کہا تھا کہ کیا ہوا جو بہت سے خلیفے یا بیعت لینے والے ہو جائیں گے میں ان اوقات میں موجود تھا.اور بلکہ اب جلسہ خاص میں مجھ کو مخاطب ہو کر مولوی محمد علی صاحب ( نے) کہا کہ آپ بھی (یعنی خاکسار ) اس وقت تھے مگر جہاں تک مجھ کو یاد ہے ہرگز میرے سامنے ایسا تذکرہ نہیں ہوا.یہ بالکل غلط بات ہے ہاں ہم سوچا کرتے تھے کہ اس طرح فتنہ ( کا اندیشہ ہے اور اسی لئے بہت جلد حضرت مولانا مرحوم پر سب جمع ہو گئے.شیخ صاحب! اس وقت دراصل یہ لوگ خلافت کو ہی اڑانا چاہتے تھے.ان کی نیت اگر نیک ہوتی تو یہ اگر میاں صاحب سے اختلاف رکھتے تھے تو بجائے اس کے (کہ) ادھر ادھر کے حیلے کرتے صاف لکھتے
364 کہ میاں صاحب کا خلیفہ ہونا ہم پسند نہیں کرتے فلاں شخص خلیفہ ہو.اور اپنا ہم خیال تجویز کرتے مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اپنے ہم خیال پر بھی اطمینان نہ تھا اور اس لئے وہ سرے سے ہی خلافت اڑانا چاہتے تھے.اور بار بار حضرت خلیفہ اسی مرحوم کے زمانہ (میں) خلافت کی خلاف ورزی کی اور اس بات پر توبہ کی اور پھر اپنا خیال نہ چھوٹا جو آخراب پھوٹا.) چھوٹا.راقم حمد علی خان) نواب صاحب وقتی حضرت خلیفہ المسح اول وانتخاب حضرت خلیفہ المسیح الثانی حضرت خلیفہ امسیح سے حددرجہ اخلاص کا نتیجہ ہی تھا کہ آخری دو ہفتے نواب صاحب کو حضور کی عیادت وخدمت کا بہترین موقعہ میسر آیا.ڈاکٹروں نے قصبہ سے باہر کسی کھلی جگہ کا مشورہ دیا.پہلے تو بورڈ نگ مدرسہ تعلیم الاسلام کی بالائی منزل کی تجویز ہوئی لیکن نواب صاحب نے اپنی کوٹھی ( دار السلام ) کا ایک حصہ خالی کر دینے کا انتظام کیا اور آپ کی مکرر درخواست پر حضور نے وہاں جانا پسند فرمالیا.یہ نقل مکانی ۲۷ فروری ۱۹۱۴ء کو بروز جمعہ قبل عصر عمل میں آئی.یہاں حضور کی علالت کے باعث حضرت ام المؤمنین اطال اللہ بقاء با اور حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی) مع اہل بیت نے بھی اقامت فرمائی.اس کوٹھی کا منظر حضور کو پسند تھا.چنانچہ ۲۸ فروری ۱۹۱۴ء کو نواب صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مکان بہت خوب ہے.اس میں مجھے بہت آرام ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے.اور غریبوں کے پاس کیا ہے؟ اب یہ مکان تمام تو جہات اور سرگرمیوں کا مرکز بن گیا اور یہاں بہت سے تاریخی واقعات حضور کا آخری وصیت تحریر فرما نا.اسے مولوی محمد علی صاحب سے تین بار پڑھوانا اور اس وصیت کو نواب صاحب کے پاس سر بمہر محفوظ رکھوانا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا خاندان حضرت مسیح موعود سے خلافت ثانیہ کے بارہ میں شوری کرنا اور حضور کا ۱۳ مارچ کو بروز جمعہ بحالت نماز سوادو بجے وصال پانا وقوع پذیر ہوئے.۲۶۲ ۱۴ مارچ کو صدرانجمن کا اجلاس ہوا اور بعد ازاں مسجد نور میں خلافت ثانیہ کا انتخاب عمل میں آیا.اس بارہ میں معزز الحکم رقمطراز ہے.مذکور بالا تمام امور الحکم جلد ۱۸ نمبر اصفحہ ۱ ا کالم اپر چہ ۲۸ فروری ۱۹۱۴ء والفضل جلدا نمبر ۳۸ صفحه ا کالم اپر چہ بدھ مورخہ ۴ / مارچ ۱۹۱۴ء، نمبر ۳۹ صفحه ا کالم ۲ پر چہار مارچ ۱۹۱۴ء وآئینہ صداقت صفحه ۱۷۶ میں مندرج ہیں.
365 ۴ار مارچ ۱۹۱۴ء کو بعد نماز ظہر نواب صاحب کے مکان پر صدرانجمن کے ممبران موجودہ قادیان و بعض دیگر اہل الرائے احباب کا ایک خاص جلسہ بغرض مشورہ ضرورت خلیفہ ہوا.اس میں حضرت فاضل امروہی، حضرت نواب محمد علی خاں صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ بشیر احمد صاحب، جناب مولوی محمد علی صاحب، جناب ماسٹر صدرالدین صاحب، جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ، جناب ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب، جناب شیخ رحمت اللہ صاحب اور مولوی شیر علی صاحب اور میر ناصر نواب صاحب وغیر ہا.اس شوری میں مولوی محمد علی صاحب ڈاکٹر صاحبان اور شیخ صاحب اور ماسٹر صاحب ایک طرف تھے.اور باقی بزرگ ایک امر پر متفق تھے آخر یہ تمام کونسل مسجد نور میں نماز عصر کے لئے پہنچی اور بعد نماز عصر تمام مجلس میں جہاں ایک کثیر جماعت مختلف اطراف ملک سے آکر جمع ہو چکی تھی سب سے اول (۱) حضرت نواب صاحب نے حضرت امیر المؤمنین سیدنا نورالدین صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ کے وصی ہونے کی حیثیت سے پبلک کے سامنے وہ امانت پیش کی جو حضرت امیر مرحوم نے اپنی قلم سے لکھی تھی.اور مولوی محمدعلی صاحب سے تین مرتبہ پڑھوا کر نواب صاحب کے پاس بطور امانت رکھوادی تھی.نواب صاحب نے کھڑے ہو کر مندرجہ ذیل تقریر کی.صاحبان مجھ پر حضرت خلیفہ اسیح ایک نہایت بھاری بوجھ ڈال گئے ہیں اور ایک بہت بڑی امانت میرے سپر د کر گئے ہیں اور وہ آپ کی وصیت ہے میں اسے آپ کے سامنے پڑھتا اور پیش کرتا ہوں تا کہ آپ اس وصیت کے موافق فیصلہ کریں کہ کوئی شخص خلیفہ ہو حضرت خلیفہ اسیح کا جنازہ پڑھنا ہے اور آپ کو دفن کرنا 66 ہے اور یہ سب کام خلیفہ کے ذریعہ ہو گا.پس اب میں وصیت پڑھتا ہوں.“ وصیت سنا کر فرمایا: یہ وصیت ہے حضرت خلیفتہ امسیح کی جس کو مولوی محمد علی صاحب نے تین بار حضرت کے حکم سے اس جلسہ میں پڑھا جہاں یہ وصیت لکھی گئی تھی.اور میرے عرض کرنے پر اس پر دستخط کر دئے.اور پھر میں نے احتیاط کے لئے مولوی محمد علی صاحب، مرزا یعقوب بیگ صاحب اور صاحبزادہ محموداحمد....صاحب کے دستخط کرالئے.اب ضروری ہے کہ اس وصیت کے موافق فیصلہ کریں کہ کون خلیفہ ہو.“ نواب صاحب کے وصیت سنانے کے متعلق دوسری جگہ یوں مرقوم ہے.☆".“ بعد نماز عصر حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بہ حیثیت وصی حضرت خلیفہ المسیح رضی اللہ عنہ کی وصیت کو پیش کیا اور انتخاب جانشین کا سوال پیش کیا.حضرت فاضل امروہی نے کھڑے ہوکر نہایت
366 نواب صاحب کے بعد حضرت مولانا سید محمد احسن صاحب فاضل امر وہی جو ہماری خوش قسمتی سے پہنچ گئے تھے کھڑے ہوئے.اور انہوں نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.’ایہاالاحجاب انواب صاحب نے ( جو وصیت حضرت خلیفتہ امسیح کی ان کے پاس امانت تھی ) آپ کو بقیہ حاشیہ: - رقت، اخلاص اور جوش سے جماعت کو امام کے انتخاب کے متعلق نصیحت فرمائی اور آخر فر مایا که صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اس کے اہل ہیں.ان کے ہاتھ پر میں بیعت کرتا ہوں اس پر ۲۶۳ چاروں طرف سے لوگوں نے بیعت کا اقرار اور اصرار کیا.جس پر صاحبزادہ صاحب نے بیعت لی.“ کتاب ہذا کے صفحہ ۳۴۹ پر میں نے تحریر کیا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کی اس وصیت کے الفاظ مطبوعہ میں شدید اختلاف ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا میں حد درجہ ممنون ہوں کہ انہوں نے از راہ کرم اس تاریخی وصیت کا چره به انتر واکر بھجوا دیا ہے.جو ذیل میں درج ہے.بالسترين السلم تحده را در یک ده که م ده به تیمر تقالها را انتا بھی جو اس استارت دلال الاحمر ولا اله ائے بہت ہماری گہ انی انگلی بردوش ما مردانه رانها با دریا که میان خود قایم کیا جارت رو قف على
367 سنا دی ہے حضرت خلیفہ امسیح نے بتاکید مولانا محمدعلی کی معرفت تین مرتبہ سنا دیا.اور نواب صاحب کے سپرد ہو پر و تقریر عالم پائیل بیت میرا جانشین فرمی روانی اخبار ہے اور بھی حدات 0 ว ر پو سے دور کر کو کام میں لاد پر گیارہ بھی خبر واست هي السم پرورده شد کٹر علی کا قرآن و حدیث دار نوزادیم نچه ائیر وایر اورده شود گواه تو جم گوگل شد چہ بہ کی عبارت یہ ہے.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی علی رسوله الكريم مع التسليم!! خاکسار بقائمی حواس لکھتا ہے.لا اله الا الله محمد رسول اللہ.میرے بچے چھوٹے ہیں ہمارے گھر مال نہیں ان کا اللہ حافظ ہے ان کی پرورش امدادی یا یتامی یا مساکین سے نہ ہو.کچھ قرضہ حسنہ جمع کیا جائے لائق لڑکے ادا کریں یا کتب، جائیدا دقف علی الاولاد ہو.میرا جانشین متقی ہو ، ہر دلعزیز عالم باعمل ہو.حضرت صاحب کے
368 کر دیا جو انہوں نے پوری امانت کے ساتھ آپ تک پہنچا دیا اور وہ تبلیغ کے ذمہ سے فارغ ہو گئے.خاکساراس وصیت کا مصداق جس کو صدق دل سے سمجھتا ہے عرض کرتا ہے جو کچھ عرض کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ صدق دل سے اور ایمان سے کہہ رہا ہوں نہ نفاق سے تم میں سے اکثر جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مسئلہ مسیح موعود کے لئے سور و پیر کا روز گار ترک کیا اور بہت کچھ جائیداد چھوڑی مگر میں اس پر فخر نہیں کرتا صرف اس لئے کہتا ہوں کہ خوشامد میری مزاج میں نہیں اور حق کے بیان کرنے سے میں نہیں ڈرتا اس لئے عرض کرتا ہوں کہ اگر چہ میں نالائق ہوں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس خاکسار پر مہربانی فرماتے تھے.اور آپ نے اپنے ہاتھ سے مجھے لکھا کہ تم وہ ایک فرشتے ہو جس کے کندھے پر مسیح موعود کا نزول ہوگا.ولا فخرى ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ هديتنا وهب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوهاب.”سب صاحبان کو یہی دعا کرنی چاہئے.میں اس وصیت کا مصداق حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کو سمجھتا ہوں اس کے دلائل اور براہین میں نے رسالہ فلاح دارین میں لکھے ہیں.اس وقت میں ان کو بیان نہیں کرسکتا کیونکہ تاخیر ہوگی کچھ دلائل میں نے جلسہ خاص میں بیان کئے ہیں ذریت طیبہ کے متعلق آیات اور دلائل لکھے ہیں دس بارہ آیات سے کم نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اس کے متعلق ہیں میں ان کا مصداق صدق دل سے سمجھتا ہوں.اور میں یہ درست نہیں سمجھتا کہ سو برس یا ہزار برس کے بعد خلیفہ آئے گا.اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ 7 سے جو استدلال اور تمسک کیا جاتا ہے وہ صحیح نہیں.کیا کسی شخص کی عقل کہہ سکتی ہے کہ سو برس کے بعد وصیت جاری ہوگی؟ اور اولاد کی نگرانی بھی سو برس کے بعد ہوگی؟ صحابہ تجہیز وتکفین پر خلیفہ قائم کرنا مقدم جانتے تھے اور میں بھی یہی سمجھتا ہوں.پس وصیت کے دو جزو ہیں ایک حضرت کا اپنی اولاد کے متعلق دوسرا اپنے جانشین کے متعلق اس کا فیصلہ مقدم ہے (اس پر بقیہ حاشیہ : - پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی در گز ر کو کام میں لاوے.میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ رہے قرآن وحدیث ) کا ) درس جاری رہے.والسلام نورالدین ۴ مارچ بعد اعلان گواه شد گواه شد گواه شد گواه شد محمد علی خاں مرزا محمود احمد مرزا یعقوب بیگ محمد علی ۴-۳-۱۴ ۴-۳-۱۴ ۴-۳-۱۴
369 آواز میں اٹھیں کہ میاں صاحب، میاں صاحب اور میں تو صاحبزادہ صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں.اس پر ہر طرف سے پہلے ہی بیعت ، بیعت ، میاں صاحب ، میاں صاحب کی آوازوں سے مسجد گونج اٹھی.اور ایک محبت اور روحانی جوش کے ولولہ سے بے قرار ہو کر لوگ آگے بڑھے اور قبل اس کے کہ صاحبزادہ صاحب کچھ بولیں لوگ بیعت کے لئے ایک دوسرے پر مسابقت کرنے لگے جس پرانہوں نے بیعت لے لی.“ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کا بیان ہے کہ بوقت بیعت’جب دیر تک کوئی آواز میرے کان الحکم جلده انمبر ۴ صفحه۲ پر چه ۲۱ مارچ ۱۹۱۴ء.الفضل میں اس بارہ میں مرقوم ہے.۴ ار مارچ عصر کی نماز کے وقت مسجد نور میں قریباً دو ہزار کے مجمع میں خلیفہ مسیح کی وصیت کے امین نواب محمد علی خاں صاحب نے وہ وصیت سنائی جو خلیفہ مسیح نے ۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو بموجودگی قریب ایک سو آدمی کے جن میں مولوی محمد علی صاحب ، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، میاں معراج دین صاحب ، حضرت میاں صاحب بھی شامل تھے اپنے قلم سے لکھ کر نواب صاحب کے حوالہ بطور امانت کی تھی.وصیت سنانے کے بعد نواب صاحب نے قوم کو مخاطب کر کے کہا کہ جو امانت حضرت خلیفہ مسیح نے میرے سپرد کی تھی اس کو میں نے پہنچا دیا ہے اب اس کے مطابق انتخاب کرنا آپ لوگوں کا کام ہے نواب صاحب یہ بات کہہ کر ابھی بیٹھنے ہی نہ پائے تھے کہ میاں صاحب میاں صاحب کی آوازیں بلند ہوئیں اور سب بانشراح صدر پکارا تھے کہ میاں صاحب ہماری بیعت لیں.سب سے پہلے حضرت فاضل سید محمد احسن صاحب نے اٹھ کر کہا کہ میں وہ شخص ہوں کہ میری نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان دوفرشتوں میں سے جن کے کندھوں پر مسیح کا نازل ہونا حدیثوں میں آیا ہے ایک فرشتہ (خاکسار) ہے.- میں صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب کو ہر طرح اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ بیعت لیں اور ان کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ وہ ہماری بیعت کو قبول فرما دیں.مولوی محمد احسن صاحب ابھی کھڑے ہی تھے کہ چاروں طرف سے لوگ میاں صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے ایک دوسرے پر گرنے شروع ہوئے اور میاں صاحب کے ہاتھ کو اپنی طرف کھینچ کر بیعت کی درخواست کی اور جو کثرت اثر دھام کی وجہ سے قریب نہ پہنچ سکتے تھے انہوں نے اپنی پگڑیاں میاں صاحب تک پہنچائیں جولوگ اس وقت میاں صاحب کے قریب موجود تھے وہ عرض کرتے تھے کہ آپ بیعت شروع کریں لیکن آپ خاموش تھے.بار بار باصرار عرض کرنے پر آپ نے...بیعت لینی شروع کی.“ ۲۶۵
370 میں نہ پڑی تو میں نے بوجھ تلے دبا ہوا اپنا سر زور کر کے اٹھایا.لوگوں کے ہاتھوں کی اوٹ دور کر کے جھانکا مظہر خلافت کی طرف نظر کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضور گویا میری ہی تلاش میں تھے.دیکھ کر فرمایا مولوی صاحب مجھے تو الفاظ بیعت بھی یاد نہیں.بے خیالی میں اچانک اور غیر متوقع یہ بار مجھ پر آن پڑا ہے آپ الفاظ بیعت بولتے جائیں.میں الفاظ بیعت بولتا گیا.اور حضرت دوہراتے گئے.اور اس طرح حضور نے بیعت لی.“ بیعت کے بعد حضور نے لمبی دعا فرمائی اور پھر مختصر تقریر میں احباب کو اطاعت و فرمانبرداری کی تلقین کی.......اہلبیت حضرت خلیفہ اول کے اخراجات بحیثیت وصی ہونے کے نواب صاحب نے ذیل کی چٹھی حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ الہتعالی کی خدمت میں اہلبیت حضرت خلیفتہ اسیح اول رضی اللہ عنہ کے اخراجات کے انتظام کے لئے لکھی.بسم الله الرحمن الرحيم سیدی حضرت خلیق اسی اثنی علیہ السلام سلمکم اللہ علی خا السلام علیکم.حضرت مولا نا مولوی نورالدین صاحب مرحوم مغفور خلیفتہ امسیح علیہ السلام اول کی وصیت جو میرے سپر د حضرت موصوف نے کی تھی اس کا ایک حصہ پورا ہو چکا ہے.اب حصہ اول وصیت حضرت موصوف یعنی جو کچھ اولاد جائیداد کے متعلق درج فرمایا اس کا پورا کرنا ضروری ہے.میرے خیال میں ایک کمیٹی مندرجہ شخصوں کی بنائی (جائے ) خاکسار بوجہ حامل وصیت ہونے کے.مولوی سرور شاہ صاحب، پیر منظورمحمد صاحب، میاں عبدالحی صاحب مولوی شیر علی صاحب.بی.اسے یہ کمیٹی مندرجہ ذیل کام کرے اول- تحقیقات جائیداد حضرت خلیفہ ایج مرحوم مغفور.دوم.تمام اثاث البیت جس میں شرعا دخل جائز ہو اور کتب خانہ کی حفاظت اور فہرست مرتب کرے.سوم گزارہ اہل بیت حضرت موصوف واولاد کے لئے تدابیر انتظام ومقدار گزارہ کی بابت تجویز کرے.پس حضور اگر یہ مناسب تصور فرمائیں اس کی بابت مناسب حکم دیا جائے اور کمیٹی اگر یہی مناسب ہے پس اگر یہ دیا یہی ان کی بابت ورنہ جو مناسب ہوں ان کو مقررفرما ئیں اور سر دست ۲۰۰ روپیہ برائے اخراجات دے دیا جائے تا وقتیکہ مناسب انتظام ہو.المرقوم ۲۱ مارچ ۱۹۱۴ء محمد علی خاں حضور نے اس پر تحریر فرمایا: السلام عليكم
371 بہت بہتر ہے آپ ہی ان اصحاب کو جمع کر کے کوئی فیصلہ فرما دیں کتب خانہ کے معاملہ میں مولوی غلام نبی صاحب کو بھی مشورہ میں شامل کر لیا جائے.خاکسار مرزا محمود احمد نوٹ.یہ دونوں تحریریں مؤلف کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم سے دستیاب ہوئی ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ میں دونوں تحریروں کو پہچانتا ہوں اور تصدیق کرتا ہوں کہ حضرت نواب صاحب اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی قلمی ہیں.استحکام خلافت کے لئے نواب صاحب کی مساعی خلافت ثانیہ کا انتخاب تو ہو چکا لیکن مصائب کے بادل اب زیادہ گھٹا ٹوپ صورت میں افق پر چھا گئے تھے.محض انتخاب سے یہ فتنہ ختم نہ ہونا تھا بلکہ اس کے استیصال کے لئے بہی خواہان خلافت کی ان تھک مساعی درکار تھیں.چنانچہ اس سلسلہ میں نواب صاحب کو بھی ذیل کے کام کرنے کی توفیق ارزانی ہوئی اور بالآخر اس فتنہ کے بادل چھٹ گئے اور جماعت کا اکثر حصہ ہدایت کی طرف آ گیا.فالحمد اللہ علی ذالک.نواب صاحب نے اس بارہ میں جو مساعی کیں ان کا تھوڑ اسا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے.انتخاب خلافت ثانیہ وتحریک بیعت کا اعلان پون صد کے قریب احباب کی طرف سے ۱۵ / مارچ ۱۹۱۴ء کو ذیل کا اعلان جاری کیا گیا جس میں پہلا نام مولوی محمد احسن صاحب کا دوسرا نواب صاحب اور بعد ازاں صاحبزادگان مرزا بشیر احمد صاحب، مرزا شریف احمد صاحب اور میاں عبدالحی صاحب کے اسماء درج ہیں.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم اعلان برادران - السلام عليكم ورحمة الله وبركاته حضرت سید نا خلیفتہ امسیح امیر المؤمنین نور الدین رضی اللہ عنہ بقضائے الہی ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو بعد از نماز جمعہ اس جہان فانی سے دار جاودانی کو رحلت فرما گئے.انا الله وانا اليه راجعون.اللهم الحقه بالرفيق
372 الاعلیٰ.آپ کے بعد ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو بعد از نماز عصر مسجد نور میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ واید خلیفہ قرار پائے اور اسی وقت قریباً دو ہزار آدمیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور حضور ممدوح نے ایک مختصر تقریر اور دعا کے بعد ہائی سکول کے شمالی جانب میدان میں نماز جنازہ پڑھائی اور قبل از نماز مغرب حضرت مسیح موعود کے مزار مبارک کے دائیں جانب حضرت مغفور قرار گزیں ہوئے.اللههم اكرم نزله وسع مدخله ـ جو احباب اس موقعہ پر حاضر نہ ہو سکے ہوں وہ بہت جلد حضرت خلیفتہ المہدی امیر المؤمنین حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد سلمہ اللہ واید کے ہاتھ پر بیعت سے مشرف ہوں.الفاظ بیعت اور حضور مدروح کی تقریر اول بذریعہ اخبارات شائع کئے جائیں گے.حضرت ام المؤمنین و اہل بیت خلیفتہ اسیح نے بیعت کر لی ہے.تحریک بیعت خلافت کے لئے ایک اور اعلان ایک اعلان اشتہار کی صورت میں قریباً مذکورہ بالا الفاظ میں ایک سوچون مبائعین کی طرف سے کیا گیا جن میں علی الترتیب خاندان نبوت کے چار افراد ممبران انجمن چھ ،علماء سولہ، گریجوایٹ آٹھ ،عہدہ داران سرکارسینتیس ، پریذیڈنٹ و سیکرٹری صاحبان پچاس ، ایڈیٹر صاحبان چھ اور معززین و تجارستائیس کس کے اسماء درج کئے گئے ہیں.نواب صاحب کا نام بطور ممبر مرقوم ہے.شرائط بیعت خلافت کے متعلق غلط بیانیوں کی تردید اعلان مندرجہ بالا کی پشت پر بہت جلی قلم سے ذیل کا اعلان کیا گیا."بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم شرائط بیعت بعض لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ حضرت سید نا اولوالعزم فضل عمر میرزا بشیر الدین محمود احمد سلمہ الفضل جلد نمبر ۴۰ صفحه ۱۶ پر چه ۱۸ / مارچ ۱۹۱۴ ء والحکم جلد ۱۸ نمبر ۴ صفحہ ۷ پر چه ۲۱ / مارچ ۱۹۱۴ء دونوں کی عبارت میں ایک آدھ لفظ کا اختلاف ہے نیز الحکم میں آخری فقرہ بابت حضرت ام المؤمنین درج نہیں ہے.
373 اللہ تعالٰی واید خلیفۃ المہدی کی خلافت پسند نہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس انتخاب پر نا خوش ہیں وہ عوام کو دھوکہ دے کر حضور ممدوح سے بدظن کرنے کے لئے طرح طرح کی غلط بیانیوں اور افتراؤں کے مرتکب ہو رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس طریق سے سلسلہ خلافت کو جسے ہم سے پہلے کوئی نہیں مٹاسکا، نابود کر دینے میں کامیاب ہو جائیں گے.لیکن انہیں یا در ہے اور خوب یادر ہے کہ جس طرح پہلے ناکام رہے اسی طرح ان کے حصہ میں بھی ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں اور ممکن نہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مقابلہ کر کے کامیابی کا منہ دیکھیں.کیا انسان اللہ تعالیٰ پر غالب آ سکتا ؟ سو منجملہ ان افتراؤں کے جو حضور کے خلاف ان لوگوں نے پھیلائے ہیں ایک یہ افتراء ہے کہ حضور نے بیعت میں یہ شرائط بھی رکھے ہیں کہ فلاں فلاں شخص کو منافق سمجھا جائے یا یہ کہ انہیں منافق کہا جائے اور یہ کہ غیر احمدیوں کو کا فرکہنا بھی داخل شرائط بیعت ہے.سو یا در ہے کہ یہ دونوں باتیں محض افتراء ہیں نہ تو بیعت کے وقت کسی کو منافق بتایا جاتا ہے اور نہ غیر احمدیوں کو کافر کہنا کوئی شرط بیعت ہے.اگر چہ یہ ایسے افتراء ہیں کہ انہیں کوئی انسان موٹی سے موٹی عقل والا بھی تسلیم نہیں کر سکتا تاہم اس خیال سے کہ کوئی کو نہ اندیش یہ خیال کر کے کہ ان باتوں کو جو بہت زور دے کر اور شدومد کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے ممکن ہے کہ ان میں کچھ سچائی بھی ہو صداقت کے قبول کرنے سے محروم نہ رہے ان افتراؤں کی تردید کے لئے ان سطور میں وہ شرائط بیعت بیان کئے جاتے ہیں جن پر آپ بیعت لیتے ہیں اور وہ یہ ہیں.الفاظ بیعت اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمداً عبده ورسوله (۳ بار) آج میں احمدی سلسلہ میں محمود کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں سے تو بہ کرتا ہوں اور اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آئندہ بھی گناہوں سے بچنے کی کوشش کروں گا.دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.شرک نہیں کروں گا.اسلام کے تمام احکام کو بجالانے کی کوشش کروں گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کروں گا.مسیح موعود کے تمام دعاوی پر ایمان رکھوں گا جو تم نیک کام بتاؤ گے ان میں تمہاری فرمانبرداری کروں گا.قرآن وحدیث کے پڑھنے اور سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا.حضرت صاحب کی کتابوں کو پڑھنے یا سننے اور یاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا.استغفر الله ربى من كل ذنب واتوب اليه (بار)رب انی ظلمت نفسي ظلماً كثيراً واعترف بذنبي فاغفر لي ذنوبی فانّه لا يغفر الذنوب الا انت.اے میرے رب میں نے اپنی جان
374 پر ظلم کیا اور بہت ظلم کیا اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں تو میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں.(آمین ) اگر اب بھی بدظنی سے کام لینے والے باز نہ آئیں تو ان کے لئے بجز دعا کے ہمارے پاس کوئی علاج نہیں.اللهم اهدهم وارحمهم وَالسّلام المشتهران محمد علی خاں، شیر علی.از قادیان ۲۱ / مارچ ۱۹۱۴ء اسی تاریخ کو امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بارہ صفحہ کا ٹریکٹ بنام ” کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے، شائع ہوا جس میں حضور نے مخالفین خلافت کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے بتایا ہے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ بناتا ہے اور جماعت کے اتحاد اور شریعت کے احکام کے پورا کرنے کے لئے ایک خلیفہ کا ہونا ضروری ہے.اور اس امر کی تردید کی ہے کہ سلسلۂ خلافت سے شرک پھیلتا ہے.اور گدیوں کے قائم ہونے کا خطرہ ہے.اور اس خبر کو غلط قرار دیا کہ ابھی تک کوئی خلیفہ مقرر نہیں ہوا اور بتایا کہ بیعت ضروری ہے اور مجھے بلا درخواست و کوشش خلیفہ بنایا گیا ہے اور یہ الزام غلط ہے کہ میں جھوٹا اور بڑائی کا طلبگار ہوں.اور اس خیال کی بھی تردید کی کہ خلافت کے انتخاب کے لئے ایک لمبی معیاد مقرر ہونی چاہئے تھی.اور جماعت کو تفرقہ کی راہ سے احتراز کرنے اور اتحاد اختیار کرنے کی تلقین کی ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنایا ہے کوئی مجھے معزول نہیں کرسکتا اور احباب کو دعاؤں، روزہ ، تہجد اور صدقہ کی نصیحت کی ہے تا کہ تفرقہ کی مصیبت ٹل جائے.اور فرمایا.فتنے ہیں اور ضرور ہیں مگر تم جو اپنے آپ کو اتحاد کی رسی میں جکڑ چکے ہو خوش ہو جاؤ کہ انجام تمہارے لئے بہتر ہوگا.تم خدا کی ایک برگزیدہ قوم ہو گے اور اس کے فضل کی بارشیں انشاء اللہ تم پر اس زور سے برسیں گی کہ تم حیران ہو جاؤ گے.میں جب اس فتنہ سے گھبرایا اور اپنے رب کے حضور گرا تو اس نے میرے قلب پر یہ مصرعہ نازل فرمایا.وو شکر اللہ مل گیا ہم کو وہ لعلِ بے بدل! اتنے میں مجھے ایک شخص نے جگادیا اور میں اٹھ کر بیٹھ گیا.مگر پھر مجھے غنودگی آئی اور میں اس غنودگی میں اپنے آپ کو کہتا ہوں کہ اس کا دوسرا مصرعہ یہ ہے کہ کیا ہوا گر قوم کا دل سنگ خارا ہوگیا مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ دوسرا مصرعہ الہامی تھا یا بطور تفہیم تھا.پھر کل بھی میں نے اپنے رب کے حضور
375 میں نہایت گھبرا کر شکایت کی کہ مولا ! میں ان غلط بیانیوں کا کیا جواب دوں جو میرے خلاف کی جاتی ہیں.اور عرض کی کہ ہر ایک بات حضور ہی کے اختیار میں ہے.اگر آپ چاہیں تو اس فتنہ کو دور کر سکتے ہیں تو مجھے ایک جماعت کی نسبت بتایا گیا کہ لیمز قنهم یعنی اللہ تعالیٰ ضرور ضرور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتلاء ہیں لیکن انجام بخیر ہوگا مگر یہ شرط ہے کہ تم اپنی دعاؤں میں کوتا ہی نہ کرو.“ (صفحہ ۱۲) مخالفین خلافت کے اعتراضات کی تردید میں اعلان مخالفین خلافت کے اعتراضات کا کہ خلیفہ تقویٰ کی راہ سے دور ہے.انہیں مدت سے خلافت کی خواہش تھی.انصار اللہ کی سازش سے خلیفہ بنائے گئے.اور صدرانجمن احمدیہ کے ممبروں سے مشورہ کے بغیر یہ کام ہوا.وہ جماعت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں.حضرت صاحب کے جاری کردہ کاموں کو روکنا چاہتے ہیں.لوگوں کو کافر کہتے ہیں.صدرانجمن احمدیہ کو توڑنا چاہتے ہیں.حضرت اقدس کے پرانے مخلصوں کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں وغیر ہا کا جواب صداقت ہمیشہ غالب رہتی ہے کے زیر عنوان مولوی سید محمد احسن صاحب، نواب صاحب، مولوی شیر علی صاحب، صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب، ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ممبران صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے ۷ اپریل ۱۹۱۴ء کو شائع کیا گیا.خلافت ثانیہ میں پہلی شوری کا بلایا جانا اور قواعد صدرانجمن میں تبدیلی خلافت ثانیہ کے قیام کے تین ہفتہ کے اندر ہی بمقتضائے حالات جماعتوں کو شوری کے لئے نمائندگان بھیجنے کے لئے ذیل کی چٹھی ارسال کی گئی تا کہ خلافت کے مفوضہ امور کی سرانجام دہی کے مطابق حضور مشورہ کرسکیں.برادر مکرم سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.حسب ارشاد حضرت امیر المؤمنین خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ مرقوم ہے کہ چونکہ بعض ضروری امور متعلقہ نظام سلسلہ پر غور اور قومی معاملات پیش آمدہ میں باہمی مشورہ کی ضرورت ہے.اس لئے قرار پایا ہے کہ یہاں ۱۲ را پریل ۱۹۱۴ء کو ایک جلسہ احباب منعقد کیا جائے.اس لئے آپ اپنے مقام کے ان تمام احباب کو جو حضرت امیر المومنین خلیفہ ثانی کی بیعت میں داخل ہو چکے ہیں جمع کر کے اور دو قائمقام سب کی طرف سے منتخب کر کے ۱۱ را پریل ۱۹۱۴ء کی شام کو قادیان بھیج یہ دو ورقہ اعلان بطور ضمیمہ الحکم بابت کے اپریل ۱۹۱۴ ء شائع ہوا.
376 دیں.اس امر میں فروگذاشت نہ ہو.ہم جانتے ہیں کہ اس سال متعدد مرتبہ آپ لوگوں کو قادیان آنے کی ضرورت پیش آئی ہے مگر دوستو ! اس موقع پر جو ہر طرح سے خدمت دین کا موقع ہے ہمیں وقت اور روپیہ کا سوال یقینا نہیں روک سکتا ہم یقین کرتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین کے حکم کی تعمیل کے لئے آپ اپنی جماعت کے قائم مقام ۱۱ را پریل ۱۹۱۴ ء کی شام کو یہاں بھیج دیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کے اس وقت کو جو اس کی راہ میں خرچ کرنیگے انشاء اللہ ضائع نہیں کریگا.را تمان ( مولوی ) سید محمد احسن امروہی (نواب ) محمد علی خاں.ڈاکٹر (خلیفہ ) رشید الدین ، مولوی شیر علی از قادیان دارالامان ۱۴ ر ا پریل ۱۹۱۴ء ان کے سامنے حضور نے ۱۲ اپریل ۱۹۱۴ء کو ایک تقریر میں بالوضاحت بیان کیا کہ انبیاء اور ان کی قائم مقامی میں خلفاء کا کیا کام ہوتا ہے اور بتایا کہ حضرت خلیفتہ اُسی اول کی وصیت قرآن مجید کے بیان کردہ انبیاء و خلفاء کے کام کی تشریح ہے اور معترضین کے ان اعتراضات کے جواب دیئے کہ خلیفہ صاحب مشورہ کے پابند نہیں تو اس مشورہ کا کیا فائدہ ہے انجمن کا حق غصب کیا ہے یہ لوگ شیعہ ہیں یہ پیر پرستی ہے.خلیفہ کی عمر چھوٹی ہے اور اس نے کیا خدمت کی ہے اگر خلیفے نہ ہوں تو کیا مسلمانوں کی نجات نہ ہوگی جب مسلمانوں میں خلافت نہ رہی تھی تو اس وقت مسلمانوں کا کیا حال تھا.نیز حضور جو تبلیغ کو وسعت دے کر تمام زبانوں کے جاننے والے مبلغ تیار کرنا اور ہندوستان میں تبلغ کا جال پھیلانا اور اور دینوی ترقی کے لئے نیا کالج قائم کرنا چاہتے تھے اس کا ذکر کیا نیز اس بارہ میں مشورہ طلب کیا کہ چونکہ انجمن کے بعض ممبروں نے بیعت خلافت نہیں کی اس لئے انتظام میں دقتیں پیش آتی ہیں کیونکہ وہ ہمبر سمجھتے ہیں کہ انجمن جانشین ہے اور خلیفہ کے ماتحت نہیں.حضور نے غور کے لئے اپنی تجاویز پیش کیں.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک رؤیا ء کی بنا پر ہر قسم کا چندہ میری معرفت بھیجیں.مجلس شوری کی ایسی صورت ہو کہ ساری جماعت کا اس میں مشورہ ہو.فی الحال دو تین علماء بطور ممبر انجمن میں زائد کئے جائیں تا کہ اختلاف کی وجہ سے دقتیں نہ پیدا ہوں.مولوی سید محمد احسن صاحب کی صدارت میں اجلاس ہوا فرمایا کا رروائی میں نواب صاحب یا منشی فرزند علی صاحب اس مجلس میں سیکر ٹری کے طور پر کام کریں اور مجلس میری تجاویز کے علاوہ نواب صاحب اور عرفانی صاحب کی تجاویز پر بھی غور کر لے.سوان دونوں نے بطور سیکرٹری کام کیا اور ان کی طرف سے اسماء نمائندگان جو ایک سونوے تھے اور کارروائی شائع ہوئی.چنانچہ اس اجلاس میں ایک فیصلہ یہ ہوا کہ قواعد صدر انجمن کی دفعہ ۱۸ میں الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جگہ حضرت خلیفہ مسیح مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی درج کئے جائیں باتفاق آراء ا قرار پایا که یه ریز ولیوشن بخدمت مجلس
377 ۲۶۸ معتمدین بذریعہ نواب محمد علی خاں صاحب.سید محمد احسن صاحب مرزا بشیر احمد صاحب.خلیفہ رشید الدین صاحب مولوی شیر علی صاحب پیش کرائے جائیں اور ان حضرات کی خدمت میں نہایت ادب سے التماس کی جائے کہ اس درخواست کو بہت جلد آئندہ کے اجلاس میں پیش کرانے کا انتظام فرما دیں.بنظر احتیاط حضرت امیر المومنین نے پسند فرمایا کہ اس شوریٰ کی تمام کارروائی بالخصوص قاعدہ نمبر ۱۸ کی ترمیم اپنی اپنی جماعتوں میں سنا کر ان کے فیصلے کی اطلاع دیں.سو اس قاعدے کی تبدیلی کے متعلق نمائندگان نے چھیاسٹھ جماعتوں کے احباب کے دستخطوں سے درخواستیں سیکرٹری صاحب کے پاس ۲۶ / اپریل سے پہلے پہلے جو جماعت کے قریباً تین چوتھائی کی آواز تھی بھجوائیں.چنانچہ مجلس معتمدین نے قوم کی اس درخواست کو اپنے ۲۶ / اپریل کے اجلاس میں منظور کر کے ریزولیوشن پاس کیا کہ: وو ہر ایک معاملہ میں مجلس معتمد بن اوراس کی ماتحت مجلس یا مجالس اگر کوئی ہوں اور صدرانجمن احمد بی اور اس کی کل شاخہائے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی کا حکم قطعی اور ناطق ہوگا.“ قاعدہ میں ترمیم اور ان جماعتوں کے اسماء کا اعلان نواب صاحب کی طرف سے بحیثیت سیکرٹری مجلس و کلاء ہوا الفضل بابت ۶ مئی ۱۹۱۴ء (ص۲۴) و منصب خلافت کے ابتدائی سرورق کا اندرونی صفحہ ) اس تعلق میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بیان فرماتے ہیں کہ ” مجھے حضرت نواب صاحب نے ذیل کا رقعہ بھیج کر بلوایا: شیخ صاحب السلام علیکم.ایک ضروری کام کے لئے آپ کی امداد کی ضرورت ہے.بس ابھی ذرا آجائیں بہت ضروری کام ہے.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ( پتہ ) شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی تاجر محمد علی خاں حضرت نواب صاحب قبلہ نے مجھے سیدنا حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعد پیدا شدہ فتنہ کے سلسلہ میں پنجاب میں مبائع جماعتوں کی خدمت میں ان کے امراء یا پریذیڈنٹوں کے ذریعہ امر خلافت سے متعلق بعض برسراقتدار ممبران صدر انجمن احمد یہ قادیان کے پیدا کردہ فتنہ کے متعلق سید نا حضرت اقدس خلیفتہ امسیح الثانی کی تجاویز پیش کر کے ان پر غور و خوض کے بعد فیصلہ کرنے اور قاعدہ نمبر ۱۸ کی ترمیم کے متعلق اپنی آراء مرکز میں بجھوانے وغیرہ کے سلسلہ میں فوری طور سے روانہ ہونے کا حکم دیا تھا چنانچہ میں نے پشاور تک کی جماعتوں میں پہنچ کر اس خدمت کو ادا کیا اور تمام حالات کی اطلاعات واپس قادیان پہنچ کر عرض کر دی تھیں.جماعتوں کے اخلاص اور خلافت ثانیہ سے وابستگی کے واقعات بھی عرض کر دئے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارا کام حسب دلخواہ عمل میں آ گیا.فالحمد اللہ علی ذلک.
378 جلسه شوری کی کارروائی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالے نے ایک انجمن قائم فرمائی جس کا نام اپنی ایک پرانی رؤیا کی بنا پر انجمن ترقی اسلام رکھا جس کے ممبر مولوی سید محمد احسن صاحب، نواب محمد علی خاں صاحب سید حامد شاہ صاحب ، مولوی شیر علی صاحب (سیکرٹری انجمن ہذا) مرزا بشیر احمد صاحب، ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب، ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب، سیٹھ عبد الرحمن حاجی اللہ رکھا صاحب مقرر کئے گئے.۲۶۹ مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق نواب صاحب کی شہادت: غیر مباکین کا کہنا تھا کہ حضرت خلیفہ مسیح اول نے مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق حضرت میاں صاحب ( حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ ) کو تنبیہ کی کہ وہ اس مسئلہ کو نہیں سمجھے اس کی تردید میں حضور نے حضرت مولوی سرور شاہ صاحب حضرت مولوی شیر علی صاحب وغیرہ ہم چار اشخاص کی شہادات پیش کی ہیں.چنانچہ نواب صاحب کی شہادت یوں ہے.دو مجھے جہاں تک یاد ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح علیہ السلام نے ترجمہ قرآن شریف است علیہ کے سننے کے وقت جو مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں فرمایا تھا کہ مجھ پر بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ کبھی میں (غیر احمد یوں ) کو کافر کہتا ہوں اور کبھی مسلمان.یہ دقیق مسئلہ ہے کسی نے نہیں سمجھا حتی کہ میاں نے بھی نہیں سمجھا.یہ مسئلہ بھی احمدیوں میں صاف ہونے کے قابل ہے.القول الفضل صفحہ ۴۵.یہ کتاب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالے نے ۱۹۱۵ء میں خواجہ کمال الدین صاحب کے رسالہ ” اندورنی اختلاف سلسلہ احمدیہ کے اسباب کے جواب میں ایک روز میں تالیف فرمائی تھی ) آئینہ صداقت صفحه ۹۵ و...با ختلاف چند الفاظ یوں درج ہے.” مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت خلیفہ اسیح علیہ السلام نے ترجمہ قرآن شریف کے سننے کے وقت جو مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں فرمایا تھا کہ مجھ پر بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ کبھی میں غیر احمد یوں کو مسلمان کہتا ہوں اور کبھی کا فریہ دقیق مسئلہ کسی نے نہیں سمجھا حتی کہ میاں نے بھی نہیں سمجھا.یہ مسئلہ بھی غیر احمد یوں میں صاف ہونے کے قابل ہے.“
379 یعنی حضرت میاں صاحب (خلیفہ مسیح الثانی ) سب احمد یوں میں سے زیادہ اس مسلہ کو سمجھنے کا حق رکھتے تھے اور اس کے سمجھانے میں مولوی محمد علی صاحب وغیرہ کا حضرت میاں صاحب سے اس کے سمجھنے میں کم قابل ہونا عیاں ہوتا ہے.مذکورہ بالا کوائف سے ظاہر ہے کہ اس وقت حالات کس قدر بھیانک تھے.چنانچہ اسی وجہ سے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالے نے اعلان فرمایا گو اس وقت چند ممبران مجلس معتمدین نے تقریر وتحریر کے ذریعہ یہ بات اپنے ہم خیالوں میں پھیلانی شروع کی ہے کہ وہ قادیان چندہ نہ بھیجیں کہ اس میں ان کے اموال کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے لیکن چونکہ خود صدر انجمن احمدیہ نے مجلس کی حیثیت سے میری کسی قسم کی مخالفت اب تک نہیں کی اس لئے میں نہیں چاہتا کہ انجمن کے چندوں میں کسی قسم کی رکاوٹ ہو.بہت سے احباب خطوط کے ذریعہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم چندوں کا کیا کریں آیا انجمن کو بھیجیں کہ نہ بھیجیں ، ان سب دوستوں کی اطلاع کے لئے ایسا ہی ان دوسرے احباب کی اطلاع کے لئے جو میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں اس اشتہار کے ذریعہ اعلان کرتا ہوں کہ چندے برابر صدر انجمن میں آنے چاہیئں ہاں چونکہ ابھی تک مجھے اطمینان نہیں کہ انجمن اس موجودہ فتنہ میں کیا حصہ لے گی.اس لئے میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ انجمن کے سب چندے میری معرفت ارسال ہوں میں انہیں خزانہ صدر انجمن میں داخل کرا کے انجمن کی رسید بھجوا دوں گا.ایسے مقامات جہاں کے سیکرٹری یا محاسب نے ابھی تک بیعت نہیں کی وہاں یہ انتظام ہوسکتا ہے کہ اگر محاسب یا سیکرٹری اس انتظام کو قبول کر لیں تو فبہاور نہ ان کی بجائے کوئی اور شخص مقرر کر دیا جائے جو مبائعین کا چندہ وصول کر کے بھیج دیا کرے.صدرانجمن سے استعفاء چونکہ خلافت اولی میں صدرانجمن کے بعض سرکردہ ممبروں نے فتنہ برپا کیا اور انہوں نے اثر ورسوخ سے جماعت کو بدراہ کرنا اور اس کا شیرازہ منتشر کرنا چاہا انہوں نے خلافت ثانیہ کو قبول نہ کیا.ان امور کا حضرت نواب صاحب کے دل و دماغ پر نہ صرف گہرا اثر پڑا بلکہ یہ اثر اس قدر مستولی رہا کہ آپ خائف تھے مبادا پھر فتنہ برپا ہو.چنانچہ آپ نے یہ مناسب جانا کہ اس سے الگ ہو جائیں تا کہ اگر ایسی صورت ہو تو آپ ایسی مشینری کا کل پرزہ نہ ہوں جو جز و یا کلاً نظام خلافت کی مخالفت پر آمادہ ہو.چنانچہ آپ ۱۵ / فروری ۱۹۱۸ ء کو مستعفی ہو گئے.سچ ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے.بہر حال اس استعفیٰ میں بھی اخلاص اور خشیت الہی کا رنگ تھا.
380 حضرت اقدس کے مقام کے متعلق نواب صاحب کا بیان خلافت سے منحرف ہونے والے احباب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام کا استخفاف کیا اور یہ ظاہر کیا کہ گویا حضور نبی نہ تھے اسکے وجوہات کیا تھے ، ان کے بیان کا یہ موقعہ نہیں.البتہ یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ نواب صاحب کا کیا عقیدہ تھا.چنانچہ اس بارہ میں ڈاکٹر حسن علی صاحب غیر مبائع کے خط کے جواب میں جو کچھ آپ نے رقم فرمایا اسے الفضل بابت ۴۳ - ۷-۲۱ سے درج ذیل کیا جاتا ہے اس لئے آپ کے ایمان و عرفان کے اعلیٰ مقام کا بھی علم ہوتا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں : ذیل میں ڈاکٹر صاحب کا خط بھی نقل کیا جاتا ہے تا کہ سوال کی وضاحت سے جواب بھی واضح طور پر سمجھ میں آسکے.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم محترمہ قبلہ نواب محمد علی خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.جناب من ! نہایت ہی مودبانہ گذارش ہے کہ سلسلہ احمدیہ عالیہ میں بفضل خدا نہ صرف جناب پرانے صحابی مسیح موعود علیہ السلام ہیں بلکہ حضور کی دامادی کا فخر بھی جناب کو حاصل ہے.سلسلہ کی مالی اعانت کے علاوہ آپ جماعت میں صائب الرائے بزرگ ہیں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ازالہ اوہام مطالعہ کی ہے اس کے حصہ دوم میں حضور علیہ السلام نے جناب کی ذیل عبارت لکھی تھی.ابتدا میں گو میں آپکی نسبت نیک ظن ہی تھا لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائح ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے موید نہیں ہیں بلکہ مخالفان اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں.مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا نہ انکار پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں نے سوچا کہ آپ نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں یہ سب جھوٹے نہیں ہو سکتے ہیں تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط و کتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب تقریباً اگست میں آپ سے لدھیانہ ملنے گیا تو اس وقت میری تسکین خوب ہوگئی اور آپ کو ایک باخدا بزرگ پایا اور بقیہ شکوک کا رنگ پھر بعد کی خط و کتابت میں میرے دل سے بکلی دھویا گیا اور جب یہ اطمینان دیا گیا کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثلاثہ کی کسرشان نہ کرےسلسلہ بیعت میں داخل ہو سکتا ہے تب میں نے آپ سے بیعت کر لی اور اب میں اپنے آپ کو نسبتاً بہت اچھا پا تا ہوں اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آئندہ کے لئے تو بہ کی ہے.مجھ کو آپ کے اخلاص اور طرز معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ ایک سچے مجدد دنیا کے لئے رحمت ہیں“.
381 دار السلام.دارالامان قادیان ۱۷-۷ - ۴۳ ڈاکٹر صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمتہ وبر کاتہ.آپ کا خط مورخہ ۲۹ جون ۴۳ء مجھے ملا.جواباً بقیہ حاشیہ: - قصہ مختصر.جناب والا نے حضرت مسیح کو باخدا بزرگ.مجد د تسلیم کر کے بیعت کی تھی اور جس سے جناب کو انکار نہیں ہے.بلکہ اس کا اقرار ہے پس یہ مجدد جو تجدید دین اسلام کے لئے آیا ہے اس کا ماننا ضروری ہوتا ہے.اور اس کے نہ ماننے سے سلب ایمان ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے وہ خدا کے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے.اور وحی ولایت سے وہ انعام حاصل کرتا ہے جس کا وعدہ بوجہ اتباع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امہ مسلمہ میں تا قیامت موجود رہے گا.اور یہ مجدد اپنے زمانے میں مرسل.مامور فرستادہ اور امام ہوتا ہے.اور یہ مسلمانوں کا فرض ہوتا ہے کہ اس پر ایمان لاوے اور جو ایمان نہ لاوے وہ فاسق ہوتا ہے.ایک سچی شہادت کی موجودگی میں ادھر اُدھر پھیرنا مومن کا کام نہیں ہے اور پس شہادت کو چھپانا ظاہر کرتا ہے کہ دل میں گناہ کی مرض ہے.پس خدا تعالیٰ جناب والا کو اس قسم کی مرض یا کمزوری سے محفوظ رکھے.میرا مطلب مختصر یہ ہے کہ اس وقت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کے وقت میں جو نئے عقائد بمقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام تراشے گئے ہیں اور ان کی جماعت ان کو مانتی ہے دراصل وہ مسیح موعود کی اصل تعلیم سے انحراف کرتی ہے.پس اس عریضہ کے ذریعے سے جناب والا کی توجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصل دعوی مجدد کی طرف مبذول کرانے کے لئے معروض ہوں.امید ہے حضرت مسیح موعود کے ان پاک الفاظ پر غور فرمائیں گے تاکہ ہم سب کا بھلا اس میں ہو.آپ چوٹی کے صحابی ہیں اور آپ کی سچی شہادت تا قیامت قائم رہے گی.خدا کرے آپ اپنے اقرار پر قائم ہوں.میں اپنا ایک اشتہا ر خدمت عالی میں روانہ کرتا ہوں: شہادت حضرت نور الدین علیہ الرحمة مندرجہ ازالہ اوہام حصہ دوم مرزا جی اس صدی کے مجدد ہیں اور مجدد اپنے زمانہ کا مہدی اور اپنے زمانہ کی شدت مرض میں مبتلا مریضوں کا مسیح ہوا کرتا ہے.اور یہ عمل بالکل تمثیلی ہے.جیسے مرزا جی اپنی الہامی رباعی میں ارقام فرما چکے ہیں.کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے جس کی مماثلت کو خدا نے بتا دیا حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا والسلام دعا گو حسن علی گورنمنٹ پنشنر سب اسٹنٹ سرجن گوجرانوالہ دوسرے شعر کو غلط نقل کیا گیا تھا یہاں صحت کے ساتھ درج کیا گیا ہے (مؤلف)
382 بنده عشقم عرض ہے کہ میرا مسلک سیدھا سادھا ہے.اس لئے مجھے کسی بات میں جھجک نہیں ہوتی.فاش میگویم و از گفته خود دل شادم را ز ہر دو جہاں آزادم پہلے سے میں سخت آزاد ہوں اور جو بات بھی صحیح معلوم ہوئی اس کو کہنے یا اس پر عمل کرنے میں مجھے جھجک نہیں ہوئی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جس وقت بیعت کی ہے میری حالت ایک صاف زمین کی سی تھی جس پر پرانے عقائد کا اثر دور ہو چکا تھا جو کچھ ازالہ اوھام میں آپ نے میری عبارت کو پڑھا ہے وہ میری اس وقت کی کیفیت تھی اور شیعیت کے متعلق جو میری حالت باقی رہ گئی تھی وہ تھی.میں اس وقت اہل حدیث متبع سرسید احمد خاں بھی تھا مگر یہ سب تحقیقی حالت میں تھے.چنانچہ سرسید احمد خاں کا وہ اثر جو پہلے تھا بعد میں ویسا نہ رہا اور نہ وہابیت کا کیونکہ مستقل طور سے کوئی مسلک اختیا رنہ کیا تھا.مگر بعد میں بہت سے تغیرات آتے رہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خط و کتابت کر کے دلائل سے مانا.اور میں نے آپ کو ایک راست باز انسان تسلیم کر کے مانا اور جب آپ کو میں نے راست باز مان لیا پھر آپ نے جو بھی دعویٰ کیا اس کو تسلیم کیا.آپ کا ازالہ اوہام کے وقت مجددیت کا دعویٰ تھا میں نے آپ کو مجدد مانا باقی رہی یہ بات کہ میں نے آپ کے مجدد ہونے پر بیعت کی یہ غلط ہے.میں نے حضرت اقدس کی بیعت آپ کو راست با زمان کر کی.آپ نے کہا کہ میں مجدد ہوں اس لئے میں نے کہا آمنا.میں نے پہلے ۱۸۹۰ء میں غالباً ستمبر یا اکتوبر تھا کہ تحریری بیعت کی تھی اور پھر بعد میں غالبا ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء میں قادیان جا کر دستی بیعت کی تحریری بیعت کے بعد یعنی ماہ بعد حضرت نے مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا اور دستی بیعت سے پہلے یہ دعوئی فرما چکے تھے اور اس وقت مسیحیت کا دعوی حضرت فرما چکے تھے اور ہم مسیح تسلیم کر چکے تھے مگر بیعت نہ مجددیت پر کی نہ مسیحیت پر.بلکہ یہ کہ احمد کے ہاتھ پر کی تھی اور ان ہی الفاظ سے آپ تمام عمر بیعت لیتے رہے اور آخر تک لیتے رہے.ہم نے کیا کیا ؟ یہی کہ آپ کو راست با زمانا.آپ نے کہا میں مجدد ہوں.ہم نے کہا آمنا ! آپ نے فرمایا کہ میں مسیح موعود ہوں ہم نے کہا آمنا ! آپ نے فرمایا میں مہدی مسعود ہوں ہم نے کہا آمنا.آپ نے فرمایا میں ظلی نبی ہوں ہم نے کہا آمنا.آپ نے مجازی نبی کہا ہم نے آمنا ہی کہا آپ نے کہا : من نیستم رسول ودنيا ورده ام کتاب ہم نے اس پر بھی آمنا کہا، آپ نے فرمایا میں نبی ہوں ہم نے کہا آمنا.آپ نے ارشاد فرمایا تشریعی نبی نہیں بلکہ متبع نبی ہوں.ہم نے کہا آمنا.آپ نے فرمایا میں نے کبھی نبی ہونے سے انکارنہیں کیا.بلکہ میرا انکار صرف شرعی نبی سے تھا یعنی میں شریعت لانے والا نبی نہیں بلکہ محمد رسول اللہ کا متبع نبی ہوں.ہم نے اس
383 پر بھی آمنا کہا.آپ نے فرمایا مجھے نبوت کا درجہ اتباع محمد رسول اللہ اور فیضان محمد رسول اللہ سے ملا ہے.میں غلام ہوں محمد رسول اللہ آقا ہیں ہم نے کہا آمنا.آپ نے فرمایا میرا خیال تھا کہ جیسا کہ عام خیال ہے کہ اب نبی نہیں آ سکتا.مگر مجھے متواتر وحی سے مجبور ہونا پڑا اس لئے میں کہتا ہوں کہ میں نبی ہوں اور امت محمدیہ میں پہلے مجددین پر نبی کا لفظ نہیں بولا گیا.یہ شرف محض مجھے عطا فر مایا گیا ہے.ہم نے اس پر بھی آمنا کہا.آپ نے فرمایا میں نبی بھی ہوں اور امتی بھی ہوں ہم نے اس پر بھی آمنا کہا.خلاصہ یہ کہ حضرت نے جو کچھ بھی دعویٰ کیا ہم نے آمنا کہا آپ نے اپنے آپ کو محمد کہا ابراہیم کہا موسیٰ " کہا.عیسی (مسیح موعود ) کہا مہدی کہا اور جری اللہ فی حلل الانبیاء کہا کرشن فرمایا.ہم ان سب دعوؤں پر ایمان لائے.وجہ یہ کہ ہم نے حضرت کو راستباز مانا ، پھر جو آپ نے فرمایا اس پر ایمان لائے.باقی آپ ایک مجددیت کا ذکر کرتے ہیں.اسی زمانہ میں جب ازالہ اوہام چھتا تھا.ہمارا عقیدہ تھا اورہم تیار تھے کہ اگر حضرت دعوئی فرماتے کہ ناسخ شریعت محمدیہ ہوں.تو ہم یہ بھی ماننے کو تیار تھے.مجھے خود حضرت مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ خلیفہ امسیح اول نے فرمایا تھا کہ ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ اگر حضرت مرزا صاحب نے یہ دعویٰ کر دیا کہ میں ناسخ شریعت محمد یہ ہوں تو آپ کیا کریں گے.مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو میں سمجھوں گا کہ مسیح بنی اسرائیل کا آخری نبی تھا اور محمد رسول اللہ بنی اسمعیل کا اور یہ ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اس سے آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حد تک تیار تھے.اس لئے یہ کہنا کہ ہم نے مجدد ہونے پر بیعت کی یہ غلط ہے.ہم نے مرزا غلام احمد کی بیعت نہ کی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کی تھی اور اللہ تعالیٰ کی بیعت کا واسطہ تھا.چنانچہ بیعت کے الفاظ اس کے شاہد ہیں کہ آج میں احمد کہ ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں سے تو بہ کرتا ہوں.یہ نہیں کہ میں احمد کی بیعت کرتا ہوں ، یہ بیعت در اصل خدا کی بیعت اور خدا سے عہد تھا اور ہے.اور پھر اب تک یہ طرز رہی کہ جب بھی کسی شخص نے بیعت کی تمام مجلس بھی حضرت کے ہاتھ پر ہاتھ اسی طرح رکھ دیتی تھی کہ جو قریب ہوتے تھے وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیتے تھے دوسرے ہاتھ رکھنے والوں کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر تمام الفاظ بیعت بولتے جاتے.اسی طرح گویا ہر دفعہ نئی بیعت کرتے.پس اگر آپ کے کہنے کے ہمو جب ہم نے مجددیت پر بیعت کی تو وقتا فوقتا جو بھی حضرت دعوئی فرماتے رہے اس دعوے کی بھی بیعت کرتے رہے.معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قرآن کریم کا تدبر سے مطالعہ نہیں کیا.اور غور سے حدیث پر نظر نہیں ڈالی اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو غور اور نظر تعمق سے پڑھا.ہم تو حضرت کے تمام دعاوی پر ایمان لائے اور حضرت کے درجہ کو نہ بڑھاتے ہیں اور نہ گھٹاتے ہیں.ہم ٹکڑوں کو نہیں لے بیٹھتے کیونکہ
384 افَتُومِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتبِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ پر ہمارا عمل نہیں ہم نے مجموعہ جو کچھ بھی حضرت نے فرمایا اس پر آمنا کہا اور یہی ہمارا ایمان ہے.معلوم نہیں کہ آپ کو نبوت پر کیوں جھجک ہے حضرت رسول کریم کی اتباع میں نبوت کا سلسلہ جاری رہنے سے حضرت کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت ثابت ہوتی ہے اور ایسانہ ہونے سے ہتک.باقی اس بارہ میں اتنا لکھا جا چکا ہے کہ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں اللہ تعالے آپ کو راہ راست کی ہدایت دے.راقم محمد علی خاں حضرت نواب صاحب کا مقام اور خلافت ثانیہ سے عقیدت جماعت میں حضرت نواب صاحب کا جو مقام تھا وہ مختلف امور سے ظاہر ہوتا ہے یہاں پر خلافت کے تعلق میں اس امر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ ۱۹۱۸ء میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ سخت علیل ہوئے حضور نے اس موقعہ پر ایک وصیت تحریر فرمائی تھی جو کہ صدرانجمن کے پاس محفوظ ہے لیکن کسی جگہ طبع نہیں ہوئی اس لئے یہاں درج نہیں کی جاسکی اس کے متعلق مکرم غلام فرید صاحب ایم اے فرماتے ہیں: حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نے ۱۹۱۸ء میں جو وصیت کی تھی اس میں خلیفہ کے انتخاب کرنے والی کمیٹی کے حضرت نواب صاحب صدر مقرر کئے گئے تھے.پہلے ہم مفصل تحریر کر چکے ہیں کہ حضرت نواب صاحب کو حضرت خلیفہ امسیح اول رضی اللہ عنہ سے کس درجہ محبت تھی اور خلافت اولی کے قیام میں آپ نے کس قدر سعی بلیغ کی.اسی طرح خلافت ثانیہ کے قیام کی خاطر آپ کی مساعی جمیلہ کا ذکر بھی ہو چکا ہے جس سے آپ کی عقیدت کا ہمیں علم ہو جاتا ہے.اس تعلق میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ صاحبہ آپ کی نسبت تحریر فرماتی ہیں: چاء رخصتانہ وغیرہ پر ایک دو جگہ کا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ ) سے بظاہر اختلاف لوگوں کو نظر آیا مگر وہ ذاتی رائے کا اختلاف تھاور نہ انکے خیالات کی تو میں گواہ ہوں ان میں نہایت اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور ایمان تھا جو ہر ایک کو نصیب نہیں وہ کہتے تھے جب تک بحیثیت خلیفہ یا مامور وہ کوئی حکم نہ دیں یا ایک امر کو قطعی واضح نہ کر دیں ہر شخص ان معمولی باتوں پر اپنے گھر میں عمل کرنے اور کروانے کا اپنی تحقیق کے مطابق مجاز ہے.ہاں اگر حکم دیں گے تو انشاء اللہ سب سے پہلے شرح صدر سے ماننے والا میں ہوں گا.اب مصلح موعود کے دعوے کے بعد تو مرض الموت میں خود مجھے انہوں نے کہا
385 کہ اب آئندہ جو حضور فیصلہ کر دیں پردہ وغیرہ ( کے متعلق ) یعنی کس سے کرنا ہے اور کس سے نہیں اور بھی جو حکم دیں گے اختلافی مسائل میں اسی پر عمل تم نے کرنا ہوگا.اب میں نے اپنا ہر ذاتی خیال بالکل ان پر چھوڑ دیا ہے ،شروع خلافت کے ایام میں کہا کرتے تھے کہ میاں صاحب نبوت کا دعوی بھی کر دینگے تو میں ابھی سے تیار ہوں کہ انشاء اللہ ایمان لاؤں گا.یہ لوگ تو خلافت پر ہی چیخ اٹھے ہیں یہ جو ہر قابل کو پر کھ نہیں سکتے (اور بھی اسی قسم کے صاف صاف الفاظ ) مگر جب تک کوئی دعویٰ نہیں ہوتا ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.مصلح موعود کے دعویٰ پر بے حد خوش ہوئے تھے.“ علمی مذاق.علماء کی تکریم آپ اعلیٰ درجہ کے علمی مذاق کے مالک تھے.علم دوست ہونے کی وجہ سے آپ کو ہرقسم کی کتابیں رکھنے کا بے حد شوق تھا اور کتابوں سے بہت ہی محبت تھی آپ کے ہاں ایک اچھی خاصی لائبریری تھی جو افسوس کہ فسادات ۱۹۴۷ء کی نذر ہو گئی آپ قابل اور عالم اشخاص کی عزت کرتے اور محبت سے پیش آتے اور ان کی محبت سے خوش ہوتے اور ان کی خوب قد رو تکریم کرتے.چنانچہ مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت حافظ روشن علی صاحب کو اپنے پاس ملازم رکھا ہوا تھا.ان کو پانچ روپے سے پچاس روپے تک ترقی دی.حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نواب صاحب سے کہا کہ صرف چند بچوں کو پڑھانے کی مشغولیت سے حافظ صاحب کی قابلیت ضائع جارہی ہے.سلسلہ ان سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے.آپ انہیں سلسلہ کے سپرد کر دیں.نواب صاحب نے فوراً ان کا مشاہرہ پچاس سے نوے روپے کر دیا تا کہ صدر انجمن احمد یہ آپ کو لے تو مشاہرہ نوے روپے سے شروع کرے.آپ حافظ صاحب کو ملازم نہیں خیال کرتے تھے اور بے حد عزت کرتے تھے اور ان کو اپنے ساتھ ہی وابستہ رکھنا چاہتے تھے مگر حضور ایدہ اللہ کے حکم سے صدرانجمن کی طرف منتقل کیا.حافظ صاحب کی علیحدگی پر آپ ہمیشہ ہی متاسف رہتے تھے اور آپ کے اور حافظ صاحب کے مابین ہمیشہ ہی انس و محبت کا علاقہ قائم رہا.مکرم مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں." مرحوم علمی مذاق کے انسان تھے.اعلیٰ درجہ کی علمی اخلاقی دینی کتابیں ہمیشہ منگواتے رہتے اور ان کے کتب خانہ میں رہتیں ان میں سے بہت سی کتابیں انہوں نے مرکزی لائبریری کو بھی عطا کیں چنانچہ بڑی انسائیکلو پیڈیا ۲۵ جلد والی جو اس وقت
386 لائبریری میں موجود ہے مرحوم کی ہی عطا کردہ ہے.حضرت مرحوم کسی نہ کسی عالم کو ہمیشہ تنخواہ دے کر اپنے پاس رکھتے اور دینی کتب سنتے رہتے تھے چنانچہ حضرت حافظ روشن علی صاحب سالہا سال مالیر کوٹلہ اور قادیان میں ان کے پاس رہے.“ ۲۷۱ نیز مکرم مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ آپ جس عالم کو اپنے ہاں رکھتے ان سے دینی علوم میں استفادہ بھی کرتے ذیل کے اقتباس سے اس کی تصدیق ہوتی ہے.معزز الفضل میں مرقوم ہے.نواب محمد علی خاں صاحب کی صحت اچھی ہے آپ حافظ روشن علی صاحب سے بخاری شریف سنتے ہیں.“ ۲۷۲ مکرم مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اس بارہ میں رقم فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے نواب صاحب کی کوٹھی دارالسلام جانے کا اتفاق ہوا تو نواب صاحب وہاں باغ میں ٹہل رہے تھے.مجھے دیکھ کر میری طرف متوجہ ہوئے اور قریب آکر مصافحہ بھی فرمایا اور پھر ہمیں پچیس منٹ تک باغ میں ٹہلتے ہوئے میرے ساتھ بعض آیات قرآنیہ کے حقائق و معارف بھی بیان فرماتے رہے اور مجھ سے بھی سنتے رہے اور اس طرح یہ وقت ہمارے لئے علمی مذاکرات کے لحاظ سے نہایت ہی دلچسپی کا باعث ہوا.اس سے میری طبیعت نے اندازہ لگایا کہ نواب صاحب با وجود یکہ آپ نواب خاندان کے ناز پروردہ اور بلحاظ دولت و ثروت و امارت پر عظمت ہستی کی طبیعت اور شان رکھنے والے تھے.لیکن جب انہیں قریب ہو کر دیکھنے کا موقعہ ملا تو ایسا معلوم ہوا کہ آپ کی طبیعت کبر و خیلاء اور متکبرانہ نخوت و غرور کی آلائش سے بالکل پاک ہے اور یہ کہ آپ امیر ہو کر درویش سیرت فقیر بھی ہیں اور علمی مذاق اور دینداری کے لحاظ سے نہایت متشرع اور متورع اور محاسن فطرت اور حسن اخلاق سے مزین طبیعت رکھنے والے.آپ خود ذی علم تھے اس لئے مسائل شرعیہ جو قابل تحقیق ہوتے ان کے متعلق آپ کا یہ طریق ہوتا کہ کسی فتوے پر انحصار کرنے کی بجائے مسئلہ زیر بحث کی تائید و تردید میں احادیث جمع کروا لیتے اور ان پر غور وفکر کر کے خود کسی نتیجہ پر پہنچتے اور استنباط کرتے.(م) بچوں کے لئے تالیفات، بچوں کی تربیت کا شوق حضرت نواب صاحب کو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ابتدائی رسالے تالیف کرنے کا شوق تھا.آپ نے ایک عربی اور اردو کا قاعدہ مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان اور مدرستہ الاسلام مالیر کوٹلہ کی پہلی جماعت کے لئے تالیف کیا.اسے رجسٹری کرایا گیا اور وہ ۲۳۰ کے سائز پر ۴۴ صفحات پر رفاہ عام پریس لاہور سے ۱۶
387 طبع ہوا.کتاب کے سرورق پررَبِّ يَسِرُوَلا تعسر وتَمَمُ بِالْخَيْر مرقوم ہے قاعدہ ۸۶ اسباق پر مشتمل ہے.بچوں کی خاطر کتابت بہت موٹی رکھی گئی ہے.چودہ اسباق میں حروف تہجی کوختم کیا گیا ہے.قاعدہ میں آیات قرآنیہ کے ٹکڑے.چار اسباق میں الحمد اور اس کا ترجمہ بھی دیا گیا ہے.آپ ۲۲ مارچ ۱۹۰۲ ء کی ڈائری میں تحریر فرماتے ہیں کہ آج سے میں ( نے) دینیات کا دوسرا نمبر بنانا شروع کیا.اسی طرح نماز کے متعلق ایک ابتدائی رسالہ کی تالیف کا بھی ذکر کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: میں ایک رسالہ ابتدائی جماعت کے لئے نماز کے متعلق لکھ رہا تھا اس میں میں نے ارکان ایمان کا مختصر ذکر کیا تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ پانچ ارکان ایمان یعنی (۱) اللہ تعالی (۲) فرشتے (۳) اللہ کی کتابیں (۴) اللہ کے رسول (۵) آخرت کے ساتھ قد ر خیر ہ وشرہ من اللہ تعالیٰ کا مفہوم بھی درج کیا جائے کہ نہیں.یہ میں نے بذریعہ حضرت مولانا مولوی نورالدین خلیفہ اسیح اول......دریافت کیا.یہ مغرب کے بعد حضرت عشاء تک مسجد مبارک میں تشریف رکھا کرتے تھے دریافت کیا تھا اس وقت مسجد مبارک وسیع نہ ہوئی تھی.پس میرے دریافت گو تاریخ طبع درج نہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جب ابھی مدرسہ مالیر کوٹلہ جاری تھا اور دوسری طرف مدرسہ الاسلام قادیان سے حضرت نواب صاحب کا گہرا رابطہ ہو چکا تھا تب یہ تالیف ہوا.یہ ۱۹۰۰ء کا سال ہی ہے جب آپ مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے بھی ڈائریکٹر مقرر کر دئے گئے تھے.اواخرا۱۹۰ء میں آپ قادیان چلے آئے اور آپ نے مدرسہ مالیر کوٹلہ بند کر دیا.مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی (درویش) فرماتے ہیں مجھے خوب یاد ہے کہ جب مالیر کوٹلہ کے مدرسہ کا سامان قادیان آیا تو ان میں یہ قاعدے بھی تھے اور یہ قاعدہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں پڑھایا جاتا تھا.نواب صاحب نے ۲۱ جنوری ۱۹۰۲ء کو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں چارا مور تحریر کئے تھے.چنانچہ اس روز ڈائری میں تحریر فرماتے ہیں.مرسوم تقدیر کا مسئلہ جو سنیوں میں ہے اور قرآن شریف میں امنت بااللہ کے ساتھ صراحت سے ضم * نہیں ہے کیا اس کو اپنے رسالہ میں میں اس طرح جس طرح حدیثوں میں ہے درج کروں...تقدیر کے مسئلہ میں میرے سوال کو نہ سمجھ کر حضرت اقدس نے تقدیر پر بڑی لطیف گفتگو فرمائی.شام کو میں نے پھر سوال کیا مگر میرا سوال چونکہ میرے مفہوم کو ظاہر نہ کر سکا اس لئے پھر مغالطہ ہوا.مگر حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب نے * یہ لفظ پڑھا نہیں جاتا.مؤلف
388 کرنے پر حضرت نے سمجھا کہ میں تقدیر کا قائل نہیں اس پر بھی لمبی تقریر فرمائی جوغالبًا الحکم میں درج ہوگی.میں نے پھر بذریعہ مولانا عرض کیا کہ میں تقدیر کا قائل ہوں اور اللہ تعالیٰ پر جمیع صفات ایمان رکھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کو قادر وقدیر مانتا ہوں.مگر میری عرض یہ ہے کہ باقی ماندہ صفات کو چھوڑ کر قد ر خیر وشر کو کیوں الگ طور سے لکھا جائے؟ یا تو تمام صفات کو لکھا جائے یا یہ بھی نہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ الگ طور نہ لکھی جائیں.“ رسالہ نماز کی بابت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ یہ رسالہ آپ نے لکھا تھا جس پر بچپن میں میں نے بھی نماز یاد کی ہے (افسوس کہ مؤلف کو یہ رسالہ کہیں سے دستیاب نہیں ہوسکا ) اور اپنے بچوں کو وہ اکثر لکھ کر پڑھایا کرتے تھے یعنی ابتدائی سبق.عزیزم محمد احمد خاں کی انگریزی کی پہلی نواب صاحب کی ٹائپ کی ہوئی موجود ہے اور دینیات کے سبق کاپیوں پر لکھ کر پڑھاتے تھے جو بچوں کے لئے اچھی خاصی کتاب ہو جاتی تھی.بہت مفید مجموعہ ہوتا تھا.مکرم میاں محمد عبد اللہ خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت والد صاحب ہماری تعلیم و تربیت کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے.ریاست میں ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ ایک خادم تھا.جب قادیان آئے تو ہمارے حسب منشاء ٹرینڈ خادم نہیں ملتے تھے.اسی لئے ہم چاروں بہن بھائیوں پر ایک خادم رکھا گیا جو باقاعدہ ہمیں سیر کرانے جاتا، غسل وغیرہ کا انتظام کرتا.ناشتہ اور کھانے کا باقاعدہ اہتمام ہوتا تھا یہاں حضرت پیر منظور محمد صاحب کو کافی مشاہرہ پر رکھا جنہوں نے ہمیں قاعدہ میسر نا القرآن اور بعد میں قرآن مجید ناظرہ پڑھایا.اسی سلسلہ میں حضرت والد صاحب نے ان کو ان کا مکان بنوا کر دیا تھا.حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب (حال درویش ) کو ہمارے لئے ٹیوٹر رکھا جو ہماری ورزش کا خیال رکھتے تھے.ہمیں میروڈ بہ کھیلنے کے لئے لے جاتے جس میں اکثر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور کبھی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی) بھی شامل ہو جاتے.ہمیں بھائی جی جغرافیہ حساب وغیرہ مضامین اور حضرت حافظ روشن علی صاحب قرآن مجید باترجمہ پڑھاتے.شہر کے مکان بقیہ حاشیہ:- میرے سوال کا صحیح مفہوم ظاہر کیا.اس پر حضرت نے فرمایا کہ جس قدر قرآن شریف میں ہے اسی قدر درج رسالہ کیا جائے.متن کی روایت کا ایک حصہ مسجد مبارک کے متعلق ہے مع خاکہ مسجد اسے صفحہ ۴۷ پر درج کیا گیا ہے.
389 میں ہمیں ایک علیحدہ کمرہ دیا ہوا تھا اور ہمارا ٹیوٹر ہمارے ساتھ رہتا تھا، والد صاحب اس بات کا خاص اہتمام کرتے تھے کہ ہم عام لڑکوں سے مل کر اپنے اخلاق خراب نہ کر لیں.اسی وجہ سے عرصہ تک ہمیں سکول میں داخل نہ کیا.نیز مرقوم ہے کہ.۲۱ دسمبر ۱۹۰۳ء کو بعد از نماز مغرب عالی جناب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے صاحبزادوں کی آمین بہ تقریب ختم قرآن مسجد خورد میں ہوئی، ان کے استاد صاحبزادہ پیر منظور محمد موجد قاعداً لیسرنا القرآن کے لئے جو سر و پا نواب صاحب کی طرف سے تجویز ہوا تھا وہ حضرت اقدس کے سامنے پیش ہوا اور درخواست کی گئی کہ ان کو دست مبارک لگایا جائے.اسی تقریب آمین کی خوشی میں ۳ دن تک بتدریج دعوت کا سلسلہ عالی جناب نواب صاحب کی طرف سے رہا اور بتدریج احباب ایک ایک وقت کا کھانا ☆☆ تناول فرماتے رہے.“ اس بارہ میں معزز الحکم رقم طراز ہے: وو...نواب......صاحب کے صاحبزادگان کے ختم قرآن شریف کی تقریب پر ۲۱ دسمبر ۱۹۰۳ء عید کے روز بعد نماز مغرب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت عالی میں بغرض دعا پیش کیا گیا ہے جس کو عام اصطلاح میں آمین کی تقریب کہتے ہیں.حضرت اقدس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کل حاضرین نے آپ کے ساتھ مل کر دعا کی.ہم اپنے محسن و مخدوم نواب صاحب کو اس مبارک تقریب پر مبارک باد دیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ حضرت حجتہ اللہ کی وہ دعائیں جو آپ نے اس تقریب پر کی ہیں اللہ تعالیٰ قبول فرما کر ہم سب کو ان ثمرات سے بارور کرے.آمین.حضرت نواب صاحب اپنے بچوں کی تربیت کے لئے جو جوش اور توجہ رکھتے تھے وہ ان نصائح سے بھی ظاہر ہے جو آپ نے مکرم میاں محمد عبد الرحیم خاں صاحب کو بیرسٹری کی پریکٹس شروع کرتے وقت کیں.* مراد خلعت ۲۷۳ الحکم میں اس بارہ میں مرقوم ہے نواب صاحب ممدوح نے اس تقریب پر دارالامان کے احباب کو ایک دعوت بھی دی ہے.66 ۲۷۴ * وہ نصائح درج ذیل کی جاتی ہیں.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم ۱- نیت ہمیشہ صاف رکھو انسان دین دنیا میں ہمیشہ نیت کا پھل کھاتا ہے.
390 ایک دفعہ ہم نے حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا تو ہمیں سکول بقیہ حاشیہ : - ۲- کسی سے کینہ نہ رکھو نہ نفرت کرو..ہر ایک سے جس قدر طاقت ہو نیکی کا سلوک کرو کسی سے بدی نہ کرو اور نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ.۴.ہمیشہ حق کے جو یاں اور طالب رہو اور حق کے طرف دار ر ہو نا حق اور جھوٹ سے بچو اور نفرت کرو اور اس کا مقابلہ جہاں تک قدرت ہو کرو.۵- بدی کا مقابلہ بدی سے نہ کرو، سچے بھی ہو تو جھوٹے بن جاؤ.۶.ہمت بلند رکھو آپ اپنی عزت کرو.ے مطلب کے یار نہ بنو ہمیشہ وفا شعار رہو.تکبر نہ کرو مگر خود داری کو ہاتھ سے نہ دو.-۹- جھکے آپ سے اس سے جھک جائیے.رکے آپ سے اس سے رک جائیے.- 1 + کوئی احسان کرے اس کا احسان مانو اور کوشش میں رہو کہ اس کا بدلہ اتار دو.اگر بڑھ کر نہ ہو سکے تو برابر برابر سہی.کسی پر احسان کر کے نہ جتاؤ بلکہ قطعاً بھول جاؤ.-11 کبھی اپنے آپ کو ذلیل وخوار نہ سمجھو اور کبھی نہ سمجھو کہ ہم سے بد کام نہیں ہوسکتا جو اور کر سکتے ہیں تم بھی کر سکتے ہو.۱۲- محنت کی عادت ڈالو ہاں صحت کا خیال رکھو.ڈالو ۱۳.صحت کا بہت لحاظ رکھو کبھی اس میں کوتا ہی نہ کرو.۱۴ - تقدیر کو سمجھو کہ اندازے ہیں تقدیر کو بلند ہمتی اور ترقی کا موجب سمجھو بے ہمتی کا ذریعہ نہ بناؤ.کبھی ہمت نہ ہارو.اور نہ کبھی مایوس ہو.ناکامیوں سے نہ گھبراؤ.بہت دوست نہ بناؤ اگر کوئی خاص دوست مل جائے تو اس سے پوری وفا کرو.مجھے عمر بھر میں کوئی دوست - ۱۵ -17 نہیں ملا.-12 استقلال کی عادت ڈالو بے جاضد نہ کرو.۱۸.بہت سنو تھوڑا کہو.ہر ایک بات جو سنو اس پر عمل نہ کر بیٹھو.کسی بات کے فیصلہ میں جلدی نہ کرو.بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو.سوچنے کی عادت ڈالو.عقل سے کام لو.ہر ایک کی حقیقت دریافت کرنے کی کوشش کرو.-19
391 میں داخل کیا گیا جو اس وقت شہر میں ہوتا تھا.ہم تینوں بھائیوں کے لئے گھوڑے اور ایک خادم کے لئے تھا کہ بقیہ حاشیہ : ۲۰ - ہر قسم کے عالموں اور نیک لوگوں کی صحبت حاصل کرو.ان سے میل بڑھاؤ.علم کو ہمیشہ -1- سیکھو اور بڑھاؤ.۲۱ - آج کل کے زندہ دلوں اور جاہلوں کی صحبت سے بھا گو.۲۲.غربت کو ذلیل نہ سمجھو.۲۳- دولت بہت کماؤ مگر دولت ( ز ر ) پرست نہ بنو.نیکی اور بھلائی کی جستجو میں دل و جان سے رہو انصاف کو اپنا شعار بناؤ.۲۵- خدا سے بہت پیار کرو اور اسی کو اپنا وسیلہ سمجھو.اسی پر بھروسہ کرو محض عذاب کے ڈر سے خدا سے نہ ڈرو بلکہ اس سے محبت کرو اور پھر ڈرو.جس طرح ایک پیارے کی کبیدگی سے انسان ڈرتا ہے.اتنا پیار ہو کہ تم سمجھو کہ میں وہی ہو گیا.من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری - خدا کے مقابلہ میں کسی سے محبت نہ کرو اس سے بڑھ کر کسی سے پیار نہ کرو.۲۷- خدا وند تعالیٰ کے بعد حضرت رسول کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق بنو.۲۸.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے غایت درجہ کی محبت کرو.۲۹ - دین اسلام اور فطرت ایک چیز ہے اس لئے کوئی دین اس کے سوا اب مقبول نہیں اس کے تمام ارکان وقوع کو ٹھیک سمجھو اور اس کی پوری پابندی کرو.چھوٹی باتوں میں بھی جرات نہ کرو جو خلاف اسلام ہیں.قطرہ قطرہ سے دریا ہو جاتا ہے.۳۱.جو بات سمجھ میں نہ آئے اس کی پوری تحقیقات کرو جہاں تک ممکن ہوگا میں بھی مددکروں گا.۳۲.ہمارا جسم نہایت چھوٹے ذروں سے مرکب ہے جو بجائے خود ایک ایک عالم ہیں.ایک دوسرے کی کشش سے وہ جڑے ہوئے ہیں.اگر ان میں کشش نہ ہو تو بکھر جائیں.ہمارا جسم بھی نہ رہے.پس مذہب و قوم کی بقاء اسی طرح اتفاق اور کشش پر مبنی ہے اس لئے ہم کو سوائے مسلم کے کسی سے دلی دوستی نہ پیدا کرنی چاہئے.اور پھر سوائے احمدی اور پھر سوائے مبالع کے کسی سے دلی دوستی اور میل نہ کرنا چاہئے.احمدیوں سے دکھ بھی پہنچے پھر بھی ان کا ساتھ نہ چھوڑا جائے.اگر اتفاقا کسی غیر احمدی یا غیر مبائع سے محبت معلوم ہو تو اس کے لئے دعائے ہدایت کر و.مگر حسن سلوک سے کبھی نہ رکو.حسن سلوک سب سے کرو.
392 جس پر چڑھ کر ہم سکول جاتے سکول میں داخل ہونے پر والد صاحب ہمارے رویہ سے خوش تھے.اور ہمیں بہت کچھ آزادی مل گئی اور حضرت مولوی صاحب کے درس میں بھی بغیر اجازت جانے لگ گئے.مغرب کے بعد اپنے گھر میں صاحبزادہ میاں عبدالحی صاحب مرحوم کے لئے آپ درس دیا کرتے تھے.اس میں ایک دن بقیہ حاشیہ: - ۳۳- احمدیت کے ظاہری پابند نہ ہو بلکہ دل و جان سے اس کے پابند ہو.خلیفہ وقت کی ہدایات کے دل و جان سے پابند ہو.۳۴ - نا گوار سننے کی عادت ڈالو اور اس پر صبر کرو یہ بھی جہاد ہے.۳۵.سمجھ لو کہ ہر ایک آدمی میں بہت سی خوبیاں ہیں اور بہت سی بدیاں.ہمیشہ خوبیوں پر نظر رکھو اور بدی کو چھوڑ دو.نہ پھٹکے.-۳۷ کسی کی عیب جوئی نہ کرو.اپنے عیبوں پر نظر رکھو اور سب عیبوں سے برا اپنے آپ کو سمجھوتا کہ تکبر پاس امیر غریب سب کے خادم بنو اور تواضع اپنا شعار بناؤ.۳۸ - غیرت مند بنو.دین کی غیرت سب سے بڑھ کر کرو.-۳۹ ہر ایک احمدی مبلغ ہے اپنے آپ کو مبلغ سمجھو اور تبلیغ کرو.یہ ضروری ہے اس سے بہت سے اپنے عیبوں کی بھی اصلاح ہوتی ہے.۴۰.فرض دینی ہو یا دنیاوی اس کا پورا خیال رکھو.-۲ یا تو کسی کام کو کر وہی نہیں.کرو تو پورا کرو.مگر ایسا نہ ہو کہ بہت کی تلاش میں تھوڑے سے محروم رہو.۴۲.اپنی بیرسٹری میں بھی دیانت ، امانت ، حق کی طرف داری کو اپنا شعار رکھنا.۴۳ - آج کل بارمورل (Moral) کیریکٹر میں بہت بدنام ہیں.ہمیشہ اپنا دامن پاک رکھنا.۴۴.لوگوں پر بہت اعتبار کرو اور بالکل اعتبار نہ کر سمجھ لو کہ با ہمیں مرداں باید ساخت.۴۵ - بے پروائی کی عادت نہ رکھو کلون پاس نہ پھٹکے اپنے مال اور اعمال کا ہمیشہ حساب اور موازنہ کرتے رہو.۴۶- استادوں کا اور اپنے بزرگوں کا ہمیشہ ادب کرو اور جس سے بھی کچھ سیکھو اس کا ادب کرو.۴۷.معاملہ ہمیشہ صاف رکھو سنی سنائی بات کا اعتبار نہ کرو.مگر ہوشیار رہو.۴۸ - ورزش ہمیشہ کرو.اور وقت کی پابندی کرو.سر دست یہ باتیں لکھی ہیں اگر ان پر عمل کرو گے انشاء اللہ سکھ پاؤ گے.دین و دنیا میں کامیاب ہو گے.۲۷۵
393 آپ کی نظر ہم پر پڑ گئی تو فرمایا میرا گھر آج خوشی سے بھر گیا ہے.اس قدر دانی پر حوصلہ افزائی کا یہ اثر ہوا کہ ہم درس میں با قاعدہ ہو گئے.بلکہ بعد میں دیواری گیس لیمپ میں گھر سے لے جا کر روزانہ درس کے لئے جلایا کرتا تھا سفر میں بھی ٹیوٹران کو ہمراہ لے جاتے تھے.چنانچہ یہ اساتذہ کراچی، مالیر کوٹلہ ،شملہ اور لاہور ہمارے ساتھ جاتے رہے.حضور علیہ السلام کی وفات والے سفر میں بھی اساتذہ اور حکیم محمد زمان صاحب ہمارے ہمراہ لاہور گئے تھے ہے مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم اے نے بار ہا راقم کو سنایا کہ حضرت نواب صاحب بچوں کی تربیت میں حد درجہ محتاط تھے.عرصہ تک قادیان میں بچے مدرسہ میں اس لئے نہ داخل کئے کہ کہیں نظروں سے اوجھل ہو کر تربیت میں نقص نہ واقع ہو جائے.جب آپ سے کہا گیا کہ بچوں کو مدرسہ میں داخل کرنا ہی مناسب ہے تو حضرت نواب صاحب نے فرمایا کہ بچوں کی سوسائٹی کے لئے ایسے طالب علم کا انتخاب کیا جائے جوان کی سوسائٹی کے لائق ہو اور ان کا بہتر ہم نشین ثابت ہوتا کہ بدصحبت سے نقصان نہ اٹھا ئیں.چنانچہ حضرت نواب صاحب نے بالآخر میرا انتخاب کیا اور مجھ سے ہمیشہ ہی عمر بھر خوش رہے.طالب علمی سے آخر عمر تک اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتے تھے.حضرت پیر منظور محمد صاحب نے ان صاحبزادگان کو قرآن مجید ختم کرایا اور اس موقعہ پر حضرت اقدس کی دعا سے بھی مستفیض ہوئے چنانچہ معزز البدر میں مرقوم ہے.شام کے وقت بعد ادا ئیگی نماز مغرب حضرت اقدس نے جلسہ فرمایا تھوڑی دیر کے بعد جناب نواب محمد علی خاں صاحب کے صاحبزادہ زریں لباس سے ملتبس حضور کی خدمت میں نیاز مندانہ طریق پر حاضر ہوئے.آپ نے ان کو اپنے پاس جگہ دی ان کو اس ہئیت میں دیکھ کر خدا کے برگزیدہ نے بڑی سادگی سے جناب نواب صاحب سے دریافت کیا کہ ان کی کیا رسم ادا ہونی ہے.نواب صاحب نے جواب دیا کہ آمین ہے.اس اثناء میں ایک سروپا کا تھال آیا اور وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے رو برو دھرا گیا.چند لمحہ کے بعد پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ اب آگے کیا ہوتا ہے.عرض کی گئی کہ اسے دست مبارک لگا دیا جائے اور دعا الفضل بابت ۱۳-۸-۶ میں "زیر مدینہ مسیح مرقوم ہے.”محمد عبداللہ خاں ومحمد عبدالرحیم خاں اپنے والد بزرگ وار نواب محمد علی خاں صاحب کے پاس لدھیانہ گئے ہیں تو ان کی تعلیم و تربیت کے لئے ماسٹر محمد دین بی.اے ساتھ ہیں.الحکم وغیرہ سے بوقت وفات حضرت اقدس حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب کے حضرت نواب صاحب کے ہمراہ لاہور میں ہونے کا علم ہوتا ہے.حضرت بھائی جی بھی تصدیق کرتے ہیں.
394 66 فرمائی جائے.چنانچہ حضور نے ایسا ہی کیا اور پھر فوراً تشریف لے گئے." انکسار مکرم مفتی محمد صادق صاحب مجھے لکھتے ہیں کہ حضرت نواب صاحب کی طبیعت میں بہت انکسار تھا.مسجد میں نماز کے لئے تشریف لاتے تو عموماً سب سے آخری صف میں جوتیوں کے قریب بیٹھ جاتے اور کبھی یہ کوشش نہ کرتے کہ نمازیوں کے کندھوں سے پھاند کر آگے بڑھیں ہاں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی بات کے لئے بلاتے کہ نواب صاحب ہیں تو آگے آجائیں تب آگے جاتے اور یہی طریق حضرت خلیفہ اسیح اول کہا تھا کہ وہ بھی مسجد میں آکر سب سے پیچھے بیٹھ جاتے تھے اور بغیر اس کے کہ حضرت مسیح موعود ان کو آگے بلائیں پیچھے ہی بیٹھے رہتے.نواب صاحب کے اس طریق کے متعلق مکرم حافظ غلام رسول صاحب النگوی حضرت اقدس کے عہد مبارک کا ایک واقعہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نماز عصر ہو رہی تھی اور مسجد مبارک میں صفیں پر ہو چکی تھیں کیونکہ ان دنوں مسجد مبارک بہت چھوٹی تھی.سب سے پچھلی صف میں خاکسار اور ایک شخص حاکم نامی احمدی (ہمارے گاؤں کا زمیندار ) کھڑے تھے کہ اتنے میں نواب محمد علی خاں صاحب مع دو کس معززین کے تشریف لائے.حاکم نے کہا کہ نواب صاحب آئے ہیں میں اپنی جگہ ان کو دے دیتا ہوں اس نے پیچھے ہٹنا چاہا.نواب صاحب نے فرمایا نہیں.میں نہیں کھڑا ہوں گا یہ جگہ آپ کی ہے آپ اسی جگہ کھڑے رہیں.میں یہیں نماز پڑھ لوں گا پھر آپ نے اپنا کپڑا جوتیوں کے اوپر ہی بچھا لیا اور ان دونوں معززین کے ساتھ وہیں نماز ادا کی اسلام نے جو مساوات سکھائی ہے اس کا عملی نمونہ حضور علیہ السلام کی صحبت میں ہی ملتا ہے.“ نواب صاحب کے دل میں حد درجہ فروتنی کے باعث غرباء سے دیگر امراء کی طرح جذ بہ حقارت نہ ہونا تو الگ رہا آپ کا دل ان کے لئے جذبات محبت و شفقت سے پر رہتا تھا آپ انہیں اپنے جیسا انسان خیال کرتے تھے اور ان سے حسن سلوک سے پیش آتے تھے کہ جس سے اسلامی مساوات آشکارا ہو.اسی طرح خلافت اولی کا واقعہ ہے.مکرم مرز اعبد الغنی صاحب سابق محاسب صدر انجمن احمد یہ قادیان بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ جمعہ کے لئے تشریف لائے.جوتیوں میں جگہ ملی.آپ وہیں بیٹھ گئے باو جو یکہ لوگ اس کا ذکر مکرم مفتی صاحب کی طرف سے الفضل جلد ۳۳ نمبر ۳۸ صفحه کالم ۴ پر چہ ۴۵ -۲-۱۳ میں بھی ہے.
395 کہتے رہے کہ آپ آگے آجائیں.اسی طرح ایک عید کے موقعہ پر پرانی عیدگاہ میں دیکھا کہ گھاس پھوس پر ایک معمولی قالین یا دری پر بیٹھے ہیں کئی بار مجھے مصافحہ کرنے کا موقعہ ملا.بہت ہی تواضع اور عزت سے مصافحہ کرتے.ان میں نوابوں والا کبر اور بڑائی نہیں تھی.مکرم چوہدری نور احمد خاں صاحب آف سٹروعه ( صحابی ) پنشنر کارکن صدرانجمن احمد یہ سناتے ہیں کہ حضرت نواب صاحب جب صدر انجمن احمدیہ کے سیکرٹری تھے تو میں کوٹھی پر بھی کا غذات دکھانے کے لئے لے جاتا.آپ ہمیشہ مجھے کرسی پر بٹھاتے اور بعد فراغت باغ میں چہل قدمی کے لئے ساتھ لے جاتے اور بے تکلفی سے اپنے خاندان کے حالات سناتے اور احمدیت کا تذکرہ فرماتے.مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے مسجد مبارک بہت چھوٹی سی تھی وہاں لوگ نماز پڑھنے آتے تھے آپ نے کبھی یہ امتیاز نہیں کیا کہ فلاں امیر ہے فلاں غریب.میلے سے میلے کپڑوں والے آدمی کے پاس بھی کھڑے ہو جاتے تھے بلکہ اگر کوئی فاصلہ چھوڑ کر کھڑا ہوتا تو آہستہ آہستہ اس کے قریب ہو جاتے.اگر غریب سے غریب اور ادنیٰ سے ادنی کی پوزیشن کا کبھی کوئی آدمی بات پیش کرتا تو نہایت محبت اور پیار سے پیش آتے.کلام میں درشتی کا نام ونشان نہ تھا اور احسان کر کے بعد میں جتایا نہیں کرتے تھے.طبیعت میں خود داری تھی مگر نخوت اور تکبر پاس بھی پھٹکنے نہ پایا تھا.اپنی پوزیشن قائم رکھتے.مگرا میروں کی نسبت غریبوں سے مل کر زیادہ خوشی محسوس کرتے.طبیعت میں بالعموم نرمی تھی.مدرسہ میں جو کلیتہ آپ کے اختیار میں تھا ڈانٹ ڈپٹ سے ہمیشہ احتر از فرماتے تھے.“ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسی اول نے بیان کیا کہ نبی پر ابتداء میں غریب ہی ایمان لاتے ہیں.باہر سے ایک ایڈیٹر اخبار یا رسالہ آئے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ آپ کے ہاں تو ایک نواب صاحب بھی آئے ہوئے ہیں.آپ نے فرمایا کہ ان کو جا کر دیکھیں اس نے دیکھا اور بیان کیا کہ واقعی وہ غریب طبع ہیں، نوابوں والا کروفران میں نہیں (م) ڈاکٹر ٹی.ایل.پینل.ڈی.ڈی بنوں صوبہ سرحد میں چرچ مشنری سوسائٹی کی طرف سے متعین تھے اور کافی عرصہ تک سرکاری اور آزاد علاقہ میں تبلیغ مسیحیت کا کام کرتے رہے.سائیکل پر انہوں نے سارے مذکورہ بالا ایڈیٹر کے متعلق مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ ”مولوی ریاض الدین ان کا نام تھا ان کو مدر سے جاری کرنے کا شوق تھا.مجھے یاد نہیں الحکم میں ان کا واقعہ چھپا تھا.“
396 ہندوستان کا دورہ کیا.چنانچہ ۴ جنوری ۱۹۰۴ء کو قادیان بھی آئے.اب آپ اس اعلیٰ پایہ کے پادری کی زبانی حضرت نواب صاحب کی بابت سنیئے.بیان کرتے ہیں.”مرزا صاحب اور ان کے مریدوں کی سادہ مزاجی قابل تعریف ہے اور اس میں شک نہیں کہ وہ اس معاملہ میں پکٹ اور ڈوئی پر سبقت لے گئے ہیں...مرزا صاحب کے مریدوں میں سادگی کی مشہور و معروف مثال ریاست مالیر کوٹلہ کے نواب میں موجود ہے کہ جنہوں نے اپنی ریاست کے انتظام اور عیش و عشرت کو لات مار کر ایک چھوٹے سے مکان میں رہنا اور دل و جان سے مرزا صاحب کی خدمت کرنا پسند کیا ہے.ایسے تعلیم یافتہ لیکن سادہ مزاج نواب سے میری ملاقات ہونا میرے لئے قادیان کی ایک اعلیٰ ترین یادگار ہے.“ خدام و ملازمین سے حسن سلوک ZA نواب صاحب قطر تا سخت گیر نہ تھے ملازمین سے ہمیشہ نرمی سے پیش آتے.پرانے خادموں اور ان کے متعلقین سے مل کر خوش ہوتے.عزیزوں کی طرح ان کا حال دریافت کرتے ان کو صلاح و مشورہ دیتے.اس وقت یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان لوگوں کے ہی کنبہ کا کوئی آدمی ان سے بات کر رہا ہے ان کے وجود میں ایک خدا داد رعب تھا.ان کے ہر انداز میں وقار تھا جو ہر وقت کی پرائیویٹ زندگی میں بھی نمایاں نظر آتا تھا.ان کا گھر میں ہنسنا ، بولنا ، بے تکلف صحبت اور گھر والوں سے محبت بھی ایک وقار کا پہلو اپنے اندر لئے ہوئے ہوتی جو ایک عجیب اثر اور ایک کشش رکھتی تھی.اس میں دل کی سختی اور غرور ہرگز نہ تھا.بلکہ وہ طبعاً نہایت سادہ مزاج تھے.ان کا دل غریب تھا.غرباء سے بہت محبت اور رغبت رکھتے تھے پنکھا جھلنے والی چماریوں کے بچوں کو بھی اپنے ہاتھ سے کھانے پینے کی چیز لا کر دینا اور ان سے پیار کی باتیں کرنا گرمیوں کی دو پہر میں روز کا مشغلہ ہوتا تھا.(ن) میاں نور محمد آپ کا ملازم تھا اس کی بیوی غوثاں تھیں ( یہ غوثاں اہلیہ بھائی مددخاں صاحب کے علاوہ تھی ) دونوں مالیر کوٹلہ سے آپ کے ساتھ ہی یہاں آئے تھے.غوثاں کی طرف سے شکایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچ جاتی تو حضور ہمیشہ اس کی سفارش فرماتے.ایک دفعہ عجیب پیرایہ میں حضور نے نواب صاحب کونرمی کرنے کی تلقین فرمائی.بعد میں حضور نے نور محمد اور غوثاں کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا لیکن ان کے متعلق حضرت اقدس کا مشار الیہ مکتوب درج ذیل کیا جاتا ہے.
397 نواب صاحب ان دونوں سے ہمیشہ شفقت سے پیش آتے رہے.میاں نور محمد حضرت اماں جان (اطال الله بقاء ہا) کے گھر لیمپ جلاتے ہوئے پیٹرول سے آگ لگنے سے فوت ہو گئے تھے اور ان کی بیوہ نہایت بے کسی کی حالت میں پیچھے رہ گئی تھی.جس کی پرورش حضرت اماں جان بھی کرتی تھیں لیکن نواب صاحب کو بھی ہمیشہ اس بقیہ حاشیہ: - بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم محجبی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.تمام خط میں نے پڑھا.اصل حال یہ ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا تھا وہ صرف اس بناء پر تھا کہ نور محمد کی بیوی نے میرے پاس بیان کیا کہ نواب صاحب میرے خاوند کو یہ تنخواہ چار روپیہ کوٹلہ میں بھیجتے ہیں اور اس جگہ چھ روپیہ تنخواہ تھی اور روٹی بھی ساتھ تھی اب ہماری تباہی کے دن آگئے اس لئے ہم کیا کریں.یہ کہہ کر وہ روپڑی میں یہ تو جانتا تھا کہ اس تنزل تبدیلی کے کوئی اسباب ہوں گے اور کوئی ان کا قصور ہو گا.مگر مجھے خیال آیا کہ ایک طرف تو میں نواب صاحب کے لئے پنجوقت نماز میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی پریشانی دور کرے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کی شکایت ہے کہ ہم اب اس حکم سے تباہ ہو جائیں گے تو ایسی صورت میں میری دعا کیا اثر کرے گی.گو یہ سچ ہے کہ خدمت گار کم حوصلہ اور احسان فراموش ہوتے ہیں.مگر بڑے لوگوں کے بڑے حو صلے ہوتے ہیں.بعض وقت خدا تعالیٰ اس بات کی پروا نہیں رکھتا کہ کسی غریب نادار خدمت گار نے کوئی قصور کیا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ صاحب دولت نے کیوں ایسی حرکت کی کہ اس کی شکر گزاری کے برخلاف ہے اس لئے میں نے اپنے دل میں آپ کو ان کی دلی رنجش کے برے اثر سے بچانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو لکھا تھا ور نہ میں جانتا ہوں کہ اکثر خدمت گاراپنے قصور پر پردہ ڈالتے ہیں اور یوں ہی واویلا کرتے رہتے ہیں اس وجہ سے میں نے مہمان کے طور پر اس کی بیوی کو اپنے گھر رکھ لیا تا کوئی امرایسا نہ ہو کہ جو میری دعاؤں کی قبولیت میں حرج ڈالے اور حدیث شریف میں آیا ہے ارحموا فِي الْأَرْضِ تُرحَمُوا فِي السَّمَاء - زمین میں رحم کرو تا آسمان پر تم پر رحم ہو.مشکل یہ ہے کہ امراء کے قواعد انتظام قائم کرنے کے لئے اور ہیں.اور وہاں آسمان پر کچھ اور چاہتے ہیں.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ مرزا غلام نوٹ.مکتوب نمبر ۸۸.یہاں حضرت نواب صاحب کے ہاں سے حاصل کردہ نقل سے درج کیا گیا ہے (مؤلف)
398 کا خیال رہتا تھا اور اس کا ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا تھا.اور اس کے علاوہ بھی جب آتی تھی امداد فرماتے تھے.ان ایام میں ( کہ ) نواب صاحب خود سخت بیمار تھے سنا کہ وہ اپنی کوٹھڑی میں اکیلی پڑی ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کو بلایا اور کہا کہ اسے ہسپتال میں داخل کرایا جائے جو خرچ ہوگا میں ادا کروں گا.اور اس کی نگرانی کے لئے کوئی عورت مقرر کی جائے اور اس کے لئے آپ بہت زیادہ فکر مند تھے ادھر جب حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ کو تہ لگاکہ وہ بیمار ہے اور اس کی تیمار داری ٹھیک طور پر نہیں ہورہی تو آپ نے دورو پید روز پر ایک عورت کو تیمارداری کے لئے مقرر کر دیا.دارا مسیح میں ہی بیمار رہی اور فوت ہوئی اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئی.غوناں مرحومہ اتنی وفادار تھی کہ اس کی نظیر مشکل ہے اپنے آقا اور ان کی اولاد سے بے انتہا محبت اس کو تھی.حضرت مسیح موعود اس پر بوجہ اس کے مرض کے بے حد شفقت فرماتے تھے اور اس کی وفاداری کو بھی بنظر احسان دیکھتے تھے کہ وہ ہمیشہ حضور کو نواب صاحب کے لئے دعا کی تحریک کرتی رہتی تھی.(ن) نواب صاحب کے اس حسن سلوک کے باوجود حضرت اقدس بھی ہمیشہ نواب صاحب کو ملازموں سے مزید نرمی کی تاکید مختلف پیرایوں میں کرتے رہتے تھے چنانچہ حضور نے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں اس جگہ آکر چند روز بیمار رہا.آج بھی بائیں آنکھ میں درد ہے باہر نہیں جاسکتا.ارادہ تھا کہ اس شہر کے مختلف فرقوں کو سنانے کے لئے کچھ مضمون لکھوں ڈرتا ہوں کہ آنکھ کا جوش زیادہ نہ ہو جائے.خدا تعالیٰ فضل کرے.مرزا خدا بخش کی نسبت ایک ضروری امر بیان کرنا چاہتا ہوں.گو ہر شخص اپنی رائے کا تابع ہوتا ہے.مگر میں محض آپ کی ہمدردی کی وجہ سے لکھتا ہوں کہ مرزا خدا بخش آپ کا سچا ہمدرداور قابل قدر ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ کئی لوگ جیسا کہ ان کی عادت ہوتی ہے اپنی کمینہ اغراض کی وجہ سے یا حسد سے یا محض سفلہ پن کی عادت سے بڑے آدمیوں کے پاس ان کے ماتحتوں کی شکایت کر دیتے ہیں.جیسا کہ میں نے سنا ہے کہ ان دنوں میں کسی شخص نے آپ کی خدمت میں مرزا خدا بخش صاحب کی نسبت خلاف واقعہ باتیں کہ کر آپ کو ان غوثاں زوجہ مددخاں صاحب قطعہ احصہ نمبر قبر نمبر ۵ میں اور غوثاں زوجہ میاں نور محمد قطعہ نمبر ۸ حصہ نمبر ۱۴ قبر نمبر میں دفن ہیں.مؤخر الذکر ابتدائی موصوں میں سے تھیں چنانچہ ان کا نمبر وصیت ۲۹۹ ہے.۲۰ دسمبر ۱۹۴۲ء کو فوت ہوئیں.رضی اللہ عنہم.
399 پر ناراض کیا ہے گویا انہوں نے میرے پاس آپ کی شکایت کی ہے اور آپ کی کسر شان کی غرض سے کچھ الفاظ کہے ہیں.مجھے اس امر سے سخت ناراضگی حاصل ہوئی اور عجیب یہ کہ آپ نے ان پر اعتبار کر لیا ایسے لوگ در اصل بد خواہ ہیں نہ کہ مفید.میں اس بات کا گواہ ہوں کہ مرزا خدا بخش کے منہ سے ایک لفظ بھی خلاف شان آپ کے نہیں نکلا اور مجھے معلوم ہے کہ وہ بیچارہ دل و جان سے آپ کا خیر خواہ ہے اور غائبانہ دعا کرتا ہے اور مجھ سے ہمیشہ آپ کی دعا کے لئے تاکید کرتا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ چند روزہ زندگی آپ کے ساتھ ہو.رہی یہ بات کہ مرزا خدا بخش ایک بے کا رہے یا آج تک اس سے کوئی کام نہیں ہو سکا.یہ قضا و قدر کا معاملہ ہے انسان اپنے لئے خود کوشش کرتا ہے اور اگر بہتری مقدر میں نہ ہو تو اپنی کوشش سے بھی کچھ نہیں ہوسکتا.ایسے انسانوں کے لئے جو ایک بڑا حصہ عمر کا خدمت میں کھو چکے ہیں اور پیرانہ سالی تک پہنچ گئے ہوں میرا تو یہی اصول ہے کہ ان کی مسلسل ہمدردیوں کو فراموش نہ کیا جائے.کام کرنے والے مل جاتے ہیں مگر ایک سچا ہمدرد انسان حکم کیمیا رکھتا ہے وہ نہیں ملتا.ایسے انسانوں کے لئے شاہان گزشتہ بھی دست افسوس ملتے رہے ہیں اگر آپ ایسے انسانوں کی محض کسی وجہ سے بے قدری کریں تو میری رائے میں ایک غلطی کریں گے.یہ میری رائے ہے جو میں نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہے اور آپ ہر ایک غائبانہ بد ذکر کرنے والوں سے بھی چوکس رہیں کہ حاسدوں کا وجود دنیا میں ہمیشہ بکثرت ہے.والسلام مکرر یاد دلاتا ہوں کہ میرے کہنے سے مرزا خدابخش چند روز کے لئے لاہور میرے ساتھ آئے خاکسار مرزا غلام احمد ۲۸۱ تھے.“ ( مکتوب نمبر ۹۰) چونکہ حضرت اقدس ملازموں کے لئے آقا کے آقا تھے.اس لئے خواہ اپنا ہی قصور ہو.برخواستگی وغیرہ کے موقعہ پر حضرت اقدس کی شفقت کی پناہ ڈھونڈتے تھے اس لئے بسا اوقات نواب صاحب ایسے مراحل پر کوئی قدم اٹھانے سے قبل استصواب کر لیتے تھے.چنانچہ ایک ملازم کے متعلق جوابا حضور نے رقم فرمایا کہ ” (اس) کو اس نوکری کی پرواہ نہیں ہے ورنہ باوجود اس قدر بار بار لکھنے کے کیا باعث کہ جواب تک نہ دیا.اس صورت میں آپ کو اختیا ر ہے جس کو چاہیں مقرر کر دیں اور یہ بھی آپ کی مہربانی تھی ورنہ نوکروں کے معاملہ میں بار بار کہنے کی کیا ضرورت تھی.“ ( مکتوب نمبر ۶۵) اسی طرح ایک ملازم کے متعلق جوابا تحریر فرمایا کہ ” جب وہ خود استعفاء بھیجتا ہے تو آپ حق ترحم ادا کر چکے اس صورت میں اس کی جگہ بھیج سکتے ہیں آپ پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ نے موجودہ حالت کے لحاظ سے یہ انتظام کیا ہے.“ مکتوب نمبر ۶۶.اسی طرح مکتوب نمبر۲ سے بھی اسی مضمون پر مشتمل ہے.
400 نواب صاحب کو نیک اور دیانتدار اور پھر احمدی ملازمین کے متعلق جو لحاظ تھا وہ آپ کے اس عریضہ سے ظاہر ہے جو آپ نے حضرت اقدس کی خدمت میں تحریر کیا.اس میں لکھتے ہیں.بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود التجا ہے کہ بعد ملاحظہ کل عریضہ حکم مناسب سے مطلع فرمایا جاوے سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمہ تعالی.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکات.مجھ کو جب کسی ملازم کو موقوف کرنا پڑتا ہے تو مجھ کو بڑی شش و پنج ہوتی ہے اور دل بہت کڑھتا ہے.اس وقت بھی مجھ کو دو ملازموں کو برخاست کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے.ایک...صاحب اور دوسرے...صاحب یہ دونوں صاحب احمدی بھی ہیں اس سے اور بھی طبیعت میں پیچ و تاب ہے.میرا جی نہیں چاہتا کہ کوئی لائق آدمی ہو اور اس کو بلا قصور موقوف کر دوں اب دقت یہ پیش آئی ہے کہ کوئی پانچ سال سے میرے ہاں ملازم ہیں مگر کام کی حالت ان کی اچھی نہیں.اب تک جس کام پر ان کو میں نے لگایا ہے اس کی سمجھ اب تک ان کو نہیں آئی اور انہوں نے کوئی ترقی نہیں کی اور میرے جیسے محدود آمدنی کے لئے ایسے ملازم کی ضرورت ہے کہ جو کئی کئی کام کر سکے وہ اپنا مفوضہ کام پوری طرح نہیں چلا سکتے.ہاں اس میں شک نہیں کہ نیک اور دیانتدار ہیں مگر کام کے لحاظ سے بالکل ندارد ہیں اور اس پانچ سال کے تجربہ نے مجھے اس نتیجہ پر پہنچا دیا ہے کہ میں ان کو علیحدہ کردوں یہ میری سال گزشتہ سے منشا تھی.مگر صرف اس سبب سے کہ وہ نیک ہیں دیانتدار ہیں اور احمدی ہیں، میں رکا تھا مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ جو فائدہ ان کی دیانت سے ہے اس سے زیادہ نقصان ان کی عدم واقفیت کام سے ہوتا ہے.پس اب میں نہایت ہی متردد ہوں کہ ان کو موقوف کر دوں کہ نہیں.کاش وہ میرا کام چلا سکتے تو بہت اچھا ہوتا.ایک وقت ہے کہ میں نے ان سے مختلف صیغوں میں کام لیا مگر وہ ہر جگہ نا قابل ہی ثابت ہوئے.۲۸۲ نواب صاحب کا خدام سے جو مشفقانہ برتاؤ تھا وہ اس امر سے بھی ظاہر ہے کہ مرزا خدا بخش صاحب جو بعد میں غیر مبائع ہو گئے وہ حضرت اقدس کے زمانہ میں بہت سی فتنہ انگیزیوں کا باعث بھی بنے.حضرت اقدس کی طرح نواب صاحب بھی اغماض اور عفو سے کام لیتے رہے.حتی کہ خلافت ثانیہ میں پنشن دیتے وقت آپ نے موضع کتے وڈھ ضلع سرسہ کی جائیداد جو ابتداء میں تمہیں ہزار روپے میں خریدی گئی تھی.اور آپ کا اس میں یہ حصہ تھا مرزا صاحب کو بطور پنشن دے دیا.بعد میں نہری زمین ہو جانے کی وجہ سے آٹھ مربعے بن گئے اور بہت قیمتی جائیداد ہوگئی.اسی طرح کئی ایک ملازموں کی بیواؤں کا مدت العمر وظیفہ جاری رکھا حالانکہ ان کے بچے جوان ہوئے کمانے لگے.صاحب اولاد ہوئے لیکن وظیفہ بند نہ کیا.ان کی لڑکیوں کی شادیاں کیں
401 اور شادی تک ان مرحوم ملازمین کے بچوں کے اخراجات کے کفیل رہے (م) حضرت اقدس کی نظر میں بھی نواب صاحب اپنے ملازمین سے بھی حسن سلوک سے پیش آتے تھے.چنانچہ مرقوم ہے: " سیر سے واپس آکر شیخ عبدالرحمن ملازم خاں صاحب نواب محمد علی خاں صاحب رئیس اعظم مالیر کوٹلہ نے جو اپنی غلط فہمی اور کوتاہ اندیشی کی وجہ سے ان کی ملازمت سے مستعفی ہوئے تھے رخصت چاہی حضرت حجتہ اللہ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا.ملازم کے لئے ملازمت سے پہلے ایسی جگہ دیکھ لینی چاہئے جہاں آقا نیک اور متقی ہو کیونکہ بندگی بیچارگی.ملازم ناصح کا درجہ نہیں پاسکتا اس لئے بسا اوقات ایسے لوگوں کی ملازمت ہوتی ہے جہاں دین بر باد ہو جاتا ہے.پس نواب صاحب کی ملازمت کو بہت ترجیح دینی چاہئے.نواب صاحب ۲۸۳ بڑے صالح اور با مروت ہیں.میری رائے میں بہتری یہی ہے کہ تم اپنے اس ارادہ پر نظر ثانی کر لو.چنانچہ شیخ عبدالرحمن صاحب نے حضرت نواب صاحب سے اپنا استعفا واپس لینے کے لئے عرض کر دیا اور نواب صاحب موصوف نے اپنی عام فیاضی اور فراخ دلی سے ان کو پھر ملازم رکھ لیا.“ شیخ عبدالرحمن صاحب مذکور کو نواب صاحب نے اولاد کے معمولی خادم کے طور پر ملازم رکھا ہوا تھا.لیکن آپ کے دل میں ہر ایک ملازم کے لئے جذبہ شفقت و ہمدردی تھا.آپ نے اپنا ملازم یا غریب شخص جان کر تبلیغ سے محروم نہیں رکھا بلکہ تبلیغ کی اور جب دیکھا کہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا تو ان کے لئے دعا کی ان کو اور عبد اللہ صاحب عرب کو ایک روزہ 4 گھنٹے تبلیغ کی.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور ان دونوں نے دوسرے دن بیعت کر لی.اس کی تفصیل تبلیغ کے عنوان کے تحت درج ہے.آپ کی نگاہ الخلق عیال اللہ کے رنگ میں بنی نوع انسان کو دیکھتی تھی.چنانچہ آپ اپنے ایک بیٹے کو تحریر فرماتے ہیں.” میری طبیعت اللہ تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ مجھ کو اس کی تمام مخلوق سے محبت ہے اور پھر کسی سے ایسی محبت نہیں کہ وہ مجھ کو اللہ تعالیٰ سے بھلا دے.فالحمد اللہ علی ذالک.اس لئے اگر میں بیوی سے محبت کرتا ہوں تو اس لئے نہیں کہ وہ میری بیوی ہے بلکہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو مجبور کیا ہے اس لحاظ سے بھی میری خیر خواہی بالکل بے لوث ہے.میں ہمیشہ اپنے کم سے کم درجہ کے متعلق (کے) لئے ہر نماز میں دعا کرتا ہوں حتی کہ ہر یا خاکروب کے لئے بھی اور اس کے بیوی بچوں کے لئے بھی.اس سے بھی تم کو میری ہمدردی کا پتہ لگ سکتا ہے.“
402 دوسروں کی عفت اور جماعت کی عزت کا خیال مومن کی شان یہ ہے کہ جو اپنے لئے پسند نہیں کرتا دوسروں کے لئے بھی پسند نہیں کرتا.نواب صاحب کی زندگی کا ایک عجیب واقعہ اس خصوص میں ان کی ڈائری میں ملتا ہے جو انہوں نے فارسی زبان میں لکھا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو افراد جماعت کے تزکیہ نفس اور ان کے گناہ کی زندگی سے بچانے کے لئے اور سلسلہ کی عظمت کو قائم رکھنے کے لئے کس قدر جوش تھا کاش یہ روح ہر احمدی میں ہو.دوسری جگہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ خادمات کی عصمت کی حفاظت کے لئے آپ نے کیسا عمدہ انتظام پہرہ وغیرہ کا کر رکھا تھا.اس اقتباس سے جو ذیل میں درج ہے.نواب صاحب کے اپنے تزکیہ نفس کا بھی کافی ثبوت ملتا ہے آپ تحریر فرماتے ہیں.مرضعہ اہلیہ من بچند دفعه آمده بود که صبیہ میانه خود را بکوٹله به برد مگر من از یں جهت دخترش را نه فرستادم که......دخترش کم سن است و بالغ نیست و این مانع است اگر به خانہ شوہر برود آنجا هم عصمتش تباه خواهد شد و اگر بخانه مادر خود ماند آبخااز و بدتر است چرا که مادرش نیکو کار نیست و راہم تباه خواهد کرومر از یادہ تر بایں سبب بدخترش همدردی کارنیست بود که او بیعت امام کرده بود در یں جانماز تہجد می خواند و نماز پنجگانہ ہمیشہ بشوق اوا می کرد ترسیدم که اگر بُر و صحبت بد در او اثر کرد موجب خفت جماعت دشمانت اعدا خواهد شد.پس مادرش را فہمائش کردم و بسیار بند کردم آخر اواز بردن او باز ماند ولیکن دراصل مادرش را هیچ محبت با اطفال خود نیست بلکه آن زن طماع است.چوں دید که ازیس ماندن دخترش این جا اور ا منفعت خواهد شد....اورا بگد هشت دخترش خادمه من است و خواهر رضاعی زن من است عصر روپیہ مشاہرہ مے یا بد و دیگر منفعت انعام 66 وغیرہ ہم است - مادرش را هم از و منفعت می رسد “ یہ غوثاں کا ذکر ہے جو کہ مالیر کوٹلہ کے گوجروں کی لڑکی تھی آپ اپنی صاحبزادی کے ہمراہ اسے تعلیم دیتے تھے.آپ نے اس کی شادی بھائی مددخاں صاحب رضی اللہ عنہ سے کر دی تھی غیر قوم میں شادی ہونے کی وجہ سے اس کے رشتہ داروں کو یہ امر ناگوار گزرا.نواب صاحب شادی کے بعد بھی اس کی امداد کرتے ہے.اب وہ بہشتی مقبرہ میں مدفون ہے.اس کو دینی تعلیم کا علم ۰۲-۱۲- ۸ کی ڈائری سے ہوتا ہے.
غرباء پروری 403 مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب ذکر کرتے ہیں.جس زمانہ میں آپ نے قادیان کی رہائش اختیار کی اس کی حالت بالکل معمولی سی تھی اور مہاجرین کی حالت بہت ہی قابل رحم تھی.ان کا بیشتر حصہ دو دو تین تین روپے ماہوار پر گزارا کرتا تھا.حضرت نواب صاحب کا قادیان آنا ان کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا.ہر شادی بیاہ پر بری کا جوڑہ آپ کی طرف سے جاتا تھا.احباب میں سے ایک کثیر تعداد کی آپ مالی اعانت کرتے رہتے تھے اور پھر اس اعانت کا ذکر کسی سے نہ کرتے تھے.ہمیں بھی جو کچھ پتہ لگا ہے بالعموم خطوط وغیرہ سے یا اتفاقیہ طور پر یا ان احباب کے ذکر کرنے سے معلوم ہوا ہے.میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب پٹھان ( حال در ولیش) جو کچھ عرصہ ملازم رہے تھے ان کو مکان بنوانے میں امداد دی تھی بہت سے نادار طلبا کی اعانت کرتے رہتے تھے.اس کا کچھ ذکر مدرسہ تعلیم الاسلام کے تعلق میں گزر چکا ہے ، ابتداء میں جب آپ قادیان آئے تو کثرت سے طلباء اور غرباء کی دعوتیں کرتے رہتے تھے.آخری بیماری سے آپ قریباً ڈیڑھ سال تک بیمار رہے.آپ بلاناغہ پانچ روپے روزانہ صدقہ کرتے تھے.اور یہ علاوہ دیگر صدقات کے تھا جو کہ آپ معمولاً کرتے تھے.مالیر کوٹلہ کے ایک دوست المی بخش صاحب بیمار ہو گئے اور قادیان سے واپس جانے لگے آپ ان کے اخراجات کے کفیل ہوئے وہ قادیان ہی میں فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے ہو میاں محمد عبد اللہ خان صاحب پٹھان بتاتے ہیں کہ مکان کی تعمیر میں امداد کے علاوہ آپ ہمیشہ میری مالی اعانت فرماتے تھے خصوصاً عیدین کے مواقع پر.اسی طرح دیگر غرباء کی بھی امدا د فرماتے تھے.میاں الہی بخش صاحب کا نام الحکم جلد ۵ نمبر ۳ ( صفحہ ۱۶ کالم ۳) نمبر ۴ (صفحہ ۱۶ کالم ۱) بابت جنوری ۱۹۰۱ء میں مالیر کوٹلہ کے چندہ دینے والوں میں مرقوم ہے.ان کے متعلق مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ میاں الہی بخش صاحب خلیفہ کہلاتے تھے نعل بند تھے.حضرت والد صاحب کے ملازم نہ تھے لیکن ان سے کچھ ماہوار وظیفہ پاتے تھے.پہلے فوج میں ملازم رہ چکے تھے شاید اس ملازمت کی کچھ پینشن بھی پاتے تھے غالبا ان کے اولاد نہ تھی.بہت مخلص احمدی تھے ان کی وفات مہمان خانہ میں ہوئی تھی.ان کے مرض الموت کے متعلق حضرت اقدس کا مکتوب درج ذیل کیا جاتا ہے.نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.الحمد للہ تادم تحریر خط ملا.
404 روپیہ سے آپ کو محبت نہ تھی اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور اس کی مخلوق پر خرچ کرنے کا شوق تھا.اور نیکی بقیہ حاشیہ : - ہر طرح سے خیریت ہے.خدا تعالیٰ آپ کو معہ اہل و عیال سلامت قادیان میں لاوے.آمین.آج میں میاں الہی بخش صاحب کو خود ملا تھا.وہ بہت مضطرب تھے کہ کسی طرح مجھ کو کوٹلہ میں پہنچا یا جاوے اور کہتے تھے کہ کوٹلہ میں میری پنشن مقرر ہے.جولائی سے واجب الوصول ہوئی.میں نے ان کے بیش اصرار پر تجویز کی تھی کہ ان کو ڈولی میں سوار کر کے اور ساتھ ایک آدمی کر کے پہنچایا جاوے مگر پھر معلوم ہوا کہ ایسا سخت بیمار جس کی زندگی کا اعتبار نہیں وہ بموجب قانون ریل والوں کے ریل پر سوار نہیں ہوسکتا اس لئے اُسی وقت میں نے ڈاکٹر محمد اسمعیل خاں صاحب کو ان کی طرف بھیجا ہے تاملائمت سے ان کو سمجھا دیں کہ ایسی بے اعتبار حالت میں ریل پر وہ سوار نہیں ہو سکتے اور بالفعل میں نے دورو پید ان کو بھیج دئے ہیں کہ اپنی ضروریات کے لئے خرچ کریں اور اگر میرے روبرو واقعہ وفات کا ان کو پیش آ گیا تو میں انشاء اللہ القدیر اسی قبرستان میں ان کو دفن کراؤں گا.باقی سب طرح سے خیریت ہے.بہتر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ضروری کام کے انجام کے بعد زیادہ دیر تک لاہور میں نہ ٹھہریں اور میری طرف سے اور میرے گھر کے لوگوں کی طرف سے آپ کے گھر میں السلام علیکم.کہہ دیں.والسلام.راقم مرزا غلام احمد ۴ را پریل ۱۹۰۶ء ۲۸۴ مرحوم کیا ہی با اخلاص بزرگ تھے کہ وفات سے قبل ہی حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں کہ اگر یہاں فوت ہوئے تو بہشتی مقبرہ میں ان کو دفن کیا جائے گا.ان کے متعلق پیر سراج الحق صاحب نعمانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.ایک شخص ضیعف العمر جواب وہ بہشتی مقبرہ میں مدفون ہے.اپنی موت سے چند روز پہلے گول کمرہ کے سامنے کچھ دن کے لئے اپنے وطن مالیر کوٹلہ جانے کی اجازت طلب کر رہا تھا.شیخ غلام احمد صاحب واعظ مولوی محمد علی صاحب، مولوی عبدالکریم صاحب، مرحوم میاں غلام حسین صاحب رہتا سی حال قادیان اور خاکسار اور احباب بھی تھے آپ نے فرمایا اب تم ضیعف ہو گئے اور بیمار بھی ہو.مت جاؤ زندگی کا اعتبار نہیں.اس نے کہا تو خدا کا رسول ہے تو سچا رسول ہے تو بے شک خدا کا رسول ہے.میں تجھ پر ایمان لایا ہوں اور صدق دل سے تجھے خدا کا رسول مانا ہے.میں تیری نافرمانی اور حکم عدولی کو کفر سمجھتا ہوں.بار بار یہ کہتا تھا اور دایاں ہاتھ اٹھا کے اور انگلی سے آپ کی طرف اشارہ کر کے بڑے جوش سے کہتا تھا اور آپ اس کی باتوں کو سن کر بار بار ہنستے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ بس اب آرام کرو اور یہیں رہو جانے کا نام مت لو اس کی آنکھوں سے پانی جاری تھا یہ کہتا ہوا مہمان خانہ کولوٹا کہ اللہ کے رسول کا فرمانا بچشم منظور ہے.“ ۲۸۵
405 کے کاموں پر بے دریغ خرچ کرتے تھے.بسا اوقات قابل امدادلوگوں کی فہرست بنوا کر ان کو روپیہ بھیجتے تھے.جب آپ مدرسہ کے منتظم تھے جتنا روپیہ کمئی آمد کی وجہ سے درکار ہوتا تھا اپنی طرف سے خرچ کر دیتے تھے.آپ کے تعلقات غریب وامیر سے ہمیشہ محبت اور اخوت کے تھے جب بھی کوئی اہل ضرورت اپنی ضرورت لے کر آیا والد صاحب نے حتی الامکان اس کی ضرورت کو خاطر خواہ طور پر پورا کر کے واپس کیا.وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود کا زمانہ پایا جو کہ ابتدائی تھا سوائے حضرت مولوی نورالدین صاحب کے جن کے نواب صاحب خود ممنون تھے اور تمام کو میں نے والد صاحب کا ممنون پایا.حضرت مولوی صاحب کی خدمت بھی والد صاحب اس طریق سے فرماتے تھے کہ آپ کے طلباء کے وظائف مقرر کئے ہوئے تھے.سیده نواب مبار که بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ غرباء پروری ہمیشہ سے آپ کا شعار تھا.بہت سے لڑکوں کو وظائف دیئے اور تعلیم دلوائی.شادی بیاہ کے موقعوں پر بھی غرباء کی بہت امداد کرتے مالیر کوٹلہ میں جو غریب رسوم ترک کرتا اس کی حوصلہ افزائی کے لئے اس کی لازم مدد کرتے.یہاں قادیان میں پہلے اکثر حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ بھی اس کارخیر میں بڑے حصہ دار ہوتے.وہ آ کر بتاتے کہ فلاں مہاجر یا طالب علم کا بیاہ شادی ہے.یا ویسے اس کو امداد کی ضرورت ہے اور فوراً اس کے لئے سامان کیا جاتا.خیرات کرتے وقت میں نے کسی حال میں بھی ان کو سوچتے نہیں دیکھا انہوں نے ہمیشہ اپنی وقتی حالت سے بڑھ کر خیرات کی ہے اور ہر رنگ میں کی ہے.بنی نوع انسان کے علاوہ حیوانات سے بھی شفقت سے پیش آتے تھے.روزانہ جانوروں کو اپنے ہاتھ سے کھلانا ان کا خاص دلچسپ مشغلہ تھا چڑیوں کے لئے چھوٹے چھوٹے ذرے روٹی کے بنائے جاتے.بڑے جانوروں کے لئے بڑے ٹکڑے.گلہریوں کے لئے پھل تر کاری کاٹ کر درختوں میں اٹکا دیتے.کوے کبوتر وغیرہ سب جانور بھی خوب وقت پہچانتے تھے اور ان سے ہل سے گئے تھے.شیروانی کوٹ میں بہت ہی عجیب نقشہ ہوتا تھا.جس وقت ان کی ہتھیلی سے لے لے کر پرندے کھا لیتے اور ڈرتے نہ تھے.مکرم مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں کہ نواب صاحب دل کے بھی اور بڑے حوصلہ والے تھے.اکثر غرباء جو باہر سے قادیان آتے تھے ان کو سفر خرچ کی امداد حضرت نواب صاحب سے مل جاتی تھی.رفاہ عام کے کام آپ نے قادیان میں بہت سے رفاہ عام کے کام سرانجام دئے.چنانچہ مکرم میاں محمد عبد اللہ صاحب ذکر
406 کرتے ہیں کہ ابتداء میں قادیان کے قصاب بیمار اور لاغر بکرے ذبح کرتے تھے.اس امر کولوگوں کی صحت کے لئے حد درجہ مضر پا کر حضرت والد صاحب نے مکرم ڈاکٹر شیخ عبداللہ صاحب نو مسلم کو مقرر کر دیا تا کہ ذبح سے قبل جانوروں کا ڈاکٹری معائنہ ہوا کرے.قصاب سارے غیر احمدی تھے.بعض دفعہ وہ ہڑتال بھی کر دیتے تھے.آپ انہیں بلا کر بڑی نرمی اور محبت سے سمجھاتے اور اگر انہیں زیادہ اصرار ہوتا تو انہیں بتاتے کہ اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے ورنہ ہم بٹالہ وغیرہ سے دوسرے قصاب بھی بلوا سکتے ہیں چنانچہ وہ آپ کی گفتگو سے متاثر ہوتے اور عوام کی تکلیف کا ازالہ ہو جاتا.مسجد مبارک کے پاس جو چوک ہے اس کی حالت بہت نا گفتہ بہ تھی.زمین ناہموار تھی برسات میں دلدل بن جاتی تھی پانی نکلنے کے لئے کوئی منفذ نہ تھا.حضرت والد صاحب نے مہمان خانہ سے اس چوک تک جہاں سے دارالانوار اور قصر خلافت کو راستے نکلتے ہیں اور مرزا نظام الدین صاحب کے مکان سے لے کر بک ڈپو کی دوکان تک اس جگہ کو ہموار کرا دیا اور پختہ نالیاں بنوائیں اور لوگوں کی اس تکلیف کو رفع کر دیا ، بعد میں حضرت نانا جان نے مہمان خانہ سے مسجد مبارک تک فرش لگوایا جس میں حضرت والد صاحب نے بھی کافی مالی حصہ لیا.۱۹۱۸ء میں انفلوائنزا کی وبا ملک ہند میں پھیلی.قادیان میں بھی اس قدر بیماری کا زور ہا کہ شاید ہی کوئی گھرانہ اس کے حملے سے محفوظ رہا ہو اور اس کے سارے افراد اس مرض میں گرفتار نہ ہوئے ہوں.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بھی شدید طور پر علیل ہوئے.آپ پر ضعف قلب اور بر داطراف کے شدید حملے ہوتے تھے.باوجود ایسی علالت کے حضور نے اس مرض کے انسداد کے لئے ایک سکیم تیار کی اور ادویات کے لئے ایک معقول رقم حضور کو نواب صاحب نے پیش کی اور قادیان اور اردگرد کے دیہات کے مریضوں کے علاج کے لئے صدر انجمن کے شفا خانہ اور ڈسپنسری کے علاوہ ایک جدید شفا خانہ کھولا گیا جس کا انتظام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے سپر د تھا.جہاں صاحبزادہ صاحب رات کے عموماً گیارہ اور بارہ بجے تک اپنے ہاتھ سے ادویہ دیتے تھے.مرض کی شدت کا اس امر سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ ایک روز رات کے دس بجے سے دن چڑھنے تک بیت الدعا میں مصروف دعا ر ہے.بزرگوں کی خدمت PAY بزرگوں کی خدمت اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ کسی خدمت کرنے والے کے محتاج ہیں بلکہ خدمت کرنے والا روحانی انتفاع کی خاطر نذر عقیدت کے رنگ میں یا تھا دوا تحابوا کے ارشاد نبوی کی تعمیل میں ہدیہ پیش
407 کرتا ہے تا کہ بزرگ نفس احباب کے انفاس قدسیہ سے دعاؤں کے رنگ میں استفادہ ہو سکے جولوگ دعاؤں کی قدر و قیمت سمجھتے ہیں وہ اس طرز کی خدمت کی وقعت کو پوری طرح سمجھ سکتے ہیں دعاؤں کے لئے کسی نہ کسی قسم کے تعلق کی ضرورت ہوتی ہے.ایک شخص کا واقعہ احباب کو معلوم ہے کہ اس کا قبالہ گم ہو گیا.ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کے لئے عرض کیا.فرمایا حلوالا کر پیش کرو ، وہ شخص بازار کولوٹا.لیکن یہ خیال بھی اسے آتا تھا کہ اچھے بزرگ ہیں کہ دعا کی درخواست کرنے کے لئے حاضر ہوا اور انہوں نے حلوے کی فرمائش ڈال دی.خیر حلوائی سے جو حلوا مانگا تو وہ ایک ورق میں ڈال کر دینے لگا.نظر جو پڑی تو یہ وہی گم شدہ قبالہ تھا جو اس نے لے لے لیا اور دوسرے ورق میں حلوا ڈلوا کر لے گیا.اس بزرگ نے کہا کہ جا حلوا لے جا.مجھے اس کی ضرورت نہ تھی.صرف اس بات کی ضرورت تھی کہ دعا کے لئے تجھ سے کسی قسم کا تعلق پیدا ہو جائے.سوایسے بزرگ نفس ایسے تحفہ تحائف کا اکثر و بیشتر حصہ دوسرے ضرورت مندوں کے احتیاج کے سد باب یا حد درجہ محتاجوں کے سد رمق کے مصرف میں لے آتے ہیں.مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب عبدالکریم صاحب قلاش نہ تھے اور نہ محتاج حضرت نواب صاحب کبھی کبھار اظہار عقیدت کے طور پر کچھ نذرانہ وغیرہ پیش کر دیتے تھے.یہ تھا دوا تحابوا پر عمل تھا.مکرم میاں محمد عبداللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت والد صاحب اس رنگ میں حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور کئی ایک بزرگوں کی خدمت کرتے رہتے تھے.دوسری جگہ ذکر کیا گیا ہے کہ اسی عقیدت کے جذبہ کی بناء پر آپ مدت العمر حضرت خلیفتہ اسی اول کی خدمت میں کھانا بھجواتے رہے.اقارب سے حسن سلوک اقارب سے حضرت نواب صاحب بہت ہی حسن سلوک اور مروت سے پیش آتے تھے.رسوم کا ذکر کرتے ہوئے اس بارہ میں سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ”رسوم کی بابت نواب صاحب ہمیشہ کہتے تھے کہ میں ان سے بہت ڈرا ہوا ہوں.ان کے بدنتائج بہت دیکھے ہیں اسی لئے ان کا زیادہ مخالف ہوں.یہ ایک کیڑا ہے اگر لگ جائے تو بڑھتا ہی ہے کم نہیں ہوتا اور اس بات میں کیا حرج ہے اتنے میں کیا ہوتا ہے.یہی کہتے کہتے آدمی اسی چکر میں پھر گرفتار ہو جاتا ہے جس سے بمشکل نکلا تھا.ان کا خیال تھا کہ جو رسوم خلاف شرع نہیں ہیں وہ انسان کبھی کرلے کبھی چھوڑ دے اور ان کا پابند نہ ہو جائے تو اس حد تک بے شک حرج نہیں.مگر اپنے تشدد کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ عام مسلمان اب رسموں میں اس بری طرح جکڑے گئے ہیں کہ جب تک ان کا پوری طرح قلع قمع نہ کیا جائے گا..اس بلا سے چھٹکارا ممکن نہیں جس طرح نشے کا لپکا جب
408 ہی چھٹتا ہے جب یکدم اس کو قطعی چھوڑ دے اگر ایک تمہا کو خور ذرا بھی پھر منہ کولگالے تو وہ پھر چسکا پڑ کر ضروری ہے کہ دوبارہ اس عادت کو اختیار کر لے گا.کسی شادی پر عزیزوں کو کچھ نہ دیتے تھے نہ لیتے تھے مگر وہی بھتیجیاں بھانجیاں جب ملنے آتیں یا خود باہر سے آتے تو ضرور ہی ان کو تحفہ یا روپیہ دیتے.اپنی سوتیلی بہنوں کو بھی برابر ان کی زندگی بھر جیب خرچ دیا اور اس کے علاوہ بھی جب بھی وہ آتیں روپیہ دیتے یا بھیج دیتے اسی طرح سوتیلی بھتیجیوں کو بھی.بعض لوگ کہتے کہ نواب صاحب خود تحفے تحائف دے دیتے ہیں مگر لیتے نہیں.بو فاطمہ بیگم مرحومہ کو چونکہ نواب صاحب سے شدید محبت تھی اس لئے انہیں خصوصیت حاصل تھی ورنہ اوروں کے متعلق سگے سوتیلے کا فرق میں نے ان میں نہیں دیکھا.میاں احسان علی خاں سوتیلے بھتیجے ہیں مگر کبھی تو مجھے خیال ہوتا تھا کہ یہ شاید ان کو سب سے زیادہ عزیز ہیں.“ آپ کے برادر نسبتی کرنل اوصاف علی خاں ابھی بچہ ہی تھے کہ یتیم ہو گئے.اسی طرح کرنل صاحب کی ہمشیرگان بھی بالکل چھوٹی ہی تھیں.کرنل صاحب کی جاگیر کا انتظام نواب صاحب نے نہایت اعلیٰ طور پر کیا اور ان کو بہترین تعلیم دلوائی اور ریاست نابھ میں اعلیٰ ملازمت دلوائی چنانچہ آپ وہاں کمانڈر انچیف رہے.اسی تعلیم وتربیت کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے باعزت اور با حیثیت زندگی بسر کی اہلیہ اول کی وفات کے بعد نواب صاحب نے دوسری ہمیشرہ نسبتی سے شادی کر لی اور تیسری کا نکاح بھی اپنے زیر انتظام اچھی طرح کرایا.(م) دنیا دار لوگوں کی طرح حسد اور بغض حضرت نواب صاحب کے دل میں نہ تھا اپنے چھوٹے بھائی کی ترقی پر جن کا گورنمنٹ میں کافی رسوخ تھا کبھی برانہیں منایا بلکہ ہمیشہ ان کی ترقی کے خواہاں رہے اور خوشی محسوس کرتے تھے بعض اقارب کو وظیفہ دے کر تعلیم دلوائی انہیں بہترین مشورہ دیتے اور ان کی ہمدردی کے باعث مرض الموت میں بھی سب کو تبلیغی خطوط لکھے.(ع) مکرم میاں محمد عبداللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ چونکہ ریاست سنی تھی اس لئے ہمارے دا دا صاحب نے شیعہ ہونے کی وجہ سے شہر سے دو میل کے فاصلہ پر ایک نیا گاؤں آباد کیا جس کا نام شیروانی کوٹ رکھا یہاں سے محرم میں جلوس وغیرہ نکلتا تھا.لیکن حضرت والد صاحب نے شیعیت کو چھوڑا پھر بھی جلوس وغیرہ اسی راستہ سے گزرتا تھا چونکہ ایسے مواقع پر آوارہ منش لوگ جمع ہوتے ہیں.اور وہ ہماری دیواروں پر آکر بیٹھ جاتے پھر یہ کہ شہر کے جانور اس راستے سے گزرتے اور گرد اڑ کر آتی ان امور کو مدنظر رکھ کر ریاست سے زمین کا تبادلہ کر کے سڑک قریب دو سو گز پیچھے ہٹادی دوسرے بھائی جو شیعہ تھے وہ بھلا کب پسند کر سکتے تھے کہ وہ سڑک جس پر سے جلوس نکلا کرتا تھا.اب نہ نکلے.ریاست ہماری تائید میں تھی.ریاست نے انہیں پرانی
409 سڑک پر سے جلوس نکالنے کی ممانعت کر دی.اب ان شیعہ شرکاء کا ریاست سے جھگڑا شروع ہو گیا.ہمارے چچاز دا بھائی میاں احسان علی خاں صاحب نے نواب صاحب کی وفات کے بعد ذکر کیا کہ میں نے اس تنازع کے دوران میں اپنے کسی ذاتی امر کے متعلق نواب صاحب مرحوم سے مشورہ کیا اور آپ نے ایسا صحیح مشورہ دیا کہ میرے والدین بھی زندہ ہوتے تو ایسا صحیح مشورہ نہ دے سکتے حالانکہ اگر چاہتے تو کوئی غلط مشورہ دے کر کسی الجھن میں ڈال دیتے.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ اپنے رشتہ داروں سے دینی معاملات میں نواب صاحب جتنی خشکی کا سلوک کرتے تھے اور کسی امر میں ان میں سے عزیز ترین کا بھی اثر نہ لیتے تھے اُسی قدر دنیوی امور میں ان کے ہمدرد ان سے محبت کرنے والے.بہترین صلاح کار اور ان کے ساتھ سچی ہمدردی رکھنے والے ثابت ہوتے تھے.اور اس کا ان سب پر اثر تھا.بڑے سوتیلے بھائیوں کا بے حد ادب کرتے اور تبلیغی خطوط میں بھی ان کو جناب سے مخاطب کرتے تھے.کسی پر اثر ہوایا نہ ہوا مگر انہوں نے عمر بھر ہر موقعہ پر عزیزوں میں تبلیغ کی.آپ کے سب عزیز نواب والی کالیر کوٹلہ تک فریق مخالف ہونے کے باوجود آپ کو ایک صادق انسان اور ہر ایک کا سچا بہی خواہ جانتے تھے اور ہر مشکل معاملہ میں خواہ ان کا ذاتی ہومشورہ چاہتے تھے.اور جھگڑوں کی صورت میں اکثر آپ کی طرف رجوع کرتے تھے.نواب صاحب والی مالیر کوٹلہ کو آپ کے مشورہ پر بڑا اعتماد تھا ، وہ عموما مشورہ لیتے اور اسی پر عمل کرتے اور ان کی خواہش ہوتی کہ آپ مالیر کوٹلہ میں رہیں تا کہ وہ مشکلات کے وقت آپ سے مشورہ لے سکیں.آپ بھی بہت دیانتداری کے ساتھ مشورہ دیتے تھے.ذیل میں نواب صاحب کا خط نواب احمد علی خاں صاحب کے نام درج کیا جاتا ہے مؤخر الذکر اس وقت اپنے والد نواب ابراہیم علی خاں کی علالت کے باعث بطور سپر نٹنڈنٹ ریاست کام کرتے تھے ، اس خط سے نواب صاحب کے علوا خلاق اور اقارب سے حسن سلوک اور اقارب کی طرف سے آپ کی تکلیف کا ذکر ہے.اس خط کا ایک حصہ بخوف طوالت درج نہیں کیا جاسکا لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب احمد علی خاں کی طرف سے سلوک اچھا نہ تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ سرکاری طور پر نواب لوہار وجو ریاست میں متعین تھے.ان کا رویہ اچھا نہ تھا اور ان کے اکسانے سے نواب احمد علی خاں صاحب کی طرف سے نامناسب سلوک ہوا تھا.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم نواب صاحب مکرم و معظم سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم کوٹلہ سے بعض خطوط اور واقعات نے مجھ کوتحریک کی ہے کہ میں آپ کو یہ خط لکھوں آپ سے پہلے بھی میری کئی ایک پرائیویٹ گفتگوئیں ایسے معاملات میں ہوئی
410 ہیں اور مجھ کو اعتراف ہے کہ آپ نے مہربانی سے میری معروضات پر التفات ہی کیا ہے اور بلکہ ان کا اثر اس وقت میں نے آپ پر پایا ہے مگر معلوم نہیں کہ کثرت مشاغل یا بعد زمانہ کے سبب سے ان امور کا ذہول ہو جاتا ہے یا با وجود یا د ہونے کے دوسرے اموران پر غالب آجاتے ہیں اور پھر جناب وہی راہ اختیار فرمانے لگتے ہیں جس سے نہ اپنے فائدے کے لئے بلکہ آپ کے فائدہ کے لئے محض ہمدردانہ طور سے آپ کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی.میں اس وقت کو ٹلہ میں ہوتا تو آپ کے حسن اخلاق پر جیسا کہ پہلے میں نے عمل دیکھا ہے بھروسہ کر کے آپ کی خدمت میں پھر عرض کرتا اور اب بھی انہیں اخلاق کے سبب سے کرمہائے تو مارا کرد گستاخ اس نیاز نامہ کے لکھنے کی جرات کی ہے میں امید کرتا ہوں کہ جناب ٹھنڈے دل سے میری اس عرض کو سنیں گے.اور اگر کوئی لفظ داروئے تلخ کی طرح خلاف مزاج معلوم ہو تو رفع مرض کے خیال سے یا عفو کے ساتھ معاف فرما ئیں؟ جناب کو معلوم ہے کہ آپ کے اس دوران سپرنٹنڈی میں (کیونکہ آپ اس عرصہ کی شہادت دے سکتے ہیں ) میری پالیسی نیوٹرل رہی ہے اور ہر طرح کے انٹریگ (Intrigue) سے میں الگ رہا ہوں اور حتی الا مکان فتنہ کا فر کرنا میری غرض رہی ہے جناب سے اور اسی طرح دیگر اہل قرابت و غیر قرابت سے نہ مخالفانہ نہ موافقانہ برتاؤ رہا ہے اور کسی مخالف یا موافق سازش میں شریک نہیں ہوا ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر کسی نے کوئی مشورہ طلب کیا تو بے ضرر رائے جو اس کے لئے مفید دکھی دے دی یا بعض اوقات آپ کی خدمت میں بعض باتیں عرض کیں جن کا نتیجہ آخر تجربہ کے بعد آپ نے میری گفتگو کے مطابق پایا چنانچہ کوٹلہ کے لوگوں کے ساتھ بے تکلفانہ بلا امتیاز حفظ مراتب نرمی کے برتاؤ کی بابت میں نے عرض کیا تھا کہ آپ کا رعب جاتا رہے گا.چنانچہ جناب نے دیکھ لیا اور یہ بھی دیکھ لیا کہ یہ لوگ کہاں تک بھروسہ کے قابل ہیں.پھر رشتوں کے معاملات میں آپ سے عرض کی تھی کہ ان میں آپ اپنی خواہش ظاہر نہ فرما ئیں ورنہ ناکامی ہوگی وہ بھی ظاہر ہے.اور باقی امور بھی آپ پر روشن ہیں.بھائی صاحب خاں صاحب محمد یوسف علی صاحب مرحوم کی وفات پر بھی میں نے عرض کیا تھا.اس وقت اگر جناب مہربانی سے میری عرض کو قبول نہ کرتے تو جناب کو معلوم ہی ہے کہ بڑی ناراضگی پھیلنے کا اندیشہ تھا اور میری اس عرض کو قبول کرنے کا یہ نتیجہ ہے کہ اس وقت تک کوئی بات آپ کے خلاف مزاج نہیں ہوئی اور جو آپ چاہتے تھے وہ سب کچھ ہوا.مگر کوئی شورش نہیں ہوئی تمام امور امن وامان سے طے پاگئے.مگر بعض غلطیاں اس بارہ میں اس وقت عرض کی گئی تھیں وہ بعض اب تک موجود ہیں اور ان پر التفات کسی وجہ سے نہیں فرمایا گیا اور وہ ٹھیک معلوم نہیں ہوتیں.
411 خلاصہ کلام یہ ہے کہ اب بھی خیر خواہانہ طور سے عرض کرتا ہوں کہ جناب دوراندیشی کو کام میں لا کر انجام دیا کریں کہ آخر میں مبارک بنده است معاف فرما دیں گو اس وقت جناب حکام رس ہیں اور حکام کے دل میں جناب کی عزت بہت بڑی ہے کہ جناب سنبھل جائیں ورنہ افسوس سے کہنا پڑے گا.گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں.آپ کے متعلق ایسی بے تکلفی کی حالت میں جو کچھ مجھ کو معلوم ہوتا رہا ہے یہ ہے کہ ادنیٰ سے ادنی آدمی سے لے کر بڑے سے بڑے تک آپ سے ناراض ہیں اور بے رغبتی کا یہ عالم ہے کہ جو کچھ لوگ منہ سے کہنا چاہتے ہیں علامیہ کہہ گزرتے ہیں اور وہ باتیں وثوق سے کہتے ہیں کہ جو آپ کی شان ریاست یا منصب سپرنٹنڈی کے لئے موزوں نہیں آپ یہ خیال نہ فرمائیں کہ حکام کو اطلاع نہیں پہنچتی بلکہ آپ کو یقین ہے کہ ضرور پہنچتی ہے اور وہ مفید نہیں ہے.اگر کسی مظلوم کی آہ یا کسی بیوہ کی پکار پر خداوند تعالیٰ جو دانا و بینا ہے.اور جس کی یہ ڈھیل آپ کے لئے مفید نہیں بلکہ خطر ناک ہے توجہ کی تو پھر خدا کی پناہ ۲۸۸ چراغے کہ بیوہ زنے پر فروخت بسے دیدہ باشی کہ شہرے بسوخت بنترس از آه مظلوماں کہ ہنگام دعا کر دن اجابت از در حق بہر استقبال می آید جناب کو معلوم ہے کہ حکام کی خوشی یا نا راضگی ایک عارضی ہے اصل خوشی یا نا راضگی اس الرحمن الرحیم کی ہے جو مالک یوم الدین ہے اگر وہ مہربان ہے تو کل مہربان.پس جناب چند منٹ غور فرمائیں کہ کیا یہ سب امور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ امور ہیں اور پھر اس کی مصالحت کی یا فاذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ ﷺ کی ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کا مقابلہ ہے خدا وند تعالیٰ کی گرفت سے ڈرنا چاہئے.اور اس کی پکڑ نہایت سخت ہے اور اس کی لاٹھی میں آواز نہیں.اور وہ اچانک آپڑتی ہے جناب بے غرضانہ عدل وانصاف پر کمر باندھیں خداوند تعالیٰ سے صلح فرما ئیں پھر خداوند تعالی خود آپ کا مددگار اور کفیل ہو گا آپ خیال فرما ئیں کہ ضحاک کی بارعب سلطنت کو ایک لوہار کا وانے کس طرح تہ و بالا کر دیا تھا ذراسی بات اگلی پچھلی سب کو بگاڑ دیتی ہے.جناب اس وقت کو ذرا تھوڑا سا خیال فرمائیں جو کمشنر صاحب بہادر کے سال گزشتہ کے آنے پر نمونہ ہم دیکھتے ہیں کہ ذلیل آدمی نے کس طرح پر آپ کو اور آپ کے محکمہ کو تکلیف دی اور اب پھر وہ آیا اپنے کئے پر پشیمان ہے.یا اس کی جرات دوبالا ہے یہ کیوں؟ اس کا جواب جناب خود ہی دے سکتے ہیں.پس آخر میں نہایت بے غرضانہ طور سے استدعا ہے کہ آپ خدا کے لئے اپنے طرز عمل کو بدلیں.
412 خدمات سلسلہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضرت نواب صاحب نے کیا مالی کیا حالی اور کیا قالی غرضیکہ ہر رنگ میں سلسلہ کی بیش از بیش خدمات سرانجام دیں جس کی تفصیل آگے آتی ہے اور ان کا قدم ہرلمحہ شاہراہ ترقی پر گامزن رہا اور انہوں نے سلوک کی بہت سی منازل طے کیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو اور ان کی اولا دکو اپنے خاص فضل سے اور بے نظیر رنگ میں نوازا.و ذالک فَضَلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاء تبلیغ ان خدمات جلیلہ میں سے تبلیغ بھی ہے.حضرت نواب صاحب جن حالات میں کفر گڑھ سے اپنی شجاعت سے نکل آئے تھے ایسی دلیری کا اظہار ہر ایک سے ممکن نہیں.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انتہائی محبت رکھنے اور آپ کی خاطر قوم کی مخالفت سہیڑ نے کے باوجود آپ کے چا ابو طالب مرتے وقت بھی جب کہ دنیا کے علائق منقطع ہوتے یقینی طور پر نظر آتے ہیں، اپنی قوم کے خیال سے ایسی دلیری کا اظہار نہ کر سکے.بیعت کے تعلق میں ہم ذکر کر چکے ہیں کہ حضرت اقدس نے نواب صاحب کے بیعت کو مخفی رکھنے کو پسند نہ کیا.اور آپ نے حضور کے ارشاد پر اعلان کے لئے عرض کر دیا.آپ طبقہ امراء کے لئے خصوصاً اور دوسروں کے لئے عموماً عملاً حجت ٹھہرے کہ ایسا رئیس جب دین کی خاطر علائق د نیو یہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے امام الزماں پر ایمان لاکر بڑی سے بڑی قربانی کر سکتا ہے تو دیگر امراء کیوں نہیں کر سکتے اور عوام کے لئے تو کوئی عذر باقی ہی نہیں رہتا.آپ کی بیعت اور پھر آپ کی فدائیت کا اعلیٰ نمونہ مجسم تبلیغ تھا آپ نے تبلیغ سے کسی قسم کا دریغ نہیں کیا.اس تعلق میں بعض باتوں کا آپ کی ڈائری سے علم ہوتا ہے جو درج ذیل کی جاتی ہیں تحریر فرماتے ہیں.۱۳ جنوری ۱۸۹۸ء.’ ایک خط مولوی عبداللہ صاحب کو لکھنا شروع کیا.مراد آپ کے استاد مولوی عبداللہ صاحب فخری ہیں جن کی تحریک پر آپ نے حضرت اقدس سے خط و کتابت شروع کی تھی.۱۵/جنوری ۱۸۹۸ء نماز تہجد کے بعد استخارہ کیا کہ آیا مجھ کو حضرت اقدس ( کی ) تائید میں لکھنا چاہئے آپ کے تین تبلیغی خطوط جو محفوظ ہیں درج ذیل کئے جاتے ہیں ان کے علاوہ دومکتوب مورخہ ۹-۰۲ - ۱۴-۶-۰۴-۲۷ پہلے ہجرت کے ذکر میں درج ہو چکے ہیں اور بہن کے نام ایک مکتوب الحکم بابت ۱۰-۸-۰۳ میں شائع ہو چکا ہے.مولوی عبد اللہ صاحب فخری جس کو آپ ۱۲ فروری ۱۹۰۲ء کو تحریر فرماتے ہیں.
413 کہ نہیں اور دوسرے مولوی محمد حسین بٹالوی مؤلف ) کے اشتہار کا جواب دینا چاہتے کہ نہیں جس میں انہوں نے ہم چار شخصوں کو مخاطب کیا ہے.“ بقیه حاشیه : ۱۲ / فروری ۱۹۰۲ ء بسم الله الرحمن الرحيم دارالامان قادیان بنام مولوی عبداللہ صاحب فخری مولوی صاحب مکرم مسلمکم اللہ تعالی.السلام علیکم.معلوم نہیں آپ کہاں ہیں.یہ خط کسی امید پر نہیں لکھا جاتا.بلکہ دلی ہمدردی سے لکھا جاتا ہے.اب ہمارے تعلقات بالکل منقطع ہیں.میں نے ان تعلقات کو بہت بنانا چاہا مگر آپ کے تلون نے نبھنے نہ دیا.اب صرف اس سبب سے کہ آپ میرے استاد ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ آپ اس سعادت سے محروم رہیں جس سے میں فائدہ اٹھا رہا ہوں اور بڑی تپش اور تحریک جو مجھ کو اس خط کے لکھنے پر مجبور کرتی ہے وہ یہ بھی ہے کہ اس سعادت عظمیٰ کے رہنما آپ ہی تھے.مگر بمصداق آگ لگا جمالو دور کھڑی.آپ الگ ہوئے نہایت تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ میرے اس طرف آنے کی ابتداء اور آپ کے الگ ہونے کی ابتداء اسی تاریخ سے شروع ہوتی ہے.مجھ کو نہ امید ہے کہ آپ پر میری یہ تحریر کچھ اثر کرے گی اور نہ کسی سابقہ تعلق کو پیدا کرنے کے لئے یہ تحریک ہے بلکہ قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے مجھ کو پیدا کیا میں نے صرف اس لئے آپ کو یہ خط لکھا ہے کہ شاید پھر صراط مستقیم پر آجائیں کیونکہ جب میں آپ کے اس خواب کو غور کرتا ہوں جس میں آپ نے طیور خوش رنگ کا ایک مجمع دیکھا تھا اور اس میں ایک بڑا جانور وجد میں تھا اور کوئی چیز سفید وہ سب کھاتے تھے.مگر اس خوراک کا ذریعہ نہیں معلوم ہوتا تھا.میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ حالت بعینہ یہاں ہے.میں جہاں تک غور کرتا ہوں آپ کو امام وقت سے تین چیزوں نے علیحدہ کیا.(۱) بدظنی (۲) عدم تحقیقات (۳) بے ادبی.اگر آپ با ادب صادق حق جو کی طرح سے ٹھنڈے دل سے غور اور فکر کرتے تو آپ کو ہر گز ٹھوکر نہ گئی.باتیں بڑی ہیں غور کر لو آتھم کہاں ہے؟ لیکھر ام کو کیا ہوا ؟ احمد بیگ کس کونے میں ہے؟ محمد حسین کیوں خاموش ہے؟ مکذبین پر کیا گزری؟ اس جماعت اور دوسرے لوگوں میں نسبتاً کیا فرق ہے؟ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ.جس نے اپنے وقت کے امام کو نہ پہچانا وہ جاہلیت کی موت مرا.میں اسی لڑکے کی طرح جو آگ میں ڈالا گیا تھا اور اس نے ماں اور قوم کو اس آگ میں بلانے کے لئے فریاد کی تھی.اس وقت کہ رہا ہوں کہ دیکھو وقت جاتا ہے آنکھیں کھولوموت کا کچھ پتہ نہیں کب آجائے قابل غور یہ امر بھی ہے کہ اس وقت قحط ، و با اور امراض مختلفہ کیا عذاب خدا انہیں اور کیا زمانہ میں
414 ۱۶ جنوری ۱۸۹۸ء." آج بھی استخارہ کیا.۷ ارجنوری ۱۸۹۸ء.”نماز ظہر کے بعد آج بھی استخارہ بقیہ حاشیہ : بے حد خرابی نہیں آگئی اور باوجود خرابی کے خداوند تعالیٰ فرماتا ہے ومـا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نبعث رسولا - پس غور کروکون رسول آ گیا جس کی تکذیب کی بلاؤں میں ہندوستان مبتلا ہوا ہے.میں جلدی میں صرف نوٹ سے لکھ رہا ہوں مجھ کو اس وقت فرصت نہیں.حضرت اقدس کے ساتھ سیر کو جانا ہے اس وقت حضرت مسیح موعود و مهدی مسعود جری اللہ فی حلل الانبیاء سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے ہیں اور بہت معارف و حقائق بیان فرمایا کرتے ہیں.یہاں ہندو اور عیسائی مسلمان بن کر فیض اٹھارہے ہیں قریباً ہر قسم اور ہر ملک کے لوگ آگئے ہیں.ہر روز قدم آگے ہے پیچھے نہیں.میں نے بھی ارادہ کیا ہے کہ ہجرت کر کے یہاں ہی رہوں.خدا تعالیٰ پورا کرے بڑا ہی بدنصیب ہے جو یہاں سے دور ہے.آؤ اور جلد آؤ اور دیکھو کہ کیا فضل خدا ہورہا ہے.مگر ادب کے ساتھ حق جوئی کے لئے صحبت کا فائدہ اٹھانے کے لئے خوردہ بینی اور بدظنی کو پھینک کر.را قم محمد علی خاں رئیس مالیر کوٹلہ نواب محمد احسن علی خاں صاحب نے اپنے خط مورخہ ۰۲-۲-۱۵ میں تحریر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ملاقات کا اشتیاق میرے دل میں ہے آپ حضرت مولوی نورالدین صاحب کو کہہ دیں کہ حضور کا جو اخبار اشتہار اور مضمون شائع ہو مجھے قیمتاً بھجوا دیا کریں.(بقیہ امور جواب سے ظاہر ہیں ) اس کے جواب میں حضرت نواب صاحب نے ذیل کا خط تحریر فرمایا.-1 -۲ ۲۶ فروری ۱۹۰۲ء بھائی صاحب مکرم و معظم سلمکم تعالی.السلام علیکم.جناب کا والا نامہ پہنچا جوا با عرض ہے.بے شک مجھ کو یہاں آئے عرصہ ہو گیا مجھ کو یہ عرصہ بہت تھوڑا معلوم ہوتا ہے.ایک تو یہاں فرصت بہت قلیل دوسرے ابتداء سے کوتاہ قلم ہوں اس لئے ارسال عریضہ سے قاصر رہا.ہم سب تا دم تحریر خدا وند تعالیٰ کے فضل وکرم سے بخیریت ہیں.۳- جناب کا نامہ والا بجنسہ حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب کو دکھلا دیا تھا الحمد للہ کہ جناب کی توجہ اس طرف ہوئی ہے.۴- جناب نے مجھ سے دریافت فرمایا ہے کہ میں کب آؤں گا اور بعض مقدمات کا انفصال میرے آنے
415 کیا اور حضرت کو دعا کے لئے لکھا کہ میں جو لکھنا چاہتا ہوں اس میں شرح صدر ہو.اور کوئی لوث نہ ہوا اور لوگوں کو فائدہ ہو.“ ۱۸ جنوری ۱۸۹۸ء ” آج میں (نے) مضمون لکھنا بھی شروع کیا یہ مضمون حضرت اقدس کی تائید میں بقیہ حاشیہ پر موقوف ہے اس کی بابت عرض ہے کہ فی الحال میں کوئی تاریخ اپنے آنے کی عرض نہیں کر سکتا.مجھ کو امراض نزلہ وغیرہ جو لاحق رہتے ہیں ان کا علاج حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب فرما ر ہے ہیں اور امراض روحانی کا علاج حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود و امام آخر الزمان علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ایسے چشمہ روحانی سے طالبان حقیقت کا علیحدہ ہونا گویا سکندر کا آب حیواں سے علیحدہ ہونا ہے یا ایک طالب کا مطلوب سے علیحدہ ہونا.ہم لوگ جس شخص کا انتظار کر رہے تھے اور جس کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہونے کا ہم کو ارمان تھاوہ امام الوقت آگیا اور خداوند تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے ہم کو وہ چشم بینا عطا فرمائی کہ ہم نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی جماعت میں داخل فرمایا فالحمد اللہ علی ذالک اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم نے اس کو نشانوں سے پہلے قبول کیا اور خداوند تعالی ( نے ) آسمان اور زمین سے اس کی تائید میں نشان بارش کی طرح برسائے اور پھر یہ بڑا فضل کیا کہ اس مسیح کی جو محی اور ممیت اور خالق مسلمانوں نے سمجھا تھا اور اس کی خدائی صفات برخلاف ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دے رکھی تھیں ہم کو وہ صیح عطا فرما یا جرى الله في حلل الا نبیاء ہوکر اور بروز محمدی کے سبب سے ظل محمدی بن کر آیا اور اس طرح ہم کو اس بڑے شرک سے نجات دی جو مسیح کے سبب سے دنیا میں پھیل رہا تھا اور خونی مہدی کے انتظار سے ہم کو چھڑایا.اور اس طرح ہم کو اپنے سلطان وقت کے نہ صرف زبانی بلکہ ایمانی خیر خواہ بنایا یعنی اپنی شرائط بیعت میں حضرت مسیح موعود نے قرار دیا ہے کہ گورنمنٹ کے قیام کے لئے ہم خیر خواہ اور بہی خواہ رہیں اور اس گورنمنٹ کے قیام کے لئے ہم جاں نثار ہیں کیونکہ اس نے اپنے عدل وانصاف سے جو امن دے رکھا ہے اس کی تواریخ سابقہ و حال میں نظیر پائی نہیں جاتی بلکہ اس وقت کی اور سابقہ اسلامی سلطنتوں میں بھی خاص مسلمانوں کو نہ یہ امن حاصل ہے اور نہ حاصل تھا پس ایسی منصف گورنمنٹ کی شکر گزاری واجب.من لم يشكر الناس لم يشكر الله - یعنی جو لوگوں کی شکر گزاری نہیں کرتا وہ اللہ کی بھی شکر گزاری نہیں کرتا.اس امام وقت نے جہاد سیفی یعنی تلوار کی جہاد کو قطعاً بند کر دیا اور اسی طرح بند کر دیا جس طرح قرآن شریف اور حدیث نبوی میں آیا تھا.قرآن شریف میں تو ہے حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا اور حدیث شریف میں ہے.يضع الحرب یعنی مسیح کے زمانہ میں جہاد قطعا بند کرے گا.۲۹۲
416 661 ہوگا ، ۱۹/جنوری ۱۸۹۸ء’ایک خط مولوی عبداللہ صاحب ( مراد فخری صاحب مؤلف ) کولکھا اور ایک خط بقیہ حاشیہ: - باقی رہا میرے بغیر انفصال مقدمات کا التوا سو اگر کوئی معاملہ خلاف شریعت نہیں محض ریاستی ہے تو جب آپ تین صاحب ہیں تو پھر میری رائے کی ضرورت ہی کیا ؟ آپ تینوں صاحب ایسے امور میں جو کریں گے وہی میری رائے ہوگی.بزرگوں اور خوردوں کو سلام علیک.آپ کو دونی چند صاحب پلیڈر نے ذیل کا خط ارسال کیا.از جگر ا نوضلع لودھیانه عالی جناب.نمستے.میری التماس سنے بغیر یہ نہ فرمائیے گا کہ نیستی تو با ما چه مدعا داری را قم محمد علی خاں ۲۸ فروری ۱۹۰۲ء میں وہ مہجور ہوں جس کو آپ کے ایام طفولیت میں انبالہ وارڈ اسکول کی ٹیچر شپ کا افتخار حاصل تھا اور جس کو آپ نے اس بائیس سال کے عرصہ میں کبھی بھولے سے بھی یاد نہ فرمایا.حریف بزم تو بودم چو ماه نو بودی کنوں کہ ماه تمامی نظر دریغ مدار میں ان دنوں جگر انو میں ہوں اور جگرانو کے دیہات نواحی میں پلیگ پھیل رہا ہے.عنقریب جگر انو بھی اس بلا میں مبتلاء ہوتے نظر آتا ہے ) ضرورت وقت نے آپ کے اقتدار کی یاد دلائی ہے.وہ یہ کہ جگرانو میں پلیگ پھیلنے کی صورت میں باہر میدان میں رہنا مفید مگر بلا خیموں کے جنگل کی بود و باش ناممکن ہے اس لئے متکلف خدمت ( ہوں ) کہ اگر آپ کی سرکار سے ایک خیمہ موقع پر عنایت ہونے کا ارشاد ( ہو ) تو اس بن باسی کی مصیبت کا خیال وبال جان نہ رہے گا.اور بحفاظت تمام جلد واپس کیا جائے گا.مجھے انبالہ وارڈ سکول کے...نقوش یقین دلا رہے ہیں کہ میری درخواست پر ایک فیاض دل سے بندگان نواب صاحب توجہ فرما دیں گے.را قم منتظر جواب خاکسار دونی چند پلیڈ راز جگر ا نوضلع لدھیانہ جوا با آپ نے تحریر فرمایا.بسم الله الرحمن الرحيم دارالامان قادیان ۴/ مارچ ۱۹۰۲ء
417 مولوی محمد حسین بٹالوی.مؤلف ) کو لکھا...مولوی عبد الکریم صاحب تشریف لائے مولوی عبداللہ صاحب بقیہ حاشیہ: - منشی صاحب مکرم سلامت.سلام.میں آپ کو اسی لقب سے مخاطب کرتا ہوں جس لقب سے ایام طالب علمی میں آپ کو مخاطب کرتا تھا.اللہ اللہ کیا سچا مقولہ ہے کہ یار زندہ وصحبت باقی.آپ کا مدرسہ سے جانا اور پھر پتہ تک کا مفقود ہو جانا.طرح طرح کی آپ کی نسبت افواہوں کا سننا.خلاصہ یہ کہ اب تک مجھ کو آپ کا پتہ نہ معلوم تھا.ایک دفعہ سردار بلونت سنگھ صاحب سے آپ کی بابت سنا تھا مگر انہوں نے بھی پورا پتہ نہ دیا.الحمد للہ کہ آپ نے سبقت کی میں امید کرتا ہوں کہ میرے اس عذر کو معقول سمجھیں گے کہ آپ نے مدرسہ چھوڑ کر کبھی بھی مجھ کو اپنا پتہ تک نہ بتلایا.میں اس وقت جب کہ لکھ بھی نہ سکتا تھا.دو چار سے آپ کی بابت پوچھا پتہ نہ چلا بلکہ ایک دو دفعہ لدھیانہ میں آپ کی تلاش بھی کی مگر بے سود.آخر خاموش ہو گیا.چونکہ مجھ کو آپ کی شاگردی کا شرف حاصل ہے اور آپ کے حسن اخلاق نے اپنے شاگردوں کے دل کو مسخر کر لیا تھا.اس لئے ا بار ہا آپ کا ذکر خیر آتا رہا.منشی صاحب ! زمانہ نے بڑے انقلاب کھائے آپ پلیڈ ر بنے اور معلوم نہیں آپ کو کہاں تک جھوٹ سچ سے سابقہ پڑا اور کہاں تک کامیابی ہوئی اور اب آپ غالباً سفید ریش ہوں گے.اور پیری کی برف باری شروع ہوگئی ہوگی.کیونکہ آپ کا یہ شاگرد جوان ہوا.وارڈ سکول سے ایچی سن کالج لاہور میں ۱۸۹۱ء تک رہا.پھر کورٹ کھلنے پر گھر آیا.اب ریش سفید ہونے لگا ہے.آپ کے اس وقت کے عقائد یہ تھے کہ مجھ کو آپ ایک ہند وشیعہ نما معلوم ہوتے تھے.مولوی رجب علی خاں صاحب کے گھرانے کے اثر سے آپ بظاہر ہندو بہ باطن مسلمان اور پھر شیعہ مسلمان نظر آتے تھے اور میں اس وقت شیعہ تھا.اور میری شیعیت کو آپ نے اور پختہ کیا.آپ مدرسہ سے گئے.تماشا کا پردہ گرا.زمانہ نے دوسرا ایکٹ شروع کیا، لالہ دیوی پر شاد آئے.سخت گیر اور سخت متعصب تھے.خیر اسی طرح زمانہ گزرتا گیا میرے اعتقادات میں رفتہ رفتہ تبدیلی شروع ہوئی.تحقیقات کے سہارے اور خداوند تعالیٰ کے فضل سے دل میں جنبش ہوئی ، رفتہ رفتہ مجھ کو شیعیت سے بیزار ہونا پڑا.اور اس سے بیزار ہوتے ہی اس شخص سے واسطہ ہوا کہ جس کا انتظار زمانہ کرتا تھا ، اور شیعہ سنی تو دست بدعا تھے آخر منادی نے ندا کر دی کہ جس نے آنا تھا آ گیا، وقت کا مجدد.ہندوؤں کا کرشن امام آخر الزماں مسیح موعود اور مہدی معہود آ گیا.محض خدا کے فضل نے رہبری کی اور اس امام کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا.۱۸۹۰ء سے مجھ کو اس تعلق کا فخر حاصل ہے آپ اول تو میری عبارت سے سمجھ گئے ہوں گے.مگر بہ نظر احتیاط ظاہر کئے دیتا ہوں کہ یہ رسول وقت حضرت مرزا غلام احمد ہیں.مجھ کو معلوم نہیں کہ آپ کے اعتقادات وہی سابقہ ہیں یا
418 کے نام کا خط سن کر خوش ہوئے.“ بقیہ حاشیہ:- ان میں بھی کچھ ترمیم ہوئی ہے پس بھجوائے آنچہ برخود نے پسندی بر دیگراں ہم مپسند.چونکہ میں اس امام آخر الزماں سے بے تعلقی کو ہلاکت سمجھتا ہوں اس لئے میرے دل میں تحریک ہوئی کہ میں آپ کو بھی تبلیغ کر دوں تا کہ میرا استاد جو میری خورد سالی میں مجھ پر مہربان تھا.اور اس کی خندہ پیشانی پر رشد برستا تھا.وہ خدا کے عذاب میں نا دانستہ مبتلا نہ ہو.پس اپنے میں حق شاگردی کو ادا کرنے کے لئے میں نے یہ جرات کی ہے.سنیئے منشی صاحب ! تمام اقوام ایک شخص کے آنے کے منتظر ہیں.یہودی عیسائی اور مسلمان مسیح کے آنے کے منتظر ہیں اور ہندو بھی ایک دیوتا صاحب کے اور سکھ ایک گرو کے آنے کے منتظر ہیں.اسی طرح اور دوسری اقوام سے پوچھا جائے تو وہ بھی کسی نہ کسی کے منتظر پائے جائیں گے.معاف فرما ئیں مجھ کو اس لکھنے کی اس لئے بھی جرات ہوئی کہ آپ نے طاعون کی بلا سے بچنے کے لئے خیمہ طلب فرمایا ہے.پس میں نے فرض سمجھا کہ آپ کو ماسوا اس کپڑے کے خیمے کے ایسا خیمہ بتلاؤں جو واقعی اس مامور من اللہ یعنی طاعون کے لئے خیمہ ہے.مسلمانوں کے ہاں قرآن شریف اور احادیث سے جو آثارات ثابت ہوتے ہیں وہ سب درست پائے گئے.چنانچہ قرآن شریف میں ہے کہ اسلام سب ادیان پر غالب آئے گا.اونٹوں کی سواری بند ہوگی دختر کشی کی بابت سوال ہوگا.اخبارات کی کثرت ہوگی.زمین اپنے بوجھوں کو باہر پھینکے گی اور پھر از سر نو تبدیلی پیدا ہوگی وغیرہ.قرآن شریف (سے) بدیہی طور سے ثابت ہوتا ہے کہ امام مسلمانوں میں سے ہوگا.اس زمانہ میں کسوف خسوف ہوگا.احادیث صحیحہ میں بھی بڑی شدومد سے مسیح کے نزول اور اس کے مسلمانوں میں سے ہونے اور اس کے آثارات لکھے ہیں اور زمانہ بھی ایک مامور من اللہ اور مصلح کی ضرورت بتلاتا ہے کسی مذہب میں صدق وصفا نہیں اس وقت ہندوستان میں تین بڑے مذہب ہیں ایک مسلمان دوسرے ہندو تیسرے عیسائی ، اب دیکھنا یہ ہے کہ ان تینوں مذہبوں میں کون سامذہب حق پر ہے.اس مختصر خط میں اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں ہے.مگر موٹے طور سے مندرجہ ذیل امور مذہب کے من جانب اللہ ہونے کے عمدہ شناخت کے عرض کرتا ہوں.اول مذہب من جانب اللہ وہی ہے کہ جس کا خدا زندہ ہے اور وہ اس مذہب کے پیروؤں میں سے بعض یا اکثر کے ساتھ کلام کرتا ہے.اس مذہب کی سچائی زندہ نشانوں سے ظاہر کرتا ہے.اور اس مذہب کے جس مامور من اللہ کو بھیجتا ہے.اس کی تائید میں ہزاروں نشان ظاہر کرتا ہے اور (اس)
419 ۲۴ جنوری ۱۸۹۰ء ( رمضان المبارک ) ” قرآن نصف سیپارہ پڑھا اور پھر مضمون به تائید حضرت بقیہ حاشیہ : - سے اور اس کے تابعین سے کلام فرماتا ہے اور اس مذہب کو تمام مذاہب پر غالب کرتا ہے.دوسرے مذہب قانون قدرت کے مطابق ہو تا کہ خدا کا فعل اور قول مطابق ہوں.تیسرے عقل کے مطابق ہو.چوتھے.اس مذہب کے اصول بھی قائم ہوں اور ایک مختصر اصول اس کا ہو جس سے اس کی دوسرے مذاہب سے تمیز ہوا ور بغور اس اصول کو اختیار کرنے کے ایک شخص اس مذہب کا فوراً پیر وکہلا سکے اور اس کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں جو اس مذہب کے پرانے معتقدین کو حاصل ہیں.مثلاً ایک ہند و جب اَشْهَدُ أَنْ لا إله إلا الله وأَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ كے يا محض صدق دل سے لا اله الا الله محمد رسول اللہ کہے تو یہ شخص مسلمان ہو گیا اور اس کو وہ تمام حقوق حاصل ہو جاتے ہیں جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں اور یہ بھی ظاہر ( ہے ) کہ گو مسلمانوں میں ہزار اختلاف ہوں مگر لا إله إلا الله محمد رسول اللہ میں کسی کو اختلاف نہیں بس ایسا ہی درخشاں اصول دوسرے دو مذاہب کا ہونا چاہئے.جہاں تک مجھ کو معلوم ہے.ہندوؤں کے مذہب کا کوئی ایک جامع اصول نہیں ہے جس سے سب ہندو کہلانے والے ایک مذہب کے پیرو کہلا سکیں اور بلحاظ اعتقاد وہ س...آخر کار پابند ہوں اور عیسائیوں کے گواصول بظاہر ہیں مگر ان کے تمام فرق ایک اصول پر قائم نہیں ہیں اور وہ بھی ایسا گورکھ دھندا ہے کہ وہ کچھ اس کو سمجھا نہیں سکتے.اور خداوند تعالیٰ کا راز قرار دے کر یا سائل کو غیبی قرار دے کر پیچھا چھڑا لیتے ہیں پس ایک سعید آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک ایسے مذہب کی تلاش کرے جو نجات کا پوری طرح سے ذمہ دار ہونہ کہ ایسا که او خویشتن گم است کرار ہبری کند.اس وقت اسلام کا پہلوان یعنی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اس بات کو ظاہر کرنے کے اور منوانے کے لئے اس وقت مبعوث ہوئے ہیں کہ اسلام سب ادیان سے افضل اور تمام ادیان پر غالب ہے اور دوسرے ادیان نہایت ہی بودے اور صداقت سے بے بہرہ ہیں.یہ بات صرف کہنے کی نہیں.بلکہ اس کے لئے دلائل اور ثبوت ہیں.پس جس میں یہ مندرجہ بالا نشان اربعہ ہوں وہ مذہب سچا ہے.فی الحال میں آپ کی ذات اور بے تعصب طبیعت کے لئے چھوڑتا ہوں کہ آپ خود تحقیق فرما ئیں اور بعد تحقیق اپنی نجات کی مردانہ وار کوشش کریں کیونکہ یہ طاعون اِس رسول جس کو لوگوں نے ناحق گالیاں دی ہیں،اس کی تکذیب کی سزا ہے اور خدا کے
420 اقدس لکھنا شروع کیا.“ یہ امر متعارف وشائع ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے براہین احمدیہ کے شائع ہونے پر اس پر ریو یو لکھا جس میں حضرت اقدس کی بہت ہی تعریف کی اور بتایا کہ اسلام کی نشاۃ اولی کے بعد اب تک کسی نے اسلام کی ایسی خدمت نہیں کی لیکن یہی مولوی صاحب پھر مخالف ہو گئے اور حکومت کے افسران کے کان بھر کر حضرت اقدس کو باغی قرار دینے کے لئے کوشش کی.اسی طرح مولوی صاحب نے علماء پنجاب و ہندوستان سے حضرت اقدس پر کفر کا فتوی لگوایا مولوی محمد حسین صاحب کا یہ کہنا تھا کہ ”میں نے ہی مرزا کو اونچا چڑھایا تھا اور میں ہی اب اسے نیچے گراؤں گا“ گویا کہ اس کا براہین پر ریویو حضور کی عزت و شہرت کا موجب ہوا تھا.ڈاکٹر مارٹن کلارک جیسے متعصب پادری نے حضرت اقدس پر یہ الزام لگایا کہ حضور نے اسے قتل کروانے کا منصوبہ کیا.اس مقدمہ میں مولوی محمد حسین صاحب حضور کے خلاف گواہی دینے کے لئے آئے اور جب حضور کو عدالت میں کرسی پر تشریف فرما دیکھا تو جل بھن کر اپنے لئے کرسی مانگی.انکار ہونے پر اصرار کیا تو عدالت نے ڈانٹا اور پھر جب شہادت متعصبانہ پائی تو عدالت نے اسے جاری رکھنا مناسب نہ جانا.حضرت اقدس نے جنوری ۹۸ء میں کتاب البریہ میں مولوی محمد حسین صاحب کے کرسی مانگنے اور عدالت کے ڈانٹنے کا بھی ذکر فرمایا.مولوی صاحب نے دیدہ دلیری سے اس واقعہ کا انکار کیا.جس پر حضور نے نے مارچ ۹۸ ء کے اشتہار میں عدالت کے اہل کاروں کے علاوہ سو سے او پر معززین کی گواہیاں پیش کیں.لیکن مولوی صاحب کی طرف سے دشنام طرازی وغیرہ بدستور جاری قیہ حاشیہ: فرستادہ کے منوانے کے لئے خداوند تعالیٰ نے ) ان کے طعن (کے ) عوض طاعون بھیجی جس سے آپ کو پوری حقیقت معلوم ہو جائے گی.اگر آپ کو ہدایت کی تلاش ہوئی تو میں حضرت اقدس کی اور کتا بیں بھی بھیجوں گا.میں نے عرصہ سے کوٹلہ میں خیمہ کے لئے کہلا بھیجا تھا.مگر مجھ کو آپ کے جواب لکھنے کی فرصت نہ ہوئی اس لئے اب تک دیر ہوئی ہے اگر آپ کو اب بھی خیمہ کی ضرورت ہے تو آپ آدمی بھیج کر خیمہ کوٹلہ سے منگوالیں.میرا وہاں حکم گیا ہوا ہے.خیمہ ہمارے ہاں چھوٹا سا ہے.راقم محمد علی خاں رئیس مالیر کوٹلہ حال مقیم قادیان ضلع گورداسپور
421 رہی.بالآخر حضرت مولوی نور الدین صاحب اور بعض اور احباب کی طرف سے اکتوبر ۹۸ء میں اشتہار شائع ہوا کہ ہم اسلام میں تفرقہ اور فتنہ پسند نہیں کرتے پس اہل اسلام حضرت اقدس کی تکفیر کے بانی مولوی محمد حسین صاحب کو مباہلہ کے لئے آمادہ کریں اور مباہلہ کے اثر کی میعا دایک سال ہوگی اور اگر اس عرصہ میں اس کا کوئی اثر ظاہر نہ ہوا تو مولوی صاحب کو ہم دو ہزار پانچ سو پچیس روپے آٹھ آنہ کی رقم بطور نشان کامیابی دے دیں گے اس کے جواب میں مولوی ابوالحسن تبتی نے ۳۱ اکتوبر ۹۸ ء کو اور محمد بخش جعفر زٹلی لاہوری نے دس نومبر ۱۹۸ء کو اشتہارات نکالے اور اس قدر دشنام طرازی کی کہ الامان والحفیظ.ان کے جواب میں حضرت اقدس نے ایک اشتہار ۲۱ نومبر ۱۹۸ء کو شائع فرمایا اس میں ذکر فرمایا کہ میں نے دعا کی کہ اے اللہ اگر تیری نظر میں میں ایسا ہی ذلیل اور جھوٹا اور مفتری ہوں تو مجھ پر تیرہ ماہ کے اندر ذلت کی ماروارد کر اور ان لوگوں کی عزت اور وجاہت ظاہر کر تو اللہ تعالیٰ نے الہام کیا کہ میں ظالم کو ذلیل اور رسوا کروں گا اور وہ اپنے ہاتھ کاٹے گا اور ایک یہ الہام بھی درج فرمایا کہ جزَاء سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرُهَقُهُمُ ذلّة - اور ۳۰ / نومبر کے اشتہار کے ذریعہ اس عرصہ میں مولوی محمد حسین صاحب اور ان کے ساتھیوں سے بحث و مباحثہ کرنے سے احتراز کرنے کی اپنی جماعت کو تلقین کی.اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ میں اپنا کھلا کھلا نشان ظاہر کر دیا.مولوی صاحب نے ۱۴ راکتو بر ۱۹۸ء کو اپنے رسالہ اشاعۃ السنتہ کا ایک انگریزی ایڈیشن نکالا.جس میں ایک طرف حضرت اقدس کے متعلق لکھا کہ آپ سوڈانی مہدی سے بھی زیادہ خطرناک ہیں اور طاقت حاصل کر کے بغاوت کریں گے کیونکہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مہدی کفار کو تہ تبلیغ کرے گا.دوسری طرف اپنے متعلق لکھا کہ میں ان تمام احادیث کو مجروح یقین کرتا ہوں اس لئے ان کی مخالفت کرتا ہوں اور شب وروز مسلمانوں کے دلوں سے اس عقیدہ کے نکالنے کے لئے کوشاں ہوں.اس لئے مجھے لائکپور کے علاقہ میں بوجہ وفاداری کچھ مربع دئے جائیں.یہ رسالہ حضرت اقدس کو مل گیا جس کی منافقانہ کارروائی کا حضور نے رسالہ کشف الغطاء میں ذکر فرمایا.بعد ازاں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل خاں صاحب نے علماء پنجاب و ہند سے مولوی محمد حسین صاحب کے ان نئے عقائد کے بارہ میں فتویٰ حاصل کیا جس پر ان سب نے ان عقائد کو کفر و ضلال اور بدعت قرار دیا تھا.جب یہ شائع کیا گیا تو جس قدر ذلت و رسوائی مولوی صاحب کی ہوئی ہوگی ہر ایک سمجھ سکتا ہے.جیسا کہ پہلے جنوری ۹۸ء کی ڈائری سے ظاہر ہو چکا ہے.مولوی محمد حسین صاحب نے کسی اشتہار میں حضرت نواب صاحب وغیرہ چار اشخاص کو کسی امر کے متعلق مخاطب کیا تھا.آپ اس بارہ میں کئی ید الحکم بابت ۹۸-۱۰-۲۹ میں چھپ چکا ہے.
422 روز تک استخارہ کرتے رہے اور حضرت اقدس کی خدمت میں اس بارہ میں شرح صدر ہونے کے لئے دعا کے لئے بھی عرض کیا اور پھر مضمون لکھنا شروع کیا.یہ معلوم نہیں ہو سکا آیا یہ مضمون پایہ تکمیل کو پہنچ کر ڈاک میں بھیجا گیا یا بصورت اشتہار شائع ہوا.اس مضمون کے متعلق ۲۴ / جنوری ۹۸ ء سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی لکھ رہے تھے لیکن ۲۸ رجنوری کے بعد کی ڈائری نہیں مل سکی غالباً اس سال پھر ڈائری ہی نہیں لکھی.التبہ مولوی محمد حسین صاحب کے تعلق میں ۹۸ ء کے اواخر میں حضرت نواب صاحب نے ایک اشتہار دینا چاہا جس میں حضرت مولوی نورالدین صاحب اور ان کے ساتھیوں کی طرح مولوی محمد حسین صاحب کو مباہلہ کے لئے آمادہ کرنے کا ارادہ تھا.لیکن معلوم نہیں ہو سکا آیا یہ اشتہار بھی شائع ہوا تھا یا نہیں.اس اشتہار کے شائع کرنے کا ارادہ نواب صاحب کے نام حضرت اقدس کے ۱۸ نومبر ۹۸ ء کے مکتوب سے معلوم ہوتا ہے جس میں حضور رقم فرماتے ہیں.اور آپ نے جو پانچ ہزار روپیہ لکھا ہے میرے نزدیک آپ کا دوسروں کے ساتھ شامل ہونا عمدہ طریق نہیں بلکہ مناسب یہ ہے کہ آپ علیحدہ طور پر اشتہار دیں کہ چونکہ مسلمانوں میں تفرقہ بڑھتا جاتا ہے اور اس طرح قوم میں ضعف پیدا ہوتا جاتا ہے اس لئے میں نے یہ تجویز سوچی ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی جو بانی مبانی اس تفرقہ کے ہیں شخص مدعی سے مباہلہ کر لیں الہام کا مدعی جب کہ ایک سال کی مہلت الہام کی بناء پر پیش کرتا ہے تو وہی مہلت قبول کر لیں اگر اس مدت میں شخص مدعی ہلاک ہو گیا یا کسی اور ذلیل عذاب میں مبتلا ہو گیا تو خود جماعت اس کی بے اعتقاد ہو کر متفرق ہو جائے گی اور اس طرح پر قوم میں سے فتنہ اٹھ جائے گا اور اس صورت میں محض نیک نیتی اور ہمدردی قوم کی وجہ سے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ مبلغ پانچ ہزار روپیہ مولوی محمد حسین صاحب کو بطور نذر کے دیں گے.اور ان کے لئے دو خوشیاں ہوں گی کہ دشمن مارا اور روپیہ ملا.لیکن اگر اس سال کے عرصہ میں جو مباہلہ کے دن سے شمار کیا جائے گا کوئی بلا مولوی صاحب پر نازل ہوئی تو پھر سمجھنا چاہئے کہ مولوی صاحب اس جنگ و جدل میں حق پر نہیں ہیں تو اس صورت میں قوم کو شخص مدعی کی طرف بصدق دل رجوع کرنا چاہئے.یہ فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے ممکن نہیں کہ بغیر ارادہ الہی کے کوئی شخص یوں ہی مارا جاوے.غرض یہ اشتہار آپ کی طرف سے ہونا چاہئے امید کہ بڑا مؤثر ہوگا.اگر آپ اشارہ فرماویں تو اسی جگہ چھاپ دیا جائے.جلد مطلع فرمایا جاوے.“ ۲۹۵ حضرت اقدس کے ذیل کے مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی خدمت میں نواب صاحب نے ایک مضمون مکمل کر کے بھیجنا تھا.حضور تحریر فرماتے ہیں.مجی اخویم نواب صاحب سلمہ.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.کچھ مضائقہ نہیں آں محب مالیر کوٹلہ سے مضمون مکمل کرنے کے بعد ارسال فرما دیں اگر دو ہفتہ تک تاخیر ہو جائے تو کیا حرج ہے اور علیحدہ پر چہ میں نے
423 دیکھ لیا ہے.نہایت عمدہ ہے بہتر ہے کہ اس کو اس مضمون کے ساتھ شامل کر دیا جائے.کل مـع الـخـيـر عـلـى الصباح تشریف لے جاویں.اللہ تعالیٰ خیر و عافیت سے پہنچائے.آمین.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۴ جولائی ۹۸ ۱۲۹۶ آپ کو تبلیغ کا جو شوق تھا وہ آپ کی ۰۱-۱۱-۱۸ کی ڈائری کے ذیل کے اقتباس سے ظاہر ہے فرماتے ہیں.میں نے عرض کیا ہے کہ ایک امریکہ کی کمپنی کا ایجنٹ میرے پاس آیا اس نے کہا تھا کہ تم اپنی تصویر ؟ اور اپنے حالات خاندان لکھو ہم دوسو روپے میں چار کتابیں دیں گے.میں نے سوچا کہ بجائے میرے حضور کی تصویر ہو اس طرح امراء اور انگریزوں میں تبلیغ کا ذریعہ ہے.فرمایا مناسب ہے.“ تبلیغ کو خلاف وقار نہ سمجھنا آپ کے دل میں دوسروں کی ہدایت کے لئے ایسا بے پناہ جذبہ تھا کہ اس امر کو خلاف وقار نہ سمجھتے تھے کہ دنیوی لحاظ سے فلاں شخص ادنی ہے اس لئے اسے تبلیغ نہ کی جائے چنانچہ ہمیں آپ کی ڈائری سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے بچوں کے ایک خادم کو آپ نے تبلیغ کی اسے سمجھ نہ آتی تھی تو آپ نے اس کے لئے دعا کی تبلیغ بھی کوئی چند لحات پر ممتد نہ تھی بلکہ شیخ صاحب اور عبد اللہ صاحب عرب پر چھ سات گھنٹے آپ نے ایک دن میں صرف کئے ( وہ حصہ دوسری جگہ درج ہے ) آپ اپنی ڈائری مورخہ ۰۲-۳-۷ میں تحریر فرماتے ہیں.آج شیخ عبدالرحمن خادم اولاد کے ساتھ دعویٰ حضرت اقدس کے متعلق گفتگو ہوتی رہی اس کی نہایت کٹھن طبیعت تھی اس میں کچھ آتا ہی نہیں تھا اور جو سنتا تھا وہ یاد نہ رہتا تھا آج میں نے اس (سے) گفتگو کی اور خداوند تعالیٰ سے دعا کی.خداوند تعالیٰ نے نصرت فرمائی اور آخر شیخ عبدالرحمن کی تسلی ہو گئی اور آج اس نے بیعت کی درخواست کی.مگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ کل کرنا الحمد للہ علی ذالک.“ یعنی حضرت اقدس کی خدمت میں (مؤلف) مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ” شیخ عبدالرحمن صاحب مسکین جو ماسٹر احمد حسین فرید آبادی کے برادر اور بزرگ تھے میری ہی سفارش پر بچوں کی خدمت پر مامور کئے گئے تھے.اس وقت وہ احمدی نہ تھے مگر طبیعت میں مسکینی اور فروتنی تھی اپنے سابقہ عقیدہ میں کٹر تھے، ان کو میں نے شعر گوئی کی تحریک کی ان کی سادگی کے خیال سے یہ مذاق ہی تھا.انہوں نے کچھ تک بندیاں کیں
424 مورخه ۰۲-۳- ۸ کو ڈائری میں تحریر فرماتے ہیں : آج شیخ محی الدین عرب سے گفتگو درباره اعتقادات شیعہ ہوئی اور آخر شیخ محی الدین نے مان لیا کہ اصول دین مذہب شیعہ خلاف کتاب اللہ انسانی گھڑت ہیں.یہ محض خداوند تعالیٰ (کے ) فضل سے مجھ کو دلائل سو جھے اور اسی کی نصرت سے یہ کامیابی ہوئی آج عبد اللہ نے اور عبدالعزیز نے اور شیخ عبدالرحمن نے بیعت کی.“ نوٹ : مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ صحیح نام عبدائمی ہے.حجۃ اللہ کا لقب آپ اپنے نیک نمونہ سے یقیناً ایک کثیر تعداد کے لئے حجت تھے.اس کی تصدیق الہام الہی نے کر دی.اللہ اللہ ! کتنا بڑا مقام ہے جو آپ کو عطا ہوا.آپ کے اسوہ سے حجت تمام ہوئی ، امراء پر جو ہزاروں عذرات لنگ اور خطرات موہومہ اپنی عزت و ناموس اور مال و منال کے لئے درپیش خیال کر کے دین جیسی عزیز متاع کو اپنے ہاتھ سے کھو دیتے ہیں اور فانی دنیا کے اعزاز و اکرام کو ترجیح دیتے ہیں یکم مارچ ۱۹۰۳ء کو صبح کی سیر میں حضرت اقدس نے نواب صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا.یکم مارچ ۱۹۰۳ء صبح کی سیر نواب صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آج رات ایک کشف میں آپ کی تصویر ہمارے سامنے آئی اور اتنا لفظ الہام ہوا حجة الله یہ امر کوئی ذاتی معاملات سے تعلق نہیں رکھتا اس کے متعلق یوں تفہیم ہوئی کہ چونکہ آپ اپنی برادری اور قوم میں سے اور سوسائٹی میں سے الگ ہو کر آئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام حجة اللہ رکھا.یعنی آپ ان پر حجت ہوں گے.قیامت کے دن ان کو کہا جاوے گا کہ فلاں شخص نے تم میں سے بقیہ حاشیہ :- اور حضرت کے حضور سنائے بھی.گلدستہ مسکین میں اس کا ذکر انہوں نے خود کیا ہے.“ را تم عرض کرتا ہے کہ مسکین صاحب محترم بہت ہی سادہ طبیعت تھے آج سے پچھیں چھپیں سال قبل کی بات ہے وہ بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں مغرب کے بعد اچار اور چینی فروخت کرنے کے لئے لایا کرتے تھے اور ہم ان کی خرید کے ساتھ اپنے اشعار سنانے کی فرمائش کرتے تو وہ بھی پوری کر دیا کرتے.آخر عمر میں ان کے بڑہاپے اور غربت کی وجہ سے میرا ان کے ہاں کثرت سے آنا جانا تھا.اور میں حسب توفیق ان کی مدد کرتا رہتا تھا.اب آپ بہشتی مقبرہ میں آرام فرماتے ہیں.
425 نکل کر اس صداقت کو پر کھا اور مانا تم نے کیوں ایسا نہ کیا.یہ بھی تم میں سے ہی تھا اور تمہاری طرح کا ہی انسان تھا.چونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کا نام حجتہ اللہ رکھا آپ کو بھی چاہتے کہ آپ ان لوگوں پر تحریر سے تقریر سے ہر طرح سے حجت پوری کر دیں.اصل میں اس ساری قوم کی حالت قابل رحم ہے.عیش وعشرت میں گم ہیں دنیا کے کیڑے بنے ہوئے ہیں.اور فنافی یورپ ہیں.خدا سے اور آسمان سے کوئی تعلق نہیں.جب خدا کسی کو ایسی قوم میں سے نکالتا اور اس کی اصلاح کرتا ہے تو اس کا نام اس قوم پر حجت رکھتا ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَجِئْنَا بِكَ عَلى هَؤُلَاءِ شَهِدًا آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا تھا اس نے کچھ کہا تھا تو آپ نے فرمایا بس کر اب تو میں اپنی ہی امت ۲۹۸ پر گواہی دینے کے قابل ہو گیا ہوں.مجھے فکر ہے کہ میری امت پر گواہی کی وجہ سے سزا ملے گی.حضرت عیسی کو اللہ تعالیٰ نے کلمہ اللہ خصوصیت سے کیوں کہا اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی ولادت پر لوگ بڑے گندے اعتراض کرتے تھے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان الزاموں سے بری کرنے کے لئے فرمایا کہ وہ تو کلمۃ اللہ ہیں.ان کی ماں بھی صدیقہ ہے یعنی بڑی پاکباز اور عفیفہ ہے ورنہ یوں تو کلمتہ اللہ ہر شخص ہے، ان کی خصوصیت کیا تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلمے اتنے ہیں کہ وہ ختم نہیں ہو سکتے.ان ہی اعتراضوں سے بری کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کو کہا کہ وہ شیطان کے مس سے پاک ہیں ورنہ کیا دوسرے انبیاء شیطان کے ہاتھ سے مس شدہ ہیں جو نعوذ باللہ دوسرے الفاظ میں یوں ہے کہ ان پر شیطان کا تسلط ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ شیطان کو کسی معمولی انسان پر بھی تسلط نہیں ہوتا تو انبیاء پر کس طرح ہوسکتا.اصل وجہ صرف یہی تھی کہ ان پر بڑے اعتراض کئے گئے تھے اسی واسطے ان کی بریت کا اظہار فرمایا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ کوئی کہے کہ انبیاء بھی کا فر ہوا کرتے ہیں نہیں ایسا نہیں لوگوں نے کا ان پر اعتراض کیا تھا کہ وہ بت پرست ہو گئے تھے.ایک عورت کے لئے اس اعتراض کا جواب دیا.یہی حال ہے حضرت عیسی کے متعلق.یہ الہام جہاں نواب صاحب کی شان کو بطور حجت پیش کرتا تھا.وہاں آپ کے لئے زبر دست محرک تھا کہ آپ اپنی تبلیغی مساعی کو تیز تر کر دیں آپ کے نوشتہ تبلیغی خطوط سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ تبلیغ کے لئے بہانہ ڈھونڈتے تھے.کسی نے خیمہ حاصل کرنے کے لئے خط لکھا تو خدمت بھی کر دی اور حق تبلیغ بھی ادا کر دیا یا بھائی نے واپس آنے کے لئے تحریک کی تو نواب صاحب نے اس موقعہ کو غنیمت جان کر اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا آپ کے خاندان کے تعلق میں جو نشانات ظاہر ہوئے وہ خاص طور پر افراد خاندان پر حجت تھے جن کی تفصیل دوسری جگہ آچکی ہے خاص طور پر اے سیف والانشان آپ کے بھائیوں کے لئے حد درجہ واضح
426 حجت تھا اور حضور سے ان حقوق کے متعلق استدعاء دعا کے لئے آپ ہی نے اپنے بھائیوں کو آمادہ کیا تھا.افسوس کہ ان آیات بینات سے اکثر افراد خاندان نے ذرہ بھر فائدہ نہ اٹھایا.بعض دفعہ ایسے تبلیغی خطوط نواب صاحب حضرت اقدس کو بھی دکھا دیا کرتے تھے.اس تعلق میں ہم ایک اور مثال درج کرتے ہیں نواب صاحب نے حضور کی خدمت اقدس میں تحریر کیا.سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالی.السلام علیکم.بھائی خاں صاحب محمد احسن خاں صاحب نے مجھ کو ایک خط لکھا تھا اور ایک خط حضور کی خدمت میں بھی بھیجا تھا جو کل یہاں پہنچے.میں ( نے ) اس خط کا جواب لکھا ہے اور برائے ملاحظہ حضور پیش ہے.اگر حضور اس کو ملاحظہ ( کر کے ) تصحیح سے سرفراز فرمائیں تو عین سعادت ہے.حضور نے خط پڑھ کر تحریر فرمایا.راقم محمد علی خاں مجی عزیزی اخویم نواب صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں نے اول سے آخر تک حرفاً حرفاً پڑھ لیا ہے یہ خط نہایت عمدہ اور مؤثر معلوم ہوتا ہے.ایسا ہی لکھنا چاہئے تھا.جزاکم اللہ خیرا.والسلام پہلا با تنخواہ مبلغ خاکسار مرزا غلام احمد آپ کو تبلیغ حق کا جو سچا جوش تھا اس کے تموجات مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتے رہتے تھے.ابھی جبکہ صدر انجمن احمدیہ کی مالی حالت ایسی نہ تھی کہ با تنخواہ مبلغ رکھ سکے.نواب صاحب نے اپنے خرچ پر پہلا با تنخواہ مبلغ رکھا.جس کے ذاتی اخراجات کے نواب صاحب خود کفیل ہوتے تھے اور انہیں بسا اوقات پانچ پانچ چھ چھ صد روپیہ کی اکٹھی امداد بھی کر دیا کرتے تھے.معزز الحکم میں مرقوم ہے.” جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں تبلیغ کے لئے ہم نے ایک بھی واعظ مقر رنہیں کیا تو اس امر کے ظاہر کرتے ہوئے شرم آتی ہے کہ اشاعت اسلام کا عظیم الشان مقصد اور کام ہمارے ہاتھ میں ہو اور قوموں کے سامنے ہم بڑی جرات کے ساتھ یہ ظاہر کریں کہ ہم اشاعت اسلام کر رہے ہیں لیکن جب یہ سوال ہو کہ شاید یہ وہی خط ہے جو ہجرت کے ذکر میں درج ہو چکا ہے اور اس کا جواب بھی.نواب محمد احسن علی خاں صاحب نے حضرت نواب صاحب کو قادیان قیام رکھنے سے منع کیا تھا.اور مالیر کوٹلہ واپس آ جانے کی زور دار تحریک کی تھی.
427 کتنے واعظ اس کام کے لئے مقرر ہیں تو بجز خاموشی کے ہمارے پاس کوئی جواب نہیں.خدا عالی جناب نواب محمد علی خاں صاحب کا بھلا کرے کہ انہوں نے شیخ غلام احمد صاحب کو اس کام کے لئے مقررفرمایا اور ان کے ذاتی اخراجات کے کفیل وہ آپ ہوئے.اسی طرح اس بارہ میں سیکرٹری صاحب صدر انجمن احمد یہ قادیان نے ایک ماہواررپورٹ میں ۱۹۱۰ء میں ریویو آف ریلیجنز (اردو) میں تحریر کیا کہ واعظین.شیخ غلام احمد صاحب گزشتہ ماہ کے اختتام پر اطلاع دیتے ہیں کہ ضلع لائکپور کا دورہ ختم کر کے وہ ملتان کی طرف روانہ ہوگئے ہیں...ملتان میں کئی موقعوں پر مؤثر وعظ کئے ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ شیخ صاحب کو بہت لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنا دے اور خاں صاحب نواب محمد علی خاں صاحب کو بھی جزائے خیر دے جو ان کے اخراجات کے متکفل ہیں.مگر اپنے احباب کی اطلاع کے لئے میں اس قدر اور زیادہ لکھنا چاہتا ہوں کہ شیخ صاحب کو انجمن کی طرف سے یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ہر جگہ چندوں کی وصولی اور انجمنوں کے قیام کی طرف توجہ کریں.بہت سا حصہ جماعت کا اب تک ایسا ہے جو باقاعدہ طور پر چندوں میں شامل نہیں ہوتا اور اس وجہ سے مالی تکالیف بھی پیش آتی رہتی ہیں بعض مدات جیسے لنگر خانہ روز بروز زیادہ مقروض ہوتی چلی جاتی ہیں بعض کے اخراجات کے پورا کرنے کا فکر ہر وقت انجمن کو دامن گیر ہے ان مشکلات کا پورا انتظام تو اس صورت میں ہی ہو سکتا ہے کہ ہر ایک ضلع میں دو دو یا تین تین ضلعوں میں ایک ایک محصل مقرر کیا جاوے جو وعظ اور تقریر بھی کرے اور چندوں کی وصولی کا انتظام بھی کرے.مگر جب تک اللہ تعالیٰ ایسے آدمی پیدا کرے جو اس اہم ترین مقاصد کو پورا کرنے میں انجمن کے معاون ہوسکیں.اس وقت تک جس قدر بھی انتظام اس طرز پر ہو سکے غنیمت ہے.شیخ غلام احمد صاحب چونکہ اس صدرانجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ بابت یکم اکتو بر ۱۹۰۸ ء تا ۳۰ ستمبر ۱۹۰۹ء میں مرقوم ہے.سلسلہ تبلیغ میں شیخ غلام احمد صاحب واعظ نے مشرقی اضلاع میں دورہ کیا بالخصوص جالندھر، ہوشیار پور، کانگڑہ وغیرہ میں.جناب شیخ صاحب کے وعظ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بہت مؤثر ہوئے.اس ثواب میں جناب خاں صاحب محمد علی خاں صاحب بھی شامل ہیں جو شیخ صاحب کے خانگی اخراجات کے متکفل ہیں.جزاہ اللہ خیرا.“ (صفحہ۴۰)
428 خدمت پر مامور ہیں اس لئے جہاں جہاں وہ حضرت خلیفہ اسیح کی ہدایت کے مطابق جاویں گے وہاں چندوں کی تحریک بھی ساتھ ساتھ کریں گے....امید ہے ہمارے 66 احباب انہیں ان کاموں میں ہر طرح سے مدد دے کر عنداللہ ماجور ہوں گے.“ الہام الہی کے بعد نواب صاحب نے حتی المقدور خوب تبلیغ کی اور کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے خاندان کے بعض افراد بھی احمدی ہوئے.اس ذکر پر مکرم میاں محمد عبدالرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ لا رڈارون وائسرائے ہند نے نواب صاحب کو تحریر کیا کہ ایسا لٹریچر بھجوائیں جو سری نگر میں قبر مسیح ہونے پر روشنی ڈالے چنانچہ آپ نے لٹریچر بھجوا دیا.اس کے بعد لارڈ موصوف سری نگر گئے اور حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر پر بھی گئے گویا اس طرح شاہ انگلستان و ممالک محروسہ کے نائب پر بھی آپ اتمام حجت کا ذریعہ بنے تبلیغ کا جذبہ جس قدر شدت اختیار کر چکا تھا آپ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی زبانی سنیئے.فرماتی ہیں: اپنا پر ایا، غریب امیر جو بجز کسی خاص مقصد کے ملنے آتا اس سے گفتگوضرور تبلیغی ہو ہی جاتی.اکثر میں پوچھتی کہ کون آیا تھا فلاں آیا تھا کیا بات چیت ہوئی ؟ تو فرماتے وہی موضوع جو ہم لوگوں کے پاس ہے اور کیا ؟ یہ ہی ذکر آ گیا تھا اس پر اس کو ذرا سمجھا دیا وغیرہ.ایک عزیز کا لڑکا جس کو وظیفہ دے کر قادیان میں تعلیم دلوائی باہر جا کر ملازمت کے سلسلہ میں مرتد ہو گیا.اس کا بہت رنج تھا.ایک دن وہ اتفاق سے آ گیا.نماز عشاء کے بعد سے صبح کی اذان ہوگئی باتوں کے جوش میں وقت کا دھیان نہ رہا.وہیں باغ میں کھڑے اور بیٹھے.اس کو سمجھاتے سمجھاتے رات گزر گئی ، آئے تو اسی طرح تازہ دم تھے گویا ابھی گئے تھے.خطوط تبلیغی اکثر لکھتے تھے.اکبر الہ آبادی مشہور شاعر کو بھی لکھا تھا جس کا عنوان اکبر ہی کا ایک شعر تھا وقت پیری آگیا اکبر جوانی ہو چکی خواب غفلت سے اٹھو پیدا ہوئی آثار صبح ان سے ایک بار ملاقات ہو چکی تھی.“ ارتداد ملکانہ کے ایام میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات نے جو شاندار کام سرانجام دیا.تاریخ احمدیت میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا.کل وابستگان اسلام کو اس وقت یہ اچھی طرح احساس ہو گیا کہ حق تبلیغ صرف احمدی ہی ادا کر سکتے ہیں اور چودھری افضل حق سرغنہ احرار جیسا معاند بھی خراج تحسین ادا کئے بغیر نہ رہ سکا.معززین نے اپنے خرچ پر وہاں کئی کئی ماہ رہ کر اور ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کر کے جو تیرہ سوسال قبل کے سے جذبہ اشاعت اسلام کا مظاہرہ کیا اس وقت اس کی تفصیل کا مقام نہیں.اس
429 وقت با وجود پیرانہ سالی کے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر نواب صاحب وہاں تشریف لے گئے.مکرم چودھری فتح محمد صاحب سیال اور مکرم بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی اس وقت وہاں موجود تھے.حضرت نواب صاحب نے خوب محبت اور شوق سے مفوضہ فرض کو سرانجام دیا.مکرم عرفانی صاحب بیان فرماتے ہیں کہ حضرت نواب صاحب حضرت شیخ محمد حسین ریٹائر ڈ سب حج علی گڑھ اور خاکسار عرفانی کو ایک خاص مقصد کے لئے وہاں بھیجا گیا تھا اور وہ یہ تھا کہ ہم یوپی کے ان اضلاع کے حکام سے ملیں اور غلط فہمیاں پیدا نہ ہونے دیں اور بنجارا قوم کے جرائم پیشہ سے نکلوانے کی کوشش کریں.ہم تینوں سفر کرتے تھے اور اخراجات خورونوش و قیام وسفر وغیرہ نواب صاحب ہی اپنی جیب سے کرتے تھے.اس سلسلہ میں اکثر ڈپٹی کمشنروں اور پولیس افسروں سے گفتگوئیں ہوئیں، ان میں سے علی گڑھ کے ڈپٹی کمشنر سے عجیب گفتگو ہوئی، گفتگو کے لئے مجھے ہی مقرر کیا گیا تھا اس لئے کہ اس وقت تک افسران سے عام طور پر ملنے کی خدمت کا موقعہ مجھے ہی ملتا تھا.یہ ڈپٹی کمشنر شاہ جہاں پور سے تبدیل ہو کر آیا تھا.اور وہاں کی جماعت کے مقدمات کی وجہ سے وہ سلسلہ سے سخت بدظن کیا گیا تھا چنانچہ اس نے چھوٹتے ہی کہا کہ آپ لوگ ہر جگہ فتنہ پیدا کرتے ہیں.شاہ جہاں پور میں جھگڑے چلتے ہیں.اب تم یہاں آئے ہو.کیا کام ہے.یہاں سے چلے جاؤ.میں نے کہا علی گڑھ اگر ہندوستان میں ہے اور ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت ہے اور ہم اس وقت انگریزی رعایا ہیں ہمیں ہندوستان کے ہر مقام پر جانے کا حق ہے.ہم کیوں آئے ہیں تو آپ سنیں گے تو بتاؤں گا.ہماری جماعت جھگڑے پیدا نہیں کرتی.جھگڑوں کو روکتی ہے.یہ بالکل غلط ہے کہ ہم فتنہ پیدا کرتے ہیں.اس سلسلہ میں داخل ہونے کی شرائط میں فتنہ و فساد اور بغاوت سے بچنا داخل ہے.ہم کیوں آئے ہیں؟ آپ کو ایک خطرناک تحریک سے خبر دار کرنے آئے ہیں جس کو آج آپ نہیں سمجھتے مگر یا درکھئے کہ جیسے ۱۸۵۷ء کا فتنہ یوپی سے پیدا ہوا تھا.ایسا ہی فتنہ پھر پیدا ہو گا.جب میں نے یہ کہا تو چوکنا ہو کر کہا وہ کیا؟ میں نے کہا کسان موومنٹ کا مرکز یوپی ہے اور آئے دن یہ تحریک زور پکڑ رہی ہے.میں اس کے اچھے برے ہونے کا کچھ نہیں کہتا اسی سلسلہ میں دوسری تحریک شدھی کی ہے اس کے پیچھے بھی وہی مقصد ہے.اب آپ کا اختیار ہے اس کو بڑھنے دیں یا ہمارے ساتھ تعاون کریں.ہم اس فتنہ کو روکنا چاہتے ہیں اور آپ سے کچھ نہیں چاہتے.ہمارے خلاف لوگ غلط بیانیاں کریں گے.آپ ہر بات کے متعلق ہم سے دریافت کریں.یہ تقریر کافی دیر ہوئی اور وہ بے اختیار ہو کر کہہ اٹھا کہ ہم آپ کی ہر طرح مدد کریں گے.اس شہر کی ایک رپورٹ میں نے حسب الحکم مرتب کی تھی وہ بڑی تفصیل تھی اور حضرت نواب صاحب کے دستخط سے پیش کی گئی تھی.“ آپ کے اس دورہ کے متعلق معزز الفضل میں فتنہ ارتداد کے خلاف جماعت احمد یہ قادیان کی 66
430 مساعی کے زیر عنوان مرقوم ہے.جماعت احمدیہ قادیان کے دو جلیل القدر انسان آگرہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے اور حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ریاست ۹ر اپریل کو آگرہ تشریف لائے ہیں تا کہ بہ نفس نفیس فتنہ ارتداد کے حالات اور واقعات کا مطالعہ فرما ئیں اور مبلغین کو ضروری و مناسب ہدایات دیں ان بزرگوں کی تشریف آوری انشاء اللہ تعالیٰ مبلغین جماعت احمدیہ قادیان کے جوش ایمانی اور خدمت دینی میں خاص ولولہ پیدا کرے گی.“ نیز دوسری جگہ مرقوم ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے ۲۳ اپریل کی شام کو علاقہ ارتداد سے واپس تشریف لے آئے ہیں.حضرت نواب صاحب فی الحال وہیں تشریف رکھتے ہیں.“ پھر لکھا ہے: ۳۰۵ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب علاقہ ملکانہ سے واپس قادیان آگئے ہیں.آپ نے مسلسل کئی روز با وجود شدت گر ما علاقه ملکانہ میں دورہ فرمایا اور کئی کئی میل پیدل چلے.اللہ تعالیٰ اجر جزیل بخشے.شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم بھی تشریف لے آئے.“ اقارب کو تبلیغ وَانْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ کے مطابق اقارب ہمدردی ہمدردی کا زیادہ استحقاق رکھتے ہیں.اس ارشادالی کے مطابق حضرت نواب صاحب نے اپنے اقارب کو بھی ہر رنگ میں بہت نرمی اور ملاطفت اور حکمت اور موعظت کے رنگ میں تبلیغ کی چنانچہ آپ کے بڑے بھائی خان احسن علی خاں صاحب قادیان بھی آئے اور حضرت اقدس نے انہیں ۱۸ جنوری ۱۹۰۴ء کو تبلیغ کی یہ خاکسار مؤلف کے والد بزرگوار بھی غالبا لا ہور کا ذکر فرماتے ہیں کہ سر ذوالفقار علی خاں صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور نے دنیوی امور میں حد درجہ انہاک کو ترک کرنے کی تلقین فرمائی گوطرز خطاب عام تھا.لیکن حاضرین سمجھتے تھے کہ سر موصوف کو وعظ ونصیحت کی جارہی ہے.افسوس کہ نواب صاحب کے بھائیوں میں سے کوئی بھی حمد الحکم پر چہ ۰۴-۲-۱۰ اور البدر ۰۴-۲-۱۱-۰۴-۲-۲۴ میں وہ تقریر درج ہے جو حضور نے خان احسن علی خاں صاحب اور ان کے مشیر اعلیٰ کے سامنے فرمائی تھی.
احمد بیت میں داخل نہ ہوا.431 ہمشیرہ بوفاطمہ بیگم صاحبہ کا قبول احمدیت محترمہ بوفاطمہ بیگم صاحبہ نواب صاحب سے چار سال بڑی تھیں اور نواب ابراہیم علی خاں صاحب والی مالیر کوٹلہ کے چھوٹے بھائی نواب عنایت علی خاں صاحب سے بیاہی ہوئی تھیں.مکرم میاں محمد عبدالرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ.بوصاحبہ کے بطن سے ان کی کوئی اولاد نہ تھی گو ایک دوسری بیگم کے بطن سے دولڑ کیاں ہوئیں لیکن اولاد نرینہ سے محروم رہنے کے باعث ان کی طبیعت پر ایسا اثر تھا کہ دنیاوی امور سے کنارہ کش ہو گئے تھے اور مجھے میر عنایت علی صاحب رضی اللہ عنہ نے سنایا تھا کہ جب حضرت اقدس ۱۸۸۴ء میں مالیر کوٹلہ محترمہ فضیلت بیگم صاحبہ والدہ نواب ابراہیم علی خاں صاحب کی استدعا پر جو کہ جھل ریاست پٹیالہ کے ایک راجپوت خاندان سے تھیں.تشریف لے گئے تو حضور سکندر منزل کی طرف ملاقات کے لئے جارہے تھے کہ سامنے سے نواب عنایت علی خاں صاحب نے دیکھ لیا جو کہ گھوڑے پر سوار آرہے تھے دور سے ہی یہ دیکھ کر بہت سے لوگ آرہے ہیں انہوں نے گھوڑ الوٹا لیا اور پھر دوسری طرف سے چکر کاٹ کر آئے اور قاضی خواجہ علی صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ حضرت مرزا صاحب کے ساتھ آئے ہیں.قاضی صاحب کے ایجاب میں جواب دینے پر نواب صاحب نے کہا کہ پھر میرے لئے بھی ان کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کریں.“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف نواب ابراہیم علی خاں بلکہ نواب عنایت علی خاں میں بھی سعادت تھی اور انہوں نے کسی مرحلہ پر بھی احمدیت کی مخالفت نہیں کی ، اور ان کی اہلیہ بوصاحبہ بالآخر حلقہ بگوش احمد بیت ہو گئیں.قبول احمدیت پر جو مکتوب ان کو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تحریر کیا.کتاب کے آخر پر انشاء اللہ اس کا چربہ دے دیا جائے گا.بوصاحبہ کے متعلق مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہمشیرہ سب بھائیوں سے زیادہ ہمارے والد صاحب سے محبت کرتی تھیں.اس محبت کا یہ نتیجہ نکلا کہ وفات سے ایک دو سال قبل انہوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو مالیر کوٹلہ بلایا، والد صاحب وہیں تھے چنانچہ کئی دن کے مباحثہ کے بعد نہ صرف والد صاحب کے تقویٰ وطہارت کو دیکھ کر اور نہ صرف محبت کی بناء پر بلکہ پوری تحقیقات کی بناء پر اور بعض خوابوں کی بناء پر انہوں نے بیعت کی اگر چہ ظاہری علم سے بے بہرہ تھیں لیکن بہت سمجھ دار اور دانا خاتون تھیں خاوند کی بیماری کی وجہ سے تمام گھر کے انتظام وہ خود کرتی تھیں.جائیداد کورٹ آف وارڈ ہی تھی دواڑ ہائی ہزار روپیہ ماہوار ملتے تھے نہایت قابلیت سے اس کام کو سرانجام دیتی تھیں.“
432 بوصاحبہ موصوفہ کا تقویٰ محترمه بوفاطمہ بیگم صاحبہ اگر چہ ظاہری علم سے بے بہرہ تھیں لیکن بہت سمجھ دار اور دانا خاتون تھیں نیکی اور تقویٰ کے لحاظ سے مالیر کوٹلہ کی بیگمات میں ممتاز تھیں عام طور پر رویائے صالحہ سے بھی مشرف ہوتی تھیں (م) مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ مرحومہ احمدیت میں داخل ہونے کے بعد اشاعت سلسلہ اور قرآن مجید سے محبت کرتی تھیں اسی مقصد کے لئے انہوں نے سیدہ مریم رضی اللہ عنہا کو ( جو قرآن کریم کا ایک خاص فہم رکھتی تھیں اور ایک زمانہ میں اس قرآن فہمی کی وجہ سے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہا نے ان سے نکاح کرنا چاہا تھا ) اپنے پاس بلا کر رکھا.وہ قرآن مجید کا درس دیتی تھیں اور بوفاطمہ بیگم رضی اللہ عنہ ان کا خاص احترام کرتی تھیں آہ ! ۱۹۴۷ء کے انقلاب کے بعد جموں میں ان کے خاندان کو شہید کر دیا گیا.صرف ان کا ایک پوتا بچا سیده مریم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم و مغفور کی بیوی کی نانی تھیں.اللهم ارحمهما واوسع مرقدهما.آمین.بوصاحبہ موصوفہ کی استقامت یہ حقیقت ہے کہ الاستقامة فوق الكرامة موصوفہ کے متعلق محترم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب موصوف کا بیان ہے کہ ان کو احمدیت کے قبول کرنے کے بعد بہت ابتلاء بھی آئے لیکن ان کے پائے ثبات میں مطلقاً لغزش نہیں آئی بیعت کے چند ماہ بعد ان کے خاوند فوت ہو گئے اور عدت کے اندر ان کی دائیں آنکھ پر چھوٹی سی گلٹی نکل آئی پہلے یہ سمجھا گیا کہ شاید رونے کی وجہ سے ایسا ہو گیا ہے اور علاج کرنے سے زخم مندمل ہو گیا.زخم مندمل ہونے پر عدت کے بعد پہلی بار قادیان آئیں کہ اس سے پہلے خاوند کی خدمت وغیرہ کی وجہ سے موقعہ میسر نہ آسکا تھا.یہاں زخم زیادہ ہو گیا * اور یہ رائے قرار پائی کہ پہاڑ پر انہیں لے جائیں.چنانچہ نواب صاحب ۲۴-۸-۱۶ کے مکتوب میں مکرم سید بشارت احمد صاحب امیر جماعت حیدر آباد دکن کو تحریر فرماتے ہیں.۲۷ دسمبر ۲۳ء کو میرے بہنوئی کا انتقال ہو گیا بہن جو میری حقیقی بہن ہیں.ان کے وہ خاوند تھے اس اچانک حادثہ سے میری بہن علیل ہو گئیں اور ساڑھے چار ماہ تک ان کو حرارت ہوتی رہی.اس سے کسی قدر افاقہ ہوا.تو ایک خفیف آپریشن آنکھ کی پلک پر کرنا پڑا مگر اس سے ایسا فساد بڑھا کہ پندرہ بیس روز کے بعد آنکھ نا
433 یہ سعادت میری قسمت میں تھی.میں ان کو منصوری لے گیا اور مرہم پٹی کرنا میں نے سیکھ لیا اور میں خود ہی ان کی مرہم پٹی کرتا تھا.میں نے ان کی بہت خدمت کی جس کی وجہ سے وہ مجھ سے بہت خوش تھیں چند ماہ کے بعد مالیر کوٹلہ واپس آئے اس وقت زخم بہت بڑھ چکا تھا.دراصل یہ سرطان کا پھوڑا تھا.اور اس میں سے مواد نکلتا رہتا تھا.اسی تکلیف کی حالت میں نواب احسان علی صاحب نے ایک دفعہ ان سے کہا پھوپھی ! آپ نے بیعت کر کے کیا لیا.اس کے بعد آپ پر مصیبت پر مصیبت آئی تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں کہ تم کہتے ہو کہ میں نے محمد علی خاں کی وجہ سے بیعت کر لی ہے.محمد علی خاں نے ۱۸۹۰ء میں بیعت کی اور ہمیں سمجھاتے رہے لیکن میں نے مرزا صاحب کو قبول نہ کیا.پھر وہ یہاں سے چلے گئے.اور ایک لمبا عرصہ باہر رہے پھر بھی میں نے قبول نہ کیا.اس کے بعد میں نے علماء کو بلا کر مباحثہ کرایا تم اس کے صدر تھے.پھر خواب کی تحریک سے میں نے حق قبول کیا.اور میں نے قادیان جا کر دیکھا کہ خلیفہ صاحب کی چار بیویاں ہیں ان کا سلوک ان سے ایسا عمدہ ہے کہ یہاں کوئی خیال بھی نہیں کر سکتا.میں نے یہاں بیگمات کا حال دیکھا ہے جس میں زمین و آسمان کا فرق ہے.بوصاحبہ کی وفات پر معزز الفضل رقم طراز ہے.یہ خبر نہایت افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ کی ہمشیرہ صاحبہ جو کچھ عرصہ سے علیل تھیں ۱۳ تاریخ فوت ہو گئیں.إِنَّا للهِ وَإِنَا إِلَيْهِ رَاجِعُون.چند سال ہوئے مرحومہ مغفورہ نہایت تحقیق اور تدقیق کر کے احمدیت میں داخل ہوئی تھیں اور آخر وقت تک سلسلہ سے نہایت اخلاص اور محبت کا اظہار کرتی رہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۵ جنوری ۱۹۲۶ ء بعد نماز جمعہ ان کا جنازہ غائب پڑھنے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا ” آج میں جمعہ کی نماز کے بعد نواب صاحب کی ہمشیرہ صاحبہ کا جو مالیر کوٹلہ میں فوت ہوگئی ہیں جنازہ پڑھوں گا.نواب صاحب نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ چونکہ مالیر کوٹلہ میں ان کا جنازہ پڑھنے والی جماعت احمد یہ تھوڑی تھی اس لئے ان کا جنازہ پڑھا جائے مگر ان کا جنازہ میں اس وجہ سے نہیں پڑھنے لگا.اگر وہاں بڑی جماعت ہوتی تو بھی میں ان کا جنازہ غائب پڑھتا کیونکہ وہ نواب صاحب کی رشتہ دار تھیں.اور نواب صاحب میرے رشتہ دار ہیں اور اسلام نے رشتہ داروں کے حقوق رکھے بقیہ حاشیہ کو صدمہ پہنچ گیا اور آخر کا ر ڈیلے کا آپریشن کرنا پڑا جس کے سبب سے آنکھ جاتی رہی اور اب تک زخم خفیف ہے...ابھی سلسلہ تھا کہ گھر میں ان کے گلے کی گلٹیوں کا آپریشن کرنا پڑا جو کوئی ڈیڑھ سال سے تھیں.
434 ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے جن کے رشتہ دار نیک ہوں گے ان کے پاس وہ جنت میں رکھے جائیں گے.میں نے کہا ہوا ہے کہ وہ لوگ جو جماعت میں سے دین کی خاص طور پر خدمت کرنے والے ہوں گے میں ان کا جنازہ غائب پڑھا کروں گا.مگر اپنا بچہ اگر ایک سانس لے کر بھی فوت ہو جائے تو اس کا جنازہ پڑھوں گا کیونکہ رشتہ داری کا بھی حق ہوتا ہے.ہماری ایک چھوٹی ہمشیرہ جب فوت ہوگئی تو دوسرے دوست اسے اٹھا کر قبرستان تک لے گئے.راستہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا مجھے دیں میں اٹھاؤں ، اٹھانے والے نے ادب کے طور پر کہا حضور میں ہی اٹھائے چلتا ہوں.آپ نے اس بات کو نا پسند کیا اور فرمایا کیا یہ میری لڑکی نہیں اور اس کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے؟ تو رشتہ داروں کے بھی حقوق ہوتے ہیں اگر وہاں جنازہ پڑھنے والے زیادہ لوگ ہوتے تو بھی رشتہ داری کے لحاظ سے ان کا جنازہ پڑھتا.کیونکہ نواب صاحب میرے بہنوئی ہیں ، اور ان کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی رشتہ ہے کہ آپ کے داماد ہیں.ان دوہرے حقوق کی وجہ سے میں ان کی ہمشیرہ صاحبہ کا جنازہ پڑھاؤں گا.اس کے علاوہ ان کی ہمشیرہ صاحبہ کو ایک خصوصیت بھی حاصل تھی اور وہ یہ کہ بہت کم عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو ان کی طرح تحقیق کر کے ایمان لائیں اور پھر مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم رہیں، ان کے لئے بہت سی وقتیں بھی تھیں، ان کے خاوند مالیر کوٹلہ کے بہت بڑے رئیس تھے، ان کی کئی لاکھ کی جاگیر تھی اور موجودہ وائی مالیر کوٹلہ کے چا تھے.دیگر رشتہ دار بھی غیر احمدی تھے.صرف نواب صاحب احمدی تھے.چند سال ہوئے انہوں نے کہا میں تحقیق کر کے فیصلہ کرنا چاہتی ہوں اس کے لئے انہوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو بلایا اور ان کے اخراجات انہوں نے خود اٹھائے اور یہاں سے میں نے شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو بھیجا جن کا کئی دن تک مولوی ثناء اللہ صاحب سے مباحثہ رہا.آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ احمدیت سچی ہے.اس وقت مولوی ثناء اللہ صاحب نے اعلان کیا تھا کہ مجھے مالیر کوٹلہ میں بڑی فتح حاصل ہوئی ہے اور احمدیوں کو شکست اٹھانی پڑی ہے.لیکن جنہوں نے ان کو بلایا اور ان کے اخراجات برداشت کئے تھے ان کا یہ فیصلہ تھا کہ احمدیت کچی ہے انہوں نے اسی وقت احمدیت قبول کر لی تھی لیکن بعض مصلحتوں کی وجہ سے اس کا عام اعلان مناسب نہ سمجھا.پارسال جب میں مالیر کوٹلہ گیا تو انہوں نے بیعت کر کے اپنا احمدی ہونا ظاہر کر دیا.بیماری کے ایام میں بعض رشتہ داروں نے ان کے دل میں اس قسم کے شبہات ڈالنے کی کوشش کی جب کہ آپ احمدی ہوئی ہیں اسی وقت سے بیمار چلی آتی ہیں.مگر ان باتوں کی انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی اور اخلاص کے ساتھ احمدیت پر قائم رہیں، اس وقت میں ان کا جنازہ پڑ ہوں گا.
435 یہ اعلان کرنے کے بعد حضور نے نماز جمعہ پڑھائی اور اس کے معا بعد نماز جنازہ پڑھائی.بیرونی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ مرحومہ مغفورہ کا جنازہ غائب پڑھیں اور ان کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کریں.ہم اس صدمہ میں حضرت نواب صاحب اور آپ کے تمام خاندان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں صبر عطا فرمائے اور اس کوشش اور سعی کا اجر عظیم بخشے جو انہوں نے مرحومہ کو احمدیت میں داخل کرنے کے لئے فرمائی اور جس میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے انہیں کامیابی ہوئی.“ بعض دیگرا قارب کا قبول احمدیت آپ کے اقارب میں سے نواب سکندر علی خاں آپ کے ایک چا کی بیگم جن کا نام بواللہ جوائی تھا احمدی ہوئیں جن کے ذریعہ حضرت نواب صاحب کی خالہ زاد سوتیلی بہن عائشہ احمدی ہو ئیں مؤخر الذکر ابھی تک زندہ ہیں اور اپنے تئیں احمدی کہتی ہیں ملتان میں ایک نواب سے ان کی شادی ہوئی اور صاحب اولاد ہیں بو اللہ جوائی نے ایک لڑکی پالی تھی وہ بھی ان کے ذریعہ احمدی ہو گئی اور قادیان آئی اس کے رشتہ کی کوشش کی گئی کہ کسی احمدی سے ہو جائے کامیابی نہ ہوئی بو صاحبہ وفات پاگئیں اور بعد میں وہ لڑکی بھی فوت ہوگئی حضرت نواب صاحب کے خالہ زاد بھائی کی لڑکی مبارک النساء احمدیت کی طرف بہت مائل تھیں لیکن ان کی شادی شاہ پور میں پٹھانوں کی کسی بستی میں ہوئی وہ لوگ اتنے سخت نکلے کہ جو کتب احمدیت دی گئیں وہ ان لوگوں نے جلا دیں اور اتنا تعصب ان میں ہے کہ علاج کے طور پر قادیان کی بنی ہوئی جب اٹھرا بھی استعمال نہیں کرنے دیتے.(ن) کرنل اوصاف علی خاں صاحب کا قبول احمدیت کرنل اوصاف علی خاں صاحب مرحوم نواب صاحب کے بردار نسبتی اور خالہ زاد بھائی بھی تھے.سیده نواب مبار که بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ ان کی تعلیم و تربیت اور شادی وغیرہ سب نواب صاحب نے کی تھی اور کرنل صاحب حضرت اقدس کے عہد مبارک میں قادیان بھی آئے تھے.کرنل صاحب کے صاحبزادے نے مکرم میاں رشید احمد خاں صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ان کے قبول احمدیت میں بہت بڑا دخل حضرت نواب صاحب کے ساتھ ابتدائی زندگی میں تعلق اور ان کی تربیت کا تھا، ان ہی امور کا نتیجہ تھا کہ کرنل صاحب قبول احمدیت سے قبل احمدیت کے متعلق بہت اچھے خیالات رکھتے تھے اور احمدیت سے قبل ہی انہوں نے اپنے بیٹے
436 مکرم میاں سعید احمد خاں صاحب مرحوم کو تعلیم کے لئے قادیان بھیج دیا تھا.یہ صاحبزادہ دوران تعلیم میں ہی قادیان میں احمدی ہوگئے اور پھر انہوں نے تحریک کر کے والد صاحب کو جب کہ وہ ریاست نابھ میں وزیر افواج اور کمانڈر انچیف تھے بیعت کر والی.کرنل صاحب کا گزشتہ سال وفات تک احمدیت کے ساتھ مخلصانہ تعلق رہا ان کا جنازہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے پڑھایا تھا اللهُمَّ اغفر له وارحمه مرض الموت میں تبلیغ حضرت نواب صاحب نے اپنی مرض الموت میں بھی فریضہ تبلیغ کو خوب نباہا چنانچہ محترمہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ انہوں نے عمر بھر ہر موقعہ پر عزیزوں میں تبلیغ کی حتی کہ مرض الموت میں بھی آخری بارسب رشتہ داروں کو تبلیغی خطوط لکھے اور لکھا کہ میں یہ آخری حجت تمام کرتا ہوں کیونکہ اب میری زندگی کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں.“ ۲- تجویز میموریل جیسا کہ پہلے تفصیل سے گزر چکا ہے حکام میں سے ایک طبقہ سوڈانی مہدی کے خیال سے اور مخالفین کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں سلسلہ احمدیہ کی نئی تحریک کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا تھا.صحیح حالات سے حکومت کے ارباب حل و عقد کو آگاہ کرنا از بس ضروری تھا اور ایسی تجویز سلسلہ کی حد درجہ کی خیر خواہی تھی جو بہت ہی دوراندیشی پر بنی تھی اور جس کے نتیجہ میں مستقبل میں صدھا مشکلات سے بچے رہنے کی توقع تھی.چنانچہ یہ تجویز حضرت نواب صاحب کی طرف سے پیش ہوئی اور حضرت اقدس نے اسے مفید سمجھ کر عملی جامہ پہنایا اور ۲۴ فروری ۱۹۸ء کو ایک طویل اشتہا ر اردو میں اور اس کا ترجمہ انگریزی میں شائع کیا جو لفٹنٹ گورنر پنجاب کے نام تھا.اس میں حضور نے اپنے خاندان کی وفاداری کا ذکر فرمایا ہے اور احکام کی اس بارہ میں مراسلات درج فرمائے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ کس طرح حضور نے جہاد کے غلط مفہوم کی تردید کی ہے.اور یہ کہ بیعت میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ بیعت کرنے والا فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا.اس اشتہار میں حضور تحریر فرماتے ہیں.(۴) چوتھی گزارش یہ ہے کہ جس قدر لوگ میری جماعت میں داخل ہیں اکثر ان میں سے سرکار انگریزی کے معزز عہدوں پر ممتاز اور یا اس ملک کے نیک نام رئیس اور ان کے خدام اور احباب اور یا تاجر
437 اور یا وکلا اور یا نو تعلیم یافتہ انگریزی خوان اور یا ایسے نیک نام علماء اور فضلاء اور دیگر شرفا ہیں جوکسی وقت سرکار انگریزی کی نوکری کر چکے ہیں.یا اب نوکری پر ہیں یا ان کے اقارب اور رشتہ دار اور دوست ہیں جو اپنے بزرگ مخدوموں سے اثر پذیر ہیں اور یا سجادہ نشینان غریب طبع اور میں مناسب دیکھتا ہوں کہ ان میں سے اپنے چند مریدوں کے نام بطور نمونہ آپ کے ملاحظہ کے لئے ذیل میں لکھ دوں.“ حضور نے تین سوسولہ احباب کے نام درج فرمائے ہیں جن میں پہلے نمبر پر خان صاحب نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ جن کے خاندان کی خدمات گورنمنٹ عالیہ کو معلوم ہیں.اور تیسرے نمبر پر آپ کے خدام میں سے ” مرزا خدا بخش صاحب ایچ پی سابق مترجم چیف کورٹ پنجاب حال تحصیلدار علاقہ نواب محمد علی خاں صاحب ریاست مالیر کوٹلہ کا نام درج ہے اس میموریل کے متعلق حضرت مولوی عبد الکریم تحریر فرماتے ہیں.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مکرم معظم جناب خاں صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اشتہارات طاعون تو خدمت میں پہنچ گئے ہوں گے.اب نئی پیشگوئی ( کی ) بنیاد پڑنے لگی ہے.اس کی مفصل اطلاع عنقریب خدمت میں دی جائے گی.غالباً برادر مرز ا خدا بخش صاحب نے خدمت میں تازہ الہام لکھا ہوگا.میں بھی لکھے دیتا ہوں.يَوْمَ تَاتِبُكَ الْغَاشِيَةً يَوْمَ تَنْجُو كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ يَوْمَ نَجْزِى كُلَّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وہ خوفناک گھڑی جس کا نام غاشیہ ہے آنے والی ہے اس دن ہر جی اپنے اعمال کے بدلہ نجات پائے گا.اس دن ہم ہر جی کو اعمال کے موافق جزا دیں گے.یہ منذر الہام ہماری جماعت کو مخصوصاً اعمال صالحہ کی بجا آوری کی طرف متوجہ کرتا ہے.بردار مرزا خدا بخش صاحب اس عرضداشت انگریزی کے چھپوانے کو کل لاہور گئے ہیں جو آپ کی تحریک پر لکھی گئی ہے اردو میں یہاں چھپ رہی ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کا ثواب آپ کو ملے گا.ستائیسویں رمضان کو حضرت فرماتے ہیں ایک بجے شب سے صبح تک احباب کے لئے اس قدر دعا کی گئی کہ اگر خشک لکڑی پر کی جاتی یقیناً سر سبز ہو جاتی.خدا تعالیٰ نے یہ مبارک مہینہ اس سلسلہ عالیہ کے لئے بھی مبارک کیا.اس میں مختلف طور پر حضرت کو دکھایا گیا کہ عنقریب کوئی نشان ظاہر ہونے والا ہے.آپ آئندہ صرف ایک سول ملٹری گزٹ ارسال فرمایا کریں.والسلام عاجز عبدالکریم از قادیان - ۲۷ فروری ( غیر مطبوعہ ) اس بارہ میں حضرت اقدس اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں.
438 نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی اخویم نواب محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.الحمد للہ کہ جو آپ نے ایک تجویز میموریل انگریزی کے بارہ میں ارقام فرمائی تھی وہ انجام کو پہنچ گئی.اخویم مرزا خدا بخش لاہور میں بارہ دن رہ کر ایک میموریل انگریزی میں بارہ صفحہ کا چھپوا لائے ہیں جو بفضلہ تعالیٰ نہایت مؤثر اور عمدہ معلوم ہوتا ہے اور ایک اردو میں چھپ گیا ہے اب انگریزی میموریل تقسیم ہورہا ہے اور ارادہ کیا گیا ہے کہ پنجاب کے تمام حکام انگریز کو بھیجا جاوے.میری طبیعت چند روز سے بعارضہ زکام ونزلہ وکھانسی بہت بیمار ہے.خواجہ کمال الدین صاحب اپنے کام پر چلے گئے ہیں.آپ سے یہ اجازت مانگتا ہوں کہ آپ براہ مہربانی کم سے کم ایک ماہ تک متفرق کاموں کے لئے جو قادیان میں ہیں.مرزا خدا بخش صاحب کو اجازت دیں تا وہ پہلے میموریل کو تقسیم کریں اور پھر بعد اس کے بقیہ کام من الرحمان کی طرف متوجہ ہوں اگر چہ یہ کام اس قدر قلیل عرصہ میں ہونا ممکن نہیں لیکن جس قدر ہو جائے غنیمت ہے.مگر یہ ضروری امر ہوگا کہ آں محب ( کو....اگر مرزا صاحب کو کہیں بھیجنا منظور ہو یا کوئی اور ضروری کام نکلے تو بلا توقف آپ کی خدمت میں پہنچ جائیں گے.میری طبیعت آپ کی سعادت اور رشد پر بہت خوش ہے اور امید رکھتا ہوں کہ آپ اپنی تمام جماعت کے بھائیوں میں سے ایک اعلیٰ نمونہ ٹھہریں گے اس وقت میں ب باعث علالت طبع زیادہ نہیں لکھ سکتا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱۲ مارچ ۹۸ء ان ایام میں حکام سے راہ و رسم رکھنا بعد کے زمانہ سے زیادہ ضروری تھا وہ جماعت کے آغاز کے ایام تھے اور ابھی جماعت کا اپنا اثر ورسوخ قائم نہ ہوا تھا اور یہ ضروری تھا کہ کوئی صاحب وجاہت فریضہ کو سر انجام دے چنانچہ حضرت اقدس کے ارشاد کے مطابق آپ یہ فریضہ سر انجام دیتے تھے یہ وہی کام ہے جو خلافت ثانیہ میں نظارت امور عامه و نظارت امور خارجیہ کے سپرد ہوا.ان ایام میں اپنی ذاتی وجاہت اور ریاست کی وجہ سے خطوط وحدانی والا لفظ مؤلف کی طرف سے ہے.*
439 آپ ہی اس کام کی بہترین اہلیت رکھتے تھے حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ مجھ کو ملا جو کچھ آپ نے مجھ کو لکھا ہے اس سے مجھے بکلی اتفاق ہے.میں نے مفتی محمد صادق صاحب کو کہہ دیا ہے کہ آپ کے منشاء کے مطابق جواب لکھ دیں اور آپ ہی کی خدمت میں بھیج دیں آپ پڑھ کر اور پسند فرما کر روانہ کردیں.ہاں ایک بات میرے نزدیک ضروری ہے گو آپ کی طبیعت اس کو قبول کرے یا نہ کرے اور وہ یہ ہے کہ ہمیشہ دو چار ماہ کے بعد کمشنر صاحب وغیرہ حکام کو آپ کا ملنا ضروری ہے کیونکہ معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بعض شکی مزاج حکام کو جو اصلی حقیقت سے بے خبر ہیں ہمارے فرقہ پر سوء ظن ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی حکام کو نہیں ملتا اور مخالف ہمیشہ ملتے رہتے ہیں پس جس حالت میں آپ جاگیردار ہیں اور حکام کو معلوم ہے کہ آپ اس فرقہ میں شامل ہیں اس لئے ترک ملاقات سے اندیشہ ہے کہ حکام کے دل میں یہ بات مرکوز نہ ہو جائے کہ یہ فرقہ اس گورنمنٹ سے بغض رکھتا ہے.گو یہ غلطی ہوگی اور کسی وقت رفع ہوسکتی ہے مگر تا تریاق از عراق آوردہ شود مارگزیده مرده شود.باقی سب طرح سے خیریت ہے.میں انشاء اللہ القدیر بروز جمعرات قادیان سے روانہ ہوں گا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تعمیل میں نواب صاحب نے کمشنر سے ملاقات کی لیکن اس کی گفتگو سے آپ کی طبیعت منفض ہوئی لیکن حضرت اقدس نے تلقین فرمائی کہ اس امر سے دل برداشت نہ ہوں.حضور تحریر فرماتے ہیں.جو کچھ آں محب نے صاحب کمشنر کی زبانی سنا تھا اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں ہے.ہمارا عقیدہ اور خیال انگریزی سلطنت کی نسبت بخیر اور نیک ہے اس لئے آخر انگریزوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب کچھ تہمتیں ہیں کوئی تردد کی جگہ نہیں.“ ( مکتوب صفحہ ۵۰) دوسری جگہ تفصیل سے درج کیا گیا ہے کہ اس مکتوب کی تاریخ ۷ راگست ۱۹۰۰ ء صیح معلوم نہیں ہوتی.
440 شاید یہی کمشنر تھا یا کوئی اور جس کے متعلق مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ لاہور میں مسٹر اینڈرسن کمشنر تھے.نواب صاحب جب اپنے حقوق متعلقہ ریاست کے متعلق اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر کارروائی کر رہے تھے تو اس عرصہ میں ان کو اینڈرسن سے بھی ملاقات کا موقعہ ملا اینڈرسن کو ہمارے مخالفوں نے سلسلہ کے متعلق مسموم کیا ہوا تھا.ایک مرتبہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سے بھی اس کی گفتگو ہوئی تھی.ایک کشمیری پنڈت نے جو تحصیلدار تھا اینڈرسن سے سلسلہ کی مخالفت میں افترا آمیز بیان کیا تا کہ حکومت بدظن ہو.اتفاق سے اسی وقت مرز اسلطان احمد صاحب بھی وہاں اس سے ملنے گئے اور وہ ان کے کام سے بہت خوش تھا.ان کو اندر بلالیا گیا اور اس کشمیری پنڈت نے بلا تکلف کہہ دیا کہ مرزا صاحب سے بھی پوچھ لیجئے یہ بھی ان کے مخالف ہیں.اینڈرسن نے مرزا صاحب سے کہا کہ یہ ایسا بیان کرتے ہیں آپ کی کیا رائے ہے؟ مرزا صاحب نے اس غیرت و جرات کی بناء پر جو اس خاندان کے خون میں چلی آتی ہے.نہایت سختی سے کہا کہ اگر یہ آپ کے پاس نہ ہوتا تو میں اس کو بتادیتا کہ اس قسم کی بیہودگی کی سزا کیا ہے.یہ ایسا بے غیرت ہے کہ میرے والد بزرگوار کی برائی کرتا اور مجھ سے تصدیق چاہتا ہے.اس جیسا نا خلف بیٹا ہی باپ کی برائی سن سکتا ہے آپ حاکم ہیں مگر افسوس ہے کہ اس شخص کی بکواس کی مجھ سے تصدیق چاہتے ہیں آپ کو یہ مناسب نہیں تھا.اینڈرسن نے معذرت کی.اسی اینڈرسن سے ایک مرتبہ نواب صاحب ملے تو اس نے سلسلہ کے متعلق بھی ذکر کیا.نواب صاحب نے ایک لمبی تقریر میں سلسلہ کی خوبیاں اور اس کے سیاسی مسلک کو واضح کیا اس کے بعد اینڈرسن صاف ہو گیا تھا.“ یہ فریضہ حضرت نواب صاحب کم از کم ۱۹۱۷ء تک اپنے رنگ میں ادا کرتے رہے.چنانچہ آپ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تحریر کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح علیہ السلام مکرم معظم سلمکم اللہ تعالی.میں شنبہ گزشتہ چیف سیکرٹری صاحب گورنمنٹ پنجاب سے ملا تھا اور اپنے کوٹلہ کے معاملات کے متعلق یہ ملاقات تھی.بھائی صاحب ذوالفقار علی خاں صاحب بھی تھے.یوں ہی سی رواروی.قادیان کے متعلق بھی بات ہوتی رہی.اٹھتے ہوئے میں نے ان سے پھر ملاقات محض سلسلہ کے متعلق امور کے لئے کہا تو انہوں نے کہا کہ جمعہ اور پیر کے سوا جس دن چاہو آ جاؤ ، حضور نے مجھ کو چلتے وقت کہا تھا کہ اس بات کی تحریک کی جائے کہ ہماری ڈبل کمپنی یا جدا گانہ پلٹن گورنمنٹ منظور کرے اس میں شک نہیں کہ سول افسران سے ان کا تعلق کم ہے مگر اسی طرح سیڑھی به سیڑھی چلنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے اس میں کم از کم یہ فائدہ ہے کہ سول آفیسر یہ تو سمجھ سکتے ہیں کہ یہ فوجی خدمات کو تیار ہیں.بہر حال چیف سیکرٹری صاحب سے تو وقت مقرر ہو گیا.نواب لیفٹنٹ گورنر صاحب سے بھی عنقریب
441 ملنا ہے اور ان سے بھی انشاء اللہ محض اس کام کے لئے وقت لوں گا اور پھر فوجی حکام سے بھی ملنے کی کوشش کروں گا.مگر بیشتر اس کے کہ میں حکام سے ملوں اور گفتگو کروں حضور سے بعض امور کا عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیوں کہ حکام سے بات کرنی آسان ہے.مگر اس کے نتائج کی سنبھال اور نبھاؤ مشکل ہوتا ہے.مثلاً واراون کے متعلق میرے خیال میں ہم کو ایک حد تک ناکامی ہوئی ہے.یہ بات الگ ہے کہ بہت سے احمدیوں نے فرداً فرداً حصہ لیا ہے.مگر چونکہ جو مجموعی طور سے گورنمنٹ تک بات پہنچی ہے وہ بہت کم ہے.میرے خیال میں اگر پانچ دس ہزار کی رقم بھی ہوتی تو بات تھی.فردا فردا جو لوگوں نے دیا.اس میں یہ کسی نے ظاہر نہیں کیا کہ وہ احمدی ہے.اس لئے یہ رقم جو ہم نے بھیجی بہت قلیل ہے.اسی طرح اب جو لوگ فوجی خدمات دے رہے ہیں وہ دے رہے ہیں ان کی تعداد کا صحیح علم نہ ہم کو اور نہ گورنمنٹ کو ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ بہت لوگ ہماری گورنمنٹ کی خدمت کر رہے ہیں.گومگو کا معاملہ ہے.مگر اگر ہم ایک خاص امر پیش کریں اور گورنمنٹ منظور کرے اور نتیجہ نیچے نکلے تو بجائے فائدے کے خرابی پیدا ہو.مثلاً ہم نے ایک ڈبل کمپنی یا پلٹن کے لئے درخواست کی اگر گورنمنٹ نے منظور کر لی اور بھرتی کے وقت یہ تعداد پوری نہ ہوئی تو اس سے الٹا نقصان کا احتمال ہے اور گورنمنٹ احمدیوں کی محض ایک لن ترانی تصور کرے گی اور سمجھ لے گی کہ یہ صرف منہ سے کہتے ہیں اور ان میں دراصل کوئی کس بل نہیں.تو اس سے رہا سہا بھرم بھی جاتا رہے گا اسی طرح اگر ہم کوئی عملی خدمت نہیں کرتے تو بھی ہمارے لئے گورنمنٹ میں کوئی وقعت نہیں پیدا کرتے صرف منہ سے وفاداری کا اظہار کیا کام دے سکتا ہے اور کاغذ کی ناؤ کب تک چل سکتی ہے.پس حضور خوب غور کر کے اور قوم کا اندازہ کر کے تحریر فرمائیں.اور قوم سے اگر ممکن ہو دریافت بھی کسی نہج سے کر لیں کہ وہ فوجی خدمت کے لئے تیار ہے بھی کہ نہیں یا تیار کئے سے تیار ہو جائے گی.حضور جانتے ہیں جن کو اور ذرائع سے کافی آمدنی ہے وہ تو اس امر کو نہیں مانیں گے الا ماشاء اللہ اور جن کو آمدنی ایسی نہیں وہ صرف زمیندار قوم ہے.سو مجھ کو ان میں بھی اس امر کے لئے تیار نظر نہیں آتے.پس حضور خوب غور کر کے تحریر فرمائیں کہ آیا یہ درخواست کی جائے اور کس پیرا یہ میں جو ہر طرح ہمارے لئے مفید ہو.۲.دوسرے میری منشاء ہے کہ خانہ بدوش قوموں کی آبادی کے لئے گورنمنٹ جو اراضی دیتی ہے جیسا کہ پیغامیوں کو ملی ہے اس کے لئے بھی کہوں پس اس کے متعلق بھی مناسب ہدایت فرمائی جائے..اسی طرح اور امور کے متعلق بھی کافی ہدایت فرمائی جائے.جنگی قرضہ War Loan (مؤلف)
442 میں غالبا آئندہ ہفتہ میں ملوں گا پس اسی ہفتہ کے اندر اندر بلکہ بواپسی ڈاک خوب غور سے مجھ کو جواب عریضہ ملنا چاہئے.محمد علی خاں خانہ بدوش اقوام کے تعلق میں حضرت نواب صاحب کی تجویز اپنی طرف سے تھی اور اس میں کامیابی ہوئی اور بعض ایسے دیہات جماعت احمدیہ کے سپرد ہوئے اور ان میں سے بعض اشخاص نے احمدیت قبول کی اور ان میں اخلاص پایا جاتا ہے اور ان کے نیک نمونہ سے دوسرے لوگ متاثر ہیں.ملاقات حکام کے تعلق میں حضرت نواب صاحب کا ایک اور مکتوب درج ذیل ہے تحریر فرماتے ہیں.بسم الله الرحمن الرحيم پیرن ہاؤس.ٹوٹی کنڈی شملہ - ۱۷ را گست ۱۹۱۷ء سیدی حضرت خلیفتہ امسیح علیہ السلام مکرم معظم يسلمکم اللہ تعالی.السلام علیکم.حضور کا عنایت نامہ پہنچا.عجیب بات ہے کہ جن امور کے لئے میں نے اسی روز حافظ صاحب کو بھیجا تھا.وہی باتیں حضور نے لکھی ہیں ہاں حافظ صاحب کو جو میں نے زبانی کہا ہے ان ہی امور کے متعلق اس تفصیل کی بعد غور ضرورت اب بھی ہے.حضور نے تحریر فرمایا ہے کہ بہت سے خطوط اکثر احمدیوں کے آئے ہیں کہ فوج میں ان کو تکلیف پہنچ رہی ہے.پس اگر حضورا ایسے خطوط جس قدر میسر آسکیں میرے پاس بھیج دیں تو اگر کوئی مجھ سے واقعات طلب کرے تو میں یہ خطوط پیش کر سکوں تا کہ ہوائی بات تصور نہ کی جائے.یہ کاغذات ضرور میرے پاس آنے چاہئیں میں نے رکروٹنگ جنرل آفیسر کے متعلق دریافت حالات کی کوشش شروع کر دی ہے کہ وہ کون ہے اور کہاں ہے تاکہ ملنے کی کوشش کروں یا بذریعہ چیف سیکرٹری گورنمنٹ پنجاب ملوں.میں اگر ممکن ہوا تین چار افسروں سے ملنا چاہتا ہوں.ایک نواب لیفٹنٹ گورنر صاحب دوم رکر وٹنگ جنرل آفیسر سوم ڈائرکٹر سررشتہ تعلیم چہارم پوسٹ ماسٹر جنرل.استدعاء دعا محمد علی خاں ۱۹۱۷ء میں ہندوستانیوں کی طرف سے سیلف گورنمنٹ کا مطالبہ کیا گیا تھا.اس وقت کے وزیر ہند ایڈون سیموئل مانٹی گونومبر ۱۹۱۷ ء میں ہندوستان آئے تا مختلف وفود سے ملاقات کر کے حالات کا جائزہ لے سکیں.۱۵ نومبر کو دہلی میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے وزیر ہند سے پرائیویٹ ملاقات کی.نیز احمد یہ وفد نے اسی روز ملاقات کر کے اپنا ایڈریس پڑھا.جس میں یہ بھی ذکر کیا گیا تھا کہ ہندو مسلمانوں میں
443 اختلاف اور تعصب روز بروز زیادہ ہو رہا ہے.آزادی کا نتیجہ ملک کے لئے بہتر نہ نکلے گا ہندوستانیوں کی بے چینی کے اسباب مدلل طور پر بیان کئے.نیز اصلاحات کی سکیم بھی پیش کی.یہ ایڈریس چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے پڑھا تھا.وفد کے نو افراد میں سے ایک نواب صاحب تھے.-۳- انفاق فی سبیل اللہ یہ سنت اللہ ہے کہ الہی سلسلہ کی ابتداء نہایت ہی کمزور ہوتی ہے.بادصرصر کے ہر جھونکے سے اس کے ضعیف پودے کے استیصال کا خدشہ ہوتا ہے.بے شک دنیوی رہبروں کو بھی مخالفتوں کی بھٹی میں سے گزرنا پڑتا ہے.لیکن ان کی ترقی حیرت زدہ اور تعجب خیز نہیں ہوتی کیونکہ وہ قوم کی دنیوی ترقی اور اصلاح کے خیالات لے کر اٹھتے ہیں جو خود قوم کے اپنے خیالات ہوتے ہیں لیکن الہی فرستادے ایسی باتیں لاتے ہیں جو کہ لوگوں کے خيالات منقوله أباعَنْ جَدا اور اعتقادات راسخہ کے بالکل خلاف ہوتی ہیں.اس لئے عناد ومخالفت کا وہ طوفان بر پا ہوتا ہے کہ الا مَان وَالْحَفِيظ اور اس نھی سی اور بظاہر بے یارومددگار جماعت کی چھوٹی سی ناؤ اس طوفان کے ظالم تھپیڑوں میں یوں معلوم ہوتی ہے کہ ڈبکیاں کھانے لگی ہے اور اب ڈوبی کہ اب ڈوبی.لیکن اس شرذمہ قلیلہ اور مٹھی بھر گروہ کا نا خدا اور حقیقی متولی ان کی نصرت فرماتا ہے.اسلام کے ابتدائی ایام کی تاریخ ہمارے سامنے ہے.تیرہ سال تک مکہ میں مسلمانوں پر وہ ظلم وستم ڈھائے گئے کہ خامہ خون کے آنسو روتا ہے اور انسانیت شرم کے مارے منہ چھپاتی ہے.ان خوں چکاں حالات میں کفار کے جن زرخرید اور بے کس غلاموں نے اور غریب لوگوں نے اسلام کا طوق غلامی اپنے گلے میں ڈالا.اور اللہ تعالیٰ سے جو عہد وفا باندھا تھا اسے اللہ تعالیٰ کے قول مِنْهُم مَّنْ قَضى نَحْبَهُ T کے مطابق ہر طرح نبھایا ان کی اولوالعزمی اور شجاعت اور فیاض دلی اور وفا کیشی کو سمجھنا شاید دنیا کے فرزندوں کے لئے مشکل ہو گا.جیسے بھوکوں مرتے شخص کے لئے جو کا دانہ جواہر کے دانے سے بدر جہا قیمتی ہوتا ہے.اسی طرح ان ایام میں کہ اسلام پر غربت کا زمانہ تھا.جس شخص نے مٹھی بھر ریویوار دو جلد ۱۶ نمبر ۲۲.وفد کے باقی افراد کے نام یہ ہیں.(۱) سردار امام بخش تمندار ڈیرہ غازیخان (۲) صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (۳) خان بہادر راجہ پاینده خاں صاحب جہلم (۴) سیٹھ عبد اللہ بھائی اللہ دین صاحب تاجر سکندر آباد دکن (۵) مولوی غلام اکبر خاں صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدر آباد دکن حال نواب اکبر یار جنگ صاحب (۶) مولوی شیر علی صاحب ممبر صد را انجمن احمدیہ (۷) چوہدری فتح محمد صاحب سیال مسلم مشنری قادیان.
444 کھجوریں بھی اسلام کے استحکام کے لئے پیش کیں ان کا وزن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بعد میں شاہان اسلام کی طرف سے پیش ہونے والے زروجواہر سے معمور خزانوں سے کہیں زیادہ ہے.اسلام کی خوش حالی اور ترقی کے بعد اس پر پھر غربت کا زمانہ آنے والا تھا.جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدا الاسلام غريبا وسيعود غريبا - میں خبر دی تھی.سوایسے ہی حالات میں حضرت نواب صاحب نے انفاق سبیل اللہ کے طور پر جو بہترین خدمات سرانجام دیں وہ ہمارے لئے ایک زندہ رہنے والا اور قابل تقلید اسوۂ حسنہ ہے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی طرف سے تعریف ان مالی قربانیوں میں جو روح کام کرتی تھی اس کا علم حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے ذیل کے مکتوب سے ہوتا ہے تحریر فرماتے ہیں.قادیان ۳۱ / مارچ جناب خاں صاحب مکرم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.پانسو روپے جناب کا عطیہ آج پہنچ گیا جَزَاكُمُ اللهُ أَحْسَنُ الجزاء وفَرَّجَ عَنكُمُ الهموم وَالْعَمُوم اگر آپ ان صادقوں سے نہ ہوتے جن کی طرف سے خدائے علیم صفات فرماتا ہے.لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَّلَا شُكُورًا تو میں اپنی طرف سے اور کمیٹی کی طرف سے آپ کا متعارف شکر یہ ادا کرتا اور اصل بات یہ ہے کہ خدا ہی آپ کی جزا ہو.تازہ الہام سن لیجئے كُلَّ الْعَقْلِ فِى لبس النظيف واكل اللطیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی بہت تفسیر فرمائی خلاصہ یہ ہے کہ اکل حلال اور لباس نظیف نشان ہے انسان کی دانش کا.والسلام عاجز عبدالکریم ( مکتوب غیر مطبوعہ ) اس مکتوب میں مندرجہ الہام غیر مطبوعہ ہے.یہ مکتوب ۳۱ مارچ ۱۹۰۰ء کا معلوم ہوتا ہے.جیسا کہ مدرسہ کے تعلق میں بالوضاحت لکھا گیا ہے نواب صاحب نے ایک ہزار روپیہ سالانہ مدرسہ کے لئے دینا منظور کیا اور کمیٹی مدرسہ نے آپ کو ڈائرکٹر مدرسہ بنادیا.یہ فیصلہ ۵ ستمبر ۱۹۰۰ء کو ہوا اور دسمبر ۱۹۰۱ء کو نواب صاحب ہجرت کر کے قادیان چلے آئے اور یہ خط قادیان سے لکھا گیا اور نواب صاحب قادیان میں نہ تھے.یہ مکتوب آپ کے ڈائریکٹر بننے سے پہلے لکھا گیا تھا ورنہ ڈائر کٹر ہوتے ہوئے کمیٹی کی طرف سے آپ کے چندہ پر شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہ تھی اور مکتوب کی عبارت بھی ظاہر کرتی ہے کہ آپ اس وقت تک مدرسہ کے عہدہ دارنہ
445 سلسلہ کی ضروریات اور نواب صاحب کی مالی حالت ان مالی قربانیوں کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے کے لئے بعض باتیں ہمارے علم میں آنی ضروری ہیں.اول جس زمانہ میں حضرت نواب صاحب نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں بے دریغ روپیہ خرچ کیا اس زمانہ میں روپیہ حد درجہ قیمتی تھا جس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں بکرے کا گوشت پانچ پیسے سیر اور ایک بکرا دو روپے میں خریدا جاتا تھا.اور آج کل گوشت پونے دو روپے سیر ہے اور اس نسبت سے بکرے کی قیمت کا اندازہ ہو جاتا ہے، دوم وہ زمانہ ایسا تھا کہ جس وقت اِنفاق فی سبیل اللہ سے دنیا تو کیا مسلمان بھی حد درجہ غافل تھے.اور یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں انفاق ان کے لئے موت احمر سے کم نہ تھا.اسی لئے اس وقت دو پیسے یا ایک آنہ چندہ دینے والوں کے اسماء حضرت اقدس نے کتب میں درج فرمائے ہیں.سوم حضرت نواب صاحب طبقہ رؤسا سے تعلق رکھتے تھے اور اس طبقہ کے افراد کے لئے ذاتی عیش و عم کی خاطر تو لاکھوں روپے بے دریغ خرچ کر دینا سہل ترین ہوتا ہے لیکن فی سبیل اللہ وہ لوگ اتنی خطیر رقوم ہرگز خرچ نہیں کرتے.چہارم حضرت نواب صاحب کی مالی خدمات کے سلسلہ میں ہمیں جو کچھ علم ہوتا ہے وہ حضرت اقدس کے مکتوبات سے ہوتا ہے اور یہ امر کسی طور پر ممکن نہیں کہ ہر مالی خدمت پر حضرت اقدس نے کوئی مکتوب ارسال کیا ہو.یا تمام مکتوبات محفوظ ہی ہوں.پنجم سلسلہ احمدیہ کا آغاز بیعت یعنی مارچ ۱۸۸۹ء سے شروع ہوا.اور قریباً دس سال بعد سلسلہ کی ایک سال کی آمد صرف پانچ ہزار دوسور و پی تک پہنچتی تھی.جیسا کہ انکم ٹیکس کے مقدمہ میں حضرت اقدس کے اظہار سے ثابت ہے جس کا ذکر ضرورۃ الامام میں آتا ہے اور حضرت اقدس کے مکتوب نمبر ۶۰ سے ( جو اس کے بعد دئے جانے والے اشتہار مندرجہ ذیل ضمیمہ الحکم بابت ۰۲-۶-۲۴ کی وجہ سے فروری ۱۹۰۲ء کا معلوم ہوتا ہے ) اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت بارہ ہزار روپیہ سالانہ سلسلہ کی آمد ہوگی.سلسلہ کے لئے روپیہ کی جس قدر ضرورت تھی اور حضرت اقدس کو اس وجہ سے جس قدر پریشانی تھی اس کا اندازہ مکتوب نمبر ۶۰ وغیرہ سے بقیہ حاشیہ : - تھے تبھی حضرت مولوی صاحب نے متعارف شکر یہ ادا نہ کرنے کی وجہ بتائی ہے.چنانچہ الحکم بابت ۱۰ را پریل ۱۹۰۰ء صفحہ ا کالم اسے اس کی تصدیق ہوتی ہے.اس میں حضرت مولوی صاحب کی تحریک پر نواب صاحب کے مدرسہ کے لئے پانچ صد روپیہ بھیجنے کا ذکر ہے.ویسے ۱۹۰۱ء میں نواب صاحب نے پانچصد اور پھر پچاس روپے مدرسہ کے لئے جو چندہ دیا تھا وہ جنوری کا واقعہ ہے نہ کہ مارچ کا جیسا کہ الحکم بابت ۰۱-۱-۱۰ میں مرقوم ہے.
446 ہوتا ہے جن کو مدرسہ تعلیم الاسلام کے ذکر میں درج کیا گیا ہے.ششم اس مقدمہ کے دو سال بعد یعنی ۱۹۰۰ء کے اواخر سے حضرت نواب صاحب نے ایک ہزار روپیہ سالانہ مدرسہ تعلیم الاسلام کے لئے دینا شروع کیا بلکہ اسے بارہ صد سالانہ تک کر دینے کا وعدہ کیا.ہفتم یہ ایک ہزار.بارہ صد روپیہ صرف مدرسہ کی اعانت تھی چندہ لنگر خانہ وغیرہ اور غریب مہاجرین اور طالب علم اور نادار مہمانوں کی اعانت اس کے علاوہ تھی.ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ تمام جماعت احمد یہ ان ایام میں جس قدر چندہ دے سکتی تھی اس کا چوتھا یا پانچواں حصہ حضرت نواب صاحب کی طرف سے حاصل ہوتا ہوگا.ہشتم حضرت نواب صاحب کی یہ مالی اعانت باوجود اس امر کے ہوتی تھی کہ آپ شدید مالی پریشانیوں میں عرصہ دراز تک مبتلا ر ہے اور ان حالات کا علم ہمیں حضرت اقدس کے مکتوبات سے بھی ہوتا ہے چنانچہ حضور تحریر فرماتے ہیں.نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم مجھی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس سے پہلے جواب اں محبت بھیجا گیا ہے جواب کا منتظر ہوں کیونکہ وقت بہت تھوڑا ہے مجھے آپ کے لئے ایک خاص توجہ خدا نے پیدا کر دی ہے.میں دعا میں مشغول ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو تمام ترددات سے محفوظ رکھ کر کامیاب فرمادے.آمین.اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب قادیان تشریف رکھتے ہیں اور اپنے وطن سے بغیر بندوبست مصارف عیال کے ضرور تا امرتسر میں آگئے تھے اور پھر قادیان آئے.ان کے تمام عیال داری کے مصارف محض آپ کے اس وظیفہ پر چل رہے ہیں جو آپ نے تجویز فرما رکھا ہے اگر چہ ایسے امور کو لکھتے لکھتے جب آپ کی وہ مالی مشکلات یاد آ جاتی ہیں جن کے سخت حملہ نے آپ پر غلبہ کیا ہوا ہے تو گوکیسی ہی ضرورت اور ثواب کا موقعہ ہو تو پھر بھی قلم ایک دفعہ اضطراب میں پڑ جاتی ہے.لیکن بایں ہمہ جب میں دیکھتا ہوں کہ میں آپ کے لئے حضرت احدیت میں ایک توجہ کے ساتھ مصروف ہوں اور میں ہرگز امید نہیں رکھتا کہ دعائیں خالی جائیں گی.تب میں ان چھوٹے چھوٹے امور کی پروا نہیں کرتا.بلکہ اس قسم خیال قبولیت دعا کے لئے راہ کو صاف کرنے والے ہیں یہ تجربہ شدہ نسخہ ہے کہ مشکلات کے وقت حتی الوسع ان در ماندوں کی مدد کرنا جو مشکلات میں گرفتار ہیں دعاؤں کے قبول ہونے کا ذریعہ ہے مولوی سید محمد احسن صاحب گزشتہ عمر تو اپنے محنت بازو سے بسر کرتے رہے اب کوئی بھی صورت معاش نہیں، درحقیقت عیالداری بھی ایک مصیبت ہے.میں ان ترددات میں خود صاحب تجربہ ہوں میں دیکھتا ہوں کہ ہر مشکل کے وقت جب کہ مہینہ ختم ہو جاتا ہے اور پھر نئے سرے ایک مہینے کے لئے دوسوروپیہ کے آر دخشکہ اور دوسرے اخراجات کا فکر پڑتا ہے جو معمولی طور پر ا یک ہزار روپیہ کے قریب قریب ماہوار ہوتے رہتے ہیں.تو کئی دفعہ خیال آتا ہے کہ کیسے آرام میں وہ
447 لوگ ہیں جو اس فکر و غم سے آزاد ہیں.اور پھر استغفار کرتا ہوں اور یقیناً جانتا ہوں کہ جو کچھ مالک حقیقی نے تجویز فرمایا ہے عین صواب ہے سو در حقیقت خانہ داری کے تفکرات جان کو لیتے ہیں لہذا مکلف ہوں کہ آپ پھر یہ ثواب حاصل کریں کہ جو کچھ وظیفہ آپ نے مولوی صاحب موصوف کا مقرر فرما رکھا ہے اس میں سے مبلغ ۲۰ رو پیدان کے نام قادیان میں بھیج دیں اور باقی ان کے صاحبزادہ کے نام جس کا نام سید محمداسمعیل ہے بمقام امروہہ.شاہ علی سرائے روانہ فرماویں.خدا تعالیٰ جزائے خیر دے گا.اور میرے نام جو آں محبّ نے روپیہ بھیجا تھا.وہ پہنچ گیا تھا.جزاکم اللہ.والسلام اسی طرح ایک مکتوب میں حضور تحریر فرماتے ہیں کہ خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱۲/ دسمبر ۱۹۰۰ء 10 ۳۱۵۴ افسوس کہ جس قدر آپ نے اپنے کاروبار میں تخفیف کی ہے ابھی وہ قابل تعریف نہیں.شاید کسی وقت پھر نظر ثانی کریں.۱۳۱۶ ۳۱۷ نیز ۱۲ار جنوری ۱۹۰۵ء کو نواب صاحب کو حضور تحریر فرماتے ہیں: دنیا کی مشکلات بھی خدا تعالیٰ کے امتحان ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ آپ کو اس امتحان سے نجات دے.اسی طرح ۲۰ / دسمبر ۱۹۰۶ء کو حضور نے تحریر فرمایا: ضعف بہت ہو رہا ہے یہاں تک کہ بجز دو وقت یعنی ظہر اور عصر کے گھر میں نماز پڑھتا ہوں آپ کے خط میں جس قدر ترددات کا تذکرہ تھا پڑھ کر اور بھی دعا کے لئے جوش پیدا ہوا...پس اگر دیکھیں تو یہ مال اور متاع جو انسان کو حاصل ہوتا ہے.صرف خدا کی آزمائش ہے...پس قومی ایمان کے ساتھ اس پر بھروسہ MIA رکھنا چاہئے.اب ہم ذیل میں ان کی خدمات کا ایک خاکہ پیش کرتے ہیں جن کا ہمیں مکتوبات اور لٹریچر سے باسہولت تمام علم ہوا.یہ عبارت اصل مکتوب سے نقل کی گئی ہے مکتوبات میں اس کی تاریخ کا اندراج صحیح معلوم نہیں ہوتا.کیونکہ اس مکتوب میں بمقد مہ کرم دین اپیل کے دائر ہونے کا ذکر ہے اور اپیل کا فیصلہ ۰۵-۱-۲۴ کو ہو چکا تھا.بلکہ ۲۴-۱-۰۵ کو بحواله البدر بابت -۰۵-۲-۱ صفحه ۳ کالم ۲ جرمانہ واپس ہو چکا تھا اس لئے صحیح تاریخ مکتوب ۰۴-۱۲-۲۰ ہو سکتی ہے اصل مکتوب سے تاریخ دیکھنا یا د نہیں.
۱- دوصدا کاسی روپیہ چنده 448 حضرت اقدس آپ کو ۹ جنوری ۱۸۹۲ء کوتحریر فرماتے ہیں: مبلغ دوصدا کیاسی روپیہ آں محبت کل کی ڈاک میں مجھے کومل گئے.جزاکم اللہ خیرا.جس وقت آپ کا روپیہ پہنچا ہے.مجھ کو اتفاقا نہایت ضرورت در پیش تھی موقعہ پر آنے کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ خداوند کریم وقا در اس خدمت لکھی کا آپ کو بہت اجر دے گا.وَاللهُ يُحِبُّ المحسنین آج مجھ کو صبح کی نماز کے وقت بہت تضرع اور ابتہال سے آپ کے لئے دعا کرنے کا وقت ملا یقین کہ خدا تعالیٰ اس کو قبول کرے گا.۲- پانچ صدر و پیہ قرض دینا: نحمده ونصلى على رسوله الكريم ایک بار نواب صاحب نے پانچ صد روپیہ قرض دیا تھا.حضور نے اس کا ذکر کیا اور مولوی محمد احسن صاحب امروہوی کی اعانت کی تحریک فرمائی.یہ مد نظر رہے کہ اس وقت آتھم کے قصہ کی وجہ سے تعلقات اپنی سابقہ حالت پر نہ تھے.پھر بھی حضرت نواب صاحب کو ایسی تحریک کے قابل پاتے ہیں.حضور تحریر فرماتے ہیں.بسم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی نواب صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ چونکہ اس عاجز نے پانچ سو روپیہ آں محب کا قرض دینا ہے.مجھے یاد نہیں کہ میعاد میں سے کیا باقی رہ گیا ہے اور قرضہ کا ایک نازک اور خطرناک معاملہ ہوتا ہے.میرا حافظہ اچھا نہیں یاد پڑتا ہے کہ پانچ برس میں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا اور کتنے برس گزر گئے ہوں گے عمر کا کچھ اعتبار نہیں.آپ براہ مہربانی اطلاع بخشیں کہ کس قدر میعاد باقی رہ گئی ہے.تاحتی الوسع اس کا فکر رکھ کر تو فیق باری تعالیٰ میعاد کے اندراندرادا ہو سکے.اور اگر ایک دفعہ نہ ہو سکے تو کئی دفعہ کر کے میعاد کے اندر بھیج دوں.امید کہ جلد اس سے مطلع فرما دیں تا میں اس فکر میں لگ جاؤں کیوں کہ قرضہ بھی دنیا کی بلاؤں میں سے ایک سخت بلا ہے اور راحت اسی میں ہے کہ اس سے سبکدوشی ہو جائے.دوسری بات قابل استفسار یہ ہے کہ مکرمی اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب قریباً دو ہفتہ سے قادیان تشریف لائے ہوئے ہیں اور آپ نے جب آپ کا اس عاجز کا تعلق اور حسن ظن تھا.بیس روپیہ ماہوار ان کو اسی سلسلہ کی منادی اور واعظ کی غرض سے دینا مقرر کیا تھا.چنانچہ آپ نے کچھ عرصہ ان کو دیا امید کہ اس کا ثواب بہر حال آپ کو ہوگا.لیکن چند ماہ سے ان کو کچھ نہیں پہنچا.اب اگر اس وقت مجھ کو اس بات کے ذکر
449 کرنے سے بھی آپ کے ساتھ دل رکھتا ہے.مگر چونکہ مولوی صاحب موصوف اس جگہ تشریف رکھتے ہیں اس لئے آپ جو مناسب سمجھیں.میرے جواب کے خط میں اس کی نسبت تحریر کر دیں.حقیقت میں مولوی صاحب نہایت صادق دوست اور عارف حقائق ہیں وہ مدراس اور بنگلور کی طرف دورہ کر کے ہزار ہا آدمیوں کے دلوں سے تکفیر اور تکذیب کے غبار کو دور کر آئے ہیں اور ہزار ہا کو اس جماعت میں داخل کر آئے ہیں اور نہایت مستقیم اور قوی الایمان اور پہلے سے بھی نہایت ترقی پر ہیں.ہماری جماعت اگر چہ غرباء اور ضعفاء کی جماعت ہے.لیکن ( انشاء اللہ العزیز یہی علماء اور محققین کی ) جماعت ہے اور ان ہی کو میں متقی اور خدا ترس اور عارف حقائق پا تا ہوں اور نیک روحوں اور دلوں کو دن بدن خدا تعالیٰ کھینچ کر اس طرف بلاتا ہے.فالحمد اللہ علی ذالک.- الهام وسع مکانک کے تعلق میں انفاق خاکسار مرزا غلام احمد قادیان ۹/ دسمبر ۱۸۹۴ء اسی طرح حضور جب مہمانوں کی خاطر وَسِعُ مَكَانَگ کے ارشادالٹی کی تعمیل میں کوشاں تھے تو حضرت نواب صاحب کو اس نہج سے سابق بالخیرات ہونے کا موقعہ ملا.حضور اس بارہ میں نواب صاحب کو تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں آں محبّ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا.آپ کی محبت اور اخلاص اور ہمدردی میں کچھ شک نہیں.ہاں میں ایک استاد کی طرح جو شاگردوں کی ترقی چاہتا ہے.آئندہ کی زیادہ قوت کے لئے اپنے مخلصوں کے حق میں ایسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہوں جن سے وہ متنبہ ہو کر اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ قوتیں ظاہر کریں اور دعا یہی کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی کمزوریاں دور فرمادے.میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کا تمام کا روبار اور اس کی نمائش اور عزتیں حباب کی طرح ہیں اور نہایت سعادت مندی اسی میں ہے کہ پورے جوش سے اور پوری صحت کے ساتھ دین کی طرف حرکت کی جائے اور میرے نزدیک بڑے خوش نصیب وہ ہیں کہ اس وقت اور میری آنکھوں کے سامنے دکھ اٹھا خطوط وحدانی کے الفاظ مولف ہذا کی طرف سے ہیں.
450 کر اپنے بچے ایمان کا جوش دکھاویں.مجھے خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس زمانہ کے لئے تجھے گواہ کی طرح کھڑا کروں گا.پس کیا خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے بارے میں اچھی گواہی ادا کر سکوں.اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ خدا کا خوف بہت دل میں بڑھا لیا جائے تا اس کی رحمتیں نازل ہوں اور تا وہ گناہ بخشے.آپ کے دو خط آنے کے بعد ہمارے اس جگہ کے دوستوں نے اس رائے کو پسند کیا کہ جو زنانہ گھر کے حصہ مغربی کے مکانات کچے اور دیوار کچی ہے اس کو مسمار کر کے اس کی چھت پر مردانہ مکان تیار ہو جائے اور نیچے کا مکان بدستور گھر سے شامل رہے.چنانچہ حکمت الہی سے یہ غلطی ہوگئی کہ وہ کل مکان مسمار کر دیا گیا.اب حال یہ ہے که مردانه مکان تو صرف اوپر تیار ہو سکتا ہے.اور زنانہ مکان جو تمام گرایا گیا ہے اگر نہایت ہی احتیاط اور کفایت سے اس کو بنایا جاوے.تو شاید ہے کہ آٹھ سوروپیہ تک بن سکے.کیونکہ اس جگہ اینٹ پر دوہری قیمت خرچ ہوتی ہے اور مجھے یقین نہیں کہ چار سو روپیہ کی لکڑی آکر بھی کام ہو سکے.بہر حال یہ پہلی منزل اگر تیار ہو جائے تو بھی بے کار ہے جب تک دوسری منزل اس پر نہ پڑے.کیونکہ مردانہ مکان اسی چھت پر پڑ گیا اور چونکہ ایک حصہ مکان گرنے سے گھر بے پردہ ہو رہا ہے اور آج کل ہندو بھی قتل وغیرہ کے لئے بہت کچھ اشتہارات شائع کر رہے ہیں اس لئے میں نے کنوئیں کے چندہ میں سے عمارت کو شروع کرا دیا ہے تا جلد پردہ ہو جائے.اگر اس قدر پکا مکان بن جاوے جو پہلے کچا تھا تو شاید آئندہ کسی سال اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو اوپر کا مردانہ حصہ بن سکے.افسوس کہ لکڑی چھت کی محض بیکار نکلی اور ایسی بوسیدہ کہ اب جلانے کے کام میں آتی ہے.لہذا قریباً چار سو روپیہ کی لکڑی چھت وغیرہ کے لئے درکار ہوگی.خدا تعالیٰ کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں.اگر اس نے چاہا ہے تو کسی طرح سے انجام کر دے گا.یقین کہ مولوی صاحب کا علیحدہ خط آپ کو پہنچے گا.والسلام توسیع مکان کے تعلق میں حضور مزید تحریر فرماتے ہیں : بسم الله الرحمن الرحيم خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۶ را پریل ۱۸۹۶ء ۳۲۲ نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مبلغ دوسوروپے کے نصف نوٹ آج کی تاریخ آگئے.عمارت کا یہ حال ہے کہ تخمینہ کیا گیا ہے کہ نوسو رو پیر تک پہلی منزل جس پر مکان مقصود بنانے کی تجویز ہے ختم ہوگی.کل صحیح طور پر اس تخمینہ کو جانچا گیا ہے اب تک تین سو پچاس روپیہ تک لکڑی اور اینٹ اور چونہ اور مزدوروں کے بارے میں خرچ ہوا ہے.معماران کی
451 مزدوری تین سو پچاس سے الگ ہے.اس لئے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی منزل کے تیار ہونے کے بعد بالفعل عمارت کو بند کر دیا جائے.کیونکہ کوئی صورت اس کی تکمیل کی نظر نہیں آتی.یہ اخراجات گویا ہر روز پیش آتے ہیں.ان کے لئے اول سر مایہ ہو تو پھر چل سکتے ہیں.شاید اللہ جل شانہ اس کا کوئی بندو بست کر دیوے بالفعل اگر ممکن ہو سکے تو آں محبت بجائے پانچ سوروپے کے سات سو روپیہ کی امدادفرماویں دوسوروپے کی جو کمی ہے وہ کنوئیں کے چندہ میں سے پوری کر دی جاوے گی اور بالفعل کنواں بنانا موقوف رکھا جاوے گا.پس اگر سات سو روپیہ آپ کی طرف سے ہو اور دوسو روپیہ کنوئیں کے اس طرح پر نوسور و پیر تک پہلی منزل انشاء اللہ پوری ہو جائے گی.اور کیا تعجب ہے کچھ دنوں کے بعد کوئی اور صاحب پیدا ہو جائیں تو وہ دوسری منزل اپنے خرچ سے بنوادیں.نیچے کی منزل مردانہ رہائش کے لائق نہیں ہے کیونکہ وہ زنانہ مکان سے ملی ہوئی ہے.مگر اوپر کی منزل اگر ہو جائے تو عمدہ ہے.مکان مردانہ بن جائے گا جس کی لاگت بھی اسی قدر یعنی نو سو یا ہزار روپیہ ہوگا میں شرمندہ ہوں کہ آپ کو اس وقت میں نے تکلیف دی اور ذاتی طور پر مجھ کو کسی مکان کی حاجت نہیں.خیال کیا گیا تھا کہ نیچے کی منزل میں ایسی عورتوں کے لئے مکان تیار ہو گا کہ جو مہمان کے طور پر آئیں اور اوپر کی منزل مردانہ مکان ہو.سو اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس خیال کو پورا کر دے گا.والسلام خاکسار غلام احمد ۴ رمئی ۱۸۹۷ء ۳۲۳ مکرم عرفانی صاحب اس مکتوب پر تحریر فرماتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے جیسا کہ اس خط میں آپ نے ظاہر فرمایا تھا آخر وہ تمام مکانات بنوا دئے اور وَسِعُ مَكَانَگ کی پیشگوئی ہمیشہ پوری ہی ہوتی رہتی ہے اور اس کی شان ہمیشہ جدا ہوتی ہے.مبارک ہیں وہ جن کو اس کی تکمیل میں حصہ ملتا ہے.ابتدائی ایام میں حضرت نواب صاحب کو سابق ہونے کا اجر ملا.جزاهم الله احسن الجزاء اسی سلسلہ میں حضور نے مزید دوصد روپیہ طلب فرمایا تھا اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پانصد روپیہ جو گزشتہ مکتوب کے ذریعہ طلب کیا گیا تھا آپکا تھا صرف دوصد روپیہ زائد طلب کردہ کا انتظار تھا.حضور نے ۲۷ / جون ۹۷ء کو رقم فرماتے ہیں.نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم مجی اخویم نواب صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.پہلے آں محب کی خدمت میں دوسو روپے کے لئے بغرض بیباتی حساب دہی معماران و مزدوران اور اینٹ وغیرہ کی نسبت لکھا گیا تھا.ایک وہ روپیہ نہیں
452 دیا اور رقم کی اشد ضرورت ہے اس لئے مکلف ہوں کہ براہ مہربانی دوسور و پید ارسال فرماویں تادیا جائے.معلوم ہوتا ہے کہ اس قدر خرچ کے بعد بھی کسی قدر حصہ نیچے کے مکان کی عمارت سے نا تمام رہ جائے گا.مگر امر مجبوری ہے پھر جس وقت صورت گنجائش ہوگی کام شروع کر دیا جائے گا.اللہ تعالیٰ کے ہرا مراختیار میں ہے.مجھے ابھی تک ایک بھی موقعہ کا علم نہیں ہو سکا کہ حضرت اقدس کی طرف سے نواب صاحب کو مالی اعانت یا قرض کی تحریک ہوئی ہو اور آپ اس کی تعمیل نہ کر سکے ہوں.اس لئے جو واقعات ہمارے سامنے ہیں ان سے ہمارے لئے یہ باور کرنے کے لئے قرائن قو یہ موجود ہیں کہ نواب صاحب نے دوصد روپیہ کی رقم بھی ارسال کی ہوگی.نہ تمام مکتوبات محفوظ ہیں اور نہ جو موجود ہیں سارے مجھے دستیاب ہوئے ہیں.۴ - ۹۸ء میں مدرسہ کی اعانت حضرت نواب صاحب کو بزرگان کرام بھی تحریکات کرتے رہتے تھے.چنانچہ ایک موقعہ کا علم ہمیں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے ذیل کے مکتوب سے ہوتا ہے.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مکرم معظم جناب خاں صاحب.وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ.خواجہ صاحب کو جناب کا خط بھیج دیا گیا ہے.آپ نے اب تک تعجب ہے اپنی سوانح سے سبکدوشی حاصل نہیں کی.یاوہی چین کے بادشاہ والا قصہ ہے.کوئی مطبع والا صاحب ادھر سے گیا.وزیر صاحب سے ملاقات ہوئی اس نے ہنر اور تجربہ پوچھا.جواب دیا کتا بیں چھاپا کرتا ہوں.وزیر نے کہا میں تجھے بادشاہ کے ہاں لے جاتا ہوں وہاں یہ کہنا کہ میں کاغذ بنایا کرتا ہوں اس لئے کہ یہاں کوئی چھاپنے کے فن سے واقف نہیں بادشاہ کے حضور میں حاضر ہوا.وزیر نے بڑی تعریف کی کہ آپ ایسا عمدہ کاغذ بنا سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کوئی ویسا بنا نہیں سکتا.بادشاہ نے خوش ہو کر کہا کل ہمارے ہاں کوئی نمونہ اپنی کاری گری کا لانا.دوسرے دن بیچارہ سخت تردد میں پڑ گیا کہ اب بادشاہ کے سامنے کیوں کر جاؤں وزیر نے ہنس کر کہا گھبراؤ مت کل کی بات کل تک ہی تھی.اس سے آگے کس کو یا د.ایسا نہ ہو کہ آپ بھی فغفور چین کی خلافت راشدہ پر متمکن ہو جائیں.مسک العارف رسالہ مصنفہ مولوی سید محمد احسن صاحب جو آپ کے حکم سے شائع ہونا تھا چھپ گیا.مدرسہ کی منتظم کمیٹی نے نصف اس کا روپیہ دے کر بلحاظ اصلی لاگت کے خرید لیا اس لئے کہ مولوی صاحب نے ایک جماعت کے وعدہ کی بناء پر ۱۴ سو چھپوایا تھا جس میں سے نصف یعنی سات سو کے خرچ کے ذمہ دار
453 آپ تھے.مگر آخر مولوی صاحب کو سبکدوش کرنے کے لئے کمیٹی نے نصف لاگت اکتالیس روپے نو آنے دے کر خرید لیا اور باقی نصف جو جناب کے ذمہ تھا وہ بھی بالاتفاق مدرسہ فنڈ کی ترقی کے لئے کمیٹی نے بطور عطیہ آپ کی طرف سے خود بخود لے لیا.بایں حسن ظنی کہ گویا آپ خود کمیٹی میں موجود ہیں.اور ایسے عطیہ کی منظوری دے دی ہے اب آپ از راہ کرم جس قدر جلد ممکن ہو سکے اکتالیس روپے نو آ نے ارسال فرما ئیں تا قرضہ طبع وغیر ہ احباب کا ادا ہو.اور منجملہ ۵۰ رسالے آپ کے لئے رکھے گئے ہیں کہ آپ انہیں جیسے چاہیں تقسیم کر سکتے ہیں.کمیٹی باقی کو تین آنے پر فروخت کرے گی.محک سعادت یہ ہے کہ غیبت میں بھی حضور کا سا ذوق اور عرفان ہو.ایک سست اور بے ذوق مزدور بھی آقا کے رو بر وفوق العادۃ چست ہو جاتا ہے.یہی سر ہے کہ کتاب اللہ آغا ز ہی میں فرماتی ہے ھدی للمتقين الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ خدا تعالیٰ آپ کو عزم ثابت اور قلب مستقیم عنایت کرے اور دنیا کے ہموم و عموم سے جوا کیلا ذریعہ ہمت کے پست ہونے خیالات کے متفرق ہونے اور قوت فیصلہ کے ضعیف ہونے کا ہیں نجات بخشے.آرزو ہے کہ آپ ہماری جماعت میں قابل اقتدار نمونہ اور مشار الیہ بن جائیں.آج کل جو باتیں بیان ہوتی ہیں خلاصہ اور گل سرسبد یہی ہے کہ خوفناک طرح ہمیں ڈرایا جاتا ہے آنے والے ایام اللہ سے اور سخت تاکید کی جاتی ہے.تقویٰ طہارت کے التزام کا.فرماتے ہیں میں خوب جانتا ہوں ایسے اشتہارات جیسے اشتہار طاعون بلحاظ قانون سڈیشن مناسب وقت نہ تھے مگر ہمدردی خلق اللہ نے مجھے مجبور کر دیا اس لئے کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے بہت تھوڑا ہے اس سے جو دکھایا گیا ہے.رسالہ دعا جو درحقیقت خدا نما ہے چھپ رہا ہے اور معا فارسی ترجمہ بھی جو یہ عاجز کر رہا ہے.والسلام عاجز عبدالکریم ۱۳ را پریل حمید یہ مکتوب ۱۳ - اپریل ۹۸ء کا ہے کیونکہ اشتہار طاعون کی تاریخ فروری ۹۸ ء ہے اور ۹۸ء میں ہی مسک العارف تصنیف ہوئی تھی اور رسالہ دعا کتاب ایام اصلح کو کہا گیا ہے وہی ۹۸ء میں تصنیف ہوئی اور دعا کے موضوع پر مشتمل ہے.گو مکتوب نمبر ۲۲ پر تاریخ درج نہیں لیکن یہ مکتوب نمبر ۲۴ کے قریب کا معلوم ہوتا ہے.مکتوب نمبر ۲۴، ۹۸-۱۱-۲۱ کا ہے مکتوب نمبر ۲۲ میں مرزا خدا بخش صاحب کے لڑکے کی حالت بوجہ علالت نا قابل اطمینان ہونے کا ذکر ہے.مکتوب نمبر ۲۴ میں مرزا صاحب کے گھر کے تمام افراد کے بیمار ہونے اور بیماری کی شدت کا ذکر ہے اسی طرح مکتوب نمبر ۲۹ بنام مرزا خدا بخش صاحب مورخہ ۹۸-۱۱-۲۲ میں مرزا * صاحب کی اہلیہ کی بیماری کا ذکر ہے.یہ لفظ ٹھیک پڑھا نہیں گیا.مؤلف
454 -۵- حضرت اقدس کی خدمت میں دو صد روپیہ بھیجا اسی طرح نواب صاحب نے مبلغ دو صد روپیہ حضور کی خدمت بابرکت میں ارسال کیا اس بارہ میں حضور ۲۱ جولائی ۱۸۹۸ء کوتحریر فرماتے ہیں کہ عنایت نامہ معہ مبلغ دوصد روپیہ مجھ کوملا.اللہ تعالی آپ کو ہر ایک مرض اور غم سے نجات بخشے.آمین ثم آمین.خط میں سو روپیہ لکھا ہوا تھا اور حامل خط نے دوسور و پیہ دیا اس کا کچھ سبب معلوم نہ ہوا.- حضور کی خدمت میں تین صدر و پریہ بھیجا ۳۲۵ ایک بار نواب صاحب نے تین صد روپیہ حضور کی خدمت میں ارسال کیا چنانچہ حضور تحریر فرماتے ہیں : بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالٰی.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.آپ کا عنایت نامہ مع دوسرے خط کے جو آپ کے گھر کے لوگوں کی طرف سے تھا.جس میں صحت کی نسبت لکھا ہوا تھا پہنچا بعد پڑھنے کے دعا کی گئی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے.آمین ثم آمین.ہم دست مرزا خدا بخش صاحب مبلغ تین سوروپے کے تین نوٹ بھی پہنچ گئے.جزاکم اللہ خیرا.ان کے لڑکے کا حال ابھی قابل اطمینان نہیں ہے.گو پہلی حالت سے کچھ تخفیف ہے.مگر اعتبار کے لائق نہیں.باقی سب خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ے.حضور کی طرف سے تعریف سفر نصیبین کے لئے اعانت ٣٢٦ سلسلہ کو جس قدر ضرورت مالی اعانت کی تھی اس کا اندازہ حضرت اقدس کے اشتہار من انصاری الی الله مورخه ۴ را کتوبر ۱۸۹۹ء سے ہوتا ہے.جس میں حضور نے لنگر خانہ ، تالیفات اور تردید تثلیث کی خاطر بعض معلومات کے حاصل کرنے کے لئے تین دوستوں کو نصیبین کے سفر پر بھیجنے کے لئے اعانت کی پرزور تحریک کی ہے.حضور فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حکم سے اور سب سے بڑھ کر یہ امر ضروری ہے کہ قادیان میں مہمانوں کی آمد و رفت بکثرت جاری رہے.اس سے پہلے دواڑ ہائی صد روپیہ کا آنا ماہوار آتا تھا.اب قحط کی وجہ سے شاید پانصد روپیہ تک نوبت پہنچی اور فرماتے ہیں کہ میں دیکھتا ہوں کہ اس کے لئے ہمارے پاس کچھ بھی سامان نہیں..میرے نزدیک یہ انتظام ہمارے
455 اس نام سلسلہ کی بنیاد ہے اور دوسری تمام باتیں اس کے بعد ہیں کیونکہ فاقہ اٹھانے والے معارف اور حقائق بھی سن نہیں سکتے.سوسب سے اول اس انتظام کے لئے ہماری جماعت کو متوجہ ہونا چاہئے.اور یہ خیال نہ کریں کہ اس راہ میں روپیہ خرچ کرنے سے ہمارا کچھ نقصان ہے کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے جس کے لئے وہ خرچ کریں گے اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ خسارہ کی حالت میں وہ لوگ ہیں جو ریا کاری کے موقعوں میں تو صد ہا روپیہ خرچ کریں اور خدا کی راہ میں پیش و پس سوچیں.شرم کی بات ہے کہ کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر پھر اپنی خست اور بخل کو نہ چھوڑے.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر ایک اہل اللہ کے گروہ کو اپنی ابتدائی حالت میں چندوں کی ضرورت پڑتی ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کئی مرتبہ صحابہ پر چندے لگائے جن میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑھ کر رہے.سومر دانہ ہمت سے امداد کے لئے بلا توقف قدم اٹھانا چاہئے ہر ایک اپنی مقدرت کے موافق اس لنگر خانہ کے لئے مدد کرے.میں چاہتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو ایک ایسا انتظام ہو کہ ہم لنگر خانہ کے سردرد سے فارغ ہو کر اپنے کام میں با فراغت لگے رہیں اور ہمارے اوقات میں کچھ حرج نہ ہو.جو ہمیں مدد دیتے ہیں.آخر وہ خدا کی مدددیکھیں گے.“ نیز فرماتے ہیں: دوسری شاخ اخراجات کی جس کے لئے ہر وقت میری جان گدازش میں ہے سلسلہ تالیفات ہے.اگر یہ سلسلہ سرمایہ کے نہ ہونے سے بند ہو جائے تو ہزار ہا حقائق اور معارف پوشیدہ رہیں گے.اس کا مجھے کس قدر غم ہے؟ اس سے آسمان بھر سکتا ہے.اسی میں میرا سرور اور اسی میں میرے دل کی ٹھنڈک ہے کہ جو کچھ علوم اور معارف سے میرے دل میں ڈالا گیا ہے.میں خدا کے بندوں کے دلوں میں ڈالوں دور رہنے والے کیا جانتے ہیں؟ مگر جو ہمیشہ آتے جاتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ کیونکہ میں دن رات تالیفات میں مستغرق ہوں اور کس قدر میں اپنے وقت اور جان کے آرام کو اس راہ میں فدا کر رہا ہوں.میں ہر دم اس خدمت میں لگا ہوا ہوں لیکن اگر کتابوں کے چھپنے کا سامان نہ ہو اور عملہ مطبع کے خرچ کا روپیہ موجود نہ ہو تو میں کیا کروں؟ جس طرح ایک عزیز بیٹا کسی کا مر جاتا ہے اور اس کو سخت غم ہوتا ہے.اسی طرح مجھے کسی ایسی اپنی کتاب کے نہ چھپنے سے غم دامن گیر ہوتا ہے.“ نیز نصرت اور جانفشانی میں سرگرم احباب کے اسماء ذکر کرتے ہوئے حضور تحریر فرماتے ہیں: یہ بھی قابل ذکر ہے کہ جی فی اللہ سردار نواب محمد علی خاں صاحب بھی محبت اور اخلاص میں بہت ترقی کر گئے ہیں اور فراست صحیحہ شہادت دیتی ہے کہ وہ بہت جلد قابل رشک اخلاص اور محبت کے منار تک پہنچیں گے.اور وہ ہمیشہ حتی الوسع مالی امداد میں بھی کام آتے رہے ہیں اور امید ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ خدا کی راہ میں
456 66 ۳۲۷ اپنے مالوں کو فدا کریں گے.خدا تعالیٰ ہر ایک کے عملوں کو دیکھتا ہے مجھے کہنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں.سفر نصیبین کے اخراجات کے تعلق میں پانچ ہفتہ قبل حضور ۲۹ راگست ۱۸۹۹ء کو نواب صاحب کو ذیل کے الفاظ میں تحریک فرما چکے تھے.”مرزا خدا بخش کو نصیبین بھیجنے کی پختہ تجویز ہے.خدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے کئی موقعے ہوتے ہیں جو ہر وقت ہاتھ نہیں آتے.کیا تعجب کہ خدا تعالیٰ آپ کی اس خدمت سے آپ پر راضی ہو جاوے اور دین اور دنیا میں آپ پر برکات نازل کرے کہ آپ چند ماہ اپنے ملازم خاص کو خدا تعالیٰ کا ملازم ٹھہرا کر اور بدستور تمام بوجھ اس کی تنخواہ اور سفر خرچ کا اپنے ذمہ پر رکھ کر اس کو روانہ نصیبین وغیرہ ممالک بلا دشام کریں.میرے نزدیک یہ موقعہ ثواب کا آپ کے لئے وہ ہوگا کہ شاید پھر عمر بھر ایسا موقعہ ہاتھ نہ آوے.بعد ازاں ۴ را کتوبر ۹۹ ء کے اشتہار میں حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں کہ ۳۲۸ ایسا اتفاق ہوا ہے کہ مرزا صاحب موصوف کا تمام سفر خرچ ایک مخلص با ہمت نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کا نام ظاہر کیا جائے.مگر دو اور آدمی ہیں جو مرزا خدا بخش صاحب کے ہم سفر ہوں گے ان کے سفر خرچ کا بندو بست قابل انتظام ہے.“ معلوم ہوتا ہے کہ مخلص با ہمت دوست حضرت نواب صاحب ہی تھے.آپ نے مرزا صاحب کے دونوں رفقا کے اخراجات برداشت کرنے کے متعلق بھی تحریر کیا.چنانچہ حضرت اقدس ۹ نومبر ۱۸۹۹ء کونواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں.الله مجی عزیزی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکانہ.پانچ سوروپے کا نوٹ اور باقی روپیہ یعنی پچھتر روپے پہنچ گئے.جزاکم اللہ خیر الجزاء.دو آدمی جونصیبین میں برفاقت مرزا خدا بخش صاحب بھیجے جائیں گے ان کے لئے پانچ سو روپیہ کی ضرورت ہوگی.لہذا (حسب ) تحریر آں محبّ اطلاع دی گئی ہے کہ پانچ سو رو پید ان کی روانگی کے لئے چاہئے.مجھے یقین ہے کہ نومبر ۱۸۹۹ ء تک آں محبّ تشریف لائیں گے.باقی سب خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد قادیان ٣٢٩ اشتہار و مکتوب کی عبارات سے ظاہر ہے کہ مرزا خدا بخش صاحب کے دونوں رفقاء سفر کے اخراجات یہ خطوط وحدانی کا لفظ خاکسار مؤلف کتاب ہذا کی طرف سے ہے.
457 برداشت کرنے پر نواب صاحب آمادہ تھے اور اس بارہ میں حضور کی خدمت میں تحریر کر چکے تھے.چنانچہ اس کے مطابق حضور نے ان کے اخراجات ارسال کرنے کے لئے تحریر کیا.حضور نے مرزا خدا بخش صاحب کے اخراجات تنخواہ اور سفرخرچ برداشت کرنے کی تحریک فرمائی تھی.سو یہ امر قرین قیاس معلوم نہیں ہوتا کہ اس سفر کے تعلق میں نواب صاحب مرزا صاحب کے دور فقاء کے اخراجات دینے پر تو آمادہ ہو جائیں لیکن مرزا صاحب کے اخراجات نہ برداشت کرنا چاہیں کہ جن کے لئے اولاً حضرت اقدس کی طرف سے تحریک کی گئی تھی.سوظا ہر ہے کہ تینوں کے اخراجات نواب صاحب ہی برداشت کرنا چاہتے تھے.- منارۃ ایچ کے لئے چندہ دمشق کے مشرق میں منارہ بیضاء نزول مسیح کی پیشگوئی کا حقیقی مفہوم تو کچھ اور ہے لیکن حضرت اقدس" کا طریق تھا کہ جہاں تک ممکن اور جائز ہوتا ظاہری رنگ میں بھی ہر پیشگوئی کو پورا کرنے کی کوشش فرماتے.حضرت اقدس ۲۸ رمئی ۱۹۰۰ ء کے اشتہار میں منارہ کی تجویز اور اس کی غرض کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ یہ اشتہار مزارہ کے بننے کے لئے لکھا گیا ہے.مگر یا در ہے کہ مسجد کی بعض جگہ کی عمارات بھی ابھی نادرست ہیں.اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ جو کچھ منارۃ اسیح کے مصارف میں سے بچے گا وہ مسجد کی دوسری عمارت پر لگا دیا جائے گا.یہ کام بہت جلدی کا ہے.دلوں کو کھولو اور خدا کو راضی کرو.یہ روپیہ بہت سی برکتیں ساتھ لے کر پھر آپ لوگوں کی طرف واپس آئے گا.“ تحریک کرتے ہوئے تحریر فرمایا: ” منارۃ اسیح کے بارہ میں اس سے پہلے ایک اشتہار شائع ہو چکا ہے لیکن جس کمزوری اور کم تو جہی کے ساتھ اس کام کے لئے چندہ وصول ہورہا ہے اس سے ہرگز امید نہیں کہ یہ کام انجام پذیر ہو سکے.لہذا میں آج خاص طور پر سے اپنے ان مخلصوں کو اس کام کے لئے توجہ دلاتا ہوں جن کی نسبت مجھے یقین ہے کہ اگر وہ سچے دل سے کوشش کریں اور جیسا کہ اپنے نفس کے اغراض کے لئے اور اپنے بیٹوں کی شادیوں کے لئے پورے زور سے انتظام سرمایہ کر لیتے ہیں ایسا ہی انتظام کریں تو ممکن ہے کہ یہ کام ہو جائے اگر انسان کو ایمانی دولت سے حصہ ہو تو گو کیسے ہی مالی مشکلات کے شکنجے
458 میں آ جائے تا ہم وہ کارخیر کی توفیق پالیتا ہے.“ پھر حضور ذکر کرتے ہوئے کہ جامع مسجد اموی دمشق کی مسجد میں دو دفعہ اس پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے منارہ بنایا گیا دونوں دفعہ وہ جل گیا فرماتے ہیں.غرض دونوں مرتبہ مسلمانوں کو اس قصد میں نا کامی رہی اور اس کا سبب یہی تھا کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ تھا کہ قادیان میں منارہ بنے کیونکہ مسیح موعود کے نزول کی یہی جگہ ہے.سو اب یہ تیسری مرتبہ ہے اور خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو موقع دیا ہے کہ اس ثواب کو حاصل کریں.جو شخص اس ثواب کو حاصل کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے انصار میں سے ہوگا.میں دیکھتا ہوں کہ اگر چہ لاکھوں انسان اس جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہور ہے ہیں.مگر مقبول دوگر وہ ہی ہیں.1.اول وہ گروہ جنہوں نے بعد اس کے جو مجھے پہچان لیا جو میں خدا کی طرف سے ہوں بہت سے نقصان اٹھا -1 کر اپنے وطنوں سے ہجرت کی اور قادیان میں اپنے گھر بنالئے اور اس درد کی برداشت کی جو ترک وطن اور ترک احباب وطن میں ہوا کرتی ہے.یہ گروہ مہاجرین ہے اور میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ان کا بڑا قد ر ہے کیونکہ خدا کے واسطے اپنے وطنوں کو چھوڑنا اور اپنے چلتے ہوئے کاموں کو خاک میں ملاد بنا اور اپنے وطن کی پیاری مٹی کو خدا کے لئے الوداع کہہ دینا کچھ تھوڑی بات نہیں فطوبى للغرباء المهاجرين - دوسرا گر وہ انصار ہے اور وہ اگر چہ اپنے وطنوں میں ہیں لیکن ہر ایک حرکت اور سکون میں ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں اور وہ مال سے محض خدا کو راضی کرنے کے لئے مدد دیتے ہیں اور میں ارادہ کرتا ہوں اگر خدا تعالیٰ کا بھی ارادہ ہو کہ اس منارہ کے کسی مناسب پہلو میں ان مہاجرین کے نام لکھوں جنہوں نے محض خدا کے لئے یہ دکھ اپنے اوپر اٹھا لیا کہ اپنے پیارے وطنوں کو چھوڑ کر ایک خدا کے مامور کا قرب مکانی حاصل کرنے کے لئے قادیان میں سکونت اختیار کر لی اور ایسا ہی ان انصار کے نام بھی جنہوں نے اپنی خدمت اور نصرت کو انتہا تک پہنچایا اور میرا نور قلب مجھے اس وقت اس بات کی طرف تحریک کرتا ہے جو ایسے مبارک کام کے لئے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہوتی ہے اپنی مخلص جماعت کو اس مالی مدد کی تکلیف دوں جو مومن کے لئے جنت کو واجب کرتا ہے.پس میں اسی غرض سے چند مخلصین کے نام ذیل میں لکھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ہر ایک ان میں سے کم سے کم ایک سو روپیہ اس عظیم الشان کام کے لئے پیش کرے......سوائے مخلصو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں کو قوت بخشے.خدا تعالیٰ نے آپ کو ثواب حاصل کرنے
459 اور امتحان میں صادق نکلنے کا یہ موقعہ دیا ہے.مال سے محبت مت کرو، کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ اگر تم مال کو نہیں چھوڑتے تو وہ تمہیں چھوڑ دے گا.مسیح موعود کے لئے دو پیشگوئیاں تھیں.سو وہ پیشگوئی جس میں انسانی ہاتھوں کا دخل نہ تھا.یعنی رمضان میں خسوف کسوف..وہ تو کئی سال گزر چکے کہ ظہور میں آچکی لیکن یہ پیشگوئی جس میں انسانی ہاتھوں کا دخل ہے یعنی منارہ کا طیار ہونا یہ اب تک ظہور میں نہیں آئی اور مسیح موعود کا حقیقی نزول یعنی ہدایت اور برکات کی روشنی کا دنیا میں پھیلنا یہ اسی پر موقوف ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو.یعنی منارہ طیار ہو کیونکہ مسیح موعود کے لئے جو یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ وہ نازل ہوگا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بغیر وسیلہ انسانی اسباب کے آسمان سے ایک قوت نازل ہوگی جو دلوں کو حق کی طرف پھیرے گی.اور مرا داس سے انتشار روحانیت اور بارش انوار و برکات ہے.سو ابتداء سے یہ مقدر ہے کہ حقیقت مسیحیہ کا نزول جونور اور یقین کے رنگ میں دلوں کو خدا کی طرف پھیرے گا.منارہ کی تیاری کے بعد ہوگا کیونکہ منارہ اس بات کے لئے علامت ہوگا کہ وہ لعنت کی تاریکی جو شیطان کے ذریعہ سے دنیا میں آئی ہے وہ مسیح موعود کے منارہ کے ذریعہ سے یعنی نور کے ذریعہ سے دنیا سے مفقود ہو اور منارہ بیضاء کی طرح سچائی چمک اٹھے اور اونچی ہو، خدا کے بعض جسمانی کام اپنے اندر روحانی اسرار رکھتے ہیں پس جیسا کہ توریت کے رو سے صلیب پر چڑھنے والالعنت سے حصہ لیتا تھا ایسا ہی منارۃ اسیخ پر صدق اور ایمان سے چڑھنے والا رحمت سے حصہ لے گا.اور یہ جولکھا ہے کہ منارہ کے قریب مسیح کا نزول ہوگا ، اس کے معنوں میں یہ بات داخل ہے کہ اسی زمانہ میں جب کہ منارہ طیار ہو جائے گا مسیحی برکات کا زور وشور سے ظہور و بروز ہو گا.اور اسی ظہور و بروز کونزول کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے پس جو لوگ اس عظیم الشان سعادت سے حصہ لیں گے یہ تو مشکل ہے کہ ان سب کے نام منارہ پر لکھے جائیں لیکن یہ قرار دیا گیا ہے کہ بہر حال چند مہاجرین کے مقابل پر ایسے تمام لوگوں کے نام لکھے جائیں گے جنہوں نے کم سے کم سو روپیہ منارہ کے چندہ میں داخل کیا ہو اور یہ نام ان کے زمانہ دراز تک بطور کتبہ کے منارہ پر کندہ رہیں گے جو آئندہ آنے والی نسلوں کو دعا کا موقعہ دیتے رہیں گے.“ بعد ازاں حضرت اقدس نے ایک سود و مخلصین کے اسماء درج فرمائے ہیں کہ جن کے اخلاص سے حضور نے اس کارخیر میں کم از کم سو روپیہ دینے کی توقع ظاہر کی اور بعض دے چکے تھے اس فہرست میں پہلے نمبر پر حضرت مولوی نورالدین صاحب کا اور دوسرے نمبر پر نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کا نام درج ہے.اور منارہ اسیح پر چھٹے نمبر پر نواب صاحب کا نام انہی الفاظ میں درج ہے اور آپ سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت خلیفتہ اسی اول ، حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ، حضرت ام المؤمنین
460 اطال اللہ بقاء ہا اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے اسماء درج ہیں منارہ کی بنیا د۱۳ مارچ ۱۹۰۳ء کو بروز جمعہ رکھی گئی تھی اور اس کی تکمیل خلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں ہوئی.مندرجہ بالا عبارت کے پڑھنے کے بعد یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کیونکر خلیفہ برحق اور مثیل مسیح ہیں.مرکز میں لائبریری کے قیام میں اعانت مرکز قادیان میں ایک لائبریری کا قیام ضروری سمجھا گیا اس سلسلہ میں حضرت نواب صاحب کو بھی اعانت کی تحریک کی گئی چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے ۱۹ جنوری ۱۹۰۱ء کو ذیل کے مکتوب کے ذریعہ آپ کو تحریک کی.قادیان ۱۹ جنوری.مکرم معظم بندہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.ایک بہت ضروری بات کی طرف جناب کی توجہ سامی کو معطوف کرنا چاہتا ہوں.حرج گوارا فرما کر سارے عریضہ کو شرف ملاحظہ بخشے گا.حضرت اقدس علیہ السلام کے سلسلہ کی ضروریات سے ایک مختصر سی لائبریری کا قائم کرنا قرین مصلحت سمجھا گیا ہے.کئی ایک عظیم الشان لغت عرب کی کتابیں ، عربی انگریزی ، انگریزی عربی لغت کی کتابیں تازہ تالیف اور دوادین عربی اور تواریخ اور جغرافیہ عربی و غیر با منگوانی ضروری سمجھی گئی ہیں،اس وقت بعض واقفیتوں کے حصول کی ضرورت کی وجہ سے انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کا تذکرہ درمیان آیا.یہ جمعہ کا دن بعدا دائے نماز جمعہ تھا.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے تجویز پیش کی کہ اس کے لئے چار سو روپے چندہ کیا جاوے اس ثناء میں تذکرہ معلوم ہوا کہ جناب کے پاس انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا موجود ہے.اگر چہ جناب کی فتوۃ اور کرم کی تحریک کے لئے شرم معلوم ہوتی ہے کہ درا نفسی کی جائے یا یاس و اضطراب کو امید کے کوچہ میں رہ دی جائے مگر معا ممکن ہے کہ خود جناب کو بھی اس کی ضرورت ہو.غرض تجویز ہوئی کہ کتب خانے کے لئے ایک مکان تیار ہو اور ضروری کتابیں منگوائی جائیں اور حضرت مولوی صاحب نے بھی وعدہ فرمایا کہ وہ ایک حصہ اپنے کتب خانہ کا مرحمت فرمائیں گے، ان سب امور کے لئے سر دست تجویز ہوئی کہ ایک ہزار پانسو روپے کے لئے چندہ کی فہرست کھولی جاوے.اب جناب اگر وہ کتاب مرحمت فرما ئیں تو بہت سی زحمت سے جلدی سبکدوشی حاصل ہو جاتی ہے ورنہ جو کچھ اس کارخیر کے لئے منظور فرمائیں.
461 حضرت اقدس اس تجویز کے سر پرست اور اصل مجوز و محرک ہیں.جناب کی فیاضی سے جواب کا طالب عاجز عبدالکریم (غیر مطبوعہ ) حضرت نواب صاحب نے انسائیکلو پیڈیا عنایت کر دی.حمید مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر کے روز سے جمعہ قریب ہوگا چنانچہ ۱۸؍ جنوری کو جمعہ تھا.اس مکتوب کے ۱۹۰۱ء کے ہونے کی تعیین اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اپنے مکتوب مورخہ ۰۱-۳-۳ میں سید محمد رضوی صاحب وکیل حیدر آباد دکن کو تحریر فرماتے ہیں.وو چندہ دینا قوت ایمان کو بڑھاتا اور اس سلسلہ سے تعلق میں ترقی بخشتا ہے کہ جس کی امداد کے لئے چندہ دیا جاتا ہے بہت سے لوگ ابتداء میں جوش سے اٹھتے ہیں اور تھوڑے ہی دنوں میں وہ ابال ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اس کی صاف وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے مالوں سے جن کو جگر کا ٹکڑا کہا گیا ہے کچھ حصہ کاٹ کر سلسلہ کی راہ میں نہیں دیتے.مالی امداد کر نا شدت تعصب کو بڑھاتا ہے اور خدا تعالیٰ خود اس شخص کی لاج رکھ لیتا ہے کہ اسے سلسلہ سے نکل جانے کا داغ لگے اس وقت پانچ ہزار کے قریب روپیہ ہمیں درکار ہے.ایک لائبریری بھی ہمارے پیش نظر ہے جس کی آرزو بہت دنوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں ہے.آپ کو مذاہب باطلہ کی تردید میں بعض اوقات یورپ کے فلاسفروں اور مورخوں کی کتابوں سے حوالہ دینے کی ضرورت پڑتی ہے.نیز سلسلہ کے لئے کئی ایک جدید اینگلو عربی اور عربی اینگلو ڈکشنریاں مطلوب ہیں اس لئے بھی سر دست کوئی دو ہزار روپے کی ضرورت ہے.غرض یہ ایک مختصر داستان ہے ان مشکلات اور مصائب کی جو ہم پر وارد ہو رہی ہیں.“ اور پھر مدرسہ اور لائبریری کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : اس موقعہ پر بھی جناب مکرم محمد علی خاں صاحب قابل ذکر اور مستحق شکر ہیں جنہوں نے سب سے پہلے لائبریری کو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا عطا فرمایا ہے جس کی قیمت ساڑھے چارسور و پیہ ہے امید ہے کہ بہت سے مخلص اور صادق دوست خاں صاحب ممدوح کے نقش قدم پر چلیں گے.مکرم عرفانی صاحب خاکسار کے استفسار پر تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت نواب صاحب نے انسائیکلو پیڈیا دی تھی جو مکرم مولوی محمد علی صاحب مرحوم لے گئے تھے.ریویو جلد ۶ نمبر ۳ بابت مارچ ۱۹۱۷ء میں مرقوم ہے.جناب خاں صاحب نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ نے انسائیکلو پیڈیا یلجنز اینڈ تھکس کی پانچ جلد میں اول تا پنجم قیمتی ایک سو پانچ روپے اور نیوسٹینڈرڈ ڈکشنری کی چارجلدیں قیمتی ایک سو میں روپے لائبریری آف پہلجنز کے لئے بطور عطیہ مرحمت فرمائیں اول الذکر کتاب کی اول پانچ جلدوں کی لائبریری میں اُس وقت سے کمی ہوگئی تھی کہ مولوی محمد علی صاحب اپنی لائبریری کے ساتھ یہ جلدیں بھی مستعار لے گئے تھے.جو انہوں نے باوجو دسخت مطالبہ کے واپس نہ کیں اور حضرت نواب صاحب نے اپنی طرف سے عطیہ دے کر اُس نقص کو پورا فرمایا.جزاہ اللہ خیر ( سرورق صفحہ ) ۳۳۴
462 +1- بمقدمہ کرم دین حضور کے جرمانہ کی رقم ادا کی بمقد مه کرم دین آتما رام مجسٹریٹ کی نیت نیک نہ تھی اور وہ حضرت اقدس کو سزائے قید دینے پر آمادہ تھا چنانچہ ۸- اکتوبر ۱۹۰۴ء کو اس نے حضرت اقدس کو پانصد جرمانہ اور حضرت حکیم مولوی فضل دین صاحب کو د و صد روپیہ جرمانہ اور عدم ادائیگی کی صورت میں چھ چھ ماہ قید کا فیصلہ سنایا اور اس کا منصوبہ یہ تھا کہ جرمانہ فوراً ادانہ ہو سکے گا اور قید کی سزادی جا سکے گی لیکن یہ سات صد روپیہ فوراً ادا کر دیا گیا جس سے اس کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ اس نے نواب صاحب کے دل میں یہ بات ڈالی کہ مجسٹریٹ کی نیت اچھی نہیں اور آپ نے احتیاطاً نوصد روپیہ ایک روز بیشتر اپنے ایک آدمی کے ہاتھ گورداسپور بھیج دیا اور یہی رقم ان جرمانوں کی ادائیگی میں کام آئی.مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب و مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کے اس بیان کی تصدیق حضرت اقدس کے ایک غیر مطبوعہ مکتوب سے بھی ہوتی ہے جس میں حضور تحریر فرماتے ہیں.مکرر یہ کہ اپیل خدا تعالیٰ کے فضل سے منظور ہو گیا ہے اور سات سوروپیہ جیسا کہ دستور ہے کہ انشاء اللہ واپس مل جائے گا اس لئے میں نے کہہ دیا ہے کہ جب وہ روپیہ ملے تو وہ آپ کی خدمت میں بھیج دیا جائے کیونکہ مشکلات کے وقت میں آپ کو ہر طرح سے روپے کی ضرورت ہے.۱۱- پانصد روپیہ بھیجنا مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ بسا اوقات سلسلہ کے کسی کام کے لئے روپیہ درکار ہوتا تو حضرت اقدس خود تحریک کر کے نواب صاحب سے روپیہ منگوا لیتے تھے.ایک دفعہ حضور نے مجدد اعظم کا یہ بیان کہ خواجہ کمال الدین صاحب کو تھوڑی دیر قبل ایک موکل سات صد کی رقم دے گیا تھا ( جلد دوم صفحہ ۹۷۷) لا زما غیر صحیح ہے خاکسار کے استفسار پر مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں.خواجہ کمال الدین مرحوم کے سات سو روپیہ کا قصہ محض غلط ہے میں ان کی قربانی کا قائل ہوں کہ وہ اپنی پریکٹس چھوڑ کر یہ کام کر رہے تھے مگر سلسلہ کی طرف سے ان کو روپیہ بھی دیا گیا.اس روپے کے دئے جانے سے ان کی قربانی پر کوئی اثر نہیں.یہ سات سو نواب صاحب ہی کے روپے کا ایک جزو تھا اور احتیاطاً خواجہ صاحب کو ایک ہزا ر دیا گیا تھا کہ امید یہی تھی پانچ پانچ سوجرمانہ کرے اور ایک ہزار اور محفوظ رکھا گیا تھا کہ ممکن ہے ہزار ہزار کر دے
463 حضرت ام المؤمنین اطال اللہ بقاء ہ کے کنگن غالباً مالیر کوٹلہ بھیجے کہ انہیں رہن رکھ کر پانصد روپیہ بھیج دیں.آپ نے کنگن بھی واپس بھیج دئے اور اپنے ملازم دائی کے بیٹے اللہ بخش عرف اتو کے ہاتھ پانصد روپیہ حضور کی خدمت میں بھیج دیا چنانچہ مکتوبات سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ حضور بوقت ضرورت سلسلہ کے لئے روپیہ بھجوانے کی نواب صاحب کو تحریک فرماتے رہتے تھے.گزشتہ اوراق میں بعض اقتباسات جو نقل ہوئے ہیں ان میں ایسی تحریکات درج ہیں.۱۲- بزرگان سلسلہ کی طرف سے تحریکات حضرت اقدس کے علاوہ دیگر بزرگان بھی آپ کو عملی خیرات کی تحریک کرتے رہتے تھے جو قبول حق کی وجہ سے مصائب میں گرفتاروں وغیرہ کی خود مالی اعانت کرنے یا کسی دوسرے سے امداد یا ملازمت دلوانے کے رنگ میں ہوتی تھی چنانچہ بطور نمونہ تین مکتوبات حضرت خلیفتہ اسی اول ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.تحریر فرماتے ہیں: نمبر ۲ کیونکہ مدارس میں جو نتیجہ نکلناممکن ہے عمدہ واعظ تعلیم یا فتہ گروہ کو ان مطالب میں ساتھ ملا سکتا ہے میں نے بڑے بڑے فکروں کے بعد واعظوں کا تیار کرنا ضروری خیال کیا ہے.میں نے اس خیال پر ایک انجمن تجویز کی ہے جس میں امور ذیل کی تائید مد نظر ہے.اول واعظ بنانا ، دوم نو مسلم لوگوں کی خبر گیری ، سوم موتفتہ القلوب کی پرورش، چہارم شرفا جو قادیان میں رہتے ہیں، ان کی خبر گیری، پنجم بتامی ششم مدرسة القرآن ، ہفتم وہ مسافر جو یہاں آتے ہیں ان کی امداد اگر ان کے پاس زادراہ نہ ہو.غرض ایسے امور اس میں قائم کئے ہیں اطلاعا گزارش ہے چندہ مقرر نہیں ہوگا.خدا بخش صاحب کے متعلق مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ وہ نواب صاحب کے ملازموں میں اتو کے نام سے مشہور تھا اور محمد اسمعیل کا بیٹا تھا یہ بھی پرانا ملازم نواب صاحب کا تھا بلکہ یہ لوگ نسلاً بعد نسل چلے آتے تھے.مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ فوت ہو چکے ہیں احمدی نہ تھے ان کے بھائی عبدالعزیز کا بیٹا میرے پاس ملازم ہے یہ بھی فوت ہو چکے ہیں احمدی نہ تھے.‘الحکم جلد ۵ نمبر ۳ صفحہ ۱۶ کالم ۳ پر مدرسہ تعلیم الاسلام کے لئے ان دونوں کی طرف سے چندہ درج ہے اور میاں صاحب موصوف بتاتے ہیں کہ یہ ان ہی دونوں کے نام ہیں.
464 اب تک حضرت امام کے کان تک بات نہیں پہنچائی.چند احباب سے مشورہ کیا تھا.سب نے باتفاق پسند کیا، انشاء اللہ عنقریب بات کو اما م تک پہنچا کر اشتہار دوں گا.میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین اور دنیا میں ترقی پر ہوں.آپ کو بطور مثر وہ لکھتا ہوں میں آج تک بہت خوش و خرم اور تندرست ہوں.والسلام ۱۸۹۷ء نورالدین ۲۱ رمئی از قادیان (غیر مطبوعہ ) ( یہ مکتوب نامکمل دستیاب ہوا) (نوٹ: اس تحریک کا ذکر الحکم جلد نمبر ، صفحہ 4 نمبر صفحہ ے میں بھی آتا ہے ) اسی طرح فرماتے ہیں : مکرم معظم جناب خان محمد علی خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مکرم قاضی زین العابدین اور ان کے فرزند رشید حضرت مرزا صاحب کے مخلص احباب میں سے ہیں ان کی قضاء بہت تھی.مگر لدھیانہ کے مولویوں نے حملہ کر کے لوگوں کو ان پر بدظن کر دیا ہے اور ان کو تکلیف پہنچائی ہے.جہاں تک ممکن ہو آپ ہمدردی فرماویں.اسی طرح آپ نے تحریر فرمایا: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته نورالدین ۲۳ / اپریل ۹۸ از قادیان دروس اور مجاتی الادب کے لئے لکھ دیا ہے.مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنا منشاء تھا.اللہ تعالیٰ کوئی نیک تدبیر نکالے کہ ملاقات ہو جاوے.یہاں قرآن کریم معرفی مترجم و حمائل کی ضرورت رہتی ہے اگر آپ کے پاس ہوں تو ضرور ارسال فرما دیں بہت مستحق موجود ہیں.اسی طرح اپنی خلافت کے ایام میں حضرت ممدوح تحریر فرماتے ہیں.مکرم معظم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته نورالدین ۵/ مارچ ۱۹۰۰ ء میاں خاں صاحب ذوالفقار علی خاں صاحب کے حضور سفارش کرنا میرے تجربہ میں اب تک مفید نہیں
465 ہوا.اس کے اسباب اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں.مگر ہمیں سپارش کرنا حکم الہی اور حکم رسول ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم سپارش کر دیا کریں.اگر آپ سے ہو سکے تو اب ایک سپارش اس یتیم بچہ کے لئے لکھ دیں.والا جر من اللہ الکریم.۱۳- معز ز الحکم کی اعانت نورالدین ۷/جنوری ۱۳ء الحکم کو سلسلہ کا سب سے پہلا اخبار ہونے کا فخر حاصل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسے اور البدر کو سلسلہ کے دوباز و قرار دیتے تھے.سوالحکم کی اعانت سلسلہ کے دست و بازو کی تقویت کے مترادف تھی.پر چہ ۹۹-۴-۲۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نواب صاحب نے اس کی ایک سو روپیہ سالانہ امداد مقرر کر رکھی تھی.اور یہ وعدہ عملاً ایفاء ہوتا رہتا تھا یہ مکرم عرفانی صاحب نواب صاحب کی اعانت اور عالی ہمتی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.و بعض وقت وہ خود قرض لیتے اور اہل غرض کو دے دیتے.میں نے مکان بنانے کا ارادہ کیا.حضرت نواب صاحب سے بے تکلفی تھی اور مجھ سے انہیں خاص محبت تھی.میں نے کہا نواب صاحب ! زمین لے لی ہے.مکان بنانے کا ارادہ ہے.اس کا نقشہ بنادیجئے.فرمایا نقشہ کے لئے اوّل یہ معلوم ہو کیا بنانا ہے.دوم کس قدر رو پیہ خرچ کرنا ہے.میں نے ) کہا کہ دفتر کے لئے ایک بڑا کمرہ.دو چھوٹے حجرے اور رہنے کے لئے ایک کمرہ بڑا اور دو کوٹھڑیاں.باورچی خانہ اور غسل خانہ.اور روپیہ میرے پاس تو ہے نہیں.آپ نے دو سال کا چندہ الحکم کا دینا ہے.ایک سال کا پیشگی یہ دے دیں.یہ تین سو ہوتا ہے.آپ ہنسے اور فرمایا کہ نقشہ بھی میں بنا دوں اور بنوا بھی دوں.میں نے کہا بنوانے کے لئے تو آسانی ہے آپ کا مستقل عملہ تعمیر ہے اور اب وہ قریباً بے کار ہے بس اس رقم میں دونوں کام ہو جائیں گے.انہوں نے خوشی سے اتفاق فرمایا اور سندر مستری، ہیرا مستری اور اسمعیل معمار کو حکم دے دیا یہ ہو اس طرح پر الحکم کے دفتر کی تعمیر شروع ہوئی.مگر پھر م اس وعدہ کا ذکر الحکم پر چہ ۹۹-۴ - ۲۶ صفحه ۵ پر اور ایفاء کا ذکر پر چه ۰۱-۱۱- ۱۷ صفحه ۴ پر چه ۰۳-۱۲-۳۰ صفحہ ۱۲ میں آتا ہے.اسمعیل صاحب معمار کے متعلق مکرم میاں محمد عبد الرحمن خان صاحب ذکر کرتے ہیں کہ یہ حضرت والد صاحب کے پاس بطور معمار ملازم تھے.مالیر کوٹلہ کے رہنے والے تھے.قادیان میں فوت ہو کر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.افسوس کہ ان کی اولا داحمدی نہیں.“
466 الحکم میں تحریک سے کتابوں کی فروخت وغیرہ سے روپیہ آتا رہا اور چودہ سو میں وہ حصہ مکمل ہو گیا.الحمد لله علی ذالک.نواب صاحب نے جب صدر انجمن کا کام لیا تو میں اسٹنٹ سیکرٹری تھا.میں صدر انجمن سے کچھ نہ لیتا تھا اور کبھی نہیں لیا.تب نواب صاحب میری ضروریات کا لحاظ کر کے کبھی کبھی کچھ روپیہ دے دیا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے محض فضل نے میری دستگیری فرمائی.نواب صاحب سکندر آباد آئے میں اس وقت فارغ البال تھا اور مجھے اپنے محسن کی مالی خدمت کا موقعہ ملا مگر نواب صاحب نے وہ رقم واپس کر دی.میں نے اس خیال سے نہ دی تھی مگر ان کی عالی ہمتی نے پسند نہ کیا.“ خلافت ثانیہ کے آغاز میں بھی نواب صاحب کو الحکم کی خدمت انتظام کا موقعہ ملا چنانچہ الحکم میں زیر عنوان الحام کا انتظام جدید‘ مرقوم ہے.حضرت خلیفتہ اسیخ نے سلسلہ احمدیہ کے سب سے پہلے اخبار کو بموجب ارشاد حضرت خلیفہ اول قائم رکھنے کے لئے اس کا تمام انتظام ایک بورڈ کے سپرد کر دیا ہے جس کے ممبر جناب نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ ، ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب جو وقتا فوقتا حضرت سے مشورہ لے لیتے ہیں.“ ۱۴ - دار الضعفاء کے لئے زمین دینا ۳۳۵ غرباء کے لئے حضرت نانا جان رضی اللہ عنہ نے ایک محلہ بہشتی مقبرہ کے قریب آباد کیا تھا تا کہ ایسے احباب قریباً بے کرایہ وہاں رہ سکیں.یہ محلہ آپ کے نام پر ناصر آباد بھی کہلاتا ہے.اس تعلق میں نواب صاحب نے جواعانت کی اس بارہ میں معزز الحکم رقم کرتا ہے.دار الضعفاء کے لئے حضرت نواب صاحب قبلہ نے ۲۲ مکانوں کے لئے ایک وسیع قطعہ زمین بہشتی مقبرہ کے قریب عطا فرمایا.جزاه الله احسن الجزاء - اللہ تعالیٰ ان کے تمام کاموں میں وسعت اور فراخی عطا کرے.آمین.“ ١٣٣٦ مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی فرماتے ہیں پہلے نواب صاحب کا ارادہ اس زمین پر کوٹھی بنوانے کا تھا.۱۵ - الفضل کے اجراء میں اعانت الفضل کے اجراء کے تعلق میں حضرت نواب صاحب نے جن حالات میں جواعانت کی وہ قابل صد تحسین ہے.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں:
467 ۱۹۱۳ء کا افسوسناک سال اس کے بعد ۱۹۱۳ ء آیا.مسیح موعود علیہ السلام سے بعد اور نور نبوت سے علیحدگی نے جو بعض لوگوں کے دلوں پر زنگ لگا دیا تھا اس نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا.اور بظاہر یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ پاش پاش ہو جائے گا.نہایت تاریک منظر آنکھوں کے سامنے تھا.مستقبل نہایت خوفناک نظر آتا تھا.بہتوں کے دل بیٹھ جاتے تھے.کئی ہمتیں ہار چکے تھے.ایک طرف وہ لوگ تھے جو سلسلہ کے کاموں کے سیاہ وسفید کے مالک تھے.دوسری طرف وہ لوگ تھے جو کسی شمار میں ہی نہ سمجھے جاتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جو عہد میں نے کیا تھا وہ بار بار مجھے اندر ہی اندر ہمت بلند کرنے کے لئے اکساتا تھا مگر میں بے بس اور مجبور تھا.میری کوششیں محدود تھیں.میں ایک پتے کی طرح تھا جسے سمندر میں موجیں ادھر سے ادھر لئے پھریں.سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت بدر اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ہمارے لئے بند تھا.احکام اول تو ٹمٹماتے چراغ کی طرف کبھی کبھی نکلتا تھا اور جب نکلتا بھی تھا تو اپنے جلال کی وجہ سے لوگوں کی طبیعتوں پر جو اس وقت بہت نازک ہو چکی تھیں بہت گراں گزرتا تھا.ریویو" ایک بالا ہستی تھی جس کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا.میں بے مال وزر تھا.جان حاضر تھی.مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا.اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمد یوں کے دلوں کو گرمائے.ان کی سستی کو جھاڑے.ان کی محبت کو ابھارے.ان کی ہمتوں کو بلند کرے.اور یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا.اس کی خواہش میرے لئے ایسی ہی تھی جیسے ثریا کی خواہش.نہ وہ ممکن تھی نہ یہ.آخر دل کی بے تابی رنگ لائی.امید بر آنے کی صورت ہوئی.اور کامیابی کے سورج کی سُرخی افق مشرق سے دکھائی دینے لگی.“ پھر حضور اپنے حرم اول سیدہ ام ناصر صاحبہ کے بے نظیر ایثار کا ذکر فرماتے ہیں جنہوں نے دوز یور الفضل کے اجراء کے لئے دئے اور ان کی پونے پانصد روپیہ کی قیمت اخبار کے لئے ابتدائی سرمایہ بنی اور پھر حضرت ام المؤمنین اطال اللہ بقاء ہا کا ذکر فرماتے ہیں جنہوں نے اخبار کے لئے زمین دی جو قریباً ایک ہزار میں فروخت ہوئی.اور پھر تحریر فرماتے ہیں: تیسرے شخص جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے تحریک کی وہ مکرمی خان محمد علی خاں صاحب ہیں.آپ نے کچھ روپیہ نقد اور کچھ زمین اس کام کے لئے دی.پس وہ بھی اس رو کے پیدا کرنے میں جو اللہ تعالیٰ نے
468 وو الفضل“ کے ذریعہ چلائی حصہ دار ہیں اور سابقون الاولون میں سے ہونے کے سبب سے اس امر کے اہل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اس قسم کے کام لے.اللہ تعالیٰ ان کو ہر قسم کے مصائب سے محفوظ و مامون رکھ کر اپنے فضل کے دروازے ان کے لئے کھولے.“ علاوہ ازیں مزید اعانت کے متعلق الفضل میں مرقوم ہے.دم الفضل کو دفتر کے لئے نواب صاحب نے اپنے مکان کے نیچے کی منزل دی ہے جو بہت عمدہ فیشنیل (Fashionable) مکان ہے.“ ۱۶- فتنہ ملکانہ کے موقعہ پر ایک ہزار روپیہ دینا فتنہ ارتداد ملکانہ کا معاملہ جماعت احمدیہ میں شائع و متعارف ہے.۱۹۲۳ء میں اس بارہ میں خاص طور پر شوری میں غور کیا گیا اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی صدارت میں سب کمیٹی کا تقرر ہوا جس کے ایک ممبر چوہدری ( سر ) محمد ظفر اللہ خاں صاحب بھی تھے.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے شوری کا یہ مشورہ قبول فرمایا کہ اس امر کے لئے کم سے کم سور و پیہ چندہ کی تعیین کی جائے لیکن جو چاہے دے.حضور نے پچاس ہزار روپیہ کی تحریک کی تھی.تعیین کے بعد حضور نے فرمایا کہ ہجرت نبوی جلدی اسلام کے پھیلنے کا ذریعہ بنی اور خلفاء کے زمانہ میں بیرونی حکومتیں عرب میں سے اسلام کی ہستی مٹانا چاہتی تھیں ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کو مجبور انکلنا پڑا اور اس طرح ملک کے ملک ان کے ہو گئے.یہ اللہ تعالیٰ کی ایک تدبیر تھی تا کہ مسلمان دنیا کو فتح کریں.اور فرمایا کہ غیر مسلموں نے ہزاروں ملکانوں کو مرتد کرلیا ہے یہ ایسے خطرناک اور روح فرسا حالات ہیں کہ ان سے روح کا نپتی ہے اور جسم پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور فرمایا کہ نعمتیں مشکلات کے بعد ہی ملا کرتی ہیں.گلاب کا پھول ملتا ہے مگر ہاتھ میں جب کانٹا چبھ چکے.جب یہ ادنی چیزیں بھی مشکلات کے بعد ملتی ہیں تو خدا کس طرح آرام سے مل سکتا ہے.پس جو خدا سے ملنا چاہتا ہے اس کو کانٹوں کی نہیں تلواروں کے زخموں کی برداشت پیدا کرنی چاہئے.جو خدا کو چاہتا ہے وہ تلوار کے گھاؤ کھانے کے لئے تیار ہو وہ جان دینے کے لئے تیار ہو.وہ جنہوں نے پچاس ہزار دینا ہے ممکن ہے کہ وقت آنے پر ان کو وہ سب کچھ دینا پڑے جو ان کے پاس ہو...اب امتحان کا وقت ہے.ہمارے سامنے صرف ملکانوں کا سوال نہیں سارے ہندوستان کو مسلمان بنا لینے کا سوال ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے اے کرشن گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی ہے.گیتا میں آپ کا ذکر اس لئے تھا کہ آپ کے ذریعہ ہندوؤں میں تبلیغ اسلام ہو.یہ خدا نے تین ہزار سال پہلے ہمارا فرض ٹھہرا دیا ہے کہ ہم ہندوؤں میں تبلیغ اسلام
469 کریں.ہمیں اس وقت تک ہندوستان میں کام کرنا ہے جب تمام ہندوستان میں متحدہ طور پر یہ آواز بلند ہو.1......غلام احمد کی جے ۳۳۹ اور یہ ہو نہیں سکتا کہ جب تک ہندو اقوام بحیثیت جماعت کے اسلام میں نہ داخل ہوں.اگر ہم ساری دنیا کو بھی مسلمان بنا لیتے اور اس طرف توجہ نہ کرتے تو ہمارا فرض ادا نہ ہوتا.پس وقت ہے کہ جو لوگ جس قدر قربانی کر سکتے ہیں کریں اور تیار رہیں کہ ابھی ان کو اور بھی خدمت اور قربانی کے موقعہ ملیں گے.اسلام پر یہ نازک وقت ہے یہ ہنسی کا وقت نہیں.اسلام پر دشمن کا حملہ ہے اگر اس کو پورے طور پر سمجھ لیا جائے تو کوئی قربانی اس کے انسداد کے لئے مسلمان اٹھا نہ رکھیں.“ بعد ازاں حضور نے چندہ کا اعلان فرمایا اور سب سے پہلے حضرت نواب صاحب کے بردار نسبتی اور ماموں زاد بھائی جنرل اوصاف علی خاں صاحب کے پانصد روپیہ کے چیک کا حضور نے اعلان فرمایا.دس ہزار کے وعدے لکھے گئے.جن میں حضرت نواب صاحب کا سب سے زیادہ تھا یعنی ایک ہزار روپیہ.علاوہ ازیں دوصد رو پیه سیده نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا اور پانصد مکرم نواب میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کا اور ایک صد روپیہ بوزینب بیگم صاحبہ کا.اس کے علاوہ تبلیغ کے تعلق میں ذکر ہو چکا ہے کہ بعد ازاں نواب صاحب نے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل میں علاقہ ملکانہ کا دورہ کیا اور اپنے اور اپنے رفقاء کے کئی ہزار روپے کے اخراجات خود برداشت کئے.۱۷- تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج میں شمولیت احرار نے سلسلہ کے خلاف جو طوفان بے تمیزی برپا کیا اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے جماعت کے لئے قربانیوں کے وسیع مواقع بہم پہنچائے جن سے اسلام واحمد بیت شاندار طور پر ترقی کریں اور چار دانگ عالم میں شد و مد سے ان کی اشاعت ہو.باوجود گونا گوں مالی تفکرات کے حضرت نواب صاحب نے پہلے دس سالوں میں قریباً ساڑھے تین ہزار روپیہ ادا کیا.آپ کے اہل وعیال کا چندہ اس کے علاوہ تھا.مکرم چوہدری برکت علی خاں صاحب وکیل المال تحریک جدید ر بوه تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت نواب صاحب مجسم قربانی تھے.وہ جہاں تک میں جانتا ہوں ہر قربانی میں شاندار حصہ لیتے تھے اور سید نا حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہر ارشاد پر بہ انشراح صدر لبیک لبیک یا امیر المؤمنین کہنے والے تھے.تحریک جدید کی قربانیوں کا جب ۲۳ / نومبر ۱۹۳۴ء کے دن جمعہ کے خطبہ میں حضور نے مطالبہ فرمایا تو
470 نواب صاحب نے فوراً اپنا وعدہ پیش فرمایا.اور اس وعدہ کو ابتداء میں ہی ادا فر ما دیا اور ہمیشہ اس طرح لبیک کہتے اور حتی الوسع جلد ادا فرما دیتے.-- نواب صاحب کا دوسروں کو چندہ کی تحریک کرنا نواب صاحب محترم خود تو سلسلہ کی مالی خدمت کرنے میں پیش پیش تھے لیکن آپ کی تحریک سے اور آپ کے اثر ورسوخ سے بسا اوقات لوگ چندہ دیتے تھے.الدال على الخير كفاعلـہ کی حدیث کے مطابق یہ امر بھی آپ کے لئے ثواب کا موجب بنتا تھا.چنانچہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے مکتوب مورخہ ۰-۳-۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب صاحب نے مدرستہ تعلیم الاسلام کے لئے پانصد روپیہ جمع کیا تھا.“ ۳۴۱ مشرق شمال دروازه یہ خاکہ بغیر سکیل کے ہے) شمال TT مشرق دروازه هم دردانه اکھڑ کی دروازه دروازه دریچه دریچہ صفحه ۳۸۸ پر نواب صاحب کی ایک روایت درج کی گئی ہے اس کے بقیہ حصہ میں مسجد مبارک کا خاکہ بھی تھا جو روایت کی حاصل شدہ نقل کے مطابق یہاں درج کیا گیا ہے.خا کہ دے کر نواب صاحب بیان الحکم جلد نمبر ۳ (صفحہ ۱۶ کالم ۳) نمبر ۴ (صفحہ ۱۶ کالم ۱) سے بعض احباب مالیر کوٹلہ کا مدرسہ تعلیم الاسلام
471 -۴- فونوگراف سے تبلیغ حضرت نواب صاحب کو لکھا گیا تھا کہ جب قادیان تشریف لائیں تو فونوگراف لیتے آئیں تا کہ آواز بقیہ حاشیہ:- فرماتے ہیں.اس مسجد کی شکل یہ ہوتی تھی.ا.امام کے کھڑے ہونے کی جگہ.۲- مسجد مبارک -۳- یہ کوٹھڑی بھی شامل مسجد ہو گئی تھی.۴- دفتر ریویو.مولوی محمد علی صاحب یہاں بیٹھا کرتے تھے.ابتداء میں یہ غسل خانہ تھا اور گہرا تھا.تخت بچھا کر مسجد کے برابر لیول کر لیا تھا.زیادہ لوگ ہوتے تو امام کے پاس بھی دو آدمی کھڑے ہو جاتے تھے اور مولوی محمد علی صاحب کے دفتر میں بھی چند آدمی کھڑے ہو جاتے تھے مگر جس وقت کا میں ذکر کرتا ہوں اس وقت یہ دفتر نہ بنا تھا.اس کے صرف نمبر، نمبر نمبرس میں ہی نماز ہوتی تھی.میں مولوی عبدالکریم جو امام نماز ہوتے تھے کے پاس بیٹھتا تھا اور حضرت خلیفتہ اسی اول بھی وہاں ہی بیٹھتے تھے اور حضرت مقام الف پر بیٹھا کرتے اور اسی مقام پر نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے.دریچہ ب میں سے ہو کر مسجد میں آتے تھے.“ یہ روایت کے اصل الفاظ ہیں جو تغیر الفاظ الفضل بابت ۳۸-۶-۱۴ میں شائع ہو چکی ہے.لیکن اس میں ایک جگہ ارکان ایمان کی بجائے ارکان نماز سہو درج ہو گیا ہے.نوٹ از مؤلف روایت کی نقل جو مجھے حاصل ہوئی ہے اور روایت مع خا کہ جو الفضل بابت ۳۸-۶-۱۴ میں شائع ہو چکی ہے.دونوں قابل تصحیح ہیں.صحیح اور مطابق پیمائش نقشہ اصحاب احمد جلد اول کے ضمیمہ صفحہ پر درج ہے.تصحیح درج ذیل کی جاتی ہے.اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ( درویش ) اس کی تصدیق فرماتے ہیں.روایت کی نقل کی تصحیح -1 حجرہ امام ( کمرہ نمبر ) و کمرہ نمبر۲ کی درمیانی دیوار درج ہونی چاہئے تھی ( جو الفضل میں درج ہے) -۲- کمرہ نمبر کی شمالی دیوار میں دروازہ دکھایا گیا ہے لیکن یہاں کوئی دروازہ نہ تھا ( الفضل میں بھی درج نہیں)
472 بھرنے کا تجربہ کیا جائے.حضرت اقدس کا منشاء تھا کہ حضور کی تقریر بھری جا کر ممالک غیر میں بھیجی جاوے کہ بقیہ حاشیہ:- ۳- سرخی کے چھینٹوں والے کمرہ (نمبر ۴) کے ملحقہ جانب شمالی سیٹرھیاں درج نہیں کی گئیں (الفضل میں درج ہیں ) -۴- کمرہ نمبرم کی شمالی دیوار میں جو دروازہ دکھایا گیا ہے یہ میچ نہیں.یہاں کوئی دروازہ نہ تھا.اس دیوار کے خارجی حصہ پر پٹھانکونی چونہ کا پلستر موجود ہے.اگر کبھی یہاں دروازہ ہوتا تو اتنا حصہ اس مضبوط پلستر کا شکستہ ہوتا لیکن وہ شکستہ نہیں.-۵- کمرہ نمبر ۴ کی مشرقی دیوار میں دو دروازے دکھائے گئے ہیں حالانکہ وہاں صرف ایک دریچہ تھا.اور اب بھی ہے.تصحیح اندراج الفضل : -1 حجرہ امام کمرہ نمبرا کی جنوبی دیوار میں دریچہ دکھا گیا ہے.یہاں کوئی دریچہ نہ تھا.( جیساکہ نقل روایت والا خاکہ ظاہر کرتا ہے) -۲- کمرہ نمبرس میں جنوبی دیوار میں دریچہ درج نہیں ( نقل روایت کے خاکہ میں موجود ہے اور صحیح ہے ) سرخی کے چھینٹوں والے کمرہ نمبرہ میں جنوبی دیوار میں کوئی کھڑکی نہیں دکھائی گئی.حالانکہ یہاں کھڑ کی تھی جواب بھی موجود ہے ( اور نقل روایت کے خاکہ میں موجود ہے ) N ۳ S NOT TO SCALE E E
473 امام کی آواز میں خاص برکت و تاثیر ہوتی ہے.تفصیل مندرجہ ذیل کے پڑھنے سے احباب کرام پر آشکار ہوگا کہ حضور کے قلب اطہر میں دنیا کی ہدایت کا کس قدر جوش بھرا ہوا تھا اور حضور ہدایت دینے کا ہر جائز طریق اختیار کرنا چاہتے تھے.معلوم نہیں کس کو کس ڈھب سے ہدایت نصیب ہو جائے.یہ امر کسی سے مخفی نہیں کہ بقیہ حاشیہ: - کے لئے چندہ دینے کا علم ہوتا ہے ان میں سے بعض کے احمدی ہونے یا نہ ہونے کا جو علم مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب سے ہوا درج ذیل کیا جاتا ہے اس وجہ سے کہ غالب امر یہ ہے کہ ان کے متعلق اتنی معلومات بھی بعد میں حاصل نہ ہو سکیں گی.ا مولوی محمد اکرم صاحب اتالیق.یہ احمدی تھے اور ہمارے اتالیق تھے.حضور اپنے مکتوب مورخہ ۲۹ جنوری ۱۹۰۰ء میں مولوی صاحب موصوف کے ہاتھ نواب صاحب کے مکتوب کے پہنچنے کا ذکر فرماتے ہیں ( مکتوب نمبر ۳۳) مولوی صاحب کے قادیان میں ہونے کا ذکر الحکم بابت ۰۱-۸-۳۱ صفحہ ۱۶ کالم ۲ -1 میں آتا ہے.۲.ماموں میردا دار یہ ان کا عرف تھا.ان کا نام امام بخش تھا.بہت پکے احمدی تھے اور حضرت والد صاحب کے ملازم تھے.غالباً دوران خلافت اولی میں قادیان میں فوت ہوئے.“.ماسٹر مولا بخش صاحب.یہ زندہ ہیں.احمدی نہیں.کمبوہ قوم سے تعلق رکھتے ہیں.مدرستہ الاسلام مالیر کوٹلہ میں انگریزی کے مدرس تھے.پھر ریاست میں ملازم ہوئے اور افسر مال رہے.ریٹائر ہو چکے ہیں.“ سید سردار علی صاحب ملازم نہ تھے.شہر مالیر کوٹلہ کے رہنے والے ہیں اور زندہ ہیں افسوس کہ ارتداد اختیار کر چکے ہیں.“ ۵- سید نعمت علی صاحب.سید سردار علی صاحب مذکور کے رشتہ دار ہیں.انہوں نے قادیان جا کر دوکان بھی کی تھی پھر چلے آئے.بعد کا حال معلوم نہیں.“ فتح خاں صاحب نمبر دار.یہ احمدی نہ تھے.“ -۷ شیخ مراد بخش صاحب کو توال.یہ احمدی نہ تھے.فوت ہو چکے ہیں.“ - مرزا جمیل بیگ صاحب افسر تو پخانہ.یہ احمدی تھے اور ریاست میں ملازم تھے.ان کی وجہ سے مالیر کوٹلہ میں بہت احمدی ہوئے.ان کے بیٹے مرزا عبد اللہ بیگ صاحب بھی فوت ہو چکے ہیں.ان کے پوتے پاکستان میں ہیں اور احمدی ہیں.
474 فونوگراف اور اس جیسی دیگر اشیاء اکثر لہو ولعب کے طور پر استعمال میں آتی ہیں لیکن جب غیر مسلموں نے اس بقیہ حاشیہ : -۹- مرزا عبدالکریم صاحب دوکاندار ” مرحوم بھیرہ کے باشندہ اور احمدی تھے.حضرت والد - 1+ صاحب کی ملازمت میں کتب خانہ ان کے سپر د تھا.پھر ریاست پونچھ میں چلے گئے تھے.“ صوفی عبدالرحیم صاحب.یہ صوبہ سرحد کے باشندہ تھے.پہلے حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے مریدوں میں سے تھے پھر احمدی ہو گئے تھے.دن بھر تلاوت قرآن مجید ان کا شغل تھا.جو بھی ان سے ملاقات کے لئے آتا اس سے قرآن مجید پڑھواتے.آپ تلاوت کرتے اور روتے رہتے.بزرگ اور نیک شخص کے طور پر حضرت والد صاحب نے ان کو اپنے پاس رکھا ہوا تھا اور ان کو کچھ وظیفہ دیتے تھے.۱۹۰۴ء کے قریب مالیر کوٹلہ میں وفات ہوئی.ان کا ایک لڑکا ہے اور افسوس کہ وہ کئی بار ارتداد اختیار کر چکا ہے.اس کا نام ”میاں عبدالرحمن صاحب طالب علم کے طور پر مرقوم ہے.“ 11- حافظ اللہ دتا صاحب معمار مالیر کوٹلہ کے رہنے والے تھے.احمدی تھے.مالیر کوٹلہ میں فوت ہوئے.غیر احمدیوں نے ان پر شد ائدروار کھے.ان کا لڑکا ایک ہے.افسوس کہ وہ احمدی نہیں.“ ۱۲- رحمت اللہ صاحب گاڑی بان.یہ احمدی نہ تھے.فوت ہو چکے.ان کے والد میاں جیوا گاڑی بان احمدی تھے.“ ۱۳ - نبی بخش چپراسی.” یہ احمدی نہ تھے.نبی کے نام سے معروف تھے.۱۹۰۱ء میں حضرت والد صاحب کے ہمراہ قادیان آئے تھے.اس وقت کی ڈائری میں ان کا نام بھی موجود ہے.-17 - ۱۴ غلام حسین کو چبان.یہ احمدی نہ تھے.فوت ہو چکے ہیں.“ ۱۵- شیخ نواب صاحب.یہ احمدی نہ تھے.شیخ مراد بخش صاحب کو توال کے رشتہ دار تھے.“ ۱۶- سید سعادت علی صاحب جمعدار در بان.یہ احمدی نہ تھے.حضرت والد صاحب گھوڑا گاڑی میں والدہ صاحبہ کو بٹھا کر مقفل کر کے چابی جس جمعدار کے سپر د کرتے تھے وہ یہی جمعدار تھے.“ ۱۷- میاں مولا بخش صاحب درزی - احمدی نہ تھے.درزی کے طور پر ملازم تھے.“ ان احباب کے اسماء فہرستہائے مذکورہ چندہ میں موجود ہیں.یہ چندہ مرزا خدا بخش صاحب کے ذریعہ وصول ہوا تھا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مالیر کوٹلہ کے چندہ کی فراہمی میں نواب صاحب کا بہت سا دخل تھا.چنانچہ حضرت اقدس نے جنگ ٹرانسوال کے زخمیوں کے لئے فراہمی چندہ کا اعلان فرمایا تھا اور ہدایت دی تھی کہ ہر جماعت اس چندہ کی مکمل فہرست اور چندہ مرزا خدا بخش صاحب کو قادیان بھیج دے تا کہ رپورٹ
475 کے سننے کا اشتیاق ظاہر کیا تو حضور نے اس کو تبلیغ کا ذریعہ بنالیا.حضور کی آواز تو نہیں بھری گئی تھی لیکن جو دو بزرگوں کی آواز بھری گئی افسوس کہ وہ بھی محفوظ نہ رہ سکی..سلنڈرجوموم یا مصالحہ کے بنے ہوتے تھے جلد ہی خراب ہو گئے.جلیل القدر صحابہ میں سے حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا مجھے علم ہے کہ دس بارہ سال قبل ایک فرم کی درخواست پر لاہور کی نمائش میں حضور نے سورہ فاتحہ تلاوت کی تھی جس کو فرم نے ریکارڈ کر لیا تھا.* خدا کرے آئندہ نسلوں کے لئے اس مسیحی نفس کی آواز محفوظ رہے.ہمعصری کی وجہ سے ہمیں اس کی اہمیت معلوم نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ حضور کا بابرکت زمانہ دراز کرے جس سے دراصل حضرت اقدس کا عہد مبارک ہی وسیع ہورہا ہے.بعد میں یقیناً بصد حسرت و یاس حضور ایدہ اللہ بھی حضرت اقدس کی طرح اس شعر کے مصداق ہوں گے.امروز قوم من نشناسد مقام من روزے بگرید یاد کنند وقت خوشترم فونوگراف کے متعلق نواب صاحب ۱۵ نومبر ۱۹۰۱ء بروز جمعہ کی ڈائری میں تحریر فرماتے ہیں.مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب انور حال پرائیویٹ سیکرٹری حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ سے ایڈریس معلوم کر کے ممبئی کی اس کمپنی کو خاکسار نے خط لکھا لیکن واپس آ گیا.جلسہ سالانہ ۵۱ء پر ربوہ میں مکرم سید عبد الرحمن صاحب متوطن امریکہ (خلف سید عزیز الرحمن صاحب منصوری رضی اللہ عنہ ) نے حضور کی تقاریر ریکارڈ کی ہیں.بقیہ حاشیہ: میں ذکر کیا جائے.(اشتہار، افروری ۱۹۰۰ ء ) اور دوسری جگہ کتاب ہذا میں مرزا صاحب کا خط درج کیا گیا ہے.وہ نواب صاحب کو فہرست مذکورہ ارسال کرنے کے لئے تحریر کرتے ہیں تا اس کا اندراج ہو سکے.اس سے ظاہر ہے کہ ہجرت سے قبل مالیر کوٹلہ کے چندہ کی فراہمی میں نواب صاحب کی سعی و توجہ کا بہت کچھ دخل تھا.احباب مذکورہ کے علاوہ مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب دو اور احمدیوں کا ذکر فرماتے ہیں.۱- خیر الدین خاں صاحب.یہ احمدی تھے اور حضرت والد صاحب کے ملازم بھی.اور مولوی نواب خاں صاحب ثاقب میرزا خانی کے رشتہ دار تھے.فوت ہو چکے ہیں.ان کے بیٹے عبداللہ خاں صاحب احمدی ہیں.“ ۲.عمرہ معمار یہ احمدی تھے اور حضرت والد صاحب کے ملازم بھی.مالیر کوٹلہ کے باشندہ تھے.لا ولد فوت ہوئے.ان کا اصل نام عمر الدین تھا.“
476 بعد نماز (صبح) فونوگراف درست کئے.بعد نماز عصر فونوگراف حضرت اقدس کو سنائے اور دوسلنڈر مولوی عبد الکریم صاحب نے بھرے.“ اور ۲۰ نومبر کی ڈائری میں رقم فرماتے ہیں نماز عصر میں حضرت نے فرمایا کہ شرمیت نے کئی دفعہ ہم کو فونوگراف سننے کے لئے کہا ہے پس ہم چاہتے ہیں کہ اس ذریعہ ان کو ( تبلیغ ) بھی ہو جائے.ہم کچھ شعرلکھ دیتے ہیں اور عجب نوریست در جان محمد یہ نظم فونوگراف میں بند کی جائے.چنانچہ حسب الحکم اشعار بند کئے گئے.حضرت اقدس نے چند منٹوں (میں) ایسے لطیف شعر فرمائے جو نہایت ہی عمدہ اور نیچرل اور پر معنی تھے.چنانچہ کوئی ساڑھے چار بجے فونوگراف ایک مجمع میں جس میں ہندو مسلمان تھے.صحن بالا خانہ میں سنایا گیا.یہ نظم الحکم میں چھپے گی.“ اس بارہ میں معزز الحکم میں مرقوم ہے.فونوگراف کے ذریعہ دعوت اسلام 66 ناظرین الحکم غالبا اس خبر سے نا واقف نہیں کہ حضرت حجتہ اللہ علی الارض مسیح موعودا دام اللہ فیوضہم کا منشاء ہے کہ فونوگراف میں اپنی تقریر بند کر کے دوسرے ممالک میں بھیجیں اس تجربہ کے لئے عالی جناب نواب محمد علی خاں صاحب رئیس اعظم مالیر کوٹلہ کی خدمت میں لکھا گیا تھا کہ جب دارالامان آئیں تو اپنا فونوگراف لیتے آئیں چنانچہ وہ لے آئے اور حضرت اقدس کو وہ دکھایا گیا.قادیان جیسے گاؤں میں فونوگراف تو ایک عجیب تحفہ سمجھنا چاہئے اور حقیقت میں وہ عجیب چیز ہے اس لئے جب گاؤں میں یہ چرچا ہوا تو اکثر لوگوں کو اس کے دیکھنے کا خیال ہوا.مگر فونوگراف ایک ایسے معزز و مقتدر انسان کے ہاتھ میں تھا کہ ہر کس و ناکس ( کو ) جرات نہ ہو سکتی تھی کہ وہ جا کر براہ راست عرض کرے اگر چہ نواب صاحب کے اخلاق فاضلہ سے بعید تھا کہ کوئی شریف اگر چاہتا تو وہ نہ دکھاتے.مگر لالہ شرمپت رائے (جن کے نام سے الحکم کے ناظرین اور حضرت اقدس کی کتابیں پڑھنے والے خوب واقف مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی فرماتے ہیں صحن بالا خانہ سے مراد صحن حضرت ام المؤمنین (اطال اللہ بقا ء ہا) ہے.میں بھی اس مجلس میں موجود تھا.“
477 ہیں ) نے حضرت اقدس کے حضور التجا کی چنانچہ ۲۰ نومبر ۱۹۰۱ء کو نماز ظہر کے لئے جب حضرت اقدس تشریف لائے تو آپ نے نواب صاحب ممدوح سے لالہ شرمیت رائے کی درخواست کا ذکر فرمایا نواب صاحب نے منظور فرمالیا.مگر اب قابل قدر اور لائق ذکر یہ بات ہے کہ حضرت اقدس نے سوچا کہ یہ لوگ تو بطور کھیل اور عجوبہ کے اس کو دیکھنا چاہتے ہیں بہتر ہوگا کہ ہم اس سے اپنا کام لیں اور ان کو تبلیغ کریں.چنانچہ آپ نے یہ تجویز فرمائی کہ اس میں چند شعر جو ہم تیار کر دیتے ہیں بند کئے جائیں اور ایسا ہی پرانی نظموں میں سے اور کچھ قرآن شریف.فرمایا مولوی عبد الکریم صاحب بند کر دیں.یا صاحبزادہ سراج الحق صاحب جن کی آواز اچھی ہے آخر مولوی عبد الکریم صاحب نے ان شعروں کو بند کیا.رقعہ لالہ شرمپت.نواب صاحب کو کہہ کر فونوگراف منگوا لیا ہے اب تمہاری انتظاری ہے اگر ملا وامل بھی دیکھنا چاہے وہ بھی آجائے بلکہ اگر پانچ سات اور آدمی آنا چاہیں تو مضائقہ نہیں ہے ہر روز فرصت نہیں ملتی اس وقت فرصت نکالی ہے جلد آنا چاہئے.(مرزا غلام احمد ) چنانچہ لالہ شرمپت رائے اور آریہ سماج کا سیکرٹری اور بہت سے لوگ ہندو اور مسلمان اس کے دیکھنے کو آئے اور لالہ شرمپت رائے کو فونوگراف کے بالکل پاس بٹھایا گیا سب سے پہلے فونوگراف نے منشی نواب خاں صاحب ثاقب مالیر کوٹلوی کے لب ولہجہ سے یہ چند شعر سنائے.یده اشعار ره از چشم خود آب ، درختان محبت را مگر روزے دہندت ، میوہائے پُر حلاوت را مه اسلام در باطن ، حقیقت ہا ہمے دارد کجا باشد خبرزان مه ، گرفتاران صورت را من از یار آمدم ، تا خلق را این ماه بنمایم گر امروزم نے بینی ، نه بینی روز حسرت را گراز چشم تو پنہاں است شانم دم مزن بارے کہ بد پرہیز بیمارے نہ بیند روئے صحت را
478 اس کے بعد فونوگراف سے مولانا عبد الکریم صاحب کے لب ولہجہ میں یہ اشعار نکلے اشعار فونوگراف سے آواز آرہی ہے یہ ڈھونڈ و خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے جب تک عمل نہیں ہے دلِ پاک وصاف سے کمتر نہیں یہ مشغلہ بت کے طواف سے باہر نہیں اگر دل مردہ غلاف سے حاصل ہی کیا ہے جنگ و جدال و خلاف سے وہ دیں ہی کیا ہے جس میں خدا سے نشاں نہ ہو تائید حق نہ ہو مدد آسماں نہ ہو مذہب بھی ایک کھیل ہے جب تک یقیں نہیں جو نور سے تہی ہے خدا سے وہ دیں نہیں دین خدا وہی ہے جو دریائے نور ہے جو اس سے دور ہے وہ خدا سے بھی دور ہے دین خدا وہی ہے جو ہے وہ خدا نما کس کام کا وہ دیں جو نہ ہووے گرہ کشا جن کا یہ دیں نہیں ہے نہیں ان میں کچھ بھی دم دنیا سے آگے ایک بھی چلتا نہیں قدم وہ لوگ جو کہ معرفت حق میں خام ہیں بت ترک کر کے پھر بھی بتوں کے غلام ہیں یہ اشعار پھر دوبارہ پڑھے گئے جس وقت یہ اشعار حضرت اقدس نے خاص اسی تقریب کے لئے چند منٹ میں لکھ کر دئے تھے جب فونوگراف سے نکل رہے تھے تو احمدی جماعت کے ایمان میں ترقی اور تازگی آتی تھی اور ان کے چہروں سے خوشی اور لذت کے آثار نمایاں تھے برخلاف اس کے جو لوگ فونوگراف سننے کی
479 درخواست کرنے والوں میں تھے ان کے چہروں پر ایک رنگ آتا اور جاتا تھا مگر مجبور تھے سننا پڑا.اس کے بعد فونوگراف نے پھر حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کی آواز میں یہ چند شعر حضرت اقدس کے ایک الہامی نعتیہ قصیدہ کے سنائے.اشعار عجب نوریست ، در جان محمد عجب لعلیست در کان محمد ! ز ظلمت ہا ، دلے آنگه شود صاف گردد از محبان محمد عجب دارم دل آن ناکسان را که رو تابند از خوان محمد ! ندانم بیچ نفسے در رو عالم خدا زاں سینه بیزارست صدبار چه بیت که دارد شوکت و شان محمد که هست از کینه داران محمد ! ها بداند این جوان را اے دشمن نادان و بے راہ پرس که ناید کس بمیدان محمد ! از شیخ بُران محمد رہ مولی که گم کردند مردم بجو در آل منکر از شان محمد ہم کرامت گرچه بے نام و نشان است ز غلمان و اعوان اعوان محمداً از نور نمایان محمد ! اس کے بعد قرآن شریف مولوی عبد الکریم صاحب کے لہجہ میں سنایا گیا اور جلسہ پر خاست ہوا.اسی طرح دوسری جگہ مرقوم ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۳ صفحه ۴ ، ۵ پر چہ ۲۴ نومبر ۱۹۰۱ ء.اس بارہ میں تذکرہ المہدی میں پیرسراج الحق صاحب نعمانی تحریر فرماتے ہیں.فونوگراف سے تبلیغ ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام نے جو فونوگراف جناب نواب محمد علی خاں صاحب نے منگوایا تھا فرمایا ہمارے پاس بھی لاؤ.ہم بھی سنیں گے.پھر نواب صاحب لائے اور آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ آلہ بھی خدا نے ہمارے لئے اور ہمارے مقاصد کے پورا کرنے کے لئے ایجاد کرایا ہے.اس میں ہم آواز اپنی
480 فونوگراف اور حکیم الامت کا وعظ حضرت حکیم الامتہ کا ایک مختصر وعظ سورۃ والعصر پر فونوگراف میں بند کیا گیا تھا ناظرین کے فائدہ کے لئے لکھا جاتا ہے.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرّحمن الرّحيم والعصر ان الانسان لفي خسر الا الذين امنوا وعملوا الصلحت وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر.اس مختصر سی سورہ شریف میں اللہ تعالیٰ رب العلمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین نے محض اپنی رحمانیت سے کس قدر قرب کی راہیں اور آرام و عزت و ترقی کی سچی تدابیر بتائی ہیں.اول یہ بتایا کہ کسی مرسل من اللہ کا زمانہ اور انسان کے کامل فہم اور تجارب صحیحہ کا وقت لوگوں کے لئے عصر کی طرح دن کا آخری وقت ہوتا ہے جس طرح عصر کے بعد پہر دن کا وقت ان نمازوں کے لئے نہیں رہتا جو ایمان والوں کے لئے معراج.دعا اور قرب کا ذریعہ اور ہر ایک بے حیائی اور بغاوت سے روکنے کا سبب ہیں.اسی طرح مرسل من اللہ کا زمانہ اور انسان کے فہم اور تجارب صحیحہ کے بعد اور کوئی وقت نہیں رہتا جس میں انسان اپنے گھاٹے کو پورا کر سکے.اس لئے ہر ایک مرسل من اللہ کے زمانہ اور صحت عقل کے وقت کو لوگ غنیمت جان کر یہ کام کر لیں.اول بچے اور صحیح علوم کو حاصل کریں.مثلاً اللہ تعالیٰ کی ہستی ، یکتائی ، بے ہمتائی ، غرض وحدہ لا شریک ذات کو ما نہیں.اللہ تعالیٰ کے اسماء میں اس کی تعظیمات میں کسی دوسرے کو شریک نہ کریں.ملائکہ کی پاک تحریکات کو مان لیں.اللہ تعالیٰ کی کتابوں اور رسولوں اور جزاء سزا اور قیامت اور دیگر سچے علوم پر یقین کریں.دوم ان بچے صحیح واقعی علوم کے مطابق سنوار کے کام کریں اور کرتے رہیں.کوئی کام اس کا نہ ہو جو بقیہ حاشیہ: - بھر کر دو آدمیوں کو غیر بلاد میں بھیجیں گے تاکہ تبلیغ احکام الہی پوری ہو جاوے.اس کے ذریعہ سے ہر ایک سن لے گا.اور یوں وعظوں کی مجالس میں یورپینوں کو شامل ہونا موت کا سامنا ہوتا ہے.لیکن اس ذریعہ سے وہ سن لیں گے اور فرمایا ہم ایک نظم لکھتے ہیں اور فرمایا کہ دوسرے بلاد میں ہماری آواز چاہئے.کس واسطے کہ خدا نے ہمیں مبعوث کیا ہے اور مبعوث من اللہ کی آواز میں برکت ہوتی ہے...پھر قادیان شریف کے آریوں شرمپت وغیرہ نے فونوگراف سننا چاہا ان کے لئے تبلیغ اسلام کی ایک نظم لکھی تا کہ وہ اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا حکم سن لیں.پھر ہندو عور تیں آگئیں آپ نے اس ذریعہ سے ان کو بھی اللہ تعالی کے احکام سنوائے اور اسلام کی خوبی ان کے کان میں ڈالی اور آپ اس سے نہایت خوش ہوئے.۳۴۲
481 سنوار اور اصلاح کے خلاف ہو.سوم دوسروں کو آخری دم تک تاکید حق بتاتے رہیں اور ہر دم کونفس واپسیس یقین کر کے بطور وصیت حق پہنچاویں.چہارم ان سچائیوں صداقتوں پر عمل درآمد کرانے میں کوشش کریں کہ وہ دوسرے لوگ بھی بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر مضبوط رہنے میں استقلال کریں.“ ۵.حضور کے سفر سیالکوٹ کے لئے خدمت حضرت اقدس مقدمات گورداسپور کے دوران میں ماہ اگست ۱۹۰۴ء میں چند روز کے لئے جب لاہور تشریف لے گئے تو اس موقعہ پر جماعت سیالکوٹ نے عرض کیا کہ حضور سیا لکوٹ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرما ئیں چنانچہ حضور نے وہاں جانا منظور فرمالیا تھا.حضور کا یہ سفر سیالکوٹ حد درجہ مبارک ثابت ہوا.اس سفر میں اپنے ہمراہ بعض انتظامات کے لئے آپ مرزا خدا بخش صاحب کو لے جانا چاہتے تھے چنانچہ اس بارہ میں آپ نے نواب صاحب کو ذیل کا مکتوب تحریر فرمایا: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم ٢٢ اكتوبر ١٩٠٤ء مجی عزیز ی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالی.اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا حال معلوم ہوا.مجھ کو پہلے ان مجبور یوں کا مفصل حال معلوم نہ تھا اب معلوم ہوا.اس لئے میں اپنے خیال کو ترک کرتا ہوں خدا تعالیٰ جلد تر شفا بخشے.آمین.میں نے ان دنوں میں آپ کے لئے بہت بہت دعا کی ہے اور دعا کرنے کا ایسا موقعہ ملا کہ کم ایسا ملتا ہے الحمد للہ.امید کہ جلد یا کسی قدر دیر سے ان دعاؤں کا ضرور اثر ظاہر ہو جائے گا.دوسرے آپ کو یہ تکلیف دیتا ہوں کہ میں بروز پنجشنبه ۱۲۷ اکتوبر ۱۹۰۴ ء کو سیالکوٹ کی طرف مع اہل وعیال جاؤنگا.اور شاید ایک ہفتہ تک وہاں رہوں اور شاید دو روز کے لئے کڑیانوالہ ضلع گوجرانوالہ میں جاؤں اور میرے ساتھ اہل وعیال اور چھوٹے بچے ہیں آپ براہ مہربانی ہفتہ عشرہ کے لئے مرزا خدا بخش صاحب کو میرے اس سفر میں ہمراہ کر دیں تا کہ ایک حصہ حفاظت اور کام ان کے سپر د کیا جائے امید ہے کہ دس دن تک بہر حال یہ سفر طے ہو جائے گا اگر وہ قادیان آجائیں اور ساتھ جائیں تو بہتر ہے زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ.چنانچہ نواب صاحب کو اس خدمت کا موقعہ ملا اور مرزا خدا بخش صاحب حضور کے ہمراہ رہے اور وہ ۳۴۵ اسباب کے انتظام کے کفیل تھے.
482 ۶- قیام قادیان ایک خدمت ایک دفعہ نواب صاحب کو حضور اقدس نے اپنے سفر گورداسپور کے موقعہ پر قادیان میں قیام رکھنے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ حضوڑ نے تحریر فرمایا:.بسم الله الرحمن الرحيم محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ.نحمده نصلى على رسوله الكريم اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کے خط کے جواب میں لکھتا ہوں کہ میں صرف چند روز کے لئے اہل وعیال کو ساتھ لے جاتا ہوں کیونکہ میں بیمار رہتا ہوں اور گھر میں بھی سلسلہ بیماری جاری ہے بچے بھی بیمار ہو جاتے ہیں بار بار مجھے خط پہنچتے ہیں حیران ہو جاتا ہوں اور محض اس امید پر کہ آپ یہاں تشریف رکھیں گے اور مگر می مولوی حکیم نورالدین صاحب یہاں ہیں میں نے یہ ارادہ کیا ہے اور یقین ہے انشاء اللہ جلدی یہ فیصلہ ہو جائے گا اس لئے میرے نزدیک آپ کا اس جگہ ٹھہر نا مناسب ہے.آپ کے یہاں رہنے سے مکان میں برکت ہے امید ہے کہ آپ پسند نہیں فرمائیں گے کہ مکان ویران ہو جائے.اور آنے والے مہمان خیال کریں گے کہ گویا سب لوگ اجڑ گئے ہیں اور شماتت اعداء ہوگی ماسوا اس کے آپ اگر گورداسپور جائیں تو دو تین میل کے فاصلہ پر مجھ سے دور رہیں گے ملاقات بھی تکلیف اٹھانے کے بعد ہوگی پھر علاوہ اس کے خواہ نخواہ چھ سات روپیہ کرایوں وغیرہ میں آپ کا خرچ آجائے گا.پہلے ہی مصارف کا نتیجہ ظاہر ہے اب اس قدر بوجھ اپنے سر پر ڈالنا مناسب نہیں ہے میرے خیال میں یہ سفر چند روز کا ہے انشاء اللہ تعالیٰ.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ.☆ نقل مطابق اصل.چھ سات صدر و پیہ مراد ہے جیسا کہ عربی اعداد میں مرقوم ہے اس مکتوب کا عرصہ تحریر ان امور سے متعین ہوتا ہے کہ حضرت اقدس مع اہل بیت گورداسپور میں تھے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب قادیان میں -۲ حضرت نواب صاحب ہجرت کر کے آچکے تھے.۳- مقدمہ آخری مرحلہ پر تھا.سو ہجرت کے بعد بمقدمہ کر مدین حضرت اقدس کو مع اہل بیت گورداسپور میں قیام رکھنا پڑا.چنانچہ اس بات سے علم ہوتا ہے کہ -1 حضرت اقدس مع جميع ممبران خاندان ۰۴-۷-۶ سے ۰۴-۷-۱۲ تک گورداسپور میں تھے پھر مقدمہ
483 ے.قادیان میں فنانشل کمشنر کی آمد سر جیمز ولسن فنانشل کمشنر پنجاب جمعیت ڈپٹی کمشنر گورداسپور و مہتم بندو بست و پرائیویٹ سیکرٹری دورہ کرتے ہوئے ۲۱ مارچ ۱۹۰۸ء کو قادیان آئے.جب سے جماعت احمد یہ قائم ہوئی تھی صوبہ کے اتنے بڑے افسر کا جو اس زمانہ میں گورنر کے دوسرے نمبر پر ہوتا تھا قادیان میں مقام رکھنے کا یہ پہلا موقعہ تھا.اب قادیان بقیہ حاشیہ : - ۰۴-۷-۱۹ پر ملتوی ہوا.حضور نے ارادہ فرمایا کہ جب تک مقدمہ کی پیروی کے لئے ضروری ہے عارضی طور پر گورداسپور میں جا ٹھہریں چنانچہ وہاں ایک اور وسیع مکان لے لیا گیا.جہاں حضور مع اہل بیت رہیں گے.۱۳ اگست کو حضور وہاں جانے کے لئے عازم ہیں.۳۴۸ ۳۴۹ ۳- شہادت استغاثہ ختم ہوئی ۰۴-۸-۲ پیشی مقرر ہوئی.-۱۸-۸-۰۴-۴ کے بعد ۰۴-۹-۵ پیشی مقرر ہوئی.اس اثناء میں حضور لاہور تشریف لے گئے اور وہاں حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت نواب صاحب کو بھی بلایا.یہ دونوں علی الترتیب ۲۲-۸-۰۴ ۲۳-۸-۰۴ کولاہور پہنچے.۰۴-۸-۲۴ کو فریق مخالف کی تحریری بحث ملی جس کا جواب ۳۵۱ ۳۵۰ ۲۲-۸-۰۴ کو حضور کی طرف سے پیش ہوا.-۵ حضور ۰۴-۹-۴ سے مع اہل بیت گورداسپور میں تھے.اور حضرت مولوی نورالدین صاحب بھی ۳۵۲ و ہیں تشریف لے گئے..حضرت مولوی صاحب نے بچہ کی شدید علالت کے باعث اپنے اہل بیت کو گورداسپور میں بلوالیا.حضور مع اہل بیت و حضرت مولوی نورالدین صاحب گورداسپور میں تھے.حضرت اقدس کی غیر حاضری ۳۵۳ سے قادیان قریباً اجاڑ معلوم ہوتا ہے.اس کی تجارت اور رونق پر برا اثر پڑا.تاریخ فیصلہ ۰۴-۱۰-۱ مقرر ہوئی.-9 ۳۵۴ اہل بیت و حضرت مولوی صاحب کے ہمراہ حضور گورداسپور میں تھے.0 فیصلہ ۰۴-۱۰-۸ کو ہوا.۳۵۶ ۳۵۵ اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ مکتوب ۶ جولائی ۱۹۰۴ء سے ۱۳ اگست ۱۹۰۴ ء کے درمیان عرصہ کا ہے.
484 کی اہمیت سلسلہ احمدیہ کی وجہ سے ہی تھی اس لئے مہمان نوازی وغیرہ کی ذمہ داری جماعت پر ہی تھی.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے بھائی خواجہ جمال الدین صاحب گھوڑوں پر سوار ہو کر ایک میل آگے پیشوائی کے لئے گئے.ریتی چھلہ کو خیموں اور ڈیروں کے لئے صاف کیا گیا اور ایک دروازہ بنایا گیا جس پر WEL COME ( خوش آمدید ) لکھا تھا اور دروازہ کے اندر سٹرک پر خیمہ تک دور و یہ پھولوں کے گملے رکھے گئے اور خیمہ کے باہر ایک چبوترہ تیار کیا گیا.مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ فنانشل کمشنر کے لئے انتظام دروازے وغیرہ کی تعمیر کا میرے سپرد تھا اور یہ سب کام نواب صاحب کے مستریوں نے کیا تھا بلکہ سبزی کے لئے جو بودیئے گئے تھے جو جلد اگ آتے ہیں اور سبزہ زار بن گیا تھا.چبوترہ پر سلسلہ کے ساٹھ کے قریب معززین جو مختلف مقامات سے خاص طور پر اس موقعہ کے لئے آئے تھے استقبال کے لئے بیٹھے تھے.مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں.پیشوائی کے لئے جانے والوں میں بطور نمبر دار حضرت مرزا سلطان احمد صاحب بھی تھے اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اس گھوڑے پر سوار تھے جو بطور تحفہ کپورتھلہ سے آیا تھا.چونکہ خواجہ کمال الدین صاحب بھاری بھر کم جسم کے تھے ان کا گھوڑا کمزور سا تھا اس لئے ان کے ہمراہ دو پٹھان کر دئے گئے تھے تا گھوڑے کو چلاتے رہیں لیکن خواجہ صاحب واپسی پر کچھ دیر بعد پہنچ سکے.مدرسہ تعلیم الاسلام کے طلبہ بھی استقبال کے لئے موجود تھے ان میں میں اور میرے دونوں بھائی میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب اور میاں عبدالرحیم خاں صاحب بھی شامل تھے.کمشنر صاحب نے مع رفقاء گھوڑے پر سوار ہی سب سے ملاقات کی.معززین کی قطار میں سرے پر حضرت مولوی نور الدین صاحب اور دوسرے نمبر پر حضرت نواب صاحب تھے.حضرت مولوی صاحب نے ذکر کیا کہ آپ سے میری ملاقات اپنے ضلع شاہ پور میں ہوئی تھی جبکہ آپ وہاں ڈپٹی کمشنر تھے.کمشنر صاحب نے اس امر کی تصدیق کی.ہم تینوں بھائیوں کے متعلق کمشنر صاحب نے دریافت کیا تو بتایا گیا کہ ہم قادیان میں تعلیم پاتے ہیں.ڈپٹی کمشنر صاحب نے حضرت مولوی صاحب کے مطب کا بھی معائنہ کیا اور مدرسہ تعلیم الاسلام کا بھی.کمشنر صاحب کی طرف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار ہونے پر حضرت اقدس اس معزز مہمان کے ہاں خود تشریف لے گئے.کمشنر صاحب خیمہ سے باہر لینے کے لئے آئے.قریباً ایک گھنٹہ تک ملاقات رہی جہاں حضرت والد صاحب بھی موجود تھے.واپس آکر گھر میں والد صاحب نے ذکر کیا کہ کمشنر صاحب کی طرف سے کانگریس اور مسلم لیگ کا ذکر ہونے پر حضور نے فرمایا کہ مجھے ان دونوں سے بغاوت کی بو آتی ہے.“
485 جماعت احمدیہ کی اہمیت کی وجہ سے جماعت ہی کے ذمہ معززمہمانوں کی تواضع تھی.چنانچہ کمشنر صاحب نے دعوت منظور کر لی تھی.مکرم عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں.پلاؤ زردہ کی دیگیں پکوا کر بھیجی گئی تھیں اور ہر قسم کی رسد، مچھلی ، بکرے وغیرہ حضرت نے فرمایا تھا کہ ان کے جانوروں اور کتوں تک کو کھانا عمدہ دیا جاوے اور جو پکا ہوا کھانا بھیجا جاوے اس میں سے کچھ واپس نہ لایا جاوے.اس دعوت کی ابتدائی گفتگو خاکسار عرفانی نے مسٹر کنگ ڈپٹی کمشنر سے کی تھی اور بتایا تھا کہ اس خاندان کی عظمت کے خیال سے انگریزی افسران کے مکان پر جا کر ملا کرتے تھے.اس پر اس نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو بلا کر دریافت کیا اور تسلی کے بعد جب منظور کر لیا تو شیخ رحمت اللہ صاحب اور دو تین اور دوستوں (نے) میرے ساتھ جا کر با قاعدہ دعوت دی اور کنگ صاحب نے شہر آ کر مدرسہ دیکھنے کے بہانے سے آکر اور حضرت سے مل کر دعوت کی قبولیت کا شکر یہ اظہار کیا.- حضرت خلیفہ اول سے محبت اور آپ کی خدمت اور آپ کی نواب صاحب سے محبت حضرت نواب صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد حضرت مولوی صاحب (خلیفۃ المسیح اول) سے حددرجہ الہی محبت تھی.معلوم ہوتا ہے اس تعلق کی ابتداء تصدیق براہین احمدیہ کے مطالعہ سے ہوئی.اس سے نواب صاحب کے کئی ایک عقدے حل ہوئے چنانچہ حضورا اپنے مکتوب مورخہ ۱۴ فروری ۱۸۹۱ ء میں حضرت مولوی صاحب کو تحریر فرماتے ہیں.نواب محمد علی خاں صاحب اب تک قادیان میں ہیں آپ کا بہت ذکر خیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے مولوی صاحب کی کتاب تصدیق دیکھنے سے بہت فائدہ ہوا اور بعض ایسے عقدہ حل ہو گئے جن کی نسبت ہمیشہ مجھے دغدغہ رہتا تھا.وہ از بس آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں.میں نے انہیں کہا ہے کہ اب تو وقت تنگ ہے یقین ہے کہ اود ہا نہ میں یہ صورت نکل آئے گی.یہ شخص جوان صالح ہے حالات بہت عمدہ معلوم ہوتے الحکم بابت ۰۸-۲-۲۶ میں فنانشل کمشنر صاحب کی آمد کے متعلق تفصیل چھپ چکی ہے.لیکن کتاب ہذا میں بعض باتیں زائد ہیں.مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ اس موقعہ پر مختلف جماعتوں کے نمائندوں کو بلایا گیا ( تھا) اور بیان فرماتے ہیں کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ” مجھے مسلم لیگ سے بھی بغاوت کی بو آتی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور کا یہ ارشاد اس زمانہ کے حالات کے مدنظر تھا.
486 ہیں.پابند نماز اور نیک چلن ہے.اور نیز معقول پسند.“ 66 ۳۵۷ اس مکتوب کے آخری فقرات ظاہر کرتے ہیں کہ ابھی حضرت مولوی صاحب اور نواب صاحب میں ملاقات نہیں ہوئی تھی.بعد ازاں اس تعلق میں زیادتی ہوگئی.حضرت مولوی صاحب کا علمی تبحر اور اعلیٰ درجہ کا تقوی وطہارت جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں.چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر یک پُر از نور یقین بودے اثر کئے اور نواب صاحب کو گرویدہ کئے بغیر نہ رہ سکتا تھا.دوسری طرف نواب صاحب کے لوح قلب کے از حد پاک وصاف ہونے کی وجہ سے اس پر حضرت مولوی صاحب کی محبت کے نقوش کچھ اس طرح مرتسم ہوئے کہ مرور زمانہ سے گہرے ہی ہوتے چلے گئے.اس امر کا ذکر قرآن مجید سے نواب صاحب کے عشق کے ماتحت کیا گیا ہے کہ آپ کی خواہش پر قرآن مجید پڑھانے کے لئے حضور نے حضرت مولوی صاحب کو مالیر کوٹلہ بھجوا دیا تھا.گویا کہ نواب صاحب اب زانوئے تلمذ تہ کر چکے تھے اور یہ تعلق کسی معمولی علم کے خصوص میں نہ تھا بلکہ کتاب اللہ کی تعلیم و تعلیم کے سلسلہ میں تھا اس لئے بھی نواب صاحب حضرت مولوی صاحب کو اپنے لئے مقام ادب پر سمجھتے تھے اور آپ کی خدمت کو اپنے لئے باعث فخر.چنانچہ مکرم میاں محمد عبدالرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ خلافت سے قبل حضرت مولوی صاحب کو خطوط میں نواب صاحب ہمیشہ حضرت استاذی المکرم والمعظم سے خطاب کرتے تھے.نواب صاحب نے حضرت مولوی صاحب کے کھانے کا انتظام اپنے ذمہ لینا اپنے لئے فخر سمجھا لیکن حضرت مولوی صاحب کی غیور طبیعت کسی کا بار احسان اپنے ذمہ لینے کے لئے تیار نہ تھی.حضرت مولوی صاحب نے جن حالات میں قادیان ڈیرہ جمالیا تھا اس کا اندازہ مکرم میاں محمد عبدالرحمن خاں صاحب کے بیان سے ہوتا ہے وہ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب جب ریاست کشمیر سے فارغ ہو کر آئے تھے تو آپ بہت مقروض تھے.مجھے حضرت میر محمد الحق صاحب نے آپ کی حالت کا ذکر ان الفاظ میں سنایا کہ پہلی بار آپ نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لئے پانچ روپیہ کی قسط روانہ کی تو قرض خواہ نے قرض کی رقم خطیر کے بالمقابل اتنی قلیل قسط دیکھ کر لکھا کہ کیا آپ نے مجھ سے تمسخر کیا ہے.تو آپ نے جواب لکھا کہ اس وقت میرے پاس اتنی ہی رقم تھی جو میں نے روانہ کر دی.قرض آپ کا میرے ذمہ ہے اور میں ہی اسے ادا کروں گا.آپ فکر نہ کریں.اس سے آپ کی غیور فطرت کا علم ہوتا ہے.اس لئے نواب صاحب نے ایک ہی راہ کھلی پائی کہ اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اجازت حاصل کر لیں جس کے بعد حضرت
487 مولوی صاحب کے لئے کوئی دوسرا حرف زبان پر لانے کا خیال تک بھی پیدا نہ ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خود بھی حضرت مولوی صاحب کا بہت خیال رہتا تھا چنانچہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاں پڑھنے کے لئے جایا کرتی تھی آپ نے میرے لئے اور میری ساتھیوں کے لئے درس جاری فرمایا تھا اور فرماتے تھے کہ اب تم آؤیا نہ آؤ.اس کا ثواب تمہیں ملتا رہے گا کیونکہ یہ تمہارے لئے ہی جاری کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے فرمایا ہوا تھا کہ روزانہ مجھے حضرت مولوی صاحب کے متعلق اطلاع دیا کرو کہ ان کی صحت کیسی ہے کھانا کھاتے ہیں کہ نہیں چائے پیتے ہیں کہ نہیں.اور میں جا کر اطلاع دیا کرتی تھی.حضور حضرت مولوی صاحب کا بہت خیال رکھتے تھے.“ چنانچہ اجازت کے لئے نواب صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں ذیل کا عریضہ تحریر کیا.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم.آج سیر میں تذکرہ تھا کہ حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کی طبیعت پھر علیل ہے اور ان کی غذا کا انتظام درست نہیں.چونکہ مجھ کو حضرت مولانا نے قرآن شریف کا ترجمہ پڑھایا ہے اور اس طرح مجھ کو ان کی شاگردی کا ( گو میں بدنام کنند و نکونامے چند کے طور سے شاگرد ہوں ) فخر حاصل ہے.اس لئے میرے دل میں خواہش رہتی ہے کہ حضرت مولانا کی کچھ خدمت کر سکوں.کبھی کبھی میں ( نے ) ان کی غذا کا التزام کیا ہے مگر حضرت مولانا کی غیور طبیعت برداشت نہیں کرتی اور وہ روک دیتے ہیں.اس لئے الامر فوق الادب کے لحاظ سے پھر جرات نہیں پڑتی.اب اگر حضور حکم فرما دیں تو اس طرح مجھ کو خدمت کا ثواب اور حضرت مولانا کے لئے غذا کا انتظام ہو جاتا ہے.اور حضرت مولانا حضور کے حکم کی وجہ سے انکار بھی نہ کریں گے.اصل بات یہ ہے کہ لنگر میں بہ سبب کثرت کار پوری طرح سے التزام مشکل ہے.میرے باورچی کو چونکہ اتنا کام نہیں اس لئے خدا کے فضل اور حضور کی دعا سے امید کی جاتی ہے کہ التزام ٹھیک رہے گا.بس اگر میری یہ عرض قبول ہو جائے تو میرے
488 لئے سعادت دارین کا موجب ہو.دوم.میں نے اپنے بھائی کو حضور کے حکم کے بموجب خط لکھا ہے.حضور ملاحظہ فرمالیں اگر یہ درست ہو تو بھیج دوں.حضور نے جوا با تحریر فرمایا کہ را قم محمد علی خاں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ - حضرت مولوی صاحب کی نسبت مجھے کچھ عذر نہیں.واقعی لنگر خانہ کے لوگ ایک طرف تاکید کی جائے دوسری طرف پھر غافل ہو جاتے ہیں.کثرت آمد مہمانوں کی طرف سے بعض اوقات دیوانے کی طرح ہو جاتے ہیں.اگر آپ سے عمدہ طور سے انتظام ہو سکے تو میں خوش ہوں.اور موجب ثواب.خط آپ نے بہت عمدہ لکھا ہے مگر ساتھ لکھتے وقت ترتیب اوراق کا لحاظ نہیں رہا خط....پڑھتے جب دوسرے صفحہ میں میں پہنچا تو وہ عبارت پہلے صفحہ سے ملتی نہیں تھی.اس کو درست کر دیا جائے.والسلام مرزا غلام احمد ۳۵۸ چنانچہ حضرت مولوی صاحب کے وصال تک نواب صاحب کی طرف سے یہ التزام رہا کہ اعلیٰ درجہ کا کھانا دونوں وقت آپ کی خدمت میں نواب صاحب کے ہاں سے آتا رہا.کب سے شروع ہوا اس بارہ میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ انداز ۱۹۰۶ء کا آخر یا ۱۹۰۷ ء کا شروع ہوگا.جب حضرت خلیفہ اول کو کھانا بھجوانا شروع کیا.کیونکہ جب میں حضرت خلیفہ اول سے پڑھا کرتی تھی تو کھانا آیا کرتا تھا.حضرت مولوی صاحب نواب صاحب کی اس قلبی محبت سے آگاہ تھے.اور دل سے قدر فرماتے تھے.چنانچہ مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیان فرماتے ہیں کہ مجھ سے فرمایا کرتے تھے کہ میاں ! مجھے تمہارے والد سے بہت محبت ہے.میں تو ان کو اپنا دوست سمجھتا ہوں.میاں صاحب موصوف ذکر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جمعہ کے دن کسی نے حضرت مولوی صاحب کو بتایا کہ نواب صاحب کی طبیعت خراب ہے.جمعہ کی نماز کے بعد سیدھے کوٹھی آئے.جون جولائی کا مہینہ.اڑہائی تین کا وقت.دروازہ جوکھٹکھٹایا تو والد صاحب نے پوچھا کون ! فرمایا نور الدین.دروازہ کھولا حیران تھے کیا بات ہے.فرمایا مجھے کسی نے کہا آپ کی طبیعت خراب ہے.والد صاحب نے کہا آپ مجھے اطلاع فرماتے میں گاڑی بھیج دیتا.فرمایا میں نے جب سنا
489 تو پیدل ہی چل پڑا.اس تعلق کی بناء پر نواب صاحب کی باہر سے آمد پر حضرت خلیفہ اول ان کے ہاں ۱۸ نومبر ۱۹۱۰ء کو گئے.جہاں سے واپسی پر حضور گھوڑے سے گر پڑے.چنانچہ مرقوم ہے.۱۸ نومبر ۱۹۱۰ء کو بعد نماز جمعہ حضرت خلیفتہ اسیخ گھوڑے پر سوار ہو کر نواب صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے.نواب صاحب ۱۷ نومبر کو قادیان آئے تھے.اس لئے حضرت از راہ محبت و شفقت جو آپ کو اپنے خدام سے ہے ان کو ملنے کے لئے تشریف لے گئے.علاوہ بریں چونکہ حضرت مسیح موعود مغفور کی صاحبزادی نواب صاحب کے گھر میں ہے.حضرت خلیفہ امسیح کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ بنت مسیح موعود کا جائز احترام مدنظر رکھتے ہیں.اور اس سے اُس محبت کا پتہ لگتا ہے.جو آپ کو اہل بیت حضرت خلیفتہ اللہ المہدی سے ہے.واپسی پر گھوڑی ایک تنگ کو چہ سے داخل ہو کر گزری اور حضرت زمین پر آر ہے.اور پیشانی پر سخت چوٹ آئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرح حضرت مولوی صاحب بھی نواب صاحب کی تربیت میں کوشاں رہتے تھے.چنانچہ ذیل کا مکتوب آپ کی سعی تربیت اور قلبی تعلق پر خوب روشنی ڈالتا ہے.حضرت مولوی صاحب نواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میرا عریضہ توجہ سے پڑھیں.اور ایک آیت ہے قرآن کریم میں اس پر آپ پوری غور فرما دیں.ومَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًاةٌ ويَرُزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ به نابکار خاکسار.راقم الحروف متقی بھی نہیں ۳۵۹ ہاں متقی لوگوں کا محبت ہے اور پورا محب.مجھے بھی بمقام مالیر کوٹلہ بڑی بڑی ضرورتیں پیش آتی رہیں اور قریب قریب اڑ ہائی ہزار کے خرچ ہوا.مگر کیا آپ معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ کہاں سے آیا شاید دوتین سوسے کچھ زائد کا آپ کو پتہ نہ ہوگا.مگر باقی کا علم سوائے میرے مولیٰ کریم کے کسی کو بھی نہیں.حتی کہ میری بی بی کو بھی نہیں.الحکم جلد ۱۴ نمبر ۴۰ صفحه ۱۷.پر چه ۲۸ نومبر ۱۹۱۰ء.بدر جلد نمبر اصفحہ ۲.پر چہ ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ء میں اس کا مختصر ذکر موجود ہے.(مؤلف)
490 آپ کے خرج عمارت کو موجودہ حالت میں خاکسار زیادہ پسند نہیں کرتا.اور غالباً اشارہ بلکہ ظاہراً بھی بہت کچھ عرض کیا.میرا تعلق بحمد اللہ کسی کافر سے نہیں رہا.نواب صاحب! جب میں بہاولپور کو گیا ہوں اس وقت سے میرے ساتھ جموں کی ریاست نے ترک تعلق کیا ہے اور میں نے بھی پرواہ نہیں کی.اور اب تو قادیان میں رہ کر اگر کسی امیر سے تعلق رکھا ہے تو اس کا نام محمد علی خاں ہے اور بس.آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہاں بھی میں کسی امیر کو رغبۂ نہیں ملا.رہی تجارت.میں نے نہایت عمدہ تدبیر کی تھی.مگر مجھے افسوس ہے کہ جن لوگوں کو میں نے اس وقت تحریک کی ان کے سامنے شرمندگی ہوئی.بہر حال جناب سر دست تجارت کا خیال بالکل ترک فرما دیں.اور بجائے اس کے دعاؤں پر.تقویٰ پر آپ زور دیں.اسی طرح آپ نے تحریر فرمایا: مکرم معظم جناب خاں صاحب محمد علی خاں صاحب بالقابه السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.آپ کی تین تحریریں مدت سے میرے مدنظر ہیں اور بہت توجہ کی.آج اس وقت دعا کے لئے تنہا ہوں تو آپ کی تحریر پہلے سامنے آئی.میں نے اسے موخر...میرا منشاء تھا کہ آپ کو مفصل جواب دوں مگر آپ میری موجودہ تعلیم اور حالات سے قطعاً نا واقف ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے توجہ دلائی کہ آپ کو مختصر لکھوں والحمد الله رب العلمین.آپ غور کریں اور خوب سوچیں.گو آپ کو فرصت نہیں مگر دیکھو میں نے حالت علالت میں آپ کا سارا سارا خط پڑھا.“ جیسا کہ خلافت کے تعلق میں دوسری جگہ مفصل مذکور ہے.حضرت مولوی صاحب کی نظر میں نواب صاحب روحانی طور پر اعلیٰ مقام پر فائز تھے.ورنہ حضرت مولوی صاحب جیسی بے نیاز طبیعت والا شخص کسی راجہ مہاراجہ تک کومحض امارت کی وجہ سے پر پشہ کے برابر وقعت نہ دیتا اور خاطر میں نہ لاتا تھا.ادھر نواب صاحب کا یہ طریق تھا کہ باوجود اپنی ریاست و امارت اور دنیوی وجاہت کے کہ جس کے مالک لوگوں سے نہ تک سننے کے عادی نہیں ہوتے حضرت مولوی صاحب کی سرزنش کو بھی نا پسند کرتے تھے.اور سعی بلیغ
491 کرتے کہ سرزنش کی وجہ دور ہو.اور ناراضگی کی اہمیت کو سمجھتے تھے اور اس ”نہ“ کے ازالہ کی کوشش کرتے تھے.چنانچہ مکرم میاں عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں.ایک دفعہ (جب کہ نواب صاحب مدرسہ تعلیم الاسلام میں بطور ڈائریکٹر کام کرتے تھے ) مدرسہ تعلیم الاسلام کے ایک بچے کے پیٹ میں درد ہو گیا.لڑکا حضرت خلیفہ اول کے پاس گیا.حضور نے کہلا بھیجا کہ میں بہت سخت ناراض ہوں.آپ کچھ لڑکوں کا خیال نہیں رکھتے.آپ نے اس ڈانٹ کو برا نہیں منایا بلکہ اسی وقت ڈاکٹر عبداللہ صاحب نو مسلم کو بلا کر بچہ کے علاج کی ہدایت کی.“ مکرم چوہدری نور احمد خال صاحب پیشتر کار کن صدرانجمن بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے نواب صاحب نے سنایا کہ حضرت خلیفہ امسیح اول کا پیغام مجھے کوٹھی دار السلام پہنچا کہ میں نے کہیں باہر جانا ہے گھوڑا بھیج دیں.میں نے کہلا بھیجا کہ اچھا گھوڑا نوکر کے ہاتھ میں جلد پہنچ جائے گا.اور نوکر کو گھوڑا تیار کر کے زین وغیرہ اچھی طرح دیکھ کر لے جانے کے لئے کہا.پیغام لے جانے والے نے حضرت مولوی صاحب کو جا کر کہہ دیا کہ گھوڑا نہیں ملا.حضرت مولوی صاحب کو بہت تکلیف ہوئی.اور کہا کہ اچھا نواب صاحب نے تو گھوڑا نہیں دیا میرا خدا مجھے گھوڑا بھیج دے گا.جب میرا نو کر گھوڑا تیار کر کے حضرت مولوی صاحب کے پاس گیا.تو مولوی صاحب نے...سے فرمایا کہ جاؤ نواب صاحب نے مجھے پہلے گھوڑا دینے سے جواب دے دیا.اب گھوڑا بھیجنے کی کیا ضرورت ؟ جب نو کر گھوڑا واپس لے کر آیا.نوکر سے حضرت مولوی صاحب کی بات سن کر بہت تکلیف ہوئی.نواب صاحب نے فرمایا کہ میں اسی وقت مولوی صاحب کے پاس گیا جا کر اصل قصہ سنایا.مولوی صاحب بھی حیران ہوئے اور میں بھی حیران ہوا.فرمایا بہت اچھا اب تو میں خدا سے گھوڑا مانگ چکا ہوں اور میرے خدا نے مجھے کہہ دیا ہے کہ گھوڑا آ جائے گا.اسی روز یا دوسرے روز ڈیرہ غازیخاں سے ایک عربی گھوڑا معہ متعلقه سامان زین و غیره تیار شدہ حضرت مولوی صاحب کے پاس پہنچ گیا.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ کسی رئیس نے گھوڑا بھیجا ہے.حضرت نواب صاحب نے فرمایا کہ حضرت مولوی صاحب سے مجھے اتنی محبت تھی گھوڑا تو کیا آپ جس چیز کو بھی حکم فرماتے اسی وقت آپ کی خدمت میں پیش کر دیتا.اللہ تعالیٰ نے جس کی نظر نیتوں پر ہوتی ہے.اور جو مافی الصدور کا علم رکھتا ہے.حضرت مولوی صاحب کی (بالخصوص مرض الموت میں) خدمت کا آپ کو موقعہ دیا.چنانچہ جب حضرت مولوی صاحب کو شہر سے با ہر تبدیلی آب و ہوا کے لئے لے جارہے تھے.اور بورڈنگ مدرسہ تعلیم الاسلام کے چوبارہ پر ٹھہرانے کا ارادہ
492 تھا.تو نواب صاحب کی درخواست پر آپ نے نواب صاحب کی کوٹھی دارالسلام میں قیام کرنا پسند کر لیا تھا.جہاں آپ کا وصال ہوا.آپ نواب صاحب کی طرف سے خدمت کے لئے اپنے قلب صافی میں حد درجہ جذبہ امتنان متموج پاتے تھے.جس کا اظہار بھی فرماتے تھے.آپ نے نواب صاحب کو اپنا وصی بھی مقررفرمایا.( ان تمام امور کی تفصیل خلافت کے تعلق میں آچکی ہے ).۹- خدمات صد را انجمن احمد سہ وغیرہ -9 ۱۹۰۵ء میں حضرت اقدس کو متواتر الہامات سے قرب وصال کی خبر ملی جس نے آپ کی ہستی کو بنیاد سے ہلا دیا.آپ نے ارشاد خداوندی سے ایک خاص مقبرہ کی تجویز فرمائی.جس میں مخلصین جماعت بعض شرائط کے ماتحت دفن ہوں اور انتظام مقبرہ کے لئے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی صدارت میں ایک کمیٹی مقرر فرمائی.جنوری ۱۹۰۶ء میں صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.اور اسے سرکاری قانون کے مطابق رجسٹرڈ کر دیا گیا.اس کے صدر بھی حضرت مولوی صاحب ہی مقرر کئے گئے.صدر.سیکرٹری اور مشیر قانونی کے علاوہ گیارہ اور ممبر تھے.جن میں حضرت نواب صاحب بھی تھے.۱۵۹ قاعدہ کی رو سے حضرت اقدس کے مقرر کرده ممبران بشرط اخلاص دوامی ممبر تھے.صدر انجمن کے معرض وجود میں آنے کا باعث یہ امر ہوا کہ قیام کمیٹی انتظام بہشتی مقبرہ کے جلد بعد حضرت اقدس کے سامنے یہ تجویز پیش کی گئی کہ سلسلہ کا کام بہت پھیل گیا ہے اور کئی قسم کے کام جاری ہونے کی وجہ سے مناسب ہے کہ واحد مرکزی کمیٹی قائم کر دی جائے.چنانچہ اس کے قیام پر تعلیم الاسلام ہائی سکول.ریویو آف ریلیجنز اور مقبرہ بہشتی متینوں کی انجمنیں اس مرکزی انجمن کے زیر انتظام وزیر نگرانی کر دی گئیں.حضرت نواب صاحب کو ۱۹۰۰ ء سے ۱۹۱۸ ء تک مختلف عہدوں پر سلسلہ کی خدمات کا موقعہ ملا.اس عرصہ میں آپ کا سلوک رفقاء کار سے جس طرح کا تھا.اور جس رنگ میں آپ کام کرتے تھے.اس بارہ میں مکرم مفتی محمد صادق صاحب اپنے دوسالہ تجربہ کا لخص ذیل کے الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں.جبکہ آپ کو کالج تعلیم الاسلام میں حضرت نواب صاحب کے ماتحت کام کرنے کا موقعہ ملا تھا.اس دو سال کے عرصہ میں مجھے حضرت نواب صاحب کے ساتھ مل کر قادیان کے تعلیمی کاموں میں بہت حصہ لینا پڑا.اور اس واسطے نواب صاحب سے بھی ملاقات کا بہت موقعہ ملتا رہا.حضرت نواب صاحب بہت سادگی سے اپنی زندگی بسر کرتے
493 تھے.میز کرسی کے استعمال کی انہیں عادت نہ تھی.تمام دن فرش پر بیٹھ کر ہی سب کام 66 کرتے تھے.آپ ایک صالح ، بہت نیک، پابند شریعت، زاہد عابد انسان تھے.“ مکرم چوہدری نور احمد خاں صاحب سکنہ سڑوعہ پنشنر کا رکن حال مہاجر ضلع ملتان ذکر کرتے ہیں کہ ابتدائے خلافت ثانیہ میں مجھے دو سال تک حضرت نواب صاحب کے ماتحت بطور کلرک کام کرنے کا موقعہ ملا.آپ اس وقت صدرانجمن احمدیہ کے جنرل سیکرٹری تھے.آپ اس امر کو نا پسند فرماتے تھے کہ کلرک کھڑا رہے اور پھر کاغذات پیش کرے.اس لئے ہمیشہ بیٹھنے کا ارشاد فرماتے.اور کھڑے رہ کر دستخط کرانے سے منع فرماتے.دوسرے کاغذات پر دستخط فرمانے کے بعد ان کی تمام تر ذمہ داری اپنے اوپر سمجھتے.اور کبھی یہ عذر کرنے کو تیار نہ ہوتے کہ فلاں معاملہ کے کاغذات چونکہ کسی کلرک نے تیار کئے ہیں اس لئے اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے.میں نے تو صرف دستخط کئے ہیں.گویا کہ آپ پورے غور و فکر سے دفتری امور کو سرانجام دیتے تھے.آپ کا طریق تھا کہ صبح دس بجے گھوڑا گاڑی پر دفتر پہنچتے اور خوب جم کر پورے چھ گھنٹے کام کرتے.چار بجے گاڑی آجاتی اور آپ ٹھیک چار بجے واپس دار السلام چلے جاتے.اوقات دفتر میں ادھر ادھر جانے کی عادت کم تھی البتہ کبھی کبھی چند منٹ کے لئے حضرت اماں جان اطال اللہ بقاء ہا کے ہاں چلے جاتے تھے.بسا اوقات مجھے دفتری کا غذات آپ کی کوٹھی پر لے جانے پڑتے.آپ کام سے فارغ ہو کر مجھے باغ کی سیر کے لئے لے جاتے.آپ کی شفقت بھری باتوں سے دل محبت سے بھر جاتا.چونکہ میں نسلاً راجپوت ہوں اس لئے کبھی آپ اپنے خاندانی حالات کے ضمن میں ذکر فرماتے کہ ہماری دادی صاحبہ ریاست پٹیالہ کے قصبہ چہل کے معزز راجپوت خاندان سے تعلق رکھتی تھیں.اور ہمارے خاندان میں بہ نظر احترام دیکھی جاتی تھیں.انہوں نے اپنے ہاتھ سے سوت کات کر ایک سائبان تیار کیا تھا.جو بطور یادگا ر رکھا ہوا ہے.موصوفہ بہت سلیقہ شعار خاتون تھیں اور ان کی زندگی میں خاندان میں شادی بیاہ کا انتظام وانصرام انہی کے سپرد ہوتا تھا.اس وجہ سے مجھے راجپوت قوم سے بہت محبت ہے.چنانچہ آپ بہت سے احمدی راجپوتوں کے حالات دریافت فرماتے.الف- قیام صدر انجمن احمدیہ سے قبل ۶ / جنوری سے ۵/ دسمبر ۱۹۰۲ء تک پہلے آپ میگزین (ریویو) کے یہ امران تاریخوں کی ڈائری سے معلوم ہوتا ہے.۵ دسمبر میں نواب صاحب کی طرف سے اس کام کا چارج مکرم مفتی محمد صادق صاحب کے سپرد کرنے کا ذکر آتا ہے.چنانچہ مکرم مفتی صاحب کے فنانشل سیکرٹری مقرر کئے جانے کا ذکر الحکم بابت ۰۲-۱۲-۷ اصفحہ ۱۵ کالم ۳ میں آتا ہے.
494 اسٹنٹ فنانشل سیکریٹری اور پھر فانتشل سیکرٹری کے طور پر کام کرتے رہے.حضرت خلیفہ اسیح اول کے ارشاد کے ماتحت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نواب صاحب، ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے زیر عنوان ” حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یاد گار اعلان شائع کر کے دینی مدرسہ کے قیام کی اہمیت بیان کر کے اس کے لئے چندہ کی تحریک کی گئی.ج - ۱۹۰۹ ء میں آپ صد را انجمن احمدیہ کے امین مقرر ہوئے.د ۱۹۱۱ء میں آپ صدرانجمن کی طرف سے ناظر مقرر ہوئے.ان ایام میں ناظر کے سپر دوہ کام تھا جو آج -0 کل آڈیٹر کے ذمہ ہے.حضرت خلیفہ امسیح اول کے مشورہ اور ارشاد سے فیصلہ ہوا کہ کوٹھی نواب صاحب کے سامنے مسجد نور کے متصل مدرسہ تعلیم الاسلام تعمیر کیا جائے.جن گیارہ احباب کی موجودگی میں حضور نے یہ فیصلہ فرمایا تھا.ان میں نواب صاحب بھی شامل تھے.- حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۲ار اپریل ۱۹۱۴ء کو نمائندگان جماعت کے سامنے قادیان میں کالج کے قیام کی اہمیت بیان فرمائی.19 اپریل کو نواب صاحب نے اعلان کیا کہ حضور نے سولہ ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی کا تقرر فرمایا ہے.جو اس امر پر غور کرے کہ کس طرح کالج جلد سے جلد اور کم خرچ پر قائم کیا جاسکتا ہے.نواب صاحب بھی اس کمیٹی میں شامل تھے.معلوم ہوتا ہے کہ ان ایام میں مالی مشکلات کی وجہ سے -2 ۳۶۳ ۳۶۴ کالج کا قیام نہ ہوسکا.ز غالباً ۱۹۱۵ ء اور ۱۹۱۶ء میں دو سال تک نواب صاحب صدرانجمن احمدیہ کے سیکرٹری جنرل کے عہدہ پر ☆ فائز رہے.ح - ۱۹۱۶ء میں جبکہ صدرانجمن کی مالی حالت اچھی نہ تھی فوری توجہ کے قابل عنوان کے تحت اعلان کیا گیا جنرل سیکرٹری کے سپر د ناظر اعلیٰ والا کام ہوتا تھا.البتہ یہ فرق ضرور تھا کہ میر مجلس جنرل سیکرٹری کے علاوہ کوئی اور ہوتا تھا لیکن ناظر اعلیٰ خود صدر مجلس بھی ہوتا ہے.۶ ارنومبر ۴۷ ء سے ابتداء مارچ ۴۸ ء تک صدرانجمن قادیان میں یہ استثناء رہا کہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ناظر اعلیٰ مکرم صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب کو مقرر فرمایا.لیکن صدر مجلس مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ فاضل امیر مقامی کو.مکرم صاحبزادہ صاحب کے مارچ ۲۸ ء میں چلے جانے کے بعد پھر پہلا طریق جاری ہوا.
495 که صد را انجمن احمد یہ اور انجمن ترقی اسلام کی مدات مقروض ہوگئی ہیں اور یہ قرض اتر نہیں سکتا جب تک کہ کوئی وفد با ہر نکل کر خاص کوشش کر کے رقم کثیر جمع نہ کرے اور جماعت پر واضح کیا گیا کہ وفد میں بزرگوں کو ہی شامل کیا جا سکتا ہے.اور وہ پہلے ہی ضروری خدمات دینیہ میں مصروف ہیں.دوسرے وفد کا دورہ بھی اخراجات کئے بغیر ممکن نہیں.اس لئے احباب اس چٹھی کو ہی وفد کا قائم مقام سمجھیں اور کثیر رقم بھجوا ئیں.اس کے مخاطب ہندوستان ، افریقہ اور دیگر تمام مقامات کے احمدی ہیں.یہ اعلان نواب صاحب ، مولوی شیر علی صاحب اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب رضی اللہ عنہم کی طرف سے ہوا تھا.0 ۳۶۵ ط - اجنوری سے ۱۳ مارچ ۱۹۱۸ ء تک آپ صدرانجمن کے میر مجلس تھے.غیبت سے نفرت.صاف گوئی.جرات.بزرگوں کی قدر آپ کے اخلاق فاضلہ کا نمایاں پہلو یہ امر تھا کہ نہ آپ کسی پر اعتراض کرتے اور کسی کا شکوہ کرتے نہ اسے پسند کرتے.نہ غیبت کرتے اور نہ سنتے.آپ کے سامنے کسی کے خلاف بات کرنے کی کسی کو مجال کم ہی ہوتی تھی.ادب اور حفظ مراتب کے بیحد پابند تھے.اور اکثر اپنی اولاد اور دوسروں کو اس کی تلقین کرتے تھے.یہ سب کچھ نفس کی کسی کمزوری کے سبب نہ تھا.مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے ربوہ سے تحریر فرماتے ہیں کہ نواب صاحب ایک شیر مومن تھے.جس بات کو درست سمجھتے تھے وہی کہتے تھے وہی کرتے تھے.یہ بات نہیں کہ یونہی کسی ذاتی خیال پر اڑ جاتے تھے.بلکہ ایسے امور کے متعلق ہی ان کی شدت ہوتی تھی جو ان کے مطالعہ کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ثابت ہوتے تھے.ایک دفعہ پردہ کی شدت کے متعلق مجھے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ میں پردہ کے متعلق اتنا سخت کیوں ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اور مجھے خوب علم ہے کہ امراء میں کتنا گند ہوتا ہے.آپ کے کیرکٹر کے دو پہلو بہت نمایاں تھے.آپ بڑے عبادت گزار اور بڑے سخی تھے.کثرت سے صدقات کرتے تھے.ایک طرف اتنے عاجز ومنکسر المزاج کہ میں نے کئی دفعہ مسجد میں ان کو جوتیوں میں نماز پڑھتے دیکھا اور دوسری طرف اپنی بات پر اتنے اڑ جانے والے کہ جس دن میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی
496 شادی ہوئی تو آپ نے میاں صاحب کو حضرت اماں جان کے گھر جانے سے روک دیا.کیونکہ نواب صاحب کا یہ خیال تھا کہ سنت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دولہا دولہن کے گھر جا کر دولہن کو اپنے ساتھ اپنے گھر لائے.ایک طرف اپنے نقطہ نگاہ پر اتنا اصرار اور وہ بھی حضرت اماں جان سلمھا الرحمن سے جن کے ساتھ آپ کا روحانی اور جسمانی دو ہر رشتہ فرزندی تھا.اور دوسری طرف عاجزی کی یہ کیفیت کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب جو کہ آپ کے داماد تھے ، ان کے آنے پر کھڑے ہو جاتے تھے.“ 66 آپ کی جرأت اور شجاعت اور حق گوئی کا قدرے ذکر آتھم کی پیشگوئی کے تعلق میں ہو چکا ہے.آپ فراست مومنانہ سے بہرہ کامل رکھتے تھے.چنانچہ آپ نے بارہا والئی ریاست کو خشیت الہی کے اختیار کرنے کی تلقین کی اور جن نتائج کا آپ نے خطرہ ظاہر کیا تھا وہ ظاہر ہوئے.آپ نواب احمد علی خاں صاحب سپرنٹنڈنٹ ریاست کو تحریر فرماتے ہیں.اگر مظلوم کی آہ یا کسی بیوہ کی پکار پر خداوند تعالیٰ جو دانا و بینا ہے اور جس کی یہ ڈھیل آپ کے لئے مفید نہیں بلکہ خطر ناک توجہ کی تو پھر خدا کی پناہ چراغے کہ بیوه ز نے برفروخت بسے دیده باشی کہ شہرے بسوخت بنترس از آه مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن اجابت از در حق بہر استقبال می آید جناب کو معلوم ہے کہ حکام کی خوشی یا نا راضگی ایک عارضی ہے.اصل خوشی یا نا راضگی اس الرحمان الرحیم کی ہے جو مالک یوم الدین ہے اگر وہ مہربان ہے تو کل مہربان.پس جناب چند منٹ غور فرمائیں کہ کیا یہ سب امور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ امور ہیں اور پھر اس کی مصالحت کی یا فاذنُوا بِحَرُبِ مِنَ اللہ کی ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کا مقابلہ ہے.خدا وند تعالیٰ کی گرفت سے ڈرنا چاہئے.اور اس کی پکڑ نہایت سخت ہے اور اس کی لاٹھی میں آواز نہیں اور وہ اچانک آپڑتی ہے.جناب بے غرضانہ عدل و انصاف پر کمر باندھیں.خداوند تعالیٰ سے صلح فرما ئیں پھر خداوند تعالی خود آپ کا
497 مددگا ر اور کفیل ہوگا.‘ ( مکتوب ۰۲-۱-۱۲) آپ اپنے بڑے بھائیوں ، بزرگان ، صحابہ کرام اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے حد درجہ جذبہ احترام رکھتے تھے.حالانکہ آپ ایسے طبقہ سے تعلق رکھتے تھے کہ جو حکومت کے نشہ میں مخمور رہتا ہے.ہمیں کسی واقعہ سے اس طریق سے آپ کے سر مو انحراف کا علم نہیں ہوتا.مکرم مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت نواب صاحب کے اخلاص کا ایک واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں حضرت نواب صاحب نے شہر میں اس جگہ اپنا مکان بنانے کا ارادہ کیا جہاں بعد میں حکیم مولوی قطب الدین صاحب سید احمد نور صاحب کابلی، بابو محمد وزیر خاں صاحب اور قاری غلام بیبین صاحب نے مکانات بنوا لئے.جب نواب صاحب کے مکان کے لئے آپ کے کارکنان نے سرحدیں قائم کیں تو ایک کو نہ ایک بزرگ کی زمین میں چلا گیا اور اس بزرگ کی ناراضگی کا موجب ہوا.حضرت نواب صاحب کے قلب سلیم میں بزرگوں کا اس قدر احترام تھا کہ آپ نے وہاں مکان بنانے کا ارادہ ہی ترک کر دیا کہ اس میں ابتداء میں ہی تنازعہ ہوا ہے یہ جگہ میرے لئے مبارک نہیں ہوسکتی.اور فرمایا کہ ہماری قادیان میں آمد کی غرض وغایت مکان کی تعمیر نہیں.اللہ تعالیٰ نے اس احتیاط کے نتیجہ میں جو برکات آپ کو عطا کیں معروف ہیں.اس تعلق میں مکرم مولوی غلام رسول صاحب را جیکی میرے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ۱۹۰۱ء میں جب خاکسار دارالامان حضرت اقدس کی زیارت اور استفاضہ کے لئے گیا تو جب بھی خاکسار بعد نماز حضرت اقدس سید نا اُمسیح الموعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قرب میں جگہ ملنے کی حرص پر کچھ متاد بانہ کوشش کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے موقع تلاش کرتا تو بزرگ ہستیاں جو سب کی سب پروانہ وار شمع حسن کے اردگرد حلقہ نشین ہو کر ایسے طور پر حضور اقدس کے حضور بیٹھتیں کہ اول تو کوئی جگہ ہی باقی نہ رہتی.پھر میرے جیسے دیہاتی گنواروں کے سادہ لباس میں ملبوس انسان کے لئے ویسے بھی جھجک محسوس ہوتی کہ ان سفید پوش اور خوش لباس زیب تن فرمانے والوں کے حلقہ میں گھنے اور گھس کر جگہ بنا کر بیٹھنے کی گنجائش کہاں ہو سکتی اس لئے حلقہ سے باہر کسی قدر دور ہی کھڑے ہو کر حضور اقدس کی زیارت کر لیا کرتا.جب تین دن اسی طرح قرب سے محرومی پر گزرے تو ہجوم عشاق کی بھیڑ بھاڑ کی حالت میں حضرت اقدس مسجد سے اندرون خانہ تشریف لے جاتے اور اس طرح میرے جیسے غریب مصافحہ کی نعمت سے بھی محروم ہی رہ جاتے.جب اس طرح تین دن گزرے تو مجھے حضور اقدس کے مصافحہ تک کی محرومی کا بہت ہی بڑا احساس ہوا.اس پر خاکسار نے ایک عریضہ کے ذریعے حضور اقدس کے ہاں اپنی محرومی کا اظہار کیا کہ تین دن ہوئے کہ حضور اقدس کا یہ خادم دارالامان
498 میں وارد ہے.اور ضلع گجرات سے بغرض زیارت و استفاضہ برکات صحبت آیا لیکن ابھی تک مصافحہ کی سعادت سے بھی محرومی ہی ہو رہی ہے اس لئے کہ بعد نماز قریب کے معزز ا حباب اور مقتدرہستیاں فورا ہی حضور کے ارد گر د حلقہ کی صورت میں اس طرح سے بیٹھ جاتے ہیں کہ میرے جیسے غریب دیہاتی اور اجنبی کے لئے اس حلقہ سے گزر کر حضور اقدس سے مصافحہ کرنے کی جرات بھی بوجہ ادب نہیں ہوسکتی.جب میرا یہ عریضہ جو خادمہ کے ذریعہ اندر پہنچایا گیا حضور اقدس کو پہنچا تو حضور اقدس نے اپنے قلم اور اپنی د تخطی تحریر کے ذریعے مجھے جواب عطا فرمایا جو نہایت ہی شفقت اور رحمت سے بھرئے ہوئے الفاظ سے لکھا ہوا میرے لئے باعث تسکین اور وجہ تسلی بنا.جس میں ایک فقرہ مجھے اب تک یاد ہے کہ آپ اتنے دن ہوئے مل نہیں سکے.حضور نے اپنے الفاظ میں ایک لفظ تساہل کا بھی لکھا تھا.جس کا مطلب میری سمجھ میں یہی آیا کہ اگر آپ چاہتے تو آپ مل بھی سکتے تھے ملنے میں کون روک بن سکتا تھا.بجز اس کے کہ آپ سے تساہل واقع ہوا.چنانچہ جب چوتھے دن خاکسار کمر بستہ ہو کر حضرت اقدس کے الفاظ کے مطابق جرات کے ساتھ حضرت اقدس کے حلقہ احباب سے گزرتا ہوا حضور کی دست بوسی اور مصافحہ سے جا مشرف ہوا.تو حضور نے بکمال شفقت و جذ بہ ترحم مجھے اپنے پاس بٹھا کر فرمایا کیوں جی آپ اتنے دنوں سے آئے ہوئے ہیں اور ملے نہیں.میں نے عرض کیا کہ حضور ! چونکہ یہ معزز اور بزرگ ہستیاں جو اردگرد حلقہ نشین ہیں ان سے گزر کر حضور تک پہنچنا خلاف ادب محسوس کرتے ہوئے آگے ہونے کی جرات نہ ہو سکتی اور دور پیچھے ہی کھڑا رہتا اس وقت میرے الفاظ کے جواب میں نہایت ہی شفقت اور ترحم سے فرمایا کہ آپ خواہ کوئی بھی ہوں ان سے گزر کر آگے آکر میرے پاس بیٹھ جایا کریں.یہ وہ الفاظ تھے جو اس محبوب خدا کے منہ سے اپنے حقیر سے خادم کے لئے ایسے طور سے میرے لئے باعث نوازش اور موجب فرحت و مسرت ہوئے کہ میری ساری ذہنی کوفت اور پریشانی کے احساس کو دور کرنے والے ہو گئے اور جو میرے لئے جری اللہ فی حلل الانبیاء حضرت مسیح العالمین اور مظہر حضرت خاتم النبین اور بروز محمد رحمة للعلمین کے یہ الفاظ تمام دنیوی سلطنتوں اور مملکتوں اور خزائن الارض کی قیمت سے بھی ہزار ہا درجہ بڑھ کر قیمت رکھنے والے تھے.جب حضور اقدس نے یہ الفاظ مجھے مخاطب ہو کر فرمائے تو اس وقت حلقہ احباب میں بالکل قریب حضرت علامہ مولانا نورالدین صاحب، حضرت مولانا عبد الکریم صاحب اور حضرت نواب محمد علی صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب امر و ہی بیٹھے ہوئے تھے.حضرت اقدس کے ان الفاظ کو سننے کے بعد یہ الفاظ مبارکہ میرے لئے اس قدر با برکت ہوئے کہ اس کے بعد یہ بزرگ ترین ہستیاں اور بعض دوسرے احباب جنہوں نے حضور اقدس کے یہ الفاظ میرے متعلق بطور نوازش کریمانہ اور بجذ بہ شفقت و ترحم
499 سنے تھے ان میں سے بعد میں جب بھی کوئی بزرگ مجھ سے ملتے تو مجھے نہایت ہی محبت اور مہربانی سے ملتے اور مصافحہ فرماتے اور بعض دفعہ مجھ سے گفتگو بھی.مزید تعارف کی غرض سے فرما کر مجھے ممنون فرماتے.چنانچہ انہی الفاظ کی برکت سے حضرت مولانا نورالدین صاحب اور مولانا عبدالکریم صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب کے علاوہ نواب محمد علی خاں صاحب بھی مجھے خوب پہچانتے اور بعض دفعہ عند الملاقات علاوہ مصافحہ کے گفتگو فرمایا کرتے.اسی طرح مکرم مولانا راجیکی صاحب فرماتے ہیں کہ ایک واقعہ یہ بھی یاد آیا کہ جب کہ نواب محمد علی صاحب آخری ایام میں بستر علالت پر تھے تو ایک دن بغرض عیادت خاکسار بھی آپ کے در دولت پر حاضر ہوا.ان ایام میں آپ کے آرام اور استراحت کے خیال سے عیادت کرنے والوں کی کثرت کے باعث وقت معین کیا ہوا تھا.یعنی تین تین منٹ اور زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ تک عیادت کے لئے وقت مقرر ہوتا اور جب وقت ختم ہونے کو ہوتا تو گھنٹی بجانے سے اطلاع دے دی جاتی جس سے عیادت والے صاحب سمجھ جاتے کہ اب عیادت کے لئے جو وقت تھا ختم ہو چکا اب جا سکتے ہیں اور اگر کوئی صاحب زیادہ توقف فرماتے تو گھنٹی کے مسلسل بجائے جانے سے آداب انتباہ سے وقت کی پابندی کی طرف مزید طور پر متوجہ کیا جاتا.چنانچہ جب خاکسار نے دروازہ پر پہنچ کر دستک دی تو محترم نواب محمد عبداللہ صاحب نے میرے آنے کے متعلق نواب صاحب کو اطلاع کی کہ مولوی را جیکی عیادت کے لئے آئے ہیں.اس پر نواب صاحب نے فرمایا کہ انہیں بلالیا جائے اور میرے پاس قریب جگہ پر کرسی پر بٹھایا جائے.چنانچہ جب میں پاس آکر حاضر ہوا تو نواب صاحب مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور چہرہ سے باظہار بشاشت مسرت کا اظہار فرمایا اور کرسی پر بیٹھنے کے لئے اشارہ فرمایا اس وقت علاج و معالجہ کے غیر مفید ہونے کے ذکر سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی خالق الاسباب ہستی ہماری طرح اسباب کی محتاج نہیں اسباب کی احتیاج تو مخلوق کو ہوتی ہے اور خالق الاسباب کی احتیاج مخلوق کی طرح اسباب کو ہوتی ہے نہ کہ خالق الاسباب کو.پس خالق الاسباب چاہے تو اس کی قوت ارادی معدوم کو بذریعہ تکوین موجود کر سکتی ہے.نواب صاحب کے اسی طرح کے کلام کی تائید میں میں نے بھی آیت اوليس الذي خلق السموات والارض بقادر على أن يخلق مثلهم بلى وهو الخلق العليم انما امرة اذا أراد شيا ان يقول له كن فيكون.فسبحان الذي بيده الملكوت كل شئ اليه ترجعون جو سورہ یسین کے آخری الفاظ ہیں پڑھے اور علاوہ اس کے حضرت اقدس سیدنا المصلح الموعودایدہ اللہ کا شعر ذیل بھی پڑھا غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے میرے فلسفیو زور دعا دیکھو تو
500 اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا شعر بھی پڑھا کہ ہزار سر زنی و مشکله نه گردد حل چو پیش او بُردی کار یک دعا باشد پھر میں نے عرض کیا کہ دعا کا مطلب بھی الہی قوت تخلیق و تکوین کی شان کا اظہار ہی ہے کہ جو کام عبد اور مخلوق سے نہیں ہوسکتا وہ معبود اور خالق الاسباب اپنی قوت ارادی سے تخلیق اور تکوین میں لاسکتا ہے.میں اسی طرح کے الفاظ منہ سے کہہ رہا تھا کہ اوپر سے گھنٹی بجی.میں نے عرض کیا اب گھنٹی بج گئی ہے میں چلتا ہوں آپ نے فرمایا گھنٹی کی کوئی بات نہیں.آپ تشریف رکھیئے.آپ کے بیٹھنے سے مجھے مسرت ہے.اس پر میں ایک دومنٹ ہی اور بیٹھا تھا کہ پھر گھنٹی بجی.اس پر میں سمجھا کہ آپ کی تکلیف کے خیال سے گھنٹی کو بجانا مناسب سمجھا گیا ہے.اس پر میں نے آپ سے اجازت لے کر چلنا ہی مناسب سمجھا.جب میں واپس چلا آیا تو محترم صاحبزادہ میاں عباس احمد خاں نے مجھے ملنے پر فرمایا کہ حضرت نواب محمد علی صاحب یعنی دادا صاحب نے خاں صاحب نواب محمد عبداللہ خاں صاحب کے گھنٹی بجانے کے متعلق سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا.اور فرمایا کہ مولوی را جیکی صاحب تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے تھے.آپ تو جتنی دیر بھی میرے پاس بیٹھتے آپ کا بیٹھنا میرے لئے عین راحت اور باعث مسرت تھا.آپ نے جلدی سے گھنٹی بجادی اور آپ کا جلدی سے گھنٹی بجا دینا مجھے بہت ہی نا پسند اور نا گوار سا محسوس ہوا.محترم میاں عباس احمد خاں صاحب سے جب میں نے حضرت نواب صاحب کے یہ فقرات سنے پھر علاوہ ان فقرات کے جو انہوں نے مجھ سے اللہ تعالیٰ کی ہستی کی مقتدرانہ شان تکوین اور اس کی قدرت مطلقہ کے متعلق بیان کئے اور میں نے سے پھر ان کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے متعلق اخلاص اور محبت اور احترام کا نمونہ بھی ان کا مومنانہ حسن اخلاق کے لحاظ سے نہایت ہی قابل تعریف محسوس ہوا.اور جب کبھی ان کا یہ نمونہ مجھے یاد آتا ہے تو ان کے اخلاص اور عارفانہ بصیرت کے یاد آنے سے میرا قلب خاص طور پر اسے محسوس کرتا اور اس سے استفاضہ کرتا ہے اور حضرت اقدس سیدنا مسیح الموعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی مقدس کی بشارت حجتہ اللہ حضرت نواب صاحب رضی اللہ عنہ کے حق میں ایسا پر عظمت شان کا اعزازی خطاب ہے جو قیامت تک کے لئے باعث فخر و مباہات اور نشان سعادت و موجب برکات ہے.رضی الله عنه وارضاه في الحنته العليته بدرجاته الرفعيته _آمین ثم آمین.آپ کے صاحبزداہ مکرم میاں مسعود احمد خاں صاحب سناتے ہیں کہ شورش احرار کے ایام میں کسی شخص نے حضرت نواب صاحب کو لکھا کہ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی ہے کہ آپ احمدیت ترک کر کے مالیر کوٹلہ چلے گئے
501 ہیں.اس نے یہ خیال اس لئے کیا کہ آپ کو جائیداد کی ضروریات سے مجبور ہوکر مالیر کوٹلہ میں لمبے عرصہ کے لئے قیام کرنا پڑا تھا.آپ نے اسے صرف یہ مختصر جواب دیا کہ آپ کا خط ملا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نہ ماننے والے کو کا فرسمجھتا ہوں.مکرم چوہدری نور احمد خاں صاحب پنشتر کارکن صدرا انجمن احمدیہ کے ذیل کے بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت نواب صاحب فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا کے رنگ میں رنگین ہو کر احمدیوں کے دکھ درد میں کہاں تک شریک ہوتے تھے.چوہدری صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ اثنائے گفتگو میں پرانے صحابہ محترم چوہدری نواب خاں صاحب تحصیل دار سکنہ ہریانہ ضلع ہوشیار پور کا ذکر آ گیا تو نواب صاحب نے فرمایا کہ مجھے ان سے بہت محبت تھی.جب بھی وہ قادیان آتے تھے میرے ہاں ٹھہر تے تھے.ایک دفعہ انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ لڑکی جوان ہوگئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فتویٰ ہے کہ لڑکیوں کا رشتہ غیر احمد یوں میں نہ کیا جائے.مشکل یہ ہے کہ ہمارا رواج راجپوتوں میں رشتہ کرنے کا ہے.اور یہ فکر میرے دامن گیر ہے.میں نے ان کو کہا کہ راجپوتوں میں ہی آپ کی لڑکی کے لئے رشتہ کی تلاش کی جائے گی.اگران میں سے رشتہ میسر نہ آیا تو میں اپنے تینوں لڑکوں میں سے ایک آپ کے سپر د کر دوں گا.آپ کسی قسم کا فکر نہ کریں.میں آپ کی لڑکی کی شادی اپنی لڑکی سمجھ کر کروں گا.لیکن چوہدری نواب خاں صاحب نے کچھ عرصہ کے بعد لڑ کی کی شادی اپنے غیر احمدی بھانجے کے ساتھ کر دی اور اس شرمندگی کی وجہ سے پھر قادیان نہ آئے اور غیر مبایعین کے ساتھ شامل ہو گئے.صبر واستقامت.تو کل اور عفاف سورہ العصر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ پرعمل پیرا ہوتے ہیں صرف وہی خاسرو خائب ہونے سے محفوظ رہتے ہیں.اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے إِنَّ الَّذِينَ ٣٧٠٠ قَالُوا رَبُّنَ اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلَ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ إِلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ.جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر استقامت کا شعار اختیار کرتے ہیں ان پر ملائکہ کا نزول ہوتا ہے.جو اطمینان وسکیت پیدا کرتے ہیں اور صبر و استقامت فلاح کی کلید ہے.صبر و استقامت کے اعلیٰ مقام پر حضرت نواب صاحب فائز تھے.جن حالات میں آپ نے احمدیت قبول کی اور شجاعت سے اس کا اظہار کیا یہ آپ ہی کا حصہ تھا.ورنہ شاذونادر ہی لوگ ایسے صبر واستقامت اور شجاعت کا اظہار کرتے ہیں.حضرت اقدس کی طرف سے تربیت کا ایک جزو یہ تھا کہ نواب صاحب کو ہمیشہ صبر واستقامت کی تلقین فرماتے تھے.چنانچہ ایک مکتوب میں تحریر
502 فرماتے ہیں.بسم الله الرحمن الرحيم ا نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا چونکہ آپ کے ترددات اور غم اور ہم انتہا تک پہنچ گیا ہے.اس لئے بموجب مثل مشہور ہر کمالے را زوالے امید کی جاتی ہے کہ اب کوئی صورت مخلصی کی اللہ تعالیٰ پیدا کر دے گا.اور اگر وہ دعا جو گویا موت کا حکم رکھتی ہے اپنے اختیار میں ہوتی تو میں اپنے پر آپ کی راحت کے لئے سخت تکالیف اٹھا لیتا لیکن افسوس کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے ایسی دعا خدا تعالیٰ نے کسی کے ہاتھ میں ( نہیں ) رکھی.بلکہ جب کہ وقت آجاتا ہے تو آسمان سے وہ حالت دل پر اترتی ہے.میں کوشش میں ہوں اور دعا میں ہوں کہ وہ حالت آپ کے لئے پیدا ہو اور امید رکھتا ہوں کہ کسی وقت وہ حالت پیدا ہو جائے گی.اور میں نے آپ کی سبکدوشی کے لئے کئی دعائیں کی ہیں.اور امید رکھتا ہوں کہ وہ خالی نہ جائیں گی.جس قدر آپ کے لئے حصہ تکالیف اور مصیبتوں کا مقدر ہے اس کا چکھنا ضروری ہے بعد اس کے یکدفعہ آپ دیکھیں گے کہ نہ وہ مشکلات ہیں اور نہ وہ دل کی حالت ہے.اعمال صالحہ جو شرط دخول جنت ہیں دو قسم کے ہیں.اوّل وہ تکلیفات شرعیہ جو شریعت نبویہ میں بیان فرمائی گئی ہیں اور اگر کوئی ان کے ادا کرنے میں قاصر رہے یا بعض احکام کی بجا آوری میں قصور ہو جائے اور وہ نجات پانے کے پورے نمبر نہ لے سکے تو عنایت الہیہ نے ایک دوسری قسم بطور تمہ اور تکملہ شریعت کی اس کے لئے مقرر کر دی ہے اور وہ یہ کہ اس پر کسی قدر مصائب ڈالی جاتی ہیں اور اس کو مشکلات میں پھنسایا جاتا ہے اور جس قدر کامیابی کے دروازے اس کی نگاہ میں ہیں سب کے سب بند کر دئے جاتے ہیں تب وہ تڑپتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ شاید میری زندگی کا یہ آخری وقت ہے.اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ اور مکروہات بھی اور کئی جسمانی عوارض بھی اس کی جان کی تحلیل کرتے ہیں.تب خدا کے کرم اور فضل اور عنایت کا وقت آجاتا ہے اور درد انگیز دعا ئیں اس قفل کے لئے بطور کنجی کے ہو جاتی ہیں.معرفت زیادہ کرنے اور نجات دینے کے لئے یہ خدا کے کام ہیں.مدت ہوئی ایک شخص کے لئے مجھے انہی صفات الہیہ کے متعلق یہ الہام ہوا تھا.قادر ہے وہ بارگاہ ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے ہیں ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب قیامت کے دن اہل مصائب کو بڑے بڑے اجر ملیں گے تو جن لوگوں بدر جلد ۲ نمبر ۲۷ صفحہ ۳ والحکم جلد نمبر ۳۹ صفحہ ۲ سے اس الہام کی تاریخ، ارنومبر ۱۹۰۶ء معلوم ہوتی ہے اس لئے یہ مکتوب ۱۹۰۷ ء یا ۱۹۰۸ء کا ہوگا.
503 نے دنیا میں کوئی مصیبت نہیں دیکھی وہ کہیں گے کہ کاش ہمارا تمام جسم دنیا میں قینچیوں سے کاٹا جاتا تا آج ہمیں بھی اجر ملتا.والسلام اسی طرح ایک اور مکتوب میں حضور تحریر فرماتے ہیں.سم الله الرحمن الرحيم خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نحمده ونصلى على رسوله الكريم محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۳۷۱ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.خاکسار بباعث کثرت پیشاب اور دوران سر اور دوسرے عوارض کے خط لکھنے سے قاصر رہا، ضعف بہت ہو رہا ہے.یہاں تک کہ بجز دو وقت یعنی ظہر اور عصر کے گھر میں نماز پڑھتا ہوں.آپ کے خط میں جس قدر ترددات کا تذکرہ تھا پڑھ کر اور بھی دعا کے لئے جوش پیدا ہوا میں نے یہ التزام کر رکھا ہے کہ پنجوقت نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور میں یہ یقین دل جانتا ہوں کہ یہ دعائیں بریکار نہیں جائیں گی.ابتلاؤں سے کوئی انسان خالی نہیں ہوتا.اپنے اپنے قدر کے موافق ابتلاء ضرور آتے ہیں.اور وہ زندگی بالکل طفلانہ زندگی ہے جو ابتلاؤں سے خالی ہو.ابتلاؤں سے آخر خدا تعالیٰ کا پتہ لگ جاتا ہے.حوادث دہر کا تجربہ ہو جاتا ہے.اور صبر کے ذریعہ سے اجر عظیم ملتا ہے.اگر انسان کو خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان ہے تو اس پر بھی ایمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ قادر خدا بلاؤں کے دور کرنے پر قدرت رکھتا ہے.میرے خیال میں اگر چہ وہ تلخ زندگی جس کے قدم قدم میں خارستان مصائب وحوادث و مشکلات ہے بسا اوقات ایسی گراں گزرتی ہے کہ انسان خود کشی کا ارادہ کرتا ہے یا دل میں کہتا ہے کہ اگر میں اس سے پہلے مرجاتا تو بہتر تھا.مگر در حقیقت وہی زندگی قدرتا ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے سچا اور کامل ایمان حاصل ہوتا ہے.ایمان ایوب نبی کی طرح چاہئے کہ جب اس کی سب اولاد مرگئی اور تمام مال جاتا رہا تو اس نے نہایت صبر اور استقلال سے کہا کہ میں ننگا آیا اور ننگا جاؤں گا.پس اگر دیکھیں تو یہ مال اور متاع جو انسان کو حاصل ہوتا ہے صرف خدا کی آزمائش ہے.اگر انسان ابتلاء کے وقت خدا تعالیٰ کا دامن نہ چھوڑے تو ضرور وہ اس کی دستگیری کرتا ہے.خدا تعالی در حقیقت موجود ہے اور درحقیقت وہ ایک مقرر وقت پر دعا قبول کر لیتا ہے اور سیلاب ہموم و عموم سے رہائی بخشتا ہے.پس قوی ایمان کے ساتھ اس پر بھروسہ رکھنا چاہئے.وہ دن آتا ہے کہ یہ تمام ہموم و عموم صرف ایک گزشتہ قصہ ہو جائے گا.آپ جب تک مناسب سمجھیں لا ہور میں رہیں.خدا تعالیٰ آپ کو جلد تر ان مشکلات سے رہائی بخشے.آمین.
504 اپیل مقدمہ جرمانہ دائر کیا گیا ہے مگر حکام نے مشتغیث کی طرف سے یعنی کرم دین کی مدد کے لئے سرکاری وکیل مقرر کر دیا ہے.یہ امر بھی اپیل میں ہمارے لئے بظاہر ایک مشکل کا سامنا ہے.کیونکہ دشمن کو وکیل کرنے کی بھی ضرورت نہ رہی.اس میں وہ بہت خوش ہوگا اور اس کو بھی اپنی فتح سمجھے گا.ہر طرف دشمنوں کا زور ہے.خون کے پیاسے ہیں مگر وہی ہوگا جو خواستہ ایز دی ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۲۰ / دسمبر ۱۹۰۶ء حضور کی تربیت کا جو نتیجہ نکلا سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی زبانی سنیئے فرماتی ہیں.” صبر واستقلال خدا نے خاص طور پر ان کو عطا کیا تھا.بے حد عالی حوصلہ تھے.عجیب دل پایا تھا.حالات کے چکر میں پڑ کر تمام عمر ایک طرح قرض وغیرہ کے پھیر میں تفکرات میں ہی گزری مگر کیا مجال جو کبھی دل چھوڑا ہو یا مزاج خراب ہوا ہو.اس طرح ہشاش بشاش رہتے گویا ان سے زیادہ کوئی خوش ہی نہیں ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ان کے دل پر تو مجھے رشک آتا ہے بڑا حوصلہ پایا ہے.کبھی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو دردناک الفاظ میں دعا کو لکھتے اور پھر نہایت بشاش باتیں کرنے لگتے تو میں ان سے کہتی تھی کہ آپ میں جب خود اتنا حوصلہ ہے کہ اپنے تئیں اتنا خوش رکھتے ہیں.اور اب اچھے بھلے ہنس بول رہے ہیں تو ان کو تکلیف دینے کو ایسے خط کیوں لکھتے ہیں کیونکہ آخر ان کو دکھ ہوگا.وہ گھبرائیں گے ؟ تو فرماتے وہ تو روحانی باپ ہیں میرے.ان کے دل میں درد پیدا نہ کروں تو اور کس کے کروں؟ فرمایا کرتے تھے کہ میری طبیعت ہے کہ میں حتی المقدور غم کو اپنے پر بالکل حاوی نہیں ہونے دیتا.تھوڑی دیر کے لئے خیال آیا اور نکل گیا.میں جب سوچتی ہوں کہ ان حالات میں جن میں سے ہم گزر رہے تھے ہماری زندگی کتنی خوشگوار یه مکتوب نمبر ۸۶ ہے لیکن یہاں اصل سے تصحیح کر کے درج کیا گیا ہے.تاریخ غلط ہے.اصل مکتوب سے تاریخ دیکھنا یاد نہیں.چونکہ بمقدمہ کرم دین اپیل کی کامیابی پر جرمانہ ۰۵-۱-۲۴ کو واپس ہوا.اس لئے لا زما یه مکتوب ۲۰ دسمبر ۱۹۰۴ء کا ہے.ہندسہ ۴ اور ۶ مشابہ ہے.پڑھنے میں غلطی ہونے کا امکان ہے.
505 تھی تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ آخر کیا دل لے کر پیدا ہوئے تھے.اتنی زندہ دلی اور بشاشت کسی لڑکے میں بھی نظر نہیں آتی جس کے حصہ میں ان سے دسواں حصہ بھی افکار نہیں آئے.“ یہ ذکر ہو چکا ہے کہ نواب صاحب کس درجہ کے عفت پسند تھے اور زمانہ کے مفاسد کے باعث پردہ کی حد درجہ پابندی کے حامی تھے.عصمت و عفاف کی حفاظت کے تعلق میں خادمات کی بھی کڑی نگرانی کروا کے اپنی کامل فرض شناسی کا ثبوت دیتے تھے.اور اس امر کو اپنے اولین فرائض میں شمار کرتے تھے.چنانچہ آپ کے اپنے ایک بھائی کے نام مکتوب کے اقتباس کا اندراج از بس مفید ہوگا.اس سے آپ کی دین سے محبت کے جذ بہ اور مقام صبر و توکل پر بھی روشنی پڑتی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں.مجھ کو اپنی بیوی کا مرنا زیادہ رنج کا موجب نہ ہوا.(۱) یہ بات تھی کہ خداوند تعالیٰ نے ان کی صحت ہی کی حالت میں میرے دل میں یہاں تک ڈال دیا کہ مجھ کو یقین بے اختیاری ہو گیا تھا کہ اس دفعہ یہ زندہ نہ رہیں گی.اور اس لئے ان کی موت میرے لئے کوئی مرگ مفاجات نہ ہوئی گوتین دن کے اندر خاتمہ ہو گیا.(۲) مذہب کی ڈور ہاتھ میں تھی دل کو فورا تسلی ہوگئی کہ خداوند تعالیٰ نے اتنی ہی عمران کی رکھی تھی.آخر اپنے اپنے وقت پر سب نے مرنا ہے اور ان کا یہ وقت تھا جو آ گیا.پس اب بجائے رنج کے ان کے لئے مغفرت کا سامان کرنا چاہئے.چنانچہ میں نے ان دنوں میں اور اب جب موقع لگتا ہے ان کے لئے دعا کرتا ہوں.آپ خیال کر سکتے ہیں کہ دس سال کا مونس یک لخت الگ ہو گیا مگر دل پر ایسا کوئی صدمہ نہ پڑا جو میرے حواس پر کوئی اثر ڈالتا کیونکہ خداوند تعالیٰ نے مذہب کی ڈور پکڑائی ہوئی تھی.(۳) جب یہ حادثہ ہوا تو قرآن میں میں نے پڑھا ہوا تھا کہ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ.یعنی وہ عورتیں تمہارے لباس اور پردہ ہیں اور تم ان کا لباس اور پردہ ہو.تو میری حالت ایسی ہوئی کہ میں جب اپنے پر خیال کرتا تھا تو مجھ کو اپنا آپ عریاں معلوم ہوتا تھا.اور اس حالت نے فوراً مجھ کو مجبور کیا کہ میں جلد دوسرا نکاح کرلوں.نکاح کا کرنا تھا کہ وہ غم بالکل جاتا رہا.گو اب تک کسی وقت پرانے مونس کی یاد ستاتی ہے وہی خداوند تعالیٰ پر بھروسہ اس کو دور کر دیتا ہے.مگر چونکہ آپ کے پاس یہ دوا نہیں ہے اس لئے آپ کو یہ صدمہ اچانک معلوم ہوا.دوسرے، مذہب سا کوئی تسلی دہندہ نہ تھا اور نہ اب مذہبی مجبوریاں آپ کو جلد نکاح پر آمادہ کر سکتی ہیں.تو اب دل کی دھڑکن کم ہو تو کس طرح ؟ ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ ایسے صدمات انسان کو جگانے کے لئے ہوتے ہیں تا کہ وہ دنیا کی بے ثباتی پر غور کر کے اپنی اصلاح حال کرے.اور اگلے جہاں کی تیاری کے لئے تیار ہو.ان گروں کو ہم کو اس امام زماں نے بتلایا ہے جس نے بلند آواز سے کہہ دیا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا اور اس نے
506 دعویٰ کیا کہ میں اسلام میں حضرت محمد مصطفی واحمد مجتبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہو کر محمد وسیح بن کر آیا ہوں اور اس وقت اگر کسی مذہب کو اسلام کے مقابلہ میں دعوئی ہے تو سامنے آئے اس کو پاش پاش کر دوں گا اور اسلام ہی کا بول بالا ہوگا.پھر خونی مسیح نہیں بلکہ احمدی مسیح صلیب کو توڑنے کے لئے آیا ہے.اس کی زبان میں عجیب شیرینی ہے اور اس کے افعال و اعمال میں تاثیر ہے.پھر روحانی اور جسمانی مرضوں کا طبیب ہے.اس چشمہ سے جو محمد کے بڑے چشمہ سے نکلا ہے عجب معرفت کا پانی نکلتا ہے.پس ایسے وقت میں وہ شخص بڑا ہی محروم ہے جو تحقیقات مذہبی کر کے اس امام سے فائدہ نہ اٹھائے اور اس سے تعلقات پیدا نہ کرے.(مکتوب ۰۲-۱-۵) آپ کے اعلیٰ مقام تو کل کا علم ہمیں آپ کے ایک مکتوب سے بھی ہوتا ہے.آپ اس میں اپنے ایک بیٹے کو تحریر فرماتے ہیں.بعض دنیوی باپوں کا یہ خیال خام ہوتا ہے کہ اولا دبڑھاپے میں اس کی خدمت کرے گی اور وہ کما کر لائے گی اور ان کی کمائی کا بوڑھے باپ کو سہارا ہوگا.سواول تو خداوند تعالیٰ نے مجھ کو ایسی حالت میں اپنے فضل وکرم سے پیدا کیا کہ میں ان امور میں سر دست محتاج نہیں ہوں.دوسرے ایک مرسل یزدانی کے پاک دامن سے لگنے نے اس قسم کے سہاروں سے مجھ کو بالکل مستغنی کر دیا.اس لئے اگر کسی باپ کو اولاد سے مطلب ہو بھی تو کم از کم مجھ کو ذرہ برابر نہیں.“ 6 احمدیت کے لئے جذبہ قدر واحترام ، الحب لِلہ والبغض الله ، غیروں سے حسن سلوک دنیا داروں کا اصول بغض و محبت لالـحـبّ على بل ببغض معاویہ کے رنگ میں ہوتا ہے.اور ہر دو کے تحت خود غرضی کا اصل کارفرما ہوتا ہے.لیکن خدا ترس لوگوں کا دامن اس عیب سے ملوث نہیں ہوتا.ان کی محبت بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوتی ہے.اور ان کی ناراضگی بھی اور ان کا ورد اللهم اني أَسْتَلُكَ حُبّك وحب من يحبُّكَ وَالْعَمَلُ الذي يُقربنی الیک ہوتا ہے اور وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبَّالِله کے معیار پر وہ پورا اترتے ہیں.الحب الله والبغض الله کا نظارہ ہم حضرت نواب صاحب کی ذات والا صفات میں نمایاں پاتے ہیں آپ دنیوی حیثیت سے ادنیٰ احمدی کو احمدیت کی وجہ سے قابل قدر واحترام خیال کرتے تھے.اور اپنے اقارب کے احمدیت سے دور ہونے کی وجہ سے قلبی اذیت پاتے تھے.لیکن ہر دو قتم ۱۳۷۵
507 کے جذبات میں بھی ایک وقار اور متانت پائی جاتی تھی.اور آپ عدم محبت میں بھی جائز حدود سے تجاوز کو پسند نہ فرماتے تھے اور اس عدم محبت کا مطلب صرف یہ تھا کہ جو محبت کسی شخص سے اسے نیک اور پارسا سمجھ کر دین کی خاطر ہونی چاہئے وہ نہیں ہوتی تھی.ورنہ دنیوی امور میں تعاون اور ان کی اصلاح کی فکر اور تکالیف میں ہمدردی یہ سب اخلاق فاضلہ برمحل آپ سے ظاہر ہوتے تھے اور غیر بھی اس امر کے قائل افسوس پاک گروہ انبیاء کے مخالفین کو سچ جھوٹ میں تمیز باقی نہیں رہتی.اور وہ ان کے متعلق کذب بیانی کو شیر مادر کی طرح حلال جانتے ہیں.یہ گروہ مخالفین جن کی پشت پر مُرجفون فـي الـمـديـنـه جیبا گروه منافقین بھی ہوتا ہے.ایسی بے پر کی خبریں اڑانے میں مسرت پاتا ہے کہ فلاں نے دین قویم سے ارتداد اختیار کر لیا ہے.افسوس کہ مخلص ترین احباب کے متعلق بھی ایسی خبروں کی اشاعت سے ان فتنہ پردازوں کو باک نہیں ہوتا.چنانچہ بدر مورخہ ۰۸-۹-۱۷ میں مرقوم ہے.نواب محمد علی خاں صاحب باہر شملہ کی طرف بغرض تبدیلی آب و ہوا گئے ہیں.پچھلے دنوں اخبار عام کو ایک غلط نہی ہوئی تھی جس کی اس نے تردید کر دی.“ (صفحہ ۲ کالم ۱) اسی طرح فتنہ احرار کے ایام میں میر عنایت علی صاحب رضی اللہ عنہ کے برادر نسبتی مرزا احمد بیگ صاحب سکنہ لدھیانہ کی طرف سے اپنے احباب میں نواب صاحب کے متعلق ایسا تذکرہ ہوا.اس کا علم ہونے پر نواب صاحب نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر حق تبلیغ ادا کیا.لیکن تلخ نوائی سے بکلی احتراز کیا.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں.بسم الله الرحمن الرحيم مرزا صاحب سلمکم اللہ.السلام علیکم سروانی کوٹ.مالیر کوٹلہ ۲۳ را گست ۱۹۳۵ء آپ سے ملے ایک زمانہ ہو گیا نصف ملاقات کا بھی موقعہ نہ ملا.یعنی خط وکتابت کا سلسلہ بھی مسدود.آج عزیزی سید عبدالرحیم کے خط کے ذریعہ ایک پیغام آپ کی طرف سے مجھے ملا کہ عزیزی عائشہ سے آپ نے مذاقاً میرے متعلق کہا تھا کہ میں احمدیت سے برگشتہ ہو گیا ہوں اور شاید بر ہما بھی آپ نے مذاقاً لکھا ہی ہو کہ بر ہما بھی مجھ سے مذاقاً لکھ ہو گیا.چونکہ احراری لوگوں کے ذریعہ میرا تذکرہ تھا.اس لئے ایسا ہوا.ورنہ میں تو آپ کو سچا احمدی سمجھتا ہوں اور کچہری میں میں نے اس کا اظہار کیا تھا وغیر ہا.یہ خلاصہ ہے سید عبدالرحیم کے خط کا اور آپ نے پیام دیا ہے کہ ”میں کوئی خیال نہ کروں.“
508 تھے.آپ کو احمدیت جس قدر عزیز بھی وہ اس امر سے ظاہر ہے کہ مسماۃ غوناں مرحومہ مالیر کوٹلہ کی ایک گوجر بقیہ حاشیہ: - جواباً عرض ہے کہ آپ مطمئن رہیں کہ مجھے اس کا کوئی رنج نہیں.ان باتوں کے سننے کے ہم لوگ عادی ہیں.ہاں اس پیام سے مجھے آپ سے نصف ملاقات کا موقعہ مل گیا.فالحمد اللہ علی ذالک.مرزا صاحب ! اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد مصطفے کے ذریعہ اپنی کتاب ہماری ہدایت کے لئے بھیجی اور اس کی حفاظت اپنے ذمہ رکھی یہ اس کا بڑا فضل اور احسان ہے.آج دنیا میں کوئی کسی مذہب کی کتاب محفوظ نہیں.مگر افسوس اس کتاب پر مسلمانوں نے عملدرآمد چھوڑ دیا.اس کو طوطے کی طرح پڑھنے والے بہت ہیں.مگر اس پر تدبر کرنے والے اور عقل سے کام لینے والے اور عمل کرنے والے بہت تھوڑے ہیں.اسی لئے مسلمانوں پراد بار کا نزول ہے.اس کتاب حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی خبر آئے تو اس کی تحقیقات کرلیا کرو.پس آپ کسی معتبر سے پوچھ لیتے یا لدھیانہ دور نہ تھا مجھ سے خط کے ذریعہ دریافت کر لیتے یا مجھ سے مل کر دریافت کر لیتے اور دوبارہ کا لطف بھی قند مکرر ہو جاتا.یہ غلطی آپ سے قرآن شریف کے حکم کی عدم واقفیت یا عدم عملدرآمد سے ہوئی اس لئے مجھے رنج کی کوئی بات نہیں ہاں چونکہ خداوند تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی ہوئی ہے اس لئے اسی کے سامنے اظہار ندامت ہونی چاہئے اور استغفار ورنہ میں کیا بدتر آنم که خواهی گفت آنی و لیکن عیب من چون من ندانی اب چونکہ چل پڑی تو سن لیجئے کہ میرا ایسے خاندان سے تعلق ہے جس کی آمدنی مستقل ہے اور کسی کی خوشامد سے روٹی کمانے کی ضرورت نہیں اس لئے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوسکتا کہ میں نے کوئی مذہب روپیہ کے لالچ سے اختیار کیا.ہمارا خاندان شیعیت ہے یا تھا کیونکہ دادا صاحب شیعہ ہوئے اور والد صاحب اور ہم پانچوں بھائی شیعہ تھے میں نے شیعیت ترک کر دی اور دو چھوٹے بھائی متذبذب اور آخر شیعیت چھوڑ بیٹھے مگر دو بڑے بھائی مرتے دم تک شیعہ رہے اور اب میرے بھتیجے خان محمد احسان علی خاں صاحب شیعہ ہیں.میری طبیعت آزاد واقع ہوئی ہے اور حق کے مقابلہ میں مجھے کوئی چیز روک نہیں سکتی.میں اس لئے مسلمان نہیں ہوں کہ چونکہ میں مسلمانوں کے گھر پیدا ہوا بلکہ میں شیعیت، وہابیت، نیچریت ، دہریت اور پھر ایک حد تک دو مذاہب عیسائیت اور ہندویت وغیرہ پر بھی غور کیا اور مجھے آخر تسکین اور پناہ اسلام میں ملی ہے اور میں ( نے ) خدا کو اس کے رسول محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور قرآن شریف کو دلائل بینہ سے مانا ہے اور اسلام میں تمام فرق پر غور کر کے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود اور مہدی مسعود تسلیم کیا ہے
509 لڑکی قادیان میں آپ کے ہاں بطور خادمہ رہتی تھی.چونکہ وہ احمدیت قبول کر چکی تھی اور تہجد پڑھتی تھی بقیہ حاشیہ: - اور احمدیت ہی کو اصل اسلام مانا ہے.میں خداوند تعالیٰ کی قسم کھا کر یقین کی کے ساتھ کہتا ہوں کہ جس طرح میں نے خدا کو خدا اور محمد رسول اللہ کو اس کا سچا نبی اور افضل الرسل اور خاتم النبیین اور قرآن شریف کو خداوند تعالیٰ کی پاک کتاب مانا ہے اسی طرح اور اسی یقین سے حضرت مرزا صاحب کو سچا نبی مسیح موعود اور مہدی مسعود مانا ہے.لوگ ایک افسانے کے طور سے اسلام کو اس طرح مانتے ہیں جس طرح اور مذاہب کے پیر وافسانے کے طور سے مانتے اور اصل حقیقت سے بے خبر ہیں.جنگ ہفتاد ملت همه را عذرینه چوں ندانستند حقیقت ره افسانه زدند آپ لوگ ذرا دل میں انصاف سے غور کر کے دیکھیں کہ آپ کے ہاتھ میں دوسرے مذاہب سے بڑھ کر سوائے افسانہ کے کیا چیز ہے اور آپ اسلام کا امتیاز کیا دوسرے مذاہب سے دکھلا سکتے ہیں؟ مرزا صاحب نے آکر ہم پر خدا اور اسلام اور قرآن شریف حضرت محمد مصطفے کی اصل حقیقت روز روشن کی طرح کھول کر دکھلا دی اور وہ مومنی اور پیاری صورت ان چیزوں کی دکھلائی وہ حسن و احسان دکھلایا ( کہ ) ہم کو ان کا عاشق بنادیا.اب کوئی چیز ہم کو اس سے ہٹا نہیں سکتی.پھر پورا نمونہ حسن و احسان محمد مصطفے اپنے عمل سے دکھایا کہ ہم لوگوں کو تمام طرف سے ہٹا کر یعنی تمام ادیان سے ہٹا کر اپنا شیفتہ بنا کر خداوند تعالیٰ سے تعلق پیدا کر دیا اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عاشق بنا دیا.قرآن شریف کے معارف کھولے اور ہم کو تدبر کا سبق پڑھایا پھر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم احمدیت سے برگشتہ کس طرح ہو سکتے ہیں؟ کیا کوئی نور کو چھوڑ کر ظلمت اختیار کر سکتا ہے؟ سوائے اس کے کوئی شقی از لی یا خفاش صفت جونور کو دیکھ ہی نہیں سکا.کیا آپ غور نہیں کرتے کہ مسلمان خواہ کسی فرقہ کا ہے وہ اسلام کو اسی طرح مانتا ہے جس طرح صحابہ مانتے تھے اور اگر ہم ویسے ہیں تو پھر یہ ادبار اور تشنت افتراق کیوں؟ اور کیوں کوئی تدبیر سنبھلنے کی باوجو د لاکھ کوششوں کے کامیاب نہیں ہوتی ؟ عیسائیوں کے حملوں اور ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے حملوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے اور دوسرے مذاہب کے لئے اسلام جاذب نہیں دوسرے کے لئے تو کیا اپنوں کے لئے بھی نہیں.اس کی صرف یہی وجہ ہے کہ اپنے اقوال و اعمال سے مسلمانوں نے اسلام کی وہ مکروہ شکل پیش کی ہے کہ بجائے اس کے انسان اس کو قبول کرے اس کو سخت گھن آتی ہے.یہی وجہ ہے کہ مسلمان تبلیغ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ کیا پیش کریں مرزا صاحب نے اسلام ( کا وہ حسین چہرہ پیش کیا ہے کہ الحمد للہ ہم کسی مذہب کسی فلسفی کسی جاہل کسی عاقل کے سامنے اسلام پیش کرنے میں شرمندہ نہیں اور ہم بلاخوف اسلام کو پیش کر سکتے ہیں آج
510 اور نیک تھی آپ اس کی تعلیم میں بھی مشغول رہتے تھے.سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ذکر فرماتی ہیں کہ مرحومہ بقیہ حاشیہ: - مرزا صاحب نے نہ صرف چو دور خسروی آغاز کردند مسلماں را مسلمان باز کردند تمام عالم اسلام کو دعوت حق پہنچائی.آج ہمارے مشن تمام ہندوستان ، ایران، افغانستان، عرب وٹر کی اور شام و مصر، روس ، جاپان، چین، ملایا، بورنیو، جاوا، انگلینڈ، امریکہ، ماریشس، افریقہ وغیرہ میں موجود ہیں اور وحشی (و) مہذب کو دین حق کی تبلیغ کی جاتی ہے اور وہ کیا ہے کہ خدا ایک ہے.وہ قدرتوں والا خدا رب العالمین، رحمن و رحیم ، مالک یوم الدین ہے.تمام انبیاء برحق ہیں.خدا ( نے ) اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے ہر ایک زمانہ میں ہر ایک قریہ میں اپنے نبی بھیجے اور ان کے سب کے سردار محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول اور خاتم النبیین بنا کر بھیجا اور اسلام ہی خدا کا سچا مذہب ہے اور یونہی خوش اعتقادی سے نہیں بلکہ دلائل سے.اور یہی مذہب زندہ مذہب ہے اور تمام مذاہب مردہ.کیونکہ اس میں زندگی پائی جاتی ہے اور میں نہیں.کیونکہ اس مذہب میں حضرت کی غلامی میں مخاطبہ و مکالمہ الہی کا شرف حاصل ہے اور بڑے سے بڑے مدارج روحانی حتی کہ نبوت بھی حضور سرور کائنات کی غلامی سے حاصل ہو سکتے ہیں.قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهُ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله.پس مرزا صاحب نے ثابت کر دیا کہ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف رسول تھے بلکہ رسول گر.ان کی مہر کے بغیر نہ پہلا نبی نبی قرار پاسکتا ہے اور نہ بعد کا.غور سے دیکھیں پہلے انبیاء بھی حضرت محمد مصطفے کی تصدیق کے بغیر ان کی اپنی امتوں کے اقوال کے بموجب معمولی بھلے مانس بھی قرار نہیں پاسکتے چہ جائیکہ بی.مگر محمد مصطفی کی مہر تصدیق نے ان کو نبی قرار دیا اور محد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ ہی الزامات سے ان کی برکت ہوئی.ورنہ جو کچھ آج کل کے مسلمان پیش کر رہے ہیں اس ذریعہ سے تو نعوذ باللہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( ان پر ہمارے ماں باپ فدا ہوں ) جسمانی روحانی دونوں طرح سے ابتر ثابت ہوتے ہیں اور یہ کیسی تک رسول کریم کی ہے اور دشمن کی پیشگوئی کہ آپ ابتر ہیں کیسی ثابت ہوتی ہے افسوس کہ معمولی طور سے بھی غور نہیں کرتے کہ قرآن شریف میں آتا ہے کہ إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرُه فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُه إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْابْتَرُ ہے خداوند تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تجھے کوثر ( ہر چیز کی کثرت ) دی ہے بس اس شکریہ میں تو خدا سے دعائیں کر.خدا کی حمد وثناء کر اور قربانیاں کر تیرا دشمن ہی ابتر ہے اب اس مقولہ کے بیان کی کیا ضرورت پیش آئی وہ یہ کہ دشمن کہتے تھے کہ محمد مصطفی " کے کوئی نرینہ اولاد نہیں اور اس لئے آپ کو ابتر ( یعنی پنجابی میں جس کو اوتا نیوتا کہتے ہیں) کہتے تھے اور چونکہ اولاد نہیں اس
511 کو احمدیت قبول کرنے پر نواب صاحب نے کہہ دیا تھا کہ اب تم خادمہ نہیں بلکہ تم میری بہن ہو.کسی قسم بقیہ حاشیہ: - لئے جس وقت آپ کی وفات ہوئی سب کا رخانہ درہم برہم ہو جائے گا.مگر خداوند تعالیٰ کہتا (ہے) کہ ایسا نہ ہوگا تو ابتر نہیں تیرا دشمن ہی ابتر ہے.اور ابتر نہ ہونے کی صورت میں ضرور ہے کہ اولاد مانی جائے.پس تیری اولاد ہے اور (اولاد) بھی کثیر.کیونکہ تجھے کوثر دی گئی ہے.مگر دوسری جگہ خداوند تعالیٰ فرماتا ( ہے ) مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٌ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ.اب یہاں جو دشمن کہتا تھا کہ آپ کے اولا دنرینہ نہیں کیونکہ اولاد ما دنیہ کو تو دشمن دیکھتا تھا اس لئے اس کا مفہوم یہی تھا کہ اولاد نرینہ نہیں.وہ بات خداوند تعالی تسلیم کرتا ہے کیونکہ جب کسی مرد کے آپ باپ نہیں تو ظاہر ہے کہ آپ کی اولاد نرینہ نہیں اور واقعات سے ثابت ہے کہ آپ کے بعد کوئی اولاد نرینہ نہیں اور حالانکہ دشمن کے اب تک ہے اور پھر خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو ابتر نہیں تیرا دشمن ہی ابتر ہے تو ذرا غور کریں کہ نعوذ باللہ اللہ تعالی خلاف واقعہ باوجود تسلیم کرنے کے آپ کے کوئی نرینہ اولاد نہیں یہ بات کہتا ہے کہ آپ ابتر نہیں بلکہ دشمن ابتر.تو صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء جسمانی اولاد نہیں بلکہ روحانی اولاد ہے تو فرماتا ہے کہ گومحمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی مرد کے باپ نہیں مگر اللہ کے رسول ہیں.تو رسول اپنے متبع کا روحانی باپ ہوتا ہے تو محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح ابتر ہو سکتے (ہیں) ان کے تو کروڑوں بیٹے ہیں اس لئے یہ کارخانہ درہم برہم نہیں ہوسکتا.اور پھر حضرت نبی کریم جن کو تم ابتر کہتے ہو.رسول ہی نہیں بلکہ رسولوں کی مہر ہیں.یعنی دوسری امتوں کے جو روحانی باپ انبیاء ہیں وہ بھی نبی انہی کی مہر تصدیق سے نبی قرار پاسکتے ہیں.چنانچہ تمام انبیاء پر جو تو ریت انجیل میں الزام لگائے گئے تھے ان تمام کی برآت قرآن شریف نے کر کے ان کو راستباز اور نبی قرار دیا اور آئندہ کے لئے بھی آپ ( کی ) اتباع اور غلامی سے یہ مدارج مل سکتے ہیں.چنانچہ آپ نے آنے والے مسیح کو نبی اللہ فرمایا ہے اور امام قرار دیا ہے.اب دیکھو کہ حضرت مرزا صاحب نے تمام عمر کیا کیا.یہی کہ اسلام کو زندہ مذہب ثابت کیا اس سے زیادہ بتلاؤ کہ کیا کیا ؟ باقی باتیں ضمنی ضروریات کی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مصالح کے ماتحت کیں مثلاً حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ چوں مرا نورے پئے قوم مسیحی داده اند مصلحت را ابن مریم نام من بنهاده اند پس مرزا ! موت قریب ہے اس کا کوئی وقت نہیں راستی کی تلاش کرو.اپنی اور دوسروں کی رائے کا اتباع نہ کریں خدا کے ہو جائیں اور اسلام اُدْخُلُوا فِي السّلْمِ كَافَّة پر عمل درآمد فرما ئیں اور بخن پروری میں نہ پڑیں.حضرت صاحب فرماتے ہیں.
512 کی تکلیف ہو تو بتایا کرو.اس کی وفات کے بعد اس کی بیٹی کی پرورش نواب صاحب کے ہاں ہوئی.پانچ سال تک اپنے بچوں کی طرح رکھا پھر چونکہ بھائی مددخاں صاحب مرحوم نے دوسری شادی کر لی تو سوتیلی والدہ نے بچی کو اپنے پاس بلوالیا.اس تعلق میں آپ کا ایک مکتوب ایک عزیزہ کے نام درج کیا جاتا ہے.تحریر فرماتے ہیں : دارالامان قادیان ۱۴ را گست ۱۹۰۲ء بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم عزیزہ مسلکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم میں نے کئی دفعہ چاہا کہ آپ کو خط لکھوں مگر خدا کی قدرت لمبے لمبے خط لکھ کر پھاڑ ڈالے.کسی خط میں مضمون لمبا ہو گیا.کسی میں ایسا پیچیدہ مسئلہ چھڑ گیا جو آپ کی سمجھ سے باہر معلوم ہوا.خلاصہ کلام میں نے بہت کوشش کی مگر آپ کو خط نہ لکھ سکا.آخر میں نے سمجھا کہ خداوند تعالیٰ کی اس میں مصلحت کوئی ہوگی اب مجھ کو پھر خط لکھنے کی تحریک ہوئی.اب خدا ہی کو علم ہے کہ میں اس میں کامیاب ہوتا ہوں کہ نہیں.آپ حیران ہوں گے بقیہ حاشیہ:- اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش بیٹے مرضی خدا پس خداوند کی رضا چاہیں اور اسی کے ہور ہیں.دیکھئے ایک اصول بتلاتا ہوں جس سے میں نے فائدہ اٹھایا ہے وہ یہ (کہ) جس مذہب کے پیرو ہو.تحقیقات سے جو پختہ باتیں ہوں عملدرآمد کریں مثلاً آپ حنفی ہیں...اوران کے اس قول صحیح پر عملدرآمد فرمائیں کہ اتر کـواقـولى لقول رسول الله ـ پس پ پکے حنفی بن کر ان کے قول پر عمل فرمائیں گے تو آپ کو لازمی ہو جائے گا جو باتیں حضرت ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں یا انہی کی ہیں وہ خلاف حدیث ہیں ان کو آپ ترک کر دیں گے اور حدیث کے لئے محک قرآن شریف ہے.تو جو حدیث خلاف قرآن ہے اس کو آپ حدیث تصور نہ کریں گے.تو پھر بات یہاں آٹھہرے گی کہ قرآن شریف اور حدیث صحیحہ میں جو کچھ ہے وہ آپ کو ماننا پڑے گا اور جب آپ اس نقطہ پر آجائیں گے تو لازمی ہے کہ آپ احمدی ہو جائیں.اور آپ کو کوئی مفر نہ ہوگا.آپ تجربہ کر دیکھیں یہی ہماری صداقت کا معیار ہے.راقم محمد علی خاں اگر آپ نے سلسلہ خط و کتابت جاری رکھا یا آپ مجھے ملیں اور وضاحت کر سکتا ہوں اتنا وقت نہیں زیادہ لکھوں محض مختصر اشارت پر ہی کفایت کی ہے.محمد علی خاں
513 کہ یہ مغرب سے سورج کیسا نکلا کہ خلاف عادت میں نے آپ کو یہ خط لکھا.مگر یہ تعجب کی بات نہیں ہے.مجھ کو پہلے بھی اور اب بھی جس بات نے تحریک دی ہے کہ آپ کو یہ خط لکھوں وہ آپ کی خیر خواہی اور خدا وند تعالیٰ کے احکام کی تعمیل ہے.آپ یا اور سمجھتے ہوں کہ مجھ کو آپ سے یا دوسرے صاحبان سے ہمدردی نہیں.مگر یہ بات غلط ہے.اسلام اور پھر ہمارے امام کی شرائط بیعت میں یہ بات داخل ہے کہ ہم مخلوق خدا سے عموماً اور بنی نوع انسان سے خصوصاً ہمدردی کریں پھر بھائی اور اہل برادری تو بدرجہ اولیٰ مستحق ہیں.مگر آپ کو میرے ظاہری برتاؤ سے معلوم ہوتا ہوگا کہ میں ایک روکھا پھیکا انسان ہوں کہ مجھ کو نہ کسی سے ہمدردی ہے اور نہ تعلق.میں اس ظاہری حالت کی بابت بھی کھول کر سناتا ہوں.وہ یہ ہے کہ میرا اور ہماری جماعت کے اکثر لوگوں کا یہ وطیرہ ہے کہ ہم نے اس بات پر حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان کے ہاتھ پر بیعت کی کہ ہم اپنے گناہوں سے جن میں ہم گرفتار تھے، تو بہ کی ہے اور ہم نے عہد کیا ہے کہ خداوند تعالیٰ کے ساتھ جو ذرہ ذرہ کا پالنے والا ہے اور بے مانگے دینے والا ہے اور سچی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور پھر ہمارا مالک ہے اسی کے سامنے انصاف ہونا ہے اس کی حکومت انصاف کے روز ہوگی.یعنی وہ اس روز کا مالک ہے جس روز بدوں کو سزا اور اچھوں کو ان کے عملوں کا انعام دیا جائے گا.ہم دلی تعلق پیدا کریں اور ایسا ان کے قریب ہو جائیں کہ ہم اس کو دیکھ لیں اور اس کے سوا کسی کی حقیقت ہمارے دل میں باقی نہ رہے.اس کے پیارے لوگوں کے ساتھ محبت رکھیں اور ان کی پیروی کریں.اور خداوند تعالیٰ کی ہر پیدا کی ہوئی چیز سے ہمدردی کریں اور جس گورنمنٹ کے عہد حکومت میں اس آرام سے زندگی بسر کر رہے ہیں اس کے دل اور جان سے وفادار اور شکر گزار اور جاں نثار رہیں.اور دین پر دنیا کو مقدم نہ کریں.یعنی جہاں دنیا اور دین کا معاملہ ہو تو دنیا کا حرج اٹھا لیا جائے مگر دین کو ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے.اور شریعت اسلام کے ہر طرح پابند رہیں.پس آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ میری کسی سے دشمنی یا دوستی کیا ہو سکتی ہے.میری دوستی یا دشمنی محض اللہ کے لئے ہے ورنہ میں نہ کسی کا دوست اور نہ دشمن ہاں ہر وقت ہمدردی کے لئے حاضر.مگر اس ہمدردی کے لئے جس کے لئے شریعت اجازت دے.خدا اور رسول خوش ہوں.پس مجھ کو آپ سے اور تمام اہل برادری اور تمام کوٹلہ بلکہ ہر ایک جان کے ساتھ ہمدردی ہے مگر جب میں نے دیکھا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں اس کو بھائی...برادری سب برا جانتے ہیں.اور جو کچھ مجھ کو پیارا ان کو برا معلوم ہوتا ہے اور جو ان کو پیارا ہے وہ مجھ کو برا معلوم ہوتا ہے.میں نے پھر بھی چاہا کہ برادری اور کوئلہ کے لوگ سمجھیں مگر کسی نے میری بات نہ سنی آخر جب میں نے دیکھا کہ......
514 میرے ساتھ کوئی نہیں ہوتا اور جو کچھ ان کو ان کے فائدہ کے لئے کہا جائے اس سے برا مناتے ہیں ان کے ساتھ میل ملاپ سے الٹا میں گناہ میں پھنستا ہوں اس لئے میں نے کنارہ کشی اختیار کی.لیکن میرے دل میں درد ہے کہ خداوند تعالیٰ اس خراب حالت سے میرے بھائیوں اور میری برادری اور کوٹلہ کے لوگوں کو چھڑائے.آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ کوٹلہ کی کیسی بری حالت ہو رہی ہے.مجھ کو تو حیرت ہوتی رہی ہے کہ اس بستی پر خدا کا عذاب کیوں نہیں آیا.بدی کی کوئی حد نہیں رہی.مسلمانوں کی ریاست، ایک ولی اللہ کی اولاد ہو کر وہ خراب باتیں ہوتی ہیں کہ زمین اور آسمان پھٹ جائیں تو بے جا نہیں.مرد عورت سب ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں.خداوند تعالیٰ کا کسی کو خوف نہیں حالانکہ اب خدا کا عذاب بھی آ گیا پھر بھی لوگ نہیں ڈرتے.وہی بدکاری و چوری وہی چاری وہی ظلم و ہی ستم وہی رنگ رلیاں وہی بہار میں گویا موت کبھی آنی ہی نہیں.مجھ کو یہ حالت دیکھ کر رونا آتا ہے.کیونکہ میرے بہت سے عزیز بھی ہیں.جو میری بات کو سنتے نہیں.بوصاحبہ! میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ بڑا آفت کا زمانہ ہے یہ زمانہ مسیح موعود اور مہدی آخری زماں کا زمانہ یہ خدا کے دن ہیں.خدا آج کل نہایت غضبناک ہو رہا ہے.کہیں قحط ہے کہیں آگ لگ رہی ہے.کہیں پہاڑ پھٹ رہے ہیں.اور کہیں طاعون ہے.ہر وقت عذاب خدا اپنا کام کر رہا ہے.مبارک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور اس آخری امام اور نبی پر ایمان لے آئے.وہ شخص جس کو حضرت رسول کریم نے سلام کیا ہے.آؤ ڈرو اور خدا سے ڈرو بڑا ٹیڑھا وقت آیا ہے.تمام نسی اور خوشی کو چولھے میں ڈالو.اورسوگوار ہوکر خدا کے حضور مجرموں کی طرح حاضر ہو جاؤ اور اس کے بھیجے ہوئے پر ایمان لاؤ.اس کے کہنے پر عمل کرو تا کہ عذاب سے بیچ جاؤ.دیکھو یہ طاعون جو آیا ہے یہ ہمیشہ عذاب ہی کے طور سے ایسے موقعوں پر آیا ہے.اس عذاب سے کوئی بھی سوائے اس کے جو خداوند تعالیٰ کی پناہ میں آئے بچ نہیں سکتا.آسمان ٹل جائے زمین اڑ جائے مگر یہ خدا کی باتیں نہ ملیں گی.عورتیں اپنے بناؤ سنگار میں لگی رہتی ہیں.ہر وقت ان کو یہی فکر رہتی ہے کہ ہر وقت نکھری رہیں.مگر خاک وہ بناؤ سنگار جو آخر آگ کا ایندھن ہو.اور جس کے ساتھ دوزخ میں جلنا ہو.سنگار تو وہی عمدہ ہے جس کا چہرہ خدا کے سامنے سرخرو ہو.تو چند دن کی باتیں ہیں دم آیا نہ آیا چلو چلتے بنے.آخر خدا ہی سے واسطہ ہے.پس آپ کو نہایت درد سے لکھتا ہوں کہ آپ اپنے آپ کو سنبھالو اور خدا سے لو لگا ؤ خدا ہی نے کام آنا ہے نہ بھائی کام آئیں گے نہ بہن نہ ماں نہ باپ.یہ سب دنیا کے انتظام کے رشتے ہیں.ورنہ پھر کون؟ میرے خیال میں اب آپ کو بھی تجربہ ہو گیا ہو گا کہ نادان دوستوں کی رائے پر چلنے سے کس قدر خرابی ہوتی ہے نہ عزت رہتی ہے نہ آبرو.پس میں آخر میں لکھتا ہوں کہ دیکھو نیکی کا زیور پہنو.اور شریعت پر عمل کرو
515 خداوند تعالیٰ سے صلح کرو.اور خدا اور رسول کے حکموں کی تعمیل کرو اور اس امام وقت کو مانو جس کو خدا نے اس وقت لوگوں کی اصلاح کے لئے حضرت رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بروز بنا کر بھیجا ہے گویا حضرت رسول کریم خود تشریف لے آئے ہیں.دیکھو میری ان باتوں سے شک میں نہ پڑو بلکہ ان کو مانو تا کہ فلاح پا جاؤ.راقم محمد علی خاں اس طرح ایک عزیز نے نواب صاحب کو ناراض پا کر طلب عفو کے لئے خط لکھا تو آپ نے جو جواب دیا سنہری حروف سے لکھا جانے کے قابل ہے.فرماتے ہیں بسم الله الرحمن الرحيم دار السلام دار الامان قادیان ضلع گورداسپور پنجاب ۲۴ ستمبر ۱۹۳۷ء تمہارے خطوط کئی ایک آئے مگر میں حیران ہوں کہ کیا جواب دوں.میری ناراضگی ایک طرف اور سلسلہ کی شکایات ایک طرف جس سے ہر ایک احمدی متنفر.تم اتنی عمر ہو کر گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر بیرسٹر ہوکر مجسٹریٹ ہو اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھتے کہ سب باتیں تمہارے دو فقروں سے کس طرح دھل سکتی ہیں کہ مجھے معاف کیا جائے اور سب اتہامات ہیں اس میں شک نہیں کہ میں سنی سنائی باتوں کا اعتبار نہیں کرتا مگر میرے نا اعتبار کرنے سے کیا ہوتا ہے.قرآن ہم نے سنا محمد رسول اللہ پر اترا اور اعتبار کیا.ہم نے سنا محمد رسول اللہ خدا کے نبی تھے ہم نے اعتبار کیا.اب اس وقت جتنا ہمارا دین ہے اس کا شنوائی پر مدار ہے.تم مجسٹریٹ ہو تمام فیصلے سنی سنائی باتوں پر کرتے ہو تو ہر ایک سنی ہوئی بات غیر معتبر نہیں ہوتی پھر جب عمل بھی اس کا شاہد ہو.تم ہی بتلا ؤ تمہارا کون ساعمل ظاہر کرتا ہے کہ سلسلہ سے تمہارا تعلق ہے.جب سے تم نے ہوش سنبھالا ہے مجھے یہی نظر آتا ہے.مگر میں دیکھتا رہا کہ کبھی تو اصلاح ہوگی مگر اب تک کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی.کیا میرا مقصود یہی تھا کہ تم برائے نام احمدی کہلا ؤ اور احمدیت سے کوئی تعلق نہ ہو؟ کوئی ایمانی غیرت نہ ہو؟ اور پھر میرے خلاف کیا میری آرزو کے خلاف کیا میرے طریق کے خلاف تم نے نہیں کیا ؟ پھر مجھ سے تم کیا توقع رکھ سکتے ہو تم سوچو کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں ” سے سہل است از دنیا بریدن یعنی دنیا سے کٹنا نہایت سہل ہے اور قرآن شریف ہمیں یہی تاکید کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں کوئی محبت غالب نہ آئے تو پھر بتلاؤ کہ جب میں دیکھوں کہ میری خواہش اور آرزوؤں کا خون ہوا اور میری طرز کے خلاف ہوا اور دین کی کوئی غیرت نہ ہو تو
516 مجھے کس قدر رنج و غم ہو سکتا ہے؟ یہ سلسلہ ایک نبی کا سلسلہ ہے معمولی پیروں کا سلسلہ نہیں اس لئے محض اپنی رائے خام کیا چیز ہے؟ پس میرا جو تعلق ہے اس کا بہت بڑا پہلے تو سلسلہ سے تعلق اور دیوانہ واراحمد بیت کا شیدا ہونا ہے پھر جو کچھ میں تم سے متوقع ہوں وہ یہی کہ شریعت اسلام نے جو حکم فرمایا ہے کہ ماں باپ سے کہ یہ برتاؤ وہ برتاؤ چاہتا ہوں اور شریعت کی پابندی میری آرزو اور مقصد ہے اب میں بھی مرنے کے قریب ہوں ابراہیم اور یعقوب نے موت کے وقت اپنی اولاد کو کہا کہ يُبَنِي فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَانْتُمْ مُسْلِمُونَ - یعنی اے بیٹو ایسی حالت میں نہ مرنا کہ تم فرمانبردار نہ ہو.وہی میری وصیت.پس میری تو یہی ناراضگی ہے.پس کسی فرصت کے وقت میں بعض سوالات میں لکھوں گا ان کا حلفیہ جواب تمہاری طرف ( سے )جب صحیح ملے گا تو میری طرف سے ایک حد تک معافی ہوگی اور پھر دیکھنا ہے عمل اس کے مطابق بھی ہے کہ نہیں.کیونکہ عمل کے بغیر معافی محض انگریزی معافی ہوتی ہے I am Sorry I beg your.pardon جس کا کوئی بھی دل سے تعلق نہیں ہوتا.پس بہتر ہے کہ بار بار کی ناراضگی سے ایک دفعہ ہی ناراضگی رہے.پھر اگر میری طرف سے معافی بھی ہو جائے تو اگر سلسلہ کو تم مشتبہ نظر آؤ تو پھر میرا تعلق نہیں ہوسکتا.کیونکہ اگر میں چاہوں بھی تب بھی میں تعلق نہیں رکھ سکتا.تم چاہتے ہو کہ میں دنیا سے الگ تھلگ رہتا ہوں اس لئے میرا سلسلہ واقفیت نہایت محدود بلکہ نہیں.تمہاری تعلیم ولایت اور تمہاری ملازمت وغیر ہا سب حضرت خلیفہ اسیح علیہ السلام کی مرہون منت ہے.پس جب ان کی نظر میں مشتبہ ہو گئے تو میری تحریر کا اثر کسی احمدی پر نہیں ہوسکتا.پس تم حضرت سے صفائی کرو اور حضرت سے سفارش کراؤ.ان کے حکم سے کوئی سرتابی نہیں کر سکتا.پس ( بجائے ) مجھے بار ( بار ) لکھنے کے ان کو لکھو اور انہی سے سفارش کراؤ میرے لکھنے سے کچھ نہ ہوگا اور موجودہ حالات میں میں کوئی جرات نہیں کرسکتا.پس اگر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے وعدہ کیا ہے تو ان سے تحریک کر اؤ پس یہی سیدھی راہ ہے ورنہ کسی احمدی سے امید نہ رکھو.راقم محمد علی خاں اسلامی تعلیم کے مطابق نہ صرف اپنوں سے بلکہ غیروں سے بھی حسن سلوک ضروری ہے اور الْبُغْضُ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے افعال شنیعہ کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جائے تا ایک طرف اعمال حسنہ کا احترام واجبی قلب سے محو نہ ہونے پائے دوسری طرف ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے عملاً سعی و کوشش مدنظر رہے.ایک ہندو استاد سے حسن سلوک کا ذکر گزشتہ صفحات میں ہو چکا ہے.مزید مکرم مرزا عبدالغنی
517 صاحب سابق محاسب صدر انجمن احمد یہ قادیان کی زبانی سنیئے فرماتے ہیں کہ " مرزا اکرم بیگ صاحب پٹی والے جو اشد مخالفین میں سے ہیں.میرے خالہ زاد بھائی ہیں وہ احمد آباد (نواں پنڈ نز دقادیان میں رہتے تھے.ایک دفعہ انہیں معمار درکار تھا قادیان میں ملتا نہیں تھا اور نواب صاحب کے پاس ایک گروہ معماروں کا با قاعدہ ملازم تھا.مرزا صاحب اور گھر میں یہ خیال تھا کہ نواب صاحب سے اگر معمار مانگا گیا تو آپ توجہ نہیں کریں گے.لیکن جنہوں نے آپ کو لکھا کہ ایک معمار کی دو گھنٹہ کے لئے ضرورت ہے تو مجھے خوب یاد ہے نواب صاحب نے جوابا ”جناب من“ سے مخاطب کیا اور لکھا کہ میں دو معماروں کو بھیج رہا ہوں اور ان کو کہہ دیا ہے کہ وہ وہاں سے آئیں نہ جب تک کہ کام ختم نہ ہو جائے.مرزا صاحب کا انہوں نے سارا دن کام کر کے ختم کر دیا.ہماری خالہ کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مانگا ہم نے ایک معمار اور آپ نے بھیج دئے دو.اسی طرح مرزا اکرم بیگ صاحب نے بھی تعریف کی اور شکریہ کی چٹھی آپ کی خدمت میں بھیجی.“ پابندی کصوم و صلوۃ ، تہجد گزاری اور تلاوت قرآن مجید ایک رئیس، ہر قسم کے سامان میسر چودھویں صدی.بھلا اسے تہجد گزاری بلکہ صوم صلوۃ سے کیا تعلق؟ لیکن نہیں الصلواة معراج المؤمن کے مطابق نما ز نواب صاحب کی روح رواں تھی.یہی وجہ ہے کہ بعض نمازوں کے سہواً چھوٹ جانے یا بعض نمازوں کے وقت پر ادا نہ کر سکنے سے آپ کو کس قدر تکلیف محسوس ہوئی اور آپ کے پاک دل پر اس کا کیسا اثر پڑا.حقیقی مومن کا یہی حال ہوتا ہے.دنیا دار دنیا کے مال ومنال کے حصول کی مساعی کو اپنے لئے آب حیات یقین کرتا ہے اور ذرا سے مالی نقصان سے اذیت قلبی محسوس کرتا ہے.لیکن مرد مومن مال کو حقیر جانتا اور بے دریغ انفاق فی سبیل اللہ کرتا ہے.البتہ روحانیت کے ترقی کے مواقع سے محرومی کو حقیقی محرومی تصور کرتا اور ایسے مواقع پر آستانہ الہی پر جبین نیاز رکھتا اور تو بہ نصوح کرتا ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ ایسے پاک نفس ہی در حقیقت مصلح قرار پاتے ہیں.ڈائری میں شاذ و نادر نواب صاحب کے دنیوی کا روبار کا ذکر آتا ہے.تہجد گزاری نمازوں کی ادائیگی ، روزہ ، تلاوت قرآن مجید وغیرہ مشاغل دینیہ کے ذکر سے ہی آپ کی ڈائری پر ہے جس سے یہ امر نمایاں نظر آتا ہے کہ آپ کے پاک
518 دل میں کن باتوں کو اہمیت حاصل ہے.ڈائریوں کے جن حصوں کا ذکر اوپر آیا ہے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں.نواب صاحب ۹ جنوری ۱۹۸ء کو قادیان آئے.۱۰ جنوری کی ڈائری میں تحریر فرماتے ہیں: نماز صبح میں شریک جماعت ہوا.نہایت حظ نماز میں آیا.“ ۲۲ کی ڈائری میں تحریر فرماتے ہیں : ”اس کے بعد نماز کسوف کے لئے جامع مسجد گئے.پہلے نماز ظہر اور عصر ملا کر پڑھی گئیں پھر نماز کسوف ہوئی اور جس درد اور آہ وزاری کے ساتھ یہ نماز پڑھی گئی وہ ایک عجیب تھی اور پھر قریب اختتام کسوف نماز شکر یہ پڑھی گئی.آج قریبا تمام دن عبادت میں گزرا.مخالفوں کو یہاں آکر دیکھنا چاہئے کہ آیا ان کی مخالفت چاہئے یا نہیں.‘“ اسی طرح تحریر فرماتے ہیں: ار جنوری ۱۹۰۲ء۳۰ رمضان المبارک آج رمضان کا آخری روز ہے الحمد للہ کہ تمام روزے میرے پورے ہوئے خداوند تعالیٰ میرے ان ناقص روزوں کو قبول فرمائے.آج ایک....افسوس مجھ کو ہوا کہ نماز عصر میری جاتی رہی.اس سے قطعاً ذہول ہو گیا.ذرا یاد نہ رہا اور زیادہ اثر اور افسوس اس وقت ہوا جب حضرت اقدس نے تقریر فرمائی کہ ” جب دن ختم ہونے پر آیا تو میں کام چھوڑ کر دعا میں مشغول ہو گیا اور میں نے جن کے نام یاد تھے ان کے نام لے کر اور باقی کو بلا نام تمام کو دعا میں یاد کیا.جب میں کر چکا تھا کہ مجھ کو معلوم ہوا جس طرح کوئی شخص مرجاتا ہے تو گویا میں نے سمجھا رمضان اب ختم ہو گیا اتنے میں اللہ اکبر کی آواز آئی لیکن ہم دعا کر چکے تھے.ہماری دانست میں یہ بہت مبارک مہینہ تھا گویا اس کی برکات ختم ہو گئیں.اس وقت مجھ کو بڑی رقت طاری ہوئی کہ ایک ہم بد نصیب ہیں کہ دعا تو دعا نماز عصر بھی غائب کی.مجھ کو مغرب سے عشاء تا نہایت رفت رہی اس لئے اس تقریر کے وقت بھی رقت طاری تھی.حضرت (نے) بڑی عمدہ تقریر فرمائی فرمایا ان مہینوں میں
519 بھی روحانیت ہوتی ہے.یہ روحانی ہوتے ہیں.جن کے ذائقے جدا جدا ہیں.نماز کا جدا، روزے کا جدا ، حج کا جدا.خلاصہ یہ کہ جدا جدا ذائقے ہیں جو کمی اس ماہ میں رہ گئی ہے اس کی تلافی دوسرے مہینوں میں کی جائے..۱۲ جنوری ۱۹۰۲ء 66 آج عید الفطر ہے.نماز صبح پڑھی.الحمد للہ کہ اس وقت ایک گداز طبیعت میں تھا.“ ۴-۳-۰۲ کی ڈائری میں ایک نماز کے بھول جانے اور ایک نماز کے باجماعت ادا نہ کر سکنے کا ذکر کر کے تحریر فرماتے ہیں.خدا تعالیٰ میرے پر رحم کرے اور مجھ کو مقیم الصلوۃ اور چست بنائے.“ آپ معمولاً شب بیدار اور تہجد گزار تھے.حتی کہ سفر میں بھی التزام رکھتے.چنانچہ مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی سناتے ہیں کہ منٹگمری.سرگودھا وغیر ہا کے سفر میں جو نواب صاحب نے ریاست کی جاگیر کی بجائے مربعے حاصل کرنے کی خاطر کیا تھا آپ باقاعدگی کے ساتھ تہجد ادا کرتے تھے.اس طرح مکرم مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں کہ ” مرحوم نمازیں ہمیشہ خشوع خضوع کے ساتھ ادا کرتے اور پابندی کے ساتھ تہجد پڑھا کرتے.نواب مبار که بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ نواب صاحب بہت دعائیں کرتے تھے رات کو تہجد میں دعائیں کرتے تو یوں معلوم ہوتا کہ خدا تعالیٰ کا نور کمرہ میں نازل ہو رہا ہے.اور اس طرح دعائیں کرتے اور اس قدر گریہ وزاری کرتے کہ نیند اڑ جاتی تلاوت قرآن مجید کی کثرت کے باعث قریباً تمام قرآنی دعائیں یاد تھیں.احادیث کی بھی بہت سی دعائیں یاد تھیں جو اکثر پڑھا کرتے تھے“ مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے تحریر فرماتے ہیں کہ نواب صاحب کے کیرکٹر کے دو پہلو بہت نمایاں تھے.آپ بڑے عبادت گزار اور بڑے سخی تھے.نواب صاحب صبح کی نماز سے قبل قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور فرمایا کرتے تھے کہ قرآن مجید ایک سمندر ہے جو کوئی بھی اس بحر میں غوطہ زنی کرے خالی ہاتھ نہ لوٹے گا.بلکہ کچھ نہ کچھ حاصل کر لے گا.آپ تلاوت کثرت سے کرتے اور بعض نکات کے معلوم ہونے پر ان کے متعلق علماء سلسلہ سے تبادلہ خیالات کرتے سیدہ موصوفہ فرماتی ہیں کہ آپ تلاوت پابندی سے کرتے تھے اور ماہ رمضان مبارک میں اس میں حمد بیان مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب.
520 اور زیادتی ہو جاتی تھی.وہ دعائیں ، وہ رات کو قرآن مجید پڑھنے کی آواز وہ ان کی شب بیداریاں.اب یاد آتی ہیں تو خیال آتا ہے کہ کیسے بابرکت وجود سے میرا گھر روشن تھا.اس نور اور رحمت و برکت کی خوشبو سے جس سے میرا گھر منور و معطر تھا اب محروم ہے.قرآن کریم کی تلاوت آپ کی غذا تھی اور اتنا شوق تھا کہ میاں عبداللہ خاں صاحب اور میاں عبدالرحیم خاں صاحب کو حفظ کرانا شروع کیا مگر وہ قریباً سات سیپارے کرنے پائے آگے نہ کر سکے.اسی طرح میاں محمد احمد خاں صاحب کو بھی حفظ کرانا چاہا مگر انگریزی تعلیم کا بھی بوجھ تھا ان کو چکر آنے لگے اور وہ بھی حفظ نہ کر سکے.تینوں نے حافظ روشن علی صاحب سے حفظ کیا جتنا بھی کیا.قرآن مجید سے عشق ہی تھا کہ آپ نے حضرت اقدس کی وساطت سے حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اول) کو اپنے ہاں مالیر کوٹلہ بلوایا.قریباً سال بھر مع اہل و عیال و شاگردان ہر قسم کا خرچ برداشت کر کے تفسیر پڑھی اور دوسری بار پھر ہا اماہ کے قریب آپ کو رکھا بعد ازاں بھی ہمیشہ خواہش رہی کہ حضرت مولوی صاحب وہاں پھر تشریف لائیں بھلا رؤ سا کوان باتوں سے کیا ؟ لیکن یہ قرآن مجید کے عشق کا جذبہ ہی کارفرما تھا.اس کی تفصیل دوسری جگہ درج کی گئی ہے.حضرت نواب صاحب کی ڈائری گوحضرت نواب صاحب معمولاً ڈائری لکھنے کا التزام نہ فرماتے لیکن جتنے عرصہ کی ڈائری آپ نے لکھی ہے اس کا ایک حصہ درج کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا.اس سے آپ کی سیرۃ وشمائل کا ایک قیمتی حصہ خود آپ کی قلم سے ہمارے سامنے آتا ہے.آپ ڈائری میں چھوٹے بڑے امور کو محفوظ کرتے.آپ نے اپنی زندگی کا ایک عملی لائحہ عمل بنایا ہوا تھا اس پر مداومت کرتے.اگر کسی دن روزانہ معمولات میں فرق آجا تا تو اس کا ذکر بھی کرتے.اس ڈائری سے اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کے وقت کا اکثر حصہ یا تو عبادت و تلاوت قرآن کریم میں اس بارہ میں الفضل مورخہ ۱۴-۱-۱۴ میں مرقوم ہے کہ یہ خبر مسرت سے پڑھی جائیگی کہ عبدالرحیم خاں وعبداللہ خاں علاوہ فورتھ ہائی کی تعلیم کے سات پارے حفظ کر چکے ہیں آخر الذکر عزیز کا نمونہ قابل قدر ہے.جو اس جاڑے میں دن چڑھنے سے پون گھنٹہ پیشتر ایک میل کے فاصلہ سے یہاں قرآن مجید پڑھنے کے لئے پہنچ جاتا ہے.“ ( صفحہ کالم ۲)
521 گزرتا یا تبلیغ اور بعض اوقات اہم امور میں مختلف احباب سے تبادلہ خیالات میں.یہ امور علی العموم جماعتی نظام کے استحکام کے متعلق ہوتے تھے.مکرم عرفانی صاحب ذکر کرتے ہیں کہ ” مجھ سے علی العموم تعلیمی اور انتظامی امور کے متعلق گفتگو ہوتی.سلسلہ کی اشاعت اور قومی استحکام کے متعلق آپ کو بڑا درد رہتا تھا اور آپ کی زبر دست خواہش یہ ہوتی تھی کہ حضرت اقدس کے ایام زندگی میں جماعت عملی رنگ میں ایک بلند مقام پر پہنچ جائے.“ آپ کی ڈائری نویسی سے ایک بات اور ظاہر ہوتی ہے کہ اس میں واقعات کو بالکل صحیح اور سادہ رنگ میں ظاہر کیا ہے تکلف نہیں مثلاً اگر نماز میں دیر ہوگئی تو اس کا اخفاء نہیں کیا گیا جس سے ان کی صداقت پسندی اور محبت صدق کا اظہار ہوتا ہے.ڈائری سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی آپ کچھ نہ کچھ وقت دیتے تھے.اس سے ذاتی طور پر بچوں کے رجحان طبیعت اور اخلاق کی درستی میں مدد ملتی ہے.ڈائری سے آپ کی سیرۃ پر جو روشنی پڑتی ہے اس کا بالا ختصار ذکر بعد میں آئے گا.ساری ڈائری یہاں نقل نہیں کی گئی بلکہ ضروری حصص جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس قادیان آنے.مسجد مبارک میں نمازیں پڑھنے.مجالس میں شامل ہونے اور دیگر ایسی باتوں کا ذکر ہے کہ جن سے کوئی نہ کوئی مفید بات مستنبط ہو سکتی ہے نقل کر دی گئی ہے.جو حصے ضروری نہیں سمجھے گئے ترک کر دئے گئے ہیں.البتہ چھوڑے ہوئے مقامات پر بالعموم نقطے نہیں لگائے گئے اور خطوط وحدانی کے الفاظ خاکسار مؤلف کی طرف سے ہیں.اس تعلق میں خاکسار کے استفسار پر حضرت عرفانی صاحب نے قیمتی نوٹ تحریر کئے ہیں جو حاشیہ میں آپ کی طرف منسوب کر کے درج کئے گئے ہیں.ممکن ہے بعض دوست تقسیم اوقات وغیرہ کے ذکر کو غیر ضروری خیال کریں لیکن میں نے ضروری اور مفید سمجھ کر ہی درج کیا ہے.مثلاً حضرت اقدس کے عہد میں رمضان مبارک میں سحری کے بعد اذان صبح کا بعض ایام کا وقت.نمازوں کا وقت ، حضور کے بین المغرب والعشاء جلسہ ( در بارشام ) کے اوقات.سیر کے اوقات وغیرہ یہ سب باتیں میری نظر میں حد درجہ مفید ہیں اور سوائے اس ڈائری کے کہیں سے معلوم نہیں ہو سکتیں.تلاوت ، تہجد اور بچوں کی تعلیم اور بہت سے ایسے امور ا کثر میں نے ترک کر دیئے ہیں.کہیں کہیں درج کئے ہیں.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے مجھے فرمایا کہ اس عرصہ دربار شام میں میں پانچ سو دفعہ درود شریف پڑھ لیتا ہوں.صرف اس ڈائری سے معلوم ہوتا ہے کہ دربار شام کا عرصہ کتنے وقت پر ممتد ہوتا تھا (۸/ جنوری ۱۸۹۸ء بروز ہفتہ صبح چار بجے کو ٹلہ سے روانہ ہو کر 4 بجے لدھیانہ پہنچے وہاں سے پونے نو
522 * بجے بذریعہ ریل روانہ ہو کر ایک بجے امرتسر پہنچے اور ہوٹل میں ٹھہرے) ۹ /جنوری ۱۸۹۸ء بروز اتوار امرتسر میں اسٹیشن پر میاں عبد الکریم صاحب عطار اور ہمشیر مولوی نورالدین صاحب و یعقوب علی (صاحب) ایڈیٹر اخبار الحکم ملے اور ایک اور صاحب بھی.یہ سب حضور مرزا صاحب کے مبائعین میں سے تھے گیارہ بجے بٹالہ پہنچے وہاں پر Rest House میں دو گھنٹہ ٹھہرے گو کہ مرزا صاحب نے پہلی بھیج دی تھی مگر میاں عبدالکریم صاحب (نے) کوشش کر (کے ) ایک گھوڑی بہم پہنچائی.اس لئے میں گھوڑے پر سوار ہوا.اور صفدر علی اور منصب علی ** اور میاں عبدالکریم یکہ پر اور اللہ بخش اور نور محمد معہ اسباب پہلی میں روانہ مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں.”میاں عبد الکریم عطار سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور قادیان میں بابا عبدالکریم کے نام سے عمر کے آخر میں مشہور تھے.وہ صحابی تھے.بہت خوش گلو تھے.حضرت اقدس کے حضور ان کو بعض نظمیں پڑھنے کا شرف حاصل ہوا.کبھی کبھی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے ارشاد پر اذان بھی کہہ دیا کرتے تھے.تجارت کا شوق تھا.بریکار نہ رہتے اور اس فن کو خوب سمجھتے تھے بہت خوش اخلاق اور خندہ پیشانی کے مالک تھے.رضی اللہ عنہ.“ ان کے قادیان آنے کا ذکر حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے تفسیر کبیر جلد ششم جز چہارم حصہ سوم میں سورۃ القریش کی تفسیر میں صفحہ ۲۴۲ پر کیا ہے.مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں.ہمشیرہ حضرت خلیفتہ اسیح اول رضی اللہ عنہ اس وقت قادیان میں آئی تھی اور اس کے آنے کا مقصد مشورہ کرنا تھا کہ روپیہ ہو گیا ہے کوئی مقدمہ کرنا چاہتی ہوں.حضرت حکیم الامۃ یہ لطیفہ درس میں بھی سناتے تھے اور وہ خلیفہ اول کو محبت اور پیار سے نور دینا کہ کر پکارتی تھی.حضرت خلیفہ اول کی طرح در از قد اور مضبوط 66 جسم کی خاتون تھیں.“ ** صفدر علی صاحب کے لئے دیکھئے ڈائری بابت ۹۸-۰۱-۲۶.ان کا ذکر ۰-۱۱-۱۳ کی ڈائری میں بھی ہے مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں.منصب علی صاحب حضرت نواب صاحب کے اہلکار پیشی تھے.بہت خوش خط ، معاملہ فہم اور وجیہہ نو جوان
523 ہوئے.قریب پانچ بجے قادیان پہنچے وہاں پر مولوی عبد الکریم صاحب اور مولانا مولوی نورالدین صاحب اور سیٹھ عبدالرحمن صاحب ، حاجی اللہ رکھا صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب اور دیگر برادران آشنا اور غیر آشنا سے ملاقات ہوئی اور حضور مرزا صاحب سے بھی نیاز حاصل ہوا.چونکہ میں تھک گیا تھا اس لئے نماز مغرب اور عشاء میں شامل نہ ہوسکا.بقیہ حاشیہ: - بیعت کر لی تھی مگر جب وہ ریاست میں عدالتی ہو گئے تو سلسلہ کے کاموں میں وہ دلچسپی نہ رہی.“ مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب ذکر کرتے ہیں کہ و نیم احمدی تھے.مالیر کوٹلہ کے باشندہ تھے.حضرت والد صاحب کے اہل کار تھے پھر تعلیم پاکر ریاست میں بالآخر دیوان کے عہدہ پر فائز ہوئے.ان کی اولاد احمدی نہیں.یہ انومبر ۱۹۰۶ء کو مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں پنجم پرائمری میں داخل ہوئے تھے.( رسالہ تعلیم الاسلام جلد نمبر ۵ صفحه ۲۰۱ ) ان کا مدرسہ کے لئے چندہ دینے کا ذکر الحکم جلد۵ نمبر ۳ صفحہ ۱۶ کالم ۳ میں آتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳ صفحہ ۱۶ کالم ۳ میں میاں عبدالعزیز صاحب اور میاں اللہ بخش صاحب کے مدرسہ تعلیم الاسلام کے لئے چندہ کا ذکر آتا ہے مکرم میاں محمد عبدالرحمن صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ دونوں فوت ہو چکے ہیں.احمدی نہ تھے میاں عبد العزیز صاحب کا لڑکا میرے پاس ملازم ہے.“ مکرم عرفانی صاحب میاں اللہ بخش صاحب کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: وہ نواب صاحب کے ملازموں میں آلو کے نام سے مشہور تھا اور محمد اسمعیل اس کا بیٹا تھا.یہ بھی پرانا ملازم نواب صاحب کا تھا بلکہ یہ لوگ نسلاً بعد نسل چلے آتے تھے.“ مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں: نور محمد نواب صاحب کے باورچی خانہ میں چپاتی پکاتا تھا.بیعت کر لی پھر حضرت اقدس کے ہاں آ گیا اور آخر وقت تک وہیں رہا.حضرت اقدس کے کسی مکتوب میں اسی نور محمد کا ذکر ہے.ان کے والد کا نام سیدا تھا.۱۹۲۶ء میں فوت ہوئے قطعہ نمبر ا حصہ نمبر 1 قبر صفحہ 4 بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ مالیر کوٹلہ کے رہنے والے تھے.ابراہیم ان کا اکلوتا بیٹا ان کی زندگی میں فوت ہو گیا تھا.“ ان کے متعلق اس کتاب میں دوسری جگہ بعض اور باتیں بھی درج کی گئی ہیں.
524 ۱۰ر جنوری ۱۸۹۸ء بروز سوموار نماز صبح میں شریک جماعت ہوا.نہایت حفظ نماز میں آیا.نصف سیپارہ قرآن شریف پڑھا.کوئی دس بجے کے بعد حضرت اقدس مرزا صاحب (کے) ہمراہ سیر کو گیا.حضور نے بہت سی عمدہ تقاریر اثنائے سیر میں کیں.کوئی ساڑھے گیارہ بجے واپس آئے.نماز ظہر میں شریک ہوا.نماز عشاء میں شریک ہوا.نماز عصر کے بعد مولانا مولوی نورالدین صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی قطب الدین صاحب * اور مولوی عبدالکریم صاحب تشریف لائے.قریب نماز مغرب تک تشریف رکھتے رہے.ضمیمه ، ارجنوری ۱۸۹۸ء ۳۸۲ حضرت مولانا نورالدین صاحب نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ اگر کسی انسان میں بدی ہوتی ہے تو اس میں نیکی بھی ہوتی ہے تو اس طرح اگر اس کی بدی باعث خرابی ہوتی ہے تو نیکی اس کی سفارش ہوتی ہے اس طرح انسان عذاب سے بچ جاتا ہے چنانچہ وَاَحَاطَتْ بِهِ خَطيئته ل کے معنی میں یہی سمجھتا ہوں کہ احاطہ کے معنی ہیں کہ خطایا ( نے ) اس طرح گھیر لیا ہو کہ کوئی راستہ باقی نہ رہا ہو تو عذاب آتا ہے اور اگر ذرا راستہ موجود ہو تو پھر آدمی بیچ رہتا ہے.جب تک احاطہ نہ ہو جائے.ہاں یہ ضرور ہے کہ خاص اعضاء کے گناہوں میں اگر احاطہ ہو جائے تو وہ عضو معطل ہو جاتا ہے.اور خطبہ میں فرمایا کہ انبیاء کے ساتھ کہیں جناح یا جرم نہیں آیا.کیونکہ جناح کے معنی گناہ ہیں اور جرم کے معنی کاٹنے والے کے ہیں اور ذنب کے معنی دم کے ہیں یعنی وہ گناہ جو عارضی طور سے بطور طفیلی کے صادر ہو.پس ذنب کے معنی گناہ کر نے ٹھیک نہیں.چونکہ اردو زبان کمزور ہے اس لئے کئی الفاظ کے سبب ان تینوں لفظوں کے ایک معنی کرنے پڑتے ہیں ورنہ دراصل یہ بات نہیں.۱۱/جنوری ۱۸۹۸ء منگل نماز صبح میں شریک جماعت ہوا.بعد نماز چونکہ حضرت اقدس تشریف رکھتے تھے میں بھی وہیں بیٹھ رہا.حضور نے اول چند خوابوں کا تذکرہ کیا پھر اپنی جماعت کو خطاب کیا اور چند ہدایات فرمائیں.پھر اس کے حمد مراد حکیم مولوی قطب الدین صاحب بدوملہی.آپ کا نام فہرستہائے آئینہ کمالات اسلام اور ضمیمہ انجام آتھم میں علی الترتیب چھبیسویں اور چھٹے نمبر پر درج ہے.۴۷ء میں مجبوراً قادیان سے ہجرت کر کے راولپنڈی چلے گئے تھے اور اب وفات پاچکے ہیں.
525 بعد بحر یک فضل کریم صاحب سیالکوئی دعا مانگی گئی.اس کے بعد حضور تشریف لے گئے.اور میں بھی اپنی جگہ پر آ گیا.حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کو اپنی طبیعت کا حال لکھا اور ۲۰ رو پید ان کی صاحبزادی اور نواسہ کے لئے بھیجے.حضرت اقدس اس روز سیر کو نہیں گئے اس لئے میں بھی سیر کو نہیں گیا.حضرت مولانا نے ۲۰ روپیہ واپس کردیئے اور تشریف لائے.کھانے کے وقت تشریف لے گئے.مولوی محمد احسن صاحب تشریف لائے ان سے ثبوت باری تعالیٰ پر گفتگو ہوئی.میں نے حضرت اقدس کو دعا کے لئے خط لکھا کہ میرے لئے دعا فرمائیں کہ حسنات دنیا اور دین حاصل ہوں.حضرت نے اس کا جواب دیا کہ دعا کی جائے گی اور لکھا کہ کم از کم بیس روز یہاں رہنا چاہئے.اور خداوند تعالیٰ (کے) ثبوت میں فرمایا نظارہ قدرت پر غور کرنے سے مل سکتا ہے.نماز عشاء کے سوا غالباً سب نمازوں میں میں جماعت میں شریک ہوا.ضمیمہ ارجنوری ۱۸۹۸ء -1.حضور اقدس نے صبح کی نماز میں جو ہدایات فرمائیں وہ حسب ذیل ہیں.ہماری جماعت کو اخلاقی حالت میں ترقی کرنی چاہئے.اور اگر کوئی ان پرسختی کرے یا سخت کلامی سے پیش آئے یا ہماری یا کسی کی نسبت دشنام دہی کرے تو صبر کرنا چاہئے اور اگر کوئی ایسی ہی بات آپڑے تو ہم کو اطلاع کرنی چاہئے.اور بلا ہماری اجازت کے کوئی معاملہ دوسرے سے نہ کیا جائے.گورنمنٹ کا شکریہ (ادا) کرنا چاہیئے اور ہماری جماعت کے لوگوں کو شجاعت اور استقامت کی بڑی -r ضرورت ہے..آپس میں بھی اخلاق سے پیش آنا چاہئے اور کسی اپنے بھائی کو چشم حقارت سے نہ دیکھا جائے.اور کسی کو جھوٹا نہ کہا جائے.-۴- تہجد کو پڑھنا چاہئے.تہجد کے معنے فرمائے کہ بعد از خواب بیدار شدن.اس لئے اگر اٹھ کر دعا ہی مانگ PAM لے تو بھی تہجد ہو جاتی ہے اور اگر دو چار رکعتیں ہی پڑھ لے تو کافی ہے اور باقی مسنون طریق وہی ہے.اس طرح آہستہ آہستہ عادت ہو جائے گی.مگر کچھ نہ کچھ نماز تہجد پڑھنی ضرور چاہئے اور نَافِلَةً لَّكَ سے مراد صرف حضرت رسول کریم ہی نہیں بلکہ ہر ایک سالک جو ترقی کرنا چاہے.حضرت مولانا نورالدین صاحب نے بسوال مولوی محمد احسن صاحب امروہی فرمایا کہ طلوع شمس من ☆ فضل کریم صاحب سیالکوٹی کا نام فہرست آئینہ کمالات اسلام میں دسویں نمبر پر ہے.
526 المغرب کی بابت میرا مذہب اب تک یہ ہے کہ بدعت کا مغرب سے ظاہر ہونا سوجیسی بدعت کہ عیسائیوں ( سے ) اس وقت ظاہر ہوئی ہے کہ ایک جھوٹے مذہب کے پھیلانے میں اتنا روپیہ صرف کیا گیا کبھی ایسا نہیں ہوا اور یہ معنی ہم نے کتب تعبیر رویاء سے لئے ہیں کیونکہ کتب رویاء میں لکھا (ہے) کہ طلوع شمس من المغرب کے معنی ظہور بدعت ہے.یعنی الٹی بات.اور فرمایا کہ میں تین علموں کو تفسیر میں رکھتا ہوں.کتب لغت ،لغت تعبیر الرؤیا.۱۲؍ جنوری ۱۸۹۸ء نماز صبح حضرت کے ساتھ پڑھی مگر بہ سبب طبیعت کے بدمزہ ہونے کے نہ بیٹھا اور چلا آیا.ڈیرہ پر آکر ایک پاؤ قرآن شریف پڑھا حضرت اقدس کے ساتھ سیر کو گیا.سیر میں مذہب شیعہ کے متعلق گفتگو ر ہی اور اس کے بعد کھانا کھایا پھر نماز ظہر باجماعت پڑھی.کھانے سے پہلے حضرت مولوی نورالدین صاحب تشریف لائے اور اثنائے طعام میں تشریف لے گئے پھر نماز ظہر پڑھی مگر نماز کے بعد حضرت اقدس بیٹھے نہیں.نماز عصر بھی باجماعت ادا ہوئی.اس وقت حضرت نہیں بیٹھے.میں بھی چلا آیا اب مولوی قطب الدین صاحب اور خواجہ قطب الدین صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب اور خان عبد العزیز خاں صاحب جو پہلے شیعہ تھے اور ایک معزز قزلباش کے فرزند ہیں تشریف لائے اور پھر مولوی عبد الکریم صاحب ہ مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ ☆ خواجہ قطب الدین نہیں بابا قطب الدین.یہ بڑے ہی مخلص صحابی تھے درمیانہ قد تھا.بڑے مرتاض اور حضرت مسیح موعود کی محبت میں سرشار ہر قربانی کو آمادہ.یہ کوٹلہ فقیر ضلع جہلم کے رہنے والے تھے.“ مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی فرماتے ہیں کہ بہت بلند اور عمدہ اذان کہتے تھے انکا ذکر فہرستہائے آئینہ کمالات اسلام ضمیمہ انجام آتھم میں ۳۷ اور ۱۸۹ نمبر پر آتا ہے آپ کے قادیان وارد ہونے کا ذکر الحکم ۷-۱۲-۰۱ اصفحہ ۴ ۱ کالم ۳ میں آتا ہے.حمد خالد مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ خان عبد العزیز خاں صاحب جیسا کہ نواب صاحب نے لکھا ہے قزلباش تھے اور لاہور کے قزلباشی سے تعلقات برادری تھے.وہ سیالکوٹ میں رہتے تھے.احمدیت میں داخل ہوکر عرصہ تک قادیان ہی میں رہے اور اعمال صالحہ میں خاص تبدیلی اور ترقی کی تھی.“
527 تشریف لائے.مذہب شیعہ پر گفتگور ہی پھر نماز مغرب پڑھی اور حضرت چونکہ تشریف رکھتے تھے میں بھی بیٹھا اور مختلف باتیں ہوتی رہیں پھر آکر جمعیت خواجہ کمال الدین صاحب و میر ناصر نواب صاحب کھانا کھایا پھر نماز عشاء پڑھی.۱۳ / جنوری ۱۸۹۸ء نماز صبح جماعت سے پڑھی.پھر گو کہ طبیعت بد مزہ تھی مگر میں بیٹھا رہا اور مولوی صدیق حسن خاں صاحب اور احادیث جو تائید نزول مسیح موعود میں وارد ہوئی ہیں ان کا تذکرہ ہوتا رہا اور تجویز تھی کہ ان احادیث کو یکجائی کر کے شائع کیا جائے چونکہ میری طبیعت بدمزہ تھی.کچھ عرصہ بیٹھ کر چلا آیا.قرآن شریف کا ایک رکوع پڑھا.پھر ڈائری لکھی.مولوی نورالدین صاحب کو اپنی طبیعت کا حال لکھ کر بھیجا مولانا صاحب نے دوائی بھیجی.آج مجھ کو پیچش کی سی کیفیت رہی.ایک خط مولوی عبداللہ صاحب کو لکھنا شروع کیا آج چونکہ حضرت اقدس سیر کو نہیں گئے تھے اس لئے کھانا سویرے کھایا.نماز ظہر میں شریک ہوا حضرت اقدس عصر کی نماز تک تشریف فرمائے مسجد رہے ایک دوست کے لئے دعا مانگی گئی.جو آج کل مصیبت میں ہے.کچھ خوابوں کا تذکرہ ہوا.اتنے میں نماز عصر پڑھی گئی.پھر حضور اقدس تشریف لے گئے....واپس چلا آیا.مولوی عبد اللہ صاحب کے خط کا کچھ حصہ لکھا.پھر مغرب کی نماز میں شریک ہوا مگر وہاں بیٹھا نہیں.نماز عشاء میں شریک ہوا.۱۴ جنوری ۱۸۹۸ء ) اور نماز صبح میں شریک ہوا.آج حضرت اقدس مسجد میں بیٹھے نہیں.ایک ربع قرآن شریف کا پڑھا.کوئی ساڑھے دس بجے حضرت کے ساتھ سیر کو گئے.نماز جمعہ ( میں ) زین الدین محمد ابراہیم اور دیگر صاحب جماعت جو بمبئی میں ہیں اور علی العموم کل جماعت کے لئے دعا کی گئی.فتن طاعون سے خداوند تعالٰی محفوظ رکھے.نماز عصر پڑھی.اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب تشریف لائے مراد مولوی عبداللہ فخری.ه له فکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں.زین الدین کا ذکر حضرت نے آئینہ کمالات اسلام اور دوسری کتابوں میں کیا ہے.یہ ڈیوڈ سالو کی کپڑے کی مل میں انجینئر تھے.بہت بوڑھے تھے کو کن کے رہنے والے.شریعت کے پابند.افسوس خلافت ثانیہ
528 اور مولوی نورالدین صاحب بھی.مختلف گفتگوئیں ہوتی رہیں.نماز عشاء کے (بعد ) حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب تشریف لائے.اور کوئی نو بجے تک بیٹھے رہے.میں ( نے ) اپنی طبیعت کا حال بتایا.کیونکہ میری طبیعت بدمزہ رہی تھی.اجابت بار بار آتے تھے.حضرت مولانا نے چند کتا ہیں مجھ کو دیں.ضمیمه ۱۴ جنوری ۱۸۹۸ء ۱۳۸۵ ☆ اگر میں غلطی نہیں کرتا تو آج حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم کو الہام ہوا کہ کون کہہ سکتا ہے کہ اے بجلی ! آسمان سے مت رگر اور غالباً اسی روز فرمایا اس کے ایک دن پہلے کہ ”ہم کو خواب ہوا کہ ہماری جماعت کے ایک شخص کو ہم نے دیکھا لیکن ہم اس کو اس وقت پہچانتا تھا اب یاد نہیں.ایک سونے کا کنٹھا پہنایا گیا ہے.میں نے کہا کہ ایک رومال بھی باندھ دو.اور وہ رومال بھی باندھا گیا.۱۵/جنوری ۱۸۹۸ء MAY نماز تہجد کے بعد استخارہ کیا کہ آیا مجھ کو حضرت اقدس ( کی ) تائید میں لکھنا چاہئے کہ نہیں اور دوسرے مولوی محمد حسین کے اشتہار کا جواب دینا چاہئے کہ نہیں جس میں انہوں نے ہم چار شخصوں کو مخاطب کیا ہے.* اس کے ( بعد ) نماز صبح میں شریک ہوا.صبح اٹھتے ہی مجھ کو خبر ہوگئی تھی کہ خواجہ کمال الدین صاحب پاس اس تاریخ کے ملفوظات الحکم بابت ۷ ارجون ۱۹۰۱ء صفحہ ۴ میں ملاحظہ فرمائیے.الہام کون کہہ سکتا ہے اے بجلی آسمان سے مت گر الحکم بابت ۰۱-۷-۲۴ صفحہ میں شائع ہو چکا ہے.کنٹھے والی رو یا غیر مطبوعہ ہے.بقیہ حاشیہ: - کے وقت وہ پیرانہ سالی کی وجہ سے یا نا معلوم اسباب کی وجہ سے ساتھ نہ رہ سکے.مگر میرا مذہب ان کے متعلق یہ ہے کہ وہ نہایت مخلص اور متقی تھے.پیرانہ سالی کی وجہ سے اور عماید اختلاف کے ساتھ ذاتی تعلقات کی وجہ سے زیر اثر رہے مگر کبھی حضرت امیر المؤمنین کے خلاف ایک لفظ نہ کہا.ان کا ادب اور ان سے محبت کا اظہار کرتے تھے.جلد فوت ہو گئے.اگر موقعہ ملتا تو وہ ضرور واپس آتے.ان کا ذکر آئینہ کمالات اسلام اور ضمیمہ انجام آتھم کی فہرستوں میں ۴۹ اور ۲۳۸ نمبروں پر آتا ہے.* ل مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں.مولوی محمد حسین نے حضرت نواب صاحب کے ایک خط کا ایک فقرہ کوٹ (quote) کیا تھا جو آتھم کی پیشگوئی کے متعلق نواب صاحب نے لکھا تھا.“
529 ہو گئے ہیں میں ( نے ان کو مبارک باد دی اور حضرت اقدس نے اس کامیابی کے سلسلہ میں ایک لطیف گفتگو کی.اس کے بعد حضرت مسجد سے تشریف لے گئے.میں بھی ڈیرے آیا.قرآن شریف کا ایک ربع پڑھا اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب مع خواجہ کمال الدین صاحب (و) چند دیگر برادران تشریف لائے.قرآن شریف کا درس کیا.پھر مولوی نورالدین صاحب تشریف لائے.اور میری نبض دیکھی اور دوائی دی اور مختلف باتیں حضرت اقدس کے متعلق ہوتی رہیں.پھر میں حضرت کے ساتھ سیر کو گیا.نماز ظہر پڑھی اور تھوڑا عرصہ حضرت مسجد ( میں) تشریف فرمار ہے.میں بھی بیٹھا رہا.اخبار عام پڑھا گیا.پھر تشریف لے گئے.نماز عصر پڑھی.آج بھی میری طبیعت بدمزہ رہی.عصر کی نماز کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب تشریف لائے اور نماز مغرب تک تشریف رکھتے رہے.پھر نماز مغرب ( با ) جماعت پڑھی.نماز عشاء پڑھی.۱۶ جنوری ۱۸۹۸ء ساڑھے تین بجے اٹھا اور ضروریات سے فارغ ہو کر تہجد پڑھی پھر نماز صبح میں شریک ہوا.آج خواجہ کمال الدین (صاحب) گھر گئے.میں نے منصب علی کو بعض کا غذات لانے کے لئے اور اللہ بخش کو بہ سبب کام نہ ہونے کے کوٹلہ روانہ کر دیا.آج بہ سبب حضرت کے بعد نماز نہ بیٹھنے کے میں چلا آیا.ایک ربع قرآن شریف کا پڑھا.میر ناصر نواب صاحب آگئے ان سے باتیں ہوتی رہیں.اس کے بعد یہ ڈائری لکھ رہا ہوں.اب پونے نو بجے ہیں.اس کے بعد حضرت تشریف لائے اور کوئی گیارہ بجے تک تشریف فرمار ہے اور بہت کچھ گفتگو فرمائی.حضرت کے جانے کے بعد کھانا کھایا پھر ظہر میں شریک ہوا.بعد نماز ظہر کتاب البریہ دیکھی پھر نماز عصر پڑھی.اس کے بعد میرے پاس ایک ہم جماعت اور نبیرہ مرزا اعظم * بیگ صاحب تشریف لائے اور نماز مغرب کے قریب تک بیٹھے رہے.نماز عشاء کے ( بعد ) حضرت مولا نا مولوی نورالدین صاحب * وو یہ لطیف تقریر احباب الحکم بابت ۰۱-۶-۲۴ صفحہ ۱ ۲ میں ملاحظہ فرمائیں.ان کا ذکر ۹۸-۱-۹ کی ڈائری میں ہے.مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں مرزا اعظم بیگ صاحب ایک مشہور خاندان کے رئیس تھے.حکومت پنجاب میں وہ اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر اور مہتم بندوبست تھے.مرزا امام دین ، مرزا نظام الدین صاحبان کی ہمشیرہ ان کے بڑے بیٹے مرزا اکبر بیگ کو
530 تشریف لائے اور قریباً آٹھ بجے تک بیٹھے رہے صاحب نو مسلم بھی تھے.آج بھی استخارہ کیا.صبح میں نے حضرت سے سوال کیا کہ حدیث میں دین العجائز ہے اور قرآن شریف میں جابجا عقل کی طرف بڑی توجہ دلائی جاتی ہے.اس کی تطبیق کس طرح ہو سکتی ہے.فرمایا دین العجائز ہر ایک کے لئے نہیں بلکہ انسانوں بقیہ حاشیہ : - بیاہی گئی تھی.وہ قسطنطنیہ میں ڈاکٹر تھے جو جنگ روم روس میں چلے گئے تھے.مکرم مرزا غلام اللہ رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ تھے.یہی وہ مرزا اعظم بیگ ہیں جنہوں نے قادیان جائیداد خریدی.اور جس کے پڑپوتے مرزا اکرم بیگ سے اور کچھ اس کے باپ مرزا افضل بیگ سے خریدی.پہلا سودا مرزا افضل بیگ سے خاکسارعرفانی کے توسط سے ہوا تھا.اس نے مجھے پانچ گھماؤں زمین دی میں نے اسے انجمن کے نام پر ہی جبہ کرا دیا.میرا خیال ہے کہ ( نبیرہ) مرزا اعظم بیگ سے مراد مرزا اسلم بیگ ہے.جو کچھ دنوں چیفس کالج میں داخل ہوا تھا.اس کا بھائی مرزا احسن بیگ سلسلہ میں داخل ہے اور مرزا ارشد بیگ خود بھی اور اس کا خاندان داخل سلسلہ ہے.“ مکرم بھائی عبد الرحمن صاحب تحریر فرماتے ہیں.وو مرزا اسلم بیگ صاحب احمدی نہ تھے عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں.انڈیمان میں کمشنر یا اسٹنٹ کمشنر رہ چکے تھے.مرزا ارشد بیگ صاحب فوت ہو چکے ہیں.محترمہ محمدی بیگم صاحبہ کی دو ہمشیرگان مرزا احسن بیگ صاحب اور مرزا ارشد بیگ صاحب سے بیاہی گئی تھیں.مرزا احسن بیگ صاحب رئیس کامنہ کوٹہ (Kotah) راجستھان بفضلہ تعالیٰ زندہ ہیں.حضرت اقدس آپ کو بہت عزیز جانتے تھے.چنانچہ حضور نے ان کی خاطر مجھے ان کے پاس کو نہ بھیج دیا تھا.جب میں آنے کا ارادہ کرتا مرزا صاحب حضور کی خدمت میں تحریر کر دیتے اور حضور مجھے و ہیں ٹھہر جانے کا حکم دے دیتے.آخر کئی سال بعد ایک دفعہ شکار میں زخمی ہوا تو واپسی ہوئی.میں نے مرزا صاحب کو حضور کے ہمراہ بٹالہ کے سفر میں رتھ میں سوار دیکھا ہے.۲-۸-۱۸ کومرزا صاحب کی طرف سے درخواست بیعت پر حضرت اقدس کی تقریر کا ذکر الحکم بابت ۰۲-۸-۲۴ صفحہ ۹ پر ہے.پر چہ ۰۲-۸-۳۱ صفحہ پر مرقوم ہے.دوسرا نام جو ہم خصوصیت سے ذکر کرنا چاہتے ہیں وہ ہمارے عزیز مرزا احسن بیگ صاحب کا نام ہے....مرزا احسن بیگ مرزا اعظم بیگ رئیس لاہور کے نبیرہ ہیں اور ڈاکٹر مرزا اکبر بیگ کے بیٹے.مرزا احسن بیگ کے بزرگ اس سلسلہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے.مگر خدا تعالیٰ نے اس نوجوان کو توفیق دی کہ وہ حضرت مسیح موعود کے خادموں میں شریک ہونے کا فخر حاصل کرے.راقم مؤلف سے بھی ان کی خط و کتابت ہے.
531 کے ایک طبقہ کے لئے ہے.انسانوں کے تین طبقے ہوتے ہیں ایک وہ لوگ سمجھ بہت موٹی ہوتی ہے.اور وہ دقائق کو سمجھ نہیں سکتے.ان کے لئے دین عجائز ضروری ہے اور دوسرے وہ لوگ جو سمجھ دار...لئے عقل کی رہبری ضروری ہے اور پھر ان سے بالا تر ہیں جو اہل مکاشفہ ہیں.حضرت نے فرمایا کہ تائید مجدد کے لئے ضروری ہے.(۱) نصوص (۲) عقل (۳) تائیدات من اللہ اور پھر...۱۷/جنوری ۱۸۹۸ء آج صبح چار بجے بیدار ہوا.نماز صبح میں شریک ہوا.قرآن شریف کا ایک ربع پڑھا.پھر کوئی دس بجے کے بعد حضرت کے ساتھ سیر کو گیا.سیر سے واپس آکر کھانا کھایا.حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب بھی شریک طعام تھے.اور حسب معمول میر ناصر نواب صاحب بھی.نماز ظہر میں شریک ہوا.پھر کچھ گھڑی درست کرتا رہا.نماز ظہر کے بعد آج بھی استخارہ کیا اور حضرت کو دعا کے لئے لکھا کہ میں جو لکھنا چاہتا ہوں اس میں شرح صدر ہو.اور کوئی لوث نہ ہو اور لوگوں کو فائدہ ہو.پھر نماز عصر پڑھی.نماز عصر کے بعد پھر گھڑی درست کرتا رہا.نماز عشاء پڑھی پھر گھڑی درست کرتا رہا اور ایک گھڑی درست ہو گئی.۱۸/جنوری ۱۸۹۸ء نماز صبح میں شریک ہوا.نماز صبح کے بعد حضرت نے بسوال مولوی عبد القادر صاحب اور بسوال مولوی قطب الدین صاحب بڑی بسیط تقریر فرمائی اس کے بعد کوئی نو بجے تشریف لے گئے.میں ڈیرہ آیا.قرآن شریف لفظ پڑھا نہیں گیا.اس تاریخ کی ڈائری میں جہاں کا غذ پھٹا ہوا ہے وہاں نقطے ڈال دئے گئے ہیں.* مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں.حضرت مولوی عبد القادر صاحب بڑے پایہ کے خفی عالم اور صاحب تدریس تھے.حضرت مولوی ( محمد ابراہیم صاحب ) بقا پوری ان کے تلامذہ میں سے ہیں.بہت نیک اور مخلص عالم تھے مکتوبات میں ان کا ذکر آتا ہے.تبلیغ کے شائق تھے رضی اللہ عنہ.خاکسار عرفانی سے ۱۸۸۹ء سے تعلقات مودت ومحبت تھے.‘ آپ کا نام فہرستہائے آئینہ کمالات اسلام اور ضمیمہ انجام آتھم میں موجود ہے.حکیم محمد عمر صاحب کے والد بزرگوار تھے.
532 کا ایک ربع پڑھا اب یہ ڈائری لکھ رہا ہوں اب دس بجنے والے ہیں.اس کے بعد میں نے سیر کی تیاری کی اور حضرت کے ساتھ سیر کو گیا.آج باغ کی طرف سیر کو گئے پھر کھانا کھایا.اتنے ( میں ) نماز ظہر کا وقت ہو گیا.سب نمازیں حسب معمول پڑھیں نماز عصر کے بعد حضرت مولانا آئے اور مولوی برہان الدین صاحب تشریف (لائے ) اور دو صاحب اور.آج میں (نے) مضمون لکھنا بھی شروع کیا.یہ مضمون حضرت اقدس کی تائید میں ہوگا.آج نماز عشاء کے بعد منشی یعقوب علی ( صاحب آئے ) اور کچھ ان سے اخبارات کے متعلق گفتگو ہوتی رہی.۱۹؍ جنوری ۱۸۹۸ء نماز صبح میں شریک ہوا.اب تک کہ نو بجے (ہیں) حسب معمول کچھ حضرت کے پاس بیٹھا.آج میری طبیعت پھر بدمزہ رہی.اور پیچش کے آثار معلوم ہوتے تھے.آج بعد نماز ظہر شیخ عبداللہ کو خط * ** لکھا.ایک ماسٹر علی شیر کو اور ایک خواجہ کمال الدین صاحب کو اور ایک خط مولوی عبد اللہ صاحب کو لکھا اور ایک خط مولوی محمد حسین صاحب ** کو لکھا.آج سیر کو نہیں گئے.قریب مغرب مولوی عبدالکریم صاحب تشریف لائے.مولوی عبد اللہ صاحب کے نام کا خط سن کر خوش ہوئے بعد نماز عشاء عبدالرحیم صاحب نو مسلم تشریف لائے اور نو بجے تک بیٹھے رہے.**** جمعه /۲۱ جنوری ۱۸۹۸ء آج صبح...نماز باجماعت ادا کی.صرف یہ قابل ذکر ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ طاعون کے مراد مکرم عرفانی صاحب ایڈیٹرالحکم.اس روز کی حضور کی تقریر کے لئے الحکم جلد ۵ ( نمبر ۲۸ صفحه ۱ تا۳).(نمبر ۲۹ صفحه ۱ تا۲).نمبر ۳۰ صفحه ۱ تا ۳) - (نمبر ۳۱ صفحه ۱ تا ۳).( نمبر ۳۲ صفحه ۱ تا ۳).( نمبر ۳۳ صفحه ۱ تا ۲ ) ( نمبر ۳۴ صفحه ۱ تا ۲) ملاحظہ فرمائیں.* مراد شیخ عبداللہ صاحب نو مسلم وکیل جو علی گڑھ میں اب تک زندہ ہیں.** مراد مولوی عبداللہ صاحب فخری *** مراد بٹالوی مراد مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب حال در ویش قادیان.****
533 بارے میں ہم نے تہجد کے وقت جو بہت دعا کی تو اس وقت بعد دعا الہام ہوا کہ ان الله لا يغير ما بقوم ۱۳۸۷ ☆ حتى يغيروا ما بانفسهم - اس سے ہم کو بڑا خوف ہوا.اور اس پر ایک بڑی لمبی پر لطف تقریر فرمائی.جید اس روز جمعہ تھا اس لئے نماز جمعہ کے بعد حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب ( نے ) ایک وعظ فرمایا کیونکہ حضرت اقدس نے ان کو حکم دیا تھا کہ وہ گاؤں کے لوگوں کو اطلاع دیں کہ جمعہ میں آئیں.اور ان کو وعظ کرو تا کہ وہ خوف کریں اور خدا کے عذاب سے بچیں.۲۲ / جنوری ۱۸۹۸ء نماز صبح با جماعت ادا کی پہلے دو روز سیر کو نہیں گئے تھے.آج دس بجے سیر کو گئے 2 ۲۳ جنوری ۱۸۹۸ء نماز صبح میں شریک ہوا بعد نماز صبح حضرت اقدس نے نو بجے تک ایک بڑی مفصل تقریر فرمائی.آج سیر کو نہیں گئے.آج حضرت کے سر میں درد تھا.اس لئے باقی نمازوں میں باہر تشریف لاکر جماعت میں شریک نہیں ہوئے.آج بعد نماز ظہر مولوی محمد احسن صاحب اور سیٹھ عبد الرحمن صاحب تشریف لائے.بعد نما ز عصر مولوی عبد الکریم صاحب، مولوی نورالدین صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب تشریف لائے.آج چاند ماہ رمضان نکلا.۲۴ / جنوری ۱۸۹۸ء آج ماه مبارک رمضان کی پہلی تاریخ ہے.صبح پونے تین بجے بیدار ہوا.تہجد پڑھی.پھر ساڑھے چار بجے کھانا کھایا.کچھ استغفار وغیرہ کرتا رہا.نماز صبح با جماعت پڑھی.قرآن شریف کا ایک ربع پڑھا.قرآن شریف پڑھنے کے بعد کچھ کتابیں دیکھیں پھر چونکہ نظام الدین صاحب * آ گیا اس سے باتیں کرتا رہا.اس کے بعد میں ( نے ) ایک مضمون لکھنا شروع کیا پھر نماز ظہر پڑھی اس کے ( بعد ) حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب تشریف لائے ان کے ساتھ باتیں کرتا رہا.پھر حضرت مولانا تشریف لے گئے.نماز عصر باجماعت حمد اس الہام اور اس تاریخ کی ڈائری کے لئے دیکھئے ( الحکم بابت ۰۱- ۷-۲۴ صفحه ۱ ) آگے نماز کسوف کا ذکر آتا ہے.یہ حصہ صوم وصلوٰۃ کی پابندی کے عنوان کے ماتحت نقل کیا گیا ہے.مراد مرز ا نظام الدین صاحب.
534 پڑھی.پھر حافظ داؤ د صاحب کو خط لکھا.اس کے بعد مولوی عبد الکریم صاحب آگئے.ان سے باتیں کرتا رہا.نماز مغرب جماعت کے ساتھ پڑھی بعد نماز عشاء قریب ساڑھے سات بجے سو گیا.۲۵ جنوری ۱۸۹۸ء آج صبح تین بجے کے بعد کچھ منٹ گزرے (کہ) بیدار ہوا.تہجد پڑھی پھر کھانا کھایا ( سحری ).نماز با جماعت پڑھی.بعد نماز قرآن شریف کا ایک ربع پڑھا.اب کہ سوا سات بجے ہیں یہ ڈائری لکھی.بروز بدھ ۲۶ جنوری ۱۸۹۸ء آج بھی ڈائری لکھنی بھول گیا امور معمولی حسب معمول ہوئے.آج نئی بات یہ ہوئی کہ میں نے تجدید بیعت حضرت اقدس مرزا صاحب سے کی اور صفدر علی نے بھی بیعت کی یہ بیعت بیعت تو یہ تھی.ا مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں.حافظ داؤ دصاحب مالیر کوٹلہ کے تھے سلسلہ کے ساتھ تعلق نہ تھا نواب صاحب انہیں تبلیغ کر رہے تھے.“ مرزا صفدر علی صاحب رضی اللہ عنہ کا ذکر ۹۸-۱-۹ کی ڈائری میں گزر چکا ہے آپ کا نام فہرست آئینہ کمالات اسلام میں نمبر ۳۵ پر ہے.آپ کی وفات اور بہشتی مقبرہ میں تدفین کا ذکر الفضل بابت ۲۱-۸-۲۴ میں آتا ہے.آپ ۲۴-۸-۱۸ کو فوت ہو کر قطعہ نمبر ۲ حصہ ۱۴ قبر نمبر ۵ میں دفن ہوئے.مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں.صفدر علی صاحب مرزا تھے.نواب صاحب کے بچپن کے زمانہ سے ان کے ساتھی تھے.اور نواب صاحب با وجود خادم ہونے کے اسے محبت کی نظر سے دیکھتے تھے.وہ بہت ہوشیار اور تجربہ کار تھے.نواب صاحب کے تمام سفروں میں ساتھ رہے اور ان کے خدام میں وہ پہلے آدمی تھے جو بیعت ہوئے.اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو نوازا ایک لڑکی مولوی محمد صاحب بھاگلپوری جو مدراس میں ڈائر کٹر تعلیم اور پروفیسر وغیرہ رہ چکے ہیں ان سے بیاہی گئی اور ایک لڑکا سندھ میں خوش حال زمیندار اور سلسلہ کے کاموں میں مال ( کی ) قربانی کرنے والا ہے.اللهم زدفرد.سندھ والے بیٹے مرزا صالح علی صاحب ہیں.جن کی طرف سے پچاس روپے امداد درویشاں میں دینے کا ذکر الفضل بابت ۵۲-۲ - ۲۸ صفحہہ میں مرقوم ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۴ صفحہ کالم میں مدرسہ تعلیم الاسلام کے لئے ایک شیخ قائم علی صاحب کے چندہ کا ذکر آتا ہے.مکرم میاں محمد عبدالرحمن خاں صاحب فرماتے ہیں کہ
535 ۲۷ / جنوری ۱۸۹۸ء آج صبح پونے تین بجے غالباً بیدار ہوا.نماز تہجد ادا کی.پھر کھانا ( بوقت سحری ) کھایا اور پھر نماز صبح با جماعت پڑھی اس کے بعد قرآن نصف سیپارہ پڑھا اور پھر مضمون به تائید حضرت اقدس لکھنا شروع کیا مگر تھوڑ الکھا تھا کہ خواجہ کمال الدین صاحب آگئے انہوں نے کچھ من الرحمن کے متعلق پوچھا.اس میں وقت ظہر تک گفتگو رہی.ظہر کی نماز باجماعت پڑھی اور کچھ لکھا پھر نماز عصر پڑھی اور پھر وہی مضمون لکھا.اس کے بعد خواجہ کمال الدین صاحب کو میں نے ترجمہ کے لئے بلایا پھر ان سے باتیں کرتا رہا اور چونکہ تھک گیا تھا اس لئے پھر میں نے کام چھوڑ دیا اور غروب آفتاب پر روزہ افطار کر کے نماز مغرب پڑھی اور کھانا کھا کر نماز عشاء پڑھ کر ساڑھے سات بجے پلنگ پر گیا.آج مجھ کو زکام اور کھانسی رہا مگر کل کی نسبت کچھ کم.بروز جمعه ۲۸ /جنوری ۱۸۹۸ء آج صبح تین بجے بیدار ہوا.نماز تہجد پڑھی پھر سحری کھا کر کچھ عرصہ توقف کیا پھر نماز صبح با جماعت پڑھی.قرآن شریف کا ایک ربع پارہ پڑھا.آج بھی کھانسی اور زکام ہے مگر کل سے کسی قدر زیادہ.بروز بدھ ۱۳/ نومبر ۱۹۰۱ء سفر قادیان دارالامان صبح سوا آٹھ بجے گھر سے روانہ ہوئے.ساتھ مندرجہ ذیل اشخاص تھے.خود، عبدالرحمن، محمد نواب خاں صاحب، سید عنایت علی ، منصب علی خاں ، نبی ، قائم علی ، ولایت علی خاں.دو بجے کے وقت امرتسر پہنچے.بعد نماز ظہر و عصر کوئی پانچ بجے سیر کے لئے گئے.ہو بقیہ حاشیہ: - " غلطی سے ان کے نام کے ساتھ شیخ مرقوم ہوا.یہ مرزا صفدر علی صاحب ملازم حضرت والد ود صاحب کے بیٹے تھے.مکرم بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی فرماتے ہیں کہ قائم علی صاحب وفات پاچکے ہیں.“ اسماء مذکورہ میں مراد نواب صاحب کے صاحبزادہ میاں عبدالرحمن صاحب ،محمد نواب خان صاحب ثاقب میرزا خانی، میر عنایت علی لدھیانوی، قائم علی ولد مرزا صفدر علی صاحب ہیں.قائم علی صاحب نیز نبی کا ذکر گذشتہ اوراق میں گزر چکا ہے.ولایت علی خان صاحب کے متعلق مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ وہ نواب صاحب کے ہم قوم تھے.
536 ۱۴ نومبر ۱۹۰۱ء صبح نماز پڑھی گیارہ بجے بٹالہ پہنچے فور ارتھ میں سوار ہو کر قادیان کو روانہ ہوئے.رتھ کے ہچکولے کھاتے گرد پھانکتے روانہ ہوئے قادیان پہنچے آرزو دارم که خاک آں قدم طوطائے چشم سازم دم بدم.یہاں نماز ظہر اور عصر پڑھی.اتنے میں حضرت اقدس تشریف لائے.ایک بڑی عمدہ تقریر ( کی ) جس کا خلاصہ یہ تھا کہ انسان کو دنیا پر دین کو مقدم کرنا چاہئے.متقی بننا چاہئے.متقی کے معنی ہیں کہ اس پر بحیثیت امور دنیا ایک موت وارد ہوگئی ہو.یعنی مکروہات دنیا سے بالکل بے تعلق ہوگیا ( ہو ) اور موت کے بعد جو زندگی ملتی ہے.اس سے مستفید ہو.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو متقی بننا چاہئے اور یہاں اکثر آنا چاہئے تاکہ صحبت سے مستفید ہو کر ان کے انتقاء میں تکمیل ہو.قریب مغرب حضرت اقدس تشریف لے گئے.بوقت مغرب ہم نے جماعت کے ساتھ مسجد بیت الذکر میں نماز پڑھی.پھر بعد نماز حضرت بیٹھے رہے اور تذکرے اور عسل مصفی سنتے رہے اور بہت عمدہ عمدہ تقریریں کیں اس کے بعد سب نے نماز عشاء پڑھی پھر حضرت اقدس تشریف لے گئے.آپ کے قادیان اس ہفتہ وارد ہونے کا ذکر الحکم بابت ۰۱-۱۱-۷اصفحہ ۱۳ کالم ۳ میں مرقوم ہے.یه عمده تقریر قارئین کرام کے فائدہ کے لئے الحکم ۰۱-۱۱-۷ اصفحہ ۱۴ سے نقل کی جاتی ہے.” حضرت اقدس بعد از نماز مغرب حسب معمول بیٹھے تھے.ایک شخص پیش ہوا جو دل سے مسلمان ہو چکا تھا مگر بعض وجوہات کے سبب سے بظاہر حالت کفر میں رہتا تھا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا.دنیا چند روزہ ہے.شہادت کو چھپانا اچھا نہیں.دیکھو بادشاہ کے پاس جب کوئی تحفہ لے کر جائے مثلا سیب ہی ہو اور سیب ایک طرف سے داغی ہو تو وہ اس تحفہ پر کیا حاصل کر سکے گا مخفی ہونے میں بہت سے حقوق تلف ہو جاتے ہیں.مثلاً نماز با جماعت، بیمار کی عیادت، جنازہ کی نماز عیدین کی نماز وغیرہ سب حقوق مخفی رہ کر کیونکر ادا کئے جاسکتے ہیں مخفی رہنے میں ایمان کی کمزوری ہے.انسان اپنے ظاہری فوائد کو دیکھتا ہے مگر وہ بڑی غلطی کرتا ہے.کیا تم ڈرتے ہو کہ بچی شہادت کے ادا کرنے سے تمہاری روزی جاتی رہے گی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَفِی السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تَوْعَدُونَ ، فَوَ رَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقِّ تمہارا رزق آسمان میں ہے.ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے یہ سچ ہے.زمین پر خدا کے سوا کون ہے جو اس رزق کو بند کر سکے یا کھول سکے.اور فرماتا ہے وھو يتولى الصالحین نیکوں کا وہ آپ والی بن جاتا ہے.پس کون ہے جو مر دصالح کو ضرر دے سکے اور اگر کوئی مصیبت یا تکلیف انسان پر آپڑے.من يتق الله يجعل له مخرجا جو خدا کے آگے تقویٰ اختیار کرتا ہے.خدا اس کے لئے ہر ایک تنگی اور تکلیف سے نکلنے کی راہ بتا دیتا ہے.اور فرمایا ويرزقه من حيث لا يحتسب و تقی کو ایسی راہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے رزق
537 بروز جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۰۱ء صبح چار بجے اٹھے.نماز صبح بیت الذکر میں جماعت کے ساتھ پڑھی.بعد نماز....فونوگراف درست بقیہ حاشیہ: - آنے کا خیال و گمان بھی نہیں ہوتا.یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں وعدوں کے سچا کرنے میں خدا سے بڑھ کر کون ہے؟ پس خدا پر ایمان لاؤ.خدا سے ڈرنے والے ہرگز ضائع نہیں ہوتے يجعل له مخرجًا یہ ایک وسیع بشارت ہے تم تقوی اختیار کرو.خداتعالی تمہارا کفیل ہوگا.اس کا جو وعدہ ہے وہ سب پورا کر دے گا.دو مخفی رہنا ایمان میں ایک نقص ہے.جو مصیبت آتی ہے اپنی کمزوری سے آتی ہے.دیکھو آگ دوسروں کو کھا جاتی ہے پر ابراہیم کو نہ کھا سکی.مگر خدا کی راہ بغیر تقویٰ کے نہیں کھلتی.معجزات دیکھنے ہوں تو تقویٰ اختیار کرو.ایک وہ لوگ ہیں جو ہر قت معجزات دیکھتے ہیں.دیکھو آج کل میں عربی کتاب اور اشتہار لکھ رہا ہوں.اس کے لکھنے میں سطر سطر میں میں معجزہ دیکھتا ہوں.جبکہ میں لکھتا لکھتا اٹک جاتا ہوں تو مناسب موقع فصیح و بلیغ پر معانی و معارف فقرات والفاظ خدا کی طرف سے الہام ہوتے ہیں.اور اس طرح عبارتوں کی عبارتیں لکھی جاتی ہیں.اگر چہ میں اس کو لوگوں کی تسلی کے لئے پیش نہیں کر سکتا مگر میرے لئے یہ ایک کافی معجزہ ہے.اگر میں اس بات پر قسم بھی کھا کر کہوں کہ مجھ سے پچاس ہزار معجزہ خدا نے ظاہر کر ایا تب بھی جھوٹ ہرگز نہ ہوگا.ہر ایک پہلو میں ہم پر خدا کی تائیدات کی بارش ہو رہی ہے عجب تر ان لوگوں کے دل ہیں جو ہم کو مفتری کہتے ہیں.مگر وہ کیا کریں ”ولی راولی سے شناسد کوئی تقویٰ کے بغیر ہمیں کیونکر پہنچانے.رات کو چور چوری کے لئے نکلتا ہے.اگر راہ میں گوشہ کے اندر وہ کسی ولی کو بھی دیکھے جو عبادت کر رہا ہو وہ بھی سمجھے گا کہ یہ بھی میری طرح کوئی چور ہے.خدا عمیق در عمیق چھپا ہوا ہے اور ایسا ہی وہ ظاہر در ظاہر ہے.اس کا ظہور اتنا ہوا کہ وہ مخفی ہو گیا جیسا سورج کہ اس کی طرف کوئی دیکھ نہیں سکتا.خدا کا پتہ حق الیقین کے ساتھ نہیں پاسکتے.جب تک کہ تقویٰ کی راہ میں قدم نہ ماریں.دلائل کے ساتھ ایمان قوی نہیں ہوسکتا.بغیر خدا کی آیات دیکھنے کے ایمان پورا نہیں ہوسکتا.یہ اچھا نہیں کہ کچھ خدا کا ہو اور کچھ شیطان کا ہو.صحابہ کو دیکھو کس طرح اپنی جانیں نثار کیں.ابوبکر جب ایمان لایا تو اس نے دنیا کا کون سا فائدہ دیکھا تھا؟ جان کا خطرہ تھا اور ابتلا بڑھتا جاتا تھا مگر صحابہ نے صدق خوب دکھایا.ایک صحابی کا ذکر ہے وہ کملی اوڑھے بیٹھا تھا کسی نے اس کو کچھ کہا.عمر پاس سے دیکھتے تھے.انہوں نے فرمایا اس شخص کی عزت کرو.میں نے اس کو دیکھا ہے کہ یہ گھوڑے پر سوار ہوتا تھا اور اس کے آگے پیچھے کئی کئی نو کر چلتے تھے.صرف دین کی خاطر اس نے سب سے ہجرت کی.دراصل یہ آنحضرت کی روحانیت کا زور تھا جو صحابہ میں داخل ہوا.اس کا کوئی جھوٹ ثابت نہیں.ہرامر میں ایک کشش
538 کئے.نو بجے کے (وقت) مدرسہ اور بورڈنگ ہاؤس دیکھا.مکان نہایت بے ترتیب بنے ہوئے ہیں.( پیر ) منظور محمد صاحب ( مرحوم موجد قاعدہ یسرنا القرآن) اپنے قاعدے کو سناتے رہے.قاعدہ سائینٹیفک ہے.پھر نماز جمعہ کے لئے ) مسجد جامع میں گئے.وہاں پر مولوی عبد الکریم صاحب کا نہایت عمدہ خطبہ سنا.نماز جمعہ کے بعد گھر آئے.مولوی نورالدین (صاحب) میری درخواست پر تشریف لائے.ان سے اپنے حالات امراض اور امور مدرسہ پر گفتگو ہوتی رہی.اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب تشریف (لائے ) نماز عصر بیت الذکر میں پڑھی.بعد نماز عصر فونوگراف حضرت اقدس کو سنائے اور دوسلنڈر مولوی عبدالکریم صاحب نے بھرے.نماز مغرب کے لئے بیت الذکر میں گئے.بعد نماز حضرت نے ڈوئی کی کتاب سنی اور مختلف امور پر بہت عمدہ تقریریں ہوئیں.نوٹ.یہ کتاب ڈوئی نے فریمسین کے حالات پر لکھی ہے اور عجب طرح ان اسرار کو ظاہر کیا ہے.جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نہایت سفاک اور ظالم فرقہ ہے.ممبران لاج بھی بخوف جان کسی کو کچھ نہیں بتلاتے.۱۶/ نومبر ۱۹۰۱ء نماز تہجد پڑھی پھر نماز فجر کے لئے بیت الذکر میں گیا بعد نماز ڈیرہ آیا یہاں آکر میں نے ایک خط بابت حالات مدرسہ لکھا جس کا یہ خلاصہ تھا کہ حضرت اقدس کا اس مدرسہ سے کیا مقصد ہے.اس خط کے بھیجنے کے تھوڑے عرصہ بعد حضرت اقدس سیر کے لئے تشریف لائے یہ کوئی ساڑھے آٹھ بجے تھے.حضرت اقدس نے میرے خط ہی کی تمہید پر تمام سیر میں نہایت عجیب گفتگو فرمائی.اس میں سے میرے خط کے متعلق خلاصہ تو یہ تھا کہ ہمارا اصل مقصد دینی تعلیم ہے.مگر اس کو بسہولت مدرسہ میں داخل کرنا چاہئے تا کہ بچے گھبرانہ جائیں.اور ہمارا مقصد صرف جاہل مولوی بنانا بھی نہیں کہ با وجود کتابوں کے پڑھنے کے عقل سے کام نہیں بقیہ حاشیہ: - ہوتی ہے.دیکھو د یوار کی اینٹوں میں ایک کشش ہوتی ہے ورنہ اینٹ اینٹ الگ ہو جائے.ایسی ہی ایک جماعت میں ایک کشش ہوتی ہے.غرض خدا کی راہ میں شجاع بنو.انسان کو چاہئے کبھی بھروسہ نہ کرے کہ ایک رات میں زندہ رہوں گا.بھروسہ کرنے والا ایک شیطان ہوتا ہے انسان بہادر بنے.یہ بات زور بازو سے نہیں ملتی.دعا کرے اور دعا کرے.صادقوں کی صحبت اختیار کرے.سارے کے سارے خدا کے ہو جاؤ.دیکھو کوئی کسی کی دعوت کرے اور نجس ٹھیکرے میں روٹی لے جائے اسے کون کھائے گا ؟ وہ تو الٹا مار کھائے گا.باطن بھی سنوارو اور ظاہر بھی درست کرو.انسان اعمال سے ترقی نہیں کر سکتا.آنحضرت کا رتبہ سمجھنے سے ترقی کر سکتا ہے.“
539 لیتے اور ثبوت کے بعد ہماری مخالفت پر اڑے ہوئے ہیں.اور ہم کو اس سے بڑا افسوس اور رنج ہوتا ہے.جب ہم اپنی جماعت میں اختلاف سنتے ہیں.ہم تو یہ دعائیں کرتے ہیں کہ تم میں اتفاق ہو اور وہ گندی باتیں تم میں نہ ہوں جو دوسرے دنیا داروں میں ہیں.میں اب تک اپنے مریدوں پر یہ حسن ظن کرتا ہوں ان سب کی نیت بہتر ہے گو اختلاف ہے.اور اگر یہ حالت نقار تک پہنچی ہے تو پھر گویا ہم سے تم نے کچھ فائدہ ہی نہیں اٹھایا وغیرہ وغیرہ.الحمد للہ کہ تفسیر اس دوران گفتگو میں عجیب ہی کی.فرمایا کہ مخالف ہی معارف کے ظاہر کرنے کا باعث ہوتے ہیں.ابوبکر نے کیا معارف ظاہر کرائے تھے جو بلا دلیل دریافت مان بیٹھے تھے.فرمایا کہ اگر مخالفت نہ ہوتی تو قرآن شریف کے یہ تمیں سیپارہ نہ ہوتے.ہماری کتابیں بھی مخالفین ہی نے لکھوائی ہیں.الحمد بھی آئندہ کے مخالفین نے لکھوائی ہے.فرمایا عیسائی الرحمن اور الرحیم کے منکر ہیں.اور غیر المغضوب عليهم ولا الضالین میں پیشگوئی ہے.مغضوب علیہم سے مراد مخالف یہود اور الضالین سے مراد عیسائی ہیں.تو اشارہ کہ چونکہ مسلمانوں نے یہودیوں ( کی ) مماثلت کرنی ہے اس لئے ان کے لئے انہی میں سے مسیح آنا چاہئے تھا اور عیسائیت کا بھی عروج.واپسی پر مدرسہ کے لئے چندہ فراہم کرنے کی تقریر کی بلکہ یہاں تک (فرمایا ) کہ جو ایسے چندہ سے پہلو تہی کرتے ہیں وہ گویا ہمارے مرید نہیں.بعد سیر...کھانا کھایا اور پھر مدرسہ دیکھنے گئے.اس کے بعد معائینہ مدرسہ کا ذکر ہے جو مدرسہ کے تعلق میں نقل ہو چکا ہے (مؤلف).اس کے بعد نماز ظہر اور عصر جمع پڑھی گئی.پھر مدرسہ کے متعلق مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت مولوی نورالدین صاحب سے گفتگو ہوئی.بعد نماز مغرب ڈوئی کی کتاب پڑھی گئی.ہاں نماز مغرب سے پہلے میں نے ایک خط بابت خلاصه گفتگو مولوی نورالدین صاحب بھیجا خاں صاحب نواب خاں صاحب نے نماز مغرب کے بعد تجدید بیعت کی.مولوی عبد الکریم صاحب نے شیخ عبد اللہ بی.اے کا خط سنایا جو مولوی نورالدین صاحب کے نام آیا تھا.اور اس میں صوفیوں پر پھبتیاں اور حضرت اقدس پر اعتراضانہ اشارے کئے تھے.آج حضرت اقدس الف- مراد چوہدری نواب خان صاحب تحصیلدار گجرات جو ۱۶ نومبر کو قادیان آئے جیسا کہ الحکم جلد ۵ نمبر ۴۲ صفحه ۱۳ کالم میں مرقوم ہے.(ب ) الحکم جلد نمبر ۴۲ صفحہیم پر زیر عنوان ” دار الامان کی شام مکرم مفتی محمد صادق صاحب کے ڈوئی کے لیکچر سنانے کا اور ڈائری میں مرقوم البام ورڈ یا کا ذکر ہے.جیسا کہ میں نواب صاحب کے سرسید مرحوم سے تعلق کے ضمن میں تحریر کر چکا ہوں.گوشیخ عبداللہ صاحب کا نام فہرست آئینہ کمالات اسلام میں ۲۹۹ نمبر پر ذکر ہے لیکن مکرم عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ شیخ عبد اللہ نے کبھی بیعت
540 نے الہام سنایا وہ یہ ہے.مَحْمُومٌ نَظَرْتُ إِلَى الْمَحْمُوم - اس کے بعد بکرے کی ران کا ٹکڑا لٹکتا ہوا دیکھا فرمایا کہ منذ رخواب ہے.۷ار نومبر ۱۹۰۱ء تہجد پڑھی.حسب معمول نماز صبح کے بعد ڈیرے آئے.مولوی محمد علی صاحب سے تخلیہ میں مدرسہ کے متعلق گفتگو ہوئی انہوں نے اس جھگڑے کے مٹانے کے لئے اپنی علیحدگی کی پسندیدگی ظاہر کی.جس سے حمدیہ الہام ور ویا الحکم بابت ۷ ارنومبر ۱۹۰۱ء صفحہہ میں مرقوم ہیں.بقیہ حاشیہ :- نہیں کی.میر اعلم یہ ہے وہ نو مسلم تھے حضرت حکیم الامتہ ان کی مدد کرتے تھے.اس دفعہ (یعنی جلسہ سالانه ۹۲ ء پر مؤلف ) جو آئے تھے تو حضرت حکیم الامۃ نے کامیابی کی خوشی میں ایک اشرفی ان کو دی تھی.شیخ صاحب علی گڑھ میں زندہ ہیں وہ بھی تصدیق کرتے ہیں کہ انہوں نے بیعت نہیں کی تھی.ڈائری میں جو کچھ شیخ عبد اللہ صاحب کے متعلق مذکور ہے اس کا ذکر پر چہ مذکور میں موجود ہے.وہاں مرقوم ہے.۱۶ نومبر بعد نماز مغرب.....مولوی عبد الکریم صاحب نے شیخ عبداللہ بی.اے پلیڈر علی گڑھ کا ایک خط سنایا جو اس نے حضرت مولانا نور الدین صاحب کے نام لکھا تھا اس میں ایک رجبی کے جلسہ کا تذکرہ لکھا تھا اور آخر میں معجزات پر ہنسی کی ہوئی تھی.طرز بیان اور ادائے مطلب کا طریق مضحکہ خیز اور استہزاء کا تھا اور معجزات اور مکالمات الہیہ کو اور پیشگوئیوں کو اسلام کے لئے داغ قرار دیا گیا تھا اس کو سن کر حضرت اقدس نے فرمایا.افسوس ہے ان لوگوں نے اسلام کو بدنام کیا ہے جس بات کو سمجھتے نہیں اس میں یورپ کے فلاسفروں کی چند بے معنی کتابیں پڑھ کر دخل دیتے ہیں.معجزات اور مکالمات الہیہ ہی ایسی چیزیں ہیں جن کا مردہ ملتوں میں نام ونشان نہیں ہے اور معجزہ تو اسلام کی پہلی اینٹ ہے اور غیب پر ایمان لانا سب سے اول ضروری ہے اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کے خیالات دہریت کا نتیجہ ہیں جو خطرناک طور پر پھیلتی جاتی ہے.سید احمد نے وحی کی حقیقت خود بھی نہیں سمجھی.دل سے پھوٹنے والی وحی شاعروں کی مضمون آفرینی سے بڑھ کر کچھ وقعت نہیں رکھتی.افسوس ہے کہ مولوی صاحب نے روپیہ صرف کیا اور کوشش کی مگر نتیجہ یہ نکلا مولوی صاحب اس کو ضرور خط لکھ دیں اور اسے بتائیں کہ معجزات اور مکالمات اور پیشگوئیاں ہی ہیں جنہوں نے اسلام کو زندہ مذہب قرار دیا ہے.‘ (صفحہ ۴،۳)
541 مفہوم ہوتا تھا کہ مولوی نورالدین صاحب کا کمیٹی میں ہونا ان کو پسند نہیں کیا حضرت اقدس کے ساتھ سیر کو گئے.سیر میں میر ناصر نواب صاحب نے اپنے کسی رشتہ دار کے نام ایک لمبا خط سنایا.حضرت نے بعض جگہ تصحیح اور بعض جگہ تائید نہایت عمدہ تقریروں میں کی.واپسی پر چونکہ خط ختم نہ ہوا تھا اس لئے مولوی نورالدین صاحب کے مطب کے کمرہ میں خط سنتے رہے اس اثناء میں ایک سیاح انگریز آ گیا.اس سے بعد خط سننے کے بعض سوالات اس کے مولد ومسکن اور عزم سفر اور خیالات مذہبی ، پیشہ وغیرہ کے متعلق ہوئے جس کا جواب صاف صاف نہ دیا اس کو دو دن کے لئے مہمان رکھا گیا.ڈیرہ آ کر کھانا کھایا پھر مولوی نورالدین صاحب تشریف لائے مدرسہ کے متعلق گفتگو کرتے رہے اور انہوں نے) بعض شکایات ظاہر فرما ئیں.اس کے بعد مہمان انگریز جس کا نام ڈی ڈی ڈکسن ہے آیا فونوگراف سنا...عصر کے بعد ڈکسن نے حضرت کی مع مریدین تصویر کھینچی.اس سے واپس آکر مولوی عبد الکریم صاحب و مولوی محمد علی صاحب سے مدرسہ کی ۳۹۳ مولوی محمد علی صاحب کی جو حالت جون ۰۴ء میں حضرت اقدس کی رؤیا نے ظاہر کی کہ آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ.یہ بلا وجہ نہ تھی اس کے آثار کا اس ڈائری سے بھی علم ہوتا ہے.اس تعلق میں مکرم ڈاکٹر عطر الدین صاحب درویش ( سابق ملازم بمبئی کا بیان درج کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا.بیان فرماتے ہیں کہ ”جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تدفین کے بعد ہم واپس شہر روانہ ہوئے.ابھی بڑے باغ میں ہی سے گزر رہے تھے کہ کسی نے پیچھے سے میرے دائیں کندھے پر ہاتھ رکھا مڑ کر کیا دیکھتا ہوں کہ یہ ہاتھ رکھنے والے حضرت خلیفہ اول ہیں.آپ نے فرمایا میاں عطرالدین ! کیا محمد علی نے بیعت کی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ مولوی محمد علی صاحب نے آپ کی بیعت کی ہے.میرا جواب سن کر حضور آگے بڑھ گئے.میرے ساتھ مکرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے اور مکرم شیخ حمد تیمور صاحب ایم.اے تھے.ان میں سے ایک نے دریافت کیا کہ حضور نے کیا گفتگو فرمائی ہے تو میں نے اس سوال وجواب کا ان سے ذکر کیا.‘) مسٹر ڈی ڈکسن سیاح کے آنے کا ذکر الحکم جلد نمبر ۴۲ صفحہ ۱۳ کالم ۳ میں اور تصویر اتار نے کا ذکر نمبر ۲۳ صفحہ ۳ کالم ۲ میں ہے.اور اسی نمبر میں حضرت میر صاحب کے خط کے سننے کا ذکر ہے اور اس گفتگو کا بھی جو سیاح سے ہوئی کچھ حصہ ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے مرقوم ہے.حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام حسب معمول سیر کو نکلے.راستہ میں جناب سید ناصر نواب صاحب نے اپنا ایک خط جو انہوں نے اپنے کسی عزیز کے خط کے جواب میں بغرض تبلیغ لکھا ہے سنانا شروع کیا.
542 ☆ بابت گفتگو کی.پھر حسب معمول نماز مغرب و عشاء اور عسل مصفی کے سننے کے بعد دیر میں آکر سوئے ہو اس روز کے دربار شام کے کوائف میں مرقوم ہے.پھر مختلف باتوں کے تذکرہ میں فرمایا.جو قومی خدا نے انسان کو دیئے ہیں ان سب سے بجز سچے موحد کے کوئی دوسرا کام نہیں لے سکتا.شیعہ ترقی نہیں کر سکتے کیونکہ وہ تو اپنی ساری کوششوں کا منتہا ء امام حسین کو سمجھ بیٹھے.ان کو رولینا اور ماتم کر لینا کافی قرار دے لیا.ہمارے استاد ایک شیعہ تھے گل علی شاہ ان کا نام تھا کبھی نماز نہیں پڑھا کرتے تھے.منہ تک نہ دھوتے تھے.اس پر نواب صاحب نے آپ کی تائید میں بیان کیا کہ وہ میرے والد صاحب کے بھی استاد تھے اور وہاں جایا کرتے تھے اور یہ واقعی سچ ہے کہ ان کی مسجدیں غیر آباد ہوتی ہیں.ہماری مسجد کا ایسا ہی حال تھا اور اب خدا کے فضل سے وہ آباد ہو گئی ہے لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں.اس پر حضرت اقدس نے نواب صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا وہ کبھی کبھی آپ کے والد صاحب کا ذکر کیا کرتے تھے اور یہاں سے تین تین مہینہ کی رخصت لے کر مالیر کوٹلہ جایا کرتے تھے.میں نے غائبانہ بھی کئی مرتبہ ذکر کیا ہے اور میری فراست بھی یہی بتاتی ہے ( یہ نواب صاحب کی مسجد کے آباد ہونے اور نمازیوں کے آنے کے ذکر پر فرمایا ) کہ راستی قبول کرنا اور پھر خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال سے ڈر جانا اور اس کی طرف رجوع کرنا آپ کے اور آپ کی اولاد کے اقبال کی نشانی ہے.بجز اس کے کہ انسان سچائی سے خدا کی طرف آئے خدا کسی کی پروا نہیں کرتا خواہ کوئی ہو.مبارک دن ہمیشہ نیک بخت کو ملتے ہیں.یہ آثار صلاحیت ، تقویٰ اور خدا ترسی کے جو آپ میں پیدا ہو گئے ہیں آپ کے لئے اور آپ کی اولاد کے لئے بہت ہی مفید ہیں.اس سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ جو میں ابتدائے کتاب میں بیان کر چکا ہوں کہ حضرت اقدس“ اور والد ماجد حضرت نواب صاحب دونوں کے استاد گل علی شاہ صاحب تھے.بقیہ حاشیہ: چونکہ خط بہت لمبا اور طویل تھا اور درمیان میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام بعض مقامات پر اس کی اصلاح یا لبعض امور تشریح مزید کی غرض سے بیان فرماتے تھے اس لئے واپس مکان تک پہنچنے پر بھی وہ ختم نہ ہوا.چنانچہ حضرت اقدس نے مناسب سمجھا کہ اسے بیٹھ کر تمام سن لیں.حضرت حضرت مولوی نورالدین صاحب کے مطب میں بیٹھے ہوئے اسے سنتے رہے.
543 ۱۸/ نومبر ۱۹۰۱ء اب ہم آئندہ صبح وشام کی ضروریات اور نماز وغیرہ جن کا روزانہ معمول ہے تذکرہ نہ کریں گے.۲-۱- ۸ بجے کے قریب سیر کو حضرت اقدس مع مہمان انگریز و مریدین تشریف لے گئے.آپ نے اس انگریز سے اپنے مشن کے متعلق بہت بڑی تقریر میں فرمائیں.یہاں سے چلتے ہی آپ نے تقریر فرمائی کہ ہمارا مشن اسی ڈھب کا ہے جس ڈھب پر ابراہیم.موسیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے.بڑی غایت ان کی گناہ کا روکنا اور خدا کو منوانا تھا اگر انسان گناہ سے مجتنب من کل الوجوہ ہے تو وہ ہدایت یافتہ ہے کیونکہ گناہ ایک ایسی زہر ہے جو مہلک ہے جب انسان گناہ کو گناہ سمجھتا ہے اور ہر قسم کے گناہ سے بچتا ہے.یہ ٹھیک ہے کہ ہر ایک مذہب کے آدمی خواہ مسلم ہیں یا غیر مسلم سب ایک نہ ایک طرح گناہ میں مبتلا ہیں.عیسائی بقیہ حاشیہ - ایک موقع پر میر صاحب کے عزیز نے اپنے خط میں ترکوں کی برائی لکھی تھی اور میر صاحب اس کا معقول جواب سنا ر ہے تھے.حضرت اقدس نے اس پر فرمایا.اگر چہ ہمارے نزدیک ان اکرمکم عند الله اتقاکم ہی ہے اور ہمیں خواہ مخواہ ضروری نہیں کہ ترکوں کی تعریف کریں یا کسی اور کی مگر سچی اور حقیقی بات کے اظہار سے ہم رک نہیں سکتے.ترکوں کے ذریعہ ۱۳۹۵ سے اسلام کو بہت بڑی قوت حاصل ہوئی ہے.یہ کہنا کہ وہ پہلے کا فر تھے یہ طعن درست نہیں.کوئی دوسو برس پہلے کافر ہوا کوئی چار سو برس پہلے یہ کیا ہے.آخر جوامی سید کہلاتے ہیں کیا ان کے ابا واجداد پر کوئی وقت کفر کی حالت کا نہیں گزرا؟ پھر ایسے اعتراض کرنا دانشمندی نہیں ہے.ہندوستان میں جب یہ مغل آئے تو انہوں نے مسجدیں بنوائیں اور اپنا قیام کیا.الناس علی دین ملوکھم کے اثر سے اسلام پھیلنا شروع ہوا غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں خدا تعالیٰ نے دوہی گروہ رکھے ہوئے ہیں ایک ترک دوسرے سادات.ترک ظاہری حکومت اور ریاست کے حق دار ہوئے اور سادات کو فقر کا مبداء قرار دیا گیا.چنانچہ صوفیوں نے فقر اور روحانی فیوض کا مبداء سادات ہی کو ٹھہرایا ہے اور میں نے بھی اپنے کشوف میں ایسا ہی پایا ہے دنیا کا عروج ترکوں کو ملا ہے.حضرت اقدس یہ ذکر کر رہے تھے کہ ایک یورپین صاحب بہا در اندر آئے اور ٹوپی اتار کر مجلس میں آگے بڑھے اور بڑھتے ہی کہا...السلام علیکم.عصر کی نماز کے بعد اس نے حضرت اقدس کے تین فوٹو لئے.دوفو ٹو آپ کے احباب کے ساتھ لئے اور ایک فوٹو الگ لیا.(صفحہ ۱ تا ۳)
544 ویورپین ایک طرح کے گناہ کرتے ہیں تو مسلمان دوسری طرح کے.بات تو یہ ہے کہ کسی قسم کے گناہ نہ کرے.(۲) دوسری بات خداوند تعالیٰ کوکسی نیکی اور عمدہ کام کے لئے معطی وانعام دہندہ سمجھنا اور بدی کی حالت میں اس کو سزا دینے والا سمجھنا ہے.ایک فلسفی نظارہ فطرت سے نتیجہ نکال سکتا ہے کہ خدا ہونا چاہئے مگر وہ یہ نتیجہ نہیں نکال سکتا کہ خدا ہے.پس ہمارا مشن ہے کہ خدا ہے انگریز کے اس سوال پر کہ گنا ہوں کی سزا میں آئندہ جہان میں ہوں گی یا اس جہان میں فرمایا گناہ دوطرح کے ہوتے ہیں ایک جن کی سزا دنیا میں ملتی ہے اور دوسرے جن کی سزا آخرت میں ملے گی.جب کوئی گناہ اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے کہ اس سے دنیا کے انتظام میں فتور آئے تو اس کی سزا دنیا میں ملتی ہے اور وہ اندرونی یا بیرونی گناہ جس کا حال لوگوں کو معلوم نہ ہو یا ارادہ گناہ ہو ان سب کی سزا آخرت میں ہوگی اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ ہم تمہارے ( انگریز کے ) چہرہ پر عقل اور زیر کی کے آثار پاتے ہیں.اس لئے ہم نے آپ کو مختصرا اپنے مشن کا مقصد بیان کیا ہے مگر یہ چند گھنٹوں کی گفتگو میں سمجھ میں نہیں آسکتا.ہمارا مقصود اس وقت صرف یہ ہے کہ تم میں سچائی کے کھوج کی چاہت ہو جائے.کیونکہ جب کہ ایک شخص تحقیق کرتا ہے تو ایک وقت وہ پالیتا ہے اس لئے ہم چاہتے ( ہیں ) کہ شاید ( اس ) ذریعہ سے ہمارے مشن کی اشاعت ہو.لیکن انسان کو تعصب سے پر ہیز کرنا چاہئے اور اسی طرح جب تک کوئی (بات) پوری طرح سے سمجھ میں نہ آئے ہرگز اس کو قبول نہیں کرنا چاہئے.پس آپ بلا تعصب خوب تحقیق کریں اور پھر اگر ہماری بات ٹھیک معلوم ہو تو اس کو قبول کریں یہ تقریریں مکان سے لے کر نہر تک رہیں اس کے بعد انگریز ا کہ میں بیٹھ کر بٹالہ کوروانہ ہوا اور حضرت اقدس مع مریدین واپس تشریف لائے.راستہ ( میں ) پہلے اسی انگریز کے متعلق مختلف باتیں ہوتی رہیں پھر میں نے عرض کیا ایک امریکہ کی کمپنی کا ایجنٹ میرے پاس آیا اس نے کہا تھا کہ تم اپنی تصویر اور اپنے حالات خاندان لکھو.ہم دوسو روپیہ میں چار کتابیں دیں گے میں نے سوچا ہے کہ بجائے میرے حضور کی تصویر ہو.اس طرح امراء اور انگریزوں میں تبلیغ کا ذریعہ ہے.فرمایا مناسب ہے فرمایا..استقاء میں امام متقی ہونا چاہئے ورنہ اگر بارش آنی ہوگی تو نہ ۱۸ نومبر کو مسٹر ڈکسن کو الوداع کرتے ہوئے نہر تک جانے کا جہاں سے وہ اکہ پر سوار ہوکر بٹالہ روانہ ہو گیا اور اس گفتگو کا ذکر جو آپ نے اس سے کی الحکم جلد نمبر ۴۶ صفحه۱ تا۴ نمبر ۴۷ صفحه ۱ تا ۳ ، جلد ۶ نمبر ۲ صفحہ ۳ تا ۶ نمبر ۲ صفحہ ۳ میں آتا ہے.
545 آئے گی اس کے (بعد ) علماء کی حالت پر مختلف تذکرے رہے کہ یہ لوگ باوجود جاننے کے انکار کرتے ہیں اور پھر حضرت اقدس ( نے ) فرمایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عورتوں اور بچوں کے لئے کوئی ہدایت نامہ دایان ہند کی طرح ( کی کتاب ) سوال و جواب کی صورت میں نہایت سہل اور عام فہم زبان میں لکھی جائے.اور اس کام کو مرزا خدا بخش کریں.اس کے بعد حضرت اقدس نے قرضہ وغیرہ کی برائی پر تقریر فرمائی اور فرمایا حدیث میں آیا ۱۳۹۶ ہے کہ الاقتصاد نصف المعيشة - فرمایا جب انسان غیر ضروری چیزوں پر خرچ کرتا ہے تو نیک اور ضروری چیزوں پر خرچ کرنے سے رہ جاتا ہے.میر ناصر نواب صاحب ( نے) قرضہ کے سبب سے بعض خون ہو جانے کا تذکرہ کیا اتنے میں گھر پہنچ گئے.اور انگریز کی گفتگو میں مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ترجمان تھے ) مولوی محمد علی صاحب آئے اور میں نے اور انہوں (نے ) مل کر کچھ قواعد انجمن بنائے.شام کو بیت الذکر میں ڈوئی کی کتاب پڑھی گئی.رات کو ایک مولوی محمد اکرم کو.ایک بعض اشیائے فونوگراف کے لئے T.E.BEVAN کو خط لکھے.حضور حضرت اقدس نے ایک رؤیا بیان فرمایا تھا ۱۸ دوشنبہ (کو) کہ ہم کو رویا ہوا ہے کہ ایک وارنٹ آیا ہے بلکہ ہم مقام وارنٹ میں ہیں.ایک منشی نے ہمارے ہاتھوں کو رسیوں سے باندھا ہے ہم ( نے ) ان بعض رسیوں ( کو ) تو ڑ دیا ہے.ایک آدھ رہ گئی ہے.اتنے میں ایک شخص پر وانہ لایا ہے اور اس میں میں نے لکھا ہوا دیکھا ہے عالی عدالت کے حکم سے تم بری ہو یہ پروانہ ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کا لکھا ہوا ہے.معلوم ہوتا ہے لکھا نہایت خوشخط تھا اور ہم اس کو پہچان لیتے ہیں.۱۹ نومبر ۱۹۰۱ء بروز منگل ۱۳۹۷ قرآن شریف ایک رکوع پڑھا.ڈائری لکھی مگر نواب خاں صاحب تحصیلدار گجرات کے آنے ( سے ) نا تمام رہ گئی.وہ کوئی آٹھ بجے گئے.اتنے میں حضرت اقدس کے سیر کے لئے جانے کی اطلاع ہوئی.سیر میں مولوی محمد احسن صاحب مخاطب رہے ہیں اور محمد یوسف صاحب کے کسی خط کے متعلق ام و مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ڈوئی کی کتاب نہیں تھی.اس کا ایک اخبار HEALING کے نام سے آتا تھا.حضرت ڈاکٹر صادق سنایا کرتے تھے.مجھے یہی یاد ہے.“ رؤیا مختلف الفاظ میں الحکم بابت ۰۱-۱۱-۳۰ صفحہ ۲ میں مرقوم ہے.
546 ۳۹۹ ۳۹۸ حضرت گفتگو فرماتے رہے.گاؤں کے قریب آکر حضرت اقدس ( نے ) مبارکہ کے متعلق رؤیا بیان کی کہ ہم نے دیکھا کوئی شخص کہتا ہے کہ نواب مبارکہ بیگم اور پھر حضرت نے ایک اپنا پرانا خواب بیان فرمایا کہ ہم نے خواب میں دیکھا کہ ایک تلوار ہمارے ہاتھ میں ہے اور جب ہم اس کو دائیں طرف چلاتے ہیں تو بہت سے آدمی دائیں طرف کٹ جاتے ہیں اور جب بائیں طرف چلاتے ہیں تو بائیں طرف کٹ جاتے ہیں تو رویا میں یہ خواب ہم نے مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کو سنایا ہے تو انہوں (نے ) فرمایا کہ تمہارے ہاتھ سے بڑا عظیم الشان دینی کام ہوگا اور جب میں زندہ تھا تو میں اس کا امیدوار تھا کہ کوئی ایسا شخص پیدا ہو.مولوی نورالدین صاحب کے مطب کے سامنے سیر بعد جب آکر کھڑے ہوئے تو حضرت اقدس نے بی بی صاحبہ کا ایک خواب بیان فرمایا کہ انہوں نے) خواب دیکھا ہے کہ ظہر کا وقت ہے اور تم (حضرت اقدس ) تشریف لائے ہو اور تمہارے پاس انگور سردہ وغیرہ تھے اور آپ نے فرمایا کہ یہ ہمارے بھائی عبد القاد** صاحب نے بھیجے ہیں اور وہ آئے ہیں تو میں نے کہا (بی بی صاحبہ ) کہ ان کا تعلق تو دوسرے گھر کے ساتھ ہے تو آپ نے فرمایا کہ نہیں وہ اترے یہاں ہی ہیں پھر اس کے بعد کہا کہ رحمت اللہ * ( جو ایک معتمد ہمارے ہاں تھے ) تو صرف خاص یہاں کے لئے آیا ہے اور مرزا غلام قادر صاحب دونوں گھروں کو دیکھنے آئے ہیں.اس کے بعد منظور لڑکا فیاض علی کا بھائی کچھ کپڑے گٹھڑی میں ہیں دوسرے گھروں میں لے گیا ہے * ان کو کھولا تو اس میں چھینٹ سی ہے جس کی زمین سفید ، پھول سیاہ ہیں لیکن اتنے میں اور بہت سا سامان مرزا صاحب موصوف نے بھیجا ہے جو اس گھر کے لئے ہے تو ہم نے سمجھا کہ پہلے بھی اسباب ہمارے لئے ہے لڑکا غلطی سے لے ی اس خط کا ذکر ۱۹ نومبرا ۱۹۰ ء کے ملفوظات میں الحکم جلد نمبر ۴۴ صفحہ۲ کا لمس میں درج ہے.یہ پرچہ مذکورہ صفحہ ۳ کالم ۳ میں درج ہے.مراد مرز اغلام قادر صاحب (مؤلف) * مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ** یہ حضرت کے رشتہ داروں ہی میں سے تھا.پورا نام مرزا رحمت اللہ بیگ تھا.یہ رؤیا الحکم جلد ۵ نمبر ۴۴ صفحہ ۳ کالم ۲ میں درج ہے.وہاں مرقوم ہے کہ رحمت اللہ حضرت اقدس کے والد کا مختار تھا.“ پیر سراج الحق صاحب کی رؤیا جس کا آگے ذکر آتا ہے.وہ بھی کالم ۳ میں مرقوم ہے.** مراد شیخ منظور علی صاحب شاکر مرحوم برادر ڈاکٹر فیاض علی صاحب مرحوم رضی اللہ عنہما( دیکھئے ڈائری نواب صاحب بابت ۲۲ نومبر )
547 گیا.بیوی صاحبہ نے کھانے کے ( متعلق ) پوچھا تو حضرت نے فرمایا کہ وہ مرے ہوئے ( ہیں ) کھائیں گے کچھ نہیں صرف وہ دیکھنے آئے ہیں.پھر اس کے بعد پیر سراج الحق صاحب نے اپنا رو یا بیان کیا جو اسی قسم کا تھا اور پھر شیخ رحمت اللہ بڑے ساز و سامان کے ساتھ گویا آئے ہیں.حضرت اقدس تشریف لے گئے.اس کے بعد مدرسہ کے متعلق چند فقرات مدرسہ کے سلسلہ میں درج کئے جاچکے ہیں.(مؤلف) میں ( نے ) تمام مدرسہ کا معائنہ کیا کہ ڈسپلن اور طریق تعلیم کے محتاج استادوں کو پایا ویسے سٹاف عمدہ ہے.شام کو مولوی محمد علی صاحب اور نواب خاں صاحب تشریف لائے اور مدرسہ کے قواعد کے متعلق گفتگو ہوتی رہی.ڈاکٹر رشید الدین رخصت ہونے آئے.وہ گھر تشریف لے گئے.جہاں حافظ محمد حسین صاحب تشریف لائے.مع یعقوب علی ایڈیٹر الحکم کی بین المغرب والعشاء عسل مصفی ، مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنا رویا بیان کیا کہ میں نے دعا کی تھی کہ نبی بخش نے جو میرے ناقص الخلقت ہونے پر لکھا اس کی بابت میں تین دن دعا کرتا رہا کہ اے اللہ ! کیا تیرے نزدیک بھی میں ایسا ہی ہوں.تو مجھ کو رات رؤیا ہوا کہ چارسوال حضرت اقدس نے دیئے ہیں اور جم غفیر ہے.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ جو شخص ان سوالات کو حل کرے گا وہ قابل امامت ہے.تو بہت لوگ ان سوالات کو لینے لپکے ہیں.مگر حضرت نے مجھ کو یہ سوالات دیئے ہیں اور میں نے حل کئے ہیں.اور مولوی نورالدین صاحب دوڑ کر آئے ہیں کہ انہوں نے مجھ کو بغلگیر ہو کر مبارک باد دی ہے کہ تم کامیاب ہو گئے.یہ خواب قبل نما ز سنایا تھا.۲۰ نومبر ۱۹۰۱ء بروز بدھ آج صبح ( کے ) بعد ( حسب) معمول سیر کو گئے.سیر میں مختلف گفتگو میں ہوتی رہیں.آج بھی مخاطب مولوی محمد احسن صاحب امروہی رہے ایک لطیف تفسیر حضرت نے بیان فرمائی کہ حضرت مسیح کے مصلوب ہونے (کے ) وقت بھی قرآن ( میں ) مَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ - وَاللهُ خَيْرُ المَاكِرينَ آب معائینہ کا ذکر الحکم جلد ۵ نمبر ۴۳ صفحه ۱۵ کالم ۳ بابت ۰۱-۱۱-۲۴ میں درج ہے.مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حافظ محمد حسین صاحب ڈنگہ (ضلع گجرات) کے رہنے والے بڑے مخلص تھے.ان کا سارا خاندان احمدی تھا اور وہ حضرت اکمل کے عزیزوں کا خاندان ہے.“ * یعنی مغرب و عشاء کے درمیان حضرت اقدس نے عسل مصفی کتاب سنی.
548 ہے.اور حضرت رسول کریم کی ہجرت کے وقت بھی یہی مکروا و مکر اللہ آیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے جس طرح سے حضرت رسول کریم کو خداوند تعالی ( نے بچایا تھا.اسی طرح حضرت مسیح کو.یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک آسمان پر بھیجا جائے دوسرے (کو) زمین ( پر ) رکھا جائے اورصورت ایک ہو.دوسرے مکر کہتے (ہیں) باریک تدابیر کو اور اس جگہ مگر کا لفظ اسی لئے آیا ہے کہ جس طرح انسانوں کی تدابیر ہوتی ہیں نہ خارق عادت.کیونکہ اگر خارق عادت ہوتی تو آئینہ کا لفظ ہوتا.( یہاں فونوگراف کے تعلق میں ایک حصہ تھا جو اس کے ذکر میں پہلے درج ہوچکا ہے.مؤلف ) رات کو ڈوئی کی کتاب پڑھی گئی.اس میں لطیف بات یہ تھی حضرت ام المؤمنین نے خواب ( دیکھا) جس میں تھا کہ ” میں پوڑی کھینچ لیتا ہوں“ خواب میں بھی پوڑی کھینچی جاتی ہے یہ عجیب بات ہے حضور اقدس پیشتر اس کے کہ فریمسین کے بھید کھولنے والی کتاب آئے خداوند تعالیٰ نے پہلے ہی ان کے بھید کھول دئے.۲۱ نومبر ۱۹۰۱ء بروز جمعرات آج سیر میں شیخ یعقوب علی صاحب نے عورتوں کے لئے کتاب کا مسودہ سنایا جو ناول کی صورت میں تھا.طرز ا چھی تھی * ( کچھ حصہ بابت مدرسہ دوسری جگہ درج ہو چکا ہے.مؤلف ) شام کو مولوی نورالدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے یکے بعد دیگرے گفتگو مدرسہ کے متعلق ہوتی رہی.اس وقت بھی نماز عشاء سے پہلے مولوی صاحب سے مدرسہ کے متعلق اور بعد نماز بھی باتیں ہوتی رہیں.۲۲ نومبر ۱۹۰۱ء بروز جمعه صبح جماعت کے ساتھ نماز پڑھی.بعد نماز پھر کمیٹی مجلس منتظمہ مدرسہ ہوئی اور ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوئی مدرسہ کے نئے قواعد کی تجویز ہوئی.اور سکیم کے لئے سیلیکٹ کمیٹی مقرر ہوئی بعد نماز جمعہ عبدالرحمن کو بخار ☆ اس روز کے ملفوظات الحکم پر چھا ۰-۱۱-۳۰ صفحہ ۳ تام پر درج ہیں.ان میں لفظ مکر کے تعلق میں حضور کا کلام مرقوم ہے.نیز مزید ملفوظات صفحہ ۹ تا ۱۲ پر چہ ۰۱-۱۲-۱۰ صفحہ ۱ تا۲ پر مرقوم ہیں.مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ☆☆ سلک مروارید حصہ اول ہے.حضرت اقدس نے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ایسی کتاب لکھی جاوے.میں نے ایک ہی دن میں لکھ کر پیش کر دی.الحمد اللہ.
549 ہو گیا حضرت مولانا دیکھنے آئے بیٹھے رہے یہاں تک کہ نماز عصر کا وقت ہو گیا نماز عصر پڑھ کر پھر مغرب تک بیٹھے رہے.اور پھر نماز مغرب مسجد میں پڑھی اور دو نکاح اس روز نہایت سادگی سے ہوئے.ا نکاح ڈاکٹر رشید الدین صاحب اسٹنٹ سرجن کا ڈاکٹر فیض علی خاں صاحب اسٹنٹ ہاسپٹل کی بہن -1 سے ہوا.حملے ۲ - دوسرا نکاح پھر تھوڑے عرصہ کے بعد نماز عشاء پڑھ کر آئے.۲۳ نومبر ۱۹۰۱ء بروز ہفتہ صبح سیر میں ایک انگریز کے خط جو اس نے ایک افغان کو سرحد پر لکھے تھے وہ حضرت نے سنے یہ انگریز نیو چرچ کا بانی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی تائید میں عیسائیت پھیلائے.۲۴ / نومبر ۱۹۰۱ء بروز اتوار آج صبح سیر میں ایک بڑی لمبی اور مفید تقریر حضرت اقدس نے فرمائی (بعد عصر ) بورڈ آف ڈائرکٹرز انجمن اشاعت اسلام کا جلسہ ہوا کہ آج نماز مغرب و عشاء کے درمیان عسل مصفی مرزا خدا بخش نے پڑھی.آج نواب خاں صاحب تحصیلدار چلے گئے.شیخ رحمت ( اللہ ) آئے اور مغرب کی نماز کے بعد چلے گئے.۲۵/نومبر ۱۹۰۱ء بروز سوموار آج میر حامد شاہ (صاحب) بعد نماز صبح چلے گئے.* سیر سے پہلے میں سیکیم مدرسہ بناتا رہا.سیر میں اسٹیشن ماسٹر ڈاکٹر رشید الدین صاحب کے ۱۹ نومبر ۱۹۰۱ ء کو اور اس کے چند روز بعد قادیان آنے کا ذکر الحکم ( جلد نمبر ۴۱ صفحه ۱۵ کالم ۳) نمبر ۴۳ صفحہ ۱۵ کالم ۳ میں اور ( ڈاکٹر ) منشی فیض علی صاحب صابر کے قادیان آنے کا نیز ان دونوں نکاحوں کا ذکر کالم ۱ تا ۳ میں ہے.دوسرا نکاح مرزا افضل بیگ صاحب ولد مرز افضل بیگ صاحب مختار سکنہ پٹی کا مرزا محمود بیگ صاحب سکنہ پٹی کی دختر سے ہوا تھا.اس اجلاس کا ذکر الحکم بابت ۰۱-۱۱-۳۰ صفحہ ۴ اپر ہے.یہ فیصلہ ہوا تھا کہ اردو میگزین اس وقت تک جاری نہ کیا جائے جب تک اس کے لئے تین سو خریداری کی درخواستیں ہم نہ پہنچ جائیں.* آپ کے قادیان آنے کا ذکر الحکم بابت ۰۱-۱۱-۲۴ (صفحہ ۱۵ کالم ۱) میں آتا ہے.
550 مردان کے بعض لوگوں سے مباحثہ وغیرہ کے تذکرہ پر فرمایا کہ مباحثہ قولی کی بجائے مباحثہ عملی زیادہ مؤثر اور مفید ہوتا ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو اپنا عمدہ نمونہ دکھانا چاہئے تقویٰ اختیار کرنا چاہئے تقویٰ سے ظفرمندی قرب خدا اور رعب پیدا ہوتا ہے اسی سلسلہ تقریر میں ایک جگہ فرمایا کہ پابندئ رسوم نامردی ہے.پھر ایک جگہ فرمایا کہ سید احمد صاحب اور مولوی محمد اسمعیل صاحب نیک تھے مگر جہاد کا سلسلہ بے وقت تھا.یہ وعظ ونصیحت سے کام نکالنا چاہئے تھا اور فرمایا حضرت رسول کریم نے حفاظت خود اختیاری کے لئے اور امن قائم کرنے کے لئے جہاد کئے تھے جبر مخالف کی طرف سے ہوتا ہے ہم کو نرمی سے کام لینا چاہئے کیونکہ دکھ تو ان کو ہے جن کے لوگ گھٹ رہے ہیں نہ کہ ہم کو جن کے بڑھ رہے ہیں.بعد سیر انوار حسین خاں آگئے * اور پھر مولوی نورالدین صاحب تشریف لائے میری آنکھیں اور حلق دیکھا بعد ظہر و عصر سکیم بنائی سیلیکٹ کمیٹی کا جلسہ ہوا.اور پانچ بجے کے قریب تک رہا مغرب اور عشاء کے درمیان ڈوئی کی کتاب پڑھی گئی.۲۶ نومبر ۱۹۰۱ء بروز منگل آج سیر میں عجیب مضامین پر حضرت اقدس نے تقریریں فرما ئیں عبدالعزیز نو مسلم سے آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہم تو تمہارا جنازہ پڑھنے والے تھے لیکن احتیاطاً نہیں پڑھا تھا شکر کہ تم زندہ آگئے اور اس سے اس کے گھر والوں کی مخالفت ( کا ) حال دریافت فرمایا.اس پر اس نے برہمنوں سے مباحثے اور گھر والوں کے اختلاف کے متعلق نہایت عمدہ تقریر میں بتایا * اس کی کلام کی تائید میں ( حضرت ) اقدس نے تقریر فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے.علم کا نام مذہب ہے جو بلوغ کے بعد حاصل ہوتا ہے گو بر پینا غیر معقول اور فطرت کے برخلاف ہے خون حضرت سید احمد بریلوی مجد د صدی سیز دہم اور آپ کے رفیق حضرت مولوی اسمعیل صاحب شہید مراد ہیں.دونوں کے مزار بمقام بالاکوٹ ضلع ہزارہ خاکسار کو دیکھنے کا موقعہ ملا ہے.دونوں وہیں قوم مو دراز کے ہاتھوں اور بعض مسلمانوں کی غداری سے شہید کئے گئے تھے (مؤلف) آپ کے قادیان آنے اور واپس جانے کا ذکر الحکم جلد ۵ نمبر ۴۳ صفحه ۱۵ کالم۱)، نمبر ۴۴ ( صفحه ۴ کالم ۳) میں موجود ہے.آپ کا نام فہرستہائے آئینہ کمالات اسلام و ضمیمہ انجام آتھم میں۰ ۱۲۸ اور ۵۲ نمبر پر مرقوم ہے.شیخ عبدالعزیز صاحب نو مسلم وفات پاچکے ہیں.
551 پینا ہندوؤں کے مذہب میں ہوتا تو ایک حد تک موافق فطرت ہوتا کیونکہ جنین کی خوراک خون ہوتا ہے نہ کہ گوہر.ایسی حالت میں ہم سمجھتے کہ اسفل سافلین کی طرف ہندوؤں نے رجوع کر کے پھر ا بتدائی حالت کی طرف گئے ہیں.سادہ ہند و تو نیوگ کے مسئلہ کے برا ہونے کا اظہار کر دیتے ہیں.قرآنی تعلیم فطرت کے موافق ہے.ہم کو کوئی یہ بتائے کہ یہ مسئلہ فطرت کے برخلاف ہے.مسلمانوں کی کامیابی اور ظفریابی کے (یہ دوامور ) ہیں ایک حقوق خدا کو صحیح طور سے بیان کرنا دوسرے حقوق خلق کو اور یہ سچے مذہب کی شناخت ہے آریوں نے دونوں حقوق کو زائل کر دیا.ان کا اعتقاد ہے کہ روح اور پر مانو یعنی ذرات خدا نے نہیں بنائے یہ خود بخود ہیں.خدا نے محض ان کو جوڑ دیا ہے.۲/ دسمبر ۱۹۰۱ء آج میں نے حضرت اقدس کو لکھ کر بھیجا کہ حضور کے ہاں جو بشیر ، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین ہوئی ہے اس میں جو تکلفات ہوئے ہیں وہ گو خاص صورت رکھتے ہیں کیونکہ مخدوم زادگان پیشگوئیوں کے ذریعہ سے پیدا ہوئے ان کے ایسے مواقع پر جو اظہار خوشی کی جائے وہ کم ہے.مگر ہم لوگوں کے لئے کیونکہ حضور بروز محمد ہیں اس لئے ہمارے لئے سنت ہو جائیں گے.اس پر سیر میں کچھ فرمایا جائے.“ اس پر حضرت اقدس نے تقریر سیر میں فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے.الاعمال بالنیات ایک مسلم مسئلہ اور صحیح ترین حدیث ہے.اگر کوئی ریا سے اظہار علی الخلق وتفوق علی الخلق کی غرض سے کھانا وغیرہ کھلاتا ہے تو ایسا کھانا وغیرہ حرام ہے یا معاوضہ کی غرض سے جیسے بھاجی وغیرہ.مگر اگر کوئی تشکر اور اللہ کی رضا جوئی کی نیت سے خرچ کرتا ہے بلار یا معاوضہ تو اس میں ہرج نہیں.بلکہ بیا ہوں میں اور ولادت میں بڑا اعلان ہونا چاہئے اور بیا ہوں میں اعلان بدف ضروری ہے بلکہ انگریزی با جا بھی اس غرض سے جائز ہے.اگر کوئی امر خلاف شریعت نہ ہو تو عورتیں گا بھی لیں تو ہرج نہیں.لیکن سب سے بڑی بات نیت ہے.فرمایا کہ بعض لوگ عورتوں کو خلیج الرسن کر دیتے ہیں یہ بھی ٹھیک نہیں.اور بعض ان سے ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے بہائم اور لونڈیوں سے.یہ بھی درست نہیں.جہاں تک شریعت اجازت دیتی ہے وہاں تک ان کو آزادی دینی چاہئے اور جہاں پر شریعت کے خلاف ہو وہاں ان کو روکنا چاہتے ہو الحکم میں مرقوم ہے.۱۳۰ نومبر ۱۹۰۱ء کو آمین ہوئی.مساکین اور یتیموں کو کھانا کھلایا گیا.خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی
552 ۳/دسمبر ۱۹۰۱ء آج رات کو بعد فراغت نماز مغرب حضرت اقدس نے نہایت پر جوش تقریر فرمائی.حضرت اقدس کو اس قدر جوش تھا کہ کھڑے ہو کر تقریر فرمائی.ماحصل تقریرہ یہ تھا.ر بعض لوگ جمع بین الصلاتین کے متعلق ابتلا میں پڑتے ہیں.ہم اس بارہ میں کئی دفعہ سیر وغیرہ کے موقع پر “ ۵/ دسمبر ۱۹۰۱ء آج صبح چار بجے قادیان سے چلے تین بجے لاہور پہنچے.بمبئی ہاؤس اترے...عبد الرحمن کو چڑیا گھر دکھانے لے گئے.وہاں سے آکر نماز پڑھ (کر) سو گئے.ڈائری میں یہیں تک مرقوم ہے گویا کہ عبارت غیر مکمل ہے.مزید تشریح کے لئے 9 دسمبر کو مولوی سید محمد احسن صاحب نے عرض کیا.حضور نے جو جواب دیا اس کا خلاصہ الحکم بابت ۰۱-۱۲-۱۷ صفحہ ۸ پر مرقوم ہے.بقیہ حاشیہ: - تحدیث اور شکریہ کے لئے احباب کو دعوت دی گئی.اور آمین کے ذریعہ خدا کے احسانوں کا شکریہ کیا گیا اور اپنے دعاوی کی تبلیغ کی گئی.اس کی کچھ تشریح رسالہ نوراحمد نمبر صفحہ ۴۷ پر دیکھیں.پر چه ۰۲-۱۰-۱۷ (صفحہ ۸) میں مرقوم ہے: پھر یہ سوال کیا گیا کہ لڑکی یا لڑکے والوں کے ہاں جو جوان عورتیں مل کر گاتی ہیں وہ کیسا ہے؟ (حضرت اقدس نے ) فرمایا اصل یہ ہے کہ یہ بھی اسی طرح پر ہے.اگر گیت گندے اور ناپاک نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے.“ ۱۳ جون ۱۹۳۸ء کو میر قاسم علی صاحب رضی اللہ عنہ ایڈیٹر فاروق کی شادی کے موقعہ پر حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالی تشریف لے گئے.اس موقعہ پر دورانِ گفتگو میں فرمایا...بیاہ شادی کے موقعہ پر پاکیزہ اشعار عورتیں پڑھیں اور پڑھنے والی مستاجر نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں.یہ بھی فرمایا کہ ڈھولک کے ساتھ پاکیزہ گا نا منع نہیں ہے.“ ۴۰۲
ر دسمبر ۱۹۰۱ء 553 صبح عجائب گھر دیکھنے گئے.وہاں سے آکر جمعہ پڑھنے گئے اور پھر وہاں سے شاہدرہ دیکھنے گئے.نور جہاں کا مقبرہ خصوصاً عبرت کا نظارہ ہے.سکھوں نے تمام پتھر ا کھاڑ دیا ہے.۸/دسمبر ۱۹۰۱ء ایک بجے لاہور سے چلے.شیخ رحمت اللہ بھی امرتسر تک ساتھ تھے.رات کے نو بجے کو ٹلہ پہنچے.۹/ دسمبر ۱۹۰۱ء کچھ مدرسہ دیکھا.۱۲ دسمبر ۱۹۰۱ء حساب پیمائش مدرسہ کرنا شروع کیا.۱۳ / دسمبر ۱۹۰۱ء آج نماز جمعہ پڑھی اور کچھ پیمائش مدرسہ کی.۱۴/ دسمبر ۱۹۰۱ء آج بھی پیمائش مدرسہ کا کام رہا.۱۵ تا ۱۸ / دسمبر ۱۹۰۱ء بشرح صدر.۲۰/ دسمبر ۱۹۰۱ء آج صبح پیمائش مدرسہ کی.پھر نماز جمعہ پڑھی.ڈاکٹر فیض محمد خاں سے کثرت ازدواج کے مسئلہ پر گفتگور ہی.بعد مغرب میں وہاں سے آیا.
۲۱ / دسمبر ۱۹۰۱ء 554 آج صبح سے رات کو نو بجے تک پیمائش مکان مدرسہ کرتا رہا.اور اس کو پورا ٹھیک کر دیا اور تمام کام ختم کر دیا اور پوری ہدایات لکھ دیں.کل چلنا ہے.جتنے دن میں کوٹلہ میں رہا وحشت، ہول دل لگا رہا.طبیعت ایک دن بھی خوش نہیں رہی.۲۲ / دسمبر ۱۹۰۱ء آج صبح سے تیاری میں بعد نماز و تلاوت قرآن لگا رہا.معہ عیال واطفال روانہ ہوا.کوئی چار بجے (شام) ریل روانہ ہوئی.سالم گاڑی ریز روڈ تھی.پھلور روزہ کھول کر کھانا کھایا.ایک بجے رات امرتسر پہنچے.۲۳ / دسمبر ۱۹۰۱ء ایک بجے ( رات) سے دس بجے ( صبح ) تک امرتسر میں ٹھہرے.گاڑی چلنے کے قریب حضرت میر ناصر نواب صاحب ملے.ساڑھے گیارہ بجے کے قریب بٹالہ پہنچے.ویٹنگ روم میں ذرا دم لے کر قادیان کو روانہ ہوئے.کوئی چار بجے (شام) قادیان پہنچے.بٹالہ سے تھوڑی دور چل کرغوناں اور غوثاں کلاں اور مجھے خاں والا یکہ الٹ گیا.مجھے خاں کے خفیف چوٹ آنکھ پر لگی.باقی سب بچ گئے.یہاں آکر نماز پڑھی.اتنے ( میں ) روزہ کا وقت ہو گیا.میں نے نماز مغرب جماعت کے ساتھ پڑھی.حضرت جی بیماری کے سبب سے نہیں آسکے.یہاں آتے ہی دل کو اطمینان ہو گیا.ہول دل وغیرہ جاتا رہا.۲۴ / دسمبر ۱۹۰۱ء صبح سیر کے لئے حضرت باہر آئے تو ان سے ملاقات ہوئی.ایک عیسائی عبدالحق نام آیا ہوا تھا اس سے تمام راستہ تقریر ہوتی رہی.یہ تقریر الحکم میں چھپے گی.ی گزشتہ چند روز کی ڈائری سے ایک تو معین تاریخ نواب صاحب کی واپسی کی معلوم ہوئی.دوسرے یہ بھی یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ نواب صاحب جب دسمبر ۱۹۰۱ء میں قادیان چلے آئے اور مدرسہ تعلیم الاسلام کا کام سنبھال لیا.اس وقت ابھی مالیر کوٹلہ والا مدرسہ بھی جاری تھا جیسا کہ ہر دو مدارس کے لئے ایک قاعدہ کے تعلق میں ذکر کیا تھا.
555 ۲۵/ دسمبر ۱۹۰۱ء (جلسہ سالانہ کی خاطر ) لوگ بہت آئے ہیں اور آرہے ہیں.آج بھی عبدالحق عیسائی سے گفتگو ہوتی رہی.۲۶ دسمبر ۱۹۰۱ء آج اس قد را نبوہ تھا کہ حضرت اقدس کی بات کا سننا بڑا مشکل.اس لئے آج جو عیسائی سے تقریر کی وہ پوری سنائی نہ دی.یہ تقریریں بڑی زبر دست تھیں.آج شام کو حضرت اقدس نے مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کو بلایا اور کہا کہ یہ پر چہ عبد الحق عیسائی کی جانب سے آیا ہے اور وہ لکھتا ہے کہ آپ کی تقریروں سے میری کامل تسلی ہوگئی.اب میں ایک منٹ بھی اسلام سے باہر رہنا گناہ سمجھتا ہوں.حضرت نے فرمایا کہ اس کو لکھو کہ کل جمعہ میں اپنے اسلام کا اعتراف کرے.۲۷/ دسمبر ۱۹۰۱ء ایک بجے جمعہ کو گیا.مسجد میں اس قدر نبوہ تھا کہ باوجود اس قدر وسعت کے جگہ نہ تھی بعد نماز جمعہ عبدالحق اسلام لایا.حضرت اقدس نے اس کو تلقین اسلام کی.اس کے بعد لوگوں نے بیعت کی جو قریباًدس ہوں گے یا اس سے زائد.اس کے بعد عبد الحق نے تقریر کی کہ میں کیونکر پہلے مسلمان سے عیسائی ہوا اور پھر کس طرح مجھ کو عیسائیت میں شبہ ہوا اور پھر کس طرح بڑی مشکل سے میں یہاں پہنچا اور اب میری پوری تسلی ہوگئی ہے اور میں مسلمان ہو گیا ہوں کہ اس کے بعد نماز عصر پڑھی گئی.پھر بعد نماز عصر تا مغرب حضرت گئی.اقدس نے تقریر کی.دو گھنٹہ میں منٹ پورے کھڑے ہو کر تقریر کی.تقریر بڑی لطیف تھی.آج عبدالرحیم کو پڑھانا شروع کیا گیا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا یہ خطبہ قرآن کریم کی ابتدا کے موضوع پر الحکم بابت ۰۲-۳-۲۴، ۲۴-۴-۰۲،۱۰-۴-۰۲۰۳۱-۳-۰۲ (صفحہ ۱۲ تا ۱۳) پر مرقوم ہے.الحکم بابت ۰۲-۱-۱۰ ( صفحہ ۷) پر منشی عبد الحق صاحب کا خط بابت قبول اسلام چھپا ہے اس میں ۲۷-۱۲-۰۱ کو قبول اسلام وغیرہ کا ذکر ہے.حضرت اقدس کی ان سے گفتگو کا مفصل ذکر الحکم جلد ۶ نمبر ۲ ،۶،۵،۴،۳، ۱۱،۸،۷ میں موجود ہے.
556 * ۲۸ دسمبر ۱۹۰۱ء آج بعد نما ز صبح و تلاوت قرآن...سیر کو گئے.سیر میں شیخ یعقوب علی (صاحب) نے عبدالحق عیسائی کا چوتھا سوال اور اس پر جو تقریر حضرت اقدس نے کی سنایا اس کے بعد حضرت اقدس نے تقریر کی.انبوہ کثیر کے سبب کچھ حصہ سنائی نہیں دیا اور لمبے ہونے کے سبب محفوظ نہیں رہی.سیر سے واپس آکر بعض بھائیوں کی درخواست پر فونوگراف سنا.پھر اس کے بعد قاضی امروہی * آگئے.انہوں نے کہا کہ تحریک تو مجھ کو پہلے سے ہو گئی تھی یعنی مجھ کو رویا ہوا تھا کہ مرزا صاحب مجھ کو حضرت امام حسین کی شکل میں دکھلائے گئے اور میں ( نے ) قدم بوس ہونا چاہا تو انہوں نے پاؤں ہٹا لئے.مگر پھر ایک بزرگ کی سفارش سے قدم بوس ہونے دیا اور کہا کہ آج بیعت بھی میں نے کی ہے.نماز ظہر و عصر کے بعد مسجد جامع میں گیا.وہاں پر پہلے مولوی نورالدین صاحب نے وعظ شروع کیا.مگر دوران وعظ میں وعظ بند کر کے ایک جنازہ پڑھا گیا * بعد فراغت بقیہ حاشیہ: - حضرت اقدس کی بعد عصر کی یہ تقریر الحکم پر چہ۰۲-۳-۱۰ (صفحه ۳ تا ۵) ۰۲-۳-۱۷ (صفحه ۳ تا ۵)، ۲۴-۳-۰۲ ( صفحه ۳ تا ۵) ۰۲۰-۴-۱۰ ( صفحه ۳ تا ۵ ) ۰۲-۴-۲۴ ( صفحه ۵ تا ۷ ) ۰۲-۴-۳۰ ( صفحه ۵ تا ۶) ۱۰-۵-۰۲ ( صفحه ۵ تا۶ ) ۰۲-۵-۱۸ ( صفحه ۵ تا۶ ) ۰۲-۵-۲۴ ( صفحہ ۵ تا ۷ ) سے ملاحظہ فرمائیں.۲۴-۱۲-۰۱ کونشی عبدالحق صاحب کا سوال کا جواب حضرت اقدس کا فرمودہ مکرم ایڈیٹر الحکم کی طرف سے سنانے کا ذکر پر چہ ۰۲-۱-۳۱ ( صفحه ۴ ) ، پر چه ۰۲-۲-۱۴ ( صفحہ ۳) کالم میں مرقوم ہے.یہاں جگہ ڈائری خالی ہے یہ قاضی آل احمد صاحب رئیس امروہہ تھے.مولوی سید محمد احسن صاحب کے ساتھ قرابت کا تعلق تھا ان کی قادیان میں آمد وغیرہ کا ذکر الحکم بابت ۰۱-۱۲-۲۴ ( صفحه ۱۶) پر دارالامان کا ہفتہ کے تحت مرقوم ہے.غالباً یہ وہی جنازہ ہے جس کا ذکر الحکم میں زیر عنوان ” دارالامان کا ہفتہ مرقوم ہے.حافظ غلام مرتضی خاں صاحب ساکن بنوں ٹانک اس ہفتہ فوت ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے ان کا جنازہ پڑھا تھا.ب حضرت خلیفہ اول کا مذکورہ وعظ سورۂ جمعہ پر الحکم بابت ۰۲-۸- ۰۲،۳۱-۹-۱۰، ۰۲-۹-۱۷، - ،۱۷-۱-۰۳،۱۰-۱-۰۳ ، ۲۴-۱۲-۰۲ ،۱۷-۱۲-۰۲ ،۱۰-۱۲-۰۲،۳۰-۱۱-۰۲،۲۴-۱۱-۰۲،۱۷-۱۱-۰۲ ۳۱-۱-۰۳ ۲-۰۳- ۷ میں مرقوم ہے.
557 نماز پھر وعظ شروع ہوا.وعظ سورہ جمعہ پر تھا.بڑا عجیب وعظ تھا.بعد از وعظ چونکہ روزہ کھولنے کا وقت قریب تھا سب واپس آئے.۲۹/ دسمبر ۱۹۰۱ء آج بعد نماز صبح ڈائری لکھی پھر سیر کو گئے.سیر میں پیسہ اخبار کی مخالفت کے متعلق گفتگو ہوتی رہی کہ وہ حضرت اقدس کی نسبت خلاف واقعہ تحریرات گورنمنٹ اور پبلک کو دھوکہ دینے کے لئے لکھتا ہے.حضور نے شیخ یعقوب علی (صاحب) ایڈیٹر احکم کو فرمایا کہ وہ نہایت زور شور سے پیسہ اخبار کو متنبہ کرے سیر کے بعد مولانا مولوی نورالدین صاحب کے ہاں ملنے گیا.پھر وہ میرے ہاں آئے لوگ ملنے کے لئے آگئے.مدرسہ کے متعلق فیصلہ کیا کہ چار کمرے فی الحال بنائے جائیں.۳۰ دسمبر ۱۹۰۱ء آج بعد فراغت معمول سیر کو گئے.سیر میں پیسہ اخبار کے نام کا مضمون ایڈیٹر ( الحکم ) نے سنایا.اس کے بعد سید امیر شاہ (صاحب) نے تین تاریخ اپنی الہام بک (BOOK) میں سے سنائیں.۳۱ دسمبر ۱۹۰۱ء آج بعد فراغت معمول سیر کو گئے.ایک مخالف...وزیر آبادی نے کچھ اعتراض کیا اس کا جواب نہایت شدومد کے ساتھ حضرت اقدس نے دیا.ار جنوری ۱۹۰۲ ء مطابق ۲۰ رمضان المبارک ۱۳۱۹ھ آج میری تشسی حساب سے ۳۲ سال کی عمر ہوئی.کیونکہ میں یکم جنوری ۱۸۷۰ء کو پیدا ہوا تھا اور آج کے دن میرالڑ کا عبداللہ بھی پیدا ہوا تھا.اس کی عمر 4 سال کی ہے کیونکہ وہ یکم جنوری ۱۸۹۶ء کو پیدا ہوا تھا ( میری تاریخ پیدائش قمری ) ۲۹ رمضان ۶ ۱۲۸ھ ( تھی).آج سیر میں حضرت اقدس نے جو تقریر فرمائی وہ اپنی جماعت کو ہدایت تھی.خلاصہ جو یاد ہے وہ یہ ہے.مومن کو کسل اور سستی اور آرام طلبی نہیں ہوتی انبیاء جو بعض اوقات دنیا داروں کی طرح دنیا کے کاموں مکرم ایڈیٹر صاحب الحکم کا یہ مضمون پر چہ ۰۲-۱-۳۱ ( صفحہ ۸ تا ۱۴ ) میں مرقوم ہے.
558 میں پھنسے ہوئے نظر آتے ہیں اصل ایسا نہیں ان کا یہ طریق ہے کہ چونکہ ان کو افکار ذمہ داریوں کے اس قدر ہوتے ہیں کہ اگر اور کسی کو ہوں تو وہ مر جائے.اس لئے بُدِلَ مَا يُتَحَلَّلُ کے لئے اس قدرآرام کرتے ہیں کہ جس قدر صحت کے لئے نہایت ضروری ہے حضرت رسول کریم سیر کو مع بعض صحابہ کے بھی جایا کرتے تھے حضرت رسول کریم نے اپنی ایسی مثال دی ہے کہ جس طرح ایک شخص دو پہر کے وقت گرمی کے موسم میں سفر کرتا ہو اور اس کو اس لئے کہ تھوڑا سا کسی سائے میں آرام لے کر وہ مسافت کو کچھ زیادہ اور طے کر لے اسی طرح انبیاء تھوڑا آرام لیتے ہیں تا کہ وہ خدمات خداوندی کے قابل پھر ہو جائیں اسی لئے وہ کبھی بیویوں میں بیٹھتے اور کبھی تھوڑا سا جس قدر صحت کے لئے ضروری ہے سوتے اور اسی غرض سے سیر بھی کرتے اور قوت لا یموت بھی کھاتے.ان کی حالت یہی تھی کہ دل بایار دست با کار.ایک دفعہ حضرت ابوبکر حضرت رسول کریم کے پاس گئے تو حضرت رسول کریم کو ایک پرانے بورئیے پر بیٹھے دیکھا جس پر پہلے سوئے ہوئے تھے.اور اس بورئیے کے نشان حضرت کے بدن پر موجود تھے.اور صرف ایک تلوار لٹکتی تھی حضرت ابو بکر یہ نظارہ دیکھ کر رو پڑے اور پوچھنے پر حضرت سے عرض کی کہ قیصر اور کسریٰ کس آرام میں ہیں.جو حضور کے مقابلہ میں چیونٹی کے بھی برابر نہیں.اور حضور اس تکلیف میں ہیں تو حضرت رسول کریم نے وہ گرمی کے وقت مسافر کی مثال سنائی.تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہماری جماعت کو بھی آرام طلب نہیں ہونا چاہئے جس طرح ایک سپاہی ہر وقت تیار اور حکم کا منتظر رہتا ہے اسی طرح ہی) مومن کو رہنا چاہئے.فرمایا کہ ایک حقوق نفس ہوتے ہیں ایک شہوات نفس.حقوق نفس تو وہ ہیں جو انسان اس قدر کھائے پئے لیٹے آرام کرے جس قدر صحت کے لئے ضروری ہے اور شہوات نفس وہ ہے جو اس سے زائد کرے.ایک صحابی نے ایک چوبارہ بنایا تھا سیر میں جو حضرت رسول کریم نے دیکھا اور ان کے چہرہ پر چونکہ اس صحابی نے اس میں بشاشت جو نہ پائی تو وہ چوبارہ گرا دیا حضرت کے دریافت کرنے پر یہی جواب دیا.حضرت اقدس نے پھر فرمایا کہ انسان اپنی نیت خدا کے لئے رکھے خواہ مکان بنائے خواہ کھانا کھائے.یا لباس پہنے (ایک) اور شخص نے مکان بنایا.حضرت رسول کریم کو دکھایا تو حضور علیہ السلام نے پوچھا کہ یہ کھڑ کی کیوں رکھی ہے اس نے کہا ہوا کے لئے فرمایا کاش تو اذان سننے کی نیت کرتا.ہوا تو آہی جاتی.۲ جنوری ۱۹۰۲ ۲۱ / رمضان المبارک سیر کو گئے.دوران سیر میں نقشہ پیشنگوئی ہا مرتبہ معراج الدین صاحب سنتے رہے پھر بعد نماز ظہر وعصر مدرسہ مراد یہاں معراج الدین صاحب عمر مر حوم
559 کے متعلق قواعد مرتب کرتا رہا بعد اس کے چار بجے درس حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب میں گیا.جنوری ۱۹۰۲ ۲۲۰ رمضان المبارک دیر ہونے کی وجہ سے نہ سحری کھائی.آج سیر نہیں ہوئی.قواعد مدرسہ لکھے نماز جمعہ بہ سبب علالت مولوی عبد الکریم صاحب چھوٹی مسجد میں ہوئی.نماز عصر کے بعد مولوی محمد علی صاحب سے مشورہ متعلق قواعد مدرسہ کیا.پھر مفتی محمد صادق آگئے انہوں نے میگزین کے متعلق نمونہ نقشہ جات کتب حساب وغیرہ دکھلائے.پھر مغرب کے وقت بعد افطار روزہ مسجد میں گیا.نماز مغرب پڑھی.۴ جنوری ۱۹۰۲ ۲۳۶ رمضان المبارک آج سیر میں میرے پرچہ سوال درباره مصرف و مستحقین خیرات کے جواب میں فرمایا خلاصہ...جو یاد رہا یہ ہے: فرمایا بعض انسان دولت کو اپنا سہارا سمجھتے ہیں یہ شرک ہے اور ممسک بننے تک اس کی نوبت پہنچتی ہے اور کبھی اس قدر مسرف ہوتے ہیں کہ آخر ان کو بعض ضروری امور میں خرچ کرنے کے لئے روپیہ نہیں ہوتا اور چونکہ اور بہت سے حقوق انسان پر خداوند تعالیٰ نے لگائے ہوئے ہیں اس لئے اس کو ان حقوق کی بھی رعایت واجب ہے.چنانچہ قرآن شریف میں بھی میانہ روی کی ہدایت ہے.یعنی نہ تو کل البسط ہو اور نہ ایسا ہو ہاتھ گردن پر لگائے اس میں بھی اعتدال کا حکم ہے یا سائل پر زجر و توبیخ روا نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمارے ملک میں مسلمانوں میں یہ بد عادت بہت بڑھ گئی ہے خداوند تعالیٰ نے کچھ احکام معطی کے لئے دیئے ہیں اور کچھ سائل کے لئے.پس سائل کے احکامات کا خیال معطی کوضروری نہیں کیونکہ اس میں اس کا تعلق خدا کے ساتھ (ہے) خداوند تعالیٰ اس سے خود سمجھے گا معطی کو جو کم...دیئے ہیں ان کا خیال رکھنا چاہئے ہمارے ملک میں دو طرح کے فقیر ہوتے ہیں ایک نرگرا اور ایک خر گدا.نر گدا تو وہ ہوتے ہیں کہ آواز دی کسی نے کچھ دے دیا دے دیا نہیں ( تو ) دوسری جگہ چل دئے اور خر گدا وہ ہوتے ہیں جو اڑ جاتے ہیں.کاش یہ خرگدائی خدا سے ہوتی تو اچھا ہوتا.یہ عام گدا بڑی بڑی تکلیفیں سہتے آیت یہ ہے.وَلَا تَجْعَلُ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطُهَا كُلَّ الْبَسْطِ قَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا -
560 ہیں.چونکہ کوئی قاعدہ نہیں مرتب ہو سکتا اس لئے استفتائے قلب پر انسان دے.اگر قلب کسی کو محتاج سمجھے تو اس کو دے دو.اور جس پر یہ خیال ہو کہ یہ مستحق نہیں ہے اس کو نہ دو مگر ز جر توبیخ ہرگز نہیں چاہئے.ہاں جو گدا گری اور سوال کے درجہ سے زیادتی کرے اور دوسری حدود کو توڑے مثلاً کسی کے گھر میں باوجود منع کرنے کے گھسے اور منع کرنے والوں سے لڑے تو وہ سائل نہیں بلکہ فسادی ( ہے ) اس کا ویسا علاج ہونا چاہئے اور ویسے اچھے برے کو بھی دے دیں ہرج نہیں خداوند تعالیٰ ہر قسم کے آدمی کو دیتا ہے.میرے پوچھنے پر کہ زکوۃ زیور پر ایک دفعہ دینی چاہئے یا ہر سال فرمایا گو اس میں اختلاف ہے مگر ہم تو ہر سال ہی دیتے ہیں.سیر سے آکر مولوی محمد علی صاحب عہدہ داران مدرسہ وغیرہ کے متعلق گفتگو ہوتی رہی.پھر مولوی نورالدین صاحب تشریف لے آئے.منظور محمد صاحب آگئے ان سے کچھ بات ہوئی پھر بعد نماز بھی، مولوی محمد علی صاحب سے کتابوں وغیرہ کے متعلق گفتگو ہوئی پھر چار بجے درس میں گیا.۵ر جنوری ۲۴۰۱۹۰۲ / رمضان المبارک آج سیر میں پہلے مولوی محمد احسن صاحب امروہی سے باتیں ہوتی رہیں پھر مفتی محمد صادق سے.پھر مولوی محمد علی سے.۶ / جنوری ۱۹۰۲ء ۲۵ / رمضان المبارک آج سیر کے لئے مجھ کو دیر ہوگئی حضرت اقدس کو بہت انتظار کرنا پڑا اس سے بڑی ندامت ہوئی.آج سیر ( میں ) حضور علیہ السلام نقشہ پیشنگوئی ہاسنتے رہے شیخ ولی محمد کی موقوفی یکم جنوری ۱۹۰۲ء سے عمل میں آئی ہو الحکم جنوری ۱۹۰۲ء سے تین ماہ کے لئے فی الحال مولوی محمد نواب خاں ثاقب پیشکار کے طور سے ملازم رکھے گئے.تنخواہ (اس عرصہ کے لئے فی الحال پچیس روپے ہو گی ) آج حضرت اقدس کو دورہ آ کر پڑا.اس لئے ظہر سے عشاء تک کسی نماز میں شریک نہیں ہوئے بعد نماز ظہر کمیٹی ڈائرکٹر ان میگزین ہوئی.اس میں مولوی محمد علی میجنگ ڈائرکٹر مقرر ہوئے اور ان کو معمولی اخراجات کو باختیار خود کرنے اور تمام ذمہ داریوں کو جو حساب اور عدالت کے متعلق ہوں ان کے ذمہ ڈالی گئیں میگزین اردو کو مارچ ۱۹۰۲ء سے جاری کرنے کی حضرت پیر منظور محمد صاحب موجد قاعده سیسرنا القرآن مراد ہیں.(مؤلف) شیخ ولی محمد صاحب کا ذکر جلسہ ۹۲ء کے تعلق میں پہلے ہو چکا ہے.(مؤلف)
561 تجویز ہوئی یہ محرره ۱۵ روپیہ تک مینجنگ ڈائرکٹر رکھ سکتا ہے.قیمت میگزین دو روپے سے دو روپے آٹھ آنے تک قرار پائی یعنی جو انگریزی اور اردو دونوں رسالے خریدیں ان سے دو روپیہ لئے جائیں گے.اور جو حض اردوان دور و پیر آٹھ آنے.اسٹنٹ فنانشل سیکرٹری کا کام فی الحال مجھ کو کرنا پڑے گا لائیبر میری مدرسه و میگزین وغیرہ کی ایک ہی ( ہو ) جو زیر نگرانی مدرسہ ہو.۷/جنوری ۲۶۶۱۹۰۲/رمضان المبارک آج حضرت اقدس کو افاقہ تھا سیر کو تھوڑی دور تشریف لے گئے مرزا خدا بخش صاحب نے معارف میں سے انارکسٹ اور نہلسٹ کے متعلق مضمون پڑھ کر سنایا.آج رات کو عجیب واقعہ پیش آیا.حضرت اقدس تو عشاء کی نماز پڑھنے مسجد میں تشریف لائے کسی لڑکی نے بستہ کا غذات شمعدان کے قریب رکھ دیا.اور دروازہ بند کر دیا مبارکہ کے سخت اصرار خرما طلبی پر میاں محمود جو کمرہ میں گئے تو عجیب نظارہ دیکھا.تمام مکان دھوئیں کے ساتھ اٹا ہوا ہے معلوم کیا کہ آگ لگی ہوئی ہے آگ کو فر و کیا سوائے بستہ کے اور صندوق کی تھوڑی سی لکڑی کے کچھ نہیں جلا خداوند تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کیونکہ اس مکان میں چھت تک صندوق تھے اور کئی ایک لحاف پڑے تھے.اگر آگ زیادہ بھڑکتی تو تمام گھر کے جل جانے کا اندیشہ تھا مضمونوں کے جلنے کے متعلق حضرت نے فرمایا کہ خداوند اس سے بہتر سمجھا دے گا.۸/ جنوری ۱۹۰۲ء ۲۷ / رمضان المبارک آج سیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے رات کے خط ( پر ) جو استدعائے دعا کے لئے لکھا تھا فر مایا کہ دعا اللہ قبول فرماتا ہے مگر ایک مناسب وقت پر.تکالیف اور غم اگر انسان کو نہ ہوں تو وہ پختہ نہیں ہوتا.پس جولوگ تمام عمر ہم وغم سے نا آشنا رہتے ہیں اور ہمیشہ ناز ونم میں رہتے ہیں یہ لوگ بالکل بیکار ہوتے ( ہیں ) اور اللہ تعالیٰ کو ان کی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ یہ فسق و فجور میں مبتلاء رہتے ہیں اور جن لوگوں ( کو ) ابتلاء آتی ( ہے ) اس کے بعد اگر ان کو سامان راحت ملتے بھی ہیں مگر وہ ان سے بے تعلق رہتے ہیں.پس نیک اس کے مارچ ۱۹۰۲ء سے شروع ہونے کا ذکر الحکم بابت ۰۲-۳-۲۴ میں مرقوم ہے گواس کے سرورق پر ماہ جنوری لکھا ہے لیکن نیچے درج ہے کہ مارچ میں شائع ہوا.* Nihilist Anarchist (مؤلف)
562 لوگوں کو اسی لئے ابتلاء ہوتی ہے) تا وہ پختہ ہو جائیں ( مفصل تقریر ایڈیٹر الحکم نے لکھی ہے ) اس کے بعد ایک عرب کے ساتھ گفتگو کرتے رہے.۹ جنوری ۱۹۰۲ء ۲۸ / رمضان المبارک آج بھی سیر میں وہ عرب ہی مخاطب رہا آج زینب نے پہلا روزہ رکھا.میں ۲۸ رمضان المبارک ۱۲۸۶ھ کو پیدا ہوا تھا.۱۰ جنوری ۱۹۰۲ ۲۹ / رمضان المبارک آج حضرت اقدس به سبب ناسازی طبیعت نماز جمعہ وعصر میں تشریف نہیں لا سکے * ۱۲ جنوری ۱۹۰۲ء آج عید الفطر ہے نماز (صبح) پڑھی.الحمد اللہ کہ اس وقت ایک گداز طبیعت میں تھا.بعد نماز تلاوت قرآن شریف وغیرہ سے فارغ ہو کر تہیہ نماز عید کیا.کچھ کھانا کھایا.نماز عید کوئی ساڑھے دس بجے شروع ہوئی حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب امام تھے.آپ نے) سورۃ نوح کی ایک رکوع پڑھی * نہایت پر اثر خطبہ تھا.بڑا زور دیا (کہ) بدظنی نہایت بری بات ہے یہ خرابیوں تکذیبوں کی جڑ ہے* * ( بعد نماز ظہر وعصر ) مولوی نورالدین صاحب تشریف لے آئے اور اس طرح بعض اور احباب.بعد مغرب مسجد میں گیا.وہاں حضرت اقدس تقریر فرما ر ہے تھے.بڑی لطیف تقریر تھی.یہ تقریر الحکم جلد ۶ نمبر ۴۵ (صفحہ ۱ تا ۳) پر چه ۰۲-۱۲-۱۷ اور نمبر ۲۶ (صفحہ ۱ تا۲) پر چہ۰۲-۱۲-۲۴ میں موجود ہے.خطوط واحدانی کے الفاظ ڈائری کا حصہ ہیں.1 جنوری کی ڈائری اس سے قبل تہجد گزاری وغیرہ کے ذکر میں درج ہو چکی ہے.* ڈائری میں یہ جگہ خالی ہے.** یہ عید مسجد اقصیٰ میں پڑھی گئی.الحکم جلد ۶ نمبر ۲ ( صفحہ ۱۵ کالم ۳) حضرت مولوی کا خطبہ نمبر ( صفحہ ۸ تا ۱۰) نمبر ۳ ( صفحه ۵ تا۶ ) نمبر ۴ ( صفحہ ۶ تا ۷ ) میں ملاحظہ فرمائیں.
563 ۱۳ / جنوری ۱۹۰۲ سیر میں مولوی محمد احسن صاحب نے ایک مدراس کے مولوی صاحب کا خط پڑھ کر سنایا.پھر ہم سیر سے آئے.۱۶ جنوری ۱۹۰۲ء آج سیر میں عبد الحق بی.اے نے اپنا مضمون رسالہ سراج الحق سنایا.جو خط کے طور سے بنام سراج الدین عیسائی انہوں نے لکھا ہے.آج مجھ کو تلاوت قرآن شریف میں دو باتیں نئی خداوند تعالیٰ نے میرے ذہن میں ڈالیں.ا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمُ اعَدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمُ بِنَعْمَتِةٍ اِخْوَانًا میرے دل میں خداوند تعالیٰ نے ڈالا کہ ایک تو اختلاف کی دوری حضرت رسول کریم کے زمانہ میں ہوئی اور اسی طرح اب مسیح موعود کے زمانہ میں.فرق و مذاہب مختلفہ کا اتحاد ہم سب عین حضرت میں پاتے ہیں کہ کسی میں ذرا اختلاف نہیں باوجود مختلف الاعتقاد ہونے کے حنفی ، مالکی ، شیعہ سنی ، وہابی.خارجی سب داخل بیعت ہیں.تمام اپنے اختلافات کو چھوڑ کر ایک ہو گئے ہیں.۴۰۴ ٢ - يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوهٌ ، فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُمْ أَكْفَرُ تُمُ بَعْدَ ايْمَانِكُمُ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ وَامَّا الَّذِينَ بُيَضَّتُ وُجُوهُمْ فَفِي رَحْمَةَ اللَّهِ ۖ هُمْ فِيهَا خلِدُونَ.یہاں خداوند تعالیٰ نے مجھ کو یہ نکتہ سمجھایا کہ انسان کیوں گورے رنگ کو پسند کرتا ہے.یہ امر ۲۵۰۰۰۰۰۰ ہماری فطرت میں ہے تو میرے دل میں آیا کہ خداوند تعالیٰ نے دو ہی چہرے لکھے ہیں ایک کالے اور ایک سفید یعنی گورے.دوزخیوں کے کالے اور بہشتیوں کے گورے.پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ گورا رنگ آرام اور آسائش سے ہوتا ہے اور کال محنت اور تکلیف اور حزن وغم سے.جب کوئی دھوپ میں پھرے بڑی محنت کرے یا اس کو کوئی بیماری لاحق ہو یا حزن و ملال یا غم وہم ہو یا بڑھاپا چھا جائے تو چہرہ پر سیاہی آتی جاتی ہے.اور جب آرام و خوشی.صحت و تندرستی اور جوانی ہوتی ہے تو چہرہ کا رنگ کھلا ہوا اور گورا ہوتا ہے حتی کہ کالے بھی کسی قدر گورے بن جاتے ہیں.۱۴ اور ۱۵ جنوری کی ڈائری دعا کے متعلق میں بعد کے اوراق میں درج کی جارہی ہے.
564 ۱۷/جنوری ۱۹۰۲ء چونکہ میری بیوی بارہ بجے تک غسل کرتی رہیں اور ایک غسل خانہ ہونے کی وجہ سے میں نے پونے بجے مغسل شروع کیا.خلاف عادت بہت جلد غسل کیا مگر دیر ہوگئی.اس لئے بلا کھانا کھائے مسجد کو چلا گیا.وہاں خطبہ ہورہا تھا شاید قریباً نصف خطبہ ہو چکا ہوگا.بعد نماز جمعہ مکان پر آیا.ذرا ڈاک دیکھنے لگا عصر کی اذان ہوگئی.بعد از مغرب مسجد میں گیا.حضرت اقدس تشریف رکھتے تھے.مختلف باتیں ہوتی رہیں.آخر نماز عشاء پڑھی گئی.۱۸/جنوری ۱۹۰۲ء الحمد للہ آج جماعت نماز صبح میں شریک ہوا گو پہلی رکعت کے رکوع کے قریب شامل ہوا.بعد نماز دور کوع قرآن شریف پڑھے.....سیر کو گئے.۱۹؍ جنوری ۱۹۰۲ء سیر میں جو کچھ گفتگو ( ہوئی ) یاد نہیں رہی.۲۰ / جنوری ۱۹۰۲ء سیر میں جو مضمون تھا یا نہیں رہا.۲۱ جنوری ۱۹۰۲ء آج میں نے ایک خط حضرت اقدس کی خدمت میں چار امور کے لئے لکھا تھا.امراول مدرسہ کے کسی حصہ کو فروخت کر کے دوسری جگہ مکان بنوا سکتا ہوں کہ نہیں.مولوی نور الدین صاحب کو مکان کی بڑی دقت (ہے) وہ کچھ خریدنا چاہتے ہیں.امر دوم میرا ارادہ ہجرت کرنے کا ہے حضور اجازت دیں اور دعا فرمائیں یہ ارادہ پورا کروں.امرسوم تقدیر کا مسئلہ جو سنیوں میں ہے اور قرآن شریف میں امنت باللہ کے ساتھ صراحت سے ضم نہیں ہے کیا اس کو اپنے رسالہ میں میں اس طرح جس طرح حدیثوں میں ہے درج کروں (۴).حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا یہ خطبہ احباب الحکم بابت ۰۲-۱-۲۴ ( صفحہ ۷ ) میں ملاحظہ فرما ئیں.یہ جگہ ڈائری میں خالی ہے اس کے بعد کا حصہ تقدیر کے متعلق تھا جو صفحہ ۳۸۷ کے حاشیہ پر درج ہو چکا ☆☆
565 رات کو کئی خط میں نے لکھے.کوئی سات محض میگزین کی ترغیب خریداری کے لئے تھے.کوئی ایک بجے سویا.۲۲ جنوری ۱۹۰۲ء سیر میں عبدالحق صاحب بی.اے کے ساتھ حضرت اقدس گفتگو کرتے رہے.حضرت اقدس نے ایک لطیف گفتگو فرمائی.فرمایا تین غسل انسان کو کرنے پڑتے ہیں.اول استغفار کا غسل، دوم شکر کا غسل، سوم حسن کا غنسل.سیر کے ( بعد ) حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب سے کچھ گفتگو کی.نماز ظہر وعصر باجماعت پڑھی نماز مغرب کے بعد مسجد میں گیا.وہاں پہلے مختلف امور پر حضرت اقدس نے گفتگو فرمائی.پھر مفتی محمد صادق صاحب نے ڈوئی کا مضمون سنایا.پھر مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنا خط آر یہ مسافر کے نام کا سنایا.وہاں سے نماز عشاء پڑھ کر گھر پر آیا.۲۷ / جنوری ۱۹۰۲ء سیر میں مختلف گفتگوئیں ہوئیں.ایڈیٹر الحکم نے اپنا مضمون پیسہ اخبار کے جواب میں سنایا.۲۸ / جنوری ۱۹۰۲ء آج صبح کی جماعت میں شریک ہوا.سیر میں مختلف باتیں ہوتی رہیں.منجملہ ان کے عربی لغات کے متعلق گفتگو رہی.آج بعد از مغرب ایک پادری کا رسالہ متعلق عصمت حضرت رسول کریم مولوی محمد علی صاحب نے پڑھا.ارفروری ۱۹۰۲ء آج میں ( نے ) دوامور کے لئے استخارہ کرنا شروع کیا.1- For gonig to Kotla on coming of the commissianer there.2- For keeping and Nawab Khan as Servant.بقیہ حاشیہ: - ہے.دیگر سوالات کے جواب ڈائری میں مذکور نہیں.آج کی ڈائری جس جگہ سے یہاں درج کی گئی ہے وہاں سے آخر تک اور کوئی حصہ ترک نہیں کیا گیا.
566 ۴ فروری ۱۹۰۲ء آج سیر میں بہت تھک گیا.۷ فروری ۱۹۰۲ء آج دونوں استخارے ختم کوئی تفہیم خداوند تعالیٰ کی طرف سے اور رویا نہیں ہوئی.میں نے فیصلہ بطور خود کیا کہ کمشنر صاحب کے آنے پر کوٹلہ نہ جاؤں گا.I shall take Nawab Khan in my Service.آگے اللہ کو علم ہے.ابھی اگر مناسب ہوا تو بعض بزرگوں سے مشورہ ان امور میں کروں گا.علم اللہ ہی کو ہے کہ کیا ہونا ہے.سب پر اللہ کا ارادہ غالب ہے اور جو کچھ ہور ہے گا وہی بہتر ہوگا.انشاء اللہ تعالی.۸ فروری ۱۹۰۲ء آج بھی نماز صبح میں شریک نہ ہو سکا.بعد نماز صبح بچوں کو پڑھایا.آج کھانسی بہت چھڑی اور بعد کھانسی سینہ دکھنے لگا.آج تمام دن سینہ دیکھتا رہا.حضرت مولانا نے دوائی دی.نماز ظہر وعصر کی جماعت شریک نہ ہوسکا.آج حضرت اقدس کو مندرجہ ذیل الہام ہوا لم يبقَ لك فى المخزيات ذكرًا.آج ڈاکے والوں کام اندیشہ ہوا.باقی امور معمولی.حمید الف- نشان ( x ) ہر عبارت ٹوٹتی ہے.یہاں نقل مطابق اصل کی گئی ہے.نیز اس فائدہ کی خاطر جس کا آگے ذکر آتا ہے اس روز کی ساری ڈائری نقل کی گئی ہے.-1 ب- ڈائری میں مرقوم الہام اور اس سے ملتے جلتے الہام ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.ا.خدا نے مجھ پر ظاہر فرمایا ہے کہ آخری حصہ زندگی کا یہی ہے جواب گزررہا ہے جیسا کہ عربی میں وحی الہی یہ ہے قرب اجلک المقدر ولا تبقى لك من المخزيات ذكرا.....اسی بناء پر اس نے مجھے توفیق دی کہ پنجم حصہ براہین احمدیہ شائع کیا جائے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۷ حاشیہ ) یہ کتاب ۱۹۰۵ء میں تصنیف ہوئی.اور بدر جلد نمبر ۳۸ میں یہ الہام ۲۹ نومبر ۰۵ء میں مرقوم ہے.-۲- بدر جلد نمبر ۳۸ و الحکم جلد 9 نمبر ۴۳ میں اوپر کے الہام کے ساتھ قل میعاد ربک ولانبقی لک من المخزيات شيئا بھی درج ہے.اور تاریخ الہام ۶ دسمبر ۰۵ ء مرقوم ہے.
567 ۱۰ فروری ۱۹۰۲ء آج سیر میں دو امور حضرت اقدس نے فرمائے (۱) انبیاء کو بھی تدریجی ترقی ہوتی ہے (۲) بہشت دوزخ نیه حاشیه : -۳- حوالہ مذکورہ میں سے دسمبر ۰۵ء میں ان نمبر ۲ ،۳ کے الہامات کے بعد واخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمین بھی مرقوم ہے.۴.جولائی ۱۹۰۶ ء میں ذیل کے الہامات ہوئے.قرب اجلک القدر.ان ذا العرش يدعون ولا نبقى لك من المخزيات ذكرًا - قل میعاد ربك ولا تبقى لک من المخزیات شیئا.-۵ ۸ ستمبر ۱۹۰۶ء کا الہام ہے.ربّ لا تُبق لى من المخزيات ذكرًا - -Y لد حضرت نواب صاحب بعض اوقات حضرت اقدس کے الہامات ورؤیا اپنی ڈائری میں قلم بند کرتے ہیں.چونکہ ڈائری کی پرائیویٹ حیثیت تھی اور اس خاطر تحریر نہیں کی جاتی تھی کہ کبھی طبع کی جائے گی اس لئے آپ مجالس یا سیر میں الہامات وغیرہ کو نوٹ کر کے نہیں لاتے تھے جیسا کہ اخبارات کی خاطر ایڈیٹر صاحبان کرتے تھے اس لئے بعض اوقات نواب صاحب کے محررہ الہامات ور دیا میں بعض خامیاں رہ جاتی ہیں لیکن ایک نادر فائدہ بھی ہوتا ہے کہ بعض الہامات کی تاریخ نزول کی تعیین اس ڈائری سے ہوگئی ہے.اور یہ تعیین کسی اور جگہ سے نہ ہو سکتی تھی.اس فائدہ کے بالمقابل معمولی خامی قابل اعتناء نہیں.آج کی ڈائری والے الہام میں دوخامیاں ہیں لیکن تذکرہ میں یہی الہام مواہب الرحمن صفحہ ۷ اسے نقل ہوا ہے اور محض نقل میں ایک خامی رہ گئی ہے یعنی فی کی بجائے من نقل کیا گیا ہے.دوسرے ساتھ ہی ایک اور الہام درج ہے لیکن وہ تذکرہ میں کسی جگہ نقل نہیں کیا گیا یعنی یعصمک الله من عنده وهو الولى الرحمن نواب صاحب بسا اوقات ڈائری نویسی کے اوقات بھی ڈائری میں درج کر دیتے ہیں جن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اسی روز یا اگلے روز ڈائری تحریر کرتے تھے اس لئے ڈائری میں مندرجہ تاریخ ہر طرح قابل یقین ہے چونکہ مواہب الرحمن کی تصنیف ۱۹۰۳ء میں ہوئی اور ۱۴ جنوری ۱۹۰۳ء کو شائع ہوئی.اس لئے اس الہام کی تاریخ اس کتاب سے منقول دیگر تمام الہامات کی طرح تذکرہ میں "مارجنوری ۱۹۰۳ء سے قبل‘ مرقوم ہے.ایک اندرونی شہادت سے بھی نواب صاحب کی ڈائری میں مندرجہ تاریخ کی صحت پر روشنی پڑتی ہے.اور وہ یہ کہ کشتی نوح پڑھ کر مصر کے اخبار اللواء کے ایڈیٹر نے اعتراض کیا کہ طاعون کے ٹیکہ کا ترک کرنا
568 کا تذکرہ فرمایا.کہ بہشت میں انسان ہمیشہ رہے گا اور اس میں ترقی برابر کرتا رہے گا اور اسی طرح دوزخ میں ترقی ہوگی اور دوزخ میں ہمیشہ نہیں رہے گا کیونکہ قرآن شریف میں آیا ہے کہ بہشت میں ہمیشہ رہیں گے ۴۰۷ بقیہ حاشیہ: - توکل کے مفہوم کے منافی ہے.ظاہری اسباب کی رعایت ضروری امر ہے.اس کے جواب میں مختلف لطیف امور بیان کرتے ہوئے حضور ٹیکہ سے رکنے کی وجہ الہام الہی قرار دیتے ہیں.اس عبارت کا ایک حصہ یہ ہے.واني بُشْرتُ في هذا الايام من ربّى الوهاب فأمنت بوعده ورضيت بترک الاسباب.وما كان لي ان اعصى ربّى اواشک فیما اوحى.ولا أبالى قول الاعداء فان الارض لا تفعل شيئا الأما فعل في السماء.وانّ معى ربّى فما كان لي ان افكر فكرا وانه بشرني وقال لا أبقى لك فى المخزيات ذكرا.وقال يعصمك الله من عنده وهو الولی الرحمن.وان يغرحسن الى سواد فيترائ الحُسنان.هذا ربنا المستعان فكيف تحاف بعده اهل العدوان.فلا تعيرني على ترك التطعيم وانّ ربّى بكل خلق عليم ترجمہ: اور مجھے ان ایام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ملی.پس میں اس کے وعدہ پر ایمان لایا اور ترک اسباب پر راضی ہوا اور میرے لئے کیونکر مناسب ہے کہ اپنے رب کی نافرمانی کروں یا اس کی وحی میں شک کروں.اور میں دشمنوں کی پرواہ نہیں کرتا کیونکہ زمین کچھ نہیں کرسکتی مگر وہی جو آسمان پر قرار پاتا ہے.اور میرے ساتھ میرا رب ہے اس لئے میرے لئے مناسب نہیں کہ کچھ فکر کروں اور اس نے مجھے بشارت دی اور فرمایا لا ابقی لک فی المخزيات ذكرًا اور فرمایا یعصمك الله من عنده وهو الولی الرحمن.اور اگر ایک حسن سیا ہی کی طرف منسوب ہوتا ہے تو اس کی بجائے دوحسن ظاہر ہوں گے.یہی ہمارا رب ہے کہ جس سے ہم استعانت کرتے ہیں پس اس کے بعد ہم دشمنوں سے کس طرح خائف ہو سکتے ہیں؟ سوٹیکہ لگوانے کو ترک کرنے پر مجھے سرزنش نہ کرو کیونکہ میرا رب ہر ایک پیدائش کو جانتا ہے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ کشتی نوح کی تصنیف میں جو حضور نے ٹیکہ لگوانے سے جماعت کو منع کیا اس کی وجہ الہامات لا أبقى لک فی المخزيات ذكرًا اور فرمایا یعصمك الله من عنده وهو الولی الرحمن تھے اور انى بشرت في هذا الايام سے ایام تصنیف مواہب الرحمن یا قرب تصنیف مواہب الرحمن مراد نہیں بلکہ شدت طاعون کے ایام مراد ہیں جیسا کہ منقولہ عبارت کا آخری حصہ اور اس سے قبل کی عبارت بھی اس پر دلالت کرتی ہے.
569 مگر جس کو اللہ تعالیٰ چاہے.یعنی جس کو اللہ تعالیٰ نکالنا چا ہے لیکن ساتھ ہی کہہ دیا عطاء غیر مجذوذ یعنی یہ اٹھی عطاء ہے جو واپس نہ لی جائے گی.پس بہشت سے انسان نہ نکلے گا.لیکن دوزخ کی بابت فرمایا کہ اس بقیہ حاشیہ: - یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کشتی نوح جو اکتوبر ۱۹۰۲ء میں بصورت کتاب شائع ہوئی کس وقت تصنیف ہوئی تھی.الحکم بابت ۷ ستمبر ۱۹۰۲ء میں زیر عنوان ” دار الامان کا ہفتہ مرقوم ہے ” حضرت اقدس نے کشتی نوح یا تقویۃ الایمان کے نام سے عجیب و غریب اشتہار شائع کیا ہے جو اگلی اشاعت میں پورا درج کیا جائے گا.‘ (صفحہ ۱۶) اور ہ استمبر کے پرچہ میں اس عنوان کے تحت مرقوم ہے.حضرت حجتہ اللہ نے ٹیکہ طاعون کے متعلق ایک زبر دست اشتہار لکھا ہے.(صفحہ ۱۶) بعض بیرونی شواہد بھی اس عرصہ کی تعیین میں محمد ہیں مثلاً اشتہار طاعون جوعربی میں مع فارسی واردو کے ترجمہ کے حضرت اقدس نے ۱۰ دسمبر ۱۹۰۱ء کو شائع فرمایا اس میں طاعون سے حفاظت کے طریقے انابت الی اللہ وغیرہ کا ذکر ہے لیکن کشتی نوح کی طرح ٹیکے کی ممانعت کا ذکر نہیں جس سے معلوم ہوا کہ ابھی مذکورہ بالا الہامات نہیں ہوئے تھے.ایک خارجی شاہد حضرت اقدس کا مکتوب بھی ہے جو حضور نے حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کو۳۰ را کو ۳۰ اپریل ۱۹۰۲ء کو تحریر فرمایا.اس میں فرماتے ہیں.” میں نے ابھی آپ کے لئے دعا کی ہے سخت امتحان کے دن ہیں.آپ بھی توجہ سے تو بہ استغفار کرتے رہیں بہت دعا کرتے رہیں ہماری جماعت کے لئے ایک خاص رعایت ہوئی مگر معلوم رہے کہ کسی حد تک بعض کا بطور شہادت فوت ہونا ممکن مگر تشویش کامل.تباہی خانگی سے محفوظ رہے گی کم ابتلاء ہوگا (کم ابتلاء ہوگا“ کے الفاظ مکتوب حضرت مسیح موعود بنام مولوی عبد اللہ صاحب سنوری مطبوعہ ۲۰ دسمبر ۱۹۲۱ ء میں موجود نہیں.مؤلف ) تو بہ کے لئے ہر ایک پر زور دیں.اب وقت ہے آئندہ جاڑا خطرناک ہے.“ اس مکتوب سے قبل نازل شدہ جن الہامات سے جماعت کے لئے خاص رعایت کا علم ہوتا ہے وہ یہ ہیں (الف) ہفتہ مختتمہ ۱۷ اگست ۱۹۰۱ء میں ایام غضب الله - غضبتُ غضبًا شديدًا.إِنَّهُ ينجى اهل السعادة.انّى أنجى الصادقين (ب) ( لولا الاكرام لهلك المقام يأتي على جهنم زمان ليس فيها احد.۴۰۸ لیکن غور کیا جائے تو حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری والے مکتوب میں جس الہام کی بناء پر رعایت کا مفہوم نکلتا ہے.وہ ان الہامات ۰۱-۸-۷ اوغیرہ مذکورہ بالا سے نہیں نکل سکتا.ان آخری الہامات میں تمام اہل سعادت اور صادقین کی نجات اور قادیان کی بربادی سے حفاظت اور بعد ازاں طاعون کے اختتام پذیر
570 میں انسان ہمیشہ رہے گا مگر وہ جس کو اللہ چاہے یعنی جس کو اللہ تعالیٰ چاہے اس کو نکال لے گا.پس اس سے صاف ظاہر ہے (کہ) دوزخ میں خلود دانگی نہیں اور حدیث میں آتا ہے کہ ایک وقت دوزخ پر ایسا آئے گا کہ نسیم صبا اس کے دروازے ہلائے گی یعنی دوزخ میں کوئی نہ ہوگا.فرمایا عیسائیوں نے اس بات کو نہیں سمجھا یہ اسلام ہی میں خوبی ہے.مگر اس سے یہ ثابت نہیں ( کہ ) دوزخی کبھی ان مدارج کو پہنچ جائیں گے جو بہشتیوں کے ہیں.ہاں یہ ہے کہ ان کو وہ تکلیف نہ رہے گی.۱۳ / فروری ۱۹۰۲ء آج صبح پانچ بجے آنکھ کھلی.کسل نے اٹھنے نہ دیا.آخر چھ بجے آنکھ کھلی.افسوس دار الامان میں بھی کہ کے ہاتھوں یہ حالت ہے.خدا اپنے فضل و کرم سے مجھ میں چستی پیدا کرے.سیر وغیر ہ معمولی امور.نماز مغرب ( کے وقت ) ایک بد قسمت آ گیا.تصاویر اور حرمت مسجد پر بحث کرنے لگا.اس سے حضرت اقدس نے فرمایا کہ تصویر ایک محض لغو طور سے رکھی ہے تو حرام ہے کیونکہ خدا وند تعالیٰ فرماتا ہے هُمْ عَنِ اللَّـعُـو مُعْرِضُونَ اور اگر کسی شرعی اور علمی غرض سے بنوائی یا رکھی گئی ہے تو حرام نہیں.اور مسجد کی جو حرمت حضرت رسول کریم کے زمانہ میں تھی اس سے اس وقت زیادہ تکلف موجود ہے.بقیہ حاشیہ : - ہونے کا ذکر ہے نہ کہ جو حضور نے تحریر فرمایا کہ ”ہماری جماعت کے لئے ایک خاص رعایت ہوئی مگر معلوم رہے کہ کسی حد تک بعض کا بطور شہادت فوت ہونا ممکن.مگر تشویش کامل.تباہی خانگی سے محفوظ رہے گی کم ابتلاء ہو گا.یہ مفہوم صرف لا أبقى لك فى المخزيات ذكرًا سے نکلتا ہے یعنی بعض احمدی طاعون سے بطور شہادت فوت ہوں اور مخالف ایسی وفاتوں کو مخزیات کے رنگ میں بیان کریں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان مخزیات کا نام ونشان باقی نہ رکھے.نیز احمدیوں کی طاعون سے وفات تشویش کامل اور خانگی تباہی کے رنگ میں نہ ہو.خلاصہ کلام یہ کہ شواہد کی رو سے لا ابقى لك في المخزيات ذكرًا کا الہام تصنیف کشتی نوح (۱۰ ستمبر ۱۹۰۲ء) سے قبل ہوا تھا اور اس کی تاریخ نزول ۱۰ / دسمبر ۱۹۰۱ ء اور ۳۰ را پریل ۱۹۰۲ء کے درمیانی عرصہ میں قرار پاتی ہے جس سے نواب صاحب کی ڈائری میں مندرجہ تاریخ ۸ فروری ۱۹۰۲ء کی تصدیق ہوتی ہے.اور اس الہام کی تاریخ نزول کی تعیین صرف اور صرف اس ڈائری سے ہوتی ہے.(کم ابتلاء ہوگا“ کے الفاظ مکتوبات حضرت مسیح موعود بنام مولوی عبداللہ صاحب سنوری ، مطبوعہ ۲۰ دسمبر ۱۹۲۱ء میں موجود نہیں.مؤلف )
571 ۱۴ فروری ۱۹۰۲ء آج کے جلسہ شام میں سول کار یو یو نیو لائف آف محمد کے متعلق پڑھا گیا.اس پر بہت لطیف تقریر حضرت نے فرمائی.نماز ۶ سے ے تک نماز جمعہ اسے ۲:۳۰ نماز عصر ۳ سے ۳:۳۰ ۱۵ فروری ۱۹۰۲ء مختلف گفتگو اور درود ۳:۳۰ سے ۶ نماز مغرب ۶:۴۰ سے ۶:۵۰ جلسه بعد مغرب ۵:۵۰ سے ۸ سیر میں رؤیا کے متعلق گفتگو میں حضرت نے فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کو خواب میں بری حالت میں دیکھنا اپنی حالت کی تصویر ہوتی ہے نہ کہ نبی کی حالت کی.آج نماز مغرب میں حضرت اقدس تشریف نہیں لائے اس لئے آج جلسہ بعد المغرب نہیں ہوا.آج مرزا خدا بخش صاحب سے معلوم ہوا کہ حضرت اقدس کو پرسوں مندرجہ ذیل الہام (ہوا) یہ پرسوں صبح حضرت نے بعد نما ز سنایا تھا.فتح ابواب السماء تیاری نماز صبح و نماز صبح ۵ سے ۷ تک ڈائری ۷:۰۵ سے ۷:۲۰ تک بچوں کو پڑھا ۷:۲۰ سے ۸:۰۵ تک نماز ظہر و عصر ۱:۳۰ سے ۲:۳۰ نماز عشاء ۷:۴۰ تک تیاری سیر ۸:۰۵ سے ۹:۳۰ تک سیر ۹:۳۰ سے ۱۱ تک فتح کی بجائے فتحت ہونا چاہئے.ایک تو نواب صاحب نے دوسرے شخص سے اور پھر دو روز بعد سن کر اسے لکھا ہے.یہ الہام غیر مطبوعہ ہے.آخر 9 نومبر ۱۹۰۰ء میں الہام تفتح ابواب السماء ہوا تھا اربعین نمبر ۳ صفحه ۳۴ پر مرقوم ہے.الہام مندرجہ ڈائری کے متعلق یہ یقینی با ور نہیں کیا جاسکتا کہ حضور نے بیان فرمایا ہو کہ یہ الہام اس روز ہوا ہے ممکن ہے سابقہ الہام حضور نے اس روز بیان فرمایا ہواور مرزا صاحب نے یہ سمجھ لیا ہو کہ تازہ الہام ہے.جب تک اور کوئی قرینہ نہ ہو یقین کی راہ میں لفظی غلطی بھی روک ہے.
572 ۱۶ / فروری ۱۹۰۲ء میرے گھر (سے) رویا دیکھا کہ پانچ لڑکے ہیں ایک میاں محمود، دوسرا عبدالرحمن، تیسر اعبداللہ، چوتھا عبدالرحیم، پانچواں میاں بشیر یا میاں شریف ہیں.میاں محمود کے ہاتھ میں دو قرآن ہیں اور باقی کے ہاتھوں میں سوائے عبدالرحیم کے ایک ایک قرآن ہے.عبدالرحیم کی بابت کہا گیا کہ اس کے ہاتھ میں رہل ہے.اس کا قرآن بنوایا جائے گا.آج حضرت اقدس کی طبیعت ناساز تھی اس لئے نماز مغرب وعشاء میں شریک نہیں ہوئے.تیاری سیر ۸:۵۵ سے ۹:۳۰ تک کھانا تیاری نماز ظہر وعصر ۱۲:۳۰ سے ۲:۱۵ تک تیاری نماز مغرب ۶:۰۵ سے ۶:۳۵ تک کھانا ونماز عشاء۶:۴۰ سے ۸:۱۵ تک ۱۷ فروری ۱۹۰۲ء آج صبح کی نماز میں دوسری رکعت میں شامل ہوا.انتظار حضرت ۹:۳۰ سے ۱۰:۴۰ تک آج عبدالرحیم طالب علم شاگرد مولوی نورالدین صاحب کا انتقال ہو گیا.یہ شخص حیدر آباد دکن سے تحصیل علم کے لئے آیا تھا.حضور مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں داخل تھا.آخری وقت تک اپنے اعتقاد پر قائم رہا.کل حضور علیہ السلام کے چہرہ مبارک کو دیکھنے کی خواہش کی.حضرت تشریف لے گئے.آج صبح تین بجے انتقال ہو گیا.آخری وقت اللہ و رسول امام زمان پر ایمان کی شہادت دیتا ہوا را ہی عدم ہوا.بڑی قابل رشک موت تھی.خداوند تعالیٰ ایسی موت سب مومنوں کو نصیب کرے.جب ان کا وقت آئے.** یہ رویا واضح ہے.اس میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا ممتاز مقام بھی ظاہر کیا گیا ہے.نیز جہاں باقیوں کے لئے بشارت ہے وہاں ایک کے متعلق صرف اہل کا ذکر ہے گویا کہ ان کے اختیار میں ہے اپنے لئے قرآن مجید بنوا ئیں یا نہ بنوائیں.الحکم بابت ۰۲-۲-۲۱ ( صفحہ ۱۶) پر زیر عنوان دار الامان کا ہفتہ مولوی عبدالرحیم صاحب کے متعلق یہ تفصیل درج ہے.
573 نماز صبح ۶:۳۰ سے ۷:۰۵ تک بچوں کو پڑھانا ۷:۳۰ سے ۸:۴۵ تک تیاری سیر ۸:۴۵ سے ۹:۳۰ تک سیر و جنازه ۹:۳۰ سے ۱۱:۳۰ تک نماز ظہر وعصر ۱:۴۵ سے ۲:۲۰ تک تجویز چندہ مساجد ۵ سے ۶ تک نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸:۳۰ تک ۱۸؍فروری ۱۹۰۲ء آج اسراف الماء فى الوضوء والغسل میں مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب نے مجھ کو تنبیہ کیا.جزاهما الله احسن الجزاء.قرآن شریف وڈائری ۶:۴۰ سے ۷:۱۵ تک تیاری سیر و غیره ۸:۳۰ سے ۹:۱۵ تک سیر ۹:۱۵ سے ۱۰:۲۰ تک تیار نماز ظہر و عصرا سے ۲:۱۰ تک نماز مغرب وجلسہ وعشاء ۶:۴۰ سے ۸:۱۵ تک ۱۹ / فروری ۱۹۰۲ء آج اپنی جانب سے میں ( نے ) کو تا ہی اٹھنے کے بعد نہیں کی مگر آج بھی شریک جماعت نہ ہو سکا.آج جماعت سویرے ہو گئی یا وقت میں دھو کہ لگا.پانی نسبتا حتی المقدور میں نے کم خرچ کیا.آج سیر کو بوجہ نا سازی طبیعت ( حضرت اقدس ) تشریف نہیں لے گئے اس لئے میں نے مدرسہ ( کا ) معائنہ کیا.آج اسمعیل جلد بند کوٹلہ سے آیا.یہ اپنی مرضی سے تحقیقات کے لئے آیا ہے.آج حضرت اقدس مغرب وعشاء کی نماز میں تشریف نہیں ( لائے ).یہ احمدی ہو گئے تھے.فوت ہو چکے ہیں ان کے بیٹے میاں عبداللہ صاحب جلد ساز کا ذکر نواب صاحب کی ایک روایت میں آتا ہے.یہ پاکستان جاچکے ہیں.
574 تیاری سیر ۸:۴۵ سے ۹:۳۰ تک معائنه مدرسه تجویز تعمیر ۹:۳۰ سے ۱۰:۴۰ تک پڑتال نقشہ جات وغیرہ ۱۰:۴۰ سے ۱۱:۳۰ تک نماز ظهر و عصر ۱:۴۵ سے ۳:۴۵ تک نماز مغرب ۶:۳۰ سے ۶:۱۵ تک نماز عشاء ۷:۴۵ سے ۸:۳۰ تک ۲۰ فروری ۱۹۰۲ء صبح جماعت نماز میں شریک ہوا.الحمد اللہ علی ذالک.نماز ۵:۴۵ سے ۶:۳۰ تک بچوں کو پڑھانا ۷:۱۵ سے ۸:۴۰ تک تیاری سیر ۸:۴۰ سے ۹:۱۵ تک سیر ۹:۱۵ سے ۱۰:۳۰ تک نقشہ مدرسہ بنانا ۱۰:۳۰ سے ۱۲ تک نماز ظہر و عصر ۱:۳۰ سے ۱:۵۵ تک نماز و جلسہ و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک ۲۱ فروری ۱۹۰۲ء آج بوجہ کسی قدر گرمی کے بالائے مسجد نماز پڑھی گئی.نماز جمعه ۱:۳۰ سے ۲:۳۰ تک مختلف کام متعلق مدرسہ ۲:۳۰ سے ۳:۳۰ تک بجٹ مدرسہ ۳:۴۵ سے ۶ تک تیاری نماز مغرب و جلسہ و نماز عشاء ۶ سے ۸ تک
575 ۲۲ فروری ۱۹۰۲ء اس ہفتہ روحانی ترقی بظاہر محسوس نہیں ہوئی.کسل طاری رہا.تیاری سیر ۸:۳۰ سے ۹ تک سیر ۹ سے ۱۰ تک بجٹ مدرسہ و تجویز مختلفه ۱۰ سے ۱۲ تک نماز ظہر وعصر ا سے ۱:۳۰ تک بجٹ و کاغذات مختلفہ وڈاک ۱:۳۰ سے ۶ تک نماز مغرب و جلسہ وعشا ۶:۳۰ سے ۸ تک ۲۳ فروری ۱۹۰۲ء آج بھی افسوس میں شریک جماعت نہ ہوسکا.میری بڑی بدقسمتی ہے کہ دارالامان میں بھی میری شامت اعمال کی وجہ اعمال صالح کی توفیق حاصل نہیں ہوتی.تیاری سیر ۸:۳۰ سے ۹ تک سیر ۹ سے ۱۰:۴۰ تک مذہبی گفتگو تبلیغ عبد الرحمن فرید آبادی ۱۰:۴۰ سے ۱۲ تک نماز ظہر و عصر ۱:۳۰ سے ۲ تک عمارت کے متعلق کام ۱:۳۰ سے ۵ تک خطوط بنام ممبران کمیٹی و حضرت اقدس و غیر ۵۰ سے ۶ تک تیاری نماز و جلسہ و نماز عشاء ۶ سے ۸ تک ۲۴ فروری ۱۹۰۲ء الحمد اللہ کہ آج میں نے...رکعت تہجد پڑھیں اور جماعت صبح میں شریک ہوا.نماز صبح ۵:۴۰ سے ۶ تک قرآن و ڈائری وغیر ہ ۶ سے ۶:۴۵ تک
بچوں کو پڑھانا ۶:۴۵ سے ۹ تک تیاری سیر ۹ ނ ۹:۳۰ تک 576 سیر ۹:۳۰ سے ۱۰:۴۰ تک عبدالرحمن کو تبلیغ وغیرہ ۱۰:۴۰ سے ۱۲ تک تیاری نماز ظہر وعصر نماز میں اسے۲ تک تشحیذ الاذہان و بجٹ وغیرہ کے متعلق غور سے ۶ تک نماز مغرب و جلسه و عشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک ۲۵ فروری ۱۹۰۲ء تیاری سیر ۸:۳۰ سے ۹ تک سیر ۹ سے ۱۰:۳۰ تک نماز ظہر وعصر ا سے ۲ تک تیاری نماز و نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶ سے ۷:۳۰ تک ۲۶ فروری ۱۹۰۲ء آج مجلس تشخحید الا ذہان نے اپنے آپ کو مدرسہ کے سپر د کرنا قبول کیا.درستی جراب ۶:۴۵ سے ۸ تک تیاری سیر و غیر ۸۰ سے ۹ تک سیر ۹ سے ۱۰:۳۰ تک زینب کو پڑھایا ۱۰:۳۰ سے ۱۱:۳۰ تک نماز و انتظارا سے ۲ تک حمد نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک ۲۷ فروری ۱۹۰۲ء آج میں شریک جماعت نماز صبح ہوا.نماز عصر کا الگ ذکر نہیں سابقہ ایام کی طرح ظہر وعصر جمع ہوئی ہوں گی.
577 نماز و انتظار ۵:۴۵ سے ۶:۲۰ تک قرآن شریف وڈائری ۶:۲۰ سے ۶:۵۵ تک بچوں کو پڑھانا ۶:۵۵ سے ۸:۳۰ تک تیاری سیر ۸:۳۰ سے ۹ تک سیر ۹ سے ۱۰:۳۰ تک نماز ظہر وعصر اسے۲ تک نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک ۲۸ فروری ۱۹۰۲ء نماز جمعه ۱:۳۰ سے ۲:۳۰ تک نماز عصر۴ سے ۴:۱۵ تک کام متعلق تشحید الاذہان ۴:۱۵ سے ۶ تک نماز مغرب و جلسہ و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۱۰ تک ار مارچ ۱۹۰۲ء قرآن شریف وڈائری ۶:۱۵ سے ۷ تک سیرے سے ۸:۳۰ تک سکیم.حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب سے گفتگو ۸:۳۰ سے ۲ تک جلسہ ونماز عشاءے سے ۸ تک ٢ / مارچ ۱۹۰۲ء آج لنگر کے متعلق حضرت کے حضور میں حاضر ہو کر مع مولوی عبد الکریم صاحب و مولوی محمد علی صاحب مرزا خدا بخش صاحب مشورہ ہوتا ہے.حضرت اقدس نے ایک اشتہار کا مسودہ دیا کہ اس میں مناسب ترمیم کے بعد شائع کیا جائے.یہ اشتہارالحکم بابت ۰۲-۳-۷ا میں شائع ہوا ہے.
578 نماز صبح ۵:۴۵ سے ۶ تک تیاری سیر ۶:۴۰ سے ۷ تک سیر سے ۸:۲۰ تک سکیم و مدرسہ وغیرہ ۸:۲۰ سے ۱۲ تک نماز ۱:۱۵ سے ۱:۳۰ مشورہ متعلق اخراجات وغیر ہنگر بحضور حضرت اقدس ۱:۳۰ سے ۲:۳۰ تک ڈاک دوسکیم وغیرہ ۲:۳۰ سے ۶ تک نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک ۳ مارچ ۱۹۰۲ء جماعت نماز صبح میں شریک ہوا.نماز صبح ۵:۳۰ سے ۶ تک ڈائری و تیاری سیر ۶ سے ے تک سیرے سے ۸:۳۰ تک نماز ۱:۳۰ سے ۲ تک نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک ر مارچ ۲۲۶۱۹۰۲ / ذی قعد آج کا دن ہر پہلو سے بیکار رہا آج جائے ضرور میں پانی کے ختم ہونے اور پھر نہ ملنے اور کچھ بہ سبب خرابی طبیعت خود دیر ( تک ) اجابت کے آتے رہنے کی وجہ سے مجھ کو ۵ سے پر 4 بجے تک وہاں بیٹھنا پڑا.وضو کے کرتے کراتے دن چڑھ آیا یعنی سورج نکل آیا آخر نماز پوری دھوپ نکلنے پر پڑی.پھر ظہر میں بھی ایک لغو کام میں لے بیٹھا اور جراب درست کرنے لگا.اس میں دیر ہوئی آخر ظہر کی نماز بھی گھر پڑھی اب چونکہ عادت جمع عصر کا الگ ذکر موجود نہیں.معلوم ہوتا ہے ایام سابقہ کی طرح ظہر وعصر جمع ہوئی ہوں گی لله عصر کا الگ ذکر موجود نہیں.سو ایام سابقہ کی طرح ظہر وعصر جمع ہوئی ہوں گی.
579 نمازوں کے پڑھنے کی اس وقت پڑی ہوئی تھی مگر گھر پر جو نماز پڑھی تو صرف ظہر کی.باہر گیا تو عادتا عصر کی نماز یاد نہ رہی اور ۲۳ کی صبح تک نہ آئی اس طرح عصر گئی کاروبار کی حالت یہ کہ بارہ بجے تک سینچری ڈکشنری* دیکھتا رہا اور شام کو ایک خط لکھا اور بس.خدا تعالیٰ میرے پر رحم کرے اور مجھ کو مقیم الصلوۃ اور چست بنادے.تیاری نماز وغیره ۵ سے ۶:۳۰ تک تیاری سیر.سیر و نماز ۶:۳۰ سے ۷ تک سیر و انتظار ۷ سے ۸:۳۰ تک نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک ۵/ مارچ ۱۹۰۲ء قرآن شریف وڈائری ۶:۱۵ سے ۶:۵۵ تک تیاری سیر ۶:۵۵ سے ۷ تک سیر ۷ ۸:۳۰ تک نماز ۱:۱۰ سے ۲ تک ☆☆ نماز مغرب و جلسه وعشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک ۶ / مارچ ۱۹۰۲ء ☆ سیر ۷ سے ۸:۳۰ تک نماز ۱:۳۰ سے ۲ تک ** نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک مرا د ۲۳ ذیقعد اگلا روز (مؤلف) نماز عصر کا الگ ذکر نہیں جمع ہوئی ہوں گی.* Century Dictionary (مؤلف) ** نماز عصر کا الگ ذکر نہیں.جمع ہوئی ہوں گی.
مارچ ۱۹۰۲ء 580 آج شیخ عبدالرحمن خادم اولاد کے ساتھ دعوئے حضرت اقدس کے متعلق گفتگو ہوتی رہی اس کی نہایت کٹھن طبیعت تھی اس میں کچھ آتا ہی نہ تھا اور جوسنتا تھا وہ یاد نہ رہتا تھا.آج میں نے اس ( سے ) گفتگو کی اور خداوند تعالیٰ سے دعا کی خداوند تعالیٰ نے نصرت فرمائی اور آخر شیخ عبدالرحمن کی تسلی ہو گئی اور آج اس نے بیعت کی درخواست کی مگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ کل کرنا.الحمد للہ علی ذالک.نماز ۶:۱۵ ۶:۳۰ تک درستی جراب ۶:۳۰ سے ۸ تک شیخ عبدالرحمن سے گفتگو ۸ سے ۱۱:۴۰ تک نماز جمعہ اسے ۲ تک ڈاک وغیرہ و گفتگو با شیخ عبدالرحمن ۲ سے ۳ تک نماز عصر ۳ سے ۳:۳۰ تک گفتگو با شیخ عبد الرحمن وعبداللہ عرب ۳:۳۰ سے ۶ تک نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک ۸/ مارچ ۱۹۰۲ء آج شیخ محی الدین عرب سے گفتگو درباره اعتقادات شیعہ ہوئی اور آخر شیخ محی الدین نے مان لیا کہ اصول دین مذہب شیعہ خلاف کتاب اللہ انسانی گھڑت ہیں یہ محض خداوند تعالیٰ کے فضل سے مجھ کو دلائل سو جھے اور اسی کی نصرت سے یہ کامیابی ہوئی آج عبد اللہ نے بھی اور عبدالرحیم نے اور شیخ عبدالرحمن نے بیعت کی آج جلسہ شام میں میاں چراغ الدین صاحب جموں کا دوسرا اشتہار پڑھا گیا نہایت لطیف اردو تھی اور مضامین نہایت عارفانہ اور دلگداز تھے یہ اپنے آپ کو نصرت حضرت اقدس پر مامور کہتے ہیں کہ حدیث میں دوفرشتوں یا دو آدمیوں کے کاندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے مسیح نازل ہوگا منجملہ ان کے ایک میں ہوں ہیں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا یہ خطبہ الحکم مورخہ ۰۲-۳-۱۷ میں ملاحظہ فرمائیں.اس کے مباہلہ اور ہلاکت کا ذکر حقیقۃ الوحی میں پڑھئے اور اشتہار نمبر سوم کو حضرت اقدس کے بُرا منانے کا ذکر الحکم بابت ۰۲-۴-۲۴ صفحہ ۳ میں ہے.
581 سیری ۸:۳۰ تک گفتگو با شیخ محی الدین ۸:۳۰ سے ۱۰ تک نماز ظہر وعصر ۱:۱۵ سے ۱:۴۰ تک شیخ یعقوب علی صاحب سے گفتگو و خطوط مولوی محمدحسین وثناء اللہ کو پڑھنا ۳:۳۰ سے ۶ تک نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک ۹ / مارچ ۱۹۰۲ء تهجد ۴:۴۵ سے ۵:۳۰ تک نماز صبح و غیره ۵:۳۰ سے ۵:۵۰ تک قرآن شریف ۵:۵۰ سے ۶:۱۰ تک تیاری سیر ۶:۴۵ سے ۷ تک ۱۲/ مارچ ۱۹۰۲ء آج حضرت اقدس نے حکم فرمایا کہ عید الضحیٰ تک خصوصیت سے تمام کو صبح اٹھنا چاہئے اور تہجد پڑھنی چاہئے.اور دعا اور استغفار کرنا چاہئے اگر کوئی مبشر خواب دیکھیں تو بیان کریں ہو ۱۴/ مارچ ۱۹۰۲ء نماز تہجد ۴:۴۵ سے ۵ تک نماز صبح ۵:۱۵ ۶:۳۰ تک قرآن شریف کھانا وغیرہ ۶ سے ۶:۳۰ تک نماز جمعه ۱:۳۰ ۲ تک * مکرم عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ محی الدین نہیں بلکہ عبدالمی نام ہے.حمد اس کا ذکر الحکم جلد ۶ نمبر ۱ ( صفحہ ۶ ) پر چہ ۰۲-۳-۷ا میں بھی ہے.حضرت اقدس کے ارشاد پر آج خاص طور پر جمعہ میں قادیان کے مسلمانوں کو جمع کر کے خطبہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے تبلیغ و انذار کیا.یہ خطبہ الحکم پر چہ۰۲-۳-۱۷ میں صفحہ ۱۲ تا۱۵ پر درج ہے.
582 نماز عصر و غیره ۴ سے ۵:۴۵ تک نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸:۲۰ تک ۱۵/ مارچ ۴۶۱۹۰۲ /ذوالجته ۱۳۱۹ھ الحمد اللہ کہ ذوالحجہ سے برابر صبح وقت تہجد اور نماز صبح با جماعت ہو جاتی ہے.نماز صبح ۵:۱۵ سے ۵:۴۵ تک قرآن شریف و خط بنام مولوی محمد علی صاحب ۵:۴۵ سے ۶:۱۰ تک تیاری سیر وسیر ۶:۴۰ سے ۸:۲۰ تک بچوں کو پڑھانا ۱۱:۲۰ سے ۱۲ تک نماز اسے ۱:۱۵ تک ☆ نماز مغرب و جلسہ و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک ۱۶/ مارچ ۱۹۰۲ء صبح تهجد و جماعت نماز صبح ملی.آج نبی آ گیا.نماز صبح ۵:۱۵ سے ۵:۵۰ تک تیاری سیر ۶:۲۰ سے ۶:۳۰ تک انتظار ۶:۳۰ سے ، ۷ تک سیر ۷ سے ۸:۳۰ تک بچوں کو پڑھانا ۱۱ سے ۱۲ تک نماز ۱ سے ۲ تک نماز مغرب و جلسہ و نماز عشا ۶:۳۰ سے ۸ تک ظہر و عصر ان دنوں جمع ہوتی تھیں اس لئے عصر کا علیحدہ ذکر موجود نہیں.یہ وہ نبی نواب صاحب کا ملازم ہے جس کے متعلق دوسری جگہ میں نے تفصیل درج کی ہے.
583 ۱۷/ مارچ ۱۹۰۲ء نماز تہجد گزاری اور نمازیں جماعت سے پڑھیں آج رات کو بارش ہوتی رہی.نماز صبح ۵:۳۰ سے ۵:۵۵ تک تیاری سیر ۶:۳۰ سے ۶:۴۵ تک انتظار ۶:۳۵ سے ۷ تک سیر ۷ سے ۸:۱۵ تک بچوں کو پڑھانا ۱۰ سے ۱۱ تک نماز ظہر وعصر ۱ سے ۲ تک نماز مغرب و جلسه و نماز عشا ۶:۳۰ سے ۷:۴۵ تک ۱۸/ مارچ ۱۹۰۲ء آج الحمد للہ کہ برخلاف روز کے آج پوری گیارہ رکعت تہجد میں پڑھیں.آج دو شخصوں نے خواب سنائے ایک شیخ عبدالرحمن (صاحب) قادیانی (حال درویش - مؤلف) نے اور اسمعیل (صاحب) پریس مین نے.آج بارش ہوئی.نماز صبح ۵:۳۰ سے ۶ تک تیاری سیر ۶:۳۰ سے ۷ تک سیر ۷ سے ۸ تک بچوں کو پڑھایا ۱۰:۴۵ سے ۱۱:۴۵ تک نماز ظہر وعصر ۱ سے ۲ تک نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک ۱۹/ مارچ ۱۹۰۲ء نماز تہجد ۴:۴۵ تا ۵:۰۵ نماز صبح ۵:۳۰ تا ۵:۵۵ ان کا مختصر ذکر اصحاب احمد جلد اصفحہ ۷۲ے کے حاشیہ پر ملاحظہ فرمائیں.
584 تیاری (سیر ) ۶:۱۵ سے ۶:۴۵ تک انتظار ۶:۴۵ سے ۷ تک سیر ۷ سے ۸:۳۰ تک بچوں کو پڑھانا وکھانا ۱۰ سے ۱۲ تک نماز ا سے ۲ تک نماز مغرب ۶:۳۰ سے ۸:۳۰ تک ۲۰ / مارچ ۱۹۰۲ء آج حضور مسیح موعود علیہ السلام سیر کو نہیں تشریف لے گئے اس لئے ہم لوگ بھی نہیں گئے.نماز صبح ۵:۳۰ سے ۶ تک قرآن شریف وڈائری ۶ سے ۶:۳۰ تک نماز ظہر وعصر ا سے ۲ تک نماز مغرب و جلسه ونماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸:۳۰ تک ۲۱ مارچ ۰٫۱۹۰۲ از والجمعه ۱۳۱۹ ۵ جمعه / آج عید الضحیٰ ہے باوجود یکہ طاعون کی وجہ سے طاعونی مقامات سے لوگوں کو آنے کی ممانعت حضرت اقدس نے کر دی تھی مگر پھر بھی بہت اچھا مجمع تھا.آج مندرجہ ذیل بکرے کئے.از جانب خود.دو.ظہر و عصر جمع ہوتی تھیں اس لئے عصر کا الگ ذکر نہیں اور نماز مغرب کے وقت کی مقدار ظاہر کرتی ہے کہ اس میں جلسہ و نماز عشاء شامل ہیں اس لئے عشاء کا الگ ذکر نہیں.ممانعت کا اعلان حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی طرف سے الحکم مورخہ ۰۲-۳-۱۷ (صفحہ ۱۶) پر شائع ہوا.عید قریباً 9 بجے مسجد اقصیٰ میں قریباً پانصد کی حاضری میں مولوی سید محمد احسن صاحب نے اور جمعہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھایا.۴۱۲
585 از جانب اہلیہ خود (امتہ الحمید ) یک.نماز تہجد ۴:۵۰ سے ۵ تک نماز صبح ۵:۳۰ سے ۶ تک قرآن شریف ۶ سے ۶:۱۵ تک نماز عید ۹ سے ۱۰ تک ملنا ملانا ۱۰ سے ۱۱:۴۵ تک قربانی ۱۱:۳۰ سے ۱۱:۴۵ تک نماز جمعہ اسے ۲:۳۰ تک نماز عصر ۳:۳۰ سے ۴ تک کھانا وجلسہ وغیرہ حسب معمول وسونا ۶ (شام) ۳:۴۵ (بجے اگلی صبح) ۲۲ / مارچ ۱۹۰۲ء آج سے نماز جمع ہونا موقوف ہوا.آج سے میں (نے) دینیات کا دوسرا نمبر بنانا شروع کیا.آج حضرت اقدس نے ایک لطیف تقریر فرمائی شام کے جلسہ میں کی.آج تین بکرے بہ تفصیل ذیل ذبح کئے.از جانب زینب.ایک از جانب عبدالرحمن.ایک از جانب عبداللہ.ایک نماز تہجد ۴:۵۵ سے ۵:۰۵ تک نماز صبح و غیره ۵:۱۵ سے ۵:۵۵ تک تیاری سیر ۶:۴۵ سے ۷ تک الحکم بابت ۰۲-۳-۲۴ میں مرقوم ہے.حضرت اقدس مصر کے عربی رسالے اور عصمت انبیاء والے مضمون کو ختم کر چکے ہیں اس لئے اب ظہر اور عصر کی نمازیں جمع نہیں کی جاتیں.“ (صفحہ 1) اس موقوفی کی معین تاریخ صرف اس ڈائری سے معلوم ہوتی ہے.
586 سیر وغیرہ ۷ سے ۸:۳۰ تک نماز ظهر ۱ تا ۱:۱۵ تک نماز عصر ۳ سے ۳:۳۰ تک نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۱۵ سے ۹ تک ۲۳ / مارچ ۱۹۰۲ء آج چار بکرے بہ تشریح ذیل ذبیح کئے از جانب عبدالرحیم.ایک از جانب زوجہ مرحومہ خود.ایک از جانب امتہ الاسلام.ایک از جانب عبدالرب.ایک تیاری نماز ونماز صبح و قرآن شریف ۵ سے ۶:۳۰ تک تیاری سیر وغیرہ ۶:۳۰ سے ۷ تک سیر ۷ سے ۸:۳۰ تک بچوں کو پڑھانا ۱۱ سے ۱۱:۳۰ تک اا نماز ظہر ا سے ۱:۳۰ تک تیاری نماز عصر و نماز عصر ۳:۳۰ سے ۴ تک نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸:۳۰ تک قرآن شریف وڈائری ۵:۳۰ سے ۵:۳۰ تک ۲۴ / مارچ ۱۹۰۲ء نماز تہجد ۴:۳۰ سے ۵ تک نماز صبح ۵ سے ۵:۳۰ تک اس مجلس میں اور اگلے روز سیر میں حضور نے کتاب وسنت اور حدیث کے متعلق بیان کیا جو الحکم پر چہ ۲۴-۳-۰۲ (صفحہ ۲) پر اور اس شب کی ایک اور تقریر پر چہ ۰۲-۳-۳۱ (صفحہ ۳ تا۶) پر ملاحظہ فرمائیں.
587 قرآن شریف و ڈائر ۵:۳۰ سے ۶ تک ۲۸ / مارچ ۱۹۰۲ء نماز صبح و مغرب....دونوں جماعتیں ذرا جلد ہو گئیں کل سے عبدالرحمن کو باضابطہ پڑھانا شروع کیا.آج سے اس کو ابتدائے قاعدہ سے پڑھانا شروع کیا.آج جمعہ کے سبب اس کو نہیں پڑھایا.نماز تہجد ۴:۳۰ سے ۵ تک نماز صبح ۵:۱۵ سے ۵:۴۵ تک قرآن شریف وغیره ۵:۴۵ سے ۶:۱۵ تک نماز جمعہ و ڈاک اسے ۲ تک کمیٹی ۲ سے ۳ تک نماز عصر ۳ سے ۳:۳۰ تک خواجہ کمال الدین و مولوی محمد احسن صاحب سے ملا.و معائنہ مٹی کا کام متعلق سڑک مدرسہ ۳:۳۰ سے ۵:۳۰ تک نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸:۳۰ تک ۲۹/ مارچ ۱۹۰۲ء* آج بدمزگی سے تجد پڑھی گئی کیونکہ آنکھوں میں دھوئیں کے سبب سے سخت تکلیف تھی.آج حضور کو الہام هواياتي على جهنم زمان ليس فيها أحدٌ - آج میں شریک جماعت ( فجر ) ہوا.آج کا بہت بڑا حصہ خواجہ کمال الدین صاحب وکیل کے ساتھ مدرسہ وغیرہ کے متعلق گفتگو کرنے میں گزرا.* بطور نمونہ آج کی ساری ڈائری نقل کی گئی ہے.اس الہام کی تاریخ نزول صرف اس ڈائری سے معین ہوتی ہے.الحکم بابت ۰۲-۳-۳۱ (صفحہ ۱۵) کے حوالہ میں اس ہفتہ کے الہامات وغیرہ میں اس کا اندراج ہے لیکن معین تاریخ مرقوم نہیں اس کے حوالہ سے تذکرہ میں اس الہام کی تاریخ ۳۱ مارچ سے قبل رقم کی گئی ہے.جیسا کہ ڈائری سے معلوم ہوتا ہے صبح کی نماز کے وقت حضرت اقدس نے یہ الہام سنایا کیونکہ الہام کے اندراج کے بعد صحیح کا ذکر کرتے ہیں.نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صبح کی نماز کے ایک گھنٹہ کے اندر نواب صاحب نے اس روز ڈائری لکھی.
588 جاگا ۳:۳۰ صبح تیاری نماز ۳:۳۰ سے ۴:۳۰ تک نماز تہجد ۴:۳۰ سے ۴:۴۵ تک تیاری نماز صبح ۴:۴۵ تا ۴:۵۵ تک نماز صبح ۴:۵۵ تا ۵:۲۰ تک قرآن شریف وڈائری ۵:۲۰ تا ۶ تک کھاناو نیاری سیر ۶ سے ۷ تک سیر ۷ سے ۸:۳۰ تک خواجہ کمال الدین کے ساتھ گفتگو متعلق مدرسہ ۸:۳۰ سے ۱۱ تک کھانا و آرام ۱۱ سے ۱۲ تک تیاری نماز وغیرہ ۱۲ سے اتک نماز ظہر ا سے ۱:۱۵ تک خواجہ صاحب سے گفتگو ڈاک و کاغذات کا دیکھنا اور اس پر حکم لکھنا ۱:۱۵ سے ۳ تک نماز عصر ۳ سے ۳:۱۵ تک کاغذات پر حکم لکھنا ۱:۱۵ ۵:۳۰ تک کھاناو تیاری نماز ۵:۳۰ سے ۶:۳۰ تک نماز مغرب و جلسہ و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک تیاری خواب ۸ سے ۹:۳۰ تک سونا ۹:۳۰ سے ۳:۱۵ تک ۳۰ / مارچ ۱۹۰۲ء نماز تہجد ۴:۱۵ سے ۴:۴۵ تک تیاری نماز و نماز صبح ۴:۴۵ سے ۵:۵۰ تک قرآن شریف وڈائری وغیرہ ۵:۱۰ سے ۶:۳۰ تک تیاری سیر ۶:۳۰ سے ۷ تک
589 میرے سے ۸ تک تجاویز متعلق مدرسه ۸ سے ۱۰ تک پڑھانا ۱۰:۳۰ سے ۱۱ تک نماز ظہر ۱۲:۴۵ سے ۱:۱۵ تک نماز عصر ۳ سے ۳:۳۰ تک نماز مغرب و جلسه و نماز عشاء ۶:۳۰ سے ۸ تک ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ء نماز صبح ۴:۵۵ سے ۵:۱۵ تک ۲ اپریل ۱۹۰۲ء آج مکا بردا یہ چلی گئی اور ہی کو لے گئی.غوثاں کو لے جاتی تھی مگر بمشکل رکی.۱۳ را پریل ۱۹۰۲ء آج بعد نماز صبح حضرت اقدس نے فرمایا کہ میرے غم معدہ میں درد تھا میں نے خیال کیا کہ اس درد سے آدمی مر بھی جاتا ہے اس لئے مجھ پر بڑی رقت طاری ہوئی کہ ہم (نے ) اصل کام یعنی کسر صلیب کا وہ تو کیا ہی نہیں اس لئے ظاہری درد کے ساتھ روحانی درد بھی شروع ہوا.پس سنتوں میں نہایت رفت تھی اور میں (نے) بڑے سوز گداز سے دعا کی جس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ یہ دعا قبول ہوگئی کیونکہ آثار قبولیت مجھ کو محسوس ہوتے تھے.خیر نماز کے لئے جو میں آنے لگا تو میری بیوی نے (بی بی صاحبہ ) کہا کہ ٹھہر جاؤ.مجھ کو اس وقت ایک رؤیا ہوا ہے اور یہ ہے کہ الہام کے طور سے ہے کہ عیسی کے دونوں بازو ٹوٹ گئے.دونوں بازوؤں سے سب کام ہوتے ہیں.دونوں بازو شل ہو گئے.اس سے میں نے سمجھا کہ ادھر میں ( نے ) دعا کی ادھر خداوند تعالیٰ نے اسی وقت ایک شخص کو ر و یا دکھائی.پس میں نے سمجھا کہ خداوند نے کسر صلیب کی راہ تیار کرنی شروع کر دی ہے پھر غالباً میاں جمال الدین سیکھواں والے یا ان کے بھائی نے یہ رویا سنائی کہ آج ہی صبح مجھ کو رویا ہوئی ہے کہ تمہارے نصیبین جانے میں تین دن رہ گئے ہیں اس ( سے ) حضرت اقدس نے نکالا (کہ) غوشاں کا ذکر مکتوب نمبر ۳۹ میں اور یکم نومبر ۱۹۰۲ء کی ڈائری میں بھی ہے.
590 تین دن سے مراد ا کثر تین سال ہوتے ہیں کیونکہ ایک دن رؤیا میں ایک سال گنا جاتا ہے جیسا بدر کے متعلق.یعنی تین سال میں کسر صلیب ہوگی.۴ راپریل ۱۹۰۲ء نماز صبح ۴:۴۰ سے ۴:۵۵ تک ۱۹مئی ۱۹۰۲ء ۱۹ رمئی ۱۸۹۳ء کو بروز جمعہ زینب پیدا ہوئی تھی بحساب کشی آج زینب کی عمر 9 سال کی ہوئی.۱/۱۷ اکتوبر ۱۹۰۲ء کے دربار شام کے تحت الحکم میں مرقوم ہے.طاعون کا ذکر شروع ہونے پر نواب صاحب سے مالیر کوٹلہ کا حال دریافت فرماتے رہے اور پھر فرمایا کہ پنجاب جو پکڑا ہوا ہے اس ستر کو بھی تو معلوم کرنا چاہئے.بعض مشابہ بالطاعون گلٹیاں ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ بخار بھی آتا ہے مگر دراصل وہ طاعون نہیں ہوتی ہے.طاعون تو لکھا ہے الطاعون الموث جس کے آثار خطرناک ہوتے ہیں اور اس کے نمودار ہوتے ہی رنگ سیاہ ہو جاتا ہے اور سرسام ہو کر پھر چند ہی گھنٹوں میں خاتمہ ہو جاتا ہے." ’اصل بات تو یہی ہے کہ اب بجز خدا کے سہارا نہیں ہے.اس کے فضل سے سب کچھ ہو جاتا ہے.کل صبح پھر میری زبان پر جاری ہوا انسی أحافظ كُلّ من في الدار مگر اس کے ساتھ ایک انذار بھی لگا ہوا ہے الا الذين علوا باستكبار - یہ انذار برابر چلا ہی جاتا ہے.علو کی دو قسمیں.اللہ تعالیٰ کے کلام میں یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک انذار ہوتا ہے اور اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ متنبہ رہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے سورہ ہود نے بوڑھا کر دیا اور اسی طرح پر یہ انذار بھی کم نہیں ہے الا الـذيـن عـلوا باستکبار یا درکھو کہ علو دو قسم کا ہوتا ہے ایک تو وہ علو ہے جو شیطانی علوابی و استکبر میں آیا ہے اور شیطان کے حق میں علو بھی آیا ہے جیسے فرما یا أم كُنت من العالين یعنی تیرا یہ استعلا تکبر کے رنگ میں ہے یا واقعی تو اعلیٰ ہے ورنہ حقیقی علو تو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کے لئے ہے جواما بنعمة ربك فحدث T کے موافق اس کو ظاہر کر سکتے ہیں.جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فر مایا لا تخف انک انت الاعلیٰ.یہ علو جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کو دیا جاتا ہے وہ انکسار کے رنگ Ma
591 ۱۹ اکتوبر ۱۹۰۲ء آج کی تاریخ عبدالرحمن یعنی ۱۹ اکتو بر ۱۸۹۴ء کو بروز جمعہ...پیدا ہوا تھا.عمروں کا تفاوت حسب ذیل ہے.زینب سے عبدالرحمن ایک سال پانچ ماہ چھوٹا ہے اور عبد الرحمن سے عبداللہ ایک سال دو ماہ چودہ یوم چھوٹا ہے اور عبدالرحیم عبد اللہ سے ایک سال چودہ یوم چھوٹا ہے.ار نومبر ۱۹۰۲ء ڈائری گرمیوں کے آتے ہی لکھنی موقوف ہوئی کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ ڈائری لکھنے کا وقت نہ ملا.وجہ یہ ہوئی کہ سیر صبح سویرے ہونے لگی اس لئے نہ ورزش کے لئے وقت ملتا تھا اور نہ ڈائری کے لئے.اس لئے یہ دونوں باتیں رہ گئیں.اور دوسرے وقتوں میں بھی موقعہ نہ ملتا تھا یہ گرمیاں صحت کے لحاظ سے مجھ کو اچھی نہیں گزاریں مگر روحانی فوائد بہت سے ہوئے.اب میں مختصر کچھ حال موٹے طور سے اپنا لکھتا ہوں اور چند موٹے واقعات جو یاد ہیں لکھتا ہوں اور پھر میں قریباً اپنی ایک سال کی رہائش قادیان کے متعلق کچھ لکھوں گا.میں قرآن شریف برابر سوائے چند ایام کے ایک دور کوع پڑھتا رہا.۲- نمازیں سوائے معدودے چند کے اکثر قضاء نہیں ہوئیں اور قریباً اساڑھ کے وسط تک تہجد بھی پڑھتا رہا.اکثر نمازیں باجماعت پڑھتا رہا.چند روز بیمار ہونے کی وجہ سے شریک جماعت نہیں ہوا.سیر سوائے حضرت اقدس کی بیماری یا قریباً ایک ماہ کتاب کشتی نوح کے بنانے کے وقت کے ہمیشہ -٣ بقیہ حاشیہ: میں ہوتا ہے اور شیطان کا علو استکبار سے ملا ہوا تھا.دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مکہ کو فتح کیا تو آپ نے اسی طرح اپنا سر جھکایا اور سجدہ کیا جس طرح پر ان مصائب اور مشکلات کے دنوں میں جھکاتے اور سجدے کرتے تھے.جب اسی مکہ میں آپ کی ہر طرح سے مخالفت کی جاتی اور دکھ دیا جاتا تھا.جب آپ نے دیکھا کہ میں کس حالت میں یہاں سے گیا تھا اور کس حالت میں اب آیا ہوں تو آپ کا دل خدا کے شکر سے بھر گیا اور آپ نے سجدہ کیا.۴۱۷
ہوتی رہی.592 ۴- تمام گرمی مجھ کوسر میں چکر.عضلات میں درد اور کسل رہا ہے...-۵- حضور علیہ السلام سخت بیمار ہو گئے پہلے مرض درد گردہ تصور کی گئی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ریاحی یا عصبی در د تھا جس کو گردہ سے کوئی تعلق نہ تھا.اس مرض کے ایام ( میں ) ہم لوگ برابر دعاؤں ( میں ) مشغول رہے اور جب موقعہ ملتا تھا میں عیادت کے لئے جاتا رہا مگر میرے گھر سے چند وجوہات سے نہ گئے.اول وجہ ی تھی کہ میں نے ان کو ( پردہ کی ) تاکید کی ہوئی تھی میرے گھر سے بندش کے عادی تھے.( دوم ) میرے گھر سے کوتحریری بیعت کر چکے ہیں مگر میری بد اعمالی کی وجہ سے میرا اثر ان پر پورا نہیں پڑ سکا اس لئے..ایک حد تک کیا بلکہ جہاں تک مجھ کو خیال ہے وہ معتقد نہیں تھے اور نہ اب تک ہیں.ان کے خیالات نہایت سطحی ہیں.میں نے کئی دفعہ سمجھانا چاہا مگر ان کی عقل میں کچھ نہ آیا.کچھ بے تعلقی کی وجہ سے وہ نہ گئے.( سوم ) چونکہ وہ پہلے سے کسی جگہ جانے کے عادی نہ تھے اور عورتوں میں جاتے شرم ان کو آتی تھی ایک یہ وجہ رکاوٹ ( کی ہوئی..گو میں نے ایک روز اجازت بھی جانے کی دے دی مگر پھر شرم دامن گیر ہوئی.(چہارم) میری ان کی یعنی میرے گھر سے کچھ ناراضگی تھی اس لئے میں بھی اصرار نہ کر سکا.بہر حال ایسے وجوہات پیش آئے کہ وہ عیادت کے لئے نہ جاسکیں اور اس سے حضور علیہ السلام کو رنج ہوا.حضور مجھ پر بھی ناراض ہوئے.تین ماہ تک عہد کر لیا کہ دروازہ جس سے ) حضور علیہ السلام کی طرف عورتیں جاتی آتی تھیں بند کرا دیا اور اس کو قفل لگوا دیا.آخر میں نے جا کر معذرت کی اور حضور علیہ السلام نے معاف فرما دیا مگر دروازہ تین ماہ تک بند رہا.تین ماہ کے بعد دروازہ کھلا پھر میری بیوی نے ایک خط عذر تقصیر کا بھیجا اور حضور علیہ السلام نے ان کو بھی معاف فرما دیا.....۶- مرضعہ اہلیہ من بچند دفعه آمده بود که صبیه میانه خود را بکوئله به بر دیگر من از بین جهت دخترش را نه فرستادم که.....دخترش کم سن است و بالغ نیست و این بالغ است اگر به خانه شوهر برود آنجا هم عصمتش تباه خواهد شد و اگر بخانه ما در خود ماند آنجا از و بدتر است چرا که مادرش نیکو کار نیست او را ہم تباہ خواہد کرد.مرا زیادہ تر بایں سبب بدخترش همدردی بود که او بیعت امام کرده بود و اینجا نماز تہجد ہم مے خواند و نماز پنجگانہ ہمیشہ بشوق اوا می کرد ترسیدم که اگر برده صحبت بد در و اثر کرد موجب خفت جماعت و شماست اعدا خواهد شد پس مادرش را فبائش کردم و بسیار بند کردم آخر او از برون او باز ماند ولیکن در اصل مادرش را هیچ محبت با اطفال خود نیست بلکه آن زن طماع است چون دید که ازیں ماندن دخترش اینجا اور امنفعت خواهد شد پس رو را بگذاشت.
593 دخترش خادمه من است و خواهر رضاعتی زن من است ۲ روپیہ مشاہرہ سے یا بد و دیگر منصعت انعام وغیرہ ہم است - مادرش را هم از و منفعت می رسد - حمید ۲/ دسمبر ۱۹۰۲ء ۴ را پریل سے ڈائری بوجہ گرمی اور عدیم الفرصتی آج تک لکھی نہ جاسکی.آج یکم رمضان سے پھر ڈائری لکھنی شروع کی ہے.وباللہ التوفیق.تہجد پڑھی.کھانے سے سوا پانچ بجے فراغت پائی اسی وقت اذان ہوگئی.نماز صبح با جماعت سے فارغ ہو کر قرآن شریف پڑھایا اور گھر میں کچھ ترجمہ قرآن سُنایا.میگزین کا حساب ٹھیک کرتا رہا.پھر نماز ظہر پڑھی.پھر میگزین کے کاغذات کی تکمیل کی اور عصر پڑھی.پھر مدرسہ کا تخمینہ ٹھیک کیا اور روزہ افطار کر کے مغرب کی نماز پڑھ کر کھانا کھایا اور مسجد گیا وہاں حضور علیہ السلام موجود تھے.کچھ عرصہ بعد نماز عشاء پڑھی.۳/دسمبر ۱۹۰۲ء نماز تہجد پڑھی.میگزین کے کاغذات کی تکمیل کرتا رہا پھر سُند ر آ گیا اس سے لکڑی کی بابت دریافت کرتا رہا.نماز ظہر پڑھنے گیا.بعد ظہر پھر مدرسہ کے مکانات کا تخمینہ کرتا رہا اور پھر عصر پڑھی پھر یہی کام.بعد افطار نماز مغرب کے لئے گیا بعد نماز مغرب کھانا کھایا اور پھر مسجد گیا وہاں کلمات طیبات حضور علیہ السلام سُنے.اسکے بعد عشاء پڑھی گئی.اس روز کی ڈائری کا ایک حصہ دین میں رغبت کے تعلق میں دوسری جگہ درج کیا جارہا ہے.حضور کے مسجد میں قبل عشاء تشریف فرما ہونے کا ذکر الحکم پر چہ ۰۲-۱۲-۱۰ ( صفحہ ا کالم ۱) میں ہے.نیز مرقوم ہے کہ ” بوجہ رمضان شریف حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا معمول ہے بعد ادائے نماز مغرب آپ تشریف لے جاتے ہیں اور قریب عشاء تشریف لاتے ہیں اور کچھ دیر اجلاس فرماتے ہیں.اسلئے ان تاریخوں کے دربار شام کی کیفیت بہت ہی کم قابل ذکر ہے.“
594 ۱۴ دسمبر ۱۹۰۲ء تہجد پڑھی تکمیل کا غذات میگزین کی...پھر بعد نماز ظہر ) مدرسہ کے تخمینہ وغیرہ کے متعلق غور کرتا رہا پھر نماز عصر کے بعد) تخمینہ مدرسہ کیا اور قریب مغرب اُٹھا.مدرسہ کے متعلق تخمینہ کرنے کے بعد میں ( نے ) خاں صاحب محمد نواب خاں کو سُندر مستری کو سو روپیہ دینے کے لئے کہا تا کہ وہ بہ تفصیل ذیل لکڑی لائے.برائے مدرسہ ۱۸ روپے ، شہتیری دیار ۲۰ روپے، شہتیری برائے پیر منظور محمد ۸ روپے (بعد مغرب ) کھانا کھا کر مسجد گیا.وہاں حضور علیہ السلام موجود نہ تھے.تھوڑے عرصہ بعد اذان ہوئی اور جماعت کھڑی ہوئی.بعد نماز عشاء گھر ( آیا ) اسوقت ساڑھے سات تھے.۵/ دسمبر ۱۹۰۲ء نماز تہجد پڑھی پونے چھ بجے اذان ہوئی.قرآن شریف پڑھا.میگزین کے فنانشل سیکرٹری کے عہدہ کا چارج مفتی محمد صادق صاحب کو دیا اور اس طرح کوئی گیارہ بجے فارغ ہوا.پھر مدرسہ کا کھاتہ بناتا رہا کوئی سوا بجے جمعہ کے لئے ) گیا * اور ( بعد ) نماز جمعہ عصر تک پھر کھاتہ مدرسہ بناتا رہا اور پھر عصر باجماعت پڑھی اور عصر کے بعد پانچ بجے تک کھانہ مدرسہ بناتا رہا.مغرب کے وقت روزہ افطار کر کے ) مسجد گیا.وہاں نماز مغرب پڑھ کر گھر آیا.کھانا کھایا اتنے میں عشاء کی اذان ہوئی.حضور علیہ السلام موجود تھے.مولوی محمد علی ایک خط ایک مدراسی کا سنا رہے تھے پھر مفتی محمد صادق صاحب نے سوال کچھ حصہ ایک پادری کے لیکچر کے متعلق سنایا.کوئی ساڑھے سات بجے تک جلسہ رہا پھر نماز عشاء پڑھی گئی.( نو بجے کے بعد ) عبد اللہ عرب اور عبدائمی عرب سے ملا.یہ صبح جانے والے تھے.۶/دسمبر ۱۹۰۲ء کھانہ مدرسہ بناتا رہا پھر ظہر پڑھی کھانہ مدرسہ بناتا رہا پھر عصر کی نماز پڑھی.مسجد میں نماز کے بعد حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا رمضان مبارک کا یہ پہلا خطبہ الحکم ۰۲-۱۲-۱۰ میں مرقوم ہے.اخبار سول ملٹری گزٹ عیسائیت کے متعلق مضمون کا خلاصہ اس تاریخ کو سُننے کا ذکر الحکم پرچہ ۱۰-۱۲-۰۲ ( ص ا کالم ۱) میں ہے.
595 مولوی عبد الکریم صاحب نے مجھے کو بلایا اور سید محمد رشید صاحب کے متعلق کہا کہ وہ قرضہ مانگتے ہیں 4 روپیہ ماہوار قسط دیں گے.کل ۲۰ روپیہ چاہتے ہیں.میں نے ان سے عرض کی کہ میرے پاس سوائے امانت میگزین کوئی گنجائش نہیں پس یہ امانت اس لئے جس وقت مانگی جائے دینا ضروری ہے.پس میر صاحب یہ لکھدیں کہ جب مجھ کو رقم کی ضرورت ہو وہ یکمشت ادا کر دیں.اگر ضرورت نہ پڑے تو پھر چھ روپیہ ماہوار دیتے رہیں اور اس کے بعد میں ( نے ) مولوی صاحب سے مدرسہ کے متعلق گفتگو کی کہ آپ امداد دیں.اور لوگوں کو تحریک (کر ) دیں اور دوسرے میری تجویز ہے کہ مدرسہ میں تخفیف کر کے اور اس طرح کچھ روپیہ بچا کر کالج بنایا جائے اور تخفیف اس طرح ہو سکتی ہے کہ میں بعض اپنے ملازموں کو اس میں داخل کر دوں اور بعض زائد مدرسوں اور ملازموں کو موقوف کیا جائے اس طرح ایک معقول تخفیف کی جائے پھر ( آپ ) اور مولوی محمد علی صاحب کچھ گھنٹے عنایت کریں تا کہ کالج کھول دیا جائے.اس کو مولوی محمد علی صاحب نے جو بلائے گئے تھے اور مولوی عبدالکریم صاحب نے پسند کیا.شیخ یعقوب علی صاحب (سے) باتیں کرتا رہا.روزہ افطار کرنے (کے ) بعد نماز مغرب پڑھی نماز عشاء پڑھ کر گھر آیا.( آج رات بوجہ علالت حضور مسجد میں تشریف نہ لا سکے.الحکم بابت ۰۲-۱۲-۱۰ صفحہ ۱۰ کالم۱) ۷ / دسمبر ۱۹۰۲ء کچھ ہدایات متعلق کھانہ (تحریر) کیں.مدرسہ کے کاغذات منظور کئے (بعد ظہر) پھر مدرسہ کے کا غذات کو منظور کیا ( بعد عصر ) تفخیذ الاذہان کا حساب دیکھا.(بعد نماز مغرب کھانا کھا کر ) اذان ہونے پر مسجد گیا.وہاں حضور علیہ السلام موجود تھے مولوی محمد علی صاحب ڈاکٹر ہال کے لیکچر کا خلاصہ سُنا رہے تھے.کچھ عرصہ کے بعد نماز عشاء پڑھی گئی.سید محمد رشید صاحب مرحوم حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب سیالکوٹی کے صاحبزادہ تھے.مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ( درویش) بیان فرماتے ہیں کہ سید محمد رشید صاحب منارۃ اسیخ کے ابتدائی کام کے انچارج رہے اینٹیں تیار کروائیں وہ ان ایام میں مع اہل وعیال آئے تھے اور انکے قیام کی خاطر بکڈپو کے اوپر کا چوبارہ اور اس کے جنوبی جانب کا کمرہ جو گلی کے اوپر ہے تیار کروایا گیا تھا چنانچہ وہ وہاں مقیم رہے.مکرم عرفانی صاحب کہتے ہیں کہ ان سکیموں میں وہ میرا مشورہ لازماً لیتے تھے اور میری نسبت ان کا حسن ظن تھا کہ میری رائے اقرب بالصواب ہوتی ہے.
596 آج حضور علیہ السلام نے ایک رؤیا دیکھا فرمایا کہ: ☆ دو تین بھینسے ہیں ان میں سے ایک کو میں نے مارا پھر دوسرا آیا اس کو بھی مارا.یہ نظارہ کو چہ کا ہے (جو چھوٹی مسجد سے بڑی مسجد کو جاتا ہے ) پھر تیسرا آیا جو زیادہ خوفناک ( اور ) ان میں بہت جسیم اور بڑا تھا.اس نے تمام گلی روک رکھی ہے مجھ کو اس ( سے ) بہت خوف معلوم ہوا مگر اس نے سر ہلایا تو میں اس کے برابر پھس پھسا کر نکل گیا گو میں نے پھر اس کو دیکھا نہیں مگر مجھ کو معلوم ہوتا تھا کہ وہ میرے پیچھے ہے اور مسجد کلاں میں گیا بڑا انبوہ پایا اور وہاں ایک جنازہ دیکھا اس وقت میری زبان ( پر ) یہ جاری ہوا رب كل شئی خادمک رب فاحفظنی وانصرنی وارحمنی خواب بروایت فضل الدین چپڑاسی او ردُعا بروایت چپڑاسی مذکورہ خانصاحب نواب خاں لکھی گئی ہو ۸/دسمبر ۱۹۰۲ء (سحری کھائی ) بعد نماز قرآن شریف پڑھا پھر زنیب ( اپنی بیٹی ) اور غوثاں (خادمہ) کو ۱۲ بجے تک پڑھایا.( بعد نماز ظہر ) مدرسہ کے کاغذات وغیرہ منظور کئے.( بعد عصر ) پھر قدرے نیچے ظہر کر مدرسہ کے کچھ کا غذات دیکھ کر اوپر آیا عشاء کی ) اذان ہونے پر مسجد میں گیا.وہاں اس وقت حضرت اقدس موجود ( تھے ) حضور علیہ السلام کے تشریف لانے کے بعد کچھ عرصہ دربار رہا پھر عشاء کی جماعت ہوئی اور میں آٹھ بجے گھر آیا آج ایک رؤیا حضور علیہ السلام نے عصر کے وقت سُنایا اور وہ یہ تھا: میں وضو کر نے لگا کہ میں گرا...اور میں ہوا میں تیر نے لگا اس وقت میں نے کہا کہ مجھ کو یہ فین آتا ہے اور میں نے مولوی محمد حسن کو کہا کہ مسیح تو پانی پر چلتا تھا اور میں ہوا پر تیرتا ہوں“.* نماز تہجد قرآن شریف و غیره ۵:۱۵ ۴:۴۵ // * عبارت خطوط وحدانی ڈائری کا حصہ ہے اس خواب کا ذکر البدر جلد نمبر۷ صفحه ۵۴ والحکم بابت ۰۲-۱۳- ۱۰ صفحہ، اپر مختلف الفاظ میں موجود ہے.یه خواب البدر بابت ۰۲-۱۲-۱۲ ( صفحہ ۵۵) پر مرقوم ہے.صرف اس ڈائری سے معلوم ہوا کہ حضور نے یہ خواب کس وقت سُنا یا تھا.
597 ۷:۱۵ // ۸:۳۰ 1.۹ ۱۲:۳۰ // 1.۴ ۳:۳۰ ۶:۳۰ پڑہانا یا آرام و تیاری سیر سیر پڑہانا مدرسہ کا کام نماز عصر دربار نماز عشاء ۹/ دسمبر ۱۹۰۲ء آج حضور علیہ السلام نے عصر کے وقت اپنا ایک الہام ارشاد فرمایا ) جو آج ہوا تھا اور وہ یہ ہے: سلام علیکم یا ابرهيم سلام علی امرک صرتَ فائزا * // تا ۸ 6-10 // ۱۲:۳۰ // // ۱۲:۳۰ 11 // ۸:۴۰ // ۴ قرآن شریف باہر جانا مدرسہ کا کام کرنا نماز ظهر پڑھانا نماز عصر تفخیذ کا حساب و آرام ۱۰ دسمبر ۱۹۰۲ء روحانی حالت آج بھی کمزور ہی محسوس ہوئی مرا در ویست در دل اگر گویم زباں سوز دو گردم کشم ترسم که مغز و استخواں سوز دایں ہم بالائے غم ہائے دگر.11 تا ۸:۳۰ ۲:۳۰ // 1 // پڑھانا نماز ظہر وغیرہ عصر وغیرہ البدر جلد نمبر نمبرے صفحہ ۵۵ ، الحکم بابت ۰۲-۱۲-۱۰ صفحہ ۱۸ میں مرقوم ہے.صرف اس ڈائری سے معلوم ہوا کہ کس وقت حضور نے یہ الہام بیان فرمایا.
598 تفخیذ الاذہان کا حساب وغیرہ تیاری نماز مغرب.افطار و نماز مغرب دکھانا.دربار و نماز عشاء ۱۱ دسمبر ۱۹۰۲ء ۷:۳۰ ہائے افسوس رمضان کی دسویں ہوگئی اور ابھی شو مئے اعمال دامنگیر ہیں اب تک میں نیک اعمال میں نہایت کمزور ہوں.خداوند تعالیٰ جیسے کیسے روزوں کو قبول فرمائے اور باقی دو تلفوں میں تو فیق عطا فرمائے کہ خاص تبدیلی مجھ میں پیدا ہو اور اس رمضان کے بعد میں اپنے میں زمین و آسمان کا فرق پاؤں.لا توفيقى الا بالله لاحول ولا قوة الا بالله العلى العظيم خدواند تعالیٰ مجھ کو غموں سے نجات (دے) اور سوائے غم دین اور کوئی غم باقی نہ رہے.حساب تفخیذ آج بھی ٹھیک نہیں ہوا.وساوس نے زیادہ گھیرا.خدا ہر طرح سے محفوظ رکھے.کام بڑھنے لگا ہے خداوند تعالیٰ اس کا انجام بخیر کرے.اگر کوئی مشیتِ ایز دی ایسی ہی ( ہے ) تو اس کو بلا کسی فتنہ فساد کے پورا کرے اور کوئی امر خلاف مرضات اللہ نہ ہو.کھانا کھایا قرآن شریف نماز صبح قرآن شریف پڑھایا نماز ظهر نماز عصر تشخیذ الا ذہان کے کاغذات دیکھے تیاری نماز مغرب ونماز مغرب وکھانا دربار.نماز عشاء ۵:۴۵ تا ۵:۳۰ // ۶:۱۵ // ۶ // ۶:۳۰ // ۶:۱۵ // ۶:۳۰ ۱۲ // ۷:۳۰ // ۱۲:۳۰ // ۳:۳۰ // // ۴:۳۰ // ۳:۳۰ // ۵-۵۰ // // ۸:۱۵ //
599 ۱۲؍ دسمبر ۱۹۰۲ء آج میں نے ارادہ کیا ہے کہ وساوس جو بڑھتے جاتے ہیں اُن کو دُور پھینکوں اور کوشش کروں کہ یہ ست رمضان نہایت خوبی سے گذرے.ما توفيقى الا بالله.لاحول ولا قوة الا بالله العلى العظيم خدا وند تعالیٰ توفیق دے اور ایسا کرے اس رمضان کے اختتام پر مجھ میں نئی تبدیلی آجائے.آج حضرت اقدس کے نام کسی کا خط آیا کہ حضور علیہ السلام کے نام جہلم سے وارنٹ جاری ہوا ہے یہ....سب نالش مولوی کرم دین بھیں کے سبب سے ہے مگر اللہ رے ایمان ! ذرہ بھر چہرہ پر خون نہ تھا.یہ وارنٹ حضرت اقدس.شیخ یعقوب علی.حکیم فضل الدین اور مولوی عبد اللہ کے نام ہے.۵:۴۵ تا ۵:۳۰ ۷:۱۵ // 2 " // ۹:۳۰ ۲:۳۰ // // // ۵:۵۵ ۵:۳۰ ۷:۳۰ // ۷:۵۱ 11 // ۸:۵۵ ۶:۳۰ ۴:۳۰ // ۷:۴۵ // ۷:۳۰ کھانا نماز صبح پڑھایا نماز جمعه نماز عصر دربار و نماز عشاء ۱۳ دسمبر ۱۹۰۲ء کھانا نماز صبح پڑھایا تیاری نماز عشاء ونماز ظہر نماز عصر نماز عشاء
۱۴؍ دسمبر ۱۹۰۲ء عشاء جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھی قرآن شریف پڑہایا 600 ۸:۴۰ تا ۷:۱۵ ۱۲ // ۸:۵۵ ۷:۳۰ // نماز عشاء ۱۵/ دسمبر ۱۹۰۲ء سردی اور کسل کی وجہ سے دیر سے اُٹھا خدا اس کسل کو دور کرے رہنا تقبل منا انک انت السميع- طبیعت اسی سردی سے ہے کہ صبح مسجد تک جانے سے گھبراتی ہے یا اللہ مجھ کو صحت عطا فرما اور مسجد میں جانے ( کی ) توفیق عطا فرما.کھانا قرآن شریف پڑھایا نماز ظہر نماز عصر نماز مغرب دکھانا وغیرہ * ۱۶ دسمبر ۱۹۰۲ء جاگا نماز صبح قرآن شریف ۵-۳۷ تا (صبح) // ۶ ۱۲ // 1:10 // ۴:۴۰ // ۴:۳۰ Λ // ۳:۳۰ // ۶:۵۱ ۸:۳۰ لفظ نہیں پڑہا گیا.(مؤلف) * اس روز کے دربار شام کا ذکر الحکم بابت ۰۲-۱۲-۲۴ (صفحہ ۱۰) پر مرقوم ہے.
پڑھایا وغیرہ نماز ظہر نماز عصر نماز مغرب وکھانا در بارونماز عشاء ۸:۵۰ 601 ނ // ۱۲ ۳:۳۰ // // ۶ // تک تک تک تک تک ۱۷ دسمبر ۱۹۰۲ء مدرسہ کے عید کے کارڈوں پر دستخط کئے.آج حافظ اللہ دتا معمار بیمار ہو گیا.شک ہے کہ اس کو طاعون ہے آج مکانات کی صفائی کی گئی.آج حضور علیہ السلام نے تقریر فرمائی کہ صرف بیعت کرنا کافی نہیں بلکہ نیک بنے کا وقت ہے.ایسی تبدیلی کرنی چاہئیے کہ صحابہ کی طرح تم پر سکینت اترے اور سکینت کی یہ پہچان ہے کہ تم کو بشارات ہوں.فرمایا کہ مجھ کو اگر طاعون بھی ہو جائے اور جان لبوں پر ہو تو بھی مجھ کو یہی یقین ہے اور ہوگا کہ خداوند تعالیٰ مجھ کو ضائع نہ کرے گا.خداوند تعالیٰ مومن سے موت چاہتا ہے.پس دو موتیں ہرگز جمع نہ کرے گا.یعنی ایک موت خدا کے لئے اور ایک شامت اعداء کے لئے.نیندوں کو کم کرو.صبح اٹھو اور نمازوں اور دُعاؤں میں لگ جاؤ اور صحابہ کا سا ایمان پیدا کرو.حملہ جاگا نماز صبح قرآن شریف پڑھایا نماز ظہر وغیرہ نماز عصر مدرسہ کا کام اور ملاقات نماز عشاء بجے ۶-۵۰ سے Δ // ۷:۲۵ ۱۱:۳۰ ۸-۲۰ 7 // ۲:۳۰ ۳:۳۰ // ۵:۳۰ // ۳:۳۰ ۷:۳۰ // تک تک تک تک تک تک تک اس دن کی ڈائری میں مرقوم حضرت کی تقریر کی تصدیق الحکم جلد نمبر ۴۶ (صفحه ۹) بابت ۰۲-۱۳-۲۴ سے بھی ہوتی ہے.
602 ۱۸ / دسمبر ۱۹۰۲ء آج میں ( نے ) نماز صبح جماعت کے ساتھ پڑھی.الحمد للہ علی ذالک.کوئی آٹھ بجے مفتی محمد صادق صاحب آئے کہ ہم نے بعد میں سوچا کہ مدرسہ کو رخصت بعد امتحان دی جائے تا کہ شامت اعدا نہ ہوا ور تعلیم کا بھی ہرج نہ ہو.ان کو تین دن کے لئے حسب ان کی درخواست مدرسہ کھولنے اور امتحان ہونے کی اجازت دی.آج اس وقت اللہ دتا معمار کسی قدرا چھا ہے نماز صبح در بار ونماز عشاء ۶:۱۵ // ۶:۴۵ تک ۱۹ دسمبر ۱۹۰۲ء کچھ باور چی بورڈنگ ہاؤس کی شکایت ہوئی تھی.اس پر ایک روپیہ جرمانہ کیا کیونکہ وہ کھانا اچھانہیں پکا تا.نماز صبح قرآن شریف نماز جمعه نماز عصر نماز عشاء و دربار ۲۰/ دسمبر ۱۹۰۲ء قرآن شریف نماز عصر نماز عشاء ۶:۴۵ ۸:۴۵ // ۷:۴۵ ۲:۳۰ // ۳:۳۰ // ۸:۳۰ 1:10 // ۷:۳۰ ۳:۳۰ // // ۷ تک تک ہلے معلوم ہوتا ہے بوجہ طاعون مدرسہ میں تعطیلات کرنا مناسب خیال کیا گیا تھا.مصلحتہ امتحان لے کر تعطیلات کی گئیں.الحکم بابت ۰۲-۱۲-۲۴ میں مرقوم ہے.”مدرسہ تعلیم الاسلام سالانہ امتحان کے بعد معمولی رخصتوں کے ساتھ کارڈ نیشن کی تقریب پر تعطیلات کو مل ملا کر ایک ماہ کے لئے بند کیا گیا ہے (صفحہ ۷ )
۲۱؍ دسمبر ۱۹۰۲ء نماز تہجد نماز صبح قرآن شریف نماز عصر 603 ۶:۳۰ ۶:۴۵ // ۶:۳۰ ۷:۳۰ ۶:۴۵ ۳:۳۰ ۲۲ / دسمبر ۱۹۰۲ء ہاں سُنا ہے کہ آج الہام ہوا ہے.چونکہ وہاں مسجد ( میں میں ) موجود نہ تھا اس لئے میں نے حضرت کے منہ سے نہیں سنا.الہام یہ ہے: يَا تِیک زمن گزمن موسی ۲۳ دسمبر ۱۹۰۲ء ہاں آج حضور علیہ السلام نے الہام سُنایا کہ ان کریم تمشی امامک فرمایا یہ کل کے الہام کا ٹکڑہ معلوم ہوتا ہے ) کیونکہ حضرت موسیٰ کے لئے بھی تو ریت میں ایسا آیا ہے.* نواب صاحب نے یہ الہام کسی سے سُن کر درج کیا ہے شاید اسی لئے صحیح اندراج نہیں.اصل یہ ہے يَاتِي عَلَيْكَ زَمَنٌ كَمِثْلِ زَمَنِ مُوسى - * ۲۳ / دسمبر ۱۹۰۲ ء کے متعلق الحکم میں مرقوم ہے: ظہر کی نماز سے پہلے حضرت حجتہ اللہ نے اپنا رات کا الہام سنایا إِنَّهُ كَرِيمٌ تَمُشْيَ اَمَامَكَ وَعَادَى لَكَ مَنْ عادى یعنی وہ (اللہ ) کریم ہے وہ تیرے آگے آگے چلا ہے اور جو تیرا دشمن ہے وہ اس کا دشمن ہے.فرمایا میں قرائن سے سمجھتا ہوں کہ یہ الہام اسی پچھلے الہام يَاتِي عَلَيْكَ زَمَنْ كَمِثْلِ زَمَنِ مُوسیٰ سے ملتا ہے.یہ الہام جیسا کہ توریت سے پایا جاتا ہے کہ خدا بنی اسرائیل کے آگے آگے چلتا تھا اس سے ملتا ہے.میں نے اس کو موسیٰ اور عادی کے قافیہ سے پہچانا ہے کہ ان کا باہم تعلق ہے.“ ۴۲۰
604 وفات صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے حالات زندگی مفصل طور پر مع تصویر اصحاب احمد جلد اول میں درج ہو چکے ہیں.صاحبزادہ صاحب ۱۴ / جون ۱۸۹۹ ء کو پیدا ہوئے.سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے حضرت اقدس کو اُن سے طبعا زیادہ محبت تھی.اُن کی وفات پر حضور نے صبر و رضا کا کامل نمونہ دکھایا.اُن کی وفات کے تعلق میں حضرت نواب صاحب اپنی ڈائری میں تحریر فرماتے ہیں: ارستمبر ۱۹۰۷ء آج میاں مبارک احمد صاحب فرزند حضرت اقدس کا انتقال صبح قریباً ساڑھے پانچ بجے نماز صبح ☆ ہو گیا.انا لله وانا اليه راجعون.قریباً ۸ یا ۹ سال کی عمر تھی.نہایت شریف بچہ تھا.مگر اللہ رےاستقلال ! حضور علیہ السلام کی پیشانی پر ذرا بل نہ تھا.جنازہ مدرسہ میں پڑھایا گیا اور جنازہ پھر وہاں سے مقبرہ بہشتی لیجا کر دفن کیا گیا قبر میں کچھ دیر تھی حضور علیہ السلام مع خدام کچھ سایہ میں بیٹھ گئے.فرمایا انسان کے لئے خداوند تعالیٰ فرماتا ہےادعونی استجب لکم.یہ ایک وقت ہوتا ہے اور بندہ مانگتا ہے خدا دیتا ہے.یہ ایک طرف ہے.دوست کا ہمیشہ کام ہے کہ چند اپنے دوست کی مانتا ہے تو ایک اپنی منواتا ہے.خداوند بہت سی مانتا ہے تو کبھی اپنی بھی منواتا ہے.پس جو شخص ایسے وقت ماننے سے رُکے وہ بد بخت ہے.جو انسان ہمیشہ خوشی میں رہتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی بدنصیب نہیں.اس کو کبھی دولت ایمان حاصل نہیں ہوسکتی.جب خوشی ہے تو رنج بھی ضرور ہے.پس قضاء الہی پر راضی ہونا چاہیئے.یہی ترقیات کا وقت ہوتا ہے.جہاں خدا فرماتا ہے ادعونی استجب لکم دوسری طرف فرماتا ہے ولنبلونکم بشى من الخوف الخ.پہلی میں وعدہ نہیں مگر یہاں وعدہ ہے کہ بشر الَّذِينَ...اذا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنا اللهِ وإِنَّا إليه راجعون تو ان کی بابت آگے فرماتا ہے...علیهم صلوات من ربِّهم ورحمة - پس یہی ترقیات کا وقت ہے.پس کبھی خدا کی مانی چاہئیے اور اسکی رضا پر راضی ہونا چاہئیے“.* نیز تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت اقدس کی طرف دو وقت کھانا بھیجا گیا.“ جنازہ کہاں پڑھا گیا اس کا علم صرف اس ڈائری سے ہوتا ہے (مؤلف) یہ لفظ درست طور پر نہیں پڑھا گیا.دولت یا لذت میں سے ایک لفظ ہے.(مؤلف)
605 66 سید ہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں ” یعنی بوجہ وفات مبارک احمد مسنون طور پر.“ حضرت اقدس کا وصال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے متعلق نواب صاحب کی نوشتہ ڈائری ذیل میں درج کی جاتی ہے.۲۶ رمئی ۱۹۰۸ ء منگل آج حضرت اقدس مسیح موعود مہدی معہود مرزا غلام احمد صاحب.رئیس قادیان کا انتقال ہو گیا.حضور علیہ السلام جس روز سے لاہور آئے تھے کم و بیش مرضِ اسہال میں مبتلا ہو گئے مگر کل کھانے کے بعد باوجود اسہالوں (کے) پیغام صلح کا مضمون لکھتے رہے اور معمولی اسہال سمجھے گئے.شام کو سیر کو گئے.رات کو کھانا کھایا مگر چند نوالے ہی کھائے تھے کہ اسہال کی حاجت ہوئی.آپ نے کھانا چھوڑ دیا اور جائے ضرور گئے.وہاں اسہال آیا.اس کے بعد پھر ایک دو اسہال ہوئے.پھر بارہ بجے کے قریب اسہال ہوا اور ایک قے بھی ہوئی جس سے طبیعت بہت گھٹ گئی اور برداطراف ہو گیا.نبض ساقط ہو گئی.بالکل مایوسی ہوگئی.مگر ادویات کے یہ ڈائری حضرت میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ کی طرف سے ذیل کے نوٹ کے ساتھ الفضل بابت ۴۵-۲-۱۵ میں شائع ہوئی تھی.یہ تمام ڈائری خود حضرت نواب صاحب کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر سے نقل کی گئی ہے اور حضور علیہ السلام کی وفات کے متعلق ایک مستند بیان ہے جو قابل اندراج تاریخ سلسلہ ہے اور کوئی فقرہ اس میں سے محذوف نہیں کیا گیا.“ خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ میں نے بھی یہ اصل ڈائری دیکھی ہے.یہاں ایک تو ۲۹ مئی کی ڈائری زائد درج کی جارہی ہے.دوسرے مطبوعہ ڈائری میں ایک حصہ غالباً سہوا چھوٹ گیا ہے وہ بھی یہاں درج کر دیا گیا ہے.اس چھوٹے ہوئے حصہ کے شروع میں نشان × آخر پر * دے دیا گیا ہے.تیسرے اس کے حاشیہ میں نوٹ حضرت میر صاحب کے ہیں جو الفضل سے منقول ہیں.سوائے ان کے جن کے آخر پر لفظ مؤلف مرقوم ہے.چوتھے الفضل میں بعض الفاظ فقرات کی تکمیل کے لئے زائد کئے گئے تھے جو وہاں ظاہر نہیں کئے گئے.ایسے الفاظ کو میں نے خطوط وحدانی میں درج کر دیا ہے.پانچویں خط کشیدہ الفاظ وہ ہیں جو اصل ڈائری میں درج ہیں لیکن الفضل میں درج ہونے سے رہ گئے (مؤلف)
606 استعمال اور مالش سے پھر طبیعت گرم ہوگئی.نبض عود کر آئی.تین بجے میرے بُلانے کو نور محمد بھیجا گیا اتفاق سے راستہ میں گھوڑ اگر گیا اس لئے ٹم ٹم دیر میں پہنچی.اس وقت نماز کا وقت ہو گیا تھا پہرہ والے کے آواز دینے پر میں اُٹھا نماز پڑھ کر روانہ ہوا.کوئی پانچ بجے حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچا.اس وقت حضرت ام المومنین برقع پہنے چار پائی کی باہنی پر سر رکھے زمین پر بیٹھی تھیں اور ڈاکٹر محمد حسین شاہ.ڈاکٹر یعقوب بیگ موجود تھے.خواجہ کمال الدین.حضرت مولانا مولوی نورالدین.میاں محمود.میاں بشیر اور شیخ عبدالرحمن قادیانی وغیرہ وغیرہ موجود تھے.ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب نے مجھے کہا کہ شکر ہے نہایت نازک حالت سے طبیعت ٹھیک ہوئی ہے.حضرت اقدس کی حالت یہ تھی کہ بدن گرم تھا اور کرب تھا مگر حواس ٹھیک تھے.آہستہ آہستہ بولتے تھے.ایک دو دفعہ کروٹ بدلنے پر آنکھ کھولی میری طرف دیکھا میں نے سلام علیک کہا آپ نے کہا وعلیکم السلام.چھ بجے کے قریب ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کو کہا کہ میری آواز نہیں نکلتی یہ ہم نے بخوبی سمجھا.پھر کوئی ساڑھے سات بجے اُٹھ کر بیٹھے اور قلم دوات منگوائی اور ایک پرچے( پر ) لکھا جو باہر جا کر پڑھا تو یہ لکھا تھا کہ تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیں نکلتی.اتنا حصہ صاف پڑھا گیا چونکہ کچھ اتفاق سے سیا ہی خراب اس پر قلم بھی خراب پے رکھنے کے لئے چیز بھی جلدی میں دی گئی تھی آخری نصف سطر نہ پڑھی گئی.آٹھ بجے کے بعد پھر جو ریلیپس RELAPSE ہوا ہے پھر طبیعت نہیں سنبھلی.آخر ساڑھے دس بجے انتقال فرمایا إِنَّا لِللَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - حضرت ام المومنین نے وہ صبر دکھلایا کہ باید و شاید.جب حضرت کا دم واپسیں تھا اس وقت آپ نے فرمایا کہ اے اللہ یہ تو ہمیں چھوڑتا ہے تو ہمیں نہ چھوڑی.اور جب ( حضرت ) اقدس نے انتقال فرمایا تو فرمایا " إِنَّا لِلَّهَ وَانَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون “ اور بس خاموش ہو گئے اور کسی کو رونے نہیں دیا.بعد انتقال حضرت تمام جماعت نے نہایت صبر دکھلایا اور تھوڑے وقفہ بعد تمام موجود جماعت کے آدمی یکے بعد دیگرے آئے اور حضرت اقدس کی پیشانی پر بوسہ دیتے گئے.ڈاکٹروں ( نے ) مرض تشخیص کی کہ اسہالوں کی وجہ سے امعاء میں سوزش ہوئی اور حضرت اقدس کو دل گھٹنے اور برداطراف کا جو دورہ ہمیشہ ہوتا تھا وہ سخت پڑا اس لئے انتقال ہوا.حضور علیہ السلام کا مسودہ مضمون دیکھا گیا تو اصل بات حضرت ختم کر چکے تھے.بعد انتقال حضرت اقدس ہم لوگ ذرا باہر بیٹھے اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب سول سرجن صاحب مسر کنگھم کے پاس سرٹیفکیٹ کے لئے گئے.سرٹیفکیٹ ملنے پر جس میں سول سرجن صاحب * ڈائری میں یہ لفظ موجود ہے نہ کہ موجودہ (مؤلف) مسودہ مضمون یعنی لیکچر پیغام صلح کا مسودہ.
607 نے صاف لکھا تھا کہ حضرت اقدس نے امعاء کی خراش (سے) انتقال کیا ہے پھر جنازہ کے لے جانے اور ریل گاڑیوں کا انتظام کیا گیا.میں نے بھی چونکہ جنازہ کے ساتھ جانا تھا میں اپنی کوٹھی پر آیا اور سامانِ سفر کرنے آیا.اس وقت کوئی دو بجے تھے اس کے بعد تین جو بجے پھر خواجہ صاحب کے مکان پر پہنچا.وہاں جنازہ پڑھایا گیا تھا.حضرت اقدس کی شکل نہایت منور تھی اور کسی قدر سُرخی بھی رخساروں پر معلوم ہوتی ہیں تھی.مستورات ۴ بجے روانہ ہو گئیں پھر جنازہ اس کے بعد اُٹھایا گیا.اسٹیشن پر پہنچ کر صندوق گاڑی میں رکھ کر اس میں پانچ من برف ڈالی گئی اور پھر حضرت اقدس کو صندوق میں رکھا گیا کیونکہ اسٹیشن تک چار پائی پر حسب معمول جنازہ لایا گیا تھا.صندوق میں بند نہ کیا گیا تھا یہ کام ہو چکا اسٹیشن ماسٹر آیا کہ جنازہ نہیں جاسکتا.شیخ رحمت اللہ صاحب مع اسٹیشن ماسٹر ٹریفک سپرنٹنڈنٹ کے پاس گئے اور سرٹیفکیٹ دکھلایا جس کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کیونکہ یہ سول سرجن کا سرٹیفکیٹ تھا کیونکہ کسی مخالف نے ٹریفک سپرنٹنڈنٹ سے کہہ دیا تھا کہ ان کے گھر کے ڈاکٹر ہیں انہوں نے اسے آپ سرٹیفکیٹ لکھ دیا ہے ورنہ حضرت اقدس نے ہیضہ سے انتقال کیا ہے اس لئے جنازہ نہ جانا چاہیئے.اب جب سول سرجن کا سرٹیفکیٹ دیکھا تو ٹریفک سپرنٹنڈنٹ نے اجازت دے دی.اس طرح شیطانوں کے تمام منصوبے باطل ہو گئے.خلاصہ یہ کہ ریل ساڑھے پانچ بجے روانہ ہوئی اور ہم سب بخیر و خوبی امرتسر پہنچے.امرتسر میں نماز پڑھی اور کھانا کھایا.اور پھر وہاں سے چل کر دس بجے بٹالہ پہنچے.رات بٹالہ بسر کی.حضرت اقدس کا جسم مبارک صبح دو بجے صندوق سے نکال کر چارپائی پر رکھا اور کثیر جماعت احمدیوں کی ہاتھوں جنازہ قادیان کو لے کر چلی.صندوق اور برف گڈے (پر) پیچھے آتا رہا.۲۷ رمئی ۱۹۰۸ء بُدھ اس کے بعد کوئی چار بجے مستورات روانہ ہوئیں اور ہم بھی نماز پڑھ کر روانہ ہوئے.کوئی آٹھ بجے جنازہ اور ہم سب قادیان میں پہنچے.جنازہ باغ میں لے جا کر پکتے بڑے مکان میں رکھا گیا.پل سے جماعت قادیان بھی آشامل ہوئی کوئی نو بجے مستورات بھی آگئیں اور ہم ان کو پہنچا کر واپس آئے.* تین سے پہلے الفضل میں کوئی کا لفظ درج ہے لیکن اصل ڈائری میں موجود نہیں (مؤلف) ہوتی ، کا لفظ ڈائری میں موجود ہے اور لفظ معلوم خاکسار کی طرف سے ہے (مؤلف) الفضل میں باغ میں لا کر بڑے مکان شائع ہوا ہے.اصل ڈائری کے الفاظ باغ میں لے جا کر پکے بڑے مکان ہیں (مؤلف)
608 * اکابر سلسلہ احمدیہ مثل خواجہ کمال الدین.شیخ رحمت اللہ.ڈاکٹر محمد حسین شاہ ڈاکٹر یعقوب بیگ و مولوی محمد علی میرے مکان پر ا کٹھے ہوئے.میں بھی حاضر تھا اور میاں محمود کو بھی تکلیف دی گئی.خلیفہ کے متعلق مشورہ ہوا.سب نے بالاتفاق حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ تجویز کیا اور میاں محمود صاحب نے بھی کشادہ پیشانی (سے) اس پر رضا مندی ظاہر کی بلکہ (کہا) کہ حضرت مولانا سے بڑھ کر کوئی نہیں اور خلیفہ ضرور ہونا چاہیئے اور حضرت مولانا ہی خلیفہ ہونے چاہئیں اور نہ اختلاف کا اندیشہ ہے اور حضرت اقدس کا ایک الہام ہے کہ اس جماعت کے دو گروہ ہونگے ایک کی طرف خدا ہوگا اور یہ پھوٹ کا ثمرہ ( ہے ) اس کے بعد ہم سب باغ گئے اور وہاں میر ناصر نواب صاحب سے دریافت کیا.انہوں نے بھی حضرت مولانا کا خلیفہ ہونا پسند کیا اور اشارہ کیا کہ جس کو تم خلیفہ بنانا چاہتے ہو وہ بھی دو ڈھائی سال رہتا نظر آتا ( ہے ) اشارہ مولوی صاحب یعنی مولانا نورالدین صاحب سے تھا کیونکہ مولوی صاحب بیمار رہتے تھے یعنی بیماری اسہال کا دورہ سخت پڑتا تھا.میر صاحب نے جو اشارہ کیا تھا کہ جس کو خلیفہ کرنا چاہتے ہو دو ڈھائی سال ہی رہے گا اسلئے تھا کہ میر صاحب سے صرف یہ کہا گیا تھا کہ کس کو خلیفہ کیا جائے نام نہ لیا تھا.پھر خواجہ کمال (الدین) صاحب جماعت کی طرف سے حضرت ام المومنین کے پاس تشریف لے گئے انہوں نے کہا میں کسی کی محتاج نہیں اور نہ محتاج رہنا چاہتی ہوں جس پر قوم کا اطمینان ہے اس کو خلیفہ کیا جائے اور حضرت مولانا کی سب کے دل میں عزت ہے وہی خلیفہ ہونے چاہئیں.اس کے بعد حضرت مولانا ( کو ) بھی تکلیف دی گئی.حضرت مولانا (کے) ہاتھ پر ہم نے معہ فرزندان و میر صاحب قریباً بارہ سو آدمی نے باغ (کے) درختوں کے نیچے بیعت کی اس کے بعد ہم سب واپس آئے اور کھانا کھایا پھر نماز ظہر پڑھ کر تمام لوگ باغ میں جمع ہوئے اور نماز عصر پڑھ کر جنازہ پڑھایا گیا اور پھر حضرت مولانا نے ایک خطبہ پڑھا.بیعت کے وقت اور خطبہ کے وقت عجیب نظارہ تھا.کوئی آنکھ نہ تھی جو پر نم نہ تھی.بعد خطبہ سب اس کے بعد دیگر حضرت اقدس کا چہرہ دیکھنے کے لئے گئے.پھر اس کے بعد حضرت اقدس کا جنازہ قبر پر لے جایا گیا اور حضرت اقدس کے جسم ٹو رانی کو سپردخاک کیا.یہ کوئی ساڑھے پانچ کا وقت تھا.گرمی کا یہ عالم مگر جسم میں کس قسم کا فور نہ تھا.چہرہ مبارک با لکل صاف تھا کسی قسم کی بے رونقی نہ تھی.اس کے بعد ہم سب واپس آئے اور رات کو سور ہے.شاہ کے بعد ڈائری میں صاحب کا لفظ نہیں جوالفضل میں درج ہے (مؤلف) * یعنی چونکہ میں کسی کی بفضلہ محتاج نہیں ہوں اس لئے میں اپنی ذاتی کسی فائدہ کی غرض سے رائے نہیں دونگی بلکہ میرے نزدیک جسے جماعت منتخب کرے وہی خلیفہ ہونا چاہیئے اور حضرت مولوی صاحب اس کے اہل بھی ہیں.
609 ۲۸ رمئی ۱۹۰۸ء جمعرات *.آج میں قادیان میں رہا اور ہم کو میر نا صرنواب صاحب نے بلایا اور اس وقت یہ بھی عجیب عالم تھا.سب رور ہے تھے اور میر صاحب نے کہا کہ بھائی میری سختی طبع آج تک تھی میرا باپ تھے تو مرزا صاحب تھے اور بیٹے تھے تو مرزا صاحب تھے اب مجھ سے تمہارا کام نہیں ہو سکتا ہم سب نے کہا کہ ہم آپ کو ویسا ہی قابلِ عزت سمجھتے ( ہیں ) جیسا پہلے اور آپ ہم کو اپنا پورا خادم پائیں گے اور پھر ہم یعنی خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور دونوں ڈاکٹر صاحبان اور میں اور مولوی محمد علی حضرت ام المومنین کی خدمت ( میں ) حاضر ہوئے اور اپنی اظہار عقیدت کی اور ہر ایک نے کچھ (نہ) کچھ رقم نذر پیش کی.۲۹ رمئی ۱۹۰۸ء جمعہ الا مر حسب الا جازت حضرت خلیفہ مسیح مولانا مولوی نورالدین صاحب میں اپنے عیال و اطفال کو لانے لا ہور گیا.صبح علی اصبح قادیان سے روانہ ہوا.ایک بجے لاہور پہنچا.وہاں نماز جمعہ پڑھی.نشانات حضرت نواب صاحب اور آپ کے خاندان کے تعلق میں متعدد نشانات الہی ظہور میں آئے.حضرت اقدس نے نواب صاحب کی زوجہ ثانی کی اعلیٰ درجہ کی روحانی حالت اور ان کی وفات کے متعلق رؤیا دیکھے.دونوں باتیں صفائی سے پوری ہو ئیں.حضور نے نواب صاحب کی گردن اونچی ہوتی دیکھی تھی جس رنگ میں یہ امر نیز ” نواب.مبارکہ بیگم کا الہام آپ کے تعلق میں پورا ہوا آپ کی ازدواجی زندگی میں اس کی تفصیل درج کی گئی ہے.دو اور نشانات بھی پورے ہوئے جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں : معجزہ شفایابی میاں عبدالرحیم خاں صاحب مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ دار مسیح میں حضرت ام المومنین کے صحن میں ایک نکاح پڑھا گیا مجھے یاد ہے اس تقریب میں حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب گوڑیا نوی اور مکرم صاحبزادہ الفضل میں وہاں بھی مرقوم ہے اصل ڈائری میں اسوقت بھی درج ہے (مؤلف) مطابق اصل ڈائری (مؤلف * یعنی انجمن کی تعمیرات وغیرہ کا کام جس کے منصرم حضرت میر صاحب حضور علیہ السلام کے زمانہ میں تھے.
610 مرز ا عزیز احمد صاحب بھی شامل تھے.اعلان نکاح کے بعد چھوہارے تقسیم کئے گئے اور حاضرین کو سادہ چائے یعنی بغیر کھانے کی کسی چیز کے پیش کی گئی.میں اور میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب والد صاحب کے سامنے بیٹھے تھے.آپ نے ہماری صحت کے پیش نظر اشارہ سے ہمیں چھوہارے کھانے سے منع کر دیا لیکن میاں عبدالرحیم خاں صاحب ایک طرف تھے انہوں نے بہت سے چھوہارے کھالئے جس سے شدید بخار سے جو تپ محرقہ کی صورت اختیار کر گیا بیمار ہو گئے.ان دنوں ہم والد صاحب کے تعمیر کردہ شہر کے کچے مکان میں رہتے تھے.انکی بیماری دواڑھائی ماہ رہی.میاں عبدالرحیم خاں صاحب موت کے منہ سے واپس آئے اور ان کی شفایابی معجزانہ رنگ میں ہوئی.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں: ۴۴ - چوالیسواں نشان یہ ہے کہ سردار نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کا لڑکا عبدالرحیم خاں ایک شدید محرقہ تپ کی بیماری سے بیمار ہو گیا تھا اور کوئی صورت جان بری کی دکھائی نہیں دیتی تھی.گویا مردہ کے حکم میں تھا.اس وقت میں نے اس کے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے.تب میں نے جناب الہی میں عرض کی کہ یا الہی میں اس کے لئے شفاعت کرتا ہوں اس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے فرمایا من ذالذى يشفع عنده الا باذنه یعنی کس کی مجال ہے کہ بغیر اذن الہی کے کسی کی شفاعت کر سکے.تب میں خاموش ہو گیا بعد اس کے بغیر توقف کے یہ الہام ہوا انک انت المجاز یعنی تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی.تب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے دُعا کرنی شروع کی تو خدا تعالیٰ نے میری دُعا قبول فرمائی اور لڑکا گویا قبر میں سے نکل کر باہر آیا اور آثار صحت ظاہر ہوئے اور اس قدر لاغر ہو گیا تھا کہ مدت دراز کے بعد وہ اپنے اصلی بدن پر آیا اور تندرست ہو گیا اور زندہ موجود ہے، می حمد حقیقۃ الوحی ۲۱۹ ۲۲۰.اس بارہ میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب تحریر فرماتے ہیں: مسئله شفاعت بہت صفائی سے حل ہو گیا.”ہمارے مکرم خاں صاحب محمد علی خاں صاحب کا چھوٹا لڑکا عبدالرحیم سخت بیمار ہو گیا چودہ روز ایک ہی تپ لازم حال ( رہا ) اور اس پر جو اس میں فتور اور بیہوشی رہی آخر نوبت احتراق تک پہنچ گئی میرے مخدوم مکرم مولوی نورالدین صاحب فرماتے ہیں کہ عبدالرحیم کے علاج میں غیر مترقب توجہ انہیں پیدا ہوئی اور ان کے علم نے پوری اور وسیع طاقت سے کام لیا مگر ضعف اور بجز کا اعتراف کر کے بجز سپر انداز ہو جانے کے کوئی راہ نظر نہ آتی تھی.حضرت خلیفۃ اللہ علیہ السلام کو ہر روز دعا کے لئے توجہ دلائی جاتی تھی اور وہ کرتے تھے.۲۵ اکتوبر کو
611 اسی طرح حضور اسلام کی بعض خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: اور ایک نمونہ ان نشانوں کا جو دوستوں کے متعلق ظاہر ہوئے نواب محمد علی خانصاحب کا لڑکا عبدالرحیم خاں ہے وہ سخت بیمار ہو گیا تھا یہاں تک کہ اُمید منقطع ہو چکی تھی ایسے نازک وقت میں اس کے لئے دُعا کی گئی دُعا کے جواب میں ایسا معلوم ہوا کہ حیات کا رشتہ منقطع ہے تب میرے منہ سے نکل گیا کہ اے میرے خدا اگر دُعا منظور نہیں ہوتی تو اس لڑکے کے لئے میری شفاعت منظور کر.تب جواب میں خدا تعالیٰ نے فرمایا من ذالذی يشفع عنده الا باذنه یعنی کون ہے جو بغیر اذن خدا تعالیٰ کے شفاعت کر سکتا ہے تب میں پچپ ہو گیا اور اس بقیہ حاشیہ: حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بڑی بے تابی سے عرض کی گئی کہ عبدالرحیم کی زندگی کے آثارا چھے نظر نہیں آتے.حضرت رؤف و رحیم تہجد میں اس کے لئے دعا کر رہے تھے کہ اتنے میں خدا کی وحی سے آپ پر کھلا کہ " تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدر.میرے آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے بالمواجہ مجھے فرمایا.جب خدا تعالیٰ کی یہ قبری وحی نازل ہوئی تو مجھ پر حد سے زیادہ مخزون طاری ہوا کہ اس وقت بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا کہ یا الہی اگر یہ دعا کا موقع نہیں تو میں شفاعت کرتا ہوں.آنحضرت اقدس علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ دعا اور شفاعت حقیقت میں تو ایک ہی ہے لیکن صرف فرق اسی قدر ہے کہ دُعا تو ہے ایک شخص خواہ مسلم ہو مومن ہو خواہ کا فرو مشرک ہو خواہ فاسق و فاجر ہو کر سکتا ہے اور یوں ہر ایک شخص کی دُعا قبول بھی ہو جاتی ہے.مگر شفاعت ہر ایک شخص نہیں کر سکتا کیونکہ دُعا میں ایک عاجزی اور انکساری ہوتی ہے اور شفاعت میں اپنی وجاہت اور قبولیت اور اپنا خاص تعلق جو اللہ تعالیٰ سے اس کو ہے یا اس سے اللہ تعالیٰ جل شانہ کو ہے.(ایڈیٹر ) اس کا موقعہ تو ہے اس پر معاوجی نازل ہوئی يسبح له من في السموات ومن في الارض من ذا الذى يشفع عنده الا باذنه.اس جلالی وحی سے میرا بدن کانپ گیا اور مجھ پر سخت خوف اور ہیبت وارد ہوئی کہ میں نے بلا اذن شفاعت کی ہے.ایک دو منٹ کے بعد پھر وحی ہوئی انک انت المجاز یعنی تجھے اجازت ہے اس کے بعد حالا بَعْدَ حَال عبدالرحیم کی صحت ترقی کرنے لگی اور اب ہر ایک جود یکھتا اور پہچانتا تھا اسے دیکھ کر خدا تعالیٰ کے شکر سے بھر جاتا اور اعتراف کرتا ہے کہ لاریب مُردہ زندہ ہوا ہے.اس سے زیادہ مسئلہ شفاعت کا حل اور کیا ہو سکتا ہے اور یہی خدا تعالیٰ کا قانون قدرت ہے.افسوس ہے احمق نصرانی پر جو ایک نا تو ان انسان کے پھانسی ملنے کو شفاعت کی غایت سمجھتا ہے خدا کرے کہ دنیا کی آنکھیں گھلیں اور اس بچے شفیع اور حقیقی ٹو کو پہچانیں جو وقت پر ان کے لئے آسمان سے نازل ہوا ہے اور کفارہ وغیرہ بے بنیاد افسانوں کو چھوڑ دیں جن کا نتیجہ اب تک بجز رُوح کی موت اور جسم کی ہلاکت کے اور کچھ نظر
612 بات پر صرف چند منٹ ہی گذرے تھے کہ پھر تھوڑی سی غنودگی ہو کر یہ الہام ہوا انک انت المجاز یعنی تجھے شفاعت کی اجازت دی گئی تب میں نے بطور شفیع کے اس لڑکے کے حق میں دعا کی پس تھوڑے دنوں کے بعد خدا نے اس کو دوبارہ زندگی بخشی اور وہ تندرست ہو گیا فالحمد للہ علی ذالک.مکرم میاں محمد عبد الرحمن صاحب بیان کرتے ہیں کہ مکرم میاں عبد الرحیم خاں صاحب کے متعلق حضرت اقدس نے یہ رویا بھی دیکھا تھا کہ وہ صحت یاب ہو گئے ہیں اور کچھ رو پید انہوں نے نذرانہ کے طور پر پیش کیا ہے.چنانچہ اُن کے صحت یاب ہو جانے پر جب کہ ابھی انہیں نقاہت باقی تھی، نواب صاحب نے انہیں ان کی خالہ صاحبہ کے ہمراہ ایک خادمہ سے اُٹھوا کر حضور کی خدمت میں بھجوایا اور ڈیڑھ صد روپیہ کے قریب نذرانہ بھیجا.گھر میں چوزہ کا شور با تیار تھا حضور نے چھوا کر میاں عبدالرحیم خاں صاحب کو پہلوایا.میاں عبد الرحیم خاں صاحب کی شفایابی حضرت اقدس کی تو جہات کریمانہ کا ایک کرشمہ تھا اور اسی وجہ سے قادیان میں کسی قسم کی تکلیف نہ محسوس ہوتی تھی حالانکہ نواب صاحب اور آپ کے اہل وعیال مالیر کوٹلہ میں شہر میں جس حویلی میں رہتے تھے.اس میں تہائی آپ کا حصہ دس بارہ بیگھہ ہوگا.بعد میں آپ نے ریاست کو دے دیا تھا اور اب وہاں سرکاری دفاتر ہیں.علاوہ ازیں آپ کے شہر کے پاس شہر سے باہر شیر وانی کوٹ تھا جو تریسٹھ بیگھہ میں ہے اور اس کی کوٹھی قادیان کی کوٹھی دار السلام سے بھی بڑی ہے.اور حضور کی مشفقانہ تو جہات کے ذکر میں مکرم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب ذکر کرتے ہیں کہ جب قادیان میں طاعون شروع ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے ہم بچوں کو یہ حکم تھا کہ ہم سیڑھیوں سے نیچے نہ اتریں کیونکہ یہ مکان دار میں شامل ہے ہو جس کے متعلق وعدہ الہی ہے کہ انسی احافظ كل من فی الدار.اس لئے ہم ۱۴۲۴ سیڑھیوں سے نیچے نہیں اترتے تھے.ہمارے مکان میں بھی حضور ڈھونیاں بہت دلواتے تھے.ایک بڑی انگیٹھی تھی جس میں کئی دودکش تھے.اتنی گرمی ہوتی تھی کہ جس سے سارا کمرہ گرم ہو جاتا تھا.فینائل کا استعمال کثرت سے ہوتا تھا.مراد چوبارہ حضرت نواب صاحب جو دار مسیح سے ملحق ہے اس بارہ میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کا ایک تفصیلی نوٹ کتاب میں دوسری جگہ درج ہے.بقیہ حاشیہ: - نہیں آیا.اے احمد یوں تمہیں مبارک ہو کہ یہ دولت خدا تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں رکھی تھی خدا کا شکر اور اس کی قدر کرو.والسلام خاکسار عبدالکریم ۱۲۹ کتوبر ۳ الحکم جلد نمبر ۴۱ ۴۳ بابت ۱۷ تا ۲۴ نومبر ۶۰۳) خفیف سے اختلاف سے یہ نوٹ البدر جلد۲ نمبر ۴۱ ۴۲ ( صفحه (۳۲) ۲۶ /اکتوبر نومبر ۰۳ء میں بھی شائع ہوا ہے.
613 خاندانی حقوق کے متعلق معجزانہ کامیابی جیسا کہ پہلے مذکور ہو چکا ہے اس خاندان کے تمام افراد با اختیار فوجدار رئیس ہوتے تھے.حکومت نے یہ دیکھ کر اس طرح خوانین اور والی نواب میں تنازعات ہو جاتے ہیں یہ چاہا کہ آئندہ فوجی اختیارات صرف والئی ریاست کو ہوں اور استمزاج پر نواب صاحب کے والد بزرگوار نے بدیں وجہ اس تجویز سے اتفاق ظاہر کیا کہ آئندہ ریاست حق کے لحاظ سے ان کے ہاتھ میں آنے والی تھی لیکن یہ حق نہ ملا اور خوانین کے حقوق پامال ہونے لگے.چنانچہ مکرم میاں محمد عبدالرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ والی ریاست نواب ابراہیم علی خاں تو بہت شریف فطرت تھے ان کو نذروغیرہ لینے کا کوئی خیال نہ تھا.لیکن انکی بیماری کی وجہ سے ان کے ولیعہد ایجنٹ مقرر ہوئے جن کو ریاست کے سپر نٹنڈنٹ نواب لوہارو نے ورغلا کر اس امر پر ابھارا کہ خوانین اسے نذر دیا کریں.نذر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سال میں ایک بار دربار لگتا ہے اس میں نذر پیش کرنے والا ہاتھ پر اشرفیاں رکھ کر والی کے سامنے پیش کرتا ہے لیکن خوانین اسے مانے کو تیار نہ تھے البتہ اس امر پر رضا مند تھے کہ پیشکش پیش کیا کرینگے پیشکش یہ ہوتی ہے کہ تلوار وغیرہ بہت سی اشیاء گیارہ کشتیوں میں پیش کی جاتی ہیں.نذر گویا کہ پیشکش سے زیادہ اظہار عجز کا ذریعہ ہوتی ہے اور پیشکش کا درجہ کم ہوتا ہے.اس وقت جالندھر ڈویژن کا کمشنر جو اس ریاست کا پولیٹیکل ایجنٹ بھی تھا اور الیگزنڈر اینڈرسن لفٹینٹ گورنر پنجاب دونوں اس معاملہ میں خوانین کے خلاف تھے.اس معاملہ میں کامیابی و نا کا می خوانین کی عزت وذلت کے مترادف تھی.نواب صاحب نے اپنے دونوں بھائیوں کو حضور سے دُعا کرانے پر آمادہ کیا اور حضور کی خدمت میں دُعا کی درخواست کی ہیں اسبارہ میں جو اپیل دائر کی گئی تھی اس کے متعلق مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب کا ذیل کا بیان اس ضمن میں قابل توجہ ہے کہ کس طرح حضرت نواب صاحب سلسلہ کے خدام کی اعانت کا خیال رکھتے تھے.یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ خواجہ کمال الدین صاحب کی ان ایام کی خدمات ہر طرح قابل تعریف تھیں.میاں صاحب موصوف بیان کرتے ہیں کہ شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور یا مولوی محمد علی صاحب نے والد صاحب سے کہا کہ بمقد مہ کرم الدین خواجہ صاحب بہت محنت کرتے رہے ہیں اور بہت سا وقت اس میں انہوں نے لگایا ہے جس کا ان کی پریکٹس پر اثر پڑا ہے اسلئے آپ بمقدمہ نذر ان کی امداد کریں اور اپیل ان سے ہی لکھوائیں چنانچہ محض مدد کی خاطر ان سے اپیل لکھوائی اور والد صاحب نے اپنی طرف سے اور بھائیوں کی طرف سے بارہ
614 اس بارہ میں حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں : اس طرح کئی دوستوں کے حق میں ان کی مشکلات کے وقت میں بہت نمونے نشانوں کے ہیں اور کچھ ان میں سے میں نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں درج بھی کئے ہیں اور اس جگہ ایک تازہ قبولیت دعا کا نمونہ جو پہلے اس سے کتاب میں نہیں لکھا گیا ناظرین کے فائدے کیلئے لکھتا ہوں.وہ یہ ہے کہ نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ مع اپنے بھائیوں کے سخت مشکلات میں پھنس گئے تھے.منجملہ ان کے یہ کہ وہ ولیعہد کے ماتحت رعایا کی طرح قرار دیئے گئے تھے اور انہوں نے بہت کچھ کوشش کی مگر ناکام رہے اور صرف آخری کوشش یہ باقی رہی تھی کہ وہ نواب گورنر جنرل بہادر بالقابہ سے اپنی دادرسی چاہیں.اور اس میں بھی کچھ امید نہ تھی کیونکہ ان کے برخلاف قطعی طور پر حکام ماتحت نے فیصلہ کر دیا تھا.اس طوفانِ غم وہم میں جیسا کہ انسان کی فطرت میں داخل ہے انہوں نے صرف مجھ سے دعا ہی کی درخواست نہ کی بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر خدا تعالیٰ ان پر رحم کرے اور اس عذاب سے نجات دے تو وہ تین ہزار نقد روپیہ بعد کامیابی کے بلا تو قف لنگر خانہ کی مدد کے لئے ادا کرینگے.چنانچہ بہت سی دُعاؤں کے بعد مجھے یہ الہام ہوا کہ اے سیف اپنا رُخ اس طرف پھیر لے، تب میں نے نواب محمد علی خاں صاحب کو اس وحی الہی سے اطلاع دی.بعد اسکے خدا تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور صاحب بہادر وائسرائے کی عدالت سے ان کے مطلب اور مقصود اور مراد کے موافق حکم نافذ ہو گیا تب انہوں نے بلا توقف تین ہزار روپیہ کے نوٹ جونذر مقرر ہو چکی تھی مجھے دیدیئے اور یہ ایک بڑا نشان تھا جو ظہور میں آیا.۴۲۵ مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس معاملہ میں کامیابی پر نواب صاحب کے بھائیوں نے نذرانہ نہیں دیا لیکن نواب صاحب نے ایفائے عہد کیا اور کل رقم نذرانہ اپنی اور بھائیوں والی اپنی طرف سے حضور کی خدمت میں پیش کر دی.اس نذرانہ کی رقم کے آخری ہزار کی ادائیگی اور نذرانہ کے ایفاء کا ذکر حضور ذیل کے مکتوب میں فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.یہ عجیب اتفاق ہوا کہ آپ نے ہزار روپیہ کا نوٹ مکرم میاں محمد عبد الرحمن صاحب کہتے ہیں کہ لارڈ منٹو وائسرائے نے یہ فیصلہ کیا تھا (مؤلف) بقیہ حاشیہ: - صد کے قریب روپیہ دلوایا.لیکن اپیل اچھی نہ تھی اسلئے دوبارہ ایک انگریز سے بمعاوضہ قریباً اڑ ہائی صد روپیہ لکھوائی.اور نواب صاحب کے برادران نے اعتراض بھی کیا کہ ایک انگریز نے جب اتنے قلیل معاوضہ پر کام کر دیا تو خواجہ صاحب کو اتنی خطیر رقم کیوں دی گئی تھی.
615 بند خط کے اندر بھیجا اور میاں صفدر نے شادی خاں کی والدہ کے حوالہ کیا جس کو دادی کہتے ہیں.وہ بیچاری نہایت سادہ لوح ہے.وہ میری چار پائی پر وہ لفافہ چھوڑ گئی.میں باہر سیر کرنے کو گیا تھا اور وہ بُھول گئی.اب اس وقت اس نے یاد دلایا کہ نواب صاحب کا ایک خط آیا تھا میں نے پلنگ پر رکھا تھا.پہلے تو وہ خط تلاش کرنے سے نہ ملا.میں نے دل میں خیال کیا کہ کل زبانی دریافت کرلیں گے پھر اتفاقاً بستر کو اُٹھانے سے وہ خط مل گیا اور کھولا تو اس میں ہزار روپیہ کا نوٹ تھا.یہ بے احتیاطی اتفاقی ہوگئی گویا ہزار روپیہ کا نقصان ہو گیا تھا مگر الحمد للہ مل گیا.وہ عورت بیچاری نہایت سادہ اور نیم دیوانہ ہے.وہ بے احتیاطی سے پھینک گئی.خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے.آپ نے اپنی نذر کو پورا کیا.آمین.والسلام ایک پیشگوئی کے شاہد مرزا غلام احمد عفی عنہ ☆☆ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک پیشگوئی ۱۸۸۰ء اور ۱۸۸۲ء میں بیان فرمائی جس کا حضور نزول مسیح میں ذیل کے الفاظ میں ذکر فرماتے ہیں : لاتيئس من روح الله الا ان روح الله قريب الا ان نصر الله قریبیاتیک من کل فج عميق ياتون من كل فج عميق ينصرك الله حمد مراد صفدر علی صاحب نواب صاحب کے ملازم.(مؤلف) ** سلسلہ کے لٹریچر سے معین طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ یہ اپیل کب منظور ہوئی کہ جس سے حضور کا الہام پورا ہوا.چشمہ معرفت کی مندرجہ بالا عبارت سے صرف اسقدر معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک تازہ قبولیت دعا کا نمونہ ہے.البتہ الحکم بابت ۰۸-۱-۲ سے حضور کے ایک ضروری اور مفید تصنیف میں مصروف ہونے کا اور پر چہ ۰۸-۱-۶ سے اس تصنیف کے تمہ لیکچر لاہور ہونے اور اس کے ۶۴ صفحات کے مطبع میں جانے کا اور پر چہ ۰۸-۱-۶ سے اس تصنیف چشمہ معرفت کے مکمل ہو جانے کا اور سر ورق کتاب سے اسکے ۱۵ رمئی ۱۹۰۸ء کو شائع ہونے کا علم ہوتا ہے.البتہ حضرت نواب صاحب کے مکتوب مورخہ ۱۶/فروری ۱۹۰۸ء ( مندرج کتاب ہذا ۲۴۸) سے علم ہوتا ہے کہ چند روز قبل اپیل کی منظوری کی اطلاع بذریعہ تار آئی تھی.
616 من عنده - ينصرك رجال نوحى اليهم من السماء - لا مبدل لكلمات الله - دیکھو صفحه ۲۴۱ براہین احمدیہ مطبوعہ ۱۸۸۰ء ۱۸۸۲ء سفیر ہند پریس امرتسر.ترجمہ خدا کے فضل سے نو امید مت ہو یعنی یہ خیال مت کر کہ کوئی میری طرف التفات نہیں کرتا اور نہ کوئی میری نصرت کرتا ہے.یہ بات سُن رکھ کہ خدا کا فضل قریب ہے.خبر دار ہو کہ خدا کی مدد قریب ہے.وہ مدد ہر ایک ایسی راہ سے تجھے پہنچے گی کہ کبھی بند نہیں ہوگا اور لوگ ہر یک راہ سے آتے رہیں گے.جو بند نہیں ہوگا بلکہ لوگوں کے چلنے سے عمیق ہوتا رہے گا.یعنی لوگ ہر ایک راہ سے بکثرت تیرے پاس آئیں گے.یہاں تک کہ راہیں عمیق ہو جائیں گی.یہ استعارہ اس منشاء کے ادا کرنے کے لئے ہے کہ سلسلہ رجوع خلائق کا کبھی بند نہیں ہوگا اور یہ اس زمانہ کی پیشگوئی ہے جبکہ مجھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا مگر شاذ و نادر جوصرف چندا بتدائی زمانہ کے تعارف والے تھے.اور نہ گورنمنٹ کو میری طرف کچھ خیال تھا کہ اس کا اتنا بڑا سلسلہ قائم ہوگا اور نہ اس ملک کے لوگوں میں سے کوئی پیشگوئی کر سکتا تھا کہ یہ غیر معمولی ترقی ایک دن ضرور ہوگی.مگر یہ خدا کا فعل ہے.جو باوجود ہزار ہاروکوں کے جو قوم کی طرف سے اور مولویوں کی طرف سے ہوئیں خدا نے میری اِس دُعا کو قبول کر کے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۲ میں ہے یعنی رَبّ لَا تَزَرُنِي فَرُداً اپنے بندوں کو میری طرف سے رجوع دیا جب میں نے کہا کہ اے میرے پرودگار مجھے اکیلا مت چھوڑ تو جواب دیا کہ میں اکیلا نہیں چھوڑوں گا اور جب میں نے کہا کہ میں نادار ہوں مجھے مالی مدد دے تو اس نے کہا کہ ہر یک راہ سے تجھے مدد آئے گی اور وہ راہیں عمیق ہو جائیں گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یوں کی کثرت سے قادیان کی سڑک کئی دفعہ ٹوٹ گئی اس میں گڑھے پڑ گئے اور کئی دفعہ سر کا رانگریزی کو وہ سڑک مٹی ڈال کر درست کرنی پڑی اور پہلے اس سے قادیان کی سڑک کا یہ حال تھا کہ ایک یکہ بھی اس پر چلنا شاذ و نادر کے حکم میں تھا اب ہر یک سال راہ یکوں کے باعث عمیق ہو جاتا ہے اور نیز خدا نے اسی سال میں قریب ستر ہزار کے اس جماعت کو پہنچایا.کون مخالف ہے جو اس بات کو ثابت کر سکتا ہے کہ جب ابتدا میں یہ وحی نازل ہوئی تو اس وقت سات آدمی بھی میرے ساتھ تھے مگر اس کے بعد ان دنوں میں ہزارہا انسانوں نے بیعت کی.خاص کر طاعون کے دنوں میں جس قدر جوق در جوق بیعت
617 میں داخل ہوئے اس کا تصور خدا کی قدرت کا ایک نظارہ ہے گویا طاعون دوسروں کو کھانے کے لئے اور ہمارے بڑھانے کے لئے آئی.ابھی معلوم نہیں کہ طاعون کی برکت سے کیا کچھ ترقی ہوگی.اس برس میں تمام بیعت کرنے والوں نے اپنے ذمہ لے لیا کہ کچھ نہ کچھ ماہانہ اس سلسلہ کی مدد میں نذر کیا کریں.سواس ایک ہی برس میں ہزار ہاروپیہ کی آمدن ہوئی اور ہزار ہا لوگ بیعت میں داخل ہوئے اور داخل ہوتے ہیں اور وہ الہام کہ یاتیک من كل فج عميق وياتون من كل فج عميق عين طاعون کے دنوں میں پورا ہوا.اگر کوئی شخص براہین احمدیہ کو ہاتھ میں پکڑے اور میری پہلی حالت غربت اور تنہائی جو براہین احمدیہ کے زمانہ میں تھی قادیان میں آکر تمام ہندو مسلمانوں سے دریافت کرے یا گورنمنٹ انگریزی کے کاغذات میں دیکھے کہ کب سے گورنمنٹ نے میرے سلسلہ کو ایک جماعت عظیم قرار دیا ہے تو بلاشبہ وہ یقینی او قطعی طور پر سمجھ لے گا کہ اس قدر خدا کی طرف سے حسب منشاء پیشگوئی کے نصرت ہونا اورستر ہزار سے بھی زیادہ لوگوں کا بیعت میں داخل ہونا با وجود تمام مولویوں کے شور و فریاد کرنے کے بیشک ایک معجزہ ہے ورنہ خدا قادر تھا کہ اس سلسلہ کو ترقی سے روک دیتا اور مولویوں کے منصوبوں کو پورا کر دیتا یا مجھے ہلاک کر دیتا اور خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ یاتیک من كل فج عميق وياتون من كل فج عمیق اس طرح پر بھی ہر ایک پر ثابت ہو سکتا ہے کہ میں برس کے بعد ان دنوں میں پنجاب اور ہندوستان کے شہروں میں سے کوئی شہر خالی نہیں رہا جس کے باشندوں میں سے کوئی نہ کوئی قادیان میں نہیں آیا اور نہ کوئی ایسی طرف ہے جس سے مالی مدد نہ آئی اب سوچ لو کہ کیا اس قدر دور دراز عرصہ کے بعد غیب کی باتیں پورا ہونا کیا بجز خدا کی وحی کے کسی اور کی کلام میں طاقت ہے اور اگر انسان ایسا کر سکتا ہے تو نظیر کے طور پر پیش کرو کہ کس نے میری طرح گمنامی کی حیثیت میں ہو کر ظہور پیشگوئی کے دنوں سے بیس برس پہلے بذریعہ تحریر تمام دنیا میں شائع کیا کہ ایک دن وہ آنیوالا ہے کہ میری یہ حالت گمنامی جاتی رہے گی.اور ہزار ہا تحائف میرے پاس آئیں گے اور ہزار ہا لوگ دور دراز ملکوں کا سفر کر کے میرے ملنے کے لئے آئیں گے.میں جانتا ہوں کہ ایسی نظیر پیش کرنے پر ہرگز انسان قادر نہیں.۴۲۷
618 حضور نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے گواہ جو تحریر فرمائے ہیں ان میں نواب صاحب کا بھی نام ہے.چنانچہ حضور تحریر فرماتے ہیں: اس پیشگوئی کا بیان کرنا اور پھر پورا ہونا براہین احمدیہ کی شہادت سے ثابت ہے کیونکہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میں یہ پیشگوئی مندرج ہے اور براہین احمدیہ وہ کتاب ہے جو قریباً بائیس برس سے ملک میں شائع ہوگئی ہے.یہ وہ زمانہ تھا کہ جب میں گوشہ تنہائی میں پڑا ہوا تھا نہ مہمان تھے اور نہ کوئی مہمانخانہ تھا.اس واقعہ کو تمام یہ قصبہ جانتا ہے.کون ایسا بے ایمان ہے جو اس سے انکار کرے گا اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ صد ہا انسان جو اب آتے جاتے اور موجود رہتے ہیں یہ اس وقت بھی موجود تھے ڈاکخانوں کی کتابوں کو دیکھو کہ کیا یہ مالی آمدن پہلے بھی کبھی تھی اور کیا پہلے بھی اس کثرت سے لوگ آتے تھے.اور وہ معزز ا حباب جو بچشم خود دیکھ رہے ہیں کہ کیونکر اس پرانے زمانے کی پیشگوئی بڑے زور وشور سے ان دنوں میں پوری ہورہی ہے.ان احباب کے بطور گواہان رویت ذیل میں چند نام لکھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں.مولوی حکیم نورالدین صاحب بھیروی.مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی.مولوی محمد علی ایم.اے.نواب محمد علی خاں صاحب مالیر کوٹلہ.خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے پلیڈر.میر ناصر نواب صاحب دہلوی.مولوی محمد احسن صاحب امروہی مرزا خدا بخش صاحب جھنگ.سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس.مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹ چھاؤنی.شیخ رحمت اللہ صاحب سوداگر بمبئی ہاؤس لاہور.خلیفہ نورالدین صاحب جموں و غیره گواہان جو دس ہزار سے بھی زیادہ ہیں.مزید ذکر لٹریچر میں ۴۲۸ ۱.حضرت اقدس نے ۲۰ / جولائی ۱۹۰۰ ء کے اشتہار اور ایک ضمیمہ کے ذریعہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو اور علماء کو ایک طریق فیصلہ کی طرف بلایا ہے اور تحریر فرمایا ہے کہ راستباز بندوں کی تین طور سے خدائی تائید ہوتی ہے ایک ان سے خوارق صادر ہوتے ہیں جو حریف مقابل سے صادر نہیں ہو سکتے دوسرے ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے تیسرے ان کی اکثر دُعائیں قبول ہوتی ہیں.حضرت اقدس نے انہیں فصیح عربی میں قرآن مجید کی
619 تفسیر نویسی کے مقابلہ کی دعوت دی ہے تا ثابت ہو سکے کہ کس کو روح القدس کی تائید حاصل ہے.پیر مہر علی شاہ صاحب جن تین علماء کو جو دونوں کے مریدوں میں سے نہ ہوں انتخاب کرلیں مثلاً مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی.مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی اور مولوی عبداللہ صاحب پروفیسر لاہوری یا کوئی اور.یہ تینوں علماء فریقین کی تفاسیرسُن کر حلفا تین دفعہ قذف مُحصنات والی قسم کھا کر اپنی رائے دیں کہ دونوں میں سے کس کی تفسیر اور عبارت تائید روح القدس سے لکھی گئی ہے.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ اگر ان تین علماء کی شہادت سے پیر صاحب مویز قرار دیئے گئے اور مجھ سے یہ کام نہ ہو سکا یا مجھ سے بھی ہو سکا لیکن پیر صاحب سے بھی میرے مقابلہ پر ہو سکا تو میں اقرار کروں گا کہ حق پیر صاحب کے ساتھ ہے اور اپنی تمام کتا ہیں جو اس دعویٰ کے متعلق ہیں جلا دوں گا اور اپنے تئیں مخذول و مردود سمجھ لوں گا.میری طرف سے یہی تحریر کافی ہے جس کو میں آج بہ ثبت ہیں گواہان کے لکھتا ہوں.پیر صاحب اگر مغلوب ہوں تو وہ مجھ سے بیعت کر لیں اور یہ اقرار صاف لفظوں میں بذریعہ اشتہار بہ ثبت شہادت ہیں گواہان دس دن کے عرصہ میں شائع کر دیں.لیکن پیر صاحب کو اس دعوت مقابلہ کے قبول کرنے کی جرات نہ ہوئی.حضرت اقدس نے اپنے اشتہار میں ہیں معزز گواہوں میں ایک کا نام بطور " مصاحب نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ تحریر کیا ہے گویا کہ آپ کی وجاہت سے اس کا اعزاز ظاہر کیا گیا ہے.۲- اسی طرح مرقوم ہے: مسجد میں رونق افروز ہوتے ہی نواب صاحب سے ملاقات ہوئی.نواب صاحب کے عارضہ دورانِ سر کے متعلق ان کا حال پوچھا اور فرمایا کہ سیر اس مرض میں مفید ہے.نواب صاحب نے لیکھرام کے دوفو ٹو حضرت کے پیش کئے.ایک اس کی زندگی کا اور ایک مُردہ لاش کا.حضرت نے فرمایا کہ نزول مسیح میں مُردہ لاش کا فوٹو دیا جاوے اور اس کے اوپر اُس کی پیشگوئی والے ابیات تحریر کر کے عین تصویر پر ہاتھ دکھایا جاوے جو کہ کرامت گر چہ بے نام ونشان ست بیا 66 بنگر زغلمان محمد کے نیچے اشتہاروں میں بنا ہوا ہے ( یہ تصویر یزول مسیح ۱۷۵ اور حقیقۃ الوحی ۲۹۳ ۳۲۰۰ پر طبع ہوئی ) اشتہاروں میں نا ہوا ڈائری از نمونه پرچہ القادیان بابت ۰۱-۹- اوالبدر جلد نمبر صفحه ۴ ( دوبارہ حوالہ بوجہ فائل نہ ہونے کے دیکھا نہیں جاسکا )
620 مرض الموت حضرت نواب صاحب بالآ خر جس مرض سے جاں بحق ہوئے اس کے متعلق ذیل کا اعلان بہ عنوان حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی خطرناک علالت.سچی محبت رکھنے والے دلوں کی تڑپ کی ضرورت“ شائع ہوا: حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ بنت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتی ہیں: اپنی لڑکی منصورہ بیگم کی صحت کے لئے دُعا کے واسطے میں نے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور احباب جماعت کی خدمت میں تحریک کی تھی.آجکل اس سے بھی بڑھ کر فکر وتشویش میں میرا دل اپنے محترم شوہر نواب محمد علی خاں صاحب کی خطرناک علالت کی وجہ سے مبتلاء ہے ان کو PAPILLOMA کی وجہ سے پیشاب میں خون بکثرت آرہا ہے اور اپریشن بوجہ کمزوری اور ذیا بیطس کے ان کے لئے خطرہ کا موجب ہو گا مگر ڈاکٹر صاحبان اس مرض کا علاج بھی محض اپریشن بتلاتے ہیں اگر خون اسی طرح جاری رہا تو غالبا کروانا ہی پڑے گا.ان کی اس بیماری کی وجہ سے مجھے شدید کرب و اضطراب ہے مہربانی فرما کر سب احباب دُعا در دول سے کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے سب بلائیں دور فرمائے اور ان کی زندگی میں خاص برکت صحت اور سلامتی کے ساتھ عطا فرمائے.اور منصورہ بیگم کے لئے بھی دُعا فرمائیں کہ اس کا دہلی علاج کے لئے جانا خدا کی رحمت نزول کا بہانہ ہو جائے ہمارے خاندان کے کئی افراد اس وقت بیماری میں مبتلاء ہیں اور دل کو آرام اور اطمینان نہیں.پس اس وقت ہمیں سچی محبت رکھنے والے دلوں کی تڑپ کی خاص ضرورت ہے جو خدا کے فضل وکرم کو جلد سے جلد کھینچ سکے بلاؤں کے وقت آتے ہیں اور گذر جاتے ہیں اللہ تعالیٰ فضل فرمائیگا اور اس کی رحمت سے امید ہے کہ ضرور فرمائے گا مگر ایسے وقت میں دعاؤں سے مدد کرنے والوں کی نیکی بھی خدا تعالیٰ کے حضور میں یادگار رہ جاتی ہے.(مبارکہ ) مرض کے دوران میں دُعا کے بار بار اعلان ہوتے رہے.ایک دفعہ آپ شملہ بھی گئے.علاج بھی ایلو پیتھک ہومیو پیتھک وغیرہ متعد د قسم کے کئے گئے.لیکن ۴۲۹ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی تقدیر الہی میں آخری وقت آن پہنچا تھا.آخری ایام کے متعلق دو اعلان ذیل میں درج کرتا ہوں.جن میں موقر الفضل میں یہ عنوان ” حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی تشویشناک علالت مرقوم ہے: قادیان ۸ ماه تبلیغ حضرت نواب صاحب کے متعلق آج کی اطلاع یہ ہے کہ بخار
621 تو کم ہے مگر باقی عوارض کمر درد اور خون کا آنا اسی طرح ہیں یہ کمزوری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ بولا بھی نہیں جاتا دوا اور پانی وغیرہ بھی چمچہ سے حلق میں ڈالا جاتا ہے دعاؤں کی از حد ضرورت ہے احباب جماعت خاص طور پر حضرت ممدوح کے لئے دُعائیں کریں“.ڈاکٹر لطیف صاحب کو دہلی سے بذریعہ تار بلوایا گیا جو آج دوپہر کی گاڑی سے تشریف لائے.ان کی تشخیص ہے کہ اس وقت حضرت نواب صاحب کو نمونیہ سخت قسم کا ہے اور دونوں پھیپھڑوں پر اس کا اثر ہے.لاہور اور دہلی سے پینی سیلین کے منگوانے کا انتظام کیا جا رہا ہے باقی حالات بدستور ہیں کمزوری بہت زیادہ ہے.احباب خاص طور پر حضرت نواب صاحب کی صحت وعافیت کے لئے دُعا فرمائیں.وفات اور تجہیز وتدفین بالآخر اس جلیل القدر صحابی کی رُوح ۱۰ فروری ۱۹۴۵ء کو جسد عصری سے پرواز کر گئی اناللہ وانا اليه راجعون.وفات کی خبر ملنے پر قادیان کے احباب کثرت سے تعزیت کے لئے کوٹھی ” دار السلام پہنچے.ان کی کثرت کی وجہ سے باغ میں دریاں بچھائی گئیں.اس وقت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب حضرت مدوح کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے متعلق حالات بیان فرماتے تھے جس نے میری آتش شوق کو اس قدر بھڑ کا یا کہ اگلے روز سے ہی میں نے آپ کے حالات قلمبند کرنے شروع کر دیئے.تعزیت کے لئے ہز ہائی نس نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی طرف سے ان کے ولیعہد نواب زادہ افتخار علی خاں صاحب.نیز نواب زادہ رشید علی خاں صاحب خلف سر ذوالفقار علی خاں صاحب مرحوم اور ہز ہائی نس کے چھوٹے صاحبزادہ نواب زادہ الطاف علی خاں صاحب مع اپنی ہمشیرہ بیگم نواب زادہ میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب تشریف لائے.موخر الذکر اور کئی ایک اقارب کئی روز سے آئے ہوئے تھے مجھے ان میں سے بعض سے استفادہ کرنے کا موقعہ ملا.الفضل میں زیر عنوان ” حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ کی تجہیز وتدفین ذیل کی تفصیل مرقوم ہے جس کا اکثر حصہ خاکسار کو مشاہدہ کرنے اور جنازہ کو کندھا دینے کا موقعہ ملا: قادیان ۱۱ فروری.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ ایک لمبی مدت کے بعد کل انتقال فرما گئے انا لله وانا اليه راجعون آپ اگست ۱۹۴۴ ء سے علیل چلے آتے تھے اور پیشاب میں خون آنے کی تکلیف تھی.جس کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکے تھے مگر آخر تک ہوش وحواس بالکل درست رہے اگر چہ آخری دور روز بول نہ سکتے تھے.
622 وفات کی خبر ملتے ہی قادیان کے مرد اور خواتین حضرت نواب صاحب کی کوٹھی پر پہنچ گئے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بھی تشریف لے گئے اور رات کے گیارہ بجے تک وہیں رہے.آج صبح سے احباب جماعت کے علاوہ سکھ اور ہند و اصحاب بھی بکثرت آتے رہے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ بھی بارہ بجے کے قریب تشریف لے گئے چونکہ دو پہر کی گاڑی سے بیرونجات سے بعض اعزہ کے آنے کی امید تھی اس لئے جنازہ کوٹھی سے لے جانے کے لئے تین بجے بعد دو پہر کا وقت مقرر تھا.اس اثناء میں کوٹھی کے اندر ہزاروں خواتین نے مرحوم کی آخری زیارت کی.دو پہر کی گاڑی سے مرحوم کے بعض عزیز جن میں نواب زادہ خورشید علی خاں صاحب خلف سر ذوالفقار علی خاں صاحب.سر موصوف کی بیگم صاحبہ اور اس خاندان کی بعض دیگر خواتین تشریف لائیں.نواب زادہ احسان علی خاں صاحب کئی روز پیشتر سے ہی جب سے کہ حضرت نواب صاحب کی طبیعت زیادہ کمزور ہوگئی تھی یہاں تشریف رکھتے تھے حضرت نواب صاحب کے فرزند اکبر نواب زادہ عبدالرحمن خاں صاحب بھی کئی روز سے یہاں تشریف فرما تھے.نواب سر ذوالفقار علی خاں صاحب کی صاحبزادی بیگم اعزاز رسول صاحب آف مندیلہ بھی کئی روز سے یہیں تھیں.ان کے علاوہ لا ہور امرتسر.کپورتھلہ.جالندھر وغیرہ سے بعض احمدی احباب اور صاحبزادگان خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے پہنچ گئے تین بجے جنازہ باہر لایا گیا اس وقت تک احمدی احباب کی کثیر تعداد جمع ہو چکی تھی جنازہ کوٹھی کی بیرونی ڈیوڑھی میں رکھا گیا جہاں ہزاروں احباب نے ایک ترتیب کے ساتھ حضرت نواب صاحب کی آخری زیارت کی اس کے بعد چار پائی کے ساتھ لمبے بانس باندھ دیئے گئے تا کندھا دینے والوں کو سہولت ہو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جنازہ کو کندھا دیا اور جنازہ گاہ تک ہزاروں افراد نے کندھا دینے یا درد بھری دُعاؤں کے ساتھ ہاتھ لگانے کا ثواب حاصل کیا اور جنازہ دار الفضل اور دارالعلوم کی درمیانی سڑک پر سے شہر اور پھر وہاں سے باغ متصل مقبرہ بہشتی میں لے جایا گیا.جہاں جانب غرب نماز جنازہ پڑھنے کا انتظام کیا گیا تھا اور صفیں سیدھی باندھنے کے لئے زمین پر سفیدی کے ساتھ خط کھینچ دیئے گئے تھے احمدی احباب کی کثیر تعداد جنازہ میں شریک ہونے کے لئے جمع ہو چکی تھی اندازہ ہے کہ قریباً تین ہزار افراد شریک ہوئے بہت سی خواتین بھی خود بخود پہنچ گئی تھیں وہ اس تعداد میں شامل نہیں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور تمام مجمع نے رقت اور خشیت کے ساتھ حضرت نواب صاحب کے لئے دُعائیں کیں.نماز جنازہ کے بعد پھر حضور ایدہ اللہ نے چار پائی کو کندھا دیا اور جنازہ اس خاص احاطہ میں لے جایا گیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مزار ہے قبر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم و مغفور کے بائیں جانب کھو دی گئی میت کو لحد میں اتارنے کے لئے
623 حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ مکرم نواب زادہ محمد عبد اللہ خان صاحب اور مکرم نواب زادہ محمد احمد خاں صاحب اُترے اور چار پائی پر سے میت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے صاحبزادگان نے اُٹھایا میت کو لحد میں رکھنے کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور دوسرے احباب با ہر نکل آئے لحد پر کچی اینٹیں چینی گئیں.اس کے بعد حضور نے دونوں ہاتھوں سے تین دفعہ مٹی اٹھا کر قبر میں ڈالی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر دُعا کے لئے تشریف لے گئے.پھر سیدہ امتداحی صاحبہ سیده ساره بیگم صاحبہ اور سیدہ ام طاہر صاحبہ کی قبروں کے پاس تشریف لے گئے اور دُعا فرمائی.اس دوران میں دوسرے دوست حضرت نواب صاحب کی قبر پر مٹی ڈالتے رہے.قبر مکمل ہونے پر حضور تشریف لائے اور تمام مجمع سمیت دُعا فرمائی.چونکہ عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا اس لئے حضور نے اسی جگہ نماز پڑھائی جہاں جنازہ پڑھا گیا تھا.چونکہ جنازہ پڑھانے سے قبل اعلان کر دیا گیا تھا کہ حضور عصر کی نماز اسی جگہ پڑھائیں گے اس لئے خادم مسجد جائے نماز لے آئے اور حضور کے لئے صفوں کے آگے بچھا دیا چونکہ سارے مجمع کے لئے فرش نہ تھا اور سب اصحاب سفید زمین پر کھڑے تھے حضور نے بھی اپنے آگے سے جانماز اُٹھوادیا اور خالی زمین پر نماز پڑھائی“.۴۳۳ آپ کی ایک نیکی اور اللہ تعالیٰ کا فضل حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے ذیل کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے کس طرح حضرت نواب صاحب کی ایک نیکی کو نوازا اور آپ کی اس خواہش کو پورا کرنے کا سامان کر دیا کہ آپ کی وفات قادیان کی مقدس سرزمین میں ہو.آپ فرماتی ہیں: ہر انسان کے نیک افعال میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ سننے والا خیال کرتا ہے یا کہہ سکتا ہے کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں اس جگہ ہر شریف آدمی ایسا ہی کرتا یا ہم بھی ہوتے تو یونہی کرتے مگر بظاہر معمولی سی نیکی بھی اپنی جگہ اور اس وقت پر جب وہ سرزد ہوئی دیکھنے والوں کے لئے کسی کی نیک نیت کے اثر سے اور وقتی حالات پر غور کرنے کی وجہ سے بہت گہرا اثر چھوڑ جاتی ہے.میاں مرحوم کا آج نہیں ان کی حیات میں اور ابتدا سے ہی میں نے شوہر جان کر نہیں ایک احمدی اور صحابی سمجھ کر اکثر نظر غور سے مطالعہ کیا اور میرے دل میں ان کے نور ایمان کو اور ان کی سعید فطرت کو دیکھتے ہوئے ان کی قدر روز بروز بڑھتی ہی چلی گئی.ایک واقعہ ان کی زندگی کا جس نے مجھ پر بہت گہرا اثر ڈالا وہ ان کی ایک نیکی تھی جو بظاہر معمولی تھی اور جو بھی ان کی جگہ ہوتا یہی کرتا جو انہوں نے کیا مگر جس تڑپ اور اخلاص سے کیا وہ حالت تھی جو اس اثر کو آج
624 تک میں اپنے دل کے اندر تازہ پاتی ہوں.ہم سروانی کوٹ میں تھے کہ ڈاکٹر محمد اسمعیل خان گڑیانی والے جو نواب صاحب کی ملازمت کے سلسلہ میں وہاں مقیم تھے موسم گرما میں نمونیا میں مبتلاء ہو گئے اور ان کی بیماری سرعت سے بڑھ کر خطرناک صورت اختیار کر گئی.ڈاکٹر صاحب مرحوم صحابی اور بڑی خوبیوں کے انسان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق زار تھے اور ایک بات اپنے متعلق اکثر سُناتے تھے کہ میرے گاؤں میں لوگ کہتے ہیں کہ قادیانی ہو تو گئے ہو.میاں کبھی مرو گے تو (نعوذ باللہ ) گتے لاش گھسیٹیں گے یہاں تو کوئی جنازہ بھی نہ پڑھائے گا تو میں ان کو یہ شعر سُنا دیتا ہوں کہ مجنوں تھا میں جو کہ بیاباں میں رہ گیا! ہم تو مریں گے یار کی دیوار کے تلے! غرض جب ان کی حالت نازک ہونے لگی تو نواب صاحب کی بیقراری بھی بڑھنے لگی لیٹتے اور پھر اُٹھ بیٹھتے ان کے فکر کے علاوہ ایک خاص کرب تھا جس کو میں دیکھ رہی تھی آخر جو دل میں تھا انکی حالت یاس کو دیکھ کر اس کا عزم کر لیا اور ڈاکٹر صاحب کے پاس باہر گئے اور ان کو کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کا قادیان جانے کو دل چاہتا ہو گا آپ بالکل فکر نہ کریں اور نہ جھکیں آپ کہدیں اگر جانا چاہتے ہیں تو فورا نہایت آرام سے پہنچانے کا انتظام آپ کے لئے میں کروں گا.ڈاکٹر صاحب چاہتے ہی تھے کہا مجھے قادیان پہنچادیں تو اچھا ہی ہے.اسی وقت ریز روڈ درجہ کا انتظام نہایت تگ و دو سے کر کے ساتھ آدمی بھجوا کر ڈاکٹر صاحب کو قادیان جلد از جلد روانہ کر دیا گیا.یہاں انہوں نے تیسرے روز بچ بچ یار کی دیوار تلے جان اپنے مولی کو سونپ دی کیا لوگ تھے جن کو خدا کے ہاتھ نے اس زمانہ میں جواہر ریزے سمجھ کر چن لیا تھا خدا زیادہ ہی زیادہ اپنا قمر ب ان کو عطا فرما کر اُن کے درجات بلند کرتا رہے.آمین.ڈاکٹر صاحب کو بھیج کر جو خوشی جو اطمینان اور مسرت کی لہر ان کے چہرہ پر تھی میں اس کو بھول نہیں سکتی.جب اطلاع آگئی تو بار بار کہتے تھے شکر ہے کہ ڈاکٹر صاحب زندہ قادیان پہنچ گئے.انکی تمنا پوری ہوگئی.اب انکو اطمینان ہوگا.خوش ہو نگے وغیرہ.اس کا ہمیشہ ہی خیال رہتا مگر اب چند سال سے کئی بار بہت تڑپ سے فرمایا کرتے تھے کہ دُعا کرو جب میرا وقت آئے تو قادیان سے باہر نہ آئے.میں قادیان میں ہی مروں ( شاید ان کے پاس اس کے متعلق فکر کے لئے وجوہ بھی ہوں ) بہت ہی تڑپ سے اس دعا کے لئے کہتے میرے لئے ایسا ذ کر سخت تکلیف دہ ہوتا تھا مگر ایک دن میں نے اس کے جواب میں ان سے بہ چشم پر آب کہہ ہی دیا تھا کہ ” آپ فکر نہ کریں میرا ایمان ہے کہ ڈاکٹر محمد اسمعیل خاں مرحوم والی آپ کی نیکی خدا ہرگز ضائع نہیں کریگا اور آپ کا وقت انشاء اللہ قادیان میں ہی آئے گا.اور سالہا سال کا عرصہ باہر اور اکثر حصہ وقت
625 علالت کا بھی سفروں میں گزار کر آخر وہی ہوا کہ ان کی دُعا خدا نے قبول کی اور قادیان دارالامان میں ہی وفات نصیب ہوئی.”میرے لئے زندگی میں گوسب سے بڑا غم ان کی جدائی کا ہی وقت تھا مگر وہی وقت حقیقت میں میری سب سے بڑی خوشی کا بھی ہو گیا جب واپس آنے والوں نے کہا کہ ہم انکو بہشتی مقبرہ میں دفن کر آئے ہیں بے اختیار میرے دل نے کہا الحمد للہ اس جذ بہ سے غالباً ہر احمدی آشنا ہوگا“.حالات سے مجبور ہو کر کئی سال آخری کو ٹلہ میں ہی گزارے اور سروانی کوٹ میں قیام رہا جتنا بھی کہا جاتا مجبوری ہی ظاہر کرتے اور قادیان کو واپسی میں التوا ہی ہوتا رہتا ۴۲ء میں خود ہی اپنے ریاستی اور مالی معاملات کو جیسے بھی ہو سکا کچھ انتظامی صورت دی اور قادیان واپسی کی تیاری بغیر کسی کی تحریک خاص کے کر لی.بہت انہماک سے روز وشب لگ کر کام ہوتا رہتا اور جانے کا پختہ طور پر ذکر رہتا تو اب سب کو وہاں فکر ہوا نواب صاحب مالیر کوٹلہ خود اور دوسرے عزیز بہت آتے اور کہتے کہ ابھی آپ نہ جائیں مگر یہ یہی کہتے کہ اب وقت آگیا ہے اب تو مجھے قادیان جانا اور وہیں رہنا ہے.غرض سب نے بہت زیادہ کوشش کی مگر وہ جو پہلے یہاں آہی نہ سکتے تھے اب سب کے اتنے اصرار کے باوجود وہاں ذرا اور نہ ٹھہرے اور قادیان آگئے.یہ الفاظ کئی بار کہے کہ اب میرے قادیان سے باہر رہنے کا وقت نہیں رہا.یہاں آکر ۴۳ ء کے نومبر میں علیل ہوئے اور آخر کار ۱۰ر فروری ۱۹۴۵ ء شام کے ۸ بجے کینسر مثانہ کے موذی مرض سے انتقال فرمایا.انا للہ وانا اليه راجعون.مرض الموت کے حالات سیدہ محترمہ بیان فرماتی ہیں: بیماری میں بھی ہر وقت صفائی اور طہارت کا خیال رہتا صرف ۱۸ دن بستر پر مجبوراً لیٹے جب بالکل طاقت نہ رہی.ورنہ بڑی ہمت قائم رکھی بڑا حوصلہ دکھایا میں گھبرا جاتی تو مجھے تسلی دیتے اور گھبرانے سے منع کرتے.کہتے مومن گھبراتا نہیں صرف دُعا کرتا ہے.تم دل چھوڑتی ہو بڑے افسوس کی بات ہے.جب تک تکلیف حد صبر سے نہ گذرگئی اپنی طبیعت کو سنبھال کر بڑے صبر کے ساتھ بشاش ہی نظر آنے کی کوشش کرتے رہے.اس حال میں بھی جو پوچھنے کو آتا اس کا حال وغیرہ پوچھتے اور خوشی سے بات چیت کرتے.بالکل آخری دنوں میں مالیر کوٹلہ سے جو عزیز اور خادم و غیر متعلقین آئے سب سے بہت اچھی طرح ملے اور سب کی خیریت دریافت کی.ابتداء میں خواب سُنا دیتے تھے اور گا ہے لکھ بھی لیتے تھے لیکن پھر سُنانے اور تحریر کرنے سے رُک گئے اور
626 کہتے تھے کہ ہماری جماعت کے بعض کو ایک دو خوا ہیں آگئیں اور بچی ہوگئیں اور ایک آدھ الہام ہو گیا تو اپنے تئیں کچھ مجھنے لگ گئے اس لئے آپ خوابوں وغیرہ کے اظہار سے ڈرتے تھے کہ یہ امر بھی فتنہ کا موجب بن جاتا ہے.صفائی کا بہت خیال عمر بھر رہا قریبا ہر وقت باوضور بہتے تھے گندگی سے سخت متنفر تھے تو آخری علالت میں ایک کشفی حالت پیدا کر کے خدا نے ان کی تسکین کا سامان یوں پیدا کیا کہ جیسا انہوں نے خود بتلایا کہ جب مجھے تمیم کرایا جاتا ہے گویا ایک طلسم کا سا کارخانہ ہے کہ تیم کر چکتا ہوں اور اس بستر سے مجھے اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور ایک صاف لیتے ہوئے کسان کے گھر میں نماز پڑھتا ہوں جہاں میں نے سلام پھیرا اور پھر دیکھتا ہوں کہ اپنے بستر پر ہوں اور تم سب گرد موجود ہو یہ بات پورے ہوش میں مجھے انہوں نے بتلائی پہلے ایک دوبار میں نے اس کو ویسے ہی سمجھا کہ بیماری میں دماغ پر اثر ہے مگر ایک دن پورے ہوش میں پھر سب سُنایا اور یہ بھی کہا کہ میں نے پہلے دوبارتم کو بتانا چاہا مگر تم نے ٹھیک سُنا نہیں.تم شاید ہذیان بجھتی تھیں مگر حقیقت یہ ہے کہ میرے ساتھ یہی عجیب معاملہ ہورہا ہے کہ جہاں تمیم کی تھیلی پر ہاتھ مارا اور میں یہاں سے غائب ہوتا ہوں اور جہاں سلام پھیرا اور پھر یہاں بستر پر آن موجود ہوتا ہوں واللہ اعلم یہ کیا معاملہ تھا گھر بھی ایک ہی ان کو کسان کا دکھا یا جا تا تھا بہر حال پاکیزگی کی جو ان کو تڑپ تھی اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ضرور کچھ سامان کر دیا تھا.یه کشفی حالت مرض الموت میں بار ہا آپ پر طاری ہوتی رہی چنانچہ سیدہ موصوفہ بیان فرماتی ہیں کہ : ’ وفات سے دو تین روز پہلے کی بات ہے کہ ہم آپ کے پاس بیٹھے تھے آپ کی طبیعت بہت خراب تھی کہ آپ نے فرمایا کہ مودود کو کیوں مارا ہے کہا کہ اسے کسی نے نہیں مارا کہا اس کو میرے پاس لاؤ.آپ کے فرمانے پر عزیز کو بلایا گیا.اب معلوم ہوا کہ واقعی اس کی والدہ نے اس کو اسوقت مارا تھا.تو آپ نے اسے پیار کیا مسعود احمد سے کہا کہ اسے مارا نہ کریں.ایک دن میاں محمد احمد صاحب کو زکام تھا.وہ دوسری طرف چلے گئے اور آپ کے پاس تمام دن نہیں آئے کہ تکلیف ہوگی آپ نے پوچھا کہ میاں محمد حمد نہیں آئے اور پھر خود ہی فرمایا کہ ان کی تو خود کمر میں بہت رد ہے.اتنے میں امتہ الحمید بیگم آئیں اور انہوں نے کہا کہ ان کے ( محمد احمد ) کمر میں بہت درد ہے حالانکہ اس بات کا مجھے بھی علم نہیں تھا اور وہ یہی کہہ کر گئے تھے کہ زکام ہے.تدفین کے روز حضرت میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب نے ایک بات سُنائی تھی جس کا حضرت نواب صاحب پر انکشاف ہوا تھا اسے حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے الفاظ میں درج کرتا ہوں فرماتی ہیں: وفات سے چھ سات روز پہلے کی بات ہے کہ بار بار فرماتے تھے کہ فتنہ کا بہت ڈر ہے کئی سازشیں ہو رہی ہیں.بڑا فتنہ ہے.حضرت صاحب کو اور (صاحبزادہ مرزا)
627 ناصر احمد صاحب کو کہنا چاہئیے کہ انتظام کرلیں اور پھر جب آنکھ کھلتی اور پھر بیدار ہوتے تو بار بار پوچھتے تھے کہ کیا انہیں اطلاع کر دی ہے.میاں ناصر احمد اور حضرت صاحب کو ویسے بھی کئی بار بہت زور سے یہی ذکر کرتے تھے گھبرا کر “ یہ فتنہ عظیم تقسیم ملک کی صورت میں نمودار ہوا جس سے جماعت احمدیہ کو مجبوراً اپنے مقدس مرکز قادیان سے ہجرت کرنی پڑی.آپ کی طبیعت ہمیشہ شام کو ذرا مضمحل ہو جاتی تھی لیکن صبح کے وقت بہت ہی اچھی ہوتی تھی اور بشاش.آپ کی عادت تھی کہ نماز صبح کے بعد بالکل نہیں سوتے تھے خواہ رات کو دو بجے ہی تہجد وغیرہ کے لئے اُٹھے ہوں.علالت میں ایک دن مجھے خیال آیا کہ آپ کی وفات کہیں شام کو نہ ہو اس دن شام آپ کی طبیعت بہت خراب ہوگئی لیکن صبح پوری ہوش میں آگئے ایک دفعہ آخری دن فرمایا کہ ابھی آٹھ گھوڑوں والی گاڑی میرے لئے آئی تھی میں اس پر جارہا تھا.میں نے دریافت کیا کہ آپ نے خواب دیکھا ہے کہنے لگے کہ ہاں خواب میں دیکھا ہے.میں نے پوچھا میں بھی ساتھ تھی تو کچھ کہا جو سمجھ نہیں آیا.مکرم میاں محمد عبداللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں: مرض الموت کے ایام میں غالباً وفات سے دو دن قبل ماموں جان کرنل اوصاف علی خانصاحب تشریف لائے.والد صاحب ان سے فرمانے لگے کہ دنیا چند روز ہے آپ نے بھی مرنا ہے میں نے بھی مرنا ہے لیکن بہتر ہی ہے کہ مرنے سے پہلے عمل اور شکل احمدیت کے مطابق ہو.پھر حضرت مسیح موعود.حضرت خلیفتہ اسیح اول - حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور چند اور صحابہ کا نام لیا لیکن تمام فقرات ضعف کی وجہ سے سنے نہ گئے اور خاموش ہو گئے.ماموں جان کی ڈاڑھی منڈی ہوئی تھی.ان پر نصیحت کا اس قد را ثر ہوا اور اتنی رقت طاری ہوئی کہ وہاں ٹھہر نہ سکے بلکہ روتے ہوئے باہر نکل آئے.اس دن سے انہوں نے داڑھی رکھ لی.فرماتے تھے کہ مجھ پر نواب صاحب کے بڑے ہی احسان تھے.مرتے وقت بھی مجھ پر احسان کر گئے.حضرت مسیح موعود جتنی عمر پانے کی خواب نواب صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جتنی عمر پانے کے متعلق خواب دیکھا تھا جو پورا ہوا.اس میں ایک لطیف امر یہ ہے کہ جیسا کہ حضور نے نواب صاحب کے جسمانی فرزندی میں آنے سے قبل آپ کے لئے فرزند کا لفظ استعمال فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے ظاہری فرزندی بھی نصیب کی نواب صاحب کی
628 خواب میں حضور کو آپ کا والد قرار دیا گیا ہے.زہے قسمت اسیدہ محترمہ بیان فرماتی ہیں: پہلے خواب میں ایچیسن کالج لاہور کا نظارہ ہے.میں کسی سے کہتا ہوں کہ انٹرنس کے بعد میری طبیعت کا لج میں نہیں جھی.ملکہ وکٹوریہ خود مجھے بلانا چاہتی تھیں کہ میں اور آگے پڑھوں.مگر میں نے آگے پڑھنا نہیں چاہا بلکہ وکٹوریہ مجھے سامنے نظر بھی آتی ہیں.پھر یہ نظارہ بدل کر دیکھتا ہوں کہ قادیان ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر الہامات بارش کی طرح ہو رہے ہیں.بہت سے لوگ میدان میں جمع ہیں.اتنا کثیر ہے کہ جہاں تک نظر جاتی ہے آدمی ہی آدمی نظر آتے ہیں.مولوی نورالدین صاحب.مولوی عبد الکریم صاحب اور میں بیٹھے ہیں.اتنے میں لوگوں میں سے ایک شخص آتا نظر آتا ہے اور مجمع میں جہاں سے وہ گذرتا ہے حرکت معلوم ہوتی ہے جس طرح کھیت میں سے کوئی گزرے تو اس جگہ کے پودے ملتے ہیں اور وہ میاں نجم الدین تھے ہم نے سمجھا کہ کوئی متوحش الہام لائے ہیں انہوں نے کوئی الہام بھی سنایا اور مولوی صاحب وغیرہ کو کہا کہ حضرت مسیح موعود بلاتے ہیں ہم اُٹھ کر گئے.میں مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب کے پیچھے تھا الہام انہوں نے مولوی صاحب کو سنا یا ایک لفظ اس کا اتاتی فرقہ“ اور ایک لاتستعجلون “یا در ہا اور یاد نہیں رہا بڑا مبشر تھا اور ( خواب میں ) میری سمجھ میں مطلب یہ آتا ہے کہ ایک فرقہ تم کو دیا گیا اور تم کامیاب ہو گے جلدی نہ کرو اب گویا میرے مکان میں حضرت اقدس بیٹھے ہیں اور ساتھ ہی مولوی محمد احسن (امروہی ) وہاں ہیں اور میرے بھائی محمد باقر علی خاں سے کہا کہ دیکھا؟ اور انکے اہلکار محمد حسین خان نے حضرت اقدس سے کہا کہ ہمارے میاں تو اس جماعت میں سے نہ ہونگے ( یہ گویا اسی الہام کے سلسلہ کی گفتگو معلوم ہوتی ہے) مجھے یاد نہیں حضرت نے کیا فرمایا مگر کچھ دلداری کے طور سے کہا.پھر گویا یہ سماں بدل گیا اور میں اور میری بیوی وغیرہ بیٹھے ہیں اور میں یہ (مندرجہ بالا ) خواب اپنی بیوی کوسنا تا ہوں اور یہ خبر نہیں کہ اس خواب سے یا کسی اور بات سے میں نے نتیجہ نکالا ہے مگر غالباً اسی خواب سے ہی ہے کہ میری عمر سے برس کی ہوگی میری بیوی نے کہا کہ تم اس وقت بہت بوڑھے ہو گے بہت بوڑھے ہو جاؤ گے میں نے کہا نہیں میرے والد کی عمر بھی
629 اتنی ہی تھی وہ تو ایسے بوڑھے نہ ہوئے تھے اور اسی سلسلہ میں کہتا ہوں کہ میری والدہ کا انتقال میرے والد کے ۶ سال کے بعد ہوا تھا.اسکے بعد میری آنکھ کھل گئی میں نے استغفار اور درود پڑھا اور مجھے حیرت رہی کہ میرے والد کی عمر تو ۴۸ سال کی تھی رویا میں میں نے ۷۴ سال کیسے کہی ہاں والدہ کے انتقال ( کے ) متعلق 4 برس ( بعد ) بالکل ٹھیک تھے.یہ خواب جب ابتدا میں مجھے سنایا تو کہا تھا کہ میرے دل میں یہ خیال گزرا تھا کہ والد سے مراد میرے روحانی باپ حضرت اقدس تو نہیں ؟ وہ ۴ے سال کی عمر میں مرض میں گرفتار ہوئے اور پچہتر سال ایک ماہ دس روز کی عمر میں وفات پائی اور یہ خواب پورا ہو گیا.“ الفضل میں ذکر خیر موقر الفضل زیر عنوان ” حضرت نواب صاحب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ کا المناک انتقال رقمطراز ہے: قادیان ۱۱ فروری.وہ معزز و مکرم ہستی جو اپنی عظمت اور شان کے لحاظ سے جماعت احمدیہ میں اپنی مثال آپ تھی وہ شوکت اور تمکنت رکھنے والی ہستی جس کے خاندان میں حکومت پشتوں سے چلی آرہی تھی.وہ دور بین اور دوراندیش ہستی جس نے مذہب سے بیگانہ اور دنیوی عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے ماحول سے اپنی عمر کے ابتدائی زمانہ میں ہی نکل کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس وقت شناخت کرنے کا شرف حاصل کیا جب بڑے بڑے علم رکھنے والے بڑی بڑی ریاضتیں کرنے والے اور مسیح موعود کی آمد کا بے تابی سے انتظار کرنے والے لوگوں کی آنکھوں پر کبر ونخوت کی پٹی بندھی ہوئی تھی وہ خدا تعالیٰ کی رضا اور قرب کی جو یاں ہستی جس نے اپنا وطن چھوڑ کر جہاں اسے ہر رنگ کی ریاست حاصل تھی اور حکومت کے سامان میسر تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے در کی گدائی کو ترجیح دی اور اس وقت ترجیح دی جبکہ قادیان کی بستی میں معمولی معمولی ضروریات زندگی بھی میسر نہیں آسکتی تھیں وہ شاہانہ ماحول میں پاکیزہ اطوار رکھنے والی ہستی جس نے اپنے وسیع محلات چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قرب میں چند فٹ کی کوٹھڑیوں میں رہائش پسند کی.وہ جو دوسخا میں اپنا ثانی نہ رکھنے والی ہستی جس نے اس کثرت اور اس وسعت سے اپنے اموال احمدیت کو تقویت پہنچانے اور غرباء کی امداد کرنے کے لئے صرف کئے کہ ابتدائی زمانہ میں اس کی مثال نہیں ملتی.یعنی حضرت نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ.انہیں کل سے بجکر ۴۰ منٹ شام کو محبوب حقیقی نے اپنے پاس بلاليا انا لله وانا اليه راجعون -
630 حضرت نواب صاحب رضی اللہ عنہ کی ولادت یکم جنوری ۱۸۷۰ ء کی تھی اور رحلت ۱۰ فروری ۱۹۴۵ء کو فرمائی گویا آپ نے ۷۵ سال ایک ماہ اور دس دن عمر پائی اور اس پاکبازی اور تقولی شعاری کے ساتھ اس عمر کا ہرلمحہ گزارا کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے آپ کے متعلق نہایت ہی تعریفی کلمات استعمال فرمائے جو قیامت تک قائم رہیں گے اور نہ صرف آپ کے متعلق بلکہ آپ کے والد ماجد کے متعلق یہاں تک رقم فرمایا کہ مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو کہ باوجود بہم پہنچنے تمام اسباب اور وسائل غفلت اور عیاشی کے اپنے عنفوان جوانی میں ایسا پر ہیز گار ہو.یہی نہیں بلکہ خود خدا تعالیٰ نے آپ کو ایک بہت بڑے لقب سے نوازا اور اپنے مسیح کی پاک زبان مبارک سے آپ کو بشارت سنائی کہ ایک کشف میں آپ کی تصویر ہمارے سامنے آئی اور اتنا لفظ الہام ہوا’ حُجَّةُ الله اور اس کی تفہیم یہ بیان فرمائی کہ چونکہ آپ اپنی برادری اور قوم میں سے اور سوسائٹی میں سے الگ ہو کر آئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام حجۃ اللہ رکھا یعنی آپ ان پر حجت ہونگے.قیامت کے دن ان کو کہا جائے گا کہ فلاں شخص نے تم سے نکل کر اس صداقت کو پر کھا اور ما نا تم نے کیوں ایسانہ کیا؟ یہ بھی تم میں سے ہی اور تمہاری طرح کا ہی انسان تھا.چونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کا نام حجتہ اللہ رکھا آپ کو بھی چاہیئے کہ آپ ان لوگوں پر تحریر سے تقریر سے ہر طرح سے حجت پوری کر دیں.جس انسان کی خدا تعالیٰ کے حضور اور خدا کے پیارے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نگاہ میں ۴۳۴ 66 یہ قدر و منزلت ہو اس کی کوئی عام انسان کیونکر اصل شان بیان کر سکتا ہے.“ حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے آپ کو وہ مرتبہ اور شان عطا کی جو کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتی آپ کی نیکی ، اخلاص، تقویٰ ، طہارت اور پاکبازی کو خدا تعالیٰ نے ایسے انعامات سے نوازا جو قیامت تک کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتے.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں بڑے بڑے رؤسا.نواب.والیان ریاست اور ملکوں کے بادشاہ داخل ہونگے اور یقیناً داخل ہونگے مگر کسی کو وہ رتبہ کہاں حاصل ہوسکتا ہے جو حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کو ہوا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں رہنے کا سالہا سال تک شرف حاصل کیا اور آپ کے مقرب بنے آپ نے دین کی خاطر اپنے اموال بے دریغ صرف کئے آپ کو خدا تعالیٰ نے حجتہ اللہ کا خطاب بخشا اور آپ نے اپنے عملی نمونہ سے اپنے آپ کو اس خطاب کا پورا پورا اہل ثابت کیا آپ کی تعریف و توصیف جن الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی
631 وہ کسی اور کو کب میسر آ سکتے ہیں پھر آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دامادی کا جو شرف حاصل ہوا اور حضور کے جگر گوشہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا مبارک وجود آپ کے کا شانہ کی رونق بنا.یہ کتنا بڑا انعام ہے پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دوسری صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نکاح آپ کے نہایت نیک اور پارسا صاحبزادہ مکرم خان محمد عبد اللہ خاں صاحب سے ہوا.اور یہ خاتون مبارکہ بھی آپ ہی کے خاندان کی زنیت بنیں.غرض خدا تعالیٰ نے حضرت نواب صاحب رضی اللہ عنہ پر جس قدر انعامات کئے وہ نہایت غیر معمولی اور بے مثال ہیں اور آج جبکہ آپ اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے خالق و مالک کے حضور پہنچ گئے ہیں ثابت ہو گیا کہ آپ ان غیر معمولی انعامات کے پورے پورے مستحق اور اہل تھے آپ دسمبر ۱۹۰۱ء میں ہجرت کر کے قادیان تشریف لائے اور پھر صبر.استقلال.فدا کاری اور جان شاری کی یہ مثال قائم کی کہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور اپنے مال کا بہت بڑا حصہ خدا تعالیٰ کے لئے اس کی مخلوق کی ہدایت اور اس کی پرورش کے لئے خرچ کر دیا حتی کہ آخری سانس تک اسی پاک سرزمین میں لیا جہاں خدا تعالی کی خاطر شاہانہ شان وشوکت چھوڑ کر انہوں نے دھونی رمائی تھی جس طرح آپ کی جوانی قابل رشک تھی جس طرح آپ کی آخری وقت تک کی زندگی قابلِ رشک تھی.اس سے بھی بڑھ کر آپ کا انجام قابل رشک ہے خدا تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کو اپنے قرب میں خاص مقام عطا کرے یہ آخری تحفہ ہے جو ہم پیش کر سکتے ہیں اور انا للہ وانا الیہ راجعون کا بھایا اپنے قلوب پر رکھ کر امید رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کے جن گرانقد رو جو دوں کو اپنی مصلحت کے ماتحت اپنے پاس بلا رہا ہے ان کے قدموں پر چلنے والے اور وجو د عطا کرے گا.“ الطارق میں ذکر خیر ۴۳۵ قادیان سے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے شائع ہونے والے الطارق ٹریکٹ نمبر ۳ بابت ۲۰ تبلیغ ۱۳۲۴ھش میں اس کے متہم اشاعت مکرم ملک عطاء الرحمن صاحب معتمد ( حال مجاہد فرانس ) نے بہ عنوان مکرم و محترم حضرت حجۃ اللہ نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات حسرت اثرات تحریر کیا کہ : مسلسلہ کے قابل صدا احترام وجود نفسِ مطمئنہ کے ربانی شاہکار.خدا کی ابدی اور دائمی رضا کی گود میں اما تبلیغ ۱۳۲۴ ھ کو لے لئے گئے اور ل أُضِيَّةً مَرْضِيَّة اس کے عباد میں داخل ہو گئے.اس کی جنت میں داخل ہو گئے.دارا السلام میں داخل ہو گئے.انا للہ وانا اليه راجعون.شمع نبوت کا یہ پروانہ، اطمینان نفس کا مجسمہ ، ایثار و استقلال کی زندہ مثال، دنیوی عظمت و شوکت سے
632 یکسر بے نیاز ، آستانہ احمد پر مجسم انکسار، ربانی انعامات سے ہمہ تن با برگ و بار، اس موعوده بارش لایدری اوله خیر ام آخرہ کا روشن اور پاکیزہ قطرہ ، حجتہ اللہ، ہمارے قلوب پر خدا داد، مخلصانہ عقیدتمندی کے دائمی اثرات اور حزیں دلوں پر محبت کے پُر سوز نقوش چھوڑ کر بہ ظاہر ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا.انا للہ وانا اليه راجعون.لیکن ہم اپنے خدا کی رضا پر راضی اور اس کے ہاتھ کی ہر حرکت پر مطمئن ہیں.یہ جدائی در حقیقت تمہید ہے اس دائگی ملاپ کے لئے جس کا انتظار اور امید ہر اُس خوش بخت نفس کو حاصل ہے جس نے ابدی حیات کے الہی پیغام کو خدا کے فرستادہ نبی زمان کی مبارک زبان پر جاری سُنا اور اس پر قبولیت کا سر جھکا دیا.”اے خدا ! تو اپنے اس عزیز مہمان کو اپنی منزل کریم میں قرب کا انتہائی مقام بخش.اس کے اعزاز اور درجات میں ہر گھڑی ترقی بخش.اور اس کے پس گذاشتہ کو صبر رضا جو عطا فرما.اور سیدہ محترمہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبه أَرضَا هَا اللَّهُ بِرَضَائِہ کی وساطت سے انکو خاندانِ نبوت سے سرشت کی جو سعادت حاصل ہے اس سعادت کا ہمیشہ انہیں متحمل بنا.آمین ! مجھے خدام الاحمدیہ ، سلسلہ کے تمام نوجوانوں کی طرف سے سیدہ محترمہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز ، حضرت اُم المؤمنین بارک الله في صحتها وعمرها ، بیگم صدر محترم سیده منصوره بیگم صاحبہ، صدر محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، مکرم خان محمد عبداللہ خاں صاحب د محترم خان محمد احمد خاں صاحب اور دیگر اہل تعلق کی خدمت میں عقیدتمندانہ دلوں کے دردمندانہ احساسات کو عرض کرنا اور اس المناک سانحہ پر انتہائی افسوس کا اظہار کرنا ہے.اللہ تعالیٰ نور اور سعادت کے اس بابرکت سرمایہ کو جو حضرت نواب صاحب رضی اللہ عنہ نے خدا کے فرستادہ سے حاصل کیا ان کی اولا داور نسل بعید تک جاری فرمائے.آمین.“ نوائے پاکستان میں ذکر خیر مشہور صحافی محترم مولانا عبدالمجید صاحب سالک مدیر روزنامہ انقلاب لا ہور رقمطراز ہیں : نواب محمد علی خاں رئیس مالیر کوٹلہ جو نواب ذوالفقار علی خاں کے برادر بزرگ اور ہمارے بھائی نواب زادہ خورشید علی خاں کے تایا تھے ۱۹۴۵ء کے اوائل میں ہی فوت ہو گئے.یہ عقائد کے اعتبار سے احمدی تھے اور مدت دراز سے قادیان میں ہی سکونت رکھتے تھے.انتقال سے کسی قدر پہلے لاہور تشریف لائے.مجھ سے اور مہر صاحب سے اکثر مسائل پر تبادلہ خیالات کرتے اور بے حد شفقت سے پیش آتے.ایسے باوضع اور روشن
633 خیال اور نیک دل بزرگ آج کل کے زمانے میں شاذ ہی نظر آتے ہیں.مجھے کئی سال سے برسات کے موسم میں آم بھیجا کرتے تھے اور آموں کے انتخاب میں بھی انتہائی خوش ذوقی کا ثبوت دیتے تھے.“ حضرت عرفانی صاحب کے تاثرات ۴۳۶ حضرت عرفانی صاحب کے حضرت نواب صاحب سے نصف صدی سے زائد عرصہ کی ملاقات وتعارف کے تاثرات کا نچوڑ درج ذیل ہے: حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ مالیر کوٹلہ کے شاہی خاندان کے ممتاز رکن تھے.اس خاندان کے ارکان شروانی افغان کہلاتے ہیں اور مالیر کوٹلہ کے علاوہ بھکن پور وغیرہ (یو.پی ) میں بھی شروانی خاندان کے بعض ممتاز اصحاب سکونت پذیر ہیں.جہاں بھی ہیں دنیوی حیثیت سے معزز و ممتاز ہیں اور ان میں دینی صلاحیت بھی موجود ہے.خاندانی حالات اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو حیات نواب محمد علی خاں“ میں لکھوں گاور نہ جسے خدا توفیق دے گا.یہاں مختصر تذکرہ صرف اس تعلق کی وجہ سے زیر تحریر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ آپ کو ہے یعنی آپ کو یہ سعادت اور عزت حاصل ہے کہ آپ نہ صرف روحانی طور پر حضرت کے فرزند ہیں بلکہ صہری تعلق کی وجہ سے بھی نسبت فرزندی حاصل ہے.وذلك فضل الله يوتيه من يشاء اور آپ کی وفات خاندان نبوت کیلئے عموماً اور حضرت ام المومنین مدظلہا کیلئے خصوصاً ایک صدمہ عظیم ہے اور اس حادثہ پر حضرت ام المومنین نے صبر جمیل کا پھر کامل نمونہ دکھایا.حضرت نواب صاحب سے خاکسار عرفانی کبیر کو ۱۸۹۱ء سے سعادت ملاقات حاصل ہے.حضرت نواب صاحب اس وقت عنفوان شباب میں تھے اور عرفانی حدود بلوغ میں داخل ہورہا تھا.قریباً نصف صدی سے زائد عرصہ کی ملاقات میں میں نے انہیں مستقیم الاحوال دیکھا.میں اس محبت و شفقت کا ذکر تفصیلاً نہیں کر سکتا جو خاکسار کے حال پر آپ کو تھی.وہ ایک مردم شناس ، قدردان ، معاملہ فہم اور وفادار بزرگ تھے.نواب صاحب کا خاندان شیعہ تھا اور آپ کی ابتدائی تعلیم اسی ماحول میں ہوئی.مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں قلب سلیم اور دماغ فہیم عطا فرمایا گیا تھا اس لئے وہ ہر مسئلہ کی تحقیق خود کرتے تھے.تعصب ، ضد اور دہر داری ہر گز نہ تھی.سچ کے قبول کرنے کو ہر وقت آمادہ رہتے تھے.مذہبی ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور کے ایچی سن کالج میں داخل ہوئے جوحکومت نے رو سائے پنجاب کے بچوں کے لئے بڑے اہتمام سے قائم کیا تھا.حضرت نواب صاحب با وجود ایک طالب علم ہونے کے کالج کے
634 طلبہ میں ہر دلعزیز ہی نہ تھے بلکہ اپنی معاملہ نہی اور نیکی کے باعث وہ ایک قائدانہ حیثیت رکھتے تھے.اسلامی معاملات میں وہ بڑی قوت اور جرات کے ساتھ دلچسپی لیتے تھے اور کالج کے پروفیسر بھی نواب صاحب کی قوت عمل اور بلندی کردار کیوجہ سے دب جاتے تھے.یہ سب تفصیلات اسی تذکرہ کے لئے محفوظ ہیں.والد صاحب کی وفات کے بعد جب اپنی جاگیر کے صاحب اقتدار ہوئے اس وقت ایک کثیر رقم آپ کے خزانہ میں موجود تھی.آپ ہمیشہ علم دوستی کے پیکر رہے.آپ کا روپیہ ہمیشہ نیک کاموں میں خرچ ہوا.خواتین کی اصلاح کے لئے آپ نے ایک انجمن مصلح الاخوان‘ قائم کی اور ایک اسکول قائم کیا.جس کے کل اخراجات آپ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے.میں ایک بصیرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ کا روپیہ ہمیشہ کارِ خیر میں صرف ہوا.اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے منہیات سے آپ کو محفوظ رکھا اور اس میں سر یہ تھا کہ وہ ازل سے مسیح موعود و مہدی مسعود کی دامادی کے لئے منتخب ہو چکے تھے.حضرت نواب صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بزرگی کا پہلے سے علم تھا اور وہ حسن ظن رکھتے تھے اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نواب ابراہیم علی خاں کی علالت کے ایام میں دعا کے لئے بلایا گیا تھا.تا ہم حضرت اقدس سے تعلقات کی ابتداء۱۸۸۹ء سے ہوئی جبکہ حضور نے باعلام الہی بیعت کے لئے دعوت دی.حضرت نواب صاحب کی پاکبازی اور مطہر فطرت کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ آپ نے پہلا خط جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھا اس میں آپ نے یہی سوال کیا تھا کہ پر معصیت حالت سے کیونکر رستگاری ہو.اس سوال سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کی روح میں تزکیہ نفس اور طہارت قلب کے لئے کس قدر جوش تھا تا کہ آپ ایک ایسے مقام پر کھڑے ہوسکیں جو قد وس خدا کے حضور آپ کو قریب تر کر دے.حضرت اقدس نے آپ کو لکھا کہ : ’جذبات نفسانیہ سے نجات پانا کسی کے لئے بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ عاشق زار کی طرح خاکپائے محبانِ الہی ہو جائے اور بصدق وارادت ایسے شخص کے ہاتھ میں ہاتھ دے جس کی روح کو روشنی بخشی گئی ہے تا اس کے چشمہ صافیہ سے اس فرد ماندہ کو زندگی کا پانی پہنچے اور اس تر و تازہ درخت کی ایک شاخ ہو کر اسکے موافق پھل لاوے.حضرت اقدس نے یہ خط ۷ راگست ۱۸۹۰ء کو لد ہیانہ سے لکھا تھا.سعادت از لی رفیق را تھی اور سعادت کے فرشتے ساتھ تھے اس لئے اس کے بعد آپ نے کچھ عرصہ بعد بیعت کر لی.نواب صاحب کی بیعت لی.اکتوبر ۱۸۹۰ء کی ہے جیسا کہ ۹ رکتوبر ۱۸۹۰ء کے مکتوب سے معلوم ہوتا ہے.ابتداء نواب صاحب نے
635 اخفائے بیعت کی اجازت لی تھی اور حضرت اقدس نے فرمایا تھا کہ اس اخفا کو صرف اسی وقت تک رکھیں کہ جب تک کوئی اشد مصلحت در پیش ہو کیونکہ اخفا میں ایک قسم کا ضعف ہے اور نیز اظہار سے گویا فعلا نَصِيحَة لِلْخَلَقُ ۴۳۸ نواب صاحب نے خود اپنی بیعت کے متعلق جو ذکر ایک خط میں کیا تھا وہ نواب صاحب کی فطرت سلیمہ پر ایک روشنی ڈالتا ہے اس کا اقتباس ذیل قابل غور ہے: ابتدا میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے موید نہیں ہیں.بلکہ مخالفین اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں.مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا نہ انکار.پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں نے سوچا کہ آپ نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں یہ سب جھوٹے نہیں ہو سکتے.تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط و کتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی.اور جب قریباً اگست میں آپ سے لدہیا نہ ملنے گیا تو اس وقت میری تسکین خوب ہوگئی اور آپ کو باخدا بزرگ پایا اور بقیہ شکوک کو پھر بعد کی خط وکتابت میں میرے دل سے بلکلی دھویا گیا.اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثالثہ کی کسر شان نہ کرے، سلسلہ بیعت میں داخل ہوسکتا ہے.تب میں نے آپ سے بیعت کر لی.اب میں اپنے آپ کو نسبتاً بہت اچھا پاتا ہوں اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آئندہ کے لئے تو بہ کی ہے.مجھ کو آپ کے اخلاق اور طرز معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ سچے مسجد داور دنیا کے لئے رحمت ہیں.اس خط سے نواب صاحب کی گناہ سوز فطرت کی بے قراری اور ایک عزم مقبلا نہ کا پتہ ملتا ہے.پھر آپ کی خط و کتابت کا ایک سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے رہا اور جب کبھی کوئی سوال پیدا ہوا آپ نے بلاخوف لومتہ لائم حضرت سے پوچھا اور اس کا جواب پایا.انہوں نے احمدیت کو ایک مجوب انسان کی طرح قبول نہیں کیا بلکہ ایک محقق اور مفکر کی حیثیت سے صداقت یقین کر کے قبول کیا.۴۳۹ نواب صاحب نے جب بیعت کی اور اخفا کی اجازت چاہی اس کی ایک خاص وجہ تھی.اس وقت
636 حکمران خاندان کے ساتھ بعض سیاسی حقوق کے متعلق حکومت پنجاب میں مطالبات پیش تھے اور حکومت ابتداء سلسلہ سے بدظن تھی.محض اس خیال سے کہ ان کے ان ذاتی معاملات پر جو سارے خاندان سے وابستہ تھے اس سے کوئی مضر اثر نہ پڑے یہ چاہا گیا تھا.مگر حضرت کے اس خط کے بعد ان میں ایک خارق عادت قوت پیدا ہوگئی اور کسی مرحلہ پر ان کو اخفاء کی ضرورت پیش نہ آئی بلکہ سلسلہ کے لئے حکام سے انہوں نے بڑی بڑی بخشیں کیں.مجھے یاد ہے کہ لاہور کے ایک کمشنر اینڈرسن تھے.اُن سے نواب صاحب کی ملاقات ہوئی اور اس نے بعض ظنوں کا ذکر کیا تو نواب صاحب نے نہایت جرات اور قوت کے ساتھ اس کو جواب دیا اور بالآخر اس گفتگو میں اس سے منوالیا کہ حکومت کو غلطی لگی ہے اور یہ نیچے کے افسران کی رپورٹوں کا نتیجہ ہے.نواب صاحب ان ایام میں حضرت اقدس سے خاص طور پر دعائیں کرا رہے تھے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے مرزا خدا بخش صاحب کو خصوصیت کے ساتھ ان کے تمام اخراجات کثیر برداشت کر کے قادیان میں رکھا ہوا تھا تا کہ وہ یاد دہانی کراتے رہیں.اسی سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک کشف دیکھا.ور مشفقی عزیزی محبی نواب صاحب سردار محمد علی خاں صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا.الحمد لله والمنة کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو صحت بخشی.اللہ جل شانہ آپ کو خوش رکھے اور عمر اور راحت اور مقاصد دلی میں برکت اور کامیابی بخشے.اگر چہ حسب تحریر مرزا خدا بخش صاحب آپ کے مقاصد میں سخت پیچیدگی ہے مگر ایک دعا کے وقت کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ آپ میرے پاس موجود ہیں اور ایک دفعہ گردن اونچی ہوگئی اور جیسے اقبال اور عزت کے بڑھنے سے انسان اپنی گردن کو خوشی کے ساتھ اُبھارتا ہے ویسی ہی صورت پیدا ہوئی.میں حیران ہوں کہ یہ بشارت کس وقت اور کس قسم کے عروج سے متعلق ہے.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ظہور کا زمانہ کیا ہے.مگر میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی وقت میں کسی قسم کا اقبال اور کامیابی اور ترقی عزت اللہ جل شانہ کی طرف سے آپ کے لئے مقرر ہے.اگر اس کا زمانہ نزدیک ہو یا ڈور ہو.سو میں آپ کے پیش آمدہ ملال سے گو پہلے غمگین تھا مگر آج خوش ہوں.کیونکہ آپ کے مال کار کی بہتری کشفی طور پر معلوم ہوگئی.واللہ علم بالصواب.“ ۴۴۰
637 اس کشف کی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کوئی صراحت وقت یا نوعیت اقبال کی نہیں کی مگر اس میں ایک کلید بیان کی ہے جس کو واقعات نے صحیح ثابت کر دیا.حضرت صاحب فرماتے ہیں د کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ آپ میرے پاس موجود ہیں اور ا یکدفعہ گردن اونچی ہوگئی.اس کشف کی حقیقت اور ظہور اس وقت ہونے والا تھا جب نواب صاحب حضرت صاحب کے پاس ہوں یعنی وہ ہجرت کر کے قادیان آ جاویں.جب یہ کشف ہوا اس وقت تک نواب صاحب مالیر کوٹلہ میں تھے اور اس کے بعد بھی نو سال تک وہ قادیان مقیم ہونے کے لئے نہیں آئے تھے اور جب آپ قادیان ہجرت کر لی اور جوار مسیح موعود بلکہ الدار میں آپ کو جگہ مل گئی اسوقت آپ صاحب اولاد تھے اور آپ کی اہلیہ موجود تھیں.پھر ان کا انتقال ہو گیا اور آپ نے دوسری شادی کی اور بالآخر وہ بھی وفات پاگئیں ہیں تب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو القا فر مایا اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ زید مجدھا کا آپ سے نکاح ہو گیا.اور عملاً آپ کی گردن اونچی ہوگئی کیونکہ جماعت میں یہ مقام کسی کو حاصل نہ تھا.اس کشف کی طرف دوستوں نے توجہ نہیں کی.یہ کشف حضور کا اواخر دسمبر ۱۸۹۱ء کا ہے اس وقت تک سیدہ مبار کہ بیگم صاحبہ عالم وجود میں بھی نہیں آئی تھیں بلکہ صرف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ) عالم وجود میں آئے تھے.اس وقت کوئی خیال نہ نواب صاحب کو ہوسکتا نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو نہ حالات اس قسم کے تھے.اللہ تعالیٰ نے ایک زمانہ دراز پیشتر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حضرت نواب محمد علی خان کے اقبال کی بشارت دی.جرأت اور طلب حق حضرت نواب صاحب میں ایک فطرتی جوش طلب حق کا تھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی جرات عطا فرمائی کہ جو امران کی سمجھ میں نہ آتا تھا اس کے متعلق سوال کرنے سے کبھی مضائقہ نہ کرتے تھے.چنانچہ جب عبد الحق عزنوی نے مباہلہ کا اشتہار دیا تو آپ کو بعض سوالات حضرت اقدس کے جواب پر پیدا ہوئے اور آپ نے بلا خوف لومۃ لائم حضرت کی خدمت میں عریضہ لکھا.حضرت اقدس نے اسے نا پسند نہ فرمایا بلکہ بہت خوش ہوئے.چنانچہ اس کے جواب میں تحریر فرمایا: جیسا کہ گذشتہ اوراق میں ذکر آچکا ہے کہ حضرت نواب صاحب کی پہلی اہلیہ ۹۸ء میں وفات پاگئی تھیں اور حضور کے مکتوب میں اس کا ذکر ہے.وہ کبھی قادیان نہیں آئیں بلکہ ۱۹۰۱ء میں دوسری اہلیہ آئیں جنہوں نے قادیان میں وفات پائی.معلوم ہوتا ہے سہوا پہلی اہلیہ کی آمد کا ذکر ہوا ہے.(مؤلف)
638 MM آپ کا محبت نامہ عین انتظار میں مجھ کو ملا جس کو میں نے تعظیم سے دیکھا اور ہمدردی اور اخلاص کے جوش سے حرف بہ حرف پڑھا.میری نظر میں طلب ثبوت اور استکشاف حق کا طریقہ کوئی نا جائز اور نا گوار طریقہ نہیں ہے بلکہ سعیدوں کی یہی نشانی ہے کہ وہ ورطہ تذبذبات سے نجات پانے کے لئے حل مشکلات چاہتے ہیں.لہذا یہ عاجز آپ کے اس طلب ثبوت سے ناخوش نہیں ہوا بلکہ نہایت خوش ہے کہ آپ میں سعادت کی وہ علامتیں دیکھتا ہوں جس سے آپ کی نسبت عرفانی ترقیات کی امید بڑھتی ہے.یہ طریق مومنانہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی کو کوئی اعتراض پیدا ہو تو فوراً پیش کرنا چاہیے.اس کے بعد آتھم کی پیشگوئی کے وقت بھی آپ کو ایک طالب صادق کی طرح کچھ استفسار کی ضرورت پیش آئی مگر جلد اللہ تعالیٰ نے آپ پر حقیقت کو منکشف کر دیا اور اس کے بعد کبھی کوئی موقعہ ایسا نہ آیا کہ آپ کو استفسار کرنے کی ضرورت پیش آئی ہو.عملی زندگی میں بعض باتیں آپ دریافت کر لیتے اور ان کو اپنا دستور العمل قرار دیتے.“ حضرت نواب صاحب کی زندگی ایک راسخ الاعتقاد و عملی مومن کی زندگی تھی.وہ کوئی امر جس کی اسوہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں نظر نہ ہو ا ختیار نہیں کرتے تھے اور عامل بالسنتہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں سرشار تھے اور آپ کے احکام کی اتباع اپنا فریضہ سمجھتے تھے.رشوت سے نفرت حضرت نواب صاحب کی زندگی میں ایک مرد مومن کی عملی زندگی کی تصویر ہے.جب مالیر کوٹلہ ریلوے برانچ جاری ہوئی تو آپ نے اس لائن پر کچھ کام بطور ٹھیکہ لے لیا.وہ کام دراصل آپ کے ایک خاص امتیاز کے اظہار کا موجب ہوا.آپ سے چاہا گیا کہ ان انجینئروں یا افسروں کو جو اس کام کے پاس کرنے والے تھے کچھ روپیہ دیدیں آپ نے اسے رشوت قرار دیا اور صاف انکار کر دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو خطرناک مالی نقصان ہوا مگر آپ نے اس کی ذرا بھی پرواہ نہ کی.وہ نہایت عالی حوصلہ اور مستقل مزاج بزرگ تھے.اپنے مقام و مرتبہ کے باوجود طبیعت نہایت منکسرانہ واقع ہوئی تھی.مسجد میں آتے تو بار ہا جو تیوں کی جگہ جانماز بچھا کر بیٹھ جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو قادیان میں قیام کے لئے تحریک فرمائی اور آپ نے تعمیل کی یہانتک کہ آپ ہجرت کر کے آہی گئے.ایثار نفس
639 طبیعت میں فطرتی سخاوت کا جوش تھا اور بسا اوقات وہ اپنی ضرورتوں پر دوسروں کو مقدم کر لیتے تھے.میں ان واقعات کا شاہد ہوں جماعت کے غرباء ان کی فیاضیوں سے آسودگی کی زندگی بسر کرتے تھے.اس قسم کی فیاضیوں نے ان کی مالی حالت پر برا اثر ڈالا مگر وہ ہر حالت میں مستقیم الاحوال رہے.میں نے کبھی ان کو غمزدہ اور فکر مند نہ پایا.ہمیشہ چہرہ پر خوشی اور مسرت کھیلتی تھی اور اللہ تعالیٰ پر اس قدر تو کل اور بھروسہ تھا کہ بعض اوقات میں نے دیکھا کہ انہوں نے سفر کا ارادہ کر لیا اور کچھ ہاتھ میں نہیں مگر آخر وقت پر اللہ تعالیٰ نے عجیب عجیب رنگوں میں سامان کر دیا.سلسلہ کے کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے.مدرسہ تعلیم الاسلام کے اخراجات اپنی ڈائیریکٹری کے زمانہ میں ایک عرصہ تک چلاتے رہے اور جب حضرت اقدس نے خود محسوس فرمایا کہ مالی ابتلاء نہ آ جائے تو انتظام دوسرے ہاتھوں میں منتقل کر دیا.صدرانجمن کے کاموں میں اپنی رائے پر مستقل رہتے تھے.خاکسار عرفانی اسسٹنٹ سیکرٹری عملاً سیکرٹری ہی کے فرائض ادا کر رہا تھا.اس کی ضروریات کا اہتمام اپنی جیب سے کرتے.انجمن سے مجھے کچھ بھی اس خدمت کے لئے لینے کی ضرورت نہ آنے دی.میرے ساتھ جو تعلقات تھے اور میں نے جس قدر قریب سے انہیں پڑھا ہے اس کا تفصیلی ذکر خدا نے چاہا تو حیات نواب محمد علی خاں میں ہوگا.وباللہ التوفیق.فتنہ (ماکانہ ) کے وقت آپ نے اپنی خدمات پیش کیں.خاکسار عرفانی اور مرحوم خان بہادر شیخ محمد حسین صاحب پنشنر سب حج کے سپر دا ایک خاص خدمت تھی.اس سفر کے کل اخراجات نواب صاحب نے اپنی جیب سے برداشت کئے اور یو.پی کی سخت گرمی میں اپنے اس دورہ کو پورا کیا.اس دورہ کی رپورٹ سلسلہ کی تاریخ میں ایک قیمتی دستاویز ہے.علم دین کا شوق اس قدر غالب تھا کہ ایک زمانہ میں حضرت حکیم الامۃ رضی اللہ عنہ کو مالیر کوٹلہ بلا کر اپنے پاس رکھا.حضرت حکیم الامتہ مع اپنے شاگردوں اور خاندان کے افراد کے وہاں رہے اور تمام اخراجات بانشراح صدر آپ نے برداشت کئے.پھر ایک اور موقعہ پر ان کو طلب کیا.مگر حضرت اقدس بعض وقتی حالات اور مجبوریوں کی وجہ سے نہ بھیج سکے.ایک نہ ایک عالم دین کو اپنے پاس رکھتے اور رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا کی دُعا کے موافق جوش رکھتے.چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب.حضرت حافظ روشن علی صاحب زمانہ دراز تک آپ کے پاس رہے.مرحوم بے انتہا خو بیوں کے مالک تھے اور ان خصوصیات نے ہی ان کو اس مقام پر پہنچایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دامادی کا فخر نصیب ہوا اور وہ کشف پورا ہوا جس کا میں ذکر کر آیا ہوں....آخری علالت و وفات
640 ایک عرصہ سے آپ بیمار چلے آتے تھے مگر بیماری کی حالت میں کبھی گھبراہٹ.چڑ چڑاہٹ اور ہائے وائے چیخ پکار نہ تھی.بلکہ ایک کامل سکون کے ساتھ اس کا رزار زندگی میں مصروف رہتے.احباب سے اس خندہ پیشانی سے ملتے اور استفسار حالات پر الحمد اللہ کہ کر بعض بے تکلف احباب سے تفصیل بھی بیان کر دیتے.بیماری بھی انسان کے اصل اخلاق پر رکھنے کا ایک معیار ہے.میں نے تو انہیں ہمیشہ حالت مرض میں بھی پُر سکون اور بہشتی زندگی بسر کرتے ہوئے پایا.بہر حال بیماری کا سلسلہ تو بہت پرانا تھا آخر پیشاب میں خون آنے لگا.اس کے لئے ہر قسم کے علاج کئے گے مگر کچھ افاقہ کبھی ہوا تو پھر دورہ میں شدّت ہوگئی.بعض بعض اوقات تو حالت نازک ہو جاتی مگر پھر زندگی کی روواپس آ جاتی.حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالے کو مومن کی جان لینے میں تامل ہوتا ہے یہ اسی قسم کا نظارہ تھا.آخر وقت آگیا جو مقر رتھا.اس سال کے شروع میں تکلیف زیادہ ہوگئی.میں جلسہ سالانہ پر عیادت کے لئے گیا تو ایسے انداز سے ملاقات فرمائی اس مرتبہ لیٹے ہی رہے.جس کا میری طبیعت پر فطرتاً ایک صدمہ رساں اثر ہوا.میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا آیا.اس کے بعد آپ کی مرض میں شدت بڑھتی چلی گئی.آپ کے لئے بیشمار دعائیں کی جاتی تھیں.میں نے ۲۷/ ۲۸ جنوری ۱۹۴۵ء کی رات کو رویا دیکھا کہ ایک بڑا عظیم الشان مکان ہے جو ایک قصر ہے.میں حضرت نواب صاحب کی عیادت کو گیا ہوں.اس قصر پر بیشمار نہایت حسین جمیل بچوں کا اثر دہام ہے.مجھے انہوں نے روکا.میں کے کہا کہ نواب صاحب کی عیادت کو آیا ہوں.انہوں نے کہا اب تم نہیں مل سکتے.ان پر ہمارا پہرہ ہے.میں کچھ ان کے بچپن کو دیکھ کر مسکرایا مگر انہوں نے سنجیدگی سے ہی کہا اور میں واپس چلا آیا.مجھے اس خواب سے معلوم ہو گیا کہ نواب صاحب فرشتوں کے پہرہ میں ہے اور وہ مکان اس دنیا کا نہ تھا.آخر ۱۰ر فروری ۱۹۴۵ء کو حضرت نواب صاحب کا انتقال ہو گیا.انا الله وانا اليه راجعون - ۴۴۲ حضرت نواب صاحب ابتدائی موصیوں میں سے تھے.آپ نے صدرانجمن احمدیہ قادیان کے نام اپنی آمد کے دسویں حصہ کی وصیت ۶ ستمبر ۱۹۰۶ء کو تحریر فرمائی تھی.حقیقت یہ ہے کہ آپ ابتدا سے ہی اس سے بڑھ چڑھ کر اموال خرچ کرتے تھے.مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب کے بیان کے مطابق حضرت نواب صاحب کی جاگیر کا کل رقبہ قریباً بارہ تیرہ سو مربع تھا جو پندرہ دیہات پر مشتمل تھا.ان میں سے اکثر کے نام یہ ہیں : ۱- شیروانی کوٹ، ۲ بکس والا ۳ سکندر پوره، ۴ اوم پال، ۵.بھینی کلاں، ۶- روڈ کہ،.، -
641 ۷- برج ۸- متوئی ، ۹- سکھر خوار ۱۰- بھوون ،۱۱ - سلطان پورا ۱۲- چوہانہ خورد ۱۳.کشن گڑھ جنوبی.۱۹۱۷ء کی ایک تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی اس وقت مالی حالت یہ تھی کہ آپ چالیس / ۴۰ ہزار روپیہ کی اراضی فروخت کر چکے تھے.اور جائیدا د واقعہ مالیر کوٹلہ کی قیمت پندرہ لاکھ اور جائیداد واقعہ قادیان کم از کم بنتیس ہزار روپیہ کی تھی.اور اس وقت آمد تخمینا چھتیں ہزار روپیہ سالانہ تھی.کتبہ کی عبارت نواب صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قرب میں چاردیواری کے اندر دفن کئے گئے.سیده نواب بیگم مبارکه صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ کتبہ کی عبارت حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ تعالی عنہ نے تجویز فرمائی تھی.اسے ذیل میں کتبہ سے نقل کیا جاتا ہے: مزار حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیرکوٹلہ جو یکم جنوری ۱۸۷۰ء کو پیدا ہوئے.۱۸۹۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے اور ۱۰ / فروری ۱۹۴۵ء کو قادیان میں وفات پا کر اپنے مولا کے حضور پہنچ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص صحابہ میں سے تھے جنہیں خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام میں حجة اللہ کے نام سے یاد فر مایا اور حضور نے اپنی صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحب کے ذریعے انہیں اپنی دامادی سے مشرف کیا اور ان کے متعلق ازالہ وہام میں لکھا: جوان.صالح.ان کی خدا دا د فطرت بہت سیلیم اور معتدل ہے.التزام نماز میں اہتمام ہے.منکرات و مکروہات سے بکلی مجتنب ہیں مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو.اور اپنے ایک خط میں نواب صاحب مرحوم کو مخاطب کر کے فرمایا.” میں آپ سے
642 ایسی محبت رکھتا ہوں جیسا کہ اپنے فرزند عزیز سے محبت ہوتی ہے اور دُعا کرتا ہوں کہ اس جہان کے بعد بھی خدا تعالیٰ ہمیں دار السلام میں آپ کی ملاقات کی خوشی دکھائے !“.حسن خاتمہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح حضرت نواب صاحب کی تربیت کی اور جس طرح کا اعلیٰ سلوک حضور اور حضرت ام المومنین نوراللہ مرقدھا کا آپ سے اور آپ کی اولاد سے تھا اور کس کس رنگ میں حضور نے آپ کے لئے دعائیں کیں اور نواب صاحب کا اخلاص حضرت اقدس کی نظر میں کس عالی مرتبت کا تھا اس کا ذکر آگے الگ آتا ہے.میں اس مقام پر آپ کے حسن خاتمہ کا ذکر کرتا ہوں.بیوی اور میاں کا ایسا تعلق ہے کہ ایک دوسرے سے اپنے اپنے نقائص چھپا نہیں سکتے.بیوی کی شہادت کے آئینہ میں ہم میاں کے اخلاص و شمائل اور عادات و خصائل تمام کا نقشہ دیکھ سکتے ہیں.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلی بارنزول وحی سے گھبرا کر گھر آئے تو آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کیا ہی پاک الفاظ میں حضور کے جملہ خصائل و شمائل کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا اور کس وثوق سے اس یقین کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ حضور کو ہرگز رسوا نہ کرے گا.ہم ذیل میں حضرت نواب صاحب کے اپنے اہلبیت سے مروت اور پاک اور غایت درجہ کے اعلیٰ سلوک کی شہادت آپ کے اہلبیت حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی زبانی بیان کرتے ہیں.آپ تحریر فرماتی ہیں : انتہا کے سیر چشم وسیع اخلاق کے کسی کی بُرائی نہ کرنے والے نہ سننے والے.ہر ایک کی خوشی میں دل سے خوش ہونے والے بیحد دل کے غنی.صدق و غناء سیر چشمی عالی حوصلگی اور رفعت و وسعت اخلاق خصوصیتیں تھیں ان کی سیرت کی اور یہ صفات ان میں پورے طور پر جلوہ گر تھیں مجھے اپنی ساری زندگی میں جو ان کے ساتھ گذری کبھی ان میں سقم ذرا بھی نظر نہیں آیا بلکہ زیادہ ہی زیادہ یہ خوبیاں چمکتی نظر آتی رہی ہیں مگر ان کی بڑی خوبی ان کا ایمان تھا جس کے ظہور کو میں ہرامر میں دیکھتی رہی ہوں جہاں تک خدا نے مجھے دکھایا میں خدا کو شاہد کر کے کہ سکتی ہوں کہ وہ شخص ایک اعلیٰ درجہ کے ایمان کا مالک تھا.یہ بھی خدا تعالے کا ان پر ایک خاص احسان تھا ورنہ آدمی خود تو یہ بات پیدا نہیں کر سکتا.مجھے خود حضرت والدہ صاحبہ ساتھ لے جا کر نواب صاحب کے گھر چھوڑ آئی تھیں اور اُن کے سپرد کیا تھا اور خدا کی ہزار ہا رحمتیں روز بروز لمحہ بہ لحہ بڑھتی ہوئی ان کی روح پر نازل ہوں اس ہاتھ پکڑنے کی لاج جب تک میرا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دیکر رخصت نہیں ہو گئے ایسی رکھی کہ مجھے تو کہیں نظیر نہیں ملتی ایسا نبھایا جو
643 نبھانے کا حق ہے.عمر بھر میں نے انکی جانب سے محبت ہی محبت.مہربانی ہی مہربانی دیکھی.میری ہر کمزوری اور کوتا ہی سے اس صورت سے چشم پوشی کی کہ مجھے نادم تک نہ ہونے دیا مجھ پر احسان ہی احسان کئے اور جب میری خدمت کا وقت آیا تو افسوس وہ وقت اتنی جلدی ختم ہو گیا کہ میں ہاتھ ملتی رہ گئی.وہ مجھ سے پہلے اپنے مولا سے جاملے اور وہ دن آگیا جس کے نہ آنے کی میں نے ۳۵ سال دُعائیں کی تھیں مگر یقینا یہی بہتر ہوگا اور بعض پہلو سوچ کر میں خود بھی محسوس کرتی ہوں کہ خدا کی یہ مصلحت ظاہر بھی کئی طرح سے اپنے اندر بہتری رکھتی تھی.جان قربان کر دینے کی نسبت بعض صورتوں میں انسان کا زندہ رہ کر دل و جان کی قربانی دینا زیادہ مفید ہوتا ہے خدا ہمیں اپنے حضور میں ملائے جس ملاقات کے بعد پھر جدائی نہ ہوگی.وہ انشاءاللہ ہوگی.مگر یہ دن گزار نے بھی آسان نہیں ہیں.چند ہی دن کی جدائی ہے یہ مانا لیکن بے مزہ ہو گئے دن بخدا تیرے بعد (مبارکه) فتنہ مصری کے تعلق میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے 9 جولائی ۱۹۳۷ء کے خطبہ میں مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے ( سابق مبلغ جرمنی و انگلستان و مدیر ریویو آف ریلیجنز اردو و انگریزی اور سن رائز حال مقیم ربوہ ) کا ایک خواب بیان فرمایا.یہاں اس تعلق میں درج کیا جاتا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے حضور حضرت نواب صاحب کے بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ مقام کا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معنیت کا علم ہوتا ہے: سیدی حضرت امیر المؤمنین اید کم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ.پچھلے دنوں میں نے ایک عجیب خواب دیکھا جو حضور کی خدمت میں عرض ہے.میں نے دیکھا کہ حضرت ام المومنین کے اس کمرہ میں جس میں بیت الدعا واقع ہے پانچ کرسیوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ سلم.حضرت مسیح موعود علیہ السلام.حضرت نواب صاحب.حضرت میر محمد اسمعیل صاحب اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بیٹھے ہیں.مجھے اب ان کرسیوں کی ترتیب یاد نہیں رہی.صرف اتنا یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف بیٹھے ہیں اس طرح پر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منہ بالکل قبلہ کی طرف.باہر صحن میں بہت سے لوگ جمع ہیں.میں اپنے متعلق کہہ نہیں سکتا کہ میں اس کمرہ سے باہر ہوں یا اندر
644 ہوں لیکن غالبا با ہر ہی ہوں لیکن اندر بیٹھنے والے بابرکت وجودوں کے بالکل ہی قریب کہ مجھے سب کچھ ان کا نظر آ رہا ہے.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرسی کے پاس ہی ( ایسا یا د ہے کہ بالکل ساتھ ملا ہوا) دائیں بازو پر کھڑا ہوں.لیکن حضرت صاحب کا چہرہ مجھے نظر نہیں آتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سارالباس سفید ہے.یہاں تک کہ کوٹ بھی لٹھے کا سفید پہنا ہوا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پگڑی ہرے رنگ کی ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کا رنگ ایسا ہے جیسے حضور یعنی آپ کی داڑھی کا جبکہ اُس کو مہندی لگائے آٹھ یا دس دن گذر چکے ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کا قد بھی آپ کی داڑھی کے قد کے برابر ہے.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی بالکل حضور کی داڑھی جیسی ہے.خواب میں ایسا معلوم ہوا ہے کہ آپ کسی دوسرے کمرہ میں کسی تقریر کی تیاری میں مشغول ہیں اور کوئی بہت بڑی تقریب ہے جس پر آپ نے تقریر کرنی ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس تقریر کے سننے کی خاطر تشریف لائے ہوئے ہیں اور صحن میں جو بہت سے لوگ ہیں وہ بھی اسی لئے آئے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ حضور کے روحانی مراتب میں بہت بہت ترقی دے اور مجھے حضور کا سچا اور پکا خادم بنائے اور ہمیشہ حضور کے دامن کے ساتھ وابستہ رکھے.ذیل میں مکرم حکیم محمد فیروز الدین صاحب قریشی حال انسپکٹر بیت المال صدر انجمن احمد یہ ربوہ کا بیان درج کیا جاتا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بزرگ کو حضرت نواب صاحب، حضرت علی کی شکل میں دکھائے گئے تھے.فرماتے ہیں: مولوی میرحسین صاحب ولد حکیم محمد اشرف صاحب قریشی ساکن موضع علی پور تحصیل کبیر والہ ضلع ملتان موصی جو اس وقت مقبرہ بہشتی میں ۱۹۱۹ ء سے مدفون ہیں.انہوں ( نے) فرمایا کہ میں قادیان گیا تو میں نے قادیان میں خواب دیکھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جا رہے ہیں اور میں ان کے پیچھے پیچھے جا رہا ہوں تو ان کے پاؤں سے جوتے کا اڈا یعنی پچھلا حصہ اتر گیا ہے تو میں نے جلدی سے پکڑ کر پاؤں میں چڑھا دیا ہے.اس پر انہوں نے پیچھے پھر کر دیکھا اور آگے روانہ ہو گئے.
645 دوسرے روز اسی طرح ظہور میں آیا کہ احمدی بازار میں حضرت نواب محمد علی خاں صاحب جا رہے تھے میں پیچھے پیچھے جا رہا تھا کہ نواب صاحب کے پاؤں سے جوتے کا اڈہ اُتر گیا جس پر میں نے جلدی سے پکڑ کر چڑھا دیا تو قبلہ نواب صاحب نے پیچھے دیکھا اور آگے تشریف لے گئے جناب مولوی میر حسین صاحب مرحوم نے یہ خواب اور واقعہ وا پس علی پور جا کر جماعت کے سامنے بیان فرمایا تو اس وقت میں نے آپ سے سنا“.حضرت حافظ حاجی مولوی احمد اللہ خان صاحب ناگپوری جو بہت ہی نیک اور بزرگ اور قدیمی صحابی تھے.آپ کا نام معہ اہل بیت اٹھائیسویں نمبر پر فہرست ۳۱۳ صحابہ مندرجہ ضمیمہ انجام آتھم میں مندرج ہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں ہی ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے.صاحب الہام تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی ) کو بچپن میں ناظرہ قرآن مجید پڑہانے کا شرف آپ کو حاصل ہوا بلکہ دار سیح میں رہنے کا بھی ایک بہت بڑا شرف آپ کو یہ حاصل ہوا کہ حضرت ام المومنین نوراللہ مرقدھا نے حضرت اقدس کے وصال کے بعد حضرت اقدس کی طرف سے حج بدل کرانا چاہا اور آپ کی نظر انتخاب حضرت حافظ صاحب پر پڑی.اور آپ نے حضور کی طرف سے حج بدل کیا.آپ بہشتی مقبرہ میں آرام فرماتے ہیں.ایسے بلند پایہ بزرگ کو حضرت نواب صاحب کے حُسن خاتمہ کے متعلق جو الہام آپ کی زندگی میں ہوا اور جس عجیب رنگ میں ہوا وہ آپ کے جنتی ہونے پر صریحاً دال ہے.حافظ صاحب تحریر فرماتے ہیں : بسم الله الرحمن الرحيم نحمده نصلی علی رسوله الكريم مع السليم از خاکسارذرہ بے مقدا ر احمد اللہ از قادیان محله ضعفاء بخدمت شریف معظم و محترم ومحتشم جناب نواب صاحب نواب محمد علی خان صاحب ! دام اللہ تعالیٰ فیوضہم و برکا تہم آمین.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.واضح خدمت بابرکت ہو کہ آج رات شب جمعہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی درویش ذکر فرماتے ہیں کہ حضرت حافظ صاحب دار مسیح میں حضرت سیدہ ام متین والے حصہ میں قیام رکھتے تھے اور وہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو قرآن مجید ناظرہ پڑھایا کرتے تھے.حضرت حافظ صاحب ( موصی ۲۵۱۷) ۱۵/اکتوبر ۱۹۲۶ء کو فوت ہوئے تھے.
646 بوقت سحرگاہ ۷ / جولائی ۱۹۲۲ء کو رویا میں اس عاجز نے جناب کو دیکھا کہ چہرہ جناب کا نہایت ہشاش بشاش ہے معمولی ہشاشت و بشاشت سے بہت زیادہ ایک چھوٹی سی جماعت کو جناب نے کسی کام پر مامور فرمایا ہے ان کو جناب نے مخاطب کر کے فرمایا کہ بس میرا مقصد پورا ہو گیا.وَجُوة يومئذٍ مسفرة.ضاحكة مستبشرہ کا نظارہ جناب کے چہرہ سے مترشح ہور ہا تھا.بیداری کے بعد نہایت خوشی میرے قلب پر تھی کہ پھر دوبارہ مجھے پر نیند غالب آگئی اور یہی آیہ کریمہ سورہ شریفہ عبس وتولی کی وجـوه يومئذ مسفره ضاحكة مستبشره جناب کی نسبت میری زبان پر جاری ہوئی اور میں نے خلف الرشید مگر می جناب عبداللہ خان صاحب کو سنا کر رویا میں کہا کہ یہ آیہ شریفہ جناب کے والد ماجد کے حق میں الہا نا میری زبان پر جاری ہوئی.اور اس کے (بعد ) مجھے نیند سے بیداری ہو گئی معا تھوڑی دیر کے بعد پھر نیند غالب آگئی اور پھر سہ بارہ یہی آیہ شریفہ وجوه يومئذٍ مسفره ضاحكة مستبشرہ جناب کی نسبت میری زبان پر جاری ہوئی اور میں نے رویا میں ہی اپنی دختر کو جس کا نام زنیب ہے سنا کر کہا کہ یہ الہام جناب نواب صاحب کے حق میں میری زبان پر جاری ہوا ہے غرض کہ تین یا چار بار یہی نظارہ بوقت سحر آج شب جمعہ ۷ جولائی ۱۹۲۲ء کو رہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جو الہام رحمانی ہوتا ہے وہ صرف ایک بار پر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ اس میں اکثر تکرار ہوتی ہے اس لئے اس رویا مبشرہ سے اس عاجز کو جو جناب کی نسبت ہے بہت خوشی ہوئی اور مناسب سمجھا کہ جناب کو اس بشارت کو سنا کہ خوش وقت کروں فلله الحمد والله الموفق والمسقم دعا گودعا کا طالب خاکسار احمد اللہ خان از قادیان.دار الضعفاء.جمعہ.(المرقوم ) ۷ جولائی ۱۹۲۲ء ۱ اذی قعده ۱۳۴۰ هجری نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم.مذکورہ بالا تمام رؤیا الہام حضرت نواب صاحب کے متعلق صلحاء کو الــمــومـن يــرى ويرى له کے ۴۴۵
647 مطابق ہوئے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو جو رویا نواب صاحب کے وصال کے بعد ہوئے.آپ کے الفاظ میں درج ہیں : دو مجھے اس بات کا بہت خیال رہتا ہے کہ نواب صاحب کو خواب میں دیکھوں لیکن کم ہی خواب میں دیکھا مگر دو چار بار بہت مبشر خواب آئے.ایک خواب نواب صاحب نے خطبہ میں بیان کر دی تھی.ایک خواب یہ دیکھا کہ ایک سواری ہے جو کہ چارپائی کی طرح کی ہے.اور ہوائی جہاز کی طرح اڑتی جارہی ہے اس کے اوپر میں ہوں اور سامنے میرے نواب صاحب بیٹھے ہیں مجھے کہتے ہیں کہ مجھے تو جہنم کی کھڑکی تک نہیں دکھائی گئی.بُر دار مخمل کی طرح کے کپڑے کی بہت ہی سفید صدری بند گلے کی پہنی ہوئی ہے.اور سینے پر ہاتھ پھیر کر کہتے ہیں کہ جس نے یہ پہنی ہوتی ہے اس سے ایسا ہی سلوک ہوتا ہے.پھر ایک بار میں نے دیکھا کہ سامنے سے آ رہے ہیں.تو مجھے خواب میں یہ احساس تھا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں تو میں نے بے بی (Baby) کو کہا کہ وہ تمہارے ابا میاں آگئے.آپ نے بچے کو گلے سے لگایا اور پیار کیا اور پوچھا تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں.اور کسی چیز کی ضرورت تو نہیں اور اس کے کان میں آہستہ سے کہا کہ میں تمہارے لئے بشارتیں لایا ہوں اور پھر مجھ سے پوچھا کہ کوئی تکلیف تو نہیں اور کسی چیز کی ضرورت تو نہیں.میں گھبرا کے بول رہی ہوں اور کہتی ہوں کہ مجھے کوئی تکلیف نہیں مگر آپ سے ملنا چاہتی ہوں.تو آپ کا جسم اس وقت مجھے اس طرح معلوم ہوتا ہے جیسے بلور کا ہو اور اس پر روشنی پڑ رہی ہو اور اونچے ہوتے جا رہے ہیں.قد نہیں بلکہ وہ مقام جس میں کھڑے ہیں.دروازہ سا ہے اور بلند ہوتا جا رہا ہے.میری بات کے جواب میں پہلے کہا کہ مل ہی لینگے اور پھر کہا اس دنیا میں دعائیں کر لو جتنی چاہو.پھر کہا یہاں خدا سے ڈرلو جتنا چا ہو.وہاں تو کچھ بھی نہیں.تو یہ بات مجھے اس رنگ میں سخت ناگوار گزری ہے کہ اس کا مفہوم خدا تعالیٰ کی ہستی سے نعوذ باللہ انکار تو نہیں؟ اور میں نے گھبرا کر نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ کیا کہا ؟ پھر اس کے جواب میں میری طرف دیکھ کر کہا کہ پھر میرے ساتھ تو یہی سلوک ہوا.میں نے تو یہی دیکھا کہ رحمت ہی رحمت.بخشش ہی بخشش.نہ دیکھا نہ بھالا.نہ پوچھا نہ گچھا.اٹھا اور بخش دیا اور پھر رحمتیں ہی رحمتیں.یہ سنکر مجھے بے حد خوشی ہوئی اور آنکھ کھل گئی.قریباً سینتیس سال قبل خود حضرت نواب صاحب کو بھی اللہ تعالیٰ نے حسن خاتمہ بلکہ اعلیٰ خاتمہ کی خبر دی تھی.سیدہ محتر مہ رقم فرماتی ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے تھوڑے عرصہ کے بعد آپ نے
648 خواب دیکھا تھا کہ حضور تشریف لائے اور ایک کاغذ حضور کے ہاتھ میں ہے اور وہ حضور نے آپ کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا کہ یہ ان لوگوں کے نام ہیں جو میرے بعد شہید ہوں گے.ناموں کا ایک صفحہ لکھا ہوا ہے لیکن ان میں سے صرف اپنا اور حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب کا نام یا در ہا.باقی ذہن سے اتر گئے“.سیدہ موصوفہ کی اپنی ایک خواب بھی اس کے ہم مفہوم ہے.آپ فرماتی ہیں : ایک دفعہ دیکھا کہ نواب صاحب آ رہے ہیں.اس وقت مجھے خواب میں احساس ہے کہ یہ اب فوت ہو چکے ہیں.بڑے اضطراب کے ساتھ میں نے کہا کہ یا اللہ ! اب آپ فوت نہ ہوں تو آپ نے نہایت ہی وقار کے ساتھ کہا کہ ہم زندہ ہیں اور ہم لوگوں کو مردہ نہیں کہتے.ہم مرا نہیں کرتے.صرف نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں.ٹھیک یہی الفاظ سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر ادا کیئے.میرے نزدیک ہر دور کیا میں آپ کے اعلیٰ مقام کی خبر دی گئی ہے.شہادت سے مراد ظاہری شہادت نہیں جو بالعموم عوام کے لئے متباور الی الذہن ہوتی ہے بلکہ وہ مقام شہادت ہے جوصرف اعلیٰ مومنوں کو حاصل ہوتا ہے.اور جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے وَ كَذلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا اور شَهِدَ اللهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَّئِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ میں فرمایا ہے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ ( اللہ تعالیٰ انہیں ہر شر سے محفوظ رکھے اور دیر تک بہ حفاظت ہمارے سروں پر سلامت رکھے.آمین ) اپنے مقام خلافت نیز بوجہ مصلح موعود اور مثل مسیح موعود ہونے کے اس آیت کے اعلیٰ درجہ کے مصداق ہیں.اور حضرت نواب صاحب کے متعلق عرصہ دراز یعنی بیالیس سال قبل الہی الہام نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ انکشاف کر دیا تھا کہ نواب صاحب حمتہ اللہ ہیں اور حضور نے اسکی جو تشریح فرمائی تھی اس کا ذکر پہلے گذر چکا ہے.وہ اسی مفہوم کی حامل ہے.دین سے محبت اور دعاؤں میں شغف ہم گزشتہ اوراق میں دیکھ چکے ہیں کہ کس کس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نواب صاحب کو نوازا او ان کو با اقبال بنایا اور عجیب قابل رشک اخلاص عطا کیا.یہ مقام تقویٰ آپ کو کیونکر حاصل ہوا اس لئے کہ آپ طبقہ امراء میں سے ہوتے ہوئے دنیا اور اس کی لذات سے روگردانی کر چکے تھے هاذم لـلـذات موت کو نہ بھولتے ہوئے آپ موتوا قبل ان تموتوا کو دائماً اپنا لائحہ عمل قرار دے چکے تھے اور ہمیشہ ہی اقامۃ الصلوۃ
649 ۴۴۸ آپ کے لئے قرہ عینی فی الصلواۃ کا مصداق تھا.آپ کی ڈائری ظاہر کرتی ہے کہ آپ کا بیشتر وقت مشاغل دینیہ اور خدمات سلسلہ کے لئے وقف تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجالس میں حاضری.نمازوں میں با قاعدگی.تلاوت قرآن مجید - تہجد گزاری کا آپ کو ذوق و شوق تھا.کبھی حضور کی مجلس میں نہیں جا سکے تو آپ نے مجالس کی باتیں دوسروں سے سنیں.حضور کے فرمودہ وعظ ونصیحت کو آپ ڈائری میں درج کرتے ہیں.یہی جذبہ محبت دین تھا جو آپ کو بھینچ کر قادیان لے آیا اور باوجود صد ہا ضروریات کے آپ ہجرت کرنے کے بعد اسے ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے.یہ دین کی محبت کا جذ بہ آپ میں اسقدر شدید تھا کہ اس کے اظہار کے لئے میں آپ ہی کے مختلف خطوط وغیرہ سے اقتباس درج کر دیتا ہوں.آپ ۱۴ نومبر ۱۹۰۱ء کو قادیان پہنچے.جس قدر آپ کے قلب مطہر میں قادیان کے لئے اُنس تھا وہ آپ کے ان الفاظ سے ظاہر ہے : گیارہ بجے بٹالہ پہنچے.فورا رتھ میں سوار ہو کر قادیان کے لئے روانہ ہوئے.رتھ کے ہچکولے کھاتے گرد پھانکتے روانہ ہوئے قادیان پہنچے.آرزو دارم که خاک آں قدم طوطیائے چشم سازم د میدم آپ تین ہفتہ قادیان میں قیام کر کے مالیر کوٹلہ واپس گئے تو جس قدر بے قراری قادیان کی جدائی کی وجہ سے آپ محسوس کرتے تھے وہ آپ کے ان الفاظ سے ظاہر ہے: جتنے دن میں کوٹلہ میں رہا وحشت ، ہول دل لگارہا.طبیعت ایک دن بھی خوش نہیں رہی.(ڈائری مورخہ ۲۱ دسمبر ۱۹۰۲ء) اور جب آپ ۲۳ / دسمبر کو واپس قادیان پہنچ گئے تو جو اطمینان آپ کو حاصل ہوا اس بارہ میں آپ تحریر فرماتے ہیں: یہاں آتے ہی دل کو اطمینان ہو گیا.ہول دل وغیرہ جاتا رہا‘.( ڈائری) البدر اور الحکم میں مرقوم ہے کہ ۲۱ / جون ۱۹۰۴ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: اگر یہ لوگ منہاج نبوت کو معیار ٹھہر اویں تو آج فیصلہ ہوتا ہے.اس مقام پر نواب محمد علی خاں صاحب نے عرض کی کہ ایک شخص نے مجھ سے حضور کے بارے میں بحث کرنی چاہی.میں نے اسے کہا کہ اول تم سب کتابیں حضرت مرزا صاحب کی مطالعہ کرو.اگر اس میں سمجھ نہ آئے تو ایک ماہ قادیان چل کر رہو اور وہاں مرزا صاحب
650 ۴۴۹ کے حالات وغیرہ کو آنکھ سے دیکھو.ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری رہنمائی کرے." جب حضرت نواب صاحب کے برادر بزرگوار نے چاہا کہ آپ قادیان سے مالیر کوٹلہ واپس چلے آئیں تو کیسے خیالات زرین کا آپ نے اپنے مکتوب ۰۲-۹-۱۹ میں اظہار کیا.چنانچہ آپ تحریر نے تحریر فرمایا: والا نامہ پہنچا.جواباً عرض ہے جناب نے شفقت بزرگانہ سے جو کچھ تحریر فرمایا جناب کی شفقت اس کی مقتضی تھی مگر جناب کو غالباً ان امور کی اطلاع نہیں جن امور کے لئے میں نے قادیان میں سکونت اختیار کی ہے میں نہایت صفائی سے ظاہر کرتا ہوں کہ مجھ کو حضرت اقدس مسیح موعود مہدی مسعود کی بیعت کئے ہوئے بارہ سال ہو گئے اور میں اپنی شومئی طالع سے گیارہ سال گھر ہی میں رہتا تھا اور قادیان سے مہجور تھا.صرف چند دنوں گاہ گاہ یہاں آتا رہا اور دنیا کے دھندوں میں پھنس کر بہت سی اپنی عمر ضائع کی.آخر جب سوچا تو معلوم کیا کہ عمر تو ہوا کی طرح اڑ گئی اور ہم نے نہ کچھ دین کا بنایا اور نہ دنیا کا اور آخر مجھ کو شعر یاد آیا کہ ہم خدا خواہی ہم دنیائے دوں این خیال است و محال است و جنوں ” یہاں میں چھ ماہ کے ارادہ سے آیا تھا مگر یہاں آ کر میں نے اپنے تمام معاملات پر غور کیا تو آخر یہی دل نے فتوی دیا کہ دنیا کے کام دین کے پیچھے لگ کر تو بن جاتے ہیں مگر جب دنیا کے پیچھے انسان لگتا ہے تو دنیا بھی ہاتھ نہیں آتی اور دین بھی برباد ہو جاتا ہے.اور میں نے خوب غور کیا تو میں نے دیکھا کہ گیارہ سال میں نہ میں نے کچھ بنایا اور نہ میرے بھائی صاحبان نے کچھ بنایا اور دن بدن ہم با وجود اس مایوسانہ حالت کے دین بھی برباد کر رہے ہیں.آخر یہ سمجھ کر کہ کار دنیا کے تمام نہ کرو کوٹلہ کو الوداع کہا اور میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ میں ہجرت کرلوں.سوالحمد اللہ میں بڑی خوشی سے اس بات کو ظاہر کرتا ہوں کہ میں نے کوٹلہ سے ہجرت کر لی ہے اور شرعاً مہاجر پھر اپنے وطن میں واپس اپنے ارادہ سے نہیں آ سکتا.یعنی اس کو گھر نہیں بنا سکتا.ویسے مسافرانہ وہ آئے تو آئے.پس اس حالت میں میرا آنا محال ہے.میں بڑی خوشی اور عمدہ حالت میں ہوں.ہم جس شمع کے پروانے ہیں اس سے الگ کس طرح ہو سکتے ہیں؟ کہاں کوٹلہ میں تنہا رہنا یا اگر کوئی ملا تو وہ ہم مذاق نہیں بری صحبت.خلاف شریعت امور میں مبتلا.آخر ایسے لوگوں کی صحبت سے جو زنگ ایک شخص کے دل پر بیٹھ سکتا ہے اس کو وہی سمجھ سکتے
651 ہیں.جن کو اس کا تجربہ ہے ہمنشیں تو از توبہ باید دیں بفزاید تا ترا عقل آپ صاف آئینہ کو ایک صاف مکان میں رکھ دیں.تھوڑے عرصے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ اردگرد سے نا معلوم طور سے گرد آ کر اس پر جم گئی ہے اور اگر چند ایام اس کو اسی طرح رکھا رہنے دیا جائے تو آخر کا راس کی حالت ایسی ہو گی کہ اس میں سے کوئی چیز نہ دیکھ سکے گا.یہی حالت انسان کے قلب کی ہے اس پر بھی نا معلوم طور سے زنگ جمتی رہتی ہے پھر وہ نہایت مکر رہو جاتا ہے اگر بہت ہی مدت گزر جائے تو پھر ایسی زنگ جمتی ہے کہ ختم الله عـلـى قلوبهم و على سمعهم كا مصداق بن جاتا ہے.پھر اس کا صیقل ہونا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے.پس جس طرح ہر ایک آئینہ کے لئے ضروری ہے کہ اس پر ہر روز ہاتھ پھیرتا رہے اسی طرح قلب کی بھی ہمیشہ صفائی ہوتی رہے تب وہ ٹھیک رہتا ہے.ر جس مسیح موعود اور امام آخر زماں مہدی معہود کی تمام دنیا منتظر تھی جب کہ ہم نے اس کو پالیا تو کس طرح پر ہم اس کے قدموں سے علیحدہ ہو سکتے ہیں ؟ اب تو ہماری دعا ہے کہ اسی کے بابرکت آستانہ پر ہمارا خاتمہ بخیر ہو.آمین ثم آمین.میں اپنی بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہوں خدا وند تعالے نے مجھے اس سعادت کے حاصل کرنے کا موقعہ دیا اور میں ان لوگوں کی بڑی بد قسمتی سمجھتا ہوں جو اس آستانہ مبارکہ سے الگ ہیں.اب جناب ہی غور فرمائیں میں اپنے مالک حقیقی کا حکم مانوں یا جناب کے ارشاد کی تعمیل کروں.باقی رہا جناب کا تشریف لانا سو یہ میرے لئے موجب سعادت ہے ہمائے اوج سعادت بدام ما افتد اگر ترا قدم بر مقام ما افتد مگر اگر میرے لے جانے کے لئے ہی آنا مقصود ہے تو جو کچھ میں نے عرض کیا وہی ہے اور ویسے جناب کے آنے میں میری اور آپ دونوں کی سعادت ہے خداوند تعالیٰ آپ کو بھی ہدایت عطا فرمائے“.معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ آپ ہجرت کر چکے تھے اس لئے جب بھی آپ قادیان سے بعض ضروری ذاتی امور کی سرانجام دہی کے لئے تشریف لے جاتے تھے تو اجازت حاصل کر لیتے تھے چنانچہ آپ کو ایک دفعہ ۱۹۱۳ء میں باہر جانے کی ضرورت پیش آئی تو آپ نے جو خط حصول اجازت کے لئے لکھا وہ اور اس کا جواب درج ذیل کیا جاتا ہے:
652 بسم الله الرحمن الرحيم سیدی و مولای طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم.میری ابتلائیں مجھے مجبور کرتی ہیں کہ میں قادیان سے کچھ عرصہ جایا کروں.....پس وہاں جانا مشکل اس لئے یہ تدبیر سوچی....کہ میں کچھ عرصہ لودھیانہ جا ٹھہروں اور چونکہ کوٹلہ قریب ہے اس لئے مجھ کو....اطلاع ہر ایک معاملہ کی پہنچ سکتی ہے.آدمی آ جا سکتے ہیں گویا میں شیروانی کوٹ میں بیٹھا ہوں اور چونکه....لاہور آ جا سکتا ہوں اور اس طرح اہل وعیال بھی مجھ سے الگ نہ رہیں گے اور چونکہ چند روزہ کام نہیں بلکہ تین چار مہینے کا کام ہے اور اگر معاملات نے مجبور کیا تو شاہد مجھ کو شملہ بھی جانا پڑے کیونکہ وہاں غالباً آخری فیصلہ ہمارے معاملات کا ہونا ہے اس لئے مجھ کو ایسے مقام پر رہنا ضروری ہے کہ ریل کے سر پر ہوں اور سب جگہ میں چند گھنٹہ کی غیر حاضری سے آ جا سکوں اور اپنے معاملات کی بھی خبر رکھ سکوں پس اگر حضور اجازت دیں تو میں تہیہ سفر کروں اور آخر مئی یا ابتدائے جون میں یعنی ان دو ہفتہ کے اندر اندر مع عیال واطفال چلا جاؤں.ہاں صرف بڑے تینوں لڑکے یہاں رہیں گے صرف تعطیلوں میں میرے پاس چلے جائیں گے حضور دعا فرمائیں کہ میری ابتلائیں دور ہوں.خواہ وہ مالی ہیں یا روحانی یا ریاست کے متعلق.یہ بہت ہی سخت وقت ہم پر ہے.حضور خاص دعا فرما ئیں اور یہ بھی دُعا فرمائیں کہ یہ سفر ہمارے لئے با برکت و پُر امن ہر حالت میں ثابت ہو.راقم محمد علی خان مبارک ہو بہت بہتر ہے آپ تشریف لے جائیں.نورالدین ۲۴ رمئی ۱۳ء آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہمیشہ اپنے خطوط میں ”طبیب روحانی“ کے الفاظ سے مخاطب کرتے.حضور کی صحبت فیض پاش کو اپنے لئے آب حیات یقین کرتے حضور سے علیحد گی آپ کو حد درجہ نا گوار تھی.ایک دفعہ آپ کے ایک بھائی نے آپ کو آنے کے لئے لکھا کہ بعض مقدمات کا انفصال آپ کے آنے پر موقوف ہے.تو آپ نے جواب میں تحریر کیا : حملہ اس خط کے جو حصے پڑھے نہیں گئے وہاں نقطے دئے ہیں.
653 فی الحال میں کوئی تاریخ اپنے آنے کی عرض نہیں کر سکتا....امراض روحانی کا علاج حضرت اقدس مسیح موعود مهدی معہود و امام آخر زمان علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ایسے چشمہ روحانی سے طالبان حقیقت کا علیحدہ ہونا گویا کہ سکندر کا آب حیواں سے علیحدہ ہونا ہے یا ایک طالب کا مطلوب سے علیحدہ ہونا.ہم لوگ جس شخص کا نتظار کر رہے تھے اور جس کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہونے کا ہم کو ارمان تھا وہ امام الوقت آگیا.“ آپ کے دل میں روحانی اصلاح کی جو تڑپ تھی وہ آپ کی ڈائری سے پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہوتی ہے.اس میں کسی قسم کا تصنع نہیں بلکہ حقیقت ہے.آپ ۱۱ جنوری ۱۹۰۲ء کو ( مطابق ۳۰ رمضان المبارک) تحریر فرماتے ہیں: آج رمضان کا آخری روزہ ہے.الحمد للہ کہ تمام روزے میرے پورے ہوئے.خدا وند تعالیٰ میرے ان ناقص روزوں کو قبول فرمائے.آج ایک...افسوس مجھ کو ہوا کہ نماز عصر میری جاتی رہی.اس سے قطعاذ ہول ہو گیا.ذرا یادنہ رہا اور زیادہ اثر اور افسوس اس وقت ہوا جب حضرت اقدس نے تقریر فرمائی کہ ” جب دن ختم ہونے پر آیا تو میں کام چھوڑ کر دعا میں مشغول ہو گیا اور میں نے جن کے نام یاد تھے ان کے نام لے کر اور باقی کو بلا نام تمام کو دعا میں یاد کیا.جب میں کر چکا تھا کہ مجھ کو معلوم ہوا جس طرح کوئی شخص مرجاتا ہے تو گویا میں نے سمجھا رمضان اب ختم ہو گیا.اتنے میں اللہ اکبر کی آواز آئی لیکن ہم دعا کر چکے تھے.ہماری دانست میں یہ بہت ہی مبارک مہینہ تھا.گویا اسکی برکات ختم ہو گئیں“.اس وقت مجھ کو بڑی رقت طاری ہوئی کہ ایک ہم بدنصیب ہیں کہ دعا تو دعا نماز عصر بھی غائب کی.مجھ کو مغرب سے عشاء تا نہایت رقت تھی اس لئے اس تقریر کے وقت بھی رقت طاری تھی.حضرت ( نے ) بڑی عمدہ تقریر فرمائی.فرمایا ان مہینوں میں بھی روحانیت ہوتی ہے.یہ روحانی ہوتے ہیں جن کے ذائقے جدا جدا ہیں.نماز کا جدا.روزے کا جدا.حج کا جدا.خلاصہ یہ ہے کہ جدا جدا ذا کھتے ہیں.جو کمی اس ماہ میں رہ گئی ہے.اس کی تلافی دوسرے مہینوں میں کی جائے.آج صبح سیر میں عبدالحق صاحب نے
654 اپنا خط جو سراج الدین عیسائی کے نام انہوں نے لکھا ہے سنایا اور پھر حضرت اقدس نے بہت تقریر کی.اقتباس بالا حضرت اقدس اور حضرت نواب صاحب کی سیرۃ اور کردار بہترین ٹکڑا ہے.حضرت نواب صاحب میں انابت الی اللہ اور اصلاح نفس کی کیسی زبر داست خواہش پائی جاتی تھی.اگلے رمضان میں ۱۱ دسمبر ۱۹۰۲ء کو نواب صاحب تحریر کرتے ہیں: ”ہائے افسوس رمضان کی دسویں ہو گئی اور ابھی....شومئے اعمال دامنگیر ہے.اب تک میں نیک اعمال میں نہایت کمزور ہوں.خدا وند تعالیٰ جیسے کیسے روزوں کو قبول فرمائے اور باقی دو ملکوں میں تو فیق فرمائے کہ خاص تبدیلی مجھ میں پیدا ہو اور اس رمضان کے بعد میں اپنے میں زمین و آسمان کا فرق پاؤں.لا توفیقی الا بالله.لا حول ولا قوة الا بالله العلى العظيم - خدا وند تعالیٰ مجھ کو غموں سے نجات (دے) اور سوائے غم دین اور کوئی غم باقی نہ رہے.“ پھراگلے روز تحریر فرماتے ہیں: آج میں نے ارادہ کیا ہے کہ وساوس جو بڑھتے جاتے ہیں ان کو دور پھینکدوں.اور کوشش کروں کہ یہ ۲/۳ رمضان نہایت خوبی سے گذرے.وما توفیقی الا بالله لا حول ولا قوة الا بالله العلى العظیم.خداوند تعالی توفیق دے اور ایسا کرے (کہ ) اس رمضان کے اختتام پر مجھ میں نئی تبدیلی آجائے.۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۲ء کو تحریر فرماتے ہیں: طبیعت اسی سردی سے (لفظ پڑھا نہیں گیا.مولف ) ہے کہ صبح مسجد تک جانے سے گھبراتی ہے.یا اللہ مجھے کو صحت عطا فرما اور مسجد میں جانے ( کی ) توفیق عطا فرما.اسی طرح یکم نومبر ۱۹۰۲ء کو تحریر فرماتے ہیں : ہر چند برخود نظر سے گنم روحانیت تا حال جاگزیں نہ شدہ.مرا در یں قبض مانده است الا ماشاء الله مگر این فائدہ مرا بسیار مرا رسیده است که او مبادرت و جرات که بر گناه در مالیر کوٹلہ مرا بود ایں جا نیست.آنجا گو کسے بزور برائے گناہ کشید دایں جا از و می کشد - الحمد للہ کہ تا این دم آن گناه با که در کوٹلہ مبتلا بودم بیک ساعتے و یک لمحے واقع نہ شدہ.
655 اسی طرح انابت الی اللہ کا ایک منظر ہمیں نواب صاحب کے ایک اور مکتوب میں نظر آتا ہے جو آپ نے اپنے ایک بھائی کو ۱۲ فروری ۱۹۰۸ء کو تحریر کیا.آپ فرماتے ہیں : ”آپ نے چند روز ہوئے ایک تار بھیجا تھا کہ ہماری اپیل منظور ہوگئی اور احکامات بذریعہ کمشنر پہنچ گئے اس سے اس قدر خوشی حاصل ہوئی کہ کوئی حد نہیں اور سجدات شکر اللہ کے آگے کئے گئے.مگر یہ ایسا خدا کا فضل ہوا ہے کہ اگر سجدے کرتے کرتے ہمارے ماتھے گھس جائیں تو بھی تھوڑے ہیں اور خاص کر آپ مبارک باد کے مستحق ہیں کیونکہ جس قدر سعی اور تکلیف آپ نے اس امر میں اٹھائی وہ بہت ہی بڑی تھی خداوند نے آپ کی سعی مشکور کی اور تکالیف کا معاوضہ بہت اچھا دیا ہم کو آپ کو یہ فتح اور بالخصوص آپ کو مبارک ہو.آپ کو بہت ہی خداوند کے سامنے جھک جانا چاہئے.کیونکہ یہ خاص فضل اللہ تعالیٰ کا ہو اور نہ فریق مخالف کے مقابلہ میں ہماری کیا حقیقت تھی یہ محض اللہ تعالیٰ کے دست قدرت نے کام کیا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اب زیادہ نازک وقت ہے پس ہم کو بہت سنبھلنا چاہئے اور خداوند تعالیٰ کا بہت بہت شکر ادا کرنا چاہئے.کیونکہ خداوند تعالیٰ فرماتا ہے لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ اگر تم قدر کرو تو میں تم کو اور بھی زیادہ دونگا.۴۵۱ یہی انابت الی اللہ اور رجوع الی اللہ اور ہر لمحہ اس کی جناب میں جھک جانے اور اس سے استعانت کرنے کا نظارہ ہمیں ذیل کے مکتوب سے بھی نظر آتا ہے جو آپ نے مکرم میر بشارت احمد ایڈووکیٹ ( صحابی ) امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد دکن کو ۱۴ دسمبر ۱۹۲۲ء کو مالیر کوٹلہ سے تحریر فرمایا: آپ لکھتے ہیں : " آپ کا خط متعلق علالت آپ کی والدہ صاحبہ پہنچا.اس سے سخت تشویش اور درد پیدا ہوا.میں برابر دعا کرتا ہوں.میں نے آپ کے متعلقین کے ( لئے ) روزانہ دعا کو اپنا شعار مقرر کر لیا ہے اور نام بنام دعا کرتا ہوں.آپ کی والدہ صاحبہ کی صحت کے لئے اور خصوصیت ( سے ) دعا کرنے لگا ہوں.امید کہ آپ اپنی اور اپنی والدہ صاحبہ کے حالات صحت سے مطلع فرما کر مشکور فرمائیں گے.آپ نے تحریر نہ فرمایا کہ اس دفعہ جلسہ پر کون کون صاحب تشریف لائیں گے.میرے لئے آپ دعا فرما ئیں
656 اور حضرت مولوی صاحب ہے سے بھی دعا کے لئے عرض کریں.میں آجکل سخت ابتلاؤں میں گھرا ہوا ہوں.اللہ تعالیٰ جلد میرے مقاصد میں کامیاب ( کرے ) تا کہ یہاں سے جلد نکلوں.خداوند تعالیٰ یہاں سے جلد نجات دے“.اسی طرح ۱۶ / اگست ۱۹۲۴ء کو میر صاحب موصوف کو تحریر فرماتے ہیں: و گھر میں آپ کے متعلق ایک مندز خواب دیکھا ہے.تعلق کی وجہ سے آپ کو اطلاعاً عرض ہے کہ کوئی بکرا ذبح کر کے خیرات کر دیں اور کچھ نقد غرباء کو خیرات کر دیں اور ہم بھی دعائیں کر رہے ہیں.آپ بھی استغفار اور دعا فرمائیں.صدقہ رڈ بلا ہوتا ہے اور دعا واستغفار جاذب رحم ہے.اسی انابت کا علم ہمیں ڈائری کے ذیل کے اندراج سے ہوتا ہے.۲۶ جنوری ۱۸۹۸ء کو تحریر فرماتے ہیں : آج نئی بات یہ ہوئی کہ میں نے تجدید بیعت حضرت اقدس مرزا صاحب سے کی اور صفدر علی نے بھی بیعت کی.یہ بیعت بیعت تو یہ تھی“.حضرت مولوی شیر علی صاحب تحریر فرماتے ہیں.اس سے بھی اسی جذ بہ کی جھلک نواب صاحب میں نظر آتی ہیں.فرماتے ہیں: حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کئی بار مجھے بعض امور پیش آمدہ کے لئے دعا اور استخارہ کے لئے تحریر فرمایا کرتے تھے اور ہر خط میں یہ لکھتے تھے کہ میں آپ کے لئے با قاعدہ دُعا کرتا ہوں.ان کی شان کے آدمی کا میری نسبت اس قدر مہربانی کا سلوک کرنا بیحد شفقت کا ثبوت ہے ان کی آخری بیماری میں ان کی وفات سے صرف چند روز پہلے میں ان کی عیادت کے لئے کوٹھی دار السلام پر گیا اور نواب محمد عبداللہ خان صاحب مجھے اندر لے گئے.میرے ساتھ ایک دو اور آدمی بھی چلے گئے.وہاں حضرت بیگم صاحبہ اور دوسری خواتین تشریف رکھتی تھیں.جنہیں ہماری وجہ سے پردہ کرنا پڑا اس واسطے ہم جلدی سے نواب صاحب کی خدمت میں السلام علیکم و رحمۃ اللہ عرض کر کے مصافحہ کر کے واپس آگئے.ہمارے چلے آنے کے بعد نواب عبد اللہ خان صاحب نے مجھے بتایا کہ حضرت نواب صاحب نے بیگم صاحبہ سے شکایت کی کہ شیر علی آیا تھا اور میں مراد حضرت مولوی محمد سعید صاحب حیدر آبادی رضی اللہ عنہ (مؤلف)
657 چاہتا تھا کہ وہ یہاں زیادہ دیر ٹھہریں لیکن عبداللہ خان نے انہیں جلدی واپس کر دیا.یہ وفات سے شاید ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے.اور اسی روح کے کارفرما ہونے کا نظارہ ڈائری کے ذیل کے اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے.ایک صاحب کے انتقال کا حال تحریر کر کے لکھتے ہیں:.آخری وقت اللہ و رسول امام زمان پر ایمان کی شہادت دیتا ہوا راہی عدم ہوا.بڑی قابل رشک موت تھی.خداوند تعالیٰ ایسی موت سب مومنوں کو نصیب کرے جب اُن کا وقت آئے“.(ڈائری ۰۲-۰۲-۱۷) اعمال صالحہ کے بجالانے کی توفیق پانے کی آپ کے دل میں کس قدر تڑپ ہے ڈائری میں تحریر فرماتے ہیں : ” میری بڑی بدقسمتی ہے کہ دار الامن میں بھی میری شامت اعمال کی وجہ سے اعمال صالحہ کی توفیق حاصل نہیں ہوتی“.(ڈائری ۰۲-۰۲-۲۳) اعمال صالحہ بجالا کر آپ کس قدر خوش ہوتے ہیں اس کا اندازہ ۹۸-۱-۲۲ کی ڈائری سے ہوتا ہے تحریر فرماتے ہیں : ”اس کے بعد نماز کسوف کے لئے جامع مسجد گئے.پہلے نماز ظہر اور عصر ملا کر پڑھی گئیں.پھر نماز کسوف ہوئی اور جس درد اور آہ وزاری کے ساتھ یہ نماز پڑھی گئی وہ ایک عجیب تھی اور پھر قریب اختتام کسوف نماز شکر یہ پڑھی گئی.آج قریباً تمام دن عبادت میں گذرا.مخالفوں کو یہاں آ کر دیکھنا چاہئے کہ آیا اُن کی مخالفت چاہئے یا نہیں“.حضور کی طرف سے تربیت حضور اور حضرت اُم المومنین کی طرف سے شفقت جیسا کہ اوپر مذکور ہو چکا حضرت نواب صاحب کو اپنی اصلاح کی حد درجہ تڑپ تھی اور جیسا کہ آپ کے مکتوب مندرجہ ازالہ اوہام میں مرقوم ہے.اسی تڑپ کے نتیجہ میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف رجوع کیا تھا.حضور بھی یہی یقین رکھتے تھے چنانچہ وہاں رقم فرماتے ہیں:
658 معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بتو فیقہ تعالیٰ خود اپنی اصلاح پر آپ زور دے کر رئیسوں کے طریقوں اور چلنوں سے نفرت پیدا کر لی ہے...ان سب باتوں سے بھی اپنے نور قلب سے فیصلہ کر کے انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی ہے“.انبیاء کی صحبت کونوا مع الصادقین کا بہترین نظارہ پیش کرتی ہے.ان میں کمال درجہ کی شفقت پائی جاتی ہے جس سے طالبان حقیقت ان کی طرف کھچے چلے آتے ہیں.اسی شفقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لوكُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ کے الفاظ میں ۴۵۳ ror فرمایا ہے.اور اسی کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی میں لَا تُصَعِرُ لِخَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَسْتَمُ مِّنَ الناس میں فرمایا ہے.شفقت کی یہی جاذبیت اصحاب کو مال ومنال.اقارب و اوطان چھڑا کر ہجرت کرنے اور اپنا سب کچھ راہ مولا میں نچھاور کرنے پر مجبور کرتی ہے.اس کا نظارہ ہم حضرت زید رضی اللہ عنہ کے حالات میں دیکھتے ہیں کہ انہوں نے آزاد ہونے کے بعد بصد تلاش و جستجو کر کے پہنچنے والے والد اور چچا کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا.حضرت زید کی بصیرت حضور کا خلق عظیم مشاہدہ کر چکی تھی.حضرت مسیح موعود کی اس شفقت کی جاذبیت کے سینکڑوں نظارے ہمارے سامنے آتے ہیں.تربیت کی خاطر حضور نواب صاحب کو بار بار قادیان آکر لمبا عرصہ قیام کرنے کی تلقین فرماتے تھے.تربیت کی طرف حضور کی توجہ کا ذکر نواب صاحب کے ملازموں اور خدام اور اہلیہ سے سلوک اور مدرسہ تعلیم الاسلام کے تعلق میں گذر چکا ہے.اسی تربیت کے نتیجہ میں نور قلب کے مالک نواب صاحب نور علی نور ہو گئے.اس عنوان کے تحت بعض تربیتی امثلہ کا ذکر کر دیا جاتا ہے.اس سے اور سابقاً مذکورہ امور سے معلوم ہوگا کہ حضور کس کس رنگ میں نواب صاحب کی تربیت فرماتے تھے.نواب صاحب کے خط بیعت کے جواب میں حضور فرماتے ہیں: اشتہار شرائط بیعت بھیجا جاتا ہے.جہاں تک وسعت و طاقت ہو اس پر پابند ہوں اور کمزوری کو دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد چاہتے رہیں.اپنے رب کریم پھر فرمایا: سے مناجات خلوت کی مداومت رکھیں اور ہمیشہ طلب قوت کرتے رہیں“.دعا بہت کرتے رہو اور عاجزی کو اپنی خصلت بناؤ.جوصرف رسم اور عادت کے طور پر زبان سے دعا کی جاتی ہے یہ کچھ بھی چیز نہیں.اس میں ہرگز زندگی کی رُوح نہیں.جب دعا کرو تو بجر صلوٰۃ فریضہ کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جاؤ اور اپنی
659 ہی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک ادنیٰ سے ادنی بندہ ہوتا ہے خدائے تعالیٰ کے حضور دعا کرو کہ اے رب العالمین ! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا.تو نہایت رحیم وکریم ہے.اور تیرے بے نہایت مجھ پر احسان ہیں.میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں.میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے.میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو.رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے.آمین ثم آمین.۱۴۵۴ حضرت اقدس اپنی توجہ خاص کی وجہ سے یہ پسند نہ کرتے تھے کہ کوئی ایسا امر رونما ہو کہ جو نواب صاحب کے لئے حضور کی دعاؤں میں حارج ہو چنانچہ حضور اس بارہ میں تحریر فرماتے ہیں : مجھے خیال آیا کہ ایک طرف تو میں نواب صاحب کے لئے پنج وقت نماز میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی پریشانی دور کرے.اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کی شکایت ہے کہ ہم اب اس حکم سے تباہ ہو جائیں گے تو ایسی صورت میں میری دعا کیا اثر کرے گی؟ گویا یہ سچ ہے کہ خدمت گار کم حوصلہ اور احسان فراموش ہوتے ہیں مگر بڑے لوگوں کے بڑے حو صلے ہوتے ہیں.بعض وقت خدا تعالیٰ اس بات کی پرواہ نہیں رکھتا کہ کسی غریب نادار خدمت گار نے کوئی قصور کیا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ صاحب دولت نے کیوں ایسی حرکت کی کہ اس کی شگر گذاری کے برخلاف ہے اس لئے میں نے آپ کو ان کی دلی رنجش کے بُرے اثر سے بچانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو لکھا تھا...تاکوئی امرایسا نہ ہو کہ جو میری دعاؤں کی قبولیت میں حرج ڈالے اور حدیث شریف میں ہے ارحموا فی الارض ترحموا في السماء زمیں میں رحم کرو تا آسمان پر تم پر رحم ہو.مشکل یہ ہے کہ امراء کے قواعد انتظام قائم کرنے کے لئے اور ہیں اور وہاں آسمان پر کچھ اور چاہتے م ہیں.
660 ۶ را پریل ۱۸۹۲ء کو نواب صاحب کو خدا کا خوف بڑھانے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کل کی ڈاک میں آں صحت کا عنایت نامہ مجھ کو ملا.آپ کی محبت اور اخلاص اور ہمدردی میں کچھ شک نہیں.ہاں میں ایک استاد کی طرح جو شاگردوں کی ترقی چاہتا ہے آئندہ کی زیادہ قوت کے لئے اپنے مخلصوں کے حق میں ایسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہوں جن سے وہ متنبہ ہو کر اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ قو تیں ظاہر کریں اور دُعا یہی کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی کمزوریاں دُور فرمادے میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کا تمام کاروبار اور اس کی نمائش اور عزتیں حباب کی طرح ہیں.اور نہایت سعادت مندی اسی میں ہے کہ پورے جوش سے اور پوری صحت کے ساتھ دین کی طرف حرکت کی جائے.اور میرے نزدیک بڑے خوش نصیب وہ ہیں کہ اس وقت میری آنکھوں کے سامنے دکھ اٹھا کر اپنے بچے ایمان کے جوش دکھا دیں...اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ خدا کا خوف بہت دل میں بڑھا لیا جائے تا اس کی رحمتیں نازل ہوں اور تا وہ گنا بخشے.۴۵۷ حضور نے ایک بار تحریر فرمایا: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ.السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا.خدا تعالیٰ آپ کو ان مشکلات سے نجات دے.علاوہ اور باتوں کے میں خیال کرتا ہوں کہ جس حالت میں شدت گرمی کا موسم ہے اور بباعث قلت برسات یہ موسم اپنی طبعی حالت پر نہیں اور آپ کی طبیعت پر سلسلہ اعراض اور امراض کا چلا جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ آپ در حقیقت بہت کمزور اور نحیف ہورہے ہیں اور جگر بھی کمزور ہے.عمدہ خون بکثرت پیدا نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں آپ کا ر سفر تحمل کرنا میری سمجھ میں نہیں آتا.کیوں اور کیا وجہ کہ آپ کے چھوٹے بھائی سردار ذوالفقار علی خان صاحب جو صحیح اور تندرست ہیں ان تکالیف کا عمل نہ کریں.اگر موسم سرما ہوتا تو کچھ بھی مضائقہ نہ تھا.مگر یہ موسم آپ کے مزاج کے نہایت ناموافق ہے جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ بے صبری اور بیجا شتابکاری سے دُور نہیں ہو سکتیں.صبر اور متانت اور آہستگی اور ہوشمندی سے ان کا علاج طلب کرنا چاہئے.ایسانہ ہو کہ آپ اس خطر ناک موسم میں سفر کریں اور خدانخواستہ کسی بیماری میں مبتلا ہو کر موجب شماتت اعداء ہوں.پہلے سفر میں کیسی کیسی حیرانی پیش آئی تھی اور لڑکے کے بیمار ہونے سے کس قدر مصائب کا سامنا پیش آ گیا تھا.کیا یہ ضروری شدائد
661 ہے کہ کمشنر کے پاس آپ ہی جائیں اور دوسری کوئی تدبیر نہیں ؟ غرض میری بھی یہی رائے ہے کہ یہ کاروبار آپ پر ہی موقوف ہے تو اگست اور ستمبر تک التوا کیا جائے.اور اگر ا بھی ضروری ہے تو آپ کے بھائی یہ کام کریں.ڈرتا ہوں کہ آپ بیمار نہ ہو جائیں.خط واپس ہے اس وقت مجھے بہت سر درد ہے.زیادہ نہیں لکھ سکتا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ اسی طرح حضور آپ کو تحریر فرماتے ہیں :.بسم الله الرحمن الرحيم محبی عزیزی نواب صاحب ۴۵۸ نحمده ونصلى على رسوله الكريم السّلام عليكم ورحمة الله وبركاته آج مولوی مبارک علی صاحب جن کی نسبت آپ نے برخاستگی کی تجویز کی تھی،حاضر ہوگئے ہیں.چونکہ وہ میرے استاد ہیں اور مولوی فضل احمد صاحب والد بزرگواران کے جو بہت نیک اور بزرگ آدمی تھے ان کے میرے پر حقوق استادی ہیں.میری رائے ہے کہ اب کی دفعہ آپ ان کی لمبی رخصت پر اغماض فرما دیں کیونکہ وہ رخصت بھی چونکہ کمیٹی کی منظوری سے تھی کچھ قابل اعتراض نہیں.ماسوا اس کے چونکہ وہ واقعہ میں ) ہم پر ایک حق رکھتے ہیں اور عفو اور کرم سیرت ابرار میں سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا اَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ ۴۵۹ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - یعنی تم عفو اور درگزر کی خُو ڈالو.کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا بھی تمہاری تقصیر میں معاف کرے اور خدا تو غفور رحیم ہے.پھر تم غفور کیوں نہیں بنتے.اس بناء پر ان کا یہ معاملہ در گذر کے لائق ہے.اسلام میں یہ اخلاق ہر گز نہیں سکھلائے گئے.ایسے سخت قواعد نصرانیت کے ہیں اور ان سے خدا ہمیں اپنی پناہ میں رکھے.ماسوا اس کے چونکہ میں ایک مدت سے آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان کے گناہ معاف کرتا ہوں جو لوگوں کے گناہ معاف کرتے ہیں اور یہی میرا تجربہ ہے.پس ایسا نہ ہو کہ آپ کی سخت گیری کچھ آپ ہی کی راہ میں ط تاریخ مکتوب درج نہیں.اندرونی شہادت سے ظاہر ہے کہ (۱) موسم گرما قبل اگست کا ہے.(۲) اس سے قبل مکرم میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کا سفر میں بیمار ہونے کا واقعہ قریب ہوا تھا اور وہ ۱۹۰۴ء کی بات ہے.گویا کہ یہ مکتوب موسم گر ما۱۹۰۴ء کا ہے.
662 سنگ راہ نہ ہو.ایک جگہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص فوت ہو گیا جس کے اعمال کچھ اچھے نہ تھے.اس کو کسی نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا.اس نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بخش دیا.اور فرمایا کہ تجھے میں یہ صفت تھی کہ تو لوگوں کے گناہ معاف کرتا تھا اس لئے میں تیرے گناہ معاف کرتا ہوں.سو میری صلاح یہی ہے کہ آپ اس امر سے در گذر کرو تا کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی جناب میں درگزر کرانے کا موقعہ ملے.اسلامی اصول انہی باتوں کا چاہتے ہیں.دراصل ہماری جماعت کے ہمارے عزیز دوست جو خدمت مدرسہ پر لگائے گئے ہیں وہ ان طالب علم لڑکوں سے ہمیں زیادہ عزیز ہیں جن کی نسبت ہمیں ابھی تک معلوم نہیں کہ نیک معاش ہونگے یا بد معاش والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ یہ سچ ہے کہ تمام اختیارات آپ رکھتے ہیں مگر یہ محض بطور نصیحتا اللہ لکھا گیا ہے.اختیارات سے کام چلانا بڑا نازک امر ہے.اس لئے خلفاء راشدین نے اپنے خلافت کے زمانہ میں شوریٰ کو سچے دل سے اپنے ساتھ رکھا تا اگر خطا بھی ہو تو سب پر تقسیم ہو جائے نہ صرف ایک کی گردن پر.حضور ۲۱ / جولائی ۱۸۹۸ء کو نواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک مرض اور غم سے نجات بخشے.آمین ثم آمین...میں عنقریب دوائی طاعون آپ کی خدمت میں مع مرہم عیسی روانہ کرتا ہوں اور جس طور سے یہ دوائی استعمال ہوگی اس کا اشتہار ہمراہ بھیج دوں گا.بہتر ہے کہ یہ دوا ابھی سے آپ شروع کر دیں.میرے نزدیک ان دنوں میں دنیا کے عموم و ہموم کچھ مختصر کرنے چاہئیں.دن بہت سخت ہیں...اور جو گلٹیاں آپ کے نکلی ہیں وہ انشاء اللہ سینک دینے اور دوسری تدبیروں سے جو مولوی صاحب تحریر فرمائیں گے اچھی ہو جائیں گی میں نے خط کے پڑھنے کے بعد آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور امید ہے کہ خدائے تعالیٰ قبول فرمائے گا.مجھے اس بات کا خیال ہے کہ اس شور قیامت کے وقت جس کی مجھے الہام الہی سے خبر ملی ہے حتی الوسع اپنے عزیز دوست قادیان میں ہوں.حضور کی شفقت بے پایاں کا علم ۲۰ / جون ۱۸۹۹ ء کی ذیل کی عبارت سے بھی ہوتا ہے کہ حضور کس درجہ علیل ہیں باوجود اس کے نواب صاحب کے استفسار پر ان کی اہلیہ کے لئے علاج کے متعلق تفصیلی مکتوب
663 ارسال کرتے ہیں.حضور تحریر فرماتے ہیں: میں باعث علالت طبع چند روز جواب لکھنے سے معذور رہا.میری کچھ ایسی حالت ہے کہ ایک دفعہ ہاتھ پیر دسرد ہو کر اور نبض ضعیف ہو کر غشی کے قریب قریب حالت ہو جاتی ہے.اور دوران خون یک دفعہ ٹھہر جاتا ہے جس میں اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو موت کا اندیشہ ہوتا ہے.تھوڑے دنوں میں یہ حالت دو دفعہ ہو چکی ہے.آج رات پھر اس کا سخت دورہ ہوا.اس حالت میں صرف عنبر یا مشک فائدہ کرتا ہے.رات دس خوارک کے قریب مشک کھایا پھر بھی دیر تک مرض کا جوش رہا.میں خیال کرتا ہوں کہ صرف خدا تعالیٰ کے بھروسہ پر زندگی ہے ورنہ دل جو رئیس بدن ہے بہت ضعیف ہو گیا ہے.مکتوب ۴۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک نہایت قیمتی دوا تریاق جدید جو مقوی دماغ وغیرہ تھی حضور نے از خود نواب صاحب کو ارسال فرمائی.اسی شفقت و توجہ کے تعلق میں ایک اور مکتوب بھی درج کیا جاتا ہے.حضور تحریر فرماتے ہیں: مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ بسم ا م الله السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.دس روز کے قریب ہو گیا کہ آپ کو دیکھانہیں.غائبانہ آپ کی شفاء کے لئے دعا کرتا ہوں مگر چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس آ کر سنت عیادت کا ثواب بھی حاصل کروں.آج سرگردانی سے بھی فراغت ہوئی ہے اور لڑکی کو بھی آج بفضلہ تعالی آرام ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ۶ را گست ۱۹۰۲ء مکرم میاں عبدالرحمن خان صاحب حضور کی شفقت میں بیان کرتے ہیں کہ: سیر کے لئے تشریف لے جاتے وقت حضور صرف دو شخص یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب اور والد صاحب کا انتظار فرمایا کرتے تھے.والد صاحب کی عادت تھی کہ باہر جانے سے فوری قبل حوائج ضروریہ سے فارغ ہو کر جاتے.اس وجہ سے تیاری میں آدھ گھنٹہ کے قریب وقت صرف ہو جاتا حضور مسجد مبارک کے چوک میں مکتوب ۳۵ لیکن یہاں اصل مکتوب سے نقل کیا گیا ہے.
664 ٹھہر کر احباب سے گفتگو فرماتے رہتے اور والد صاحب کے آنے پر سیر کے لئے تشریف لے جاتے.والد صاحب کو حضور کی اس انتظار کی وجہ سے تکلیف بھی ہوتی.لیکن اپنے حالات سے مجبور تھے کیونکہ ان کو ہمیشہ سے پیشاب کی کثرت کا مرض تھا.لیکن جس وقت آپ کا رشتہ حضور علیہ السلام کے ہاں ہو گیا تو پھرا قارب میں سے ہو جانے کی وجہ سے حضورا نتظار نہیں فرماتے تھے“.حضرت اقدس کی توجہ نواب صاحب کی طرف منعطف ہوتی تھی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے ذیل کے مکتوب بنام نواب صاحب سے ظاہر ہے: قادیان ۷ فروری جناب خان صاحب السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ کا نو از شنا مہ ملا.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حضرت اقدس کو آپ کی وہ فکر ہے جو کسی مہربان باپ کو اپنے بیٹے کی نہیں ہوتی.بہت ہی دھیان ہے اور گاه و بیگاہ آپ کا تذکرہ کرتے ہیں.جو کچھ میں نے پہلے خط میں لکھا ہے حضرت کے الفاظ ہیں اور بار بار فرمائے ہوئے.اپنی تجویزوں پر ثابت قدمی سے عمل در آمد کریں اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں.والسلام خاکسار عبدالکریم حضرت اقدس کی اس شفقت و محبت کا جو اثر نواب صاحب پر ہوا وہ آپ کی زبانی سنیئے.جب آپ ہجرت کر کے آئے اور دار اسیح میں قیام کیا ان ایام کے متعلق حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ نواب صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جس لطف اور روحانی سرور میں وہ دن گزرے نہ اس سے پہلے دیکھے نہ بعد میں.کھانا کئی ماہ تک مہمانداری کے طور پر ساتھ رکھا اور الگ ہونے پر بھی بہت خیال رکھتے رہے یعنی کوئی اچھا کھانا اور پھل وغیرہ بھجواتے رہے.حضرت مسیح موعود کی شفقت و محبت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں اس کی نظیر نہ دے سکتا ہوں نہ پھر پاسکتا ہوں.وہ محبت.وہ نرمی.وہ رحم وکرم کسی جگہ نظر نہیں آ سکتا.حضرت خلیفہ اول نواب صاحب سے بے حد محبت فرماتے تھے اور اکثر مجھ سے بھی نواب صاحب ذکر کرتے کہ مجھے خلیفہ اول سے بہت محبت ہے تم سمجھ نہیں سکتی ہو.مجھے بے حد محبت ہے مگر نواب صاحب کو حضرت مسیح موعود کی محبت اور مہربانی کے بعد پھر ان کی محبت تک کا بھی وہ مزا نہ آیا.نواب صاحب حضرت مسیح موعود کی محبت اور مہربانی اور شفقت اور پیار کو وفات تک نہایت درد کے ساتھ یاد کرتے رہتے فرماتے
665 تھے کہ قصوروں یا غلطیوں پر بھی جس پیار اور دلداری کے ساتھ نصیحت حضور کی ہوتی تھی وہ اوروں کی ہزار محبت سے بال تھی.خط ایسا تحریر فرماتے کہ زخموں پر گویا مرہم لگ جاتا اور دُکھ سب کے سب بھول جاتے تھے.نیز فرماتی ہیں کہ بیچ کا رہنا سہنا نوکر چھوٹی عقل کے متعلقین دونوں جانب کے آخر جیسے ہوتے ہیں.ویسے ہی تھے.کوئی غلط فہمی یا شکایت ہو جاتی تو حضور اس کو ظاہر فرماتے دریافت کرتے اور پھر حقیقت کا علم ہونے پر نہایت محبت سے عذر کو قبول فرما کر الٹی اور بھی دلداری شروع کرتے کہ سر اس ابر کرم کے باراحسان سے اور بھی جھک جاتا.میاں عبدالرحیم صاحب کی علالت کے دنوں میں حضرت نے بے حد فکر اور توجہ مبذول رکھی.ہر وقت خود آتے اور دیکھتے اور بھی ہر موقعہ پر خبر گیری اور ویسے بھی ہر تکلیف کو پوچھتے رہنا.سیر کو جاتے ہوئے میرے آنے کا انتظار کرنا.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی طرح حضرت اُم المومنین نوراللہ مرقدہا کا مشفقانہ سلوک بھی یقیناً نواب صاحب اور آپ کے اہل و عیال کے ازدیاد ایمان کا موجب ہوا.اس مقدس جوڑا کی تربیت یافتہ دو دختران کا نواب صاحب اور آپ کے ایک فرزند کے حبالہ نکاح میں آنا جنتی زندگی عطا ہونے کے مترادف تھا.حضرت اقدس کا تو اس وقت وصال ہو چکا تھا.حضرت ام المومنین کی شفقت بے پایاں حضور کی کمی کو پورا کرتی تھی.حضرت اماں جان کی کیسی پاکیزہ تربیت تھی.آپ نے سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو شادی کے وقت جو ذیل کی نصائح فرما ئیں ان سے ان کا اندازہ ہوتا ہے:.اپنے شوہر سے پوشیدہ یا وہ کام جس کو ان سے چھپانے کی ضرورت سمجھو ہرگز کبھی نہ کرنا.شوہر نہ دیکھے مگر خدا دیکھتا ہے.اور بات آخر ظاہر ہو کر عورت کی وقعت کو کھو دیتی ہے.اگر کوئی کام ان کی مرضی کے خلاف سرزد ہو جائے تو ہرگز کبھی نہ چھپانا.صاف کہہ دینا.کیونکہ اس میں عزت ہے اور چھپانے میں آخر بے عزتی اور بے وقری کا سامنا ہے.کبھی ان کے غصہ کے وقت نہ بولنا.تم پر یا کسی نوکر یا بچہ پر خفا ہوں اور تم کو علم ہو کہ اس وقت یہ حق پر نہیں ہیں جب بھی اس وقت نہ بولنا.غصہ نظم جانے پر پھر آہستگی سے حق بات اور ان کا غلطی پر ہونا ان کو سمجھا دینا.غصہ میں مرد سے بحث کرنے والی عورت کی عزت باقی نہیں رہتی اگر غصہ میں کچھ سخت کہہ دیں تو کتنی ہتک کا موجب ہو.
666 ان کے عزیزوں کو.عزیزوں کی اولا دکو اپنا جاننا کسی کی بُرائی تم نہ سوچنا خواہ تم سے کوئی برائی کرے.تم دل میں بھی سب کا بھلا ہی چاہنا اور عمل سے بھی بدی کا بدلہ نہ کرنا.دیکھنا پھر ہمیشہ خدا تمہارا بھلا ہی کرے گا.حضرت ام المومنین کے مشفقانہ سلوک اور آپ کی برکت سے مالی برکات کے حاصل ہونے کا ذکر کرتے ہوئے مکرم میاں عبداللہ خان صاحب فرماتے ہیں: میرے پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ حضرت ام المؤمنین علیہا السلام کی دعاؤں کے طفیل ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب میں میرے لئے پیار و محبت پیدا کر دیا ہے.ایک وقت تھا کہ وہ خود بھی دعا ئیں فرماتی تھیں بلکہ ہر ایک کو کہتی تھیں کہ عبداللہ خان کے لئے دعائیں کرو.اس لئے اللہ تعالیٰ کے بعد میری گردن جذبات شکر اور محبت سے ان کے حضور جھکی ہوئی ہے.میری والدہ جب کہ میں چار پانچ سال کا تھا فوت ہوگئی تھیں.میں ماں کی محبت سے بے خبر تھا لیکن میرے و دو درؤف مولیٰ نے حضرت اماں جان کے وجود میں مجھے بہترین ماں اور بہترین ساس دی...کبھی بھی کوئی دقت پیش آئی میں حضرت اماں جان کے حضور دعا کے لئے حاضر ہوتا ہوں.وہ نہایت تڑپ سے میرے لئے دعائیں فرماتی ہیں“.مکرم میاں صاحب موصوف نے خاکسار کو ذیل کا خط اپنی قلم سے لکھا.خط کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے.کہ حضرت اماں جان کے وصال کی خبر ابھی آپ کو نہیں دی گئی تھی : بسم الله الرحمن الرحيم رتن باغ.لاہور ۲۱-۴-۵۲ مکرمی ملک صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ ۴۶۵ نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام علیکم.آپ کا خط بیگم صاحبہ کے نام ملا.حضرت اماں جان کی جائی میری بیوی کئی ہفتہ سے ربوہ میں ہیں.ایک دو دن کے لئے مجھے دیکھنے آئی تھیں پھر واپس چلی گئیں.میں نے خود ہی ان کو بھجوایا تھا.اور اتفاق ایسا ہوا کہ ان کے جاتے ہی میری طبیعت دانت کے درد اور بخار سے زیادہ علیل ہوگئی.لیکن میں نے پھر بھی ان کو اماں جان کی خدمت کے لئے وقف رکھا.ان کی اپنی بھی یہی خواہش تھی کہ اماں جان
667 کی خدمت کے لئے ربوہ جائیں.مجھے ان کی عدم موجودگی میں جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کیسی تکلیف ہو سکتی ہے.دراصل اماں جان انہیں کی اماں نہیں ہیں بلکہ میری بھی اماں ہیں.میرے ساتھ جو محبت اور پیار کا سلوک انہوں نے کیا ہے اپنے ساتھ ایک داستان رکھتا ہے.جب میری شادی ہوئی تو مجھے ایک عورت کے ہاتھ کہلا کر بھیجا کہ میاں کی عمر زیادہ تھی یعنی میرے والد کی.تم چھوٹی عمر والے داماد ہو تم مجھ سے شرمایا نہ کرو تا کہ جو کمی رہ گئی ہے اس کو پورا کر سکوں.پھر آپ نے حقیقی ماں بن کے دکھا دیا.YY نواب صاحب کا اخلاص والسلام خاکسار محمد عبد اللہ خان حضرت نواب صاحب جتنا حد درجہ کا اخلاص رکھتے تھے اور جو آپ کی تبلیغی جد و جہد اور حالی و مالی خدمات سے ظاہر ہے آپ ابدال کے رنگ میں بہترین سیرت کے مالک تھے اور اس کا اظہار اللہ تعالیٰ نے کئی رنگ میں کر دیا.تا ہم آپ کی بعض تحریرات میں سے بعض حصے جو آپ کے اخلاص کو ظاہر کرتے ہیں ان کا ذکر ہمارے لئے مفید ثابت ہو گا آپ حضرت اقدس کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک بھائی کو ۱۹۰۲ء میں تحریر فرماتے ہیں: اس کی زبان میں عجیب شرینی ہے اس کے افعال و اعمال میں تاثیر ہے.پھر روحانی اور جسمانی، مرضوں کا طبیب ہے.اس چشمہ سے جو محمد کے چشمہ سے نکلا ہے عجیب معرفت کا پانی نکلتا ہے.پس ایسے وقت میں وہ شخص بڑا ہی محروم ہے جو تحقیقات مذہبی کر کے اس امام سے فائدہ نہ اٹھائے اور اس سے تعلقات پیدا نہ کرے“.اسی طرح اپنی صاحبزادی بوزنیب بیگم صاحبہ کی شادی کے تعلق میں حضرت اقدس کی خدمت میں تحریر فرماتے ہیں: حضور کے معاملہ میں تو یہ حالت ہے جب سے بیعت کی ہے معہ جان.مال.عزت اپنے آپ کو بیچ چکا ہوں.حضور پر سب کچھ قربان ہے اور ہرج ہو یا نہ ہو.نفع ہو یا نقصان ہر حالت میں حضور کے حکم کی فرمانبرداری فرض ہے بلکہ اس میں دل میں بھی کچھ ہر ج رکھنا گناہ“.
668 اور پھر تحریر فرماتے ہیں: حضور کے حکم میں تکلیف عین راحت ہے مگر پھر بھی مجھ کو اس وقت پر حضوڑ کے حکم کی تعمیل کرنی ہے خواہ کچھ ہو“.ایک دفعہ حضور بیمار ہوئے جب صحت یاب ہوئے تو نواب صاحب نے عرض کیا: سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم.الحمد اللہ کہ حضور تواب مع الخیر دوروز سے سیر ( کو) * بھی تشریف لے جاتے ہیں.اس لئے اب اجازت فرمائی جائے کہ حضور کی صحت کی خوشی میں دعوت میں آج کر دوں.حضور نے جوابا رقم فرمایا: بسم الله الرحمن الرحيم راقم محمد علی خان نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا نہ.خدا تعالیٰ کا در حقیقت ہزار ہا گونہ شکر ہے.کہ موت جیسی حالت سے واپس لا کر صحت بخشی.اب آپ کو اختیار ہے کہ کسی دن خواہ جمعہ کو عام دعوت سے اس شکر یہ کا ثواب حاصل کریں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ٤٦٤ انسان تکلف سے بہت کچھ کر لیتا ہے اور بعض اوقات اس کی ایسی باتیں دوسروں پر اثر ڈالتی ہیں لیکن ایک شخص خلوت میں اپنی ڈائری میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اور ڈائری بھی وہ جو اپنے شوق سے لکھی جا رہی ہے اور اس کا مقصد شائع کرنا نہیں اور ساری عمر میں صرف چند ماہ کے سوانح ڈائری میں ضبط تحریر میں لاتے ہیں اس وقت کسی قسم کا تکلف ان کے الفاظ پر اثر انداز نہیں ہو سکتا.حضرت نواب صاحب ۱۴ نومبر ۱۹۰۱ء کو قادیان تشریف لائے ہیں.سفر اور پھر سفر بھی ایسے رئیس کا جسے ہر طرح کے سامان آرام و راحت میسر ہوں اور پھر ہچکولے کھاتا اور گر د پھانکتا قادیان پہنچے یقیناً اس وقت اپنی پرائیویٹ حیثیت میں جو چند الفاظ وہ تحریر لفظ کو خاکسار مولف نے زائد کیا ہے.
669 کرے گا ہر طرح کے تکلف اور مبالغہ سے بہر نوع بالا ہوں گے.چنانچہ آپ اس سفر کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.گیارہ بجے بٹالہ پہنچے فور آرتھ میں سوار ہو کر قادیان کو روانہ ہوئے رتھ کے ہچکولے کھاتے گرد پھانکتے روانہ ہوئے قادیان پہنچے.آرزو دارم که خاک آں قدم طوطیائے چشم سازم دم بدم کتنے اخلاص سے پُر اعلی درجہ کے جذبات ہیں.آپ کے یہ الفاظ آپ کی سیرۃ کا بہترین اور روشن ترین پہلو ظاہر کرتے ہیں.اور ان الفاظ کی شان اور بھی بلند ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ جذبات وقتی کیفیت کا عکس نہیں تھے بلکہ اعماق قلب میں گڑے ہوئے خلوص کا اظہار تھے کیونکہ حضرت نواب صاحب کی ہر حرکت وسکوں آپ کے ان جذبات و خیالات کی عملی تفسیر تھی.حضرت نواب صاحب حضرت اقدس کی نظر میں حضرت اقدس نے نواب صاحب کو اپنی فرزندی میں لے لیا اور ایک مبشرہ صاحبزادی آپ کے عقد میں دے دی اور اپنے ایک مبشر صاحبزادہ کا عقد نواب صاحب کے ہاں کر کے ان کی صاحبزادی کو اپنی بیٹی بنا لیا.اس سے ہی ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کی نظر میں حضرت نواب صاحب کیا تھے اخلاص پہلے تھا اور یہ ظاہری قرابت کے تعلقات بعد میں ہوئے اس لئے اس سے قبل حضرت اقدس کی طرف سے جو کچھ اظہار ہوتا رہا پیش کرتا ہوں : حضور ۱۳ / فروری ۱۸۹۱ء کو حضرت مولوی نورالدین صاحب کوتحریر فرماتے ہیں: چند روز سے نواب محمد علی خاں صاحب رئیس کو ٹلہ قادیان میں آئے ہوئے ہیں.جوان ، صالح الخیال، مستقل آدمی ہے...میرے رسالوں کو دیکھنے سے کچھ شک و شبہ نہیں کیا بلکہ قوت ایمانی میں ترقی کی حالانکہ وہ دراصل شیعہ مذہب ہیں مگر شیعوں کے تمام فضول اور نا جائز اقوال سے دست بردار ہو گئے ہیں.صحابہ کی نسبت اعتقاد نیک رکھتے ہیں...الحمد اللہ اس شخص کو خوب مستقل پایا اور دلیر طبع آدمی ہے.۴۶۸
670 ۴۶۹ اسی طرح حضرت مولوی صاحب ممدوح کو حضور ۱۴ فروری ۱۸۹۱ء کو تحریر فرماتے ہیں: نواب محمد علی خاں صاحب اب تک قادیان میں ہیں.آپ کا بہت ذکر خیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے مولوی صاحب کی کتاب تصدیق دیکھنے سے بہت فائدہ ہوا.اور بعض ایسے عقدہ حل ہو گئے جن کی نسبت ہمیشہ مجھے دغدغہ رہتا تھا.وہ از بس آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں...شیخ جوان صالح ہے.حالات بہت عمدہ معلوم ہوتے ہیں.پابند نماز اور نیک چلن ہے اور نیز معقول پسند.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ۱۸۹۱ء میں ازالہ اوہام میں زیر عنوان ” بعض مبائعین کا ذکر اور نیز اس سلسلہ کے معاونین کا تذکرہ اور اسلام کو یورپ اور امریکہ میں پھیلانے کی احسن تجویز تحریر فرماتے ہیں کہ اس زمانہ میں اسلام کے متعلق ہزار ہا عقلی مفاسد اور معقولی شبہات ظاہر ہوئے ہیں.اور حق کے مقابل پر جس قد ر اوہام باطلہ اور اعتراضات عقلیہ کا طوفان برپا ہوا.اس کی نظیر از منہ سابقہ میں سے کسی زمانہ میں نہیں پائی جاتی.اس لئے یہ امر مقتضی ہوا کہ ان کا بکلی استیصال کر کے تمام ادیان باطلہ پر اسلام کی فوقیت ظاہر کی جائے.ہر ایک شخص روحانی روشنی کا محتاج ہو رہا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ روشنی دے کر بھیجا ہے.میں نے رسالہ فتح اسلام میں بالتفصیل بیان کر دیا تھا کہ ایسے عظیم الشان کاموں کے لئے قوم کے ذی مقدرت لوگوں کی امدا د ضروری ہے.لیکن بہتوں نے سوء ظن سے اسے مکروفریب ہی خیال کیا.نیز عمدہ تالیفات اور کچھ آدمی ممالک غربیہ میں بھجوانے کی تجویز کا ذکر کے حضور فرماتے ہیں: سوانہیں براہین اور دلائل اور حقائق اور معارف کے شائع کرنے کے لئے قوم کی مالی امداد کی حاجت ہے.کیا قوم میں کوئی ہے جو اس بات کو سُنے ؟ ” جب سے میں نے رسالہ فتح اسلام کو تالیف کیا ہے ہمیشہ میرا اسی طرف خیال لگا رہا کہ میری اس تجویز کے موافق جو میں نے دینی چندہ کے لئے رسالہ مذکور میں لکھی ہے دلوں میں حرکت پیدا ہو گی.اسی خیال سے میں نے چارسو کے قریب وہ رسالہ مفت بھی تقسیم کر دیا تا لوگ اس کو پڑھیں اور اپنے پیارے دین کی امداد کے لئے اپنے گذاشتنی مالوں میں سے کچھ حق مقرر کریں.مگر افسوس کہ بجز چند میرے مخلصوں کے جن کا ذکر میں عنقریب کروں گا کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی.میں حیران ہو کہ کن الفاظ کو استعمال کروں تا میری قوم پر وہ موثر ہوں.میں سوچ میں ہوں کہ وہ کون سی تقریر ہے جس سے وہ میرے غم سے بھرے ہوئے دل کی کیفیت سمجھ سکیں.اے قادر خدا ان کے دلوں میں آپ الہام کر اور غفلت اور بدظنی کی رنگ آمیزی سے ان کو باہر نکال
671 اور حق کی روشنی دکھلا.پیار و یقیناً سمجھو کہ خدا ہے اور وہ اپنے دین کو فراموش نہیں کرتا.بلکہ تاریکی کے زمانہ میں اس کی مدد فرماتا ہے.مصلحت عام کے لئے ایک کو خاص کر لیتا ہے اور اس پر علوم لدنیہ کے انوار نازل کرتا ہے.سواسی نے مجھے جگایا اور سچائی کے لئے میرا دل کھول دیا.میری روزانہ زندگی کا آرام اسی میں ہے کہ میں اسی کام میں لگار ہوں بلکہ میں اس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا کہ میں اس کا اور اس کے رسول کا اور اس کی کلام کا جلال ظاہر کروں.مجھے کسی کی تکفیر کا اندیشہ نہیں اور نہ کچھ پروا.میرے لئے یہ بس ہے کہ وہ راضی ہو جس نے مجھے بھیجا ہے.ہاں میں اس میں لذت دیکھتا ہوں کہ جو کچھ اس نے مجھ پر ظاہر کیا.وہ میں سب لوگوں پر ظاہر کروں اور یہ میرا فرض بھی ہے کہ جو کچھ مجھے دیا گیا وہ دوسروں کو بھی دوں اور دعوت مولیٰ میں ان سب کو شریک کرلوں جو ازل سے بلائے گئے ہیں.میں اس مطلب کے پورا کرنے کے لئے قریباً سب کچھ کرنے کے لئے مستعد ہوں اور جانفشانی کے لئے راہ پر کھڑا ہوں لیکن جو امر میرے اختیار میں نہیں میں خدا وند قدیر سے چاہتا ہوں کہ وہ آپ اس کو انجام دیوے.میں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ ایک دست غیبی مجھے مدد دے رہا ہے اور اگر چہ میں تمام فانی انسانوں کی طرح نا تواں اور ضیعف البنیان ہوں تاہم میں دیکھتا ہوں کہ مجھے غیب سے قوت ملتی ہے اور نفسانی قلق کو دبانے والا ایک صبر بھی عطا ہوتا ہے.اور میں جو کہتا ہوں کہ ان الہی کاموں میں قوم کے ہمدرد مدد کریں وہ بے صبری سے نہیں بلکہ صرف ظاہر کے لحاظ اور اسباب کی رعایت سے کہتا ہوں.ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل پر میرا دل مطمئن ہے اور امید رکھتا ہوں کہ وہ میری دعاؤں کو ضائع نہیں کریگا.اور میرے تمام ارادے اور امید میں پوری کر دیگا.اب میں اُن مخلصوں کا نام لکھتا ہوں جنہوں نے حتی الوسع میرے دنی کاموں میں میری مدددی یا جن پر مدد کی امید ہے یا جن کو اسباب میسر آنے پر طیار د یکھتا ہوں“.ان اسماء کے ذیل میں آٹھویں نمبر پر نواب صاحب کے خاندانی حالات کا تذکرہ کر کے حضور تحریر فرماتے ہیں: بہادر خان کی نسل میں سے یہ جوان صالح خلف رشید نواب غلام محمد خان صاحب مرحوم ہے جس کا عنوان میں ہم نے نام لکھا ہے.خدا تعالیٰ اس کو ایمانی امور میں بہادر کرے اور اپنے جد شیخ بزرگوار صدر جہاں کے رنگ میں لاوے.سردار محمد علی خان صاحب نے گورنمنٹ برطانیہ کی توجہ اور مہربانی سے ایک شائستگی بخش تعلیم پائی جس کا اثر ان کے دماغی اور دلی قومی پر نمایاں ہے ان کی خدا دا د فطرت بہت سیلیم اور معتدل ہے اور باوجود عین شباب کے کسی قسم کی حدت اور تیزی اور جذبات نفسانی ان کے نزدیک آ ئی معلوم نہیں ہوتی ہیں.
672 قادیان میں جب وہ ملنے کے لئے آئے تھے اور کئی دن رہے پوشیدہ نظر سے دیکھتا رہا ہوں کہ التزام ادائے نماز میں ان کو خوب اہتمام ہے.اور صلحاء کی طرح توجہ اور شوق سے نماز پڑھتے ہیں.اور منکرات اور مکروہات سے بکلی مجتنب ہیں.مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو کہ باوجود بہم پہنچنے تمام اسباب اور وسائل غفلت اور عیاشی کے اپنے عنفوان جوانی میں ایسا پر ہیز گار ہو.معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بتو فیقہ تعالے خود اپنی صلاح پر زور دے کر رئیسوں کے بیجا طر یقوں اور چلنوں سے نفرت پیدا کر لی ہے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ جو کچھ نا جائز خیالات اور اوہام اور بے اصل بدعات شیعہ مذہب میں ملائی گئی ہیں اور جس قدر تہذیب اور صلاحیت اور پاک باطنی کے مخالف ان کا عملدرآمد ہے ان سب باتوں سے بھی اپنے نور قلب سے فیصلہ کر کے انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی ہے.66 ۱۸۹۱ء میں حضرت اقدس نواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں : آپ کا محبت نامہ عین انتظار میں مجھ کو ملا جس کو میں نے تعظیم سے دیکھا اور ہمدردی اور اخلاص کے جوش سے حرف حرف پڑھا.میری نظر میں طلب ثبوت اور استنکشاف حق کا طریقہ کوئی ناجائز اور ناگوار طریقہ نہیں ہے بلکہ سعیدوں کی یہی نشانی ہے کہ وہ ورطہ مذبذبات سے نجات پانے کے لئے حل مشکلات چاہتے ہیں.لہذا یہ عاجز آپ کے اس طلب ثبوت سے نا خوش نہیں ہوا.بلکہ نہایت خوش ہے کہ آپ میں سعادت کی وہ علامتیں دیکھتا ہوں.جس سے آپ کی نسبت عرفانی ترقیات کی امید بڑھتی ہے.۴۷۲ ستمبر ۱۸۹۴ء میں حضور نواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: ”میرے ظاہری الفاظ صرف اس غرض سے تھے کہتا میں لوگوں پر یہ ثبوت پیش کروں کہ آں محبت اپنے دلی خلوص کی وجہ سے نہایت استقامت پر ہیں سوال حمدا لله کہ میں نے آپ کو ایسا ہی پایا میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسا کی اپنے فرزند عزیز سے محبت ہوتی ہے“.۱۲ مارچ ۹۸ء کو حضور نواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: ” میری طبیعت آپ کی سعادت اور رشد پر بہت خوش ہے اور امید رکھتا ہوں کہ آپ اپنی تمام جماعت کے بھائیوں میں سے ایک اعلیٰ نمونہ ٹھہریں گئے.
673 حضور اشتہار مورخہ ۴ رکتوبر ۱۸۹۹ء میں تحریر فرماتے ہیں : حبی فی اللہ سردار نواب محمد علی خاں صاحب بھی محبت اور اخلاص میں بہت ترقی کر گئے ہیں اور فراست صحیحہ شہادت دیتی ہے کہ وہ بہت جلد قابل رشک اخلاص اور محبت کے منار تک پہنچیں گے.اور وہ ہمیشہ حتی الوسع مالی امداد میں بھی کام آتے رہے ہیں اور امید ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ خدا کی راہ میں اپنے مالوں کو فدا کریں گے.خدا تعالیٰ ہر ایک کے عملوں کو دیکھتا ہے مجھے کہنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں“.نواب صاحب میں حضور آثار صلاحیت تقویٰ اور خدا ترسی پاتے ہیں.چنانچہ حضور نے نواب صاحب کو فرمایا: ۴۷۵ ” میں نے غائبانہ بھی کئی مرتبہ ذکر کیا ہے اور میری فراست مجھے یہی بتاتی ہے کہ راستی کو قبول کرنا اور پھر خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال سے ڈر جانا اور اس کی طرف رجوع کرنا آپ کے اور آپ کی اولاد کے اقبال کی نشانی ہے.بجز اس کے که انسان سچائی سے خدا کی طرف آئے خدا کسی کی پروا نہیں کرتا خواہ وہ کوئی ہو.مبارک دن ہمیشہ نیک بخت کو ملتے ہیں.یہ آثار صلاحیت.تقویٰ اور خدا ترسی کے جو آپ میں پیدا ہو گئے ہیں آپ کے لئے اور آپ کی اولاد کے لئے بہت ہی مفید ہیں.حضور کی نظر میں نواب صاحب صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا سا اخلاص رکھتے تھے حضور تحریر فرماتے ہیں: نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرّحمن الرّحيم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ، بحمد الله اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے اللہ تعالیٰ آپ کو تمام عموم ہموم سے نجات بخشے آمین.میری طبیعت بہ نسبت سابق اچھی ہے صرف کثرت پیشاب اور دوران سرکی شکا یت ہے اور بعض اوقات ضعف قلب ایسا ہو جاتا ہے کہ ہاتھ پیرسرد ہو کر ایسے ہو جاتے ہیں کہ گویا ان میں ایک قطرہ خون نہیں اور زندگی خطر ناک معلوم ہوتی ہے پھر کثرت سے دبانے سے وہ حالت جاتی رہتی ہے.میں تو جانتا ہوں کہ ضرور تھا کہ ایسا ہوتا تا وہ پیشگوئی پوری ہو جاتی کہ جو دو زرد چادروں کی نسبت بیان فرمائی گئی ہے.دشمن ہر طرف جوش و خروش میں ہے خدا تعالے دوستوں کو وہ اعتقاد بخشے کہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم کو عطا کیا
674 گیا تھا.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں سے جن کے دل صاف ہیں اور روح پاک ہیں اور ایمانی ترقی کی استعدا در رکھتے ہیں خدا تعالیٰ ضرور ان کو ایمانی ترقی بخشے گا اور جو لوگ نفسانی اغراض اور دنیا پرستی سے سخت ملوث اور دنیا کو دین پر مقدم رکھتے ہیں میں ہمیشہ ان کی حالت سے ڈرتا ہوں کہ ٹھوکر نہ کھاویں.اور ایمان اور سعادت سے خارج نہ ہو جاویں لیکن میں اس بات کے لکھنے سے بہت ہی خوش ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے آپ میں ہر ایک موقعہ پر دلی ہمدردی اور اخلاص کا نمونہ پایا.پس یہ نشان اس بات کا ہے کہ گو آپ کو دنیا کے تر دو کی وجہ سے ہزار ہاشم ہوں لیکن بہر حال آپ دین سے محبت رکھتے ہیں.یہی ایک ایسی چیز ہے جس سے آخر کار ہر یک غم سے رہائی دی جاتی ہے.میں جہاں تک مجھ سے ممکن ہے.آپ کے لئے دعا میں مشغول ہے اور میرا ایمان ہے کہ یہ دعا ئیں خالی نہیں جائینگی.آخر ایک معجزہ کے طور پر ظہور میں آئیں گی.اور میں انشاء اللہ دعا کرنے میں ست نہیں ہوں گا.جب تک اس قسم کا معجزہ نہ دیکھ لوں.پس آپ کو اپنے دل پر غم غالب نہیں کرنا چاہئے.ہونے ہوتا رہے جیسا کہ سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ مصیبت اور ابتلاء کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں.ہر حملہ کہ واری نلگنی نامردی...میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ صبر کے ساتھ آخری دن کا انتظار کریں گے تو انجام کار میری دعاؤں کا نمایاں اثر ضرور دیکھ لیں گے.باقی سب خیریت ہے.میری طرف سے اور والدہ محمود کی طرف سے اپنے گھر میں سلام علیکم کہ دیں.اور بچوں کو پیار.☆ * راقم خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکرر یہ کہ اپیل خدا تعالیٰ کے فضل سے منظور ہو گیا ہے اور سات سور و پیہ جیسا کہ دستور ہے انشاء اللہ واپس مل جائے گا.اس کے لئے کہہ دیا ہے کہ جب وہ روپیہ ملے تو وہ آپ کی خدمت میں بھیج دیا جائے کیونکہ مشکلات کے وقت میں آپ کو ہر طرح سے روپیہ کی ضرورت ہے.والسلام غلام احمد عفی عنہ * نقل بمطابق اصل (مؤلف) وو اصل مکتوب میں یہی الفاظ ہیں.یعنی.9966 ” ہونے ہوتا رہے.غالبا یہ فقرہ ہو گا ” ہونے والا ہوتا رہے.’ ہونے کے بعدا یک لفاظ کا ٹا ہوا موجود ہے.(مولف) اس مکتوب پر تاریخ درج نہیں لیکن سات سوروپیہ کی واپسی کا ذکر ہے.لیکن یہ روپیہ بطور جرمانہ مقدمہ
675 حضرت اقدس کی دعا ئیں نواب صاحب کے لئے نواب صاحب کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر گزشتہ اوراق میں شرح وبسط سے لکھا جا چکا ہے.آپ نے عین عنفوانِ شباب میں ہیں سال کی سی چھوٹی عمر میں باوجو د ریاست و امارت کے اپنی سعی بلغ سے اپنے تئیں منہیات سے بچایا اور تقویٰ کی راہ اختیار کی.آپ وابستگان اسلام کے ہمدرد.رسم ورواج کے مخالف.پردہ کے سخت حامی.غرباء کے لئے درد مند دل رکھنے والے.امور آخرت کے لئے ہر دم فکر مند.قرآن مجید وحدیث شریف کے عاشق.نماز وروزہ کے پابند.دعا گذار.تہجد گزار.خدمت سلسلہ اور تبلیغ کو عین فرض یقین جاننے والے.خدام و اہلبیت سے بہترین سلوک کرنے اور اولاد کی اعلیٰ تربیت کرنے والے غرباء پر در اور خلافت کے حامی تھے.آپ نے ہجرت کر کے قیام قادیان سے بہترین رنگ میں استفادہ کرنے کی سعی کی.نماز با جماعت، تہجد ، حضرت اقدس کی مجالس میں حاضری کا اہتمام کرتے اور اگر کسی قسم کی کوتاہی ہوتی تو اس پر پشیمان ہوتے اور دعا کرتے تا کہ آئندہ اللہ تعالیٰ ایسی کوتا ہی سے مجتنب رہنے کی توفیق عطا کرے.حضور کی مجلس میں کسی وجہ سے حاضر نہ ہو سکتے تو دوسروں سے تفصیل معلوم کرتے.مختصر یہ کہ آپ اپنی اور دوسروں کی روحانی بہتری کے لئے عمر بھر طاغوتی طاقتوں سے ایک سپہ سالار کی طرح نبرد آزما ر ہے.آپ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کی سچی تصویر تھے.اس سیرت صلحاء سے آپ کیونکر متصف ہوئے؟ اول تو آپ کی پاکیزہ فطرتی کے سبب نور فطرت جیسا اعلی رہبر آپ کا رفیق راہ تھا.دوسرے آپ منہیات سے احتراز کرنے اور تقویٰ کے جادہ مستقیم پر گامزن ہونے کی سعی بلیغ فرماتے تا قولی ایمان عملی ایمان و عرفان میں مبدل ہو کر سیرت ابدالی بے بدل کے رنگ میں آپ کو مرتبہ شہود پر فائز کر دے.درخواست بیعت کو قبول کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو نصائح فرمائی تھیں ZA نواب صاحب بدل و جان اس پر عمل پیرا ہوئے.حضور نے تحریر فرمایا تھا.اشتہار شرائط بیعت بھیجا جاتا ہے جہاں تک وسعت وطاقت ہو اس پر پابند ہوں اور کمزوری کے دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد چاہتے رہیں.اپنے رب کریم سے مناجات خلوت کی مداومت رکھیں اور بقیہ حاشیہ: - کرم الدین دیا گیا تھا.اپیل کا فیصلہ جس میں حضور بری قرار دیئے گئے تھے.جنوری ۱۹۰۵ء کو لکھا گیا تھا.مولف
676 ہمیشہ طلب قوت کرتے رہیں.ر جس دن کا آنا نہایت ضروری ہے اور جس گھڑی کا وارد ہو جانا نہایت یقینی ہے اس کو فراموش مت کرو اور ہر وقت ایسے رہو کہ گویا تیار ہو.کیونکہ نہیں معلوم کہ وہ دن اور وہ گھڑی کس وقت آ جائیگی.سو اپنے وقتوں کی محافظت کرو اور اس سے ڈرتے رہو جس کے تصرف میں سب کچھ ہے.جو شخص قبل از بلا ڈرتا ہے اس کو امن دیا جائے گا مگر جو شخص بلا سے پہلے دنیا کی خوشیوں میں مست ہو رہا ہے وہ ہمیشہ کے دکھوں میں ڈالا جائے گا.جو شخص اس قادر سے ڈرتا ہے وہ اس کے حکموں کی عزت کرتا ہے پس اس کو عزت دی جائے گی.مگر جو شخص نہیں ڈرتا اس کو ذلیل کیا جائے گا.دنیا بہت ہی تھوڑا وقت ہے.بے وقوف ہے وہ شخص جو اس سے دل لگا وے اور نادان ہے وہ آدمی جو اس کے لئے اپنے رب کریم کو ناراض کرے.سو ہوشیار ہو جاؤ تا غیب سے قوت پاؤ.دعا بہت کرتے رہو اور عاجزی کو اپنی خصلت بناؤ.جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زبان سے دعا کی جاتی ہے یہ کچھ بھی چیز نہیں.اس میں ہرگز زندگی کی روح نہیں.جب دعا کرو تو بجز صلوٰۃ فریضہ کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جاؤ اور اپنی ہی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک ادنیٰ سے ادنی بندہ ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرو کہ اے رب العالمین ! تیرے احسان کا میں شکر نہیں کر سکتا.تو نہایت ہی رحیم وکریم ہے اور تیرے بے نہایت مجھ پر احسان ہیں.میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں.میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جاوے.میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو.رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے.آمین ثم آمین.اسی طرح نواب صاحب کے مدنظر حضور کا یہ ارشاد تھا: " مباحثہ قولی کی بجائے مباحثہ عملی زیادہ موثر اور مفید ہوتا ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو اپنا عمدہ نمونہ دکھانا چاہئے.تقویٰ اختیار کرنا چاہیئے تقویٰ سے ظفر مندی قرب خدا اور رعب پیدا ہوتا ہے.انہی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے کہ آپ کا میاب و کامران ہو کر اصحابی کا لنجوم يا يهم اقتدیتم اھتدیتم کے مطابق آسمان روحانیت پر ایک درخشندہ ستارہ بن کر چمکنے لگے.ارشاد نبوی کے مطابق
677 ۴۸۱ المسلم مرأة المسلم ہر مسلم کو مسلم کامل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس بننا چاہتے تبھی وہ مسلم کہلانے کا مستحق ہوگا.نواب صاحب نے اپنے آئینہ دل کو اتنا صیقل کیا کہ بروز مسلم کامل کے بروز حضرت جری اللہ فی حلل انبياء عليهما الصلوة والسلام کے اخلاق و اوصاف حمیدہ کے انوار آپ کے اندر منعکس ہو کر یوں جلوہ گر ہوئے کہ آپ نہ صرف خود نور علی نور ہو گئے بلکہ اپنے قابل تقلید اسوہ کی ضوفشانی سے دوسروں کے لئے حجته الله قرار پا کر رہبری و ہدایت کا موجب ہوئے.یہ امر بھی نواب صاحب کے مورد برکات بننے کا ذریعہ بنا کہ نماز جو معراج المومن ہے اسے آپ سنوار سنوار کر ادا کرتے اور استعانت کے لئے جبیں نیاز آشیانہ الہی پر جھکاتے.آپ حضرت اقدس کی دعائیں جذب کرنے کے طریق سمجھتے تھے کہ ایک تو اپنے قلب میں جلا پیدا کیا جائے نیز فقید المثال قربانیاں اللہ تعالیٰ کے سلسلہ اور مخلوق کے لئے کی جائیں.اسی طرح حضور کے قرب میں قیام کا سامان کیا جائے تا دعا کے مواقع حاصل ہوتے رہیں.آپ کی ہجرت اور تمام مشاغل اور قربانیاں اس کی عملی تفسیر ہیں.اور یہ سب کچھ اعلیٰ اور پاک تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں.بیشک انبیاء کرائم کا زمانہ انقلاب کا سارنگ رکھتا ہے.دوسرے زمانہ میں جو علم وعرفان اور ترقی درجات برسوں کی ریاضت اور سینکڑوں مجاہدات سے حاصل نہیں ہوتے.زمانہ نبوت میں بسہولت تمام حاصل ہو جاتے ہیں.انبیاء کرام کے پاس جو بھی اخلاص سے آتا ہے ان کی صحبت فیض بخش اور دعا مستجاب سے پارس بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے فصــل عليهم ان صلوتک سکن لهم کہ مومنین کے لئے تیری دعائیں تسکین بخش ہیں لیکن یہ ظاہر ہے کہ استفاضہ بقدر ظرف ہوتا ہے.ظرف کی کیفیت و مزاج کے تغایر کے باعث ایک چیز ایک کے لئے غذا اور دوسرے کے لئے زہر ثابت ہوتی ہے.باران رحمت کا نزول یکساں طور پر ہوتا ہے لیکن بقول MAY باران که در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لاله روند و در شوره بوم و و خس ایک ہی بارش سے کہیں لالہ ور یحان اگ پڑتے ہیں اور کہیں بودار پودے اور جھاڑیاں.ایک ہی جگہ سے سیراب ہونے کے باوجود درختوں کے نشو ونما اور ثمر ور ہونے میں فرق ہوتا ہے ظرف کے مطابق ایک ہی زمین میں اُگنے اور ایک سی حرارت و تمازت حاصل کرنے کے باوجود ایک پودا تو زمین کے ساتھ لگا ہوتا ہے اور صرف چند انچ جگہ گھیرتا ہے اور ہوا کے خفیف سے جھونکے سے اکھڑ جاتا ہے.دوسرا درخت اپنے پھیلاؤ اور وسعت کی وجہ سے حیران کن ترقی کرتا ہے.اس کی جڑیں پاتال تک پہنچتی اور شاخیں فضاء آسمانی سے باتیں
678 کرتی ہیں ہزاروں پرندے اس کے اوپر بسیرا کرتے اور ہزاروں لوگ اس کے تلے ستاتے ہیں.سو روحانی دنیا میں جو لوگ تقویٰ اور اخلاص کے منار تک پہنچنے والے ہوتے ہیں.انکو خود بھی دعاؤں پر اعلی یقین عطا ہوتا ہے ان کی اعلیٰ درجہ کی قربانیاں اور اعمال صالحہ انبیاء کے خاص دعاؤں کے لئے جاذب ہوتے ہیں.جس کے لئے ایک نبی زیادہ دعائیں کرے گا.اس پر رحمت و برکات کا نزول بھی زیادہ ہوگا.ذیل کے اقتباسات سے ظاہر ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نواب صاحب اور آپ کے اہل وعیال کے لئے کتنی اور کس قسم کی دعائیں کی ہیں اور کتنی توجہ سے کی ہیں سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا بیان ہے کہ نواب صاحب حضور کو دعا کے لئے خط لکھتے تو فرماتے کہ آدھی تسلی تو خط کے جواب پر ہی ہو جاتی ہے.دعا کرنے اور دعا کرانے کے متعلق حضرت اقدس کا ارشاد نواب صاحب کی ڈائری بابت ۱۴ /جنوری ۱۹۰۲ء سے جو معلوم ہوتا ہے درج ذیل ہے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ جب حضور کی دعائیں نواب صاحب کے حق میں شرف باریابی پا گئیں نواب صاحب ضرور اس پر عمل پیرا ہوئے ہونگے : ۱۴؍ جنوری ۱۹۰۲ء حضرت اقدس نے سیر میں فرمایا کہ دنیاوی امور اور نفسانی خواہشات کے متعلق دعا دیر میں قبول ہوتی ہے اور دینی امور میں جلد.آج دعا پر حضرت اقدس نے مجھ کو مخاطب کر کے بڑی لمبی تقریر فرمائی.خلاصہ کلام یہ تھا کہ دعا کرنے اور کرانے کے لئے صبر کی ضرورت ہے.گھبرانا نہیں چاہئے.بعض اوقات دوران دعا میں ابتلا بڑھ جاتی ہے.اپنے آپ کومستقل بناؤ.روح اور جسم کی کامل عاجزی دکھاؤ کیونکہ ان دونوں کی ملی ہوئی عاجزی سے دعا قبول ہوتی ہے.جب تک دعا کرانے والے میں خود اصلاح اور خداوند تعالے سے صلح نہ ہو دُعا کرنے والے کی دعا بے فائدہ ہوتی ( ہے ) اور قبولیت دعا کی حالت میں بھی.دعا کی حالت ایک درخت کی سی ہے کہ جب اس کی پت جھاڑ ہو جاتی ہے تو پھر نورس کے وقت گو کام شروع ہو جاتا ہے لیکن کچھ عرصہ تک پتہ نہیں چلتا کہ یہ درخت خشک ہے یا تر.پھر اس میں آنکھیں پھوٹتی ہیں پھر شگوفہ آتا ہے پھر پھل لگتا ہے پھر وہ پھل تبدر یج پکتا ہے پھر رسیدہ ہو کر کھانے کے قابل ہوتا ہے.اسی طرح ولادت انسان کا مسئلہ ( ہے ).پس خدا تعالیٰ کے کام میں تدریج ہوتی ہے.شتابکار خائب و خاسر رہتا ہے.جو چیز انہونی ہوتی ہے اُس کی خبر جلد اور جو بات ہونی ہوتی ہے اس کی اطلاع یا وہ کام دیر میں ہوتا ہے.وغیرہ وغیرہ.
679 -1 حضور نواب صاحب کو ۱۸۹۰ء میں تحریر فرماتے ہیں : عنایت نامه متضمن به دخول در سلسلہ بیعت ایں عاجز موصول ہوا.دعاء ثبات و استقامت در حق آن عزیز کی گئی.ثبتكم على التقوى والايمان و فتح لكم ابواب الخلوص والمحبته والعرفان _آمین ثم آمین.Mar بقیہ حاشیہ: - نواب صاحب دعاؤں کی خاطر حضرت اقدس کے قرب میں رہنے کی جس قدر اہمیت سمجھتے تھے وہ آپ کے مکتوب کے ذیل کے اقتباس میں ظاہر ہے.جو آپ نے اپنی ہمشیرہ کو تحریر فرمایا: جہاں تک مجھ کو تجربہ ہوا ہے اس سے قادیان میں علاج میں بڑے فوائد ہیں....علاج روحانی کا یہاں سماں ہے.دعا کے لئے موقع حاصل.دعا کے لئے میں مختصر عرض کرتا ہوں کہ دعا کرنے کرانے کا قاعدہ لوگ بالکل نہیں جانتے.دعا کرنے کے لئے تو چاہئے صبر اور استقلال.اس طرح دعا مانگے جس طرح فقیر لوگوں سے مانگتے ہیں.فقیر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک خرگرا جو اڑ کر لیتے ہیں.جب تک ان کو دیا نہ جائے ملتے نہیں.ایک ہوتے ہیں نر گدا جو صدا کی اور چلدیئے.تو دعا کرنے والے کو خر گدا بننا چاہئے یعنی اسی طرح دعا کرے اور یہانتک کرے کہ مراد حاصل ہو جائے اور اس دعا کرنے والے کو چاہئے کہ خواہ جان ہی کیوں نہ نکل جائے دعا کرتا رہے کیونکہ بعض دعائیں دیر میں منظور ہوتی ہیں اور بعض دعائیں ایسی ہوتی ہیں کہ جس کام کے لئے کی جاتی ہیں وہ کام دعا کرنے والے کے لئے مضر ہوتا ہے.پس خدا اس کی دعا اس کے منشاء کے بموجب ایسی حالت میں منظور نہیں کرتا بلکہ کسی اور رنگ میں جو اس کے لئے مفید ہوتا ہے پورا کر دیتا ہے.پس انسان کو مرتے دم تک دعا کرنی چاہئے اور دعا سے تھکنا نہیں چاہئے یاتن رسید بجاناں یا جاں زتن بر آید یعنی یا تو مطلب تک انسان پہنچ جائے اور مطلب حاصل ہو جائے یا جان تن سے نکل جائے اب رہا دعا کرانا اس کے لئے ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح کرے.جس سے دعا کرائی جائے اُس سے گہرا تعلق پیدا کیا جائے اور صبر اور استقلال سے کام کرے تو دعا کرانی چاہئے بلا تعلق انبیاء سے بھی دعا کم نکلتی ہے.چنانچہ حضرت اسحق کا قصہ ہے کہ ان کو اپنا ایک لڑکا زیادہ پیارا تھا مگر کوئی خصوصیت نہ کر سکتے تھے آخر انہوں نے فرمایا کہ میں تمہارے لئے دعا کرنا چاہتا ہوں تم میرے لئے کچھ کھانے کے لئے لاؤ تاکہ تعلق اور خصوصیت پیدا ہو کر دعا کی تحریک کا سبب ہو.چنانچہ اس بیٹے نے یہ کیا کہ فور آشکار کو چلا گیا تا کہ وہ باپ کے لئے کوئی عمدہ شکار لائے حضرت اسحق کے دوسرے بیٹے حضرت یعقوب کی والدہ یہ کل معاملہ سن رہی تھیں انہوں نے فوراً ایک
680 ۲ - ۲۲-۱۲-۹۱ کو حضور نواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: اللہ جل شانہ آپ کو خوش رکھے اور عمر اور راحت اور مقاصد دلی میں برکت اور کامیابی بخشے.اگر چہ حسب تحریر مرزا خدا بخش صاحب آپ کے مقاصد میں سخت پیچیدگی ہے مگر ایک دعا کے وقت کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ آپ میرے پاس موجود ہیں اور ایک دفعہ گردن اونچی ہوگئی اور جیسے اقبال اور عزت کے بڑھنے سے انسان اپنی بقیہ حاشیہ: - دُنبہ نہایت موٹا حلال کر کے عمدہ پکا کے حضرت یعقوب کو دیا کہ اپنے والد کے پاس لے جائیں حضرت یعقوب جب اپنے والد کے پاس یہ کھانا لے کر گئے تو انہوں نے دعا کی.اب بعد میں وہ پہلے بیٹے آئے تو اُس وقت حضرت اسحق نے فرمایا کہ وقت ہاتھ سے نکل گیا چنانچہ اس دعا کا یہ اثر ہوا کہ حضرت یعقوب خود نبی ہوئے اور اُن کی اولاد میں نبوت کا سلسلہ قائم ہو گیا جو آخر حضرت عیسی پر ختم ہوا اور دینی اور دنیاوی جو برکات خداوند تعالیٰ نے اُن کی اولاد پر نازل کیں وہ ایسی تھیں کہ ان سے پہلے شاید ہی کسی قوم پر ہوئی ہوں.اسی طرح ایک بزرگ کا قصہ ہے کہ اُن کے پاس ایک شخص دعا کے لئے آیا.مطلب اُس کا یہ تھا کہ اُس کو کسی سے روپے لینے تھے اُس کا تمسک کھویا گیا تھا یا اُس کے مکان کا قبالہ گم ہو گیا تھا اور اُس کو اس کاغذ کی بڑی ضرورت تھی.اس بزرگ نے فرمایا کہ تو مجھ کو کھلا تا کہ تعلق پیدا ہو.وہ شخص حلوائی کے ہاں حلوا خرید نے گیا اور حلوائی نے کاغذ پر حلوا رکھا کر اس شخص کو دیا.شخص مذکور اس بات کو دیکھ کر سخت حیران ہوا کہ وہ کاغذ وہی تھا جس کی اس کو تلاش تھی.اب جو بزرگ کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا مجھ کو تو صرف دعا کے لئے تحریک کے لئے ضرورت تھی.اب تو یہ حلوا اپنے عیال و اطفال میں تقسیم کر دے میرے کسی کام کا نہیں.پس دعا کے لئے تعلق کا پیدا کرنا ضروری ہے کیونکہ دعا اپنے اختیار میں نہیں ہوتی اس کے لئے بھی وقت اور تحریک کی ضرورت ہوتی ہے.پس پاس رہنے سے تحریکیں ہوتی رہتی ہیں.اکثر حضرت اقدس کا قاعدہ ہے کہ کوئی شخص معمول پر اگر حاضر نہیں ہو تو دریافت فرماتے ہیں کہ فلاں کیوں نہیں آیا.اگر وہ بیماری کی وجہ سے حاضر نہیں ہوا تو ان کو تحریک ہوتی ہے.یا اگر اور ذرائع سے معلوم ہوا کہ فلاں شخص بیمار ہے تو آپ جس طرح ایک بہت ہی محبت کرنے والی ماں بے چین ہوتی ہے.اُس سے کہیں بڑھ کر بے چین ہوتے ہیں اور اس لئے تحریک پیدا ہوتی ہے یا کسی وقت دعا کا عمدہ وقت مل گیا تو جن کے نام یا د ہوتے ہیں نام لے لے کر دعا فرماتے ہیں.اب جو دُور ہے ممکن ہے اُس کا نام بھول جائے پس جو ہر وقت سامنے رہتے ہیں اُن کے لئے دعاؤں کا زیادہ موقعہ ملاتا ہے اس لئے یہاں کے علاج میں بڑا فائدہ ہے جو دوسری جگہ حاصل نہیں ہوسکتا.۲۰۰
681 گردن کو خوشی کے ساتھ ابھارتا ہے ویسی ہی صورت پیدا ہوئی.میں حیران ہوں کہ یہ بشارت کس وقت اور کس قسم کے عروج سے متعلق ہے.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ظہور کا زمانہ کیا ہے مگر میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی وقت میں کسی قسم کا اقبال اور کامیابی اور ترقی وعزت اللہ جل شانہ کی طرف سے آپ کے لئے مقرر ہے اگر چہ اس کا زمانہ نزدیک ہو یا دور ہو.سو میں آپ کے پیش آمدہ ملال سے گو پہلے غمگین تھا مگر آج خوش ہوں کیونکہ آپ کے مال کا ر کی بہتری کشفی طور پر معلوم ہوگئی.واللہ اعلم بالصواب.۹۳ جنوری ۱۸۹۲ء کو حضور تحریر فرماتے ہیں: در مبلغ ۲۸۱ روپیہ مرسلہ آں محب کل کی ڈاک میں مجھے کومل گئے جزاکم اللہ خیرا.جس وقت آپ کا روپیہ پہنچا ہے مجھ کو اتفاقاً نہایت ضرورت در پیش تھی.موقعہ پر آنے کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ خداوند کریم و قادر اس خدمت لہی کا آپ کو بہت اجر دے گا.والله يحب المحسنين - آج مجھ کو صبح کی نماز کے وقت بہت تضرع اور ابتہال سے آپ کے لئے دعا کرنے کا وقت ملا.یقین کہ خدا تعالیٰ اس کو قبول کرے گا.اور جس طرح چاہے گا اس کی برکات ظاہر کرے گا.میں آپ کو خبر دے چکا ہوں کہ میں نے پہلے بھی بشارت کے طور پر ایک امر دیکھا ہوا ہے گو میں ابھی اس کو کسی خاص مطلب یا کسی خاص وقت سے منسوب نہیں کر سکتا.تاہم بفضلہ تعالیٰ جانتا ہوں کہ وہ آپ کے لئے کسی بہتری کی بشارت ہے اور کوئی اعلیٰ درجہ کی بہتری ہے جو اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوگی.واللہ اعلم بالصواب.خداوند ذوالجلال کی جناب میں کوئی کمی نہیں اس کی ذات میں بڑی بڑی عجائب قدرتیں ہیں اور وہی لوگ ان قدرتوں کو دیکھتے ہیں کہ جو وفا داری کے ساتھ اس کے تابع ہو جاتے ہیں.جو شخص عہد وفا کو نہیں تو ڑتا اور صدق قدم سے نہیں ہارتا اور حسن ظن کو نہیں چھوڑتا اس کی مراد پوری کرنے کے لئے اگر خدا تعالیٰ بڑے بڑے معاملات کو ممکنات کر دیوے تو کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ ایسے بندوں کا اس کی نظر میں بڑا ہی قدر ہے کہ جو کسی طرح اس کے دروازہ کو چھوڑ نا نہیں چاہتے اور شتاب
682 باز اور بے وفا نہیں ہیں.“ MAY -۴- حضور ۲۵ / مارچ ۱۸۹۳ء کو تحریر فرماتے ہیں : آپ کے دو عنایت نامے پہنچے یہ عاجز باعث شدت کم فرصتی و علالت طبع جواب نہیں لکھ سکا اور نیز یہ بھی انتظار رہی کہ کوئی بشارت کھلے کھلے طور پر پالینے سے خطا لکھوں.چنانچہ اب تک آپ کے لئے جہاں تک انسانی کوشش سے ہوسکتا ہے توجہ کی گئی اور بہت سا حصہ وقت کا اسی کام کے لئے لگایا.سوان درمیانی امور کے بارہ میں اخویم مرزا خدا بخش صاحب اطلاع دیتے رہے ہوں گے اور آخر جو بار بار کی توجہ کے بعد الہام ہوا وہ یہ تھا اِنّ الله على كل شئ قدير - قل قومولِله قانتين - یعنی اللہ جل شانہ ہر یک چیز پر قادر ہے کوئی بات اس کے آگے ان ہونی نہیں انہیں کہہ دو جائیں اور یہ الہام ابھی ہوا ہے.اس الہام میں جو میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے فعلی طور پر کئے وہ یہی ہیں کہ ارادہ الہی آپ کی خیر اور بہتری کے لئے مقدر ہے.لیکن وہ اس بات سے وابستہ ہے کہ اسلامی صلاحیت اور التزام صوم وصلوٰۃ و تقوی وطہارت میں ترقی کریں بلکہ ان شرائط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امرمخفی نہایت ہی بابرکت امر ہے جس کے لئے یہ شرائط رکھے گئے ہیں.مجھے تو اس بات کے معلوم کرنے سے بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ اس میں آپ کی کامیابیوں کے لئے کچھ نیم رضا سمجھی جاتی ہے.اور یہ امر تجربہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ اس قسم کے الہامات اس شخص کے حق میں ہوتے ہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ ارادہ خیر فرماتا ہے.اس عالم سفلی میں اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی کسی معزز عہدہ کا خواہاں ہو....وقت اس کو اس طور سے تسلی دے کہ تم امتحان دو ہم تمہارا کام کر دیں گے.سوخدا تعالیٰ آپ میں اور آپ کے دوسرے اقارب میں ایک صریح امتیاز دیکھنا چاہتا ہے اور چونکہ آپ کی طبیعت بفضلہ تعالیٰ نیک کاموں کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے.اس لئے یہی امید کی جاتی ہے کہ آپ اپنے مولیٰ کریم کو خوش کریں گے.میں نے مرزا خدا بخش صاحب کو رمضان کے دنوں تک اس لئے ٹھہرا لیا ہے کہ تا پھر بھی ان مبارک دنوں میں وقتا فوقتا آپ کے آگے اصل خط بوجہ کا غذ پھٹ جانے کے الفاظ نہیں رہے.
683 لئے دعائیں کی جائیں.مجھے ایسا الہام کسی امر کی نسبت ہو تو میں ہمیشہ سمجھتا ہوں کہ وہ ہونے والا ہے.،، ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء میں حضور تحریر فرماتے ہیں: چونکہ دلوں پر اللہ جل شانہ کا تصرف ہے اس لئے سوچا کہ کسی وقت اگر جل شانہ نے چاہا تو آپ کے لئے دعا کی جائے نہایت مشکل یہ ہے کہ آپ کو اتفاق ملاقات کا کم ہوتا ہے اور دوست اکثر آمد و رفت رکھتے ہیں.“ ( مکتوب نمبر۷ ) - ۱۴؍ دسمبر ۱۸۹۵ء کو تحریر فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم عزیزی مجبی اخویم خان صاحب سلمہ تعالیٰ نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا محبت نامہ پہنچا.میں بوجہ علالت طبع کچھ لکھ نہیں سکا کیونکہ دورہ مرض کا ہو گیا تھا.اور اب بھی طبیعت ضعیف ہے.خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت میں ترقی بخشے اور اپنی اس جاودانی دولت کی طرف کھینچ لیوے جس پر کوئی زوال نہیں آسکتا.کبھی کبھی اپنے حالات خیریت آیات سے ضرور اطلاع بخشا کریں کہ خط بھی کسی قدر حصہ ملاقات کا بخشتا ہے.مجھے آپ کی طرف دلی خیال ہے اور چاہتا ہوں کہ آپ کی روحانی ترقیات بچشم خود دیکھوں.مجھے جس وقت جسمانی قوت میں اعتدال پیدا ہوا تو آپ کے لئے سلسلہ توجہ کا شروع کروں گا.اللہ تعالیٰ اپنا فضل اور توفیق شامل حال کرے آمین.والسلام غلام احمد عفی عنه ۱۴دسمبر ۱۸۹۵ ء روز پنجشنبه ۷ ۴/ جولائی ۱۸۹۸ء کو تحریر فرماتے ہیں: ۴۸۹ كل مـع الـخـيــر على الصباح تشریف لے جاویں.اللہ تعالیٰ خیر و عافیت سے پہنچائے آمین.٤٩٠ - ۲۶ جولائی ۱۸۹۸ء کو حضور تحریر فرماتے ہیں: آپ کی شفا کے لئے نماز میں اور خارج نماز میں دعا کرتا ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل وکرم پر امید ہے کہ شفاء عطا فرما دے.آمین ثم آمین.معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیچک
684 خاص طور کے دانے ہوں گے جن میں تیزی نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ کا رحم ہے کہ چیچک کے موذی سم سے بچایا ہے اور چیچک ہو یا خسرہ ہو یہ دونوں طاعون کے قائم مقام ہوتے ہیں.یعنی ان کے نکلنے سے طاعون کا مادہ نکل جاتا ہے اور اس کے بعد طاعون سے امن رہتا ہے.۱۴۹۱ ۹ - ۲ راگست ۱۸۹۸ء کو حضور تحریر فرماتے ہیں: عنایت نامہ پہنچا.الـحـمـد لله والمنتہ کہ آپ کو اس نے اپنے فضل وکرم سے شفا بخشی.میں نے آپ کے لئے اب کی دفعہ غم اٹھایا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ قادیان میں جس بڑی عمر کے آدمی کو جو اسی برس سے زیادہ کی عمر کا تھا چیچک نکلی وہ جانبر نہیں ہوسکا.ہمارے ہمسایوں میں دو جوان عورتیں اس مرض سے راہئی ملک بقا ہوئیں.آپ کو اطلاع نہیں دی گئی.یہ بیماری اس عمر میں نہایت خطر ناک تھی.بالخصوص اب کی دفعہ یہ چیچک وبائی طرح پر ہوئی ہے اس لئے نہایت اضطراب اور دلی درد سے نماز پنجگانہ میں اور خارج نماز گویا ہر وقت دعا کی گئی.اصل باعث عاقبت خدا کا فضل -1+ -11 ہے.۴۹۲ ۴ ستمبر ۱۸۹۸ء کو حضور تحریر فرماتے ہیں: عنایت نامہ پہنچا.اللہ تعالیٰ آپ کو بکلی صحت عطا فرما دے.چونکہ ان دنوں بباعث ایام برسات موسم میں ایک ایسا تغیر ہے جو تپ وغیرہ پیدا کرتا ہے اس لئے در حقیقت یہ سفر کے دن نہیں ہیں.ایک مکتوب میں حضور تحریر فرماتے ہیں: ۴۹۳ عنایت نامہ پہنچا.خسرہ کا نکلنا ایک طرح پر جائے خوشی ہے کہ اس سے طاعو کا مادہ نکلتا ہے میں ہر وقت نماز میں اور خارج نماز کے آپ کے لئے دعا کرتا ہوں.خط پہنچنے پر تر د ہوا اس لئے جلدی سے مرزا خدا بخش آپ کی خدمت میں پہنچتے ہیں.اللہ تعالیٰ جلد شفا بخشے.آمین ثم آمین....حالات سے جلد از جلد مطلع فرماتے رہیں.خدا تعالیٰ حافظ ہو.۸ نومبر ۱۸۹۸ء کو تحریر فرماتے ہیں: ۴۹۴ آں محبت کے چار خط یکے بعد دیگرے پہنچے.آپ کے لئے دعا کرنا تو میں
685 نے ایک لازمی امر ٹھہرایا ہوا ہے.لیکن بے قرار نہیں ہونا چاہئے.کہ کیوں اس کا اثر ظاہر نہیں ہوتا.دعاؤں کے لئے تاثیرات ہیں اور ضرور ظاہر ہوتی ہیں.جب دیر سے دعا قبول ہوتی ہے.تو عمر زیادہ کی جاتی ہے.اور جب جلد کوئی مرا مل جاتی ہے تو کمی عمر کا اندیشہ ہے.میں اس بات کو دوست رکھتا ہوں کہ ایک مطلب کے حصول کی بشارت خدا تعالیٰ کی طرف سے سن لوں لیکن وہ مطلب دیر کے بعد حاصل ہونا موجب طول عمر ہو.کیونکہ طول عمر اور اعمال صالحہ بڑی نعمت ہے.“ ۱۳ ۱۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو تحریر فرماتے ہیں: ۴۹۵ ” خدائے تعالیٰ فرزند نوزاد کو مبارک اور عمر دراز کرے.آمین ثم آمین....لڑکے کے بدن پر تیل ملتے رہتے ہیں.حافظ حقیقی خود حفاظت فرما دے اور آپ کے لئے مبارک کرے.آمین ثم آمین.دعا میں آپ کے لئے مشغول ہوں.اللہ تعالیٰ قبول فرما دے.“ ۱۴- ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں : انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی بیوی مرحومہ کے لئے توجہ اور الحاح سے دعائے مغفرت کروں گا.“ ۴۹۷ ۱۵- نومبر ۱۸۹۸ء میں حضور تحریر فرماتے ہیں: آج صدمہ عظیم کی تار مجھے کو لی.انا للہ وانا اليه راجعون.اللہ تعالیٰ آپ کو صبر جمیل عطا فرما دے اور اس کے عوض آپ کو کوئی بھاری خوشی بخشے.میں اس درد کو محسوس کرتا ہوں جو اس ناگہانی مصیبت سے آپ کو پہنچا ہوگا اور میں دعا کرتا ہوں کہ آئندہ خدا تعالیٰ ہر ایک بلا سے آپ کو بچائے اور پردہ غیب سے اسباب راحت آپ کے لئے میسر کرے.اس وقت آپ کے درد سے دل دردناک ہے اور سینہ غم سے بھرا ہے.آپ کے گھر کے لوگوں کے لئے مجھے دعا کا موقعہ بھی نہ ملا.تاریں بہت بے وقت پہنچیں.اب میں یہ خط اس نیت سے لکھتا ہوں کہ آپ پہلے ہی بہت نحیف ہیں.میں ڈرتا ہوں کہ بہت غم سے آپ بیمار نہ ہو جائیں.اب اس وقت آپ بہادر بنیں اور استقامت دکھلائیں...میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ غم کو دل پر غالب
686 ہونے نہ دیں.میں تعزیت کے لئے آپ کے پاس آتا مگر میری بیوی کی ایسی حالت ہے کہ بعض وقت خطر ناک حالت ہو جاتی ہے.“ ۱ - ۲۹ جنوری ۱۹۰۰ء کو تحریر فرماتے ہیں: -17 وو ۴۹۸ عنایت نامہ مجھ کو ملا.اور اول سے آخر تک پڑھا گیا.دل کو اس بہت درد پہنچا کہ ایک پہلو سے تکالیف اور ہموم و عموم جمع ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو ان سے مخلصی عطا فرما دے.مجھ کو جہاں تک انسان کو خیال ہوسکتا ہے یہ خیال جوش ماررہا ہے کہ آپ کے لئے ایسی دعا کروں جس کے آثار ظاہر ہوں لیکن میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں اور حیران ہوں کہ باوجودیکہ میں آپ سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کو ان مخلصین میں سے سمجھتا ہوں جو صرف چھ سات آدمی ہیں.پھر بھی ابھی تک مجھ کو ایسی دعا کا پورا موقعہ نہیں مل سکا.دعا تو بہت کی گئی اور کرتا ہوں مگر ایک قسم دعا کی ہوتی ہے جو میرے اختیار میں نہیں.غالبا کسی وقت کسی قدرظہور میں آئی ہوگی اور اس کا اثر یہ ہوا ہوگا کہ پوشیدہ آفات کو اللہ تعالی نے ٹال دیا.لیکن میری دانست میں ابھی تک اکمل اور اتم طور پر ظہور میں نہیں آئی.مرزا خدا بخش صاحب کا اس جگہ ہونا بھی بہت یاددہانی کا موجب ہے.میں امید کرتا ہوں کہ کسی وقت کوئی ایسی گھڑی آجائے گی کہ یہ مدعا کامل طور پر ظہور میں آجائے گا.۱۷- ایک مکتوب میں حضور تحریر فرماتے ہیں : ۴۹۹ آپ کا عنایت نامہ مع دوسرے خط کے جو آپ کے گھر کے لوگوں کی طرف سے تھا جس میں صحت کی نسبت لکھا ہوا تھا پہنچا.بعد پڑھنے کے دعا کی گئی.اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے.۱۸- ۷ اگست ۱۹۰۰ء کو حضور تحریر فرماتے ہیں: " آپ کا تحفہ پار چات نفیس و عمدہ جو آپ نے نہایت درجہ کی محبت اور اخلاص سے عطا فرمائے تھے مجھے کومل گئے ہیں اس کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.ہر ایک پارچہ کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آں محب نے بڑی محنت اور اخلاص سے ان کو تیار کرایا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں اپنے بے انتہا اور نہ معلوم کرم اور فضل آپ پر کرے اور لباس التقویٰ
687 سے کامل طور سے اولیاء اور صلحاء کے رنگ سے مشرف فرما دے....میں بہ سبب ایام صیام اور عید کے خط نہیں لکھ سکا.۵۰۱ ۱۹ - ۱۲ / دسمبر ۱۹۰۰ ء کو حضور نواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: مجھے آپ کے لئے ایک خاص توجہ خدا نے پیدا کردی ہے.میں دعا میں مشغول ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو تمام ترددات سے محفوظ رکھ کر کامیاب فرما دے.آمین...اگر چہ ایسے امور کو لکھتے لکھتے جب آپ کی وہ مالی مشکلات یاد آ جاتی ہیں جن کے سخت حملہ نے آپ پر غلبہ کیا ہوا ہے تو گو کیسے ہی ضرورت اور ثواب کا موقعہ ہو تو پھر بھی قلم یکدفعہ اضطراب میں پڑ جاتی ہے لیکن بانیہمہ میں جب دیکھتا ہوں کہ میں آپ کے لئے حضرت احدیت میں ایک توجہ کے ساتھ مصروف ہوں اور میں ہرگز امید نہیں رکھتا کہ یہ دعا ئیں خالی جائیں گی.تب میں ان چھوٹے چھوٹے امور کی پروا نہیں کرتا بلکہ اس قسم کے خیال قبولیت دعا کے لئے راہ کو صاف کرنے والے ہیں.یہ تجربہ شدہ نسخہ ہے کہ مشکلات کے وقت حتی الوسع ان در ماندوں کی مدد کرنا جو مشکلات میں گرفتار ہیں دعاؤں کے قبول ہونے کا ذریعہ ہے.“ ۲۰.اسی طرح حضور تحریر فرماتے ہیں: ۵۰۲ میں اب ایک مدت سے ہر یک نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں.“ (مکتوب نمبر ۹۷ ) ۲۱- ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: میں نواب صاحب کے لئے پنج وقت نماز میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی پریشانی دور کرے.( مکتوب نمبر ۸۸) ۲۲ ۶ را گست ۱۹۰۲ء کو تحریر فرماتے ہیں: غائبانہ آپ کی شفاء کے لئے دعا تو کرتا ہوں مگر چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس آکر سنت عیادت کا ثواب بھی حاصل کروں.۵۰۳ اس مکتوب کی تاریخ درست درج نہیں.اصل نہیں مل سکا کہ صحیح ہوسکتی غلطی یوں ہے کہ ۱۸۸۹ء سے ۱۹۰۸ ء تک کوئی عید الفطر ماہ اگست میں نہیں ہوئی.۱۹۰۰ء میں عید الفطر ۲ فروری کو تھی.
688 مکرم میاں عبدالرحیم خان صاحب کے شدید بیمار ہونے پر جو حضور نے شفاعت کی اور معجزہ شفایابی ظاہر ہوا اس کا ذکر پہلے آچکا ہے.مکرم میاں محمد عبد الرحمن خان صاحب لاہور میں شدید بیمار ہو گئے تو حضور بہت فکر مند ہوئے اور متعدد خطوط میں تشویش کا اظہار کیا ۲۵ / مارچ ۱۹۰۴ء کو تحریر فرمایا: اس وقت تار کے نہ پہنچنے سے بہت تفکر اور تردد ہوا.خدا تعالیٰ خاص فضل کر کے شفا بخشے.اس جگہ دور بیٹھے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اصل حالت کیا ہے.اگر کوئی صورت ایسی ہو کہ عبد الرحمن کو ساتھ لے کر قادیان آجاویں تو رو برود یکھنے سے دعا کے لئے ایک خاص جوش پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ شفا بخشے اور وہ آپ کے دل کا درددور کرے.“ ۵۰۴ ایک مکتوب میں فرماتے ہیں: ”ایسے وقت آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا کہ میں دعا میں مشغول ہوں اور امیدوار رحمت ایزدی.حالات کے معلوم کرنے سے میری بھی یہی رائے ہے کہ ایسی حالت میں قادیان میں لانا مناسب نہیں.امید کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد وہ دن آئے گا کہ بآسانی سواری کے لائق ہو جائیں گے...میں خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے بہت توجہ سے دعا کرتا رہوں گا.دو خاص وقت ہیں (۱) وقت تہجد (۲) اشراق.ماسوا اس کے پنج وقت نماز میں انشاء اللہ دعا کروں گا.اور جہاں تک ہو سکے آپ تازہ حالات سے ہر روز مجھے اطلاع دیتے رہیں.کیونکہ اگر چہ اسباب کی رعایت بھی ضروری ہے مگر حق بات یہ ہے کہ اسباب بھی تب ہی درست اور طبیب کو بھی تب ہی سیدھی راہ ملتی ہے جبکہ خدائے تعالیٰ کا ارادہ ہو اور انسان کے لئے بجز دعا کے کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کے ارادہ کو انسان کی مرضی کے موافق کر دے.ایک دعا ہی ہے کہ اگر کمال تک پہنچ جائے تو ایک مردہ کی طرح انسان اس سے زندہ ہو سکتا ہے.خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ دعا کمال کو پہنچ جائے.وہ نہایت عمدہ چیز ہے.یہی کیمیا ہے.اگر اپنے تمام شرائط کے ساتھ متحقق ہو جائے.خدا تعالیٰ کا جن لوگوں پر فرض ہے اور جو لوگ اصطفاء اور اجتباء کے درجہ تک پہنچتے ہیں.اس سے بڑھ کر کوئی نعمت ان کو نہیں دی گئی کہ اکثر دعائیں ان کی قبول ہو جائیں.گومشیت الہی نے یہ قانون رکھا ہے کہ بعض دعائیں مقبولوں
689 کی بھی قبول نہیں ہوتیں لیکن جب دعا کمال کے نقطہ تک پہنچ جاتی ہے.جس کا پہنچانا محض خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے.یہ کبریت احمر ہے جس کا وجود قلیل ہے.“ ۵۰۵ اس بارہ میں ۶ را پریل ۱۹۰۴ء کو تحریر فرماتے ہیں : میں تو دن رات دعا کر رہا ہوں اور اس قدر زور اور توجہ سے دعائیں کی گئی ہیں کہ بعض اوقات میں ایسا بیمار ہو گیا کہ یہ وہم گزرا کہ شاید دو تین منٹ جان باقی ہے اور خطر ناک آثار ظاہر ہو گئے.“ اسی طرح ایک اور مکتوب میں فرماتے ہیں: شب بیداری اور دلی تو جہات سے جو عبدالرحمن کے لئے کی گئی.میرا دل و دماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے.بسا اوقات آخری دم معلوم ہوتا تھا.یہی حقیقت دعا ہے کوئی مرے تا مرنے والے کو زندہ کرے.یہی الہی قانون ہے.سو میں اگر چہ نہایت کمزور ہوں لیکن میں نے مصم ارادہ کر لیا ہے کہ آپ جب آویں تو پھر چند روز درد آنگیز دعاؤں سے فضل الہی کو طلب کیا جائے.خدا تعالیٰ صحت اور تندرستی رکھے.-۲۴- ایک مکتوب میں حضور نواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: دعاتو کی جاتی ہے مگر وقت پر ظہور اثر موقوف ہوتا ہے.خدا تعالی تکالیف سے - ۲۵ آپ کو نجات بخشے.آمین.۵۰۸ ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں : دعا کرتا ہوں کہ خدا آپ کو اور آپ کے اہل بیت کو اپنے فضل سے کچی پاکیزگی بچی دینداری سے پورے طور پر متمتع فرمائے.آمین ثم آمین.اور اپنی محبت اور اپنے دین کی التفات عطا فرمائے.آمین.اور ۵۰۹ ۲۶ - نواب صاحب کے اہل بیت محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ کو حضور نے تحریر فرمایا: ” میں نے آپ کا خط غور سے پڑھ لیا ہے انشاء اللہ صحت ہو جائے گی.میں نہ صرف دوا بلکہ آپ کے لئے بہت توجہ سے دعا بھی کرتا ہوں.مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پوری شفا دے گا.
690 اسی طرح ممدوحہ کو حضور تحریر فرماتے ہیں: ایسی بیماری جس سے زندگی سے بھی بیزاری ہے خدا تعالیٰ شفا بخشے.“ ( مکتوب نمبر ۶۴ صفحه ۲۷۲) محترمہ موصوفہ کے متعلق حضور نے ایک کشف دیکھا تھا.اس بارہ میں حضور تحریر فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مجھے تو رات کے خواب سے کہ ایک قسم کا کشف تھا نہایت خوشی ہوئی کہ اندازہ سے باہر ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے.کل سے میں نے ارادہ کیا ہے کہ آپ کی دعا کے ساتھ ان کو بھی شریک کر دوں.شاید خدا تعالیٰ نے یہ نمونہ اس لئے دکھایا ہے کہ میں ایک مستعد نفس کے لئے نماز میں دعا کرتا رہا ہوں.اصل میں دنیا اندھی ہے کسی شخص کی باطنی حالت کو معلوم نہیں کر سکتی.بلکہ دنیا تو دنیا خود انسان جب تک وہ دن نہ آوے اپنی حالت سے بے خبر رہتا ہے.ایک شہزادہ کا حال لکھا ہے کہ شراب پیتا اور سارنگی بجایا کرتا تھا.آخر کار بڑے اولیاء سے ہو گیا.سو یہ کشف کچھ ایسی ہی خوشخبری سنا رہا ہے اس لئے کل میں نے ارادہ کیا کہ ہماری دولڑ کیاں ہیں مبارکہ اور امتہ النصیر.پس امتہ الحمید بیگم کو بھی اپنی لڑکی بنالیں اور اس کے لئے نماز میں بہت دعائیں کریں تا ایک آسمانی روح خدا اس میں پھونک دے.وہ لڑکیاں تو ہماری کم سن ہیں شاید ہم ان کو بڑی ہوتی دیکھیں یا عمر وفا نہ کرے.مگر یہ لڑکی جوان ہے ممکن ہے کہ ہم باطنی توجہ سے اس کی ترقی بچشم خود دیکھ لیں.پس جبکہ ہم ان کو لڑکی بناتے ہیں تو پھر آپ کو چاہئے ہماری لڑکی (کے ساتھ زیادہ ہمدردی اور محبت اور وسیع اخلاق سے پیش آویں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ خطوط وحدانی والا لفظ خاکسار کی طرف سے ہے.خطوط وحدانی والا لفظ خاکسار کی طرف سے ہے.اله
691 ۲۷ - ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو حضور رقم فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ جلد تر شفا بخشے آمین.میں نے ان دنوں میں آپ کے لئے بہت بہت دعا کی ہے اور دعا کرنے کا ایسا موقعہ ملا کہ کم ایسا ملتا ہے الحمد للہ کہ جلد یا کسی قدر دیر سے ان دعاؤں کا ضرور اثر ظاہر ہو جائے گا.۵۱۲ ۲۸- دعاؤں کی تاثیرات کا ذکر کرتے ہوئے حضور نواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم ۱۲؍ جنوری ۱۹۰۵ء نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ پہنچا میں دعا میں مصروف ہوں خدا تعالیٰ جلد تر آپ کے لئے کوئی راہ کھولے دنیا کی مشکلات بھی خدا تعالیٰ کے امتحان ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ آپ کو اس امتحان سے نجات دے آمین.میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور نیز تجربہ بھی کہ آخر دعائیں قبول ہو کر کوئی مخلصی کی راہ پیدا کی جاتی ہے اور کثرت دعاؤں کے ساتھ آسمان پر ایک خلق جدید اسباب کا ہوتا ہے.یعنی بحکم ربی نئے اسباب پیدا کئے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ سچ ہے کہ اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ جو انقلاب تدبیر سے نہیں ہوسکتا وہ دعا سے ہوتا ہے بایں ہمہ دعا کے ثمرات دیکھنے کے لئے صبر درکار ہے جیسا کہ حضرت یعقوب کی دعاؤں کا اخیر نتیجہ یہ ہوا کہ باراں برس کے (بعد ) * یوسف زندہ نکل آیا.ایمان میں ایک عجیب برکت ہے جس سے مردہ کام زندہ ہو جاتے ہیں سو آپ نہایت مردانہ استقامت سے کشائش وقت کا انتظار کریں اللہ تعالیٰ کریم و رحیم ہے اور میری طرف سے اور والدہ محمود کی طرف سے گھر میں السلام علیکم ضرور کہہ دیں.علیکم والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۵۱۳.ذیل کے مکتوب میں رضاء بالقضاء وغیرہ متعدد امور پر روشنی پڑتی ہے.حضور نواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں:
692 بسم الله الرحمن الرحيم عزیزی محجبی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس وقت آپ کا پریشانی سے بھرا ہوا خط پڑھ کر میرے دل کو اس قد رقلق اور اضطراب کا صدمہ پہنچا جو میں بیان نہیں کرسکتا.مجھے باعث لحوق امراض وصدمات ضعف قلب ہے کسی مخلص دوست کی غم سے بھری ہوئی بات کو سن کر اس قدر متاثر ہو جاتا ہوں کہ گویا وہ غم میرے پر ہی وارد ہو گیا ہے.مجھے آپ کی غمخواری کے لئے بے اختیار ایک کشش اور کرب دل میں پیدا ہو گیا ہے انشاء اللہ القدیر میں پوری توجہ سے آپ کے لئے دعا کروں گا.مگر اے عزیز آپ کو یا د ر ہے ہمارا آقا ومولا رب السموات والارض نہایت درجہ کا مہربان اور رحیم وکریم ہے کہ اپنے گنہ گار بندوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اور آخر وہی ہے جو ان کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے اور ان کی بے قراری کی دعاؤں کوسنتا ہے کبھی کبھی وہ اپنے بندہ کی آزمائش بھی کرتا ہے لیکن آخر کار رحم کی چادر سے ڈھانک لیتا ہے.اس پر جہاں تک ممکن ہو تو کل رکھو اور اپنے کام اس کو سونپو اس سے اپنی بہبودی چا ہو مگر دل میں اس کی قضاء وقدر سے راضی رہو.چاہئے کہ کوئی چیز اس کی رضاء سے مقدم نہ ہو.میں آپ کے لئے بہت دعا کرتا ہوں اور کروں گا اور اگر کچھ معلوم ہوا تو آپ کو اطلاع دوں گا.آپ درویشانہ سیرت سے ہر ایک نماز کے بعد گیارہ دفعہ لاحـــــــول ولاقوة الا بالله العلی العظیم پڑھیں اور رات کو سونے کے وقت معمولی نماز کے بعد کم از کم اکتالیس دفعه در دو شریف پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھیں اور ہر ایک سجدہ میں کم سے کم تین دفعہ یا حیی یاقیوم برحمتک استغیث.پھر نماز پوری کر کے سلام پھیر دیں.اور اپنے لئے دعا کریں اور مرزا خدا بخش کو کہہ چھوڑیں کہ جلد جلد مجھے اطلاع دیویں.دہلی میں آکر میری طبیعت بہت علیل ہوگئی ہے.اس وقت خارش کی پھنسیاں ایسی ہیں جیسے شاخ کو پھل لگا ہوا ہوتا ہے اسی وجہ سے بخار بھی رہا ریزش بھی بشدت ہوگئی اور طبیعت ضعیف اور کمزور ہے.لیکن میں نے نہایت قلق کی وجہ سے نہ چاہا کہ آپ کے خط کو تاخیر میں ڈالوں.خدا تعالیٰ آپ کے غم و درد دور کرے اور اپنی
693 مرضیات کی توفیق بخشے آمین ثم آمین.والسلام خاکسار غلام احمد از دہلی کو بھی نواب لوہار و ۲۴ /اکتوبر ۶۵ ۳۰- ۴ را پریل ۱۹۰۶ء کو تحریر فرماتے ہیں: ۵۱۴۶ الحمد للہ تادم تحریر خط ملا.ہر طرح سے خیریت ہے.خدا تعالیٰ آپ کو معہ اہل و عیال سلامت قادیان میں لا دے.آمین.“ ۳۱.اسی طرح حضور تحریر فرماتے ہیں: ۵۱۵ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.چونکہ آپ کے ترددات اور غم اور ہم انتہاء تک پہنچ گیا ہے اس لئے بموجب مثل مشہور کہ ہر کمالے را ز والے.امید کی جاتی ہے کہ اب کوئی صورت مخلصی کی اللہ تعالیٰ پیدا کرے دے گا اور اگر وہ دعا جو گویا موت کا حکم رکھتی ہے اپنے اختیار میں ہوتی تو میں اپنے پر آپ کی راحت کے لئے سخت تکالیف اٹھا لیتا.لیکن افسوس کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے ایسی دعا خدا تعالیٰ نے کسی کے ہاتھ میں (نہیں) رکھی.بلکہ جبکہ وقت آجاتا ہے تو آسمان سے وہ حالت دل پر اترتی ہے.میں کوشش میں ہوں اور دعا میں ہوں کہ وہ حالت آپ کے لئے پیدا ہوا اور امید رکھتا ہوں که کسی وقت وہ حالت پیدا ہو جائے گی اور میں (نے ) آپ کی سبکدوشی کے لئے کئی دعائیں کی ہیں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ خالی نہ جائیں گی.جس قدر آپ کے لئے حصہ تکالیف اور تلخیوں کا مقدر ہے اس کا چکھنا ضروری ہے.بعد اس کے یکدفعہ آپ دیکھیں گے کہ نہ وہ مشکلات ہیں اور نہ وہ دل کی حالت ہے.“ ۳۲ حضور ۲۰ دسمبر ۱۹۰۶ء کو تحریر فرماتے ہیں: ۵۱۶ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.خاکسار باعث کثرت پیشاب اور دوران سر اور دوسرے عوارض کے خط لکھنے سے قاصر رہا.ضعف بہت ہو رہا ہے یہاں تک کہ بجز دو وقت یعنی ظہر اور عصر کے گھر میں نماز پڑھتا ہوں.آپ کے خط میں جس قدر ترددات کا تذکرہ تھا پڑھ کر اور بھی دعا کے لئے جوش پیدا ہوا.میں نے یہ التزام کر رکھا ہے کہ پنج وقت نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور میں یقین دل سے جانتا ہوں کہ یہ دعائیں بریکار نہیں جائیں گی.“ ۵۱۷
694 ۳۳ - اسی طرح تحریر فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ نحمده ونصلى على رسوله الكريم رات مجھے مولوی صاحب نے خبر دی کہ آپ کی طبیعت بہت بیمار تھی تب میں نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا رہا.چند روز ایک دینی کام کے لئے اس قدر مجھے مشغولی رہی کہ تین راتیں میں جاگتا رہا.اللہ تعالیٰ آپ کو شفا بخشے.میں دعا میں مشغول ہوں اور بیماری مومن کے لئے کفارہ گناہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ شفا بخشے آمین.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۵۱۸ ۳۴- حضور نے نواب صاحب کو تحریر فرمایا تھا: اللہ تعالیٰ آپ کو تمام عموم و ہموم سے نجات بخشے.آمین...جہاں تک مجھ سے ممکن ہے آپ کے لئے دعا میں مشغول ہے * اور میرا ایمان ہے کہ یہ دعائیں خالی نہیں جائیں گی.آخر ایک معجزہ کے طور پر ظہور میں آئیں گی اور میں انشاء اللہ دعا کرنے میں ست نہیں ہوں گا جب تک اس قسم کا معجزہ نہ دیکھ لوں.پس آپ کو اپنے دل پر غم غالب نہیں کرنا چاہئے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ صبر کے ساتھ آخری دن کا انتظار کریں گے تو انجام کار میری دعاؤں کا نمایاں اثر ضرور دیکھ لیں گے.“ ( غیر مطبوعہ ) سوحضوڑ کی دعائیں نواب صاحب کے تعلق میں بارگاہ ایزدی میں مقبول ہوئیں.آپ احمدیت کے رنگ سے ایسے رنگین ہوئے کہ ظاہری و باطنی اتحاد سے لگا نگت دمک دمی و لحمک لحمی کی حد تک پہنچی اور حضور کی دامادی کا دُہرا شرف آپ کے خاندان کو نصیب ہوا حتیٰ کہ حضرت عثمان ذوالنورین کی مماثلت میں دو نبی زادیوں کے رشتہ قرابت سے آپ کا خاندان ذوالنورین ہونے کی سعادت سے بہرہ اندوز ہوا.پھر نواب صاحب کی اولاد میں سے کئی صاحبزادیاں حضور کے خاندان میں شادی ہوکر موعودہ خواتین مبارکہ میں شامل ہوئیں اور حضور کی مبشر اولاد کی کئی صاحبزادیاں نواب صاحب کی اولاد کی زوجیت میں آئیں.اس طرح نہ صرف وہ معجزہ ظہور میں آیا جس کا حضور نے مکتوب مذکورہ بالا میں ذکر فرمایا ہے بلکہ ۱۸۹۱ء کا وہ کشف بھی پورا ہوا جس میں حضور نے نواب صاحب کے متعلق دیکھا تھا کہ آپ میرے پاس موجود ہیں اور ایک دفعہ گردن اونچی ہوگئی اور جیسے اقبال
695 اور عزت کے بڑھنے سے انسان اپنی گردن کو خوشی کے ساتھ ابھارتا ہے ویسی ہی صورت پیدا ہوئی.میں حیران ہوں کہ یہ بشارت کس وقت اور کس قسم کے عروج سے متعلق ہے.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ظہور کا زمانہ کیا ہے مگر میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی وقت میں کسی قسم کا اقبال اور کامیابی اور ترقی عزت اللہ جل شانہ کی طرف سے آپ کے لئے مقرر ہے.اگر ( چہ ) اس کا زمانہ نزدیک ہو یا دور ہو.سو میں آپ کے پیش آمدہ ملال سے گو پہلے غمگین تھا مگر آج خوش ہوں کیونکہ آپ کے مال کار کی بہتری کشفی طور پر معلوم ہوگئی.واللہ اعلم بالصواب.۱۸۹۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نواب صاحب کے لئے فرزند کا لفظ استعمال فرمایا.اور پورے بارہ برس بعد ظاہراً بھی نواب صاحب حضور کی فرزندی میں آگئے اور حضور نے جو نواب صاحب کو تحریر کیا تھا بعینم پورا ہو گیا یعنی کثرت دعاؤں کے ساتھ آسمان پر ایک خلق جدید اسباب کا ہوتا ہے.جوانقلاب تدبیر سے نہیں ہو سکتا وہ دعا سے ہوتا ہے بایں ہمہ دعا کے ثمرات دیکھنے کے لئے صبر درکار ہے جیسا کہ حضرت یعقوب کی دعاؤں کا اخیر نتیجہ یہ ہوا کہ باراں برس کے (بعد ) یوسف زندہ نکل آیا.ایمان میں ایک عجیب برکت ہے جس سے مردہ کام زندہ ہو جاتے ہیں.سو جس مکتوب میں حضور نے نواب صاحب کے لئے فرزند کا لفظ استعمال کیا اسی میں اگلے جہاں میں دار السلام میں نواب صاحب کی ملاقات ہونے کی دعا فرمائی تھی.ایک حصہ جو اس دنیا کے متعلق تھا جبکہ وہ لفظاً پورا ہو چکا تو یقیناً بعد وفات دوسرا حصہ بھی پورا ہو چکا.حضرت نواب صاحب جن کے متعلق حضرت نے تحریر فرمایا تھا کہ: حبی فی اللہ سردار نواب محمد علی خان صاحب بھی محبت اور اخلاص میں بہت ترقی کر گئے ہیں اور فراست صحیحہ شہادت دیتی ہے کہ وہ بہت جلد قابل رشک اخلاص اور محبت کے منار تک پہنچیں گے.۵۲۱ آپ کے ذکر خیر کو حضور کے ذیل کے کلمات مبارکہ پرختم کرتا ہوں جو حضور نے ایک مکتوب میں تحریر فرمائے تھے: جو کچھ آپ نے اپنی محبت اور جوش سے لکھا ہے درحقیقت مجھ کو یہی امید تھی
696 اور میرے ظاہری الفاظ صرف اس غرض سے تھے کہ تا میں لوگوں پر یہ ثبوت پیش کروں کہ آں محبت اپنے دلی خلوص کی وجہ سے نہایت استقامت پر ہیں.سوالحمد للہ کہ میں نے آپ کو ایسا ہی پایا میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسا کہ اپنے فرزند عزیز سے محبت ہوتی ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اس جہاں کے بعد بھی خدا تعالیٰ ہمیں دار السلام میں آپ کی ملاقات کی خوشی دکھاوے.“ ۵۲۲ ذیل میں خاکسار براہین احمدیہ کے تعلق میں بعض باتیں سلسلہ کی تاریخ کی خاطر درج کر دیتا ہے جواس وقت تک سلسلہ کے لٹریچر میں نہیں آئیں اور بالکل نئی ہیں.اور کتاب ہذا ( ایڈیشن اول) کے صفحہ ۳۷ تا ۳۹ سے متعلق ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام براہین احمدیہ صفحہ ب وج میں تحریر فرماتے ہیں: پست ہمت مسلمانوں کو لازم ہے کہ جیتے ہی مر جائیں.اگر محبت خدا اور رسول کی نہیں تو اسلام کا دعویٰ کیوں کرتے ہیں؟ کیا خباثت کے کاموں میں اور نفس امارہ کی پیروی میں اور ناک بڑھانے کی نیت سے بے اندازہ مال ضائع کرنا اور اللہ اور رسول کی محبت میں اور ہمدردی کی راہ میں ایک دانہ ہاتھ سے نہ چھوڑ نا یہی اسلام ہے؟ نہیں یہ ہرگز اسلام نہیں یہ ایک باطنی جذام ہے.یہی ادبار ہے کہ مسلمانوں پر عائد ہورہا ہے.اکثر مسلمان امیروں نے مذہب کو ایک ایسی چیز سمجھ رکھا ہے کہ جس کی ہمدردی غریبوں پر ہی لازم ہے اور دولت مند اس سے مستثنیٰ ہیں جنہیں اس بوجھ کو ہاتھ لگانا بھی منع ہے.اس عاجز کو اس تجربہ کا اس کتاب کے چھپنے کے اثناء میں خوب موقعہ ملا کہ حالانکہ بخوبی مشتہر کیا گیا تھا کہ اب یہ بباعث بڑھ جانے ضخامت کے اصل قیمت کتاب کی سو روپیہ ہی مناسب ہے کہ ذی مقدرت لوگ اس کی رعایت رکھیں کیونکہ غریبوں کو تو یہ صرف دس روپیہ میں دی جاتی ہے سو جبر نقصان کا واجبات سے ہے مگر بجز سات آٹھ آدمی کے سب غریبوں میں داخل ہو گئے.خوب جبر کیا.ہم نے جب کسی منی آرڈر کی تفتیش کی کہ یہ پانچ روپیہ بوجہ قیمت کتاب کس کے آئے ہیں یا یہ دس روپیہ کتاب کے مول میں کس نے بھیجے ہیں تو اکثر یہی معلوم ہوا کہ فلاں نواب صاحب نے یا فلاں رئیس اعظم نے.ہاں نواب اقبال الدولہ صاحب حیدرآباد نے اور ایک اور رئیس نے ضلع بلند شہر سے جس نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے ایک نسخہ کی
697 قیمت میں سوسور و پیہ بھیجا ہے.اور ایک عہدہ دار محمد افضل خان نام نے ایک سودس اور نواب صاحب کوٹلہ مالیر نے نسخہ کی قیمت میں سوروپیہ بھیجا.اور سردار عطر سنگھ صاحب رئیس اعظم لدھیانہ نے کہ جو ایک ہندور کیس ہیں.اپنی عالی ہمتی اور فیاضی کی وجہ سے بطور اعانت ۲۵ روپے بھیجے ہیں.“ سوخا کسار عرض کرتا ہے کہ الف- نواب اقبال الدولہ کا پورا نام مع خطابات اقبال الدولہ اقتدار الملک قیصر ہندسر وقارالامراء نواب محمد فضل الدین خان سکندر جنگ بہادر کے سی.آئی.ای تھا.آپ امیر کبیر شمس الا مراء نواب رشید الدین خان بہادر کے فرزند اور نواب سکندر جاہ بہا در نظام سوم کے پوتے.موجودہ نظام دکن کے بہنوئی.نواب سرخورشید جاہ بہادر امیر کبیر کے چھوٹے بھائی اور نواب سر آسمان جاہ بہادر کے عم زاد بھائی تھے.ولادت ۲۳ محرم ۱۲۳۰ھ وفات ۶ / ذیقعده ۱۳۱۹ ء.نواب افضل الدولہ بہادر نظام دکن کی وفات پر نواب میر محبوب علی خاں بہادر کی صغرسنی کے باعث نواب اقبال الدولہ گارڈین مقرر ہوئے.آپ نے یورپ کا سفر کیا.ملکہ وکٹوریہ کے ہاں دعوت کھائی.اس سفر سے شہرت بہت بڑھی.براہین احمدیہ کا ذکر ایک ایسی مجلس میں ہوتا رہتا تھا جس میں مرزا صادق علی بیگ صاحب ظہور علی صاحب وکیل اور ایک حکیم صاحب شامل ہوتے تھے.ان میں سے کسی نے نواب صاحب موصوف کو چندہ کی تحریک کردی اور انہوں نے ایک سو روپیہ دے دیا.نواب صاحب کے تمول کے پیش نظر یہ رقم بہت قلیل تھی.ان کے تمول کا علم اس سے ہوتا ہے کہ ان کی شادی پر جانبین سے لاکھوں روپیہ خرچ ہوا.ان کی اسٹیٹ پائے گا تیرہ سو نوے مربع میل میں تھی.جس کی مردم شماری ۱۹۰۱ء میں قریباً اڑھائی لاکھ تھی اور یہ سب آپ کی رعایا تھے.وہاں پینتالیس ہزار مکانات تھے.اسٹیٹ کی سالانہ آمد تیرہ لاکھ روپیہ تھی.آپ کو عمدہ عمارات کی تعمیر کا شوق تھا چنانچہ حیدر آباد کا قصر فلک نما آپ نے نو سال میں چالیس لاکھ روپیہ کے صرفہ سے تعمیر کروایا تھا.طبیعت سخاوت پسند تھی.کسی کو خالی نہ جانے دیتے تھے.پچاس یا سور و پہیہ سے کم دینے کے عادی نہ تھے.گو آپ کے تمول کے پیش نظر ایک سوروپیہ کی اعانت زیادہ حیثیت نہ رکھتی تھی لیکن اکثر رؤسا نے جو سلوک کیا تھا اس کے پیش نظر قابل قدرتھی اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس اعانت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا.گواحمدیت کے متعلق کسی مرحلہ پر بھی نواب صاحب کو کوئی خیال نہ تھا لیکن اس اعانت کے تعلق میں اللہ تعالیٰ نے بھی نواب صاحب موصوف کا قرض نہیں رکھا اور انہیں بے بہا مال و دولت کے رنگ
698 میں اس کا اجر دیا اور پھر مسلسل تیں سال سے حضرت عرفانی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ان کے خاندان کے لئے بطور محافظ حقوق مقرر فرمایا.حضرت ممدوح کے پیش نظر بھی نواب صاحب موصوف کی براہین احمدیہ والی خدمت ہی رہتی ہے.حضرت موصوف کے کام سے یہ خاندان بہت خوش ہے.اور بظاہر کبھی بھی وہ جدا کرنا پسند نہیں کرتے.سید غلام محمد خان صاحب نے اقبال نامہ صرف نواب صاحب کے مفصل سوانح پر تصنیف کی ہے.اور گنجینۂ آصفیہ میں بھی مصنف موصوف نے نواب صاحب کے سوانح درج کئے ہیں.ب ضلع بلند شہر کے جس رئیس کا حضور نے ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے ایک سورو پیہ براہین احمدیہ کے لئے بھیجا لیکن اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے.خاکسار کے نزدیک یہ رئیس نواب محمود علی خاں صاحب بہادر رئیس چھتاری ضلع بلند شہر تھے.اس کا علم رسالہ اشاعۃ السنہ سے ہوتا ہے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بعض رؤساء اسلام کی طرف مراجعت کی حضرت اقدس کو تحریک کی تھی جن میں نواب صاحب ممدوح کا نام بھی ہے.اور لٹریچر سے ان میں سے کئی ایک کو حضرت اقدس کی طرف سے تحریک کئے جانے کا علم ہوتا ہے.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب اشاعۃ السنہ جلد ۲ نمبر نہم و دہم بابت ستمبر اکتو بر ۱۸۸۰ء میں صفحہ ۳ پر تحریر کرتے ہیں: م - براہین احمدیہ کی معاونت کی نسبت ہم نمبر سابق میں بہت کچھ تر غیب دے چکے ہیں جس سے مسلمانان حامیان اسلام کے متاثر ہونے کی قوی امید ہے.اب ہم اس کتاب کے مؤلف مرزا غلام احمد صاحب کو ایک تدبیر فرا ہمی چندہ یا قیمت کتاب پر آگاہ کرتے ہیں وہ یہ کہ مرزا صاحب اس باب میں ان اعیان ورؤساء اسلام کی طرف مراجعت کریں جن میں اکثر ایسے اہل وسعت ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی صاحب توجہ کریں تو صرف اپنی ہمت سے بلا شر کت غیر کتاب کو چھپوا سکتے ہیں.آگے اس تدبیر کا کارگر ہونا خدا کے اختیار ہے.جس کی عظمت شان ہے.اللهم لا مانع لما اعطيت ولا معطى لما منعت حكايیت ہے.آں حضرات کے نام نامی یہ ہیں : ا نواب والا جاہ امیر الملک مولوی سید محمد صدیق حسن خان صاحب بہادرا میر ریاست بھوپال.۲ نواب محمود علی خان صاحب بہادر رئیس چھتاری ضلع بلند شہر.نواب محمد ابراہیم علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ.-
699 ۵- جناب خلیفہ محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ دام اقبالهم “ اشاعۃ السنہ کی طرف سے اس ذکر پر انہی ایام میں حضرت اقدس نے نواب صاحب چھتاری کو مدد کے لئے توجہ دلائی تھی چنانچہ حضور ۲۱ جون ۱۸۸۳ء کے مکتوب میں میر عباس علی صاحب لدھیانوی کو تحریر فرماتے ہیں: ابتداء میں جب یہ کتاب چھپنی شروع ہوئی تو اسلامی ریاستوں میں توجہ اور مدد کے لئے لکھا گیا تھا بلکہ کتا بیں بھی ساتھ بھیجی گئی تھیں.سو اس میں سے صرف ابراہیم علی خان صاحب نواب مالیر کوٹلہ اور محمود علی خان صاحب رئیس چھتاری اور مدارالمہام جونا گڑھ نے کچھ مدد کی تھی.“ گویا کہ حضرت اقدس نے جلد اول نواب صاحب کو ارسال فرمائی تھی.مزید تصدیق کہ ضلع بلند شہر کے یہی وہ رئیس ہیں جنہوں نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کر دیا تھا اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ دیگر معاونین کے اسماء تو حضرت اقدس نے شائع فرما دئے.اگر نواب صاحب چھتاری وہی رئیس نہ تھے تو ان کا نام کیوں نہ شائع فرمایا.بلکہ صرف ایک پرائیویٹ مکتوب تک ان کا ذکر محدود رکھا گیا.جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہی وہ رئیس تھے.ج - سردار عطر سنگھ صاحب رئیس لدھیانہ.ان کے متعلق چند سطور میں ایک نوٹ صفحہ ۳۸ میں دیا گیا ہے.راقم نے ذیل کے کوائف اور ان کی تصویر ان کے نبیرہ سردار گور دیال سنگھ صاحب سے حاصل کئے ہیں.آپ کا پورا نام مع القاب ملاذ العلماء والفضلاء.مہا مہو پادھیائے سردار عطر سنگھ صاحب کے سی.ایس.آئی رئیس بھڈ ور تھا.ولادت ۱۸۳۳ ء وفات ۱۸۹۶ء.اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے جن سے آپ نے بتیس ہزار بیگھہ اراضی اور پینتیس ہزار روپے کی جاگیر ورثہ میں پائی تھی.ریاست پٹیالہ کی طرح ان کی بھی ریاست تھی لیکن ۱۸۵۶ء کے بعد چھوٹے راجے جاگیردار قرار دے دئے گئے تھے.سردار عطر سنگھ صاحب کی مساعی سے خالصہ کالج بنا تھا.وہ کسی خاص فرقہ سے تعلق نہ رکھتے تھے.سردار گور دیال سنگھ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت منشی عمر الدین صاحب میرے دادا کے ۱۸۶۶ء سے ۱۸۹۶ء تک قریباً تمیں سال ملازم رہے.وہ دیانتدار ، مضبوط کیرکٹر کے مالک ، مذہب کے دلدادہ، ملنسار اور اپنے آقا کے بہت وفادار تھے.وہ لائیبریری جس میں حضرت منشی صاحب کام کرتے تھے سر موصوف کی وفات پران کی وصیت کے مطابق پبلک لائیبر میری میں شامل کر دی گئی تھی.
700 آپ کا شجرہ درج ذیل ہے.سردار کھڑک سنگھ رئیس بھڈور سردار سر عطر سنگھ موصوف سردار بھگونت سنگھ | راجہ ہر چند سنگھ سردار گور دیال سنگھ راجہ رام پر تاپ سنگھ راجکمار سمیرن سنگھ ( سابق کرنل) کپتان سردار پریت مُهند رسنگھ سردار بلونت سنگھ سردارنر پال سنگھ ( لا ولد ) میجر ریت مہندر سنگھ حال سیکرٹری چیف منسٹر پیسو حال ملٹری سیکرٹری سرکار پٹیالہ
ا: م م :[ ك: : 701 الفضل ۲۱؍ جولائی ۱۹۵۱ء صفحه ۲ حوالہ جات البحر الذ خارمسند البز از زیر عنوان مسند جابر بن سمرہ حدیث ابی برزہ اسلمی الفضل ۱۵؍ جنوری ۱۹۳۵ صفحه ۸ الفضل ۲۸ را گست ۱۹۴۱ء الفضل ۱۰ اکتوبر ۱۹۴۵ء صفحه ۲،۱ تذکر صفحه ۳۹۵ طبع جدید سیرت المہدی جلد ۲ حصہ چہارم صفحه ۴۵ سیرت المہدی جلد ۲ حصہ چہارم صفحه ۵۲ سیرت المہدی جلد ۲ حصہ چہارم صفحه ۵۲ تذکره صفحه ۴۸۰ طبع جدید ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۲۶ ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۲۶ روئیداد کانفرنس مذکوره صفحه ۹ تا ۲۰ ها: كا: ۲۳ ۲۴ روئیداد کانفرنس مذکوره صفحه ۱۷۵ مسئلہ جنازہ کی حقیقت صفحه ۳۲ الفضل ۲۱ جولائی ۱۹۴۳ صفحه ۳ ک ۳ مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۵۳۸ براہین احمدیہ جلد اوّل صفحه ۳۲۰،۳۱۹ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۴ صفحه ۴۶۸،۴۶۷ مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۵۷۸ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۵ مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۶۰۴ سیرت المہدی حصہ دوم روایت نمبر ۳۳۹ مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۲۴ مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۵۲۵
۲۸ ۳۰ ۳۳ مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۵۲۴ حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحه ۶۶ تذکرہ صفحہ ۴۶ حاشیہ طبع جدید مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۵۲۹،۵۲۷ تذکره صفحه ۴۷، ۲۸ طبع جدید حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحه ۱۲ حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحه ۱۱۰ مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۵۹۷ 702 ۳۵ ۳۸ رح کے رٹے رٹے رٹے رکھے ۲۵ : 2 ۵۰ : اشاعۃ السنۃ جلدے نمبر ۶، ۷، ۸ صفحہ ۷۲،۱۷۱ ابابت جون، جولائی ، اگست ۱۸۸۴ء ازالہ اوہام.روحامی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۲۷ مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۵۹۸ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۴۷ تا ۱۴۹ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۹۴٬۹۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۵۰ تا ۱۵۷ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۵۹،۱۵۸ القول الفضل صفحه ۶۴ القول الفضل صفحه ۶۴ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۰۳ الفضل ۱۴؍جون ۱۹۳۸ء آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۲۶ ، ۳۲۷ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۲۶ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۳۱ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۳۱ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۳۱ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۳۸ اه : آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۵۲٬۳۵۱ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴ ۳۵۵،۳۵ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۵۶،۳۵۵ آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۵۲٬۳۵۱ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۰۶،۶۰۵ : ۵۲ ۵۴ : ۵۵
703 آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۳۵۷ تذکره المهدی صفحه ۱۵۹ تا ۱۶۱ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۳۸ ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ا اصفحه ۳۲۴ ، ۳۲۵ ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۲۰،۵۱۹ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۳۸ جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۹۱ ۲۹۲ اصحاب احمد جلد اول صفحہ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۰۱ تا ۲۰۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۰۴،۲۰۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۶۲ ۵۶ : ۵۷ ۵۸ : ۵۹ ۶۴ ۶۵ JA آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۳۱ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۰۴، ۲۰۵ سیرت مسیح موعود مولفہ مولوی عبدالکریم سیا لکوئی صفحہ مکتوبات احمد.جلد دوم صفحہ ۲۰۷، ۲۰۸ اك : مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۱۰،۲۰۹ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۱۱ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۶۲۵ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۲۵ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۳۰ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۱۹ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۲۲ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۲۰ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۲۹ مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۱۶۷، ۱۶۸ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۹۶ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۲۷ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۵۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۴ ۲۵ بدر ۲۵ رمئی ۱۹۰۵ء :A.۸۲ ♡v:
AL 19 :91 ۹۲ ۹۳ ۹۴ تذکره صفحه ۱۹۰ طبع جدید مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۴۲ ۲۴۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۵۳ الفضل ۱۴ جون ۱۹۳۸ء الحکم ۲۴ دسمبر ۱۹۰۱ صفحه ۱۶ الحکم ۳۰ را پریل ۱۹۰۲ء صفحه ۱۲ الحکم ۱۰ اگست ۱۹۰۳، صفحه ۹ البقره:۸ 704 الذاریات: ۵۷ صحیح البخاری کتاب الادب باب الانبساط الى الناس مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۸۹ 94 مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۵۸ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۶۶ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۶۷ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۶۸ انا: مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۶۹ ۱۰۲ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۰۲ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۴۲ ۱۰۴ ۱۰۵ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۴۷ ۱۰۹ :11.: تذکره صفحه ۳۴۹ طبع ۲۰۰۴ء مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۸۶ بدر ۲۰ را پریل ۱۹۰۵ صفحه ۲ ک ۲ بدر ۲۷ را پریل ۱۹۰۵ء صفحه اک ۳ الحکم ۳۰ را پریل ۱۹۰۵ء صفحه اکا الفضل ۶ ارا پریل ۱۹۴۶ء الا : مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۵۹ مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحہ ۶۲۰.رسالہ تعلیم الاسلام دسمبر ۱۹۰۶ء الحکم ۲۰ رفروری ۱۸۹۸ء صفحه۱۰ الحکم ۱۰ر جولائی ۱۹۰۱ء الحکام ۴ ارستمبر ۱۹۰۰ صفحه ۹
705 الحکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۱۵ الحکم ۲۴ جنوری ۱۹۰۲ء ۲۸ فروری ۱۹۰۲ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۵۷،۵۵۶ مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۳۰۷ الحکم ۲۴ جون ۱۹۰۲ء التحام ۳۱ / جولائی ۱۹۰۲ء الحکم ۱۲۴ دسمبر ۱۹۰۲ء البدر ۲۴ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۸ البدر ۷/اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۳۱ البدر ۳ / جولائی ۱۹۰۳ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۱۷ تا ۶۲۱ الحکم ۲۴ جون ۱۹۰۳ صفحه ۱۲ مفهوماً الحکم ۲۴ جون ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۲ مفهوماً البدر ٫۵جون ۱۹۰۳ء صفحه ۱۵۵،۱۵۴ الحکم ۲۴ جون ۱۹۰۳ء صفحه ۱۳ الحکم ۷ ارمئی ۱۹۰۳ء صفحہیہ مفہوماً رسالہ تعلیم الاسلام دسمبر ۱۹۰۶ء الحکم ۱۰ر فروری ۱۹۰۵، صفحها مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۳۴، ۲۳۵ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۳۶ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۳۲ ۲۳۳ تذکره صفحه ۲۶۹ طبع ۲۰۰۴ء الحکم ۳۰ ستمبر ۱۹۰۳ء البقره: ۱۸۸ تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۳۴ ، ۴۳۵ الفضل ۱۴؍جون ۱۹۳۸ء مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۸۲٬۲۸۱ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۷۲ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۷۱ : : 7π: : JIA اده : آآه الله الله الله : ۱۲۵ VAT: 7: : امداد الله الله الله المها المده الرما : ۱۳۵ : ۱۳۷ ۱۳۸ : الدالله : الدال : الدا الده المها : الدله الله
706 الدم : ال : الدر : اله : ۱۵۰ NOT: HOT: 10T: ۱۵۴ ۱۵۵ 701: LOT: ۱۵۸ : ۱۵۹ :14+ : الله bhT: VLT: 7hT: hhT: OLT: الحديد مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۶۲ تا ۲۶۴ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۶۱ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۶۷ تذکره صفحه ۱۹۰ طبع ۲۰۰۴ء مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۰۰،۱۹۹ تذکره صفحه ۵۲۵ طبع ۲۰۰۴ء مشکوۃ المصابیح.باب نزول عیسی.الفضل الثالث تذکره صفحه ۵۳ طبع ۲۰۰۴ء تذکر صفحه ۵۳ طبع ۲۰۰۴ء تذکرہ صفحہ ۳۷ طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۵۲ طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۲۸۲ طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۱۳ ۵ طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۲۹ طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۳۰ طبع ۲۰۰۴ء حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۲۷ تذکرہ صفحہ ۷ ۲۷ طبع ۲۰۰۴ ، الحکم، ارجون ۱۹۰۳ء تذکره صفحه ۱۱ اطبع ۲۰۰۴ء تذکرہ صفحہ ۱۹۷ طبع ۲۰۰۴ء مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۱۷ تا ۳۱۹ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۲۱،۳۲۰ بدر مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۸ء سنن ابن ماجه کتاب النکاح باب خطبة النکاح كا: نوح ۲۷ اكل : هود : ۴ 179: : اولد 07: نوح: ۱۱ تا ۱۳ البقرہ:۱۱۳ النساء: ٢ الاحزاب : اے
707 679: : hT: 771: INT: •VT: AVT: ۱۸۴ ۱۸۵ 7VT: AV : ۱۸۸ 179 الاحزاب : ۷۲ الحشر : ۱۹ بدر مورخه ۲۷ فروری ۱۹۰۸ء صفحه ۲ ابراہیم : ۸ تذکره صفحه ۳۰ طبع ۲۰۰۴ء الحکم ۱۴ تا ۲۱.مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ج، د الفضل مورخه ۲۳ فروری ۱۹۴۵ء تذکره صفحه ۲۹ طبع ۲۰۰۴ء ضیاء الحق.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۲۳ تذکره صفحه ۲۲۷ طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۶۰۹ طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۵۸۴ طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۲۰۶ طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۲۲۷ طبع ۲۰۰۴ء بنی اسرائیل : ۳۷ الحشر :۳ الحشر : ١٠ ختم السجده: ۳۱ الحشر : 19 الحشر : ۲۰ بدر مورخه ۱۳/ دسمبر ۱۹۰۶ء الحکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۶ ، صفحہ ۷ بدر ۲۲ نومبر ۱۹۰۶ء صفحه ۲ بدر ۲۲ نومبر ۱۹۰۶ صفحه ۸ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۲۲ تا ۳۲۵ بدر ۱۳ مئی ۱۹۰۹ء صفحه ۲ ک ۳ تذکره صفحه ۱۱ طبع ۲۰۰۴ء : آقا 161: : ۱۹۲ : آماله اقاله تذکره صفحه ۲۳ طبع ۲۰۰۴ء حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۲۸ الفضل مورخہ ۰ ارجون ۱۹۱۵ء V6T: 769: ۲۰۲ : ۲۰۴ ۲۰۵
V.I: 7.J LJ: ۲۰۹ ا : ۲۱۱ ۲۱۲ له الله الد LII: 017: 7: ۲۱۸ : ۲۲۲ لله له لله الله : ۲۲۵ : ۲۲۷ : ۲۲۸ ۲۲۹ : ۲۳۰ آکا : ۲۳۲ الله لله الله ۲۳۵ تذکره صفحه ۴ ۸ طبع ۲۰۰۴ء الاحزاب : ۲۲ الذاریت : ۵۷ البقره: ۲۵۷ البقره: ۲۲۴ الاحقاف:۱۷ 708 حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۶ حاشیہ النساء: ۳۵ التحریم: صحیح البخاری.کتاب النکاح باب المراة رعية البقره: ۲۱۷ سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرة النساء الطلاق : الطلاق : ۴ النساء: ٢ النساء : ٢ صحیح البخاری.کتاب النکاح باب الترغيب في النكاح ( مفهوماً) بدائع الصناع في الترتيب الشرائع - جذ و اصفحه ۲۱۲.دارالکتاب بسنان ۱۹۸۶ء البقره: ۲۲۴ البقره: ۱۸۸ الاعراف: ۲۷ النساء : ٢ الاحزاب : اے الاحزاب : ۷۲ الاحزاب : ۷۲ الحشر : ۱۹ تحفہ بغداد.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۲ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۱۵ بعنوان ”عربی زبان میں ایک خط “ خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۲۵۹ تذکره صفحه ۲۵ ۵ طبع ۲۰۰۴ء
709 الفضل مورخہ ۷ ارجون ۱۹۱۵ء الفضل مورخه ۲۴ فروری ۱۹۱۷ء الفضل مورخہ ۲۷ فروری ۱۹۱۷ء تذکره صفحه ۳۸۴ طبع ۲۰۰۴ء براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۱۹ تذکره صفحه ۳ ۴۵ طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۶۰۴ طبع ۲۰۰۴ء تذکرہ صفحہ ۷۶ ۵ طبع ۲۰۰۴ء الحجرات : ۱۸ تذکر صفحه ۳۹ طبع ۲۰۰۴ء الحکم مورخه ۳۱ / مارچ ۱۹۰۵ء صفحه ۹،۸ رساله کشف الاختلاف صفحه ۱۳ ۱۴ ریویو آف ریلیجنز دسمبر ۱۹۰۸ء صفحه۴۸۰ البروج : ۱۱ الحکم مورخه ۲۱ تا ۲۸ جون ۱۹۱۲ء الحکم ۴ ار جولائی ۱۹۱۲ء صفحه ۳ الفضل مورخہ ۱۷ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۴ کالم ۳ الفضل مور محہ ا ار مارچ ۱۹۱۴ ء زیر عنوان آمد مهمانان النساء: ۴۰ الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۲ کالم ۱ تذکر صفحہ ۳۵۷ طبع ۲۰۰۴ء آئینه صداقت صفحه ۱۸۸ تا ۱۹۰ الحکم جو بلی نمبر دسمبر ۱۹۳۹ء بدرمورخہ بدر مورخه ۲ / جون ۱۹۰۸ ء صفحه ۶ بدر مورخه ۲ / جون ۱۹۰۸ء صفحه ۶ بدر مورخه ۲ /جون ۱۹۰۸ء صفحه ۱ الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ ا کالم ۱ الفضل اار مارچ ۱۹۱۴ء ، ۱۸؍ مارچ ۱۹۱۴ء الحکم ۴ ار مارچ ۱۹۱۴ صفحه ۱۰ الحج : ۴۸ الفضل ۱۸؍ مارچ ۱۹۱۴ء : ۲۳۷ : ۲۳۸ ۲۳۹ تکرا تمکده : ۲۴۲ : کدلد الله الله : ۲۴۵ ۲۴۶ : ۲۴۷ VJJ: ارکدها : ۲۵۰ 107: : ۲۵۲ : ۲۵۳ : ۲۵۴ ۲۵۵ ۲۵۶ 70]: : ۲۵۸ ۲۵۹ JhI: ThI: •LI: : ۲۶۳ : ۲۶۴ ۲۶۵
710 الحکم ۱۴ را پریل ۱۹۱۴ء صفحه ۹ منصب خلافت.انوار العلوم جلد صفحہ الفضل ۲۰ را پریل ۱۹۱۴ء.منصب خلافت.انوار العلوم جلد صفحہ الحکم ۴ ۱ اپریل ۱۹۱۴ صفحه ۹ ۱۰.الحکم ۲۱ را پریل ۱۹۱۴ صفحه ۷ ۸.منصب خلافت ابتدائی مسرورق اندرون الحکم ۴ اراپریل ۱۹۱۴ء صفحه ۲ الفضل ۱۳ فروری ۱۹۴۵ء صفحه ۱ الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۱۴ ء صفحه ۱ الحکم ۱۷ تا ۲۴ دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۱۳ الحکم ۳۰ دسمبر ۱۹۰۴ء الفضل ۱۸ را پریل ۱۹۴۵ء بدر ۸/جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۳ الحکم ۴ ار مارچ ۱۹۳۵ء سفر نامه ابن السبیل بحواله تاثرات قادیان صفحه ۸۴٬۸۳ ترندی کتاب البر والصلة باب رحمة المسلمين مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۰۶ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۰۹،۳۰۸ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۷۹ الحکم ۱۰ جون ۱۹۰۲ء مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۹۶ VLI 7hI: hhI: bhI: : 177: ۲۷۲ ۲۷۳ ۲۷۴ 773: : 077: V7: 529 IV : •VI: ۲۸۲ ۲۸۳ : ۲۸۴ OVI: : تذکرہ المہدی حصہ دوم صفحه ۳۸ الحکم ۱۴ اکتوبر تا ۷ / نومبر ۱۹۱۸ء ۲۸۷ موطا امام مالک کتاب حسن الخلق ما جاء في المهاجرة : ۲۸۸ ۲۸۹ : آگاه 167: ل کاله مکالمہ کاله ۲۹۵ البقره: ۲۸۰ بنی اسرائیل : ۱۶ تذکره صفحه ۶۳ طبع ۲۰۰۴ء سنن الترمزی ابواب البر والصلۃ باب ما جاء فی الشکر لمن احسن الیک محمد : ۵ فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد ۶ صفحه ۴۹۱ تذکره صفحه ۲۶۸ طبع ۲۰۰۴ء الحکم ۳۱ را گست ۱۹۰۳ء
711 ۲۹۶ ۲۹۷ : ۲۹۸ ۲۹۹ ** ۳۰۱ ۳۰۲ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۲۶ تذکره صفحه ۳۸۳ طبع ۲۰۰۴ء النساء : ۴۲ البقرة :١٠٣ الحکم ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۳، صفحه ۱۲۱ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۱۵ الحکم ۷ نومبر ۱۹۰۹ء صفحہ۴ ۳۰۳ ریویو آف ریلیجنز جلد ۹ صفحه ۸۰ ۳۰۴ الفضل ۱۹ ر ا پریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۷ ۳۰۵: الفضل ۲۶ را پریل ۱۹۲۳ صفحه ا ۳۰۶ ۳۰۷ ۳۰۸ : ۳۰۹ : ۳۱۰ : : ۳۱۲ : ۳۱۵ ۳۱۶ الفضل ۷ ارمئی ۱۹۲۳ء الشعراء:۲۱۵ الفضل ۱۹؍ جنوری ۱۹۲۶ صفحه ۲ مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحہ ۱۹۷ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۲۴ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۹۰ الاحزاب : ۲۴ صحیح مسلم کتاب الایمان باب ان الاسلام بدا غريباً وسيعود غريباً و انه يارز بين المسجدين الانسان : ۱۰ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۵۶، ۲۵۷ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۸۰ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۸۵ : ۳۱۷ ۳۱۸ ۳۱۹ : ۳۲۰ : ۳۲۱ : ۳۲۲ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۰۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۱۶۷ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۰۷، ۲۰۸ تذکرہ صفحه ۴۱ طبع ۲۰۰۴ء مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۱۳ ۲۱۴ ۳۲۳ : مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۱۵ : ۳۲۴ : ۳۲۵ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۲۲ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۲۷
۳۲۶ : ۳۲۷ : ۳۲۸ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۴۱ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۰۸ تا ۳۱۰ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۵۱،۲۵۰ : ۳۲۹ : ۳۳۰ ۳۳۱ ۳۳۲ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۵۲ مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۰۹ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۲۲ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۲۳، ۴۲۶ ۳۳۳ : الحکم ۱۰ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۶،۵ ۱۰/ ۳۳۴ : الحکم ۱۰ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۷ ۳۳۵ : الحکم ۲۸ مئی ۱۹۱۴ صفحه ۳ 712 ۳۳۶ : الحکم ۲۸ رفروری ۱۹۱۱، صفحه ۵ ۳۳۷ : الفضل ۴ جولائی ۱۹۲۴ء : ۳۳۸ : ۳۳۹ : ۳۴۰ : ۳۴۱ ۳۴۲ الفضل 9 جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ احاشیہ رپورٹ مشاورت ۱۹۲۳ءصفحہ سنن الترمذی کتاب العلم باب ما جاء الدال على الخير كفاعله الحکم ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۱ء تذکره المهدی صفحه ۲۴۸، ۲۴۹ ۳۴۳ : الحکم ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۲ء ۳۴۴ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۷۶ : ۳۴۵ : ۳۴۶ : الحکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۴ء مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۷۴ ۳۴۷ الحکم، ار جولائی ۱۹۰۴ ، صفحہ ۶ کالم ۴ : ء ۳۳۸ : الحکم ۱۰ را گست ۱۹۰۴ صفحه ا الحکم۰اراگست الحکم ۱۷ تا ۲۴ / جولائی ۱۹۰۴ء : ۳۴۹ : ۳۵۰ : ۳۵۱ البدر۱۷ تا ۲۴ را گست ۱۹۰۴ء صفحه ۶ الحکم ۱۷ تا ۲۴ اگست ۱۹۰۴ء صفحه ۶ کا ۳۵۲ : الحکم ۷ استمبر ۱۹۰۴ صفحه ۸ ۳۵۳ البدر یکم ستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۴ کا ۳۵۴: الحکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۷ ک۳ الحکم ۳۰ رستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۷ ک۳ ۳۵۵
713 ۳۵۶ : ۳۵۷ ۳۵۸ : ۳۵۹ : ۳۶۱ ۳۶۲ الحکم ۱۰، ۱۷ اکتو بر ۱۹۰۴ صفحه ۷ک ۴ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۰۴ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۱۲ الطلاق: الحکم ۲۱ جنوری ۱۹۰۹ء صفحه ۳ تا ۵ ریویو آف ریجنز نومبر ۱۹۱۱ء ریویو آف ریلیجنز اپریل ۱۹۱۲ء ۳۶۳ منصب خلافت.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۵۳ ۳۶۴ ۳۶۵ الفضل ۲۲ / اپریل ۱۹۱۴ صفحه ۸ الحکم سرمئی ۱۹۱۴ء صفحه ۱۰ ریویو آف ریجنز جنوری ۱۹۱۶ ، صفحه ۳۸ ۳۶۶ : سالانہ رپورٹ از یکم اکتوبر ۱۹۱۸ء تا ۱۳ ستمبر ۱۹۱۹، صفحه ۱۳ ۳۶۷ : نیبین :۸۴۲۸۲ : ۳۶۸ ۳۶۹ ۳۷۰ ۳۷۱ ۳۷۲ آل عمران : ۱۰۴ العصر يم حم السجد ہ:۳۱ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۹۴،۲۹۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۰۴،۳۰۳ : : ۳۷۴ : ۳۷۵ ۳۷۳ البدر یکم فروری ۱۹۰۵، صفحه ۳ اک ۳ ک۳ البقره: ۱۸۸ ترمذى كتاب الدعوات جاب عقد التسبيح باليد : ۳۷۷ : ۳۷۸ : ۳۷۹ : ۳۸۰ ۳۸۱ ۳۸۲ : ۳۸۳ ۳۸۴ : ۳۸۵ البقرہ: ۶۶ الكوثر الاحزاب : ۴۱ البقره: ۲۰۹ البقره: ۱۳۳ تفسير الكبير لا مام الفخر الرازى.تفسير سورة الفاتحه القسم الثاني الفضل الاوّل البقره: ۸۲ بنی اسرائیل: ۸۰ فتح الباری جزا اصفحه ۳۵۴۳۵۳ تذکره صفحه ۲۶۰ طبع ۲۰۰۴ء
714 ۳۸۶ ۳۸۷ : ۳۸۸ ۳۸۹ ۳۹۰ 16J: امه حاله تذکره صفحه ۶۵۹ طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۲۶۰ طبع ۲۰۰۴ء الذاریت : ۲۳ ۲۴ الاعراف: ۱۹۷ الطلاق: ۳ الطلاق: ۴ تذکرہ صفحہ ۳۳۷ طبع ۲۰۰۴ء ۳۹۳ : تذکره صفحه ۴۳۵ طبع ۲۰۰۴ء ۳۹۴ : الحکم ۲۴ / نومبر ۱۹۰۱ء ۳۹۵ : الحجرات : ۱۴ : ۳۹۶ 765: ۳۹۸ : ۳۹۹ ••J: 1.3: لرلد : ۴۰۵ 6.J V•J: 7.J: : تدالد لد الله : تراله : لا گرام شعب الايمان للبيهقى باب السابع و الخمسون من شعب الايمان فصل في طلاقة الوجه تذکرہ صفحہ ۳۳۷ طبع ۲۰۰۴ ء مفهوماً تذکره صفحه ۳۳۸ طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۲۷، ۲۸ مفهوماً آل عمران : ۵۵ الحکم ۳۰ رنومبر ۱۹۰۱ء الفضل ۱۵ جون ۱۹۳۸ صفحه ۲ بنی اسرائیل: ۳۰ آل عمران : ۱۰۴ آل عمران : ۱۰۷ تذکره صفحه ۵۶۸ طبع ۲۰۰۴ء مذاہب الرحمن - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۳۵ مکتوبات احمد جلد پنجم نمبر پنجم مکتوبات نمبر ۱۴۳/۷۲ تذکره صفحه ۳۳۴،۳۳۳، طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۳۴۰ طبع ۲۰۰۴ء المومنون : ۴ الحکم ۲۴ / مارچ ۱۹۰۲ء صفحه ۱۲ تذکره صفحه ۳۴۰ طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۳۴۹ طبع ۲۰۰۴ء 013: الله:
۲۱۸ : ۲۰ : ۲۱ : ۲۲ : ۲۳ : ۲۴ : ۴۲۵ : ۲۹ الحکم ۱۳ را کتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷ تذکره صفحه ۳۶۳ طبع ۲۰۰۴ ، مفهوماً تذکره صفحه ۳۶۶ طبع ۲۰۰۴ء تذکر صفحه ۳۶۶ طبع ۲۰۰۴ء المومن :۶۱ البقره: ۱۵۲ تا ۱۵۷ 715 چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳ تذکره صفحه ۳۴۸ طبع ۲۰۰۴ء چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۳۹ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۱۴ نزول مسیح صفحه ۱۱۹ تا ۱۲۲.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۷ ۴۹ تا ۵۰۰ نزول اسیح صفحه ۱۱۹ تا ۱۲۲.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۷ ۴۹ تا ۵۰۰ الفضل مورخه ۲۵ / دسمبر ۱۹۴۳ء الفضل مورخه ۹ رفروری ۱۹۴۵ء ۲۳۲ الفضل ۱۰ر فروری ۱۹۴۵ء الفضل مورخه ۱۴ / فروری ۱۹۴۵ء صفحه ۱، ۱۵ فروری ۱۹۴۵ء صفحه ا ۴۳۳ الفضل مورخه ۱۲ / فروری ۱۹۴۵ صفحه ۲ ۲۳۴ تذکره صفحه ۳۸۳ طبع ۲۰۰۴ء ۴۳۵ الفضل مورخه ۱۲ فروری ۱۹۴۵ء : ۳۶ : نوائے وقت ۳ / مارچ ۱۹۵۲ء.بحوالہ الفضل مورخہ ۴ / مارچ ۱۹۵۲ء : ۳۷ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۴۷ ۳۸ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۵۹ ۱۳۹ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۶۰ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۶۱ ۲۴۲ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۶۲ سیرت حضرت ام المومنین حصہ دوم صفحه ۴۰۱ تا ۴۱۹ ۴۴۳ الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۳۷ صفحه ۱۶ : ۴۴۴ : ۲۴۵ عبس : ۴۰،۳۹ ترمذی كتاب الرؤيا باب لهم البشري في الحيوة الدنيا
716 : ۴۸ : ۴۴۹ ۲۵۲ البقره: ۱۴۴ آل عمران : ۱۹ مسند احمد بن جنبل باب مسند انس بن مالک البدر ۸، ۶ ارجون ۱۹۰۴ء صفحہ ۳.الحکم، ارجولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰ البقره: ابراهیم : ۸ آل عمران: ۴۰ ۴۵۳ : تذکر صفحه ۱۹۷ طبع ۲۰۰۴ء ۲۵۴ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۵۹،۱۵۸ : ترندى كتاب البر والصلة باب رحمة المسلمين مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۰۶ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۱۳ ۲۵۸ : ۵۹ ۶۰ ۶۱ ۶۲ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۷۸ النور : ٢٣ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۷ ۲۸۸،۲۸ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۲۷ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۴۵ ۴۶۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۵۷ ۲۶۴ سیرت حضرت ام المومنین حصہ دوم صفحہ ۱۶۷، ۱۶۸ ۴۶۵ : الحکم ۷ ۱۴ رمئی ۱۹۴۳ء ۶۶ بدر ۸/اپریل ۱۹۵۲ء صفحه ۸ ۴۶۷ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۱۶ ۶۸ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۰۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۰۴ ازالہ اوہام صفحہ ۷۷۴ تا ۷۷.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۲۰،۵۱۹ ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۲۶ ، ۵۲۷ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۶۲ ۴۷۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۰۴ ۴۷۴ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۲۴ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۱۰ ۲۷۵
717 الحکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۴ 124 مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۸۳ ۲۸۴۰ ۴۷۸ : الانعام: ۱۶۳ 129 مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۵۹،۱۵۸ مشکواۃ المصابیح.باب مناقب الصحابه صفحه ۵۴۴ طبع آرام باغ کراچی کتاب الزہرا بن ابی عالم جلد نمبر اصفحه ۳۸۵ التوبه : ۱۰۴ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۵۸ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۶۱ المائده: ۹۴ مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۱۶۷ تذکره صفحه ۱۹۰ طبع ۲۰۰۴ء مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۰۰،۱۹۹ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۱۱ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۲۶ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۲۸ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۳۰ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۲۹ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۴۰ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۳۴ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۳۶ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۳۹ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۳۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۵۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۴۱ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۵۴ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۵۶ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۵۷ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۶۶ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۸۹ : ۲۸۲ ۴۸۴ : ۲۸۵ : 1090 ۲۹۲ : ۲۹۳ ۴۹۴ : ۹۵ ۲۹۷ : ۹۹ : ۵۰۰ 1+0: : ۵۰۲ ۵۰۳ ۵۰۴ ۵۰۵
718 مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۲۶۷ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۷۰ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۸۰ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۸۲ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۷۱ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۶۴،۲۶۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۷۶ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۸۵ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۹۲،۲۹۱ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۹۶ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۹۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۰۳ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۰۵ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۴۱ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۸۵ ۵۰۶ 7.0: : ۵۰۸ ۵۰۹ 110: +10°: : ۵۱۲ : ۵۱۳ : ۵۱۴ : ۵۱۵ : ۵۱۶ : ۵۱۷ : ۵۱۸ : ۵۱۹ : ۵۲۰
۶ ۲۸ 1 آیات قرآنیہ احادیث نبوی اشاریہ اصحاب احمد جلد دوم مرتبه : عبدالمالک الہامات حضرت مسیح موعود اسماء مقامات
البقرة آیات قرآنیہ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَ تَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۱۹۶، ۵۰۵،۲۸۸ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيْمَانِكُمْ فَذُوقُوا مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ ۲۳۸ ۲۸۳ الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ وَامَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتُ وُجُوهُهُمُ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَلِدُون ۵۶۳ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَاتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ شَهِدَ اللهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَئِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ ۲۸۵ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۶۴۸ عَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَنْ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ ۲۸۶ افَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَبِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۳۸۴ فَاذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ مَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ ۴۱۱ ۴۲۵ النساء يأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُب الله اُدْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً يبَنِي....فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ وَأَحَاطَتْ بهِ خَطِيئَتُهُ ۵۱۱ ۵۱۶ ۵۲۴ وَاحِدَةٍ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا ۲۸۸،۲۳۸ ۲۸۸،۲۵۹ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسْفِحِيْنَ ۲۸۵ الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ ۲۸۶،۲۷۳ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي وَكَذَلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَإِنْ تَنَازَعْتُمُ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۶۴۸ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا الانعام ال عمران قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ۵۱۰ قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ۳۵۹ ۴۲۵ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ وَكَذَلِكَ نُوَلِي بَعْضَ الظَّلِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنَعْمَتِةٍ إِخْوَانًا ۵۶۳ يَكْسِبُونَ ۱۷۲
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الاعراف المومنون هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ النور ۵۷۰ وَّرِيشًا يوسف لَتُنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۱۷۲ يُبَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْ اتِكُمْ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْ كَرَ فِيهَا اسْمُهُ الرعد إِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ.۲۸۸ 12.۲۱۴ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا اَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ الفرقان قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ ۶۶۱ ۷۹ ง ط الشعراء ابراهيم لَئِن شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمُ النمل فُلْكِ الْمَشْحُونَ ۱۲۹ ۶۵۵،۲۴۵ وَانْذِرُ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ۴۳۰ الاحزاب سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُو اللَّهَ وَقُولُوا قُوَّلًا سَدِيدًا الْمُكَذِّبِينَ الحجر إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ ۴۱۳ ۲۵۸ يُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ مِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ ۲۸۹،۲۳۹ ۲۳۹ ۴۴۳ بنی اسرائیل لا تَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٍ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا ۲۵۶ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبيِّنَ حم السجدة وَلَا تَجْعَلُ يَدَكَ مَغْلُولَةٌ إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطُهَا إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا الحج ۵۵۹ إِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ ۳۶۸ ۵۱۱ ۲۵۸ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ إِلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ ۵۰۱
الاحقاف وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا محمد حَتَّى تَضَعَ الْحَرُبُ أَوْزَارَهَا الحجرات ۲۸۵ ۴۱۵ التحريم يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا ۲۸۶ نوح رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارًا ۲۳۴ إِسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا لا يُرْسِلِ السَّمَاءَ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوا قُلْ لَّا تَمُنُّوا عَلَيَّ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَكُمْ لِلِإِيْمَانِ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ جِنْتٍ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ أَنْهَارًا ٢٣٦ إن كُنتُمْ صَدِقِينَ الذريت مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ الحديد ۲۸۳ الجن فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا هُ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولِ المدثر ۱۹۸ ۳۱ الَمُ يَان لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ ٣١ الحشر يُخْرِجُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ۲۵۷ ۲۵۸ المؤمن ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ الدهر ۶۹۱ ۴۴۴ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ الطلاق لا ۲۹۰،۲۵۸ ،۲۴۰ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا هُ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا يَرُزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۴۸۹ ،۹۰ ۲۸۷ ۲۸۷ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَّلَا شُكُورًا البروج إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ ۳۱۳ العصر تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ الكوثر إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَهِ فَصَلَّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُه إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْابْتَرُه ۵۱۰
احادیث نبوی طلب العلم فريضة على كل مسلم و مسلمة تناكحوا او توالدوا ۵۵ ارْحَمُوا مَنْ فِي الارض تُرحموا في السماء ۲۸۸ اطلبوا العلم ولو كان بالصين من عادى و لِيَّالِي فقد اذنته بالحرب يخرج المهدى.......وبلادهم لا يشكر الناس لا يشكر الله يا أبا عمير ما فعل النَّغَير خير كم خيركم لاهله ارحنا یا عائشه ۵۶ من لم يشكر الناس لم يشكر الله ٦١ | يضح الحرب ۳۹۷ ۴۱۵ ۴۱۵ ١١٩ | بدا الاسلام غريباً وسيعود غريباً م م م ۱۲۲ فطوبى للغرباء المهاجرين ۲۸۶،۱۸۷ | الصلوة معراج المؤمن ١٩٣ | الناس على دين ملوكهم لولاک لما خَلَقْتُ الا فلاك ۲۱۴،۲۹۲ | الاقتصاد نصف المعيشة يتزوج ويولدله جف القلم بما هو كائن ۲۱۴ | الاعمال بالنيات ٢١٩ | المؤمن يرى و يرى له كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته ۲۸۶ | اصحابی کالنجوم بايهم اقتديتم اهتدتم النكاح سنتي فَمَن رغب عن سنتي فليس مني ۴۵۸ ۵۱۷ ۵۴۳ ۵۴۵ ۵۵۱ ۶۴۶ ۶۷۶ ۲۸۸ | المسلم مراة المسلم ۶۷۷
الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عربی خُذُوُا التَّوْحِيْدَ يَا أَبْنَاءَ الْفَارِسِ يُجيءُ الْحَقُ وَ يُكْشَفُ الصِّدْقُ وَيَخْسَرُ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ الْخَاسِرُونَ.يَاتِي قَمَرُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَمُرُكَ يَتَأْتِي.مُعَمَّرُ اللهِ إِنَّ رَبَّكَ فَعَالٌ لِمَا يُرِيدُ اِطَّلَعَ اللَّهُ عَلَى هَمِّهِ وَ غَمِّهِ ۶۷ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلَّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.قُلْ قُوْمُوالِلَّهِ قَانِتِينَ إنِّي مُهِينٌ مَّنْ اَرَادَ إِهَانَتَكَ مَا أَهْلَكَ اللهُ اَهْلَكَ ۶۸۲۲۱۲۱۰۵ ۱۰۷ 1+9 عَمَّرَهُ اللَّهُ عَلَى خَلَافِ التَّوَفَّعِ أَمْرَهُ اللَّهُ عَلَى خِلَافِ التَّوَفَّعِ أَأَنْتَ لَا تَعْرِفِينَ الْقَدِيْرَ اللهُ خَيْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ مُرَادُكَ حَاصِلٌ ۲۱۹ ۲۶۰،۲۵۳ ۲۵۳ ۲۵۴ ۲۵۴ ۲۵۴ ۲۵۴ ۲۵۴ 1+9 وَقَادِرٌ عَلَى الاجْتِمَاعَ وَالْإِجْمَاعِ وَالْجَمْعِ ١٠٩ يوم الاثنين....يا يوم الاثنين إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ قُتِلَ خَيْبَةً وَزِيدَ هَيْبَةً فَبِأَيِّ عَزِيزِ بَعْدَهُ تَعْلَمُونَ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزَلَةِ تَوْحِيدِي وَ تَفْرِيرِى جَرِيَّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْإِنْبِيَاءِ يُحْمَدُكَ اللَّهُ مِنْ عَرْشِهِ الْأَرْضُ وَالسَّمَاءُ مَعَكَ كَمَا هُوَ مَعِى اَشْكُرْ نِعْمَتِي رَأَيْتَ خَدِيجَتِي ١٣٩ كتب الله لا اغلبن انا و رسلى ١٦١ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلاكَ ۱۹۲ ۲۱۴ ۲۱۴،۴۱۵ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصّهْرَ وَالنَّسَبَ ۲۱۴ ۲۱۴ ۲۱۴ ۲۸۱ ۲۸۳ ۲۹۲ إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ اليْكَ بَغْتَةً انى مع الله الكريم ٣٠٢ يَنْصُرُكَ اللهُ مِنْ عِنْدِهِ.يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِى إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ إِنِّي مَعَكَ وَ مَعَ اَهْلِكَ جَزَاءُ سَيِّئَةِ بِمِثْلِهَا وَتَرُهَقُهُمْ ذِلَّةٌ حُجَّةُ الله ۳۵۴ ۶۳۰،۴۴۵ ۲۱۴۲۴۷ يَوْمَ تَأْتِيكَ الْغَشْيَةُ يَوْمَ تَجْزِى كُلَّ نَفْسٌ بِمَا تُنَشَاءُ فِي الْحِلْيَةِ ۲۱۵ قَدَّمَتْ ۴۳۷
۶۰۳ كل العقل في لبس النظيف و اكل اللطيف يَاتِي عَلَيْكَ زَمَنٌ كَمِثْلِ زَمَنِ مُوسَى ۴۴۴ إِنَّهُ كَرِيمٌ تَمَشَّى أَمَامَكَ وَعَادِى لَكَ مَنْ عَادَى وَوَشِعَ مَكَانَكَ ۴۵۱،۴۴۹ إِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأنْفُسِهِمْ مَنْ ذَالَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۵۳۳ | إِنَّكَ أَنْتَ الْمَجَازُ ۶۰۳ ۶۱۱۶۱۰ ۶۱۲۶۱۱۶۱۰ لَمْ يُبْقِ لَكَ فِي الْمُغْزِيَاتِ ذِكْرًا ۵۶۶ يَاتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ وَ يَاتُوْنَ مِنْ كُلَّ فَجٍ قَرُبَ أَجَلُكَ الْمُقَدَّرُ وَلَا نُبْقِى لَكَ مِنْ عَمِيقٍ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا قَلَّ مِيْعَادُ رِبِّكَ وَلَا نُبْقِی لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ شَيْئًا قَرُبَ أَجَلُكَ المُقَدَّرُ ۵۶۷٬۵۶۶ إِنَّ ذَا الْعَرْشِ يَدْعُونَ وَلَا نُبُقِى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا يَعْصِمُكَ اللهُ مِنْ عِنْدِهِ وَهُوَ الْوَلِيُّ الرَّحْمَنُ أَيَّامُ غَضَب الله غَضِبْتُ غَضَبًا شَدِيدًا ۶۱۷ لَا تُصَعِرُ لِخَلْقِ اللهِ وَلَا تَسْتَمُ مِّنَ النَّاسِ ۶۵۸ داغ ہجرت اردو ۵۶۷ ہمارے باغ میں ایک بلند شاخ سرو کی کاٹی گئی...درد ناک دکھ دردناک واقعہ ۱۲۰ ۱۶۱ ۱۹۷ ،۲۰۸ ۵۶۷ عزیزه سعیده امتہ الحمید بیگم صاحبہ کے ہاتھ میں دس روپیہ سفید اور صاف ہیں.......۵۶۸۵۶۷ | ایک دعا کے وقت کشی طور پر مجھے علوم ہوا کہ آپ ۵۶۹ ۵۶۹ میرے پاس موجود ہیں......۲۰۵ ۲۹۵،۲۱۰ إِنَّهُ يُنَجِّيَ أَهْلَ السَّعَادَةِ إِنِّي أُنْجِي الصَّادِقِينَ لَوْ لَا الْإِكْرَامُ لَهَلَكَ الْمُقَامُ يَاتِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَيْسَ فِيْهَا أَحَدٌ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ۲۱۴ آسمان پر سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر ۵۶۹ بچھایا گیا ۵۶۹ جس سے تو بہت پیار کرتا ہے میں اس سے بہت پیار کروں گا اور جس سے تو ناراض ہے میں اس سے ناراض ۵۷۸،۵۶۹ | ہوں گا.إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ ۶۱۲۵۹۰ مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ ایسی آئی جس نے سَلَامٌ عَلَيْكَ يَا إِبْرَاهِيمُ سَلَامٌ عَلَى أَمْرِكَ صِرْتَ فَآئِزًا ایہہ مصیبت پائی ۵۹۷ دخت کرام ۲۱۴ ۲۱۴ ۲۱۵ ۲۱۸،۱۸۲
تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر دوشنبہ مبارک دوشنبہ پوری کروں گا.....ستائیس کو ایک واقعہ ۲۲۵ میں نے دیکھا کہ اپنی جماعت کے چند آدمی گشتی کر رہے ہیں.یہ بھی دیکھا کہ گھر میں ہمارے ایک بکرا ذبح ہوا خداد و مسلمان فریق میں سے ایک کا ہوگا کھال اُتاری ہوئی ایک جگہ لٹک رہا ہے..۲۲۵ طوفان آیا وہی طوفان شر آئی نواب.مبارکہ بیگم ۵۴۶،۲۴۹،۲۴۱ ہمیں خدا تعالیٰ نے عبدالحق کی یاوہ گوئی کے جواب میں نے دیکھا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم آ رہے ہیں.میں بشارت دی تھی کہ تجھے ایک لڑکا دیا جائے گا.میں ظالم کو ذلیل اور رسوا کروں گا اور وہ اپنے جس کا نام شریف احمد رکھا گیا.۲۵۳ جب یہ پیدا ہوا تھا تو اس وقت عالم کشف آسمان پر ایک ستارہ دیکھا تھا جس پر لکھا تھا معمر الله ۲۵۴۲۵۳ ہاتھ کاٹے گا.آج رات ایک کشف میں آپ کی تصویر ہمارے ۲۸۱ ٣٠٢ ٣٠٢ ٣٠٢ ٣٠٣ ۴۲۱ ۶۳۰،۴۲۵ ۴۶۹ ۵۰۲ ۵۲۸ سامنے آئی.شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی غلام احمد کی جے ہوئی ہے.۲۵۴ چند سال ہوئے ایک دفعہ ہم نے عالم کشف اسی لڑکے شریف احمد کے متعلق کہا تھا کہ اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں.۲۵۴ قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بنادے..کون کہہ سکتا ہے کہ اے بجلی آسمان سے مت گر.
۴۱۲ ۱۵۴ ۶۲۲،۴۳۳،۴۰۹ ،۴۰۸ ۵۳۰ آ الف اسماء ۴۶۲ ،۸۰ ،۷۵ ،۷ ۷۰ ،۶۹،۶ ابوطالب ابو ہریرہ احسان علی خان ، میاں احسن بیگ مرزا احسن علی خاں ۴، ۱۱۴،۸، ۴۲۶،۴۱۴،۴۳۰،۱۱۵ ۲۷۲ ۶۴۵ ۵۳۰،۵۰۷ ،۴۱۳،۵۸ ۶۴ ۴۲۳ ۲۶۸،۱۳۷ ،۱ ۴۹۶،۴۰۹ ،۲۷۱ ۲۷۰ ۴۹۷ ۸۴ ۴۴۲ ۴۲۸ ۶۸۰،۶۷۹،۲۸۵ ۵۳۰ احمد الدین ،منشی احمد اللہ خاں، حافظ احمد بیگ، مرزا احمد جان لدھیانوی احمد حسین وزیر آبادی ، ماسٹر آ تمارام ( مجسٹریٹ ) ۶۴۵،۶۳۸ ،۵۲۸ ،۴۴۸ ،۲۱۴ ۳۱۵،۲۸۷،۲۸۴،۲۵۹ ،۴۱ ۴۲ ۱۲ ۶۹۷ ۵۲۳ آدم آذر آرنلڈ آسمان جاہ بہادر، نواب آل احمد ، قاضی ابراہیم ابراہیم ۲۵۹،۴۲، ۲۸۵ ، ۲۸۷، ۳۸۳،۲۸۸، احمد شاہ درانی ۵۴۳،۵۳۷،۵۱۶ ابراہیم علی خاں ، نواب ۲۱،۶،۴ ،۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ احمد علی خاں ، نواب ۶۱۳،۴۳۱،۴۰۹،۱۳۷ احمد نور کا بلی ،سید ابن کثیر ۷۶،۷۰ اختر لونی، جنرل ابوالحسن تبتی ، مولوی ۴۲۱ ایڈون سموئیل مانٹی ابوالکلام آزاد، مولانا ابوالنصر آه، مولانا ۱۰۲ ارون ، لارڈ ۱۰۲، ۱۱۹ اسحق ابو بکر ۴۲،۴۱ ، ۴۵، ۵۵۸،۵۳۹،۴۵۵،۳۵۹ اسلم بیگ، مرزا
11 اسماعیل ۲۸۵ ام طاہر، سیده ۶۲۳ اسماعیل جلد بند ۵۸۳،۵۷۳ | ام متین سیده ۶۴۵،۱۲۰ اسماعیل معمار ۴۶۵ ام ناصر ، سیده اعظم بیگ، مرزا ۵۳۰،۵۲۹ الفضل کے اجراء پر زیور عطیہ کرنا ۲۱۶،۱۰۴ ۴۶۹ افتخار علی خاں، نوابزاده ۶۲۱ ام وسیم ، سیده ۲۶۶ افضل بیگ مرزا ۵۴۹٬۵۳۰ | امام الدین، مرزا ۵۲۹،۱۰۹ افضل حق ، چوہدری ۴۲۸ امام بخش ۶۷۳ اقبال الدولہ، نواب امام بخش ، سردار ۴۴۳ اکبر الہ آبادی ۴۲۸ امام حسین اکبر یار، جنگ نواب ۴۴۳ امتہ الحفیظ بیگم صاحبزادی ۲۶۶، ۲۷۳،۲۷۲،۲۶۹ اکرم بیگ، مرزا ۵۳۰،۵۲۹،۵۱۷ الطاف علی خاں، نوابزادہ ۶۲۱ الو ۵۲۳ آپ کا مہر نامہ ۲۸۶،۲۸۲،۲۸۱،۲۷۹ ، ۲۷۸ ،۲۷۷ ،۲ ۶۳۱،۳۶۰،۲۹۶،۲۹۵ ،۲۹۴ ، ۲۸ ۲۸۱ اللہ بخش ۵۲۹،۵۲۳،۵۲۲،۴۶۳ امة الحمید بیگم ،۲۰۷ ، ۲۰۵ ،۱۹۹ ،۱۹۳ ،۱۳۲ ۶۲۶،۵۸۵،۲۲۱،۲۱۹ ۶۹۰،۲۰۴،۲۰۳ ۶۲۳ ۵۸۶،۱۵ ۶۹۰،۲۰۷ ،۲۰۳ ۱۳۷ ۵۵۷،۳۴۶ اللہ داد کلرک اللہ دتا معمار، حافظ اللہ رکھا ، حاجی ۱۴۲ ۶۰۱۷۴۷۴ امتہ الحمید بیگم، صاحبزادی ۵۲۳ امتہ الحی ، سیده الہی بخش ۴۰۳ امۃ السلام الہی بخش اکا ؤنٹنٹ ۳۰۵ امته النصیر، صاحبزادی ۴۴۰ امیر الدین خان، نواب ۶۳۶،۶۱۳ ۱۲۴ | امیر حسین ، سید اینڈرسن ( کمشنر ) الیگزینڈر اینڈرسن ام حبيب
۱۲ انوار حسین خاں ۵۵۰ بلیک ( گورنر ایچی سن کالج ) اوصاف علی خاں، کرنل ۲۱۰، ۴۰۸ ، ۴۶۹،۴۳۵، ۶۲۷ بو اللہ جوائی ۱۸ بوزینب اور نگریب ( شہنشاہ ) اولیس قرنی باقر علی خان بایزید بسطامی با یذید خان بخاری ، امام برکت شاہ ، میاں ۵۶ ۶۲۸ ،۸،۴ ۷،۲ ۱۲ ۲۶۱،۲۵۹،۲۵۸ ،۲۵۲۰ ۲۵ ۱ ۳۱۹،۲۹۳،۲۷۶،۲۷۲،۲۶۵ ،۲۶۴،۲۶۳،۲۶۲ ۶۶۷،۵۸۵،۴۶۹ ۴۳۲،۴۰۸ ،۱۹۱،۱۸۸ ،۱۲۱ ،۱۱۱ بوفاطمه آپ کی قبول احمدیت آپ کی وفات بہادر خاں بھگت رام ساہنی، ڈاکٹر ۶۴ بہلول لودھی برہان الدین جہلمی ، مولوی ۵۳۲٬۵۷ پھیکن خان ، نواب ۴۳۱ ۴۳۳ ۶۷۱۶ ۴۴۳ ۵۸۹ ۱۴۶ ۳۹۵ بسم اللہ ۲۵۱ پ.ت.ث بشیر ۶۸ پائندہ خان ، راجہ بشیر احمد ، صاحبزادہ مرزا ۲۷۲،۲۲۲،۲۱۹،۱۲۹،۳۰، ،۳۶۵،۳۶۱،۳۶۰،۳۵۴،۳۵۳، ۳۴۸ ،۳۰۴،۳۰۳ ،۴۶۰،۴۴۳،۴۳۰،۳۸۸ ،۳۷۸،۳۷۷ ،۳۷۱،۳۶۶ ۶۰۶،۵۹۶،۵۹۱۰۵۹۰، ۵۷۲،۵۵۱،۴۶۸ تکاپر ( دایہ) تاج الدین ،منشی ٹی.ایل.پینل ، ڈاکٹر ثناء اللہ امرتسری، مولوی ۶۹، ۱۳۷، ۴۳۱ ۵۸۱،۴۳۴۰ ۲۴ ۲۶۸،۲۶۶ ۴۸۴ ۵۸۹ بشارت احمد ایڈووکیٹ ،سر ۶۵۵ جان محمد ، مولوی بشارت احمد ، سید بشیر احمد ، مولوی ۴۳۲ جعفر علی خاں جمال الدین ، خواجہ بلونت سنگھ سردار ۴۱۷ جمال الدین سیکھوانی
۵۷۷،۵۷۱،۵۶۱،۵۴۹ ،۵۴۵ ، ۴۸۱،۴۷ ۴،۴۶۳ ۶۸۶،۶۸۲۶۸۰،۶۳۶،۶۱۸ ۶۴۲ ۴۳۱ ۶۲۲ ۴۷۵ ۴۶۳ ۲۸۵ ۵۳۴ ۴۱۶ ۹۰ ۴۱۷ ۱۳ جمال خان ، نواب جمیل بیگ، مرزا ۷،۲،۳،۲ ۴۷۳ جیمز ولسن ، سر ( فنانشل کمشنر ) ۴۸۳ خدیجه جیوا ، میاں ۶۴ خواجه علی ، قاضی چراغ دین ، میاں ۲۴۲، ۳۴۶ ، ۵۸۰ خورشید علی خاں، نوابزده ۳۴۶ خیر الدین خان ۳۹۴ و.ڈ.ذر دائی داور دارد، حافظ دونی چند ( پلیڈر ) ۱۳۷ ۱۷ چھجو خان، چوہدری حاکم حاکم علی کانسٹیبل حالی (الطاف حسین ) حامد شاہ ، میر حامد علی ، حافظ حسام الدین حکیم میر حسن ، امام حسن علی ، ڈاکٹر ۳۷۸،۳۶۱،۴۳۸ ،۳۱۷ ، ۵۸ ۲۵ ۵۹۵ دین محمد ملتانی، حکیم ۴۴ دیوی پرشاد، لاله ۳۸۱،۳۸۰ | ڈکسن حسین ، امام ۳۵،۱۶، ۴۱ ۵۴۲،۴۴ پگلسن ، کپتان حسینی بیگم ۵۴۴،۵۴۱ 1+2 ڈوئی، ڈاکٹر ۵۶۵،۵۵۰،۵۴۸،۵۴۵،۵۳۹،۵۳۸ ۲۵۱ | ذوالفقار علی خاں، نواب ۱۸،۱۳،۱۰،۸،۴ ۶۶۰،۶۲۲۶۲۱ ۴۴۰،۴۳۰،۳۳۰ ۲۰۶ ۲۴۲،۲۲۹،۶۷ ۴۱۷ ۵۴۶ رابعہ بصری رجب الدین، خلیفہ رجب علی ، مولوی ۱۹۳ ۱۰۴،۱۰۳،۸۰ ،۷۹،۵۰،۳۸ حلیمه حمید النساء بیگم خدا بخش مرزا ۱۴۷ ،۱۶۴،۱۴۲،۱۳۷ ، ۱۲۴ ، ۱۱۲،۱۰۹ ، ۱۰۸ ، ۱۰۷ ،۱۰۵ ۳۹۸،۲۷۵،۲۶۵،۲۴۳،۲۲۶،۲۱۲،۱۹۱،۱۵۷ ،۱۵۶ ۲۰۰،۳۹۹ ،۴۳۷ ، ۴۵۳۰۴۳۸ ۴۰ ۴۵ ۴۵۶، ۴۵۷ رحمت اللہ بیگ، مرزا
۶۲۳ ۴۷۷ ، ۴۰۴ ، ۱۱۹۰۵۷ ۶۶۳ ۴۷۳ ۴۷۴ ۲۵۵ ساره بیگم، سیده سراج لحق نعمانی ، پیر سراج الدین عیسائی سردار علی ، سید سروانی سعادت علی ، سید سعدی، شیخ سیش ۱۴ ۳۳۳،۳۳۱،۳۱۸،۲۴۲،۱۵۱ رحمت اللہ ، شیخ ۵۴۷ ،۳۸۵،۳۶۵،۳۵۸،۳۵۶،۳۵۵،۳۵۰ ۶۰۹،۶۰۷ ،۶۰۶،۵۵۳،۵۴۹ ۴۷۴ ۲۵۱ ۱۵۱،۸۶،۶۹ ۴۳۵ ۳۵۴،۱۵۲،۵۱ رحمت اللہ گاڑی بان رحم دین رحیم بخش رستم علی ، چوہدری رشید احمد خان میاں رشید الدین ، ڈاکٹر خلیفہ ۴۶۶،۴۶۵،۳۷۸ ،۳۷۷ ،۳۷۶،۳۷۵،۳۵۸ ۶۱۸،۶۱۳،۵۴۷ ، ۴۹۵ ، ۴۹۴ سعید احمد خاں، میاں ۴۳۶ سکندر ۴۱۵ سکندر جاه، نظام ۶۹۷ ۵۴۹ سکندر علی خان، نواب ۶۹۷ سلطان احمد، صاحبزادہ مرزا ۶۲۱ ۲۵۱ سندر مستری ۲۱۰ سیدا ۴۳۵،۶،۴ ، ۴۴۰،۱۳۷ ۶۲۲،۴۸۵،۴۸۴ ۵۹۴،۴۶۵ ۵۲۳ سید احمد بریلوی ۳۹۵ سید احمد خاں ،سر ۵۴۰،۵۳۹،۳۸۲،۲۱،۲۰،۱۹،۱۸ ۳۲۴ | شادی خاں ۶۱۵ 1 آپ کا نکاح رشیدالدین خان، نواب رشید علی خاں، نوابزاده رفیعه رضیہ بیگم روشن علی ، حافظ ۲۴۷، ۳۸۶،۳۸۵، ۵۲۰،۳۸۸ ریاض الدین ، مولوی زمان شاه ، حکیم رض زین الدین زین العابدین، قاضی ۶۵۸ شاه حسین ۵۲۷ شاہ محمد غوری ۴۶۴ شاه سلیمان
۱۵ شاہجہاں شرمپت رائے ، لالہ شریف احمد ، صاحبزادہ مرزا ۲۱۹،۲۱۴،۱۹۱،۱۲۹ ۲ صفدر علی ، مرزا ۶۵۶،۶۱۵،۵۳۵،۵۳۴،۵۲۲،۱۹۱ ،۲۶۱،۲۶۰،۲۵۹۰۲۵ ۷ ، ۲۵۴،۲۵۳،۲۵۲،۲۵۱،۲۲۲ ،۳۶۵،۳۶۱،۳۵۶،۳۵۴،۳۵۳،۳۱۹،۲۷۷ ،۲۷۲ ۵۷۲،۵۵۱،۳۸۸،۳۷۶،۳۷۵،۳۷۴،۳۷۱،۳۷۰ b-b طفیل حسین ظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا ۱۷۵ ۴۹۴۲۷۳ ۶۹۷ ۲۴۷ ،۱۹۳ ۵۰۷، ۴۳۵ ۳۴۸ ۱۷۵ ظہور علی وکیل عائشة عائشہ عابد علی ، میر عالم الدین ، شیخ ع غ ۸۷ ۲۷ ۶۴ ۱۷۶،۱۷۵،۱۴۵ شوگن چندر، سوامی شونرائن اگنی ہوتری ، پنڈت شر شاه، سید شیر علی ، ماسٹر ( مولوی ) ،۳۷۸،۳۷۷ ،۳۵۳،۳۵۱،۳۵۰،۲۲۹ ،۱۸۶،۱۸۰ شیت صادق علی بیگ صالح علی، مرزا صدر الدین ، ماسٹر صدر الدین ، مولوی صدر الدین جہاں ، شیخ ۶۵۶،۴۹۵،۴۴۳ ۲۸۵ عباس احمد خان ، نواب ۵۰۰ عباس علی لدھیانوی، میر ۶۹۹،۳۰۵،۳۲،۲۴،۲۱ عبدالجبار غزه نوی ، مولوی عبدالجلیل ، میاں ۶۹۷ عبدالحق، بی.اے ۵۳۴ عبدالحق پادری ۳۶۵ احمدیت قبول کرنا ۳۵۱ عبدالحق ۲۴۰،۲۳۴،۷ ،۲ عبدالحق ،منشی ۶۱۹ ۶۵۳ ۵۶۵،۵۶۳،۵۵۴ ۵۵۵ ۲۵ ۳۰۵ ۶۳۷ ،۲۶۰۰۷۴ ۳۹۲،۳۷۱،۳۷۰،۳۵۰،۳۴۶ ۶۷۰،۲۶۰،۲۴۹ عبد الحق غزنوی ، مولوی صدیق حسن خاں، نواب ۲۴،۲۱، ۶۹۸،۵۲۷ عبدالحی ، میاں صفدر علی ،میاں ۶۴ عبدا عبدالحکیم کلانوری ،مولوی 1++
۶۴ ۵۲۳،۴۶۳،۴۲۴ ۵۲۶ ۱۷۵ ۵۱۶،۳۹۴ ۶۷۴،۵۶ ۵۳۱ ۳۱،۲۸ ۲۹ 17 عبد الحکیم ، پٹیالوی مرند عبدالرب، میاں عبدالرحمن جٹ ۳۲۰ عبدالعزیز، میاں ۵۸۶،۱۹۲،۱۸۸ | عبدالعزیز ۴۹۴۱۳۷ | عبدالعزیز خاں عبدالرحمن قادیانی بھائی ۸۷،۶۵،۶۴، ۸۸ | عبدالعلی ، حافظ ۳۵۹،۳۵۵،۳۵۴،۳۵۳،۳۳۸،۳۰۵،۳۰۱،۱۳۷،۹۰، عبدالغنی ، مرزا ۳۸۷،۳۷۷ ،۴۷۱،۴۶۶،۴۲۹، ۴۷۶ ۵۲۶،۵۲۱ | عبد القادر عبدالرحمن اللہ رکھا، سیٹھ ۳۶۱،۱۶۲،۱۳۰، عبدالقادر، شیخ ۶۴۵،۶۱۸،۵۳۲،۵۲۳،۳۷۸ | عبدالقادر بسوال ، مولوی ۱۳۷ عبدالقادر، مولوی ۴۷۵ عبد القادر، مولوی عبدالرحمن، خواجہ عبدالرحمن ،سید عبدالرحمن، شیخ ۲۰۱ ،۴۲۳، ۴۲۴ ۵۸۰،۴۳۴۰ عبدالکریم سیالکوٹی ، مولوی ۱۹، ۶۷، ۷۷، ۸۶، عبدالرحمن انور، مولوی عبدالرحیم قادیان، بھائی عبدالرحیم ۵۸۰،۵۷۲ عبدالرحیم ،سید ۵۰۷ ،۱۴۵ ۱۴۴ ۱۴۳ ۱۳۳،۱۳۱،۱۱۱،۱۱۰،۱۰۹ ،۱۰۶،۱۰۵،۸۸ ،۱۷۳،۱۶۸،۱۶۷،۱۶۶،۱۵۹،۱۵۵،۱۵۲،۱۵۰، ۱۴۸ ،۱۴۶ ،۲۲۳،۱۹۹،۱۹۳،۱۸۶،۱۸۱،۱۷۸ ،۱۷۷ ، ۱۷۵ ، ۱۷۴ ، ۴۶۱،۴۶۰،۴۵۲،۴۴ ۴ ۴۳۷ ، ۴۱۷ ،۴۰۷ ، ۴۰۴،۳۰۳ ،۵۲۶،۵۲۴،۵۲۳،۴۹۸ ، ۴۷۹ ، ۲۴۷ ، ۴۷ ، ۴۷۱ ،۴۷۰ ۵۴۰،۵۳۹،۵۳۸ ،۵۳۴،۵۳۳،۵۳۲،۵۲۹،۵۲۷ ۴۷۵ ،۱۱۹ ،۹۱،۸۸۰۸۷ ۵۳۲،۵۱۹،۳۸۹ ،۳۸۸ ،۲۷۲،۲۵۱،۱۴۶ عبدالرحیم ، شیخ ۲۲۹ ،۵۸۱،۵۸۰،۵۷۷،۵۷۳،۵۶۵،۵۶۴،۵۵۵۰۵۴۷ عبدالرحیم ، صوفی ۴۷۴ ۶۶۴،۶۲۸،۶۲۷ ،۶۱۸ ،۶۱۲،۶۱۰، ۵۹۵،۵۸۴ عبدالرحیم ، نیر عبدالکریم حجام عبدالعزیز، مولوی عبدالکریم عطار ۵۲۲ عبدالعزیز نو مسلم عبدالکریم ، مرزا ۴۷۴
۶۹۴۴۱ ۳۵۴،۳۵۳ ۴۷۵ ۶۳۱ ۷،۶،۴ ۵۴۱،۱۳۷ ۶۹۹،۶۹۷ ،۲۸ ۱۷۵ ۶۴۴ ۴۹ ،۴۴ ۴۱ ،۱۷ ۶۱ ۵۳۲،۱۹۸ ۲۴۲۱ ۱۷ عبدالکریم ، میاں عبد اللطیف شہید عبد الله عبد اللہ بھائی الہ دین ، سیٹھ ۵۲۲ عثمان ۱۶۱ ۱۶۲ عزیز احمد، صاحبزادہ مرزا ۴۲۴ عزیز الرحمن ، سید ۴۴۳ عطاء الرحمن ، ملک عبداللہ خاں ، میاں ۱۹۱،۱۸۸ ۱۹۲ ۱۹۳ ، ۱۹۷، عطاء اللہ خاں ، نواب ۴۷۵،۲۲۱،۲۰۱ عطر الدین ، ڈاکٹر ۱۳۹ عطر سنگھ ، سردار ۵۳۷،۷۶،۷۵۰۵۶،۴۱ ۴۵۷ ۶۹۹،۴۷۵ ،۱۳۹ ۲۲ ۲۰ ،۲۷۲،۲۴۳،۱۱۲،۲۶،۲۵ ۵۳۵،۵۰۷ ،۴۳۱ علم دین على ۴۹۱،۴۰۶ ،۱۷ ۵۴۰،۵۳۹،۵۳۲،۲۰ ۵۹۴،۵۸۰،۲۰۱ علی حمزه بن علی ملک الطوسی ۵۷۳ علی شیر، مرزا ۴۱۳،۴۱۲،۱۱۳۱۰۵،۳۴،۳۳ ، عمر عبد اللہ حجام، میاں عبد اللہ ، ڈاکٹر عبد اللہ ، شیخ عبد اللہ عرب عبد اللہ جلد ساز عبد اللہ فخری عبد اللہ کشمیری عبداللہ، پر و فیسر مولوی ۵۴۶،۵۳۲،۴۲۷ ،۴۱۷ ، ۴۱۶ عمران ۱۷۲ عمر ا معمار ۶۱۹ عمر الدین، میاں عبد اللہ سنوری عبدالمجید سالک ۳۵۱،۳۴۸ | عمر دین ، مولوی عبداللہ خاں ، نمبر دار چوہدری ۱۲۹ ۱۳۰ ۱۳۱ ۱۳۲، عنایت اللہ شاہ عنایت علی امیر ۵۹۹،۵۷۰،۵۶۹ ۶۳۲ عبدالحی عرب ۵۹۴ عنایت علی شاہ ، مولوی عبید اللہ بیگ ۴۷۳ عنایت علی خاں ، نواب عبید اللہ بسمل عیسی ۱۷۵ ۱۶ ۴۳۱ ۶۸۰،۵۸۹،۴۲۵ ،۲۸۵،۳۸
۱۸ غلام احمد ، شیخ پہلے باتنخواہ مبلغ ۴۰۴ ۴۲۷ غلام احمد، حضرت مرزا ( حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ) ،۱۴۲،۱۲۶،۱۲۵ ،۱۲۴،۷۱،۶۳،۴۸ ،۴۶،۳۶،۳۳،۲۳ ،۲۱۳،۲۰۷ ،۲۰۶ ۲۰۵ ،۲۰۴ ، ۱۷۵،۱۶۵،۱۵۸،۱۵۶ ،۴۰۱،۳۸۳،۳۱۶،۳۱۵،۳۱۴،۳۰۷ ،۲۸۱،۲۵۶،۲۴۶ ،۶۱۵ ،۴۸۳،۴۷۷ ، ۴۴۷ ، ۴۲۶ ،۴۲۳،۴۱۷ ، ۴۰۴ ،۶۷۴،۶۶۸،۶۶۳،۶۶۲،۶۵۹،۵۹۹،۵۰۴،۵۰۳ ۶۹۱۶۹۰ آپ کا سفر مالیر کوٹلہ ۳۰،۲۳ نواب محمد علی خاں صاحب کے نام آپ کے مکتوب ،۷۸ ،۷۵،۷۴،۶۹،۵۶،۵۳،۵۲،۵۱،۴۶،۳۹،۳۵ صحبت میں رہنے والا محروم نہیں رہ سکتا جلسہ سالانہ کی غرض وغایت عبداللہ آتھم سے مناظرہ عہد دوستی بڑا قیمتی جو ہر ہے اہل بیت سے حسن سلوک پردہ کا طریق ۵۳ ۵۴ ۶۶ 22 ۱۸۷ ۲۲۲ خواجہ کمال الدین صاحب کے متعلق آپ کا رویا ۳۰۵ خواجہ کمال الدین صاحب کے متعلق آپ کا بیان ۳۰۹ آپ کی وفات کی اطلاع از انجمن نواب صاحب کے بھائی کے سامنے تبلیغی تقریر نواب صاحب سے قرض لینا نواب صاحب کے متعلق آپ کے تعریفی کلمات ۳۵۷ ۴۳۰ ۴۴۸ ۶۹۵،۶۷۳،۶۷۱۶۷۰،۶۳۰ آپ نے تمام عمر اسلام کو زندہ مذہب ثابت کیا ۵۱۱ ۹۱،۸۰۷۹، ۹۷، ۱۰۱،۹۸ ۱۰۲ ۱۲۳ ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۶ | جماعت کو ہدایات ۱۸۸،۱۳۶،۱۲۷، ۲،۱۹۲،۱۹۰،۱۸۹ ۲۰، ۲۰۵ ،۲۱۲،۲۱۰ ، انسانی اعمال سے نہیں آنحضرت کا رتبہ سمجھنے سے ۵۲۵ ،۴۲۲۴۰۳،۳۹۹،۳۹۸ ،۳۹۷ ،۲۶۵،۲۶۴،۲۵۴ ،۲۲۷ ترقی کر سکتا ہے ۴۲۶، ۴۳۹،۴۳۸، ۴۴۶ ، ۴۴۷ ، ۴۴۸، ۴۵۱٬۴۵۰،۴۴۹، گناہ کی دواقسام ،۶۶۱،۶۶۰،۶۳۷ ،۶۳۶،۶۱۴،۴۸۸ ،۴۸۱،۴۵۶،۴۵۴ ڈھولک کے ساتھ پاکیزہ گا نا منع نہیں ہے ۶۸۱،۶۷۹،۶۷۲۶۶۸۰۶۶۳۶۶۲ تا ۶۹۵ فقیروں کی دو اقسام.خرگدا ، نرگدا دعا کے متعلق آپ کا ارشاد ۴۷ آپ کی وفات حضرت خلیفہ اول کے نام آپ کا مکتوب ۵۰ ۵۳۸ ۵۴۴ ۵۵۲ ۵۵۹ غوشاں ۳۹۶،۱۲۵، ۵۹۶،۵۸۹،۵۵۹،۴۰۲،۳۹۸
۵۵۶ ۴۹۷ ۱۹ غمومناں کلاں ۵۵۴ غلام مرتضی خان ، حافظ ، غلام اکبر خاں ، مولوی ۴۴۳ غلام یسین ، قاری ۵۳۰ غلام اللہ ، مرزا غلزی فیک ا فاطمة فاطمہ بیگم فتح محمد سیال، چوہدری فتح خاں نمبر دار فتح محمد خاں ، مولوی فتح محمد خاں، میاں فرزند علی منشی فضل احمد ، مولوی فضل الدین افریقوی ، ڈاکٹر فضل الدین چپڑاسی ۴۲ ۱۵،۱۴۰۹ ،۸،۴ ۵۴۱،۴۴۳،۴۲۹ 3 ۶۴ ۳۷۶،۳۴۴ ۶۶۱ ۱۳۷ ۵۹۶ فضل الدین بھیروی حکیم ۱۱۱،۹۶،۵۵، ۱۴۶ ، ۵۹۹،۳۳۱،۳۲۵ ،۳۲۴ ،۳۱۶،۲۲۹ ،۱۷۵ ۲۲۱،۲۲۰ ۵۴۹ ۳۴۲،۳۶۱،۳۳۶ ۱۳۱ ۵۲۳ ۶۴ ۳۵۳ ۴۰۴ غلام حسن ، مولوی غلام حسین رہتاسی غلام حسین مولوی غلام حسین ، میاں ۳۲۴ ۳۶۱،۳۳۶ غلام حسین کو چبان ۴۷۴ غلام حسين ۱۴۷ غلام رسول لنگوی، حافظ غلام رسول را جیکی ۴۹۴ ۴۹۴۴۹۷ ،۳۸۶،۳۴۴ ،۲۹۴ صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم کا اعلان نکاح کرنا ۲۸۰ غلام غوث ، ڈاکٹر سید ۶۸،۵۷ غلام فرید ایم اے ، ملک غلام قادر ، مرزا غلام محمد، حکیم ۴۹۵،۳۹۳۲۲۲ ۵۴۶،۵۴۵ ۱۷۵،۹۰ غلام محمد ، بابو غلام محمد خاں ۲۴۲ فضل الہی ، شیخ ۲۲۸ فضل بیگ، مرزا غلام محمد خاں ، نواب ۸،۷،۶،۴، ۶۷۱،۲۶،۱۰،۹ فضل دین ، مولوی غلام محمد خاں ، سید غلام محمد فورمین غلام محی الدین ، مرزا ۶۹۸ ۲۲۹ ۲۲۹ فضل شاہ ،سید فضل کریم سیالکوٹی فضل محمد ، شیخ
۲۰ ،۳۳۶،۳۳۴،۳۳۳،۳۳۲،۳۳۱،۳۱۵،۳۱۲،۳۰۹ ۵۴۶ ،۳۶۳،۳۶۲،۳۵۹،۳۵۸،۳۵۷ ، ۳۵۶،۳۵۵،۳۴۹ ۵۴۹ ،۵۲۷،۵۲۶،۵۲۴،۵۲۳،۴۸۲،۴۶۲،۴۳۸ ،۳۷۸ ۵۵۳ ،۶۰۶،۵۸۸،۵۸۷،۵۳۵،۵۳۳،۵۳۲،۵۲۹،۵۲۸ ۲۶ ۶۱۸،۶۱۲،۶۰۹،۶۰۸ ،۶۰ Z ۳۰۷ ۴۲ ۴۸۵ ۶۰۶ ۵۴۲۲۹ ۶۹۹ ۶۲۱ } ۶۱۹،۴۱۳،۲۷ ۴۲۰،۱۰۷ 1+9 ۵۳۴، ۵۳۵ حضرت اقدس پر مالی اعتراض کنعان کنگ ، مسٹر ( ڈپٹی کمشنر ) کنگھم (سول سرجن ) 1+7 ۹ ۵۵۲ گل علی شاہ ، سید ۲۵۱ گوریال سنگھ ،سردار لطیف، ڈاکٹر لودھی ۲۶۸ ۵۲۶،۵۲۴، ۴۴۷ ۵۳۱ ۵۳۱ لیپل گریفن سر لیکھرام، پنڈت م مارٹن کلارک ، ڈاکٹر ۳۸۳، ۴۶۸ مار ٹیکن مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا ۶۰۵،۲۸۶،۲۸۲،۱۹۹ ۶۰۴ ۴۳۵ آپ کی وفات فیاض علی ، ڈاکٹر فیض علی خاں ، ڈاکٹر فیض محمد خاں ، ڈاکٹر فضیلت بیگم فیروز خان قائم علی ، شیخ قادر بخش، میاں قارون قاسم علی ، شیخ قاسم علی ،امیر قدرت اللہ قدسیہ بیگم قطب الدین ، حکیم مولوی قطب الدین ، خواجہ قطب الدین ، مولوی بسوال کپورتھلہ ، رائے کینگ کرزن ، وائسرائے کرشن کرم دسین کریمہ ۶۷۵،۵۹۹،۵۰۴۰ ۴۶۲،۱۲۳، ۱۱۱ ۲۵۱ کمال الدین ، خواجہ ۳۰۵،۳۰۴،۱۵۱،۱۴۳،۶۷ مبارک النساء
۲۱ مبارک علی مولوی ۱۷۲، ۶۱۸ ، ۶۶۱ | محمد الدین ، ماسٹر مبارکه بیگم،نواب ۱۴،۳۱،۳، ۱۸، ۹۴٬۹۱،۸۶،۳۷، محمد الحق ، میر ۳۹۳،۱۷۶،۱۷۵ ، ۱۲۵ ۴۸۶،۳۵۴،۳۱۵،۳۱۲،۲۶۱ ۱۰۲،۹۸ ۱۰۳ ۱۲۲،۱۰۴، ۱۲۸، ۱۵۶،۱۵۳،۱۲۹، ۲۰۱،۱۸۸ ، محمد احسن امروہی ، سید ۱۴۶،۱۰۶،۸۸،۷۸،۷۶ ،۳۶۱،۳۵۸،۳۵۶،۳۵۴،۲۰۰،۱۹۸ ،۱۹۳ ،۲۳۱،۲۲۸،۲۲۷ ،۲۲۶،۲۲۵،۲۲۳ ۲۲۲۲۲۱،۲۰۷ ،۲۰۴ ،۴۴۶،۳۷۸،۳۷۷ ،۳۷۶،۳۷۵،۳۶۹،۳۶۶،۳۶۵ | ، ۲۵۱،۲۴۹ ،۲۴۸ ،۲۴۷ ، ۲۴۶ ، ۲۴۲ ۲۴۱،۲۳۷ ،۲۳۲ ،۵۳۲،۵۲۵،۵۲۳،۴۹۹ ،۴۹۸ ، ۴۵۲،۴۴۸ ، ۴۴۷ ،۲۹۶،۲۹۳،۲۸۰،۲۷۹ ،۲۷۸ ،۲۷۵ ،۲۶۸،۲۶۶،۲۵۲ ،۵۹۶،۵۸۷،۵۸۴،۵۶۳،۵۵۶،۵۵۲،۵۴۷ ، ۵۴۵ ،۴۳۵،۴۲۸ ،۴۰۹ ،۴۰۷ ، ۴۰۵،۳۸۸ ،۳۸۴،۳۴۸،۳۱۰ ۶۲۸،۶۱۸ ۵۲۳،۴۳۶ ۱۳۰،۶۷ ،۶۰۵،۵۵۱،۵۱۹،۵۱۰،۵۰۴ ، ۴۸۸ ، ۴۸ ۷ ، ۴۶۹ ،۴۳۶ ۶۳۲۶۲۳۶۲۰۶۰۹، ۶۴۶،۶۴۳،۶۴۲،۶۴۱،۶۳۷، محمد اسماعیل ۶۶۴، ۶۶۵، ۶۹۰،۶۷۸ محمد اسماعیل ،منشی آپ کا رخصتانہ ۲۵۰ محمد اسماعیل ، سید ۴۴۷ محبوب عالم ،منشی ۳۴۶ محمد اسماعیل، مولوی ٣٠١ محبوب علی خاں، امیر ۶۹۷ محمد اسماعیل شہید محبوب علی شاہ محمد محمد ، مولوی ۲۲۹ محمد اسماعیل، ڈاکٹر میر ۳۷، ۳۴۳،۲۸۱،۲۷۴،۲۲۷، ۶۰۹،۶۰۵ ،۴۲۱ ،۴۰۴ ،۳۷۸ ،۳۷۵ ،۲۶۱ ۳۱ محمد اسماعیل خاں، ڈاکٹر ۶۲۴ محمد بھا گلیوری ، مولوی ۵۳۴ محمد اشرف، حکیم ۶۴۴ محمد ابراہیم ۳۱۵ ۶۹۷ ۱۳۶ ۶۹۷ ۱۴۲ ۵۲۷ محمد اشرف ، سید محمد ابراہیم خاں، نواب ۶۹۹،۶۹۸ | محمد افضل خاں محمد ابراہیم بقاپوری ، مولوی ۵۳۱ محمد افضل ، میاں (ایڈیٹر البدر ) محمد احمد خاں، نواب ۶۲۳،۵۲۰،۳۸۸، ۶۳۲۶۲۶ محمد افضل الدین خاں، نواب محمد الدین واصل باقی ۵۷ | محمد اکبر
۲۲ محمد اکرم، مولوی ۴۷۳، ۵۴۵ محمد زمان ، حکیم محمد بابو محمد بخش جعفر زٹلی ۴۲۱ ۳۰۵، ۳۰۶ محمد سرور شاہ ، سید ۳۹۳،۱۳۸،۹۰،۸۵ ،۳۰۷ ،۳۰۴،۳۰۱،۲۲۹،۱۷۵ ۴۰۷ ،۳۷۸،۳۷۰ ،۳۶۹،۳۶۰،۳۵۵،۳۱۶،۳۱۰ محمد تیمور ، شیخ ۳۳۶، ۵۴۱،۳۴۵،۳۴۴،۳۳۸ | محمد ظفر اللہ خاں، چوہدری سر محمد جلال الدین بنشی محمد حسن ، خلیفہ محمد حسین، حافظ محمد حسین ، ( انسپکٹر ڈاکخانہ جات) محمد حسین (ریٹائرڈ جج) محمد حسین بٹالوی، مولوی ۴۴۸ ،۴۴۳ ،۶۴،۲۶،۲۱،۲،۱ ،۱۲۵،۱۲۴،۱۲۳،۱۲۲،۱۲۱،۱۲۰،۱۰۲،۹۱،۸۹ ،۸۸،۶۵ ۶۹۹ ۵۷ محمد عبد الرحمن خاں، نواب ۵۴۷ ،۲۰۱،۱۹۷ ، ۱۹۳ ۱۹۲ ۱۹۱،۱۸۸ ،۱۳۱،۱۲۸،۱۲۷ ،۱۲۶ ،۲۹۵،۲۷۵،۲۷۰،۲۶۹،۲۶۸،۲۶۷ ۲۶۶،۲۵۱،۲۲۱ ۲۲۹ ،۴۹۱،۴۸۸،۴۸۶،۴۸۴ ،۴۷۵ ، ۴۷۳ ،۴۳۱،۴۲۸ ۴۲۹ ،۶۱۲،۵۸۵،۵۷۲،۵۵۲،۵۴۸،۵۳۵،۵۳۴،۵۲۳ ۶۴۰،۶۲۲،۶۲۱،۶۱۴۶۱۳ ،۵۹،۳۹،۳۸ ،۳۰ ،۴۲۲،۴۲۱،۴۲۰ ، ۴۱۷ ، ۴۱۳،۳۰۵ ، ۱۰۸ ، ۱۰۷ ،۶ ۶۱۹،۵۸۱،۵۳۲،۵۲۸، ۶۹۸ | محمد عبدالرحیم خاں، نواب ۱۹۲۹۵ ۹۴ ۹۱ ،۵۲۰،۴۸۴،۳۹۳،۲۷۵،۲۶۸،۳۶۷ ،۲۰۱ ۶۸۸،۶۱۲،۵۹۱،۵۸۶ ، ۵۷۲،۵۵۵ ۶۱۰ ۴۰۳ ۱۲۲،۱۱۱،۹۴۹۱،۲،۱ ۶۲۸ ۶۳۹ محمد حسین خان محمد حسین، شیخ (سب حج) محمد حسین قریشی ، حکیم ۲۲۷، ۲۴۲۰،۲۲۹، ۳۴۶ آپ کی بیماری سے معجزانہ شفایابی محمد حسین، ڈاکٹر سید ۳۱۲، ۳۳۶،۳۳۲،۳۳۰،۳۱۷ محمد عبداللہ خاں پٹھان ۶۰۹،۶۰۶،۳۶۵،۳۶۱،۳۵۹،۳۵۸،۳۵۵ | محمد عبداللہ خاں، نواب ،۲۷۹،۲۷۸،۲۷۶،۲۷۵ ،۲۷۳۲۶۹،۲۶۷ ،۲۴۶،۱۴۷ ،۳۸۷ ،۳۸۵،۲۹۵ ،۲۹۴ ،۲۹۳،۲۹۲،۲۸۲،۲۸۱،۲۸۰ ،۴۶۲،۴۳۱،۴۲۳،۴۰۸ ،۴۰۷ ، ۴۰۵ ،۴۰۳،۳۹۸،۳۹۳ 1 ۶۴ ، ۵۷۲۵۵۷،۵۲۰، ۵۱۹ ، ۵۰۰ ، ۴۹۹ ،۴۹۵،۴۸۴ ،۴۶۹ ۵۹۵ ،۶۳۲،۶۳۱،۶۲۷ ،۶۲۶،۶۲۳،۶۲۱،۶۱۰ ،۵۹۱،۵۸۵ ۶۶۱ محمد حیات تا شیر، مرزا محمد ذوالفقار علی محمد ذوالفقار علی خاں، نواب محمد رشید ، سید محمد رضوی ، سید
۲۳ ۶۶۸،۶۶۷،۶۶۱۰۶۵۷ ،۶۵۶ محمد فیروز الدین قریشی ، حکیم محمد صادق ، مفتی ۹۴،۳۷، ۱۷۶،۱۷۵،۱۶۵،۱۵۹، ،۳۴۸،۳۴۶،۳۳۴،۳۳۳،۳۲۹ ،۳۲۵،۳۱۶،۳۱۵ ،۳۵۷،۳۵۵،۳۵۴،۳۵۳،۳۵۲،۳۵۱،۳۵۰،۳۴۹ ،۳۷۸،۳۶۷،۳۶۵،۳۶۴،۳۶۳،۳۶۲،۳۶۱،۳۵۸ ،۵۴۷ ،۴۵۴۵۴۱،۵۴۰ ، ۴۹۴۰ ،۴۷۱ ،۴۰۴ ،۳۹۷ ،۳۷۹ ،۵۹۵،۵۹۴،۵۸۲،۵۷۷ ، ۵۶۵،۵۶۰،۵۵۹،۵۵۵ ۶۵۹،۶۱۸،۶۱۳۶۰۹،۶۰۸ ۶۴۴ ۷ آپ کا شجرہ نسب ازالہ اوہام میں مذکور آپ کے حالات آپ کی پیدائش آپ کی پر ہیز گاری کے متعلق حضرت اقدس کا ارشاد 11 آپ کے والدین کی وفات شرک سے نفرت رسوم سے نفرت آپ کے نام حضرت اقدس کے مکتوب ۱۲ ۱۵ ۱۷ ،۷۸ ،۷۵ ،۷۴،۶۹،۵۶،۵۳،۵۲،۵۱،۴۶،۳۹،۳۵ ،۱۲۶،۱۲۵،۱۲۴،۱۲۳، ۱۰۲،۱۰۱،۹۸ ،۹۷ ،۹۱،۸۰ ،۷۹ ،۲۱۲،۲۱۰،۲۰۵، ۲۰۲،۱۹۲،۱۹۰ ، ۱۸۹،۱۸۸،۱۳۶،۱۲۷ ،۴۲۲،۴۰۳،۳۹۹،۳۹۸ ،۳۹۷ ،۲۶۵،۲۶۴،۲۵۴،۲۲۷ ،۴۵۱،۴۵۰،۴۴۹،۴۴۸ ، ۴۴۷ ، ۴۴۶ ،۴۳۹ ،۴۳۸،۴۲۶ ،۶۶۱،۶۶۰،۶۳۷ ،۶۳۶،۶۱۴،۴۸۸،۴۸۱،۴۵۶،۴۵۴ ،۴۰۵،۳۹۴،۳۸۵،۳۵۶،۲۵۲،۲۲۹ ، ۱۸۰ ،۱۷۹،۱۷۷ ۶۰۲۵۹۴۵۶۵،۵۵۹،۵۴۵،۵۳۹،۵۱۹،۴۹۷ ، ۴۳۹ ،۲۱،۲۰،۱۹،۱۸ ،۱۷ ،۹ ،۷ ، ۴،۱ محمد علی خان ، نواب ،۱۱۹،۱۱۵،۱۱۳،۱۰۳٬۸۵،۷۴،۶۸،۶۳،۵۱،۳۸،۳۳ ،۱۵۳،۱۵۲،۱۴۹،۱۴۸ ، ۱۴۶ ،۱۴۲ ،۱۴۰ ،۱۳۹،۱۳۸ ،۱۲۶ ،۱۷۹،۱۷۸،۱۶۷ ،۱۶۵،۱۶۴،۱۶۰ ۱۵۹،۱۵۷ ،۱۵۴ ،۲۲۹،۲۲۶،۲۲۵ ،۲۰۷ ، ۲۰۲،۱۹۹ ، ۱۹۷ ، ۱۸۶،۱۸۰ ۰۲۵۳،۲۴۹ ، ۲۴۸ ،۲۴۶ ،۲۴۳ ، ۲۴۱،۲۴۰،۲۳۶،۲۳۲ ، ۲۷۴ ۲۷۳ ۲۷۱،۲۶۹ ،۲۶۵،۲۶۴،۲۶۱،۲۵۹،۲۵۸ ،۳۱۲،۲۹۵،۲۹۴،۲۸۶،۲۸۲ ،۲۸۱،۲۸۰ ، ۲۷۹ ،۲۷۸ ،۳۵۳،۳۴۶،۳۳۹،۳۳۵،۳۳۰،۳۲۹ ،۳۱۹،۳۱۸ ،۴۳۳،۴۳۲،۴۳۰ ، ۴۲۶ ،۴۲۵ ،۴۲۱ ،۴۲۰ ، ۴۱۹ ،۴۱۴ ،۴۷۱،۴۶۹،۴۶۴،۴۶۰ ، ۴۵۹ ،۴۵۵ ، ۴ ۴ ۴ ۴ ۴۲ ۴۳۷ ،۶۱۸،۶۱۴،۴۹۰،۴۸۸،۴۸۵،۴۸۴،۴۸۳،۴۷۹، ،۶۵۹،۶۵۶،۶۵۲۰۶۴۴،۶۳۹،۶۳۷،۶۳۱،۶۲۰،۶۱۹ ۶۹۵،۶۷۰،۶۶۹،۶۶۸ ۲۳۰،۱۳۲ محمد علی شاہ محمد علی مولوی ،۱۷۸،۱۷۵،۱۷۳۱۵۱،۱۵۰،۱۴۶ ۶۶۳۶۶۲، ۶۸۱،۶۷۹،۶۷۲،۶۶۸ تا ۶۹۵ ۳۱۴۰۳۱۲۳۱۱،۳۱۰،۳۰۸،۳۰۴،۳۰۳٬۲۱۰،۱۸۰،۱۷۹، پہلی دفعه قادیان آمد ۳۷
۲۴ آپ کا بیعت کرنا شیعیت کو ترک کرنا آپ کا بلند روحانی مقام تمام کاموں کا اعتبار خاتمہ پر ہے مدرسہ تعلیم الاسلام کی امداد آپ کا مہر نامہ آپ کا خطبہ نکاح آپ کی خوش قسمتی الفضل کے اجراء کے لئے عطیہ ۵۰ انسداد ملکانہ کے لئے مالی اعانت ۱۱۲ | حضرت خلیفہ اول کی شاگردی ۱۱۷ آپ کے اخلاق فاضلہ ۱۵۱،۱۴۸ ۱۶۴ | آپ کا حوصلہ ۲۸ محمد نہ صرف رسول تھے بلکہ رسول گر تھے ۲۳۱ آپ کی ڈائری کی اہمیت ۲۳۵ آپ کی وفات نکاح کے بعد لڑکی پر میکے والوں کا کوئی زور نہیں آپ کی صفائی پسندی ۲۶۳ آپ کی جاگیر احمدی قوم کو ضروری ہے کہ اصل اسلام پیش کریں ۲۳۳ آپ کے کتبہ کی عبارت ۲۹۸،۲۹۷ فقیروں کی دو اقسام آپ کی اولاد استحکام خلافت کے لئے آپ کی سعی ۳۱۸ محمد عصر، حکیم حضرت خلیفہ اول کے نام مکتوب ۳۳۶،۳۲۹ محمد عنایت علی خاں مخلوق خدا سے محبت غرباء سے محبت وکفالت ۴۱۰ محمد موسی ، مستری ۴۰۳، ۴۰۵ | محمد نواب خان دعا کے لئے تعلق ضروری ہے ۶۸۰۴۰۷ محمد نواب خاں ثاقب، میرزاخانی آپ کی نشان حجت آپ کے خرچ پر پہلا باتنخواہ مبلغ مالی قربانیاں حضرت اقدس کو قرض دینا لائبریری کے لئے اعانت ۴۲۵ ۴۲۶ | محمد وزیر خاں، بابو ۴۴۵ محمد یوسف ۴۴۸ | محمد یوسف، حافظ ۴۶۱،۴۶۰ | محمد یوسف علی خاں علی خاں ۴۶۷ ۴۶۹ ۴۸۷ ،۴۸۶ ۴۹۵ ۵۰۴ ۵۱۰ ۵۶۷ ۶۲۱ ۶۲۶ ۶۴۰ ۶۴۱ ۶۷۹ ۵۳۱ - ۲۴۲ ۵۹۴،۵۶۶،۵۴۷،۵۴۵ ، ۴۷۷ ، ۴۷۵ ۵۶۰،۵۳۵ ۴۹۷ ۵۴۵ ۳۰۵ ۶۴
۵۱۲،۴۰۲،۲۵۱ ۴۷۴ ،۴۷۳ ۴۳۲ ۲۶۶ ۶۲۶،۵۰۰،۱۴ ۲۷۲ ۵۵۸ ۶۴ ۴۷۷ ،۲۵ ۶۱۴ ۵۳۵،۵۲۹،۵۲۲،۲۴۳ ۲۷۳ ۶۳۲۶۲۰ ۵۴۶ 3 ۲۵ محمد یوسف علی مرحوم محمد یا مین ( تاجر کتب) ۴۱۰ مددخان ۳۵۹ مراد بخش، شیخ محمود احمد، مرزا ( حضرت مرزا بشیر احمد محمود خلیفہ مسیح الثانی مریم ، سیده ۱۳۹،۹۹ ، ۱۹۹،۱۸۶، ۲۶۶، ۲۷۲،۲۶۷، ۲۷۶،۲۷۵ ، مزمل اللہ، نواب ۳۱۸،۳۱۵،۳۱۱،۳۱۰،۲۸۱،۲۷۹،۲۷۸، ۳۱۹، ۳۲۶، مسعود احمد خان، نواب ۳۳۴،۳۲۹، ۳۳۷، ۳۵۶،۳۵۳،۳۴۳،۳۳۸، ۳۵۷، مظفر احمد، صاحبزادہ مرزا ۳۶۶،۳۶۵،۳۶۴،۳۵۸، ۳۷۶،۳۷۲،۳۷۱،۳۶۸، معراج الدین عمر ۳۸۱،۳۷۷، ۳۸۸، ۵۷۲،۵۶۱،۴۹۴،۴۸۴،۴۵۹ ، | مکے خان ملا وامل، لاله ،۶۷۴،۶۴۸،۶۴۵ ، ۶۳۷ ،۶۰۸ ،۶۰۶ خلیفہ مقتدر ہونا چاہئے آپ کا بیعت لینا الفاظ بیعت ۳۵۱ منٹو، لارڈ ۳۷۱،۳۷۰ | منصب علی، امیر ۳۷۳ | منصور احمد ، صاحبزادہ مرزا لاہور کی ایک ریکارڈنگ فرم کا آپ کی تلاوت ریکارڈ کرنا منصورہ بیگم ۴۷۵ منظور علی شاکر، شیخ بیاہ شادی کے موقع پر پاکیزہ گا نامنع نہیں ہے ۵۵۲ منظور محمد، پیر | نواب صاحب کی نماز جنازہ پڑھانا ۶۶۲ ،۳۰۱،۲۶۳۲۶۲۲۲۷ ،۲۲۴۹۰ ۵۶۰،۵۳۸،۳۹۳٬۳۸۹،۳۸۸،۳۷۰ ۶۲۶ ۶۰۳،۵۴۳،۳۸۳،۲۸۷ ،۲۸۵ ۲۶۶ ۴۷۳ ۴۷۴ 17.محمود احمد خاں، نواب ۶۹۹،۶۹۸،۲۱ مودود محمود احمد عرفانی ۴۳۲ موسی محمود بیگ، مرزا ۱۷۵ موسی خاں ، نواب محمودہ بیگم ۲۶۸ مولا بخش، ماسٹر محی الدین عرب، شیخ ۴۴۴، ۵۸۰ مولا بخش، درزی محی الدین لکھو کے ۳۸ | مهدی حسن، مولوی
۱۰۹ ۵۳۳،۲۳۰،۲۲۹ ۲۶ | مہر النساء بیگم ( نواب صاحب کی پہلی اہلیہ ۱۸۰،۱۴ نظام الدین ) مهر حسین ۶۴۴ ، ۶۴۵ نظام الدین، مرزا مہر علی گولڑوی میراں بخش ،منشی میر درد، خواجه میر محمد خان ۶۱۹،۶۱۸ ناصراحمد، مرزا ( حضرت خلیفۃ المسح الثالث) اصر مرا حضرت بالای این ناصر نواب، میر نعمت علی ، سید ۱۰۰ نوح ۲۶۱ نواب بیگم ۲۶ ۶۲۳۶۲۷ ،۲۷۲ ،۱۹۷ ،۱۴۶،۱۴۲،۶۳،۵۸ ،۳۶۵،۳۵۴،۳۳۴ ،۳۱۹،۳۱۸،۳۰۹،۲۹۲،۲۶۰،۲۵۰ ۶۱۸،۶۰۹،۶۰۸۰۵۴۵،۵۴۱،۵۲۷، ۴۶۶،۳۶۰،۳۵۹ ۲۷۳ ناصرہ بیگم صاحبزادی نواب بیگم بنت سردار خاں نواب خاں ، چوہدری نواب خاں ثاقب منشی نواب، شیخ نواب لوہارہ نور احمد، چوہدری نور احمد خاں پنشنز نورالدین جمونی، خلیفہ ۳۷۳ ۳۸۵،۲۳۶،۲۱۹ ،۴۲ ۲۶،۴ ۸،۴ ۵۳۹،۵۰۱ ۲۱۰ ۴۷۴ ۱۱۲ ۵۰۱،۴۹۵،۴۹۳،۳۹۱ ۶۱۸ ۶۱۸ نورالدین، حکیم ( حضرت خلیفہ مسیح الاول) ۲۰،۱۹،۱۸، ،۱۰۶،۱۰۳،۱۰۰،۹۵،۸۶،۸۰،۷۹،۷۶،۷۱،۵۸،۵۵ ،۱۷۳،۱۶۸،۱۶۶،۱۶۰،۱۵۹ ،۱۵۱ ،۱۴۸ ،۱۴۶،۱۴۳،۱۴۲ ،۱۹۸ ،۱۹۷ ، ۱۹۱،۱۸۰۰ ۱۷۹ ۱۷۸ ، ۱۷۷ ،۱۶ ،۱۷۵ ،۲۹۶،۲۶۱،۲۵۶،۲۴۱،۲۳۳،۲۲۸ ،۲۲۲۲۲۰،۲۰۱ ،۱۹۹ ،۳۵۶،۳۴۹،۳۴۷ ،۳۴۶،۳۴۵ ،۳۱۹،۳۱۰،۳۰۵،۳۰۱ ،۳۸۳،۳۸۱،۳۷۰،۳۶۵،۳۶۳،۳۵۹ ،۳۵۸،۳۵۷ ،۴۶۴،۴۶۳،۴۵۹ ،۴۲۲،۴۲۱ ،۴۱۵ ، ۴۱۴ ،۳۹۰،۳۸۷ ، ۴۹۲،۴۸۹،۴۸۸ ،۴۸ ۷ ، ۴۸۴ ،۴۸۳،۴۸۲،۴۶۵ ۵۸۲،۵۳۵ ۵۴۷ ۶۲۸ ،۱۹۱ نبی نبی بخش نجم الدین، میاں نصرت جہاں سیدہ (حضرت اُم المومنین ) ،۳۵۹،۳۰۹،۲۶۱،۲۵۰،۲۴۷ ، ۲۰۴ ۴۷۶،۳۵۹،۳۶۴ ۴۶۳ الفضل کے لئے زمین کا عطیہ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی شادی کے وقت نصائح
۶۹۷،۶۲۸ ۵۳۵ ۲۵۱ ۵۶۰،۶۴ ۵۹۵ ۵۹۵ ۱۷۵ ۶۸۰،۶۷۹،۵۲۶،۲۸۷ ،۲۸۵ ۲۷ ۵۲۶،۵۲۵،۵۲۴،۵۲۳،۵۲۲،۵۲۱،۵۲۰،۴۹۹،۴۹۸، وکٹوریہ (ملکه ) ۵۴۲،۵۴۱،۵۳۹،۵۳۳،۵۳۱،۵۲۹،۵۲۸،۵۲۷، ولایت خاں ۵۵۷،۵۵۶،۵۵۰،۵۴۷،۵۴۶ ،۵۶۵،۵۶۴،۵۶۰ | ولید ۵۷۳،۵۷۲ ، ۶۱۰،۶۰۹،۶۰۶،۵۷۷، ۶۱۸، ۶۲۸ ولی محمد شیخ آپ کی شادی کے لئے کوشش ۹۷ ہال، ڈاکٹر مخالفین کی آپ کے خلاف ریشہ دوانیاں ہیرا، مستری فتنہ پردازوں کے لئے آپ کی نرمی ۳۲۰ یار محمد ، مولوی حضرت نواب صاحب کے نام آپ کا مکتوب ۳۲۹ یعقوب آپ کی وصیت ۳۳۶، ۳۶۷،۳۶۶،۳۲۵،۳۳۷ یعقوب بیگ، مرزا ۳۳۵،۳۳۴٬۳۲۵،۳۱۷،۳۱۴، ۳۵۰ ،۳۵۶،۳۵۴،۳۵۳،۳۵۱،۳۵۰،۳۴۸ ،۳۶۴،۳۳۸ ۴۸۰ ۶۰۹،۶۰۸،۶۰۶،۳۶۵،۳۶۱،۳۵۹،۳۵۸ ،۶۴،۳۰،۲۹،۲۸ ،۲۷ ،۲۲،۱۰،۲ یعقوب علی عرفانی آپ کی وفات فونوگراف میں آپ کے وعظ کی ریکارڈنگ آپ کی خلافت ۶۰۸ نور جہاں (ملکہ) ۵۵۳ نور محمد ۶۰۶،۵۲۳،۵۲۲ ،۱۸۹،۱۸۰،۱۴۶،۱۴۵ ،۱۰ ، ۷۶ ،۷۱ ،۷۰ ۶۹ ۶۷ ،۶۵ ،۳۹۵،۳۱۵،۳۱۲،۳۱۱،۲۹۶،۲۴۹ ،۲۳۰،۲۲۹،۲۲۸ ،۴۶۵،۴۶۳،۴۶۲،۴۶۱ ،۴۵۱ ،۴۴۰ ، ۴۳۲،۴۲۹ ،۴۰۷ ،۵۳۱،۵۳۰،۵۲۷ ، ۵۲۳،۵۲۲،۵۲۱،۴۸۵ ، ۴۸۴ ،۵۵۶،۵۴۸،۵۴۷،۵۴۵،۵۳۹،۵۳۵،۵۳۴،۵۳۲ ،۶۳۹،۶۳۲۶۰۹،۶۰۸ ،۶۰۶،۵۹۹،۵۹۵،۵۸۱،۵۵۷ ۶۹۱،۲۸۵، ۱۷ ۲۱۷۱ ۱۷۰ ۱۲۵ ۲۴۲ ۹۷ ،۹۶ ۳۹۷،۳۹۶ ۲۲۹ ۱۳۵،۸،۴ ۵۳۰،۵۱۰ یوسف یوسف علی خاں یونس نور محمد باور چی نور محمد، حکیم ڈاکٹر نور محمد کیر و والے، میاں نور محمد، میاں نور محمد، شیخ وزیر خاں، نواب و.ہ.ی
۶۶۹،۶۴۹،۶۰۷ ۶۴۰ ۶۴۰ ۶۹۹،۶۹۸،۲۲ ۶۱۸،۵۵۲،۵۴۱۰ ۵۲۷ ، ۴۷۵ ۰ ۵۹ ۴۴۹ ،۷۸ ۵۱۰ ۱۰۲ 090022027 ۲۲ ۶۹۸،۲۱ ۶۴۰ ۴۷۴،۲۲۹،۲۲۸ ،۹۰،۱۹ ۶۴۰ پ.ت.ٹ ۵۷۳۴۷۳،۳۴۴ ۲۸ < مقامات برج بکس والہ بلند شهر بیتی بنجرات ۲۳۳ ۵۱۷ آ الف ۵۱۰،۴۹۵،۱۷۶۱۶۹ ۵۱۰ الجزائر احمد آباد افریقہ افغانستان امرتسر ۱۳۰،۱۰۷،۷۹،۳۳،۳۲،۲۹، ۵۲۲،۴۶۶ ، بنگلور ۶۲۲،۶۱۶،۶۰۷ ، ۵۵۴،۵۵۳،۵۳۵ بنوں ۴۴۷ بور نیو ۵۴۴،۵۱۰۰ ۴۷۵ ،۶۲،۵۸ بھارت ۱۵۱،۶۴،۱۲،۱۱ | بہاولپور امروہہ امریکہ انبالہ انڈیمان ۵۳۰ بھدوڑ انگلستان (انگلینڈ، برطانیہ ( ۶۷۱،۶۴۳،۵۱۰،۴۶ | بھوپال ۵۹ بھوسی ۶۴۰ بھوون ۵۱۰ بھیرہ بھینی کلاں پاکستان پائل ).اوره اوم پال ایران بالاکوٹ بٹالہ ،۳۵۸،۳۵۷ ، ۱۲۶،۱۲۴،۱۲۳، ۱۰۸ ،۳۹ ۵۵۴،۵۴۴،۵۳۶۰۵۳۰،۵۲۲،۴۰۶،۳۶۱
1 ۶۴۰ ۶۹۹،۶۹۸،۲۱ ۵۱۰،۴۵۲ 24.2• ،۴۶۱،۲۶۸،۱۶۰،۲۲ ۶۹۷،۶۹۶،۶۵۵،۵۷۲ ۲۹ پٹیالہ ۶۹۹،۴۹۳،۲۶،۲۵ | چنیوٹ پیشاور ۱۵۱،۲۷، ۳۷۷ چوہانہ خورد پنجاب ۵۹۰،۵۲۹،۵۱۵،۱۴۳،۱۳۱،۱۱ چھتاری ۶۳۳،۶۱۷،۶۱۳ چین یہ ملک دوسرے ملکوں سے کچھ نرم ہے ۱۶۲ حديدة ۴۷۴ حیدر آباد ۵۵۴ ۵۱۰ پونچھ پھلور ترکی در تگھر خوار ۶۴۰ در ابن ٹانک دکن ۶۹۷ ٹرانسول : ۱۰۹ دمشق ۴۵۸ ج - چ - ح دھار یوال ۱۱۹ جاپان ۵۱۰ | دیلی ۶۹۳،۶۲۱،۶۲۰،۳۰۹ ،۱۲۵ ،۲۹،۲۰،۲ جاوا ۵۱۰ دیوبند ۱۳ جالندھر ۶۲۲،۶۱۳ | ڈنگہ جرمنی ۶۴۳ | ڈیرہ غازی خاں جلال آباد راجھستان ۵۴۷ ۴۹۱ ۵۳۰ جموں ۵۸۰،۴۹۰،۱۹ | راولپنڈی ۵۲۴،۲۲۰ جانا گڑھ جھجھر جھل موضع جہلم جھنگ ربوه ۲۴ رجبی ۲۶ روپر ۵۵۹،۵۲۶،۱۰۸ | رڈ کہ ۶۱۸ | روس ۶۹۹ ،۲۱ ۶۶۷،۶۶۶،۶۴۴۶۴۳، ۲۲۲،۱۷۵،۱۲۵ ۵۴۰ ۶۴۰ ۵۳۰،۵۱۰
۵۱۰،۱۶۹،۱۶۸ لدلد ،۲۶۶،۱۶۷ ،۲۱،۲۰ ، ۱۹ ، ۱۸ ،۱ ۵۴۰،۵۳۲،۳۴۵،۲۶۷ ۶۳۱ الله روم ریتی چھلہ سیش ۵۳۰ ۴۸۴ عرب علی بود سروانی کوٹ ( شیروانی کوٹ) ۸۵،۸۴،۸۰،۹،۶، علی گڑھ ،۴۰۸ ، ۴۰۵ ،۲۹۶،۲۲۱،۱۲۹ ،۱۲۸ ،۸۸ ۶۴۰،۶۲۵،۶۲۴،۶۱۲ ۴۷۴،۳۹۵،۳۴۴ | فرانس ۵۱۹ فیض اللہ چک فق ،۳۹،۳۷،۳۶،۳۰،۲۸ ،۱۷ ،۱ ۲ قادیان ،۸۱،۷۹،۶۷ ،۶۵،۶۳،۶۱،۶۰، ۵۸،۵۷،۵۵،۵۰ ،۱۰۳ ۱۰۲ ۱۰۱ ۱۰۰ ۹۹ ،۹۶،۹۵،۹۴ ،۹۰،۸۸،۷ ،۱۲۵،۱۲۳،۱۲۲،۱۲۰،۱۱۹،۱۱۶،۱۱۵،۱۱۳ ۱۱۲ ۱۱۱ ۱۱۰ ۱۰۴ ،۱۳۷،۱۳۶،۱۳۵،۱۳۳،۱۳۲،۱۳۱ ،۱۳۰ ،۱۲۸،۱۲۷ ،۱۲۶ ،۱۵۱،۱۵۰،۱۴۹ ،۱۴۸ ،۱۴۷ ، ۱۴۵ ، ۱۴۴ ، ۱۴۱ ۱۴۰ ۱۳۹ ،۱۷۶،۱۷۳،۱۶۶،۱۶۵،۱۶۴،۱۶۱،۱۶۰،۱۵۷،۱۵۳،۱۵۲ ،۲۰۹،۲۰۳،۱۹۹،۱۹۵ ،۱۹۳، ۱۹۱،۱۹۰،۱۸۸ ،۱۸۶،۱۷۹ ۴۷۴،۳۹۵ ۴۶۶ ۶۴۰،۶ ۶۴۰ ۵۳۴،۷۷،۷۶ ۶۱۸،۵۲۶،۵۲۲،۴۸۱،۱۵۸،۱۱ ۵۱۰ ،۲۵۲،۲۵۱،۲۵۰،۲۴۹ ،۲۴۶ ،۲۲۹ ،۲۲۸ ۲۲۲۲۲۱،۲۲۰ ۱۹ ،۳۰۷ ،۳۰۳،۲۹۶،۲۹۵،۲۸۱ ،۲۷۰،۲۶۷ ۲۶۶ ۲۶۲ ،۳۴۵،۳۴۴،۳۴۳،۳۲۶،۳۱۷،۳۱۶،۳۱۵،۳۱۲،۳۱۰ ،۳۷۴،۳۶۵،۳۵۹،۳۸۹ ،۳۵۷ ،۳۵۶،۳۵۵،۳۴۹ ۵۵۳ ،۳۸۸،۳۸۷،۳۸۶،۳۸۲،۳۷۹،۳۷۷ ،۳۷۶،۳۷۵ ۶۲۰،۵۰۷،۳۹۳،۳۱۶،۱ ، ۴۴۸ ، ۴۴۷ ، ۴۴۶ ،۴۰۶ ،۴۰۵،۴۰۴،۴۰۳،۳۹۶،۳۹۴ | ۱۷۵ ،۴۶۵،۴۶۴،۴۶۳،۴۶۰ ، ۴۵۸ ، ۴۵۶، ۴۵ ۴۴۴۹ ۲۷ سرحد سرگودھا سر ہند سر وعہ سکندر آباد سکندر پوره سلطان پوره سندھ سیالکوٹ شام شاہ پور شاہجہاں آباد شاہجہاں کوٹلہ شاہدرہ شملہ شیخوپورہ صوالي
۶۹۷،۶۵۵،۶۵۰،۶۴۹ ،۶۲۵ ،۵۵۶ ۵۲۶ ۵۲۷ ۵۴۷ ،۴۵۴،۵۳۹،۴۹۸،۳۵۸،۳۰۷ ۴۸۱،۳۸۱،۲۷۲،۳۹ ۳۱ ،۲۷۰،۲۲۹ ،۲۲۸،۱۰۸،۶۴ ۵۱۵،۴۸۳،۴۸۲،۴۸۱،۳۵۸،۳۰۹ ،۲۸۱ لم ،۹۵،۹۴،۷۹،۵۹،۵۵،۱۹،۱۸ ،۱۷،۱۲،۱۱ کوٹلہ فقیر ۳۱ ،۴۸۹،۴۸۵،۴۸۴،۴۸۳ ،۴۸۲،۴۸۰ ، ۴۷۶،۴۷۴،۴۷۳ ،۵۱۶،۵۱۵،۵۱۲،۵۰۹ ،۵۰۱ ،۴۹۷ ، ۴۹۴ ،۴۹۲،۴۹۰ ۵۴۹،۵۳۹،۵۳۶،۵۳۲،۵۳۰،۵۲۶،۵۲۲٬۵۲۱،۵۱۸، کوکن ،۶۲۳،۶۱۷ ،۶۱۲۶۰۷ ، ۵۶۹ ،۵۵۶،۵۵۴،۵۵۲،۵۵۰ گجرات ۶۲۵،۶۲۴، ۶۲۷، ۶۳۱،۶۲۹،۶۲۸ ، ۶۳۶، ۶۳۷، ۶۳۸ ، گوجرانوالہ ،۶۶۹،۶۶۸،۵۶۴،۶۵۱،۶۵۰،۶۴۹ ،۶۴۵،۶۴۱ ، ۶۴۰ کنگوه ۶۸۸،۶۸۴،۶۷۹،۶۷۱،۶۷۰ | گورداسپور لاہور 1 ۵۳۰ ۱۷۶،۱۵۱،۱۴۳،۱۳۶،۱۳۲،۱۲۶،۱۱۱ ،۱۰۵،۱۰۲،۱۰۰،۹۹ ، ۱۷۶،۲۵۱،۲۴۳ ۲۴۲ ،۲۲۹،۲۲۸ ،۲۲۴ ،۱۹۱،۱۸۰،۱۷۹ ،۳۴۴،۳۳۵،۳۲۶،۳۲۵،۳۱۸،۳۱۶،۳۱۵،۳۱۲،۳۰۳ ،۴۷۵،۴۰۴،۳۹۳،۳۸۶،۳۵۹،۳۵۸ ،۳۵۷ ،۳۴۶ ۳۴ ۶۴۴ ۶۲۲،۴۸۴ ۶۱ ،۶۰۵،۵۵۳٬۵۵۲،۵۳۰،۵۲۶،۵۰۳،۴۸۳،۴۸۱ ۶۸۸،۶۳۳،۶۲۸،۶۲۲۶۲۱،۶۱۸،۶۰۹ ،۳۲،۳۰،۲۹،۲۸،۲۷ ،۲۶،۲۵ ،۲۲،۴۲ لدھیانہ ،۳۸۵،۳۹۳،۳۸۰،۳۰۵،۶۵،۴۹،۴۵،۳۹،۳۶،۳۳ ۶۹۹،۶۹۷،۶۵۲۵۲۱،۵۰۷ ۱۹۰ 11 ۶۹۲،۱۳۷ ۲۳۳ لکھنو لندن ( ولایت) لوہارو مارکش فارمس ٣٠٣ ۱۶ ۶۲۸ ۴۸۱،۳۰۷ ۴۸۶،۱۳۷،۹۰ ۶۴۰ طنطنیہ ک میگ کابل کاندھلہ کانگڑہ کبیر والہ کپورتھلہ كدعه کراچی کربلا ،۱۰۹ ،۱۰۱،۹۸،۹۴،۵۰،۹،۷ ،۶،۴،۲ کریم نگر کڑیانوالہ کشن گڑھ جنوبی کوٹلہ ،۵۵۴۵۵۳۵۲۱،۵۱۴،۵۱۳ ۴۰۴ ،۲۲۴ ،۱۳۳،۱۱۹ ۱۱۶
الدله له حالمه VLJ ۵۱۹ ۶۲۲ ۴۰۸ ۴۵۶،۴۵۴ ۵۱۷ ۵۰۱ ۵۵۰ اد ۴۶۸،۳۹۶،۲۷۶۶۱۷،۲ ۶۱۷،۵۴۳،۵۱۰،۴۹۵،۴۶۹ ۵۰۱ ۴۶۱،۳۶۲،۱۶۹،۶۲،۵۸،۱۱ ۳۲ ۵۱۰،۱۷۵ | ملتان ۷۲ ملکانه نتگمری ،۲۶،۲۵،۲۴،۲۱،۱۹،۱۸،۱۶،۷ ،۶ ،۴۲۱ ماریشس مالیر مالیر کوٹلہ ۸۷،۸۶،۸۵،۸۴،۸۰،۶۵،۴۶،۴۵،۳۲،۳۱،۳۰،۲۹، | مندیله ،۱۳۸،۱۳۷ ،۱۲۸،۱۲۰،۱۱۳ ۱۱۲،۱۰۳۹۸،۹۶،۹۵،۹۱،۹۰ ۱ ،۱۹۳،۱۶۷،۱۶۴،۱۶۰،۱۵۳،۱۴۹ ،۱۴۸ ،۱۴۶،۱۴۰، ۱۳۹ ،۲۶۷ ،۲۶۶،۲۵۸ ،۲۳۲،۲۲۹ ،۲۲۸ ،۲۲۴ ۲۲۲،۱۹۷ نا بھ نصين نواں سینڈ ،۳۹۷ ،۳۹۶،۳۹۳،۳۸۹،۳۸۷ ،۳۸۶،۲۹۶،۲۶۸ ۱،۴۶۶،۴۶۵،۴۶۳،۴۶۱ ،۴۵۹،۴۰۵ ، ۴۰ ۴،۴۰۲،۴۰۱ ،۵۰۱،۵۰۰،۴۸۹،۴۸۶ ،۴۷۶ ، ۴۷۵ ، ۴۷ ۴ ،۴۷ ، ۴۷۰ ۶۱۲۶۱۰،۵۹۰،۵۵۴،۵۴۲،۵۳۴،۵۲۳،۵۲۰،۵۰۸ ، | ہریانہ ۶۱۴، ۶۱۸، ۶۱۹ ، ۶۲۱ ، ۶۲۵، ۶۲۹، ۶۳۷، ۶۳۹،۶۳۸، ہزارہ ۶۴۱، ۶۹۷،۶۵۵،۶۵۰،۶۴۹، ۶۹۹،۶۹۸ | ہندوستان ہوشیار پور یورپ یوپی ۵۳۴،۴۴۹،۱۲۶۰۷۸ ٣٠٣ ۵۵۰ ۵۶۷،۵۱۰،۳۶۰ ۳۴ المهله ۵۹ ۵۱۰ مدراس مدینہ مردان مص مظفر نگر ها ملایا