Language: UR
حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1949ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ میں فرمایا : ‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : <span class="quranic">اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ</span>۔ عام طور پر اس کے یہ معنی کئے جاتے ہیں کہ مُردوں کی برائی بیان نہیں کرنی چاہئے وہ فوت ہوگئے ہیں اور ان کامعاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے۔ یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن درحقیقت اس میں قومی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے<span class="quranic"> اُذْکُرُوْا مَوْتیٰ بِالْخَیْرِ</span> نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے<span class="quranic"> مَوْتَاکُمْ</span> کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی اپنے مُردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو۔ جس کے معنی ہیں کہ آپؐ نے یہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔‘‘ اس ارشاد کی روشنی میں محترم ملک صلاح الدین صاحب نے ’’اصحاب احمدؑ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کیا جس میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے مختصر حالات شائع کئے جاتے تھے۔ رسالہ کانام حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے نے تجویز فرمایا تھا۔ بعد ازاں بزرگانِ سلسلہ کی تجویز پر ان سوانح کو مفصل اور کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1955ء کے جلسہ سالانہ میں آپ کی اس خدمت کاذکر کرتے ہوئے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور بعض ضروری نصائح فرماکر احباب جماعت کوصحابہ کرام کے حالات زندگی اور تاریخ کے متعلق ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ درجنوں صحابہ کے ابتدائی تعارف پر مشتمل زیر نظر یہ مجموعہ 12 جلدوں پر محیط ہے جو دیدہ زیب ٹائپ شدہ ہیں اور قریبا اڑھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مفید سلسلہ کتب میں معزز مرحومین کی تصاویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بعض جگہ ضروری نقشے اور وضاحتی خاکے بھی بناکر شامل کئے گئے ہیں۔ صحابہ کی خود نوشت تحریرات یا مطبوعہ مواد پر مصنف کتاب کے شامل کردہ حوالہ جات اور ضروری وضاحتی حواشی نے کتاب کی افادیت کو اور بڑھا دیا ہے اور بلاشبہ یہ صرف صحابہ کے حالات زندگی ہی نہیں بلکہ جماعت احمد یہ کی تاریخ کا اہم ذخیر ہ ہے اور مصنف کی طرف سے جماعت کی ابتدائی تاریخ کا قیمتی خزانہ محفوظ کرنے کی ایک نہایت ہی قابل قدر سعی ہے۔
1 (صرف احمدی احباب کے لئے ) وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة) اصحاب احمد جلد دواز و هم سیرت حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب آف مالیر کوٹلہ مؤلف ملک صلاح الدین ایم اے
2 نام کتاب اصحاب احمد جلد دوازدہم مصنف باراول ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مئی 1965ء طبع ثانی مارچ 2015ء
3 سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد حضور نے 1955ء کے جلسہ سالانہ پر فرمایا:.صحابہ فوت ہورہے ہیں...ہمارے ہاں بھی صحابہ کے حالات محفوظ ہونے چاہئیں.ملک صلاح الدین صاحب لکھ رہے ہیں کم سے کم احمدیوں کو چاہئے تھا کہ اپنے آباء کے نام یاد رکھتے.آپ لوگ تو قدرنہیں کرتے جس وقت یورپ اور امریکہ احمدی ہوا....وہ بڑی بڑی کتا بیں لکھیں گے.جیسے یورپ میں بعض کتابوں کی میں میں چالیس چالیس پونڈ قیمت ہوتی ہے اور بڑی بڑی قیمتوں پر لوگ ان کو خریدیں گے مگر ان کا مصالحہ ان کو نہیں ملے گا.اور وہ غصہ میں آکے تم کو بددعائیں دیں گے.“ (الفضل 16 فروری1956ء)
4 فہرست عنوانات اصحاب احمد جلد دوازدہم پیش لفظ از حضرت نواب مبار که بیگم صاحبه عرض حال تبصرے والد ماجد.خاندانی حالات ازدواجی زندگی و ہجرت و خدمات ولا دت میاں عبداللہ خانصاحب ایک روایت ابتدائی تعلیم.مدرسہ میں داخلہ عہد ہد طفولیت کالج میں داخلہ از دواجی زندگی.شجرہ نسب شادی کی برکات عنوان حضرت ام المومنین کی دعائیں اور شکر خداوندی انفاق فی سبیل اللہ بچی کو قیمتی نصائح شدید ترین حملہ مرض اور معجزانہ شفایابی خدمات سلسلہ اولین مسجد سوئزرلینڈ کا سنگ بنیاد تبرکات حضرت مسیح موعود اولا دکو وصیت مرض الموت.تدفین حالات مرض الموت مع مناقب قرار داد ہائے تعزیت عبارت کتبہ شکریہ احباب و تحریک دعا سیرت حضرت مرحوم صفحہ 5 9 19 21 30 30 31 34 37 67 68 68 74 76 84 93 96 98 98 101 106 110 111 113
5 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ خاکسار مولف کی التجا پر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہا العالی نے باوجود علالت طبع کے اصحاب احمد جلد دوازدہم کا پیش لفظ رقم فرمایا ہے.میں ان کی ذرہ نوازی کا ممنون ہوں مجھے امید ہے کہ احباب کرام زندہ صحابہ کے پاک گروہ کیلئے اور بالخصوص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) حضرت نواب صاحبہ موصوفہ اور حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ جیسے نافع الناس وجودوں کے تا دیر سلامت رہنے کیلئے دعا فرماتے رہیں گے.مَتْنَا اللهُ بِفُيُوْضِهِمْ وَبِطُولِ حَيَاتِهِمْ أَجْمَعِين آمين ملک صلاح الدین ایم اے قادیان) بسم الله الرحمن الرحيم برادرم مکرم ملک صاحب السلام علیکم میں کچھ عرصہ سے پھر بار بار کمزوری وغیرہ کے دورہ سے بیمارسی رہتی ہوں.اب انفلوئنز اہوا.اس سے اور بھی دل و دماغ ضعیف سے ہورہے ہیں طبیعت کی خرابی کہتی ہے کہ یاد نہ کر دل حزیں بھولی ہوئی کہانیاں اور آپ کا ایسی ہی باتوں کیلئے تقاضا.خیر! خدا تعالیٰ آپ کے کاموں میں برکت دے اور مزید خدمات کی توفیق بخشے مگر مجھے اب ایسے مضامین لکھنے سے محفوظ ہی رکھیں.آمین آپ عزیزی محمد عبد اللہ خاں مرحوم کا ذکر خیر لکھ رہے ہیں اور اس کے متعلق مجھے لکھنے کو لکھتے ہیں کیا لکھوں؟ ایک بات بھی لکھنے کو قلم اٹھاؤں تو بچپن سے اس وقت تک کا ان کا ساتھ اور سارا زمانہ نظروں میں پھر جاتا ہے.اور دل بیقرار ہو جاتا ہے ہم لوگ ایک طرح بچپن سے اکٹھے رہے بلکہ کچھ عرصہ اکٹھے پڑھتے بھی رہے.(حضرت پیر منظور محمد صاحب کے پاس ) پھر میری 12 سال کی عمر تھی
کہ ہر وقت کا ساتھ ہو گیا.اور ہمارے تعلقات بے تکلفانہ ماں بیٹے کے نہیں بلکہ بہن بھائی کے سے رہے.وہ بہت سیدھے سادے سے تھے.ان کو سب کا مل کر چھیڑنا اور ستا نا اور پھر ان کے غصہ سے لطف اٹھانا.ایک ایک بات یاد آ رہی ہے.غصہ میں بھڑک اٹھتے پھر جلدی ہی نرم ہو جاتے کیونکہ دل آئینہ کی طرح صاف تھا.اب اتنا بے تکلف قریب کوئی نہیں.جس سے جھگڑ کر بھی لطف آئے ، جس کو چڑا کر بھڑکا کر بھی مزہ لیا جا سکے، وہ برابری کی ، ہم عمری کی عمر بھر کی یکجائی کی بے تکلفی اب کہاں ڈھونڈوں؟ ایک دم رہ گیا ہے خالد کا وہ یوں دور پڑے ہیں.مگر عبداللہ خاں اتنے سادہ اور گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ مزاج کے صرف روزمرہ کی باتوں میں تھے.دین وایمان کے معاملہ میں ہمیشہ انتہائی ثابت قدم اور ایک مضبوط چٹان کی مثال رہے.ایمان و اخلاص میں وہ بالکل اپنے والد مرحوم کا نمونہ تھے.کسی حالت میں دینی معاملات میں نہ ان کی زبان پھسلی نہ دل بہ کا.قابل نمونہ پختہ ایمان و اخلاص کا وہ شخص تھا.یہ ایک دیانتدارانہ شہادت ہے ان کو تمام زندگی قریب سے دیکھتے ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام دعاوی پر صدق دل سے ایمان رکھنے والے، خلافت سے ظاہر و باطن ، دل و جان سے وابستہ رہنے والے.کوئی معترض ان پر کسی قسم کا اثر ہر گز نہیں ڈال سکتا تھا.دنیوی چھوٹی چھوٹی باتوں میں کسی کا اثر اپنے بھولے پن سے جتنی جلدی لے لینے کی عادت تھی اتنے ہی دینی امور میں ایک ایسا پختہ پہاڑ تھے جس پر کوئی وار بھی خراش تک نہ ڈال سکتا تھا.ایک زمانہ میں اکبر شاہ خانصاحب نجیب آبادی ان پر بہت مہربان تھے اور یہ بھی ان کے بہت ہی معتقد.ہر وقت ان کی تعریفیں کیا کرتے مگر جہاں وہ خلافت سے اور خلافت کے ساتھ ہی احمدیت سے برگشتہ ہونے لگے تو شروع کے ہی آثار دیکھ کر ان سے دل اتنا بیزار ہوا کہ نام بھی لینا پسند نہ کرتے تھے.ایک دوست جن سے بہت محبت تھی ان کی زبان سے کوئی سلسلہ کی باتوں کے متعلق اعتراض وغیرہ سن کر سخت ناراض ہوئے یا تو ان کی ہر بات کو ہر ایک کے مقابلہ میں اہمیت دینے کے عادی تھے یا یہ کہ صدمہ اور ناراضگی کی حد نہ تھی.دل کے بے حد نرم تھے.غصہ میں کسی کو کچھ کہہ دیا تو پھر اس سے زیادہ خود کوفت اٹھائی.استغفار پڑھ رہے ہیں اور زیرلب دعا ہو رہی ہے.اپنی غلطی فورا مان لینا اور تدارک کی کوشش کرنا دوسروں کی ذراسی نیکی سے بہت متاثر ہونا ان کی عادت تھی.کسی خادم کو نماز پڑھتا دیکھ لیتے تو اس کے اتنے
7 مداح ہو جاتے کہ اس کے خلاف ایک لفظ سننا بھی گوارا نہ کرتے.ایک زمانہ میں ان کی اس قدر خوش اعتقادی پر چھیڑ چھاڑ اور مذاق ہوتا تھا گھر میں.اب قدر آتی ہے کہ شروع سے ہی وہ ایک نیک دل تھا.نیکی کے آثار دیکھ کر خوش اور مہربان ہو جاتا تھا.۱۴، ۱۵ سال کی عمر سے ہی ان میں احمدیت کی پختگی اور سعادت کو دیکھ کر ان کے والد ( نواب صاحب مرحوم) نے ان کو چن لیا تھا.کہ عزیزہ امتہ الحفیظ بیگم کیلئے رشتہ کا پیغام دینے کو کہ میرا یہی لڑکا مناسب اور موزوں ہے.فرماتے تھے (کہ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دختر کا پیام اسی کیلئے دینے کی جرات کر سکتا ہوں جس کو ایمان و اخلاص اور احمدیت میں دوسروں سے بڑھ کر پاتا ہوں.پھر یہ رشتہ ہو گیا اور مبارک ہوا.جو پہلے روحانی طور پر زیادہ نزدیک تھے اب جسمانی طور پر بھی آملے.آئے بھی اور رخصت بھی ہو گئے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر کرے.اور ان کی سب اولادیں نیک نسل ہوں اور نیک ہی نسلیں ان سے چلیں.آمین والسلام مبارکه
9 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوعُود عرض حال الْحَمْدُ لِله کہ اصحاب احمد جلد دوازدہم میں حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کے سوانح حیات ہدیہ قارئین کرنے کی توفیق پا رہا ہوں.آپ کے والد ماجد حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کیا ہی خوش قسمت انسان تھے کہ باوجود تمول و امارت کے عین عنفوان شباب میں آپ نے حضرت مسیح زمان و مهدی دوران علیہ السلام کی شناخت کی توفیق پائی.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو حجتہ اللہ کے خطاب سے نوازا.بعدہ پیش خبری کے مطابق اپنے مسیح علیہ السلام کی ایک لخت جگر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ آپ کے عقد زوجیت میں آئیں.وہ مقدس وجود جسے صاحب العرش نے انت مِنِّي بِمَنزِلَةِ وَلَدِی اور لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاك فرمایا.اس عظیم الشان وجود کے دوسرے گوشه جگر.....حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ جنہیں وحی الہی میں ” دخت کرام کہا گیا ہے.حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کے حبالہ نکاح میں آئیں.اس طرح دونوں باپ بیٹا حضرت اقدس علیہ السلام کی مبشر اور فخر دیار اولاد سے وابستہ ہو کر خود بھی فخر دیار ثابت ہوئے.ہر دو کے مشکوئے معلیٰ سے اللہ تعالیٰ نے اولا د و احفاد سے نوازا جن میں سے پھر ا کثر کے تعلقات ازدواج حضور ہی کے خاندان میں قائم ہوئے.دونوں بزرگوں نے خدمت دین کی توفیق پائی.اور ان کا خاتمہ بالخیر ہوا.وَذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ الله تعالى اپنے فضل سے مدام ان کو اور ان کی اولا د کو انوار و برکات سے نوازتار ہے.آمین حضرت نواب صاحب کے حالات زندگی خاکسار کی طرف سے جلد دوم میں شرح وبسط سے شائع ہو چکے ہیں.الحمد للہثم الحمد للہ کہ اس تالیف سے حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی ایک خواب پوری ہوئی تھی.چنانچہ آپ نے 27 فروری 1962ء کو خاکسار کو رقم فرمایا:.
10 میں نے حضرت نواب محمد علی خانصاحب کی زندگی میں انہیں ایک اونچی جگہ جیسے تخت پر بیٹھے دیکھا اور ایک نوجوان نے آکر نذرانہ کے طور پر ایک کتاب پیش کی جسے پکڑ کر دیکھ کر خوشنودی کی نظر سے آپ نے اس نوجوان کو دیکھا.یہ خواب گو یا اصحاب احمد جلد 2 کے ذریعہ پوری ہو گئی میں ان احباب سے جن کا سابقہ کتب میں ذکر کرتا رہا ہوں ان کی مختلف النوع اعانتوں کیلئے ممنون ہوں.اس بار بالخصوص محترم ملک غلام فرید صاحب ایم اے ( مترجم قرآن مجید انگریزی و سابق مجاہد جرمنی و انگلستان و ایڈیٹرسن رائز در یویو آف ریجنز ) کا بے حد ممنون ہوں جنہوں نے اپنے نہایت عزیز ، مشفق دوست کی سوانح حیات کا مسودہ بالاستیعاب مطالعہ کر کے مجھے زریں ہدایات سے مستفیض فرمایا.فَجَزَاهُ اللَّهُ تَعَالَى اَحْسَنَ الْجَزَاءِ احباب کرام مہربانی کر کے اس کتاب کے عنداللہ مقبول ہونے کیلئے دعا فرما ئیں.بیت الدعا ( دار ا مسیح ) قادیان خاکسار طالب دعا ملک صلاح الدین (رکن و آڈیٹر ہرسہ انجمن ہائے احمد یہ قادیان بھارت ) تبصرے (1) ماہنامہ خالد ربوہ بابت نومبر دسمبر 1963 ء رقم طراز ہے:.سیرت سرور، اصحاب احمد جلد پنجم حصہ دوم، اصحاب احمد کے نام سے موسوم سلسلہ ہائے کتب کے مولف محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش قادیان جماعت کے لکھے پڑھے حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں.موصوف بڑی ہی محنت و کاوش سے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی مرتب کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں ایک درجن سے زائد جلد میں شائع کروا چکے ہیں.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء اب آپ کی طرف سے جونئی تصنیف منصہ شہود پر آئی ہے.وہ حضرت اقدس علیہ السلام کے جلیل القدر صحابی حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے حالات پر مشتمل ہے.
11 حضرت مولوی سرور شاہ صاحب اپنے علم اور تقویٰ کی وجہ سے جماعت میں ایک خاص مقام رکھتے تھے.آپ کی زندگی کے حالات بہت ہی ایمان افروز ہیں.نو جوانوں کو بالخصوص یہ کتاب بہت کثرت سے خرید کر پڑھنی چاہئے.بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ اصحاب احمد کے اس سلسلہ کی تمام تصانیف گھر میں موجودر ہیں.زیر نظر کتاب حسب سابق عمدہ سفید کاغذ پر بڑے سائز میں شائع ہوئی ہے.210 صفحات کی مجلد کتاب متعدد نقشوں، چر بوں اور تصاویر سے مزین ہے.(2) حضرت مولوی محمد دین صاحب ( ناظر تعلیم ربوہ) اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم مطالعه کرنے پر اپنے ذیل کے تاثرات ایک مکتوب میں رقم فرماتے ہیں.سیرت سرور مطالعہ سے گزری.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور آپ کی عمر میں برکت دے اس مرد مجاہد کی پاک زندگی کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا اور ساتھ ہی قادیان کی ساری زندگی ایک فلم کے طور پر سامنے آگئی.میں نے یوں محسوس کیا کہ میں حضرت کے زمانہ میں قادیان میں ہوں اور وہ تمام واقعات...تمام کے تمام میرے سامنے ہو رہے ہیں.بعض حصے میں نے کئی دفعہ پڑھے.جیسے کہ بعض دفعہ کوئی اچھا خواب ہوتا ہے اور جاگ کھلنے پر انسان پھر سو جاتا ہے تا کہ وہ نظارہ پھر آنکھوں کے سامنے آجائے.“ (3) موقر الفضل رقمطراز ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے حالات ضبط تحریر میں لانا تا کہ ہمارے اور ہماری آئندہ نسلوں کیلئے وہ روشنی کے مینار ثابت ہوں نہایت ضروری کام تھا.ہمارے نزدیک اس میں قدرت کا ہاتھ ہے کہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کے دل میں یہ شوق بھڑ کا دیا.جس کے نتیجہ میں آپ بعض مقتدر صحابہ کے ایمان افروز حالات قلمبند کرنے میں ایک بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں.اگر چہ یہ کام اتنا وسیع ہے کہ اس کو ایک انسان کی کوشش تک محصور نہیں کیا جاسکتا اور چاہئے کہ بعض دیگر احباب بھی اس کام میں ملک صاحب کی طرح پورے انہماک سے مصروف ہوں لیکن تا حال یہ سہرا ملک صاحب کے سر پر ہی ہے کہ آپ نے یہ کام سرانجام دینے کا تہیہ کیا ہوا ہے.اس وقت ہمارے سامنے اصحاب احمد کی جلد پنجم کا حصہ سوم ہے جو حضرت مولوی سید سرورشاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات کے بقایا پر مشتمل ہے.ملک صاحب نے جلد پنجم کے دو حصے اول و دوم پہلے آپ کے حالات پر مشتمل شائع کئے ہیں.جو قبول عام کی سند حاصل کر چکے ہیں.
12 حصہ سوم میں آپ نے بعض چیدہ چیدہ احباب کے وہ تاثرات دیئے ہیں جو انہوں نے سید صاحب کے ساتھ میل جول، آپ سے ارتباط اور آپ سے تعلیم حاصل کرنے کے زمانہ میں ذاتی طور پر لئے.حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب ایک بہت بڑے مرد مومن تھے جو اپنی نظیر آپ ہی تھے.ہم پھر ایک بار ملک صاحب کا شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ہر طرح کی قربانی کر کے اتنے بڑے کام کا بیڑا اٹھایا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کام کیلئے چن لیا ہے.بہر حال سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات پر مشتمل یہ حصہ سوم بھی بڑا مفید ہے.(25 فروری 1964ء) (4) حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی نے اصحاب احمد جلد دوم اور مکتوبات اصحاب احمد جلد اول کے متعلق رقم فرمایا تھا.ملک صلاح الدین صاحب نے اس سات صد صفحات کی کتاب کو نہ صرف ظاہری شکل میں دیدہ زیب شائع کیا ہے بلکہ سلسلہ احمدیہ کے ایک بیش قیمت خزانہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام وصحابہ کرام کے غیر مطبوعہ مکتوبات و غیر مطبوعہ وحی درج کر کے محفوظ کیا ہے.احباب اس کی قدر کر کے اس نیک کام کے جاری رکھنے میں مدد دیتے ہوئے کا ر ثواب میں شریک ہوں.اسی طرح انہوں نے مکتوبات اصحاب احمد (صفحات 96) کی شکل میں حضرات خلفائے کرام ، حضرت ام المومنین ، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے 1947 ء اور بعد کے تاریخی مکتوبات وغیرہ مع بلاک شائع کر کے ایک احسن کام سرانجام دیا ہے.“ ( الصلح 25 فروری 1954 ء صفحہ 5) (5) مکرم چوہدری محمد شریف صاحب سابق مجاہد بلا دعر بیہ نے رقم فرمایا:.اس کتاب میں آپ نے جس قدر للہ محنت اٹھائی ہے وہ قابل قدر اور قابل تعظیم ہے.تحقیق کو غایت درجہ تک پہنچا دیا گیا ہے اور ایسے ایمان افروز واقعات درج فرمائے ہیں.جو اللہ تعالیٰ کی وحی حجتہ اللہ کی صداقت روز روشن کی طرح ظاہر کر رہے ہیں.“ (اصلح 3 مارچ 1954ء صفحہ 5) (6) حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب نے غالباً دو اقساط میں الفضل میں اصحاب احمد پر تبصرہ شائع فرمایا تھا.اس کا حوالہ اس وقت نہیں مل سکا.ایک کاپی میں آپ کا قلمی تبصرہ موجود ہے.جو درج ذیل کیا جاتا ہے.شاید یہ وہی تبصرہ ہے.
13 ایک عاجزانہ درخواست 0 اصحاب احمد حصہ دوم کا ریویو میری نظر سے گزرا.یہ کتاب حضرت والد صاحب نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے حالات پر مشتمل ہے.اس کتاب کو ملک صلاح الدین صاحب حال در ولیش دارالامان قادیان نے تالیف کیا ہے.میں اس کتاب اور اصحاب احمد نمبر 1 کے متعلق پہلے ہی کچھ لکھنا چاہتا تھا.لیکن میری صحت اس بات کی اجازت نہ دیتی تھی کہ میں کچھ لکھوں.اب بھی میں ابھی بیمار ہی ہوں.کافی کمزور ہوں چند قدم ہی اپنے کمرہ میں چل پھر سکتا ہوں لیکن بزرگوں اور آپ لوگوں کی دعاؤں سے تھوڑا بہت لکھ لیتا ہوں.مجھے بیماری سے کلی طور پر ا بھی افاقہ نہیں اس لئے دعاؤں کا بہت محتاج ہوں.صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام رضی اللہ تعالی عنہم اب ہماری آنکھوں سے ایک ایک شخصیتیں ہیں کر کے اوجھل ہورہے ہیں.اب خال ہی ہم میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں.چند ایک می جن کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے.یہ وہ مبارک ہستیاں تھیں جنہوں نے موجودہ زمانہ کے روحانی سورج کو چڑھتے اور پھر غروب ہوتے دیکھا اور اس نور کی ضیا باریوں سے انہوں نے اپنے دل و دماغ کو منور کیا ہے اور اس پاک وجود کے نمونہ کو دیکھ کر اپنے پر وہی رنگ چڑھانے کی کوشش کی جو اللہ اور رسول اللہ (ﷺ) کی محبت میں فنا ہو کر اس مقدس وجود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے پر چڑھایا.یہ نورانی شمعیں تھیں جن کو فداہ ابی وہ امی حضرت مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام) کے پاک نمونہ اور دعاؤں نے منور کیا تھا.یہ عاشق اپنے معشوق کے رنگ میں رنگین تھے.انہوں نے اس چیز سے وافر حصہ لیا تھا.جو کہ آمد مہدی مسعود مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اصل مقصود اور مطلوب تھی.اب چونکہ یہ لوگ بہت حد تک ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں.اس لئے ان کے حالات ہی ہم کو بتا سکتے ہیں ( کہ ) کس غرض کیلئے یہ دنیا میں رہے اور کس غرض کو لے کر دنیا سے گزرے.وہ دنیا میں رہتے تھے لیکن دنیا سے علیحدہ تھے.وہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا بہترین نمونہ تھے.وہ اپنے سید و آقا ومولیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کس کس رنگ میں خوش کرنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا و محبت حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے.یہ دعاؤں کا ہی کرشمہ ہے کہ احباب کے سامنے یہ چند معروضات پیش کر رہا ہوں.
14 یہ اُسوہ ان کے حالات کو پڑھ کر یا سن کر ہی معلوم کیا جا سکتا ہے.اس مقصد کے حصول کیلئے عزیزم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے نے نہایت جانفشانی اور ان تھک کوششوں سے ہماری مدد کی کوشش کی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو اس کی بہترین جزا دے اور ان کی سعی کو مشکور فرما دے.....پیارے انداز میں اور دلکش پیرایہ میں انہوں نے اصحاب احمد نمبر 1 ونمبر 2 کو بنایا ہے.عزیزم ملک صاحب.....حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خاندان سے والہانہ محبت رکھتے ہیں....زندہ قو میں ہمیشہ ان لوگوں کو قدر وعزت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں جو کہ ان کیلئے تکلیف اٹھاتے ہیں اور اپنا سب کچھ قوم کی فلاح اور بہبود پر صرف کر دیتے ہیں.لیکن یہ جواہر جس کے پارے جو انہوں نے اکٹھے کر دیے ہیں جماعت نے ان کی وہ قدر نہیں کی جس کے وہ مستحق ہیں.لیکن ایک وقت آنے والا ہے جبکہ آنے والی نسلیں ان کے اس کام کے عوض رحمتیں اور صلوۃ بھیجیں گی.اور بڑی سے بڑی قیمت دینے کیلئے تیار ہوں گی.میں درخواست کرتا ہوں (کہ) آپ ملک صاحب کی حوصلہ افزائی فرما ئیں.اس کام کو حقیقی قدرو قیمت کی نگاہ سے دیکھیں.آپ ان کتابوں کا اس لئے مطالعہ کریں ( کہ ) آپ کی ایمانی قوت جلاء حاصل کرے اور ان پاک وجودوں کے اسوہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نیا عرفان اور ایک نیا ایمان اپنے اندر پیدا کریں.یہ لوگ معمولی ہستیاں نہیں تھیں ان کے پاک ہونے پر خدائی گواہی موجود ہے.موجودہ وقت کا برگزیدہ انسان ان کی تعریف میں رطب اللسان ہے لیکن ہم لوگوں کیلئے جن کے زمانہ میں یہ کام (ہوا) یہ بات ہوکر رہ جائے گی کہ ہمارے بھائی نے ہمارا کام کیا لیکن ہم نے اس کی قدر نہ کی.پھر اصحاب ( احمد ) نمبر 2 کو پڑھنے کیلئے اس لئے ترغیب و تحریص نہیں دلاتا کہ وہ میرے باپ کی حیات پر مشتمل (ہے) بلکہ اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا کہ آپ حجتہ اللہ ہیں.پھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام ) نے ) اس وقت جبکہ ان کی عمر صرف 18، 19 سال کی تھی.ان کے متعلق لکھا.میں آپ سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کو ان مخلصین میں سے سمجھتا ہوں جو صرف چھ سات آدمی ہیں.جبی فی اللہ سردار نواب محمد علی خاں صاحب بھی اخلاص اور محبت میں بہت ترقی کر گئے ہیں.
15 66 اور فر است صحیحہ شہادت دیتی ہے کہ بہت جلد قابل رشک اخلاص اور محبت کے منار تک پہنچیں گے.“ میں اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے خود صحابی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ دیکھا پھر حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ پایا.بلکہ آپ کی محبت کا مور در ہا ہوں.پھر حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) کے زمانہ سے گزر رہا ہوں.اکثر صحابہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا بلکہ بہتوں کا نیاز مند رہا ہوں.لیکن جب بھی ان لوگوں کے حالات کو پڑھایا ان کے حالات کو سنا تو اپنے میں ایک نئی روح اور نئی ایمانی قوت پائی.پس وہ لوگ جو اس خوش نصیبی سے محروم ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا پھر بڑے پایہ کے صحابہ کا وقت پانہیں سکے.ان کو ان تالیفات کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے تا کہ اپنے اعمال کو ان لوگوں کے رنگ میں رنگین کریں اور فلاح دارین حاصل کریں.ایک اور امر بھی خاص توجہ کے قابل ہے.میں دیکھتا ہوں ( کہ ) بعض نو جوانوں کے دماغوں میں انتشار اور پراگندگی پائی جاتی ہے.وہ خلفاء کے متعلق پھر اہل بیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے متعلق اس قسم کی باتیں منہ پر لاتے ہیں.جن کا لانا اسوہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتا.جب میری شادی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر ہونے لگی.تو حضرت والد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے تحریر فرمایا ( ص 276 کے اقتباس کا ذکر کیا ہے کہ حضرت نواب صاحب نے لکھا تھا کہ اپنا رشتہ ہونے پر بھی میں کس طرح حضرت ام المومنین اور حضور کی اولاد اور اولاد در اولاد کا احترام کرتا ہوں اور لکھا تھا کہ اگر یہی طرز تم بھی برت سکو تو پھر اگر تمہاری منشا ہو تو میں اس کی تحریک بعد استخارہ کروں.ورنہ ان پاک وجودوں کی طرف خیال لے جانا بھی گناہ ہے.یہ تھا سچے عاشقوں کا طریق ، یہی وہ جذبہ اور نمونہ تھا.جس کی وجہ سے انہوں ( نے اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی سے مذکورہ مقام حاصل کر کے یہ بے مثل اور قابل رشک سرٹیفکیٹ حاصل کئے.پس اگر آپ لوگ اپنی اولادوں میں وہ روح پھونکنا چاہتے ( ہیں ).جو صدیق اکبر حضرت مولانا مولوی نورالدین خلیفہ اول ، مسلمانوں کے لیڈر مولوی عبدالکریم ، حضرت حجۃ اللہ نواب محمد علی خاں اور فرشتہ خصلت حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت ڈاکٹر رشید الدین صاحب، حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب اور حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب، حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری ( اور ) حضرت منشی اروڑے خاں صاحب رضی اللہ تعالی عنہم میں کا رفر ماتھی.66
16 تو اپنے سامنے اس اسوہ کو رکھیں تا کہ ان کی نورانی شعائیں ان کے دلوں (اور ) دماغ کو روشن کر سکیں اور وہ ابتلاؤں کی آندھیوں اور جھکڑوں سے محفوظ و مامون ہوسکیں اور استقامت ( اور ) پختگی دکھائیں جو کہ ان بزرگوں کا طرہ امتیاز تھا.اصحاب احمد نمبر 1 کوئی تین صد صفحہ کی کتاب ہے اور اصحاب احمد نمبر 2 جو کہ صرف حضرت والد صاحب کے حالات پر مشتمل ہے کوئی قریباً سات سو صفحات کی کتاب ہے.اس کتاب کو پڑھنے سے قریباً تین مقدس دوروں کی تاریخ کا ایک بڑا حصہ ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کئی ایک غیر مطبوعہ خطوط بھی آپ کی نظر سے گزریں گے.پھر یہ بھی آپ کو معلوم ہوگا.شیطان ہر زمانہ میں اپنے چیلوں سے خدمت لیتا رہتا ہے.کس طرح اس سعادت مجسم نے خدا تعالیٰ کی توفیق سے اپنے آپ کو ان کے شر سے محفوظ رکھا.کس طرح امام وقت کی رضا و محبت اور پیار حاصل کیا اور کس طرح خلفاء وقت کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی عمر گزار دی اور دنیاوی دھندوں کو کس طرح دین کی خدمت کے مقابلہ میں ناچیز سمجھا.پس میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کام کو جو کہ ملک صاحب نے نہایت ایثار و قربانی کے جذبہ کے ماتحت کیا ہے نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی توفیق دے اور مولیٰ کریم کے فضل سے آپ کی زندگیاں اس رنگ میں ڈھل جائیں.جس رنگ میں ان لاثانی وجودوں نے امام زمان مہدی دوراں سے ہدایت حاصل کر کے ڈھالی تھیں.آپ لوگ بھی ان پاک ہستیوں کی طرح احمدیت کی خدمت میں بہترین نمونہ پیش کرنے والے ہوں اور ابتلاؤں کے وقت استقامت اور مضبوطی کی ایک چٹان ثابت ہوں.دین کو دنیا پر مقدم کر کے ایک بے مثل نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں تا باغ احمد میں پھر بہار آئے.نہایت بہترین لذید پھل پیدا ہوں.اس نور فشانی سے دنیا کا کونہ کو نہ بقعہ نور بن جائے.اللَّهُمَّ آمِين يَا رَبِّ الْعَالَمِين (7) سیرت سرور ( اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم ) پر موقر خالد ربوہ نے مارچ 1965ء کی اشاعت میں ذیل کا تبصرہ فرمایا ہے.” جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے ( درویش قادیان) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے مختلف اصحاب کرام کی سیرت پر متعدد کتب تالیف کر چکے ہیں.گزشتہ سال اس سلسلہ میں آپ نے جماعت کے جید عالم اور بزرگ مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کے حالات زندگی شائع
17 کئے تھے جو بہت مقبول ہوئے.لیکن ابھی حضرت مولانا رضی اللہ عنہ کی سیرت کا ایک بڑا حصہ باقی تھا جو اب زیر نظر تالیف میں نہایت عمدگی سے پیش کیا گیا ہے.جن احباب کے پاس اصحاب احمد کی گزشتہ جلدیں موجود ہیں اور وہ ان کا مطالعہ کر کے ان کی افادیت سے واقف ہو چکے ہوں گے وہ تو اس سلسلہ کی ہرنئی چھپنے والی کتاب بھی ضرور حاصل کرنے کا اہتمام کریں گے.دیگر اصحاب سے ہم گزارش کریں گے کہ اگر وہ اب تک ان انمول موتیوں کے حصول سے محروم رہے ہیں تو اب جلد از جلد یہ بیش بہا کتب حاصل کر کے ان سے استفادہ کریں.“
18 فَجَزَاهُ اللَّهِ تَعَالَىٰ اس کتاب کی فائنل پروف ریڈنگ نے بہت محنت اور عرق ریزی سے کی.اللہ تعالیٰ آپ کے نفوس و اموال میں برکت ڈالے اور علم و عرفان میں بڑھاتا چلا جائے.آمین
19 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوعُود ھوالناصر.خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ حضرت میاں عبداللہ خاں صاحب آپ کے والد ماجد حضرت نواب محمد علی خان صاحب ( حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کے والد ماجد ) یکیم جنوری 1870ء کو پیدا ہوئے اور 10 فروری 1945ء کو وفات پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار کے قرب میں مدفون ہوئے.آپ نے ہمیں سال کی عمر میں گویا عین عنفوان شباب میں 19 نومبر 1890ء کو حضور کی بیعت کی توفیق پائی اور الاسْتِقَامَةُ فَوْقَ الْكَرَامَةِ ايا قابل رشک نمونہ دکھایا کہ ہمیں حدیث نبوی کے مطابق حَتَّى يُوضَعُ لَهُ الْقَبُوْلُ فِي الْأَرْضِ كَا منظر نظر آتا ہے.چنانچہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے (حجتہ اللہ ) قرار دیا.خاندانی حالات اور آپ کی سعادت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یورپ اور امریکہ میں اشاعت اسلام کے خواہاں تھے.ازالہ اوہام میں آپ رقم فرماتے ہیں.انہی براہین اور دلائل اور حقائق اور معارف کے شائع کرنے کیلئے قوم کی مالی امداد کی حاجت وو ہے کیا قوم میں کوئی ہے جو اس بات کو سنے.“ (رسالہ فتح اسلام بھجوانے پر افسوس کہ بجز چند میرے مخلصوں کے جن کا ذکر میں عنقریب کروں گا.کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی.میں حیران ہوں کہ کن الفاظ کو استعمال کروں تا میری قوم پر وہ مؤثر ہوں.میں سوچ میں ہوں کہ وہ کون سی تقریر ہے جس سے وہ میرے غم سے
20 بھرے ہوئے دل کی کیفیت سمجھ سکیں.اے قادر خدا ! ان کے دلوں میں آپ الہام کر.....جوامر میرے اختیار میں نہیں.میں خداوند قدیر سے چاہتا ہوں کہ وہ آپ اس کو انجام دیوے میں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ ایک دست غیبی مجھے مدد دے رہا ہے...اور میں جو کہتا ہوں کہ ان الہی کاموں میں قوم کے ہمدرد مدد کریں.وہ بے صبری سے نہیں بلکہ صرف ظاہر کے لحاظ اور اسباب کی رعایت سے کہتا ہوں ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل پر میرا دل مطمئن ہے..اب میں ان مخلصوں کا نام لکھتا ہوں جنہوں نے حتی الوسع میرے دینی کاموں میں مدد دی.یا جن پر مدد کی امید ہے یا جن کو اسباب میسر آنے پر تیار دیکھتا ہوں“.( حصہ دوم طبع اول ص 774 تا 777 ) حضور انتالیس احباب کے متعلق کم و بیش تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے آٹھویں نمبر پر نواب صاحب کے خاندانی حالات اور آپ کی سعادت کا تذکرہ ان الفاظ میں رقم فرماتے ہیں.جبی فی اللہ نواب محمد علی خان صاحب رئیس خاندان ریاست مالیر کوٹلہ.یہ ایک خاندان کے نامی رئیس ہیں.مورث اعلی...شیخ صدر جہاں ایک با خدا بزرگ تھے.جو اصل باشندہ جلال آباد سروانی قوم کے پٹھان تھے.1469ء میں عہد طفولیت بہلول لودی میں اپنے وطن سے اس ملک میں آئے.شاہ وقت کا ان پر اس قدر اعتقاد ہو گیا.کہ اپنی بیٹی کا نکاح شیخ موصوف سے کر دیا.بہادر خاں کی نسل میں سے یہ جوان صالح خلف رشید نواب غلام محمد خاں صاحب مرحوم ہے جس کا عنوان میں ہم نے نام لکھا ہے.خدا تعالیٰ اس کو ایمانی امور میں بہادر کرے اور اپنے جد شیخ بزرگوار صدر جہاں کے رنگ میں لاوے.سردارمحمد علی خان صاحب ے..ایک شائستگی بخش تعلیم پائی جس کا اثر ان کے دماغی اور دلی قومی پر نمایاں ہے.ان کی خدا دا د فطرت بہت سلیم اور معتدل ہے اور باوجود عین شباب کے کسی قسم کی حدت اور تیزی اور جذبات نفسانی ان کے نزدیک آئی معلوم نہیں ہوتی ہیں.قادیان میں جب وہ ملنے کیلئے آئے اور کئی دن رہے پوشیدہ نظر سے دیکھتا رہا ہوں کہ التزام ادائے نماز میں ان کو خوب اہتمام ہے اور صلحاء کی طرح توجہ اور شوق سے نماز پڑھتے ہیں اور منکرات اور مکروہات سے بکلی مجتنب ہیں.مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو کہ با وجود بہم پہنچنے تمام اسباب اور وسائل غفلت اور عیاشی کے اپنے عنفوان جوانی میں ایسا پر ہیز گار ہو.معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بتوفیقہ تعالیٰ خود اپنی اصلاح پر آپ زور دے کر رئیسوں کے بے جا طریقوں اور چلنوں سے نفرت پیدا کر لی ہے.اور نہ صرف اسی قدر بلکہ جو کچھ نا جائز خیالات اور
21 او ہام اور بے اصل بدعات شیعہ مذہب میں ملائی گئی ہیں اور جس قد ر تہذیب اور صلاحیت اور پاک باطنی کے مخالف ان کا عملدرآمد ہے ان سب باتوں سے بھی اپنے نور قلب سے فیصلہ کر کے انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی ہے.وہ اپنے ایک خط میں مجھ کو لکھتے ہیں کہ ابتداء میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے مؤید نہیں ہیں.بلکہ مخالفان اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں.مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا اور نہ انکار.پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آ گیا اور ان پر غالب نہ ہوسکا تو میں نے سوچا کہ آپ نے بڑے دعوے کئے ہیں.یہ سب جھوٹے نہیں ہو سکتے.تب میں نے بطور آزمائش خط و کتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی..لودہانہ ملنے گیا.تو اس وقت میری تسکین خوب ہوگئی اور آپ کو ایک باخدا بزرگ پایا.میں نے آپ سے بیعت کر لی.اب میں اپنے آپ کو نسبتاً بہت اچھا پاتا ہوں اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گنا ہوں سے آئندہ کیلئے تو بہ کی ہے.آپ ایک بچے مجد داور دنیا کیلئے رحمت ہیں.“ (ص787 تا790) آپ کی پہلی شادی آپ کی پہلی زوجہ محترمہ مہر النساء بیگم صاحبہ تھیں.حضرت مسیح موعود کی دعاؤں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کے بطن سے اولاد نرینہ سے نواب صاحب کو نوازا.میاں محمد عبد الرحمن خان صاحب د میاں محمد عبد اللہ خان صاحب نے بیان کیا.ہماری پھوپھیوں کے ہاں اولاد نہ تھی.انہوں نے والد صاحب سے کہا کہ حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کیلئے عرض کریں.نواب صاحب نے عرض کیا.بعد ازاں حضور نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ مجھے گولیاں ملی ہیں کچھ میں نے مولوی نورالدین صاحب کو دے دیں.کچھ آپ کو.لیکن میں نے نواب عنایت علی خان صاحب ( خاوند بو فاطمہ بیگم صاحبہ ) کو تلاش کیا لیکن وہ نہ ملے.اس وقت حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاں کئی لڑکے ہو کر فوت ہو چکے تھے.اس کے بعد آپ کو نرینہ اولا دعطا ہوئی.اسی طرح حضرت نواب صاحب کے ہاں دولڑ کیاں ہی ہوئی تھیں اور اس کے بعد نرینہ اولا د ہوئی.لیکن نواب عنایت علی خاں صاحب کے ہاں ہماری پھوپھی فاطمہ بیگم صاحبہ کے بطن سے اولاد نہ ہوئی.البتہ ایک دوسری بیگم کے بطن سے دولڑکیاں ہوئیں.حضرت نواب صاحب
22 کے تعلق میں اس خواب کے پورا کرنے کا سامان بروایت مکرم میاں محمد عبد اللہ خان صاحب یوں ہوا کہ جب متواتر دولڑ کیاں تولد ہوئیں اور لڑ کا کوئی نہ ہوا تو والد صاحب کو فکر ہوا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب سے ذکر کیا.چنانچہ آپ نے نسخہ دیا جس کے چار جزو تھے.جو کہ ہماری والدہ صاحبہ نے استعمال کئے اور اس کے استعمال کے بعد ہر دفعہ لڑکا پیدا ہوتا رہا.“ آپ کے بطن سے ذیل کی اولاد ہوئی:.(1) محترمه بوزینب بیگم صاحبہ (ولادت 19 مئی 1893ء ) حضرت مسیح موعود کی تحریک پر حضور کے فرزند حضرت مرزا شریف احمد صاحب سے 15 نومبر 1906ء کو نکاح ہوا.اور 9مئی 1909ء کو تو دلع عمل میں آئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو صاحب اولا د واحفاد بنایا.(2) میاں محمد عبد الرحمن خان صاحب (ولادت 19 اکتوبر 1894ء وفات بمقام مالیر کوٹلہ بتاریخ 25 اکتوبر 1956ء مدفون بمقام مذکور ) (الفضل 31اکتوبر 1956 ء وبدر قادیان 3 نومبر 1956ء) خاموش طبع ، متواضع اور عبادت گزار تھے.آپ کی لاہور میں شدید علالت پر حضوڑ نے بار بار خطوط لکھے.جن میں رقم فرمایا کہ میں دعاؤں میں مشغول ہوں اور امیدوار رحمت ایزدی.حضور کے یہ تمام مکتوبات حضور کے کرب وقلق اور بے پایاں شفقت کے مظہر ہیں.چنانچہ حضور تحریر فرماتے ہیں.شب بیداری اور دلی تو جہات سے جو عبد الرحمن کیلئے کی گئی.میرا دل و دماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے.بسا اوقات آخری دم معلوم ہوتا تھا.یہی حقیقت دعا ہے کوئی مرے تا مرنے والے کو زندہ کرے.یہی الہی قانون ہے.سو میں اگر چہ نہایت کمزور ہوں.لیکن میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ آپ جب آویں تو پھر چند روز در دانگیز دعاؤں سے فضل الہی کو طلب کیا جائے.“ اصحاب احمد جلد دوم ص 197 متن و حاشیه یہ بھی مرقوم ہے : ” مکرم میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ خواب میں نے مرزا صفدر ،، علی صاحب ملازم اور غالباً والد صاحب سے بھی سنی تھی.صاحب موصوف نے یہ خواب میری موجودگی میں میاں نجم الدین صاحب بھیروی کو سنائی تھی.“ خاکسار مولف عرض کرتا ہے کہ حضور کی رؤیا 19 مئی 1893ء اور 19 اکتوبر 1894ء ( تاریخ ہائے ولادت محترمہ بوزینب بیگم صاحبہ ومیاں محمد عبد الرحمن خان صاحب ) کے درمیانی عرصہ کی معلوم ہوتی ہے.
23 میں تو دن رات دعا کر رہا ہوں اور اس قدر زور اور توجہ سے دعائیں کی گئی ہیں کہ بعض اوقات میں ایسا بیمار ہوا کہ یہ وہم گز را که شاید دو تین منٹ جان باقی ہے اور خطر ناک آثار ظا ہر ہو گئے.“ اگر کوئی صورت ایسی ہو کہ عبدالرحمن کو ساتھ لے کر قادیان آجاویں تو رو برو دیکھنے سے دعا کیلئے ایک خاص جوش پیدا ہوتا ہے“.حضرت نواب صاحب ان کو لاہور سے لے آئے رات ساڑھے تین بجے پہنچے.حضور اسی وقت تشریف لائے اور بچہ کا حال دریافت فرماتے رہے.(3) میاں محمد عبد اللہ خان صاحب رض (4) میاں عبدالرحیم خان صاحب ( ولادت 14 جنوری 1897ء) آپ کی شدید علالت اور حضرت مسیح موعود کی شفاعت سے صحت یابی کا ذکر حقیقۃ الوحی میں آتا ہے.بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے کچھ عرصہ وکالت کی پھر دکن میں ملازمت کر لی.اب بعد پنشن مالیر کوٹلہ میں قیام ہے.آپ کی اس زوجہ محترمہ نے نومبر 1898ء میں داعی اجل کو لبیک کہا.وہ حضرت مسیح موعود کی صداقت کی قائل ہو چکی تھیں.اور ان کا ارادہ تھا کہ زچگی اور نفاس کے بعد حالت طہارت میں بیعت کریں گی.لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی.حضور نے ان کا جنازہ پڑھا اور توجہ اور الحاج سے دعائے مغفرت کرنے کا وعدہ فرمایا.دوسری شادی اور ہجرت آپ مرحومہ کی بہن محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ کو لے کر جن سے آپ نے شادی کر لی تھی.بچوں سمیت اواخر دسمبر 1901ء قادیان دارالامان ہجرت کر آئے.میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب راوی ہیں.” جب ہجرت کے ارادہ سے قادیان آئے اور حضرت اقدس نے دار مسیح کے سیدہ ام متین صاحبہ والے حصے میں آپ کو ٹھہرایا.تو حضور نے اس کا کمرہ قالین اور گاؤ تکیہ سے آراستہ کروایا.دسمبر کے دن تھے.مغرب کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب آتے تھے اور مجلس لگتی تھی اور کھانا بھی وہیں کھایا جا تا.عجیب پر کیف و سرور مجلس ہوتی تھی.نواب صاحب فرماتے تھے کہ حضور کا طریق اور سلوک اس قسم کا تھا.جیسے مشفق باپ کا اپنے بیٹوں سے ہوتا ہے بے تکلفی والی فضاء ہوتی تھی.سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ اسے پڑھ کر تحریر فرماتی ہیں کہ یہی ذکر اور نقشہ نواب صاحب بیان کرتے تھے.کمرہ میں ایک گاؤ تکیہ
24 بھی تھا.لیکن حضور ایک کو نہ میں بیٹھ جاتے تھے.پھر تکیہ کون استعمال کرتا.میں بھی ایک کو نہ میں بیٹھ اصحاب احمد جلد دوم ص 132-133) جاتا.تکلف اس مجلس میں نہیں ہوتا تھا.“ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ نواب صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جس لطف اور روحانی سرور میں وہ دن گزرے نہ اس سے پہلے دیکھے نہ بعد میں.کھانا کئی ماہ تک مہمانداری کے طور پر ساتھ ہی رکھا اور الگ ہونے پر بھی بہت خیال رکھتے رہے.یعنی کوئی اچھا کھانا اور پھل وغیرہ بھجواتے رہے.حضرت اقدس کی شفقت و محبت کی نظیر نہ دے سکتا ہوں نہ پھر پاسکتا ہوں....نہایت محبت سے عذر کو قبول فرما کر....اور بھی دلداری شروع کرتے کہ سرا بر کرم کے بار احسان سے اور بھی جھک جاتا.میاں عبدالرحیم خان صاحب کی علالت کے دنوں میں حضرت نے بے حد فکر اور توجہ مبذول رکھی ہر وقت خود آتے اور دیکھتے اصحاب احمد جلد دوم ص 645-646) میاں محمد عبد الرحمن خانصاحب سناتے ہیں کہ :.’والد صاحب نے بڑی کوشش کی کہ حضور اجازت دیں کہ کھانے کا انتظام اپنا کریں.اور عرض کیا کہ میرے پاس باورچی ہیں.لیکن حضور نہ مانے اور قریباً چھ ماہ تک حضور کے ہاں سے کھانا آتا رہا.جس کا انتظام حضرت ام المومنین خود فرماتیں.پھر یہاں تک ہی بس نہیں.حضور نواب صاحب کے خدام سے بھی دریافت فرمایا کرتے کہ نواب صاحب کون سا کھانا شوق اور رغبت سے کھاتے ہیں تاکہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو پھر وہ کھانا بھجواتے.اعلیٰ مہمان نوازی لمبے عرصہ تک کرنا بہت مشکل ہوتا ہے.لیکن حضور کی مہمان نوازی اعلیٰ درجہ کی تھی اور برابر چھ ماہ تک رہی.کھانا بہترین ہوتا تھا.اتنے لمبے عرصہ کی مہمان نوازی کے بعد بھی حضور نے بصد مشکل اور والد صاحب کے بار بار اصرار کرنے پر گھر پر کھانے کا 66 اپنا انتظام کرنے کی اجازت دی.ورنہ حضور یہی پسند فرماتے تھے کہ یہ مہمان نوازی بدستور جاری رہے مکرم میاں محمد عبد اللہ خان صاحب فرماتے ہیں کہ چھ ماہ تک پانچ پانچ چھ چھ کھانے حضور کے ہاں سے روزانہ تیار ہو کر آتے تھے اور والد صاحب نے بتایا کہ میں اپنے طور پر لنگر خانہ کیلئے رقم دے دیتا تھا تا کہ سلسلہ پر بوجھ نہ ہو.میاں محمد عبد اللہ خان صاحب بیان کرتے ہیں :.اصحاب احمد جلد دوم ص 133 )
25 شروع شروع میں جب والد صاحب قادیان آئے ہیں.تو ملازموں کی اور خاص کر تربیت یافتہ خادمات کی از حد دقت تھی.مالیر کوٹلہ سے یہاں آنا کوئی پسند نہیں کرتا تھا.قادیان کے اجڈ لوگ ہمیں پسند نہ تھے.اس ضمن میں بھی والد صاحب اور خالہ صاحبہ نے بہت تکلیف برداشت کی.والد صاحب جب یہاں آئے.تو آپ کو قریباً ایک دس بارہ فٹ مربعہ کمرہ اور ایک کوٹھڑی شاید 8X8 مربعہ فٹ ملی ( یعنی حضرت سیدہ ام متین والا حصہ دار مسیح کا) غسل خانہ اور ٹی بھی جو کہ آرام کا موجب ہو سکے.بعد میں بنوانی پڑی.ورنہ پہلے انتظام بہت معمولی تھا.یہ اس رئیس اور ان کی بیگم کی قادیان میں جائے رہائش تھی جو کہ ایک بڑے محل کو مالیر کوٹلہ میں چھوڑ کر آئے تھے.میں نے والد صاحب سے دریافت کیا کہ آپ نے اس قدر بڑے مکان کو چھوڑ کر قادیان میں اتنے تنگ مکان میں آکر کس طرح گزارہ کیا ؟ میرے جیسا آدمی جس نے وہ آرام و آسائش نہیں دیکھے جو آپ نے اپنی زندگی میں دیکھے تھے.اس تنگ جگہ میں گزارہ کرنا مشکل سمجھتا ہے آپ نے کس طرح گزران کی؟ فرمانے لگے وہ زمانہ ایسا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ( داغ ہجرت ) کا الہام ہوا تھا.گورنمنٹ بھی ہمارے خلاف تھی.لوگوں کی مخالفت بھی زوروں پر تھی تو میں نے مالیر کوٹلہ اس عزم وارادہ سے چھوڑا تھا کہ اب وہاں واپس نہیں جانا.اب معلوم نہیں کہ آئندہ زندگی ہمیں ہجرت کرنے کی وجہ سے کہیں جنگلوں وغیرہ میں گزارنی پڑے گی اور جو کچھ ہمارے پاس ہے یہ بھی ہمارے پاس رہے گا یا نہیں سوجو کچھ میں ملتا تھا وہ بھی غنیمت معلوم ہوتا تھا اس لئے مجھے کسی قسم کی تنگی اور تکلیف کا احساس نہیں ہوا اصحاب احمد جلد دوم ص 130-131 ) میاں محمد عبد الرحمن خان صاحب اس تعلق میں بیان کرتے ہیں :.اس مکان کی تنگی کی یہ حالت تھی کہ ایک کوٹھڑی میں جس میں صرف ایک پلنگ کی گنجائش تھی حضرت والد صاحب اور خالہ جان رہتے تھے اور ہم تینوں بھائی ساتھ کے کچے کمرہ میں رہتے تھے.دوسرا کچا کمرہ حضرت والد صاحب کا دفتر تھا جب بارش ہوتی تو ان کے گرنے کا خطرہ ہوتا.اس لئے ہمیں حضرت والد صاحب دار اسی میں اپنے پاس بلا لیتے اور ساتھ کے کمرہ میں ہم فرش پر سوتے اور موسم سرما میں تو موسم بھر ہم چاروں بہن بھائیوں کو وہاں فرش پر سونا پڑتا.کیونکہ سب کیلئے چار پائیاں کمرہ میں نہ سما سکتی تھیں.بیت الخلاء مکان سے بالکل باہر تھا.ہمیں بان کی چار پائیاں استعمال کرنی پڑتی تھیں.قادیان سے ضروریات دستیاب نہ ہوتی تھیں.حتی کہ جلانے کیلئے ایندھن بھی حضرت والد صاحب مالیر کوٹلہ سے منگواتے تھے.ہریکین لیمپ کے سوا روشنی کا کوئی انتظام نہ تھا تین چار سال اسی راہبانہ حالت میں گزر کی اصحاب احمد جلد دوم ص 130-131)
26 زوجہ دوم کی وفات محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ سخت بیمار ہو گئیں میاں محمدعبدالرحمن خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ:.خالہ جان کی اس بیماری میں حضرت اقدس نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ذریعہ نواب صاحب سے کہا کہ بڑے باغ میں کھلی ہوا میں جا کر رہنا مفید ہوگا باغ والے مکان میں چلے جائیں.چنانچہ نواب صاحب خالہ جان کو وہاں لے گئے.ان دنوں باغ کا انتظام حضرت میر ناصر نواب صاحب کے سپرد تھا.انہوں نے باغ کی حالت بہت عمدہ بنا رکھی تھی.حضور نے ان کو کہہ دیا کہ نواب صاحب یہاں آئے ہیں.ان کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں.اگر کسی قسم کا نقصان کریں تو اغماض فرما ئیں.وہاں جو ہی کے پھول بھی تھے جو ہر روز حضور کیلئے لے جائے جاتے تھے مگر ہم صبح سویرے اٹھتے ہی تو ڑ لیا کرتے تھے.اس عرصہ میں علاج حضرت مولوی نورالدین صاحب کا تھا.مگر حضور خود بھی بعض دوائیں تجویز فرماتے اور ہر دس بارہ دن کے بعد خود عیادت کیلئے تشریف لاتے تھے.جب خالہ صاحبہ فوت ہو گئیں حضور بھی تشریف لائے.فرمایا ” مجھے تو پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے رویا کے ذریعہ خبر دے دی تھی.اور اس کی تفصیل بیان فرمائی اصحاب احمد جلد دوم ص 202-203) موصوفہ نے 27 نومبر 1906 ء کو بھمر بیس سال وفات پائی.حضور نے ان کا جنازہ پڑھایا اور بوجہ موصیبہ ہونے کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں.مرحومہ کے بطن سے کوئی اولاد نہ تھی.لیکن وہ اپنے سوتیلے بچوں سے بہت شفقت کا سلوک کرتی تھیں.حضور مرحومہ کا خاص خیال رکھتے تھے.میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بیان کرتے تھے کہ حضور جب بھی سفر سے تشریف لاتے تو بالعموم خود ہی ملنے کیلئے تشریف لے آتے“ (اصحاب احمد جلد دوم ص 210) میاں محمد عبدالرحمن خان صاحب جب 1904ء میں لاہور میں بیمار ہو گئے تو حضرت نواب صاحب کو وہاں رکنا پڑا.میاں صاحب موصوف بیان کرتے ہیں کہ :.اس عرصہ میں حضرت اقدس قادیان میں ہمارے گھر کی ضروریات کا ہر طرح خیال رکھتے اور ہمارے ہاں خود جا کر روزانہ گھر کے حالات سے اطلاع دیتے“ (اصحاب احمد جلد دوم ص 133) حضور رقم فرماتے ہیں.میں نے ایک خواب دیکھا میں نے آپ کی بیگم سعیدہ امتہ الحمید بیگم کو خواب میں دیکھا کہ جیسے
27 وو..اولیاء اللہ خدا سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں اور ان کے ہاتھ میں دس روپیہ سفید اور صاف ہیں.....ان روپوں میں سے نور کی کرنیں نکلتی ہیں جیسا کہ چاند کی شعاعیں ہوتی ہیں.وہ نہایت تیز اور چمکدار کرنیں ہیں جو تاریکی کو روشن کر دیتی ہیں.شاید اس کی یہ تعبیر ہے کہ ان کیلئے خدا تعالیٰ کے علم میں کوئی نہایت نیک حالت در پیش ہے.اسلام میں عورتوں میں بھی صالح اور ولی ہوتی رہی ہیں جیسا کہ رابعہ بصری رضی اللہ عنہا.“ خواب سے کہ ایک قسم کا کشف تھا نہایت خوشی ہوئی کہ اندازہ سے باہر ہے کل سے میں نے ارادہ کیا ہے کہ آپ کی دعا کے ساتھ ان کو بھی شریک کر دوں...اصل میں دنیا اندھی ہے کسی شخص کی باطنی حالت کو معلوم نہیں کر سکتی کل میں نے ارادہ کیا کہ ہماری دولڑ کیاں ہیں مبارکہ اور امۃ النصیر.پس امتہ الحمید بیگم کو بھی اپنی لڑکی بنالیں اور اس کیلئے نماز میں بہت دعائیں کریں تا ایک آسمانی روح خدا اس میں پھونک دے.وہ لڑکیاں تو ہماری کم سن ہیں.شاید ہم ان کو بڑی ہوتی دیکھیں یا عمر وفا نہ کرے.مگر یہ لڑکی جوان ہے.ممکن ہے کہ ہم باطنی توجہ سے اس کی ترقی بچشم خود دیکھ لیں.پس جبکہ ہم ان کو لڑکی بناتے ہیں تو پھر آپ کو چاہئے ہماری لڑکی (کے ) ساتھ زیادہ اصحاب احمد جلد دوم ص 210 تا 212) ہمدردی اور وسیع اخلاق سے پیش آویں“ حضور کی غایت درجہ کی خوشنودی حضور نے اپنی تالیفات میں اور خطوط میں آپ کے متعلق غایت درجہ کی محبت و خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ حضور حضرت نواب صاحب کی سعادت ور شد پر خوش ہیں اور حضور کی فراست صحیحہ شہادت دیتی ہے کہ آپ بہت جلد قابل رشک اخلاص اور محبت کے منار تک پہنچیں گے اور آثار صلاحیت و تقویٰ آپ کیلئے اور آپ کی اولا د ( کے لئے ) بہت ہی مفید ہیں.حضور آپ کیلئے بالالتزام پنجوقت نماز میں اور نماز کے علاوہ دعا کرتے تھے اور پر یقین تھے کہ یہ دعائیں خالی نہیں جائیں گی اور آخر ایک معجزہ کے طور پر ظہور میں آئیں گی.فرمایا میں دعا میں ست نہیں ہوں گا.جب تک اس قسم کا معجزہ نہ دیکھ لوں.حضور آپ کو جماعت کے چوٹی کے چھ سات مخلص افراد میں شمار کرتے تھے اور فرمایا کہ ایک امر سے نواب صاحب کا ارادہ الہی سے توار دہوا.نیز حضور فرماتے ہیں.اگر وہ دعا جو گویا موت کا حکم رکھتی ہے اپنے اختیار میں ہوتی تو میں اپنے پر آپ کی راحت کیلئے سخت تکالیف اٹھا لیتا.افسوس کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے ایسی دعا خدا تعالیٰ نے کسی کے ہاتھ میں نہیں رکھی.بلکہ جب وقت آجاتا ہے تو آسمان سے وہ حالت دل پر اترتی ہے.امید رکھتا ہوں کہ
28 کسی وقت وہ حالت پیدا ہو جائے گی“ حضور یہ بھی رقم فرماتے ہیں :.میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسا کہ اپنے فرزند عزیز سے محبت ہوتی ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اس جہان کے بعد بھی خدا تعالیٰ ہمیں دار السلام میں آپ کی ملاقات کی خوشی دکھاوے“ حضور کی دعاؤں کی قبولیت.صاحبزادی مبارکہ بیگم صاحبہ سے ازدواج حضرت اقدس نے آپ کی بیعت قبول کرتے ہوئے رقم فرمایا تھا کہ:.66 ”خدائے تعالیٰ کے حضور میں دعا کرو کہ اے رب العالمین ! تیرے احسانوں کا میں شکر یہ نہیں کرسکتا.تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے نہایت مجھ پر احسان ہیں میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں.میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا، جن سے تو راضی ہو جائے.میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو.رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے.آمین ثم آمین یہ دعا یقیناً پا یہ قبولیت پہنچی اور آپ نے رضائے الہی کے حصول کی توفیق پائی.حضور تا دم واپسین آپ سے راضی رہے اور آپ کی زوجہ دوم کے انتقال کے بعد حضور نے اپنی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبه زاد مجدها کو جن کے متعلق الہام ” نواب مبارکہ بیگم ہو چکا تھا آپ کے عقد زوجیت میں دے دیا.یہ رشتہ بھی ایک نشان تھا.کیونکہ یہ الہام نومبر 1901ء میں ہوا تھا.جبکہ آپ صرف چہار سالہ بچی تھیں اور نواب صاحب کا گھر ایک نو جوان خاتون سے آباد تھا.پانچ سال بعد یہ خاتون وفات پاگئیں.حضور آپ کیلئے دوسری جگہ شادی کی کوشش کرتے رہے.لیکن ہر بار بات رہ جاتی رہی.ایک بار حضرت مولوی نورالدین صاحب ( خلیفہ اول ) رضی اللہ عنہ نے اس الہام کی طرف اشارہ کیا تو نواب صاحب کی توجہ ہوئی اور بالآخر اس بارہ میں تحریک کامیاب ہوئی.اس رشتہ کے انعقاد سے سولہ سترہ سال قبل 1891ء میں حضور نے آپ کو رقم فرمایا :.ایک دعا کے وقت کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ آپ میرے پاس موجود ہیں اور ایک دفعہ گردن اونچی ہوگئی اور جیسے اقبال اور عزت کے بڑھنے سے انسان اپنی گردن کو خوشی کے ساتھ ابھارتا ہے ویسی صورت پیدا ہوئی.کسی قسم کا اقبال اور کامیابی اور ترقی عزت اللہ جل شانہ کی طرف سے آپ کیلئے مقرر
29 29 پھر تحریر فرماتے ہیں :.آخر جو بار بار کی توجہ کے بعد الہام ہوا...اس الہام میں جو میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے فعلی طور پر کئے وہ یہی ہیں کہ ارادہ الہی آپ کی خیر اور بہتری کیلئے مقدر ہے...معلوم ہوتا ہے کہ وہ امر مخفی نہایت ہی بابرکت امر ہے جس کیلئے یہ شرائط رکھے گئے ہیں.“ یہ خیر و برکت نہ صرف آپ کیلئے بلکہ آپ کے صاحبزادہ میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کیلئے بھی حضور کی فرزندی میں آنے سے ظاہر ہوئی.ایں سعادت بزور بازو نیست تا خدمات اسلام کی توفیق پانا بخشد خدائے بخشنده یہ ظاہری جسمانی تعلق بھی باطنی روحانی برکات کا موجب تھا.علاوہ ازیں یہ دعا ئیں اس رنگ میں بھی پایہ قبولیت پہنچیں کہ آپ کو خدمات اسلام و خدمت خلق کی توفیق ارزاں ہوئی.تبلیغ میں انہماک، ایثار و استقلال ، صاف گوئی، حفظ مراتب ، الحب اللہ والبغض اللہ، شب زندہ داری ، عبادت اور دعاؤں میں انہاک، غرباء پروری اور خدمت خلق کا قابل تقلید نمونہ پیش کرنا.حضرت خلیفتہ امسیح اول رضی اللہ عنہ کی خدمت، تائید خلافت، ان کا وصی بننا، 1918ء میں انتخاب خلافت کی کمیٹی کا صدر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہونا.منارة امسیح اور ( دار ) دور الضعفاء کی تعمیرات، الحکم والفضل اور مدرسہ تعلیم الاسلام اور کالج کے قیام کی مالی اعانت کی توفیق پانا.یہ تمام خدمات تاریخ سلسلہ میں آب زر سے تحریر کئے جانے کے قابل ہیں.میاں محمد عبد اللہ خان صاحب بیان کرتے ہیں:.بسا اوقات سلسلہ کے کسی کام کیلئے روپیہ درکار ہوتا تو حضرت اقدس خود تحریک کر کے نواب صاحب سے روپیہ منگوالیتے تھے.ایک دفعہ حضور نے حضرت ام المومنین کے کنگن غالبا ما لیر کوٹلہ بھیجے کہ انہیں رہن رکھ کر پانصد روپیہ بھیج دیں.آپ نے کنگن بھی واپس بھیج دیئے اور اپنے ملازم دائی کے بیٹے اللہ بخش عرف آتو کے ہاتھ پانصد روپیہ حضور کی خدمت میں بھیج دیا“ اصحاب احمد جلد دوم ص 463)
30 میاں محمد عبداللہ خان صاحب یکم جنوری 1896ء کو میاں محمد عبداللہ خانصاحب جیسا گوہر نایاب تولد ہوا.آپ اڑھائی تین سال کے تھے کہ والدہ کی شفقت بھری گود سے محروم ہو گئے.جس کا نعم البدل بعد میں حضرت ام المومنین کے وجود باجود میں آپ کو حاصل ہوا.آپ کے بھائی میاں عبدالرحیم خانصاحب خالد جو آپ سے صرف ایک سال چودہ دن چھوٹے ہیں.بیان کرتے ہیں کہ بھائی کی رضاعی مائیں پانچ تھیں.ایک دائی جس کا دودھ میں نے بھی پیا تھا مگر زیادہ تر وہ عبداللہ خان کی رضاعی والدہ سمجھی جاتی تھی.اس کا خاوند کما نامی بہت عرصہ ہمارے پاس ملازم رہا.محمد بخش ( خادم.جس کا پوتا بشیر میرے پاس ملازم ہے ) عبداللہ خان کی دیکھ بھال کرتا تھا.بھائی نے ابتدائی تعلیم مالیر کوٹلہ میں مولوی محمد اکرم صاحب سے پائی تھی.جن سے میں اس لئے بہت مانوس تھا کہ وہ بادام، پستہ، کشمش وغیرہ کی کھچڑی مجھے دیتے تھے.شاید بھائی کی بھی ایسی تواضع کرتے ہوں گے.ایک روایت میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب اپنے والد ماجد کے ہمراہ جب ہجرت کے وقت قادیان آئے تو چھ سال کی عمر کے تھے.اور آپ کو قریباً ساڑھے چھ سال تک حضور کے بہت قرب میں قیام کا اور حضور کی شفقت کا اور نگرانی کا مورد ہونے کا زریں موقعہ میسر رہا.آپ نے مجھے بہت سی روایات تحریر کر کے ارسال فرمائی تھیں.جو تالیف کتاب کے وقت مل نہیں سکیں.ایک روایت جو مل سکی ہے درج ذیل کی جاتی ہے.آپ رقم فرماتے ہیں:.میں نے جو روایات لکھ کر ارسال کی ہیں ان کے بعد مجھے یاد آیا.کہ میں اس سیر میں بھی تھا جس میں حضور کے ساتھ سات سو افراد سیر کیلئے جلسہ سالانہ کے موقع پر گئے تھے.لیکن ریتی چھلہ میں جہاں سٹور کی عمارت ہے اس کے شمال مغربی کونے میں ایک لسوڑے کا درخت ہوتا تھا.حضور اس کے نیچے ٹھہرے اور فرمانے لگے کہ اب اس قدر احباب کی تعداد ہے کہ چلا نہیں جاتا.اس لئے واپس چلنا چاہئے.چنانچہ حضور واپس تشریف لے آئے.غالبا یہ آخری جلسہ سالانہ حضور کے زمانہ کا تھا.مکتوب بنام مولف دسمبر 1957 ء ) آپ کے ہاتھ کا طرز تحریر محفوظ کرنے کیلئے اس روایت کا ذیل میں چہ بہ شامل کیا جاتا ہے.چه به صفحه (31) پر ملاحظہ فرمائیں)
31 می نے دار رہا ہے لکھ رہائی کی ان کے بعد مجھے یاد آیا کہ ہیں ہیں کیہ بھی تھا جسمیں حضور کے ساتھ کیات سو افراد نئے 2 بے جاری ہونہ کے موقعہ پر گئے تھے لیکن ابھی کی ہے کہ میں جہاں نسوار کی کی عمارت سے اسے شمال مغربی پر ایک بوڑے کا درخت ہو تا تھا ا ا ا و اپنی گئے اور جرمانے لگے کہ اب اسقدر احباب کی تعداد ہے نہیں جاتا اسلئے وہیں میں چلنا چا ہے.چنانچہ حضور ہیں اس چاہئے حتاکہ پر 23 لیتے آئے.غالبا یہ آخری حلوہ سالانہ حضور کے زمانہ محمد عبدالله ها قادیان میں ابتدائی تعلیم.آمین و حفظ قرآن کریم 0 حضرت پیر منظور محمد صاحب ( موجد قاعدہ میسر نا القرآن ) نے میاں محمد عبد اللہ خان صاحب اور میاں عبد الرحیم خان صاحب کو قرآن مجید ناظرہ پڑھایا.موقر الحکم رقم طراز ہے.عالی جناب خان صاحب نواب محمد علی خانصاحب ڈائریکٹر تعلیم الاسلام کالج کے صاحبزادگان کے ختم قرآن شریف کی تقریب پر 21 دسمبر 1903ء عید کے روز بعد نماز مغرب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت عالی میں بغرض دعا پیش کیا گیا ہے.جس کو عام اصطلاح میں آمین کی تقریب کہتے ہیں.حضرت اقدس نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور کل حاضرین نے آپ کے ساتھ مل کر دعا کی.ہم اپنے محسن و مخدوم نواب صاحب کو اس مبارک تقریب پر مبارکباد دیتے ہیں.اور دعا کرتے ہیں کہ حضرت حجتہ اللہ کی وہ دعائیں جو آپ نے اس تقریب پر کی ہیں.اللہ تعالیٰ قبول فرما کر کہ وہ ئیں جو نے ہم سب کو اس کے ثمرات سے بارور کرے.آمین.0 (الحکم 17 تا 24 دسمبر 1903ء) البدر میں مرقوم ہے.شام کے وقت بعد ادا ئیگی نماز مغرب حضرت اقدس نے جلسہ فرمایا.تھوڑی دیر کے بعد جناب نواب محمد
32 بیان میاں محمد عبداللہ خان صاحب حضرت والد صاحب ہماری تعلیم و تربیت کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے.ریاست میں ہر ایک کیلئے علیحدہ علیحدہ ایک خادم تھا.جب قادیان آئے تو ہمارے حسب منشاءٹرینڈ خادم نہیں ملتے تھے.اس لئے ہم چاروں بہن بھائیوں پر ایک خادم رکھا گیا.جو با قاعدہ ہمیں سیر کرانے (لے ) جا تا.غسل وغیرہ کا انتظام کرتا.ناشتہ اور کھانے کا باقاعدہ اہتمام ہوتا تھا.یہاں حضرت پیر منظور محمد صاحب کو کافی مشاہرہ پر رکھا.جنہوں نے ہمیں قاعدہ یسرنا القرآن اور بعد میں قرآن مجید ناظرہ پڑھایا.اسی سلسلہ میں حضرت والد صاحب نے ان کو ان کا مکان بنوا کر دیا تھا.حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب.....کو ہمارے لئے ٹیوٹر رکھا جو ہماری ورزش کا خیال رکھتے تھے.ہمیں میروڈ بہ کھیلنے کیلئے لے جاتے جس میں اکثر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور کبھی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب.....بھی شامل ہو جاتے تھے.ہمیں بھائی جی جغرافیہ حساب وغیرہ مضامین اور حضرت حافظ روشن علی صاحب قرآن مجید با تر جمہ پڑھاتے.شہر کے مکان میں ہمیں ایک علیحدہ کمرہ دیا ہوا تھا اور ہمارا ٹیوٹر ہمارے ساتھ رہتا تھا.والد صاحب اس بات کا خاص اہتمام کرتے تھے کہ ہم عام لڑکوں سے مل کر اپنے اخلاق علی خان صاحب کے صاحبزادہ زریں لباس سے ملبس حضور کی خدمت میں نیاز مندانہ طریق پر حاضر ہوئے آپ نے ان کو اپنے پاس جگہ دی.ان کو اس ہیئت میں دیکھ کر خدا کے برگزیدہ نے بڑی سادگی سے جناب نواب صاحب سے دریافت کیا کہ ان کی کیا رسم ادا ہونی ہے.نواب صاحب نے جواب دیا کہ آمین ہے.اس اثناء میں ایک سروپا کا تھال آیا.اور وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے روبرو دھرا گیا.چندلحہ کے بعد پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ اب آگے کیا ہونا ہے عرض کی گئی کہ اسے دست مبارک لگا دیا جائے اور دعا فرمائی جاوے.چنانچہ حضور نے ایسا ہی کیا اور پھر فوراً تشریف لے گئے.البدر 8 جنوری 1904ءص2) ( حاشیہ در حاشیه ) صاحبزادہ کا لفظ سہو ا درج ہے.صفحہ ے پر مرقوم ہے کہ دو صاحبزادوں کی آمین تھی.نیز مزید مرقوم ہے کہ خوشی میں 3 دن تک بتدریج دعوت کا سلسلہ رہا.اور بتدریج احباب ایک ایک وقت کا کھانا تناول فرماتے رہے.الحکم والبدر میں صاحبزادگان کے اسماء درج نہیں لیکن جیسا کہ آگے ذکر آتا ہے میاں محمد عبداللہ خان صاحب اور میاں عبدالرحیم اکٹھے تعلیم پاتے تھے.اور ہر دو کو حفظ قرآن بھی شروع کر وایا گیا تھا.
33 خراب نہ کر لیں.اسی وجہ سے عرصہ تک ہمیں سکول میں داخل نہ کیا گیا ، 0 مدرسہ میں داخلہ (اصحاب احمد جلد دوم ص 388) میاں عبدالرحیم خاں صاحب خالد بیان کرتے ہیں کہ :.جب ہم ذرا اور بڑے ہوئے ہماری مدرسہ کی زندگی شروع ہوئی.میاں عبداللہ خان کا مذہبی رجحان بڑھ چکا تھا.یہ نمازوں وغیرہ میں مجھ سے بہت زیادہ پیش پیش تھے.ان کو بحث و تمحیص کا بہت زیادہ شوق تھا.مدرسہ میں آتے ہی اپنی اپنی طبیعت کے مطابق اپنے ساتھیوں کے انتخاب کا ہمیں موقع ملا.والد صاحب نے مدرسہ میں ایسا انتظام کرایا تھا کہ ہم دونوں بھائیوں کا ڈیسک ایک ہی ہو.پہلے روز جب ہم مدرسہ گئے.ڈرل کا وقت ہوا.سب لڑکے کمرہ سے نکل کر ماسٹر ماموں خان صاحب ڈرل ماسٹر کے پاس جمع ہو گئے.ہم دونوں بھائیوں کو ڈرل سے معافی تھی.ایک لڑکا چھوٹے سے قد کا ہم سے مخاطب ہوکر پوچھنے لگا کہ کیا تمہیں ڈرل معاف ہے اس لڑکے کے بغل میں ایک بہت بڑی کتاب تھی.میں نے ڈرتے ڈرتے ان صاحب سے دریافت کیا کہ یہ کون سی کتاب ہے تو وہ بولے کہ یہ مشکوۃ ہے.بعد میں معلوم ہوا کہ یہ غلام فرید نامی بچہ ہے.مگر انہیں سب لڑکے بابا جی کہہ کر پکارتے تھے.چنانچہ ہم بھی آج تک اسی نام سے یاد کرتے ہیں.یہ ساتویں جماعت تھی.اور بابا جی ہمارے مانیٹر تھے.میاں عبداللہ خاں پر اس وقت ایسا اثر ہوا کہ اس وقت سے تا وفات یہ دونوں یک جان و دو قالب بنے رہے.اور مجھ پر یہ اثر ہوا کہ میں ان کی قابلیت سے مرعوب ہوگیا اور یہ اثر مجھ پر آج تک قائم ہے.بابا جی کی دوستی مجھ سے بھی ہے.مگر میاں عبداللہ خاں سے دوستی اور رنگ کی تھی.الفضل میں مرقوم ہے.یہ خبر مسرت سے پڑھی جائے گی کہ عبدالرحیم خاں وعبداللہ خاں علاوہ فورتھ ہائی کی تعلیم کے سات پارے حفظ کر چکے ہیں.آخر الذکر عزیز کا نمونہ قابل قدر ہے.جو اس جاڑے میں دن چڑھنے سے پون گھنٹہ پیشتر ایک میل کے فاصلہ سے یہاں قرآن مجید پڑھنے کیلئے پہنچ جاتا ہے.اس سے زیادہ ہر دو حفظ نہیں کر سکے.الفضل 21 جنوری 2014ءص1 ) اصحاب احمد جلد دوم ص 518)
34 وہ کیا زمانے تھے ہم بھائیوں میں سے ہر ایک کی سواری کیلئے ایک ایک گھوڑی تھی.میری مشکی ، عبداللہ خان کی سبزہ ، عبدالرحمن خان کی کمید، ہر ایک کا الگ الگ سائیں تھا کوٹھی سے مدرسہ گھوڑیوں پر جاتے تھے.جبکہ کچھ عرصہ مدرسہ شہر میں تھا اور ہم دار السلام منتقل ہو چکے تھے.ہمارا مدرسہ جانا کیا ہوتا تھا ایک جلوس ہوتا تھا.ہر ایک کا بستہ لے جانے کیلئے ایک ایک لڑکا ملا زم ساتھ ہوتا تھا.نصف رخصت کے وقت ہم اپنے اندرونی مکان میں آجاتے تھے اور ناشتہ کیلئے بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کی دکان سے پیسٹری، بسکٹ آجاتے تھے اور گھر سے دودھ آ جاتا تھا.عہد طفولیت میاں عبدالرحیم خاں صاحب خالد بیان کرتے ہیں کہ ہمارا قادیان کا زمانہ ایک کتاب ہے جو میرے دماغ میں اس قدر محفوظ ہے کہ جس وقت میں اس کتاب کو کھولتا ہوں اسے ہر لحاظ سے خوشکن پاتا ہوں.شاید 1904ء کی بات ہے.والد ماجد میاں عبدالرحمن خان کو لاہور لے گئے تھے کہ ان کو تپ محرقہ ہو گیا.ہمیں شاید حضرت اماں جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایماء سے بلایا.ہمارے اور حضرت مسیح موعود والے حصہ میں صرف ایک دروازہ حائل تھا.ہم گئے مگر حضرت صاحب کو نہ پایا.آپ کافی دیر کے بعد تشریف لائے اور جہاں تک میری یاد کام دیتی ہے ایک پلیٹ پلاؤ سے بھری ہوئی لائے.فرمایا میں نے اس پر بہت دعا کی ہے.مجھے اب تک یاد ہے میں بلا تکلف اس پر ٹوٹ پڑا.مگر میاں عبداللہ خان کو جیسے جھینپ سی ہوتی ہے اور بچے نہ کھانے کیلئے پیچھے ہٹ جاتے ہیں.چنانچہ میاں عبداللہ خاں نے ایسا ہی سماں پیدا کیا.مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے اس میں سے کوئی لقمہ اٹھایا یا نہیں.جسمانی لحاظ سے وہ مجھ سے قوی تھے.مجھے زدو کوب کرنا ان کا روز مرہ کا طریق تھا.ایک دفعہ استفسار پر مکرم ملک غلام فرید صاحب نے بتایا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں ہمارے اساتذہ حضرت مولوی محمد دین صاحب ( حال ناظر تعلیم ) ، حضرت مولوی محمد جی صاحب ہزاروی ( مقیم ربوہ ) ، حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب ( یکے از 313 صحابہ ) ، حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب سابق مہر سنگھ ( یکے از 313 صحابہ )، حضرت صوفی غلام محمد صاحب ( مجاہد ماریشس ) ، حضرت چوہدری غلام محمد صاحب ( بعدہ مینجر نصرت گرلز ہائی سکول ) اور حضرت قاضی عبدالحق صاحب تھے.
35 انہوں نے مجھے مارا.مزید مار پیٹ متوقع تھی.کمزور چھوٹے ہتھیاروں پر اتر آتا ہے.میں نے سر پوش دے مارا.جس سے ان کے منہ اور ہونٹ سے خون نکلنے لگا.میں بہت پریشان ہوا اور ڈر گیا.والد صاحب محترم میاں عبدالرحمن خان کی علالت کی وجہ سے لاہور میں مقیم تھے.میاں محمد عبد اللہ خان کا فی ضبط رکھتے تھے.انہوں نے دلیری سے برداشت کیا ان کا زخم پھوڑا بن گیا.ڈاکٹر الہی بخش صاحب ( والد ملک محمد اسمعیل صاحب ڈائریکٹر علاج حیوانات بہار ) مرہم پٹی کرتے تھے.والدہ ( حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ ) اس وقت موجود تھیں.ان کو یہ واقعہ اب تک یاد ہے اور انہوں نے کئی مرتبہ بیان کیا ہے.میاں محمد عبداللہ خان صاحب میں برداشت کا مادہ بے حد تھا.میں نے ان کو روتے کبھی نہیں دیکھا.البتہ نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور ضرور روتے تھے.ہم دار امسیح میں رہائش پذیر تھے.زنانہ میں تعمیر کا کام ہورہا تھا.معمار مزدور مصروف تھے.یہ شرارتاً ایک چار پائی پر چڑھ گئے جو دیوار کے ساتھ کھڑی تھی.وہ گری اور یہ ساتھ ہی نیچے آگرے.ان کی کہنی کی ہڈی ٹوٹ گئی.مجھے خاں ایک بوڑھے ڈیوڑھی بان تھے.ان کی بڑی بڑی آنکھیں تھیں.آنکھیں کیا تھیں آگ کے انگارے تھے.انہوں نے پہلے تو عبداللہ خاں کو ڈانٹا.پھر ان کو ان کے ٹوٹے ہوئے ہاتھ سے کھینچا اور والد صاحب کے پاس لے جا کھڑا کیا.مگر باوجود یکہ ان کے ساتھ بڑا نا مناسب درشتی کا سلوک ہوا تھا.لیکن یہ بالکل نہیں روئے.مگر انکا چہرہ بتلاتا تھا کہ چوٹ سخت ہے غور سے دیکھنے پر ہڈی ٹوٹی ہوئی ظاہر ہوئی.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے جوڑی.ڈاکٹر صاحب نے پانچ چھ دن ٹھہر نا تھا انہوں نے ایک دو دن قیام اور زیادہ کر دیا اور ان کو جلد صحت ہوگئی.سب سے بڑا واقعہ جو عبد اللہ خاں اور میری زندگی کو وابستہ کرتا ہے وہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا درس تھا جو اپنے بڑے بیٹے عبدالحی کو مغرب کی نماز کے بعد اپنے مکان پر دیا کرتے تھے.جب ہم نے اس درس میں حاضری کی ٹھانی اور ہم گئے.تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے اور فر مایا میرا گھر آج نور سے بھر گیا ہے.اس خوشی میں آپ نے پتاشے بانٹے.اس فقیر کا گھر کچا سا کوٹھا ہوتا تھا.فرش چٹائی کا ہوا کرتا تھا.جس پر آپ اور تمام شریک ہونے والے بیٹھتے تھے.0 ایک فرشی لیمپ کیروسین سے جلنے والا اس درسگاہ کو روشن کیا کرتا تھا.اس کی روشنی نا کافی ہونے کی مکرم ملک غلام فرید صاحب بیان کرتے ہیں کہ کبھی آپ کیلئے چٹائی پر معمولی دری بچھی ہوتی تھی.
36 وجہ سے میاں عبداللہ خاں نے مینٹل کا لیمپ وہاں لگا دیا.جو چھت گیر (سقفی ) تھا.چنانچہ اس کی سفید اور تیز روشنی نے اس چھوٹے سے کمرہ کو منور کر دیا.یہی بابا غلام فرید میاں عبد اللہ خان کے دوست اس درس میں جانے والے ساتھی تھے.جو واپسی پر بورڈنگ میں ٹھہر جاتے اور ہم آگے اپنی کوٹھی کو چلے جاتے تھے.0 میاں عبداللہ خان بہترین شکاری ، اچھے کھلاڑی اور مدرسہ کی فٹ بال ٹیم کے ممبر تھے.ایک دو ڈسٹرکٹ ٹورنا منٹوں کے مقابلوں میں بھی انہوں نے شرکت کی تھی.اس زمانہ میں یہ طریق تھا کہ ٹیم مقابلہ کیلئے جاتے وقت خلیفہ وقت سے ملاقات کر کے جاتی تھی.روانگی کے وقت دعا ئیں ہوتیں جب ہماری ٹیم کوئی گول کرتی تو کھلاڑی اور احمدی حاضرین سجدے میں گر جاتے.مولوی صدرالدین صاحب سے عبداللہ خاں کی بڑی دوستی تھی.کیونکہ وہ ہیڈ ماسٹر تھے اور یہ کھیل کود میں اچھا خاصہ جوش رکھتے تھے.مگر جب خلافت کے متعلق جھگڑے چلے تو ان کے تعلقات پھیکے پڑ گئے.مرحوم صاف دل رکھتے تھے.جب کبھی ان کے دل پر میل بھی آتی.تو سخت الفاظ سے ان کو دھو ڈالتے.بل چھل کے عادی نہیں تھے.مرغیاں انہوں نے پالی تھیں.والد ان کو مرغی میجر کہتے تھے.وہ مرغیاں اب بالکل عنقا ہیں.وہ کالے چمڑے کی ہوتی تھیں بلکہ ہڈی تک ان کی کالی ہوتی تھی.لیکن ان کا کوٹ سفید اور پشم کی طرح ملائم ہوتا تھا.قد میں چھوٹی ہوتی تھیں.اور انڈا بھی معمول سے چھوٹا ہوتا تھا.مرحوم درخت پر بے تکلف چڑھ جاتے تھے.نظر نہایت تیز تھی.جب ہم خالہ جان مرحومہ کی علالت کی وجہ سے حضرت اماں جان والے باغ میں مقیم تھے.امرودوں کا موسم گزر جانے پر بھی مرحوم درخت کی چوٹی پر چڑھ کر امرود تلاش کر لاتے.بیڈ منٹن بہت اچھی کھیلا کرتے تھے.خود ہی ریکٹ کو گٹ کر لیتے شٹل ٹوٹی پھوٹی کو از سرنو نئی اور تازہ کھیلنے کے قابل بنا لیتے.مکرم ملک غلام فرید صاحب بیان کرتے ہیں کہ بورڈنگ میں سے صرف میں اور صوفی محمد ابراہیم صاحب حال پنشنرز ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ) شریک درس ہوتے تھے.کیونکہ عام بورڈ ر ان کو بعد مغرب بورڈنگ سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی.اور مولوی صدرالدین صاحب ہیڈ ماسٹر شہر میں رہتے تھے.یہ بھی شریک ہوتے تھے.چالیس کے لگ بھگ احباب درس میں شرکت کرتے تھے.درس حضور اس کمرہ میں دیتے تھے جو حضور کے مکان میں داخل ہوتے ہوئے بائیں طرف تھا.اب اس کا دروازہ باہر کی طرف ہے اور دکان بن چکی ہے.کبھی حضور اسی کمرہ کے مشرق کی طرف صحن میں درس دیتے تھے.اور یہ محن زنانہ محن سے الگ ہے.
37 کالج میں داخلہ خالد صاحب لکھتے ہیں کہ مرحوم کا خیال تھا کہ وہ میٹرک کے امتحان میں اس سال کامیاب نہ ہوسکیں گے.لیکن ان کو الہام ہوا.مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمی وہ تو کامیاب ہو گئے لیکن میں نہ ہو سکا.اور وہ گورنمنٹ کالج میں داخل ہو گئے.0 کالج کے زمانہ میں بھی بابا غلام فرید اور میاں عبداللہ خاں کو اکٹھا ہی دیکھا جاتا.میاں عبد اللہ کا حلقہ احباب بہت وسیع ہوتا گیا.اور وہ سب مشرع اور مذہبی لوگ تھے.سب داڑھی رکھتے تھے.اور عند الملاقات سب دینی امور پر گفتگو کرتے تھے.ان دنوں مسائل خلافت اور کفر زیر بحث تھے.ان پر ان بچوں کے غیر پختہ مباحث چلتے تھے اور حضرت مسیح موعود" کی کتب کے حوالے دیئے جاتے تھے.لاہور میں احمد یہ ہوسٹل کے بانی مبانی بھی عبداللہ خاں اور بابا غلام فرید تھے چنانچہ ان دونوں کے زہد و تقویٰ کے باعث طلباء ہوسٹل بھی ان کا بہت لحاظ کرتے تھے.سپر نٹنڈنٹ ہوسٹل بھی کٹھ پتلی کی طرح ان کے اشاروں پر ہی چلتا تھا.ایک شب میں انارکلی کی سیر کر کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ذرا دیر سے واپس آیا.ہوٹل پہنچ کر ہم تھوڑی دیر اور باتیں کرتے رہے.گرمیوں کا موسم، مچھروں کی کثرت، نیند نہیں آرہی تھی.میاں عبداللہ خاں نے ہمیں سخت ڈانٹا کہ ہمیں سونے نہیں دیتے.سب طلباء ان سے خوف کھاتے تھے.اور ان کا ادب بھی کرتے تھے.ہم سب کان لپیٹ کر اپنی اپنی چارپائیوں پر دبک گئے.غیر احمدی رشتہ کا انفساخ حضرت نواب صاحب کی قلمی تمنا تھی کہ ان کے بچوں کے رشتے احمدیوں کے ہاں ہوں.اور حضرت خلیفۃ امسیح اول رضی اللہ عنہ اس رائے میں ان سے متفق تھے.چنانچہ میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بیان فرماتے ہیں.والد صاحب کی خواہش تھی کہ ہم بھائیوں کے رشتے احمدیوں کے ہاں ہوں تا ہم احمدیت میں راسخ ہو جائیں.اور دنیوی تعلقات میں پھنس کر احمدیت سے بیگانہ نہ ہوجائیں.لیکن اس وقت کامیاب ہونے والے طلباء کے اسماء الفضل یکم جون 1915 ء ص 5 پر درج ہیں.
38 احمدیوں کے بعض رشتے جو ہمارے سامنے پیش کئے گئے ہمیں بعض وجوہ سے پسند نہ تھے.نواب موسیٰ خاں صاحب جو کہ نواب مزمل اللہ خاں صاحب سابق وائس چانسلر علی گڑھ یو نیورسٹی کے رشتہ داروں میں سے تھے اور شیروانی خاندان سے ہی ہیں اور عرصہ سے علی گڑھ جا کر آباد ہو چکے ہوں.ان کی ایک لڑکی ہمارے خاندان میں مالیر کوٹلہ میں نواب صاحب والی مالیر کوٹلہ کے چھوٹے بھائی صاحبزادہ جعفر علی خاں صاحب سے بیاہی ہوئی تھی ان کی خواہش تھی کہ ہمارے رشتے ان کے ہاں ہوں.چنانچہ میاں محمد عبد الرحمن خاں صاحب اور میرے رشتے کی گفتگو ہوئی.والد صاحب کو خیال تھا کہ ریاست کے بعض اقارب جو اپنے ہاں رشتہ کرانے کے خواہشمند ہیں.رشتہ زیر تجویز میں مزاحم ہوں گے اس لئے ابتداء میں ہی علی گڑھ لکھ دیا تھا.کہ اگر آپ کسی مرحلہ پر ہمارے ان اقارب کے زیر اثر آئے تو سلسلہ جنبانی فوراً قطع کر دی جائے گی.ہمارے رشتے طے ہو گئے.سب سامان بنالیا گیا.اور 1912 ء یا 1913ء میں قادیان سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ، صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور حضرت اماں جان (اطال اللہ بقائها ) مالیر کوٹلہ برات میں شامل ہونے کیلئے پہنچے.ہم نے علی گڑھ جانا تھا حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے خطبہ نکاح پڑھنا تھا.لیکن علی گڑھ سے اطلاع آئی کہ کچھ مہلت دی جائے.لیکن والد صاحب نے بذریعہ تارانہیں اطلاع دے دی کہ رشتے منسوخ سمجھے جائیں.کیونکہ والد صاحب کو یقینی وجوہ سے معلوم ہوا کہ وہ ان ہی اقارب کے زیر اثر آگئے ہیں.ان اقارب میں سے کسی نے جو اپنے ہاں رشتہ کرنا چاہتے تھے.ایک اہلکار کو علی گڑھ بھیجا کہ انہیں رشتہ کرنے سے رو کے (ان کی طرف سے بھی بعض قریبی رشتہ دار سخت مخالف ہو گئے تھے ) ہم سب طالب علم تھے تعطیلات ختم ہونے پر قادیان چلے آئے اور حضرت والد صاحب نے مالیر کوٹلہ سے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھا کہ میں پہلے بھی اس بات کا خواہشمند تھا کہ میرے لڑکوں کے رشتے احمدیوں کے ہاں ہوں تا کہ ان میں دینی جذ بہ قائم رہے اور وہ غیر احمد یوں کی طرف مائل ہوتے ہیں جو مجھے نا پسند ہے اب جو یہ رشتے ٹوٹے ہیں مجھے اس کی وجہ سے بہت تکلیف ہوئی ہے.ہم درس میں گئے تو میاں محمد عبد الرحمن خان صاحب اور میاں محمد عبد الرحیم خان صاحب اور مجھے تینوں بھائیوں کو آپ نے مغرب کے بعد اپنے ہاں آکر ملنے کیلئے فرمایا.ہم گئے.تو آپ نے تین دفعہ فرمایا کہ مجھے تمہارے والد سے بڑی محبت ہے اور والد صاحب کا خط دکھایا اور کہا
39 کہ وہ چاہتے ہیں کہ تمہارے رشتے احمدیوں کے ہاں ہوں اور ان کو ان رشتوں کے ٹوٹنے کی وجہ سے بہت تکلیف ہوئی ہے.نوابوں اور رئیسوں کی طرف تم لوگ رغبت نہ کرو.ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے عبرت کے طور پر قائم رکھا ہوا ہے.یہ تباہ ہونے والے لوگ ہیں.ان کی بھی خیر نہیں جو ان سے واسطہ قائم کرے گا.وہ بھی اپنے آپ کو تباہی کی طرف لے جائے گا.تم مغرب اور عشاء کے درمیان دو رکعت نفل پڑھا کرو اور دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ نواب صاحب کی مالی تکلیف دور کرے اور اپنے رشتوں کیلئے بھی دعا کیا کرو.کہ اللہ تعالیٰ بہتر جگہ کر دے.میاں محمد عبدالرحمن خان صاحب اور میاں محمد عبد الرحیم خان صاحب کا تو مجھے علم نہیں.O میں کچھ عرصہ با قاعدہ نفل پڑھتا رہا اور بہت دعائیں کیا کرتا تھا.چونکہ حضرت خلیفہ اول جمعہ کے روز عصر سے مغرب تک مسجد میں یا اپنے گھر میں علیحدگی میں دعا کیا کرتے تھے.اس لئے جماعت میں بھی ایسی رو چلی ہوئی تھی میں بھی کبھی جنگل کی طرف چلا جا تا.یا مکان پر ہی دعا کرتا.ایک روز میں دو پہر کے وقت آرام کر رہا تھا کہ مجھے خواب میں کسی نے کہا." حضرت مسیح موعود کے گھر میں“.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا تھا کہ ان نوابوں اور رئیسوں کی طرف رغبت نہ کرو.جو ان سے تعلقات بڑھائے گا.اس کا بھی وہی حال ہو گا.بعینہ پورا ہوا.میرے دونوں بھائیوں کے نوابوں کے ہاں رشتے ہوئے.اور ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی.اور بفضلہ تعالیٰ ان تمام بیٹوں کی جن کے احمدیوں کے ہاں رشتے ہوئے اولاد ہے.پہلے والد صاحب کو میاں محمد عبد الرحیم خاں صاحب کا رشتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں کرنے کا خیال تھا.لیکن ایک دفعہ مجھے ایک خط لکھا کہ جس میں تحریر تھا کہ میری دیرینہ خواہش تھی کہ میرے لڑکوں میں سے کسی کی شادی حضرت مسیح موعود کے گھر میں ہو.پہلے میرا خیال تھا کہ عبدالرحیم خان کیلئے پیغام دیا جائے.لیکن اپنے لڑکوں میں سے تم کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ تمہارا پیغام دوں لیکن اس کے متعلق تمہاری رائے پوچھنا چاہتا ہوں.لیکن رشتہ کرنے سے پہلے تمہیں یہ سوچ لینا چاہئے کہ یہ بہت ہی مشکل مرحلہ ہے کہ جس میں سے تم گز رو گے اگر تم پورا حسن سلوک کرسکو گے اور اپنے آپ کو اپنی بیوی کے برابر نہیں سمجھو گے بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کا محض فضل سمجھو گے.تب اس امر کا تہیہ کرو ورنہ میں ڈرتا ہوں کہ کسی ابتلاء میں نہ پھنس جاؤ اور مجھے نصیحت کی کہ اپنے آپ کو ان کے برابر نہ میاں محمد عبد الرحمن خان صاحب نے استفسار پر کہا کہ مجھے یہ بات یاد نہیں.میاں محمد عبد اللہ خان صاحب نے عمل کیا اور فائدہ بھی اٹھا لیا.
40 سمجھنا.مجھے چونکہ پہلے خواب بھی آپکا تھا اور اس سے بڑھ کر میری خوش قسمتی کیا ہوسکتی تھی کہ میرا رشتہ حضور کے ہاں ہو.میں نے والد صاحب کی تمام شرائط کو مانتے ہوئے ہاں کہہ دی اور بہت سوچ بچار اور استخارہ کے بعد یہ رشتہ ہو گیا.اس سے پہلے نواب صاحب والئی مالیر کوٹلہ نے حضرت نواب صاحب کو لکھا تھا کہ میری ایک بیٹی اور دو بھانجیاں ہیں.میں چاہتا ہوں کہ آپ کے تینوں بیٹوں سے بیاہ دی جائیں.لیکن آپ نے کہا کہ آپ اس خیال کو حرف غلط کی طرح دل سے مٹادیں.لیکن بعد میں بہت زور دینے پر مکرم میاں محمد عبد الرحمن خان صاحب کیلئے رشتہ منظور کر لیا.رشتہ کے متعلق خط و کتابت حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ جن کی ولادت 25 جون 1904ء کو ہوئی تھی.ان کے رشتہ کے حصول کیلئے حضرت نواب صاحب نے جو خط و کتابت کی.وہ اہم ہونے کے باعث یہاں درج کی جاتی ہے.آپ نے میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کو تحریر کیا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ دارالسلام 9 مئی 1914ء یا اپنی سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم.میں چاہتا ہوں کہ تمہارا رشتہ امتہ الحفیظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی سے ہو.اور مجھ کو اس لئے یہ تحریک ہوئی ہے کہ اس وقت میں تم کو نسبتاً دیکھتا ہوں کہ دوسرے بھائیوں کی نسبت تمہیں دین کا شوق ہے.اور اس سے میں خوش ہوں مگر ساتھ ہی میں یہ کہتا ہوں میری خوشی اور ناراضگی حالات پر مبنی ہے.جس طرح اب میں تم سے خوش ہوں اگر تم خدانخواسته اب حالت بدل دو تو پھر ناراض ہوں گا....اب میں پھر رشتہ کے متعلق لکھتا ہوں.اس معاملہ میں ایک مشکل بھی ہے.اگر تم اس مشکل کی برداشت کر سکتے ہو تو رشتہ کی طرف توجہ کرنا ورنہ پھر بہتر ہے کہ تم ہاں نہ کرنا.دوسرے کہ رشتہ کے بعد حضرت مسیح موعود یا اہل بیت مسیح موعود سے ہمسری اور ہم کفی کا خیال اکثر لوگ کر بیٹھتے ہیں.اور اس سے ابتلاء آتا ہے.قابل غور امر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ رشتہ کیوں چاہا جاتا ہے.صاف بات ہے کہ جب ان کے کپڑے تک بابرکت ہیں تو ان کے جگر کے ٹکڑے کیوں نہ با برکت ہوں گے.اور نبی جن کی وجہ سے ان کی بیوی ماں بن گئیں.تو پھر اس ماں کی طرح کیا کچھ عزت ہونی
41 چاہئے.تعلق رشتہ کو موجب برکت و فخر سمجھنا چاہئے اور اپنے آپ کو وہی من آنم کہ من دانم سمجھنا چاہئے.میں نے رشتہ کیا اور زینب کو حضرت صاحب کے ہاں دیا.ان دونوں رشتوں میں برابری کا خیال بالکل دل سے نکال دیا جس طرح میں حضرت اقدس کی عزت کرتا تھا.وہی عزت و ادب بعد رشتہ رہا، اور ہے، اور جس طرح حضرت ام المومنین علیہا السلام کا ادب اور عزت کرتا تھا.اسی طرح اب مجھ کو عزت اور ادب ہے اور اس سے بڑھ کر اسی طرح جس طرح اس پاک وجود کے ٹکڑوں کی میں عزت کرتا تھاویسی اب ہے.میں تمہاری والدہ کی ناز برداری اس لئے نہیں کرتا کہ وہ میری بیوی ہیں.گو مجھ کو شریعت نے سکھلایا ہے.مگر میں جب میاں محمود احمد صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب اور میاں شریف احمد صاحب کو قابل عزت سمجھتا ہوں اور مجھ کو ان کا ادب ہے اسی طرح مجھ کو تمہاری والدہ اور امتہ الحفیظ کا ادب ہے.بلکہ مجھ کو سلام ، مظفر احمد ، ناصر احمد اور ناصرہ اور منصور احمد وظفر احمد کا ادب ہے.اور پھر چونکہ بیوی خاوند کا رشتہ نازک ہے.اور الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ کی تعمیل بھی مجھ پر ضروری ہے اس لئے میں ادب اور عزت کے ساتھ اس کی بھی حتی الوسع تعمیل کرتا ہوں.پس اگر یہی طرز تم بھی برت سکو تو پھر اگر تمہاری منشاء ہو تو میں اس کی تحریک بعد استخارہ کروں.ورندان پاک وجودوں کی طرف خیال لے جانا بھی گناہ ہے اور تم بھی استخارہ کرو.راقم محمد علی خاں سلسلہ جنبانی حضرت نواب صاحب نے ذیل کے عریضہ کے ذریعہ سلسلہ جنبانی کی:.دار السلام +1914 10 سیدی حضرت خلیفہ امسیح علیہ السلام فضل عمر مرم معظم مسلمکم اللہ تعالی سیدی حضرت ام المومنین علیہا السلام مکرمہ معظمہ سلمہا اللہ تعالیٰ السلام علیکم.عرصہ سے خاکسار کو خیال تھا کہ اپنے کسی لڑکے کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فرزندی میں دوں مگر حالات زمانہ اور لڑکوں کی حالت پر غور کرتا تھا اور جب تک کسی لڑکے پر اطمینان نہ ہو جرات نہ کر سکتا تھا.اب جہاں تک میرا خیال ہے عبداللہ خاں کو اس قابل پا تا ہوں پس بلاکسی
42 لمبی چوڑی تمہید کے میں بادب ملتجی ہوں کہ حضور اپنی فرزندی میں لے کر حضور بعد مشورہ حضرت ام المومنین علیها السلام عبداللہ خان میرے لڑکے کا رشتہ عزیزہ امتہ الحفیظ کے ساتھ منظور فرمائیں اور بعد استخارہ مسنونہ جواب سے مشکور فرمائیں.راقم محمد علی خاں ذمہ داری کا حد درجہ احساس اپنی بھاری ذمہ داری کے اس احساس کی وجہ سے حضرت نواب صاحب میاں محمد عبداللہ خاں صاحب کو اپنے اطمینان کی خاطر مزید تحریر فرماتے ہیں:.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم یا اپنی سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم.تم کو میں نے تمام امور کھول کر لکھ دیئے تھے اور تم نے اس امر کو پسند کیا تھا کہ تمہارا رشتہ امتہ الحفظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لڑکی سے کیا جائے اور تم کو میں نے استخارہ کیلئے بھی کہا تھا.آج قریباً ہفتہ ہو گیا ہے میں نے تمہاری پسند کے اظہار پر درخواست کر دی ہے اور آج چالیس دفعہ استخارہ ختم ہو گیا ہے.پس مزید احتیاط کیلئے تم کولکھتا ہوں کہ مجھ کو تم پر جو حسن ظن ہے اس کی بناء پر میں نے یہ تعلق چاہا ہے.پس تم سمجھ لو کہ یہ میری اور تمہاری بڑی ذمہ داری کا کام ہے.اگر تم اپنے میں پورا حوصلہ رکھتے ہو.کہ جس طرح میں نے لکھا ہے تم نبھا سکو گے تو اس جگہ قدم رکھنا چاہئے ورنہ دین و دنیا کا خسارہ ہے.یا مکن با پیل باناں دوستی یا بنا کن خانه در خور و بیل میرے نقش قدم پر چلنا ہوگا.بہت سی ناگوار باتوں پر برداشت کرنی ہوگی.یہ تعلق میں صرف اس لئے چاہتا ہوں کہ تم لوگ بھی اہل بیت میں داخل ہو جاؤ اور یہ بڑی سعادت ہے.مگر اگر ذرا مزلت قدم ہوا.پھر دین بھی گیا.پس خوب سوچ سمجھ لو.دوسری بات میرے خوش کرنے کیلئے یہ تعلق نہ کرنا بلکہ اگر تم واقعی سچے دل سے پسند کرتے ہو اور محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ایسا کرتے ہو تو مجھ کو جو تمہارے دل میں ہے صحیح لکھو، تا کہ مجھ کو اطمینان ہو اور اگر بدل تم کو پسند نہیں اور محض میرے خوش کرنے کو مانا تو باز آجاؤ اور میں انکار کر بھیجتا ہوں ، ابھی وہاں سے جواب نہیں آیا بات گومگو میں رہ جائے گی.مگر پھر دقت ہوگی اور اگر واقعی تمہاری اپنی ہی اصل غرض ہے کہ رشتہ امتہ الحفیظ سے ہو.تو
43 مجھے کو پوری طرح مطمئن کرو.میں سوائے اس کے اور کسی خیال سے نہیں لکھتا.صرف اپنے اطمینان قلب کیلئے لکھا ہے.اور مزید احتیاط کے طور سے کیونکہ بھاری ذمہ داری ہے اس لئے ایک دفعہ اور تم سے پوچھنا مناسب سمجھا.یاد دہانی آپ نے دو ہفتہ بعد ذیل کا خط لکھا:.راقم محمد علی خاں دار السلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 25 مئی 1914ء سیدی حضرت خلیفۃ المسیح علیہ السلام مکرم معظم سلمکم اللہ تعالٰی :- السلام علیکم.ایک عریضہ حضور کی خدمت میں دربارہ رشتہ امتہ الحفیظ پیش حضور کیا تھا.مگر تا حال جواب با صواب سے سرفراز نہیں ہوا.جس سے گمان غالب تھا کہ استخارہ ومشورہ کے سبب جواب میں تاخیر ہوئی.اور غالباً میر محمد اسمعیل صاحب کے آنے کا بھی انتظار ہوگا.اب میر صاحب بھی آکر چلے گئے.مگر جواب کے متعلق ہنوز روز اول.ابھی یہ معلوم ہی نہیں کہ حضور کی جانب سے انکار ہوگا یا اقبال.مگر تمام جگہ شہرت عام ہوگئی.خواہ یہ ہماری جانب سے کسی کی بے احتیاطی ہوگئی یا اس طرف سے اور گو اس شہرت کا چنداں خیال نہیں اور میرے جیسی طبیعت والے کو تو چنداں تر در نہیں ہوتا.مگر ایسی شہرت کا اثر بچوں پر سخت ناگوار پڑتا ہے.عبدالرحمن کو جو ابتلا آئی ہے وہ ایسی ہی شہرت کی وجہ سے ہے.اس لئے بہر حال اس امر کا فیصلہ ہو جانا چاہئے.تا کہ لوگ خواہ مخواہ کی مبارک بادوں سے رک جائیں.چونکہ ابھی یہ معاملہ گومگو میں ہے اور اگر میرے ہاں سے یہ رشتہ کی گفتگو نہ ہوتی تو ضرور تھا کہ میں بھی شاید مشورہ دینے کی عزت حاصل کر سکتا.مگر چونکہ یہ معاملہ میری ہی جانب سے اٹھا ہے اس لئے حضور مشورہ میں شریک نہیں فرما سکے.مگر میں مناسب سمجھتا ہوں کہ خواہ مخواہ دخل در معقولات کی معافی چاہ کر کچھ عرض کروں تا کہ اس معاملہ میں حضور کو اور حضرت ام المومنین علیہا السلام کو رائے قائم کرنے کا زیادہ موقع مل جائے اور ممکن ہے کہ عمدہ نتیجہ پر پہنچنے کے لئے یہ مددگار ہو اور اللہ تعالیٰ خاص اپنے فضل سے اس میں برکت ڈال دے.اول :.چونکہ اس رشتہ کی تحریک دراصل میں 1908ء میں بحضور حضرت مسیح موعود علیہ السلام
44 مرحوم و مغفور بذریعہ مرزا خدا بخش صاحب کر چکا ہوں جس کے جواب میں حضرت اقدس نے فرمایا تھا کہ والدہ محمود نے تو خواب میں دوسرے بچے یعنی عبداللہ خاں کو دیکھا ہے اور آپ عبدالرحیم کی بابت کہتے ہیں اور فرمایا کہ سر دست جب تک مبارکہ کی رخصتی نہ ہوئے.اس بارہ میں سر دست گفتگو نہیں ہو سکتی.جب مبارکہ رخصت ہو جائیں گی.اس وقت اس کی بابت گفتگو کی جائے گی.اس وقت مجھ کو معلوم ہوا تھا کہ حضرت ام المومنین علیہا السلام کو رؤیا ہوئی ہے کہ عبداللہ کا رشتہ حفیظ سے ہو جائے.ورنہ مجھ کو اس کا کوئی علم نہیں تھا.معلوم نہیں کہ اس کا تذکرہ حضرت اقدس ( نے ) حضرت ام المومنین سے فرما یا یا نہیں.0 دوم :.ایک دنیاوی اور کچھ مصلحت کا خیال مجھ کو اس رشتہ کا محرک ہوا تھا.وہ یہ کہ حضرت اقدس نے میرے رشتہ کے وقت لکھا تھا کہ تمہاری جانب سے تو ہم کو اطمینان ہے.مگر ورثاء کا خیال کر کے ہم مناسب تصور کرتے ہیں کہ مہر دو سال کی آمدنی چھپن ہزار روپیہ ہو.میں نے عرض کیا کہ میری یہ آمدنی اس وقت نہیں تو فرمایا مضائقہ نہیں.خدا وند تعالیٰ نے پھر آمدنی بھی بڑھا دی اور بجائے اکیس کے اٹھائیس ہزار سالانہ ہوگئی.پس اسی مصلحت سے مجھے خیال آرہا ہے کہ موت و حیات کا پتہ نہیں عام قاعدہ کے مطابق بعد میں وراثت کے جھگڑے پڑتے ہیں اور اس وقت جو بظاہر پہلے مطیع یا متفق نظر آتے ہیں وہ بیگانے بن جاتے ہیں.موجودہ میری اولا د نہایت خورد سال اور مبارکہ بیگم صاحبہ بھی ناتجربہ کار، دوسری اولاد بڑی.اس لئے اگر ان میں بھی کچھ ایسی بات پیدا ہو جائے کہ ان کو بھی حضرت اقدس کی اولاد اور میری اولاد سے بے تعلقی نہ ہو جائے.یا کم از کم ایک کو جس کا رشتہ ہو جائے گا اس کو تو نہیں ہوگی اور وہ تو کسی قدرمد و معاون ہوسکتا ہے.اس خفیف سی مصلحت سے بھی میں اس رشتہ کو مناسب سمجھتا تھا.دوسرے میں اپنی پہلی اولاد کو حضرت اقدس کی دعاؤں میں شامل کرنا چاہتا تھا.کیونکہ اس طرح میری پہلی نصف اولا د حضرت اقدس سے متعلق ہوسکتی تھی.کیونکہ چار بچوں میں سے دو بچے حضرت اقدس کے اہل بیت میں داخل ہو سکتے تھے.تیسرے بہنوں بہنوں کو آپس میں ملنے جلنے میں دقت نہ ہوگی یہ خیالات تھے جو مجھ کو اس امر کیلئے محرک تھے.سوم :.مگر اس کے مقابلہ میں مجھ کو یہ خیال ڈراتا تھا کہ میرے لڑکوں کی عمر بڑی خصوصاً عبداللہ خاکسار مولف کو میاں محمد عبد اللہ خان صاحب نے ایک روایت 1960ء میں دی تھی جس میں مذکور تھا کہ حضرت مسیح موعود نے اس رشتہ کو پسند کیا تھا.افسوس اس وقت وہ مجھے دستیاب نہیں ہو سکی.
45 خاں کی اور امتہ الحفیظ کی چھوٹی.اتنا عرصہ انتظار مشکل اور پھر معلوم نہیں کہ بچے احمدی رہیں گے یا ان کے کیا خیالات ہوں گے.اس لئے میں جرات نہیں کرتا تھا.بلکہ میں نے دوسری جگہ ( رشتہ.ناقل ) قائم کر دیا.مگر وہ رشتے ٹوٹ گئے اور جس قدر جلد میں شادی ان بچوں کی کرنا چاہتا تھا.وہ نہ کر سکا اور التوا ہو گئی.اس پر مجھ کو خیال آیا کہ اب انتظار تو کرنا ہی پڑا.اب کیوں نہ امتہ الحفیظ صاحبہ کا ہی انتظارنہ کروں.اور اس طرح بعض رویا بھی پورے ہو جائیں گے.مگر بچوں کے خیالات سے ڈرتا رہا.اب چونکہ کسی قدر عبد اللہ کی بابت اطمینان پیدا ہو گیا.اور ادھر سنا کہ حضرت ام المومنین علیہا السلام امتہ الحفیظ کے رشتہ کے متعلق فکر مند ہیں تو مجھ کو خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی جگہ خطبہ ہو جائے اور اس وقت میں کچھ عرض بھی نہ کر سکوں.اس لئے میں نے یہ جرات کی کہ اس رشتہ کی تحریک پیش کر دی.چہارم :.مجھ کو یہ خیال ضرور رہا ہے کہ امتہ الحفیظ کا وہ اٹھان بظاہر اس وقت نظر نہیں آتا جو اکثر حضرت اقدس کی اولاد کا ہے.بلکہ کچھ کمزور معلوم ہوتی ہیں اور پھر چھوٹی عمر میں لڑکیوں کے رشتوں سے ان کی آزادی میں فرق آجاتا ہے اور اتنا عرصہ انتظار کرنے میں ممکن ہے کہ لڑکے کا چال چلن ٹھیک نہ رہے.اور اس خیال سے میں ( نے ) کسی احمدی کے ہاں رشتہ اپنے بچوں کا کرنے میں بہت زور نہیں دیا.کیونکہ گو میرے لڑکے ہیں.مگر میرا دل تو وہ نہیں رکھتے.مگر غیر احمدیوں سے تعلقات میں ان کے ایمان کو خطرہ میں پاتا تھا.اس لئے میں کچھ عجیب تذبذب میں تھا اور ہوں اور اسی لئے بدرجہ اولیٰ میں حضرت اقدس کی اولاد کے متعلق اور بھی محتاط رہا ہوں اور ہوں اور اب بھی بہت عہد و پیمان کے بعد اور ایک لڑکے کو عرصہ تک آزمانے کے بعد پیش کیا ہے چنانچہ اس کے خطوط اور اپنے خطوط جو اس بارہ میں لکھے گئے ہیں.ارسال حضور ہیں ایک خیال نے مجھ کو اور بھی مجبور کیا کہ موت وحیات کا پتہ نہیں بقول حضرت اقدس فی التاخیر آفات.میں نے اپنی زندگی میں اس تعلق کو پسند کیا اور ان ہی مصالح سے مجھ کو ان دنوں اور ضرورت محسوس ہوئی.نجم:.حضرت خلیفہ اسیح اول مولانا مولوی نورالدین صاحب مرحوم نے بھی اشارہ اس رشتہ کے متعلق فرمایا تھا.چنانچہ عبد اللہ کے خط سے ظاہر ہو گا اس نے بھی جرات کو بڑھایا.ششم :.اس خیال کی تردید کہ لڑکی کی آزادی رک جاتی ہے اور اسی خیال سے زینب کا رشتہ میں نے جلدی نہیں کیا.مگر میں نے دیکھا کہ ہندوستان کی لڑکیوں میں فطرتاً آزادی طبیعت میں نہیں.یا یوں کہنا چاہئے کہ عورت ذات میں فطرتا آزادی نہیں میں نے زینب کو بارہ برس کی عمر تک پردہ
46 نہیں کرایا اور ابھی اور کچھ عرصہ تک پردہ کرانا نہ چاہتا تھا مگر زینب ایک سال قبل سے خود ہی باہر جانے سے رک گئی.ہم بھیجتے تھے تو بھی بادل ناخواستہ جاتی تھی.اس لئے ہم نے یہ دیکھ کر کہ خود پردہ کرتی ہے.اس کو پردہ میں بٹھلا دیا.یہی حالت میں امتہ الحفیظ کی دیکھتا ہوں.پس اب اس سے زیادہ اور کیا آزادی چھن سکتی ہے.باقی یہ کہ اہل ہنود کی رسم کے مطابق جہاں رشتہ ہو وہاں آنا جانا لڑکیوں کا بند ہو جائے اور جوں جوں تعلقات بڑھیں.تو کہیں کونے میں گھس جائیں اور آخر ایک کوٹھڑی میں بند ہو کر روپ چڑھائیں.یہ میرے خیال میں طرز ہی نہیں آتی.ہندؤوں میں اس لئے یہ پردہ داری تھی.کہ سرال والوں کو لڑکیوں کے عیوب کا پتہ نہ مل جائے.مگر مسلمانوں میں اس کا کہاں رواج ہے.شریعت نے اس کا کہاں حکم دیا ہے.پس ہم احمدی قوم کو ضروری ہے کہ اصل اسلام کو پیش کریں.اور اہل ہنود کی رسوم کو پس پشت ڈال دیں پس میری سمجھ سے موجودہ حالت میں نہیں آتا.کہ لڑکی کی آزادی کیوں رو کی جائے یار کے.ہفتم:.میرے خیال کی تردید کہ لڑکی چھوٹی ہے.خود حضرت اقدس فرما چکے ہیں وہ یہ کہ میاں شریف احمد صاحب زینب سے قریباً دو سال چھوٹے ہیں اور لڑکے کا چھوٹا ہونا بہ نسبت لڑکی کے چھوٹا ہونے کے زیادہ خطرناک ہے.جس کا تجربہ شاہد ہے.مگر چونکہ اللہ نے اولا دحضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے وعدہ فرمایا کہ وہ جلد جلد بڑھے گی چنانچہ یہ تفاوت عمر کچھ مضر ثابت نہیں ہوتی.پھر میرے رشتہ کے متعلق حضرت نے اس ( لفظ پڑھا نہیں گیا.ناقل ) سے پہلے انیس سال کی عمر میں شادی کا ارادہ فرمایا.مگر میں خاموش نہیں ہوا.کیونکہ حضرت نے ناپسندیدگی ظاہر نہ فرمائی تھی.پھر پندرہ سال کی عمر میں شادی کا اظہار فرمایا.پھر ایک سال اور اس طرح میری امید بڑھتی گئی.اور آخر وعدہ الہی کہ حضرت کی اولاد جلد جلد بڑھے گی.مجھ کو محض تین دن کی مہلت دی گئی اور شادی فرما دی.اسی طرح میں خیال کرتا ہوں کہ امتہ الحفیظ گو اس وقت کمزور ہے مگر اسی وعدہ کے مطابق جلد بڑھ جائے گی.یہ اب ایسی عمر آئی ہے کہ وہ بہت جلد بڑھ جائے گی.ہشتم :.سوال کہ چال چلن یا ایمان.اس کے متعلق موجود وقت حالت پر ہی قیاس ہو سکتا ہے.ور نہ اعتبار انجام پر ہے اور قبر میں جا کر تو رشتہ قرابت ہو نہیں سکتی اور اس سے قبل کا اعتبار کیا.اس وقت کا تجر بہ ظاہر ہے اور پھر جن کی بابت حضرت اقدس کو بڑے بڑے الہام ہوئے وہ مرتد ہو گئے.پس اس کے متعلق بھی خداوند تعالیٰ کا فضل ہی ہو تو کچھ ہو سکتا ہے.ورنہ انسان کی تذا بیر کیا کام کرسکتی
47 ہیں.اس لئے بھی مجھ کو جرات ہوئی.پس اب حضور غور فرما کر جو پہلوقوی نظر آئے مجھ کو اس کی بابت حکم فرمایا جائے.اگر رشتہ قابل قبولیت ہو تو قبول فرما کر جلد تر مجھ کو مطمئن فرمایا جائے اور اگر نا قابل قبولیت ہو تو اس سے مطلع فرما کر سبکدوش فرمایا جائے.تا کہ دوسری جگہ تلاش رشتہ کروں....میرا.بہت خیال مبارکہ بیگم صاحبہ کیلئے تھا مگر میں اور رشتوں کی تلاش میں بھی تھا.کیونکہ میرا ایمان ہے کہ بعد دعا جو کام ہو وہ بابرکت ہوتا ہے.پس اگر منشاء خداوندی ہے وہ بہر صورت ہو کر رہے گا ورنہ نہ ہوگا.اس لئے میں مایوس ہونے والا نہیں.ہاں اگر منشاء الہی نہیں تو پھر رضا بقضا مجھ کو منشاء الہی کے ماتحت چلنا ضروری ہے.جواب راقم محمد علی خاں آپ نے جوا بار قم فرمایا:.مکرمی و معظمی نواب صاحب.السلام علیکم.عزیزی عبداللہ خاں کیلئے امتہ الحفیظ کے رشتہ کے متعلق آپ کی چند ایک تحریریں ملیں لیکن مشورہ اور استخارہ کا انتظار تھا.اب اس قابل ہوا ہوں کہ آپ کو کوئی جواب دے سکوں.امتہ الحفیظ کی عمر اس وقت بہت چھوٹی ہے اور سر دست ظاہر أطور پر وہ شادی کے قابل نہیں یعنی اس حالت میں صرف نکاح بھی نا مناسب معلوم ہوتا ہے.عزیز عبداللہ خاں نہایت نیک اور صالح نوجوان ہے اور اس کے متعلق ہمیں کسی قسم کا اعتراض نہیں بلکہ ہم سب اس رشتہ کو پسند کرتے ہیں اور خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو یہ رشتہ ہو جائے.لیکن پھر بھی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ ابھی سے یہ رشتہ کر دیا جائے.ہاں اس قدر وعدہ کر سکتے ہیں کہ اگر آپ کو اور آپ سے زیادہ لڑکے کو یہ رشتہ منظور ہو اور وہ عزیزہ کے بلوغ تک انتظار کرنا منظور کرے تو اس وقت تک کہ عزیزہ امتہ الحفیظ بالغ ہو ہم اس رشتہ کا انتظار کریں گے.الا ماشاء اللہ اور اس کو دوسری جگہوں پر ترجیح دیں گے.آگے آئندہ کے حالات کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے.ہاں اگر کچھ مدت کے بعد عزیزہ کے ڈیل ڈول میں کوئی خاص تغییر معلوم ہو.جس سے جلد بڑھنے کی امید ہو تو اس وقت تک پھر اس تجویز پر غور ہوسکتی ہے.موجودہ حالات میں عزیز عبداللہ خاں کو
48 ایک ایسے عہد سے جکڑنے کی جس کے پورا ہونے کیلئے ابھی سالہا سال کے انتظار کی صورت در پیش ہے.کوئی ضرورت نہیں معلوم ہوتی.امید ہے کہ آپ ان جوابات کو مناسب سمجھ کر ابھی اس معاملہ پر زور نہ دیں گے.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد آپ کیلئے دعا کر رہا ہوں.آپ تشریف لے جائیں اللہ تعالیٰ کا میاب واپس لائے.مرزا محمود احمد والسلام خاکسار ہاں ایک نہایت ضروری امر ہے جس کیلئے آپ کے آنے تک انتظار نہیں ہوسکتا.اس کیلئے اگر آپ چند منٹ کیلئے کسی وقت آسکیں تو گفتگو ہو جائے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد دوبارہ تحریک اور اس کی قبولیت ایک سال تک اس بارہ میں خاموشی کے بعد آپ نے پھر ذیل کا عریضہ تحریر کیا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سیدی حضرت خلیفہ امسیح مکرم معظم سلمکم اللہ تعالی السلام علیکم.حضور کو یاد ہوگا کہ ایک درخواست بدیں مضمون کہ اگر میرے بیٹے عبداللہ خاں کا رشتہ عزیزی امتہ الحفیظ سے منظور فرمایا جائے تو عنایت سے بعید نہ ہوگا.جس پر از راہ کرم حضور نے تحریر فرمایا تھا ( که ) بوجوه چند در چند سر دست یه معامله ملتوی رہنا چاہئے.جب مناسب وقت ہوگا.تو اول آپ کو ترجیح دی جائے گی.میں حضور کے فرمانے کے بموجب خاموش تھا.مگر چونکہ مجھ پر اکثر ہموم و عموم کا وفور رہتا ہے.اور صحت بھی اچھی نہیں رہتی اور رہی سہی امید کو منذر خوابوں نے توڑ دیا ہے.جس سے دنیا سے طبیعت سرد معلوم ہوتی ہے اور زندگی کا بھروسہ کم.پس اگر میری حیات میں یہ کام ہو جائے تو کم از کم ایک لڑکے سے تو میں بے فکر ہو جاؤں.آج کل امتحان دینے کی وجہ سے لڑکے فارغ بھی ہیں.اگر ان ایام فراغت میں حضور یہ رشتہ منظور فرما کر نکاح کرا دیں تو عنایت ہو اور پھر عبداللہ کم از کم پابند تو ہو جائے گا.تو دیع بعد بلوغ ہو سکتی ہے.امید ہے کہ حضور میری اس درخواست کو منظور فرمائیں گے.محمد علی خاں نواب صاحب کی تحریک کو شرف قبولیت بخشا گیا.چنانچہ حضور نے تحریر فرمایا.
49 بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم مکر می نواب صاحب.السلام علیکم امۃ الحفیظ کے رشتہ کے متعلق آپ نے جو خط لکھا تھا.اس کے متعلق بعد مشورہ اب آپ کو کچھ لکھنے کے قابل ہوا ہوں.امۃ الحفیظ اس وقت بہت کمزور اور کم عمر ہے.اس لئے ابھی تین سال تک وہ رخصت ہونے کے نا قابل ہے اس لئے اگر آپ اور میاں عبداللہ خاں اس بات پر راضی ہوں کہ رخصت کرنا تین سال تک ہمارے اختیار میں ہوگا اور یہ کہ مہر اسی طرح جس طرح عزیزہ مبارکہ بیگم کا لکھا گیا تھا لکھا جائے گا گو مقدار کم مثلاً پندرہ ہزار ہو تو یہ رشتہ ہمیں منظور ہے.موخر الذکر شرط صرف حضرت صاحب کی احتیاط کے مطابق ہے.دوم جب لڑکی رخصت ہو تو الگ مکان میں الگ انتظام کے ماتحت رہے.کیونکہ بصورت دیگر بہنوں میں اختلاف کا خطرہ ہوتا ہے.خاکسار اس خط کا جواب آج ہی مل جانا چاہئے.نواب صاحب نے جواباً عرض کیا.مرز امحمود احمد دار السلام دارالامان قادیان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 4 جون 1915ء سیدی حضرت خلیفہ اسیح علیہ السلام سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم.حضور کا والا نامہ پہنچا محمد عبد اللہ خاں کو بھی دکھلا دیا.ہم دونوں کو حضور کی شرائط ہرسہ گا نہ میں کوئی عذر نہیں.مہر 15 ہزار منظور.الگ مکان سے عذر نہیں.کیونکہ قرآن شریف سے اشارہ معلوم ہوتا ہے تین سال تک تو دیع نہ ہو یہ بھی نا قابل پذیرائی نہیں.حضور کو تو یہ لکھنا ہی مناسب نہ تھا.کیونکہ میرے سابقہ عمل کے حضور واقف.پھر بہ سبب رشتہ داری اور دینی یعنی حضور مخدوم ہیں اور عبداللہ خادم.حضور پیر ہم مرید.اس لئے حضور کوئی ایسا معاملہ کر ہی نہیں سکتے.کہ ایک فریق کا نفع اور دوسرے کا نقصان ہو.پس جیسے حضور اس طرف ذمہ دار اور وکیل و مربی.اسی طرح اس طرف سے بھی.پھر میں اپنے اوپر کیوں رکھوں میں حضور ہی کے سپرد کرتا ہوں کہ جو حضور مناسب تصور فر ما ئیں.مجھ کو اس میں کوئی عذر نہیں.حضور تین سال پانچ بعد تودیع تصور فرمائیں.یہ الفاظ پڑھے نہیں
50 گئے.ناقل ) بعد بلوغ تو دیع مناسب تصور فرمائیں.عین مقصود ہے.ایک احاطہ مکان جدا مناسب تصور فرمائیں یہ قبول.بالکل جدا درست تصور فرمائیں.وہ مناسب.خلاصہ یہ کہ جو آپ مناسب تصور فرمائیں.وہ ہی مناسب.پس آپ ہی اس طرف سے وکیل ذمہ دار مربی ، ولی ،سب کچھ، میں حضور ہی پر چھوڑتا ہوں.میں نے نہ مبارکہ بیگم صاحبہ کے موقع پر عذر کیا اور نہ اب.حضرت نے ایک سال فرمایا.وہ منظور کیا.پانچ سال کہا.اس سے انکار نہیں کیا.ایک سال فرمایا ، اس سے منہ نہ پھیرا.تین دن فرمایا.نہایت شکریہ سے قبول کیا.بس اب حضور جو کچھ مجھ کو کہنا چاہیں خود ہی میری جانب سے اپنے ارشاد کا جواب دیں کیونکہ میں حضور کی رائے کے خلاف عذر ہی نہیں کرتا.محمد علی خاں اعلان نکاح نواب صاحب نے حضور کی خدمت میں تحریر کیا:.دار السلام 6 جون 1915ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم سیدی حضور خلیفہ اسیح علیہ السلام مکرم معظم سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم.حضور کو غالبا معلوم ہے کہ میری طبیعت میں ایسے مواقع شادی وغیرہ میں نہایت سادگی ہے.چنانچہ پہلے جو شادیوں کا سامان ہوا تھا.وہاں بھی سادگی رکھی گئی تھی.میرے نکاح کے موقع پر جو کچھ ہوا وہ حضرت کے حکم اور منشاء کے مطابق ہوا تھا.اب حضور کے حکم کا طالب ہوں.کیونکہ حضرت مسیح موعود کی جگہ اب حضور ہیں.پس بالکل سادگی اس موقع نکاح عبداللہ پر ہونی چاہئے یا مثل سابق جیسا کہ میرے نکاح پر عمل ہوا تھا.تا کہ ویسا سامان کیا جائے.حضور اسی وقت اگر عنایت جواب سے مشکور فرما ئیں تو مجھ کوسہولت رہے گی.محمد علی خاں السلام علیکم.مجھے تو معلوم نہیں کہ اس وقت کیا ہوا تھا.کہ اب وہ ہو یا نہ ہو، آپ کو جس طرح سہولت ہو کر یں.ہماری طرف سے یہ معاملہ آپ پر ہی چھوڑا جاتا ہے.خاکسار مرزا محمود احمد
51 بوقت اعلان نکاح حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب نے خطبہ مسنونہ پڑھ کر فرمایا.0 " آج کا دن خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی وجہ سے حضور نے تحریر فرمایا :.بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مکر می نواب صاحب السلام علیکم.آپ کا خط مل گیا.چونکہ ڈاکٹر صاحب بھی آئے ہوئے ہیں اس لئے بہتر ہے کہ پیر کے دن نکاح ہو جائے.نواب صاحب نے استفسار ا تحریر کیا:.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ والسلام خاکسار مرز امحمود احمد دار السلام 6 جون 1915ء سیدی حضرت خلیفہ امسیح علیہ السلام مکرم ومعظم سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم.غالباً نکاح بعد عصر ہوگا.مگر احتیاطاً حضور سے ملتجی ہوں کہ کیا بعد عصر ہوگا یا کسی اور وقت تا کہ اس وقت حاضر ہو جائیں.حضور نے تحریر فرمایا:.محمد علی خاں انشاء اللہ نماز عصر کے بعد بڑی مسجد میں ہوگا.ذیل کا انتظام ضبط تحریر میں لایا گیا.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم مهر نامه از جانب محمد عبد اللہ خاں صاحب باعث تحریر آنکه مرزا محمود احمد نحمده ونصلى على رسوله الكريم جو کہ 7 جون 1915 ء بروز دوشنبہ کو میرا نکاح امتہ الحفیظ بیگم دختر سیدنا ومولانا و اما منا حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مهدی مسعود علیه السلام مرحوم و مغفور رئیس قادیان ضلع گورداسپور سے بعوض مہر مبلغ 15000 پندرہ ہزار روپیہ کلدار جس کے نصف...ساڑھے سات ہزار ہوتے ہیں ہوا ہے.یہ پندرہ ہزار روپیہ مہر امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ مذکورہ کا بطور مہر موجل مقرر ہوا ہے جو میرے اور میرے ورثاء پر حق واجب ہے.پس زوجہ ام مذکورہ جب چاہیں اس رقم کو مجھ سے یا میرے ورثاء سے وصول کر سکتی ہیں.پس یہ چند کلمات بطور مہر نامہ واقرارنامہ دسند کے آج لکھ دیئے کہ عند الحاجت کام آئیں.
52 کی صداقتوں میں سے ایک عظیم الشان صداقت اور آیات اللہ میں سے ایک آیت اللہ ہے.0 دنیا میں بہتیرے نکاح ہوئے ہیں اور ہوں گے.مگر یہ نکاح جس کا خطبہ پڑھنے کیلئے میں مامور بقیہ حاشیہ اعلان نکاح کے متعلق الفضل نے شائع کیا.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مُجِيدٌ قران السعدين آج 7 جون 1915 ء مطابق 23 رجب المرجب 1333ھ دوشنبہ مبارک دوشنبہ ہے جبکہ خدا کے برگزیدہ نبی مسیح موعود کی صاحبزادی امتہ الحفیظ ( جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں دخت کرام فرمایا ہے اور جو خدا کے نشانوں میں ایک نشاں ہیں.(حقیقۃ الوحی ص 218) کا نکاح مکرم معظم جناب خانصاحب محمد علی خان صاحب کے صاحبزادہ میاں محمد عبداللہ خاں صاحب سے ہوا.حضرت نواب صاحب اور ان کا فرزندار جمند نہایت ہی خوش قسمت ہیں کہ ان کو وہ شرف ملا جو تیرہ سو سال میں کسی فرد بشر کو حاصل نہیں ہوا.اور پھر میاں محمد عبد اللہ خان صاحب جو بلحاظ اپنے اخلاق حمیدہ وصفات نکو ہیدہ و پابندی احکام کتاب وسنت واطاعت مسیح موعود و فرمانبرداری خلفاء مسعود کے ایک قابل تعریف نوجوان ہیں.ہزار ہا مبارکباد کے مستحق ہیں جن کے حبالہ نکاح میں وہ مبارک خاتون آتی ہے کہ اس کے بعد لوگ ہزاروں لاکھوں نکاح کریں گے.مگر یقینا وہ خدا کے مسیح موعود خدا کے رسول.خدا کے نبی جَرِيَ اللهُ فِي حُلَلٍ الانبیاء کی بیٹی نہ ہوگی.پس یہ بہت بڑا انعام الہی ہے جو اس خاندان پر ہوا اور جتنا بڑا انعام ہو اتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اس لئے ہم جماعت احمدیہ کی طرف سے تمام خاندان رسالت اور خاندان حضرت نواب صاحب کو مبارکباد دیتے ہوئے دعا کرتے ہیں.کہ الہی یہ قران السعدین مبارک ہو.اور ان سے مسیح موعود کی نسل بڑھے ، پچھلے اور پھولے اور وہ تمام ان کمالات اور انعامات کی وارث ہو جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کی اولا د واحفاد سے وعدہ ہے.اَللَّهُمَّ آمِيْنَ يَا رَبَّ الْعَالَمِيْنِ (مورخہ 10 جون 1915ء) حضرت مسیح موعود کا الہام ہے يَوْمُ الْاِثْنَيْنَ مَا يَوْمُ الْاِثْنَيْنِ...چونکہ یہ نکاح دوشنبہ کے دن قرار پایا.جس سے ایک پیشگوئی پوری ہوئی.اس لئے یہ دن مسیح موعود کی صداقت کے نشانوں میں سے ایک نشان قرار دیا گیا.
53 " ہوا ہوں.کچھ اور ہی شان رکھتا ہے.حضرت عزیزہ مکرمہ امتہ الحفیظ حضرت مسیح موعود کے نشانوں میں سے ایک بہت بڑا نشان ہے.آپ کی پیدائش کے متعلق حضرت صاحب کا الہام ہے ” دخت کرام اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دخت کرام کو ایک اور رنگ میں حضرت مبارک احمد کا رنگ بھی دیا ہے.کرام کریم کی جمع ہے اور اس کو جمع میں خدا تعالیٰ نے اس لئے رکھا کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جَرِى اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ تھے الہام "كَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي.....تشریح میں فرماتے ہیں کہ :.خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے....(حاشیہ حقیقۃ الوحی ص 72) اس لئے دخت کرام کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہوئے کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تمام انبیاء کا مفہوم صادق آتا ہے اس لئے گویا عزیزہ امتہ الحفیظ سارے انبیاء کی بیٹی ہیں.دوسرے پہلو کے لحاظ سے صاحبزادہ مبارک احمد کے رنگ میں اس طرح سے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا: یہ پانچوں جو کہ نسل سیدہ ہیں یہی ہیں پنجتن جن پر بنا ہے حضور نے جب یہ فرمایا صاحبزادہ مبارک احمد اس وقت زندہ تھے اور مبارک احمد کے سمیت پنجتن تھے.لیکن جب مبارک احمد فوت ہو گئے تو اب یہ جو پنجتن کا لفظ تھا.مبارک احمد کے فوت ہو جانے پر عزیزہ امتہ الحفیظ ہوئی.نہ ہوتی تو ایک مخالف کہ سکتا تھا کہ بتاؤ اب پنجتن کون ہیں.سوخدا کے فضل سے پنجتن کے عدد کی صداقت کو بحال رکھنے کیلئے خدا کی طرف سے عزیزہ مکرمہ کا وجود مبارک احمد کے قائم مقام ظہور میں لایا گیا.پس عزیزہ امتہ الحفیظ کا وجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشانوں میں سے ایک بہت بڑا نشان ہے.اس لئے میں نے یہ عرض کیا ہے کہ اس نکاح کو دوسرے نکاحوں پر فضیلت اور خصوصیت حاصل ہے اور ان معنوں میں یہ نکاح ایسا ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کا اور کوئی نکاح اس شان اور مرتبہ کا نہ ہوگا.کیونکہ یہ نکاح خدا تعالیٰ کے ایک نبی بلکہ عظیم الشان نبی کی صداقتوں میں سے ایک صداقت ہے.میں نے یہ جو چند آیات پڑھی ہیں.ان کا خطبہ نکاح میں پڑھا جانا مسنون اور نبی کریم علی علی کے کلمات طیبات سے ثابت ہے.ان آیات میں زن و مرد کے تعلقات نکاح کے اغراض اور آئین
54 پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک مسلم جو نکاح کرتا ہے اور اسلام زن وشوی کے تعلقات قائم کرنے کی ہدایت دیتا ہے تو وہ کس غرض پر مبنی ہونے چاہئیں.ان آیتوں میں ایک لفظ کا بڑا تکرار آیا ہے اور وہ تقویٰ کا لفظ ہے.گو یا خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے نکاح کی غرض ہی تقویٰ رکھی ہے.تقویٰ ایک ایسی چیز ہے.جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَّتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجاً.یعنی اگر انسان کے راستہ میں کسی قسم کی مشکلات ہوں اور وہ ان سے نکلنا چاہے اور نکلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو تقویٰ کرے.اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس کیلئے وہ سامان پیدا کر دے گا.جن کی وجہ سے ان مشکلات سے مخلصی پا جائے گا.پھر فرمایا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ.اور اس کو تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے بلا حساب اور بلا تکلیف رزق دیا جائے گا.گویا اس میں یہ بتایا کہ اگر ایک ایسا انسان ہو جس کو نکاح کرنے کی ضرورت ہو لیکن نکاح کرنے کے سامان موجود نہ ہوں اور وہ عاجز مفلس اور کنگال ہو تو اسے چاہئے کہ تقویٰ اختیار کرے.تقویٰ سے یہ ہوگا کہ جس قدر مشکلات بھی اس کے راستہ میں روک ہوں گی خدا تعالیٰ ان کو دور کر دے گا.اور اس کو ان سے نکال دے گا.دوسرا زن وشوی کے تعلقات کے بعد بھی مشکلات بڑھ جاتی اور پیدا ہو جاتی ہیں.مثلاً رزق کے متعلق اور ایسا ہی اولا د وغیرہ کے متعلق تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے بھی فرماتا ہے کہ جب تمہارے تعلقات قائم ہونے سے تمہیں یہ مشکلات پیش آئیں گی.تو تقویٰ کرنے سے یہ بھی دور ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ خود تمہیں رزق دے گا.جو بغیر حساب کے ہوگا.اور بلا محنت ہوگا.بشرطیکہ تم متقی ہو جاؤ.اس لحاظ سے یہ بات اولاد پر بھی چسپاں ہو سکتی ہے کہ جو نکاح تقویٰ کی غرض سے کیا جائے گا.اس سے جو اولاد ہوگی وہ بہت پاکیزہ اور کثرت سے ہوگی اور ایسے رنگ میں ہوگی کہ تمہیں اس کا وہم و گمان بھی نہ ہوگا کہ کس طرح سے نیک ہوگئی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق مشاہدات سے اور نیز تاریخ سے ثابت ہے کہ ان کی اتنی اولاد ہوئی کہ شاید ہی کسی اور نبی کی ہوئی ہوگی.اس کا باعث یہی تھا کہ انہوں نے تقویٰ کیلئے نکاح کیا اور ان کا تقویٰ بہت بڑا تقویٰ تھا.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بیشمار یعنی ابراہیم علیہ السلام کی طرح میری اولاد بھی بے شمار ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرز پر جو نکاح ہوتا ہے یعنی تقویٰ پر جس کی بناء ہوتی ہے.اس سے اولاد بے حساب اور پاکیزہ ہوتی
55 ہے.یہ تقویٰ کے فوائد ہیں.ان آیتوں میں ان ہی فوائد کو کھول کر پیش کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ.اے لوگو! تم اپنے اس رب کے لئے تقویٰ اختیار کرو.جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کے زوج کو پیدا کیا.آگے فرمایا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً.تمہاے نکاح کی یہ غرض بھی ہو کہ تم تقوی اختیار کرو لیکن یہ بھی ہو کہ تم سے رجال اور نساء بھی ہوں اور تم سے یہ سلسلہ چلے لیکن یہ سلسلہ بھی تقوی کے نیچے ہو.ورنہ کیا کفار کی اولاد نہیں ہوتی.یا حیوانوں کے اولاد نہیں ہوتی اور ان سے سلسلہ نہیں چلتا.پھر مسلمانوں اور دوسرے لوگوں اور حیوانوں میں فرق ہی کیا ہوا ؟.مسلمانوں کا تو یہ کام ہے کہ نکاح تقویٰ کے ماتحت کریں تا کہ نیک اولاد پیدا ہو.اسی بناء پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ نکاح کرو اور ضرور کرو.چنانچہ فرمایا.اَلنِكَاحُ مِنْ سُنَّتِي فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنی.یعنی نکاح کرنا میری سنت ہے اور جو اس میری سنت سے اعراض کرتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے.پس اگر کوئی تقوی اور آنحضرت ﷺ کی سنت کو ملحوظ خاطر رکھ کر نکاح کرے تو بڑے فائدہ اور بڑے ثواب کا مستحق ہوگا.پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا.تَنَاكَحُوا وَتَوَالَدُوُا - کہ نکاح کرو اور اولاد بڑھاؤ.میں قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا.اب ان اغراض اور نیز آنحضرت ﷺ کے مقاصد کو مد نظر رکھ کر جو نکاح ہو.وہ بہت ہی بابرکت ہوگا اور بہت اچھی اولا د ہوگی.خدا تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے نِسَاءَ كُمُ حَرْثٌ لَّكُمُ عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں.یعنی جیسے کاشتکار اپنی کھیتیوں میں پاکیزہ اور اعلیٰ درجہ کی پیداوار کاشت کرتا ہے.تمہیں بھی اپنی ان کھیتیوں میں پاکیزہ پیداوار کیلئے کاشت کرنا چاہئے.یعنی یہ کاشت تقویٰ کے طرز پر ہونی چاہئے.اگر کوئی تقوی سے یہ کاشت کرے گا تو اس کی اولا د ضرور اعلیٰ درجہ کی ہوگی.پھر خدا تعالیٰ نے عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کے اور بھی کئی اغراض بیان فرمائے ہیں.چنانچہ فرمایا.هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ - کہ وہ تمہارے لئے لباس کا فائدہ دیتی ہیں اور تم ان کیلئے لباس کا فائدہ دیتے ہو.لباس کا فائدہ بھی خدا تعالیٰ نے خود ہی بتا دیا.یبنِی آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِى سَوَاتِكُمْ وَرِيشاً.کہ لباس سے انسان کی شرم گاہیں ڈھکی جاتی ہیں.اسی طرح زن و مرد کے تعلقات کی وجہ سے بہت سی مرد اور عورت کی برائیاں ڈھانپی جاتی ہیں.اگر یہ مرد وعورت کا تعلق نہ ہو تو ممکن ہے کہ وہ جذبات اور طبعی تقاضے جو مرد و عورت کو لگے ہوئے ہیں.غلط طور پر استعمال کئے
56 جائیں اور آنکھ ، زبان ، کان ، ہاتھ سے گزر کر انسان کو کبیرہ گناہ کا بھی مرتکب بنادیں اور جب کوئی بدی ہوگی تو گویا وہ بدی کرنے والا انسان نگا ہو جائے گا.کیونکہ ہر ایک گناہ کے سرزد ہونے سے انسان اسی طرح شرمندہ ہوتا ہے جس طرح کہ ننگا ہونے سے شرمندہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان بدیوں کو ڈھانپنے کیلئے عورتوں کو مردوں کا لباس بنایا ہے اور یہ جذبات جو بدیوں کی طرف لے جاتے ہیں.صرف مردوں کو ہی نہیں لگے ہوئے.بلکہ عورتوں کو بھی لگے ہوئے ہیں اسی لئے جیسے عورتیں تمہارا لباس ہیں تم بھی ان کا لباس ہو اسی لئے یہ فرمایا.تَسَاءَ لُوْنَ بِهِ وَالْاَرْحَام - اس میں یہ اشارہ ہے کہ کچھ عورت کے حقوق مرد پر ہیں اور کچھ مرد کے حقوق عورت پر ہیں.پس تم آپس میں ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگ لو.اس میں ایک دوسرا پہلو وہ بھی ہے جو جذبات سے تعلق رکھتا ہے وہ یہ کہ ان جذبات کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے تقاضوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں کہ ایسا ایسا ہو.ایسے وقت میں اگر کوئی انسان جذبات کی تحریک سے اپنے طبعی تقاضوں کو پورا کرنے کی خواہش کرے.تو ممکن ہے کہ وہ جائز ہو یا نا جائز.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے نکاح اس لئے رکھا ہے کہ مرد کی فطرت میں ان جذبات کے نیچے جو تقاضے پائے جاتے ہیں.وہ ان کو عورت سے جائز طور پر مانگ لے اور جو عورت کی فطرت میں تقاضے ہیں وہ مرد سے مانگ لے.نکاح کے موقع پر ایک اور آیت بھی پڑھی جاتی ہے جو سورۃ احزاب کے آخر میں ہے وہ یہ ہے کہ يا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدَاً - یعنی ایمان والو! تقویٰ اللہ کو اختیار کرو اور منہ سے بات کہو تو صاف اور سیدھی کہو بعض نکاح اس قسم کے ہوتے ہیں جن میں مبالغہ ، دھوکہ، اور فریب کو کام میں لاکر اپنے فائدہ کی غرض سے دوسرے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے.اس لئے فرمایا کہ تم جو نکاح کا یہ معاہدہ کرو تو یہ اس بناء پر ہو کہ سب سے پہلے تقویٰ تمہارے مدنظر ہو.تقویٰ سب برائیوں کی جڑ کاٹتا ہے.خدا تعالیٰ نے تقویٰ کا لفظ بیان فرما کر پھر اس کی تائید میں کئی اور الفاظ اور آیتیں ساتھ رکھی ہیں.ان ہی میں سے ایک یہ آیت ہے فرمایا اس معاملہ میں بیچ دار طبیعت کے ساتھ مغالطہ اور خطر ناک طرز عمل اختیار نہ کرو.بلکہ بہت صاف اور سیدھی اور وہ بات جوحسن معاشرت اور حسن معاملت کے اعلیٰ پیمانہ پر قائم ہو.وہ کہو نہ کہ پیچیدہ، دھوکہ دینے والی اور شریعت کے خلاف.پھر فرمایا اس کے فوائد یہ ہوں گے کہ يُصْلِحُ لَكُمُ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ - تمہارے اعمال جو تقویٰ اور زبان کی راستی کے نیچے ہوں گے ان کی اصلاح کی جائے گی.دنیا میں
57 فساد تقویٰ کے چھوڑنے اور زبان کی ناراستی کی وجہ سے ہوتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں اس شخص کے بہشت میں جانے کیلئے ضامن ہوتا ہوں جو دو چیزوں کو قابو میں رکھے ایک زبان کو دوسرے وہ جو دونوں رانوں کے درمیان ہے.واقعہ میں انسان سے جس قدر شرور سیئات اور جرائم سرزد ہوتے ہیں ان کا بڑا ذریعہ یہی دونوں چیزیں ہیں اور اگر اللہ کے فضل سے ان پر قابو پالیا جائے تو انسان کی بہت سی اصلاح ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ نے اس دوسری چیز کیلئے تو فرمایا کہ تقویٰ کرو اور زبان کیلئے فرمایا کہ قُولُوا قَوْلاً سَدِيداً.اس سے تمہارے گناہ بخشے جائیں گے.آگے فرمایا کہ کس رنگ میں تقویٰ ہو.ممکن ہے لوگ اپنے رسم و رواج پر عمل کر کے ہی کہہ دیں.کہ ہم تقویٰ کی راہ پر چل رہے ہیں.اس لئے اس کی تشریح فرما دی وَمَنْ يُطِعِ اللَّه وَرَسُولَهُ یعنی تقویٰ اور قول سدید وہی ہے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کے نیچے ہو اور قرآن اور سنت کے مطابق ان آیتوں کے بعد آنحضرت ﷺ ایک اور آیت بھی پڑھتے تھے.اس میں بھی تقوی ہی پر زور دیا گیا ہے.وہ آیت یہ ہے.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبَيْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ.اس آیت میں حصول تقویٰ کا طریق بتایا ہے.اور وہ دو طریق پر.ایک وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ یعنی ہر ایک نفس کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل کیلئے کیا فکر کی.اس سے اعمال کردہ کی جزا و سزا کی طرف توجہ دلا کر ہوشیار کیا ہے.کیونکہ نیکی بدی کی جزا سزا پر ایمان ہونے سے ضرور ہے کہ انسان تقومی کرے اور بد عملیوں سے بچنے کی کوشش کرے.دوسرے اِنَّ اللهَ خَبَيْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ.یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خبر دار ہے.خدا تعالیٰ کی صفت خبیر پر ایمان لانے سے بھی انسان میں تقویٰ پیدا ہو جاتا ہے.کیونکہ جب انسان اس بات کا یقین کر لے گا.کہ خدا تعالیٰ میری ہر حرکت و سکون میرے ہر قول و فعل اور ہر نیت و عمل سے خبر دار اور آگاہ ہے تو وہ ضرور بدی سے بچنے کی کوشش کرے گا.غرض تقویٰ کا ہونا نہایت ہی ضروری امر ہے.اور تقویٰ کے بغیر سب کچھ بیچ.لیکن یہ نکاح جس کا خطبہ پڑھنے کیلئے مجھے حکم دیا گیا.اس کے متعلقین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ جو مجھ سے تقویٰ کی باتیں سنے کا محتاج ہو.کیونکہ جو خدا تعالیٰ کا رسول ہوتا ہے.جب سب پاک ہدایتیں اور سچی تعلیمیں وہ خود دینے والا ہوتا ہے اور کوئی کام ایسا نہیں ہوتا.جس میں رسول کی طرف سے کامل نمونہ پیش نہ ہوتا ہوتو اس نمونہ کے جب پہلے وارث بھی متعلقین ہیں تو پھر ان کو مجھ سے کچھ سنے کی احتیاج کیسے؟
58...( یہ ) اس عزیزہ کا نکاح ہے جو خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے.پھر اس عظیم الشان انسان کی صداقت کا نشان ہے.جو خدا کا عظیم الشان مرسل اور عظیم الشان نبی ہے جس کی صداقت اور آیات صداقت کی تجلیات سے زمانہ منور اور بھرا ہوا ہے.اور کوئی ملک کوئی علاقہ اور کوئی جگہ خالی نہیں اور کوئی زمین کا خطہ اور آسمان کا افق ایسا نہیں جہاں آپ کی صداقتیں جلوہ گر نہ ہوں اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو کیا حضرت عزیزہ کا وجود اور کیا نکاح کوئی معمولی بات ہیں.حضرت جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ کا وجود جو تمام رسولوں کے کمالات کی حقیقت جامع ہے.آپ کی بیٹی کا نکاح ایک عظیم الشان چیز اور نہایت ہی مبارک تقریب ہے اور بہت بڑی سعادت ہے ان لوگوں کی جن کو یہ تعلق حاصل ہوا ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں طُوبَى لِعَيْنِ رَأَتَنِي قَبْلَ وقتي - 0 ( تحفہ بغداد ) اور طُوبَى لِمَنْ عَرَفَنِى اَوْ عَرَفَ مَنْ عَرَفَنِي - ( خطبه الباميه ) مبارک ہے وہ جس نے مجھے دیکھا اور مبارک ہے وہ جس نے مجھے پہچانا.یا میرے پہچاننے والے کو پہچانا.یہ بہت ہی بڑی سعادت ہے.ایک وقت آئے گا جبکہ لوگ حضرت مسیح موعود کے صحابہ کو تلاش کریں گے اور یہ التجا کریں گے.کہ کاش ہمیں حضرت مسیح موعود کو دیکھنے والا ہی کوئی دکھائی دے.ایک وقت آئے گا جس وقت بادشاہ کہیں گے کہ کاش ہم مفلس ہوتے.تنگ دست اور محتاج ہوتے.مگر حضرت مسیح موعود کے چہرہ پر نظر ڈالنے کا موقعہ پالیتے اور ہم مسیح موعوڈ کے صحابہ میں شامل ہوتے اور وہ با دشاہ جو اس سلسلہ میں آنے والے ہیں اس بات پر رشک کریں گے.کہ کاش ہمیں یہ تخت حکومت اور سلطنت نہ ملتی مگر مسیح موعود کے در کی گدائی حاصل ہو جاتی.وہ نہایت حسرت سے اس طرح کہیں گے لیکن ان باتوں کو نہ پاسکیں گے.لیکن کیا آپ لوگ کچھ کم درجہ رکھتے ہیں؟ نہیں بلکہ آپ کا درجہ تو یہ ہے.
59 بندگان جناب سر بسر تاج حضرت دار می بینم آپ ان کی (کے.ناقل ) حضرت کے غلام ہیں.کیا یہ آپ لوگوں کیلئے کچھ کم سعادت ہے کہ روحانی رنگ میں آپ کو تاجدار کہا گیا ہے.اب فرمائیے کہ حضرت مسیح موعود کے دیکھنے والا انسان کس سعادت کا مستحق ہے.پھر جس نے آپ کو دیکھا اور آپ کے ہاتھ سے ہاتھ ملا یا اس کا کیا درجہ ہے؟ پھر ایک اور گروہ ہے جو سعادت میں بہت ہی بڑھ گیا ہے.اس میں ایک وہ مبارک انسان ہے جس کے ہاں حضرت مسیح موعود کا علاوہ روحانی تعلق کے خونی رشتہ کا بھی تعلق ہے یعنی اسے دامادی کا فخر حاصل ہے اور اس نبی سے تعلق ہے جو جَرِ اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِياءِ ہے اور جس کی پیشگوئی کئی انبیا ء کرتے آئے ہیں.اور جس کی صداقت کو آسمان اور زمین کے جلالی اور جمالی رنگ کے آیات اور مختلف حالات کے واقعات اور انقلابات بڑے زور سے ظاہر کر رہے ہیں.اور جو کہتا ہے کہ آسمان اور زمین میرے لئے نئے بنائے جائیں گے.آپ نے تمثیلی انکشاف کے ذریعہ ایسا ہی دیکھا اس کے مطابق اب جو تغیرات دنیا میں ہوں گے ان کا بہت بڑا موجب حضرت مسیح موعود کا وجود اور ظہو رہی ہے آپ کا الہام لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک ہے.اگر آپ نہ ہوتے تو یہ جو ذرات عالم کی موجودہ رفتار اور گردش ہے.یہ بھی نہ ہوتی.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تو نہ ہوتا تو یہ بھی نہ ہوتے.یہ دنیا کی رفتار اور طرز تیری ہی نصرت اور تائید کیلئے ہے.اب بتلاؤ کہ ایسے عظیم الشان انسان کا ایسا لخت جگر اور خونی رشتہ جو صرف مبارک احمد کے رنگ میں ہی نہیں بلکہ بجائے خود بھی ایک عظیم الشان نشان ہے.جس انسان کے ساتھ ہوگا.وہ کتنا خوش نصیب ہوگا.وہ تو اگر اس نعمت کے بدلے تمام عمر سجدہ شکر میں پڑار ہے.تو بھی میرے خیال میں شکر ادا نہیں کر سکتا.اور نعمتوں اور انعاموں کو جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ کسی کو ملیں ان کو جانے دو.صرف یہی ایک عظیم الشان نعمت اور فضل کیا کم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ دیکھنے اور آپ کے چہرہ مبارک پر نظر ڈالنے کا موقعہ مل گیا.اور اگر کوئی ساری عمر اس نعمت کا شکریہ ادا کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا.پھر ہم سے کب شکر یہ ادا ہو سکتا ہے.جنہوں نے آپ کو بار بار دیکھا اور مدتوں آپ کی صحبتوں اور مجلسوں سے حظ اٹھایا ایک تو یہ ہم ہیں اور ایک اور ہیں جن کو اس سے بھی بہت بڑی سعادت نصیب ہوئی ہے.
60 ایں سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده یہ محض خدا تعالیٰ کے فضل کے نیچے حاصل ہوئی ہے.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ - یہ خدا کی عظیم الشان نعمت اور رحمت ہے اور ان کو نصیب ہوئی ہے.جن کو خدا تعالیٰ نے حجتہ اللہ فرمایا ہے.اس سے میری مراد حضرت نواب صاحب ہیں.حضرت مسیح موعود کی ایک بیٹی جس کے گھر جائے.اس کو کس قدر سعادت ہے لیکن بتاؤ کہ اس کی سعادت کا کس طرح اندازہ کیا جاسکتا ہے.کہ جس کی طرف حضرت مسیح موعود کی دوسری بیٹی بھی خدا تعالیٰ کا فضل لے جائے.اگر ہزار ہاسلطنتیں اور بادشاہتیں بھی حضرت نواب صاحب کے پاس ہو تیں اور انہیں آپ قربان کر کے حضرت مسیح موعود کا دیدار کرنا چاہتے تو ارزاں اور بہت ارزاں تھا.لیکن اب تو انہیں خدا تعالیٰ کا بہت ہی شکر کرنا چاہئے کہ انہیں خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان نبی کی بیٹی مل گئی ہے اور دوسری بیٹی بھی ان ہی کے صاحبزادے کے نکاح میں آئی ہے.نکاح پندرہ ہزار روپیہ مہر پرمحمد عبد اللہ خاں صاحب سے ہوا.“ ( الفضل 21 جون 1915 ء) زریں نصائح نئی ذمہ داریوں کو اختیار کرنے کے موقع پر نواب صاحب نے ذیل کی قیمتی نصائح تحریر کیں :.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيمِ یا اپنی سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم اب تک تم اور زندگی میں تھے اور اب اور زندگی اختیار کرنے والے ہو اور نیا لم تمہیں سیکھنا ہے اس لئے چند امور کا لکھنا میں ضروری سمجھتا ہوں اور میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ تم کو بعض امور سے خبر دار کر دوں اب تمہاری شادی ہونے والی ہے اور تائیل کے جوئے میں آنے والے ہو.دنیا کی گاڑی تاتل سے چلتی ہے.جس میں میاں بیوی جوتے جاتے ہیں.پس اگر ایک بیل کا ندھا ڈال دے تو گاڑی چلنا مشکل ہے.اس لئے اس معاملہ میں خود کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتا.پہلے میں وہ تحریر کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ علیم وخبیر نے فرمایا ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر کون ہمیں بتلا سکتا ہے.اور پھر حضرت محمد مصطفیٰ سے بڑھ کر ہمارے لئے کون سا اُسوہ ہو سکتا ہے.وَلَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
61 پیشتر اس کے کہ میں تامل کے متعلق کچھ تحریر کروں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ پہلے یہ بتاؤں کہ انسان کے پیدا کرنے کی اللہ تعالیٰ نے کیا غرض بتلائی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون - غرض خلقت جن و انس کی عبادت بتلائی ہے.یعنی انسان کی پیدائش کی غرض عبادت ہے اس کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرے.اسلام بھی اسی کا مترادف ہے کیونکہ اسلام کے معنی بھی فرمانبرداری کے ہیں.چنانچہ حضرت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اسلم فرمانبردار بن جا.وہ مقدس وجود جواب میں فرماتا ہے.اَسلَمُتُ میں فرمانبردار بن گیا.چونکہ غرض پیدائش انسان فرمانبرداری اللہ تعالیٰ ہے اور فرمانبرداری دو طرح ہی ہوتی ہے.ایک یہ خبر اور ایک بہ محبت جو فرمانبر داری جبر سے کرائی جاتی ہے وہ اصلی نہیں ہوتی اور جب موقع لگتا ہے ایسے لوگ جو جبر سے مطیع کئے جاتے ہیں.اطاعت کو چھوڑ دیتے ہیں.مگر جو لوگ اپنی نشاط طبع اور دلی میلان اور محبت سے اطاعت کرتے ہیں.ان کی اطاعت مستحکم ہوتی ہے اور وہ فرمانبرداری پوری طرح سے کرتے ہیں اسی لئے انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالی خوش خلقی کی ہدایت فرماتا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں حضرت رسول کریم ﷺ کو فرماتا ہے.کہ اگر تو بد مزاج اور سخت دل ہوتا تو تیرے قریب بھی کوئی نہ پھٹکتا اور فرمایا کہ مومنوں کیلئے اپنے کاندھے جھکا دے اور یہی وجہ ہے کہ شریعت میں جبر وا کراہ نہیں رکھا.تا لوگ محبت قلبی سے انبیاء کی اطاعت کریں اور شریعت کو نشاط طبع کے ساتھ اختیار کریں.لَا إِكْرَاهَ فی الدین.اور اگر جبر سے اطاعت کرائی جائے تو پھر اطاعت کرنے والے میں عمدہ اخلاق نہیں پیدا ہو سکتے اور نہ وہ ترقی کر سکتا ہے.دیکھ لو، غلاموں اور جولوگ جبراً مطیع کئے جاتے ہیں ان کے اخلاق ہمیشہ رذیل ہوتے ہیں.حیوانات کو دیکھ لو کہ ان کی فطرت ہی اللہ تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ وہ مجبور ہیں کہ اپنی فطرت کے مطابق کام کریں اس لئے وہ ترقی بھی نہیں کر سکے.مگر انسان جس کو خداوند تعالیٰ نے گوحیوان بنایا مگر اس میں سیکھنے کا مادہ رکھ دیا اور ایک حد تک آزاد بنادیا.اور جبراًاس سے کام لینا نہ چاہا.اس لئے وہ ترقی کرتا ہے اور یہاں تک خدا نے اس کو ترقی کا سامان رکھ دیا کہ وہ خلیفۃ اللہ بنا.پس اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان محبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرے اور نشاط طبع سے اطاعت گزار ہو اور پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ اپنی محبت کا محیط اللہ تعالیٰ کو ہی صرف قرار دے، کوئی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت پر غالب نہ آئے.اللہ تعالیٰ ہی محبوب ہو.تمام فانی چیزوں سے منہ موڑ لے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے امید دلا کر بھی اطاعت کا حکم فرمایا.چنانچہ فرماتا ہے کہ میں نے
62 مومنوں کی جان اور مال کو بہشت کے بدلے میں خرید لیا.اب سمجھ لو کہ غلام کی جان و مال جب بک گئی.تو اس کا کیا رہ گیا اور پھر اسی لئے حکم بھی دیا کہ اگر تم کو اللہ اور اس کے رسول سے تمہارے ماں باپ بیٹے بیٹی رشتہ دار ) مال و دولت، باغات جو تم نے بڑے چاؤ سے لگائے اور مکانات جو بڑے اہتمام سے بنائے اور تجارتیں جن کے گھاٹے کا تم کو خوف ہے زیادہ پیارے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے مقابلہ کیلئے تیار ہو جاؤ.یعنی اللہ تعالیٰ پھر سزا دے گا.ان وجوہ سے صاف ظاہر ہے کہ محض اللہ تعالیٰ سے ہی محبت ہو اور اس بڑھتی ہوئی محبت سے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری انسان کرے.ہاں دوسری چیزوں سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت محبت سلوک نیکی کرے اور یہ سمجھ کر کہ محبوب کی چیزیں ہیں.لوگ غلطی سے شادی بیاہ کے تعلقات کو محبت کی بناء پر کرتے ہیں.حالانکہ اسلام میں محبت محض اللہ تعالیٰ کیلئے وقف ہے.کیونکہ انسان دل کے ہاتھوں مجبور ہے جب کسی سے محبت بڑھ جاتی ہے.تو پھر دین و ایمان جان و مال سب اس پر قربان کر دیتا ہے.اور بتوں کو سجدہ کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے دل کو اپنا مہبط بنایا اور غیر اللہ سے لگانے سے ہٹایا.تا ہم اسی محبوب حقیقی پر دین و ایمان جان و مال فدا کریں.بیوی بچوں سے حسن سلوک کریں مگر اسی قدر جس قدر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اجازت دے دی.پس محبت کی بناء پر شادی نہ ہونی چاہئے.دل کے ہاتھوں غیر اللہ کو کعبہ نہ بنا ئیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے بعض قوانین باندھ دیئے.تا ہم اللہ تعالیٰ کو جب جان اور مال بیچ چکے ہیں اور اس میں سے اس نے اپنے فضل سے ) با وجود خرید کے خرچ کی اجازت دی ہے.کچھ جان و مال خرچ کریں پس شادی کے متعلق فرماتا ہے.اور پہلا اصول بھی قائم کرتا ہے کہ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِینَ.پاکباز ہو کر خواہشات کو مد نظر رکھ کر...حصن کہتے ہیں قلعہ کو.یعنی قلعہ بند ہوکر.قلعہ کیوں ہوتا ہے.اپنے بچاؤ کیلئے پس اپنے قومی اور طاقتوں کو قائم رکھ کر صحت و عافیت کا لحاظ رکھ کر تمام تعلقات کو قائم کرنا چاہئے.پھر شیطان کے پنجے سے بھی بچانا چاہئے اور نہ صرف اپنے کو بچانا بلکہ بیوی کو بھی ، اس کی صحت و عافیت کا خیال بھی رکھنا اس کو بھی شیطان سے بچانا.پس پہلا اصول یہی ہے کہ حیوانات کی طرح ہر وقت خواہشات کا گرویدہ نہ رہنا چاہئے اور پھر حضرت انسان تو حیوانات سے بھی بڑھ گئے ہیں.قوانین قدرت کو تو ڑ دیا ہے پس قوانین قدرت کا لحاظ رکھنا چاہئے.لطیف طرز سے اللہ تعالیٰ نے غرض شادی کو ظاہر فرمایا ہے اور اسی تعلقات زن وشوی کے کل شعبوں پر روشنی ڈال دی.اور جو ایک کتاب میں بھی بیان نہیں ہو سکتے.ایک آیت میں بیان
63 کر دیئے.اور وہ یہ کہ نِسَآءُ كُمُ حَرُثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ.عورتیں تمہاری کھیتی ہیں.پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ.اس سے صاف ظاہر ہے کہ کھیتی سے کیا غرض ہے.بس یہی کہ اناج پیدا ہو ) اور اس اناج سے فائدہ اٹھایا جائے.پس عورتیں کھیتی ہیں ان سے اولاد لی جائے.بس غرض شادی کی اصل اولاد ہے.پھر یہ تعلقات زن وشوی کی حد یہاں تک ہونی چاہئے ( کہ ) اولا د ہو.پس حیض حمل رضاعت میں اجتناب لازم ہے.حیض کی بابت تو صاف حکم دیا اور تمدن انسانی کی مشکلات کی وجہ سے حمل و رضاعت کے متعلق اس آیت بالا میں لطیف طرز سے بیان کر دیا اور ایک جگہ مدت کا بھی اشارہ فرما دیا کہ حَمُلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهُرا.پس اسی حد تک استعمال قوی ہے جہاں تک اولاد حاصل ہو.اور بس.اور مواقع ایسے ہیں کہ اولاد کی غرض نہ ہو تو اس سے پر ہیز لازم.قیام صحت و عافیت بھی لازمی امر ہے.جیسا کہ اوپر بیان ہوا.انسان چونکہ متمدن مخلوق ہے.اس لئے اس کے بیوی بچوں سے تعلقات بھی لمبے ہوتے ہیں.اس لئے بیوی کو تسکین کا باعث بتلایا ہے اور اس میں بھی بہت حکمتیں ہیں.بیوی سے حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے.پس ان امور کے متعلق مجھ کو پوری طرح لکھنے کا وقت نہیں میں نے ایک رسالہ بنوایا ہے.تم کو بھیجتا ہوں اس کو پڑھ لو اور یہ خط اور وہ محفوظ رکھو.اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا اور توفیق اللہ تعالی نے دی تو میں اپنی طرز پر اس کو مرتب کروں گا.بعض جگہ میں نے نشان لگا دیئے ہیں وہ سر دست واجب العمل باتیں ہیں ان کا لحاظ لازمی ہے.اب میں آخر میں چند امور اور لکھنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ دین کے لحاظ سے یاد نیا کے لحاظ سے جو بڑے ہوں ان سے تعلقات میں بہت مشکلات ہوتی ہیں میری شادی بھی دین کے لحاظ سے ایک بڑے مقدس محبوب الہی کی بیٹی سے ہوئی ہے اور اسی کی بیٹی سے تمہاری.یہ ایک بڑا مشکل مرحلہ ہے اس کا نبھانا سوائے اللہ تعالیٰ کے فضل کے نہیں ہو سکتا.پہلے اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کہ الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءَ اور يَأَيُّهَا ير عمل الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارَا اور حدیث كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِه ر ہونا چاہئے.یعنی بیوی مرد کی محکوم ہو اور مرد حاکم ہو.دوسری طرف حسن سلوک کا حکم.اللہ تعالیٰ فرماتا (ہے) کہ اگر تم کو بیوی میں کچھ نقص بھی معلوم ہو تو میری خاطر درگزر کرو.عَسَىٰ أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمُ اور حدیث میں ہے خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لَاهْلِهِ اور پھر یہ کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے.پس اگر تو اس کو سیدھا کرنا چاہو تو یہ ٹوٹ جائے گی.پس جس قدر مشکل
64 ہے کہ ایک طرف حاکم بنو دوسری طرف حسن سلوک کرو.اور یہاں تک کہ بہت سیدھے کرنے کی کوشش بھی نہ کرو.پھر ایسے بڑے انسان کی بیٹی سے شادی تو اس سے سلوک اور بھی مشکلات میں ڈالتا ہے.پس اس کی تطبیق اور طرز یہی ہو سکتی ہے کہ ایسی طرز اختیار کرو کہ بیوی تمہارے احسانات میں دب جائے.حسن سلوک سے سر نہ اٹھا سکے.اور محبت نشاط طبع سے تمہای فرمانبردار ہو جائے.پس جس طرح میں مسیح کی بڑی بیٹی سے سلوک کرتا ہوں.اور عزت وادب کرتا ہوں.تم کو بھی مسیح کی چھوٹی بیٹی کا ادب اور حسن سلوک کرنا چاہئے.اور اس کو نبھانا چاہئے.اب میں اس خط کو ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ شادی تمہارے لئے اور ہمارے لئے اللہ تعالیٰ با برکت کرے.راقم محمد علی خاں رخصتانه میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں.” میری شادی کے روز شام کو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بلا بھیجا.چونکہ حضرت والد صاحب ابھی برات کے طریق کو اپنی تحقیقات میں اسلامی طریق نہیں سمجھتے تھے.اس لئے شہر پہنچ ہی تھا کہ آپ نے واپس بلا بھیجا اور میں حضور...کی اجازت سے واپس چلا گیا.اور بعد میں سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ اور ہمشیرہ بو زینب بیگم صاحبہ دلہن کو دارا مسیح سے دار السلام لے گئیں.0 حضرت نواب نے 23 و 24 فروری 1917ء کو کوٹھی دارالسلام میں احباب کو دعوت ولیمہ پر مدعو (الفضل 27 فروری 1917ء) کیا.اصحاب احمد جلد دوم ص 298) شادی کے تعلق میں ساری تفصیل جلد دوم سے نقل کی گئی ہے، معمولی تغیر اور قدرے اضافہ کیا گیا ہے.فتنہ پرداز منافق ذرہ ہی آگ لگا کرفتنہ سامانی کرتے ہیں.فخر الدین ملتانی جو بظاہر فریقین کا معتمد تھا اس نے بدنیتی سے ادھورا پیغام پہنچایا.اگر فریقین اعلی مقام اتقاء پر فائز اور صاف دل نہ ہوتے تو عین ممکن تھا کہ رخصتانہ عمل میں نہ آتا اور نا معلوم کیا کچھ حالات رونما ہوتے.اس شخص کی منافقت آشکار ہو چکی ہے اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہو چکی ہے.الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی شرانگیزی سے محفوظ رکھا اور اس کا اثر کبھی بھی رونما نہیں ہوا.دونوں خاندانوں کے تعلقات نہایت پاکیزہ اور قابل رشک ہیں.رخصتانہ کے بارے میں محترم ایڈیٹر صاحب الفضل تحریر کرتے ہیں.(باقی حاشیہ صفحہ 65 پر )
65 رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ - مبارکباد 22 فروری 1917ء مطابق 29 ربیع الثانی 1335 هجری المقدس بروز پنجشنبه حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ صاحبہ کی جن کا نکاح 7 جون 1915ء بروز دوشنبه مکرم معظم خان صاحب نواب محمد علی خانصاحب کے صاحبزادے میاں محمد عبداللہ خان صاحب سے ہوا تھا.تقریب تو دی عمل میں آئی.ہم خادمان الفضل نہایت خلوص قلب اور دلی مسرت کے ساتھ اپنی اور تمام جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بارگاہ عالی میں اور حضرت ام المومنین نیز حضرت قبلہ نواب صاحب کی خدمت اقدس میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس مبارک اور مسعود جوڑے کو صحت و عافیت کے ساتھ ہمیشہ خوش و خرم رکھے.اور اپنے خاص انعامات کا وارث بنائے.ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل بڑھے پھلے پھولے اور پروان چڑھے.اَللَّهُمَّ رَبَّنَا آمِين يَا رَبَّ الْعَالَمِين! خاندان کے دیگر معزز ومحترم بزرگوں کی خدمت میں نہایت جوش اور خلوص کے ساتھ اس تقریب سعید پر مبارکبا د عرض کرتے ہیں.( الفضل 24 جنوری 1917ء) الحکم پر چہ 14 جون 1915ء میں مرقوم ہے:.ایک مبارک شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری اور آخری صاحبزادی حضرت امۃ الحفیظ صاحبہ کا نکاح 7 جون 1915ء کو بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں پندرہ ہزار مہر پر حضرت نواب محمد علی خاں صاحب قبلہ کے صاحبزادہ خاں عبداللہ خاں صاحب سے ہوا.خطبہ نکاح کی عزت مولوی غلام رسول صاحب فاضل را جیکی کوملی.الحکم کی طرف سے یہ غیر معمولی پر چہ شائع ہوا.غیر معمولی پر چہ الحکام مورخہ 7 جون 1915 ء جو بعد عصر شائع ہوا.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب اور حضرت مسیح موعود کے خاندان ایک رشتہ میں.
66 مبارکباد یہ روز کر مبارک سبـــــــــان مـــن یــــرانــــی نہایت مسرت اور دلی انبساط کے ساتھ یہ خبر شائع کی جاتی ہے کہ آج 7 جون 1915ء کو بعد نماز عصر حضرت جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَل الانْبِيَاء مسیح موعود کی دوسری اور آخری صاحبزادی حضرت امۃ الحفیظ کا نکاح ساعت سعید میں حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی پہلی بیگم صاحبہ کے بطن کے دوسرے صاحبزادے سردار عبداللہ خاں صاحب سے ہو گیا.وَالْحَمْدُ لِله عَلیٰ ذَالِک.صاحبزادی امتہ الحفیظ خدا تعالیٰ کی پاک وحیدخت کرام کے معزز خطاب سے یاد کی گئی ہے اور قبل از وقت اس کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی اس لئے وہ ایک آیت اللہ ہے.حضرت مسیح موعود کے ساتھ مہری تعلقات خدائے تعالیٰ کے خاص فضل اور برکات کا نشان ہیں اور یہ سعادت ازل سے حضرت نواب صاحب اور ان کے صاحبزادہ عبداللہ خاں سے مقدر تھی.اس سعادت بزور بازو نیست بخشد خدائے بخشنده حضرت مسیح موعود کے ساتھ رشتہ کے رنگ میں فرزندی کے تعلقات کے حصول کی بیہودہ کوششیں بعض بد قسمتوں کیلئے ابدی محرومی کا موجب ہو گئیں مگر وہ خدا تعالیٰ کی نظر سے اس کے اپنے ہاتھ سے مسوح اور معطر کئے ہوئے بندے کی قابل روحیں تھیں.ان کیلئے آسمان پر پہلے سے لکھا گیا تھا.الحمد للہ وہ نوشتہ پورا ہوگیا.اس کے بعد اب دنیا کے آخر ہونے تک یہ سعادت کسی دوسرے کو نہیں مل سکتی.اس لئے کہ مسیح موعود آپ کا اور اس کی پاک اولا د جو خدا تعالیٰ کے نشانات ہیں ہو چکی.دنیا میں بہت نیک اور اعلیٰ درجہ کی خواتین ہوں گی مگر حضرت ام المومنین کا درجہ حضرت مسیح موعود کے تعلق کے باعث حضرت میر ناصر نواب قبلہ کی بیٹی کے سوا اب نہیں مل سکتا.ایسا ہی مسیح موعود کی فرزندی کے شرف میں اب حضرت نواب محمد علی خاں اور سردار عبداللہ خاں صاحب منفرد ہو چکے اس لئے اس عزت اور شرف پر میں ناظرین الحکم کی طرف سے حضرت نواب صاحب اور ان کے خاندان کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں کہ یہ بہت ہی بڑا انعام ان پر ہوا ہے وہ جس قدر سجدات شکر بجالائیں کم ہے اور حضرت ام المومنین اور حضرت مسیح موعود کے خاندان کے تمام ممبروں اور حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ کے خاندان کے تمام ممبروں کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس رشتہ کو ہر قسم کی برکات اور فضلوں کا ذریعہ بنائے.آخر میں حضرت امام سید نافضل عمر کے حضور مبارکباد عرض کرتے ہوئے اپنے لئے درخواست دعا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت ان کیلئے مقدر کی تھی.صاحبزادی امتہ الحفیظ کی آمین اور نکاح ان کے ہاتھ پر ہوا.اللہ الحمد.خاکسار یعقوب علی تراب (ایڈیٹرالحکم.قادیان)
عباس احمد خاں (2-6-20) صاحبزادی حضرت نواب میاں عبداللہ خان کی اولاد کا شجرہ صاحبزادی از بطن حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ) صاحبزادی صاحبزادی قدسیہ بیگم شاہد احمد خان پاشا صاحبزادی مصطفے احمد خاں طیبہ آمنہ بیگم (19-3-18) طاہرہ بیگم 21-6-3) زکیہ بیگم (23-11-23 ) زوجہ مرزا مبارک احمد زوجہ مرزا منیر احمد زوجہ مرزا داؤ د احمد (20-6-27) (19-10-35) فوزیہ بیگم (743-10) زوجہ مرزا مجید احمد از بطن صاحبزادی (41-11-23) از حضرت مرز بشیر الدین محمود احمد ) ( ابن حضرت مرزا بشیر احمد ) ( ابن حضرت مرزا شریف احمد) (ابن حضرت مرزا بشیر احمد ) امتہ الشکور ( بنت مرزا ناصر احمد ابن حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ) جعفر احمد خان فاروق احمد خان صاحبزادی (2-3-49) (4-4-50) باسمه منصوره صاحبزادی مرزا انصیر احمد صاحبزادی نصرت جہاں بیگم على باسل احمد یا شا (24-8-51) امية الحسيب (49-10-8) (9-4-52) (22-6-64) (1-11-44) زوجہ مرزا انس احمد ( ابن مرزا ناصر احمد ابن حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ) صاحبزادی صاحبزادی صاحبزادی صاحبزادی صاحبزادی امۃ الشافی امة الناصر امة المصور امة المعرة امة النصير (22-12-53)(1-10-51) (28-2-49) (19-10-45) (5-3-44) مرزا مجیب احمد ( 39-11-16) مرزا التسلیم احمد از بطن صاحبزادی حلیمہ بیگم بنت مرزا ناصر احمد (57-10-27) ( ابن حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمد) امة الحجب نعماء صاحبزادی عائشہ امتہ الباقی (16-10-50) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھے تحریر فرمایا تھا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے امۃ الواسع نام رکھا ہے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحب نے تحریر فرمایا کہ حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہا کی وفات کے بعد نصرت جہاں کر دیا گیا ہے.حضرت میاں صاحب مرحوم نے استفسار پرتحریر فرمایا تھا کہ ایک رؤیا کی بناء پر جو عزیز مجید احمد نے دیکھا تھا نصرت جہاں رکھا گیا.“ 67
68 شادی کی برکات میاں عبدالرحیم خان صاحب خالد بیان کرتے ہیں کہ میاں عبداللہ خاں بہت جلد دوسروں کی رائے سے متاثر ہوتے تھے.ان کی شادی ان کی دنیا کا نقشہ بدلنے میں ایک بہترین موڑ ثابت ہوئی.عام طور پر ماؤں کو اپنی چھوٹی اولاد سے زیادہ محبت ہوتی ہے.سواماں جان کی ہمدردیاں بھی عبداللہ خاں کو حاصل ہو گئیں.چونکہ بڑی بیٹی ایسی جگہ بیاہی گئی تھیں کہ ان کا میاں اس وقت کے لحاظ سے اچھی حیثیت کا مالک تھا اور ان کو کافی آرام اور بے فکری تھی.عبداللہ خاں کا مستقبل ابھی بنا نہیں تھا.اس لئے حضرت اماں جان نے پوری توجہ اس طرف دے دی.اللہ تعالیٰ نے غیب سے یہ سامان کر دیا کہ عبداللہ خاں جماعت کیلئے اراضی علاقہ سندھ میں دیکھنے گئے.اراضی سب لے رہے تھے.انہوں نے بھی حاصل کر لی.اور اس میں خدا تعالیٰ نے برکت بخشی اور بہت جلد ان کیلئے دنیوی راستے کھل گئے.مرحوم پردہ کے سخت پابند تھے.صالح ، نمازی اور نہایت مشرع انسان تھے.دل کے بہت اچھے تھے.اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے اور اپنے قرب میں جگہ دے اور اعلی علیین میں ان کو مدارج حاصل ہوں.آمین حضرت ام المومنین کی دعائیں اور شکر خداوندی کن غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر دنیوی انعامات کئے.کس طرح اماں جان آپ کی اور آپ کے اہل بیت کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے سنا اور آپ کیسے اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر حصول نصرت کیلئے گرتے تھے.اور مایوس نہ ہوتے تھے.اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کا کیسا تعلق تھا.اور آپ کس مقام تقویٰ پر فائز تھے اور خشیتہ اللہ کا کس قدر جذ بہ رکھتے تھے ان امور پر آپ کا ذیل کا بیان پوری روشنی ڈالتا ہے.جو آپ نے ایک تقریب پر نصرت آباد اسٹیٹ میں پڑھا تھا.جو اراضی کے بابرکت ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور کارکنان کی خدمات کا اعتراف کرنے کیلئے منعقد کی تھی.آپ نے کارکنوں کو ترقیاں بھی دیں اور سات صد روپے کے انعامات بھی تقسیم کئے.یہ تقریب دعا پر اختتام پذیر ہوئی تھی.فرمایا.محترم ایڈیٹر صاحب الحکم کا رروائی سے قبل تحریر کرتے ہیں :.خان محمد عبد اللہ خان صاحب کے حالات بہت کم پریس میں آئے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک گوشہ نشین بزرگ ہیں.اور ہر قسم کے نام و نمود سے دور بھاگتے ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اس میں ان کا اخلاص
69 اس جلسہ کا اجلاس اس لئے کیا جارہا ہے.کہ چونکہ نصرت آباد اسٹیٹ میں فصل نہایت شاندار ہوا ہے.اس لئے پہلے رب العزت والعرش کا شکر یہ ادا کیا جائے پھر ان کارکنوں کی خدمات کا اعتراف کیا جائے جن کو اللہ تعالیٰ نے میری امداد کیلئے مجھے دیا ہے جب میں اپنی اسٹیٹ کے رقبہ کو دیکھتا ہوں تو ایک رشک کی نظر دوسری اسٹیوں کی طرف اٹھ جاتی ہے.لیکن جب اللہ تعالیٰ کے فضل کو دیکھتا ہوں جو...پیداوار کی شکل میں ہم کو مل رہا ہے تو میرا دل اطمینان اور شکریہ سے لبریز ہو جاتا ہے.یہ حض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں تو فیق دی کہ اس رقبہ میں محنت اور کوشش سے کام کرسکیں.اور بہترین ثمرات حاصل کریں.اللہ تعالیٰ نے ایسے آدمی دیئے.جو کہ اس فارم میں اس جذبہ اور محبت کے ساتھ کام کرتے ہیں گویا کہ ان کا اپنا ذاتی رقبہ ہے.اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دلوں کو محبت اور خلوص سے بھر دیا ہے.میری موجودگی اور عدم موجودگی ان کیلئے برابر ہے یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اس کیلئے جس قدر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں کم ہے.رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَأَصْلِحُ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّى مِنَ الْمُسْلِمِينَ - جب میں نے 1933ء کے شروع میں بقیہ حاشیہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے.تحریک جدید کے چندوں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں.خدام الاحمدیہ کی عمارت کے فنڈ میں معقول رقم دی.ماہواری چندوں میں پوری با قاعدگی سلسلہ کی تمام تحریکوں میں شوق سے حصہ لینا ان کا معمول ہے.انہوں نے اپنے دونوں لخت جگر دین کیلئے وقف کر رکھے ہیں اور یہ واقعہ ہے کہ وہ بچے بھی اپنے دل میں خدمت دین کا بے پناہ جذبہ محسوس کرتے ہیں.چنانچہ گزشتہ سال کے موسم گرما ( میں صاحبزادہ عباس احمد خاں علاقہ سری گوبند پور میں یہ امیر ابن امیر نونہال جو ناز و نعمت کے گہوارے میں پرورش پائے ہوئے تھا.دھوپ کی بھی پرواہ نہ کرتا ہوا گاؤں گاؤں شوق تبلیغ میں پھرتا رہتا تھا اور کبھی اگر کھانا نہ ملا تو صرف چنے چبا کر گزارہ کرلیا کرتا تھا.یہ بات ایک ایسے گھرانے کے نو نہال میں جو ہمیشہ متنعما نہ زندگی بسر کرنے کا عادی ہو نہیں پیدا ہو سکتی جب تک وہ خاندان اور خصوصاً والدین ایک پاکیزہ زندگی گزارنے کے عادی نہ ہوں...یہ جذبہ اور یہ شوق (والدین) کی اپنی ذاتی پاکیزگی اور دینداری کا نتیجہ ہے.......تقریر کے متعلق ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں کہ اس قابل ہے کہ ہر ایک مخلص احمدی اسے پڑھے تو وہ جان سکے کہ وہ کونسا جذ بہ اور کونسی روح ہے جو ایک احمدی رئیس کے دل میں کام کر رہی ہے.اور اس سے اس انقلاب کا بآسانی پتہ لگ سکے گا.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بعد روحوں میں ہوا ہے.
70 نواب شاہ میں رقبہ حاصل کیا اور سندھ کے حالات پر نظر ڈالی.تو کیا بلحاظ قابلیت اور کیا بلحاظ بدنی استعداد میں نے اپنے آپ کو زمیندارہ کام کے بالکل نااہل پایا.لیکن میں ضرورت مند تھا.میں نے یہ کام ضرور کرنا تھا.اس لئے میں نے اپنی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے اپنی جبیں اس رحیم و کریم ہستی کے آستانہ پر رکھ دی جو ہر ایک بے کس بے بس انسان کا سہارا اور آسرا ہے.میں نے عرض کی.اے میرے اللہ ! مجھے دماغ دے کہ میں اس کام کے کرنے کی عقل و سمجھ نہیں رکھتا.اے میرے مولیٰ ! مجھے باز و دو جو کہ اس کام کے کرنے میں میری امداد کر سکیں.اے قادر توانا! مجھے پاؤں دو جو کہ میرے لئے چلیں کیونکہ میں کمزور ہوں.اللہ تعالیٰ نے میری اس دعا کو سنا اور قبول فرمایا.آج 1943ء ہے، دس سال گزر چکے ہیں سب لوگ جانتے ہیں کہ میری ذات نے اس کام کی سرانجام دہی میں کیا کام کیا ہے.لیکن محض اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل سے میرے رقبہ کے نتائج دوسرے اچھے رقبوں سے اچھے نہیں بلکہ بہتر رہتے رہے ہیں.خدا تعالیٰ نے عجیب در عجیب رنگ میں میری مشکلات کو دور کیا مجھے ہر رنگ میں نوازا.میری اس قدر پردہ پوشی فرمائی جس کا اندازہ سوائے میری ذات کے کوئی نہیں لگا سکتا.میرے پیارے رب کے رحم و کرم کا اندازہ آپ لوگوں کو اسی وقت ہوسکتا ہے کہ میرے اندرونی حالات کا آپ کو علم ہو اور ان مشکلات کا آپ کو علم ہو جن میں سے میں ایک وقت گزرا تھا.لیکن جب اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی ستاری کی چادر میں ڈھانپا ہوا ہے.میں مناسب نہیں سمجھتا کہ اپنی پردہ دری خود کروں.آپ صرف ان نوازشات کو دیکھ کر میرے ساتھ شکریہ میں شامل ہوں جن کو میرا رب مجھ پر پیہم برسا رہا ہے.جب میں نے نواب شاہ سے یہاں آنے کیلئے استخارہ کیا کہ کیا میں اس رقبہ کو حاصل کروں یا نہ.تو اس دعا اور استخارہ کے نتیجہ میں میں نے ایک لرزا دینے والی آواز سنی جو کہ میرے اپنے وجود میں پیدا ہورہی تھی.کہ تُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.اس رقبہ کو لینے کے بعد کس قدر مایوس کن حالات پیش آئے وہ لوگ جو اس وقت میرے ساتھ تھے وہ جانتے ہیں کہ کس قدر مشکلات کا سامنا تھا.بسا اوقات میں خود یہ محسوس کرتا تھا کہ میں سندھ میں نہ رہ سکوں گا.لیکن خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ مجھے عزت دے گا اور اپنی قدرت نمائی دکھائے گا.میری ہر ایک دقت اور مصیبت میرے لئے ایک سیڑھی تھی.جو کہ مجھے رفعت اور بلندی کی طرف لے جاتی رہی.اس زمانہ میں میرے مولیٰ نے اپنی رحمت اور شفقت کا سلوک نہیں چھوڑا.بار بار مجھے اور
71 میری بیوی کو بشارات دے کر میری ڈھارس بندھاتا رہا.1940ء میں ہماری اسٹیٹ گورنمنٹ کی ساٹھ ہزار روپیہ کی مقروض تھی.مزید برآں میں کاٹن کی تجارت کر بیٹھا.مجھے اس میں ساٹھ ہزار روپیہ کا مزید نقصان ہو گیا.حالات نہایت مایوس کن تھے.میری بیوی نے اس وقت خواب میں دیکھا کہ میں کہہ رہا ہوں کہ نقصان میرے حق میں بہتر ہوگا.اللہ تعالیٰ کی کرشمہ نمائی دیکھو.چھ ماہ کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے میری لیز (Lease) کی توسیع مزید پانچ سال کیلئے کرا دی اور اس کے علاوہ دہلی میں مجھے سپلائی کا کام مل گیا اور اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل سے وہ تمام کا تمام بار ایک سال کے اندر دور ہو گیا الحمد للہ.لیز کی توسیع اس سال سے شروع ہوتی ہے.اس سے جو فائدہ ہوگا.وہ بہتری ہی بہتری ہے.اس کے علاوہ سپلائی میں جو کام ہو رہا ہے.وہ میرے لئے مزید بہتر ہی بہتر ہے.اللہ تعالیٰ نے محض اپنی ذرہ نوازی سے کیسا اس خواب کو پورا کیا.پھر انہی دنوں میں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ مصیبت اور مشکلات تیری کسی ناراضگی کا موجب تو نہیں.اگر میری کوتاہی کی وجہ سے ہیں تو مجھے آگاہ کرتا کہ میں اصلاح کروں.میرے پیارے مولیٰ نے ایک رات میری زبان پر یہ الفاظ جاری کئے.وَالضُّحى لا وَالَّيْلِ إِذَا سَجَى مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى ، وَلَلَا خِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأَوْلَى وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّک فَتَرْضی.کہ اللہ تعالیٰ نے عروج و زوال انسان کے ساتھ رکھے ہوئے ہیں وہ نہ تجھ پر ناراض ہوا ہے اور نہ تجھ کو اس نے چھوڑا ہے.تیری آخرت تیری پہل سے اچھی ہوگی.عنقریب تیرا رب تجھے اس قدر دے گا.کہ تو راضی ہو جائے گا.یہ الفاظ میں نے اس وقت سنے جبکہ یہ زمین اپنی وسعت کے باوجود میرے لئے تنگ تھی.ہر طرف مایوسی ہی مایوسی نظر آتی تھی.لیکن میں ان مشکلات اور مصائب میں ایک پہاڑ کی طرح کھڑا تھا.اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کرم کا امیدوار تھا.آخر اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا.آج اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل سے اس کی ذرہ نوازی اور عنایت سے میں قدرت رکھتا ہوں.کہ اس تمام رقبہ کو خرید سکوں.0 اب دیکھو اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ اس نے صرف مجھے دنیا ہی نہیں دی بلکہ اپنے بیشمار رحم اور کرم فرما کر حقیقی معنوں میں مجھے عبداللہ بنا دیا.آج میرا دل شکریہ اور اس کی محبت سے لبریز ہے.میرا دل چاہتا ہے جو کچھ میرا ہے وہ سب اس کی خاطر قربان ہو جائے اور میں اسی کا ہو کر رہ آپ نے یہ رقبہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خرید لیا تھا.مولف
72 جاؤں.میں آپ لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ دعا کریں.کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کی توفیق دے.دراصل عملی طور سے ہے بھی یہی.میں اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دو بیٹیوں کا خادم سمجھتا ہوں.میری ساری کوشش اور محنت صرف اس لئے ہے کہ اس پاک وجود کے جگر پارے آرام پائیں.جن میں سے اللہ تعالیٰ نے ایک کو میرے والد اور ایک کو میرے سپرد کیا ہے.میرے دونوں بچے اللہ تعالیٰ کی خدمت کیلئے وقف ہیں.میں یہاں اس لئے کام کر رہا ہوں کہ وہ خدا اور رسول کے چمن کے مالی بنے رہیں.وہ اپنے روزگار کی فکر سے آزا در ہیں.وہ صرف اللہ کے بندے بنے رہیں.ان کو کسی غیر کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے.جبکہ وہ خدا تعالیٰ کیلئے وقف ہیں.اللہ تعالیٰ خود ان کا کارساز ہوگا.مجھے پریشان ہونے کی کیا ضرورت ؟ لیکن اللہ تعالیٰ کا رسول فرماتا ہے تم میں سے وہ بہتر ہے کہ جو اپنی اولاد کو آسودگی اور خوشحالی کی حالت میں چھوڑ جاتا ہے.بہ نسبت اس کے جوتنگی اور فلاکت کی حالت میں ان کو چھوڑے.یہ سب میری کوششیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کیلئے ہیں.پس وہ کا رکن یا معاونین جنہوں نے اس کام میں میری مدد کی ہے اگر وہ بھی اس کام کو اسی جذبہ اور اسی نیت کے ساتھ ادا کریں گے جس کا میں نے اظہار کیا ہے.تو یقیناً یقیناً وہ نہ صرف مالی منفعت ہی حاصل کریں گے.بلکہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم کے وہ مورد ہوں گے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ میں اپنے اکثر کا رکنوں کو اسی جذبہ کے ماتحت کام کرتے ہوئے پاتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اخلاص اور محبت میں برکت دے اور اپنی نوازشوں اور رحمتوں سے ان کے گھروں کو بھر دے.جہاں وہ اس دنیا میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں.آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ ان کو ہمارے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے قرب میں جگہ دے.آمین اس کے بعد آپ نے کارکنان کا نام بنام ذکر کر کے ان کے تعاون کا ذکر کیا اور بتایا کہ انہوں نے دیگر سٹیٹس کیلئے بہترین نمونہ دکھایا.ایک صاحب جو بیالیس روپے اور خوراک پر آئے تھے اب ایک ہزار روپے ماہوار پارہے تھے.اور آپ انہیں ملازم نہیں بلکہ برادر خور دسمجھتے تھے.ہر ایک کے اوصاف کا ذکر کیا اور بعض کو مزید اصلاح کی طرف نہایت موزوں الفاظ میں ترغیب دلائی.پھر سب کو توجہ دلائی کہ جب کہ ہم پر رشک کی نظریں پڑ رہی اور ہر طرف سے تعریفی صدائیں بلند ہورہی ہیں.زیادہ انعام ملنے پر ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں اور فرمایا.
73 اللہ تعالیٰ شاہد ہے کہ اس رحمت اور برکت کو میں نے کبھی اپنی ذات کی طرف منسوب نہیں کیا.میرے پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ حضرت ام المومنین علیہا السلام کی دعاؤں کے طفیل ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب میں میرے لئے پیار و محبت پیدا کر دیا ہے ایک وقت تھا کہ وہ خود بھی دعا ئیں فرماتی تھیں.بلکہ ہر ایک کو کہتی تھیں کہ عبداللہ خاں کے لئے دعائیں کرو.اس لئے اللہ تعالیٰ کے بعد میری گردن جذبات شکر اور محبت سے ان کے حضور جھکی ہوئی ہے.میری والدہ جبکہ میں چار پانچ سال ( بلکہ قریباً تین سال.مولف) کا تھا.فوت ہوگئی تھیں.میں ماں کی محبت سے بے خبر تھا.لیکن میرے و دود رؤف مولیٰ نے حضرت اماں جان کے وجود میں مجھے بہترین ماں اور بہترین ساس دی.میں نے آج تک اس رقبہ کو حضرت اماں جان کا عطیہ تصور کیا.بلکہ اس جہیز کا جز خیال کیا.جو انہوں نے اپنی لڑکی کو دیا.میں نے اسی جذ بہ شکر اور محبت کی وجہ سے اس رقبہ کا نام نصرت آباد آپ کی اجازت سے آپ کے نام مبارک پر رکھا ہے.اس لئے یہ حضرت اماں جان کا عطیہ ہے.ان کی دعاؤں کا ثمرہ ہے.اب آپ لوگ خود ہی سمجھ لیں کہ حضرت مسیح موعود...کے گھر سے آئی ہوئی چیز کس قدر با برکت ہوسکتی ہے.جب کبھی بھی کوئی دقت پیش آئی.میں حضرت اماں جان کے حضور دعا کیلئے حاضر ہوتا ہوں.وہ نہایت تڑپ سے میرے لئے دعائیں فرماتی ہیں.اس لئے یہ سب خیر و برکت، یہ دیانت وامانت کے پتلے، یہ کوشش اور محنت کے مجسمے ( یعنی کا رکن.مولف ) حضرت اماں جان کی دعاؤں کا ثمرہ ہیں.پس اگر میں یا کوئی اور اس خیر و برکت کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ سخت غلطی پر ہے.اس کو آج نہیں تو کل ضرور شرمندگی اور ندامت کا منہ دیکھنا پڑے گا.پس نہایت فروتنی سے کام کرتے چلے جاؤ.اپنی کوششوں کے ساتھ بہت رو رو کر دعائیں کرو کہ جو نیک کام اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہم کو دیا ہے.ہم اس کو اپنی کسی کمزوری سے ضائع نہ کر دیں.ہمارے افعال ارحم الراحمین کے فضلوں کو ہمیشہ جذب کرنے والے بنے رہیں.اور ہم خاکسار مولف کو آپ نے اپنے مکتوب مورخہ 21 اپریل 1952ء میں تحریر فرمایا:.در اصل اماں جان انہیں کی اماں نہیں ہیں.بلکہ میری بھی اماں ہیں.میرے ساتھ جو محبت اور پیار کا سلوک انہوں نے کیا ہے اپنے ساتھ ایک داستان رکھتا ہے جب میری شادی ہوئی تو مجھے ایک عورت کے ہاتھ کہلا کر بھیجا کہ میاں کی عمر زیادہ تھی.یعنی میرے والد کی.تم چھوٹی عمر والے داماد ہو.تم مجھ سے شرمایا نہ کروتا کہ جو کمی رہ گئی ہے اس کو پورا کر سکوں پھر آپ نے حقیقی ماں بن کے دکھایا‘.(اصحاب احمد جلد دوم ص 647)
74 ہمیشہ ہمیش کیلئے اس حفیظ و عزیز ورفیق کی گود میں آجائیں جو اپنے بندوں کی رفاقت کو بھی نہیں چھوڑتا.پ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ہم نے دنیا میں غالب آتا ہے اس لئے جیسے حضرت اسمعیل شہید نے غیرت کھا کر سکھ تیراک کا مقابلہ کر کے اسے شکست دے دی تھی.ہمیں بھی دوسروں سے بڑھنا چاہئے.بلکہ میں نے اپنی اور دیگر احمد یہ اسٹیٹیوں میں کبھی فرق محسوس نہیں کیا.وہ مومنانہ مسابقت میں ہم سے بھی بڑھنے کی کوشش کریں ہماری اسٹیٹ کو اور زیادہ محنت کرنی ہوگی کیونکہ ہماری اراضی ناقص ہے اس طرح احمد یہ اسٹیٹس کا انتظام بہتر سے بہتر ہوگا اور اس جذ بہ سے ہم بھی ثواب کے مستحق ہوں گے.احمدی زمینداروں کو اس مسابقت میں جو امداد در کار ہو دینے کو تیار ہوں.کیونکہ اس دوڑ کی بنا حسد نہیں بلکہ مومنانہ جذبہ ترقی ہے.بفضلہ تعالیٰ ہماری اسٹیٹ خدمت دین میں اور چندہ میں دوسری اسٹیٹس سے بڑھ کر ہیں تبلیغی مساعی بڑھ رہی ہیں.بعض نہایت آوارہ لڑکے یہاں آئے لیکن تہجد گزار بن گئے اور ان کے والدین شکر گزار ہوئے.ہمارے اکثر کارکن تہجد گزار ہیں.باقیوں کو بھی تہجد گزار ہونا چاہئے.پھر کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا.لوگوں پر نمونہ اثر کرتا ہے.معاملہ کی صفائی اور ماتحتوں سے بچوں جیسا سلوک چاہئے.وہ آپ کو اپنا خیر خواہ سمجھیں.میں نے کارکنوں کو بار بار زبانی اور تحریری کہا ہے کہ لین دین میں قطعاً زیادتی نہیں ہونی چاہئے.آپ احتیاط کرتے ہوئے.بے شک میرا حصہ کسی ہاری کو دے دیں لیکن کسی ہاری کا حق میرے لئے حاصل نہ کر یں.میں ہر ایک اس چیز کو جو کہ نا جائز طور پر حاصل کی جاتی ہے.جہنم کی آگ کا ایندھن تصور کرتا ہوں.میں تمام ہاریوں کے رو برو آپ لوگوں کو کہتا ہوں کہ ایسی چیز جو کہ جبر سے زیادتی سے ہاریوں سے آپ لوگ حاصل کریں گے.میں اس سے بری ہوں.اللہ تعالیٰ کے حضور اس کا جواب دہ آپ لوگ ہوں گے میں نہیں ہوں گا.اگر کسی پر زیادتی ہوتی ہے.میرے پاس آئیں.انشاء اللہ اس کا حق اس کو دلایا جائے گا.(الحکم 14،7 مئی 1943ء) انفاق فی سبیل اللہ اس پاک جوڑے کے انفاق فی سبیل اللہ بسلسلہ تحریک جدید دفتر اول مرقوم ہے:.محترمہ صاحبزادی صاحبہ اور جناب میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کے انیس سالہ چندہ کی تفصیل پر نظر ڈالنے سے قارئین کو معلوم ہوگا.کہ انہوں نے نہایت شاندار نمونہ پیش کیا ہے.صاحبزادی صاحبہ
75 اپنا چندہ وعدہ کے ساتھ ہی ادا فرماتی رہی ہیں اور حضرت میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بھی وقت کے اندرا دا فرماتے رہے ہیں.محمد بی بی مرحومہ صاحبزادی صاحبہ کی خادمہ تھیں.آپ اپنے پاس سے ان کا چندہ بھی ان کی زندگی میں ادا کرتی رہیں.چنانچہ آپ نے اپنی طرف سے 5700 اور خادمہ مرحومہ کی طرف سے 100 روپے ادا کئے اور میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب نے 11575 روپے چندہ دیا.یہ رقم 17375 بنتی ہے.0 پانچ ہزاری مجاہدین ص 59 - انیسویں سال میں بلحاظ ادا ئیگی السابقون الالون میں شمولیت کا ذکر الفضل 4 جنوری 1963ء ص 6) دیگر بعض چندہ جات کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے.(1) اہل بیت کا صدقہ برائے لنگر خانہ اسی روپے الفضل 13 فروری 1962 ءص5) ( 2 ) وعدہ چندہ برائے انسدادارتداد علاقہ ملکا نہ پانصد روپیہ ( رپورٹ مشاورت 1923 ءص55) (3) توسیع مقبرہ بہشتی کی تحریک دو ہزار روپیہ میں شرکت الفضل 10 جون 1927ء ص 2) (4) ادا ئیگی برائے تعمیر مسجد دار الفضل قادیان الفضل 27 جنوری 1931 ء ضمیمہ ص 3 ک3) (5) ریویو آف ریلیجنز کو دس خریدار مہیا کرنے کا وعدہ رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ 36-1935 ، صفحہ 42) (6) تعمیر مسجد ہیمبرگ جرمنی میاں صاحب 150 محترمہ بیگم صاحبہ دوصد ، میاں عباس احمد خان صاحب 150 ، صاحبزادی شاہدہ بیگم صاحبہ 150،صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبہ 150، (7) تعمیر مسجد فرینکفورٹ جرمنی میاں صاحب دوصد ، میاں عباس احمد خانصاحب 150 ، صاحبزادی شاہدہ بیگم صاحبہ 150 ، صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ 150، (8) تعمیر مسجد زیورک سوئٹزر لینڈ محترمہ بیگم صاحبہ اپنی اور میاں صاحب کی طرف سے ایک ہزار، میاں عباس احمد خانصاحب بارہ صد، صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبہ تین صد، صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ تین صد ، میاں مصطفی احمد خان صاحب ایک صد.( الحکم 7 تا 14 مئی 1943ء) (9) برائے تعمیر عمارت مجلس خدام الاحمدیہ قادیان (10) تحریک ڈیڑھ لاکھ روپیہ برائے تعلیم الاسلام کالج قادیان میں ایک ہزار روپیہ کا وعدہ الفضل 12 جون 1944 ءص5) (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )
بچی کو قیمتی نصائح 76 آپ نے اپنی صاحبزادی آمنہ طیبہ صاحبہ کو ان شادی کے موقعہ پر جو زریں نصائح تحریر فرمائی بقیہ حاشیہ (11) اعانت دار الشيوخ الفضل 27 فروری 1947ء) (12) مسلمانوں کی کمزوریوں کو دور کرنے اور اعدائے اسلام کے حملوں کی مدافعت کیلئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پچیس لاکھ روپے کے ریزروفنڈ کی تحریک اپریل 1927ء میں فرمائی تھی آپ کا نام ان احباب میں مندرج ہے جنہوں نے ایک سے پانچ ہزار تک فنڈ جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا.رپورٹ مشاورت 1929 ء ص 295 ) (ایڈیٹر ) آپ نے اس کی فراہمی کیلئے قابل قدر کام کیا.چنانچہ پچیس لاکھ ریز رو فنڈ کے متعلق مکرم خان عبداللہ خاں صاحب کی مساعی جمیلہ.اولڈ بوائز ہائی سکول کیلئے قابل تقلید نمونہ کے عنوانات کے تحت مرقوم ہے :.امید ہے مکرم جناب خان محمد عبد اللہ خان صاحب آف مالیر کوٹلہ کا حسب ذیل مضمون نہایت خوشی اور مسرت کے ساتھ پڑھا جائے گا.اور ان کے اخلاص اور جوش کی نہ صرف تعریف کی جائے گی بلکہ دعا کی جائے گی کہ خدا تعالیٰ انہیں ہمیشہ خدمات دین ادا کرنے کیلئے بڑھ چڑھ کر توفیق بخشے.جس درد مندی اور اخلاص سے انہوں نے اولڈ بوائز ہائی سکول کو مخاطب کیا ہے اولڈ بوائز کو اسی رنگ میں جواب دینا چاہئے اور جو کام ان کے سامنے پیش ہوا ہے اسے اس خوبی اور عمدگی سے سرانجام دینا چاہئے کہ یہ ان کیلئے ایک عظیم الشان کا رنامہ بن جائے“.حضرت خلیفۃ امسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جس درد انگیز پیرایہ میں احمد یہ کانفرنس کے موقعہ پر مسلمانان ہند کی موجودہ حالت کا نقشہ کھینچا اور جس رقت انگیز جوش اور ولولہ کے ساتھ نمائندگان جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ کیا تھا اور جس جذ به اطاعت و فرمانبرداری سے جماعت کے نمائندگان نے لبیک کہا.اس نظارہ سے ہماری آنکھوں کے سامنے وہ اسوہ ابراہیمی پھر گیا.جبکہ انہیں اسلم کہا گیا تو بے ساختہ ان کے منہ سے اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِین نکلا.ان نمائندگان میں سے میں بھی ایک تھا.جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آواز کو اپنے خلیفہ کے منہ سے سنا اور کھڑے ہو کر اس امر کا عہد کیا کہ اللہ اور رسول اور اس کے دین کی تقویت کیلئے اپنی جان مال اور عزت.الغرض ہر ایک چیز اس کی راہ میں قربان کر دیں گے اور اسلام کو چہا را طراف دنیا میں پھیلا کر رہیں گے.عہد کرنے کو تو میں نے بھی کر دیا.لیکن عہد کرنا آسان اور نباہنا (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
77 تھیں.درج ذیل کی جاتی ہیں.جو آپ کے تعلق باللہ، اسلام پر مستحکم ایمان اور خاندان حضرت مسیح بقیہ حاشیہ مشکل ہے.میں نے اپنے قلب کو ٹولا تو اس کو مضبوط پایا.لیکن میں نے دیکھا کہ میرا جسم اس عہد میں میرا ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں.میری صحت اس قابل نہیں کہ محنت شاقہ برداشت کرسکوں.اور میری تربیت اس قسم کی ہوئی ہے کہ کبھی محنت شاقہ برداشت نہیں کرنی پڑی.آخر میں اس کے حضور جھک گیا.جو کہ اپنے بندوں کے دلوں پر نظر رکھتا ہے اور جہاں وہ بے بس ہوں.وہاں خود مد دکو پہنچتا ہے.میری بیچارگی اور میری بے مائیگی کو دیکھ کر اس کا رحم اور اس کی نصرت اور اس کا فضل جوش میں آیا اور کام کرنے کی ایسی راہ مجھے سمجھا دی.جو میرے لئے مالا يطاق نہ تھی.ریز روفنڈ کو قائم کرنے کیلئے اور غیر احمدی احباب سے چندہ اکٹھا کرنے کیلئے جو تحریک حضرت خلیفتہ امیج ایدہ اللہ بنصرہ نے کی تھی.اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے میں کانفرنس کے دوسرے دن عازم سفر ہوا اور اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل سے مجھے کل چار روز کے سفر میں دیگر مصروفیتوں کے ہوتے ہوئے چار ہزار کی رقم غیر احمدی بزرگوں، عزیزوں اور دوستوں سے حاصل ہوگئی اور میرا اور میرے مکرم بھائی خان عبد الرحمن خان صاحب کا اگر چندہ شامل کر لیا جاوے.تو یہ رقم پانچ ہزار بن جاتی ہے اور بعض ایسی را ہیں اللہ تعالیٰ نے کھول دی ہیں اور بعض ایسی تجاویز ذہن میں آئی ہیں کہ کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل کے ساتھ یہ رقم تھوڑے عرصے کے اندر دس بارہ ہزار تک پہنچ جائے.میں نے یہ رقم اولڈ بوائز تعلیم الاسلام ہائی سکول ہونے کی حیثیت سے جمع کی ہے.اور یہ رقم اولڈ بوائز تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی طرف سے ہی دفتر بیت المال میں جمع کرائی جائے گی.میں اولڈ بوائز تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی خدمت میں یہ بھی عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ پہلے ہماری ایسوسی ایشن کا انتظام قابل تسلی نہ تھا.اور ابھی تک اس ایسوسی ایشن نے کوئی نمایاں کام کر کے نہیں دکھایا تھا.اس لئے یہ بے جان سی ہو رہی تھی.اب اس ایسوسی ایشن کے نظام کو بدلا گیا ہے.چنانچہ سید محمود اللہ شاہ صاحب بی اے سیکرٹری ایسوسی ایشن تجویز ہوئے ہیں.سید صاحب کی قابلیت اور حسن اخلاق سے کوئی اولڈ بوائے ناواقف نہیں.مجھے امید ہے کہ آپ کی سیکرٹری شپ میں ہماری ایسوسی ایشن نمایاں ترقی حاصل کرلے گی.میری تمام اولڈ بوائز تعلیم الاسلام ہائی سکول سے درخواست ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنے مفصل پتوں سے انہیں مطلع فرمائیں تا کہ ان کو ممبران سے خط وکتاب کرنے میں آسانی ہو.اس کے بعد میں یہ بھی درخواست کروں گا کہ وہ اپنے عزیز واقارب اور دوستوں میں اپنے اثر کو کام لاتے ہوئے اس کارخیر کیلئے روپیہ اکٹھا کریں اور جو رقم وہ ارسال فرما ئیں.اس سے سیکرٹری صاحب کو مطلع فرما ئیں.اولڈ بوائز ایسوسی ایشن نے ریز ورفنڈ میں ایک ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کیا ہے.کیا ہی اچھا ہوا اگر ہم سب مل کر کم از کم ہمیں ہزار کی رقم اس فنڈ کیلئے اکٹھی کر دیں.ہم میں سے بہت باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
78 موعودؓ کے متعلق عزت و احترام کے غیر معمولی جذبات وغیرہ پر روشنی ڈالتی ہیں:.بقیہ حاشیہ سے ایسے ہیں جو بڑے بڑے عہدوں پر مامور ہیں اور اپنے حلقہ میں اچھا اثر رکھتے ہیں.اگر ہم سب مل کر اس عزم کے ساتھ کام کریں کہ یہ رقم پوری کرنی ہے.تو کچھ بعید نہیں کہ چند دنوں میں ہیں ہزار کی رقم پوری ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہماری زندگی، ہماری موت اور ہماری قربانیاں سب اسی کیلئے ہوں اور ہم اس کی ابدی رضا حاصل کر سکیں.( خاکسار محمد عبد اللہ خاں آف مالیر کوٹلہ.وائس پریذیڈنٹ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان.( الفضل 3 مئی 1927ء) (13) آپ کا وصیت نمبر 2045 ، مورخہ 22 نومبر 1921ء اور سرٹیفیکیٹ نمبر 1670 مورخہ 26 ستمبر 1923 ء ہے.وصیت کے متعلق کچھ تفصیل درج ذیل ہے :.دراصل 23 فروری 1918ء کو آپ نے وصیت کی تھی اس وقت آپ کی کوئی جائیداد نہ تھی اور آپ نے ایک صد ر و پیہ ماہوار آمد کے دسویں حصہ کی وصیت کی تھی.( گواہان آپ کے والد ماجد ، آپ کے بھائی خان محمد عبد الرحمن خان صاحب ، حضرت حافظ روشن علی صاحب تھے لیکن جائیداد کی وصیت نہ تھی.مشیر قانونی چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے توجہ دلانے پر افسر بہشتی مقبرہ حضرت میر محمد الحق صاحب نے تحریر کیا تو آپ نے جائیداد کے دسویں حصہ کی بھی وصیت 27 جنوری 1920ء کو کر دی.پھر آپ نے 22 نومبر 1921ء کومزید وصیت یہ کی.کہ اگر آپ نے اپنی زندگی میں جائیداد کا حصہ ادا کر دیا تو صدرانجمن کو جائیداد سے کوئی سروکارنہ ہوگا.پھر آپ نے 7 جون 1922 ء کو یہ تحریر کیا کہ میری اس وقت جائیداد یا آمد کوئی نہیں لیکن گھر میں استعمال ہونے والا کوئی تین ہزار کا سامان ہوگا.اس کے نیز بعد از وفات جو جائیداد ثابت ہو اس کے دسویں حصہ کی وصیت کرتا ہوں.آپ نے دفتر بہشتی مقبرہ کو 13 اکتوبر 1934ء کو تحریر کیا.وو...ابھی تک میری کوئی آمد نہ تھی.اب میں نے سندھ میں ٹھیکہ لیا ہوا ہے.گو اس کی مجھے آمدا بھی تک کوئی نہیں ہوئی لیکن اس کام کی ضمانت پر مجھے ایسی رقمیں ملیں جس کا میں نے مناسب سمجھا کہ میں دسواں حصہ ادا کر دوں.دراصل میرے پر کوئی مطالبہ قائم نہ ہوتا تھا.لیکن میں نے احتیاطاً اس قرض کو ہی اصل سمجھ کر وصیت ادا کر دی ہے.چونکہ اب اللہ تعالیٰ مجھے اس وقت بھی دے رہا ہے.اور ایسے ذریعہ سے دے رہا ہے جس کی امید نہ تھی.اس لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ بطور شکر یہ اس کا بھی دسواں حصہ ادا کرتا رہوں گا.“ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تحریک پر آپ نے دسمبر 1936ء میں تین سال کیلئے (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
79 دار السلام قادیان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 22 جنوری 1939ء میری پیاری بچی طیبہ! خدا تمہارا حافظ و ناصر ہو! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج تم ہم سے جدا ہوتی ہو.طبیعت میں دو متضاد جذبات کی بقیہ حاشیہ اپنی وصیت دسویں کی بجائے نویں حصہ کی کردی.نیز 15 مئی 1943ء کو آپ نے دفتر کو تحریر کیا کہ:.”زمیندارہ میں متواتر تین سال سے نقصان ہو رہا ہے.پچھلے سال تجارت میں بھی ساٹھ ہزار نقصان ہو گیا.اس لئے ابھی میری آمد کی کوئی صورت نہیں ہے.لیکن جو رقم میں اپنے ذاتی اخراجات کیلئے نکالتا ہوں اسی میں سے احتیاطاً 1/9 وصیت کا دے رہا ہوں.دراصل فی الحال مجھے کوئی وصیت کا روپیہ دینا نہیں آتا.دفتر مذکور کو 5 دسمبر 1944ء کی چٹھی میں زمیندارہ اور تجارت (یعنی دہلی کا کام اور میک ورکس قادیان کی شراکت ) میں نقصانات اور دہلی کے کام میں اسی ہزار نقصان اور اگلے سال پچیس ہزار منافع اور اس کے بعد اصل زر کے ضیاع کا ذکر کر کے تحریر کرتے ہیں کہ:.آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت کے دوران میں نے گزارہ کہاں سے کیا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ میری بیوی کی قادیان میں اراضیات کافی ہیں.وہ فروخت ہوتی ہیں اور ان کا روپیہ آتا ہے اور اسی روپیہ سے ہمارا گزارہ کئی سال تک ہوتا رہا ہے.اس کے علاوہ دراصل سندھ کی اراضیات کا لین دین میری بیوی کے روپے سے ہی ہوا ہے.میں نے صرف اس غرض سے اپنے نام پر اراضیات کو کیا ہے کہ وصیت کا روپیہ میرے نام سے نکلتا رہے...حقیقت میں مجھے اس آمد پر بھی چندہ نہیں دینا چاہئے تھا.کیونکہ یہ آمد بھی میری نہیں تھی.میری بیوی کی ہی تھی.میں نے ایک مضمون پچھلے دنوں میں اخبار الحکم میں دیا تھا.اس میں بھی اس بات کا ذکر ہے.یہ کام دراصل میرا نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دونوں بیٹیوں کا ہے.لیکن اس انعام کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے میرے پر کیا ہوا ہے.میں چاہتا ہوں کہ جس قدر بھی زیادہ سے زیادہ رقم اللہ تعالیٰ کے نام پر ہمارے گھر سے نکل جائے اس قدر بہتر ہے.چنانچہ میری والدہ ( نواب ) مبارکہ بیگم (صاحبہ ) بھی 1/10 ہی چندہ ادا کرتی ہیں....وصیت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اگر اس میں کوئی دھوکہ اور فریب ہوا تو مقبرہ بہشتی میں جا کر بھی باہر نکالے جائیں گے.( یعنی جنازہ وہاں پہنچنے پر بھی تدفین میں روک پیدا ہو جائے گی.مولف ) میرا تو یہ ایمان ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسرے چندوں کو ملا کر آمد کا کم از کم 1/3 خدا تعالیٰ کی راہ میں جارہا ہے.آپ نے 11 نومبر 1945ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے نام مکتوب میں تحریر کیا.کہ آپ نے جولائی میں ساڑھ چھ ہزار روپیہ سے زائد رقم بطور دسویں حصہ (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر ) 66
80 کشمکش ہو رہی ہے.ایک طرف تمہاری شادی کی خوشی ہے اور اس بات کی خوشی ہے کہ ایک شریف ترین خاندان میں تم بیا ہی جارہی ہو.دوسری طرف تمہارے جانے کا صدمہ ہورہا ہے.آنکھوں میں بقیہ حاشیہ کے بھجوائی ہے.اور اپنے بیلنس شیٹ بھی دفتر بہشتی مقبرہ کو بھجوا دئیے ہیں اور آپ اس امر پر تیار تھے کہ مرکزی انسپکٹر سندھ آکر آپ کے حسابات دیکھ لیں.، (14) حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحب کے دو ایمان افروز خطوط ”جماعت کے نوجوانوں کیلئے لمحہ فکریہ کے عنوانات کے تحت اخویم چوہدری شبیر احمد صاحب بی اے وکیل المال تحریک جدید رقم فرماتے ہیں :.آپ انہی جلیل القدر ہستیوں میں سے تھے جنہیں اشاعت اسلام کے عظیم الشان کام کے ساتھ خاص لگاؤ تھا.تحریک جدید کے معروف چندہ کے علاوہ بیرونی ممالک کی ہر مسجد کی تعمیر میں حصہ لینے کا خاص خیال آپ کو دامن گیر رہتا تھا.خدمت دین کا یہی جذبہ آپ کے اہل بیت میں بھی پایا جاتا ہے جس پر دفتر ہذا کا ریکارڈ شاہد ہے.آپ نے آخر دم تک اپنی ان قربانیوں کو جاری رکھا اس اثناء میں ہجرت کا سانحہ بھی پیش آیا.آپ پر بیماری کے حملے بھی ہوئے.مالی نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑا.مگر آپ نے اشاعت اسلام کے فکر کو تمام فکروں پر مقدم رکھا.ذیل میں آپ کے ایک مکتوب گرامی محررہ مورخہ 16اکتوبر 1959ء کی نقل پیش کی جاتی ہے جس میں آپ نے دفتر ہذا کو ایک اہم امر کی طرف توجہ دلائی اور اس ضمن میں سب سے پہلے اپنا نیک نمونہ قائم فرمایا.آپ تحریر فرماتے ہیں :.میرا غالباً 705 روپے کا پچھلے سال کا وعدہ تھا.میں ہمیشہ اکتوبر میں ہی اپنا چندہ ادا کیا کرتا ہوں امسال بھی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ادائیگی کی توفیق دے دی ہے.آئندہ سال کا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیماری کے پیش نظر ایک ہزار کا وعدہ کرتا ہوں.میرے نزدیک اس سال جماعت کو زیادہ قربانی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تا کہ حضور کو تحریک جدید کے اخراجات کی طرف سے اطمینان حاصل رہے.اور بیماری کی حالت میں پریشانی نہ اٹھائیں اور جماعت کی تبلیغی کوششوں سے مطمئن رہیں“.دفتر ہذا نے آپ کی اس قابل قدر تحریک کی اشاعت کی جس کے بفضلہ تعالیٰ بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے.بعدہ دفتر ہذا نے متعدد بزرگوں کو اس سلسلہ میں مضامین لکھنے کی بھی درخواست کی.چنانچہ حضرت نواب صاحب کو بھی اس قسم کی درخواست بھجوائی گئی جوابا جو مکتوب گرامی آپ نے تحریر فرمایا.اس کی نقل بھی ہدیہ قارئین کی جاتی ہے اس سے بھی آپ کے کئی اوصاف حمیدہ ظاہر ہوتے ہیں مثلاً انکساری ، خوش خلقی ، انفاق فی سبیل اللہ اور دعاؤں میں شغف ،خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا غیر معمولی احترام وغیرہ.آپ نے تحریر فرمایا :.آپ کا محبت نامہ ملا مجھے تو مضمون نگاری سے دور کا بھی واسطہ نہیں.اللہ تعالیٰ (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
81 تمہارے بچپن سے جوانی تک کے واقعات پھر جاتے ہیں.تم میرے گلستان امید کی بہترین کلی تھیں.ایک وقت تھا کہ سرخ سفید بھولا بھالا گوشت کا لوتھڑا مجھے اس قدر پیارا اور عزیز تھا.کہ دنیا کی ہر ایک چیز اس کے مقابلہ میں بیچ نظر آتی تھی.بعد میں اللہ تعالیٰ نے اور بھی تمہارے بہن بھائی دیئے.لیکن ان کے آنے سے تمہاری محبت میں کمی نہیں آئی.میں نے تمہیں لڑکوں سے کبھی کم نہیں سمجھا.میں نے اللہ تعالیٰ کی عنایت اور مہربانی سے تمہاری تعلیم وتربیت میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی اور حتی الامکان تمہاری ضروریات کو اپنے آرام و آسائش پر مقدم رکھا.اس کی یہ وجہ نہیں کہ تم میری اولا د تھیں بلکہ میں نے تم سب بھائی بہنوں کو اللہ تعالیٰ کا ایک خاص انعام تصور کیا.تمہاری والدہ سے شادی کرنے سے میری سب سے بڑی خواہش اور آرزو یہی تھی کہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا روحانی و جسمانی جزو بن جاؤں میری خواہش کی تکمیل نہیں ہو سکتی تھی جب تک کہ دنیا میں تم لوگ نہ آتے.اس خواہش کا سب سے پہلا ثمرہ تم ہی ہو.اس لئے جو محبت مجھے تم سے پیدا ہوئی میں اس کو آج تک اسی طرح محسوس کرتا ہوں.ایسی حالت میں تم خود اندازہ کر سکتی ہو.کہ کسی کے تم کو حوالہ کر دینا میرے لئے کس قدر تکلیف اور صدمہ کا موجب ہوسکتا ہے لیکن قانون قدرت اور اللہ و رسول کی اتباع میں تم کو اپنے سے جدا کرنے پر مجبور ہوں.اور ایک شریف ترین شخص کے تم کو سپرد کرتا بقیہ حاشیہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب کو صحت و عمر دے وہ اس کام کیلئے زیادہ موزوں ہیں.پھر جماعت پر بھی ان کا کافی اثر ہے.میں تو بیماری کی وجہ سے کسی قابل نہیں رہا ہوں.میں نے حضرت بیگم صاحبہ ( یعنی صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ) اور بچوں کا وعدہ چندہ بھی بذریعہ جماعت ماڈل ٹاؤن بھجوایا ہے.مسجد فرینکفورٹ کا ایک صد روپیہ بھی ادا کر دیا ہے.ابھی پچاس روپیہ میرے ذمہ باقی ہیں.( آپ نے جرمنی کی ہر دو مساجد کیلئے ڈیڑھ ڈیڑھ سوروپیدا دا فرما دیا ہے.ناقل ) آج کل کئی قسم کی مشکلات اور پریشانیوں میں گھرا ہوا ہوں.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان سب مشکلات سے نجات دے.تو پھر انشاء اللہ مزید ثواب میں شامل ہونے کی کوشش کروں گا.وہ اس قدر رقم ہوگی کہ آپ خوش ہو جائیں گے.پس دعا کریں نیت میں فرق نہیں.توفیق مل جائے سہی پھر مزید خدمت کیلئے حاضر ہوں پس دعا کریں اور بہت کریں اور کروائیں.جزاک اللہ.الحمد للہ کہ میری تحریک کامیاب رہی.اللہ تعالیٰ نے مجھے ثواب کا موقعہ دیا.پس حضرت نواب صاحب کی بلندی درجات کیلئے دعا کرتے ہوئے نو جوانوں کو توجہ دلائی جاتی ہے کہ وہ اپنے محبوب امام کی توقعات کے مطابق اپنے رخصت ہونے والے بزرگوں کے خلاء کو پر کرنے کی پوری پوری کوشش کریں...(الفضل 6اکتوبر 1961ء)
82 ہوں.مجھے امید ہے کہ وہ تمہارے ساتھ ایسا ہی سلوک کرے گا جیسا کہ اس کے دادا نے اپنی بیوی کے ساتھ کیا.شرافت اور بزرگوں سے وابستگی سب سے بڑا بندھن ہوتی ہے.اللہ کرے کہ تمہارا میاں میری حسن ظنیوں کو پورا کرنے والا ہو تم دونوں نہایت پاکیزہ اور پیار و محبت کی زندگی بسر کرو.تم دونوں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے رہو.دین و دنیا کی فلاح حاصل کرو.اللہ تعالیٰ تم کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے تمہاری زندگیاں نہایت ہموار ہوں.اللہ تعالیٰ کی نصرت ، رحمت اور فضل کا سایہ پیہم میسر ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے اہل وموردتم ہمیشہ بنے رہو.حضور کی تعلیم اور ان کا اسوہ تمہارے لئے مشعل راہ ہو.اللہ کرے تم دونوں کے جوڑ سے وہ گوہر مقصود دنیا میں ظاہر ہو جس کے آنے پر اسلامی ترقی مقدر ہے.جس نے ایک بار پھر دنیا کو ورطہ ظلمت سے نکال کر نورانی دنیا میں بسا دینا ہے.اللہ تعالیٰ میری ان دعاؤں کو سننے والا ہے اس نے میرے لئے انہونی کو ہونا کر کے دکھا دیا.اس کیلئے کوئی مشکل نہیں کہ ذرہ نا چیز کو ثریا تک رفعت دے اس کے فضلوں کا کوئی ٹھکانا نہیں وہ ہر چیز پر قادر ہے.آمین اب تم ایک نئے دور میں داخل ہورہی ہو.اللہ کرے کہ یہ دور پہلے دور سے زیادہ مبارک ہو.لیکن جب انسان زندگی کے ایک دور کو چھوڑ کر دوسرے میں داخل ہوتا ہے تو اس میں اس کو کئی قسم کی دقتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.ابتداء کی معمولی سی لغزش اکثر اوقات ساری عمر کی پشیمانی کا موجب ہو جاتی ہے.اس لئے نئے دور میں قدم رکھتے ہوئے بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے.اب تمہارا بہت سے ایسے آدمیوں سے واسطہ پڑنا ہے جن کی طبیعت سے تم مانوس نہیں ہو.بعض بزرگوں کیلئے اپنے خیالات اور جذبات کو قربان کرنا ہوگا اور بعض افراد کیلئے اپنی طبیعت کو مجبور کر کے پیار و محبت کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے تا کہ نئے ماحول کے قالب میں تم اپنے آپ کو ڈھال سکو.بہر حال یہ ایک بڑا امتحان ہے.یہاں تم ان لوگوں میں تھیں.جو تم کو اپنے اپنے آرام و آسائش پر مقدم رکھتے تھے.اب تم ان لوگوں میں جارہی ہو جن کا تم کو بھی خیال رکھنا پڑے گا.تم سمجھدار، شریف خاندان اور ماں باپ کی بیٹی ہو تم کو زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں لیکن بعض وقت یاددہانی کام آجاتی ہے.اس لئے تمہارے فائدہ کیلئے چند باتیں تحریر کرتا ہوں.سب سے پہلے تم کو اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جانا چاہئے.اس نئے دور میں کامیاب رہنے کیلئے اس سے استقامت طلب کی جائے.اس کا یقینی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر مشکل کے وقت وہ تمہاری راہنمائی کیلئے آن پہنچے گا اور اپنی
83 تائید اور نصرت کے ساتھ تمہارا حامی کا ر ہوگا.اس کے بعد تم حتی الامکان وہ طرز اختیار کرنے کی کوشش کرو گی.جس سے سب کو اپنا گرویدہ کر لو.اور ہر ایک کے ساتھ ہمدردی اور محبت کے ساتھ پیش آؤ.کسی کی ریس نہ کرو.رشتہ داروں کے دکھ درد میں شریک رہوتا کہ تمہارا دکھ دردوہ اپنا دکھ درد محسوس کریں.سچی خیر خواہی انجام کا ردشمن کو بھی اپنا بنا دیتی ہے اور یہاں تو تم اپنے عزیزوں میں جا رہی ہو.لیکن اس امر کا خیال ضرور رہے کہ اس قدر اپنے آپ کو نہ مٹا لو کہ دوسرے تمہاری ہستی کو ہی نہ محسوس کریں.انسان کو اپنی عزت نفس کا ضرور خیال رکھنا چاہئے.جو اپنی عزت خود نہیں کرتا دوسرے بھی اس کی عزت نہیں کرتے.اس لئے تسلیم اور رضا میں خود داری کا پہلو ضرور شامل ہونا چاہئے.اس کے علاوہ تم کو اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ نکما اور بیکا ر آدمی دوسروں کی نظر میں بالکل گر جاتا ہے.اس لئے کام کرنا اور خدمت کرنا اپنا شیوہ بنالو.اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالو.انسان کی حالت دنیا میں ایک جیسی نہیں رہتی.تنگی ترشی دونوں پہلو لگے ہوئے ہیں.تنگی میں صبر کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑو.بغیر کسی قسم کی گھبراہٹ کے اللہ کی نصرت صبر وشکر کے ساتھ طلب کرتے رہو اور ایسی حالت میں اپنے میاں کیلئے امن اور تسکینت کا فرشتہ بنی رہو.اپنے مطالبات سے اس کو تنگ نہ کرو.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل آجائے.لیکن ایسی حالت میں ایسی قناعت نہیں چاہئے کہ دونوں بیکار ہو کر بیٹھے رہو.خود بھی اور میاں کو بھی خدا کے آگے جھکائے رکھو اور کام کرنے اور محنت کرنے کی ترغیب ان کو دیتی رہو.تمہاری امی اس معاملہ میں بہترین نمونہ ہیں.تم نے خود دیکھا ہے کہ کس قدر تنگی انہوں نے میرے ساتھ اٹھائی لیکن اس وقت کو نہایت وفا اور محبت کے ساتھ گزار دیا.ایک طرف تو یہ تسلیم و رضا تھی اور دوسری طرف مجھے کام کرنے اور باہر نکل جانے کی ترغیب دیتی تھیں.آخر اس صابر و شاکر ہستی کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے سنا ایک طرف مجھے کام کرنے پر انہوں نے آمادہ کر دیا دوسری طرف ان کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور فضل کے دروازے میرے پر کھول دیئے.اللہ تعالیٰ تم کو اپنی امی کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.گھر میں مختلف قسم کی تکالیف بھی آئیں تنگیاں بھی آئیں.لیکن اس خدا کی بندی نے اپنے میکے میں ان تکالیف کا کبھی بھی ذکر نہ کیا.خود اپنے نفس پر سب کچھ برداشت کیا لیکن دوسروں کو اپنی تکلیف میں شامل کرنا گوارا نہ کیا.وقت تھا گزر گیا.میری بچی! مجھے بڑی خوشی ہو گی.تم بھی اپنی امی کی طرز ہی اختیار کرو.وہ تمہارے لئے بہترین
84 نمونہ ہیں.اللہ کرے کہ تم کبھی تنگی نہ دیکھو.لیکن فراخی میں کبھی غریبوں کی ضروریات کو نہ بھولو.اپنی ضروریات پر حتی الامکان ان کو مقدم رکھو.تم ایسے گھر میں جارہی ہو.جس کا کام ہی مخلوق اور غرباء کی خدمت کرنا ہے.اگر تم نے یہ خدمت اپنے ذمہ لے لی.تو ہمیشہ مخدوم بنی رہو گی اللہ تعالیٰ کیلئے تواضع اختیار کرنے میں ہی عزت ہے.اللہ تعالیٰ نے تم کو ایک عظیم الشان خسر دیا ہے.اس کی خوشنودی اور خدمت کر کے دین و دنیا کی فلاح حاصل کر سکتی ہو.اللہ تعالیٰ کے آگے تسلیم و رضا کے ساتھ جھکا رہنا چاہئے.باوجود دعاؤں کے اگر وہ کوئی فیصلہ صادر فرما دے تو اس کو نہایت صبر شکر سے قبول کرنا چاہئے.اس نئے دور میں اکثر اوقات میاں بیوی اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جایا کرتے ہیں.تم کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو ہر ایک محبت پر مقدم رکھو.اس نے جو فرائض تم پر عائد کئے ہوئے ہیں ان کو ہمیشہ مقدم کرو.اپنی زندگی صرف اللہ تعالیٰ کیلئے گزارو.تم دیکھو گی وہ کلی طور پر تمہارا ہو جائے گا.جب وہ تمہارا ہو گیا.تو پھر تم کو کس کی پروا.سب خود بخود تمہارے ہو جائیں گے.اب میں پیار و محبت بھرے جذبات پر اس خط کو ختم کرتا ہوں.تم کو اللہ تعالیٰ کے سپر د کرتا ہوں.وہی تمہارا حافظ و ناصر ہو.مکرر آنکہ میں لکھنا بھول گیا.حضرت اماں جاں ہمارے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ ہیں.ان کی دعا ئیں اور محبت حاصل کرنے کی از حد کوشش کرو.یہ نہ پرواہ کرو کہ کسی وقت وہ کسی طرف توجہ ہونے کی وجہ سے متوجہ نہیں ہوتیں.بلکہ اپنی خدمت سے اور محبت سے ان کو اپنا بناؤ اور ان کی دعائیں لو.انشاء اللہ تعالیٰ یہ خدمت تمہاری از حد نیک نصیبی کا موجب ہوگی.وہ بیمار رہتی ہیں.تم ان کے قریب ہوگی.ان کی خدمت کرنا تم کو اپنا شیوہ بنا لینا چاہئے.اللہ تعالی تم کو ہر نیک کام کی توفیق دے.آمین شدید ترین حمله مرض فقط خاکسار محمد عبد اللہ خاں (الفضل 12 اکتوبر 1961ء) آپ پر 1949ء میں دل کا دورہ ہوا.کئی سال تک بیم و یاس کی حالت رہی.ان ایام میں جبکہ ڈاکٹر بھی مایوس تھے.سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کو نومبر 1950ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی صحت یابی کی اطلاع دی جو کہ پوری ہوئی آپ اس دورہ کے بعد تیرہ سال اور کشف کے بعد
85 گیارہ سال زندہ رہے اور اپنے ذاتی کام اور سلسلہ کے کام کرتے تھے.موٹر پر احباب کو چندوں اور نمازوں کی تلقین کرنے اور اپنے ذاتی کام سرانجام دینے کیلئے جاتے تھے.0 حضور نے بیان فرمایا:.میں صبح کی نماز کے وقت نماز پڑھ کر لیٹ گیا.بالکل جاگ رہا تھا کہ کشفی طور پر دیکھا کہ کمرہ کے آگے برآمدہ میں میاں عبداللہ خاں صاحب چار پائی سے اتر کر زمین پر کھڑے ہیں.میں ہی ان کے سامنے ہوں ان کو جو کھڑے دیکھا تو اس خیال سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت بخشی ہے بے اختیار میرے منہ سے الحمد للہ نکلا اور پھر جیسا کہ عام طور پر ہمارے ملک میں نظر لگ جانے کا وہم ہوتا ہے مجھے بھی اس وقت خیال آیا کہ میری نظر نہ لگ جائے.میں نے جھٹ اپنی آنکھیں نیچی کر لیں اور پھر یہ نظارہ جاتا رہا.اس وقت میں مکمل طور پر جاگ رہا تھا.بالکل نیند کی حالت نہ تھی.خواب میں مریض کو یکدم تندرست ہوتا دیکھنا عام طور پر منذر ہوتا ہے.مگر ساتھ چونکہ الحمد للہ کہا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ نیک اور مبشر کشف ہے.0 معجزانه صحت یابی و شکر خداوندی دوستوں کی خدمت میں درخواست دعا کے عنوان کے تحت آپ ایک کاپی میں تفصیلاً اس علالت اور اس سے معجزانہ شفایابی کا ذکر کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے شکر سے اور اپنے اہل بیت کے شکر سے آپ کا قلب صافی مملو ہے.تحریر فرماتے ہیں." مجھے 8 فروری 1949ء کو کارونی تھر مبوسس کا اس قدر شدید حملہ ہوا.کہ لاہور کے ایک مشہور آپ اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے با وجو د شدید ضعف صحت کے سفر سندھ اختیار کرنا چاہتے تھے.آپ درخواست دعا کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.” میرا بچنا اعجازی اور معجزانہ رنگ رکھتا ہے.اور میری زندگی سے بڑے بڑے ڈاکٹر مایوس تھے.گونہایت کمزوری اور نا توانی کی حالت میں ہوں ابھی تک WHEELED CHAIR پر ہی حرکت کرسکتا ہوں.“ (الفضل 2 ستمبر 1955ء) اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے سفر سندھ اختیار کیا اور اراضی سے متعلق اپنے کام سرانجام دیئے.الفضل 27 نومبر 1950 ء.یہ کشف ان رؤیا وغیرہ میں شامل ہے جو حضور نے 18 اور 19 نومبر کو بیان فرمائے.
86 و معروف ڈاکٹر جب دوسرے دن میرے کمرہ سے نکلے تو مجھے زندہ دیکھ کر MIRACLE MIRACLE ( معجزه معجزہ) کہتے ہوئے نکلے.ان کو یہ خیال ہی نہ تھا کہ آج رات میں زندہ کاٹ سکوں گا.ایک اور ڈاکٹر جو کہ خون کا ٹسٹ وغیرہ لیا کرتے تھے.وہ بھی دوسرے ڈاکٹروں کی طرح میری زندگی سے مایوس تھے.جب انہوں نے دیکھا کہ میری صحت کافی بحال ہوچکی ہے.تو فرمانے لگے کہ میں بورڈ پر آپ کیلئے دعا کی تحریک پڑھتا تھا اور خوش ہوتا تھا.کیونکہ مجھے بھی دعاؤں کی طرف راغب ہونا بہت پسند ہے.دراصل انہوں نے کہا کہ جو بات تدبیر سے نہیں ہو سکتی تھی.وہ حی و قیوم خدا کی طرف رجوع کرنے سے حاصل ہو گئی ہے.ڈاکٹر محمد یوسف صاحب جن کے ایک لمبا عرصہ زیر علاج رہا ہوں اور اب بھی وقتاً فوقتاً میرے علاج میں حصہ لیتے رہتے ہیں.ڈیڑھ سال تک میری زندگی سے مایوس رہے.اب چند روز ہوئے ہیں کہ کچھ بے احتیاطی سے اپنی بساط سے چند قدم زیادہ چل لیا.جس کی بناء پر میری طبیعت ذرا خراب ہو گئی اور ڈاکٹر صاحب موصوف کو مجھے بلانا پڑا.تو انہوں نے پہلی دفعہ بشاشت سے فرمایا کہ اب پہلے کی نسبت تمہاری حالت بہت بہتر ہے.اس تکلیف کے دور ہو جانے کے بعد چلنے پھرنے کی مشق کو جاری رکھنا چاہئے.ورنہ انہوں نے آج تک کبھی تسلی آمیز گفتگو نہ کی تھی.دراصل شروع سے وہ میرے معالج ہونے کی وجہ سے میری حالت سے وہ پوری طرح واقف تھے.میری حالت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی قسم کی حوصلہ افزائی نہ کرتے تھے.تا کہ میں کوئی بے احتیاطی نہ کر بیٹھوں.الغرض میرا اس تمہید سے یہ مطلب ہے کہ میری اس بیماری سے رہائی محض اللہ تعالیٰ کے کرم کا از حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ) '' صبح دس بجے اچانک حرکت قلب بند ہونے کا شدید ترین دورہ ہوا.دو ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد افاقہ ہوا.مگر ساڑھے چار بجے پھر شدید دورہ ہوا اور ساتھ ہی تشیخ بھی.حالت بہت بگڑ گئی مگر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ابھی تک حالت خطرہ سے خالی نہیں“.(الفضل 9 فروری 1949ء) ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے لکھا کہ: یہ ایک شدید قسم کا حملہ تھا جس میں دل کی شریانوں میں خون منجمد ہو جاتا ہے.اور عارضی طور پر دل کی حرکت بند ہو جاتی ہے.اکثر اوقات تو لوگ اس حملہ سے جانبر نہیں ہو سکتے“.(الفضل 11 فروری 1949ء) حضرت ام المومنین نے بھی دعا کی تحریک فرمائی.(الفضل 23 فروری 1949ء) عرصہ تک اعلانات دعا ہوتے رہے.
87 نتیجہ ہے.میں آج سے پانچ سال قبل ختم ہو گیا ہوتا.لیکن میرے بزرگوں، میرے عزیزوں، میرے مخلص دوستوں اور اس برادری کے افراد نے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دوسرے سے منسلک کر دیا ہے.میری چلتی پھرتی تصویر انہی کی دعاؤں کا کرشمہ ہے جو انہوں نے مضطر بانہ اور بیقراری کے جذبہ کے ماتحت میرے لئے کیں.انہوں نے مجھے اپنے مولیٰ کریم سے جو کہ تی و قیوم اور سمیع ہے مانگ کر ہی صبر کیا.ایک مخلص بہن نے میری بیوی کو لکھا کہ جب انہوں نے میری تشویشناک حالت کو اخبار میں پڑھا تو وہ سجدہ میں گر گئیں اور اس قدر اضطراب اور بیقراری سے ان الفاظ میں دعا کی کہ جب تک اے میرے مولیٰ تو مجھے ان کی صحت کے متعلق مطمئن نہیں کر دیتا.میں تیرے حضور سے سر نہیں اٹھاؤں گی.چنانچہ جب ان کو تسلی مل گئی تو پھر انہوں نے بارگاہ ایزدی سے سر اٹھایا.پھر یہی ایک مثال نہیں.اب مجھے اکثر بھائی ملتے ہیں اور ذکر کرتے ہیں کہ کس کس رنگ میں انہوں نے میرے لئے دعائیں کیں.اور مجھے اللہ تعالیٰ سے لے کر ہی صبر کیا.خدا کی اس عنایت اور مہربانی کا میں جس قدر بھی شکریہ ادا کروں وہ کم ہے.میں کیا اور میری ہستی کیا.میں نے اپنی قریباً ساٹھ سالہ زندگی میں ان کیلئے کیا کیا ؟ یہ محض حضرت مسیح موعود کی صاحبزادی کے طفیل ہے.یہ تڑپ، یہ دلسوزی ، یہ بیقراری محض اس واسطے تھی.یہ اس محبت اور خلوص کا کرشمہ ہے جو اس والہانہ محبت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہے انہوں نے صاحبزادی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھا اور بیقرار ہو ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائے اور مجھے اس بیماری سے نجات دلا دی.پھر میں کس کس بات کا شکر یہ ادا کروں یہ میری خوش نصیبی سمجھے یاحسن اتفاق کہ اس کڑے وقت میں سارا خاندان ایک جگہ اکٹھا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ اس بیماری کے دوران میں مہربانی فرماتے رہے.ان کی خاص دعاؤں کا مورد بنا رہا.کہ انہوں نے میرے اچھا ہونے سے بہت پہلے خواب میں مجھے پورا صحت یاب دیکھا.پھر حضرت اماں جان جو کہ میرے لئے ماں سے بڑھ کر تھیں.میں اپنی ماں کی محبت سے محروم تھا کیونکہ میں بچہ ہی تھا کہ وہ فوت ہوگئیں لیکن اس کمی کو حضرت اماں جان کی محبت نے پورا کر دیا.جب میری طبیعت زیادہ خراب ہوتی تو فوراً میری چار پائی کے پاس آن کر بیٹھ جاتیں.نہ صرف دعا کرتیں بلکہ ان کا پُر سکون چہرہ اور پُر امید چہرہ میرے لئے ایک بیش بہا آسرا اور سہارا ہوا کرتا تھا.ان کی موجودگی ایسی قوت ارادی پیدا کرتی کہ
88 ساری گھبراہٹ اور بے چینی ، اپنی بیماری دور ہوتی پاتا.اللہ تعالیٰ ان کے مرقد پر اپنے انوار کی بارش نازل فرما دے اور وہ کچھ ان کو دے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کیلئے چاہتے تھے.ان کو سب کچھ حاصل تھا اس لئے میں اپنی زبان میں کیا دعا ان کیلئے کر سکتا ہوں.پھر اپنی والدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا شکریہ ادا کرنے کیلئے الفاظ نہیں پاتا انہوں نے میری محبت میں ایک سال نہایت تکلیف اور بے آرامی میں میرے کمرے میں گزارا.ہر قسم کے آرام و آسائش کو چھوڑ کر میرے آرام میں لگی رہیں.نہ صرف یہ کیا بلکہ جماعت میں جو مضطر بانہ اور بیقراری کا جذ بہ دعا کیلئے پیدا ہوا.زیادہ یہ انہی کی تحریک کا نتیجہ تھا.ان کی رباعیات نے جماعت میں ایک ہلچل مچادی.ایسا ولولہ پیدا کر دیا کہ اہل بیت مسیح موعود سے محبت رکھنے والے انہی کے رنگ مادرانہ محبت میں رنگین ہو گئے.اضطراب اور بیتابی سے دعا کرتے تھے.اب میں یہاں اگر اپنی بیوی حضرت دخت کرام امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا ذکر نہ کروں تو نہایت ناشکری اور ظلم ہوگا.یہ نور کا ٹکڑہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جگر گوشہ، جو کہ میرے پہلو کی زینت بنا ہوا ہے.کسی خدمت اور کس نیکی کے عوض مجھے حاصل ہوا ہے.اس بات کو سوچ کر میں ورطہء حیرت واستعجاب میں پڑ جاتا ہوں.موجودہ زمانہ کا روحانی بادشاہ جَرِى اللَّهُ فِي حُلَلٍ الانبیاء اپنے لئے یہ خاکسارانہ الفاظ استعمال فرمائے.میں آج تک اس کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہوں.لیکن میرے جیسے ناچیز انسان کیلئے یہ حقیقت ہے.میں اصل میں ان اشعار کا موردہوں سے کرم خا کی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار اللہ تعالیٰ نے اس انعام کو دے کر مجھے زمین سے اٹھا کر ثریا پر پہنچا دیا.اس مہر و وفا کی مجسم نے جب میری بیماری کی اطلاع راولپنڈی میں پائی تو نہایت درجہ پریشانی کی حالت میں فور الا ہور پہنچیں یہ میری بیماری کی پہلی رات تھی.اور ساری رات موٹر پر ان کو رہنا پڑا.صبح چار بجے کے قریب لا ہور پہنچیں.لیکن کیا مجال میرے پر اپنی گھبراہٹ کا اظہار ہونے دیا ہو.پھر اس قدر تند ہی اور جانفشانی سے میری خدمت میں لگ گئیں کہ میں نہیں کہہ سکتا.کوئی دوسری عورت اس قدر محبت اور پیار کے جذ بہ سے اپنے خاوند کی خدمت کر سکتی ہو.اس اللہ تعالیٰ کی بندی نے اپنے اوپر آرام کو حرام کر لیا.رات دن جاگتے ہوئے کاٹتی تھیں.کمرہ تنگ تھا اس لئے دوسری چار پائی کمرہ میں کچھ نہیں سکتی تھی.
89 اس لئے یہ ناز و نعمت کی پلی جو کہ ریشم واطلس کے لحافوں میں آرام کی عادی تھی زمین پر چند منٹ کیلئے سر ٹیک کر آرام لے لیتی تھی.بلکہ زمین پر نہیں ایک تخت پوش نماز کیلئے بچھا ہوا تھا اس پر چند منٹ کا آرام اگر میسر آجائے تو آجائے.ورنہ ہر وقت چوکس ، ہوشیار، میرے کام کیلئے مستعد ہوتی تھیں.یہ نہیں کہ کوئی اور میرا خبر گیراں نہ تھا.ان ایام میں ملازموں کے علاوہ تمام عزیز اور رشتہ دار میری خدمت میں لگے ہوئے تھے میں اس بیماری میں اپنے کو اس قدرخوش نصیب اور خوش بخت لوگوں میں متصور کرتا تھا.جس کا آپ لوگ اندازہ ہی نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتیاں اور نواسیاں اس محبت اور جذبہ سے خدمت میں لگی ہوئی تھیں کہ اگر میں اس حالت میں مر بھی جاتا.تو یہ بھی میرے لئے ایک روحانی انبساط کا موجب ہوتا.اپنے پاک لوگوں کو ایک گنہ گار کی خدمت میں لگا دیا.یہ اس کے اپنے عطا یا ہیں جس کو نہ میں سمجھ سکتا ہوں.نہ کوئی اور.مجھ سا نا چیز اور یہ سلوکے لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگاہ میں بار لیکن میری باوفا، پیاری بیوی نے کسی کی امداد پر بھروسہ نہیں کیا.بلکہ ان کی یہی خواہش اور آرزو رہتی تھی.کہ خود ہی میرا کام کریں.اگر کسی دوسرے کو کام کہتا تھا کہ ان کو آرام ملے تو اس سے خوش ہونے کی بجائے ناراض ہوتیں.لوگ کہتے ہیں کہ اسلامی شادیاں کامیاب نہیں ہوتیں.مرد اور عورت ایک دوسرے کی طبیعت سے واقف نہیں ہوتے.ان فلسفیوں کو کیا علم کہ جن لوگوں کو خدا تعالی کی ربوبیت اور پاک بندوں کی تربیت حاصل ہوتی ہے.اور ان لوگوں کی فیض صحبت سے اپنے اعمال کو صیقل کئے ہوتے ہیں.ان کی دنیا ہی نرالی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سچ فرمایا ہے کہ دنیا مومن کیلئے سجن ہے کیونکہ اس کو شریعت کی پابندی اپنے پر عائد کرنے کی پہلے تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے.لیکن جب وہ حقیقی عبودیت حاصل کر لیتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ کا مصداق ہو جاتا ہے.اور کامل اور مکمل عبد ہونے کی حالت وارد ہونے کے بعد فَادْخُلُوا فِی عِبَادِي وَادْخُلُوا جَنَّتِی کی پُر اسرار آواز سناتا ہے یہی کیفیت اس پاک بیوی کی تھی.میں اس اعتراف پر مجبور ہوں کہ جب میں اپنی بیوی کی محبت اور وفا کو دیکھتا تو اکثر ورطۂ حیرت میں گم ہو جاتا ہوں.وہ شہزادیوں کی طبیعت رکھتی ہیں.ان میں نخوت و تکبر رائی برابر نہیں لیکن کبریائی ان میں دیکھتا ہوں.جو حسد اور ریس سے بہت بالا تر ہے.میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی کی شخصیت
90 نے ان کو مرعوب کیا ہو.وہ طباع اور ذہین ہیں وہ جس سے گفتگو کرتی ہیں اس کو اپنا گرویدہ کر لیتی ہیں.خاوند پر کبھی ناجائز بوجھ نہیں ڈالتیں.بلکہ اپنے خاوند کے فکر وہم و غم میں پوری ہمدرد اور مونس ساتھی کا کام دیتی ہیں.بچوں کی تعلیم و تربیت میں اپنی مثال آپ ہی ہیں.عزیزوں ، رشتہ داروں سے نیک سلوک کر کے حظ حاصل کرتی ہیں.ان کو کسی چیز کے خود استعمال کرنے کی نسبت اس بات سے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ دوسرا ان کی چیز کو استعمال کرے.اگر کسی نے کسی وقت کوئی تکلیف پہنچائی ہوتو ذراسی تلافی سے تمام شکایات طاق نسیاں کر دیتی ہیں.صبر وشکر ان کا شیوہ ہے.بغض وحسد وکینہ سے دور کا بھی واسطہ) نہیں اللہ تعالیٰ سے ان کو محبت ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں وہ سرشار ہیں.میں نے اکثر اوقات دیکھا ہے کہ ان کو کسی چیز کی خواہش پیدا ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو آناً فاناً مہیا کرنے کے سامان کر دیئے.میرے پر جو بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانیاں اور عنایات ہیں وہ اسی کے طفیل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چار سال کی عمر میں اس کو اپنے مولیٰ کے سپر د کر گئے تھے.جب سے ہی وہ اپنے مولی کی گود میں نہایت پیار سے رہتی ہیں.میری راحت کا موجب بنی ہوئی ہیں وہ میرے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرز کا کام دیتی ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی صفت حفیظ کی پوری پوری تجلی ہیں.بسا اوقات میں کسی گناہ یا آزمائش کے قریب پہنچا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس میری حالت سے مطلع کر دیا.یہ ایک دفعہ نہیں دو دفعہ (نہیں) بارہا ایسا ہوا جب صبح کو میں اٹھا تو وہ خواب یا اشارہ میرے متعلق ہوا ہوتا مجھے بتا تیں تو میں حیرانی میں پڑ جاتا.اور مجھے اپنی اصلاح کا موقعہ مل جاتا.کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی کس طرح حفاظت کرتا ہے اور غیب باتوں سے آگاہ کر دیتا ہے.میں اس کی زیادہ وضاحت نہیں کرسکتا.یہ ایک مستقل مضمون ہے.اگر میں بیان کروں تو میرا بیان بہت (طویل ) بن جاتا ہے.میں آج ایک مشت خاک ہوتا.اگر ان کی تیمار داری اور دعا ئیں جو مضطربانہ اور بیقرارانہ انداز میں انہوں نے کی ہیں نہ ہوتیں.پس ایک طرف اس قدر قابل قدر ہستی.دوسری (طرف) میرے جیسا بیج دان.جو احباب مجھے جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا بے جوڑ رشتہ ہے.لیکن اپنے مولیٰ کریم کا شکر یہ ادا کرتے نہیں تھکتا.اس نے میری بیوی کے دل میں اس قدر محبت اور پیار پیدا کر دیا.کہ جس کی مثال بہت کم ملتی ہے.عام طور پر لوگ چند روز کی تیمارداری سے تنگ آجاتے
91 ہیں.لیکن یہاں پانچ سال کی لگاتار محنت اور مشقت کی خدمت نے ان کی مہر و وفا اور محبت پر مہر لگا دی ہے.اس بے پناہ محنت اور مشقت نے ان کی اپنی صحت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے.اب وہ مجھ سے زیادہ بیما رنظر آتی ہیں.آپ احباب سے میری عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ کی صحت کیلئے مجھ سے زیادہ دعا کریں.میں اس لئے زندہ رہنا چاہتا ہوں کہ وہ چاہتی ہیں کہ میں زندہ رہوں.ورنہ وہ اپنے گھرانہ کیلئے مجھے سے بہت زیادہ نافع اور مفید وجود ہیں.میرے مولیٰ ! تیری رضا کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے میری خدمت کی ہے.اب تو اپنی ذرہ نوازی اور میری زاری کو سن.اس کو پوری صحت عطا فرما.ہم اس دنیا میں اکٹھے ہی رہیں.اور ا کٹھے ہی اٹھیں.مجھے تو نے دوبارہ زندگی دی ہے.میں اس نئے دور زندگی میں تیرا زیادہ سے زیادہ قرب اور محبت حاصل کر سکوں تیرے دین اور سلسلہ کیلئے زیادہ سے زیادہ مفید و نافع وجود ثابت ہوسکوں.ہمیں عبد شکور بننے کی توفیق دے.میں نے اپنی بیماری کے آغاز میں خواب میں دیکھا کہ حضرت والد صاحب ایک باغ میں ہیں جس کے اردگرد ایک اونچی فصیل بنی ہوئی ہے.لیکن میں اس کے اندر جانا چاہتا ہوں اور منٹوں کی طرح ایک بانس کا سہار لے کر اندر جانا چاہتا ہوں.لیکن حضرت والد صاحب مانع ہور ہے ہیں.اور ان کے حکم سے پولیس مجھے پکڑ کر لے گئی ہے.اور مجھے پانچ سال کی قید سنادی گئی ہے.یہ خواب میں نے کئی عزیزوں کو کئی بار سنایا ہے.اور آج یہ خواب پورا ہوتا ہوا نظر آتا ہے.کیونکہ میری بیماری کے عرصہ کو 8 فروری 1954ء کو پورے پانچ سال ہو جائیں گے.میرے متعلق حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ اور دیگر احباب کو کثرت سے بشارتیں ہوئی.اور ان بشارتوں سے پتہ چلتا ہے کہ میری صحت اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے اور ترقی کرے گی.ابھی تک پوری صحت حاصل نہیں.ابھی تک چلنے پھرنے سے عاری ہوں.اس لئے احباب کی دردمندانہ دعاؤں کا بہت زیادہ ابھی محتاج ہوں.اللہ تعالیٰ اس عرصہ کے اندراندرا اپنے رحم وکرم سے مجھے پوری صحت عطا فر مادے.میرے پر اللہ تعالیٰ کے اس قدر احسانات کی فراوانی ہے کہ وَاِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا کا اپنے آپ کو پورا پورا مصداق پاتا ہوں.مجھے اس مضمون کے لکھنے کے وقت بھی ہر قدم پر فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ کا ورد کرنے کیلئے میری روح تڑپتی رہی.میرا ایمان ہے کہ میرا پیارا اور محسن خدا سزا دیتا ہے تو وہ چپت جو اس کی
92 طرف سے آتی ہے وہ ماں اور باپ کی چپت سے بہت زیادہ پیار ومحبت اور اصلاح کا پہلو لئے ہوئے ہوتی ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس نے پانچ سال از حد تکلیف اور مصیبت میں کاٹے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کے احسانات پر احسانات کا شکریہ ادا کر رہا ہے.لیکن مجھے اس ذات پاک کی قسم اس ساری بیماری کے دوران میں نے اپنے آپ کو اس سزا کا اہل پایا.اور اس اصلاحی چیپت کا اہل سمجھا اور ایک منٹ کیلئے مجھے اپنے پیارے اور محسن خدا کے متعلق کبھی کوئی شکوہ شکایت پیدا نہیں ہوا ہے.بلکہ شکریہ کے جذبات ہی موجزن رہے.یہ میرے اور میرے مولیٰ کے درمیان راز ہے.وہ ستار ہے اس نے اپنے بندوں کو اپنی پردہ دری سے منع فرمایا ہے.ورنہ میں وضاحت سے ثابت کرسکتا ہوں کہ میرے مولیٰ نے اب بھی میرے ساتھ رحم و کرم کا ہی سلوک کیا ہے.ورنہ جس کا میں مستحق تھا.بہت بڑی سرزنش ہوتی.لیکن اس ارحم الراحمین ، غفور ، رحیم، رازق، ودود، خدا نے اپنے پیارے بندوں کے طفیل میرے ساتھ نہایت نرمی اور پیار کا سلوک کیا.بہت بڑی سزا کا اہل نہ گردانا.بلکہ مجھے تمام مصائب سے نجات دی.اب میری صحت دن بدن بحالی کی طرف آ رہی ہے.لیکن بعض پریشانیاں مہاجرت کی وجہ سے اور پھر اس بیماری کے اخراجات کی وجہ سے لاحق ہوگئی ہیں.مجھے اپنے رازق خدا سے پوری امید ہے کہ وہ جلدی دور ہو جائیں گی.بسا اوقات میرے پر اس بیماری میں شب بیداری کے دورے آئے تو ساری ساری رات میں نے شکریہ ادا کرنے میں ہی وقت گزارا.مجھے اس سزا کی کبھی حس نہیں ہوئی.کیونکہ اگر یہ ابتلاء نہ آتا تو مجھ میں کئی ایک کمیاں اور خامیاں رہ جاتیں.جو کہ میری رسوائی اور ذلت کا موجب ہوتیں.یہ میرے اور میرے مولیٰ کے درمیان راز ہے.وہ ساتھ ہے، ستار ہے، وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کا بندہ اپنی پردہ دری کرے لیکن اپنے مولیٰ کو سبحان اور قدوس ثابت کرنے کیلئے چند الفاظ لکھ دیتے ہیں.سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ وَسُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيم آخر میں میں پھر احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ سب جنہوں نے میرے لئے دعائیں فرمائیں.دین و دنیا کی برکات عطا فرمائے اور ہر ہم وغم سے آپ کو محفوظ و مامون رکھے آپ کو ہر قسم کی پریشانیوں اور مصائب سے نجات دے آپ کو اپنے اور میرے پیارے اور محسن خدا کی ابدی از لی رضا حاصل ہو ہم میں ایک دوسرے کی ہمدردی کا جذ بہ روز افزوں کرے.ہم ایک
93 دوسرے کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد تصور کریں.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو عہد ہمارے مولیٰ نے لیا ہے اس کو پورا کرنے والے ہوں.آپ میرے لئے بھی دعا میں لگے رہیں.خدمات سلسلہ آپ نے متعد دخدمات سلسلہ کی توفیق پائی.مثلاً (1) 1919ء میں بطور قائم مقام آڈیٹر.رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ بابت 19-1918 ءص14) (2) جلسہ 1917ء کے متعلق حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب جنرل سیکرٹری صدر انجمن احمد یہ رقم فرماتے ہیں :.میں اب سب احمدیان قادیان کا اور ممبران سب کمیٹی برائے انتظام جلسہ سالانہ کا خصوصاً صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب و صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ومیاں عبد اللہ خاں صاحب اور ماسٹر محمد دین صاحب بی اے کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے دن رات محنت اور مشقت اٹھا کر اور گرم بستروں کو خیر باد کہہ کر اپنے عزیز مہمانوں کی خاطر مدارات کی.جَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ بابت 18-1917ء ص 12) (3) جلسہ سالانہ 1918 ء ملتوی ہو کر 1919ء میں منعقد ہوا.روئداد میں مرقوم ہے :.اسی طرح دار العلوم میں اُترنے والے مہمانوں کے متعلق ضروری انتظامات اور جلسہ گاہ کی تیاری کا کام میرے مکرم خاں صاحب محمد عبد اللہ خاں صاحب کے سپرد کیا گیا تھا.غرض ناظمان جلسہ میں ایک خاص تعداد اور ذمہ داری کے اہم کاموں پر ایسے لوگوں کی تھی جو بالکل نئے تھے.مگر خدا تعالیٰ کے خاص فضل و رحم سے اس مرتبہ انتظام جلسہ باوجود یکہ بہت ہی تھوڑی مدت میں کرنا پڑا.نہایت عمدگی سے کیا گیا.“ الحام 21 تا 28 مارچ 1919 ء ص 4) (4) جلسہ سالانہ 1924ء میں آپ مہتمم جلسہ سالانہ بیرون قصبہ تھے.اس سال حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے سفر یورپ کی وجہ سے احباب نسبتا کثرت سے آئے تھے.چنانچہ مرقوم ہے:.ان کا یہ کام اور فرض تھا کہ تمام ضروری اشیاء کو جن کی ضرورت پیش آئے سیکرٹری جلسہ سے طلب کریں اور تمام مدات کے افسروں سے ان کے کام کی رپورٹ حاصل کریں.خود دورہ کر کے
94 ہر مد کے کام کا ملا حظہ کریں.اور اس بات کا خاص خیال رکھیں.کہ کھا نا وقت پر تیار ہوکر مہمانوں میں تقسیم ہو گیا ہے یا نہیں.مہمان نوازوں کے کام کی خاص طور پر نگرانی کریں....جلسہ گاہ اور سٹیج کا انتظام مہتم بیرون کے سپر د تھا.الفضل 6 جنوری 1925 ءص3) (5) سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے 11 اپریل 1944ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں بیان کیا :.ایک دفعہ رویا میں میں نے دیکھا کہ ہمارے مکانات کے ایک کمرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چار پائی پر بیٹھے ہیں اور میں بھی آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں.اتنے میں زلزلہ آیا اور وہ زلزلہ اتنا شدید ہے کہ اس کے جھٹکوں سے مکان زمین کے ساتھ لگ جاتا ہے.یہ دیکھ کر میں وہاں سے بھاگنے لگا ہوں.مگر معا مجھے خیال آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی تو یہیں تشریف رکھتے ہیں.میں کس طرح بھاگ سکتا ہوں.جب زلزلہ ہٹا اور میں باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ میاں عبد اللہ خاں باہر کھڑے ہیں.اتنے میں پھر زلزلہ آیا اور مکان اپنی جگہ پر واپس چلا گیا.صرف 66 اس کی مٹی ذراسی ٹیڑھی ہے اور میں خواب میں ہی کہتا ہوں کہ مکان اپنی جگہ پر واپس آ گیا ہے.“ (الفضل 10 مئی 1944 ءص5) خاکسار مولف کے نزدیک یہ رویا زلزلہ تقسیم برصغیر کے متعلق تھا.اور میاں محمد عبداللہ خاں صاحب کی اہمیت کے پیش نظر وہ رویا میں دکھائے گئے تھے.چنانچہ میاں عبداللہ خاں صاحب کو تقسیم کے بعد اولین ناظر اعلیٰ کے طور پر خدمات تفویض ہوئیں جو انہوں نے بکمال حسن وخوبی سرانجام دیں.ظاہر ہے کہ تقسیم ملک کا زلزلہ ایسا شدید تھا کہ لوگوں کو اپنے اوطان سے بھاگنا پڑا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ کہنا کہ حضرت مسیح موعود کے یہاں ہوتے ہوئے میں کس طرح بھاگ سکتا ہوں یہ درست ہے اسی وجہ سے حضور نے مرکز قادیان کو حفاظت مقدس مقامات و اعلائے کلمتہ اللہ کیلئے آبا در کھا اور اپنے بیٹے اور ایک بھتیجے کو اور ان کی واپسی پر ایک اور بیٹے کو اپنی قائم مقامی میں نیز درویشان کو رکھا.گویا زلزله عظیمه تو ترک وطن پر مجبور کرتا تھا.دوسری طرف حضرت اقدس کا جسد اطہر اور مشن مانع تھا.سو اس مجبوری اور ضروری امور کے بین بین راسته حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے سمجھا دیا.” جب زلزلہ ہٹا اور میں باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ میاں عبداللہ خان صاحب باہر کھڑے ہیں.یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہجرت کر کے زلزلہ کی براہ راست زد سے محفوظ ہونے پر حضور کی نظر میاں
95 صاحب موصوف پر ہی پڑے گی اور پڑی.ورنہ وہ تمام آزمودہ کا را حباب جو قادیان میں ناظر اعلیٰ کا کام کر رہے تھے یا پہلے کر چکے تھے یا کر سکتے تھے.وہ سب ہجرت کر کے پہنچ چکے تھے.اور مشاہدہ شاہد ہے کہ آپ کی تقرری سلسلہ کیلئے بہت مفید اور آپ کے اخلاق عالیہ کے اظہار کا بھی موجب ہوئی.0 (6) آپ کو تالیف و اشاعت اور انسداد ارتداد کے شعبہ جات میں بھی خدمات بجالانے کا موقع ملا.ارتداد ملکانہ کے متعلق سابقہ جلدوں میں کچھ تفصیل آچکی ہے.وہ وقت مسلمانوں پر قیامت کا سا تھا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:.جب ان (مسلمانوں) کے بھائی بند ملکانے آریہ ہونے لگے تو ہم گئے.اس زمانہ میں لاہور میں ڈھنڈورا پیٹوایا گیا.کہ کہاں ہیں احمدی.وہ خدمت اسلام کے دعوے کیا کرتے ہیں.“ الفضل 29 جنوری 1935 ءص5) احمد یوں کا میدان جہاد میں اتر نا انقلاب آفرین ثابت ہوا.اس نے کایا ہی پلٹ دی.ہمیشہ 66 کیلئے دشمنان اسلام نے احمدیت کے زور تبلیغ کو تسلیم کر لیا.0 اتنے میں پھر زلزلہ آیا یہ واپسی سے متعلق ہے.اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی زلزلہ کے ساتھ ہی قادیان کی واپسی معلق ہے.ناظر اعلیٰ کے طور پر غالباً آپ نے ستمبر 1947ء سے 9 فروری 1949 ء تک کام کیا.9 فروری 1949ء تک آپ کے دستخط رجسٹر حاضری پر ثبت ہیں.تقرری کا کوئی ریزولیوشن نہیں مل سکا.(1) نواب محمد علی خاں صاحب نائب ناظر انسداد ارتداد تھے.( اس حیثیت میں آپ کے متعلق الفضل 28 ستمبر 1923ء ص 10) الحکم رقمطراز ہے:.صیغہ انسدادار تداد کا مرکزی کام حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور خانصاحب میاں عبداللہ خاں صاحب کمال محنت اور دلسوزی سے کر رہے ہیں.(21 تا 28 مئی 1923ء ص 8) چار ماہ کا عرصہ کام کرنے کا تو ہر دو حوالوں سے ہی علم ہو جاتا ہے.یقینی طور پر معلوم نہیں ہو سکا.کہ کتنا عرصہ آپ کو خدمت بجالانے کا موقعہ ملا.ان دنوں یوں معلوم ہوتا تھا.کہ کسی مکان کو آگ لگی ہوئی ہے.بجھانے میں تاخیر ہوئی تو بھی نہ بچ سکیں گے.نہ ہمارے عزیز واقارب.رپورٹیں آرہی ہیں.ہدایات دی جارہی ہیں.غیر مسلم حکام و ریاستوں کی تدابیر کا توڑ ہورہا ہے.آئندہ بھجوانے والوں کا انتظام کیا جارہا ہے.1923ء میں حضور ایدہ اللہ تعالی کی عمر صرف پنتیس سال کی تھی جس جوش خروش اور تیزی سے آپ کام کرتے اور ہدایات جاری فرماتے تھے اس صیغہ کے افسران کو بھی ویسی ہی توجہ اور محنت کرنا لازمی امر تھا.(ب) پہلے آپ نے ناظر اور پھر نائب ناظر تالیف واشاعت کے طور پر کام کیا.الحکم میں مرقوم ہے.خان صاحب محمد عبد اللہ خان صاحب ناظر تالیف و اشاعت صیغہ کے بہترین (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
96 اولین مسجد سوئٹزرلینڈ کا سنگ بنیاد اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک امر مقدر کر رکھا تھا کہ حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اپنی ایک صاحبزادی کے علاج کیلئے مجبور ہو کر لندن تشریف لے جائیں اور آپ کو قلب یورپ میں خانہ خدا کا سنگ بنیاد رکھنے کی توفیق ملے.یہ واقعہ تاریخی لحاظ سے ایک اہم اور منفردانہ حیثیت رکھتا ہے.یہ حقیقت ہے کہ اگر آپ کے میاں زندہ ہوتے تو یا تو آپ کو یورپ جانے کی مجبوری لاحق نہ ہوتی یا جانا ہوتا تو میاں کے ساتھ.اس صورت میں میاں کو سنگ بنیا د رکھنے کیلئے منتخب کر لیا جاتا.اس موقعہ پر اگر آپ یورپ میں نہ ہوتیں.اور پاکستان سے کسی کو بھجوانے کا سوال پیدا ہوتا.تو قرعہ فال طبقہ نسواں میں سے کسی فرد پر نہ پڑتا.میرے نزدیک آپ کی صاحبزادی صاحبہ کی علالت کی تکلیف کے خان صاحب تھے.بقیہ حاشیہ کا نظام اور زیادہ مفید اور کارآمد بنانے میں بہت منہمک ہیں.خدا تعالیٰ ان کی مساعی کو بار آور کرے.یہ جوان صالح خدا کے فضل اور رحم کے ماتحت بڑی بڑی امید میں دلا رہا ہے.اللہ تعالیٰ اسے چشم بد سے محفوظ رکھے.آمین.21 تا 28.اپریل 1919 ء زیر دارالامان کا ہفتہ ) جلسہ سالانہ 1919ء میں ناظر صاحب تالیف واشاعت نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اس صیغہ کا مقصد یہ ہے کہ مخالفین کی مخالفانہ مساعی کا ایک منظم طریق سے مقابلہ کیا جائے.اور تبلیغ کیلئے مفید لٹریچر شائع کیا جائے.حصہ تالیف کے نائب ناظر حضرت حافظ روشن علی صاحب اور اشاعت کے نائب ناظر خان صاحب محمد عبد اللہ الفضل 12 جنوری 1920ءص3) الفضل 12 اکتوبر 1923ء میں آپ کی قادیان میں مراجعت کے ذکر میں آپ کو نائب ناظر تالیف واشاعت لکھا گیا ہے.(زیر مدینہ اسیخ ) اگر اس صیغہ میں آپ کی خدمات مسلسل سمجھی جائیں تو اپریل 1919ء سے اکتوبر 1923 ء تک ساڑھے چار سال کا عرصہ ہوتا ہے.یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ مسلسل تھیں یا نہیں.اگر تسلسل نہیں تھا تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ ہر وقت خدمت سلسلہ کیلئے آمادہ رہتے تھے جب ضرورت ہوتی آپ سرتسلیم خم کر کے خدمت میں لگ جاتے.( ج ) آپ کو اولین شورئی اور بعد کی متعد د شورکی ہائے میں شمولیت کا موقعہ ملا.چنانچہ 23-1922ء میں جبکہ علی الترتیب مرکزی تمھیں اور بتیس اور بیرونی ستاون اور چھیانوے نمائندے شریک ہوئے.1925ء،1928ء، 1929ء،1930ء، 1935ء، 1936ء، 1942ء میں بھی شرکت کی.(صفحات 82،4،2، 299، 405 ( اس میں سب کمیٹی بیت المال کے رکن تھے.کسی وجہ سے شرکت نہ کر سکے.ص 81،79،81،11487 ( سہواد و جگہ نام درج ہے ) 188 بطور صحابی.
97 پردہ میں آپ کے میاں محترم کی وفات کے شدید صدمہ کو اس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم میں کا سامان بہم پہنچا کر کر دیا.اس میں کیا ہی نعمت عظمیٰ پنہاں تھی.یہ امر نہ صرف ممالک یورپ کیلئے موجب صد برکات ہوا.بلکہ آپ کے خاندان کیلئے بھی تا ابد باعث صد افتخار ہوا.تاریخ احمدیت میں یہ امر ہمیشہ یادگار رہے گا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس صاحبزادی محترمہ نے 24 اگست 1962ء کو زیورک میں وارد ہو کر اگلے روز بروز ہفتہ صبح ساڑھے دس بجے قلب یورپ میں یعنی سوئٹزر لینڈ کے مرکزی شہر ز یورک میں خانہ خدا تعالیٰ کی عمارت کا سنگ بنیاد اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اپنے دست مبارک سے رکھنے کی توفیق پائی.یہ یورپ کی پانچویں مسجد ہے.ایک خصوصی تقریب میں آپ نے زیر تعمیر مسجد کی محراب والی جگہ کے نیچے بنیا د میں وہ اینٹ رکھی جس پر سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کی ہوئی تھی.اس مبارک تقریب میں سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا کے احمدی احباب کے علاوہ دیگر ممالک کے مسلمانوں نے بھی شرکت کی.اور پریس نے گہری دلچسپی کا اظہار کیا.چنانچہ اخبارات اور ریڈیو کے نمائندے خاص تعداد میں شریک ہوئے.ریڈیو نے پوری کا رروائی ریکارڈ کرنے کے علاوہ حضرت ممدوحہ کا ایک خصوصی پیغام بھی ریکارڈ کیا.جس کا امام مسجد ہیمبرگ چوہدری عبداللطیف صاحب نے جرمن زبان میں ترجمہ کیا تھا.0 (الفضل 28 اگست 1962 ء ماخوذ از رپورٹ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ مجاہد سوئٹزرلینڈ ) حافظ قدرت اللہ صاحب امام مسجد ہالینڈ لکھتے ہیں کہ 17 اگست کو بروز جمعہ حضرت ممدوحہ مع اپنی دو صاحبزادیوں اور برادر زادہ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب ابن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب وارد ہوئیں.ایمسٹرڈم کے ہوائی اڈہ پر استقبال کیا گیا.آپ نے اپنے قدوم سے عمارت مسجد کو برکت بخشی.اس سے قبل حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بھی زیر تعمیر مسجد میں تشریف لائے تھے اور دعا فرمائی تھی.یہ مسجد جو براعظم یورپ کے ساحل پر اولین مسجد ہے خواتین کی قربانیوں سے معرض وجود میں آئی ہے.( الفضل 2 ستمبر 1962ء) چوہدری عبد اللطیف صاحب مجاہد جرمنی لکھتے ہیں کہ آپ 19 اگست 1962ء کو ہیمبرگ وارد ہوئیں اور تین دن قیام فرمایا.ہوائی اڈہ پر جماعت احمدیہ نے خیر مقدم کیا.استقبال کرنے والے پاکستانی احمدیوں کے علاوہ جرمن نو مسلم بھی تھے.جرمن پریس نے آپ کے ورود کی خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا اور اسلام میں عورتوں کے بلند مقام پر روشنی ڈالی.( الفضل 25 اگست 1962 ء) اس سفر کے تعلق میں الفضل میں متعدد بار آپ کا ذکر ہوا ہے.( مثلاً (باقی حاشید اگلے صفحہ پر )
98 تبرکات حضرت مسیح موعود نظارت تالیف و تصنیف کے اعلان کے مطابق حضرت میاں صاحب کے پاس ذیل کے تبرکات (1) ایک گرم کوٹ جو کہ کافی استعمال شدہ ہے.(2) ایک کر یہ یمیل.(3) ایک پاجامہ (4) ایک صندوقچی جس میں حضور مسودہ جات وغیرہ رکھا کرتے تھے.(5) ایک چوتہی جو کہ وقت وصال حضور کے زیر استعمال تھی.(6) ایک دو لی جس پر حضور نے برکت کی دعا فرما کر عطا فرمائی.(7) حضور کے عمامہ مبارک سے کاٹ کر ایک ململ کا کرتہ نوزائیدہ بچہ کو پہنانے کیلئے اور ایک ٹوپی 0 اولاد کو وصیت آپ نے قرب وفات محسوس کر کے جو وصیت رقم فرمائی بہت ایمان افروز ہے.اس میں سے کچھ قابل ذکر حصے یہ ہیں :.” میری صحت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے.ویسے تو ایک صحت مند انسان کا بھی پتہ بقیہ حاشیہ مورخہ 27 - 28 جولائی ، 19-124 اکتوبر اور یکم نومبر 1962ء ) واپسی سے قبل لجنہ اماءاللہ لندن نے آپ کے اعزاز میں عصرانہ دیا.جس میں اماءاللہ کے علاوہ بعض دیگر معزز غیر مسلم خواتین بھی مدعو تھیں.اور صدر لجنہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے آپ کو خوش آمدید کہا.حضرت موصوفہ نے اپنی لکھی ہوئی تقریر میں بچوں کی تربیت، اتحاد اور خلافت سے وابستگی پر زور دیا.اور اماءاللہ کومشن کے ساتھ تعلق زیادہ مضبوط کرنے کی تلقین کی (الفضل 19 اگست 1962ء) الفضل 129اکتوبر 1938ء بعض متفرق حوالہ جات یہاں درج کئے جاتے ہیں :.( 1 تا 3 ) الفضل زیر مدینہ ایچ.سفر سے مراجعت.ولادت دختران (31) مارچ 1925ء ، 15 تا 22 مارچ 1919ء ، 30 نومبر 1933ء) (4) آپ کی سیرت کے متعلق خاکسار مولف کا مضمون ( الفضل 6 اکتوبر 1964ء)
99 نہیں ہوتا کہ اس کو کس وقت اللہ تعالیٰ کا بلاوا آ جائے.لیکن میرے جیسی صحت والے آدمی کیلئے تو ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے.اس لئے میں نے مناسب سمجھا.کہ بقائمی ہوش و حواس اس وقت ایک وصیت لکھ جاؤں.فهو هذا.(1) میں ایمان رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے ساتھ وحدہ لا شریک ہے.حضور سرور کائنات نبی کریم ﷺ خاتم النبین ہیں.اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود اور مہدی آخر الزمان متصور کرتا ہوں.آپ نے عشق نبی کریم ﷺ میں اس قدر کمال حاصل کیا.کہ آپ مَنْ فَرَّقَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْمُصْطَفَى فَمَا عَرَفَنِي وَمَارَأَى کے مصداق ٹھہرے.اور کلی طور پر فنافی الرسول کا مقام حاصل کیا.اور پھر حضور کی غلامی میں نبوت کا درجہ حاصل کیا.میرے ایمان کا یہ بھی جزو ہے.کہ خلافت کا قیام الہی سلسلوں کے قیام اور بقا کیلئے لازمی اور ضروری ہے.جو سلسلہ اس نظام سے بدقسمتی سے محروم ہو گیا ہے اس کو کبھی استحکام حاصل نہیں ہوسکا.ایک منتشر پراگندہ گروہ ہو کر رہ گیا.عام مسلمانوں کی موجودہ حالت ہمارے لئے عبرت کا مقام ہے.(2) میری دعا اور آرزو ہے کہ میری اولا د خلافت سے منسلک رہے.اور ہمیشہ اس گروہ کا ساتھ دیں.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد کے افراد زیادہ سے زیادہ ہوں.کیونکہ حضور علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.اِنِّی مَعَكَ وَمَعَ اَهْلِكَ - نماز با جماعت ادا کرنے کی کوشش کریں.اور ہر مصیبت کے وقت مولا کریم کو قادر مطلق خدا تصور کرتے ہوئے اس کے حضور جھک کر عجز و انکسار سے استقامت طلب کریں.میں نے اسی طریق سے زندہ خدا کو پایا.اور اپنی مشکلات کو کافور ہوتا دیکھا.حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خاص خیال رکھیں.ہمیشہ ان کے سامنے یہ بات ہونی چاہئے کہ وہ کس ماں کی اولاد ہیں.اور کس نانا کے وہ نواسے اور نواسیاں ہیں.کس مقام کا ان کا ماموں ہے.اور وہ اس دادا کی اولاد ہیں جس نے اپنی اور اپنی اولا دسنوار نے کیلئے اپنے وطن کو چھوڑا.اور محلات کو چھوڑ کر ایک کو بستی میں ایک تنگ مکان میں بسیرا کیا اور صرف اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں آن بیٹھا تا اس کو اور اس کی اولا د کو از لی زندگی حاصل ہو اور دین کو مقدم کرنے کا موقع ملے.ہم نے کچھ کچھ اس قربانی کی برکات کا مزا چکھا ہے اور اگر میری اولاد نے صبر وشکر کے ساتھ استقامت دکھائی اور اپنے نانا علیہ الصلوۃ والسلام کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھا.تو بے شمار دینی و دنیوی فیوض و برکات کے وارث ہوں گے جو
100 آسمان پر ان کیلئے مقدر ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم کو ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اللَّهُمَّ رَبَّنَا آمِينَ (3) میری دعاؤں اور نیک خواہشوں کا وہی بچہ حقدار ہوگا.جو اپنی ماں کی خدمت کو جز وایمان اور فرض قرار دے گا.ان کی ماں معمولی عورت نہیں ہیں.میں نے ان کے وجود میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات کو کارفرما دیکھا ہے.ہر وقت اور ہر مشکل کے وقت ان کی ذات کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار کا محور پایا.چارسال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیب کی گود سے لیا.پھر عجیب در عجیب رنگ میں ان کی ربوبیت فرمائی.میں نے اللہ تعالیٰ کے جو نشانات اپنی زندگی میں ان کے وجود میں دیکھے ہیں.وہ ایک بڑی حد تک احمدیت پر ایمان کامل پیدا کرنے کا موجب ہوئے ہیں.پس جو بچے میرے بعد ان کو خوش رکھیں گے اور ان کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے.ان کے ساتھ میری دعائیں اور نیک آرزوئیں ہوں گی.جو بچے ان کو ناراض کریں گے وہ میری روح کو بھی دکھ دیں گے، میں ان سے دور، وہ مجھ سے دور ہوں گے.اللہ تعالیٰ میری اولاد کو اپنی رضا کے ماتحت ماں کی خدمت کی توفیق دے اور انہیں اپنی رضا اور محبت کا مورد بنائے.آمین (4) میاں عبدالرحمن خان صاحب کی جائیداد کے تقسیم ( کی ) بارہ میں عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے.مجھے امید ہے کہ مقدمہ ہمارے حق میں ہی ہوگا.اس جائیداد میں میرا 3/10 حصہ ہے.مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ لاکھ یا سوا لاکھ روپیہ اس جائیداد سے آ جائے گا.میری خواہش ہے کہ اس سرمایہ سے اگر مل جائے تو حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی اجازت سے امریکہ میں کسی مناسب جگہ جہاں حضور فرماویں.مسجد بنادی جائے اس مسجد کا نام حجۃ اللہ مسجد رکھا جائے جو خیر و برکت روحانی یا جسمانی ہمیں حاصل ہوئی ہے.وہ والد صاحب مرحوم و مغفور کے ذریعہ حاصل ہوئی ہے.میں چاہتا ہوں کہ بطور صدقہ جاریہ یہ نیک کام ان کے نام پر کیا جائے.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے.(5) آخر میں میں اپنی اولادکو ایک اور نصیحت کرنا چاہتا ہوں.دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ سلسال کے نظام اور خلیفہ وقت پر اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں.یہ ان کی بیکاری کا مشغلہ ہوتا ہے ایسے لوگ عام طور پر خود پسند اور مغرور لوگ ہوتے ہیں.وہ اپنے لئے وہ مقام حاصل کرنا چاہتے.جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دوسروں کو دیا ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ معترض
101 انسان نہیں مرتا.جب تک کہ ان اعتراضات کا جو وہ دوسروں پر کرتا ہے.خود مورد نہیں ہو جا تا.ایسے لوگوں کی قوت عمل مفقود ہو کر رہ جاتی ہے.پس یہ مقام خوف ہے اللہ تعالیٰ جب اپنے محبوب اور پیارے بندوں کو رشد و ہدایت کیلئے بھیجتا ہے.تو وہ اپنا عمل اور پاک نمونہ پیش کرتے ہیں.دوسروں کی عیب چینی نہیں کرتے ، بلکہ محبت اور ہمدردی کا نمونہ پیش کرتے ہیں اور معترض نفرت اور دوری پیدا کرتا ہے.پس اس بد عادت سے ہمیشہ بچے رہنا چاہئے.دراصل بات یہ ہے کہ ہمارے حکام اسی خو بو کے مالک ہوتے ہیں.جیسی ہماری اپنی روحانی حالت ہوتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.وَكَذَالِكَ نُوَلَّى بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضاً.حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو کسی نے کہا.کہ کیا وجہ ہے کہ آپ کے زمانہ میں بدامنی ہے، اطاعت مفقود ہے، انتشار پایا جاتا ہے.تو آپ نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کے زمانہ میں ہم لوگ ان کے پیرو تھے.اب تم جیسے لوگ ہمارے پیرو ہیں.دراصل نظام کی خرابی جمہور کی خرابی پر دلالت کرتی ہے.پس اگر تم خرابی دیکھو.تو بجائے اعتراضات کے اپنی اصلاح کرو اور انکساری اور تضرع سے اللہ تعالیٰ سے استعانت چاہو.وہ حالات کو پلٹا دینے پر قادر ہے.اللہ تعالیٰ اس نصیحت پر عامل ہونے کی تم کو تو فیق دے.فقط (خاکسار محمد عبد اللہ خاں آف مالیر کوٹلہ ) مرض الموت مرض الموت میں آپ نے 1949ء کے دورہ مرض کے حالات اور موجودہ حالت مرض بیان کر کے صحت اور خاتمہ بالخیر کیلئے درخواست دعا کرتے ہوئے رقم فرمایا.” مجھے 1949ء میں کا رونی تھر مبوس کا حملہ ہوا تھا.یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ پانچ سال تک مجھے چار پائی پر رہنا پڑا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے محض اپنے رحم وکرم سے اس قد رفضل فرما دیا کہ میں چار پائی سے اٹھ بیٹھا.پھر تھوڑا بہت چلنے پھرنے بھی لگ گیا اور گھر میں اپنی معمولی ضروریات پوری کر لیتا تھا.پچھلے سال تک میرا دل بیمار تھا.لیکن زندگی کی بشاشت باقی تھی.کبھی دل میں کمزوری آئی، دوائی لے لی ، آرام آگیا.لیکن اس سال پھر بیماری کے بعض عوارض عود کر آئے ہیں.دل کی کمزوری کی وجہ سے دل و جگر بڑھ گیا ہے.معدہ کی حالت درست نہیں رہی ہے.نفخ ہو جاتا ہے.جس سے رات کو نیند خراب ہو جاتی ہے.ڈیڑھ ماہ سے ایک قلبی بیماری جس کو Auricular
102 Fibrilations کہتے ہیں پیدا ہوگئی ہے.جس کی وجہ سے نبض خراب رہتی ہے.میں ڈاکٹر محمد یوسف صاحب ایم ڈی کے زیر علاج ہوں ان کا فرمانا ہے کہ اوائل بیماری میں یہ تکلیف پیدا ہوئی تھی.لیکن پھر جاتی رہی تھی اور اب پھر قلبی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے.اس کا علاج انہوں نے دعا بتایا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے پاس علاج کوئی نہیں.خدا تعالیٰ سے رحمت کے ہی امیدوار ہیں.اس کے علاوہ ان کو علم ہے کہ میری پچھلی بیماری میں مجھے بزرگان سلسلہ اور احباب کرام کی دعاؤں سے ہی شفا ہوئی تھی.ورنہ ظاہری اسباب میرے بچنے کے کوئی نہ تھے.اس لئے بھی علاج کے ساتھ انہوں نے دعاؤں پر زور دیا.بہر حال ڈیڑھ ماہ سے صاحب فراش ہوں.حالت بدستور ایک جیسی چلی جاتی ہے.کمزوری بڑھ گئی ہے.طبیعت کی بشاشت جاتی رہی ہے.اب مجھ سے بعض دوستوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں اپنا حال اخبار الفضل میں دوں تا کہ حالت کا علم ہونے پر وہ دوست جو مجھ سے محبت کا تعلق رکھتے ہیں دعا کرسکیں.اور اللہ تعالیٰ پہلے کی طرح اپنا رحم و کرم فرما دے اور صحت دے.چار پانچ سال کا عرصہ ہوا ہے جبکہ میں کافی بیمار تھا.میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ تمہاری عمر 66 سال کی ہوگی.کچھ فاصلہ پر حضرت والد صاحب نواب محمد علی صاحب مرحوم کھڑے ہیں.وہ مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا کہتا ہے.میں نے عرض کی کہ کہتا ہے کہ میری عمر 66 سال کی ہوگی.اس پر آپ فرماتے ہیں.ہاں ہاں 66 سال کی تو ہو ہی جائے گی.لہجہ اس قسم کا جس سے مترشح ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ 66 سال سے کچھ زائد بھی ہو جائے.بہر حال اللہ تعالیٰ اپنے امر پر غالب ہے.میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے تھے.انہوں نے خواب دیکھا کہ ان کی عمر 45 سال کی ہوگی.وہ روتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پہنچے کہ حضور میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور میں نے یہ خواب دیکھا ہے.حضور نے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا.میاں فضل محمد اللہ تعالی اس پر بھی قادر ہے کہ 45 کی بجائے تمہاری عمر اللہ تعالیٰ نوے سال کر دے.چنانچہ انہوں نے 90 سال کی عمر پائی.مومن کی دعا تقدیر میں بدل دیتی ہے.اس لئے مایوس ہونے والی کوئی بات نہیں.لیکن جوں جوں 66 سال کے قریب میری عمر پہنچ رہی ہے.بیماری کا زور بھی بڑھتا چلا جاتا ہے.یہ امر قابل تشویش ہے.اس وقت میری عمر 65 سال 7 ماہ ہے.اس لئے اپنے خاص محبت رکھنے والے
103 دوستوں اور افراد سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ دعا کریں جتنی عمر اللہ تعالیٰ دے وہ فعال زندگی ہو.نافع ، مفید زندگی ہو.میں بے بس ہوں.بیکس ہو کر دوسروں کے ہاتھوں میں نہ پڑ جاؤں.میری بیوی حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے بے مثال نمونہ میری خدمت کا میری پچھلی بیماری میں پیش کیا تھا.اس خدمت اور محنت سے ان کے اعصاب پر بہت برا اثر پڑا ہے.اللہ تعالیٰ اب ان کولمبی تیمارداری سے بچائے اور مجھے ایسی صحت اور عمر دے کہ ان پر میں کسی قسم کا بار نہ بنوں.میرا خاتمہ بالخیر ہو.اولا د ایسی چھوڑ کر جاؤں جو احمدیت کی سچی خادم اور اللہ تعالیٰ کی رضا لئے ہوئے ہو.بعض ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بھی مجھ پر ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی کما حقہ ادائیگی کی توفیق دے.بس بزرگان سلسلہ اور صحابہ کرام اور درویشان قادیان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی خاص دعاؤں میں مجھے یاد رکھیں.فَجَزَاهُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء“.(الفضل 10 اگست 1961ء) 0 تدفین ربوہ میں حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب مرحوم کی نماز جنازہ اور تدفین“.نماز جنازہ میں ربوہ اور دور ونزدیک کے دیگر مقامات سے آئے ہوئے ہزار ہا احمدی احباب کی شرکت.اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی نے نماز جنازہ پڑھائی.کے عنوانات کے تحت الفضل میں مرقوم ہے.ربوہ 19 ستمبر ( بوقت پونے نو بجے صبح ) قبل ازیں اطلاع شائع ہو چکی ہے کہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب کل مورخہ 18 ستمبر 1961ء بروز دوشنبہ بوقت ساڑھے آٹھ بجے صبح پام ویو نمبر 5 ڈیوس روڈ لاہور میں بعمر 66 سال وفات پاگئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.آپ کا جنازہ اسی روز شام کو مائیکر وایمبولینس کار کے ذریعہ ربوہ لایا گیا.19 ستمبر کو ساڑھے آٹھ بجے صبح مقبرہ بہشتی کے وسیع احاطہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی.جنازہ میں شرکت کیلئے ربوہ کے علاوہ ملتان، جھنگ، سیالکوٹ ، لاہور، سرگودھا، جڑانوالہ، چنیوٹ اور متعدد دیگر مقامات کے احباب بھی کثیر تعداد میں آئے ہوئے تھے.جنازہ اٹھانے سے قبل ہزار ہا احباب سترہ روز کے حالات کی اطلاعات بذریعہ فون ربوہ موصول ہوتی رہیں.اور احباب کو بذریعہ الفضل (ملاحظہ ہو الفضل یکم تا 17 ستمبر 1961ء) اطلاع ملتی رہی.
104 کو چہرہ دیکھنے کی اجازت دی گئی.نماز جنازہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی نے پڑھائی.اس وقت جبکہ صبح کے پونے نو بجے ہیں.بہشتی مقبرہ کی چار دیواری میں جہاں حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا کا مزار مقدس ہے تدفین عمل میں آ رہی ہے.حضرت نواب صاحب مرحوم کی طبیعت 17 اور 18 ستمبر کی درمیانی رات کو پھر بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی.چنانچہ اطلاع موصول ہونے پر 18 ستمبر کو علی الصبح حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ حرم سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ نخلہ سے نیز حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ معہ بیگم صاحبہ محترمه محترم نواب محمد احمد خان صاحب، محترم نواب مسعود احمد خان صاحب، محترمہ بیگم صاحبہ محترم مرزا ناصر احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض دیگر افراد موٹر کاروں کے ذریعہ لاہور روانہ ہو گئے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب مدظلہ العالی، محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب، محترم کرنل مرزا داؤ د احمد صاحب، محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا احمید احمد صاحب، نواب زادہ میاں عباس احمد خان صاحب اور متعدد دیگر افراد خاندان پہلے سے لاہور میں تھے.اڑھائی بجے کے بعد پہلے پام ویو نمبر 5 ڈیوس روڈ لاہور میں نماز جنازہ ادا کی گئی.جو مکرم میاں محمد یوسف صاحب نائب امیر جماعت احمد یہ لاہور نے پڑھائی.نماز جنازہ میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے افراد کے علاوہ جماعت احمد یہ لاہور کے پانچ صد کے قریب احباب نے شرکت کی.پونے چار بجے سہ پہر کے قریب جنازہ مائیکرو ایمبولینس کار کے ذریعہ لاہور سے ربوہ کیلئے روانہ ہوا.جنازہ کے ہمراہ موٹر کاروں میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم اے، مکرم شیخ نصیر الحق صاحب، مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب ریٹائر ڈ ڈائر یکٹر آف سپلائی اور جماعت احمد یہ لاہور کے بعض دیگر احباب بھی ربوہ آئے.حضرت نواب صاحب مرحوم کی وفات کی اطلاع موصول ہونے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی 18 ستمبر کو ہی موٹر کار کے ذریعہ نخلہ سے عصر کے وقت ربوہ تشریف لے آئے تھے.نماز مغرب ادا کرنے کے معا بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر افراد اور اہل ربوہ کثیر تعداد میں جنازہ کے انتظار میں لاریوں کے اڈہ پر آجمع ہوئے.سات بجے شام جنازہ ربوہ پہنچا جنازہ کو حضرت نواب
105 صاحب مرحوم کے بڑے داماد محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ و وکیل التبشير تحریک جدید ( جو آج کل یورپ اور امریکہ کے احمد یہ مشنوں کے دورے کے سلسلہ میں باہر تشریف لے گئے ہوئے ہیں ) کی کوٹھی واقعہ محلہ دارالصدر غربی لے جایا گیا.اگلے روز یعنی مورخہ 19 ستمبر کو صبح 8 بجے جنازہ کوٹھی سے اٹھایا گیا.اور مقبرہ بہشتی کے احاطہ میں ساڑھے آٹھ بجے صبح نماز جنازہ ادا (الفضل 20 ستمبر 1961ء)0 حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کی نعش کو مقبرہ بہشتی میں سپردخاک کر دیا گیا.اور تدفین خاندان حضرت مسیح موعود کے افراد، حضور کے صحابہ اور امرائے ضلع کے ہاتھوں عمل میں آئی کے عنوانات کے تحت الفضل میں مندرج ہے.کی گئی.وو ربوہ 20 ستمبر حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسد خا کی کو، کل مورخہ 19 فروری 1961ء صبح نو بجے نماز جنازہ کے بعد مقبرہ بہشتی میں حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مزار اقدس کی چار دیواری کے اندر سپردخاک کر دیا گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ جنازہ صبح آٹھ بجے محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلی و وکیل التبشیر تحریک جدید کی کوٹھی واقعہ محلہ دارالصدر غربی سے اٹھایا گیا تھا.جنازہ اٹھانے سے قبل ربوہ کے ہزار ہا مقامی احباب کے علاوہ ملتان، لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ ، سانگلہ، شیخوپورہ، لائل پور، جڑانوالہ، سرگودھا، جھنگ ، چنیوٹ اور دور ونزدیک کے دیگر مقامات سے آئے ہوئے جماعت ہائے احمد یہ کے امراء صاحبان و دیگر کثیر التعداد احباب نے آخری بار حضرت نواب صاحب مرحوم کا چہرہ دیکھا.احباب قطار وار جنازہ کے پاس چہرہ دیکھتے ہوئے گزرتے جاتے تھے.چہرہ دیکھنے کا سلسلہ قریباً پون گھنٹے تک جاری رہا.نماز جنازہ :.چونکہ احباب جنازہ میں شرکت کی غرض سے ہزارہا کی تعداد میں آئے ہوئے تھے.اس لئے جنازہ کی چارپائی کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھ دیئے گئے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کی زیر ہدایت کوٹھی کے اندرونی حصہ سے جنازہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور الفضل 21 ستمبر 1961ء میں حالات زندگی درج ہیں جن کے متعلق وہاں مرقوم ہے کہ ” اصحاب احمد جلد دوم سے اخذ کردہ ہیں.بدر 21 ستمبر 1961ء اور 28 ستمبر 1961ء میں بھی خبر وفات و حالات تدفین وزندگی درج ہیں.وفات کی پہلی اطلاع الفضل 20 ستمبر 1961ء میں اور تعزیتی نوٹ 21 ستمبر 1961ء صفحہ 2 میں درج ہوئے ہیں.عدم تکرار کی خاطر ترک کر دیئے ہیں.
106 خاندان حضرت نواب محمد علی صاحب رضی اللہ عنہ کے افراد ، صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت ہائے احمدیہ کے امراء صاحبان نیز ناظر و وکلاء صاحبان نے اٹھایا.بعد ازاں جب جنازہ کوٹھی کے باہر سڑک پر پہنچا.تو احباب نے جو سڑک کے دونوں طرف دور تک کھڑے تھے جنازے کو کندھا دیا.اور اس طرح ہزار ہا احباب کے کندھوں پر جنازہ مقبرہ بہشتی کے احاطہ میں پہنچا.جہاں کھلے میدان میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی نے نماز جنازہ پڑھائی.ہزار ہا افراد نے اکیس صفوں میں ترتیب وار کھڑے ہو کر نما ز جنازہ میں شرکت کی.تدفین :.بعد ازاں ساڑھے آٹھ بجے کے قریب جنازہ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے مزار اقدس والی چار دیواری کے اندر لے جایا گیا.جہاں تابوت کو قبر میں اتارنے میں خاندان حضرت مسیح موعود ، صحابہ مسیح موعود اور امراء صاحبان جماعت ہائے احمدیہ نے حصہ لیا.سوا نو بجے کے قریب قبر تیار ہونے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی نے دعا کرائی.اس طرح ہزارہا افسردہ و غمگین دلوں اور نمناک آنکھوں کے ساتھ حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب مرحوم رضی اللہ تعالی عنہ ( جو اپنے دینی ذوق و شوق والہانہ محبت و عقیدت اور قابل قدر خدمات سلسلہ کی وجہ سے جماعت میں ایک خاص مقام رکھتے تھے.) کی نعش سپر د خاک کر دی گئی.حضرت نواب صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کی قبر حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مزار کے بالمقابل چار دیواری کے جنوب مشرقی حصہ میں واقعہ ہے.کل حضرت نواب صاحب مرحوم کی وفات پر صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر نیز ربوہ کے جملہ تعلیمی ادارے احتراماً بندر ہے.اور جملہ کا رکنان اور ادارہ جات کے ممبران سٹاف اور طلباء نے نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کی سعادت حاصل کی.(الفضل 21 ستمبر 1961ء) حالات مرض الموت مع ذکر مناقب 66 آپ کے صاحبزادہ میاں عباس احمد خاں صاحب تعزیت کنندگان کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے آپ کی آخری علالت کے حالات اور آپ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :.والد محترم رضی اللہ عنہ کو فروری 1949ء میں دل کا شدید حملہ ہوا تھا.اور تمام بڑے ڈاکٹروں کی متفقہ رائے تھی کہ اس حملہ کے بعد کسی لمبے عرصہ کیلئے زندہ رہنا ناممکن ہے زیادہ سے زیادہ یہ خیال
107 کیا جاتا تھا کہ پانچ سال کے اندر زندگی کی شمع بجھ جائے گی اور وہ بھی چار پائی پر پڑے رہنے اور یا بیٹھے رہنے کی حد تک اور شاید چند قدم چل بھی سکیں گے.اور یہ بھی صرف ایک آدھ ڈاکٹر کی رائے تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور دیگر مخلص احباب کی دعاؤں کے نتیجہ میں اس بیماری کے بعد 12 سال مزید عمر عطا فرمائی.تین چار سال کی شدید بیماری کے بعد والد محترم اس قابل ہو گئے تھے کہ اپنے نجی اور کا روباری امور کی طرف توجہ دے سکیں.عام طور پر مئی جون میں آپ کی صحت زیادہ اچھی رہتی تھی.لیکن اس دفعہ خلاف معمول ابتداء مئی سے ہی صحت قدرے کمزور ہوگئی اور یہ کمزوری بڑھتی ہی چلی گئی.حتی کہ 21 اگست کو آپ کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑا.تا بہتر علاج میسر آسکے.چونکہ ہسپتال میں عزیزوں سے علیحدگی کی وجہ سے آپ کی طبیعت گھبراتی تھی.اس لئے چار دن ہسپتال میں رہنے کے بعد میں آپ کو اپنے گھر پام ویو میں واپس لے آیا.کیونکہ ڈیوس روڈ والی کوٹھی ان کی اپنی ماڈل ٹاؤن والی کوٹھی کی نسبت طبی مشورہ کیلئے زیادہ مفید تھی اور ضروری ادویات بھی بآسانی مہیا ہوسکتی تھیں.آخری ایام :.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے آپ کی بیماری کے آخری ایام میں ہمیں خدمت کا موقعہ عطا فرمایا.1949ء میں جو دل کا حملہ ہوا تھا.اس کے بعد جو بھی زندگی آپ نے پائی وہ واقعی معجزانہ تھی.اس لئے کہ ہر گز کوئی ڈاکٹر یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا.کہ دل کے اتنے شدید حملہ کے بعد وہ اتنے سال زندہ رہ سکیں گے.اس دفعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ شفا کی پھر کوئی اعجازی صورت پیدا کر دے گا.حتی کہ 18 ستمبر کی صبح کو جس دن آپ کی وفات ہوئی.اور جبکہ نبض محسوس ہونا بھی بند ہو گئی تھی اور بلڈ پر یشر بھی آلہ پر رجسٹر نہیں ہورہا تھا.اس وقت بھی امید کا پہلو غالب تھا اور ہم لوگ اس کوشش میں تھے کہ کورامین اور گلوکوز کا انٹراو نیس انجکشن دیا جائے.اور ابھی ڈاکٹر صاحب گلوکوز کے انجکشن کی تیاری میں تھے اور میں والد محترم کو آکسیجن نے کیلئے کھڑا ہوا ہی تھا.کہ تھوڑی دیر کے بعد والد صاحب نے میری طرف دیکھا اور میں نے خیال کیا کہ شاید مجھے کچھ کہیں گے کہ یکا یک نزع کی حالت طاری ہوگئی اور ایک دومنٹ کے اندر اندر آپ کی روح آپ کے جسم کو جس میں اس نے 66 سال تک بسیرا کیا تھا چھوڑ کر چلی گئی.اور آپ بہت آرام کی نیند سوئے ہوئے دکھائی دینے لگے.اس وقت ہمیں آپ کی موت کا یقین ہو چکا تھا.لیکن صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے 1949 ء والی بیماری کی کیفیت کے پیش نظر آپ
108 کے دل میں کورامین کا ٹیکہ دیا اور سانس دلانے کی کوشش کی.تا شاید زندگی کی شمع پھر سے روشن ہو جائے لیکن البی تقدیر پوری ہو چکی تھی اور آپ کی روح آپ کے خالق و مالک کے حضور حاضر ہو چکی تھی.والد محترم کی حالت 17 ستمبر کی رات 8 بجے سے بگڑ چکی تھی اور آپ نے غالبا محسوس کر لیا تھا کہ اب آخری وقت ہے.اس لئے برکت اور تسکین کیلئے والدہ محترمہ کو اپنے پاس بٹھا لیا.چنانچہ والدہ محترمہ تمام رات صبح وفات تک ایک دم کیلئے بھی آپ کے پاس سے نہ اٹھیں.ہم سب بھائی بہن بھی حتی المقدور خدمت میں مصروف رہے.والدہ محترمہ اور دوسرے تمام بہن بھائیوں نے اس سانحہ کو صبر ورضا کے ساتھ برداشت کیا.اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے ساتھ راضی ہو گئے کیونکہ بلانے والا ہے سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر میری دو چھوٹی بہنیں تو صدمہ کی شدت کی وجہ سے کچھ دیر کیلئے سکتہ کی سی حالت میں رہیں اور یہ مجھتی رہیں کہ ابا جان فوت نہیں ہوئے.لیکن یہ وقتی غلبہ غم کی وجہ سے تھا.ورنہ وہ سمجھ گئیں کہ مرنے والے وا پس اس دنیا میں نہیں آیا کرتے.حضرت والد محترم کی امتیازی خصوصیت وہ عشق و وفاتھی.جو آپ کو اللہ تعالیٰ ، رسول کریم ﷺ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پھر آپ کی وجہ سے آپ کے اہل بیت اور آپ کی جماعت سے علی حسب المراتب تھی اور اس کا احساس آپ کے پرانے گہرے دوستوں کو بھی تھا.چنانچہ چند دن ہوئے کینیڈا سے میاں عطاء اللہ صاحب امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی کا تعزیتی خط آیا تھا.وہ لکھتے ہیں :.میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا.کہ حضرت نواب صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایسی بے مثال محبت تھی کہ اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا پھر میری والدہ محترمہ کو لکھتے ہیں :.ان کا سلوک آپ سے ہمیشہ آپ کے شعائر اللہ میں سے ہونے اور پنجتن ہونے کی وجہ سے اس درجہ بے مثال محبت سے پر اور بے مثال تعظیما نہ تھا کہ میں محسوس کرتا تھا کہ یہ حضور علیہ الصلواۃ والسلام سے عشق کا ایک ثمر ہے“.
109 پھر لکھتے ہیں.میں نے اپنی 14-15 سال کی عمر میں مرحوم کی دعائیں محترم ملک غلام فرید صاحب کی زبان سے سنی تھیں.اور میں حیران ہوتا تھا کہ مرحوم اپنی جوانی میں کن عاشقانہ جذبات سے اپنے مولی کا دامن پکڑتے ہیں.ایں سعادت بزور بازو نیست حضرت والد صاحب محترم کو حضرت والدہ محترمہ کا اپنی زوجہ ہونے کے علاوہ بحیثیت دختر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بہت زیادہ پاس تھا.اور ان کی زندگی کی مساعی میں سے یہ ایک بڑی کوشش تھی کہ حضرت والدہ محترمہ کو ہرممکن آرام پہنچے.اور اپنے بچوں کیلئے یہی خواہش رہی.کہ وہ اپنی والدہ صاحبہ کو خوش رکھیں.اور ہر ممکن خدمت کریں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے بھی آپ کو بہت ہی محبت کا تعلق تھا وہ اپنے عزیز سے عزیز دوست اور رشتہ دار سے بھی کبھی گوارا نہیں کرتے تھے کہ آپ کی شان میں کوئی ایسی بات کہیں جس میں تخفیف کا ذرا بھی شائبہ پایا جاتا ہو.آخر میں میں ان تمام احباب سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کا تعلق رکھتے ہیں درخواست کرتا ہوں کہ وہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حضرت والد صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے.اور ان کو نیکی اور تقویٰ کا حامل بنائے.جو حضرت والد صاحب مرحوم کا امتیازی خاصہ تھا.نیز آپ کی اولا دکو یہ توفیق دے کہ اپنی والدہ محترمہ کی اس اخلاص اور محبت سے خدمت کریں.جو تا زندگی ان کیلئے باعث تسکین اور راحت بنی رہے.الفضل 26 اور 27 اکتوبر 1961ء) قرار داد ہائے تعزیت آپ کی وفات پر بہت سی جماعتوں اور اداروں وغیرہ نے قرار دادوں کے ذریعہ تعزیت کا اظہار کیا.ذیل میں صدرانجمن احمد یہ پاکستان ربوہ کی قرارداد درج کی جاتی ہے:.صدرانجمن احمدیہ کا یہ غیر معمولی اجلاس حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر دلی غم واندوہ کا اظہار کرتا ہے.حضرت نواب صاحب مرحوم کا مقام سلسلہ عالیہ احمدیہ میں عزت واحترم کا حامل تھا.کیونکہ مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فخر دامادی حاصل تھا.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے نہایت مخلص صحابی حضرت نواب محمد علی خان
110 صاحب رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے جن کو خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شرف مصاہرہ حاصل تھا.گویا صہر ونسب کے لحاظ سے آپ بہت اونچا مقام رکھتے تھے.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ساتھ مرحوم کو جو مخلصانہ تعلق تھاوہ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ آزدی ملک کے معاً بعد جب دوسرے اہل اسلام کے ساتھ جماعت احمد یہ بھی مشکلات سے دو چار تھی.مرحوم نے صدر انجمن احمدیہ کے کام کی پوری ذمہ داری کو ناظر اعلیٰ کی حیثیت میں سنبھالا.یہ وہ زمانہ تھا کہ جبکہ صد را انجمن احمد یہ مالی لحاظ سے بھی سخت مشکلات میں تھی اسے آدمیوں کی بھی ضرورت تھی جماعتی یجہتی اور تنظیم کو قائم رکھنے کیلئے خلافت حقہ احمدیہ کی اطاعت میں اس کی معاونت کی اشد ضرورت تھی.مرحوم نے اس ذمہ داری کو اپنی صحت کے آخری ایام تک جفاکشی کے ساتھ ادا کیا.صدر انجمن احمد یہ اس صدمہ عظیم میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خاندان حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کے جملہ افراد کے ساتھ دلی طور پر ہمدردی رکھتی ہے اور دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت نواب صاحب مرحوم کو اعلی علیین میں اپنے خاص قرب کا مقام عطا فرمادے اور پسماندگان کا حامی و ناصر ہو.آمین (الفضل 23 ستمبر 1961ء)0 عبارت کتبہ عبارت کتبہ مرقومہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب درج ذیل کی جاتی ہے.سہوا اس میں 1896ء کی بجائے 1895 ء تاریخ ولادت درج ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرَيْم مزار نواب زادہ میاں عبداللہ خاں صاحب تاریخ پیدائش یکم جنوری 1895ء ا خوبیم نواب زادہ میاں عبد اللہ خان صاحب حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے فرزند ہونے کی وجہ سے صحابی ابن صحابی تھے.اور انہیں یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ اپنے والد ماجد کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دامادی کی فضیلت بھی ملی.نہایت نیک، شریف ، منکسر المزاج اور ہمدرد قریباً پون صد جماعتوں کی طرف سے قرار داد ہائے تعزیت الفضل 21 ستمبر تا یکم نومبر 1961ء میں شائع ہوئیں.نیز ایک تعزیتی نوٹ انگریزی پندہ روزہ اخبار دی ٹروتھ نا یجیریا ( مغربی افریقہ ) بابت 22 ستمبر 1961ء میں شائع ہوا.
111 طبیعت رکھتے تھے.فرض نمازوں کے علاوہ نماز تہجد کے بھی پابند تھے اور دعاؤں میں بہت شغف رکھتے تھے.اور سلسلہ کی مالی خدمت میں ذوق شوق سے حصہ لیتے تھے.چھیاسٹھ سال کی عمر میں 18 ستمبر 1961ء کو لاہور میں فوت ہو کر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.اللَّهُمَّ اغْفِرُهُ وَاَدْخِلُهُ الْجَنَّةَ - شکر یہ احباب و تحریک دعا حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی رقم فرماتی ہیں :.(مرزا بشیر احمد ربوہ ) السلام عليكم ورحمة الله وبركاته وجزاكم الله تعالى سب میرے عزیز بہن بھائیوں کو میری جانب سے تحریر ہے جنہوں نے عزیزی محمد عبد اللہ خان کی وفات پر فرداً بھی اور جماعتاً بھی تاروں اور خطوط سے پیام تعزیت میرے نام ارسال کئے میری صحت بھی آج کل ٹھیک نہیں اور بعض ناگزیر وجوہ سے میں چونکہ الگ الگ خط لکھ نہیں سکی.تو ایک کو ایک پر ترجیح بھی نہیں دی.یہی پیام ممنونیت میری جانب سے سبھی کافی سمجھیں.احمدی بہنوں بھائیوں کے مخلصانہ محبانہ جذبات غم کے ایام میں بھی ایک خوشی اور بے حد شکر الہی کی لہر دل میں دوڑا دیتے ہیں.کروڑوں ان گنت درود و سلام اس ہمارے محبوب ومحسن آقاعدے پر اور ان کے سچے عاشق ، غلام مسیح موعود علیہ السلام پر تا ابد ہرلمحہ زیادہ ہی زیادہ ہوتے چلے جائیں.جن کے صدقہ میں یہ محبت یہ دلی ہمدردیاں ہم کو میسر آسکیں.ورنہ ہم کہاں اس قابل.سوچتی ہوں کہ اگر ہر موئے من گردد زبانے جب بھی اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا شکر ادا کرنے سے بالکل قاصر ہوں.“ یہاں میں ایک خواب بیان کرنا ضروری خیال کرتی ہوں جو شاید میں ملک صلاح الدین صاحب کو لکھ کر دے بھی چکی ہوں.میرے میاں ( نواب محمد علی خان) نے اپنی اوائل عمر اور شروع بیعت کے ایام میں دیکھا تھا جس کا اکثر مجھ سے ذکر کیا.کہ ”میں نے دیکھا میرے مکان شیروانی کوٹ والے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں.اور گود میں دونوں ہاتھوں میں تھامے پودے ہیں جن کو حضرت اقدس اپنے ہاتھ سے میرے باغیچہ میں لگارہے ہیں.جب 1896ء میں حضرت خلیفہ اول مالیر کوٹلہ تشریف لائے.تو میں نے یہ خواب ان کو سنایا.آپ نے سن
112 کر فر مایا کہ اس کی تو یہ تعبیر ہے کہ لگانے والی کی نسل جس کے گھر میں پودے لگائے ہیں اس کے گھر سے چلے گی.اس زمانہ میں یہ کس قدر خلاف قیاس بات معلوم ہوتی ہو گی.مگر آج ہم تین بہن بھائیوں کے رشتے جو ہوئے (یعنی ہم دونوں بہنیں دونوں باپ بیٹے کے نکاح میں آئیں اور حضرت چھوٹے بھائی صاحب کی شادی ان کی بڑی لڑکی بوزینب بیگم سے ہوئی ) اس کے ثمر ہماری اولادیں در اولاد میں ملا کر اس وقت بہتر نفوس ہیں جو نواب صاحب اور ان کے آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مشتر کہ نسل ہیں.اللَّهُمَّ زِدْ فَزِدُ میرے میاں مرحوم کو خدا تعالیٰ نے ذرہ نوازی سے جو بشارت دی تھی.پوری ہوئی.سب احباب جماعت سے التجا ہے کہ ان سب کو دعاؤں میں یاد رکھیں.یہ عاشق ذات باری ہوں خادم دین ہوں ، صادق ہوں ، صادقوں کے ساتھ رہیں، فتنوں سے دور رہیں ، ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہیں ، دینی و دنیوی حسنات برکات اعلیٰ درجہ کے پائیں، نیک نمونے بنیں، أَنْعَمْتُ عَلَيْهِمْ کے مصداق ہوں اور اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے مصداق ، مبارک، خادم دین ، پاک نسلیں ان سے تا قیامت چلیں.آمین ثم آمین مبارکہ (الفضل13اکتوبر 1961ء) خاکسار مولف کو ایک خط میں موصوفہ رقم فرماتی ہیں کہ میاں عبداللہ خاں صاحب کو غصہ آجا تا تھا.مگر نیک تھے.فورا تو بہ تو بہ بھی شروع کر دیتے.پچھتاتے بہت جلد تھے.ان کی سادگی طبع ، غصہ ہونے پر ساتھ ہی جلد نادم و قائل ہونا بہت باتیں یاد آگئیں.بہت اچھا وقت تھا.ہنستے کھیلتے گزر گیا.مرحوم مجموعی طور پر سادہ دل.اور نیک انسان تھے.چھل فریب طبیعت میں نہیں تھا.ان کی نرمی اور محبت بھی یادر ہے گی.
113 فرمایا:.سیرت حضرت میاں صاحب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو مبشر اولاد عطا کی.جن کے متعلق اللہ تعالیٰ سے علم پا کر نیز فرماتے ہیں :.پانچوں جو کہ نسل سیدہ ہیں یہی ہیں پنج تن جن پر بنا ہے بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد طبعاً یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اولا دمبشرہ کے جسمانی جوڑے بھی ان کے مراتب جلیلہ کے مناسب حال اپنے اخلاق کریمہ کے لحاظ سے ہونے چاہئیں.اور فی الحقیقت میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب اس لحاظ سے اس لائق تھے کہ حضور کی فرزندی میں قبول کئے جاتے.ابھی آپ چھ سال کے تھے کہ آپ کی دوسری والدہ خالہ امتہ الحمید صاحبہ کو آپ کے متعلق بشارت ہوئی اور بارہ سال کے تھے کہ حضرت ام المومنین کو اس فرزندی کے متعلق بشارت ملی.آئندہ صفحات میں احباب کے تاثرات ہدیہ قارئین کرام کئے جاتے ہیں.( مطبوعہ مضامین میں نقل کرتے ہوئے اختصار کر دیا گیا ہے ).ان تأثرات کثیر تعداد نے آپ کی مہمان نوازی ، باجماعت نمازوں کی ادائیگی ، صدقہ خیرات، اہل بیت کے احترام وغیرہ کا ذکر کیا ہے اس لئے اکثر جگہ میں نے اسے اختصار کی خاطر حذف کر دیا ہے.تا تکرار نہ ہو.ان تاثرات سے آپ کے مناقب جلیلہ پر روشنی پڑتی ہے.اور ہمارے قلوب اس یقین سے پُر ہو جاتے ہیں.کہ آپ کے حق میں بفضلہ تعالیٰ بشارات پوری ہو چکی ہیں.اور یہ افتخار بجاطور پر اللہ تعالیٰ سے آپ کیلئے مقدر ہو چکا تھا.0 0 16 فروری 1902ء کی ڈائری میں اپنی زوجہ محترمہ امتہ الحمید صاحبہ کے متعلق حضرت نواب صاحب تحریر فرماتے ہیں :.”میرے گھر سے رویا دیکھا کہ پانچ لڑکے ہیں.ایک میاں محمود، دوسرا (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
114 1- تاثرات خان عبدالمجید خان صاحب کپور تھلوی حضرت خاں عبدالمجید خاں صاحب کپور تھلوی مرحوم سابق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ( یکے از 313 صحابہ ) جو ماڈل ٹاؤن ہی میں مقیم تھے.اور تعلق قرابت داری بھی رکھتے تھے رقم فرماتے ہیں:.آپ سادہ طبیعت، کم گو، راستباز اور متخیر ، رشتہ داروں اور اصحاب جماعت احمدیہ سے نہایت محبت کرنے والے بزرگ تھے.خاکسار پر خاص طور پر مہربان تھے اور بہت محبت فرماتے تھے.سلسلہ احمدیہ کی ہرتحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.بفضلہ تعالی مذہبی تھے.باقاعدہ چندہ ادا کر نے میں خوشی محسوس کرتے.سلسلہ احمدیہ کے شیدائی اپنے ملا زمان پر ہمیشہ مہربانی فرماتے گالی دینے سے نفرت تھی.ان سے قصور ہو جاتا تو معاف فرماتے.جب بھی آپ سے ذکر کرتا کہ آپ کیلئے نمازوں میں دعا کیا کرتا ہوں تو اس کے جواب میں ہمیشہ یہ فرماتے کہ ” خانصاحب میرے لئے خصوصیت سے یہ دعا کیا کریں کہ میرا انجام بخیر ہو.میں نے کبھی کسی پر ناراض ہوتے نہیں دیکھا.اپنی بیگم صاحبہ کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.چنانچہ اس کے نتیجہ میں انہوں نے آپ کی بیماری کے ایام ( الفضل 28 نومبر 1961ء) میں بے حد خدمت کی.2.تاثرات شیخ محمد دین صاحب مکرم شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام صدر انجمن احمد یہ تحریر کرتے ہیں :.مجھے آپ کے ماتحت ملکا نہ تحریک میں کام کرنے کا موقعہ ملا.اور پھر تقسیم ملک کے بعد جبکہ صدر انجمن احمد یہ کے متعدد کارکنان انجمن کو چھوڑ کر منتشر ہو چکے تھے اور انجمن کا مرکزی آفس جو دھامل بلڈنگ لاہور میں تھا.آپ ان ایام میں ناظر اعلیٰ تھے یہ انتہائی مشکلات کا دور تھا.آدمیوں اور روپیہ بقیہ حاشیہ عبدالرحمن، تیسرا عبداللہ ، چوتھا عبدالرحیم ، پانچواں میاں بشیر یا میاں شریف.میاں محمود کے ہاتھ میں دو قرآن ہیں اور باقی کے ہاتھوں میں سوائے عبدالرحیم کے ایک ایک قرآن ہے.عبدالرحیم کی بابت کہا گیا کہ اس کے ہاتھ میں رحل ہے اس کا قرآن بنوایا جائے گا.“ (اصحاب احمد جلد دوم ص 561) اس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ممتاز مقام کے علاوہ باقیوں کیلئے بشمول میاں محمد عبد اللہ خان صاحب معین بشارت دے دی گئی.البتہ ایک کے متعلق معاملہ اخفاء میں رکھا گیا گویا قرآن مجید بنوانا یا نہ بنوانا ان کے اختیار میں ہے.
115 کی بھی شدید کی تھی.انہیں ایام میں موجودہ ربوہ ( موضع چک ڈھگیاں ) کی زمین خریدنے کا فیصلہ ہوا تو جو درخواست گورنمنٹ کے نام رقبہ مذکور کی خریداری کیلئے لکھی گئی تھی.آپ ہی کے اس پر دستخط تھے.یہ درخواست حضرت نواب محمد دین صاحب مرحوم نے اسی مقام ربوہ پر مجھے دی.جبکہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے اس رقبہ کو موقع پر دیکھ کر خریدنے کا ارشادفرمایا.میں نے اسی دن شام کو لالیاں کے ڈاک بنگلہ پر ڈپٹی کمشنر صاحب جھنگ کی خدمت میں پیش کی گویا موجودہ ربوہ کی خرید کی ابتداء آپ کے دستخطوں سے ہوئی تھی یہ واقعہ اخیر ستمبر 1947ء یا اکتوبر 1947ءکا ہے.ایام رہائش قادیان میں بھی جبکہ وہ اراضیات کی خرید وفروخت کا کام کرتے تھے اس ضمن میں بھی مرحوم اکثر اوقات مجھ سے کام لیتے رہے ہیں.ہمیشہ حسن سلوک سے پیش آتے تھے.ہنس مکھ اور خوش دل انسان تھے.مسکرا کر محبت کے جذبات سے بات کرتے تھے.ان کو ملنے اور دیکھنے سے خوشی اور راحت حاصل ہوتی تھی.موقع بہ موقع مالی فائدہ بھی پہنچاتے تھے.ملکانہ تحریک میں جب خاکسار آگرہ ،سکرار انو گاؤں وغیرہ علاقہ جات میں کام کر کے واپس قادیان پہنچا تو آپ نے ملکانہ تحریک کے مرکزی افسر ہونے کی حیثیت سے حسب ذیل خوشنودی کا سار ٹیفکیٹ دیا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَنُصَلِّي عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيمِ فرمان اظهار خوشنودی حضرت خلیفہ مسیح الموعودسید الا نام علیه السلام منشی محمد دین صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ اپنا وقف کردہ وقت پورا کر کے آپ واپس آرہے ہیں.یہ موقع جو خدمت کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے اس پر آپ جس قدرخوش ہوں کم ہے اور جس قدر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں تھوڑا ہے.ایسی سخت قوم اور ایسے نامناسب حالات میں تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہیں اور ان حالات میں جو کچھ آپ نے کیا ہے وہ اپنے نتائج کے لحاظ سے بہت بڑا ہے آپ لوگوں کے کام کی دوست کیا دشمن بھی تعریف کر رہا ہے اور یہ جماعت کی ایک عظیم الشان فتح ہے.جو میری خوشی اور مسرت کا موجب ہے اللہ تعالیٰ آپ کے کام کو قبول فرمائے میں آپ لوگوں کیلئے دعا کرتا رہا ہوں اور انشاء اللہ کرتا رہوں گا.امید ہے کہ آپ لوگ اس کام کو بھی یادرکھیں گے.جو واپسی پر آپ کے ذمہ ہے اور جو مالکانہ کی تبلیغ سے کم نہیں.یعنی اپنے ملنے والوں اور دوستوں میں اس کیلئے جوش پیدا
116 کرتے رہنا.کیونکہ اس سے بڑی مصیبت اور کوئی نہیں کہ ایک شخص کی محنت آبیاری کی کمی سے برباد ہو جائے.مومن کا انجام بخیر ہوتا ہے اور اسے اس کیلئے خود بھی کوشش کرنی پڑتی ہے.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین والسلام 25 جون 1923ء مرز امحمود احمد جی فی اللہ ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.حضرت خلیفہ اسیح والمہدی علیہ الصلوۃ والسلام نے انسداد ارتداد میں آپ کی خدمات کو جو قبولیت کی عزت بخشی ہے وہ آپ کیلئے قابل مبارکباد ہے.اور مجھ کو خاص طور پر خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری ماتحتی میں کام کرنے والی جماعت کو یہ عزت عطا کی.میں خوشی کے ساتھ آپ کو یہ سند خوشنودی دیتا ہوں.آپ ہمیشہ اپنی زندگی میں سلسلہ کی خدمت کیلئے تیار رہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین 30 جون محمد عبداللہ خاں (الفضل 28 نومبر 1961ء) آپ کے صاحبزادہ شیخ مبارک احمد صاحب ( نائب ناظر اصلاح وارشاد ربوہ ) والد صاحب محترم کی زبانی بیان کرتے ہیں.کہ افراد جماعت کی چنیوٹ اور احمدنگر ( ضلع جھنگ ) میں آباد کاری وغیرہ کے تعلق میں مجھے کافی عرصہ تک باہر ٹھہر نا پڑا.اور بہت تکلیف برداشت کر کے میں نے یہ کام سرانجام دیا.واپس لاہور جو دھامل بلڈنگ کے پاس پہنچا ہی تھا کہ حضرت مرحوم کو علم ہو گیا اسی وقت دفتر سے اٹھ کر خوشی خوشی باہر تشریف لائے اور لمبا معانقہ کیا.آپ کا برادرانہ اور مشفقانہ سلوک آپ کے بے نظیر اخلاق کا مظہر ہے.آپ تکلف سے کوسوں دور تھے.اپنے احباب سے قبولیت دعا کے واقعات بیان کرتے تھے تا از دیا دایمان کا موجب ہوں.3:.بیان صوفی محمد رفیع صاحب مکرم صوفی محمد رفیع صاحب ( ریٹائرڈ ڈی ایس پی امیر جماعت سکھر ڈویژن) بیان کرتے ہیں.کہ آپ کو قریب سے جاننے کا موقع بوجہ سندھ میں ملازم ہونے کے ملا.مرحوم کی سندھ میں زمین تھی.اس لئے ملاقات کے مواقع گاہے گاہے ملتے رہے اور بعد میں تو آپ کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے زیادہ تعلق ہو گیا چنانچہ کبھی خاکسار کو کوئی کام بذریعہ خط بھی تحریر فرما دیتے.مجھے جب لاہور جانے کا موقع ملتا.تو حضرت مرحوم کو ملنے کی ضرور کوشش کرتا اور اگر کبھی اتفاق سے اپنی موٹر پر
117 جاتے ہوئے مجھے دیکھ لیتے تو موٹر ٹھہرا کر ضرور ملاقات کا شرف بخشتے اور مکان پر آنے کی خاص تاکید فرماتے.چنانچہ جب میں حاضر ہوتا تو فرماتے کہ تکلف کرنے کی ضرورت نہیں.جب لاہور آئیں ضرور ملیں.بعض دفعہ سندھ کی اراضیات کے متعلق مشورہ بھی طلب فرما لیتے اور اگر کوئی خاص بات ہوتی تو بعض دفعہ فرما دیتے.کہ فلاں کے ساتھ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں.آپ حتی الوسع تقویٰ کے ہر پہلو پر نگاہ رکھتے.جب درمیان میں لمبے عرصہ کیلئے آپ کو بیماری کی تکلیف رہی اور اس دوران میں مجھے لا ہور جانے کا موقعہ ملتا تو میں آپ کی تیمارداری کیلئے حاضر ہوتا تو بڑی محبت سے پاس بٹھا کر بات بات میں دعا کیلئے تا کید فرماتے.آخر میں مرض الموت میں جو میرے خط کا جواب آپ نے ماہ ستمبر میں ارسال فرمایا.اس میں لکھا :.السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مکرمی اخویم صوفی صاحب! آپ کا خط میری طبیعت پوچھنے کے بارہ میں ملا.جزاکم اللہ میں تو بیمار ہوں یہ خط آپ کو لکھ رہا ہوں.میری طبیعت ابھی بدستور خراب ہے.کمزوری بہت زیادہ ہے بخار بھی تقریباً روز ہو جاتا ہے.دل میں بھی ڈاکٹر کمزوری زیادہ بتاتے ہیں.آپ میرے لئے خاص دعا فرماتے رہیں.اور مکرم عبد الرحمن صاحب کو بھی میرا سلام دیں.اور دعا کیلئے کہہ دیں اللہ تعالیٰ آپ سب کا محافظ و ناصر ہو.والسلام عبداللہ خاں اس خط سے آپ کے عظیم الشان اخلاق کا اظہار ہوتا ہے.(الفضل 28 نومبر 1961ء) 4:.تاثرات ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب رقم فرماتے ہیں.کہ آپ کی وفات ایک بزرگ ہستی کی وفات ہے جس کے ذرہ ذرہ میں احمدیت سمائی ہوئی تھی.آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے پر ہونے والے قسما قسم کے احسانوں اور فضلوں پر ہر آن شکر گزار رہنے والے بزرگ تھے.باوجود یکہ آپ نواب زادہ تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دامادی کو اس قدر رنعمت عظمی جانتے تھے کہ اس کے مقابل پر اپنی ہستی کو ادنی ہستی تصور کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تو عشق تھا ہی لیکن حضرت ام المومنین کے مرتبہ کو بھی بہت
118 بڑا جانتے تھے.اور آں سیدہ کی دعاؤں کی قبولیت کے بہت قائل تھے اور آں سیدھا کی خدمت کو باعث صدفخر جانتے تھے.آپ شفیق باپ، وفادار اور شفیق دوست اور غریبوں کے طلبا و ماویٰ تھے.کسی کو ناراض دیکھنا نہیں چاہتے تھے.آپ کے حسن سلوک کا ہی نتیجہ ہے کہ آپ کے اہل بیت نے آپ کی تیمار داری میں گزشتہ دس سال میں اپنی جان گھلا دی.(الفضل 21 ستمبر 1961ء) 5.تاثرات پرویز پروازی صاحب اخویم پرویز پروازی صاحب ایم اے ربوہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سال قبل آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ نے بڑی خندہ پیشانی سے استقبال کیا.تعارف پر دوبارہ ہاتھ ملاتے ہوئے کہا کہ تم تو عزیز ہو اور تایا جان محمد خاں صاحب کے متعلق دریافت فرمایا.فرمایا خط لکھو تو میری طرف سے کہنا کہ ملے ہوئے بہت دیر ہوگئی.کچھ عرصہ کیلئے میرے پاس آجا ئیں.مجھے بہت مسرت ہوگی.تایا جان آپ سے پیشن پاتے ہیں وہ اور میرے دادا جان مدت مدید تک خدمت گزاروں میں شامل رہے ہیں.میں احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کا صدر تھا.میں نے عرض کیا کہ ایک غریب احمدی لڑکے کیلئے رہنے کی جگہ مطلوب ہے آپ نے بخوشی اپنی کوٹھی کا ایک کمرہ مختص فرما دیا اور وقتا فوقتاً اس کی امداد بھی فرماتے اور مفت کھانا بھی مرحمت فرماتے رہے.(الفضل 5 دسمبر 1961ء) -6.بیان ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ابن سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ رقم فرماتے ہیں.بچپن سے آپ کے متعلق میرا تاثر یہ ہے کہ ہم خاندان حضرت مسیح موعود کے بچوں کو باوجود عمر اور رشتہ میں چھوٹا ہونے کے ہمیشہ بہت ادب سے پکارتے تھے اور بہت ہی محبت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اسی طرح سلوک کرتے تھے.نیز ان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ ہم لوگ اپنے اخلاق اور اعمال میں ایک نمونہ ہوں اور خلاف شرع یا اخلاق کوئی بات ہم سے سرزد نہ ہو.چنانچہ کوئی ناپسندیدہ بات آپ دیکھ پاتے تو بلا جھجک فورا ٹوک دیتے اور اظہار فرماتے کہ یہ بات ہمیں زیب نہیں دیتی.آپ کا یہ عمل حضرت مسیح موعود سے شدید محبت کے باعث تھا اور اسی وجہ سے آپ اپنے اہل بیت ہماری چھوٹی پھوپھی جان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی.
119 غالباً 8 فروری 1949 ء کو آپ کو یکدم دل کا سخت حملہ ہوا.اس وقت آپ جو دھامل بلڈنگ سے رتن باغ کی طرف آرہے تھے اور ان دنوں آپ بحیثیت ناظر اعلیٰ کام کرتے تھے.فوراً بے ہوشی طاری ہوگئی.چند دوست اٹھا کر برآمدہ میں لے آئے.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور خاکسار موجود تھے.ہم نے ٹیکے وغیرہ سے علاج کیا.دیگر ڈاکٹروں کو بھی فوراً بلوا کر دکھایا گیا.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد آپ کو ہوش آگیا.یہ دورہ نہایت شدید اور طویل مرض کا آغاز تھا.اس کے ابتدائی دوماہ کے قریب خاکسار کو قریباً چوبیس گھنٹے ہی آپ کی طبی خدمت کا موقع ملا.اس قدر شدید علالت میں آپ کو بہت ہی صابر و شاکر پایا اور آپ کے منہ سے کبھی بے صبری کا کوئی کلمہ نہیں نکلا.بیماری کا ابتدائی شدید دور گزرنے پر جب طبیعت ذرا سنبھلی تو اکثر آپ کی زبان سے شکر وحمد الہی کے کلمات ہی نکلتے.اپریل 1949 ء میں خاکسار حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے تحت ربوہ ہجرت کر کے آ گیا.مگر پھر بھی جب کبھی آپ کی بیماری کی تکلیف زیادہ ہوتی.خاکسار لا ہور جاتا تو آپ بہت خوش ہوتے اور کچھ دن اپنے پاس ٹھہر نے کو فرماتے.چنانچہ مرض کے آخری حملہ میں جب آپ کی حالت زیادہ خراب ہوگئی تو خاکسار جابہ سے رات کے وقت روانہ ہو کر تین بجے صبح لاہور پہنچا.خاکسار کو دیکھ کر آپ کے چہرے پر خوشی کا آثار پیدا ہوئے اور اگلے دن یہ اظہار بھی فرمایا.کہ اچھا ہوا میاں منور احمد آگئے اور یہ بھی فرمایا کہ ابھی واپس نہ جانا.چنانچہ خاکسار نے تسلی دی کہ جب تک آپ کی طبیعت سنبھل نہیں جاتی.خاکسار نہیں جائے گا.مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کچھ اور ہی تھی.اور اگلی رات پھر طبیعت یکدم بگڑ گئی اور کچھ گھنٹے بعد ہمارے پھوپھا جان ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو گئے.7.تاثرات صوفی غلام محمد صاحب اخویم صوفی غلام محمد صاحب ( ناظر بیت المال ربوہ ) بیان کرتے ہیں کہ مرحوم ہرا ہم امر میں استخارہ کرواتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ مجھ سے بھی بغیر بات بتائے استخارہ کروایا تھا اور اس کے متعلق خواب سے خوش ہوئے تھے.مسجد نور میں جن دنوں میں امام الصلوۃ تھا.ایک روز بیمار تھا.تو آپ میری عیادت کو تشریف لائے اپریل 1923 ء میں جب مجھے پہلی بار علاقہ ملکانہ میں بھجوایا گیا.تو آپ نے بحیثیت انچارج انسداد ارتداد مجھے حالات بتائے اور ہدایات دیں.جب بیرون قصبہ (دار العلوم ) میں آپ ناظم جلسہ سالانہ مقرر ہوتے تھے.تو آپ محبت سے احکام دیتے.اور صفائی کا
120 غیر معمولی خیال رکھتے ہوئے تفصیلی ہدایات دیتے.والد ماجد کی اطاعت ایک مثالی رنگ رکھتی تھی.ابھی جماعت میں برات کی تواضع رائج تھی.آپ نے صاحبزادی طیبہ آمنہ بیگم صاحبہ کے رخصتانہ کی تقریب کیلئے رقم کثیر خرچ کر کے مٹھائی وغیرہ تیار کروائی.برات پہنچ چکی تھی.کہ حضرت والد صاحب کا تار موصول ہوا.کہ کھانے وغیرہ کی کوئی اشیاء برات کو نہ پیش کی جائیں آپ نے کمال اطاعت سے اس حکم کی تعمیل کی.8.ایک داماد کے تاثرات آپ کے داماد کرنل صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب ( خلف حضرت مرزا شریف احمد صاحب) بیالیس سالہ تجربہ کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.آپ کی زندگی اپنے مطاع مسیح محمدی علیہ الصلوۃ والسلام کی کامل اتباع سے اِنَّ صَـــلــوتــى وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِین کا نمونہ ہو گئی.آپ نے زندگی بھر شریعت کے ایک ایک شعشے کو قابل اتباع اور احترام سمجھا اور کبھی ایچ بیچ نکالنے کی کوشش نہ کی اور کبھی بھی اپنے نفس کو شبہات میں نہ ڈالا.جب میں نے ہوش سنبھالا.ہم ایک ہی گھر میں رہتے تھے.اور جہاں تک میری یادداشت کا تعلق ہے وہ ماضی میں 1919 ء تک صحیح اور صاف ہے.گویا مجھے بیالیس سال تک آپ کی زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقعہ ملا.میں نے انہیں الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبَسُوا اِيْمَانَهُمْ بِظُلم کا کامل نمونہ پایا.ارکان ایمان پر آپ کا سا کامل ایمان اور ان پر شدت سے عمل میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھا ہے اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل تھا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ کیلئے خدا ہی خدا ہے باقی سب بیچ کامیابی اور نا کامی میں ان کا سر ہمیشہ اسی کے آستانہ پر پڑا رہا.جب کبھی بھی کوئی امتحان مقدر ہو گیا اور اس کے نتائج اپنی مرضی اور ارادوں کے خلاف ہوئے.تو خدا کی رضا کو خوشی سے قبول کیا.جب کبھی بھی کوئی ضرورت پیش آئی خواہ چھوٹی ہو یا بڑی ہمیشہ اس کے حصول کیلئے خدا تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا.اور ہمیشہ ان کی فوق العادت مدد اور نصرت ہوئی.میں نے بعض اوقات دیکھا کہ جب تمام ظاہری اور دنیوی اسباب منقطع ہو گئے.تو پھر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری اور دنیوی شکست کو قبول نہ کیا.اپنے مولیٰ کی طرف رجوع قائم رکھا.ہم نے دیکھا کہ وہ خدا جو نیست سے ہست کرتا ہے اس نے
121 ان کا بجز ، یقین کامل دیکھ کر بغیر اسباب کے کامیابی عطا فرمائی.آپ مسنون اور دوسری دعاؤں میں ہمیشہ لگے رہتے تھے.آپ نے اپنی کامیابی کا گر ہمیشہ اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم کو ہی سمجھا.ایک دفعہ ان کی سندھ کی زمینوں کی آمد کا ذکر ایک بزرگ کے سامنے ہوا.تو انہوں نے فرمایا.تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.ان کے پاس جو گر ہے وہ تمہارے پاس نہیں.یعنی دعا کا حربہ وہ تو اگر مٹی کو بھی ہاتھ لگائے تو سونا کر دے گا.اپنے مطاع سید نا حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت ہی نہیں بلکہ عشق تھا کثرت سے حضور پر درود بھیجتے اور اپنے مخدوم کی اتباع کی انتہائی کوشش کرتے رہتے تھے تا آپ کا ہر عمل قرآن وسنت رسول اور حدیث کے مطابق ہو اور اس پر نہایت شدت اور استقلال کے ساتھ عمل کرتے تھے.سیدنا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق تھا اور آپ نے حضور کی تعلیم اور اتباع کو ہی ذریعہ نجات سمجھا.آپ قرآن مجید کی کثرت سے اور ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے تھے.خصوصاً قرآن الفجر نہایت خشوع اور الحاج سے پڑھتے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہر لفظ پر غور کیا جا رہا ہے اور ہر لفظ سے دل گداز ہو رہا ہے.حضرت خلیفتہ امیج اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے قرآن مجید کے درسوں میں باقاعدہ شامل وتے رہے تھے.قرآن مجید کا علم ان بزرگوں کی صحبت اور فیض کی وجہ سے بہت وسیع تھا پھر بھی سلسلہ کے کسی نہ کسی عالم کو اپنے پاس رکھ لیتے اور اس کے ساتھ قرآن مجید ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ ہو.دہراتے رہتے تھے.نماز ہمیشہ نہایت خشوع اور حضور قلب کے ساتھ یوں ادا کر تے تھے گویا فرمان نبوی گانگ تراہ کے پورے مصداق نماز با جماعت کیلئے سفر و حضر میں بے حد کوشش فرماتے.آپ جب سندھ گئے.تو پہنچتے ہی مستقل طور پر نماز با جماعت کا التزام فرمایا اور اسی مقصد کیلئے اپنے ہمراہ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب کو بھی لے گئے تھے.تا کہ نیکی اور تقویٰ کا ماحول قائم رہے.اپنی آخری عمر اور بیماری میں بھی آپ کی ہمیشہ کوشش رہی کہ نماز باجماعت پڑھیں اور پڑھائیں اکثر سخت بیماری کے باوجو د بھی نماز میں شامل ہو جاتے تھے.واقعی آپ فرمان نبوی کے مطابق ان لوگوں میں سے تھے کہ جن کا دل مسجد میں لگتا تھا.آپ تہجد کی نماز نہایت التزام سے پڑھتے تھے.سوز اور رقت کی وجہ سے ان کی آواز اکثر سنائی دیتی تھی.
122 رمضان کے روزے بھی نہایت التزام کے ساتھ رکھتے تھے مگر بیمار ہونے پر محرومی کا افسوس رہتا تھا فدیہ ادا کر دیا کرتے تھے اور دوستوں اور غرباء کیلئے روزہ افطاری کا بندوبست نہایت اعلیٰ اور اہتمام سے کرتے تھے اور اسی میں خوشی محسوس کرتے تھے.رسول اللہ لہے سے پوچھا گیا کہ کونسا اسلام بہتر ہے.آپ نے فرمایا کھانا کھلاؤ جس کو جانتے ہو اور نہ جانتے ہو.چنانچہ مرحوم مہمان یا مسافر خواہ امیر ہو یا غریب اس کے کھانے کا انتظام نہایت پر تکلف کرتے تھے.بلکہ یہ کوشش کرتے کہ اس کو اپنے ساتھ کھانا کھلا ئیں وقت یا بے وقت مہمان نوازی کیلئے نہایت مستعد رہتے تھے اور گھر والوں کو تاکید کرتے تھے کہ مہمان کی خاطر مدارات میں کوئی فرق نہ آوے.اور اکثر اچھا کھانا مہمان کیلئے بھجوا دیتے تھے خواہ گھر والوں کیلئے بچے یا نہ بچے.مہمان نوازی اس مسرت اور خوشی سے کرتے تھے کہ آنے والے کا دل باغ باغ ہو جاتا تھا.اور مہمان نوازی کا فرض ملازموں پر نہیں چھوڑتے تھے اور کبھی وجاہت کی وجہ سے یہ خیال نہ آتا تھا کہ لوگ ان کو پہلے سلام کریں بلکہ کوشش کرتے کہ سلام میں ابتداء کریں خواہ ان کو پہچانتے ہوں یا نہ پہچانتے ہوں.دل کے نہایت ہی غریب اور حلیم تھے اگر کبھی کسی سے ناراض ہو گئے یا کسی شخص نے جان بوجھ کر نقصان پہنچایا یا برا بھلا کہا.تو پھر بھی اس کو بہت جلد معاف کر دیتے تھے.الغرض آپ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ کا نمونہ تھے.ہم لوگ بعض وقت حیران ہو جاتے تھے کہ باوجود بعض لوگوں کی سخت دشمنی اور شرارت کے وہ کس طرح اتنی جلدی ان کو معاف کر دیتے تھے.دین کیلئے نہایت با حیاء با غیرت اور نڈر تھے اور نہی عن المنکر میں کسی سے نہ ڈرتے تھے کوئی فعل شریعت کے خلاف دیکھ لیتے.خواہ وہ شخص کتناہی بڑا ہو بڑی جرأت اور بہادری سے منع کرتے تھے.دین کے معاملہ میں کسی سے نہ ڈرتے تھے.صرف خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کے سامنے سر جھکاتے تھے.جب کبھی اپنی غلطی کا علم ہو جاتا تو اسے بہادری کے ساتھ چھوڑ دیتے تھے.بلکہ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتے تھے.صدقات اور غرباء پروری میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے.سینکڑوں لوگوں کو ان سے فیض پہنچا.اور بعض کی تو سال ہا سال تک مدد کی.تا کہ وہ اپنی تعلیم کو مکمل کر سکیں.اور اگر خود مدد نہیں کر سکتے تھے تو عزیزوں اور دوستوں کو تحریک کرتے تھے.کہ فلاں مستحق اور غریب کی مدد کی جائے.
123 اولاد سے شدید محبت کرنے والے باپ تھے.اپنے اہل کے ساتھ نہایت نیک اور احترام والا سلوک کرتے تھے.میں نہایت وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ کی حدیث خَيْرُ كُمُ خَيْرُكُمْ لِاهْلِہ ان پر چسپاں ہوتی ہے.طبیعت میں شکر کا مادہ بے انتہاء تھا.ہر حال میں اور ہر وقت خدا تعالیٰ کا شکر اور اس کی نعمتوں کا ذکر کرتے رہتے تھے.میرا ذاتی خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو دنیوی طور پر اتنا نوازا اس کی وجہ ان کی شکر مند طبیعت تھی.لَئِن شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ کے راز کو انہوں نے خوب سمجھ لیا تھا اور یہی ان کی دنیوی فراوانی کی کلید تھی.بیالیس سال کے مشاہدہ کو چند صفحوں میں بند نہیں کیا جا سکتا.میں ایک حدیث قدسی لکھ کر اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں.حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.اللہ تعالی سات شخصوں کو اپنے سایہ میں لے گا.اس دن کہ جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا.(1) حاکم عادل (2 ) وہ جوان جو اپنی عبادت میں بڑھا ہوا ہو.(3) وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہو.(4) وہ دو شخص کہ جب جمع ہوں تو اس کیلئے اور جب جدا ہوں تو اس کیلئے (5) وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو معلوم تک نہ ہو کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا.(6 ) وہ شخص جس کو کوئی معزز اور با جمال عورت زنا کیلئے بلائے اور وہ یہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں.(7 ) جو شخص خلوت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرے اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں.میں نے آپ میں اس حدیث کی اکثر صفات پائیں.مجھے اللہ تعالیٰ سے کامل امید ہے کہ اس دن وہ اللہ تعالیٰ کے سایہ میں ہوں گے.جس دن کہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا.اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت اور اپنے فضلوں سے ڈھانپ لے گا.اور وہ قیامت کے دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں اور اپنے مطاع محمد مصطفی ﷺ کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوں گے.9 - بیان حکیم محمد عمر صاحب (الفضل یکم نومبر 1961ء) حکیم محمد عمر صاحب صحابی بیان کرتے ہیں.کہ مرحوم کے دل میں صحابہ کا بہت احترام تھا.مجھے ایک جنازہ میں آپ نے دیکھ لیا کہ پاؤں میں تکلیف ہے تو اپنی موٹر میں مجھے گھر پہنچایا اور حالات
124 دریافت کر کے کہا کہ فلاں کام کیلئے دعا کریں میں دو صد روپیہ بھجوا ؤں گا.چنانچہ چند دن میں بھجوا دیا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ سفر سندھ میں آپ نے مجھے باصرار اپنی کوٹھی میں ٹھہرایا.10- تاثرات شیخ عبد القادر صاحب اخویم شیخ عبد القادر صاحب فاضل مربی لاہور ( مولف حیات طیبہ، حیات نو روحیات بشیر ) رقم فرماتے ہیں:.حضرت مرحوم کو زیادہ قریب سے مجھے دیکھنے کا موقع 1936 ء سے ملا.سندھ سے آپ کراچی تشریف لاتے تھے.وہاں بحیثیت مبلغ سلسلہ میں مقیم تھا.گو آپ ٹھہر تے رائل ہوٹل میں تھے.لیکن سیر کیلئے قریباً روزانہ مجھے ساتھ لے کر جاتے تھے.ہم شہر سے پیدل صدر جاتے.بعض اوقات محترم حاجی عبد الکریم صاحب کے گھر بھی تشریف لے جاتے.جن سے آپ کو بہت انس تھا.آپ کو دعاؤں میں بہت شغف تھا اس لئے مل کر دعائیں کیا کرتے تھے.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی دامادی کا شرف حاصل تھا.لیکن ایک لمحہ کیلئے بھی کبھی آپ حضور کے خاندان سے برابری کا خیال دل میں نہ لاتے تھے.حالانکہ آپ ایک نوابی خاندان کے ساتھ تعلق رکھتے تھے.آپ بیان کرتے کہ آپ کے خاندان کے لوگ جو سلسلہ میں داخل نہیں شروع میں یہ سمجھتے تھے کہ والد ماجد نے حضور کے خاندان سے رشتہ داری کا تعلق قائم کر کے اپنے دنیوی و قار کو صدمہ پہنچایا ہے.لیکن حضرت نواب صاحب کو تو چونکہ روحانی بصیرت حاصل تھی اس لئے آپ انہیں سمجھایا کرتے تھے کہ تم بتاؤ اگر آج رسول اللہ ﷺ زندہ ہوں اور تمہیں حضور کے ساتھ رشتہ داری کا تعلق قائم کرنے کا موقع ملے تو تم اپنے دنیوی وقار کو مدنظر رکھ کر حضور کے ساتھ تعلق قرابت قائم کرنے کو نا پسند کرو گے.ظاہر ہے کہ یہ سوال ایسا نہیں تھا.جس کے جواب میں وہ یہ کہہ سکتے کہ ہم حضور سے ہرگز رشتہ داری کا تعلق قائم نہ کرتے بلکہ ان کا جواب یہی ہوتا تھا کہ ہم حضور کے ساتھ تعلق قائم کرنے کو سعادت عظمی سمجھتے.اس پر آپ فورا فر ماتے کہ ہمارے نزدیک اس وقت روئے زمین پر رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی مبارک وجود ہے تو وہ حضرت مرزا صاحب ہیں.پس ہم آپ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کو کیوں سعادت عظمی نہ سمجھیں.بعد میں حضرت نواب صاحب
125 کے ساتھ رشتہ داری کی وجہ سے جوں جوں ان اقارب کو حضرت اقدس اور حضور کی اولا د کو قریب ہو کر دیکھنے کا موقعہ ملا.ان کے ابتدائی خیالات میں تبدیلی واقع ہوتی گئی اور اب تو ان میں سے اکثریت کو یہ احساس ہے کہ اس قرابت سے آپ نے کچھ حاصل کیا ہے گنوایا کچھ نہیں.جذبات تشکر و امتنان سے آپ کا دل لبریز تھا.فرماتے تھے: کہ میں اپنی زوجہ محترمہ کو آيَةً مِنُ آیاتِ اللهِ سمجھتا ہوں اور حضور کی صاحبزادی میرے گھر میں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے افضال و برکات سے نوازا ہے.میں نے حتی الامکان ان کی کسی خواہش کو کبھی بھی رد نہیں کیا.میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کر سکتا.آپ کی باتوں سے ایمان کو تازگی حاصل ہوتی.سلسلہ کے متعلق بہت غیور تھے.جن لوگوں کو سلسلہ میں شمولیت سے بہت فوائد پہنچے لیکن جب انہیں نا واجب امور اور نظام سلسلہ کی خلاف ورزی سے احتراز کرنے کو کہا گیا اور وہ بگڑ بیٹھے تو آپ ایسے افراد کے ذکر پر فرماتے کہ یہ نمک حرام ہیں اور میں ان سے منہ لگانا برداشت نہیں کر سکتا.حیات طیبہ کی تالیف پر بہت خوش ہوئے اور آپ نے دونوں ایڈیشنوں کی متعدد جلدیں خریدیں.آپ کے ایک نو جوان بچہ نے مال روڈ پر جاتے ہوئے مجھ سے مصافحہ کیا اور کہا کہ آپ کی اس کتاب کی جلدیں والد صاحب محترم نے تمام افراد خانہ کی چار پائیوں کے سرہانے رکھوادی ہیں تا کہ جب بھی ہمیں موقع ملے ہم اس کا مطالعہ کریں.آپ عند الملاقات ہمیشہ کھانا کھانے پر مجبور کرتے.جب میں آخری بار ملاقات کے بعد روانہ ہونے لگا تو فرمایا کہ ہمارے گھر کے بچے وغیرہ پام ویو جارہے ہیں اور ڈرائیور کو ہدایت کی کہ مجھے دہلی دروازہ اتار دے.پھر پام و یو کوٹھی جائے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ 11.مؤلف کے تاثرات آپ کے مناقب کا ہر گوشہ احباب کے تاثرات سے بے نقاب ہو جائے گا تاہم کچھ اپنے ذاتی مشاہدات بھی عرض کرتا ہوں.مجھے 1928ء سے دار الفضل میں قیام کا موقع ملا.اس وقت مسجد دار الفضل تعمیر نہیں ہوئی تھی اور اس محلہ کے احباب مسجد نور میں ہی نمازیں ادا کرتے تھے.اس وقت آپ تینتیس سال کے جوان
126 تھے.1947 ء تک گویا میں سال تک اور آپ کے وصال تک گو یا چونتیس سال مجھے آپ کو دیکھنے کا موقع ملا.1937ء میں از راہ ذرہ نوازی سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری مقرر فرمایا.جلد خاکسار جوائنٹ پرائیویٹ سیکرٹری اور 1938ء میں پرائیویٹ سیکرٹری مقرر ہوا.چار سال تک سفر و حضر میں خاندان حضرت مسیح موعود سے گہرا رابطہ رہا.میں نے حضرت میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب میں کبر و افتخار کی بجائے بے تکلفی اور انکسار ہی دیکھا.وقار کے خلاف کوئی بات نہیں پائی.فخر الدین ملتانی اپنی بدعملی سے جماعت سے خارج ہوا.سید حبیب اللہ شاہ صاحب اور وہ غالباً ہم جماعت رہ چکے تھے.اس وجہ سے ذاتی مراسم رکھتے تھے.آپ اسے سمجھانے کیلئے آئے.انہوں نے اسے چٹھی بھجوائی تھی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سید صاحب کے پاس بھجوایا.تاچٹھی لے کر فخر الدین کو دوں اور جواب لاؤں.اس شقی ازلی نے اپنی ایک خواب کی بناء پر پہلے تو معافی مانگ لی.لیکن اگلے ہی روز تو بہ سے انحراف کر کے شقاوت کا ہمیشہ کیلئے شکار ہو گیا.سید صاحب اس وقت دار الحمد میں آپ کے پاس تھے.شدید گرمی کا موسم تھا.خاکسار حاضر ہوا تو آپ نے فورا ٹھنڈے مشروب سے میری تواضع کی.حضور سال میں دو بار سندھ کی اراضی کے معائنہ کیلئے تشریف لے جاتے تھے اور خاکسار کو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں کارکن ہونے کے وقت حضور کی خدمت میں رہنے کا موقعہ ملا.اردگرد کے احمدی احباب اپنی شکایات لے کر پہنچتے.لیکن مرحوم کے حسن انتظام اور فیاضانہ سلوک کے متعلق احباب کو رطب اللسان پایا.آپ کی خواہش پر 1945ء میں خاکسار نے آپ کی صاحبزادی کو ایک ڈیڑھ ماہ پڑھایا آخری روز بلا مطالبہ آپ کی طرف سے مجھے مناسب معاوضہ مل گیا.آپ کے والد بزرگوار کی وفات پر جنازہ اٹھنے سے پہلے تعزیت کنندگان کی مجلس میں آپ نے ان کی سیرت کے متعلق بہت سے ایمان افزا واقعات سنائے.جس سے میرے دل میں بشدت تحریک ہوئی کہ ان کے زریں سوانح قلمبند کروں.چنانچہ چند دن کے اندر میں نے آپ سے عرض کیا با وجود یکہ میں نے مضمون نویسی یا تالیف کے میدان میں کبھی قدم نہیں رکھا تھا.کہ آپ کیلئے یہ امر قابل توجہ ہوتا لیکن آپ نے بلا تامل میری درخواست قبول کر لی.گویا حوصلہ افزائی فرمائی اور عصر کے بعد کا وقت مقرر کر دیا.غالباً ان ایام میں بھی آپ نظارت علیا میں کام کر رہے تھے.وقت مقررہ پر خاکسار حاضر ہوتا.آپ دار السلام کے
127 باغ میں ٹہلتے ہوئے روایات و واقعات سناتے.بعض دفعہ از خود بھی سوالات کر لیتا.اور جوابات کے مختصر نوٹ لے لیتا اور گھر پر تفصیلاً قلمبند کر کے اگلے روز سنا دیتا.آپ میں میں نے بزرگا نہ شفقت اور برادرانہ بے تکلفی پائی.آپ کی ملاقات سے مجھے سکون قلب حاصل ہوتا.کافی دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا.ایک بار جامعہ احمدیہ سے جہاں میں لیکچرار تھا گزرتے ہوئے آپ نے مجھے اگلے روز فارغ گھنٹی میں بمعیت مکرم ملک غلام فرید صاحب ناشتہ کرنے کو کہا.ہم گئے اور ہماری تو اضع ہوئی.گو آپ کسی ضرورت کے ماتحت صبح ہی قادیان سے باہر سفر پر چلے گئے تھے.میری اہلیہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ سناتی ہیں.کہ میں قادیان سے پاسپورٹ پر پاکستان گئی واپسی پر لاہور میں ایک دن قیام ضروری تھا.میرے عرض کرنے پر کہ جو دھامل بلڈنگ میں قیام کا مناسب انتظام نہیں.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے بخوشی اجازت دے دی تھی کہ ان کے پاس رتن باغ میں ٹھہر جاؤں چنانچہ میں بچوں سمیت پہنچی.تو پہلے محترم میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب سے ملاقات ہوگئی.آپ نے اسی وقت ایک کمرہ کا انتظام فرما دیا اور یہ بھی فرمایا کہ آپ نے نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے نہ بھی پوچھا ہوتا.تب بھی آپ کے قیام کا انتظام میں کر دیتا.باجود یکہ اگلے روز ایک بچہ منٹگمری سے آتا ہوا کھانا لے آیا.لیکن آپ نے باصرار مہمان نوازی کی.اور بہت شفقت کا سلوک کیا.ان دنوں ابھی آپ پہیوں والی کرسی پر کمروں میں گھومتے تھے.اسی طرح حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے بھی مہمان نوازی کی.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء خاکسار 1955ء میں جبکہ کرکٹ کے موقع پر پرمٹ کھلے قادیان سے لاہور پہنچا.آپ سے رتن باغ میں ملاقات ہوئی.بغیر میرے عرض کرنے کے آپ نے اصحاب احمد کی مالی حالت کے متعلق فکر مندی ظاہر کر کے فرمایا کہ میں آپ کو بعض افراد کے پاس لے چلتا ہوں اور انہیں خریداری کی تحریک کرتا ہوں.چنانچہ آپ موٹر میں بعض احباب کے پاس لے گئے ایک جگہ پہنچتے ہی آپ نے ڈبہ میں سے کو رامین لے کر پی لی.حالانکہ آپ کی یہ حالت تھی کہ آپ فرماتے تھے میں ابھی چند منٹ سے زیادہ کھڑ انہیں ہو سکتا.کہ دل کو تکلیف ہونے کا خطرہ ہے اور کورامین میں ساتھ رکھتا ہوں.جب بھی ذرا خطرہ محسوس کروں پی لیتا ہوں.آپ باوجود صحت کی کمزوری کے ہمیشہ اپنے ہاتھ سے خطوط کا جواب عنایت فرماتے تھے.اپنے والد ماجد کی طرح آپ کی املاء بہت دلکش ہوتی تھی.ایک دفعہ آپ نے میری امداد کی خاطر مجھ سے اصحاب احمد کی کچھ جلد میں فروخت کرنے کیلئے
128 لیں اور باقاعدہ ان کا حساب تحریر فرماتے اور ان تمام کی قیمت ارسال فرماتے رہے.1960ء میں عید الاضحیہ کے اگلے روز خاکسار تایا جان حکیم دین محمد صاحب کی معیت میں ماڈل ٹاؤن میں کوٹھی دار السلام پہنچا.دو اڑھائی گھنٹے کے بعد بارڈر عبور کر کے قادیان آنا تھا.ملاقات ہوتے ہی آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک روایت آپ کو دینے کیلئے رکھی ہوئی ہے.جس میں ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود نے میرا رشتہ اپنی صاحبزادی محترمہ سے پسند کیا تھا.اور ایک مقفل صندوقچی منگوا کر وہ روایت عنایت فرمائی.پھر کھانا کھانے پر اصرار فرمایا.چنانچہ ہم نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا اور اجازت حاصل کی.21 یا 22 جولائی 1961 ء کو محترم صاحبزادہ مرزا امنیر احمد صاحب سے مجھے معلوم ہوا کہ آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہے اس لئے آپ اس دفعہ پہاڑ پر نہیں گئے.میں یہ سمجھتا تھا کہ حسب معمول آپ کسی پہاڑ پر گئے ہوں گے.اس لئے آپ سے ملاقات کا موقعہ نہیں نکالا تھا.چند گھنٹے بارڈ رعبور کرنے میں باقی تھے لیکن میرا دل آپ سے ملاقات کیلئے بیقرار تھا.چنانچہ موٹر رکشا پر خاکسار آپ کے پاس پہنچا.میں نے آپ کو نہایت کمزور پایا.کلے پچکے ہوئے تھے.میں دیکھ کر بہت حیران ہوا.آپ نے بھی اپنی صحت کی شدید خرابی کا ذکر فرمایا اور خاکساراجازت لے کر واپس چلا آیا.یہ میری آپ سے آخری ملاقات تھی.آپ نے خاکسار مؤلف کے ایک خط کے جواب میں دسمبر 1957ء میں رقم فرمایا اس سے آپ کی اپنے انجام بخیر اور اولا د ا حباب کے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی شدید خواہش کا علم ہوتا ہے.رقم فرمایا :.” آپ نے بالکل درست لکھا کہ ایسے بزرگوں کی جدائی کے بعد زندگی بے مزہ معلوم ہوتی ہے مجھے حضرت اماں جان کے بعد جینے کا کوئی خاص مزہ معلوم نہیں رہا.وہ محبت ، وہ درد، وہ ہمدردی ، پھر ایک بہترین نمونہ کہاں اور کس جگہ تلاش کریں.اب چند صورتیں نظر آتی ہیں جن کو دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے.لیکن ایک تسلی ہے کہ ہم بھی اب پا برکاب ہیں.حضرت مفتی صاحب گئے ، حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب رخصت ہو گئے.حضرت مولوی فضل الہی صاب چل بسے، ڈاکٹر غلام غوث صاحب چلتے بنے.اب عرفانی صاحب اور سیٹھ اسمعیل آدم صاحب نے کسر پوری کر دی.ان کے علاوہ کئی چھوٹی چھوٹی شمعیں اس سال بجھیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.سب سے بڑا فکر یہ ہے
129 جو جاتا ہے وہ اپنا قائم مقام چھوڑ کر نہیں جاتا.اس نظارہ کو دیکھ کر دل بیٹھ جاتا ہے.اور خیال آتا ہے کہ جماعت کا کیا بنے گا.لیکن صرف اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں جو ڈھارس بندھا رہے ہیں.دعاؤں 66 کی اس وقت بہت ضرورت ہے..؟؟ 12.بیان ثاقب صاحب ا خویم مولوی محمد احمد صاحب ثاقب ( پروفیسر جامعہ احمد یہ ربوہ) تحریر کرتے ہیں :.تقسیم ملک کے بعد جب آپ ناظر اعلیٰ کے طور پر جو دھامل بلڈنگ میں کام کرتے تھے مجھے آپ کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا.اور اس قلیل مدت میں ایسی باتیں دیکھنے میں آئیں جو آپ کی علوشان سخاوت اور تقویٰ کی منہ بولتی تصویر ہیں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے میں مکرم سید داؤد احمد صاحب ( حال پرنسپل جامعہ احمد یہ ربوہ ) کو تعلیم دیتا تھا.کہ ایک روز حضرت میاں صاحب موصوف نے مجھے بلوا بھیجا.میں نے شنید کے مطابق آپ کو پایا اور آپ کی سادگی ، محبت اور ہمدردانہ گفتگو نے میرے دل پر گہرا اثر کیا.کام معمولی تھا جو میں نے آپ کی ہدایت کے مطابق سرانجام دیا.لیکن آپ کبھی کبھی مجھے دفتر میں بلا لیتے.پرسش احوال فرماتے اور ہر قسم کی مالی اور دفتری امداد کا یقین دلاتے ایک روز آپ نے مجھے بلا کر بغیر میرے مطالبہ کے یکصد روپے کا چیک باوجود میرے انکار کے باصرار مجھے دیا اور فرمایا کہ آپ لوگ قادیان سے بے سروسامانی کی حالت میں آئے ہیں.ضرورت ہوگی.آپ تاکید فرماتے رہتے کہ کبھی گھر پر آجایا کروں اس طرح تعلق قائم رہتا ہے.ہمیشہ آپ موسم کے مطابق مشروب سے تواضع فرماتے اور مختلف مسائل پر گفتگو فرماتے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن احباب نے افراد خاندان حضرت مسیح موعود کو قرض دیئے ہوئے ہیں.وہ وصولی کیلئے قضاء کی طرف رجوع کر سکتے ہیں قضاء کے فیصلہ جات کے بعد میں وصولی میں مدد دوں گا.چنانچہ بعض افراد نے حضرت مرحوم کے خلاف دعاوی کئے.چونکہ مرکز ربوہ میں منتقل ہو چکا تھا.لیکن آپ لاہور میں تھے آپ نے مجھے ریکارڈ مہیا کیا.جس میں رقوم کی وصولیوں وغیرہ کے اندراجات تھے.اور فرمایا کہ گوسر کاری قانون کے مطابق یہ لوگ دعوی نہیں کر سکتے.لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں قرض اُتار دوں.ریکارڈ کے مطابق جن کے دعاوی
130 ہوں اتنی اتنی رقوم کا آپ میرے مختار کے طور پر اقرار کریں.تا کوئی شخص رقم سے زائد کا فیصلہ نہ حاصل کر سکے اور نہ کسی کا حق مارا جائے.جن لوگوں نے لحاظ کیا ہے اور دعویٰ نہیں کیا میں بھی ان کا لحاظ کر کے پہلے انہیں ادائیگی کروں گا.چنانچہ براہ راست ادائیگی کے اندراجات مجھے دکھائے اور دعاوی کی ڈگریاں ہونے پر چونکہ آپ ساری رقوم یکمشت ادا کرنے کے قابل نہ تھے.اس لئے آپ نے نظارت امور عامہ کے ذریعہ سالانہ رقم ادا کرنی شروع کی.جو نظارت بحصہء رسدی قارضین کو ادا کر دیتی.آپ اکثر بڑی حسرت سے کہتے کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں یہ قرضے اپنی زندگی میں ادا کر دوں مجھے ان کا بہت فکر رہتا ہے.میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کو تکلیف پہنچے.0 آپ اپنے احباب سے خاص ہمدردانہ سلوک فرماتے تھے.میرے بڑے لڑکے نے (جواب بفضلہ انجینئر ہے ) ایف ایس سی اعلیٰ نمبروں پر پاس کر کے یو نیورسٹی سے وظیفہ حاصل کیا.عزیز کی ذہانت کی وجہ سے اکثر ا قارب و احباب اسے انجینئر نگ کالج میں داخل کرنے کا مشورہ دیتے تھے.لیکن میری بے بضاعتی بڑی روک تھی.بعض ڈراتے کہ انجینئر نگ کالج میں پڑھا نا غریب آدمی کے بس کی بات نہیں.ابتدائی اخراجات کی رقم اہلیہ کے زیورات کی فروخت سے بھی مہیا نہ ہو سکی.آپ سے مشورہ پوچھا تو وہاں داخلہ دلانے کی نہایت تاکید کی اور فرمایا.اللہ تعالیٰ خود اسباب مہیا کر دے گا اور بہت سی مثالیں دے کر بتایا.کہ ان لوگوں نے تنگی ترشی میں اپنے بچوں کو تعلیم دلائی اور بعد میں خوشحال ہو گئے.یہ دریافت کر کے کہ رقم داخلہ میں ابھی دوصد روپیہ کی کمی ہے یہ رقم عنایت فرمائی.اور دوسال تک ہیں روپے ماہوار کی امداد فرماتے رہے.فَجَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ وَاحْسَنَ مَثْوَاهُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيم - اگر چہ آپ کے والد ماجد اور آپ عمر بھر سلسلہ کی مالی خدمت کرتے رہے.لیکن آپ کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ زندگی کے بعد بھی آپ کا کچھ مال دین کی خدمت میں صرف ہوتا رہے.ایک دفعہ آپ نے مجھے بذریعہ خط لاہور بلوا کر فرمایا کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اور تحریر کردہ وصیت دکھائی اور میرا مشورہ طلب کیا اور اسے بڑی فراخدلی سے قبول فرمایا اس وصیت میں مرقوم تھا کہ جائیداد میں سے ایک لاکھ روپیہ تعمیر مساجد کیلئے دیا جائے.اور اراضی کی آمد کا ایک حصہ ادا ئیگی قرض کیلئے مخصوص مکرم ملک غلام فرید صاحب فرماتے ہیں.کہ آپ کے تمام قرض بے باق ہو چکے ہیں جو وفات کے وقت باقی تھے.حضرت بیگم صاحبہ نے خاص توجہ سے ادا کر دئیے.
131 کیا تھا.آپ کے دل میں جو اسلام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور جو درد آپ کے دل میں موجزن تھا وہ اس وصیت سے ظاہر تھا.آخر تک آپ اسی عشق اور محبت الہی پر قائم رہے.قرآن مجید سے آپ کو والہانہ عشق تھا.اور آپ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تفسیر کبیر نہایت شوق اور محبت سے پڑھتے تھے.ایک بار مجھے بلا کر فرمایا کہ میں ایک قیمتی خزانہ سے محروم ہوں مجھے مہیا کریں.تفسیر کبیر کی پہلی جلد دستیاب نہیں.کہیں سے مہیا کریں.میں ربوہ سے اپنی جلد لے کر حاضر ہوا.جب میں نے اس کا ہدیہ لینے سے انکار کیا.تو آپ ناراض ہوئے اور باصرار دیا.13-14.دو احباب کا بیان آپ کی اراضی پر کام کرنے والے منشی فضل الدین صاحب شاہ پوری بیان کرتے ہیں کہ آپ تمام مہمانوں کی تواضع اعلیٰ کھانوں، گوشت، مرغ اور انڈوں سے کرتے تھے.ہم غریبوں کو ایسے کھانے کھلاتے جو ہم نے کبھی نہیں کھائے ہوتے تھے.اخویم محمد احمد صاحب انور حیدر آبادی ایم اے کا رکن تعلیم الاسلام کا لج ربوہ اپنا تجر بہ بتاتے ہیں.کہ مرحوم کسی ملاقاتی کو بغیر تواضع کے نہ جانے دیتے تھے.15 - تاثرات مرزا عبد الحق صاحب مرحوم کے تدین واکرام ضیف وغیرہ کے متعلق پینتیس سالہ تجر به جناب مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ (امیر صوبائی سابق صوبہ پنجاب وصدر نگران بورڈ ) ذیل کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں :.آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت خوبیوں کے مالک تھے آپ نے ایک امیر گھرانہ میں ناز و نعمت میں پرورش پائی لیکن دل کے بہت غریب تھے.اس عاجز کے ساتھ آپ کے تعلقات 1926ء کے قریب شروع ہوئے.جب اس عاجز نے گورداسپور میں کام شروع کیا اور ہر ہفتہ قادیان جایا کرتا.ایک نوابزادہ میں اور اس عاجز میں بڑا فرق تھا لیکن آپ نے کبھی اس فرق کا احساس نہ ہونے دیا اور ہمیشہ عالی حوصلگی اور حد درجہ حلم کا معاملہ کیا.آپ ان بزرگوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ پر زندہ ایمان ہوتا ہے اور اس کے آستانہ کے ساتھ اپنی ساری حاجات کو وابستہ کر دیتے ہیں.آپ ہر معاملہ میں سب سے اول دعا کی طرف
132 رجوع کرتے اور اپنے دوستوں کو بھی نہایت عاجزی کے ساتھ دعا کی درخواست کرتے.یہ آپ کے ایمان کا تقاضا ہوتا.جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے آپ کے اندر پیدا فرمایا تھا.آپ دعاؤں میں بہت تضرع اور زاری سے کام لیتے تھے.آپ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا بڑا مزا لے کر ذکر کرتے رہتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لخت جگر سے آپ کی شادی نے خاص طور پر آپ میں جذبات تشکر و امتنان پیدا کئے.کئی دفعہ آپ اظہار شکر میں آبدیدہ ہو جاتے.آپ ہمیشہ فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اس تعلق کی وجہ سے آپ پر دونوں طور سے بڑے فضل فرمائے ہیں دینی طور سے بھی اور دنیوی لحاظ سے بھی.آپ کی صالحیت عنفوان شباب سے ہی آپ کے چہرہ پر پورے طور سے نمایاں تھی آپ کے تقویٰ کا اظہار آپ کے ہر کام سے ہوتا.میں نے ہمیشہ آپ کو تقویٰ پر قائم دیکھا.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ آپ مہمان نوازی کا اعلیٰ جذبہ رکھتے تھے.جب بھی ملتے یہی خواہش فرماتے کہ ساتھ چلیں اور چائے یا کھانے میں شریک ہوں.قادیان میں میں عام طور پر شہر والے نئے مہمان خانہ میں رہتا تھا.آپ اس زمانہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی کوٹھی دار الحمد میں اقامت پذیر تھے.ایک مرتبہ آپ نے میرا سامان و ہیں منگوالیا.مہمان نوازی کا پورا حق ادا فرماتے.ایک شام کو میں گورداسپور سے آیا تو سردی زیادہ تھی.مجھے گرم جرابوں کی ضرورت نہ ہوتی تھی اور آپ کیلئے یہ بات جائے تعجب تھی.آپ اسی وقت اندر سے ایک نیا عمدہ گرم جرابوں کا جوڑا لائے اور فرمانے لگے کہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے آپ کے پاؤں میں ڈالنی ہیں.میں نے ہر چند انکار کیا لیکن آپ کی بات ماننی پڑی اور آپ نے خود وہ جوڑا اس عاجز کو پہنایا.یہ عجیب شفقت اور عاجزی کا اظہار تھا.اللہ تعالیٰ آپ پر بے انتہا فضل فرمائے.ایک دو ماہ تک ہر ہفتہ آپ کے پاس رہنے کے بعد میں نے عذر کیا.کہ چونکہ سلسلہ کے بعض کام میرے سپرد ہیں.اور دوستوں کو دور آنے میں تکلیف ہوتی ہے.اس لئے مجھے مہمان خانہ میں ہی واپس جانے کی اجازت دیں.آپ نے بہت تامل کے بعد اجازت عطا فرمائی.لیکن اس کے بعد بھی ہمیشہ دعوتوں کا سلسلہ جاری رہا اور اس میں بہت خوشی محسوس کرتے.
133 آپ دینی کاموں میں خوب حصہ لیتے.چندہ بہت بڑھ چڑھ کر دیتے اور یقین رکھتے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کشائش عطا فرماتا ہے.پاکستان میں آجانے کے بعد آپ ایک بڑا لمبا عرصہ بیمار رہے.لیکن اس میں بڑے صبر اور رضا برضائے الہی کا نمونہ دکھایا.اس طویل بیماری میں حضرت بیگم صاحبہ نے آپ کی جو بے حد خدمت کی.اس کا آپ کی طبیعت پر بہت ہی گہرا اثر تھا.اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمتیں ہوں اس پر اورس کے اہل وعیال پر.آمین 16.بیان مختار عام آپ کی اراضی سندھ کے مختار عام منشی عزیز احمد صاحب ساکن موضع پھیر و هیچی نزد قادیان کا بیان وقیع ہے کہ حضرت مرحوم کے خلوت و جلوت اور سفر و حضر میں آپ کے حالات انہیں مدت مدید تک بنظر غائر جائزہ لینے کا موقع ملا.منشی صاحب کا اس خاندان سے 21-1920ء سے تعلق ہے.آپ بیان کرتے ہیں :.حضرت میاں صاحب کی شکل جوانی میں بھی مومنانہ تھی.پابند شریعت، منکسر المزاج، مسکراتے ہوئے بات کرنے والے، صاف بات کہنے میں نڈر، صاف گو، سادگی کا یہ عالم کہ اگر کوئی پیچیدہ بات کرے تو اس کی پیچیدگی کو سمجھ ہی نہ سکتے تھے.دو تین بجے بیدار ہو جاتے اور تہجد نہایت خشوع سے ادا کرتے.بعد فراغت اذان تک کیلئے استراحت فرماتے.نماز فجر با جماعت ادا کر کے پھر کچھ عرصہ آرام فرماتے اور پھر ناشتہ سے پہلے یا بعد بالالتزام تلاوت فرماتے.ایک دفعہ آپ مسجد نور میں معتکف بھی ہوئے ایک اور معتکف حضرت سید مہدی حسین صاحب کو بھی کھانا مہیا فرماتے.آپ کا لباس سادہ ہوتا تھا.شلوار قمیص اور شیروانی اور مشہدی لنگی اور سفر میں اکثر برجس اور افسران سے ملاقات کے وقت بہترین بر جس زیب تن فرماتے جس سے آپ کا رعب اور وجاہت دوبالا ہوتی.ایک دفعہ آپ مع اہل بیت صبح سیر سے واپس لوٹے تو ایک معمر شخص نے جس کے کپڑے میلے کچیلے تھے عند الملاقات حضرت بیگم صاحبہ کا بھی خیال نہ کیا کہ پاس ہیں آپ کا ہاتھ پکڑے رکھا اور اصرار کیا کہ وہ معانقہ کریں گے.چنانچہ اس خاطر کہ ان کی دل شکنی نہ ہو.آپ نے ان کی بات مان لی.آپ دل شکنی کا خیال کر کے ہر ملاقاتی کو فوراً ملاقات کا وقت دیتے.آپ کی شدید علالت میں نصرت آباد میں ایک صاحب نے ملاقات پر اصرار کیا.آپ نے فرمایا کہ میں اس وقت نہیں مل سکتا.
134 لیکن پھر مجھے بلا کر کہا کہ ملاقات کرا دو مبادا دل شکنی ہو.وفات کے سال آپ نہایت کمزور ہو چکے تھے.بعض اوقات آپ گفتگو کرنے کے قابل بھی نہ ہوتے.ایک بزرگ آئے جوا قارب میں سے بھی تھے اور بے تکلف بھی اور نبض دیکھ کر کہنے لگے کون کہتا ہے آپ بیمار ہیں.فرمایا بخار نہیں بلکہ دل کی تکلیف ہے.آپ نے باوجود تکلیف کے نہ برا منایا.نہ معذرت چاہی آخر حضرت بیگم صاحبہ کے کہنے پر میں نے ملاقاتی کو رخصت کیا.یتامی ، بیکسوں، غرباء اور غریب طالب علموں کی مالی مدد کرتے.اقارب اور پرانے خدمتگاروں سے حسن سلوک کرتے.آپ بلند پایہ مہمان نواز تھے.ایک دفعہ حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت میر محمد الحق صاحب، حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال وغیر ہم گیارہ احباب کوٹھی دار السلام میں آئے.آپ نے انہیں بٹھلایا اور گرمی کے باعث پانی منگوایا اور اندر پیغام بھجوایا کہ بارہ افراد کے لئے کھانا بھجوادیں.ان احباب کے انکار پر اصرار کے باوجود کھانا کھلایا.دراصل تواضع میں آپ کے اہل بیت کا پورا تعاون آپ کو حاصل تھا.اس موقع پر میں حیران تھا کہ سارا کھانا تو تناول کرنے کیلئے جا چکا ہے.اب اتنی جلدی کھانا کیسے ملے گا.لیکن کھانا جو چند منٹ پہلے اندر بھیجا گیا تھا.جوں کا توں مع اچار، چٹنی ، مربہ ، دہی، مکھن ، شکر آ گیا.معلوم نہیں آپ کے اہل بیت اور چاروں بچوں اور خادمات وغیرہ نے کیا کھایا ہوگا.میں 50-1949ء میں سندھ سے آپ کی عیادت کیلئے آیا.آپ نے ناشتہ منگوایا.مٹھائی وغیرہ کے ساتھ ایک پیالہ میں چائے آئی.آپ احساسات کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ فرمایا.آپ محسوس کرتے ہوں گے کہ پیالہ میں چائے کیوں دی ہے.بات یہ ہے کہ ہم قادیان سے کچھ نہیں لا سکے.یہاں صرف ایک سیٹ خریدا ہے جو خالی نہیں اس میں بیگم صاحبہ کا ناشتہ رکھا ہے وہ ساری رات میری تیمار داری کر کے اب سو رہی ہیں.آپ کو صدر انجمن احمد یہ کیلئے خرید اراضی کیلئے سندھ بھجوایا گیا.آپ نے اس ذمہ داری کو نہایت محنت اور جانفشانی سے سرانجام دیا.بعض دفعہ ہیں پچیس میل روزانہ اونٹ پر سفر کرنا پڑتا.میں سوچتا کہ میں تھک کر چور ہو گیا ہوں نہ معلوم آپ جیسے ناز پروردہ کا کیا حال ہوگا.لیکن آپ نے کبھی تنگی محسوس نہیں کی.بلکہ بلا ناغہ تہجد پڑھتے.فرماتے کہ جماعتی کام ہے اس لئے سلسلہ کا خرچ نہایت کفایت سے ہونا چاہئے.سادہ غذا پر قناعت کرتے ایک دفعہ مرکز سے آمدہ ایک ذمہ دار
135 دوست کے ساتھ کراچی حکام سے ملاقات کیلئے گئے.سفر میں اس دوست سے میں نے ذکر کیا کہ کھانا ہوٹل سے لانا ہے.انہوں نے اس کی بجائے ریفریشمنٹ میں آرڈر دے دیا اور بیرا سے جھگڑا کیا کہ فلاں چیز باسی تھی.میں بل نہیں ادا کروں گا.آپ نے بل ادا کر دیا اور ان سے فر مایا کہ میں تو اسی لئے معمولی غذا پر اکتفا کرتا ہوں کہ ایک تو سلسلہ کا خرچ کم ہو دوسرے اس طرح کے لوگوں سے واسطہ نہ پڑے.خرید اراضی کی تکمیل کے بعد پہلے احمد آباد اسٹیٹ میں گندم کی کاشت کرائی گئی.اس طرح آپ کو کئی ماہ وہاں قیام کرنا پڑا.آپ موسم گرما کا بستر لے کر گئے تھے اور اس خیال سے کہ جلد چلے جانا ہے موسم سرما کا بستر تیار نہ کروایا.لیکن سردی اُترنے سے آپ کو تکلیف ہو رہی تھی ایک روز میں نے اپنی تو شک و غیرہ بستر کے نیچے ڈال دی.اس رات فرمایا کہ اب سردی کم ہوگئی ہے.روانگی کے وقت بستر بندھوانے لگے تو انہیں علم ہوا کہ اس تو شک کی وجہ سے سردی میں کمی آئی تھی اور متاسف ہوئے کہ مجھے تکلیف ہوئی ہوگی.آپ نے ساڑھے پانچ ہزار ایکڑ اراضی ضلع نواب شاہ میں حاصل کی تھی.لیکن حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر آپ نے اس کا تبادلہ کرا کے نصرت آباد والی اراضی حاصل کی اور جس دوست کو مینیجر مقرر کیا انہیں فرمایا کہ میرے اور آپ کے درمیان اللہ تعالی ضامن ہے.اگر آپ میرا حق کسی کو یا کسی کا حق مجھے دیں گے تو بارگاہ الہی میں آپ ذمہ وار ہوں گے.اس منتظم دوست کو بعض شرائط کے پورا کرنے پر سولہواں حصہ دینے کا آپ نے وعدہ کیا تھا.وہ شرائط نہ پوری ہوئی تھیں.اس بناء پر عدم استحقاق کا مشورہ بعض احباب دیتے تھے.لیکن آپ نے پھر بھی اپنا وعدہ پورا کر دیا.1956ء میں آپ نے سفر سندھ ایسی حالت میں کیا کہ اپنا تابوت تیار کروایا اور پاس رکھا مجھے لکھا کہ مجبوراً میں یہ سفر کر رہا ہوں.اس لئے حیدر آباد پہنچنا اور سفر کے عرصہ میں ہمارے پاس رہیں.بیگم صاحبہ ساتھ ہوں گی.چنانچہ حیدر آباد پہنچ کر میں نے استقبال کیا.فرمایا کہ سندھ کا یہ میرا آخری سفر ہے.چونکہ میں چاہتا ہوں کہ تمام حصہ داروں کو ان کے حصے اپنی زندگی میں دے دوں اور یہ کام میرے یہاں آئے بغیر مکمل نہ ہو سکتا تھا.اس لئے میں آیا ہوں.میں اپنا حصہ فروخت کر دوں گا کیونکہ اس سے بہت قلیل آمدنی ہوتی ہے.چند دنوں بعد میں نے آپ دونوں سے ذکر کیا کہ بڑی محنت سے آپ نے یہ اراضی حاصل کی ہے.آپ اسے ٹھیکہ پر دے دیں.اس طرح جائیداد بھی بنی
136 رہے گی.چنانچہ دونوں نے یہ تجویز قبول کر لی اور میرے ذریعہ ہی ٹھیکہ کی تکمیل ہوئی.واپسی پر آپ مجھے لاہور لے گئے اور ایک ماہ اپنے پاس رکھ کر مجھے واپسی کی اجازت دی اور ایک ماہ میں میرے نام مختار نامہ بھجواتے ہوئے تحریر کیا کہ میں بھروسہ کر کے مختار نامہ بھجواتا ہوں.اگر انکار کرو گے تو میری پریشانیوں میں اضافہ ہوگا.سو اس وقت سے میرے سپرد یہ خدمت ہے.آپ شدید تکلیف میں بھی اُف، ہائے وغیرہ نہ کہتے.فرماتے حضرت بیگم صاحبہ کو میری تکلیف سے بھی بڑھ کر تکلیف ہوتی ہے.جون یا جولائی 1961ء میں ایک شام آپ کو شدید پیٹ درد ہوگئی آپ نے اپنے پاس مجھے ٹھہر نے کو کہا ایک ایک منٹ بعد بے چینی سے آپ کروٹ لیتے.کبھی ایک کبھی دوسری دوائی استعمال کرتے اور فرماتے کہ آہٹ نہ ہو.مبادا بیگم صاحبہ بیدار ہو جائیں.مجھے بار بار کہتے کہ سو جاؤ.مجھے بھلا نیند کیسے آتی.بالآخر تین بجے آپ کو نیند آئی.تو میں بھی فرش پر پاس ہی سو گیا تا کہ عند الضرورت جلد بیدار ہو جاؤں.پھر نماز فجر کے وقت باہر چلا گیا.آپ 8 بجے کے قریب بیدار ہوئے تو خادمہ سے میرے متعلق دریافت کیا اور فرمایا کہ وہ ساری رات جاگتے رہے ہیں اس نے کہا کہ وہ ناشتہ کر رہے ہیں.چند گھنٹے بعد مجھے بلایا اور کہا کہ میری راتیں اکثر ایسی گزرتی ہیں.آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ میری زندگی کا کیا اعتبار ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ ایسی حالت میں مجھے اگر زندگی کی خواہش ہے تو صرف اور صرف اس لئے ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ مہلت دے تو بقیہ زندگی بیگم صاحبہ کی خدمت کر کے ان کی خدمت کا کچھ صلہ ادا کرسکوں.میرے بعد ان کی خدمت میں کو تا ہی نہ کی جائے.میرا چار ماہ قیام رہا.آپ اور حضرت بیگم صاحبہ کے منشاء کے مطابق کہ اراضی کا کام ضروری ہے.16 اگست کو مجبوراً میں سندھ روانہ ہوا.اور 19 ستمبر کو ربوہ میں آپ کی تابوت میں زیارت ہوئی.اللہ تعالیٰ آپ کو اعلی علیین میں جگہ دے اور آپ کے پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.آمین آپ کو خاندان حضرت مسیح موعود سے والہانہ عشق تھا.شیر خوار بچہ تک کی آپ عزت کرتے.آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے.کہ حضرت والد صاحب کے ذریعہ قادیان سے روحانی تعلق قائم ہوا جبکہ غیر احمدی اقارب لہو و لعب میں مشغول ہیں اور دین کی ان کو پرواہ نہیں.حضرت بیگم صاحبہ نے جو آپ کی خدمت کی تھی.آپ اس کے بے حد شکر گزار تھے اس کا ذکر کر کے آپ پر رقت طاری ہو جاتی تھی.بیگم صاحبہ کی شب و روز کی خدمت اور علاج معالجہ میں جدو جہد میں کسی قسم کی کمی با وجود
137 ڈاکٹروں کی مایوسی کے نہیں کی.بارہ تیرہ سال متواتر چوکسی کے ساتھ خدمت کرنا معمولی امر نہیں.میں نے اس پاک جوڑے میں ایک دوسرے سے تعاون ، محبت، ہمدردی ، احترام و تکریم اور ایثار دیکھا اور باوجود اتنے قرب کے اور اس بارہ میں غور کرنے کے میں فیصلہ نہیں کرسکا کہ دونوں میں سے کس کا پلڑا بھاری تھا.“ 17.بیان ملک محمد عبداللہ صاحب اخویم ملک محمدعبداللہ صاحب سمبڑ یا لوی فاضل لیکچرار تعلیم الاسلام کا لج ربوہ بیان کرتے ہیں کہ :." آپ متمول ہونے کے باوجود بہت متواضع، خلیق ، مہمان نواز اور ملنسار تھے.ایک دفعہ آپ نے مجھے بڑی معذرت کے ساتھ کہا کہ فلاں آپ کے واقف دوست کے پاس ضروری کام کیلئے آپ کو سیالکوٹ بھجوانا ہے.میں نے عرض کیا کہ وہ کاروبار کیلئے کہیں باہر ہوں گے.فرمایا آپ ان کا ایڈریس لے آئیں.چنانچہ میں لے آیا.آپ نے تکلیف دہی پر معذرت فرمائی اور مشروب سے تواضع کی.اور چند دن بعد خوشی کا اظہار کر کے فرمایا.کہ ایڈریس کی وجہ سے ان صاحب کا حسب منشاء جواب آگیا ہے.ایک دفعہ ماڈل ٹاؤن میں مجھے کلیمز کے تعلق میں آپ نے بلایا ہوا تھا.بعد عشاء ایک ہم جماعت کے آنے کی اطلاع ملی.ہماری مصروفیت کے باعث فرمایا.صبح ناشتہ پر ملاقات ہوگی اور قیام و طعام کا انتظام کروا دیا.ناشتہ پر مہمان کے متعلق دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ کسی کام سے شہر چلے گئے ہیں.آپ نے فرمایا مجھے اطلاع دی ہوتی.یہ تو اچھی بات نہیں اسے جانے کیوں دیا.جلدی جاؤ وہ بس سٹاپ پر ہوں گے.چنانچہ خادم سائیکل پر جا کر انہیں لے آیا.آپ بہت تپاک سے ملے.ساتھ ناشتہ کرایا اور بار بار پوچھا کہ آپ ناشتہ کے بغیر کیوں چلے گئے اور پھر گیٹ تک الوداع کہنے گئے.وہ صاحب بہت سادہ اور دیہاتی وضع کے تھے.ان کے جانے کے بعد میں نے پوچھا کہ آپ اپنے ہم مکتب کی ملاقات سے بہت خوش ہوئے ہیں.کافی سال اکٹھے پڑھے ہیں.فرمایا میری یادداشت میں اب تک نہیں آئے.انہوں نے ہم مکتب ہونے کا جو کہا ٹھیک ہوگا.اسی لحاظ سے میں نے خاطر مدارات کی ہے.ٹھیکہ دار علی احمد صاحب ساکن ربوہ کے تعلق میں وکیل نے کہا کہ قادیان کا نقشہ آبادی مطلوب
138 ہے.میں نے حضرت مرحوم کا ذکر کر کے کہا کہ وہاں سے مل سکتا ہے.باوجود میرے کہنے کے کہ وہ بیمار ہیں وہاں دس بجے شب ہم پہنچ سکیں گے.لیکن انہوں نے کہا کہ معاملہ اہم ہے.چنانچہ ہم چلے گئے خادم نے بتایا کہ بیمار ہیں اور شب خوابی کے کمرہ میں جاچکے ہیں.میں اطلاع نہیں دے سکتا.لیکن ہماری گھنٹی کی آواز پر آپ نے خادم کو بلا کر دریافت کیا اور ہمیں بٹھلا نے کو کہا اور کمبل اوڑھے لباس شب میں تشریف لے آئے اور فوراً نقشہ آبادی لا دیا.اور اصرار کیا کہ ہم وہیں قیام کریں اور صبح ناشتہ کے بعد جائیں.لیکن ہم کام کی وجہ سے معذرت کر کے واپس آگئے.“ 18.بیان مولانا ابوالعطاء صاحب محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری بیان فرماتے ہیں.کہ حضرت مرحوم حاجتمندوں اور غرباء سے بے تکلفی اور جذبہ اخوت سے پیش آتے تھے.خدام سلسلہ سے خاص محبت سے ملتے.بعد درس بھی دینی مسائل پر گفتگو کرتے اور افاضہ علم سے خوشی محسوس کرتے.دینی کتب کا مطالعہ کرتے.لباس صاف لیکن نہایت سادہ ہوتا حضرت حافظ روشن علی صاحب کی بہت تکریم کرتے اور حافظ صاحب بھی بہت محبت کرتے تھے.جب ناظر اعلیٰ تھے تو آپ کی بشاشت سے زخمی دل مہاجروں کو بہت آرام پہنچا.آپ کی گفتگو سے خدا تعالیٰ یاد آتا تھا.سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ کے مطابق ان کے چہرہ سے انوار نمایاں تھے.“ 19.تاثرات مولوی ظہور حسین صاحب مکرم مولوی ظہور حسین صاحب سابق مجاہد بخارا بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے مجھے بچوں کی دینی تعلیم کیلئے لاہور بلوایا.پھر ساتھ ہی سندھ لے گئے.موسمی تعطیلات کے اختتام کے قریب فرمایا کہ حضرت بیگم صاحبہ متاسف ہیں کہ اب آپ کے جانے سے درس کا سلسلہ بند ہو جائے گا.نہایت توجہ سے اعلیٰ کھانا بھجواتے اور خیال رکھتے دینی مسائل دریافت کرتے رہتے اس امر کا جوش رکھتے تھے کہ جس قدر جلد ممکن ہو قرضہ جات سے سبکدوش ہوں.فرماتے تھے کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی نصیحت کے مطابق احمدی رشتہ کے حصول کیلئے دعائیں کیں.ایک پٹھان بزرگ نے جن سے میں دعا کرواتا تھا.خواب دیکھا کہ ایک تین کونوں والا باغ ہے جس کے دو کو نے تو سوکھ
139 گئے ہیں.مگر تیسرا کو نہ نہایت سرسبز و شاداب اور پھلوں پھولوں والا ہے.اس کی تعبیر بعد میں سمجھ آئی کہ میرے دونوں سگے بھائیوں کی شادیاں غیر احمدی خاندانوں میں ہوئیں اور وہ اولاد سے محروم رہے.اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اولاد در اولا د عطا کی.20 بیان مولوی نور الحق صاحب اخویم ابوالمنیر مولوی نور الحق صاحب پروفیسر جامعہ احمد یہ بیان کرتے ہیں.اگست 1947ء میں جب قادیان کے ماحول میں سکھ مسلم فسادات شروع ہوئے تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خواتین خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جن میں حضرت ام المومنین بھی شامل تھیں.لاہور بھجوا دیا.اس قافلہ کے ساتھ حضرت میاں عبداللہ خان صاحب، ملک سیف الرحمن صاحب ( مفتی سلسله)، مولوی محمد احمد صاحب جلیل (پروفیسر جامعہ احمدیہ )، چوہدری محمد صدیق صاحب (لائبریرین خلافت لائبریری) کو بھی حضور نے لاہور بھجوایا.کچھ دن بعد حضور بھی لاہور تشریف لے آئے اور آپ نے جو دھامل بلڈنگ میں اجلاس کر کے صدرا انجمن احمد یہ پاکستان کی بنیا د رکھی اور ناظر اعلیٰ حضرت مرحوم کو مقرر فرمایا.خاکسار ناظر آبادی اور رکن انجمن مقرر ہوا.اس وقت سے آپ کو قریب سے دیکھنے کا مجھے موقعہ ملا اور آپ کی بعض منفردانہ خصوصیات نظر آئیں.آپ بلا ناغہ دفتر تشریف لاتے.اور ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے اندر روز کا جمع شدہ کام ختم کر دیتے.ہجرت کے بعد کا قریبی عرصہ جماعت کیلئے بہت ہی نازک تھا.قادیان میں تو سب دفاتر پوری طرح قائم ہو چکے تھے.لیکن ہجرت کے بعد از سر نو اُن کی بحالی کی مثال ایسی ہی تھی.جیسے کسی بڑے درخت کو جو آندھی سے گر جائے.کھڑا کر کے اسے پھر تر و تازہ بنانے کی کوشش کی جائے گویا صدر انجمن کے کام کو قادیان والے کام کے معیار پر پہنچانے اور اس بارہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی فکر مندی کو دور کرنے کیلئے محنت شاقہ درکار تھی.آپ نے اس بارہ میں حضور کی امیدوں کو پورا کیا.حضور نے دور اندیشی سے 1947 ء کے فسادات کے آغاز میں ہی صدر انجمن میں موجود احباب کی امانتیں اور ان کے حساب کے رجسٹرات لاہور بھجوا دیئے تھے اور محاسب وافسر خزانہ مرزا عبد الغنی صاحب کو بھی.مصیبت زدہ مہاجر امانتیں حاصل کر نے کو بے تاب ہوتے لیکن عملہ نا کافی تھا.دقت ہوتی جو نبی کوئی آپ کے پاس آتا.آپ فورا ساتھ ہو لیتے.اور بعض دفعہ حساب جلدی
140 میں نہ مل سکتا.تو اپنی شخصی ضمانت پر روپیہ دلوادیتے تا تکلیف نہ ہو.ربوہ کی اراضی خریدی جارہی تھی.آپ منع محترمہ بیگم صاحبہ جارہے تھے.مجھے بھی چلنے کو فرمایا.شیخ مسعود رشید صاحب انجینئر مرحوم اپنی موٹر پر خود ڈرائیو کرتے ہوئے روانہ ہوئے.اگلے روز لائل پور میں اپنے بھائی خان مسعود احمد خان صاحب کے ہاں قیام ہوا.بوقت تہجد میں بیدار ہوا.تو حضرت ممدوح کو لوٹا لئے پندرہ منٹ سے منتظر کھڑا پایا.فرمایا میں نے یہ خیال کر کے کہ آپ تہجد کے عادی ہیں.پانی نہ پا کر پریشان ہوں گے.اٹھتے ہی پانی لایا.لیکن جگایا نہیں کہ تکلیف نہ ہو اور انتظار کرنے لگا.حقیقت ہے کہ ثمر دار شاخ کی طرح جھکنا آپ نے شیوہ بنا رکھا تھا.اسی لئے لوگ آپ کے گرویدہ تھے.آپ تحائف بھجواتے تھے.جو دھامل بلڈنگ میں آپ نظارت علیا کے دفتر میں تشریف فرما تھے اور خاکسار بھی آپ کے پاس ہی بیٹھا تھا کہ فرمانے لگے آج میرے معدہ میں کچھ تکلیف ہے جس کی وجہ سے دل کو بھی تکلیف ہورہی ہے.پھر نظارت علیا کے کارکن سعید اللہ صاحب کو ارشا د فرمایا کہ فوراً گھر سے دوائی لائیں.لیکن دوائی لانے میں کچھ دیر ہوگئی تو آپ خود دفتر سے گھر کیلئے نکل پڑے اور جو نہی رتن باغ پہنچے بیہوش ہو کر گر پڑے.ڈاکٹروں کے آنے پر معلوم ہوا کہ آپ کو دل کا دورہ ہوا ہے.ڈاکٹری ہدایت کے مطابق آپ کو کافی عرصہ تک بستر پر آرام کرنا پڑا.لیکن چونکہ دین کی خدمت کرتے ہوئے آپ بیمار ہوئے تھے.اس لئے بیماری کا سارا عرصہ دینی خدمت شمار ہوتا ہے.آپ اپنے اہل بیت کی دن رات کی خدمت کا ذکر کر کے شکر گزار ہوتے.فرماتے تھے کہ قرآن مجید میں جنتی بیویوں کے جس قدر اوصاف بیان ہوئے ہیں.وہ سب آپ میں موجود ہیں.مجھے آپ کی شفایابی کے متعلق خواب آیا.ایک بار آپ نے مجھے فرمایا کہ آپ کی خواب میری صحت یابی سے پوری ہو گئی.21.بیان مولانا محمد جی صاحب محترم مولانا محمد جی صاحب ہزاروی فاضل ( سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ ) بیان فرماتے ہیں.کہ ” آپ تہجد گزار ، مستجاب الدعوات، صحابہ کرام سے تعلقات رکھتے تھے.چنانچہ حضرت منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی کے پاس گھنٹوں آ کر آپ بیٹھتے ، دعا کراتے ،مشورے کرتے ، آپ مخیر طبع تھے.ایک شخص کو اس کی مالی حالت سنوارنے کیلئے دکانداری کیلئے بہت سا روپیہ دیا.اس سے وہ خرچ ہو گیا اور شرمندگی کے باعث بھاگ گیا.آپ کو افسوس ہوا کہ بھاگنے کی اس کو ضرورت نہ تھی.چند
141 سال بعد اس سے ملاقات ہوئی.تو نہایت شفقت سے اس سے پیش آئے جس سے اس کا خوف جاتا رہا.“ 22.ماموں زاد بھائی کی نظر میں آپ کے یک جدی نیز ماموں زاد بھائی جناب خان رشید علی خاں صاحب مقیم 137 ڈی ماڈل ٹاؤن لا ہور خلف کرنل اوصاف علی خان صاحب مرحوم آپ کے اخلاق عالیہ کے متعلق رطب اللسان ہیں.وہ رقم فرماتے ہیں.غالباً 1942ء یعنی دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا.بھائی جان دہلی میں اپنے ماموں کرنل اوصاف علی خان صاحب سی آئی ای (والد صاحب مرحوم) کے مکان واقعہ نمبر 17 دریا گنج میں مقیم تھے.سیٹھ مالک رام بہت بڑے دولتمند ٹھیکہ دار تھے.کسی دوست کے ذریعہ سے بھائی جان سے ان کی ملاقات ہوئی.سیٹھ مالک رام ان کے اخلاق فاضلہ اور اوصاف حمیدہ سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ خواہش ظاہر کی کہ ان کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو جائیں.مگر بھائی جان نے سیٹھ صاحب کو کہا کہ وہ اس قسم کے کاروبار کا رجحان ہی نہیں رکھتے مگر سیٹھ صاحب ان کے اخلاقی کردار کی وجہ سے اتنے متاثر ہوئے تھے کہ ان کی تمام شرائط کو تسلیم کر کے ان کو اپنے ساتھ کاروبار میں شریک کرلیا.چنانچہ بھائی مرحوم نے مجھے دہلی بلایا اور آپ کی خواہش کے مطابق اس کاروباری شرکت میں ان کے بعض فرائض کی ذمہ داری میں نے قبول کر لی.گورنمنٹ کو فوجی ضروریات کا سامان مہیا کرنے کا کام تھا.اور یہ بڑے پیمانہ پر ہو رہا تھا.محکمہ انکم ٹیکس کو پیش کرنے کیلئے کاروباری آمد وخرچ کے گوشوارے سیٹھ صاحب نے تیار کرنے تھے.چنانچہ انکم ٹیکس میں کچھ فائدہ حاصل کرنے کے واسطے سیٹھ صاحب نے عام کاروباری فرموں کی طرح کچھ اس قسم کا حساب تیار کر وایا جو حقیقت سے مختلف تھا اور انہوں نے انتہائی کوشش کی کہ بطور حصہ دار بھائی جان بھی اس سٹیٹمنٹ پر دستخط کر دیں.مگر انہوں نے اس سے قطعی انکار کر دیا اور فرمایا کہ انہوں نے اپنی تمام عمر ایک پیسہ بھی اپنے حق کے علاوہ اور ناجائز حاصل نہیں کیا اور وہ اپنے آپ کو اس قسم کے ناجائز کاموں کے اہل نہیں پاتے.باوجود اس حقیقت کے کہ بھائی جان مرحوم نے اس کا روبار میں کافی منافع حاصل کیا تھا اور آئندہ بھی بہت بڑے منافع کی توقعات تھیں مگر اس واقعہ کے بعد بھائی جان کی جو بہت پاک باطن بزرگ تھے طبیعت اس کا روبار سے نفرت محسوس کرنے لگی اور چند ہی ایام کے بعد آپ نے اس شراکت اور کاروبار سے
142 علیحدگی اختیار کر لی.نواب بازید خاں ان کے اور ہمارے جد امجد تھے اور ہمارے دونوں گھرانے نواب بازید خاں کی اولاد ہیں.اور پھوپھا جان نواب محمد علی خانصاحب کی ایک بہن محترمہ حسینی بیگم صاحبہ ہمارے ایک تا یا صاحب کے نکاح میں تھیں اور بھی بہت سے رشتے آپس میں مدت سے چلے آرہے تھے پھوپھا جان کی ایک بہن محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ والد صاحب مرحوم کی خالہ زاد بہن ہونے کے علاوہ والد صاحب قبلہ کی ساس بھی لگتی تھیں.چونکہ ہمارے والد کی شادی ان کی سوتیلی بیٹی محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ بنت نواب عنایت علی خان صاحب سے ہی ہوئی تھی.اور بچپن میں جب والد صاحب قبلہ کی دس سال کی عمر تھی.ہمارے دادا صاحب خان بہاول خان صاحب کا انتقال ہو گیا تھا.اس وقت پھوپھا جان کی عمر 19 سال کی تھی.چنانچہ والد صاحب کی سرپرستی اور تعلیم کی نگرانی محترم پھوپھا جان نے اپنے خالو اور خسر کے انتقال کے فوراً بعد اپنے ذمہ لے لی ان بہت سارے خونی اور جدی رشتوں کے علاوہ نو جوانی کی یکجائی نے دونوں کو اس قدر ایک دوسرے سے مانوس اور قریب کر دیا تھا اور اس درجہ محبت تھی کہ پھوپھا جان کے ذریعہ سے ہی والد صاحب محترم بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.مالیر کوٹلہ کے افغانوں کے شیروانی خاندان میں صرف حضرت نواب صاحب اور والد ماجد کے دو ہی گھرانے احمدیت پر قائم رہے.الحمد للہ بہت سے دیگر عزیز احمدی ہوئے تھے مگر ان کو استقامت حاصل نہ ہوئی اور اکثر نے تعلق چھوڑ دیا.یہاں تک کہ قبلہ پھوپھا جان کے سگے بھائی نواب سر ذوالفقار علی خان صاحب مرحوم کے گھر میں بھی احمدیت داخل نہ ہوسکی.حالانکہ وہ ان کو بہت اہتمام سے تبلیغ فرماتے رہے.والد محترم کی قادیان میں اراضی تھی جو کہ انہوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم سے خریدی تھی اور سٹیشن قریب ہونے اور شہر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے وہ زرعی سے سکنی بن گئی تھی.اس اراضی کی فروخت کا والد صاحب نے اشتہار دیا تو معلوم ہوا کہ بھائی جان مرحوم بھی اس کو خریدنے کے خواہش مند ہیں.مجھے یاد ہے اس زمانہ میں ہمارے پھوپھا جان حضرت نواب محمد علی صاحب بیمار تھے.(والد صاحب کے وہ سگے خالہ زاد بھائی بھی تھے اور سگے بہنوئی بھی یعنی ہماری دوستگی پھوپھیاں ان کے نکاح میں آئیں ) جب والد صاحب کو پھوپھا جان کی بیماری کی خبر دہلی میں ملی.تو وہ اس قدر بے چین ہوئے کہ فوراً قادیان روانہ ہو گئے خاکسار بھی ہمراہ
143 قادیان گیا.ان ہی ایام میں بھائی عبداللہ خانصاحب کی بات چیت اراضی کے متعلق ہوئی اور غالباً ساٹھ ہزار روپیہ میں زمین کا سودا طے ہو گیا اور جہاں تک مجھے یاد ہے بھائی جان نے کچھ رقم بطور بیعانہ دے بھی دی.چند روز بعد پھوپھا جان کی علالت تشویشناک صورت اختیار کر گئی اور آپ کا انتقال ہو گیا.کچھ دن ٹھہر کر والد صاحب نے یہ سمجھ کر کہ میاں عبداللہ خاں صاحب کی ذمہ داریوں کی نوعیت نواب صاحب کے انتقال کے بعد کچھ مختلف ہو گئی ہے کہا کہ میاں اگر آپ سودا کو منسوخ کرنا چاہیں تو کر لیں.مگر بھائی جان نے فرمایا کہ ماموں صاحب! میں نے یہ سودا جب آپ سے کیا ہے تو انشاء اللہ وعدہ کو نبھاؤں گا.میرے تو تمام سودے اللہ تعالیٰ کے تو کل پر ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر کام میں فائدہ ہی بخشتا ہے.چنانچہ حسب وعدہ 1946ء میں بقایا رقم ادا کر دی اور فرمانے لگے مجھے اس سودے میں بے حد منافع رہا اور میں نے پلاٹ بنا کر زمین سے خوب فائدہ حاصل کیا.اور بہت اچھے داموں پر فروخت کی.اس طرح خدا تعالیٰ تمام عمران کی نیک نیتی اور دیانتداری کی وجہ سے ان کو خوب نوازتا رہا.میرے چھوٹے بھائی میجر بشیر احمد خان صاحب کو میاں عبداللہ خان صاحب نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کا ایک رؤیا سنایا.کہ ایک سڑک پختہ جارہی ہے اور ان کے پانچ کھیت ہیں دو سڑک سے مشرقی جانب ہیں جو سوکھ گئے ہیں اور تین جو اس سے بجانب مغرب ہیں.وہ سرسبز وشاداب ہیں.فرمایا کہ حضرت والد صاحب فرماتے تھے کہ ان پانچ کھیتوں سے اشارہ ان کے پانچ بیٹوں کی طرف ہے جن میں سے تین خدا کے فضل سے سرسبز ہیں یعنی وہ تین جن کو حضرت مسیح موعود سے ایک خاص روحانی اور جسمانی تعلق کا شرف حاصل ہوا.عزیز میجر بشیر احمد خان صاحب نے بتایا کہ ایک دن مجھے کہہ رہے تھے.کہ میں نے اپنا وجود درمیان سے بالکل ہی مٹادیا ہے اور بیگم صاحبہ جو کہ حضرت مسیح موعود کی صاحبزادی ہیں ان کی وجہ سے جو کچھ میرا تھا وہ اب مٹ چکا سب کچھ حضرت مسیح موعود کی برکت کا ظہور ہے.سبحان اللہ یہ حقیقت ہے کہ محترمہ بھا وجہ صاحبہ نے 12-13 سال جس شب و روز کی جانفشانی اور وفاداری سے حضرت بھائی جان کی خدمت کی ہے اور ان کی طویل بیماری میں پروانہ وار ان پر شار ہوئی ہیں.اس کی مثال فی زمانہ مالی دشوار ہے.جزاها الله أَحْسَنَ الْجَزَاء (الفضل 22 اکتوبر 1961ء)
144 23.تاثرات انور صاحب اخویم مولوی عبدالرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری سید نا حضرت امیر المومنین بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک بار ذکر فرمایا کہ ہمیں جو اللہ تعالیٰ نے مالی فراخی عطا فرمائی ہے ہمارا فرض ہے کہ ایسے قناعت پسند غرباء کا خیال رکھیں جو سوال سے محتر ز رہتے ہیں.ایک روز لا ہور میں ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ یہ ایک صد روپیہ فلاں صحابی کو دے دیں.ان کا خط ربوہ سے عرصہ بعد آیا ہے جس سے مالی تنگی مترشح ہوتی ہے.سلسلہ کیلئے سندھ میں خرید اراضی کیلئے آپ نے ساری اراضی کا جائزہ لیا.اور جو کی روٹی اور لسی پر گزارہ کرتے رہے.مجھے محمود آباد اسٹیٹ میں ایک دفعہ ایک جال ( ون ) کا درخت دکھلا کر فر مایا کہ ابتداء میں مجھے کئی بار اس درخت کے نیچے بسیرا کرنا پڑا.سندھیوں کا آپ سے اُنس اس امر سے ظاہر ہے کہ حضور کی اراضی نواب دی بنی کے نام سے مشہور تھی.گویا وہ آپ کے احسانات سے اس قدر دبے ہوئے تھے.آپ کی اراضی محمد آباد اسٹیٹ کے قریب تھی آپ اس اسٹیٹ کی بہتری کیلئے بھی کوشاں رہتے اور مینیجر صاحبان کو تجارب بتاتے رہتے.یہ معلوم کر کے کہ اس کی آمد ایک لاکھ روپیہ سے کم ہے.آپ نے سلسلہ کے فائدہ کیلئے ایک لاکھ روپیہ سالانہ ٹھیکہ پر لینے کی پیش کش کی تھی.بوقت تقسیم ملک میں ابھی قادیان میں تھا اور میری اہلیہ لاہور آ چکی تھیں زچگی کے ایام کے قرب کا آپ کو علم ہوا.تو آپ نے تسلی دی اور جو دھا مل بلڈنگ میں ایک الگ کمرہ آپ نے دلوادیا.حالانکہ آپ نے اس کی امید ایک اور خاندان کو دلائی ہوئی تھی.جنہیں آپ نے اور جگہ دلا دی.ان ایام میں قریبی اقارب بھی ہمدردی نہ کرتے تھے اور اس بلڈنگ میں ایک ایک کمرہ میں کئی کئی خاندان رہائش پذیر تھے.میرے آنے پر فرمایا کچھ برتن موجود ہیں اگر ضرورت ہو تو لے لیں اور متعلقہ کا رکن کو لکھ دیا.چونکہ بے سروسامانی میں قادیان سے نکلنا ہوا اور خرید کی بھی توفیق نہ تھی اس لئے میں نے چند ایک برتن حاصل کر لئے.قادیان کی جدائی کا صدمہ حواس باختہ کرنے کو کافی تھا.پھر آپ جو آرام و آسائش سے محروم ہوئے تھے آپ کو تو بہت صدمہ ہونا چاہئے تھے.لیکن آپ راضی برضا ر ہتے اور نہایت دلجمعی سے دفتری اوقات کے بہت بعد تک باوجود اعزازی کارکن ہونے کے کام کرتے رہتے فرماتے تھے کہ
145 جب تک میں کسی معاملہ کو خود نہ دیکھ لوں اور خود ہی رپورٹ نہ لکھوں مجھے تسلی نہیں ہوتی.“ 24.ایک وکیل کی ناقدانہ نظر میں محترم شیخ نور احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور جو آپ کی مترو کہ جائیداد کے تعلق میں آپ کے قانونی مشیر تھے.ان کی ناقدانہ نظر میں آپ اور آپ کے اہل بیت تقویٰ کے اعلیٰ مقامات پر فائز پائے گئے.شیخ صاحب رقم فرماتے ہیں :.” آپ کی وفات حسرت آیات کے صدمہ کو وسیع طور پر انفرادی اور جماعتی سطح پر محسوس کیا گیا ہے.آپ کے اخلاق حمیدہ تعلق باللہ اور ہر شعبہ زیست میں متقیا نہ خصائل ایسے امور ہیں کہ جن کی بناء پر بلا تامل کہا جا سکتا ہے کہ ایسے انسان جہانِ حاضر میں بہت کم ہو سکتے ہیں.مجھے بحیثیت وکیل آپ کی خدمات بجالانے کا شرف حاصل ہوا.اس لحاظ سے آپ کے محاسن واخلاق کے بعض پہلو ایسے ہیں کہ جن کا مطالعہ کرنے کا موقعہ غالبا خاکسار سے زیادہ کسی کو نہ ملا ہوگا.1947ء میں قادیان سے ہجرت کے معا بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمد یہ مسجد بیرون دہلی دروازہ میں ایک خطبہ جمعہ کے دوران افراد جماعت احمد یہ لا ہور خصوصاً بعض نوجوانوں کے متعلق ایسے مصیبت کے وقت میں بے اعتنائی کا رویہ اختیار کرنے کا ذکر فر مایا.میں ان دنوں لاء کالج میں متعلم تھا.مگر تعطیلات گرما کے باعث صرف 18 روز پیشتر ایک فوجی افسر کی نوازش سے آرڈینینس ڈپو لاہور چھاؤنی میں بطور سینئر کلرک دو ماہ کیلئے ملازم ہوا تھا.حضور پر نور کی مقدس زبان سے یہ الفاظ سنتے ہی دل میں ارادہ کر لیا کہ جمعہ کی نماز کے فوراً بعدا اپنی خدمات رضا کارانہ طور پر پیش کر دوں گا.چنانچہ نماز سے فارغ ہوتے ہی متعلقہ دفتر میں استعفی لکھ کر بھیج دیا اور جودھامل بلڈنگ پہنچ کر دفتر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.جو ان دنوں ناظر اعلیٰ تھے آپ کے مشفقانہ استفسار پر خاکسار نے اپنے کوائف اور ارادہ کا اظہار کیا.تو بہت خوش ہوئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا.کہ ابھی مولوی صاحب ناظر انخلاء کی طرف سے ایک کارکن کیلئے شدید مطالبہ ہورہا تھا.ایک آدمی کو میرے ساتھ بھیجا.جس نے دفتر کے کمرہ سے نکلتے ہی مذاقاً کہا کہ آپ کی ڈیوٹی تو بیت الخلاء میں لگی ہے.وہ ایام اور وقت ایسا تھا کہ میں ایسے مذاق سے محظوظ ہونے کے موڈ میں نہ تھا.ناظر صاحب نے مجھے فرمایا کہ دو تین چوہڑے لے کر سیمنٹ بلڈنگ کو صاف کراؤ اور چوہڑوں
146 کیلئے غالباً دو تین روپے بھی دیئے وہاں جا کر دیکھا تو ہر منزل، ہر کمرہ سیٹرھیاں غرض ہر جگہ کو مہاجرین نے واقعی بیت الخلاء بنارکھا تھا اور خوفناک تعفن پیدا ہو چکا تھا.خاکسار اور دونوں خاکروبوں نے مل کر دو اڑھائی گھنٹے میں صفائی کی اور پھر دفتر آکر رپورٹ پیش کی.عین اس وقت اتفاقاً جناب شیخ بشیر احمد صاحب ( حج ہائی کورٹ لاہور ) تشریف لے آئے اور مجھے دیکھ کر مذاقاً کہا کہ سناؤ بھئی would be وکیل تمہارا کیا حال ہے.یہ سنتے ہی مولوی صاحب حیران سے ہو گئے اور مجھے دفتر نظارت علیاء میں واپس کر دیا.حضرت نواب زادہ صاحب کو میں نے سارا واقعہ عرض کیا.تو آپ خوب ہنسے مگر ساتھ ہی فرمایا کہ مجھے سخت فکر اور غم لگا ہوا تھا کہ سیمنٹ بلڈنگ میں غلاظت کے باعث بچے اور عورتیں کسی بیماری کا شکار نہ ہو جائیں.اب مجھے اطمینان ہو گیا ہے اس وقت آپ کا دلر با تبسم اور جذبات اتقا کا اختلاط عجیب قسم کا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا.کہ آپ کے دل و دماغ پر جہاں داغ ہجرت کا جانگد از احساس مستولی ہے.وہاں خدا کے مامور رسول کی تخت گاہ اور راحت بھرے نشیمن سے دست قدرت کے اڑائے ہوئے طیور کی آسائش و آرام اور بہبودی کا جذبہ بھی موجزن ہے.آپ ان دنوں انضباط اوقات کو دفتر میں بالکل ملحوظ نہ رکھتے تھے.بلکہ ایک لحاظ سے چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی سرانجام دیتے تھے.کیونکہ سارا دن مختلف دفتروں میں مختلف امور کے متعلق سرکاری حکام یا دیگر لوگوں سے ملاقاتیں کرنا پڑتی تھیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا.کہ ابھی آکر بیٹھے ہیں کہ ایک فون آگیا.جس کو سنتے ہی پھر چلے گئے یا حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کسی ہنگامی کام کیلئے بلوا بھیجا.اس طرح عشاء کے وقت تک تو میں نے عموماً آپ کو کام کرتے دیکھا.آپ کی طبیعت میں عجیب قسم کا سکون تحمل، بردباری، کیفیت اتقاء، حسن صورت و سیرت ، جذ به اخوت و ہمدردی اور مفوضہ فرائض کی سرانجام دہی میں انتھک سعی اور استغراق پایا جاتا تھا.اس جگہ ایک اور امر کا ذکر کرنے کو دل تو نہیں چاہتا.کیونکہ تصور کرنے پر صدمہ سا محسوس ہوتا ہے مگر باعتبار سیاق وسباق ذکر کرنا لازمی ہے.بعض دفعہ بعض احباب کی طرف سے اعراض و اعتراض ، قلت تعاون اور بے رخی کا نمونہ محسوس اور معلوم ہونے کے باوجود آپ کے حسن عمل اور حسن اخلاق میں فرق نہیں آتا تھا.ایسے افراد سے پھر بھی برادرانہ انداز اور تلطف سے پیش آتے تھے.غالباً دو تین دن اپنے دفتر میں رکھنے کے بعد حضرت نواب صاحب نے مجھے ایک اور نواب
147 صاحب کی خدمت میں بطور معاون ناظر بھیج دیا.یہ حضرت نواب محمد دین صاحب تھے.جو ان دنوں ناظر دعوت وتبلیغ تھے.اس سے پہلے ان سے تعارف نہ تھا.حسن اتفاق سے دونوں نواب صاحبان کا حسن انتخاب عمل میں آیا تھا.عمر کے لحاظ سے ایک جوان اور دوسرے ضعیف العمر مگر جنون مومنانہ، فعالیت، جذبہ ایثار اور انتھک عملی زندگی کے اعتبار سے دونوں میں فرق قائم کرنا مشکل تھا.حضرت نواب محمد دین صاحب سارا سارا دن اپنی رفاقت شعار شیور لے کار میں مختلف النوع جماعتی امور کی تکمیل کے سلسلہ میں متعلقہ دفاتر اور محکمہ جات میں افسران مجاز سے ملاقاتیں کرتے تھے.اور خاکسار کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے اور ساتھ ساتھ مختلف امور نوٹ کراتے جاتے.آپ اللہیت اور حسنِ اخلاق اور در عشق احمدیت کا نمونہ تھے.تعطیلات کے اختتام پر اور فسادات کی حالت اچھی ہونے پر لاء کالج میں پڑھائی شروع ہوگئی.تو اس خیال سے کہ کام کی شدت اور وسعت بھی کم ہو چکی تھی.میں نے حضرت نواب صاحب سے مناسب الفاظ میں ذکر کیا.تو آپ نے محبت بھرے دعائیہ الفاظ میں رخصت کیا.وکالت شروع کرنے کے بعد پہلی دفعہ 1950ء میں ایک مقدمہ کے تعلق میں حضرت میاں عبد اللہ خان صاحب کی خدمت کرنے کا موقعہ پیدا ہوا.آپ ان دنوں شدید بیمار اور رتن باغ میں متواتر صاحب فراش رہتے تھے.آپ نے اس مقدمہ کے سلسلہ میں بھی اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کا نمونہ دکھایا.یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان دنوں خاکسار کو بہت دفعہ حاضر خدمت ہونے کا موقعہ ملا.دن کا کوئی حصہ ہو جب بھی وہاں گیا یہی معلوم ہوا کہ حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ آپ کی خدمت میں ہر آن موجود ہیں.اور صرف وہ چند منٹ دوسرے کمرہ میں تشریف لے جاتیں.جبکہ خاکسار آپ سے گفتگو کر رہا ہوتا.خاکسار 1950 ء سے لے کر متواتر بحیثیت وکیل مختلف مقدمات میں آپ کی خدمت بجالاتا رہا.آپ قانونی پہلو رکھنے والے ہر معاملہ میں مشورہ حاصل کرنے کو بہتر خیال فرماتے تھے میں علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے ہر امر میں اور ہر مرحلہ پر تقویٰ اللہ کوملحوظ رکھا.ایک دفعہ ایک کیس میں ایک بیان تحریری دینے کے متعلق میں نے ایک ایسی بات suggest کی کہ جس سے مفہوم ابهام آمیز اور مفید مطلب ہو سکتا تھا اور اصطلاحی لحاظ سے جھوٹ کی تعریف میں بھی نہ آتا تھا.مسکراتے ہوئے مگر شدت سے فرمایا.لیکن کیا تقویٰ ہے.؟ لاشعوری طور پر دل میں رقت سی پیدا
148 ہوگئی اور میں نے محسوس کیا کہ واقعی خدا تعالیٰ کے فرستادہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق فرزندی نصیب ہونا اسی کیفیت کا متقاضی ہے مگر میں نے عرض کیا کہ اس طرح بلا وجہ لاکھوں روپے کا نقصان ہونے کا امکان ہو سکتا ہے.فرمانے لگے خواہ لاکھوں کا نقصان ہو.میں تقویٰ اللہ کے خلاف کوئی اقدام کرنے کو تیار نہیں.یہ امر قابل ذکر ہے کہ آپ کبھی کسی عدالت میں پیش نہ ہوتے تھے.اور طبعی طور پر یہ ایسا رجحان تھا.جو واقعی آپ کے شایان شان تھا اور نہ ہی کسی قسم کا تحریری بیان دینے پر خوش ہوتے تھے.مگر حقیقی واقعات کی بناء پر بحث واستدلال کی تیاری میں خاکسار کے دفتر میں دو دو گھنٹے بیٹھ کر تعاون فرماتے تھے.ایک اور وجد آفرین اور روحانیت آموز واقعہ یاد آیا.ایک کیس کے سلسلہ میں آپ کے اہل بیت کا بیان عدالت کے مقرر کردہ اہل کمشن کے ذریعہ قلمبند کرانے کی ضرورت لاحق ہوئی اور معلوم ہوا کہ وہ بختی سے سچ بولنے پر عمل کرتی ہیں.جب ان کو اشارہ یہ کہنے کی کوشش کی گئی کہ اس طرح آپ کے کسی عزیز کو نقصان ہو سکتا ہے اور ایسا بیان دینے میں کوئی حرج نہیں.انہوں نے فرمایا کہ خواہ میرے کسی عزیز ترین عزیز کا لاکھوں روپیہ کا نقصان ہو جائے.مگر میں کسی امر کے متعلق کوئی ایسا بیان دینے کو تیار نہیں کہ جس میں ذرہ بھی شک واشتباہ کا امکان پایا جائے.صرف وہ بات کہ سکتی ہوں کہ جس کا مجھے ذاتی طور پر یقینی علم ہے.کچھ دنوں کے بعد حضرت میاں صاحب کو ملنے کا اتفاق ہوا.چونکہ کافی بے تکلفی ہو چکی ہوئی تھی.اس لئے میں نے اس واقعہ کا ذکر کیا کہ اس روز بیگم صاحبہ نے تو بہت سختی سے کام لیا.اس پر آپ نے فرمایا اوہو! آپ حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم کو اور ان کے روحانی مقام کو نہیں جانتے.الفاظ حضرت اور سیدہ سن کر میں مسکرایا.کیونکہ ایک خاوند کے منہ سے ان الفاظ کا استعمال باعث استعجاب تھا.میرے استعجاب کو فوراً بھانپ گئے فرمایا میں آپ کی معنی خیز مسکراہٹ کا مطلب سمجھ گیا.جب سے میری وابستگی اس مقدس وجود کے ساتھ ہوئی ہے.میں نے کبھی اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا کہ گو وہ میری wife ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی اور شعائر اللہ میں سے ہیں.میں تو محسوس کرتا ہوں کہ میں کما حقہ ان کی قدر نہیں کر سکا.اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں ان کا تا زندگی کامل طور پر احترام کرتا رہوں.اس اظہار کے وقت دونوں کے جذبات کی کیفیت کچھ اور ہو گئی اور آنکھوں سے آنسو جھانکنے لگے.اسی طرح آپ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ذکر فرماتے تو حضرت میاں بشیر احمد صاحب کہتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
149 کی غلامی نہیں بلکہ حضور کے خاندان کی غلامی بھی آپ کیلئے باعث افتخار تھی.ایک دفعہ الفضل میں محترم و معظم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بالقابہ کا ایک مضمون مولوی عبدالمنان عمر کی اس چھٹی کے جواب میں شائع ہوا.جو انہوں نے چوہدری عبداللہ خاں صاحب مرحوم کی وفات پر لکھی تھی.اتفاقاً اس دن خاکسار آپ کو ایک مقدمہ کے سلسلہ میں ملنے گیا.تو آپ اس وقت اس مضمون کو پڑھنے کے نتیجہ میں خاص روحانی کیفیت وسرور سے سرشار تھے.مجھے فرمایا کہ سرش شہر واپس جا کر فلاں فلاں تین اہم شخصیتوں کو یہ مضمون آج ہی پڑھانا اور ان کو تاکید کرنا کہ بار بار پڑھیں اور اپنی ذہنی کیفیات کی اصلاح کریں.آه ! چشم اشکبار اب صرف تصور سے اس مقدس چہرہ کو دیکھ سکتی ہے.روز روز نہ تو ایسی روحانی شمعیں فروزاں ہوتی ہیں اور نہ ہی ایسے روحانی پروانے پیدا ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور بلند سے بلند روحانی درجات عطا کرے.آمین 25.ایک قدیمی خادم کے تاثرات الفضل 13-14اکتوبر 1961ء) رمیاں رحم دین صاحب جو حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے قدیمی ملازم تھے.اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے سفر یورپ 1924ء میں ہمرکاب رہے بیان کرتے ہیں کہ :.ہم چند افراد میاں عبداللہ خان صاحب اور ان کی بہن اور بھائیوں کی خدمت پر مقرر تھے.یہ سب بہت پیار محبت سے رہتے تھے.میاں صاحب موصوف سب میں زیادہ با ہمت، دلیر اور جراتمند تھے.اور حضرت نواب صاحب کو ان سے پیار بھی بہت تھا.مرحوم اپنے والد صاحب کی بات سنجیدگی اور متانت سے مانتے.عدم توجہی اور گستاخی آپ کے رویہ میں نہ تھی.والد کے کچھ کہنے پر میاں عبدالرحمن خان صاحب رو پڑتے تھے.میاں عبداللہ خان صاحب کا رجحان بچپن سے مذہبی تھا.ا اپنے ملازموں کے ساتھ بہت محبت اور حسن سلوک سے پیش آتے تھے.آپ کے ابتدائی اساتذہ حکیم محمد زمان صاحب، حافظ روشن علی صاحب اور بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی تھے.جو اکثر سفر و حضر میں ہمراہ رہتے تھے اور آپ نے انہی سے تربیت حاصل کی تھی اور آپ ان سے بہت عزت و تکریم سے پیش آتے تھے.میٹرک تک ہمیں اچھی طرح دیکھنے کا موقعہ ملا.آپ سے کوئی قابل
150 اعتراض امر ہوتے نہیں دیکھا.یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ بچہ دنیوی نہیں بلکہ دینی ذہنیت کا مالک اور مذہبی ماحول کا پروردہ ہے.آپ حضرت خلیفہ اول کے درس میں باقاعدگی سے شامل ہوتے تھے.آپ اپنے اہل بیت سے بہت عزت و اکرام سے پیش آتے تھے.اور بیان کرتے تھے کہ میری دینی و دنیوی ترقی اسی پاک خاتون کے طفیل ہے.جسے اپنے والد بزرگوار کے باعث برکت حاصل ہوئی ہے.ان کی مرضی کو ہمیشہ مقدم جانتے.ہم نے کبھی باہمی اختلاف نہیں دیکھا کوئی بات ہوتی بھی تو آپ خاموشی اختیار کر لیتے.آپ ان کے پسند کئے ہوئے کھانے پر خوشی کا اظہار کرتے.آپ اپنی اولا د کیلئے مجسم نیک اسوہ تھے.کوئی فعل خلاف شرع آپ سے سرزد نہ ہوتا تھا.بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے.جو بچہ دینی امور میں سست ہوتا آپ سخت ناراضگی کا اظہار فرماتے.بایں ہمہ أكْرِمُوا أولادَكُمُ کے مطابق اپنی اولاد کا پورا احترام آپ کوملحوظ رہتا تھا.والدین کا بھی آپ پوری طرح احترام کرتے تھے اپنی کھلائیوں یعنی دایہ، ماما اور دیگر خدمتگاروں سے بھی بہت عزت سے پیش آتے تھے.اور ان کی بھی اطاعت و فرمانبرداری کرتے تھے.ہمیشہ ان سے حسن سلوک اور محبت سے پیش آتے تھے اسی وجہ سے خدام کے دلوں میں بھی آپ کیلئے بہت جذبہ تھا.ان کو بھی اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھا لیتے تھے.آپ کھانے پینے میں بہت سادگی پسند تھے.نفاست پسند تو ضرور تھے.لیکن کسی کھانے کو نا پسندیدگی کی نظر سے نہ دیکھتے تھے.البتہ حساس بہت تھے نقص کو فور اسمجھ لیتے جبکہ دوسروں کو اس کا خیال تک نہ ہوتا.آپ اکثر احباب کو کھانے میں شامل کر لیتے تھے.کھانے کے انتظامات میں آپ بہترین منتظم ثابت ہوئے.اس وجہ سے آپ کے والد ماجد پارٹیوں اور کھانے کی دعوتوں اور مہمانوں کے قیام کے انتظام بالعموم آپ کے سپرد کرتے تھے.آپ بڑی توجہ، تندہی اور خوش اسلوبی سے اسے سرانجام دیتے تھے.ایک دفعہ آپ کے والد ماجد سے ان کے ایک دوست سردار جو گندر سنگھ نے جو پنجاب میں وزیر تھے کہا کہ اپنے بچوں کو بھجوائیں تو میں اعلیٰ ملازمتیں دلوا دوں گا.حضرت نواب صاحب نے میاں عبد الرحمن خان کا نام لیا.تو سردار صاحب نے میاں عبد اللہ خاں صاحب کو بھجوانے کیلئے کہا.لیکن نہ صرف حضرت نواب صاحب نے بلکہ میاں صاحب موصوف نے بھی انکار کیا اور کہا کہ میں دنیوی ملازمت کا خواہش مند نہیں.اول تو میں سلسلہ کی خدمت کروں گا، ورنہ تجارت.آپ کو تجارت کا
151 ابتداء سے بہت شوق تھا اور دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ کرتے تھے اور اپنے کام میں محنت اور شوق سے توجہ کرتے تھے.اور حقدار کا حق ادا کرتے تھے.“ 26.تاثرات جلیل صاحب اخویم مولوی محمد احمد صاحب جلیل پر و فیسر جامعہ احمد یہ ربوہ تحریر کرتے ہیں کہ :.قادیان سے ہجرت کے بعد خاندان حضرت مسیح موعود کا بیشتر حصہ اور حضرت نواب صاحب رتن باغ لاہور میں رہائش پذیر تھے.اور بہت سے احمدی کنبے قریب کے مکانات جسونت بلڈنگ اور سیمنٹ بلڈنگ وغیرہ میں فروکش تھے.ان دنوں خاکسار بھی جسونت بلڈنگ کے ایک حصہ میں مقیم تھا.اور پنجگانہ نماز کیلئے رتن باغ میں آتا اور حضرت نواب صاحب سے اکثر ملاقات کا اتفاق ہوتا.ایک دفعہ آپ نے اپنے صاحبزادہ پاشا صاحب کے متعلق ( جو اس وقت آٹھ دس سال کے ہوں گے ) فرمایا کہ یہ انگریزی مدرسہ میں تعلیم پاتے ہیں.جہاں دینیات پڑھانے کا انتظام نہیں.دینیات پڑھانے کا کوئی استاد آپ تلاش کر دیں.اور استاد کے انتخاب کے تعلق میں کچھ ہدایات بھی دیں.جن کا مفہوم یہ تھا کہ اگر چہ نو عمر بچے کو پڑھانا ہے تاہم استاد ایسا ہونا چاہئے جو عربی اور دینیات کا اچھا عالم ہو، تنگ مزاج اور سخت طبع نہ ہو.جس سے بچہ متوحش ہو جائے.بلکہ نرمی سے بچے کو مانوس کر کے پڑھانے والا ہو.اور تھوڑا تھوڑ اسبق دے تاکہ بچہ اکتا نہ جائے.نیز خاص طور پر فر مایا کہ نیک آدمی ہو.میں نے مختلف اوقات میں کئی افراد کے نام پیش کئے لیکن آپ ہر بار کوئی اور آدمی تجویز کرنے کو فرماتے.آخر ایک دفعہ مجھے فرمایا کیا آپ خود کچھ وقت نہیں دے سکتے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں تو حاضر ہوں اور یہ بھی سمجھتا ہوں کہ مجھے اتنی عربی اور دینیات آتی ہے کہ صاحبزادہ صاحب کو پڑھا سکوں.لیکن آپ کی ایک شرط بہت کڑی ہے جس پر میں پورا نہیں اترتا.آپ نے تعجب سے پوچھا کہ وہ کونسی شرط ہے میرے عرض کرنے پر کہ نیک آدمی ہونے کی شرط میں پوری نہیں کر سکتا.آپ نے خوش ہو کر ہنستے ہوئے فرمایا کہ یہی تو نیکی ہے کہ انسان اپنے آپ کو نیک نہ سمجھے.آپ کے اصرار پر میں کچھ عرصہ تعلیم دیتارہا.“ 27.جنید ہاشمی صاحب اخویم جنید ہاشمی صاحب بی اے ( سپر نٹنڈنٹ دفتر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ ) لکھتے ہیں کہ
152 حضرت مرحوم مسجد نور میں تشریف لاتے.اگر نوجوان غفلت کے باعث ابھی کھیل رہے ہوتے اور ان کی نماز مغرب باجماعت ضائع ہو جانے کا خطرہ ہوتا.تو آپ انہیں مسجد میں لے آتے.ایک دفعہ شام کے جھٹ پٹے میں ہم میں سے بعض نے کوٹھی کے باغ میں سے پھل توڑنے چاہے آپ نے دیکھ پایا اور بلاتے ہوئے کہا کہ اندر آ کر پکے ہوئے پھل کھاؤ.آپ نے مسکراتے 66 ہوئے سب کی جھولیاں پھلوں سے بھر دیں.یہ خاموش اور لطیف طر ز نصیحت تھی.“ 28.بیان سید سجاد علی صاحب ا خویم سید سجاد علی صاحب ( ابن سید علی احمد صاحب انبالوی صحابی ) بیان کرتے ہیں کہ حضرت مرحوم کے ساتھ قرب کا تعلق ہمارے خاندان کو رہا.میاں عباس احمد خان صاحب کی رضاعت کیلئے حضرت ام المومنین نے والدہ محترمہ غفور النساء بیگم صاحبہ کو سنور سے ماموں قریشی محمد حسین کو کہ کر منگوایا.دو بہنوں کی پرورش و ہیں ہوئی.اور حضرت مرحوم نے ہی شادی کے اخراجات برداشت کئے.ایک کا رشتہ بھی خود ہی تجویز کیا.اور کوٹھی دارالسلام میں ہی رخصتی کرائی.والدہ صاحبہ محترمہ قادیان میں قریباً روزانہ آپ کے ہاں جاتی تھیں.مشاورت وغیرہ کے موقعہ پر جبکہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی آمد متوقع ہوتی انہیں چپاتی پکانے کیلئے بلوالیا جاتا.اکتوبر میں ہجرت کر کے ہم رتن باغ پہنچے نفسانفسی کا عالم تھا.لنگر خانہ سے قیمت پر کھانا حاصل کرنے کی توفیق نہ تھی.آپ نے منتظم لنگر خانہ کو اپنے حساب میں کھانا دینے کو لکھ دیا میں آپ کی شفقت سے اس قدر بیباک ہو گیا کہ آپ کے نام پر میں بعض دیگر عزیزوں دوستوں کو کھانا عرصہ تک کھلاتا رہا اور یہ تمام اخراجات آپ ادا فرما دیتے.ایک دفعہ صرف اس قدر فرمایا کہ چند دن کیلئے کھانے کیلئے کہا گیا تھا.لیکن معلوم ہوتا ہے ابھی یہ سلسلہ جاری ہے.1952ء میں ملتان شہر کی ایک فلور مل کا 1/4 حصہ آپ کو الاٹ ہوالیکن سابق الائی قبضہ نہ دیتے تھے.اس کا انتظام بطور مینجنگ الا نیز آپ کے اور ایک دوسرے صاحب کے سپر د تھا.میاں عباس احمد خاں صاحب نے مجھے وہاں متعین فرمایا.آپ صاحب فراش تھے.حصہ داروں کے نزاع کی وجہ سے اس مل کے حالات مایوس کن تھے.کوئی آمد نہ تھی.لیکن معاہدہ کے مطابق آپ نے اس میں سرمایہ لگایا اور ہمیشہ تاکید فرماتے کہ کسی کا حق نہ لیا جائے.اگر کوئی بد نیتی اور معاہدہ شکنی کا مرتکب ہو تو
153 ہو.ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہئے.ایک دفعہ کوئلہ منگوانے کیلئے ایک خطیر رقم آپ نے اپنے پاس سے ادا کر دی.لیکن یہ آرڈر منسوخ کرانا پڑا اور رقم بھی جلد نہ مل سکی.مجھے شدید خوف تھا کہ آپ بہت ناراض ہوں گے.لیکن آپ نے خط لکھا کہ آپ نے کوشش کر لی.اگر رقم نہیں ملی تو کوئی بات نہیں.اس وقت آپ کی شدید علالت کے علاوہ آپ کو مالی پریشانی بھی لاحق تھی.دیگر حصہ داروں کی وجہ سے فلور مل پر لگایا ہوا کچھ روپیہ ضائع ہوا اور ایک خطیر رقم متنازع ہوکر روک لی گئی.انتظامیہ میں آپ کے شریک جو الیس پی ریٹائرڈ تھے انہوں نے ایسا مشورہ دیا جو معاہدہ کے خلاف اور کاروباری لحاظ سے بھی درست نہ تھا.تو آپ نے شرکت سے انکار کر دیا.ان صاحب نے اس بات کا مجھ سے ذکر کر کے یہ اعتراف کیا کہ آپ بہت با اصول، دیانتدار اور متقی ہیں.نا جائز ذرائع سے کچھ بھی لینا نہیں چاہتے.جب 1955ء میں سات آٹھ سال بعد آپ آخری بار نصرت آباد تشریف لائے تو ہم بہت سے افراد حیدر آباد دسندھ کے سٹیشن تک استقبال کیلئے گئے.فضل بھمبر وسٹیشن سے نصرت آباد اسٹیٹ تک سڑک بنا کر دور و یہ جھنڈیاں لگا دی تھیں.اور دور دراز سے آمدہ احباب.....دونوں طرف کھڑے تھے.آپ نے یہ دیکھ کر مجھے فرمایا کہ تمہاری شرارت ہے.اس کی کیا ضرورت تھی.عرض کیا کہ احباب پر آپ کے جو احسانات ہیں اور ان کو آپ کی صحت اور آمد سے خوشی ہے.اس کا اظہار ہے.آپ کی آمد سے عجیب بابرکت ماحول پیدا ہو گیا.آپ ہر ایک سے اس کے حالات دریافت کرتے.اور دامے درمے سخنے مدد فرماتے.جماعت کے تنظیمی و تربیتی امور کا آپ نے جائزہ لیا.وصولی چنده ، نماز با جماعت، تعلیم و تدریس وغیرہ میں جہاں بھی کمی تھی اسے پورا کیا اور پوری نگرانی کی.مجھے قائد کو مجلس خدام الاحمدیہ کے بارے میں توجہ دلائی.چنانچہ بفضلہ تعالی اس سال دیہاتی مجالس میں ہماری مجلس اول قرار پائی.اور جلسہ سالانہ پر سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سند خوشنودی عطا فرمائی.آپ بیٹھ کر نماز میں ادا کرتے اور بوجہ ضعف امام کے ساتھ رکوع وسجود نہ کر سکتے تھے.ایک نوجوان نے ایک چٹھی کے ذریعہ امام الصلوۃ کی اتباع کے متعلق ارشاد نبوی کی طرف متوجہ کیا.آپ نے جوا با تحریر فرمایا کہ میں بیمار ہوں اور امام سبک خرام.میں اتباع کی مزید کوشش کروں گا.ہم سب آپ کی نرم گفتاری اور وسعت قلبی پر حیران تھے.کوئی اور امیر شخص ہوتا.تو اعتراض پر ناراض ہوتا.
154 آپ لٹریچر کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے اور سلسلہ کیلئے بہت غیرت رکھتے تھے.اور رات کو حضرت مسیح موعود کا منظوم کلام اور کلام محمود کی نظمیں بھی سنتے تھے.وہاں بیت الخلاء زمین دوز تھی.لیکن آپ کیلئے کموڈ تھا.جسے ٹاہلی یا نبی سر روڈ ریلوے سٹیشن کا خاکروب روزانہ صاف کرتا.لیکن کسی وجہ سے وہ دو تین دن نہ آسکا آپ نے کئی بار توجہ دلائی.باوجود کوشش کے دوسری جگہ سے بھی نہ مل سکا اور آپ کی تکلیف کا احساس کر کے میں نے اور چوہدری محمد دین صاحب مینیجر نے باہر لے جا کر اسے صاف کر دیا.اور آپ کو اطلاع کر دی آپ نے اصرار کر کے دریافت کیا اور معلوم ہونے پر فرمایا کہ آپ کا کام نہیں تھا.جب عرض کیا کہ آپ واجب التعظیم بزرگ ہیں.اپنے باپ کا کام کرنے سے عار نہیں ہونا چاہئے.تو چندے سکوت کے بعد فرمایا لیکن تم سید ہو اس لئے قابل عزت ہو اور میں تمہاری عزت کرتا ہوں.حسن تدبیر، نظم اوقات، مستعدی اور استقلال، کفایت شعاری اور سادگی آپ کی خاص صفات تھیں.شام کی چائے عموماً با ہر بعض خاص احباب کے ہمراہ نوش فرماتے.چینی راشن ہونے کی وجہ سے کمیاب تھی.اس لئے احباب کو یہ بتاتے ہوئے اپنے ہاتھ سے ایک ایک چمچہ ہر پیالی میں ڈالتے اور جب دیکھتے کہ میں چائے نہیں پی رہا.تو یہ فرماتے ہوئے کہ یہ زیادہ چینی پینے کے عادی ہیں اس لئے بطور سپیشل کیس کے ایک چمچہ زیادہ دیتا ہوں مزید چینی عطا فرماتے.لباس میں سادگی اور وضعداری قائم رکھتے.قمیص اکثر پکے رنگ کی دھاریدار یا چیک ڈیزائن ہوتی بیماری میں شلوار کی بجائے کھلے پائینچوں والا پاجامہ پہنتے تھے.اچکن صوفیانہ رنگ کی ہوتی.بیماری میں جو پار چات استعمال نہیں کر سکتے تھے.وہ لوگوں میں تقسیم کرتے رہتے تھے.آپ نے چوہدری محمد دین صاحب مینیجر کو ایک برجس عنایت فرمائی.جو انہوں نے گھوڑے پر دورہ کیلئے جاتے ہوئے پہنی اور خوشی اور فخر محسوس کیا.اس کے بعد حضرت ممدوح نے مجھے بلایا اور حیران ہوئے کہ میں مغموم کیوں ہوں.اور بہت کرید کر معلوم کیا کہ مجھے یہ افسوس ہے کہ اس وقت تک تمام لوگوں پر یہ اثر ہے کہ میں آپ کا خاص آدمی ہوں اور خاص طور پر مورد الطاف.آپ نے چوہدری صاحب کو برجس دی.اس سے لوگوں کا تاثر ختم ہو جائے گا.نہس کر فرمایا کہ وہ گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں اس لئے برجس ان کو دی ہے میں آپ کو سلکی اچکن دے دوں گا.میں نے کہا کہ نہ معلوم کب عطا کریں گے.تو اسی وقت یہ نہایت نفیس اچکن جو شملہ سے سلوائی تھی، عنایت فرمائی اور اسی وقت پہنے کو فرمایا.اور پھر دیر تک
155 بیان فرماتے رہے کہ کس طرح پیدل اور گھوڑوں پر سارے سندھ کا سفر کیا.بھوک پیاس کی پروانہ کی.انجمن تحریک جدید ، صدر انجمن اور اپنے خاندان کیلئے اراضی پسند کیں.جو ہجرت کے بعد بے سروسامانی کی حالت میں بہت بڑی امداد ثابت ہوئیں.آپ کا دستر خوان وسیع تھا.شاید ہی کوئی موقعہ آیا ہو کہ کسی مجبوری سے آپ نے کھانا اکیلے تناول فرمایا ہو.بڑی بڑی دعوتوں میں بڑے زمیندار اور افسران مدعو ہوتے.مجھے اپنے پاس دائیں طرف بٹھاتے اور فرماتے کہ تم آداب مجلس سے واقف ہو.ایک دفعہ کلکٹر مع افسران مدعو تھے.کھانے کے آخر پر سویٹ ڈش پھراتے ہوئے خادم میرے پاس پہنچا تو مقدار کم رہ گئی تھی اس نے مجھے نظر انداز کر کے آپ کے سامنے کر دی.آپ نے اسے نہایت خشمگیں نظر سے دیکھا اور تنبیہ کی تو وہ سمجھ گیا اور میرے سامنے ڈش کر دی.میں نے تھوڑی سی مقدار لی تو آپ نے کافی مقدار اپنے ہاتھ سے میری پلیٹ میں ڈالتے ہوئے فرمایا کہ میں سیر ہو چکا ہوں بعد میں بھی اس خادم کو سخت ناراض ہوئے.نتیجتاً دعوتوں میں وہ خادم ہماری طرف نہ آتا.سگریٹ نوشی ترک کرنے کا ارشاد فرمایا.اور اس کے ترک کرنے اور بعض اور نیکیوں کے اختیار کرنے سے مشروط میری ترقی کر دی.اطمینان دلانے پر فرمایا کہ ترقی تو میں نے دینی ہی تھی.میں نے چاہا کہ نیکی کی تحریک بھی کر دی جائے.آپ نے سیرت النبی کے جلسہ کیلئے مضمون تحریر کر کے دیا جو سنایا گیا.بعد ازاں الفرقان سیرت النبی نمبر میں 1960ء میں شائع کر دیا گیا تھا.آپ مجھے اہلیہ سے حسن سلوک کی ہمیشہ تلقین فرماتے تھے یہ بھی فرماتے تھے کہ ہر ماہ کچھ رقم دے دینی چاہئے جو وہ اپنی مرضی سے خرچ کریں اور اس کا حساب نہیں لینا چاہئے.اس طرح محبت بڑھتی ہے.حضرت بیگم صاحبہ نے اہلیہ کو میرا خیال رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا جب خاوند گھر آئے تو نہایت تپاک سے استقبال کرنا چاہئے لباس بھی صاف ہونے چاہئیں.کل وہ باہر سے آئیں گے.میرے ہاں اس سے پہلے آنا.خود بنا سنوار دوں گی.اور دو بہترین قمیصیں بھی عنایت کیں.ایک دفعہ مجھے فرمایا خواب میں آپ کو تکلیف میں دیکھا تھا.دعا بھی کی اور میاں عباس احمد کو امداد کیلئے بھی لکھا تھا.ایک دفعہ آپ شدید علالت کے باعث میو ہسپتال میں داخل تھے.عیادت کیلئے حاضر ہوا.تو نہایت نحیف آواز میں فرمایا کہ محکمہ سے ( جو میں ہزار روپیہ آٹے کی لپائی کا ) رکا ہوا روپیہ حاصل کرنے کی کوشش کریں.تار کی ہوئی آپ کی تنخواہ ادا ہو سکے.( قریباً نصف نصف سال کی سب کی
156 تنخواہیں اسی وجہ سے ادا نہ ہو سکی تھیں ).آپ کو ہمارا اس قدر خیال تھا.میں نے عرض کیا کہ آپ کے بہت احسانات ہیں.میں صرف عیادت کیلئے حاضر ہوا ہوں.آپ کے قیام سندھ کے دوران ہی میرے والد محترم کی وفات کا تار بوجہ سیلاب دو دن تاخیر سے آیا.مجھے شدید صدمہ پہنچا.راستے مسدود تھے آپ نے نہایت دلداری فرمائی.بہت دیر تک اپنے پاس بٹھا کر والد صاحب مرحوم کے اخلاص، قربانیوں ، مرکز سے وابستگی احمدیت سے عشق اور خلافت سے وابستگی کا ذکر کرنے کے ساتھ مجھے صبر کی تلقین فرماتے رہے اور اپنے پاس سے کچھ رقم والدہ صاحبہ کو بھجوادی اور فرمایا کہ ایسے موقع پر اخراجات درکار ہوتے ہیں.ادھر حضرت بیگم صاحبہ نے کئی روز تک ہمارے لئے ناشتہ اور کھانا بھجوایا.اور اسٹیٹ کے ملازمین کے اہل خانہ کو میری اہلیہ سے تعزیت کیلئے بھجوایا اس طرح ہر دو بزرگوں نے ہمارے غم کو غلط کرنے کی سعی بلیغ فرمائی.اللہ تعالیٰ ان پر اور ان کی اولاد پر ہزاروں ہزا ر رحمتیں نازل فرمائے.آمین 29.تاثرات اسلم صاحب ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم بسلسلہ ملازمت 1919ء میں قادیان آئے تھے اور ترنم سے نظمیں پڑھنے کی وجہ سے عوام میں معروف تھے.بعد ازاں فتنہ ارتداد ملکانہ (یوپی) شروع ہونے پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے منظم مقابلہ ہوا اور ماسٹر صاحب کو چار سال تک وہاں سا دھوا نہ لباس میں مصروف جہادر ہنے کی سعادت حاصل ہوئی.آپ بیان کرتے ہیں :.وو میدان ارتداد سے واپسی پر آپ نے از راہ شفقت اپنے ہاں میری دعوت کی.مجھے اپنے ساتھ کھانا کھلانے کا شرف بخشا.میرے لئے ایسا پہلا موقعہ تھا.ابھی ہمارے ملک میں یہ طریق عام نہ تھا.مجھے معلوم نہ تھا کہ کھانا ڈشوں میں ہے.آپ نے کھانا شروع کرنے کو فرمایا میں حیران تھا کہ پلیٹیں خالی ہیں.کھاؤں کیا.آپ کی فراست آڑے آئی اور آپ نے خود ایک ڈش سے میری پلیٹ میں سالن ڈال دیا.بعد میں پردہ میں خواتین کو مجھ سے علاقہ ملکا نہ کے تبلیغی حالات اور ترنم کے ساتھ بھیجن سنوائے اور بہت محظوظ ہوئے.محض اس لئے کہ میں نے خدمت دین کی تھی.آپ نے میری حوصلہ افزائی فرمائی.1942ء میں حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نے مجھے حیدر آباد دکن میں لینسٹرن سلائیڈز لیکچروں کیلئے بلایا.آپ نے مجھے بہت سے مفید مشورے دیئے اور فرمایا.میرے
157 لئے سفر میں دعا کرتے رہیں اور پھر ایک گرم شیروانی لا کر مجھے پہنا کر ہنستے ہوئے فرمایا کہ حیدر آباد میں شیروانی کا رواج ہے اور اس سے مبلغ کا وقار بھی بنا رہتا ہے.وہاں شرفا کا یہی لباس ہے.ایک دفعہ میں تبلیغی دورہ پر سندھ گیا.آپ کے ہاں نصرت آباد اسٹیٹ پہنچا.میرے قیام کا کمرہ اور آپ کی خواب گاہ ملحق تھی.دونوں تہجد کیلئے بیدار ہوئے.نماز فجر ا کٹھے ادا کی.بعدۂ آپ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر باہر لے گئے.اور باغیچہ میں ٹہلتے ہوئے اپنے ایک خاص مقصد کیلئے جو نہیں بتایا دعا کرنے کو کہا اور فر مایا کہ اگر خواب میں کچھ انکشاف ہو تو مجھے بتا ئیں.شرمندگی سے عرض کیا کہ آپ کا مقام ارفع ہے.میری حیثیت ہی کیا ہے فرمایا نہیں نہیں ! جو میں کہتا ہوں وہی کریں.تہجد میں میں نے آہ وزاری سے دعا کی.کہ ایک پاکباز بندے اور حضرت مسیح موعود کے پیارے نے مجھ گنہگار کو دعا کیلئے فرمایا ہے.تو خوب جانتا ہے کہ میں کیا ہوں.خواب میں دیکھا کہ نواب صاحب ، آپ کا مینیجر اور میں ایک وسیع میدان میں کھڑے ہیں جس میں پانی کی ایک صاف و شفاف نہر جاری ہے جو بالکل خط مستقیم میں سیدھی جارہی ہے.نہر کے دوسری طرف گھاس کا وسیع قطعہ ہے.آپ نے فرمایا کہ میں یہ اراضی خریدنا چاہتا ہوں اسلم صاحب کیا میں خرید لوں؟ میرے لئے یہ کیسی رہے گی ؟ میں نے کہا کہ اراضی تو اچھی ہے بشرطیکہ آپ کا مینیجر دیانتداری سے کام کرے.صبح بعد نماز پھر مجھے پکڑ کر باہر لے گئے اور فرمایا کہ دعا کی تھی.یہ معلوم کر کے کہ کی تھی.فوراً پوچھا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے کیا بتایا.خواب سنایا.بہت خوش ہوئے اور فرمایا الحمد للہ میں اراضی ہی خرید کرنا چاہتا تھا اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ بتا دیا ہے کہ اراضی اچھی ہے.آپ کی آخری طویل بیماری کے دوران مجھے قادیان کی زیارت کی اجازت ملی.لیکن اخراجات آمد و رفت میرے پاس نہ تھے.روانگی سے چند دن پہلے خواب میں ایک شخص کو ایک مکان پر نواب صاحب کا نام لے کر آوازیں دیتے دیکھا.میں نے کہا کہ اب آپ کا نام بیٹی خاں ہے اس نام سے آواز دو.چنانچہ وہ اس نام سے آواز میں دینے لگا.مجھے اس کی یہ تعبیر سمجھ آئی.کہ آپ ابھی بہت عرصہ زندہ رہیں گے.چنانچہ آپ بعد ازاں آٹھ نو سال زندہ رہے حضرت نواب صاحب نے میرا خواب کا رقعہ پڑھ کر تمیں روپے اور آپ کے اہل بیت نے ہمیں رو پے مجھے بھجوا دئیے اس طرح میں سفر قا دیان کر سکا.“
158 30.تاثرات مرزا طاہر احمد صاحب ہیں.مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ابن حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی رقم فرماتے ” میرے چھوٹے پھوپھا جان کی طبیعت بہت سادہ تھی.اور مزاج تصنع سے پاک، چہرے پر غمی اور خوشی کے آثار بچوں کی طرح بے روک ٹوک ظاہر ہوتے تھے.باغوں اور پھولوں سے بہت پیار تھا.جہاں بھی جا کر رہے آپ نے اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا چمن بنالیا.سندھ میں آپ کی اراضی پر آپ کا سادہ سامکان اس پہلو سے دیکھنے کے لائق تھا.بیسیوں قسم کے پھولدار پودوں نے صحن کو ایسا مزین کر رکھا تھا کہ باہر کے ماحول کی عام ویرانی کے بعد چار دیواری میں داخل ہوتے ہی یوں محسوس ہوتا تھا گویا انسان کسی اور ملک کسی اور دنیا میں داخل ہو گیا ہو.گھر کی زیبائش اور تزئین کا بہت شوق رکھتے تھے.اپنی آخری علالت میں بعض دفعہ گھنٹوں اپنی پہیہ دار کرسی پر بیٹھے گملا گلا گھوم کر پھولوں کا معائنہ کرتے رہتے.گھاس کے پلاٹ ادلتے بدلتے کبھی کوئی گملا یہاں سے اٹھوا کر وہاں رکھوا دیا.کوئی وہاں سے یہاں.فیصلہ میں جلدی کرتے تھے.مگر فیصلہ پر اطمینان دیر سے پاتے تھے.چنانچہ فیصلہ کرنے کے بعد بھی مشورے جاری رہتے.کئی دفعہ دیکھا کہ پلاٹ کی شکل تبدیل کرنے کا حکم آپ جاری کر چکے ہیں.مگر مشورہ کا سلسلہ ختم نہیں ہورہا.غالباً مقصد یہ ہوتا تھا کہ تائید کرنے والے زیادہ ہوں تو دل کو اطمینان نصیب ہو کہ جو قدم اٹھایا تھا درست تھا.نماز کے عاشق تھے خصوصاً نماز با جماعت کے قیام کیلئے آپ کا جذ بہ اور جد و جہد امتیازی شان کے حامل تھے.بڑی باقاعدگی سے پانچ وقت مسجد میں جانے والے، جب دل کی بیماری سے صاحب فراش ہو گئے.تو اذان کی آواز کو ہی اس محبت سے سنتے تھے جیسے محبت کرنے والے اپنی محبوب آواز کو.جب ذرا چلنے پھرنے کی سکت پیدا ہوئی تو بسا اوقات گھر کے لڑکوں میں سے ہی کسی کو پکڑ کر آگے کھڑا کر دیتے اور باجماعت نماز ادا کرنے کے جذبہ کی تسکین کر لیتے یا رتن باغ میں نماز والے کمرہ کے قریب ہی کرسی سرکا کر باجماعت نماز میں شامل ہو جایا کرتے.جب ماڈل ٹاؤن والی کوٹھی لی.تو وہیں پنجوقتہ باجماعت نماز کا اہتمام کر کے گویا گھر کو ایک قسم کی مسجد بنالیا.پانچ وقت اذان دلواتے.موسم کی مناسبت سے کبھی باہر گھاس کے میدان میں کبھی کمرے کے اندر چٹائیاں بچھوانے کا اہتمام
159 کرتے اور بسا اوقات پہلے نمازی ہوتے جو مسجد میں پہنچ کر دوسرے نمازیوں کا انتظار کیا کرتا.مختلف الانواع لوگوں کیلئے اپنی رہائش گاہ کو پانچ وقت کے آنے جانے کی جگہ بنادینا کوئی معمولی نیکی نہیں خصوصاً ایسی حالت میں اس نیکی کی قیمت اور بھی بڑھ جاتی ہے.جبکہ صاحب خانہ کا رہن سہن کا معیار خاصا بلند ہو.معاشرتی تعلقات کا دائرہ بہت وسیع ہو.بچیوں کی سہیلیاں ، لڑکوں کے دوست، اپنے ملاقاتی معززین ، عزیزوں رشتہ داروں کی بار بار کی آمد و رفت کہیں مہمانوں کی کثرت سے کمروں کی تنگی ، کبھی گرمیوں کی شاموں میں لان (lawn) کا بڑھا ہوا استعمال.یہ سب گہما گہمی اپنے مقام پر رہی اور کبھی بھی پنجوقتہ باجماعت نماز کی ادائیگی میں مخل نہ ہوسکی.باہر یہ اعلان کبھی نہ ہوا کہ چونکہ مستورات باہر صحن میں نکلنا چاہتی ہیں اس لئے آج یہاں نماز نہیں ہوگی.ہاں بسا اوقات اندر یہ سننے میں آیا کہ ابھی باہر نمازی موجود ہیں جب تک وہ فارغ نہ ہو جائیں باہر نہ نکلو.حضرت پھوپھا جان ان افراد میں سے نہیں تھے جو خود تو سختی سے نمازوں کے پابند ہوں لیکن بچوں کا اس بارہ میں خیال نہ رکھیں.کم ہی ایسے بزرگ ہوں گے جو اتنی با قاعدگی سے بلا ناغہ روزانہ بچوں کو پنجوقتہ نمازوں کی تلقین کرتے ہیں اور پھر تلقین بھی ایک خشک ملاں کی بے لذت متشددانہ تلقین نہیں.بلکہ ایسی پر اثر تلقین جیسے دل اس کے ساتھ لپٹا ہوا چلا آیا ہو.اگر کوئی بچہ ستی کرتا تو چہرہ پر غم اور فکر کے آثار بے اختیار ظاہر ہوتے.اور اگر کوئی بچہ آواز پر فوراً لبیک کہتا تو ناز سے بھری ہوئی خوشی کے جذبات آپ کے چہرہ کو شگفتہ کر دیتے.جن دنوں پہیہ دار کرسی پر بیٹھ کر اسے اپنے ہاتھوں سے گھماتے ہوئے آپ نماز کیلئے آتے تھے.اس زمانہ میں نماز سے پہلے میں نے بار ہا ان کو اسی حالت میں اپنے چھوٹے بچوں میں سے کسی کے کمرہ کی طرف نماز کی یاددہانی کروانے کیلئے جاتے ہوئے دیکھا ہے.پھر خوب تاکید کر کے مسجد میں چلے جاتے تھے.تو بچے کے انتظار میں ایسی منتظر نظروں کے ساتھ بار بار کبھی گھر کی طرف اور کبھی گھڑی کی طرف دیکھتے تھے کہ جیسے قرار نہ آرہا ہو.کبھی کبھی وہیں بیٹھے بیٹھے بلند آواز سے بلاتے.کبھی کسی آتے جاتے خادم کو کہتے کہ جاؤ میاں سے کہو کہ نمازی انتظار کر رہے ہیں.پھر جب بچہ وقت پر پہنچ جاتا.تو خوشی سے بعض اوقات اس طرح ہنس پڑتے.جیسے کوئی لطیفہ سنا ہو اور اگر نہ پہنچتا تو گہری اداسی آپ کے چہرہ پر سایہ فگن نظر آتی.دعا گو، دعائیں کروانے والے، دعا گو بزرگوں کی خدمت کو سعادت سمجھنے والے ، رَبِّ اِنى لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِیر کی مجسم تصویر، ہرا ہم کام میں کثرت کے ساتھ بزرگوں،
160 دوستوں، عزیزوں سے استخارے کرواتے.حتی کہ گھر کے بچوں کو بھی بار بار دعا کیلئے کہنا اور پھر منتظر رہنا کہ کب کسی پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی بشارت ظاہر ہو.آپ کو جب کوئی ذہنی پریشانی لاحق ہوتی.تو اکثر ان ایام میں صبح ناشتہ پر اپنے ہاں آمدہ مہمان سے رات کی خوابوں کے بارے میں سوال کرتے سنا.بڑی یقین اور سنجیدگی کے ساتھ بچوں سے پوچھا کرتے تھے کہ کوئی مبشر خواب دیکھی ہو تو سنا ؤ.یہی عادت بعض بچوں میں بھی کچھ حد اوسط سے بڑھ کر داخل ہو گئی.حضرت مسیح موعود کی دامادی کی سعادت کو اپنے لئے ایسا عزت واکرام کا موجب سمجھتے تھے جیسے ذرہ خاک کو آسمان پر کرسی نشینی مل گئی ہو.اسی بناء پر حضرت پھوپھی جان کے ساتھ نہایت ہی ادب و احترام کا سلوک کرتے تھے.گو تجارتی اور زمینداری سے متعلق امور میں خود مختار تھے اور اپنی مرضی پر عمل پیرا ہوتے مگر خانگی اور معاشرتی امور میں حضرت پھوپھی جان کی خواہشات کا بہت زیادہ پاس ہوتا.اپنی بچیوں کی شادیاں حضرت مسیح موعود کی اولاد میں کرنے کی خواہش توازن کے حد سے بڑھی ہوئی دکھائی دیتی تھی.اور اس بڑھ ہوئے عشق کی غمازی کرتی تھی جو اس کے پس پردہ کارفرما تھا.آخری بچی کے سوا باقی سب کے متعلق یہ خواہش تو زندگی ہی میں پوری ہوگئی.اس کے متعلق بھی بڑی حسرت کے ساتھ یہی خواہش تھی.غرباء کے ہمدرد، کثرت سے صدقہ خیرات کرنے والے، مہمان نوازی میں طرہ امتیاز کے حامل اس قسم کے فدائی اور خلیق میزبان اس زمانہ میں تو شاذ و نادر ہی ہوں گے.مہمان کے آرام کا خیال وہم کی طرح سوار ہو جاتا.میری طبیعت پر آپ کی مہمان نوازی کا ایسا اثر ہے کہ اگر غیر معمولی مہمان نوازی کا جذبہ رکھنے والے صرف چند بزرگوں کی فہرست لکھنے کو مجھے کہا جائے تو آپ کا نام میں اس فہرست میں ضرور تحریر کروں گا.رضی اللہ تعالیٰ عنہ 31.ایک ہم جماعت کے نصف صدی کے مشاہدات آپ کے ہم جماعت بزرگوارم صوفی محمد ابراہیم صاحب ( ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ ) اپنے نصف صدی کے تاثرات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں.” میرے ساتھ آپ کے تعلقات کا آغاز 1912ء میں ہوا.ان دنوں حضرت خلیفتہ امسیح اول اپنے صاحبزادے میاں عبدالحی صاحب کو جو تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل تھے.قرآن کریم بعد
161 نماز مغرب پڑھاتے تھے اور احباب اس درس میں جوق در جوق شامل ہوتے تھے.میں بھی اور میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب اس میں شرکت کرتے تھے اور وہیں آپ سے ملاقات کا آغاز ہوا.جو بعد میں تعلقات محبت میں تبدیل ہو گیا.حضرت خلیفہ اول کو حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے صاحبزادگان کے درس میں شامل ہونے کی اطلاع ہوئی تو آپ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا.حضور ان صاحبزادگان کو بلا کر از راہ محبت اپنے قریب بٹھا لیتے.میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کو دینی باتوں کے سیکھنے کا بہت شوق تھا.اس لئے آپ درس میں بہت باقاعدگی سے شامل ہوتے.درس میں حاضرین کی تعداد خاصی ہوتی تھی.جس کیلئے روشنی کے انتظام کی ضرورت تھی گیس لیمپ ان دنوں کمیاب جنس تھی اور قادیان میں شاید حضرت نواب صاحب کے گھر سے ہی میسر آسکتی تھی اس لئے روشنی مہیا کرنے کا انتظام میاں صاحب موصوف نے اپنے ذمہ لیا.اور اس ذمہ داری کو نہایت خوش اسلوبی سے نباہا.سرشام ہی آپ کے ساتھ گیس لیمپ کا آنا اور درسگاہ کا بقعہ نور بن جانا میرے لئے نا قابل فراموش منظر ہے.آپ کے والد ماجد کو اس بات کا بے حد خیال تھا کہ آپ کے صاحبزادے مثالی زندگی بسر کریں اور ان سے ایسے لوگ ہی ملیں جو ان کے اخلاق و اطوار پر کسی رنگ کا نا خوشگوار اثر نہ ڈال سکیں.اس امر کے مدنظر آپ نے اپنے بچوں کی نشست و برخاست کے ایسے ضوابط مرتب کئے کہ وہ اپنی کوٹھی کی چار دیواری میں محصور ہو کر رہ گئے اور ان کی تعلیمی ترقی پر نا موافق اثر پڑا.چنانچہ بعض ہمدرد اصحاب کے توجہ دلانے پر کچھ ردو کر کے بعد آپ ان کو تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل کرانے میں رضامند ہو گئے.اس کے بعد میاں صاحب کا طلباء سے میل جول بڑھا تو آپ کی خوبیاں نمایاں ہوئیں.آپ کو فٹ بال کا کھیل پسند تھا.ان دنوں مدرسہ کی روایات بہت شاندار تھیں.اور ڈویژن بھر میں ہمارے مدرسہ کی کھیلوں کا سکہ مانا جاتا تھا.کھلاڑیوں کو چاق و چوبند رکھنے کیلئے یو نیفارم کی تجویز ہوئی جو نیلی نکر اور سفید قمیص پر مشتمل تھے.اس پر حضرت نواب صاحب کو اعتراض ہوا.کہ نکر مناسب لباس نہیں کیونکہ اسلام نے مرد کے جسم کا جو حصہ ستر ٹھہرایا ہے.وہ ٹکر سے پوری طرح ڈھانپا نہیں جا سکتا.چنانچہ میاں صاحب نے اپنے لئے اپنے خرچ پر ایسی نکر تیار کروائی جو گھٹنوں سے نیچے تک پہنچتی تھی.اس نکر کو پہن کر آپ کھیل کے میدان میں آتے.گو اس طرح آپ کا لباس کچھ زیادہ چست معلوم نہ ہوتا تھا.مگر آپ کو اس کی پرواہ نہ ہوتی.بظاہر یہ ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے.
162 مگر اس سے پتہ چلتا ہے کہ طالب علمی کے زمانہ میں ہی آپ کو شریعت کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا کس قدر خیال رہتا تھا.مارچ 1914ء میں حضرت خلیفہ اول کے وصال پر جماعت میں اختلاف رونما ہوا اور اختلافی مسائل پر مباحثات کی رو چلی جس میں مدرسہ کے اکثر طلباء بھی سرگرمی سے حصہ لیتے تھے اور خود میاں صاحب بھی ان مذاکرات میں شامل ہوتے تھے.اسی طرح میرا تعلق ان سے بڑھا اور میرے دینی شوق کو دیکھ کر اپنی حدیث کی کتاب بلوغ المرام مترجم وحشی جو بہت خوبصورت طبع ہوئی تھی مجھے ہدیہ دے دی.1915ء میں آپ کے ساتھ ہی میں نے بھی میٹرک کا امتحان پاس کیا.اس سال مدرسہ کا نتیجہ نہایت شاندار تھا.ایک درجن کے قریب طلباء کالج میں داخلہ لینے کیلئے لاہور پہنچے.آپ گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے.مگر کالج کے ہوسٹل کا ماحول اپنے مزاج کے موافق نہ پا کر اپنے چچا نواب سر ذوالفقار علی خان صاحب کی کوٹھی میں فروکش ہوئے.میں نے ایف سی کالج میں داخلہ لیا مگر قواعد کی لاعلمی کی وجہ سے ہوسٹل میں داخلہ کیلئے بروقت درخواست نہ دے سکا اور سیٹ نہ مل سکی.علم ہونے پر آپ مجھے اپنے ہاں لے گئے اور قریباً ایک ماہ اپنے ساتھ رکھا اور اس عرصہ میں میری جملہ ضروریات کا پوری طرح خیال رکھا.لاہور میں ایک بڑی تعداد احمدی طلباء کی کالجوں میں زیر تعلیم تھی.مگر وہ سب الگ الگ اپنے اپنے ہوٹلوں میں قیام کرتے تھے.میاں صاحب موصوف کے داخلہ کے بعد قادیان میں یہ تحریک زور سے شروع ہوئی کہ لاہور میں ایک احمد یہ ہوٹل ہونا چاہئے.جہاں سارے احمدی طلبا مل کر رہیں.تا دینی ماحول میں ان کی کماحقہ تربیت ہو سکے.آپ نے بھی اس تحریک کو کامیاب بنانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور آپ کی مساعی بار آور ہوئیں اور احمد یہ ہوٹل کا وجود عمل میں آگیا.احمدی طلباء کا بیشتر حصہ اس میں داخل ہوا.جہاں درس و تدریس اور باجماعت نمازوں کا سلسلہ جاری ہوا.اس طرح قادیان کے ماحول کی جھلک احمد یہ ہوسٹل میں بھی نظر آنے لگی.آپ تہجد اور با جماعت نمازوں کے پابند تھے.غرباء کی امداد اور دوستوں کی خاطر مدارات آپ کا شیوہ تھا.آپ کی وجاہت اور نیکی کا اثر سب ملنے والوں پر تھا.احمدی طلباء نے کالجوں میں تبلیغ احمدیت کا سلسلہ بھی جاری کر رکھا تھا اور ان کے زیر اثر طلباء اکثر احمد یہ ہوٹل میں آتے رہتے تھے.میاں صاحب ان سے بھی محبت سے ملتے اور یہ ملاقاتی نہایت اچھا اثر لے کر جاتے.کم و بیش دو سال آپ لاہور میں
163 رہے.مگر صحت کچھ اچھی نہ رہتی تھی.اس لئے آپ امتحان پاس کئے بغیر قادیان واپس آگئے.آپ کی شادی بھی ہو چکی تھی.کالج کی تعطیلات میں قادیان میں آپ ہماری ملاقات سے بہت خوش ہوتے.1922ء میں جب وقف کر کے مستقل طور پر قادیان آگیا اور خدمت سلسلہ میں مصروف ہو گیا تو یہ امر آپ کیلئے باعث مسرت ہوا.1936ء میں میرا قیام ایسے مکان میں ہوا جو کوٹھی دارالسلام کے قریب دار الفضل میں برلب سڑک تھا.قرب مکانی کے باعث میرے بچے اکثر آپ کی کوٹھی کے اندر چلے جاتے تھے آپ ان سے پیار سے گفتگو کرتے اور مٹھائی یا پھل بھی ان کو دے دیتے.موسم پر آم بھی تحفہ بھجواتے تھے.1947ء میں ہجرت کے بعد آپ ناظر اعلیٰ مقرر ہو چکے تھے.قادیان کی آبادی کا بڑا حصہ ابھی و ہیں تھا اور احباب باری باری قافلوں کی صورت میں لاہور پہنچتے تھے.اکتوبر کے اختتام پر جب میں مدرسہ کے عملہ کے ساتھ لاہور پہنچا.تو آپ کو پورے انہماک کے ساتھ کام میں لگے ہوئے پایا.ان ہنگامی حالات میں محنت شاقہ کا نتیجہ تھا.کہ آپ کو دل کی مرض کا ایسا شدید دورہ ہوا کہ ڈاکٹر آپ کے جانبر ہونے سے نا امید ہو گئے.مدرسہ تعلیم الاسلام چنیوٹ میں منتقل ہو چکا تھا.جہاں ہم نے آپ کی علالت کی رنجیدہ خبر سنی اور بڑے درد سے سارے عملہ نے آپ کی صحت یابی کیلئے دعا کی.نہ معلوم جماعت کے کتنے بیکسوں اور بے آسرا افراد نے جو آپ کی امداد سے فیضیاب ہوتے تھے.دعا کی ہوگی کہ معجزہ رونما ہوا.جس نے ڈاکٹروں کے سارے قیاسات کو باطل کر دیا اور آپ ایک حد تک صحت یاب ہو گئے.میں عیادت کیلئے حاضر ہوتا تھا.تو آپ دعا کی تاکید کرتے تھے.جب آپ ماڈل ٹاؤن منتقل ہوئے تو میرے وہاں اولین بار جانے پر ساتھ لے کر ساری کوٹھی دکھائی اور دعا کیلئے فرمایا.صحت یابی کے بعد آپ ربوہ جلسہ سالانہ پر آتے اور واپسی سے قبل اپنے سارے پرانے دوستوں سے مل کر جاتے.مجھے ملنے کیلئے مدرسہ تشریف لاتے.میں بھی لاہور میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہتا.ایک دفعہ آپ نے سب بچوں کے متعلق دریافت کیا.اور اس بچے کا ذکر آیا.جو 1947ء میں تعلیم الاسلام کالج میں زیر تعلیم تھا.میں نے عزیز کو ملاقات کرانے کا ارادہ کیا.جب عزیز کوئٹہ سے عرصہ بعد رخصت پر آیا.تو میں اسے لاہور آپ کے پاس لے گیا.ان دنوں آپ پھر
164 سخت بیمار ہو گئے تھے.لیکن الفضل میں کوئی خبر شائع نہ ہوئی تھی.اس لئے میں اس سے بے خبر تھا آپ کی کوٹھی پر نماز با جماعت اور ماڈل ٹاؤن کے احباب کا جمعہ ہوتا تھا.میں نے اندر اطلاع بھجوائی.لیکن پھر یہ خیال کیا کہ آپ جمعہ کی تیاری میں مصروف ہوں گے.نماز جمعہ میں مل لوں گا.اس لئے سنتیں پڑھنے لگا.جن سے فارغ ہونے پر معلوم ہوا کہ آپ کا خادم میری تلاش میں ہے.ہم آپ کے پاس پہنچے تو آپ کی بیماری کی حالت دیکھ کر بہت پریشان ہوا.فرمایا آپ کہاں چلے گئے تھے.میں تو کس وقت سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں.سارا ماجر اسن کر فرمایا کہ میں تو بہت بیمار ہوں اور گزشتہ دو تین جمعہ میں شریک نہیں ہو سکا.میں نے معذرت کر کے واپس آنا چاہا.تو مجھے اپنی چار پائی پر اپنے پاس بٹھا لیا.اور لڑکے کو سامنے کرسی پر بیٹھنے کو کہا.میں نے عرض کی کہ یہ وہی بچہ ہے جس کا ذکر آپ نے گزشتہ ملاقات میں کیا تھا.آپ کی علالت کی وجہ سے کمرہ کے دروازوں پر پردے ڈال دیئے گئے تھے تا روشنی مدھم ہو جائے.فرمایا روشنی کم ہے میں اس کو اچھی طرح دیکھ نہیں سکتا.لڑکا روشنی کی طرف ہو گیا.اس کو دیکھا اور دعا دی میں نے دوبارہ اجازت چاہی.فرمایا ابھی نماز میں کافی وقت ہے.جی چاہتا ہے کہ آپ تھوڑی دیر اور بیٹھیں.مگر آپ کے آنے سے بیگم صاحبہ ساتھ کے کمرہ میں تشریف لے گئی ہیں.ان کی تکلیف کا خیال ہے.میں ایک دفعہ پھر معذرت خواہ ہوا اور جمعہ کیلئے باہر آ گیا.یہ میری آخری ملاقات تھی.آپ کی وفات پر جنازہ رات کے وقت ربوہ پہنچا.تو میں سوگوار دل کے ساتھ استقبال کیلئے حاضر تھا.اگلے روز نماز جنازہ اور مرحوم کو آخری آرام گاہ تک پہنچانے میں حصہ لیا.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ.اے اللہ ! آپ کی تربت پر ہمیشہ ہی اپنی رحمت کی بارش برسا تا رہ.آمین 32.تاثرات مولانا ارجمند خان صاحب اکرام ضیف ، تکریم اولاد اور احترام حرم اور ادائیگی حقوق اللہ وحقوق العباد کے تعلق میں نصف صدی کا مشاہدہ استاذی المکرم مولانا ارجمند خان صاحب ( سابق پروفیسر دینیات تعلیم الاسلام کالج ربوہ ) بیان کرتے ہوئے رقم فرماتے ہیں:.حضرت رسول کریم ﷺ کے ارشاد اُذْكُرُوا مَوْتَاكُمُ بِالْخَيْرِ میں سلف صالحین کے ذکر
165 خیر کا فرمان کئی حکمتوں کا حامل ہے.اس سے ان کے رفع درجات کے لئے دعاؤں کی تحریک کے علاوہ اپنی اصلاح اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی تحریک ہوتی ہے.جو اُن کے درجات کی مزید بلندی کا موجب ہوتی ہے.ذکر خیر مرحومین کی نیکی کے متعلق ایک شہادت ہوتی ہے اور اپنے لئے باعث ثواب.سو میں حضرت مرحوم کے متعلق بعض باتیں لکھتا ہوں میری واقفیت کا عرصہ اکاون سال پر مشتمل ہے.1910ء میں میں جب پہلی بار قادیان آیا.تو آپ اس وقت ریاستی لباس زیب تن کر کے ایک خوش رنگ گھوڑے پر سوار ہو کر ایک خادم کی معیت میں اندرون قصبہ میں مدرسہ آتے جاتے تھے.1918ء میں قادیان و نواح میں بھی انفلوئنزا کی وباء پھیلی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک کمیٹی ڈاکٹروں اور اطباء کی قائم کی جو سارے علاقہ میں اس وبا کا علاج کریں.ایک صحابی حضرت حکیم محمد زمان صاحب شاگر د حضرت خلیفہ اول بھی ان میں شامل تھے.جو حضرت نواب صاحب کے پاس مدت سے بطور خاندانی معالج کے ملازم تھے.خدا کی حکمت حکیم صاحب اسی مرض میں مبتلا ہو کر راہی ملک بقا ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.آپ کے پسماندگان ایک بیوہ، ایک لڑکا اور چار لڑکیوں کی کفالت حضرت نواب صاحب موصوف نے اپنے ذمہ لے لی.اس زمانہ میں خاکسار مولوی فاضل پاس کر کے مدرسہ احمدیہ میں بطور معلم ملا زم ہو چکا تھا.حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب ایک روز میرے پاس تشریف لائے اور علیحدگی میں حضرت حکیم صاحب مرحوم کی لڑکی سے رشتہ کر لینے کی تحریک فرمائی.میں نے اپنی ناداری اور بے کسی کے باعث اس ذمہ داری کو اٹھانے سے معذرت کر دی.آپ خاموش ہو گئے.لیکن یہ امر میرے لئے باعث حیرت ہوا.کہ ایک ہفتہ کے بعد آپ اپنے ایک ملازم کی معیت میں میرے غریب خانہ پر تشریف لائے اور اس رشتہ کے متعلق مجھے پر زور تحریک فرمائی اور میری تسلی کیلئے یہ بھی فرمایا کہ آپ پر کوئی بوجھ نہ ہو گا.شادی کے ابتدائی اخراجات میں کروں گا.چنانچہ اس مشفقانہ تحریک کو خاکسار نے قبول کر لیا.چنانچہ آپ نے اس وعدہ کا ایفاء فرمایا اور میری بہت مدد فرمائی.نیز کچھ مدت کیلئے ایک اعلیٰ ہوا دار مکان کا بھی انتظام فرمایا.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء - ایک دفعہ ہم میاں بیوی میں ناراضگی ہوگئی اور وہ اپنی والدہ کے پاس چلی گئیں.میاں صاحب کو سخت صدمہ پہنچا اور آپ نے از راہ شفقت اپنی حکیمانہ پند و نصیحت سے مصالحت کرادی اور بہت خوش ہوئے اور ہم دونوں کی پر تکلف دعوت کی اور اپنی موٹر پر ہمیں ہمارے گھر بھجوا دیا.اس سے
166 ظاہر ہے کہ آپ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا اہتمام کیسی خوش اسلوبی سے کرتے اور اس میں کیسی لذت محسوس کرتے تھے.اللَّهُمَّ اَدْخِلُهُ فِي جَنَّتِ النَّعِيمِ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ آپ کی سخاوت اور مہمان نوازی کا دامن وسیع تھا.مہمان کو نہایت بشاشت سے ملتے.ہر رنگ میں اکرام ضیف کا خیال رکھتے.بعض اوقات کوئی مہمان مہینوں آپ کے پاس مقیم رہتا.لیکن آپ کی طرف سے اکرام میں کسی قسم کی کمی واقع نہ ہوتی.تقسیم برصغیر کے وقت میں ابھی قادیان میں تھا اور آپ ہجرت کر کے رتن باغ لاہور میں مقیم ہو چکے تھے.ایک فوجی دوست کے خاندان کے ہمراہ ان کی جیپ میں مجھے دوسری بیوی کے دو بچوں کو بھجوانے کا موقعہ ملا.( پہلی بیوی سے اولاد نہ ہونے کے باعث مجھے دوسری شادی کرنی پڑی ) میں نے آپ کے نام ایک رقعہ میں عرض کیا کہ ان بچوں کو اپنی نگرانی میں رکھیں.وہ زمانہ نہایت نازک تھا.اس افراتفری میں عزیز سے عزیز رشتہ دار بھی بوجھ برداشت کرنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے.خاکسار اہل و عیال سمیت لاہور پہنچا تو بچوں نے سنایا کہ میرا رقعہ پڑھ کر آپ نے ہمیں محبت کی نگاہ سے دیکھا.شربت پلایا اور ہر طرح سے تسلی دی اور پھر ایک خادم کے ساتھ اپنے اہل بیت کے پاس یہ لکھ کر بھجوادیا.کہ یہ بچے قادیان سے ہمارے ہاں مہمان آئے ہیں.حضرت بیگم صاحبہ رقعہ پڑھ کر ہم سے نہایت شفقت سے پیش آئیں اور ہمارے ساتھ اپنے بچوں کا سا سلوک کرتیں اور اپنے ہمراہ اسی دستر خوان پر کھانا کھلاتیں اور عصر کے وقت روزانہ اپنے بچوں کو جیب خرچ کیلئے کچھ رقم دیتیں تو اتنی اتنی رقم ہم دونوں کو بھی عنایت فرماتی تھیں.ایک دفعہ میں آپ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک صاحب آئے اور انہوں نے اپنی ایک ضرورت کا ذکر کیا.آپ کے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ اتنی رقم سے اس کی حاجت روائی ہو سکتی ہے آپ نے اس سے دگنی رقم کا چیک اسے دے دیا.ایسی حاجت روائیوں کے باعث افضال الہی کی بارشیں بھی آپ پر برستی رہتی تھیں.آپ اپنے احباب کو قیمتی ہدایا اور عطایا سے نوازتے رہتے اور اس میں خوشی محسوس کرتے تھے.ایک دفعہ آپ نے مجھے رتن باغ میں بلوایا اور فرمایا کہ میں نے ایک گرم کوٹ سلوایا ہے لیکن وہ مجھے قدرے تنگ ہے آپ پہن کر دیکھیں.میرے جسم پر وہ پورا اترا تو فرمایا کہ آپ اسے پہنا کریں میں اور سلوالوں گا.1944ء میں جلسہ اعلان مصلح موعود کے موقعہ پر ایک صحابی نے آپ کی دعوت کی.آپ نے
167 قدیمی تعلقات کی بناء پر دعوت قبول فرمائی.خاکسار بھی مدعو تھا.مہمان نواز نے نہایت اخلاص لیکن اپنی استطاعت سے بڑھ کر پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا.بعد فراغت واپسی کے وقت آپ نے انہیں ایک معقول رقم عنایت فرمائی.اس طرح ان کی دلداری بھی ہوئی اور انہیں زمیر بار بھی نہ ہونا پڑا.آپ اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کا خاص خیال رکھتے تھے.اور اَكْرِ مُوا أَوْلَادَكُمْ کے نبوی فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ تعلیم و تربیت میں نصیحت و حکمت اور محبت پدرانہ کو خاص طور پر ملحوظ رکھتے تھے.مجھے آپ کے اکثر صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کا استاد ہونے کا فخر حاصل ہے.میں انہیں دینیات اور عربی کے مضامین پڑھا تا تھا.آپ تا کید فرماتے کہ ان کی تعلیم میں نرمی اور حلم سے کام لوں.اور جس مقام میں اسلامی تعلیم اور دیگر مذاہب کے درمیان تقابل کا موقع ہو تو وہاں اسلامی تعلیم کے تفوق اور افضلیت کو بچوں پر اچھی طرح واضح کیا جائے تا یہ امر پوری طرح ذہن نشین ہو جائے.بعض اوقات آپ خود بھی پاس تشریف رکھتے اور سنتے اور کوئی امر قابل وضاحت ہوتا.تو خود بھی اس کی وضاحت فرماتے.آپ سستی اور بیکاری سے بہت نفور تھے.اور اکتساب رزق حلال کیلئے مستعد و کوشاں.باوجود ایک معزز اور رئیس خاندان کے چشم و چراغ ہونے اور عہد طفولیت سے ناز و نعمت میں پروردہ ہونے کے اہل وعیال کی ذمہ داری پڑنے پر محنت و مشقت کی برداشت کا ایک قومی جذ بہ آپ میں پیدا ہو گیا تھا.الصَّلوة مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ کے مطابق میں نے نواب صاحب محترم کو اقامت الصلوۃ اور ادائے عبادات میں ایک قلبی مسرت محسوس کرتے دیکھا.سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ کے مطابق کثرت سجود کے باعث نواب صاحب کی مبارک پیشانی پر ایک درخشاں نشان نمایاں تھا.اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی اولاد کو بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے اور سعادت دارین سے متمتع ہونے کی توفیق عطا کرے.آمِين يَا رَبِّ الْعَالَمِين -33 ایک قلبی دوست کا نصف صدی کا گہرا جائزہ محترم جناب ملک غلام فرید صاحب (ایم اے سابق مجاہد جرمنی و انگلستان ایڈیٹرسن رائزور یویو
168 آف ریلیجنز حال مترجم قرآن مجید انگریزی ) مقیم لاہور کی قلم حقیقت رقم سے جو مرحوم کے جگری دوست تھے.قارئین کرام کو حضرت مرحوم کے شمائل کا بہترین نقشہ معلوم ہو سکے گا.یہ ان کی نصف صدی پر ممتد رفاقت کے تاثرات کا خلاصہ ہے.محترم ملک صاحب فرماتے ہیں.حضرت اماں جان کے لاڈلے اور دخت کرام سیدہ محترمه مخدومه صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بنت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جاں نثار اور وفا شعار رفیق حیات اور اس عاجز غریب سے پورے پچاس سال تک محض خدا تعالیٰ کیلئے سگے بھائیوں کی سی محبت کرنے والے حضرت میاں محمد عبداللہ خان صاحب ابن حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ 18 ستمبر 1961ء بروز دوشنبہ اپنی ایک خواب کے مطابق ( جو وفات سے چند دن قبل الفضل میں چھپ چکی تھی ) اپنی عمر کی 66 منزلیں طے کر کے اپنے خالق و مالک کے حضور حاضر ہو گئے.فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ میں نے اپنے اس مضمون کو حضرت مرحوم و مغفور کے ساتھ حضرت اماں جان نوراللہ مرقدہا کے خاص لاڈ کے ذکر سے شروع کیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت اماں جان کو مرحوم سے بے حد محبت تھی.مرحوم مجھ سے ذکر کیا کرتے ہیں کہ جب ان کی نئی نئی شادی ہوئی تو حضرت اماں جان نے انہیں فرمایا کہ میاں عبداللہ خاں جب مبارکہ ( یعنی مخدومہه ومحترمه حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ ) کی شادی میاں ( یعنی حضرت نواب محمد علی خان صاحب) سے ہوئی تو اس وقت چونکہ نواب صاحب کی عمر بڑی تھی.اس لئے اپنے داماد کے ساتھ محبت کرنے کا جو شوق ہوتا ہے.میں اسے پورا نہ کر سکی.اس لئے میں تم سے دہری محبت کر کے اس کمی کو بھی پورا کروں گی.حضرت میاں عبداللہ خان صاحب مجھ سے فرمایا کرتے تھے کہ پھر حضرت اماں جان نے میرے ساتھ محبت کرنے میں حد کر دی اور جب میں نے متاہل زندگی کی ذمہ داریوں کو سنبھالا.اس وقت اتفاق سے والد محترم ( یعنی حضرت نواب محمد علی خان صاحب قبلہ کی مالی حالت کمزور تھی اور مالی لحاظ سے میں تو قریباً تہی دست تھا.حضرت اماں جان نے ہر طرح سے میری غیر معمولی مدد فرمائی.یہاں تک کہ مالی مدد اور دعاؤں کی برکت سے لاکھوں کی جائیداد کا مالک اور کئی ہزار روپیہ میری ماہوار آمدنی ہوگئی میرے یہ سب برگ و بار حضرت اماں جان کی محبت اور دعاؤں کی برکت سے ہیں.یہاں یہ بات بھی شاید قابل ذکر ہو کہ ہجرت کے موقع پر جب میں قادیان سے وسط نومبر 1947ء میں لاہور پہنچا.تو اس وقت میرے پاس اپنے سارے خاندان کے افراد کیلئے جو اس وقت
169 لاہور میں موجود تھے اور تعداد میں آٹھ تھے صرف ایک لحاف تھا.میں نے دوسرے دن حضرت مرحوم و مغفور سے اپنی حالت کا ذکر کیا.تو انہوں نے فرمایا کہ میں ابھی اس کا انتظام کرتا ہوں.اور یہ کہہ کر اندر تشریف لے گئے اور اپنا نہایت خوبصورت اور قیمتی اور اچھا خاصا بڑالحاف لا کر مجھے دے دیا.اور خود حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ اماں جان! میرے پاس رات سونے کیلئے کوئی لحاف نہیں.اماں جان نے فرمایا میاں تمہارا اپنا لحاف کیا ہوا؟ اُن کے اس جواب پر کہ میں نے وہ ملک صاحب ( یعنی اس عاجز ملک غلام فرید ) کو دے دیا ہے کہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا.حضرت اماں جان نے اسی وقت اپنا لحاف حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کو دے دیا اور حضرت اماں جان کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مہیا کر دیا.آج سے پچاس برس پہلے کی بات ہے کہ سید نا حضرت خلیفہ المسح اول رضی اللہ عنہ کی تحر یک پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے اپنے اخراجات کم کرنے کیلئے اپنے تینوں بیٹوں یعنی میاں عبد الرحمن خاں صاحب مرحوم و مغفور ، حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ اور میاں عبدالرحیم خان صاحب خالد کو 1911 ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل کروا دیا.میاں محمد عبد اللہ خان صاحب اور میاں عبدالرحیم خان صاحب خالد ساتویں جماعت میں داخل ہوئے.جس میں ان دنوں میں پڑھتا تھا.ان دنوں حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی معاشرت کی یہ کیفیت تھی کہ یہ تینوں بھائی اپنی کوٹھی دار السلام سے جو قصبہ قادیان سے باہر تھی.سکول میں جو ان دنوں قصبہ میں تھا.نہایت خوبصورت اور قیمتی گھوڑیوں پر سوار ہو کر آیا کرتے تھے.اور ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ان کا ذاتی خادم بھی ہوا کرتا تھا.سکول میں داخل ہونے کے چند دن بعد حضرت نواب صاحب نے اس وقت کے سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب جناب مولوی صدر دین صاحب سے فرمایا کہ میرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کیلئے چند قابل اعتماد اور شریف طلباء میری کوٹھی پر بھجوا دیا کریں.ان لڑکوں میں میرا انتخاب بھی ہوا.اور اسی دن سے اس عاجز کے ساتھ میاں محمد عبداللہ خاں صاحب کا تعلق قائم ہوا جسے اس شہزادے نے کمال وفاداری سے پورے پچاس سال تک نباہا.ان دنوں مجھے سید نا حضرت خلیفتر امسیح اول رضی اللہ عنہ کے قرآن کریم کے درسوں میں شامل ہونے کا بہت شوق تھا.حضرت خلیفتہ امیج اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کریم کے پبلک درس کے علاوہ جو حضور مسجد اقصیٰ میں نماز عصر کے بعد قادیان کی ساری جماعت کو دیا کرتے تھے.ایک درس اپنے کچے مکان کے صحن میں مغرب کی
170 نماز کے بعد بھی دیا کرتے تھے.میں اس درس میں بھی شامل ہوا کرتا تھا.میں نے ایک دن حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب اور میاں عبدالرحیم خان صاحب خالد کو بھی درس میں شامل ہونے کی تحریک کی.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے جو شام کے بعد بچوں کو گھر سے نکلنے کی اجازت دینے کا خیال بھی نہ کر سکتے تھے.مجھے پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے ان دونوں صاحبزادوں کو اس شام کے درس میں شامل ہونے کی اجازت دے دی.اس وقت قادیان کی زندگی نہایت غریبانہ زندگی تھی اور درس کی اس مجلس کیلئے نہایت معمولی ایک آدھ لیمپ ہوا کرتا تھا.درس میں حاضری کی دوسری شام کو ہی میاں محمد عبد اللہ خان صاحب اپنی کوٹھی سے گیس کا ایک لیمپ لے آئے حضرت خلیفتہ اسیح اول رضی اللہ عنہ نے جب گیس کی وہ سفید اور خوشنما روشنی دیکھی تو حضور نہایت خوش ہوئے اور بار بار فرماتے کہ آج تو ہمارا دل باغ باغ ہو گیا ہے اور نواب صاحب کے ان دونوں صاحبزادوں کو بہت دعائیں دیں.انہی دنوں درس کی اس مجلس میں ایک عجیب وغریب واقعہ ہوا.حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے تعلق باللہ کے کچھ واقعات سنا رہے تھے.ان واقعات میں حضور نے یہ ذکر بھی فرمایا کہ ایک دن مجلس میں بیٹھے ہوئے شاہ عبدالرحیم صاحب کو الہام ہوا کہ تم حاضرین مجلس کیلئے دعا کرو.تو یہ سب لوگ جنت میں جائیں گے.یہ بات بیان کر کے پاک مسیح کے صدیق نے فرمایا کہ خدا نے اس وقت مجھے بھی فرمایا ہے کہ تم اس مجلس کے حاضرین کیلئے دعا کرو تو یہ سب بھی جنت میں جائیں گے.اس کے بعد حضور نے دعا فرمائی.اس شام کی اس مجلس کی کیفیت کا کچھ وہی لوگ اندازہ کر سکتے ہیں.جو اس مجلس میں حاضر تھے اس مجلس میں حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب بھی شامل تھے اور صوفی محمد ابراہیم صاحب بھی.ان دنوں میاں صاحب مرحوم مغفور قرآن کریم کے درسوں میں شامل ہونے کے علاوہ نہایت با قاعدگی سے پانچ وقت نماز کیلئے مسجد نور میں حاضر ہوتے تھے.اور تہجد کی نماز بھی پڑھتے تھے.یہ ان کے بچپن کے زمانہ کے واقعات ہیں.ابھی آپ آٹھویں جماعت میں ہی پڑھتے تھے کہ علی گڑھ کے کسی رئیس کی دو بیٹیوں کے ساتھ ان کے اور ان کے بڑے بھائی میاں عبدالرحمن خان صاحب مرحوم و مغفور کے رشتہ کا معاملہ چھڑا.اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ علی گڑھ جانے کیلئے ان دونوں صاحبزادوں کیلئے لباس بھی تیار کروالیا
171 گیا.لیکن آسمان پر تو حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کیلئے خدا کے مسیح کی دامادی لکھی ہوئی تھی.علی گڑھ کے رئیس کے ہاں ان کی شادی کیسے ہو سکتی تھی.اس لئے بعض وجوہات کے سبب وہ معاملہ رک گیا.1915ء میں جب آپ دسویں جماعت میں پڑھتے تھے تو ان کا حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ کے ساتھ نکاح کا معاملہ زیر غور ہوا.معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کو حضرت نواب محمد علی صاحب رضی اللہ عنہ کی کون سی نیکی پسند آئی کہ نہ صرف انہیں بلکہ ان کے لخت جگر کو بھی دامادی مسیح پاک کی سعادت حاصل ہوئی.میاں صاحب نے ان دنوں بار بار مجھ سے ذکر کیا.کہ میرے لئے اس رشتہ میں صرف یہ کشش ہے کہ میرا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہو جائے.ایک موقعہ پر اس رشتہ میں کچھ عارضی رکاوٹ پیدا ہوئی.تو مرحوم و مغفور بہت بے قرار ہوئے اور بہت دعائیں کیں اور کروائیں اور آخر حضرت صاحبزادی صاحبہ کے ساتھ ان کا نکاح ہو گیا.اس نکاح کا خطبہ پڑھنے کیلئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو خاص طور پر لا ہور سے بلوایا.مجھے خوب یاد ہے کہ خطبہ نکاح میں حضرت مولوی صاحب موصوف نے حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام دخت کرام کی خوب تشریح فرمائی اور فرمایا کہ لفظ کرام لفظ کریم کی جمع ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام ہے کہ جَرِيُّ اللَّهِ فِى حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ اس نسبت سے اللہ تعالیٰ نے دخت کرام کے الفاظ آپ کیلئے استعمال فرمائے.1914-15ء میں ہم دسویں جماعت میں پڑھتے تھے.یہ خلافت ثانیہ کا پہلا سال تھا.تعلیم الاسلام ہائی سکول کو اس وقت سلسلہ کی ایک اہم انسٹی ٹیوشن خیال کیا جا تا تھا.ہمارے مخالف یہ خیال کرتے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھے کہ میاں صاحب سے ( یعنی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ) اور ان کے ساتھیوں سے ان کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ ادارے کہاں کا میابی سے چل سکیں گے.اس لئے طبعی طور پر خود حضرت خلیفتہ امسیح اور دوسرے احباب کو بھی یہ خیال تھا کہ کہیں دسویں جماعت کا نتیجہ خراب نہ نکلے خصوصاً جبکہ اس سے پہلے سال تعلیم الاسلام ہائی سکول کا میٹرک کا نتیجہ نہایت خراب نکل چکا تھا.میاں محمد عبد اللہ خان صاحب مرحوم و مغفور جماعت میں ایک کمزور طالب علم تھے.اس کے علاوہ دسویں جماعت میں وہ کئی ماہ بیمار بھی رہے.اس خیال سے کہ جماعت کا نتیجہ اچھار ہے.اس وقت کے ہیڈ ماسٹر حضرت مولوی محمد دین صاحب ( موجودہ ناظر تعلیم ) نے میاں محمد عبد اللہ خان
172 صاحب سے کہا کہ آپ نے پاس تو ہونا نہیں آپ کے امتحان میں شامل ہونے سے خواہ مخواہ فیل شدہ طلباء کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور ہمارے سکول کی بدنامی ہوگی.بہتر ہے کہ آپ اس دفعہ امتحان میں شامل ہونے کیلئے اپنا نام ہی نہ بھیجیں.مرحوم ایک نیک دل انسان تھے.انہوں نے ہیڈ ماسٹر کی بات کو مان لیا.دوسرے یا تیسرے دن مجھ سے کہنے لگے کہ آج رات سوتے میں مجھے آواز آئی.مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمی.اس لئے خیال آتا ہے کہ اگر امتحان میں شامل ہو جاؤں تو شاید پاس ہی ہو جاؤں.آپ کی نیکی اور تقویٰ کو جانتے ہوئے مجھے یقین تھا کہ یہ اس نیک اور متقی نوجوان کو واضح الہام ہوا ہے میں نے حضرت مولوی محمد دین صاحب سے اس کا ذکر کیا.تو وہ بھی مرحوم کا نام امتحان میں بھیجنے کیلئے رضامند ہو گئے اور مرحوم با وجود ایک کمزور طالب علم ہونے کے اور کئی ماہ بیمار رہنے کے اور تعلیم میں رغبت نہ رکھنے کے امتحان میں پاس ہو گئے.اس الہام کی طلباء میں کئی دنوں بہت شہرت رہی.ان کی سچی خوابوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں (ابھی چند دن ہوئے الفضل میں ان کی ایک رؤیا چھپی تھی جس میں انہیں اپنی عمر 66 سال بتلائی گئی تھی.اور اسی کے مطابق وہ 66 سال کی عمر میں فوت ہوئے ).میں اپنے نوجوان طالب علموں کے فائدہ کیلئے آپ کی زندگی کا ایک اور واقعہ بھی یہاں ذکر کر دیتا ہوں.موصوف نویں جماعت میں پڑھتے تھے کہ وہ ہائی سکول کی فٹ بال کی ٹیم میں کھیلا کرتے تھے.ان دنوں محکمہ تعلیم پنجاب کی طرف سے تمام سکولوں کی ٹیموں کیلئے خاص خاص وردیاں مقرر ہوئی تھیں.جن کو کھیل کے میدان میں کھلاڑیوں کیلئے پہننا ضروری قرار دیا گیا تھا.مرحوم کو بھی کھیل کے وقت وہ ور دی جو تعلیم الاسلام ہائی سکول کیلئے مقرر تھی پہنا ضروری تھی.وہ ایک خاص وضع کی نکر اور سفید قمیص تھی.حضرت نواب محمد علی خان صاحب پردہ کے نہ صرف عورتوں کیلئے بلکہ مردوں کیلئے بھی شدت سے قائل اور خود اس کے پابند تھے ان کا خیال تھا کہ مردوں کی ٹانگوں کا پردہ ٹخنوں تک ہوتا ہے.فٹ بال کی مجوزہ وردی میں ساری ٹانگ گوجرابوں اور نگر سے ڈھکی جاسکتی تھی لیکن گھٹنے ابھی ننگے رہتے تھے.میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کو عمر کے تقاضا سے ٹیم میں کھیلنے کا بے حد شوق تھا.لیکن حضرت نواب صاحب کا اصرار تھا کہ میں اس وقت تک کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتا.جب تک میاں محمد عبداللہ خاں صاحب گھٹنوں کو بھی نہ ڈھانکیں.چنانچہ حضرت نواب صاحب کی خواہش اور
173 شرط کو پورا کرنے کیلئے مرحوم نے ربڑ کی ایک knee caps بنوائی جو وہ گھٹنوں پر پہنتے تھے.اس طرح ان کی ٹانگیں مکمل طور پر ٹخنوں تک ڈھانکی جاتی تھیں.اس معمولی واقعہ کے ذکر سے مجھے صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ مغربی تہذیب کے اثر کے ماتحت اب پردہ کا کیا حشر ہو گیا ہے.آپ کی شادی کے تعلق میں میں ایک اور ایمان افروز واقعہ کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے مسیح کی صاحبزادی اور ریاست مالیر کوٹلہ کے حکمران خاندان کے شاہزادے کی شادی کس سادگی سے ہوئی.میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کی شادی حضرت قبلہ نواب صاحب کے بیٹوں کی شادی میں پہلی شادی تھی اور قدرتا پہلی شادی میں زیادہ شوق کا اظہار کیا جاتا ہے اور خرچ بھی زیادہ کیا جاتا ہے.لیکن یہاں یہ ہوا کہ اس شادی میں شمولیت کیلئے قادیان کے باہر سے حضرت نواب صاحب نے جن اصحاب کو بلوایا.وہ صرف میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کے تعلق کی وجہ سے یہ خاکسار تھا یا مالیر کوٹلہ سے خان صاحب امراؤ علی خان صاحب جو حضرت نواب صاحب کے قریبی رشتہ دار تھے اور یا حضرت میر عنایت علی صاحب رضی اللہ عنہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت قدیم صحابی اور حضرت نواب صاحب کے پرانے ملازم تھے حالانکہ حضرت نواب صاحب کے مالیر کوٹلہ کے سب قریبی رشتہ دار زندہ تھے.لاہور میں ان کے چھوٹے بھائی سرذوالفقار علی خان صاحب صوبہ میں بہت عظمت کے مالک تھے اور مالیر کوٹلہ میں حضرت نواب صاحب کی بڑی ہمشیرہ بھی بقید حیات تھیں.حضرت نواب صاحب کا یہ خیال عقیدہ کی حد تک پہنچا ہوا تھا کہ رخصتانہ کے وقت دولہا کو اپنی دلہن کو لینے کیلئے اس کے گھر نہیں جانا چاہئے.بلکہ دلہن کی رشتہ دار عورتوں کو خود دلہن کو دولہا کے گھر پہنچانا چاہئے.مجھے معلوم نہیں کہ حضرت نواب صاحب کے اس خیال کی بنیاد کیا تھی.ممکن ہے انہوں نے کسی حدیث یا اسلامی تاریخ کی کسی کتاب میں پڑھا ہو کہ آنحضرت ﷺ کی کسی صاحبزادی کا رخصتانہ اسی طرح سے ہوا تھا.بہر حال وہ اس خیال پر شدت سے قائم تھے.اس لئے جب حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے رخصتانہ کا وقت ہوا.تو حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے غالباً حضرت نواب صاحب کے اس خیال کو جانتے ہوئے کہ کسی برات وغیرہ کا آنا تو خارج از بحث ہے میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کو کہلا بھیجا کہ آپ اکیلے ہی ہمارے ہاں آجائیں.یہ بات مجھے خود میاں عبداللہ خان صاحب نے بتلائی.کہ جب وہ حضرت اماں جان کے ارشاد کی تعمیل میں اکیلے کوٹھی دار السلام سے دارا مسیح کی طرف گئے.تو پہلے اس کے کہ
174 وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے اندر داخل ہوں حضرت نواب صاحب کو میاں محمد عبداللہ خاں صاحب کے اس طرح 1 کیلے جانے کا علم ہو گیا اور انہوں نے اپنے ایک خادم میاں جیوا کو میاں صاحب کے پیچھے بھیج کر انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر داخل ہونے سے روک دیا.اور جیسے میاں صاحب مغفورا کیلئے آئے تھے ویسے اکیلے ہی واپس چلے گئے.بعد میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو احادیث کی کتابوں کے حوالہ جات نکال کر بتلایا گیا.کہ اس بارہ میں ان کی شدت نا واجب تھی.تو انہوں نے اپنے خیال کو بدل لیا.بہر حال اس سارے واقعہ سے اتنا پتہ تو لگ جاتا ہے کہ ان دونوں عالی خاندانوں کی شادیاں کس سادگی سے ہوتی تھیں.میں نے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح عمری مرتبہ برادرم مکرم ملک صلاح الدین صاحب میں پڑھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد جب سیده مخد و مه حضرت نواب مبارکه بیگم صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ کا رخصتا نہ ہوا.تو حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت بیگم صاحبہ کو اکیلے ساتھ لے کر بھرائی ہوئی آواز میں یہ فقرہ کہتے ہوئے کہ.میں اس بے باپ کی بچی کو آپ کے سپرد کرتی ہوں حضرت نواب صاحب کے پاس چھوڑ آئیں.حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کا لاہور کے کالجوں میں پڑھے ہوئے احمدی طلباء کے ایک حصہ پر بھی بہت بڑا احسان ہے.جب آپ نے میٹرک پاس کر لی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے.تو اس وقت تک احمدی طلباء مختلف کالجوں کے ہوٹلوں میں رہتے تھے اور ان کے یکجا رہنے کا کوئی انتظام نہ تھا.آپ کی اپنی رہائش کیلئے آپ کے چا سر ذوالفقار علی خان صاحب مرحوم کی عظیم الشان کوٹھی زرافشاں کوئیز روڈ پر جو موجود تھی.لیکن غریب دل نوابزادہ نے اپنے غریب احمدی بھائیوں کے ساتھ رہنا پسند کیا اور دوڑ دھوپ کر کے احمد یہ ہوٹل قائم کروایا اور اس کیلئے ایک بہت اچھا مکان کرایہ پر لیا گیا.1915ء سے لے کر 1947 ء تک جبکہ تقسیم ملک کے نتیجہ میں ہمیں قادیان سے ہجرت کر کے مغربی پنجاب آنا پڑا.یہ وسٹل قائم رہا.اس ہوٹل میں 16-1915ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے چند ماہ قیام کر کے ایم اے کا امتحان دیا.اس وقت حضرت مولا نا محمد اسمعیل صاحب فاضل حضرت صاحبزادہ صاحب کے امتحان کی تیاری میں مددفرماتے ہو
175 تھے.جب فروری 1917ء میں میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کی شادی ہو گئی.تو کالج کی تعلیم چھوڑ کر آپ مستقل طور پر قادیان تشریف لے گئے.حضرت نواب صاحب مرحوم و مغفور نے اپنی زندگی میں لاکھوں کی جائیداد پیدا کی اور یہ ساری جائیداد اپنی کوشش اور ہمت اور محنت سے ہی پیدا کی.اس جائیداد کے منتظم اور منصرم بھی وہ خود ہی تھے.یہاں تک کہ اپنی لمبی اور خطرناک بیماری میں بھی اپنی جائیداد اور دیگر کاموں کی خود ہی نگرانی کرتے تھے.ان کے صاحبزادگان ان کاموں کے سرانجام دینے میں کبھی کبھی ان کی کچھ مد دضرور کر دیا کرتے تھے.انہوں نے مجھ سے کئی دفعہ فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں خوب دولت پیدا کروں اور خدا کی راہ میں خوب چندے دوں.اور مسیح کی بیٹی کی خوب خدمت کروں.ان کے دل میں سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ اپنی بیگم کی ہر طرح سے خدمت کریں اور انہیں خوش رکھیں اور وہ صرف اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لخت جگر ہیں.یہ سبق انہوں نے اپنے عالی مرتبت والد ماجد سے سیکھا تھا.آپ نے مال پیدا کرنے میں بے شک بڑی محنت اور کوشش کی لیکن ان کی زندگی میں میں نے بعض واقعات ایسے دیکھے جن سے میں نے محسوس کیا کہ بچے اور پکے مومن کی طرح انہیں اپنی ذات کیلئے مال سے محبت نہ تھی.چنانچہ پچھلے دنوں ان کا کئی لاکھ کا کیم جانچ پڑتال میں آکر تمام کا تمام کٹ گیا اور صرف ساڑھے چار ہزار روپیہ رہ گیا.جب ان کے وکیل مکرمی شیخ نوراحمد صاحب نے مجھے یہ بات بتلائی اور ساتھ ہی مجھ سے یہ بھی کہا کہ اس کلیم کے بحال ہونے کی بھی بظاہر کوئی امید نہیں تو میں سخت گھبرایا اور یہ خیال کر کے کہ دل کی ایسی خطرناک بیماری کے دوران ایسی وحشت ناک خبر کہیں ان کیلئے مہلک ثابت نہ ہو.میں اسی وقت ان کو تسلی دینے کیلئے ماڈل ٹاؤن ان کی کوٹھی پر پہنچا.لیکن جب میں وہاں پہنچا تو مرحوم کو معمول کی طرح مطمئن پایا.اور جب میں فکر مند انہ لہجہ میں ان سے اظہار ہمدردی کرنے لگا اور کچھ تجاویز جو کلیم کی بحالی کیلئے میرے ذہن میں تھیں ، ان سے ان کا ذکر کرنے لگا.تو انہوں نے نہایت بے پروائی سے فرمایا کہ ملک صاحب! کوئی فکر کی بات نہیں.سب معاملہ اپنے وقت پر ٹھیک ہو جائے گا.چنانچہ اپیل کی آخری عدالت میں ان کا سارا کلیم بحال ہو گیا.گوظاہری حالات میں اس کے بحال ہونے کی کوئی امید نہ تھی اس بارہ میں میری اس گفتگو کے وقت محترم صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب بھی موجود تھے.
176 باوجود یکہ آپ ایک بہت بڑے رئیس کے بیٹے تھے اور جب انہوں نے ہوش کی آنکھیں کھولیں تو نوکروں اور خدام کی ایک فوج کو اپنے گرد پا یا اور تعم اور تعیش کے سب لوازمات موجود تھے.لیکن وہ دل کے بڑے ہی غریب تھے.ساری عمر وہ غریبوں سے محبت کرتے رہے اور غریب ہی ان کے دوست تھے.امیروں سے انہوں نے کبھی سروکار نہ رکھا.طالب علمی میں بھی ان کا یہی حال تھا اور جب بڑے ہوئے اور دولت مند بھی ہوئے تب بھی ان کا یہی حال رہا.وہ بڑے فخر اور خوشی سے مجھے سنایا کرتے تھے کہ جب ان کے والد محترم حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ نے محلات کی زندگی پر لات مار کر اور بھر پور جوانی میں عیش وعشرت کے سب سامانوں کو تیاگ کر خدا کے مسیح کے در کی غلامی اختیار کی.اور قادیان میں آکر رہائش پذیر ہو گئے.تو انہیں ایک معمولی سامکان رہائش کیلئے ملا.وہ مکان اتنا چھوٹا تھا کہ پہلے ہم تینوں بھائی یعنی میاں عبدالرحمن خان صاحب مرحوم خود میاں صاحب اور میاں عبدالرحیم خان صاحب) زمین پر سوتے تھے.پھر ہمیں ایک چار پائی دی گئی.جس پر میں اور میرے چھوٹے بھائی میاں عبدالرحیم خان صاحب خالد ا کٹھے سوتے تھے.یہ شاید انہی قربانیوں کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ اور ان کی اولا د کو دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازا.حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب خدا تعالیٰ کے نہایت شاکر بندے تھے اور غالبا یہ ان کے کیریکٹر کا سب سے نمایاں پہلو تھا.میں نے ان پر تنگی کی حالتوں کو بھی دیکھا اور اس حالت کو بھی جب ان کی سالانہ آمدنی ہزاروں تک پہنچ چکی تھی.وہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے نہیں تھکتے تھے.میں نے بلا مبالغہ ان گنت مرتبہ ان کی زبان سے یہ فقرہ سنا کہ ملک صاحب! اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑے ہی احسان کئے ہیں.میں ان احسانات کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا.ان کے عبد شکور ہونے کا بہترین منظر میں نے ان کی لمبی اور خطرناک بیماری میں دیکھا.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس خطرناک اور لمبی بیماری کے دوران جب کہ ان کے جسم کا کوئی ایک انچ بھی ایسا نہ رہا تھا.جس کوٹیکوں سے نہ چھیدا گیا ہو اور ڈاکٹر صاحبان ان کے دل کی بیماری کے پیش نظر یہ بات سننے کیلئے بھی تیار نہ تھے کہ نواب صاحب موصوف چند دن سے زیادہ زندہ بھی رہ سکتے ہیں میں نے ایک دفعہ بھی ان کے منہ سے کوئی شکایت کا کلمہ نہ سنا.اور بیسیوں مرتبہ میں نے اس بیماری میں ان کے منہ سے یہ فقرہ سنا کہ خدا کے مجھ پر بے انتہاء احسان ہیں.جن کا میں شکر ادا نہیں کر سکتا.
177.آپ پنجوقتہ نماز با جماعت کے نہایت شدت کے ساتھ پابند تھے.میں نے اپنی زندگی کے پچاس سال ان کے ساتھ گزارے میں ایمانداری کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے آپ کی طرح حمول اور تم میں پرورش پایا ہوا نماز کا ایسا پابند انسان ساری عمر میں نہیں دیکھا.وہ جہاں کہیں ہوتے تھے.یہاں تک کہ جب وہ سیر یا بحالی صحت کیلئے پہاڑ پر بھی جایا کرتے تھے تو ان کی کوٹھی کا ایک کمرہ ہمیشہ نماز با جماعت کیلئے مخصوص ہوتا تھا.نہایت با قاعدگی سے پانچ وقت اذان ہو کر نماز با جماعت ہوتی تھی.انہوں نے زندگی کے آخری سال لاہور میں گزارے اور شاید سارے شہر لاہور میں صرف ان کی کوٹھی ہی تھی.جہاں پانچ وقت با جماعت نماز کے علاوہ ماڈل ٹاؤن کے احباب نماز جمعہ بھی ادا کرتے تھے اور وہاں حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس بھی ہوتا تھا.جن حالات میں آپ نے پرورش پائی ان کو دیکھتے ہوئے ان کا ایسا پابند صوم صلوۃ ہونا ان کے باخدا انسان ہونے کی ایک زندہ دلیل ہے.ان کا ایک نمایاں وصف مہمان نوازی بھی تھا.وہ اپنے احباب کی دعوتیں کر کے جتنے خوش ہوتے تھے اور کسی بات سے اتنا خوش نہ ہوتے.اور ظاہر ہے کہ مہمان نوازی کو اسلامی اخلاق میں ایک بہت بلند مقام حاصل ہے.مرحوم دل کے غریب، غریب دوست اور غریب نواز انسان تھے.لیکن حق بات کہنے میں وہ ایک نڈر مومن تھے.اور حق گوئی میں وہ کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتے تھے.لیکن یہی بیباک حق گوئی جب کبھی جائز حدود سے تجاوز کر کے کسی کی دل آزاری کا موجب ہوتی تھی.تو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے اور جس بھائی کو ان سے تکلیف پہنچی ہوتی تھی.اس سے معافی مانگنے میں بھی وہ ویسے ہی دلیر تھے.بعض صورتوں میں انہیں اپنے ادنی ملازمین سے بھی معافی مانگنے میں عار نہ ہوتی تھی.ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی.کہ ان کی اولاد د بیدار اور سلسلہ کی خادم ہو اور جس طرح ان کا اپنا جسمانی رشتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہے.اسی طرح ان کی ساری اولا دکا بھی خونی تعلق حضور علیہ السلام سے قائم ہو.اس خواہش کے مدنظر انہوں نے اپنے سارے بچوں اور بچیوں کے رشتے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں کئے.اپنے بچوں کیلئے رشتہ کے انتخاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلق کے مقابلہ میں کسی دنیوی دولت یا و جاہت کو پر کاہ کے برابر نہیں سمجھتے تھے.
178 خدا کا یہ سچا اور پکا مومن بندہ اور ایک غریب ، سادہ اور شاکر دل رکھنے والا اور اپنے رب کے غریب بندوں پر شفقت کرنے والا بندہ 66 سال اس جہان نا پائیدار میں رہ کر آخر 18 ستمبر کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملا.آج سے قریباً ایک ماہ قبل جب میں مری میں تھا اور اخبار الفضل سے ان کی موجودہ بیماری کا مجھے علم ہوا تو میں نے انہیں ایک محبت بھرا خط لکھا.جس کا جواب انہوں نے ماہ اگست کے وسط میں اپنے قلم سے مجھے لکھا.یہ خط شاید دنیا میں ان کا آخری خط تھا.اس میں انہوں نے یہ احساس کرتے ہوئے بھی کہ اب وہ زندگی کی آخری منزلیں طے کر رہے ہیں.کسی قسم کے فکریا گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا ہوا تھا.حالانکہ کئی اہم خانگی فرائض ان کی نگرانی کے محتاج تھے.اس خط میں انہوں نے مجھے لکھا کہ اب چل چلاؤ کے اشارے ہور ہے ہیں ( یعنی سفر آخرت کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے اشارے ہو رہے ہیں ) اور صرف ایک خواہش کا اظہار کیا ہوا تھا کہ دعا کریں میری اولاد نیک اور دیندار ہو.ان کی وفات سے صرف چند دن قبل میں نے رویا دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انتقال فرما گئے ہیں.میر اما تھا اس وقت ٹھنکا تھا کہ کہیں یہ رویا حضرت میاں محمدعبد اللہ خاں صاحب کی وفات کے متعلق ہی نہ ہو کہ نواب صاحب مرحوم و مغفور سچ سچ فنافی اسیج تھے.یہ رویا میں نے صاحبزادہ عالی مقام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو بھی لکھ دی تھی اور حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کی وفات سے صرف ایک دن پہلے مخلہ سے مجھے آپ کا جواب بھی مل گیا تھا.اسی طرح حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کی وفات سے صرف ایک دن پہلے یہ خواب میں نے محترم صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب کو بھی سنا دی تھی اور انہوں نے صدقہ بھی کروا دیا تھا.آہ ، حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کی وفات سے بہت سے نیک دل مجروح ہوئے ہیں.مگر خدا کی تقدیر میں پوری ہو کر رہتی ہیں.خدا تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں میاں صاحب کی روح پر ہوں.آمین (الفضل29 و30 ستمبر 1961ء) 34- ایک مینیجر اراضی کے تاثرات محترم چوہدری رشید احمد صاحب مقیم شکار پور کالونی کراچی نمبر 5 جو سالہا سال تک آپ کی اراضی کے مینیجر رہے ہیں.سناتے تھے کہ :.آپ نے اپنے عملہ کو یہ تحریری ہدایت کر دی تھی کہ تول اور بھاؤ میں کسی قسم کی گڑ بڑ نہ کی جائے.
179 کیونکہ تول ماپ میں کمی اور دھوکہ دہی کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے ایک نبی مبعوث فرمایا تھا.اگر کوئی کارکن ایسا کرے گا تو عنداللہ وہ خود اس کا ذمہ دار ہوگا.ابتداء میں جب آپ نے سندھ میں اراضی حاصل کی تھی.تو میرے بھائی محمد اکرم صاحب اور میں آپ کے ساتھ بنگلہ یوسف ڈاہری نزد محمود آباد فارم میں مقیم تھے ہندو ایس ڈی او وہاں آیا ہوا تھا.اور اراضی کے تعلق میں نواب صاحب اس کے محتاج تھے.لیکن نواب صاحب وقت پر ادا ئیگی نماز کے پابند تھے.عین اس وقت جبکہ ضروری گفتگو ہورہی تھی.ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا اور آپ کے ارشاد پر اذان دی گئی اور آپ اٹھ کر نماز کیلئے چلے آئے.اسی طرح آپ تبلیغ کرنے کا گہرا جذ بہ بھی رکھتے تھے اور اس بارہ میں کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے.چنانچہ ایک ہندو اسٹنٹ انجینئر کو جو ولایت پلیٹ تھا میں نے تبلیغ کرتے اور اسلام کے متعلق کتب دیتے دیکھا ہے.حالانکہ وہ الیس ڈی او تھا اور آپ دوسروں کی طرح اس کا احتیاج رکھتے تھے.آپ اپنے اہل بیت کے مداح تھے.فرماتے تھے کہ انہوں نے میری بہت خدمت کی.خواہ کتنا روپیہ خرچ کر کے خادم اور نرسیں رکھ لی جائیں.ویسی خدمت نہیں ہو سکتی.اور یہ بھی بیان کرتے تھے کہ ماموں جان حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی آپ کی زوجیت میں ہیں.آپ کا ہر کام نیکی ہے.( مطلب یہ کہ دنیوی امور کی طرف آپ جو توجہ کرتے ہیں.ان سے مقصود محترمہ صاحبزادی صاحبہ کی خدمت ہے ) آپ کے حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی جیسے بزرگوں سے گہرے مراسم تھے.چنانچہ آپ حضرت بھائی جی کو 1933ء میں اپنے ساتھ اپنی اراضی پر لے آئے تھے.بھائی جی آٹھ ماہ کے قریب وہاں ٹھہرے.میں نے دیکھا کہ آپ نہایت با قاعدگی سے تہجد اور اشراق پڑھتے تھے.اس عرصہ میں صرف ایک رات تہجد کا ناغہ ہوا.فرماتے تھے کہ تہجد کا ناغہ ہو جائے تو اس روز میں اشراق کے وقت بارہ رکعت نفل پڑھتا ہوں.ایک روز شام کو نواب صاحب فصل دیکھنے گئے.مغرب کا وقت ہوا چاہتا تھا.بھائی جی نے کہا کہ ہم واپس چلیں.نواب صاحب نے کہا کہ ایک کھیت باقی رہ گیا ہے.اسے دیکھ کر واپس چلتے ہیں.بھائی جی نے کہا کہ میری فصل تو سوکھ گئی.آنحضرت ملے ایسے وقت میں نماز مغرب ادا کرتے تھے کہ صحابہ کا بیان ہے کہ بعد نما ز اگر تیر چلایا جا تا تو اس کے گرنے کی جگہ نظر آتی اور یہ بھی سنایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد چند دن
180 حضرت خلیفہ اول کسی وجہ سے مغرب کی نماز پڑھانے کیلئے تاخیر سے آتے رہے تو میں نے دعا ئیں کیں.کہ اے اللہ ! حضور سے بھی ہم محروم ہو گئے اور دوسری طرف مغرب کی نماز سنت کے مطابق وقت پر پڑھنے سے بھی محروم ہو گئے اور یہ میری اضطرابی دعائیں ہی اس امر کا موجب بنیں، کہ حضرت خلیفہ اول نے فرما دیا کہ میں وقت پر نہ پہنچوں تو نماز پڑھادی جایا کرے.چنانچہ حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب بقیہ کھیت دیکھے بغیر واپس ہو گئے.میں لا ابالی پن میں ہیر وارث شاہ پڑھتا تھا.آپ نے مجھے فرمایا کہ کیا اچھا ہو کہ جتنی ہیر وارث شاہ آپ کو آتی ہے اتنا قرآن مجید بھی آجائے.چنانچہ آپ نے توجہ دلا کے مجھے قرآن مجید با ترجمہ اور کچھ طب پڑھائی اور اس نیک اثر کے تحت ہیر کا پڑھنا چھوٹ گیا.آپ نے مجھے نصیحت فرمائی تھی کہ روزانہ کوئی وقت نکالا کروں جس میں بغیر کسی مطلب کے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کروں.آپ کے ان احسانات کی وجہ سے مجھے آپ سے بہت محبت تھی.تقسیم ملک کے وقت میں رتن باغ لاہور پہنچا تو دیکھا کہ آپ بھی قادیان سے ہجرت کر کے پہنچے ہوئے ہیں قادیان کے متعلق یہ صورت حال محسوس کر کے میں بہت گھبرایا.میری گھبراہٹ دیکھ کر مجھے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اینٹوں میں کیا ہے؟ میں آپ کی مالی خدمت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی وساطت سے کرتا تھا.آپ نے بھائی جی کی وفات کے بعد ازاہ کرم مجھے اس خدمت کا موقعہ عطا کیا کہ کچھ رقم جو بھائی جی کی طرف سے قابل ادا تھی میں ادا کروں.حضرت بھائی جی فرماتے تھے کہ حضرت خلیفہ اول سے میں روزانہ پڑھنے جاتا ایک روز ایک کتاب کے متعلق فرمایا کہ اگر آپ یہ کتاب مجھ سے پڑھ لیں تو ہندوستان بھر میں آپ کے پایہ کا کوئی عالم نہ ہوگا.لیکن میں نے یہ خیال کر کے نہ پڑھی کہ مبادا تکبر پیدا ہو جائے.ایک دفعہ الیس ڈی او محکمہ نہر نے ہمارا موگہ بند کر دیا میں نے بیلدار کو سخت سست کہہ کر زبر دستی پانی کھول لیا.حضرت بھائی جی کو اس واقعہ کا علم ہوا تو بہت متفکر ہوئے اور فرمایا کہ آپ نے افسر کو جس کے ہاتھ میں پانی ہے ناراض کر لیا ہے.زمین میں فصل کس طرح ہوگی.گویا سارے کئے کرائے پر پانی پھر جائے گا.یہ سخت غلطی کی ہے.آپ عشاء سے قبل تھوڑی دیر کیلئے چار پائی پر لیٹ گئے.اور پھر اٹھ کر مجھے مخاطب کر کے فرمایا.چوہدری ! اب کوئی فکر نہیں مجھے ابھی الہام ہوا ہے.NO HARM ) کہ کوئی نقصان نہ پہنچے گا ) سو باوجود یکہ افسر کے حکم کو تو ڑ کر پانی کھول لیا گیا تھا.
181 اور بیلدار سے جو سرکاری ڈیوٹی پر تھا تختی کی گئی تھی اور اس نے لازماً شکایت کی ہوگی.لیکن اس کے بعد ہمیں قطعاً کوئی نقصان نہیں پہنچا نہ ہم سے باز پرس ہوئی.عدم کا رروائی کی وجہ کاعلم نہیں ہوسکا.“ 35.والد فرزند کی نظر میں آپ کے فرزند مکرم خان شاہد احمد خان صاحب کے تاثرات ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں :.والد محترم نہایت با قاعدگی سے تہجد پڑھتے تھے.اور اس میں بلند آواز سے دعائیں کرتے تھے عرصہ تک میں سمجھتا رہا کہ نماز تہجد شاید بچوں کو معاف ہے اور بڑوں پر فرض ہے کیونکہ میں نے والد صا حب کواس باقاعدگی سے تہجد ادا کرتے ہوئے دیکھا کہ مجھے یہ معلوم کر کے از حد حیرت ہوئی کہ یہ نماز فرض نہیں.گو بعض لوگ اسے معمولی سمجھیں لیکن میری نظر میں غیر معمولی ہے اور اب تک اس کا اثر میرے ذہن پر قائم ہے اور یہ نظارہ میرے ذہن پر بچپن میں ایسا کھب گیا تھا.کہ اب بھی جب میں سوچتا ہوں تو چند لحہ قبل کی بات معلوم ہوتی ہے.ایک دفعہ سفر کراچی میں آپ کے ہمراہ تھا.ان دنوں یہ سفر دوراتوں اور ایک دن میں طے ہوتا تھا.رات کو آپ نے مجھے نچلے برتھ پر سلا دیا.اور خود او پر والے برتھ پر سو گئے.رات کے آخری حصہ میں مجھے ایک مخصوص آواز نے جگا دیا.میں نے اوپر کی طرف جھانکا تو آپ کو حسب معمول اپنے رب کے حضور نماز تہجد میں گریہ وزاری میں مصروف پایا.آپ اپنے بچوں سے بے حد پیار کرتے تھے.اور بے انتہا محبت سے آپ نے تمام بچوں کی پرورش کی.اور ہر طرح سے ان کو ناز و نعم سے پالا.لیکن دینی امور کی پابندی آپ نہایت سختی سے کرواتے تھے.قادیان کی شدید سردی کسے بھولی ہوگی.آپ موسم سرما میں ہمیشہ نماز صبح مسجد نور میں ادا کرتے اور ساتھ ہی مجھے بھی باقاعدگی سے لے جاتے تھے اور اس امر کا آپ نے کبھی خیال نہیں کیا کہ یہ بچہ ہے ان سرد برفانی ہواؤں میں بیمار پڑ جائے گا.صوم وصلوٰۃ کی پابندی کرانے میں آپ نے آخر عمر تک کبھی ہمارا لحاظ نہیں کیا.آپ کی رحمدلی کا ایک واقعہ میرے بچپن کے ذہن میں ایسا نقش ہوا ہے اور اس کی یا داس طرح تازہ ہے کہ جیسے کچھ ہی دیر قبل کی بات ہو.ایک دفعہ ہم آپ کے ساتھ لاہور گئے کار کا ڈرائیور چند دن پہلے ہی ہماری ملازمت میں آیا تھا.آپ نے اسے بہت سا رو پیدا اخراجات کیلئے دیا اور آپ کی
182 اجازت سے وہ ہماری ضروریات پر روپیہ خرچ کرتا تھا.لاہور سے مراجعت پر اس نے جو حساب دیا.تو اس میں قریباً ایک سور و پریہ کا غبن نکلا.چنانچہ آپ کے سختی سے پوچھنے پر اس نے تسلیم بھی کر لیا.اس پر آپ نے اسے سخت ست کہا اور کہا کہ اگر تم شام تک حساب پورا نہ کرو گے تو میں تمہارا معاملہ پولیس کے سپر د کر دوں گا.چنانچہ وہ چلا گیا اور شام کو کہیں سے روپے لے کر آ گیا.آپ اس وقت باغ میں ٹہل رہے تھے اور پاس ہی میں کھیل رہا تھا.جب اس نے روپیہ آپ کو دیا.تو میں نے دیکھا کہ روپیہ چھوٹے چھوٹے نوٹوں کی شکل میں تھا.اور معلوم ہوتا تھا کہ وہ جگہ جگہ سے مانگ کر اکٹھا کر کے لایا ہے.آپ نے روپیہ لے لیا.تو اسے کہا کہ تم نے نہایت ہی گندی حرکت کی ہے.اگر ضرورت تھی تو مجھ سے مانگ لیا ہوتا.ایسی اخلاق سے گری ہوئی حرکت کی سزا یہ ہے کہ تم نوکری سے فارغ ہو اور ابھی نکل جاؤ.ابھی والد صاحب نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ ڈرائیور رو پڑا.اور کہنے لگا.نواب صاحب! میں بیوی بچوں والا ہوں ضرورت انسان کو بہت سے گرے ہوئے کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے.آپ مجھے معاف کر دیں.میں آئندہ ایسی حرکت کبھی نہیں کروں گا.آپ یقین کریں.میں نے یہ روپے گھر گھر بھیک مانگ کر ا کٹھے کئے ہیں.اس کا یہ کہنا تھا کہ آپ کا غصہ یک لخت فرو ہو گیا اور آپ نے آہستہ آہستہ ٹہلنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ اسے نصیحت آمیز رنگ میں سمجھاتے بھی جاتے تھے.اور ٹہلتے ٹہلتے اس کے قریب پہنچتے تو پانچ یا دس کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھما دیتے اور پھر میں نے دیکھا کہ نوٹوں کی وہ تھی آہستہ آہستہ تمام کی تمام دوبارہ اس ڈرائیور کے ہاتھوں میں منتقل ہو گئی اور والد صاحب خالی ہاتھ نہیں بلکہ رحمدلی کے بدلہ رحمت الہی کے ڈھیروں ڈھیر لے کر.مولف ) گھر واپس آگئے اور اس کی غربت پر رحم کھا کر یہ رقم اسے معاف کر دی.گو اس کی بددیانتی ثابت ہونے کی وجہ سے اسے پھر ملا زمت میں رکھنے کا خطرہ مول نہیں لیا.بعد ہجرت حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولین ناظر اعلیٰ مقرر فر مایا.ان دنوں کام کی زیادتی کی وجہ سے آپ اپنی صحت کا چنداں خیال نہیں رکھ سکے.کھانے پینے اور آرام کے اوقات کی بے قاعد گیوں کی وجہ سے آپ کی صحت بہت گر گئی حتی کہ 8 فروری 1949ء کو دو پہر ایک بجے دفتر سے آتے ہوئے آپ کو دل کا شدید حملہ ہوا.اور آپ رتن باغ میں داخل ہوتے ہی سڑک پر گر پڑے.اس روز آپ پر تین بار حملے ہوئے.بظاہر مایوسی والی حالت تھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اور احباب کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور معجزانہ طور پر آپ کو مزید تیرہ سال زندگی عطا ہوئی.جب آپ کا
183 کیس یورپ اور امریکہ کے بڑے بڑے ڈاکٹروں کے بورڈ میں پیش کیا گیا.تو انہوں نے یک زبان ہو کر کہا.کہ It is a miracle یعنی یہ تو معجزہ ہے.اور انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین نہیں آتا کہ اس قدر خطرناک بیمارکس طرح بچ گیا.لاہور کے چوٹی کے ڈاکٹر جو آپ کے معالج تھے نہایت جرات سے اس امر کا اقرار کرتے تھے کہ آپ کی زندگی بچانے میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں.بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے بلکہ ایک ڈاکٹر جب رتن باغ میں آپ کے معائنہ کیلئے تشریف لائے تو کہنے لگے نواب صاحب! آپ کی زندگی ہماری وجہ سے نہیں.بلکہ اس بورڈ کی وجہ سے (جس پر روزانہ دعا کا اعلان لکھا جاتا تھا ) قائم ہے.آپ خود بھی بڑے فخر سے کہتے تھے کہ اگر کسی نے دعاؤں کا معجزہ دیکھنا ہے تو مجھے دیکھ لے.بلکہ اپنے غیر احمدی عزیزوں کو تبلیغ کرتے وقت اکثر اوقات فرماتے کہ حضرت مسیح موعود کی برکات اور آپ کی مسیحائی کا میں جیتا جاگتا ثبوت ہوں.جسے یورپ کے بڑے بڑے ڈاکٹر زندہ ماننے کو تیار نہیں بلکہ میری زندگی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے تم انکار نہیں کر سکتے.آپ دعاؤں پر بے حد یقین رکھتے تھے.اور اپنی اولاد کو بکثرت دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے اور اپنی دعاؤں کی قبولیت اور اللہ تعالیٰ کے بیشمار انعامات وافضال کا ذکر کرتے اور ہمیشہ تاکید کرتے کہ تقوی اختیار کرو اور دعاؤں کو بطور خاص شغل اختیار کرو.اور آخر پر ہمیشہ حضرت مسیح موعود کا یہ شعر پڑھتے.ہر ایک نیکی کی جڑھ اتقا ہے اگر جڑھ رہی سب کچھ رہا ہے اور یا حضور کا یہ الہام سناتے کہ جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو بلکہ اس قصے کو بڑے فخر سے بیان کرتے کہ ایک دفعہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے محمد آبا داسٹیٹ کے کارکنان کو کسی بدانتظامی پر تنیہ کی اور فرمایا کہ تمہارے قریب ہی میاں عبداللہ خان کی اسٹیٹ نصرت آباد ہے.وہ کیسی عمدگی سے اس کا انتظام کر رہے ہیں.حالانکہ وہ ذاتی طور پر زیادہ عرصہ وہاں نہیں رہتے اور تمہیں میں نے یہاں ہر قسم کی سہولتیں دے رکھی ہیں.لیکن پھر بھی تم کام ٹھیک نہیں کرتے.جب حضور ناراض ہو چکے تو آخر پر نرمی سے فرمایا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ میاں عبداللہ خاں کے کام تو خدا کرتا ہے.آپ کی بعض باتیں حیران کن نظر آتی ہیں.مثلاً باوجود بے انتہا سادہ طبیعت پانے کے آپ
184 نہایت اہم اور خصوصیت سے اہمیت رکھنے والے دینی اور دنیوی امور کے متعلق ایسی قوت فیصلہ رکھتے تھے کہ مجھے گمان گزرتا ہے کہ آپ دہری شخصیت کے مالک تھے.لیکن آپ کی وفات کے کئی سال بعد آپ کے کردار پر گہرا غور و فکر کر کے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق کے بغیر یہ بات پیدا ہو ہی نہیں سکتی.آپ مہمان نواز اتنے تھے کہ خواہ مہمان کی ہر طرح سے تسلی ہو جائے لیکن خود آپ کی تسلی نہیں ہوتی تھی.آپ کو ہر وقت اس امر کا خیال رہتا کہ مہمان کو کوئی تکلیف نہ ہو.مہمان کو اپنے سامنے کھانا کھلاتے اور اصرار سے ہر چیز اس کے سامنے خود پیش کرتے.ایک دفعہ کراچی سے لاہور آتے ہوئے میں نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ وہ ہر سٹیشن پر اتر کر ہر چیز کو حیرانی سے دیکھتا اس کی حرکات سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ یقیناً پہلی مرتبہ پنجاب وارد ہوا ہے.چنانچہ دریافت کرنے پر میرا اندازہ درست نکلا.یہ صاحب ڈھاکہ سے کراچی آئے تھے اور اب پنجاب کی کشش اس طرف کھینچ لائی تھی.دوران سفر میں ہم ایک دوسرے سے بہت بے تکلف ہو گئے اور لاہور میں دوبارہ ان سے ملنے کا وعدہ بھی کر لیا.لاہور آیا تو میں نے از راہ اخلاق ان کو پیشکش کی وہ جہاں اترنا چاہیں.میں انہیں اپنی کا رمیں وہاں پہنچا آتا ہوں اور اس طرح ان کی قیام گاہ کا بھی مجھے علم ہو جائے گا.انہوں نے ایک ہوٹل کا ذکر کیا.وہاں ہم پہنچے تو معلوم ہوا کہ گھوڑوں اور مویشیوں کی نمائش کے پیش نظر قبل از وقت بکنگ ہو چکی ہے اور کوئی جگہ نہیں جب لاہور کے تمام چھوٹے موٹے ہوٹلوں میں یہی جواب ملا اور پھرتے پھراتے دو گھنٹے صرف ہو گئے اور وہ صاحب بہت پریشان نظر آنے لگے تو میں نے ان سے کہا کہ اب تو میرا غریب خانہ ہے.اگر آپ ماڈل ٹاؤن چلنا چاہیں تو میں حاضر ہوں.پہلے تو وہ کچھ ہچکچائے لیکن پھر مان گئے.ان دنوں ہمارے ہاں بھی مہمان آئے ہوئے تھے.اس لئے ہم دونوں ایک کمرے میں ٹھہرے صبح کو تیار ہوتے وقت اخلاقاً میں ان سے درخواست کرتا کہ پہلے وہ غسل خانہ استعمال کریں چنانچہ وہ تیار ہوتے اور پھر میرے تیار ہونے کے وقفہ میں وہ باہر والد صاحب کے پاس لان میں تشریف لے جاتے.مجھے معلوم نہیں کہ اس وقفہ میں والد صاحب سے وہ کیا با تیں کرتے تھے.کیونکہ میرے آنے کے بعد ہم دونوں فوراً شہر چلے جاتے.لیکن ایک بات کو میں نے محسوس کیا کہ پہلے روز ہی والد صاحب سے ملاقات کے بعد ان صاحب کا تکلف اور غیریت بالکل غائب ہو چکی تھی.کم و بیش ایک ہفتہ مہمان رہ کر وہ چلے گئے اور دوبارہ لاہور آنے پر ملاقات
185 کا وعدہ بھی کر گئے.والد صاحب کی وفات اور ان صاحب کے جانے کے قریباً اڑ ہائی تین سال بعد ایک دن دفتر میں مجھے ان کا ٹیلی فون آیا کہ وہ رات لاہور پہنچے ہیں اور مجھے ابھی ملنے کیلئے آرہے ہیں.چنانچہ وہ آئے اور علیک سلیک کے بعد پہلا سوال انہوں نے یہ کیا کہ والد صاحب کی طبیعت کیسی ہے؟ میں نے کہا کہ وہ تو آپ کے جانے کے چند ماہ بعد ہی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے.یہ سن کے وہ بیتابی سے کرسی سے اچھل پڑے اور کیا کہہ کر پھٹی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگے اور ان کی آنکھوں میں آنسو جمع ہونے شروع ہو گئے.اور انہوں نے رونے والی آواز سے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ شاہد صاحب! آپ یقین کریں آپ سے زیادہ میں ان سے بے تکلف تھا.اب آپ کے گھر جانے کی مجھ میں ہمت نہیں“ والدصاحب کی دیانت ایسی اعلیٰ پایہ کی تھی کہ ایک دفعہ ان کا کلیم ایک عدالت میں پیش تھا.حاکم نے وکیل کے دلائل سن کر فیصلہ کیا کہ اگر نواب صاحب یہ حلف نامہ عدالت میں داخل کر دیں کہ اس کے علاوہ انہوں نے ابھی تک کوئی زمین بطور شیڈول نمبر 6 حاصل نہیں کی.تو ان کا اتنے لاکھ کا کلیم منظور کیا جاتا ہے اور اس حلف نامہ کے داخل کرنے کی میعاد صرف چوبیس گھنٹے مقرر کی.پڑتال کرنے پر معلوم ہوا کہ قریباً 18 کنال اراضی کسی غلط فہمی کی وجہ سے الاٹ ہو چکی ہے.وکیل نے والد صاحب سے کہا کہ یہ زمین ہم واپس کر دیں گے.آپ حلف نامہ داخل کر دیجئے والد صاحب نے کہا کہ آپ چوبیس گھنٹے میں اراضی واپس نہیں کر سکتے اور میں غلط حلفیہ بیان نہیں دے سکتا.اس لئے آپ حلف نامہ میں تحریر کر دیجئے کہ ہمارے پاس اٹھارہ کنال اراضی ہے.وکیل نے کہا کہ میرے پیشکردہ دلائل کے بعد آپ کے پاس اگر ایک انچ زمین بھی پائی گئی تو آپ کا کیس خراب ہو جائے گا اور آپ کو ایک پیسہ کا معاوضہ نہیں ملے گا.آپ نے جواب دیا کہ میں ایسے حلف نامہ پر دستخط کرنے کو ہرگز تیار نہیں.اول تو آپ کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ آپ مجھ سے اس قسم کی غلط بیانی کی توقع رکھیں.ان حالات میں اگر آپ میری وکالت کے فرائض سر انجام نہیں دے سکتے تو آپ اپنے آپ کو اس ذمہ داری سے سبکدوش سمجھیں.اور پھر مجھ سے کہا کہ ایک حلف نامہ تحریر کر لاؤ جس میں لکھو کہ میرے پاس اٹھارہ کنال سے زائد کوئی اراضی نہیں ہے.چنانچہ ایسے حلف نامہ پر دستخط کر کے مجھے فرمایا کہ جاؤ اس افسر کے پاس لے جاؤ اور ساتھ ہی بآواز بلند إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون پڑھا.چونکہ آپ کی آخری عمر میں آپ کی جائیداد کا انتظام میرے سپر د تھا.اس لئے مجھے بخوبی معلوم
186 تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس حلف نامہ کو افسر کے روبرو پیش کرنے میں میں شرم محسوس کرتا تھا.چنانچہ جب میں نے یہ کا غذ اس کے سامنے پیش کیا.تو اس نے پڑھ کر نہایت غصہ سے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ یہ کیا ہے؟ کیا آپ کے وکیل کے تمام دلائل غلط اور بے بنیاد تھے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس حلفیہ بیان کے بعد آپ کو معاوضہ کا ایک پیسہ تک نہیں مل سکتا میں نے کہا ہاں مجھے سب معلوم ہے اس نے کہا تو پھر آپ کیا سمجھ کر میرے پاس آئے ہیں؟ میں نے جوابا کہا کہ در اصل وکیل کو اس اراضی کے متعلق علم نہیں تھا اور والد صاحب نے حقیقت کو اپنے بیان میں درج کیا ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے.مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کا وقت ضائع کیا ہے.یہ کہہ کر میں باہر جانے کیلئے دروازہ کی طرف بڑھا.ابھی بمشکل دروازہ تک ہی پہنچا تھا کہ افسر موصوف نے بڑی نرمی سے ٹھہرنے کی درخواست کی اور پھر مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کر کے گھنٹی سے اپنے سٹین کو بلا کر میرے سامنے فیصلہ لکھوایا کہ ہم نے اچھی طرح سے اپنی تسلی کر لی ہے کہ مدعی کے پاس اٹھارہ کنال کے سوا اور کوئی اراضی نہیں.اس لئے اس کے کلیم میں سے اٹھارہ کنال کی قیمت وضع کر کے باقی کلیم کا اسے حق پہنچتا ہے.ثبوت کیلئے مدعی کا حلفی بیان کا فی ہے.اس طرح حق گوئی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حالات میں فضل فرمایا.آخری عمر میں بوجہ بیماری آپ چلنے پھرنے سے معذور تھے.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ آپ کو ماڈل ٹاؤن میں جو گھر ملا وہ علاقہ میں مرکزی حیثیت رکھتا تھا.آپ نے اپنے دیرینہ شوق کے پیش نظر یہیں نماز با جماعت اور جمعہ اور عیدین کا انتظام کیا.اور اپنے خرچ سے مسجد کے لوازمات خرید کئے.اس طرح گویا درس قرآن و حدیث کا اہتمام گھر پر ہو گیا.آپ باوجود علالت کے بہت با قاعدگی سے نماز با جماعت ادا کرتے تھے.بلکہ شدید سردی میں نماز فجر بھی اپنے کمرہ سے باہر آ کر برآمدہ میں باجماعت ادا کرتے.نیز اپنی طاقت کے مطابق سلسلہ کے کاموں میں بھی حصہ لیتے.چنانچہ موٹر میں بیٹھ کر چندہ نادہندگان یا نسبتا کمزور احباب کے گھروں پر پہنچ کر بہت شفقت اور محبت سے انہیں سمجھاتے اور نمازوں میں زیادہ سے زیادہ حاضری کا ان سے وعدہ لیتے.نماز جمعہ کیلئے اپنے ہاتھوں سے صفیں بچھاتے میں نے خود ان کو دیکھا ہے.جمعہ پر آنے والوں کیلئے موسم گرما میں آپ خود برف کا پانی تیار کر کے باہر رکھوا دیتے تا کہ انہیں شدت گرما سے تکلیف نہ ہو.الغرض میں نے اپنے والد ماجد کو پابند صوم وصلوٰۃ ، تہجد گزار، مهمان نواز ، حق پرست ، حق شناس،
187 حق گو، دیانتدار، غریب نواز اور سلسلہ سے بے حد محبت کرنے والا دیکھا ہے.تمام دنیوی سامان میسر ہوتے ہوئے بھی آپ نے نہایت سادہ زندگی گزاری.تکلفات کو اپنی ذات میں کبھی داخل نہیں ہونے دیا.سلسلہ کی ہر مالی و قالی خدمت میں سب سے پہلے لبیک کہنے والوں میں ہوتے.ایک نواب زادہ اور بہت بڑی دنیوی وجاہت کے مالک ہوتے ہوئے آپ نے کبھی اس پر ذرہ بھر فخر نہیں کیا.اور اگر کبھی فخر کیا تو ہمیشہ یہ کہا کہ تیرہ سو سال کے انتظار کے بعد اللہ تعالیٰ کا مسیح اس دنیا میں آیا اور کروڑوں انسانوں میں سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی دامادی کا شرف پہلے میرے والد کو اور پھر مجھے عطا کیا.اور جب بھی اس کا ذکر کرتے تو نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر کرتے اور کہتے کہ دیکھو! بھلا میرے میں کیا تھا ؟ اور پھر بات ادھوری چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے اس خاص سلوک کا ذکر کرتے.يَدَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةَ جب بھی میری والدہ کا ذکر کرتے.تو نہایت ادب سے ان کا ذکر کرتے اور ہمیں نصیحت کرتے کہ دیکھو! اپنی امی کا بہت خیال رکھا کرو.اور کہتے کہ ویسے تو ماں کے قدموں میں جنت ہوتی ہی ہے.لیکن ان کے قدموں میں دو جنتیں ہیں.ایک تو ماں ہونے کے لحاظ سے، دوسرے موعود اولا د ہونے کی وجہ سے.کیونکہ ان وجودوں پر اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی بنارکھی ہے.اس مضمون کو پڑھنے والے احباب سے میں درخواست کرتا ہوں کہ جہاں وہ میرے والد صاحب کی بخشش اور بلندی درجات کیلئے دعا کریں.وہاں میری والدہ کی صحت کیلئے بھی خاص طور پر دعا کریں.کیونکہ مسلسل تیرہ سال دن رات والد صاحب کی بیماری میں ان کی خدمت اور دوسری ذمہ داریوں کی وجہ سے ان کی صحت بہت خراب ہوگئی تھی جو ابھی تک بحال نہیں ہوسکی.اس لئے احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت والی لمبی زندگی عطا کرے.آمین نیز ہم سب بہن بھائیوں کیلئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کی دعاؤں کا وارث بنائے.آمین 36.ایک صاحبزادی کے تاثرات آپ کی صاحبزادی محترمہ طیبہ آمنہ صاحبہ ( بیگم مکرم مرزا مبارک احمد صاحب) اپنے تاثرات یوں رقم فرماتی ہیں:.
188 یوں تو اولاد کیلئے ہر باپ ایک عزیز ترین وجود ہوتا ہے اور ہونا چاہئے.مگر ہمارے ابا جان ہم سب کو بے حد پیارے تھے.اس لئے بھی کہ شاید ہی کبھی کسی باپ نے اپنی اولاد سے ایسی محبت کی ہو جو وہ ہم سے کرتے تھے.خدا کی بے انتہا رحمتیں ہر لمحہ ہر لحظہ اور ہر آن ان پر نازل ہوں.جن کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو.آج اتنا عرصہ گزر جانے پر بھی میرے لئے ان کے متعلق لکھنا مشکل ہو رہا ہے.میں ان کی کس کس خوبی کا ذکر کروں.ان کی آخری بیماری کے ایام میں ایک دن میری چھوٹی بہن فوزیہ مجھے کہنے لگی.بڑی آپا میں جب ابا ( ہمارے دونوں چھوٹے بہن بھائی ابا جان کو ابا کہتے تھے ) کے متعلق سوچتی ہوں تو صرف ابا سمجھ کر نہیں بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے.مجھے ابا میں غور کر کے بھی کوئی کسی قسم کی برائی نظر نہیں آتی صرف جو بیماری کی وجہ سے ذرا جلدی غصہ آ جاتا ہے.مگر وہ بھی پانی کے بلبلہ کی طرح فورا ختم ہو جاتا تھا.ایک انسان کی حیثیت سے جب میں اپنے ابا جان کو دیکھتی ہوں تو سب سے پہلے اللہ تعالی سے بے حد محبت کرنے والا ، اس کی بے حد عبادت کرنے والا ، اس کی اطاعت کرنے والا ، شکر گزار بندہ، بہترین بیٹا ، بہترین ،باپ، بہترین خاوند، بهترین آقا، عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ، بنی نوع انسان کے ساتھ بے حد محبت و رحم اور مساوات کا سلوک کرنے والا حتی کہ جانوروں تک کا بہت خیال رکھنے والا پاتی ہوں.اور آپ کے کردار میں وہ مہمان نوازی اور انکساری، غریبوں سے بے حد حسن سلوک، اور جذ بہ صدقہ و خیرات کو سب سے ممتاز پاتی ہوں.اگر معلوم ہو جاتا کہ کوئی تکلیف میں مبتلا ہے تو برداشت نہیں کر سکتے تھے.جب تک کہ اس کی مدد نہ کرتے.رشتہ داروں کو اگر ضرورت مند دیکھتے تو ان کی ہر طرح امداد کرتے.ناممکن تھا کہ کوئی گھر آتا اور خالی ہاتھ جاتا.بعض وقت اگر کوئی رقم قرض کے طور پر بھی لینے آتا تو باوجود ہجرت کے نتیجہ میں خود مقروض ہونے کے کہیں سے قرضہ لے کر دے دیتے.گھر میں اراضی کی آمد آتے ہی ہمیں یوں محسوس ہوتا کہ ابا جان کو گھبراہٹ شروع ہو جاتی کہ کب یہ جلدی ختم ہو.میں نے اپنے ابا جان کو ایک بندہ کی حیثیت میں دیکھا.تو ساری عمر خدا تعالیٰ کا بے حد شکر گزار پایا ہر وقت باری تعالیٰ کے احسانوں کے گنتے تھے اور شکر کرتے تھے.آپ کو دعا پر بے حد یقین اور دعا کی بہت عادت تھی.پانچوں نمازیں باقاعدگی کے ساتھ اور بڑے اہتمام سے ادا کرتے تھے اور نماز باجماعت کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے.مگر دل کی بیماری کے بعد جب تھوڑا تھوڑا کرسی
189 (wheeled chair) پر باہر جانے لگ گئے.تو پھر ماڈل ٹاؤن کے احمدی احباب آپ کے ہاں آکر نماز پڑھتے اور ابا جان بھی اپنی یہ کرسی وہاں لے جا کر کرسی پر ہی نماز ادا کرتے.جمعہ بھی ہماری کوٹھی میں ہوتا تھا.آپ کو نمازیوں کا اس قدر خیال ہوتا تھا.کہ پنکھا رکھواتے ، پانی اور برف کا انتظام کرتے.میں نے جب سے ہوش سنبھالا تھا.ابا جان کو با قاعدہ تہجد پڑھتے پایا.1948ء میں جب دل کا شدید حملہ ہوا.تو چھ ماہ تک موت و حیات کی کشمکش میں رہے.مگر اس کے بعد جب طبیعت ذرا سنبھلی تو امی جان سے کہا کہ رات کو گھڑی کو الارم لگا کر میرے سرہانے رکھ دیا کریں.میں لیٹے لیٹے ہی تہجد ادا کر لیا کروں گا.حالانکہ ابھی بیماری اپنے زوروں پر تھی اور رات کو کئی کئی مرتبہ آپ کو جاگنا پڑتا اور امی جان کبھی کوئی دوائی دیتیں کبھی گلوکوز دیتیں.مگر جب الارم بجتا.تو ابا جان نفل پڑھنے لگتے.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انتہائی عزت اور احترام آپ کے دل میں تھا.حضرت ام المومنین سے اتنا انس تھا کہ آپ جب بھی ہمارے گھر آتیں تو گویا ابا جان کیلئے عید کا چاند نکل آتا.چہرے سے خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی.فوراً ہم سب کو بلاتے کہ اماں جان آئی ہیں یہ لاؤ ، وہ لا ؤ، کسی کو کہتے پاؤں دباؤ.قادیان میں دار السلام میں باغ میں جو موسمی پھل اور ترکاریاں ہوتیں.فوراً منگواتے.نوکروں کو آواز میں پڑ رہی ہیں.چاہتے کہ سارا گھر اماں جان پر فدا ہو جائے.ہمیں ساری عمر یہی نصیحت کرتے رہے کہ اماں جان کی خدمت کرو اور اماں جان سے دعائیں لو اور تو اور اماں جان سے تعلق رکھنے والی خدمت گزاروں مثلاً مائی کا کو صاحبہ ، مائی امام بی بی صاحبہ وغیر ہما میں سے کوئی آجاتا.تو فوراً یوں اٹھ کر کھڑے ہو جاتے.گویا کسی نہایت معزز مہمان کے سامنے میزبان اپنے آپ کو کمتر درجے کا محسوس کر رہا ہے.اور آپ ان لوگوں کی بہت خاطر تواضع کرتے.ایسا ہی سلوک میں نے اپنے دادا جان حضرت نواب محمد علی خان صاحب کا مائی کا کو صاحبہ کے ساتھ دیکھا.جبکہ آپ حضرت ام المومنین کے ساتھ مالیر کوٹلہ آئی ہوئی تھیں اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حضرت اماں جان کا کتنا احترام ہوگا.ابا جان کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے بے حد محبت اور عقیدت تھی.اپنے کسی عزیز یا دوست سے بھی حضرت صاحب یا نظام سلسلہ کے خلاف کچھ نہیں سن سکتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت ام المومنین کے ان عزیز ترین پنجتن کا جو احترام آپ کو تھ وہ تو تھا ہی مگر آگے ان کی اولاد کی بھی بہت عزت کرتے تھے.جب ان میں سے کسی نے ہمارے
190 ہاں آنا تو (سوائے بیماری کے ایام کے ) اٹھ کر کھڑے ہو جاتے.میں نے نہیں دیکھا کہ ابا جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتوں کو خواہ وہ کتنی چھوٹی عمر کے ہوں کبھی خالی نام لے کر بلایا ہو.ضرور پہلے میاں کا لفظ بولتے تھے.آپ کی شروع سے یہ شدید خواہش تھی کہ میری بیٹیوں کی شادیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتوں سے ہوں اور بیٹوں کیلئے پوتیاں آئیں.یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ اکثر اس کا اظہار بھی کر دیتے تھے اور دعا بھی یہی کرتے تھے.میں اکثر سوچتی ہوں کہ قریباً ہر لڑکی کے متعلق ابا جان کی آزمائش ہوئی.اس طرح کہ ایک پیغام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پوتے کی طرف سے ہوتا تھا.لیکن اس کی دنیوی حیثیت اس وقت کچھ نہیں ہوتی تھی اور ایک پیغام کسی غیر از خاندان ایسے لڑکے کا ہوتا جو د نیوی لحاظ سے اچھی حیثیت کا ہوتا تھا.مگر ابا جان فیصلہ آخر حضرت مسیح موعود کے خاندان کے رشتہ کے حق میں کرتے تھے.بلکہ کوئی اعتراض کرتا تو کہتے کہ مجھے حضرت مسیح موعود کی دعاؤں پر اور اللہ تعالیٰ نے جو وعدے آپ کی اولاد کیلئے کئے ہیں.ان پر پختہ ایمان ہے.اپنے وقت پر سب کچھ دیکھ لینا.آخری اور اٹل فیصلہ ابا جان کا یہی ہوتا تھا.اور سب کو وہی ماننا پڑتا تھا.میرے دادا حضرت نواب محمد علی خان صاحب ( اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں آپ پر ہمیشہ نازل ہوں ) پہلے شخص تھے جو ہمیں اس چشمہ پر لائے.ورنہ میں اکثر سوچتی ہوں کہ ہمارا بھی وہی حشر ہوتا.جواکثر نوابوں کے خاندان کا حال تھا.جہالت، بے دینی اور گمراہی کی بے نور زندگی.ہم سب اپنے دادا کوا با حضور کہتے تھے.آپ کا اپنی اولاد پر باوجود انتہائی محبت کے بہت رعب تھا اور آپ کے بعض خاص اصول تھے جن پر آپ اپنی اولا د کو سختی سے کار بند رکھتے تھے.میں نے ابا جان کو ہمیشہ ابا حضور کی خدمت اور اطاعت میں پیش پیش پایا.میری شادی کے موقعہ پر ابا جان نے بہت سے احباب کو مدعو کیا ہوا تھا.سینکڑوں کا سامان، پھل اور مٹھائیاں اور فالتو برتن لاہور سے منگوائے گئے تھے.ابا حضور مالیر کوٹلہ میں تھے اور کسی وجہ سے شادی میں شریک نہیں ہو سکتے تھے.شادی سے ایک دن قبل ابا جان کے نام آپ کا خط آ گیا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ شادی کے روز نہ بارات کی اور نہ لوگوں کی کوئی دعوت کا انتظام کیا جائے.کیونکہ میں اصولی طور پر اس کے خلاف ہوں.مجھے یاد ہے کہ ابا جان نے دعوت روک دی اور وہ اتنی ڈھیروں ڈھیر مٹھائی اور پھل ادھر ادھر لوگوں کے گھروں میں بانٹ کر ختم کیا.کافی بڑے بڑے ہو کر ، وہ بھی نوکروں سے ہمیں علم ہوا کہ ابا جان کی اپنی والدہ سے بہن اور بھائی کون
191 مسلسل سے ہیں.اور دوسرے کون سے ہیں.کیونکہ ہم نے ابا جان کو یہ فرق کرتے کبھی نہ دیکھا تھا.ایک خاوند کی حیثیت سے ابا جان کو پر کھنے پر سارے خاندان میں آپ کی محبت کو مثالی پاتی ہوں.محبت کے ساتھ امی جان کی بے حد عزت و احترام آپ کے دل میں تھا.آپ ہمیں ہمیشہ کہتے تھے کہ خدا کا بے حد شکر کرو کہ اس نے تمہیں اتنی اچھی ماں دی ہے.یہ بھی کہتے کہ میرے پر خدا نے کتنا بڑا فضل کیا ہے اور ہر وقت ہمیں تاکید تھی کہ امی جان کیلئے یہ کرو اور وہ کرو.اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر میرے باپ اور دادا کے گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹیاں بیاہ کر آئیں تو انہوں نے بھی اپنے نمونہ سے حضرت مسیح موعود کی بیٹیاں بن کر دکھایا اگر خاوندوں کی طرف سے محبت اور عزت اور احترام انتہا کو پہنچا ہوا تھا.تو حضور کی بیٹیوں کی طرف سے بھی ادا ئیگی حقوق میں کبھی کمی نہیں آئی.امی جان نے ابا جان کی بیماری میں جو خدمت کی وہ سب کیلئے ایک مثال ہے.پانچ سال بیماری کے جو بستر پر گزرے اس عرصہ میں ابا جان کو شدید عوارض لاحق ہوتے رہے.ہجرت کے بعد حالات بدل گئے تھے.پرانے نوکر ادھر ادھر بکھر گئے تھے.نئے نوکر اول تو ملتے ہی مشکل سے تھے اور پھر سخت دماغ دار ، امی جان نے اپنے ہاتھ سے ابا جان کے پاٹ تک اٹھائے ایک وقت ایسا آیا کہ ڈاکٹرں نے ہدایت دی کہ ابا جان کو جتنا پانی دودھ وغیرہ سیال چیزیں دی جائیں ان کا وزن لکھا جائے اور جتنا پیشاب آئے اسے ماپ کر لکھا جائے.اب گرمیوں کے دن لمحہ لمحہ بعد پانی وغیرہ کا ناپنا اور پھر لکھنا اور ادھر پیشاب ناپ کر لکھنا.یہ ساری محنت امی جان خود کرتی تھیں.لڑکیاں جو شادی شدہ تھیں وہ اپنے اپنے گھروں کو جا چکی تھیں کب تک ٹھہر سکتی تھیں.سارا کام امی جان پر تھا.مگر امی جان نے کبھی گھبراہٹ کا اظہار تک نہیں کیا.خود بھی حوصلہ رکھا اور ابا جان کا حوصلہ بھی بڑھاتی رہیں اور کبھی بھی بیماری کے کمرے کو dull نہیں ہونے دیا.ڈاکٹر یوسف صاحب (ابا جان کے مستقل معالج ) کہتے تھے.نواب صاحب! ہم ڈاکٹر آپس میں باتیں کرتے ہیں کہ آج تک کسی مریض کا ایسا علاج نہیں ہوا.اور نہ کسی مریض کی کبھی ایسی نرسنگ ہوئی ہے.اگر آپ دو نرسیں رکھ لیتے.تو بھی آپ کو ایسی نرسنگ نہیں مل سکتی تھی.اتنا صاف اور باقاعدگی کا کام تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے کوئی ٹرینڈ نرس کر رہی ہے بلکہ اس سے بھی بہت بڑھ کر.بیماریوں کے دوران کئی دفعہ ابا جان کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا.وہاں بھی امی جان کو نرسوں کا کام پسند نہیں آتا تھا اور ڈاکٹر سے اجازت لے کر دوائیاں وغیرہ سب کچھ اپنے ذمہ لے لیتی تھیں.ہزارہا
192 روپیہ ہر مہینے علاج پر پانی کی طرح خرچ ہوتا تھا.ایک لمحہ کیلئے بھی کبھی امی جان کے دل میں یہ انقباض نہیں ہوا کہ یہ خرچ نہ کریں.اور ساتھ ہی اتنا ہی صدقہ و خیرات.مگر گھر کے باقی سب خرچ کاٹ دیئے گئے تھے.میری چھوٹی بہن فوزیہ سات سال کی تھی.اب بڑے ہو کر اس نے بتایا کہ گڑیا لینے کو میرا دل بہت چاہتا تھا.مگر میں امی کو نہیں کہتی تھی.امی جان کوسن کر بہت صدمہ ہوا.انہوں نے ولایت سے پورے بچے کے قد کی گڑیا اس کو اب منگوا کر دی.مگر اس وقت سب سے مقدم ابا جان کی ذات تھی.پانچ سال کے بعد پہلی دفعہ ڈاکٹر نے ابا جان کو دو قدم چلایا.پہیہ دار کرسی ( wheeled Chair) پر باہر اندر جانے کی غسل خانے تک جانے کی اجازت مل گئی اس پانچ سال کے عرصہ میں امی جان نے نہیں دیکھا کہ گھر میں کیا سامان ہے کیا نہیں.کسی تقریب میں شرکت نہیں کی.کسی محفل میں نہیں بیٹھیں.غالباًا ابا جان کی بیماری کو چار ساڑھے چار سال ہوئے ہوں گے کہ لاہور میں کوئی شادی کی تقریب تھی.ابا جان نے امی جان کو مجبور کیا کہ آپ اتنا عرصہ سے نہیں نکلیں ،ضرور ہو آؤ.اس وقت خیال آیا کہ امی جان نے تو اس عرصہ اپنے کپڑوں تک کی طرف بھی توجہ نہیں دی.جو پہلے تھے وہ اس عرصہ میں پہن لئے.اس وقت میری بہن شاہدہ کو ابا جان نے حکم دیا کہ ابھی جاؤ اور اپنی امی کیلئے اتنے جوڑے خرید کر لاؤ.غرضیکہ قربانی کی انتہا تھی.جوامی جان نے کی.ابا جان کو ہر وقت اس بات کا احساس ہوتا تھا اور دعا کرتے تھے کہ جلد صحت یاب ہوں تا کہ امی جان کا جو کہ خود بہت کمزور صحت میں تھیں.بوجھ ہلکا ہو.آخری بیماری میں معائنہ ( چیک اپ ) کرانے کیلئے تین دن کیلئے گنگا رام ہسپتال میں داخل ہوئے.یہ غالباً وفات سے ایک مہینہ قبل کی بات ہے.وہاں جس ڈاکٹر نے ابا جان کو دیکھا.اس کا توجہ سے معائنہ کرنا ابا جان کو پسند آیا.اور مجھے اپنے پاس بلا کر کہا.دیکھو طیبہ ! تمہاری امی کی صحت مجھ سے زیادہ خراب ہے اور وہ اپنا علاج نہیں کروائیں.میرا معائنہ ہو جائے تو تین دن اپنی امی کو اس کمرے میں رکھ کر ان کا بھی چیک اپ کراؤ.امی جان کو اکثر سر درد کا دورہ ہوتا تھا اور وہ اکثر صبح کے آخری حصے سے شروع ہو کر بعض دفعہ چوبیس گھنٹے تک رہتا تھا.دورہ سے سارے اہل خانہ گھبرا جاتے.گھر میں بالکل خاموشی طاری ہوتی.ابا جان کی تاکید ہوتی تھی کہ کوئی شور نہ ڈالے، دروازے نہ بجیں ، کمرے میں جانے کی کسی کو اجازت نہ ہوتی سوائے اس کے جو سر دبارہی ہوتی تھی.ابا جان چائے بنوا کر تیار رکھواتے تھے.کہ شاید امی
193 مانگ لیں.کیونکہ امی جان کو ساتھ الٹیاں آتی تھیں اور وہ کچھ نہیں کھاتی تھیں.اس لئے احتیاطاً کہ جب طبیعت ذرا ٹھیک ہو اور وہ کوئی ایسی چیز مانگیں جو گھر میں نہ ہو.کا شہر بھجوا کر ہر قسم کی چیزیں منگوا کر رکھتے کہ شاید کسی چیز کی امی کو خواہش ہو تو کھا سکیں.خالہ جان نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے ایک بار ابا جان سے کہا کہ دیکھو.اب تمہاری بیٹیاں بھی اپنے خاوندوں سے یہی توقع رکھیں گی.تو ابا جان نے کہا کہ خدا ان کو بھی اچھے ہی دے گا.خدا تعالیٰ نے ابا جان کی حسن ظنی کو ضائع نہیں کیا.میں ہمیشہ سوچتی ہوں کہ شاید ہی کبھی کسی باپ نے اپنے بچوں سے ایسی محبت کی ہو.جیسی ابا جان اپنے بچوں سے کرتے تھے.میں پلوٹھی کی تھی اور میرے بعد عباس احمد پیدا ہوئے.اس کے بعد چار لڑکیاں ہوئیں.مسلسل لڑکیوں کی پیدائش پر وقتی طور پر ذرا سا ملال آجا تا ہوگا.مگر پھر بعد میں بہت پیار کرنے لگ جاتے اور ساتھ کہتے کہ لڑکیاں آپ پیار لینے لگ جاتی ہیں.چارلڑکیوں کے بعد پھر دولڑ کے شاہد احمد اور مصطفی احمد ہوئے.اور ان کے درمیان سب سے چھوٹی بہن فوزیہ ہوئی.مگر ابا جان نے کبھی لڑکے اور لڑکی میں فرق نہیں کیا.بلکہ ہمارے بھائیوں کو اکثر یہ شکوہ ہو جا تا تھا.کہ ابا جان لڑکیوں کو زیادہ پیار کرتے ہیں.پیار لڑکوں کو بھی اتنا ہی کرتے تھے.فرق صرف یہ تھا کہ ہم ابا جان سے بے تکلف تھیں اور لڑکوں کے ساتھ تربیت کے خیال سے ابا جان ذرا سنجیدہ رہتے تھے.صبح کو نماز کیلئے سب کو جگانا ابا جان کا معمول تھا.بیماری کے بعد جب تک آپ زیادہ چل نہیں سکتے تھے.تو اکثر اپنی پہیہ دار کرسی پر ہی جا کر دروازے کھٹکھٹاتے اور لڑکوں کو نماز کیلئے بھیجتے.ہم لڑکیوں کو بھی نماز اور دعا کیلئے بڑی تاکید کرتے.ایک دفعہ شملہ میں قیام کی بات ہے جبکہ میں غالبا گیارہ یا بارہ سال کی ہوں گی.سردی بہت تھی.میں تیم چھپ کر کر رہی تھی کہ ابا جان نے دیکھ لیا اور مجھے بلا کر کہا کہ دیکھو اگر کوئی دیکھ لیتا تو کہتا کہ حضرت مسیح موعود کی نواسی تیم کر کے نماز پڑھ رہی ہے.اس کے بعد جب بھی میں نے کسی مجبوری یا بیماری کی وجہ سے تمیم کیلئے ہاتھ اٹھائے.تو مجھے آپ کی یہ نصیحت یاد آجاتی ہے.محبت کے ساتھ ساتھ گویا آپ تربیت سے کبھی غافل نہیں ہوتے تھے.آپ کو ہمارا اتنا خیال ہوتا کہ اگر کوئی چھپی ہوئی پریشانی دل کے کسی گوشہ میں ہوتی.تو اسے بھانپ لیتے تھے اور امی جان سے کہتے تھے.بیگم ! مجھے فلاں لڑکی اداس لگتی ہے.پتہ کرو.1960ء میں میرے میاں (مرزا مبارک احمد صاحب) slip disc کی مرض سے علیل ہوئے جب سفر کے قابل ہوئے.تو ابا جان ان کو ربوہ سے لاہور علاج کیلئے لے گئے.ہم آپ کے پاس دو اڑھائی مہینے
194 ٹھہرے.ابا جان ان کا بے حد خیال رکھتے تھے.ان کو ان دنوں میں ساتھ ہی سخت اعصابی تکلیف شروع ہوگئی اور معدے پر بھی بہت اثر تھا.ابا جان کھانے کے بعد اپنی ایک معجون جو مقوی معدہ تھی روز آکر خود ان کو کھلاتے اور بہت خیال رکھتے.ایک دن مجھے پوچھنے لگے.طیبہ، مبارک تو خوش ہیں.اس کا مطلب ہے کہ ہماری طرف سے کوئی کوتا ہی تو نہیں ہو رہی.مگر تم کیوں اداس ہو.مجھے اس پر بہت حیرت ہوئی کیونکہ بظاہر میں بالکل ٹھیک تھی.کسی نے محسوس نہیں کیا.مگر میاں کی بیماری کی وجہ سے دراصل دل بہت پریشان تھا کہ پتہ نہیں کیا ہو گا.کیونکہ علالت نے اس قدرطول پکڑ لیا ہے.مگر ابا جان نے میرے دل کی کیفیت بھانپ لی.عجیب تر امر یہ تھا کہ ہر بچہ سمجھتا تھا کہ آپ کو مجھ سے زیادہ محبت ہے.1948ء والے دل کے حملہ کی بیماری کے شروع کے چھ ماہ تک یہ حال رہا.کہ ڈاکٹر کہتے تھے کہ اگلے روز کے متعلق بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان کا کیا حال ہوگا.سو ہم سب بہنیں اس عرصہ میں آپ کے پاس ہی رہیں.سب کی ڈیوٹیاں مقرر تھیں.ایک دن ابا جان امی جان کو کہنے لگے.بیگم جب یہ لڑکیاں پیدا ہوئی تھیں تو ہم کو تھوڑ اسا ملال ضرور ہوتا تھا، مگر آج میں سوچ رہا ہوں کہ دو تین اور ہو جاتیں تو اچھا تھا.تقسیم ملک کے بعد حالات سب کے خراب تھے.بستر بھی ناکافی تھے.ایک ایک رضائی میں دو دو تین تین مل کر سوتے تھے.میری ایک بہن نے امی جان سے لحاف منگوایا کہ اگر کوئی فالتو ہو تو بھیج دیں ہمارے لحاف روئی بھر کر آجائیں گے تو بھجوا دیں گے (حالانکہ ابھی بھرنے نہیں گئے ہوئے تھے ) امی جان کے پاس بھی بستر نا کافی تھے.انہوں نے دو کمبل بھجوا دئیے.دو مہینے کے بعد اچانک رات کو کسی مہمان کی آمد سے ضرورت ہونے پر امی جان نے اس خیال سے کہ لحاف تیار ہو چکے ہوں گے.کمبل منگوا لئے.صبح کو ابا جان نے امی جان سے کہا میں تو رات نہیں سو سکا.لڑکی کوکہیں ضرورت نہ ہو.جب شام کو میری بہن آئی تو ابا جان نے فرمایا.مجھے رات سخت تکلیف رہی تمہیں کمبلوں کی ضرورت ہوگی اور تم نے ہمارے منگوانے پر بھجوا دئیے.اس نے غیرت کی وجہ سے بتایا نہیں.اور یہی کہا کہ نہیں ہمیں تو اب ضرورت نہیں تھی.مگر ابا جان نہ مانے.انہوں نے فرمایا کہ نہیں ضرورت تب بھی تم ساتھ لے جاؤ.آخر مجھے اتنی تکلیف کیوں ہوئی.اور واقعہ یہ ہے کہ اس رات وہ لوگ جو بھی کوئی چادر پلنگ پوش اور کھیں تھے.وہ لپیٹ کر لیٹے اور ساری رات سردی کی وجہ سے نہیں سو سکے.کئی سال کے بعد جب حالات ٹھیک ہو گئے تو اس نے یہ واقعہ بتایا.امی اور ابا جان کو بہت رنج ہوا.
195 ابا جان لڑکی کو ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ساری عمر یہ دکھ میرے دل میں رہے گا.تم لوگ ماں باپ سے تکلف کرتے ہو.اگر ضرورت تھی تو نہ بھیجتیں.غرض ابا جان کسی بچے کی تکلیف نہیں برداشت کر سکتے تھے.ہمارے بچوں کے ساتھ ابا جان کو خاص لگاؤ تھا اور بچے ابا جان پر جان دیتے تھے جب پتہ لگتا کہ بچے آ رہے ہیں.تو آپ ان کیلئے پہلے سے ہی ڈھیروں ڈھیر چیزیں منگوا کر رکھ لیتے اور بالعموم کار میں ان کو دکان پر لے جاتے اور گولیاں، ٹافیاں، چاکلیٹ اور مٹھائی وغیرہ خرید کر دیتے.بچوں کو کھلانے کا شوق اتنا زیادہ تھا کہ بعض وقت بچے کی عمر چھوٹی ہوتی.اس کا معدہ اس کو برداشت نہ کرتا.کچھ نہ کچھ بیمار ہو جاتا.ہم لوگ ابا جان کو تو کہہ نہیں سکتے تھے.امی جان کو چپکے چپکے کہتے کہ یہ بیمار ہو جائے گا.آپ ابا جان کو روکیں اور امی جان کے روکنے پر ابا جان کو حقیقی دکھ ہوتا کہ یہ ظلم بچے پر کیوں کرواتے ہیں کہ اس کو کھانے نہیں دیتے.بچے تو ہوتے ہی کھانے کے ہیں.وہ تو ابا جان کو گھیرے رکھتے تھے.مگر ابا جان ان کو کھلانے سے کبھی تنگ نہیں آتے تھے.اس سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا.جوامی جان اور خالہ جان سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اکثر سنایا کرتی ہیں.میرے بھائی عزیزم عباس احمد سال سوا سال کے ہوں گے کہ ان کو شدید پیچش ہو گئی.بہت علاج ہوا.آرام نہ ہوا.آخر ڈاکٹر نے کہا ضرور کوئی چیز ایسی کھلا دی گئی ہے جو انتڑیوں میں پھنس گئی ہے.ابا حضور کو خیال ہوا کہ ضرور کسی نوکر نے کچھ کھلا دیا ہے.اس لئے حکم دیا کہ جو بھی اجابت بچے کو آئے وہ چھلنی میں چھان لی جائے.تا کہ معلوم ہو کہ کیا کھایا ہے.ایک دن سردے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نکلے.جب پوچھ کچھ ہوئی تو ابا جان نے کہا وہ تو ذرا سا میں نے کھلایا تھا.آپ پیار کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت اور ان کو نصیحت بھی کرتے جاتے تھے.اتنی محبت بیچے آپ سے کرتے تھے کہ ان کی وفات پر بچوں نے بالکل بڑوں کی طرح غم کیا.میرا چھوٹا لڑکا تسلیم احمد اس وقت چار سال کا تھا.اس وقت وہ آٹھ سال کا ہے.ہم گزشتہ دنوں کراچی میں تھے.اور ہر وقت کوٹھی کے سامنے سے کاریں گزرتی تھیں.ایک دن میرے پاس آیا.آواز بھرائی ہوئی تھی.آنکھوں میں آنسو.کہنے لگا امی جب مائیکرو اور سبز رنگ کی (massis) دیکھتا ہوں تو مجھے ابا جان بہت یاد آتے ہیں.کیونکہ یہ دونوں کاریں مختلف وقتوں میں ابا جان کے پاس تھیں.اپنے نوکروں اور ماتحتوں کے ساتھ آپ بہت حسن سلوک کرتے تھے.اتنا زیادہ اعتماد کرتے
196 تھے کہ بعض دفعہ نقصان اٹھاتے.اگر کوئی شکایت بھی کرتا تو نہیں مانتے تھے.کہتے کہ نہیں یہ تو نماز پڑھتا ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ ایسا ہو مگر پھر بھی جب حقیقت میں اپنی حسن ظنی کو مجروح ہوتے دیکھتے.تو بہت افسردہ ہوتے ، دعائیں مانگتے کہ یہ شخص ایسا نہ ہو.تا کہ میری حسن ظنی قائم رہے.نوکروں کے ساتھ بے حد نرمی کا سلوک تھا.بعض اوقات ان کو اتنی برابری کا رنگ دے دیتے تھے کہ ہمارے ملک کے نوکروں کے ظرف زیادہ بلند نہ ہونے کے باعث ان میں کچھ بے رحمی اور بے خوفی پیدا ہو جاتی.پھل وغیرہ جو کوئی چیز آتی ضرور پہلے نوکروں کے بچوں کو بلا کر دیتے.ابا جان کا ایک ہمشیرا تھا (جس کی ماں کا ابا جان نے دودھ پیا تھا ) اس کو چرس، بھنگ وغیرہ اور نشہ آور چیزوں کے استعمال کی بیہودہ عادت تھی.مگر باوجود اس کی بد عادات کے ساری عمر اس کا خیال رکھا.اس کی بیوی نے میرے کئی بہن بھائیوں کو پالا تھا.ہمارے گھر میں یہ دستور تھا کہ جو بچوں کو دودھ پلانے کیلئے یا ویسے بچوں کی کھلائیاں بن کر آتی تھیں.تو جب بچہ دو اڑھائی سال کا ہوتا تھا.تو اس وقت اس کو رخصت کیا جا تا تھا.جس کو پنجابی میں ”بدو گی کہتے تھے.اس وقت اس کو انعام کے طور پر متعد دسونے اور چاندی کے زیور اور ہمیں چھپیں یا اس سے بھی زیادہ ریشمی و غیر ریشمی پارچات کے جوڑے دیئے جاتے اسی طرح ابا جان کے ہمشیرے کی بیوی جو ہمارے کسی بہن اور بھائی کو رکھ کر رخصت ہوئی.تو اسے بھی یہ بدوگی دی گئی.جس میں امی جان کے اپنے اعلیٰ قیمتی پوت اور کمخواب کے جوڑے بھی تھے.اور مکان بنانے کیلئے روپیہ بھی دیا گیا.مگر کچھ عرصہ بعد اس نے آکر بتایا کہ اس کا خاوند سب کچھ پار چات تک فروخت کر کے نشوں میں اجاڑ چکا ہے.ابا جان اسے بہت ناراض ہوئے.بعد میں معافیاں مانگنے پر معاف بھی کر دیا اور پھر اس کی بیوی جب کسی اور بچے کو پال کر گئی.تو پھر اسے اسی طرح بہت کچھ دیا.اس کے خاوند نے عہد کیا کہ میں ضائع نہیں کروں گا.لیکن پھر اس نے وہی کچھ کیا.مگر باوجود اس کے ایسے رویہ کے ابا جان نے آخر تک اس کا ہر طرح سے خیال رکھا.اس کی ضروریات کو پورا کرتے رہے، اسے سمجھاتے بھی تھے بختی بھی کرتے تھے مگر پھر کہتے تھے کہ میرا دودھ بھائی ہے.یہی رحمدلی کا جذ بہ جانوروں کے ساتھ بھی نمایاں نظر آتا تھا.اکثر چڑیوں وغیرہ کو دانہ اپنے ہاتھ سے ضرور ڈالتے تھے.قادیان میں ہمارے ہاں بلیاں تھیں.ان کیلئے قصائی کے ہاں سے با قاعدہ چھیچھڑے آتے تھے.دودھ مقرر تھا.آپ خود سامنے کھلواتے اور بے حد خیال رکھتے.ماڈل
197 ٹاؤن میں ہماری کوٹھی میں آکر ایک کتیا نے بچے دیئے.نوکر اس کو مار نے نکالنے لگے.آپ سخت ناراض ہوئے.اس کا دودھ مقرر کروایا.کھانا نوش فرمانے کے بعد اپنے ہاتھ سے اس کا کھانا بناتے.سب کی پلیٹوں میں سے بچی ہوئی ہڈیاں بوٹیاں ڈال کر شور بے میں بھگو کر اس کا کھانا نوکر کو دیتے کہ اسے کھلا آؤ.اب کتیا کو ہمارا گھر ایسا پسند آیا کہ وہ وہیں کی ہو کر رہ گئی.مہمان نوازی آپ کی نمایاں امتیازی خصوصیت تھی.مہمان کی آمد اور اس کی تواضع سے اس قدرمسرور ہوتے.گویا آپ کا سیروں خون بڑھ گیا ہے.جب سے ہوش سنبھالا.یاد نہیں کہ ہمارا گھر مہمانوں سے خالی ہوا ہو.نوکر کام کی زیادتی کی شکایت کرتے تو امی جان کہنتیں صبر کرو.آج کل مہمان ہیں.مگر نوکر جواب دیتے کہ جی کب مہمان نہیں ہوتے.یہ جائیں گے تو اور آجائیں گے.تقسیم ملک کے بعد ابا جان کی لمبی علالت اور تیمارداری سے امی جان کی بھی صحت بالکل خراب ہوگئی تھی.پرانے نوکر ادھر ادھر بکھر گئے تھے.نئے نوکر وقت بے وقت کام سے گھبرا جاتے تھے.مگر ابا جان کی یہی خواہش تھی کہ اگر کوئی تھوڑی دیر کیلئے بھی ملنے آئے تو نہایت ہی اچھے پیمانے پر اس کی خاطر تواضع کی جائے.اس لئے امی جان کسی وقت گھبرا بھی جاتی تھیں.بعض وقت ہم بہنوں میں سے کوئی گھر پر ہوتا.تو ہمارے پاس آتے اور کہتے کہ دیکھو تمہاری امی کو پتہ نہ لگے وہ بیمار ہیں ان کی طبیعت پر بوجھ پڑے گا.تم اتنے آدمیوں کا کھانا، چائے ، شربت ( جیسا بھی موقع ہوتا ) باہر بھجوا دو.ہمیشہ یہی فرماتے کہ میرے لئے خدا کو یہی منظور ہے کہ میرا دستر خوان بے حد وسیع ہو.اگر کبھی میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں اپنے ان اخراجات کو کم کر دوں.تو ہمیشہ میرا کسی اور راستہ سے روپیہ دو گنا ہوکر نکل جاتا ہے.بے شک لوگ ان کو نواب عبداللہ خان کہتے تھے مگر ہمیشہ میرے باپ کا دل غریب اور نفس غریب رہا.انہوں نے کبھی اس لقب کو کسی خوشی یا فخر کا موجب نہیں سمجھا.مجھے یاد ہے ہم کبھی گرمیوں میں پہاڑ وغیرہ پر جاتے.رستہ میں جنگلوں میں ڈاک بنگلہ وغیرہ میں ٹھہر تے.تو ابا جان اکثر باہر سے امی جان کے پاس آکر کہتے.بیگم ! ایک تو یہ نوابی پیچھا نہیں چھوڑتی یہاں جنگل میں ان کو کس نے بتا دیا کہ ہم نواب ہیں.سارے لوگ کہہ رہے ہیں.نواب صاحب آئے ہیں.اور اس بات سے گھبراتے تھے.انہوں نے ہمیشہ اپنے نفس کو غربت میں رکھا.نفس پر خرچ کرنا جانتے ہی نہ تھے.کبھی کبھی امی جان کو کہا کرتے تھے.بیگم ! میں بعض وقت سوچتا ہوں کہ نفس کا بھی کوئی حق ہوتا ہے.مگر ا
198 دوسری باتوں پر خرچ کر کے جو لذت پاتا ہوں وہ نفس پر خرچ کرنے سے کہاں ملتی ہے.مجھے یاد ہے جب آخری بیماری میں چیک اپ (معائنہ ) کیلئے ہسپتال جانے لگے.تو مجھے امی جان نے بلا کر کہا.کہ ہسپتال جانا ہے تم اپنے ابا جان کے کپڑے ایک چھوٹے سوٹ کیس میں رکھ کر تیار کر دو.میں کپڑے کیا رکھتی.وہاں تو تین بنیان لمبی آستین کے ( آپ ہمیشہ گھر میں بیماری کے عرصہ میں گرمیوں میں لمبی آستین کی بنیان اور پاجامہ پہنتے تھے ) تین چار لکیر دار نائٹ سوٹ کے پاجامے.پانچ چھ قمیص، جن میں سے اکثر کے کالر خراب تھے.اسی طرح ایک رومال کل کپڑے تھے.جو بکس میں پڑے تھے.میں روتی جاتی تھی.اور دل میں کہتی تھی.ابا جان ! ہزاروں روپیہ خرچ ہوتا ہے اور آپ نے اپنے نفس کو اس طرح مارا ہوا ہے.اکثر یہ ہوتا تھا.وفات سے چند مہینے پہلے تک میں دیکھا کرتی تھی.کہ گرمیوں میں غسل کر کے نکلے اور اپنا ایک بنیان اور رومال خود دھویا ہوا ہاتھ میں پکڑا ہوتا تھا.نوکر کو آواز دے کر کہتے.اس کو باہر دھوپ میں ڈال آؤ.وفات سے غالباً مہینہ ہمیں روز قبل آپ مکمل معائنہ کروانے کیلئے جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے ہسپتال میں داخل ہوئے.ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ دل کی حالت بہت خراب ہے.عزیزم عباس احمد خاں زور دے کر اپنی کوٹھی پام ویو ( ڈیوس روڈ ) پر ہی لے گئے کیونکہ وہاں سے سب ڈاکٹر قریب قریب تھے اور ماڈل ٹاؤن شہر سے بارہ میل دور تھا.عزیز کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو خدمت کا موقعہ ملا.کئی دفعہ ابا جان ماڈل ٹاؤن جانے کیلئے تیار ہوئے.مگر عزیز نے نہ جانے دیا.آپ کی طبیعت روز بروز گر رہی تھی.امی جان کے دریافت کرنے پر کہ طبیعت مسلسل گر رہی ہے.کوئی فرق نہیں پڑ رہا.ڈاکٹر یوسف صاحب نے کہا کہ آدھا دل تو 1948ء کے تھر مباسس کے حملہ سے زخمی ہو کر بالکل ختم ہو گیا تھا.تیرہ سال سے یہ آدھا دل کام کر رہا تھا.آخر یہ کب تک کرتا.1948ء کے حملہ کے بعد ڈاکٹر کہتے تھے کہ ہمیں اب پتہ لگ گیا ہے کہ دعائیں بھی کوئی چیز ہیں.ان کی زندگی ایک معجزہ ہے ہم نے کتابوں میں ایسے کیس پڑھے ہیں.مگر اپنی تمام پریکٹس میں کبھی ایسا کیس نہیں دیکھا اور پھر ایسے کیس کا بچ جانا سب سے بڑی حیرت کی بات ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ( خدا تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرما دے.آمین ) اس قدر خیال رکھتے تھے کہ آخری بیماری کے دوران آپ جابہ میں تھے.روزانہ وہاں سے آدمی ربوہ آتا تھا اور لاہور ٹرنک کال کر کے ابا جان کی صحت کا حال معلوم کر کے حضور اقدس کی خدمت میں پہنچاتا تھا.وفات کے دن تک ایک دن بھی
199 اس کا ناغہ نہیں ہوا.طبیعت روز بروز گر رہی تھی ، آخر وہ دن بھی آپہنچا، جس کا دھڑ کا لگا ہوا تھا.وفات سے ایک روز پہلے امی جان کو شدید سر درد کا دورہ تھا.وہیں کمرے میں ایک چار پائی پر منہ سر لیٹے پڑی رہیں.دو پہر کے وقت اباجان نے جسم میں درد اور سخت سردی لگنے کی شکایت کی اوپر کپڑے وغیرہ اوڑھاتے اور دباتے رہے شام کو تھرما میٹر لگایا تو ٹمپریچر ایک سو چھ تک تھا.سر پر برف رکھی گئی ، نمک اور گھی سے پنڈلیاں ہوتی گئیں، دوائیاں تو مل ہی رہی تھیں.بخار کچھ کمی پر آ گیا.مغرب کے قریب امی جان کا سر درد کچھ کم ہوا.اٹھ کر ابا جان کے پلنگ کے پاس آئیں.ابا جان نے نہایت محبت سے ہاتھ پکڑ کر پوچھا.بیگم ! اب طبیعت کیسی ہے ؟ سب مغرب کی نماز پڑھنے چلے گئے.امی جان نے بھی نماز شروع کر دی.تھوڑی دیر کے بعد ہی میری بہن شاہدہ بھاگتی ہوئی آئی کہ جلدی چلو.ابا جان کی طبیعت ایک دم خراب ہو گئی ہے سب کمرے میں جمع ہو گئے.بھائی منوراحمد بلڈ پریشر دیکھ رہے تھے.1948ء والے دورے جیسی حالت ہو گئی تھی.فور اڈاکٹر یوسف صاحب کو بلایا گیا.وہ اتنے سالوں کے معالج تھے.حالت دیکھتے ہی سمجھ گئے ان کی طبیعت پر بے حد اثر تھا.بلڈ پریشر دیکھا.اور pathedine کا انجکشن لگا کر چلے گئے اور کہہ گئے کہ اس سے ان کو غنودگی رہے گی اور تکلیف کا احساس کم ہو جائے گا.ابا جان کو اپنی تکلیف کا احساس ہو گیا تھا.امی جان کو کہا.بیگم ! آج رات آپ میرے پاس سے نہ اٹھنا.دن بھر کے سر درد کے دورے سے خستہ حال ہونے کے باوجود پھر بھی امی جان جو پلنگ کے ساتھ کرسی بچھا کر میٹھی ہیں تو سوائے نماز یا غسل خانہ جانے کے نہیں اٹھیں.سب نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لئے کمر سیدھی کر لیں.مگر ابا جان کے فرمان کے مطابق وہ نہ اٹھیں.تمام رات کبھی پینے پو چھتی جاتیں اور کبھی کوئی دوائی وغیرہ پلا دیتیں.ڈاکٹر صاحب کہہ گئے تھے.ساری رات آکسیجن دینی ہے بالکل بند نہ کی جائے.تمام رات عزیزم عباس احمد اور دوسرے بھائی اور بہن آکسیجن دیتے رہے.پسینے آتے جا رہے تھے.تھوڑی تھوڑی دیر بعد جسم پسینوں سے تر ہو جاتا تھا.غنودگی کی کیفیت تھی.مگر ہوش و حواس قائم تھے.ایک دفعہ مجھے اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلّ ذَنْت اور ایک دفعہ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله کی بھی آواز آئی.حضور نے بھی کوئی ہومیو پیتھک دوا بھجوائی تھی جو پانی میں گھول کر غالباً آدھ آدھ گھنٹہ کے وقفہ سے دینی تھی.مجھے یاد ہے کہ اس رات گلوکوز یا کوئی اور دوا دینے کی کوشش کی جاتی تو انکار کر دیتے تھے.لیکن جس وقت حضور کی دوا کا وقت
200 آتا تھا اور کہا جاتا کہ حضرت صاحب کی دوا پی لیں تو فورا منہ کھول دیتے تھے.یہ رات بھی عجیب رات تھی.ہر طرف اس قدر خاموشی اور اداسی چھا رہی تھی یوں لگتا تھا کہ حضرت مسیح موعود کی بیٹی کا سہاگ چھینتے ہوئے آج فرشتوں کو بھی دکھ ہورہا ہے.پام و یو کی نچلی منزل کے وسیع کمرے کی تمام تیز روشنیاں بجھادی گئی تھیں اور پہلوؤں کے دیوار سے لگی ہوئی نائٹ لائٹس جل رہی تھیں.جن سے کمرے میں مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی.اور ایک نہایت ہی عزیز ترین مریض لوہے کے اونچے ، بیماروں والے پلنگ پر لیٹا ہوا نہایت تکلیف سے کھینچ کھینچ کر سانس لے رہا تھا.میری امی جان ان کے سرہانے کی طرف ، چہرے کے بالکل قریب پلنگ کے ساتھ کرسی جوڑ کر ، نہایت ہی صبر اور عزم اور استقلال کے ساتھ سیدھی بیٹھی ہوئی بار بار پسینے پونچھ رہی تھیں.کوئی آکسیجن دے رہا تھا.کوئی جسم کا پسینہ کپڑوں سے آہستہ آہستہ خشک کر رہا تھا.سب بچے اردگرد جمع تھے اور ہم بہن بھائیوں کو یہ خیال نہیں تھا کہ آپ کا آخری وقت اتنا قریب ہے.صرف امی جان اس بات کو سمجھ رہی تھیں.صبح کی اذانیں ہوئیں.سب نے نمازیں پڑھیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ وقت کو پر لگے ہوئے ہیں.کہتے ہیں کہ تکلیف کا وقت جلدی نہیں گزرتا.لیکن یہاں کچھ اور ہی معاملہ تھا.وہی غنودگی کی کیفیت بدستور جاری.مگر ہا ہوش تھے.آنکھیں بند تھیں کھینچ کھینچ کر سانس آ رہی تھی.ایک دم آپ بول پڑے ” نکل گئی نکل گئی.ہم حیران تھے کیا ہوا.طبیعت میں صفائی کا مادہ بہت تھا.ہم سمجھے کہ شاید پلنگ پر ہی اجابت ہوگئی ہے.لیکن دیکھا کہ حضرت مسیح موعود کی انگوٹھی جو امی جان نے ا ہاتھ میں پہنائی ہوئی تھی.آخری وقت میں ہاتھ سکڑنے سے نکل کر بستر پر جا گری.اسی کے متعلق کہہ رہے تھے وہ اسی وقت پھر پہنا دی گئی.اس دوران میں آنکھیں بھی کھولتے تھے.سب بچے اور عزیز اردگرد جمع تھے.جن کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.میں بھی آپ کے پلنگ کے ساتھ لگ کر دائیں طرف کھڑی تھی.میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ نظریں میری طرف اٹھیں.ان آنکھوں میں رحم تھا ، محبت تھی پیار تھا اور یہ سوال تھا کہ تمہاری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں ؟ میں آج تک ان آنکھوں کو نہیں بھول سکی.بھائی داؤ د احمد صاحب نے سورہ یس اور سورہ رحمن سنانی شروع کی تو کچھ دیر بعد وہ آنکھیں ہمیشہ کیلئے بند ہوگئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ میں اپنی امی کی حاضر دماغی پر آج تک حیران ہوں.ابا جان کی وفات سے قریباً ایک گھنٹہ قبل مجھے امی جان نے سوسوروپے کے کئی نوٹ دیئے اور کہا کہ داؤ د احمد یا عباس احمد کو ضرورت ہو گی تو
201 دے دینا.میں اس وقت حیران ہوئی کہ امی جان یہ کیوں دے رہی ہیں.ابھی ایسی کیا چیز آنی ہے.مگر بعد میں سمجھ گئی کہ یہ رقم انہوں نے کیوں دی تھی.ان کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ اپنے سرتاج کے آخری فرض کی ادائیگی میں کوئی اور شریک ہو.عزیزم منیر احمد اور میرے میاں اس وقت یورپ گئے ہوئے تھے.بڑے دامادوں میں سے صرف بھائی داؤ د احمد موجود تھے عزیزم عباس احمد اور دوسرے بھائیوں کو تو اس وقت ہوش نہ تھی.غم سے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا.سب انتظام بھائی داؤ داحمد اور باقی عزیزوں نے جور بوہ سے آئے ہوئے تھے، سرانجام دیئے.جنازہ ٹرک پر ربوہ لے جایا گیا.اور تمام عزیز جور بوہ اور جابہ سے لاہور آ گئے تھے اور جماعت لا ہور کی ایک کثیر تعداد یہ سب جنازہ کے ساتھ روانہ ہوئے.ریڈیو پر اعلان ہو چکا تھا.اردگرد کی جماعتوں کے کثیر افراد اور امرائے اضلاع ربوہ پہنچ چکے تھے.دوسرے روز ہزاروں افراد کی دلی دعاؤں اور غمناک آنکھوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نہایت محبت کرنے والے داماد اور بہت شفیق باپ کو ان کی آخری آرامگاہ پر پہنچا دیا گیا.اللہ تعالیٰ کی بیشمار برکتیں اور رحمتیں تا ابد آپ پر نازل ہوں.ان کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو.اور اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد کو صحیح رنگ میں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین 37.ایک بیٹی کی نظر میں آپ کی صاحبزادی محترمہ طاہرہ صدیقہ ( بیگم صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب ) یہ عذر کرتے ہوئے کہ آپ نے کبھی کوئی مضمون نہیں لکھا.اور خدا کرے آپ اپنے جذبات و تاثرات کا صحیح طور پر اظہار کر سکیں.1948ء کے دل کے دورہ اور آخر تک علاج اور دعاؤں اور مرحوم کی سیرت کے متعلق تحریر کرتی ہیں.” میرے پیارے ابا جان کو 1948ء میں دل کا شدید دورہ پڑا.اس سے پہلے ابا جان کی صحت خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھی تھی.ایک دن پہلے ہی ابا جان ، امی جان کو راولپنڈی میری بہن زکیہ بیگم ( بیگم مرزا داؤ د احمد صاحب) کے پاس چھوڑ کر آئے تھے.تقسیم ملک کے بعد سے ابا جان ناظر اعلیٰ کے طور پر سلسلہ کا کام کر رہے تھے.ان دنوں کے پُر مصائب حالات کی وجہ سے ابا جان کو بہت ہی زیادہ محنت اور جانفشانی سے کام کرنا پڑا.قادیان چھٹنے کا غم اور تمام احمدی مہاجرین کی خستہ حالت
202 اور پریشانی کا دل پر دہرا اثر اور مزید برآں دن رات کام ہی کام.راولپنڈی سے واپسی رات کو ہوئی اور صبح کو ابا جان تیار ہو کر دفتر تشریف لے جا رہے تھے کہ گیٹ پر بیہوش ہو کر گر گئے.پہریدار ابا جان کو اٹھا کر لائے.امی جان تو تھیں نہیں.اسی وقت حضرت بڑے ماموں جان ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی) ، حضرت اماں جان اور خالہ جان ( حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحب) اور موجود تمام لوگ اکٹھے ہو گئے.ہمارے بھائی ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور ڈاکٹر کریم بخش صاحب نے ( جو آج کل امریکہ میں ہارٹ سپیشلسٹ ہیں ) ابا جان کی زندگی بچانے کیلئے کوششیں شروع کر دیں.نبض ساقط ہو چکی تھی.اور بظاہر حالات زندگی کی کوئی امید نہ تھی.بظاہر تمام حالات سے مایوس ہوکر ڈاکٹر کریم بخش صاحب نے اسی حالت میں کو رامین کا ایک ٹیکہ دل میں لگایا.یہ ٹیکہ بہت مشکل ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال تھا.وہ دل جو قریباً بند ہو چکا تھا.اس میں پھر دھڑ کن پیدا ہوگئی.ساکن نبضیں پھر میرے رحیم و کریم اور شافی خدا کے فضل و کرم سے آہستہ آہستہ لوٹنی شروع ہو گئیں.ابا جان برآمدہ میں بے ہوش پڑے تھے.ڈاکٹر ان پر جھکے ہوئے اپنی سی کوششیں کر رہے تھے.ہم سب بہن بھائیوں کے دل غم اور اندیشوں سے دھڑک رہے تھے.یا اللہ! ہماری زندگی ابا جان کو دے دے.یا اللہ ! امی جان جلد پہنچ جائیں.ڈاکٹروں کے اترے ہوئے چہرے دیکھ کر دل غم اور مایوسیوں کے سمندر میں ڈوب رہے تھے اور اس خیال سے ہی دل کے ٹکڑے ہورہے تھے کہ امی جان اتنی دو ر اس خبر کو کس طرح سنیں گی.اور ہر سانس کے ساتھ ابا جان کی زندگی اور امی جان کیلئے دعا ئیں تھیں کہ وہ آپ کی زندگی میں پہنچ جائیں.حضرت اماں جان گھبرا گھبرا کر ٹہل رہی تھیں اور ہاتھ پھیلا پھیلا کر دعائیں کر رہی تھیں.یا اللہ ! میرے عبداللہ خاں کو بچالے.اور حضرت بڑے ماموں جان ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی) بھی اس عرصہ میں بار بارابا جان کے پاس آرہے تھے.دعا بھی کر رہے تھے اور دوا بھی.اس وقت کی انتہائی رقت اور درد میں ڈوبی ہوئی دعائیں میرے خدا تعالیٰ نے سن لیں.اور وہ زندگی جو ڈاکٹروں کے نزدیک ختم ہو چکی تھی.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے ہمیں واپس کر دی.پھر اس کے بعد ایک ڈیڑھ سال کس قیامت کا گزرا.ابا جان زندہ تھے مگر ہر وقت موت کا دھڑ کا تھا.ڈاکٹروں کے نزدیک یہ دل کا نہایت شدید دورہ تھا.اور کارڈیوگرام سے ظاہر تھا کہ دل کے بہت بڑے حصہ کو بری طرح نقصان پہنچ چکا ہے.لاہور کے تمام
203 بڑے ڈاکٹروں کی متفقہ رائے تھی کہ اس قسم کا دل کا دورہ ہم نے کتابوں میں تو پڑھا ہے.مگر اپنی زندگی میں دیکھا نہیں.اور پھر دل کے اس حملہ کے نتیجے میں جو جو بیماریاں متوقع ہو سکتی تھیں وہ سب میرے ابا جان پر آئیں.ہمیں بار بار ابا جان کی زندگی کی امید ہوتی تھی اور پھر دوبارہ کسی بیماری کے نتیجہ میں حالت خطر ناک ہو جاتی تھی.اس سارے عرصہ میں ہم سب کے دلوں سے دعائیں نکلتیں کہ اے قادر خدا! جب موت آچکی تھی.تو نے اسے ٹال دیا.اب بھی تو محض اپنے فضل سے ابا جان کو اس نازک دور سے خیر و عافیت کے ساتھ نکال.بار ہاڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا.مگر میرے رحیم و کریم خدا تعالیٰ نے بار بار میرے پیارے ابا جان کو موت کے منہ سے نکالا.گوان دنوں میں ہم سب بہن بھائی بھی ہر وقت ابا جان کے پاس موجود ہوتے تھے اور میری خالہ جان نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بھی ہر وقت ابا جان کے پاس ہی رہتی تھیں.مگر با وجود اس کے جس جانفشانی اور محنت سے امی جان نے ابا جان کی خدمت کی وہ ایک مثال ہے.ہر وقت ابا جان کے ہر کام کیلئے آمادہ، دن رات اباجان کی نگہداشت، ہر کام ابا جان کا اپنے ہاتھ سے کرنا، دو پہر کا کھانا پڑا ٹھنڈا ہورہا ہے، تین تین چار چار بج رہے ہیں اور امی اسی طرح بھو کی کام میں مصروف ہیں.بڑی مشکل سے اور زور دینے سے کھڑے کھڑے دو چار نوالے منہ میں ڈالتیں اور پھر ابا جان کی پٹی کے ساتھ لگ جاتیں.چار پانچ مہینے تو امی جان نے نیند بھی پوری نہیں لی.کبھی دس پندرہ منٹ کیلئے آنکھ جھپک جاتی اور پھر آ کر ابا جان کی پشت کو دبانے لگ جاتیں.رات کے گیارہ بارہ تو روزانہ ہی جاگتے میں بج جاتے تھے.پھر جب امی جان کو تسلی ہو جاتی کہ ابا جان سو چکے ہیں.تو ایک چھوٹا سا سٹول ابا جان کی چار پائی کے ساتھ ملالیتیں جو کہ اتنا پتلا اور لمبائی میں اتنا چھوٹا ہوتا تھا کہ اس پر امی تو کیا ایک دس سال کا بچہ بھی نہیں سوسکتا تھا اور امی اس پر ٹیڑھی ہو کر اس حالت میں لیٹ جاتی تھیں کہ سراور شانے ابا جان کے پلنگ کی پٹی پر اور ہاتھ ابا جان پر ہوتا.مبادا ابا جان تکان کی وجہ سے جاگیں تو امی کی آنکھ نہ کھلے.وقت ہزاروں اندیشوں ، دھڑکنوں اور امیدوں کے درمیان رینگ رہا تھا اور پھر ہم نے اپنے قا در خدا کی صفات کو پوری تجلیوں کے ساتھ دیکھا، اسے حی و قیوم پایا ، میں اس پر صدقے.اس نے میرے مردہ باپ میں دوبارہ زندگی ڈال دی.وہ مجیب الدعوات ہے اس نے سیدی حضرت ماموں جان، حضرت اماں جان اور امی جان، ہم سب صحابہ کرام اور افراد جماعت کی عاجزانہ دعاؤں کو سن لیا.
204 اس نے انتہائی مایوسیوں اور اندھیروں میں ہمارے دلوں کو حوصلہ دیا.اور خدا تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ابا جان کی خدمت کی ہمیں توفیق دی.ابا جان جو کہ ایک بچے سے بھی زیادہ بے بس ہو چکے تھے.حتی کہ ان کو خفیف سی حرکت یا ہاتھ تک ہلانے کی اجازت نہیں تھی.انہوں نے رفتہ رفتہ اپنی زندگی میں قدم رکھنا شروع کیا اور جب ابا جان نے پہلے دفعہ قرآن مجید پڑھا.اپنی عینک استعمال کی ، اپنے قلم سے دستخط کئے اور جب ڈاکٹروں نے آپ کو سہاروں سے بٹھایا.اور قریباً ایک سال کے بعد سہارا دے کر کھڑا کیا.اس ہر ایک مرحلہ پر امی جان نے اللہ تعالیٰ کے حضور شکرانے کے نفل پڑھے گو آخر وقت تک ابا جان کو زیادہ چلنے پھرنے کی ممانعت تھی.مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ابا جان نے معذوری سے وقت نہیں گزارا.اپنے روز مرہ کے معمولات کو خودسرانجام دیتے اور تھوڑا تھوڑا پھر لیتے تھے.اور موٹر میں تو جہاں بھی ان کا دل چاہتا روزانہ تشریف لے جاتے ان تیرہ سالوں میں گو بار بار آپ کو کئی بیماریوں کے حملے ہوئے اور بسا اوقات حالت مخدوش ہو جاتی رہی.مگر ہر دفعہ اللہ تعالیٰ فضل فرماتا.اور درمیان کے دو چار سال تو آپ کی صحت بفضلہ تعالیٰ کافی اچھی رہی.آپ کی زندگی ہمارے لئے ایک معجزہ تھا.نہ صرف اپنے لئے بلکہ غیروں کیلئے بھی.حتی کہ ابا جان کے غیر احمدی معالج ڈاکٹر حیرت سے کہتے تھے کہ ہمیں ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی.یہ تو ایک معجزہ ہے.میرے چچا جان خان مسعود احمد خان صاحب نے سنایا کہ وہ ایک عزیز کی شادی میں شامل تھے اور اس تقریب میں میرے ابا جان اور ڈاکٹر محمد یوسف صاحب ہارٹ سپیشلسٹ بھی شامل تھے.وہاں ڈاکٹر صاحب نے اپنے پاس موجود اصحاب کو ابا جان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ دیکھیں نواب صاحب کی زندگی دعاؤں کا معجزہ ہے.امی جان جب زیادہ پریشان ہوتیں تو والد صاحب تسلی دیتے کہ مجھے خواب میں بتایا گیا تھا کہ میری عمر چھیاسٹھ سال کی ہوگی.آخر وہی ہوا.1961ء کے شروع میں ابا جان کی صحت گرنے لگی.بھوک قریباً بند ہوگئی اور آپ بہت ہی بجھے بجھے رہنے لگے.تمام بڑے بڑے ڈاکٹروں کا علاج ہو رہا تھا.دعا ئیں بھی ہو رہی تھیں.بخار تین چار ماہ سے روزانہ ہورہا تھا.اس لئے آپ کو گنگا رام ہسپتال میں بھی داخل کروایا گیا تھا تا صحیح تشخیص ہو سکے اور کچھ عرصہ ہسپتال میں رہنے کے بعد آخر آپ کی خواہش پر میرے بھائی عباس احمد خان صاحب کی قیام گاہ کوٹھی پام و یو نمبر 5 ڈیوس روڈ میں لے
205 آئے کیونکہ یہ کوٹھی نزدیک تھی.ڈاکٹر فوراً پہنچ سکتے تھے.ڈاکٹر روزانہ دیکھتے تھے.ماڈل ٹاؤن دور تھا.آپ کی صحت دن بدن گرتی گئی اور آخری ہفتہ بخار بھی بہت بڑھ گیا.ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ دل کی وجہ سے بخار ہے.17 ستمبر کو رات کو آٹھ بجے کے قریب ابا جان نے اجابت محسوس کی.امی نے بیڈ پین لگایا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد آپ نے دروازہ کھولا.اور گھبرا کر کہا منور کو جلدی بلاؤ اسی وقت بھائی منور تشریف لے آئے.ابا جان کا سانس اکھڑا ہوا تھا اور سخت تکلیف تھی.ڈاکٹر محمد یوسف صاحب بھی آگئے اور فور أعلاج شروع کر دیا گیا اور ٹیکہ بھی دے دیا جس سے آپ کو کچھ سکون ہوا اور سانس کی حالت بھی قدرے بہتر ہوگئی.مگر ڈاکٹروں کے نزدیک حالت نازک تھی.فوراً آکسیجن بھی دینی شروع کر دی گئی.ٹیکے کے اثر سے آپ ساری رات غنودگی کی حالت میں رہے.بلڈ پریشر اور نبض کی حالت اچھی نہ تھی.رات گزر رہی تھی.ہم سب دھڑکتے ہوئے دلوں کیسا تھ دم بخود آپ کو کنکی لگائے دیکھ رہے تھے.آپ بار بار ٹھنڈے پسینوں میں ڈوب جاتے.امی رومال سے بار بار آپ کی پیشانی اور چہرے سے پسینہ پونچھ رہی تھیں دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکل رہی تھیں.یا اللہ ! صرف ایک دفعہ اور ابا جان کو بچالے اور پھر ایک معجزہ دکھا دے.مگر خدا تعالیٰ کا حکم آن پہنچا تھا.با وجود تمام کوششوں کے وہ وقت آن پہنچا جس کا تیرہ سال سے خطرہ تھا اور جو پاک اور نیک لوگوں کی گریہ وزاری اور کثیر صدقات اور امی کی انتھک محنت و خدمت سے تیرہ سال تک ملتوی ہور ہا تھا.صبح آٹھ بجے کے قریب ہمارے پیارے شفیق اور انتہائی محبت کرنے والے باپ ہم سے ہمیشہ ہمیش کیلئے جدا ہو گئے.اور تقدیر مبرم مالک حقیقی کا آخری بلا والے کر آ پہنچی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ میرے ابا جان بہت عبادت گزار، تہجد گزار اور دعا گو تھے.آپ ہمیشہ نماز اول وقت پر اور اہتمام سے ادا کرتے تھے اور نماز با جماعت سے عشق تھا.قادیان میں آپ کا ہمیشہ معمول رہا کہ نماز تہجد ادا کر کے آپ مسجد میں تشریف لے جاتے اور واپس آکر بہت دیر تک قرآن مجید کی تلاوت فرماتے.لاہور میں دل کی بیماری کے بعد جب آپ کو ذرا بھی اجازت چلنے پھرنے کی ملی.سب سے پہلے آپ نے نماز باجماعت کا انتظام کیا اور ہمارے ہاں ماڈل ٹاؤن میں با قاعدہ نماز با جماعت ہونے لگی.آپ انتہائی متقی ،خلیق ، ملنسار، مہمان نواز اور غریب نواز تھے.آپ اللہ تعالیٰ سے بے حد پیار کرنے والے اور حضرت رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود
206 علیہ السلام کے عاشق تھے.اور اسی طرح آپ کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے بھی بے حد محبت تھی.اور آپ کا ہر حکم اور ہر لفظ آپ کیلئے حرف آخر تھا.آپ سلسلہ کے سارے نظام کی بڑی سختی سے پابندی فرماتے.اور ہمیشہ ہم بچوں کو بھی یہ نصیحت فرماتے کہ ہمیشہ دعا کرتے رہو.کہ تم ہمیشہ خلافت کی نعمت کے وارث بنے رہو اور یہ نعمت تم جماعت احمدیہ کے افراد سے کبھی نہ چھنے.اور حقیقی سعادت یہی ہے کہ خلیفہ کا کوئی حکم خواہ تم پر کتنا ہی گراں کیوں نہ ہوا سے خوشی سے مانو.اس میں برکت ہی برکت ہے.اسی طرح آپ کو حضرت خلیفہ اول سے بھی بے حد محبت تھی.ابا جان جب بھی آپ کا ذکر کرتے اور اکثر واقعات سناتے اس وقت آپ کے چہرے پر انتہائی محبت اور پیار ہوتا تھا.اور ہمیں ہمیشہ فرماتے کہ میں ہمیشہ حضرت خلیفہ اول کیلئے بے حد دعا کرتا ہوں اور آپ کی اولاد کیلئے بے حد دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو نیک ہدایت دے.اور اپنے والد بزرگوار کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے.آپ کو حضرت اماں جان سے بے حد محبت تھی اور اس بارہ میں میرے ابا جان نہایت ہی خوش قسمت تھے کہ ان کو حضرت اماں جان کی بے حد محبت اور بے حد دعائیں ملی ہیں.آج بھی میری آنکھوں کے سامنے یہ نظارہ پھر رہا ہے.کہ قادیان میں حضرت اماں جان اکثر صبح ہی ہماری کوٹھی دار السلام تشریف لے آتیں اور ابا جان ان کو ساتھ لئے ہوئے انتہائی خوشی میں چلے آرہے ہیں.اور دور سے ہی آواز دے رہے ہیں.بیگم ! دیکھو حضرت اماں جان تشریف لائی ہیں.اور پھر کس خوشی سے ابا جان اماں جان کے ہر آرام کا خیال رکھتے.کہیں پلنگ پچھوارہے ہیں، کہیں آپ کیلئے چاۓ لگواتے ہیں، آپ کی پسند کے پھل پیش کرتے ہیں.ہم میں سے کسی کو حضرت اماں جان کو کوئی کتاب سنانے کیلئے کہہ رہے ہیں.غرضیکہ جتنی دیر آپ تشریف رکھتیں.ابا جان آپ کیلئے بچھے جاتے او ر بہت ہی خوش ہوتے تھے.ابا جان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی کہ زیادہ سے زیادہ آپ کی خدمت کریں اور آپ کسی خواہش کا اظہار کریں جسے پورا کر کے وہ بہت مسرور ہوں.اور اسی لئے آپ کو میرے ابا سے بے حد پیار تھا اور ابا جان کی ذراسی تکلیف پر بھی آپ کا محبت بھرا دل بے چین ہوجاتا تھا اور آپ ان کیلئے بہت دعا ئیں فرماتی تھیں.میری شادی کے متعلق ابا جان نے بار ہا سنایا کہ حضرت اماں جان کی خواہش پر ہوئی.یوں کہ ایک دن آپ تشریف لائیں اور فرمایا.میاں ! آج میں تمہارے پاس ایک چیز مانگنے آئی ہوں مجھے
207 طاہرہ دے دو.یہ سنتے ہی فوراً بغیر کسی سوال کے میں نے عرض کیا.اماں جان طاہرہ آپ کی ہے.اور پھر میرے ابا جان کے اس اعتماد اور فرمانبرداری نے مجھے اپنی پیاری اماں جان کی جو کہ مجھ سے پہلے ہی بے حد پیار کرتی تھیں، دوہری محبت دلا دی.اور میری اماں جان نے ہمیشہ ہی میرے ابا جان کے اس جذبہ کی بے حد قدر کی اور قدم قدم پر میرا خیال رکھا اور ہمیشہ میرے لئے خاص دعا کی اور میری بری اور جہیز کا اکثر سامان بھی آپ نے بنایا.اکثر سامان تو تقسیم ملک کے وقت دہلی میں لٹ گیا.باقی چیزوں پر جب میں ام المومنین لکھا دیکھتی ہوں تو میرا دل خوشی اور مسرت سے بھر جاتا ہے.ابا جان کی ہی بدولت مجھے اماں جان کی خدمت نصیب ہوئی.آپ کی وفات سے سات آٹھ ماہ پہلے میں نے ابا جان کو اپنا خواب سنایا کہ کوئی شخص کہہ رہا ہے اپنے خاوندوں سے طلاقیں لے کر حضرت اماں جان کی خدمت کرو.اباجان نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے خاوندوں اور بچوں کی وجہ سے تم لوگ لاہور میں مقیم ہو اور حضرت اماں جان ربوہ میں قیام رکھتی ہیں.اپنے میاں کو چھوڑ کر جا کر اماں جان کی خدمت کرنی چاہئے.اس وقت تو آپ اچھی تھیں.اس لئے زیادہ خیال نہ کیا.اور اس لئے بھی کہ ان دنوں سیدی ماموں جان ( حضرت خلیفتہ امسیح الثانی) کی بیٹی امتہ النصیر حضرت اماں جان کے پاس سوتی تھیں اور خدمت کرتی تھیں اب جبکہ ان کی شادی ہو رہی تھی تو ضروری تھا کہ کوئی اور خدمت کرنے والی پاس ہو.ابا جان نے مجھے بلا کر فرمایا.طاہرہ ! تم نے ایک دفعہ مجھے اپنا ایک خواب سنایا تھا.میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے اور تمہیں ربوہ جا کر حضرت امان جان کے پاس رہنا اور ان کی خدمت کرنی چاہئے.تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ہوا ہے اگر تم نے یہ وقت گنوا دیا تو ساری عمر پچھتاؤ گی.میں بیمار ہوں باوجود خواہش مند ہونے کے حضرت اماں جان کی میں خدمت نہیں کر سکتا اور مجھے بے حد خوشی ہوگی.اگر تم اس وقت جا کر ان کے پاس رہو.ان دنوں میرے میاں کا روبار کے تعلق میں عارف والہ میں مقیم تھے.ابا جان نے باوجود اپنی بیماری کے میری لڑکی امتہ الحسیب کی ذمہ داری قبول کر لی.کیونکہ بچی مدرسہ میں داخل تھی.مجھے ربوہ بھجواتے ہوئے سخت تاکید کی کہ اماں جان کا پورا پورا خیال رکھنا آپ کی بیماری کے ان آخری ایام کے ثواب میں ابا جان کا بہت بڑا حصہ ہے.حضرت رسول کریم علیہ فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ لَا هُلِہ اور میرے ابا جان اس کی
208 صحیح تصویر تھے.آپ ایک بہترین خاوند بے حد مشفق اور محبت کرنے والے والد تھے.ابا جان کیلئے امی جان صرف بیوی نہیں تھیں.بلکہ وہ حضرت مسیح موعود کی بیٹی زیادہ تھیں.ہمیشہ دیکھا کہ آپ نے امی جان کا بے حد خیال رکھا اور بہت ہی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا حالانکہ ابا جان کو خود بھی عزت ، حسب و نسب ، مال و دولت سب کچھ حاصل تھا اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے وہ تمام خوبیاں ان میں ودیعت کر رکھی تھیں کہ جن کی وجہ سے وہ حضرت مسیح موعود کی دامادی کے اہل تھے.مگر ابا جان نے کبھی اپنی کسی خوبی پر فخر نہ کیا.آپ کیلئے تو سارا فخر اسی میں تھا کہ آپ حضرت مسیح موعود کے خادم اور داماد ہیں اور حضور کی بیٹی ان کے گھر میں ہے.ہمیشہ نہایت انکسار اور عاجزی سے کہتے کہ میں تو کسی قابل نہ تھا.یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے مجھے حضور کے قدموں میں لا بٹھایا.اللہ تعالیٰ کے ہر فضل اور انعام پر آپ یہی کہتے کہ یہ تمہاری امی کے قدموں کی برکت ہے.امی تو خیر ابا جان کیلئے ایک بہت بڑی ہستی تھیں ہی.ابا جان تو خاندان حضرت مسیح موعود کے بچے بچے پر فدا تھے.ہم سب بہنوں کے خاوند اور خاندان کے دیگر بچے ابا جان کیلئے بچے ہی تھے.مگر باوجود اپنی بزرگی اور بڑائی کے آپ ان سب کے ساتھ ہمیشہ بہت عزت و احترام سے پیش آتے.میاں کہہ کر مخاطب فرماتے کھڑے ہو کر ملتے اور فرماتے کہ یہ خاندان حضرت مسیح موعود کے بچے ہیں.آپ کو ہم سب بہن بھائیوں سے بھی بہت پیار تھا.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر لڑ کیاں زیادہ ہوں تو والد گھبرا جاتا ہے اور لوگ لڑکوں کی زیادہ قدر کرتے ہیں.مگر ابا جان نے ہمیشہ ہم سب بہنوں سے بہت محبت کا سلوک کیا اور ہمیں کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ ہم لڑکوں سے کم درجہ کی ہیں.اس وجہ سے بالعموم ہمارے بھائیوں اور ہمارے خاندان میں یہ احساس تھا کہ آپ لڑکیوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں.لیکن حقیقت یہ تھی کہ آپ کے دل میں ساری اولا د کیلئے شدید محبت تھی.اور اس معاملہ میں آپ اس قدر نازک احساس رکھتے تھے کہ اگر ہم میں سے کسی کو کوئی ذراسی بھی تکلیف ہوتی تو آپ کی نگاہیں فوراً پہچان لیتیں اور ہم آپ کی بار بار اٹھتی نگاہوں سے سمجھ جاتے کہ باوجود ہمارے چھپانے کی کوشش کے آپ سمجھ گئے ہیں.اور پھر امی سے ذکر کرتے کہ آپ نے غور نہیں کیا.آج فلاں بچہ کچھ چپ اور اداس تھا کیا بات ہے؟ آپ سے ہم سب بہنیں بے حد بے تکلف تھیں.مگر اس کے باوجود آپ کا رعب بھی بہت تھا.آپ نے صرف محبت ہی نہیں کی بلکہ ہر طرح تربیت کا بھی خیال رکھا.جہاں کوئی ایسی بات محسوس کرتے جو بری ہوتی فوراً آپ کا رنگ بدل
209 جاتا.اور اسی وقت آپ منع کرتے اور پھر نہایت محبت سے سمجھاتے کہ تم حضرت مسیح موعود کے خاندان سے وابستہ ہو.تمہاری عزت اپنی نہیں.حضرت مسیح موعود کی عزت ہے اس لئے اپنے اندر ہر خوبی اور اچھائی پیدا کرو.آپ کے سینہ میں نہایت محبت کرنے والا دل تھا.اس لئے جب بھی ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا تو اس کی تمام تیمار داری آپ ہی کرتے.چند سال قبل جب امی جان کے پیٹ کا آپریشن ہوا تو باوجود اپنی بیماری کے ان کی بہت خدمت کی.سوائے دو پہر کے ایک دو گھنٹہ کے آپ سار دن ان کے پاس رہتے.اور ان کی تمام ادویہ، پھل وغیرہ ہر چیز موٹر میں جا کر خودخرید کے لاتے.وہ وقت ابا جان اور ہم پر قیامت بن کے گزر رہا تھا.بار بار خون جاری ہونے کی وجہ سے امی سخت خطرہ میں اور بہت کمزور تھیں.اور دوسری طرف میرے ابا جان کا بیمار اور کمزور دل امی کیلئے غم اور اندیشوں میں گھرا ہوا تھا.ابا جان مجسم دعا تھے ہمیں کہتے دعا کرو اللہ تعالیٰ تمہاری امی کو بچالے.جب امی اپریشن روم میں ہوتیں ابا جان سجدہ میں گرے ہوتے اور ہمیں ایک طرف امی کا فکر اور ساتھ ہی دوسری طرف ابا جان کا.ہم ابا جان کو بار بار کورامین اور گلو کوز دیتے اور تسلی دیتے.مگر ابا جان کیلئے تو امی ہی سب کچھ تھیں.ان کے مغموم چہرے پر نظر پڑتی تو دل سہم جاتے.آخر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور امی خطرہ سے باہر ہوگئیں.مگر اس سخت خدمت و محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس دن امی ہسپتال سے آئیں اسی دن ابا جان کو دوبارہ شدید حملہ ہوا اور آپ کو ہسپتال میں داخل کروانا پڑا.مگر آپ کو اپنی کوئی پرواہ نہ تھی.بار بار کہتے کہ میری جان کی قیمت ان کی جان کے مقابل کچھ بھی نہیں.اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ اس نے اپنی یہ نعمت میرے پاس رہنے دی.اسی طرح جب بھی ہم بہن بھائیوں میں سے کوئی بیمار ہوتا.تو تیمار داری بجائے امی کے ابا جان ہی کرتے.میں ہمیشہ ہی بچہ کی پیدائش کے دوران سخت بیمار ہو جاتی تھی اور اس وقت ابا جان ہی میرا خیال رکھتے.دن اور رات میں دوائی اپنے ہاتھ سے پلاتے ، غذا اپنے ہاتھ سے کھلاتے ، میرے لئے ہر وقت بے چین پھرتے ، ایک دفعہ آپ کو علم ہوا کہ میں دہلی میں بیمار ہوں.میرے میاں کو فوراً لکھا کہ اسے قادیان لے آؤ.میں نے ابا جان کی تکلیف کے خیال سے جانے سے انکار کر دیا.سخت ناراض ہوئے مجھے تار دی کہ یہ میرا حکم ہے تم فوراً آ جاؤ.ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گا.اور میرے میاں کو لکھا کہ ایک گو پے ریزرو کروا کر اسے فوراً لے آؤ.آمد و رفت کا کرایہ میں خود دوں گا اور
210 جب تک میں آپ کے پاس پہنچ نہ گئی ، آپ کو تسلی نہ ہوئی.آپ کو نماز سے عشق تھا.آپ بہت سوز و درد اور توجہ سے نماز ادا کرتے.تہجد کے ہمیشہ سے عادی تھے.بہت دعائیں کرنے والے تھے.ہمیشہ صحابہ کرام اور بزرگوں سے دعائیں کرواتے.حضرت مسیح موعود کے درمشین کے آمین والے دعائیہ اشعار بہت کثرت سے اور درد سے پڑھتے اور اپنی اولاد کو نماز اور دعاؤں کی تاکید کرتے.آپ کا ایک اور وصف مہمان نوازی تھا.آپ ہمیشہ کوشش کرتے کہ اپنے پاس آنے والے ہر شخص کی خاطر تواضع کریں.دعوتیں دینے کا بھی آپ کو بہت شوق تھا.اب تو اپنی بیماری کی وجہ سے مجبور ہو گئے تھے اور کہتے تھے کہ تمہاری امی پہلے ہی میری خدمت کر کے تھک کر چور ہو گئی ہیں.مگر قادیان میں جب آپ صحت مند تھے.آپ بہت شوق سے دعوتیں کرتے تھے اور ایام جلسہ سالانہ کیلئے آپ مہینہ بھر پہلے ہی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے.اور ان ایام میں تو ہمارے ہاں اتنے مہمانوں کو آپ مدعو کرتے کہ ایک شادی کا ساہنگامہ دکھائی دیتا.اور آپ ان کی خاطر تواضع کر کے بہت خوشی محسوس کرتے اور فرماتے کہ یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت ہے اور یہ سارے حضور ہی کے مہمان ہیں.ان کی خدمت کرنا عین سعادت ہے.آپ غریب نواز بھی بہت تھے ہر غریب اور ضرورت مند کو دیکھ کر آپ کا دل پگھل جا تا اور آپ حتی الامکان اس کی ضرورت پوری کرتے اور تکلیف میں اس کا ہاتھ بٹاتے اور اس میں خوشی اور سکون محسوس کرتے.فرماتے ہمسائے کا بہت حق ہوتا ہے.ہمسایہ کا بہت خیال رکھنے کی امی کو تاکید ہوتی.جب کوئی اچھی چیز پکتی یا باہر سے آتی.اپنے ہمسایہ میں بھجواتے.ایک ملازم ، رضاعی بھائی کا ایک لڑکا تھا، وہ گھر میں تھا.اس کی یتیمی کی وجہ سے آپ کو اس کا بہت احساس تھا.کھانے کی میز پر اکثر پہلے اسے کھانا دیتے اور جب بھی کوئی نیا پھل آتا پہلے اسے دیتے.آپ نہایت ہمدرد اور محبت کرنے والا دل رکھتے تھے.خادموں سے بھی آپ کا سلوک بہت ہمدردانہ تھا.آپ جانوروں تک کا بہت خیال رکھتے تھے.اکثر اپنے ہاتھ سے جانوروں کو دانہ ڈالتے اور ان کے پانی کا خیال رکھتے.گھر میں حفاظت کیلئے جو کتا وغیرہ رکھا ہوتا.اسے بھی اپنے ہاتھ سے کھا نا ڈالتے.سلسلہ کے ساتھ آپ کو بہت ہی عقیدت تھی.آپ چندے ہمیشہ دل کھول کر دیتے اور فرماتے کہ چندے میں کبھی بخل نہ کرو.یہ تو خدا تعالیٰ سے سودا ہے.جو چندہ دیتا ہے وہ کبھی گھاٹے میں نہیں
211 رہتا.آپ ہمیشہ خواہشمند رہتے کہ سلسلہ کی کوئی خدمت کر سکیں جلسہ سالانہ کے دنوں میں آپ بہت خوش ہوتے.اور بہت شوق سے جلسہ میں شرکت کرتے حتی کہ اس بیماری سے اُٹھ کر آپ نے کوئی جلسہ بغیر مجبوری کے نہیں چھوڑا.ایک دفعہ آپ ایام جلسہ میں تھکان اور گردو غبار سے بہت سخت بیمار ہو گئے.اور آخر سیدی حضرت ماموں جان (خلیفہ اسیح الثانی) نے آپ کو کہلا بھیجا کہ آئندہ آپ نے سٹیج پر بیٹھ کر جلسہ نہیں سنا، آپ بیمار ہیں.جلسہ سالانہ آپ کی غذا تھی.اس حکم کے بعد آپ نے یہ ترکیب نکالی کہ جلسہ گاہ کے باہر اپنی موٹر کارکھڑی کر کے اس میں بیٹھے رہتے اور تمام تقریریں سن لیتے.آپ کا معمول ان ایام میں یہ تھا کہ صبح ہی تیار ہو کر بہشتی مقبرہ تشریف لے جاتے اور پھر بالعموم بعض بزرگوں کے ہاں جا کر ان سے ملاقات کرتے اور پھر قریباً تمام دن برآمدہ میں بیٹھ کر مہمانوں سے محبت و پیار سے ملاقاتیں کرتے.اور اگر امی ان کی تھکان اور بیماری کے خوف سے منع کرتیں.تو فرماتے اب اگر زندگی رہی تو ان سے ایک سال بعد ملاقات ہوگی.اور میرا دل نہیں چاہتا کہ میں کسی کو نہ ملوں.آپ بہت نفاست پسند تھے.صفائی اور سادگی بھی آپ کی خاص صفات تھیں.آپ منکسر المزاج بھی بہت تھے.آپ میں تکبر اور بڑائی نام کو نہ تھی.مگر باوجود اس کے آپ رعب والے بھی تھے..ملازم اور ہم گھر کے سارے بچے باوجود آپ سے بے حد بے تکلفی کے ڈرتے بھی بہت تھے.آپ کی شفقت و محبت کی ایک نہیں ہزاروں مثالیں ہیں.مگر نہ دل میں ہمت ہے.نہ قلم میں طاقت ہے کہ میں ضبط تحریر میں لا سکوں.رنج و راحت کے مواقع پر نگاہیں بے اختیار آپ کو تلاش کرتی ہیں.جدائی کا درد اور دل کی جلن قدرتی امور ہیں.لیکن ہم راضی برضائے الہی ہیں.اے اللہ تعالیٰ ! تو میرے پیارے ابا جان کی روح پر ہزاروں ہزار فضل اور رحمتیں نازل کر.اور اپنی رحمت کے سایہ میں آپ کو سکینت اور قرار عطا کر.اور آپ کو بلا حساب جنت میں داخل فرما اور آنحضرت ہے اور آپ کے غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک قدموں میں جگہ دے.صل الله آمين اللهم آمين تَمَّتُ بِالْخَيْرِ وَآخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين
212 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا مکتوب گرامی بنام مولف اصحاب احمد بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود مکرمی و محترمی ملک صلاح الدین صاحب ایم اے.السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اصحاب احمد کی جلد نہم جس میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قا دیانی مرحوم کے حالات اور مشاہدات اور روایات درج ہیں.آپ کی طرف سے موصول ہوئی.جَزَاكُمُ الله خَيْراً میں نے اس کا کافی حصہ پڑھ لیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور حضرت بھائی صاحب کے درجات کو بلند فرمائے.یہ کتاب خدا کے فضل سے نہایت دلچسپ اور نہایت ایمان افروز ہے.بعض مقامات پر تو میں نے یوں محسوس کیا کہ گویا میں اس کتاب کو پڑھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں پہنچ گیا ہوں.کئی واقعات ایسے نظر سے گزرے جو میرے چشم دید اور گوش شنید تھے.لیکن میں انہیں بھول گیا تھا.یا میری یاد مدھم پڑ گئی تھی.اس کتاب کو پڑھنے سے بہت سی دلکش اور روح پرور یادیں تازہ ہوگئیں.حضرت بھائی صاحب کو حضرت مسیح موعود کی قریب ترین صحبت میں رہنے کا لمبا عرصہ ملا تھا.انہوں نے ہر واقعہ کو غور سے دیکھا اور ہر بات کوغور سے سنا اور اسے اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور پھر نہایت دلکش رنگ میں اسے بیان کیا.فَجَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ اس جگہ اس بات کے بیان کرنے میں حرج نہیں کہ اصحاب احمد کی تین جلد میں مجھے خاص طور پر بہت پسند آئی ہیں.ایک وہ جلد جو حضرت نواب محمد علی خان کے حالات اور روایات پر تی دوسرے وہ جلد جو حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے مشاہدات اور روایات پر پر مشتمل ہے اور تیسرے یہ جلد جو حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے مشاہدات اور روایات پر مشتمل ہے.میں جماعت کے دوستوں اور خصوصاً نوجوان عزیزوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اصحاب احمد کی جملہ جلدیں خرید کر ان کا مطالعہ کریں اور اپنے ایمانوں کو تازہ کریں.اور خصوصیت سے مذکورہ بالا تین جلدوں کا تو ضرور مطالعہ کریں.اس سے انشاء اللہ ان کو ایک نئی روشنی حاصل ہوگی.فقط والسلام خاکسار مشتمل ہے اور مرزا بشیر احمد 12 جولائی 1961ء