Language: UR
حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1949ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ میں فرمایا : ‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : <span class="quranic">اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ</span>۔ عام طور پر اس کے یہ معنی کئے جاتے ہیں کہ مُردوں کی برائی بیان نہیں کرنی چاہئے وہ فوت ہوگئے ہیں اور ان کامعاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے۔ یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن درحقیقت اس میں قومی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے<span class="quranic"> اُذْکُرُوْا مَوْتیٰ بِالْخَیْرِ</span> نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے<span class="quranic"> مَوْتَاکُمْ</span> کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی اپنے مُردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو۔ جس کے معنی ہیں کہ آپؐ نے یہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔‘‘ اس ارشاد کی روشنی میں محترم ملک صلاح الدین صاحب نے ’’اصحاب احمدؑ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کیا جس میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے مختصر حالات شائع کئے جاتے تھے۔ رسالہ کانام حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے نے تجویز فرمایا تھا۔ بعد ازاں بزرگانِ سلسلہ کی تجویز پر ان سوانح کو مفصل اور کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1955ء کے جلسہ سالانہ میں آپ کی اس خدمت کاذکر کرتے ہوئے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور بعض ضروری نصائح فرماکر احباب جماعت کوصحابہ کرام کے حالات زندگی اور تاریخ کے متعلق ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ درجنوں صحابہ کے ابتدائی تعارف پر مشتمل زیر نظر یہ مجموعہ 12 جلدوں پر محیط ہے جو دیدہ زیب ٹائپ شدہ ہیں اور قریبا اڑھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مفید سلسلہ کتب میں معزز مرحومین کی تصاویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بعض جگہ ضروری نقشے اور وضاحتی خاکے بھی بناکر شامل کئے گئے ہیں۔ صحابہ کی خود نوشت تحریرات یا مطبوعہ مواد پر مصنف کتاب کے شامل کردہ حوالہ جات اور ضروری وضاحتی حواشی نے کتاب کی افادیت کو اور بڑھا دیا ہے اور بلاشبہ یہ صرف صحابہ کے حالات زندگی ہی نہیں بلکہ جماعت احمد یہ کی تاریخ کا اہم ذخیر ہ ہے اور مصنف کی طرف سے جماعت کی ابتدائی تاریخ کا قیمتی خزانہ محفوظ کرنے کی ایک نہایت ہی قابل قدر سعی ہے۔
صرف احمدی احباب کی تعلیم وتربیت کے لئے اصحاب احمد جلد یاز دہم | مؤلفه ملک صلاح الدین ایم.اے
نام کتاب: مصنف: اصحاب احمد جلد گیارہ ملک صلاح الدین ایم اے
i نمبر 01 عرض حال 02 | خاندانی حالات 03 شادی اور سسرال کے حالات 04 طالب علمی کے حالات 05 | بچوں کی وفات پر والدہ کا صبر 06 ولادت چوہدری ظفر اللہ خاں فهرست عناوین عناوین 07 والد چوہدری نصر اللہ خاں کی وفات اور ان کی اہلیہ کا خلوص 08 نیک مجالس میں حاضری.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی طرف سے وعظ ونصیحت 09 | والدہ ماجدہ کا قبول احمدیت 10 صالح اولاد صفحہ نمبر i 1 2 4 5 11 13 17 26 37 38 39 44 49 888 59 60 64 67 78 6600 11 چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی قبول احمدیت و روایات 12 شجرہ نسب 13 تعلیمی حالت 14 تمام افراد خاندان خلافت ثانیہ کی بیعت میں 15 سیالکوٹ سے قادیان کو ہجرت 16 وزیر ہند.گورنر پنجاب اور وائسرائے ہند کی خدمت میں سپاسنامہ 17 باقاعدہ شوری کا آغاز 18 فتنہ ارتداد ملکانه 19 حج کی توفیق
78 83 84 89 88 686 97 90 90 95 98 99 101 102 106 108 111 111 111 113 140 141 143 143 150 ii 20 آخری علالت 21 وفات 22 الفضل میں ذکر خیر 23 تعزیتی قرار داد مجلس معتمدین 24 | خدمات سلسلہ 25 مالی قربانی 26 کتب حضرت مسیح موعود کا انڈیکس 27 وفات کے متعلق دور ویا 28 آخری علالت 29 | رحمدلی کا ایک واقعہ 30 | تشویشناک صورت 31 دیلی کو روانگی 32 سفر قادیان اور آخری گفتگو 33 وفات 34 حضرت چوہدری صاحب کے سیرۃ و شمائل 35 منکسر المزاجی اور علماء کا احترام 36 قرآن مجید سے محبت اور اعلیٰ قوت حافظہ 37 تأثرات احباب 38 خدمت سلسلہ کے لئے وقف زندگی 39 چوہدری صاحب کی دفتری زندگی 40 کسی کام سے عذر نہ ہونا 41 اکران کا معرکہ شدھی 42 آپ کا اخلاص اور اعلی تقویٰ
151 151 153 154 154 156 159 160 180 197 199 207 200 233 237 239 273 277 294 296 299 302 321 43 حضرت اہلیہ صاحبہ چوہدری صاحب کی سیرۃ و شمائل 44 غرباء پروری.انکساری اور عفو و درگز راور دینی امور کی قدر 45 مالی قربانی 46 رسوم اور بدعات سے بیزاری 47 جرات اور رحمدلی 48 ہمدردی بنی نوع انسان 49 سلسلہ کے متعلق غیرت 50 خاندان حضرت مسیح موعود کے ساتھ شدید محبت 51 جماعت احمدیہ پر خصوصی دور ابتلاء ازدواجی زندگی 53 خدمات سلسلہ 54 مالی خدمات 55 قلمی جہاد 56 سپاسنامے بخدمت وائسرائے صاحبان 57 شہزادہ ویلز کی خدمت میں روحانی تحفہ 58 تربیت و تبلیغ اور اعلائے کلمۃ اللہ 59 مساجد کی بناء وافتتاح 60 قانونی خدمات 61 سرکاری وکیل کا جواب 2 جواب الجواب از چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب 63 مقدمہ توہین عدالت پر وکیل سرکاری کی تقریر 64 چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی جوابی تقریر بابت روز نامہ ”زمیندار“ 65 احرار کا نفرنس اور اس کے نتائج
330 331 336 336 347 348 348 352 356 358 369 371 378 380 381 381 382 383 386 iv 66 باؤنڈری کمیشن 67 آل انڈیا پارٹیز کانفرنس میں شمولیت 68 سلسلہ کے لٹریچر میں ذکر 69 دور دیا کے شاہد 70 عمرہ سے مشرف ہونا 71 مدینہ منورہ کی زیارت 72 خلافت سے وابستگی اور اخلاص 73 آپ کا اخلاص اور قد ر اللہ اور خلیفہ اللہ کی نظر میں 74 قربانی کی تڑپ 75 سفر ہائے یورپ میں رفاقت 76 مجلس معتمدین و مقامی مجلس شوری کی تعزیتی قرار داد 77 تاثرات حضور ایدہ اللہ بابت حضرت چوہدری صاحب 78 والدہ محترمہ کے متعلق تعزیت نامہ 79 سر ظفر اللہ خاں صاحب سے محبت 80 مرحومہ کی وفات کے متعلق ایک خواب 81 مرحومہ کے رشتہ دار 82 مرحومین کے کتبہ جات 83 صحابہ کا مقام 4 سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے جلسہ سالانہ 1955ء کوفرمایا 85 اشاریہ 86 حوالہ جات
i عرض حال اَلْحَمْدُ للهِ حَمْداً كَثِیراً کہ اصحاب احمد کی گیارہویں جلد کی اشاعت کی توفیق پا رہا ہوں.اس موقع پر مین اُن احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے خریدار مہیا کرنے میں خاص طور پر اعانت فرمائی.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ - ان میں سے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں : ا.ربوہ چوہدری مشتاق احمد صاحب با جوه وکیل الزراعت ( سابق امام مسجد لنڈن حال مجاہد سوئٹزر لینڈ ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب.چوہدری صلاح الدین احمد صاحب بی اے، ایل ایل بی ( ناظم جائیدادصد را مجمن احمد یہ چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ ) مولوی بشارت احمد صاحب بشیر ( نائب وکیل التبشير ) مولوی فضل الہی صاحب بشیر (سابق مجاہد ماریشس و مشرقی افریقہ ) مرزا فتح الدین صاحب (سپرنٹنڈنٹ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) اور مولوی غلام باری صاحب سیف ( پروفیسر جامعه احمدیه ) -۲ لاہور : چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بیرسٹر (امیر جماعت احمدیہ ) قریشی محمود احمد صاحب (ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ) خواجہ محمد شریف صاحب (مالک بنگال ٹیکسٹائل کارپوریشن برانڈرتھ روڈ ) شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ - سرگودھا: مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ (امیر صوبائی ) لائل پور : چوہدری احمد دین خاں صاحب بی اے ( خلف حضرت حاجی غلام احمد صاحب سکنہ کریام) - بہاولنگر : رانا محمد خاں صاحب ایڈووکیٹ (امیر جماعت وضلع ) شیخ اقبال الدین صاحب
ii تا جر وسید انوار احمد صاحب شریفی اوورسیئر.کراچی: مہر محمد عبد الله صاحب عمزاده برادر ملک مبارک احمد صاحب ارشاد.عبدالرحیم صاحب مد ہوش رحمانی.ے.کوئٹہ : تاثیر صاحب احمدی.شیخ محمد حنیف صاحب (امیر جماعت ) عبدالرحمان خان صاحب سابق درویش ( ایجنٹ اخبارات احمدیہ ) - پشاور چوہدری محمد سعید صاحب ایجنٹ.چوہدری محمد احمد صاحب باجوہ (سپلائی ڈائرکٹوریٹ ہیڈ کوارٹر ) سابق سندھ : صوفی محمد رفیع صاحب سکھر ( اپر ڈویژن ).خان فضل الرحمان خاں صاحب (سول انجینئر ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری حیدر آباد پاک).چوہدری فضل احمد صاحب ( مینجر بشیر آباد اسٹیٹ ).چوہدری محمد اسماعیل صاحب خالد ( مینجر احمد آباد اسٹیٹ) -1+ ممالک بیرون چوہدری محمد حسین صاحب لنڈن ( سابق امیر جماعت احمد یہ جھنگ ).شیخ مبارک احمد صاحب (رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ ).مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر ( سابق مجاہد سیلون ومشرقی افریقہ حال مجاہد ماریشس ).میاں عطاء اللہ صاحب وکیل ( سابق امیر جماعت - راولپنڈی حال وارد کینیڈا) ا بھارت: مولانا محمد سلیم صاحب مبلغ سلسلہ ( کلکتہ ).منشی محمد شمس الدین صاحب (سابق امیر کلکتہ ).مولوی محمد اسماعیل صاحب وکیل یا دگیر.کتاب کے متعلق دیگر بہت سے امور میں چوہدری محمد شریف صاحب فاضل ( سابق مجاہد بلادِ اسلامیہ حال مجاہد گیمبیا مغربی افریقہ ).چوہدری محمد صدیق صاحب بی اے (لائبریرین خلافت لائبریری ربوہ ).اور چوہدری محمود احمد صاحب عارف ( معاون ناظر امور عامہ قادیان) اور اپنے بھائی ملک برکت اللہ صاحب بی اے، ایل ایل بی منٹگمری.دفعدار محمد عبداللہ صاحب لائبریرین قادیان و مرزا بشیر احمد صاحب گجراتی نائب لائبریرین قادیان کا بے حد ممنون ہوں.تحریک خریداری: - احباب ذیل کے طریقوں میں سے حسب توفیق کسی طریق سے خریدار بن کر اس کام میں مدد
دیں اور عند اللہ ماجور ہوں.بارہ تیرہ سال سے یہ سلسلہ تالیف جاری ہے اور اس وقت تک قریباً چار ہزار صفحات شائع کئے جاچکے ہیں.میں مجلد جلدوں کی خریداری قبول کر کے ایک سور و پریہ پیشگی عنایت فرما ئیں.ڈاک کا خرچ بھی اسی میں شامل ہے.کچھ سابقہ اور بقیہ آئندہ جلد میں دی جائیں گی.یا اسی طریق پر دس یا پانچ جلدوں کے لئے پچاس یا چھپیں رو پے پیشگی عنایت فرما ئیں.پاکستان میں رقم بھجوانے اور خط وکتابت کا پتہ مینجر اصحاب احمد.احمد یہ بکڈ پو.دارالرحمت شرقی.ربوہ ضلع جھنگ محنت طلب کام : یہ بیان کرنے کی چنداں حاجت نہیں کہ یہ تالیفات محنت طلب ہیں.الحکم ، البدر ، بدر ، افضل، احمد یہ گزٹ ، رپورٹ ہائے سالانہ رپورٹ ہائے مشاورت ، رفتار زمانہ لاہور ، فرقان ، حیات فیض ، منصب خلافت وغیرہ کم و بیش ایک سو جلد میں اور کتب کا مطالعہ کرنا پڑا ہے.قریباً اٹھاون سال کے طویل اور مُمتد عرصہ کے حالات کی جستجو سہل امر نہیں اور اس پر جس قدر محنت ، توجہ اور دماغی مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے وہ ظاہر وباہر ہے اور حصول حالات کے لئے بھی خط و کتابت کرنی پڑتی ہے.چنانچہ جب چوہدری صاحب نے خاکسار کی استدعا پر چار سال قبل مسودہ کا مطالعہ فرمایا تھا اور کچھ حالات بھی حضرت والد صاحب کے متعلق رقم فرمائے تھے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ ـ ان چار سالوں میں خاکسار نے اس مسودہ میں خاصہ اضافہ کیا ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ.احباب کو تاریخ سلسلہ کی بہت سی یادیں تازہ ہو جائیں گی اور حضرت امام ایدہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے عزائم ، دور بینی اور برکات کے نظارے بھی سامنے آئیں گے.نئے تبصرے: -۱- محترم سید داؤ د احمد صاحب ( مظفر پور.بہار ) تحریر فرماتے ہیں: آپ ایک بہت اہم اور شاندار کام کر رہے ہیں.صحابہ کرام ایک قومی سرمایہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشان ہیں.انہیں یکجا اور محفوظ کرنا ہر احمدی کا فرض ہے.مبارک باد کہ اس کام کے لئے خدا تعالیٰ نے
آپ کو چن لیا.iv -۲- محترم منشی محمد شمس الدین صاحب ( سابق امیر جماعت کلکتہ ) تحریر فرماتے ہیں: نہایت با برکت خدمت آپ کے ذریعہ سر انجام پا رہی ہے.-۲- محترم سردار بشیر احمد صاحب ایگزیکٹو انجینئر لاہور تحریر کرتے ہیں : آپ کے مقصد میں کامیابی کے لئے ہمیشہ دُعا کرتا رہتا ہوں.آپ ہم سب پر ، ہمارے آباء پر ، اور آنے والی نسلوں پر ایک احسانِ عظیم فرما رہے ہیں.اللہ کریم کے ہاں آپ کے لئے ایک اجر عظیم مقدر ہے“.- محترم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ ( سابق امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی حال مقیم کینیڈا) رقم فرماتے ہیں : جلد ہشتم میں ختم کر چکا ہوں.جلد نہم بھی بہت سے صفحات میں پڑھ چکا ہوں.اگر عزیز محمد عباس نہ پڑھ رہے ہوتے تو میں ختم کر چکا ہوتا.جَزَاكُمُ اللَّهِ -۵ ثُمَّ جَزَاكُمُ اللهُ ثُمَّ جَزَاكُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ خدا تعالیٰ کے فرستادہ اپنے متبعین میں کیا انقلاب پیدا کر دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ اپنا چہرہ انبیاء کے ماننے والوں پر بھی کس طرح بے نقاب کرتا ہے اس کے لئے اولین اور بہترین نمونہ اصحاب سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتا ہے اور اس کے بعد تیرہ سو سال کا زمانہ گزرنے کے بعد دوسرا نمونہ حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء کے اصحاب میں ملتا ہے.آپ کتنا بڑا مبارک کام کر رہے ہیں اور اپنے جسم و جان کا ذرہ ذرہ کس طرح اس کے لئے قربان کر رہے ہیں اور اپنا ہر سانس اس کے لئے کس طرح صرف کر رہے ہیں.اس کی قدرہم کیا ڈالیں گے اللہ تعالیٰ ہی خود اس کا اجر ہوگا..جَزَاكُمُ اللهُ ثُمَّ جَزَاكُمُ اللَّهِ - مکرم مرزا محمد اسمعیل صاحب چمن پاکستان (والد ماجد اخویم مرزا محمد ادریس صاحب مجاہد بور نیو ) تحریر فرماتے ہیں: اصحاب احمد جلد دہم عاجز پڑھ رہا ہے.اللہ پاک آپ کو اپنے فضل سے بے حد و حساب اجر عظیم بخشے جس کے فضل سے یہ توفیق آپ کو ملی اور مل رہی
V ہے.آنے والی نسلیں بھی آپ پر یقینا رشک کریں گی...مبارک ہے آپ کا وجود جس کو اس بہت بڑے نیک کام کے کرنے کی توفیق ملی.-۶- مکرم حاجی محمد ابراہیم خلیل صاحب ( سابق مجاہد اطالیہ وافریقہ ) لکھتے ہیں : آپ صحابہ کبار کے حالات قلمبند کر کے سلسلہ حقہ کی بڑی خدمت سرانجام دے رہے ہیں.بڑا ہی نیک کام ہے.جَزَاكُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء “.مکرم چوہدری عبدالماجد صاحب کراچی ( برادر جناب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب پروفیسرلندن ) لکھتے ہیں: دو تابعین اصحاب احمد اول اور اصحاب احمد جلد دہم ملیں.جَزَاكُمُ الله أَحْسَنَ الْجَزَاءِ.ایک ہی دن میں دونوں جلد میں ختم کیں.آپ کی محنت اور کاوش کا اجر تو اللہ تعالیٰ ہی آپ کو دے سکتا ہے.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ رقم فرماتی ہیں: میں نے اپنے میاں مرحوم کی زندگی میں ایک خواب دیکھا تھا کہ وہ ایک اُونچی کرسی پر بیٹھے ہیں جگہ بھی اونچی ہے جیسے تخت.اور ایک جوان آدمی ( میں نے پشت ہی دیکھی ہے ) لمبا کوٹ یا اچکن پہنے ہاتھ میں ایک کتاب لئے آتا ہے اور مؤدب ہو کر گھٹنوں کے بل اُن کے سامنے زمین پر بیٹھ کر جیسے نذرانہ دیتا ہے وہ کتاب پیش کرتا ہے اور وہ کتاب پکڑ کر دیکھتے اور خوشنودی کی نظر سے اس جوان کی جانب دیکھ رہے ہیں.جب میں نے ان کے متعلق اصحاب احمد ( جلد دوم ) کتاب دیکھی ، تو وہی سائز ، وہی تقطیع تھی اور مجھے وہ پرانا خواب یاد آ گیا.شاید چار روز ہوئے ، آپ کے خط سے پہلے میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ میرے کمرے میں آئے ہیں.میں اور حضرت منجھلے بھائی صاحب ہیں اور سامنے حضرت سید نا بڑے بھائی صاحب تشریف رکھتے ہیں.میں نے سفید پشمینہ کی چادر سر پر اوڑھ لی ہے کہ پردہ رہے اور آپ ہمارے دائیں جانب بیٹھ گئے ہیں.کوئی بات ہم لوگوں نے کی جو حضرت منجھلے بھائی صاحب نے سنی نہیں یا سمجھے نہیں.مگر حضرت صاحب سمجھ گئے.مسکرائے اور فرمایا کہ یہ کہہ رہی
vi ہیں اصحاب احمد کے متعلق اور اخراجات کے متعلق.ایک معاون کے لئے درخواست دعا : ایک دوست نے اس وقت تک سب سے زیادہ مالی اعانت کی ہے اور آئندہ بھی کرنے کا عزم رکھتے ہیں.احباب ان کی صحت و عافیت ، ایمان، اموال و اولاد میں برکت ہونے کے لئے دعا فرمائیں.احباب سے درخواست تعاون: اس کام کے تعلق میں احباب سے تعاون کی درخواست ہے کہ ان کے علاقہ میں یا ان کے اقارب میں جوصحابہ وفات پاچکے ہوں ان کے سوال سے خاکسار کو مطلع فرما ئیں.تا ان کے سوانح شائع کرنے کا جلد انتظام کیا جائے.ایک کثیر تعداد ایسے احباب کی ہے کہ جنہیں میں ہیں ہیں سال سے اپنے بزرگان کے حالات تحریر کر کے دینے کے لئے بار بار توجہ دلا رہا ہوں لیکن وہ اس طرف توجہ نہیں کرتے.حالانکہ ان کے سوانح کی اشاعت ان کے خاندانوں کے لئے برکت کا موجب ہے.اصحاب احمد کے تعلق میں بہت سے عزائم ہیں.بعض کتب کا گزشتہ جلدوں میں اعلان کر چکا ہوں.قریب میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ نے حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری کے سوانح جلد تر شائع کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور جلسہ سالانہ پر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی وفات کے تیسرے روز اُن کے متعلق بھی مجھے تحریک فرمائی تھی.یہ ان کی حسن ظنی اور کرم فرمائی ہے.براہ کرم احباب دعاؤں سے بھی امداد فرمائیں تا اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے عزائم سے بہت بڑھ کر اس کام کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے اور اسے اپنی رضا اور میرے حسنِ خاتمہ کا موجب بنائے.امِينَ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ یوم الجمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۶۲ء مسجد اقصیٰ.قادیان خاکسار صلاح الدین ملک ایم.اے ممبر و آڈیٹر ہر سہ انجمن ہائے صدرانجمن احمد یہ تحریک جدید و انجمن وقف جدید ) قادیان
1 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب خاندانی حالات: حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ضلع سیالکوٹ کے ایک معزز خاندان کے چشم و چراغ تھے.آبائی مسکن ڈسکہ ضلع سیالکوٹ تھا.آپ کی قوم ساہی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ زیادہ تر علاقہ منگری میں آباد تھی.چنانچہ منگمری کا پرانا نام ساہیوال تھا.کسی وقت پنجاب کے ایک علاقہ پر اس قوم کی حکومت تھی.اس خاندان کی یہ شاخ قریباً بارہ چودہ پشت سے مسلمان ہے اور اس کی ایک دوشاخیں اب تک ہندو ہیں باقی یا سکھ ہیں یا مسلمان.آپ کے والد چوہدری سکندر خاں صاحب ابھی بالکل بچہ ہی تھے کہ اپنے والد چوہدری فتح دین صاحب کی جواں مرگ کے باعث ان کے سایہ پدری سے محروم ہو گئے.اسلئے چوہدری سکندرخاں صاحب کی پرورش بہت سختی کے حالات میں ہوئی تھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی طبیعت میں حزم و دانش ودیعت کی تھی.اسلئے باوجود شرکاء کی مخالفت اور منصوبوں کے انہوں نے اپنا زمانہ نہایت خوش اسلوبی سے گزارا اور وہ اپنے علاقہ کے بہت بارسوخ زمیندار تھے.وہ زمانہ ہر رنگ میں تاریکی اور جہالت کا زمانہ تھا لیکن باوجود اسکے اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیوی دانش کے علاوہ دین کا علم وفہم بھی عطا فرمایا تھا.وہ اہلحدیث فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور احکامِ شریعت کی سختی سے پابندی کرتے اور کرواتے تھے.شرک کے ساتھ انہیں خصوصیت سے دشمنی تھی اور ہر قسم آپ کے بڑے صاحبزادہ صاحب محترم کی تالیف ”میری والدہ سے جو باتیں نقل کی گئی ہیں وہاں حوالہ دیا گیا ہے.بعض جگہ عبارات بعینہ درج کی گئی ہیں اور بعض مقامات پر حسب ضرورت خلاصہ یا تغیر الفاظ کے رنگ میں.
2 کی بدعات سے سخت نفرت تھی.ماتم کے موقع پر عورتوں کی جزع فزع کو بہت بُرا منایا کرتے اور اس سے بڑی سختی سے روکا کرتے تھے.حکام کے ساتھ ان کا برتاؤ تو اضع لیکن وقار کا ہوا کرتا تھا اور حکام بھی ان کا احترام کیا کرتے تھے.مہمان نوازی اور غریب پروری ان کا خاص شعار تھے.گو جن حالات میں سے انہیں بچپن سے گذرنا پڑا تھا ، اُن کے نتیجہ میں خود انہیں تنگی سے گزرنا پڑتی تھی.لیکن اس کا اثر وہ مہمانوں کی تواضع پر پڑنے نہیں دیتے تھے.ان کا معمول تھا کہ عشاء کی نماز کے بعد رات کے کپڑے پہن کر وہ مہمان خانے میں چلے جاتے اور ایک خادم کے طور پر مسافروں اور مہمانوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور تہجد کے بعد بھی مہمانوں کی خبر گیری کیلئے مہمان خانے میں جو مسجد کے ساتھ ملحق تھا ، چلے جاتے تھے.ایک دن فجر کے وقت مہمان خانہ کے خادم نے اطلاع دی کہ ایک مسافر جس نے مہمان خانہ میں رات بسر کی تھی غائب ہے اور اس کے بستر کا لحاف بھی غائب ہے.تھوڑی دیر کے بعد یہ لوگ اس مسافر کو لحاف سمیت پکڑے ہوئے آپ کے سامنے لے آئے.آپ نے دریافت کیا میاں تم نے ایسا کیوں کیا ؟ مسافر نے جواب دیا.حضور.ہم گھر میں بچوں سمیت چار نفوس ہیں.سردی کا موسم ہے اور ہمارے گھر میں صرف ایک لحاف ہے.آپ نے کہا اسے چھوڑ دو.اور وہ لحاف بھی اسے دے دیا اور تین روپے نقد دیکر اسے رخصت کیا.اُن کی مہمان نوازی اور سخاوت کی وجہ سے تمام علاقہ میں بلکہ اردگرد کے اضلاع میں بھی لوگ اُن کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیا کرتے تھے.خاکسار مؤلف کو بھی سردار ہربنس سنگھ صاحب ساہی نے کئی بار اس تعلق میں بتایا کہ چوہدری سکندرخاں صاحب مرحوم تھکے ماندے مہمانوں کا جسم دبانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے.بلکہ اسے باعث افتخار جانتے تھے.اور چونکہ مہمان ان کو خادم سمجھتے تھے اسلئے بعض دفعہ ناجائز بحکم اور درشتی سے پیش آتے.لیکن مرحوم اسے بطیب خاطر برداشت کرتے تھے.* شادی اور سسرال کے حالات : محترم چوہدری نصر اللہ خان صاحب کی شادی محترمہ حسین بی بی صاحبہ سے ہوئی جن کی ولادت سردار صاحب کی سکونت ڈسکہ کی ہے.تقسیم ملک کے بعد بمقام دسوہہ ضلع ہوشیار پور مقیم ہیں.
3 غالبا ۱۸۶۳ء میں چوہدری الہی بخش صاحب کے ہاں آبائی مسکن دا تا زید کا ( ضلع سیالکوٹ ) میں ہوئی.قوم باجوہ تھی.جو سیالکوٹ کی زمیندار اقوام میں نہایت معز زقوم کبھی جاتی ہے.چوہدری الہی بخش صاحب کی اولاد پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا تھی.محترمہ حسین بی بی صاحبہ سب سے بڑی تھیں.چوہدری عبداللہ خاں صاحب مرحوم ( امیر جماعت احمدیہ دا تا زید کا ) چار بہنوں سے چھوٹے اور ایک بہن سے بڑے تھے.آپ بوجہ اپنے والدین کی پہلی اولاد ہونے کے بچپن سے ہی بہت لاڈلی تھیں.فرمایا کرتی تھیں کہ وہ زمانہ خوشحالی کا تھا اور چونکہ ( جو خاندان کے سرکردہ تھے ) اُن سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے.اسلئے اوائل بچپن میں اُن کی طبیعت نسبتاً آزاد تھی اور کسی وقت یہ ایساناز یا شوخی کر بیٹھتی تھیں جو اس زمانہ میں تو بچوں کا شعار بن چکی ہے.لیکن اُن ایام میں ان کی والدہ کے لئے بعض دفعہ پریشانی کا موجب بن جایا کرتی تھی.لیکن یہ آزادی کا زمانہ اوائل عمر میں ہی نکاح ہونے کی وجہ سے جلد ہی ختم ہو گیا.دونوں خاندانوں کی پہلے بھی رشتہ داری تھی.چنانچہ حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کی والدہ محترمہ پناہ بی بی صاحبہ ( جو بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہیں ) اپنی بہو کی حقیقی پھوپھی تھیں، گویا چوہدری صاحب کی شادی اپنے حقیقی ماموں کے ہاں ہی ہوئی تھی.اور چو ہدری صاحب اپنے بچپن کا بہت سا حصہ اپنے نھیال میں گزارا کرتے تھے.اور آپ کی ممانی صاحبہ آپ سے بہت پیار کیا کرتی تھیں.آخر عمر تک جب بھی دونوں کو ملنے کا اتفاق ہوتا تو بہت دیر رات گئے تک دونوں آپس میں باتیں کرتے رہا کرتے تھے.ممانی صاحبہ ایک نہایت ہی عابدہ ، زاہدہ ، با صبر اور باہمت عورت تھیں.اس زمانے میں جب دیہات میں عورتوں کی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی تھی.ان کے والد صاحب نے ان کو با قاعدہ طب پڑھوانے کا انتظام کیا تھا.اور وہ طب میں خاصی مہارت رکھتی تھیں.چنانچہ ان کی تربیت کا ہی اثر تھا کہ گو آپ کی دختر (اہلیہ چوہدری نصر اللہ خاں صاحب ) طب نہیں پڑھی تھیں.( نہ صرف یہ کہ علوم مروجہ سے بے بہرہ تھیں بلکہ لکھنا پڑھنا بالکل ہی نہیں جانتی تھیں ) لیکن عام بیماریوں کا رسمی علاج وغیرہ جانتی تھیں.اور بعض دفعہ تو سخت بیماری کی حالت میں بھی نسخہ تجویز کرنے کی جرات کر لیتی تھیں اور اللہ تعالیٰ اپنے رحم سے مریض کو شفا بھی عطاء کر دیتا تھا.الحکم ۳۵-۱-۲۸ میں مندرج آپ کے بیان سے خطوط واحدانی والے حصہ کو زائد کیا گیا ہے.
4 یہ زمانہ حضرت چوہدری صاحب کے سسرال میں نسبتاً خوشحالی کا زمانہ تھا جبکہ انکے اپنے گھر میں نسبتا تنگی کا زمانہ تھا.نکاح کے وقت ابھی دونوں بچے ہی تھے.رخصتانہ نکاح کے چند سال بعد ہوا.جب آپ کی اہلیہ محترمہ نے سسرال آنا جانا شروع کیا ، آپ لاہور اور ینٹیل کالج میں پڑھا کرتے تھے.اور اس زمانہ کی معاشرت کے مطابق مرحومہ کو اپنا تمام وقت اپنی ساس صاحبہ کی ہدایات کے ماتحت گزارنا پڑتا تھا.یوں تو ان دونوں کی آپس میں قریبی رشتہ داری تھی.لیکن یہ زمانہ مرحومہ کے لئے کافی سختی کا زمانہ تھا.ان کی طبیعت بچپن سے بہت حساس تھی.اور ان کی صحت بھی اچھی نہیں رہتی تھی.اس لئے سسرال کی رہائش کا زمانہ اُن کے لئے اور بھی دوبھر ہوا کرتا تھا.چوہدری صاحب کو طالب علمی کی وجہ سے بہت کم عرصہ گھر پر رہنے کا موقعہ ملا کرتا تھا اور ان سے جدائی مرحومہ کو بہت شاق تھی.لیکن یہ سب کچھ انہیں خاموشی سے برداشت کرنا پڑتا تھا.چوہدری صاحب کے والد صاحب اپنی بہو سے بہت شفقت اور ہمدردی سے پیش آتے تھے.لیکن ان سے کسی قسم کی تکلیف کا بیان کرنا بہو کوطبعا گوارا نہ تھا.طالب علمی کے حالات :.حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کی طبیعت بھی بہت نازک اور حساس تھی.اور والد صاحب سے انہیں بہت حجاب تھا.فرماتے تھے کہ میں نے اپنے والد صاحب کے ساتھ نہ کبھی بے تکلفی سے کلام کیا تھا اور نہ کبھی سیر ہو کر اُن کے چہرہ کو دیکھا تھا.ایک دفعہ کسی تقریب پر والد صاحب نے مجھے لاہور سے بلا بھیجا.میں نے جواب میں لکھا کہ اس وقت آنے سے میری پڑھائی میں ہرج ہو گا.اب آئندہ تعطیلات میں ہی آنا ہو سکے گا.جب تعطیلات کے موقعہ پر گھر آیا تو والد صاحب نے والدہ صاحبہ کو مخاطب کر کے فرمایا.اب کس نے بلایا تھا ؟ میں نے بھی یہ فقرہ سُن لیا.جو نہی موقعہ ملا.میں نے اپنا سامان باندھ لیا اور واپس لاہور روانہ ہو پڑا.پاس خرچ بھی کافی نہیں تھا.ڈسکہ سے گوجرانوالہ ۱۵ میل کا فاصلہ سامان سر پر اُٹھائے ہوئے پیدل گیا.گوجرانوالہ سے شاہدرہ تک ریل میں سفر کیا.اور شاہدرہ سے پھر سامان سر پر اٹھا کر حضوری باغ میں پہنچا جہاں اُن دنوں اور ٹیل کالج کا ہوٹل ہوا کرتا تھا.اور تعطیلات کا زمانہ بھی لاہورہی میں گزار دیا.باپ بیٹے نے تو اپنی اپنی الحکم ۳۵ -۱- ۲۸ میں آپ کا بیان ہے کہ نو سال کی عمر میں آپ بیا ہی گئی تھیں.
5 طبیعت کا تقاضا پورا کر لیا مگر حضرت چوہدری صاحب کی رفیقہ حیات کے دل پر جو گذری ہوگی ، اُس کا اندازہ کوئی دردمند دل ہی کر سکتا ہے.آپ فرماتے تھے کہ اب تو تعلیم کے لئے اتنی سہولتیں ہو گئی ہیں اور پھر بھی تم لوگ کئی قسم کے بہانے کرتے رہتے ہو.ہمارے وقت میں تو سخت مشکلات تھیں.اول تو اخراجات کی سخت تنگی تھی.میں نے چھ سات سال کا عرصہ لاہور میں بطور طالب علم کے گزارا.اور مٹیل کالج سے بی ، او، ایل کا امتحان پاس کیا.ٹریننگ کالج سے نارمل سکول کا امتحان پاس کیا اور پھر مختاری اور وکالت کے امتحان پاس کئے.اس تمام عرصہ میں گھر سے ایک پیسہ نہیں منگوایا.جو وظائف ملتے رہے.انہیں پر گزارا کیا.گھر سے صرف آٹا لے جایا کرتے تھے.اور وہ صرف اس مقدار کا کہ اس تمام عرصہ لاہور میں کبھی سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا.وظیفہ بھی پہلے چار روپے ماہوار اور پھر چھ اور آٹھ روپے ماہوار تھا.پھر قانون کے امتحانوں کے لئے یہ دقت تھی کہ اکثر کتب انگریزی میں تھیں اور انگریزی نہ جاننے والے طلباء کو بڑی دقت کا سامنا ہوتا تھا.کیونکہ کئی کتب کے تراجم میسر نہ تھے.چنانچہ ایک دفعہ آپ لالہ لاجپت رائے صاحب کے ساتھ حصار اس غرض کے لئے گئے تھے کہ وہاں کے ایک وکیل صاحب کی زیر نگرانی ایسے مضمون کی تیاری کریں.جس کے نصاب کی کتب کا اُردو تر جمہ میتر نہیں تھا.اُن دنوں ابھی حصار تک ریل نہیں بنی تھی.اور بہت ساحصہ سفر کا پہلی یا یکہ کے ذریعہ کرنا پڑتا تھا.باوجود ایسی مشکلات کے آپ مختاری اور وکالت دونوں امتحانوں میں اول رہے اور اس صلہ میں چاندی اور سونے کے تمغے انعام پائے.آپ طالب علمی میں ایک شریف ، صاف گو اور قابل فخر طالب علم سمجھے جاتے تھے.اور اس وجہ سے طلبہ میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.“ ( بیان حضرت عرفانی صاحب) وکالت کا امتحان پاس کرنے سے قبل آپ نے بطور مختار ڈسکہ ہی میں پریکٹس شروع کر دی تھی.لیکن وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ نے سیالکوٹ میں پریکٹس شروع کی اور وہیں رہائش اختیار کی.بچوں کی وفات پرانکی والدہ کا صبر :.جناب چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی ولادت سے قبل پانچ بچے فوت ہو چکے تھے.ان میں
6 سے پہلے تین کی ولادت و وفات تو اُس زمانہ میں ہوئی جب بچوں کے والد بھی طالبعلم ہی تھے.اور آخری دو کی ان کی مختاری اور وکالت کے زمانہ میں.ان میں سے ہر ایک بچہ کی وفات ان کی والدہ کے لئے ایک امتحان بن گئی.لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اسکے رحم سے ہر موقعہ پر ثابت قدم رہیں اور کسی وقت بھی ان کے قدم جادہ صدق سے ادھر ادھر نہیں بھٹکے.اور یہ ابتلاء آپ کے لئے اصطفاء کا موجب ہوئے.آپ بیان کرتی ہیں کہ انیس بیس سال کی عمر میں میں نے خواب دیکھا کہ میرے تایا صاحب نے کئی عورتوں کو روپے دئے.میرے اصرار پر مجھے دو اٹھنیاں اور تین روپے دئے اور کہا کہ یہ تمہارے پاس رہیں گے نہیں.چنانچہ میں نے مٹھی کھولی تو وہ شیشے بن چکے تھے.اور پھر وہ ریزہ ریزہ ہو گئے.اور میں نے انہیں باہر پھینک دیا.اس خواب کے سات ماہ بعد ایک مُردہ لڑکی پید ا ہوئی.پھر چارسال بعد بڑا بیٹا پیدا ہوا.جس کا نام بھی ظفر ہی تھا.آپ ان بچوں میں سے ظفر اور رفیق کا نہایت محبت کے ساتھ ذکر فرماتیں اور ان کی خوش شکلی کی بہت تعریف کیا کرتی تھیں.ظفر کی ولادت کے سات روز بعد آپ کے میکہ کے گھر وہاں کی ایک ہندو عورت ہے دیوی نام آئی اور پوچھا کہ ساہی راجہ کہاں ہے ؟ * * آپ نے گود میں بچہ کی طرف اشارہ کر کے کہا.پھوپھی یہ ہے.وہ جب چلی گئی تو بچے نے خون کی قے کی اور اُسے خون کے دست آئے.جے دیوی کو لوگوں نے چڑیل یا ڈائن مشہور کر رکھا تھا.اور وہ بھی اس شہرت یا بدنامی کا فائدہ اُٹھا لیا کرتی تھی.بچہ کا علاج شروع کیا گیا.ایک آدمی تعویذ دے گیا.اور ایک عورت نے یہ تعویذ بچے کے گلے میں ڈالنا چاہا.لیکن بچے کی والدہ نے یہ تعویذ چھین کر چولھے کی آگ میں پھینک دیا.اور کہا کہ میرا بھروسہ اپنے خالق و مالک پر ہے.میں ان تعویزوں کو کوئی وقعت نہ دوں گی.بچہ دوماہ کا ہوا تو آپ اسے اپنے سسرال موضع ڈسکہ لے آئیں اور چھ ماہ وہاں قیام رہا.اب اس عنوان میں مندرجہ بعض رؤیا ” میری والدہ اور الحکم مورخہ ۳۵ /۲۸/۱ دونوں میں درج ہیں.مؤخر الذکر میں یہ محترمہ کا اپنا لکھوایا ہوا بیان ہے.یہاں میں نے دونوں کو مخلوط کر کے درج کیا ہے.اور جہاں قدرے اختلاف پایا ہے.وہاں والدہ محترمہ کے بیان کو ترجیح دی ہے.کیونکہ یہ ان کی آپ بیتی ہے.الحکم سے بعض مزید رؤیا بھی شامل کر دی ہیں.* * ساہی قوم سے حضرت چوہدری صاحب تعلق رکھتے تھے.
7 وہ آٹھ ماہ کا ہو چکا تھا.آپ اُسے لیکر میکے آئیں.چھ روز ہوئے تھے کہ وہی جے دیوی ملنے آئی اور بچے کو پیار کیا اور آپ سے کچھ پار چات اور کچھ رسد اس رنگ میں طلب کی جس سے یہ مترشح ہوتا تھا کہ گویا یہ چیزیں ظفر پر سے بلا ٹالنے کیلئے ہیں.آپ نے جواب دیا کہ تم ایک مسکین بیوہ عورت ہو.اگر تم صدقہ یا خیرات کے طور پر کچھ طلب کرو تو میں خوشی سے اپنی توفیق کے مطابق تمہیں دینے کے لئے تیار ہوں لیکن میں چڑیلوں اور ڈائنوں کی ماننے والی نہیں.میں صرف اللہ تعالیٰ کو موت اور حیات کا مالک مانتی ہوں.اور کسی اور کا ان معاملات میں کوئی اختیار تسلیم نہیں کرتی.ایسی باتوں کو میں شرک سمجھتی ہوں.اور ان سے نفرت کرتی ہوں اس لئے اس بناء پر میں تمہیں کچھ دینے کے لئے تیار نہیں ہوں.جے دیوی نے جواب میں کہا کہ اچھا تم سوچ لو.اگر بچے کی زندگی چاہتی ہو تو میرا سوال تمہیں پو راہی کرنا پڑے گا.چند دن بعد آپ ظفر کو غسل دے رہی تھیں کہ پھر جے دیوی آگئی.اور بچے کی طرف اشارہ کر کے دریافت کیا: ”اچھا یہی ساہی راجہ ہے؟ آپ نے جواب دیا.”ہاں یہی ہے.“ جے دیوی نے پھر وہی اشیاء طلب کیں.آپ نے پھر وہی جواب دیا.جو پہلے موقعہ پر دیا تھا.اس پر کے دیوی نے کچھ برہم ہو کر کہا: 66 اچھا اگر بچے کو زندہ لے کر گھر لوٹیں تو سمجھ لینا کہ میں جھوٹ کہتی تھی.“ آپ نے جواب دیا: جیسے خدا تعالیٰ کی مرضی ہوگی وہی ہوگا.“ ابھی کے دیوی مکان کی ڈیوڑھی تک بھی نہ پہنچی ہوگی کہ غسل کے درمیان ہی ظفر کو خون کی ئے ہوئی اور خون ہی کی اجابت ہو گئی.چند منٹوں میں بچے کی حالت دگرگوں ہوگئی اور چند گھنٹوں کے بعد وہ فوت ہو گیا.آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی.یا اللہ ! تو نے ہی دیا تھا اور تُو نے ہی لے لیا.میں تیری رضا پر شاکر ہوں.اب تو ہی مجھے صبر عطا کیجیو.اسکے بعد خالی گورڈ سکہ واپس آگئیں.محترمہ کے الفاظ ہیں اور کیا ہی ایمان بھرے الفاظ ہیں.کاش ہم میں سے ہر ایک کو ایسا ایمان نصیب ہو.فرماتی ہیں : و سبھی لوگ کہتے تھے کہ جے دیوی نے ہی اسے کچھ کر دیا ہے.مگر میں اپنے اس عقیدہ پر
8 اصرار اور مضبوطی سے قائم رہی کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی یوں ہی تھی.اللہ تعالیٰ کے منشاء اور ارادہ میں کسی کو دخل اور قدرت نہیں.میں جانتی تھی کہ وہ رب العالمین میرا ایمان دیکھتا ہے اور امتحان کرنا چاہتا ہے.وہ زمانہ عجیب تو ہمات اور جہالت کا زمانہ تھا.لیکن میرے عقیدہ میں کوئی فرق نہ آیا.“ ایک سال گذر جانے پر مجھے ایک خواب آیا کہ ایک لڑکا ہمارے گھر ڈسکہ میں آیا ہے.اُس کے پاس چوڑیاں ( و نگاں ) ہیں.میں نے اُس سے پوچھا کہ آیا وہ دینے آیا ہے.تو اس نے جواب دیا کہ نہیں چوڑیاں بیچنے نہیں آیا بلکہ یہ بتلانے آیا ہوں کہ آپ کو ایک گرہن لگے گا.سنیچر کا روز ہوگا.دس بجے دن کا عمل ہوگا.اِس کا علاج حفظ ما تقدم کے طور پر احتیاطاً لازم ہے.....سوا پاؤ آٹا لے کر اس میں کچی ہلدی ڈال کر گوندھ لو.اور اُس کابُت بنا کر اپنے چوبارہ کی بام پر یا منڈیر پر جہاں ہر روز چیل بیٹھتی ہے.وہاں رکھ دو.“ در صبح ہوئی تو میں نے یہ غلطی کی کہ آٹا تول کر اس میں کچھ (ہلدی ) بھی ملا دی.اور جب پیچھے کمرہ میں جا کر تنہائی میں وہ بُت بنانے لگی ، تو میں نے ایک بلند آوازسنی کہ: وو 66 تو بہ کرو.استغفار کرو میں نے اس آئے وغیرہ (کو) مکان سے باہر پھینک دیا.اس لڑکے نے مجھے یہ کہا تھا کہ بدھ کے روز یہ بہت حسب ترکیب بالا تیار کروں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل واحسان سے مجھے اس گناہ کبیرہ اور شرک کے ارتکاب سے محفوظ فرمالیا.میں نے اپنے پروردگار کا لاکھ لاکھ شکریہ (ادا) کیا.توبہ کی ، استغفار کی اور مجھے یقین کامل ہو گیا کہ یہ شیطان ہی تھا.جو اس لڑکے کی شکل میں مجھے خواب میں دکھائی دیا.اور مجھے گمراہی کی اور شرک وظلم کی تعلیم دے گیا.یہ واقعہ بدھ کے روز کا تھا.اور سنیچر وار کو میرے ہاں ایک لڑکا چھ ماہ کا مُردہ پیدا ہوا.“ ایک سال بعد محمد رفیق پیدا ہوا.ظفر سے بھی زیادہ پیارا اور خوش شکل.بچے کے دادا صاحب نے آپ سے کہا کہ جب تک یہ بچہ چلنے پھرنے لگے اور آپ سے الگ رہنے کے قابل نہ ہو جائے آپ کو دا تا زید کا جانے نہ دیں گے.رفیق قریباً پون سال کا ہو گیا.اور آپ اس عرصہ میں ڈسکہ میں مقیم رہیں.پھر آپ کے خاندان میں کوئی وفات ہوگئی اور مجبوراً انہیں دا تا زید کا جانا پڑا.بچے کے دادا اُس وقت کسی دوسرے گاؤں گئے ہوئے تھے.دا تا زید کا پہنچنے کے ایک آدھ دن بعد پھر جے دیوی آئی.اور اُس نے اپنا پرانا مطالبہ پیش کیا
9 اور آپ نے پھر وہی جواب دیا.اس موقعہ پر رفیق کے نانا صاحب نے بھی اصرار کیا کہ آخر اتنی کونسی بڑی بات ہے.چند روپوں کا معاملہ ہے.جو کچھ یہ مانگتی ہے.اسے دے دو.اور اگر تمہیں کوئی عذر ہے تو ہم دے دیتے ہیں.آپ نے جواب دیا کہ یہ چند روپوں کا معاملہ نہیں.یہ میرے ایمان کا امتحان ہے.کیا میں یہ تسلیم کرلوں کہ میرے بچے کی زندگی اس عورت کے اختیار میں ہے؟ یہ تو گھلا شرک ہے.اگر میرے بچے کو اللہ تعالیٰ زندگی دیگا تو یہ زندہ رہیگا.اور اگر وہ اسے زندگی عطا نہیں کریگا تو کوئی اور ہستی اسے زندہ نہیں رکھ سکتی ہیں تو اپنے ایمان کو شک میں ہر گز نہیں ڈالوں گی.بچہ زندہ رہے یا ندر ہے.دو ماہ خیریت گزرے.جے دیوی اکثر ملتی رہتی تھی.اور آپ اُس سے بے تکلفی سے باتیں کیا کرتی تھیں.اور آپ کی طبیعت پر قطعاً کوئی خوف نہ ہوتا تھا.جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور تھا.بچہ چنگا بھلا رہا.لیکن پھر آپ نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ اُن کے گاؤں کی ایک عورت شکایت کر رہی ہے کہ اس کے بچے کا کلیجہ جے دیوی نے نکال لیا.اور کسی نے اُس سے باز پرس نہیں کی.اگر کسی صاحب اقتدار کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا تو وہ جے دیوی کو ذلیل کر کے گاؤں سے نکال دیتے.آپ نے خواب میں ہی جواب دیا کہ موت اور حیات تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.جے دیوی کا اِس میں کچھ واسطہ نہیں.میرے بچہ کے ساتھ بھی تو بظاہر ایسا ہی واقعہ ہوا تھا.لیکن ہم نے توجے دیوی کو کچھ نہیں کہا.آپ کا یہ کہنا ہی تھا کہ خواب میں آپ نے دیکھا کہ گویا ایک طرف سے کوئی کھڑ کی کھولی گئی ہے.اور اُس میں سے بے دیوی کا چہرہ نظر آیا.اور آپکو مخاطب کر کے جے دیوی نے کہا کہ اچھا اب کی بار بھی اگر بچے کو زندہ واپس لے گئیں تو مجھے کھتری کی بیٹی نہ کہنا ، چو ہڑے کی بیٹی کہنا ““ آپ کی دہشت سے آنکھ کھل گئی.دیکھا کہ چراغ گل ہو چکا ہے.آپ کی عادت تھی کہ اپنے سونے کے کمرے میں روشنی ضرور رکھا کرتی تھیں.اور فرمایا کرتی تھیں کہ جب بھی خواب میں جے دیوی نظر آیا کرتی تھی تو آنکھ کھلنے پر ہمیشہ کمرہ اندھیرا ہوا کرتا تھا.چنانچہ آپ نے اپنی والدہ صاحبہ کو آواز دی.جو اسی کمرہ میں سو رہی تھیں.انہوں نے چراغ روشن کیا.آپ خواب سُنا رہی تھیں کہ رفیق نے خون کی قے کی اور ساتھ ہی اُسے خون کی اجابت بھی ہوئی اور نیم مردہ سا ہو گیا.چنانچہ آپ بہت گھبرا ئیں.اس خیال سے کہ اسکے دادا تو اسے آنے ہی نہیں دیتے تھے.اور اب اگر ظفر کی طرح یہ بھی یہیں فوت ہو گیا تو آپ کا تو ڈسکہ میں کوئی ٹھکانا نہیں.
10 چنانچہ آپ نے اصرار کیا کہ ابھی سواری کا انتظام کیا جائے.میں فورا بچہ کو لے کر ڈسکہ جاتی ہوں ڈسکہ چوبیس میل کے فاصلہ پر ہے.سحری کا وقت تھا.فوراً دو سواریوں کا انتظام کیا گیا.اور دونوں ماں بیٹی دو خادموں کے ساتھ رفیق کو اُسی حالت میں لے کر دا تا زید کا سے روانہ ہو گئیں.جب کچھ روشنی ہونی شروع ہوئی تو آپ نے دیکھا کہ رفیق بالکل مُردہ سا ہو رہا ہے اور بظاہر زندگی کے آثار باقی نہیں ہیں.فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ موت کا وقت آچکا ہے.لیکن ساتھ ہی مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ قضا و قدر کو بھی ٹال دینے پر قادر ہے.چنانچہ میں نے گھوڑے کی باگ اُس کی گردن پر ڈال دی.اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا شروع کی کہ یا اللہ اگر اس بچے کی زندگی تجھے منظور ہے تو تیرا احسان ہے.اور میں تیرا لاکھ لاکھ شکر کرتی ہوں.تو جانتا ہے کہ مجھے اس بچے کی جان کی فکر نہیں.اگر تیری رضا اس کو بلا لینے میں ہی ہے.تو میں تیری رضا کو خوشی سے قبول کرتی ہوں.لیکن مجھے اپنی آبرو کی فکر ہے.اگر یہ بچہ آج فوت ہو گیا تو میرا ڈسکہ میں کوئی ٹھکانہ نہیں.اے ارحم الراحمین تو ہی زندگی اور موت کا مالک ہے.اگر تیرے نزدیک اس کی زندگی اتنی ہی ہے اور موت قریب ہے تو مجھ عاجز خطا کار تقصیر وا لونڈی کے حال پر رحم فرما اور میری زاری کوئن اور اس بچہ کو آٹھ دن کی اور مہلت عطا فرما.تا اس کے دادا اسے ہنستا کھیلتا دیکھ لیں.اور میرے سرال والوں کو یہ پتہ نہ لگ سکے کہ بچہ بیمار ہو گیا تھا.آٹھ دن کے بعد پھر تو اسے بُلا لیجیو.میں اسکی وفات پر اُف بھی نہ کروں گی.فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ کتنا عرصہ میں نے یوں دُعا کی.لیکن میں ابھی دعا ہی کر رہی تھی کہ رفیق نے میرے دوپٹہ کو کھینچا اور تندرستی کی آواز میں مجھے پکارا ” بے بے“.اور میں نے دیکھا کہ اس نے آنکھ کھول لی ہے.اور وہ بالکل تندرست حالت میں میری گود میں کھیل رہا ہے.تب مجھے یقین ہو گیا کہ میرے مولیٰ نے میری بے کس کی دُعاسُن لی.اور میرا دل اُس کے شکر سے معمور ہو گیا.ڈسکہ پہنچے تو بچے کے دادا صاحب بہت خوش ہوئے کہ یہ لوگ وعدہ سے پہلے ہی واپس آگئے.پوتے کو گود میں لیا اور پیار کیا.اور ہنسی ہنسی اس سے باتیں کرتے رہے.اور اس طرح دن گذرتے گئے.فرماتی تھیں کہ میں دادا پوتے کو خوش دیکھ کر مسکرایا کرتی تھی کہ رفیق تو نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کی قدرت ہنس رہی اور مسکرا رہی ہے.رفیق تو خدا تعالیٰ کی نذر ہو چکا ہوا ہے.چنانچہ پورے آٹھ دن بچہ راضی خوشی ہنستا کھیلتا اور خوش و خرم گو دتا پھد کتا پھرتا تھا.نویں دن رفیق پر کھیلتے کھیلتے و ہی حالت
11 وارد ہوگئی جو دا تا زید کا میں ہوئی تھی.اسی طرح خون آیا اور وہ جلد اپنے مولیٰ کے پاس چلا گیا.آپ کی گود چوتھی بار پھر خالی ہو گئی.لیکن آپ نے خوشی خوشی اللہ تعالیٰ کی رضا کو قبول کیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ تو نے ایک عاجز انسان کی زاری پر ، اسکے حال پر رحم فرمایا اور اسکی آبرو کی حفاظت کی.ایک سال بعد ایک بچی پیدا ہو ئی.اس کی ولادت سے قبل آپ کو خواب آیا کہ وہی جے دیوی آئی ہے اور خواب میں چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کی ساس صاحبہ نے اُسے کہا کہ اب تم ہمارے گھر آنا چھوڑ دو تو اُس نے جواب دیا کہ تیرہ دن اور سولہ دن آؤں گی.پھر نہ آیا کروں گی.چنانچہ پورے تیرہ روز بعد لڑ کی پیدا ہوئی اور سولہ دن زندہ رہ کر مر گئی.اسکے بعد پھر آپ نے اسے خواب میں دیکھا.اس شام آپ نے گائے کا گوشت کھایا تھا.خواب میں وہ مکان کے صحن میں پہنچی تو واویلا کرنے لگی.اور یہ کہتے ہوئے واپس چلی گئی : وا بگورو! وا بگورو! میں تمہارے مکان میں کبھی قدم نہ رکھوں گی.تم نے تو گائے کا گوشت کھایا ہے.گئو ہتیا کی ہے.“ ولادت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب: جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب چھٹے بچے تھے.ان کی ولادت ۶ فروری ۱۸۹۳ء کو بمقام سیالکوٹ ہوئی.گزشتہ خواب کے سات ماہ بعد آپ کی والدہ صاحبہ نے پھر اسے خواب میں دیکھا.اس نے بتایا کہ فلاں وقت لڑکا پید ا ہوگا.لیکن ساتھ ہی کہا کہ بعض احتیاطیں ضروری ہیں.ایک تو یہ کہ پیدا ہوتے ہی لڑکے کی ناک اور کان چھید دینا ، اور اونٹ کا بال چھید میں ڈال دینا.دوسرے ایک چراغ آئے اور گھی اور ہلدی کا بنا کر کل رات اپنے مکان کی سب سے اوپر کی منزل کی چھت کے اُس کونے میں جہاں چیل بیٹھا کرتی ہے ، جلا دینا.اگلی رات دس بجے کے وقت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب پیدا ہوئے.ان کے والد صاحب خواب کے مطابق ناک کان چھید نے لگے تو انکی والدہ صاحبہ نے ایک بلند آوازسنی : تو بہ کرو.استغفار کرو.“ یہ آواز سنتے ہی بچے کی والدہ نے اپنے خاوند کے ہاتھ سے اونٹ کا بال اور سو ئی چھین لئے اور کہا کہ میں ایسا ہر گز نہ کرنے دوں گی.لیکن خاوند غضبناک ہوکر اصرار کرنے لگے.بچے کی والدہ
12 صاحبہ نے کہا کہ جو آواز اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے کانوں میں ایسی سختی اور زور سے سنائی دی ہے، وہ آپ نے نہیں سنی ؟ دونوں طرف سے اپنی اپنی بات پر اصرار ہوتا رہا.بالآخر بچے کے والد نے اپنی رفیقہ حیات کی بات قبول کر لی.اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپکا ایمان پھر محفوظ رکھا.اور آپ نے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کیا کہ اس نے سب کو اس شرک عظیم سے بچالیا اور گناہ کے ارتکاب اور اسکے گمراہ کن نتائج سے نجات بخشی.ننھے ظفر اللہ خان کی عمر نصف سال کی تھی جب ان کی والدہ صاحبہ کے تایا صاحب جنہوں نے ایک دفعہ خواب میں دو اٹھتیاں اور ایک روپیہ دیا تھا ، فوت ہو گئے.بچے کے والد اور دادا نے آپ کو تعزیت لئے دا تا زید کا جانے کی اجازت دینے سے انکار کیا.آپ اصرار کرتی تھیں کہ میں ضرور جاؤں گی.تین دن کے بعد یہ کشمکش ختم ہوئی اور بالآخر آپ بچے سمیت وہاں گئیں.مذکورہ جے دیوی گھر آئی لیکن دور ہٹ کر بیٹھ گئی آپ نے اسے اپنے قریب بلا یا اور تھے ظفر اللہ خاں سے ماتھے پر ہاتھ رکھوا کر سلام کروایا.جے دیوی نے پیار کیا اور سر پر ہاتھ پھیر کر دو پٹہ وغیرہ پار چات طلب کئے.آپ نے کہا کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ مبادا میرا اللہ اس فعل کو میری طرف سے رشوت قرار دے.اس پر بچے کے نانا ناراض ہوئے کہ انکار کیوں کیا.یہ کیوں نہ کہا کہ مطلوبہ پار چات دے دوں گی.ہم سیالکوٹ سے کپڑا منگوا کر جے دیوی کو ظفر اللہ خاں کے والد صاحب کی طرف سے پیش کر دیں گے.لیکن وہ کہنے لگیں کہ میں اپنے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا مقدم مجھتی ہوں.اگر خدا تعالیٰ نے دریافت کیا کہ تو نے رشوت دی تھی تو میں کہوں گی ، مجھ سے باز پرس نہ فرمائی جائے.میرے والد سے پوچھا جائے.یہ بیان کر کے آپ فرماتی ہیں کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں جس نے ہمیشہ مجھے گمراہی اور تباہی سے اپنے فضل اور رحم کے ساتھ بچالیا.اور ہر لغزش کے وقت میری دستگیری کر کے مجھے ہمیشہ سیدھا راستہ دکھایا.اور سیدھے راستے پر قائم رکھا اور ظالموں میں شمار ہونے سے نجات بخشی.جے دیوی نے کافی لمبی عمر پائی.لیکن بیچاری کی زندگی مصیبت میں ہی گزری.لوگوں نے چڑیل مشہور کر رکھا تھا.اس لئے اکثر لوگ اُسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.اور جب وہ ضعیف ی ” میری والدہ کے بیان میں الحکم ۳۵-۱- ۲۸ کے والدہ محترمہ کے بیان سے مفید اضافہ کیا گیا ہے.
13 ہو گئی تو کھانے پینے کو بھی محتاج ہو گئی.اور کوئی شخص حتی الوسع اسکے نزدیک نہیں جاتا تھا.حتی کہ اس کی آخری بیماری میں اُسے پانی پلانے والا بھی کوئی نہیں ملتا تھا اور وہ کچھ دن بہت تکلیف اور کرب کی حالت میں پڑی رہی.آخر تنگ آکر اُس نے اپنی چارپائی کو آگ لگا دی اور آگ میں جل کر مر گئی.والد چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کی وفات اور ان کی اہلیہ پر خاص برکات : چوہدری نصر اللہ خاں صاحب اپنے والد ماجد کی بیماری میں ہر روز شام کو ڈسکہ چلے جایا کرتے تھے.اور صبح کچہری کے کام کے لئے واپس سیالکوٹ آجایا کرتے تھے.ڈسکہ اور سیالکوٹ کے درمیان سیدھی سڑک سے ۱۶ میل کا فاصلہ ہے.چونکہ یہ سڑک کچی ہے.اس لئے آپ گھوڑے پر یہ سفر کیا کرتے تھے.گویا اُن دنوں ہر روز سردی میں (فروری کا مہینہ تھا ) ۳۲ میل سواری کیا کرتے تھے.اور تمام دن کچہری میں کام بھی کیا کرتے تھے.اس کے علاوہ گھر پر بھی مقدمات کی تیاری کے لئے وقت نکالتے ہو نگے.جس دن والد صاحب کی وفات ہوئی.اُس دن چوہدری صاحب اُن کے پاس ڈسکہ ہی میں تھے.تار کے ذریعہ خبر ملنے پر چوہدری صاحب کی اہلیہ محترمہ تینوں بچوں (چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب، ان کی ہمشیرہ صاحبہ اور چوہدری شکر اللہ خاں صاحب) کو لے کر سیالکوٹ سے اُسی وقت ڈسکہ روانہ ہوگئیں.ڈسکہ پہنچے تو دیکھا کہ گھر میں اور مہمان خانہ میں ایک بہت بڑا ہجوم تھا.اور مرحوم کے جنازہ کے ساتھ اس قدرا نبوہ خلقت کا تھا کہ بازار میں سے گذرنے پر لوگوں کو ڈ کا نیں بند کرنی پڑیں.آپ کی وفات اپنے خاندان کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا.اور چونکہ اپنی بہو ( اہلیہ چوہدری نصر اللہ خاں صاحب) کے ساتھ انہیں خاص محبت اور شفقت کا تعلق تھا، اسلئے انہوں نے اس صدمہ کو بہت محسوس کیا.اور جیسا اُن دنوں میں رواج تھا.اُنکے ماتم میں بہت بڑھ کر حصہ لیا.لیکن مرحوم کو ایسی رسوم سے سخت نفرت تھی.چنانچہ کچھ عرصہ اُن کی وفات کے بعد اہلیہ محترمہ چوہدری صاحب نے انہیں خواب میں دیکھا.اور انہوں نے آپ کو ساتھ لے جاکر جہنم کا ایک نظارہ دکھایا.جہاں چند عورتوں کو دردناک عذاب دیا جارہا تھا.اور بتایا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو ماتم کیا کرتی تھیں اور
14 جزع فزع کرتی تھیں.آپ اس نظارہ سے عبرت حاصل کریں.اور ایسی باتوں سے آئندہ کے لئے تو بہ کریں.اور پھر مرحوم ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پر لے گئے.اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مزار دکھایا.یہ دونوں مزار ایک باغ میں نظر آتے تھے.اور ان کے سرہانے ایک فوارہ نہایت شفاف پانی کا چل رہا تھا.والدہ ( چودھری ظفر اللہ خاں ) نے اس فوارے کے پانی سے وضو کیا اور آئندہ کے لئے اپنی اس کمزوری سے تو بہ کی.اس کے تھوڑا عرصہ بعد قریبی رشتہ داروں میں کوئی اور موت ہوگئی.اور اُن کو ماتم پرسی کے لئے جانا پڑا.اور اگر چہ اُن کو خواب میں کافی تنبیہہ ہو چکی تھی اور ان کی طبیعت ماتم وغیرہ کی رسوم سے نفرت بھی کرنے لگ گئی تھی اور ڈرتی بھی تھیں.لیکن پھر بھی بوجہ قریبی رشتہ داری کے اور شرکاء کے طعن و تشنیع کے خوف سے ان رسوم سے بگھی پر ہیز نہ کرسکیں.اس کے بعد انہوں نے خواب میں دیکھا کہ اُن کا جسم بے شمار چیونٹیوں سے لتھڑا ہوا ہے.اور وہ اُن سے نجات حاصل کرنے کی بہت کوشش کرتی ہیں.لیکن کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوتی.جس قدر چیونٹیوں کو وہ جسم سے اُتار کر پھینکتی ہیں، اس سے زیادہ اور اُنکو چمٹ جاتی ہیں.اسی وحشت اور کرب میں اُن کی نیند گھل گئی.اور پھر پے در پے کئی دفعہ اُن کے ساتھ خواب میں یہی کیفیت گزری.انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ اس امر کی سزا ہے کہ میں تو بہ کرنے کے بعد اپنی تو بہ پر قائم نہ رہ سکی.چنانچہ انہوں نے بہت استغفار کیا اور اپنی توبہ کا اعادہ کیا.اور اس حالت پر چند دن گزرنے کے بعد پھر اُسی حالت میں والد چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کو خواب میں دیکھا انہوں نے فرمایا.آپ نے بہت غلطی کی کہ تو بہ کے بعد پھر ایسی باتوں میں شمولیت کی.اب آپ نے دوبارہ تو بہ کی ہے.اس پر آپ مضبوطی سے قائم رہیں.اور ایک چادر انہوں نے دی اور ایک شفاف تالاب کی طرف انہوں نے اشارہ کیا کہ آپ جا کر اس چادر کا پردہ کر کے اس تالاب میں غسل کر لیں.جب آپ اُس تالاب میں داخل ہوئیں.تو اس کے پانی کو نہایت شفاف اور خوشگوار پایا.اور جوں جوں آپ اُس تالاب میں آگے بڑھتی جاتی تھیں ، چیونٹیاں آپ کے جسم سے اُترتی جاتی تھیں.اور آپ کا جسم بالکل صاف اور ہلکا ہوتا جاتا تھا.اس خواب سے بیدار ہونے پر آپ نے اللہ تعالی کا بہت بہت شکر کیا اور اپنے دل میں یہ عہد کیا کہ اب ہرگز ان باتوں میں حصہ نہ لوں گی ہرگز او را سکے بعد آپ کو آرام سے نیند آنے لگی.
15 کچھ عرصہ کے بعد حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کا بڑا بھتیجا فوت ہو گیا.اور والدہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کو پھر ان رسوم میں تھوڑا بہت حصہ لینا پڑا.اب کی بار انہوں نے خواب میں دیکھنا شروع کیا کہ دو بیل لمبے سینگوں والے ان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں.اور اُن سے بھاگتی پھرتی ہیں.لیکن کہیں جائے مفر نہیں.اور بعض دفعہ وہ حملہ کر بھی دیتے ہیں.اور اُن کے جسم کو اپنے سینگوں سے زخمی کر دیتے ہیں.ہر دفعہ سونے پر اُنکی یہی کیفیت ہوتی.اور چند منٹ میں اُن کی آنکھ گھل جاتی.اس طور پر گویا نیند حرام ہوگئی اور رات زاری اور دعاؤں میں گذرتی.حضرت چودھری صاحب بھی اُن کے لئے بہت دعائیں کرتے لیکن یہ کیفیت پورا ایک مہینہ متواتر جاری رہی.آخر مہینہ بھر کے استغفار اور دعاؤں کے بعد پھر آپ نے اپنے ٹھسر صاحب کو خواب میں دیکھا.انہوں نے انہیں سخت تنبیہہ کی.اور فرمایا کہ اب آئندہ کے لئے تو بہ کا دروازہ بند ہے.اگر پھر آپ نے یہ جرم کیا.تو توبہ قبول نہیں ہوگی اور اُنہوں نے بیلوں کو روک دیا اور آپ سے فرمایا.اب بے فکر گذرجائیں.لیکن ابھی ایک اور امتحان باقی تھا.اس آخری تو بہ کے تھوڑے عرصہ کے اندر چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی بڑی پھوپھی صاحبہ کا بڑا فرزند فوت ہو گیا.اور ان کی والدہ صاحبہ.دادی صاحبہ.چی صاحبہ اور ڈسکہ کی اور چند عورتوں کی ہمراہی میں پھوپھی صاحبہ کے ہاں ہمدردی اور اظہار افسوس کے لئے گئیں.ان دنوں دیہات میں رواج ہوا کرتا تھا کہ قریبی رشتہ دار عورتوں کے ماتم پرسی کیلئے آنے پر ایک کہرام مچ جایا کرتا تھا.اور بہت واویلا ہوا کرتا تھا.اور جس گاؤں میں ماتم ہوا کرتا تھا.وہاں کی عورتیں ان قافلوں کی آمد پر اپنے مکانوں کی چھتوں پر سے ان کا واویلا سنا کرتی تھیں.چنانچہ اس موقعہ پر بھی جب چوہدری صاحب کے خاندان کی عورتیں پھوپھی صاحبہ کے گاؤں کے قریب پہنچیں تو انہوں نے دیکھا کہ گاؤں کی عورتیں اس انتظار میں اپنے مکانوں کی چھتوں پر بیٹھی ہیں کہ اُن کا واویلائنیں.والدہ چودھری صاحب نے اپنی ہمرا ہی عورتوں سے درخوست کی کہ وہ مطلق واویلا نہ کریں.اور بالکل خاموشی سے پھوپھی صاحبہ کے مکان پر پہنچ جائیں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.لیکن جب وہ گلی میں داخل ہوئیں تو ارد گرد کے مکانوں کی چھتوں پر جمع شدہ عورتوں میں سے بعض نے انہیں طنز کرنے
16 شروع کئے اور کہا کہ : ”بی بیوہنستی ہوئی چلی جاؤ.“ آپ کی والدہ صاحبہ اور ان کی ساتھ کی عورتوں نے صبر سے یہ سب کچھ سنا اور برداشت کیا.اور خاموشی سے پھوپھی صاحبہ کے مکان کے اندر داخل ہو گئیں.وہاں پہنچ کر بھی والدہ محترمہ نے کسی رسم یا کسی قسم کی جزع فزع میں حصہ نہیں لیا.اور اس امتحان میں اللہ تعالیٰ نے انہیں پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائی.اس کے بعد آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پوری مضبوطی سے اپنے عہد پر قائم رہیں.یہ زمانہ آپ کا احمدیت سے پہلے کا زمانہ تھا.اس زمانے میں آپ کو خواب اور رویا میں اکثر والد چودھری نصر اللہ خاں صاحب ہی نظر آیا کرتے تھے.اور اُنہیں کے ذریعہ اُن کی روحانی اور اخلاقی تربیت ہوئی تھی اور زیادہ تر انہیں کے ذریعہ بشارات حاصل ہوتی تھیں.چنانچہ ۱۹۰۳ء کا ذکر ہے کہ والدہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنے گھر کو خواب میں دیکھا اور اُن سے کہا کہ میرے پاس یہ ایک روپیہ داغدار ہے اِسے بدل دیجئے.اُنہوں نے وہ روپیہ لے لیا اور اپنی جیب سے ایک روپیہ نکال کر اُن کو دیا اور کہا.میرے پاس اب یہ ایک ہی روپیہ ہے یہ لے لیجئے.لیکن یہ محمد شاہی روپیہ ہے.اس پر کلمہ کندہ ہے.اس کی بے ادبی نہ ہو.اس خواب کے بعد آپ کو یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایک اور فرزند عطا کریگا.لیکن ساتھ ہی یہ فکر تھی کہ ان کا ایک بچہ حد اللہ خاں جو چوہدری شکر اللہ خاں صاحب سے چھوٹا اور چوہدری عبداللہ خاں صاحب سے بڑا تھا اور جس کی صحت اچھی نہیں رہتی تھی اور کمزور سا تھا، فوت ہو جائیگا.چنانچہ چند ماہ بعد چوہدری اسد اللہ خاں پیدا ہوئے.اور اس کے کچھ ماہ بعد خسرہ سے چند دن بیمار رہ کرحم اللہ خاں کی وفات واقع ہوگئی.آپ نے اس موقعہ پر بھی نہایت صبر سے کام لیا.اور کوئی کلمہ تک منہ سے نہیں نکالا.جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوتا.حمد اللہ خاں فجر کے وقت فوت ہوئے اور دس بجے سے قبل اس کی تجہیز اور تکفین اور تد فین سے فارغ ہو کر حضرت چوہدری صاحب حسب معمول مقدمات کی پیروی کے لئے کچہری چلے گئے.اور تمام بچوں کو بھی وقت پر تیار کر کے مدرسہ بھیج دیا گیا.
17 نیک مجالس میں حاضری.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی طرف سے وعظ و تلقین : حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیک طینت عطا ہوئی تھی اور اُن کو نیک مجالس میں شریک ہونے کا شوق تھا.جو اس امر سے ظاہر ہے کہ آپ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کے دار القرآن میں باقاعدگی سے شریک ہوتے.اور ان کے متعلق حسن ظن رکھتے تھے.یہی حسنِ ظن حضرت مولوی صاحب کے لئے ذیل کا مکتوب رقم کرنے کا محرک ہوا.جسے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعنوان ”مولوی عبدالکریم صاحب کا خط ایک دوست کے نام اپنی کتاب ” ضرورۃ الامام میں درج فرماتے ہوئے تحریر فرمایا کہ: اس خط پر اتفاقا میری نظر پڑی جس کو اخویم مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنے ایک دوست کی طرف لکھا تھا.سومیں نے ایک مناسبت کی وجہ سے جو اس رسالہ کے مضمون سے اس کو ہے، چھاپ دیا.وہ مکتوب یہ ہے : بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُ لِوَليّه الصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى نَبِيِّهِ.أَمَّا بَعْدُ مِنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ إِلى أَخِي وَحِتِي نَصْرُ اللهِ خَان السَّلام عليكم ورحمة الله وبركاته.آج میرے دل میں پھر تحریک ہوئی ہے کہ کچھ درددل کی کہانی آپ کو سُناؤں ممکن ہے کہ آپ بھی میرے ہمدرد بن جائیں.اتنی مدت کے بعد یہ تحریک خالی از مصالح نہ ہوگی.محترک قلوب اپنے بندوں کو عبث کام کی ترغیب نہیں دیا کرتا.چوہدری صاحب! میں بھی ابنِ آدم ہوں.ضعیف عورت کے پیٹ سے نکلا ہوں.ضرور ہے انسانی کمزوری.تعلقات کی کششیں اور رقت مجھ میں بھی ہو.بطن عورت سے نکلا ہوا اگر اور عوارض اسے چمٹ نہ جائیں تو سنگ دل نہیں ہو سکتا.میری ماں بڑی رقیق قلب والی بڑھیا دائم المرض موجود ہے.میرا باپ بھی ہے (اللَّهُمَّ عَافِه وَوَالِهِ وَوَفِّقُهُ لِلْحُسُنی ) میرے عزیز اور نہایت ہی عزیز بھائی بھی ہیں اور اور تعلقات بھی ہیں.تو پھر کیا میں پتھر کا کلیجہ رکھتا ہوں ، جو مہینوں گذر گئے یہاں دھونی رمائے بیٹھا ہوں.یا کیا میں سودائی ہوں اور میرے حواس میں خلل ہے.یا کیا میں مقلد کور باطن اور علوم حقہ سے نا بلد محض ہوں یا کیا میں فاسقانہ زندگی بسر کرنے میں اپنے کنبہ اور محلہ
18 مطر اور اپنے شہر میں مشہور ہوں.یا کیا میں مفلس، نادار پیٹ کی غرض سے نت نئے بہروپ بدلنے والا قلاش ہوں.يَعْلَمُ اللهُ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ - که بِحَمدِ اللهِ ان سب معائب سے بری ہوں.وَلَا أَزَكَّى نَفْسِى وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ تو پھر کس بات نے مجھ میں ایسی استقامت پیدا کر رکھی ہے جو اِن سب تعلقات پر غالب آگئی ہے.بہت صاف بات اور ایک ہی لفظ میں ختم ہو جاتی ہے.اور وہ یہ ہے.امام زمان کی شناخت.اللہ اللہ یہ کیا بات ہے.جس میں ایسی زبر دست قدرت ہے.جو سارے ہی سلسلوں کو توڑ تاڑ دیتی ہے.آپ خوب جانتے ہیں میں بقدر استطاعت کے کتاب اللہ کے معارف و اسرار سے بہرہ مند ہوں.اور اپنے گھر میں کتاب اللہ کے پڑھنے اور پڑھانے کے سوا مجھے اور کوئی شغل نہیں ہوتا.پھر میں یہاں کیا سیکھتا ہوں ؟ کیا وہ گھر میں پڑھنا اور ایک معتد بہ جماعت میں مشار الیہ اور صح انتظار بنا میری روح یا میرے نفس کے بہلانے کو کافی نہیں؟ ہر گز نہیں.واللہ ثم تاللہ ہر گز نہیں.میں قرآن کریم پڑھتا ، لوگوں کو سُنا تا، جمعہ میں ممبر پر کھڑا ہو کر بڑی پُر اثر اخلاقی عظیں کرتا اور لوگوں کو عذاب الہی سے ڈراتا اور نواہی سے بچنے کی تاکید میں کرتا.مگر میرانفس ہمیشہ مجھے اندراندر علامتیں کرتا کہ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ 10 میں دوسروں کو ڑ لاتا.پر خود نہ روتا اوروں کو نا کر دنی اور نا گفتنی امور سے ہٹا تا.پر خود نہ ہٹتا.چونکہ معتمد ریا کار اور خود غرض مکار نہ تھا.اور حقیقتا حصول جاہ و دُنیا میرا قبلہ ہمت نہ تھا.میرے دل میں جب ذرا تنہا ہوتا ہجوم کر کے یہ خیالات آتے مگر چونکہ اپنی اصلاح کے لئے کوئی راہ و روئے نظر نہ آتا.اور ایمان ایسے جھوٹے خشک عملوں پر قانع ہونے کی اجازت بھی نہ دیتا.آخر ان کشاکشوں سے ضعف دل کے سخت مرض میں گرفتار ہو گیا.بارہا مصمم ارادہ کیا کہ پڑھنا پڑھانا اور وعظ کرنا قطعاً چھوڑ دوں.پھر لپک لپک کر اخلاق کی کتابوں.تصوف کی کتابوں اور تفاسیر کو پڑھتا.احیاء العلوم اور عوارف المعارف اور فتوحاتِ مکیه بر چهار جلد اور کثیر کہتا میں اسی غرض سے پڑھیں اور بتوجہ پڑھیں.اور قرآن کریم تو میری روح کی غذا تھی اور بحمد اللہ ہے.بچپن سے اور بالکل بے شعوری کے سن سے اس پاک بزرگ کتاب سے مجھے اس قدر انس ہے کہ میں اس کا کم و کیف بیان نہیں کر سکتا.غرض علم تو بڑھ گیا اور مجلس کے خوش کرنے اور وعظ کو سجانے کے لئے لطائف و ظرائف بھی بہت حاصل ہو گئے.اور میں نے دیکھا کہ بہت سے بیمار میرے ہاتھوں سے چنگے بھی ہو گئے مگر
19 مجھ میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوتی تھی.آخر بڑے حیص بیص کے بعد مجھ پر کھولا گیا کہ زندہ نمونہ یا اُس زندگی کے چشمہ پر پہنچنے کے سوا جو اندرونی آلائشوں کو دھو سکتا ہو.یہ میل اُترنے والی نہیں.ہادی کامل خاتم الانبیاء صلوات اللہ علیہ وسلامہ نے کس طرح صحابہ کو منازل سلوک ۲۳ برس میں طے کرائیں.قرآن علم تھا اور آپ اس کا سچا عملی نمونہ تھے.قرآن کے احکام کی عظمت و جبروت کو مجرد الفاظ اور علمی رنگ نے فوق العادۃ رنگ میں قلوب پر نہیں بٹھایا.بلکہ حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے عملی نمونوں اور بے نظیر اخلاق اور دیگر تائیدات سماویہ کی رفاقت اور پیاپے ظہور نے ایسالا زوال سکہ آپ کے خدام کے دلوں پر جمایا.خدا تعالیٰ کو چونکہ اسلام بہت پیارا ہے.اور اس کا ابدالدھر تک قائم رکھنا منظور ہے.اسلئے اس نے پسند نہیں کیا کہ یہ مذہب بھی دیگر مذاہب کی طرح قصوں اور افسانوں کے رنگ میں ہو کر تقویم پارینہ ہو جائے.اس پاک مذہب میں ہر زمانہ میں زندہ نمونے موجود رہے ہیں.جنہوں نے علمی اور عملی طور پر حامل قرآن عَلَيْهِ صَلَواتُ الرَّحْمَن کا زمانہ لوگوں کو یاد دلایا.اسی سنت کے موافق ہمارے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ایده اللہ الودود کو ہم میں کھڑا کیا کہ زمانہ پر وہ ایک گواہ ہو جائے.میں نے جو کچھ اس خط میں لکھنا چاہا تھا.حضرت اقدس امام صادق علیہ السلام کے وجود پاک کی ضرورت پر چند وجدانی دلائل تھے.اس اثنا میں بعض تحریکات کی وجہ سے حضرت اقدس نے ”ضرورت امام پر پرسوں ایک چھوٹا سا رسالہ لکھ ڈالا ہے جو عنقریب شائع ہوگا.ناچارمیں نے اس ارادے کو چھوڑ دیا.بالآخرمیں اپنی نیکی سے بھری ہوئی صحبتوں کو ، آپ کے با قاعدہ حسن ارادت کے ساتھ درس کتاب اللہ میں حاضر ہونے کو آپ کے اپنی نسبت کمال حسن ظن کو اور ان سب پر آپ کی نیک دل اور پاک تیاری کو آپ کو یاد دلاتا اور آپ کی ضمیر روشن اور فطرت مستقیمہ کی خدمت میں اپیل کرتا ہوں کہ آپ سوچیں وقت بہت نازک ہے.جس زندہ ایمان کو قرآن چاہتا ہے اور جیسی گناہ سوز آگ قرآن سینوں میں پیدا کرنی چاہتا ہے وہ کہاں ہے.میں خدائے رب عرش عظیم کی قسم کھا کر آپ کو یقین دلاتا ہوں.وہی ایمان حضرت نائب الرسول مسیح موعود کے ہاتھ میں ہاتھ دینے اور اسکی پاک صحبت میں بیٹھنے سے حاصل ہوتا ہے.اب اس کارخیر میں توقف کرنے سے مجھے خوف ہے کہ دل میں کوئی خوفناک تبدیلی پیدا نہ ہو جائے.دنیا کا خوف چھوڑ دو.اور خدا کے لئے سب کچھ کھو دو کہ یقینا سب کچھ مل جائے گا.والسلام.یکم اکتوبر ۱۸۹۸ء عاجز عبدالکریم از قادیان
20 مقدمہ کرم دین میں شہادت اور اسکی برکت سے قبول احمدیت : حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے چوہدری صاحب محترم کو نیک دل پایا اور آپ کی ضمیر کو روشن اور فطرت کو مستقیمہ اور آپ کی قرآن مجید سے محبت کا ذکر کیا.حضرت اقدس جو کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى الَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ والی کیفیت اپنے قلب مطہر میں رکھتے تھے.یہ ممکن نہیں کہ آپ نے ان حالات پر آگاہ ہو کر چوہدری صاحب کے قبول احمدیت کے لئے دُعا نہ فرمائی ہو.خصوصاً جبکہ خاص طور پر حضرت مولوی صاحب کو خط لکھنے کی تحریک ہوئی تھی.اور جسے خالی از مصالح آپ نہیں سمجھتے تھے اور حقیقہ ثابت بھی ایسا ہی ہوا.اور بالآخر حضرت چوہدری صاحب نہ صرف سلسلہ عالیہ احمدیہ سے وابستہ ہوئے بلکہ ایک اعلیٰ رکن ثابت ہوئے کہ جن کی موت وحیات ایک قابلِ رشک تھی.سچ ہے ہر بلاکیں قوم را حق داده اند زیراں گنج کرم بنهاده اند مقدمه کرم دین حضرت اقدس علیہ السلام کے لئے گنج کرم ثابت ہوا.اس کیوجہ سے یقینا گوں ناگوں فوائد ہوئے ہونگے.حضور کا وقت عزیز بمطابق وعدہ البی که انتَ الشَّيخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُه یقیناً ضائع نہیں ہوا.اس کے نیک ثمرات میں سے ایک شیر میں شمر حضرت چوہدری صاحب کا بالآخر احمدیت سے وابستہ ہو جانا تھا.اس کی تفصیل محترم چو ہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور حضرت عرفانی صاحب کے الفاظ میں سنیئے.جناب چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب فرماتے ہیں کہ : ” ہمارے نانا صاحب اور ماموں صاحب احمدی ہوچکے تھے.والد صاحب بھی الحکم منگوایا کرتے تھے اور سلسلہ کی کتب کا مطالعہ کیا کرتے تھے.اور مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے درس قرآن کریم میں شامل ہوا کرتے تھے.“ مولوی مبارک علی صاحب کے احمدی ہو جانے کے چند سال بعد چھاؤنی سیالکوٹ کے بعض احمدی اشخاص نے جمعہ مسجد چھاؤنی سیالکوٹ کی امامت اور تولیت سے مولوی مبارک علی صاحب کو علیحدہ کرنے کے لئے مقدمہ دائر کر دیا تھا.اور جماعت احمد یہ سیالکوٹ نے والد صاحب کو مولوی
21 مبارک علی صاحب کی طرف سے مقدمہ کی پیروی کرنے کے لئے وکیل مقرر کیا تھا.“ اس مقدمہ کی کماحقہ پیروی کرنے کی خاطر والد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی کا اور سلسلہ کے لٹریچر کا بالتفصیل مطالعہ کرنا پڑا.اور عدالت میں جماعت احمدیہ کے عقائد کی حمایت کرنی پڑی.جس کے نتیجہ میں ان کی طبیعت احمدیت سے بہت حد تک متاثر ہوچکی تھی.غالباً ۱۹۰۴ء میں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے مولوی کرم دین والے مقدمہ میں گورداسپور بطور گواہ صفائی بھی طلب کیا گیا تھا.وہاں اول بار انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اقدس میں شرف باریابی حاصل ہوا تھا.اور وہ بہت خوشگوار اثر لے کر واپس آئے تھے.“ مجھے یاد ہے کہ والد صاحب کے گورداسپور سے واپس آنے کے بعد کئی دن تک لوگ ہمارے ہاں آیا کرتے تھے اور والد صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے اور سہ پہر سے شام تک گفتگو میں زیادہ تر یہی تذکرہ رہا کرتا تھا.“ ۳ ستمبر ۱۹۰۴ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لیکچر لا ہور میلا رام کے منڈوے میں تھا.والد صاحب اس موقعہ پر لاہور تشریف لے گئے اور مجھے بھی ساتھ لے گئے.میری عمر اس وقت ی 11 سال کی تھی.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت اول با راسی موقعہ پر کی اور جسے میں نے ایک مضمون میں جو الفضل میں چھپ چکا ہے واضح کیا ہے.میں بفضلہ تعالیٰ اُسی دن سے احمدی ہوں ، گو میں نے بیعت تین سال بعد کی.بعد ازاں حضور سیالکوٹ تشریف لے گئے.چنانچہ اس بارہ میں محترم چوہدری صاحب بیان کرتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیالکوٹ تشریف آوری اس شہر کے لئے تا ابد باعث آپ الفضل ۱۹/۵/۳۸ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : ” میرے والد صاحب جہانتک میں معلوم کر سکا ہوں کسی وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخالف نہیں تھے اور سلسلہ کے اخبارات و کتب کو ہمدردی سے پڑھا کرتے تھے....اور گووالد صاحب اسوقت احمدی نہیں تھے تاہم جماعت کی طرف سے انہیں مقدمہ میں وکیل مقرر کیا گیا اور والد صاحب ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ چونکہ اس مقدمہ میں مجھے جماعت کے عقائد کا گہرا مطالعہ کرنا پڑا اور ان عقائد کی عدالت میں حمایت کرنی پڑی اسلئے یہ مقدمہ میری توجہ کو سلسلہ احمدیہ کی طرف بہت حد تک مبذول کرنے کا موجب ہوا.“
22 22 فخر وامتیاز رہے گی.حضور کا ورود عین مغرب کے بعد ہوا.اسٹیشن پر خلقت کا اس قد رہجوم تھا کہ پلیٹ فارم پر اس ہجوم کو کسی انتظام کے ماتحت لا نا مشکل ہو جاتا.اس لئے یہ انتظام کیا گیا تھا کہ جس گاڑی میں حضور اور حضور کے اہلِ بیت اور رفقاء سفر کر رہے تھے ، اُسے کاٹ کر مال گودام کے پلیٹ فارم پر پہنچا دیا گیا.مال گودام کا وسیع احاطہ کھچا کھچ خلقت سے بھرا ہوا تھا اور اس کے باہر سڑک پر بھی خلقت جمع تھی.اسٹیشن پر اور ان بازاروں میں سے جہاں سے حضور کی سواری گزرنی تھی ، پولیس کا خاطر خواہ انتظام تھا.سپرنٹنڈنٹ پولیس اور اکثر حکام ضلع اور آنریری مجسٹریٹ انتظام کی نگرانی کے لئے موجود تھے.بازاروں میں اور مکانوں کی کھڑکیوں اور چھتوں پر کثرت سے لوگ موجود تھے.اکثر تو ان میں سے زائر یا تماشہ بین تھے.بعض مخالف بھی تھے.مخالف علماء اور سجادہ نشینوں نے ہر چند لوگوں کو روکنے کی کوشش کی تھی کہ حضور کے استقبال یا زیارت کے لئے نہ جائیں.لیکن یہ مخالفت خود اس ہجوم کے بڑھانے میں ممد ہوگئی.”خاکسار بھی والد صاحب کے ہمراہ اسٹیشن پر گیا.لیکن ہجوم کی کثرت کی وجہ سے ہمیں حضور کی گاڑی کے قریب پہنچنے کا موقعہ نہ ملا.دُور سے اپنی گاڑی میں بیٹھے ہوئے استقبال کا نظارہ دیکھتے رہے.اور جب حضور کی سواری ایک جلوس کی صورت میں اسٹیشن سے روانہ ہوگئی تو ہم واپس آگئے.لیکن میرے ماموں صاحب جلوس کے ساتھ ساتھ گئے اور حضور کے اپنے جائے قیام پر پہنچ جانے کے بعد گھر واپس آئے.ان سے ہم نے تفصیل کے ساتھ وہ واقعات سُنے جو حضور کو اور حضور کے رفقاء کو اسٹیشن سے لے کر حضور کی قیامگاہ تک پیش آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مع اپنے اہلبیت اور افراد خاندان کے میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے مکان پر فروکش ہوئے.اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا قیام بابو عبد العزیز صاحب 6 مرحوم کے مکان پر قرار پایا.والدہ ماجدہ چو ہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے حضور کی تشریف آوری کے اگلے روز ہی بیعت کر لی (جس کی تفصیل بعد میں درج ہو گی ).محترم چوہدری صاحب بیان کرتے ہیں کہ : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سیالکوٹ تشریف آوری کے وقت تک والد صاحب کی طبیعت بھی بہت حد تک احمدیت کی طرف راغب ہو چکی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ اب آخری فیصلہ کا وقت آ پہنچا ہے.اُن دنوں ان کی صحبت بہت حد تک چوہدری محمد امین صاحب کے ساتھ رہا
23 کرتی تھی.اور وہ خواہش رکھتے تھے کہ چوہدری محمد امین صاحب اور وہ اکٹھے فیصلہ کریں.جب والد صاحب نے چوہدری محمد امین صاحب کے ساتھ مشورہ کیا تو چوہدری صاحب نے فرمایا کہ میرے دل میں شکوک ہیں.میں چاہتا ہوں کہ انہیں صاف کیا جائے.چنانچہ حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے ساتھ طے ہوا کہ یہ دونوں مغرب کے بعد حضور کی خدمت میں حاضر ہو جایا کریں اور چوہدری محمد امین صاحب اپنے شکوک اور اعتراضات صاف کر لیں.خاکسار بھی مغرب کے بعد اس مختصر مجلس میں والد صاحب کے ہمراہ حاضر ہوا کرتا تھا.تین چار دن کے بعد چوہدری محمد امین صاحب نے والد صاحب کے پاس تسلیم کیا کہ انکے اعتراضات کا جواب تو مل گیا ہے.چنانچہ والد صاحب نے فرمایا کہ پھر کل بیعت کر لیں گے.لیکن دوسری صبح جب والد صاحب چوہدری امین صاحب کے مکان پر پہنچے اور کہا کہ حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت کے لئے چلیں تو چوہدری صاحب نے فرمایا کہ انہیں انشراح صدر نہیں.چنانچہ والد صاحب اُن کے بغیر ہی حضرت اقدس کی خدمت میں تشریف لے گئے اور بیعت کر لی.اس موقعہ پر بھی خاکساران کے ہمراہ تھا.یہ دن غالباً اکتوبر کے پہلے دو تین دنوں میں سے تھا اور وقت فجر کی نماز کے بعد کا تھا.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قیام سیالکوٹ کے دوران میں کثرت سے لوگوں نے بیعت کی.لیکن مولوی فضل الدین صاحب مرحوم اور والد صاحب کے سلسلہ میں شامل ہونے کا سیالکوٹ میں بہت چرچا ہوا.“ اس کے قریباً ایک سال بعد یعنی ستمبر ۱۹۰۵ء میں والد صاحب پہلی دفعہ دارالامان حاضر ہوئے اور خاکسار کو بھی ساتھ لیتے گئے.بعد میں اُن کا یہ معمول رہا کہ جب تک وہ سیالکوٹ پریکٹس کرتے رہے.ستمبر کی تعطیلات کا کچھ حصہ دارالامان میں گزارا کرتے تھے اور جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے بھی حاضر ہوا کرتے تھے.خاکسار بھی ان اوقات میں عموماً ان کے ہمراہ قادیان حاضر ہوا کرتا تھا.1066 حضرت عرفانی صاحب فرماتے ہیں: چوہدری صاحب کو سلسلہ عالیہ احمدیہ سے گونہ دلچسپی اور تعلق تو ۱۸۹۳ء سے تھا.آپ سلسلہ کی کتابیں پڑھتے اور حسن ظن رکھتے تھے.جماعت سیالکوٹ کے ممتاز اور مخلص احباب حضرت
24 میر حامد شاہ صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہما سے مرحوم کو محبت تھی.وہ ان کی مجلسوں اور صحبتوں میں آتے جاتے اور چوہدری صاحب ان کے درس قرآن میں شریک ہوتے تھے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے بہت اخلاص تھا اور حضرت مخدوم الملت کے دل میں چوہدری صاحب کی محبت اور اخلاص کا ایک گہرا اثر تھا.وہ ہمیشہ اپنی دعاؤں میں اس وجود کے شریک جماعت ہونے کے لئے تڑپ رکھتے تھے.اور کوئی موقعہ نہ جانے دیتے جبکہ تحریک نہ کرتے رہتے ہوں.انہوں نے مجھے فرمایا کہ میں سمجھ نہیں سکتا کہ نصر اللہ خاں اس سلسلہ سے علیحدہ رہے.غالبا ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ضرورت امام کتاب لکھی اور جب اس کا مسودہ کا تب نے ختم کیا تو حضرت مخدوم الملت کا ایک مکتوب مخدومی چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کے نام کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر سے اتفاقاً گزرا.حضور نے پسند فرمایا کہ وہ مکتوب ضرورت امام کے ساتھ شائع ہو جائے.چنانچہ وہ مکتوب ضرورتِ امام کے آخر میں درج ہے.اس میں چوہدری صاحب کو مخدوم الملت نے خصوصیت سے دعوت دی.اس خط کے بعد چوہدری صاحب کی طبیعت میں ایک عجیب انقلاب واقع ہوا.اس خط کا اثر خصوصیت سے ان پر ہوا.لیکن بعض حالات کی وجہ سے ان کی بیعت میں توقف ہوا.اور یہ تو قف اس اسباب پر موقوف نہ تھا، جو مخالفت یا شک وشبہ کے اثرات کا نتیجہ ہوتے ہیں.بلکہ وہ ایک دقیقہ رس دل کے ( ساتھ ) اس امر کا مطالعہ کر رہے تھے کہ سلسلہ میں داخل ہو کر کن قربانیوں کی ضرورت ہے اور اس کے لئے وہ کہاں تک تیار ہیں.جن ایام میں یہ کشمکش ان میں اندرونی طور پر جاری تھی ، وہ سیالکوٹ میونسپلٹی کے وائس پریذیڈنٹ تھے.ان ایام میں کسی میونسپلٹی کا عہدہ وائس پریذیڈنٹی معمولی عہدہ نہ ہوتا تھا.پریذیڈنٹ ہمیشہ ڈپٹی کمشنر ہوتا تھا.اسلئے وائس پریذیڈنٹ کی پوزیشن بہت بڑی سمجھی جاتی تھی.اور کوئی مسلمان جب تک وہ ہندومسلم ہر دو جماعتوں میں یکساں معزز اور بارسوخ نہ ہو منتخب نہیں ہوسکتا تھا.چوہدری صاحب عرصہ دراز تک اس عہدہ پر رہے.اور وہ ہندو مسلمان دونوں قوموں میں یکساں ہر دلعزیز تھے اور دونوں قو میں ان پر اعتماد رکھتی تھیں.لیکن جب چوہدری صاحب نے بیعت کر لی تو آپ نے اس عہدہ سے استعفیٰ دیدیا.وو وہ زمانہ سلسلہ احمدیہ کے لئے نہایت ابتلاء کا زمانہ تھا.جب چوہدری صاحب سلسلہ میں
25 25 داخل ہوئے.مولوی کرم الدین صاحب بھیں کے ساتھ مقدمات کا ایک سلسلہ عرصہ سے جاری تھا.اور کل پنجاب میں ان مقدمات کی وجہ سے ایک عام ہیجان مخالفت تھا.احمدیوں کو ہر طرح سے تکلیف دی جارہی تھی.اور خطرناک طوفانِ بے تمیزی برپا کیا ہوا تھا.سیالکوٹ کا ضلع خصوصیت سے اس مخالفت میں حصہ لے رہا تھا.جناب پیر جماعت علی شاہ صاحب کی مخالفانہ سرگرمیاں زوروں پر تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب سیالکوٹ تشریف لے گئے تو ان لوگوں نے اپنی مخالفت کا اظہار جن شرمناک کرتوتوں سے کیا ، وہ عام اخلاق کے چہرہ پر بھی ہمیشہ بد نما داغ رہیگا.چہ جائیکہ اس میں اسلامی غیرت اور حقیقت کا کوئی اثر ہو.ایسے زمانہ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہونا کوئی معمولی امر نہ تھا.اور ایسے شخص کے لئے جو ہندو مسلمانوں میں نہایت عزت واکرام سے دیکھا جاتا ہو.اور جس کا پیشہ بجائے خود اس قسم کی مخالفانہ تحریک میں سخت خطرہ میں ہو.یہ آسان امر نہ تھا.مگر چوہدری صاحب نے عین اس طوفانِ بے تمیزی میں سلسلہ حقہ کو علی الاعلان قبول کیا.سب سے اوّل وہ مقدمات گورداسپور میں بہ حیثیت گواہ صفائی پیش ہوئے اس وقت تک وہ احمدی نہ تھے.اور مقدمات میں ایک وکیل کی حیثیت سے وہ بخوبی سمجھ سکتے تھے کہ دیانت داری اور مومنا نہ اصول کی کہاں تک پر واہ کی جاسکتی ہے.اور خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ انہیں شہادت صفائی کے لئے طلب کیا گیا تھا.انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کس پاک فطرت کو لیکر آئے ہیں.اگر چہ چوہدری صاحب ایسی پوزیشن کے آدمی سے یہ توقع ہی نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ کوئی بات خلاف ایمان و علم کہیں لیکن سب سے بڑی بات جس نے اُن کے قلب پر اثر کیا وہ یہ تھی کہ ایک لمحہ کے لئے بھی ان کو نہیں کہا گیا کہ ان کی شہادت کیا ہے کیا نہیں.ان کے دریافت کرنے پر یہی کہہ دیا گیا تھا کہ بعض الفاظ کے معانی اور مطالب کے متعلق آپ کی شہادت ہوگی.جو کچھ آپ کے علم میں ہو، آپ اُس کو بیان کر دیں.چوہدری صاحب پر قدرتاً اس طریق تقوی کا ایک گہرا اثر ہوا.از مؤلف اصحاب احمد ) حضور علیہ السلام کی طرف سے دو در جن گواہان صفائی کی فہرست دی گئی تھی.رائے آتما رام مجسٹریٹ نے دس گواہان ۷ تا ۱۲ ستمبر ۱۹۰۴ء کیلئے طلب کئے.ان میں ” چوہدری نصر اللہ خاں صاحب پلیڈ رسیالکوٹ“ کا نام بھی شامل ہونے کا ذکر الحکم مورخہ ۲۴،۱۷ را گست ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ پر ہے.
26 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کا ایک بصیرت کے ساتھ انہوں نے مطالعہ کیا.اور آپ کی عملی زندگی کا نقشہ اپنی آنکھوں سے دیکھا.شہادت دیگر وہ واپس چلے گئے.مگر دراصل وہ احمدی ہو کر ہی گئے.اور کچھ عرصہ بعد انہوں نے عملاً بیعت کر لی.بیعت کر لینے کے بعد ان کی زندگی میں ایک نیا دور شروع ہوا.وہ سیالکوٹ میں ایک ممتاز ہستی تھے.اور اپنے پیشہ کے لحاظ سے بہت معروف.ان ایام میں سیالکوٹ میں لالہ بیلی رام وکیل فوجداری میں اور مالی اور دیوانی میں چوہدری نصر اللہ خاں صاحب سب سے زیادہ قابل اور مشہور تھے.ان کی پریکٹس نہایت کامیاب پریکٹس تھی.جیسا کہ میں ذکر کر آیا ہوں سلسلہ میں داخل ہو کر انہوں نے میونسپلٹی کی وائس پریزیڈینٹی سے استعفیٰ دیدیا.اسکی وجہ ان کی مخالفت نہ تھی.بلکہ انہوں نے اُس وقت کو بچانے اور سلسلہ کی خدمت کے لئے ایسا کیا.کچھ شک نہیں.ان کے احمدی ہونے سے قدرتی طور پر ان کی مخالفت ہونا ضروری تھا.مگر چونکہ وہ اپنے پیشہ کی قابلیت اور اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے ہر دلعزیز تھے.سلسلہ کے دشمنوں کو افسوس اور رنج ہوا.اور انہوں نے اپنی تدابیر میں کوئی کمی بھی نہ کی.مگران کی مخالفت یا منصو بہ بازی چوہدری صاحب پر اثر نہ ڈال سکتی تھی.چوہدری صاحب نے انتخاب کے جھگڑوں میں پڑنے کی بجائے اس سے علیحدہ ہو جانا ضروری سمجھا.والدہ ماجدہ کا قبول احمدیت : 6 والدہ محترمہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی تربیت کا ذکر ہو چکا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہوئی.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی آپ کو حضرت مسیح موعود کا علم اور حضور کی صداقت کے متعلق یقین عطا کیا گیا.اور اپنے خاوند محترم سے چند روز قبل قبول احمدیت کی توفیق پائی.جناب چوہدری صاحب تحریر فرماتے ہیں : اس دوران میں والدہ صاحبہ کو احمدیت یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی کا کوئی تفصیلی علم نہیں تھا.حتی کہ حضور کے نام سے بھی واقفیت نہیں تھی.۱۹۰۴ء کے دوران میں انہوں نے بعض رؤیا دیکھے جن کی بناء پر انہیں ستمبر ۱۹۰۴ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کا شرف حاصل ہوا.یہ رویا آپ نے حلفاً لکھوائیں اور الحکم مورخہ ۱۴و۲۱ جنوری ۱۹۳۵ء میں شائع ہوئیں.
27 اس سلسلہ میں پہلا رویا جو آپ نے دیکھا تھا.یہ تھا کہ بازار میں بہت رونق ہے.اور لوگ خوشنما لباس پہن کر کہیں جارہے ہیں.والدہ صاحبہ نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ کسی نظارہ کو دیکھنے جا رہے ہیں.والدہ صاحبہ نے والد صاحب سے کہا کہ آپ بھی اپنی گاڑی تیار کرائیں.تا ہم بھی جا کر یہ نظارہ دیکھیں چنانچہ والد صاحب نے گاڑی تیار کروائی.اور یہ دونوں بھی گاڑی میں سوار ہو کر روانہ ہو گئے.والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ جب ہم چوہدری محمد امین صاحب ( حال ایڈووکیٹ شیخو پورہ) کے مکان کے مقابل پر پہنچے تو انہوں نے تمہارے والد کو آواز دیکر بلا لیا اور تمہارے والد وہاں رُک گئے اور میں اکیلی اُس میدان کی طرف چلی گئی.جہاں لوگ جمع ہورہے تھے.وہاں جا کر میں نے دیکھا کہ خلقت کا بہت ہجوم ہے.حتی کہ درختوں کی ٹہنیوں سے بھی لوگ لٹک رہے ہیں.لیکن وسط میں جگہ خالی ہے.اور ایک جھولا درمیان میں لٹک رہا ہے.جس کی رسیاں آسمان میں جا کر غائب ہو جاتی ہیں.اس جھولے پر ایک کپڑا پر دے کے طور پر لٹک رہا ہے.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پر دے کے نیچے کوئی انسان ہے لیکن وہ نظر نہیں آتا.میدان کے ایک طرف ایک گیلری کے طور پر نشستیں بنی ہوئی تھیں.جن پر میں نے دیکھا کہ ایک مقام پر دو آدمیوں کی جگہ خالی ہے.میں وہاں جا کر بیٹھ گی اور خالی حصہ کو بھی روک لیا.جب کوئی شخص اس حصہ پر بیٹھنا چاہتا.میں اُسے یہ کہہ کر روک لیتی کہ یہ میرے ساتھی کی جگہ ہے.میں اس انتظار میں تھی کہ تمہارے والد صاحب آجائیں اور خالی جگہ پر بیٹھ جائیں.( پھر تھوڑی دیر کے بعد چوہدری صاحب بھی آگئے.) تھوڑی دیر کے بعد وہ جھولا شرقاً غرباً جھولنا شروع ہوا.اور اُس سے ایک نور نکلنا شروع ہوا.جوں جوں جھولا زور پکڑتا تھا.یہ نور بھی بڑھتا جاتا تھا.اور جس طرف کو یہ جھولا جاتا.اُس طرف کے لوگ جوش سے پکارتے تھے : صدقے یا رسول اللہ آخر یہ جھولا اس زور سے جھولنے لگا کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ زمین کے ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک حرکت کرتا ہے.( تین دفعہ تین مہینوں میں یہ خواب دیکھا.اور ہر دفعہ میرا دل اس قدر خوش ہوتا تھا کہ میں دن کو بھی آنکھیں بند کرتی تا کہ مجھے پھر وہ نظارہ نظر آئے.) بقیہ حاشیہ :.متن میں خطوط وحدانی میں الحکم سے قدرے اضافہ کر دیا ہے.حلفی بیان میں مرقوم ہے کہ پہلا رویا غالبا ۱۹۰۳ ء کا ہے.
28 ( چوتھے ماہ ) دوسرا ر یا والدہ صاحبہ نے یہ دیکھا کہ صبح چار بجے کے قریب مکہ معظمہ جانے کی تیاری کر رہی ہیں.اور یوں محسوس کیا ہے کہ اُس وقت سفر شروع کیا ہے.اور سہ پہر کے چار بجے کے قریب دیکھا کہ یکہ جس میں سوار ہیں ، ایک بڑ کے درخت کے قریب کھڑا کر دیا گیا ہے.انہوں نے یکہ بان سے کہا کہ میں تو مکہ جانا چاہتی ہوں.اُس نے کہا.یہی مکہ ہے جہاں آپ پہنچ گئی ہیں.فرماتی تھیں میں حیران ہوئی کہ اس قدر جلد مکہ کیسے پہنچ گئی.فجر کے وقت سفر شروع کیا تھا اور عصر کے وقت ختم ہو گیا.اس حیرانی میں میں یکہ سے اتر کر ایک بازار سے گذر کر ایک گلی میں سے ہوتی ہوئی ایک مکان میں داخل ہوئی اور پہلی منزل پر چلی گئی.وہاں دیکھا کہ صحن میں ایک تخت پوش بچھا ہوا ہے اور اس پر ایک ضخیم کتاب رجسٹر کی طرز کی رکھی ہوئی ہے اور ساتھ ایک بکس ہے.جس کے اُوپر کے ڈھکنے میں ایک سوراخ ہے.میں نے اُس سوراخ کے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر اور اپنا منہ اس سوراخ کے قریب کر کے تین بار بلند آواز سے کہا.'یا اللہ میرے گناہ بخش.“ اور پھر خود ہی دریافت کیا.( یا رب العالمین ! ) '' بخشو گے؟ تو بلند آواز سے جواب ملا : میں صاحب بخشش ہوں بخشوں گا اگر تمہارا نام اس رجسٹر میں درج ہوا تو “ میں نے خواب میں خیال کیا کہ شاید یہ رجسٹر پیدائش اور اموات کے اندراجات کا ہے اور فکر کرنے لگی کہ معلوم نہیں چوکیدار نے میری پیدائش کے وقت میرا نام درج کرایا تھا یا نہیں.پھر میری نیند کھل گئی.” یہ ردیاد یکھنے کے تھوڑا عرصہ بعد والدہ صاحبہ دا تا زید کا تشریف لے گئیں.اور وہاں اس رؤیا کا ذکر کرنے پر ہمارے نانا صاحب نے فرمایا کہ تم نے یہ قادیان کا نظارہ دیکھا ہے تمہیں چاہیئے کہ حضرت میرزا صاحب کی بیعت کر لو.والدہ صاحبہ نے کہا کہ جس بزرگ کا آپ ذکر کرتے ہیں.اگر وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو اللہ تعالیٰ ضرور مجھے ان کی زیارت نصیب کرے گا.اور اُن کی صداقت مجھ پر کھول دے گا.سیالکوٹ واپس آئے ( تو نا نا صاحب کی اوپر کی گفتگو کے تین دن ) بعد انہوں نے پھر ایک یہ ساری گفتگو پنجابی میں ہوئی.الحکم میں وہ پنجابی الفاظ درج ہیں اسی طرح بعد کی خواب کے پنجابی الفاظ بھی جن کی سادگی سے گہرا تاثر پیدا ہوتا ہے کہ واقعی یہ خواہیں ہر تصنع سے دُور اور حقیقت سے معمور ہیں.
29 رؤیا دیکھا کہ رات کے وقت اپنے مکان کے صحن میں اس طور پر انتظام میں مصروف ہیں کہ گویا بہت سے مہمانوں کی آمد کی توقع ہے.اسی دوران میں دالان کے اندر جانے کا اتفاق ہوا.تو دیکھا کہ مغرب کی طرف کی کوٹھڑی میں بہت اُجالا ہو رہا ہے، حیران ہوئی کہ وہاں تو کوئی لیمپ وغیرہ نہیں یہ روشنی کیسی ہے.چنانچہ آگے بڑھیں تو دیکھا کہ کمرہ روشنی سے دمک رہا ہے.اور ایک پلنگ پر ایک نورانی صورت بزرگ تشریف فرما ہیں.اور ایک نوٹ بک میں کچھ تحریر فرما رہے ہیں.والدہ صاحبہ (ان کو دیکھتے ہی بے اختیار پکار اٹھیں کہ میں اللہ تعالیٰ پر قربان جاؤں ! یہ نور تو اس بزرگ کا ہے ) اور کمرہ میں داخل ہو کر اُن کی پیٹھ کی طرف کھڑی ہو گئیں.جب انہوں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص کمرہ کے اندر آیا ہے.تو انہوں نے اپنا جوتا پہننے کے لئے پاؤں پلنگ سے نیچے اُتارے.گویا کمرے سے چلے جانے کی تیاری کرنے لگے ہیں.والدہ صاحبہ نے عرض کی یا حضرت مجھے تمام عمر میں کبھی اس قدر خوشی محسوس نہیں ہوئی جس قدر آج میں محسوس کر رہی ہوں آپ تھوڑی دیر تو اور تشریف رکھیں.چنانچہ وہ بزرگ تھوڑی دیر اور ٹھہر گئے (اور دریافت کیا کہ جبکہ تین قمری مہینوں میں تین بار زیارت کر چکی ہو تو کیا یقین نہیں آیا.کیا اب بھی یقین حاصل ہوا ہے یا نہیں ؟ تو والدہ صاحبہ نے سینے پر ہاتھ رکھ کر عرض کی.آمین.الحمد للہ مجھے یقین ہو گیا ہے.“ جب حضور تشریف لے جانے لگے.تو والدہ صاحبہ نے ( جرات کر کے حضور کا دامن تھام کر ) دریافت کیا.یا حضرت ! ( مجھے بتا کے جائیں ) اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تمہیں کون بزرگ ملے ہیں تو میں کیا بتاؤں؟ انہوں نے دائیں کندھے کے اوپر سے پیچھے کی طرف دیکھ کر اور دایاں بازو اٹھا کر جواب دیا.اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ کون ملے ہیں، تو کہیں احمد ملے ہیں“ اس پر والدہ صاحبہ بیدار ہوگئیں.” ہمارے ماموں صاحب بھی اس دن سیالکوٹ ہی میں تھے.(اور ساتھ کے کمرے میں سوئے تھے ) والدہ صاحبہ نے اِس رؤیا کا ذکر ان سے اور والد صاحب سے کیا.ماموں صاحب نے فرمایا.یہ تو میرزا صاحب تھے.والدہ صاحبہ نے کہا.انہوں نے اپنا نام میرزا صاحب تو نہیں
30 بتایا ، احمد بتایا ہے.( والد صاحب نے فرمایا.میرزا صاحب کا نام میرزاغلام احمد ہے اور ان کو کہتے بھی احمد ہیں ).ماموں صاحب نے کہا.آپ دُعا کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ آپ پر حق کھول دیگا.یہ خواب اس قدر مسرت انگیز تھا کہ والدہ صاحبہ کی خواہش تھی کہ جب بھی آنکھیں بند کریں تو یہ خواب والے بزرگ آپ کو نظر آئیں.آپ کے بھائی اور آپ کے خاوند کبوتراں والی مسجد میں جو احمد یہ مسجد تھی.اس روز صبح کی نماز پڑھنے گئے تو اگر چہ اس سے قبل حضرت مسیح موعود کے سیالکوٹ تشریف لانے کی کوئی خبر نہ تھی.لیکن درس کے بعد مسجد میں تار موصول ہوا کہ حضور اسی شب کو وارد سیالکوٹ ہو نگے.چنانچہ گھر آکر بھائی صاحب نے کہا.بہن ! مبارک ہو.آپ کا خواب پورا ہو گیا حضرت صاحب آج رات یہاں تشریف لا رہے ہیں.اس رات آپ نے پھر رویا میں دیکھا کہ بعض سڑکوں پر سے گزر کر وہ ایک مستقف گلی کے نیچے سے ہوتی ہوئی ایک مکان پر پہنچی ہیں اور اس کی پہلی منزل پر پھر انہی بزرگ کو دیکھا.جن کو پہلی رات میں دیکھا تھا.اور خواب میں دیکھتے ہی آپ جوش سے پکار اٹھیں.میں اللہ کے قربان ! یہ تو وہی بزرگ ہیں جن کو گذشتہ رات میں نے اپنے مکان پر دیکھا تھا.“ اس بزرگ نے آپ سے دریافت کیا کہ اتنی بار دیکھنے کے بعد بھی آپ کو یقین نہیں آیا ؟ تو آپ نے عرض کی :.الحمد للہ.میں ایمان لاتی ہوں.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ۲۷ /۱ اکتوبر ۱۹۰۴ء سیالکوٹ کے لئے قادیان سے روانہ ” میری والدہ کے بیان میں الحکم پر چہ مذکور سے اضافہ کر دیا ہے.البتہ متن میں ( میری والدہ سے ) یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور کی سیالکوٹ آمد کی پہلے کوئی خبر نہ تھی.اس کا صرف یہ مطلب ہوگا کہ حضرت چوہدری صاحب کو علم نہ تھا.اور چوہدری عبداللہ خاں صاحب آپ کے برادر نسبتی چونکہ موضع دا تا زید کا میں رہتے تھے اس لئے ان کو بھی علم نہیں تھا.ورنہ الحکم میں مندرج کوائف سفر میں درج ہے کہ حضور کی مخالفت میں ایک ہفتہ سے علماء کرام سیالکوٹ میں مخالفانہ تشہیر کر رہے تھے.اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جبکہ حضور کی آمد کی وجہ سے نہ صرف مضافات سیالکوٹ بلکہ ملحقہ اضلاع سے بھی احباب جماعت نے لازماً پہنچنا تھا.اتنا وسیع انتظام یکلخت وارد ہونے پر نہیں ہوسکتا تھا.لازماً آمد کے پروگرام کی پہلے ہی اطلاع ہوگی.
31 ہوئے.بٹالہ سے سیکنڈ کلاس اور تھرڈ کلاس کے دوڈ بے ریزرو کرا لئے گئے تھے.جماعت سیالکوٹ چاہتی تھی کہ حضور کسی ایسی گاڑی میں وارد ہوں جو دن کے وقت پہنچتی ہو.لیکن حضور نے تبدیلی پروگرام منظور نہ فرمایا.یہ گاڑی غروب آفتاب کے بعد پہنچی.جبکہ لوگ اپنے کاروبار میں سخت منہمک ہوتے ہیں.یا سارے دن کی محنت سے تھکے ہوتے ہیں.اور پھر ایک ہفتہ سے علما ءلوگوں کو اسٹیشن پر جانے سے منع کر رہے تھے.اور جو گیا اُس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی.اور اس بارہ میں لوگوں سے اقرار اور حلف لئے گئے تھے.لیکن اس فتویٰ وغیرہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے لوگ نہایت کثیر تعداد میں وہاں پہنچے.اندازہ ہے کہ بارہ پندرہ ہزار افراد اسٹیشن سے فرودگاہ تک جمع تھے.اور دو رویہ راستہ اور راستہ کی دوکانوں اور مکانوں کی چھتیں لوگوں سے اٹی ہوئی تھیں.انتظام کے لئے ڈپٹی کمشنر.سپر نٹنڈنٹ پولیس نے پہلے سے پورا انتظام کر رکھا تھا تا بدنظمی نہ ہو.پلیٹ فارم پر جہاں ڈبے کھڑے ہوئے وہاں سے لوگوں کو ہٹا کر سواری کی گاڑی لاکر حضور کو سوار کرایا گیا.اسٹیشن پر جماعت کی طرف سے روشنی کا انتظام تھا اور راستہ میں لوگوں نے چراغاں کر رکھا تھا.حضور کھلی گاڑی میں بیٹھے فرودگاہ کی طرف تشریف لا رہے تھے اور ہجوم ساتھ ساتھ دوڑا جارہا تھا.ایسا نظارہ پہلے کسی شخصیت کے لئے نہیں دیکھا گیا.اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر کیا گیا کہ جو شخص یہاں گمنامی میں رہا.اللہ تعالیٰ نے اُسے عزت دے کر کس رفیع مقام پر کھڑا کر دیا ہے.یہ ایک عجیب نظارہ حق و باطل کی کشمکش کا ہوتا ہے.باطل ایڑی چوٹی تک زور لگاتا ہے.لیکن حق ہی غالب آتا ہے.تا یہ خیال نہ کیا جائے کہ یہ سب کچھ اتفاقی طور پر ہوا.مخالفوں کو ادھر توجہ نہیں ہوئی ہوگی.انہوں نے بھی مخالفت میں پوری کوشش کی.خصوصاً ۲ اکتوبر کوان رستوں پر جہاں سے جلسہ گاہ کی طرف لوگوں نے جانا تھا.چار مقامات پرسید جماعت علی شاہ صاحب وغیرہ نامی نو علماء کے وعظوں کا اشتہار دیا گیا.اور جلسوں کا وقت بھی حضور کے جلسہ سے آدھ گھنٹہ قبل رکھا گیا.لیکن ان جلسوں میں دواڑھائی صد کی تعداد میں نہایت متعصب لوگ ٹھہرے اور جب حضور جلسہ گاہ کی طرف تشریف لے جاتے ہوئے.جب ان کی کسی مجلس وعظ کے پاس سے گذرے تو علماء کرام گالیاں دیتے تھے اور ساتھ ہی یہ کہتے تھے کہ خبردار! کوئی اس جلسہ گاہ میں نہ جائے.لیکن لوگ تھے کہ بھاگے جارہے تھے.اور جلسہ گاہ میں ہر ایک کی خواہش یہی تھی کہ اسے قریب تر جگہ ملے.ہزار ہا لوگوں نے جلسہ سُنا.کارخانہ سپورٹس ورکس کے مشہور مالک سردار گنڈا سنگھ اوبرائے نے جو جلسہ میں موجود
32 تھے.بعد میں بتایا کہ ہر مذہب و ملت کے سیالکوٹ کے اعلیٰ اور ذی علم طبقہ کے قریباً تمام افراداس جلسہ میں شامل ہوئے اور اتنا بڑا اجتماع یہاں کبھی کسی کی تقریر کے لئے جمع نہیں ہوا.حضور ۴ رنومبر کو مراجعت فرمائے قادیان ہوئے.واپسی کے نظارہ کا نقشہ حضرت منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی ذیل کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں : ایک حافظ سلطان نامی نے بد معاشوں کے مشورہ سے اپنے شاگردوں کو جنہیں وہ قرآن مجید پڑھاتا تھا.راکھ اور اینٹیں جھولیوں میں بھرنے کو کہا اور دوکانوں کی چھتوں پر کھڑا کر دیا.اس نے یہ سمجھا کہ جس گاڑی کو ہم دونوں نے پکڑا ہوا ہے اور آگے جو ہے مستورات کی ہے.اور ہمیں دھو کہ دینے کے لئے ایسا کیا ہوا ہے.چنانچہ جب حضور کی گاڑی گزرگئی اور اس کے بعد خادمات والی بند گاڑی گزر رہی تھی.اسپران شریروں نے راکھ اور اینٹیں وغیرہ پھینکیں.حضور ریل گاڑی میں سوار ہوئے تو اس پر بھی خشت باری کی.چنانچہ گاڑی کا ایک شیشہ بھی ٹوٹ گیا.گاڑی روانہ ہونے کے بعد ہم واپس جارہے تھے.دیکھا کہ دو بازاری عورتیں پلیٹ فارم پر بیٹھی ہیں اور ایک کہہ رہی ہے.ہائے مرزا مجھے بھی ساتھ لے چلو.پھر کہنے لگی اگر ساتھ لے جائے تو جاتے ہی زہر دے دول...( واپسی پر خشت باری ہوئی.حتی کہ مولوی برہان الدین صاحب جہلمی جو بوڑھے آدمی تھے ، ان پر بھی ہوئی.مولوی صاحب بھاگے اور شیخ مولا بخش صاحب کی دوکان میں پناہ لی.لیکن وہاں بھی خشت باری ہوتی رہی.یہاں تک کہ پولیس پہنچی اور اس نے لوگوں کو منتشر کیا.چند ایک دن کے بعد....حافظ سلطان نمونیہ والی طاعون سے......مر گیا.اس کے نہلانے والا بھی مر گیا اور ان دونوں کے علاوہ طاعون ہی سے چند دن کے اندر اندر سلطان کے کنبے کے اٹھائیس یا تمہیں آدمی ہلاک ہو گئے.“ 166 جناب چوہدری صاحب بیان کرتے ہیں : وو دوسری صبح ہی والدہ صاحبہ نے والد صاحب سے اجازت طلب کی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوں.والد صاحب نے اجازت دے دی.لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ آپ دیکھ آئیں لیکن بیعت نہ کریں.میں بھی تحقیقات میں لگا ہوا ہوں.آخری فیصلہ اکٹھے سوچ کر کریں گے.والدہ صاحبہ نے کہا کہ اگر تو یہ وہی بزرگ ہیں جنہیں میں نے خواب میں دیکھا ہے تو پھر میں تو بیعت میں تا خیر نہیں کر سکتی.کیونکہ میں خواب میں اقرار کر چکی ہوں اور تاخیر سے میرا
33 عہد ٹوٹتا ہے.( میں تو صرف زیارت کے لئے جا رہی ہوں.ورنہ جب میں نے خواب میں آمین اور الحمد للہ کہا تھا.میری بیعت تو اُسی وقت ہو چکی تھی.) اور اگر یہ وہ نہیں ہیں.تو پھر آپ تحقیقات کرتے رہیں میں بھی غور کرلوں گی.والد صاحب نے پھر سمجھانے کی کوشش کی کہ کوئی قطعی فیصلہ بغیر مزید مشورہ کے نہ کریں.(دیکھنا کہیں گھر میں کوئی اور جھگڑا نہ پیدا ہو جائے.) اور یہ نصیحت کر کے کچہری چلے گئے.والدہ صاحبہ دو پہر کے کھانے کے بعد بصد شوق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فرود گاہ کی طرف ( والدہ صاحبہ اور تائی صاحبہ کے ساتھ ) روانہ ہوئیں.رستہ اور مکان کی ہیئت سے والدہ صاحبہ نے پہچان لیا کہ یہ وہی مکان ( راستہ اور وہی بزرگ ہیں.اور اسی طرح برآمدہ میں ٹہل رہے تھے اور کاپی پر کچھ تحریر فرما رہے تھے ) جیسا انہوں نے خواب میں دیکھا تھا.” جب والدہ صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں شرف باریابی کے لئے حضرت میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے مکان پر حاضر ہوئیں تو خاکسار بھی انکے ہمراہ تھا ( حضرت ام المومنین کی خدمت میں حاضر ہو کر اُنہوں نے عرض کی کہ حضور کی خدمت میں پیغام بھیج دیں کہ چود ہری نصر اللہ خاں کے گھر سے آئے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں.حضرت ام المومنین نے والدہ منشی شادی خان المعروف دادی صاحبہ کے ذریعہ حضرت صاحب کی خدمت میں پیغام بھیجا.حضور نے پوچھا کہ بیعت کرنے آئے ہیں یا زیارت کرنے.والدہ صاحبہ نے عرض کی کہ بیعت کرنی ہے ) حضور اُس وقت مکان کی چھت پر تشریف رکھتے تھے اور غالبا لیکچر سیالکوٹ کی تیاری میں مصروف تھے.حضور نے کہلا بھیجا کہ تھوڑی دیر میں تشریف لائیں گے.تھوڑے ہی وقفہ کے بعد حضور تشریف لے آئے.اور ایک پلنگ پر جو وسط صحن میں بچھا ہوا تھا، تشریف فرما ہوئے.والدہ صاحبہ چند دیگر مستورات کے ساتھ ایک چوبی تخت پوش پر جو اس پلنگ کے قریب دو گز کے فاصلہ پر بچھا ہوا تھا بیٹھی تھیں.جب حضور پلنگ پر تشریف فرما ہو گئے.تو والدہ صاحبہ نے عرض کیا.”حضور میں بیعت کرنا چاہتی ہوں.حضور نے فرمایا.” بہت اچھا.‘ اور والدہ صاحبہ نے بیعت کر لی.یہ وقت ظہر کا تھا.مکان پر واپس پہنچ کر والدہ صاحبہ نے مجھے کچھ اچار دیا اور کہا کہ یہ حضرت اُم المومنین کی خدمت میں پہنچا دو.کیونکہ آپ نے اچار سے رغبت ظاہر کی تھی.اور والدہ صاحبہ نے عرض کیا تھا کہ
34 " ہمارے ہاں بہت عمدہ اچار موجود ہے.” جب والد صاحب کچہری سے واپس آئے تو انہوں نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا.” کیا آپ میرزا صاحب کی زیارت کے لئے گئے تھے؟‘ والدہ صاحبہ نے جواب دیا.’گئی تھی.والد صاحب نے پوچھا.” بیعت تو نہیں کی ؟“ والدہ صاحبہ نے سینہ پر ہاتھ رکھ کر کہا.الحمد للہ کہ میں نے بیعت کر لی ہے.اس پر والد صاحب نے کچھ رنج کا اظہار کیا.والدہ صاحبہ نے جواب دیا کہ یہ ایمان کا معاملہ ہے.اس میں آپ کی خفگی مجھ پر کوئی اثر نہیں کر سکتی.اگر یہ امر آپ کو بہت ناگوار ہے.تو آپ جو چاہیں فیصلہ کر دیں.جس خدا نے اب تک میری حفاظت اور پرورش کا سامان کیا ہے ، وہ آئندہ بھی کرے گا.محترم چوہدری صاحب سے آپ کی گفتگو اور ان کی بیعت سے قبل دونوں کا آپس میں سلوک جو رنگ اختیا رکر گیا.وہ محترمہ کے اپنے الفاظ میں سکنے کے لائق ہے جس سے ظاہر ہے کہ ایمان استقامت کا موجب ہوتا ہے.فرماتی ہیں: چوہدری صاحب کچہری سے واپس آئے تو حسب دستور السلام علیکم کہا.اور حال دریافت کیا.تو میں نے کہا کہ میں بفضلہ تعالیٰ بیعت کر آئی ہوں.انہوں نے کہا.کیا سچ سچ ؟ میں نے کہا کہ ہاں سچ سچ.اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور رسول صلعم کی برکت سے.تب چوہدری صاحب نے کہا کہ پھر آپ کا اور ہمارا خانہ جدا.میں نے کہا کہ ہر ایک نے جدا جدا خانے میں ( گویا بعد وفات ) جانا ہے.انہوں نے کہا کہ اب ہم الگ الگ رہیں گے.میں نے کہا کہ مرنے کے بعد سب نے الگ الگ جگہ ہی رہنا ہوگا.یہ حال دیکھ کر میری والدہ ڈرگئیں.میں نے کہا کہ آپ اس بات سے نہ گھبرائیں کہ اگر یہ مجھے گھر سے نکال دیں گے تو میں آپ پر بوجھ بن جاؤں گی.میں کسی پر بوجھ نہیں ہوں گی.اللہ تعالیٰ جنگل اجاڑ میں بھی مجھے میری مقدر کی خوراک و پوشاک مہیا کرے گا.چودھری صاحب مرحوم پاس کھڑے تھے.انہوں نے بھی یہ بات سُن لی اور حیران تھے کہ میں ان سے ڈرتی کیوں نہیں.مغرب کے وقت وہ وضو کر رہے تھے ، خادم بستر بچھانے آیا تو انہوں نے اسے کہا کہ میرا بستر ساتھ کے کمرہ میں کرنا.خادم نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا کہ میں بالا خانہ کے کسی کمرہ میں اپنا بستر نہیں رہنے دوں گی.کمرہ کی تبدیلی پر کیا اکتفا کرنا ہے منزل ہی تبدیل کر لیں.چوہدری صاحب
35 نے اس کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ میں احمدی اور آپ غیر احمدی ہیں اس لئے ہم ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے.یہ سُن کر چوہدری صاحب نے اپنی رائے تبدیل کر لی.گود کے بچہ (اسد اللہ خاں) کو ساتھ لے کر لیٹ گئی تو چوہدری صاحب نے پوچھا کہ مجھے بھی بیعت والا واقعہ سُناؤ کہ کس طرح گئے اور کس طرح بیعت کی.تب میں نے ساری تفصیل بیان کی.اور سوتے وقت خلاف عادت اپنا چہرہ ڈھانپ لیا.چوہدری صاحب نے کہا کہ آپ نے تو چہرہ کبھی ڈھانکا نہیں تھا.آج کیا ہوا.میں نے کہا کہ میں احمدی ہوں اور آپ غیر احمدی ہیں.میرا دل نہیں چاہتا کہ چہرہ کھلا رکھوں.میں چار دن حسب طریق چوہدری صاحب کی خدمت کرتی رہی.لیکن میں خوش ہو کر اُن سے گفتگو نہ کرتی تھی.آپ چار راتیں قرآن شریف اور بخاری شریف کے مطالعہ میں مصروف رہے.اور چوتھے روز نماز فجر کے بعد جب گھر لوٹے تو بیعت کر کے لوٹے.اُس دن حضور نے قادیان واپس تشریف لے جانا تھا.نماز سے واپس آکر چوہدری صاحب نے کہا.السلام علیکم.مبارک ہو.میں بیعت کر آیا ہوں.میں نے خدا کا شکر ادا کیا.اور اُسی وقت بطور شکرانہ نفل ادا کئے.خلافت ثانیہ کی بیعت بھی میں نے چوہدری صاحب سے گیارہ یوم قبل کی تھی.* حضرت چوہدری صاحب اپنی اہلیہ محترمہ سے شکر رنجی میں بھی قرآن مجید و بخاری شریف پر چار را تیں غور کرتے اور حضرت مسیح موعود کی برکات سے مستفیض ہوتے رہے.اور بالآخر زمرہ مبایعین میں داخل ہو گئے.اور اس سے قبل قریب میں قریب سے حضرت اقدس کو گورداسپور اور لاہور میں دیکھنے کا موقعہ پایا تھا اور اب آخری فیصلہ کرنے والے تھے.بلکہ اپنے دوست کے شکوک رفع کرانے کی خاطر ڑ کے ہوئے تھے تا اکٹھے فیصلہ کریں اور خوب پوری طرح متاثر تھے.اس لئے یہ باور نہیں کیا جا سکتا کہ آپ احمدیت کو نا پسند کرتے تھے.میں غور کر کے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایمان مقصدِ حیات ہے.چوہدری صاحب خائف ہوں گے کہ ان کی رفیقہ حیات جو ان پڑھ ہیں کسی غلط فیصلہ پر نہ پہنچ جائیں.چوہدری صاحب خود علوم ظاہری سے بہرہ ور تھے.اور بحر قانون کے شناور ہونے کے باعث یہ سمجھتے ہوں گے کہ وہ حق و باطل میں پورے غور و فکر سے امتیاز کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں.لازماً اسی وجہ سے انہوں نے ابتدا میں اپنی اہلیہ صاحبہ کو بیعت سے منع کیا ہوگا.لیکن اُن کے یہ بیان محترمہ کا اپنا لکھوایا ہوا.الحکم ۳۵-۱-۲۱ میں درج ہے.خاکسار مؤلف نے قدرے اختصار کے ساتھ یہاں درج کیا ہے.
36 منع نہ ہونے پر چوہدری صاحب کی حساسیت آڑے آئی.اس کا ذکر اپنے والد ماجد کے تعلق میں ہم پہلے پڑھ چکے ہیں وبس.لیکن آپ کی اہلیہ محترمہ دین کے معاملہ کو اپنے اور اللہ تعالیٰ کے مابین سمجھتی تھیں اور یہ درست تھا.علاوہ ازیں کوائف بالا سے یہ امر بھی روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ چوہدری صاحب نے نہایت مخالف حالات کو دیکھتے ہوئے بھی احمدیت قبول کی ، یہ آپ کی اعلیٰ درجہ کی جوانمردی اور مردانگی تھی.ورنہ ایک دنیا دار، جاہ طلب اور دُنیا کا پروانہ ہرگز ایسا کردار ظاہر نہ کر سکتا تھا کہ جس سے لوگ ناراض ہوں اور مقبولیت میں کمی واقع ہو.والدہ محترمہ کا الحب الله والبغض الله کا نظارہ آپ دیکھ چکے ہیں.عشق الہی میں ان کی ترقی کے متعلق جناب چوہدری صاحب رقم فرماتے ہیں: د ممکن ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے قیام سیالکوٹ کے دوران میں والدہ صاحبہ کو اس کے بعد بھی حضور کی زیارت نصیب ہوئی ہو.لیکن حضور کے سیالکوٹ سے واپس تشریف لے جانے کے بعد والدہ صاحبہ کو پھر کوئی موقعہ حضور کی حیات میں حضور کی زیارت کا میٹر نہیں آیا.دراصل تو انہوں نے عہد اخلاص و وفا رؤیا میں ہی باندھا پھر بیعت کے الفاظ میں اس کی تجدید کی اور اس کی ظاہری شہادت قائم کی اور پھر آخری سانس تک اُسے اس طریق سے نباہا کہ جیسے اس کا حق تھا.بیعت کے بعد ہر دن جو اُن پر چڑھا.بلکہ ہر لحظہ جو ان پر گزرا.وہ ان کے ایمان اور اخلاص کی ترقی پر شاہد ہوا.ان کا ایمان شروع ہی سے عشق کی جھلک اپنے اندر رکھتا تھا.اور رفتہ رفتہ اس عشق نے اس قدر ترقی کی کہ انہیں ہر بات میں ہی اللہ تعالیٰ کا جلال اور قدرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت نظر آتی تھی.آپ فرماتی ہیں کہ : مجھے کوئی تعلیم دینی یا دنیوی نہ دی گئی تھی.اور تا حال ظاہری علوم مروجہ سے بے بہرہ اور کوری ہوں.نہ لکھ سکتی ہوں نہ پڑھ سکتی ہوں.با ینہمہ مجھے اپنے خالق (و) مالک حقیقی پر کامل ایمان نصیب رہا ہے.اور نادانی کی عمر سے میرا پختہ عقیدہ یہی چلا آیا ہے کہ سبھی قدرتیں حضرت رب العالمین کو حاصل ہیں اور کوئی دوسری طاقت یا ہستی کو یہ قدرت و اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی کو نفع یا نقصان بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم سے پہنچا سکے.1766
37 ال محترم چوہدری صاحب بیان کرتے ہیں : بیعت کے بعد ان کے عمل میں بھی جلد جلد تبدیلی ہوتی گئی.اصل تربیت تو اُن کی اللہ تعالیٰ نے رویا اور کشوف کے ذریعہ ہی جاری رکھی.لیکن ظاہر میں بھی جب کبھی کوئی حکم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا حضور کے وصال کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ یا اُن کے بعد حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اُن تک پہنچ جا تا.وہ فورا مستعدی سے اس پر عمل پیرا ہو جاتیں.اُن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے طبیعت بالکل جادہ تسلیم ورضا پر چلنے والی عطا فرمائی تھی.اُن کی طبیعت میں ان امور کے متعلق چون و چرا پید ا ہوتا ہی نہیں تھا.تھا.“ صالح اولاد: ان بزرگوں کو اللہ تعالیٰ نے صالح اور اعلیٰ درجہ کی خادم دین اولاد سے نوازا.جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب صحابی ہیں اس لئے ان کا تذکرہ الگ کیا جارہا ہے.دیگر تینوں بھائیوں کو بھی خدمات سلسلہ کا موقعہ خوب ملا.یا مل رہا ہے.چوہدری شکر اللہ خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ڈسکہ کے امیر جماعت رہے.تقسیم ملک کے وقت اسلامی تعلیم کے مطابق آپ نے غیر مسلموں کی حفاظت کا کام بہترین رنگ میں کیا.اور آج تک نہایت خلوص سے غیر مسلم اس کا ذکر کرتے ہیں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقعہ پر آپ کے متعلق فرمایا : 1066 چوہدری شکر اللہ خاں صاحب...سلسلہ سے دیوانہ وار محبت رکھتے تھے.ان کی بیوی جو چوہدری بشیر احمد صاحب کی بہن ہیں ، احمدیت سے ایک والہانہ محبت رکھتی تھیں.اس لئے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان بچوں کی بھی حفاظت کرے گا، جبکہ ان کے بھائی بھی بڑے مخلص ہیں.کیونکہ ہم عصر لوگوں کا اثر زیادہ ہوتا ہے.چوہدری عبداللہ خاں صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قصور.جمشید پور میں بھی خدمات سلسلہ کے مواقع حاصل ہوئے.بعد تقسیم ملک بطور امیر جماعت کراچی نا قابل فراموش خدمات کی توفیق عطا ہوئی اور ان کی زیر قیادت یہ جماعت صف اول میں شمار ہونے لگی.اور ان کی ہمدردی خلائق اور مروّت کے نقوش لوح قلوب سے کبھی محو نہ ہو سکیں گے.محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کو بطور قانونی مشیر ، وارڈن احمد یہ ہوٹل اور اب سالہا سال سے لاہور جیسی بڑی اور ممتاز جماعت اور
38 ضلع لاہور کے امیر کے طور پر باحسن طریق خدمات سرانجام دینے کا موقع مل رہا ہے.وذالک فضل الله يؤتيه من يشاء.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی قبول احمدیت و روایات: محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے تعلیمی کوائف سے قبل قارئین کرام آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت ، قادیان میں آمد، بیعت وغیرہ کے کوائف آپ کے اپنے الفاظ میں پڑھیں.فرماتے ہیں : میں ان دنوں سکول میں پڑھا کرتا تھا.لیکن مدرسہ کی پڑھائی کے علاوہ میرے والد صاحب قرآن کریم کے با تر جمہ پڑھنے کے لئے مجھے ایک مولوی صاحب کے پاس بھیج دیا کرتے تھے.اس دوران میں آہستہ آہستہ یہ چرچا ہونے لگا کہ میرے والد صاحب احمدیت کی طرف رجحان رکھتے ہیں.اور شائد احمدی ہو جائیں گے.جن مولوی صاحب کے ہاں میں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کے لئے جایا کرتا تھا.ان کے شاگردوں میں بھی کبھی کبھی یہ ذکر آ جاتا تھا اور دُوسرے طالب علم مجھے طنزاً کہا کرتے تھے کہ تمہارے والد صاحب مرزائی ہونے والے ہیں.میں اُن کو یہ جواب دیا کرتا تھا کہ یہ دین کا معاملہ ہے.اس میں تو میں اپنے مولوی صاحب کے خیالات کی پیروی کروں گا.اپنے والد صاحب کے خیالات کی پیروی نہیں کروں گا.شروع ستمبر ۱۹۰۴ء میں میرے والد صاحب مجھے اپنے ہمراہ لاہور لے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان دنوں لاہور ہی میں تشریف رکھتے تھے.۳ رستمبر کے روز ان کا لیکچر میلا رام کے منڈوے میں ہوا.والد صاحب مجھے بھی اپنے ہمراہ وہاں لے گئے.میری عمر اس وقت ساڑھے گیارہ سال کی تھی.لیکن وہ منظر مجھے خوب یاد ہے.مجھے سٹیج پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی گرسی کے قریب ہی جگہ مل گئی.اور میں قریباً تمام وقت آپ ہی کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھتا رہا.گو معلوم ہوتا ہے کہ میں نے لیکچر بھی توجہ سے سُنا ہوگا.یا کم سے کم بعد میں توجہ سے پڑھا ہوگا.کیونکہ اس لیکچر کے بعض حصے اس وقت سے مجھے اب تک یاد ہیں.لیکن میری توجہ زیادہ تر آپ نے قرآن مجید ناظرہ حضرت مولوی فیض الدین صاحب امام مسجد کبوتر انوالی سیالکوٹ شہر سے پڑھا.( بحوالہ حیات فیض صفحہ ۳ و ۱۱.بیان چوہدری عبد اللہ خاں صاحب مرحوم )
39 شجرہ نسب چوہدری سکندرخاں چوہدری نصر اللہ خاں صاحب ( صحابی ) مدفون بہشتی مقبره قادیان قطعه خاص) چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں سکینہ بی بی مرحومه چوہدری شکر اللہ خان مرحوم چوہدری عبد اللہ خان مرحوم چوہدری اسد اللہ خاں بیرسٹر امتہ الحی چوہدری چوہدری (امیر جماعت کراچی) (امیر جماعت لاہور ) چوہدری محمد نصر اللہ خاں چوہدری حمید نصر اللہ خاں چوہدری اور لیس نصر اللہ خال رالله خال زوجہ چوہدری محمد نواز خاں مرحوم ) چوہدری ظفر احمد عطیۃ اللہ بیگم جبتہ اللہ بیگم چوہدری بی اے.ایل ایل بی بی اے.ایل ایل بی چوہدری محمود نصر اللہ خاں مسعود نصر اللہ خاں (زوجہ چوہدری مسعود اللہ ڈسکہ) منور نصر اللہ خاں مبارک نصر اللہ خاں صاحب چوہدری اعجاز نصر اللہ خاں امة الحفیظ بیگم ( بیرسٹر لاہور ) زوجہ سرفراز احمد ایڈووکیٹ سیالکوٹ)
40 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ مبارک کی طرف رہی.آپ ایک آرام کرسی پر تشریف فرما تھے اور ایک سفید رومال آپ کے ہاتھ میں تھا.جو اکثر وقت آپ کے چہرہ مبارک کے نچلے حصہ پر رکھا رہا.”میرے دل میں اس وقت کسی قسم کے عقائد کی تنقید نہیں تھی.جو اثر بھی میرے دل پر اسوقت ہوا.وہ یہی تھا کہ یہ شخص صادق ہے اور جو کچھ کہتا ہے وہ سچ ہے.اور ایک ایسی محبت میرے دل میں آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈال دی گئی کہ وہی میرے لئے حضور علیہ السلام کی صداقت کی اصل دلیل ہے.میں گو اُس وقت بچہ ہی تھا لیکن اُس وقت سے لے کر اب تک مجھے کسی وقت بھی کسی دلیل کی ضرورت نہیں پڑی.بعد میں متواتر ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں، جو میرے ایمان کی مضبوطی کا باعث ہوئے.لیکن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر ہی مانا تھا.اور وہی اثر اب تک میرے لئے حضور کے دعاوی کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے.اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ ۳ رستمبر ۱۹۰۴ء کے دن سے ہی احمدی ہوں.اس تاریخ کے قریباً ایک ماہ بعد حضور سیالکوٹ تشریف لے گئے.اور باوجود اس کے کہ ان دنوں مجھے آشوب چشم کی تکلیف تھی.میں نے حضور کے سیالکوٹ کے قیام کا اکثر وقت حضور کی قیامگاہ کے قریب ہی گزارا.میرے والد صاحب نے انہی ایام میں حضور کی بیعت کی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.میری والدہ صاحبہ نے اپنے بعض رؤیا کی بناء پر میرے والد صاحب سے چند دن قبل بیعت کی تھی.اس کے بعد جو پہلا واقعہ خصوصیت سے مجھے سلسلہ احمدیہ کے متعلق یاد ہے ، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اشتہار ہے جو غالبا فروری ۱۹۰۵ء میں شائع ہوا تھا.اور اس میں آپ کا البام عَفَتِ الدِّيَارُ مَحِلُهَا وَمُقَامُهَا درج تھا.یہ اشتہار میں نے گھر میں پڑھ کر سُنایا تھا.* دستمبر ۱۹۰۵ء میں میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ پہلی دفعہ قادیان آیا.اور ہم اس کوٹھڑی میں ٹھہرے جو صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کے جنوب مشرقی کو نہ میں بیت المال کے دفاتر کے بالمقابل ہے.ان ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ظہر وعصر کی نمازوں کے بعد کچھ وقت کے لئے مسجد مبارک کی چھوٹی کوٹھڑی میں جس میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام خود نمازادا یہ الہام الانذار نام اشتہار میں درج ہے جو ۸/۴/۰۵ کو حضرت اقدس نے شائع فرمایا ہے.
41 فرمایا کرتے تھے.تشریف بھی رکھا کرتے تھے.اور کچھ عرصہ سلسلہ کلام جاری رہا کرتا تھا.میں ان مواقع پر ہمیشہ موجود رہتا تھا.صبح آٹھ نو بجے کے قریب حضور باہر سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے اکثر اوقات میں بھی دیگر احباب کے ساتھ حضور کے پیچھے پیچھے چلا جایا کرتا تھا.حضرت خلیفۃ اسح الاول ان دنوں علاوہ مطب کے کام کے اس کمرہ میں جہاں اب حکیم قطب الدین صاحب کا مطلب ہے.مثنوی مولانا روم کا درس دیا کرتے تھے.مجھے اپنے والد صاحب کے ہمراہ آپ کی صحبت کا بھی ان ایام میں موقعہ ملتا رہا.مجھے خوب یاد ہے کہ بعض دفعہ اس درس کے دوران میں کوئی آدمی آکر کہہ دیتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر تشریف لائے ہیں.تو یہ سنتے ہی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ، درس بند کر دیتے اور اُٹھ کھڑے ہوتے اور چلتے چلتے پگڑی باندھتے جاتے اور جوتا پہننے کی کوشش کرتے.اِس کوشش کے نتیجہ میں اکثر آپ کے جوتے کی ایڑیاں دب جایا کرتی تھی.جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو جب تک حضور آپ کو مخاطب نہ کرتے ، آپ کبھی نظر اٹھا کر حضور کے چہرہ مبارک کی طرف نہ دیکھتے.اس کے بعد ۱۹۰۵ء اور ۱۹۰۶ ء اور ۱۹۰۷ء کے سالانہ جلسوں میں بھی شمولیت کا مجھے موقعہ ملا.ان ایام میں سالانہ جلسے مسجد اقصیٰ میں ہوا کرتے تھے.ستمبر ۱۹۰۶ ء اور ۱۹۰۷ء میں قادیان آکر رہنے کا بھی مجھے موقعہ ملا.۱۹۰۶ ء یا ۱۹۰۷ء کے ستمبر کا ذکر ہے کہ میرے والد صاحب اور میں سید حامد شاہ صاحب مرحوم اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم کے ہمراہ اس کو ٹھڑی میں ٹھہرے تھے جو مسجد مبارک کے پہلو میں ہے.اور جس میں سے گذر کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لاتے تھے.ہم دو پہر کا کھانا مسجد مبارک میں بیٹھ کر کھاتے تھے.جو اُن دنوں مولوی محمد علی ย صاحب کا دفتر ہوا کرتا تھا.اور شام کا کھانا مسجد مبارک کی چھت پر کھایا کرتے تھے.* ایک دن دو پہر کے وقت ہم مسجد مبارک میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ کسی نے اس کھڑ کی کو زیر عنوان ”ہفتہ قادیان مرقوم ہے.اس ہفتہ میں چوہدری نصر اللہ خاں صاحب وکیل اور چوہدری محمد امین صاحب وکیل حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے.“ (بدر ۱۴/۹/۰۵) زیر اخبار قادیان بدر۲۷/۹/۰۶ میں اس ہفتہ قادیان آنے والوں میں بھی آپ کا اسم گرامی موجود ہے.
42 کھٹکھٹایا جو کوٹھڑی سے مسجد مبارک میں کھلتی تھی.میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود تشریف لائے ہیں.آپ کے ہاتھ میں ایک طشتری ہے.جس میں ایک ران بھنے ہوئے گوشت کی ہے.وہ حضور نے مجھے دے دی اور حضور خود واپس اندر تشریف لے گئے اور ہم سب نے بہت خوشی سے اسے کھایا.اور شفقت اور محبت کا اثر اب تک میرے دل میں ہے اور جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو میرا دل خوشی اور فخر کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے.انہی ایام میں ایک دن کا ذکر ہے کہ میں مسجد مبارک کے نیچے کی گلی میں سے گذر رہا تھا.دو پہر کا وقت تھا.غالبا دو پہر کے کھانے کے بعد اور ظہر کی نماز سے قبل.میں نے دیکھا کہ حضور اپنی ڈیوڑھی سے باہر تشریف لائے ہیں.حضور اس وقت بالکل اکیلے تھے.لباس وہی تھا.جو حضور عام طور پر پہنا کرتے تھے.سوائے اس کے کہ سر پر صرف رومی ٹو پی تھی اور عمامہ نہیں تھا.اور گلے میں کوٹ بھی نہیں تھا لیکن ہاتھ میں چھڑی تھی.اور گرتے کا ایک حصہ لباس کے کسی دوسرے حصہ کے ساتھ اٹک کر ذرا اونچا رہ گیا تھا.اور وہاں سے تھوڑا سا حصہ بدن مبارک کا نظر آرہا تھا.آپ اس گلی میں تشریف لے گئے جو مسجد اقصیٰ کو جاتی ہے.صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کے مغرب کی طرف جو مکان ہے.اس کا کچھ حصہ ان دنوں زیر تعمیر تھا.حضور اس کا ملا حظہ فرماتے رہے.میں بھی کچھ فاصلہ پر پیچھے پیچھے چلتا گیا.دل میں یہ خوف بھی تھا کہ اگر حضور دیکھ لیں تو شاید پسند نہ فرمائیں کہ کیوں یہ پیچھے آرہا ہے.لیکن دل یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ حضور کو دیکھنے کا ایک موقعہ ہاتھ سے جانے دیا جائے.چند منٹ حضور نے مکان کا ملاحظہ فرمایا.اس وقت معمار اور مزدور بھی غالباً کھانا کھانے گئے ہوئے تھے اور کوئی نگران تعمیر بھی موجود نہیں تھا.حضور خود ہی چند منٹ تک ادھر اُدھر دیکھتے رہے.اور پھر جس راستہ سے آئے تھے ، اسی راستہ سے واپس تشریف لے گئے.مغرب کی نماز کے بعد حضرت خلیفہ امسیح الاول جلد ہی کھانا کھانے سے فارغ ہو کر مسجد مبارک کی چھت پر تشریف لے آیا کرتے تھے اور عشاء کی نماز تک وہیں تشریف رکھا کرتے تھے.یہ صحبت بھی بہت پر لطف ہوا کرتی تھی.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کی بیماری کے دوران میں بھی میں قادیان ہی میں حاضر تھا اور ان کی وفات کے وقت بھی یہیں موجود تھا.چنانچہ ان کے جنازہ کو بہشتی مقبرہ میں لے جانے کے لئے ڈھاب کے ایک حصہ پر عارضی پل بنانا پڑا تھا.اُس پل کے بنانے میں زیادہ تر تعلیم
43 الاسلام ہائی سکول کے لڑکوں کا حصہ تھا.اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں بھی اس کام میں اُن کے ساتھ شامل ہوا تھا.اور بعد میں صاحبزادہ صاحب کے جنازہ میں بھی شامل ہوا.جنازہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قبر سے تھوڑے فاصلہ پر بیٹھ گئے اور صاحبزادہ صاحب مرحوم کے متعلق اپنے الہامات اور پیشگوئیوں کا ذکر فرماتے رہے.’۱۹۰۷ء کے جون یا جولائی میں حضرت خلیفہ امسیح اول رضی اللہ عنہ نے ایک کارڈ میرے والد صاحب کو لکھا.جس کا مضمون صرف اتنا ہی تھا کہ آپ اپنے بیٹے کی اب بیعت کرا دیں.میں نے وہ کارڈ پڑھ لیا.اور شاید والد صاحب کو بھی یہ علم ہوگا کہ وہ کارڈ میری نظر سے گذر چکا ہے.انہوں نے اس بات کا مجھ سے کوئی ذکر نہیں کیا.اور نہ مجھ سے خصوصیت سے کہا کہ تم بیعت کرلو لیکن یہ ان کو یقینی طور پر علم تھا کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر رنگ میں احمدی تھا.جب ستمبر ۱۹۰۷ء میں میں والد صاحب کے ساتھ قادیان آیا تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کی تعمیل میں میں نے خود ہی ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور یہ ۶ ار ستمبر ۱۹۰۷ء کا دن تھا.* اسی سال میں نے انٹرنس کا امتحان پاس کیا تھا.اور گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو چکا تھا.چنانچہ مئی ۱۹۰۸ ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آخری دفعہ لاہور تشریف لے گئے تو میں ان دنوں لاہور میں ہی تھا.ان ایام میں بھی حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا مجھے شرف حاصل ہوتا تھا.۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو دوپہر کے وقت میں اپنے کمرہ ہوٹل میں سویا ہوا تھا کہ شیخ تیمور صاحب بڑی جلدی اور گھبرا ہٹ کے ساتھ تشریف لائے اور میرے پاؤں کو ہلا کر کہا کہ جلدی اٹھو اور میرے کمرہ میں آؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے ہیں.چنانچہ میں فوراً اُٹھ کر اُن کے کمرہ میں گیا.اور ہم نے کالج اور ہوسٹل سے چھٹی وغیرہ لینے کا انتظام کیا تا کہ حضور کے جنازہ کے ساتھ قادیان جاسکیں.یہ انتظام کر کے ہم احمد یہ بلڈنکس پہنچ گئے.اور پھر حضور کے جنازہ کے ساتھ ہی تاریخ وفات صاحبزادہ مبارک احمد صاحب ۱۶ رستمبر ۱۹۰۷ء.ان کی زندگی کے تمام حالات جلد اول میں جمع کر دیئے گئے ہیں.* اس سال صرف بدر میں مبائعین کے اسماء شائع ہوتے رہے.لیکن آپ کا نام وہاں موجود نہیں.جس سے ظاہر ہے کہ یہ فہرست مکمل نہیں.
44 قادیان آئے.اس موقعہ پر میں غالباً دو دن قادیان ٹھہرا اور حضرت خلیفہ امسیح اول رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے کے بعد لاہور واپس چلا گیا.ان ایام کے احساسات اور قلبی کیفیات کا سپر د قلم کرنا میرے جیسے انسان کے لئے مشکل ہے.“ تعلیمی حالت :.ہے.سیالکوٹ سے میٹرک پاس کر کے آپ نے بی، اے (آنرز ) گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا اور انگلستان سے قانون کی سند حاصل کی.قرآن مجید ناظرہ آپ نے حضرت مولوی فیض الدین صاحب امام مسجد احمد یہ کبوتر انوالی سے اس مسجد میں پڑھا اور ترجمہ کا اکثر حصہ حضرت والد صاحب سے.کچھ تعلیمی کوائف آپ کی قلم سے سنئے.والدہ ماجدہ سے آپ کی محبت ، اور ان کی مثالی اطاعت ہمارے لئے سبق آموز ہے.آپ فرماتے ہیں:.وو والدہ صاحبہ کا دل نہایت ہی نرم اور شفیق تھا.اور خاص طور پر خاکساراس شفقت کا مورد تھا.کچھ تو اس لحاظ سے والدہ صاحبہ کو خاکسار کے ساتھ خاص اُنس تھا کہ پانچ بچوں کی وفات کے بعد خاکسار کو اللہ تعالیٰ نے رُشد تک پہنچنے کی مہلت عطا فرمائی.اور کچھ اس وجہ سے کہ چھوٹی عمر میں ہی خاکسار کو آشوب چشم کا عارضہ ہو گیا.اور اس کی کیفیت یہ ہوگئی کہ دس سال کی عمر سے لے کر سولہ سال کی عمر تک گرمیوں میں خاکسار بہت کم باہر نکل سکتا تھا.اور بعض دفعہ ہفتوں اندھیرے کمرے میں گزارنے پڑتے تھے.اس تمام عرصہ میں والدہ صاحبہ اکثر خاکسار کے ساتھ رہا کرتی تھیں.اس طرح خاکسار کو اُن کی صحبت بھی خصوصیت سے میسر آتی رہی.اور پھر دل را بدل رہیست‘ کے ماتحت خاکسار کو بھی معمول سے بڑھ کر اُن کے ساتھ محبت ہوتی گئی.یوں تو اُن کا دل محبت اور شفقت کا ایک جاری چشمہ تھا.جو اپنے اور پرائے کا امتیاز نہ جانتا تھا.اور اپنے تمام متعلقین اور خصوصیت سے اپنی تمام اولاد کے ساتھ تو انہیں محبت کا گہرا تعلق تھا.لیکن خاکسار کے اور والدہ صاحبہ کے درمیان جو رشتہ تھا.اُس کی کیفیات کو ہمارے دو دل ہی جانتے تھے.جنازہ مبارک کے ہمراہ ریل پر لاہور سے روانہ ہونے والے خدام میں سے بعض کے اسماء جو وو مرقوم ہیں، ان میں ”مسٹر تیمور اور ظفر اللہ بھی شامل ہیں.
45 وو والدہ صاحبہ کو ہر عزیز سے جدائی بہت شاق گزرتی تھی.لیکن خاکسار سے جُدائی کا برداشت کرنا انہیں بہت دشوار ہو جایا کرتا تھا.۱۹۰۷ء میں جب خاکسارانٹرنس کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا اور پہلی دفعہ لمبے عرصہ کے لئے گھر سے باہر رہنا پڑا تو والدہ صاحبہ نے اصرار کیا کہ میں ہر ہفتہ اُن کی خدمت میں حاضر ہوا کروں.لیکن چونکہ ہر ہفتہ لاہور سے سیالکوٹ جانا مشکل تھا.اس لئے خاکسار اوسطاً ہر دوسرے ہفتہ اُن کی خدمت میں حاضر ہو جایا کرتا تھا.ہر دفعہ واپس جاتے وقت تاکید فرمایا کرتی تھیں کہ لاہور پہنچتے ہی اپنے بخیریت لاہور پہنچ جانے کی اطلاع دینا.خاکسار پر انہیں حسنِ ظن بھی تھا.۱۹۱۰ء کی گرمیوں کی تعطیلات میں خاکسار بی.اے کے امتحان کی تیاری کے لئے ایبٹ آباد چلا گیا.تعطیلات کے آخری حصہ میں رمضان کا مہینہ آ گیا.جب خاکسار تعطیلات کے آخر میں سیالکوٹ واپس پہنچا تو والدہ صاحبہ نے خاکسار سے کہا کہ تمہارے والد تو قیاس کرتے تھے کہ تم نے روزے نہیں رکھے ہوں گے.لیکن میں باصرار کہتی رہی کہ میرے بیٹے نے ضرور روزے رکھے ہوں گے.اب بتاؤ.ہم دونوں میں سے کس کا قیاس درست تھا.میں نے عرض کی کہ آپ کا قیاس درست تھا.میں نے اللہ تعالی کے فضل سے تمام روزے رکھے ہیں بلکہ آج بھی باوجو دسفر کے میرا روزہ ہے ( اس وقت خاکسار کی عمر ۱۷ سال تھی.ابھی خاکسار پر یہ واضح نہیں تھا کہ سفر کے دن رمضان کا فرض روزہ نہیں رکھنا چاہیئے ).1911ء میں خاکسار نے بی.اے کا امتحان پاس کیا اور والد صاحب کی یہ خواہش ہوئی کہ خاکسار کو مزید تعلیم کے لئے انگلستان بھیجا جائے.ان کی ہدایت کے ماتحت خاکسار نے حضرت خلیفہ اصیح اول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عریضہ لکھا اور والد صاحب کی خواہش کے مطابق انگلستان جانے کے لئے حضور سے اجازت طلب کی.حضور نے ہدایت دی کہ والد صاحب اور خاکسار دونوں استخارہ کریں.استخارہ کے بعد اگر طبیعت میں اطمینان ہو تو خاکسار انگلستان چلا جائے.چنانچہ ہم دونوں نے استخارہ کیا.اور کوئی امر مانع نہ پا کر خاکسار نے والد صاحب کی ہدایت کے ماتحت انگلستان کے سفر کی تیاری شروع کر دی.دو والدہ صاحبہ کو خاکسار سے اس قدر لمبی جدائی گوارا نہ تھی.اور اُن کی یہ خواہش تھی کہ کوئی ایسا فیصلہ خاکسار کی آئندہ تعلیم کے متعلق ہو جائے جس کے نتیجہ میں خاکسار کو اتنا لمبا سفر نہ اختیار کرنا
46 پڑے.اور نہ والدہ صاحبہ سے اس قدر لمبا عرصہ الگ رہنا پڑے.لیکن جب فیصلہ ہو گیا تو آخر انہیں بھی اس پر رضامند ہونا پڑا.گو اُن کی رضا مندی بادل نخواستہ ہی تھی.اگست ۱۹۱۱ء کے آخر میں خاکسار سیالکوٹ سے روانہ ہوا.والد صاحب ، والدہ صاحبہ اور ماموں صاحب بھی ہمراہ تھے.اوّل تو ہم سب قادیان حاضر ہوئے.جہاں تک مجھے یاد ہے، یہ والدہ صاحبہ کے قادیان حاضر ہونے کا پہلا موقعہ تھا.اور اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکانات کو دیکھ کر والدہ صاحبہ نے پہچان لیا کہ یہی مکانات اُنہوں نے اپنے ایک رویا میں دیکھے تھے.اور اس سفر کے متعلق اتفاق بھی ایسا ہوا کہ ہم سیالکوٹ سے فجر سے کچھ پہلے روانہ ہوئے اور عصر کے وقت قادیان پہنچے.جو والدہ صاحبہ کے سات سال قبل کے رویا کے عین مطابق تھا.ہم ایک دن ہی قادیان ٹھہرے.اس موقعہ پر مجھے یاد ہے کہ حضرت ام المومنین نے کمال شفقت سے ہم سب کے لئے اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کیا.دوسرے دن ہم سب لوگ امرتسر تک اکٹھے گئے اور وہاں سے خاکسار والد صاحب کے ہمراہ بمبئی کی طرف رونہ ہوا.بمبئی سے والد صاحب خاکسار کے جہاز پر سوار ہو جانے کے بعد واپس سیالکوٹ تشریف لے گئے.خاکسار نے بعد میں سُنا کہ امرتسر سے روانہ ہوتے ہی والدہ صاحبہ کونش آ گیا.اور سیالکوٹ تک کے سفر کا اکثر حصہ اُن کا اسی حالت میں گزرا.اکثر فرماتیں کہ اُن دنوں جو میری کیفیت تھی.اُس کا اس سے اندازہ کر لو کہ تمہارے چلے جانے کے دو چار روز بعد جب تمہارے والد کے سیالکوٹ واپس پہنچنے کا دن آیا.تو تمہاری دادی صاحبہ نے جو اُن دنوں سیالکوٹ ہی مقیم تھیں ، کہنا شروع کر دیا: الحمد للہ آج میرا بیٹا واپس گھر پہنچ جائے گا.“ اُن کے ایک دفعہ ایسا کہنے پر تو میں خاموش رہی.لیکن جب اُنہوں نے تھوڑے تھوڑے وقفہ پر دو تین دفعہ ایسا کہا تو میں نے اپنی وحشت میں اُن سے کہہ دیا: پھوپھی جان آپ کیوں بار بار اپنی بے تابی کا اظہار کر رہی ہیں.آپ کا بیٹا کہیں سمندر پار نہیں گیا.اگر آج نہیں آئے گا تو کل آجائے گا.“ فرماتی تھیں کہ میں جب اس واقعہ کو یا د کرتی ہوں تو ایک ندامت سی محسوس کرتی ہوں کہ میں نے کیوں ایسا کہا.لیکن یہ فقرہ بے اختیاری میں میرے منہ سے نکل گیا.
47 انگلستان میں خاکسار کے قیام کا عرصہ والدہ صاحبہ کے لئے بہت ہی پریشانی کا زمانہ تھا.خاکسار تو اتنا ہی کر سکتا تھا کہ ہر ڈاک میں باقاعدہ خط لکھتارہتا.چنانچہ اس میں خاکسار نے اس تمام عرصہ میں کبھی ناغہ نہیں ہونے دیا.انگلستان جانے کے وقت خاکسار کی عمر اٹھارہ سال کی تھی.وہاں پہنچ کر جب طبیعت میں جُدائی کا احساس پیدا ہوا.اور والدین کی شفقت کا حقیقی اندازہ ہونے لگا تو خاکسار کے دل میں بھی اپنے والدین کے لئے ایک نئی محبت پیدا ہوگئی اور متواتر ترقی کرتی گئی.چنانچہ ایک موقعہ پر خاکسار نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں خصوصیت سے ایک عہد کے طور پر لکھا کہ میں آپ کے لئے محبت کا ایک بحر بے پایاں اپنے ساتھ لاؤں گا اور یہ جذ بہ بڑھتا چلا جائے گا اور اس میں انشاء اللہ کبھی کمی نہیں آئے گی.اس عہد کے اظہار کے بعد اللہ تعالیٰ نے والدہ صاحبہ کو پچیس برس اور زندگی عطا فرمائی اور خاکسار کو اپنے فضل اور رحم سے اس عہد کے پورا کرنے کی توفیق عطاء فرمائی.فَالْحَمْدُ اللهُ عَلَىٰ ذَالِک.اب جبکہ وہ اپنے مولا کے حضور چلی گئی ہیں.اور ہمارے درمیان ظاہری اور عارضی جُدائی ہو گئی ہے.میرے دل کی تو وہی کیفیت ہے.بلکہ محبت اور حسرت نے مل کر ایک عجیب نئی کیفیت پیدا کر دی ہے.اُن کے احساسات کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے.خاکسار ا بھی تعلیم کے سلسلہ میں انگلستان ہی میں مقیم تھا کہ آخر جولائی ۱۹۱۴ء میں یورپ میں جنگ چھڑ گئی.اور شروع اگست میں انگلستان بھی جنگ میں شامل ہو گیا.جنگ کی وجہ سے آمد و رفت کے سلسلہ میں بعض رکاوٹیں پیدا ہوگئیں اور ہندوستان اور انگلستان کے درمیان ڈاک کے آنے جانے میں بھی ایک ہفتہ کا وقفہ بڑھ گیا.والدہ صاحبہ پہلے تو جنگ کی خبروں سے ہی گھبرائی ہوئی تھیں.جب ڈاک میں تو قف ہو جانے کی خبر سنی تو غش کھا کر گر گئیں.والد صاحب پہلے ہی اُن کے احساسات کا بہت خیال رکھتے تھے اور انہیں تسلی دیتے رہتے تھے لیکن اب اور بھی زیادہ احتیاط کرنے لگے.فرماتے کہ جنگ شروع ہو جانے سے لے کر تمہاری واپسی تک تین مہینہ کا عرصہ میرے لئے پہلے تین سالوں سے بڑھ کر مشکل ہو گیا.تمہاری والدہ کی بیقراری کو دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا تمہیں انگلستان بھیجنے میں میں کسی جرم کا مرتکب ہوا ہوں.آخر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تمہیں
48 1266 بخیریت واپس لے آیا تو تمہاری والدہ کی جان میں جان آئی اور میری جان بخشی ہوئی." عرصہ قیام ولایت کے تعلق میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی تحریر فرماتے ہیں : حضرت سید نا خلیفہ اسیج اول رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب آپ لنڈن میں بیرسٹری کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے جانے لگے.اور حضرت خلیفہ امسیح اوّل رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں بھی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں لندن جا رہا ہوں.حضور دُعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کامیاب فرما دے اور بانیل مرام واپس لائے.حضرت نے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو عند الملاقات بطور نصیحت فرمایا کہ آپ لندن جار ہے ہیں.لندن شہر دنیا کی زیب و زینت اور خوبصورتی کے لحاظ سے جاذب نظر مناظر کے لحاظ سے مصر سے بھی بڑھ کر سُنا جاتا ہے.آپ ہر صبح سورہ یوسف کی تلاوت کر لینا.* اس سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا.دوسرے کسی شہر میں سب کے سب لوگ شریر نہیں ہوتے.شریف طبقہ کے لوگ بھی ضرور ہوتے ہیں.اس لئے تعلقات اور نشست و برخاست کے لئے شرفاء کا انتخاب مفید رہے گا.چنانچہ آپ نے جب لنڈن میں جا کر تعلیم کا سلسلہ شروع کیا تو خواجہ کمال الدین صاحب بھی دو کنگ مسجد میں قیام رکھتے تھے اور تبلیغی سلسلہ میں کچھ کام بھی کرتے تھے.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب قریباً ہر روز صبح کے وقت سورۃ یوسف بعد نماز صبح تلاوت فرمایا کرتے اور بیرسٹری کی تعلیم تک لندن کے قیام کا زمانہ آپ نے ایسے طور سے گزارا کہ ایک دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب نے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی تقوی شعاری اور نمونہ اتقاء سے بحد کمال متاثر ہوکر حضرت محترم چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کو جو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے والد بزرگوار تھے.وہاں لندن سے خط لکھا کہ لندن شہر اس وقت اپنی زیب و زینت اور منظر دلکش اور حسن دلربا سے مصر بلکہ مصر سے بھی بڑھ کر ہے اور ظفر اللہ خاں اس میں یوسف کے اتقاء اور تقوی شعاری کی مثال میں پایا جاتا ہے حیات قدسی صفحہ ۱۰۰.بعد میں جبکہ چوہدری صاحب وائسرائے کی کونسل کے ممبر تھے اُن دنوں حضرت مولانا راجیکی صاحب نے خواب دیکھا کہ حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم چوہدری صاحب کی کوٹھی کے برآمدہ میں سورہ یوسف کی تلاوت فرما رہے ہیں اور چوہدری صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بلند آواز سے میرا یوسف، میرا یوسف کہتے ہیں (صفحہ ۱۰۰ ) اللہ تعالیٰ آپ کا وقت آنے پر خاتمہ بالخیر کرے.آمین
49 ایک دفعہ لاہور میں آپ مجھ سے تفسیر فوز الکبیر مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب پڑھا کرتے تھے.اثناء سلسلہ کلام فرمانے لگے.ایک دفعہ میں لندن کے بازار میں جارہا تھا.تو میری زبان پر گورو نانک صاحب کا یہ اشلوک جاری تھا اور ساتھ ہی میرے آنسو بہ رہے تھے.وہ اشلوک یہ تھا ڈتھا نور محمدی ڈٹھا نبی رسول نانک قدرت دیکھ کے خودی گئی سب بھول“ تمام افراد خاندان خلافت ثانیہ کی بیعت میں : محترم چوہدری صاحب نے اطلاع ملنے پر فوراً بیعت خلافت ثانیہ کر لی تھی.والدین کے تعلق میں تحریر فرماتے ہیں: مارچ ۱۹۱۴ء میں جب خاکسار ابھی انگلستان ہی میں تھا.حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا.والد صاحب نے خاکسار کو لکھا کہ حضور کی وفات پر جماعت میں یوں اختلاف ہو گیا ہے.یہ ایمان کا معاملہ ہے.میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ تمہیں کیا کرنا چاہیئے.صرف اتنا کہتا ہوں کہ جو کچھ کر وہ غور اور فکر کے بعد کرنا.جلدی نہ کرنا.اور والدہ صاحبہ نے خاکسار کو یہ لکھوایا کہ جماعت میں یہ طوفان برپا ہو گیا ہے.میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( ایدہ اللہ بنصرہ) کی بیعت کر لی ہے اور تمہارے بھائیوں اور بہن کی طرف سے بھی بیعت کا خط لکھوا دیا ہے.تمہیں نصیحت کرتی ہوں کہ اگر ابھی تم نے بیعت کا خط نہیں لکھا تو اب فورا لکھ دو.تاخیر ہرگز نہ کرنا.قارئین کرام کے ازدیاد ایمان کے لئے خواجہ کمال الدین صاحب کے متعلق چوہدری صاحب کا PA بیان ذیل میں درج کرتا ہوں.تحریر فرماتے ہیں: ” میرے انگلستان جانے کے ایک سال بعد خواجہ کمال الدین صاحب بھی انگلستان تشریف لے گئے.۱۳ ۱۹۱۲ء کی سردیوں کا کچھ عرصہ تو خواجہ صاحب اسی مکان میں مقیم بھی رہے جس میں میری رہائش تھی.اسی دوران میں خواجہ صاحب بعض دفعہ خلافت کا تذکرہ بھی چھیڑ دیتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ خواجہ صاحب نے فرمایا خلافت کا بھی ( حضرت ) مولوی (صاحب ) کے بعد تنازعہ ہی ہو گا.آخر اس منصب کے اہل کون ہیں؟ محمود لیکن وہ بچہ ہے.محمد علی ہے وہ بہت حساس ہے.ذرا ذراسی بات پر رو پڑتا ہے.اور میں ہوں لیکن مجھ میں یہ نقص ہے کہ سچی بات منہ پر کہہ دیتا
50 ہوں.جس سے لوگ مجھ سے خفا ہو جاتے ہیں.میں نے کہا.ایک خلیفہ موجود ہے، اس کے بعد جسے خدا چاہے گا.کھڑا کر دے گا.آپ اس فکر میں کیوں پڑتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح نے لاہور والی تقریر میں وضاحت فرما دی ہے کہ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں.اس پر خواجہ صاحب نے فرمایا.کہ مفتی محمد صادق صاحب ہمارے خلاف تو ہر بات اخبار میں درج کر دیتے ہیں.ہمارے حق کی بات نہیں لکھتے.اس سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ ۱۳- ۱۹۱۲ء میں خواجہ صاحب خلافت کے جاری رہنے کے حق میں تھے ، البتہ انہیں یہ فکر تھی کہ حضرت خلیفہ اول کے بعد خلیفہ کون ہو.انہی ایام کا ذکر ہے کہ خواجہ صاحب اور میں ایک دفعہ سینیما میں ملکہ الزبیتھ کا ڈرامہ دیکھنے کے لئے گئے.اس میں ایک منظر یہ تھا کہ ارل آف ایسکس کو بغاوت کے جرم میں موت کی سزا ملتی ہے.ایک لکڑی کے چبوترے پر جلا دکلہاڑی لئے کھڑا ہے.ایسکس کو اس چبوترے پر لٹا دیا گیا.اور اس نے اپنا سر کلہاڑی کے ایک بلاک پر رکھ دیا.جو نہی جلا د نے تصویر میں کلہاڑی اُٹھائی کہ ایسکس کا سر قلم کر دے تو خواجہ صاحب سخت دہشت زدہ ہو گئے.اور نہایت اضطراب کی حالت میں مجھ سے کہنا شروع کیا کہ اُٹھو جلدی اُٹھو.یہاں سے نکل جائیں.چنانچہ میں بھی خواجہ صاحب کی حالت دیکھ کر گھبرا گیا.اور اُن کے پیچھے پیچھے باہر نکل آیا.باہر نکل کر خواجہ صاحب نے مکان کا رستہ تو نہ لیا.ایک ایسی سڑک پر سراسیمگی کی حالت میں چلتے گئے.جو دریا پار ایک کھلے علاقہ کی طرف جاتی تھی.کوئی نصف میل تک جا کر اُن کی طبیعت سنبھلی تو اُنہوں نے مجھ سے دریافت کیا.تم کچھ سمجھے میری پریشانی کی کیا وجہ تھی ؟ میں نے کہا.مجھے تو یہی خیال ہوتا ہے کہ شاید آپ کو سردی سے کچھ تکلیف ہو گئی.خواجہ صاحب نے کہا نہیں مجھے سردی سے تو اِس مُلک میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی.میں تو اس منظر کو دیکھ کر ڈر گیا تھا.کیونکہ مجھے اپنا ایک خواب یاد آ گیا تھا.خواجہ صاحب نے کہا کہ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب مئی ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے مکانوں میں لا ہو ر ٹھہرے ہوئے تھے.میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے اور مولوی محمد علی اور تین چار اور لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے.اور ہم سے کہا گیا ہے کہ تم لوگوں نے بغاوت کی ہے.تمہیں بادشاہ کے سامنے پیش کیا جائے گا.چنانچہ ہمیں ایک ایسے کمرہ میں لے جایا گیا جو چیف کورٹ کے فرسٹ بینچ کے کمرے کی طرح ہے.اور اس کے ایک طرف ایک چبوترے پر تخت بچھا ہوا ہے.جس پر بادشاہ بیٹھا ہے.میں
51 نے غور سے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ بادشاہ مولوی نورالدین صاحب ہیں انہوں نے حلم سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے.بتاؤ تمہیں کیا سزا دی جائے.میں نے عرض کیا کہ آپ اب بادشاہ ہیں جیسے چاہیں تجویز کریں.اس پر مولوی صاحب نے کہا.اچھا ہم تم کو جلا وطن کرتے ہیں.اس کے تھوڑے عرصہ بعد حضرت صاحب کی وفات ہوگئی اور مولوی صاحب خلیفہ ہو گئے.پھر دوسری دفعہ میں نے خواب دیکھا کہ ہم پھر گرفتار کئے گئے ہیں اور مثل سابق ہماری پیشی بادشاہ کے سامنے ہوئی.اس دفعہ مولوی صاحب نے فرمایا تم نے دوبارہ بغاوت کی ہے.ہم حکم دیتے ہیں کہ تمہارا سرکاٹ ڈالا جائے.چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں مجھے ایک ایسے چبوترے پر لٹا دیا گیا.جیسا اس تصویر میں تھا.اور جلا د نے کلہاڑی میری گردن پر چلائی جس سے میں سخت خوفزدہ ہو کر بیدار ہو گیا.اور بیدار ہو کر بھی بہت عرصہ اس خواب کی دہشت اور ہیبت مجھ پر طاری رہی.اب جو میں نے وہی نظارہ تصویر میں دیکھا تو ویسے ہی میری طبیعت پر خوف طاری ہو گیا اور میں اس کی برداشت نہ کر سکا.اختلاف کا علم ہونے پر میں نے خواجہ صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ اگر خلیفہ کی ضرورت نہیں تو آپ نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت کیوں کی تھی.انہوں نے کہا.غلطی ہو گئی تھی.میں نے کہا کہ پہلی بار کی غلطی کے بعد پھر آپ نے دوبارہ یہ غلطی کیوں کی ؟ خواجہ صاحب نے کچھ جھنجلا کر کہا.جھک ماری تھی ! بعد میں انہوں نے غلطی کو بیعت تو بہ اور جھک“ کو بیعت ارشاد سے تعبیر کیا.خواجہ صاحب کے ساتھ وقتاً فوقتاً جو گفتگو ان مسائل کے متعلق ہوتی رہی وہ حضرت خلیفہ اول کی وفات پر میرے لئے جماعت کے اختلاف کے معاملہ میں بہت رہنمائی کا موجب ہوئی.اور اختلاف کی تفصیل کا علم ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی بیعت کی توفیق مل گئی.فالحمد للہ علی ذالک.٢٩٤ آپ بیان فرماتے ہیں کہ والدین نے کیونکر بیعت کی : اس موقعہ پر بھی والدہ صاحبہ نے اپنے رویا اور خوابوں کی بناء پر فوراً بیعت کر لی.والد صاحب نے چند دن کے توقف کے بعد بیعت کی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ( ایدہ اللہ بنصرہ) نے کئی دفعہ فرمایا ہے کہ بعض دفعہ والدہ صاحبہ کے رویا کا اور حضور کے رویا کا تو ارد ہو جاتا تھا.اللہ تعالی اپنے فضل سے والدہ صاحبہ کو بھی بعض باتیں اُسی رنگ میں دکھا دیتا تھا.جس رنگ میں وہ حضور کو دکھائی
52 642 جاتی تھیں.چنانچہ اس موقعہ پر بھی والدہ صاحبہ کے ایک رؤیا کے متعلق حضور کا یہی خیال تھا.والدہ صاحبہ نے دیکھا کہ طغیانی آگئی ہے اور گلی کوچوں میں پانی بہت سرعت سے چڑھ رہا ہے.لوگ اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ گئے ہیں.اتنے میں آوازیں آنی شروع ہوئیں کہ ایک خرگوش پانی میں تیرتا پھرتا ہے، جو باتیں کرتا ہے.پھر وہ خرگوش ہمارے مکان کے صحن میں آ گیا.ایک لکڑی کے تختہ پر بیٹھا ہوا تھا.اور وہ تختہ پانی میں تیرتا پھرتا تھا.والدہ صاحبہ نے اوپر کی منزل سے اُسے مخاطب کر کے کہا : خواجہ کیا تم باتیں کرتے ہو ؟ خرگوش نے جواب دیا.”ہاں.والدہ صاحبہ نے کہا ”خواجہ دیکھو کہیں ڈوب نہ جانا.خرگوش نے جواب دیا.اگر میں ڈوب گیا تو کئی اور لوگوں کو ساتھ لے کر غرق ہونگا.انہی ایام میں والدہ صاحبہ نے ایک رؤیا دیکھی کہ ایک وسیع میدان میں بہت سے لوگ جمع ہیں.اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی واقعہ کی انتظار میں ہیں.تھوڑی دیر کے بعد زمین سے ایک روشنی نمودار ہوئی جو بجلی کے ایک بہت روشن لیمپ کی صوررت میں تھی.اور آہستہ آہستہ وہ زمین سے بلند ہونی شروع ہوئی.اس طور پر کہ گویا اُس کے نیچے کوئی کل ہے.جس کے زور سے وہ بلند ہو رہی ہے.جو نہی یہ روشنی نمودار ہوئی.اکثر لوگ اُس کی طرف متوجہ ہو گئے.اور دوڑ کر اس سے قریب ہونے کی کوشش کرنے لگے.تا کہ اس نور کو قریب سے دیکھ سکیں.والدہ صاحبہ بھی اس روشنی کی طرف بڑھیں.اور والد صاحب کو آواز دی جلد آئیں اور قریب سے اس نور کو دیکھیں.ورنہ یہ نور قدِ آدم سے اوپر چلا جائے گا.تو اس کے دیکھنے کا لطف نہ رہے گا.جوز میں کے قریب سے اسے دیکھنے میں ہے.چنانچہ والد صاحب بھی والدہ صاحبہ کے پیچھے اس نور کی طرف جلد جلد بڑھنے لگے.اور دونوں کے دیکھتے دیکھتے یہ نور بلند ہوتا گیا.اور پھیلتا گیا.حتی کہ آسمان تک بلند ہو گیا اور اس کی روشنی سے تمام میدان منور ہو گیا.والدہ صاحبہ نے دیکھا کہ بعض لوگ جو اوور کوٹ اور ترکی ٹوپیاں پہنے ہوئے ہیں.کچھ فاصلہ پر ایک نہر کے کنارے کھڑے ہیں.اور اس نور کی طرف ان کی التفات نہیں.والدہ صاحبہ نے والد صاحب سے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں.اور کیوں اس روح افزاء نظارہ کی طرف توجہ نہیں کرتے.والد صاحب نے جواب دیا کہ یہ لوگ پانی کی روکو دیکھ رہے ہیں کہ کس طرف سے آتا ہے اور کس طرف کو جاتا ہے.
53 وو والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارے والد کی طرف سے جب اس موقعہ بیعت کرنے میں توقف ہوا تو مجھے سخت گھبراہٹ ہونے لگی.میں بہت دُعائیں کیا کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلد صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.”ہمارے مکان پر اُن دنوں بہت جمگھٹا لگا رہا کرتا تھا.اور اختلاف کے متعلق بحث جاری رہا کرتی تھی.ایک دن جب بہت سے لوگ جمع تھے.اور زورشور سے بحث جاری تھی.یہاں تک کہ بعض لوگوں کی آواز میں دوسری منزل پر بھی پہنچ جاتی تھیں.میری طبیعت میں بہت قلق پید ا ہوا کہ تمہارے والد کیوں جلد فیصلہ نہیں کرتے اور کیوں اس قدر لمبی بحث میں پڑ رہے ہیں.اور اسی جوش میں میں نے سیڑھیوں کے دروازے کو بہت زور سے کھٹکھٹایا.جس سے تمہارے والد کو ادھر توجہ ہوئی.اور وہ جلدی اور گھبراہٹ میں اوپر آئے اور بہت تشویش میں دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے.آپ نے اتنے زور سے دروازہ کیوں کھٹکھٹایا ؟ میں نے جواب دیا کہ میں آپ کے تعامل سے بہت گھبرا گئی ہوں.اور میں چاہتی ہوں کہ آپ جلد بیعت کرنے کا فیصلہ کریں اور ان بحثوں کو بند کریں.اور منکرین خلافت کو کہہ دیں کہ وہ بحث مباحثہ کے لئے یہاں نہ آیا کریں.اُنہوں نے مجھے تسلی دینے کی کوشش کی کہ میں غور کر رہا ہوں.عنقریب کوئی فیصلہ کروں گا.لیکن مجھے تسلی کہاں ہوتی تھی.ہر لحظہ جو اس حالت میں گذرتا.مجھے پہاڑ کی طرح بوجھل معلوم ہوتا تھا.اسی طرح چند دن اور گزر گئے.میں دُعاؤں میں لگی رہی.اور اپنی توفیق کے مطابق تمہارے والد کو سمجھانے کی کوشش بھی کرتی رہی.وہ بس مسکرا دیتے اور اتنا کہہ دیتے کہ غور کر رہا ہوں.میں پھر دُعاؤں میں لگ جاتی.آخر ایک روز عشاء کی نماز کے بعد اُنہوں نے کہا.میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مجھے بیعت کر لینی چاہیئے.مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے لئے تمام دنیا روشن ہو گئی ہے.میں نے فوراً اللہ تعالیٰ کا شکرا دا کیا اور اُن سے کہا کہ آپ ابھی خط لکھ دیں.انہوں نے کہا.ڈاک تو اب کل صبح ہی جائے گی.صبح خط لکھ دیں گے.میں نے منت کی کہ ابھی لکھ دیں.میر نہ کر یں.انہوں نے کہا کہ کیا خط کو سینہ پر رکھ کر سونا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ اصل بات تو یہی ہے.میں یہ تمام را تیں سو نہیں سکی.میں چاہتی ہوں کہ آپ بیعت کا خط لکھ دیں اور میں اُسے اپنے سینہ پر رکھ لوں اور اطمینان کی نیند سو سکوں.چنانچہ اُنہوں نے اُسی وقت خط لکھ کر مجھے دے دیا.اور میں نے اسے سینہ پر رکھ لیا اور سوگئی
54 اور صبح ہوتے ہی میں نے ڈاک میں بھجوا دیا.سید نا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ذیل کا مکتوب قابلِ مطالعہ ہے.حضور تحریر فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم مکرم شیخ صاحب - السلام علیکم.میں آپ کے لئے دُعا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ شفا عنایت فرمائے.سیالکوٹ کی حالت پر افسوس ہے.آپ ضرور باقی دوستوں سے مل کر اس فتنہ سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کریں اور اب جبکہ یہ لوگ صریح جھوٹ پر آمادہ ہیں.آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ جو صحیح واقعات آپ کو معلوم ہیں.انہیں لوگوں پر ظاہر کریں.تاکہ لوگ غلط فہمی سے محفوظ رہیں اور ان لوگوں کی قربانی کا حال انہیں معلوم ہو.اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے.شکی یا بدظنی پر محمول بات کوئی نہ ہو.استغفار بہت کریں تا منہ سے کوئی بات ایسی نہ نکلے جو غلط ہو.یا جس کے بیان کرنے میں نیت نیک نہ ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں نفسانی خواہشات اور کینہ تو زیوں سے محفوظ رکھے.عداوت سے کوئی کام نہ کریں.بلکہ اخلاص اور تائید حق کے لئے.حدیث میں ہے.اتنی دشمنی نہ کرو کہ بعد میں پچھتانا پڑے اور اتنی دوستی بھی نہ کرو کہ بعد میں پچھتانا پڑے.سو ان نصائح کو یا درکھ کر مناسب تدابیر سے غافل نہ ہوں.مجھے سیالکوٹ پر رحم آتا ہے.وہاں کی جماعت کو ثابت قدم رکھنے کے لئے بہت کوشش کریں.حافظ روشن علی صاحب کو بھیجا ہے.وہ کچھ دن انشاء اللہ سیالکوٹ ٹھہریں گے.چوہدری نصر اللہ خاں صاحب نے بیعت کر لی ہے.میں نے ان کے لئے اور ایک اور شخص کے لئے دُعا کی تھی.سوخدا تعالیٰ نے فی الحال تو انہیں کو چُنا ہے.اس لئے میں انہیں کو حقدار سمجھتا ہوں.اللہ تعالیٰ جماعت پر رحم فرما دے.یہ لوگ کس طرف چلے جا رہے ہیں.خدا کے کام کوئی نہیں روک سکتا.اگر میرا قیام خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہے، اور مجھے اس کے فضل سے امید ہے کہ ایسا ہی ہے.تو یہ لوگ خواہ کس قدر ہی مخالفت کر لیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناکام و نامرادر ہیں گے.افسوس کہ وہ تلوار جو غیروں پر چلنی تھی ، اپنوں پر چلانی پڑی.اور وہ زور جو غیروں کے مقابلہ پر خرچ کرنا تھا.اپنوں پر کرنا پڑا.بہتر ہوتا.اگر یہ نہ ہوتا.اللہ تعالیٰ کے نشانات کیوں کر ظاہر ہوتے.کس طرح ہوسکتا تھا کہ سوئی ہوئی جماعت پھر جاگتی.اگر اس طرح شور نہ پڑتا.کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.‘ نامی ٹریکٹ کی پچاس کا پیاں بھیجی گئی ہیں.اگر اور ضرورت ہو تو بھجوا دی جائیں گی.غالباً چودھری صاحب یا
55 مولوی فیض الدین صاحب کے نام بھیجی گئی ہیں.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد سب احباب کو تاکید کریں کہ دُعاؤں سے کام لیں اور نفسانیت کو ترک کر دیں.ایسا نہ ہو کہ ہماری غلطیوں سے خدا کے فضل کے دروازے بند ہو جائیں.جس قدر جانیں ہو سکے بچانے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ سب لوگوں کے ساتھ ہو.خاکسار مرز امحمود احمد * الفضل ۶/۴/۲۶ و الحکم جوبلی نمبر (۲۸/۱۲/۳۹ ) یه مکتوب مکرم شیخ عبدالحمید صاحب آڈیٹر حال مقیم لاہور ) کے نام ہے (اس کا عکس سن رائز میں بھی شائع ہو چکا ہے ) مؤقر الحکم مورخہ ۳/۱۴/ ۲۸ ( ص ۶/۸) میں زیر عنوان حق کس طرح غالب آ رہا ہے.مرقوم ہے: سیالکوٹ شہر سے بھی بیعت کے خطوط آنے شروع ہو گئے.چوہدری 66 نصر اللہ خان پلیڈر نے بیعت کر لی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا مکتوب مورخہ ۲۶ / مارچ سے ظاہر ہے کہ حضرت چوہدری صاحب کی بیعت کا خط زیادہ سے زیادہ ۲۵ / مارچ کو سپر د ڈاک کیا گیا ہوگا.گویا آپ نے بارہ دن کے اندر بیعت کر لی.سیالکوٹ کے دوسرے فرد جن کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دُعا کی تھی ، گوان کا نام مکتوب میں درج نہیں لیکن وہ یقیناً حضرت میر حامد شاہ صاحب تھے اس بارہ میں شواہد درج ذیل ہیں : (۱) حضرت چوہدری صاحب کی طرح دوسری نہایت با اثر شخصیت جماعت سیالکوٹ میں میر صاحب ہی تھے.اس لئے جماعت کی ہدایت کے لئے دُعا مقتضی تھی کہ ہر دو کے لئے دُعا کی جائے.(۲) ان کے بااثر ہونے کا اقرار پیغام صلح کو بھی ہے.لکھا ہے کہ ان کی شوری منعقدہ ۲۴ / مارچ نے ریزولیوشن پاس کیا کہ سید حامد شاہ صاحب سلسلہ کے ایک ملہم ، پارسا اور میتھی بزرگ ہیں.اور انہیں چار خلیفوں میں سے ایک خلیفہ بنایا.اور پھر لکھا کہ سید حامد شاہ صاحب کی خدمت میں عرض کی گئی کہ آپ بزرگ ہیں، آپ ہم کو خدا کے لئے مشورہ دیں.ہم سب کے لئے حضرت صاحبزادہ صاحب کی بیعت موجودہ حالات میں ضروری ہے تو آپ فرما ئیں تا ہم سب چل کر ان کی بیعت کر لیں.۳۲
56 لاہوری پارٹی نے جب خلیفے بنائے.تو انہیں بھی اس صفت میں لپیٹنے کی کوشش کی.مگر مرحوم نے ان کی پیشکش کو ٹھکرادیا تھا.“ ( بیان منشی نورمحمد صاحب) * مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل (امیر مقامی قادیان) نے بیان کیا کہ چوہدری صاحب محترم کی بیعت کا خط آنے پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بہت مسرور ہوئے تھے.۳۳ بقیہ حاشیہ: (۳) اس عرصہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے میر صاحب کے ہمراہ کنارہ پر سلامت پہنچ جانے کی رؤیا بھی دیکھی تھی.(۴) حضرت منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی کا بیان ہے کہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے پاس بیٹھا تھا کہ میر صاحب کا بیعت کا خط آیا.اور حضور اسی وقت اُٹھ کر اندرون خانہ تشریف لے گئے اور واپس آکر خط کا ذکر کیا اور بہت خوش تھے.منشی صاحب کہتے تھے کہ میرا خیال ہے کہ حضور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے تشریف لے گئے تھے.مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم اے ( مترجم قرآن مجید انگریزی ) کا بیان ہے کہ میں بھی اس مجلس میں موجود تھا.حضور پندرہ منٹ کے بعد تشریف لائے.بہت خوش تھے.فرمایا کہ میر حامد شاہ صاحب کا خط آ گیا ہے اور میں سجدہ شکر کرنے کے لئے گیا تھا.مجھے بہت خیال تھا کہ میر صاحب MY بہت مخلص ہیں یہ کہاں پھنس گئے ہیں اور خواہش تھی کہ انہیں قبول حق کی توفیق مل جائے“.میر صاحب کا بیعت کا خط الفضل ۸/۴/۱۴ میں درج ہے.جماعت سیالکوٹ ہر دو کے بغیر اپنے تئیں بے آسرا سمجھتے تھے.مکتوب منشی صاحب مرحوم ۱۵/۸/۵۸.آپ صدر انجمن احمد یہ کے قادیان میں ہیڈ کلرک رہے ہیں.قریباً دو سال ہوئے کوئٹہ میں وفات پائی.خاکسار کے استفسار پر آپ کا یہ مکتوب موصول ہوا تھا.مولوی صاحب محترم نے میرے استفسار پر یہ بات بیان کی اور بتایا کہ ان دنوں حضور حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ والے دار اسیح والے حصہ شمالی اُونچے کمرہ میں ڈاک کا مطالعہ فرماتے اور احباب سے ملاقات فرماتے تھے.یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کن احباب کے خطوط بیعت آئے ہیں.ڈاک آنے پر ہم وہاں حضور کی خدمت میں پہنچ جاتے تھے.اس کمرہ کو سیڑھیاں مغرب کی طرف سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ کے مکان کے صحن میں سے چڑھتی تھیں.چنانچہ میں جب اس روز پہنچا جبکہ حضرت چوہدری صاحب کا بیعت کا خط موصول ہوا تو حضور کو بہت ہی مسرت ہوئی.
57 ۳۷ منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی کے بیان سے بھی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ چوہدری صاحب اور میر حامد شاہ صاحب کی بیعت سے رکنے کی وجہ سے جماعت سیالکوٹ بھی رکی رہی تھی.ان بیانات اور حضور کے مکتوب سے ظاہر و با ہر امر ہے کہ اس وقت سیالکوٹ کی جماعت خصوصاً کیسے نازک دور میں سے گذر رہی تھی.اور حضرت چوہدری صاحب اور حضرت میر حامد شاہ صاحب کا بیعت سے رکے رہنا کس رنگ میں اثر انداز ہو رہا تھا.اسی لئے حضور نے ان دونوں کے لئے خاص طور پر دُعا بھی فرمائی تھی.اور اللہ تعالیٰ نے دُعا کو قبول فرمایا.پہلے چوہدری صاحب کو چنا اور اُن کو انشراح صدر مرحمت کیا.اور بقول حضرت عرفانی صاحب ( جو دوسری جگہ درج ہے) چوہدری صاحب کے ذریعہ جماعت سیالکوٹ کا احیاء عمل میں آیا.پہلی ہنگامی شوری: خلافت ثانیہ کے قیام کے جلد بعد ضروری مشورہ کے لئے ۱۲ را پریل ۱۹۱۴ء کو خلافت ثانیہ کی پہلی مشاورت مدعو کی گئی.جس میں حضرت چوہدری صاحب نے بھی شرکت کی تھی.تمام جماعتوں کو دودو نمائندے منتخب کر کے بھجوانے کی اطلاع دی گئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس روز ایک ایمان افروز تقریر میں انبیاء اور ان کی قائم مقامی میں خلفاء کا کام بتایا اور یہ بھی بتایا کہ حضرت خلیفہ اول کی آخری وصیت اس کی تشریح تھی.نیز اس قسم کے اعتراضات کے شافی جواب بیان فرمائے کہ خلیفہ صاحب مشورہ کے پابند نہیں.اس لئے مشورہ کا کیا فائدہ.انجمن کا حق غصب کیا ہے.یہ لوگ شیعہ ہیں.یہ پیر پرستی ہے، خلیفہ کی عمر چھوٹی ہے.اس نے کیا خدمت کی ہے.اگر خلیفے نہ ہوں تو کیا مسلمانوں کو نجات نہ ہوگی.جب مسلمانوں میں خلافت نہ رہی تھی تو اس وقت مسلمانوں کا کیا حال تھا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ جو تبلیغ کو وسعت دے کر تمام زبانوں کے جاننے والے مبلغ تیار کرنا اور ہندوستان میں تبلیغ کا جال پھیلانا اور دنیوی ترقی کے لئے اپنا کالج قائم کرنا چاہتے تھے ، اس کا ذکر فرمایا.یہ اس بارہ میں مشورہ طلب کیا کہ چونکہ انجمن کے بعض ممبروں نے بیعت خلافت نہیں کی ، اس لئے انتظام میں وقتیں پیش آتی ہیں.کیونکہ وہ ممبر سمجھتے ہیں کہ انجمن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جانشین ہے اور خلیفہ کے ماتحت نہیں ہے.حضور نے غور کے لئے اپنی تجاویز پیش کیں کہ
58 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک رؤیا کی بناء پر ہر قسم کا چندہ میری معرفت بھیجیں.مجلس شوری کی ایسی صورت ہو کہ ساری جماعت کا اس میں مشورہ ہو.فی الحال دو تین علماء بطور ممبر انجمن میں زائد کئے جائیں تا کہ اختلاف کی وجہ سے وقتیں نہ ہوں.یہ اجلاس مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کی صدارت میں ہوا.اس میں ایک یہ فیصلہ ہوا کہ : قواعد صدر انجمن کی دفعہ ۱۸ میں الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جگہ حضرت خلیفة المسیح مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی درج کئے جائیں.باتفاق آراء قرار پایا کہ یہ ریزولیوشن بخدمت مجلس معتمدین بذریعہ نواب محمد علی خان صاحب.سید محمد احسن صاحب.مرزا بشیر احمد صاحب.خلیفہ رشید الدین صاحب.مولوی شیر علی صاحب پیش کرائے جائیں اور ان حضرات کی خدمت میں نہایت ادب سے التماس کی جائے کہ اس درخواست کو بہت جلد آئندہ کے اجلاس میں پیش کرانے کا انتظام فرماویں.بنظر احتیاط حضور نے پسند فرمایا کہ اس شوریٰ کی تمام کا رروائی بالخصوص قاعدہ نمبر ۱۸ کی ترمیم اپنی اپنی جماعتوں میں سُنا کر ان کے فیصلے سے اطلاع دیں.چنانچہ اس قاعدہ کی تبدیلی کے متعلق چھیاسٹھ جماعتوں کے نمائندگان نے احباب کے دستخطوں سے درخواستیں بھجوا دیں.یہ جماعت کے قریباً ۳٫۴ کی آواز تھی.چنانچہ مجلس معتمدین نے جماعت کی اس درخواست کو اپنے ۲۶ اپریل کے اجلاس میں منظور کر کے فیصلہ کیا کہ ہر ایک معاملہ میں مجلس معتمدین اور اس کی ماتحت مجلس با مجالس اگر کوئی ہوں، اور صدر انجمن احمد یہ اور اس کی کل شاخہائے کے لئے حضرت خلیفہ امسیح مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی کا حکم قطعی اور ناطق ہوگا.“ موجودہ حالات میں نئی پود اس ساری کارروائی کو اچھنبا سمجھے گی.لیکن جیسا کہ میں قبل ازیں ذکر کر چکا ہوں.غیر مبائعین سرکردہ افراد اپنے اثر و رسوخ کا ناجائز استعمال کر رہے تھے اور یہ ضروری تھا کہ نہ صرف جماعتوں کے عہدیداروں بلکہ عام افراد پر ان کی فاش غلطی واضح کی سرورق منصب خلافت.الحکم ۲۱/۴/۱۴ میں ان ایک صد تنوے نمائندگان کے اسمائے گرامی میں نمبر پر آپ کا نام نامی ” چوہدری نصر اللہ خاں صاحب پلیڈر، پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ.( یعنی سیالکوٹ ) مرقوم ہے.اس اجلاس کی زیادہ تفصیل اصحاب احمد جلد دوم ص ۳۷۶ تا ۳۷۸) بلکه منصب خلافت میں قابل مطالعہ ہے.
59 جائے.تا احباب ایسے لوگوں کے جال میں نہ پھنس سکیں اور محفوظ رہیں.سیالکوٹ سے قادیان کو ہجرت : حضرت چوہدری صاحب صدر جماعت سیالکوٹ تھے.مضافات کی جماعتیں بھی شہر کی جماعت کے ساتھ ملحق تھیں اور آپ ان میں دورہ بھی کرتے تھے.اور شہر ومضافات کی تنظیم کی تقویت کا باعث تھے.حضرت میر حامد شاہ صاحب کی وفات اور حضرت چوہدری صاحب کے وہاں سے منتقل ہونے پر بہت زیادہ خلا محسوس کیا گیا اور جماعت شہر اپنے تئیں بے آسرا سمجھنے لگی.آپ صدرا انجمن احمد یہ ۱۹۱۰-۱ ء ۱۲۰-۱۹۱۱ ء سالوں میں سیالکوٹ سے قریباً چودہ ہزار تین صد روپیہ چندہ مرکز میں وصول ہوا.مقامی ضروریات کیلئے دوسرے سال قریباً آٹھ صد روپیہ جمع ہوا.مقامی فنڈ میں گذشتہ سال کا بقایا قریباً پونے چھ صد روپیہ موجود تھا.مقامی ضروریات پر اس سال ایک ہزار روپیہ صرف کیا گیا.مقامی فنڈ کرایہ مکانات اور آٹا فنڈ کے علاوہ ختنہ.ترقی تنخواہ.ولادت شادی وغیرہ کی تقاریب پر وصول کیا جاتا تھا.چوہدری نصر اللہ خاں صاحب نے دورہ کر کے شاخوں کے حساب و کتاب کی پڑتال کی.نقائص دُور کرنے کے لئے ہدایات دیں تا حساب با قاعدہ رکھا جائے.قواعد کے مطابق کارروائی کرنے پر دو سال قبل اس انجمن کو یہ سرٹیفیکیٹ ملا تھا، گویا مران مجلس معتمدین کے انتخاب کے وقت یہ انجمن رائے دینے کا حق رکھتی تھی.اس ضلع میں یہ بھی بڑی خوبی کی بات ہے کہ کوئی شاخ براہ راست روپیہ نہیں بھیجتی ۲۸ جلسے اس سال خاص و عام ہوئے.یہ بھی مرقوم ہے کہ انجمن احمد یہ ضلع سیالکوٹ اپنے نظم اندرونِ ضلع کے لحاظ سے تمام جماعتوں میں اول درجہ رکھتی ہے.اور گذشتہ سال ایک لاکھ کے مستقل فنڈ میں سے ایک چوتھائی کی فراہمی کا وعدہ اس جماعت نے کیا تھا.(ص ۸۵) اس انجمن کی طرف سے قریباً پونے تین ہزار روپیہ چندہ برائے تعمیر مدرسہ تعلیم الاسلام مرکز میں وصول ہوا.( ریویو آف ریلیچنز ( اردو ) بابت اکتوبر ۱۹۱۲ء.ریویو با بت مئی ۱۹۱۳ء میں مرقوم ہے کہ حسب فیصلہ ( کہ باہر کی انجمنوں کے رجسٹرات حساب منگوا کر پڑتال کی جایا کرے) تین انجمنوں کے رجسٹرات منگوائے گئے.ان میں سے دو کے حسابات درست تھے.ان دو میں سے ایک انجمن سیالکوٹ کا حساب تھا.(صفحہ ۱۹۴) جلسہ سالانہ ۱۹۱۱ء میں حضرت میر حامد شاہ صاحب ہی نے یہ تحریک مستقل فنڈ کی فرمائی تھی اور یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر دیگر جماعتیں پون لاکھ جمع کر دیں تو
60 کے مشیر قانونی بھی تھے.اور ۱۹۱۴ء میں اس کے ممبر بھی مقرر ہوئے تھے.اور اپریل ۱۹۱۷ء میں قادیان میں ہجرت کر آئے.اس بارہ میں محترم چوہدری صاحب آپ کے فرزند اکبر کی قلم سے پڑھیئے.آپ لکھتے ہیں : پہلی دفعہ قادیان حاضر ہوئے تھے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی تھی کہ اگر حضور پسند فرمائیں، تو میں وکالت کی پریکٹس ترک کر کے اپنا تمام وقت دین کی خدمت میں صرف کروں.لیکن حضور نے فرمایا کہ آپ پر ٹیکٹس جاری رکھیں.اسی طرح حضور کے وصال کے بعد والد صاحب نے حضرت خلیفہ اسی اول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی تھی.لیکن آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جیسے فرمایا تھا ویسے ہی کر لیں.خلافت ثانیہ کا عہد شروع ہونے کے کچھ عرصہ بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ( ایدہ اللہ بنصرہ) نے والد صاحب سے فرمایا کہ آپ دین کی خدمت کے لئے اپنے تئیں کب وقف کریں گے.والد صاحب نے عرض کی کہ میں تو حاضر ہوں.جب حضور حکم دیں، وکالت ترک کر کے حضور کی خدمت میں آجاؤں.چنانچہ آپ نے اپریل ۱۹۱۷ء میں وکالت کی پریکٹس ختم کر دی اور چند ماہ بعد قادیان میں مستقل رہائش اختیار کر لی.اب والدہ محترمہ کی رہائش زیادہ تر ڈسکہ میں رہنے لگی.الده وزیر ہند، گورنر پنجاب اور وائسرائے ہند کی خدمت میں سپاس نامے: ۱۹۱۷ء میں ہندوستانیوں کا مطالبہ سیلف گورنمنٹ زور پکڑ جانے پر سیموئل مانٹیگو وزیر ہند ہندوستان آئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کا نقطہ نگاہ پیش کرنا ضروری سمجھا.چنانچہ احمدی وفد نے ۱۵ نومبر کو سپاسنامہ پیش کیا.جو محمد ظفر اللہ خان صاحب نے پڑھا.اس میں بتایا گیا کہ پڑھے لکھے طبقہ اور ان پڑھ طبقہ دونوں میں بے چینی ہے.اور غیر معمولی اصلاحات کا ہندوستان محتاج ہے.اور یہ درست نہیں کہ صرف ایک قلیل حصہ اصلاحات کا مطالبہ کر بقیہ حاشیہ: - ضلع سیالکوٹ پچیس ہزار روپیہ جمع کر دے گا.ان بزرگوں کی اعلیٰ تعلیم کے باعث ہی میر صاحب و چو ہدری صاحب سے محرومی پر احباب سیالکوٹ نے اس قدر خلا محسوس کیا کہ اپنے آپ کو بے آسرا سمجھنے لگے.۴۲
61 رہا ہے.ہم پوری طرح جائزہ لے سکتے ہیں، کیونکہ ہماری جماعت ہندوستان میں ہر طبقہ میں پھیلی ہوئی ہے.سیلف گورنمنٹ کا مطالبہ اس بے چینی کا باعث نہیں.بلکہ اس کے بواعث یہ ہیں.اول.بعض انگریز افسروں کا دیسیوں سے سلوک اچھا نہیں.وہ ذرا ذراسی بات پر گالیوں پر اتر آتے ہیں.یا بے تو جہی کرتے ہیں.اس سے اندر ہی اندر بے چینی پیدا ہوتی ہے.اور خواہ ایسے افسران کی تعداد قلیل ہو.چونکہ تبادلے ہوتے رہتے ہیں، اس لئے ایسے افسران سے بے چینی کا حلقہ بڑھتا رہتا ہے اور جو لوگ حکومت کے خیر خواہ تھے، وہ آج برطانوی راج کے مخالف ہیں.ہمیں علم ہے کہ ایک کالج کی ہڑتال میں بوجہ ہڑتال کے ناجائز سمجھنے کے احمدی طلباء شامل نہیں ہوئے.لیکن ان احمدی طلبہ نے بتایا کہ ہمارے دل دوسروں سے کم تکلیف محسوس نہیں کرتے.کیونکہ ہم نے اپنے کانوں سے انگر یز پرنسپل کو ہندوستانی طلبہ سے یہ کہتے سنا کہ تم ہمارے غلام ہو.دوم.انگریزوں اور دیسیوں میں جو امتیاز روا رکھا جاتا ہے وہ اضطراب پیدا کرتا ہے.ریلوں میں یورپین لوگوں کے لئے خاص کمرے مخصوص ہیں.قانون اسلحہ میں دونوں میں امتیاز رکھا جاتا.نو آبادیوں میں ہندوستانیوں سے بدسلوکی کی جاتی ہے.حالانکہ ہندوستان میں نو آبادیوں کے رہنے والوں کو خود ہندوستانیوں سے زیادہ حقوق حاصل ہیں.جب کسی یورپین کے ہاتھوں کوئی دیسی مارا جائے تو یورپین افراد پر مشتمل جیوری قریباً ہمیشہ کسی نہ کسی عذر پر یورپین ملزم کو بری قرار دے دیتی ہے یا معمولی سزا دیتی ہے.سوم.افزائش نسل وغیرہ کے باعث اقتصادی اور تمدنی حالت نے خطرناک صورت اختیار کر لی ہے.چہارم.تعلیم کا انتظام بہت کم ہے.صرف کتاب کا رٹنے والا تیار کرنا غیر مفید ہے.زمیندار کے لئے ایسی تعلیم چاہیئے جو باعلم زمیندار پیدا کر سکے.اور زیادہ خرچ تعلیم پر نہ اُٹھے.اور صنعت و حرفت و غیرہ مختلف فنون کی بھی تعلیم دی جانی ضروری ہے.اس سپاس نامے میں یہ امر بھی پیش کیا گیا کہ ہوم رول دیتے وقت اس امر کا اطمینان کر لینا کافی نہیں کہ کام سنبھالنے کے قابل لوگ پیدا ہو گئے ہیں یا نہیں بلکہ یہ بھی کہ کیا کوئی نقصان والی صورت تو رونما نہ ہوگی.ہمارے نزدیک ہندوستان میں شدید مذہبی اور نسلی اختلافات کے باعث وسعتِ حوصلہ اور بے تعصمی کی ایسی کمی ہے کہ جس کی نظیر دیگر ممالک میں نہیں پائی جاتی.اس لئے ہمارے
62 نزدیک ہندوستان ابھی سیلف گورنمنٹ کے لائق نہیں اور ابھی اس کا وقت نہیں آیا.ہندوستان میں ایسے مقامات بھی ہیں کہ جہاں مساجد کی تعمیر کی اجازت نہیں.بعض نے یہ فتاوی دیئے ہیں کہ فلاں فرقہ کے افراد کو قتل کرنا.ان کے اموال کو لوٹ لینا اور ان کی عورتوں کا اغوا جائز ہے.اقلیتوں کو فی الحال سخت نقصان پہنچے گا.ملازمتوں.امتحانات تجارت اور انتخابات سب میں شدید تعصب کارفرما ہے.عوام کی حالت یوں ہو تو ان کے انتخاب شدہ نمائندوں کو بھی عوام کو ساتھ رکھنے کے لیئے ان کا ساتھ دینا ہو گا.اور یہ امر ہندوستان کے لئے ہلاکت و مصیبت کا باعث ہوگا.دیگر بعض جماعتوں نے وائسرائے کی ویٹو پاور وغیرہ کی جو تجاویز پیش کی ہیں ، نہایت غیر مؤثر اور ناکافی ہیں اور ہمیشہ ان کو استعمال میں لانا ناممکن ہے.سو امور بالا کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ ہندوستانیوں میں سیاست کا صحیح علم پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.* اس بارہ میں صرف اس قدر ذکر کرنا ہی کافی ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ ( ایدہ اللہ تعالیٰ ) نے جن شدید خدشات کو اپنی دور بین نگاہ سے بھانپ لیا تھا.افسوس کہ وہ تمہیں سال بعد تقسیم ملک ہونے پر رونما ہوئے اور نہایت بھیانک اثرات چھوڑ گئے.۱۷؍ دسمبر ۱۹۱۹ ء کو لاہور میں جماعت احمدیہ کے وفد نے سر ایڈورڈ میکلیگن لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا.جس میں یہ امر بھی شامل تھا کہ گو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلیفہ کو خلیفہ مانتے ہیں نہ کہ خلیفہ ترکی کو لیکن مسلمانوں کے اس مطالبہ میں ہم ہمنوا ہیں کہ ترکوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت مسلمانوں کے احساسات کا پاس خاطر کیا جائے.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ایڈریس پڑھا.جس کا سر موصوف نے جواب دیا.اور آخر پر اس وفد کے بقیہ افراد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب (مَتَّعُنا اللهُ بِطُولِ حَيَاتِهِ ) نواب محمد علی خاں صاحب.چوہدری فتح محمد صاحب سیال.مولوی شیر علی صاحب سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب.مولوی غلام اکبرخاں صاحب ( بعدہ نواب اکبر یار جنگ بہادر دکن) اور خان بہادر راجہ پائندہ خاں صاحب (ضلع جہلم) تھے.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسی روز وزیر ہند صاحب سے جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی ترجمانی میں ملاقات بھی کی (ریویو آف ریجنز (اردو) بابت دسمبر ۱۹۱۷ء.الفضل ۱۷-۱۱-۲۰ ، الفضل ۱۷-۱۱-۷ ازمیر مدینہ اسی ، چوہدری صاحب کا حضور کے ہمرکاب دہلی جانے کا ذکر ہے.
63 حضرت مولوی شیر علی صاحب نے جماعت احمدیہ کا لٹریچر پیش کیا.اس صوبہ کے افسر اعلیٰ کو پیش کیا جانے والا یہ اولین جماعتی سپاس نامہ تھا.وفد میں چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم بھی شامل تھے.وو رض چار سال بعد ۲۳-۱۱- ۸ کو احمد یہ وفد پھر گورنر موصوف سے گورداسپور میں ملاقاتی ہوا.(اس میں ” چوہدری نصر اللہ خاں چیف سیکرٹری حضرت خلیفہ اسیح الثانی بھی شامل تھے.) اور قادیان میں تار گھر اور بٹالہ تک پکی سڑک بنانے کی طرف توجہ دلائی.کوائف پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ غیر ممالک میں بھی جماعت احمد یہ پھیلی ہوئی ہے اور ہر طبقہ کے لوگ قادیان آتے رہتے ہیں.اور ایک کافی تعداد نے قادیان میں اقامت اختیار کر لی ہے.اسی طرح کثرت سے لوگ مذہبی تعلیم کی خاطر بھی آتے ہیں.ہمارا ہائی سکول.دینیات کا کالج مبلغین کا تربیتی مدرسہ، زنانہ مدرسہ، ایک شفاخانہ اور چار چھا پہ خانے ہیں.بہت سے اخبارات جاری ہیں اور بہت سے دفاتر ہیں جن کی خط وکتابت دور دور تک پھیلے ہوئے احمدیوں کے ساتھ رہتی ہے.قصبہ قادیان علاقہ کا تجارتی اور صنعتی مرکز بن رہا ہے.اس لئے نہ صرف ہمیں بلکہ جماعت کے لاکھوں افراد جن کی یہاں ہمیشہ آمد و رفت رہتی ہے، بٹالہ تا قادیان پکی سڑک اور قادیان میں تار گھر نہ ہونے سے سخت تکلیف پاتے ہیں.اس کے جواب میں گورنر صاحب نے کہا کہ جب جماعت نے مجھے پہلے ایڈریس دیا تھا، اس وقت شرائط صلح ترکی کے باعث بہت تشویش پھیلی ہوئی تھی.لیکن اب آپ کو اطمینان ہوگا کہ ترکی اب گذشتہ چارسال کی نسبت بہت زیادہ طاقتور ہے.سڑک کے تعلق میں بتایا کہ اس خرابی کے باعث میں قادیان نہیں پہنچ سکا.اور گورداسپور میں آپ لوگوں کو بلایا ہے.لیکن یہ معاملہ ڈسٹرکٹ بورڈ سے تعلق رکھتا ہے اور تار گھر کا معاملہ بھی میرے اختیار میں نہیں.میں ان امور کو حکام متعلقہ تک الفضل ۱۹-۱۲-۲۲.اس اکاون افراد پر مشتمل وفد میں شامل ہونے والوں میں سے غالباً صرف ذیل کے احباب زندہ ہیں (متعنا الله بطول حياتهم) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ( حاجی ) چوہدی غلام احمد خاں صاحب (وکیل) پاک پٹن.مولوی فضل الدین صاحب وکیل مشیر قانونی صدرانجمن احمد یہ پینشنر حال مقیم ربوہ) مولوی محمد دین صاحب (حال ناظر اصلاح وارشاد.ربوہ) قاضی محمد عبداللہ صاحب (بھٹی ) مجاہد انگلستان (حال ناظر ضیافت پینشنز.ربوہ ) سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ( حال ناظر امور خارجیہ.ربوہ ).
64 پہنچا دوں گا.مجھے جماعت کی ٹیوٹیوریل کمپنی دیکھ کر بہت خوشی ہوئی.* تحفہ لارڈارون: تخته لا را ارون رقم کرد و حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اید واللہ تعالی خو بصورت کا سکٹ میں ایک دفد کے ذریعہ لارڈارون وائسرائے ہند کی خدمت میں ۸/ اپریل ۱۹۳۱ء کو دہلی میں پیش کیا گیا.یہ وفد چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر اعلیٰ ، مولانا عبدالرحیم صاحب درد قائم مقام ناظر امور خارجه ( رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) اور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب پر مشتمل تھا.اس تبلیغی رسالہ کے آغاز میں حضور نے اصولی طور پر مسلمانانِ ہند کے حقوق کی طرف بھی پر زور الفاظ میں توجہ دلائی تھی.اور دس ہزار افراد جماعت نے ایک ایک آنہ دے کر اس میں شرکت کی تھی.با قاعدہ شوری کا آغاز : ۴۳ لَا خِلافَةَ إِلَّا بِالْمَشُورَةِ کے مطابق مشورہ خلافت کے ساتھ لازم ہے.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۲۲ء میں با قاعدہ شوری کا آغاز فرمایا.اس سال ۱۵ و ۱۶ را پریل کو اس کا انعقاد عمل میں آیا.حضور نے بیان فرمایا کہ آمُرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمُ مسلمانوں کا شیوہ ہے.نیز شوری کی غرض اور دیگر کانفرنسوں اور شوریٰ میں کیا فرق ہے.بتاتے ہوئے فرمایا، کہ سابقہ کانفرنسیں سیکرٹری صدر انجمن کی طرف سے بلائی جاتی تھیں ، ان سے دو خیالات پیدا ہوئے.کانفرنس کے احباب نے سمجھا کہ کانفرنس فائق ہے.اس کا فیصلہ قطعی ہے اور مجلس معتمدین اس کے تابع ہے.صدر انجمن چاہتی تھی کہ فیصلہ انجمن کا ہی ناطق ہو.اور جماعت کی رائے کو اپنے ساتھ ملا کر پھر خلافت سے پیٹیں.لیکن چونکہ کانفرنس کے لئے مدعو احباب انجمن ہی کے خلاف ہو گئے ،اس لئے انجمن نے کانفرنس کو توڑ دیا.☆ الفضل ۲۳-۱۱-۱۶ و الحکم ۲۳-۱۱-۱۴ یہ وفد نو افراد پرمت ر مشتمل تھا.جن میں سے اب صرف حضرت مرزا بشیر احمد صاحب زندہ ہیں.مَتَّعَنَا اللهُ بِطُولِ حَيَاتِهِ ( آمین ) وفد سے ملاقات کا مختصر ذکر الفضل ۲۳-۱۱-۱۳ میں بھی زیر مدینہ اسیح " " مرقوم ہے.جیسا کہ ایک گذشتہ جلد میں ذکر کیا گیا ہے قادیان میں بٹالہ سڑک تقسیم ملک کے بعد پکی بن چکی ہے.
65 یہ شوریٰ بہت اہمیت کی حامل تھی.خلافت اور صدرانجمن احمدیہ کے باہمی تعلقات کے بارے میں جماعت کے ایک حصہ کے خیالات قابل اصلاح تھے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ خلیفہ کا کیا مقام ہے.انجمن خلافت کی موجودگی میں قائم رہتی ہے یا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں صدر انجمن کیونکر معرض وجود میں آئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں مشورہ کے طریق اور مشورہ دینے کے لئے ہدایات اور مشورہ کے اثر اور مجلس شوری کے طریق اور سب کمیٹیوں کے طرز عمل اور پر اپنی تقریر میں روشنی ڈالی.حضور نے بتایا کہ غرض یہ ہے کہ ایسے امور کے متعلق مشورہ لیا جائے کہ جن کا جماعت کے قیام اور ترقی سے گہرا تعلق ہے تا کام میں آسانی پیدا ہو.اور جماعت کو بھی ضروریات کا علم ہو سکے.اور وہ جان سکیں کہ چندہ کی آمد کا مصرف کیا ہے.شوری سے نئی تجاویز سوجھتی ہیں.چونکہ مقابلہ کا خیال نہیں ہوتا، اس لئے لوگ صحیح رائے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں.شوری کی وجہ سے خلیفہ ونگرانی کرنے میں سہولت میسر ہوتی ہے.حضور نے مشورہ کے لئے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ سے ہدایت کے لئے دعا کرے.ذاتی باتوں کو دل سے نکال دیں.صحیح بات ہی مانیں اور منوائیں.یہ خیال نہ کریں کہ ان کی رائے ہی ضرور مانی جائے.کسی کی پاس خاطر حق میں یا خلاف مشورہ نہ دیں.کیونکہ یہ بددیانتی ہے.رائے جلد بازی سے قائم نہ کریں اور اپنی رائے کو بے خطا نہ سمجھیں.واقعات کو مد نظر رکھیں اور صرف احساسات کی پیروی نہ کریں.تجاویز نہ صرف یہ کہ غلط نہ ہوں بلکہ اعلیٰ ہونی چاہئیں.وقت ضائع نہ کیا جائے اور تکرار نہیں ہونا چاہیئے.اس شوریٰ میں امراء کے تقرر کے بارے میں بھی غور ہوا کہ امارت کے کیا فرائض ہیں.امیر کا مقام کیا ہوگا.امیر کا تقر ر شرعی ہے یا نہیں.امارت اور سلطنت کا آپس میں کیا تعلق ہے.تالیف و اشاعت کے کام میں توسیع ، امیر طبقہ اور نیچ اقوام میں تبلیغ.کتب و اخبارات سلسلہ کی اشاعت کے متعلق تجاویز سوچی گئیں.یہ بھی فیصلہ ہوا کہ غیر ممالک کے مشن جاری رکھے جائیں.بلکہ نئے مشن بھی کھولے جائیں.حضور نے مرکزی صیغہ جات کے کام کی تفصیل بیان فرمائی.اور شوری میں لڑکیوں کی تو ،رشتے ناطوں کی مشکلات ، تنازعات مقامی ، بے روزگاری کے بارہ میں مشورہ ہوا.اور انجمن کی آمدنی کی زیادتی کے لئے مستقل تجاویز سوچی گئیں.سیکرٹریان تعلیم و تربیت کے فرائض کی تعیین کی
66 گئی.حضور نے مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بجٹ میں اس دفعہ تقریباً ستر ہزار اور پیہ کی کمی کی گئی ہے اور باوجود یہ کہ حکومت نے مہنگائی کے باعث تنخواہیں دگنی تگنی کر دی ہیں ہم نے اور بھی کمی کر دی ہے.اور سب نے خوشی سے منظور کر لیا ہے.ابھی تک کارکنوں کو پانچ پانچ ماہ کی تنخواہیں نہیں ملیں.قادیان کی دکانوں کا بھی دیوالیہ نکل گیا ہے مجھے علم ہوا ہے کہ ایک شخص کو دو تین وقت کا فاقہ ہے اور اسے ایک سیر آٹا نہیں ملتا.ابھی ایک شخص نے بتایا کہ ایک شخص کو میں نے شکل سے پہچانا.اسے کئی دن سے فاقہ تھا.اسے میں نے کچھ دیا تو اس نے راستہ میں اس میں سے آدھا کسی اور کو دے دیا.اسی طرح ایک شخص فاقہ سے بے ہوش ہو گیا اور میں نے کھانا کسی کے ہاتھ بھیجا اور تاکید کی کہ کھلا کر آنا.فرمایا کہ قادیان میں ایسے مخلص ہیں جو بھوک سے مر جائیں گے لیکن کام نہیں چھوڑیں گے.* اس وقت سلسلہ کی مالی حالت ناگفتہ بہ تھی.بیت المال پر ایک لاکھ روپیہ کا قرض تھا.کم از کم پچیس ہزار روپیہ چندہ خاص دوماہ کے اندر اندر جمع کئے بغیر کام کے بالکل بند ہونے کا خطرہ تھا.شوری پر سب کمیٹی نے آمد کے بڑھانے کے لئے بعض مستقل تجاویز پیش کیں.اور نگرانی کے لئے بعض احباب کا بطور انسپکٹر تقرر کرنے کی بھی تجویز رکھی.مجلس شوری نے بطور چندہ خاص ایک ایک ماہ کی آمد وصول کرنے کا فیصلہ کیا اور سب کمیٹی کے مجوزہ افراد کے علاوہ جنہیں بطور انسپکٹر تجویز کیا تھا.نمائندگان شوریٰ کو اپنے اپنے علاقہ کا ذمہ دار قرار دیا.نیز بعض علاقوں کے لئے بعض احباب کے نام زائد کئے.چنانچہ سیالکوٹ کے لئے سب کمیٹی نے چوہدری عبداللہ خاں صاحب داتا زید کا ، چوہدری غلام محمد صاحب پوہلہ مہاراں، چوہدری محمد حسین صاحب و میر عبدالسلام صاحب کے اسماء تجویز کئے تھے.شوریٰ نے ان اسماء پر چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کا نام بھی زائد تجویز کیا.رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ ) حضرت چوہدری صاحب اور آپ کے کئی ایک صاحبزادگان کو ان مشاورتوں میں شمولیت کے مواقع حاصل ہوئے ہیں بلکہ اس اولین شوری میں حضرت چوہدری صاحب کو صدر مقرر کیا گیا.بعد میں بہت سے اجلا سات میں سالہا سال تک یہ خدمت محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اس مشاورت میں مرکز کے تئیں اور بیرونی جماعتوں کے باون افراد نے شرکت کی.چوہدری نصر اللہ خاں صاحب نے بطور میر مجلس صدرانجمن احمد یہ شمولیت کی.
67 کو تفویض ہوتی رہی اور سب کمیٹیوں میں شمولیت کا افتخار بھی ہر دو کو حاصل ہوتا رہا.* فتنہ ارتداد ملکانه (الف) اولین مشاورت کے موقعہ پر دوسرے روز (۱۶/۴/۲۲ کو ) افتتاحی تقریر میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بولنے کی یہ ترتیب ہوگی، کہ جو پہلے کھڑے ہوں، وہ پہلے بولیں.ایک صاحب مقرر ہوں ، جو نام لکھیں اور ترتیب وارا نہیں بولنے کے لئے کہتے جائیں.اس کام کے لئے چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کو مقرر کرتا ہوں.اگر انہیں نام معلوم نہ ہوں تو پوچھ لیں.اگر انہوں نے زندگی وقف کی ہے (تو) خدمت دین کے لئے ، اس لئے انہیں ایسی واقفیت بہم پہنچانی چاہیئے کہ سب کے نام معلوم ہوں.(ایضاً صفہ ۳۲) آپ ۱۹۲۲ء سے ۱۹۲۵ ء تک شوری میں شامل ہوتے رہے.۱۹۲۴ء میں سب کمیٹی بابت نظام کے ممبر بھی تھے.(ص ۶۷) ۱۹۲۶ ء کی شوریٰ میں آپ شریک نہیں تھے.(ب) چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب.۱۹۲۲ء سے ۱۹۴۷ء تک (۱۹۳۶ء کی دو شورا ی شمار کر کے ) غالبا ستائیس شوری ہوئیں (۱۹۲۲ء.۱۹۲۹ء تا ۱۹۳۱ء.۱۹۳۵ء.۱۹۴۲ء و ۱۹۴۵ء میں گویا ) سات بار آپ نے شرکت کا موقعہ نہیں پایا.( اور ۱۹۴۷ء کی رپورٹ نہیں مل سکی.غالب طبع نہیں ہوئی.بقیہ انیس ۱۹ اجلاسات میں سے سترہ میں آپ صدر اجلاس مقرر ہوتے رہے.اس بارہ میں متعلقہ رپورٹوں کے صفحات برائے حوالہ درج ذیل کرتا ہوں : ۱۹۶۴ء (صفحہ ۱۲) یہ تیسری شور کی تھی.اس وقت آپ کی عمر اکتیس سال تھی.۱۹۲۵ء (صفحہ ۸) ۱۹۲۶ء.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے صدر اجلاس چوہدری صاحب کو مقرر کیا اور یہ بھی فرمایا کہ چونکہ وہ ایک سب کمیٹی کے صدر بھی ہیں.اس کمیٹی کی رپورٹ پیش ہونے پر ان کی جگہ خان صاحب مولوی فرزندعلی صاحب ( مرحوم ) کام کریں گے.اس موقعہ پر ایک عجیب بات ہوئی چوہدری صاحب کے اخلاق فاضلہ کو نمایاں کرتی ہیں.اس نے ظاہر کیا کہ انکسار کے خلق کا بہرہ وافر آپ کو ودیعت ہوا ہے اور ضد کی صفت آپ میں موجود نہیں.۴۵
68 جماعت احمدیہ کی دوسری شوری ( منعقدہ ۱۹۲۳ء میں سید نا حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ادنی اقوام میں تبلیغ کی اہمیت واضح کی اور فرمایا کہ وہ بھی ہمارے بھائی ہیں ، ان کو ادنی انہیں سمجھنا چاہیئے.اور یہ نہ خیال کریں کہ اگر یہ قومیں ترقی کر گئیں ، تو ہمارا کام کون کرے گا.اور فرمایا کہ اگر یہ بقیہ حاشیہ: اس شوری میں جب یہ تجویز پیش ہوئی کہ حضور کی خدمت میں درخواست کی جائے کہ بڑے بڑے شہروں کا دورہ فرمائیں اس پر چوہدری صاحب نے کہا کہ یہ کسی جماعت کی خوش قسمتی ہے کہ حضور اس کے ہاں تشریف لے جائیں لیکن اس قسم کی تجویز پیش ہونا گستاخی ہے اور میں اس کی سخت مخالفت کرتا ہوں.ایک بزرگ نے ( اشارۃ ) کہا کہ جن الفاظ میں مخالفت کی گئی ہے.ان اصحاب کا اخلاقی فرض ہے کہ ان الفاظ کو واپس لیں.چوہدری صاحب نے کہا کہ میں نے نیت پر حملہ نہیں کیا.سب کمیٹی نے وہ الفاظ محبت و عشق کے جوش میں پیش کئے ہیں.مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ محبت کے جوش میں گستاخی نہیں ہو سکتی لیکن چونکہ فلاں صاحب نے فرمایا ہے کہ میں ان الفاظ کو واپس لوں ، اس لئے میں اُن کا احترام کرتا ہوا ان الفاظ کو واپس لیتا ہوں تا کہ کسی کے جذبات کو صدمہ نہ پہنچے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس بارہ میں فرمایا کہ چوہدری صاحب کا مطلب یہ نہ تھا کہ سب کمیٹی کی نیت ہتک کرنے کی تھی.انہوں نے صرف الفاظ کو نا پسندیدہ قرار دیا تھا.میں چوہدری صاحب سے اس بات میں متفق ہوں کہ تجویز کے الفاظ موقعہ کے لحاظ سے ہتک آمیز تھے کیونکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ جماعت خلیفہ کے دروازہ پر جائے اور جا کر کہے کہ آپ تبلیغ کے لئے باہر نکلیں.خاکسار مؤلف کو پوری طرح علم ہے کہ الفاظ واپس لینے کے لئے کہنے والے بزرگ (مرحوم) اور چوہدری صاحب کے تعلقات ہمیشہ بہت ہی خوشگوار ر ہے.فالحمد للہ علی ذالک ۴۶ ۱۹۲۷ء ( صفحه ۱۳۳) ۱۹۲۸ء ( صفحه ۴۰ ) ۱۹۳۲ء ( صفحه ۲۴) ۱۹۳۳ء (صفحه (۲۱) ۱۹۳۴ء (صفحه ۲۲) اپریل و اکتوبر ۱۹۳۶ء ( صفحه ۱۳،۴۸) ۱۹۳۷ء تا ۱۹۴۱ء ( صفحه ۳۵، ۱۹، ۲۶، ۲۷، ۲۱).۱۹۴۳ء (صفحہ ۱۷) ۱۹۴۴ء ( صفحه ۳۴) ۱۹۴۶ء تقسیم ملک کے بعد چوہدری صاحب ان پندرہ سالوں کو اکثر حصہ یورپ و امریکہ میں رہے ہیں.۱۹۵۵ء کے اجلاس کی صدارت کے لئے حضور نے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے نہ آنے کی صورت میں ان کے بھائی چوہدری محمد عبد اللہ خاں صاحب مرحوم (امیر جماعت کراچی ) کو مقررفرمایا تھا لیکن دونوں ہی شامل نہیں ہو سکے.
69 اقوام اسلام کی آغوش میں نہ آئیں تو دوسرے مذاہب میں شامل ہو جائیں گی.آپ نے اس معاملہ کی سیاسی اہمیت کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے علاقہ ملکانہ میں ارتداد اور شدھی کے عظیم فتنہ کا ذکر بقیہ حاشیہ: یہ پہلا موقعہ تھا کہ حضور ایام مشاورت میں مرکز سے باہر تھے.حضور طبی مشورہ کے مطابق سفر یورپ پر روانہ ہونے کے لئے کراچی تشریف لے جاچکے تھے.(رپورٹ متعلقہ ) آپ ۱۹۲۳ء ۱۹۲۴ء میں ایک ایک سب کمیٹی کے ممبر بھی مقرر ہوئے.بابت اشاعت اسلام.اس کی رپورٹ بوجہ علالت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صد رسب کمیٹی آپ ہی نے شوری میں پڑھی (صفحہ ۲۷ ) بابت نظام.صدر حضرت مفتی محمد صادق صاحب بوجہ افسر صیغہ ہونے کے مقرر ہوئے تھے.(صفحہ ۶۷) دس بار آپ ذیل کی سب کمیٹیوں کے صدر بھی مقرر ہوئے : (۱) ۱۹۲۶ء.سب کمیٹی بہشتی مقبرہ سیکرٹری حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب.(۲) ۱۹۲۷ء میں آپ سب کمیٹی نظارت اعلیٰ کے صدر مقرر ہوئے.اس سب کمیٹی کے ذمہ یہ نہایت اہم کام بھی سپر د تھا کہ حضرت خلیفہ وقت کے لئے مصارف مقرر کرنے کے بارے میں غور کرے.سیّد نا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شوری ۱۹۲۴ء میں فیصلہ ہو چکا ہے کہ اس بارہ میں مشورہ کے وقت خلیفہ وقت مجلس میں شریک نہ ہوں.اس لئے میں اب نواب صاحب کے ہاں جاتا ہوں.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب مجلس کا انتظام کریں گے.جب اس امر کے متعلق فیصلہ ہو جائے تو مجھے اطلاع دے دی جائے.چنانچہ چوہدری صاحب کی صدارت میں شوری میں اس بارہ میں غور کیا گیا.(صفحہ ۱۴۱، ۱۴۶، ۱۴۷) (۳) ۱۹۲۸ء.سب کمیٹی امور عامہ و خارجہ.سیکرٹری حضرت مفتی محمد صادق صاحب (صفحه ۱۲۱) (۴) ۱۹۳۳ء.سب کمیٹی نظارت اعلیٰ.سیکرٹری حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال.اس سب کمیٹی نے قواعد و مقاصد صوبجاتی انجمن ہائے احمد یہ پر غور کیا تھا (صفحہ ۲۱) اس شوریٰ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سال بھر کے لئے سولہ افراد پر مشتمل ایک سب کمیٹی مال مقرر فرمائی جس کے ایک ممبر چوہدری صاحب بھی تھے.کل گیارہ افراد قادیان سے باہر کے تھے.فرمایا کہ اس کے اجلاس سال میں کئی بار ہونے چاہئیں.میں بھی ان میں شرکت کروں گا تا اخراجات
70 کر کے فرمایا کہ اس فتنہ کی تہہ میں سیاسی چال کارفرما ہے.مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک ضرب ہے اور احمد یہ سلسلہ کے لئے غیر معمولی سامان ہے ایرانیوں اور رومیوں بقیہ حاشیہ: - آمد بڑھانے کے متعلق غور ہوتا رہے اور ممبران کے متعلق فرمایا: - ان کے لئے حاضری ضروری ہے.وہ شمولیت کے لئے انتہائی کوشش کریں اور استعفیٰ پیش کر دینے سے نیچے نیچے ہر کوشش جو دیانتداری سے کر سکتے ہوں کریں“.(صفحہ ۱۲۰) با وجود یکہ حضور کے نزدیک چوہدری صاحب کو چھٹی نہیں مل سکتی ، پھر بھی حضور کا آپ کو اس کمیٹی میں شامل کرنا اس کمیٹی کی اہمیت ظاہر کرتا ہے.حضور نے ۱۹۳۶ء کی مشاورت میں فرمایا تھا: - در تبلیغ کے لئے کچھ نہ کچھ عرصہ وقف کرنے کی تحریک میں نام لکھانے میں غفلت نہ کی جائے.سوائے اس کے کہ جسے چھٹی نہ مل سکے.جیسے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ہیں.باقی سب کو اس میں حصہ لینا چاہیئے“.(صفحہ ۱۳۳ ۱۳۴) (۵) ۱۹۳۴ء.سب کمیٹی نظارت تعلیم و تربیت.سیکرٹری حضرت مرزا شریف احمد صاحب ( بوجہ علالت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) (صفحہ ۷۰،۵۷ ) (1) اکتوبر ۱۹۳۶ء.سب کمیٹی اس امر پر غور کرنے کے لئے کہ جماعت جس مالی تنگی میں سے گزر رہی تھی ، اس کے کیا کیا علاج ممکن تھے.سیکرٹری شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور.حال حج ہائی کورٹ مغربی پاکستان.(صفحہ ۱۹) اس وقت صدر انجمن احمدیہ کی مالی حالت سخت خراب تھی.قریباً تین لاکھ روپیہ کا اس کے ذمہ قرض تھا.کارکنان کی پانچ ماہ کی تنخواہیں رُکی ہوئی تھیں.(صفحہ ۲۸، ۳۸) اڑھائی ہزار روپیہ ماہوار بچت کی تجویز حضور کی طرف سے کارکنان کی تنخواہوں میں ہیں سے پچیس فیصدی تک کٹوتی کے رنگ میں کی گئی تھی.یہ کٹوتی قرض تھی.امانت فنڈ میں رقوم جمع کرانے کے لئے بھی پُر زور تحریک کی گئی.(صفحہ ۶۸،۶۵،۴۷) (۷) ۱۹۳۷ء.سب کمیٹی نظارت بیت المال.( صفحہ ۹۸) (۸) ۱۹۳۸ء میں ایک سب کمیٹی نظارت اعلیٰ اور بیت المال کے متعلق چوالیس افراد پر مشتمل زیر صدارت چوہدری صاحب مقرر ہوئی.سیکرٹری خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب تھے.
71 کے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی طرح یہاں بھی مصلحت خدا وندی پنہاں ہے.بے شک ملکانہ کے لوگ جو ارتداد کی آغوش میں جا رہے ہیں غیر از جماعت مسلمان ہیں.لیکن اس وجہ سے کہ دیگر مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دقبال و کافر کہتے ہیں.بقیہ حاشیہ: چوہدری صاحب نے اسے دو حصوں میں منقسم کر دیا اور بالآخر اس کا مشترکہ اجلاس بھی ہوا.(صفحہ ۱۲ تا ۱۶) (۹) ۱۹۳۹ء.سب کمیٹی نظارت اعلی.سیکرٹری چوہدری فتح محمد صاحب سیال (صفحہ ۲۰) (۱۰) ۱۹۴۰ء.سب کمیٹی امور خارجہ.سیکرٹری سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب.( صفحه ۱۴) نوٹ: اجلاسات شوری دو طریق پر منعقد ہوتے رہے ہیں.اول.جن میں سید نا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اجلاس میں تشریف فرما نہیں ہوتے.مثلاً ہنگا می شوری ۱۹۱۴ء میں حضور نے مولانا محمد احسن صاحب کو صدر مقر رفر ما دیا تھا.اب بھی کئی سالوں سے حضور بوجہ علالت تشریف فرما نہیں ہوتے بلکہ ۱۹۵۵ء میں تو حضور مشاورت کے ایام میں سفر یورپ کے لئے کراچی تشریف لے جاچکے تھے.شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور (حال حج ہائی کورٹ مغربی پاکستان).مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ (امیر صوبائی سابق صوبہ پنجاب).اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ کو حضور صدر مقر فرماتے رہے.اسی طرح تقسیم ملک سے قبل بھی بعض دفعہ حضور ایسے امور پر مشورہ کے وقت مجلس سے تشریف لے جاتے جو حضور سے متعلق ہوتے اور جس کو حضور نے باری باری بولنے کا موقعہ دینے کے لئے مقرر کیا ہوتا وہی صد را جلاس ہوتا.دوم.جب حضور خود تشریف فرما ہوتے تو کسی ایک صاحب کو مقررفرماتے جس کا مقصد حضور کے الفاظ میں یہ ہے:.میں نے چونکہ شوریٰ میں پیش ہونے والے اُمور پر نکتہ چینی کرنی ہوتی ہے اس لئے میں چیئر مین کے طور پر چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو تجویز کرتا ہوں.وہ باری باری بولنے والوں کو بولنے کا موقعہ دیتے رہیں گئے.(۱۹۲۵ء صفحہ ۸) چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب سٹیج پر آجائیں تا کہ بطور چیئر مین گفتگو کرنے والوں کے نام نوٹ کرتے جائیں.
72 ہم ملکانہ والوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑ سکتے.خواہ اس فتنہ کے ازالہ کے لئے غیر از جماعت مسلمان ہمارے ساتھ مل کر کام کر سکیں یا نہ کر سکیں.کیونکہ جو شخص اسلام ترک کرے گا ، اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب وشتم کرنے والوں میں شامل ہو جائے گا سو ہمارے نزدیک یہ امر قابل ترجیح ہے کہ کوئی شخص بجائے غیر مسلم ہونے کے غیر احمدی مسلمان بن جائے خواہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دے.کیونکہ اس طرح کم از کم حضرت رسول کریم صلعم کی ذات شید میں انتظام کی خاطر ایک نگران مقرر کیا کرتا ہوں ( تا وہ بولنے والوں کے نام لکھیں وغیرہ.خلاصہ ) چونکہ ان رپورٹوں پر دوستوں کو اظہار رائے کا موقعہ دیا جائے گا جن امور کے متعلق رپورٹ (؟ ووٹ ) لینے کی ضرورت ہوگی ان پر ووٹ لئے جائیں گے اس لئے اس انتظام کے لئے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو مقرر کرتا ہوں“.د میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو صدر مقرر کرتا ہوں کہ وہ ایک ایک کو باری باری بولنے کام موقع دیں“.(۱۹۴۱ء صفحہ ۲۱) میں نگرانی اور باری باری بولنے کا موقعہ دینے کے لئے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو مقرر کرتا ہوں“.(۱۹۴۴ء.صفحہ ۳۴) سوائے ایک شوری کے جس میں آپ کے والد ماجد صدر مقرر ہوئے تھے.ہمیشہ ہی جب آپ شوری میں شامل ہوئے ، صدر برائے اجلاس مقرر ہونے کا آپ شرف پاتے رہے ہیں اور سوائے دو بار کے جس سب کمیٹی میں بھی شامل کئے گئے اس کے صدر مقرر ہوتے رہے.گو یا خلیفہ وقت کی نظر میں آپ کی خاص وقعت ہے.وَ ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ چوہدری صاحب کی عدم شمولیت کے موقع پر دیگر احباب صدر مقرر ہوتے رہے.مثلاً ۱۹۲۹ء، ۱۹۳۵ء اور ۱۹۴۲ء میں حضرت پیرا کبر علی صاحب (صفحہ ۱۱،۱۴،۲۱) اور ۱۹۳۱ء میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب (صفحه ۲۵) سید نا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ کی رُو سے جن کے اقتباس او پر درج کر چکا ہوں چیئر مین انتظام ( کرنے والا ) صدر اور نگران“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.
73 تو بچ جائے گی.گویا یہ ایسا موقعہ ہے جبکہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی خاطر حضرت مسیح موعود کو قربان کرنے کو تیار ہیں.شوری پر اس فتنہ کے استیصال کے لئے یہ طے ہوا کہ چونکہ اغیارا اپنے لوگوں کو کثیر تعداد میں اس علاقہ میں لے جا کر ملکانوں کو مرعوب کرتے ہیں.اس لئے ہمارے احباب بھی وہاں کثرت سے جائیں.دوست اپنے خرچ پر تین تین ماہ کا عرصہ وقف کر کے وہاں کام کریں.اور قادیان کے مدرسین وطلباء دو دو ماہ کی موسمی تعطیلات میں جائیں تاکہ ان کے کام کا حرج نہ ہو.کسی شخص سے ان ایام کے بدلہ میں روپیہ قبول نہ ہوگا.البتہ جو لوگ معذور ہوں ، وہ تین ماہ کے لئے خرچ دے سکتے ہیں.یہ بھی فیصلہ ہوا کہ کم از کم ایک سو روپیہ کی شرح سے نصف لاکھ روپیہ انسداد ارتداد کے لئے فراہم کیا جائے.چنانچہ اس رقم کے پانچویں حصہ ( دس ہزار ) کی پیشکش اسی شوری میں ہوگئی.حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب اور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بھی علی الترتیب تین صد اور اڑھائی صد روپیہ پیش کیا.اور حضرت چوہدری صاحب کو میدانِ جہاد میں پہنچ کر بھی خدمت کرنے کا موقعہ ملا.اس شوریٰ میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی پیش کردہ دو تجاویز منظور ہوئیں.ایک یہ کہ جو غیر احمدی ہمارے ساتھ اس مدافعت میں شریک ہونا چاہیں ، انہیں شامل کرنے کی تحریک کو جاری رکھا جائے.دوسرے یہ کہ جن اقوام کو اسلام پر قائم رکھنے کے لئے یہ تبلیغی جہاد جاری کیا جا رہا ہے.ان میں سے اہلیت رکھنے والے بعض افراد کو اس کام میں شامل کیا جائے.اور بعض کو قادیان میں تعلیم دلا کر اس کام کے قابل بنایا جائے.شدھی کی تحریک سے ہندوستان میں جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات رونما ہونے لگے.ملکانہ کے مسلمانوں کو جو لقمہ ترسی کو جو لقمہ تر سمجھ لیا گیا تھا.اب جماعت احمدیہ کے مجاہدین کی آمد سے حلق میں کانٹا بن کر نظر آنے لگا.کیونکہ ارتداد پر آمادہ لوگوں پر واضح کر دیا گیا کہ ان کو مجلسی مساوات حاصل نہ رپورٹ مشاورت ۱۹۲۳ ء.(صفحہ ۵۵، ۳۷) اس وقت چندہ لکھوانے والوں میں سے صرف ایک نے ایک ہزار ، پانچ نے نصف نصف ہزار اور ایک نے چارسو تیرہ روپے لکھوائے.باقی باون افراد سے حضرت چوہدری صاحب کا چندہ زیادہ تھا.ایک سواٹھا ئیں نمائندگان سے انسٹھ نے اس وقت فوری طور پر چندہ لکھوایا تھا.
74 ہوگی.اور اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ خود غیر مسلموں میں پھوٹ پڑنے لگی.اونچی جانتیوں کے افراد نو آریوں سے کھان پان پر راضی نہ ہوتے تھے بلکہ جو کھان پان کر لے ، اس کا مقاطعہ کرتے تھے.فسادات کے باعث لیڈروں نے صلح کا نفرنس کی.احمدی وفد کے پہنچنے سے قبل قریباً یہ طے ہو چکا تھا کہ مسلم و غیر مسلم مبلغین اور پر چارک اس علاقہ سے واپس آجائیں.مولا نا محمد علی جو ہر ، ڈاکٹر انصاری اور حکیم اجمل خاں مرحوم کی برقیہ درخواست پر حضرت امام جماعت احمدیہ ( ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی طرف سے بھی ایک وفد دہلی پہنچا.ہدایات کے مطابق اس نے یہ نقطۂ نظر پیش کیا کہ تمام شدھی شدہ افراد کو ہم اسلام میں واپس لائے بغیر دم نہ لیں گے.اور جب تک شدھی ہوا ایک متنفس بھی باقی ہے ہم میدان سے واپس آنے کا نام تک نہیں لے سکتے.اس پر دیگر مسلمانوں نے کہا بھی کہ اگر احمدی نہیں مانتے تو کیا ہوا.آئیے ہمارے ساتھ صلح کیجئے.لیکن سوامی شرد ہانند جی بھلا اس پیشکش کو کیسے تسلیم کرتے.جبکہ ان کو معلوم تھا کہ کونسی جماعت کے مجاہدین حقیقی معنوں میں شدھی پن کا استیصال کررہی ہے.البتہ بشمول حضرت خان ذوالفقار علی خاں صاحب (نمائندہ جماعت احمد یہ ایک تحقیقاتی کمیٹی کا تقرر عمل میں آیا.جو دو ماہ کے اندر تمام مقامات کا معائنہ کر کے آل انڈیا کانگرس کے پاس رپورٹ کرے کہ ان فسادات کی تہ میں کن لوگوں کا ہاتھ ہے.اس کمیٹی کے سیکرٹری ایک غیر مسلم تھے ، وہ سمجھتے تھے کہ فسادات کے حقیقی ذمہ دار کون ہیں.اس لئے انہوں نے نہ کبھی کمیٹی کو اطلاع دی ، نہ دورہ کیا گیا.نہ حالات کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کی گئی ، نہ کبھی اس کمیٹی سے جواب طلبی کی گئی کہ اسے کیوں رپورٹ پیش نہیں کی.* اسلام پر ایسا نازک وقت آیا.لیکن افسوس کہ علماء کہلانے والوں نے اس وقت بھی اس علاقہ میں اس پر چار میں اپنے ایمان کے دیوالیہ پن کا اظہار کرنا شروع کیا کہ تم لوگ آریہ اور ہندو بن حضرت خاں صاحب موصوف.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بھی دہلی صلح کا نفرنس میں شامل ہونے والے وفد کے رکن تھے.البتہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو بھی حضور نے مقرر فرمایا تھا لیکن وہ وہاں نہیں پہنچ سکے.کوشش کی جائے گی کہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب ، حضرت مرزا شریف احمد.6 صاحب اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال میں سے کسی کے سوانح میں جہاد ارتداد ملکانہ کی مساعی کے متعلق مفصل تذکرہ کیا جائے.واللہ با التوفیق.
75 جاؤ.احمدی ہونے سے اچھا ہے.احمدی ہرگز نہ ہونا.پتھر پڑیں صنم تیرے ایسے پیار پر غیر مسلم تو پھوٹ ڈلوانے کے لئے اپنے اخبارات میں مسلمان علماء سے فتاویٰ منگوا کر شائع کرنے لگے کہ احمدی مسلمان نہیں اور مسلمان علماء بھی ان کے آلہ کار بن گئے.ہر جگہ مخالفت کرنے لگے.ہر چند ان سے مصالحانہ رویہ اختیار کیا گیا.علاقے تقسیم کئے گئے.تبادلۂ خیالات کی تجاویز پیش کی گئیں.علاقوں کی تقسیم میں مرتدین کے ایک دوسرے سے دور اور ٹکڑے ٹکڑے علاقے قبول کئے گئے اور تکلیف برداشت کی گئی.ادھر غیر مسلم حکام نے احمدی مبلغین اور اسلام میں داخل ہونے والوں کا قافیہ تنگ کر دیا.مثلاً ریاست بھر تیپور نے ایک طرف یہ اعلان کیا کہ ریاست میں تبلیغ کی آزادی ہے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی پابندی لگا دی کہ ایسا کوئی شخص صبح سے شام تک ریاست میں رہ سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں.اس پر بھی احمدی مجاہدین وہاں پہنچتے اور پھر واپس آجاتے.سرحدات پر اڈے جمائے.افسران ریاست سے ملے.لیکن انہوں نے ایسے نا معقول حکم کو واپس لینے سے انکار کر دیا.شدھی کی آڑ میں چلائی گئی سیاسی چال کو نہ سمجھے تو یہ بہی خواہانِ اسلام.“! جبکہ پنڈت نہرو ہندو ہونے کے باوجود اسے سمجھ گئے.پنڈت جی نے کہا تھا کہ : ”میرا یہ خیال درجہ یقین تک پہنچ گیا ہے کہ اس تحریک کی غرض و منشاء سیاسی ہے.اس لئے میں تحریک سے اتفاق نہیں کرتا.کیونکہ اس تحریک کا نتیجہ ایک اور محض ایک ہے.اور وہ یہ ہے کہ یہ تحریک ہندوستان کی تمام قوموں اور ۵۲ جماعتوں کی بربادی اور تباہی کا باعث ہوگی.جماعت احمدیہ کے وفد پر وفد جانے کے نتیجہ میں ہندوستان کے تمام غیر مسلموں پر دھاک بیٹھ یہ حالات کارزار شدھی مؤلفہ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم ، اور الفضل ۲۳-۵-۳۱ ،۲۳-۶-۱۱، ۹-۲۳ - ۱۱ سے لئے گئے ہیں.حاشیہ: - کوشش کی جائے گی کہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب ، حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال میں سے کسی کے سوانح میں جہاد ارتداد ملکانہ کی مساعی کے متعلق مفصل تذکرہ کیا جائے.واللہ با التوفیق.
76 گئی.نواب ، وکلاء، ایڈیٹر، گریجویٹ احمدی اپنے خرچ پر جاتے تھے اور انہوں نے بے نفسی اور اولوالعزمی اور اطاعت کی ایک مثال قائم کر دکھائی.اور ہزار ہا افراد کو شدھی کے چنگل سے محفوظ کرنے کا باعث بنے.اس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ میں ادنیٰ کہلانے والی اقوام کے متعلق ایک نیک رو چل گئی.مسلمانوں میں اپنے اقتصادی مقاطعہ کا حل سوچنے کی طرف توجہ ہوئی.مسلمان شرفاء اور بیدار مغز طبقہ پر واضح ہو گیا کہ مسلمانوں پر مصیبت کی گھڑی آجائے تو جماعت احمد یہ اسے اپنی مصیبت یقین کرتی ہے اور کسی قسم کی غیریت اور اجنبیت محسوس نہیں کرتی.اور کمال بے جگری سے مقابلہ کے لئے میدان میں کود پڑتی ہے.اور یہ بھی جان لیا کہ ے دین ملا فی سبیل اللہ فساد (اقبال) اور یہ بھی جان لیا کہ جماعت احمد یہ مال ، وقت اور جان کی قربانی کرنے میں بے مثال ہے.اس کے افراد مذہبی واقفیت رکھتے ہیں.چنانچہ اخبار مشرق رقمطراز ہے.: ”میدان فتنہ ارتداد میں احمدی جماعت اور سنی جماعت کے درمیان جنگ جاری ہوگئی ہے...ہم نے پہلی اشاعت میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ ہر طبقہ اور فرقہ کے مسلمان میدانِ ارتداد میں پہنچ کر خدمتِ اسلام انجام دیں گے.لیکن احمدی جماعت کا ایثار بہت نظر آئے گا.ہوا کچھ ایسا ہی کہ آنے جانے والوں سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں نے بہت زیادہ ایثار نفس کی مثالیں قائم کیں اور کہنے والے یہی مولوی ، قادری چشتی ، صوفی ہی بزرگ ہیں.الْاِسْتَقَامَهُ فَوْقَ الْكَرَامَةِ کا ایسا جذبہ جماعت احمدیہ نے اپنے اولوالعزم امام (ایده اللہ تعالی ) کی زیر قیادت پیش کیا کہ شدید معاندین کی روحیں بھی وجد میں آگئیں.اور وہ بے اختیار کلمہ حق کہنے پر مجبور ہوئے.چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب صدر مجلس احرار نے لکھا کہ : آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسدِ بے جان تھا.جس میں تبلیغی حس مفقود ہو چکی تھی.سوامی دیانند کی مذہب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنا کر دیا.مگر حسب معمول جلدی خواب گراں طاری ہوگئی.مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی.ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب
77 ۵۴ ہو کر اٹھا.ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر واشاعت کے لئے بڑھا.اگر چہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہوا.تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے، بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے.علاوہ ان کے تمام فرقے رہینِ بے خبری رہے.اسلامی ہند پر بدستور بے حسی کا دور دورہ رہا.اسلامی نام کی ہزاروں جماعتیں مسلمانوں میں موجود ہیں.مگر ان کی مساعی وسرگرمی محض مسلمانوں کو کافر بنانے تک محدود ہیں.اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں مدارس دینی بھی موجود ہیں مگر وہاں بھی اندرونی مباحث کے لئے میدان تیار کئے جاتے ہیں.قادیانی احمدی جماعت کی مالی حالت بحمد اللہ تسلی بخش ہے...نتائج کے اعتبار سے بھی کچھ کم قابل اطمینان نہیں.سینکڑوں نہیں ہزاروں دینی مکاتب ہندوستان میں جاری ہیں مگر سوائے احمدی مدارس و مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیر اقوام میں تبلیغ و اشاعت کا جذ بہ طلبہ میں پیدا نہیں کیا جاتا.کس قدر حیرت ہے کہ سارے پنجاب میں سوائے احمدی جماعت کے اور کسی فرقہ کا بھی تبلیغی نظام موجود نہیں ہر مسلمان کو احمدیوں کی طرح مبلغ بننا چاہیئے.اخبار ”زمیندار“ لاہور جیسے دیرینہ مخالف احمدیت نے لکھا: ۵۵ احمدی بھائیوں نے جس خلوص ، جس ایثار، جس جوش اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا ہے ، وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے.یہ بھی ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ نمائندگان تبلیغ کے فیصلہ انقطاع نے ان کی مخلصانہ کوششوں پر کوئی برا اثر نہیں ڈالا.وہ ہر حصے میں بدستور سرگرم حفظ و دفاع اسلام ہیں.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے بعض عقائد و دعاوی سے اختلاف دوسری چیز ہے لیکن اس امر کا اعتراف ہر ایک شخص کو کرنا پڑے گا کہ ہندو اور
78 عیسائی مذہبوں کا مقابلہ مرزا صاحب نے نہایت قابلیت کے ساتھ کیا ہے.آپ کی تصانیف ”سرمہ چشم آریہ اور چشمہ مسیحی وغیرہ آریہ سماجیوں اور مسیحیوں کے خلاف نہایت اچھی کتابیں ہیں.حج کی توفیق : ۵۸ ۱۹۲۴ کی گرمیوں میں حضرت چوہدری صاحب مع اہلیہ محترمہ حج کے لئے تشریف لے گئے.چوہدری صاحب کی طبیعت تو سمندر میں تلاطم کی وجہ سے دورانِ سفر میں اکثر حصہ علیل رہی لیکن محترمہ کو سمندر کا سفر بہت پسند آیا.اور ان کی صحت سفر کے دوران میں نہایت عمدہ رہی.موصوفہ اپنے لئے اور چوہدری صاحب کے لئے کفن کی چادریں تیار کر کے ساتھ لے گئی تھیں اور حج کے ایام میں ان چادروں کو زمزم کے پانی میں دھو کر حفاظت سے رکھ لیا تھا.تا کہ وقت آنے پر استعمال میں ۵۹ لائی جائیں.اس وقت سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی ( ایدہ اللہ تعالی سفر میں ہیں.لندن میں اپنے صدر مقام سے دور.اقارب سے بہت دور.اور اپنے مخلص اور باصفا مریدوں سے نہایت دور.اخراجات کی تنگی ہے.ان حالات میں تار میں ذکر ہو سکتا ہے تو نہایت اہم امور کا.کیونکہ اس پر خرچ بھی بہت اٹھتا ہے.ایسی صورت میں بھی چوہدری صاحب کے متعلق دریافت کرنا ان کی اہمیت کے علاوہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی آپ سے محبت کا آئینہ دار ہے.چوہدری صاحب حج بیت اللہ کے بعد واپس تشریف لانے والے تھے.حضور کا قلب و دو دو رحیم آپ کی خیریت کی خبر پانے کے لئے بے قرار تھا.چنانچہ ۲۹ / اگست کو ارسال کردہ برقیہ میں یہ بھی تحریر فرماتے ہیں: ے راگست تک کی روانہ شدہ چٹھیاں جو براہ راست بھیجی گئی ہیں وہ مل گئی ہیں.چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کی کوئی خبر پہنچی ہے یا نہیں.آخری علالت : الفضل ۲۴-۹-۴.اس میں وطن واپس پہنچنے کا بھی ذکر ہے.نیز دیکھیئے الحکم ۲۴-۸-۱۴ نیز الحکم ۱۴، ۲۱ / اپریل صفحہ ۶ ( حج کے لئے رخصت لینا ) حج پر جانا ( احمد یہ گزٹ ۲۷-۲-۲۶ صفحہ ۱.
79 جناب چوہدری صاحب تحریر فرماتے ہیں: حج سے واپس آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے والد صاحب کو دو سال اور زندگی عطا فرمائی.اگست ۱۹۲۵ء میں والد صاحب اور والدہ صاحبہ خاکسار کے ہمراہ کشمیر جانے کے ارادہ سے روانہ ہوئے.رستہ میں چند دن کے لئے کوہ مری کے مقام پر ہم نے قیام کیا.اس مختصر سے قیام کے عرصہ میں والد صاحب کی طبیعت بہت علیل ہوگئی اور حالت تشویش ناک ہوگئی.لیکن اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں صحت عطاء فرمائی.گو ان کی علالت کی وجہ سے اکثر حصہ اگست اور ستمبر کا ہمیں کوہ مری میں ہی گزارنا پڑا.اور آخر تمبر میں صرف چند دن کے لئے ہم کشمیر جاسکے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش بھی پوری کر دی.آخر جولائی یا شروع اگست ۱۹۲۶ء میں والد صاحب جماعت کے ایک مقدمہ میں شہادت دینے کے لئے قادیان سے سیالکوٹ تشریف لے گئے.خاکسار بھی اس مقدمہ کے تعلق میں سیالکوٹ گیا ہوا تھا.وہاں والد صاحب نے ذکر کیا کہ مجھے کھانسی کی شکایت ہے لیکن کوئی خاص تکلیف بیان نہ کی.مقدمہ کی کارروائی سے فارغ ہو کر والد صاحب ڈسکہ تشریف لے گئے اور خاکسار بھی لاہور چلا گیا.۱۲ اگست کو خاکسار کو اطلاع ملی کہ والد صاحب کو زیادہ تکلیف ہے.خاکسار فورا ڈسکہ گیا اور والد صاحب اور والدہ صاحبہ کو اپنے ساتھ لاہور لے گیا.لاہور پہنچتے ہی ان کا معائنہ کروانے پر معلوم ہوا کہ ان کو پلوریسی کی تکلیف ہے.اور پھیپھڑے کے نیچے کی جھلی میں پانی جمع ہورہا ہے.چنانچہ دوسرے دن یہ پانی نکالا گیا.جس سے کھانسی میں بہت حد تک افاقہ ہوگیا اور بظاہر انکی حالت رو بصحت ہو گئی.دد لیکن وہ خود چونکہ با قاعدہ طب پڑھے ہوئے تھے.بیماری کے آثار سے اس کی نوعیت کو پہچانتے تھے.چنانچہ لاہور پہنچنے کے دو تین دن بعد مجھے فرمایا کہ زندگی اور موت تو اللہ تعالیٰ کے خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ مئی ۱۹۲۶ء میں حضرت چوہدری صاحب نے رخصت حاصل کی اور آپ کے قائم مقام کے تقرر کے متعلق دو اعلانات ہوئے.جن کی عبارت سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ انتظام قدرے طویل عرصہ کی رخصت کے پیش نظر ہے.گو وہاں مرقوم نہیں چوہدری صاحب کی رخصت بوجہ علالت ہی ہوگی.
80 اختیار میں ہے.اور بظاہر حالت رو بصحت ہے.خدا چاہے تو شفا عطا فرمادے.لیکن بیماری کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اور اپنی عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے میں چاہتا ہوں کہ چند ہدایات تمہیں لکھوا دوں.میں نے کاغذ قلم لے لیا.اور انہوں نے چند مختصری ہدایات لکھوادیں.جن میں سے ایک یتھی کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کرنا کہ اگر باعث تکلیف نہ ہو ( حضوان ایام میں ڈلہوزی تشریف فرما تھے ) تو میرا جنازہ خود حضور پڑھا دیں.اس کے بعد پھر آخر تک انہوں نے کسی قسم کی خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ یوں کرنا اور یوں نہ کرنا.گو ان کی صحت اس کے بعد بظاہر اچھی ہوگئی تھی.حتی کہ کھانا پینا ، چلنا پھرنا شروع کر دیا.ایک دن میں نے ذکر کیا کہ حضرت صاحب نے ڈلہوزی سے خاکسار کو تحریر فرمایا ہے کہ تم کبھی ڈلہوزی نہیں آئے ، اب کی بار ڈلہوزی آؤ.تو والد صاحب نے خوب شوق سے فرمایا.اچھی بات اس دفعہ ڈلہوزی چلیں گے.والدہ صاحبہ نے مسکرا کر کہا.آپ کی صحت کی تو یہ حالت ہے اور ڈلہوزی کے ارادے کر رہے ہیں.والد صاحب نے فرمایا.کیا معلوم اللہ تعالیٰ شفا دیدے.آخر اگست میں پھر والد صاحب کے پھیپھڑے پر بوجھ پڑنا شروع ہو گیا.جس سے معلوم ہوا کہ پھر پانی جمع ہو رہا ہے.طبی مشورہ یہ تھا کہ پانی نکالنا چاہیئے.والد صاحب اس دفعہ پانی نکلوانے سے کچھ گھبراتے تھے.خاکسار نے والدہ صاحبہ سے مشورہ کیا.انہوں نے فرمایا اگر ڈاکٹروں کی رائے میں یہی علاج ہے تو پھر چارہ نہیں.چنانچہ والد صاحب بھی رضا مند ہو گئے.اور ۲۹ /اگست اتوار کے دن دوبارہ پانی نکالا گیا.اس دوران میں والدہ صاحبہ بوجہ ڈاکٹر صاحبان کی موجودگی کے اس کمرہ میں نہیں تھیں، جہاں والد صاحب کا پلنگ تھا.کسی دوسرے کمرے میں سجدہ میں پڑی ہوئی دعا کر رہی تھیں.جب ڈاکٹر صاحبان ساتھ والے کمرہ میں چلے گئے تو خاکسار نے والدہ صاحبہ کو اطلاع کی.اور وہ والد صاحب کے کمرہ میں تشریف لے آئیں.اور اس طرح انہوں نے ڈاکٹر صاحبان کو دوسرے کمرہ سے باہر جاتے ہوئے دیکھ لیا.انہیں دیکھ کر وہ کچھ گھبرا گئیں اور الگ مجھ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ خیر کرے.تمہیں میرا وہ خواب یاد ہے جو چند دن ہوئے میں نے تمہیں بتایا تھا.وہ دو شخص جن کو خواب میں میں نے کوٹھی سے باہر جاتے ہوئے دیکھا تھا.وہ یہی دو شخص تھے.جو اس کمرہ سے ابھی باہر گئے ہیں.میں نے خواب میں بعینہ انہیں اسی لباس میں دیکھا تھا اور اسی طرح پیٹھ کی طرف سے ان کے بت مجھے کمرہ سے باہر نکلتے ہوئے نظر آئے تھے.
81 اس سے چند دن پیشتر والدہ صاحبہ نے اپنا ایک خواب مجھے سنایا تھا کہ میں نے دیکھا کہ دو شخص انگریزی لباس پہنے ہوئے کمرہ سے باہر جارہے ہیں.کسی نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ دو شخص چوہدری صاحب ( یعنی والد صاحب ) کو قتل کر گئے ہیں.اس دن سہ پہر تک تو والد صاحب کی طبیعت اچھی رہی.سہ پہر کو سانس لینے میں تکلیف محسوس ہونے لگی.پہلے تو پھیپھڑے کے نیچے کچھ دردبھی محسوس ہوتا تھا.لیکن ۳۰ر کی صبح تک درد سے تو آرام ہو گیا.البتہ سانس کی تکلیف جاری رہی.علاج معالجہ جاری تھا.لیکن آہستہ آہستہ حالت تشویش ناک ہوتی گئی.وہ خود بھی محسوس کرتے تھے کہ یہ بیماری کا آخری مرحلہ ہے.لیکن ان کی طرف سے کسی قسم کی بے چینی یا حسرت کا اظہار نہیں تھا.اس کی صبح کو فجر کے وقت میں ان کے پاس سے اٹھ کر نماز پڑھنے کے لئے گیا.نماز میں میرے رونے کی آواز ان کے کان میں پڑ گئی.بہت گھبراہٹ میں انہوں نے والدہ صاحبہ سے کہا.جلدی جاؤ اور اسے تسلی دو معلوم ہوتا ہے ڈاکٹروں کی باتوں سے گھبرا گیا ہے.اسی دن والدہ صاحبہ نے مجھے اپنا ایک خواب سنایا ، جو انہوں نے گذشتہ رات ہی دیکھا تھا.فرمایا میں نے دیکھا کہ تمہارے والد ایک میز کے سامنے کرسی پر بیٹھے کچھ لکھ رہے ہیں اور اپنے کام میں بہت منہمک ہیں.اسی کمرہ میں ایک صوفہ پر ایک جوان عورت بیٹھی ہوئی ہے.اور شکر اللہ خاں نے تمہارے والد سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر آپ جا رہے ہیں تو اس عورت کو ساتھ لیتے جائیں.تمہارے والد نے وہیں سے گردن پھیر کر ( گویا اپنے کام میں حرج پسند نہیں کرتے اور جلد ختم کرنا چاہتے ہیں ) جواب دیا.”میاں مجھے تو جمعہ کے دن چھٹی ہوگی.“ و, 66 والدہ صاحبہ نے مجھے فرمایا کہ چھٹی کے لفظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جمعہ کا دن شروع ہوتے ہی رخصت ہو جائیں گے.اس لئے ڈاکٹر خواہ کچھ کہیں تم ابھی سے سب انتظام کر لو.اور جمعرات کی شام تک تمام تیاری مکمل کر لینا.تا کہ ان کے رخصت ہوتے ہی ہم انہیں قادیان لے چلیں تمہیں ایسا موقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا.ایسا نہ ہو کہ وقت پر گھبرا جاؤ.اللہ تعالیٰ کی رضا ایسے ہی معلوم ہوتی ہے.اس لئے ابھی سے تیاری کر لو.اپنے بھائیوں کو لکھ دو کہ دو تو فوراً یہاں پہنچ جائیں اور ایک تمہاری ہمشیرہ کو لینے چلا جائے.لیکن جو تمہاری ہمشیرہ کو لینے جائے اسے تاکید کر دی جائے کہ جمعرات کے دن سورج غروب ہونے سے قبل یہاں پہنچ جائے.یہ بھی انہیں لکھ دو کہ تمہارے والد
82 کے کفن کی چادریں فلاں جگہ رکھی ہیں وہ اپنے ساتھ لیتے آئیں لیکن اور کسی کو خبر نہ کریں.ورنہ گاؤں کے سب لوگ یہاں جمع ہو جائیں گے.پھر فرمایا کہ صندوق کی تیاری کے لئے بھی کہہ دو.اور تاکید کر دو کہ جمعرات کی شام تک تیار ہو جائے.اور موٹریں بھی کرایہ پر کرلو.اور ان کے متعلق ہدایت دے دو کہ نصف شب کے بعد دو بجے آجائیں.چنانچہ میں نے ان کی ہدایات کے مطابق سب انتظام کر دیا.یہ منگل کا دن تھا.سوائے سانس کی خفیف تکلیف کے بظاہر والد صاحب کو کوئی تکلیف 66 نہ تھی.پوری ہوش میں تھے اور بات چیت کرتے تھے.لیکن کمزوری آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی.یکم ستمبر بدھ کی صبح کو فجر کی نماز کے بعد میں اکیلا ہی والد صاحب کے پاس تھا.میں نے کہا.آپ اداس تو نہ ہوں گے.تھوڑے ہی وقفہ کے بعد اللہ تعالیٰ چاہے گا تو ملاقات ہو جائے گی.انہوں نے جواب میں فرمایا.”نہیں ، میں اپنے مولیٰ کی رضا پر راضی ہوں.“ اسی دن سہ پہر کو عزیزان شکر اللہ خان اور اسد اللہ خان پہنچ گئے.اور بعض اور عزیز اور رشتہ دار بھی آگئے.جمعرات کے دن دو پہر کے وقت سانس کی جو تکلیف تھی وہ ختم ہوگئی.نقاہت کو بڑھ رہی تھی لیکن ہوش پوری طرح قائم تھے.دو پہر کے بعد والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ جب ذرا میری آنکھ لگ جاتی ہے.تو مجھے یوں نظر آتا ہے کہ کمرہ مختلف قسم کے پھلوں سے بھرا ہوا ہے اور نہایت عمدہ خوشبو آرہی ہے.اور میری طبیعت میں اب کسی قسم کی بے چینی نہیں ہے.چونکہ دل متواتر کمزور ہورہا تھا.اس سہ پہر کو ڈاکٹر صاحب بار بار دل کو طاقت دینے کے لئے ٹیکہ کرتے تھے.والد صاحب فرماتے تھے کہ ٹیکے کرنے کی اب ضرورت نہیں.لیکن اس خیال سے کہ علاج میں دخل نہیں دینا چاہیئے بالکل انکار بھی نہیں کرتے تھے.ایک وقت مجھے جو بہت افسردہ دیکھا تو فرمایا.”بیٹا یہ وقت آیا ہی کرتے ہیں.“ عصر کے بعد بابو عبد الحمید صاحب آڈیٹر تشریف لائے اور خاکسار کو باہر بلا بھیجا.صندوق اور موٹروں کا انتظام ان کے سپر د تھا.انہوں نے بتایا کہ صندوق تیار ہے اور مسجد میں رکھوا دیا گیا ہے.موٹر میں کرایہ پر کر لی گئی ہیں اور نصف شب کے بعد دو بجے یہاں آجائیں گی.پھر دریافت کیا کہ چوہدری صاحب کیسے ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں ان کے پاس سے باتیں کرتا ہی اٹھ کر آیا ہوں.مغرب سے تھوڑی دیر پہلے تک عزیز عبداللہ خاں اور ہمشیرہ صاحبہ بھی پہنچ گئے.عبداللہ خاں نے جب والد صاحب سے مصافحہ کیا تو ان کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا.والد صاحب نے
83 تھوڑی دیر کے بعد اپنا ہاتھ آزاد کر کے خاکسار کی ران پر رکھ دیا اور کہا: ”میاں میں اسے یہاں 66 رکھنا چاہتا ہوں.“ وفات: چونکہ ہم سب کو تو والدہ صاحبہ کے خواب کا علم تھا.ہم جانتے تھے کہ اب یہ آخری گھڑیاں ہیں.اور دل میں بہت حسرت تھی کہ کوئی بات کر لیں.اس لئے میں کوئی نہ کوئی بات کرتا جاتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ میں نے ان کے کان میں کہا.”مجھے آپ سے اس قدر محبت ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی تکلیف میں لے لوں.اس پر والد صاحب نے اپنا بازو میری گردن کے گرد ڈال کر میرے چہرہ کو اپنے چہرہ کے قریب کر لیا اور میرے کان میں کہا.ایسی خواہش اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں.ہر ایک اپنی اپنی باری پر.“ وو تھوڑے وقفہ کے بعد میں نے کہا.آپ کو یا د ہے.یہ کس موقعہ کا شعر ہے: كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ فرمایا ہاں یاد ہے.حسان ابن ثابت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر کہا تھا.” جب کھانے کا وقت ہوا.تو باصرار تمام مہمانوں سے کہا.جاؤ اور کھانا کھاؤ.جب بعض نے تامل کیا تو والد صاحب نے پھر اصرار کیا اور کہا ملازم انتظار کرتے رہیں گے انہیں بھی فارغ کرنا چاہیئے.ابھی مہمان کھانا کھا رہے تھے ، تو والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اگر تمہارے والد پسند کریں تو ان کا پلنگ مردانہ صحن میں لے چلیں.وہ زیادہ فراخ اور ہوا دار ہے.اور یہ اکثر وہیں سویا کرتے تھے.میں نے والد صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا ”ہاں لے چلو.میں نے کہا.” کیا وہ صحن آپ کو زیادہ پسند ہے؟ تو والدہ صاحبہ نے کہا کہ وہ تو فوت بھی ہو چکے ہیں ! اور یوں وہ اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.چنانچہ دیکھا تو فوت ہو چکے تھے.والدہ صاحبہ نے کلمہ شریف پڑھا اور إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کہا اور دعا کی.یا اللہ اپنے وو
84 فضل سے انہیں اپنی رحمت کے سایہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں جگہ دیجیو.پھر خاکسار سے مخاطب ہو کر کہا.پلنگ مردانے میں لے جاؤ اور انہیں قادیان لے چلنے کی تیاری کرو.اس تیاری کے دوران میں میں دبے پاؤں دو تین بار زنانہ میں گیا.تا معلوم کروں کہ والدہ صاحبہ کا کیا حال ہے.میں نے دیکھا کہ وہ مستورات میں بیٹھی ہوئی اطمینان سے والد صاحب کی بیماری کے حالات بیان کر رہی ہیں.وو ” جب سب تیاری ہو چکی تو جنازہ پڑھا گیا اور والدہ صاحبہ بھی مع مستورات کوٹھی کے برآمدہ میں صف بندی کر کے جنازہ میں شامل ہوئیں.صندوق موٹر میں رکھنے سے پیشتر میرے بازو کا سہارا لے کر صندوق کے پاس آئیں اور کہا : اللہ کے سپرد.آپ نے مجھے ہر طرح سے خوش رکھا.اور میری چھوٹی سے چھوٹی خواہش کو پورا کیا.میرا دل ہمیشہ آپ پر راضی رہا.مجھے تو یاد نہیں کہ آپ کی طرف سے مجھے کوئی تکلیف یا رنج پہنچا ہو.لیکن اگر کبھی ایسا ہوا ہو.تو میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آپ کو معاف کرتی ہوں.مجھ سے کئی قصور اور کو تا ہیاں سرزد ہوئیں.ان کی معافی میں اللہ تعالیٰ سے طلب کروں گی.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے.اپنے والد صاحب کو میرا اسلام پہنچا دینا.اور اگر ہو سکے تو اپنی حالت کی ہمیں اطلاع دینا.“ اس تمام عرصہ میں یہ ایک آخری فقرہ ہی ان کے دل کے کرب کا شاہد ہوا.اور غالبا یہ بھی بے اختیاری میں منہ سے نکل گیا.ورنہ خدا تعالیٰ کی رضا کو انہوں نے نہ صرف صبر سے بلکہ بشاشت سے قبول کیا.اور اس نصف صدی کی با محبت اور باوفا رفاقت کے ختم ہونے پر جو ہر دیکھنے والے کے لئے بطور نمونہ کے تھی، کسی قسم کے غم کا اظہار نہیں کیا.ان کے دل پر جو گذری ، اس سے وہ خود ہی واقف ہوں گی.لیکن دل کی کیفیت انہوں نے دل میں ہی رہنے دی.کبھی کبھی اس کی کوئی جھلک کسی محرم راز کو نظر آجاتی تھی.لیکن حتی الوسع وہ اس کے اظہار سے پر ہیز کرتی تھیں.
85 تدفین، والدہ کا صبر : ۲ اور ۳ بجے کے درمیان ہم والد صاحب کا جنازہ لے کر لاہور روانہ ہوئے اور ۸ بجے کے قریب حضرت ام المومنین کے باغ میں پہنچے.یہ ۳ ستمبر جمعہ کا دن تھا.حضرت خلیفہ اسیح (ایدہ اللہ بنصرہ) کا تار ڈلہوزی سے آیا کہ اگر طبی لحاظ سے جنازہ میں تا خیر نا مناسب نہ ہو تو انتظار کی جائے.ہم خود جنازہ پڑھائیں گے.ڈاکٹر صاحبان نے ملاحظہ کے بعد رائے دی کہ تاخیر میں کوئی حرج نہیں.چنانچہ حضور کی خدمت میں اطلاع بھیج دی گئی اور حضور کا جواب آیا کہ حضور تشریف لا رہے ہیں.بارش کی کثرت کی وجہ سے رستہ صاف نہیں تھا.اس لئے حضور نصف شب کے بعد قادیان پہنچے.اور ہفتہ کے دن ۴ ستمبر صبح ۹ بجے کے قریب حضور نے نماز جنازہ پڑھائی.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار والے قطعہ کے مغرب کی طرف خاص صحابہ کے قطعہ میں والد صاحب کو دفن کرنے کی حضور نے اجازت بخشی.جب قبر کی مٹی ہموار کی جارہی تھی تو یکا یک بارش ہوگئی اور قبر کو ہموار کرنے کے لئے پانی کی ضرورت نہ پڑی.* ستمبر کو ہم قادیان سے روانہ ہو کر واپس اپنے وطن ڈسکہ کو گئے.والدہ صاحبہ نے خاکسار کو تاکید کی کہ ڈسکہ ایسے وقت میں پہنچیں کہ کسی نماز کا وقت ہو.تا پہنچتے ہی نماز میں مصروف ہو جائیں.اور جو مستورات ماتم پرسی کے لئے آئیں.انہیں کسی قسم کی جزع فزع کا موقعہ نہ ملے.چنانچہ جب ہم ڈسکہ کے قریب پہنچے تو ظہر کا وقت ہو گیا تھا.والدہ صاحبہ نے رستہ میں ہی وضو کر لیا اور مکان پر پہنچتے ہی نماز شروع کر دی.اس موقعہ پر ہمارے گاؤں کی ایک غیر احمدی عورت نے والدہ صاحبہ سے بیان کیا کہ کل یعنی ۴ ستمبر کو مجھے شدید تپ تھا اور بحران کی حالت تھی.میں نے بیہوشی میں دیکھا کہ میاں جہاں (جو والد صاحب کے کارندہ تھے اور ان کے ساتھ ہی حج بھی کر چکے تھے ) مجھ سے کہتے ہیں چلو تمہیں 6 زير مدينة المسح الفضل رقمطراز ہے : چونکہ جناب چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم نے خواہش ظاہر کی تھی کہ ان کا جنازہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ( ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ) پڑھائیں، اس لئے جب حضور کو ڈلہوزی میں ان کی وفات کی خبر پہنچی تو حضور ۳ - ۴ ستمبر کی درمیانی رات کو ۱۲ بجے کے قریب دارالامان تشریف لے آئے اور صبح نماز جنازہ پڑھائی.“
86 رض قادیان لے چلوں.میں ان کے ساتھ روانہ ہو پڑی اور تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ انہوں نے کہا وہ دیکھو قا دیان ہے.سامنے ایک باغ تھا.ہم اس میں داخل ہو گئے.باغ میں ایک مکان تھا.ہم اس کے برآمدہ میں داخل ہوئے تو سامنے دالان میں ایک پلنگ بچھا ہوا دیکھا.جس پر چوہدری صاحب ( یعنی والد صاحب ) بیٹھے قرآن کریم پڑھ رہے تھے.اور ایک جوان خوبصورت عورت پاس کھڑی پنکھا ہلا رہی تھی.کمرے میں مختلف قسم کے پھل رکھے ہوئے تھے، چوہدری صاحب نے ہمیں اندر بلا لیا اور اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ.اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ظفر اللہ خان کی والدہ سے کہہ دینا کہ میں بہت خوش ہوں.پھر میں ہوش میں آگئی.اور میں نے دیکھا کہ میرا تپ بالکل اتر گیا ہے اور میں بالکل صحت مند ہوں.“ 4766 الفضل میں ذکر خیر : ایک اور گراں قدر ہستی اٹھ گئی.“ اور ” جناب چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کی وفات حسرت آیات کے دوہرے عنوان کے تحت الفضل لکھتا ہے :.جماعت احمدیہ میں یہ خبر نہایت ہی رنج اور افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ جناب چوہدری نصر اللہ خاں صاحب ناظر اعلی کچھ عرصہ کی علالت کے بعد ۳ ستمبر کی شام کو ۶۳ سال کی عمر میں لاہور میں انتقال فرما گئے.انا للہ وانا اليه راجعون.یوں تو جناب چوہدری صاحب مرحوم کی صحت عرصہ سے کمزور چلی آتی تھی ، اور کوئی نہ کوئی عارضہ لاحق رہتا تھا.لیکن باوجود اس کے آپ کو خدمت دین کا اس قدر جوش تھا کہ سلسلہ احمدیہ کی نظارت اعلیٰ کے گراں بار فرائض سرانجام دینے میں مصروف رہتے.آشوب چشم سے آرام پانے کے بعد گذشتہ جولائی میں آپ نے پھر نظارت اعلیٰ کا چارج لیا مگر چند ہی دن کے بعد بعض ضروری امور کے لئے آپ سیالکوٹ تشریف لے گئے کہ اسی دوران میں علیل ہو کر اپنے قابل اور لائق بیٹے جناب چودھری ظفر اللہ خاں صاحب بیرسٹر ایٹ لاء کے پاس لاہور تشریف لے آئے اور اسی مقام پر داعی اجل کو لبیک کہا.آہ آپ کی وفات سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کا ایک مخلص فرد ، ایک اعلیٰ خدمت گزار، ایک سچا فدائی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اخلاص شعار صحابی کم ہو گیا.جناب چودھری صاحب مرحوم نے ستمبر ۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے
87 ہاتھ پر بیعت کی تھی اور بیعت کے بعد اخلاص اور محبت میں ان کا قدم روز بروز بڑھتا گیا.آپ نے ۱۹۱۷ ء میں وکالت کے کام کو جسے آپ نے نہایت ناموری اور نیک نامی کے ساتھ انجام دیا.قطعاً چھوڑ دیا اور ہمہ تن خدمت دین میں مصروف ہو گئے.قادیان تشریف لانے پر ایک طرف آپ کو نظارتوں کے ناظر خاص کے فرائض سپرد کئے گئے اور دوسری طرف آپ صدرانجمن احمدیہ کے پریذیڈنٹ بنائے گئے.آخر جب دونوں صیغوں کو اکٹھا کر دیا گیا تو آپ سب سے پہلے ناظر اعلیٰ مقرر ہوئے اور آپ نے اس منصب کے اہم فرائض کو نہایت خوبی اور خوش اسلوبی سے سرانجام دیا.آپ نے سلسلہ کی گراں قدر خدمات آنریری طور پر سر انجام دینے میں پہلی مثال قائم کی.اور اس کے ساتھ ہی آپ مالی طور پر بھی بڑی بڑی رقوم کے ساتھ سلسلہ کی امداد کرتے رہتے تھے.آپ کو تلاوت قرآن کریم کا اس قدر شوق تھا کہ آخری عمر میں جبکہ عموماً قویٰ کمزور ہو جاتے ، دماغی طاقت گھٹ جاتی اور انسان فطرتا آرام کا محتاج ہو جاتا ہے ، سارا قرآن کریم حفظ کر لیا.آپ مع اپنی اہلیہ محترمہ کے حج بیت اللہ کی سعادت سے بھی بہرہ اندوز ہو چکے تھے.نظارت اعلیٰ کی خدمات کے علاوہ آپ نے علمی خدمات کا بھی ایک قابلِ قدر سلسلہ شروع کیا تھا اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے انڈکس تیار کرتے رہے.چنانچہ بعض کتب جو حال میں شائع ہوئی ہیں ، ان کی ابتداء میں آپ کے تیار کردہ انڈکس موجود ہیں.اور احباب ان سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کس قدر ضروری اور اہم کام ہے.آپ مرض ذات الجنب سے فوت ہوئے ہیں.دراصل بیماری کا حملہ آپ پر قادیان میں ہی ہوا تھا.مگر وطن جانے پر درمیان میں آپ کو افاقہ ہو گیا مگر بعد ازاں یکدم طبیعت بگڑ گئی اور پھر سنبھل نہ سکی.آپ کا جنازہ لاہور سے بذریعہ موثر قادیان لایا گیا جو بروز جمعہ تقریباً 9 بجے صبح یہاں پہنچ گیا.جنازہ کے ہمراہ آپ کے فرزندانِ رشید چودھری ظفر اللہ خاں صاحب بیرسٹر ایٹ لاء، چودھری شکر اللہ خاں صاحب ، چودھری عبداللہ خاں صاحب اور چودھری اسد اللہ خاں صاحب کے علاوہ آپ کی اہلیہ محترمہ.آپ کی بیٹی، آپ کی بہو ، آپ کا بھائی.آپ کے بھانجے اور آپ کے بعض دیگر رشتہ دار بھی آئے.جناب چودھری صاحب مرحوم نے اپنے ایام علالت میں یہ خواہش ظاہر فرمائی تھی کہ میرا جنازہ
88 حضرت خلیفہ اسیح ثانی ( ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ) پڑھائیں.حضور کو روزانہ ڈلہوزی چودھری صاحب کے متعلق اطلاع پہنچائی جاتی تھی.اور جب حالت زیادہ تشویش ناک ہوگئی تو دن میں دو بار بذریعہ تا رحضور دریافت حالات فرماتے رہے.آخر جب حضور کو وفات کی خبر پہنچی تو حضور ۳ رستمبر بروز جمعہ دو بجے ڈلہوزی سے روانہ ہوئے اور رات کو بارہ بجے کے قریب دارالامان تشریف لے آئے.۴ ستمبر صبح ساڑھے نو کے قریب بہت سے آدمیوں کی معیت میں حضور نے باغ مسیح موعود میں آپ کا جنازہ پڑھایا اور بھی دعائیں کیں.آپ کا جنازہ جماعت لاہور نے بھی لاہور میں پڑھا تھا.بعد فراغت نماز جنازہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے ایک طرف سے خود چار پائی اٹھائی اور کنار لحد تک لے گئے.اور اپنے ہاتھوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پاکباز صحابی کو مقبرہ بہشتی میں سپردخاک کیا.جناب چودھری صاحب مرحوم نہایت ہی حلیم الطبع، وسیع القلب ، سیر چشم اور صاف گو انسان تھے.آپ کی صاف گوئی کا نظارہ ایک دفعہ مجھے بھی دیکھنے کا موقعہ ملا.حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ لا ہور تشریف رکھتے تھے.مجلس عام میں حضور رونق افروز تھے کہ ایک کالج کے پروفیسر صاحب حضور سے مختلف مسائل پر گفتگو کرنے لگے.پروفیسر صاحب نے ایک تو سلسلہ کلام کو اس قدر طول دے دیا کہ کسی اور کو بات کرنے کا موقعہ ہی نہ دیتے.دوسرے ان کی گفتگو اس قسم کا رنگ اختیار کرگئی جو بے نتیجہ باتوں کا ہوتا ہے.اس سے قریباً تمام مجلس کبیدہ خاطر ہورہی تھی کہ جناب چودھری صاحب مرحوم نے پروفیسر صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا.آپ اگر گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو کسی علمی بات کے متعلق کریں.بے فائدہ کیوں وقت ضائع کر رہے ہیں،اس کے بعد پروفیسر صاحب نے جلد ہی سلسلہ کلام ختم کر دیا.جناب چودھری صاحب مرحوم سے جن اصحاب کو خاص تعلقات رہے ہیں، وہ آپ کی خوبیوں اور واقعات زندگی سے بہت زیادہ واقف ہوں گے اور ہماری درخواست ہے کہ وہ ان کو لکھ کر ہمارے پاس بھیج دیں.تا کہ ہم انہیں شائع کر سکیں.اس صدمہ جانکاہ کے متعلق ہم تمام جماعت کی طرف سے جناب چودھری ظفر اللہ خاں صاحب اور ان کے سارے خاندان سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ چودھری صاحب مرحوم کے قابل فرزندوں کو اپنے محترم باپ کے نقشِ قدم پر چلنے اور بیش از بیش خدماتِ
89 دین سرانجام دینے کی توفیق بخشے.بیرونی جماعتیں بھی جناب چوہدری صاحب کا جنازہ پڑھیں اور دعائے مغفرت کریں.تعزیتی قرارداد مجلس معتمدین: وو جناب چوہدری نصر اللہ خاں صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات پر مجلس معتمدین و مقامی مجلس شوری کا اظہار افسوس“ کے عنوان کے تحت مرقوم ہے : بخدمت جناب ایڈیٹر صاحب اخبار الفضل وو السلام عليكم ورحمة الله وبركاته - ریزولیوشن نمبر ۱۸۱ منعقدہ ۶ ستمبر ۱۹۲۶ء میں معتمدین متعلقہ اظہار غم بر وفات جناب چودھری حاجی نصر اللہ خاں صاحب رضی اللہ عنہ ناظر اعلی مجلس معتمدین قادیان.رپورٹ قائم مقام ناظر اعلیٰ کہ جناب چودھری نصر اللہ خاں صاحب کا ۲ ۳۰ ستمبر کی درمیانی رات کو انتقال ہو گیا.انا للہ وانا الیہ راجعون.چودھری صاحب موصوف مجلس معتمدین کے ناظر اعلیٰ تھے.ضروری ہے کہ مجلس کی طرف سے ان کی وفات پر اظہار رنج وغم اور آپ کے ورثاء سے تعزیت کا ریزولیوشن پاس کیا جائے.مجلس میں پیش ہو کر پاس ہوا کہ: مجلس معتمدین حضرت چودھری نصر اللہ خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابق ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ قادیان کی وفات حسرت آیات پر اپنے دلی رنج وغم کا اظہار کرتی ہے، اور مرحوم ومغفور کے پسماندگان کے ساتھ اس حادثہ جانکاہ کے سبب رنج و غم میں اظہار شرکت و دلی ہمدردی کرتی ہے.چودھری صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمات سلسلہ جو باوجود پیرانہ سالی اور امراض کے وہ بحیثیت ناظر اعلیٰ بجالاتے رہے ہیں، ایسی ہیں کہ ان کی وفات کو یہ مجلس ایک قومی صدمہ سمجھتی ہے.اور دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے صاحبزادگان کو اپنے والد بزرگوار سے زیادہ خدمتِ اسلام کی توفیق بخشے.آمین.نمبر ۲ نقل ریزولیوشن بخدمت چودھری ظفر اللہ خاں صاحب بیرسٹرایٹ لاء.خلف اکبر چودھری صاحب مرحوم و مغفور و تمام اخبارات سلسله و دیگر اخبارات کو بغرض اشاعت بھیجی جائے.خاکسار شیر علی قائم مقام ناظر اعلی ، قادیان
90 خدمات سلسلہ: اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے گونا گوں خدمات سلسلہ کی توفیق پائی.آپ جماعت سیالکوٹ (بشمول مضافات ) کے صدر تھے.وہاں کا نظام قابل تعریف تھا.اور آپ جانفشانی سے یہ خدمت سرانجام دیتے تھے.قادیان ہجرت کر کے آنے پر بھی آپ تبلیغ میں خوب حصہ لیتے تھے.* صدرانجمن احمدیہ کے مشیر قانونی ہمبر مجلس معتمدین ، صدر مجلس مذکور، ناظر خاص اور نئی تنظیم کے وقت سے تا وفات اولین ناظر اعلی ، سیکرٹری بہشتی مقبرہ اور قائم مقام امین کے عہدوں پر آپ سرفراز رہے.گورنر پنجاب سے ملاقات کرنے والے وفود میں آپ شامل ہوئے.مشاورت میں ایک بار صدر اجلاس اور ایک بار اس کی ایک سب کمیٹی کے ممبر ہوئے.اور جلسہ سالانہ کے بعض اجلاسات آپ کی صدارت میں منعقد ہوئے.مالی قربانی اپنے قیمتی وقت کی قربانی کے علاوہ آپ مالی قربانی میں بھی سابقون میں سے تھے.چنانچہ بعض امور درج کئے جاتے ہیں : تالیف و اشاعت کی جو سالانہ رپورٹ ۱۹۲۱ء کے جلسہ سالانہ پر سنائی گئی ، اس میں سات افراد کا ذکر کیا گیا جنہوں نے اپنے طور پر تبلیغ میں زیادہ حصہ لیا.اس میں آپ کا نام نامی بھی شامل ہے.اس سے انداز ہوتا ہے کہ آپ ہجرت کر آنے سے قبل بھی تبلیغ میں کس قدر کوشاں ہوں گے.بعض امور کے متعلق ذیل میں چند حوالجات درج کئے جاتے ہیں : (۱) خاکسار مؤلف کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حضرت چودھری صاحب کا تقرر بطور صدرانجمن سیالکوٹ کب عمل میں آیا تھا.البتہ رپورٹ جلسہ سالانہ صدر انجمن احمد یہ قادیان بابت ۱۹۰۸ء میں ۸.۱۹۰۷ء کے متعلق جو رپورٹ سنائی گئی.اس میں ضمناً آپ کی اس حیثیت کا ذکر موجود ہے.(ص۴) گویا ۱۹۱۷ تک ( جبکہ آپ قادیان میں ہجرت کر کے آئے ).کم و بیش نو دس سال آپ کو اس خدمت کے سر انجام دینے کی توفیق ملی.ان دنوں موجودہ عہدہ ”امیر نہیں ہوتا تھا.بعہد خلافت ثانیہ ۱۹۱۸ ء کے لگ بھگ تقر ر امراء کا آغاز ہوا تھا.۲۵
91 (۱) آپ موصی تھے.سیکرٹری صدرانجمن احمد یہ سالانہ رپورٹ میں تحریر کرتے ہیں : ’ جماعت سیالکوٹ میں خصوصیت سے قابل ذکر ہمارے مخلص دوست چوہدری نصر اللہ خاں صاحب پریذیڈنٹ انجمن ہیں.جنہوں نے تین ہزار دو سو روپیہ حصہ وصیت اپنی زندگی میں ہی ادا کر دینے کا بقیہ حاشیہ: - سالانہ رپورٹ بابت ۱۲.۱۹۱۱ء میں مضافات سیالکوٹ کے دورہ کے متعلق مرقوم ہے: " محترم چودھری نصر اللہ خاں صاحب نے ) دورہ کر کے شاخوں کے حساب و کتاب کی پڑتال کی ہے.جہاں نقص پائے گئے ، ان کو حساب با قاعدہ رکھنے کی تاکید کی گئی.“ (ص۹۳) یقیناً ایسی خدمات کی وجہ سے آپ مرکز میں خاص قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہوں گے.چنانچہ الحکم بابت ۲۱/۲۸ فروری ۱۹۱۳ء میں دار الامان کا ہفتہ کے زیر عنوان قادیان تشریف لانے میں چند مہمانوں میں آپ کا اسم گرامی بھی مرقوم ہے.(ص۰اک ۲) (ب) ۱۲.۱۹۱۱ء کے آخر میں خواجہ کمال الدین صاحب کے ولایت جانے پر آپ مشیر قانونی مقرر ہوئے.( سالانہ رپورٹ ص۸۲) اور ۱۳ - ۱۹۱۲ء میں بھی آپ اس رنگ میں خدمات سرانجام دیتے اور مفید مشوروں سے فائدہ پہنچاتے رہے.( رپورٹ صفحہ ۵۳ ) بعد میں بھی آپ مشیر قانونی رہے.( مضمون حضرت محمد الحق صاحب مندرجہ الفضل ۱۷/۹/۲۶) ( ج ) آپ کو مجلس معتمدین کا ممبر مقرر کیا گیا.(میری والدہ ص۵۰) یہ تقر ر ۱۹۱۴ء میں عمل میں آیا.اس تقر رکا نیز ناظر خاص.صدر مجلس معتمدین - ناظر اعلیٰ اور افسر بہشتی مقبرہ ہونے کا ذکر متعدد مقامات پر آتا ہے.مثلاً الفضل ۷/۹/۲۶ مضمون مذکور.رپورٹ ہائے صدر انجمن احمدیہ بابت ۱۸ - ۱۹۱۷ء (ص۱۹۲ - ۱۹۱۸ء ( ص ۲ و ۲۰.۱۹۱۹ء (ص۳).اسی طرح الفضل ۲۲/۲/۲۳ میں زیرہ مدینہ اسیح " مرقوم ہے.لائے.جناب چوہدری نصر اللہ خاں صاحب ناظر خاص مع الخیر قادیان تشریف ۲۶/۱۲/۲۳ کو جلسہ سالانہ میں آپ نے بطور ناظر اعلیٰ صیغہ جات کے متعلق مختصر کارگزاری سنائی.( الفضل ۱/۲۴ را صفحه ۱۱ و ۱۲ و ۴/۱/۲۴ صفحه ۹) چند یوم کے لئے آپ کے وطن جانے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ کو قائم مقام
92 وعدہ فرمایا بلکہ اس روپیہ کا زیادہ حصہ ادا بھی کر دیا ہے.جزاه الله خير الجزاء (۲) بورڈنگ مدرسہ تعلیم الاسلام کے لئے پندرہ ہزار روپے کی اینٹیں تیار کی گئی تھیں اور اصل بقیہ حاشیہ: ناظر اعلی و پریذیڈنٹ صدرانجمن احمد یہ اور حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کو قائم ۶۶ مقام افسر بہشتی مقبرہ مقرر کیا گیا.اور سفر سے واپس آکر چوہدری صاحب نے چارج لیا.حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب قائم مقام ناظر اعلیٰ مقرر ہوئے ( احمد یہ گزٹ ۱-۲۶ - ۲۶ صفحه ۲۹) غالباً ابتداء میں یہ تقرر چوہدری صاحب کی علالت کے باعث ہوا ہوگا.چند ماہ بعد ان کی وفات واقع ہوگئی.(ر) ۱۹-۱۲-۲۰،۲۶-۱۲-۲۷/۱۲/۲۲،۲۷ کو اور ۱۹۲۴ء میں جلسہ سالانہ کے مواقع پر ایک اجلاس کے آپ صدر تھے.( ریویو آف ریلیجنز (اردو) بابت جنوری ۱۹۲۰ء ( صفحه ۳۵) و الفضل ۲۰-۱-۵ صفحه ۲اک اوص ۳ ک ۲۱۳ - ۱-۳ ص ۲ ک او ۲۱ - ۱-۶ ص ۸ک ۱ - ۲۱-۱۲-۶ و ۲۲-۱-۲ ص ۲ ک ۲ و ۲۳ - ۱- اص ۲ ک او ۲۳-۱- ۸ ص ۳ و ۲۵/۱۲/۲۴) (ھ) بعض متفرق حوالجات کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے: (۱) جلسه سالانه ۱۹۲۱ء میں نظارت بیت المال کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس سال تک صدر انجمن احمد یہ ایک لاکھ روپیہ کی مقروض ہو چکی ہے.بعض احباب نے سال رواں میں چندہ کے اضافہ کے لئے انجمنوں کا دورہ کیا.اور اس تعلق میں تین احباب کا ذکر کیا گیا.ان میں حضرت چوہدری صاحب کا نام نامی بھی ہے.(الفضل ۶/۱/۲۲ اص ۵ک ۳) (۲) سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں آر لاہور گئے.(الحکم ۴/۱۱/۲۳ ص ۶) اس وقت آپ ناظر اعلی تھے.(۳) حضرت مولوی شیر علی صاحب.حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب رضی اللہ عنہم کی طرف سے ایک مشترکہ اعلان شائع کیا گیا کہ کثرت سے احباب جلسہ سالانہ ۱۹۲۴ء میں شرکت کے لئے تشریف لائیں اور اپنے زیر اثر اور غیر مبایعین اور دیگر مذاہب والوں کو بھی لائیں.ممکن ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی تقریر میں ان خیالات کا بھی اظہار فرمائیں جو آپ نے اپنے جدید سفر یورپ میں مغرب میں تبلیغ اسلام کے متعلق قائم فرمائے.نیز اس اعلان میں بعض ممتاز مقررین کا بھی ذکر ہے کہ جن سے احباب جلسہ پر استفادہ کر سکیں گے.(الفضل ۲۵/۱۲/۲۴)
93 تعمیر کے آغاز کے لئے مزید تمیں ہزار روپیہ دور کا رتھا.حضرت چوہدری صاحب نے اس کے دسویں حصہ سے زیادہ رقم پیش کر دی.اس وقت انجمن کا بجٹ قریباً نو ہزار روپیہ ماہوار تھا.اس سے چوہدری صاحب محترم کی اس رقم کی اہمیت اور جلالت قدر کا احساس ہوتا ہے.یوں سمجھ لیا جائے کہ صدرانجمن احمدیہ کے اس وقت کے ماہوار بجٹ کے ایک تہائی سے زائد کی آپ نے ادائیگی کی.مزید برآں یہ کہ یہ رقم دیگر چندہ جات کے علاوہ تھی.ماہوار رپورٹ میں مرقوم ہے : عمارت کے متعلق میں بہت کچھ اوپر کہہ چکا ہوں.حضرت میر ناصر نواب صاحب نے ہسپتال کے لئے چندہ کرنے میں اردگرد کے دیہات میں اس قدر صعوبت اپنے نفس پر برداشت کر کے روپیہ جمع کیا ہے کہ ان کے اس لاہی جوش پر میں حیران ہوں.قریب ڈیڑھ ہزار کے چندہ ہو چکا ہے.جس میں مسجد کا چندہ بھی شامل ہے.چونکہ بورڈنگ ہاؤس کے باہر بننے کے ساتھ ہسپتال اور مسجد کا وہاں ہونا ضروری تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر دو کے لئے یہ سامان پیدا کر دیا ہے اور مسجد کے لئے تو قریب تین ہزار روپیہ عنقریب وصولی ہو کر امید ہے کہ یہ کام بہت جلد شروع ہو جائے گا.اسی سلسلہ تعمیر میں.صاحب نے اپنی جائیداد کا حساب کر کے پندرہ سو روپیہ وصیت رپورٹ جلسہ سالانہ صدرانجمن احمد یہ قادیان ۱۹۰۸ء (ص۴) ۸.۱۹۰۷ء کی یہ رپورٹ جلسہ سالانہ پر سیکرٹری کی طرف سے سنائی گئی تھی (ریو یو آف ریلیجنز (اردو ) بابت جون ۱۹۱۳ء میں بحساب وصیت مزیدستاون روپے ادا کرنا مرقوم ہے.( ص۲۲۸) اس وقت اتنی رقم بھی اہمیت رکھتی تھی تبھی انفرادی طور پر اس کا ذکر کیا گیا.آپ نے ۲۵ / دسمبر ۱۹۱۵ء کو وصیت کی.نمبر وصیت ۸۷۱ ہے.آپ کی وصیت میں جو جائیداد درج ہے.اس سے آپ کی ہجرت اور نفس کشی کا مزید علم ہوتا ہے.آپ کی جائیداد ایک لاکھ ایک سور و پیر کی ثابت ہوئی تھی.جس کی تفصیل یہ ہے: اراضی واقعہ موضع ڈسکہ تین صد گھماؤں سے کچھ اوپر.چار مربع واقعه چک نمبر ۸۸ جھنگ برانچ موضع حشیانہ.ایک حویلی واراضی سفید اور چند دکانات واقعہ سیالکوٹ شہر.ایک مکان واقعہ سیالکوٹ شہر.جو آپ کے پاس چھپن صد روپے میں رہن تھا.وفات پر دس ہزار ایک صد روپیہ وصول ہوا.گو یا دسویں حصہ کی وصیت تھی.(ماخوذ از ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرہ)
94 کا نقد داخل کرنے کا ارادہ کیا ہے.جس میں سے ایک ہزار وہ بھیج بھی چکے ہیں.اس روپے سے ان کا منشاء ہے کہ ایک کمرہ بورڈنگ ہوس کا وصیت کے مطابق انجمن کی ملکیت ہوگا.اس سے پہلے چوہدری نصر اللہ خاں صاحب نے اسی طرح پر تین ہزار سے اوپر رو پید انجمن کو دیا.جس سے دو کمرے بورڈنگ ہوس کے بنائے جائیں گے.مگر ان کا کرایہ چودھری صاحب نے خود لینا پسند نہیں کیا.بلکہ یہ مکان ابھی سے انجمن کی ملکیت ہوں گے.اور ان کا کرایہ بھی انجمن ہی لے گی.اگر دس پندرہ احباب اور اس طرز سے اپنی وصایا کا روپیہ جمع کرا دیں.تو بورڈنگ ہوس قوم پر مزید بوجھ پڑنے کے بدوں ہی بن سکتا ہے.“ ( ریویو آف ریجنز (اردو ) بابت اگست ۱۹۰۹ء ( صفحه ۳۲۰) نیز بجٹ کا ذکرص ۳۱۷ پر ہے.) (۳) آپ نے جہاد ملکانہ کے لئے تین صد روپیہ کی پیشکش کی.(۴) محترم با بومحمد عبداللہ صاحب (صحابی ) پنشنر سکنیلر محکمہ نہر بیان کرتے ہیں کہ جب مکرم شیخ عبدالقادر صاحب ) سابق سوداگر مل حال مربی سلسلہ احمدیہ متعین لاہور ) نے بذریعہ مکرم میاں محمد مراد صاحب سکنہ پنڈی بھٹیاں اسلام قبول کیا تو میاں صاحب کو حضرت چوہدری نصر اللہ خاں رپورٹ مشاورت ۱۹۲۳ء (۵۵) ملکانہ جہاد میں جانے کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.۲۶-۱۲-۲۳ کو جلسہ سالانہ پر آپ نے جو رپورٹ صدرانجمن سنائی.اس میں بھی ذکر کیا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی علاقہ ملکانہ میں بھجوایا.(الفضل ۴/۱/۲۴ ص ۹ ک۳) سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ بابت ۱۹۲۰ء میں ان اکیس افراد میں آپ کا نام بھی شامل ہے جن کا شکر یہ ادا کیا گیا کہ مدرسہ احمدیہ کے طلبہ کے لئے وظیفہ مقرر کیا.ان افراد میں سے حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب وغیرہ پانچ افراد نے بارہ روپے ماہوار اور ( بشمول چوہدری صاحب) تین نے چھ سو روپے ماہوار کی پیشکش کی.باقی تیرہ افراد کی پیشکش اس سے کم کی ہے.(ص ۶۵) ย آپ ریویو آف ریلیجنز (اردو) کی اعانت بھی کرتے تھے.مثلاً پر چہ بابت ستمبر ۱۹۰۵ء سرورق آخر ( پانچ روپے اعانت ) اور پرچہ بابت فروری ۱۹۱۸ء (صفحہ ۸۴) میں اعانت کے متعلق ذکر آتا ہے.
95 صاحب کی طرف سے قادیان بلا کر بتایا گیا کہ اس وقت شیخ صاحب کے لئے صدر انجمن احمدیہ کے تعلیمی فنڈ میں منظوری نہیں.ہم مل کر تین ماہ تک یہ خرچ برداشت کر لیں تو اس عرصہ میں صدرانجمن کوئی فیصلہ کر لے گی.چنانچہ نصف خرچ چوہدری صاحب نے اور نصف میں نے اور میاں صاحب نے برداشت کیا.اور بعد ازاں صدر انجمن نے انتظام اپنے ذمہ لے لیا.کتب حضرت مسیح موعود کے انڈکس تیار کرنا: کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے انڈکس تیار کرنے کی مہم کا آغاز کر کے اولیت کا مقام آپ ہی نے حاصل کیا.اس کی افادیت ظاہر و باہر ہے.آپ نے کم و بیش ایک درجن کتب کے انڈکس تیار فرمائے.ہیں رض مکرم بابو صاحب ،مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت قادیان کے برادر اکبر ہیں.مکرم شیخ عبدالقار صاحب ( مصنف ”حیات طیبہ ) اور مکرم میاں محمد مراد صاحب کے ایمان افروز سوانح کے لئے احباب تابعین اصحاب احمد جلد اول کی طرف رجوع فرمائیں.ذیل کی کتب کے انڈکس دیکھنے کا مجھے موقعہ مل سکا ہے.ہر ایک کا ایڈیشن جو میں نے دیکھا ہے ، درج کر رہا ہوں: آئینہ کمالات اسلام (بار دوم ۱۹۲۴ء) - ایام اصلح اردو (بار دوم ۱۹۲۳ء).تحفہ قیصریہ (۱۹۲۲ء) ستاره قیصریه (با رسوم (۱۹۲۵ء ) روئیداد جلسه دعا (۱۹۲۵) سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ( طبع دوم ۱۹۲۳ء) - تریاق القلوب (۱۹۲۴ء) کشتی نوح ( بار هفتم ۱۹۳۳ء).شہادۃ القرآن ( طبع چہارم ۱۹۲۳ء ) - سناتن دھرم (چوہدری صاحب کا تیار کردہ انڈکس طبع اول کے آخر پر شامل ہے.معلوم ہوتا ہے.چونکہ یہ کتاب دو ہزار طبع ہوئی تھی.ابھی اس کی کافی تعداد باقی ہوگی.اس لئے انڈکس الگ طبع کرا کے شامل کر دیا گیا ہو گا.) حقیقۃ الوحی (با رسوم ۱۹۳۴ء) نور القرآن حصہ اول و نو را القرآن حصہ دوم ( طبع چہارم ۱۹۲۵ء)
96 اہلیہ محترمہ چوہدری صاحب کی رہائش: حضرت چوہدری صاحب کے قادیان ہجرت کر کے مستقل رہائش اختیار کرنے پر آپ کی اہلیہ محترمہ کی رہائش زیادہ تر ڈسکہ میں رہنے لگی کبھی کبھی قادیان بھی تشریف لایا کرتی تھیں.لیکن بیک وقت قادیان میں ان کا قیام مہینہ دو مہینہ سے زائد نہیں ہوتا تھا.بعض اوقات آپ محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے پاس لاہور میں قیام فرماتیں.لیکن یہ قیام بھی ایک وقت میں چند دن یا چند ہفتے ہی ہوا کرتا تھا.( میری والدہ ) محترم چوہدری صاحب بیان کرتے ہیں : وو والد صاحب کا منشاء تھا کہ ان کی وفات کے بعد والدہ صاحبہ اپنی مستقل رہائش خاکسار کے پاس ہی رکھیں.اور انہوں نے اپنی آخری بیماری میں ایک رنگ میں اپنی اس خواہش کا اظہار والدہ صاحبہ سے بھی کر دیا تھا.خاکسار کو بھی گوارا نہ تھا کہ والدہ صاحبہ اب خاکسار سے الگ رہیں.چنانچہ مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی کہ والدہ صاحبہ نے اپنی بقیہ حیات کا اکثر حصہ خاکسار کے پاس ہی گزارا.اور ہمارے گھر کو اپنے مبارک وجود سے منور رکھا اور ہم جو ان کے اردگر درہتے تھے.ہر لحظہ ان کی دعاؤں سے فیضیاب ہوتے رہے.یہ بارہ سال کا عرصہ کس قدر مبارک تھا.لیکن کس قدر مختصر اور ز و در فتار ! اس عرصہ کے شروع میں میرا یہ معمول تھا کہ میں ہر روز عشاء کی نماز کے بعد والدہ صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہو جایا کرتا تھا.اور چند منٹ ہم اپنے راز و نیاز کی باتوں میں گزار لیا کرتے تھے.یہ معمول تو آخر تک رہا.لیکن پہلے ایک دو سال کے بعد بعض دفعہ اس میں ناغہ بھی ہو جایا کرتا تھا.ان کا دل نہایت نازک احساس تھا.اس لئے وہ ذراذراسی بات سے نتیجہ اخذ کر لیا کرتی تھیں.مجھ سے کئی قصور اور کوتاہیاں ہوئیں اور بعض دفعہ گستاخی کا ارتکاب بھی ہوا.لیکن ان کے عفو کی چادر بہت وسیع تھی.اور وہ میرے قصور بہت جلد معاف کر دیا کرتی تھیں.لیکن ذراسی خدمت یا محبت کے اظہار پر ان کی دعاؤں کا ایک لمبا سلسلہ جاری ہو جایا کرتا تھا.اور یہ سلوک کچھ خاکسا رہی کے ساتھ مخصوص نہ تھا.ہر وہ شخص جن کا ان کے ساتھ دور کا بھی تعلق ہوا.وہ اس بات کا شاہد ہے کہ وہ عفو اور بخشش اور اجر دینے اور خیرات کرنے میں بہت جلدی کیا کرتی تھیں اور بہت فیاضی سے کام لیا کرتی تھیں.
97 ایک دفعہ انہوں نے مجھ سے کہا.میں بعض دفعہ حیران ہوتی ہوں کہ تم میری اس قدر اطاعت کیوں کرتے ہو.میں نے جواب دیا کہ اول تو اس لئے کہ آپ میری والدہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی اطاعت مجھ پر فرض کی ہے.دوسرے اس لئے کہ میں آپ کی طرف سے لا انتہا محبت کا مورد ہوں.تیسرے اس لئے کہ میں خواہش رکھتا ہوں کہ جب آپ والد صاحب سے ملیں تو ان سے کہہ سکیں کہ آپ کے بیٹے نے میری پوری اطاعت کی اور میں اس سے خوش رہی.جب میں نے یہ آخری بات کہی تو مسکرا کر کہا.یہ تو میں ان سے ضرور کہوں گی.وفات کے متعلق دور دیا: وو والد صاحب کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ایک رؤیا میں والدہ صاحبہ نے والد صاحب کو دیکھا.والد صاحب نے دریافت کیا.آپ اس قدر افسردہ کیوں ہیں؟ والدہ صاحبہ تو اس پر خاموش رہیں.ہمارے پھوپھا صاحب چوہدری ثناء اللہ خاں صاحب نے جو پاس تھے جواب دیا.آپ کی جدائی کی وجہ سے افسردہ ہیں.اگر آپ کو ان کی افسردگی کی فکر ہے تو آپ انہیں ساتھ کیوں نہیں لے جاتے.اس پر والد صاحب بھی کچھ افسردہ ہو گئے اور فرمایا: سچ جانئے ابھی ان کا مکان تیار نہیں ہوا.جب تیار ہو جائے گا میں خود 66 آکر انہیں لے جاؤں گا.“ تیس سال سے زائد عرصہ ہوا.انہیں خواب میں بتایا گیا کہ ان کی وفات اپریل کے مہینہ میں ہوگی.پھر کچھ عرصہ کے بعد بتایا گیا کہ اپریل کے آخری بدھوار کے دن وفات ہوگی.انہیں اس بات پر یقین تھا کہ یہ اطلاع اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.لیکن ساتھ ہی جانتی تھیں کہ رویا اور خواب تعبیر طلب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے.اور اس کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں.جنوری ۱۹۳۸ء میں جب خاکسار انگلستان جانے لگا تو والدہ صاحبہ نے دریافت کیا.اپریل تک واپس آجاؤ گے ؟ میں نے جواب دیا.امید کرتا ہوں انشاء اللہ.اس پر انہوں نے بہت اطمینان کا اظہار کیا.چنانچہ خاکسار یکم اپریل کی شام کو واپس دہلی پہنچ گیا.انگلستان سے میں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں لکھا تھا.کہ ان شاء اللہ یکم اپریل کو دہلی پہنچ جاؤں گا.اگر آپ پسند فرمائیں تو دہلی تشریف لے آئیں.اور اگر سفر کی تکان اور تکلیف کا خیال ہو ، تو پھر انشاء اللہ ۱۳ را پریل کو
98 قادیان ملاقات ہوگی.و, یکم اپریل کو گاڑی پونے دو گھنٹے دیر سے دہلی پہنچی.اسٹیشن پر پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ والدہ صاحبہ موٹر میں بیٹھی انتظار کر رہی ہیں.چنانچہ جب میں موٹر میں پہنچا، تو دعا دی اور پیار کیا ، اور کہا تم نے یہ کیسے خیال کر لیا کہ میں بارہ دن اور انتظار کر سکوں گی ؟ آخری علالت : بھی ہم دہلی ہی میں تھے کہ والدہ صاحبہ کو خون کے دباؤ کی تکلیف ہو گئی.پہلے بھی کبھی کبھی انہیں یہ تکلیف ہو جایا کرتی تھی.چنانچہ علاج کرنے پر دباؤ کی اصلاح ہوگئی اور تکلیف رفع ہو گئی.انہی ایام میں انہوں نے ایک رؤیا دیکھا.جس پر وہ اپنی طبیعت میں بہت خوشی محسوس کرتی تھیں.اور گو اس کی تعبیر کو خوب سمجھتی تھیں.لیکن بار بار اور خوشی خوشی اسے بیان کرتی تھیں.فرمایا میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک پلنگ پر تشریف فرما ہیں اور بہت خوش نظر آتے ہیں.مجھے آپ کو دیکھ کر دل میں بہت خوشی محسوس ہوئی.اور میں نے عرض کی یا حضرت اگر حضور اجازت دیں تو میں حضور کے پاؤں دباؤں.آپ نے مسکرا کر کمال شفقت سے اپنے پاؤں پلنگ کے ایک طرف کر لئے.تا میرے بیٹھنے کے لئے جگہ ہو جائے.میں پلنگ پر بیٹھ گئی اور حضور کے پاؤں دبانے لگی.اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ حضور اس وقت بہت خوش نظر آتے ہیں.میں کسی بات کے لئے دعا کے لئے عرض کر دوں.ابھی میں سوچ رہی تھی کہ کس بات کے لئے دعا کے لئے عرض کروں کہ حضور نے اپنی دائیں طرف کسی شخص سے مخاطب ہو کر اور میری طرف اشارہ کر کے فرمایا.ان کا مکان کشادہ بنانا.پھر میں بیدار ہوگئی.جب سے میں نے یہ خواب دیکھا ہے.میرے دل میں بہت ہی خوشی ہے.جب ہم قادیان پہنچے.تو والدہ صاحبہ نے اپنا یہ رویا حضرت خلیفہ اسیح (ایدہ اللہ بنصرہ) کی خدمت میں بیان کیا اور ساتھ ہی عرض کی حضور میں تو اس وقت آپ کی شکایت کرنے کو تھی کہ اب میرا مکان کشادہ ہو گیا ہوگا ، ایک طرف تو عبدالستار صاحب افغان دفن ہیں اور دوسری طرف کوئی اور.حضور نے مسکرا کر فرمایا یہ تو جنت کے مکان کی طرف اشارہ ہے.جب والدہ صاحبہ نے خاکسار سے اس گفتگو کا ذکر کیا تو فرمایا یہ تو میں بھی جانتی ہوں کہ یہ جنت کے مکان کی طرف اشارہ ہے.میں وو
99 نے اپنی قبر کے مقام کا ذکر تو حضرت صاحب کو ہنسانے کے لئے کیا تھا.اس موقعہ پر ہم آخر اپریل تک قادیان ٹھہرے.والدہ صاحبہ کے خواب کی وجہ سے ہی میں نے یہ انتظام کیا تھا کہ ہم اپریل کا آخری نصف قادیان گزاریں.اس عرصہ میں والدہ صاحبہ باوجود ضعف پیری کے اور خون کے دباؤ کی شکایت کے جو پھر عود کر آئی تھی ، پیدل جمعہ کی نماز کے لئے مسجد اقصی جاتی رہیں.اور حضرت ام المومنین اور حضرت خلیفتہ امسیح کی خدمت میں حاضر ہوتی رہیں.جمعہ کی نماز کے وقت چونکہ اچھی خاصی گرمی ہو جاتی تھی.اس لئے جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد اقصیٰ گئی تھیں تو میں نے عرض کیا کہ اگر آپ مجھے اطلاع دیتیں تو میں سواری کا انتظام کرتا.تو فرمایا نہیں بیٹا مسجد تک جانے میں کیا تکلیف ہے.وو ” جب والدہ صاحبہ کو معلوم ہوا کہ حضرت خلیفتہ اسیح نے ۲۵ را پریل کو سندھ کی طرف روانگی کا ارادہ فرمایا ہے.تو کچھ افسردہ سی ہو گئیں.دو روز کے بعد معلوم ہوا کہ حضور ۲۷ را پریل کو قادیان سے روانہ ہوں گے تو خوشی خوشی مجھے بتایا کہ تم نے سنا حضرت صاحب ۲۷ کو روانہ ہوں گے؟ میں نے کہا ہاں میں نے بھی سنا ہے.پھر دوبارہ مجھ سے کہا ۲۷ / تاریخ ہے.میں نے کہا میں سمجھتا ہوں.مراد ان کی یہ تھی کہ ۲۷ رکو آخری بدھوار اپریل کے مہینے کا ہے.اور اگر اس سال میرا خواب ظاہری رنگ میں پورا ہونا ہے تو حضرت صاحب میرا جنازہ پڑھا کر قادیان سے روانہ ہوں گے.۲۷ کی صبح کو فجر کی نماز کے بعد وہ آخری بار مقبرہ بہشتی گئیں.اس دن مجھ سے شکایت کی کہ میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے جسم کے اندر حرارت ہے.لیکن بظاہر اور کوئی تکلیف انہیں نہیں تھی.غالباً اسی شام یا ۲۸ ر کی شام کو میرے ساتھ مندرجہ ذیل واقعہ کا ذکر کیا.رحم دلی کا ایک واقعہ: فر مایا آج میں شہر سے واپس آرہی تھی.باب الانوار میں دیکھا کہ ایک عورت سڑک کے کنارے پر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہے اور دولڑکیاں اس کے پاس بیٹھی ہیں.پہلے تو میں ان کے پاس سے گذر آئی لیکن چند قدم آگے آکر میرے ذہن میں آیا کہ اس عورت کو کچھ تکلیف ہے.چنانچہ میں واپس آگئی اور اس عورت کے پاس بیٹھ گئی.میں نے دیکھا کہ وہ خود بھی اپنا ایک پاؤں دبارہی ہے.اور دولڑکیاں بھی اس کا پاؤں دبا رہی ہیں.عورت درد سے کراہ رہی
100 تھی.میں نے اس کے پاؤں کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک لمبی میخ اس کے پاؤں میں گڑی ہوئی ہے.وہ خود درد سے بے حال ہو رہی تھی.میں اکیلی تھی میرے قریب بھی کوئی ایسا آدمی موجود نہیں تھا جسے میں مدد کے لئے بلا سکتی یا مدد کے لئے بھیج سکتی.آخر میں نے خیال کیا کہ میں خود ہی ہمت کر کے اس میخ کو اس کے پاؤں سے کھینچ کر نکال دوں.لیکن جب میں نے اس کے پاؤں کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ بہت گھبرائی اور منت کرنے لگی کہ آپ اسے نہ چھیڑریں.مجھ سے درد برداشت نہ ہو سکے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت عطا فرمائی اور میں نے ایک ہاتھ سے اس کے پاؤں کو مضبوط پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے میخ کے سر کو پکڑ کر زور سے اسے کھینچ لیا.یہ میخ کوئی اڑھائی تین انچ لمبی تھی اور تھی زنگ آلود.اس عورت کے پاؤں سے فوارہ کی طرح خون جاری ہو گیا.پہلے تو درد سے وہ اور بے حال ہوئی لیکن پھر ا سے کچھ آرام محسوس ہونے لگا.میں نے اس سے کہا.ہمارا مکان یہاں سے قریب ہی ہے تم ہمت کر کے میرے ساتھ چلو.میں تیل ابال کر اور اس میں روئی بھگو کر تمہارے پاؤں پر باندھوں گی.تاکہ زخم میں کسی قسم کا زہر پیدا نہ ہو جائے اور تمام رات خود تمہاری خدمت کروں گی.لیکن اس عورت نے کہا.میرا گاؤں قریب ہی ہے میں ان لڑکیوں کی مدد سے اپنے گھر پہنچ جاؤں گی.جب والدہ صاحبہ نے مجھے یہ واقعہ سنایا تو میں نے عرض کی کہ آپ مکان پر پہنچ کر کسی خادم کو حکم دیتے وہ جا کر اس عورت کو لے آتا.والدہ صاحبہ نے فرمایا.وہ اپنے گھر جانے پر مصر تھی.انہی ایام میں والدہ صاحبہ نے بتایا کہ کئی بار میں نے غنودگی کی حالت میں سنا کہ کوئی شخص کہتا ہے کچھ ہونے والا ہے.اور ایک دوسرا شخص جواب میں کہتا ہے اب کی بار تو ہو کر رہے گا.۲۷ یا ۲۸ رکوفرمایا.میں نے دیکھا ہے کہ سات جنازے مقبرہ بہشتی میں ساتھ ساتھ رکھے ہوئے ہیں.۳۰ را پریل کو جس دن قادیان سے ہماری روانگی تھی.والدہ صاحبہ نے زیادہ تکلیف کا اظہار کیا.میں نے عرض کی کہ میں ڈاکٹر صاحب کو بلوانے کی کوشش کرتا ہوں.چنانچہ میں نے ٹیلیفون پر پیغام پہنچانے کی کوشش کی لیکن یا ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیغام نہ پہنچ سکا.یا وہ کسی وجہ سے تشریف نہ لا سکے.سہ پہر کو میں مکان پر واپس آیا تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نہیں آئے میں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں عرض کی کہ اب شملہ پہنچ کر ڈاکٹر بلا لیں گے.انہوں نے مسکرا کر فرمایا.اچھا.
101 شام کی گاڑی سے ہم قادیان سے روانہ ہو گئے.بٹالہ میں چوہدری نصیر احمد صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ ہمارے ساتھ شامل ہو گئے.ان کی بیگم صاحبہ کو ایک دن پیشتر ہی سخت درد کا دورہ ہوا تھا.اور وہ بہت کمزور ہو رہی تھیں.والدہ صاحبہ نے اصرار کیا کہ وہ پلنگ پر سوئیں.اور خود انہوں نے صوفہ پر رات گزاری.صبح انہوں نے اپنا ایک رؤیا سنایا.کہ تمہارے والد صاحب آئے ہیں اور کہتے ہیں.آپ تو بہت بیمار ہیں.اچھا میں جا کر ڈاکٹر کو لاتا ہوں.ایسا ڈاکٹر جس کی فیس ہر بار کی بتیں (۳۲) روپیہ ہوگی.تشویش ناک صورت : شملہ پہنچ کر ڈاکٹر صاحب کو بلایا.انہوں نے کہا.تکلیف تو خون کے دباؤ کی ہے.لیکن صحیح علاج اس وقت تک تجویز نہیں ہوسکتا.جب تک بیماری کے پہلے مراحل کی تفصیل معلوم نہ ہو.خون وغیرہ کا معائنہ کرنے سے معلوم ہوا کہ گردے بھی ٹھیک کام نہیں کر رہے.بہر حال جو علاج تجویز ہوا.وہ شروع کر دیا گیا.لیکن کمزوری آہستہ آہستہ بڑھتی گئی..شملہ پہنچ کر پہلی رات ہی والدہ صاحبہ نے رویا میں دیکھا کہ والد صاحب تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں.میں آپ کے لئے پالکی لے آیا ہوں.اب آپ جس وقت تیار ہو جائیں ہم روانہ ہو جائیں.والدہ صاحبہ نے کہا.میں تو تہجد کے وقت تیار ہو جاؤں گی.اور اس وقت چلنا بھی مناسب ہوگا.تا کہ زیادہ گرمی ہونے سے پہلے پہلے سفر طے کر لیا جائے.والد صاحب نے فرمایا بہتر ہوگا کہ ۸ بجے کے بعد روانہ ہوں جب بچے ناشتہ سے فارغ ہو جائیں، ورنہ بچوں کو تکلیف ہوگی.والدہ صاحبہ نے دوسرے دن خواب بیان کرتے ہوئے پالکی کی زیبائش کی تفاصیل بھی بیان کہیں کہ ایسی خوبصورت تھی اور اس قسم کی لکڑی تھی اور فلاں حصے چاندی کے تھے.پانچ دن تو اسی صورت میں گزر گئے کہ گو کمزوری تھی.لیکن کسی قسم کی تشویش نہیں تھی.تہجد کے لئے اور باقی نمازوں کے لئے خود ہی اٹھ کر غسل خانہ میں وضو کے لئے تشریف لے جاتی تھیں اور جائے نماز پر نمازیں پڑھتی تھیں.اکثر وقت پلنگ پر بیٹھے ہوئے گزارتی تھیں.چوتھے روز گوڈاکٹر صاحب نے پلنگ سے اتر نا منع کر دیا تھا.لیکن پھر بھی 4 مئی جمعہ کے دن عصر کے وقت جب میں ان کے پاس گیا تو میں نے دیکھا کہ برآمدہ میں جائے نماز پر نماز پڑھ رہی ہیں.جب نماز ختم کر چکیں تو
102 میں نے عرض کی کہ ڈاکٹر صاحب نے تو پلنگ سے ملنے کی اجازت نہیں دی آپ اس حالت میں ہیں.فرمایا نماز پڑھنے میں کوئی تکلیف نہیں.پھر میں نے کہا چلئے میں آپ کو پلنگ تک پہنچا آؤں.اور میں سہارا دے کر پلنگ تک لے گیا.انہوں نے اظہار شفقت کے طور پر سہارا لے لیا.لیکن اس وقت تک بھی انہیں سہارے کی ضررت یہ تھی.مغرب کے بعد میں دفتر کے کمرہ میں بیٹھا ہوا کام کر رہا تھا کہ مجھے اطلاع ملی کہ والدہ صاحبہ پر ایک قسم کی بیہوشی کی حالت طاری ہو گئی ہے.میں فوراً ان کے کمرہ میں گیا.اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ضعف کی وجہ سے کچھ نیم بیہوش سی ہو رہی ہیں.لیکن آہستہ آہستہ پاؤں دبانے سے پورا ہوش آگیا.اور باتیں وغیرہ کرنی شروع کر دیں.مجھ سے فرمایا کہ مغرب سے پیشتر جب تم مجھے یہاں چھوڑ گئے تھے، مجھے غنودگی سی ہوگئی.اور میں نے محسوس کیا کہ میں کسی اندھیری جگہ ہوں.اور وہاں سے نکلنے کا رستہ تلاش کر رہی ہوں لیکن رستہ نہیں ملتا.اسی دوران میں میں ایک خیمہ کے اندر چلی گئی ہوں کہ شاید یہاں سے رستہ باہر نکلنے کامل جائے لیکن اس خیمہ میں بھی بہت اندھیرا ہے اور نیچے کیچڑ ہے.جس میں میں پھنس گئی ہوں.اور نکلنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن نکل نہیں سکتی.اس وقت میں نے کہا اگر کسی طور سے ظفر اللہ خاں کو اطلاع ہو جائے تو وہ مجھے یہاں سے نکلوانے کا انتظام کر لے گا.ے رمئی ہفتہ کے دن ان کی حالت پہلی شام کی حالت سے تو بہتر تھی لیکن کمزوری بہت محسوس کرتی تھیں.دورانِ گفتگو میں انہوں نے کہا ، اگر ڈاکٹر لطیف یہاں ہوتے تو مجھے جلد صحت ہو جاتی.میں نے فوراً ڈاکٹر لطیف صاحب کو دہلی تار دیدیا کہ والدہ صاحبہ آپ کو یا دفرماتی ہیں.وہ دوسرے دن صبح شملہ پہنچ گئے.والدہ صاحبہ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں.پلنگ پر اٹھ کر بیٹھ گئیں.ڈاکٹر صاحب کو پیار کیا اور مسکرا کر کہا.اب کے اچھی ہو جاؤں تو سمجھوں بڑے ڈاکٹر ہو.ڈاکٹر صاحب نے کہا.اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.دیکھئے میں آپ کا تار ملتے ہی آگیا ہوں.والدہ صاحبہ نے کہا.میں نے تو تار نہیں بھجوایا اور میری طرف دیکھا.میں نے عرض کی کہ کل آپ نے ڈاکٹر صاحب کو یاد کیا تھا.اس لئے میں نے تار دے دیا تھا.دہلی کو روانگی:
103 ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کرنے کے بعد فرمایا کہ ان کے لئے شملہ میں ٹھہر نا نہایت مضر ہے.یہاں بلندی کی وجہ سے دل پر بہت بوجھ ہے انہیں آج ہی میں اپنے ساتھ دہلی لے جاؤں گا.اور اپنے مکان پر ہی رکھوں گا.کیونکہ تین چار روز تک متواتر علاج کی ضرورت ہے اور میرا ہر وقت قریب رہنا ضروری ہے تاکہ دل کی حالت اور خون کے دباؤ کے مطابق علاج میں تبدیلی ہوتی رہے.ساتھ ہی والدہ صاحبہ کو تسلی دی کہ تین چار روز کے علاج کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام تکلیف دور ہو جائے گی.چنانچہ اسی دن دہلی کے سفر کی تیاری کر لی گئی.یہ اتوار کا دن تھا، اور خاکسار کی حاضری دوسرے دن شملہ میں لازم تھی.اس لئے یہ انتظام کیا گیا کہ میں ان سب کو کا لکا تک جا کر پہنچا آؤں اور ریل میں سوار کرا دوں.اور پھر آئندہ ہفتہ کے دن خود بھی دہلی والدہ صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں چنانچہ ہم سب شام کے وقت کا لکا پہنچ گئے.اور ان سب کو آرام سے ریل میں سوار کرادیا گیا.گاڑی چلنے کا وقت تو رات کے ۱۲ بجے تھا.لیکن ساڑھے دس کے قریب میں نے والدہ صاحبہ سے رخصت چاہی کہ اب جا کر میں ریل کے بنگلے میں سو جاؤں.کیونکہ صبح سویرے پھر شملہ کا سفر کرنا ہے.والدہ صاحبہ لیٹی ہوئی تھیں.جب میں نے کمرہ کے اندر جاکر اجازت طلب کی تو اٹھ کھڑی ہوئیں اور میری پیشانی کو بوسہ دے کر دعا دی.ڈاکٹر صاحب نے انہیں کھڑے ہوئے دیکھا تو شور مچادیا.بے بے جی ، بے بے جی آپ کیا کر رہی ہیں فوراًلیٹ جائیں.آپ کو تو لیٹے لیے بھی حرکت نہیں کرنی چاہئے.والدہ صاحبہ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا.بیٹا لیٹے رہنے کے لئے تو بہت وقت ہے ظفر اللہ خاں کو اب پھر ملنا شاید ہو یا نہ ہو.ور مئی کی صبح کو میں ساڑھے آٹھ بجے واپس شملہ پہنچ گیا.شام کو دہلی ٹیلیفون کیا تو معلوم ہوا کہ والدہ صاحبہ کی حالت پہلے سے بہتر ہے.البتہ دو پہر کے وقت امتلاء کی شکایت ہو گئی تھی.جس سے دل پر کچھ بوجھ بڑھ گیا تھا.لیکن یہ حالت ایک دو گھنٹوں کے بعد رفع ہو گئی..ارمئی منگل کے دن دو بار دہلی ٹیلیفون کیا.وہی جواب ملا جو پہلے دن ملا تھا.ارمئی بدھ کے دن صبح کو بھی وہی جواب ملا.سہ پہر کو دہلی سے ٹیلیفون ہوا کہ دو پہر کے بعد دل کی حالت بگڑ گئی تھی.مگر ٹیکے وغیرہ کرنے سے پھر سنبھل گئی.اب نسبتا آرام ہے.ہوش میں ہیں اور باتیں کر رہی ہیں.لیکن حالت ایسی ہے کہ تمہیں فوراً دہلی پہنچ جانا چاہیئے.مجھے دوسرے دن شملہ میں ایک ایسا
104 ضروری سرکاری کام تھا.جسے چھوڑ کر میں نہیں جا سکتا تھا.میں نے جواب میں کہا کہ میں کل یہاں سے روانہ ہو سکتا ہوں.عزیز بشیر احمد نے اصرار کیا کہ آج ہی شملہ سے روانہ ہو جاؤ.میں نے کہا کہ میں آپ کے اصرار سے اندازہ کر سکتا ہوں کہ کیا حالت ہے.لیکن مجبور ہوں.کل سہ پہر روانہ ہوکر انشاء اللہ تعالیٰ جمعہ کی صبح کو دہلی پہنچ جاؤں گا.شام کو پھر ٹیلیفون کیا.معلوم ہوا کہ حالت پہلے سے بہتر ہے.اور کوئی ایسی تشویش نہیں.ڈاکٹر لطیف صاحب کے ساتھ سول سرجن صاحب بھی علاج میں شامل ہیں.۱۲ رمئی جمعرات کی صبح کو بھی ٹیلیفون کرنے پر ایسا ہی جواب ملا.پھر بھی میں نے احتیاطاً اپنے تینوں بھائیوں کو تار دے دئے کہ دہلی پہنچ جائیں اور ہمشیرہ صاحبہ کو بھی ساتھ لیتے آئیں.عزیز اسد اللہ خاں تو بدھ کی رات کو ہی لاہور سے روانہ ہو گیا تھا اور جمعرات کی صبح کو دہلی پہنچ گیا تھا.باقی ہم سب جمعہ کی صبح کو دہلی پہنچ گئے.دہلی پہنچنے پر والدہ صاحبہ نے مجھے بتایا کہ ۸ رمئی کی شام کو جب تم کا لکا اسٹیشن سے مجھ سے رخصت ہو کر چلے گئے تو تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ عزیز احمد اور عبدالرحیم جن کو تمہارے پاس موجود رہنا چاہیئے تھا ، پلیٹ فارم پر پھر رہے ہیں.میں نے انہیں بلایا اور اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کہا کہ ابھی بنگلے میں جاؤ اور جس کمرہ میں میرا بیٹا سو رہا ہے اس کے آگے رات گزارو.میں نے عرض کی کہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ رات یہ دونوں بنگلے کے دروازے کے سامنے برآمدہ میں سوئے ہیں.دس بجے کے قریب والدہ صاحبہ نے خاکسار سے فرمایا.اب پھر خاکسار نے اسے استفہام تصور کر کے جلدی سے عرض کی.اب پھر اللہ تعالیٰ کا فضل چاہیئے.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ پرسوں کی نسبت آپ کی حالت بہت اچھی ہے.انشاء اللہ آپ کو جلد صحت ہو جائے گی.والدہ صاحبہ نے فرمایا.اب پھر مجھے قادیان لے چلو.میں نے عرض کی کہ وہاں علاج کا پورا انتظام نہیں ہو سکے گا.والدہ صاحبہ نے بہت حسرت سے مسکرا کر کہا.”اچھا“.اس دن دو پہر کو والدہ صاحبہ کو امتلاء کی تکلیف نہ ہوئی.اور یہ وقت جو تشویش کا ہوا کرتا تھا بخیریت گذر گیا.جس سے کچھ امید ہونے لگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں شفادے گا.چنانچہ خاکسار نے تجویز کی کہ عزیزان شکر اللہ خاں اور اسد اللہ خاں کے گھر سے اور ہمشیرہ صاحبہ
105 تو ہفتہ کی شام کو واپس چلے جائیں.کیونکہ یہ توقع کی جاتی تھی کہ اس وقت تک والدہ صاحبہ کی حالت روبصحت ہو چکی ہوگی ۴ ارمئی ہفتہ کے دن دو پہر تک والدہ صاحبہ کی وہی حالت رہی.دو پہر کے وقت سب لوگ تو عزیز بشیر احمد کے ہاں کھانا کھانے کیلئے چلے گئے.والدہ امتہ الحئی اور خاکسا ر والدہ صاحبہ کے پاس رہے.کھانا کھانے کے بعد دو بجے کے قریب خاکسار وضو کر رہا تھا کہ مجھے کسی نے آواز دی کہ والدہ صاحبہ یاد فرماتی ہیں.میں ان کے کمرہ میں گیا تو دیکھا کہ انہوں نے اپنی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے.مجھے دیکھ کر مسکرا ئیں اور کہ آؤ بیٹا اب آخری بات لیں.اور اپنے بھائیوں اور بہن کو بھی بلا لو.ڈاکٹر صاحب اس وقت کمرہ ہی میں ٹیکا تیار کر رہے تھے انہوں نے انگریزی میں مجھ سے کہا.دل کی حالت بگڑ گئی ہے.اور نبض بھی بہت کمزور ہو گئی ہے.لیکن میں نے والدہ صاحبہ سے کچھ نہیں کہا.انہوں نے خود ہی نبض سے شناخت کر لیا ہے.اسکے بعد ڈاکٹر صاحب نے ٹیکا کیا اور سول سرجن صاحب کو بھی ٹیلیفون پر بلالیا.ٹیکا کرنے کے تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب نے نبض دیکھ کر کہا.بے بے جی اب تو نبض ٹھیک چل رہی ہے.والدہ صاحبہ نے خود نبض دیکھ کر فر مایا ٹھیک تو نہیں چل رہی وا پس آگئی ہے.لیکن ابھی کمزور ہے.اتنے میں وہ سب عزیز جو کھانا کھانے کے لئے گئے ہوئے تھے ، واپس آنے شروع ہو گئے.اور چوہدری بشیر احمد صاحب اور شیخ اعجاز احمد صاحب بھی اطلاع ملنے پر تھوڑی دیر کے بعد کچہری سے آگئے.والدہ صاحبہ نے فرمایا.یہ وقت سب پر آتا ہے اور اولا د کو جب والدین سے جدا ہونا پڑتا ہے تو انہیں کرب بھی ہوتا ہے.لیکن میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوں اور خوشی سے اس کے حضور جارہی ہوں.میں تم سب سے رخصت ہونا چاہتی ہوں.لیکن چاہتی ہوں کہ تم لوگ کوئی شور غوغا نہ کرو.نہ اس وقت نہ میرے بعد.پھر ہمشیرہ صاحبہ کے کان میں کچھ کہا اور انہوں نے والدہ صاحبہ کے کان میں کچھ کہا.پھر باری باری سے والدہ صاحبہ نے بیٹوں سے پیار کیا اور دعا دی اور پھر بہوؤں سے اور ایسا ہی بشیر احمد اور اعجاز احمد سے اور ڈاکٹر صاحب سے اور امینہ بیگم سے اور احمدہ بیگم سے اور غلام نبی اور عزیز احمد اور چوہدری فضل داد صاحب سے رخصت ہوئیں پھر امتہ الحئی کو بلوایا اور اسے پیار کیا.پھر عبدالکریم کو بلوایا اور اسے دعا دی.غرض جو کوئی بھی موجود تھا.اس سے رخصت ہوئیں.غلام نبی اس وقت غم سے بہت مضطرب ہوا جارہا تھا اسے تسلی دی اور مجھے فرمایا دیکھو بیٹا اگر اس سے کوئی قصور
106 سرزد ہو جائے تو اس وقت کو یاد کرنا اور اسے معاف کر دینا.پھر شکر اللہ خان کی بیوی سے دریافت کیا.کیا میری صندوقچی لے آئی ہو؟ اس نے کچھ حیران ہو کر پوچھا.کونسی صندوقچی ؟ والدہ صاحبہ نے جواب دیا.وہی جس میں میرے کفن کی چادریں رکھی ہیں.زینب بی بی نے کہا ہم نے تو تار ملتے ہی دلی آنے کی تیاری شروع کر دی جلدی میں کچھ اور سوجھا ہی نہیں اور یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ صند و چی ڈسکہ میں ہے.والدہ صاحبہ نے فرمایا میں نے تو کوئی تا رنہیں دلوایا میں نے عرض کی تار میں نے دئے تھے.” میرے دہلی پہنچنے سے قبل والدہ امتہ اہنی سے فرما چکی تھیں کہ جب قادیان لے جاؤ گے تو مجھے بیت الظفر کی نچلی منزل میں ہی رکھنا اوپر کی منزل پر میرے اپنے کمرے میں نہ لے جانا اور مجھے فلاں مقام پر غسل دینا.اب پھر مجھ سے بھی یہی فرمایا.اس پر والدہ امتہ الحئی نے عرض کی کہ جو جگہ آپ نے غسل کے لئے تجویز کی ہے وہ تو کافی نہیں اور وہاں پورا پردہ بھی نہیں.مسکرا کر فرمایا بہت کھلی ہے اور پردہ بھی ہے تم نے اچھی طرح اس کا اندازہ نہیں کیا.اتنے میں سول سرجن صاحب بھی آگئے.انہوں نے ڈاکٹر لطیف صاحب کے ساتھ مشورہ کر کے کچھ اور ٹیکے تجویز کئے.میں نے ڈاکٹر صاحب سے الگ دریافت کیا کہ اگر علاج کے لحاظ سے والدہ صاحبہ کا دہلی رہنا ضروری ہو تو چارہ نہیں.لیکن اگر علاج کے آخری مراحل ختم ہو چکے ہوں تو آپ مجھے بتا دیں تا میں اس کی یہ خواہش بھی پوری کرنے کی کوششیں کروں کہ انہیں قادیان لے جاؤں انہوں نے کہا کہ اب تک تو کسی ٹیکے کے نتیجے میں دل کی حالت کی اصلاح نہیں ہوئی لیکن ہم ایک دو اور ٹیکے لگانا چاہتے ہیں جن کا نتیجہ پون گھنٹے تک معلوم ہو سکے گا.اس وقت ہم بتاسکیں گے کہ کیا صورت ہے.یہ وقفہ گذر جانے کے بعد پانچ بجے کے قریب ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ کسی ٹیکے کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا.اب علاج کے سب مراحل ختم ہو چکے ہیں اور دل کی یہ حالت ہے کہ اندازاہ ہے کہ آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ سے زیادہ کام نہیں کر سکے گا.“ سفر قادیان اور آخری گفتگو : اس پر میں والدہ صاحبہ کے پاس گیا اور کہا.اب میں آپ کو قادیان لے چلتا ہوں.بہت
107 خوش ہوئیں اور مجھے دعا دی ہم نے اسی وقت تیاری شروع کر دی اور شام کی گاڑی سے قادیان روانہ ہو گئے.طبی لحاظ سے تو اس قدر مہلت ملنا موجب حیرت تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش بھی پوری کر دی.آہستہ آہستہ کمزوری بڑھتی گئی اور کسی وقت کچھ بے چینی بھی ہو جاتی تھی.لیکن ہوش رات بھر قائم رہا گیارہ بجے کے قریب عزیز اسد اللہ خاں کو اور مجھے پاس بیٹھے ہوئے دیکھ کر فرمایا.”جاؤ بیٹا اب سو جاؤ.“ یہ آخری کلمہ تھا جو اپنی مرضی سے خود بخود اس پیارے منہ سے نکلا.ڈاکٹر عاجز آچکے تھے.علاج بند ہو چکا تھا.روح اپنے خالق کے سامنے پیش ہونے کی تیاری کر رہی تھی لیکن ماں کی مامتا کو اس وقت بھی یہ فکر تھی کہ میرے بیٹوں کے آرام میں خلل نہ آئے.تھوڑی دیر کے بعد جب میں اکیلا ہی ان کے پاس تھا تو میں نے بلایا.جواب دیا.”جیو پتر میں نے کہا آپ نے میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی.فرمایا میں نے دوسروں کے ساتھ بھی کوئی خاص بات نہیں کی.میں نے کہا دوسرے تو صرف بیٹے ہی ہیں اور میرے اور آپ کے درمیان تو عشق کا رشتہ تھا.فرمایا ہاں.اس رات ایک عجیب کیفیت ہمارے سامنے تھی طبی لحاظ سے روح اور جسم کا جوڑ ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن روح اپنے خالق کے سامنے سجدہ میں پڑی ہوئی عرض کر رہی تھی کہ آپ کی رحمت سے بعید نہیں کہ آپ اس جوڑ کے قائم رہنے کا حکم فرما ئیں.جب تک آپ کا یہ عاجز اور نا تو ان بندہ اس سرزمین میں پہنچ جائے جو آپ کے ایک محبوب کی جائے قیام ہونے کی وجہ سے آپ کے انوار اور رحمت کی مبط ہے.گاڑی تیز چل رہی تھی اور ہر لحظہ ہمیں قادیان سے قریب کر رہی تھی.اور ہم یہ نظارہ دیکھ رہے تھے.مرا عہد لیست با جاناں که تا جان در بدن دارم ہوا دار کی کوئکیش را بجان خویشتن دارم ۵ ارمئی اتوار کے دن پونے دس بجے قبل دو پہر ہم قادیان پہنچے.میں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں عرض کی قادیان آگیا ہے فرمایا.”بسم اللہ.بسم اللہ.پھر میں نے کہا.آپ کو کوٹھی لے چلیں ؟ فرمایا.ہاں.اپنی کوٹھی میں لے چلو.بیت الظفر ، پہنچ کر آپ کا پلنگ نچلی منزل میں گول
108 کمرہ میں بچھایا گیا.میں نے عرض کی آپ نے مکان پہچان لیا ؟ فرمایا.ہاں.پھر میں نے کہا آپ کا پلنگ نچلی منزل میں ہی گول کمرہ میں ہے.اس پر نظر اٹھا کر کمرہ کی دیواروں کو دیکھا اور فرمایا.” میں نے پہچان لیا ہے.اب روح کو اطمینان ہو گیا کہ خدا کے مسیح کی تخت گاہ تک پہنچنے کی مہلت مل گئی اور کوئی اور خواہش باقی نہ رہی.وفات: "عصر کے وقت ڈسکہ سے کفن کی چادر میں بھی پہنچ گئیں.وہی جو چودہ سال قبل زمزم کے پانی میں دھوئی گئی تھیں.پھر رات آئی اور کیسی رات.یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی روحانی شاہزادی نے ہمارے گھر کو ایک رات کیلئے اپنا قیام گاہ تجویز کر کے اسے نور سے بھر دیا ہے اور ہر لحظہ یہاں فرشتے نازل ہورہے ہیں.نصف شب کے قریب جب بظاہر کئی گھنٹوں سے بیہوشی کا عالم تھا.کسی نے مجھ سے کہا تم بلا ؤ تو شاید جواب دیں ہم نے تو بلایا ہے کوئی جواب نہیں دیتیں.میں نے بلایا تو جواب دیا ہاں تین بجے کے قریب جب تہجد کا وقت ہوا تو کامل بیہوشی کی حالت ہوگئی.محض سانس آتا تھا.گویا اپنے رویا کے مطابق پالکی میں سوار ہونے اور سفر شروع کرنے کے لئے تیار ہو گئی تھیں.صبح ساڑے سات بجے کے قریب میں نے والدہ امتہ الحی سے کہا کہ سب لوگ ناشتہ کر لیں کیونکہ ان کا عہد ہے کہ بچے ناشتہ کر لیں گے تو روانہ ہونگی.پھر میں والدہ صاحبہ کا وہ خواب یا دکر کے جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ اندھیرے میں خیمہ کے اندر کیچڑ میں پھنس گئی ہیں.اور فرمایا تھا کہ الفضل میں زیرہ مدینہ مسیح ، محترم چوہدری صاحب کی والدہ صاحبہ کو لانے کا اورمحترمہ کی علالت کا ذکر کر کے لکھا ہے : - حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب.جناب مولوی عبد المغنی خاں صاحب اور جناب چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے علاوہ بہت سے احباب سٹیشن پر تشریف لے گئے تھے “.(مورخہ ۳۸-۵-۱۷)
109 ظفر اللہ خاں کو کوئی خبر کرے تو وہ مجھے یہاں سے نکلوانے کا انتظام کرے.ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعا کرنی شروع کی سانس جو کچھ وقت پہلے تیز ہو گیا تھا ساڑھے سات بجے کے قریب ہلکا ہونا شروع ہو گیا.اور جب گھر کے لوگ مہمان اور ملازم سب ناشتہ ختم کر چکے.تو ۹ بجے کے قریب روح اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئی.یہ ۶ ارمئی سوموار کا دن تھا.( میری والدہ ) حضرت چوہدری صاحب کی وفات کے کچھ عرصہ بعد مرحومہ نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ اگر ممکن ہو تو ان کے قرب قریب میں میری قبر کی جگہ مقررفرما ئیں.فرمایا عام طور پر ایسا کرنا تو پسندیدہ نہیں لیکن استثنائی صورت میں ایسا ہو سکتا ہے.چنانچہ چوہدری صاحب محترم کی قبر کے دائیں طرف آپ کیلئے جگہ مقرر فرما دی.لیکن ایسا اتفاق ہوا کہ جب حضرت تائی صاحبہ فوت ہوئیں تو انہیں اس جگہ دفن کر دیا گیا.آپ نے جب حضرت صاحب کی خدمت میں اس امر کا ذکر کیا تو فرمایا منتظمین کے سہو سے ایسا ہو گیا ہے.اب ہم نے اور جگہ آپ کے لئے تجویز کر دی ہے.یہ ہے تو اسی قطعہ میں لیکن چوہدری صاحب کے پاؤں کی طرف ہے.انہوں نے عرض کیا حضور میں ہوں بھی ان کے پاؤں کی جگہ کے ہی لائق.لیکن اب ایسا انتظام فرمائیے کہ پھر میری جگہ کسی اور کونہ مل جائے.فرمایا اب محکمہ بہشتی مقبرہ کو ہدایت دے دی ہے کہ وہ اپنے رجسٹروں میں اس کا اندراج کر دیں اور اخبار میں اعلان بھی کرا دیا جائے گا.محترم چوہدری صاحب تحریر فرماتے ہیں : ۱۲ بجے کے قریب جسم کو اسی مقام پر سپر د خاک کر دیا گیا.جو پہلے سے اس کی آخری قیام گاہ تجویز ہو چکا تھا.كُلِّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ 8 صاحبزادگان حضرت مرزا بشیر احمد صاحب و حضرت مرزا شریف احمد صاحب و دیگر افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جنازہ کو کندھا دیا.لحد کیلئے ایک دوائیٹوں کی درستی کی ضرورت ہوئی تو حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے اپنے ہاتھ سے انہیں درست کیا.“ ( میری والدہ ) پیاری والدہ کی درد بھری یاد والدہ اور پھر ایسی ودود.ولی اللہ صاحب کشف و الہام کی یاد بھلا اولا د کوعمر بھر کیوں نہ ستائے؟ محترم چوہدری صاحب رقم فرماتے ہیں :.
110 اب وہ محبوب وجود ہمارے درمیان موجود نہیں.اس پیارے چہرہ کو آنکھیں تلاش کرتی ہیں لیکن پانہیں سکتیں.ہم ان مسلسل دردبھری دعاؤں سے محروم ہو گئے ہیں.لیکن ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو خوشی سے قبول کرتے ہیں اور اس خیال سے اطمینان حاصل کرتے ہیں کہ ہماری والدہ نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رضا جوئی میں گزاری.ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بخشے.اور امید رکھتے ہیں کہ ہمارا وقت آنے پر وہ ہمیں بھی اپنی رحمت میں داخل فرمائے.اور ہمارے والدین اور صادقین کی معیت ہمیں عطا فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں ہمیں جگہ عطا فرمائے.آمین.میرے لئے جب وہ وقت آئے گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت پھر یہ ممکن کر دیگی کہ میری نظر پھر اس پیارے چہرہ پر پڑے.تو میری تمام محبت اور تمام حسرت اور تمام شوق اس ایک ہی لفظ میں ادا ہو جائیں گے ”بے بے اور انکی طرف سے ”جیو پر پھر ایک بار میرے دل کو خوشی سے بھر دے گا.اے خدا بر تربت او بارش رحمت بیار داخلش کن از کمال فضل در بیت النعيم
111 حضرت چوہدری صاحب کے سیرت و شمائل ذیل میں حضرت چوہدری صاحب کی سیرۃ وشمائل کے متعلق بعض امور درج کئے جاتے ہیں : منکسر المزاجی اور علماء کا احترام : آپ کی طبیعت میں انکسار اور بزرگان اور علماء سلسلہ کے لئے جو جذ بہ احترام تھا وہ ذیل.اقتباس سے ظاہر ہے.جلسہ سالانہ ۱۹۱۹ ء کی کا رروائی میں مرقوم ہے: تیسرے دن کی کارروائی شروع ہوئی.اس وقت کیلئے صدر جلسہ جناب چوہدری نصر اللہ خاں صاحب وکیل سیالکوٹ مقرر تھے.لیکن چونکہ اس وقت حضرت خلیفہ اسیح نے غیر مبائعین کو بھی کچھ تقریر کرنے کا موقع دینا منظور فرما لیا ہوا تھا.اس لئے اس مناسبت کی وجہ سے چوہدری صاحب نے اپنی جگہ جناب میر محمد الحق صاحب مولوی فاضل کیلئے خالی کر دی اور میر صاحب صدر جلسہ ہوئے.“ ریویو آف ریلیجنز اردو مارچ1919ء) قرآن مجید سے محبت اور اعلیٰ قوت حافظہ : حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے مکتوب سے یہ ظاہر ہے کہ حضرت چوہدری صاحب کو قرآن مجید سے عشق تھا تبھی ان ایام میں جبکہ آپ جوانی کے عالم میں تھے اور دنیوی مشاغل بھی جاذب نظر بن سکتے تھے.آپ باقاعدگی کے ساتھ قرآن مجید کے درس میں شامل ہوتے تھے.اس فیج اعوج کے زمانہ میں علماء، امراء اور تعلیم یافتہ طبقات کے احوال پر نظر ڈالیں تو یہ امر بہت ہی قابل تحسین نظر آتا ہے.اور اسی عشق و محبت کا نتیجہ تھا کہ آپ نے اپنی پیرانہ سالی میں قرآن مجید حفظ کیا اور اس وقت حفظ کیا جبکہ آپ قادیان میں ناظر اعلیٰ سیکرٹری بہشتی مقبرہ وغیرہ کے فرائض کے بارگراں کو اٹھائے ہوئے تھے.اس سے کتاب اللہ سے آپ کی کامل محبت و عشق کا علم ہوتا ہے.گویا اللہ تعالیٰ کانو راپنے تقویٰ اور عشق الہی کے باعث انہوں نے حاصل کیا.حضرت امام شافعی فرماتے ہیں :
112 شَكَوْتُ إِلَى وَكِيعِ سُوءَ حِفْظِئُ فَاَوْ صَانِي إِلَى تَرْكِ الْمَعَاصِي لَانَّ الْعِلْمَ نُورٌ مِنْ الهِ وَ نُورُ اللَّهِ لَا يُعْطَى لِعَاصِي ( حضرت وکیع آپ کے اُستاد تھے.) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں: چونکہ قرآن شریف کے پڑھنے اور لکھنے اور پھیلانے کو بہت بڑا ثواب قرار دیا گیا تھا.اس لئے اسلامی حکومت میں بڑے بڑے علماء اور بادشاہ تک قرآن کریم کی کا پیاں لکھا کرتے تھے.عرب اور اس کے ارد گرد کے بادشاہوں اور علماء کا تو ذکر چھوڑو ہندوستان جیسے ملک میں جو عرب سے بہت دور واقع ہوا تھا.اور جہاں ہندو رسم و رواج غالب آچکا تھا.مغل بادشاہ اور نگ زیب اپنی فرصت کے اوقات میں قرآن شریف لکھا کرتا تھا.چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی عمر میں سات نسخے قرآن کریم کے لکھے.پھر مسلمانوں میں حفظ قرآن کی شروع سے اتنی کثرت پائی جاتی ہے کہ ہر زمانہ میں ایک لاکھ سے دو لاکھ تک حافظ دنیا میں موجود رہا ہے بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ حافظ دنیا میں پائے جاتے ہیں.حافظ اس کو کہتے ہیں جو شروع سے لے کر آخر تک اس کے تمام حصوں کو یاد رکھتا ہے.عام طور پر یورپین مصنف اپنی ناواقفی کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ جبکہ دنیا میں بائبل کا کوئی حافظ نہیں ملتا تو قرآن شریف کا کوئی حافظ کہاں ہو سکتا ہے.حالانکہ قرآن کریم کا یہ معجزہ ہے کہ وہ ایسی سریلی زبان میں نازل ہوا ہے کہ اس کا حفظ کرنا نہایت ہی آسان ہے میرا بڑالڑ کا ناصر احمد جو آکسفورڈ کا بی.اے آنرز اور ایم.اے ہے.میں نے اسے دنیوی تعلیم سے پہلے قرآن کریم کے حفظ پر لگایا اور وہ سارے قرآن کا حافظ ہے قادیان میں دو ڈاکٹر حافظ ہیں.اسی طرح اور بہت سے گریجوائیٹ اور مراد ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب ( میجر ) پسر حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب
113 دوسرے لوگ حافظ ہیں.جن ڈاکٹروں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سے ایک نے صرف چار پانچ مہینے میں قرآن شریف حفظ کیا تھا.چوہدری سر ظفر اللہ خاں صاحب حج فیڈرل کورٹ آف انڈیا ( حال وزیر خارجہ پاکستان ) کے والد صاحب نے اپنی آخری عمر میں جبکہ وہ قریباً ساٹھ سال کے تھے ، چند مہینوں میں سارا قرآن حفظ کر لیا تھا.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحه 468،467) تاثرات احباب : 66 ذیل میں حضرت چوہدری صاحب کے متعلق بعض احباب کے تاثرات درج کئے جاتے ہیں : (۱) جناب سردار سنتوکھ سنگھ صاحب چیمہ قادیان بیان کرتے ہیں کہ حضرت چوہدری صاحب کا یہ طریق تھا کہ اپنے علاقہ کا جولڑ کا میٹرک پاس کر لیتا، اسے اپنے پاس بلا کر اپنے ہاں رکھتے.گویا اپنے اوپر اس کی ذمہ داری لے لیتے اور پھر اس کی ملازمت کا انتظام کرتے.(۲) محترم مولوی ظہور حسین صاحب فاضل ( سابق مجاہد بخارا) بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت چوہدری صاحب مرحوم نظارت علیاء کے عہدہ جلیلہ پر فائز تھے اور اکثر فارغ اوقات میں حفظ قرآن مجید کے لئے بڑے باغ میں تشریف لے جاتے تھے میں مدرسہ احمدیہ کی آخری جماعتوں کا طالب علم تھا مجھے بھی امتحان کی تیاری کیلئے وہاں جانے اور آپ کی خدمت میں دعا کیلئے عرض کرنے کا موقعہ ملتا.آپ بہت شفقت سے پیش آتے.اور فرماتے میں دعا کروں گا.غالبا ۱۹۲۱ء میں میں نے مولوی فاضل کا امتحان دیا اس وقت بھی دعا کے لئے عرض کیا.فرمایا آپ انشاء اللہ تعالیٰ مرحوم ( ناظر بیت المال ) ڈاکٹر صاحب اس وقت بورنیو میں خدمات دینیہ میں مصروف تھے اب بہشتی مقبرہ ربوہ میں آرام فرما ہیں.دوسرے ڈاکٹر مسعود احمد صاحب ( پسر محترم بھائی محمود احمد صاحب ڈنگوی صحابی ) مالک داؤ دمیڈیکل ہال.سرگودھا.ย سردار صاحب اس وقت خالصہ کلا سوالہ ہائی سکول قادیان کے ہیڈ ماسٹر ہیں اور حضرت چوہدری صاحب کے صاحبزادہ محترم چوہدری محمد عبد اللہ خان صاحب مرحوم کے پہلی جماعت سے ایف اے تک ہم جماعت رہے ہیں.
114 کامیاب ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہی ہوا.جب میں روس سے واپس آیا تو پھر بھی دعا کیلئے عرض کرتا رہا.آپ خوش طبعی سے فرماتے کہ اب آپ کو دعا کی کیا ضرورت ہے آپ تو بخارا سے ہو آئے ہیں.میں نے آپ کے متعلق یہ بھی سنا ہے کہ آپ جلسہ سالانہ پر اپنے اور عزیزوں کے پار چات قادیان میں تیار کرواتے تا قادیان والوں کو فائدہ پہنچے میں نے آپ کو نہایت ہی خوش خلق ، ہمدرد اور اسلام کا فدائی پایا.ย (۳) محترم چوہدری علی محمد صاحب بی اے، بی ٹی ( صحابی) مقیم ربوہ بیان کرتے ہیں کہ جب میری برات سیالکوٹ گئی تو حضرت چوہدری صاحب کے مکان پر ہی جو کہ امام صاحب کے قرب میں کرایہ کا تھا، برات کے قیام کا انتظام تھا آپ یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ حضرت چوہدری صاحب ڈسپلن کے بہت پابند تھے.چنانچہ آپ صدر انجمن کے کارکنوں کی حاضری با قاعدگی سے لیتے تھے.چندہ کے معاملہ میں آپ بہت محتاط تھے.چنانچہ وکالت کے عرصہ میں آپ کا یہ طریق تھا کہ شام کو گھر آ کر اس روز کی آمد کا چندہ الگ کر کے ایک برتن میں ڈال دیتے اور پھر محاسب جماعت کے سپر د کر دیتے.آپ کی طبیعت میں بہت سادگی تھی اور باوجود صاحب ثروت ہونے کے کھانے میں بھی سادگی تھی.چنانچہ میری مرحومہ اہلیہ اول ( بنت حضرت مولوی فیض الدین صاحب امام مسجد احمد یہ سیالکوٹ ) سناتی تھی کہ چوہدری صاحب معمولی چیزوں سے بھی روٹی کھا لیتے تھے اور بعض معمولی چیز میں آپ کو مرغوب بھی تھیں.مرحومہ نے یہ بھی بیان کیا کہ مشہور معاند احمدیت مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کی برادر زادی نے عیسائیت قبول کر لی.اسے واپس لینے کے لئے غیر احمد یوں نے عدالت کی طرف رجوع کیا.اور حضرت چوہدری صاحب کو وکیل مقرر کیا.لڑکی نے بیان دیا کہ عیسائیت کی فلاں فلاں باتیں مجھے اپیل کرتی ہیں اور میں عیسائی ہو چکی ہوں.اس لئے مجھے واپس دلایا جانا کسی طرح درست نہیں اور اس نے اپنا برقعہ اتار کر پھینک دیا.چوہدری صاحب نے اس پر ایسے سوالات کئے کہ اس کا ناطقہ بند کر دیا اور وہ کوئی جواب نہ دے سکی.آپ نہایت مختصر اور جامع مانع گفتگو کے عادی تھے.حضرت مولوی فیض الدین صاحب فرماتے تھے کہ ایک شخص اپنا خانگی جھگڑا میرے پاس لایا.میں اسے سارا دن سمجھاتا رہا.لیکن اس پر قطعاً کوئی اثر نہ ہوا.بالآخر میں نے اسے چوہدری صاحب کے پاس بھجوا دیا اور آپ نے دو چار
115 باتوں میں ہی اس کی تسلی کرا دی.چنانچہ میں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ میں تو اس شخص کے ساتھ سارا دن مغز کھپا تا رہا.مگر کوئی اثر نہ ہوا.آپ نے دو تین منٹ میں ہی اسکی تسلی کرا دی.آپ سن کر مسکرا دیئے.(۴) مکرم چوہدری نوراحمد خاں صاحب نے آپ کے ماتحت قریباً دو سال تک کام کیا.اس عرصہ کے مشاہدات کا خلاصہ آپ بیان کرتے ہیں کہ حضرت چوہدری صاحب نہایت صالح متقی، پرہیز گار اور ولی اللہ تھے.بہت دعا گو تھے اور نہایت سادہ زندگی کو پسند کرتے تھے.دفتر بہشتی مقبرہ میں باقاعدہ بیٹھ کر کام کرتے تھے اور ساتھ ساتھ حافظہ سے قرآن مجید بھی حفظ کرتے جاتے تھے.نماز ظہر کے بعد میرے ذریعہ بھنے ہوئے چنے بازار سے منگوا کر بطور ناشتہ نوش فرماتے اور مجھے بھی ساتھ بٹھا لیتے.میں نے تقریباً دو سال بطور محرر کے آپ کے ساتھ کام کیا.ماتحتوں کے ساتھ آپ ہمدردانہ سلوک کرتے تھے.گو آپ سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور کفایت شعار تھے.لیکن مخیر تھے.ایک دفعہ فارغ وقت میں اپنے خاندان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے ایک لاکھ روپیہ کی جائیدا دخرید کی ہے.خشیت الہی کیونکر آپ کے قلب صافی پر مستولی تھا.چوہدری نور احمد خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مسجد مبارک میں نماز ظہر کے بعد حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے.ضلع سیالکوٹ کے ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور ایک شخص موصی ہے مگر وہ در پردہ اپنی زندگی میں شراب پیتا تھا.حصہ وصیت ادا کر چکنے کی وجہ سے وہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہو جائے تو کیا وہ جنتی ہوگا.حضور نے فرمایا کہ وہ شخص از روئے رسالہ الوصیت جنتی ہے.** مگر اس کے افعال کا خمیازہ انچارج بہشتی مقبرہ کو اٹھا نا پڑے گا.کیونکہ دفن کرنے سے پہلے منتظم بہشتی ☆☆ محترم چوہدری نور احمد خان صاحب کا اصل وطن سر وعہ ضلع ہوشیار پور ہے.آپ بفضلہ تعالیٰ صحابی ہیں اور عرصہ تک مختلف اسامیوں پر دفاتر صدرانجمن احمد یہ قادیان در بوہ میں کام کرنے کے بعد اب پنشن پر ہیں اور ملتان شہر میں قیام رکھتے ہیں.یعنی لازماً اس کا انجام بخیر ہوا ہوگا اور اسے توبہ کی توفیق ملی ہوگی.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور بہشتی ہونے کا اہل ہوا.تو بہ کا تعلق دل سے ہے، البتہ ذمہ دار احباب کی طرف سے ظاہری امور کی پابندی ضروری ہے اور اس میں غفلت نہیں ہونی چاہیئے.
116 مقبرہ کو علم حاصل کرنا چاہیئے تھا.حضرت چوہدری صاحب اس وقت حضور کے قریب بیٹھے تھے اور میں بھی پاس ہی تھا.آپ پر اس بات سے بہت خوف طاری ہوا اور آپ نے حضور کے تشریف لے جانے کے بعد گھبرا کر کہا کہ یہ کام بہت مشکل ہے اور میرا دل کانپ گیا ہے.مزید بیان کیا کہ ایک روز آپ نے مجھے فرمایا کہ آپ کی تبد یلی لنگر خانہ میں ہوگئی ہے.آپ میری نصیحت یا درکھیں کہ وہاں غریبوں کا خیال رکھنا.اللہ تعالیٰ آپ کے کام میں برکت دے گا.میں نے عرض کیا کہ میں معمہ نہیں سمجھا.فرمایا کہ لنگر خانہ میں کوٹ سوٹ والے مہمانوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور غریب مہمانوں کا خیال کم کرتے ہیں.دیکھنا ایسا نہ کرنا.میں نے عرض کیا کہ میں اس نصیحت پر عمل کروں گا.چوہدری صاحب موصوف بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جب آپ ناظر اعلیٰ تھے ، لنگر خانہ میں تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ کیا لنگر خانہ سے قیمتا بھی کھانا مل سکتا ہے اور اس کی کیا شرح ہے.میں نے عرض کیا کہ اعلیٰ کھانا کی شرح دس روپے ماہوار ہے.آپ نے جھٹ دس روپے میرے حوالہ کئے اور رسید طلب فرمائی اور فرمایا کہ ایک ماہ تک میں لنگر خانہ سے کھانا کھاؤں گا.پیسہ پر جس قدر سوڈا آ جائے میری روٹیوں میں ڈلوا کر خمیری روٹی تیار کرایا کریں.پانی والا گوشت میں نے زندگی بھر نہیں کھایا اس لئے سبزی گوشت یا سادہ بھنا ہوا گوشت میرے لئے علیحدہ تیار کروالیا کریں.چنانچہ آپ بارہ بجے تشریف لا کر کھا نا تناول فرماتے.بزرگوں کا آپس میں بہت محبت کا سلوک تھا.ناظر ضیافت حضرت میر محمد اسحق صاحب نے مجھے فرمایا کہ کچھ میٹھی چیز زردہ یا فرنی بھی ساتھ رکھ دیا کریں.چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا.لیکن حضرت چوہدری صاحب نے بالتزام ایسا کرنے سے منع فرما دیا کہ کبھی اتفاقاً کوئی میٹھی چیز مل جائے تو الگ امر ہے.کیونکہ میں نے اس کے لئے رقم ادا نہیں کی.محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے محترم چوہدری نور احمد خاں صاحب کے تاثرات مطالعہ کر کے فرمایا کہ والد صاحب نے جب ۱۹۱۷ ء میں قادیان میں مستقل رہائش اختیار کی اور مکرمی جناب بھائی عبدالرحیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہوٹل کے عقب میں جانب جنوب خرید لیا.تو آپ نے نچلی منزل میں رہائش کے لئے مکرمی چوہدری فضل احمد صاحب بہلولپوری کو دیدی اور اپنی رہائش دوسری منزل میں رکھی.والد صاحب نے کھانے کا انتظام چوہدری فضل احمد صاحب کے ساتھ کیا ہوا تھا.اور والدہ محترمہ کے بھی کبھی کبھا ر قادیان آنے
117 نیز سناتے ہیں کہ ایک روز آپ نے مجھے بھی ساتھ کھانے میں شامل ہونے کا ارشادفرمایا.میں نے عرض کیا کہ آپ کا کھانا قیمتا ہے، اس لئے شامل ہو جاتا ہوں ورنہ محرر لنگر خانہ کا کھانا مقرر نہیں.آپ بہت حیران ہوئے.اور فرمایا کہ مثل ہے کہ بلی گوشت کی نگران“.یہ طریق درست نہیں کہ ایک شخص کھانا تقسیم کرنے پر مقرر ہو لیکن خود وہ گھر جا کر کھانا کھائے.آپ خود ہی اس وقت ناظر اعلیٰ تھے.آپ نے ناظر اعلیٰ کو مخاطب کر کے تحریر کیا کہ میں نے آج لنگر خانہ میں یہ نئی بات دیکھی ہے.کہ محر لنگر خانہ دونوں وقت کھانا تقسیم کرتا ہے مگر اسے کھا نا نہیں ملتا.چنانچہ دوسرے روز انجمن میں فیصلہ ہوا کہ محر لنگر خانہ کو دونوں وقت کھانا دیا جائے.چنانچہ یہ طریق بدستور جاری رہا اور یہ ان کی یادگار ہے.اس سے ظاہر ہے کہ حضرت چوہدری صاحب غربا ء کا خاص خیال رکھتے تھے.آپ کے صاحبزادہ محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے حضرت والد صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ بوڑھے ہیں.لنگر خانہ میں کھانا ٹھنڈا ہو جاتا ہے، اور روٹی بھی خشک ہو جاتی ہے.مبادا آپ بیمار ہو جا ئیں.بہتر ہے آپ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں کھانا کھایا کریں.فرمایا کہ خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ عمدہ کھانے کے عادی ایسے کھانے کھا کر سلسلہ سے دور ہو گئے.میں لنگر خانہ کی خشک روٹیوں کو پسند کرتا ہوں ، جو الہاما تیرے لئے اور تیرے درویشوں کے لئے مقرر ہو چکی ہیں.آپ نے خود اس واقعہ کا ذکر مجھ سے کیا تھا.“ (۵) محترم قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل رقم فرماتے ہیں کہ : مکرم معظم چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کے سوانح میں تین باتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.ایک تو یہ کہ جب وہ ناظر اعلیٰ تھے تو میں نے دیکھا کہ وہ نہایت انہماک سے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کتاب اپنے ایک مولوی ساتھی کے ساتھ پڑھ رہے اور حاشیہ پر نوٹ لکھ رہے بقیہ حاشیہ پر بھی یہ انتظام جاری رہتا تھا.لنگر سے قیمتاً کھانے کا انتظام یا تو اس سے پہلے کا ہوگا اور یا پھر کسی ایسے عرصہ کا ہوا ہو گا جب چوہدری فضل احمد کے گھر سے قادیان سے باہر تشریف لے گئے ہوں.محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ آپ کی ہجرت سے قبل کسی مشاورت یا جلسہ سالانہ کا ہے کہ اگر آپ ہمارے ساتھ حضرت صاحبزادہ صاحب کے مکان پر ٹھہریں تو آرام رہے گا.
118 ہیں.میرے دریافت کرنے پر فرمایا.آپ ہی کا کام کر رہا ہوں.( یعنی جو ہمیں کرنا چاہیئے تھا ) معلوم ہوا کہ حضور انور کی کتابوں کا انڈیکس تیار کرنے کا ارادہ ہے جو ہر کتاب میں فہرست مضامین کے طور پر لگایا جائے.دوسری بات آپ کی دینی غیرت کے متعلق ہے.جب بیرونی علماء یہاں سالانہ جلسہ کرتے ، میں بطور رپورٹر جارہا تھا اور میرے سامنے چوہدری صاحب مکرم کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے فرمایا کہ آپ مجسٹریٹ کے پاس بیٹھیں.اگر کوئی بات فساد انگیز ہو تو اسے توجہ دلائیں اور سٹیج والے مقرروں سے خطاب نہ ہو.جب ہم جلسے سے واپس آئے تو چوہدری صاحب نے حضور سے عرض کیا کہ جو تقریر کرنے والے وہاں تھے میں ان کی حیثیت سے خوب واقف ہوں اور ان کی مجال نہیں کہ ہمارے علاقے میں یہ سب وشتم اور افتراء پردازی کریں جو یہاں کرتے ہیں.چوہدری صاحب ( جو نظریں جھکائے عموماً بالکل خاموش رہتے تھے ) کی آواز اونچی ہوگئی اور جوش سے کہنے لگے حضور ہمارے لئے یہ نا قابل برداشت ہے کہ ہم خاموش بیٹھے سنا کر یں.ہم تو ایسے لوگوں کو ترکی بہ ترکی جواب دے کر ان کو سیدھا کر دیں.مہربانی فرما کر ہم پر یہ پابندی نہ لگائی جائے.وغیرہ ذالک (۳) آپ نظارتوں کے دفاتر کا معائنہ کرنے جارہے تھے ، مجھے ساتھ لے گئے.ایک دفتر کے ہیڈ کلرک صاحب نے فائل پر فائل میز پر الماری سے نکال کر پھینکنے شروع کئے اور کام کی کثرت کے باعث الاؤنس کا مطالبہ کیا.میں نے دو چار فائل کھولے تو ان میں سوائے ایک سادہ ورق کے کچھ بھی نہ تھا.چند فائل کھول کر میں نے جو چوہدری صاحب کے سامنے رکھے، تو آپ خاموش رہے اور پھر اٹھ آئے.اس کے بعد ایک دن مجھے کہنے لگے ، اگر کوئی اصلاحی بات یا میرے فرائض کے ادا کرنے میں کمی آپ کے علم و فکر میں آئے تو بلا تکلف کہہ دینا دل میں نہ رکھنا.میں نے عرض کیا کہ یہ تو آفتاب کو شمع دکھانا ہے.(1) اخویم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب پینشنر مقیم ربوہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے صوفی علی محمد صاحب ( صحابی ) سکنہ لکھا نوالی نے بتایا کہ چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کے ساتھ ہی چوہدری نواب خاں صاحب ورک ( والد چوہدری محمد اسلم صاحب حج ) نے بھی سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.صوفی صاحب یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کی تحریک پر
119 میں نے بیعت کی تھی.(۷) محترم میاں محمد شریف صاحب ای ، اے ہی پینشنز ( صحابی مقیم ربوہ ) نے اخویم مولوی سلطان احمد پیر کوئی سے بیان کیا کہ چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کی وکالت میں قابلیت اور دیانت کا اس امر سے علم ہوتا ہے کہ بعض پیچیدہ اور اہم مقدمات میں خود جج صاحبان فریقین کو ہدایت کرتے تھے کہ آپ سے مشورہ کر یں.(۸) محترم شیخ محمد الدین صاحب سابق مختار عام صدر انجمن احمد یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم بہت کم گو حلیم الطبع ، قانون دان انسان تھے.آپ کی رہائش بورڈ نگ تعلیم الاسلام قادیان کے قریب بالا خانہ میں تھی.دفتری اوقات سے فراغت کے بعد قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف رہتے.گھر میں ایک قالین تھا.اس پر نوافل پڑھتے تھے.صبح ، ظہر اور عصر مسجد مبارک میں اور مغرب اور عشاء مسجد نور میں باجماعت ادا کرتے تھے.سر پر رومی ٹوپی ، ہاتھ میں سوئی رکھتے تھے.داڑھی مہندی سے رنگتے تھے.حد درجہ کے شریف اور بہت بزرگ انسان اور خدا تعالیٰ کی یاد میں مصروف رہنے والے تھے.صدر انجمن احمد یہ قادیان کے عہدوں پر آنریری کام کرتے تھے.وقت کے پابند تھے.بہت باقاعدگی سے دفتر میں جاتے اور وقت ختم ہونے پر دفتر سے واپس آتے تھے.اول وقت پر حاضر ہو کر تمام دفاتر میں جا کر عملہ کی حاضری کی پڑتال فرماتے ، نیز یہ بھی فرماتے تھے کہ مجھے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت دی ہوئی ہے کہ میں اس طرح دفاتر میں جاکر پڑتال کروں کہ کیا ناظر صاحبان وقت پر دفاتر میں آتے ہیں.حضور کے بلند اخلاق کے ضمن میں یہ بھی فرماتے تھے کہ جب میں حضرت کے حضور قصر خلافت میں جاتا ہوں تو حضرت کھڑے ہو جاتے ہیں.یہ بھی بتلایا کہ میں کپڑا لا ہور اور سیالکوٹ سے لاتا ہوں لیکن سلوا تا قادیان کے درزیوں سے ہوں تا کہ قادیان میں قیام رکھنے والوں کو اجرت کی شکل میں فائدہ پہنچے.اپنے ماتحتوں کے ساتھ چوہدری صاحب بہت محبت ، شفقت اور پیار کا سلوک کرتے ، اور ان کی ذاتی ضروریات کا بھی خاص خیال رکھتے تھے.ابتداء میں آپ کا یہ طریق رہا کہ مجھ سے آمد ڈاک سنتے اور پھر جو جوابات میں لکھتا اسے سننے کے بعد دستخط فرماتے.ایک دن قریباً چھ ماہ بعد فرمانے لگے جہاں دستخط لینے ہیں ، انگلی رکھتے جاؤ اور دستخط کراتے جاؤ.جب ڈاک پر دستخطوں سے فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا کہ آج معمول کے
120 خلاف آپ نے ایسا کیوں کیا؟ فرمانے لگے میں قریباً چھ ماہ آپ کا امتحان کرتا رہا ہوں.آپ میری منشاء کے مطابق صحیح لکھتے ہیں مجھے اطمینان ہو چکا ہے اس لئے میں نے بغیر پڑھنے کے دستخط کئے ہیں.پھر اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہا.البتہ جب مجھے کسی معاملہ کے متعلق پوچھنے کی ضرورت ہوتی تو میں زبانی استفسار کر لیا کرتا تھا.کھانا لنگر خانہ سے قیمت پر اول درجہ کا کھاتے تھے.ان ایام میں اول درجہ کے کھانے کی قیمت دس روپے ماہوار ہوتی تھی.البتہ بعد دو پہر نماز ظہر مسجد مبارک میں ادا کر نے کے بعد میرے پاس دفتر مقبرہ بہشتی میں جو متصل مدرسہ احمد یہ ایک کچے کمرہ میں ہوتا تھا، تشریف لاتے اور گرم دودھ میں نصف پاؤ جلیبیاں ڈلوا کر پیتے تھے.’ ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ چوہدری نوراحمد خاں صاحب لنگر خانہ میں محرر ہیں لیکن ان کولنگر سے کھانا کھانے کہ اجازت نہیں.اور وہ کام کاج کی وجہ سے وہاں قریباً دو پہر تک رہتے ہیں.فرمانے لگے ابھی جاؤ اور انہیں میری طرف سے حکم دو کہ وہ لنگر خانہ سے کھانا کھانا شروع کر دیں.انجمن سے میں منظوری کروالوں گا.چنانچہ اس کے بعد صدرانجمن احمد یہ کاریز ولیوشن بھی ہو گیا.ایک دفعہ صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ مرحومہ ( حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کے کمرہ متصل مسجد مبارک قادیان میں حضور کے پیش تھا.اور تمام ناظر صاحبان صدر انجمن احمد یہ بھی موجود تھے.جب مقبرہ بہشتی کی آمد کا بجٹ سامنے آیا تو گذشتہ سال سے آمد دو چند تھی.اس پر چوہدری صاحب نے حضرت کے حضور عرض کیا کہ ناظر بیت المال کے پاس کئی انسپکٹر ہیں اور خاصہ عملہ بھی.تاہم وہ اپنی آمد کو گزشتہ سال کی نسبت سے دو چند نہیں کر سکے لیکن صیغہ بہشتی مقبرہ میں ایک کلرک منشی محمد الدین صاحب ہیں.اور چوہدری فضل احمد صاحب محصل وصایا ہیں.لیکن آمد دو چند ہوگئی ہے.گو چوہدری فضل احمد صاحب میرے رشتہ دار ہیں.لیکن اس آمد کے بڑھانے میں منشی محمد الدین صاحب کی کوشش کا نتیجہ ہے.اس لئے ان کو مبلغ پچاس رو پیدا انعام ملنا چاہیئے.حضور نے اجازت دیدی.چنانچہ یہ معاملہ صدرانجمن احمدیہ کے اجلاس میں منظور ہوا اور حضور نے منظوری دے دی.(ریزولیوشن نمبر ۲۶-۵-۲۷ /۱۲۱ ) گویا چوہدری صاحب نے خود بخود بغیر میری کسی تحریک کے یہ انعام دلایا.میں دفتر بہشتی مقبرہ سے قبل لنگر خانہ میں کام کیا کرتا تھا اور ساتھ ہی جلسہ سالانہ کا بھی.متواتر کئی سال جلسہ سالانہ کا کام
121 کرنے کی وجہ سے میری معلومات بڑھ گئی تھیں اور افسر جلسہ سالانہ حضرت میر محمد الحق صاحب کو میری وجہ سے بہت آرام اور اطمینان تھا.جب میری تبدیلی بہشتی مقبرہ میں ہوگئی تو میر صاحب نے چوہدری صاحب سے کہا کہ آپ منشی محمد الدین صاحب کو فرماویں کہ وہ دفتر بہشتی مقبرہ کا کام ختم کرنے کے بعد جلسہ سالانہ کے دفتر میں آکر کام کیا کریں.اس پر چوہدری صاحب نے فرمایا کہ جب وہ زائد وقت میں کام کریں گے تو آپ ان کو کیا معاوضہ دیں گے؟ میر صاحب نے فرمایا کہ میں پچاس روپیہ دے دوں گا.چنانچہ مجھے چوہدری صاحب نے یہ سارا واقعہ سنا کر جلسہ سالانہ کا کام کرنے کا ارشاد فرمایا اور جلسہ سالانہ کا کام ختم ہونے کے بعد حضرت میر صاحب نے مجھے مطابق ریز ولیوشن نمبر ۱۱ مورخه ۲۳-۳-۲۴ مبلغ پچاس روپیہ دے دیا.فجزاهم الله احسن الجزاء.ان ایام میں وصایا کی اشاعت اخباروں میں نہ ہوتی تھی.حالانکہ بروئے رسالہ الوصیت و ضمیمہ الوصیت یہ ضروری تھا کہ ہر موصی اپنی وصیت کو دو اخباروں میں شائع کروائے.اس پر مجھے چوہدری صاحب نے فرمایا کہ آئندہ ہر موصی سے اڑھائی روپیہ اعلان وصیت کے وصول کیا کرو.دور و پیہ دو اخباروں کو دیا کرو اور نصف روپیہ خود لیا کرو.اور ہر وصیت کی دو نقلیں کر کے دو اخباروں میں شائع کرنے کا انتظام رکھو.لیکن یہ کام دفتری اوقات کے علاوہ کرنا چاہیئے.چنانچہ اس کے مطابق عمل شروع ہو گیا.لیکن چوہدری صاحب کی وفات پر میں نے یہ معاملہ مجلس کار پرداز میں پیش کر دیا.جس کے صدر اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تھے.فیصلہ ہوا کہ ایک روپیہ دو آنے اخبار الفضل کو اور ایک روپیہ کسی دوسرے اخبار کو اور چھ آنے محرر بہشتی مقبرہ کو دیئے جایا کریں.اس طریق سے قانون وصیت بھی پورا ہو جاتا تھا اور مجھے بھی کسی قدر مالی فائدہ پہنچتا رہا.حضرت چوہدری صاحب کے رہائشی مکان کے بالمقابل میرا ر ہائشی کوارٹر تھا.بیچ میں بورڈنگ ہائی سکول والی سڑک تھی.چوہدری صاحب دفتر جانے کے لئے تیار ہوکر آ جاتے اور مجھے آواز دے کر گھر سے بلاتے.بعض دفعہ مجھے کچھ دیر ہو جاتی ، تو آپ میرا انتظار فرماتے اور پھر مجھے ساتھ لے کر دفتر جانے کے لئے روانہ ہوتے.وو جب آپ حج کو جانے لگے تو اپنا جائے نماز ، قالین اور سوٹی مجھے دے گئے.فرمانے لگے، اس پر نمازیں پڑھنا.جب آپ حج سے واپس تشریف لائے تو مجھ سے فرمایا کہ میں نے آپ کے
122 لئے اور آپ کی اولاد کے لئے بیت اللہ شریف میں بہت دعا کی ہے.آپ مجھ سے بہت خوش تھے.بہت محبت کرتے تھے.مجھ سے ماتحتوں والا نہیں بلکہ بیٹوں والا سلوک فرماتے تھے.آپ نے وفات سے قبل ایک دفعہ مجھ سے فرمایا کہ میں نے کچھ روپیہ صدرانجمن احمدیہ کے خزانہ میں اپنی امانت میں جمع کر رکھا ہے.اگر میں فوت ہو جاؤں تو وہ امانتی روپیہ میری وصیت میں جمع کرا دینا.اور میرا یہ مکان وصیت میں لے لینا.کیونکہ ( چوہدری ) ظفر اللہ خاں کو اپنی رہائش کے لئے یہ مکان پسند نہیں.اور بقیہ روپیہ چوہدری ظفر اللہ خاں کو کہنا کہ وہ وصیت میں جمع کروا دیں.چنانچہ وفات پر جناب چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے ایسا ہی کیا.آپ کی وفات کے چند دنوں بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ والے دفتر میں کرسی پر بیٹھے ہیں.میں نے آپ سے کہا کہ آپ تو فوت ہو گئے تھے، آپ یہاں کیسے آگئے تو فرمانے لگے.میں تو تیسرے دن زندہ ہو گیا تھا.آپ کو مقبرہ بہشتی کی آمدنی بڑھانے کا شوق تھا.میں نے پھر ایک دفعہ خواب میں دیکھا.آپ نے دریافت فرمایا کہ مقبرہ بہشتی کی آمد کیا ہے.میں نے عرض کیا کہ سینتیس ہزار روپے سالانہ.فرمانے لگے یہ آمد بہت ہی تھوڑی ہے.زیادہ ہونی چاہیئے.ان ایام میں جبکہ آپ قادیان خدمت سلسلہ کے لئے تشریف لائے تھے.صدر انجمن احمد یہ مالی طور پر انتہائی تنگی کے دور سے گزر رہی تھی.عملہ اور سائر کے بلوں کی ادائیگی خزانہ سے چار چار ماہ تک نہ ہو سکتی تھی.اور ہم کو مقبرہ بہشتی کے باغیچہ کی آبپاشی بالخصوص گرمی کے ایام میں ہر ہفتہ کرانی پڑتی تھی.باغ میں کنواں تو تھا.لیکن کرایہ کے بیل لے کر آبپاشی کرانی ہوتی تھی.اس طرح باغ کے مالی اور چوکیدار کو بھی ہر مہینہ تنخواہ دینی ہوتی تھی اور دفتر مقبرہ کے مددگار کارکن کو بھی.تو میں نے حضرت چوہدری صاحب سے اس تکلیف کا ذکر کیا.اور اس سارے خرچ کا اندازہ قریباً ۱۰۰ روپے ماہوار تھا.تو آپ نے فرمایا کہ ہر مہینے ایک سو روپیہ کے قریب وصیت کا کہیں نہ کہیں سے وصول کر کے رجسٹر ادخال خزانہ پر درج کر لیا کرو اور اس روپیہ سے باغیچہ اور دفتر کی ضروریات کو پورا کر لیا اور پھر خزانہ میں ایک طرف آمد جمع کراؤ.دوسری طرف بل عملہ و سائر ڈلوالیا کرو.میں نے عرض کیا.ممکن ہے اس طرح کرنے سے کوئی اعتراض پیدا ہو.فرمانے لگے.”میں جو اوپر بیٹھا ہوں“ چنانچہ اس کے مطابق عمل شروع ہو گیا.اور اس پر عمل ہوتا رہا اور عملہ دفتر عملہ باغ اور آبپاشی وغیرہ کا
123 کام بہ سہولت سرانجام ہوتا رہا.حصہ آمد کے پس منظر کے تعلق میں مکرم شیخ صاحب بیان کرتے ہیں : ان ایام میں ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں لکھا ہے کہ اموال کثرت سے آئیں گے لیکن نہیں آئے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وصیتوں کے متعلق غلط راستہ اختیار کر لیا گیا.مثال کے طور پر ایک شخص کی آمدنی دوصد روپے ماہوار ہے اور اس کی جائیداد ایک کنال زمین ہے.تو وہ ایک کنال کی وصیت کرتا ہے لیکن ماہوار آمد کی وصیت نہیں کرتا.وغیرہ وغیرہ.اس پر چوہدری صاحب نے فرمایا کہ جن موصوں کی آمد بھی ہے ان سے آمد کی وصیت بھی لکھواؤں لیکن لوگ معترض ہوئے کہ یہ امر منشاء الوصیت کے خلاف ہے اور تم اس منشاء کو بدل رہے ہو.اس پر چوہدری صاحب نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابیوں سے حصہ آمد کے متعلق حالات معلوم کروں.چنانچہ حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری نے بتلایا آمدنی کے ماہوار دسواں حصہ دینے کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہی عمل شروع ہوا تھا.پھر خدا داد خاں صاحب رسائیدار مرحوم نے مجھے ایک مطبوعہ ورق دکھلایا.اس پر ریزولیوشن مجلس معتمدین وصایا مورخہ ۰۶.۱.۲۹ کے متعلق مضمون اور ہدایات چھپی ہوئی تھیں.اور یہ ریزولیوشن مصدقہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھا.اس میں یہ درج تھا کہ جو لوگ جائیداد نہیں رکھتے بلکہ آمدنی کی سبیل رکھتے ہیں.وہ اپنی آمدنی کا دسواں حصہ ماہوار دیں لیکن ان کو یہ وصیت کرنی ہوگی کہ بوقت وفات جو متروکہ ثابت ہو.انجمن اس کے دسویں حصہ کی مالک ہوگی.میں نے مکرم چوہدری صاحب کو یہ سارا واقعہ سنایا.تو انہوں نے فرمایا که اصل ریزولیوشن تلاش کروں.چنانچہ میں نے جنرل سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ کے پرانے ریکارڈ سے تلاش کر کے اصل رجسٹر نکال لیا اور ریزولیوشن ۱۹۰۶.۱.۲۹ پر مولوی محمد علی صاحب سیکرٹری انجمن احمد یہ اور حضرت مولوی نورالدین صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمد یہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دستخط تھے.جب چوہدری صاحب نے یہ کتاب اور ریزولیوشن دیکھا.تو آپ نے فرمایا اب اسے رسالہ الوصیت کے ساتھ شائع کر دو اور اس کے مطابق تمام موصیوں سے خواہ پرانے ہوں یا نئے عمل کراؤ.اُن دنوں یہ معاملہ مجلس مشاورت میں بموجب حکم حضرت خلیفہ اسیح الثانی اید واللہ تعالی پیش
124 ہو چکا تھا اور جب بحث شروع ہوئی تو حضور نے فرمایا.چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی صریح نص نکل آئی ہے.‘ اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں.میں اس موقعہ پر اس بات کے لکھنے سے بھی رک نہیں سکتا کہ جن ایام میں لوگ اعتراض کر رہے تھے کہ وصیت کے مفہوم کے خلاف کیا جارہا ہے.ان ایام میں خاکسار ایک دن مقبرہ بہشتی میں غمگین بیٹھا تھا اور طبیعت میں گھبراہٹ تھی کہ لوگوں کا اعتراض تو صحیح معلوم ہوتا ہے.رسالہ الوصیت اور ضمیمہ الوصیت میں کہیں حصہ آمد دینے کا ذکر نہیں صرف مترو کہ جائیداد کا ذکر ہے اور قرآن مجید کی آیت وَإِذَا حَضَرَ اَحَدُ كُمُ الْمَوْتَ إِنْ تَرَكَ خَيْرٌ الوَصِيَّتٍ میں بھی ترکہ کا ذکر ہے.اس وقت دفتر میں بیٹھے بیٹھے میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی طبیعت میں اضطرار اور بے چینی تھی تو میرے دل میں ڈالا گیا کہ بہشتی مقبرہ میں جانے کے لئے یہ حکم ہے.اِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ - اَنْفُسَهُمُ سے یہ مراد ہے کہ جو لوگ کماتے ہیں اس کا بھی حصہ اور امُوا لَهُمُ سے مراد جائیداد کا بھی حصہ اسپر میر ادل مضبوط ہو گیا اور مجھے معاملہ کی خوب سمجھ آگئی.چنانچہ ریزولیوشن ۱۹۰۶.۱.۲۹ کی روشنی میں خاکسار نے وصایا لکھنے کیلئے تین مسودے بنائے (۱) جن لوگوں کا گزارا صرف جائیداد پر ہے.(۲) وہ لوگ جن کا گزارا صرف آمد پر ہے.(۳) وہ لوگ جن کی موجودہ حالت میں جائیداد بھی ہے اور آمد بھی ہے.یہ مسودے حضرت حافظ چوہدری نصر اللہ خاں صاحب نے دیکھے اور تصدیق کی کہ یہ درست ہیں ، ان کو چھپواؤ.چنانچہ اب تک انہی مسودہ جات کے مطابق وصیتیں لکھوائی جارہی ہیں.وہ پرانے موصی جنہوں نے صرف جائیداد کی وصیتیں کی ہوئی تھیں لیکن ان کی ماہوار آمد تھی ، ان سے بطور ضمیمہ وصیت ماہوار آمد کا اقرار لیا گیا.اور یہ بھی لکھوایا گیا کہ بوقت وفات متروکہ کے بھی دسویں حصہ کی مالک انجمن ہوگی.اس طریق سے مقبرہ بہشتی کی آمدنی بڑھنی شروع ہوگئی.اور اب تو ماشاء اللہ لاکھوں تک آمد جا پہنچی ہے.یہ سب کچھ حضرت خلیفہ اسیح " ایدہ اللہ کی ہدایت کے تابع محترم چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم کی غیر معمولی توجہ اور کوشش کا نتیجہ ہے اور میں اس وقت پرانی باتیں زبانی یادداشت کے طور پر لکھ رہا ہوں.الغرض مرحوم سلسلہ کے اموال کی زیادتی کا بہت خیال رکھتے تھے اور اپنے ماتحتوں سے کمال درجہ کی شفقت اور ان کی ذاتی ضروریات کا بھی خیال رکھتے تھے.اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے، کہ آپ کی اہلیہ محترمہ حسین بی بی صاحبہ کا بھی جن کو ہم و,
125 ” بے بے جی کر کے پکارتے تھے، ایک واقعہ درج کر دیا جائے.آپ بھی بہت محبت اور پیار کرنے والی تھیں.ایک دفعہ میں سلسلہ کے کسی کام کیلئے شملہ گیا.ان ایام میں محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بھی شملہ میں غالبا وائسرائے کی کونسل کے ریلوے ممبر تھے.میں آپ کی ملاقات کے لئے آپ کی کوٹھی پر چلا گیا.اور مل کر واپس آنے لگا، تو حضرت ” بے بے جی“ نے جو وہاں موجود تھیں.مجھ سے مخاطب ہو کر دریافت فرمایا.” پتر چائے پی لی؟ میں نے کہا نہیں.( تین چار بجے بعد دوپہر کا وقت ہوگا ) اس پر آپ نے ایک دوسرے بیٹے کو جو د ہیں موجود تھے ، بہت ناراضگی کے لہجہ میں فرمایا.”ہماری زندگی میں تم ان سے یہ سلوک کرتے ہو، ہماری وفات کے بعد تم ان سے کیا سلوک کرو گے.“ اس پر ان صاحبزادہ صاحب نے مجھے باصرار بٹھایا اور پر تکلف چائے وغیرہ سے تواضع کی.ایک دفعہ چوہدری صاحب نے میری ترقی کی سفارش کی اور صدرانجمن احمد یہ میں یہ معاملہ پیش ہوا.لیکن فیصلہ یہ ہوا کہ میرے ایک لڑکے کو پانچ روپے ماہوار وظیفہ تعلیمی امداد دیا جائے.ان ایام میں بعد نماز عصر مسجد اقصی میں درس قرآن مجید ہوتا تھا.چوہدری صاحب مرحوم جب مسجد اقصٰی میں داخل ہوئے تو اس وقت اتفاق سے میں بھی چوہدری صاحب کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا.مسجد اقصی کے دوسرے دروازہ سے مکرم قاضی محمد عبد اللہ صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول داخل ہوئے.اور ہم تینوں مینار کے پاس اکٹھے ہو گئے تو چوہدری صاحب نے قاضی صاحب سے فرمایا کہ میں نے آپ سے ایک عرض کرنی ہے.اگر آپ قبول کریں تو میں عرض کروں.اس پر قاضی صاحب نے فرمایا، آپ ناظر اعلیٰ ہیں اور میں ہیڈ ماسٹر، آپ جو فرمائیں گے میں بسر و چشم اس کی تعمیل کروں گا.آپ نے کہا کہ میں نے آج اپنے منشی ( شیخ محمد الدین صاحب) کے فلاں لڑکے کا انجمن سے پانچ روپیہ ماہوار وظیفہ منظور کرایا ہے.یہ وظیفہ آپ اسے دیتے رہیں ، اور اس کی فیس بھی معاف کر دیں.اور لڑ کا گھر پر ہی رہے گا.چنانچہ قاضی صاحب نے ایسا ہی کیا.دو یہ امر قابل ذکر ہے کہ میں نے اب سے اپنے لڑکے کے وظیفہ کے لئے یا فیس کی معافی کے لئے کوئی ذکر نہیں کیا تھا.یہ چوہدری صاحب کی مہربانی ، محبت اور پیار کا نتیجہ تھا.اور وہ خود بخود خیال رکھتے تھے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور احسان سے ان کے درجات بلند فرمائے ، اور جنت میں ان کو اعلیٰ مقام عطاء فرمائے.مجھے جب آپ کے احسان یاد آتے ہیں تو محبت کی وجہ سے بے اختیار میری
126 آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.کیسے مہربان اور پاکیزہ ہمارے افسر تھے.جو اس جہان سے چلے گئے.اور ہم اب ایسے افسران کو ترستے ہیں.مقبرہ بہشتی کے دفتر کے محصل وصایا چوہدری فضل احمد صاحب دور ونزدیک کے حضرت چوہدری صاحب کے رشتہ دار تھے اور دارالعلوم میں حضرت چوہدری صاحب کے مکان کے نچلے حصہ میں رہتے تھے.اور خود چوہدری صاحب مرحوم بالا خانہ پر قیام رکھتے تھے.ایک دفعہ کسی وصیت کی وصولی کے سلسلہ میں ایک شیشم کا صندوق دیہاتی طرز کا بنا ہوا آیا.اس پر پیتل کے گول گول پترے بھی لگے ہوئے تھے.چوہدری فضل احمد صاحب نے کہا کہ یہ صندوق مجھے دے دیا جائے.میں نے اس کا ذکر حضرت چوہدری صاحب مرحوم سے کیا تو آپ نے فرمایا: اس صندوق کو نیلام عام میں فروخت کیا جائے.“ نیلام عام میں چوہدری فضل احمد صاحب نے بھی بولی دے دی.حسن اتفاق سے یہ نیلام عام چوہدری فضل احمد صاحب کے نام پر ختم ہوا.چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم نے اس کی رقم اپنی گرہ سے دے دی جو داخل خزانہ صدرانجمن احمد یہ ہوگئی اور صندوق چوہدری فضل احمد صاحب کو دے دیا گیا.“ (۹) محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور خارجہ ( ربوہ ) بیان فرماتے ہیں : چوہدری نصر اللہ خاں صاحب رضی اللہ عنہ ۱۹۱۷ ء میں ناظر اعلیٰ مقرر ہوئے.ان کے ساتھ مجھے بحیثیت ناظر تعلیم و تربیت ، ناظر امور عامه و خارجہ اور ناظر دعوۃ و تبلیغ اور ناظر تالیف و تصنیف کے عہدوں پر کام کرنے کا موقعہ ملا.اس عرصہ کے دوران ان کی بعض باتیں جو ان کے فرض منصبی کے گہرے احساس سے متعلق رکھتی ہیں.اور مجھے اب تک یاد ہیں اور بھلائی نہیں جاسکتیں.وہ ذیل میں لکھتا ہوں.عمر کے لحاظ سے میں ان دنوں جواں سال تھا.اور ان کے سامنے ایک بچہ تھا.اور آپ کا سلوک میرے ساتھ نہایت درجہ محبت کا تھا.آپ مجھ سے بعض باتیں بڑی بے تکلفی سے فرماتے ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ جب میں سیالکوٹ میں عدالت سے فارغ ہو کر باہر شیشم کے درختوں کے نیچے بیٹھتا تھا اور دوسرے دوست بھی آجاتے اور الفضل پہنچتا تھا تو میں اسے پڑھ کر خیال کرتا.اور کبھی کبھی اس کا
127 اظہار بھی ہو جاتا تھا کہ قادیان میں بیٹھ کر ہمارے ناظر کیا کام کرتے ہیں.مگر اب معلوم ہوا ہے کہ ان کی ذمہ داریاں بڑی مشکل ہیں.وسائل کی کمی اور اموال کی قلت وغیرہ کے حالات میں ان کا ہمت کے ساتھ سلسلہ کا کام کرنا نہایت قابلِ قدر ہے.اور اب ان کی ہمت کی حقیقت معلوم ہوئی.میں یہ سن کر بہت خوش ہوا کہ الحمد للہ ہمارے ناظر صاحب اعلیٰ کو ہماری مشکلات کا علم ہو گیا ہے.اور اس سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ دور بیٹھے ہوئے لوگ ہمارے متعلق کیا کیا قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں.آپ نے اپنی غلط نہی کے اظہار میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی.بڑی سادگی سے جیسا کہ آپ کا لب ولہجہ تھا ، آپ نے یہ بات مجھ سے کہی.آپ کے زمانہ نظارت علیا میں دو دفعہ ایسا واقعہ ہوا جو کہ صدرانجمن احمدیہ کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا.مرزا گل محمد صاحب مرحوم کے مکان سے متصل جو امور عامہ وغیرہ کے دفاتر تھے.ان کے آخری کمرہ میں جو مغربی جانب میں مسجد اقصیٰ کی سمت میں تھا.اور اس کا دروازہ اس گلی میں کھلتا تھا جو مسجد اقصیٰ کی طرف جاتی تھی.اسی میں صدرا انجمن احمدیہ کا اجلاس ہور ہا تھا.کسی معاملہ کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی اور بعض ناظروں کی رائے اس معاملہ کے متعلق یہ تھی کہ اسے منظور کر لیا جائے.میں اس رائے کا مخالف تھا.مخالفت میں بات یہاں تک بڑھ گئی کہ مجھے یہ کہنا پڑا کہ اگر یہ معاملہ پاس کر دیا گیا تو دیانتداری کے خلاف ہوگا.میرے الفاظ سخت تھے.اور جس ناظر صاحب کو میں مخاطب کر رہا تھا، انہیں ان الفاظ پر سخت غصہ آیا.انہوں نے مسل میز پر رکھ دی اور کہا.جب تک شاہ صاحب ان الفاظ کو واپس نہیں لیں گے، اجلاس جاری نہیں رہ سکے گا.میں نے کہا.میں اس ریزولیوشن پر قطعا دستخط نہیں کروں گا.ہاں اگر آپ ارشاد فرما ئیں مجلس سے اٹھ کر باہر چلا جاؤں گا.حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور حضرت درد صاحب محترم دونوں خاموش تھے.میں حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب سے اجازت لے کر باہر جانے کو ہی تھا کہ درد صاحب نے مجھے بازو سے پکڑا اور باہر لے گئے اور ہنستے ہوئے مجھے کہنے لگے.شاہ صاحب غصہ جانے دیجئے اور اپنے الفاظ کو واپس لے لیجئے ، میں نے کہا، در دصاحب آپ کا خیال ہے کہ میں اپنے الفاظ واپس لے لوں.لیکن میری رائے یہ ہے کہ یہ معاملہ درست نہیں.اور اسے نافذ نہیں ہونا چاہیئے.لہذا میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں.جو ناظر میرے مخاطب تھے ، انہوں نے کہا.پھر ہم اجلاس میں نہیں بیٹھیں گے.اسی اصرار میں دو ہفتے صدر انجمن کا اجلاس نہ ہوا.مخالف رائے ناظر صاحب نے ایک بہت سخت احتجاج
128 لکھ کرنا ظر صاحب اعلیٰ کو دیا.اس پر میں یہ سمجھا کہ اس پر اور ناظروں کے بھی دستخط ہوں گے.ناظر صاحب اعلیٰ نے کہا.اس احتجاج کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کرنے کی ضرورت نہیں آپ لوگ اجلاس میں آئے متنازعہ فیہ معاملہ ملتوی رہے گا.چنانچہ یہ معاملہ وقتی طور پر رفع دفع ہو گیا.اور اجلاس پھر شروع ہو گیا.لیکن کچھ دنوں بعد وہ معاملہ پھر زیر بحث آ گیا.اور مجھے پھر پہلے الفاظ دوہرانے پڑے.جس پر سابقہ صورت قائم ہو کر صدرانجمن احمدیہ کا اجلاس مزید دو ہفتے تک ہند ہو گیا.اور آخر مخالف رائے ناظر صاحب نے اصرار کیا کہ ان کا لکھا ہوا احتجاج حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں پیش کیا جائے.اور مجھے معلوم نہیں کہ احتجاج میں کیا کچھ لکھا گیا تھا.اور کس کس ناظر نے اس پر اپنے دستخط ثبت کئے تھے.چوہدری صاحب وہ احتجاج لے کر حضور انور ایدہ اللہ کے پاس تشریف لے گئے.حضور کا دفتران دنوں گول کمرہ میں تھا.حضور نے فرمایا.فریقین کو میرے پاس آنا چاہیئے.تا میں ان کی باتیں سن کر کوئی فیصلہ دے سکوں.چوہدری صاحب واپس تشریف لائے اور حضور کے پاس چلنے کو کہا.جب ہم اٹھے تو آپ پنجابی میں فرمانے لگے.”بھراؤ میری گل سن لو، پیچھے شکایت نہ کرنا.حضور نے میری رائے دریافت فرمائی سی تے میں کہیا سی کہ میری رائے و چہ شاہ صاحب دی رائے درست اے اور میں ایہہ بھی عرض کر دتا سی کہ چوہدری فتح محمد صاحب اور درد صاحب نے ایس احتجاج اتے دستخط نہیں کیتے.“ دوسرے ناظر صاحب نے فرمایا.چوہدری صاحب! آپ نے ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا.فرمایا.میں آپ کی رائے میں دخل دینا نہیں چاہتا تھا.اور چاہتا تھا کہ کسی طرح آپ دونوں کے درمیان سمجھوتہ ہو جائے.آپ کی یہ بات سن کر سب ناظر صاحبان متفق ہو گئے اور حضور کے پاس جانے سے گریز کرنے لگے.چوہدری صاحب حضور کے پاس تشریف لے گئے اور عرض کیا.حضور فریقین کے درمیان مصالحت ہوگئی ہے.اور وہ اب حضور کے پاس آنا نہیں چاہتے.مجھے پہلے یہ علم نہیں ہو سکا تھا کہ محترم چوہدری صاحب کی رائے کس طرف ہے آپ خاموشی سے ہماری باتیں سنتے رہے.اور اندر ہی اندر ایک رائے قائم کر لی اور عین موقعہ پر اپنی رائے کا اظہار فرمایا.حضرت چوہدری صاحب کا مجھ پر بہت زیادہ اعتماد تھا.جب کبھی کوئی اہم بات ہوتی ، آپ مجھے بلاتے.اس کے متعلق اپنی رائے کا اظہار فرماتے.اور مجھے اس امر کے انجام دینے کے لئے ہدایت
129 فرماتے.اور میں بغیر مبالغہ کہ سکتا ہوں کہ میں نے بحیثیت ناظر اعلیٰ حضرت چوہدری صاحب کو بہترین کارکن پایا ہے.رضی اللہ عنہ جب چوہدری صاحب دیکھتے کہ اجلاس میں ناظر صاحبان تھکن محسوس کر رہے ہیں اور انہیں کچھ کھانے پینے کی ضرورت ہے تو آپ چپکے سے اپنے مددگار کارکن یا کلرک کو ہدایت فرماتے.اور تھوڑی دیر میں ہم دیکھتے کہ میز پر خوردونوش کی اشیاء موجود ہیں ، اور چائے کی پیالیاں یا شربت کے گلاس چنے ہوئے ہیں.اس بارہ میں میں نے انہیں بڑا ہی سخی دل پایا.لیکن آپ یہ سلوک نہایت خاموشی سے اور بغیر کسی قسم کے اظہار کے یا بغیر ہم سے دریافت کئے کرتے.آخری دنوں میں جب چوہدری صاحب بیماری کی وجہ سے رخصت لے کر سیالکوٹ جانے لگے.صدر انجمن احمدیہ کا اجلاس چوبارہ پر جو مرزا مہتاب بیگ صاحب کی دکان پر تھا، منعقد ہورہا تھا.لکڑی کی سیڑھیاں اوپر جاتی تھیں.میں بھی اجلاس میں شریک ہونے کے لئے اوپر جارہا تھا.اتنے میں میں نے آہٹ پائی.میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت چوہدری صاحب آہستہ آہستہ میرے پیچھے آرہے ہیں.مجھے متوجہ دیکھ کر فرمانے لگے.میں آج گھر سے نکلنے سے پیشتر آپ کی کتاب ” ہماری نماز ختم کر کے آیا ہوں.اور دل میں یہ خواہش ہے کہ آپ اسے ہیں ہزار کی تعداد میں شائع کروا ئیں اور جو خرچ آئے ، وہ میں دوں گا.مجھے آپ کے اس ارشاد سے بہت خوشی ہوئی.آپ نے مزید برآں فرمایا.اسے ہر احمدی کے گھر میں مفت بلا قیمت اس ہدایت کے ساتھ بھیجا جائے کہ وہ اسے خود بھی پڑھے ، اور اپنے بچوں اور دوستوں کو بھی پڑھائے.تا کہ کم سے کم نماز کی حقیقت اور اہمیت سے ہمارے دوست آگاہ ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو نماز ہمیں سکھائی.آپ نے اسباق کی صورت میں اور اچھے پیرا یہ میں اسے مرتب کر دیا ہے.میں ان دنوں ناظر تعلیم و تربیت تھا.اور میں نے یہ کتاب اسی غرض سے شائع کی تھی.تا جماعت کی تربیت میں مدد دے.ہر مہینہ میں مجھے مولوی عبد المغنی صاحب سے نظارت تجارت کا چارج لینے کے لئے سیالکوٹ جانا پڑا.کیونکہ میرا یہ اصرار تھا کہ میں تجارت کا چارج سیالکوٹ میں ہی لوں گا.کیونکہ ہمارا تجارت کا تعلق اس شہر سے ہے.اور صدر انجمن احمدیہ نے میری یہ تجویز منظور کر لی.اور ہمیں اجازت دی کہ چارج سیالکوٹ میں ہو.چنانچہ ہم کبوتر انوالی مسجد میں بیٹھ کر تجارت سے متعلق رجسٹروں کی پڑتال
130 کرتے اور دیکھتے.ایک دن چوہدری صاحب اس مسجد کے برآمدے میں بیٹھے ہمیں دیکھ رہے تھے کہ کس محنت سے ہم دونوں کام کر رہے ہیں.آپ نے بغیر ہماری خواہش کے اچھی قسم کے آم منگوائے جو برف میں لگے ہوئے تھے.اور فرمایا ناظر صاحبان آپ بہت تھک گئے ہیں.آئیے میں آپ کی تھکان کے دور کرنے میں مدد دوں.اور آپ نے بڑی محبت سے وہ آم پیش کئے.درمیان میں آپ باتیں بھی کرتے رہے.آپ کا ہم سے سلوک باپ کے سلوک کا سا تھا.تجارت کے حسابات میں بہت سی خامیاں تھیں.جن کی رپورٹ صدر انجمن احمدیہ میں کی گئی.حضور ان دنوں ڈلہوزی میں تھے.آپ کے پاس رپورٹ پہنچی تو آپ نے مجھے اور مینجر صاحب تجارت کو ڈلہوزی بذریعہ تار طلب فرمایا.حضور کو جب معلوم ہوا کہ تجارت کا کاروباررُو بہ زوال ہے تو حضور کو بہت سخت صدمہ ہوا.حضور نے منیجر کو تو بہت جلد رخصت کر دیا.لیکن مجھے اپنے پاس ہی ٹھہرا لیا.رات کو تار پہنچی کہ حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب فوت ہو گئے ہیں.جس سے حضور کو بہت صدمہ ہوا.مجھے بھی تکلیف ہوئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.دوسرے دن صبح ہی حضور بذریعہ کا ر قا دیان تشریف لے آئے.تا چوہدری صاحب کے جنازہ میں شامل ہوں.مجھے بھی حضور ساتھ لائے.میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ میں آپ کے جنازہ میں شریک ہو سکا اور اس طرح ہم نے اپنے ایک عزیز ترین اور ہر دلعزیز ناظر اعلیٰ کو دعاؤں کے ساتھ الوداع کہا.اَللَّهُمَّ ارْحَمْهُ وَاغْفِرْلَهُ وَصَلِّ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ أَجْمَعِينَ اسی طرح سفر کے دوران میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں ، جس کا تعلق براہ راست حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کی زندگی سے تو نہیں مگر حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی نور نظر سے متعلق ہے.منیجر تجارت اور میری گفتگو سننے کے بعد آپ نے ذہن میں فوراً فیصلہ کیا.جس کا مجھ سے ذکر نہیں فرمایا.لیکن دوسرے روز جب ہم دو نیرہ مقام پر پہنچے.جو ڈلہوزی اور پٹھان کوٹ کے درمیان ہے.اور ٹریفک کے انتظام کے ماتحت ہمیں وہاں کچھ دیر انتظار کرنا پڑا.حضور نے چاہا کہ چائے کے کمرہ میں جا کر چائے پیئیں اور سفر کی کوفت دور کریں.مجھے بھی ساتھ لے گئے اور چائے کے لئے فرمایا.میں نے معذرت کی کہ مجھے بخار ہے.دمشق اور عراق میں مجھے تبلیغ اور عربی کتب کی تصنیف اور سیاسی پابندیوں کو دور کرنے میں بڑی کوفت اٹھانی پڑی ہے.آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے لوگ ہیں.جن پر ذمہ داری بہت بڑی ذمہ داری
131 ہے.میرا خیال ہے کہ میں قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر شروع کردوں.اور آپ بخاری اور اس کی شرح.اگر ہم نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے تعلق رکھنے والے ہیں، یہ ضروری کام نہ کیا تو خدا جانے بعد میں آنے والے کیا کچھ کریں گے.اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہم جوابدہ ہوں گے.میں نے عرض کیا کہ تجارت کی جو خستہ حالت ہے مجھے اس کی فکر ہے.مسکراتے ہوئے فرمایا.ہم نے آپ کو اس سے آزاد کر دیا ہے.اس سے زیادہ اور بات مجھ سے نہیں فرمائی.جب ہم چوہدری صاحب رضی اللہ عنہ کے جنازے اور تدفین سے فارغ ہوئے ، اور میں صدرانجمن کے دفتر میں آیا تو وہاں حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچا ہوا تھا کہ مجھے تالیف و تصنیف کے تعلق میں بخاری کا ترجمہ و شرح سپرد کرنے کی آپ کی رائے ہے لیکن صدرانجمن اس بارے میں مجھے مشورہ دے.چنانچہ اجلاس ہوا.میں نے بلا دعر بیہ کی تبلیغی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کی کتب کشتی نوح“ اور ”اسلامی اصول کی فلاسفی“ کا ترجمہ ہو چکا ہے.اور اس کے نسخے وہاں بھیجے گئے ہیں.اس کے علاوہ حیات و وفات مسیح پر دو تین سو صفحوں کی کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے.نیز حقائق احمدیہ پر بھی ایک مختصری کتاب اسی زبان میں لکھی گئی ہے.میری رائے یہ ہے کہ یہ سلسلہ تصنیف جاری رکھا جائے تا محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس کا جو دمشق میں بطور مبلغ کام کرتے ہیں ، ہاتھ مضبوط ہو.صدر انجمن نے میری رائے سے اتفاق کیا.اور اسی کے مطابق حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ کی خدمت میں رپورٹ پیش کی.جو حضور نے رد کی اور فرمایا.مقامی مجلس شوری کے ممبروں کو بھی شامل کیا جائے جن میں سے حضرت مولوی سرورشاہ صاحب اور حضرت میر قاسم علی صاحب رضی اللہ عنہما بھی تھے.میں نے پھر وہی کچھ بیان کیا.اور اپنے متعلق احساس کمتری اور عدم استطاعت کا احساس غالب تھا.اور دوسرے اجلاس نے بھی میری رائے سے اتفاق کیا لیکن حضور نے اس فیصلہ کو بھی ردفرمایا.اور ارشاد ہوا کہ باہر کے دوستوں کو بھی بلا کر ایک بڑا اجلاس کیا جائے.چنانچہ اس تیسرے اجلاس میں بھی سابقہ رائے مناسب سمجھی گئی.حضور نے یہ رائے بھی قبول نہیں کی.اور حکم دیا کہ میں نظارت کے مفوضہ فرائض کو ادا کرتے ہوئے اس کے علاوہ باقی وقت میں یہ کام ساتھ ساتھ کرتا رہوں.کیونکہ اس کی بہت ضرورت ہے.اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے یقین ہوا ہے کہ آپ کی نظر وہ کچھ دیکھتی تھی ، جو ہماری نظریں نہیں دیکھ سکتی تھیں.اور احباب جنہوں نے طبع شدہ پانچ پارے پڑھے ہیں ، وہ بھی میرے
132 ساتھ اس بارہ میں اتفاق کریں گے کہ حضور کی رائے درست تھی.اور آپ کی اس نظر ثاقب نے حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب رضی اللہ عنہ کو نظارت کی اہم ذمہ داری کے لئے منتخب فرمایا تھا.جو ہر طرح سے اس کے لائق تھے.(۱۰) تأثرات حضرت میر محمد الحق صاحب اذکرواموتاکم بالخیر “ کے زیر عنوان حضرت میر محمد الحق صاحب مرحوم ناظر ضیافت رقم فرماتے ہیں: حدیث شریف میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک شخص نے دوسرے شخص کی تعریف کی.آپ نے فرمایا قَطَعْتَ عُنُقَ اَخِیک یعنی کسی کی تعریف کرنا ایسا ہی خطرناک فعل ہے جیسا کہ کسی کو قتل کر دینا.مگر دوسری طرف خود ہی فرمایا.اُذْكُرُوا مَوْتَاكُمُ بِالْخَيْر - یعنی اپنے فوت شدہ لوگوں کی خوبیوں کا ذکر کیا کرو.ان دونوں حدیثوں میں تطبیق یوں ہے کہ تعریف کی ممانعت زندوں کے متعلق ہے.اور زندہ جب تک اس دار الابتلاء میں زندہ ہے، ممکن ہے کہ وہ اپنی تعریف سن کر مغرور ہو جائے اور تکبر میں مبتلاء ہو کر تباہ ہو جائے.مگر جو شخص فوت ہو چکا ہے اور اس دار الابتلاء سے گذر کر اس دار الاصطفاء میں پہنچ گیا ہے، اس کو تعریف سے کیا ڈر ہے.کیونکہ وہاں نہ تکبر نہ غرور نہ بڑائی بلکہ اخواناً على سرر متقابلین کا کارخانہ ہو گا.اس لئے مُردوں کی تعریف کا کوئی ڈر نہیں.بلکہ سراسر فائدہ ہی فائدہ ہے.کہ ان خوبیوں کے ذکر سے زندہ اصحاب متأثر ہو کر ان کے رویہ کو اپنا رویہ اور ان کے نمونہ کو اپنا نمونہ بنا کر ان کی خوبیوں سے متصف ہونے کی کوشش کریں گے.اور اس طرح قوم میں نسلاً بعد نسل نیکیوں اور خوبیوں کا سلسلہ جاری رہے گا.اس تمہید کے بعد میں اس حدیث کی تمثیل میں جناب چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.جن کا انتقال پر ملال دو اور تین ستمبر ۱۹۲۶ء کی درمیانی شب کے آٹھ بجے ہوا.اناللہ وانا اليه راجعون - چوہدری صاحب موصوف ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.مجھے ان کی سابقہ زندگی سے پوری کیا ادھوری واقفیت بھی نہیں.اس لئے میں صرف اس عرصہ کا ذکر کرتا ہوں کہ جب سے مجھے ان سے نیاز حاصل ہوا.گو میں نے چوہدری صاحب کو سب سے پہلے ۱۹۰۴ء میں گورداسپور کے مقام پر دیکھا تھا.جبکہ وہ ابھی سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل
133 نہیں ہوئے تھے.اور کرم دین والے مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے بطور صفائی کے گواہ کے پیش ہوئے تھے.مگر پوری طرح تعارف ان سے ۱۹۱۴ ء میں ہوا.جبکہ وہ اور میں ایک ہی ریز لیوشن کے ذریعہ مجلس معتمدین کے ممبر تجویز کئے گئے.یہ پہلا تعلق تھا جو مجھے سلسلہ عالیہ کے انتظامی کاروبار میں ان سے ہوا.پھر وہ مشیر قانونی تھے اور میں بہشتی مقبرہ کا افسر ہوا، یہ دوسرا تعلق تھا.پھر میں کچھ عرصہ مجلس معتمدین کا سیکرٹری رہا اور مرحوم بہشتی مقبرہ کے افسر تھے.اس طرح ایک حیثیت سے وہ میرے ماتحت تھے، تو یہ تیسرا تعلق ہے.پھر وہ مجلس معتمدین کے پریذیڈنٹ تھے اور میں سیکرٹری ، تو اس طرح میں ان کے ماتحت تھا.یہ چو تھ تعلق ہے.پھر بالآخر وہ ناظر اعلیٰ ہوئے اور خاکسار ناظر ضیافت ہو کر ان سے مل کر کام کرتا رہا.یہ پانچواں تعلق ہے.غرض مذکورہ بالا پانچ قسم کے تعلق تھے جو ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۶ ء تک مجھے چوہدری صاحب سے پڑتے رہے.ان تمام تعلقات میں ان کی طرز زندگی سے جو کچھ میں سمجھا ہوں ، وہ یہ ہے.چوہدری صاحب بعض خوبیوں میں نہایت ممتاز تھے.مثلاً آپ باوجود اس کے کہ قادیان میں آنریری کام کرتے تھے اور کسی کام کا کوئی معاوضہ کبھی آپ نے نہیں لیا.مگر جس صیغہ میں آپ نے کام کیا ، نہایت پابندی وقت سے کیا.آپ وقت کے شروع میں آتے اور ختم ہونے کے بعد جاتے.بلکہ موسم گرما میں صبح چھ بجے دفتر میں تشریف لاتے اور بارہ بجے جبکہ دفاتر بند ہو جاتے ، آپ دفتر ہی میں رہتے اور عصر کی نماز پڑھ کر گھر تشریف لے جاتے.روزانہ اتنا لمبا عرصہ کام کرنا، ایک نہایت غیر معمولی بات ہے.دوسری بات جو میں نے محسوس کی ہے وہ کام میں منہمک ہونا ہے.چوہدری صاحب موصوف جس وقت کام کرتے تھے تو کام میں ایسے مشغول اور منہمک ہوتے تھے کہ اردگرد کے شور و شر یا اپنی طرف متوجہ کرنے والی باتوں سے آپ متاثر نہ ہوتے تھے.اتنا انہماک شاذ و نادر ہی کسی میں دیکھا گیا ہے.تیسرا امر آپ کا وقت ضائع ہونے سے بچانا تھا.آپ جب تک دفتر میں تشریف رکھتے ، دفتر کا کام کرتے محض خالی بیٹھتے یا بے ضرورت کوئی کام کرتے میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا.اگر کسی وقت دفتر میں فرصت کا وقت ملتا.مثلاً محرر کا غذ تیار کر رہا ہوتا تو جیب سے حمائل نکال کر تلاوت شروع کر دیتے.اس طرح مسجد میں سنتوں کے بعد امام کے انتظار میں خالی بیٹھنے کی بجائے حمائل جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتی تھی ، نکال کر تلاوت کرتے رہتے.
134 چوتھی بات آپ کی کم گوئی ہے.آپ نہایت کم گو تھے.بے ضرورت بات کبھی آپ نہ کرتے تھے.میں نے بارہ برس کے عرصہ میں کبھی محسوس نہیں کیا کہ فلاں بات چوہدری صاحب زائد از ضرورت کر رہے ہیں.پانچویں بات جو آپ میں میرے تجربہ میں آئی ہے، وہ ساتھ مل کر کام کرنے والوں کا احترام تھا.میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ باوجود شدید اختلاف کے کبھی آپ نے مل کر کام کرنے والوں کے ساتھ گفتگو یا تحریر میں ایسا طریق اختیار کیا ہو جسے نا مناسب اور اخلاق کے خلاف کہا جا سکے.آپ بحیثیت میر مجلس معتمدین یا ناظر اعلیٰ اپنے ماتحتوں یا مل کر کام کرنے والوں کو ہدایت دینے کا قواعد کی رو سے حق رکھتے تھے اور عدم تعمیل کی صورت میں مناسب جواب طلبی کر سکتے تھے.مگر جہاں تک میں نے دیکھا ہے، کبھی آپ نے اختیارات کو علقانہ طریق سے استعمال نہیں کیا ہے.اور آپ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ تَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا کے بچے مصداق تھے.میں نے بارہا دیکھا کہ دوران اجلاس میں باوجود مختلف موقعوں پر گرما گرم بحثوں کے وقوع پذیر ہونے کے آپ نے طبیعت نے کبھی حد اعتدال سے تجاوز نہیں کیا.اس امر کے متعلق چوہدری صاحب کی ایک بات مجھے ہمیشہ یاد رہے گی.اور وہ یہ ہے کہ میں مفتی محمد صادق صاحب جنرل سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ کے کشمیر تشریف لے جانے کی وجہ سے قائم مقام جنرل سیکرٹری تھا.اور چوہدری صاحب انجمن کے میر مجلس تھے اور اس طرح میں آپ کی ہدایات کا پابند تھا.مگر آپ علاوہ میر مجلس ہونے کے بہشتی مقبرہ کے صیغہ کے افسر بھی تھے.اس حیثیت سے میں آپ کو اس صیغہ میں ہدایت دے سکتا تھا.ان ہدایات میں سے بعض ہدایات سے آپ کو اختلاف ہوتا.مگر پھر بھی آپ سیکرٹری کا احترم کرتے ہوئے ان پر عمل کرتے.مگر کبھی کبھی عند الملاقات ہنس کر فرماتے کہ بحیثیت میر مجلس ہونے کے آپ کی ہدایت کو منسوخ کر سکتا ہوں مگر عملاً کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے کسی ہدایت کو اپنی دوسری حیثیت سے منسوخ کرنے کی کوشش کی ہو.اور یہ امر میں آپ کی نہایت امتیازی خصوصیت سمجھتا ہوں.چھٹا امر تعاون فی العمل ہے.مثلاً بعض دفعہ چوہدری صاحب کے ماتحت بہشتی مقبرہ کے صیغہ کے کسی کارکن کی جلسہ سالانہ کے کسی کام کے لئے ضرورت ہوتی ، اور میں ان سے مستعار مانگتا ، اور ان کو عذر بھی ہوتا.تو بھی وہ تعاون کر کے ہم کو اپنا آدمی دے دیتے.اور یہ امر ایک دو دفعہ نہیں بلکہ
135 متعدد مرتبہ وقوع میں آیا جو لوگ دفاتر کے کام سے واقفیت رکھتے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ اپنا آدمی دینے میں اہلِ صیغہ کس قدر انقباض کیا کرتے ہیں.ساتواں امر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے احکامات کی اطاعت ہے اس کے لئے کسی مثال کی ضرورت نہیں.اتنا میں کہہ سکتا ہوں کہ میرے تجربہ میں آیا ہے کہ بحیثیت میر مجلس صدر انجمن احمد یہ اور ناظر اعلی قریباً روزانہ زبانی یا تحریری متعدد ہدایات حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے چوہدری صاحب کو ملتی تھیں.جن کی تعمیل کما حقہ، پوری کوشش اور ہمہ تن توجہ سے چوہدری صاحب فرماتے تھے.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ان سات انتظامی امور کے علاوہ چوہدری صاحب کی بعض ذاتی خوبیاں بھی قابلِ تذکرہ ہیں.آپ نماز با جماعت کے نہایت پابند تھے نماز جس خشوع و خضوع اور اطمینان سے پڑھتے تھے ، وہ دیکھنے والوں کو معلوم ہے.آپ نے بڑھاپے میں قرآن مجید حفظ کیا تھا.قرآن کے مطالب و معانی کے حصول کا آپ کو بہت شوق تھا.چنانچہ ایک دفعہ امرتسر میں مجھے فرمایا کہ مجھے کوئی قرآن پڑھا دے تو میں اس کے پاس رہ پڑنے کو تیار ہوں، گھر بھی نہ جاؤں گا.آپ نہایت متین تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو علاوہ دنیوی انعامات عزت ، وجاہت ، دولت اور اولاد کے قرآن کے حفظ اور حج بیت اللہ اور پھر سب سے بڑھ کر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت مالی و قالی و حالی کی توفیق عطا فرمائی.اور پھر بعد وفات سینکڑوں آدمیوں کا خلوص قلب سے دعاء مغفرت کرنا اور حضرت خلیفہ امسیح کا جنازہ پڑھنا اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہونا ، یہ ایسے انعامات ہیں کہ بہت کم لوگوں کو ان سے حصہ ملتا ہے.این سعادت بزور بازو نیست تانه بخشد خدائے بخشنده بالآخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرما کر اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور آپ کے متعلقین کو صبر جمیل عطا فرما کر آپ کے قدم بقدم چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا سب کا انجام بخیر ہو.آمین ثم آمین.“ (مورخہ ۱۷/۹/۲۶)
136 (11) تاثرات حضرت عرفانی صاحب حضرت عرفانی صاحب کے قیمتی تاثرات درج ذیل ہیں: وو آہ چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں اس ہفتہ (۲۹ ستمبر) کی ڈاک دارالامان سے نہایت ہی رنج افزا خبر لائی.جو حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کی وفات پر مشتمل ہے.حضرت ڈاکٹر رشید الدین صاحب کی وفات کے بعد یہ دوسرا قومی صدمہ ہے.انا للہ وانا الیہ راجعون.مخدومی حضرت چوہدری صاحب کی وفات نہ صرف ان کے کثیر التعداد رشتہ داروں اور وسیع حلقہ احباب میں ماتم کا موجب ہوگی.بلکہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے تمام افراد کو جہاں جہاں وہ ہیں رلائے بغیر نہ رہے گی.ہم خدا تعالیٰ کی رضا پر بحمد اللہ راضی ہیں لیکن انسانی جذبات سے خالی نہیں اور رنج و راحت کی کیفیات اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی ہیں.حزیں عرفانی وطن سے دور ایسے مخلص کرم فرما کی خبر وفات کو اپنے لئے حوصلہ شکن پاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اخص اور مخلص صحابہ یکے بعد دیگرے عالم آخرت کو جار ہے ہیں اور حزیں عرفانی ان جدا ہونے والوں کی نوحہ خوانی میں مصروف ہونے والوں کی نوحہ خوانی میں مصروف ہے.حضرت چوہدری صاحب سے قریباً گذشتہ چوتھائی صدی سے میرا تعارف ہوا.اور اس لمبے زمانے میں ان کے اخلاص اور سلسلہ کے لئے فدائیت کی روح کو ہمیشہ میں نے ترقی پر پایا.میں چاہتا ہوں کہ چوہدری صاحب کے متعلق اپنے ذاتی تجربوں اور واقفیت کو شائع کر دوں تا کہ وہ ہمارے لئے خضر راہ ہوں.میں تفصیلی حالات نہیں لکھ سکوں گا بلکہ ان کی سیرت کے متعلق چند خیالات کا اظہار کروں گا.چوہدری نصر اللہ خاں صاحب ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے ایک معزز زمیندار خاندان کے ممبر تھے.ان کی تعلیم لاہور کے اور ٹینکل کالج میں ہوئی.طالبعلمی کے زمانہ میں وہ ہمیشہ اپنی جماعت میں ایک شریف اور قابل فخر طالب علم سمجھے جاتے تھے.ان کے کلاس فیلوز ہمیشہ ان کی عزت بوجہ ان کی قابلیت اور ذاتی شرافت کے کرتے تھے.مجھ کو گذشتہ انتخابات کونسل کے موقعہ پر چوہدری
137 صاحب کے ہمراہ ایک ووٹر کے پاس جانے کی ضرورت پیش آئی.میں مناسب نہیں سمجھتا کہ ان کا نام لوں.وہ صاحب خود بھی عرصہ دراز تک وکیل رہے اور ہمارے سلسلہ کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں بلکہ من وجہ مخالفت ہے.وہ چوہدری صاحب کے اور ٹیکل کالج میں کلاس فیلو تھے.اور خود ذہین اور ممتاز طالبعلموں میں سے تھے.جب ہم ان سے ملنے کے لئے گئے تو وہ گھر میں تھے.چونکہ وہ پبلک زندگی سے کسی قدر ریٹائر ہو چکے ہیں ، اس لئے عام طور پر لوگوں سے ملتے بھی نہیں.لیکن جب چوہدری صاحب کی اطلاع دی گئی تو وہ نہایت محبت اور تپاک سے آکر ملے اور ان کو بہت ہی خوشی ہوئی.معمولی رسمی باتوں کے بعد ہم نے ان سے اظہار مطلب کیا.اور چوہدری صاحب نے کہا اگر چہ ہمارا اور آپ کا مذہبی اختلاف ہے لیکن میں آپ کو ایک سنجیدہ اور معاملہ فہم آدمی سمجھتا ہوں.اگر چہ میرا بیٹا بطور ایک امیدوار کے کھڑا ہوا ہے.مگر میں محض باپ ہونے کی وجہ سے چوہدری ظفر اللہ خاں کے لئے آپ کو رائے دینے کے لئے نہیں کہتا بلکہ میں جانتا ہوں کہ وہ بہترین امیدوار ہے.پس اگر آپ سمجھتے ہوں کہ وہ اس قابل ہے تو رائے دیں.ورنہ جس کو آپ کا جی چاہے دے دیں، جو اس سے بہتر ہو.وکیل صاحب موصوف نے کہا کہ میں اس موقعہ پر رائے دینے کے لئے نہ جانے کا فیصلہ کر چکا تھا.لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب قابل ہیں ، تو میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ سچ کہتے ہیں اور میں محض اس لئے ایک بہترین آدمی اسمبلی میں جائے ، رائے دوں گا.اور میں مذہبی اختلاف کو اس میں روک نہیں سمجھتا یہ مذہب کا سوال نہیں.چوہدری صاحب نے مزید سلسلہ گفتگو میں کہا کہ ہمارے مخالف ضرور کہیں گے کہ وہ احمدی ہے.اور علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ اس کو رائے نہ دی جائے.اگر آپ پر ان علماء کا یا ان لوگوں کا اثر ہے تو بہتر ہے کہ آپ ابھی فیصلہ کر دیں.ہم آپ کو مجبور نہیں کرتے.انہوں نے کہا کہ میری رائے پر دوسروں کا اثر نہیں.میں سب کو جواب دے چکا ہوں.آپ کو میں اس وقت سے جانتا ہوں.آپ خلاف واقعہ بات نہیں کہتے.غرض وہ رائے دینے پر ہی آمادہ نہ ہوئے ، بلکہ پولنگ اسٹیشن پر لوگوں نے بہت کچھ ان کو کہا اور مخالفت کرنی چاہی.انہوں نے سب کا مقابلہ کیا.اس موقع پر جس امر نے مجھے بہت خوش کیا، وہ یہ تھا کہ چوہدری صاحب نے صحیح واقعات کے بیان کرنے میں مضائقہ نہ کیا.اور وکیل صاحب موصوف نے چوہدری صاحب کی سابقہ زندگی پر بھی روشنی ڈالی کہ وہ ہمیشہ صاف گوئی اور سچ کہنے کے عادی تھے.ان کی زندگی کے بہت سے
138 واقعات ایسے ہو سکتے ہیں جو ان کی علمی اور قانونی قابلیتوں پر روشنی ڈالیں گے.مگر میں صرف ان کی زندگی کے اس حصہ پر مختصر تبصرہ کر جاتا ہوں جو سلسلہ احمدیہ سے تعلق رکھتا ہے.وباللہ التوفیق“.سلسلہ میں داخل ہو جانے کے بعد ان کی توجہ سلسلہ کے لٹریچر پڑھنے اور اس کی عملی تبلیغ کی طرف ہوئی.اور چونکہ وہ اپنی عملی زندگی میں ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ، اس کا اثر اکثر لوگوں پر ہوا.اور دیہات سیالکوٹ میں لوگوں نے یہ تسلیم کیا کہ جب چوہدری نصر اللہ خاں صاحب جیسا آدمی اس سلسلہ میں داخل ہوا ہے، تو یہ معمولی امر نہیں.اور خدا کے فضل سے اس طرح پر ضلع سیالکوٹ میں تبلیغ کا راستہ کھل گیا.وو چوہدری صاحب سلسلہ کے کاموں میں پورا حصہ لیتے تھے.اور سیالکوٹ کی انجمن احمدیہ کے پریذیڈنٹ تھے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو ان کے داخلِ سلسلہ ہونے پر بہت خوشی ہوئی.مگر افسوس ہے کہ وہ زیادہ دیر تک اس خوشی کا لطف نہ اٹھا سکے اور موت نے ان کو اپنے نہایت ہی پیارے دوست سے جدا کر دیا.اور چند ہی سال بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی رفع ہو گیا.خلافتِ ثانیہ کے ابتدائی ایام چوہدری صاحب خلافتِ اولی کے زمانہ میں بھی بدستور ترقی کرتے رہے.یہاں تک کہ خدا کی مشیت نے حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کو بھی بلا لیا اور جماعت پر ایک عہد انقلاب و ابتلاء آ گیا.اور چندلوگوں نے جو انجمن کے کار پرداز اور اس طرح پر جماعت پر بخیال خویش ایک قابو اور اثر رکھتے تھے، خلافت سے بغاوت کی اور نظام خلافت کو توڑنے کی بے سود کوشش کی ، جس کا نتیجہ قدرتی طور پر یہ ہوا کہ وہ جماعت سے کٹ گئے.اور انہوں نے لاہور جا کر علم مخالفت بلند کیا.سب احباب کو اس علیحدگی سے رنج اور تکلیف تھی.مگر حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی نے محض اس خیال سے کہ وہ ان بھولے ہوئے بھائیوں کو واپس لانے میں کامیاب ہو جائیں گے.کچھ دنوں بیعت خلافت نہ کی.اور چوہدری صاحب نہایت باریک بینی سے اس اختلاف کا مطالعہ کرتے حضرت عرفانی صاحب نے یہاں جو کچھ آپ کے قبول احمدیت کے متعلق حالات تحریر فرمائے تھے وہ ابتدائے کتاب میں درج ہو چکے ہیں.اس لئے یہاں سے حذف کر دیئے گئے ہیں.
139 رہے.آخر جب قادیان سے ایک وفد سیالکوٹ پہنچا تو چوہدری صاحب نے ( باوجودیکہ اس وقت تک حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے بیعت نہ کی تھی اور وہ احباب کو کچھ اور دیر تک بیعت نہ کرنے کا مشورہ دے رہے تھے ) بیعت کر لی.اور جب ان سے کہا گیا کہ ابھی شاہ صاحب نے بیعت نہیں کی ، تو چوہدری صاحب نے نہایت دلیری اور ایمانی قوت کے ساتھ فرمایا کہ ہم نے شاہ صاحب کے لئے سلسلہ کی بیعت نہ کی تھی اور نہ شاہ صاحب کے لئے اب رک سکتے ہیں.شاہ صاحب بیعت کریں یا نہ کریں ، میں تو بیعت کرتا ہوں.چوہدری صاحب کی اس تقریر کا بہت بڑا اثر ہوا.اور جو لوگ محض شاہ صاحب کی وجہ سے اب تک رکے ہوئے تھے ، ان میں قوت اور جوش پیدا ہو گیا اور انہوں نے فوراً بیعت کر لی.اس لحاظ سے چوہدری نصر اللہ خاں صاحب سیالکوٹ کی جماعت کے احیاء کا موجب ہو گئے.” میرا اپنا یہی اعتقاد ہے کہ خلافت ثانیہ میں جماعت کی ایک تجدید ہوئی ہے.اور اسی لحاظ سے میں یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتا کہ سیالکوٹ کی جماعت کو زندہ رکھنے کا فضل چوہدری صاحب کے حصہ میں آیا.میں جانتا ہوں اور خدا تعالیٰ کے حضور وہ لوگ سابق بالخیرات ہیں اور ان کے مدارج الگ ہیں جو چو ہدری صاحب سے بھی پہلے خلافت کی بیعت کر چکے تھے اور جن کو کوئی ابتلا ء ہی نہیں آیا.مگر چوہدری صاحب کی شان بالکل جدا ہے اور میں ایک بصیرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ پیچھے آ کر سب سے آگے ہو گئے.ان کے بیعت کر لینے سے جماعت سیالکوٹ کو بہت بڑی تقویت ہو گئی.اور سچ تو یہ ہے کہ خود حضرت شاہ صاحب بھی پھر زیادہ عرصہ تک جدانہ رہ سکے.اور آخر بیقرار ہو کر وہ حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر عہد وفا کرنے پر مجبور ہو گئے.چوہدری صاحب کی زندگی میں اب بالکل نئے دور کا آغاز ہوا.اور وہ بیج جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرتے وقت ان کے قلب مطہر میں بویا گیا تھا ، بار آور درخت کی صورت میں نمایاں ہونے لگا.اور ان کی تمام تر توجہ اس امر کی طرف ہوگئی کہ وہ تمام کاروبار کو چھوڑ کر بالکل دین کو دنیا پر مقدم کرلیں.اور سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنے اوقات گرامی کو لگا دیں.کہنے کے لئے یہ بہت آسان ہے.لیکن غور کرو کہ ایک کامیاب وکیل جس کو اپنے کاروبار کے لئے کسی تگ دو کی ضرورت نہیں ، اپنے چلتے ہوئے کاروبار کومحض خدا کی رضاء کے لئے چھوڑ دے.کیا آسان امر ہے؟ ہر گز نہیں.چوہدری صاحب کے جانے والے جانتے ہیں کہ وہ ایک نہایت ہی کامیاب وکیل تھے اور وو
140 جب انہوں نے ترک وکالت کی ہے.اس وقت پورے زوروں پر ان کا کام تھا.اور ایک معقول آمدنی تھی مگر انہوں نے کچھ پرواہ نہ کی.دنیا اپنی تمام خوبصورتیوں اور دلکش اداؤں کے ساتھ ان کے سامنے پیش ہوئی.مگر انہوں نے باوجود قدرت وقوت کے اسے پرے پھینک دیا.یہ تھی حقیقی قربانی.یہ تھا گھر پھونک تماشہ دیکھنے کا نظارہ.میں نے ایک حریص جاہ و مال کو دیکھا ہے کہ اس نے اپنی تقریروں میں بارہا کہا کہ میں نے چلتی وکالت پر لات ماری.اور گھر پھونک تماشہ دیکھا.خدمت اسلام کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا.مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ ان ساحرانہ الفاظ میں حقیقت کس قدر ہے.چوہدری صاحب نے یہ قربانی کی اور کبھی ظاہر بھی نہ کیا کہ کیا کیا ہے؟ وہ شخص جو اپنی خدا داد دولت و حشمت اور خدا دا د عزت و وقار کے لئے اپنے ہمعصروں میں ممتاز تھے.اور اپنی خاندانی حیثیت سے اپنی قوم کا عزیز اور محبوب تھا.جس کے لئے حکومت کی طرف سے کسی خطاب یا آنریری خدمت کا حاصل کر لینا نہایت سہل تھا.وہ دنیا کی تمام مالوفات کو چھوڑ کر با وجود امیر ہونے کے فقیر ہو گیا اور در محبوب پر دھونی رما کر بیٹھ گیا.خدمت سلسلہ کے لئے وقف زندگی کاروبار ترک اس لئے کیا تھا کہ اب خدمت سلسلہ کے لئے عملاً زندگی وقف کردی جائے.چنانچہ انہوں نے تمام جماعت کو اس کا عملی سبق دیا.اور قادیان آکر مرکزی کاموں میں حصہ لیا.انہوں نے کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ کیا کام ان کو دیا جائے.اور اپنے فرائض کی بجا آوری میں اپنے مقام اور کام کے لحاظ سے انہوں نے کبھی کسی نمائش کو پسند نہ کیا.صیغہ جات نظارت میں وہ ناظر اعلیٰ تھے.جو کام کے لحاظ سے سب سے بڑا عہدہ ہے اور صد رانجمن احمدیہ کے پریذیڈنٹ تھے.مگر سچ یہ ہے کہ باوجود اپنے اس اعلیٰ مقام کے وہ اپنے آپ کو عام افراد سے ممتاز نہ سمجھتے تھے.یہ معمولی امر نہیں بلکہ نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی بات ہے.انہوں نے اس منصب کو حکومت کا مقام نہیں سمجھا بلکہ خدمت کا مقام اور یہی وجہ ہے کہ جماعت کا ہر فردان کے لئے اپنے دل میں بے حد عزت اور عظمت رکھتا تھا.اور نہایت محبت کے ساتھ ان کو دیکھتا تھا.میں نہایت جرات سے یہ کہتا ہوں کہ افراد جماعت کو چوہدری صاحب قبلہ کے پاس جا کر اپنے حالات ، مشکلات اور ضروریات کا اظہار بہت سہل اور مرغوب ہوتا تھا.یہ نسبت اس کے کہ وہ اپنے معاملات کا کسی ناظر متعلقہ سے
141 ذکر کریں.لوگ حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حضور پہنچ کر اپنے حالات عرض کرنے میں آسانی اور سہولت پاتے ہیں.اور باوجود اس عزت وعظمت کے جو حضور کی قلوب میں ہے.اور باوجود اس خوف کے جو اس عظمت و جلال کے تصور سے ہوتا ہے ، لوگوں کو یہ شعور اور بصیرت ہے کہ وہ آسانی سے عرض کر سکتے ہیں.اس لئے کہ وہ خوف محبت کا نتیجہ ہے.لیکن بعض اوقات ناظروں کے پاس جانے میں انکو جھجک اور ڈر معلوم ہوتا ہے.چوہدری صاحب کا وجود ناظروں میں خاص امتیاز رکھتا تھا کہ لوگ ان سے بلا تکلف جا کر عرض حال کر لیتے تھے.اور انہوں نے صحیح طور پر حضرت خلیفہ امسیح کے منشاء کو سمجھ کر اپنی عملی زندگی سے اس کا ثبوت دیا.اپنے ماتحتوں کے ساتھ ان کو گو قدرتی طور پر امتیاز اور تفوق تھا.مگر عملاً وہ ایک احمدی سے لے کر ناظر تک سے یکساں سلوک اور یکساں احترام کرتے تھے.” جب تک وہ زندہ رہے اور سلسلہ کا کام کرتے رہے، نہ صرف آنریری طور پر کام کرتے تھے بلکہ سلسلہ کی ہر تحریک میں بڑھ کر حصہ لیتے تھے.اور ان میں اطاعت اور فرمانبرداری کی ایسی روح تھی کہ وہ پیدا نہیں ہو سکتی جب تک کوئی شخص خدا تعالیٰ کو دیکھ نہ لے اور اس کی تجلیات کا پر تو اس پر پڑ کر اس کی خودی کی ہستی کو جلا نہ دے.چوہدری صاحب کی دفتری زندگی میں اس موقعہ پر چوہدری صاحب کی دفتری زندگی پر ایک نظر کئے بغیر آگے نہیں جاسکتا.عام طور پر لوگ آنریری کام کو یا تو اپنی نمائش و نمود کے لئے یا بطور مشغلہ کے کرتے ہیں.مگر چوہدری صاحب اس کام کو زیادہ عزت و وقعت کی نظر سے دیکھتے تھے، جو کسی دنیوی مفاد اور معاوضہ کے لئے کیا جائے.وہ اپنے فرض منصبی کے لئے جہاں تک میرا تجربہ ہے ٹھیک وقت پر دفتر آنے والے تھے اور خواہ کچھ بھی ہو، اس طرح پر آیا کرتے تھے جیسے کوئی مزدور کام پر اس لئے جا رہا ہے کہ اگر دیر ہو جائے گی تو اس کا کچھ نقصان ہو جائے گا.اور وہ مادی مفاد سے محروم ہو جائے گا.چونکہ نظارتوں کے دفاتر کو جانے کے لئے میرے کو چہ سے گزر کر جانا لازمی ہے اور میں ان نظاروں کو ایک غور طلب اور مطالعہ کن نظر سے دیکھنے کا عادی ہوں.میں نے کبھی کسی ناظر کو چوہدری صاحب سے پہلے دفتر کو جاتے ہوئے نہیں دیکھا.اور چوہدری صاحب ایسے وقت پر جایا کرتے تھے کہ وقت سے پہلے پہنچ
142 جائیں.پھر جب تک وہ دفتر میں رہتے.ہر وقت اپنے کام میں مصروف رہتے.اور اگر دفتری کام کسی دن ہلکا ہو، تو وہ اس وقت کو فارغ سمجھ کر دفتر چھوڑ کر گھر کو نہیں چلے جاتے تھے.بلکہ دفتر کے پورے گھنٹوں میں دفتر میں موجود رہتے ، اور اس فارغ وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کا انڈکس تیار کیا کرتے تھے.جو نہایت محنت اور دیدہ ریزی کا کام ہے.چوہدری صاحب کی عملی دفتری زندگی ان کا غذات سے بخوبی ظاہر ہے جو ان کے سامنے پیش ہوتے.وہ کاغذات کو زیادہ دیر تک ملتوی نہ رکھتے تھے.فوراً اس پر جو فیصلہ کرنا ہو کر دیتے تھے.یہ امر دیگر ہے کہ اگر مشاورت میں وہ معلق رہے تو معذور تھے.ورنہ جہاں ان کو خود کوئی فیصلہ کرنا ہو، اسے وہ زیادہ دیر تک رکھنے کے عادی نہ تھے.میں خود ایک تیز طبیعت رکھتا ہوں.اور مختلف مواقع پر کبھی بحیثیت ناظر، کبھی بحیثیت ممبر مشاورت ، اتفاقیہ میں ان سے کا رو باری سلسلہ میں ملا ہوں.اور میں نے دیکھا کہ وہ اس کے خوگر نہ تھے کہ اپنا تفوق ظاہر کریں یا کام کو کسی وجہ سے التواء میں ڈالیں.عام طور پر وہ خود اپنے ہاتھ سے احکام لکھتے.لیکن اپنے محرر سے بھی لکھواتے.اس میں ان کا طریق عمل یہ نہ تھا کہ محرران کے خیالات اور دماغ پر حکومت کرے.یا وہ آسانی کے لئے اس پر چھوڑ دیں کہ جو چاہے لکھ دے اور وہ دستخط کر دیں.بلکہ وہ خود املاء کراتے تھے اور پھر پڑھ کر اس پر دستخط کرتے.* قواعد و ضوابط کے پورے پابند.وہ اپنے لفظ اور حکم کو قانون سمجھتے تھے، بلکہ یہ درجہ ان کے ایمان میں اور عمل میں حضرت خلیفہ اسیح کے ارشاد کو حاصل تھا.میں نے بعض اوقات دیکھا کہ وہ ایک نہایت ضروری کام میں مصروف ہیں اور حضرت کا حکم کسی اور کام کے لئے آگیا جو بظاہر اتنا اہم نہیں.مگر وہ جھٹ اس کے لئے کھڑے ہو گئے.ایک مرتبہ میں نے کہا کہ چوہدری صاحب اس کو ختم کر لیں.فرمایا کہ کام وہی ہے جو حضرت صاحب فرمائیں.جب یہ حکم آگیا تو یہ مقدم ہو گیا ہے.غرض وہ وقت کے پابند تھے اور تمام وقت نہایت مکرم شیخ محمد دین صاحب کا جو بیان اس بارہ میں پہلے درج کیا جا چکا ہے.اس میں اور حضرت عرفانی صاحب کے بیان میں تضاد نہیں بہشتی مقبرہ کے صیغہ کا اکثر کام ایک معمول کا رنگ رکھتا ہے.جس کے روز مرہ کے کام میں ایک یکسانیت ہوتی ہے ، اور اس کے ہرامر میں منفرد ہدایت کی ضرورت نہیں ہوتی.البتہ جہاں منفرد ہدایات کی ضرورت ہوتی ہے، اس بارہ میں شیخ صاحب نے حضرت چوہدری صاحب کے مفید مشوروں اور ہدایات کا ذکر کیا ہے.
143 محنت اور اخلاص سے مصروف کا ررہتے تھے.اپنے ماتحتوں اور دوسرے لوگوں سے وہ ہمیشہ ایک بھائی کی حیثیت سے اپنے دفتر میں ملتے تھے.اور اس جذبہ نے لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت اور اس محبت کا جائز خوف جو ان کے عہدہ کے لحاظ سے پیدا کر دیا تھا.لوگ ان سے اس لئے نہ ڈرتے تھے کہ وہ کوئی سنگ دل اور خوفناک وجود ہے.بلکہ یہ خوف ان کی محبت اور اخلاص کا نتیجہ تھا کہ ایسا محسن اور شریف بزرگ کسی وجہ سے ناراض نہ ہو جائے.اس خوف کی ویسی ہی مثال ہے جیسا ماں سے بچوں کو ہوتا ہے یا حضرت امام سے ہے.اپنے فرض منصبی کی بجا آوری میں وہ تالیف قلوب اور رعایت کے پہلو مدنظر رکھتے تھے.مگر انصاف اور فیصلہ کے وقت وہ کسی کی پرواہ نہ کرتے تھے.اور یہ کمال تھا کہ ان کے فیصلہ کو باوجود یکہ کسی کے خلاف بھی ہو تو کسی کو نا گوار نہیں ہوتا تھا.اس لئے یہ تسلی اور اطمینان ہوتا تھا کہ چوہدری صاحب نے نہایت بے نفسی اور خیر سگالی سے کیا ہے.دد کسی کام سے عذر نہ ہوتا تھا“ چوہدری صاحب کے لہی وقف کا ایک عملی ثبوت یہ بھی تھا کہ وہ کبھی کسی کام سے انکار نہ کرتے تھے.جو کام دے دیا جائے وہ اسے کرتے.مقبرہ بہشتی کے افسر بھی وہ ایک عرصہ تک رہے اور انہوں نے اس کام کو بھی نہایت مستعدی اور محنت کے ساتھ باوجود اپنے دوسرے اہم فرائض اور مشاغل سے پورا کیا.اور اس کے علاوہ بعض اوقات کسی کمیشن یا خاص کمیٹی میں کام کرنا پڑا تو اس میں اسی تندہی سے شرکت کی.وہ انجمن یا نظارتوں یا کمشنوں اور کمیٹیوں کے اجلاس میں سب سے زیادہ حاضر باش ممبر ہوتے تھے.اور رائے دیتے وقت نہایت احتیاط اور غور سے رائے دیتے تھے کبھی جلدی نہ کرتے.طبیعت میں جلد بازی اور جوش بے جانہ تھا.مگر باوجود اس کے سلسلہ کے لئے پوری غیرت اور جوش تھا.اکرن کا معرکہ شدھی“ مجھ کو ذاتی طور پر اس کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے.جب یو پی اور ریاست بھر تیپور وغیرہ میں شدھی کی تحریک زوروں پر ہوئی.اور اکرن کے متعلق حکام ریاست کی زبردستیوں کی شکایات پہنچیں تو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار عرفانی کو اس میدان میں اترنے کا حکم
144 دیا اور میں حکام ریاست سے گفت و شنود کرنے اور مقابلہ کی انتہائی ہدایات لے کر چلا گیا.حضرت چوہدری صاحب کو بھی اس معرکہ میں شریک ہونے کا حکم مل گیا.چوہدری صاحب باوجود یکہ نحیف الجثہ تھے.اور ساری عمر خدا کے فضل وکرم سے انہوں نے ہر طرح آرام و آسائش میں گزاری تھی.پھر عمر کا آخری حصہ اور یوپی کی خوفناک گرمی کے ایام.مگر وہ مجھ سے زیادہ ہمت اور حوصلہ کے ساتھ میرے شریک کار ہوئے.میں اس زمانہ کو کبھی نہیں بھول سکتا.چوہدری صاحب کی زندگی کا مطالعہ کرنے کا مجھے کافی موقع ملا.ہم کو بعض اوقات مشورہ دیا گیا کہ اکران میں نہ ٹھہر ہیں.مگر ہم نے فیصلہ کر لیا کہ ہم اس کو نہیں چھوڑیں گے.چنانچہ ہمارا ڈیرہ اکران میں تھا.پانی کی تکلیف اور گرمی کی شدت ، رہنے کو جگہ نہیں.چاروں طرف دشمنوں کا حلقہ اور حکام ریاست ان کے مددگار.مگر خدا شاہد ہے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ ہم اکران کے مقام پر اس طرح ڈٹے ہوئے تھے کہ حکام کو بھی حیرت ہوتی تھی.قریباً ہر روز بھر تپور جانا پڑتا تھا.وہاں کے ارکان سلطنت سے دو بدو باتیں ہوتی تھیں.اور ان کو حیرت ہوتی تھی کہ کس طرح پر ہم ان کے گھر پہنچ کر بغیر کسی ادنیٰ سے خوف کے ان وو سے ان حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں جو ہر شخص کو قا نو نا حاصل ہیں.چوہدری صاحب اس وقت بھی ناظر اعلیٰ تھے.لیکن مقامی امیر کی حیثیت سے اس وقت ہم چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے ماتحت تھے.میں نے ہمیشہ بار یک طور پر اس کا مطالعہ کیا.چوہدری صاحب قبلہ کو ان احکام اور ہدایات کی پابندی میں نہایت خوش پایا جو امیر مجاہدین دیتے تھے.غرض وہ ایک بچے اور حقیقی مومن اور مسلم تھے.ان کی زندگی ہر میدان میں سبق اور خضر راہ ہے.الفضل میں ان کی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے حفظ قرآن کا تذکرہ کیا جا چکا ہے اور یہ معمولی امر نہیں ، اس پیرانہ سالی میں جبکہ دماغ زیادہ محنت برداشت نہیں کر سکتا.انہوں نے خدا کی رضا کے لئے قرآن مجید کو حفظ کر لیا.اور یہ ایک روح صداقت تھی ، جو ان کے اندر کام کرتی تھی.کسی نے ان سے پوچھا تو کہا کہ قانون کی اتنی بڑی کتابیں حفظ کرلیں اور اب تک بہت بڑا حصہ نظائر کا یاد ہے.خدا تعالیٰ کی کتاب کو حفظ نہ کرنا تو بہت بڑی غلطی ہے.پھر قرآن کریم کو حفظ ہی نہیں کیا، اس کی تلاوت با قاعدہ کرتے رہتے تھے اور اس طرح پر ان کی زندگی کا ہر لحظہ خدا تعالیٰ ہی کے لئے ہو گیا تھا.مختلف اوقات میں ان پر بیماری کے مختلف حملے ہوتے تھے لیکن وہ ذرا افاقہ پالینے پر پھر کام شروع کر دیتے تھے.اور کبھی لمبا آرام کرنے کی خواہش ان میں نہ پائی جاتی تھی.اور حقیقت میں
145 ان کے مد نظر حضرت تحسین مرحوم کا یہ شعر رہتا تھا.عمر گذشت است و نماند جز ایام چند به که در یاد کسے صبح کنم شامے چند وہ دنیا سے عملاً قطع تعلق کر چکے تھے اور خدا میں زندگی بسر کر چکے تھے.ان کا چلنا پھرنا سب کچھ خدا ہی کے لئے تھا.اگر چہ وہ اپنی جوانی کے ایام میں بھی نیک اور دیندار تھے لیکن بڑھاپے میں جو کام انہوں نے کیا ، اس پر جوانی کو بھی رشک آتا ہے.اسی بڑھاپے میں قرآن مجید حفظ کیا.اسی بڑھاپے میں حج کا دشوار و صعب ناک سفر اختیار کیا.اسی بڑھاپے میں تبلیغ اسلام اور مجاہد فی الاسلام ہو کر شدھی میدان میں اترے.اسی بڑھاپے میں ( جبکہ قدر تا انسان کی دنیوی حرص و آز کا سلسلہ لمبا ہو جاتا ہے ) سب کچھ ترک کر کے عملی ہجرت کر کے قادیان آگئے.اور آخر قادیان ہی کی پیاری بستی میں اطمینان اور سکینت کی نیند سو گئے.میں ان کی مالی خدمات کا تفصیلی ذکر نہیں کروں گا.یہ ناظر بیت المال کا کام ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ سلسلہ کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.سلسلہ میں بڑے بڑے کام کرنے والے آئیں گے، بڑے بڑے مجاہد اور شہداء پیدا ہوں گے لیکن چوہدری نصر اللہ خاں صاحب جیسی ہستی حالات اور واقعات کے لحاظ سے کم ہوگی.چوہدری صاحب مر نہیں گئے بلکہ انہوں نے حیات ابدی پائی ہے.ان کے نیک کاموں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا.جو خدمت سلسلہ کی انہوں نے ابتلاء اور ایام بلا میں کی ہے وہ ہمیشہ دوسروں کو سبق دیتی رہے گی.ضلع سیالکوٹ میں ان کی عملی تبلیغ نے جو کام کیا ہے اور جماعتوں کو جو تقویت اور زندگی بخشی ہے ، وہ انہیں زندہ جاوید رکھے گی.لیکن ان تمام باتوں کے علاوہ وہ اپنے قائم مقام اسی روح اور قوت کا جو سلسلہ کے لئے وہ رکھتے تھے، اپنے خلف الرشید چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بیرسٹر کی صورت میں چھوڑتے ہیں.مجھے ضرورت نہیں کہ عزیز مکرم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے متعلق اس موقعہ پر کچھ لکھوں.چوہدری صاحب کے دوسرے صاحبزادے بھی سلسلہ کے لئے پوری غیرت اور جوش رکھتے ہیں.میں عزیز چوہدری شکر اللہ خاں سے ذاتی طور پر واقف ہوں.اور اس غیرت کو جانتا ہوں جو اس کو سلسلہ کے لئے ہے.پس ایسی اولاد چھوڑنے کے بعد چوہدری صاحب کی زندگی میں کیا شبہ ہے.کچھ شک نہیں کہ ان کی موت ہمارے لئے قومی صدمہ ہے.مگر جس قسم کی موت چوہدری صاحب قبلہ کو نصیب ہوئی
146 ہے اس پر لاکھوں زندگیاں شمار ہیں.آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ چوہدری صاحب کو اپنے جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام پر اٹھائے.اور سلسلہ کو ان کا نعم البدل دے.اور آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل.آمین خاکسار حزین عرفانی از لنڈن ( الفضل ۱۲ و ۱۶ نومبر ۱۹۲۶ء) (۱۲) جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے خاکسار کے عرض کرنے پر ذیل کے بعض متفرق واقعات اور تاثرات رقم فرمائے ہیں: والد صاحب نے ہماری ہمشیرہ صاحبہ مرحومہ کو اس زمانہ کے رواج کے مطابق ان کی شادی کے موقعہ پر بہت سا جہیز دیا تھا.(البتہ ) آپ نے اپنی وصیت میں یہ ہدایت لکھ دی تھی کہ آپ کا ورثہ مطابق شرع محمدی تقسیم ہو.چنانچہ آپ کی وفات کے بعد اس ہدایت کے مطابق ہمشیرہ صاحبہ مرحومہ کو ان کا حصہ ادا کرنے کا انتظام ان کی مرضی کے مطابق کر دیا گیا.میری طبیعت پر بچپن سے یہ اثر تھا کہ والد صاحب نماز بہت پابندی کے ساتھ اور سنوار کر ادا فرمایا کرتے تھے اور تہجد کا التزام رکھتے تھے.میں اپنے تصور میں اکثر والد صاحب کو نماز پڑھتے یا قرآن کریم کی تلاوت کرتے دیکھتا ہوں.بیعت کر لینے کے بعد فجر کی نماز کبوتر انوالی مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے.مسجد ہمارے مکان سے فاصلے پر تھی.اس لئے والد صاحب گھر سے بہت اندھیرے ہی روانہ ہو جایا کرتے تھے.کبھی کبھی مجھے بھی آپ کے ساتھ جانے کا اتفاق ہو جایا کرتا تھا.گومیری عمر بھی اس وقت چھوٹی تھی.قرآن کریم کے ساتھ آپ کو بہت محبت تھی.عشاء کی نماز کے بعد سونے تک اکثر قرآن کریم کی تلاوت میں گزارتے تھے.میرے انٹرنس کے امتحان میں چھ ماہ کے قریب باقی تھے کہ ایک دن آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا: قرآن مجید کا ترجمہ کتنا پڑھ لیا ہے.“ ان دنوں میں مکرمی جناب مولوی فیض الدین صاحب سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا کرتا تھا.میں نے جواب دیا.ساڑھے سات سپارے پڑھے ہیں.فرمایا: تمہارا امتحان قریب آرہا ہے.جب تم کالج چلے جاؤ گے تو ان امور کی طرف توجہ کم ہو جائے
147 66 گی.میں چاہتا ہوں کہ امتحان سے پہلے قرآن کریم کا ترجمہ تم ختم کرلو.اس لئے بجائے مسجد میں جا کر پڑھنے کے مجھ سے ہی پڑھ لیا کرو.اس طرح باقاعدگی سے پڑھ سکو گے اور جلد ختم کر سکو گے.“ چنانچہ اس کے بعد میں دن کے وقت میں دو تین رکوع کا ترجمہ دیکھ چھوڑتا تھا اور عشاء کے بعد والد صاحب کو سنا دیا کرتا تھا.اس طرح کا لج میں داخل ہونے سے پہلے آپ نے مجھے قرآن کریم کا سادہ ترجمہ ختم کرا دیا.فَجَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ اپنے تمام فرائض کو والد صاحب بہت پابندی اور توجہ کے ساتھ ادا فرمایا کرتے تھے.اپنے پیشے میں بہت نیک نام اور کامیاب تھے.اپنی طبیعت کے لحاظ سے دیوانی کام کو پسند کرتے تھے.دیوانی کام میں سے زمین کے مقدمات میں بہت مہارت رکھتے تھے.فوجداری کام کی طرف طبیعت میں زیادہ رغبت نہیں تھی.فرماتے تھے فوجداری کام میں اس لئے بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کا میرے اعصاب پر بہت بوجھ پڑتا ہے.اہم فوجداری مقدمات کی سماعت کے دوران میں میں سو نہیں سکتا.” جب میں نے لاہور کام شروع کیا تو مجھ سے فرمایا.ہمیشہ یادرکھنا کہ جو شخص تمہیں اپنی طرف سے وکیل مقرر کرتا ہے، وہ ایک امانت تمہارے سپرد کرتا ہے.اس امانت کا حق پورے طور پر ادا کرانے کے لئے تم اللہ تعالیٰ کے روبرو ذمہ دار ہو.اس ذمہ داری کی ادائیگی کے متعلق آپ کا اپنا معیار بہت بلند تھا.مندرجہ ذیل دو واقعات سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.ہمارے دادا صاحب کی وفات کے بعد چند سال والد صاحب کا یہ معمول رہا تھا کہ ہر اتوار کے دن ڈسکہ جایا کرتے تھے.تا کہ خاندانی امور اور جائیداد کی دیکھ بھال بھی کر سکیں اور اپنی والدہ ماجدہ اور اپنے چھوٹے بھائی کی صحبت میں کچھ وقت گزار سکیں.ان دنوں ڈسکہ اور سیالکوٹ ، اور ڈسکہ اور سمبڑیال کے درمیان کی سڑکیں دونوں کچی تھیں.سیالکوٹ اور ڈسکہ کے درمیان سفر کچی سڑک پر اتنے کی سواری کے ذریعہ ہوتا تھا.پندرہ سولہ میل کا فاصلہ اڑھائی تین گھنٹے میں طے ہوتا تھا.والد صاحب عموماً ہفتہ کے دن کچہری کے کام سے فارغ ہونے کے بعد سیالکوٹ سے روانہ ہوا کرتے تھے اور اتوار کے دن عصر اور مغرب کے درمیان ڈسکہ سے واپسی کے سفر پر روانہ ہوا کرتے تھے.بعض دفعہ ڈسکہ میونسپل کمیٹی کے اجلاس میں شمولیت کی وجہ سے روانگی مغرب کے بعد تک ملتوی ہو جاتی تھی.ایک دفعہ سردیوں کے موسم میں اتوار کا تمام دن بارش ہوتی رہی.والد صاحب کو روانہ ہونے میں دیر
148 ہوگئی اور جب آپ سفر کے لئے تیار ہوئے تو اندھیرا ہو گیا تھا.بارش ابھی تھی نہیں تھی ہوا تیز تھی.سردی کا موسم تھارات کے اندھیرے میں کوئی اکے والا روانہ ہونے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا.والد صاحب کو فکر تھی کہ گو فجر کے بعد روانہ ہو کر بھی عدالت کا کام شروع ہونے تک سیالکوٹ پہنچ سکیں گے.لیکن جب تک سیالکوٹ پہنچ نہ جائیں موکلوں کو پریشانی رہے گی.چنانچہ عشاء کے بعد بارش سردی اور تیز ہوا کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ پیدل روانہ ہو گئے اور تمام رات اندھیرے میں گرتے پڑتے ہوئے سولہ میل کا سفر طے کر کے فجر کے وقت کیچڑ میں لت پت سیالکوٹ پہنچ گئے.”ہمارے ایک بھائی عزیزم شکر اللہ خاں صاحب مرحوم چھوٹے عزیزم چوہدری عبداللہ خاں صاحب ( مرحوم ) سے بڑے تھے جن کا نام حمید اللہ خاں تھا.وہ آٹھ نو سال کی عمر میں چند دن بیمار رہ کر فوت ہو گئے.ان کی وفات فجر کے وقت ہوئی.والد صاحب تمام رات ان کی تیمار داری میں مصروف رہے تھے.ان کی وفات کے بعد ان کی تجہیز و تکفین ، جنازہ اور دفن سے فارغ ہو کر عدالت کھلنے پر حسب دستور عدالت میں اپنے کام پر حاضر ہو گئے.نہ موکلوں میں سے کسی کو احساس ہوا، اور نہ افسران عدالت یا آپ کے ہم پیشہ اصحاب میں سے کسی کو اطلاع ہوئی کہ آپ اپنے لختِ جگر کو سپردخاک کر کے اپنے مولا کی رضا پر راضی اور شا کر اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے حسب معمول کمر بستہ حاضر ہو گئے ہیں.دن کے دوران میں آپ کے ایک ہم پیشہ دوست نے جو آپ کے دفتر کے کمرہ کے شریک بھی تھے.سرسری طور پر دریافت کیا.حمید اللہ خاں کا آج کیا حال ہے؟ تو آپ نے جواب دیا.حمید اللہ خاں کا اپنے رب کی جناب میں بہت اچھا حال ہے ، اب کوئی تکلیف نہیں.اس پر انہوں نے بہت حیرت کا اظہار کیا.اور شکایت کی کہ آپ نے اطلاع کیوں نہ دی تا ہم لوگ تجہیز و تکفین میں ہاتھ بٹا سکتے اور جنازے میں شریک ہو سکتے.اور پھر آج کچہری آنے کی کیا پابندی تھی.آپ مجھے کہلا بھیجتے میں آپ کی جگہ تمام کام نپٹا دیتا.آپ نے جواب میں ان کا شکر یہ ادا کیا اور کہا کہ اطلاع تو اس لئے نہیں دی کہ کام کا دن تھا.آپ کو بے وقت پریشانی ہوتی.کچھ دوست آگئے تھے اور تمام کام سرانجام پا گیا.اور کچہری اس لئے آ گیا ہوں کہ موکلوں کو اپنے کام کی فکر ہوگی.اور میری ذمہ داری میں میرے ذاتی صدمہ کی وجہ سے کوئی تخفیف نہیں ہوئی.بایں ہمہ آپ کو وکالت کے پیشے کے متعلق اطمینان نہیں تھا.چنانچہ ۱۹۰۵ء میں جب آپ ستمبر
149 کی تعطیلات میں قادیان حاضر ہوئے ، تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اقدس میں گزارش کی کہ اگر حضورا جازت دیں، تو میں یہ کام چھوڑ کر زندگی کے بقیہ ایام خدمت دین میں گزاروں.حضور نے فرمایا اپنے پیشے میں دیانت کی مثال قائم کرنا یہ بھی دین کی خدمت ہے.آپ پوری دیانت اور احتیاط سے کام کرتے رہیں ، استغفار بہت کیا کریں.اور اپنی آمد میں سے صدقہ و خیرات اور خدمت دین کے لئے صرف کرتے رہیں.چنانچہ حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں آپ نے اپنا کام جاری رکھا.حضور کے وصال کے بعد آپ نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں پھر اپنی خواہش پیش کی تو حضور نے فرمایا.جس بات کی حضرت صاحب علیہ السلام نے اجازت نہیں دی ،نور الدین کیسے اجازت دے سکتا ہے.آخر خلافت ثانیہ کے ابتدائی سالوں میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بصرہ کے ارشاد پر آپ نے وکالت کا کام ترک کر دیا اور ہجرت کر کے دارالامان حاضر ہو گئے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ کے ساتھ آپ کو حد درجہ عقیدت اور محبت تھی اور ہر بات میں آپ حضور ایدہ اللہ کا نہایت ادب اور احترام ملحوظ رکھتے تھے.جب ہجرت کر کے دارالامان حاضر ہوئے تو حضور ایدہ اللہ سے اجازت لی تھی کہ سال بھر میں دو ماہ کا عرصہ اپنے وطن جاسکیں لیکن جب اجازت طلب کرنے کی ضرورت ہوتی تھی تو اکثر اس موقعہ کی انتظار فرمایا کرتے تھے کہ خاکسار دار الامان حاضر ہو اور حضور ایدہ اللہ سے آپ کے لئے رخصت طلب کرے.فرمایا کرتے تھے.میں حضور ایدہ اللہ کی خدمت میں کوئی گزارش کرنے میں سخت حجاب محسوس کرتا ہوں.ایک موقعہ پر حضور ایدہ اللہ کو صدرانجمن کی کسی کا رروائی پر کچھ ٹنگی ہوئی.آپ ناظر اعلی تھے.آپ حضور ایدہ اللہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم تو یہاں اللہ تعالیٰ کی رضاء اور حضور کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آکر بیٹھے ہوئے ہیں.قواعد کی تعبیر کے ساتھ غرض نہیں.حضور اپنے منشاء مبارک کا اظہار فرما دیں ہم اس کے مطابق تعمیل کریں گے.دو لیکن میری کیا حیثیت ہے کہ میں آقا اور خادم - محبّت اور محبوب کے درمیان صدق وصفا کی کیفیات کو ضبط تحریر میں لاسکوں.وہ خادم.وہ محبت نہایت عاجز اور مسکین تھا.اپنے تئیں کچھ بھی نہیں سمجھتا تھا.بیعت کے دن سے اپنے تئیں اپنے آقا کے ہاتھ پر بکا ہوا شمار کرتا تھا.اور اس سودے پر فرحاں و نازاں تھا.میں درمیان سے گر چکی تھی.اور صرف وہ ' باقی رہ گئی تھی.جیسے 0 دو
150 حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے خود اپنی نسبت فرمایا ہے:.وو وہ ہے میں چیز کیا ہوں“ اسی طرح اس خادم کی کیفیت تھی.” وہ ہی سب کچھ تھے.میں کوئی چیز نہیں تھا.حتی کہ آپ 66 66 اس کیفیت کے اظہار سے بھی کہ ”وہ“ ہے ” میں کچھ نہیں ہوں،شرماتے تھے.زبان خاموش تھی.دل جذبہ عشق سے سرشار تھا.اس عشق سے معمور دل کی کیفیات کو اس دل کے پیدا کرنے والا ہی جانتا ہے.ہاں جب عہد وفا پورا ہو چکا.تو اسی آقا، اسی محبوب کے دربار سے جس کے در پر اس خادم نے دھونی رما ر کھی تھی ، یہ سند خوشنودی جاری ہوئی.( یہ عبارت کتبہ ہے جو کتاب کے آخر پر درج ہے.مؤلف ) اور وہ باوفا خادم منهم من قضى نحبه“ کے زمرے میں شامل قرار پایا.رضی الله عنه آپ کا اخلاص اور اعلی تقوی اور جوش : حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۴/۴/۱۰ کو مجلس میں فرمایا: د میں دیکھتا ہوں ، اس وقت جماعت میں یکانت ایک جوش پیدا ہو گیا ہے اور ایسے لوگ جو کبھی بولتے نہ تھے اور خاموش تھے.اب تو وہ بھی تقریر کرتے ہیں اور سلسلہ کی اشاعت اور تبلیغ کے لئے بڑے سرگرم ہیں جیسے ہمارے مولوی شیر علی صاحب اور چوہدری نصر اللہ خاں صاحب“.(الحکم ۷/۵/۱۴ ( ص ۵ ک۱) مؤقر الحکم میں مرقوم ہے: ’ چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کے چا کا انتقال ہو گیا.حضرت خلیفہ امسیح نے ان کا جنازہ غائب جمعہ کی نماز کے بعد پڑھا.اور چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کے اس ایثار و قربانی کا ذکر فرمایا کہ باوجود یکہ ان کی علالت کی خبر آ چکی تھی.مگر وہ محض سلسلہ کے کاموں اور مجلس مشاورت کے قریب آجانے کی وجہ سے نہ جا سکے.(۷٫۱۴ اپریل ۱۹۲۵ء)
151 حضرت اہلیہ صاحبہ چوہدری صاحب کی سیرت و شمائل حضرت مرحومہ کی سیرۃ و شمائل کے متعلق معلومات ذیل میں درج کی جاتی ہیں.غرباء پروری اور ان کے لئے عملی ایثار.انکساری اور دینی امور سے شغف اور عفو کو آپ کے شمائل میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا.ذیل کے واقعات آپ کی سیرت کے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں: غرباء پروری، انکساری اور عفو و درگزر اور دینی امور کی قدر ذیل کا واقعہ محترم چوہدری نور احمد صاحب کی زبانی سنیئے اور دیکھئے کہ امیر طبقہ کی خواتین کے لئے بالخصوص کس قد رسبق آموز ہے.آپ بیان کرتے ہیں کہ میرے گھر میں زچگی ہونے والی تھی.بورڈ نگ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے کوارٹرز میں حضرت چوہدری صاحب والے کوارٹر کے بالمقابل میرا کوارٹر تھا.ایک ہمسایہ خاتون نے اس بزرگ خاتون ( اہلیہ محترمہ حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب سے میری موجودگی میں ذکر کیا کہ منشی صاحب بہت گھبرائے ہوئے ہیں.زچگی کا وقت قریب ہے اور گھر میں خبر لینے والی کوئی عورت نہیں.اس پر انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے فرمایا کہ ہم بھی تو عورتیں ہی ہیں.رات ہو یا دن ہم امداد کریں گی.منشی صاحب کو کیا فکر ہے.منشی صاحب کو کہہ دو کہ کوئی فکر نہ کریں.چنانچہ زچگی کے وقت اطلاع ملنے پر بعض اور مستورات کے ہمراہ تشریف لائیں اور نصف رات سے صبح تک کام کرتی رہیں اور مجھے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دی.بعد ازاں جب بھی قادیان تشریف لاتیں میرے جیسے غریب شخص کی اہلیہ کو بلوا کر ملاقات فرمائیں.حضرت مرحومہ غرباء سے حسن سلوک سے پیش آتیں.ان کے ساتھ میل جول رکھتیں اور ان کی دلجوئی کا خاص خیال رکھتیں.اور ان کی خدمت خلق کے متعلق خاص شہرت تھی.جَزَاهُمُ اللهُ تَعَالَى أَجْمَعِينَ وَرَفَعَ دَرَجَاتِهِمْ فِي أَعْلَىٰ عِلِّيِّينَ.آمين.مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میری اہلیہ دوران حمل میں خطرناک
152 طور پر بیمار ہو گئیں.ڈاکٹری رائے یہ تھی کہ اگر فوری طور پر ہسپتال میں داخل نہ کیا گیا تو زندگی خطرہ میں پڑ جائے گی.والدہ محترمہ چوہدری صاحب کو علم ہوا تو بیٹی اور بہو سمیت میرے ہاں تشریف لائیں اور ہمیں تسلی دی اور کہا.اللہ خیر کرے گا.میں نے دعا کی ہے اور ہسپتال نہ جاؤ.اور ڈیڑھ گھنٹہ تک میری بیوی کے سرہانے بیٹھی رہیں.اللہ تعالیٰ کی قدرت جوخون ہر چند علاج سے بند نہ ہوا تھا.اس زاہدہ خاتون کی موجودگی میں ہی ان کی دعا سے بند ہوگیا.پھر مرحومہ شام کو واپس تشریف لے گئیں اور فرما گئیں کہ میں رات کو بھی دعا کروں گی.مجھے صبح اطلاع دی جائے.اور برابر اطلاع منگواتی رہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلد ہی صحت ہوگئی.(الفضل قادیان یکم جون ۱۹۲۸ء ) محتر مه سیده فضیلت صاحبہ سیالکوٹ تحریر فرماتی ہیں: آہ اب چوہدری سر ظفر اللہ خاں صاحب کی والدہ صاحبہ کی وفات نے ہمارے زخموں کو ہرا کر دیا ہے جو کہ احمدیت کے اس دورِ مصائب میں دردمندانہ دعائیں کر کے خدا تعالیٰ سے بشارات پایا کرتی تھیں.وہ زہد و تقوی اور خشیت الہی سے معمور.عجز وانکساری کا مجسمہ اور احسان واخلاق کا عملی نمونہ تھیں.” میری اور مرحومہ مغفورہ کی پہلی ملاقات غالبا دسمبر ۱۹۲۶ء کے جلسہ میں ہوئی.خدا کے فضل سے مجھے تقریر کا موقعہ ملا.تقریر کے بعد آپ نے مجھے سینہ لگایا اور میرے ہاتھ کو بوسہ دیا.اس کے بعد وہ ہمیشہ اسی طریق سے ملتیں.ان کے اس سلوک سے میں شرمسار ہو جاتی اور حیران ہو جاتی کہ یہ اپنے مقام تقدس سے کس قدر بے خبر ہیں.وہ اکثر مجھے اپنے ہاں آنے کی دعوت دیتیں.گذشتہ رمضان میں غریب خانہ پر تشریف لائیں اور دیر تک اپنی روح پرور گفتگو سے مسرور کرتی رہیں.گذشتہ سال ڈسکہ میں انجمن نے جلسہ مستورات کا انتظام کیا اور خاکسارہ کو مدعو کیا تو اتفاقاً ہمارے ڈسکہ پہنچنے تک موسلا دھار بارش نے راستہ بہت خراب کر دیا.نئے ڈسکہ سے پرانے ڈسکہ میں چوہدری صاحب کے مکان تک پہنچنا بہت مشکل ہو گیا.اڈہ سے تھوڑی دور جا کر ہمارا ٹانگہ کیچڑ میں ایسا پھنسا کہ اس کے لئے نکلنا مشکل ہو گیا.اسی اثناء میں کسی نے کہا کہ دوسرے گاؤں کی عورتیں جلسہ میں شریک ہونے کے لئے آ رہی ہیں.معلوم ہوا کہ متضمین نے جلسہ کا انتظام تو نئے ڈسکہ میں کر رکھا ہے.مگر ہمیں چوہدری صاحب کی والدہ صاحبہ کے ارشاد کی تعمیل میں پرانے ڈسکہ لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے.میں نے کہا جب ہمیں پھر یہیں واپس آنا ہے تو اس کشمکش سے کیا منتظر
153 حاصل ہمیں یہیں رہنے دیں اور چوہدری صاحب کی والدہ صاحبہ کو اطلاع کر دیں مستند منتظمین گھبرائے مگر میں نے کہا آپ میرا نام لے دیں وہ بھی ناراض نہ ہوں گی.اس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ ہر دو گاؤں میں کتنا فاصلہ ہے.غرضیکہ ہم لوگ وہیں رک گئے اور انہیں جب اطلاع ہوئی تو فوراً چل پڑیں.میں ان کی اس فروتنی پر حیران رہ گئی کہ باوجو د سب اسباب میسر ہونے کے اس زمانہ پیری میں پیدل تشریف لائیں اور فرمانے لگیں راستہ بہت خراب ہے.اچھا کیا جو یہیں رک گئیں.میں تو سنتے ہی چل دی.میرے لڑکے نے بہتیرا کہا کہ سواری کا انتظام کرتے ہیں.مگر میں نے نہ مانا.کیونکہ روحانی غذا حاصل کرنے...( کیلئے ) جب میری بہنیں دور دور کے گاؤں سے پیدل آ رہی ہیں تو میں کیوں سواری پر جاؤں.اور مجھے کہا کہ نماز کی پابندی اور شر و فساد سے بچنے کی تلقین کرنا.وو ” جب آپ کے لڑکے چوہدری شکر اللہ خاں صاحب کو احرار نے زخمی کیا تو انہی دنوں اتفاقاً میرا گذر ڈسکہ سے ہوا.میں مرحومہ مغفورہ کے پاس گئی.اظہار افسوس کرنے پر فرمایا.شکر ہے احمدیت کے لئے مار کھائی.پھر فرمایا عورتیں آتی ہیں تو مارنے والوں کو بد دعائیں دیتی ہیں.لیکن میں یہ بات پسند نہیں کرتی.دشمن کو بددعا نہیں دینی چاہیئے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر پڑے تو آپ نے دشمنوں کے لئے بددعا نہ کی.بلکہ یہی چاہا کہ خدا ان کو راہ راست دکھائے.سو میں بھی یہی کہتی ہوں کہ الہی ان نادان دشمنوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دے مالی قربانی آپ کا نام بھی مینارہ اسیخ پر درج ذیل کے الفاظ میں کندہ ہے.دے.ر حسین بی بی والدہ آنریبل سر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں ڈسکہ ضلع سیالکوٹ آپ نے ۲۵/۲/۱۵ کو وصیت کی.آپ کا وصیت نمبر ۸۷۰ ہے.آپ کی جائیداد مالیتی چار ہزار روپیتھی.اور چودہ صد دس روپیہ حصہ جائیداد کے طور پر ادا ئیگی ہوئی.( فائل وصیت ) الفضل ۱۱/۶/۳۸.مرحومہ کے اپنے خاوند سے پہلے قبول احمدیت اور توہمات و شرک کے واقعات عدم تکرار کی خاطر یہاں درج نہیں کئے گئے.
154 رسوم اور بدعات سے بیزاری: مرحومہ کو رسوم و بدعات سے بیزاری تھی.چنانچہ محترم چوہدری صاحب بیان کرتے ہیں : چوہدری بشیر احمد صاحب ایک واقعہ بیان کرتے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدہ صاحبہ کو بدعات اور رسوم سے کس قدر نفرت تھی.وہ کہتے ہیں.میری شادی کا موقعہ تھا.نکاح کے بعد مجھے زنانہ میں بلایا گیا.میں نے دیکھا کہ جیسے دیہات میں رواج ہے.دو نشستوں کا ایک دوسری کے مقابل انتظام کیا گیا ہے اور مجھ سے توقع کی جارہی ہے کہ میں ایک نشست پر بیٹھ جاؤں اور دوسری پر دلہن کو بٹھا دیا جائے اور بعض رسوم ادا کی جائیں جنہیں پنجابی میں ”بیٹ وگھوڑی کھیلنا“ کہتے ہیں.میں دل میں گھبرایا.لیکن پھر میں نے خیال کیا کہ اس وقت عورتوں کے ساتھ بحث اور ضد مناسب نہیں.اور میں اس نشست پر جو میرے لئے تجویز کی گئی تھی بیٹھ گیا.اور ان اشیاء کی طرف جو اس رسم کے لئے مہیا کی گئیں تھیں ، ہاتھ بڑھایا.اتنے میں ممانی صاحبہ (خاکسار کی والدہ صاحبہ ) نے میرا ہاتھ کلائی سے مضبوط پکڑ کر پیچھے ہٹا دیا اور کہا نہ بیٹا یہ شرک کی باتیں ہیں.اس سے مجھے بھی حوصلہ ہو گیا.میں نے ان اشیاء کو اپنے ہاتھ کے ساتھ بکھیر دیا اور کھڑے ہو کر کہہ دیا کہ میں ان رسوم میں شامل نہیں ہوں گا.اور اس طرح میری مخلصی ہوئی.“ جرات اور رحمدلی : (میری والدہ) آپ کو اللہ تعالیٰ نے جرات مند بنایا تھا اور رحمدل بھی.چوہدری صاحب لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے والدہ صاحبہ کو جرات اور حوصلہ بھی بہت عطا فرمایا تھا.کسی کے دکھ یا درد کی حالت دیکھ کر سن کر ان کا دل فوراً پکھل جاتا تھا.بعض دفعہ کسی بچے کے رونے کی آواز ان کے کان میں پڑ جاتی تھی تو ان کی نیند اچاٹ ہو جاتی تھی.لیکن اگر کوئی ایسا موقعہ پیش آ جائے جہاں انہیں اپنی ہی ہمت پر انحصار کرنا پڑ جائے تو ایسے وقت میں وہ اپنی تمام کمزوریوں کو فراموش کر دیتی تھیں اور مردانہ حوصلہ کا نمونہ دکھاتی تھیں.۱۹۳۳ء کا واقعہ ہے کہ خاکسار انگلستان گیا ہوا تھا.والدہ صاحبہ ان دنوں ماڈل ٹاؤن میں مقیم تھیں.ایک روز ظہر یا عصر کی نماز پڑھتے ہوئے سلام پھیر نے پر سامنے کے ایک مکان پران
155 کی نظر پڑی.جہاں عمارت کا کام ہو رہا تھا.ایک معمارا اتفاق سے اس وقت اپنے ہاتھ سے ہمارے زنانہ صحن کی طرف اشارہ کر رہا تھا.ایک مزدور ا سکے پاس کھڑا تھا.والدہ صاحبہ نے اس واقعہ کی تفاصیل خاکسار کو سنائیں تو اس حصہ کے متعلق فرمایا کہ ایک لحظہ کے لئے میرے دل میں خیال گذرا کہ شاید یہ معمار ہمارے مکان کی طرف اشارہ کر کے اس مزدور کو اس بات پر آمادہ کر رہا ہے کہ موقعہ پا کر رات کے وقت وہ چوری کے لئے ہمارے مکان میں داخل ہوں.لیکن اس خیال کے ساتھ ہی میرے دل نے مجھے ملامت کی کہ میں نے ان غریب کاریگروں پر خواہ مخواہ بدظنی کیوں کی.چنانچہ میں نے اسی وقت استغفار کیا.اور اللہ تعالیٰ سے اس لغزش کی معافی چاہی.اسی رات میں زنانہ برآمدہ میں سورہی تھی کہ میں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص آکر میرے پلنگ کے کنارے پر بیٹھ گیا ہے.اس شخص نے مسہری اٹھا کر میرے بازو کو ہاتھ ڈالنا چاہا.گویا میرے کنگن کو پکڑنا چاہتا تھا.میں اٹھ کر بیٹھ گئی اور دریافت کیا کہ تم کون ہو.اور ساتھ ہی آواز دی کہ کوئی شخص اٹھ کر بجلی روشن کر دے.میری آواز سن کر یہ شخص گھبرا گیا اور پلنگ سے اٹھ کھڑا ہوا.روشنی ہونے پر وہ صحن میں چلا گیا.میں بھی اٹھ کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی اور بظاہر سختی سے اسے سرزنش کرنی شروع کی کہ تم کون ہو.اور تمہارا مکان کے اندر زنانے حصہ میں آنے کا کیا حق ہے.وہ کچھ مبہوت سا ہو کر پیچھے ہٹتا چلا گیا اور میں آگے بڑھتی گئی.اور ساتھ ساتھ بلند آواز سے ملازموں کو بھی بلانے کی کوشش کرتی جاتی تھی ، گو میرا دل خوف کے مارے دھڑک رہا تھا.اور میں جانتی تھی کہ یہ شخص ایک تھپڑ یا ضرب سے میرا خاتمہ کر سکتا ہے.لیکن اللہ تعالی نے مجھے ہمت عطا کی اور میں صحن کے آخری حصہ تک اس کے پیچھے پیچھے چلی گئی.اتنے میں میری آواز سن کر مردانہ حصہ سے عزیز اسد اللہ خاں اور ملازم آگئے.اور انہوں نے اس شخص کو گرفتار کر لیا اور اس کے دو ساتھیوں کو بھی جو باہر باغ میں اس کی انتظار کر رہے تھے.تعاقب کر کے تھوڑی دور جاکر پکڑ لیا.یہی وہ معمار اور مزدور تھے جنہیں ظہر یا عصر کے وقت میں نے آپس میں اشارے کرتے دیکھا تھا.جب ان لوگوں کا چالان ہوا تو والدہ صاحبہ کی طبیعت میں رحم کا جذ بہ غالب ہونے لگا.بار بار کہتیں کہ میں چاہتی ہوں کہ ان غریبوں پر سختی نہ ہو.مزدور لوگ ہیں.معلوم نہیں کہ کس انگیخت میں آکر انہوں نے یہ فعل کیا.جو شخص مکان کے اندر داخل ہوا.وہ تو مجھ جیسی بڑھیا کے سامنے سہم گیا تھا.خود ہی تجویز کرتی رہیں کہ مکان کے اندر آنے والے کے لئے تو تین چار ماہ کی قید کافی سزا وو
156 ہے.اور جو دو ساتھی اس کے باہر سے پکڑے گئے وہ رہا ہو جانے چاہئیں.مجسٹریٹ نے ان سب کو ایک ایک سال کی قید کی سزا دی.اب والدہ صاحبہ کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ کس طرح ان لوگوں کی سزا میں تخفیف ہو.اس اثناء میں خاکسار انگلستان سے واپس آ گیا.مجھے سارا ماجراوالدہ صاحبہ نے سنایا.اور فرمایا تم کوشش کرو کہ ان لوگوں کی سزا میں تخفیف ہو جائے.میں نے عرض کی کہ یہ تو میرے اختیار کی بات نہیں.ان کی اپیل عدالت سیشن میں دائر ہے یہ ہو سکتا ہے کہ اگر وہ لوگ مجھ پر اعتماد کریں تو میں ان کی طرف سے بلا فیس ان کی اپیل کی پیروی کروں.ممکن ہے کہ حج یہ خیال کر لے کہ جب اسی کے گھر میں یہ چوری کی نیت سے داخل ہوئے تھے اور یہی ان کی طرف سے وکالت کرتا ہے.تو ان کی سزا میں کم سے کم تخفیف کر دینی چاہیئے.لیکن ساتھ ہی یہ قباحت بھی ہوگی کہ مجھے عزیز اسداللہ خاں اور اپنے ملازموں کی شہادت پر تنقید کرنی پڑے گی.اور ممکن ہے کہ حج یہ خیال بھی کرے کہ عجب آدمی ہے.روپے کے طمع میں یہ کارروائی کر رہا ہے.اسے تو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ میں کس وجہ سے ان لوگوں کی وکالت کر رہا ہوں.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ یہ طریق ٹھیک نہیں.کوئی اور طریق تجویز کرو.میں نے عرض کی کہ اگر ان کی اپیل نامنظور ہوگئی.اور ہائی کورٹ سے بھی ان کی سزا میں تخفیف نہ ہوئی تو پھر یہ ہو سکتا ہے کہ میں گورنر صاحب کی خدمت میں عرض کروں کہ ان کی سزا میں تخفیف کر دیں.والدہ صاحبہ نے بتایا کہ وہاں بھی تمہیں یہ بتانا پڑے گا کہ میری خواہش کے مطابق تم ان سے کہہ رہے ہو.میں نے کہا.یہ تو کہنا ہی پڑے گا.فرمانے لگیں یہ طریق بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا.اچھا اگر کوئی اور صورت نہیں تو میں ان لوگوں کے لئے دعا کروں گی کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.چنانچہ جب تک ان کی اپیل کا فیصلہ نہ ہوا.ان کے لئے دعا کرتی رہیں.اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی اپیل کا فیصلہ عین والدہ صاحبہ کی خواہش کے مطابق ہو گیا.جب والدہ صاحبہ نے یہ سنا تو بہت 66 خوش ہوئیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان غریبوں پر رحم فرمایا.“ ہمدردی بنی نوع انسان بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی اور رحم کا جذبہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت وافر عطا فرمایا
157 تھا.اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ اگر دشمن نہ ہو تو کوئی دشمن کیا بگاڑ سکتا ہے.اور میں تو اس لحاظ سے کسی کو دشمن سمجھتی ہی نہیں.دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک کے بارہ میں کہا کرتی تھیں کہ جس سے دل خوش ہو ، اس کے ساتھ تو حسن سلوک کے لئے تو خود ہی دل چاہتا ہے.اس میں ثواب کی کون سی بات ہے.اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے تو انسان کو چاہیئے کہ ان لوگوں سے بھی احسان اور نیکی سے پیش آئے جن پر دل راضی نہ ہو.ڈسکہ کے لوگوں کے ساتھ والدہ صاحبہ کا سلوک ہمیشہ بہت فیاضانہ اور غریب پروری کا ہوا کرتا تھا.اور باوجود اختلاف مذہب و عقائد کے وہاں کے لوگ غیر مسلم اور غیر احمدی سب ان کو بہت عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے.لیکن جب احرار کا فتنہ اٹھا تو آہستہ آہستہ ہمارے گاؤں کے غیر احمدی بھی اس سے متاثر ہو گئے.اور مختلف طریق سے احمدیوں کو دکھ دینے لگے.ہمارے خاندان کے بعض افراد کو خصوصیت سے ایذا دہی کا نشانہ بنایا گیا.والدہ صاحبہ کو قدرتی طور پر ان واقعات سے رنج پہنچتا تھا.لیکن ان کے نتیجہ میں ان کے حسن سلوک میں کمی نہ آتی تھی.اگر ہمارے آدمیوں میں سے کوئی اس قسم کا اشارہ بھی کرتا کہ یہ لوگ تو ہمارے دشمن ہیں.آپ ان سے ایسا سلوک کیوں کرتی ہیں تو وہ اس کو برا منایا کرتیں.اور ہمیشہ یہی جواب دیا کرتیں کہ جس کا اللہ دشمن نہ ہو.اس کا اور کوئی دشمن نہیں ہوسکتا.ان کا اکثر یہ معمول تھا کہ یتامی اور مساکین کے لئے اپنے ہاتھ سے پار چات تیار کرتی رہتی تھیں.اور بغیر حاجتمند کے سوال کے انتظار کئے ، ان کی حاجت روائی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق کے مطابق کرتی رہتی تھیں.ایک روز ڈسکہ میں کچھ پار چات تیار کر رہی تھیں کہ میاں جہاں نے دریافت کیا.یہ پار چات کس کے لئے تیار ہو رہے ہیں.والدہ صاحبہ نے فرمایا فلاں شخص کے بچوں کے لئے.میاں جہاں نے ہنس کر کہا.آپ کا بھی عجیب طریق ہے.وہ تو احراری ہے اور ہمارا مخالف ہے.اور یہ لوگ ہر روز ہمارے خلاف کوئی نہ کوئی نئی شرارت کھڑی کر دیتے ہیں.اور آپ اس کے بچوں کے لئے کپڑے تیار کر رہے ہیں.والدہ صاحبہ نے فرمایا وہ شرارت کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرتا ہے.جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے.مخالف کی شرارتیں ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں.لیکن یہ شخص مفلس ہے.اس کے پاس اپنے بچوں اور پوتوں کے بدن ڈھانکنے کے لئے کپڑے مہیا کرنے کا سامان نہیں.کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ اس کے بچے اور پوتے ننگے پھریں؟ اور تم
158 نے جو میری اس بات کو نا پسند کیا ہے.اس کی سزا یہ ہے کہ یہ کپڑے جب تیار ہو جائیں تو تم ہی لے کر جانا.اور اس شخص کے گھر پہنچا کر آنا.لیکن لے جانا رات کے وقت تا کہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ میں نے بھیجے ہیں.ورنہ دوسرے احراری اسے دق کریں گے کہ تم نے احمدیوں سے یہ اشیاء کیوں لیں.انہی ایام میں ہمارے گاؤں کے ایک سا ہو کا رنے ایک غریب کسان کے مویشی ایک ڈگری کے سلسلہ میں قرق کر لئے.یہ کسان بھی احراری تھا.قرق شدہ مویشیوں میں ایک بچھڑی بھی تھی.قرقی کے وقت کسان کے کم سن لڑکے نے بچھڑی کی رسی پکڑ لی.یہ پچھڑی میرے باپ نے مجھے دی ہوئی ہے.میں یہ نہیں لے جانے دوں گا.ڈگری دار نے یہ بچھڑی بھی قرق کرالی.اس سے چند روز قبل اسی کسان کی ایک بھینس کنوئیں میں گر کر مرگئی تھی.یہ بھی مفلس آدمی تھا اور یہ مویشی ہی اس کی پونجی تھی.والدہ صاحبہ ان دنوں ڈسکہ ہی میں مقیم تھیں.جب انہیں اس واقعہ کی خبر پہنچی تو بے تاب ہوگئیں.بار بار کہتیں.آج اس بیچارے کے گھر میں ماتم کی صورت ہوگی.اس کا ذریعہ معاش جاتا رہا.اس کے بیوی بچے کس امید پر جئیں گے.جب اس لڑکے کے ہاتھ سے قارق نے بچھڑی کی رسی لے لی ہوگی تو اس کے دل پر کیا گزری ہوگی ! پھر دعا میں لگ گئیں کہ یا اللہ تو مجھے تو فیق عطا کر کہ میں اس مسکین کی.اور اس کے بیوی بچوں کی اس مصیبت میں مدد کر سکوں.میاں جماں کو بلایا ( یہ تین پشت سے ہماری اراضیات کے منتظم چلے آتے ہیں ).اور کہا آج یہ واقعہ ہو گیا ہے.تم ابھی ساہوکار کو بلا کر لاؤ.میں اس کے ساتھ اس شخص کے قرضہ کا تصفیہ کروں گی اور ادائیگی کا انتظام کروں گی.تا شام سے پہلے پہلے اس کے مویشی اسے واپس مل جائیں.اور اس کے بیوی بچوں کے دلوں کی ڈھارس بندھے.میاں جماں نے کہا کہ میں تو ایسا نہ کروں گا.یہ شخص ہمارا مخالف ہے.ہمارے دشمنوں کے ساتھ شامل ہے.والدہ صاحبہ نے خفگی سے کہا : تم مل جولاہ کے بیٹے ہو.اور میں چوہدری سکندر خاں کی بہو اور چوہدری نصر اللہ خاں کی بیوی اور ظفر اللہ خاں کی ماں ہوں.اور میں تمہیں خدا کے نام پر ایک بات کہتی ہوں اور تم کہتے ہو کہ میں نہیں کروں گا.تمہاری کیا حیثیت ہے کہ تم انکار کرو.جاؤ جو میں حکم دیتی ہوں فورا کرو.او ریا د رکھو سا ہو کار کو کچھ سکھانا پڑھانا نہیں کہ تصفیہ میں کوئی دقت ہو.“ وو
159 ” جب مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا تو فرمایا کہ ظہر کا وقت ہو چکا تھا.میں نے نماز میں پھر بہت دعا کی.کہ یا اللہ میں ایک عاجز عورت ہوں.تو ہی اس موقعہ پر میری مددفرما.اور میں نے یہ بھی دعا کی کہ میرے بیٹے عبداللہ خاں اور اسد اللہ خاں قصور اور لاہور سے جلد پہنچ جائیں.( خاکساران دنوں انگلستان میں تھا) نماز سے ابھی فارغ ہوئی تھی کہ عبداللہ خاں اور اسداللہ خاں موٹر میں پہنچ گئے.مجھے دیکھتے ہی انہوں نے دریافت کیا.آپ اس قدرا فسردہ کیوں ہیں؟ میں نے تمام ماجرا ان سے کہہ دیا.اور کہا تم دونوں اس معاملہ میں میری مدد کرو.انہوں نے کہا جیسے آپ کا ارشاد ہو.چنانچہ ساہوکار آیا.اور والدہ صاحبہ نے اس کے ساتھ مقروض کے حساب کا تصفیہ کیا.ساہوکار نے بہت کچھ حیل و حجت کی.لیکن والدہ صاحبہ نے اصل رقم پر ہی فیصلہ کیا.اور پھر سا ہو کار سے کہا کہ یہ رقم میں خود ادا کروں گی.تم فوراً اس کے مویشی و پس لا کر اس کے حوالہ کرو.پھر تصفیہ شدہ رقم یوں فراہم کی کہ جس قدر اپنے پاس روپیہ موجود تھاوہ دیا.اور باقی اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ وہ پیش کریں.جب مویشی کسان کو واپس مل گئے.تو اس کے بیٹے سے کہا.جاؤ اب جا کر اپنی بچھڑی پکڑ لو.اب کوئی تم سے نہیں لے سکتا.پھر اپنے بیٹوں کو دعائیں دیں کہ تم نے میرا غم دور کیا.اب میں چین کی نیند سو سکوں گی.“ سلسلہ کے متعلق غیرت : لیکن ان وقعات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا والدہ صاحبہ کو سلسلہ کے متعلق غیرت نہ تھی خلاف حقیقت ہو گا.سلسلہ کے متعلق انہیں انتہاء درجہ کی غیرت تھی.اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، سلسلہ احمدیہ، خاندانِ نبوت اور بزرگان سلسلہ کے متعلق کسی قسم کی گستاخی یا ناروا حرکت برداشت نہ کر سکتی تھیں.مجھے خوب یاد ہے کہ جس زمانہ میں والد صاحب سلسلہ میں داخل ہوئے ،انہیں مثنوی مولانا روم سے بہت دلچسپی تھی.اور فرصت کے وقت ایک صاحب کے ساتھ جو بظاہر صوفیانہ اور فقیرانہ طرز رکھتے تھے مثنوی پڑھا کرتے تھے.ایک دفعہ یہ صاحب کسی تعطیل کے دن ہمارے مکان پر تشریف لائے اور دریافت کیا کہ والد صاحب کہاں ہیں؟ دفتر میں شاید اس وقت کوئی محرر یا ملازم موجود نہیں تھا.ان صاحب نے خیال کیا کہ شاید والد صاحب پہلی منزل پر ہوں.انہوں نے بلند
160 آواز سے والد صاحب کو بلایا.والدہ صاحبہ نے مجھ سے فرمایا.کہہ دو چوہدری صاحب گھر پر نہیں ہیں.میں نے یوں ہی کہہ دیا.ان صاحب نے دریافت کیا کہاں ہیں.والدہ صاحبہ نے فرمایا.کہہ دو قادیان گئے ہوئے ہیں.یہ سن کر ان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں کوئی خلاف ادب کلمہ کہا.اب تک تو والدہ صاحبہ میری معرفت جواب دے رہی تھیں.یہ کلمہ سنتے ہی غصہ سے بے تاب ہو گئیں اور کھڑکی کے پاس جا کر جوش سے ان صاحب سے کہا: تم نے بہت ظلم کیا ہے.اگر خیریت چاہتے ہو تو اسی وقت میرے مکان سے نکل جاؤ.کوئی ہے ملازم یہاں ؟ نکال دو اس گستاخ بڑھے کو.اور یاد رکھو پھر کبھی یہ اس مکان میں داخل نہ ہونے پائے.اب آلے اس کا دوست جس کے ساتھ یہ مثنوی پڑھنے کے لئے یہاں آتا ہے تو لوں گی اس کی خبر کہ ایسے بے ادب گستاخ کے ساتھ کیوں نشست برخاست رکھی ہوئی ہے.“ وہ صاحب تو اسی وقت چلے گئے.والد صاحب کی واپسی پر والدہ صاحبہ نے بہت رنج کا اظہار کیا اور اصرار کیا کہا اب وہ صاحب کبھی ہمارے مکان کے اندر داخل نہ ہوں.چنانچہ اس دن کے بعد پھر وہ ہمارے مکان پر نہیں آئے.یہ حالت تو ابتدائے عشق کی تھی.پھر جوں جوں وقت گذرتا گیا.غیرت بھی بڑھتی گئی.خاندان نبوت کے ساتھ جس قدرا خلاص اور محبت انہیں تھی.اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ با رہا میں نے ان سے سنا ہے کہ میں کبھی کوئی دعا نہیں کرتی ، جب تک پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام خاندان کے لئے دعا نہیں کر لیتی.خاندان حضرت مسیح موعود کے ساتھ شدید محبت : " حضرت خلیفة المسیح الثانی ( ایدہ اللہ بنصرہ) کے ساتھ انہیں حد درجہ عقیدت تھی.اور انتہاء کی محبت تھی.آپ کا کوئی ارشاد پہنچ جاتا ، فوراً اس پر کار بند ہوجاتیں.اور حضور بھی خصوصیت سے شفقت کا سلوک ان کے ساتھ روا رکھا کرتے تھے.بعض دفعہ وفور محبت میں وہ حضور کے ساتھ بالکل ایسے کلام کر لیتیں تھیں جیسے ماں اپنے بچوں کے ساتھ کرتی ہے.اور حضور بھی ان کی دلجوئی کی خاطر بعض اوقات لمبا عرصہ ان کی باتیں سنتے رہتے تھے.والدہ صاحبہ کا ایک رؤیا خصوصیت سے اس تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے.چار پانچ سال کا
161 عرصہ ہوا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو رویا میں دیکھا کہ والد صاحب کے ساتھ کوئی بات کر رہے ہیں اور پھر والدہ صاحبہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا انہیں بلائیے.چنانچہ والد صاحب نے کسی سے کہا وہ ظفر اللہ خاں کی والدہ کھڑی ہیں.ان سے کہیں کسی نے یادفرمایا ہے..والدہ صاحبہ یہ پیغام ملنے پر حضور کی پیٹھ کے پیچھے جا کر کھڑی ہوگئیں اور عرض کی حضور میں حاضر ہوں.حضور نے فرمایا: محمود سے کہنا وہ مسجد والی بات یاد نہیں ؟“ ” جب خاکسار نے والدہ صاحبہ کا یہ رویا حضرت خلیفہ اسیح کی خدمت اقدس میں بیان کیا تو حضور نے فرمایا.یہ آنیوالے فتن کے متعلق جماعت کی حفاظت کی طرف اشارہ ہے.“ محترمہ سیدہ فضیلت صاحبہ بیان کرتی ہیں : آپ کے فرزند چوہدری اسد اللہ خاں صاحب نے بیان کیا کہ جب حضرت میاں شریف احمد صاحب پر احراری نے لاٹھی سے وار کئے تو ہماری والدہ کی روتے روتے آنکھیں سوج گئیں.ہم نے کہا آپ صبر کریں تو فرمایا کہ میرے بس کی بات نہیں.تم میرے سامنے آتے ہو تو مجھے سخت صدمہ ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند پر لاٹھی پڑے اور تم میری آنکھوں کے سامنے الفضل قادیان ۱ استمبر ۱۹۳۸ء) سلامت پھرو.“ اس بارہ میں جناب چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب رقم فرماتے ہیں : ۱۹۳۵ء میں جب ایک احراری نے صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب پر حملہ کیا تو والدہ صاحبہ کو یہ واقعہ سن کر بہت قلق ہوا.کھانا پینا موقوف ہو گیا.نیند اڑ گئی اور آنسو بند ہونے میں نہیں آتے تھے.چند دن کے بعد خاکسار سے فرمایا ، ظفر اللہ میں بہت سوچتی ہوں کہ جب اس واقعہ کوسن کر میرا یہ حال ہے تو اماں جان ( حضرت ام المؤمنین ) کا کیا حال ہو گا.پھر مجھے خیال آتا ہے کہ میں اس معاملہ میں کیا کر سکتی ہوں.دو تین روز ہوئے ایک تجویز میرے ذہن میں آئی ہے.اس کے بعد میں نے بہت دعائیں کی ہیں.اور مجھے اطمینان ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس تجویز پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا.میں نے دریافت کیا کہ کیا تجویز ہے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا.لیڈی ولنگڈن میرے ساتھ بہت محبت کا اظہار کرتی ہیں اور میں بھی محسوس کرتی ہوں کہ انہیں ضرور میرے ساتھ کچھ
162 لگاؤ ہے.اگر تم ان کے ساتھ میری ملاقات کا وقت مقرر کرا دو.اور وائسرائے بھی اس وقت موجود ہوں.تو میں ان کے سامنے بیان کروں کہ سلسلہ کے ساتھ حکومت کی طرف سے کیسا سلوک ہو رہا ہے.اور اب اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لخت جگر پر ایک آوارہ آدمی نے حملہ کر دیا ہے.میں اب بوڑھی عورت ہوں میرے متعلق تو پردہ کی بھی کوئی سخت پابندی نہیں اور میرے دل میں یہ بار بار اٹھتی ہے کہ میں وائسرائے کے سامنے جا کر یہ شکوہ کروں.میں نے کہا ملاقات کا انتظام تو میں کرادوں گا.اور ترجمانی کے لئے بھی ساتھ چلوں گا.لیکن بات ساری آپ نے خود ہی کرنی ہوگی.میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکوں گا.ورنہ وہ خیال کریں گے کہ میں آپ کو سکھا کر لایا ہوں.والدہ صاحبہ نے فرمایا.تم وقت مقرر کرا دو.بات کرنے کی ہمت اللہ تعالیٰ مجھے عطا کر دے گا.چنانچہ میں نے وائسرائے صاحب سے ذکر کیا.انہوں نے کہا ، بڑی خوشی سے تشریف لا ئیں.وقت مقررہ پر ہم دونوں وائسرائے اور لیڈی ولنگڈن کی خدمت میں حاضر ہو گئے.مزاج پرسی کے بعد وائسرائے صاحب نے کہا.ظفر اللہ خاں نے مجھے کہا ہے کہ آپ اپنی جماعت کے متعلق مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتی ہیں.والدہ صاحبہ اور لیڈی ولنگڈن ایک صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھیں.لیڈی ولنگڈن کی دائیں طرف وائسرائے ایک آرام کرسی پر بیٹھے تھے.اور والدہ صاحبہ کی بائیں طرف خاکسار ایک دوسری آرام کرسی پر بیٹھا تھا.لیڈی ولنگڈن کا معمول تھا کہ جب والدہ صاحبہ کے پاس بیٹھی تھیں تو ایک بازو والدہ صاحبہ کی کمر کے گرد ڈال لیا کرتی تھیں.اور بالکل ان کے ساتھ مل کر بیٹھا کرتی تھیں.اب بھی یہ دونوں ویسے ہی بیٹھی ہوئی تھیں.لیڈی ولنگڈن کسی کسی وقت اپنے فارغ ہاتھ سے والدہ صاحبہ کے ہاتھ بھی دباتی جاتی تھیں.وائسرائے کے سوال کرنے پر والدہ صاحبہ نے فرمایا.ہاں میں نے بہت غور کے بعد آپ تک پہنچنے کی جرات کی ہے.میں احمدیہ جماعت کی ایک فرد ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے جو ہمارے سلسلہ کے بانی تھے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم سلطنت برطانیہ کے وفادار ر ہیں اور اس کے لئے دعا کرتے رہیں.کیونکہ اس کی عملداری میں ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہے اور ہم بغیر خوف وخطر کے اپنے دین کے احکام بجالا سکتے ہیں.باقی تمام جماعت کے متعلق تو نہیں کہ سکتی لیکن اپنے متعلق وثوق سے کہہ سکتی ہوں (یہاں والدہ صاحبہ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیا ) کہ
163 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس ہدایت پر باقاعدہ عمل کرتی رہوں گی.اور سلطنت برطانیہ کے قیام اور اس کی بہبود کے لئے متواتر دعا کرتی رہی ہوں.لیکن دو سال کے عرصہ سے پنجاب کی حکومت کا ہماری جماعت کے ساتھ برتاؤ کچھ ایسا غیر منصفانہ ہو گیا ہے اور ہمارے ساتھ اور ہمارے امام اور ہماری جماعت کو ایسی ایسی تکالیف پہنچ رہی ہیں کہ دعا تو میں اب بھی کرتی ہوں ، کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حکم ہے.لیکن اب دعا دل سے نہیں نکلتی کیونکہ میرا دل خوش نہیں ہے.”ابھی چند دن کا ذکر ہے کہ ایک آوارہ اور شہدے شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹے اور ہمارے امام کے چھوٹے بھائی پر حملہ کر دیا اور انہیں ضربات پہنچائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد ہمیں اپنی جانوں سے بھی پیاری ہے.اور میں نے جب سے اس واقعہ کی خبر سنی ہے.میں نہ کھا سکتی ہوں نہ پی سکتی ہوں.نہ مجھے نیند آتی ہے.یہ فقرے والدہ صاحبہ نے کچھ ایسے درد سے کہے کہ لیڈی ولنگڈن کا چہرہ بالکل متغیر ہو گیا.اور انہوں نے جھنجلا کر وائسرائے صاحب سے دریافت کیا کہ یہ کیا واقعہ ہے.اور آپ نے کیوں مناسب انتظام نہیں کیا ؟ وائسرائے صاحب نے جواب دیا.میں نے ظفر اللہ خاں کے ساتھ تفصیلاً اس کے متعلق گفتگو کی ہے.اور والدہ صاحبہ سے مخاطب ہو کر کہا.اصل بات یہ ہے کہ یہ امور گورنر صاحب پنجاب کے اختیار میں ہیں.اور میں ان کے متعلق ان کے نام کوئی حکم جاری نہیں کر سکتا.اگر میں ان معاملات میں دخل دوں تو وہ برا منائیں گے.جب میں خود بمبئی یا مدراس کا گورنر تھا، اگر اس وقت کے وائسرائے ایسے معاملات میں میرے نام کوئی حکم جاری کرتے ،تو میں بھی بر امنا تا.”والدہ صاحبہ نے فرمایا.میں آپ سے یہ نہیں چاہتی کہ آپ ان کے نام کوئی حکم جاری کریں یا سختی سے کام لیں.لیکن آخر ان کے کام کی نگرانی بھی تو آپ ہی کے سپرد ہے.آپ انہیں نرمی اور محبت سے سمجھائیں کہ وہ ہماری شکایات کو رفع کریں.وائسرائے نے کہا.ہاں ، میں ایسا ضرور کروں گا.لیکن لیڈی ولنگڈن کا جوش وائسرائے کے اس جواب سے ٹھنڈا نہ ہوا.وہ والدہ صاحبہ کے ہاتھ دبا تیں اور محبت کے کلمات سے ان کو مخاطب کرتیں اور بار بار کہتیں.میں خود پنجاب کے گورنر کوسمجھاؤں گی.آپ گھبرائیں نہیں.میں اس کو سرزنش کروں گی ، اور مجھ سے اصرار کے ساتھ
164 کہتیں کہ میری بات کا صحیح صحیح تر جمہ کرو.محترم چوہدری مشتاق احمد صاحب با جوه سابق امام مسجد لندن و وکیل الزراعة تحریک جدید رقم فرماتے ہیں کہ ۱۹۳۷ء میں آپ تبلیغ کے لئے ڈسکہ کے علاقہ میں پہنچے.آپ کو خوش آمدید کہنے والوں میں محترمہ والدہ صاحبہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بھی تھیں.آپ بیان کرتے ہیں: چونکہ میں نے اپنی کمر نا تو اں تبلیغ کے بارگراں کے نیچے دیتی محسوس کی.اس عالم گھبراہٹ میں.اللہ تعالیٰ سے استقلال کی دعا کی.اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ہے کہ اس نے میری پکار کو سنا اور اس کی رحمت مجسم ہو کر حضرت پھوپھی صاحبہ کے وجود میں جلوہ گر ہوئی.گھر پہنچنے پر حضرت پھوپھی صاحبہ نے سارے حالات کامل اشتیاق سے سنے اور بڑی محبت اور پیار سے دعائیں دیں.اس کا میری طبیعت پر ایسا خوشگوار اثر ہوا کہ میں عموماً ہر روز شام کو آپ کے پلنگ کی پاسکتی آ بیٹھتا.آپ کی تسلی آمیز گفتگو سے جوش تبلیغ بڑھتا اور میری ہمتوں اور عزائم میں بلندی پیدا ہوتی.بعض متشد د مخالفین کی ترش روئی اور بد زبانی کا ذکر کرتا تو آپ صبر کی تلقین فرماتیں.اپنے رویا اور کشوف سنا کر میرے ایمان و عرفان کو تازگی بخشتیں اور میں اللہ تعالیٰ کے اس فضل کا ملا حظہ کر کے جوامی ہونے کے باوجود آپ پر تھا.میرا کم علمی کا تکلیف دہ احساس کم ہو جاتا اور تو کل علی اللہ بڑھتا.آپ کو احمدیت سے از حدا خلاص تھا.آپ اپنے رویا اور کشوف کے باعث سلسلہ کی صداقت پر حق الیقین رکھتی تھیں.اور یہی وجہ تھی کہ آپ کے قلب میں اس کے لئے ازحد محبت موجزن تھی.اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، نماز میں ، باتوں باتوں میں ترقی سلسلہ کے لئے بارگاہ ایزدی میں دعا ئیں فرماتی رہتیں.میں نے کئی دفعہ دورانِ گفتگو میں آپ کی زبان مبارک سے سلسلہ کی ترقی اور دشمنوں کی ہدایت یابی کے لئے دعائیں سنیں.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ ، حضرت ام المؤمنین مدظلہ العالی ، اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کی محبت درجۂ عشق تک پہنچی ہوئی تھی.آپ نے مجھے بتایا کہ ان کا کوئی سجدہ خالی نہیں جاتا جس میں وہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے دعا نہ فرماتی ہوں.مزید بیان کرتے ہیں کہ ایک اور موقعہ پر لارڈ ولنگڈن نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ کیا ایک ملک کی حکومت کا انتظام زیادہ آسان ہے یا ایک گھر کا انتظام ؟ والدہ صاحبہ نے جواب دیا.دونوں میں سے جس کو اللہ تعالیٰ زیادہ آسان کر دے.وائسرائے کو اس جواب سے بہت تعجب ہوا.
165 حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی عنایات کا ذکر فرما کر آپ بہت دعائیں دیتیں.کاش ہم سب سلسلہ اور ان اللہ کے پیاروں کے لئے اس قدر اور اسی درد سے دعائیں کر سکیں جو کہ حضرت پھوپھی صاحبہ کا معمول تھا ، تا کہ ہماری رفتار ترقی موجودہ حالت سے کئی گنا تیز ہو جائے.نماز اور استغفار آپ کی غذا تھی.ان دنوں سحری کے وقت جسمانی تکلیف کے اثر کے باعث اٹھنے سے قاصر رہتیں لیکن آپ اس کی کمی نماز چاشت کے نوافل سے پوری کرنی کی کوشش فرماتیں.مولا کے آگے جھکنے والا ہر سر آپ کو پیارا لگتا تھا.اور نماز میں غفلت کرنے والا اپنا عزیز سے عزیز یا کوئی فرد جماعت آپ کی سرزنش سے بچ نہ سکتا تھا.شام یا عشاء کے وقت چھت پر کھڑے ہو کر آپ نمازیوں کا جائزہ لیتیں اور بھری مسجد کا منظر آپ کے لئے بہت ہی خوش کن ہوتا.میں نے خود بعض افراد جماعت سے آپ کو ان کی غفلت کا سبب دریافت فرماتے سنا.نماز سے پیار کے باعث آپ کے دل میں نمازیوں کے کس قدر احترام تھا.قارئین کرام ذیل کے واقعہ سے اندازہ لگا سکتے ہیں.ایک شب میں سحری کے وقت اٹھا.ابھی حواس درست کر رہا تھا کہ آپ کو میری بیداری کا علم ہو گیا.آپ ایک دوسری نچلی چھت پر سوتی تھیں.اٹھیں اور ایک لوٹے میں پانی ڈال کر لے آئیں اور کمال شفقت سے فرمایا.” لو بیٹا پانی اس وقت میرا دل جذبات تشکر وشرم سے بھر گیا.دراصل یہ نماز سے پیار اور نمازی کا احترام تھا ، جو اس شفقت کا محرک ہوا.ایک عام چود ہرانی کا تصور یہی نقشہ ہمارے سامنے پیش کرے گا کہ چار پائی پر بیٹھے حقہ کی نالی ہاتھ میں لئے کھانس رہی ہیں.بات بات پر بگڑتی اور اپنی بہو بیٹیوں ، ماماؤں کو جلی کٹی سناتی ہیں.کبھی ایک کو ڈانٹتی ہیں اور کبھی دوسری کو فہمائش کرتی ہیں.گزرے ہوئے زمانہ کا حسرت و یاس سے ذکر کر کے مستقبل کے متعلق مایوسی و نا امیدی کا اظہار کرتی ہیں.لیکن حضرت پھوپھی صاحبہ کو میں نے دیکھا کہ آپ بالکل خوش اور اپنے پہلو میں نفس مطمئنہ لئے معلوم ہوتی تھیں.آپ کے بشرہ پر ناراضگی کے آثار شاذ ہی کسی نے دیکھے ہوں گے.آپ سلسلہ کے حالات سناتی رہتیں.اور اپنے بزرگوں کی نیکیوں کا تذکرہ کر کے ان کے نیک نمونہ پر گامزن ہونے کا جذ بہ قلوب میں پیدا کرتیں.مستقبل کے متعلق نہایت ہی پر امید تھیں گویا اس جہاں میں ہی جنت میں بستی تھیں.آپ کے کسی فعل سے آپ کی ضعیف العمری کا اظہار نہ ہوتا تھا.اپنی ہمت اور عزم کے لحاظ سے بلا شبہ جیسا
166 کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چاہتے ہیں ، جوان تھیں.آپ حسن تدبر کی مالکہ تھیں.غیر معمولی انتظامی قابلیت رکھتی تھیں.میں نے خود دیکھا اور حیران رہ گیا کہ کس عقلمندی سے انہوں نے ایک ساہوکار کو جو ایک مقروض کے مال مویشی پر قبضہ کر چکا تھا ،اصل اور قیمت مال مذکورہ سے بھی کم رقم دینے پر رضامند کر لیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی دیگر نعمتوں سے بھی سرفراز کیا ہوا تھا.دولت و ثروت آپ کے پاؤں چومتی تھی.ہر طرح کی عزت اور وجاہت حاصل تھی.اولا د قابل و خدمت گزار تھی.مگر باوجود اس کے کبر و رعونت کا آپ میں نام تک نہ تھا.لباس، بول چال ، سلوک طرز عمل اور آپ کی ہر حرکت آپ کے مومنانہ انکسار کی مظہر تھی.جمعہ کا روز تھا.میں نماز کے بعد باہر تبلیغ کے لئے نہ گیا.گھر میں ہی...رپورٹ تحریر کر رہا تھا.حضرت پھوپھی صاحبہ گرمی کا خیال فرماتے ہوئے اس کمرہ میں تشریف لے آئیں اور ہاتھ میں پنکھا لے کر ہلانے لگ گئیں.میں نے نہایت ادب سے روکنا چاہا.اور خصوصاً جب میں نے دیکھا کہ آپ پنکھے کو اپنی طرف جنبش شاذ ہی دیتی ہیں.اور ان کی خواہش ہے کہ مجھے ہی ہوا دیں.تو میں نے با اصرار درخواست کی کہ آپ تکلیف نہ اٹھا ئیں.لیکن آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا.”بیٹا تم دین کا کام جو کر رہے ہو.اللہ اللہ کس قدر انکسار اور سلسلہ کے ایک ادنی ترین مجاہد سے اس کے دینی مشاغل کے باعث کس قدر محبت کا مظاہرہ تھا.بیواؤں اور یتامی کی امداد و نگہداشت آپ کا ایک دلپسند مشغلہ تھا.اپنے دورانِ قیام میں میں نے آپ کو بڑے انہماک سے ایک یتیم لڑکی کا جہیز تیار کرتے دیکھا.آپ خود اپنے دست مبارک سے اسکے کپڑوں کو گوٹہ لگاتی تھیں.ان دنوں ایک یتیم لڑکے کی شادی کا موقعہ بھی پیش آگیا.آپ نے اس کے گھر والوں کو ہدایت کی کہ وہ کفایت شعاری سے کام لیں.فضول خرچی سے لڑکے کو مقروض نہ بنا ئیں اور اپنی طرف سے انہیں بہو کے لئے عروسی جوڑ ا عنایت فرمایا.آپ نیکی کرنے میں اپنے پرائے ، دشمن اور خیر خواہ کا امتیاز نہ فرماتی تھیں.آپ کے احسانوں کے نیچے اپنوں ہی کی گردنیں دبی ہوئی نہ تھیں بلکہ دشمن بھی زیر بار احسان تھے.ان کی اذیتوں اور بدسلوکیوں کا جواب آپ حسنِ سلوک ، اور احسان سے دیتیں.بے شک احمدیت کی یہ مایہ ناز خاتون ہم سے جدا ہو کر اپنے مولا کی آغوش میں چلی گئی ہیں.لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ زمانہ آپ کی نیکیوں کے نقوش کو ہمارے سینوں سے محو نہیں کر سکے گا.اور
167 آپ کا ذکر خیر بموجب حدیث نبوی ابد تک نزول رحمت الہی کا باعث ہوگا.آپ جب اس عالم میں موجود تھیں ہم سب کے لئے دعائیں فرماتی تھیں.اب اس احسان کا شکریہ ادا کرنے کے لئے ہمارا فرض ہے کہ اکثر آپ کے درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کرتے رہیں.اللهم صلی علی محمد و علی آل محمد و علی اصحاب محمد و علی عبد المسيح الموعود وعلى اصحاب المسيح الموعود و بارک وسلم انک حمید مجید“.(الفضل ۱۹٫۰۶٫۳۸) ہر طبقہ کی طرف سے خراج تحسین ، اور عالم اسلامی کا اظہار اعتماد و یقین اور مخالفین کے اعتراضات قابل صد نفرین مذہبی تعصب کا اظہار کرتے ہوئے بعض لوگوں نے آپ کی مخالفت کی.بطور مثال کے بعض اقتباس درج ہیں.ہفت روزہ المنبر لائل پور جومودودی خیالات کا ترجمان ہے، لکھتا ہے: ملت دوستی اور حکومت سے خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ قبل از وقت یہ صراحت کر دی جائے کہ سر ظفر اللہ خان اس عہدے کے لئے ناموزوں ترین آدمی ہیں.وہ بلا شبہ طویل تقریروں کے عادی ہیں.لیکن چونکہ ڈپلومیسی اور مغربی اقوام سے مرعوب ہو کر بات کرنا انہیں اپنے روحانی پیشوا جناب مرزا غلام احمد صاحب سے ورثہ میں ملا ہے.اس لئے ان کی یہ تقریر میں وقت ضائع کرنے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں اور آج کل کی دنیا میں یہ قدرو قیمت اور اثر سے تہی ہیں.چنانچہ ملک کی تقسیم کے کیس سے اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی نمائندگی تک کے ہر معاملہ میں سر ظفر اللہ ناکام رہے.علاوہ ازیں یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ راسخ العقیدہ قادیانی ہیں.اور قادیانیوں کے بارے میں مسلم ممالک کے احساسات و جذبات چند سالوں میں پہلے سے مختلف ہیں.ایک اور اہم پہلو قابل توجہ یہ ہے کہ سر ظفر اللہ خاں صاحب کا محبوب مرکز قادیان بھارت میں ہے.بنا بریں وہ جب بھی بھارت کے متعلق گفتگو کریں گے تو ان کے اس ایمانی مرکز کا تصوران پر غالب رہے گا.اور وہ پاکستان کی نمائندگی نہیں کر پائیں گے.ان حالات میں یہ بات کسی طرح
168 دو " بھی مناسب نہ ہوگی کہ سر ظفر اللہ خاں کو اس جلیل الشان عہدے پر مامور کیا جائے.جماعت اہلحدیث کا خصوصی تر جمان ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث لاہور لکھتا ہے: ملک وملت کے بہی خواہوں کے ایک بڑے طبقہ کی رائے آج بھی یہی ہے کہ سر ظفر اللہ اپنی سیاسی اور فکری تربیت کے لحاظ سے پاکستان کی نمائندگی کے لئے قطعاً موزوں شخصیت نہیں ہے.اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ وہ جس مکتب فکر (یعنی قادیانیت.ناقل ) سے تعلق رکھتے ہیں.خود اس میں کوئی جان نہیں ہے.معاصر کوثر میں آپ کے متعلق یہ کہا گیا.کہ یہ بدقسمتی ہے کہ آپ جیسے نااہل کے سپرد قلمدان وزارت کیا گیا ہے.اواخر دسمبر ۱۹۵۷ء میں لاہور میں منعقد ہونے والے ”اسلامی مذاکرہ کی صدارت کے لئے آپ کا نام تجویز ہوا.اس کی مجلس منتظمہ کے ایک رکن مولانا مودودی صاحب بھی تھے.بھلا وہ کیوں مخالفت نہ کرتے.انہوں نے در پردہ آپ کی صدارت کی مخالفت کی.ان حالات کے پیش نظر چوہدری صاحب نے صدارت کے متعلق معذرت کر دی.تعجب ہے کہ ایک طرف مودودی خیال ہفت روزہ ایشیا اس امر کی تغلیط کرتا ہے کہ مجلس اسلامی مذاکرہ میں یہودی، عیسائی اور منکرِ حدیث اور تجدید پسند اور متفرنج مسلمان اسلام کو مسخ کر دیں گے.اور دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ مذاکرہ کے معنی ہی یہ ہیں کہ مختلف طرز پر سوچنے والے لوگ اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر کو ایک مجلس میں پیش کریں.اور یہ بھی لکھا کہ اس میں صحیح الفکر اصحاب بھی شامل ہیں.لیکن دوسری طرف اسی ایشیا نے محترم چوہدری صاحب کی صدارت پر اعتراض کو بجا قرار دیا.(الفضل ۱۵/۱/۵۷) / م مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی ہفت روزہ صدق جدید لکھنو مورخہ ۱۴ فروری ۱۹۵۸ء ” میں رقمطراز ہیں : قادیانیت کو زک“ کے عنوان سے جماعت اسلامی پاکستان کے ایک مشہور نقیب کے ایڈیٹوریل سے : مذاکرہ (لاہور) کے ایک اجلاس میں چوہدری سر ظفر اللہ صاحب کو صدارت دی جا رہی تھی.پہلے تو اس سے نجات ہوئی.پھر اندیشہ تھا کہ اسلم صاحب (پرنسپل ٹریننگ کالج ) اپنے مقالہ میں قادیانی ذہنیت کا انعکاس پیش فرمائیں گے.لیکن یہ مقالہ بھی ساقط ہو گیا.مجلس مذاکرہ کی مجموعی فضا اس کی
169 احراری روزنامہ ”آزاد لاہور میں مرقوم ہے کہ علامہ علاؤ الدین صدیقی احراری رہنما نے ایک تقریر میں کہا: ”میں برابر اعلان کرتا رہا کہ سر ظفر اللہ بحیثیت وزیر پاکستان کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا.“ حضرت سعدی نے کیا خوب کہا ہے.ہنر بچشم عداوت بزرگ تر عیبی است گل است سعدی و در چشم دشمنان خار است (0-7-71) جب ہم دیکھتے ہیں کہ غیر مسلم متعصب طبقہ بھی بسا اوقات آپ کی قابلیت کی مدح سرائی کئے بغیر بقیہ حاشیہ: - متحمل نہ تھی کہ قادیانیت کو یہاں سراٹھانے کا موقعہ ملے.لیکن اس عالمی مذاکرہ میں جس میں شیعہ اور سنی اور مودودی اور پرویزی اور ثقافتی سب ہی قسموں کے مسلموں ہی نے نہیں متعدد غیر مسلموں نے بھی پوری طرح حصہ لیا تھا قادیانیت کے سراٹھانے کا آخر محل ہی کیا تھا.مجمع تو ان کا تھا جو اپنے کوکسی نہ کسی اعتبار سے مسلم کہتے ہیں ( اس سے بالکل قطع نظر کر کے کہ دوسرے بھی ان کے اسلام کو کہاں تک معتبر مانتے ہیں) اور ان کا بھی جو توحید و رسالت کے عدم اقرار کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کے ہمدرد ہیں.اور تقریروں کا موضوع تو اسلام کے مشترک مفاد کے مسائل تھے.وہاں قادیانیت کی تبلیغ کا محل ہی سرے سے کیا تھا.جو اس سے اتنا خوف واند یشہ برتا گیا.کیا کوئی قادیانی اگر کہے کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں تو اس کی قادیانیت کے جرم میں اس کے سننے سے بھی انکار کر دیا جائے گا ؟ حضرت تھانوی....کی محفل میں ذکر قا دیا نیت ہی کا تھا.اور گفتگو قادیانیت کی ہورہی تھی.ایک صاحب نے غلو کر کے کہا کہ ان لوگوں کے دین اور ایمان کا کیا.یہ نہ تو حید کے قائل نہ رسالت کے.حضرت نے فوراٹو کا اور فرمایا کہ نہیں توحید میں تو وہ ہمارے بالکل ساتھ ہیں.یہی معنی ہیں آیت کریمہ يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ.وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوى.(سورة المائده....اللہ ہم سب کو غلو سے اپنی پناہ میں رکھے.“ (بحواله الفضل ۲۳/۲/۵۸ ص ۲)
170.نہیں رہ سکتا تو احساس ہوتا ہے کہ یہ مسلم کہلانے والے عداوت میں ان سے بھی بڑھ گئے ہیں.یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ آپ مختلف عہدہ ہائے جلیلہ پر جو کامیاب طور پر فائز رہے ہیں.یہ کامیابی بغیر محنت شاقہ کی عادت کے ممکن نہیں تھی.آپ کے وائسرائے کی کونسل کا ممبر مقرر ہونے پر غیر مسلم اعلیٰ طبقہ نے جو خراج ہائے تحسین آپ کو پیش کئے تھے.وہ پہلے درج کئے جاچکے ہیں.مشرقی پنجاب کا غیر مسلم روز نامہ ” پرتاپ جالندھر جو اپنی متعصب اور مسلم کش پالیسی کے لئے اپنی مثال نہیں رکھتا چوہدری صاحب کی محنت کی عادت کا کئی بار اقرار کر چکا ہے.چنانچہ ۲ / دسمبر ۱۹۵۷ء کے اداریہ میں وہ لکھتا ہے : جب پہلی مرتبہ کشمیر کا کیس یو این او میں پیش ہوا.تو شری گوپال سوامی آئینگر وہاں بھارت کی ترجمانی کر رہے تھے.جب فتویٰ بھارت کے خلاف دیا گیا تو ایک امریکن مبصر نے وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارتی نمائندہ رات کو نو بجے بستر میں سویا ہوتا ہے.اور پاکستانی نمائندہ سرظفر اللہ کا اس وقت دن چڑھتا ہے.جب مسلمان کہلانے والوں نے چوہدری صاحب کی ایک معاملہ میں طویل تقریروں کو بے کار قرار دیا.تو ” پرتاپ بار ہا اس امر کا اقرار کر چکا ہے کہ ہم مستغیث بن کر گئے تھے لیکن ملزم بن کر لوٹے.اس معاملہ نے اور ہی رخ اختیار کر لیا.گویا اس کے نزدیک یہ سارا کرشمہ چوہدری صاحب کی ذہانت اور محنت اور دماغ سوزی اور دلیل آرائی کا ہے.اس محنت کی تصدیق سید احمد شاہ بخاری مرحوم کے مکتوب ۱۹۵۰ء سے ہوتی ہے.مرحوم مجلس اقوام میں پاکستان کے مستقل مندوب تھے.وہ۱۹۵۰ ء کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں.جنرل اسمبلی کا زمانہ آ گیا.ڈیلی گیٹوں کا قافلہ پاکستان سے آن پہنچا.صبح نو بجے سے شام کے سات بجے بلکہ آٹھ بجے تک لیک سکسیس ہی رہتے تھے.جو یہاں سے ہیں میل کے فاصلے پر ہے.دن کم و بیش نماز فجر سے شروع ہوتا تھا.کیونکہ ظفر اللہ خاں صاحب جو یہاں سے بھی تھیں میل دور رہتے ہیں.باوجود اس فاصلے کے صبح نو بجے سب سے پہلے آن پہنچے تھے.سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون مدیر ریاست دہلی رقمطراز ہیں : چوہدری صاحب ایک بلند ترین شخصیت ہیں.ہندوستان اور پاکستان میں کم ایسے لوگ ملیں گے ، جو آپ کے کریکٹر.اخلاق اور جرأت کا مقابلہ کر سکیں.جولوگ چوہدری سر ظفر اللہ خاں کو ذاتی طور پر جانتے ہیں وہ اقرار کریں گے کہ آپ ایک غیر معمولی شخصیت ہیں جو کسی اصول کے لئے بڑی 66
171 سے بڑی مصیبت کو لبیک کہنے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں.چنانچہ آپ کا پاکستان کے وزیر خارجہ ہوتے ہوئے مرحوم مسٹر جناح کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہونا ایک ایسی جرات تھی جس پر بڑی سے بڑی قوت ارادی کے لوگوں کو بھی سر جھکا دینا چاہیئے.آپ کی مذہبی مساوات کی سپرٹ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ اسلامی شعار کے سختی سے پابند ہیں.کبھی بھی نماز کو قضا نہیں ہونے دیتے.آپ کی کوٹھی پر جب بھی نماز ہو تو نماز پڑھانے کے فرائض آپ کے ایک باور چی ادا کیا کرتے ہیں یعنی کہ آپ اپنے باورچی کی امامت میں نماز پڑھتے ہیں کیونکہ یہ باور چی مذہبی اعتبار سے ایک بلند مسلمان ہیں...اور آپ سیاسی اعتبار سے بین الاقوامی اعتبار سے ایک بلند ترین پوزیشن رکھتے ہوئے بھی اپنے دوستوں سے بغل گیر ہونا اپنا ایک فرض ، شعار اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں.“ ( مورخہ ۲۸/۵/۵۶) اسی طرح ہندوروز نامہ ملاپ لا ہور نے لکھا: " عام مسلمانوں کے اس شور میں مجھے کوئی وزن نظر نہیں آتا کہ چونکہ چوہدری ظفر اللہ خاں مرزائی ہیں ، اس لئے انہیں وائسرائے کی کونسل کا ممبر بنایا گیا ہے.میرا خیال ہے کہ یہ تقرر چوہدری صاحب کی.قابلیت اور لیاقت کو مد نظر رکھ کر کیا گیا ہے.یہ کم افسوس کی بات نہیں کہ مسلمانوں میں غیر معمولی لیاقت کے لوگ بہت کم ہیں اور ان میں چوہدری ظفر اللہ خاں نے پچھلے چند 4961 موقعوں پر اپنی غیر معمولی ذہانت کا ثبوت دیا تھا.اسی لئے ان کو مسلمانوں میں سے منتخب کر لیا گیا.اسی طرح یہ روز نامہ آپ کی قابلیت کا اعتراف یوں کرتا ہے: پنجاب کے گول میزی ممبران نے تقریر میں شروع کر دی ہیں.بسم اللہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے کی.اور ہندوستان کو جو کچھ ملنے والا ہے.اس آئین کے ڈھانچہ کی ایک نامکمل تصویر کھینچ کر حاضرین کے سامنے رکھ دی ہے.چوہدری صاحب کی یہ پہلی ہی تقریر تھی جو میں نے سنی.وہ خوب بولتے ہیں.ٹھیک اسی طرح جس طرح مسٹر گو کھلے بولتے تھے.کوئی مد و جزر نہیں.کوئی اتار چڑھاؤ نہیں.موسم سرما کے دریا کی طرح نہایت خوبصورتی سے ایک ہی روانی سے ان کی تقریر بہتی چلی جاتی ہے.چو ہدری ظفر اللہ خاں صاحب لندن سے واپس آکر لیکچر دئے جائیں اور پنڈت نانک چند صاحب خاموش رہیں یہ ناممکن تھا.انہوں نے بھی لیکچر دیا.* مورخه ا فروری ۳۳، بحواله الفضل ۱۴ فروری ۳۳ ، چوہدری صاحب نے تقریر عبداللہ یوسف علی صاحب مرحوم ( پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور و مترجم قرآن مجید انگریزی ) کی صدارت میں کی تھی.
172 محترم ایڈیٹر ہفت روزہ ”ریاست“ دہلی لکھتے ہیں کہ : ایک اہل الرائے دوست کے قول کے مطابق پاکستان (میں ) صرف سر ظفر اللہ خاں کو ہی صف اول کے لیڈروں میں شمار کیا جا سکتا ہے.مگر آپ احمدی ہونے کے جرم میں سیاسی میدان سے 66 نکال دئے گئے یا نکل جانے پر مجبور ہوئے.اور باقی تمام لیڈ رصف دوم یا صف سوم کے لیڈر ہیں.“ ایک مسئلہ کے متعلق مقابل ملک کو التوا کی درخواست کر کے اپنے ملک میں واپس آنا پڑا.اس کے متعلق لنڈن ٹائمنر مقالہ افتتاحیہ میں لکھتا ہے: امن کونسل میں بحث نے جو رخ اختیار کیا.اس سے تخیل اور فکر کو سخت صدمہ پہنچا ہے..ا پنے کیس کو اس درجہ مضبوط خیال کرتا تھا کہ گویا وہ ہر قسم کی تردید و تغلیط سے باہر تھا اور اسے یقین تھا کہ جمعیت اقوام فوری طور پر پاکستان کو سرزنش کرے گی اور...کے معاملہ کو سلجھانے میں کو آزاد چھوڑ دے گی لیکن چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں نے کمال قابلیت سے پاکستان کی طرف سے اس طرح صفائی پیش کی کہ اس کونسل کے اکثر ممبران پر واضح ہو گیا کہ...کی طرف سے معاملات کو مکمل صورت میں پیش نہیں کیا گیا.پاکستان کے وزیر خارجہ نے....وضاحت اس درجہ مؤثر انداز میں کی کہ کونسل اس کے استدلال سے مرعوب ہوگئی.“ آپ کی تنظیمی اہلیت کا ابن نیاز فاروقی کے ذیل کے بیان سے علم ہوتا ہے: محمد ظفر اللہ خاں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل میں ریلوے اور کامرس کے ممبر تھے.ان کے ماتحت کسی افسر اعلیٰ نے اپنے ایک آفس سپر نٹنڈنٹ کا تبادلہ رکوانے کے لئے بڑے زور دار الفاظ میں دھمکی دی کہ اگر سپرنٹنڈنٹ کو تبدیل کیا گیا تو میرے لیے دفتری کاروبار کا سرانجام دینا بڑا مشکل ہو جائے گا.فائل جب آپ کے رو برو پیش ہوئی.تو آپ نے اس پر لکھا :.سپرنٹنڈنٹ کو تو بہر حال تبدیل کر دیا جائے.اور متعلقہ افسر چونکہ اس کے بغیر کام چلانے سے معذوری ظاہر کرتے ہیں.ان کے لئے بہتر ہے کہ ریٹائر ہو جائیں.تاکہ ان کی بجائے کوئی موزوں اور مستعد آدمی لگایا جا سکے.“ پھر تو غالباً یہی ہوا ہو گا.کہ چھوڑ و جی سپرنٹنڈنٹ کو ع 21 سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے.
173 برما کے سفیر مقیم کراچی عزت مآب اور پے رکھن نے ٫۴۹ارے کو برموقعہ سالانہ دعوت منجانب ادارہ پاکستان برائے بین الاقوامی امور میں تقریر کرتے ہوئے کہا:.مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں اس وقت سے چوہدری محمد ظفر اللہ خان کو جانتا ہوں کہ جب میں ابھی رنگون میں تعلیم حاصل کر رہا تھا.اور اب کراچی میں آنے کے بعد تو مجھے بہت قریب سے آپ کو دیکھنے کا موقعہ ملا.حال ہی میں دنیا کے سب سے بڑے ادارے یعنی اقوام متحدہ میں مجھے آپ کی تقریر سننے کی سعادت بھی نصیب ہوئی.وہاں مجھے اندازہ ہوا کہ کس قدر اقوام عالم کے نمائندے آپ کی طرف متوجہ تھے.اور جو نقطہ نظر آپ پیش کر رہے تھے.اس کی طرف مقناطیسی قوت کے ساتھ دنیا کی توجہ منعطف کرانے میں آپ کس درجہ کامیاب تھے.تقریر میں آپ بہت صاف گوئی سے کام لینے کے عادی ہیں.اور شاید اس بنا پر بعض اوقات آپ کے متعلق یہ غلط نہی پیدا ہوسکتی ہے کہ دوسروں کے لئے آپ ہمدردی کے جبہ سے خالی ہیں.لیکن میں آنریبل وزیر خارجہ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم سفارتی حلقوں کے نمائندے اس صاف گوئی کا خیر مقدم کرتے ہیں.بالخصوص میرے لئے یہ امر باعث مسرت ہے کہ آپ سے میرا جب بھی واسطہ پڑا ہے.آپ نے اپنا مافی الضمیر سمجھانے میں مجھے کبھی شک میں نہیں پڑنے دیا.ہم لوگ جنہیں آپ سے واسطہ پڑتا ہے ، آپ کی سادہ زندگی اور بلند خیالی کی وجہ سے آپ کو بہت عزت واحترام کی نظر سے دیکھتے ہیں.“ وو خبر نامه اقوام متحدہ نے اپنے تبصرہ میں لکھا کہ : آنریبل سرمحمد ظفر اللہ خاں اقوام متحدہ کے حلقوں میں بہت ممتاز درجہ رکھتے ہیں.ان کی قانون دانی، بلاغت و فصاحت اور نقطہ رسی کا ہر ممبر ملک قائل ہے.جنرل اسمبلی اور اس کے ماتحت کمیٹیوں میں جب کبھی ظفر اللہ خاں تقریر کرتے ہیں تو شائقین اس کثرت سے جمع ہوتے ہیں کہ اکثر مرتبہ بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی.بین الاقوامی مسائل کی موشگافیاں گذشتہ پانچ سال میں سر محمد ظفر اللہ خاں نے جس خوبی سے کی ہیں.اس کی تعریف سب نے کی ہے.گذشتہ سال جنرل اسمبلی کے پیرس والے اجلاس میں عراق اور ملک شام کے نمائندوں کے تعاون سے انہوں نے تخفیف اسلحہ کے مسئلے پر جو تقریر کی تھی.اسے اقوام متحدہ کی بلند ترین تقریروں میں گنا جاتا ہے.اور سیاستدانی کی اعلیٰ مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.اسی تقریر کا نتیجہ تھا کہ بڑی طاقتوں کے نمائندے دس روز تک تخفیف اسلحہ پر تبادلہ خیالات کر سکے.اور مختلف الخیال ملکوں کو ایک مرکز پر جمع ہونے کا موقعہ مل گیا.جو اقوام متحدہ
174 کے چارٹر کا سب سے ضروری مقصد ہے.اس سے قبل مسئلہ کشمیر اور فلسطین سے متعلق سر ظفر اللہ خاں سکیورٹی کونسل اور جنرل اسمبلی میں معرکتہ الآراء تقریریں کر چکے ہیں.لیبیا کے مستقبل ، سالی لینڈ اور ار بیٹریا کی خود مختاری اور انڈونیشیا کی آزادی کے سلسلہ میں ان کی بار آور کوششیں ضرب المثل ہیں.سر ظفر اللہ خان نے کچھ عرصہ ہوا.فرمایا تھا کہ جہاں کہیں آزادی کی جدوجہد کا اعلان ہوتا ہے.پاکستان سب سے پہلے لبیک کہتا ہے.اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ دنیا یہ لبیک سر ظفر اللہ خاں کی حق شناس آواز کے ذریعہ سنتی ہے.امریکی نمائندہ سینیٹر وارن آسٹن نے آپ کو عظیم ترین سیاست دانوں میں سے قرار دیتے ہوئے کہا کہ: خواہ وہ با قاعدہ رسمی جلسے سے خطاب کر رہے ہوں یا غیر رسمی بات چیت میں حصہ لے رہے ہوں.وہ کبھی راست گوئی و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے.فلسطین کے مسئلے اور افریقہ میں اطالوی نو آبادیات کے مستقبل کے بارے میں انہوں نے عربوں کی حمایت میں نہایت زور دار تقاریر کیں.بالخصوص آخر الذکر مسئلہ کے ضمن میں انہوں نے لیبیا کو اٹلی کے حوالے کرنے سے متعلق مغربی طاقتوں کی تجویز کو نا کام بنانے میں چھوٹی اقوام کی کامیابی سے قیادت کی وہ نہایت ہی نمایاں شان کی حامل تھی.۷۴ ، روز نامہ احسان لاہور نے اس بارہ میں لکھا کہ : 206 یہ امر ہر لحاظ سے باعث مسرت ہے کہ مسئلہ پر مقدمہ کے تارو پود بکھیر کر پاکستانی وزیر خارجہ نے ساری دنیا پر واضح کر دیا ہے.ویسے چھ گھنٹہ تقریر کرنا بھی دنیا کی سب سے بڑی انجمن میں کوئی آسان کام نہیں.اس سے مقرر کی غیر معمولی قوت تقریر اور محنت ہی کا اندازہ نہیں ہوتا بلکہ خود مسئلہ پر بحث کی صداقت بھی آشکار ہوتی ہے.جب تک موضوع میں جان نہ ہو محض لفظی جمع خرچ سے کام نہیں چلتا.حقیقت تو ہے کہ سر محمد ظفر اللہ خاں نے مسئلہ اس خوبی اور جانفشانی سے پیش کیا کہ انہوں نے اپنے حریف کو شکست فاش دے دی اور اسے میدانِ سیاست میں آنے کا نہیں چھوڑا.اکیس ہفتوں کے قلمی اور عقلی معرکوں کے بعد سر ظفر اللہ اپنے وطن لوٹے.“ ( مورخہ ۲ جولائی ۶۴۹) روز نامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور ایک اداریہ میں رقمطراز ہے:.
175 وو ظفر اللہ کے خلاف ایجی ٹیشن..سب کچھ ذاتی اغراض اور خواہشات کو بروئے کار لانے کے لئے کیا جارہا ہے بحیثیت وزیر خارجہ کے چوہدری صاحب نے ایک عظیم الشان کام سرانجام دیا ہے.اور اپنی ٹھوس خدمت کی وجہ سے ان کا شمار معماران پاکستان کی صف اول میں ہونے کے قابل ہے..جب فضیلت ناب غلام محمد کو گورنر جنرل کا عہدہ تفویض کیا گیا اور آپ کی جگہ ممالک اسلامی کی اقتصادی کا نفرنس کی صدارت کا مسئلہ در پیش تھا تو ہر مسلم ملک نے بلا استثناء اس اعزاز کے لئے چوہدری ظفر اللہ خاں کا نام ہی تجویز کیا...ظفر اللہ خاں نے کبھی کسی عہدے کے لئے درخواست نہیں کی.اور دو موقعوں پر جب پاکستان کی نیابت کا سوال اٹھا.قائد اعظم کی نظر آپ پر پڑی..یہ کھلا راز ہے کہ ظفر اللہ خاں نے اس عہدہ کو قبول کرنے میں بڑی ہچکچاہٹ ظاہر کی.قائد اعظم کے جواب میں آپ نے کہا اگر میری قابلیت ، دیانت و امانت پر پورا اعتماد ہے تو میں وزارت کے علاوہ کسی اور صورت میں پاکستان کی خدمت کرنے کو تیار ہوں.اس پر قائد اعظم نے یہ تاریخی جواب دیا.” آپ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے مجھ سے ایسے جذبات کا اظہار کیا ہے.مجھے پتہ ہے کہ آپ عہدوں کے بھوکے نہیں...وو مرکزی کا بینہ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے کہ وہ خلا جو ظفر اللہ خاں کو ان کے عہدے سے ہٹانے سے پیدا ہو گا.اس کا پر کرنا نا ممکن ہوگا.ان کے استعفیٰ کی خبر سے روشن خیال عوام کو سخت دھکا پہنچا تھا.“ (ترجمہ) اخبار ” حکومت کراچی لکھتا ہے : ستمبر ۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے سلسلہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کے لئے بھی قائد اعظم کی نگاہ انتخاب آپ پر پڑی.۱/۱۰ اکتوبر کو فلسطین کی تقسیم کا مسئلہ اس انداز سے پیش کیا کہ اقوام متحدہ کے وہ ممبران جو فلسطین کی تقسیم پر ادھار کھائے بیٹھے تھے.آپ کی فی البدیہ، مدلل اور مسکت تقریر سے ایسے مسحور ہوئے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے گریز کرنے لگے کہ اس طرح کی ناموری کا باعث ہوئی بلکہ دنیا کی تمام پسماندہ اور مظلوم قوموں کا سہارا بھی بنی.بایں ہمہ یہ کامرانی آپ کی قدرتی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا سبب بھی ہوئی.آپ کی تدبر ، معاملہ نہی اور کارکردگی پر قائد اعظم کو بھی فخر رہا.جس کو ان کی زندگی کی ساری
176 کامرانیوں ، مسرتوں اور شادمانیوں کا شاہکار کہا جاسکتا ہے.‘ ( مورخہ ۲۱ اگست ۶۵۲) مئی ۱۹۴۸ء میں سفر کے دوران میں عرب لیگ کے مقتدر لیڈروں کی درخواست پر آپ نے دمشق میں ٹھہر نا منظور کر لیا کہ یہ لیڈر فلسطین کی موجودہ صورت حال کے متعلق آپ سے مشورہ کرنا چاہتے تھے.22 میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے ( جو اس وقت پنجاب کے وزیر خزانہ تھے ) ۱۹ مارچ ۱۹۴۸ء کو پنجاب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا: پاکستان کی تعمیر واستحکام کے سلسلہ میں حضرت قائد اعظم کے بعد میرے خیال میں جن دو بڑی شخصیتوں نے کام کیا ہے.ان میں پہلا نام ہمارے امور خارجہ کے وزیر سر محمد ظفر اللہ خاں کا ہے.اور دوسرا وزیر خزانہ مسٹر غلام محمد کا ہے.سر ظفر اللہ خاں نے ساری دنیا پر آشکارا کر دیا کہ ہے.پاکستان ایسے بلند دماغ اور شاندار مقرر اور اپنی حکومت کے سچے خادم رکھتا ہے.جن کے سامنے دنیا کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں.ملت پاکستان چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کے حق میں اتنی نا شکر گزار نہیں ہوسکتی.کہ وہ معدودے چند رجعت پسندوں کی غوغہ آرائی کے لئے گراہ ہو جائے.اور پھر ان گنتی کے چند لوگوں کی غوغہ آرائی جو جہالت کے محدود دو معین حالات میں پھنسے ہوئے ہیں.ZA السٹریٹد ویکلی پاکستان رقمطراز ہے: سلامتی کونسل میں وہ وقت بھی نہایت نازک وقت تھا.جب اسرائیل کے معاملے میں بحث ہو رہی تھی.بڑی طاقتیں اس مملکت کو بہر طور نواز نے پر تلی ہوئی تھیں.جو صیہونی دہشت انگیزی کی وجہ سے وجود میں آئی تھی.ہر قابل ذکر آدمی بول چکا تھا.اور بولا بھی تھا دنیائے عرب کے مفادات کے سراسر خلاف.عربوں کے ترجمان بھی اپنے خیالات کا اظہار کر چکے تھے.لیکن ان بیچاروں پر وہی مثل صادق آ رہی تھی کہ نقار خانے میں طوطی کی صدا کون سنتا ہے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ بڑی طاقتوں کے بلند بانگ غلغلہ میں ان کی کمزور آواز دب کر رہ گئی ہے.’طویل القامت نحیف الجثہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں بحث کے دوران میں خاموش بیٹھے دیکھ رہے تھے.انہوں نے ایک لفظ بھی نہ کہا.اور نہ ہی کچھ کہنے کا ارادہ تھا.کیونکہ وہ اس مسئلہ میں جو کچھ کہنا چاہتے تھے پہلے ہی کہہ چکے تھے.انہیں نظر آرہا تھا کہ جب سلامتی کونسل دل میں پہلے ہی فیصلہ کر
177 چکی ہے تو پھر اسے قائل کرنے کی کوشش بے سود ہے.دو لیکن اس وقت عربوں کے بعض نمائندے جو دیکھ رہے تھے کہ ہمارے وزیر خارجہ بحث کے دوران میں خاموش بیٹھے ہیں ، آپ کے پاس آئے اور (ایک مرتبہ پھر ) عربوں کا معاملہ پیش کرنے کی درخواست کی.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں نے تقریر کے لئے کوئی تیاری نہیں کی تھی.بایں ہمہ وہ عرب نمائندوں کو مایوس بھی نہیں کرنا چاہتے تھے.ادھر تقریر تیار نہ ہونے کے علاوہ طبیعت بھی قدرے ناساز تھی.ایک لمحہ تذبذب کے بغیر آپ سیدھے سٹیج کی طرف بڑھے.اس کے بعد مسلسل دو گھنٹہ تک سلامتی کونسل کی فضاء فنِ خطابت کی ضوفشانی سے جگمگ جگمگ کرتی رہی.عرب نمائندوں نے باتفاق رائے تسلیم کیا کہ جس دلنشین انداز اور پر زور طریق پر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں نے ان کا معاملہ پیش کیا ہے ، اس زور دار طریق پر دوسرا کوئی شخص پیش نہیں کر سکا.دو گھنٹے تک یوں معلوم ہوتا تھا کہ دلائل و براہین کا ایک دریا ہے جو انڈا چلا آتا ہے.اس تمام عرصہ میں وہ چند صیہونی نمائندے جو پچھلی نشستوں پر بیٹھے تھے، تلملاتے اور بل بھرتے رہے.وہ منہ میں جھاگ لا لا کر اپنے لرزیدہ پاؤں فرش پر ماررہے تھے.اور منہ ہی منہ میں برا بھلا کہہ رہے تھے.اس میں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں کہ ہمارے وزیر خارجہ کی تقریروں پر دشمن جہاں تلملا اٹھتے ہیں.وہاں ہمارے دوستوں کے لئے وہ حد درجہ طمانیت کا موجب ہوتی ہیں.ان کے اہل ہاتھوں میں ہمارے امور خارجہ اور بیرونی تعلقات پوری طرح محفوظ ہیں.لیک سکسیس میں اگر وہ ہماری نمائندگی کر رہے ہوں تو فکر کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی.لیک سکسیس میں ہمارے وزیر خارجہ نے وہ ناموری حاصل کی ہے جو بلا شبہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہے.دو اڑھائی سال کے عرصہ میں بیرونی دنیا میں انہوں نے پاکستان کی ساکھ قائم کرنے اور اس کی عزت و وقار کو چار چاند لگانے میں جو کارنامہ سرانجام دیا ہے.اس کی مثال نہیں مل سکتی.سلامتی کونسل میں جس طریق پر انہوں نے پاکستان کا معاملہ پیش کیا ہے.اس سے اس فریب کا جو پاکستان کو دیا جار ہا تھا.اچھی طرح پردہ چاک ہو گیا ہے.ایک سکسیس میں کمال بے جگری سے انہوں نے...جنگ لڑی ہے اور دنیا کے سامنے یہ ثابت کر کے کہ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں
178 کسی کی زاویہ نگاہ سے کیوں نہ دیکھا جائے وہ اس جنگ میں فتحیاب رہے ہیں.قائد اعظم مرحوم کی طرح وہ جھکنا نہیں جانتے.وہ اس فتح کے قائل ہی نہیں جو گر کر نصیب ہو.وہ فتحیابی کس کام کی جس کی خاطر عزت نفس گنوانی پڑے.وہ کبھی تذلل اختیار نہیں کرتے اور پھر بھی ہمیشہ فتحیاب رہتے ہیں.مجھے اس وقت ان کی ایک تقریر یاد آ گئی جو انہوں نے گزشتہ سال ایک مقامی کالج میں کی تھی.وہ طلباء کے سامنے فن خطابت کی وضاحت فرمارہے تھے.انہوں نے وہ تمام خوبیاں اور اوصاف بیان کئے جو ایک اچھے خطیب میں ہونے چاہئیں.تقریر میں انہوں نے اپنے ذاتی تجارب کی دلچسپ حکائتیں اور روایات جی بھر کر سنائیں.انہوں نے کہا ، ہاں ایک اور خوبی ہے ، جو ہر اولوا العزم مقرر کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہیئے.اور وہ یہ کہ اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ اپنی تقریر کو کہاں ختم کرے.اور یہ کہ کر آپ بیٹھ گئے.مؤقر رفتار زمانہ رقطراز ہے: 2966 الغرض آپ نے پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کا سکہ عالم اسلام پر بٹھا دیا.آپ نے اپنے ملک کے لئے گراں بہا خدمات انجام دی ہیں.اور اکثر نازک مراحل میں اپنی زور خطابت ، قوت استدلال اور قانونی تجر کے ایسے جو ہر دکھائے کہ اشد ترین معاندین بھی آفرین کہہ اٹھے.۱۹۵۴ء میں آپ سر بنکل راؤ کی جگہ بین الاقوامی عدالت عالیہ کے حج منتخب ہوئے.جس سے ملکی وقار میں بیحد اضافہ ہوا اور پاکستان دنیا کے سیاست کی صف اول میں آ گیا.اس موقعہ پر پاکستان کے شہرہ آفاق مصنف علامہ رئیس احمد جعفری نے آپ کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: چوہدری ظفر اللہ خاں سر بنکل راؤ کی جگہ بین الاقوامی عدالت عالیہ کے جج منتخب ہو گئے ہیں.یہ انتخاب ہر اعتبار سے مسرت افزاء ہے.ہم چوہدری صاحب موصوف کو اس اعزاز پر دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں.وہ اس منصب پر پہنچ گئے جو ہر اعتبار سے ان کے شایانِ شان ہے.....چوہدری صاحب نے گراں بہا خدمات سرانجام دی ہیں.بڑے بڑے کٹھن اور نازک مواقع پر انہوں نے اپنی خطابت.قوت استدلال اور قانونی موشگافیوں کے ایسے جوہر دکھائے ہیں کہ مخالفین بھی عش عش کر اٹھے.,, وو
179 وو اس عہدہ پر فائز ہوئے ابھی چار سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ اپریل ۱۹۵۸ء میں آپ کا انتخاب برائے نائب صدر عمل میں آیا.اس طرح آپ نے اپنی خداداد قابلیت سے تھوڑے عرصہ میں قابلِ رشک مقام حاصل کر لیا.منصبی فرائض کی بجا آوری آپ کی فطرت ثانیہ ہے.سٹار“ کے خصوصی نمائندہ متعین لیک سکسیس نے لکھا کہ سر ظفر اللہ کی روانگی سے عرب وفود بیش قیمت امداد سے محروم ہو گئے.جو مسئلہ فلسطین کے متعلق ان کو حاصل ہو رہی تھی.جس عزت سے عرب وفود ان کو دیکھتے تھے.اس کا انہوں نے یوں مظاہرہ کیا کہ تمام عرب وفود گارڈ یا کے ہوائی مستقر پر پہنچے اور انہوں نے یہ اظہار کیا کہ ہم ایسے دوست کو الواداع کہتے ہوئے افسردہ ہیں کہ جس نے ہمارا قصہ بھی سکیورٹی کونسل کے سامنے کمال احسن طریقے سے پیش کیا اور ہم مبارک باد پیش ۸۲ کرتے ہیں.قاہره ۲۰ / جون ۱۹۵۰ء باشندگان لیبیا کے ایک وفد نے جو تین افراد پر مشتمل تھا.آج مصر میں مقیم پاکستانی سفیر حاجی عبدالستار سیٹھ سے ملاقات کی.اور لیبیا کی آزادی کے سلسلے میں پاکستان کے وزیر خارجہ چو ہدی محمد ظفر اللہ خاں نے جو خدمات سرانجام دی ہیں.ان کے لئے شکر یہ ادا کیا.وفد نے کہا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے نہایت شاندار طریق سے اقوام متحدہ میں باشندگان لیبیا کے جذبات کی ترجمانی کی.یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج لیبیا آزادی کی منزل کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے.لیبیا پاکستان اور اس کے قابل احترام وزیر خارجہ کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتا...وفد میں لیبیا کی مجلس آزادی کے سیکرٹری جنرل بھی شامل تھے.معاصر انجام کراچی سمالی لینڈ کی خدمت کے متعلق ذیل کی خبر دیتا ہے : کراچی ۱۰ فروری ، پاکستان کے وزیر خارجہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں نے ادارہ اقوام متحدہ میں سمالی لینڈ کے مسلمانوں کے مقصد آزادی کی حمایت میں جو معرکۃ الآراء تقریریں کی ہیں.ان کا خلوص دل سے اعتراف کرتے ہوئے سمالی لینڈ کے ہزاروں مسلمانوں نے اپنے بچوں کے نام پاکستان کے وزیر خارجہ کے نام پر رکھے ہیں اور خود میرے نوزائیدہ بچے کا نام ظفر اللہ ہے.“ یہ ہیں وہ الفاظ جو مؤتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے سمالی لینڈ کے وفد کے قائد حاجی محمد حسین نے یو.پی.پی.سے ایک خاص ملاقات میں کہے.انہوں نے کہا کہ ”ہم خاص کر چوہدری ظفر اللہ خاں کے بیحد شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہماری جدوجہد آزادی میں
180 زبر دست امداد کی ہے.AMCG طونس کے وزیروں نے ایک مشترکہ بیان میں چوہدری ظفر اللہ خان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ طونس کی تاریخ میں چوہدری ظفر اللہ خاں کا نام ہمیشہ سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا.لیبیا کے نمائندہ نے کراچی آکر اعلان کیا کہ ظفر اللہ خاں ہمیں اتنے محبوب ہیں کہ ہمارے ملک میں نو ز ائندہ بچوں کے نام نیک تفاؤل کے طور پر ان کے نام پر رکھے جا رہے ہیں.“ انجام کراچی ۲٫۵۱ ۱۲٫ بحواله الفضل ۱۳/۲/۵۱) 66 جماعت احمدیہ پر خصوصی دور ابتلا (۱۹۵۱ء تا۱۹۵۴ء) مسلمانوں کے باہوش طبقہ نے ہمیشہ ہی جناب چوہدری صاحب کی خدمات جلیلہ کو بہ نظر استحسان دیکھا.لیکن وہ لوگ جو احمدیت کے شدید مخالف تھے ہمیشہ ہی آپ کے احمدی ہونے کے باعث اظہار مخالفت کرتے تھے.مخالفت کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب ۱۹۳۲ء میں آپ کو وائسرائے کی انتظامی کونسل کا عارضی رکن مقرر کیا گیا تھا.احرار ٹولہ کے تن بدن میں گویا آگ لگ گئی تھی.مخالفت کے ان طوفانوں میں آپ کے پائے صبر واستقامت میں ذرہ بھر لغزش نہیں آنے پائی.مذہبی عقائد میں آپ کے قدم کبھی متزلزل نہیں ہوئے.اور نہ ہی خدمت وطن میں آپ نے کمی آنے دی.سیاست کے خارزار میں بادصر صر کے خوفناک اور مہیب طوفانوں میں ایمان سے پودے کی حفاظت کیلئے ہمت مردانہ درکار ہے.حضرت مسیح فرماتے ہیں: اُونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولتمند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو.“ (متی ۱۹/۲۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : حُفَّتِ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ - ( کہ جنت نا پسندیدہ اشیاء سے گھری پڑی ہے ) اگر چہ احمدیت کو اپنے آغاز سے شدید مخالفتوں سے واسطہ پڑا اور وہ انہی کے سایہ تلے پروان چڑھتی رہی.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے ساتھ تھا لیکن ۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۴ ء کا دور ابتلاء ایک خصوصی رنگ رکھتا تھا.اور بظاہر حالات مخالفین کو یوں نظر آتا تھا کہ جماعت احمد یہ اپنے آخری دموں پر ہے اور وہ صفحہ ہستی سے
181 دو اب مٹی کہ مٹی.جماعت احمد یہ کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک تقسیم ملک سے بہت پہلے سے جاری تھی اور سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس متوقع بھیا نک فتنہ کو اپنی دوراندیشی سے بھانپ کر کل ہند مسلم لیگ سے اس بارہ میں محترم پیرا کبر علی صاحب کے ذریعہ فیصلہ کرانے کی کوشش کی تھی.لیکن مسلم لیگ کے ارباب حل و عقد اس امر کو چنداں اہمیت نہ دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس امر کو زیر بحث لانے سے فتنہ پیدا ہو جائیگا.۱۹۵۱ء سے اس مخالفت نے شدت اختیار کر لی اور ۱۹۵۳ء میں قتل و غارت تک نوبت پہنچ گئی اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوکر مارشل لاء نافذ نہ ہو جا تا تو بظاہر بلا مبالغہ ہزار ہا احمدی تہ تیغ ہو چکے ہوتے.اس مخالفانہ پراپیگنڈے کے زیر اثر ایک نا نجار نے حصول ثواب کے لئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ پر قاتلانہ حملہ کر دیا جبکہ آپ نماز پڑھا کر مسجد سے واپس جارہے تھے.تحقیقاتی عدالت میں عمامہ پوش علماء کا کردار ساری قوم کے سامنے آگیا کہ بے گناہ اور نہتے احمدیوں کے خون سے ہولی کھیلنے کیلئے انہوں نے کیا کچھ نہ کیا.ان حالات کو دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں.چند سال قبل کے یہ خونچکاں اور روح فرسا حالات قارئین کرام کو کیونکر بھول سکتے ہیں لیکن ان احباب کی خاطر جو اس وقت بالکل کم عمر تھے.ہم کراچی کی ہلڑ بازی کی کیفیت کا خلاصہ پیش کرتے ہیں.۱۷، ۱۸ رمئی ۱۹۵۲ء کو جماعت احمدیہ کراچی کا سالانہ جلسہ منعقد کئے جانے کا اعلان ہونے پر مخالفین نے اسے ناکام بنانے کے لئے مساجد میں عوام کو مشتعل کیا.پہلے روز کے اجلاس میں صاحب صدر کی تقریر میں ان لوگوں نے جگہ جگہ سے گالیاں دینی اور نعرے لگانے اور آوازیں کسنے شروع کئے.پولیس نے انہیں نکالنا چاہا لیکن وہ تشدد پر اتر آئے اور پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا.پولیس نے سرغنے گرفتار کئے لیکن یہ لوگ باز نہ آئے باہر والوں کو اکسا کر اندر لایا جاتا نہایت ہی قابل شرم، حیاسوز اور اخلاق سوز مظاہرے کے بعد بھی وہ جلسہ کو ختم نہ کر سکے.انہوں نے فحش گالیاں دیں، تالیاں پیٹیں ، سیٹیاں بجائیں ، ناچے کو دے لمبی داڑھیوں والے مولوی بھی شامل تھے.اس وقت ایک احمدی عالم کی تقریر قرآن مجید کی صداقت کے متعلق جاری تھی.جس وقت صاحب صدر اس روز کے اجلاس کے اختتام کا اعلان کر رہے تھے تو ان لوگوں نے سٹیج پر یورش کرنا چاہی.پولیس کی ایک بڑی جمعیت نے ان پر لاٹھی چارج کر کے اندر جانے سے روکا.لیکن ان لوگوں نے پولیس پر پتھراؤ وغیرہ کیا.بعض شریروں نے بجلی کی تاریں کاٹ دیں ، لاؤڈ سپیکر کو گرا دیا.واپس جانے والے
182 احمد یوں اور علماء پر پتھراؤ کیا.ان حالات کے پیش نظر دوسرے روز جلسہ گاہ کے نصف میل کے اندر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے دفعہ ۱۴۴ نافذ کر کے اعلان کر دیا گیا کہ لاٹھی وغیرہ ساتھ لانا اور پانچ سے زائد افراد کا اجتماع منع ہے اور جماعت احمدیہ کا جلسہ بدستور وہاں منعقد ہوگا.چنانچہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل پر تقاریر ہوئیں.مخالفین شور و شر کرتے رہے لیکن سات آٹھ ہزار کے جلسے میں کوئی خاص مزاحمت نہ کر سکے.اس موقعہ پر چیف کمشنر، انسپکٹر جنرل پولیس، سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایڈیشنل مجسٹریٹ موجود تھے.محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی تقریر شروع ہوتے ہی پولیس نے باہر کے لوگوں کو اندر آنے سے روک دیا.مخالفین کو جو بڑی تعداد میں باہر جمع ہو کر نعرے لگاتے اور شور مچاتے تھے.پولیس نے متعدد بار بتایا کہ ان کا اجتماع خلاف قانون ہے.اور انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی لیکن ہجوم تشدد پر اتر آیا.کئی بار ان پر اشک آور گیس استعمال کی گئی.جب یہ شر پسند جلسہ گاہ میں کسی طرح داخل نہ ہو سکے.تو انہوں نے شیزان ہوٹل اور احمد یہ فرنیچر ہاؤس کو آگ لگا دی.احباب جماعت احمدیہ نے کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھایا.اور باوجود ہر طرح کے اشتعال کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی ہرگز کوشش نہیں کی.AY سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور.اور نوائے قت لاہور وغیرہ روز ناموں نے اس بگڑ بازی کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے لکھا کہ جب چوہدری صاحب اسلام ایک زندہ مذہب ہے“ کے موضوع پر تقریر کر رہے تھے.تو اڑھائی صد احراریوں کے ہجوم نے جلسہ میں گھنے کی کوشش کی.حالانکہ جلسہ گاہ کے نصف میل کے اندر دفعہ ۱۴۴ نافذ تھی.اور پھر اس ہجوم نے شیزان ہوٹل ، احمد یہ فرنیچر ہاؤس وغیرہ کو نظر آتش کیا.انگریزی روزنامہ ڈان کراچی نے لکھا کہ رواداری کے اصولوں کو خاک میں ملانے والے یہ چرب زبان لوگ اسلام اسلام پکارنے کے باوجود مسلمانوں کے مابین تشنت وافتراق کی خلیج دن بدن وسیع کر رہے ہیں.جماعت احمدیہ کو پبلک جلسہ کرنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ ان کے مخالفین کو.گذشتہ دو دن مسلسل تشدد کا جو شرمناک مظاہرہ ہوتا رہا ہے.اسے محض اتفاقی حادثہ قرار
183 ۱۸۷ نہیں دیا جا سکتا.یہی روز نامہ اپنی ۲۲ مئی کی اشاعت میں رقمطراز ہے کہ چیف کمشنر کراچی نے اعتراف کیا ہے کہ کرایہ کے غنڈوں سے یہ فساد کرائے گئے.ان سے بیرونی ممالک میں ہمارے وقار کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے.بعض مخصوص قسم کے مذہبی دیوانوں کے ہاتھوں اس ملک کو حال ہی میں مہلک قسم کا جو نقصان پہنچا ہے.ان میں سے ایک ملک کے نامور وزیر خارجہ کے خلاف گندا چھالنے کی مہم ہے.حالانکہ جہاں تک بیرونی دنیا میں پاکستان کی شہرت اور وقار کو چار چاند لگانے کا سوال ہے.موجودہ قائدین میں سے کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.ہم پورے انشراح کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ چوہدری صاحب کے خلاف ہنگامہ برپا کرنے والے سیاسی اغراض کے ماتحت ایسا کر رہے ہیں.اور مذہب کو محض روغن قاز کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے.مجلس احرار کی طرف سے پنجاب، سندھ کے شہروں اور قصبات کے علاوہ دارالحکومت کراچی میں محترم چوہدری صاحب کی نام نہاد غداریوں کی تشہیر کی گئی اور مردہ باد کے نعرے لگوائے گئے.اور تبلیغی کا نفرنسوں ، دفاع پاکستان کا نفرنسوں اور تحفظ ختم نبوت کانفرنسوں کے نام پر جلسے منعقد کر کے شعلہ بار تقاریر کے ذریعہ حکومت کو متوجہ کیا گیا کہ یہ وزیر خارجہ ملک کے غدار ہیں.پھر گوجرانوالہ اور سرگودھا وغیرہ شہروں میں آپ کے مصنوعی جنازے نکال کر ” ہائے ہائے غدار وزیر خارجہ مردہ ۸۸ 9966 باد غدار وزیر خارجہ کے نعرے بلند کئے گئے.گویا ان کا نفرنسوں کا مقصود صرف یہی امر تھا.ان احراری لیڈروں کے بعض بیانات درج ذیل کئے جاتے ہیں :.ا چوہدری صاحب نے ایران کو اقتصادی بدحالی کا شکار ہوتے دیکھ کر کوئی مؤثر قدم نہ اٹھایا.- ہماری وزارت خارجہ اطمینان سے سب کچھ دیکھتی رہی اور اس نے خاموش رہ کر برطانوی درندوں کو ایران کی اقتصادی ناکہ بندی کے لئے کھلا چھوڑ دیا.-۵ یہی صورتِ حال مصر میں ہوئی.۴- جب تک چوہدری صاحب موجود ہیں اسلامی ممالک سے تعلقات درست نہیں رہ سکتے.- چوہدری صاحب کی طرف سے اپنے ملک کی عظمت و وقار کی مٹی پلید کی جارہی ہے.اور انگریز کی غلامی کا طوق پہنانے کی پوری کوشش ہو رہی ہے.- بعض مسائل الجھائے جار ہے ہیں.اور چوہدری صاحب انگریز کے اشارے پر ایسا کر
184 رہے ہیں.اور فلاں معاملہ کو کھٹائی میں ڈال رہے ہیں.۸۹ ے.ابتدا میں جب مرزائی تحریک کا پروپیگنڈ ا شروع ہوا تو ایک ضرورت یہ بھی پیش آئی کہ ایسے لوگوں کو مرزائیت کے حلقہ ارادت میں شامل کر دیا جائے جن کی سرکاری پوزیشن اس قابل ہو کہ لوگ دیکھ کر متوجہ ہوں.سر ظفر اللہ سرکاری آدمیوں میں سے ایک ہیں.ستمبر تا نومبر ۱۹۴۷ء کے چوہدری صاحب کے ایک عزیز کے نام خطوط زمیندار نے شائع کر کے اعتراض کیا کہ آپ حکومت پاکستان سے تنخواہ لے کر احمدی احباب سے کیوں ملتے رہے اور امام جماعت احمدیہ کے حکم کو حکومت پاکستان کے احکام پر ترجیح دی ( حالانکہ بوقت تحریر خطوط آپ ابھی وزیر خارجہ مقرر نہیں ہوئے تھے بلکہ ۲۷/۱۲/۴۷ کو مقرر ہوئے.اور بوجہ تقسیم ملک قادیان جن مصائب سے گذر رہا تھا.اسکے متعلق فکر کرنا کیوں قابلِ اعتراض تھا.جبکہ وہاں آپ کا مکان تھا اور بعض عزیز واقارب بھی مقیم تھے.اور اسی خط میں آپ نے لکھا ہے کہ حضرت ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ کام ختم ہوتے ہی واپس آؤں.گویا کام چھوڑ کر آنے کا ارشاد نہیں.احراری رہنما شیخ حسام الدین نے اپنی تقریر میں وزیر اعظم اور کمشنر کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ: ’ ہم صاف صاف کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے کسی گوشہ میں مرزائیوں کا کوئی عوامی جلسہ نہیں ہونے دیں گے.- ۹۳ ۱۰ روز نامه ”زمیندار“ لاہور لکھتا ہے کہ کراچی کے ہنگامے کا باعث احمدی مقررین کی غیر زمہ دارانہ تقریریں تھیں.حالانکہ کمشنر کا بیان ہے کہ انعقاد جلسہ سے قبل ہی پولیس کو تاریں اور خطوط موصول ہورہے تھے کہ احمدیوں کے جلسہ میں شورش برپا کی جائے گی.۹۴ ہفت روزہ ” ساغر کراچی نے روزنامہ ”زمیندار کی مذموم روش پر کڑی تنقید کی اور یہ بھی ذکر کیا کہ تمام مصری اخبارات نے چوہدری صاحب کی خدمات کی تعریف کی ہے.اور انہیں دنیائے اسلام کا ہیرو قرار دیا ہے.اقوام متحدہ میں مسائل نہر سویز ، فلسطین ،سوڈان ، ایران کے مسئلہ تیل ، آزادی لیبیا و تونس پر آپ نے جو پُر مغز تقاریر کیں، وہ اپنی جگہ پر بے مثل ہیں.یہ ان کی بلند پایہ قانون دانی، دلکش خطابت اور نقطہ نظر کی قوت اور معقولیت کا ثبوت ہے کہ ساری دنیائے اسلام انہیں اپنے حقوق کا ترجمان و محافظ سمجھتی ہے.ہمیں فخر ہے کہ سارا عالم اسلام چوہدری صاحب کا احترام
185 ۹۵ کرتا ہے.اخبار ”زمیندار اپنے کمزور اور جنونی دلائل سے اپنی ” ظفر اللہ دشمنی کے لئے مشہور ہو چکا ہے.احمدیت کی مخالفت وہ برسوں سے کر رہا ہے اور اس اخبار کا ادارتی شعور سالہا سال سے اس مخالفت کی وجہ سے خود ایک ایسی جنونی کیفیت کا شکار ہو کر رہ گیا ہے کہ شائد وہ ان تمام مصری اخبارات کو بھی گالیاں دینے پر اتر آئے جنہوں نے چوہدری صاحب کی تعریف کی ہے.اس نے جو چوہدری صاحب کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ وہ احمدیت کے لئے جذ بہ نفرت سے مغلوب ہے اور چوہدری صاحب کی اسلامی خدمات اس کی نظر میں بے معنی ہیں.ہفت روزہ ” چاشی ڈھا کہ رقمطراز ہے کہ سر محمد ظفر اللہ خان قائد اعظم کے جاں نثار ساتھی ، قائد ملت کے نائب اور پاکستان کے بے لوث خدمات گزار ہیں.یہ مضبوط قوت فیصلہ اور بے داغ شخصیت کے مالک ، صاحب بصیرت اور وسیع النظر آدمی ہیں.معلوم ہوا ہے کہ ان کو وزارت سے نکالنے کی خطرناک سازش ہو رہی ہے.قائد ملت کی وفات کے بعد کا بینہ کے بعض ممبر چوہدری صاحب کو وزارت عظمیٰ کا قلمدان پیش کرنا چاہتے تھے.لیکن حاسدوں کی نظر میں یہی بات خوف و ہر اس کا باعث بن گئی.اب یہ سازش اپنے کمال کو پہنچ گئی ہے.جماعت احمدیہ کو اقلیت قرار دینے اور چوہدری صاحب کو وزارت سے علیحدہ کرنے کا مطالبہ غیر مسلم اقلیتوں اور دوسرے مہذب ممالک پر کیا اثر پڑے گا.اخبار ”مسلمان “ کراچی لکھتا ہے : ہمیں یاد ہے موصوف اور موجودہ گورنر جنرل ایسے اشخاص ہیں جن کے تدبر و معاملہ فہمی اور کارکردگی پر خود قائد اعظم کو بھی فخر رہا ہے.جس کو ان کی زندگی کی ساری کامرانیوں ، مسرتوں اور شاد کامیوں کا شاہکار کہا جاسکتا ہے.“ وزارت خارجہ سے چوہدری ظفر اللہ کی علیحدگی ایک داخلی مسئلہ ہے جو خارجی مسئلہ بنے بغیر نہیں رہے گی.یہی نہیں بلکہ خارجی عوامل کی اثر اندازی ، ہمہ گیری ،ہمیں کسی مہیب خطرہ سے بھی دو چار کر دے گی.یہی ایک بنیادی وجہ رہی ہے.(کہ) ہم نے سیاسی پاگلوں کی طرح...چو ہدری ظفر اللہ کی علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا.روز نامہ حقیقت سیالکوٹ نے ۲۲ رمئی کی اشاعت میں کراچی میں اور اس سے قبل سیالکوٹ میں جماعت احمدیہ کے جلسوں کو منعقد نہ ہونے دینے پر اظہار تاسف کرتے ہوئے لکھا کہ یہ مذہبی
186 وو تعصب کا نتیجہ ہے.انگریزی اخبار ”سٹار“ مورخه ۱۲۳/۸/۵۲ان غیر معقول حرکات کے خلاف یوں احتجاج کرتا ہے، کہ اگر آج احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے ، تو کل کلاں دیگر فرقے کب محفوظ رہیں گے.ان پُر تعصب حرکات کے باعث کیا دنیا ہمیں بیوقوف اور مذہبی دیوانے نہ سمجھے گی ؟ کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہم چوہدری صاحب کو وزارتِ خارجہ سے فی الفور علیحدہ کر دیں تو مشرق وسطی اور مغرب کے ممالک میں اس کا کیا ردعمل ہوگا.اس کے بین الاقوامی نتائج کے متعلق ہم کو کسی خوش فہمی میں مبتلا ء نہیں رہنا چاہیئے.انگلستان کی مسلم لیگ نے وزیر اعظم پاکستان سے بذریعہ برقیہ رابطہ پیدا کر کے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستان میں فرقہ ورانہ منافرت پھیلانے والے عنا صر کو کچل دیائے گا.روز نامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور رقمطراز ہے کہ چوہدری صاحب کی پیش کردہ تجویز کے مطابق اسلامی ممالک کے وزراء اعظم کے مابین صلاح و مشورہ کا نظام قائم کر دیا جائے تو تمام کو بالآخر اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے.اور اسی کی مخالفت کی خاطر بعض ممالک عرب ممالک کے ساتھ انشقاق پیدا کرنے میں کوشاں ہیں اور اور یہ کہہ رہے ہیں کہ برطانوی مفادات کو تقویت دی جارہی ہے ردِ قادیانیت کی مہم جود یکھتے ہی دیکھتے اس طرح بھڑک اٹھی ہے کہ گویا یہ ساٹھ سالہ پرانی مذہبی تحریک احمدیت اچانک آج ہی معرض وجود میں آئی ہے.اس مخالفت کا مذہبی پہلو خواہ کچھ ہو.اس نئی مہم کی تہہ میں خالصہ سیاسی مقصد کارفرما ہے اور اس نے دنیائے اسلام کے استحکام کے لئے شدید خطرہ پیدا کر دیا ہے.اگر فرقہ وارانہ اختلافات کے طوفان کو ایک دفعہ راہ پانے کی اجازت دی گئی تو پھر یہ طوفان رو کے بھی نہیں رک سکے گا.جناب خواجہ حسن نظامی صاحب رقم فرماتے ہیں کہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ جماعت احمد یہ کراچی کے خلاف ہنگامہ مصلحت وقت کے خلاف تھا.گو میں عقائد احمد یہ سے متفق نہیں لیکن یہ وقت ایسے اختلافات کو نظر انداز کرنے کا ہے.چوہدری صاحب نے باوجود قادیانی ہونے کے پاکستان بننے کے بعد سے آج تک جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ بے مثال ہیں.اگر پاکستان کے تخت گاہ کراچی میں مسلمان ان کی مخالفت کریں گے تو امریکہ اور یورپ اور اسلامی ممالک سے پاکستان کا وقار جاتا رہے گا.مجھے یقین تھا کہ مولانا عبد الحامد بدایونی اور سید سلیمان ندوی جیسے معاملہ فہم اور
187 ماہر تاریخ عوام کی غلط فہمیاں دور کر دیں گے اور یہ فتنہ نہ بڑھے گا.لیکن اخبارات سے معلوم ہوا کہ ہر دو علماء وغیرہ نے ایک جلسہ کر کے چوہدری صاحب کو وزارت خارجہ سے الگ کر دینے کا مطالبہ کیا.اس خبر سے میرا دل پاش پاش ہو گیا.مولانا بدایونی کو میں نے سفارش کر کے نظر بندی سے رہا کروایا تھا اور سید سلیمان ندوی جو مسلمان ہندو پاک کے نزدیک سب سے زیادہ تاریخ کے نیک و بد کے نتائج سے واقف ہیں جس پر دوسرے مؤرخ کی نظر نہیں جاتی.میں پچاس برس سے اخبار نویسی کرتا ہوں.اور لوگوں کے رجحانات سمجھتا ہوں.اس خبر کو پڑھ کر بے اختیار میری زبان سے نکلا کہ یہ خبر غلط ہے.یہ دونوں مولا نا کبھی ایسی بے عقلی کا کام نہیں کر سکتے لیکن اب تک اخبارات اور ریڈیو پر اس کی تردید نہیں ہوئی.اگر سچ مچ ان علماء نے ایسا جلسہ کیا تھا تو مجھے خدا تعالیٰ کے سامنے سجدے میں گر کر اور رو رو کر دعا کرنی چاہیئے کہ وہ علماء مذکور کو اس غلط طرز عمل سے بچائے یا مجھ کو اس دنیا سے جلد اٹھالے تا میں مسلمانوں کی اور پاکستان کی تباہی نہ دیکھوں جو ایسے غلط کاموں سے ہونی ضروری ہے.یہ مخالفت جس قدر شر انگیز اور امتِ مسلمہ کے لئے نقصان دہ تھی.اس کی مخالفت مولانا غلام رسول مہر ایڈیٹرا نقلاب لاہور نے ۱۹۳۵ء میں بھی کی تھی.وہ تحریر فرماتے ہیں : و مجلس احرار اسلام محض انتخابات کے لئے تنظیم کی خاطر جماعت احمدیہ کی مخالفت کر رہی ہے.اس وقت حکومت یا ہنود کے خلاف مخالفت کا کوئی موقعہ نہ تھا.اور تنظیم کے لئے ہنگامہ درکار تھا.جماعت احمدیہ کے خلاف ہنگامہ سے خطرہ کم تھا.غیر مسلم کی تائید بھی ان کے شامل تھی.اور بعض وجوہ سے حکومت بھی جماعت کے خلاف تھی اور روپیہ بھی زیادہ وصول ہونے کی توقع تھی تو قعات پوری ہوئیں ، نقصان ذرہ بھر نہ ہوا.ایک صاحب جو ایک تقریر کی بناء پر ماخوذ ہوئے تو ان کو پندرہ منٹ کی مضحکہ خیز سزادی گئی جس سے ایسی تقریروں کی حوصلہ افزائی ہوئی.جو لوگ مسلمانوں کے سیاسی مصالح کی حفاظت چاہتے ہیں.وہ اس مخالفت احمدیت سے مضطرب ہوئے.کیونکہ اس سے اتحاد بین المسلمین کو نقصان پہنچے گا.اب جا بجا احمدیوں کو علیحدہ اقلیت قرار دینے کا مطالبہ قرار دادوں کی صورت میں ہونے لگا.ہمارے نزدیک یہ سب سے بڑی سیاسی حماقت ہے جس کی آئینی تاریخ میں مثال نہیں ملتی.ہمیشہ اقلیت علیحدگی کا مطالبہ کیا کرتی ہیں.لیکن احمدیوں کی سیاسی دانشمندی کی داد دینی چاہیئے کہ انہوں نے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا.گاندھی جی وغیرہ نے اچھوتوں تک کو گلے لگا یا محض
188 اس لئے کہ ووٹ زیادہ ہو جائیں.اور یہ مسلمان ایک اچھی خاصی، کلمہ گو ،تعلیم یافتہ منظم جماعت کو اپنے سے علیحدہ کر رہے ہیں تا کہ ووٹ کم ہو جا ئیں.یہ خود کشی نہیں تو اور کیا ہے.ان ہولناک ایام میں شیخ مخلوف مفتی مصر نے چوہدری صاحب کے خلاف فتویٰ کفر جاری کیا.بعد میں یہ بات منظر عام پر آئی کہ چونکہ ایک موقعہ پر عند الملاقات علیحدگی میں اس وقت کے شاہ مصر فاروق کو چوہدری صاحب محترم نے از راہ ہمدردی یہ نصیحت کی کہ آپ کو بیرونی دنیا ایک اسلامی مملکت کے سربراہ کی حیثیت سے دیکھتی ہے.اس لئے اس کا کردار اسلام کے مطابق ہونا چاہیئے.یہ فرعون ثانی اس پند و نصیحت پر بہت جزبز ہوا.اور اس کے اباء واستکبار نے اس موقعہ سے استفادہ کرنا چاہا اور مفتی مذکور کو اشارہ کر کے یہ فتویٰ صادر کرا کے گویا اس گھناؤنے انتقام سے اپنا سینہ ٹھنڈا کیا.فتویٰ صادر ہونے پر اس کے اہل وطن نے ہی اسے خوب لتاڑا.اور اس فتویٰ کے باعث اسے ہی کا فر گردانا.عرب ممالک نے ان ایام میں چوہدری صاحب سے نہایت والہانہ محبت اور تشکر و امتنان کا اظہار کیا.السید امین آفندی الحسینی مفتی فلسطین اپنی قربانی کے باعث صف اول کے رہنما ہیں.آپ نے ایک موقعہ پر تار کے ذریعہ چوہدری صاحب محترم کو دلی قدر دانی کا یقین دلایا تھا.تار کا ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے : آپ کے خلاف کمینہ سازش کا علم ہونے پر گہری تشویش ہوئی.میں اس موقعہ پر آپ کی ان بیش بہا خدمات اور مساعی کی دلی قدر دانی کا پھر یقین دلاتا ہوں جو آپ اسلام کے نیک مقاصد کے لئے بجالاتے ہیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں کو کامیاب اور بار آور کرے اور آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے.“ مصر کے ایک بلند پایہ عالم خالد محمد خالد لکھتے ہیں کہ : در شیخ مخلوف....مفتی کو اس منصب سے الگ کر نا حکومت پر فرض ہو چکا ہے.بشرطیکہ حکومت خود اپنا احترام کرنے کا ارادہ رکھتی ہو...مفتی (کو) ہرگز پاکستان سے وزیر موصوف کے معزول کرنے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے تھا...ظفر اللہ خاں ہمارے نزدیک کامل مسلمان ہے...فاضل مفتی
189 نے ایک مسلمان کو کافر قرار دیا ہے تو وہ خود کا فر ہے.ظفر اللہ خاں کو اس فتویٰ سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.آپ ایک عظیم الشان وجود ہیں جو استعمار کا مقابلہ بلاغت اور صدق سے کرتے ہیں ان کی زبان اور دل میں اللہ تعالیٰ نے حق رکھا ہے.اگر ایسا شخص کا فر ہے، تو بلاشبہ بہت سی نیک روحیں آپ کے نمونہ پر کار بند ہوکر کا فر بننا پسند کریں گی.10056 بیروت کے کثیر الاشاعت روزنامہ ”بیروت المساء“ نے مفتی مصر کے فتویٰ کے خلاف انتہائی غیظ و غضب کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ: ہم وزیر خارجہ....السيد محمد ظفراللہ خاں کو اچھی طرح جانتے ہیں.بیروت میں ان سے کئی مرتبہ ملاقات ہوئی.ہم نے فصاحت و بلاغت سے پر ان کا لیکچر بھی سنا.آپ کا لیکچر سن کر ہمارامد ہوش ہونا لازمی تھا.جبکہ اقوام متحدہ کی مجالس آپ کی زور دار تقاریر سن کر ورطۂ حیرت میں پڑ چکی تھیں.ہم نے آپ کو قرآن مجید کے علوم بیان کرتے ہوئے سنا.جس میں آپ نے شاعر کا یہ قول بھی بیان فرمایا ہے وَكُلُّ الْعِلْمِ فِي الْقُرْآنِ لَكِن تَقَاصَرَ عَنْهُ أَنْهَامُ الرِّجَالِ تمام علوم قرآن مجید میں موجود ہیں لیکن عام لوگوں کے فہم سمجھنے سے قاصر ہیں ) پھر ہم نے آپ کو ” پالم پتیش ، ہوٹل میں نماز تہجد پڑھتے اور عبادت کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے.آپ کے پیچھے نماز میں آپ کے ساتھی بھی تھے.پھر ہم نے دیکھا کہ آپ اسلامی حکومتوں کے وزراء اعظم کی ایک کانفرنس منعقد کرنے میں کوشاں ہیں.پھر آپ نے مصر کی امداد اور تائید وحمایت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے.اسی طرح مسئلہ تیونس کے متعلق اسلامی مفادات کے تحفظ میں آپ جس طرح سینہ سپر ہوئے ، وہ بھی ہمیں اچھی طرح یاد ہے.یقیناً ظفر اللہ خاں مفکر دماغ کے حامل ہیں.آپ ترقی پذیر پاکستانی
190 مملکت کے لئے لسانِ ناطق کا درجہ رکھتے ہیں.ہاں مفتی مصر نے جہالت کا ثبوت دیا ہے.اس کا منصب صرف دینی ہے.اس کا کام لوگوں کو کا فرقرار دینا نہیں ہے.جس نے مومن کو کا فرکہا وہ خود کافر ہوا.آہ ! اس نے یہ فتویٰ دے کر.انتہائی غفلت کا ثبوت دیا ہے.مذہبی لوگ خدمت دین کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.سیاسی امور میں دخل دینا ان کا کام نہیں اگر ظفر اللہ خاں مختلف اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقے کی طرف منسوب ہوتے ہیں تو یہ امران کو کافر نہیں بنا تا.وہ ایمان باللهِ وَمَلَئِكَةٍ وَ كُتُبِهِ وَرُسُلِہ کے قائل ہیں.وہ اسلامی ارکان پر پوری طرح عامل ہیں.کیا مفتی کیلئے جائز ہے کہ وہ ان مسلمانوں پر بھی کفر کا فتویٰ لگائے جو دین اسلام پر پیرا ہوں.وو و شیخ مخلوف مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کر رہا ہے اور ایسے وقت میں تفرقہ کی اشاعت کر رہا ہے ، جبکہ انہیں اتحاد کی بے حد ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کافروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے لَكُمُ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِین.مفتی مصر کو کیا ہو گیا کہ وہ احمدی مسلمانوں کو مخاطب کر رہا ہے اور ان پر کفر کا اتہام لگا رہا ہے.جس نے مومن کو کافر کہا ، وہ خود کا فر ہوا.کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اہلِ مصر بالخصوص اور دیگر مسلمان بالعموم قرون وسطی کی جمود انگیز اور غیر ترقی پذیر روش سے خلاصی حاصل کریں.شیخ مخلوف اور ظفر اللہ خاں کے درمیان نمایاں فرق ہے.اول الذکر مسلم مگر غیر عامل ہے.اور اگر شیخ مذکور عمل کرتا بھی ہے تو تفرقہ انگیزی کے لئے.برخلاف اس کے ظفر اللہ خان مُسْلِمٌ عَامِلٌ لِلْخَيْرِ ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی آیات میں ہمیشہ ایمان اور عمل صالح کا اکٹھا ذکر کیا ہے.آہ ! ایمان اور عملِ صالح کے باوجود مسلمانوں کو کافر قرار 6 دینا کتناہی دور از عقل ہے.پیرس میں منعقدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے واپس آتے ہوئے آپ نے ممالک اسلامیہ کا
191 دورہ کیا تھا.جہاں آپ کا شاندار استقبال کیا گیا تھا.اور وہاں کے اخبارات نے بڑی جلی سرخیوں سے آپ کے دورہ کی خبریں شائع کی تھیں.چنانچہ دمشق کے مشہور اخبار الایام“ نے لکھا:.ظفر اللہ خاں کا دارالحکومت شام میں زبر دست خیر مقدم کیا جائے گا.آپ نے ہر سیاسی مجلس اور ہر د ولی محفل میں انسانیت ، انصاف اور حق کی آواز بلند کی ہے.ظفر اللہ خاں وہ شخصیت ہے.جس نے عرب ممالک کے معاملات کی ترجمانی کرنے میں اپنا انتہائی زور صرف کر دیا.اس کا نام عربوں کی تاریخ میں ہمیشہ ہمیش کے لئے آب زر سے لکھا جاتا رہے گا.آپ کی ضمیر ایمان سے بھر پور ہے.آپ کی گفتار حجت و دلیل کی حامل ہوتی ہے.آپ کے پیش نظر تمام انسانیت کی سچی اور بے لوث بھلائی رہتی ہے.ہم آج عزت تاب محمد ظفر اللہ خاں کا خیر مقدم کر رہے ہیں.تو ہم ایمان عقیدہ اور انسانیت رکھنے والے ایک ایسے شخص کا خیر مقدم کر رہے ہیں.جو دنیا کے لئے ایک مثالی اور پاک وصاف تمدن و معاشرت کا خواہاں ہے.جو بھائی چارے کی ایک ایسی فضا کا خواہش مند ہے ،جس میں حیاتِ انسانی کو خوب اچھی طرح پھلنے پھولنے کا موقعہ مل سکے اور کسی انسان کے حقوق پر اس کا کوئی بھائی بند چھا پہ نہ مار سکے ،،.10656 ۲۲ جون کے اخبار الجدیدہ میں مفتی صاحب کی طرف سے ایک نام نہاد فتویٰ شائع ہوا.جس میں اس نے قادیانی فرقے کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے چوہدری ظفر اللہ خاں پر بھی نا مناسب حملے کئے.اس فتویٰ کی اشاعت پر مفتی کے خلاف اس قد رغیظ و غضب کا اظہار کیا گیا کہ اسے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اپنے سابقہ فتوی کی وضاحت کرنی پڑی.اور اس نے یہ کہ کر پیچھا چھڑانا چاہا کہ میرا بیان سیاسی نوعیت کا نہیں تھا.اسی روز عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن عزام پاشا نے بھی مفتی کے رویہ پر شدید نقطہ چینی کی.آپ نے اخبار "الجدیدہ میں (جس میں نام نہاد فتویٰ شائع ہوا تھا) ایک بیان شائع کرایا.اس میں آپ نے فرمایا: مجھے سخت حیرت ہوئی کہ آپ نے قادیانیوں یا چوہدری محمد ظفر اللہ خاں
192 صاحب کے متعلق مفتی کی رائے کو ایک مؤثر مذہبی فتوی خیال کیا ہے.اگر یہ اصول مان لیا جائے کہ عز و وقار اور ان کا سارا مستقبل محض چند علماء کے خیالات و آراء کے رحم و کرم پر آ رہے گا.فتویٰ کسی مخصوص اور غیر مبہم واقعہ کے متعلق ہونا چاہیئے.اور پھر ایسی صورت میں بھی اس کی حقیقت محض ایک رائے سے زیادہ نہیں ہو سکتی.اور نہ ہر شخص کے لئے اس کا تسلیم کرنا واجب اور لازمی قرار دیا جا سکتا ہے.اسلام نے علماء کے ذریعہ کسی کلیسائی نظام کی بنیاد نہیں ڈالی.اور انہیں ایسے اختیارات تفویض نہیں کئے کہ دوسروں کو خارج از اسلام قرار دیتے پھریں.ہر وہ شخص جو کہتا ہے کہ خدا ایک ہے اور محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے رسول ہیں اور وہ کعبہ کو اپنا قبلہ تسلیم کرتا ہے.وہ یقیناً مسلمان ہے اور اس کا اسلام کسی ظاہری تصدیق کا محتاج نہیں.یہ امر مسلمانوں کے مفاد کے سراسر خلاف ہے کہ کسی ایک فرقہ کو بے دین قرار دیا جائے.اسلام کے بڑے بڑے اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ دوسروں کے ایمان میں شبہ سے پر ہیز کرو.ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ظفر اللہ خاں اپنے قول اور اپنے کردار کی رو سے مسلمان ہیں.روئے زمین کے تمام حصوں میں اسلام کی مدافعت کرنے میں آپ کامیاب رہے اور اسلام کی مدافعت میں جو مؤقف بھی اختیار کیا گیا ، اس کی کامیاب حمایت ہمیشہ آپ کا طرہ امتیاز رہا.اسی لئے آپ کی عزت عوام کے دلوں میں گھر کر گئی.اور مسلمانانِ عالم کے قلوب آپ کے لئے احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہو گئے.آپ ان اہل ترین قائدین میں سے ہیں.جنہیں عوامی اور ملی مسائل کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کا ملکہ حاصل ہے.“ قاہرہ کے با اثر اخبار الزمان نے الا ز ہر یونیورسٹی کے ڈائر یکٹر خشابہ پاشا کی طرف سے مفتی مصر شیخ حسنين مخلوف کی شدید مذمت کی اور لکھا کہ : ذمہ وار حلقے اس فتویٰ پر بہت ملامت و نفرین کا اظہار کر رہے ہیں.مسلمانوں اور عربوں کے معاملات میں بالعموم اور مصر کے معاملات میں
193 بالخصوص چوہدری محمد ظفر اللہ خاں نے اسلامی مفادات کے تحفظ کی خاطر ہمیشہ ہی جس دلیری سے کام لیا ہے.اس پر ذمہ وار حلقوں نے احسان مندی کا اظہار کرتے ہوئے اسے خوب سراہا ہے.خشابہ پاشا نے مصر کے معاملات میں چوہدری صاحب کی اس تائید و حمایت کا بھی ذکر کیا ہے.جو موصوف نے اقوام متحدہ کے مختلف اجلاسوں میں ہمیشہ روا رکھی.اور بالخصوص سلامتی کونسل کی نشست حاصل کرنے میں آپ نے مصر کو بے حد تقویت پہنچائی.چنانچہ بیان کے آخر میں فرمایا : دو میں اس عظیم شخصیت کا بے حد ممنونِ احسان ہوں.کیونکہ اس نے میرے ملک کی بے حد خدمت سرانجام دی ہے.اور مجھے انتہائی افسوس ہے کہ ایسا فتوی دیا بھی گیا ہے تو ایسی نمایاں اور بلند ہستی کے خلاف.وفد پارٹی کے مشہور اخبار المصری نے ایک زور دار مقالہ افتتاحیہ سپر قلم کیا.جس کا عنوان تھا: ”اے کا فر خدا تیرے نام کی عزت بلند کرے.“ المصری نے اس بسیط مقالہ کے آخر میں لکھا: 66 ظفر اللہ خاں ہماری مدد کے محتاج نہیں ہیں.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ اب بھی اسلامی مفادات کی حفاظت کی خاطر اسی طرح سینہ سپر رہیں گے.اور مصر کے ساتھ اپنی دوستی کا دم بھرتے رہیں گے.مفتی نے ظفر اللہ خاں کو کافرو بے دین قرار دیا ہے.آؤ ہم سب مل کر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں پر سلام بھیجیں کیونکہ ہمیں ان جیسے اور بڑے بڑے ” کافروں کی ضرورت ہے.(ایضاً) مصر کے مشہور و معروف مصنف ڈاکٹر احمد ز کی بک نے اس بارہ میں لکھا کہ : د در مفتی مصر نے کس حیثیت سے خارجی مسائل و معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے وزیر خارجہ پاکستان کے متعلق کفر کا فتوی صادر کیا ہے.اور اسے حق کیا پہنچتا ہے کہ وہ...اس عہدہ جلیلہ سے برطرف کرنے کا مطالبہ کرے.جبکہ پاکستان ایک علیحدہ آزاد اور خود مختار مملکت ہے.اس نے ہزار ہا میل دور بیٹھ کر یہ مطالبہ سننے اور سنانے کے بغیر کیا ہے اور اس طرح
194 مذہب کے نام پر سب سے بڑی اسلامی حکومت کی پوزیشن کو نازک بنایا ہے.میں پوچھتا ہوں کس شخص نے مفتی کو فتویٰ کا حق دیا ہے.اور کس شخص نے مفتی کو مذہب کے نام پر تمام دنیا کے متعلق رائے ظاہر کرنے کی اجازت دی ہے؟ کیا مصر ہی صرف ایک اسلامی حکومت ہے.اسکے سوا اور کوئی حکومت اسلامی حکومت نہیں ہے؟ اور کیا صرف مفتی مصر ہی دنیا میں ایک مفتی ہے اور اس کے سوا اور کوئی مفتی نہیں ہے؟ اس نے کس عظیم المرتبت شخص کے متعلق یہ فتوی دیا ؟ ہاں اس شخصیت عظیمہ کے متعلق جس نے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لئے وہ کام کیا جو نہ تو مفتی کر سکا ہے اور نہ ہی آئندہ ہر گز کر سکے گا.خواہ وہ اپنی عمر کی مدت تک مزید زندہ رہے.فاضل مصنف نے اس مضمون میں حکومت مصر سے مطالبہ کیا کہ یہ لقب منسوخ کیا جائے اور مجلس افتاء کو توڑ کر علمی امور کی تحقیقات کے لئے ایسے حلقے میں تبدیل کر دیا جائے کہ اس کا فیصلہ نہ تو کسی کو ملزم بنائے اور نہ ہی کسی مسلمان کو کافر ٹھہرائے.اور آئندہ ازھر یو نیورسٹی کے علماء کو علوم جدیدہ کی تحصیل کے لئے دنیا کے ترقی یافتہ علاقوں میں بھجوانے کا انتظام کیا جائے.مشہور مصری رہنما مصطفیٰ مومن نے جو شعوب المسلمین کانفرنس کراچی میں شریک ہوئے تھے.ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کو ایک بیان دیتے ہوئے اہل پاکستان سے اپیل کی کہ وہ تنگ فرقہ پرستانہ اختلافات کو ختم کرتے ہوئے اس طرح متحد ہو جائیں کہ گویا بنیان مرصوص بن جائیں.اور یہ بھی کہا کہ : چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کو تمام دنیائے اسلام میں ایک قابل رشک پوزیشن حاصل ہے.وہ مشرق وسطی میں بالعموم اور مصر اور دیگر عرب ممالک میں بالخصوص چوٹی کے سیاست دان تسلیم کئے جاتے ہیں.انہوں نے اقوام متحدہ میں تیونس ، مراکش، ایران اور مصر کی پر زور حمایت کر کے اسلام کی وہ خدمت سر انجام دی ہے ، جو دوسرے بڑے بڑے اکابرین سے بن نہ پڑی.جو شخص چوہدری صاحب موصوف کو متہم کرتا اور آپ کی ذات
195 والا صفات کو حرف ملامت بناتا ہے ، وہ دراصل سارے دنیائے اسلام پر حملہ آور ہوتا ہے.11066 عراقی وزیر خارجہ مختار احمد پاشا الراوی نے ذیل کے الفاظ میں محترم چوہدری صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا ہے: ہم اہلِ عرب پاکستان کی ان عظیم الشان خدمات کو بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتے جو پاکستان کی طرف سے اس کے وزیر خارجہ عالیجناب ( چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے جمیعۃ الامم متحدہ اور دیگر عالمی اجتماعات میں ایسے شاندار طریق پر سرانجام دی ہیں کہ ان سے عربی قضیہ کی پوری پوری تائید ہوتی ہے.اور ہمارے مطالبات کا برحق ہونا بالکل واضح ہو چکا ہے.اور جس حق کا ہم مطالبہ کر رہے ہیں اسے پوری طاقت حاصل ہو گئی ہے.بغداد کے کثیر الاشاعت ماہوار دینی رسالہ " نشرة جميعة الخدمات الدينية والاجتماعية في العراق نے لکھا: ”بلاشبہ ظفر اللہ خاں نے ہر موقعہ پر دنیائے عرب اور عالم اسلام کے مسائل طے کرانے میں قابلِ قدر خدمات سرانجام دی ہیں.نماز کی پابندی اور تلاوت قرآن کا التزام آپ کی وہ خوبیاں ہیں جو زبان زد خلائق ہیں.آپ نے کسی ایسے عقیدے کا اظہار نہیں کیا ہے جو مذہب اسلام کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہو.اے پاکستانی مسلمانو ! خدا تعالیٰ کا خوف دل میں لاؤ.اور اس کا تقوی اختیار کرو.انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی کا ہفت روزہ ”حکمت“ جو ایک سابق وزیر اعظم کا جاری کردہ ہے.رقمطراز ہے کہ مفتی مصر جیسے فتویٰ دینے والے کی مثال کنوئیں کے مینڈک کی ہے.ایسے فتاویٰ کی ہمیں پرواہ نہیں کرنی چاہیئے.اسلام کی یہ خوش قسمتی ہے کہ مفتی مصر کو بین الاقوامی پوزیشن حاصل نہیں.لیکن حال ہی میں اس کا سر ظفر اللہ کو کافر ٹھہرانا اور یہ کہنا کہ وہ اپنے اس عہدہ کے جس پر وہ فائز ہیں، قابل نہیں.ایسے موقعہ پر اگر ہم خاموشی اختیار کریں اور ایسے زہریلے کلمات کے متعلق اظہارِ خیال نہ کریں جن کی وجہ سے یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ اثر انداز ہوکر اسلامی دنیا کی
196 جد و جہد کے لئے خطرناک ثابت ہوں ، تو یہ ایک گناہ عظیم اور جرم ہوگا.مسلم اتحاد پر زور دیتے ہوئے مزید لکھا کہ موجودہ حالات میں جبکہ دنیائے اسلام ترقی کے ذرائع تلاش کر رہی ہے اور اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے.اور اس کوشش میں خاص طور پر سر ظفر اللہ خاں نہایت ہی اہم حصہ لے رہے ہیں.اور پھر خاص طور پر ایسے وقت میں جبکہ اسلامی ممالک کے وزرائے اعلیٰ کراچی میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شمولیت کے لئے تیار ہور ہے ہیں.ایسے مرحلہ پر مفتی مذکور کا سر موصوف پر کفر کی تہمت لگانا نہایت ہی قابل افسوس سراسر غیر دانشمندانہ اور تنگ نظری پر مبنی امر ہے.گو مفتی کو بین الاقوامی پوزیشن حاصل نہیں لیکن ایک مفتی کا فتویٰ دنیائے اسلام میں ایک حرکت اور کشمکش پیدا کر سکتا ہے اور یہ امر فرزندان اسلام کی تعمیری مساعی کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے.بھلا دوسرے ملک کے امور میں مفتی مذکور کو دخل اندازی کی کیا ضرورت تھی.فاروق ( سابق شاہ مصر جو عبارت سے مفہوم ہوتا ہے ) کے متعلق لکھا کہ ایک شخص جو شراب نوشی کی مجالس میں آمد و رفت کا عادی ہے ، قمار بازی کے اڈوں میں جاتا ہے ، گاہے گا ہے خوبصورتی کے مقابلوں کا حج بنتا ہے.وہاں مفتی مذکور کو بولنا چاہیئے.لیکن وہ گونگا ہے.یہ مسلم لیڈر اسی دائرہ (مصر) کے اندر رہتا ہے.جہاں مفتی مذکور کو قا نو نا اظہار خیالات کا حق بھی پہنچتا ہے.مگر وہاں یہ کوشش جاری ہے کہ ممکن ہو تو ایسے شخص کو دنیائے اسلام کی ممتاز ترین شخصیت تصور کیا جائے.ایک مسلمان بھائی کو کا فرقرار دینا ہی ایک کافی بڑا گناہ ہے.اور پھر اس شخص کا گناہ کس قدر عظیم ہو گا ، جو اپنے اس بھائی کو کافر کہے جو ہرلمحہ سراسر اسلام ہی کی عظمت اور اسی کے وقار کے لئے ہمہ تن کوشاں ہے.ہم بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ مفتی کے فتویٰ میں ضرور کوئی سیاسی مقصد کارفرما ہے اور اس کے پیچھے ضرور کوئی ایسا گروہ مصروف عمل ہے جو مسلمانوں کے احیاء کو پسند نہیں کرتا.ہمیں مزید محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے مخالفین جو ہمیشہ ہمارے تنزل کے لئے کوشاں ہیں ، ہماری ترقی کی مساعی میں کوئی لغزش پیدا نہ کر سکیں.آپ اقوام متحدہ کی کونسل کی صدارت کے لئے امیدوار ہیں.اس بارہ میں ”حقیقت“ لکھنؤ رقمطراز ہے: یہ واقعہ ہے کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں بر صغیر ہندو پاکستان میں گنتی کے چند چوٹی کے مدبروں میں سے ہیں.خصوصا پاکستان کے موجودہ لیڈروں میں تو موصوف اپنی قانونی قابلیت،
197 سیاسی تدبر اور تجربہ اور بین الاقوامی مسائل میں اپنی حیرت انگیز فراست و معاملہ نہی کے اعتبار سے فردِ واحد ہیں.ہمیں یقین ہے کہ ہندوستان اور دوسرے چند دیگر ممالک کی مخالفت کے باوجود بھی اقوام متحدہ کی کونسل بالآخر بھاری اکثریت سے ظفر اللہ خاں ہی کو اپنا صدر منتخب کرے گی.جو ہر اعتبار سے بہ مقابلہ دیگر امیدواروں کے قابل ترجیح ہیں.آپ کی ازدواجی زندگی : ۱۱۴ آپ کی پہلی شادی اپنی پھوپھی صاحبہ کے ہاں محترمہ اقبال بیگم صاحبہ سے ہوئی لیکن وہ جلد وفات پاگئیں.پھر مرحومہ کی ہمشیرہ رشیدہ بیگم صاحبہ سے ہوئی.وہ بھی بقضائے الہی وفات پا کر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں.آپ کی تیسری شادی محترمہ بدر بیگم صاحبه دختر چوہدری شمشاد علی صاحب متوطن صو بہ بہار ( مدفون بہشتی مقبرہ ) سے ہوئی.ان کے بطن سے ایک صاحبزادی محترمہ امتہ الحی صاحبہ ہیں.محترمہ بدر بیگم صاحبہ سے چند سال قبل علیحدگی ہوئی.اور پھر چوہدری صاحب نے فلسطین کی ایک مہاجرہ محترمہ بشری ربانی بیگم صاحبہ سے شادی کر لی لیکن قریب میں آپس میں علیحدگی واقع ہو گئی ہے.آخری شادی کے موقعہ پر ہندو پاک کے بہت سے اخبارات نے مخالفانہ خامہ فرسائی کی.شام کے مفتی نے مذہبی تعصب کے باعث اس شادی کو ہی ناجائز قرار دیا.* بچی کی ولادت کے متعلق آپ تحریر فرماتے ہیں: مئی ۱۹۳۶ء میں والدہ صاحبہ نے رویا دیکھا کہ کوئی خادم ایک طشتری لایا ہے.جس میں آم ہفت روزه ریاست دہلی نے اس بناء پر اس شادی کو نا پسند کیا ، تا کہ آپ کی زندگی خدمتِ خلق کے لئے مصروف رہے.سہ روزہ دعوت دہلی نے جو مودودی خیالات کا ترجمان ہے.نے اس دوہرے عنوان کے ساتھ کہ کسی مسلمان لڑکی کی قادیانی سے شادی نہیں ہو سکتی.قادیانی فرقہ اسلام سے خارج ہے.علماء شام کا فتوی لکھا کہ: دمشق.دمشق کے علماء نے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ سر محمد ظفر اللہ خاں اور فلسطینی لڑکی بشری ربانی کی حالیہ شادی کو اسلام کی روشنی میں ناجائز قرار دے دیا ہے.اخبار برضہ میں دمشق کے ایک ممتاز عالم شیخ محمد خیر قادری کا بیان شائع ہوا ہے.جس میں بتایا گیا ہے کہ اسلام قادیانی فرقہ کو
198 کی قسم کے پانچ عدد پھل اور پانچ روپے رکھے ہیں اور ایک طلائی زیور ہے، جسے پنجابی میں تیلا یا تیلی کہتے ہیں اور جو ناک میں پہنا جاتا ہے.اس خادم نے والد صاحب کا نام لیا کہ وہ یہ پھل لائے ہیں.والدہ صاحبہ نے رویا ہی میں کہا کہ یہ تو وہی پھل ہے جو انہوں نے کہا تھا کہ پکے گا تو میں بقیہ حاشیہ:.جس سے چودھری ظفر الله تعلق رکھتے ہیں ،تسلیم نہیں کرتا.انہوں نے کہا کہ یہ فرقہ ہندوستان میں برطانیہ نے اپنے دور اقتدار میں بنایا تھا.اور اس کا مقصد جہاد کو روکنا اور برطانوی سامراج کو تقویت پہنچانا تھا.شیخ محمد خیر نے اپنے بیان میں مزید کہا.چونکہ از روئے شریعت کسی مسلمان لڑکی کی شادی کسی ایسے شخص سے جائز نہیں قرار پاسکتی جو اسلام کے نظریہ جہاد کا منکر ہو.انہوں نے اپنے بیان میں پاکستانی سفارت خانہ میں اس شادی کی تقریب منانے پر بھی احتجاج کیا ہے.اور یہ بات واضح کر دی ہے کہ شام کے مفتی اعظم یہ فتوی صادر کر چکے ہیں کہ قادیانی فرقہ دائرہ اسلام سے خارج ہے.(۵۶-۶-۹) معزز معاصر ”ریاست“ اس بارہ میں رقمطراز ہے:.وو چودھری سر ظفر اللہ خاں کی شادی کے سلسلہ میں شام کے مفتی کا اس شادی کے ناجائز قرار دینے کے متعلق فتوی دینا اس مفتی کی انتہائی فتنہ پردازی کا ثبوت ہے.کیونکہ یہ فتویٰ صرف اس لئے دیا گیا کہ چوہدری صاحب احمدی ہیں.حالانکہ چوہدری صاحب عرب کے تمام ممالک کو ہمیشہ لیڈ کرتے رہے اور چوہدری صاحب کے مشوروں کے باعث ہی ان ممالک کی سیاسی پوزیشن بلند ہوئی.یعنی چوہدری صاحب نے ان مسلم ممالک کی ہمیشہ ہی خدمت انجام دی جس کی وجہ سے ان کا خود عملی حیثیت سے ایک بلند مسلمان ہونا اور اسلام سے محبت کے انتہائی جذبات رکھنا تھا.(۵۶-۶-۱۱) چونکہ خاتون موصوفہ کی کم عمری اور جہیز کی حد سے زیادتی کو اخبارات نے خاص طور پر اچھالا تھا.اس لئے ”ریاست“ نے ہر دو امور کی تردید کی حق مہر تیرہ ہزار چھ سو روپیہ تحریر کیا.اور جہیز پچپن روپے کی ایک انگوٹھی.(۵۶-۶-۱۸) اور یہ کہ خاتون ایک سرگرم احمدی کی دختر ہیں.اور ڈاکٹری مشورہ پر کہ عدم شادی سے صحت کو نقصان پہنچے گا.آپ نے شادی کی ہے.
199 خود طشتری میں رکھ کر لاؤں گا.چنانچہ صبح ہونے پر والدہ صاحبہ نے میری بیوی کو یہ رویا سنایا اور دریافت کیا کہ کیا اس کے پورا ہونے کے آثار ہیں ؟ اس نے کچھ حجاب کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ اسے خو دا بھی پورا یقین نہیں تھا کہہ دیا.نہیں ابھی تو کوئی آثار نہیں ہیں.والدہ صاحبہ نے کہا کہ تم انکار کرتی ہو.مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بڑی صفائی سے اطلاع دے دی ہے.اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے فضل سے اس بشارت کو پورا کرے گا.چنانچہ ۱۲ جنوری ۱۹۳۷ء کو عزیزہ امتہ المی پیدا ہوئی.اس کے پیدا ہونے سے چھ گھنٹہ قبل والدہ صاحبہ نے میری بیوی سے کہا کہ لڑکی پیدا ہوگی.کیونکہ میں نے ابھی غنودگی کی حالت میں دو دیکھا کہ مکان میں بہت چہل پہل ہے اور لوگ کہتے ہیں.”بی بی آئی ہے بہت خوبصورت“ والدہ صاحبہ کو امتہ الحی کے پیدا ہونے کی بہت ہی خوشی ہوئی.کیونکہ وہ خاکسار کے ہاں اولاد کی بہت آرزو رکھتی تھیں اور اس کے لئے بہت دعا کرتی تھیں.امتہ الحی کی پیدائش کے بعد مجھے فرمایا.بیٹا پچھلے سال تو میں اس رنگ میں بھی دعا کرتی رہی کہ یا اللہ لوگ جب مجھ سے دعا کے لئے کہتے ہیں تو میں شرمندہ ہو جاتی ہوں کہ یہ ایک دعا میں اتنی مدت سے کر ہی رہوں اور ابھی تک تیری رحمت کا دروازہ نہیں کھلا.اب اس نے میری یہ دعا بھی سن لی.میں اس کی کس کس رحمت کا (میری والدہ) 66 شکر ادا کروں.“ خدمات سلسلہ خدمت دین کی توفیق پانا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ممکن ہے.محترم چوہدری صاحب کو تبلیغی ، تربیتی اور مالی خدمات کے علاوہ ذیل کی خدمات کے مواقع حاصل ہوئے یا ہور ہے ہیں : (۱) امارت جماعت لاہور (۲) گورنروں اور وائسرائے کے وفود میں شمولیت (۳) اجلاسات شوری کے منتظم اور بعض سب کمیٹیوں کی ممبری کے طور پر ، (۴) جلسہ سالانہ کے بعض اجلاسات کی صدارت (۵) قانونی خدمات (۶) ممبر مجلس انصار اللہ مرکزیہ (۷) ممبر مجلس افتاء.تبلیغی ،تربیتی و مالی خدمات و بعض دیگر خدمات کو آئندہ صفحات میں منفر دانہ طور پر بیان کیا گیا ہے.ان میں سے بعض خدمات کا کتاب ہذا میں الگ ذکر کر دیا گیا ہے.بقیہ کا مختصر ذکر یہاں کیا جاتا ہے:
200 (۱) امیر جماعت لاہور لاہور کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے مدنظر سید نا حضرت خلیفہ لمسیح الثانی اید واللہ تعالی کے لاہور تشریف لے جانے پر عہدیداروں کا جدید انتخاب کرایا اور محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو امیر اور حکیم محمد حسین صاحب قریشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سیکرٹری مقرر فرمایا.اس وقت چوہدری صاحب کی عمر چھیں ستائیس سال کی تھی.اور بعد ازاں حضور نے آپ کے حسن کارکردگی کی تعریف فرمائی.آپ کو قریباً سولہ سال تک بطور امیر جماعت احمد یہ لاہور خدمات سلسلہ بجالانے کا فخر حاصل ہے.قادیان پنجاب کے صوبہ میں واقع ہے.صوبائی حکومت کا مرکز ہونے کے علاوہ دیگر بہت سی وجوہات سے اس کی اہمیت کہیں زیادہ تھی.دیگر مراکز اضلاع بالعموم پسماندہ تھے.کالجوں سے اور نئے زمانہ کی ترقیات سے بہرہ ور نہ تھے.اس لئے لاہور کی امارت اور اس کی ذمہ داری ایک خاص امتیاز کی حامل تھی.وہاں کی جماعت کا استحکام جماعت احمدیہ کے مرکز بلکہ تمام صوبہ کی جماعتوں پر ایک خاص اثر رکھتا تھا.صوبائی مرکز ہونے کے باعث جماعت ہائے پنجاب کے افراد کو د نیوی امور بقیہ حاشیہ: (۱) صدارت جلسہ سالانہ مثلاً ۱۷/۱۲/۵۶ کے پہلے اجلاس کی.(الفضل ۴/۱/۵۷ ص ۵ و ۷ ۵/۱/۵ص ۶ ک۲) " (ب) ۱۹۵۸ء تا ۱۹۶۰ ء ہر سہ سال آپ مجلس مرکز یہ انصار اللہ کے اراکین خصوصی میں شامل کئے گئے.(الفضل ۹۵/۲/۵۸ ۲/۱/۶۰۱۸/۱/۵۹) (ج) مجلس افتاء کے اعزازی رکن بموجب اعلان حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ( الفضل ۱۴/۶/۶۳) حضور نے ۱۹۲۰ء کے جلسہ سالانہ میں تقریر میں فرمایا کہ عہد خلفاء کرام کی طرح تجربہ کے طور پر دو جماعتوں میں امراء کا تقرر کیا گیا اور فرمایا : ” دوسرے لاہور کی جماعت کے امیر چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب مقرر ہوئے.ان جماعتوں کی حالت اب بہت اچھی ہے اور میں مشورہ دیتا ہوں حکم نہیں کہ سب جماعتیں ایسا ہی کریں اور ایک شخص کو تجویز کر کے ہمیں اطلاع دیں.“ حضور کی نظر میں آپ بطور امیر جماعت لاہور بہت کامیاب تھے، اور حضور کے اس بارہ میں اظہارات دوسرے مقامات پر درج کئے گئے ہیں.
201 کے لئے اسی مرکز سے استمداد کی ضرورت ہوتی تھی اور مرکز احمدیت ( قادیان ) کی مرکز صوبہ میں نمائندگی بھی مضبوط ہونی چاہئے تھی.خصوصاً ۱۹۱۹ء کے مارشل لاء کے ہولناک ایام میں جبکہ یہ بھی خطرہ تھا کہ مبادا جماعت کے احباب کو مخالفین نقصان پہنچانے کی کوشش کریں.نیز ہندوستان میں جماعت کی مخالفت کا گڑھ پنجاب ہی تھا.مزید برآں پانچ سال قبل خلافت سے منقطع ہونے والے حصہ نے بھی یہیں ڈیرہ ڈالا ہوا تھا.اس لئے بھی اس مبائع جماعت لاہور کا استحکام از بس ضروری تھا.آپ نے اپنے عرصہ امارت میں سید نا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی لاہور میں آمد سے خوب استفادہ کیا اور تبلیغ اور حضور کی علمی قابلیت کا لوہا دوست طبقہ سے منوالیا.اور چوہدری صاحب کی قابلیت و مقبولیت کے باعث اخبارات میں بھی ذکر آنے لگا.مرکز میں یہ تاثر تھا اور بجا طور پر تھا کہ آپ ان چند ا حباب میں سے ہیں جو اپنے طور پر تبلیغ میں زیادہ حصہ لیتے ہیں.آپ ہی کی تبلیغ سے علامہ اقبال کے برادر اکبر شیخ عطاء محمد صاحب نے بیعت خلافت کی * ( الفضل ۱۰/۴/۳۴ص۲) تفصیل مذکورہ بالا سے یہ امر ظاہر وباہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو مثالی رنگ میں امارت لاہور میں قیادت وخدمت کا موقعہ ملا.جب ۱۹۳۵ء میں آپ کا تقرر بطور ممبر کونسل نظر ثانی کے وقت خاکسار کو ذیل کا حوالہ دستیاب ہوا.حضور نے ۱۶/۲/۱۹ کو لاہور میں خطبہ جمعہ میں فرمایا : لاہور کی جماعت کو خاص طور پر متوجہ ہونا چاہیئے.کیونکہ قادیان کے بعد اگر ہماری جماعت کا کوئی مرکز ہو سکتا ہے تو وہ لا ہورہی ہے.جہاں ہر طرف سے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں.اس لئے قادیان کے بعد اگر تبلیغ میں کوئی جگہ ممد و معاون ہو سکتی ہے تو وہ یہی جگہ ہے.کیونکہ ہر طرف کے لوگ یہاں جمع 66 ہوتے ہیں.اور پھر یہاں سے تمام ملک میں پھیل جاتے ہیں.“ مسجد برلن کی تعمیر کے لئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے صرف خواتین جماعت کو مالی قربانی کے لئے مخاطب کیا تھا.بعض خواتیں کی خاص قربانی کا ذکر کرتے ہوئے حضور رقم فرماتے ہیں: ”ہمارے عزیز اور مخلص بھائی امیر جماعت لاہور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو چاہیئے کہ جماعت کے ہر حصہ کی عملی اور روحانی ترقی کی طرف توجہ
202 وائسرائے عمل میں آیا تو جماعتہائے احمد یہ لاہور شہر و مضافات کی طرف سے آپ کو دعوت طعام دی گئی.اس موقعہ پر محترم قاضی محمد اسلم صاحب ( پروفیسر گونمنٹ کالج لاہور ) نے ایڈریس پڑھا.اس میں ذکر کیا کہ چوہدری صاحب کی سادگی پسند طبیعت ہمیشہ ایسی تقریبات سے نفور رہی ہے.تا ہم آپ نے ہماری استدعا کو شرف قبولیت بخشا.ہماری یہ تقریب ایک جدا گانہ حیثیت رکھتی ہے.آپ بقیہ حاشیہ: - رکھیں اور ہمیشہ ان روحانی صورتوں کو اپنا اسوہ بنا ئیں جو اسلام کی زندگی کے 11066 لئے بمنزلہ ستون کام دیتی رہی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.سہ ماہی اوّل ۱۹۱۹ ء میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لاہور میں دو پبلک تقریریں کیں.ایک بریڈ لا ہال میں چوہدری صاحب کی صدارت میں اسلام اور بین الاقوامی تعلقات کے موضوع پر کئی ہزار کے مجمع نے تین گھنٹے تک توجہ سے سنی.اس کی کارروائی متعدد اخبارات میں شائع ہوئی.جلسہ کے دعوتی کارڈ چوہدری صاحب اور میاں محمد شریف صاحب پلیڈر لا ہور (حال پنشنزای.اے سی مقیم ربوہ ) کی طرف سے جاری کئے گئے تھے.دوسری تقریر ۲۶/۲/۱۹ کو زیر انتظام مارٹن ہسٹا ریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج زیر صدارت سید عبدالقادر صاحب پروفیسر تاریخ اسلامیہ کالج اسلام میں اختلافات کا آغاز“ کے موضوع پر ہوئی.سید صاحب نے تقریر کے لئے بار بار استدعا کی تھی.سید صاحب نے احمدیت اور حضرت امام جماعت کا تعارف کرایا اور تقریر کے بعد کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ اسلامی تاریخ کا بہت سا حصہ مجھے بھی معلوم ہے لیکن جناب مرزا صاحب کی تقریر سن کر میں بلا لومتہ لائم یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ میں ابھی طفل مکتب ہوں.اور آپ کی معلومات کے سامنے میراعلم ایسا ہی ہے جیسے بجلی کے قمقمہ کے مقابل معمولی قدیمی طرز کا چراغ.میرے نزدیک لاہور میں کوئی ایسا شخص نہیں جو ایسے دقیق ترین باب کو بیان کر سکے.اس سوسائٹی کا مقصد قیام یہ ہے کہ مسلمانوں کو بتایا جائے کہ پہلے ان کی حالت کیا تھی اور اب کیا ہے.اور اگر جناب مرزا صاحب ہمیں اجازت دیدیں کہ آپ کا نام سوسائٹی میں درج کر لیا جائے تو سوسائٹی کو چار چاند لگ جائیں.اور اگر کبھی کبھی اپنا قیمتی وقت بھی دے سکیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو جائیں.آپ نے اپنا نام درج کرنے کی اجازت دے دی.ایک دوست نے تحریک کی کہ یہ ایک خاص تقریر ہے.اس کے طبع کرانے کے لئے ابھی چندہ
203 کی تو قیر باعث مسرت اور آپ کے احسانات کا احساس دل کی گہرائیوں تک ساری ہے.آپ کے محاسن کا کسی قدر مجمل ذکر افراد جماعت کے لئے نیک محرک ہوگا.اور اجتماعی ذکر و دعا کی برکات سے ہم مستفیض ہوسکیں گے.قاضی صاحب نے بیان کیا کہ آپ کی خدمات کا شمار محال ہے.طالبعلمی سے اس بقیہ حاشیہ: جمع کر لیا جائے.چنانچہ پونے تین صد روپیہ وعدوں اور نقدی کی صورت میں ہو گیا.صاحب صدر نے کہا کہ تھیلی پر سرسوں جمانا اس کو کہتے ہیں.جناب مرزا صاحب کے سوسائٹی کا ممبر بننے سے دینی فوائد کے علاہ دنیوی فوائد بھی حاصل ہوں گے.دوسری تقریر کا بقیہ حصہ حضور نے سید صاحب کی صدارت میں ۱۷٫۲/۲۰ کو بیان فرمایا.وزیر اعظم برطانیہ کے اس ادعا کی تغلیط و ابطال میں کہ مستقبل میں امن عالم عیسائیت سے وابستہ ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر تین گھنٹے مسلسل بریڈ لا حال میں زیر صدارت حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب ہوئی.جس میں حضور نے بتایا کہ امن عالم اسلام سے وابستہ ہے.چوہدری صاحب (امیر جماعت ) کی طرف سے اردو اور انگریزی کے اشتہارات کے ذریعہ اس جلسہ کی تشہیر کی گئی تھی حاضرین کی تعداد قریباً ساڑھے تین ہزار تھی.( الفضل ۱۹/۲/۲۰ نیز ریویو آف ریلیچنز (اردو) بابت مارچ ۱۹۲۰ء ) اس کے لئے بطور امیر جماعت دواشتہار شائع کرنے کا ذکر اور تفصیل الحکم ۲۸ /۲۱ فروری ۱۹۲۰ء ص ۹۰۷) ۱۵ فروری کو احمد یہ ہوسٹل میں چوہدری صاحب کی ترجمانی میں حضور سے مسٹر چرڈ پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کی مذہبی گفتگو ہوئی.(الفضل ۲۳/۲/۲۰ ور یو یو پر چہ مذکور ) حضور کی ایک تقریر احمد یہ ہوٹل میں مذہب اور اس کی ضرورت پر ہوئی.نیز ایک تقریر ایک دعوت شادی پر اور ایک جماعت احمدیہ کے سامنے ہوئی.مسٹر رچرڈ پرنسپل اسلامیہ کالج نے بھی ملاقات کی اور احمدی طلباء کی تعریف کی.( ریویو.پرچہ مذکور ) ۱۰ ر ا پریل ۱۹۲۰ء کو سیالکوٹ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر زیر صدارت حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب ہوئی.(الفضل ۱۵/۴/۲۰ ص ۲ ک (۲) مکرم مرزا محمد عبداللہ صاحب ( دفعدار ) درویش بیان کرتے ہیں کہ قادیان سے روانہ ہونے سے ایک دن قبل حضور نے دریافت کیا کہ کوئی شخص سیا لکوٹ جانے والا ہے.میں نے عرض کیا کہ میرا جانے کا ارادہ ہے.تو حضور نے
204 سرفرازی تک آپ کا جذبہ ایثار ، ہم سے بے لوث ہمدردی ،سلسلہ کے کاموں میں آپ کا گہرا اخلاص ، آپ کی شاندار قانونی ، سیاسی ، علمی اور ادبی خدمات تاریخ احمدیت میں یقیناً ایک طویل باب کی مقتضی ہیں.بے حد مصروفیات کے باوجود آپ انتہائی جوش تبلیغ رکھتے ہیں.آپ کی بدولت کئی بقیہ حاشیہ : ایک چٹھی مکرم مستری اللہ بخش صاحب مرحوم کے نام دی.اس میں امرتسر کے جلسہ کے متعلق اطلاع تھی.چنانچہ میں نے ان کو پہنچا دی اور حضور کی خدمت میں سیالکوٹ میں اپنی اطلاع بھیجی.حضور نے ملاقات کا موقعہ دیا اور تفصیلاً دریافت کر کے اطمینان کر لیا کہ میں نے چٹھی مستری صاحب موصوف کو پہنچا دی ہے.مستری صاحب موصوف (بعدہ مالک اللہ بخش سٹیم پریس قادیان) نے بطور سیکرٹری تبلیغ جماعت امرتسر حضور کی خدمت میں عرض کی تھی کہ امرتسر میں بھی تقریر فرما ئیں اور حضور نے منظور فرمایا تھا.(الحکم ۷/۲/۲۰ ص ۲ ک۳) مرزا صاحب ذکر کرتے ہیں کہ سیالکوٹ میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی طرف سے انتظام معلوم ہوتا تھا.چنانچہ کھانے کے موقعہ پر انتظام میں میں نے بھی ہاتھ بٹایا اور بدانتظامی کو روکا جس سے وہ خوش ہوئے.۱۴ را پریل کو حضور کی تقریر ہوئی تھی.اس بارہ میں مستری صاحب موصوف نے الفضل میں اعلان کرا دیا تھا.(۱۲/۴/۲۰ص از یر اخبار احمد یہ ) جلسہ کے صدر چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب تھے.حضرت حافظ روشن علی خاں صاحب کی تلاوت کے بعد چوہدری صاحب کچھ بیان کر رہے تھے کہ ایک مخالف نے کہا کہ احمدیت کے متعلق نہ سنیں گے.آپ نے کہا کہ جو نہ سننا چاہیں وہ باہر چلے جائیں.تقریر ” کیا دنیا کے امن و امان کی بنیاد عیسائیت پر رکھی جاسکتی ہے یا اسلام پر تھی.اور وزیر اعظم انگلستان مسٹر لائڈ جارج کا اعلان مد نظر تھا جو انہوں نے سال نو کے آغاز پر باشندگانِ مملکت کے نام شائع کیا تھا کہ دنیا کا امن عیسائیت سے وابستہ ہے.حضور کو اس شوریدہ سر نے تقریر میں ٹو کا اور مع رفقاء گالیاں شروع کر دیں.اور اشتعال انگیز طریق اختیار کیا.حضور کو خاموش ہونا پڑا.پھر حافظ صاحب کی تلاوت پر کچھ خاموشی ہوئی.لیکن تقریر پر پھر شور بر پا ہوا.پولیس ایسے لوگوں کو نکالنے پر مجبور ہوئی اور وہ گالیاں دیتے نکلے.تقریر مکمل ہونے پر شرافت سے جلسہ سننے والوں کا صاحب صدر نے شکریہ ادا کیا.جب حضور جلسہ گاہ سے نکلے تو ایک اینٹ زور سے ماری گئی جس سے ایک ساتھی زخمی ہوا اور سخت گندی گالیاں کی گئیں.پھر قیام گاہ میں مخالفین دیوار پھاند کر گھس آئے.حضور کے وہاں سے جانے کے بعد جبکہ کچھ احمدی ابھی اس مکان میں ہی تھے ، خشت باری کر کے گیس کا ہانڈا اور شیشے توڑ دئے گئے.لوگوں نے مولوی ثناء اللہ امرتسری
205 معززین راہ ہدایت پاچکے ہیں.اور کئی ایک کو سلسلہ سے شدید انس پیدا ہوا.اور کئی آپ کے ذریعہ نور احمدیت سے منور ہوئے اور دوسروں کے لئے شمع ہدایت بن رہے ہیں.آپ کی شاندار دینی بقیہ حاشیہ: - کو مبارک باد دی کہ ان کے شاگرد نے خوب کام کیا.انا للہ.ہندو روزنامہ پر تاپ لاہور نے بھی اپنی ۱۲۱ اپریل کی اشاعت میں اس شوریدہ سری کو بہت ۱۱۸ 119 112 نا پسندیدہ قرار دیا.۱۲/۱۰/۲۳ کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ لاہور تشریف لے گئے.وہاں پلیٹ فارم پر ایک ترتیب و انتظام کے تحت احباب نے مصافحہ کیا.بعدہ حضور چوہدری صاحب کی موٹر میں ان کی کوٹھی پر تشریف لے گئے.۱۴ نومبر کو ”پیغام صلح اور موجودہ مشکلات کے حل پر ہندو مسلم مسلح کے تعلق میں حضور نے تقریر فرمائی.صدارت کے لئے چوہدری صاحب نے شیخ عبدالقادر صاحب بیرسٹر کا نام تجویز کیا تھا.صاحب صدر نے ابتدا میں بتایا کہ امام جماعت نے اپنی زندگی مذہبی معاملات پر غور و فکر کے لئے وقف کر رکھی ہے اور حضور کی تقریر کے بعد کہا کہ آپ نے جامع اور پُر مغز تقریر کی ہے اور سیاسیات پر ایسی وسعت سے روشنی ڈالی ہے کہ زبان اور دل سے تحسین نکلتی ہے.آپ نے ایسی عمدگی سے اتفاق اور اتحاد کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے جس کی سیاسی رہنماؤں سے توقع نہیں ہوسکتی.نیز صاحب صدر نے حضور کی آئندہ روز کی تقریر کا اعلان کیا.اگلے روز اسلامیہ کالج کے حبیبیہ ہال میں میاں فضل حسین و زیر تعلیم حکومت پنجاب کی صدارت میں حضور نے ”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخالفین“ کے مضمون پر تقریر فرمائی.صاحب صدر نے ابتداء میں کہا کہ حضرت مرزا صاحب ( مسیح موعود ) مرحوم جن سے مجھے ذاتی شرف نیاز حاصل تھا، بڑا اعلیٰ رتبہ رکھتے تھے.آپ نے اور آپ کے رفقاء نے اسلام کی بڑی بھاری خدمت کی اور چالیس پچاس سال قبل عیسائیت اور آریہ سماج کی طرف سے جو حملے اسلام پر ہوتے تھے ، ان کی تردید کی اور ہمیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیئے.اس کام کو موجودہ امام جماعت احمدیہ نے جاری رکھا ہوا ہے.چنانچہ فتنہ ارتداد ملکانہ میں آپ نے اور آپ کے رفقاء نے اسلام کی بڑی خدمت کی.۱۶ نومبر کی رات کو طلباء کالج نے حضور اور حضور کے رفقاء کی دعوت چوہدری صاحب کی کوٹھی پر کی.جماعت لاہور نے مہمانوں کی خاطر تواضع اور انتظام نہایت تن دہی سے کیا.چوہدری صاحب ١٢٠ کے ہاں جو مہمان فروکش تھے.آپ کی طرف سے نہایت اخلاص و محبت سے ان کی تواضع کی گئی.۱۲۱
206 خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں.آپ کے احسانات کے بارگراں سے سوائے لفظی اعتراف کے جماعت لاہور عہدہ برآ نہیں ہوسکتی.آپ کا وجود لا تعداد برکات کا موجب رہا.آپ جماعت لاہور کے پہلے امیر ہیں.آپ ہی کے عہد میں اس کی تنظیم ہوئی.جس کے شاندار نتائج نکلتے دیکھ رہے ہیں.آپ ہی کے عہد میں ہماری اپنی مسجد تعمیر ہوئی.لائبریری معرضِ وجود میں آئی.آپ نے کارکنوں میں ضبط ، اطاعت اور اتحاد عمل کی روح پھونکی.جماعت روح پرور خطبات سے مستفید ہوتی رہی.آپ کا چندہ باقی ساری جماعت لاہور کے برابر بلکہ اکثر اوقات بڑھ کر رہا ہے.آپ کے محاسن کو حیطہ الفاظ میں لانا مشکل ہے.آپ کی زندگی میں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی پاکیزہ اصل کی اعلیٰ مثال ملتی ہے.آپ کی خدمات اور قربانیوں میں مومنانہ بشاشت پائی جاتی ہے.غرباء کی دلجوئی اور مستحق طلباء کی امداد کی مثالوں کا ذکر کرنا محال ہے.اس لئے کہ ان کا ظہور آپ سے اکثر خاموشی میں اور بغیر کسی تذکرہ کے ہوتا رہتا تھا.قاضی صاحب نے مزید بیان کیا کہ آپ کی خدا دا د سادگی خاص طور پر قابل ذکر ہے.جس کا اعتراف آپ سے شدید مذہبی عناد اور سیاسی اختلاف رکھنے والوں نے بھی کیا.استغناء سادگی اور کمال بے نفسی کے علاوہ آپ کے فراتی محاسن میں وہ عقیدت بھی شامل ہے ، جو خلافتِ حقہ اور نظام سلسلہ سے آپ کو ہے، حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی شفقت اور توجہ کے لئے جاذب آپ کا اخلاص اور روحانی استعداد ہے.آپ کی زندگی کا بہت بڑا امتیاز یہ ہے کہ آپ نے منازل ترقی کو جلد جلد طے کیا ہے.آپ نے نسبتا کم عمر میں ترقی کی اتنی بڑی معراج حاصل کی ہے.ان کا خیال کر کے آئندہ ترقیات کا تصور کر کے ہمارے دل بہت مسرور ہوتے ہیں.اعلیٰ سیاسیات میں آپ جیسی بے لاگ اور قابل ہستی کا داخل ہونا یقیناً سیاست کی آلودگیوں کو پاک کرنے کا باعث بنے گا.آپ کی قابلیت اور سیرت کا بہت بڑا حصہ آپ کے والدین سے ورثہ میں ملا ہے.جو ممتاز صحابہ میں سے ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہیں کہ وہ اپنے مقربین والے انعامات آپ کو عطا کرے.اپنے فضلوں سے مالا مال کرے، لمبی عمر عطا کرے، اور آپ کے اخلاص ، قابلیت اور جذبہ قربانی میں برکت ڈالے اور آپ کے وجود کو سلسلہ احمدیت اور اسلام کے لئے خصوصاً اور بنی نوع انسان کے لئے عموماً زیادہ سے زیادہ مفید و با برکت بنائے.آپ نے اس موقعہ پر جماعت کو کچھ نصائح فرما ئیں.
207 چوہدری صاحب محترم نے قاضی صاحب اور جماعت کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کسی دنیوی مجلس میں ایسی خوشی نہ ہوتی.کیونکہ ان میں بعض دفعہ محض تکلف سے باتیں کی جاتی ہیں.محبت جتنی آپ نے ظاہر کی ہے مجھے یقین ہے کہ دلوں میں اس سے زیادہ ہے.مجھے بھی آپ سب سے ویسی ہی محبت ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے بڑھ کر ہے.مبادا آپ یہ کہیں کہ میں نے آپ سے نا انصافی کی ہے.میری جو تعریف کی گئی ہے.میں اس کا اہل نہیں.بلکہ وہ میرے لئے ندامت کا موجب ہے.میرے عہدہ کی مجھ سے زیادہ خوشی آپ لوگوں کو ہے.آپ نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک مجلس میں جس کے صدر ایک امریکن پادری تھے ، استفسار پر میں نے بتایا کہ احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں کی مثال ایک جاگتے اور ایک سوئے ہوئے کی سی ہے.دوسرے مسلمان تو صحابہ اور اسلاف کی قربانیاں بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ( لیکن خود ان کے اسوہ پر اپنا زندہ عمل پیش نہیں کرتے ) لیکن ہم زندہ اسلام پیش کرتے ہیں اور ہم بھی ان جیسی قربانیاں پیش کرنے کو تیار ہیں.اور مشکلات سے نہیں گھبراتے.اللہ تعالیٰ قدم قدم پر ہمیں ترقی دیتا جائے گا.ایک صاحب نے کہا کہ جماعت آج کل سخت مشکلات میں ہے.اگر ثابت قدم نکلی تو یہ دعویٰ صادق ہوگا.میں نے کہا کہ باوجود مشکلات کے جماعت میں کوئی پریشانی نہیں بلکہ میں افراد میں ایک تازگی اور فرحت محسوس کرتا ہوں.البتہ ہر فرد کو ان انعامات کا مورد بننا چاہیئے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ درست فرمایا ہے کہ ان مشکلات میں سے گذرنے کو قربانی کہتے ہوئے شرم آنی چاہیئے.ابھی تو ہم سے بہت تھوڑی قربانی طلب کی گئی ہے.ان دنوں جو لذت إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے آپ سب محسوس کرتے ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے دوسرے سارے سہارے توڑ دئے ہیں.احباب میرے لئے دعا کرتے رہیں.فاصلہ کا بعد رشتہ اخوت کو ڈھیلا نہیں کر سکتا.(الفضل ۶/۵/۳۵ ( ص ۳ تا ۵ ) اس کا ایک حصہ کسی دوسری جگہ درج کیا گیا ہے.(۲) مالی خدمات: آپ کی بعض مالی خدمات کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :
208 (۱) چالیس ہزار روپیہ کی تحریک چندہ خاص میں آپ نے نصف ہزار روپیہ کی پیشکش کی.الفضل ۴/۲۴ را ضمیمه ص ۳ ک۱) (۲) امیر جماعت احمدیہ لاہور اور تحریک چندہ ایک لاکھ کے زیر عنوان الفضل میں سیکرٹری مال لا ہور کی طرف سے مرقوم ہے : وو چندہ کی اس خاص تحریک میں جماعت نے جو ایثار اور قربانی کا نمونہ دکھایا ہے.اس پر جتنا فخر کیا جائے تھوڑا ہے اور جس قدر بھی اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے.غرباء اور متوسط الحال لوگوں نے جو نمونہ دکھایا ہے وہ ناظرین الفضل سے پوشیدہ نہیں.لیکن جونمونہ طبقہ امراء نے دکھایا ہے ،اس کی مثال بھی اور کہیں نہیں ملتی.اس لئے ہم فخریہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے امام کی طرف سے جو آواز بھی اٹھتی ہے.اس کی طرف امیر وغریب مردوزن سب لبیک کہنے کو تیار ہو جاتے ہیں.میں نے کسی گذشتہ پرچہ میں جماعت احمد یہ لا ہور کی عام حالت کا نقشہ کھینچا تھا.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو لوگ طبقہ امراء میں شمار ہوتے ہیں.وہ بھی حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی تحریک پر کس فراخ حوصلگی سے حصہ لیتے ہیں.جناب چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب.....امیر جماعت احمد یہ لا ہور جو خدا کے فضل سے نہ صرف تقویٰ میں خاص درجہ رکھتے ہیں ، بلکہ مالی قربانی میں بھی ان کا قدم ہمیشہ آگے ہی رہتا ہے.وقت کی قربانی میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہتے.غرضیکہ ان کا وجود قابلِ رشک ہے.اس تحریک ایک لاکھ میں خدا کے فضل سے ۲۲۵۰ ( سوا دو ہزار ) روپیہ نقد انہوں نے دیا.علاوہ از میں ایک ہزار روپیہ مسجد احمد یہ لاہور کے لئے دیا.اور آٹھ سو سے زائد روپیہ چندہ عام میں دیا.غرضیکہ ان چند ماہ میں چار ہزار روپیہ سے زیادہ چندہ وہ ادا کر چکے ہیں.کیا یہ باتیں سلسلہ کی سچائی کا ثبوت نہیں.اور کیا اس سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی قوت قدسیہ کا پتہ نہیں چلتا.“ (الفضل ۱۹۲۵-۵-۲۶ صفحه ) ارتداد ملکانہ کے جہاد کے لئے اڑھائی صدر و پیہ.۱۲۲
209 چوہدری حسن دین صاحب باجوہ (صحابی ) درویش بتاتے ہیں کہ میں نے بھی اس جہاد کے لئے تین ماہ اپنے خرچ پر وقف کئے.جب جانے کے لئے مرکز سے حکم پہنچا تو میں نے آپ کی خدمت میں پیش کیا.میں آپ کے پاس ملازم تھا.فرمایا کہ آپ کے تو صرف بارہ روپے میرے ذمہ ہیں.میں نے عرض کیا کہ آپ کو بھی ثواب پہنچے گا تو جانے کی اجازت دے دی اور چھتیس روپے دئے اور فرمایا کہ جب بھی ضرورت ہو خرچ منگوا لیا کرنا.چنانچہ میں تین ماہ وہاں رہا.اور آپ مجھے اخراجات بھجواتے رہے.(۳) تعمیر بیت الظفر قادیان ور بوه: آپ نے دارالا نوار قادیان اور بعد تقسیم ملک عارضی مرکز نور بوہ میں دو عظیم الشان کوٹھیاں تعمیر کرائیں جو بیت الظفر کے نام سے موسوم ہیں.اور سلسلہ احمدیہ کے لئے وقف کر دیں.تقسیم ملک سے قبل اعلیٰ طبقہ کے مہمانوں کے قیام کا وہیں انتظام کیا جاتا تھا.چنانچہ سر ڈگلس بینگ (چیف جسٹس ہائی کورٹ ( متحدہ ) پنجاب).مسلم لیگ کی یار جنگ تعلیمی کمیٹی اور فیڈرل کورٹ آف انڈیا کے دو چیف جسٹس یعنی سر مارس گائر اور سر پیٹرک سپنس مع لیڈی سپنس نے بیت الظفر میں ہی قیام کیا تھا.یہ ۱۴/۴/۳۹ کو قادیان آئے.ملک غلام محمد مرحوم (جو بعد میں گورنر جنرل پاکستان ہوئے ) اس میں فروکش ہوئے تھے.وہ ان دنوں محکمہ سپلائی میں چوہدری صاحب کے ماتحت کام کرتے تھے.بیت الظفر ربوہ سے بھی اسی رنگ میں استفادہ کیا جاتا ہے.بیت الظفر قادیان کی بنیاد حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک ہاتھوں سے رکھی گئی تھی.* (۴) خلافت جو بلی فنڈ : ۱۹۳۹ء میں جماعت احمدیہ کے قیام پر، اور امام جماعت سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی اید والله بیت الظفر قادیان حضور کی کوٹھی دارالحمد محلہ دار الانوار کے بالکل متصل جانب غرب واقع ہے.حضور ۱۲ را پریل ۱۹۳۵ء کو قریباً دس بجے صبح قصر خلافت سے پیدل دار الحمد تشریف لے گئے.باہر آئے تو چوہدری صاحب استقبال کے لئے موجود تھے ، جو اسی روز لا ہور سے آئے تھے.حضور نے
210 تعالیٰ کی ولادت پر نصف صدی اور آپ کی خلافت پر چوتھائی صدی ہوتی تھی.گویا یہ مبارک سال سہ گونہ مسرتوں کا حامل تھا.جناب چوہدری صاحب نے جماعت میں یہ تحریک کی کہ اس جو بلی کے موقعہ پر حضورا نور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت مبارک میں تین لاکھ روپیہ پیش کیا جائے.چنانچہ احباب بقیہ حاشیہ: - اپنے دست مبارک سے کوٹھی کے مشرقی بیڈ روم، غربی ڈرائینگ روم ، اور ڈائننگ روم کی بنیاد میں دعا فرماتے ہوئے تین تین اینٹیں رکھیں.آخری مقام پر حضور نے پرانے سائز کی تین اینٹیں رکھیں جو مسجد مبارک کی ایک طاقی کی جگہ جہاں حضرت مسیح موعود رونق افروز ہوتے تھے.دروازہ لگانے پر نکلنے والی اینٹوں میں سے تھیں اور جو بطور تبرک حاصل کی گئی تھیں.اس کے بعد مشرقی جانب کھڑے ہو کر ہزار ہا احباب کی معیت میں حضور نے لمبی دعا فرمائی اور حضور تشریف لے گئے اور مجمع میں شرینی تقسیم کی گئی.چوہدری صاحب اس وقت حکومت ہند کے وزیر مواصلات مقرر ہو چکے تھے.اور احرار پارٹی نے یہ روز آپ کی تقرری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے مقرر کر رکھا تھا.تعمیر کا کام حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی کے سپرد تھا.جنہوں نے سلسلہ کی بہت سی تاریخی عمارات کی تعمیر کروائی تھی.( الحکم والفضل ۱۴/۴/۳۵) خاکسار کو علم ہے کہ اس کا سارا اہتمام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے کیا تھا اور نہایت توجہ سے آپ اس کی نگرانی فرماتے تھے.دو پہر کو تعلیم الاسلام ہائی سکول ( بعدہ کالج) کے ہال میں لوکل کمیٹی کی طرف سے آپ کے اعزاز میں دعوتِ طعام کا اہتمام کیا گیا.جو تحریک جدید کے مطابق صرف ایک کھانے پر مشتمل تھی.سیدنا حضرت خلیفۃ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے بھی شرکت فرمائی.سپاس نامے کے جواب میں آپ نے بیان کیا کہ یہ امر درست نہیں کہ قادیان میں مکان کی بنیا درکھا جانے پر ہی میں قادیان کا باشندہ بنا ہوں.میں تو کم از کم پندرہ سال سے اپنے تئیں یہاں کا باشندہ سمجھتا ہوں.جبکہ ۱۹۲۰ء میں میں نے مکان کے لئے قطعہ کر میں خرید کیا.بلکہ والد صاحب تو اس سے بھی دو تین سال قبل قادیان میں رہائش اختیار کر چکے تھے.مذبح کے جھگڑے کے تعلق میں کمشنر نے بمقام پنجگرائیں میں یہ کہا تھا کہ وہ صرف قادیان کے باشندوں کی بات سنیں گے.اور میں اسی حیثیت سے ان کے سامنے پیش ہوا تھا اور انہوں نے اس امر کو قبول کیا تھا.میرے بھائی
211 نے اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اپنی محبت اور اخلاص کا مظاہرہ کیا.اور جلسہ سالانہ کے موقعہ پر یہ ہد یہ نا چیز نے پیش کیا.جو حضور نے از راہ کرم قبول فرمایا.اور جماعت کی ترقی و بہبود کے لئے صرف بقیہ حاشیہ: چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کی بیرسٹری کی سند پر بھی سکونت کے طور پر قادیان ہی کا نام درج ہے.گویا ہمارا سارا خاندان ہی اپنے آپ کو قادیان کا باشندہ سمجھتا ہے.ڈائریکٹر جنرل ڈاکخانہ جات سر جی.بیوور اور سر فریڈرک جیمز ایم.اے.ایل.اے مع لیڈی جیمز و غیره ۲۳/۲/۴۱ کو قادیان آئے.اور محترم چوہدری صاحب اور معززین جماعت نے ریلوے اسٹیشن پر استقبال کیا.اور میک ورکس ، مدارس اور ادارے دکھائے اور اگلے روز چوہدری صاحب اور سر فریڈرک جیمز مع لیڈی جیمز مراجعت فرما ہوئے.بیت الظفر میں چوہدری صاحب کی طرف سے دعوت طعام دی گئی.جس میں سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی شرکت فرمائی.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں انگریزی میں چوہدری صاحب نے معزز مہمانوں کو مخاطب کر کے ان کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا.اور فرمایا کہ قادیان کے صنعتی اور تعلیمی ادارے مقصود بالذات نہیں ہیں ، ہماری جماعت بنیادی طور پر مذہبی جماعت ہے.اور چونکہ اسلامی تعلیم انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ ہم ان امور کی طرف بھی توجہ کریں جو جسمانی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں.ان اداروں سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تعلیمی اور صنعتی لحاظ سے ہمارے نوجوان اچھے ہوں ، وہاں با اخلاق اور سچے مسلمان بھی بنیں.نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض بتائی اور یہ بھی ذکر کیا کہ کس طرح مخالفت ہوئی.حضور کے پیرو شہید کئے گئے.حضور اللہ تعالیٰ کے حکم سے اصلاح خلق کے لئے کھڑے ہوئے.موجودہ نظام تباہ ہو رہا ہے.اگر چہ موجودہ جنگ کے مصائب میں سے گذرنے کے بعد دنیا پھر بھی تاریکی میں ہی پڑی رہی اور اسے کوئی روحانی روشنی نصیب نہ ہوئی تو وہ اور بھی زیادہ مصائب اور آلام کا شکار بن جائے گی.ہر ایک کا فرض ہے کہ برائی کی قوتوں کو پامال کرے تا ایک نیا نظام قائم ہو.اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنے آپ کو روحانی آلائشوں سے پاک نہ کر لیں.اس تاریک و تار دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی روشنی کا ایک چراغ ہے.جس کا مقصد روحانی اور جسمانی رنگ میں خدمت کرنا ہے خواہ اس کے لئے اپنی جانیں بھی قربان کرنی پڑیں.تا دنیا میں امن و آشتی قائم ہو اور انسان اپنے خالق کے سچے بندے بن جائیں.
212 فرمایا.اس نذرانہ کا تیسواں حصہ یعنی دس ہزار روپیہ خود چوہدری صاحب کی طرف سے پیش کیا گیا تھا.* ۱۲۳ بقیہ حاشیہ: - سر فریڈرک کی تقریر کے بعد چوہدری صاحب نے ان کا شکر یہ ادا کیا اور قادیان دوبارہ آنے کی تحریک کی اور یہ اظہار کیا کہ ان کی عالمانہ تقریر سے میں نے بہت کچھ اخذ کیا ہے.۴/۴/۴۱ محترم چوہدری صاحب کی ملاقات کے لئے مہاراجہ صاحب پٹیالہ کار پر تشریف لائے.احمد یہ کور کی معیت میں محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور خارجہ نے خیر مقدم کیا.مہا راجہ صاحب نے بیت الظفر میں قیام کیا.بعد نماز عصر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کوٹھی دار الحمد میں ان کے اعزاز میں دعوت چائے دی ، جس میں چوہدری صاحب اور بعض اور معززین جماعت بھی مدعو تھے.شام کو چوہدری صاحب نے مہاراجہ صاحب کے اعزاز میں دعوتِ طعام دی جس میں حضور نے بھی شرکت فرمائی.اگلے روز چوہدری صاحب کی معیت میں آپ نے سلسلہ کے ادارے دیکھے.مہا راجہ صاحب نے قصرِ خلافت بھی دیکھا تھا.اور خاکسار نے بوجہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرائیویٹ سیکرٹری ہونے کے آپ کو خوش آمدید کہا تھا.اس وقت صرف چوہدری صاحب محترم آپ ۱۲۴ ۱۲۵ کے ساتھ تھے.چوہدری صاحب کی دعوت پر سر پیٹرک سپنس مع لیڈی سپنس قادیان آئے.اور بیت الظفر میں فروکش ہوئے.کارخانے ،ادارے، دفتر ترجمۃ القرآن ، بورڈ نگ تحریک جدید اور نور شفاخانہ دیکھے.چینی ترکستان کے طلباء وغیرہ سے ملاقات ہوئی.ہائی سکول میں تقریر کی.نوٹ :.بیت الظفر قادیان کو محکمہ بجلی نے باون ہزار روپیہ کی معمولی قیمت پر محکمہ کسٹوڈین سے خرید لیا ہے.اور دفتر بجلی کیکم اگست ۱۹۶۲ ء اس میں منتقل ہو گیا ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کثرت سے مساجد کی تعمیر کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جرمنی میں ایک درجن کے قریب مساجد تعمیر کرنے کی ضرورت ہے.اس کے نتیجہ میں ہزاروں لوگ مسلمان ہو جائیں گے.جرمن لوگوں کی بعض خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ، ان کی شدید صفائی پسندی کے بیان میں بتایا کہ ایک نواحمدی جرمن کولندن جیسا شہر بھی بہت گند انظر آیا.اور پھر فرمایا: پروفیسر ٹلٹاک صاحب نے جب ربوہ آنے کا ارادہ ظاہر کیا تو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے مجھے منع کیا کہ اسے ابھی نہ بلاؤ.میں اپنا مکان بنالوں اور اس میں فلش والا پاخانہ بنالوں،
213 (۵) ایک عرصہ تک آپ امانت فنڈ میں اڑھائی ہزار روپیہ ماہوار بھجواتے رہے،حضور نے فرمایا کہ چوہدری صاحب نے چار صد روپیہ ریز روفنڈ غیر از جماعت احباب سے جمع کیا ہے.** (۲) اخراجات برائے روشنی مساجد مبارک و اقصی قریباً چھتیں صد رو پید ادا کیا.*** (۷) آپ نے پونے آٹھ ہزار روپیہ کی ایک جائیداد کاحق مرتہبنی صدرانجمن کے سپر د کر دیا کہ اسکی آمدنی اور اصل زر آپ کی وصیت کے تعلق میں حصہ جائیداد کی ادائیگی میں شمار ہوتا رہے.(۸) آپ کی طرف سے ۴۲ ۱۹۴۱ ء میں وقف شدہ فنڈ دس ہزار ایک صد روپیہ تھا ، جو بقیہ حاشیہ :.تب بلائیں.ورنہ اس کو ابتلاء آ جائے گا.چنانچہ پچھلے سال جب چوہدری صاحب کا مکان بن گیا تو وہ یہاں آگئے.ورنہ انہوں نے بہت عرصہ پہلے آ جانا تھا.اس فنڈ کی تحریک کی تفصیل دیکھئے چوہدری صاحب کی تقریر ( الفضل ۱/۵/۳۸ چوہدری صاحب کی موعودہ رقم جو اپنی طرف سے اور والدہ ماجدہ اور ایک اہل بیت کی طرف سے تھی بوقت اعلان چھ ہزار چار صد رو پید ادا ہو چکا تھا.(الفضل ۳۱/۵/۳۸ ص ۲) آپ کی اہلیہ دوم محتر مہ رشیدہ بیگم صاحبہ مرحومہ نے بھی شرکت کی.( الفضل ۴/۵/۳۸ ۱ص ۲) آپ ہی بانی تھے اور بعد میں آپ کی طرف سے خاص خاص احباب کو تحریک کی گئی.بعد میں عام تحریک کے لئے نظارت بیت المال کے سپرد یہ کام ہوا.رپورٹ مشاورت اکتوبر ۱۹۳۶ء ص ۱۹ تا ۶۹.یہ شوریٰ اس سال دوسری بار طلب کی گئی تھی.صرف مالی معاملات زیر غور لائے گئے.صدرانجمن سوا دو لاکھ روپیہ کی مقروض تھی ، ایک سب کمیٹی چوہدری صاحب کی زیر صدارت بھی تجویز کی گئی.بریکاری کا مسئلہ بھی زیر غور آیا، اور یہ بھی کہ موجودہ صورت میں انجمن کا بار ہر سال بڑھتا جائے گا.اور یہ امر تشویش ناک ہے.اس موقعہ پر حضور نے امانت فنڈ کے فوائد بتائے اور فالتو رو پید انجمن کے پاس امانت رکھوانے کی پر زور تلقین فرمائی اور ریز رو فنڈ کے جمع کرنے پر بھی.اور بتایا کہ جماعت نے ان مفید امور کی طرف توجہ نہیں کی.مئی ۱۹۳۷ ء سے آپ نے بچی کی ولادت کی خوشی میں ان اخراجات کو اپنے ذمہ لیا تھا.(رپورٹ مشاورت ۱۹۳۷ء ص ۹۸) مطبوعہ تفصیلی بجٹ ہائے صید رانجمن احمد یہ بابت ۳۸.۱۹۳۷ء تا ۴۸ - ۱۹۴۷ء میں اس رقم کا (جو دوصد چالیس روپے سالانہ تھی ) ذکر آتا ہے.غالباً ۱۹۵۲ء تک
214 ۴۳ ۱۹۴۲ء میں قریباً گیارہ ہزار روپیہ ہو گیا.(۹) تراجم قرآن مجید وغیرہ.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی سکیم تھی کہ قرآن مجید کے تراجم اور ایک ایک اور کتاب سات زبانوں میں شائع کئے جائیں اور ایک ایک علاقہ ایک کا ترجمہ اور ایک کتاب کے اخراجات برداشت کرے.اس بارہ میں مزید توضیح و تحریک کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: یہ درخواستیں یا افراد کی طرف سے ہیں مثلاً چوہدری ظفر اللہ خاں ,, صاحب اور ان کے بعض دوستوں کی طرف سے یہ سب درخواستیں یا ان افراد کی طرف سے ہیں جو صاحب توفیق ہیں اور یہ بوجھ اٹھاسکتے ہیں.(۱۰) منارة امسیح کے ہال کے چندہ میں شرکت.** (۱۱) آپ تحریک جدید دفتر اول کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہیں.دور اول میں آپ نے پینتالیس ہزار نو صد چونتیس روپے ( گویا علاوہ دیگر چندہ جات حصہ آمد جلسہ سالانہ وغیرہ کے ) آپ نے والدین ، دختر اور اپنی طرف سے ادا کیا.* بقیہ حاشیہ:- آپ کی طرف سے ادا ئیگی ہوتی رہی.چونکہ تقسیم ملک کے باعث پاکستان سے رقم کا قادیان میں منتقل ہونا متعذر تھا.اس لئے یہ سلسلہ منقطع ہو گیا.رپورٹ ہائے سالانہ صدر انجمن احمدیہ بابت ۳۹.۱۹۳۸ء ص۳۰۰ و ۴۰.۱۹۳۹ء (ص۳۹) اس وقت تک قریباً سوا آٹھ ہزار روپیہ اس فنڈ میں ادا ہو چکا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: بالآخر میں ایک ضروری امر کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس مینارہ میں ہماری یہ بھی غرض ہے کہ مینارہ کے اندریا جیسا کہ مناسب ہو، ایک گول کمرہ یا کسی اور وضع کا بنایا جاوے جس میں کم از کم ۱۰۰ آدمی بیٹھ سکے اور یہ کمرہ وعظ اور مذہبی تقریروں کے کام آئے گا.کیونکہ ہمارا ارادہ ہے کہ ایک یا دو دفعہ قادیان میں مذہبی تقریروں کا جلسہ ہوا کرے اور اس جلسہ پر ایک شخص مسلمانوں ، ہندوؤں ، آریوں اور عیسائیوں اور سکھوں میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے.مگر شرط یہ ہوگی.کہ کسی مذہب پر کسی قسم کا حملہ نہ کرے فقط اپنے مذہب کی تائید میں جو چاہے تہذیب سے (اشتہار خطبہ الہامیہ ) سے سمیٹی نے اس بار کمیٹی نے اس بارہ میں یہ تجویز کیا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ قادیان میں ایک مذہبی کانفرنس
215 (۱۲) مقامی تبلیغ کے لئے آپ نے مالی امداد کی.** بقیہ حاشیہ: - منعقد کی جائے.تفصیلی قواعد بنانے کے لئے ایک سب کمیٹی مقرر کر دی جائے اور اس کانفرنس کے اخراجات کے طور پر دو ہزار روپیم منظور کیا جائے.ابھی حضرت مرزا شریف احمد صاحب یہ پڑھ ہی رہے تھے کہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح اچانک کرسی سے اٹھے اور فرش پر سجدہ میں گر گئے.اس پر چپ چاپ تمام حاضرین بھی سر بسجو د ہو گئے.بعد سجدہ حضور نے فرمایا کہ مجھے یاد ہے کہ جب منارة امسیح کے لئے جمع سات آٹھ ہزار روپیہ بنیادوں میں ہی صرف ہو گیا تھا اور حضرت مسیح موعو علیہ السلام اس بارہ میں متفکر تھے اور بعض احباب یہ ذکر کر ہے تھے کہ فلاں فلاں خرچ بھی ہونگے اور یہ اندازہ کئی ہزار روپے کا تھا.تو حضور نے فرمایا کہ مشورہ کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعمیر مینارا کو التواء میں ڈال دیا جائے ، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.ایک وہ وقت تھا اور آج وہ وقت ہے کہ مسجد مبارک کی توسیع کے لئے عصر کے وقت میں نے ( مسجد مبارک میں ) ذکر کیا اور عشاء سے پہلے پہلے اٹھارہ ہزار روپے اور وعدہ کی رقوم جمع ہوگئیں.اور بیرونی احباب کو اس میں شریک ہونے کا موقعہ نہیں ملا.پنتالیس سال قبل ( بوقت تالیف اصحاب احمد جلد ہذا باسٹھ سال ) وہ شخص جس کی جوتیوں کا غلام ہونا بھی ہمارے لئے باعث فخر ہے ، اسے اس وقت جماعت کی حالت دیکھتے ہوئے ایک بہت بڑا مقصد اور کام یہ نظر آیا کہ ایک ایسا کمرہ بنایا جائے جس میں ایک سو آدمی بیٹھ سکیں اور اس کے لئے حضور کو اعلان کرنا پڑا.مگر آج ہم ایک ایسے کمرے میں بیٹھے ہیں جو اس غرض کے لئے تعمیر نہیں ہوا کہ مختلف مذاہب کے لوگ اس میں تقاریر کریں.مگر اس میں پانصد افراد بیٹھے ہیں اور وہ بھی کرسیوں پر جو کہ زیادہ جگہ گھیرتی ہیں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اکثر لوگ اس کے نشانات سے اعراض کرتے ہوئے گذر جاتے ہیں.چشم بینا کے لئے یہ بہت بڑا نشان ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کو بڑھاتا اور سامان پیدا کرتا چلا جارہا ہے.ایک وقت میں جو بات بہت بڑی معلوم ہوتی ہے وہ کل حقیر ہو جاتی ہے.اور اس کا خیال کر کے حضرت عائشہ کی طرح دل بھر آتا اور آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں کہ کاش جماعت کی یہ ترقی حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہوتی تا آپ بھی اس دنیا میں اپنے کام کے خوش گن نتائج دیکھ لیتے.یہ فرماتے ہوئے حضور پر بے حد رقت طاری ہوگئی.پھر حضور نے فرمایا کہ اصل مقصد کا نفرنس کرنا ہے اور اس بارہ میں احباب کو مشورہ دینے کے لئے فرمایا.ابھی پانچ احباب نے ہی مشورہ دیا تھا کہ حضور نے فرمایا کہ دو ہزار روپیہ مطلوبہ تو چو ہدری اسداللہ خاں صاحب ( حال امیر جماعت لاہور ) نے ہی دے دیا ہے.اس موقعہ پر دوستوں
216 (۱۳) تحریک وقف جائداد میں آپ نے ساری جائیداد وقف کر دی.*** بقیہ حاشیہ نے چندہ دینا شروع کر دیا ہے اور اس بات کا انتظار نہ کیا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں.مجھ پر جو اس وقت وجد کی حالت طاری ہوئی اور میں سجدہ میں گر گیا ، وہ حضور علیہ السلام کے زمانہ اور بعد کے زمانہ کے حالات کا فرق اس کا باعث تھا.چونکہ جلسہ سالانہ پر بیس پچیس ہزار آدمی جمع ہوتے ہیں.اس لئے ہم ایسا ہال یا شیڈ بنائیں جسمیں کم از کم ایک لاکھ افرا دسما سکیں.حضور علیہ السلام نے اپنی اولاد کے متعلق فرمایا کہ اک سے ہزار ہو دیں اور نبی کی اولا داس کی جماعت بھی ہوتی ہے.اس لئے ایک سو کو ایک ہزار سے ضرب دینے سے ایک لاکھ بنتا ہے.گو کچھ عرصہ بعد لوگ اسے بیوقوفی قرار دیں گے اور کہیں گے کہ دس لاکھ کے لئے جگہ بنانی چاہیئے تھی.فی الحال اس کام کے لئے پانچ سال میں دولاکھ روپیہ طوعی طور پر جمع ہونا چاہیئے.اس پر حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحب مرحوم نے اپنا ۱۹۰۰ء کا رؤیا سنایا جو انہوں نے خطبہ الہامیہ قادیان میں سننے کے بعد بمبئی جا کر دیکھا تھا کہ حضور علیہ السلام ایک بڑے ہال میں جس میں ایک لاکھ آدمی سما سکتے ہیں تقریر فرمارہے ہیں اور مجھے دروازہ پر آنے والے احباب کے استقبال کے لئے کھڑا کیا گیا ہے.اس کثرت سے احباب نے چندہ کے لئے نام پیش کرنے شروع کر دئیے کہ بہت شور پیدا ہو گیا اور حضور نے کئی افراد نام لکھنے کے لئے مقر کر دئے.اس دوران میں حضور نے اعلان فرمایا کہ میں اپنی طرف سے ، اپنے خاندان کی طرف سے.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اور ان کے دوستوں اور سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کے خاندان کی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں.کہ بیرونی جماعتوں کو اس چندہ میں شرکت کا موقعہ دینے کے بعد دولاکھ روپیہ میں جو کمی رہے گی وہ ہم پوری کر دیں گے.فہرست مکمل ہونے پر حضور نے اعلان فرمایا کہ دولاکھ بائیس ہزار سات صد چونسٹھ روپے اس کی میزان ہے.اور یہ کہ کر کہ یہ سجدہ شکر ہے پھر سجدہ کیا اور تمام مجمع بھی سربسجو د ہو گیا.بہت رقت سے دعائیں ہوئیں.سجدہ سے اٹھ کر فرمایا.کہ بعض مواقع پر بولنے سے خاموشی زیادہ اچھی ہوتی ہے.اس لئے میں اس جلسہ کو اللہ تعالیٰ کے نام پرختم کرتا ہوں.“ (رپورٹ مشاورت بابت ۱۹۴۵ء صفحه ۳ ۱۵ تا ۱۶۰) بعد میں ایک ماہ کے اندر نقد اور وعدوں کی میزان ایک لاکھ بتیس ہزار ہوگئی اور حضور نے اس تحریک کو پچیس لاکھ تک بڑھا دیا.رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ بابت ۱۹۴۴ء، ۱۹۴۵ء صفحه ۳۲) رپورٹ سالانہ میں یہ مندرجہ رپورٹ بیت المال ۲۴/۹/۴۵ کی ہے.اس وقت تک اس مد میں قریباً ساڑھے بارہ ہزار روپے وصول ہو چکے تھے.( ص ۲۷و۳۳)
217 (۱۴) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۷ / دسمبر ۱۹۵۷ء کو جماعت میں وقف جائیداد کی تحریک فرمائی اور اس کی اہمیت اور وسعت دائرہ کا ذکر کیا اور بتایا کہ محترم چوہدری صاحب نے اور میں نے اس تحریک میں دس دس ایکڑ اراضی وقف کی ہے.(۱۵) تعمیر مسجد ڈسکہ.۱۱۲۸ بقیہ حاشیہ: - منارة أصبح کے کام کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں ہوا اور پھر یہ امر معرض التوا میں پڑا رہا.اس لئے منارہ اسی ہال کی تعمیر کا التوا جو غیر معمولی حالات میں ہوا ہے قابلِ اعتراض نہیں.الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ مسجد مبارک میں مسجد مبارک کی توسیع کے لئے حضور کی تحریک کے وقت خاکسار بھی وہاں تھا اور حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ مرحومہ اور اپنے اقارب اور ضلع منٹگمری کی طرف سے شرکت کا موقعہ ملا.( توسیع مسجد کی تفصیل کا ذکر حضور کی طرف سے الفضل ۹/۳/۲۴۴ ص ۸ و ۹ پر ہے ).اور مشاورت مذکورہ میں بھی خاکسار کو بوجہ نمائندہ مشاورت نہ صرف شرکت کا موقعہ ملا.بلکہ سٹیج پر ہی خاکسار حضور کے عقب میں بیٹھا تھا.اور ان سجدات میں شرکت کا موقعہ ملا.یہ خاص اور مہتم بالشان تاریخی نیز ایمان افروز موقعہ تھا.وو 66 پانچ ہزاری مجاہدین (ص۹۴ و ۹۵).بائیسویں سال کا چندہ تحریک جدید ادا کرنے والے السابقون الاولون میں آپ کا اسم گرامی بھی مرقوم ہے.آپ نے والدین کا اور اپنا چندہ قریباً چار ہزار روپیہ جلد ادا کیا.اس کام کی تفصیل احرار کا نفرنس تعلق میں دوسری جگہ درج کی گئی ہے.سالانہ رپورٹ بابت ۴۳ ۱۹۴۲ء میں انہیں افراد کا ذکر ہے.جو اس مہم کے لئے باقاعدہ چندہ دیتے تھے.ان میں آپ کا نام نامی بھی شامل ہے.(ص ۷ ) آپ کا نام الفضل ۲۳/۶/۴۴ کی فہرست میں درج ہے (ص۳ک ۱ ).حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک رؤیا کی بناء پر ۱۹۴۴ میں یہ تحریک فرمائی تھی.تا کہ اگر سلسلہ کے سارے ذرائع ختم ہو جائیں.تو اس دقت کا سہارا موجود ہو اور اس کا کچھ فیصدی حسب ضرورت حاصل کرلیا جائے.حضور نے فرمایا کہ ایمان کی علامت یہی ہے کہ اپنا سب کچھ فی سبیل اللہ قربان کرنے کے لئے تیار رہے.لیکن اس تحریک میں صرف وہی افراد حصہ لیں جنہیں قربانی کے بعد افسوس نہ ہو اور بشاشت قلب حاصل ہو.۱۲۷
218 بمقام ڈسکہ آپ کے بزرگوں کی تعمیر کردہ مسجد کی حالت سیلاب کے باعث اچھی نہیں رہی تھی.اس لئے آپ نے ایک خطیر رقم صرف کر کے ایک شاندار اور وسیع مسجد تعمیر کروا دی.جس کا افتتاح آپ نے ۲۸ فروری ۱۹۵۸ء کو جمعہ پڑھا کر کیا.* ☆ (۱۶) تحریک وقف جدید - جلسہ سالانہ ۲۷/۱۲/۵۷ کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت و منظوری سے حضور کی تقریر سے قبل چوہدری صاحب نے تحریک کی کہ تعلیم واصلاح کا کام شروع کیا جائے گا.جو ابتداء میں چھ اضلاع میں جاری ہوگا.ایک صدا ایسے احباب کی چندہ میں شمولیت درکار ہے جو تین صد روپیہ سالانہ ادا کریں.آپ نے ایک ہزار روپیہ اور آپ کے دو برادران نے تین تین صد روپیہ کی پیشکش کی.(۱۷) متفرق چندہ جات (۳) لسانی خدمات آپ معجز بیان خطیب ہیں.آپ کی طلاقت لسان اور فصاحت و بلاغت نے مجلس اقوام عالم میں آپ نے خطبہ میں اس کے آباد رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے آداب مساجد کے متعلق قیمتی نصائح کیں (۵۸ /۶/۳).اس کا سنگ بنیاد مکرم بابو قاسم الدین صاحب (امیر جماعتہائے احمد یہ سیالکوٹ ) نے اس اینٹ کے ساتھ رکھا جس پر اس مقصد کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ سے دعا کرائی گئی تھی.(الفضل ۳۰/۶/۵۸ و ۱۶/۷/۵۸) ___ ڈسکہ سے واپسی پر بمقام ایمن آباد آپ کو تبلیغی گفتگو کا موقعہ ملا.اور چوہدری محمد حسین صاحب رئیس کی درخواست پر آپ نے ان کے مکان کی بنیاد کے لئے اینٹ پر دعا فرمائی.(الفضل ۵۸-۳-۶) مثلاً (1) دعوت الی الخیر فنڈ میں ایک خاص کام کے لئے آپ نے نصف صد روپیہ دیا.( الفضل ۱۸/۳/۱۴ ص ۶ ک ۲).آج سے قریباً نصف صدی قبل نصف صد رو پی کئی ہزار روپے کے برابر قیمت رکھتا تھا اس سے چار سال بعد ساری جماعت لاہور کا چندہ قریباً پونے چار ہزار روپیہ تھا.یہ پچاس روپے آپ کا کل چندہ نہیں تھا.بلکہ ایک طوعی چندہ تھا.(۲) یہ معلوم ہونے پر کہ چندہ خاص کی تحریک ہونے والی ہے، آپ نے پہلے ہی اس کی قسط ارسال کر دی (افسوس حوالہ مجھ سے ضائع ہو گیا ہے ).
219 جو جولانیاں دکھائی ہیں ، ان سے یہ مجلس مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکی.آپ نے اس جوہر لطیف کو اعلائے کالمۃ اللہ اور ابطال بج باطلہ کے لئے وقف کر رکھا ہے.آپ کے دائرہ علم کی وسعت کے باعث آپ کی تقریر کے موضوعات تنوع اور جدت کے حامل ہیں.حاشیہ میں بعض تقاریر کے حوالہ جات درج کئے جاتے ہیں اور آپ کے فن خطابت کی جاذبیت اور آپ کے دماغی جلا کے اظہار کے لئے حاشیہ میں چند ایک خلاصے بھی شامل کئے گئے ہیں.آپ کی دینی و دنیوی علوم سے گہری واقفیت اور عبور اور وسیع مطالعہ اور تجربہ نے آپ کے ملکہ خطابت کو ایک خاص جلا بخشا ہے.بقیہ حاشیہ: - (۳) اخراجات جلسہ سالانہ کے لئے جماعت لاہور نے (بشمول چندہ چوہدری صاحب پچیس روپے) چار صد پندرہ روپے دیئے اور دوصد مزید متوقع تھا (الفضل ۱۸/۱۲/۱۸ ص ۱۰ ک ۲).گویا آپ نے جماعت لاہور کے اس چندہ کا چار فیصدی ادا کیا.اگر آپ کے پچیس روپے کی اہمیت اس زمانہ میں نہ ہوتی تو بالخصوص ایسے چند احباب کا ذکر نہ کیا جاتا.اور یہ تو صرف چندہ جلسہ سالانہ تھا.دیگر چندہ جات حصہ آمد اس کے علاوہ ہیں.۱۹.۱۹۱۸ء میں لاہور کا مجموعی چندہ صرف تین ہزار سات سوسترہ روپے دو آنہ تھا.اور اس سے گذشتہ سال اس سے اڑھائی ہزار کم تھا ( رپورٹ سالانہ صدرانجمن ص ۵۹ و ۶۶).اور ۲۰.۱۹۱۹ء میں لا ہور بشمول چھاؤنی کا مجموعی چندہ قریباً سات ہزار روپیہ تھا.(رپورٹ سالانہ ص ۴۰) (۴) جلسہ سالانہ ۱۹۲۱ء پر ناظر صاحب بیت المال نے محکمانہ رپورٹ میں بتایا کہ اس سال تک صدر انجمن احمد یہ ایک لاکھ روپیہ کی مقروض ہوگئی ہے اور بعض احباب کو ایک ہزار روپیہ فی کس کی ادائیگی کی تحریک کی گئی.اس وقت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور پھر حافظ روشن علی صاحب (رضی اللہ عنہما ) نے چندہ کی خصوصاً تحریک کی.اس وقت چندہ دھڑا دھڑ ہو رہا تھا کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے تجویز پیش کی کہ سٹیج پر بیٹھے ہوئے احباب دو ہزار روپیہ مجموعی طور پر پیش کریں.اگر چہ عام اپیل میں بھی سٹیج والے احباب چندہ میں شرکت کر چکے تھے.تاہم اس تحریک پر عمل کرنے کے لئے چوہدری صاحب اور سید بشارت احمد صاحب ( دکن ) نے سٹیج والوں سے نقد چندہ اور وعدے لینے شروع کئے جو تین ہزار ہو گئے.جلسہ میں نقد تیرہ ہزار روپیہ اور وعدے سات ہزار سے اوپر کے ہوئے.یہ بھی مرقوم ہے کہ چندہ جمع کرنا مقصود نہ تھا اس لئے یہ خیال نہ کیا جائے کہ تحریک کامیاب نہ ہوئی.
220 (۴) قلمی جہاد : یہ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے کہ زور خطابت کی طرح آپ کی قلم میں بھی اللہ تعالیٰ نے بہت بقیہ حاشیہ: - (۵ تا ۸) مسجد دار الفضل قادیان کے لئے نصف صد روپیہ.عمارت جامعہ احمد یہ ربوہ کے لئے اڑھائی صد روپیہ ،مسجد فرینکفرٹ (جرمنی ) کے لئے منجانب والدین تین صد روپیہ دیا.اور فضل عمر ہسپتال ربوہ کے لئے ایک صد روپیہ ماہوار کی پیشکش کی.(۲۷-۱-۳۱ (ص ۳ک ۳) - ۵۸-۱۲-۱۲ ( ص ۶) - ۶۰-۴-۲۲ ( ص ۶ ) - ( وعده ۵۹-۱۰-۱ (ص ۴ ک ۲) ادا ئیگی تین صد روپیه (ک۳) ۱۷/۷/۵۹٫ (ص ۲۶ ) ۱۹۲۴ء میں ویمبلے کی مذاہب کی کانفرنس میں آپ نے حضرت خلیفہ ایسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا مضمون پڑھا.اور اس سفر میں اور ۱۹۵۵ء کے سفر میں بطور ترجمان کے خدمات سرانجام دیں.اور باؤنڈری کمیشن کے سامنے اور دیگر عدالتوں میں مدافعت عن الاسلام کے رنگ میں خدمات جلیلہ کی توفیق پائی.ان لسانی خدمات کا ذکر دیگر بعض عنوانات کے تحت کیا گیا ہے.دو بعض تقاریر کے حوالجات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں : (۱) حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور آپ کی لاہور میں کامیاب تقاریر.( ریویو آف ریلیجنز (اردو) بابت فروری ۱۹۱۷ ء.زیر اخبار احمدیہ) (۲) ” سلسلہ احمدیہ کا عیسائیت پر حملہ اور اس کا اثر پر از معلومات فصیح تقریر.برموقعہ جلسہ سالانه ۱۹۲۳ء (الفضل ۲۴ /۱ را ص ۱۱ و ۱۲ و ۱۵/۱/۲۴ ص ۳ و الحکم ۷/۱/۲۴ص ۳ و ریویو آف ریجنز (انگریزی ) بابت فروری ۱۹۲۴ء ص ۶۸ - الحکم“ نے ہونے والی تقریر کا علان کرتے ہوئے لکھا کہ یہ اپنی طرز کی پہلی تقریر ہو گی.۷/۱۲/۲۳ ص ۴).(۳) اسلامی شریعت موجودہ زمانہ اور ہر ملک کے لئے موزوں ہے.تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۳ء.اس کا اعلان کرتے ہوئے یہ ذکر کیا گیا کہ چوہدری صاحب نے سفر یورپ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے سیکرٹری کے طور پر کام کیا تھا.(الفضل ۳/۱/۲۵ ص ۲ و ۲۵/۱۲/۲۴ ص ۲ک ۳ و ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) بابت مارچ ۱۹۲۵ء ص ۹).(۴) یورپ کے لوگ عیسائیت سے بیزار ہورہے ہیں کے موضوع پر تعلیم الاسلام ہائی سکول میں تقریر کی.
221 برکت عطا کی ہے.اور آپ کو بہترین قلمی خدمات کے مواقع بکثرت نصیب ہوئے ہیں.مثلاً (1) پہلی عالمگیر جنگ میں پنجاب پہلٹی کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تھا.تا عوام کو جنگ کے صحیح حالات سے واقف رکھا جاسکے.تو احمد یہ پریس کے نمائیندہ کے طور پر آپ کا تقر رسرکاری طور پر عمل ۱۲۹ بقیہ حاشیہ: - (۵) دیہاتی ترقی کے ذرائع تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء.(الفضل ۱۰/۱/۲۸٫۳/۱/۲۸).(1) یورپ اور امریکہ میں تبلیغ اسلام کے اثرات“.تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۳۳ء.(۸۷) ۱۶/۳/۲۴ کو ایک مقدمہ کے سلسلہ میں ملتان جانے پر جماعت کی طرف سے دعوت دی گئی جس میں رؤسا، وکلا ء وغیرہ مدعو تھے.آپ نے نہایت لطیف پیرائے میں حضرت مسیح موعود کی صداقت اور یورپ ، امریکہ اور افریقہ کے تبلیغی حالات و مشاہدات بیان کئے.پھر گورنمنٹ کالج میں کالج کی طرف سے تقریر کا انتظام کیا گیا تھا.وہاں آپ نے ہندوستان کے آئیند ہ نظام حکومت کے بارے میں تقریر کی.سامعین آپ کی قوت بیانیہ سے بہت متاثر ہوئے ( الفضل ۲۲/۳/۳۴) (۹) احمد یہ ہوٹل لاہور میں آپ کی صدارت میں مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس کی تقریر ہوئی.بعد ازاں آپ نے بھی تقریر کی اور غیر احمدی احباب کے سوالوں کے جواب دئے (الفضل ۲۶/۲/۳۵).(۱۰) '' احمدیت کا پیغام ۲/۳/۳۵ کو وائی.ایم سی.اے.ہال لاہور میں زیر اہتمام انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن آپ نے یہ تقریر کی.صدر جلسہ سید عبد القادر ایم.اے نے آغاز میں بتایا کہ چوہدری صاحب ایک قانون دان ہیں، نہایت ہی قابل قانون دان.آپ واضع قوانین بھی ہیں.اور ہندوستان کا دستور اساسی بھی بنانا چاہتے ہیں.آپ ایک اعلیٰ منتظم بھی ہیں.اور حکومت ہند میں جانے پر انشاء اللہ میرے قول کی صداقت واضح ہو جائے گی.آپ دینیات کے بہت بڑے عالم ہیں.اور آپ خود اندازہ کر لیں گے کہ آپ کو اسلامی تعلیمات کا کس قدر گہرا مطالعہ ہے.آخر پر صاحب صدر نے فرمایا کہ آپ نے اسلامی تعلیمات کو جس خوبصورتی سے پیش کیا ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے.جماعت احمد یہ آج کل سخت مشکلات میں سے گذر رہی ہے اور اس سے نا انصافی کی جارہی ہے.میں مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ انصاف کا دامن نہ چھوڑیں.اور اے احمدی جماعت ! ان مشکلات کے باعث آپ سرفراز ہوں گے.میں نے حضرت امام جماعت کے تاریخی خطبات پڑھے ہیں اور میں نے انہیں کہلا بھیجا ہے کہ آپ کے روح پرور خطبات آپ کو ایک دن بڑی قوت بنا دیں گے.( الحکم ۱۴/۳/۳۵ و الفضل ۷/۲/۳۵ و ۱۴/۳/۳۵ و ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) بابت اپریل ۱۹۳۵ء) یہ انگریزی میں کی گئی تقریر شارٹ ہینڈ کے ذریعہ ضبط کی گئی تھی
222 میں آیا تھا.( الفضل ۱۸/۶/۱۸ص۲) (۲) مقصد مذہب.سائز (۲۶/۸×۲۰) صفحات ۳۰ مطبوعہ مطبع ضیا ء الاسلام قادیان.بقیہ حاشیہ:- اور (Message Of Ahmadiyyat) کے نام سے شائع ہوئی.سن طباعت اس پر مرقوم نہیں.( صفحات ۴۸.سائز (۳۰/۱۶×۲۰) اس کا اردو ترجمہ جس کا سرورق چو ہدری صاحب کی تصویر سے مزین ہے ایشیا کی کتب خانہ قادیان نے شائع کیا ہے ( سائز وہی ،صفحات ۲۴) (۱۱) ڈیرہ غازیخاں میں جہاں آپ ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گئے تھے.جماعت کے استدعا پر خطبہ جمعہ میں نہایت لطیف اور ایمان پرورانداز میں جماعت کو تلقین کی کہ موجودہ مشکلات اور تکالیف ہماری تربیت کے لئے ہیں.جماعت کو ان میں کامیاب ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے اور کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں ہونی چاہیئے بلکہ صبر اور دعاؤں سے کام لینا چاہیئے.(الفضل ۸٫۳٫۳۵) (۱۲) اپنے ماموں محترم چوہدری عبداللہ خاں صاحب امیر جماعت دا تا زید کا کی خواہش پر وہاں تشریف لے گئے.بدوملی ، پوہلہ مہاراں اور گھٹیالیاں کے علاقہ کے احباب کے علاوہ دا تا زید کا کے پندرہ سولہ دیہات کے ہندو مسلم احباب نے جھنڈیوں اور دعائیہ فقرات سے خیر مقدم کیا.آپ نے زمینداروں کی عموماً اور احمدیوں کی خصوص ترقی کے متعلق جامع تقریر کی.آپ کے ریل گاڑی کے تیسرے ڈبے میں سفر کرنے سے لوگ بہت متاثر ہوئے.(الفضل ۱۹/۳/۳۵) (۱۳) ۳/۱۰/۳۷ کو آپ نے مسجد فضل لندن میں The History And Progress Of The Ahmadiyya Movement پر تقریر کی.ریویو آف ریجنز (انگریزی) بابت دسمبر ۱۹۳۷ء).(۱۴) مسجد اقصی میں جلسہ سالانہ کے موقعہ پر زیر اہتمام احمد یہ فیلو شپ آف یوتھ ” احمدی نوجوانوں کی ذمہ داریاں“ کے موضوع پر تقریر.(الفضل ۲۹/۱۲/۳۷ ور یویو آف ریلیجنز اردو بابت ستمبر ۱۹۴۲ء) (۱۵) ۱۱/۲/۳۸ کو مسجد فضل لندن میں زیر صدارت لارڈ بلنز برگ The Ahmadiyya) (Movement پر تقریر کی ( ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) بابت دسمبر ۱۹۳۸ء وجنوری ۱۹۳۹ء) (۱۶) ۲۷/۴/۳۸ کو حضرت بابا نانک اور ان کی تعلیم کے متعلق آل انڈیا ریڈیو دہلی اسٹیشن سے تقریر (الفضل ۱۶/۱۱/۳۸)
223 66 مارچ ۱۹۲۴ء طابع حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی.یہ آپ کا فاضلانہ مقالہ ہے جو بطور امیر جماعت لاہور آپ نے کانفرنس مذاہب منعقدہ حبیبیہ ہال لاہور میں ۲۷/۱/۲۴ کو بقیہ حاشیہ: - (۱۸) ۹/۱۲/۴۰ کو آپ کے ٹاٹانگر تشریف لے جانے پر جماعت احمد یہ اور خدام الاحمدیہ نے ایڈریس پیش کئے.آپ نے ایک گھنٹہ تک تقریر دلپذیر میں نہایت قیمتی نصائح بیان کرتے ہوئے بتایا کہ لوہا بھٹی میں آگ بنتا ہے تو اس سے کام کی چیزیں بنائی جاتی ہیں.سومومن جب تک اللہ تعالیٰ کی آزمائش میں پورا نہیں اترتا اور صبر و استقلال سے کام نہیں لیتا کامیابی اس کے لئے محال ہے.موجودہ جنگ نظاموں کی جنگ ہے.اور حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے مطابق یہ عذاب ہے.اور نئی زمین اور نئے آسمان کے لئے راستہ صاف ہو رہا ہے.ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں.اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر قربانی کریں.تاکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہم اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھ لیں.(الفضل ۱۵/۱۲/۴۰) (۱۹) ۴۱ / ۱ / ۲۷ کو ہارڈ نگ لائبریری دہلی میں خواجہ حسن نظامی صاحب نے ” آج سے دو سو سال قبل دہلی کے اہل فضل و کمال پر تقریر کی.بعد ازاں صاحب صدر چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنی تقریر میں بتایا کہ خواجہ صاحب کی تقریر کے ساتھ افسردگی کا بوجھ میری طبیعت پر بڑھتا گیا.انہوں نے اس زمانہ کے حالات بیان کئے جب ایک تمدن عروج کے بعد انحطاط پذیر ہورہا تھا.حتی کہ وہ بالکل مغلوب ہو گیا.چوہدری صاحب نے ایک پر امید منظر پیش کیا اور فرمایا کہ اگر دہلی کو ہندوستان کا نمونہ تصور کیا جائے تو میں آج سے سو دو سو سال بعد کا دہلی کا منظر پیش کرتا ہوں اس وقت دہلی بلکہ ہندوستان بلدة طيبة و رَبِّ غَفُورٌ کا منظر پیش کرے گا.انسان اپنے رب سے صلح کر چکا ہو گا.قوموں کے درمیان اس رنگ میں صلح ہو چکی ہوگی کہ انہیں تسلیم کرنا ہو گا کہ تمام اقوام برابر ہوں کسی کو دوسری پر برتری نہیں اور غلبہ حاصل کرنے کا حق نہیں.افراد میں صلح ہو چکی ہوگی.حکومت کے اختیارات ان کے اہل کے سپر د ہوں گے.حکام و رعایا سب قانون کے پابند ہوں گے.خاندانی اور ذات پات کا امتیاز ختم ہو چکا ہوگا.حقیقی عزت کا معیار صرف خوف خدا ہوگا.دولت صرف چند ہاتھوں میں چکر نہ لگائے گی.آپ نے فرمایا کہ یہ اسلامی تمدن کا منظر ہے جس کے مستقبل میں غلبہ کا میں نے ذکر کیا ہے.موجودہ مغربی تمدن عالمگیر جنگ دوم کے بعد یقیناً معدوم ہو جائے گا.یورپی تمدن سترھویں صدی کے آغاز سے ترقی کرتے کرتے غالب آیا.اب اسلامی تمدن جس کی بنیاد ۱۸۸۹ء میں رکھی گئی تھی پچھتر سال میں ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۴ء تک نمایاں چمک
224 پڑھا.(اس کی روئد اور یو یو آف ریلیجنز (اردو) بابت مارچ ۱۹۲۴ء میں مرقوم ہے ) بقیہ حاشیہ : - ظاہر کرے گا.اور بالآخر غالب آجائے گا.پہلے بھی اسلامی تمدن ایک ہزار سال تک غالب رہا ہے.(الفضل ۶/۳/۴۱) (۲۰) آپ جبکہ حکومت ہند کے لاء ممبر تھے.آل انڈیا ریڈیو سے FOUNDATIONS) (FOR A NEW WORLD کے موضوع پر مختصر تقریر میں بیان کیا کہ حکومتوں کے باہمی کشمکش کے اسباب کیا ہیں اور اسلام نے ان کا کیا حل بتایا ہے.یہ تقریر انگریزی روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ “ لاہور میں بھی شائع ہوئی تھی.( ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) بابت جون ۱۹۴۱ء) (۲۱)(THE DUTIES OF AHMADIYYA YOUTH) آپ کی یہ دو تقریر شارٹ ہیڈ سے ضبط کی گئی.( ریویو آف ریلیجنز (انگریزی ) بابت ستمبر ۱۹۴۲ء) (۲۲) خدام الاحمدیہ کے پانچویں سالانہ اجتماع منعقدہ اواخر اکتوبر ۱۹۴۳ء میں ” تلقین عمل کا اجلاس آپ کی زیر صدارت ہوا.آپ نے وقار عمل کے تعلق میں بتایا.مشکلات کے حل کرنے کا اصل یہ ہے کہ اس کی مشکل ذہن پر حاوی نہ ہو.وقار عمل کی روح کو ہم کئی طریق پر قائم رکھ سکتے ہیں.مثلاً جیسے کلکتہ کے احباب نے خاکروبوں کی ہڑتال پر نمونہ دکھایا.اسی طرح شملہ کے احباب غرباء کا سامان اسٹیشن تک پہنچا آیا کریں تو اس سے تبلیغ کا موقعہ بھی نکل آئے گا.لوگ تعجب سے سوال کریں گے.جب وہ سرکاری محکمہ کے کسی سیکرٹری یا انڈرسیکرٹری یا معزز افسر کو غرباء کا سامان اٹھاتے دیکھیں گے.نیز آپ نے یہ تلقین فرمائی کہ ہم اپنے عمل میں بہتری پیدا کریں تا لوگوں کو ہمارے عقائد اور دعاوی کے متعلق پوچھنے کی ضرورت نہ ہو.اور چونکہ خدام الاحمد یہ جان ، مال اور عزت کی قربان کا عہد دہراتے ہیں ، اس لئے اس امر کو بھی مدنظر رکھنا چاہیئے ، کہ ہماری جماعت ایک نبی کی جماعت ہے.اور جو کچھ ہمیں بتایا جاتا ہے وہ بہر حال مفید ہے.اس لئے ہر بات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.خواہ وہ طبیعت کے مخالف ہی ہو.اور یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیئے کہ قومی نتائج والی باتوں کا فائدہ دیر سے نکلتا اور نظر آتا ہے.اس لئے متواتر عمل کی ضرورت ہوتی ہے.(الفضل ۲۹/۱۰/۴۳ ص ۴٫۳ ) (۲۳) ۲۶/۶/۴۴ کو تعلیم الاسلام کالج قادیان میں تقریر میں قیمتی نصائح کیں ( ۲۷/۶/۲۴ ص ۲) (۲۴) مبلغ کے لئے ضروری امور پر جامعہ احمدیہ میں تقریر.( ۲۷/۱۰/۴۴۱۲۴/۱۰/۲۴/۱)
225 (۳) حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر تفسیر صغیر کے انگریزی ترجمہ کی خدمت کا موقعہ ملا.(الفضل ۳۱/۲/۵۸).بقیہ حاشیہ: - (۲۵) ۲۵/۱۲/۴۴ کو مجلس انصاراللہ کے پہلے سالانہ جلسہ کا افتتاح کیا اور تنظیم کے متعلق تقریر کی.( ۲۶/۱۲/۴۴٫۱ص۲) (۲۶) سیرۃ النبی کا جلسہ دہلی میں آپ کی صدارت میں منعقد ہوا.آپ نے ایک پر زور تقریر کی.( الفضل ۵/۱۲/۴۴ ص ۵ ) * (۲۷) اسلامی سیاست کے اصول پر تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۴ء ( //۳۰/۱۲/۴۴ ص ۵اک ۴) (۲۸) طریقہ تعلیم پر جامعہ احمدیہ میں ۱۶/۱۰/۴۵ کو تقریر ہوئی.جو تینتیس صفحات پر (۳۰/۱۶×۲۰) کے سائز پر طبع ہوئی.سن طباعت اس پر درج نہیں.(۲۹) ۲۵/۱۲/۲۵ کو انصار اللہ کے سالانہ اجتماع میں انصار اللہ کے فرائض پر تقریر.۲۵/۱۲/۴۵/۱ ( ص ۸ و ۱/۴۶ / ۱۰ ص ۳) (۳۰) ۲۷/۱۲/۴۵ کو جلسہ سالانہ میں ”بلا د عر بیہ میں احمدیت کی تاریخ پر تقریر.(۱۳/۱۲/۴۵ ص۴) (۳۱) اعلان کہ احمدیت کا پیغام نوجوانان عالم کے نام پر مسجد اقصی میں ۲۹/۱۲/۴۵ کو تقریر ہوگی.(الفضل ۲۵/۱۲/۴۵ ص ۵).تقریر ہوئی ہوگی.لیکن حوالہ نہیں مل سکا.(۳۲) چوہدری صاحب نے مسئلہ فلسطین پر زیر صدارت ای.ڈی.لوکس (وائس پرنسپل فارمن کرسچن کالج لاہور ) ایک نہایت فاضلانہ تقریر میں (جس کا ملخص روزنامہ انقلاب لاہور نے شائع کیا ) بتایا کہ پہلی عالمگیر جنگ کے شروع میں برطانیہ نے جن عرب ممالک سے آزادی کا وعدہ کیا تھا.فلسطین بھی ان میں شامل تھا.اور پھر اس کی توثیق یہ کہہ کر کی تھی کہ جنگ کے بعد عرب ممالک میں وہاں کے لوگوں کے مشورہ کے بغیر کوئی حکومت قائم نہیں کی جائے گی.اعلان بالفور کا یہ مفہوم نہیں تھا کہ وہاں یہودی ریاست قائم ہو جائے گی.۱۹۳۹ء کا قرطاس ابیض ایک قسم کا آخری فیصلہ تھا جس کی مخالفت میں یہودی حق بجانب نہیں.شریف مکہ نے جنگ کے بعد عرب ممالک کو آزاد کئے جانے کا مطالبہ کیا تھا.اور یہ مطالبہ عربوں کی زندگی کا جزو اعظم بن چکا ہے.حکومت برطانیہ نے اس مطالبہ کو پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا.اور فلسطین بھی ان ممالک میں شامل تھا.گو یہودی وہاں کی آبادی کا ایک تہائی ہیں لیکن ملک کی اقتصادی زندگی پر چھائے ہوئے ہیں اور ان کا مزید
226 (۴) ” میری والدہ سائز ۳۰/۱۶ × ۲۰ صفحات (۱۲۸) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ اس بارہ میں تحریر فرماتے ہیں: مکر می چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اس مختصر کتاب میں اپنی والدہ صاحبہ مرحومہ کے بقیہ حاشیہ: - داخلہ بند بھی کر دیا جائے.تو بھی وہ سیاسی اور اقتصادی طور پر عربوں کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ بنے رہیں گے.باہمی عناد اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ مفاہمت کی کوئی امید نہیں اور یہودی به جبر بھی یہودی ریاست قائم کرنے پر تلے ہوئے ہیں.اور اگر یہودی ریاست قائم ہوگئی تو وہ ہمسایہ عرب ممالک سے بھی علاقوں کا مطالبہ کریں گے.اور نئی مشکلات پیدا ہو جا ئیں گی.یہ بھی بیان کیا کہ یہودی سرمایہ کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے برطانیہ اور امریکہ کوئی آزاد اقدام نہیں کر سکتے.سیاسی حلقوں میں بھی یہودیوں کا اثر کم نہیں.دارالعوام میں چھپیں ممبر یہودی ہیں.دو وزیر اور ایک سیکرٹری آف سٹیٹ یہودی ہیں اور امریکہ میں بھی یہودی ملک کی سیاسی مشین پر اثر انداز ہیں.(الفضل ۲۶/۱/۴۶ ص ۱۲ و ۳۱/۱/۴۶) خاکسار مؤلف نے بھی یہ تقریر سنی تھی.صدر کے پاس ان قوی دلائل کا کوئی جواب نہ تھا.اس نے اس مسئلہ کے جواز میں صرف یہ کہا کہ قرآن مجید کی رو سے یہود نے فلسطین میں پھر آباد ہونا تھا.جو پورا ہورہا ہے.جس کا چوہدری صاحب نے جواب دیا کہ وہاں یہ بھی ذکر ہے کہ یہودیوں کا یہ داخلہ عارضی ہوگا.(۳۳) حیاة آخرة - تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۹ء (۳۰/۱۶×۲۰ ) کے سائز پر باسٹھ صفحات میں دسمبر ۱۹۶۰ ء میں شائع ہوئی.(۳۴)۲۴/۶/۵۲ کو کراچی میں خطبہ عید الفطر دیا.(الفضل ۲۷/۶/۵۲) (۳۵) مغرب میں اسلام سے بڑھتی ہوئی دلچسپی ، تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء (الفضل ۱۴ تا ۱۷ارجنوری ۱۹۵۷ء ) ۴۸ صفحات میں (۳۰/۱۶×۲۰ ) کے سائز پر الگ بھی شائع کی گئی.سن مرقوم نہیں.(۳۶) ۱۷/۱۲/۵۷ کو تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں اقوام متحدہ کی تنظیم اور بالخصوص عالمی عدالت انصاف کے فرائض اور دائرہ عمل پر ایک مفید معلوماتی تقریر.(۱۹/۱۲/۵۷۱ص۱).(۳۷) ۱۹/۱۲/۵۷ کو آپ نے ایک استقبالیہ تقریب میں اس امر پر زور دیا کہ قرآن مجید کی زبان عربی کو جسے دینی نقطہ نگاہ سے بنیادی اہمیت حاصل ہے ، زیادہ سے زیادہ اپنانے اور مقبول
227 دلکش اور مؤثر حالات لکھ کر صرف بیٹا ہونے کے حق کو ہی بصورتِ احسن ادا نہیں کیا بلکہ جماعت کی بھی ایک عمدہ خدمت سرانجام دی ہے......دوست اس کتاب کو نہ صرف خود پڑھیں گے ، بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس کے پڑھنے کی تحریک کریں گے تاکہ ان ہر دو فریق کو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ سچا بقیہ حاشیہ: - بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے زبان کو مقبول بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم روز مرہ کی بول چال میں زیادہ سے زیادہ عام فہم عربی الفاظ استعمال کرنے کی عادت ڈالیں.( الفضل ۲۱/۱۲/۵۷) (۳۸) تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.ایمان باللہ کا اثر انسان کے اخلاق اور اعمال پر (الفضل ۱۷٫۱٫۵۸ و ۴/۲/۵۸) (۳۹) ہیگ عالمی عدالت انصاف کے حج محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے گذشتہ منگل کو لاہور روٹری کلب میں تقریر کرتے ہوئے بے غرضانہ خدمت کا جذبہ پیدا کرنے کی اہمیت پر زور دیا.آپ نے فرمایا ، اگر روٹری کلب کے ممبران اس مقصد کے حصول میں کامیابی حاصل کر لیں تو زندگی زیادہ محفوظ ، دلکش ، پر مسرت اور خوشگوار بن سکتی ہے.روٹری کلب کے اس اجلاس میں دیگر حضرات کے علاوہ اسلامی مجلس مذاکرہ کے مندوبین نے بھی شرکت کی.دوران تقریر میں محترم چوہدری صاحب موصوف نے روٹری کے دستور العمل ” بے غرضانہ خدمت پر اسلامی نقطۂ نگاہ سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا.قرآن مجید میں اس امر کا ذکر آتا ہے کہ بعض قسم کے اجتماعات ، مجالس اور انجمنیں ایسی ہوتی ہیں جو بنی نوع انسان کی فلاح پر مبنی ہوتے ہوئے لوگوں کی ایسے طور پر راہ نمائی کر سکتی ہیں کہ جس سے ان میں فراخد لی اور سخاوت کا مادہ پیدا وو ہو.اور وہ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اور امن وسکون کے لئے کوشاں رہیں.آپ نے فرمایا.ہمیں ایسی تنظیموں کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنا چاہیئے.جو ہماری فلاح و بہبود کے لئے برسر کا ر ہوں اور لوگوں کی ترقی و خوشحالی جن کا سمح نظر ہو.ہمیں قرآن مجید میں اس امر کی بھی تلقین کی گئی ہے ، کہ ہمیں ایسی تنظیموں کا ہاتھ بٹانے اور اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے ہر دم تیار رہنا چاہیئے.” آپ نے مزید فرمایا حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس امر کو مسلمان کا ایک خاص وصف قرار دیا ہے کہ وہ اپنی ذات پر بنی نوع انسان کی خدمت کو ترجیح دے.اسی ضمن میں آپ نے اس امر پر زور دیا کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم روئے زمین پر پہلے انسان تھے.جنہوں نے بے غرضانہ خدمت کا انتہائی ارفع و اعلیٰ تصور پیش کیا.آپ نے تلقین کی کہ لوگوں کو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
228 اور حقیقی تعلق پیدا کرنے کے علاوہ اپنے گھروں ( میں ) اچھے والدین اور اچھی اولاد بننے کی طرف توجہ پیدا ہو، کیونکہ یہی اس کتاب کا بہترین جو ہر ہے.“ بقیہ حاشیہ: - کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بے غرضانہ خدمت کے اسی اعلی وارفع تصور کو اپنا طمح نظر بنانا اور اس پر کماحقہ عمل کرنا چاہیئے.محترم چوہدری صاحب موصوف نے ” بے غرضانہ خدمت“ کے اسلامی تصور کی وضاحت کے طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مختلف پہلؤوں پر روشنی ڈالی اور قرآن مجید کی متعدد آیات پیش کر کے اس تصور کی افادیت کو اجاگر کیا.“ ( الفضل ۱۱/۱/۵۸) ( ۴۰ ) اسی روز آپ نے لاہور میں مغربی پاکستان بار ایسوسی ایشن کے اجتماع میں عالمی عدالت انصاف کے طریق کار و اختیار پر تقریر کی.(الفضل / رو روزنامہ نوائے وقت لاہور مورخہ ۱۱/۱/۵۸) (۴۱) جامعہ احمد یہ ربوہ میں غیر ممالک میں تبلیغ کے سلسلہ میں مشکلات اور ان کا حل“ کے موضوع پر (الفضل ۱۵/۱/۵۸ و ۲۷/۱/۵۸).(۴۲ ۴۳) ماہانہ دو اجلاس ہائے مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ میں آپ نے خطاب فرمایا.ایک میں خدمت دین کے سلسلہ میں عائد ذمہ داریوں کی کماحقہ ادائیگی کی طرف آپ نے توجہ دلائی.اور دوسرے میں فرمایا کہ احمدی نوجوانوں کو یہ امر بھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے.کہ وہ دنیا میں اسلام کے چلتے پھرتے سفیر ہیں.ان کے قول و فعل میں ایسی کامل مطابقت ضروری ہے کہ دنیا ان کے وجودوں میں اسلام کی زندہ تصویر دیکھ سکے.(۱۰/۱/۵۸/۱ (ص۱) ۱۲/۱/۵۸ (ص۱) ۲٫۲/۵۸ (ص۳).(۴۴) تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں خطاب کہ طلباء ہمیشہ یہ مقصد پیش نظر رکھیں کہ ان کی زندگیاں بندگانِ خدا کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید بن سکیں.(الفضل ۲۶/۱/۵۸) (۴۵) '' احمدیت کا اثر عالم اسلامی پر تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۵۸ء.بتایا کہ کس طرح اسلام کی وہ صداقتیں جن کو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے، غیر شعوری طور پر قلوب و اذہان میں راسخ ہوتی جارہی ہیں.ناسخ و منسوخ ، وفات مسیح.مسئلہ جہاد ، عصمت انبیاء، حياة بعد المماة وغیرہ مسائل کے متعلق آغاز میں مخالفت کے بعد اب حضور کی تصریحات کو قبول کر کے یہ اعتراف کیا جارہا ہے کہ واقعی اسلام کی فضیلت کی بنیا دا نہی تصریحات پر ہے ( الفضل ۱۴/۱/۵۹).یہ تقریر کتابچہ کی شکل میں بعد میں طبع ہوئی.لیکن اس پرسن طباعت درج نہیں.( سائز (۳۰/۱۶×۲۰) صفحات ۳۲)
229 (۵) ایک عزیز کے نام خط مرقومه ۳۱/۵/۳۹ سائز ۱۶/ ۳۰ × ۲۰ صفحات ۱۶۴.میرے حاشیہ: - (۴۶) ۱/۳/۵۸ کو تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیالیاں میں جہاں علاقہ کے احباب جمع تھے.امیر ضلع مکرم بابو قاسم الدین صاحب نے آپ کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا.آپ نے اس کے جواب میں احباب کو خدمت خلق کی تلقین کی اور غیر از جماعت احباب کے لئے انسان کی پیدائش کے مقصد کے متعلق پنجابی زبان میں تقریر کی (الفضل ۱۱/۳/۵۸).(۴۷) جلسه سالانه ۱۹۵۸ء پر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے منعقدہ ایک اجلاس میں احمدیوں نے باون زبانوں میں تقاریر کی تھیں.اس کا افتتاح کرتے ہوئے محترم چوہدری صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود سے وعدہ تھا کہ : د میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان مہیا کرے گا.چنانچہ حضور کا پیغام بہت سی زبانیں جاننے والوں اور مختلف ممالک کے رہنے والوں نے سنا.چنانچہ ابھی آپ ان کی تقریریں سنیں گے.یہ نظارہ بڑا ہی ایمان افروز ہے.ہم پر لازم ہے کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے زبانیں سیکھیں اور بطور دلپسند مشغلہ Hobby) کے تبلیغ کی نیت سے غیر ملکی زبانیں سیکھ سکتے ہیں.علاوہ ازیں مرکز میں دنیا کی اہم اور مشہور کم از کم پانچ چھ زبانوں کے سکھلانے کا ہی ابتداء میں انتظام کرنا ضروری ہے.اس طرح جانے والے مبلغین کا بہت سا وقت بچ جائے گا.جب تک بیرونی ممالک میں ایسے لوگ بکثرت پیدا نہیں ہو جاتے.جو مرکز سے فیضیاب ہو کر اپنے علاقوں کو سیراب کریں.اس وقت تک ضروری ہے کہ ہم ایسے مبلغ پیدا کریں جو دینی علوم کے ساتھ بیرونی زبانوں کو بھی جانتے ہوں.(الفضل ۲۴/۱/۵۹) (۴۸) تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی یونین میں شخصیت کو بنانے اور شخصی کمال کرنے کے موضوع پر ایک معركة الآراء تقریر جوفن خطابت، روانی، زور بیان اور جذب و تاثیر کا ایک شاہکار تھی.جس میں آپ نے بتایا کہ انسان عالم صغیر کی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں تعمیر و ترقی اور ارتقاء کی بلندی کی ہمہ گیر صلاحتیں موجود ہیں.چاہئے کہ وہ اپنی قوتوں اور صلاحیتوں اور استعدادوں میں وہی ہم آہنگی و توازن ، ربط و ضبط اور اتصال پیدا کرے اور اس کے زیر اثر اپنی شخصیت کو بنانے اور شخصی کمال کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگار ہے.آپ نے ذرائع پر بھی روشنی ڈالی اور قرآن مجید کی آیات سے بتایا کہ زندگی کو فائز المرامی سے ہمکنار کرنے کا تمام را از قرآن مجید کی بے مثال تعلیم کو مشعل راہ بنانے میں مضمر ہے.(الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۵۹ء)
230 سامنے طبع دوم کانسخہ ہے.) اس وقت آپ ممبرا یگز یکٹیو کونسل وائسرائے ہند تھے.ابتداء میں حضرت بقیہ حاشیہ : - (۴۹) مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر اہتمام ایک جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے چوہدری صاحب نے دنیا میں مختلف معاشرتی نظاموں کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی باہمی کشمکش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسلامی معاشرے کا عملی نمونہ پیش کرنے کی اہمیت پر زور دیا.آپ نے بعض ایسی احتیاطوں کا بھی ذکر کیا کہ جن کو مدنظر نہ رکھنے سے تعاون ، اخلاص اور قربانی کی روح قائم نہیں رہتی.مثلاً قواعد کی پابندی ضروری ہے لیکن قواعد کام میں سہولت پیدا کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں.لیکن جو ان کی پابندی کو کام سرانجام نہ دینے کا بہانہ بنالے تو ظاہر ہے کہ وہ تعاون اور اخلاص کے جذبہ سے کام نہیں لیتا.نیز آپ نے بعض ایسے چھوٹے چھوٹے رفاہی کاموں کی طرف بھی توجہ دلائی کہ جن کو فارغ اوقات میں سرانجام دے کر دنیا کے سامنے اسلامی معاشرے کا عملی نمونہ با آسانی پیش کیا جا سکتا ہے.اس ضمن میں آپ نے بتایا کہ بے شک اسلامی معاشرہ دیگر معاشروں سے افضل و برتر ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ معاشرہ ہے کہاں.ہمیں اس چیلنج کا جواب دینا ہے.ہمیں دیگر معاشروں سے متاثر ہونے کی بجائے اسلامی معاشرے کا کامل نمونہ پیش کرنا چاہیئے.اور اہل ربوہ پر بدرجہ اولیٰ یہ فرض عائد ہوتا ہے.مال جان اور علم و فہم اور دیگر صلاحیتوں کو بشاشت قلب کے ساتھ ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہوئے بنی نوع انسان کی خدمت میں لگاؤ.یہ تبلیغ کا انتہائی مؤثر الفضل ۲۸ و ۲۹ جنوری ۱۹۵۹ء) (۵۰) جامعہ احمدیہ میں منعقدہ ایک مذاکرہ علمیہ میں آپ نے حصہ لیا.”ہدایت انسانی کے لئے وحی والہام کے تواتر کی ضرورت“ موضوع تھا.(الفضل ۵٫۲٫۵۹) (۵۱)۱۶/۱/۶۰ کو کل پاکستان باسکٹ بال مقابلہ کے اختتام پر ربوہ میں آپ نے نامور کھلاڑیوں.خطاب کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ کھیل میں ہار جیت کو نہیں بلکہ مقابلے اور مسابقت کی اس روح کو اصل اہمیت حاصل ہوتی ہے جس کے تحت کھیلوں میں حصہ لیا جاتا ہے.ہمارے کھلاڑیوں کو زندگی کے تمام مقابلوں میں اسی جذبے کے ساتھ حصہ لینا چاہیئے.(الفضل ۱۹/۱/۶۰) (۵۲) ۶۰ /۱۷ /۲۴ کو (۱۹۵۹ء کے ملتوی شدہ جلسہ سالانہ میں ) اخروی زندگی پر تقریر ( الفضل ۳/۲/۶۰) (۵۳) احمد نگر میں جماعت کو آپ نے اس امر کی تلقین کی کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اسلام کی اصل روح کو پورے طور پر سمجھنے کی توفیق عطا فرما کر ہمیں جتنے بڑے انعام سے نوازا ہے.اسی نسبت سے ہماری ذمہ داریاں بھی بہت اہم ہیں.انعام الہی کا حصول بڑی خوش نصیبی پر دال ہے لیکن وہ اس کی ذمہ داری کی نوعیت کو پہلے سے کہیں زیادہ بڑھا دیتا ہے.ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کی کماحقہ ادا ئیگی اور اسلام کا عملی نمونہ پیش کئے بغیر اپنی اہم ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے.( الفضل ۳۰/۱/۶۰) ذریعہ ہے.ޏ
231 وو مرزا بشیر احمد صاحب زاد عزہ ضروری گزارش میں تحریر فرماتے ہیں: مکرمی چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب.....نے اپنی اس قیمتی تصنیف میں نہ صرف جماعت احمدیہ کی بلکہ بنی نوع انسان کی ایک عمدہ خدمت سرانجام دی ہے.کیونکہ اس تصنیف میں وہ رستہ بتایا گیا ہے جس پر چل کر انسان ایک با اخلاق اور باخدا انسان بن سکتا ہے....اخلاقی اور روحانی خدمت کی طرف موجودہ مادی زمانہ میں بہت کم توجہ ہے اور اس لحاظ سے...یہ خدمت....بہت قابل قدر ہے.** (۶) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد پبلشر این بی سین صاحب مینجنگ ڈائریکٹر، نیوٹک سوسائٹی لاہور اس کے آغاز میں تحریر کرتے ہیں کہ اپنی کتاب ” پنجاب کے ہند ومشاہیر شائع کرنے کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ اسی طرز پر پنجاب کے مسلمان مشاہیر کے مختصر سوانح شائع کروں.اس سلسلہ میں میرے اصرار پر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے سوانح آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اخلاص اور قابلیت کے ساتھ تحریر کئے ہیں.توسیع اشاعت کے لئے میں نے یہ حصہ الگ شائع کر دیا.اس مضمون کی قبولیت کا اندازہ کر کے میں نے اسے اردو بقیہ حاشیہ: - (۵۴)۲۲/۱۰/۳۹ کو دہلی میں سیرۃ النبی کے جلسہ میں آپ نے تقریر کی.خواجہ حسن نظامی صاحب نے آپ کو خراج تحسین ادا کیا.(الحکم ۲۱/۲۸ اکتوبر ۱۹۳۹ء ص ۱و۲ ) (۵۵) آپ کی زیر صدارت دہلی میں تحریک جدید کا جلسہ منعقد ہوا.جس میں آپ نے مطالبات تحریک جدید پر ایمان افروز تقریر کی.(الفضل ۰/۱۱/۴۶ اص۵).(۵۶) احمد یہ مسجد دہلی میں آپ نے ایک تبلیغی جلسہ میں حضرت مسیح موعود کی اسلامی خدمات پر تقریر کی.( الفضل ۲۵/۲/۴۷ - ص۴) میرے سامنے طبع چہارم ہے.رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ بابت ۳۹.۱۹۳۸ء میں اس تصنیف کا ذکر ہے (ص۲۳۳).سو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا تبصرہ (مورخہ دسمبر ۱۹۳۸ء) طبع اول میں درج ہوا ہوگا.** نظارت تالیف و تصنیف کے ایماء پر اس کتاب کے مسودہ پر حضرت مدوح نے نظر ثانی کی رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ بابت ۴۰ - ۱۹۳۹ء ص ۱۳۵)
232 میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا.اور میری درخواست پر فاضل مصنف نے اضافہ کے ساتھ اس کا اردو میں ترجمہ بھی کر دیا.اور میں نے مناسب سمجھا کہ حضرت میرزا صاحب کی تقریروں کے کچھ اقتباسات بھی شامل کر دئے جائیں.ہر دو زبانوں کی کتابیں حضرت مسیح موعود ، خلفاء کرام اور محترم چوہدری صاحب کی تصاویر سے مزین ہیں.انگریزی صفحات چالیس ، سائز (۲۲/۸ ۱۸) امریکن احمد یہ مشن نے بھی اسے شائع کیا.(الفضل ۵/۴/۴۷) - اردو سائز /۳۰/۱۶×۲۰ صفحات اٹھاسی.(بشمول ۲۹ صفحات اقتباسات ) طبع اول دسمبر ۱۹۴۴ء طبع دوم دسمبر ۱۹۴۶ء.(۷) آپ کا ایک جامع و مبسوط مضمون اکابر غیر مبایعین کے مرکز سلسلہ سے اختلافات کے اسباب پر ماہنامہ فرقان ( بابت نومبر و دسمبر ۱۹۴۴ء میں شائع ہوا.تالیف مذکورہ بالا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد جس پر غیر مبائع پندرہ روزہ انگریزی اخبار دی لائیٹ (The Light) نے ۱/۹/۲۴ کی اشاعت میں تنقید کی.یہی تنقید چوہدری صاحب کے اس فاضلانہ مقالہ کا باعث ہوئی.( سائز ۲۶/۸×۲۰ صفحات ۱۱۶) (۸) روس میں اسلام “.(۹) اسلام اور لیگ آف نیشنز“ * ( ۱۰ واا) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں.** (۱۲)My Faith(انگریزی)*** ریویو آف ریلیجنز (اردو) بابت اکتوبر ۱۹۲۰ء.یہ اس مضمون کا ترجمہ ہے جو ہسٹار لیکل سوسائٹی لاہور میں ۵٫۱٫۲۰ کو آپ نے انگریزی میں پڑھا.( جور یو یو آف ریجنز (انگریزی) بابت جنوری و فروری ۱۹۲۰ء میں شائع ہوا.) آپ جولائی ۱۹۱۳ء میں روس گئے تھے.وہاں جو حالات آپ نے دیکھے.ان کا بھی اس میں ذکر ہے.مشہور کتاب Preachnigs Of Islam) کے مصنف ڈاکٹر آرنلڈ کی تحریک پر آپ نے یہ پروگرام بنایا تھا کہ ۱۹۱۴ء میں پھر روس جائیں اور کئی ماہ قیام کر کے وہاں کے اعلیٰ مسلم طبقہ سے رابطہ پیدا کریں.لیکن جنگ عظیم کے شروع ہو جانے کے باعث اس میں روک پیدا ہوگئی.۱۹۱۳ء میں آپ انگلستان میں طالبعلم تھے.اور قریباً اکیس سال کی عمر تھی.اس عمر میں کس قدر قابل قدر جذ بہ کے آپ مالک تھے.
233 (۱۳ تا ۲۳) دیگر بعض مضامین.* (۵) سپاسنامے بخدمت وائسرائے ہند صاحبان بعض سپاسنامے پیش کرنے کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے.بعض کا ذکر سہوارہ گیا تھا.جو ذیل میں ریویو آف ریلیجنز (اردو) بابت اکتوبر ۱۹۳۲ ء - ریویو آف ریلیجنز (انگریزی ) بابت جون ۱۹۳۲ء.گویا اصل مضمون انگریزی کا ہے جس کا بعد میں ترجمہ شائع ہوا.** الفضل ۲۶/۱۱/۲۳ و ۲۸/۱۰/۳۷ - مقدم الذکر مضمون آپ نے بسلسلہ گول میز کانفرنس لندن میں قیام کے دوران میں رقم فرمایا جبکہ آپ حد درجہ مصروف تھے.( رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ بابت ۳۴-۱۹۳۳ء صفحه ۱۹۵) *** ۱۹۵۵ء میں لندن میں مبلغین کی جو عالمی کانفرنس حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی زیر نگرانی منعقد ہوئی تھی اس میں سنائی گئی.رپورٹ بابت جرمن احمد یہ مشن میں ذکر تھا کہ اس کا ترجمہ جرمنی میں کیا جا چکا ہے.(الفضل ۱۲/۸/۵۵ ( ص ۸ ک۱) ابتداء میں یہ کتابچہ امریکہ میں طبع ہوا.اس پر چوہدری صاحب کی تصویر بھی ہے ( سائز ۲۶/۳۲*۲۰ صفحات ۱۶) دوسری بار انجمن یہ سکندر آباد دکن نے شائع کیا ( صفحات وسائز نا معلوم ) تیسری بار اشاعت منجانب نشر واشاعت احمدیہ قادیان ( سائز ۳۰٫۳۲*۲۰ صفحات ۱۶) ان مضامین کا یہاں حاشیہ میں ذکر کیا جاتا ہے : (۱۳) عیسائیت کے متعلق لندن سے اپنی طالبعلمی کے زمانہ میں ایک مراسلہ “ 14066 (۱۴) ''اسلام میں روحانیت.“ ( بابت جون ۱۹۱۹ ).(۱۵)THE POPE IS DEAD(انگریزی) بابت جنوری و فروری ۱۹۲۲ء) (۱۶)THE QRIGINAL SIN / بابت جولائی ۱۹۲۵ء) (۱۷)THE EVOLUTION OF FAITH / بابت اپریل ۱۹۲۶ء) (۱۸) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ زندگی ( الفضل خاتم النبیین سنمبر بابت ۳۱/۵/۲۹) (۱۹) یورپ اور امریکہ میں تبلیغ اسلام ( تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۳ء (الفضل ۹/۱/۳۴) (۲۰)THE FUTURE OF INDIA (ریویو (انگریزی) بابت اپریل ۱۹۳۴ء)
کیا جاتا ہے: 234 (۱) لارڈ ریڈنگ وائسرائے ہند کی خدمت میں جماعت کے وفد نے ۲۳/۶/۲۱ کو شملہ میں سپاسنامہ پیش کیا.جو محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے بطور سیکرٹری وفد پڑھا.اور حضرت بقیہ حاشیہ: - (۲۱) ISLAM PROMOTES WORLD UNITY,PEACE AND PROGRESS (الفضل بابت مئی ۱۹۳۴ء) THE HISTORY AND PROGRESS OF THE AHMADIYYA (MM) MOVEMENT (الفضل بابت دسمبر ۱۹۳۷ء) (۲۳) ورلڈ فیلوشپ آف فیتھس کی طرف سے شائع کردہ تین صد چونسٹھ صفحات کی کتاب میں آپ کا ایک مضمون اسلام اور احمدیت کے متعلق شائع ہوا.کتاب کا نام PEACE AND PROGRESS THROUGH WORLD FELLOWSHIP OF FAITHS صدرانجمن احمد یہ بابت ۳۸.۱۹۳۹ء ص ۱۷).(۲۴) حضرت مصلح موعو د ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اس فرمودہ الہی پر مضمون کہ:.زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.“ ( فرقان بابت اپریل ۱۹۴۴ء ) (۲۵ و ۲۶) آپ کے دو ذیل کے مضامین کا ترجمہ جرمن زبان میں ہو چکا ہے.ISLAM AND INTERNATIONAL LAW(1) (ب)ISLAM AND WEST (الفضل ۱۵/۹/۵۸ ص۴) (سالانہ رپورٹ (۲۷) اجلاس کل ہند مسلم لیگ منعقدہ دہلی ۱۹۳۱ ء کا آپ کا خطبہ صدارت ۲۶/۸×۲۰ کے سائز پر پینتالیس صفحات میں جامع پریس دہلی کی طرف سے شائع ہوا تھا.(۲۸) لاہور کے معروف رسالہ ” نقوش کے بخاری نمبر میں سید احمد شاہ صاحب بخاری مرحوم ( مستقل مندوب برائے مجلس اقوامِ عالم منجانب پاکستان ) کے متعلق اپنے تاثرات انگریزی میں رقم کئے ہیں.اس میں اس کا ترجمہ بھی شائع ہوا ہے.(۲۹) ایک اطالوی خاتون پروفیسر ڈاکٹر و گلیری نے اطالوی زبان میں ایک بہت مفید کتاب اسلام کے متعلق تالیف کی ، جس کا انگریزی ترجمہ ایک اور یورپین نے کیا.ریاستہائے متحدہ امریکہ کے احمد یہ مشین نے بھی ۱۹۵۷ء میں اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا.جس کا پیش لفظ جناب چوہدری صاحب نے رقم فرمایا.اس کتاب کا (مع پیش لفظ) ترجمه محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ (امیر جماعت وضلع لائل پور ) نے کیا.(الفرقان بابت ستمبر اکتوبر ۱۹۵۷ء).
235 نواب محمد علی خاں صاحب نے ایک کا سکٹ میں پیش کیا.اس وفد میں حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب بھی شامل تھے.اس سپاسنامے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے حالات اور آپ کی تعلیم کا ذکر تھا.تینتیس افراد کے وفد میں سے اس وقت غالباً ذیل کے احباب زندہ ہیں.مکرم مولوی محمد دین صاحب ( حال ناظر تعلیم ).مکرم سید ولی اللہ شاہ صاحب ( ناظر امور خارجیہ ) مکرم قاضی محمد شفیق بقیہ حاشیہ: - (۳۰) ماریشس سے رسالہ LE MASSAGE کے خاص نمبر میں جو مئی ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا.آپ کا ایک مضمون ہے.(اس وقت جون ۱۹۶۲ء میں ماریشس کے الحاج محمد سو کیا صاحب اور ان کے بھتیجے احمد شمشیر صاحب سو کیا قادیان آئے ہوئے ہیں.انہوں نے بتلایا کہ اصل مضمون انگریزی میں تھا.جس کا ترجمہ فرانسیسی میں کر کے درج کیا گیا ہے.) یہ دیدہ زیب رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام و حضرات خلفاء کرام و مجاہدین ماریشس حضرات حافظ عبید اللہ صاحب صوفی غلام محمد صاحب ، حافظ جمال احمد صاحب ( رضی اللہ عنہم ) اور اخوان المکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب ، مولوی فضل الہی صاحب بشیر ، مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر اور جناب چوہدری صاحب کی تصاویر نیز دیگر بعض تاریخی تصاویر سے مزین ہے.جواں سال مجاہد منیر صاحب کی مجاہدانہ مساعی کا شاہکار ہے.آپ نے ایک کالج کی بنیاد رکھی ہے جس کے ایک حصہ کی تعمیر سواد و صد ا حباب نے تمہیں سے چالیس گھنٹے کے متواتر وقار عمل سے کر کے لوگوں کو محو حیرت کر دیا ہے.اخویم بشیر احمد صاحب ( جو اس وقت جولائی ۱۹۶۲ء میں الوداعی زیارت قادیان کر کے ربوہ روانہ ہوئے ہیں، اب پھر ماریشس کے میدانِ جہاد کو روانہ ہورہے ہیں.انہوں نے اپنے سابق عرصہ قیام میں بہت سرفروشی سے کام کیا.اور جماعت کو جو بعض بغاوت پسندوں کے باعث تفرق کا شکار ہو رہی تھی.حیرت انگیز جذبۂ ایمان وایقان اور استقامت و استقلال کے ساتھ ایک سلک میں منسلک کیا اور بغاوت پسند اپنی مخادعانہ کارروائیوں میں خائب و خاسر ہوئے اور جماعت میں خلافت سے وابستگی پیدا ہوئی.اور اسی روح کو اخویم منیر صاحب نے نہ صرف قائم رکھا بلکہ جماعت کا قدم آپ کی مساعی سے بہت آگے بڑھا.اللہ تعالیٰ ہر دو کی مساعی کو اپنے حضور قبول فرمائے اور بیش از بیش خدمات جلیلہ کی توفیق ارزاں کرے.آمین.
236 صاحب پشاور.مکرم میاں محمد ابراہیم صاحب سود اگر چرم لاہور.اور مکرم خاں صاحب چوہدری نعمت اللہ خاں صاحب جالندھر.( الفضل ۴/۷/۲۱ ور یو یو آف ریلیجنز (انگریزی) بابت جون ۱۹۲۱ء) (۲) ۱/۸ اپریل ۱۹۳۱ء کو چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے جمعیت چوہدری فتح محمد صاحب سیال و مولا نا عبد الرحیم صاحب درد ( رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) ریٹائر ہونے والے وائسرائے لارڈارون کی خدمت میں وائسریگل لاج دہلی میں تحفہ لارڈارون کتاب ایک خوشنما کا سکٹ میں پیش کی.(الفضل ۱۴/۴/۳۱) تبلیغ کی خاطر سید نا حضرت خلیفتہ امیج ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب تصنیف فرمائی تھی.اس میں جہاں حکومت کو اس کی ذمہ واریاں یاد دلاتے ہوئے مسلمانان ہند کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی تھی.وہاں سلسلہ احمدیہ کی خصوصیات بھی بیان کی ہیں.اور اسلام کی پاکیزہ تعلیم کا ذکر کر کے انہیں دعوتِ اسلام دی ہے.بقیہ حاشیہ: - (۳۱) حضرت عرفانی صاحب سید نا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے سفر یورپ ۱۹۲۴ء کے تعلق میں جبکہ چوہدری صاحب بھی لندن میں مصروف خدمات سلسلہ تھے رقم فرماتے ہیں:.مکرمی چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے حضرت شہید کابل ( حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب.مؤلف ) کی شہادت پر اپنے ایمانی جوش سے متأثر ہو کر ایک خط سفارت افغانیہ کو انگریزی میں لکھا.جس میں حکومت افغان کے اس جفا کارانہ فعل پر اظہار نفرت کیا گیا.اور حکومت افغان کو قرآن مجید کے اس وعید کی طرف توجہ دلائی جو قتل مومن کے متعلق آئی ہے.سفارت کا بل کا اس چٹھی پر نعل در آتش ہونا قدرتی امر تھا ،اوراس کے جواب نے ثابت کر دیا ، کہ ع عذر نا معقول ثابت می کند الزام را بالکل درست ہے.“ ( الفضل ۷/۱۰/۲۴) (۳۲) ٹائمنز آف انڈیا بمبئی شائع کردہ The India and Pakistan Who's Who -۱۹۵۲-۵۳ء میں آپ کی بعض قانونی مطبوعات مذکور ہیں.(۳۳) ومسلم ٹائمنر لنڈن ۱۵/۸/۳۷ میں آپ کے مضمون کا ترجمہ زیر عنوان ” اسلام کا روحانی پہلو.“ (الفضل ۳/۹/۳۷)
237 (۳)۲۶ / مارچ ۱۹۳۴ء کو وائسرائے ہندا رل آف ولنگڈن کی خدمت میں بمقام دہلی احمد یہ وفد کی طرف سے سپاسنامہ چوہدری صاحب نے پڑھا.* (۶) شہزادہ ویلز کی خدمت میں روحانی تحفہ پیش کرنا : ۱۹۲۲ء میں شہزادہ ویلز کے مملکت ہند میں ورود کے موقعہ پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک تبلیغی کتاب ( جو تحفہ شہزادہ ویلز کے نام سے معروف ہے.) رقم فرمائی اور جماعت کے وفد نے اسے ۲۷ فروری کو لاہور میں پیش کیا.اس وفد میں حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب اور محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بھی شامل تھے.** (۷) ادارہ فضل عمر سائینسی تحقیقات حضرت خلیفتہ اہسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک ہاتھوں کئی اہم امور کی بنیاد رکھی جا چکی اکتیس احباب کے اس وفد میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب ،حضرت مولانا عبد الماجد صاحب بھا گلوری، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی شامل تھے.دیگر غالبا ذیل کے افرادِ وفد زندہ ہیں.سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ، صاحبزادہ محمد طیب صاحب (خلف حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید ( خان بہادر چوہدری نعمت اللہ خاں صاحب سکنہ مدار ( جالندھر ) و ملک عبد الرحمن صاحب رئیس قصور.الفضل ۱۶/۳/۲۲.اس وفد کے چالیس ممبران میں سے محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے علاوہ غالبا اب صرف ذیل کے احباب زندہ ہیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب.خاں صاحب چوہدری نعمت اللہ صاحب جالندھر، مکرم قاضی محمد شفیق صاحب پلیڈر پشاور، مکرم میاں محمد ابراہیم صاحب سوداگر چرم لاہور.مکرم سید بشارت احمد صاحب حیدرآباد دکن.مکرم پروفیسر محمد صاحب ایم.اے مدراس.مکرم سید ولی اللہ شاہ صاحب ( ناظر امور خارجه ) ومکرم مولوی محمد دین صاحب ( ناظر تعلیم )
238 ہے.جو اپنے وقت پر بڑ کے تناور درخت کی طرح پھولیں پھلیں گے.اور برکات کا موجب ہوں گے.ایسا ہی ادارہ فضل عمر سائنسی تحقیقات کا ہے.جس کا قادیان میں افتتاح ڈاکٹر سر شانتی سروپ بھٹناگر ( ڈائریکٹر کونسل آف سائینٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ حکومت ہند ) نے بقیہ حاشیہ: شہزادہ ویلز کی لاہور میں استقبالیہ تقریب کے موقعہ پر گورنر پنجاب کی طرف سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بھی مدعو تھے.گو عام حالات میں حضور ایسی تقاریب میں شرکت نہیں کرتے ، لیکن ملک کے خاص حالات کے باعث آپ نے شمولیت ضروری سمجھی اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب، چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد ( رضی اللہ عنہم ) کی معیت میں لاہور تشریف لے گئے.اور محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے ہاں قیام رہا.حضور کی آمد کے باعث احمدی احباب کی کثیر تعداد لاہور کچھی آئی.جن کی مہمان نوازی پر آٹھ صد روپیہ کے صرفہ کا عام اندازہ ہے.چوہدری صاحب جیسے با ہمت امیر جماعت خاص طور پر قابلِ مبارک باد سمجھے گئے کہ آپ نے ان اخراجات کا بیشتر حصہ ذاتی طور پر برداشت کیا.ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) بابت مارچ تا مئی ۱۹۲۲ء) الفضل میں مرقوم ہے کہ حضور کا لاہور سٹیشن پر استقبال چوہدری صاحب (امیر جماعت ) نے مع چند احباب کیا اور حضور موٹر پر چوہدری صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے.اور مع رفقاء مقیم ہوئے.حضور گورنر کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے.نیز احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کے اجلاس میں ۲۷/۲/۲۲ کو روحانی نشاة ثانیہ کے موضوع پر طلباء و پروفیسر صاحبان میں زیر صدارت محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب تقریر فرمائی.۲۸/۲/۲۲ کو دیال سنگھ کالج کے پرنسپل نے جو بنگالی تھے.تین گھنٹے تک اسلام کی افضلیت وغیرہ کے متعلق تبادلہ خیالات کیا.وہ اردو اچھی طرح نہ بول سکنے کی وجہ سے بعض دفعہ انگریزی بولتے تھے.حضور کے اردو جواب کا کچھ حصہ وہ نہ سمجھ سکتے ، تو چوہدری صاحب انگریزی میں ان کو بتا دیتے تھے.بعض پروفیسر صاحبان بھی ملاقات کے لئے آئے.اور رات ساڑھے ۱۲ بجے تک حضور مختلف مسائل پر گفتگو فرماتے رہے.مرقوم ہے کہ اس سفر میں حضور اور خدام کی مہمان نوازی کا انتظام چوہدری صاحب نے کیا اور تمام احباب کو نہایت آرام پہنچایا اور ہر ممکن خدمت بجالائے.اور بوقت روانگی چوہدری صاحب اور احباب نے لا ہور ٹیشن پر الوداع کہا.( الفضل ۲۷ / فروری و ۲ / مارچ و ۶ / مارچ ۱۹۲۲ء ) حضور نے ۲۴/۲/۲۲ کو جمعہ چوہدری صاحب کی کوٹھی پر پڑھایا.) (الفضل ۹/۳/۲۲)
239 ۱۹ ر ا پریل ۱۹۴۶ء کو بروز جمعہ کیا.ڈاکٹر موصوف نے ایڈریس کے جواب میں حضور اور چوہدری صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی ذکر کیا کہ چوہدری صاحب نے اس امر کے لئے قادیان آنے کی دعوت دی تھی.اور یہ بھی ذکر کیا کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ہندوستان میں یہ دوسرا ادارہ ہے.(الفضل ۲۳٫۴٫۴۶) (۸) تربیت و تبلیغ اور اعلائے کلمتہ اللہ آپ کے قلب صافی میں جذبہ اعلائے کلمۃ اللہ کا ایک بحر مواج موجزن ہے.گول میز کانفرنس وغیرہ کے مواقع پر باوجود انتہائی مصروفیتوں کے آپ نے ہمیشہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے وقت نکالا.آپ نے صدر جمہوریہ امریکہ کو قرآن مجید کا ہدیہ پیش کر کے اسلام کی دعوت دی.کیا اسلامی ممالک کے بلاک اور صدر صاحبان اور وزراء اعظم میں سے کسی کو اس کی توفیق نصیب ہوئی؟ کبھی آپ نے سنا کہ فلاں ملک کے مسلمان وزیر اعظم نے امریکہ، جرمنی ،انگلستان وغیرہ میں اسلام کے محاسن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد پیش کئے ؟ ہر گز نہیں.عصر حاضر میں جری اللہ فی حلل الانبیاء حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام نے ہی زندہ اسلام اور اس کے زندہ رسول کو پیش کیا.اور اپنی زندگی میں دیگر مذاہب کے رہنماؤں کو اور ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام دی.اور پھر جماعت احمدیہ نے عوام و خواص تک دعوتِ اسلام پہنچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی.ان لوگوں کو غور کرنا چاہیئے.جن کا کام احیاء اسلام نہیں بلکہ کفر کے فتاویٰ جاری کر کے بعض افراد کی موت کا اعلان کرنا ہے.یہ لوگ اسلام کو ایک قبرستان ظاہر کرتے ہیں جہاں گویا صرف مردوں ނ واسطه ہے اور يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيْبُوا لِلهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (سورة الانفال) کا عملی منظر پیش کرنے سے یہ لوگ قاصر ہیں.ہفت روزہ موقر " رفتار زمانہ لاہور رقمطراز ہے: فارغ اوقات میں تبلیغ اسلام آپ کا محبوب مشغلہ ہے اور دنیائے اسلام کا یہ واحد عظیم سیاستدان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلتے دیکھنے کو مانند سیماب بے قرار ہے.اور اس بے قراری کی تسکین کے لئے ہر خاص و عام کو حق وصداقت کے سندیسے
240 بانٹتا پھرتا ہے.اور ہر تشنہ لب کو مئے عرفان کے جام پیش کرتا ہے.ہر گم کردہ راہ کو مشعلِ اسلام کی روشنی میں صراط مستقیم دکھاتا ہے.ہمت و حوصلے کا یہ پیکر بڑھاپے کے باوجود جواں مردوں سے بڑھ کر خدمتِ دین کا شوق رکھتا ہے.متانت و سنجیدگی کا یہ مجسمہ نہایت لطیف پیرائے میں اقوام عالم کے مندوبوں کو اَشْهَدُ ان لَا إِلَهَ إِلَّا الله وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللهِ کی تفسیر بتاتا ہے.“ ( مورخہ اگست ۱۹۶۱ء) محترم چوہدری صاحب کو جس قدر وسیع علاقوں میں اور دور دور کے ممالک میں بنفس نفیس پہنچکر اعلائے کلمتہ اللہ کا موقعہ حاصل ہوا ہے.یہ موقعہ جماعت میں سے کسی کو میسر نہیں آیا اور آپ کی ذاتی وجاہت اور تقویٰ بھی اس کی زیادتی کا باعث ہوا.چنانچہ حضور نے ایک خطبہ میں فرمایا: کسی زمانہ میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب لاہور کی جماعت کے امیر تھے.اور میں جب کبھی یہاں آتا تھا تو انہی کے گھر ٹھہرتا تھا.مجھے یاد ہے کہ ان دنوں جب بھی میں یہاں آتا تھا.ملنے والوں کا برابر تانتا بندھا رہتا تھا.لوگ میری باتیں سننے کے لئے آجاتے تھے ، اور یہ بہر حال چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی سنجیدگی کا اثر تھا کہ لوگ ان کی باتیں سنتے تھے.اور جب کبھی میں یہاں آتا تھا، تو ان کے دوستوں کو خیال آتا تھا کہ وہ مجھ سے مل لیں.( الفضل ۲۸/۱/۵۶) خطبه مورخه ۶ ۶/۱/۵) جلسہ مصلح موعود کے موقعہ پر ۲۳ / مارچ ۱۹۴۴ء کو پیشگوئی کے اس حصہ کے متعلق کہ: خدا تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا“ اور مصلح موعود ” زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.چوہدری صاحب نے بتایا کہ مجھے عراق ، مصر، مغربی افریقہ ( گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا) اور جنوبی امریکہ میں برازیل اور گی آنا اور شمالی امریکہ، انگلستان، پولینڈ ، ہنگری اور اٹلی میں جانے اور مبلغوں کی تبلیغ کے نیک ثمرات دیکھنے کا موقعہ ملا.شامی احمدیوں سے بھی ملاقات ہوئی.چین کے مغربی علاقہ میں احمدیت پھیلانے کا مجھے ہی موقعہ ملا.بلکہ وہاں میری تقریر سے میرے عملہ کے ایک فرد جو احمدیوں کے سخت مخالف تھے ، احمدی ہو گئے.دیگر متعدد مقامات پر بھی مجھے تبلیغ کرنے کا موقعہ ملا.اور مجھے چاروں براعظموں میں حضرت مسیح موعود کے نام اور تعلیم کو پھیلتے دیکھنے کا موقعہ ملا.* حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ۱۹۵۵ء کے قیام لندن کے دوران میں دنیا بھر کے
241 مبلغین اسلام کی تاریخی کا نفرنس ۲۳ و ۲۴ / جولائی کو منعقد ہوئی جس میں یورپ ، امریکہ اور افریقہ میں تبلیغ اسلام کی توسیع کے متعلق اہم فیصلے کئے گئے.اس میں چوہدری صاحب نے بھی تبلیغ اسلام اور اسلامی لٹریچر کی اشاعت اور تعلیمی اسکیموں سے متعلق بحث میں حصہ لیا.** آپ کی تبلیغی اور تربیتی مساعی کا بالاختصار ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے: (۱) امریکہ.حضرت صوفی مطیع الرحمن صاحب مجاہد امریکہ نے رقم فرمایا: مجلس مذاہب عالم کے انعقاد کے دوران میں شکاگو میں اس سپوتِ اسلام نے موثق ومؤثر لیکچر دئیے.“ ”ہمارے معزز و محبوب بھائی آنریبل چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی اگست ۳۳ء میں تشریف آوری اس ملک کے احمد یہ مشن کی استقامت کے لئے باسعادت ثابت ہوئی.آپ کے لیکچروں کے ذریعہ ایک روح افزا سماں قلوب پر مسلط ہو چکا ہے.نومسلموں اور دوسرے اسلام سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ تشریف فرمائی ایک جلا کا کام کر گئی ہے.آپ کی تشریف آوری سے ہمارے سلسلہ کی دھاک بیٹھ گئی ہے.‘“ *** آپ ۸/۱۲/۳۳ کو بمبئی پہنچے.آپ کا استقبال کیا گیا.پھر آپ سیدھے امیر جماعت سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے جو بوجہ علالت تشریف نہ لا سکے تھے.پھر نماز جمعہ میں شریک الفضل ۲۸/۱/۵۶) آپ کو تبلیغ کا شوق ابتداء سے ہے.چنانچہ ۱۹۲۱ء کے جلسہ سالانہ پر تالیف واشاعت کی جو رپورٹ سنائی گئی.اس میں سات افراد کا ذکر کیا گیا ہے.جنہوں نے اپنے طور پر تبلیغ میں زیادہ حصہ لیا.اس میں چوہدری صاحب اور آپ کے والد ماجد کے اسماء بھی شامل ہیں.( الفضل ۱۲/۱/۲۲ص ۵) الفضل ۲۷/۷/۵۵).اس میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ نے My Faith جو ایک کتا بچہ انگریزی میں امریکہ میں شائع کیا تھا.جرمنی میں اس کا ترجمہ کر کے اس سے استفادہ کیا گیا ہے.(الفضل ۱۲/۸/۵۵ ص ۸) ☆☆ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ بابت ۳۴ ۱۹۳۳ء (ص۲۰۹ و ۲۱۰) چوہدری صاحب نے ۱۹۳۳ء کے جلسہ سالانہ پر اس مشن کے حالات بیان کئے تھے.(ص۲۰۳)
242 ہوئے.اور احمدی احباب سے بے تکلفی سے ملاقات کی.اس سلسلہ کی باتیں سناتے رہے.آپ نے امریکہ کے مجاہد صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مخلصانہ خدمات کا جوش سے ذکر کیا.اور ان کی بلند ہمت کا بھی ذکر کیا کہ باوجود مشکلات کے وہ علم احمدیت کو بلند کئے ہوئے ہیں اور ان کے اخلاص کا وہاں کے لوگوں پر بہت اثر ہے.ان باتوں کو بیان کرتے ہوئے.آپ پر ایک قسم کی محویت طاری تھی.آپ ان کے ممنون تھے کہ انہوں نے آپ کو خدمت سلسلہ کے لئے مصروف رکھا.(الفضل ۱۹/۱۲/۳۳ص۱) دسمبر ۱۹۵۱ء میں تین دن چوہدری صاحب سینٹ لوئس میں ٹھہرے.ایک اعلیٰ ہوسٹل میں اور مسجد میں ایک مؤثر تقریر کی.جن میں اسلامی تعلیم اور احکام وغیرہ کی خوبیاں بیان کیں.ایک انٹرویو میں آپ نے اسلام کا پیغام پہنچایا.آپ کی آمد بڑی مبارک اور مفید ثابت ہوئی.۲ الفضل ۲۵/۲/۵۱ ( ص ۶) رپورٹ احمد یہ مشن آپ نے ۲۶ مارچ ۱۹۵۷ء کو نیویارک میں AMERICAN FRIENDS OF THE MIDDLE EAST کی سالانہ کانفرنس میں ایک لینچ کے موقعہ پر ایک اہم تقریر فرمائی.جسے کا نفرنس کے حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا.اور اس کا خلاصہ سوسائٹی کے ایک اخبار میں شائع کیا گیا.آپ نے بیان فرمایا تھا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے.اور مسلمانانِ عالم کے مسئلہ کو سمجھنے کے لئے اسلامی تعلیمات کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا ضروری ہے.* (الفضل ۲۵/۶/۵۷) (۲) انگلستان.الفضل میں مرقوم ہے: وو ” جناب چوہدری صاحب موصوف نے گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کے حقوق اور مفاد کی حفاظت کے لئے جو کچھ کیا.اس سے قطع نظر...با وجود سب ممبران کانفرنس سے زیادہ مشغول ہونے کے جناب چوہدری صاحب موصوف تبلیغ و اشاعت اسلام کے مقدس فرض سے بھی غافل نہیں رہے.چنانچہ اس عرصہ میں انہوں نے بہت سے لیکچر اسلام کی خوبیوں پر احمد یہ مسجد لنڈن میں آپ کی تالیفات بابت سیرۃ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے اس مشن نے استفادہ کیا اور اسے دیدہ زیب رنگ میں شائع کیا.الفضل ۵/۴/۴۷- ص ۴)
243 66 دیئے.اور مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے واقف کرنے کیلئے بہت کوشش کی.“ اس موقعہ پر خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام مسجد فضل لنڈن کو موقعہ ملا کہ ان کی معیت میں علامہ اقبال ، مولانا شوکت علی وغیرہ مسلم رہنماؤں کو کھانے پر مدعو کریں.مولانا غلام رسول مہر مدیر انقلاب روز نامہ لاہور نے جو خود بھی وہاں مدعو تھے ، ایک تفصیلی نوٹ احمد یوں اور مسجد احمد یہ لنڈن پر شائع کیا.جس میں یہ بھی ذکر ہے کہ: بعض ( نومسلم ( انگریز خاتونوں ، صاحبزادیوں اور بچیوں اور نوجوانوں نے قرآن مجید کی مختلف سورتیں سنائیں.اس بات پر سب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.کہ خدا کا آخری پیغام انگریز قوم کی زبان پر جاری ہو رہا ہے.ایک چھ سات سال کی انگریز بچی نے سورۃ فاتحہ سنائی حضرت علامہ اقبال نے 66 ۱۳۲ اسے ایک پونڈ انعام دیا.“ ( روزنامہ انقلاب مورخه ۲۹/۱۰/۳۱ ( بحواله الفضل ۱۱/۳۱راص ۹) چوہدری صاحب کے لنڈن آنے پر نو مسلم انگریزوں نے اسٹیشن پر آپ کا استقبال کیا.اور آپ نے دار التبلیغ میں اسلامی احکام کی حکمت پر تقریر کی.لندن مشن کی رپورٹ میں حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب در در قم فرماتے ہیں کہ نواب صاحب رامپور نے وائسرائے کے اعزاز میں دعوت چائے دی جس میں میں بھی چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے ساتھ مدعو تھا.چوہدری صاحب نے وائسرائے کے ساتھ میرا تعارف کرایا.لندن کے وکٹوریہ اسٹیشن پر میں سر سکندر حیات خاں کے استقبال کے لئے چوہدری صاحب کے ہمراہ گیا.اگلے اتوار کو سر موصوف نے ہماری مسجد میں نماز عصر ہمارے ساتھ ادا کی.بعدہ ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں نومسلموں نے قرآن مجید کی تلاوت کی.چوہدری صاحب نے معزز مہمانوں کے خاندانی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے سر موصوف کی بطور ممبر حکومت پنجاب اور دو مختصر عرصہ میں بطور گورنر کے ممتاز خدمات کا ذکر کیا.اور حضرت مسیح موعود کے ساتھ آپ کے والد کے تعلقات کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ جماعت احمدیہ کی ترقی کے ساتھ یہ تعلقات اور بھی نمایاں ہوں گے اور لندن مشن کے کام کا بھی ذکر کیا.سر موصوف نے چوہدری صاحب موصوف اور لندن کی احمد یہ جماعت کا ایسے مخلصانہ خوش آمدید کہنے پر شکریہ ادا کیا.اور حضرت امام جماعت احمد یہ اسلام اور مسلمانانِ ہند کی جو خدمات سرانجام دے رہے ہیں.ان کا اعتراف کیا.اور انگلستان میں اسلام کی ایسی اشاعت اور
244 انگریزوں سے قرآن مجید کی تلاوت پر بہت خوشی کا اظہار کیا.[ ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) بابت اگست ۱۹۳۴ء ( ص ۳۱۹ و ۳۲۰).(۳۴ ۱۹۳۳ء) معاملات کشمیر کے متعلق چوہدری صاحب نے ارباب حل و عقد سے ملاقات کر کے توجہ دلائی.اتوار کے جلسوں میں مسجد فضل میں تقاریر کیں.وہاں کی جماعت میں برادرانہ تعلقات مستحکم کرنے کے لئے ”سوشیل منعقد کرنے کا انتظام کیا گیا جو ناچ ، گانا اور قابلِ اعتراض تفریحات سے مبرا ہوں، دلچسپ کہانیاں مختصر تقاریر اور بعض تفریحی کھیل اس میں ہوں.محترم چوہدری صاحب کی نوازش سے جماعت کو ایک تفریحی ٹرپ کا موقعہ ملا.آپ تمام احباب کو ایک بس میں گلڈ فورڈ لے گئے.جہاں تمام دن گزارا گیا.* ۳۸.۱۹۳۷ء کے متعلق مرقوم ہے کہ اس عرصہ میں دو دفعہ آپ لندن آئے.اور آپ کے ذریعہ بہت سے انگریزوں کو سلسلہ کی تبلیغ ہوئی.آپ کے اعزاز میں وسیع پیمانے پر مشن کی طرف سے دعوت چائے دی گئی.جس میں اعلیٰ طبقہ کے لوگ مدعو تھے.عید الاضحی کے متعلق مرقوم ہے کہ پونے سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ (۱۹۰ و ۱۹ و ۲۰) وہاں چندہ وصیت کی ادائیگی کا بھی ذکر ہے.( ص ۱۹۳ و ۱۹۵) گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد جب دسمبر ۱۹۳۳ء میں مراجعت فرمائے ہند ہونے والے تھے.تو انگلستان کے نو مسلموں کی طرف سے آپ کی خدمت میں ایک سپاسنامہ پیش کیا گیا.جس میں ذکر تھا کہ ہم آپ کی جدائی سے ملول ہیں.آپ اکثر مسجد میں آتے رہے.اور آپ کی حیرت انگیز شخصیت نے ملنے والوں کو اپنا شیدا بنالیا.اور آپ جماعت انگلستان کی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں رہے.متن میں مذکور ” سوشیل“ کا ذکر کر کے بیان کیا کہ مسجد سے باہر جماعت کے احباب کے میل جول کا یہ پہلا موقعہ تھا.اس سے ہمارے درمیان ایسی روح پیدا ہوئی جو ہم مذہبوں کے درمیان ہونی چاہیئے اور یہ اسلامی اخوت اور مساوات کا ایک ثبوت تھا.برلب سڑک با جماعت نماز پڑھتے دیکھنے والوں پر دین فطرت کا اثر ہوا ہوگا.آپ نے برطانوی بہنوں بھائیوں میں سے اس کے لئے اپنی گرہ سے الفضل جاری کرانے کی پیشکش کی جو سب سے زیادہ اردو جانتا ہو.آپ کی یہ تحریک ہمیں یہ احساس دلاتی رہے گی کہ ہمیں تراجم سے مطمئن نہیں ہونا چاہیئے.اور اردو سیکھ کر براہ راست چشمہ سے سیراب ہونا چاہیئے.اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات کا جو الفضل میں شائع ہوتے ہیں مطالعہ کرنا چاہیئے.ہم احسان مند ہیں کہ آپ نے سلسلہ کی
245 دوصد کی حاضری ہوگئی.صدر جلسہ لارڈ لینز برگ نے حاضرین سے چوہدری صاحب کا تعارف کراتے ہوئے آپ کی قابلیت کی تعریف کرتے ہوئے آپ سے دوستانہ تعلقات رکھنے کا فخر یہ رنگ میں ذکر کیا.چوہدری صاحب نے ایک گھنٹہ تک ایک نہایت دلچسپ اور پر از معلومات شاندار تقریر فرمائی.جس میں احمدیت کی غرض و غایت اور اس کے موجودہ نظام کی تفصیل اور جماعت کی بے نظیر قربانیوں کا آپ نے ذکر کیا.حاضرین نے ہمہ تن گوش ہو کر دلچسپی سے سنی.ہر دو تقریبات کا ذکر وہاں کے مشہور اخبارات میں آیا اور بعض نے تصاویر بھی شائع کیں.بہت سے قونصل ہائی کمشنر اور خطاب یافتہ لوگ شامل ہوئے.(۳۹.۱۹۳۸ء) آپ نے ایک تقریر میں برکات احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے اپنی والدہ محترمہ کے دلچسپ حالات بیان کئے.تقریر کے موقعہ پر چائے پر غیر مسلم بھی مدعو تھے.(۴۰ - ۱۹۳۹ء) چوہدری صاحب نے جمعہ پڑھایا.دعوتی خطوط بھیجوانے کے باعث ہیں افراد کا اجتماع ہو گیا.( رپورٹ.ص ۸۹) یہ دوسری عالمگیر جنگ کے ایام تھے.ان ایام میں اتنا اجتماع بقیہ حاشیہ :.بعض نہایت اہم اور ضروری کتب کو ترجمہ کر کے ہم تک پہنچایا.جو یقین ہے کئی ایسے افراد کے قبول اسلام کا موجب ہو گئیں جن کے لئے اسلام سے واقفیت کا کوئی امکان نہ تھا.آپ سیاسی خدمات کے دوران میں جن سے ملاقی ہوئے ، ان سب پر آپ کی فاضلانہ قابلیت اور آپ کی نیکی ، انکساری، تقوی ، بے نفسی اور اخلاق فاضلہ کا گہرا اثر ہوا ہے.جماعت اور ملک کی ایسی قوت اللہ کے فضل سے ہی حاصل ہو سکتی ہے.جماعتی کاموں میں آپ کی مدد نے آپ کو ہر دل عزیز بنا دیا ہے.ہماری دعا ہے کہ آپ کے ایمان میں اور ترقی ہو..اور صحت واقبال آپ کے شاملِ حال رہے.محترم چوہدری صاحب نے جواباً کہا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ جو کچھ میری تعریف میں کہا گیا ہے، وہ درست ثابت ہو.اور نیز فرمایا کہ آپ لوگ اس ملک میں اسلام کے اولین نام لیوا ہیں.اسلام کی ترقی کے سامان اللہ تعالیٰ کرے گا.اس لئے یہ مت خیال کرو کہ تم تھوڑے، کم علم اور غریب ہو.[ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ پہلے ایسے لوگوں کو ایمان کی توفیق دیتا ہے تا بعد میں یہ نہ کہا جا سکے کہ اسلام کی ترقی فلاں وجہ سے ہو گئی ہے.سالانہ رپورٹ صد را انجمن احمدیہ (ص ۵۴ و ۵۵ ) آپ کی تقریر کی رپورٹ اخبار SOUTH WESTERN STAR میں شائع ہوئی (ص۵۹).
246 بھی غنیمت تھا.آپ نے ایک کلب کو بالتفصیل اسلام کے متعلق واقفیت بہم پہنچائی اور تعلق باللہ پر خطبہ پڑھا.* (۳) جرمنی.آپ کے مضامین اور ایک کتابچہ کا جرمنی زبان میں ترجمہ کیا گیا.(دیکھئے قلمی جہاد ) (۴) عدن ۱۲ جنوری ۱۹۳۸ء کو لندن جاتے ہوئے چند گھنٹوں کے لئے چوہدری صاحب عدن میں ٹھہرے.جماعت کے سپاسنامے کے جواب میں آپ نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے اور عملی نمونہ بہتر بنانے کی تلقین کی.(الفضل ۱۰/۲/۳۸) (۵) ماریشس.آپ کا ایک مضمون وہاں کے جماعتی رسالہ میں شائع ہوا.(دیکھئے زیر قلمی جہاد ) (۶) ہالینڈ.مجاہد ہالینڈ اپنی رپورٹ میں محترم چوہدری صاحب کو اس مشن کی ” روحِ رواں“ قرار دیتے ہیں.( الفضل ۹/۱۲/۵۶) آپ نے وہاں ایک خطبہ جمعہ میں بتایا کہ قرآن مجید نے چودہ سو برس قبل دنیا کے موجودہ خطرناک حالات سے مطلع کیا.اور ان سے بچنے کے ذرائع سے ہمیں آگاہ کر دیا تھا.ہم دعا ، ذکر الہی اور استغفار کے ذریعہ بنی نوع انسان کی وہ خدمت سرانجام دے سکتے ہیں جس کی کسی اور جماعت میں طاقت نہیں.کیونکہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے.ہمارا مذ ہب زندہ مذہب ہے اور ہماری تعلیم زندہ تعلیم ہے.( الفضل ۲۲/۸/۵۸) جماعت احمدیہ مغرب میں بفضلہ تعالیٰ دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے.یورپ کے اکثر مشن ۱۹۴۵ء میں کھولے گئے تھے.لیکن اس قلیل عرصہ میں اغیار بھی ان کی اہمیت اور کامرانی پر حیران ہیں.کچھ عرصہ سے یورپ کے مختلف شہروں میں احمد یہ مشنوں کی سالانہ کانفرنس منعقد کی جاتی ہے.جو اس ملک میں بالخصوص بیداری پیدا کرتی ہے.چنانچہ چھٹی سالانہ کانفرنس کا انعقاد ستمبر ۱۹۵۸ء میں ہالینڈ کے شہر ہیگ میں ہوا.ٹیلی وژن اور پریس کے ذریعہ ملک کی فضاء اسلام کے زندگی بخش پیغام سے گونج اٹھی.اخویم حافظ قدرت اللہ صاحب مجاہد کی رپورٹ سے اس کی کامیابی کا علم ہوتا ہے.آپ اس ضمن میں رقم طراز ہیں: جناب چوہدری ( محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا وجود ہمارے لئے ایک نعمت عظمی کی حیثیت رکھتا ہے.آپ نے اپنی زریں نصائح اور نیک صحبت سے باوجود مصروفیت کے ہمیں متعدد بار مراد FOLK LORE فیلوشپ کلب ہے.(الفضل ۲۱/۶/۴۶ میں اس بارہ میں لمبی رپورٹ درج ہے.) بابت خطبہ الفضل ۶/۳/۶۰ - ص۴)
247 وو نوازا.اسی طرح آپ کی بیگم صاحبہ محترمہ نے بھی اپنا قیمتی وقت عطا فرما کرمشن کے ساتھ دلی ہمدردی کا ثبوت بہم پہنچایا.“ یہ ذکر کر کے کہ یہ پہلی بار تھی کہ ہالینڈ مشن کی کوئی تقریب ٹیلی وژن کے ذریعہ نشر ہوئی ہے.ہیگ میں دوبارا ایمسٹر ڈم میں ہفتہ بار یہ ریکارڈ دکھایا گیا.آپ لکھتے ہیں : پھر مکرم چوہدری صاحب بالقابہ کو مبلغین کرام کے ساتھ دکھایا گیا.“ (الفضل ۲۸/۱۰/۵۸) مورخہ ۱۹/۹/۵۸ کی شام کو آٹھ بجے کا پہلا اجلاس یورپ میں تبلیغی مساعی پر غور وفکر کرنے کے لئے منعقد ہوا.اس اجلاس کے لئے مکرم محترم چوہدری صاحب بالقالبہ کی خدمت میں درخواست کی گئی تھی کہ آپ اپنی زریں نصائح اور دعا کے ساتھ افتتاح فرما دیں.چنانچہ آپ نے ہماری اس درخواست کو از راہ نوازش قبول فرماتے ہوئے اپنے نہایت قیمتی خیالات اور زریں نصائح سے مستفید فرمایا اور دعا فرمائی.آپ نے منجملہ دیگر نصائح کے اس بات کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی کہ مبلغیین صاحبان کو کیتھولک صاحبان کی تاریخ کا پورے طور پر علم ہونا چاہیئے کہ یہ فرقہ آج تک کن کن حالات سے گزرا ہے.اور کس کس رنگ کی تبدیلی اس میں پیدا ہوئی ہے.یہ نظام عیسائیت کا سب سے اہم نظام ہے.اور زمانہ وسطی کی نسبت آج بہت زیادہ مضبوط ہے.ان کے تابعین بڑی پختگی کے ساتھ اپنے عقائد پر قائم ہیں.اوریہ امر عین قرین قیاس ہے کہ تبلیغی دوڑ میں ہمارا آخری مقابلہ اسی فرقہ سے ہو.لہذا اس کے متعلق ہماری معلومات بہت وسیع ہونی چاہیں.پھر آپ نے عیسائیت کے دیگر مکاتیب فکر کا ذکر فرمایا اور بتلایا کہ آج کل ایک گروہ بڑی سرعت کے ساتھ بڑھ رہا ہے.جو کہ امریکہ میں عام ہے مگر یورپ میں بھی پاؤں پھیلا رہا ہے.وہ آزاد خیال عیسائی ہیں جو کٹر عیسائی عقائد کے خلاف ہیں.اور اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں.درحقیقت یہ فرقہ لوگوں کو آہستہ آہستہ مذہب سے دور بلکہ دور تر کھینچتا چلا جارہا ہے.بظاہر ان کا حملہ عیسائیت پر نظر آتا ہے مگر دراصل یہ حملہ مذہب پر ہے.یہ گروہ اپنی آزادانہ روش کے پیش نظر سب سے زیادہ خطرناک ہے اور اس کا مقابلہ ہمیں سب سے پہلے کرنا ہوگا.( نیز بتایا کہ یورپ کے مبلغین کے لئے فلسفہ و تاریخ ادیان کے علاوہ عربی، انگریزی، فرانسیسی و سپینش زبانیں بہت ضروری ہیں.انہیں قرآن کریم کا پورا علم اور علم حدیث میں بھی پوری دسترس ہونی چاہیئے اور دعا کی عادت بھی پختہ ہونی چاہئے.) دوسرے دن کے پبلک جلسہ میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر تقریر کی
248 جس کے لئے تمام پبلک ہمہ تن انتظار تھی.آپ نے تقریر میں بتایا کہ کس طرح حضور صلعم اسوۂ حسنہ تھے.اور اسلام کے بزور شمشیر پھیلانے کا الزام کیونکر غلط ہے.اور کس طرح وہ دفاعی لڑائیاں تھیں اور آپ نے جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی حالیہ نشر واشاعت اور نفوذ کو بھی بطور دلیل پیش کیا.ایمسٹر ڈم کے ایک اخبار نے آپ کے خطاب کا خاص طور پر ذکر کیا.بیگم لیاقت علی خان کو تبلیغ ۱۳۴ ۲۱ / جولائی.....جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب.....ہالینڈ تشریف لائے آپ کے استقبال کے لئے مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بھی سٹیشن پر موجود تھے.“ دوستوں کی خواہش پر آپ نے اپنے سفر کے حالات اور اس کے مقاصد سے دوستوں کو آگاہ فرمایا...اس مجلس میں مکرم جناب چوہدری صاحب بھی تشریف فرما تھے.جنہوں نے بعض مواقع پر اپنے خیالات کا اظہار بھی فرمایا.“ آپ نے ایک ملاقات مکرم جناب چوہدری صاحب کی معیت میں پاکستان کی سفیر محترمہ بیگم صاحبہ جناب لیاقت علی خاں صاحب (مرحوم) سے بھی فرمائی اور کتاب ”لائف آف محمد کا ایک نسخہ آپ کی خدمت میں تحفہ پیش فرمایا...مورخه ۲۳ رکو (صاحبزادہ صاحب ) کولون (جرمنی) کے لئے روانہ ہو گئے.الوداع کے لئے مکرم جناب چوہدری صاحب بھی اسٹیشن پر موجود تھے.“ ( الفضل ۱۱/۸/۵۷) مجلس مذاہب عالم میں تقریر آپ نے ۱۰ نومبر ۱۹۵۷ء کو ورلڈ کانگرس آف فیتھس ایسوی ایشن ہالینڈ کے زیرا ہتمام اسلام کی حقانیت پر ایک اہم تقریر فرمائی.جس میں آپ نے پیدائش انسانی کی غرض ، قرآن کریم کی ایک عظیم الشان فضیلت ، قرآنی تعلیم جامع اور مکمل ہے اور اس میں ہر حکم کی حکمت اور فلسفہ بیان ہے.گذشتہ مذاہب اور اسلام اور گناہ کے متعلق عیسائیت کا نظریہ ، ان تمام کے متعلق جامع ومانع تقریر فرمائی.چنانچہ اخویم حافظ قدرت اللہ صاحب انچارج احمد یہ مشن ہالینڈ لکھتے ہیں : یہ معرکة الآراء تقریر سوا گھنٹہ جاری رہی جسے جملہ حاضرین نے ہمہ تن گوش ہو کر سنا.آپ نے نہایت وثوق ، یقین ، جوش اور اخلاص کے جذبات کے ساتھ اسلام کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے
249 ہوئے اس کی حقانیت اور برتری کو نہایت عمدگی کے ساتھ واضح فرمایا.تمام حاضرین شروع سے لے کر آخر تک تصویر بنے بیٹھے رہے اور آپ کے بصیرت افروز خطاب کے ایک ایک لفظ کو دلچسپی اور توجہ کے ساتھ سنا.لیکچر کے اختتام پر اکثر حاضرین نے نہایت مسرت اور خوشی کے جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسا نادر موقعہ میسر آنے پر وہ اپنے آپ کو فی الحقیقت خوش قسمت تصور کرتے ہیں.صدر جلسہ ڈاکٹر جانسن نے بھی جو مذکورہ ایسوسی ایشن کے بھی صدر ہیں.ایسے ہی قدر دانی کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ: ' آج ایک نہایت بلند پایہ شخصیت اور فاضل مقرر نے جس یقین ، محبت اور خلوص کے جذبات سے اسلام کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے.ناممکن ہے کہ ایسی ایمانی قوت کے ساتھ کہی گئی بات کبھی رائیگاں جا سکے.فی الواقعہ ہمارے لئے یہ ایک نادر موقعہ تھا جس کے لئے ہم اپنے قابل صد احترام مقرر کے شکر گزار ہیں.“ ( الفضل ۲۴/۱۲/۵۷) ریاض ( سعودی عرب) کے لارڈ میئر شہزادہ فواد الفیصل نے سیاحت ہالینڈ کے پروگرام میں مسجد احمد یہ ہیگ کی زیارت کو بھی شامل کرایا.دسمبر ۱۹۵۸ء میں ان کی مسجد میں تشریف آوری پر چوہدری صاحب محترم بھی باوجود انتہائی مصروفیت کے تشریف لائے ہوئے تھے.شہزادہ آپ سے مل کر بہت خوش ہوئے اور آپ کی ان خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے جو آپ نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے سرانجام دیں.آپ نے پر خلوص اور تشکرانہ جذبات کا اظہار کیا.حافظ قدرت اللہ صاحب ( مجاہد ہالینڈ ) نے انگریزی ترجمۃ القرآن کا نسخہ اور اسلامی اصول کی فلاسفی ( عربی ) پیش کیا.پریس نے تمام تقاریب کا دستاویزی فلم تیار کیا.* عیدین پڑھانا آپ نے احمدیہ مسجد ہیگ میں عیدین پڑھا ئیں.ہے ڈاکٹر یوسف و املاٹن نائب پروفیسر علم طبقات الارض کے قبول اسلام پر آپ نے وقت دے کر الفضل ۵۸-۱۲-۲۱ و ۵۹ - ۴ - ۷ و بد ر ۵۸-۱۲ - ۲۵ -شہزادہ کے ہمراہ ان کے سیکرٹری اور مشیر خاص، سعودی سفارتخانہ متعین جرمنی کے نمائیندہ ، انچارج ڈچ براڈ کاسٹ برائے عرب ممالک اور
250 انہیں معارف قرآن مجید اور حسنِ تعلیمات اسلام سے آگاہ کیا.(الفضل ۱۴/۷/۵۹) نائیجیریا کے ایک وزیر کی آمد ملک نائیجیریا کے ایک وزیر ہالینڈ تشریف لائے ، مسجد ہیگ میں تشریف لانے پر مکرم چوہدری صاحب بھی استقبال کے لئے موجود تھے.اس موقعہ پر قرآن مجید وغیرہ پیش کئے گئے.چوہدری صاحب کی ملاقات پر آپ نے مسرت کا اظہار کیا.آپ نے چوہدری صاحب کو بڑے اخلاص اور محبت کے جذبات کے ساتھ نائیجیریا آنے کی عوت دی.(الفضل ۸/۸/۵۹) آمد وزیراعظم ملایا ملایا کے وزیر اعظم منکو عبدالرحمن ۲۶/۵/۶۰ کو ہیگ کی احمدیہ مسجد میں تشریف لائے.جناب چوہدری صاحب اور محترم حافظ قدرت اللہ صاحب امام مسجد نے استقبال کیا.چوہدری صاحب نے بقیہ حاشیہ نمائندہ سفارتخانہ جمہوریہ عرب بھی تھے.شہزادہ نے وطن واپس جا کر ایک سو کتب لائبریری کے لئے بھجوائیں.فجزاہ اللہ تعالیٰ.احمدیہ ۱۹۵۸ء کی عیدین کے مواقع پر آپ نے اسلامی تعلیمات کی خصوصیات ، اسکی برتری اور فضیلت پر خطبات دئے.مقامی اور بیرونی مسلمانوں کے علاوہ ہالینڈ کی ممتاز و مقتدر شخصیتیں بھی ان مواقع پر یہ مشن میں آئیں اور اخباری نمائندگان بھی.بہت سے اخبارات نے مکمل رپورٹ شائع کی الفضل ۱۴/۵/۵۸ و ۱۸/۵/۵۸ و ۳/۷/۵۸)۱۹۵۹ء میں خطبہ عید الفطر میں آپ نے تعلق باللہ اور روزہ کے فلسفہ کو نہایت عمدگی سے واضح کیا.( الفضل ۱۴/۴/۵۹) خطبہ عید الاضحی میں آپ نے حج اور فلسفہ قربانی پر نیز اسلامی اخوت اور رضا بالقضاء کی اہمیت پر روشنی ڈالی.دوج صاحبان اور دیگر سر بر آورده احباب کثیر تعداد میں شریک ہوئے.اخبارات میں اور ریڈیو پر اس تقریب کا خوب چرچا ہوا.(۲/۴/۶۰) مارچ ۱۹۶۰ء میں عید الفطر کی نماز پڑھا کر آپ نے اسلام کی لازوال خوبیوں پر ایک ایمان افروز خطبہ دیا.(۲/۴/۶۰) اس سال کی نماز عید الاضحیٰ آپ نے پڑھائی اور خطبہ میں حج کی مخصوص عبادات ، اسلامی مساوات اور انسانی وقار پر عمدہ پیرائے میں روشنی ڈالی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاۃ طیبہ کے متعدد ایمان افروز واقعات بیان کئے.اس تقریب میں متعدد جج صاحبان ہممبران پارلیمنٹ اور ڈاکٹر شامل ہوئے.(۹/۶/۱۹۶۰)
251 ان شاندار خدمات کا تذکرہ کیا جو وزیر اعظم موصوف نے ملک کی ترقی و بہبود کے لئے حصول آزادی سے قبل کیں اور اب بھی کر رہے ہیں.خاص اس تقریب میں شمولیت کے لئے عرب جمہوریہ کے سفیر، عالمی عدالت کے ایک حج ، پاکستانی سفارتخانہ کے کونسلر اور حکومت انڈونیشیا کا نمائیند ہ شامل ہوئے.جناب ٹنکو صاحب کو انگریزی قرآن مجید پیش کیا گیا.( الفضل ۱۲/۶/۶۰) (۷) ہند و پاکستان یہاں بھی آپ کو خوب تبلیغ کے مواقع حاصل ہوئے.علاوہ ازیں خصوصاً مقامی تبلیغ کی مہم میں مالی ولسانی خدمات کی توفیق عطا ہوئی.* (۹) اعلیٰ طبقہ میں تبلیغ تبلیغ و تربیت کے لئے عام طبقہ کے علاوہ اعلیٰ طبقہ کی طرف آپ نے ہمیشہ خاص توجہ دی ہے.اس لئے کہ اس طبقہ کے لوگ اپنے ہم پلہ افراد کے بغیر کسی سے کلمہ خیر سننا پسند نہیں کرتے.گو سابقہ (۱) منٹگمری کے بعض احمدی احباب نے چوہدری صاحب کے اعزاز میں دعوت چائے دی اور ہندو شرفاء کو بھی مدعو کیا.چوہدری صاحب نے مختصر ابتایا کہ احمدیت کسی کے مذہبی اصولوں میں رخنہ اندازی کا نام نہیں بلکہ اس کا اصول یہ ہے تو حید الہی کو مانتے ہوئے اس امر کا بھی اعتراف کیا جائے کہ اللہ تعالی نبی بھیجتا ہے جو اس کا قرب حاصل کرنے میں میری رہنمائی کرے.اور اس زمانہ کے نبی حضرت مرزا صاحب ہیں.ان کا مذہب تو حید الہی ہے.اس کی روئیداد ہندو اخبار ہمدردمنٹگمری نے شائع کی.(الفضل ۲۸/۴/۳۴) (۲) آپ نے دہلی میں عید پڑھائی اور جوبلی فنڈ کی تحریک بھی کی.(الفضل ۸/۱۲/۳۷) (۳) عربک کالج دہلی میں آپ کی صدارت میں پیشوایان مذاہب کا جلسہ منعقد ہوا.(۱۶/۱۱/۴۳/۱) (۴) ملٹری سیکرٹری سرکار پٹیالہ نے جماعت احمدیہ کو مطلع کیا کہ چوہدری صاحب ۱۰٫۱۲٫۴۳ کو پٹیالہ آرہے ہیں اور انہوں نے بذریعہ تار اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ جماعت کے ہمراہ جمعہ ادا کریں گے چنانہ سامانہ ،سنور اور نا بھہ کے احباب کو اطلاع دی گئی اور وہ آکر شریک ہوئے.احباب کی درخواست پر آپ نے خطبہ دیا اور جمعہ کی نماز پڑھائی.(۱۵/۱۲/۳۳)
252 صفحات میں اعلیٰ طبقہ میں تبلیغ کا بھی ذکر ہے.پھر بھی یہاں مزید بیان خالی از فائدہ نہ ہوگا.(۱) آپ کے زیر اثر ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبال و دیگر لیڈران مسجد فضل لنڈن تشریف لے گئے.اور علامہ موصوف کے برادر اکبر شیخ عطا محمد صاحب مرحوم نے آپ کی تحریک پر خلافت ثانیہ کی بیعت کی.اعلیٰ طبقہ میں تبلیغ کے بعض مواقع کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے.(۲) بوڈا پسٹ (ہنگری ) ۲۱/۸/۳۷ کو آپ وہاں پہنچے.اخبارات نے جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کیا ، جن کے باعث ان کے ملک میں ایسی شخصیت وارد ہوئی.جوان کے ملک وقوم کی عزت افزائی کا موجب ہوئی.احمدی احباب آپ کے جائے قیام پر آپ سے ملاقی ہوئے آپ کی بے تکلفانہ گفتگو سے بہت متاثر ہوئے.ایک بزرگ گل بابا نے ہنگری میں اشاعت اسلام کے لئے زندگی صرف کر دی تھی.آپ نے ان کے مزار پر احمدیت کی ترقی کے لئے دعا کی.مفتی ہنگری کو تبلیغ کی.جنہوں نے مسلمانوں کی ابتر حالت کو تسلیم کیا.چار روزہ قیام میں چوہدری صاحب نے شیخ عطاء محمد صاحب کی بیعت کے لئے دیکھئے (الفضل ۱۰/۴/۳۴ ص۲) اس مرحلہ پر علامہ اقبال کے متعلق چند حقائق کا منظر عام پر لانا نا مناسب نہ ہوگا.احمدیت کے تعلق میں ان کی زندگی تین حصوں میں منقسم کی جاسکتی ہے.اول جب علامہ موصوف حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کے عقیدت مند تھے.دوم جب آپ جماعت احمدیہ کے مداح تھے.سوم جب آپ جماعت احمدیہ کے شدید مخالف ہو گئے.میں آئندہ سطور میں مولانا عبدالمجید صاحب سالک مرحوم جیسے قابل اور مستند ادیب کی تالیف ” ذکر اقبال“ سے اشتہاد کروں گا.جو سالک صاحب نے بزم اقبال کی درخواست پر ۱۹۵۵ء میں تیار کی تھی.لیکن اس امر کا بیان کرنا ضروری ہے کہ گومولانا سالک کے والدین مرحومین جماعت احمدیہ قادیان سے وابستہ تھے اور آپ کے بھائی بھی وابستہ ہیں.اور ابتداء میں والد ماجد کے زیر اثر آپ بھی جماعت میں شامل ہوں گے.لیکن آپ کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا سیاست بن گیا.اس لئے نہ آپ احمدی کہلاتے تھے نہ عملاً جماعت احمدیہ میں شامل تھے.البتہ جماعت احمدیہ کے مداح تھے.اور حضرت امام جماعت احمدیہ کی سیاسی بصیرت کے قائل تھے.البتہ جماعتی وابستگی نہ ہونے کے باعث بھی احمدیت کے متعلق آپ کے قلم سے بعض لطائف درج کتاب ہوئے ہیں ( یعنی صفحات ۲۸۴ و ۲۸۵) لیکن چونکہ علامہ موصوف سے تعلقات زیادہ گہرے تھے.روز کی ملاقات تھی ، ہم جلیس تھے ،اسلئے ”ذکر اقبال میں مولانا نے
253 اخبارات کے نمائندوں سے ملاقات کی.ایک احمدی کی دعوت اور ایک جماعتی دعوت چائے میں شرکت کی اور ہر موقعہ پر تبلیغ کی.مؤخر الذکر موقعہ پر معززین کے علاوہ ہر ایسیلینسی بیرن پیرنی محافظ بقیہ حاشیہ: بعض امور کا ذکر نہیں کیا.مثلاً علامہ کے والد ماجد کے ابتداء میں احمدی ہونے کا اور ان کی وجہ سے علامہ کے احمدی ہونے یا نہایت سرگرمی سے اس کی مدافعت کرنے والوں میں شامل ہونے کا.اب ذیل میں ہر سہ ادوار کا تفصیلاً ذکر کرتا ہوں : (۱) علامہ اقبال کے والد ماجد جماعت احمدیہ میں شامل تھے.بعد میں کسی مقامی اختلاف کے باعث وہ جماعت سے الگ ہو گئے.سالک صاحب نے علامہ صاحب کے والد بزرگوار کے ایک کشف کا ذکر کیا ہے.اور یہ کہ وہ ایک بہت بڑے صوفی تھے اور اسی وجہ سے علامہ کے ذہن کا وجدانی کیفیات کے لئے خوب آمادہ ہونے کا ذکر کیا ہے.(ص۱۲ تا ۱۴) لیکن والد ماجد کے ابتداء میں جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کا ذکر ترک کر دیا ہے.کیونکہ اس سے احمدی عقائد کی صحت کو تائید حاصل ہوتی تھی کہ ایک صوفی صاحب کشف شخصیت جس کے تصوف کا اثر اس کے فرزند علامہ اقبال کے وجدان پر پڑا احمدی تھا.پھر علامہ کے آخر عمر میں احمدیت کا مخالف ہونا باعث تعجب نظر آئے گا.ورنہ بظاہر یہ امر باور نہیں کیا جا سکتا کہ ساری عمر کے ساتھی اور ہمنشین مولانا سالک کو علامہ سے ان کے والد کے احمدی ہونے کا علم نہ ہوا ہو.یا یہ بھی دریافت نہ کیا ہو کہ علامہ صاحب ! آپ کے برادر اکبر کیونکر احمدی ہو گئے.اور اس سے بات چل نکلی ہو کہ ایک وقت ان کے والد بھی احمدی ہو گئے تھے.یا یہ پوچھا ہو کہ اب ایسی مخالفت کیوں جبکہ آپ نے اپنے بڑے بیٹے کو تعلیم کے لئے سالہا سال تک قادیان میں رکھا.ایک اور درویش سے والد کی بیعت کا ذکر کیا لیکن حضرت مرزا صاحب کی بیعت کا ذکر ترک کیا.(۲۴۸) اس دور اول کا واقعہ ہے کہ ایک نومسلم شیخ سعد اللہ لدھیانوی نے حضرت مرزا صاحب کے خلاف گندہ دہانی کا مظاہرہ کیا.اور جوشِ مذہب میں علامہ اقبال نے جو اس وقت کالج میں ایف اے کے طالبعلم تھے، ایک نظم لکھی ، اور اس نظم کا لکھنا ہی ثابت کرتا ہے کہ نو جوان اقبال کو حضرت مرزا صاحب سے گہری وابستگی تھی اور وہ سعد اللہ کی گندہ دہانی برداشت نہ کر سکا.اور اسے چین نہ آیا جب تک اس نے مدافعت میں اس کا منظوم جواب لکھ کر حق ارادت ادا نہ کر دیا.(۱۸۹۵ء میں علامہ بی.اے میں داخل ہوئے.(ص ۱۷).گو یا اوائل ۱۸۹۵ء سے پہلے کی یہ نظم ہے.اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اس وقت تک علامہ صاحب کے والد صاحب جماعت میں شامل تھے.ورنہ گر
254 تاج ہنگری اور ایک سابق میئر نے بھی شمولیت کی.وزیر تجارت نے بھی دعوتِ طعام دی اور بقیہ حاشیہ:.وہ الگ ہو چکے ہوتے.تو ایسا جوش علامہ میں نہ ہوتا.) نظم درج ذیل ہے..واه سعدی دیکھ لی گندہ دہانی آپ کی خوب ہوگی مہتروں میں قدردانی آپ کی بیت ساری آپ کی بیت الخلاء سے کم نہیں ہے پسندِ خاکروباں شعر خوانی آپ کی تیلیاں جاروب کی لیتے وہ خامہ کے عوض کھینچتے تصویر گر بہزاد ومانی آپ کی ان دنوں کو فصل گل کہئے ویادن پھول کے ہر طرف ہوتی ہے سعدی گلفشانی آپ کی آپ کے اشعار موتی ہیں مگر دی' کے بغیر گوشِ عالم تک یہ پہنچے ہیں زبانی آپ کی گوہر بے را جھڑے ہیں آپ کے منہ سے سبھی جان سے تنگ آگئی ہے مہترانی آپ کی ہر طرف سے آرہی ہے یوں جو در در کی صدا بھا گئی اہلِ سخن کو درفشانی آپ کی آپ سے بڑھ کر کوئی عروضے کوئی دنیا میں نہیں واہ صاحب شعر خوانی شعردانی آپ کی خاک کو ہم چاٹ کر یہ بات کہہ دیتے ہیں آج تلخ کامی ہوگی یہ شیریں دہانی آپ کی جب ادھر سے بھی پڑیں گے آپ کو سا بن کے مول آپ پر کھل جائے گی رنگیں بیانی آپ کی کھاؤگے فرمائشی سر پلپلا ہو جائے گا پھر نکل جائے گی سر سے شعر خوانی آپ کی دین اور ایمان کی دم میں واہ نمدہ دے دیا سارے عالم کی زباں پر ہے کہانی آپ کی آفتاب صدق کی گرمی سے گھبراؤ نہیں حضرتِ شیطاں کریں گے سائبانی آپ کی اشتہار آخری اک آنت ہے شیطان کی سر بسر جن سے عیاں ہے خوش بیانی آپ کی وہ مثل ہی ہے طویلے کی بلا بندر کے سر ہو گیا ہم کو یقیں شامت ہے آنی آپ کی خر گھماروں کا موادھو بن ستی ہوتی ہے مفت ہے مگر قوم نصاری یار جانی آپ کی رانڈ کے چرنے کی صورت کیوں چلے آتے ہیں آپ اہلِ عالم نے سبھی بکواس جانی آپ کی نیلے پیلے یوں نہ ہو پھر کیا کرو گے اس گھڑی جب خبر لیوے گا قہر آسمانی آپ کی بات رہ جاتی ہے دنیا میں نہیں رہتا ہے وقت آ و نادم کرے گی بدزبانی آپ کی قوم عیسائی کے بھائی بن گئے پگڑی بدل واہ کیا اسلام پر ہے مہربانی آپ کی ایام حیض بیوقوف آئینہ حق نما صفحه ۱۰۷ و ۱۰۸ مؤلفه ۱۹۱۲ء) اسی زمانہ کی بات ہے کہ سرسید کی وفات (۱۸۹۸ء) پر علامہ سے آپ کے استاد مولانا میرحسن
255 اخبارات میں بھی آپ کی آمد کا ذکر ہوا.جس کے ساتھ تفصیلاً جماعت احمدیہ کا بھی ذکر ہوا.بقیہ حاشیہ نے تاریخ وفات سوچنے کو کہا، اور علامہ نے تھوڑی دیر میں یہ تاریخ کہی.انی مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهَّرُكَ - ( ص ۱۹) یہ امر ظاہر وباہر ہے کہ اسی آیت میں متوفیک سے ایک قوی استدلال وفات عیسی کا حضرت مرزا صاحب بہت تہدی سے کرتے تھے.اور متوفیک والی آیت وفات عیسی کے تعلق میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے، اور کئی صد علماء نے حضرت مرزا صاحب پر کفر کا فتویٰ دیا.گویا علامہ اور آپ کے استاداس کے معنی میں حضرت مرزا صاحب کے ہمنوا تھے.مولانا میر حسن نے حضرت مرزا صاحب کو اس وقت بہت قریب سے دیکھا تھا.جب حضرت مرزا صاحب سیالکوٹ میں کئی سال تک مقیم رہے اور حضرت مرزا صاحب کی وفات کے بعد مولانا نے حضرت مرزا صاحب کی پاکیزہ سیرت کے متعلق اپنے تاثرات بھی تحریر کئے جن سے ظاہر ہے کہ مولانا حضرت مرزا صاحب کے تقوی وطہارت کے شاہد اور قائل تھے.بہت ممکن ہے کہ باوجود علامہ اقبال کے والد صاحب کے جماعت احمدیہ سے الگ ہونے کے حضرت مرزا صاحب کے متعلق مولانا میر حسن کے تاثرات علامہ اقبال پر ثبت ہوتے رہے ہوں.دور ثانی میں علامہ اقبال احمدیت کے لئے سرگرم نہ تھے لیکن مداح تھے.(۱) چنانچہ انہوں نے ایک تقریر میں جو علی گڑھ میں تھی کہا تھا:.” میری رائے میں قومی سیرت کا وہ اسلوب جس کا سایہ عالمگیر کی ذات نے ڈالا ہے، ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا نمونہ ہے ، اور ہماری تعلیم کا مقصد ہونا چاہیئے کہ اس نمونہ کو ترقی دی جائے.اور مسلمان ہر وقت اپنے پیش نظر رکھیں.پنجاب میں ایسی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں.“ ( ملت بیضاء پر ایک عمرانی نظر ) ظاہر ہے کہ وسیع مطالعہ کے بعد آپ نے یہ رائے ظاہر کی تھی.(۲) آپ نے اپنے بڑے بیٹے آفتاب احمد کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں تعلیم وتربیت کی خاطر چار پانچ سال تک داخل کئے رکھا.چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی دوکان کا روز نامچہ جو ۲۰/۱/۱۸ سے ۲۸/۹/۲۰ تک کا ہے.اس میں ان کے ادہار کی یادداشت
256 (۳) آپ نے ایشیائی کانفرنس کے دہلی میں آمدہ نمائندگان انڈو نیشیا ، ملایا ، مصر ، ایران اور بقیہ حاشیہ: - موجود ہے.نیز الفضل ۳۱/۱۲/۱۴ میں مرقوم ہے : ہے.ڈاکٹر محمد اقبال صاحب پی.ایچ.ڈی مشہور شاعر کے نو جوان فرزند آفتاب احمد نے ( جو یہاں ہائی سکول میں تعلیم پاتا ہے ) حضرت مسیح موعود کی ایک نظم پڑھی.پھر اپنا مضمون سنایا جس میں احمدی جماعت ہی کو خدا تعالیٰ کی پاک جماعت مان کر پھر مرکز سے قطع تعلق کرنے والوں پر اظہار افسوس تھا.“ (ص۳) (۳) علامہ نے لاہور کے ایک کشمیری خاندان میں نکاح کیا.لیکن کسی شر پسند نے اس خاتون کے متعلق گمنام خطوط بھیج کر آپ کو شکوک میں مبتلا کر دیا.لیکن بعد تحقیق خاتون پاکدامن معلوم ہوئیں.اس بارہ میں محترم سالک صاحب رقم فرماتے ہیں : انہیں شبہ تھا کہ وہ چونکہ طلاق دینے کا ارادہ کر چکے تھے، اس لئے مبادا شرعاً طلاق ہی ہو چکی ہو.انہوں نے مرزا جلال الدین کو مولوی حکیم نورالدین کے پاس قادیان بھیجا کہ مسئلہ پوچھ آؤ.مولوی صاحب نے کہا کہ شرعاً طلاق نہیں ہوئی لیکن اگر آپ کے دل میں کوئی شبہ اور وسوسہ ہو تو دوبارہ نکاح کر لیجئے.چنانچہ ایک مولوی صاحب کو طلب کر کے علامہ کا نکاح اس خاتون سے دوبارہ پڑھوایا گیا.“ (صفحہ ۷۰) لاہور، امرتسر، لدھیانہ ، دہلی ، دیوبند، سہارنپور وغیرہ مقامات کے مستند اور اعلیٰ پایہ کے علماء کی طرف رجوع کرنے کی بجائے علامہ اپنے دوست کو جو بیرسٹر تھے قادیان جیسی گمنام بستی کی طرف بھجوانے کو ترجیح دیتے ہیں.جہاں پہنچنے کے لئے گیارہ میل کچی سڑک پر ہچکولے کھانے اور گرد پھانکنے پڑیں.اس وقت آپ کے والد ماجد بھی زندہ تھے اور انہوں نے اس بارہ میں استخارہ بھی کیا تھا.( ص ۶۹) گویا وہ روک نہ بنے کہ کیوں قادیان سے استفسار کیا.یا ان کی ناپسندیدگی کا خطرہ نہ تھا.یہ ۱۹۱۳ء کا واقعہ ہے.(۴) مولانا غلام رسول مہر مدیر انقلاب جو گول میز کانفرنس کے موقعہ پر ایک دفعہ انگلستان گئے تھے.اپنی رپورٹ میں تحریر کرتے ہیں کہ مولانا فرزند علی صاحب امام مسجد لندن کی دعوت طعام پر مسجد میں ڈاکٹر سر محمد اقبال ، مولانا شوکت علی ، چوہدری محمد ظفر اللہ خاں ،عبدالمتین چوہدری وغیرہ
257 افغانستان کو چائے پر مدعو کیا.اور آپ نے جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کا بھی نہایت اعلیٰ اور عام فہم بقیہ حاشیہ: - مسلم رہنما تشریف لے گئے.انگریز نو مسلموں نے ملاقات کی ، بعض انگریز خا تو نوں صاحبزادیوں اور نوجوانوں نے قرآن مجید سنایا.سب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ خدا کا آخری پیغام انگریز قوم کی زبان پر جاری ہو رہا ہے.ایک انگریز نو جوان عبدالرحمن ہارڈی کے حسن قرآت اور صحت تلفظ سے سب بے حد محظوظ ہوئے.ایک چھ سات سالہ انگریز بچی نے سورۃ فاتحہ سنائی، علامہ اقبال نے اسے ایک پونڈ انعام دیا.علامہ موصوف نے محفلِ قرآت کے بعد ایک مختصر مگر نہایت ہی پر تاثیر تقریر میں نومسلموں سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ اپنی قلت تعداد سے دل شکستہ نہ ہوں.دنیائے اسلام کے چالیس کروڑ فرزندانِ توحید آپ کے بھائی ہیں.آپ کے ہم قوم اور آپ کے ساتھی ہیں.یہ بھی فرمایا کہ یورپ کی تین زبانیں انگریزی ، فرانسیسی اور جرمنی اوج ترقی پر پہنچ رہی ہیں.لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ عربی زبان کا جو قرآن پاک کی زبان ہے مستقبل بھی بے حد درخشاں ہے.آپ کو اس پر توجہ کرنی چاہیئے.اور بالآخر مولوی فرزند علی صاحب کا شکر یہ ادا کیا.جن کی عنایت سے یہ موقع میسر آیا تھا.( روزنامہ انقلاب لاہور مورخہ ۲۹/۱۰/۳۱ بحواله الفضل ۱۱/۳۱ را صفحه ۹) بالاختصار اس کا ذکر سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ بابت ۳۲ - ۱۹۳۱ء صفحه ۴ پر بھی ہے کہ ڈاکٹر اقبال و دیگر مسلم رہنما نے مسجد فضل لندن میں مسلم و غیر مسلم احباب کے سامنے تقاریر کیں ، اور نو مسلموں سے قرآن مجید اور نمازیں سنیں اور مشن کے ٹھوس کام سے متعلق گہرا اثر لے کر گئے.دور سوم.علامہ اقبال نے جماعت احمدیہ کی علی الاعلان مخالفت شروع کر دی.مخالفت کا یہ دور ۱۹۲۹ء کے بعد غالبا ۱۹۳۲ء میں شروع ہوا.۱۹۲۹ء میں آپ کے والد بزرگوار اور استاد مولانا میر حسن داغ مفارقت دے گئے اور کوئی بزرگ روکنے والا باقی نہ رہا.اور ۱۹۳۵ء میں علامہ نے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دے کر اپنی علمیت کو حد درجہ داغدار کر دیا.گویا عمر بھر جماعت احمدیہ کے عقائد کا بھی ان کو حقیقی علم نہ ہو سکا.آغاز یوں ہوا کہ ڈوگرہ راج میں کشمیری مسلمانوں پر جبر و استبداد کا ایک انتہائی صعبناک دور شروع ہوا.اس میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے نہایت توجہ کے ساتھ اور وقت اور روپیہ کی قربانی کر کے مہاراجہ کے مظالم کے انسداد کی سعی کر کے بلیغ کی اور مسلمانوں کی بروقت اور ضروری امداد کی.جب یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر آئی تو علامہ کو یہ امر پسند نہ آیا کہ اس کا اعزاز امام جماعت احمدیہ کو حاصل ہو ، اختلاف دیکھ کر امام جماعت نے استعفیٰ دے دیا.
258 رنگ میں کیا.(الفضل ۴/۴۷ / ۷ صفحه ۸ و ۲۷/۵/۴۷ ص ۴ ک ۴) بقیہ حاشیہ: - تاکہ دوسرے مسلمان یہ نہ کہہ سکیں کہ ان کو کام کا موقعہ نہیں دیا گیا.لیکن نتیجہ کیا نکلا.ڈھاک کے وہی تین پات.ذکر اقبال میں مرقوم ہے: مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کی صدارت میں ایک کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا.اس کمیٹی کا مقصد یہ تھا کہ آئینی ذرائع سے مسلمانان کشمیر کو ان کے حقوق دلوائے جائیں کشمیر کمیٹی اب تک کسی دستوری تدوین کے بغیر ہی کام کر رہی تھی.اور صدر یعنی مرزا صاحب کو غیر محدود اختیارات دئے گئے تھے.لیکن جب تحریک کشمیر نے طول کھینچا تو خیال پیدا ہوا کہ کشمیر کمیٹی کا ایک باضابطہ دستور تیار کیا جائے.اس پر احمدیوں نے مخالفت کی ، کیونکہ وہ اس ترتیب دستور کو شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس سے ہم کو اور ہمارے امام کو بے دخل کرنا مقصود ہے.اختلاف پیدا ہوا.مرزا بشیر الدین محمود احمد نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور علامہ اقبال ان کی جگہ عارضی طور پر صدر منتخب ہوئے.لیکن مرزا صاحب کے علیحدہ ہو جانے سے ان کے احباب و مریدین نے جو کمیٹی کے اصلی کا رکن تھے.کشمیر کمیٹی کے کام میں دلچسپی لینا ترک کر دیا اور یہاں اور کوئی کارکن تھے ہی نہیں.لہذا علامہ نے بھی کمیٹی کی صدارت سے استعفا دے دیا اور کمیٹی ہی کے خاتمہ کا اعلان کر دیا.“ ( ص ۱۷۳و۱۷۴) علامہ کشمیر کا ایک مقدمہ کسی وکیل کے سپرد کرنے والے تھے.لیکن دفعتا معلوم ہوا کہ اس کی پیروی چوہدری ظفر اللہ خاں کریں گے.چونکہ اس وقت تک علامہ کو کشمیر کمیٹی کے سلسلے میں احمد یوں سے سوءظن پیدا ہو چکا تھا.اس لئے لکھتے ہیں : چودھری ظفر اللہ خاں کیونکر اور کس کی دعوت پر وہاں جار ہے ہیں مجھے معلوم نہیں.شاید کشمیر کا نفرنس کے بعض لوگ ابھی تک قادیانیوں سے خفیہ تعلقات رکھتے ہیں.“ ( مکاتیب اقبال ۴۳۵) " حالانکہ شیخ محمد عبدالله ( شیر کشمیر ) اور دوسرے کارکنان کشمیر مرزا محمود احمد صاحب اور ان کے بعض کار پردازوں کے ساتھ خفیہ نہیں بلکہ اعلامیہ روابط رکھتے ہیں.اور ان روابط کا کوئی تعلق عقائد احمدیت سے نہ تھا بلکہ ان کی بنا محض یہ تھی کہ مرزا صاحب کثیر الوسائل ہونے کی وجہ سے
259 (۴) جنوری ۱۹۴۸ء میں برما کے جشن آزادی کی تقریب میں چوہدری صاحب شریک ہوئے بقیہ حاشیہ:- تحریک کشمیر کی امداد کئی پہلوؤں سے کر رہے تھے.اور کارکنان کشمیر طبعاً ان کے ممنون تھے.چوہدری ظفر اللہ خاں بھی یقیناً مرزا صاحب ہی کے اشارے سے مقدمے کی پیروی کے لئے گئے ہوں گے.( ذکر اقبال صفحه ۱۸۷ و ۱۸۸) اقتباس بالا سے ذیل کے نتائج مستنبط ہوتے ہیں : (1) باوجود یہ کہ حضرت امام جماعت احمد یہ کثیر الوسائل تھے.اور آپ اور آپ کے مرید ہی حقیقی کا رکن کشمیر کمیٹی تھے.جب یہ امر ظاہر و باہر تھا کہ یہ کام آپ سے الگ ہو کر چل ہی نہیں سکے گا.علامہ کے پاس نہ مسلمانوں کے پاس ویسے وسائل اور کا رکن تھے تو ایسے حالات کیوں پیدا کئے گئے کہ وہ استعفاء دے دیں خواہ یہ کام ٹھپ ہو جائے.دراصل منشاء ہی یہ تھا کہ سارا کام آپ اور آپ کے مرید کر رہے ہیں یہ نیک نامی ان کو کیوں ملے اسے روک دیا جائے.یہ مقصود ہر گز نہ تھا کہ یہ کام جاری رہ سکے.اس طرح علامہ اقبال نے مخالفت کر کے صدارت حاصل کر لی لیکن کام کس طرح چلتا.اس لئے مجبور ہو کر نہ صرف صدارت سے استعفی دیا بلکہ کشمیر کمیٹی کو ہی سرے سے ختم کر کے چین لیا.اس کی تہہ میں علامہ کی مخالفت کا رفرما تھی تبھی اس کا اس وقت شدت سے اظہار ہوا.جب معلوم ہوا کہ چوہدری صاحب ایک مقدمہ کی پیروی کریں گے.اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ باوجود استعفاء کے حضرت امام جماعت احمد یہ اہالیان کشمیر کے سو دو بہبود میں امدا واعانت سے دستکش نہیں ہوئے.کیونکہ وہ اعزاز کے بھوکے نہیں تھے.کام کے دھنی تھے اور تقسیم ملک تک بیوگان و یتامی اور غریب طلباء کی امداد انہوں نے جاری رکھی اور ایک ہفتہ وار اخبار بھی.علامہ اور آپ کے ساتھی ایسے کام بھلا کیسے کر سکتے تھے.وہ تو صرف اس بات پر جز بز ہورہے تھے کہ اہالیانِ کشمیر جماعت احمدیہ کے امام سے استمداد کے لئے میل جول کیوں رکھتے ہیں.(۲) حضرت امام جماعت احمدیہ نے استعفاء کے بعد بھی کسی نمود کی خواہش کے بغیر خدمت جاری رکھی.حالانکہ علامہ چاہتے تھے کہ خود تو وہ کام نہیں کر سکتے لیکن دوسرے بھی کام نہ کریں.(۳) یہ امر بظاہر درست نہیں معلوم ہوتا کہ تجویز دستور پر استعفاء حضرت مرزا صاحب نے دیا ہوگا.کیونکہ کشمیر کمیٹی نے ان کو سارے اختیارات دئے تھے تب بھی وہ کمیٹی سے بار بار مشورے لیتے تھے.حالانکہ وسائل خود حضرت مرزا صاحب کے تھے اور کارکن بھی.مطلب یہ تھا کہ آپ مسلمان
260 اور ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہماری ترقی قرآن پاک کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے کے بقیہ حاشیہ: عوام و خواص میں اہل کشمیر کے متعلق بیداری پیدا کرنے کے متمنی تھے.گویا مختار مطلق تسلیم ہونے پر بھی وہ بار بار مشورے کرتے تھے.انگریزی حکومت پر اور مہا راجہ پر بہت رعب طاری ہو چکا تھا.اور کامیابی پر کامیابی ہونی شروع ہو چکی تھی.اور اسی وجہ سے استعفاء کے باوجود کشمیر کے رہنما اور عوام حضرت ممدوح کی طرف رجوع کرتے تھے.بھلا ایسے بے نفس ، بے ریا اور فعال اور ہمدرد اور کامیاب شخص کو دستور پر اعتراض ہو سکتا تھا.(۴) حضرت مرزا صاحب تو پھر بھی تقسیم ملک تک اہالیان کشمیر کی اعانت ہر رنگ میں کرتے رہے.سیاسی مصیبت زدگان ، بیوگان اور یتامی کی پرورش اور غریب طلباء کی تعلیم کا انتظام کیا.وہاں سے ہفتہ وار اخبار جاری رکھا.لیکن علامہ اقبال کا مقصود حضرت مرزا صاحب سے استعفاء دلا کر پورا ہو گیا اور وہ جلد بس ہو گئے یا بالفاظ دیگر اس کام کو اپنے بس کا نہ پا کر بے بس ہو گئے اور کشمیر کمیٹی کا وجو د ہی انہوں نے ختم کر ڈالا.مثلاً کچھ لوگ سخت دھوپ اور ٹو کے وقت دو پہر کو پیاس سے تڑپ رہے ہوں اور جو شخص ان کے لئے آب رسانی کا انتظام کرتا ہو، اس سے جھگڑا پیدا کر کے دوسرا شخص جو اس کے ڈول اور رسی سے ان لوگوں کو محروم کر دے اور خود انتظام سنبھالے.حالانکہ خود اس کے پاس نہ ڈول رسی ہونہ وہ مہیا کر سکے.اور جب پہلے ہمدرد اور وسائل رکھنے والے شخص کی امداد سے وہ پیا سے محروم ہو جائیں اور زیادہ تڑپنے لگیں اور تو دوسرا ” ہمدرد شخص یہ کہہ کر کہ میں تو انتظام نہیں کرسکتا ، انتظام سے دستبردار ہو جائے ، ایسے شخص کی ہمدردی کیسی ہوگی.اس کا فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں.یہاں میں یہ ذکر بھی کر دیتا ہوں کہ علامہ نے اپنے والد ماجد اور اپنے استاد مولانا میرحسن کی زندگی میں احمدیت کی مخالفت نہیں کی.اگر والد ماجد احمدیت سے منقطع ہونے پر جماعت احمدیہ کے مخالف ہوتے تو علامہ شادی والے معاملہ کے متعلق فتویٰ قادیان سے حاصل نہ کرتے.نہ اپنے بڑے بیٹے کو سالہا سال تک قادیان میں تعلیم دلاتے.اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ والد صاحب نے جماعت سے منقطع ہو کر خاموشی اختیار کر لی ہوگی.اسی طرح مولانا میر حسن کے متعلق میں یہ ذکر کر چکا ہوں کہ باوجود یہ کہ حضرت مرزا صاحب پر وفات عیسی کے اقرار کے باعث کفر کے فتوے لگ چکے تھے اور وفات کی مرکزی دلیل آیت متوفیک تھی.ان حالات میں بھی وہ حضرت مرزا صاحب
261 ساتھ وابستہ ہے.(الفضل ۲۰/۱/۴۸) (۵) پاکستان پارلیمنٹ میں آپ نے ہندو دھرم کے گرنتھوں سے بہت سے حوالہ جات پیش کر کے ثابت کیا کہ اچھوت مذہبی اور قومی لحاظ سے ہندوؤں کا جز نہیں.بلکہ ہندوؤں نے بعض مخصوص سیاسی مفاد کی خاطر انہیں اپنے میں شامل رکھا ہے.سو ان کو علیحدہ نمائندگی دی جائے گی.اس پر سورن ہندو بہت جزبز ہوئے.کیونکہ ان کا اقتدار ختم ہوتا تھا.لیکن چوہدری صاحب نے انہیں بتایا کہ حکومت بل واپس لے سکتی ہے.بشرطیکہ سورن ہندو اس بھیا نک تعلیم کو اپنے شاستروں سے نکال دیں.روزنامہ ”ویر بھارت نے پنڈت ظفر اللہ کے عنوان کے تحت ایک مخالفانہ تبصرہ ย بقیہ حاشیہ: کے ہمنوا تھے.حکیم میر حسام الدین صاحب نے اپنے چچا زاد بھائی کے استفسار پر یہ اقرار کیا کہ حضرت عیسی وفات پاگئے ہیں.جیسے آپ کے والد واپس نہیں آئے وہ بھی واپس نہیں آئیں گے.(ص۲۸۴) نیز مولانا میر حسن صاحب حضرت مرزا صاحب کے حد درجہ القاء کے قائل تھے.چنانچہ اپنے بیان میں وہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب اس جوانی کے عالم میں جبکہ چوبیں چھپیں سال کی عمر تھی ، پادریوں کو مباحثات میں لاجواب کر دیتے تھے.بہت نیک باطن تھے.دنیوی اشغال کے لئے نہیں بنائے گئے تھے.فارغ اوقات میں قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف رہتے اور تلاوت کے وقت زار زار روتے تھے.خشوع و خضوع والی ایسی تلاوت کی نظیر نہیں ملتی.حضرت عرفانی صاحب حاضر خدمت ہوئے تو مولانا میر حسن نے چشم پر آب ہو کر فرمایا کہ افسوس ہم نے ان کی قدر نہ کی.میں ان کے کمالات روحانی کو بیان نہیں کر سکتا.ان کی زندگی معمولی انسان کی زندگی نہ تھی.بلکہ وہ ان لوگوں میں سے تھی جو اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں.اور دنیا میں کبھی کبھی آتے ہیں.اپنے برادر زادہ کے جو احمدی تھے تقویٰ کے قائل تھے.وہاں مرقوم ہے: وو میر حامد شاہ صاحب حضرت شاہ صاحب کے چچیرے بھائی کے بیٹے تھے.یہ احمدی ہو گئے تھے وہ پہلے فوت ہوئے.جب جنازہ تیار ہوا تو شاہ صاحب نے کہا کہ آج ہمارے خاندان سے تقویٰ اور پر ہیز گاری رخصت ہو گئی.حامد شاہ میرے بھتیجے تھے.ان کی ساری زندگی میرے سامنے ہے اور اس میں ایک بات بھی ایسی نہیں نکل سکتی جس پر انگلی رکھی جا سکے.“ (ص ۲۸۷)
262 کیا ہے لیکن چوہدری صاحب کے پیش کردہ امور کی تردید نہیں کر سکا.اسی روز نامہ نے اس سے ہیں بقیہ حاشیہ:- اگر آپ احمدیت کو کفر خیال کرتے تو ایک احمدی کا متقی ہونا آپ کے تصور میں ہی نہیں آ سکتا تھا.ذکر اقبال میں مرقوم ہے: " مرزا غلام احمد قادیانی اور مولوی حکیم نورالدین بھی شاہ صاحب کی بیحد عزت کرتے تھے.اور مرزا صاحب تو ایک مدت تک سیالکوٹ میں رہ بھی چکے تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے شاہ صاحب کے داما دسید خورشید انور بعارضہ دق بیمار ہو گئے.شاہ صاحب انہیں قادیان لے گئے تا کہ حکیم نورالدین سے علاج کرائیں.قادیان پہنچ کر مسجد میں گئے اور اس دریچے میں جا بیٹھے جہاں مرزا صاحب بیٹھتے تھے.لوگ ان کو جانتے نہ تھے.انہوں نے انہیں وہاں سے اٹھا دیا.لیکن وہ پھر دریچے کے پاس ہی آبیٹھے.مرزا صاحب آئے تو سلام کا معمولی جواب دے کر بیٹھ گئے اور متوجہ نہ ہوئے.شاہ صاحب نے کہا غالباً آپ نے مجھے پہچانا نہیں.مرزا صاحب نے غور سے دیکھا تو بڑی محبت اور تپاک سے ملے اور مولوی عبد الکریم سیالکوٹی کو بلا کر کہا کہ شاہ صاحب کو اچھی جگہ ٹھہراؤ.دو باتوں کی خاص طور سے تاکید کی.ایک یہ کہ شاہ صاحب کو صبح ہی صبح بھوک لگ جاتی ہے.کیونکہ یہ عادتا کالج جانے سے پہلے کھانا کھا لیتے ہیں.اس لئے ان کی حسب خواہش صبح ہی صبح کھانا دے دیا جائے.دوسرے انہیں اچھی کتابیں پڑھنے کے لئے دی جائیں.ساتھ ہی کہا.صبح چائے میرے ساتھ پیئیں.بہت خاطر تواضع کی اور جب شاہ صاحب واپس جانے لگے تو مرزا صاحب دو میل تک یکے کے ساتھ ساتھ آئے.پکی سڑک پر پہنچ کر کہا کہ میں کچھ باتیں علیحدگی میں کرنا چاہتا ہوں.شاہ صاحب نے ایک طرف جاکر ان کی باتیں سنیں بعد میں مفضل معلوم نہ ہوسکا کہ کیا باتیں ہوئیں.نہ شاہ صاحب نے ہی بیان کیا.( نوٹ :) : پکی سڑک تو تقسیم ملک کے بعد بنی ہے.دو میل نہر ہے وہاں تک چھوڑنے گئے ہوں گے.حضرت مرزا صاحب کی توجہ نہ ہونا عملا نہ تھا.(مؤلف اصحاب احمد )
263 سال قبل تسلیم کیا تھا کہ عصر حاضر میں اچھوتوں کو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی طرف سے دی جارہی رعائتیں خود غرضی پر مبنی ہیں.( ویر بھارت مورخہ ۳۰ ستمبر ۱۹۳۲ء بحواله الفضل ۶/۵/۳۲ ص ۷ ) بقیہ حاشیہ: اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا میر حسن نماز کے اراداہ سے مسجد میں پہنچے ہوں گے.یہ نیت نہ ہوتی تو وہ مسجد میں انتظار نہ کرتے بلکہ اطلاع بھجوا کر ملاقات کر لیتے.گو یا دیگر علماء مکفرین کی طرح نہ تھے.بلکہ بلکہ ساتھ نماز پڑھنے میں بھی حرج نہ سمجھتے تھے.یہ تو ہوا مولانا میر حسن کا حضرت مرزا صاحب کے متعلق رویہ اور حسنِ ظن.دوسری طرف علامہ اقبال سمجھتے تھے کہ میں سب کچھ اپنے استاد مولانا میر حسن کی تعلیم کا نتیجہ ہوں اور حد درجہ مؤدب تھے اور ہمیشہ ان سے استفاضہ کرتے تھے.بلکہ سر کا خطاب اس وقت تک لینے سے آپ نے انکار کیا جب تک کہ آپ کے استاد کو شمس العلماء کا خطاب نہ دیا جائے چنانچہ دیا گیا.علامہ ان کے متعلق کہتے ہیں.شمع بارگهہ خاندانِ مصطفوی رہے گا مثلِ حرم جس کا آستاں مجھ کو نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو یہ کر کہ خداوند آسمان و زمیں کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو دعا وو (ص ۲۸۸) علامہ اپنے استاد موصوف کی زندگی میں حضرت مرزا صاحب کی مخالفت نہ کر سکتے تھے اور مولانا میرحسن اس امر کو ہرگز به نظر استحسان نہ دیکھتے.ان کی وفات کے بعد کوئی ایسا شخص موجود نہ تھا جن کے سامنے زانوئے ادب علامہ تہہ کرتے ہوں.اس لئے کشمیر کمیٹی کے معاملہ میں برافروختہ ہوکر انہوں نے جماعت احمدیہ کی مخالفت کی اور اسے انتہا تک پہنچا دیا.ذکر اقبال میں مرقوم ہے :.۱۹۳۵ء میں مولانا ظفر علی خاں اور مجلس احرار نے احمدیوں کے خلاف ایک عام تحریک کا آغاز کیا.صوبے کے مختلف حصوں میں بڑے بڑے عالی شان جلسے منعقد ہوئے.جلوس نکالے گئے.اخباروں نے بالخصوص ”زمیندار“ نے اپنے صفحوں کے صفحے احمدیت کی مخالفت میں سیاہ کر دئے.عامۃ المسلمیں کا قول یہ تھا کہ حضور سرور کائنات صلعم کے بعد مدعی نبوت کا فر مطلق ہے.اور جو لوگ حضور صلعم کے بعد کسی کو نبی مانتے ہیں.ہ گویا رسالت محمدیہ صلعم کے منکر ہیں.لہذا ملتِ اسلامیہ سے خارج ہیں.حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ احمدیوں کو مسلمانوں کی فہرست رائے دہندگان
264 (۶) ۱۵/۱/۵۱ کو چوہدری صاحب نے امریکہ کے صدر ٹرومین کی خدمت میں ترجمہ قرآن مجید کی دوسری جلد پیش کی.کیونکہ صدر موصوف نے خواہش ظاہر کی تھی کہ انہیں اسلامی قوانین کے بقیہ حاشیہ سے حذف کر دیا جائے اور ان کو ہندوؤں ، اچھوتوں اور عیسائیوں کی طرح ایک علیحدہ اقلیت قرار دیا جائے.خدا جانے علامہ اقبال نے کس عقیدت مند کی درخواست پر ایک مضمون لکھ دیا جس میں بتایا کہ اس فرقے کی بنیاد ہی غلطی پر ہے.اس کے علاوہ بعض اور علمی نکات بیان کئے اور آخر میں حکومت کو یہ مشورہ دیا کہ اس فرقے کو ایک علیحدہ جماعت تسلیم کرلے.“ ( ص ۲۱۰) افسوس کہ علامہ کے رفقاء میں سے کسی نے نہ پوچھا کہ سعد اللہ کی مخالفت میں آپ نے نظم لکھی.اپنے بیٹے کو قادیان میں تعلیم دلائی.مسجد احمد یہ لندن میں احمدی نومسلموں کو مسلمان سمجھا اور انہیں حوصلہ دلایا کہ اقلیت ہونے کے باعث فکر مند نہ ہوں.جماعت احمدیہ کا نمونہ ٹھیٹھ اسلامی قرار دیا.اب یکا یک کون سا انکشاف ہوا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے زور آزمائی شروع کر دی.کیا آپ اسلام اور مسلمانوں کو عمر بھر شناخت نہ کر سکے؟ یا للعجب !! کیا علامہ دل سے یہی کچھ سمجھتے تھے؟ وفات کے قریب اپنے بچوں کی نگرانی کے لئے جو چند افرا د مقرر کئے ان میں آپ کا برا در زادہ بھی تھا.(ص ۲۱۶) جو کہ بفضلہ تعالیٰ احمدی تھا اور ہے.کیا اتنے غیور مسلم رہنما کو ایک غیر مسلم کا بدل نہ مل سکا ؟ ملک غلام فرید صاحب ایم.اے ( مترجم قرآن مجید انگریزی ) اپنے فاضلانہ مضامین میں لکھتے ہیں ، کہ ڈاکٹر اقبال کا احمدیت پر حملہ زیادہ تر سیاسی وجوہات پر مبنی ہے.وہ اس امر سے انکار نہیں کر سکتے کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات (۱۹۱۴ء) سے قبل ڈاکٹر صاحب لاہور کی مقامی جماعت کے مرکز میں باقاعدگی سے آتے اور جلسوں کی صدارت کرتے اور ان میں تقریریں کرتے اور اس وقت کے احمد یہ جماعت کے مذہبی سربراہوں سے اعلانیہ میل ملاقات رکھتے ہوئے ان کی مذہبی سرگرمیوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے تھے.ان کا یہ کہنا کہ ایسے افراد کے ساتھ ان کے تعلقات ذاتی حیثیت کے تھے نا درست ہے.ہم اس جواب کو درست تسلیم کرتے اگر ۱۹۳۱ء تک بھی یہ صورت نظر نہ آتی کہ انہوں نے اس وقت موجودہ امام جماعت احمدیہ کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی حقیقی معنوں میں
265 بارے میں زیادہ معلومات بہم پہنچائی جائیں.چوہدری صاحب نے بتایا کہ پہلی جلد قبل از میں آپ پیش کر چکے ہیں.* ڈکٹیٹر شپ نہ پیش کی ہوتی اور آپ کو مکمل تعاون کی پیشکش نہ کی ہوتی.اور گول میز کانفرنس میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب جیسے ممتاز احمدی کے ساتھ گہرے اتحاد کے ساتھ ہاتھ نہ بٹایا ہوتا ،فروری ۱۹۳۵ء تک بھی علامہ جماعت احمدیہ کی ہمنوائی کو ناپسند نہ سمجھتے تھے.چنانچہ وو اخبار ” مجاہد مورخہ ۱۳/۲/۳۵ میں علامہ موصوف کا یہ اعتراف درج ہے:.مرزائیوں کا یہ عقیدہ کہ حضرت عیسی ایک فانی انسان کی طرح جام مرگ نوش فرما چکے ہیں اور نیز یہ کہ ان کا دوبارہ ظہور کا مقصد یہ ہے کہ روحانی اعتبار سے ان کا مثیل پیدا ہوا کسی حد تک معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہے.( الفضل ۱۸/۸/۶۲ ص ۵) انگریزی روز نامہ سٹیٹسمین نے ۱۴/۵/۳۵ کی اشاعت نے بھی ڈاکٹر صاحب کی بات کو برا منایا ہے اور لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بوجہ خاتم النبین ہونے کے شدید وابستگی نے چوہدری صاحب کے وائسرائے کی کونسل کے بطور ممبر ہونے کے بعد ہی جوش مارا ہے.قادیانی فرقہ کشمیر کمیٹی کے معرض وجود میں آنے اور چوہدری صاحب کے تقرر سے تمہیں سال قبل کا قائم ہے.پنجاب کونسل کے انتخاب کے لئے چوہدری صاحب کے کھڑا ہونے کے موقعہ پر یا پہلی دفعہ وائسرائے کی کونسل کا ممبر مقرر ہونے پر ڈاکٹر صاحب نے کیوں صدائے احتجاج بلند نہ کی تھی.ڈاکٹر صاحب چاہتے ہیں کہ چوہدری صاحب جیسے لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوکر ڈاکٹر صاحب اور ان جیسے افراد کو ان اعلیٰ عہدوں سے محروم نہ رکھ سکیں.ملک صاحب مکرم مزید لکھتے ہیں کہ کشمیر کمیٹی کی صدارت کے لئے ڈاکٹر صاحب نے بھی حضرت امام جماعت احمدیہ کا نام تجویز کیا تھا.اور باصرار التجا کی تھی کہ آپ اس پیشکش کو قبول کر لیں.اس وقت کشمیر کے مسلمانوں کی خدمت کے لئے ڈاکٹر صاحب کو صرف حضرت مدوح کی شخصیت ہی قابل نظر آتی تھی اور اب وہ جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دیتے ہیں.ریویوآف ریلیجنز (انگریزی ( بابت جون ۱۹۳۵ء و مارچ ۱۹۳۶ء ص۱۰۳.مضامین D Muhammad Iqbal's Bitter Attack On The Ahmadiyya Community اور (Dr.Iqbal And Ahmadiyya Movement)
266 (۷) آپ نے ۲۶ نومبر ۱۹۵۱ ء ک پیرس میں مجلس اقوام متحدہ کی پہلی کمیٹی میں نہایت جرات سے مجلس اقوام کو اس کے قول و فعل کے تضاد کی طرف توجہ دلائی اور ان تمام کمیٹیوں اور کانفرنسوں کا ذکر کیا جو تخفیف اسلحہ اور قیام امن کی غرض سے قائم کی جا چکی ہیں.لیکن دنیا کا امن پہلے سے بھی زیادہ خطرہ میں ہے.اور قو میں ایسے آلات پیدا کرنے میں مصروف ہیں ، جو مصیبت اور ہلاکت و تباہی کے غار میں دھکیل دیں گے.آپ نے بین لاقوامی ڈپلومیسی کے چہرے سے نقاب اٹھا کر بتایا کہ: ” ہم آزادی کا اعلان کرتے ہیں.لیکن ہمارا عمل دوسروں کو غلام بنانے کے سوا کچھ نہیں.ہم مساوات کا وعظ کہتے ہیں لیکن امتیاز و تفاوت پر عمل کرتے ہیں.ہم اخوت کا اعلان کرتے ہیں.لیکن ہمارا با ہم سلوک سوتیلے بھائیوں کا سا ہے.ہم زبان سے رواداری پکارتے ہیں لیکن ہمارا عمل تعصب اور غیر رواداری پر مبنی ہے.ہم آزادی اطلاعات کا دعوی کرتے ہیں لیکن دنیا کے تاریک گوشوں میں روشنی کا داخلہ روک رہے ہیں.ہم حقوق انسانی کے بلند بانگ اعلانوں کے مسودے تیار کرتے ہیں.لیکن انسانوں کی غلامی ومحکومی اور استیصال کو نہ صرف روا رکھتے ہیں بلکہ ان ناپاک افعال کے معاون بن جاتے ہیں.وو 66 آپ نے یہ بھی کہا کہ بڑے بڑے ریزولیوشن کسی کام کے نہیں.ان کی قیمت پرو پیگنڈا کے سوا کچھ نہیں اور پرو پیگنڈا اس تباہی سے ہرگز نہ بچا سکے گا جس کے راستے پر ہم گامزن ہو چکے ہیں جب تک ہم دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو دیکھیں گے لیکن اپنی آنکھ کے شہتیر کو نظر انداز کرتے رہیں گے ہم دنیا کی کوئی خدمت نہیں کر سکتے.آپ نے قرآن مجید کی آیات پڑھ کر بتایا کہ دنیا میں نافرمانوں کا کیا انجام ہوا کرتا ہے اور ہماری دنیا کو وہی انجام در پیش ہے.البتہ اگر ہم اقوال و افعال میں مطابقت پیدا کریں تو ہم دنیا کو امن اور خوشحالی سے مالا مال کر سکتے ہیں.( الفضل ۴ /جنوری ۱۹۵۲ء (ص۲) یہ اندازہ ہوتا ہے کہ چوہدری صاحب نے یا تو ابتداء میں کوئی تبلیغی لٹریچر دیا ہوگا.یا تبلیغی گفتگو کی ہوگی یا صدر موصوف کی نظر میں دیگر اسلامی ممالک کے نمائندگان میں سے چوہدری صاحب ہی اس بات کے اہل تھے کہ آپ سے اسلامی قوانین طلب کئے جائیں.( الفضل ۱۷/۲/۵۱ ص۱)
267 (۸) آپ نے متحدہ ہند کی پارلیمنٹ میں نہایت دانشمندی اور خلوص سے جنگ عظیم دوم کے تعلق میں ملک کو دنیوی رنگ میں صحیح مشورہ دیا بلکہ روحانی رنگ میں بھی صحیح رہنمائی کی.۱۹۴۰ء میں آپ وزیر قانون تھے.اس وقت مرکزی اسمبلی میں دوسرے فنانس بل کے مباحثہ میں آپ نے جو تقریر فرمائی.اس پر آپ کو بے حد خراج تحسین ادا کیا گیا.آپ نے بتایا کہ متضاد دلائل کے باوجود تمام اس امر پر متفق ہیں.اول ہر قوم کو دوسروں کے ناجائز تسلط سے آزادی حاصل ہو.دوم بین الاقوامی ذمہ واریوں کا احترام کیا جائے.سوم سب سے زیادہ پسندیدہ نظام حکومت جمہوری ہے.چوتھے انصاف ہو.قانون کی حکومت ہو اور قانون کی نظر میں تمام شہریوں کی حیثیت مساوی ہو.اور خاندان ذات پات اور رنگ ونسل کی بناء پر لوگوں کے ساتھ مراعات نہ ہوں.پانچویں کمزور کی امداد کی جائے.چھٹے حکومتوں کے وفاق کا نصب العین ہو جس میں تمام حکومتیں مساوات کی بنیاد پر اشتراک عمل کریں اور بین الاقوامی مناقشات کو نپٹا ئیں اور سائینس کے وسائل کو جو اس وقت نسل انسانی کی تباہی کے لئے وقف ہیں.انسانی بہبود کے لئے ترقی دی جائے.اگر ہم سب ان امور پر متفق ہیں تو ہمیں یہ اقرار کرنا چاہیئے کہ اس جنگ میں ہماری پوری پوری ہمدردیاں جمہوریتوں کے ساتھ ہیں.ستیہ مورتی صاحب نے کہا کہ اقرار کیوں؟ چوہدری صاحب نے کہا ، اس لئے بعض حلقوں کو اس کا اقرار کرنے میں تامل ہے.آمریت پسند حکومتوں کی کامیابی اور جمہوریتوں کی شکست کی صورت میں ہمارے تمام اعلیٰ اور پاکیزہ نصب العین تباہ ہو جائیں گے.گاندھی جی کہہ چکے ہیں.ہٹلر غالبا خدا کو نہیں مانتا.اور میرے نزدیک وہ جنگ کا ذمہ دار ہے.(مسٹر ستیہ مورتی نے کہا نہیں نہیں.اس پر چوہدری صاحب نے کہا کہ یہ میرے الفاظ نہیں ، گاندھی جی کے ہیں.مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ کانگرسی حلقوں میں گاندھی سے اختلاف اس حد تک بڑھ گیا ہے ) گاندھی جی نے کہا کہ ہٹلریت کا مطلب عریاں اور بیدر دانہ تشد د ہے.میری تمام تر ہمدردیاں اتحادیوں کے ساتھ ہیں.اگر اتحادیوں کو شکست ہوئی تو ہندوستان میں افرا تفری اور بدامنی پیدا ہو جائے گی.جس سے طویل مدت تک نجات حاصل نہ ہو سکے گی.راجگو پال آچار یہ جی کہتے ہیں کہ ہٹلریت کا استیصال ضروری ہے اور ہمیں اتحادیوں کی فتح کے لئے دعا کرنی چاہیئے.کے.ایم منشی صاحب کی رائے ہے کہ ہٹلر کی جنگ چھوٹی اور بے یارو مددگار قوموں کے خلاف ہے.یہ نسلی تعصب اور تشدد کی جنگ
268 ہے.اور اور یہی ستیہ مورتی صاحب کہہ چکے ہیں کہ برطانیہ اپنے تمام نقائص کے باوجود ایک مہذب قوم ہے.گاندھی جی ، کانگریس اور میں بھی اور دوسرے لوگ بھی انگلستان کی فتح کے خواہاں ہیں.ہٹلریت کو شکست دینا ضروری ہے.اگر برطانیہ کو فتح نہ ہوئی تو ہندوستان دیگر ممالک کا غلام ہو جائے گا.شنکر راؤ دیو صاحب بیان کرتے ہیں کہ کانگریس چاہتی ہے کہ انگلستان کی فتح ہو.اور ہم سب اس کی کامیابی کے لئے دعا کرتے ہیں.سردار ولبہ بھائی پٹیل کہتے ہیں کہ تمام ہندوستانی لیڈروں کی ہمدردیاں برطانیہ اور فرانس کے ساتھ ہیں.ان کے نزدیک نازیت دنیا کی تباہی کا موجب ہوگی.آپ نے مزید فرمایا کہ پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ مساعی جنگ میں برطانیہ کی پوری مدد نہ کی جائے.کیا اس کا سبب عدم تشدد کا اصول ہے ؟ میں بھی عدم تشدد کا قائل ہوں.لیکن اس وقت تک جب تک وہ مجھے اپنی دشمنی اور تشدد کا شکار نہ بنائے.موجودہ خطرہ میں مقابلہ نہ کرنے اور دائیں رخسار پر تھپڑ کھانے کے بعد بایاں رخسار پیش کر دینے سے فائدہ نہ ہوگا.لیکن مسٹر منشی نے یقین دلایا ہے کہ یہ جنگ عدم تشدد کے خلاف ہے.اگر ہندوستان کو آزادی دی جائے تو اختلاف رکھنے والے بھی جنگ میں برطانیہ کی پوری مدد کریں گے.گویا عدم تشدد کا اصول جنگ میں امداد دینے کی راہ میں حائل نہیں.فرمایا اب دیکھنا ہے کہ وہ کیا اسباب ہیں جن کی بناء پر دہشت کی عریاں قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے امداد دینے سے ہاتھ روکا جاتا ہے.برطانیہ پر جو بھی الزامات عائد کئے جاتے ہیں وہ درست ہوں تب بھی غیر متعلق ہیں.اگر ہماری عدم امداد سے برطانیہ کو شکست ہو جائے اور اس کا وجو دہی نہ رہے تو عبرت کون حاصل کرے گا.اور اگر ہندوستان ہی باقی نہ رہے تو فائدہ کون اٹھائے گا.لارڈ کلاٹو کی جعلسازی اور راجہ بنارس اور بیگمات اودھ کا وارن ہیسٹنگز کی طرف سے لوٹا جانا سامنے رکھنا غیر متعلق ہے.برطانیہ اپنا اسلحہ بہت سال تک کم کرتا رہا.یہاں تک کہ اس کا تحفظ خطرہ میں پڑ گیا تب موجودہ وزیر اعظم پانچ سال تک شب و روز دفاع کے لئے موزوں انتظامات کرنے کی اپیل کرتے رہے لیکن کوئی توجہ دی گئی.اب توجہ دی گئی جبکہ ایک استعمار پرست طاقت نے کمزور ہمسایوں کو دبانا شروع کیا.اور اب برطانیہ اس طاقت ( جرمن ) کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے.کیا برطانیہ کا یہ طریق کار استعمار پرستانہ ہے، اور وہ امریکہ ، ڈنمارک وغیرہ پر قابض ہونا چاہتا ہے.ہرگز نہیں.
269 کہا جاتا ہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں.ہم اس کا باعث نہیں ہوئے.لیکن اسی طرح برطانیہ بھی اس کا ذمہ دار نہیں.گاندھی جی کہہ چکے ہیں کہ جنگ کا ذمہ وار ہٹلر ہے اور اس کی بھڑکائی ہوئی آگ کو بجھانا ہر ایک کا فرض ہے.مزید بیان کیا کہ یہ کہا جاتا ہے جنگ میں شمولیت یا عدم شمولیت میں ہماری مرضی کا کوئی دخل نہ تھا.یہ امر ہندوستان کے آئینی مرتبہ سے متعلق ہے.اس کے ساتھ یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ ہم آزاد نہیں ہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ اس غلطی کا تدارک جنگ میں امداد دینے کی حالت میں ہے یا نہ دینے کی صورت میں.اور اس کے جواب کے لئے ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ اگر ہم مدد دینے سے انکار کر دیں تو کیا شدید رکاوٹ پیدا ہوگی جس سے برطانیہ کی فتح خطرہ میں پڑ جائے گی.یا با لآخر اس کا اثر ایسا معمولی ہوگا جسے قطعاً نظر انداز کیا جا سکتا ہے.اگر عدم امداد کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا تو جولوگ ایسا کریں گے ، دنیا ان کا مذاق اڑائے گی.اگر عدم تعاون برطانیہ کی مساعی جنگ میں زبر دست رکاوٹ پیدا کر دے گا جس سے اس کی فتح خطرہ میں پڑ جائے گی.تو ہمارے سامنے ایک نہایت مضحکہ خیز منظر آتا ہے کہ گو یا مخالفین میں سے کوئی معزز رکن یہ کہے کہ گاندھی جی کانگریس اور سب کی خواہش تو یہی ہے کہ برطانیہ کی فتح ہو.لیکن ہم ایسا طریق اختیار کریں گے کہ اس کو فتح نہ ہو.اور فتح کے امکانات میں روک پیدا کریں گے.اگر ہم اس وقت تک ایسا رویہ اختیار کریں گے جب تک برطانیہ ہمارے مطالبہ آزادی کو تسلیم نہ کرے.تو اس امر کی ضمانت کیا ہے کہ اس دوران میں برطانیہ کی فتح مشتبہ نہ ہو جائے گی جس سے ہم نے امن اور آزادی کی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں.ہمیں کیا معلوم کہ جرمنی کے عزائم کیا ہیں.ہمیں ہر طرف سے خطرہ ہے.جزائر شرق الہند ،عراق ، ایران وغیرہ پر کسی لمحہ بھی تباہی کی بجلی اچانک گر سکتی ہے.یہ کہنا کہ کیا ہوگا ، اس وقت ہم انگریزی بولتے ہیں پھر دوسری زبان سیکھ لیں گے.میرے نزدیک یہ بھی یقینی نہیں کہ ہم کہیں بولنے بھی پائیں گے یا نہیں.اس حقیقت کو ہر گز فراموش نہ کیجیئے کہ جب حملہ آور کسی علاقہ میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اسے برباد کر دیتے ہیں اور وہاں کے اکابر اور معززین کو ذلیل وخوار کرتے ہیں.ہمیشہ سے یہی ہوتی آئی ہے.( اِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا اَذِلَّةٌ : وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ.سورۃ النمل ( تبدیلی پر امن نہ ہوگی.ہٹلر نے آزادی ہند کے حامیوں کو بازیگر کہا ہے، اور یہ رائے ظاہر کی ہے کہ سیاہ اقوام میں ذہنی وشعوری بیداری پیدا کرنا خداوند از لی
270 کی بارگاہ میں گناہ عظیم ہے.آپ نے مزید بیان کیا کہ ہندوستان و برطانیہ دشمن کی نظر میں ایک ہے اور برطانوی فضائی اور بحری طاقت اور برطانوی افواج پر دولت مشترکہ کی اقوام ( مصر، ترکی ، عراق ، افغانستان، اور جزائر شرق الہند ) کی حفاظت کا دارو مدار ہے.اور ان سب کی حفاظت کے ساتھ ہندوستان کی حفاظت وابستہ ہے.اگر ہم اپنی حفاظت چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ ان فوجوں کو تقویت پہنچانے کی انتہائی کوشش کریں.کانگرسی رہنما یہ اظہار کر چکے ہیں کہ اگر اس جنگ میں برطانیہ تباہ ہو گیا تو ہندوستان کو ذلت کے ساتھ بدترین مظالم کا شکار ہونا پڑے گا.گاندھی جی چاہتے ہیں کہ برطانیہ کانگریس کو یہ حق دے کہ وہ ہندوستان کو مساعی جنگ میں اشتراک عمل سے باز رکھنے کی ترغیب دے.اس طرح برطانیہ کی فیاضی کی ساری دنیا قائل ہو جائے گی.لیکن میں چاہتا ہوں کہ ہمارا ملک عظیم تر اور فیاض تر ثابت ہو.اور برطانیہ کی سابقہ غلط کاریوں لوٹ کھسوٹ ، تعصب اور ہندوستان کو آزادی عطا کرنے سے قاصر رہنے کے باوجود ہندوستان یک زبان ہو کر کہدے کہ اس خطرے کے پیش نظر جو ساری انسانیت کو لاحق ہو گیا ہے.وہ ماضی کی تمام شکایات کو محو کر دے گا اور اس جنگ میں پوری پوری امداد دے گا اور اس میں انتہائی فیاضی سے حصہ لے گا.میں ستیہ مورتی صاحب کی اس رائے سے متفق ہوں کہ اپنے تمام نقائص کے باوجود انگریز ایک شائستہ قوم ہیں.مجھے یقین ہے کہ ہم آزادی کی چوکھٹ پر پہنچ گئے ہیں.اور آزادی کی خلعت ہندوستان کے پہننے کے لئے تیار ہو چکی ہیں.ہم امید کرتے ہیں کہ انسانیت کے لئے ایسے نازک ترین موقعہ پر ہم اپنے فرائض کو بوجوہ احسن انجام دے کر اس خلعت آزادی کو پہننے کی پوری پوری اہلیت ثابت کر دیں گے.آخر پر آپ نے فرمایا کہ اب تک میں نے اس مسئلہ کے مادی پہلو پر بحث کی ہے.لیکن ضروری ہے کہ میں اس کے ایک دوسرے اور زیادہ بنیادی پہلو کی طرف توجہ منعطف کراؤں.وہ تمام وسیع مسائل....وسائل....جو اس وقت نوع انسان کی تکالیف کو کم کرنے اور ان کی مسرتوں کو بڑھانے کے لئے موجود ہیں اس کی تباہی پر صرف کئے جار ہے ہیں.میرے عقیدے کی رو سے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے دلوں سے خدا کو خارج کر دیا ہے.اور اس کی جگہ جھوٹے خدا بٹھا لئے ہیں، اور اپنے قلوب میں غرور سرکشی ، لالچ وغیرہ برے مقاصد کو جگہ دی ہے.خدا ناراض ہوکر بداعمالیوں کی سزا دیتا ہے.تشدد اور تباہی کی دستبرد سے نجات حاصل کر کے امن واخوت کے راستے پر دوبارہ
271 گامزن ہونے کا صرف یہ واحد ذریعہ ہے کہ حقیقی خدا ہمارے دلوں میں پھر جلوہ گر ہو جائے.اور ان جھوٹے خداؤں اور برے خیالات سے اپنے دلوں کو پاک کر لیں.اسلحہ کے ذریعہ حملہ آور کو پسپا کر کے نوع انسان کو تو بچایا جا سکتا ہے.لیکن اس کی روح کو پاک نہیں کیا جاسکتا.مصیبت زدہ لوگوں کو روحانی حفاظت کے زیر سایہ لانا ضروری ہے.جس کی بنیاد بلند تر اخلاقی صفات پر ہو.ہم اپنے کو خدا کی مرضی پر چھوڑ دیں تو اس مقصد کی تکمیل ہو سکتی ہے.ہمیں انسانی پیدائش کا مقصد معلوم کرنا چاہیے.یہ مقصد صرف عاجزی اور خلوص کے ساتھ دعا کرنے سے معلوم کیا جا سکتا ہے.یقین رکھئے آج بھی خدا تعالی دعاؤں کو زمانہ سابق کی طرح سنتا ہے.ضرورت ہے کہ ہم اپنے دل کے کانوں سے اس کا پیغام سنیں کہ جو لوگ میری تلاش میں جدو جہد کرتے ہیں میں انہیں اپنے راستے دکھا دیتا ہوں.( وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا - عنبوت : ۶۹) پس جب تمہیں میری رہنمائی حاصل ہو جائے تو اس کی پیروی کرو.اس طرح تمہارے لئے کوئی خوف اور رنج باقی نہیں رہے گا.(فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِّنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ البقرة : ٣٩) اور اے پیغمبر! جب میرے بندے تمہارے پاس آئیں ، اور تم سے میرے متعلق دریافت کریں ، تو کہدو، کہ میں ان سے قریب ہوں.میں ہر شخص کی فریا دسنتا ہوں ، جو مجھ سے فریاد کرتا ہے.پس انہیں چاہیئے کہ اپنے دلوں کو میری طرف متوجہ کریں اور مجھ ہی پر یقین رکھیں تا کہ ان کی رہنمائی صحیح راستے کی طرف ہو.( وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِ قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَحِبُوْا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ البقرة : ۱۸۷) میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے.(كَتَبَ اللهُ لَأَغْلِبَنَ اَنَا وَ رُسُلِی.المجادلہ:۲۲) اگر سمت مخالف کے معزز ارکان میرے ساتھ اتفاق کریں گے.تو ان کے اور ہندوستان کے لئے بہتر ہوگا.ورنہ میں کہوں گا کہ اگر تم نیکی کرو گے تو وہ تمہارے لئے ہے.اور اگر برائی کرو گے ، تو وہ بھی تمہارے لئے ہے.( إِنْ أَحْسَنُتُمُ أَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا - بنی اسرائیل: ۸ ) میں اپنے عمل کا ذمہ دار ہوں اور تم اپنے عمل کے (فَقُل لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ - يونس : ۴۲) اور میرے الفاظ یہ ہیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين - * ( الفضل ۱۸-۱۹-۱۴٫۲۱؍ دسمبر ۱۹۴۰ء).(۹) مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی ہفت روزہ صدق جدید لکھنو کی اشاعت ۵۲-۶-۲ میں لکھتے ہیں :
272 وو سر ظفر اللہ خاں...کا بیان پریس کانفرنس کراچی میں: میرے اوپر بارہا یہ اعتراض ہو چکا ہے کہ میں ملکی اور بین الملکی معاملات میں قرآن یا حدیث کو کیوں پیش کر دیتا ہوں.حالانکہ ملکی اور بین الملکی مسائل کو اگر دینی سندمل جائے تو بہتر ہی ہوا کرے.چنانچہ اس وقت بھی اس اعتراض کا خطرہ لے کر میں کہتا ہوں کہ ہمیں تو اس کی تعلیم ملی ہے کہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ـ الخ“ " کاش یہی شیوہ عرب اور مصر اور عراق اور ایران اور شرق سیر دن اور شام اور افغانستان کے نمائندوں کا بھی ہوتا.کاش ان میں بھی جرات غیروں کے سامنے اپنے ہاں کی چیزوں کے پیش کرنے کی ہوتی اور اب تو نمائندہ پاکستان اپنے منفرد ہونے کی بناء پر غیروں کی مجلس میں بیشک عجیب سا معلوم ہوتا ہوگا اور اسی لئے اس کا استحقاق اجر بھی کہیں بڑھ رہا ہوگا....اور اب تو اونچے حلقوں میں یہ وزیر خارجہ پاکستان کے دم سے ہی قائم ہے.(بحوالہ الفضل ۵۲-۶-۲۹) (۱۰) ایک ایسے موقعہ کا علم انگریزی روزنامہ ڈان کے ذیل کے نوٹ سے ہوتا ہے: چوہدری صاحب نے جو چھوٹی طاقتوں کے اس گروپ کے لیڈر ہیں جس نے گذشتہ دسمبر میں بڑی طاقتوں کو تخفیف اسلحہ کے سلسلہ میں تبادلہ خیالات پر آمادہ کیا تھا.پیرس میں ایک خصوصی ملاقات میں بیان کیا کہ مشرق ومغرب کے باہمی جھگڑے و کشیدگی کی طوالت پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقوں میں کسی وقت بھی جنگ کے شعلے بھڑکنے کا موجب بن سکتی ہے.آپ نے متنبہ کیا کہ مشرق اور مغرب کے تعلقات ایک نازک مرحلے میں داخل ہوتے جارہے ہیں اور صورت حال کسی بھی وقت قابو سے باہر ہوسکتی ہے.( بحوالہ الفضل ۱۳/۱/۵۲) (۱۱) آپ نے بین الاقوامی اخوت کی اسمبلی میں برسلز میں اپنی تقریر میں فرمایا.کہ سائینس کی افسر محکمہ اطلاعات دار السلام ( مشرقی افریقہ) نے پبلک کے استفادہ کے لئے اس تقریر کا دلکش ملخص بصورت ہینڈ بل شائع کیا.صوبائی کمشنر وغیرہ نے بھی اس تقریر کو پسند کیا.اور حب وطن کے جذبات سے لبریز قرار دیا.(الفضل ۱۷/۴/۴۱)
273 ترقی اور دیگر بدلے ہوئے حالات نے دنیا کی اقوام کو باہم مربوط کر دیا ہے.دنیا کے امن ،ترقی اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ تعاون اور ہمدردی کا ایک عالمی جذبہ پیدا کیا جائے.اگر یہ جذبہ پیدانہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ پوری دنیا کے لئے مہلک ثابت ہوگا.(الفضل ۴/۷/۵۵ (ص ۱) و ۱۷٫۷٫۵۵ (ص۱) (۱۰) مساجد کی بناء وافتتاح مساجد کا وجود ہزار ہا فوائد کا حامل ہے.جماعت احمدیہ کے تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ ممالک زیر تبلیغ میں ان کا وجود تبلیغی سرگرمیوں کو تیز کرتا ہے، اور لوگوں کو بھینچ کر لاتا ہے اور مساجد مراکز کا کام دیتی ہیں.یکے بعد دیگرے غیر ممالک میں مساجد کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے.سید نا خلیفہ اسیح الثانی ( مَتَّعْنَا اللهُ بِطُولِ حَيَاتِهِ ) کی یہ سکیم حیرت انگیز انقلابی افادیت کی حامل ہے.(۱) مسجد لیگوس ( مغربی افریقہ ) جناب چوہدری صاحب کو مغربی افریقہ میں ایک مسجد کا سنگِ بنیا درکھنے کا شرف حاصل ہوا.اس وقت کے مجاہد حکیم فضل الرحمن صاحب فرماتے ہیں.کہ 11 مارچ ۱۹۴۳ء کو چوہدری صاحب لیگوس ( نائیجیریا، مغربی افریقہ وارد ہوئے اور گورنمنٹ ہاؤس سے ٹیلیفون پر اطلاع ملنے پر میں وہاں پہنچا، اور پروگرام طے کیا.اگلے روز مسجد کا سنگ بنیاد آپ نے رکھا تھا.میں نے بہت سے افسران کو ٹیلیفون پر اطلاع دی اور پوسٹر چھپوا کر راتوں رات چسپاں کروائے.مقامی ریڈیو پر بھی اور اخبارات میں بھی اعلان کرایا.سنگِ بنیا د رکھنے کے وقت بہت بڑے مجمع کے علاوہ گورنر ، چیف سیکرٹری ، فنانشل سیکرٹری، کمشنر پولیس کمشنر آف دی کالونی ، بحری محکمہ کے ڈائرکٹر ممبران مجالس قانون ساز و انتظامیہ گورنر صاحب.مجسٹریٹ ، وکلاء، تجار ، حجاج ، لوکل چیفس ، علماء اور یورپین اور افریقن معززین نے شرکت کی سرعزیز الحق (لندن میں متعین ہندوستانی ہائی کمشنر ) سرجان کالول نامزد گورنر برائے بمبئی نے بھی شرکت کی.احباب جماعت آپ کے استقبال اور اس تقریب میں شمولیت کے لئے چھ سو میل تک سے تشریف لائے.میں نے تلاوت کے بعد ایک خطبہ جمعہ میں سلسلہ احمدیہ کی مختصر تاریخ اور اس کی ترقی اور عالمگیر جنگ کے متعلق پیشگوئیاں بیان کیں.بعد ازاں جناب چوہدری صاحب نے مختصر مگر جامع خطاب میں مسجد کی اغراض بیان کیں جس سے لوگوں پر عمدہ اثر ہوا.اس کے بعد سنگِ بنیا درکھ کر دعا کی.اور پھر سر عزیز الحق اور گورنر صاحب نے بھی تقاریر کیں.اس کا نام سید نا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ
274 تعالیٰ نے مسجد الفضل تجویز فرمایا.* (۲) مسجد ہیگ (ہالینڈ) سرزمین ہالینڈ میں اولین مسجد کا سنگِ بنیاد بمقام ہیگ رکھنے کا اعزاز محترم چوہدری صاحب کو حاصل ہوا.اس تقریب میں ایران ، مصر، پاکستان اور انڈونیشیا کے سفراء کے نمائندگان تشریف لائے.حاضری تقریباً دو صد تھی.ورلڈ نیوز ایجنسی کے علاوہ قریباً سب روزانہ اخباروں کے نمائندے آئے.تقریب بہت کامیاب رہی.محترم چوہدری صاحب نے اس موقعہ پر حضور کا پیغام پڑھ کر سنایا.سنگِ بنیا د رکھا جانے پر اطلاع ملنے پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ چوہدری صاحب کے لئے یہ خدمت عظیم مبارک کرے.اور ثواب کا موجب بنائے.بیچ وہی ہے جو سر عبد القادر نے مسجد لنڈن کا افتتاح حکیم صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میں دس برس سے اس علاقہ میں ہوں.کئی سال سے خواہش تھی کہ چوہدری صاحب تشریف لائیں.تا احباب دیکھ سکیں کہ احمدیت نے اپنے حلقہ بگوشوں میں کیا تبدیلی پیدا کی ہے.نومبر ۱۹۴۲ء میں آپ لیگوس اچانک تشریف لائے.لیکن میں وہاں سے ایک ہزار میل دور دورے پر تھا.اور چار دن بعد مجھے اطلاع ملی.اندازہ ہوسکتا ہے کہ میرے دل پر اس خبر سے کیا گذری ہو گی.آپ کہہ گئے تھے کہ واپسی پر بھی تشریف لائیں گے.میں واپس آیا اور ارادہ کیا کہ بوجہ صحابی ہونے کے آپ کے ہاتھ سے مسجد کی بنیا درکھوائی جائے.امریکہ تار دیا، تو ہفتے بعد مبلغ کا جواب آیا کہ چوہدری صاحب لندن جاچکے ہیں.وہاں تار دی تو جواب آیا کہ آپ نے سنگِ بنیا درکھنا منظور کر لیا ہے.لیکن آپ کے پہنچنے کی تاریخ کا علم نہیں تھا.سو میں نے چیف سیکر ٹری حکومت نائیجیر یا سے ملاقات کر کے یہ انتظام کر لیا کہ جونہی چوہدری صاحب کی آمد کا علم ہو.وہ مجھے مطلع کر دیں.چنانچہ دو ہفتے انتظار رہا.چوہدری صاحب نے ملاقات کا علم ہوتے ہی بوجہ قادیان سے محبت کے دریافت کیا کہ مجھے کس تاریخ تک کے الفضل کے پرچے مل چکے ہیں.مقامی مسلمانوں نے بھی آپ کا نہایت پر تپاک استقبال کیا اور سپاس نامہ پیش کیا.مخرجین کی درخواست پر ان کی مسجد میں تشریف لے گئے ، اور پر زور الفاظ میں خلافت اور نظام جماعت کے ساتھ وابستہ ہو جانے کی تلقین فرمائی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پانچ ہزار روپیہ اس مسجد کی تعمیر کے لئے بھجوایا.احباب ہر ہفتہ اور اتوار کو وقار عمل کر کے بھی مسجد کی تعمیر میں مدد دیتے تعمیر پر تقریباً ایک ہزار پونڈ صرف ہوئے.احباب جماعت کو آپ نے زریں نصائح فرمائیں اور ان کے ساتھ فوٹو لیا گیا.
کرتے ہوئے کہا تھا.275 این سعادت بزور بازو نیست تانه بخشد خدائے بخشنده اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب کو مجھے آرام سے یہاں پہنچانے کی سعادت بخشی.اور اس کے بدلہ میں ان کو مسجد ہالینڈ کا سنگِ بنیا درکھنے کی عزت بخشی.یہ وہ عزت ہے جو بہت بڑے بڑے لوگوں کو بھی نصیب نہ ہوئی ہوگی.ہم نئے سرے سے اسلام کا سنگِ بنیا درکھ رہے ہیں اور رسول اللہ صلعم کا نائب ہونا کوئی معمولی عہدہ نہیں.آج دنیا اس کی قدر کو نہیں جانتی.ایک وقت آئے گا ، جب ساری دنیا کے بادشاہ رشک کی نظر سے ان خدمات کو دیکھیں گے.“ ( الفضل ۲۳/۶/۵۵) (۳) مسجد ہیمبرگ ( جرمنی ) سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی توجہ اور ہمارے مجاہد بھائی چوہدری عبد اللطیف صاحب کی مساعی سے جرمنی میں ایک مسجد تعمیر ہوئی اور اس کا افتتاح عمل میں آیا.چنانچہ موصوف تحریر فرماتے ہیں کہ : ” ہیمبرگ (مغربی جرمنی ( رائٹر کی اطلاع مظہر ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کے جج محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بالقابہ نے مؤرخہ ۲۲ جون ۱۹۵۷ء بروز ہفتہ ہیمبرگ میں پہلی مسجد کا افتتاح فرمایا.یورپ میں لنڈن اور ہیگ کے بعد یہ تیسری مسجد ہے.“ اس تقریب ہی کی خاطر دیگر ممالک کے مبلغین تشریف لائے اور بہت سے احمدی مشنوں اور اعلیٰ حکام کی طرف سے پیغامات موصول ہوئے.حضور نے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (وکیل التبشیر ) کو اپنے نمائندہ کی حیثیت سے بھجوایا.آپ نے اس موقعہ پر حضور کا ایک خاص پیغام پڑھ کر سنایا.جس میں حضور فرماتے ہیں کہ : ہیمبرگ کی مسجد کے افتتاح کی تقریب میں شمولیت کے لئے اپنے بیٹے مرزا مبارک احمد کو بھجوا رہا ہوں.افتتاح کی تقریب تو انشاء اللہ عزیزم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں ادا کریں گے.مگر مرزا مبارک احمد میرے نمائندے کے طور پر اس میں شامل ہوں گے.
276 محترم مولوی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ : افتتاح کی تقریب محترم چوہدری صاحب کی صدارت میں مسجد کے وسیع باغ میں تین بجے بعد دو پہر شروع ہوئی.اس کے بعد محترمی چوہدری صاحب نے ایک پر مغز اور ایمان افروز تقریر فرمائی.جس کا ترجمہ برادرم عبدالکریم صاحب ڈنکر نے کیا.بعد ازاں محترمی چوہدری صاحب نے اجتماعی دعا کروائی اور مسجد کے دروازہ پر تشریف لے جا کر دروازہ کھولا اور حاضرین نے مسجد کو دیکھا.“ آپ نے تقریر میں اسلام اور عیسائیت کا موازنہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ دونوں مذاہب نے تو حید باری تعالیٰ کو پیش کیا ہے.اور یہ بھی بیان کیا کہ جماعت احمد یہ حضرت احمد علیہ السلام بانی سلسلہ کو مسیح کی آمد ثانی کا مصداق قرار دیتی ہے.ایک اخبار رقمطراز ہے ( اور بیسیوں دیگر اخبارات نے بھی قریباً انہی الفاظ میں روئدا دشائع کی ہے) کہ: ☆66 سر محمد ظفر اللہ خاں نے اپنی تقریر میں ذکر کیا کہ اسلام تو حید کا علم بردار ہے اور اسلام کا پیغام عالمگیر ہے.تمام دنیا میں اشاعت اسلام کے کام میں کامیابی سے دنیا میں امن قائم ہو گا.حضرت مسیح (علیہ الصلوۃ والسلام ) خدا کے ایک نبی تھے اور تمام مسلمان ان کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں.اسلام میں مسجد تمام بنی نوع انسان کیلئے کھلی ہے.تاوہ اس میں عبادت کر سکیں ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بے پایاں فضل و رحم سے اس مسجد و دیگر مساجد کو اپنی مخلوق کی ہدایت کے مراکز بنائے ، اور جن مخلصین نے ان کی تعمیر میں حصہ لیا ہے.ان کے اخلاص کو قبول فرمائے.آمین (۱۱) قانونی خدمات الفضل مورخه ۲۵ و ۲۶ جون و ۱۶ جولائی ۱۹۵۷ء.چوہدری صاحب کی تقریر پر چہ مورخہ ۲۸ / جولائی میں درج ہے.جرمن مشن کی طرف سے اس تقریب پر کی گئی صاحبزادہ صاحب کی تقریر وغیرہ ایک رسالہ کی شکل میں شائع ہوئی ہے جس کے آخر میں جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض
277 محترم چوہدری صاحب کو اسلام و جماعت احمدیہ کی بہت سی خدمات کا بوجہ ایک قابل وکیل ہونے کے موقعہ ملا ہے.آپ صیغہ بہشتی مقبرہ کے سالہا سال تک مشیر قانونی ر.آپ نے مدراس ، امرتسر اور گوجرانوالہ میں جماعت احمدیہ کے اہم مقدمات میں کامیابی حاصل کی.جب سکھوں کی طرف سے قادیان کے مذبح خانے کا انہدام عمل میں آیا.تو کمشنر کی پنجگرائیں کے بنگلہ میں آمد کے موقعہ پر محترم چوہدری صاحب نے ہی حق نمائندگی ادا کیا.** بقیہ حاشیہ: اور مشنوں کی تعداد و غیرہ کا ذکر ہے.اس کے افتتاح کے ایک منظر کی تصویر سے الفضل جلسہ سالانہ نمبر مورخہ ۲۶/۱۲/۵۷ کا سرورق مزین ہے.اس وقت تک پندرہ سالہ عرصہ کا علم ہوا ہے.کیونکہ اندازہ یہ ہوتا ہے کہ ابتداء میں (۱۸.۱۹۱۷ء میں ) اس عہدہ پر مقرر ہونے پر ۳۳.۱۹۳۲ء کے قریب اس سے فارغ ہوئے.کیونکہ اس وقت سرکاری عہدوں پر فائز ہو چکے تھے.درمیانی عرصہ کی چونکہ صدرانجمن کی سالانہ رپورٹیں موجود نہیں یا بعض میں مشیر قانونی کا ذکر نہیں اس لئے یقینی طور پر علم نہیں ہوسکا.(۱۸.۱۹۱۷ء ،۱۹.۱۹۱۸ء ۲۰.۱۹۱۹ء ، ۲۷.۱۹۲۶ء ، ۲۸.۱۹۲۷ء، ۳۱ - ۱۹۳۰ء ،۳۲-۱۹۳۱ء ۳۳-۱۹۳۲ء - بروئے رپورٹ ہائے سالہائے متعلقہ صفحات ۲ و ۴ و ۱۴، ۲۱ و نیز ۹۴ و ۲۶۷ ور پورٹ جلسہ سالانہ ۱۹۱۹ء میں پڑھی گئی.بحوالہ الفضل ۱۲/۱/۲۰ ص ۴ کا.احمد یہ گزٹ ۲۶/۵/۲۶ ص ۵ ک اوص ۶ ک او ۲۶/۱۱/۲۶ ص ۹ک ۲-۹۷-۱۱۴-۸۱)۳۱ ۱۹۳۰ء میں مرزا ناصر علی صاحب مرحوم بھی مشیر قانونی تھے.۳۱.۱۹۳۰ء اور ۳۳.۱۹۳۲ء کے متعلق مرقوم ہے کہ گول میز کانفرنس میں شمولیت اور ملکی مشاغل کے باعث ہر دو سال چوہدری صاحب یہ کام نہیں کر سکے.گو اصل مشیر قانونی آپ ہی ہیں.چوہدری صاحب ۱۹۲۴ء میں لاہور سے باہر تھے.(الفضل ۲۸/۷/۲۴ ص ۲ ک۳) اس وقت مرزا ناصر علی صاحب کو آپ کی جگہ مشیر قانونی مقرر کیا گیا.(۴/۸/۲۴/۸ از یرہ مدینہ اسیح “.اور الفضل ۸/۸/۲۵ میں مرزا صاحب کو دو ماہ کے لئے چوہدری صاحب کی جگہ مشیر قانونی مقرر کرنے کا ذکر ہے.(زیر مدینہ اسیح).66
278 بعض مقدمات کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے: (۱) مقدمہ مونگھیر.جماعت احمد یہ مونگھیر نے سب آرڈینیٹ حج مونگھیر کی عدالت میں ایک دعویٰ دائر کیا کہ غیر احمدیوں کے نام حکم امتناعی جاری کیا جائے کہ وہ احمدیوں کو مساجد میں نمازوں کی ادائیگی سے نہ روکیں.غیر احمد یوں نے کہا کہ احمدی کا فر ہیں.اس لئے انہیں مساجد میں داخلہ کی اب اس بارہ میں غیر مبائعین کے اخبار پیغام صلح میں مرقوم ہے : ” پنجاب میں بھی آپ کی قانونی قابلیت اور فصیح بیانی مسلم ہے.جماعت احمدیہ کے بعض نہایت سنجیدہ مقدمات میں اپنے نہایت قابلیت سے کام کیا اور کامیابی حاصل کی.چنانچہ مدراس ، امرتسر ، گوجرانوالہ کے مقدمات اس پر شاہد ہیں.گذشتہ دنوں میں جب امرتسر کی شور وشر میں مسلمان گرفتار کئے گئے تھے.تو چوہدری صاحب ان کے مقدمات کی پیروی کے لئے جاتے رہے اور ان کی مدد کر تے رہے مشہور ومعروف قانونی رسالہ کے فرائض ادارت بھی نہایت خوش اسلوبی اور قابلیت سے انجام دے چکے ہیں.غرض کیا بلحاظ اخلاق اور شریفانہ سیرت کے اور کیا بلحاظ علمی قابلیت اور قانونی مہارت کے، آپ وائسرائے کی کونسل کی ممبری کے لئے بالکل مناسب و موزوں ہیں.اگر چہ مالی لحاظ سے آپ کو اس سے نقصان ہی ہوگا.لیکن اس میں شک نہیں کہ آپ ملک اور مسلمانوں کی بہترین خدمات بجالا سکیں گے.جن کے آپ ہر طرح اہل ہیں.اس لئے سب مسلمان بھجوائے آیت کریمہ تُؤَدُّوا الْاَ مُنْتِ إِلَى أَهْلِهَا آپ کی کامیابی کی کوشش کریں.( بحوالہ الحکم ۲۸/۱۰/۲۳) محترم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل (امیر جماعت قادیان ) نے بتایا کہ کمشنر کی نیت یہ تھی کہ وہاں سکھ ہی سکھ جمع ہوں گے وہ تصویر اتارلے گا، اور ثابت کر دے گا کہ علاقہ تو سکھوں کا ہے اس لئے قادیان میں مذیب نہیں ہونا چاہیئے.مرکز سے اردگرد کے دیہات میں اطلاعات بھجوائی گئی تھیں تا مسلمان کثرت سے پہنچیں اور مجھے بھی فیض اللہ چک وغیرہ مواضعات میں مسلمانوں کو لانے کے لئے بھجوایا گیا تھا.اتفاق یہ ہوا کہ وہ دن متیا کا تھا اور علاقہ کے سکھ اشنان کے لئے بٹالہ کے قریب مواضع اچل گئے ہوئے تھے.اس لئے پنجگرائیں کے بنگلہ میں مسلمان ہی مسلمان نظر آتے تھے.
279 اجازت نہیں دی جاسکتی.اس حج نے اور بعد ازاں ڈسٹرکٹ جج نے دعوی خارج کر دیا.البتہ یہ قرار دیا کہ احمدی مسلمان ہیں.لیکن ان کی رسوم وغیرہ مسلمانوں سے مختلف ہیں اس لئے وہ اس رعایت کے مستحق نہیں.اس پر بہار ہائی کورٹ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مرافعہ دائر کیا گیا اور ۱۲ / دسمبر ۱۹۱۶ ء کو محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ( جن کی عمر اس وقت چوبیس سال تھی ) پیش ہوئے.آپ نے بتایا کہ محمدن لاء کی رو سے عدالت ماتحت نے میرے موکلوں کو مسلمان قرار دیا ہے.اس لئے ہم اس رعایت کے مستحق ہیں.مخالف فریق کی طرف سے مظہر حق وکیل پیش ہوئے.جن کو گذشتہ سال ان کے اطوار اور غیر مسلموں سے خلاملاء کے باعث مسلمانوں نے کافر قرار دیا تھا.چیف جج صاحب نے چوہدری صاحب کی بہت تعریف کی اور کہا کہ ججان ہائی کورٹ ان کے بہت ممنون ہیں.ہائی کورٹ میں فیصلہ میں قرار دیا کہ باوجود بعض عقائد کے اختلاف کے احمدی مسلمان ہیں ، اور احمدی اگر چاہیں تو مسجد میں داخل ہو سکتے ہیں.* (۲) مقدمه امرتسر.میاں سراج الدین صاحب سکنہ امرتسر ( جو بعد ازاں مسجد اقصیٰ کے مؤذن ہوئے اور اب ربوہ میں ہیں).ایک خواب کی بناء پر جماعت احمدیہ کے ساتھ مل کر نمازیں ادا بقیہ حاشیہ: یہ دیکھ کر بعض سکھ مواضع اچان گئے.تا کہ وہاں سے سکھوں کو لائیں.لیکن جب تک وہ پہنچے.اس وقت تک معاملہ ختم ہو چکا تھا.آپ بیان کرتے ہیں کہ چونکہ کمشنر کی نیت بخیر نہ تھی.چنانچہ کسی وکیل کو پیش ہونے کی وہ اجازت نہ دیتا تھا.اور چوہدری صاحب کو بھی اس نے منع کرنا چاہا.لیکن آپ نے کہا کہ میں قادیان کا باشندہ ہونے کی حیثیت سے پیش ہوا ہوں.خاکسار مؤلف کو یاد ہے کہ ہم طلباء مدرسہ احمدیہ کو بھی وہاں بھجوایا گیا تھا.اور پولیس نے احمدیوں سے لاٹھیاں رکھوالی تھیں اور بعد میں واپس نہیں کی تھیں.اور غالباً تا خیر سے آنے کے باعث حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو پیش ہونے سے بھی اس بد مزاج کمشنر نے روک دیا تھا.لیکن چوہدری صاحب نے بہت غیرت کا اظہار کیا اور اسے آڑے ہاتھوں لیا.جس پر اسے بادلِ ناخواستہ اجازت دینی پڑی.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو بھی ڈولی میں ڈال کر وہاں لایا گیا تھا.الفضل ۱۹/۲۲ / دسمبر ۱۹۱۶ء (ص۲) یہاں یہ بھی مرقوم ہے کہ آپ نے محض خدا تعالیٰ کے
280 کرنے لگے.قادیان جلسہ سالانہ پر آئے تو غیر حاضری میں بیوی سب سامان لے کر والدین کے ہاں چلی گئی ، اور فسخ نکاح کا مقدمہ دائر کر دیا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو مقدمہ کی پیروی کا ارشاد فرمایا.اور حضور کے ارشاد پر محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب مقدمہ کی پیروی کے لئے تشریف لائے (اس وقت آپ کی عمر چوبیس سال تھی ).۲۳/۲/۱۷ کو ذیل کی تین تنقیحات قائم ہوئیں اور تینوں کا ثبوت بذمہ مدعیہ تھا.(۱) کیا مدعی علیہ بوجہ مرید ہو جانے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے مسلمان نہیں رہا.(۲) اگر ایسا ہوا ہے تو کیا مدعیہ تنسیخ نکاح کا دعوی کر سکتی ہے.(۳) اگر یہ ثابت ہو کہ مدعی علیہ باوجود حضرت مرزا صاحب کے مرید ہو جانے کے مسلمان ہے، تو کیا دعوی تنسیخ نکاح ہو سکتا ہے یا دعوی استقرار یہ.۱۹/۳/۱۷ کو گواہان مولوی محمد حسین بٹالوی و مولوی احمد اللہ امرتسر نہیں آئے.مولوی عبدالواحد غزنوی ، مولوی نور احمد ، مولوی عبد الصمد و مولوی غلام مصطفی حاضر تھے.ان مولویوں کا دین ایمان اس قسم کا ہے کہ غزنوی صاحب نے کچہری جاتے ہوئے حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری سے ذکر کیا کہ میں نے کفر کے فتویٰ پر دستخط نہیں کئے نہ مجھے معلوم ہے کہ کس بات کے لئے میری شہادت ہے.حالانکہ فتویٰ کفر پر ان کے دستخط تھے.یہ بھی کہا کہ (مولوی ) ثناء اللہ امرتسری کافر ہے.اسی کافر سے یہ دیگر مولوی سبق پڑھ رہے تھے کہ سب حج عیسائی ہے اس لئے یہ کہنا کہ مرزا صاحب حضرت عیسی جیسے اولوالعزم نبی کو برا کہتے ہیں اور خود نبی بنتے ہیں.اس لئے معاذ اللہ کافر ہیں.ان علماء نے شہادت میں کہا کہ آنحضرت صلعم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا.جو دعو ملی نبوت کرے وہ کافر ہے.جو حضرت عیسی کو گالی دے وہ بھی کافر.چونکہ مرزا صاحب نے (معاذ اللہ ) ایسا کیا ، اس لئے وہ کافر.سوال کے جواب میں کہا.مسیح موعود نبی اللہ ہو کر آئے گا.وہ دعوی نبوت کرے گا.سچا نبی ہوگا.اس کو وحی ہوگی.جو شخص آمَنتُ بِاللهِ وَمَلائِكَتِهِ کہے وہ مومن مسلمان ہے.جو بقیہ حاشیہ:- لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ مقدمہ اپنے ہاتھ میں لیا تھا.اور خدا ہی کے فضل سے آپ نے اس خوبی اور قابلیت سے اس کو عدالت میں پیش کیا ہے کہ چیف بھی آپ کی قابلیت کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے.“ مقدمه حکیم خلیل احمد بنام اسرافیل ( پٹنہ لا جرنل جلد ۲).
281 مرزا صاحب کو کافر نہ کہے وہ بھی کافر ہے.ہم مرزائیوں کو اپنی مسجد میں نماز پڑھنے سے نہیں روکتے.ہم نے قادیان جا کر حالات معلوم نہیں کئے.جو کہے یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئاللہ وہ مشرک ہے کا فرنہیں.مولوی ثناء اللہ امرتسری از خود عدالت میں آئے ہوئے تھے.گو مخالفت کے لئے آئے لیکن ہمارے لئے مفید ہوا.محترم چوہدری صاحب نے عدالت سے کہا کہ ایڈیٹر اخبار اہلحدیث یہاں موجود ہے.اس کی ایک تحریر کی تصدیق کرانی ہے.تین روپے خرچہ دے کر اس کا پرچہ (اہلحدیث ) اسے دیا.جس میں اس نے ہمیں مسلمان لکھا ہوا ہے.اس نے اس کا اقرار کیا کہ اس تحریر کا یہی مطلب ہے.یہ میری ہی تحریر ہے.مسلمانوں نے سمجھا کہ تین روپے لے کر احمد یوں کو مسلمان کہہ دیا ہے.اس پر سارے مسلمان تمام مولویوں سے بدظن ہو گئے.۱۶ را پریل کو دو غیر احمدی بیرسٹروں مرزا بدرالدین صاحب سیالکوٹ اور شیخ محمد اکرم صاحب لائل پور نے شہادت دی کہ ہم ولایت میں احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھتے رہے ہیں.یہ لوگ نماز وغیرہ ارکان اسلام ہماری طرح ہی بجالاتے ہیں.بلکہ ارکانِ اسلام کے خوب پابند ہیں.میاں حفیظ اللہ صاحب وکیل نے باوجود امرتسر کا ہونے کے شہادت دی کہ ہمارے محلہ میں احمدیوں کی مسجد ہے.اور یہ ہماری طرح ہی نمازیں پڑھتے ہیں.بلکہ میں بھی نماز جمعہ وہیں ان کے پیچھے پڑھتا ہوں.ہمارے علماء حضرت مولانا محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت میر محمد الحق صاحب نے شہادت دی کہ قرآن و حدیث میں جن باتوں کا نام اسلام ہے وہ تمام باتیں حضرت مسیح موعود اور جماعت احمد یہ میں پائی جاتی ہیں.اور جواب جرح میں بتایا کہ حضرت مسیح موعود کی نبوة لا نَبِيَّ بَعْدِی خاتم النبین کے خلاف نہیں.مولوی ثناء اللہ نے اس بارہ میں ۲۰/۴/۱۷ کے پرچہ میں لکھا :.مولوی محمد اسحق اور مولوی سرور شاہ کی راست گوئی کے ہم قائل ہیں.جو کچھ انہوں نے بیان کیا وہ عین مرزا صاحب کی تعلیم کے مطابق کیا.اور مرزائیت کی پوری تبلیغ اور اشاعت کی.اور کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی.شاباش.“ اور ۱۲ ۱ اپریل کو بحث قریباً چار گھنٹے میں ختم ہوئی.کمرہ عدالت سامعین سے پر تھا.محترم چوہدری صاحب نے محمد ن لاء اور فیصلہ جات چیف کورٹ و ہائی کورٹ اور کتب حضرت مسیح موعود اور قرآن
282 وحدیث سے ثابت سے کیا کہ ہم ہی حقیقی مسلمان ہیں.۲۷ را پریل کو عدالت نے فیصلہ سنایا کہ سراج الدین مسلمان ، دعوملی مدعیہ خارج مخالفین نے مشورہ کیا تھا کہ تنسیخ نکاح کی ڈگری ہونے پر کچہری سے باجے بجنے شروع ہو جائیں اور دیگیں پکوا کر مولویوں کو کھلائی جائیں.اور عورت کا اسی وقت دوسرا نکاح کیا جائے اور اپیل کا بھی انتظار نہ کیا جائے.(الفضل ۱۵/۱۹ رمئی ۱۹۱۷ ء ) (۳) مقدمہ مدراس.علاقہ مدراس میں ایک شخص نے احمدیت قبول کی تو اس کی بیوی نے مسلمان علماء سے فتویٰ حاصل کر کے کہ وہ مرتد ہو گیا ہے.اور اس کا نکاح فسخ ہو گیا ہے.دوسری جگہ شادی کر لی.اس مقدمہ کی پیروی میں بھی محترم چوہدری صاحب ہائی کورٹ میں پیش ہوئے.اس وقت آپ کی عمر قریباً تمہیں سال کی تھی.اس کا فیصلہ جماعت احمدیہ کے حق میں ہوا اور یہ قرار دیا گیا کہ کوئی مسلمان احمدیت قبول کرنے سے مرتد نہیں ہوتا.احمدی مسلمانوں کا ایک اصلاح یافتہ فرقہ ہے اور احمدی ہونے کے باعث نکاح فسخ نہیں ہوا.( مدراس لا جرنل بابت ۱۹۲۳ء کیس نمبر ۱۷۱).(۴) الفضل کے خلاف مقدمہ ہتک عزت ظہیر الدین اروپی نے الفضل کے خلاف مقدمہ ہتک عزت دائر کیا.آر یہ اخبارات پرتاپ، ملاپ اور کیسر نے بارہا اروپی کی تائید کی ، اور جماعت احمدیہ کے خلاف زور قلم صرف کیا.اروپی کو معزز اور ایک حصہ جماعت کا لیڈر قرار دیا.اور بالآخر منہ کی کھانی پڑی.کیونکہ فیصلہ مدعی کے خلاف رائے بہادر لالہ برکت رام مجسٹریٹ درجہ اول گوجرانوالہ نے صادر کیا ، جو آریوں کو منصف مزاج اور ایماندار مسلم تھے.اس مقدمہ کے دوران میں جناب چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنی اعلیٰ قابلیت ااور قیمتی وقت صرف کرنے میں بڑی فیاضی سے کام لیا.جَزَاهُمُ اللَّهُ اَحَسَنَ الْجَزَاءِ.آپ ضروری سے ضروری کام ترک کر کے مقدمہ کی پیروی کے لئے تشریف لے جاتے رہے.اور بعض وقت نہایت دور در از مقام سے آئے.اس وقت آپ اپنی قانونی قابلیت سے جس قد ر سلسلہ
283 احمدیہ کی خدمات کر چکے ہیں ، اس مقدمہ کی سرگرم پیروی نے ان میں ایک اور اضافہ کر دیا ہے.جہاں ہم اس کامیابی پر جناب چوہدری صاحب کا جماعت کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہیں.وہاں خدا تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں دین و دنیا کی کامیابی عطا فرمائے اور دین کی بیش از بیش خدمات کی توفیق بخشے.آپ جیسے مخلص نوجوان جماعت احمدیہ کے لئے قابل فخر ہیں.خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں ایسے بہت سے وجود پیدا کرے.(۵) حفاظتِ ناموس رسول اللہ علیہ التحیات والصلوۃ اور حضرت امام جماعت احمد یہ اور چوہدری صاحب کی خدمات ایک ہندو نے ”رنگیلا رسول‘ نام ایک کتاب شائع کی.اس کے ناشر راجپال کو ماتحت عدالت نے اس بناء پر سزادی کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین پر مشتمل ہے اور مسلمانوں کی اس سے دل آزاری ہوتی ہے.لیکن مسٹر جسٹس کنور دلیپ سنگھ بیج ہائی کورٹ پنجاب نے یہ تسلیم کر کے بھی ملزم کو اس بناء پر بری کر دیا کہ دفعہ ۱۵۳.الف کے متعلق میں یہ رائے قائم نہیں کرسکتا، کہ کسی گذشتہ مذہبی رہنما کی زندگی اور سیرت کے متعلق مخالفانہ بحث و تمحیص کو روکنے کے لئے وضع کی گئی تھی.حالانکہ اسی زمانہ میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اسی دفعہ کے تحت پنڈت کالی چرن شرما مصنف و چترن جیون کی سزا بحال رکھی تھی.( الفضل ۳/۶/۲۷ص۳) اس فیصلہ پر حضرت امام جماعت احمدیہ ( ایدہ اللہ تعالیٰ نے بہت تکلیف محسوس فرمائی اور محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سے قانونی مشورہ چاہا.* نیز ایک اشتہار میں رقم فرمایا، کہ دیر سے مسیحی اور آریہ حضور صلعم کے خلاف زہرا گلتے چلے آرہے ہیں.اور مسلمانوں کی غفلت کے باعث یہ لوگ اور بھی دلیر ہو گئے.اور انہوں نے یقین کر لیا کہ مسلمان کی غیرت قصہ ماضی ہو چکی ہے.اب تازہ رساله در تمان امرتسر سے شائع ہوا ہے جس میں حضور کے معراج سے متعلق ہتک آمیز پیرا یہ میں ڈرامہ لکھا ہے اور حضور اور حضور کی ازواج کے مطہرات کے اسماء مبارکہ تمسخرانہ رنگ میں بگاڑ کر لکھے حضور نے ۶/۲۷/ ۸ کو چوہدری صاحب کو تحریر فرمایا: یہ تحریر فرمائیں کہ رنگیلا رسول کے متعلق ہم کیا کر سکتے ہیں.اس کے متعلق ضرور کچھ ہونا چاہیئے.
284 ہیں اور یہ دکھایا گیا ہے کہ معاذ اللہ حضور بوجہ شہوت رانی کے جہنم کے گہرے گڑھے میں عذاب میں مبتلاء ہیں.اس میں ایسی گندی گالیاں دی ہیں شاید چوہڑا بھی ان سے دریغ کرے گا.ان لوگوں کی غرض صرف یہ ہے کہ ہماری ذلت اور بے بسی کو نہایت بھیانک صورت میں ہمارے سامنے لایا جائے اور ہم پر یہ ظاہر کیا جائے کہ انہیں مسلمانوں کے احساسات کی ذرہ بھر پرواہ نہیں.کیا مسلمانوں کے ستانے کے لئے اور کوئی طریق نہیں ؟ ہماری جانیں حاضر ہیں.ہماری اولادوں کی جانیں حاضر ہیں.لیکن خدا را آنحضرت صلعم کو گالیاں دے کر آپ کی ہتک کر کے اپنی دنیا وآخرۃ کو تباہ نہ کریں.ہماری طرف سے بار بار کہا گیا ہے کہ ہم جنگل کے درندوں اور بن کے سانپوں سے صلح کر سکتے ہیں.لیکن حضور صلعم کو گالیاں دینے والوں سے ہر گز صلح نہیں کر سکتے.حکومت کے قوانین کے او پر بھی قوانین موجود ہے.مزید فر مایا کہ چین میں آخری ایام میں یہ طریق اختیار کیا گیا کہ مساجد میں آنحضرت صلعم کو خش گالیاں دی جاتیں اور جو شیلے مسلمان ایسے لوگوں کو قتل کر دیتے.اس پر ملک بھر میں شور مچایا جا تا کہ مسیحیوں کو ظالمانہ طریق پر قتل کیا جاتا ہے.اس طرح مسیحیوں میں آگ لگ گئی.اور انہوں نے مسلمانوں کو جو پہلے ہی کمزور ہورہے تھے.ملک سے نکال دیا.ایسا ہی طریق ہند و مصنفین نے شروع کر رکھا ہے.تا مسلمان خونریزی پر اتر آئیں اور ہندوؤں کو نکھٹن میں مدد ملے.مسلمانوں کو دھو کہ میں نہیں آنا چاہیئے.سوامی شرد ہانند کے قتل سے مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوا؟ ہندوؤں پر اسلام کے متعلق غیرت کا اظہار ہونا چاہیئے اور وہ صرف تین طرح ہو سکتا ہے.اول ، اپنی عملی اصلاح سے آنحضرت صلعم کی شاندار اور مز کی زندگی ظاہر کی جائے.دوم - تبلیغ کر کے حضور پر درود بھیجنے والوں کی تعداد بڑھائی جائے.سوم، مسلمانوں کی تمدنی اور اقتصادی حالت کو درست کیا جائے.اس وقت مسلمان ہندوؤں کے مقروض ہیں اور قریباً ایک ارب روپیہ سالانہ ہندوؤں کو سود میں ادا کرتے ہیں.پنجاب میں جہاں تعداد میں مسلمان دگنے ہیں ، مالی لحاظ سے دسواں حصہ ہیں.اور روز بروز ہندوؤں کی مالی حالت بہتر ہوتی جاتی ہے.اور ہندو مصنفین کو اپنی قوم کی دولت پر گھمنڈ ہے.صحابہ کی طرح مسلمانوں کو مستقل قربانی کرنی چاہیئے.جس طرح ہندو مسلمانوں سے چھوت کرتے ہیں.مسلمان بقیہ حاشیہ: آپ مختلف پہلؤوں پر غور کر کے مشورہ دیں کیا ہماری طرف سے نالش پنجاب یا کسی اور صوبہ میں نہیں ہوسکتی.“ ( مکتوبات اصحاب احمد جلد اول.مکتوب نمبر ۶۸/۲۹)
285 ان سے چھوت کریں.اور مسلمانوں سے سودا خرید میں اور مسلمانوں کی دکانیں کھلوانے کی کوشش کریں، یہ مقاطعہ نہیں بلکہ اپنی قوم کو ترجیح دینا ہے.اور اس سے ہندوؤں پر بھی اثر پڑے گا.اور وہ اپنے دریدہ دہن لوگوں کو باز رکھیں گے.اور حکام کے دلوں میں بھی مسلمانوں کی وقعت پیدا ہوگی کہ یہ ایک عقلمند قوم ہے.جو شخص غصہ میں آجاتا ہے، وہ بہادر نہیں کیونکہ وہ اپنے نفس سے دب گیا.بہادر وہ ہے جو مستقل ارادہ کر کے اس پر عمل پیرا ہونے سے پیچھے نہیں ہٹتا.وہ قوم بھی کس کام کی جو اپنے سب سے پیارے رسول کی عزت کی حفاظت کے لئے حقیقی قربانی نہیں کر سکتی.( الفضل ۱۰/۶/۲۷) جناب خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنے رفقاء کو توجہ دلائی کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی تحریک اتحاد کو قبول کریں کیونکہ مسلمانوں کے لئے وقت بہت نازک ہے.ایڈیٹر صاحب ” مسلم آؤٹ لک لاہور نے اپنے اخبار میں اس فیصلہ پر شدید احتجاج کیا.اور لکھا کہ حج کنور دلیپ سنگھ کو مستعفی ہو جانا چاہیئے اور اس امر کی تحقیقات ہونی چاہیئے کہ کن حالات میں اس نے یہ فیصلہ دیا ہے.اس پر ہتک عدالت کا مقدمہ آپ پر اور نا شر اخبار پر دائر ہوا.اس مقدمہ کی پیروی محترم چوہدری صاحب نے کی.اور اس کی کارروائی حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی جیسے زود نویس نے قلمبند کر کے الفضل میں شائع کی جسے حاشیہ میں درج کیا جاتا ہے.چوہدری صاحب محترم کی قابلیت اور خدمتِ اسلام کا یہ بھی ایک شاہکا رہے.☆ ہائی کورٹ کے فل بینچ نے ایڈیٹر و ناشر ہر دو کو اپنے حج کی ہتک کے جرم میں علی الترتیب نصف ☆ سال قید اور ساڑھے آٹھ ہزار روپیہ جرمانہ اور تین ماہ قید اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا دی.حضرت امام جماعت احمدیہ نے احمدی خواتین سے مجوزہ آوٹ لگ فنڈ کے لئے گیارہ صد روپیہ جمع کرنے کی تحریک کی ، پہلے ہی روز تین صد روپیہ جمع ہو گیا.(الفضل ۶۷ - ۶ - ۲۸) ہائی کورٹ کے اختیارات سماعت مقدمہ پر بحث چوہدری ظفر اللہ خاں : پیشتر اس کے کہ واقعات مقدمہ آپ کے سامنے پیش ہوں ، میں ایک تمہیدی عذر پیش کرنا چاہتا ہوں.اور وہ عذر یہ ہے کہ اس عدالت کو اپنی تو ہین کے متعلق سرسری کارروائی کر کے سزا دینے کا اختیار نہیں.اس مقدمہ سے پیشتر اسی نوع کا مقدمہ یعنی ایک ایسا مقدمہ جو اس حد تک موجودہ مقدمہ سے مشابہ تھا کہ اس میں بھی ہتک عدالت کا سوال تھا.اس کا ہائی کورٹ
286 حضرت امام جماعت احمدیہ نے بذریعہ تار اخبارات کو یہ پیغام ارسال کیا کہ ہمارے وہ بھائی ( حضرت سید دلاور شاہ ایڈیٹر مسلم آؤٹ لک لاہور اور اس کے ناشر مولوی نور الحق صاحب ) اس مکمل بینج کے ایک فرد مسٹر جسٹس ظفر علی تھے.افسوس وہ اس دلیل سے بھی متاثر نہیں ہوئے کہ اس عدالت عالیہ کے ایک فرد کی ہتک عزت کا مداوا تو موجود سمجھا جائے لیکن اس ذات والا صفات کی معاندا نہ ہجو کی جائے جس کا ادنی خادم کہلا نا اس عدالت کے بعض ارکان اپنے لئے ذریعہ افتخار سمجھتے ہوں تو اس عدالت کا قانونی ترکش بالکل خالی ہو.اور ہر دو کو سزا دینے میں کوئی اختلافی نوٹ بھی نہیں دیا.یہ تو ہوا ان کا درد حضور صلعم کی محبت کے متعلق ، اور دوسرا رخ ان کی تصویر کا یہ ہے ( جیسا کہ کتاب ہذا میں دوسری جگہ درج ہے ) کہ جب محترم چوہدری صاحب کو وائسرائے کی کونسل کا ممبر بننے پر دعوت دی گئی ، اس میں انہی سر مرزا ظفر علی نے اس لئے شریک ہونے سے انکار کر دیا کہ احمدی مسلمان نہیں.اناللہ وانا الیہ راجعون.۲۲ / دسمبر کو رہائی عمل میں آئی.اور ۲۵ / دسمبر کو قادیان تشریف لانا تھا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی قیادت میں احباب بیرون قصبہ استقبال کے لئے گئے.اور یہ مجمع کئی گھنٹے انتظار میں رہا.احمد یہ مدرسہ کے بوائے سکاؤٹس نے سلامی دی.نماز عصر کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا.حضور نے شاہ صاحب کو مبارکباد دی (الفضل ۳/۱/۲۸) بقیہ حاشیہ: - سے فیصلہ ہو چکا ہے.میری مراد سید حبیب اللہ ایڈیٹر سیاست کا مقدمہ ہے.جس کے فیصلہ کی رپورٹ ۶ لا ہور صفحہ ۵۲۸ پر موجود ہے.اس فیصلہ میں یہ امر درج ہے کہ عدالت کو ایسے امور میں اختیارات سماعت کا حاصل ہے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ملزم نے اختیارات سماعت کا سوال اس مقدمہ میں نہیں اٹھایا.عدالت نے خود بخود اس مسلہ پر غور کیا اور عدالت اس نتیجہ پر پہنچی کہ اسے اختیار ساعت حاصل ہے.اس نتیجہ پر پہنچنے کی تائید میں دو حوالجات اس فیصلہ میں درج کئے گئے ہیں.۱۰ کلکتہ صفحہ ۱۰۹.اور ۲۹ الہ آباد صفحہ ۹۵.میں اپنی تقریر کے دوران میں ان حوالجات کو عدالت کے روبرو پیش کروں گا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ ان حوالجات سے یہ نتیجہ لازم نہیں آتا کہ لاہور ہائی کورٹ کو ایسے امور میں سرسری کا رروائی کرنے کے اختیارات حاصل ہیں.پریذیڈنسی ہائی کورٹس کے علاوہ سید حبیب صاحب والا فیصلہ ہی صرف ایک فیصلہ ہے جو میری
287 حضور صلعم کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے کھڑے ہونے کی وجہ سے محبوس کر دئے گئے ہیں.انہوں نے جو کچھ لکھا اور شائع کیا ، وہ ہر ایک مسلمان کے سچے جذبات اور حقیقی خیالات کا آئینہ - بقیہ حاشیہ: تلاش پر اس قلیل وقت میں مجھے مل سکا جس میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ عدالت کو ایسے امور میں اختیارات سماعت حاصل ہیں، لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے.میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ اس فیصلہ میں عدالت صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچی اور وہ فیصلہ بوجہ تین جوں کے فیصلہ ہونے کے اس اجلاس پر جو پانچ ججوں پر مشتمل ہے قابل پابندی نہیں.مسٹر جسٹس براڈوے:.۴۸ الہ آباد میں الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے کہ انہیں اختیا ر سماعت حاصل ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں : یہ فیصلہ میری نظر سے نہیں گذرا.میں نے ابھی یہ فیصلہ منگوا بھیجا ہے.اور اس کے متعلق بھی میں اپنی بحث کے دوران میں اپنے اعتراضات پیش کروں گا.مسٹر جسٹس ٹیک چند : - ۴۸.الہ آباد کی بجائے ۹۷.انڈین کیسز میں اس فیصلہ کی زیادہ مفصل رپورٹ درج ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں :.اس مسلہ کے متعلق میرے اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ توہین عدالت کے متعلق سرسری کا رروائی کر کے سزا دینا خالص انگلستان کا من لاء کا مسئلہ ہے.اور ان عدالتوں کو جنہیں کا من لاء کے اختیارات حاصل نہیں ہیں.یہ اختیار نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی تو ہین کے متعلق سرسری کا رروائی کر کے ملزم کو سزا دے سکیں.پریزیڈینسی ہائی کورٹوں کے متعلق یہ مسلمہ امر ہے کہ انہیں یہ اختیارات حاصل ہیں.لیکن اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ ہائی کورٹ سپریم کورٹوں کی جانشین ہے.اور سپریم کورٹوں کو کامن لاء کے اختیارات ان کے چارٹر کے ماتحت حاصل تھے.اور وہی اختیارات پریزیڈینسی ہائی کورٹوں کو بوجہ سپریم کورٹوں جانشین ہونے کے حاصل ہیں.یہ امر تو میں تسلیم کرتا ہوں کہ لاہور ہائی کورٹ بھی کورٹ آف ریکارڈ ہے.لیکن لاہور ہائی کورٹ کو کامن لاء کے قطعاً کوئی اختیارات حاصل نہیں ہیں.ایسی صورت میں اس ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل نہیں ہیں.ایسی صورت میں اس ہائی کورٹ کو یہ اختیار نہیں کہ محض اس وجہ سے کہ وہ کورٹ آف ریکارڈ ہے.اپنے متعلق ایسے اختیارات تجویز کرے ، جو حقیقت میں اسے حاصل نہیں ہیں.
288 دار ہے.ہر ایک سچے مسلمان کا فرض اولین ہے کہ وہ حضور صلعم کی عزت و ناموس کی حفاظت بقیہ حاشیہ:- اب میں پریذیڈنسی ہائی کورٹوں کے متعلق اپنی پوزیشن کو واضح کرتا ہوں.سب سے اول ملاحظہ ہو چارٹر سپریم کورٹ کے ۱۷۷۴ء فقرہ نمبر ۴.اس فقرہ میں صاف طور پر درج ہے کہ سپریم کورٹ کے جوں کو وہی اختیارات حاصل ہوں گے جو کنگز بینچ کے جوں کو انگلستان میں حاصل ہیں.اس کے بعد ملاحظہ ہو دفعہ 9 انڈین ہائی کورٹس ایکٹ ۱۸۶۸ ء اس ایکٹ کی رو سے ملکہ وکٹوریہ کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ پریذیڈنسی صدر مقاموں میں ہائی کور میں قائم کریں اور ان ہائی کورٹوں کے اختیارات کے حدود قائم کریں.اور دفعہ 9 میں یہ تشریح کی گئی ہے.کہ کن عدالتوں کے جوں کو وہ اختیارات حاصل ہوں گے جو عدالتہائے ماسبق کے جوں کو حاصل تھے.تو یہ امر واضح ہو گیا کہ پریذیڈنسی ہائی کورٹوں کے جوں کو وہی اختیارات حاصل ہیں جو سپریم کورٹ کے ججوں کو تھے.اور جیسا میں پہلے بیان کر چکا ہوں.سپریم کورٹ کے ججوں کو صریح طور پر کنگز بینچ کے ججوں کے اختیارات دئے گئے تھے.چنانچہ پریذیڈنسی ہائی کورٹوں کے لیٹرز پیٹینٹ میں بھی ان اختیارات کی تشریح کر دی گئی ہے.اس عدالت کے اختیارات کی تشریح بھی اس کے لیٹرز پیٹنٹ میں کی گئی ہے.لیکن لیٹر پیٹینٹ میں کوئی بھی ایسا فقرہ نہیں ہے.جس کے یہ معنی نکالے جاسکیں کہ اس عدالت کو کامن لاء کے اختیارات حاصل ہیں یا وہی اختیارات حاصل ہیں ) جو پریذیڈنسی ہائی کورٹوں کو حاصل ہیں.مسٹر جسٹس ٹیک چند :.چھوٹی چھوٹی نو آبادیوں کی ہائی کورٹوں نے ان اختیارات کو استعمال کیا ہے اور پریوی کونسل نے اس کو جائز قرار دیا ہے.تو کیا ہمیں وہ بھی حقوق حاصل نہیں ہیں جو ان چھوٹی سی عدالتوں کو حاصل ہیں ؟ چوہدری ظفر اللہ خاں کسی ملک کے چھوٹے یا بڑے ہونے کا سوال اس مسئلہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا.سوال تو یہ ہے کہ آیا ان عدالتوں کو جنہوں نے ان اختیارات کو استعمال کیا ہے، کا من لاء کے اختیارات حاصل تھے یا نہیں.اگر انہیں ایسے اختیارات حاصل تھے تو انہیں اپنی توہین کے متعلق سرسری طور پر سزا دینے کا اختیار بھی حاصل تھا.مسٹر جسٹس ٹیک چند :.اس امر کا کیا ثبوت ہے کہ انہیں کا من لاء کے اختیارات حاصل تھے؟ چوہدری ظفر اللہ خاں :.جب تک ان عدالتوں کے چارٹر آپ کے سامنے نہ ہوں.آپ یہ بھی
289 کرے.میں اپنی جماعت کی طرف سے اس امر کا اعلان کرتا ہوں کہ ہم مقدور بھر اور شرع اسلام کے بقیہ حاشیہ: تو نہیں کہہ سکتے کہ ان عدالتوں کو کامن لاء کے اختیارات حاصل تھے.اور اگر قیاسات پر بھی اندازہ کرنا ہو تو قیاس تو یہ ہوگا کہ ان عدالتوں کو کامن لاء کے اختیارات حاصل تھے.آپ نے فرمایا ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی نو آبادیوں کی عدالتیں ہیں.اور میں یہ کہتا ہوں کہ یہی خود ایک وجہ ہے کہ کیوں انہیں کا من لاء کے اختیارات حاصل ہونے چاہئیں.اول تو نو آبادیوں میں لازمی طور پر قانون انگریزی کا غلبہ ہوگا.دوسرے جیتک بذریعہ ایکٹ ہائے وقواعد قانون کی مفصل تشریح نہ ہو جائے اور ضوابط تیار نہ ہو جائیں ، انگریزی حکومت کے ماتحت اور خصوصیت سے نو آبادیوں میں کامن لاء ہی رائج ہوگا.اسی ملک میں آپ دیکھ لیں کہ ابتداء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی عمل داری تھی.اور سپریم کورٹوں کے اختیارات کا حلقہ ایک ایک ضلع کے برابر بھی نہیں تھا.اس وقت سپریم کورٹوں کو کامن لاء کے اختیارات دئے گئے.اس وقت کلکتہ کے سپریم کورٹ کے کل چار جج تھے.اور اس لحاظ سے وہ بالکل چھوٹی سی عدالت تھی.آج آپ کی عدالت کو ایک بہت بڑے صوبہ پر اختیارات حاصل ہیں اور تیرہ حج اس عدالت میں شامل ہیں.لیکن آپ کو کا من لاء کے اختیارات نہیں دئے گئے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ابتداء میں قانون واضح نہ تھا.اور ہر مسئلہ کے متعلق فوری قانون بنانا مشکل تھا.اس لئے ابتداء میں جو عدالتیں قائم ہوئیں.ان کو کامن لاء کے اختیارات دئے گئے.تا کہ جن امور کے متعلق ہندوستان کا اپنا صریح قانون موجود نہ ہووہ مطابق انگلستان کے کامن لاء کے فیصلہ کئے جائیں.لیکن جوں جوں قانون کی وضاحت ہوتی گئی.اور ہندوستان کا اپنا قانون مکمل ہوتا گیا.یہ ضرورت کم ہوگئی.اور بعد کی قائم کردہ ہائی کورٹوں کو ایسے اختیارات دینے کی ضرورت نہ رہی.مسٹر جسٹس براڈوے:.لیکن ہم بھی ملک معظم کی قائم کردہ عدالت ہیں.اور ہمارے اختیارات بھی ملک معظم سے حاصل کئے ہوئے ہیں.چوہدری ظفر اللہ خاں :.اس امر کو تسلیم کرنے سے کسی کو انکار نہیں.لیکن سوال تو یہ ہے کہ آپ کو کیا اختیارات حاصل ہیں؟ میں ایک فاضل جج کے سوال کے جواب میں یہ بیان کر رہا تھا.کہ کامن لاء کے اختیارات کا حاصل ہونا یا نہ ہونا کسی ملک یا صوبہ کی وسعت پر منحصر نہیں ہے.اور قیاس یہی ہے کہ نو آبادیوں کی ہائی کورٹوں کو کامن لاء کے اختیارات حاصل ہیں.چنانچہ ۴۱ کلکتہ صفحہ ۱۷۳ میں
290 اندر رہتے ہوئے حضور کی ناموس کی حفاظت کے لئے کوشاں ہوں گے.البتہ ہمیں کوئی ایسی حرکت نہیں بقیہ حاشیہ: صاف طور پر درج ہے کہ صوبہ وکٹوریہ کی سپریم کورٹ کو ابتداء سے کامن لاء کے اختیارات حاصل ہیں.اور میں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ جہاں تک قیاس کا تعلق ہے ، دیگر نو آبادیوں کی ہائی کورٹوں کو بھی ایسے ہی اختیارات ضرور حاصل ہوں گے.میں یہ تو عرض کر ہی چکا ہوں کہ اس عدالت کی لیٹرز پیٹینٹ ( فرمان شاہی ) میں ایسے اختیارات درج نہیں ہیں.باقی رہا یہ امر کہ آیا اس عدالت کو ہندوستان کے عام قانون کے ماتحت ایسے اختیارات حاصل ہیں یا کہ نہیں.اول تو ہندوستان میں کوئی ایسا قانون جسے قانون عام یا کامن لاء سے تعبیر کیا جائے ، رائج ہی نہیں.اور اگر ایسا کوئی قانون ہو بھی ، تو اس میں توہین عدالت کا مسلہ کبھی سننے میں نہیں آیا.وراثتی اختیارات کی یہ حالت ہے کہ اس عدالت کی ماسبق عدالت میں عدالت چیف کورٹ پنجاب تھی.اور وہ عدالت کورٹ آف ریکارڈ ز ہی نہ تھی.نہ ہی اسے توہین عدالت کے متعلق کوئی سرسری اختیارات حاصل تھے.تو میں یہ عرض کروں گاہ نہ ہی لیٹرز پیٹینٹ ( فرمان شاہی ) کے ماتحت نہ ہی وراثتی طور پر اور نہ ہی کسی عام قانون کے ماتحت اس عدالت کو موجودہ کا رروائی کرنے کا اختیار حاصل ہے.مسٹر جسٹس براڈوے:.سید حبیب کے مقدمہ کے علاوہ ایک اور مقدمہ میں بھی اس عدالت نے قرار دیا ہے کہ ہمیں یہ اختیارات حاصل ہیں.چوہدری ظفر اللہ خاں:.وہ فیصلہ رپورٹ نہیں ہوا.مسٹر جسٹس براڈوے :.رپورٹ نہ ہوا ہو گا لیکن قرار تو دیا گیا ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں : اب میں عدالت کی توجہ اور فیصلہ جات کی طرف منعطف کرانا چاہتا ہوں.جن کی بناء پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس عدالت کو یہ اختیارات حاصل ہیں.اول تو ۱۰ کلکتہ صفحہ ۰۹ اپر یوی کونسل کا فیصلہ ہے.یہ فیصلہ کلکتہ ہائی کورٹ کے متعلق ہے.جو کہ پریذیڈنسی ہائی کورٹ ہے.اور جسے کامن لاء کے اختیارات حاصل ہیں.چنانچہ پر یوی کونسل نے اپنے فیصلہ میں صریح طور پر کہا ہے کہ تو ہین عدالت کے متعلق جو اختیارات کلکتہ ہائی کورٹ کو حاصل ہیں وہ اس عدالت کو سپریم کورٹ سے جس کی وہ جانشین ہے، وراثتاً ملے ہیں.اور یہ اختیارات ہندوستان کے کسی
291 کرنی چاہیئے ، جو مفاد اسلام کے منافی ثابت ہو.ہمیں جیل کی دیواروں سے سبق حاصل کرنا چاہیئے.بقیہ حاشیہ: - قانون سے ماخوذ نہیں بلکہ محض کا من لاء کی بناء پر استعمال کئے جاتے ہیں.اس فیصلہ سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ توہین عدالت سے متعلقہ اختیارات کامن لاء اور صرف کامن لا ء ہی سے حاصل کئے جاسکتے ہیں.دوسرا فیصلہ ۲۹.الہ آباد صفحہ ۹۵ پر بھی پریوی کونسل کا فیصلہ ہے.اس کے واقعات یہ ہیں کہ مسٹر ساسی بھوشی سر بدھی کاری جو کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ تھے.عدالت میں کسی مقدمہ میں پیش ہوئے اور عدالت نے انہیں کسی بات پر ٹو کا.اس پر انہیں رنج ہوا اور انہوں نے ایک مضمون اسی واقعہ کے متعلق ایک اخبار میں لکھا جس اخبار کے وہ ایڈیٹر بھی تھے.مسٹر جسٹس براڈوے:.کیا اس مضمون کی تفاصیل میں جانے کی کوئی ضرورت ہے؟ چو ہدی ظفر اللہ خاں :.میں نے عمداً اس مضمون کو بیان نہیں کیا.لیکن اس فیصلہ کی تشریح کے لئے اور اس کے واقعات کو سمجھنے کے لئے یہ بیان کرنا ضروی ہے کہ تمام قضیہ اس مضمون سے بر پا ہوا.جو مسٹر سر بدھی کاری نے اخبار میں شائع کیا.اس مضمون میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ، وہ صریح اور مسلمہ طور پر ہتک آمیز تھے.لیکن عدالت عالیہ الہ آباد نے اس مضمون کے متعلق توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی.بلکہ مسٹر سر بدھی کا ری کے خلاف بطور ایڈووکیٹ عدالت کے کارروائی کی گئی اور اس کے نتیجہ میں چار سال کے لئے لائسنس ضبط کر لیا گیا.اس سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کا خیال تھا کہ انہیں توہین عدالت کے متعلق کا رروائی کرنے کے اختیارات حاصل نہیں ہیں.ورنہ وہ کیوں نہ ایک ایسی کارروائی کرتے ، جو بمقابلہ اس کارروائی کے جو کی گئی ، زیادہ سہل اور صریح الاثر تھی.مسٹر جسٹس براڈوے ممکن ہے کہ ہائی کورٹ الہ آباد کے جوں کا یہ خیال ہو کہ ایک ایڈووکیٹ کا لائسنس چار سال کے لئے ضبط کر لینا اس سے زیادہ سخت سزا ہے بہ نسبت اس کے کہ توہین عدالت میں اس کو چھ ماہ کے لئے جیل بھیج دیا جائے.چو ہدی ظفر اللہ خاں : یہ قیاس اسی صورت میں پیدا ہوگا، جب یہ فرض کر لیا جائے کہ اجلاس میں بیٹھنے اور ملزم کے عذرات سننے سے قبل ہی عدالت نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ملزم کو فلاں سزا دی جائے گی.مسٹر جسٹس براڈوے:.یہ قیاس لازمی نہیں.
292 اگر ایک احمدی اور ایک دوسرا مسلمان اسلام کی عزت و ناموس کے لئے جیل خانوں میں اکٹھے کئے بقیہ حاشیہ: - چوہدری ظفر اللہ خاں :.الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کا اپیل پر یوی کونسل میں کیا گیا.اور مقدمہ کے واقعات بیان کرنے کے دوران میں جان پر یوی کونسل نے یہ فقرہ کہا کہ مسٹر سر بدھی کاری کا مضمون ایسا تھا کہ اس کے متعلق تو ہین عدالت کی کارروائی بھی ہو سکتی تھی.مسٹر جسٹس براڈوے : ” بھی ہو سکتی تھی نہیں کہا.چوہدری ظفر اللہ خاں : میں آپ کو اصل فقرہ پڑھ کر سنانے ہی والا تھا.جو اس طرح پر ہے کہ عدالت عالیہ کو اختیار تھا کہ وہ توہین عدالت کی کارروائی کر کے ملزم کو قید اور جرمانہ کی سزا دیتی.اب یہ فقرہ بطور کسی مسئلہ کے فیصلہ کے نہیں.واقعات کے دوران میں کہا گیا ہے.یہ امر تو اضح ہے کہ جو کچھ مسٹر سر بدھی کاری نے لکھا ، وہ توہین عدالت کی حد تک پہنچتا تھا.اور پر یوی کونسل نے کہدیا کہ اس پر توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی تھی.لیکن یہ مسئلہ اس وقت پر یوی کونسل کے سامنے نہیں تھا.کہ آیا الہ آباد ہائی کورٹ کو توہین عدالت کی کارروائی کرنے کے اختیارات حاصل ہیں یا نہیں.اس لئے اس فقرہ کو پریوی کونسل کا فیصلہ نہیں کہا جاسکتا.مسٹر جسٹس براڈوے: ہم بہر صورت پر یوی کونسل کے اظہار رائے کے پابند ہیں.چوہدری ظفر اللہ خاں :.میں عرض کروں گا کہ جب تک کوئی مسئلہ بطور نزاع کے پریوی کونسل میں پیش ہو کر فیصلہ نہ ہو.آپ پر یوی کونسل کی رائے کو احترام کی نظر سے تو دیکھ سکتے ہیں.لیکن اس کے پابند نہیں.حال ہی میں پر یونی کونسل کا ایک فیصلہ ایسا ہوا ہے کہ جس میں انہوں نے اس عدالت عالیہ کے ایک فیصلہ کو ایسے ایکٹ کی بناء پر منسوخ کر دیا جو پنجاب میں رائج ہی نہیں ہے.اب ہر ایک شخص جانتا ہے کہ اس ایکٹ کا اطلاق اس صوبہ میں نہیں اور پریوی کونسل نے اس کا اطلاق کر دیا.تو اس سے یہ نتیجہ لازم نہیں آئے گا، کہ اس ایکٹ کو آئندہ کے لئے اس صوبہ کے متعلق سمجھا جائے.مسٹر جسٹس براڈوے:.مجلس واضح قوانین نے اس نقص کی اصلاح کر دی ہے.چو ہدری ظفر اللہ خاں : بیشک اصلاح تو ہوگئی.لیکن اصلاح ہونے سے پیشتر اس عدالت کے ایک فاضل جج نے پریوی کونسل کے اس فیصلہ کی متابعت کرنے سے اس بناء پر انکار کر دیا تھا کہ پر یوی کونسل کو اس معاملہ میں صریح غلط فہمی ہوئی ہے.مسٹر جسٹس براڈوے:.بہر صورت اس فیصلہ کا تعلق اس مقدمہ سے نہیں ہے.
293 جا سکتے ہیں ، تو کیا ہم اس مقدس مقصد کے لئے جیل سے باہر متحد نہیں ہو سکتے ؟ ( الفضل ۲۸/۶/۲۷) بقیہ حاشیہ: - چوہدری ظفر اللہ خاں : واقعات کے لحاظ سے تو بیشک دونوں فیصلے جدا جدا ہیں.میری غرض اس فیصلہ کی طرف اشارہ کرنے سے صرف یہ تھی کہ بعض دفعہ جب پر یوی کونسل ایک امر کا فیصلہ کرنے بیٹھتی ہے، تو اس سے فاش غلطی صادر ہو سکتی ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ پر یوی کونسل کا فیصلہ قابلِ پابندی نہ رہے.اور ۲۹.الہ آباد میں تو جور یمارک کیا گیا ہے، وہ بطور فیصلہ کے بھی نہ تھا.محض ضمناً واقعات کے بیان کرنے میں ایک ریمارک کر دیا گیا تھا.تیسرا فیصلہ۴۸۰ الہ آبادصفحہ ۷۱۱ ہے.اس فیصلہ میں ۲۹.الہ آباد صفحہ ۹۵ کے ضمنی ریمارک کا تنتبع کیا گیا ہے.اور اس مسئلہ پر اس پہلو سے بحث نہیں کی گئی کہ الہ آباد ہائی کورٹ کو کامن لاء کے اختیار اسے حاصل نہیں.مسٹر جسٹس براڈوے :.مسٹر جسٹس بوائز کے فیصلہ میں ایسے ریمارکس موجود ہیں جن سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اس مسئلہ پر اس پہلو سے بحث کی گئی تھی.چوہدری ظفر اللہ خاں :.بہر صورت ۴۸.الہ آباد اور ۶.لاہور کے فیصلہ جات ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں.اور ان دونوں کے متعلق میں اپنے اعتراضات پیش کر چکا ہوں.آخر میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کے اختیارات کا استعمال اپنے اندر فوجداری رنگ رکھتا ہے.اور جب تک صریح طور پر یہ اختیارات حاصل نہ ہوں ، عدالت کو خود بخو دانہیں اختیار کرنے میں تامل کرنا چاہیئے.مسٹر جسٹس براڈوے:.یہ کارروائی فوجداری اختیارات کے ماتحت نہیں کی گئی.چوہدری ظفر اللہ خاں : ۴۱.کلکتہ صفحہ ۱۷۳ میں ایسی کارروائی کو فوجداری کارروائی قرار دیا گیا ہے.بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ ایسے اختیارات کا استعمال ایک نئے جرم کے پیدا کرنے کے مترادف ہے.اور عدالت کو نئے جرم پیدا کرنے سے پر ہیز کرنا چاہیئے.جب تک صریح طور پر اسے ایسے اختیارات حاصل نہ ہوں پھر کیوں صرف ایک ایسے مسئلہ کا جو خصوصیت سے کامن لاء کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ، انتخاب کر لیا جائے.اور یہ کہا جائے کہ اگر چہ باقی اختیارات تو ہمیں حاصل نہیں ہیں لیکن یہ اختیار ہمیں ضرور حاصل ہے.بعض فیصلہ جات میں اور خصوصیت سے انگریزی فیصلہ جات میں اس قسم کے الفاظ پائے جاتے ہیں کہ ہر کورٹ آف ریکارڈ کو توہین عدالت کے متعلق کا رروائی کرنے کا اختیار حاصل ہے.لیکن ان فیصلہ جات میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ ہر
294 حضور نے دل آزار رسالہ ورتمان کے خلاف آواز اٹھائی.چنانچہ حکومت پنجاب نے اسے ضبط بقیہ حاشیہ: - کورٹ آف ریکارڈ کو کامن لاء کے اختیارات حاصل ہیں.جہاں کامن لاء کے اختیارات مفقود ہوں گے ، وہاں یہ دلیل بھی غیر متعلق ہو جائے گی.بعض جگہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جیسے بغیر حج کے عدالت عدالت نہیں کہلا سکتی.اسی طرح بغیر ایسے اختیارات کے عدالت قائم نہیں رہ سکتی.یہ مسئلہ انگلستان میں رائج ہو تو ہو ہندوستان میں تو مسلمہ طور پر رائج نہیں ہے.چنانچہ ۱۸۶۶ء سے ۱۹۱۹ء تک پنجاب میں چیف کورٹ قائم رہی اور بغیر ایسے اختیارات کے قائم رہی.چیف کورٹ صوبہ کی سب سے اعلیٰ عدالت تھی اور اسے اعلیٰ سے اعلیٰ دیوانی اور فوجداری اختیارات حاصل تھے.موجودہ ہائی کورٹ کو بہت کم زائد اختیارات چیف کورٹ پر دئے گئے ہیں.اور جو اختیارات دئے گئے ہیں ان کا ذکر صراحت کے ساتھ فرمان شاہی میں کر دیا گیا ہے.تو یہ کہنا جائز نہ ہوگا کہ بغیر تو ہین عدالت کے متعلقہ اختیارات کے عدالت عدالت نہیں رہ سکتی.یا عدالت کی عزت برقرار نہیں رہ سکتی.اسی طرح آج ہندوستان کے بعض صوبوں میں ایسی عدالت ہائے عالیہ قائم ہیں جن کے سپر د اعلیٰ سے اعلیٰ اختیارات کئے گئے ہیں.لیکن انہیں مسلمہ طور پر توہین عدالت کے متعلق سرسری کارروائی کا اختیار نہیں.باوجود اس کے وہ عدالتیں قائم ہیں اور ان کے رعب اور عزت میں کوئی فرق نہیں آتا.اس لئے میں عرض کروں گا، کہ اس عدالت کو ایسے اختیارات بھی حاصل ہوں.ان تمام وجوہات کی بناء پر میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اس عدالت کو اپنی تو ہین کے متعلق سرسری کارروائی کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے اور موجودہ کارروائی بوجہ بلا اختیار ہونے کے نا جائز ہے.اور اس کو یہیں روک دینا چاہیئے حسر سرکاری وکیل کا جواب مسٹر کا رڈن نوڈ گورنمنٹ ایڈووکیٹ : توہین عدالت کی مختلف اقسام ہیں.جن کو سول اور کرمنل سے تعبیر کیا گیا ہے.سول تو ہین یہ ہے کہ عدالت کے کسی حکم کی نافرمانی کی جائے اور اس نافرمانی کے بدلے میں عدالت کوئی سزا تجویز کرے.کرمنل توہین کی مختلف صورتیں ہیں.ایک صورت تو یہ ہے کہ عدالت کے اجلاس کے دوران میں عدالت کے روبرو ایسی کارروائی کی جائے جس سے عدالت کی تو ہین ہوتی ہو.دوسری صورت یہ ہے کہ دورانِ مقدمہ میں عدالت سے باہر مقدمہ کے متعلق ایسی باتیں کہی یا لکھی جائیں ، جو توہین عدالت کا درجہ رکھتی ہوں اور تیسری صورت یہ ہے کہ مقدمہ کے
295 کر لیا اور اس کے مصنف اور نا شر دونوں کو گرفتار کر لیا.(الفضل ۸/۷/۲۷) بقیہ حاشیہ:- فیصلہ ہو جانے کے بعد عدالت کے متعلق ایسی باتیں کہی یا لکھی جائیں.جن سے عدالت کی توہین مقصود ہو.موجودہ کا رروائی اس تیسری قسم کی توہین کے متعلق ہے.میرے فاضل دوست نے اپنی بحث کے دوران میں ان مختلف اقسام کی توہین کے درمیان تمیز نہیں کی.اگر عدالت کو دیگر اقسام کی توہین کے متعلق سزا دینے کے اختیارات حاصل ہیں.تو یقیناً اس آخری قسم کی توہین کے متعلق بھی وہی اختیارات حاصل ہوں گے.یہ اختیارات انگلستان میں زمانہ قدیم سے استعمال ہوتے چلے آئے ہیں اور کوئی نئے اختیارات نہیں ہیں.یہ اختیارات ہر کورٹ آف ریکارڈ کے ساتھ لازمی طور پر متعلق ہیں اور کورٹ آف ریکارڈ کو ان اختیارات کا حاصل ہونا ایک لازم و ملزوم امر ہے.یہ مسلمہ ہے کہ عدالت عالیہ لاہور کورٹ آف ریکارڈ ہے.اس لئے اسے لازماًیہ اختیارات حاصل ہیں.میرے فاضل دوست نے پریذیڈنسی ہائی کورٹوں اور دیگر ہائی کورٹوں کے درمیان تمیز کی ہے.لیکن ۲۹.الہ آباد صفحہ ۹۵ میں صاف طور پر یہ درج ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کو یہ اختیارات حاصل ہیں.حالانکہ الہ آباد ہائی کورٹ پریذیڈنی ہائی کورٹ نہیں.یہ فیصلہ پر یوی کونسل کا فیصلہ ہے اور اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ایک ضمنی ریمارک ہے.پر یوی کونسل کے فیصلوں میں جو کچھ بھی درج ہو، وہ ہندوستان کی عدالتوں پر قابل پابندی ہے.دیگر فیصلہ جات جن پر میں انحصار رکھتا ہوں ، وہ میرے فاضل دوست نے آپ کے سامنے پیش کر دئے ہیں.چنانچہ ۶ لا ہور اور ۴۸ الہ آباد میں بھی یہی قرار دیا گیا ہے کہ غیر پریذیڈنسی ہائی کورٹوں کو بھی یہ اختیارات حاصل ہیں.اسی ضمن میں آپ کی توجہ ایکٹ ۱۲ ۱۹۲۲ء جو عدالت ہائے ماتحت کی توہین کی نسبت پاس کیا گیا ہے کے اغراض و مقاصد کی طرف منعطف کرانا چاہتا ہوں.مسٹر جسٹس براڈوے: کسی ایکٹ کے اغراض و مقاصد اس کی تعبیر کے لئے متعلق نہیں قرار دئے جاسکتے.مسٹرنوڈ :.میں آپ سے یہ درخواست نہیں کرتا کہ آپ اس ایکٹ کی تعبیر کریں.میں صرف یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ اس ایکٹ کے پاس کرنے میں مجلس واضح قوانین کے ذہن میں یہ بات تھی کہ تمام ہائی کورٹوں کو توہین عدالت کے متعلق کا رروائی کرنے کے اختیارات پہلے ہی سے حاصل ہیں.
296 آپ کی ان مساعی سے آریہ کیمپ میں کھلبلی مچ گئی.ہندوؤں نے مسلمانوں کی صفوں میں انتشار بقیہ حاشیہ:.مسٹر جسٹس براڈوے:.اس غرض کے لئے بھی ہم اغراض و مقاصد کا معائنہ نہیں کر سکتے.مسٹرنوڈ :.تو میں ان کا نام اغراض و مقاصد نہیں رکھتا.اپنی بحث کے ایک نوٹ کے طور پر آپ کی خدمت میں ان کو پڑھ کر سنا دیتا ہوں.مسٹر جسٹس براڈوے:.جب یہی غرض خودا یکٹ کی دفعات کے مطالعہ سے حاصل ہوسکتی ہے تو اغراض و مقاصد کو درمیان میں لانے کی کیا ضرورت ہے.مسٹرنوڈ :.بہر صورت اس ایکٹ کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہے کہ مجلس واضح قوانین کے خیال میں یہ اختیارت اس ہائی کورٹ کو پہلے سے حاصل ہیں.ورنہ یہ تو ایک مضحکہ انگیز بات ہو جاتی ہے کہ یہ عدالت اپنی ماتحت عدالتوں کی حفاظت کرنے کا اختیار تو رکھتی ہے لیکن اسے اپنی حفاظت کرنے کا اختیار حاصل نہیں.اسی ضمن میں آپ کی توجہ میکسویل کی کتاب تعبیر قوانین طبع پنجم صفحہ ۵۷ کی طرف پھیرنا چاہتا ہوں.جس میں یہ درج ہے کہ ایک بعد کے وضع شدہ قانون سے ایک پہلے کے وضع شدہ قانون کی تعبیر میں مدد لی جاسکتی ہے.میرے فاضل دوست نے کی جو بحث کی ہے کہ فیصلہ جات پیش کردہ میں اس پہلو سے اس مسئلہ پر روشنی نہیں ڈالی گئی ، جو انہوں نے آج عدالت کے سامنے پیش کیا ہے، یہ قابلِ تسلیم نہیں.آپ خوب جانتے ہیں کہ مقدمات کی رپورٹوں میں وکلاء کی بحث پورے طور پر درج نہیں کی جاتی.اس لئے یہ قیاس نہیں کیا جا سکتا کہ ان مقدمات میں جن کے فیصلے پیش کئے گئے ہیں.اس پہلو سے بحث نہیں کی گئی تھی.جس کو میرے فاضل دوست نے آج اٹھایا ہے.اور نہ ہی میرے فاضل دوست کی بحث کو وہ جدت حاصل ہے جس کا انہوں نے ادعا کیا ہے.چیف کورٹ پنجاب کے متعلق بھی مجھے یہ تسلیم نہیں ہے کہ اسے توہین عدالت کے متعلق کا رروائی کرنے کا اختیار نہیں تھا.یہ مسئلہ کبھی چیف کورٹ کے سامنے پیش نہیں ہوا.ورنہ وہاں بھی غالباً یہی قرار دیا جاتا کہ چیف کورٹ کو ایسے اختیارات حاصل ہیں.جواب الجواب از چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب چوہدری ظفر اللہ خاں :.میرے فاضل دوست نے توہین کی مختلف اقسام بیان کر کے یہ قاعدہ پیش کیا ہے کہ جب بعض اقسام کی توہین کے متعلق سزا دینے کے اختیارات حاصل ہیں ، تو بقیہ اقسام
297 پیدا کرنے کی کوشش کی.چنانچہ روزنامہ پر تاپ“ نے جماعت احمدیہ کو دشمن اسلام“ قرار دیا.اور بقیہ حاشیہ: کے متعلق بھی لازمآوہ اختیارات حاصل ہونے چاہئیں.یہ دلیل قطعاً قابل پذیرائی نہیں ہے.عدالت کے احکام کی نافرمانی کے متعلق جو اختیارات ہیں وہ قانون کی دفعات کے عطاء کئے ہوئے ہیں.اس لئے ان کے متعلق کوئی تردد پیدا نہیں ہوسکتا.اسی طرح عدالت کے اجلاس کے دوران میں عدالت کے روبرو کوئی ایسی کارروائی کرنا جس سے عدالت کی کارروائی میں خلل واقع ہو یا جس سے عدالت کی ہتک ہو.تعزیرات ہند کی رو سے جرم ہے.اور قابلِ سزا ہے.اور یہی تمیز میں عدالت کے روبرو پیش کرنا چاہتا ہوں ، کہ جن اقسام تو ہین کے متعلق صریح طور پر قانون نے عدالت کو اختیار نہیں دیا.ان کے متعلق یہی قیاس ہونا چاہیئے.کہ عمداً ان اختیارات سے عدالت کو محروم کیا گیا ہے.ورنہ کیا وجہ تھی کہ بعض اقسام تو ہین کو تو صراحتاً قابل سزا قرار دیا گیا.اور دیگر اقسام کا کہیں ذکر بھی نہیں کیا گیا.دوسرا امر جو میرے فاضل دوست نے پیش کیا ہے.وہ یہ ہے کہ انگلستان میں ایسے قدیم زمانہ سے استعمال ہوتے چلے آئے ہیں.اس کے متعلق میں یہی عرض کروں گا، کہ مقدمہ کے فیصلہ ہو جانے کے بعد عدالت کے متعلق کوئی ایسی بات کہنا یا لکھنا جسے تو ہین قرار دیا جائے.مقابلہ ایک نئی بات ہے.انگلستان میں سب سے پہلی کا رروائی اس نوع کی ۱۷۶۰ء میں عمل میں آئی.مسٹر جسٹس براڈوے:.ممکن ہے کہ ۱۷۲۰ء سے پیشتر کوئی ایسا واقعہ ہی تو ہین کا پیش نہ آیا ہو.چوہدری ظفر اللہ خاں :.اور یہ بھی ممکن ہے کہ ۱۷۲۰ء سے پیشتر اس قسم کے واقعات کو تو ہین ہی نہ سمجھا گیا ہو.یا بغیر توہین عدالت کی کارروائی کے عدالت کی عزت کو کافی طور پر محفوظ سمجھا گیا ہو.تیسرا امر میرے فاضل دوست نے یہ پیش کیا ہے کہ یہ عدالت ۲۹.الہ آباد دصفحہ ۹۵ میں جو ریمارک پر یوی کونسل نے کیا ہے، اس کی پابند ہے.اس کے متعلق میں پیشتر وضاحت سے عرض کر چکا ہوں.یہ صرف ایک ریمارک ہے فیصلہ نہیں.نہ ہی یہ امر پریوی کونسل کے سامنے فیصلہ طلب تھا.اس لئے یہ عدالت اس ریمارک کی پابند نہیں.میرے فاضل دوست نے ایکٹ ۱۲ ۱۹۲۶ء کا حوالہ دیکر یہ بحث کی ہے کہ واضعان قوانین نے یہ فرض کیا ہے کہ اس عدالت کو توہین عدالت کے متعلق کا رروائی کرنے کے اختیارات حاصل ہیں.مسٹر جسٹس براڈوے:.کیا آپ یہ تسلیم کرتے ہیں یا نہیں کہ اس ایکٹ میں ایسا فرض کیا گیا ہے.
298 تعجب کا اظہار کیا کہ کیوں مسلمان جماعت احمدیہ کی اسلام دشمنی ، بھول گئے ہیں.(الفضل ۱۲/۷/۲۷) سوامی شردھانند کے جاری کردہ اخبار تیج نے جو لکھا ، اس سے حضور کی تحریک کی کامیابی بقیہ حاشیہ: - چوہدری ظفر اللہ خاں :.یہ صحیح ہے.لیکن مجلس واضع قوانین کے مفروضات کے آپ پابند نہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ ہر روز عدالت ہائے عالیہ سے ایسے فیصلے صادر ہوتے رہتے ہیں جن میں یہ قرار دیا جاتا ہے کہ فلاں ایکٹ یا فلاں دفعہ کے پاس کرنے میں غرض تو یہ تھی لیکن وہ غرض پوری نہیں ہوئی.اور ایسے فیصلہ جات کی بناء پر آئے دن قوانین میں ترمیم کی ضرورت پڑتی ہے اور ترمیم ہوتی رہتی ہے.چنانچہ حکومت نے ایک محکمہ اس غرض کے لئے قائم کر رکھا ہے کہ ایسے فیصلہ جات کے نتیجہ میں جوتر میمیں قانون میں ضروری ہوں ان کے متعلق مسودے تیار کرتا رہے.اس لئے میں یہ عرض کروں گا کہ واضعانِ قوانین کا کسی بات کو فرض کر لینا اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ قانون وہی ہے جو فرض کیا گیا ہے.اور یہ بات ہر روز کے مشاہدہ اور تجربہ سے ثابت ہے.میرے فاضل دوست نے میکسویل کی کتاب کے صفحہ ۵۷ کا حوالہ دیا ہے.لیکن آپ کے سامنے کسی ایکٹ کی تعبیر کا سوال پیش نہیں ہے.اس لئے میں یہ مجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ حوالہ کیسے متعلق ہوسکتا ہے.میرے فاضل دوست نے خود ہی یہ دعویٰ میرے ذمہ لگایا ہے کہ میں نے اپنی بحث کے متعلق جدت کا ادعا کیا ہے، اور خود ہی اسکی تردید کی ہے کہ اس بحث میں کوئی نئی بات نہیں ہے.حالانکہ مجھے قطعاً یہ دعویٰ نہیں کہ میں نے کوئی اچنبھے کی بات نکالی.میری رائے میں جو مسئلہ میں نے پیش کیا ہے ، وہ یقیناً قابل بحث ہے.اور اس کامل اجلاس کا انعقاد ایک ایسا موقع تھا جس میں اس مسئلہ کا فیصلہ ہونا چاہیئے تھا.اس لئے میں نے یہ مسئلہ پیش کر دیا.کسی قسم کی جدت کا ادعا میں نے نہیں کیا.مسٹر جسٹس براڈوے:.اس امر کے اعادہ کی حقیقتاً کیا ضرورت ہے؟ چوہدری ظفر اللہ خاں :.کوئی ضرورت نہیں محض اسی لئے اس کا اعادہ کرنا پڑا کہ میرے فاضل دوست نے خوامخواہ ایک بات میرے ذمہ تھوپ دی.میرے فاضل دوست نے آخر میں یہ بھی بحث کی کہ انہیں یہ تسلیم ہے کہ چیف کورٹ پنجاب کو توہین عدالت کے متعلق اختیارات حاصل نہیں تھے.میں یہ کہتا ہوں کہ اگر ان میں ایسے اختیارات حاصل تھے، تو ۵۴ سال کے عرصہ میں ان اختیارات کے استعمال کی کوئی نظیر بھی ہمیں ملنی چاہیئے تھی.
299 کا علم ہوتا ہے.وہ لکھتا ہے : بقیہ حاشیہ:.مسٹر جسٹس براڈوے: ممکن ہے کہ اس عرصہ میں ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہ آیا ہو.چوہدری ظفر اللہ خاں :.بہر صورت یہ مسلمہ ہے کہ یہ اختیارات صرف کورٹ آف ریکارڈ کو حاصل ہیں اور چیف کورٹ کورٹ آف ریکارڈ نہیں تھی.اس لئے چیف کورٹ کو یہ اختیارات حاصل نہیں تھے.اس مرحلہ پر جسٹس براڈوے نے اپنے شریک جوں سے اشارۃ ان کا مفہوم حاصل کر کے یہ الفاظ کہے.ہم قرار دیتے ہیں کہ ہمیں اس معاملہ میں اختیارات حاصل ہیں.اگر ضرورت ہوئی تو اس قرارداد کے وجوہات ہم اپنے فیصلہ میں بیان کر دیں گے.اس کے بعد اصل مسئلہ کے متعلق کا رروائی شروع ہوئی.اور مسٹر کا رڈن نو ڈ وکیل سرکار نے اپنی تقریر شروع کی.مقدمہ توہین عدالت پر وکیل سرکار کی تقریر مسٹرنوڈ :.یہ کارروائی اخبار مسلم آؤٹ لک کے ۱۴ جون کے پرچہ میں صفحہ ۳ پر جو مضمون مستعفی ہو جاؤ کی سرخی کے ماتحت چھپا ہے، اس کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوئی ہے.مگر میں نے ایک تحریری بیان اس عدالت میں پیش کیا ہے.لیکن یہ بیان ان الزامات کا ازالہ نہیں کرتا ، جو ملزمان پر مضمون زیر بحث کے نتیجہ میں عائد ہوتے ہیں.جہاں تک واقعات کا تعلق ہے ملزمان نے اپنے تحریری بیان میں انہیں درست طور پر بیان کیا ہے.مختصر واقعہ یوں ہے کہ رنگیلا رسول کی نگرانی کا فیصلہ کرتے ہوئے مسٹر جسٹس دلیپ سنگھ نے اس کتاب کے مصنف سے کھلے طور پر نفرت کا اظہار کیا ہے.انہوں نے صاف طور پر قرار دیا ہے کہ یہ کتاب گندی اور دل آزار ہے، اور پیغمبر اسلام کی ذات پر اس میں سفیہا نہ اور پاجیانہ حملے کئے گئے ہیں.انہوں نے قرار دیا ہے کہ یہ کتاب کینہ وری سے لکھی گئی ہے.لیکن دفعہ ۱۵۳ الف تعزیرات ہند کے الفاظ کی تعبیر کرنے میں وہ قانو نا اس امر پر مجبور ہوئے ہیں کہ وہ قرار دیں کہ یہ کتاب دفعہ مذکورہ کی زد میں نہیں آتی.اس فیصلہ پر پہنچنے میں انہوں نے اپنی معذوری کا اظہار کیا ہے.اور یہ رائے ظاہر کی ہے کہ
300 احمدی مسلمان ہندو جاتی کو بدنام اور تباہ و برباد کرنے کے لئے جو بقیہ حاشیہ: - تعزیرات ہند کی دفعات میں ایسی ترمیم ضروری ہے جس کے نتیجہ میں رنگیلا رسول جیسی کتابوں کے لکھنے اور شائع کرنے والے قانون کے شکنجے میں لائے جاسکیں.مسلم آؤٹ لک کا مضمون جو زیر بحث ہے، مسٹر جسٹس کے اس فیصلہ پر تنقید کرتا ہے.لیکن اس مضمون میں اس فیصلہ کے متعلق ایسے ریمارکس کئے گئے ہیں اور ایسے کنا یہ موجود ہیں ، جن کے متعلق ایک پڑھنے والے کو حیرت ہوتی ہے کہ مسٹر جسٹس دلیپ سنگھ کے فیصلہ کے متعلق ایسی باتیں کیونکر منسوب کی گئیں.مضمون کے پہلے فقرہ میں دو مطالبات کئے گئے ہیں.اول یہ کہ مسٹر جسٹس دلیپ سنگھ ہائی کورٹ کی حجی سے استعفیٰ دیں.اور دوسرے یہ کہ اس امر کے متعلق تحقیقات کی جائے کہ یہ غیر معمولی فیصلہ کن غیر معمولی حالات کے ماتحت لکھا گیا.میں درمیانی حصہ مضمون کو ترک کرتا ہوں.کیونکہ وہ کم و بیش تنقید کا رنگ رکھتا ہے.اور اس حصہ میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مسٹر جسٹس دلیپ سنگھ کا فیصلہ غلط ہے.میں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی فیصلہ کو غلط یا خلاف قانون قرار دے چنانچہ ہم لوگ جو قانون پیشہ ہیں.ہر روز مختلف عدالتوں کے فیصلہ جات کے متعلق یہ بحث کرتے رہتے ہیں کہ فلاں فیصلہ غلط ہے یا خلاف قانون ہے.اس امر پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا، لیکن مضمون زیر بحث کے آخری سے پہلے فقرہ میں فاضل جج سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ پیشتر اس کے کہ حکومت انہیں جی سے علیحدہ کر دے.انہیں خود بخو داس رسوائی سے بچنے کے لئے استعفیٰ دے دینا چاہیئے.میں یہ عرض کروں گا کہ اس فقرہ میں خود فاضل جج کی تو کوئی تو ہین ہو یا نہ ہو لیکن اس عدالت کی بحیثیت مجموعی ضرور تو ہین ہے.اس امر کا فیصلہ میں عدالت ہی پر چھوڑتا ہوں.لیکن اس مضمون کا آخری فقرہ عدالت کی سخت توہین کرتا ہے.اس فقرہ کے ابتدائی جملے تو میں سمجھ نہیں سکا.لیکن آخری جملے یہ ہیں ” ہمیں نیک نیتی سے یقین ہے کہ فاضل جج کی اس غیر معمولی لغزش کے کوئی غیر معمولی اسباب ہیں.اگر ایسا ہے ، تو ان اسباب کو روزِ روشن میں لانا ایک پبلک فرض ہے.گویا اس فقرہ میں یہ مفہوم مرکوز ہے کہ یہ فیصلہ دیانتداری سے جوڈیشل وجوہات کی بناء پر صادر نہیں کیا گیا ، بلکہ اس کی وجوہات غیر جوڈیشنل ہیں.لکھنے والے کی مراد صرف یہی نہیں کہ فیصلہ غلط ہے بلکہ اس کے
301 انتھک کوشش کر رہے ہیں.ان کی نظیر مسلمانوں کا کوئی دوسرا فرقہ نہیں پیش کر سکتا.یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ اس فرقہ کے عالم وجود میں آنے کی غرض وغایت ہی ہندوؤں اور خاص کر آریہ سماجیوں کو تباہ و برباد کر نا تھی.“ 66 ( بحواله الفضل ۲۹/۷/۲۷) بقیہ حاشیہ: - نزدیک یہ فیصلہ ایسے صریح اور فاش طور پر غلط ہے کہ اس کو اس فیصلہ کے پیچھے غیر جوڈیشنل اسباب کی جھلک نظر آرہی ہے.اس کی رائے میں اس فیصلہ کی تہہ میں قومی یا مذہبی اختلاف یا اس قسم کی اور وجوہ جھلک دکھا رہی ہیں.ایک حج کے متعلق اس طور پر اشارہ کرنا کہ ایک فیصلہ کرنے میں اس نے دیانتداری سے کام نہیں لیا.اور بیرونی یا غیر متعلق اسباب سے متاثر ہو کر اس نے فیصلہ صادر کیا ہے عدالت کی صریح تو ہین ہے.چنانچہ لا ہور صفحہ ۵۲۸ میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ کسی حج کے متعلق ایسا اتہام لگانا تو ہین عدالت ہے.اس مقدمہ کے واقعات پر اس فیصلہ کا صاف طور پر اطلاق ہوتا ہے.یہ تو ہین ایک بااثر انگریزی اخبار میں کی گئی ہے جس کے بہت سے پڑھنے والے ہیں.اس لئے اس کا اثر بہت وسیع حلقوں میں پڑنے کا احتمال ہے.اس اخبار کو ایک گورمکھی کے اخبار پر جو دیہاتی جہلاء کے طبقہ میں پڑھا جاتا ہے.قیاس نہیں کیا جاسکتا.اس کے پڑھنے والے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جن پر اس مضمون کا برا اثر پڑنے کا احتمال ہے.یہ مضمون ۱۴ جون کو شائع ہوا، اور اس کے بعد بھی اس مسئلہ کے متعلق اس اخبار میں مضامین شائع ہوتے رہے.لیکن بعد کے پر چوں میں سے کسی میں بھی اس مضمون کے متعلق اظہار افسوس نہیں کیا گیا.مسٹر جسٹس براڈوے:.بعد کے پرچوں کا کیا ذکر ہے، ملزمان نے تو اپنے تحریری بیان میں بھی کسی قسم کا اظہارافسوس نہیں کیا.مسٹرنوڈ :.نہ ہی صرف یہ بلکہ انہوں نے فخر کا اظہار کیا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے دین کی خدمت کر رہے ہیں ، اور اپنے آپ کو شاباش دیتے ہیں.ایڈیٹر کی ذمہ داری تو اس مضمون کے متعلق ظاہر ہی ہے.قانو نا ناشر و تابع کی ذمہ داری بھی ویسی ہی ہے جیسی کہ ایڈیٹر کی.خصوصاً جب ایڈیٹر نے پوری ذمہ داری کو تسلیم نہیں کیا.
302 آپ نے ایک طویل اعلان کے ذریعہ بتایا کہ آج مسلمانوں کی زندگی اور موت کا سوال بقیہ حاشیہ: - سید حبیب کے مقدمہ میں باوجود سید صاحب کے معافی مانگنے اور شرمندگی کا اظہار کرنے کے اور اس امر کا لحاظ رکھتے ہوئے کہ سید حبیب صاحب کا معاملہ اس نوع کا پہلا معاملہ تھا.عدالت نے سید حبیب کو ایک ماہ قید اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ کی سزاء دی تھی.مسٹرنوڈ :.سزاء کے معاملہ کو میں عدالت ہی کے اختیار پر چھوڑتا ہوں.(اس مرحلہ پر لنچ کے لئے عدالت کا اجلاس برخاست ہوا) چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی جوابی تقریر چوہدری ظفر اللہ خاں :.میرے موکل کے نام جو نوٹس اس عدالت سے جاری ہوا تھا.اسمیں ۱۴ جون کے سارے کے سارے مضمون کے متعلق جواب طلبی کی گئی تھی.اب جو درخواست فاضل گورنمنٹ ایڈووکیٹ نے اس عدالت میں موجودہ کا رروائی جاری کرنے کے لئے دی تھی ، اس میں بھی سارے مضمون کے خلاف شکایت کی گئی تھی.اس لئے میرے موکل نے تمام مضمون کے متعلق مفصل تحریری بیان داخل کیا ہے.آج فاضل گورنمنٹ ایڈووکیٹ نے الزامات کو مضمون کے پہلے اور آخری دو فقروں تک محدود کر دیا ہے.اگر نوٹس میں بھی یہ حد بندی کر دی جاتی ، تو اس قدر مفصل بیان کی ضرورت نہ پڑتی.بہر صورت میرے فاضل دوست نے یہ تسلیم کیا ہے کہ کسی فیصلہ کے متعلق یہ کہنا غلط اور غیر منصفانہ ہے تو ہین عدالت نہیں.مسٹر جسٹس براڈوے :.گورنمنٹ ایڈووکیٹ نے غیر منصفانہ کا لفظ استعمال نہیں کیا ، بلکہ لفظ خلاف قانون استعمال کیا ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں :.یہی سہی.بہر صورت میرے فاضل دوست کو مضمون کے درمیانی حصہ کے متعلق کوئی اعتراض نہیں.انہوں نے دو باتوں پر اعتراض کیا ہے.ایک تو یہ کہ فاضل جج سے مستعفی ہو جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے.اور دوسرے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایک کمیشن بٹھایا جائے جو اس غیر معمولی فیصلہ کے غیر معمولی وجوہات کی تحقیق کرے.پہلے مطالبہ کے متعلق میرے فاضل دوست نے کہا ہے کہ اس میں فاضل جج کی تو کوئی ایسی تو ہین نہیں.البتہ اس عدالت کی ضرور تو ہین ہے.تو ہین عدالت کے متعلق ہم نے تو یہی سنا ہے کہ وہی چیز تو ہین قرار دی جاتی ہے جو عدالت کی توہین ہو.اس لئے میرے فاضل دوست نے یہ جو تمیز حج کی تو ہین اور عدالت کی توہین میں کرنی چاہی.
303 ہے.اب وہ سونا بھی چاہیں تو ناممکن ہے.اب یا تو وہ بیدار ہوکر اپنی زندگی کو قائم رکھیں یا مرکز زمین کو اپنے وجود سے پاک کر دیں.دیگر سب راہیں بند ہیں.اور یہ بھی بتایا کہ کنور دلیپ سنگھ کے فیصلہ سے جرأت پا کر ورتمان نے اس ظلم کو اور بڑھایا اور پے در پے پرتاپ اور ملاپ وغیرہ نے دریدہ بقیہ حاشیہ:.اس کی غایت کو میں سمجھ نہیں سکا.سوال یہی ہے کہ آیا کسی حج کے متعلق یہ مطالبہ کرنا کہ چونکہ اس نے ایک فیصلہ دینے میں ایک فاش غلطی کی ہے، اور اس غلطی سے خطرناک نتائج پیدا ہونے کا احتمال ہے، اس لئے اس بیج کو چاہیئے کہ وہ اپنے عہدہ سے مستعفی ہو جائے تو ہین عدالت ہے یا نہیں؟ میں عرض کروں گا کہ ایسا مطالبہ کرنے سے عدالت کی قطعاً کوئی تو ہین نہیں ہوتی.آپ ایک لحظہ کے لئے یہ فرض کریں کہ عدالت عالیہ کا ایک فاضل جج پے در پے غلط فیصلہ جات صادر کرتا ہے، اور وہ فیصلہ جات اپیل میں منسوخ ہوتے چلے جاتے ہیں اس پر ایک اخبار نویس یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ایسے حج کو مستعفی ہو جانا چاہیئے تو میں کہوں گا کہ یہ مطالبہ بالکل جائز ہوگا.اور اس میں نہ حج کی تو ہین ہوگی نہ عدالت کی.تو استعفاء کا مطالبہ کرنا اپنے اندر کوئی تو ہین نہیں رکھتا ہے.یہ ہوسکتا ہے کہ جن وجوہ کی بناء پر استعفاء کا مطالبہ کیا گیا ہے ، وہ وجوہات صحیح نہ ہوں یا نا کافی ہوں اور استعفاء کا مطالبہ نا واجب ہو.لیکن اس صورت میں بھی عدالت کی کوئی بہتک نہیں.بعض دفعہ فاضل جوں نے خود یہ امر تسلیم کیا ہے کہ بعض حالات میں ایسا مطالبہ کیا جا سکتا ہے.اور اگر چہ وہ مطالبہ کسی حد تک ناجائز بھی ہو، بیج کو چاہیئے کہ ایسے مطالبہ کو تسلیم کرے.چنانچہ سر بارنس پر کاک چیف جسٹس کلکتہ ہائی کورٹ جو بعد میں پریوی کونسل کے حج بھی ہوئے اور ہندوستان کے قابل ترین جوں میں شمار کئے جاتے ہیں.اپنے ایک فیصلہ میں جو۱۴۴ انڈین کیسز صفحہ ۹۳۰ پر چھپا ہے.فرماتے ہیں:.میں پبلک کا ایک خادم ہوں.اور پبلک کی رائے کا احترام کرتا ہوں.اگر پبلک یہ یقین کرتی ہے کہ میں نے ان اختیارات کا جو میرے سپرد کئے گئے ہیں.خود سرانہ، جابرانہ اور ظالمانہ استعمال کیا ہے، یا یہ کہ میں نے ان اختیارات کو خلاف ضابطہ طور پر برتا ہے، تو ملک کو چاہیئے کہ وہ اپنی رائے کسی ایسے طریق سے ظاہر کر دے جس کے متعلق غلط فہمی کا اندیشہ نہ رہے.تو اس صورت میں میں ان کے فیصلہ کے سامنے اپنا سرخم کر دوں گا.لیکن میں چند اخبارات کے اظہار رائے کو رائے عامہ کے اظہار کا مترادف قرار دینے کو تیار نہیں.اگر کسی وقت بد قسمتی سے میں پبلک کے اعتماد کو کھودوں،خواہ اس میں میرا قصور ہو یا نہ ہو ، تو میں ان اختیارات سے فوراً علیحدہ ہو جانے کے لئے تیار ہو جاؤں گا جن کا استعمال پبلک کے اعتماد کے بغیر میں پبلک کے فائدہ کے لئے نہیں کر سکتا.“
304 پہنی کی.ہمارا فرض ہے کہ حضور صلعم کی خاطر قید ہونے والوں کو چھڑا ئیں.فیصلے کو بدلوائیں اور ان بقیہ حاشیہ:.اس حوالہ سے صریح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں، جب ایک فاضل جج سے بھی اس امر کا مطالبہ کیا جا سکے کہ وہ اپنے عہدہ سے الگ ہو جائے.آپ ایک لحظہ کے لئے فرض کر لیں کہ سر بارنس پر کاک کے متذکرہ بالا اعلان کے بعد کوئی اخبار یہ اعلان شائع کرتا کہ ہمیں سر بارنس پر کاک پر اعتماد نہیں رہا، اس لئے وہ اپنے عہدہ سے مستعفی ہو جا ئیں ، کیا یہ ایک مضحکہ انگیز بات نہ ہوتی.اگر سر بارنس پر کاک اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی جاری کر دیتے.اس لئے میں یہ عرض کروں گا کہ یہ مطالبہ واجب ہو یا نا واجب، اپنی ذات میں یہ توہین عدالت نہیں ہے.دوسرا مطالبہ جس کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ وہ تو ہین کی حد تک پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ اس غیر معمولی لغزش کے غیر معمولی اسباب دریافت کرنے کے لئے ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا جائے.مسٹر جسٹس براڈوے :.کیا اس سے صریح طور پر یہ مراد نہیں ہے کہ فاضل جج نے یہ فیصلہ ایسے اسباب سے متاثر ہو کر کیا ہے، جو بیرونی یا غیر جوڈیشنل اسباب ہیں؟ چوہدری ظفر اللہ خاں:.اس فقرہ کے یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں.لیکن ایسے معنی بھی ہو سکتے ہیں جن میں عدالت کی کوئی توہین نہ ہو.اور اگر یہ فقرہ ایسا ہے کہ اس کے دونوں قسم کے معانی ہو سکتے ہیں.تو عدالت کو چاہیئے کہ وہ معنی اختیار کرے جو قابلِ اعتراض نہ ہوں.کیونکہ عدالت کو ہر شخص کی نیت کے متعلق حسن ظن رکھنا چاہئے.خصوصاً جب خود مصنف نے یہ بیان کیا ہے کہ ان الفاظ سے حج پر کوئی ذاتی حملہ کرنا مقصود نہیں تھا.مسٹر جسٹس براڈوے:.اگر اس کے وہ معنی نہیں جو بیان کئے گئے ہیں تو تمہارے نزدیک اس کے کیا معنی ہیں؟ چوہدری ظفر اللہ خاں :.مصنف نے یہ بیان کیا ہے کہ رنگیلا رسول کتاب کے فیصلہ نے مسلمانوں میں ایک تہلکہ مچادیا اور سراسیمگی کی حالت پیدا کر دی.ساتھ ہی یہ کہ مصنف مضمون کے خیال میں دفعہ ۱۵۳ الف تعزیرات ہند کے الفاظ اس قدر سادہ اور واضح ہیں کہ رنگیلا رسول جیسی کتاب یقیناً اس دفعہ کی زد میں آتی ہے.ایسی صورت میں وہ بیان کرتا ہے کہ اس فیصلہ نے اسے حیرت اور استعجاب میں ڈال دیا.اور اس حیرت اور استعجاب کی حالت میں وہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ کوئی کمیشن بٹھا ؤ ، جو اس فیصلہ کی وجوہات معلوم کر کے ہمارا اطمینان کرے کہ ایسی فاش غلطی فاضل جج
305 حالات کی اصلاح کرائیں.جن کی وجہ سے ایسی ہتک آمیز تحریرات لکھنے والے بری کئے گئے.اور بقیہ حاشیہ: - سے کیسے سرزد ہوئی.مسٹر جسٹس براڈوے:.ایسا کمیشن کیسے قائم ہو سکتا ہے اور وہ کون سی وجوہات معلوم کر سکتا ہے؟ چوہدری ظفر اللہ خاں :.ایسے سوالات کا جواب دینے میں اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ میں ایک قانون دان کے نقطہ نظر کو عدالت کے سامنے پیش نہیں کر رہا ہوں بلکہ ایک عام شہری کے نقطہ نظر کو پیش کرتا ہوں.مسٹر جسٹس براڈوے:.اس مضمون سے تو ظاہر ہے کہ اس کا مصنف اپنے تئیں قانون دان خیال کرتا ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں :.اور اسی مضمون سے اس کی قانونی لیاقت کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے.مثلاً وہ کہتا ہے کہ فاضل جج کو واقعاتی امور میں اور ماتحت عدالتوں کی تجاویز سے اختلاف نہیں کرنا چاہیئے تھا.حالانکہ مقدمہ کے واقعات مسلمہ ہیں اور واقعاتی تجاویز کے ساتھ فاضل جج نے اپنا اتفاق ظاہر کیا ہے.اختلاف صرف قانون کی تعبیر کے متعلق ہے.بہر حال مضمون کا مصنف قانون دان نہیں ہے.اس لئے مجھے اس کے خیالات یا اس کے ذہنی نقشہ کو عدالت میں پیش کرتے وقت اس کی حیثیت کو مد نظر رکھنا پڑے گا.اور ساتھ ہی ایک ایسی فرضی حالت کے متعلق بحث کرنی پڑے گی ، جو واقعہ میں ظہور پذیر نہیں ہو سکتی.یعنی یہ کہ تحقیقاتی کمیشن کیسے بیٹھتا اور کن امور کی تحقیقات کرتا.قانونی طور پر تو ہم جانتے ہیں، کہ ہائی کورٹوں کے فیصلوں پر تحقیقاتی کمیشن نہیں بیٹھا کرتے.اس لئے میں اس ضابطہ کی تشریح تو نہیں کر سکتا جس کے مطابق کمیشن بٹھایا جائے.نہ یہ بتا سکتا ہوں کہ یہ بیان کروں کہ ایک عام شہری کے ایسے مطالبہ سے کیا مراد ہو سکتی ہے.مسٹر جسٹس براڈوے میں ایسی تعبیر سننے کا مشتاق ہوں جس سے یہ یقین ہو سکے کہ مصنف کی مراد اس جملہ سے حج کی نیت پر حملہ کرنا نہیں تھی.اگر ضرورت ہو تو میں کھینچ تان کر بھی ایسی تعبیر کا فائدہ ملزمان کو دینے کے لئے تیار ہوں.بشر طیکہ تعبیر معقول ہو، اور تعبیر کے عام اصولوں کے مطابق ہو.چوہدری ظفر اللہ خاں :.مصنف کی یہ مراد ہو سکتی ہے کہ اگر تحقیقات کی جائے تو ممکن ہے کوئی ایسے وجوہات ظاہر ہوں جیسے یہ کہ سرکار کی طرف سے مسٹر جسٹس دلیپ سنگھ کے سامنے رنگیلا رسول کتاب والے مقدمہ میں پورے طورر بحث نہیں کی گئی اور فاضل حج کی تشفی نہیں کی گئی کہ جو تعبیر دفعہ
306 یہ بھی ذکر کیا کہ چونکہ پریوی کونسل میں صرف بریت یا تخفیف سزا کی خاطرا پیل ہو سکتی ہے نہ کہ سزا کی بقیہ حاشیہ: ۱۵۳ الف تعزیرات ہند کی وہ کرنا چاہتے ہیں وہ غلط ہے.مسٹر جسٹس براڈوے :.کیا یہ معقول تعبیر اس فقرہ کی ہو سکتی ہے؟ اور آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس فقرہ سے یہی مراد تھی.چوہدری ظفر اللہ خاں :.میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس فقرہ کی یہ بھی تعبیر ہوسکتی ہے اور اس سے یہ بھی مراد لی جاسکتی ہے ، جیسے میں نے پہلے بیان کیا ہے.ہوسکتا ہے کہ ایک فقرہ کی مختلف تعبیریں کی جاسکیں.جن میں سے بعض قابل اعتراض ہوں اور بعض پر کوئی اعتراض نہ ہو سکے.یہی حالت فقرہ زیر غور کی ہے.ایسی صورت میں عدالت کے لئے لازم ہے کہ وہ قابلِ اعتراض تعبیر کو اختیار نہ کرے.مسٹر جسٹس براڈوے :.جب آپ نے یہ مضمون پڑھا، تو اس سے کیا مراد لی تھی ؟ چوہدری ظفر اللہ خاں : جب میں نے یہ مضمون پڑھا، تو نہ تو میری طبیعت میں یہ بات آئی کہ اس فقرہ سے مراد یہ ہے کہ جج نے کسی بیرونی اثر کے ماتحت یہ فیصلہ لکھا ہے اور نہ یہ بات میرے ذہن میں آئی ، کہ اس سے یہ مراد کہ ممکن ہے ، مقدمہ کی بحث میں کوئی بجھی رہ گئی ہو میں نے سرسری طور پر اس مضمون کو پڑھا.میں جانتا تھا کہ فیصلوں پر تحقیقاتی کمیشن نہیں بیٹھا کرتے اس لئے میں نے اس فقرہ کو بے معنی تصور کیا.پھر اس سے یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ فاضل جج نے وکلاء کی بحث کو پورے طور پر نہیں سمجھا.یا یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ فاضل جج کی غلطی اس امر میں تھی کہ جب انہوں نے قرار دیا کہ رنگیلا رسول ایک دل آزار گندی کتاب ہے جس میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی زندگی پر بوجہ کینہ و دشمنی حملے کئے گئے ہیں.اور اس امر کا بھی اظہار کیا کہ وہ بوجہ اس تعبیر کے جوان کے نزدیک دفعہ ۱۵۳ الف تعزیرات ہند کی صحیح تعبیر ہے ، اس فیصلہ پر پہنچنے پر خوشی سے نہیں بلکہ بادل نخواستہ مجبور ہیں.اور وہ یہ بھی محسوس کرتے تھے ، جیسا کہ انہیں محسوس ہونا چاہیئے تھا، کہ اس فیصلہ کے بہت وسیع اور خطرناک نتائج ہوں گے.تو انہیں چاہیئے تھا کہ اس فیصلہ کی ذمہ واری وہ اکیلے اپنے کندھوں پر نہ اٹھاتے.بلکہ اس مقدمہ کو دو جوں کے پاس فیصلہ کے لئے بھیج دیتے.مسٹر جسٹس براڈوے:.اس تعبیر سے تو اور بھی کام خراب ہوتا ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں :.اس سے مراد حج کی نیت پر کوئی حملہ نہیں.ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ معمولی
307 زیادتی کے متعلق ، اس لئے حکومت بھی مزید کارروائی کرنے سے معذور تھی.اس لئے کہ صرف یہ بقیہ حاشیہ:.معمولی قانونی مسائل کے پیدا ہونے پر مقدمات اور ججوں کے پاس فیصلہ کے بھیج دئے جاتے......ہیں.مسٹر جسٹس براڈوے:.یہاں یہ سوال نہیں.یہاں تو سوال یہ ہے کہ مصنف مضمون یہ کہتا ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ فیصلہ ہوا کیسے؟ اس کے پیچھے ضرور کوئی بات ہوگی.اس کو معلوم کرنا چاہیئے.چوہدری ظفر اللہ خاں :.یہ بات کہ یہ فیصلہ ہوا کیسے.یہ تو کئی دفعہ فاضل جوں کے منہ سے بھی سننے میں آجاتی ہے.بعض دفعہ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی درمیانی مرحلہ پر ایک فاضل حج ایک حکم صادر کرتا ہے.اور بعد کے کسی مرحلہ پر جب وہ یہ سمجھتا ہے کہ درمیانی حکم جاری نہ ہونا چاہئے تھا، تو وہ یہ کہہ دیتا ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں نے یہ حکم کیسے دے دیا.مسٹر جسٹس براڈوے :.یہاں حج کے الفاظ کی تعبیر در کار نہیں.بلکہ ایک اخبار نویس کے الفاظ کی تعبیر درکار ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں :.بیشک حج کے الفاظ کی تعبیر درکار نہیں لیکن میری مراد یہ ہے کہ ایسے الفاظ کا استعمال جائز طور پر بھی ہو سکتا ہے.اور لازم نہیں ہے کہ کوئی قابلِ اعتراض مفہوم ہی ان میں پنہاں ہو.اسی طرح دریافت وجوہات کا مطالبہ بھی بغیر حج کی نیت پر حملہ کئے ہو سکتا ہے.آخر آجا کر بات تو یہیں آٹھہرتی ہے کہ آیا فقرہ زیر بحث سے کوئی مراد ایسی بھی ہوسکتی ہے.جو قابلِ اعتراض نہ ہو.اور اگر ایسی مراد ہو سکتی ہے، تو پھر یہ فقرہ قابل گرفت نہیں ہے.باقی حصہ مضمون کے متعلق میرے فاضل دوست کو کوئی اعتراض نہیں.کیونکہ وہ حصہ تنقید کی حد سے تجاوز نہیں کرتا.اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ صحیح ہوں یا غلط ، بجا ہوں یا بیجا ، ایک اخبار نویس کو یہ حق ہے کہ وہ اس رنگ میں اپنی رائے کا اظہار کرے.ایک معنی میں تو کسی فیصلہ کے متعلق یہ کہہ دینا کہ یہ فیصلہ غلط ہے یا خلاف قانون ہے ، عدالت کی ہتک ہے.کیونکہ اس سے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ جو ج غلط فیصلے کرتے ہیں، وہ نالائق ہیں.لیکن یہ مسلم ہے کہ غلط فیصلے بھی ہوا کرتے ہیں اور غلط فیصلہ کو غلط کہنا اور صحیح فیصلہ کے ساتھ اختلاف کر کے اسے خلاف قانون قرار دینا توہین عدالت نہیں ہے.اسی طرح حج کی لیاقت یا قانون دانی پر حرف رکھنا گونا جائز
308 راستہ باقی تھا کہ وہ ایک نیا مقدمہ چلائے.سو میرے توجہ دلانے پر ورتمان مضمون کی وجہ سے حکومت بقیہ حاشیہ: - طور پر ایسا کیا جائے توہین عدالت شمار نہیں کیا جاسکتا.پس ایسی صورت میں جبکہ اکثر حصہ مضمون قابل گرفت نہیں تو ایک آدھ فقرہ کو اس میں سے انتخاب کر کے یہ کہنا کہ چونکہ اس فقرے سے ایسی مراد لی جا سکتی ہے جو توہین عدالت تک پہنچتی ہو، اس لئے اس مضمون کا مصنف قابلِ سزا ہے.جائز نہ ہوگا.انگریزی اور ہندوستانی عدالتوں میں بار بار یہ قرار دیا گیا ہے کہ تو ہین عدالت کی کارروائی نہایت واضح اور نہایت فاش تو ہین کی صورت میں ہونی چاہیئے.اور جہاں ذرا بھی معاملہ مشکوک ہو ، وہاں یہ تعزیری کارروائی نہیں ہونی چاہیئے.چنانچہ مقد مہ ملکہ بنام گرے۱۹۰۰ء دو کوئنز بینچ صفحہ ۳۹ میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ پبلک کو بہت وسیع اختیارات عدالتوں کی کارروائی پر تنقید و نکتہ چینی کرنے کے ہیں، اور توہین عدالت کے متعلق اختیارات کا استعمال بہت ہی شاذ حالات میں اور صرف فاش صورتوں میں ہونا چاہیئے.۳۳ انڈین کمیسر صفحہ ۶۶۱ میں پریوی کونسل نے یہ قرا دیا ہے کہ یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ عدالتوں یا ججوں کو کوئی خاص حفاظت تنقید اور نکتہ چینی سے حاصل ہے.جوں کے پبلک افعال بھی ایسے ہی تنقید کے ماتحت ہیں جیسے اور لوگوں کے.۴۱ کلکتہ صفحہ ۱۷۳ میں فاضل ججان نے بہت سے حوالے انگریزی فیصلہ جات کے دئے ہیں ، جن میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ چونکہ توہین عدالت کے متعلقہ اختیارات نہایت وسیع اور غیر محدود ہیں.اور سزا کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ، نہ ہی اپیل کا اختیار حاصل ہے اور عدالت خود ایک ایسے معاملہ میں منصف بنتی ہے جو اس کے اپنے وقار کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اس لئے ان وسیع اختیارات کا استعمال نہایت احتیاط کے ساتھ اور بہت شاز موقعوں پر ہونا چاہیئے.ایک انگریز جج نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ میں باصرار واضح کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا توہین عدالت کے مسئلے کے متعلق پاگل ہوگئی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی کو عمل میں لانا اکثر دفعہ اپنے مقاصد کو خود ہی نا کام کر دیتا ہے.آخر میں میں یہ بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میرے فاضل دوست نے جو یہ کہا ہے کہ مصنف مضمون نے اس مضمون کی پوری ذمہ داری اپنے سر پر نہیں لی.یہ صحیح نہیں ہے.ممکن ہے میرے فاضل دوست نے میرے موکل کے تحریری بیان کا وہ حصہ نہ پڑھا ہو.جس میں انہوں نے اس ذمہ داری
309 کو یہ موقعہ مل گیا ہے.آپ نے مسلمانوں کے سامنے یہ دو تجاویز پیش کیں.ایک یہ کہ مسلمانوں کے بقیہ حاشیہ: - کا اظہار کیا ہے اور پرنٹر و پبلشر کی ذمہ واری کو اصطلاحی قرار دیا ہے.چونکہ تحریری بیان کسی قدر لمبا ہے اور یہ فقرہ اس کے اختتام کے قریب ہے.اس لئے میرے فاضل دوست کی نظر سے یہ اوجھل رہا ہے.مسٹر جسٹس براڈوے:.آپ پرنٹر و پبلشر کی طرف سے وکیل نہیں ہیں ،اس لئے اس کے متعلق آپ کی طرف سے بحث ضروری نہیں.چوہدری ظفر اللہ خاں :.میں پرنٹر و پبلشر کی طرف سے بحث نہیں کرنا چاہتا.لیکن اس امر کو ضرور واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میرا موکل مضمون زیر بحث کی کامل ذمہ داری اپنے سر پر لیتا ہے.ان وجوہات کی بناء پر جو میں نے دوران بحث میں پیش کئے ہیں.میں یہ عرض کروں گا کہ اس رول کو ڈسچارج کر دیا جائے اگر عدالت کی رائے میں ملزمان کا فعل توہین عدالت کی حد تک پہنچتا ہے.تو ایسی صورت میں میں سزا کے متعلق اس لئے کچھ نہیں کہوں گا کہ میرے فاضل دوست کو بھی عدالت نے اس مسئلہ کے متعلق کچھ کہنے سے ٹوک دیا ہے.لیکن میں اتنا کہ دینا چاہتا ہوں کہ چونکہ مسلم آؤٹ لک انگریزی کا اخبار ہے اور تعلیم یافتہ لوگوں کے ہاتھوں میں جاتا ہے.ایسے لوگ جو بقول سر بارنس پر کاک سوچنے اور سمجھنے کے عادی ہیں، اس لئے اس مضمون سے کوئی برے اثرات پیدا ہونے کا چنداں احتمال نہیں ہے.میرے فاضل دوست نے یہ بھی کہا ہے کہ ملزمان نے اپنے بیان میں فخر اور تعلی سے کام لیا ہے.فخر اور تعلی کا کوئی سوال نہیں ہے.ملزمان یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے وہ جائز تنقید کی حدود کے اندر آتا ہے، اور اس لئے قابل گرفت نہیں ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کیا ہے اور اس میں کسی افسوس یا فخر کا کوئی موقعہ نہیں.مولوی نورالحق صاحب کی طرف سے شیخ نیاز محمد صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نے یہ بات پیش کی.کہ مضمون کی ذمہ واری اولاً ایڈیٹر کے ذمہ ہوتی ہے.اور پرنٹر و پبلشر کی ذمہ واری اسی صورت میں اصل ذمہ واری قرار دی جاسکتی ہے، جبکہ ایڈیٹر نے پوری ذمہ واری اپنے سر لے لی ہے.لہذا پر نٹر اور پبلشر کی ذمہ واری محض ایک اصطلاحی ذمہ واری رہ جاتی ہے.چنانچہ مختلف فیصلہ جات میں اس تمیز کو تسلیم کیا گیا ہے.اور یا تو پرنٹر و پبلشر کے خلاف کارروائی ہی نہیں کی گئی اور یا کارروائی کرنے کی صورت میں اسے ڈسچارج کر دیا گیا ہے.یا بہت خفیف سزا پر اکتفاء کیا گیا ہے.ملاحظہ ہو.کلکتہ صفحہ ۱۰۹-۴۵ انڈین کیسر، صفحہ ۱۱۳، ۴۵ کلکتہ صفحہ ۱۶۹، اور ۴۸ الہ آباد صفحہ ۷۱.
310 مختلف فرقوں کا وفد گورنر پنجاب سے مل کر مسلم آؤٹ لک کے ایڈیٹر وغیرہ کی رہائی کا مطالبہ کرے.دوسرے پنجاب، دہلی اور صوبہ سرحد کے پانچ لاکھ افراد کے دستخط سے ایک وفد کے ذریعہ ایک محضر نامہ حکومت کے سامنے پیش کر کے مطالبہ کیا جائے کہ وہ تمام مذاہب کے بزرگوں کی عزت کی حفاظت کے لئے مناسب تدابیر اختیار کرے.اور جسٹس دلیپ سنگھ کو جن پر صوبہ کی اکثریت کو اعتماد نہیں رہا، اس عہدہ جلیلہ سے الگ کر کے مسلمانوں کی بے چینی دور کرے.اور چونکہ ہائی کورٹ کے ہندوستانی جوں کی اکثریت ہندوؤں کی ہے اور اس میں پنجاب کے مسلمانوں کی سخت ہتک ہے.اس لئے مسلمان بیرسٹروں میں سے ایک جج مقرر کیا جائے.اور موجودہ مسلمان جوں کو مستقل کیا جائے.اور پنجاب کا آئندہ چیف حج مسلمان ہو.آپ نے اتحاد کی بھی تلقین کی اور بتایا کہ ہند وموجودہ تحریک کو دبانے کے لئے مسلمانوں کو جوش دلا کر حکومت سے لڑوانے اور دوسری طرف فرقہ وارانہ منافرت پھیلا کر آپس میں انشقاق پیدا کرنا چاہتے ہیں، اور خفیہ طور پر حکام اور بعض مسلمانوں کے ذریعہ ایسی کوشش ہو رہی ہے.“ یہ امر نہایت ضروری تھا اور مسلمانوں کا اس میں مفاد تھا کہ حکومت اور مسلمان ایک دوسرے سے بدظن نہ ہوں.ابتداء میں ایک وفد سے گورنر پنجاب نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے وعدہ بقیہ حاشیہ:.مسٹر جسٹس براڈوے :.یہ صورت تو ان مقدمات میں ہوتی ہے ، جہاں پر پرنٹر و پبلشر مضمون کے متعلق اپنی لاعلمی ظاہر کرتا ہے.لیکن اس مقدمہ میں نہ ہی صرف ایسا نہیں کیا ، بلکہ وہ اپنے تئیں مصنف کے ساتھ شامل کرتا ہے.کیا اب بھی وہ اظہار افسوس کرنے کو تیار ہے؟ اس مرحلہ پر مولوی نور الحق صاحب پر نر و پبلشر نے کھڑے ہوکر بیان کیا کہ یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.میں اس مضمون کی پوری ذمہ واری اپنے سر پر لیتا ہوں، خواہ وہ ذمہ واری قانو نا مجھ پر عاید ہوتی ہو یا نہ.مسٹر جسٹس براڈوے:.پرنٹر و پبلشر تو اب بھی اظہار افسوس کرنے کو تیار نہیں ہے.بلکہ اس کی طرف سے جو بحث کی گئی ہے ، اس کی تائید سے بھی پر ہیز کرتا ہے.مسٹرنوڈ سرکاری وکیل :.میں صرف اسی قدر کہنا چاہتا ہوں کہ ملزمان کی طرف سے جو مفہوم فقرہ زیر بحث کا بیان کیا گیا ہے وہ قابلِ قبول نہیں اور اس فقرہ سے صاف توہین عدالت مقصود ہے.اس کے بعد مسٹر جسٹس براڈوے نے شریک جوں سے مشورہ کے بعد فیصلہ سنا دیا.
311 وو کیا تھا کہ یا تو وہ موجودہ فیصلہ ہائی کورٹ کو تبدیل کرائیں گے یا قانون میں ترمیم کرا کے آئندہ ایسے دلآزار لٹریچر کی اشاعت کو ناممکن بنا دیں گے.اس پر روز نامہ ٹربیون‘لاہور نے بہت تلخ الفاظ استعمال کرتے ہوئے گورنر سے اپنے الفاظ واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا.اور گورنر کو مسلمانوں کے متعلق مربیانہ رویہ رکھنے والا اور فرقہ وارانہ احساسات کی حوصلہ افزائی کرنے والا قرار دیا تھا اور اسے مسلمانوں کی موجودہ متمردانہ روش کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا.اور بعض حکام جماعتِ احمدیہ کو شبہ کی نگاہ سے دیکھنے لگے تھے.حضرت امام جماعت احمدیہ کی کوشش تھی کہ مسلمان عدم تعاون و غیرہ قسم کی تحریکات شروع نہ کریں.اور اس کے نقصانات گنائے اور بتایا کہ یہ کام کرنے کا وقت ہے نہ جیل خانہ جانے کا.اور ضرورت اس بات کی ہے کہ بے فائدہ جوش سے اپنی قوتوں کو ضائع نہ کیا جائے.آپ نے یہ بھی بار بار واضح کیا کہ حکومت نے مخالفانہ قدم نہیں اٹھایا، بلکہ عدالت کی طرف سے دل آزاری ہوئی ہے اور حکومت کا دوسرا حصہ یعنی گورنر کی طرف سے دل آزاری دور کرنے کی کوشش ہورہی ہے.جہاں ایک طرف آپ نے حکومت کو مشورہ دیا، کہ چوہدری فضل حق ( مشہور مخالف احمدیت احراری لیڈر ) کے متعلق وزیر مالیات سر جافرے مانٹ مارنسی کو اسمبلی میں کھلے بندوں مل کر حرف گیری نہیں کرنا چاہیئے تھی.اس طرح بجائے اصلاح کے فساد بڑھتا ہے.دوسری طرف مسلمانوں کو سمجھایا تھا کہ سر جافرے کے سابق رویہ کے متعلق کسی کو شکایت نہیں.ان کی تعریف سنی جاتی ہے.ان کو جو رپورٹ آئی ، اسے درست سمجھتے ہوئے انہوں نے بیان دے دیا.اس میں ان کا کوئی قصور نہیں.خواہ رپورٹوں کو ہم غلط قراردیں.لیکن سر جافرے کی نیت پر ہم حملہ کرنے کے مجاز نہیں.اور سخت الفاظ کہنے سے ہمارے مقصد کی بلندی ثابت نہیں ہوسکتی اور سخت زبانی سے دنیا میں کبھی فائدہ نہیں ہوا.(الفضل ۲/۸/۲۷) جب حضور کے مجوزہ وفد کی ملاقات سے گورنر نے انکار کر دیا، تو بھی آپ نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ باوجود اس کے بھی پھر کسی وقت ملاقات ہو سکتی ہے.چونکہ ہائی کورٹ پر گندے طور پر قادیان سے دستخطوں کی مہم بہت تنظیم کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائی گئی تھی.مجھے یاد ہے کہ تعطیلات موسم گرما میں وطنوں کو جانے والے طلباء سے بھی کام لیا گیا تھا.چنانچہ میں جو احمد یہ مدرسہ کی پانچویں جماعت کا طالبعلم تھا.مجھے بھی محضر نامہ دیا گیا اور میں نے پاک پٹن سے ایک ملحقہ گاؤں کے مسلمانوں سے دستخط کروائے تھے.
312 اعتراض کئے گئے ہیں اور حکومت کو بلا وجہ گالیاں دی گئی ہیں ، اس لئے حکومت ہچکچاتی ہے کہ ہائی کورٹ کے احترام میں فرق نہ آئے.لیکن ایجی ٹیشن دب جائے تو وفد کی ملاقات ناممکن نہیں.چنانچہ گورنمنٹ نے دوسری تار میں لکھا کہ اگر آپ اپنے خیالات وسیع طور پر مسلمانوں میں پھیلائیں تو مسلمانوں کے لئے نہایت مفید ہوگا.جس سے ظاہر ہے کہ مسلمان اعتدال کے ساتھ مطالبات پر قائم رہیں تو حکومت انہیں نظر انداز نہیں کرے گی.(۲۲ / جولائی ۱۹۲۷ء ) پہلے خلافت کمیٹی نے سول نافرمانی کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا.حضرت امام جماعت احمدیہ کی مساعی بارآور ثابت ہوئیں اور خلافت کمیٹی نے سول نافرمانی ملتوی کر دی.حضرت ممدوح نے ۲۲؍ جولائی کے جلسوں میں ایک یہ قرار داد منظور کرنے کی تحریک کی تھی کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری ( بعدہ احراری لیڈر و دشمن احمدیت ) وغیرہ رضا کاران خلافت کو التوائے سول نافرمانی کے باعث فور رہا کر دیا جائے.لاہور کی شاہی مسجد میں پون لاکھ افراد کے اجتماع کا خلافت کمیٹی کے صدر مولا نا محمد علی جو ہر کی صدارت میں جلسہ ہوا.جس میں دو قراردادیں ان کے برادرا کبرخان ذوالفقار علی خان مرحوم ( چیف سیکرٹری امام جماعت احمدیہ قادیان ) اور حافظ صوفی روشن علی مرحوم ( پرنسپل مشنری کالج قادیان) کی طرف سے پیش ہوئیں.اور شیخ عزیز الدین مرحوم ( احمد یہ مسلم مشنری لندن کی طرف سے ان کی تائید کی گئی.(الفضل ۲۲ و ۲۹ جولائی ۱۹۲۷ء ) حضور کی طرف سے گورنر پنجاب کو بذریعہ برقیہ توجہ دلائی گئی کہ ورتمان والا مقدمہ بخشی ٹیک چند کے سپرد نہ کیا جائے اور ایک سے زیادہ جوں کے سامنے پیش کیا جائے.چنانچہ حکومت نے مطلع کیا کہ بخشی صاحب اس مقدمہ کی سماعت نہیں کریں گے.مقدمہ ڈویژن بینچ کے روبرو پیش ہوا.قائم مقام چیف جسٹس کو جو رخصت پر جارہے تھے ، بمبئی سے اس مقدمہ کی سماعت کے لئے واپس بلایا گیا.(الفضل ۱۹/۷/۲۷) مقدمہ ورتمان میں ملزموں کے وکیل نے یہ امر بھی پیش کیا تھا کہ اگر حضرت امام جماعت احمد یہ اپنی اشتہار ورتمان کے متعلق امر تسر نہ بھجواتے تو کوئی شخص ”ورتمان “ پر معترض نہ ہوتا.جسٹس براڈوے اور جسٹس سکیمپ کے فیصلہ سے یہ افسوسناک بات بھی منظر عام پر آئی کہ مولوی ثناء اللہ ایڈیٹر اہلحدیث امرتسر جیسے مدعی تائید اسلام نے ورتمان “ پڑھا.لیکن اہلحدیث میں اس پر کوئی تنقید نہ کی.انا للہ.جج صاحبان نے یہ قرار دیا کہ حضرت بانی اسلام کو اسلام سے الگ قرار
313 نہیں دیا جا سکتا اور مذہبی پیشواؤں کے خلاف مکروہ اور غلیظ تحریری حملہ دفعہ ۱۵۳ الف کی زد میں آتا ہے.ورتمان کے ایڈیٹر کو چھ ماہ قید با مشقت اور دوصد روپیہ جرمانہ اور بصورت عدم ادائیگی مزید تین ماہ قید سخت اور مضمون نویس کو ایک سال قید با مشقت اور پانصد روپیہ جرمانہ اور بصورت عدم ادائیگی مزید چھ ماہ قید مشقت کی سزا دی.(الفضل ۲۷.۸.۱۶) اس فیصلہ کے بعد حضرت امام جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کو توجہ دلاتے ہوئے بتلایا کہ اس سزا سے میرا دل خوش نہیں غمگین ہے.ایک قوم کیا اگلے پچھلے کفار کی جانیں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک عزت کی قیمت نہیں آپ " کی عزت اس سے بالا ہے.اور وہ دنیا کے احیاء میں ہے.جو لوگ ہتک عزت کے مرتکب ہوتے ہیں.اس میں مسلمانوں کا قصور ہے.یہ انکی تبلیغی ستی کا نتیجہ ہے.گو ہم حکومت کے شکر گزار ہیں کہ اس کی حکمت عملی نے ملک کو خطر ناک فسادات سے ہم آغوش ہونے سے بچالیا ہے.کیا ہم اس بات پر خوش ہو سکتے ہیں.کہ عیسائی حکومت نے ہزاروں روپے خرچ کر کے اور بیسیوں آدمی مقرر کر کے آپ کی عزت کی حفاظت کی.جبکہ مجرموں کی تحریرات کروڑوں آدمیوں کے دلوں میں نقش ہیں ؟ سو ہمیں اشاعت اسلام کی طرف توجہ دینی چاہیے.نیز ہندوؤں کی چھوت کا چھوت سے مقابلہ کا طریق اختیار کرنے اور سادہ زندگی بسر کر کے خدمت دین کی عادت ڈالنی چاہیے.آپ نے بتایا کہ چونکہ مسٹر جسٹس دلیپ سنگھ نے جس دفعہ کے تحت ملزموں کو بری قرا دیا تھا.اس دفعہ کے ماتحت ہی فیصلہ ہونا ضروری تھا.تا جسٹس مذکور کا فیصلہ غلط قرار پاتا.ورنہ کسی نئے قانون کے مطابق فیصلہ ہوتا تو سابقہ فیصلہ جو مسلمانوں کے لئے دلآزار اور ہتک آمیز تھا، اور غلط تھا صحیح تسلیم کیا جاتا.اسلئے میں ایسے دوسرے فیصلہ سے قبل اس دفعہ میں ترمیم کا حامی نہیں تھا موجودہ قانون میں یہ نقائص ہیں کہ : اوّل.یہ قانون بہ نیت فتنہ مضمون لکھنے والے کو مجرم قرار دیتا ہے نہ کہ صرف انبیاء کی ہتک کو.حالانکہ فساد کے عدم احتمال کی صورت میں بھی سزا دینی چاہیئے.دوم.اس قانون کے تحت صرف حکومت مقدمہ دائر کرنے کی مجاز ہے.اگر بزرگ کے پیرو بھی مقدمہ دائر کرنے کے مجاز ہوں تو جوش بھی نکل جائے اور حکومت کے خلاف بھی یہ جذ بہ پیدا نہ ہو کہ فلاں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی.
314 سوم.بسا اوقات جوابی کتاب پر مقدمہ چلایا جاتا ہے.لیکن جس نے حملہ کی ابتداء کی ہوتی ہے اسے چھوڑ دیا جاتا ہے.یہ ترمیم ضروری ہے کہ جوابی کتاب لکھنے والے پر اس وقت تک مقدمہ نہ چلایا جائے جب تک اصل کتاب لکھنے والے پر ( بشر طیکہ اس نے گندہ دہنی سے کام لیا ہو ) مقدمہ نہ چلایا جائے.چہارم.اس وقت اگر ایک صوبہ میں کوئی ایسی کتاب ضبط ہو تو دیگر صوبہ جات میں اسے شائع کیا جا سکتا ہے.ایسی ترمیم ضروری ہے کہ ایسی کتاب ایک صوبہ میں ضبط ہو.تو دیگر صوبہ جات بھی قانو نا اس کتاب کی اشاعت و طباعت پر پابندی لگائیں.( الفضل ۲۷-۸-۱۹) فیصلہ ورتمان پر ہندو بہت سیخ پا ہوئے اور ہندو اخبارات نے چیف جسٹس وغیرہ پر کھلے بندوں الزام لگایا کہ مسلمانوں کی ایجی ٹیشن سے ڈر کر فیصلہ کیا گیا ہے.الفضل نے حکومت کو لکھا کہ کیوں ایسے اخبارات پر بہتک عدالت کا مقدمہ نہیں چلایا جاتا.اگر نہیں چلانا تو مسلم آؤٹ لک کے ایڈیٹر وغیرہ کو فوراً رہا کر دینا چاہیے.جنہوں نے ہندو اخبارات سے بہت کم لکھا تھا اور عدالت عالیہ کے ڈویثرن بینچ نے جسٹس دلیپ سنگھ کے فیصلہ کی تغلیط بھی کر دی ہے.(۲۷ - ۸-۲۳) حضرت امام جماعت احمدیہ نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کو بتایا کہ ممکن ہے ہند و صلح کی طرف جھکیں اس لئے ابھی سے یہ امر مد نظر رکھنا چاہیے.بغیر تدبر کئے کہ یہ صلح حقیقی ہے یا نہیں.صلح کر لینا کم ہمتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نظیر کی صلح پر آمادگی اس شرط پر قبول کی کہ وہ چند دن میں قلعے خالی کر دیں.کیونکہ ان کی شرارت کسی وقتی جوش کے نتیجہ میں نہ تھی بلکہ وہ متواتر غداری اور خفیہ سازشوں وغیرہ کے مرتکب ہو رہے تھے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ موقعہ نہیں دیا کہ وہ بغل میں بیٹھے رہیں اور موقعہ ملنے پر چھری چلاتے رہیں.ہندوؤں کی طرف سے براہین احمدیہ کے زمانہ سے بھی پہلے ورتمان کی قسم کی کتابیں نکلتی رہی ہیں.پھر لاہور میں ایک جلسہ میں حضرت مسیح موعود سے آریوں نے باصرار مضمون منگوایا اور اپنے وعدہ کا بھی پاس نہ کیا اور دل آزار گالیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیں.رولٹ ایکٹ کے بعد یہ جھگڑا ختم ہو گیا اور سیاسی اشتراک کی بناء پر ان باتوں کو نظر انداز کر کے مسلمان ہندو ایک دوسرے کو بھائی بھائی کہنے لگے.اسکے بعد پھر شدھی کی تحریک میں آریوں نے دل آزار کتب شائع کر کے پہل کی.اسلئے مصالحت کے وقت صرف زبانی صلح بے حقیقت ہوگی.بلکہ ذیل کی تین شرائط مناسب ہونگی.
315 اول.دونوں قومیں اقرار کریں کہ اگر کسی قوم کی طرف سے دوسرے مذاہب کے بزرگوں کے متعلق دل آزار کتاب لکھی گئی تو تمام تر ذمہ واری اس قوم پر ہوگی.اور ایسی کتاب جلا دی جائے گی اور مصنف کا مکمل مقاطعہ کر کے اسے مجلسی تعلقات ، رشتہ ناطہ وغیرہ سے محروم رکھا جائے گا اور جو ایسا مقاطعہ نہ کرے گا اس سے بھی ایسا مقاطعہ کیا جائے گا.یا ایک مقررہ رقم بطور تاوان دی جائے گی.دوم.ہندو مسلمان سے بحیثیت قوم چھوت چھات ترک کر دیں.اس چھوت چھات کے نتیجہ میں ہندوؤں نے ساری دولت سمیٹ لی ہے.سوم.مسلمانوں کو اپنی آبادی کے مطابق حصول حقوق میں ہندو روک نہ بنیں.ورنہ مسلمان چوہڑوں سے بھی زیادہ تباہ اور ذلیل ہو جائیں گے ابھی ایک سوسال قبل مسلمان بادشاہ تھے اور اتنے قلیل عرصہ میں وہ ہندوؤں کے دست نگر ہو گئے ہیں.(الفضل ۲۷ - ۸-۳۰) اگست ۱۹۲۷ء میں حضرت امام جماعت احمد یہ شملہ تشریف لے گئے تو مسودہ قانون مذکورہ کے تعلق میں نہ صرف ہندو رہنما (مثلاً مہاراشٹر پارٹی کے لیڈر مسٹرکلکر ) بلکہ مسلمان رہنما قائد اعظم محمد علی جناح ( سر ) مولوی محمد یعقوب (ڈپٹی پریذیڈنٹ اسمبلی ) صاحبزادہ عبدالقیوم (وزیر اعظم صوبہ سرحد)، خان محمد نواز خان ، مولانا محمد شفیع داؤدی و غیر ہم آپ کی فرودگاہ پر آکر ملتے رہے اور آپ کے مسودہ کی تعریف و تائید کی.ہندوستان ٹائمنز جیسے اخبار نے اسے اہم اور ضروری قرار دیا.پنڈت مدن موہن مالویہ نے اصولی طور پر اتفاق ظاہر کیا.مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر انصاری ، ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور چوہدری فضل حق خاں ( بعد ہ احراری لیڈر ) نے بھی ہندو مسلم اتحاد کے تعلق میں دلچسپی لی.قائد اعظم ، سر عبدالقیوم ، سر عمر حیات خاں ٹوانہ، سر ذوالفقار علی خاں، پنڈت مدن موہن مالویہ، ڈاکٹر مونجے ، لالہ لاجپت رائے ،سری نواس آئنگر اور پنڈت نیکی رام وغیرہ شامل ہوئے.حضرت امام جماعت احمدیہ نے اتحاد کے صحیح طریق پر تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت پر زور دیا.ہندو مسلم زعماء کے الگ اور مشترکہ اجلاس ہوئے.حضرت امام جماعت احمدیہ نے ہند و مسلم اتحاد کیلئے مندرجہ ذیل امور پیش کئے : (۱) ہر جماعت کو تبلیغ کی آزادی ہو لیکن ناجائز ذرائع استعمال نہ کئے جائیں.(۲) بانیان مذاہب کی ہتک کرنے والے سزا کے ماتحت قبل ازیں جو تجویز درج ہو چکی ہے.بیان
فرمائی.316 (۳) ہر قوم اپنے افراد کی اقتصادی اصلاح کیلئے کا روبار کرنے اور دکانیں کھولنے میں آزاد ہو.(۴) چونکہ چھوت چھات سے مسلمانوں کو اقتصادی نقصان پہنچا ہے.اسلئے ہماری تحریک کو کہ مسلمان صرف مسلمان سے سودا سلف خرید میں ، انتظامی طریق نہ سمجھا جائے.(۵) گائے کشی اور جھٹکے کی آزادی ہو لیکن نمائش نہ کیجائے.مسلمانوں کو باجہ بجانے پر معترض نہ ہونا چاہیے.مناسب یہ ہے کہ قانوناً معابد کے سامنے بوقت عبادت باجہ بجانا ممنوع قرار دیا جائے.(۶) مذہبی امور میں آزادی ہو.بعض مقامات پر مسلمانوں کو اذان دینے اور مسجد تعمیر کرنے اور بعض ریاستوں میں تبلیغ کرنے کی آزادی نہیں.(۷) پرائیویٹ ساہوکارہ سے زیادہ تر مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے اسلئے اسے با قاعدہ کرانے کیلئے قانون بنوایا جائے.اور مسلم رقبوں میں کو اپر ٹیو بنک کھلوانے کی مساعی کو فرقہ وارانہ منافرت نہ قرار دیا جائے.( ۸ تا ۱۰) تعداد کے لحاظ سے مسلمانوں کو ملازمتوں میں حصہ دیا جائے اور یہ اصول کونسلوں اور یونیورسٹیوں کی نمائندگی میں رائج ہو.(۱۱ تا ۱۴) صوبہ سرحد میں دیگر صوبہ جات کے برابر اصلاحات نافذ کی جائیں اور سندھ اور بلوچستان کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے اور دونوں صوبوں میں ہندوؤں کو ہی حقوق دیئے جائیں جو مسلمانوں کو انکی کوانکی اقلیت والے صوبوں میں حاصل ہوں.وغیرہ.(۱۶،۱۵) مسلمانوں کے لئے جدا گانہ انتخاب کا طریق جاری رہے جب تک کہ تین چوتھائی اکثریت تخب مسلم ممبران اسمبلی اسکی تبدیلی منظور نہ کرے.بعد میں مخلوط انتخاب پھر بھی اسی طرح جدا گانہ انتخاب میں تبدیل ہو سکے گا.یہی طریق مذہبی امور کے فیصلہ کے متعلق ہو کہ جس قوم پر اس کا اثر پڑے.اسکی تین چوتھائی اکثریت کی منظوری سے منظور ہو اور بعد میں ایسی اکثریت کی منظوری اسے رد کر سکے.(۱۷ تا ۲۰) یا تو موجودہ مصائب کی ذمہ داری کا فیصلہ کر لیا جائے کہ کس قوم پر ہے یا یہ طے کر لیا جائے کہ گزشتہ واقعات کا آئندہ حوالہ نہ دیا جائے.ہر صوبہ میں بورڈ بنایا جائے جس کی شاخیں اضلاع میں ہوں جو فرقہ وارانہ فساد کے وقت فورا تحقیق کریں اور ظالم قوم کے سرغنوں کو سزا د میں اور مظلوم لوگوں کو مدد، ہر قوم یا فرقہ کو اپنی تنظیم کے متعلق آزادی حاصل ہو.وغیرہ وغیرہ.
317 الفضل قادیان ۹/۹/۲۷ و ۶/۹/۲۷ ۱و ۳۰/۹/۲۷) آپ نے ستمبر میں شملہ میں مسلمانوں کی قومی اور انفرادی ذمہ داریوں پر تین گھنٹے تقریر کی جس میں بتایا کہ مسلمان دیگر اقوام سے بہت پیچھے ہیں.وہ تقویٰ ، خشیت اللہ اور دعا کا طریق ، مضبوطی اخلاق ، بڑوں کا ادب، انسانی ہمدردی ، مسابقت کی روح ،صحت ،صفائی ، پابندی وقت ،خوف ورجا، اتحاد، رواداری اختیار کر کے ترقی کر سکتے ہیں کوئی شخص بیکار نہ رہے.ایسی کمیٹیاں بنائی جائیں کہ کوئی مسلمان آوارہ نہ رہے.ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں.باہمی تنازعات خود طے کئے جائیں.لڑ پڑیں تو مصالحت کرا دی جائے.مسلمان اقتصادی، علمی، حرفتی آزادی کے لئے کوشاں ہوں.تجارت میں ترقی کریں.فرض تبلیغ ادا کریں.آخر پر فرمایا کہ ہم جنگل کے درندوں اور سانپوں سے صلح کر سکتے ہیں.لیکن اس سے ہرگز صلح نہیں ہو سکتی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم کو گالیاں دیتا.اور آپ کی ذات پر حملہ کرتا ہے.صاحب صدر سر نواب ذوالفقار علی خاں نے آپ کی تقریر کی جامعیت اور مسلمانوں کے لئے بہترین درسی ہونے کی تعریف کی.( الفضل ۲۷-۹-۲۳) اس عرصہ میں علاقہ یاغستان میں شدید شیعہ سنی فساد ہو گیا.آئندہ کیلئے مستقل انسداد کے لئے آپ نے تجاویز پیش کیں.ایک احمدی نے ایک کتاب شائع کی جس کے متعلق سکھوں نے کہا کہ دلآزار ہے.آپ نے تحقیق کر کے جماعتی طور پر اسے ضبط کرلیا اور اعلان کیا کہ یہ صاحب آئندہ بغیر جماعتی اجازت کے کوئی کتاب شائع نہ کریں اور ضبط شدہ کتاب تلف کر دی جائے.اور اس کا قابل اعتراض حصہ شائع نہ کیا جائے.یہ بھی بتایا کہ گو گورنمنٹ کی نظر میں یہ کتاب قابل ضبطی نہ ہو.تب بھی ہمیں خود دیگر اقوام کے احساسات کا خیال رکھنا چاہیے.یہ امر افسوسناک ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کانفرنس جس میں دونوں قوموں کے لیڈر شریک تھے ناکامی پر مختم ہوئی.جس کا باعث یہ تھا کہ ہندو اخبارات تیج پرتاپ ، ملاپ وغیرہ نے ہندو لیڈروں پر بہت دباؤ ڈالا اور بتلایا کہ ہندو قوم اس بارہ میں ان کے ساتھ نہیں اور قوم کو تلقین کی کہ وہ اپنے لیڈروں کی بات ہرگز نہ مانیں.اسلئے گائے اور باجہ بجانے کے مسائل پر یہ کانفرنس ٹوٹ گئی.مسز سروجنی نائیڈو نے حضرت امام جماعت احمدیہ کے ہاں آپ کے متعلق سیاسی لیڈروں کے خیالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک موقعہ پر قائد اعظم نے نہایت ہی محبت سے اعتراف کے طور پر کہا کہ کام کرنا تو امام جماعت احمدیہ کی جماعت جانتی ہے.جو نہایت مستعدی سے کسی موقعہ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتی
318 معزز ” ہمدرد دہلی کے نامہ نگار خصوصی شملہ نے زیر عنوان ” قادیانی حضرات کی مساعی جمیلہ“ لکھا کہ: (الفضل ۳۰/۹/۲۷) نا شکر گزاری ہوگی اگر جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور ان کی منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر تو جہات بلا اختلاف عقیدہ ہم مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں.یہ حضرات اس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیاست میں دلچسپی سے حصہ لے رہے ہیں تو دوسری طرف وہ مسلمانوں کی تنظیم و تبلیغ و تعلیم و تجارت میں انتہائی جدوجہد سے منہمک ہیں.اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل سواد اعظم کے لئے بالعموم اور اُن اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمات اسلام کے بلند بانگ و در باطن پیچ دعاوی کے خوگر ہیں مشعل راہ ثابت ہو گا.جن اصحاب کو جماعت قادیان کے اس جلسہ عام میں جس میں مرزا صاحب موصوف نے اپنے عزائم اور طریق کار پر اظہار خیالات فرمایا ، شرکت کا فخر حاصل ہوا ہے.وہ ہمارے خیال کی تائید کئے بغیر نہیں رہ سکتے.“ ( الفضل ۲۷-۱۰-۷) حضور کی تحریک کا پٹھانوں پر بھی بہت اثر ہوا.چنانچہ روزنامہ ”ملاپ نے لکھا کہ صوبہ سرحد کے خوانین نے تاجر ہندوؤں کو امام جماعت احمدیہ کی تحریرات کے اثر سے اپنے علاقہ سے نکال دیا ہے.حضور نے جوا با بتایا کہ سرحدی لوگوں کو اسلامی شعار کی بہت غیرت ہے.چنانچہ گذشتہ ایام میں ایک سپاہی نے ایک انگریز کو محض قبلہ رخ پاؤں کرنے کی وجہ سے قتل کر دیا تھا.لیکن ہم نے بہت کوشش کی ہے کہ وہ لوٹ مار نہ کریں اور یہ خوشکن تغیر ہے کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا.البتہ ہماری یہ تحریک جاری رہے گی کہ وہاں مسلمانوں کی دکانیں کھلیں اور بالمقابل ہندوؤں سے چھوت چھات کی جائے اور فرمایا کہ اسوقت افغانستان ، ہزارہ اور روس کی کروڑوں روپے کی تجارت ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے ہم نے وہاں کے علما اور پٹھانوں کو اس امر پر آمادہ کر لیا ہے کہ وہ ہندوؤں کو نکلنے کے لئے نہ کہیں.بریکار ہونے کے باعث ہند و خود ہی نکل جائے.یہ مشورہ ہمارے مذہب کے مطابق ہے ورنہ پنڈت دیا نند کا مذہب یہ ہے کہ :
319 ”جو شخص و ید اور عابد لوگوں کی دید کے مطابق بنائی ہوئی کتابوں کی بے عزتی کرتا ہے اس وید کی برائی کرنے والے منکر کو ذات ، جماعت اور ملک سے نکال دینا چاہیے (ستیارتھ پرکاش طبع چہارم صفحہ ۵۹) روز نامہ ملاپ نے شرانگیزی کے طور پر لکھا کہ : گورنمنٹ کا فرض ہے کہ جن علاقوں سے ہندوؤں کو جلا وطن کیا گیا ہے ان علاقوں پر چڑھائی کر کے ان علاقوں کو انگریزی علاقہ کے ساتھ شامل کر لینا چاہیے“ ایک سرحدی نامہ نگار نے انگریزی روز نامہ ٹریبیون کے اس بیان کی تردید کی کہ علاقہ سرحد کے ہند و معمولی سامان لیکر نکلے ہیں اور اپنی جائیداد سے محروم رہے ہیں اور بتایا کہ ان جانے والوں کا قرض ادا کیا گیا.اور اگر وہ مقروض تھے تو ان سے قرض کا مطالبہ نہیں کیا گیا اور مسلمان پولیٹیکل افسران نے بھی ان کا خاص خیال رکھا اور مسلح جر گہ حفاظت کے لئے ساتھ آیا.مزید لکھا کہ چونکہ منظم جماعت احمدیہ نے چند دن میں ہی مسلمانوں میں بیداری پیدا کر دی ہے اس لئے یہ لوگ حضرت امام جماعت احمدیہ پر الزام لگاتے ہیں.حالانکہ ان کی تلقین کی وجہ سے سرحدی لوگوں نے اپنا جوش دبائے رکھا ور نہ اور ہی گل کھلتے.( الفضل ۲/۸/۲۷ و ۱۹/۸/۲۷) روزنامہ انقلاب لاہور نے حضرت امام جماعت احمدیہ کی تعریف کی کہ اس موقعہ پر امام صاحب مسجد لندن کو ہدایات دیں اور انکی مساعی سے پارلیمنٹ میں بھی سوال اٹھا.اور وزیر ہند کو راجپال کے تعلق میں محضر نامہ بھجوانے کے لئے مختلف النسل مسلمانان مقیم انگلستان کے دستخط حاصل کئے جار ہے ہیں.(۳۸-۲۷ بحواله الفضل ۲۷-۸-۱۲ صفحه ۴ ) قائم مقام چیف جج مسٹر جسٹس براڈوے اور مسٹر جسٹس سکیمپ نے ورتمان کے مقدمہ میں مضمون نگار اور ایڈیٹر کوعلی الترتیب ایک سال قید با مشقت اور پانچ صد روپیہ جرمانہ اور چھ ماہ قید سخت اور دوصد روپیہ جرمانہ کی سزادی.اس فیصلہ سے ثابت ہوا کہ دفعہ ۱۵۳الف کی جو تشریح جسٹس دلیپ سنگھ نے کی تھی غلط تھی اور مسلمانوں کا یہ مطالبہ بجا تھا کہ وہ صوبہ کی اعلیٰ عدالت کی جی کے اہل نہیں.( الفضل ۲۷-۸-۱۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فراسة المومن کو اللہ کا نور قرار دیا ہے.انبیاء وخلفاء راشدین فراست سے بہرہ وافر پاتے ہیں.جب لوہا گرم تھا تو اسے حضرت امام جماعت احمدیہ نے
320 کوٹ کر مناسب رنگ میں ڈھالا.ملت مسلمہ خواب خرگوش میں محو تھی.اسے بیدار کیا.دیگر تمام مسلم رہنما ( بشمول ان کے جو بعد میں تحریک ختم نبوت وغیرہ میں مخالفت احمدیت میں حد سے تجاوز کر کے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کی کوشش کرنے لگے ) اس تحریک حفاظت ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت امام جماعت احمدیہ سے متفق تھے.آپ کی اس تحریک نے مسلمانوں کی بےحسی دور کرتے ہوئے ان کی اقتصادی حالت کو درست کر کے جس طرح ان کے بخت خفتہ کو بیدار کیا.کوئی بیدار مغز اس سے انکار نہیں کر سکتا.اگر حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے.تو یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہ ہو گا کہ حضور کی اس تحریک کے اثرات نہایت دور رس تھے اور دور بینی پر مبنی تھے اور بعد کی مسلمانان ہند کی ساری سیاسی و اقتصادی ترقیات اسی محور کے گردگھومتی تھیں اور حضور کی دانشمندانہ اور مخلصانہ مساعی کی مرہون منت ہیں.(۶) بابت روزنامہ زمیندار روز نامہ زمیندار لاہور کے بعض شرانگیز اور منافرت خیز مضامین کی بناء پر اس سے تین ہزار روپے کی ضمانت طلب کی گئی تھی.اور اس کے شرارت جاری رکھنے کے باعث اس کا مطبع ضبط کر لیا گیا تھا.اس نے اخبار میں تحریر کیا کہ حکومت کے بہت سے کارندے اس کی مالی امداد کر رہے ہیں اور اس بھروسہ پر اس نے اس امر کا اظہار کیا کہ عنقریب حکومت کو اپنی غلطی کا اقرار کر نا پڑیگا.( بحواله الفضل ۳۵-۳-۲۱) ہائی کورٹ میں مرافعہ کی سماعت میں مولوی ظفر علی ایڈیٹر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جھوٹے الزامات لگائے کہ حضرت عیسی کو گالیاں دی ہیں اور عدالت عالیہ کو جماعت احمدیہ سے بدظن کر کے کامیابی حاصل کرنا چاہی.محترم چوہدری صاحب نے ۱۵؍ مارچ ۱۹۳۵ء کو زمیندار کے اس مقصد کو واضح کرتے ہوئے درخواست دائر کی کہ اس بیان کے پُر از اتہامات حصص کو مسل سے حذف کر دیا جائے.تو اسکے وکیل نے یہ سوال اٹھایا کہ چوہدری صاحب اس قسم کی درخواست پیش کرنے کے مجاز نہیں.فاضل ججوں نے ان حصص کر حذف کر دیا.اور ایڈیٹر کے مرافعہ کومستر دکرتے ہوئے خرچہ کا بار بھی ڈالا اور اپنے فیصلہ میں تحریر کیا کہ حکومت کا نظریہ درست ہے.زمیندار نے اپنے اس مضمون کے ذریعہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں جذ بہ منافرت پیدا کرنے کی کوشش کی اور نظم
321 میں ارتکاب قتل کی ترغیب یا اس کی جھلک پائی جاتی ہے.( الفضل ۳۵-۳-۲۲) (۷) احرار کا نفرنس اور اسکے نتائج: ڈیڑھ سال سے باہر سے آمدہ چند احراری قادیان میں فتنہ انگیزی کر رہے تھے.۱۹۳۴ء کے جلسہ سالانہ پر ایک مولوی کی آمد کی آڑ میں جلوس نکال کر سخت اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے اور نہایت گندہ لٹریچر احمدی خواتین تک میں تقسیم کیا گیا.حکومت نے ان امور کو نظر انداز کئے رکھا.بلکہ یہ امور بھی نذر تغافل رہے کہ بعض مقامات ضلع میں احمدیوں کو مجبور کر کے دیہات سے نکال دیا گیا.زدوکوب کیا گیا.اور درندہ صفت لوگوں نے ایک احمدی عورت کو بھی لاٹھیوں سے پیٹ.بعض دیگر اضلاع میں بھی یہ صورت رونما ہوئی لیکن قانون حکومت حرکت میں آیا تو صرف قادیان میں اور وہ بھی احمدیوں کے خلاف اور وہ بھی اس آڑ میں کہ جماعت احمدیہ نے احراری فتنہ انگیزیوں کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ایک جلسہ کیا.اس سے حکومت کو فوراً انقص امن کا خطرہ نظر آنے لگا.اور قادیان اور ملحقہ دیہات میں ۳۰ / جنوری سے دوماہ کیلئے دفعہ ۱۴۴ شری نگیش ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور کی طرف سے نافذ کر دی گئی.(الفضل ۳۵-۲-۳) ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں اسکی تنسیخ کی درخواست دی گئی.اور مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے پیروی کی اور چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر اعلی ، میر قاسم علی صاحب، شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ( رضی اللہ عنہم) اور بعض دیگر معززین کی شہادتیں پیش کیں کہ جس اطلاع کی بناء پر یہ حکم نافذ کیا گیا ہے ، وہ غلط ہے.اور بتایا گیا کہ احمدیوں کے جلسہ میں نہ کسی حاکم کو گالیاں دی گئیں.نہ کسی کو قتل کی دھمکی دی گئی اور نہ ہی کوئی اثر تھا کہ بدامنی اور نقص امن کا خطرہ ہوتا.مکرم شیخ بشیر احمد صاحب نے فاضلانہ تقریر میں بتایا کہ یہ نفاذ سراسر غیر ضروری اور خلاف قانون ہے.بفرض محال کسی مقرر یا سامعین میں سے کسی کی طرف سے کوئی بات قابلِ اعتراض صادر ہوئی تھی تو اسکے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی نہ کہ ساری پبلک کو جائز حقوق سے محروم کر دیا جاتا.قیام امن کے دیگر ذرائع موجود ہیں.کافی تعداد میں پولیس کی پون صد نفری اور ایک مجسٹریٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس وہاں موجود ہیں اسلئے نقض امن کا خطرہ نہیں ہوسکتا.یہ نفاذ جماعت احمدیہ کی امن پسندانہ بے نظیر روایات کے خلاف ایک اقدام ہے.قادیان چونکہ جماعت احمدیہ کا مرکز ہے اس کا
322 واجب الاطاعت امام یہاں رہتا ہے.اسلئے یہاں کے احمدیوں کے متعلق جو بات ہوگی وہ ساری دنیا کے احمدیوں پر اثر انداز ہوگی.دیگر مقامات کے احمدیوں کے متعلق یہ صورت نہیں سرکاری وکیل نے کہا کہ جن حالات میں یہ دفعہ نافذ کی گئی تھی وہ جوں کے توں ہیں.البتہ اگر کوئی خاص تکالیف ہوں تو انکا ازالہ کیا جا سکتا ہے پولیس ہمیشہ وہاں نہیں رکھی جاسکتی.شیخ صاحب نے تکالیف بیان کیں اور بتایا کہ اپنے خیالات کا اظہار نہ کر سکنا بجائے خود ایک بڑی تکلیف ہے.شہریت کے حقوق سے محروم ہو جانا ، اپنی شکایات کا اظہار تعمیری پروگرام کے ضمن میں جلسے ، روح پرور تقریر میں ، سوشل جلسے، اقتصادی بدحالی کو دور کرنے کے لئے جلسے یہ سب منع کر دئے گئے ہیں.اگر پولیس وہاں ہمیشہ نہیں رکھی جاسکتی تو کیا یہ دفعہ ہمیشہ جاری رکھی جاسکتی ہے چونکہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے درخواست نامنظور کر دی تھی.اسلئے سیشن جج کی عدالت میں درخواست دی گئی اور مکرم شیخ صاحب پیش ہوئے لیکن سیشن جج نے بھی درخواست نا منظور کر دی.( الفضل ۱۷و۲۴ و ۲۸ رفروری ۱۹۳۵ء ) جناب چوہدری صاحب کی اس بارہ میں اپیل کی ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی.آپ نے بحث میں بتایا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے قادیان اور اسکے گردو نواح کے بارہ گاؤں میں یہ دفعہ نافذ کی ہے مگر یہ حکم بالکل مہم ہے کیونکہ ان جگہوں کا صاف اور واضح الفاظ میں تعین نہیں کیا گیا اور یہ بات پبلک پر چھوڑ دی ہے کہ وہ خود کرے.آیا فلاں جگہ علاقہ ممنوعہ میں شامل ہے یا نہیں.قادیان ایک پھیلی ہوئی آبادی ہے میں بارہ وہاں گیا ہوں.مگر میں قادیان کی حدود کی تعین نہیں کر سکتا.اس دفعہ کا واضح منشاء یہ ہے کہ جگہ کا تعین صاف الفاظ میں ہونا چاہیے.تا کہ غلطی ہونے کا احتمال نہ رہے.آپ نے اس بارے میں بمبئی ہائیکورٹ اور دیگر ہائی کورٹوں کے فیصلے اپنی تائید میں پیش کئے.سرکاری وکیل نے جواباً کہا کہ اس حکم کی میعاد تین دن کے بعد ختم ہورہی ہے.اسلئے فاضل حج کو اس فیصلہ میں داخل دینے کی ضرورت نہیں.اسپر چوہدری صاحب نے کہا کہ اگر ان کی بات مان لی جائے.تو پھر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ایسے احکام کے خلاف کبھی کوئی اپیل ہی پیش نہ ہو سکے گی کیونکہ عدالت عالیہ میں اپیل پہنچتے پہنچتے عموماً اتنا وقت ضرور لگ جاتا ہے.یہ مقدمہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا اور سیشن جج کی عدالت میں پیش ہوا.سیشن جج نے کہا کہ پہلے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نظر ثانی کا فیصلہ کرے پھر ہائی کورٹ میں کچی پیشی پڑی اور آج کی پیشی میں یہ اپیل پیش ہوئی.اس سے پہلے اس مقدمہ کا پیش ہونا کسی حالت میں ممکن نہ تھا.
323 سرکاری وکیل نے جواباً کہا کہ اگر فاضل جج چاہیں تو ملحقہ بارہ دیہات کو حکم سے حذف کیا جا سکتا ہے.چوہدری صاحب نے کہا کہ یہ حکم بالکل خلاف قانون ہے.اگر مقامی لوگوں کو حدود کا پتہ بھی ہو.تب بھی باہر سے آنے والے لوگوں کو کس طرح پتہ چل سکتا ہے.جبکہ حدودا چھی طرح متعین نہیں یہ حکم بہر حال قانون کے پابند لوگوں کی آزادی کے خلاف ہے.قادیان جماعت احمدیہ کا مذہبی مرکز ہے.احمد یوں کو وہاں عملی ، مذہبی اور سیاسی ہر قسم کی ضروریات کے لئے جمع ہونا پڑتا ہے.لیکن اگر کوئی شخص گھر میں چند ا حباب کو بلا کر بھی اجتماع کرے تو قانون کی زد میں آجائے گا.یہ حکم بیحد مبہم ہے.اس میں قانونی معقولیت موجود نہیں اسلئے اسے منسوخ کیا جائے.(الفضل ۳۵_۳۰۳) ہائی کورٹ کے فاضل جج جسٹس ایم.ایم.ایل.کری نے جو فیصلہ صادر کیا جس کی رو سے قادیانی سمال ٹاؤن اور قادیان ریو نیواسٹیٹ اور اس سے ملحقہ ر یو نیواسٹیوں میں پبلک جلسہ یا پانچ سے زیادہ اشخاص کا پبلک اجتماع ممنوع قرار دیا گیا.سوائے ان اجلاسوں کے جو مذہبی ہوں اور معین عبادت گاہوں میں کئے جائیں.اسکے خلاف اپیل سیشن جج نے نامنظور کر دی.مرافعہ میں ہائی کورٹ میں سرکاری وکیل کا یہ خیال تھا کہ اب اس حکم میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے.کیونکہ جس عرصہ کے لئے یہ حکم نافذ کیا گیا تھا وہ تقریبا ختم ہو چکا ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں کا خیال تھا کہ یہ امر تقریباً ناممکن تھا کہ اس سوال کو سیشن جج کی عدالت کے فیصلہ کے بعد ہائی کورٹ میں اتنا عرصہ گذر جانے سے پہلے لایا جا سکتا.فیصلہ حاصل کرنے پر زور دیا.میری رائے میں ایسے مقدمہ میں حکم کی موزونیت پر غور کیا جانا ضروری ہے.جس بناء پر اس حکم پر اعتراض کیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ نہایت مہم ہونے کہ وجہ سے یہ حکم سب سیکشن نمبر ۳ کے منشاء کے خلاف ہے.مسٹر ظفر اللہ خاں کا دعویٰ ہے کہ اس دفعہ کے ماتحت پبلک کو عام طور پر حکم صرف اسی وقت دیا جا سکتا ہے جب وہ ایک معین مقام پر بار بار جمع ہوتے ہوں.ان کی دلیل یہ ہے کہ سمال ٹاؤن اور ر یو نیواسٹیٹ قادیان اور ان سے ملحقہ ریونیواسٹیٹیوں کے الفاظ کسی جگہ کو معین نہیں کرتے.ان حالات میں موجودہ معاملہ میں میرا یہ خیال ہے کہ حکم زیر بحث جہاں تک اس کا تعلق قادیان کے نواحی ریونیو اسٹیوں سے ہے اس قدر مہم ہے کہ یہ نا واجب العمل ہے.اس حکم میں نواحی کے بارہ گاؤں کے نام درج نہیں کئے گئے.اور میرے نزدیک پبلک سے یہ امید رکھنا ایک غیر معقول بات ہے کہ انہیں ریونیو اسٹیٹ کی حدود کے متعلق اس قدر گہرا علم ہو کہ وہ معلوم کر سکیں کہ کوئی جگہ کسی
324 ریونیواسٹیٹ کی ان حدود کے اندر واقع ہے.جو قادیان کی ریو نیواسٹیٹ سے ملحق ہے.میرے نزدیک یہی دلیل ریونیو اسٹیٹ قادیان کے متعلق بھی دی جاسکتی ہے کیونکہ عام طور پر ریو نیواسٹیٹ کی حدود اس قدر نمایاں طور پر نشان شدہ نہیں ہوتیں کہ عام پبلک ان سے واقف ہو سکے.اسلئے میرے خیال میں یہ حکم جہاں تک اس کا ریونیو اسٹیٹ قادیان اور ریو نیواسٹیٹس نواحی قادیان سے تعلق ہے.نہایت مہم ہونے کیوجہ سے نا قابلِ عمل تھا.سمال ٹاؤن قادیان کے متعلق اس ریکارڈ کی بناء پر جو میرے سامنے پیش ہے.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی حدود اس حد تک محدود ہیں کہ عام افراد پبلک کو ان کا اچھی طرح علم ہو.چونکہ اب حکم میعاد گزرچکی ہے.اسلئے اب کوئی ایسا حکم جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حکم کو منسوخ کرتا ہو ، صادر کرنے کی ضرورت نہیں.تاہم میں نے قانونی نقطۂ نگاہ پر اپنے خیالات کا اظہار کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ اس بارہ میں اظہار رائے کیلئے عدالت کو توجہ دلائی گئی اور عدالت کے ججان کی طرف سے دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ کو نا جائز قرار دیا گیا.ورنہ اشرار اور ان کے حامی افسران کا یہ عزم تھا کہ کوئی فتنہ کھڑا کر کے اس کی میعاد کی توسیع کا سامان کیا جائے چنانچہ ۳۰ / مارچ کو تو اس دفعہ کی میعاد ختم ہو رہی تھی اور اسی رات کو ایک احمدی دکاندار کو ایک احراری نے نہایت مخش مذاق کیا اور گالی گلوچ شروع کر دی اور پھر ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی وہ دوست پولیس میں رپٹ لکھوانے اور فساد کے خطرہ سے آگاہ کرنے گئے.گو پولیس نے بصد مشکل رپٹ لکھی.لیکن باوجود اصرار کے خطرہ کے انسداد کی طرف توجہ نہیں کی پھر رات کے گیارہ بجے اسی گالی گلوچ دینے والے اور اسکے اقارب و احباب نے اس احمدی دوست کو نہایت گندی گالیاں دیں اور زبردستی پکڑ کر ایک مکان میں بند کر کے زدو کوب کیا.پولیس کو توجہ دلائی گئی.لیکن انہوں نے موصوف کو جس بے جاسے چھڑانے کے لئے کوئی کارروائی نہ کی.اور دفعہ ۱۴۴ کے باوجود اس خلاف قانون مجمع کو گرفتار نہ کیا گیا.آیا یہ سب کچھ الفضل ۱۹۳۵-۴-۴ و ۱۹۳۵-۴-۱۱ انگریزی روز نامه سول اینڈ ملٹری گزٹ لا ہور نے اس فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ اس قسم کا مقدمہ پنجاب کے ہائی کورٹ کی تاریخ میں سب سے پہلا مقدمہ ہے.دو ہندو اخبارات ” بندے ماترم لاہور اور انگریزی ٹربیون‘ لا ہور نے بھی اس فیصلہ کے متعلق خبر شائع کی.مقدم الذکر ہر دو اخبارات نے چوہدری صاحب کی بحث کا ذکر کیا.الفضل ۱۹۲۵-۴-۵ و ۱۹۳۵-۴-۹)
325 ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے باعث تھا تا اس دفعہ کی مدت میں توسیع کیلئے بہانہ بنایا جائے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو خائب و خاسر رکھا.(الفضل ۱۹۳۰-۴-۲) تبلیغ کا نفرنس کے نام سے احرار کی طرف سے مئی ۱۹۳۴ء میں تین دن ایک کانفرنس منعقد کی گئی.چونکہ ان کے عزائم یہ تھے کہ سلسلہ احمدیہ کی قابلِ احترام ہستیوں پر نا قابل برداشت حملے کر کے جماعت احمدیہ کو جوش دلائیں اور قادیان میں فساد کر وا کے مرکز سلسلہ کو بدنام کریں.احباب قادیان کو انتہائی مظالم ہونے پر بھی خاموش رہنے اور کانفرنس میں شریک نہ ہونے کی تلقین کی گئی ، صدر جلسہ عطاء اللہ صاحب بخاری کی منافرت پھیلانے والی تقریر کے باعث ان کے خلاف زیر دفعہ ۱۵۳ الف تعزیرات ہند دیوان سکھا آنند پیشل مجسٹریٹ گورداسپور کی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا.اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بھی مارچ ۱۹۳۵ء میں تین روز شہادت ہوئی.ان موقع پر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ، پیر اکبر علی صاحب مرحوم شیخ بشیر احمد صاحب ( سابق حج ہائی کورٹ مغربی پاکستان ) ، مرزا عبدالحق صاحب (امیر صوبائی سابق پنجاب )، چوہدری اسد اللہ خان صاحب (امیر جماعت ضلع لاہور ) اور مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر مشیر قانونی صدر انجمن احمدیہ ( حال پنشر مقیم ربوہ ) بھی حضور کے ہمراہ تھے.بخاری صاحب کو چھ ماہ قید کی سزا ہوئی.اپیل پر جے.ڈی.کھوسلہ سیشن جج گورداسپور نے جرم کو محض اصطلاحی قرار دیتے ہوئے تا برخواستگی عدالت قید کی سزا دی.اور فیصلہ میں جماعت احمدیہ کی بزرگ ہستیوں پر نہایت ناروا حملے کئے.یہ فیصلہ کیا تھا گندہ دہنی کا ایک پلندہ تھا.گویا مقدمہ بخاری صاحب کے خلاف نہیں تھا بلکہ حضرت بانی سلسلہ و حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ کے خلاف تھا.افسوس کہ سرکار نے عدالت عالیہ میں صرف اپنے متعلق امور پر ہی نگرانی کی.اس لئے جماعت احمدیہ کی طرف سے نگرانی دائر کی گئی اور شیخ بشیر احمد صاحب ، مرزا عبدالحق صاحب ، پیرا کبر علی صاحب مرحوم ، چوہدری اسد اللہ خاں صاحب اور مولوی فضل الدین صاحب اس کے پیروکار مقرر کئے گئے.ڈاکٹر سر تیج بہادر سپر و بیرسٹر الہ آباد بھی ہائی کورٹ بھی جماعت کی طرف سے پیش ہوئے.جسٹس کولڈ سٹریم حج عدالت عالیہ لاہور نے اپنے فیصلہ میں کھوسلہ مذکور کے فیصلہ کے خلاف سخت ریمارکس کئے اور لکھا کہ سیشن جج نے خواہ مخواہ اپنا راستہ چھوڑ کر ایسے فریق کو کو سا ہے جو فریق مقدمہ نہیں تھا.* احرار نے جب ۱۹۳۴ء میں قادیان میں ایک عظیم الشان اجتماع کیا اور اس وقت سے پنجاب
326 کے علاوہ بالخصوص قادیان و مضافات میں جماعت احمدیہ کے خلاف شرانگیزی کا آغا ز کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے طرف سے مضافات میں تبلیغ کی خصوصی مہم کا آغا ز زیر نگرانی حضرت چوہدری فتح صاحب سیال کیا گیا.بفضلہ تعالیٰ اسمیں عظیم کامیابی حاصل ہوئی.مخالفت کا زور الحکم ۲۸ مارچ و ۷ /اپریل ۱۹۳۵ - الفضل ۲۵ و ۲۷ تا ۲۹ / مارچ ۱۹۳۵ء.سالانہ رپورٹ ۱۹۳۴۳۵ء (صفحہ ۱۸۶ تا ۱۸۸) و بابت ۳۶-۱۹۳۵ء ( صفحه ۱۵۱و۱۵۲) حضور کی شہادت کے ایام میں تینوں روز پیشل ٹرینیں قادیان سے گورا دسپور تک چلائی گئیں.جس کا سارا انتظام نظارت امور عامہ کا تھا.جسکی طرف سے ٹکٹ جاری ہوتے اور رقم وصول کر کے پانچ صد افراد کا کرایہ ریلوے کو ادا ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی طرح ان ایام میں گورداسپور میں تبلیغ بھی ہوئی.تقریر میں ہوئیں.ایک جلسہ میں حضور نے بھی تقریر فرمائی.نوے افراد نے احمدیت قبول کی.فَالْحَمْدُ اللهِ عَلَى ذَلِكَ.اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ اس کا انتقام عجیب رنگوں میں ظاہر ہوتا ہے.وہی سیشن حج بالآخر چیف جسٹس ہائی کورٹ مشرقی پنجاب کے مرتبہ تک پہنچا.ظاہراً انتہائی ترقی ہوئی.اسکے ریٹائر ہوتے وقت اخبارات میں اس کی قابلیت کے گیت گائے گئے.لیکن تقدیر خندہ زن تھی.چندی گڑھ بارایسوسی ایشن نے الوداعی تقریب کا انتظام کیا جو موصوف نے قبول کر لیا لیکن عین اس سے قبل ایک نمائندہ پریس نے موصوف سے ملاقات کی.اور اسکی رپورٹ اخبارات میں شائع کی.جس میں موصوف کے خیالات وکلاء کو شدید دلآزار معلوم ہوئے.اور وکلاء نے باوجود پورا انتظام ہو جانے کے اس تقریب کو منسوخ کر دیا.اس نے ایک مضمون شائع کیا جو وکلاء کے لئے مزید دل آزاری کا موجب ہوا اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف دل آزار کلمات کہے اور ایسی حیثیت میں کہے کہ جب کہ وہ عدالت کی کرسی پر جاگزیں تھا.اور اسے کسی قسم کی سزا کا خوف نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے اسے اس وقت چاہ ذلت میں اُوندھے منہ گرایا جبکہ وہ انتہائی رفعت پر پہنچ کر پوری طرح سرخرو ہو رہا تھا.اور اخبارات میں اسکی قابلیت کی تعریف میں پل باندھے جارہے تھے اور پوری عزت و آبرو.تو قیر و احترام اور اکرام و احتشام کے ساتھ سبکدوش ہونے کو تھا لیکن خداوند ذ والانتقام کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی جس کا تصویری اظہار تقریر سے بھی افضح ہوتا ہے.یکا یک یوں نظر آیا کہ وہ انہی آخری لمحات کی خاطر چھپیں چھبیس سال خاموش رہا اور لوگوں کی نظر میں یہ
327 ختم ہوا.علاقہ کے معززین جماعت میں داخل ہوئے.قریہ یہ قریہ نئی جماعتیں قائم ہوئیں.بقیہ حاشیہ: امرنسیا منسیا ہو چکا تھا.سچ ہے.لَا يَضِلُّ رَبِي وَلَا يَنْسَى - اس کا بازوئے قدرت اور دست انتقام عین آخری وقت پر اس کے اعزاز پر ایک کاری ضرب لگا تا ہے.اور اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ اسکی ساری عزت و آبروریت کا ایک گھروندہ تھا.جو خاک میں مل گئی.اور موصوف اپنے حال زار سے پکار اٹھتا ہے.بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچہ سے ہم نکلے 66 سچ ہے.إِنَّمَا الْاِعْتِبَارُ بِالْخَوَاتِيم - جماعت احمدیہ کی نظر ثانی کی درخواست پر ہائی کورٹ نے موصوف کے ریمارکس کو دل آزار اور نا واجب قرار دیا.لیکن موصوف کو اللہ تعالیٰ نے ایسے رنگ میں بے آبرو کیا کہ نہ اسپر اسکی دلیل سنی جا سکتی ہے نہ وہ کسی جگہ اپیل کر سکتا.اور نہ وکیل پیش کر سکتا ہے گویا اسکی بے عزتی کا داغ انمٹ طور پر ایک دل آزار لیبل کے طور پر اسکے ماتھے پر چسپاں کر دیا گیا ہے.البتہ اسکے دل میں بقیہ عمر بھر سو سوا بال اٹھتے رہیں گے.اور وہ ہمیشہ کڑھتا ر ہیگا.گویا جیتے جی ایک جہنم میں ڈال دیا گیا ہے.فَاعْتَبِرُوْا يَا أُولِى اللَا بُصَارِ - سطور بالا سپرد قلم کرنے کے کچھ عرصہ بعد روز نامہ ” پرتاب جالندھر کے خاص نامہ نگار مقیم چند یگڑھ کی طرف سے بہ عنوان ” پنجاب کے سابق چیف جسٹس شری کھوسلہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی.ذیل کی خبر شائع ہوئی ہے:.پروٹسٹ“ ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کی طرف سے شری کھوسلہ کے ایک مبینہ قابل اعتراض مضمون پر چندی گڑھ ۱۲ رمئی پنجاب کے ریٹائرڈ چیف جسٹس شری جی.ڈی کھوسلہ نے پنجاب کے انگریزی روز نامہ میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں وکلاء پر جو حملے کئے تھے.ان کی بناء پر پنجاب ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے شری کھوسلہ کے خلاف مناسب کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے.شری کھوسلہ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے امکانات کا جائزہ لینے کے لئے دیش کے سرکردہ وکلاء سے جن میں سے شری سیتلو اد اور شری دفتری شامل ہیں.مشورے کئے جار ہے ہیں.اگر شری کھوسلہ کیخلاف قانونی کارروائی کی گئی تو یہ بھارت میں اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہوگا.بھارت کے وزیر قانون شری اشوک سین ، پردھان منتری شری نہرو کو پروٹسٹ کے تار ارسال کئے گئے ہیں.
328 ۴۲ - ۱۹۴۱ میں اس علاقہ میں تمہیں مبلغ مصروف عمل تھے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اس عرصہ میں بقیہ حاشیہ : - ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک پرستاؤ ( ریزولیوشن ) پاس کیا ہے جسمیں کہا گیا ہے کہ اسے مضمون پڑھ کر صدمہ ہوا.جس میں وکلاء اور ایڈووکیٹ جنرل شری مترسیکری اور ان کی دھرم پتنی پر مبینہ طور پر کیچڑ اُچھالا گیا تھا.ایسوسی ایشن نے شری کھوسلہ کیخلاف ضروری کارروائی کے لئے چھ ممبروں پر مشتمل کمیٹی مقرر کر دی.یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شری کھوسلہ پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ مضمون میں دئے گئے نام زندہ یا مردہ اشخاص کے نہیں بلکہ یہ فرضی ہیں.“ ( ۶۲.۵.۱۳) مئی ۱۹۶۲ء میں ہفت روزہ انگریزی بلٹز (Blitz) نے بھی اس بارہ میں ایک مضمون لکھا ہے اور زیر تجویز مقدمہ کا ذکر کیا ہے.اخبار پرتاپ مورخہ ۱۹۶۲-۸-۱۲ میں اا راگست کے متن ذیل کی خبر شائع ہوئی ہے کہ : شری سرو متر سیکری ایڈووکیٹ جنرل نے جوڈیشل مجسٹریٹ سردار گورنام سنگھ کی عدالت میں پنجاب ہائی کورٹ کے ریٹائر ڈ چیف جسٹس شری جی.ڈی.کھوسلہ کے خلاف زیر دفعہ ۵۰۰ ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے دعوئی میں لکھا ہے کہ شری جی.ڈی.کھوسلہ نے بعنوان سانپ (بالغوں کیلئے ) ایک کہانی ۱/۲۹ اپریل کی ٹربیون میں شائع کی ہے جو شری سیکری اور ان کی بیوی کے متعلق ہے اور اس کی اشاعت سے ان دونوں کی ہتک ہوئی ہے.عدالت نے شری جی.ڈی کھوسلہ کے نام ۱۵ ستمبر کو حاضر ہونے کیلئے سمن جاری کر دئے ہیں کیونکہ دعویٰ قابل سماعت ہے.کہا جاتا ہے کہ آزاد ہندوستان میں یہ پہلی مثال ہے جبکہ ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کیا گیا ہے.اور وہ ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے.‘‘ (صفحہ۳ ) خاکسار مولف عرض کرتا ہے کہ کھوسلہ مذکور مرکز قادیان کی اہمیت اور جماعت کی ترقی میں کوئی روک نہ ڈال سکا.اللہ تعالیٰ نے اسے دکھایا کہ تمہارے فیصلے کے بعد جماعت احمدیہ نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی.عالم عیسائیت اس کے سامنے کانپنے لگا.باوجود تقسیم ملک کے قادیان کا مرکز قائم ہے اور اس سے اعلائے کلمتہ اللہ کا فیض جاری وساری ہے.البتہ تمہاری عزت....اوہ تمہارے ہی بھائی بندوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں.احمدی کہہ سکتے تھے اور بجا طور پر کہہ سکتے ہیں.کہ ایک دشمن دوسرے دشمن کا ساتھی بن جاتا ہے اور وہ صرف الْكُفْرَ مِلَّةً وَاحِدَہ کا مظاہرہ تھا.لیکن
329 ۱۳۵ اعزازی طور پر اس علاقہ میں تبلیغی کام سرانجام دیا اور حضرت سیال صاحب کے ساتھ بھی اور الگ بھی تبلیغی دورے کئے.مقامی تبلیغ پانچ چھ سال قبل سے شروع تھی ۴۳.۱۹۴۲ء میں اس کے دائرہ عمل کو تحصیل ہائے بٹالہ وگورداسپور کے علاوہ ملحقہ اضلاع امرتسر، سیالکوٹ، جالندھر اور ہوشیار پور تک وسیع کر دیا گیا تھا.گو ان اضلاع میں کام ابھی بہت محدود حد تک تھا لیکن بہر حال تبلیغی بقیہ حاشیہ:.تم تو اپنے بھائی بندوں کے متعلق یہ بھی نہیں کہہ سکتے.وہی لوگ جن کی زبانیں کل تک مائی لارڈ ، یور لارڈ شپ کہتے سوکھتی تھیں.آج ان کی ہی نہیں عوام کی نگاہ میں تمہاری کیا عزت و آبرو باقی ہے؟ مزید کچھ بھی نہ ہو.جو ہو چکا وہی سلب احترام کے لئے کافی و وافی ہے.تم نے جس وقت اپنا ز ور قلم حضرت مرزا صاحب کے خلاف صرف کیا اسکے بعد بلا مبالغہ ہزار ہا غیر مسلم دامن احمدیت سے وابستہ ہوئے اور انہوں نے لاکھوں روپے احمدیت پر نچھاور کئے.اپنے بیسیوں جگر گوشے احمدیت کی اشاعت کے لئے وقف کئے.دن رات وہ آپ پر سلام و درود بھیجتے ہیں.جرمنی وغیرہ میں کئی مساجد تعمیر ہوئیں.غیر ممالک میں دسوں نئے مشن کھلے.اور مجاہدین و مبشرین اسلام کی تعداد کئی گنا ہوگئی.جماعت احمدیہ کی طرف سے تمہارے فیصلہ سے قبل ایک بھی ترجمہ قرآن مجید غیر ملکی زبان میں شائع نہیں ہوا تھا.اسکے بعد جماعت نے انگریزی ، جرمنی ، ڈچ ، انڈو نیشین اور سواحلی زبانوں میں تراجم شائع کرنے کی توفیق پائی.روسی وغیرہ کئی زبانوں میں تیار ہو چکے ہیں جو عنقریب زیور طبع سے مزین ہونگے.تائید احمدیت میں متعد زبانوں میں سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں تالیف ہوئیں.مشرقی افریقہ ، مغربی افریقہ، پاکستان، امریکہ ، سوئٹزرلینڈ ، انڈونیشیا، ماریشس وغیرہ ممالک سے بیسیوں رسالے و اخبارات جماعت کی طرف سے جاری ہوئے.اغیار نے اعتراف کیا کہ مغربی افریقہ میں اگر ایک شخص عیسائیت قبول کرتا ہے تو دس اسلام قبول کرتے ہیں.احمدیت کے مبلغین کی کامیابی کا کیسا شاندار اعتراف ہے.حقیقت تو یہ ہے کہ ذلت کا حالیہ سامان نہ بھی ہوتا یا زیر تجویز مقدمہ نہ بھی ہوتا تو بھی دوسرے رنگ میں ایسا سامان ہو چکا تھا.کیا اسکے دل میں اور عطاء اللہ مذکور کے دل میں یہ حسرت کی آگ نہیں جلائی گئی تھی کہ جس جماعت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی اس کا ذرہ بھر بھی نقصان نہیں ہوا.اس سلسلہ اور اسکے بانی کی نیک شہرت دن دونی رات چوگنی ترقی کرتی جا رہی ہے.یہ حسرت ہی عذاب کا رنگ رکھتا ہے.چاند پر تھوکنے سے چاند کو کیا نقصان؟
330 مورچے قائم کر دئے گئے تھے.) اس سال اس انتظام کے تحت ایک ہزار افراد جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے.* (۸) باؤنڈری کمیشن باؤنڈری کمیشن کے سامنے محترم چوہدری صاحب نے نہایت عمدگی سے کیس پیش کیا لیکن پھر بھی مخالفین نے آپ پر زبان طعن دراز کی.موقر روز نامہ ” نوائے وقت لاہور قمطراز ہے کہ: اس کام کے لئے صدر انجمن کی طرف سے علاوہ مرکزی عملہ کی تنخواہوں کے ) صرف ایک ہزار روپیہ سالانہ ملتا تھا.بقیہ بھاری اخراجات چندہ فراہم کر کے پورے کئے جاتے تھے.ستائیس افراد ( بشمول چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب) باقاعدگی سے چندہ دیتے تھے.بقیہ حاشیہ:.تمہارے فیصلہ کے وقت تقدیر خندہ زن تھی.کیونکہ فیصلہ وہی ہوتا ہے جو آسمان پر ہو زمین والوں کی بھلا کیا مجال کہ آسمانی نوشتوں کو بدل سکیں.آسمان پر یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ - وو إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَاهَا نَتَكَ وَإِنِّي مُعِيُنٌ مَنْ أَرَادَاعَا نَتَكَ 66 خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا.اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اُٹھے گا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں.اور تیرے نا کام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے.اور نا کامی اور نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کریگا.‘ (صفحہ ۱۴۵ تا ۱۴۶) آسمانی فیصلہ ہی غالب ہوتا ہے.اس نے تمہارے فیصلہ کو کالعدم کر دیا اور لاکھوں نفوس اور بیسیوں ممالک میں حضرت مرزا صاحب کی محبت قائم کر دی اور عطاء اللہ مذکور اپنے مقاصد میں نا کام ہو کر مرا.اس کی جمعیت خائب و خاسر ہوئی اور تم جو ا سکے حامی تھے.تمہیں اللہ تعالیٰ نے زمین سے اٹھا کر بلندی پر لیجا کر وہاں سے اوندھے منہ گرایا.تا کہ اپنی فرعونیت کے باعث فرعون کی طرح عبرت کا سامان ہو.کاش اب بھی تو بہ کرو کہ ابھی تمہارا جام عمر لبریز نہیں ہوا اور اس پاک جماعت میں شامل ہو کر اپنے کئے پر پچھتاؤ.تا عاقبت سنور سکے.
331 ۱۹۴۶ء میں قائد اعظم کی طرف سے آپ ریڈ کلف کمیشن کے سامنے مسلمانوں کا کیس پیش کرنے کے لئے مامور ہوئے.جو افراد کمیشن کے ارکان کی حیثیت سے حج بنا کر بٹھائے گئے تھے وہ با عتبار تجربه و صلاحیت آپ کے مقابلہ میں طفلان مکتب سے زیادہ حیثیت نہ رکھتے تھے.آپ نے ملت کی وکالت کا حق ادا کیا.اور چار دن تک مسلمانوں کی طرف سے نہایت مدلل ، نہایت فاضلانہ اور نہایت معقول بحث کی.جس خوبی اور قابلیت کے ساتھ آپ نے مسلمانوں کا کیس پیش کیا ، اس سے مسلمانوں کو اتنا اطمینان ضرور ہو گیا کہ ان کی طرف سے حق وانصاف کی بات نہایت مناسب اور احسن طریق سے ارباب اختیار تک پہنچادی گئی ہے پنجاب کے سارے مسلمان ان کی اس خدمت کے معترف اور شکر گزار ہیں.پاکستان کے سابق چیف جسٹس محمد منیر جو اس وقت وزیر قانون ہیں ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت کے صدر تھے.وہ فیصلہ میں باؤنڈری کمیشن کے تعلق میں رقم فرماتے ہیں : عدالت ہذا کا صدر جو اس کمیشن کا ممبر تھا.اس بہادرانہ جد و جہد پر تشکر وامتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے.جو چوہدری محمد ظفراللہ خاں نے گورداسپور کے معاملہ میں کی تھی.یہ حقیقت باؤنڈری کمیشن کے کاغذات میں ظاہر وباہر ہے.اور جس شخص کو اس مسئلے سے دلچسپی ہو.وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات سرانجام دیں.ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالت تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے.وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے.۱۲.آل انڈیا پارٹیز کانفرنس میں شمولیت: آل انڈیا پارٹیز کانفرنس نے امرتسر میں اپنے اجلاس میں شمولیت کیلئے حضرت امام جماعت احمدیہ کو بھی دعوت نامہ ارسال کیا حضور نے کانفرنس کے پروگرام کے متعلق نہایت بیش قیمت مشورے دیئے.اور بتایا کہ کن خطوط پر مسلمانوں کے فرقوں میں اور ہندو مسلمانوں میں مذہبی تعریفیں
332 الگ الگ ہیں جنہیں تسلیم کرنے پر ہی اتحاد قائم ہو سکتا ہے.سیاسی امور میں مسلمان اتحاد کریں.بے شک تبلیغی نظام قائم کیا جائے.لیکن ہر فرقہ کیلئے الگ الگ علاقہ مقرر کر دیا جائے.جہاں ہر فرقہ غیر مسلموں بالخصوص اچھوت کہلانے والوں میں اپنی مخصوص عقائد کے مطابق تبلیغ کرنے میں آزاد ہو.ہندومسلم تعلقات کے متعلق بھی نہایت پیش قیمت نصائح فرمائے.جن پر بعد میں مسلم رہنماؤں نے عمل کیا.اس میں علیحدہ حق نیابت اور ملازمتوں میں علیحدہ نسبتی حق طلب کرنے پر زور دیا گیا تھا.( الفضل ۱۹۲۵.۷ - ۱۸) حضور نے اپنی طرف سے سات نمائندگان بشمول محترم چوہدری صاحب کا نفرنس میں شرکت کے لئے بھجوائے (ص ازیہ مدینہ اسی ) علماء دیوبند ، جمعیۃ العلماء اور امرتسری مولویوں نے احمدیوں کی کانفرنس میں میں شرکت سے انکار کر دیا.۱۳۸ جمعیۃ علماء ہند نے اس بارہ میں باقاعدہ فیصلہ بھی کیا.بھلا ایسے حالات میں اتحاد مسلم کا خواب کیونکر شرمندہ تعبیر ہوسکتا تھا.اور یہ اقتدار کی بھو کی جمعیتیں بھلا کب اتحاد المسلمین اور اشاعت اسلام کی خواہاں ہوتی ہیں ؟ سچ ہے ، دِينُ مُلَّا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَسَادِ آپ کا اسوہ حسنہ آپ کا اُسوہ حسنہ اور اق سابقہ سے ظاہر ہے.تاہم بعض امور کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے محترم محمد عثمان صاحب لکھنوی تحریر کرتے ہیں کہ جناب چوہدری صاحب نے مجھے اطلاع دی کہ کلکتہ جاتے ہوئے چند گھنٹے لکھنو میں قیام کرینگے.چنانچہ میرے ہاں آپ نے چائے نوش فرمائی.( مشہور ادیب ) جناب شوکت تھانوی صاحب اور جناب مولوی محمد یوسف علی صاحب انصاری تحصیلدار پر جو اس موقعہ پر موجود تھے ، آپکی سادگی اور ایک غریب احمدی کے ہاں چلا آنے کا بہت اثر ہوا.اور انکو حیرت تھی.آیا احمدیت ایسی کایا پلٹ دیتی ہے اور ایسی اخوت پیدا کر دیتی ہے.اس طرح آپ ایک خاص رنگ میں تبلیغ کر گئے اور احمدیت کا ایک خاص اثر چھوڑ گئے.( الفضل ۱۹۳۳-۲-۹) جناب سردار اقبال سنگھ صاحب ساہی بی.اے ہیڈ ماسٹر بٹالہ نے خاکسار مؤلف سے ذکر کیا کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اپنی وکالت کے زمانہ میں محض مشورہ کی کوئی فیس نہ لینے تھے.فیس مقدمہ لینے پر لیتے تھے.اور جب آپ کے والد ماجد چوہدری نصر اللہ خان صاحب نے وفات پائی تو
333 چوہدری صاحب نے علاقہ کے لوگوں کو یہ پیشکش کر دی تھی کہ والد صاحب نے جس جس شخص.اراضی خرید کی تھی اور اب وہ اسکی فروخت کے باعث تکلیف محسوس کرتے ہوں تو بے شک رقم واپس کر کے اراضی واپس لے لیں.یہ بھی بتایا کہ احمد یہ جماعت کے افرا د رشوت نہیں لیتے اور چوہدری صاحب کا یہ حال تھا کہ جب آپ حکومت ہند میں ریلوے ممبر تھے تو جب کبھی اپنی برادری کے علاقہ کی طرف آنا ہوتا جو شاہدرہ سے نارووال تک آباد تھی.تو یہ لوگ کثرت سے ملاقات کے لئے آتے آپ ان کو کہتے کہ ٹکٹ خرید کر گاڑی میں سوار ہوں.ہند و روز نامہ ملاپ “ لاہور نے لکھا کہ چوہدری صاحب کا استقبال کرنے کے لئے ریلوے اسٹیشن پر صدر پنجاب کونسل چوہدری سر شہاب الدین ، سر عبدالقادر حج ہائی کورٹ.اور سردار سکندر حیات خان ریو نیومنسٹر حکومت پنجاب جیسے معززین آئے.یہ سب صاحبان چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے استقبال کیلئے جمع ہوئے تھے.چوہدری صاحب لنڈن سے آرہے تھے مگر گاڑی گورداسپور سے آرہی تھی.حیرت ہوئی کہ آخر گورداسپور کی گاڑی میں آنے کا کیا مطلب؟ معلوم ہوا کہ آپ پنجاب میں قدم رکھنے کے بعد اپنے خولیش وا قارب کو ملنے سے پہلے اپنے پیرو مرشد خلیفہ ، قادیان کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے تشریف لے گئے تھے...مسلمان اپنے مذہب کا کتنا پابند ہے...اسی اخبار نے مزید لکھا کہ ہندو لیڈر جتنا بڑا ہوتا جائیگا.اتنا زیادہ آزاد خیال حتی کہ دہریہ ہو جائیگا.گول میز کانفرنس کے موقعہ پر کوئی ہندو لیڈ روید اپنے ساتھ نہیں لے گیا.لیکن ہر مسلم لیڈر قرآن مجید لے کر گیا.اور ہر روز اس کا مطالعہ کرتا رہا....اور مزید لکھتا ہے: اس سے بھی بڑھ کر ہندو لیڈر واپس آئے اور اپنی اپنی کوٹھیوں میں چلے گئے لیکن ان ہندو لیڈروں کے لئے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک شمع ہدایت دکھلائی ہے...کہ قوت ایمان اور اپنے مذہب کی محبت ہی اونچا اور بلند کرنے کی طاقت رکھتی ہے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب.....جہاز سے اترے اور ایک دن دہلی رہ کر وہاں سے سید ھے...قادیان جا پہنچے سردار صاحب ۱۹۱۵ء سے ۱۹۴۸ء تک خالصہ ہائی سکول نارووال ( ضلع سیالکوٹ ) کے ہیڈ ماسٹر اور مینجر رہے اور ۱۹۵۷ء سے اس وقت تک گورو نانک نارووال ہائی سکول بٹالہ کے ہیڈ ماسٹر اور مینجر ہیں.
334...چوہدری صاحب نے لنڈن سے واپسی پر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے ”دار الامان میں پہنچے اور وہاں مسجد میں پہنچ کر اپنا فرض ادا کیا اسے کہتے ہیں قوت ایمان..مسلم لیڈروں میں سے کسی نے نہیں تو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے جو مثال پیدا کی اسے دیکھ کر یقیناً ہر ہندو لیڈر (مورخه ۱۹۳۳-۱-۲۶ بحوالہ الفضل ۱۹۳۳-۱-۳۱) شرمندہ ہو رہا ہوگا.“ مؤقر الفضل رقمطراز ہے: وو جناب چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی شخصیت کیا بلحاظ دینداری،سلسلہ سے محبت اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات سے اخلاص کے اور کیا بلحاظ سیاستدانی.اہم ملکی امور کو سلجھانے اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت میں انتھک سرگرمی اور سعی کرنے کے.ہماری جماعت کے نو جوانوں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اصحاب کے لئے قابل فخر اور لائق رشک شخصیت ہے.آپ نے جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک قلیل عرصہ میں ایک طرف سیاسی معاملات میں اپنی اصابت رائے اور اعلیٰ قابلیت کا سکہ بڑے بڑے سیاسی مدبروں کے قلوب پر بٹھا دیا ہے.اور وہ آپ کی مدلل اور پر زور تقریروں ، پیچیدہ اور لانحل مسائل میں اظہار قابلیت کے متعلق فراخدلی کے ساتھ خراج تحسین ادا کر چکے ہیں.وہاں باوجود سیاسی امور میں دن رات کے بے حد مصروفیت کے آپ نے مذہبی فرائض کی ادائیگی اور خدمت دین میں حصہ لینے کے متعلق بھی ایسا نمونہ قائم کیا ہے جو بے حد تعریف و توصیف کے قابل ہے." آپ جتنی دفعہ گول میز کانفرنس کے سلسلہ میں لنڈن تشریف لے گئے ہیں باوجو دسب ممبران کانفرنس سے زیادہ مشغول ہونے کے اور کانفرنس کے اندر اور باہر انگلستان کے ذمہ وار مدبروں اور سیاستدانوں کو مسلمانوں کے نقطۂ نگاہ سے واقف کرنے میں مصروف رہنے کے ہر بار آپ نے کوشش کی کہ احمد یہ مشن لنڈن اشاعت اسلام کے متعلق جو خدمات سرانجام دے رہا ہے.ان میں نمایاں حصہ لیں.اور اشاعت اسلام کا مقدس فرض ادا کریں.چنانچہ ان مواقع پر آپ نے بہت سے لیکچر اسلام کی خوبیوں پر احمد یہ مشن لنڈن میں دئے.نو مسلم انگریزوں کی دینی تعلیم و تربیت میں حصہ لیا اور احمدی مبلغین کو تبلیغی مشن کی ترقی کے متعلق نہایت قیمتی مشورے دئے.آپ جمعہ اور دوسرے مواقع پر.نہ صرف خود مسجد احمدیہ میں تشریف لے جا کر نمازیں ادا کرتے اور دینی خدمات میں شریک ہوتے بلکہ اپنے معزز دوستوں کو بھی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کرتے.غرض ہر ممکن طریق سے آپ
335 نے اشاعت اسلام کے فرض کو پیش نظر رکھا اور ثابت کر دیا کہ جس کے دل میں اسلام کی محبت ہو.جس کے قلب میں اسلام کی بے نظیر خوبیاں جاگزیں ہوں.اور جو شخص اسلام کو اپنی دینی و دنیوی کامیابی کا ذریعہ یقین کرتا ہو.وہ نہ صرف بیحد مصروفیتوں اور سیاسی امور میں سرگرم انہماک کے باوجود ہر جگہ اور ہر موقعہ پر اسلامی فرائض کی ادائیگی سے غافل نہیں ہوسکتا بلکہ وہ دوسروں کو اسلام ایسی نعمت سے بہرہ اندوز کرنے کے لئے کافی وقت نکال سکتا ہے.”جناب چوہدری صاحب کی اسلام کے متعلق یہ سرگرمیاں جن کا نہایت مجمل طور پر یہاں ذکر کیا گیا ہے.جہاں جناب موصوف کو تعریف و توصیف کا مستحق قرار دیتی ، اسلام سے انکی محبت اور اخلاص کا ثبوت پیش کرتی اور انہیں سلسلہ احمدیہ کا ایک قابل اور لائق فرزند ثابت کرتی ہیں.وہاں ہماری جماعت کے نو جوانوں اور خاص کر اعلی تعلیم یافتہ نو جوانوں کے لئے نہایت ہی عمدہ اور قابل تقلید مثال پیش کرتی ہیں.ہماری جماعت کے نوجوان ایک بار نہیں بلکہ کئی بار حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سن چکے ہیں کہ ہر ایک احمدی کا خواہ وہ دنیوی کا موں کے کسی شعبہ میں مصروف ہو.اولین فرض یہ ہے کہ تبلیغ احمدیت میں پوری سرگرمی سے حصہ لے...ہم جناب چوہدری صاحب کی مثال پیش کرتے ہیں.گذشتہ چند سال سے جناب چوہدری صاحب کی سیاسی اور ملکی معاملات میں مصروفیتیں جس قدر وسعت اختیار کر چکی ہیں.ان سے ہماری جماعت خوب اچھی طرح واقف ہے اور خاص کر انگریزی تعلیم یافتہ نوجوانوں پر تو بالکل واضح ہیں اگر چہ یہ مصروفیتیں بھی مذہبی نقطہ نگاہ سے بہت اہم اور ضروری ہیں.کیونکہ انکی غرض بھی اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت ہی ہے تاہم اس دوران میں خالص مذہبی فرائض کی ادائیگی اور خدمات دین کی سرانجام دہی میں بھی جناب موصوف نے نہ صرف کمی نہیں آنے دی.بلکہ ان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز اضافہ ہی کرتے جارہے ہیں.آپ کو خدا تعالیٰ نے مالی لحاظ سے بھی سلسلہ کی قابل قدر خدمات ادا کر نے کی توفیق بخشی ہے.آپ ضروریات سلسلہ کے لئے باقاعدہ اور با شرح چندہ دیتے ہیں اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی فرمودہ ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں.تبلیغ اسلام میں اپنے نمونہ اور اپنی قابلیت سے نہایت ہی قابل رشک مثال پیش کر رہے ہیں اور یہ مثال اس قابل ہے کہ ہماری جماعت کا ہر وہ شخص اور خاص کر ہروہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص جو اپنے اندر دینی فرائض کی ادائیگی کے متعلق کسی قسم کی کمی اور کوتا ہی پاتا ہو.اس سے سبق حاصل کرے.“ ( اللہ تعالیٰ
336 کا شکر گزار عبد بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری ہر قابلیت اور عزت اسکی بھولی بھٹکی مخلوق کو حلقہ عبودیت میں داخل کرنے کا ذریعہ ہو.خلاصہ ) اس موقعہ پر ہم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے اس اخلاص اور محبت کا ذکر کر نا بھی ضروری سمجھتے ہیں جو آپکو مرکز سلسلہ اور حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے.یہ خوبی آپ میں اس درجہ پائی جاتی ہے کہ غیر بھی اس پر رشک کرتے ہیں.‘(جیسا کہ اخبار ملاپ نے بھی اسے قوت ایمان اور اپنے مذہب کی محبت قرار دیا ہے.لیکن ایسی محبت واخلاص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں میں ہے.ورنہ دوسرے مسلمانوں میں حد درجہ تنزل و اد بار رونما ہو چکا ہے.خلاصہ ) ( الفضل ۱۹۳۳.۷.۲) سلسلہ کے لٹریچر میں ذکر ۱۴۰ حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب و محترم چوہدری صاحب کا ذکر سلسلہ کے لٹریچر میں سینکڑوں بار ہوا ہے.اور سابقہ اور آئندہ صفحات میں جن بعض متفرق حوالہ جات کو بیان نہیں کیا گیا.انہیں یہاں حاشیہ میں بلا ختصار درج کیا جاتا ہے.* دور ویا کے شاہد آپ دو عظیم الشان رڈ یا کے شاہد ہیں سید نا حضرت خلیہ انبیع الثانی ایدہ اللہ تعالی نے مصلح موعود ہونے کا ہمقام لاہور ۱۲ / مارچ ۱۹۴۴ء کو اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے متعلق یہ پیشگوئی بھی تھی کہ مجھ پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوگا.کلام الہی کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: رض (الف) بابت حضرت چوہدری صاحب مرحوم (۱) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹ کے ایک دوست کے نام مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: ย چوہدری نصر اللہ خان صاحب سے خصوصاً مل کر میر اسلام کہیں اور وقت کی قدر پر گفتگو کریں اور پوچھیں.کیا وہ میری تکلیف گوارا کرتے ہیں کہ چٹھی لکھنے کی زحمت گوارا کروں.“
337 وو دوسری رویا جس کے کئی انگریز بھی گواہ ہیں اور ہندوستانی بھی.وہ بھی ایسی ہے جس کا کوئی سلیم الطبع انسان انکار نہیں کر سکتا.میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ میں انگلستان میں ہوں اور مجھے کہا گیا ہے کہ کیا آپ ہمارے ملک کو دشمن کے حملہ سے بچا سکتے ہیں.میں ان سے کہتا ہوں کہ مجھے جنگی سامانوں اور اپنے کارخانوں کا معائنہ کرنے دو.اس کے بعد میں اپنی رائے کا اظہار کر بقیہ حاشیہ: محترم ایڈیٹر صاحب الحکم لکھتے ہیں کہ چوہدری نصر اللہ خان صاحب قبلہ اس وقت سلسلہ میں داخل نہیں ہوئے تھے.محبت اور حسن ظن رکھتے تھے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کو بڑی تڑپ تھی کہ چوہدری صاحب سلسلہ میں داخل ہو جائیں.‘ (الحکم مورخہ ۱۹۱۸.۶.۲۱ صفحہ ۵) (۲) مؤقر الحکم میں تحریر ہے : وو جب سے حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کی طبیعت ناساز ہوئی ہے اور نیز اکثر احباب رخصت لیکر آئے ہیں ، اعلیٰ حضرت کا معمول سا ہو گیا ہے کہ قبل دو پہر تشریف لا کر مسجد میں بیٹھتے ہیں.اور مناسب موقعہ کلام فرماتے ہیں.۱۴ ستمبر کو شیخ نور احمد صاحب جالندھری ، چوہدری نصر اللہ خان صاحب پلیڈ رسیالکوٹ آئے تھے.“ (احکام ۱۹۰۵-۹-۲۴ صفہ ۹ ک۱) (۳) مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری روایت کرتے ہیں : ایک دفعہ جماعت شہر سیالکوٹ نے جن میں حضرت میر حامد شاہ صاحب مرحوم ، چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم اور خاکسار شامل تھے.کچھ روپے بطور ہدیہ حضور کی خدمت میں پیش کئے.حضور علیہ السلام نے اس رومال کو جس میں روپے بندھے ہوئے تھے لیا.پہلے الحمد للہ کہہ کر پھر جزاکم اللہ فر مایا.جس سے ہمارے ایمان میں ایک قسم کی ترقی ہوئی.کہ پہلے حضور نے خدا کا شکر ادا کیا.پھر ہمارے لئے دعا فرمائی.“ ( الحکم ۱۹۳۵.۳.۷ صفہ ۴) (۴) الحکم میں درج ہے: اس ہفتہ...چوہدری نصر اللہ خان صاحب پلیڈر سیالکوٹ سے حاضر خدمت امام ہوئے.“ (۲۸/۲۱ / فروری ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۰.زیر دارالامان کا ہفتہ.(۵) جلسہ سالانہ ۱۹۱۹ء کے ایک اجلاس کی صدارت کرنا.(۶) ۲۶ / دسمبر ۱۹۲۱ء کو جلسہ سالانہ کا پہلا اجلاس آپ کی زیر صدارت منعقد ہوا.(۷) حج بیت اللہ شریف کیلئے رخصت لینا.۱۴۳ (۸) رخصت سے واپس آنا ( الفضل ۲۴-۱۲-۳ از یر اخبار احمد یه صفحه۱ ) ۱۴۴ ۱۴۲
338 سکوں گا.چنانچہ میں نے انگریزوں کے جنگی سامانوں کا معائنہ کیا اور میں نے کہا.اور تو سب کچھ ٹھیک ہے.صرف ہوائی جہاز کم ہیں.اگر ہوائی جہاز مل جائیں تو انگلستان کو فتح حاصل ہو سکتی ہے بقیہ حاشیہ: - (۹) حضور انگلستان میں تھے جب چوہدری نصر اللہ خان صاحب نے آپ کی خدمت میں تحریر کیا: میں اپنی قلم اور زبان کو اس بات سے قاصر پاتا ہوں کہ جناب کو جو ہمدردی اس عاجز سے ہے اس کا شکریہ ادا کرسکوں.حضور نے خاص تار کے ذریعہ سے میری واپسی کا دریافت کیا جس سے ثابت ہے کہ حضور کو اپنی جماعت سے ویسی ہی ہمدردی ہے جیسی کہ ایک ایسے باپ کو بچوں سے ہوتی ہے جن میں سے ہر ایک بچہ اپنی جگہ یہ خیال کرتا ہے کہ میں ہی باپ کو سب سے زیادہ عزیز ہوں اللہ تعالیٰ آپ کی اس ہمدردی کو ترقی دیوے.آمین اور ہم لوگوں کو توفیق دے کہ ہم آپ کے سچے جانثار مرید ہوں.‘ ( الفضل ۱۹۲۵.۱.۱۸ صفحہ ۴) (۱۰) نجی کام کیلئے قادیان سے وطن جانا ( ۱۹۲۵-۱۱-۲۴ زیر مدینہ المسیح ) (۱۱) حضور کے ارشاد پر ا ار فروری ۱۹۲۵ء کو بعد نماز عصر احباب مسجد اقصیٰ میں جمع ہوئے.یہ معلوم نہ تھا کہ حضور کیا فرمائیں گے.حضور نے انجمن کی مالی حالت سقیم ہونے کے باعث ایک لاکھ روپیہ چندہ خاص کی تحریک کی.باوجود یہ کہ کارکنان کو تین تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی تھیں جس کا تاجروں پر بھی اثر تھا.تاہم انجمن و نظارت کے کارکنان کی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب و حضرت چوہدری صاحب نے ایک ایک ماہ کی تنخواہ چندہ خاص میں دینے کا وعدہ کیا اور چوہدری صاحب نے ذاتی طور پر پانصد روپیہ کی پیشکش کی.‘ ( ۲۴.۱۱.۱۹۲۵ء صفحہ ۲ ک۱) (۱۲) آپ کی بیعت کا ذکر ( حیاۃ طیبہ ( طبع اول ) صفحه ۲۶۳) (۱۳) مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے اخبار ”اہلحدیث مورخہ ۲۲.۱.۶ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الزام لگایا کہ تحفہ گولڑویہ میں غرض فاسد کیلئے ایک روایت میں رجال کا ( راء کے ساتھ ) کی بجائے دجال ( دال کے ساتھ ) درج کیا ہے اگر دجال ( دال کے ساتھ ) کسی روایت میں دکھلا دو تو تین صدر روپیہ انعام دیا جائیگا.(الفضل ۲۲.۱.۹ نے اس دعوت مقابلہ کو منظور کیا اور چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم.میر محمد اسحق صاحب مرحوم اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل ( حال مهاجر ربوہ ) بطور قائم مقامان الفضل امرتسر پہنچے اور مطالبہ کیا کہ کسی
339 جب میں نے یہ کہا.کہ انگریزوں کے پاس صرف ہوائی جہازوں کی کمی ہے.اگر یہ کی پوری ہو جائے بقیہ حاشیہ: - مسلمہ فریقین کے پاس روپیہ جمع کرایا جائے جو والہ صحیح پا کر رقم ہمارے حوالہ کر دے لیکن تین دن کی خط و کتابت کے باوجود مولوی ثناء اللہ نے حلیہ سازی کے طریق سے ٹال مٹول ہی کیا اس بارہ میں ایک اشتہار شائع کر کے یہ احباب مراجعت فرما ہوئے.) ( الحکم ۷ ۱۴ فروری ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۲) ۱۴۵ ( ۱۴ تا ۱۸) آپ کا وطن جانا.کشمیر جانے کا ارادہ.مراجعت اور عہدہ کا چارج لینا.(۱۹) آپ کی رخصت کے عرصہ میں تین بزرگوں کا تقرر بطور مجلس معتمدین کے میر مجلس.۱۴۶ ناظر اعلیٰ اور افسر بہشتی مقبرہ (الفضل ۲۵-۷-۳۰) زیره مدینه اصبح ) (۲۰) آپ کے وطن میں ایک مناظرہ میں آپ کا ذکر (۲۵-۸-۲۵ صفحه ۲ ک۲) (۲۱) حیاۃ طیبہ میں قبول احمدیت کا ذکر ( طبع دوم صفحه ۳۲۳ و۳۲۴) (۲۲) جلسہ سالانہ کے ایک اجلاس کی ۲۲.۱۲.۲۷ کو صدارت کرنا.(۲۳) بسلسلہ جہادارتداد ملکانہ آگرہ سے واپسی ( الفضل ۲۳-۷-۰ از بر مدینتہ ( ۲۴ تا ۲۵ ) حج پر جانا.(۱۹۲۴- ۴ - ۱۸ و ۲۹/ ۲۵ / اپریل ۱۹۲۴ ء مدینه ای ) (۲۶) حضرت ڈاکٹر رشید الدین صاحب کی وفات پر صدر انجمن احمدیہ کی تعزیتی قرار داد (ب) محترم چوہدری صاحب کی بابت : (۱) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ میں فرمایا کہ ۱۹۱۷ ایک احمدی فوجی پر سختی کی گئی تو میرے کہنے پر چوہدری صاحب نے کمانڈرانچیف سے ملاقات کی.(الفضل ۱۹۴۴-۱۰-۵ صفحه ۳) (۲) لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کی خدمت میں چوہدری صاحب کا احمدیہ وفد کی طرف سے سپاسنامہ ۱۴۷ پڑھنا.( ریویو آف ریلینجز (انگریزی) بابت دسمبر ۱۹۱۹ء) (۳) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صدر کمیٹی شوری کی علالت کے باعث آپ کی جگہ رپورٹ پڑھنا.( ریویو آف رینجنز.( انگریزی بابت جنوری تا مارچ ۱۹۲۳ء صفه ۹۳) (۴) حضور کی طرف سے ذکر کہ میں نے خاتم کے متعلق وہی جواب دیا ، جو چو ہدری صاحب نے اقبال کو دیا تھا.( تقریر جلسہ سالانہ مندرجہ الفضل ۱۹۲۳-۱-۲ صفحہ ۳ کالم۳) (۵) حضور نے چار پانچ روز کے لئے قادیان سے سفر پر جانے کا اعلان کیا.چوہدری صاحب کو حضور کی رفاقت و معیت اس سفر میں حاصل ہوئی.(الفضل ۱۹۲۴-۳-۱۲.زیر مدینہ مسیح ) (۷٫۶ )
340 تو انہیں فتح حاصل ہو سکتی ہے تو یکدم رویا کی حالت میں میں نے دیکھا کہ امریکہ سے تار آیا ہے جس میں لکھا ہے.بقیہ حاشیہ: - گول میز کانفرنس کے تعلق میں مدبرین انگلستان سے ملاقاتیں.( رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ بابت ۱۹۳۳۱ء ص ۱.۹) اس سلسلہ میں ایک خبر (الفضل ۱۹۳۳ - ۷ - ۳۰.صفحہ ۱۲) (۹۷) احرار نے آپ پر بوجہ تقر رممبر کونسل وائسرے اعتراضات کئے.جن کے جوابات کا حضور کے خطبہ میں ذکر.( ریویو آف ریلینجز (انگریزی) بابت نومبر ۱۹۳۴ - صفحه ۴۳۹ و ۴۴۰ ).اس تقریر میں آپ کے اعزاز میں دیئے گے ڈنر کا ذکر ( بابت اپریل ۱۹۳۵) (۱۰) ڈاکٹر اقبال علی صاحب میڈیکل آفیسر گورنمنٹ ہاؤس لکھنو نے آپ کی آمد پر آپ کے اعزاز میں دعوت دی جس میں راجہ سلیم پور ومسلم و غیر مسلم حکام ضلع مدعو تھے.(الفضل ۳۵-۳-۱۵) (۱۱) ۲۹-۱۲-۱۹۳۵.کو آپ سرکاری دورہ پر آپ لکھنو پہنچے.مولوی محمد طلحہ صاحب کے ہاں دعوت چائے پر معزز غیر احمدی احباب مدعو تھے.مشہور ادیب شوکت تھانوی نے اپنا کلام سنایا.اور انعام الحق واجد نے آپ کے اعزاز میں ایک نظم پڑھی.احمد یہ دار التبلیغ کے مختلف حصے آپ نے دیکھے اور احباب سے ملاقات کی (الفضل ۱۹۳۶.۱.۲و۱۹۳۶-۱-۴ و ۱۹۳۶.۱.۱۰.) (۱۲) کلکتہ کے مشہور روز نامہ The State Of India نے ۱۹۳۵.۱۲.۳۰ کی اشاعت میں لکھا کہ چوہدری صاحب ممبر ریلوے و تجارت حکومت ہند پہلی بار دورہ پر ہمارے شہر میں وارد ہو رہے ہیں اور پر زور اپیل کی کہ لوگ اس عظیم المرتبت شخصیت کے شاندار استقبال کے لئے ریلوے اسٹیشن پر جمع ہو جائیں.اور لکھا کہ آپ کی عظمت نہ صرف اس وجہ سے ہے کہ آپ حکومت ہند کی کا بینہ کے ایک بلند پایہ رکن ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ آپ نے سر آغا خاں اور سر عبد الحلیم غزنوی کے ساتھ تعاون کر کے ہندوستان کیلئے جدید آئین کی تشکیل میں ایک نمایاں حصہ لیا ہے.اگلی اشاعت میں اس روزنامہ نے آپ کا شاندار استقبال ہونے کا ذکر کیا.(الفضل ۱۰-۱-۱۹۳۶) جماعت احمدیہ کی طرف سے امیر جماعت حکیم ابو طاہر محمود احمد صاحب مرحوم کے مکان پر چائے دی گئی اور ایڈریس پیش کیا گیا.آپ نے جماعت کو احترام احکام شریعت کی اور اصلاح حال کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ جب تک اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا نہ ہو جائے ہرگز مطمئن نہیں ہونا چاہیے.(الفضل ۳۶-۱-۸)
341 The British Representation from amrica brises That the Amrica بقیہ حاشیہ: - (۱۳) آپ کے کئی ماہ بعد ولایت سے واپس آنے پر ریلوے اسٹیشن قادیان پر حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال و دیگر بزرگان نے استقبال کیا.آپ نے مسجد مبارک میں نفل پڑھے.( الفضل ۱۹۳۷.۱۱.۲۳) ۱۴۸ (۱۴) شوری ۱۹۳۷ء میں سب کمیٹی کی صدارت.( رپورٹ - صفحہ ۹۸) (۱۵) وفات والدہ ماجدہ پر احباب کی تعزیت کا شکریہ ( الفضل ۱۹۳۷-۵-۳۱ صفحه ۲) (۱۶) قادیان آنے پر دفتر الفضل میں کافی دیر تک مذہبی مسائل پر گفتگو کرنا.(۱۷) قرآن مجید انگریزی کی طباعت کے لئے عربی ٹائپ کے حصول کے لئے آپ کی معرفت بھی کوشش گئی.( رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ بابت ۴۳-۱۹۴۲ء - صفحه ۴۳) (۱۸ تا ۲۳) مرکز میں آمد و رفت یا کسی تقریب میں.(۲۴) حضور نے خطبہ جمعہ میں یہ ذکر کرتے ہوئے کہ میں اپنے رویا و کشف نہیں لکھتا.فرمایا : ا بھی لاہور میں مجھے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے ایک امر کے سلسلہ میں میرا ایک ہیں چھپیں سال کا پرانا رویا یا د کرایا.پہلے تو میرے ذہن میں ہی نہ آیا.مگر بعد میں جب انہوں نے اسکی بعض تفصیلات بیان کیں.تو اس وقت مجھے یاد آ گیا.“ ( الفضل۱۹۴۴-۲-۱ صفحہ۱) (۲۵) حضرت میر محمد الحق صاحب کی وفات پر حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی خدمت میں تعزیتی مکتوب.(الفضل ۱۹۴۴-۵-۹ - صفحیه ) مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے پر چہ اہلحدیث مورخہ ۱۹۴۴.۴.۲۸ میں چوہدری صاحب کو مخاطب کر کے لکھا کہ مصلح موعود کی پیشگوئی کے تعلق میں جماعت احمدیہ کے دلائل اور مولوی صاحب موصوف کے دلائل کا موازنہ کر کے فیصلہ دیں کہ کون سا فریق صحت پر ہے.اس پر چوہدری صاحب نے لکھا کہ اس مطالبہ کی غرض صرف یہ تو نہ ہوگی کہ میں آپکے دلائل پر غور کر لوں تو یہ غرض پوری ہو جاتی ہے.فیصلہ چاہنے کا مقصود تو یہ ہو سکتا ہے کہ تا یہ تنازعہ ختم ہو جائے.لیکن جماعت احمد یہ میرے کسی ایسے فیصلہ کی محتاج نہیں.اور نہ جماعت نے یہ فیصلہ طلب کیا ہے.اگر مولوی صاحب کو میرے فیصلہ پر اعتماد ہے اور وہ اپنے تئیں اس کا پابند کرنے کو تیار ہیں تو میں محض دلائل سے فیصلہ صادر کر نے کو تیار ہوں.ورنہ محض مشغلہ کے طور پر اسبارہ میں توجہ کرنا کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا.(الفضل ۱۹۴۴-۵-۲)
342 government has delivered 2800 aeroplanes to the British govt.حاشیہ: - (۲۷) ۱۹۴۶.۱۰.۹ کو سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب کی کوٹھی نمبر ۸ یارک روڈ.نئی دہلی میں دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتا ہے پر ایک نہایت موثر تقریر فرمائی.جو کئی صد مسلم و غیر مسلم احباب نے سنی.(الفضل ۱۹۶۱.۴.۱۵) 66 ۱۴۹ ۱۵۱ ۱۵۲ (الف) جلسہ سالانہ ۱۹۲۱ کا ایک اجلاس آپ کی زیر صدارت ہونا.(ب) مسٹر ڈ اب سن (ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور ) کی قادیان میں آمد اور معززین سلسلہ کی ملاقات.( الفضل ۱۹۲۵-۲-۱۰.صفحہ ۷ ک۲) (۲۸) آپ نے ۱۹۴۴-۴-۲۸ کی مجلس عرفان میں حضور سے اس بارہ میں دریافت کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تذکرۃ الشہادتین میں رقم فرمایا ہے کہ میرے ذریعہ اسلام کو جو غلبہ حاصل ہوگا.وہ ہمیشہ رہے گا.یہاں تک کہ قیامت آجائے.(صفحہ ۴۵) اس سے روحانی غلبہ مراد ہے یا جسمانی.حضور نے اس کا تفصیلی جواب فرمایا.(الفضل ۱۹۴۴.۱۱.۷.صفحہ ۱) (۲۹ تا ۳۲) بھوپال کا پتہ.ریاستوں کے تعلق میں انگلستان جانا وغیرہ اور مراجعت (۳۴,۳۳) سلامتی کونسل کے سلسلہ میں پیرس کا متوقع سفر اور اس بارہ میں بیان.(۳۵) ۲۷-۱۲-۱۹۵۸ کو جلسہ سالانہ کا ایک اجلاس آپ کی صدارت میں منعقد ہوا.(۳۶) آپ کا ذکر.(الفضل ۶۲-۸ - ۹صفحہ۱) (۳۷ تا ۵۰) آپ کی تصاویر :.ریویو آف ریلیجنز (انگریزی ) جنوری ۱۹۳۱ و ا پریل ۱۹۳۵ استان کولم (مالابار ) کے احباب کے ساتھ.( ستمبر ۱۹۳۵ء) مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے انگریزی سونیئر میں تصاویر یا مضامین.(بابت ۱۹۵۷ء.۱۹۵۹.۲.۱۹ء میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کی تصویر.صفحہ ۳۸ و ۴۵.بابت ۱۹۵۹ء میں آپ کی منفرد تصویر (صفحہ ۵۲ ).اور اسی میں آپ کی تصویر دہلی کے سٹیج کی تصویر میں جبکہ ۱۹۴۴ میں حضور مصلح موعود ہونے کا وہاں اعلان فرما رہے ہیں.(صفحہ ۵۳) بابت ۱۹۴۰ مسجد فرینکفورٹ (جرمنی) کے افتتاح کے موقع کی تصویر میں.(صفحہ۳۹).اور آپ کی معیت میں کراچی کے فضل عمر فرسٹ ایڈ ڈویژن کی تصویر (صفحہ ۲۹ ) بابت ۱۹۲۱ء.تصاویر (صفحہ ۲۲.۸۶و۸۵ )۱۹۲۱۶۱۹۶۰ء میں مضامین ( " علم کی نئی حدود صفحہ ۵۷.پیغام صفحه ۲۲)
343 یعنی امریکن گورنمنٹ نے ۲۸ سو ہوائی جہاز بھجوا دئے ہیں.جب یہ تار آیا تو میں نے کہا.اب ،، بقیہ حاشیہ: - (۵۱) حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے دارالسلطنت دہلی میں تبلیغی جلسوں کے انعقاد کا ارشاد فرمایا.نہایت قلیل وقت میں عربی.انگریزی اور اردو تقاریر کا دہلی کے شایانِ شان انتظام ہو گیا.انگریزی میں محترم چوہدری صاحب کی بھی تقریر ہوئی.جو مذہب کی ضرورت اور اس کا اثر موضوع پر تھی.بعد تقریر ایک غیر از جماعت شخص نے آپ کی قابلیت کی تعریف کی اور تسلی کے لئے ایک سوال دریافت کیا.آپ نے ایک جلسہ کی صدارت بھی کی.اسوقت آپ کی عمر قریباً تئیس سال تھی یہ جلسے پانچ دن تک رام تھیٹر میں منعقد کئے گئے.اور اس بارہ میں اشتہارات مع خاص دعوتی خطوط علماء و شرفاء ورؤساء دہلی کے نام ارسال کئے گئے تھے.۱۵۳ الفضل ۱۹۱۶-۳-۱۸ صفحه ۲ ک۳ وصفحہ ۷ وک۱) ۱۵۴ (۵۲ تا ۵۶) قادیان میں آمد میں آپ کا ذکر.(۵۷) آپ نے عورتوں کے حقوق پر مبلغین کی اعلیٰ جماعت کے سامنے ایک نہایت دلچسپ اور مفید معلومات کا حامل مضمون پڑھا.آپ کا لہجہ نہایت عمدہ اور طرز دلنشین تھا.آپ نے یورپ کے مختلف ممالک میں عورتوں کے حالات سنا کر اسلامی احکام سے اُنکا مقابلہ کیا (۵۸) یہ علم ہونے پر کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ امرتسر تشریف لا رہے ہیں.آپ لاہور سے ملاقات کیلئے آئے.حضور یہ کہہ ہی رہے تھے کہ آج ہم آزاد ہیں کہ اچانک چوہدری صاحب آ پہنچے.انکو ایک خادم سے لاہور میں اس سفر کا علم ہوا تھا.( الفضل ۱۹۲۴.۲۲۲.صفحہ اک ۳).(۵۹) ایک اجلاس میں شرکت کے کئے حضرت مفتی محمد صاحب.حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب.حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور محترم سید ولی اللہ شاہ صاحب.اور آپ روانہ ہوئے.(۱۹۲۴-۵-۲۷ - زیر مدینه ای ) (۶۰ و ۶۱) محترمہ بدر بیگم صاحبہ سے نکاح کا اعلان حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری نے کیا تھا.(۱۹۲۶-۴-۲۷.صفحہ ۲) آپ کی طرف سے تبتی خطوط پر شکریہ (الفضل ۱۹۲۶-۵-۷ صفحه هاک ۳) (۶۲) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا آپ کی سابقہ رہائش کوٹھی واقعہ نسبت روڈ پر قیام - ۱۵۶ ۱۵۵ (۶۳) آپ کے پہاڑ پر جانے پر قائم مقام امیر جماعت لاہور کا تقرر.(۶۴) این بی سین ناشاد دہلوی نے ” کلام بے لگام نام اپنا مجموعہ منظومات شائع کیا ہے
344 میں انگلستان کی حفاظت کا کام آسانی سے انجام دے سکوں گا.و, یہ رویا مجھے ستمبر ۱۹۴۰ء میں آئی.دوسرے تیسرے دن چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب آف قادیان آئے اور میں نے ان سے اس رؤیا کا ذکر کیا.انہوں نے کئی انگریز حکام کو اس رویا کی خبر دیدی.یہاں تک کہ سرکلو جو کہ اس وقت ریلوے ممبر تھے.اور بعد میں آسام کے گورنر مقرر ہوئے ان سے بھی اس کا ذکر کر دیا.اسی طرح سر راما سوامی مدلیا اور دوسرے معزز لوگوں سے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے دیا.کہ امام جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ حکومت امریکہ ۲۸ سو ہوائی جہاز برطانیہ کی مدد کے لئے بھجوائے گی ”دیکھو قیاس سے انسان یہ تو کہہ سکتا ہے کہ امریکہ انگلستان کی مدد کرے گا.قیاس سے انسان یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ امریکہ انگلستان کی مدد کرے گا.قیاس سے انسان یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ شاید امریکہ بقیہ حاشیہ :.اور ایک سولہ صفحات کے کتابچہ میں ہندو پاک کی ” برگزید ہستیوں اور رسائل و اخبارات کی آراء میں ڈاکٹر ذاکر حسین نائب صدر جمہوریہ ہند اور گورنروں وغیرہ ہم اور آپ کی رائے شائع کی ہے.آپ کی رائے :.نا شاد ( کی ) کئی ایک نظمیں نہایت دلچسپ ہیں.“ ( صفحہ) (۶۵) آپ کی انتخابات میں کامیابی.(الفضل ۱۹۲۶ - ۱۲-۱۰ - زیر مدینہ اسیح ) (۶۶ تا ۶۹) بیمہ زندگی کے مروجہ طریق کی بجائے شرعاً جائز طریقہ تعاون کے بارے میں غور کے لئے علماء وغیرہ کی دس افراد کی ایک کمیٹی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی.ان میں آپ بھی ۱۵۷ شامل تھے.(الفضل ۱۹۴۶.۴۵ صفحه ۲اک۱) (۷۰ تا ۷۲ ) آپ کے ایک عزیز کی علالت.اس کی وفات پر تعزیت کا شکریہ.(۷۳ ۷۴ ) مشاورت اکتوبر ۱۹۳۶ء میں آپ بیت المال کی پ کمیٹی کے لئے صدر مقرر ہوئے.مشاورت ۱۹۴۷ء کیلئے آپ منتظم اور صدر مقرر ہوئے.( الفضل ۴۴۷ - ۸ صفحه ۲ ک۱) (۷۵) آپ کا ایک بیان (الفضل ۱۱۹۴۸ ۱۲ جلد ۲) (۷۶) آپ کا قادیان آنا ( بدر ۱۹۰۸-۹-۱۷.زیر مدینه ای ) (۷۷ ) ۹-۱۹۶۲ - ۲۶ کو آپ کو خراج تحسین ادا کیا گیا.( الفضل ۱۹۶۲.۱۰.۳ صفحہ او ۸ ) ۱۵۸
345 ہوائی جہاز بھجوا دے.مگر مسٹر چرچل بھی قیاس سے یہ نہیں کہہ سکتے تھے.کہ امریکہ ۲۸ سو ہوائی جہاز بھجوائے گا.اور نہ دنیا کا کوئی انسان محض عقل سے کام لیکر یہ تعداد معین کر سکتا تھا.رؤیا کے تیسرے مہینے ( دہلی سے فون آیا )...سر ظفر اللہ کی آواز آئی جو کانپ رہی تھی کہ مبارک ہو.میں نے کہا خیر مبارک.مگر مجھے پتہ نہیں لگ سکا یہ کیسی مبارک ہے.انہوں کہا آپ کو یاد ہے آپ نے مجھے ایک رو یا سنایا تھا کہ امریکہ سے تار آئی ہے کہ اس نے برطانیہ کی مدد کیلئے ۲۸ سو ہوائی جہاز بھجوائے ہیں.میں نے کہا مجھے خوب یاد ہے وہ کہنے لگے مبارک ہو.اس وقت تار میرے سامنے پڑی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں کہ : The Britist Representation form America wises that the American government has dedired 2800 aeroplanes to the British government.پھر انہوں نے کہا کہ جس وقت یہ تار مجھے ملی.میں نے اُسی وقت ان سرکاری حکام کو فون کیا جن کو میں نے یہ خواب بتائی ہوئی تھی اور ان سب کو یاد دلایا کہ دیکھو امام جماعت احمدیہ کی جو خواب میں نے تم کو بتائی تھی وہ آج کس شان کے ساتھ پوری ہوگئی.انہوں نے بتایا کہ میں نے سرکلو کو بھی فون کیا کہ تم کو معلوم ہے کہ امام جماعت احمدیہ کی میں نے تمہیں ایک خواب بتائی تھی.بعض دفعہ خدا تعالیٰ انسان سے غلطی کر دیتا ہے تا کہ اس پر زیادہ حجت ہو.سرکلو کہنے لگے ظفر اللہ خاں تار تو آئی ہے مگر جہازوں کی جتنی تعداد تم نے بتائی تھی اتنی تعداد کا تار میں ذکر نہیں.ظفر اللہ خان کہتے ہیں.میں نے کہا تمہیں کیا یاد ہے.وہ کہنے لگے تم نے ۲۸ سو ہوائی جہازوں کا ذکر کیا تھا اور تار میں ۲۵ سو ہوائی جہاز بھجوانے کا ذکر ہے.انہوں نے جلدی سے ۲۸ سوکو ۲۵ سو پڑھ لیا.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کہنے لگے تمہارے پاس تا ر ہے.وہ کہنے لگے ہاں میرے سامنے ہی پڑی ہے.چوہدری صاحب کہنے لگے اسے پھر پڑھو.سرکلو نے دوبارہ تار پڑھی.تو کہنے لگے.او ہوظفر اللہ خاں یہ ۲۸ سو ہوائی جہازوں کا ہی ذکر ہے.۲۰ ستمبر ۱۹۴۰ء کے قریب کی بات ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالی شملہ میں محترم چوہدری صاحب کے ہاں مقیم تھے.حضور نے لیبیا کے محاذ کے متعلق رویا دیکھا کہ انگریزی فوج کمزور حالت میں ہے اور میں ان کی مدد کیلئے جوش محسوس کرتا ہوں.اور میں نے بھی فائر کئے جس کے بعد انگریزی فوج اٹلی کی فوج کو دبانے لگی اور دوسرے سرے تک لے گئی.اس وقت آواز آئی کہ ایسا دو تین بار
346 ہو چکا ہے.حضور فرماتے ہیں اسوقت تک لیبیا میں انگریزی فوج نے کوئی پیشقدمی نہیں کی تھی اور اٹلی کی فوجیں مصر میں تھوڑا سا آگے بڑھ آئی تھیں اور دونوں میں لڑائی ہو رہی تھی.محترم چوہدری صاحب نے یہ رویا وائسرائے ہند اور انکے پرائیویٹ سیکرٹری سر لیتھویٹ کو سنا دی.سر موصوف کی خواہش پر وہ چوہدری صاحب کے ہاں آئے.حضور نے اپنی زبان مبارک سے ان کو یہ رویا سنائی.۱۹۴۰ء میں اطالوی فوجوں نے بڑھ کر انگریز فوجوں کو پیچھے ہٹا دیا.لیکن اس سال کے آخر میں انگریزی فوجیں آگے بڑھیں اور اطالوی فوجیں شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئیں.۱۹۴۱ء میں اطالیہ انگریزی فوجوں کو دھکیل کر مصر کی سرحد پر لے آیا.اس سال کے آخر میں انگریز پھر بڑھے اور اور دشمن کو کئی سو میل تک دھکیل کر لے گئے.جون ۱۹۴۲ میں پھر اطالیہ نے انگریز افواج کو مصر کی سرحد تک دھکیل دیا.اس شدید حملہ سے العالمین کے مقام پر انگریزوں کی حالت ایسی نازک ہوگئی کہ ان کا بچنا مشکل نظر آتا تھا مسٹر چرچل وزیر اعظم خود اس محاذ پر پہنچے.انگریز سمجھ رہے تھے کہ ہم اس محاذ پر شکست کھا جائیں گے.العالمین کی جنگ سے چند دن پہلے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں اپنی اس رؤیا کا اعلان کیا.چنانچہ چند دن کے اندر العالمین کے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اطالوی افواج کو اچانک شکست دیدی.اس وقت انگریزی افواج کی شکست کا شدید خطرہ تھا.اور ایک دن اطالویوں نے ان کی صفیں توڑ ڈالیں اور وہ اپنے ٹینک اور فوجیں لے آئے.لیکن ایک تازہ دم دستے کے آنے پر تھوڑے سے مقابلہ سے یکدم اطالویوں کے ٹینک پیچھے ہٹ گئے اور باقیوں نے مقابلہ بند کر دیا.دراصل اطالویوں نے پانی کی خاطر ایک پمپ پر قبضہ کر لیا لیکن تجربہ کیلئے اس میں سمندرکا پانی چھوڑا گیا تھا.اطالویوں نے یہ نمکین پانی پینا شروع کیا.جس سے پیاس بجھنے کی بجائے ان کی زبانیں باہر نکل آئیں اور ایک منٹ مزید مقابلہ کی سکت نہ رہی.اس طرح ایک خدائی فعل سے دشمن کی فتح شکست سے بدل گئی.۱۵۹ عمرہ سے مشرف ہونا: االفضل ۱۹۵۸-۲- ۱۸ ( صفحه ۱۴) حضور نے ذکر فرمایا کہ اس رویا پر یہ اعتراض کیا گیا ہے.(۲۵-۶-۱۹۴۴ صفحه اک۱)
347 آپ ۱۹۵۸.۳.۱۷ کو بیروت سے بذریعہ ہوائی جہاز جدہ پہنچے اور ۱۸؍ مارچ کی صبح کو مکہ مکرمہ حاضر ہوئے اور بفضلہ تعالیٰ عمرہ کی سعادت حاصل کی.راستہ میں مسجد حدیبیہ میں دو نفل ادا کئے اور حرم شریف میں علاوہ مسنون نوافل کے خانہ کعبہ کے اندر اول مقام نبوی پر اور پھر تینوں باقی سمتوں میں کھڑے ہو کر نفل ادا کئے.عصر کے بعد منی.مزدلفہ اور عرفات گئے.عرفات میں بھی دعائیں کیں بعد مغرب پھر بیت اللہ کا طواف کیا اور نفل ادا کئے.19 کی صبح کو پھر طواف کیا اور نفل ادا کئے پھر جدہ لوٹے.۲۲ کو بعد مغرب پھر طواف کے لئے مکہ مکرمہ گئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعاؤں کا موقعہ اور توفیق بفراغت ملتی رہی.اسلام اور احمدیت کے لئے دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود.حضرت مسیح موعود علیہ السلام.حضور کے خاندان اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ کے لئے خاص طور پر دعا کی توفیق ملی.آپ نے تحریر فرمایا: کہ عمرہ اور حج کے لئے اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سہولت میسر ہے.جدہ میں بحری جہازوں کے لئے اب باقاعدہ بندرگاہ ہے.مسافر بندرگاہ میں اترتے ہیں اور بندرگاہ سے ہی سوار ہوتے ہیں.بازار اور سڑکیں صاف اور فراخ ہیں.پانی بافراط ہے.جدہ سے مکہ کی سڑک عمدہ ہے.اور ۲۵ میل کا سفر سوا گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے.سڑک پر دن رات آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے.کسی قسم کا خوف اور دقت نہیں.جدہ سے مدینہ کا سفر پانچ گھنٹہ میں طے ہو جاتا ہے.مکہ سے منی.مزدلفہ اور عرفات تک تین چار چوڑی سڑکیں بن چکی ہیں.پانی کا عمدہ انتظام ہے.حرم شریف کی توسیع کے لئے ارد گرد کے مکانات خرید کر گرائے جاچکے ہیں اور توسیع کا پروگرام زیر تکمیل ہے.صفا اور مروہ کے درمیان سے دکانیں اُٹھا دی گئی ہیں اور گاڑیوں اور موٹروں کی آمد ورفت بند کر دی گئی ہے.اور نیچے فرش کرنے کا پروگرام ہے.حرم شریف کے اندرا کثر حصہ میں سنگ مر مر کا فرش ہو چکا ہے.صرف تھوڑا سا حصہ باقی ہے.توسیع کے سلسلہ میں زمزم کو پیچھے ہٹانے کا فیصلہ ہے.آپ نے نوافل کے متعلق یہ معمول رکھا کہ حرم شریف میں داخل ہونے پر رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان دو نفل.پھر طواف کے بعد مقام ابراہیم پر دونفل.پھر حیم اور رکن یمانی کے درمیان دو نفل.سب سے زیادہ رقت کے ساتھ دعا کرنے کا موقعہ ملتزم کے مقام پر یعنی بیت اللہ کے دروازہ کے نیچے میسر آتا ہے.فَالْحَمْدُ للهِ عَلَى ذَلِک 170
348 مدینہ منورہ کی زیارت : آپ تحریر کرتے ہیں : پچھلا عریضہ لکھنے کے بعد خاکسار بذریعہ موٹر مدینہ منورہ حاضر ہوا.ساڑھے سات بجے شام جدہ سے روانہ ہو کر ایک بجے بعد نصف شب مدینہ منورہ پہنچے ۲۴ تاریخ کو وہاں ٹھہرے.تین بار مسجد نبوی میں حاضر ہو کر نفل ادا کر نے اور روضہ اطہر پر دعا کرنے کی توفیق نصیب ہوئی.فَالْحَمْدُ اللهُ عَلَى ذَلِكَ ” جنت البقیع میں حاضر ہو کر دعائیں کیں.احد اور مسجد قبلتیں اور مسجد قباء میں دعائیں کیں دونوں مساجد میں نفل بھی ادا کئے ) ۲۵ کی صبح کو فجر کی نماز کے بعد مدینہ منورہ سے روانہ ہو کر رستہ میں بدر کے مقام پر نصف گھنٹہ ٹھہرے اور دعا کی.ساڑھے دس بجے واپس جدہ پہنچے.۲۶ کی صبح کو فجر کے بعد تیسری بار مکہ مکرمہ میں حاضر ہوا.اور دوبارہ عمرہ ادا کیا.اس بار صفا اور مروہ کے درمیان ننگے پاؤں سعی کی.اور چونکہ اب کی بار بالکل اکیلا تھا.اس لئے دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ کی توفیق ملی.فالحمد لله على ذالک (الفضل ۵۸-۴-۲۳) خلافت سے وابستگی اور اخلاص: رض حضرت خلیفتہ امسیح اول کو آپ کے اخلاص کا یقین تھا.۱۹۱۲ ء میں حضرت ڈاکٹر عباداللہ صاحب لندن میں تھے ، اسوقت وہاں ڈاکٹر صاحب سمیت صرف تین احمدی تھے.دوسرے دو چوہدری صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب.حضرت خلیفہ اول نے ۲۲ اکتوبر ۱۹۱۲ ء ڈاکٹر صاحب کے نام مکتوب میں رقم فرمایا : وہاں ایک لڑکا شکر اللہ کا بھائی ظفر اللہ خاں ہے چوہدری نصر اللہ خاں کا 1415 بیٹا.وہ مخلص ہیں.اسکو کبھی ملنا.خط لکھ دینا.آپکو آ کر ملیگا.اسوقت آپ کی عمر انیس سال کے قریب تھی.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ آپ شروع سے خلافت کے دامن سے پورے اخلاص سے وابستہ
349 رہے.اللہ تعالیٰ ان کا اور ہم سب کا بخیر اسپر انجام کرے.آمین.خلافت ثانیہ کے آغاز میں آپ کے اخلاص کے باعث یہ توقع تھی کہ آپ بیعت کر لیں گے.چنانچہ الفضل مورخہ ۱۹۱۴.۵.۹ میں مرقوم ہے :.شاید یہ بات بہت کم احمد یوں کو معلوم ہو گی کہ ولایت میں ہمارے کئی احمدی بھائی ہیں.اور سوائے خواجہ کمال الدین صاحب اور انکے ایجنٹ شیخ نور احمد صاحب اور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے سب بیعت کر چکے ہیں.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب غالباً کسی سفر پر ہونگے.اسلئے اسوقت تک بیعت نہیں کر سکے.ورنہ خواجہ صاحب کی طرح انکو خلافت سے انکار نہیں.واللہ اعلم بالصواب.“ ان کے والد صاحب اور بھائی اور دیگر خاندان کے سب لوگ بیعت کر چکے ہیں.یہ (یعنی انگلستان کے لوگ اپنی اپنی طاقت کے مطابق تبلیغ کے کام میں لگے رہتے ہیں.امید ہے کہ انشاء اللہ ہمیں وقتاً فوقتاً ان کی کوششوں کے ذکر کا موقعہ ملے گا (صفحہ ۷) وو وجہ تاخیر صحیح نکلی.چنانچہ الفضل میں زیر عنوان ” چوہدری ظفر اللہ خاں مرقوم ہے :.پچھلے ہفتہ ولایت میں بیعت کرنے والوں کی تعداد بتائی گئی تھی.اور لکھا گیا تھا کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بیرسٹرایٹ لاء کا بیعت کا خط ابھی نہیں آیا.سواب کے ہفتہ کی ڈاک میں ان کا خط بھی آگیا.جس کا مضمون حسب ذیل ہے : اما منا وسید نا ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.غلام بوجہ تعطیلات ایسٹر ساڑھے تین ہفتوں کا عرصہ انگلستان سے باہر رہا.حضرت خلیفہ اول کی وفات کی پُر ملال خبر تو یہاں سے رخصت ہونے سے پیشتر مل چکی تھی.لیکن بعد کے حالات سے اب تک بے خبری تھی.کیونکہ سفر میں ڈاک ملنے کا انتظام نہ تھا.آج واپسی پر ہندوستان کی ڈاک ملی جس میں الفضل“ کے پرچے بھی تھے.جو ابتلاء اسوقت قوم کو پیش آیا ہے.اس کا خوف تو پیشتر ہی تھالیکن اس قدر فساد کی توقع نہ تھی.غلام کی ناقص رائے میں تو فیصلے کی کوئی بات ہی نہیں.خلیفہ بنانا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے.وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ
350 اللَّهِ تَبدیلا.اور چونکہ حضور کو اللہ تعالیٰ نے اس منصب کیلئے چن لیا ہے.اسلئے ہمارا فرض آمَنَّا وَصَدَقنا ہے.حضور غلام کی بیعت قبول فرماویں.اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ غلام اس عہد پر اخلاص کے ساتھ قائم رہے اور اسے پورا کرنے کی توفیق دے.آمین.حضور پر اسوقت فرائض خلافت اور دیگر افکار کا ہجوم ہو گا.اسلئے انہی چند سطور پر اکتفاء کرتا ہوں.امید ہے کہ حضور اس دورافتادہ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھا کریں گے.اللہ تعالیٰ اپنی خاص نصرت حضور کے شامل حال کرے.آمین.و اسلام - حضور کا غلام - ظفر اللہ خاں.سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی نظر میں چوہدری صاحب کا معتمد ترین افراد میں سے ہونا ظاہر وباہر ہے.حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۴۶ء پر تقریر میں فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب ( سر براه غیر مبابعین ) مطالبۂ مباہلہ کے متعلق بہت پراپیگنڈا کر رہے ہیں.میں شرائط مباہلہ کے طے کرنے کے لئے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو اپنا نمائندہ مقرر کرتا ہوں.ممکن ہے اس طریق سے جلد کوئی فیصلہ کی راہ نکل آئے.** ایک بار ایڈیٹر صاحب الفضل نے چوہدری صاحب کو بذریعہ خط اطلاع دی کہ ”پیغام صلح، بابت ۱۹۴۴.۱۱.کی رو سے مولوی محمد علی صاحب نے اپنے خطبہ میں کہا کہ جماعت قادیان میں ( حضرت ) میاں صاحب ( خلیفہ ثانی ایدہ اللہ ) سے دوسرے درجہ پر چوہدری ظفر اللہ خاں ہیں.بلکہ ایک لحاظ سے وہ ان سے بھی بڑھ کر ہیں.کیونکہ انہوں نے جماعت کو بڑھانے کے لئے میاں صاحب سے بھی بڑھ کر کام کیا ہے.مذکورہ بالا خط کے آنے سے قبل ہی الفضل مورخہ ۱۹۱۴.۵.۶ میں خلافت ثانیہ سے وابستہ قرار دیا گیا تھا.جس کا باعث آپ کا سابقہ رویہ تھا: انگلستان میں چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے مسٹر عبداللہ خاں، سید عبدائی صاحب عرب، ملک عبد الرحمن، چو ہدری ظفر الله ان...خلیفہ ثانی کے مرید موجود ہیں.“ ( زیر مدینہ اسیح ) چوہدری صاحب نے مولوی صاحب کے نمائندہ ڈاکٹر غلام محمد صاحب کو خط لکھا لیکن
351 ایڈیٹر صاحب نے یہ بھی لکھا کہ آپ کا اس بارہ کچھ لکھنا نہایت ضروری ہے.آپ نے رقم فرمایا کہ تر دید اس امر کی ہوتی ہے جس سے دوست یا دشمن کسی کے دھو کہ کھانے کا خطرہ ہو.یہاں ایسی صورت نہیں.یہ بالبداہت افترا ہے.اس کی تردید بھی کرنا میرے لئے باعث ندامت ہوگا.یہ جواب شائع ہونے پر چوہدری صاحب نے لکھا کہ میں نے تو بتا دیا تھا کہ اسکی تردید کی ضرورت نہیں.آپ نے اسے شائع کر کے میرے لئے ندامت کا سامان مہیا کر دیا.میری یہ تحریر شائع کر دی جائے.تا احباب پر واضح ہو جائے کہ میری سابقہ تحریر کی اشاعت میری خواہش یا منشاء کے نتیجہ میں نہ تھی.( الفضل ۱۹۴۴-۱۲-۱۴ صفحه ۶ ۱۹۴۴۰-۱۲-۲۳ صفحه ۲) ۱۹۵۵ء میں خلافت ثانیہ کے خلاف حضرت خلیفہ اسیح اوّل کی بد قسمت اولاد کی طرف سے فتنہ اٹھا.غیر مبایعین نے ان لوگوں کو علی الاعلان اپنا روپیہ اور سٹیج پیش کیا.لیکن الْحَقُّ يَعْلُو وَلَا يُعْلَى عَلَيْهِ.ایک حقیقت ہے جو ہر زمانہ میں اور ہمیشہ ثابت ہوتی رہی اور ہوتی رہے گئی.ان لوگوں اور انکی نام نہاد حقیقت پسند پارٹی کی تمام مساعی فامّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء اور جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنْ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقاً کا مصداق ثابت ہو چکی ہے.کاش ان کو چشم بینا حاصل ہوتی.افسوس اس طبقہ کے افراد د سُنتے ہوئے نہیں سنتے اور دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے.یہ فخر جین کذب بیانی کو شیر مادر کی طرح حلال جانتے ہیں.چنانچہ روزنامہ نوائے پاکستان مورخه ۲ امئی ۱۹۵۷ء میں ذیل کی خبر شائع ہوئی:.لاہورے رمی...پارٹی کے آفس سیکرٹری نے نمائندہ نوائے پاکستان کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اب یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ مرزا محمود اور سر ظفر اللہ میں زبر دست باہمی چپقلش پیدا ہو چکی ہے.گذشتہ دسمبر ربوہ کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر بعض سرکردہ لوگوں نے مرزا بقیہ حاشیہ: مولوی صاحب نے اپنے خطبہ میں بیان کیا کہ فیڈرل کورٹ کا جج ہو کر چوہدری صاحب دین کے معاملہ میں لا پرواہی سے کام لیتے ہیں اور انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ کس بات کیلئے انہیں نمائندہ مقرر کیا گیا ہے.جلسہ سالانہ کی تقریر میں مباہلہ کا ذکر تک نہیں.اسپر چوہدری صاحب نے مولوی صاحب کو حضور ایدہ اللہ کی تقریر کا اقتباس ارسال کیا.( الفضل ۱۹۴۷-۵-۳) لیکن مولوی صاحب نے حسب عادت گریز سے کام لیا.
352 محمود اور سر ظفر اللہ میں مفاہمت کرانے کی کوشش کی تھی.لیکن مرزا محمود کے ساتھ ہر دو ملاقاتوں میں بجائے صلح کے اور کشیدگی بڑھ گئی اور سر ظفر اللہ کے یہ الفاظ عام لوگوں کی زبان سے سنے گئے کہ جس خلافت کو میری مساعی نے پروان چڑھایا.وہ میری تذلیل کے درپے ہے.معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ایسا غلط الزام چوہدری صاحب محترم کی طرف منسوب ہونا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے بارہ تیرہ سال قبل آپ کی بریت ایک رؤیا کے ذریعہ کر دی تھی.جس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو بتایا گیا کہ: ڈاکوؤں نے حملہ کیا ہے اور اُن کے ساتھ مصری صاحب بھی ہیں“ گویا رویا میں ایک ایسا فتنہ اُٹھنے کی خبر دی جو فتنہ مصری کے مشابہ ہوگا.بلکہ اس فتنہ والوں کو مصری صاحب کی حمایت بھی حاصل ہوگی.اس لمبی رویا میں چوہدری صاحب کو حضور کی تائید میں دکھایا گیا ہے.بلکہ اب مزید سات سال کا عرصہ گذرنے پر ان فتنہ پردازوں کے گھناؤنے الزام کے کذب صریح ہونے میں کوئی اشتباہ باقی نہیں رہا.آپ کا اخلاص اور قدر، اللہ اور خلیفہ اللہ کی نظر میں حضور نے اس بارہ میں تحریر فرمایا : وو بسم الله الرحمن الرحيم برادران ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته فتنہ پرداز لوگ عزیزم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب پر.اُن کے خاندان پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہے ہیں.مگر چوہدری صاحب کی خصوصاً اور ان کے خاندان کی عموماً خدمات ایسی شاندار ہیں کہ مجھے یا کسی اور کو اس بارے میں لکھنے کی ضرورت نہ تھی لیکن ہر احمدی چونکہ نہ چوہدری صاحب سے واقف ہے نہ ان کے خاندان سے اور چونکہ ایک مخلص دوست نے کراچی سے لکھا ہے کہ چوہدری صاحب کے بارے میں جلدی اعلان ہونا چاہیے تھا.دیر ہو جانے کی وجہ سے بعض لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہور ہے ہیں.اس لئے میں عزیزم چوہدری صاحب کا خط بادل نخواستہ الفضل میں شائع کرتا ہوں.بادل نخواستہ اس لئے کہ چوہدری صاحب اور انکے والد مرحوم کی قربانیاں خلافت کے بارہ میں
353 ایسی کہ ان کی برات کا اعلان خواہ ان ہی کے قلم سے ہو، مجھ پر گراں گزرتا تھا.لیکن دشمن چونکہ او چھے ہتھیاروں پر اُتر آیا ہے اور جھوٹ اور بیچ میں تمیز کرنے کیلئے بالکل تیار نہیں.اس لئے میں چوہدری صاحب کا خط الفضل میں شائع کرواتا ہوں جن لوگوں کے دلوں میں منافقوں کے جھوٹے پرا پیگنڈے کی وجہ سے چوہدری صاحب کے بارے میں کوئی شک یا تر ڈ د پیدا ہوا تھا.وہ استغفار کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں.چوہدری صاحب کا یہ شکوہ بجا ہے کہ کیوں نہ میں نے عہد وفا داری کے طلب کرتے ہی خود اپنی طرف سے لکھ دیا کہ میں چوہدری صاحب کے پوچھے بغیر ہی انکی وفاداری کا اعلان کرتا ہوں بے شک ان کا حق یہی تھا کہ میں ان کی طرف سے ایسا اعلان کر دیتا.لیکن منافق اس پر پرو پیگنڈا کرتا کہ دیکھو چوہدری صاحب اتنی دور بیٹھے ہیں.پھر بھی یہ شخص جھوٹ بول کر ان کے منہ میں الفاظ ڈال رہا ہے اور ہم لوگ اس جھوٹ کا جواب دینے کی مشکل میں مبتلا ہو جاتے.چوہدری صاحب دور بیٹھے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ اس وقت جس دشمن سے ہمارا واسطہ پڑا ہے وہ کتنا جھوٹا ہے.ہزاروں آدمیوں کی طرف سے وفاداری کا اعلان ہو رہا ہے.مگر ” نوائے پاکستان“ یہی لکھے جا رہا ہے کہ ہمیں معتبر ذرائع سے خبر ملی ہے کہ مرزا محمود کی جماعت زیادہ سے زیادہ متحد ہوتی جارہی ہے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پیش کرے.پس چوہدری صاحب کا اپنا خط چھپنا ہی مناسب تھا اس خط سے جتنے دشمن کے دانت کھٹے ہو نگے میرے اعلان سے اتنے کھٹے نہ ہوتے.بلکہ وہ شور مچاتا کہ اپنے پاس سے بنا کر جھوٹے اعلان کر رہے ہیں.خاکسارمرزامحمداحمد خلیفه لمسیح الثانی الفضل ۱۹۵۶-۸-۲۲) محترم چوہدری صاحب نے حضور کی خدمت میں تحریر کیا : "بسم الله الرحمن الرحيم ہیگ اار اگست ۱۹۵۶ء سیدنا و امامنا السلام عليكم ورحمة الله وبركاته یہاں الفضل کے پرچے ہوائی ڈاک سے ہفتہ میں ایک بار پہنچتے ہیں.ابھی ابھی ۳۱ / جولائی لغایت ٫۵اگست کے پرچے ملے.۴ راگست کے پرچہ میں حضور کا اعلان پڑھا.اس کے پڑھنے پر یہ
خاکسار گزارش کرتا ہے..354 اندریں دیں آمده از مادریم واندریں از دار دنیا بگذریم انشاء الله باون سال ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک چہرہ پر نظر پڑنے کی خوش نصیبی کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و رحم اور ذرہ نوازی سے یہ حقیقت ایک بچے کے دل میں راسخ کردی که به چهره راستباز پہلوان کا چہرہ ہے.پھر جذبات کے ساتھ دلائل ، براہین ، بینات کا سلسلہ شامل ہو گیا اور جاری ہے.حضور کا وجود یوم پیدائش بلکہ اس سے بھی قبل سے اس سلسلہ کا ایک اہم جزو ہے.خاکسار کو یاد ہے کہ ۱۹۱۴ء میں لندن میں جس دن وہ ڈاک ملی جس میں اختلاف کے متعلق مواد آیا تھا.تو وہی دن ڈاک کے واپس جانے کا تھا.پس اتنا معلوم ہونے پر کہ اختلاف کیا ہے.خاکسار نے بیعت کا خط لکھ کر ڈاک میں ڈال دیا اور باقی حصہ ڈاک بعد میں پڑھا جاتا رہا.اس دن سے آج تک پھر محض اللہ تعالیٰ کے فضل ورحم اور ذرہ نوازی سے باوجود اپنی کوتاہیوں ، کمزوریوں اور غفلتوں کے وہ عہد جو اسی دن سے باندھا تھا.مضبوط سے مضبوط تر ہو گیا.آیات اور بنیات ، انعامات اور نوازشات نے اس تعلق کو وہ رنگ دے دیا ہے کہ خود دل جو اسکی لذات سے تو متواتر بہرہ ور ہوتا ہے.اس کی حقیقت کی تہہ کو نہیں پہنچ پاتا.چہ جائیکہ قلم اسے احاطہ تحریر میں لا سکے.اب جو عہد حضور نے طلب فرمایا ہے.دل و جان اس کے مصدق ہیں.جو کچھ پہلے حوالہ کر چکے ہیں.وہ اب بھی حوالہ ہے ظاہری فاصلہ ہونے کی وجہ سے خاکسار یہ التجا کرنے سے مجبور ہے کہ ایسے اعلان کے ساتھ حضور یہ اعلان بھی فرما دیا کریں کہ ہم اپنے فلاں دور افتادہ غلام کی طرف سے اس پر لبیک کا اعلان کرتے ہیں.تا یہ خاکسار کسی موقع پر ثواب میں پیچھے نہ رہ جائے.حضور کو اس درجہ حسن ظن رہے گا.تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی کمال ستاری اور ذرہ نوازی سے خاتمہ بالخیر کی ہوس کو جو ہر مومن کی آخری خواہش ہوتی ہے فادخلی فی عبادی کی بشارت کے ساتھ اپنے حضور طلب فرمائے گا.
355 بابی انت وامی.طالب دعا خاکسار حضور کا غلام ظفر اللہ خان ( الفضل ۱۹۵۶-۸-۲۶) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو ستمبر ۱۹۵۶ء میں ذیل کے رویا سے اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب محترم کے جذبہ احترام و حفاظت احمدیت سے مطلع فرمایا.حضور نے بیان فرمایا:.’خواب میں دیکھا کہ میں ایک شہر میں ہوں.جس میں ایک بڑی عمارت کے سامنے ایک چوک ہے جس میں بہت سی سڑکیں آکر ملتی ہیں.میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ میری طرف آ رہا ہے.اور میں نے اس کے آنے کو برا محسوس کیا.اس وقت میرے ساتھ کوئی پہرہ دار نہیں.میں فوراً پاس والی عمارت کے پھاٹک کی طرف مڑا اور پھاٹک میں سے ہو کر اندر چلا گیا.اس عمارت کے چاروں طرف لوہے کی مضبوط چھپٹی چپٹی سلاخوں کا کٹہرہ ہے.جیسا کہ اہم سرکاری عمارتوں میں ہوتا ہے.جب میں اندر گیا تو میں نے دیکھا کہ اس عمارت کے وسطی حصہ کے سامنے جو مسقف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیٹھے ہیں.آپ نے مہندی لگائی ہوئی ہے اور آپ کے چہرہ کا رنگ اور مہندی کا رنگ خوب روشن ہے جو اب تک میری آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے میرے اندر جانے پر آپ کٹہرے کی طرف آئے.گویا یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ با ہر کون کون لوگ ہیں.میں وسطی حصہ کے گرد چکر لگا کر پیچھے کی طرف چلا گیا.اور میں نے دیکھا کہ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرسی پر بیٹھے تھے.اسکی پشت کی عمارت کے پیچھے چوہدری ظفر اللہ خاں کھڑے ہیں جیسے کوئی احترام یا حفاظت کے لئے کھڑا ہوتا ہے.اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کٹہرے کے پاس جا کر اور تسلی کر کے واپس آگئے.اور یوں معلوم ہوا جیسے کوئی خطرہ یا تو تھا ہی نہیں یا جاتا رہا.“ ( الفضل ۵۶-۱۰-۴) قربانی کی تڑپ حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب مجاہد افغانستان کو وہاں کی حکومت نے تبلیغ کے لئے آنے کی
356 اجازت دی اور پھر ان کو شہید کر دیا.اس وقت سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی لندن میں تھے.حضور نے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا کہ صبر بے شک مشکل ہے.لیکن ہمیں وہاں کی حکومت اور اس کے فرمانروا کے خلاف دل میں بغض نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ان کی ہدایت کے لئے دعا کرنی چاہیے.ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ بد پر رحم کریں ، اُسے بچائیں اور بدی سے نفرت کریں اور اسے مٹائیں اور ہمیں پوری توجہ اس کام کے جاری رکھنے کیلئے کرنی چاہیے جس کی خاطر مولوی صاحب نے جان دی ہے.چاہیے کہ افغانستان کے بااثر خاندانوں کے نوجوانوں کو قادیان لاکر اور کچھ عرصہ تک ان کو قادیان میں رکھا جائے.جو ایک ماہ بھی قادیان میں قیام کرے گا.وہ ضرور احمدی ہو جائے گا.وہاں کے مختلف علاقوں اور شہروں سے ایسے لوگ لانے چاہئیں.اس کے لئے ہمیں تین چارا فرا د مقرر کرنے چاہئیں جو ہر وقت افغانستان کا چکر لگاتے رہیں.اگر افغانستان کے باشندوں میں سے جو اس کام کے پہلے حقدار ہیں، اس بات کیلئے آدمی نہ ملیں تو پنجابیوں اور خصوصاً اہل سرحد کو اس کام کیلئے تیار ہو جانا چاہیے اور حضور نے رقم فرمایا: میں نہایت خوشی سے اعلان کرتا ہوں کہ بغیر اس تجویز کے علم کے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنے نام کو اس کے لئے پیش کیا ہے اور لکھا ہے کہ میں صرف نام دینے کے لئے ایسا نہیں کرتا بلکہ پورا غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مجھے اس کام کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہیے.“ اور اس امر کی اہمیت کا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضور اپنے متعلق رقم فرماتے ہیں : افسوس کہ میری ذمہ داریاں مجھے اجازت نہیں دیتیں.“ اسی بارہ میں کچھ احباب نے ذیل کا عریضہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تحریر کیا احباب کی سر فہرست آپ ہی کا نام ہے: بسم الله الرحمن الرحيم.نحمده و نصلى على رسول الكريم.وعلى عبده المسيح الموعود سیدی السلام عليكم ورحمة الله وبركاته دو مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کابل کی شہادت کا واقعہ حضور کیلئے جو تمام دنیوی رشتہ داروں حتی کہ ماں باپ سے بھی زیادہ اپنے خدام سے محبت و الفت رکھنے والے ہیں.نہایت تکلیف دہ اور رنج افزا تھا.لیکن اس رنج اور تکلیف کے حادثہ نے بھی ایک ایسا پہلو نمایاں کر دیا ہے.جس کی وجہ
357 سے حضور کی خدمت اقدس میں مبارک باد پیش کی جاتی ہے.وہ مبارک پہلو یہ ہے کہ اس جانکاہ حادثہ نے حضور کی جماعت پر نہ صرف کسی قسم کا خوف اور دہشت طاری نہیں کی.بلکہ ہر چھوٹے بڑے مرد عورت کو اسلام پر فدا ہونے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام کا بل کی سی خونخوار اور فوق آشام سرزمین میں بلند کرنے کے لئے جوش اور ولولہ سے بھر دیا ہے.اگر چہ ہر ایک احمدی کا دل اپنے پیارے بھائی نعمت اللہ خان کی تکلیف کے تصور سے مغموم ہوا.لیکن ہر ایک کو اسکی خوش بختی پر رشک بھی ہے اور ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ کاش! نعمت اللہ خان کی جگہ میں ہوتا.آہ! خدا تعالیٰ مجھے اس سعادت عظمی کے حاصل کرنے کی توفیق بخشے.پیارے آقا ! ایسی جماعت جس کے مخلصین حضور کے ارشاد پر اسلام کیلئے نہ صرف اپنے مال واموال اور عزیز و رشتہ دار چھوڑنے کیلئے تیار ہیں.بلکہ اپنی جان بھی پیش کرتے ہیں.اور اگر وہ قبول ہو جائے تو اسے اپنی انتہائی خوش قسمتی سمجھتے ہیں اور اس بات کو اپنی خوبی نہیں سمجھتے بلکہ حضور ہی کے پاک اور قدسی اثرات کا نتیجہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے برکات کا اثر یقین کرتے ہیں.کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کرنے سے محروم ہیں یا جو اپنی بدقسمتی سے حضور کے دامن سے وابستہ نہیں.انہیں یہ سعادت حاصل نہیں ہے.پس چونکہ حضور ہی کے طفیل مخلصین جماعت اپنے اندر اسلام کیلئے جاں نثاری اور خدا کاری کا ولولہ اور جوش پاتے ہیں اور اسے حضور کے انفاس قدسی کا اثر یقین کرتے ہیں.اسلئے اس مبارک جوش کیلئے اصل مبارکباد کی مستحق حضور ہی کی ذات والا صفات ہے اور اس وقت جبکہ حضور دین کی ایک بہت بڑی مہم سرکر کے کامیابی اور کامرانی کے پھر میرے اڑاتے ہوئے تشریف لا رہے ہیں جماعت کے اس جوش اور ولولہ کے متعلق بھی حضور ہی کی خدمت اقدس میں مبارکباد پیش کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ان فدا کاران جماعت کے نام بھی عرض کئے جاتے ہیں.جنہوں نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کے واقعہ سے متاثر ہو کر فوراً کابل روانہ ہو جانے کیلئے اپنے آپکو پیش کیا ہے اور جو صرف حضور کے ارشاد کے منتظر ہیں.انہیں حضور جانے کی اجازت دیں یا نہ دیں.انہوں نے اپنے نام جاں بازان اسلام میں لکھوا دیئے ہیں.خدا تعالیٰ انہیں ان کے اخلاص اور جوش دین کے بدلے میں اپنے انعام و اکرام سے سرفراز فرمائے.حضوران کے لئے خاص طور پر دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا عزم اور استقلال عطا کرے اور انہیں وہ نعمت عطا فرمائے جس
358 کے وہ دل سے خواہاں ہیں.“ ( الفضل ۱۹۲۴-۱۱-۲۵ صفحہ ۷ ) اخلاص کی قدر حضور کی نظر میں لاہور کی احمد یہ جماعت کے امیر محترم چوہدری صاحب تھے کہ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے شوریٰ میں فرمایا کہ: اس کا امیر بھی ایک ایسا شخص ہے جس سے مجھے تین وجہ سے محبت ہے.ایک تو ان کے والد کی وجہ سے جو نہایت مخلص احمدی تھے.میں نے دیکھا ہے انہوں نے دین کی محبت اپنی نفسانیت اور ”میں“ کو بالکل ذبح کر دیا تھا اور ان کا اپنا قطعاً کچھ نہ رہا تھا ، سوائے اس کے کہ خدا راضی ہو جائے.ایسے مخلص انسان کی اولاد سے مجھے خاص محبت ہے.دوسری وجہ یہ ہے کہ ان میں ذاتی طور پر بھی اخلاص ہے.اور آثار و قرائن سے ظاہر ہے کہ وہ اپنے آپ کو دین کی خاطر ہر وقت قربانی کے لئے تیار رکھتے ہیں.تیسری وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں علم ، عقل اور ہوشیاری دی ہے.اور وہ زیادہ ترقی کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں..سفر ہائے یورپ میں رفاقت ( ۱۹۲۴ء.۱۹۵۵ء ) حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے موعود سفر ہائے یورپ ۱۹۲۴ء.۱۹۵۵ء میں محترم چوہدری صاحب کو رفاقت اور خدمت کا موقعہ ملا.اور اوّل الذکر سفر میں مسجد فضل لندن کے سنگ بنیا د حضور کے دست مبارک سے رکھے جانے کی مبارک تقریب میں بھی شمولیت کی توفیق پائی.یہ سنگ بنیا د ۲۹۲۴.۱۰.۱۹ کو رکھا گیا تھا.محترم چوہدری صاحب نے سفر اول کے موقعہ پر انگلستان میں حضور کے سیکرٹری کے طور پر کام دیا.* اور مضمون کے ترجمہ کے کام میں خدمت کی توفیق بھی پائی.سفر یورپ ۱۹۲۴ء ویمبلے کا نفرنس میں حضور کا مضمون ۱۹۲۴.۹-۲۳ کو پڑھا جانا تھا.اس میں قطعا شک نہیں کہ کسی
359 مضمون کو خوش اسلوبی سے پڑھنا اسے چار چاند لگا دیتا ہے.اور سامعین کیلئے یہ امر بھی ایک خاص کشش کا باعث ہوتا ہے.صاف مئوثر ، بلند اور جاذب آواز سے پڑھنے والا میسر آنا اور ایسی توفیق مئوثر بلا میسر آنا بھی سراسر فضل الہی اور تائید ایزدی ہے اور یورپ کے لوگ جو اتنی اتنی دیر مسلسل بیٹھ کر تقاریر سننے کے عادی نہیں.اور دیر سے بیٹھے ہوئے تھے ان کے اس مضمون کو ہمہ تن گوش ہو کر سننے کا ایک باعث آپکا ان محاسن کے ساتھ مضمون کا پڑھنا بھی تھا.وَ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ آپ کے مضمون پڑھنے سے پہلے حضور نے حمد الہی کے بعد بتایا کہ میں دس بارہ ہزار کے مجمع میں چھ چھ گھنٹے متواتر زبانی تقریر کرتا ہوں.لیکن نوشتہ مضمون کے پڑھنے کا عادی نہیں.اس لئے اسے میرے ایک مرید چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بارایٹ لاء پڑھیں گے.الحکم رقمطراز ہے : وو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی خوش قسمتی قابل رشک ہے کہ لنڈن کی مذہبی کا نفرنس والے مضمون کے ترجمہ کی خدمت ان کے سپرد ہوئی.وہ ۱۵ جون کو روانہ ہونے والے تھے مگر اس ترجمہ کی تکمیل کیلئے اپنے سفر کو آخر جون پر ملتوی کر دیا.جزاہ اللہ احسن الجزاء.“ حضور ایدہ اللہ نے پورٹ سعید سے جماعت کے نام مکتوب میں رقم فرمایا کہ مذاہب کانفرنس کے لئے میں نے اردو میں مضمون لکھا تھا.” نظر ثانی اور ترجمہ اور اسکی اصلاح کا کام جس میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب، مولوی شیر علی صاحب اور عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب نے رات اور دن ایک کر دیا.فجر اھم اللہ احسن الجزاء - ۲ / جولائی کو جا کر ختم ہوا.(الحکم ۲۴ - ۸ - ۲۸) ۳ رستمبر کو حضور رات کو قریباً تین بجے تک مضمون سنتے رہے.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.بہت ہی قابل مبارکباد ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ ایسے عظیم الشان تبلیغی کام لے رہا ہے.اور ان کے والدین اور بھی زیادہ لائق تحسین اور قابل مبارکباد ہیں.جن کو اللہ تعالیٰ نے ایسا خادم دین بچہ دیا.چوہدری صاحب موصوف پانچ چھ دن سے دن رات ترجمہ کے کام میں مصروف ہیں.گو وقت کی تنگی کی وجہ سے ترجمہ کرنے میں جلدی کر رہے ہیں.اور زیادہ توجہ اور فکر کا موقعہ نہیں ملتا.مگر خدا نے ایسا موقعہ دیا ہے کہ اہل زبان لوگ بھی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے.برائیٹین میں حضور نے جو ایڈریس پڑھا تھا.اس مضمون کو برائین کے دو اخبارات نے پورا پورا شائع کیا ہے اور چوہدری صاحب کی انگریزی کی بڑی تعریف کی ہے.
360 چنانچہ حضور نے چوہدری صاحب کو اشارہ فرمایا اور وہ مضمون پڑھنے کیلئے کھڑے ہوئے حضور نے ان کو کھڑے ہوتے وقت کان میں کہا کہ گھبرانا نہیں.میں دعا کروں گا.“ و, چوہدری صاحب نے تعوذ اور تسمیہ پڑھنے کے بعد مضمون شروع کیا پڑھنے کا طریق اور مضمون کا اٹھان شاندار تھا.آواز بلند اور صاف تھی لرزہ بالکل نہ تھا.مضمون کا ایک ایک لفظ آخری آدمی تک نہایت عمدگی سے سنائی دیتا تھا.لوگ مضمون کے ایک ایک فقرے پر چیئر ز دینا چاہتے تھے مگر چوہدری صاحب ان کو موقعہ نہ دیتے تھے.پڑھنے میں ایسی روانی تھی کہ گویا ایک بڑا 14066 دریا بلکہ وسیع سمندر موجیں مار رہا ہے.از حضرت عرفانی صاحب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے نہایت بلند مئوثر لہجہ میں اس مضمون کو پڑھا.چوہدری صاحب ایک دن پہلے حلق کی خراش کی وجہ سے بیمار تھے مگر اس مضمون کو پڑھتے وقت خدا تعالیٰ نے ان کی مدد کی اور سامعین پر ایک وجد کی کیفیت طاری تھی.از مولانا عبدالرحیم صاحب در درضی اللہ عنہ) ”ہمارا مضمون غیر متوقع کامیابی کے ساتھ پڑھا گیا...چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے مضمون پڑھا اور نہایت خوبی سے پڑھا.ان کی آواز بہت صاف اور مئوثر تھی جو تمام سامعین تک بخوبی پہنچتی تھی.“ (الفضل ۲۴-۹-۳۰) مضمون ختم ہونے پر مذاہب کانفرنس کے صدر نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو مبارک باد دی.ایک صاحب نے جنہوں نے تمیں سال ہندوستان میں بطور مشنری کام کیا تھا.کہا :.میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں.زبان اچھی تھی اور پڑھنے میں بھی نہایت خوبصورتی تھی.ہر شخص بخوبی سن سکتا تھا اور الفاظ اور معانی کا تتبع کر سکتا تھا.“ ایک صاحب نے کہا : الفضل ۲۴ - ۱۰ - ۲۱ مضمون پڑھنے کا ذکر ریویو آف ریلیجنز (انگریزی ) بابت مارچ ۱۹۲۵ء میں بھی ہے.
361 کیا پیاری زبان تھی.یہ تو اٹھارہویں صدی کی زبان تھی.آج کل کی بازاری زبان نہ تھی.“ ایک بڑھے انگریز نے چوہدری صاحب سے آکر کہا : میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں.میں بڑھا ہوں.کچھ بہرہ بھی ہوں اور بیٹھا بھی سب سے اخیر پر تھا مگر آپ کے مضمون کا ایک ایک لفظ مجھے سنائی دیا ہے اور سمجھ میں آیا ہے.“ چوہدری صاحب نے کہا.میں اہل زبان نہیں ہوں مجھے اندیشہ تھا کہ شاید میرا لہجہ نہ سمجھ آسکے گا.انگریز نے کہا نہیں.آپ نے نہایت خوبی سے مضمون پڑھا ہے اور نہایت اچھی طرح سے ہر ایک کی سمجھ میں آیا ہے.“ " مسز شار پلز کہ وہ بھی اس کا نفرنس کی سیکرٹری ہے.اس نے چوہدری صاحب سے کہا.کیا ترجمہ بھی آپ ہی کا کیا ہوا ہے.جواب اثبات میں پا کر کہا.میں آپ کو مبارکباد دیتی ہوں کہ لوگ آپ کے بڑے مشکور ہیں کیا بلحاظ زبان کے اور کیا بلحاظ پڑھنے کے.“ * سفر یورپ ۱۹۵۵ء ۱۹۵۵ء میں بھی چوہدری صاحب کو حضور کے سفر مشق اور یورپ کے اکثر حصہ میں معیت ور فاقت و خدمت کا موقعہ ملا.اور چوہدری صاحب نے بھی سفر یورپ کا مشورہ دیا تھا * اور کراچی سے چوہدری صاحب رفقاء سفر میں شامل تھے اور دمشق میں مسیح کے دوفرشتوں کے ساتھ اترنے کی الفضل ۱۹۲۴-۱۰-۲۳ - رپورٹ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی.محترم چوہدری صاحب کو اس سفر یورپ میں خدمات کے مزید مواقع بھی حاصل ہوئے جن میں سے بعض کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے: مولا نا عبدالرحیم صاحب نیئر رضی اللہ عنہ نے ۱۹۲۴.۱۰.ےکو ایک ایٹ ہوم دیا جسمیں ایک کثیر تعداد انگریزوں اور ہندوستانیوں کی نیز سفارت ترکیہ کے ارکان مدعو تھے اور افتتاحی تقریر بھی
362 پیشگوئی دوسری بار اس سفر میں پوری ہوئی اور ان دو فرشتوں میں سے ایک چوہدری صاحب محترم تھے.وَذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ - چوہدری صاحب کے خلوص کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا.فَالْحَمْدُ لله عَلیٰ ذَالِک.حضور نے ایک پیغام میں چوہدری صاحب کے اخلاص کی بقیہ حاشیہ:- نیئر صاحب نے کی.حضور سے عرض کیا گیا کہ اپنا پیغام اہل یورپ کو پہنچائیں.مکرم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے حضرت اقدس کا پیغام نہایت قابلیت سے پڑھ کر سنایا.(الفضل ۲۴.۱۰.۷ مکتوب حضرت عرفانی صاحب) ۱۴-۹-۱۹۲۴ کو پورٹ سمتھ میں دو تقریریں ہونی تھیں.چنانچہ حضرت عرفانی صاحب رقم فرماتے ہیں: آج (۲۴.۱۳۹ کو ) حضرت نے پورٹ سمتھ کے لئے لیکچر لکھنا شروع کیا.حضرت لکھتے جاتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ جناب چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اس کا ترجمہ کرتے جاتے تھے اور رات کے بارہ بجے تک ترجمہ اور ٹائپ کا کام ختم ہو گیا.یہ ۲۸ صفحہ کا مضمون ہے.(۱۴ کو ) واٹرلونا می سٹیشن سے سوار ہوئے اس سفر میں حضرت کی ہمرکابی کی عزت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ، مولوی رحیم بخش صاحب ، مولوی محمد دین صاحب، ڈاکٹر صاحب.اور خادم عرفانی کو حاصل تھی.رات کو وہاں قیام رہا.“ ( ۲۴-۱۰-۱۴) حضرت اقدس کا خیال یہ تھا کہ میں تھوڑا سا حصہ پڑھ کر چوہدری ظفر اللہ صاحب کو دیدوں گا.مگر جب وقت آیا تو آپ نے ہی اس کو ختم کیا...( اس میں ابتدا میں فرمایا ) میری انگریزی بولنے کی عمر صرف ایک ماہ ہے.میرا یہ طریق ہے کہ میں اپنا لیکچر اُردو میں لکھتا ہوں اور اسے میرا ایک بھائی اور مرید انگریزی میں ترجمہ کرتا ہے اور وہی اسے پڑھ دیتا ہے.“ پھر کھانا ہوا اور وہاں کے طریق کے مطابق اسکے بعد تقریروں کا بھی تبادلہ ہوتا ہے.چنانچہ مسٹرا یبٹ نے حضور کا شکر یہ ادا کیا.مرقوم ہے کہ: چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ( جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے حضرت خلیفتہ امسیح علیہ السلام کی لسان بنا دیا ہے اور اکثر موقعوں پر یہ مایہ ناز
363 تعریف فرمائی کہ محض میری خاطر یورپ سے کراچی آئے.تا کہ میرے سفر میں رفاقت کریں اور میری صحت کا خیال رکھیں.اور اللہ تعالیٰ نے انہیں میرے لئے فرشتہ رحمت بنا دیا.اور اللہ تعالیٰ ان کی محبت کو قبول کر کے دنیا و آخرۃ میں ایسا اجر دیگا کہ پچھلے ہزار سال کے بڑے آدمی بھی اس پر رشک کریں گے.* دو انعام تو چوہدری صاحب کو دست بدست ملے.ایک سرزمین ہالینڈ میں اولین مسجد کا سنگِ بنیا د رکھنے کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا.دوسرے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی زیر نگرانی جو دنیا بھر کے براعظموں کے مبلغین کی کانفرنس لندن میں منعقد ہوئی.اور ان براعظموں میں تبلیغ اسلام کی توسیع جماعت کے نام پیغام مورخها / مارچ ۱۹۵۵ء میں حضور رقم فرماتے ہیں :- یورپ جانے میں مشکلات بہت کم ہیں.میں نے عزیزم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو مشورہ کے لئے تار دی.تو انہوں نے تار میں جواب دیا ہے کہ خدا کے فضل سے یورپ کے بعض ممالک میں علاج کی بہت سی سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں اور کامل سامان مل سکتا ہے.اس لئے پیشتر اس کے کہ تکلیف بڑھ جائے میں یورپ چلا جاؤں اور وہاں کے ڈاکٹروں سے علاج کرواؤں“.142 بقیہ حاشیہ: - - عزت اور شرف انہیں مل چکا ہے کہ ترجمانی کے اہم فرائض کو سرانجام دیں اور اس طرح پر اللہ تعالیٰ نے انہیں لسان خلافت کا شرف بخشا ہے.کھڑے ہوئے انہوں نے ذرا بھی تائل اور توقف کے بغیر تقریر کی.۱۹۲۴.۹.۱۵ کو ہندوستانی طلباء کی طرف سے حضور مدعو تھے.حضور نے اُردو میں سپاسنامے کا جواب دیا.جس کا ایسا لطیف خلاصہ انگریزی میں چوہدری صاحب نے بیان کیا کہ حضرت عرفانی صاحب رقم فرماتے ہیں : ہر زبان پر عش عش تھا.کیا اس وجہ سے کہ حضور کی تقریر کو انہوں نے پورے طور پر بیان کیا.اور کیا اس لحاظ سے کہ زبان ایسی صاف مئوثر اور رواں تھی کہ ربانی تائید نظر آتی تھی.اللہ تعالیٰ اس نوجوان کو نظر بد سے بچائے اور اسے سلسلہ کی خدمت کے لئے بہت بڑے بڑے موقعے دے.آمین.،،
364 کے لئے جو اہم فیصلے کئے گئے.اس میں شرکت کرنے اور مشورہ دینے کا آپ کو موقعہ ملا.حضور نے بقیہ حاشیہ: - برادر خالد شیلڈرک کی درخواست پر انکے احباب میں حضور نے ہندوستان کی سیاسی حالت پر خطاب کرنا منظور فرمایا تھا.چنانچہ ۱۹۲۴.۱۰.۲۶ کو ان احباب میں حضور نے تمہیدی الفاظ میں فرمایا: دو میں لکھے ہوئے پرچے پڑھنے کا عادی نہیں ہوں.میں ہمیشہ اپنی زبان میں کئی کئی ہزار آدمیوں کے درمیان متواتر کئی گھنٹہ تک زبانی تقریر کرتا ہوں.اسلئے میں آپکی اجازت سے اپنے دوست اور بھائی چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بارایٹ لاء کو اپنا لیکچر پڑھنے کے لئے کہتا ہوں...اس قدر کہہ دینے......کے بعد میں چوہدری صاحب سے کہتا ہوں کہ وہ لیکچر پڑہیں.چو ہدری صاحب کا استقبال بھی چیئر ز سے ہوا.بار بار نعرہ ہائے تحسین بلند کئے گئے.جو باتیں زبانی حضور بتائی تھیں.آپ نے وہ بھی بیان کر دیں.۲۸-۹-۱۹۲۴ کو حضور کا مضمون بابت حیات وتعلیمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 12.66 چوہدری صاحب نے پڑھا.( ریویو آف ریلیجنز انگریزی بابت دسمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۲۴۳) حضور کی سفر یورپ سے واپسی پر ایڈریس میں جماعت لاہور کی طرف سے یہ بھی بیان کیا گیا کہ: ہم خادمان تمام جماعت کے ساتھ حضور کے اس احسان کے ممنون و شاکر ہیں جو جناب مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب امیر جماعت لاہور کے سپر د حضور نے خاص خدمات فرما کر جماعت کیلئے ایک تسلی کی خاص سبیل نکال دی.اور ہم خادمان یقین رکھتے ہیں کہ انکی موجودگی ضرور ہمارے لئے دعا کی تحریک کا ذریعہ ہوتی رہی ہوگی.“ یہ ایڈریس ریلوے اسٹیشن امرتسر پر ۲۴-۱۱-۲۳ کو بشمول چوہدری صاحب محترم امیر جماعت 66 چھیں نمائندگان جماعت لاہور کی طرف سے پیش کیا گیا تھا.(الحکم ۱۹۲۴-۱۲-۱۴صفحہ ۵ و ۶)
365 وو ۲۲-۵-۱۹۵۵ کو زیورچ سے جو پیغام جماعت کے نام ارسال فرمایا.اس میں رقم فرماتے ہیں : سالہا سال کی بات ہے میں نے خواب دیکھی تھی اور وہ اخبار میں کئی بار چھپ بھی چکی ہے.میں نے دیکھا کہ میں کرسی پر بیٹھا ہوں اور سامنے بڑا قالین ہے.اور اس قالین پر عزیزم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ، عزیزم چوہدری عبداللہ خان صاحب اور عزیزم چوہدری اسد اللہ خان صاحب لیے الفضل ۵۵-۵-۲۱ (صفحه ۵ کالم۱) و ۵۵-۶-۸ (صفحه۳) و ۵۵-۵-۲۹ (صفحها) ۳۰-۴-۵۵ کو حضور بذریعہ طیارہ دمشق میں نزول فرما ہوئے.علاوہ جماعت احمدیہ چوہدری صاحب کے باعث سفیر پاکستان سید لال شاہ بخاری مع سٹاف استقبال کے لئے موجود تھے.ہوائی سفر میں چوہدری صاحب حضور کے ساتھ کی سیٹ پر تشریف فرما تھے اور خدمت کے لئے بیدا ر ر ہے.دمشق میں حضور نے رات کو گھبراہٹ کے باعث چوہدری صاحب کو بلوانے کے لئے کہا کہ شاید ہمیں یہیں سے واپس جانا پڑے.رات چوہدری صاحب فون پر نہ مل سکے.صبح فون ہوا تو آئے اور حضور سے باتیں کرتے رہے اور آہستہ آہستہ حضور کی طبیعت سنبھل گئی اور چوہدری صاحب و بعض دیگر افراد کی معیت میں حضور کچھ وقت کے لئے سیر کو اور پھر ایک دوست کے ہاں دعوت پر تشریف لے گئے.اس سفر کے متعلق حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا : - چوہدری صاحب ساری رات مجھے کمبلوں سے ڈھانکتے رہے...میں ۱۷۲ 121 نے چوہدری صاحب کی طرف دیکھا تو ان کا چہرہ مجھے بہت نڈھال نظر آیا....چوہدری صاحب نے قہوہ منگوا کر دیا.۱-۵-۵۵ کو حضور تین چار میل کے فاصلہ پر ایک باغ میں تشریف لے گئے.چوہدری صاحب بھی ساتھ تھے.پروگرام یہ طے ہوا کہ حضور بیروت اور وہاں سے روم کے راستہ جنیوا جائیں گے اور چوہدری صاحب روم تک ساتھ ہوں گے.سید منیر مالکی کے ہاں ۵۵-۵-۵ کو حضور کی دعوت میں چوہدری صاحب بھی مدعو تھے.اگلے روز حضور کچھ دیر مجلس میں رونق افروز رہے.جس میں تلاوت قرآن مجید کے علاوہ حضرت مسیح موعود کا ایک قصیدہ پڑھا گیا اور ایک دوست نے اپنا قصیدہ پڑھا اور بالآ خر دُعا ہوئی.چوہدری صاحب بھی اس تقریب میں شامل تھے.
366 ہوئے ہیں.سر ان کے میری طرف ہیں اور پاؤں دوسری طرف ہیں اور سینہ کے بل لیٹے ہوئے ہیں اور میں دل میں کہتا ہوں کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں.عزیزم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ساری عمر دین کی خدمت میں لگائی بقیہ حاشیہ :.اس جگہ بقیہ سفر میں چوہدری صاحب کی رفاقت کے کوائف بھی مختصر ادرج کئے جاتے ہیں: حضور کے ہمراہ روم تک چوہدری صاحب رفیق سفر رہے.ہوائی جہاز میں حضور کے سامنے کی سیٹ ان کی تھی اور روم پہنچنے پر چوہدری صاحب اسی جہاز پر ہیگ چلے گئے.حضور نے ایک تار میں فرمایا: (چوہدری صاحب) روم تک ہمارے ساتھ رہے....ان کا ساتھ خدا کے فضل سے ایک نعمت ثابت ہوا 126 ۲۸-۵-۵۵ کو چوہدری صاحب ہیگ سے حضور کی خدمت میں زیورچ حاضر ہونے والے تھے.حضور نے صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو ہوائی اڈہ پر چوہدری صاحب کو لانے کے لئے بھجوایا.آپ نے شام کا کھانا حضور کے ہمراہ کھایا.حضور مع دیگر افراد آپ کے ہمراہ ۳۰-۵-۵۵ کو جنیوا کو روانہ ہوئے.کار میں حضور کی معیت میں چوہدری صاحب بھی تھے.لوزون شہر تک چوہدری صاحب نے رفاقت کی اور وہاں سے واپس ہوئے.۵۵-۶-۹ کو پھر چوہدری صاحب ہیگ سے زیورک حضور کی خدمت میں پہنچے تا کہ حضور کے ساتھ آئندہ سفر یورپ میں شریک رہ سکیں.۵۵-۶-۱۰ کو وہاں سے روانگی ہوئی.حضور کے ساتھ کار میں چوہدری صاحب بھی سوار تھے.شہر MESTRE جو وٹنیس سے آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے، پہنچے.حضور کو اکیلے چوہدری صاحب چھوٹے جہاز کے ذریعہ و نفیس شہر لے گئے جہاں ایک ہوٹل میں قیام کیا.اس طرح حضور کو گیراج وغیرہ کے انتظام کے اختتام تک دیگر رفقاء کے ساتھ انتظار کی تکلیف نہ ہوئی.پھر ایک کشتی میں سیر کی.چوہدری صاحب بھی ہمراہ تھے.کشتی سے اتر کر حضور چوک کے کنارے ایک گرجے تک گئے اور ایک جگہ بیٹھ گئے اور دیر تک چوہدری صاحب کے ساتھ گفتگو فرماتے رہے.پھر ہوٹل واپس آ کر کھانا کھایا.پھر حضور ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کے ہمراہ سیر کے لئے ایک کشتی میں روانہ
367 ہے.اور اس طرح میرا بیٹا ہونے کا ثبوت دیا.میری بیماری کے موقعہ پر تو اللہ تعالیٰ نے صرف ان کو اپنے بیٹا ہونے کو ثابت کرنے کا موقعہ دیا.بلکہ میرے بقیہ حاشیہ:.ہوئے اور خواتین کو پیدل مقامِ سیر تک لے جانے کا کام چوہدری صاحب کے سپر د ہوا.(۱۲-۶-۵۵) حضور مع خواتین ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب و چوہدری صاحب بازار میں کچھ چیزیں خریدنے گئے.خواتین کو برقعوں میں دیکھ کر ہجوم ہو جاتا.دونوں شوفروں نے نہایت وفاداری سے ہر جگہ ہجوم کو پرے رکھا اور دکان پر ایک شوفر نے پہرہ دیا اور لوگوں کو اندر نہ آنے دیا اور جب ہجوم بہت بڑھ گیا تو اس نے فوراً پولیس کے آدمی بلالئے جو واپسی پر ساتھ رہے اور راستہ صاف کرتے رہے.۵۵-۶-۱۴ کو روانگی تھی.چوہدری صاحب موٹروں کا پتہ کرنے گئے.قبل ازیں صبح سے چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ پرائیویٹ سیکرٹری دونوں شوفروں کے ساتھ سامان اور موٹریں نکلوانے کے لئے گئے ہوئے تھے.چنانچہ و نفیس سے آسٹریا کے شہر انز بروک کے لئے روانہ ہوئے.ڈولو مائیٹ سلسلہ کوہ سے گزرتے ہوئے اٹلی کے شہر کا زینہ پہنچے اور وہاں سے روانہ ہوئے.ڈولو مائیٹ سلسلہ کوہ سے گزرتے ہوئے اٹلی کے شہر کا زینہ پہنچے اور وہاں سے روانہ ہوکر مشہور تاریخی درو برینر (Brenner) سے گزر کر اٹلی میں داخل ہوئے.گزشتہ عالمگیر جنگ میں ہٹلر اور مسولینی کی ملاقات اسی درہ میں ہوئی تھی اور پھر نز بروک پہنچ کر قیام کیا.۵۵-۶-۱۵ کو وہاں سے روانہ ہو کر جرمنی کے شہر میونچ میں پہنچے.ہر ہٹلر نے اپنی تحریک کا آغاز اسی شہر سے کیا تھا.وہاں سے نیورمبرگ پہنچے.(الفضل ۵۵-۶-۱۶ کو نیورمبرگ کے مقامی احمدیوں کا اجلاس تھا.اس میں حضور اور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بھی شریک ہوئے اور نیورمبرگ اور جرمنی میں تبلیغ اسلام کے موضوع پر تبادلہ خیالات ہوا.ان نو مسلموں نے کہا کہ مسجد ہم اپنے ہاتھوں سے تعمیر کر لیں گے.حضور زمین خرید دیں.جس کا حضور نے وعدہ فرمایا.حضور نے انگریزی میں تقریر میں فرمایا کہ جرمن قوم میں یہ خوبی ہے کہ باوجو د تباہ ہو جانے کے جلد ترقی کی طرف بڑھتی ہے اور حضور کا خواب ہے کہ جرمن قوم اسلام کی طرف جلد آئے گی.۵۵-۶-۱۷ کو نیورمبرگ سے روانہ ہو کر کٹر نگن (KITZINGEN) فرینکفرٹ، پیٹرز برگ، بان (دارالحکومت مغربی جرمنی ) ہوتے ہوئے ہاڈ گوڈ ز برگ پہنچے.یہاں چوہدری صاحب نے قیام کا انتظام ایک دوست کی معرفت رائن لینڈ ہوٹل
368 لئے فرشتہ ء رحمت بنا دیا وہ میری محبت میں یورپ سے چل کر کراچی آئے اور میرے ساتھ چلنے اور میری صحت کا خیال رکھنے کے ادارہ سے آئے.چنانچہ ان کی وجہ سے سفر بہت اچھی طرح کٹا اور بہت سی باتوں میں آرام رہا.آخر کوئی انسان پندرہ بیس سال پہلے تین نوجوانوں کے متعلق اپنے پاس سے کس طرح ایسی خبر دے سکتا تھا.دنیا کا کون سا ایسا مذہبی انسان ہے جس کے ساتھ محض مذہبی تعلق کی وجہ سے کسی شخص نے جو اتنی بڑی پوزیشن رکھتا ہو جو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رکھتے ہیں، اس اخلاص کا ثبوت دیا ہو.کیا یہ نشان نہیں ؟ مخالف مولوی اور پیر گالیاں تو مجھے دیتے ہیں ، مگر کیا وہ اس قسم کے نشان کی مثال بھی پیش کر سکتے ہیں.کیا کسی مخالف اور پیر نے ۲۰ سال پہلے کسی بقیہ حاشیہ: میں کروایا ہوا تھا.وہاں قیام ہوا.۵۵-۶ - ۱۸ کو باڈ گوڈ ز برگ سے روانہ ہوکر سر زمین ہالینڈ میں داخل ہوئے اور ہیگ پہنچے.یہاں کے قیام میں حضور ایک دفعہ چوہدری صاحب کے ساتھ سیر کے لئے تشریف لے گئے اور PeacePalace کے اندر تشریف لے جا کر وہ کمرہ دیکھا جس میں بین الاقوامی عدالت کے جج عدالت کرتے ہیں.پھر اور کمرے دیکھے اور پھر پیلیس سے باہر باغ میں کچھ دیر چہل قدمی کے بعد واپس تشریف لے آئے.حضور مع قافلہ ۶-۵۵ - ۲۵ کو ہیمبرگ اور پھر لندن تشریف لے گئے.۲۳ ۲۴ جولائی کو مبلغین کی عالمی کانفرنس میں شرکت کر کے چوہدری صاحب امریکہ گئے اور ۴/اگست کو واپس لندن پہنچے.اگلے روز خطبہ جمعہ جو حضور نے ارشاد فر مایا.چوہدری صاحب نے انگریزی میں اس کا خلاصہ بیان کیا.(الفضل ۵۵ - ۵ - ۲۷، ۵۵-۸-۲) لندن سے پاکستان کے لئے مراجعت کے وقت اہتمام کیا گیا.لندن کے میئر پاکستان کے ہائی کمشنر اور متعدد دیگر ممتاز شخصیتوں نے شمولیت کی.جماعت نے سپاسنامہ پیش کیا اور بعض دیگر افراد نے بھی خراج عقیدت پیش کیا.اس دعوت کی صدارت کے فرائض چوہدری صاحب نے سرانجام دئے اور حضور کی اُردو کی تقریر کا انگریزی میں ترجمہ کیا.۲۶ / اگست کو حضور مراجعت فرمائے پاکستان ہوئے.خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ کی طرف سے اس سفر یورپ کی تصاویر کا جوالبم شائع ہوا ہے اس میں بہت سی تصاویر میں چوہدری صاحب بھی شامل ہیں.۱۷۴
369 نوجوان کے متعلق ایسی خبر دی.اور بیس سال تک وہ خبر پوری ہوتی رہی اور کیا کسی ایسے مولوی اور پیر کی خدمت کا موقعہ خدا تعالیٰ نے کسی شخص کو دیا جو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی پوزیشن رکھتا تھا.اللہ تعالیٰ ان کی خدمت کو بغیر معاوضہ کے نہیں چھوڑے گا اور انکی محبت کو قبول کر یگا اور اس دنیا اور اگلی دنیا میں اس کا ایسا معاوضہ دیگا کہ پچھلے ہزار سال کے بڑے آدمی اس پر رشک کریں گے.کیونکہ وہ خدا شکور ہے اور کسی کا احسان نہیں اٹھاتا.اس نے ایک عاجز بندہ کی محبت کا اظہار کیا اور اس کا بوجھ خود اٹھانے کا وعدہ کیا.اب یقیناً جو اس کی خدمت کرے گا.خدا تعالیٰ اس کی خدمت کو قبول کرے گا.خدا تعالیٰ اسکی خدمت کو قبول کرے گا اور دین و دنیا میں اس کو ترقی دیگا.وہ صادق الوعد ہے اور رحمان و رحیم ہے.“ ( الفضل ۱۹۵۵-۵-۲۹ صفحہ۱) * مجلس معتمدین و مقامی مجلس شورای کی تعزیتی قرار د بذریعہ ریزولیوشن نمبر ۱۸۱ مورخه ۱۹۲۶-۹-۶ مجلس معتمدین نے ذیل کی تعزیتی قرار داد کے ذریعہ حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کی وفات پر اظہار افسوس کیا: رپورٹ قائم مقام ناظر اعلیٰ کہ جناب چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کا ۲.۳ رستمبر ۱۹۲۶ء کی حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی رقم فرماتے ہیں : ,, جب جناب چوہدری صاحب ہندوستان کی مرکزی حکومت کے رکن کی حیثیت میں دہلی میں مقیم تھے تو میں نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب آپ کی کوٹھی کے برآمدہ میں کھڑے ہو کر قرآن کریم سے سورہ یوسف تلاوت فرما رہے ہیں.اور بلند آواز سے کہتے ہیں میرا یوسف ، میرا یوسف اور اشارہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی طرف کرتے ہیں.“ ( حیات قدسی حصہ پنجم.صفحہ ۱۰۰) حدیث شریف میں آتا ہے کہ المؤمن یری ویری له که مومن بعض دفعہ اپنے متعلق خود خواب دیکھتا ہے اور بعض دفعہ دوسرے کو دکھلائی جاتی ہے.چنانچہ یہ بتایا گیا کہ دنیوی اقبال اور دینی
370 درمیانی رات کو انتقال ہو گیا ہے.إِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.چوہدری صاحب مجلس معتمدین کے ناظر اعلیٰ تھے.ضروری ہے کہ مجلس کی طرف سے ان کی وفات پر اظہار رنج و غم اور آپ کے ورثاء سے تعزیت کا ریزولیوشن پاس کیا جائے.مجلس میں پیش ہو کر پاس ہوا کہ : مجلس معتمدین حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب رضی اللہ عنہ سابق ناظر اعلیٰ جماعت احمدیہ قادیان کی وفات حسرت آیات پر اپنے دلی رنج و غم کا اظہار کرتی ہے.اور مرحوم و مغفور کے پسماندگان کے ساتھ اس صدمہ جا نگاہ کے سبب رنج و غم میں اظہار شرکت و دلی ہمدردی کرتی ہے.چوہدری صاحب رضی اللہ عنہ کی خدمات سلسلہ جو باوجود پیرانہ سالی اور امراض کے وہ بحیثیت ناظر اعلیٰ بجالاتے رہے ہیں.ایسی ہیں کہ ان کی وفات کو یہ مجلس ایک قومی صدمہ بجھتی ہے اور دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور انکے صاحبزادگان کو اپنے والد بزرگوار سے زیادہ خدمت اسلام کی توفیق بخشے.آمین.نمبر ونقل ریز ولویشن بخدمت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بیرسٹر ایٹ لاء خلف اکبر چوہدری صاحب مرحوم و مغفور و تمام اخبارات سلسله و دیگر اخبارات کو بغرض اشاعت بھیجی جائے.خاکسار شیر علی قائم مقام ناظر اعلی.قادیان بقیہ حاشیہ: اعزاز ساتھ ساتھ رہیں گے.گویا خاتمة بالخیر کا مردہ ہے.اور اللہ تعالیٰ نے سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی زبان مبارک سے بھی یہ بشارت دلوا دی ہے.اے اللہ ! تو ایسا ہی کر آمین.عنفوان شباب میں لندن میں قیام کے دوران میں حضرت یوسف کی طرح آپ نے تقویٰ سے زندگی بسر کی.چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب نے اس کی شہادت دی تھی اور لکھا تھا:.لندن شہر اس وقت زیب و زینت اور دلکشی میں مصر سے بڑھا ہوا ہے لیکن چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اس میں حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح تقویٰ اور طہارت کا نمونہ پیش کر رہے ہیں.“ ( حیات قدسی حصہ پنجم صفحه۱۰۰)
371 تاثرات حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بابت حضرت چوہدری صاحب متعدد مواقع پر سید نا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت چوہدری صاحب کے متعلق اپنے تاثرات بیان فرمائے.ان کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے : (۱) آپ کی اولاد کے متعلق فرماتے ہیں : چوہدری شکر اللہ خان صاحب...سلسلہ سے دیوانہ وار محبت رکھتے تھے.ان کی بیوی.( بھی ) احمدیت سے ایک والہانہ محبت رکھتی تھیں.( الفضل ۱۹۵۶-۸-۱۸) کراچی میں ۲۵ / جون ۱۹۵۴ء کو خطبہ جمعہ میں وہاں کی جماعت کو خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: وو یہاں کی جماعت اپنی جد و جہد اور قربانی کے لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتی ہے.کچھ اس میں اس بات کا بھی دخل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بعض خاندانوں کو دین کی خدمت کا موقع عطا فرما دیتا ہے اور انکی وجہ سے جماعت ا ترقی کر جاتی ہے.سترہ اٹھارہ سال کی بات ہے میں نے رویا میں دیکھا کہ میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوں اور میرے سامنے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب لیٹے ہوئے ہیں اور گیارہ بارہ سال کی عمر کے معلوم ہوتے ہیں.ان کے دائیں بائیں چوہدری عبداللہ خان صاحب اور چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیٹھے ہیں اور انکی عمر میں بھی آٹھ آٹھ نو نو سال کے بچوں کی سی معلوم ہوتی ہیں.تینوں کے منہ میری طرف ہیں اور تینوں مجھ سے باتیں کر رہیں ہیں اور بڑی محبت سے میری باتیں سن رہے ہیں.اس وقت یوں معلوم ہوتا کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں.اور جس طرح فراغت کے وقت ماں باپ اپنے بچوں سے باتیں کرتے ہیں.اسی طرح میں ان سے باتیں کر رہا ہوں.....چنانچہ اس رؤیا کے بعد اللہ تعالیٰ نے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو جماعت کا کام کرنے کا بڑا موقع دیا اور لاہور کی جماعت نے ان کی وجہ سے خوب ترقی کی.اسکے بعد چوہدری عبداللہ خان صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کراچی میں کام کرنے کی توفیق دی اور
372 12866 چوہدری اسد اللہ خاں صاحب آج کل لاہور کی جماعت کے امیر ہیں.کیا ہی خوش قسمت تھے یہ والدین جن کی اولاد ایسی خادم دین ہے.اللہ تعالیٰ سب کا انجام اپنی رضا پر کرے.آمین.(۲) مکانیت کی کمی کے باعث تنگی سے جلسہ سالانہ پر گزارا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: ”ہمارے گھر میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اُترا کرتے ہیں.وہ اچھے امیر آدمی ہیں دو تین ہزار روپیہ ماہوار آمدنی رکھتے ہیں.مگر ان کے خاندان کے دس بارہ آدمی ایک ہی چھوٹی سی کوٹھڑی میں گزارا کر لیتے ہیں.ان کے والد چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کی ایک بات مجھے ہمیشہ پیاری معلوم ہوتی ہے.حضرت خلیفہ اول کی زندگی کے آخری سال میں جلسہ میں مہمان نوازی کا افسر تھا.چوہدری صاحب آسودہ حال آدمی تھے اور عمر بھی ان کی زیادہ تھی میں نے ان کے لئے علیحدہ مکان کی کوشش کی.مگر انہوں نے کہا.میں سب کے ساتھ ہی رہونگا.مگر اس طرح وہ بیمار ہو گئے.اگلے سال یعنی میرے ایام خلافت میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے ان سے کہا کہ پچھلے سال آپ کو تکلیف ہو گئی تھی.اب کے علیحدہ ٹھہر نے کا انتظام کیا جائے گا.مگر انہوں نے جواب دیا.آگے ہی پلاؤ کھانے والے اور اپنے لئے خاص آرام چاہنے والے الگ ہو گئے ہیں.میں تو سب کے ساتھ ہی رہوں گا.(۳) حضور نے فتنہ احرار کے مقابلہ کے لئے ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کا اعلان فرمایا.جماعت احمدیہ سے قربانی کے مطالبات کی سکیم کے بعض اجزاء کی تشریح کرتے ہوئے جماعت کو مزید قربانیوں کی تلقین کرتے ہوئے حضور نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا : 12466 میں نے پچھلے ایک خطبہ میں کہا تھا کہ غرباء زیادہ حصہ لے رہے ہیں اور ان کیلئے جو سہولتیں رکھی ہیں.ان کو استعمال کر رہے ہیں اور غالبا یہ بھی کہا تھا کہ مالی طور پر ان کے روپیہ سے شاید زیادتی نہ ہو.مگر اخلاص کے لحاظ سے ضرور ہوگی.مگر اب معلوم ہوا ہے کہ غرباء شاید مال کو بھی بڑھا دینگے.کیونکہ یہ ظاہر ہو
373 رہا ہے کہ جب انہوں نے لبیک کہا تھا.تو انکے دل کے ذرہ ذرہ سے لبیک کی صدا اُٹھ رہی تھی.اس کے بالمقابل بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو زیادہ حصہ لے سکتے تھے.مگر انہوں نے نہیں لیا اور بعض کو بظاہر جتنی توفیق تھی ، اس سے زیادہ حصہ لے سکتے تھے مگر انہوں نے نہیں لیا اور بعض کو بظاہر جتنی توفیق تھی.اس سے زیادہ حصہ لے رہے ہیں.جو لوگ میرے مخاطب تھے یعنی آسودہ حال.ان میں سے اس وقت تک صرف پانچ چھ نے ہی حصہ لیا ہے.میں نے آسودگی کا جو معیار اپنے دل میں رکھا تھا.وہ یہ تھا کہ جو لوگ ڈیڑھ سو یا اس سے زیادہ آمد رکھتے ہیں وہ آسودہ حال ہیں.ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو فی الواقعہ امیر ہوں.متوسط طبقہ زیادہ ہے.اور انہی کو ہم امیر کہہ لیتے ہیں.مگر ہمارے متوسط طبقہ نے جو قربانیاں کی ہیں وہ اپنی شان میں بہت اہم ہیں.بعض نے تو ان میں سے چار چار ماہ کی آمدنیاں دے دی ہیں.اور زیادہ تر حصہ بھی انہی لوگوں نے لیا ہے.جو غرباء یا متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ گوانکے وسائل کمزور ہیں مگر دل وسیع ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی تھی بَدَءَ الْإِسْلَامُ غَرِيباً وَسَيَعُودُ غَرِيباً ـ اسلام غریب ہی شروع ہوا اور آخر زمانہ میں پھر غریب ہو جائے گا.کون ہے جو بچہ سے پیار کرتا ہے مگر اس کا باپ یا اسکی ماں؟ کون ہے جو بھائی سے پیار کرتا ہے مگر اس کا بھائی ؟ کون ہے جو غریب الوطن سے ہمدردی کرتا ہے مگر اس کا ہموطن ؟ ان غریبوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنی غربت میں بھی غریب اسلام کو نہیں بھولے.کیونکہ وہ بھی غریب ہیں اور اسلام بھی غریب اور اس طرح وہ اسکے رشتہ دار ہیں.اور اسکی غربت کی حالت کو دیکھنا پسند نہیں کرتے.اور اپنے خون سے اس کی کھیتی کو پینچ کر وہ اس کی حالت کو بدلنا چاہتے ہیں.رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ - دد بعض لوگ مالی لحاظ سے غریب ہوتے ہیں اور بعض دل کے غریب ہوتے ہیں اور دل کے غریب وہ ہوتے ہیں جو کبر محسوس نہ کریں.میں نے
374 بیسیوں تحریکیں اپنی خلافت کے زمانہ میں کی ہیں مگر کئی امراء اور علماء ہماری جماعت کے ایسے ہیں کہ انہوں نے ان میں بہت ہی کم حصہ لیا ہے.اسلئے جو امراء تحریکات میں حصہ لیتے ہیں.ان کو بھی میں غرباء میں ہی شامل کرتا ہوں کیونکہ وہ دل کے غریب ہیں.تحدیث نعمت کے طور پر میں چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم کی اکثر اولاد بالخصوص چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کا ذکر کرتا ہوں.میں نے آج تک کوئی تحریک ایسی نہیں کی جس میں انہوں نے حصہ نہ لیا ہو.خواہ وہ تحریک علمی تھی یا جسمانی یا مالی یا سلوک کی خدمت کی تھی.انہوں نے فوراً اپنا نام اس میں پیش کیا اور پھر خلوص کے ساتھ اسے نباہا.جب میں نے ریز روفنڈ کی تحریک کی تھی تو کئی لوگوں نے اپنے نام دیئے.مگر ان میں سے صرف چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ہی ہیں جنہوں نے اسے پوری طرح نباہا اور ہزاروں روپیہ جمع کر کے دیا.حالانکہ اس وقت ان کی پوزیشن ایسی نہ تھی جیسی اب ہے کہ کوئی خیال کرے کہ اپنے اثر سے روپیہ جمع کر لیا ہو گا.چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم گو۱۹۰۰ء کے بعد داخل سلسلہ ہوئے مگر انہوں نے اخلاص کا بہت نیک نمونہ دکھایا اور وہی نمونہ کم و بیش ان کی اولاد میں بھی ہے اور انکی اہلیہ میں بھی اخلاص کا وہ نیک نمونہ ہے بلکہ وہ صاحب کشوف بھی ہیں.ان کو ہمیشہ سچے خواب آتے رہتے ہیں.مجھے ان کی اولاد سے اسلئے بھی محبت ہے کہ جب میں نے آواز دی کہ جولوگ اپنے گزارا کے لئے کافی روپیہ کما چکے ہوں وہ اب اپنا بڑھاپا دین کے لئے وقف کر دیں تو چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم نے اس پر لبیک کہا اور نہایت اخلاص سے صدر انجمن احمد یہ میں کام کرتے رہے اور وفا داری اور فرمانبرداری سے کام کیا.ان کو چونکہ میرے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا ہے.اسلئے مجھے ان کی قدر ہے.اور ان کی اولاد نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے باپ کیلئے بھی مجھے پیاری ہے اور اب کہ ان کا ذکر آیا ہے.میں ان کی اولاد کے لئے دعا کرتا ہوں کہ ان کے دل کا متاع کبھی ضائع نہ ہو.اگر اللہ تعالیٰ انہیں دنیا کی نعمتیں دے تو یہ اس کا فضل ہے.لیکن ان کے
375 دل کی غربت ضرور قائم رہے.بلکہ بڑھتی رہے کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو دنیوی مال 1226 و دولت ایک لعنت ہے.(۴) شوری ۱۹۲۵ء میں بعض فتنہ پردازوں نے بعض ممبران شورای کو ورغلا کر ان سے نامناسب اعتراضات کروائے.چونکہ طریق نامناسب تھا.اسلئے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک طویل تقریر میں ایسے اعتراضات کے نقصانات واضح کرتے ہوئے بتایا کہ کسی نقص کی اصلاح کا کیا طریق ہے اور یہ کہ سوالات کی غرض اصلاح ہونی چاہیے.اور ہر حالت میں فتنہ انگیزی سے بچنا اور دشمن کی بات پر یقین نہ کرنا چاہیے.نیک خلفی ترک نہ کریں.جو اعتراض کرتے ہیں انکے تقویٰ و طہارت کی حالت دیکھو.اور بتایا کہ الزام لگا نیوالے خود مجرم ہوتے ہیں.اس تعلق میں حضور نے فرمایا ( اور اس سے حضرت چوہدری صاحب اور ان کے رفقاء کار کے اعلیٰ مقام کا علم ہوتا ہے ): بہت سے کام ایسے ہیں جو کسی ایک آدمی کے بطور خود کرنے کے نہیں.بلکہ وہ کام ایک کمیٹی میں پاس ہوتے ہیں جس کے میاں بشیر احمد صاحب، قاضی امیرحسین صاحب ، مفتی محمد صادق صاحب ،مولوی شیر علی صاحب ،خلیفہ رشید الدین صاحب ، ذوالفقار علی خان صاحب ، چوہدری فتح محمد صاحب ، چوہدری نصر اللہ خان صاحب ، میر محمد اسحاق صاحب ، مولوی سید سرور شاہ صاحب ، میر محمد اسماعیل صاحب ،سید عبدالستار شاہ صاحب ، ڈاکٹر کرم الہی صاحب ممبر ہیں.کیا یہ سب آدمی مل کر کوئی بددیانتی کریں گے.میری عقل تو اس بات کو نہیں مان سکتی چوہدری نصر اللہ خاں صاحب سلسلہ کی خدمت کے لئے کام چھوڑ کر یہاں آگئے ہیں.کوئی تنخواہ نہیں لیتے بلکہ سال میں چار پانچ سو روپیہ چندہ دیتے ہیں.کیا وہ یہاں خائنوں کے ساتھ مل کر اپنا ایمان تباہ کرنے کے لئے رہتے ہیں.ان حالات کو مد نظر رکھ کر سوالات کو دیکھو.گویا یہ مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں نرس جو آئی ہے اسے زیور بنا دیا جائے.اگر کوئی یہ خیال کر سکتا ہے کہ یہ عیاش اور او باش ہیں تب تو اس قسم کا فیصلہ کر سکتے ہیں ورنہ ان کے متعلق کس طرح یہ سوال ہو سکتا ہے.“ (رپورٹ صفحہ ۳۶)
376 (۵) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے رقم فرمایا: ۲۷ / جولائی ۱۹۳۰ء سے خان ذوالفقار علی خان صاحب کو ان کی خدمات سے سبکدوش کیا جاتا ہے.کیونکہ ان کی خدمات کی رام پورسٹیسٹ کو ضرورت تھی.اس موقعہ پر میں خاں صاحب کی ان خدمات سلسلہ کا شکریہ (ادا) کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جو انہوں نے دس سال تک با وجود پیرانہ سالی کے ادا کیں.۱۹۱۸ء میں جبکہ میں نے وقف زندگی کا اعلان کیا تھا.چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم و مغفور اور خان صاحب دونوں نے اپنی زندگی وقف کی تھی.چوہدری صاحب نے اپنی وفات تک جس اخلاص سے کام کیا وہ آئندہ نسلوں کیلئے بطور نمونہ ہوگا.اللہ تعالیٰ آئندہ نو جوانوں کو انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.خاں صاحب نے بھی نہایت عسرت سے گزارا کر کے جس اخلاص سے کام کیا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسکی قدر کرے گا اور انکی یہ قربانی ضائع نہیں جائے گی.اب بھی وہ میری اجازت اور میرے منشاء کے مطابق رامپور جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انہیں وہاں بھی سلسلہ کی خدمات کی توفیق عطا فرما تا رہے.....خاکسار مرزا محمود احمد (الفضل ۱۹۳۰-۸-۲۱) (۶) ۲۷ / دسمبر ۱۹۲۶ء کو جلسہ سالانہ میں حضور نے اپنی تقریر میں فرمایا :.قبل اس کے کہ میں اصل تقریر کو شروع کروں.میں ان دوستوں کیلئے اپنے جذبات کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں جو اس سال ہم سے جدا ہو گئے ہیں اور جو سلسلہ کے عمود تھے.جدائی ایک تلخ چیز ہے لیکن خدا کا قانون بھی ہے.اسلئے ہمیں وہ تلخ گھونٹ پینا ہی پڑتا ہے.بیشک بسا اوقات جدائی ایک رحمت کا پڑتا بسا موجب ہو جاتی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے قانون کا شکوہ نہیں کرتے.لیکن یہ بھی اسی کا قانون ہے کہ مفید وجود اُٹھ جانے سے ہر دل غم محسوس کرتا ہے.اس دفعہ ہمارے سلسلہ میں سے چند دوست ہم سے جدا ہو گئے.جن کے ساتھ بعض خصوصیات وابستہ تھیں (ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کا ذکر
377 کرنے کے بعد فرمایا.ناقل ) دوسرے دوست چوہدری نصر اللہ خاں صاحب تھے جو گواتنے پرانے احمدی نہ تھے.لیکن سلسلہ کی خدمات میں بہت آگے نکل گئے تھے.میں نے جب ایک دفعہ اعلان کیا کہ سلسلہ کیلئے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دین کی خدمت کیلئے اپنے اوقات کو وقف کریں تو اس پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے چوہدری صاحب ہی تھے.جو ادب اور احترام ان میں تھا.وہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے.کامیاب وکیل تھے.صاحب جائیداد تھے.زمین کافی تھی.اسلئے یہاں آزادی سے گزارا کرتے تھے مگران کی فرمانبرداری کو دیکھا ہے کہ گزارا لینے والوں میں بھی وہ فرمانبرداری نظر نہیں آتی.ایک دفعہ ان کے بیٹے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے انہیں جلسہ کے موقعہ پر کسی دوست کے ہاں اپنے ساتھ ٹھہرنے کیلئے کہا.تو چوہدری صاحب نے کہا میں تو یہیں عام لوگوں میں ٹھہروں گا.دال روٹی کھاؤں گا.زمین پر سوؤں گا.پہلے لوگوں نے پلاؤ کھا کھا کر ایمان خراب کر لیا.میں اپنا ایمان خراب نہیں کرنا چاہتا.چنانچہ وہ عوام میں ہی ٹھہرے.ان میں بہت ہی اخلاص تھا ایک دفعہ کوئی معاملہ میرے پاس لائے اور کہا یہ بات یوں ہونی چاہیے میں نے کہا یوں نہیں ہونی چاہئے.دوسرے دوستوں نے اس پر رائے زنی کر کے کہا کہ اسے پھر دوبارہ پیش کرو تو کہا.میں تو یہاں ایمان لینے آیا ہوں.ایمان ضائع کرنے نہیں آیا.جب ایک دفعہ پیش کرنے سے حضرت صاحب نے فرما دیا ہے کہ یہ بات یوں نہیں چاہیے تو پھر میرا تمہارا کیا حق ہے اس کے خلاف بولنے کا.باوجود کامیاب وکیل اور صاحب جائیداد ہونے کے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں آگئے اور سلسلہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے.تو ایک پرانا خادم سلسلہ ہم سے اٹھ گیا.آئندہ نسلوں کی یاد کیلئے اور انہیں بتانے کیلئے کہ ہم میں ایسے مخلص موجود ہیں.یہ چند کلمات کہے ہیں تا
378 دوسروں کو بھی تحریک ہو اور کام کر کے دکھا ئیں.دینی خدمات میں انکی طرح حصہ لیں.“ والدہ محترمہ کے متعلق تعزیت نامہ د, (الفضل ۱۹۲۷.۱.۱۱) سید نا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذیل کا تعزیت نامہ شائع ہوا:...عزیزم چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ صاحبہ کی وفات کی خبر آئی ہے.اور افسوس کہ اس وقت میں مرکز سے دور ہوں اور آسانی سے میرا وہاں پہنچنا اور جنازہ میں شامل ہونا مشکل نظر آ رہا ہے.جس کا مجھے سخت افسوس ہے میں نے ابھی خبر سنتے ہی موٹر میں ایک آدمی کو میر پور خاص بھجوا دیا ہے کہ فون کر کے دریافت کرے کہ کیا میرا وقت پر پہنچنا ممکن ہے یا نہیں؟ اگر ایسا ہو سکا تو میری یہ خواہش کہ میں ان کا جنازہ پڑھا کر انہیں دفن کر سکوں، پوری ہو جائیگی.ورنہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے سامنے سرتسلیم خم ہے.مرحومہ کا اخلاص اس میں کوئی شک نہیں کہ مرحومہ کے خاوند چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم ایک نہایت مخلص اور قابل قدر احمدی تھے اور انہوں نے سب سے پہلے میری آواز پر لبیک کہی اور اپنی زندگی وقف کی اور قادیان آکر میرا ہاتھ بٹانے لگے.اس لئے ان کے تعلق کی بناء پر ان کی اہلیہ کا مجھے پر اور میری وساطت سے جماعت پر ایک حق تھا.پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عزیزم چو ہدری ظفر اللہ خان صاحب جنہوں نے اپنی عمر کے ابتدائی حصہ سے ہی رشد و سعادت کے جو ہر دکھائے ہیں اور شروع ایام خلافت سے ہی مجھ سے اپنی محبت اور اخلاص کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں.خاکسار مئولف اصحاب احمد عرض کرتا ہے کہ حضور اسوقت ناصر آباد اسٹیٹ ضلع تھر پارکر ( سندھ) میں قیام فرما تھے.خاکسار پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر ہمراہ تھا.حضور کی یہ بھی خواہش تھی کہ ممکن ہو تو حیدر آباد دسندھ سے لاہور تک ہوائی جہاز میں تشریف لے جائیں.لیکن موسم گرما تھا سفر طویل اور وقت قلیل تھا.اس لئے آپ پہنچ نہ سکتے تھے.
379 مرحومہ ان کی والدہ تھیں.اور اس تعلق کی بناء پر ان کا مجھ پر حق تھا لیکن باوجود اس کے کہ اکثر عورتوں کا تعلق طفیلی ہوتا ہے.یعنی اپنے باپ یا بیٹے یا بھائی کے سبب سے ہوتا ہے وہ اپنے مرحوم خاوند سے پہلے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئیں.ان سے پہلے انہوں نے بیعت خلافت کی اور ہمیشہ غیرت وحمیت کا ثبوت دیا.چندوں میں بڑھ بڑھ کر حصہ لینا.غرباء کی امداد کا خیال رکھنا ان کا خاص امتیاز تھا.دعاؤں کی کثرت اور اس کے نتیجہ میں سچی خوابوں کی کثرت سے خدا تعالیٰ نے ان کو عزت بخشی تھی.انہوں نے خوابوں سے احمدیت قبول کی اور خوابوں سے خلافت ثانیہ کی بیعت کی.مرحومہ کی وائسرائے ہند سے گفتگو مجھے ان کا یہ واقعہ نہیں بھول سکتا جو بہت سے مردوں کے لئے بھی نصیحت کا موجب بن سکتا ہے کہ گزشتہ ایام میں جب احراری فتنہ قادیان میں زوروں پر تھا اور ایک احراری ایجنٹ نے عزیزم میاں شریف احمد صاحب پر راستہ میں لاٹھی سے حملہ کیا تھا.جب انہیں ان حالات کا علم ہوا تو انہیں سخت تکلیف ہوئی.بار بار چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے کہتی تھیں.ظفر اللہ خان میرے دل کو کچھ ہوتا ہے.اماں جان ( حضرت ام المومنین ) کا دل تو بہت کمزور ہے.ان کا کیا حال ہو گا.کچھ دنوں بعد چوہدری صاحب گھر میں داخل ہوئے تو انہیں معلوم ہوا جیسے مرحومہ اپنے آپ سے کچھ باتیں کر رہی ہیں.انہوں نے پوچھا کہ بے بے جی کیا بات ہے تو مرحومہ نے جواب دیا کہ میں وائسرائے سے باتیں کر رہی تھی.چوہدری صاحب نے کہا کہ آپ سچ سچ ہی کیوں باتیں نہیں کر لیتیں.انہوں نے کہا.کیا اس کا انتظام ہو سکتا ہے؟ چوہدری صاحب نے کہا کہ ہاں ہو سکتا ہے.اس پر انہوں نے کہا بہت اچھا پھر انتظام کر دو.قرآنی تعلیم کے مطابق ان کی عمر میں وہ پر دہ تو تھا ہی نہیں جو جوان عورتوں کے لئے ہوتا ہے.وہ وائسرائے سے ملیں اور چوہدری صاحب ترجمان بنے.لیڈی ولنگڈن بھی پاس تھیں.چوہدری صاحب نے صاف کہہ دیا کہ میں کچھ نہیں کہوں گا.جو کہنا ہو خود کہنا.چنانچہ مرحومہ نے لارڈ ولنگڈن سے نہایت جوش سے کہا کہ میں گاؤں کی رہنے والی عورت ہوں.میں نہ انگریزوں کو جانوں اور نہ ہی ان کی حکومت کے اسرار کو.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا تھا کہ انگریزی قوم اچھی قوم ہے اور ہمیشہ تمہاری قوم کے متعلق دل سے دعائیں نکلتی تھیں.جب کبھی تمہاری قوم کے لئے مصیبت کا وقت آتا تھا.رو رو کر دعائیں کیا کرتی تھی کہ اے
380 اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو.تو ان کو تکلیف سے بچائیو.لیکن اب جو کچھ جماعت سے خصوصاً قادیان میں سلوک ہو رہا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دعا تو میں اب بھی کرتی ہوں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم ہے لیکن اب دُعا دل سے نہیں نکلتی.کیونکہ اب میرا دل خوش نہیں ہے.آخر ہم لوگوں نے کیا کیا ہے کہ اس رنگ میں ہمیں تکلیف دی جاتی ہے.چوہدری صاحب نے لارڈ ولنگڈن سے کہا کہ میں صرف تر جمان ہوں.میں وہی بات کہہ دوں گا جو میری والدہ کہتی ہیں.آگے آپ خود جواب دے دیں.اور ان کی بات لارڈ ولنگڈن کو پہنچا دی.اس سیدھے سادے اور باغیرت کلام کا اثر لیڈی ولنگڈن پر تو اس قدر ہوا کہ اٹھ کر مرحومہ کے پاس آبیٹھیں اور تسلی دینی شروع کی.اور اپنے خاوند سے کہا کہ یہ معاملہ ایسا ہے جس کی طرف تم کو خاص توجہ دینی چاہیے.کتنے مرد ہیں جو اس دلیری سے سلسلہ کے لئے اپنی غیرت کا اظہار کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کی روح کو قبولیت کے ہاتھوں لے لے اور اپنے فضلوں کا وارث کرے.آمین.“ سر ظفر اللہ خان صاحب سے محبت عزیزم چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب سے وہ اپنے سب بیٹوں سے زیادہ محبت کرتی تھیں اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سب سے زیادہ عزت بھی دی ہے اور سب سے زیادہ میرا ادب بھی کرتے ہیں.مرحومہ کا ایک خواب : ابھی شورای کے موقعہ پر چوہدری صاحب کے ساتھ آئی ہوئی تھیں.وہ تین دفعہ مجھے ملنے آئیں.خوش بہت نظر آتی تھیں.مگر کہتی تھیں مجھے اپنا اندر خالی خالی نظر آتا ہے.ان کا ایک خواب تھا کہ اپریل میں وہ فوت ہونگی.مگر خوابوں کی بعض دفعہ مخفی تعبیر ہوتی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اپریل میں اس بیماری نے لگنا تھا.جس سے وہ فوت ہوئیں.اپریل کے اس قدرقریب عرصہ میں ان کا فوت ہونا اس خواب کے بچے ہونے کا ایک یقینی ثبوت ہے.مرحومہ کی وفات کے متعلق ایک خواب
381 ایک دو سال ہوئے میں نے خواب میں دیکھا میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوں اور میرے سامنے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب لیٹے ہوئے ہیں اور ۱۱ ۱۲ سال کی عمر کے معلوم ہوتے ہیں.کہنی پر ٹیک لگا کر ہاتھ کھڑا کیا ہوا ہے اور اس پر سر رکھا ہوا ہے.ان کے دائیں بائیں عزیزم چوہدری عبد اللہ خان صاحب اور چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیٹھے ہیں.ان کی عمر میں آٹھ آٹھ نو نو سال کے بچوں کی سی معلوم ہوتی تھیں.تینوں کے منہ میری طرف ہیں اور تینوں مجھ سے باتیں کر رہے ہیں اور بہت محبت سے میری باتیں سن رہے اور اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں اور جس طرح گھر میں فراغت کے وقت ماں باپ اپنے بچوں سے باتیں کرتے ہیں.اسی طرح میں ان سے با تیں کرتا ہوں.شاید اس کی تعبیر بھی مرحومہ کی وفات ہی تھی کہ الہی قانون کے مطابق ایک قسم کی ابوت یا مامتا کی جگہ خالی کرتی ہے.تو دوسری قسم کی ابوت یا مامتا اس کی جگہ لے لیتی ہے.مرحومہ کے رشتہ دار مرحومہ کے والد بھی احمدی تھے اور ان کے بھائی چوہدری عبداللہ خان صاحب دا تا زید کا والے ایک نہایت پُر جوش احمدی ہیں اور اپنے علاقہ کے امیر جماعت ہیں.حضرت خلیفہ اول کے وقت سے مجھ سے اخلاص رکھتے چلے آئے ہیں.اور ہمیشہ اظہا را خلاص میں پیش پیش رہے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحومہ کو اپنے قرب میں جگہ دے اور ان کے خاندان کو ان کی دعاؤں کی برکات سے محروم نہ کرے.اور وہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے حق میں پوری ہوتی الفضل مورخه ۲۲ رمئی ۱۹۳۸ء نیز میری والدہ صفحه ۱۲۱ تا ۱۲۷) رہیں.“ مرحومین کے کتبہ جات ہیں: سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہر دو کے کتبہ جات رقم فرمائے جو درج ذیل
382 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود چوہدری نصر اللہ خان صاحب پلیڈر سیالکوٹ گو۱۹۰۴ء میں سیالکوٹ کے مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر کے ایام میں بیعت میں شامل ہوئے.لیکن اخلاص دیر سے رکھتے تھے.اور آپ کی اہلیہ صاحبہ بعض خوابوں کی بنا پر آپ سے پہلے بیعت کر چکی تھیں.نہایت شریف الطبع ، سنجیدہ مزاج مخلص انسان تھے.بہت جلد جلد اخلاص میں ترقی کی.بڑی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا.آخر میری تحریک پر وہ وکالت کا پیشہ جس میں آپ بہت کامیاب تھے ، ترک کر کے دین کے کاموں کیلئے بقیہ زندگی وقف کی اور اعلیٰ اخلاص کے ساتھ جس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ترقی ہوتی گئی قادیان آبیٹھے.اسی دوران میں حج بھی کیا.میں نے انہیں ناظر اعلیٰ کا کام سپرد کیا تھا.جسے انہوں نے نہایت محنت اور اخلاص سے پورا کیا.اللہ تعالیٰ کی رضاء کے ساتھ میری خوشنودی اور احمدی بھائیوں کا فائدہ اور ترقی کو ہمیشہ مدنظر رکھا.ساتھ کام کرنے کی وجہ سے میں نے دیکھا کہ نگاہ دور بین تھی.باریک اشاروں کو سمجھتے اور نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے کہ میرا دل محبت اور قدر کے جذبات سے بھر جاتا تھا.اور آج تک ان کی یاد دل کو گرما دیتی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کے مدارج کو بلند کرے اور ان کی اولاد کو اسی رنگ میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی توفیق دے اور ایسے لوگوں کے نقشِ قدم پر چلنے والے لوگ کثرت سے ہمارے سلسلہ میں پیدا ہوتے رہیں.اللھم آمین مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی تاریخ وفات ۲۴ صفر ۱۳۴۵ھ بروز جمعۃ المبارک مطابق ۳ رستمبر ۱۹۲۶ء بهمر ۶۳ سال نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم حسین بی بی بنت چوہدری الہی بخش صاحب مرحوم زوجه حاجی چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم سال پیدائش ۱۸۶۳ء سال بیعت ۱۹۰۴ء تاریخ وفات ۱۶رمئی ۱۹۳۴ء بروز شنبه ہر دو کی عبارت خاکسار نے کتبہ جات سے نقل کی ہے.عبارت دیکھنے سے ہی ظاہر ہے کہ کون سا حصہ تکمیل کی خاطر دفتر یا مرحومین کے اقارب کی طرف سے زائد کیا گیا ہے.حضرت چوہدری صاحب مرحوم کی بیعت ۱۹۰۴ء کی ہے یہاں سہوا ۱۹۰۳ ء درج ہوئی ہے.
383 وو چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم کی زوجہ عزیزم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سلمہ اللہ کی والدہ.صاحبہ کشف و رویا.رویا ہی کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شناخت نصیب ہوئی اور اپنے مرحوم شوہر سے پہلے بیعت کی.پھر رویا ہی کے ذریعہ سے خلافت ثانیہ کی شناخت کی اور مرحوم خاوند سے پہلے بیعت خلافت کی.دین کی غیرت بدرجہ کمال تھی اور کلام حق کے پہنچانے میں نڈر تھیں.غرباء کی خبر گیری کی صفت سے متصف اور غریبانہ زندگی بسر کرنے کی عادی، نیک اور و دود والدہ تھیں.اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کے شوہر کو جو نہایت موڈب و مخلص خادم سلسلہ تھے، اپنے انعامات سے حصہ دے اور اپنے قرب میں جگہ دے.اور ان کی اولا د کو اپنی حفاظت میں رکھے.آمین مرزا بشیر الدین محمود احمد صحابہ کا مقام شدید مخالفت احرار کے زمانہ میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے جماعت کو قربانیوں کے لئے تیار ہونے کی تلقین کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ: ایک مدت سے میری خواہش تھی کہ جماعت کو اس روش پر چلاؤں جو صحابہ کی تھی اور انکو سادہ زندگی کی عادت ڈالوں...مگر کوئی ایسی صورت نہ نکلتی تھی..اللہ تعالیٰ نے اس مخالفت سے ہمیں کتنا بڑا فائدہ پہنچایا ہے....ہماری جماعت نے اپنی طرز زندگی کو بدل کر سادہ غذا اور سادہ لباس ،سادہ زندگی اختیار کر لی ہے ہمیں ایک نہ ایک دن اسی طریق پر آنا ضروری تھا جس پر صحابہ چلے اور یہ خدا کا کتنا فضل ہے کہ وہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی زندگی میں ہی اس طریق پر لے آیا.ابھی ہم میں سینکڑوں ہزاروں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کی موجودگی میں تغیر بہت محفوظ ہے بعد میں آنے والے ممکن ہے ایسا تغیر کریں جو نقصان کا موجب ہو جائے.....ایک بوڑھا انگریز نو مسلم تھا.اسے علم تھا.پھر بھی وہ نہایت محبت واخلاص سے کہنے لگا کہ میں ایک بات پوچھتا ہوں آپ ٹھیک جواب دینگے.میں نے کہا ہاں.وہ کہنے
384 لگا کیا حضرت مسیح موعود نبی تھے میں نے کہا ہاں.تو اس نے کہا.اچھا مجھے اس سے بڑی خوشی ہوئی.پھر کہنے لگا.آپ قسم کھا کر بتائیں کہ آپ نے انہیں دیکھا.میں نے کہا ہاں میں ان کا بیٹا ہوں اس نے کہا.نہیں.میرے سوال کا جواب دیں کہ ان کو دیکھا میں نے کہا ہاں دیکھا تو وہ کہنے لگا کہ اچھا میرے ساتھ مصافحہ کریں اور مصافحہ کرنے کے بعد کہا مجھے بڑی ہی خوشی ہوئی کہ میں نے اس ہاتھ کو چھوا.جس نے مسیح موعود کے ہاتھوں کو چھوا تھا.اب تک وہ نظارہ میرے دل پر نقش ہے.اسے رو یا وکشوف بھی ہوتے تھے...مجھے اس خیال سے بھی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ وہ لاکھوں انسان جو چین ، جاپان ، روس ، امریکہ، افریقہ (وغیرہ) میں آباد ہیں.ہم ان تک حضرت مسیح موعود...کا پیغام پہنچائیں اور وہ خوشی سے اچھلیں اور کہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود دکھلا ؤ اور جب ہم کہیں کہ وہ فوت ہو گئے.تو وہ پوچھیں کہ اچھا ان کے شاگر دکہاں ہیں تو ہم انہیں کہیں کہ وہ بھی فوت ہو گئے.احمدیوں کا یہ جواب سن کر وہ لوگ کیا کہیں گے.اگر ایسا ہو تو وہ ہمارے مبلغوں کو کس حقارت سے دیکھیں گے.کہ ان نالائقوں نے ہم تک پیغام پہنچانے میں کس قدر دیر کی ہے تو ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے...تا ہر ایک کہہ سکے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے مصافحہ کیا ہے.یہ اتنی بڑی خوشی ہے کہ اس سے ہمیں دنیا کو محروم نہیں رکھنا چاہیے.حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے یہ تو حالت تنزل ہے.جب لوگ آپ سے ملنے والوں کو ڈھونڈ ینگے اور کوئی نہ ملے گا تو کہیں گے کہ اچھا کپڑے ہی سہی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ۱۷۸ میں سچے دل سے کہتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں جو سچے دل سے میرے پر ایمان لائے اور اعمال صالح بجالاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت ایسے روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں
385 میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے.“ نیز فرماتے ہیں : ” میرے لئے یہ عمل کافی ہے کہ ہزار ہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پر طرح طرح کے گناہوں سے توبہ کی ہے.اور ہزار ہا لوگوں میں بعد بیعت میں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے.ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا.اور میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزار ہا صادق اور وفا دار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کر چکے ہیں کہ ایک ایک فردان میں بجائے خود ایک نشان ہے.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۳۷) اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ تمت بالخير فالحمد لله رب العالمين
386 سید نا حضرت خلیفقہ اسیح الثانی اید واللہ تعالی نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۵ء پر فرمایا: صحابہ فوت ہورہے ہیں.پچھلے لوگوں کو دیکھو.باوجود یکہ ان لوگوں میں اتنا علم نہیں تھا.انہوں نے اس چیز کی بڑی قدر کی اور صحابہ کے حالات پر بڑی بڑی ضخیم کتابیں دس دس جلدوں میں لکھیں.ہمارے ہاں بھی صحابہ کے حالات محفوظ ہونے چاہیں.ملک صلاح الدین صاحب لکھ رہے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں میں مقروض ہو گیا ہوں کم سے کم احمدیوں کو چاہیے تھا کہ اپنے آباء کے نام یاد رکھتے آپ لوگ تو قدر نہیں کرتے جس وقت یورپ اور امریکہ احمدی ہوا تو انہوں نے آپکو برا بھلا کہنا ہے کہ حضرت صاحب کے اور ان کے ساتھ رہنے والوں کے حالات بھی ہمیں معلوم نہیں.وہ بڑی بڑی کتابیں لکھیں گے جیسے یورپ میں بعض کتابوں کی ہیں ہیں چالیس چالیس پونڈ قیمت ہوتی ہے.اور بڑی بڑی قیمتوں پر لوگ ان کو خریدیں گے مگر ان کا مصالحہ ان کو نہیں ملے گا.اور وہ غصہ میں آکے تم کو بددعا ئیں دیں گے کہ ایسے قریبی لوگوں نے کتنی قیمتی چیز ضائع کر دی.“ (الفضل ۱۶ رفروری ۱۹۵۶ء)
i اسماء آیا آتما رام، رائے 25 آسٹرن ، وارن 174 آفتاب احمد اقبال 256 اجمل خان دہلوی ، حکیم 74 اشاریہ (مرتبہ: احمد طاہر مرزا) انصاری، ڈاکٹر 74 جلال الدین شمس، مولانا 131,221 جمال احمد مبلغ ماریشس ، حافظ 235 بدر بیگم (اہلیہ حضرت چوہدری صاحب)197 جے دیوی,6,7,8,9,11,12, جیمز ، فریڈرک ، سر 211 بدرالدین سیالکوٹی ، مرزا 281 بدرالدین، ڈاکٹر 112 بدهی کاری ،سر 292,291 براڈوے،جسٹس287 تا309 چ چرچل، ونسٹن 346 احمد شاہ بخاری ،سید 170,234 بشارت احمد دکن ،سید 219 حامد شاہ سیالکوٹی،حضرت میر احمد شمشیر سوکیا 235 بشارت احمد ، سید 237 22-24,33 احمدہ بیلم 105 اسد اللہ خان، چوہدری 35-37,81,104,156,157,159,210,211 بشری ربانی بیگم، 197 بیب اللہ سید.ایڈیٹر سیاست بشیر احمد ایم اے، حضرت مرزا 69,70,108,117,3665 حسام الدین احراری، شیخ 184 286,302, 215,366 بشیر احمد ایڈووکیٹ ، شیخ 70.71,321 اسماعیل آدم ، حضرت سیٹھ 216 بشیر احمد چوہدری، 103,105 اعجاز احمد 105 حسام الدین، حضرت میر 261 حسان بن ثابت ، حضرت 83 حسن دین باجوہ، حضرت چوہدری 209 حسن نظامی، خواجہ 186,223,285 بشیر الدین عبید اللہ 235 افضل حق ، چوہدری 76 بنگل راؤ ، سر 178 اقبال، علامہ ڈاکٹر سر محمد 76 ، بیوور، جی سر 211 حسین بی بی اقبال بیعت سے مخالفت تک 251 تا 265 بیلی رام ، لالہ 26 اقبال بیگم 197 اکبر علی، پیر 72 الہی بخش چوہدری 382 اللہ بخش ، مستری 204 ام طاہر ، حضرت سید ہ 217 امۃاحی ( بنت سر محمد ظفر اللہ خان ) ) اہلیہ حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب) ,2,3,40,124 پناه بی بی ( والدہ چوہدری نصر اللہ خان قبول احمدیت 28-26 سیرت و شمائل 381-151,378 مالی قربانی 154 منکو عبدالرحمن ، وزیراعظم ملا یا 250 رسوم و بدعات سے بیزاری 154 ٹھیک چند ، جسٹس 287 تا 293 106,108,197,199 ث خاندان مسیح موعود سے محبت 160 سلسلہ کیلئے غیرت 159 امتہ الحی ، حضرت ( حرم خلیفہ مسیح الثانی) ثناء اللہ امرتسری 280,339 عبادات 165 امین آفندی الحسینی مفتی فلسطین 188 امینہ بیگم 105 120 ہمدردی خلق 156 ج جماعت علی شاہ، پیر 25,31 حمد اللہ خان 16 حمید اللہ خاں 148
ii خ خالد محمد خالد 188 سلطان احمد، حضرت مرزا 279 سلطان احمد پیر کوئی 119 سلطان ، حافظ 32 خداداد خان ،حضرت 123 سلیمان ندوی ، سید 186 سنتوکھ سنگھ چیمہ 113 شار پلیز ، مسز 361 وڈ خورشید انور، سید 262 دلا ورشاہ، سید (ایڈیٹر مسلم آؤٹ لک )287 دلیپ سنگھ، جسٹس 314 دیوان سنگھ مفتون 170 ز قبول احمدیت 38 واقعہ بیعت 38 خدمات سلسلہ 199 خلافت جو بلی فنڈ 210 بطور امیر جماعت لاہور 200 سفر ہائے یورپ میں رفاقت 358 قانونی خدمات 277 لسانی خدمات 218 شریف احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا مالی قربانی 209-73,207 70,74,108,161,237,379 ملی خدمات 180-167,170 ایک احراری کا آپ پر حملہ کرنا 161,162 مساجد کی بناء وافتتاح 273 ذوالفقار علی خان گوہر ، حضرت مولانا شکر اللہ خان، چوہدری 74,92,368,376 ذوالفقار علی خان، سر 315 مجلس مذاہب عالم میں تقریر 248 13,16,80,81,106,148,153 ظفر علی ، جسٹس 286 رز را جیال، پنڈت 283 رئیس احمد جعفری 178 ظفر علی خاں، مولوی 263 شمشاد علی، چوہدری197 ظہور الدین اکمل، قاضی 117 شوکت تھانوی 331 ظہور حسین مجاہد بخارا، مولانا 113 شہاب الدین ،سر 333 ع رشیدالدین، حضرت ڈاکٹر خلیفہ 219 شیر علی،حضرت مولوی 90,92,371 عبداللہ الہ دین سیٹھ 216,237 ظ رشید بیگم 197,213 رعنا، بیگم لیاقت علی خان 248 ظفر اللہ خان روشن علی ، حضرت حافظ 219 زین العابدین ولی اللہ شاہ ، حضرت زینب بی بی 106 س سپنس ، پیٹرک سر 212 ستیہ مورتی 267 عبداللہ خان، چوہدری ,66,68,83,87,113,222,366 38 ( چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے بڑے بھائی) 67,9 عبد اللہ سنوری، حضرت مولوی 123 126,212 ظفر اللہ خان چوہدری، حضرت سر عبدالحامد بدایونی 186 5,11,12,15,16,20,26,67,86,96 عبد الحق ایڈووکیٹ ، مرزا 325 ,109,117,152,153،170-180, عبدالرحمن رئیس قصور ، ملک 237 181-186,209-216 عبدالرحمن عزام پاشا، جنرل 191 ولادت 11 ازدواجی زندگی 197 عبدالرحیم ، حضرت بھائی 116 سراج الدین ، میاں 280 سرور شاہ، حضرت سید محمد 69108,92 تربیت وتبلیغ 239 سروجنی نائیڈو 317 عبدالرحیم درد، حضرت مولانا 127,234-242,243,360 خلیفہ اسیح کی نظر میں آپکا مقام 352 عبدالرحیم نیر ،مولانا 360,361 عربوں کیلئے خدمات 180-170 سکندرخان چوہدری 1,2,158 سکندرحیات خان 333 سکیمپ جٹس 312 عربوں کا آپ کی خدمات کا اعتراف 186-196 عبدالعزیز، با بو 22 عبدالستار افغان ،مولوی 98 عبدالستار سیٹھ ، حاجی 179
عبدالسلام، میر 66 عبدالصمد ،مولوی 280 عبد الحق ایڈووکیٹ ، مرزا 71 عبدالحمید آڈیٹر، با بو82 عبداحی عرب، سید 350 غلام رسول مہر ، مولانا 187 کرم دین بھیں 20 غلام فرید ایم.اے، ملک 264 کمال الدین،خواجہ 91,117,349 غلام محمد پوہلہ مہاراں 66 کنور دلیپ سنگھ 283 غلام محمد مبلغ ماریشس، حضرت صوفی 235 کھن ، اوپے 173 غلام محمد ، ملک 209 کھوسلہ، جی ڈی 328 عبدالقادر بیرسٹر ، ح 205 غلام مصطفی ، ڈاکٹر 118 عبدالقادر ،سر 275 غلام مصطفیٰ ، مولوی 280 گاندھی مہاتما 267 17,23,111, عبدالقادر سوداگر، شیخ 95 عبدالکریم سیالکوٹی ، حضرت مولوی ف چوہدری نصر اللہ خان صاحب کے نام خط 18 فاطمہ رضی اللہ عنہا 14 غلام نبی 105 گل محمد ، مرزا 127 گنڈا سنگھ ،سردار 31 فاروق،شاہ مصر 188 ل لال شاہ بخاری ، سید 365 عزیز احمد 105 فتح دین، چوہدری 1 لطیف آف دہلی ،ڈاکٹر 102 عزیز الدین شیخ 312 فرزند علی خان، مولوی 70,112,257, لینز برگ ، لارڈ 245 عبدالماجد بھا گلپوری، مولانا 67 237,343 فضل احمد بہلولپوری 116 عبدالماجد دریا بادی 168 فضل احمد ، چوہدری 126 عبدالمغنی ، مولوی، 129 مبارک احمد ،صاحبزادہ مرزا 248 مبارک علی سیالکوٹی ،مولوی 20,21 فضل الہی بشیر ،مولانا 235 عبد المغنی خان ، 108 فضل داد، چوہدری 105 محمد رسول اللہ صلی اللہ حضرت 36,14 عليه وسلم محمد ابراہیم سوداگر چرم لاہور 237 عبدالواحد ، مولوی 280 فضل الدین ،مولوی 23,325 عطا محمد ، شیخ 252 محمد احسن امروہی ، سید 71 فضیلت بی بی ،سیدہ 152,161 محمد احمد مظہر ایڈووکیٹ، شیخ 234 عطاء اللہ شاہ بخاری 325 فیض الدین ، حضرت مولوی 38,114 محمد حسین، چوہدری 66 علاء الدین صدیقی 169 فتح محمد سیال، حضرت چوہدری علی محمد ہے اے بی ٹی 114 محمد دین، مولوی 361 68,74,108,128,321 علی محمد لکھا نوالی، حضرت 118 محمد رفیق فواد الفصل 249 عمر حیات خاں ٹوانہ 316 ق غ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے بڑے بھائی) قاسم الدین سیالکوٹی، حضرت با بو 218 محمد اسحاق ، حضرت میر 121,132 غلام احمد قادیانی مسیح موعود ملی اسلامی حضرت قاسم علی، حضرت میر 321 محمد اسماعیل، حضرت ڈاکٹر میر 72 19,21,23,30,72,77,98,160,261 قدرت اللہ حافظ مبلغ بالینڈ 248,251 محمد اسماعیل سیالکوٹی، منشی 32 ضرورت الامام میں مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کا خط نقل کرنا 17 آپ کی خدمات اسلام غیروں کا اعتراف 78 کارڈن نوڈ ایڈووکیٹ سفر سیالکوٹ 30,36 294,296,299,301,302,310 محمد اسماعیل منیر ، مولانا 235 محمد اسلم حج ، چوہدری 118 محمد اکرم لائل پور، شیخ 281 محمد حسین رئیس ، چوہدری 218 6.8,9,10,
iv محمد حسین بٹالوی ، مولوی 280 محمد حنیف، حاجی 179 مدن موہن مالویہ 316 محمد دین، مولوی ( ناظر تعلیم ) 237 مسعود احمد ، ڈاکٹر 113 محمد الدین کلرک منشی 121 120 مسولینی 367 محمد سو کیا 235 محمد شفیع اسلم، ماسٹر 75 1,188,189-193 نصیر احمد، چوہدری 101 نعمت اللہ خاں سکنہ مدار، چوہدری 237 نعمت اللہ خان.شہید کابل 236,356 نواب خان ورک 118 مشتاق احمد باجوہ، ( سابق امام مسجد لندن) نواس آئنگر، سری 315 164,367 نور احمد خان سر وعہ 115,120 محمد صادق بھیروی ، حضرت مفتی مصطفیٰ مومن (مصری رہنما ) 194 نور الحق، مولوی 309 220,237,286,321، 69 مطیع الرحمن بنگالی ، صوفی 241,242 نورالدین بھیروی خلیفة لمسیح الاول، محمد شریف ای اے سی ، حضرت میاں ممتاز محمد خان دولتانہ 176 منور احمد ، ڈاکٹر مرزا ،366 119 محمد شفیق ملیڈر پیشاور 237 محمد طیب صاحبزادہ 237 محمد عبد اللہ ، بابو 95 محمد عبداللہ ، حضرت قاضی 125 محمد علی ایم اے، مولوی 250 محمد علی جناح، قائد اعظم 171,175,331 محمد علی جوہر ،مولانا 74,312 منیر مالکی ، سید 365 حضرت مولانا 23,149,262,351 مہتاب بیگ، مرزا 129 میرحسن، مولانا 255,261 اطاعت امام کا واقعہ 41 نیاز محمد ایڈووکیٹ ، شیخ 30 میلی رام ، پنڈت 315 ناصر احمد ، صاحبزادہ حضرت مرزا 112 ناشاد دہلوی 345 وکیع ،حضرت 112 ولنگڈن ، لیڈی 162,379 نصر اللہ خان، حضرت چوہدری گلیری، پروفیسر ڈاکٹر 234 1,2,3,11,13,15,66,86-91,123-124 محمد علیخان ، حضرت نواب 235 محمد مراد پنڈی بھٹیاں 95 130-135,338,382 ہٹلر 367 مالی قربانی 73,91 ہربنس سنگھ ساہی 2 ی وفات 83 یعقوب علی عرفانی الکبیر، حضرت شیخ محمود احمد، حضرت مرزا بشیر الدین حج کی سعادت 79 (خلیفہ اسیح الثانی) 67,68,85,99,119,150,206,231 خدمت سلسلہ 90 258-260 رحمدلی کا واقہ 99 آپ کا فرمانا کہ اموال بکثرت آئیں گے 123 اخلاص و وفا 149-148 سفر یورپ 1924ء359 عشق قرآن 111 سفر یورپ 1955ء361 محمود احمد، بھائی 113 محمود احمد عرفانی ، شیخ 321 سیرت و شمائل 111 تا 160 تقوی 150 بطور ناظر اعلیٰ تقرر 126 مختار احمد پاشا الراوی (عراقی وزیر خارجہ ) کتب مسیح موعود کا انڈیکس بنانا 87,95 195 مخلوف حسنین مفتی مصر، شیخ وصال 369 نصرت جہاں بیگم، حضرت اماں اجان ( حضرت چوہدری صاحب کے بارہ کفر کا فتویٰ دیا ) 33,99,161 20,23,237,360,361
V مقامات دسوہہ ضلع ہوشیار پور 2 ک آ.دمشق 130 کابل 236,237 وہلی کراچی 37 آسٹریا 367 افغانستان 318 انڈونیشیا 174,195 79,167,170,244,97,98,102,104,106 ڈسکہ امریکہ 344 انڈیا ر بھارت 170 1,46,10,13,79,132,147,152,157,158 گوجرانوالہ 4 انگلستان / برطانیہ 154,156,163, ڈلہوزی 85,130 96,97,186,338 باڈ گوڈ ز برگ 368 بٹالہ 31 بھرت پور 75 شدھی کے واقات 75 بمبئی 163 بور نیو 113 بون (جرمنی) 367 پاکستان 195-168,170,184 پٹھان کوٹ 130 218 گورداسپور 21,132,333 4,5,21,40,79,86,147 ل زس زٹینہ 367 لندن 335 زیورچ 365 ليبيا 174,179 ساہیوال 1 سین 284 سرگودہا 113 سر وعہ صلح ہوشیار پور 115 سمالی لینڈ 174,179 1,3,13,21,23,40,92,116,148 ماریشس 237,246 مدراس 163 مری 79 مکه مکرمه 28 سندھ 99 سیالکوٹ ملایا 250 منٹگمری 1 ن ش نارووال 332 پشاور 237 پیٹرز برگ 367 شملہ ,100,104 نائیجیر یا 250 ع تیونس 180 عراق 130 ف و منیس 367 ج جالندھر 170,237 جمشید پور 37 حصار 5 خ وڈ 28,40,79,85,98,106,107,119,167 قاہرہ 179 دا تا زید کا ضلع سیالکوٹ 8 ,2 قصور 237 فرینکفرٹ 367 فلسطين,180-175, ہالینڈ 246,368 ق قادیان
1 10 12 میری والدہ الفضل ۱۹ارمئی ۱۹۳۸ء روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۵۰۲ حاشیه vii حواله جات الحکم ۲۲ اکتوبر ۱۸۹۸ء روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۰۳ تا ۵۰۵ 14 16 18 میری والدہ الفضل ۲۶-۱۱-۱۲ الحکم ۵۴ -۱۱-۲۴ 22-21 میری والدہ 24 26 29 31 میری والدہ بدر ۰۸-۶-۲ صفحه ۳ کالم ۲ 36 38 40 42 233 رساله فرقان نومبر، دسمبر ۱۹۴۴ء صفحه ۴۴ ، ۴۵ الحکم ۲۴-۳-۲۴ صفحه ج 33 الحکم ۱۴-۴-۱۴ سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ ۱۹-۱۹۱۸ء صفحه ۸۳ منصب خلافت صفحه ۵۶ میری والدہ الحکم ۱۲-۱-۱۴- بدر ۱۲-۱-۴ صفحه ۹ 44 46 48 رپورٹ مشاورت ۱۹۲۲ صفحه ۵۳ تا ۵۵ احمدیہ گزٹ مورخہ ۲۷-۳-۱ صفحه ۲۱ تا ۲۷ احمد یہ گزٹ مورخہ ۱۱ مارچ ۱۹۲۷ء صفحه ۳ الفضل ۲۶-۴-۹ صفحه ۲ ایریل ۱۹۳۶ صفحه ۴۸ 50 52 54 56 99 902 11 13 15 17 19 23 25 میری والدہ الصف :۴،۳ میری والدہ صفحه ۲۰ میری والدہ الحکم ۱۰، ۷ ارنومبر ۱۹۰۴ء اصحاب احمد جلد اوّل الحکم ۳۵-۱- ۲۸ الفضل ۵۶-۸-۱۸ صفحه ۳ 28-27 میری والدہ 30 32 میری والدہ الحکم ۱۴-۳-۳۱ 35-34 اصحاب احمد جلد اوّل 37 39 41 43 45 47 49 اصحاب احمد جلد اوّل رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیه بابت ۱۲-۱۹۱۱، صفحه ۹۲ تا ۹۴ رپورٹ سالانہ صدرانجمن احد یہ بابت ۱۹-۱۹۱۸ صفحه ۸۳ الفضل ۲۱،۱۴ اپریل ۱۹۳۱ء رپورٹ سالانہ صد را مجمن احمد یه بابت ۳۱ ، ۳۰ صفحه ۱۰۹ احمد یہ گزٹ ۲۷-۲-۲۶ صفحہ ۷ اکا رپورٹ مشاورت صفحہ ا الفضل ۴۶-۴-۲۳ صفحه ۶ ک۲ زمانه ۲۳-۱۰-۲۴_الحکم ۲۳-۱۰-۲۸ فتند رندا داور پویٹی کل قلابازیاں صفحہ ا بحواله الفضل ۵۲-۱-۲۶ فتن ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں صفحہ ۴۲۴۱ 51 اکتوبر ۱۹۳۶ صفحه ۱۳ 53 الحکم ۲۴-۳-۴ صفحه ۲ 55 فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں صفحہ ۲۸ 57 الفضل ۵۲-۱-۲۶
میری والدہ الفضل ۷ ستمبر ۱۹۲۶ء الفضل ۷ ستمبر ۱۹۲۶ء الفضل ۲۲-۱-۱۲ مورخہ ۶۲-۷-۲۶ بحواله رفتار زمانه اگست ۱۹۶۱ء 228 28 67 61 63 65 59 viii بحواله الفضل ۵۲-۱-۱۷ احمد یہ گزٹ ۲۶-۵-۲۶ صفحه ۵کا میری والدہ الفضل ۲۶-۹-۱۴ صفحه ۲ الفضل ۲۵-۱-۲۲ زیر اخبار احمد یه ،۲۵-۲-۳ 58 2 2 2 2 8 66 64 62 60 68 70 72 74 76 لا لله 78 82 88 80 84 86 88 90 92 200 94 96 98 100 زیر دین اسح مورخہ ۶۱-۷ - ۲۱ بحواله رفتار زمانه اگست ۱۹۶۱ء الفضل ۳۳-۲-۷ رفتار زمانه اگست ۱۹۶۱ ، صفحه ۵ 75 The Making of Pakistan 93-95 بحوال ہفت روزہ لاہور ۵۸-۱۱-۱۰ صفحه ۲ ۱۲-۸-۵۲ بحواله الفضل ۵۲-۸-۲۰ روزنامہ ڈان کراچی ۵۲-۵-۲۲ بحواله رفتار زمانه اگست ۱۹۶۱ء رساله ریاض نومبر ۱۹۵۴ء الفضل ۴۸-۵-۱۱- روزنامه سفینه ۴۸-۷-۲ بحواله الفضل ۴۸-۷-۳ 69 مورخه ۳۴-۱-۲۵ بحواله الفضل ۵۲-۲-۹ 71 ہفت روزه خورشید 73 77 لا لا 79 81 83 لمصل را ولپنڈی مورخہ ۳۰ تا ۵ جون ۱۹۵۸ء صفحه ۱۳ ہفت روزہ اصلح کراچی ۵۲-۱۰-۱۲ بحواله رفتار زمانه اگست ۱۹۶۱ صفحه ۵ مورخه ۵۰-۲-۲۱ بحواله رفتار زمانه بابت اگست ۱۹۶۱ء الفضل ۴۸-۵-۱ صفحه ا ۱۲-۳-۵۰ بحواله رفتار زمانه بابت اگست ۱۹۶۱ صفحه ۶ رفتار زمانه اگست ۱۹۶۱ء رفتار زمانه بابت اگست ۱۹۶۱ صفحه ۵ انجام کراچی مورخه ۵۱-۲-۱۲ بحواله الفضل ۵۱-۲-۱۳ 85 الفضل ۱۹۵۲-۵-۲۸ الفضل ۱۹۵۲-۵-۲۳ الفضل ۱۹۵۲-۵-۲۵ آزاد لا ہور ۵۲-۸-۱۳ بحواله الفضل ۵۲-۸-۲۸ آزاد لا ہو ر ۵۲-۵-۲۳ سول اینڈ ملٹری گزٹ ۵۲-۵-۲۰ بحواله الفضل ۵۲-۵-۲۱ ۷-۵۲ - ۲۵ بحواله الفضل ۵۲-۸-۲۸ بحواله الفضل ۵۲-۵-۲۷ الفضل ۵۲-۱۰-۱۱ 89 88 89 87 91 93 95 97 99 الفضل ۱۹۵۲-۵-۲۳ آزاد لا ہور ۵۲-۵-۶۲،۵-۵-۱۰ بحواله الفضل ۵۲-۷-۲۲ الفضل ۵۲-۷ - ۲۸ صفحه ۲ آزاد۵۲-۵-۲۳ بحواله الفضل ۵۲-۵-۲۱ ۵۲ - ۱۶-۷ بحواله الفضل ۵۲-۷-۱۸ ۲۱-۸-۵۲ بحواله الفضل ۵۲-۸-۲۸ بحواله الفضل ۵۲-۸-۲۵ 101 ۱۰-۷-۵۲ بحواله الفضل ۵۲-۷-۱۱ 102 منادی بابت جون ۱۹۵۲ء بحواله الفضل ۵۲-۷-۱۱ 103 انقلاب ۱۹۳۵ء بحواله الفضل ۵۲-۷-۱۱
ix 104 بحواله الفضل ۵۲-۸-۲۸ 105 اخبار اليوم ۵۲-۶-۲۶ بحواله الفضل ۵۲-۸-۳ 106 رفتار زمانہ لاہور بابت اگست ۱۹۶۱ء صفحه ۸ 107 الایام دمشق ۵۲-۲-۲۴ بحواله الفضل ۵۲-۷-۱۰ 108 ہفت روزه رفتار زمانه اگست ۱۹۵۲ء صفحه ۷ 110 بحواله الفضل ۱۹۵۲-۸-۹ نوائے وقت لا ہو ر ۵۲-۵-۲۴.رفتار زمانه بابت اگست ۱۹۶۱، صفحه ۵ 112 بحواله الفضل ۵۲-۸-۲۳ 114 بحواله الفضل ۶۲-۷-۳ صفحه ۳ بحوالہ الفضل ۵۲-۲-۱۰- رفتار زمانه اگست ۱۹۶۱، صفحه ۵ بحوالہ رفتار زمانه بابت اگست ۱۹۶۱ صفحه ۶ 109 اخبار اليوم ۵۲-۲-۲۸ 111 بحواله الفضل ۵۲-۸-۲۶ 113 بحواله الفضل ۶۲-۷-۳ صفحه ۵ 115 الحكم ۲۳-۲-۲۸ 116 الفضل ۱۹-۲-۲۲ صفحه ۲ - ۱۹-۳- صفحه ۱،۲-۱۹-۳-۸ ریویو 117 الفضل ۲۰-۴-۱۹و۲۰-۴-۲۹ صفحه ۳ آف ریلیجنز انگریزی جنوری فروری ۹۱۱۹ء 118 بحواله الفضل ۲۰-۴-۲۶ صفحه ۵ 119 الفضل ۲۰،۲۳ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۷ تا ۹.ریویو آف ریلیچند انگریزی نومبر دسمبر ۱۹۲۳، صفحه ۴۱۴ 120 ریویو آف ریلیجنز نومبر دسمبر ۱۹۲۳ صفحه ۴۲۰.121 ریویو آف ریجنز نومبر، دسمبر ۱۹۲۳ ، صفحه ۱۱ الفضل ۲۰/۲۳ نومبر ۱۹۲۳ صفحه ۱۰۹ 122 وعدہ رپورٹ مشاورت ۱۹۲۳ء صفحه ۵۵.اس کا ایفاء الفضل ۲۳-۶-۱۸ صفحہ ۹ 123 الفضل ۶۱ - ۲ - ۲۵ صفحه ۲ - ۶۱-۲-۲۶ صفحه ۲۱، ۷ 124 الفضل ۴۱-۴-۶ صفحه ۱ ۴-۴۱-۴-۱۷ صفحه ۲.125 الفضل ۲۵ تا ۲۷ جنوری ۱۹۴۴ء الحکم ۱۴/۱۸ را پریل ۱۹۴۱ء 126 الفضل ۵۷-۵-۱۱ 127 کتابچہ مطالعہ وقف جائیداد و آمد مطبوعہ دسمبر ۱۹۴۴ء منجانب دفتر تحریک جدید 128 الفضل ۵۸-۱- ۷ صفحه ۱- ۵۸-۱-۱۶ صفحه ۱ 129 الفضل ۳۳-۱۲- اصفحه ۱۲-۳۴-۱-۹ صفحه ۵ 130 ریویو آف ریلیجنز (اردو) بابت ستمبر ۱۹۱۴ء صفحه ۴ ۳۵ 131 الفضل ۳۴-۳-۳۴،۲۹-۴-۳ ور یویو آف ریلیجنز 132 رپورٹ نومبر ۱۹۳۲ء.الفضل ۳۳-۱-۲۱ صفحه ۲ (انگریزی) بابت اپریل ۱۹۳۴ء 133 الفضل ۳۳-۱۲-۱۴ ور پورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ بابت ۳۴-۱۹۳۳ء صفحه ۱۸۷ 134 الفضل ۲۹-۳۰ را کتوبر ۱۹۵۸ هفت روزه بدر قادیان 135 رپورٹ سالانہ صفحه ۵،۴ ۱۳/ ۶ نومبر ۱۹۵۸ء 136 رپورٹ سالانہ ۴۳-۱۹۴۲ء صفحہ ۷.رپورٹ سال 137 رپورٹ تحقیقاتی عدالت (اردو) صفحه ۲۰۹ مذکورہ مندرجہ الفضل ۴۴-۱- اصغحریم کالم ۲ 138 الفضل ۲۵-۷-۲۱ صفحہ ا کالم ۱ 139 اخبار نجات بجنور بحواله الفضل ۱۳/۱۵ اگست ۱۹۲۵ صفحه ۷
X 140 الفضل ۱۹۳۳-۷-۲ 142 الحکم ۲۸ دسمبر ۱۹۲۱ء ، جنوری ۱۹۲۲ء صفحه ۲ 141 ریویو آف ریجنز انگریزی جنوری فروری ۱۹۲۰ء صفحه ۶۲ 143 الحكم ۱۱۴/۲۱اپریل ۱۹۲۴ ء زیر دارالامان کا ہفتہ 144 الفضل ۲۴-۱۲-۱۳ زیر " اخبار احمد یه صفحه ا 145 الفضل ۲۵-۷-۹، ۲۵-۷-۰۲۱ 146 الفضل ۲۳-۱- اصفحہ ۲ کالم ۱ ۱ ۱۹-۷-۲۶،۱۳-۷-۲۶،۲۸-۷-۲۵ ازمیرمدینه البح المسیح 147 الفضل ۲۶-۷-۲۰ صفحه ۲ 148 الفضل ۲۵-۲-۱۹، ۴۳-۱۲-۲۳، ۴۴-۱-۱۴، ۴۴-۱۰-۱۲، 149 الفضل ۲۱-۱۲-۲۶-۲۲-۱-۲ صفحه ۲ کالم ۲ PF-11-17, ۵-۱۲-۲۵از مرید بسته است ۵۷-۱۲-۲۵صفحه ۵ 150 الفضل ۴۷-۶-۹ صفحه ۸ - ۴۷-۶- ۳۰ صفحه ۸- 151 الفضل ۵۲-۱-۵ صفحه ۱ ۵۲-۱-۶ صفحه ا ۲-۷-۴۷ صفحه ۸، ۴۷-۷-۱۴ صفحه ۸ 152 الفضل ۵۹-۱-۱۲ صفحهیم 153 الفضل ۱۵-۶-۱۵،۸-۹-۱۲، ۲۱-۱۰-۴۳، ۵-۳-۴۷ نیه ۵-۲ زید یه مسیح 154 الفضل ۱۵-۲- از مریمد بن المسیح صفحه ۲ 155 الفضل ۲۶-۵-۴ زیر مدینہ اسیح 156 الفضل ۲۵-۸-۲۲ صفحه ۲ کالم ۳ 157 الفضل ۴۷-۳-۲۴ صفحه۲ - ۴۷-۴- ۷ زمیر مدینہ المسیح ۲۸-۴-۴۷ صفحه ۲ کالم ۴ 159 الموعود ( تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۴ء) صفحه ۱۴۲ تا ۱۴۷ 163 رپورٹ مشاورت ۱۹۲۷ء صفحه ۱۵،۱۴ 158 الفضل ۳۶-۱۰-۲۵ صفحه ۲ کالم ۱ 160 الفضل ۵۸-۴-۱- الفرقان اپریل ۱۹۵۸ء صفحه ۱ 161 الحکم ۱۲-۱۱- ۷ صفحه ۲ 162 بحواله الفضل مورخہ ۵۷-۵-۱۱ 164 الفضل ۲۴-۱۰-۴ صفحه۱۰ 166 الفضل ۵۵-۵-۱۹ صفحه ۵ 165 الفضل ۲۴-۱۰-۲۳ صفحه ۴.مکتوب محررہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رپورٹ محررہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی 11-1168 الفضل ۲۴-۱۰-۱۶ 167 الفضل ۵۵-۵-۱۱ صفحه ۳ 169 الفضل ۲۴-۱۰-۲۶ صفحه ۵ 170 الفضل ۲۴-۱۱- اصفحه ۳ ، ۴.نوشته عرفانی صاحب نیز ریویو 171 الفضل ۵۵-۵-۷ - ۵۵-۵-۱۲-۵۵-۵-۲۲ آف ریلیجنز انگریزی نومبر ۱۹۲۴، صفحه ۳۲۳ 172 الفضل ۵۵-۵-۱۰ 174 الفضل ۵۵-۸-۲۵-۵۵-۹-۷ 176 الفضل ۳۰-۱۲-۲۵ 178 الفضل ۳۵-۴- ۷ صفحه ۷،۶ 173 الفضل ۱۲،۱۱، ۱۵، ۱۸، ۱۹ مئی، ۱۵ جون ۱۹۵۵ء 175 الفضل ۶۰-۴-۶ صفريم 177 الفضل ۳۴ -۱۲-۱۳