Ashab-eAhmad Vol 10

Ashab-eAhmad Vol 10

اصحاب احمد (جلد 10)

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

حضرت مصلح موعود  ؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1949ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ میں فرمایا : ‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : <span class="quranic">اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ</span>۔ عام طور پر اس کے یہ معنی کئے جاتے ہیں کہ مُردوں کی برائی بیان نہیں کرنی چاہئے وہ فوت ہوگئے ہیں اور ان کامعاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے۔ یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن درحقیقت اس میں قومی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے<span class="quranic"> اُذْکُرُوْا مَوْتیٰ بِالْخَیْرِ</span> نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے<span class="quranic"> مَوْتَاکُمْ</span> کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی اپنے مُردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو۔ جس کے معنی ہیں کہ آپؐ نے یہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔‘‘ اس ارشاد کی روشنی میں محترم ملک صلاح الدین صاحب نے ’’اصحاب احمدؑ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کیا جس میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے مختصر حالات شائع کئے جاتے تھے۔ رسالہ کانام حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے نے تجویز فرمایا تھا۔ بعد ازاں بزرگانِ سلسلہ کی تجویز پر ان سوانح کو مفصل اور کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1955ء کے جلسہ سالانہ میں آپ کی اس خدمت کاذکر کرتے ہوئے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور بعض ضروری نصائح فرماکر احباب جماعت کوصحابہ کرام کے حالات زندگی اور تاریخ کے متعلق ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ درجنوں صحابہ کے ابتدائی تعارف پر مشتمل زیر نظر یہ مجموعہ 12 جلدوں پر محیط ہے جو دیدہ زیب ٹائپ شدہ ہیں اور قریبا اڑھائی  ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مفید سلسلہ  کتب میں معزز مرحومین کی تصاویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بعض جگہ ضروری نقشے اور وضاحتی خاکے بھی بناکر شامل کئے گئے ہیں۔ صحابہ کی خود نوشت تحریرات یا مطبوعہ مواد پر مصنف کتاب کے شامل  کردہ حوالہ جات اور ضروری وضاحتی حواشی نے کتاب کی افادیت کو اور بڑھا دیا ہے اور بلاشبہ یہ صرف صحابہ کے حالات زندگی ہی نہیں بلکہ جماعت احمد یہ کی تاریخ کا اہم ذخیر ہ ہے اور مصنف کی طرف سے جماعت کی ابتدائی تاریخ کا قیمتی خزانہ محفوظ کرنے کی ایک نہایت ہی قابل قدر سعی ہے۔


Book Content

Page 1

وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَّاتِى مِنْ بَعْدِى اِسْمُهُ أَحَمَدُ اصحاب احمد جلد دہم (حصہ اول وحصہ دوم ) مؤلفہ صلاح الدین ملک ایم.اے

Page 2

نام کتاب جلد دہم مصنف اصحاب احمد حصہ اول و دوم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے

Page 3

فہرست مضامین اصحاب احمد جلد دہم مضمون حصہ اوّل صفحہ i V 1 L ۱۳ ۷۲ 22 ۱۳۷ ۱۴۲ ۱۴۱ ۱۴۹ عرض حال نئے تبصرے ڈاکٹر عطر دین صاحب درویش ولد میاں بھولا ( سکنہ چھمال تحصیل شکر گڑ ضلع گورداسپور ) ماسٹر فقیر اللہ صاحب ولد منشی امام بخش صاحب سکنہ پیشاور شیخ عبدالرحیم صاحب شر ما سابق کشن لال ولد پنڈت رلیا رام ( ساکن بنور پٹیالہ) شیخ عبدالوہاب صاحب ( سکنہ بنوڑ.پٹیالہ ) حاجی غلام احمد صاحب ولد گامن خاں ( سکنہ کر یام.جالندھر ) زینب بیگم صاحبہ ( سوتیلی والدہ ) دولت بیگم صاحبہ ( ہمشیرہ) امیرالنساء بیگم صاحبہ ( ہمشیرہ) محمد جان صاحبہ ( ہمشیرہ) چوہدری مراد بخش صاحب ولدر نگے خاں ( سکنہ کر یام.جالندھر ) چوہدری مہر خانصاحب (پسر) چوہدری نذیر احمد خانصاحب (پسر) چوہدری مولا بخش صاحب ولد امام بخش ( سکنہ کریام - جالندھر ) چوہدری عبدالغنی صاحب (پسر) صحابہ کرام سکنہ موضع کریام چوہدری برکت علی صاحب ولد دارے خاں

Page 4

صفحه ۱۵۱ ۱۵۴ ۱۵۸ 17.۱۶۳ ۱۶۳ ۱۶۳ ۱۶۴ ).اسماء چوہدری نعمت خانصاحب ( برادر ) چوہدری بڑھے خانصاحب ولد سلطان خان چوہدری حاکم خانصاحب (پسر) چوہدری کرم بخش صاحب ( برادر ) چوہدری ولی محمد ولد چوہدری کرم بخش صاحب چوہدری گل محمد صاحب ( برادر زادہ چوہدری کرم بخش صاحب) چوہدری برکت علی صاحب ولد محمد بخش چوہدری طفیل محمد صاحب ( پسر ) چوہدری محمد علی صاحب (پسر) چوہدری کالے خاں صاحب ولد محمد بخش چوہدری گا ہے خاں صاحب ولدر نگے خاں چوہدری خان بہادر صاحب (پسر) چوہدری منشی خانصاحب ( پسر ) چوہدری رحمت خانصاحب (پسر) چوہدری مولا بخش صاحب ولد گلاب خاں چوہدری علی گوہر صاحب ( برادر ) چوہدری امیر علی صاحب (ملازم) چوہدری چھجو خاں صاحب ولد ر تھے خاں چوہدری صوبہ خاں صاحب چوہدری نبی بخش صاحب ولد سے خاں چوہدری تھے خاں صاحب چوہدری نجابت علی خانصاحب ولد محمد بخش

Page 5

اسماء چوہدری احمد علی خانصاحب (پسر) وزیر محمد صاحب ولد بنہ ج چوہدری اکبر خاں صاحب ولد مادے خاں چوہدری منشی خانصاحب ولد مولا بخش سر وعد چوہدری غلام محمد صاحب ولد بدر بخش چوہدری رحمت خاں صاحب ولد ہلو خاں چوہدری امیر باز خاں صاحب ولد کیمن خاں چوہدری بشارت علی خانصاحب ولد دارے خاں (ساکن سٹروعہ ضلع جالندھر ) مہر النساء بیگم صاحبہ (اہلیہ ) میاں رمضان علی صاحب ولد میاں حسین صاحب مولوی غلام حیدر صاحب والد یخی محمد ( ساکن مجو که ضلع سرگودھا) مولوی غلام رسول صاحب (پسر) چوہدری تھے خانصاحب ولد فضل الدین (ساکن مگر اضلع سیالکوٹ) بعده متوطن چک نمبر ۹۸ شمالی (سرگودھا) چوہدری اللہ بخش صاحب ولد میراں بخش ساکن مکھن وال (گجرات) بعده متوطن چک نمبر ۹ شمالی پنیار (سرگودها) میاں کرم الدین صاحب ولد حاجی جان محمد ( ساکن پوہلہ مہاراں (سیالکوٹ) بعده متوطن چک نمبر ۳۳ جنوبی ملکے والہ (سرگودھا) شیخ رحمت اللہ صاحب ولد شیخ جھنڈا ( ساکن طغل واله نز دقادیان) دولت بی بی صاحبہ ( ہمشیرہ) عائشہ صاحبہ (اہلیہ) شیخ جھنڈا صاحب ( والد ) صفحه ܬܪܙ ۱۶۷ ۱۶۷ ۱۶۷ ۱۶۸ ۱۶۸ ۱۶۹ ۱۷۰ ۱۷۰ ۱۷۴ 122 12A 129 ۱۸۲ ۱۸۳ ۱۸۴

Page 6

صفحه ۱۹۶ ۲۰۵ ۲۱۰ ۲۲۰ ۲۴۴ ۲۸۱ ۲۸۷ ۲۸۹ ۲۹۰ ۲۹۱ ۲۹۳ ۲۹۶ , اسماء میاں کرم الہی صاحب درویش ( ولد میاں عیدا) ( ساکن بھڈ یار ضلع امرتسر ) میاں نظام الدین صاحب (برادر ) قاضی اشرف علی صاحب ولد یعقوب علی صاحب سا کن علی پور کھیڑہ ( ضلع مین پوری.یو.پی ) ملک محمود خانصاحب ولد محمد لشکر خاں ( ساکن معیار ضلع مردان ) مولوی عبدالواحد خانصاحب ولد محمد رمضان (سیالکوٹ) غفورالنساء صاحبہ (اہلیہ) مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ولد چوہدری صدرالدین صاحب ضلع گوجرانوالہ روایات.حوالہ جات حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب عرض حال مسودہ کے بارہ میں دیباچه بیان شیخ محب الرحمن صاحب کپورتھلہ شہر دریاست تاریخ احمدیت میں کپورتھلہ کی اہمیت حصہ دوم

Page 7

صفحه ۲۹۷ ۳۰۴ ۳۰۵ ۳۰۷ ۳۱۰ ۳۱۱ ۳۱۲ ۳۱۴ ۳۱۷ ۳۲۳ ۳۳۵ ۳۳۶ ۳۴۵ ۳۴۱ ۳۴۲ ۳۴۳ ۳۴۹ ۳۵۱ ۳۵۳ اسماء احباب کپورتھلہ کا عشق و ایمان حوالہ جات تعارف آپ کے خاندانی حالات حاجی محمد ولی اللہ صاحب منشی حبیب الرحمن صاحب منشی صاحب عہد طفولیت اور تعلیمی حالات حاجی صاحب کو براہین احمدیہ کا اشتہار ملنا اور حضرت اقدس سے خط و کتابت ہونا.براہین احمدیہ حاجی صاحب کو میسر آنا حضور کے مجدد ہونے کے بارے میں حاجی صاحب کے سوالات التوائے براہین احمدیہ پر اعتراض حضرت اقدس سے حاجی صاحب کا طلب عفو حاجی صاحب کی آخری حالت کا جائزہ.حضرت اقدس کا درود تین بار کپورتھلہ میں حضرت اقدس سے منشی صاحب کی اولین ملاقات ( جالندھر میں ) بعض احباب کپورتھلہ کی بیعت حضرت اقدس کا دعویٰ مسیحیت منشی حبیب الرحمن صاحب کا بیعت کرنالدھیانہ پہنچ کر حضرت اقدس کی فراست کا ایک واقعہ حضرت اقدس کی فراست کا ایک اور واقعہ، حاجی محمد ولی اللہ صاحب کا انتقال اس سفر لدھیانہ کا ایک اور واقعہ

Page 8

صفح ۳۵۴ ۳۵۹ ۳۶۴ ۳۶۵ ۳۶۹ ۳۷۴ ۳۷۵ ۳۸۲ ۳۸۳ ۳۸۴ ۳۸۴ ۳۸۷ ۳۹۰ ۳۹۵ ۳۹۶ ۳۹۷ ۳۹۷ ۳۹۸ ۳۹۸ ۴۰۰ ۴۰۲ ۴۰۶ اسماء زیارت حضرت اقدس کا وفور شوق بیعت مولوی غلام نبی صاحب خوشابی علمائے اسلام کو دعوت مقابلہ مباحثات دہلی ۱۸۹۱ء میں شرکت اولین جلسہ سالانہ (۱۸۹۱ء) میں شمولیت لدھیانہ میں زیارت کے مواقع جلسہ سالانہ (۱۸۹۲ء) میں شمولیت اور تبلیغ یورپ و امریکہ کے بارے مشاورت تین سو تیرہ صحابہ میں شمولیت دوبار جادو کچھ چیز نہیں ایک منصف کی طرف سے حضرت اقدس کو دعوت طعام حضرت اقدس کا منشی صاحب کو یاد کرنا منشی صاحب، ایک نشان کے گواہ بمقام امرتسر مباحثہ آنقم و مباہلہ جماعت احمدیہ کے بنیادی احوال کتاب ” آریہ دھرم میں منشی صاحب کا ذکر حقہ سے حضرت اقدس کو نفرت ایک رمضان شریف کا آخری عشرہ قادیان میں گزارنا نسخه سرمه مقوی بصر حضرت اقدس کی غذا نزول الہام کے دو مواقع پرمنشی صاحب کی موجودگی حضور کی دعا سے طاعون سے حفاظت لاہور کے متعلق پیشگوئی

Page 9

اسماء حضرت اقدس کا سفر دہلی ۱۹۰۵ء میں دہلی سے سفر مراجعت ش مسجد کپورتھلہ کا مقدمہ اور معجزانہ کامیابی کا نشان روایات منشی حبیب الرحمن صاحب منشی صاحب کی غیر تمندانہ اپیل اخبار وطن“ کی ایک تحریک پر مقدمه کرم دین بعدالت چند ولال ڈاکٹر عبدالحکیم کے سلسلہ میں اظہار غیرت جلسة تشخيذ الاذہان مکتوبات حضرت اقدس بنام منشی صاحب اولا د منشی محمد خاں صاحب کے ساتھ نرم سلوک کیا جانے کی الہی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال منشی صاحب بیعت خلافت ثانیه و تائید حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی امریکہ سے مراجعت حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کا خیر مقدم، سفر یورپ سے مراجعت پر انفاق فی سبیل اللہ قلمی خدمات منشی صاحب کی اہلیہ محترمہ سيرة حضرت منشی صاحب منشی صاحب کا انتقال پر ملال نماز جنازه وتدفین خاتمہ بالخیر کے متعلق خواہیں حضرت مسیح موعود کا وعدہ صحابہ کپورتھلہ سے صفحہ ۴۰۶ ۴۱۰ ۴۱۶ ۴۲۷ ۴۳۳ ۴۳۵ ۴۳۷ ۴۳۷ ۴۳۸ ۴۴۷ ۴۴۸ ۴۵۷ ۴۵۹ ۴۶۲ ۴۸۰ ۴۸۳ ۴۸۴ ۴۹۷ ۴۹۸ ۴۹۹ ۵۰۲

Page 10

i بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ * نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمُ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ حصہ اول عرض حال الحمد لله ثم الحمدللہ کہ باوجود نامساعد حالات کے راقم آئم کو اصحاب احمد جلد دہم کے ہدیہ قارئین کرام کرنے کی توفیق عطا ہوئی.اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ اسے قبول فرمائے اور اس کام کی تکمیل کی تو فیق عطا کرتے ہوئے اپنے فضل سے اس کے لئے سامان بہم پہنچائے.اَللَّهُمَّ وَفَقْنَا لِمَا تَرْضَى.امين يارب العلمين.یہ احباب : ناسپاسی ہوگی اگر میں ان بزرگوں اور احباب کا شکریہ ادانہ کروں جنہوں نے خود مالی اعانت کی ہے یادوسروں کو خریدار بنا کر مدد فرمائی ہے.ان محترمین کے اسماء درج ذیل ہیں :.(۱).ربوہ صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب منجانب سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ( معالج خصوصی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ) سید داؤ د احمد صاحب (پرنسپل جامعہ احمدیہ ) چوہدری ظہور احمد صاحب با جوه ( ناظر اصلاح وارشاد ) مولوی بشارت احمد صاحب بشیر (نائب وکیل التبشير ) میاں محمد ابراہیم صاحب (ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ) مولوی غلام باری سیف (پروفیسر جامعہ احمدیہ) مرزا فتح دین صاحب ( سپر نٹنڈنٹ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ) اور ملک منور احمد صاحب ایم.ایس سی (فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ) (۲) سابق مغربی پنجاب.مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ (امیر صوبائی ) چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر (امیر جماعت لاہور ) شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ (امیر ضلع لائلپور ) ملک عبدالعزیز صاحب (مالک فلور مل.قصور ) شیخ عبدالقادر صاحب ( مربی لاہور ) ماسٹر محمد ابراہیم صاحب (صدر حلقہ مسجد احمد یہ لا ہور ) ملک رشید احمد صاحب لاہور ( نبیرہ حضرت ملک نورالدین صاحب ) میاں بشیر احمد صاحب (امیر جماعت جھنگ ) چوہدری محمد اکرام اللہ صاحب (مالک اومیگا ریڈیو.ملتان صدر ) چوہدری نورالدین صاحب جہانگیر ( ڈائریکٹر فوڈ اینڈ سپلائی لاہور ) خلف حضرت چوہدری غلام حسین صاحب.چوہدری محمد شریف صاحب ایڈووکیٹ (امیر

Page 11

ii جماعت منٹگمری ) ملک محمد مستقیم صاحب ایڈووکیٹ منٹگمری.اور عبدالحق صاحب ناصر در ولیش ( منٹگمری) چوہدری حسن محمد صاحب ہوٹل والا ( کبیر سٹریٹ لاہور ) ملک احسان اللہ صاحب ( خلف حضرت ملک خدا بخش صاحب لاہور ) چوہدری انورحسین صاحب ایڈووکیٹ (امیر ضلع شیخوپورہ) شیخ عبداللطیف صاحب ( قائد مجلس خدام الاحمدیہ لائل پور شہر ) اور ان کے بھائی شیخ محمد عبداللہ صاحب (۳) سابق سندھ.فضل الرحمن صاحب سول انجینئر سیمنٹ فیکٹری حیدر آباد پاک.چوہدری فضل احمد صاحب ( مینیجر وامیر جماعت بشیر آباد) چوہدری محمد اسماعیل صاحب خالد مینیجر احمد آباد.ملک غلام احمد صاحب عطا ( محمد آباد ) ڈاکٹر احتشام الحق صاحب بہاری ( محمد آباد ) احباب جماعت کنری.صوفی محمد رفیع صاحب (امیر جماعت سکھر ڈویثرن ) ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب ( نواب شاہ ) (۴) بیرون ہندو پاک.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب پروفیسر ( لندن ) سید عبدالرحمان صاحب ( خلف حضرت سید عزیز الرحمن صاحب) حافظ صالح محمد اللہ دین صاحب (ریاست ہائے متحدہ امریکہ ) مسعود احمد صاحب ہاشمی (کویت) نیاز احمد صاحب بحرین.شیخ مبارک احمد صاحب ( رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ ) اور چوہدری عبدالرحمن صاحب لنڈن.( خلف چوہدری غلام محمد صاحب سابق مینجر نصرت گرلز سکول قادیان ) مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر ( مجاہد ماریشیس ) (۵) متفرق.خواجہ محمد صدیق صاحب بانی ( ناظر دفتر ڈپٹی کمشنر پونچھ ) حکیم محمد سعید صاحب (سابق مبلغ سری نگر ) چوہدری محمود احمد صاحب عارف ( معاون ناظر امور عامه قادیان ) اور مولوی محمد سلیم صاحب فاضل (مبلغ دہلی ) منشی شمس الدین صاحب (سابق امیر جماعت کلکتہ ) اور مولوی عبدالحئی صاحب ہیڈ ماسٹر مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان ( خلف حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری ) خصوصاً دو برادران کا بے حد ممنون ہوں.ایک تو چوہدری محمد صدیق صاحب فاضل بی اے (لائبریرین خلافت لائبریری ربوہ) کا کہ جنہوں نے جلد نہم سے طباعت واشاعت کا سارا بوجھ اٹھا رکھا ہے.دوسرے مولوی عبدالرحمان صاحب انور (اسٹمنٹ پرائیویٹ سیکرٹری سیدنا حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی ) کا کہ وہ حالات مہیا کرنے میں بہت مدد دے رہے ہیں.تیسرے مرزا محمد عبد اللہ صاحب ( دفعدار ) لائبریرین مرکزی لائبریری صدر انجمن احمد یہ قادیان کا کہ مجھے ہمیشہ لائبریری اور دفاتر کے بعد ہی یا تعطیلات میں

Page 12

iii استفادہ کا موقع ملتا ہے.اور آپ اس بارہ میں میری پوری امداد فر ماتے ہیں.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.آمین ثم آمین یسے تذکروں کی ضرورت:.صحابہ کرام کے تذکروں کی جس قدرضرورت محسوس کی جارہی ہے ہر ایک پر ظاہر ہے اور صحابہ کی تعداد کے کم ہونے کے ساتھ ان کی ضرورت اور اہمیت کا احساس تیز تر ہورہا ہے.چند دن قبل حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب کے سانحہ ارتحال جیسے قومی صدمہ سے اس احساس کا شدید ہونا طبعی امر تھا.اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کو تا در صیح وسلامت رکھے تاہم ان کے فیوض سے متمتع ہوسکیں.ایسے تذکروں کی تکمیل کے لئے بہت ہی جانفشانی ، عرقریزی اور محنت درکار ہے لیکن ان سے زیادہ دقت ان کے خریدار تلاش کرنے اور ان کی طباعت وغیرہ کے لئے اخرجات مہیا کرنے میں ہوتی ہے اور اس کی طرف بہت توجہ دینی پڑتی ہے.احباب اس امر کا جائزہ اس بات سے لے سکتے ہیں کہ جلد نہم جو حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی جیسے جلیل القدر صحابی کے نہایت ہی ایمان افروز سوانح پر مشتمل ہے.اس کو زیور طبع سے مزین ہوئے تین ماہ کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن ابھی تک صرف دوصد جلدوں کی قیمت وصول ہوئی ہے اور نئی جلد کی طباعت کے اخراجات فکرمندی کا موجب ہورہے ہیں.طریق اعانت :.اس سلسلہ تالیفات کے لئے پانچصد مستقل خرید ارل جائیں تو ایک گونہ اطمینان کی صورت پیدا ہوسکتی ہے.سو اس بارہ میں تین تجاویز ہیں.تا اپنے حال کے مطابق کرم فرما دوست توجہ فرما ئیں.جو دوست توفیق رکھتے ہوں وہ ذیل کے طریق پر پیشگی قیمت دے کر مدد کر سکتے ہیں.اس طرح کچھ عرصہ کے لئے.(۱) صاحب توفیق احباب یک صد روپیہ عنایت کریں سابقہ اور آئندہ کل تھیں جلد میں ان کو دی جائیں گی.(۲) جو دوست پچاس روپیہ دے سکیں ان کو پندرہ جلد میں دی جائیں گی.(۳) جو دوست دونوں بالاطریقوں پر اعانت نہ کر سکیں.وہ اپنا نام مستقل خریداروں میں لکھوادیں.تاجب کتاب طبع ہونے والی ہو.ان کو اطلاع دے کر قیمت و خرچ ڈاک کا مطالبہ کیا جایا کرے.کاش کسی کو توفیق ملے کہ وہ میرا کفیل ہو کر مجھے کلیتہ اس کام کے لئے فارغ کرا سکے.

Page 13

iv نئے سال کا پروگرام :.۱۹۶۲ء ک خاکسار کا ذیل کا پروگرام ہےاور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی کے فضل سے میں اسے پورا کر سکوں گا.اس پروگرام کا ذکر کرنے کی اس لئے بھی ضرورت ہے تا احباب اپنی ذمہ داریوں کا اندازہ کر سکیں.(۱) متعد دقدیم صحابہ کے سوانح پر مشتمل ایک جلد.(۲) کم و بیش ایک سو صحابہ کے مختصر سوانح پر مشتمل ایک جلد.(۳) ایک جلد مشتمل بر سوانح حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب.(۴) ایک جلد بابت سوانح حضرت نواب محمدعبداللہ خان صاحب (بشرطیکہ ان کی اولا داس کی طباعت کے اخرجات کا انتظام کر سکے.جیسا کہ ان کا وعدہ ہے اور انہوں نے خود مجھے تحریک کی ہے کہ اس کام کی تکمیل (۵) سفر یورپ (۱۹۲۴ء ) حصہ دوم (۶ تا ۸ ) بعض اور کتب بھی زیر تجویز ہیں.میں ان سب کی تیاری کر رہا ہوں.بلکہ ان میں سے ایک کتاب مکمل ہو چکی ہے صرف چند دن کی مزید کروں) محنت اس کے لئے درکار ہے.بالا خر میں احباب کی خدمت میں دعاؤں سے امداد کی درخواست کرتا ہوں.لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلَيُّ الْعَظِيمُ.هَوَ نَعُمُ الْمَوْلَى وَ نِعْمُ الْنَصِيرُ.عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ إِلَيْةِ أُنِيبُ.۸ اکتوبر ۱۹۶۱ء خاکسار صلاح الدین ملک ایم.اے وسطی کمرہ.بالاخانہ ممبر و آڈیٹر ہر سہ انجمن ہائے (صدرانجمن احمدیہ) قصر خلافت.قادیان انجمن تحریک جدید وانجمن تحریک وقف جدید - قادیان

Page 14

V نئے تبصرے راقم آثم اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کناں ہے کہ اس کی حوصلہ افزائی کے لئے اس کی تالیفات کا ذکر سلسلہ کے لٹریچر میں آتا رہتا ہے.حضرت نواب محمد عبد اللہ خانصاحب کی وفات پر الفضل نے ۲۱ ستمبر کے ایشوء میں اور مکرم محترم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے مترجم القرآن (انگریزی) نے ۲۹ ستمبر کے پرچہ میں اپنے مضمون میں اصحاب احمد جلد دوم کا ذکر کیا.اور بدر نے بھی اس موقع پر اسی تالیف سے استفادہ کر کے خلاصہ دیا (گواس تالیف کا انہوں نے ذکر نہیں کیا ) اس سے قبل حضرت خان صاحب منشی برکت علی صاحب شملوی کے سوانح بھی ان کی وفات پر انہی تالیفات سے (بدوں ذکر کرنے کے) لئے گئے.حضرت چوہدری غلام محمد صاحب بی.اے ( علیگ) ( سابق مینجر نصرت گرلز ہائی سکول قادیان) کی وفات پر ان کے ایک صاحبزادہ نے تحریر فرمایا.کہ حضرت والد صاحب نے کتاب کو تا وفات اپنی میز پر اپنے سامنے رکھا اور بار بار بچوں سے سنتے تھے.فالحمد للہ علی ذالک.گذشتہ جلدوں میں سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہتعالی اور دیگر بزرگوں کے تبصرے درج ہو چکے ہیں.اب ذیل میں نئے تبصرے درج کئے جاتے ہیں.ا.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب.(پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ ) رقمطراز ہیں :.ایمان درست نہیں ہوتا جب تک انسان صاحب ایمان کی صحبت میں نہ رہے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) خوش قسمت وہی انسان ہے جو ایسے مردان خدا کے پاس رہ کر ( جن کو اللہ تعالیٰ اپنے وقت پر بھیجتا ہے ) اس غرض اور مقصد کو پالے جس کے لئے وہ آتے ہیں.( ملفوظات جلد دوم صفحه ۱۱) ایسے خوش قسمت بزرگ جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک صحبت نصیب ہوئی اور جنہوں نے اس

Page 15

vi زمانہ کے مامور ومرسل کو بہت قریب سے دیکھا.اور اس پاک انسان کے قرب سے دل کی پاکیزگی حاصل کی ، ایک ایک کر کے ہم سے رخصت ہوتے جارہے ہیں.ایسے وقت میں اس امر کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ ان بزرگان سلسلہ کے حالات و واقعات قلمبند کر لئے جائیں.تا بعد میں آنے والے یہ دیکھ سکیں کہ مسیح زمان کی مسیحائی نے ان میں دین کے لئے فدائیت، اسلام کے لئے قربانی اور حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی کس قدر تڑپ پیدا کر دی تھی.ایسی تڑپ جو ان کی ہر حرکت وسکون سے عیاں تھی.اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کی تعمیل میں کہ:.تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ.“ انہوں نے اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کر لی تھی.اور وہ خدا کے فضل سے ”نئے انسان بن چکے تھے.ایسے بزرگوں کے حالات کے مطالعہ سے بعد میں آنے والے اصحاب کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوگی کہ وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں.اور یکسر نئے انسان بن جائیں.مجھے یہ دیکھ کر بے حد مسرت ہوئی کہ سلسلہ کے ایک مخلص خادم مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے درویش قادیان نے جو مالی مشکلات کے باوجود ایک عرصہ سے صحابہ کرام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جمع کر کے شائع کر رہے ہیں.اصحاب احمد کے نام سے کتب کا سلسلہ جاری کئے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی ہمت اور اخلاص میں برکت دے اور وہ جس عزم کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں اس میں انہیں کامیاب فرمائے.آمین.میں احباب سلسلہ سے گذارش کروں گا کہ ” اصحاب احمد کی کثرت کے ساتھ خریداری قبول فرما دیں اور کوئی احمدی گھرانہ ایسا نہ ہونا چاہئے جہاں تصنیفات اصحاب احمد نہ پہنچیں.اور جس کے نو جوان اور بچے اس کے مطالعہ سے محروم رہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( جو آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ کے مصداق تھے ) کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.اس طرح کہ ہم بھی اپنے اندر محض اس کے فضل سے نیک تبدیلی پیدا کر کے بالکل نئے انسان بن جائیں.آمین.(الفضل ۵/۶۱-۲۱)

Page 16

vii ۲.جناب سید داؤد احمد صاحب (پرنسپل جامعہ احمدیہ.ربوہ ) زیر عنوان اصحابی کالنجوم تحریر فرماتے ہیں:.مکرم و محترم جناب ملک صلاح الدین صاحب کی طرف سے شائع کردہ اصحاب احمد کی جلد میں میرے زیر مطالعہ رہی ہیں.ہمارے لئے اصل نمونہ تو ہمارے آقا و مولے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.اور پھر حضور کے کامل متبع اور فرمانبردار اور اپنے قلب صافی پر حضور کا کامل عکس لینے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اور ان دونوں کے تفصیلی حالات ہمارے سامنے قلمبند کئے ہوئے موجود ہیں لیکن اس کے باوجود آپ کے صحابہ کے تفصیلی حالات جمع کرنے اور ان کو بار بار اپنے سامنے لانے کی ضرورت ہے.ایک تو اس وجہ سے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ "أَصْحَابِي كَالنَجُومُ بِاتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَ يَتُمُ “ یعنی میرے صحابہ تو ستاروں کی مانند ہیں جیسے ہر ایک ستارہ اپنی الگ شکل اور روشنی رکھتا ہے اسی طرح گو میرا ہر ایک صحابی اپنی عادات اخلاق واطوار کے لحاظ سے ایک ممتاز شخصیت ہے لیکن ان کا منبع و ماخذ ایک ہی ہے جس کے پر تو کے نیچے آکر ان سب میں ایک خاص جلا اور روشنی پیدا ہو جاتی ہے.اور گو بظاہر یہ دسکتے ہیرے علیحدہ علیحدہ رنگ اور چمک اور شکل رکھتے ہیں لیکن یہ ایک ہی کان سے نکلتے ہیں.اس لئے تمہارا خدا تک پہنچنے کا ایک یہ راستہ بھی ہے کہ تم میرے کسی صحابی کونمونہ بنالو.اور حسب توفیق اس کے نقش قدم پر قدم مارتے چلے جاؤ تمہیں آخر کار میرے اس نور سے حصہ مل جائے گا جس سے انہوں نے حصہ پایا ہے.یہ لوگ گویا مذہب کے قافلے کے لئے روشنی کے مینار کے طور پر قرار دیئے گئے ہیں.دوسری ضرورت صحابہ کرام کے حالات کو سامنے لانے کی یہ ہے کہ ہم اس بے انداز قوت قدسی کا مشاہدہ کر سکیں.جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے طفیل اور توسط سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائی ہے کہ ہزاروں اور لاکھوں افراد کو روحانی اندھیروں اور موت کے گڑھے سے کھینچ کر باہر لے آئی.اور ان کو نہ صرف یہ ایک نئی زندگی عطا کی بلکہ ان کے دلوں میں عشق و محبت کی ایک ایسی آگ لگا دی جس نے ان کے گناہوں کوخس و خاشاک کی طرح بھسم کر ڈالا.اور ان کو ایک نئے روحانی قالب میں ڈھال دیا.ہمارے سامنے اس بے مثال پاک تبدیلی کی داستان آتی رہنی چاہئے جوان ہمارے جیسے انسانوں کی زندگیوں میں

Page 17

viii آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے.اور قرآن کریم کو دستورالعمل بنانے سے پیدا ہوئی یہاں تک کہ خاک کی چٹکیوں کو آسمان کے تارے بنا دیا.یہ سب دنیوی طور پر بالعموم نہایت معمولی حیثیت رکھے والے لوگ تھے لیکن ان کا ذکر آنے پر ہر احمدی کے دل میں محبت کا ایک سیلاب اُمنڈ آتا ہے اور آنکھیں پرنم ہو جاتی ہیں.اور اس کے دل سے ان کے لئے تڑپ کر دعا نکلتی ہے اور عقل اس تبدیلی اور عشق کے نظارے اور قربانی وایثار اور وفاداری کو دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے.تیسری ضرورت صحابہ کرام کے حالات کے ہمارے سامنے لانے کی یہ ہے کہ تا آئندہ نسلوں کو یہ معلوم ہو کہ ان کے بزرگوں نے دین کی خاطر کس قدر قربانیاں کیں.کس طرح انہوں نے ایک آواز دینے والے کی آواز پر لبیک کہا اور اس دنیا کو ایک حقیر شے کی طرح ٹھکرا کر پھینک دیا، کس طرح ان کو محض اس لئے دکھ دیا گیا کہ وہ امام وقت کی آواز سن کر پروانہ وار دوڑے تھے.ان کو گھر سے بے گھر کیا گیا.زدوکوب کیا گیا.بائیکاٹ کیا گیا.ہر وہ ظلم جو آسمان کے نیچے توڑا جا سکتا ہے ان پر توڑا گیا.اور کس طرح ان لوگوں نے نہایت اعلیٰ درجہ کے صبر اور وفاداری کا مظاہرہ کیا اور اس راستے میں اپنا جان، مال اور عزت غرض سب کچھ قربان کر دیا یہ سب باتیں ہمارے سامنے لانے کی ضرورت ہے.تا آئندہ نسلیں بھی اس قسم کی ہمت اور بہادری وفاداری اور ایمان اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے نمونہ حاصل کر سکیں.چوتھی ضرورت ان حالات کے ہمارے سامنے لانے کی یہ ہے کہ یہ دکھایا جاسکے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی محبت اخلاص اور وفاداری کو قبول فرمایا.اور اپنی رحمت اور قدرت کے ہاتھ سے انہیں ہر قسم کے آفات سے بچایا.اور ہر قسم کی عزت عطا فرمائی.اور قدم قدم پر اپنی خاص غیبی نصرت سے ان کو نوازا.ہمارے سامنے یہ حالات آنے چاہئیں.تا کہ ہم مشکلات مصائب اور ابتلاؤں کے ایام میں جلد گھبرا نہ جائیں.بلکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید پر بھروسہ رکھنے والے ہوں.ان وجوہات کے علاوہ اور بھی وجوہات ہیں جن کے مدنظر صحابہ کرام کے حالات کو جمع کرنا اور پھیلانا ضروری ہے.لیکن ان سب کا خلاصہ یہی ہے کہ ان حالات کو پڑھ کر ہماری آئندہ نسلوں کے ایمان زندہ خدا پر مضبوط ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت قدسیہ کا اظہار اور قرآن شریف کی برکت ظاہر ہو.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحُ الْمَوَعوُدُ وَعَلَى الِهِمَا وَ أَصَحَابِهِمَا وَبَارَكَ

Page 18

ix " وَسَلَّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ » (الفضل ۶/۶۱-۸) وو.بزرگان سلسلہ احمدیہ کے ایمان افروز حالات زندگی.“ کے عنوان کے تحت - جناب مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ (امیر صوبائی سابق صوبہ پنجاب و بہاولپور ) رقم فرماتے ہیں ملک صلاح الدین صاحب نے خدا تعالیٰ کے فضل سے اصحاب احمد کی آٹھ جلدیں مکتوبات اصحاب احمد“ اور سفر یورپ ۱۹۲۴ء شائع کر کے ایک ایسا کام سرانجام دیا ہے جس کی قدر و قیمت بعد میں آنے والی نسلوں کو زیادہ معلوم ہوگی.یہ بزرگ جن کے حالات ملک صاحب نے نہایت مستند طریق سے جمع کئے ہیں.یقینا روحانی آسمان کے ستاروں کی حیثیت رکھتے ہیں.اور آئندہ نسلوں کی ہدایت کا موجب ہوتے رہیں گے.پاکستان بننے سے پہلے یہ عاجز حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے حکم کے تحت گورداسپور میں کام کرتا رہا.میں وہاں ساڑھے اکیس سال رہا.اور اس عرصہ میں قریب ہر ہفتہ قادیان جاتا رہا مجھ سے جب بھی لوگ اس کی وجہ دریافت کرتے.تو میں ان کو یہی بتاتا کہ میں وہاں فرشتے دیکھنے کے لئے جاتا ہوں.یہ جواب میں حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے دیتا تھا.قادیان میں میرے لئے راحت دینے والی بات یہ ہوتی تھی کہ کبھی میں ایک بزرگ کے پاس جا کر بیٹھتا اور ان کی محبت کا لطف اٹھاتا.اور کبھی دوسرے کے پاس.میں ان اوقات کو کبھی بھول نہیں سکتا بعد میں آنے والوں کو اس قسم کے بزرگوں کی صحبت نصیب نہ ہو سکے گی.اس وقت وہ جو کچھ بھی فائدہ اٹھائیں گے ان کے حالات زندگی سے ہی اٹھائیں گے.اور ان حالات کا جمع کرنے والا ایک بہت بڑا احسان کرے گا.مجھے یہ علم ہے کہ ملک صاحب باوجود غایت درجہ کی مالی تنگی کے یہ کام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بے حد جزا دے.اور ان کی اس کوشش کو نوازے اور اس کام کی تکمیل کی توفیق دے.یہ ہماری فرض ناشناسی ہے کہ اس میں کماحقہ مدد نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنا فرض سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.ان کے حالات دیکھتے ہوئے مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ کس طرح اس بوجھ کو اٹھا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کا حامی و مددگار ہو.“ الفضل مورخہ ۲۳/۶/۶۱) ۴.الفضل میں مرقوم ہے:.

Page 19

X مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور ’اصحاب احمد“ کے نہایت مفید اور ایمان افروز سلسلہ کتب کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.” اصحاب احمد کی کئی ایک جلدیں میں نے مطالعہ کی ہیں.ہر ایک جلد کو نہایت دلچسپ ، قابل قدر ہسبق اموز اور ایمان افروز پایا.جن جلیل القدر صحابہ کے حالات پڑھنے میں آئے ، ان کی خدمات اور قربانیوں کا حال پڑھ کر ان کے لئے نہ صرف دل سے بے اختیار دعائیں نکلتیں بلکہ خدام کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی نوازشات کا حال پڑھ کر ہر آن دل میں جوش پیدا ہوتا کہ کاش ہماری زندگی کا ( ہر ) ایک لمحہ ان بزرگان کے نقش قدم پر چلنے میں صرف ہو اور ساتھ ہی ملک صلاح الدین صاحب کے لئے دل سے دعا نکلتی ، کہ وہ کس قدر محنت ، ریسرچ اور صرف کثیر سے یہ نایاب معلومات فراہم اور شائع کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی زندگی اور عزم میں برکت دے تا کہ وہ اپنے منشاء کے مطابق اس نہایت ہی مفید تاریخی سلسلہ کو جاری رکھ سکیں اور پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں.ان کی اس خدمت کی قدر کرنا زندہ اور ترقی کر نیوالی احمدی جماعت کا کام ہے اور مجھے یقین ہے کہ احمدی جماعت اصحاب احمد کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں خرید کر کے اپنے درویش بھائی کی ضرور قدر کرے گی.اللہ تعالیٰ انہیں دینی و دینوی فلاح عطا فرمائے“.(مورخہ ۴/۶/۶۱) ۵.متوقر الفضل نے ” اصحاب احمد جلد نہم پر ذیل کے الفاظ میں تبصرہ فرمایا ہے:.اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایمان افروز حالات زندگی کو محفوظ کرنا ایک بڑی بھاری دینی اور جماعتی خدمت ہے جوں جوں ان بزرگوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے اس خدمت کی اہمیت اور ضرورت بڑھتی چلی جاتی ہے.مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان پوری جماعت کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ آپ ایک عرصہ سے اس اہم دینی خدمت کو بڑی محنت اور شوق سے سرانجام دے رہے ہیں.آپ کی ذاتی توجہ اور قابل قدر مساعی کے نتیجہ میں اس وقت تک قریباً ساٹھ بزرگان سلسلہ کے حالات زندگی اصحاب احمد کے زیر عنوان کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں.حال ہی میں آپ نے اصحاب احمد کی جلد نہم شائع کی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم اور بزرگ صحابی حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ کے حالات اور آپ کی نہایت درجہ ایمان افروز

Page 20

xi روایات پر مشتمل ہے.حضرت بھائی جی کی روایات کئی لحاظ سے سلسلہ کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت اور مقام رکھتی ہیں.وصال حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، خطبہ الہامیہ اور جلسہ اعظم مذاہب کے حالات کے متعلق آپ کی روایات بالخصوص بہت ہی بیش قیمت اور تاریخی اہمیت کی حامل ہیں اور تربیتی وتبلیغی دونوں لحاظ سے بہت ضروری اور مفید ہیں احباب جماعت کو انفرادی اور اجتماعی طور پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہ کتاب خریدنی چاہئے اور اس کی اشاعت کو وسیع سے وسیع تر کرنے کی کوشش کرنا چاہئے.مجالس انصار اللہ.خدام الاحمدیہ اور لجنات اما ء اللہ کو بھی تربیتی اغراض سے اس کتاب کو بکثرت خریدنا اور پڑھنا چاہئے.حقیقت یہ ہے کہ اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روایات و حالات کو محفوظ کرنا تنہا ایک شخص کے بس کا کام نہیں ہے.ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اس سلسلے میں فاضل مؤلف کی مدد کرنے کی کوشش کرے.مثلاً.(۱) ”ہم صحابہ سے حالات لکھوانے اور انہیں مؤلف تک پہنچانے کی کوشش کریں.(۲) رسالہ "اصحاب احمد کے مستقل خریدار بنیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تحریک کریں.(۳) ذی استطاعت اصحاب اس کتاب کے اخراجات میں بطور عطایا حصہ لیں.اور اس کی اکٹھی جلدیں خرید کر جماعت میں اس کو تقسیم کریں.(۴) دعاؤں کے ساتھ مؤلف کی مدد کریں.ہمیں توقع ہے کہ احباب جماعت جس رنگ میں بھی ممکن ہو سکے اس پاک اور مفید کام میں فاضل مؤلفہ کی اعانت فرمائیں گے تاکہ وہ اس کام کو یکسوئی اور اطمینان کے ساتھ سرانجام دے سکیں.(مورخہ ۵/۸/۲۱) بقية تبصر کتاب کے آخر میں روایات کے بعد ملاحظہ فرمائیں.(ناشر) ۶.قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ از راہ کرم رقم فرماتے ہیں:.

Page 21

xii بسم الله الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبده امسیح الموعود مکرمی و محترمی ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ:- اصحاب احمد کی جلد نہم جس میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی مرحوم کے حالات اور مشاہدات اور روایات درج ہیں.آپ کی طرف سے موصول ہوئی.جزاکم اللہ خیرا.میں نے اس کا کافی حصہ پڑھ لیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور حضرت بھائی صاحب کے درجات کو بلند فرمائے.یہ کتاب خدا کے فضل سے نہایت دلچسپ اور نہات ایمان افروز ہے.بعض مقامات پر تو میں نے یوں محسوس کیا کہ گویا میں اس کو پڑھتے ہوئے حضرت مسیح موعود کی مجلس میں پہنچ گیا ہوں.کئی واقعات ایسے نظر سے گذرے جو میرے چشم دید اور گوش شنید تھے لیکن میں انہیں بھول گیا تھا.یا میری یاد مدھم پڑ گئی تھی.اس کتاب کو پڑھنے سے بہت سی دلکش اور روح پرور یادیں تازہ ہو گئیں.حضرت بھائی صاحب کو حضرت مسیح موعود کی قریب ترین صحبت میں رہنے کا لمبا عرصہ ملا تھا.انہوں نے ہر واقعہ کو غور سے دیکھا.اور ہر بات کوغور سے سنا اور اسے اپنے ذہن میں محفوظ رکھا.اور پھر نہایت دلکش رنگ میں اسے بیان کیا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.اس جگہ اس بات کے بیان کرنے میں حرج نہیں کہ اصحاب احمد کی تین جلد میں مجھے خاص طور پر بہت پسند آئی ہیں.ایک وہ جلد جو حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے مشاہدات اور روایات پر مشتمل ہے اور دوسری وہ جلد جو حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے مشاہدات اور روایات پر مشتمل ہے اور تیسری یہ جلد جو حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی کے مشاہدات اور روایات پر پر مشتمل ہے.میں جماعت کے دوستوں اور خصوصاً نو جوان عزیزوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اصحاب احمد کی جملہ جلدیں خرید کر ان کا مطالعہ کریں اور اپنے ایمانوں کو تازہ کریں.اور خصوصیت سے مذکورہ بالا تین جلدوں کا تو ضرور مطالعہ کریں.اس سے انشاء اللہ ان کو ایک نئی روشنی حاصل ہوگی.فقط.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ۱۲۷۶۱

Page 22

xiii صحابہ کرام کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد حضرت خلیفہ المسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵ جولائی ۱۹۴۹ء میں بمقام کوئٹہ فرمایا:.رسول کریم علیہ فرماتے ہیں:." اذْكُرُو اَ مُوَتِكُمُ بِالخَيْرُ “ عام طور پر اس کے معنی کئے جاتے ہیں کہ مردوں کی برائی نہیں بیان کرنی چاہئے وہ فوت ہو گئے ہیں اور ان کا معاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے.یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں.لیکن درحقیقت اس میں ایک قومی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے.آپ نے اُذْكُرُوا الْمُوتِى بِالْخَيرِ.نہیں فرمایا.بلکہ آپ نے اموتکم کا لفظ استعمال کیا ہے.یعنی اپنے مردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے یہ صحابہ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے.دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں.اَصْحَابِی مَا نَجُومِ بِابِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدِيْتُمُ.میرے سب صحابی ستاروں کی مانند ہیں تمام میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا جاؤ گے.کیونکہ صحابہ میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی خدمت دین کا ایسا موقعہ ملا ہے جس میں وہ منفر د نظر آتا ہے.اس لئے آپ نے موتکم کا لفظ استعمال فرمایا ہے.کہ تم انکو ہمیشہ یا درکھا کرو.تا تمہیں یہ احساس ہو کہ ہمیں بھی اس قسم کی قربانیاں کرنی چاہئیں.اور تا نو جوانوں میں ہمیشہ قربانی.ایثار اور جرأت کا مادہ پیدا ہوتا رہے.اور وہ اپنے بزرگ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے رہیں.“ (الفضل ۲۱ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 23

1 ڈاکٹر عطرالدین صاحب ولادت تعلیم وغیرہ:.محترم ڈاکٹر عطر الدین صاحب قوم بھٹی قصبہ چھمال ڈاک خانہ خاص تحصیل شکر گڑھ ضلع گورداس پور میں میاں بھولا اور مائی کا کو کے ہاں مغرب وعشاء کے درمیان ۱۸۸۸ء میں پیدا ہوئے.والد غریب تھے اور محنت مزدوری کر کے گذر اوقات کرتے تھے.آپ کے بڑے بھائی منش گو ہر علی بطور مدرس ضلع گورداسپور کے مقامات شکر گڑھ، کنجر وڑ دتاں ، جگت پورہ، مدو گول ، تلونڈی داباں والی متعین ہوتے رہے اور ڈاکٹر صاحب کو بھی تعلیم کی خاطر اپنے ساتھ رکھا.مؤخر الذکر مقام پر آپ نے پانچویں جماعت پاس کی.پھر منشی صاحب کچھ عرصہ بٹالہ میں متعین رہے جہاں آپ سپیشل میں داخل ہوئے.پھر منشی صاحب کے ضلع فیروز پور میں تبدیل ہونے پر آپ شہر امرت سر میں ایم.اور ہائی سکول میں تعلیم حاصل کرنے لگے.منشی صاحب اس ضلع میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہو گئے.وہ ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے زیارت اولین : - ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مشہور ہوا کہ امرت سر سے بذریعہ گاڑی گذریں گے.چنانچہ ڈاکٹر صاحب زیارت کے شوق سے گاڑی کی آمد سے کافی وقت پہلے اسٹیشن پر پہنچ گئے.حضور کے لئے سیکنڈ کلاس کا ڈبہ ریز رو تھا.حضور اس میں شمالاً جنو با لیٹے ہوئے تھے آپ نے سرخ رنگ کی لوئی اوڑھی ہوئی تھی.خواجہ کمال الدین صاحب آپ کے سرہانے بیٹھے تھے جب ڈاکٹر صاحب نے زیارت کے لئے کھڑکی سے اندر جھانکا تو خواجہ صاحب نے کہا پیچھے ہٹ جاؤ لیکن حضور اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ اس کو مت روکو یہ خدا کے حکم سے آیا ہے ( ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ حضور کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ تحریک کرتا ہے تو لوگ حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں گویا اسی طرح مجھے بھی زیارت کی تحریک ہوئی ہے ) چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے حضور کا نورانی چہرہ دیکھا اور پہلی نگاہ سے ہی اس نور مجسم سے بے حد متاثر ہوئے اور گاڑی کی روانگی تک حضور کے ڈبہ کی حمد تحصیل شکر گڑھ تقسیم ملک کے بعد پاکستان میں آگئی ہے اور ضلع سیالکوٹ میں شامل کر لی گئی ہے.والدہ ۱۹۰۷ء میں قریباً پچاس سال کی عمر میں اور والد ۱۹۱۵ء میں ہعمر قریباً ایک سو سال فوت ہوئے دونوں ان پڑھ تھے.والد احمدیت کے مخالف نہیں تھے لیکن دونوں میں سے کوئی احمدی نہیں ہوا والد کی یہ دوسری اہلیہ تھیں جن سے پہلی اہلیہ کے بعد شادی کی تھی.پہلی اہلیہ سے کوئی اولا دن تھی.

Page 24

2 کھڑکی کے پاس ہی کھڑے حضور کی زیارت کرتے رہے.بیعت:.بیعت سے قبل ڈاکٹر صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا راستہ ہے جس میں بر شیر بیٹھا ہوا ہے آپ اس کو دیکھ کر ہراساں ہوئے لیکن جب آگے بڑھے تو شیر نے اپنی گردن جھکا دی اور آپ بسہولت گذر گئے آگے ایک مسجد نظر آئی جہاں سے یہ اعلان کیا گیا کہ یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں.چنانچہ آپ نے دیکھا کہ حضرت رسول مقبول می سبز لباس میں ملبوس ہیں.حضور نے ڈاکٹر صاحب کو پانی کا لوٹا دیا اور آپ نے دورکعت نماز پڑھی.انہی دنوں ایک مجذوب را ہوں ضلع جالندھر کا رہنے والا مصری شاہ نام امرت سر آیا وہ ایک صوبیدار میجر کا لڑکا تھا.ڈاکٹر صاحب اس مجذوب کی شہرت سن کر اس کے پاس گئے اس نے آپ کو دیکھتے ہی کہا ” جس نے ولی بننا ہے وہ قادیان جائے چنانچہ آپ نے ۱۸۹۹ء میں بیعت کا خط قادیان حضور علیہ السلام کی خدمت میں لکھ دیا جس کی قبولیت کا جواب غالباً حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے قلم سے نوشتہ موصول ہوا.اور ۱۹۰۰ء کے اواخر میں قادیان حاضر ہو کر مسجد مبارک میں دستی بیعت کا شرف بھی حاصل کیا.اس وقت آپ کی عمر بارہ تیرہ سال کی تھی ہیں آپ بیان کرتے ہیں کہ امرت سر میں ان دنوں کڑہ مت سنگھ یا کوچہ مت سنگھ میں ایک مسجد میں نماز جمعہ وغیرہ ادا کی جاتی تھی یہ مسجد احمدیوں کے قبضہ میں آگئی تھی.اور حضرت ڈاکٹر عبید اللہ صاحب مرحوم کے مکان کے قریب تھی لیکن یہ علاقہ تقسیم ملک کے وقت فسادات میں منہدم ہو گیا تھا.حضرت ڈاکٹر صاحب مرحوم کے زیر اثر ان کے اقارب میں سے مشہور ہندوستانی لیڈر ڈاکٹر سیف الدین کچلو ( سٹالن کر اس) بھی احمدی ہو گئے تھے اور نمازوں میں شمولیت کرتے تھے لیکن بعد میں کانگریس کی سیاسی تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سے مذہب سے بیگانہ ہو گئے.ڈاکٹر کچلو کے احمدی ہونے کا ذکر حضرت ملک مولا بخش صاحب مرحوم کی طرف سے ان کے حالات میں قدرے تفصیل سے ہو چکا ہے.(دیکھئے اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۱۴۰) محترم ڈاکٹر عطر الدین صاحب کے بیان سے اس کی تائید ہوتی ہے.استفسار پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے ڈاکٹر صاحب سے متعلق ذیل کی تحریر رقم فرمائی تھی محمدہ ونصلی علی رسولہ لکریم وعلی عبدہ اسیح الموعود بسم اللہ الرحمن الرحیم بخدمت سیکرٹری بہشتی مقبرہ مکرمی و محترمی سلکم الله تعالى وكان معكم وفي عونكم آمین.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 25

3 قادیان میں تعلیم :.بیعت کر کے آپ قادیان میں ہی ٹھہر گئے اورتعلیم الاسلام ہائی سکول میں آپ دوبارہ آٹھویں جماعت میں داخل ہو گئے.کھانا آپ کبھی لنگر خانہ سے اور کبھی حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاں کھا لیتے تھے.حضرت مولوی صاحب کے ہاں کھا نالنگر خانہ ہی سے آتا تھا.اور حضرت مدوح کی طرف سے کچھ نقد امداد ڈاکٹر صاحب کی ہو جاتی تھی جو دودھ وغیرہ ودیگر ضروریات کے کام آتی تھی.۱۹۰۵ء میں مڈل پاس کر کے چند ماہ آپ نویں جماعت میں پڑھتے رہے.پھر آپ نے پڑھائی ترک کر دی لیکن گو آپ بورڈنگ ہی میں رہتے تھے اور وظیفہ بھی پاتے تھے.۱۹۰۲ء کے آغاز تک آپ نے متفرق دینی تعلیم حاصل کی.چنانچہ حضرت مولوی صاحب کے درس قرآن مجید اور درس مثنوی مولانا روم میں اور حضرت مسیح موعود کی مجالس میں شرکت کا موقع ملتارہا.اس طرح کم و بیش پانچ سال تک متواتر آپ کو قادیان میں اس عہد مبارک میں قیام کی توفیق حاصل ہوئی.نانا جان حضرت میرزا ناصر نواب صاحب کئی بار آپ کو اپنے ہمراہ لاہور لے جاتے رہے تا کہ غرباء کے لئے وصولی چندہ میں مدد دیں.وٹرنری کالج میں داخلہ : ۱۹۰۶ء میں آپ وٹرنری کالج لاہور میں داخل ہوئے جہاں سے ۱۹۱۰ء میں تعلیم کی تکمیل کر کے فارغ ہوئے.اس تعلیم کے دوران میں حضرت مولوی نورالدین صاحب کی طرف سے پانچ روپے ماہوار وظیفہ ملتا رہا.اور زائد اخراجات آپ بعض طلباء کو ٹیوشن پر تعلیم دے کر پورا کر لیتے تھے جس کا انتظام سید محمد اشرف صاحب مرحوم ( صحابی) نے کیا تھا جومحکمہ تعلیم میں بہت ہر دلعزیز ملازم تھے * بقیہ حاشیہ جوابا عرض خدمت ہے کہ مکرم ڈاکٹر عطر دین صاحب کی قادیان میں آمد کی تاریخ اور سن تو مجھے صحیح طور سے یاد نہیں البتہ یہ امر یقینی ہے کہ صاحب موصوف کو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت کی عزت اور ملاقات کا شرف یقیناً حاصل ہوا تھا اور غالباً ۱۹۰۰ ء کے ادھر ادھر کے زمانہ میں ڈاکٹر صاحب قادیان میں آچکے تھے.واجباً عرض ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے اپنے بیان کے بارہ میں مجھے قطعاً کوئی وجہ شک معلوم نہیں ہوتی.فقط والسلام عبدالرحمان قادیانی ۶ ستمبر ۱۹۵۳ ء از مقام قادیان بدر میں مرقوم ہے کہ ایک مسکین طالب علم عطر دین نام کا ہے کا ماہوار وظیفہ دیا گیا.(۱) ۱۹۰۵ء میں مڈل پاس کرنے والوں میں آپ کا نام درج ہے.(2) بعض لوگ قرض لے کر ادا کرنے کا نام تک نہیں لیتے آپ کی خوبی کا اعتراف صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ بابت ۱۲.۱۹۱۱ء میں ذیل کے الفاظ میں کیا گیا ہے.آمد میں بیشی کی وجہ یہ ہے کہ بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 26

4 غیرت ایمانی کا واقعہ:.آپ کی غیرت ایمانی کا یہ واقعہ بیان کرنے کے قابل ہے کہ بصرہ میں سلسلہ حقہ کی بہت مخالفت تھی.احمدیوں کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی اور وہ کمزور حالت میں تھے.ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب کی یونٹ کے ہیڈ کلرک نے جو غیر احمدی تھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف سب وشتم کا طریق اختیار کیا.آپ کی غیرت ایمانی اسے برداشت نہ کر سکی اور آپ نے بے اختیار ہو کر اس کے منہ پر مکا دے مارا.اور وہ گر گیا جس پر وہ سخت خشمگیں ہوا.اور جذ بہ انتقام میں اس نے ڈاکٹر صاحب کی ملازمت کے سب کا غذات جلا دیئے جس سے آپ کو ملازمت کے حقوق کے حصول میں بہت وقت اور نقصان ہوا اور آپ ترقی سے محروم رہے.یہ ہیڈ کلرک اور اس کے زیر اثر دیگر لوگ ہر بات میں آپ کو تنگ کرتے تھے وہاں احمدی کہلا نا جرم تصور ہوتا تھا.اہلی زندگی:.ڈاکٹر صاحب کی پہلی شادی فضل النساء صاحبہ سے ۱۹۰۷ء میں امرت سر میں آپ کے اقارب میں ہوئی.دو تین سال کے بعد وہ فوت ہو گئیں.۱۹۱۸ء میں آپ کی دوسری شادی حضرت سید عزیز الرحمن صاحب بریلوی کی صاحبزادی محترمہ سیدہ نصرت بانو صاحبہ سے ہوئی وہ اس وقت لاہور میں مقیم ہیں.آپ نے ۱۹۱۸ ء میں بغداد سے شادی کے انتظام کے لئے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تحریر کیا تو حضور کی طرف سے جواب آیا کہ آپ قادیان آجائیں آپ کے دوستوں کے اقارب کے ہاں اچھے گھرانے میں رشتہ کرا دونگا.چنانچہ آپ قادیان آگئے اور حضور کی تحریک سے یہ رشتہ ہو گیا.اس شادی سے آپ کو قاضی محمد عبداللہ صاحب بھٹی ( یکے از ۳۱۳ صحابہ و سابق مجاہد انگلستان) اور حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر مرحوم ( مجاہد اول مغربی افریقہ ) اور محترم محمد مکی خانصاحب مرحوم (مدفون بہشتی مقبره قادیان ) جیسے نیک سیرت افراد کا ہم زلف بننے کا موقع ملا.محترم سید عبدالرحمن صاحب آپ کے برادر نسبتی ا مریکہ میں جماعت احمدیہ کی ایک بہت بقیہ حاشیہ :.( قرض تعلیمی ) واپس وصول ہونا شروع ہوا.چنانچہ ان میں سے خاص ذکر کے قابل ڈاکٹر عطر الدین صاحب ہیں.جزاہ اللہ خیراً ( صفحہ ۷۸) نکاح کے متعلق الفضل میں مرقوم ہے کہ:.۲۲ جون ۱۹۱۸ء کوسید عزیز الرمن بریلوی کی لڑکی نصرت بانو کا نکاح ڈاکٹر عطرالدین صاحب وٹرنری گریجویٹ سے پانچ سور و پیہ مہر پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے پڑھا.خطبہ میں حضرت نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ تقویٰ کو ہی معیار شرافت سمجھیں اور ذات پات کی الجھنوں سے حتی الامکان بچیں.اور سید صاحب کے بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 27

5 ہی خدمت گزار شخصیت ہیں.جلد ہی آپ کو محلہ دار الفضل قادیان میں ایک مکان تعمیر کرنے کی بھی توفیق ملی ہے قادیان گائیڈ میں اس کی طباعت ( ۲۵ دسمبر ۱۹۲۰ء) تک معلوم ہوتا ہے ابھی ڈاکٹر صاحب کا مکان تعمیر نہیں ہوا تھا.کیونکہ اس میں مندرجہ فہرست میں آپ کا ذکر موجود نہیں.بقیہ حاشیہ صفحہ سابق:.نمونہ پر اظہار خوشنودی فرمایا.(3) گھر میں بیعت کی اولیت کا شرف والد صاحب کو اور ہجرت کا والدہ صاحبہ کو تھا.حضرت مسیح موعود کی بیعت کرنے پر تمام لوگ والدین کی مخالفت پر آمادہ ہو گئے حتی کہ والدین کے اعزہ و اقارب بھی.گیارہ مولویوں کا فتویٰ ہمارے دروازہ پر لگا دیا گیا کہ یہ لوگ بے دین ہو گئے ہیں اس لئے ان کا مقاطعہ کیا جاتا ہے ان کے ہاں سے کسی فقیر کا خیرات لینا بھی اتنا بڑا گناہ ہے جیسا کہ اپنی ماں بہن سے برا کام کرنا.غرضیکہ ستے بھنگی اور آٹا پینے والی نے کام ترک کر دیا اور دھوبی معذرت کر کے چلا گیا.والد صاحب ان دنوں ریاست کپورتھلہ میں بطور منشی ملازم تھے.حساب کتاب کا کام سپر د تھا.والدہ صاحبہ بچوں کے ہمراہ تنہا تھیں.سوسب سے زیادہ دقت پانی کی ہوئی اس لئے ہندو عور تیں آب رسانی کے لئے مقرر کی گئیں جن کو الو ہے اور تانبے کے گا گر خرید کر دیئے گئے کیونکہ مٹی کے گھڑے اول تو وہ چھوٹی نہ تھیں.نیز ان کے ٹوٹ جانے کا خطرہ تھا مگر یہ انتظام بھی بیکار کر دیا گیا.کیونکہ غیر احمدی مسلمانوں نے گائے کے گوشت کے ٹکڑے کنوئیں پر رکھنے شروع کر دیئے.اس لئے والدہ صاحبہ کو خود اپنی بچیوں کے ہمراہ آدھی رات کو پانی بھرنا پڑتا.اس وقت آپا عائشہ مرحومہ سے بارہ سال بڑی تھیں اور ان کی شادی حضرت مسیح موعود کے مشورے سے (حضرت) مولانا عبدالرحیم صاحب غیر کے ساتھ ہو چکی تھی.دراصل ان کی شادی کے موقع پر عزیز واقارب بھی ناراض ہو گئے.حالانکہ کھانے کا انتظام پرانے دستور کے مطابق کیا گیا تھا تا کہ عزیز شادی میں شریک ہو سکیں.مگر جب انہوں نے بارات نہایت سادہ طرز کی دیکھی تو ایک دم بگڑ گئے کیونکہ بارات بھائی نیر صاحب اور حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب صرف دوافراد پر مشتمل تھی.آپا عا ئشہ کے نکاح کا پورا اختیار حضرت مسیح موعود کو دیا گیا تھا.حضور نے والد صاحب کو لکھا کہ کیا لڑ کا ذات کا سید ہو؟ والد صاحب نے لکھا کہ جبکہ آپ کی تعلیم یہ ہے کہ ایک سید ہوا اور دوسرا کنجڑا ( سبزی فروش ) تو میری بیعت کے بعد دونوں اس طرح رہنا جیسے ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہو.اس لئے میں چونکہ آپ کی بیعت میں آچکا ہوں اس لئے اگر آپ فرما ئیں کہ دوسرا احمدی بھائی بھنگی ہے اور اسے لڑکی دینے کوفر ما ئیں تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا.ہم سب بہنوں کے رشتے اسی طرح سے قرار پائے.آپا عائشہ کا رشتہ حضرت مسیح موعود نے کیا.باقی دو بڑی بہنوں کا رشتہ حضرت خلیفہ اول نے قاضی محمد عبد اللہ صاحب بھٹی اور بھائی محمد یحییٰ خانصاحب بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 28

6 اسلامی اخوت کا نمونہ :.آپ کا یہ واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے کہ ایک دفعہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود کے زمانہ میں لاہور میں نیلہ گنبد کے پاس آپ اور سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کا بقیہ صفحہ سابق :.سے کیا.اور ہم دو چھوٹی بہنوں کا رشتہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ نے تجویز کیا.بھائی غیر صاحب کا جب رشتہ ہوا تو ان کو صرف دس روپیہ وظیفہ ملتا تھا.بھائی محم عبد اللہ صاحب بھٹی ابھی زیر تعلیم تھے.بھائی بیٹی خانصاحب مرحوم بھی میٹرک پاس کر کے گھر پر ہی تھے.ان کے والد صاحب جائیداد تھے.چھوٹی ہمشیرہ کا رشتہ میاں ابراہیم خانصاحب خلف میاں محمد خانصاحب کپورتھلوی سے ہوا جو آٹھویں تک تعلیم پائے ہوئے تھے لیکن بریکار تھے.والدہ صاحبہ بہت باہمت خاتون تھیں آپ نے تنہا بچوں سمیت قادیان ہجرت کر لی.آپ ہمیشہ حضرت مسیح موعود کے ہاں آمد ورفت رکھتی تھیں.حضور " آپ کی بہت عزت کرتے اور سیدانی کہہ کر مخاطب ہوتے آپا عائشہ بھی آپ کے ہمراہ جایا کرتی تھیں.حضور نے آپا کا نام برقع پوش رکھا تھا کیونکہ انہیں حضور کے سامنے جاتے شرم آتی اس لئے وہ برقعہ پہن کر بیٹھا کرتیں اور والدہ کے کہنے پر بھی نہ اُتارتیں.حضور اکثر لکھنے میں مصروف ہوتے.لکھنے کا طریق یہ تھا کہ آپ بیٹھ کر نہیں لکھتے تھے بلکہ ٹہلتے جاتے اور لکھتے جاتے اور بہت تیزی سے آپ کا قلم چلتا تھا.گو والدہ صاحب لکھی پڑھی نہ تھیں مگر انہیں تعجب تھا کہ آپ کے لکھنے کا طریق عجیب ہے صحن کے دونوں طرف دیوار پر دوات رکھی ہوتی جب ایک طرف پہنچتے تو وہاں قلم ڈبو لیتے اور پھر جب ٹہلتے ہوئے دوسری طرف جاتے تو دوسری دوات سے قلم ڈبولیتے ٹھہر کر بات چیت بھی کرتے جاتے.بعض اوقات والدہ صاحبہ آپ کو مصروف دیکھ کر جلد گھر واپس آنا چاہتیں تب آپ انہیں بیٹھنے کو کہتے.اور فرماتے کہ کیا مجھے لکھنے میں مصروف دیکھ کر جانا چاہتی ہو.آپ کے بیٹھنے سے میرے کام میں کوئی حرج نہیں.البتہ آپ کو اگر کام ہے تو اور بات ہے.والدہ صاحبہ پھر بیٹھ جاتیں آپ برابر لکھنے کا کام بھی انجام دیتے اور ضرورت کے مطابق باتیں بھی کرتے.باتیں کرتے وقت ٹھہر جاتے پھر کام جاری کر لیتے.والدہ صاحبہ کو بہت تعجب ہوتا کہ آخر مضمون کا تسلسل کس طرح جاری رہتا ہے.والدہ صاحبہ اول تو روزانہ ورنہ دوسرے تیسرے دن ضرور حضور کی خدمت میں حاضر ہوتیں.جب دیر سے جاتیں تو وجہ پوچھتے.بچوں کا حال دریافت فرماتے.یہ تمام باتیں میں نے والدہ صاحبہ کی زبانی سنی ہیں کیونکہ میں اس وقت ایک سال کی تھی.حضرت والد صاحب کو حضور سے عشق تھا آپ حضور کی خدمت میں لکھتے کہ میری خواہش ہے کہ ملازمت ترک کر کے حضور کے قدموں میں ہمیشہ کے لئے آر ہوں مگر حضور یہی مشورہ دیتے کہ ملازمت ترک نہ کریں.مگر والد صاحب نے اپنے عشق کی وجہ سے مہاراجہ سے ذکر کیا کہ میں ملازمت چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہوں بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 29

7 دوڑ کا مقابلہ ہوا.ریفری حضرت میجر ڈاکٹر سید حبیب اللہ صاحب مرحوم مقرر ہوئے.حضرت صاحبزادہ صاحب جیت گئے لیکن ڈاکٹر صاحب کو اپنے تیز دوڑنے پر اس قد راعتماد تھا کہ آپ نے اپنی شکست تسلیم نہ کی.بقیہ حاشیہ :.اور سبب دریافت کرنے پر بتایا کہ میں اپنے پیر کے قدموں میں زندگی کے باقی ماندہ ایام بسر کرنا چاہتا ہوں مہاراجہ نے کہا کہ اب آپ کی پنشن میں صرف چار سال باقی ہیں اس کے بعد آپ جاسکتے ہیں.والد صاحب نے جواب دیا کہ عمر کا کیا اعتبار کہ چار سال اور زندہ رہوں اور پھر میں اپنے پیر کے قدموں میں جا کر رہوں.میرے اہل وعیال قادیان میں ہیں اور میں بدنصیب یہاں پر ہوں.میں اب اپنے مرشد کی جدائی ہرگز برداشت نہیں کر سکتا.سو آپ ملازمت چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے قادیان آگئے اور اب آپ کا مزار بھی قطعہ خاص میں ہے.میرے پاس حضور پر نور کے کرتے کا ٹکڑا ہے جو کہ ہم سب بہن بھائیوں کو والد صاحب کی طرف سے ملا ہے یہ یاد نہیں کہ کب ملا کیونکہ میں اکثر بمبئی رہتی تھی.خیال ہے کہ والد صاحب کی زندگی میں ملا تھا.جب ابتدا میں مسجد برلن کے لئے چندہ کی تحریک ہوئی تھی تو میں نے دو عد د سونے کی انگوٹھیاں جن کا وزن ایک تولہ تھا اور پازیب اور ایک گائے چندہ میں دی تھی اس چندہ میں مستورات نے زیادہ تر اپنے زیورا تار کر دیے تھے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد برلن و مکانات مبلغین کے لئے نصف لاکھ روپیہ کے چندہ کی تحریک خواتین میں کی اور پہلے ہی موقع پر خواتین قادیان نے ساڑھے آٹھ ہزا روپیہ چندہ دیدیا اور عجیب عجیب نمونے قربانی کے دکھائے.فجزاهن الله احسن الجزاء حضور اس بارہ میں تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں:."قادیان کی احمدی خواتین کی اس کوشش اور اخلاص کا اظہار کر کے اپنی دوسری بہنوں کو مخاطب کرتا ہوں کہ وہ......بھی اسی اخلاص سے اس کام کے لئے چندہ دیں گی.اگر قادیان کی عورتیں ساری رقم میں سے قریباً پانچواں حصہ دے سکتی ہیں تو باہر کی عورتیں بقیہ چار حصہ کیوں ادا نہیں کرسکتیں.یقیناً وہ اگر قادیان کی عورتوں سے چوتھا حصہ بھی اخلاص دکھائیں تو اس رقم کو آسانی سے ادا کر سکتیں ہیں (4) نوٹ از مئولف :.قاضی محمد عبداللہ صاحب کے رشتہ کے متعلق محترمہ کو سہو ہوا ہے ابتدائی تحریک رشتہ کی مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے ۱۹۰۷ء میں ہوئی اور بعدہ سید صاحب نے حضرت اقدس سے دریافت کیا تو حضور نے بھی پسند فرمایا اور نکاح کر دیا گیا.اس وقت قاضی صاحب صدر انجمن احمد یہ قادیان کی ملازمت میں آچکے تھے (5) حاشیہ در حاشیہ سیدہ نصرت بانو صاحبہ نے جو چندہ مسجد برلن کے لئے دیا تھاوہ الفضل میں درج نہیں.وہاں ایک دفعہ کی فہرست شائع ہوئی تھی بدر میں شائع نہیں ہوئی.شاید اس لئے درج نہیں ہو سکا.

Page 30

مائی گوہرے موصیه ۶۴۴ ۲ و فات ۹/۹/۳۵ مدفون بہشتی مقبرہ قادیان.اہلیہ حاکم دین ) 8 شجرہ نسب میاں بھولا منشی گوہر علی ڈاکٹر عطرالدین لاولد ) لا ولد ) (از بطن فضل النساء) (از بطن سیدہ نصرت بانو ) سکینہ بی بی مرحومه عبداللطیف ایم.اے بی.ٹی ڈاکٹر عبدالحمید ایم بی بی ایس (اہلیہ سید نعمت علی ) مقیم کراچی ( متعین میوہسپتال لاہور ) حال مقیم بہاولپور عباس خوله خالد عبد اللطیف سید سعادت علی سیده امینہ بیگم سید محمد احسن سیدہ نجمہ سلطانہ بیگم سید ضیاء الحق مدرس ٹی آئی ہائی سکول ربوہ اہلیہ سید سجاد احمد اہلیہ سید امتیاز احمد (مینجر جعفر فلور ملز جڑانوالہ خلف سید علی احمد انبالوی صحابی مدفون بہشتی مقبرہ.ربوہ)

Page 31

9 اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب آپ پھر مقابلہ کر لیں.چنانچہ دوسری دفعہ کے مقابلہ میں بھی ڈاکٹر صاحب نہ جیت سکے لیکن دوسری بار بھی آپ نے ریفری کے فیصلہ کے مطابق اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.ڈاکٹر صاحب کے اصرار پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ اگر آپ کا شبہ دور نہیں ہوا تو سہ بارہ مقابلہ کر لیں چنانچہ تیسری بار کی دوڑ میں بھی ڈاکٹر صاحب ہی ہار گئے جس پر آپ اپنی شکست ماننے پر مجبور ہوئے.یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے مقدس آقا کے صاحبزادگان کے حضور کے خدام کے ساتھ کتنے بے تکلفانہ تعلقات تھے.اور اس میں اسلامی اخوت و مودت کا کیا خوشنما رنگ پایا جاتا تھا اور صاحبزادگان کبر ونخوت اور حقارت و نفرت کے جذبات سے یکسر خالی تھے.وصال حضرت اقدس و بیعت خلافت اولی: - حضرت مسیح موعود کے وصال کے وقت ڈاکٹر صاحب ابھی وٹرنری کالج لاہور میں تعلیم پاتے تھے.حضور کے وصال کی خبر سننے پر آپ احمد یہ بلڈنگز پہنچے اور حضور کی مبارک پیشانی پر بوسہ دیا.اور جنازہ کی معیت میں بٹالہ اور وہاں سے پیدل جنازہ مبارک کے ساتھ قادیان پہنچے اور کندھا دینے کا موقع ملا.اور ظہور قدرت ثانی کے موقع پر حضرت خلیفتہ امسیح اول کے دست مبارک پر بیعت کی اور حضور کے جسد مبارک کی آخری زیارت کی اور تدفین میں شریک ہوئے.بعد تد فین حضرت چوھدری فتح محمد صاحب سیال محترم شیخ محمد تیمور صاحب ( حال ریٹائر ڈ پرنسپل.پشاور ) اور ڈاکٹر صاحب تینوں شہر کو واپس آرہے تھے کہ بڑے باغ کے کنویں کے پاس کسی نے پیچھے سے ڈاکٹر صاحب کندھے پر ہاتھ رکھ دیا.مُڑ کر دیکھا تو حضرت خلیفہ اول تھے.فرمایا.میاں عطر دین ! کیا محمد علی نے میری بیعت کی ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ انہوں بیعت کی ہے.ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس وقت اپنے ساتھیوں کو بتادیا تھا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کے متعلق یہ بات حضور نے دریافت فرمائی ہے.ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور کا یہ سوال بہت معنی خیز تھا.اور اس سے عیاں ہے کہ حضور کو بعض یقینی امور کی بناء پر یہ خدشہ ہوگا کہ شاید مولوی محمدعلی صاحب کو آپ کی بیعت کرنے پر انشراح نہ ہو.مقدس جنازہ کے ہمراہ لاہور سے بٹالہ تک ریل میں آنیوالے بعض احباب کے نام بدر میں درج ہیں ان میں آپ کا نام عطر دین بھی مرقوم ہے(6)

Page 32

10 حضرت خلیفہ اول کی محبت :.حضرت خلیفہ اول غرباء سے بہت شفقت سے پیش آتے تھے.اس سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب نے ایک واقعہ بیان کیا ہے.جو حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب کے الفاظ میں ( جو دستیاب ہو گئے ہیں ) درج ذیل کیا جاتا ہے.یہ آپ کے ڈاکٹری پاس کر لینے کے وقت کا ہے.حضرت میر صاحب نے مسجد، شفا خانہ و دار الضعفاء ( ناصر آباد نز د بہشتی مقبرہ) کے لئے تحریک کرتے ہوئے تحریر فرمایا :- حضرت خلیفہ المسیح' ہمیشہ میرے کاموں میں مددفرماتے رہتے ہیں.چنانچہ چھ سوروپے کے قریب مسجد ہسپتال و دار الضعفاء کے لئے عطا فرما چکے ہیں.ایک دفعہ مسجد میں آپ نے فرمایا کہ میر صاحب عطر دین پاس ہو گیا ہے میں نے عرض کی کہ مجھے نہیں معلوم.کیونکہ میرے ضعفاء کے لئے کچھ نہیں دیا.فورا حضرت خلیفہ مسیح نے اپنی جیب سے ایک روپیہ نکال کر عطر دین کو دیا کہ میر صاحب کو دیدے.‘ (7) یوں معلوم ہوتا ہے گویا ڈاکٹر صاحب جیسے غریب فرد کی کامیابی پر حضرت خلیفہ اول نے اپنی فرط انبساط کا اظہار حضرت میر صاحب سے بھی کر دیا.پھر میر صاحب کی دعا کے لئے ڈاکٹر صاحب کو اپنے پاس سے ایک روپیہ دیا.نیز ڈاکٹر صاحب کو اس ٹھیس سے بچالیا کہ میرے پاس چندہ کے لئے رقم نہیں میں اس موقع پر چندہ دے کر شکریہ ادا نہیں کرسکا نہ حضرت میر صاحب سے دعالے سکا.حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک کا ایک اور واقعہ ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب (خلیفہ اول) قادیان سے لاہور تشریف لے گئے اس وقت دھوپ کی شدت تھی اور بلا کی گرمی پڑ رہی تھی.ڈاکٹر صاحب نے کیسری کی دکان کا سوڈا برف پیش کیا جو حضرت مولوی صاحب نے قبول تو فرمالیا لیکن ایک غریب طالب علم پر چند پیسوں کا بوجھ ڈالنا بھی آپ نے پسند نہ فرمایا.اور معاً اپنے شاگر دحکیم غلام محمد صاحب امرت سری سے فرمایا کہ یہ طالب علم ہیں ان کو سوڈا واٹر کی قیمت ادا کر دو تا کہ ان کو خرچ کی تکلیف نہ ہو.چنانچہ ڈاکٹر صاحب کو بمطابق الامرُ فَوقَ الأَدَبُ قیمت قبول کرنی پڑی.ملا زمت :.پہلے آپ وٹرنری محکمہ میں ملازم ہوئے.اور ملازمت کے تعلق میں بھیرہ.راولپنڈی.کوہالہ میانوالی، گجرات وغیرہ مقامات میں آپ متعین رہے.ابتداء آپ تمیں روپے مشاہرہ پاتے تھے.۱۹۱۲ء ۱۹۲۰ء تک آپ نے فوج میں ہیڈ وٹرنری کے طور پر ملازمت کی.پہلے پونا، پھر مسقط ، بغداد، بصرہ اور برما میں آپ متعین

Page 33

11 ہوئے ۱۹۲۰ء میں وہاں سے اس عرصہ کی پنشن مل گئی.جواب تک جاری ہے.پھر بمبئی کے محکمہ ٹرانسپورٹ میں بطور وٹرنری اسٹنٹ قلیل عرصہ ملازمت کی لیکن جلد ہی آپ کو بمبئی کا رپوریشن میں میٹ (MEAT) انسپکٹر کی آسامی پر پونے دوصد روپیہ مشاہرہ پر لگا لیا گیا وہاں سے آپ ۱۹۴۰ء میں سبکدوش ہوئے تو پھر بمبئی میں آپ دوسری جگہ ۱۹۴۸ء تک کام کرتے رہے.خدمات سلسلہ :.بمبئی میں آپ تین سال تک صدر جماعت رہے.جمعہ کی نماز آپ کے مکان پر ادا ہوتی تھی.اور بغداد کے جس فوجی کیمپ میں آپ مقیم تھے اس میں صرف تین چار احمدی احباب تھے جنہوں نے آپ کو امام الصلوۃ وغیرہ بنالیا تھا.تحریک جدید کے دور اول کے انیس سالہ پہنچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہونے کی آپ کو اور آپ کی اہلیہ محترمہ کو تو فیق ملی.(صفحہ ۱۳۳) دونوں کے چندے کی مقدار چھ صد چھبیس روپے ہے.شدھی ملکانہ کے وقت آپ کو اپنے خرچ پر تین ماہ تک اعلائے کلمتہ اللہ کی توفیق عطا ہوئی آپ نے بفضلہ تعالیٰ سے جولائی ۱۹۲۰ء میں وصیت کی تھی جس کا نمبر ۱۸۱۷ ہے اس وقت آپ ٹرانسپورٹ بمبئی میں بطور وٹرنری اسٹنٹ کام کرتے تھے.۱۹۲۱ء میں آپ نے دسویں حصہ کی بجائے اسے بڑھا کر نویں حصہ کی وصیت کر دی.ہجرت بسوئے قادیان اور درویشی دور میں خدمات :.۱۹۴۷ء میں برصغیر ہند و پاک کی تقسیم عمل میں آئی.آپ اپریل یا نئی ۱۹۴۸ء میں وہاں سے کراچی اور پھر لاہور چلے آئے.سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تحریک پر آپ نے بھی ان قیامت سے ایام میں قادیان میں ہجرت کر جانے کے لئے اپنا نام پیش کیا.پینتیس افراد کا یہ قافلہ جس کے امیر حضور کی طرف سے حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی اور نائب امیر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی مقرر ہوئے تھے دوٹرکوں کے ذریعہ امئی ۱۹۴۸ء کو قادیان دارالامان پہنچا.اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے کہ ڈاکٹر صاحب قبول ہوئے.اور درویشان قادیان میں شامل ہوکر سلسلہ حقہ کی خدمت اور مقامات مقدسہ کی آبادی وغیرہ کا فریضہ خلوص سے انجام دینے کی توفیق پارہے ہیں.درویشی کے ابتدائی زمانہ میں جب قادیان اور اس کا ماحول احمدیوں کے لئے بے حد مسموم اور معاندانہ تھا جن درویشوں نے لوگوں کی مغائرت اور دشمنی کو موانست میں تبدیل کرنے میں مدد دی ان سابقون

Page 34

12 (PLONEERS) میں آپ کا نام پیش پیش ہے.آپ نے ان ابتدائی پر خطرا یام میں اپنے محلہ میں مقید درویشوں کے حلقہ کو وسیع تر کرنے میں قابل قدر کام کیا.قادیان اور اس کے گردو پیش کے دیہات میں آپ کی سابقہ واقفیت بھی تھی.آپ کے فن ڈاکٹری سے استفادہ کے لئے غیر مسلم آپ کو بلالے جاتے.آپ آپ اس بڑھاپے میں بھی مومنانہ جرات سے کام لے کر بلا خوف و خطر میلوں میل تک دیہات میں چکر لگاتے اور مفت خدمت کرتے اور متعدد درویشوں کو بھی اپنے ساتھ لیجاتے.غیر مسلم آپ کے جذبہ خدمت سے متاثر ہوتے اور یہ امران میں جذبہ محبت وموانست ابھارنے کا موجب ہوتا.اس طرح ہمیں محلہ جات اور قریبی دیہات میں نکلنے کا موقع ملا.اور ہماری محصوریت مبدل بہ آزادی ہونے لگی.آپ نے درویشی دور کی قدر کی اور یہ زمانہ نہایت صبر ورضا اور محبت و خلوص سے گزارنے کی سعی بلیغ کی.آپ کئی دفعہ شدید طور پر بیمار ہوئے لیکن آپ نے اس آستانہ کونہ چھوڑا.آپ کے لڑکوں نے کئی بار اصرار کیا کہ اس کمزوری اور پیری کے زمانہ میں آپ ان کے پاس رہیں تا کہ وہ اچھی طرح سے خدمت کر سکیں لیکن آپ اس کے لئے تیار نہ ہوئے اور قادیان کی درویشی کی بے سروسامانی اور بے آرامی کو باہر کے آرام و سہولت پر ترجیح دی.اس وقت آپ ہندوستان میں سب سے قدیمی صحابی ہیں اللہ تعالیٰ آپ کا اور آپ کی اہلیہ محترمہ کا انجام بخیر کرے.آمین.آپ کی اہلیہ محترمہ:.آپ کی دوسری اہلیہ محترمہ بفضلہ تعالی صحابیہ ہیں.آپ کو منارہ مسیح کا چندہ دینے کی توفیق ملی.اس پر آپ کا نام ذیل کے الفاظ میں مرقوم ہے.۲۵۹.سیدہ نصرت با نو اہلیہ ڈاکٹر عطرالدین بمبئی.“ نوٹ :.آپ کی روایات کتاب کے آخر میں درج کی جائیں گی.

Page 35

13 ماسٹر فقیر اللہ صاحب سردار بیگم صاحبہ (اہلیہ) آپ کے دل میں اواخر دسمبر ۱۹۳۸ء میں زبردست تحریک ہوئی تو یہ حالات قلمبند فرمائے.اور میرے عرض کرنے پر مجھے بھجوا دیئے.سارے حالات قریباً آپ کے الفاظ میں ہیں.(مولف) والدین.وطن اور ولادت :.حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب رقم فرماتے ہیں:.میرے والد منشی امام بخش پشاور کے ایک مشہور اور قابل اپیل نویس تھے اور بڑے قانون دان مشہور تھے.شہر کے بڑے بڑے رؤساء اور سرکاری عہد یدار قانونی مشوروں کے لئے ان کے پاس آیا کرتے تھے.اس زمانہ میں وکیل بہت کم تھے.مقدمہ کا دارومدار عرضی دعوئی یا اپیل پر ہی ہوتا تھا.وہ عدالت ماتحت کے فیصلے پر اپیل میں نہایت سختی سے جرح کدح کرتے تھے اس وجہ سے انگریز حکام جن کے فیصلہ پر وہ جرح کرتے.بعض اوقات ان سے ناراض بھی ہو جاتے.کیونکہ اس زمانہ میں انگریز اپنے خلاف کوئی بات نہ سن سکتا تھا جب ان کے فیصلوں پر سختی سے جرح ہوتی تو ان کو ناگوار گزرتا.چنانچہ کئی دفعہ ان کے دوستوں نے جن میں سے بعض اعلیٰ عہدوں پر ممتاز تھے، ان کو مشورہ بھی دیا کہ آپ کی اپیلوں سے انگریز بہت چڑتے ہیں.آپ زیادہ سختی نہ کیا کریں.مگر ان کا زور قلم آخر تک ویسا ہی رہا.ایک دفعہ کسی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا ڈپٹی کمشنر نے ان کی اپیل سے ناراض ہو کر دو تین مہینے کے لئے ان کو معطل بھی کر دیا مگر انہوں نے اپنی شان وضعداری کو قائم رکھا.معطلی کے عرصہ میں جو شخص اپیل لکھانے آتا یہ مسودہ بنا کر میر مدثر شاہ صاحب کے والد میر احمد شاہ صاحب اپیل نویس کے پاس بھیج دیتے اور وہ اپنی طرف سے اپیل لکھ کر بھیج دیتے.والد صاحب نے دو شادیاں کیں پہلی بیوی سے ایک لڑکی ہوئی.نورالنساء جس کی شادی موضع کا لو خورد تحصیل حضر وضلع اٹک میں نواب خانصاحب سے ہوئی.یہ جن کے والد اس علاقہ میں بڑے زمیندار اور مشہور آدمی تھے.پہلی بیوی کی وفات پر محترمہ سرور جان صاحبہ سے انہوں نے شادی کی جن استفسار پر ماسٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ہمشیرہ نور النساء صاحبہ جوانی میں ہی فوت ہو گئیں ان کے تین بچے تھے سب سے چھوٹا عبداللہ احمدی ہوا.قادیان میں پڑھتا رہا.وہاں سے مڈل پاس کر کے چلا گیا.مالاکنڈ میں عرائض نویس رہا.اس کا لڑ کا عبدالرحیم احمدی تھا کیمبل پور میں ملازم ہوا.جوانی میں فوت ہو گیا.

Page 36

14 کے بطن سے چارلڑ کے اور ایک لڑکی ہوئی جن میں سے میں سب سے بڑا ہوں.باقی تین بھائی اور ایک بہن فوت ہو چکے ہیں جو ہمارا اصل وطن حضرو ہے.جہاں ہمارا ایک جدی مکان بھی تھا جو والد صاحب نے میری ہوش میں ایک شخص کے پاس فروخت کر دیا.والد صاحب پشاور چلے گئے تھے اور وہیں سکونت اختیار کر لی.میری والدہ اعوان قوم سے پشاور کی باشندہ تھیں.اور میری پیدائش پشاور میں ہی ہوئی.میری تاریخ پیدائش ۲۴ جون ۱۸۷۶ء مطابق ۲ جمادی الثانی ۱۲۹۳ھ روز شنبہ ہے.* پشاور میں ہمارے دو مکان تھے جو محلہ باز داران میں تھے.تعلیم قرآن مجید : بعمر قریباً پانچ سال والد صاحب نے مجھے محلہ کے ملاں کے پاس قرآن شریف پڑھنے کے لئے بٹھا دیا.جب میں نے بغدادی قاعدہ اور قرآن شریف کا ایک آدھ پارہ پڑھ لیا تو مجھے ایک حافظ صاحب کے سپر د کیا گیا.جو حافظ دراز صاحب کے پوتے اور محلہ ڈپٹی میں ایک مسجد کے امام تھے.ان کے پاس ایک عرصہ پڑھتا رہا.اس کے بعد ایک اور حافظ صاحب کے سپرد کیا.جو کابلی دروازہ کے قریب ایک مسجد کے امام تھے اس طرح قرآن شریف میں نے نہایت اعلی قاری حافظوں سے پڑھا.دیگر تعلیم اور والد کی وفات:.قرآن شریف ختم کرنے کے بعد مجھے تقریباً آٹھ سال کی عمر میں مشن سکول میں داخل کیا گیا جہاں میں ہر ایک جماعت میں اچھا رہا اور ہر سال با قاعدہ پاس ہوتا رہا.طالب علمی میں ہمیشہ مجھے ایک استاد گھر پر پڑھاتا رہا.ان میں سے مولوی امام الدین صاحب اور ماسٹر باغ دین صاحب زیادہ عرصہ میرے ٹیوٹر رہے.دونوں بٹالہ کے تھے اور مشن سکول میں مدرس تھے آخر الذکر ( مسلمانوں کے مشہور لیڈر سر فضل حسین صاحب مرحوم کے غالباً دور کے تعلقدار بھی تھے.اور ان کو بھی گھر پر پڑھایا کرتے تھے.میاں فضل حسین اسی سکول کے طالب علم تھے اور ان کے والد میاں حسین بخش ان دنوں پشاور میں ای.اے.سہی تھے.والد صاحب کونفرس کا مرض تھا.جب فوت ہوئے تب بھی نقرس کا دورہ تھا.مگر وفات اچانک دماغ کی استفسار پر ماسٹر صاحب نے بتایا کہ دو بھائی عالم طفولیت میں فوت ہو گئے.سب سے چھونا فضل الہی میرے احمدی ہونے کے بعد فوت ہوا.ایک دفعہ والدہ کے ساتھ قادیان بھی آیا تھا احمدی نہیں ہوا شادی بھی نہیں کی.بہن کی شادی پشاور ہوئی تھی ان کی اولاد ایک لڑکا (عبدالقیوم لاہور کی جماعت سے تعلق رکھتا ہے.واہ فیکٹری میں خزانچی ہے.جنتری کے مطابق یہ یکم جمادی الثانی ہے.(مؤلف)

Page 37

15 رگ پھٹ جانے سے جریان خون سے واقع ہوئی.آپ کی وفات ہمارے لئے ایک آفت ناگہانی تھی گھر میں کوئی بڑا آدمی موجود نہ تھا.والد صاحب نے روپیہ تو بہت کمایا تھا مگر اندوختہ کچھ نہ تھا والدہ صاحبہ بہت سخت طبیعت تھیں.والد صاحب کی وفات پر ہم تین بھائی اور ایک بہن یتیم رہ گئے.والد صاحب کے ایک دوست میاں محمد کتب فروش تھے ان کے پاس ہمارا پانچ سو روپیہ تھا جس سے اس نے ایک جندر ( پن چکی ) ہمیں رہن لے دی وہاں سے پندرہ روپے ماہوار ہمیں ملتے اور پانچ روپے ماہوار کرایہ ہمارے چھوٹے مکان کا آتا ہیں روپے ماہوار کی ہماری کل آمد نی تھی.والدہ صاحبہ اس آمد پر اور کچھ گھر کے اثاثہ پر گزارہ کرتیں.والد صاحب کی وفات کے وقت میں ساتویں جماعت میں تھا کہ میری تعلیم چھٹ گئی.والد صاحب کے تعلقات اہل حدیث سے زیادہ تھے اس لئے ان کی وفات کے وقت میرے خیالات بھی فرقہ اہل حدیث کی طرف جن کو لوگ وہابی کہتے ہیں زیادہ مائل تھے.میری منگنی :.والد صاحب کی وفات سے تھوڑا عرصہ قبل میری منگنی منشی احمد جان صاحب کی لڑکی سے ہوئی جو قوم کے کشمیری تھے.اور ان دنوں انگریزوں کو پشتو اور فارسی پڑھایا کرتے تھے.والد صاحب کی وفات کے بعد والدہ صاحبہ نے منشی احمد جان صاحب کے گھر جا کر ان سے جھگڑا کیا.اور جوز یور اور کپڑے میری منگنی کے وقت ان کو دیئے تھے وہ واپس لے لئے.اور ہماری منگنی فسخ ہوگئی.مگر اب تک ان لوگوں نے مجھے لڑکی دینے کا ارادہ ترک نہ کیا تھا.گو والدہ صاحبہ کے سلوک سے ان کو بہت صدمہ ہوا.تصوّف کی طرف رجحان ہمارے مکان کے قریب ایک شخص میاں اسماعیل صوفی منش چلغوزے بھونے کا کام کرتے تھے ان کے پاس میری آمد ورفت ہوگئی.بہت نیک شخص تھا.ان کے پاس آمد ورفت کی وجہ سے میرے خیالات بھی صوفیاء کی طرف مائل ہو گئے.اور نقشبندی سلسلہ میں موضع چورہ شریف ضلع اٹک میں میاں نور محمد صاحب عرف ملا صاحب مشہور تھے ان کی بیعت میں داخل ہو گیا.تقریب دو سال تک میرا یہ دستور رہا کہ تمام دن نماز اور اذکار میں مشغول رہتا.رات کو بھی وظائف پڑھتا.میرے والد صاحب کے بعض دوستوں کا خیال ہوا کہ میں اس طرح وظائف اور اذکار میں مشغول رہ کر پاگل نہ ہو جاؤں..چنانچہ والد صاحب کے دوست ایک صاحب شمس الدین نام تھے.انہوں نے جہانگیرے کے گذر کا ٹھیکہ لیا تو مجھے بطور محرر اپنے ساتھ لے گئے جہاں میں نے ایک سال کام کیا.اگلے سال انہوں نے چارسدہ کے گذر کا ٹھیکہ لیا تو وہاں بھی مجھے ساتھ لے گئے.پھر

Page 38

16 ایک سال نوشہرہ کے گذر کا ٹھیکہ لیا تو وہاں بھی مجھے پاس رکھا اس طرح تقریباً چار سال میں نے تعلیم چھوڑی رکھی.اب میری عمر تقریبا انیس سال کی تھی کہ مجھے پھر خیال پیدا ہوا کہ تعلیم حاصل کروں.مزید تعلیم :.میں ۱۸۹۵ء میں پھر اسلامیہ سکول پشاور میں ساتویں جماعت میں داخل ہوا چھ ماہ بعد مجھے آٹھویں جماعت میں ترقی دے دی گئی اور اسی سال میں نے مڈل کا امتحان دے دیا.چنانچہ میں اپنے ضلع میں دوم رہا اور مجھے وظیفہ ملا اسی سال اسلامیہ سکول کی طرف سے مجھے تین انعام ملے.ایک اپنے سکول میں سب سے اول نمبر پر پاس ہونے کا دوم دبینیات میں اول رہنے کا سوم میں نے سالانہ جلسہ کے موقع پر ایک عربی نظم سنائی تھی اس کا انعام ملا.ان دنوں اسلامیہ سکول میں ماسٹرضیاءاللہ صاحب سیکنڈ ماسٹر تھے.شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کے بہنوئی تھے اور بعد میں قادیان میں آگئے تھے.یہ زمانہ طالب علمی میں مجھ پر بڑی مہربانی کرتے تھے.اور بڑی محبت سے پڑھایا کرتے تھے.چونکہ اسلامیہ سکول صرف مڈل تک تھا میں مڈل کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ ہائی سکول میں داخل ہو گیا.عیسائیت کی بجائے احمدیت کی طرف رجحان اور بیعت :.جن دنوں میں مڈل کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا ایک شخص پادری عزیز الدین نامی جو پٹھانوں سے عیسائی ہوا تھا پشاور میں تھا اور میاں محمد صاحب کتب فروش کی دکان پر آیا کرتا تھا.اور میں بھی وہاں جایا کرتا تھا.اس طرح پادری صاحب سے واقفیت ہوگئی اور میاں محمد صاحب نے بھی میری سفارش کی کہ اگر مجھے ضرورت ہو تو وہ انگریزی میں مجھے مدد دیا کرے.چنا نچہ میں کبھی کبھی ان کے مکان پر جایا کرتا.جب میں ان کے مکان پر جایا کرتا تو وہ ضرور ہی مذہبی بات چیت شروع کر دیتے اور اسلام پر اعتراض کرتے جس کا مجھے جواب نہ آتا.ایک دفعہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نو بیویاں کرنے پر اعتراض کیا.ایسا ہی حضرت مسیح کے زندہ آسمان پر جانے ، ان کے مردے زندہ کرنے وغیرہ کا اس نے ذکر کیا.جب میں ان اعتراضات کو اپنے مولوی صاحبان کے آگے پیش کرتا تو وہ بجائے ان کا جواب شیخ ضیاء اللہ صاحب کے متعلق حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب مقادیانی سے میں نے یہ یادداشت لکھی تھی کہ وہ خلافت ثانیہ سے وابستہ رہے تھے.

Page 39

17 دینے کے الٹا مجھ پر ناراض ہوتے اور کہتے کہ تم پادری عزیز الدین کے پاس نہ جایا کرو.جس سے میرے دل میں اسلام کے متعلق شبہات پیدا ہونے لگے.طبیعت میں تحقیقات کا مادہ تھا اور کوئی بات بلا سوچے سمجھے ماننے کو جی نہ چاہتا تھا.اسی اثناء میں کسی نے مجھے حضرت مولانا غلام حسن خان صاحب کے متعلق بتایا کہ ان کے آگے یہ اعتراض پیش کریں وہ جواب دیں گے.چنانچہ میں مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا.اور اعتراضات پیش کئے.مولانا صاحب نے ایسے جواب دیئے کہ تمام شبہات دور ہو گئے.اب تو میں پادری صاحب کے سر پر سوار ہو گیا.پادری صاحب مولانا صاحب کو جانتے تھے.جب ان کو معلوم ہوا کہ میں مولانا صاحب کے پاس جاتا ہوں تو وہ مجھ سے مایوس ہو گئے.پہلے ان کو یقین ہو گیا تھا کہ مجھے عیسائی بنالیں گے ان کے ساتھ دو ایک دفعہ میں گرجے بھی گیا اور ان کی نماز میں شامل ہوا.مگر حضرت مولانا صاحب کی صحبت کے بعد وہ مجھ سے کترانے لگا.اب میں اپنے اندر ایک طاقت محسوس کرنے لگا.پہلے تو میں پادری صاحب سے مذہبی بات چیت کرنے سے ڈرتا تھا اوراب میں خودان سے ابتداء کرتا.ایک دفعہ ان کے مکان پر ہی ہم دونوں نے سجدہ میں گر کر دعا کی کہ جو مذہب حق ہے اس پر ہم دونوں کو چلائے.اور صراط مستقیم کی ہدایت کرے.اسی عرصہ میں میں نے مولانا صاحب سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا شروع کر دیا.میرے ساتھ میر مدثر شاہ صاحب اور دلاور خان صاحب بھی پڑھا کرتے تھے.مولانا صاحب سے یہ درس کا سلسلہ میرے آٹھویں جماعت میں پڑھنے کے زمانہ سے انٹرنس کا امتحان دینے تک تقریباً دو سال یعنی جب تک میں پشاور رہا جاری رہا.مولانا صاحب بھی مجھ سے بڑی محبت کرتے اور مہربانی سے پیش آتے.اس تمام عرصہ میں کبھی مولانا صاحب نے مجھے یاد نہیں کہ میرے سامنے کسی اور شخص کو احمدیت کی تبلیغ کی ہو.خود ہی کسی نہ کسی طرح مجھے علم ہو گیا کہ مولانا صاحب کسی شخص کے جو قادیان میں ہے اور اپنے آپ کو مہدی اور مسیح کہتا ہے ، مرید ہیں.میں نے ایک دن مولانا صاحب سے مرزا صاحب کی کوئی کتاب مانگی.آپ نے مجھے ازالہ اوہام“ دی ان دنوں میں انٹرنس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا.ازالہ اوہام میں نے چند دن میں ختم کر لی.یہ پڑھ کر مجھے حضرت صاحب کی صداقت پر یقین ہو گیا.یہ ۱۸۹۶ء کا آخر تھا.اسی وقت میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا جس کا جواب مولا نا عبد الکریم صاحب کی قلم سے گیا کہ حضرت صاحب بیعت قبول فرماتے ہیں.(الحمد للہ ) استغفار بہت پڑھا

Page 40

18 کریں.نماز کا میں شروع سے پابند رہا ہوں بیعت کے بعد میں نماز میں خاص لذت محسوس کرنے لگا.حمید مزید بابت تعلیم.عبدالاکبر خانصاحب کی بیعت :.مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد جب میں انٹرنس میں داخل ہوا تو شروع سال ہی میں میں نے ارادہ کیا کہ انٹرنس کا امتحان ایک ہی سال میں دوں گا.چنانچہ انگریزی تو میں کلاس کے ساتھ پڑھتا اور ریاضی اپنے طور پر جماعت سے آگے آگے کرتا.چھ ماہ میں میں نے فورتھ ہائی کا ریاضی کا کورس ختم کر لیا او مجھے فتھ ہائی میں ترقی دے دی گئی اب جو میں ففتھ ہائی میں آیا تو کلاس ریاضی میں مجھ سے آگے تھی سو یہ کمی بھی مجھے خود ہی پوری کرنی پڑی اس طرح ریاضی کا سارا کورس میں نے بغیر استاد کی مدد کے حل شدہ کتابوں کو دیکھ کر خود پڑھ لیا.ریاضی کے صبح سے دو پہر تک میں سوسوسوال الجبرا کے نکال لیتا.اور نہ تھکتا تھا بلکہ اس کے سوال نکالنے میں میں خاص لذت محسوس کرتا تھا.جماعت میں جس لڑکے کو ریاضی کا کوئی سوال نہ آتا مجھ سے سمجھا کرتا تھا.عبدالاکبر میرا ہم جماعت تھا.اور ہم دونوں کی آپس میں بہت محبت تھی جب میں نے حضرت صاحب کی بیعت کی تو عبدالاکبر کو بھی تبلیغ کرنے لگا.یہ شروع میں بڑا برا مناتے اور حضرت صاحب کو برا بھلا کہتے مگر میں ان کو تبلیغ کرتا رہا.آخر خدا کے فضل سے یہ احمدی ہو گئے ہیں بوجہ احمدیت رشتہ ترک کرنا:.منشی احمد جان صاحب نے اب تک مجھے لڑکی دینے کا خیال ترک نہ کیا تھا.اور میری بھی خواہش تھی کہ اسی جگہ میری شادی ہو.ان دنوں پشاور کے لئے بھی انٹرنس کے امتحان کا سنٹر راولپنڈی میں تھا.منشی صاحب اب پشاور سے راولپنڈی آگئے تھے امتحان کے لئے میں ان کے مکان پر ہی ٹھہرا.میرے استفسار پر ماسٹر صاحب نے والدہ محترمہ کے متعلق بیان کیا کہ میرے احمدی ہونے پر وہ پشاور میں رہیں احمدی نہیں ہوئیں.بیوہ ہونے کے بعد جج کیا.۱۹۰۸ء سے پہلے فوت ہوگئیں.وو تاریخ احمدیہ (بابت سرحد ) مرتبہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب میں ذکر ہے کہ عبدالاکبر صاحب تحصیلدار ہو گئے تھے خلافت ثانیہ کے مخالف رہے فوت ہو چکے ہیں (صفحہ ۳ ۸ تا ۸۵) استفسار پر ماسٹر صاحب نے فرمایا یہ وہی ہیں ۸۳ عبدالاکبر صاحب کی احمدیت قبول کرنے کا ذکر اس کتاب کے صفحہ ۶ے پر درج ہے.

Page 41

19 اس دوران میں منشی صاحب سے بھی احمدیت کے متعلق بات چیت ہوئی وہ یہ معلوم کر کے کہ میں احمدی ہوں سخت ناراض ہوئے ان کا کوئی کشمیری پیر تھا اس کو جب علم ہوا کہ میں احمدی ہوں تو اس نے ان کو کہہ دیا کہ یہ تو کافر ہے حضرت عیسی کو وفات شدہ مانتا ہے اس پر انہوں نے مجھے کہا کہ ہمارا تعلق آپ سے تب رہ سکتا ہے کہ احمدیت سے توبہ کریں.یہ بات مجھے سخت ناگوار گذری میں نے کہا کہ یہ تو آپ کی ایک لڑکی ہے اگر ایسا سورشتہ بھی ہو تو میں احمدیت پر قربان کر دوں گا.چنانچہ اس سے ناراض ہو کر میں راولپنڈی سے سیدھا قادیان چلا گیا.اور وہاں حضرت صاحب کے ہاتھ پر مکرر بیعت کر کے واپس پشاور آ گیا.انٹرنس میں ناکامی اور مدرسہ تعلیم الاسلام میں تقرری :- انٹرنس کا نتیجہ نکلا تو میں جنرل نالج میں زیر تجویز نکلا.فیل ہونے کا باعث یہ امر ہوا کہ بعض وجوہات سے میں تاریخ جغرافیہ کی طرف پوری توجہ نہ دے سکا تھا.اور اس مضمون پر میری طبیعت بھی نہ لگتی تھی چونکہ میرا اوظیفہ دو سال کے لئے تھا اور میں نے امتحان ایک سال کے بعد دے دیا تھا اس لئے ابھی وظیفہ باقی تھا.ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھے کہا کہ اگلے سال بھی پڑھو.آئندہ سال اچھے نمبروں پر پاس ہو جاؤ گے.مگر میں دل شکستہ ہو گیا تھا.آئندہ تعلیم جاری رکھنے کا ارادہ ترک کر دیا.اور پھر قادیان چلا گیا.ان دنوں قادیان میں مدرسہ کی صرف پانچ جماعتیں تھیں.مولا نا محمد علی صاحب بھی تازہ احمدی ہوئے تھے اور قادیان آئے ہوئے تھے ان کو جب علم ہوا کہ میں نے اسی سال انٹرنس کا امتحان دیا ہے تو مجھ سے رول نمبر دریافت کیا جب میں نے بتایا تو فرمانے لگے کیا تمہارا وظیفہ لگا ہے.میں نے کہا کہ میں تو پاس بھی نہیں ہوا تعجب سے کہنے لگے کہ تم نے ریاضی کے پرچے میں پورے نمبر لئے ہیں.اتفاق سے انہوں نے اس سال انٹرنس کے ریاضی کے پرچے دیکھے تھے چنانچہ ان کی سفارش پر میں قادیان کے سکول میں مدرس لگایا گیا.(الف) استفسار پر ماسٹر صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے منشی احمد جان صاحب کے مزید حالات بعد کے زمانہ کے معلوم نہیں جو لڑ کی میرے ساتھ منسوب ہوئی اس کی شادی پشاور کی مگر شادی کے معا بعد اسے دق ہوگئی اور غالباً دو سال کے اندر فوت ہوگئی.(ب) یہ پہلی بار زیارت حضرت اقدس و قادیان تھی.آپ نے مڈل کا امتحان ۱۸۹۵ ء ہی میں دیا تھا.گویا ۱۸۹۶ء میں امتحان دے کر آپ قادیان گئے تھے.ماسٹر صاحب فرماتے ہیں ان دنوں امتحان سال کی آخری ششماہی یعنی جولائی اگست ستمبر میں ہوتا تھا.اس وقت چھٹی جماعت کھول دی گئی اور مجھے ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا.

Page 42

20 اس سے پہلے پانچویں تک کے ہیڈ ماسٹر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تھے.چھٹی جماعت میں غالباً تین طالبعلم تھے.شیخ محمد نصیب.مولوی غلام محمد جو قادیان سے ماریشس میں مبلغ ہو کر گئے تھے اور حافظ محمد عیسیٰ شیخ عبدالعلی کے بھائی.ایک سال کے قریب میں ہیڈ ماسٹر رہا.پھر ملک شیر محمد صاحب بی.اے پاس کر کے قادیان گئے اور یہ ہیڈ ماسٹر ہو گئے اور میں سیکنڈ ماسٹر.ان دنوں حضرت میر ناصر نواب صاحب مدرسہ کے سپرنٹنڈنٹ تھے اور مولوی محمد علی صاحب انسپکٹر.محکمہ بندوبست میں ملازمت :.۱۸۹۸ء کے آخر میں ایک افسر سے ناراض ہو کر میں قادیان سے پشاور آ گیا.محمد عظیم خان صاحب افسر مال میرے والد صاحب کے شاگرد تھے ان کے پاس ملازمت کے لئے گیا.اور انہیں کہا کہ محکمہ مال میں مجھے کہیں ملازمت دلاد میں اس سال ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بندوبست ہو رہا تھا.انہوں نے اپنے دوست غلام محمد خان کے نام جو ڈیرہ اسماعیل خان میں بطور نائب مہتم بندوبست کام کرتے تھے چٹھی دی.جس کی بناء پر ڈیرہ اسماعیل خان کے بندوبست میں میرا نام بطور زائد پٹواری درج ہوا.اور میں نے کام شروع کر دیا.مارچ سے آخر نومبر ۱۸۹۹ ء تک میں نے اس بندوبست میں کام کیا.اس عرصہ میں سالم موضع بہوچ کی پیمائش مع تکمیل ختم کی.اور موضع شادیوا لہ کی نصف کے قریب پیمائش کی.ماہ جون و جولائی میں میں مربع بندی کا کام کرتا تھا.یہ علاقہ ریگستان ہے اور سخت گرمی پڑتی ہے.میرے ساتھ جولوگ بطور جریب کش وغیرہ کام کرتے تھے.باوجود یکہ وہ اسی علاقہ کے لوگ تھے اور گرمی کے عادی تھے.پھر بھی ایک دو شخص گرمی سے روزانہ بیہوش ہو جاتے مگر مجھ پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل رہا.استفسار پر ماسٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ اتنا تو یقینی ہے کہ میں جب مدرسہ میں لگا تو اسی سال چھٹی جماعت کھلی تھی ممکن ہے کہ امتحان کے بعد میں جب قادیان گیا تو اس سال واپس آ گیا ہوں.( اور یہی بات او پر متن میں آپ کے بیان میں درج ہے ) اس میں سال کی غلطی کا امکان ہے کیونکہ مجھے یاد ہے کہ ایک سال میں مولانا غلام حسن خان صاحب کے ساتھ قادیان گیا تھا رات ہمیں بٹالہ ہوگئی.میں مولانا صاحب کیلئے ایک ہندو دکاندار سے دودھ لایا جب وہ مولانانے اور میں نے چکھا تو نمکین تھا پھر نہیں پیا.غالباً اسی سال یعنی ۱۸۹۸ء میں مدرسہ میں میرا تقر ر ہوا ایک سال کام کیا پھر میں قادیان سے محکمہ بندوبست میں چلا گیا.قادیان میں کالج کھلنے پر بطور CASUAL طالبعلم میں چند ماہ تک ریاضی اور انگریزی کی جماعتوں میں شامل ہوتا تھا.کبھی میں نے زیادہ تکلیف محسوس نہ کی تمام افسر میرے کام سے بڑے خوش تھے.

Page 43

21 دوبارہ قادیان میں آجانا اور میٹرک کا امتحان پاس کرنا:.۸ دسمبر ۱۸۹۹ء کو میں رخصت لے کر قادیان گیا اور پھر وہیں رہ گیا.ان دنوں حضرت مولوی شیر علی صاحب مدرسہ تعلیم الاسلام کے ہیڈ ماسٹر تھے مجھے اول مدرس ریاضی مقرر کیا گیا.اب مدرسہ تعلیم الاسلام مڈل ہو گیا تھا.اب تک مڈل کا امتحان یو نیورسٹی کا امتحان ہوا کرتا تھا اور قادیان کا سنٹر گورداسپور تھا.امتحان دینے والے لڑکوں کے ساتھ میں گورداسپور جاتا.۱۹۰۱ء میں میں نے بھی انٹرنس کا پرائیویٹ امتحان دیا اور اول درجہ میں پاس ہوا.ان دنوں محترم مرزا عزیز احمد صاحب ولد حضرت مرزا سلطان احمد صاحب) تعلیم الاسلام سکول میں پڑھا کرتے تھے اور میں ان کا پرائیویٹ ٹیوٹر تھا.شادی اور مرزا یعقوب بیگ صاحب کا سلوک :.اسی سال میاں مہرالدین صاحب خانساماں گار ڈروم لالہ موسیٰ نے بھائی امام الدین صاحب گڈس کلرک کی ہمشیرہ محترمہ سردار بیگم صاحبہ کے ساتھ میری شادی کی تحریک کی.اور مجھے بھی لکھا.میں نے جواب دیا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں.صرف پندرہ روپے ماہوار تنخواہ لیتا ہوں جس سے بمشکل میرا اپنا گزارہ ہوتا ہے.شادی کے اخرجات برداشت کرنے کے ناقابل ہوں.انہوں نے میرا وہی خط بھائی امام الدین صاحب کو دیدیا جنہوں نے جواب دیا کہ ہم آپ کا کوئی خرچ کرانا نہیں چاہتے تمام خرچ ہم خود برداشت کریں گے آپ کوئی فکر نہ کر میں بابو امام الدین صاحب کا گھر جہلم میں تھا ان دنوں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم جہلم میں اسٹنٹ سرجن تھے.ستمبر ۱۹۰۱ء میں شادی کے لئے میں صرف پندرہ ہیں روپے لے کر جہلم مرزا صاحب موصوف کے مکان پر چلا گیا.حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلم میں نئے محلہ کے امام مسجد تھے.اور بابوامام الدین صاحب کی بہنیں ان سے قرآن شریف پڑھا کرتی تھیں.انہوں نے کہا کہ اگر چہ بابو صاحب نے یہی کہا ہے کہ آپ کا کوئی ان کا ذکر بطور منشی امام الدین گڈس کلرک پنڈی الحکم مورخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۰ء ص ۷ کالم۲ پر موجود ہے.ماسٹر صاحب فرماتے ہیں کہ موصوف احمدی تھے ۱۹۰۶ء میں بمقام جہلم وفات پاگئے تھے ان کا ایک لڑکا فیروز الدین قادیان مدرسہ احمدیہ میں پڑھتارہا جو مولوی عبد الرحمن صاحب مولوی فاضل امیر جماعت قادیان کا ( جوان دنوں عبدالرحمان جٹ کہلاتے تھے ) ہم جماعت تھا فیروز الدین بعد میں جہلم چلا گیا شادی کی دو بچے ہوئے پھر جوانی میں فوت ہو گیا.انکی لڑکی سردار رحمت اللہ صاحب ربوہ ( پسر ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر مرحوم صحابی ) کی بیوی ہے.خرچ نہیں کرائیں گے مگر پھر بھی آپ کی طرف سے ایک جوڑا کپڑے اور کچھ زیور ہونا ضروری ہے.مرزا صاحب

Page 44

22 مرحوم سے پچاس روپے میں نے چھ ماہ کے وعدہ پر قرض لئے اور ایک جوڑا کپڑوں کا اور کچھ زیور مولانا موصوف کی معرفت بنوایا گیا.اس طرح آٹھ دس دن کے قریب جہلم ٹھہرا رہا.ان ایام میں مجھے بہت تکلیف بھی ہوئی کیونکہ ان دنوں مرزا صاحب مرحوم کے والد مرزا نیاز بیگ صاحب بھی جہلم ہی میں تھے جب میں نے مرزا صاحب سے روپے قرض مانگے تو مرزا صاحب نے غالباً والد صاحب کے ایماء پر پہلے انکار کر دیا جس سے مجھے بڑا صدمہ ہوا.کیونکہ مرزا صاحب سے مجھے انکار کی توقع نہ تھی اور جہلم میں اور کوئی شخص میرا واقف بھی نہ تھا آخر حضرت مولانا برہان الدین صاحب کی سفارش پر مرزا صاحب نے یہ رقم دیدی اور وسط ستمبر میں ہماری شادی ہو گئی.ایک دن جہلم رہ کر ہم واپس قادیان آگئے اور غالباً تین روپے ماہوار کرایہ پر مکان لے لیا.ابھی شادی کو قریباً ایک ماہ ہی ہوا تھا کہ ایک دن حضرت میر ناصر نواب صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ حضرت صاحب آپ پر بہت ناراض ہو رہے ہیں کہ آپ مرزا یعقوب بیگ صاحب سے پچاس روپے حضرت صاحب کو دینے کے لئے لائے تھے جو ابتک آپ نے نہیں دیئے.مجھے یہ سن کر بڑا رنج ہوا میں نے بتایا کہ میں تو ان سے چھ ماہ کے وعدہ پر رقم قرض لے کر آیا ہوں.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے.آپ ساری بات حضرت صاحب کی خدمت میں بیان کر دیں اور مرزا یعقوب بیگ صاحب سے بھی دریافت کیا جاسکتا ہے اسبارہ میں مزید مجھے کچھ معلوم نہیں ہوا البتہ اس کے جلد ہی بعد یہ رقم میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دی.جیومیٹری پڑھانا : ۱۹۰۱ء میں تعلیم الاسلام سکول کو ہائی سکول کر دیا گیا اور میں اعلیٰ جماعتوں کو ریاضی پڑھایا کرتا.جو انہی دنوں میں جیومیٹری بجائے اقلیدس کے مدارس میں جاری کی گئی.میں نے اقلیدس ہی پڑھی ابتدا میں مدرسہ تعلیم الاسلام پرائمری تک کھولا گیا ۱۸۹۸ء میں مڈل کی جماعتیں اور فروری ۱۹۰۰ء میں ہائی سکول کی پہلی اور مارچ ۱۹۰۱ء میں دوسری جماعت کھولی گئی مڈل کے ہیڈ ماسٹر عارضی طور پر مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم مقرر ہوئے.یہ مفصل حالات رقم کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب رقم فرماتے ہیں.( مرزا صاحب) کے لاہور چلا جانے کے بعد ماسٹر فقیر اللہ صاحب ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے جو کہ اب دفتر میگزین کے نائب ناظم مقر ر کئے گئے ہیں ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے فروری ۱۸۹۹ء تک مدرسہ کی ہیڈ ماسٹری کا کام کیا اسکے بعد مولوی شیر علی صاحب بی اے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے“ (8) تھی.Instruements کا استعمال قطعا نہیں جانتا تھا مگر میں نے جیومیٹری پڑھانی شروع کر دی کتاب کی

Page 45

23 مدد سے پہلے گھر پر سوال کر آتا اور پھر لڑکوں کو سکول میں پڑھایا کرتا.حساب یا الجبرے میں مجھے کوئی مشکل کبھی پیش آتی تو مولانا محمد علی صاحب سے دریافت کر لیتا انہوں نے قادیان ہی میں رہائش اختیار کر لی تھی.جیومیٹری چونکہ مولانا نے بھی نہیں پڑھی تھی اس لئے خود مجھے ہی سب کچھ کرنا پڑتا لیکن کبھی مجھے کوئی ایسی دقت پیش نہیں آئی جسے حل نہ کرسکوں.مرز ا عزیز احمد کا کالج میں داخلہ :.محترم مرزا عزیز احمد صاحب کو علی گڑھ کالج میں داخل کرانے کے لئے میں ان کے ساتھ گیا.اور ضروری فرنیچر دبلی سے خرید کر پہنچایا.اور ان کو اچھی طرح آگاہ کیا کہ علی گڑھ میں نئے طالب علم کو لڑ کے تنگ کرتے ہیں اور پنجابیوں کا خاص طور پر فاختہ اڑایا جاتا ہے.ماسٹر صاحب کی بندوبست میں دوبارہ ملازمت لیکن جلد بعد قادیان کومراجعت علی گڑھ سے واپس آکر میں نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سے محکمہ بندوبست میں پھر جانے کا ذکر کیا.ان دنوں ضلع میانوالی میں بندوبست ہو رہا تھا اور مرزا صاحب نائب مہتم بندو بست تھے آپ کی کوشش سے میرا نام امید وار قانون گو کے طور پر بندوبست میں درج ہو گیا.اور یکم دسمبر ۱۹۰۵ء کو میں نے پھر بندوبست میں کام شروع کر دیا.امیدوار قانونگو ایک سال بندوبست میں کام کرنے کے بعد امتحان میں شامل ہوسکتا تھا.مگر ڈیرہ اسماعیل خان کے بندوبست میں میں نے جو کام کیا تھا اسے بھی شمار کر کے ماہ مئی میں ملتان میں ہونے والے امتحان میں مجھے بھیج دیا گیا.ان دنوں شیخ عبدالرحمن صاحب برادر شیخ رحمت اللہ صاحب ملتان میں ای.اے.سی تھے ان کے ہاں ٹھہرا اور امتحان دیا.حساب اور مساحت میں تو مجھے تیاری کی ضرورت نہ تھی.صرف قانون مال گذاری کی تیاری کرنی تھی.وہ ایک ماہ میں دیکھ لیا تھا حساب اور مساحت کے سارے سوا ل میں نے حل کر دئیے اور قانون کے متعلق بھی پرچہ اچھا ہو گیا.چنانچہ اچھے نمبروں میں پاس ہو گیا.یہاں بھی میں نے بڑی محنت سے کام کیا پندرہ روزہ کارگذاری مہتم بندوبست کو بھیجی جاتی تھی کئی ایک پندرہ روزوں میں مجھے انعام ملا.موضع پائی خیل کی سالم پڑی ب کا مکمل کام پیمائش سے لے کر کاغذات کی تکمیل تک میں نے خود کیا.مگر قادیان کی رہائش کے بعد بندوبست میں میرا دل نہ لگتا تھا.اگر چہ یہاں میرے لئے ترقی کا میدان بڑا وسیع تھا.تمام افسر بھی مہربان تھے.مرزا صاحب بھی بڑی مہربانی کرتے تھے.چنانچہ جتنا عرصہ میں خاص میانوالی رہا.مرزا صاحب کے مکان پر ہی رہتا تھا لیکن باوجود ان سب باتوں کے میرے لئے کوئی دلچسپی نہ تھی

Page 46

24.ایک دفعہ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں خط لکھا.آپ کا جواب آیا کہ آپ کیلئے بہتر ہے آپ قادیان رہ جائیں.اس خط کے ملتے ہی میں نے رخصت کی درخواست دی اور قادیان چلا گیا.۲۰ جولائی ۱۹۰۶ء کو میں رخصت پر قادیان گیا اور پھر واپس میانوالی نہ گیا.اس کے بعد مرزا سلطان احمد صاحب اور دوسرے افسروں کے بھی مجھے پرائیویٹ خطوط آئے کہ آپ غلطی کر رہے ہیں.اور ایسا عدہ موقع کھو رہے ہیں.چنانچہ میری رخصت کے ایام میں میری تعیناتی حصار کے ضلع میں بطور قانونگو ہوگئی.اور حکم مجھے قادیان پہنچا.مگر میں نے انکار لکھ دیا اور پھر قادیان کی رہائش اختیار کرلی.۲۲ جولائی ۱۹۰۶ کو مجھے پھر رسالہ ریویو آف ریلیجنز کا ہیڈ کلرک پچیس روپے ماہوار پر رکھا گیا.یہ مینجر خود مولانا محمد علی صاحب تھے اور انجمن کے سیکرٹری بھی یہی تھے.ریویو آف ریلیجنز اردو اور انگریزی میں شائع ہوتا تھا.اور دونوں رسالوں کی چھپائی وغیرہ اور خریداروں سے خط و کتابت مجھے کرنی پڑتی تھی.۱۹۰۷ء میں انجمن کے ہر ایک صیغہ کا ایک نائب ناظم مقرر کیا گیا جو اس صیغہ کا ذمہ دار ہوتا.اور اس صیغہ کی طرف سے انجمن کی انتظامیہ کمیٹی کا نمبر بھی ہوتا.یکم جون ۱۹۰۷ء کو مجھے نائب ناظم میگزین مقرر کیا گیا.اورصدرانجمن احمدیہ کی انتظامیہ کمیٹی کا ممبر مقرر ہوا.* اب میری تنخواہ میں روپے ماہوار کی گئی.۳۱ اگست ۱۹۰۷ ء سے ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کی دسویں جماعت کو ریاضی پڑھاتا رہا.۱۵ فروری ۱۹۰۸ء کو پھر میرا سارا وقت مدرسہ میں بطور مدرس ریاضی لگا دیا گیا.ย حضرت مولوی نورالدین صاحب کا صدر انجمن کے فیصلہ کا احترام کرنا:.جب قادیان میں انجمن قائم ہوئی تو انجمن کی نقدی رکھنے کے لئے حضرت نواب محمد علی خانصاحب مرحوم نے ایک لوہے کی زیر ”خبار قادیان بدر میں مرقوم ہے:.ماسٹر فقیر اللہ صاحب جو پہلے مدرسہ تعلیم الاسلام کے مدرس تھے اور کچھ عرصہ سے میانوالی محکمہ بندوبست میں کام کرتے تھے دفتر ریویو آف ریجنز کے ہیڈ کلرک مقرر ہو کر قادیان واپس آگئے ہیں اللہ تعالیٰ یہ تقر ر ان کے واسطے اور دفتر میگزین کے واسطے موجب خیر و برکت کا کرے.(9 ) تقمہ حقیقت الوحی صفحہ ۵۷ پر ۱۹۰۷ء کے تعلق میں آپ کے نام کے ساتھ یہ عہد ہ درج ہے.

Page 47

شجرہ نسب (از بطن الطمیه اول) نور النساء مرحومہ (اہلیہ نواب خال موضع حضر و ضلع اٹک ) منشی امام بخش (از بطن اہلیہ ثانی) حضرت ماسٹر فقیر اللہ ( صحابی ) ( ولادت ۲۴ جون ۱۸۷۶ء) والی اللہ فور میں اٹک آئل کمپنی کھوڑ عبد الله لفٹینٹ نعمت اللہ رضاء الله (ولادت ۲۱/۹/۰۲ بمقام قادیان) (اسٹیشن ماسٹر ہارون آباد ) ہدایت اللہ عطاء الله (پاکستان نیوی) مبائع الیکٹریکل سپر وائز رسر گودھا مبائع سیکرٹری مرچنٹ نیوی کلب کراچی ( ایجنٹ موٹرز.لاہور ) ولادت ۲۳/۵/۰۴ خیر النساء برکت النساء نور النساء قمر النساء طاہر اختر النساء (اہلیہ عطاء اللہ نسیم ) اہلیہ بابوعبد القادر مرحوم اوورسیئر گوجر خاں) اہلیہ میاں محمد اسلم انسپکٹر پولیس اہلیہ بابوعبد القیوم خزانچی اہلیہ میاں محمد اعظم جو ماسٹر صاحب کے بھانجے تھے.لاہور پسر میاں محمد صادق صاحب واہ سیمنٹ کمپنی ( جو ماسٹر ولد میاں محمد صادق صاحب کے بھانجے ہیں) سپریٹنڈنٹ دفتر امور کلرک ملٹری انجینئر نگ سروسز پسر میاں خدا بخش بھیروی خارجہ راولپنڈی لاہور چھاؤنی 25 25

Page 48

26 الماری انجمن کو دی.جب میں دفتر محاسب میں لگا تو حضرت مولوی نورالدین صاحب انجمن کے امین تھے اور یہ الماری اس کو ٹھڑی میں تھی جو حضرت مولوی صاحب کے مطب کے ساتھ تھی اور مولوی صاحب کے شاگر د حضرت مولوی غلام محمد صاحب کشمیری اس میں سویا کرتے تھے اور اگر کوئی اور حضرت مولوی صاحب کا مہمان آتا تو وہ بھی وہاں سوتا.اس الماری کی ایک چابی حضرت مولوی صاحب کے پاس رہتی اور ایک میرے پاس.اور انجمن کی ہدایت تھی کہ الماری دونوں کی موجودگی میں کھلے.چونکہ الماری میں تقریباً روزانہ روپیہ رکھنا یا نکالنا ہوتا تھا.میں دفتر محاسب سے آتا اور مولانا مطب سے اٹھ کر تشریف لاتے.اور الماری کھولی جاتی پہلے پہل کچھ عرصہ تو مولانا خود تشریف لاتے رہے مگر بعد میں وہ اپنے شاگرد مولوی غلام محمد صاحب کشمیری یا کسی اور کو چابی دے دیتے اور اس کی موجودگی میں الماری کھولی جاتی.اور رو پیر رکھتا یا نکالتا.انہی ایام میں ایک دفعہ خزانہ سے ایک سور و پی کم ہو گیا.میں نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا.فرمانے لگے تم جانو.تم ہی الماری بند کرتے کھولتے ہو.آخر انجمن میں رپورٹ ہوئی.انجمن نے فیصلہ کیا کہ چونکہ انجمن کے فیصلہ کے مطابق مولوی صاحب خود نہیں جاتے رہے اس لئے اس نقصان کے ذمہ دار مولوی صاحب ہیں چنانچہ مولوی صاحب نے یہ رو پیدا دا کر دیا.حمد خلافت اولی میں ماسٹر صاحب کی خدمات :.مئی ۱۹۰۸ء میں حضرت صاحب لاہور تشریف لائے اور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو حضور کا لاہور میں ہی انتقال ہوا.انالله و انا اليه راجعون.ان دنوں آپ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان پر فروکش تھے.۲۷ تاریخ کو حضور کا جنازہ قادیان لے جایا گیا اور بہشتی مقبرہ میں حضور کو سپرد خاک کیا گیا.اور حضرت مولانا نورالدین صاحب کو خلیفہ منتخب کیا گیا.اور تمام اصحاب نے جو اس وقت قادیان میں موجود تھے حضرت مولوی صاحب کی بیعت کی.اس کے بعد قادیان کے تقریباً تمام شعبوں میں میں نے کام کیا.م اس واقعہ سے حضرت مولوی صاحب کی سیرت کے اس درخشندہ پہلو کا علم ہوتا ہے کہ آپ وہ مقام رکھتے تھے کہ آپ کی امانت پر کوئی شبہ نہ ہوسکتا تھا باو جود اس کے انجمن نے جو فیصلہ کیا آپ نے اس کا احترام کیا.

Page 49

27 جون ۱۹۰۹ء تک مدرسہ میں کام کرتا رہا.جون سے آخر اگست ۱۹۰۹ ء تک دفتر محاسب میں جون ۱۹۱۰ء سے اگست ۱۹۱۱ء تک بطور سپریٹنڈنٹ دفاتر.اگست ۱۹۱۱ء سے مئی ۱۹۱۴ ء تک اسٹنٹ مینجر میگزین.اس عرصہ میں وقتا فوقتا جب مدرسہ میں ضرورت ہوتی علاوہ اپنے اصلی فرائض کے مدرسہ میں بطور مدرس ریاضی بھی کام کرتا رہا.حضرت مولانا نورالدین صاحب لڑکوں کو مارنے کے سخت مخالف تھے.لڑکوں کو اس کا علم تھا.اس لئے جب میں کسی لڑکے کو سزا دیتا تو وہ حضرت مولانا صاحب کے پاس جا کر شکایت کرتے اور مولانا صاحب اکثر مجھ پر ناراض ہوا کرتے.اور ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس اور کبھی مولانا محمد علی صاحب کے پاس شکایت کرتے.حضرت خلیفہ اول آخری ایام میں جب زیادہ بیمار ہو گئے تو آپ مسجد تشریف نہ لے جاسکتے اور اپنے مکان پر ہی نماز پڑھتے.کبھی کبھی مغرب یا عشاء کی نماز کے وقت میں ان کے پاس ہوتا تو مجھے فرماتے کہ نماز پڑھاؤ.اور میری اقتداء میں آپ بھی نماز پڑھتے.خلافت ثانیہ میں لاہور چلے جانا:.حضرت خلیفہ اول کی بیماری کے ایام میں ہی میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ مولانا یعنی حضرت خلیفہ اول فوت ہو گئے ہیں اور حضرت میاں محمود احمد صاحب ان کی جگہ خلیفہ ہوئے ہیں.اس خواب کا ذکر میں نے حضرت میاں صاحب سے بھی کیا تھا.( مجھے خواب بہت کم آتے ہیں ) جب حضرت خلیفہ اول فوت ہو گئے تو قادیان کی تقریباً ساری جماعت نے حضرت میاں صاحب کی بیعت کر لی مولا نا محمد علی صاحب ، مولوی صدرالدین، صاحب اکبر شاہ خان نجیب آبادی اور میں نے بیعت نہ کی.بعد میں ریویو آف ریچز پر چہ ہائے اگست ستمبر ۱۹۱۱ء میں مندرجہ صدرانجمن کے خزانہ کے گوشوارہ ہائے پر مئی میں برائے محاسب“.جون میں بطور محاسب اور اگست میں بطور قائم مقام محاسب آپ کا نام مرقوم ہے.معلوم ہوتا ہے مئی سے اگست تک بطور قائم مقام محاسب آپ نے زائد ڈیوٹی کے طور پر کام بھی سرانجام دیا ہو گا.الفضل ۹/۶۱/ ۹ صفحہ ۴ پر آپ کے بیٹے نعمت اللہ کا ذکر ہے.سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ قادیان بابت ۱۲.۱۹۱۱ء آپ کے اہتمام سے طبع ہوئی.اس وقت آپ اسسٹنٹ مینجر میگزین تھے (سرورق) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ بابت ۱۱.۱۹۱۰ء میں مرقوم ہے: "یکم اگست ۱۹۱۱ء سے سپریٹنڈنٹ دفاتر کی آسامی کسی قابل آدمی کے ملنے تک خالی کی گئی تھی.کیونکہ ماسٹر فقیر اللہ صاحب کی دفتر میگزین میں ضرورت تھی“.(صفحہ ۵۲ )

Page 50

28 اکبر شاہ خاں نے بیعت کر لی.یہ میرے بیعت نہ کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ مجھے مولانا غلام حسن خانصاحب پشاوری اور مولانا محمد علی صاحب سے بہت حسن عقیدت تھی.اور ان دونوں صاحبوں نے بیعت نہیں کی تھی.مولانا غلام حسن خانصاحب سے ان کے تقوی طہارت کی وجہ سے اور وہ میرے استاد بھی تھے اور مولانا محمد علی صاحب سے ان کی خدمات دینی کی وجہ سے.اس کے چند دن بعد مولوی محمد علی صاحب تو قادیان سے لا ہور آ گئے بعد میں ان کا سارا سامان اور کتابیں صندوقوں میں بند کر کے میں نے قادیان سے گڑوں پرلد وا کر بٹالہ اور بٹالہ سے بذریعہ ریل لاہور بھجواد ہیں.بعد میں مولوی صدر الدین صاحب بھی لاہور آگئے اس کے ایک ماہ بعد میں بھی چار ماہ کی رخصت لے کر لاہور آ گیا.اس ایک ماہ میں جو میں قادیان رہا دوستوں نے کوشش کی کہ میں بیعت کرلوں مگر میں انکار کرتا رہا.ایک دن حضرت میر ناصر نواب صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ تم نے تو خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت میاں صاحب خلیفہ ہو گئے ہیں تو اب مانتے کیوں نہیں میں نے جواب دیا کہ میرا خواب تو بالکل سچا تھا جس کے مطابق حضرت میاں صاحب خلیفہ ہو گئے مگر اس میں یہ تو نہیں تھا کہ میاں صاحب کے عقائد بھی صحیح ہیں.یا میں نے بیعت بھی کی ہے.حضرت مولوی شیر علی صاحب اور دوسرے دوست بھی کہتے رہے.مگر میں نے بیعت نہ کی میری بیوی نے بیعت کر لی تھی.ان کو میں نے منع نہ کیا.لاہور آ کر احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی بنیاد اکبر شاہ خانصاحب نجیب آبادی کی بیعت کا اندراج البدر بابت ۲۴/۴/۳۰ (صفحہ ۱۱۳ کالم ۲ ) میں موجود ہے الفضل میں مرقوم ہے کہ منشی اکبر شاہ خانصاحب نجیب آبادی نے بھی رویاء صالحہ کی بناء پر بیعت کر لی ” ( مورخہ از ۱/۴/۱۴ صفحه ۱ استفسار پر کہ کس کس نے جمعیت مولوی محمد علی صاحب پہلے روز بیعت خلافت نہ کی تھی ماسٹر صاحب نے لکھا ہے : ”مولوی صدرالدین صاحب.اکبر شاہ خاں فقیر اللہ ( یعنی خود ماسٹر صاحب) یہ قادیان کے باشندے تھے اور تو کوئی یاد نہیں.اکبر شاہ خاں صاحب کے احمدیت سے منقطع ہونے کی وجہ دریافت کرنے پر ماسٹر صاحب فرماتے ہیں.اکبر شاہ خاں قادیان سے لاہور آ گیا پھر نجیب آباد چلا گیا مجھے معلوم نہیں وہاں اسے کیا ابتلاء آیا.“ محترمہ صحابہ تھیں.استفسار پر ماسٹر صاحب نے فرمایا کہ باوجود یکہ تمیں سال کے طویل عرصہ تک میں نے بیعت خلافت نہیں کی لیکن وہ بیعت خلافت پر قائم رہیں.گویا یہ خاص شرف ان کو حاصل رہا.وہ تحریک جدید میں پانچ روپے ماہوار دیا کرتی تھیں.۱۰ ستمبر ۱۹۶۰ء کو وفات پا کر قطعہ صحابہ بہشتی مقبرہ ربوہ مدفون ہوئیں.اللهم اغفرلها وارحمها.آپ کے بطن سے ماسٹر صاحب کو تیرہ بچے عطا ہوئے.دو بچپن میں وفات پاگئے گیارہ زندہ ہیں جن کا ذکر شجرہ میں کر دیا گیا ہے.ان میں سے لفٹنٹ نعمت اللہ صاحب اور رضاء اللہ صاحب نے بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 51

29 رکھی گئی.اس کے قواعد اساسی و غیر ہ صدر انجمن احمدیہ کے قواعد اساسی وغیرہ کے مطابق تجویز کئے گئے اور یہ سب میں نے تجویز کئے.ان دنوں مولوی محمد علی صاحب بھی قادیان سے رخصت لے کر آئے تھے ہمارے رخصت پر آجانے کے بعد صدرانجمن نے ایک قاعدہ بنایا کہ رخصت کی تنخواہ کے حقدار صرف وہ ملازم ہونگے جو رخصت سے واپس اپنی ملازمت پر آجائیں.چنانچہ میں چار ماہ کی رخصت گذار کر واپس قادیان آگیا یکم ستمبر ۱۹۱۴ء کو میں رخصت سے واپس گیا تھا.رخصت سے واپس جانے پر مجھے چار ماہ کی تنخواہ ہل گئی.لیکن رخصت کے ایام میں میں لاہور سے بھی تنخواہ لیتا رہا تھا.اس لئے میرے ضمیر نے مجھے اجازت نہ دی کہ میں دو جگہ سے تنخواہ لیتا رہوں.اس لئے قادیان سے وصول کردہ تنخواہ ساری میں نے بطور چندہ صدرانجمن احمد یہ قادیان کو دے دی.میں جب رخصت پر گیا تھا تو مینجر میگزین تھا اور جب واپس آیا تو چونکہ میرا تعلق احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے ہو گیا تھا.صدرانجمن نے مجھے مینجر میگزین رکھنا مناسب نہ سمجھا.اور مجھے پیشل ڈیوٹی پر لگا دیا.اس پر میں نے صدرانجمن کولکھا کہ یا تو مجھے میرے پہلے عہدہ پر ہی لگایا جائے ورنہ میراستعفیٰ منظور کیا جائے.چنانچہ صدرانجمن نے 9 ستمبر ۱۹۱۴ء کو میرا استعفیٰ منظور کر لیا.اور میں لا ہور آ گیا.مسلم ٹاؤن کی آبادی:.مسلم ٹاؤن لاہور کی جتنی زمین ہے یہ ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب نے خریدی تھی.اور ان کی نیت تھی کہ یہاں صرف احمدی آباد ہوں اس لئے انہوں نے پہلے اس کا نام احمد یہ بستی رکھا اور کوشش کی کہ احمدی یہ زمین خریدیں اور یہاں آباد ہوں مگر احمدیوں نے بہت کم زمین خریدی کیونکہ کسی کو یقین نہ تھا کہ یہ بستی کبھی آباد بقیہ حاشیہ:.بیعت خلافت کر لی ہے اللہ تعالیٰ باقیوں کو بھی توفیق عطا کرے آمین.الفضل بابت ۱۳/۹/۶۰ میں وفات بھمر قریباً پچھتر سال ہونے ۱۹۰۱ء میں بیعت کرنے اور صحابیہ ہونے کا ذکر ہے.اور یہ کہ مرحومہ بہت نیک طبع نیک سیرت ار مقیم تھیں حتی الوسع کسی سوالی کوخالی نہ جانے دیتیں.اعزہ اقارب ہمسائیوں اور نوکروں سے حسن سلوک کرتیں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ پوری وابستگی رہی حضور اور افراد خاندان حضرت اقدس سے محبت وعقیدت تھی.تاریخ احمدیہ ( سرحد ) مولفہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب کا یہ تحریر فرمانا کہ کہ ماسٹر صاحب نے ” خلافت ثانیہ کے قیام پر تجدید بیعت کی تھی (صفحہ ۷۶) ماسٹر صاحب کے بیان کی روسے سہو معلوم ہوتا ہے.

Page 52

30 بھی ہو سکے گی یہ ساری زمین بنجر، غیر آباد اور لاہور شہر کی آبادی سے بہت دور تھی.آمد و رفت کا کوئی انتظام نہ تھا ارد گرد کا علاقہ سب چور ڈاکوؤں کا تھا.آخر شاہ صاحب نے اس زمین کی فروخت اور آباد کرنے کا انتظام میرے سپرد کیا.اور مجھے کہا کہ جس قدر زمین بکے اس کی قیمت کا پانچ فیصدی آپ کو ملے گا میں نے کوشش کی پیغام صلح اور دوسرے اخبارات میں اشتہار دیا خط و کتابت کے ذریعہ بھی کوشش کرتا رہا.چنانچہ مولانا عبدالمجید سالک ، غلام رسول مہر ، مولوی عبدالحق ودیارتھی وغیرہ کچھ لوگوں نے میری وساطت سے زمین خریدی اس کے عوض شاہ صاحب نے مجھے دو کنال زمین مسلم ٹاؤن میں دیدی.اب مسلم ٹاؤن میں مکان کوئی نہ بناتا تھا کیونکہ غیر آباد جگہ تھی.ہر ایک شخص گھبرا تا تھا کہ وہاں جا کر کس طرح رہیں گے.شاہ صاحب نے تجویز کی کہ جن اشخاص نے مسلم ٹاؤن میں زمین خریدی ہوئی ہے ان میں سے جو شخص پہلے مکان بنانا چاہے وہ جو ٹکڑا پسند کرے لے لے میں نے ارادہ ظاہر کیا کہ میں مکان بناؤں گا.اور میں نے اپنی زمین کے عوض نہر کے کنارے دو کنال زمین لے لی مگر میرے پاس روپیہ کہاں تھا کہ مکان بناتا اس لئے شاہ صاحب کے ایماء سے جن لوگوں نے مسلم ٹاؤن میں زمین خریدی ہوئی تھی ان کی ایک کمیٹی بنائی گئی کہ وہ کچھ رقم ماہوار ادا کیا کریں اور قرعہ اندازی سے جس کے نام کی کمیٹی نکلے.وہ روپیہ لے کر مکان بنائے اور مجھے اس کمیٹی کا سیکرٹری مقرر کیا گیا.اتفاق سے پہلی کمیٹی سید غلام مصطفیٰ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر مسلم ہائی سکول کی اور دوسری میری نکلی.مجھے ڈیڑھ ہزار روپیہ ملا.جس سے مکان کی تعمیر شروع کی ۱۹۲۶ء میں تعمیر شروع کی اور ۱۹۲۷ء میں مکان خدا کے فضل سے رہائش کے قابل بن گیا.ان دنوں میں احمد یہ بلڈنگس میں رہتا تھا.مکان مکمل ہونے پر میں نے ارادہ کیا کہ اپنے مکان احمد یہ بستی میں چلا جاؤں.احمد یہ بلڈنگس کے سب دوستوں نے مخالفت کی خاص کر مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ وہاں نہ جاؤ.اکیلے وہاں کیسے رہو گے.اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو میں دفتر میں کام کرتا تھا.دوم مسجد میں پانچ وقت نماز پڑھاتا تھا لیکن میں نے ارادہ کر لیا کہ اب اپنا مکان بنایا ہے تو وہیں جا کر رہوں گا چنانچہ میں احمد یہ بلڈنگکس سے احمد یہ بستی آ گیا.سب لوگ کہتے تھے کہ تم نے ایک ماہ بھی وہاں نہیں ٹھہر نا احمد یہ بلڈنگس میں واپس آجاؤ گے.وہاں دن کے وقت لوگ لو ٹ لیں گے مگر مجھ پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور مجھے یہاں کوئی تکلیف نہیں ہوئی میں دن کو دفتر کام کرنے احمد یہ بلڈنگکس چلا جاتا.گھر کے لوگ احمد یہ بستی میں رہتے شام کے قریب میں گھر آتا.پہلے ایک سال تو میں سائیکل پر آتا جاتا رہا.اس سے پہلے میں نے کبھی سائیکل نہ چلایا تھا بمشکل ایک سال سائیکل پر گزارہ کیا کئی دفعہ ٹکر ہوتے

Page 53

31 ہوتے بچ گئی.آخر سائیکل کی سواری چھوڑ دی.کچھ عرصہ تو کبھی اچھرہ کے اڈے پر جا کر جواحد یہ بستی سے تقریباً ڈیڑھ میل دور ہے تانگہ پر سوار ہوتا کبھی لا ہو تک سارا راستہ جو تقریبا ساڑھے پانچ میل ہے پیدل آنا جانا پڑتا اس طرح چند ماہ گزارے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے تانگہ کا انتظام کر دیا اور کئی سال دفتر اپنے تانگہ پر آتا جاتا رہا.میرے یہاں آجانے کے دو سال بعد ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کو خیال آیا کہ جب یہ شخص اکیلا احمدی بستی میں رہ سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں رہ سکتے.چنانچہ وہ بھی اسی جگہ آگئے اور اب آہستہ آہستہ یہاں کی آبادی بڑھنے لگی.چونکہ احمدی بہت کم آباد ہوتے تھے اور زیادہ حصہ غیر احمدیوں کا تھا.اس جگہ کا نام احمد یہ بستی ان کو پسند نہ آیا.آخر کئی ایک تجویزوں کے بعد اس کا نام مسلم ٹاؤن قرار پایا اور اب یہی مشہور ہو گیا.جب میں احمد یہ بلڈنگس میں تھا تو وہاں انجمن کے ملازمین کی ایک کو آپریٹو کریڈٹ سوسائٹی میں نے قائم کی جس کا میں سیکرٹری تھا.جب میں مسلم ٹاؤن آ گیا تو اس سوسائٹی کا سیکرٹری چوہدری فضل حق صاحب کو مقرر کر دیا.اور مسلم ٹاؤن میں میں نے ایک اور کو آپریٹو کریڈٹ سوسائٹی جاری کی اور اس کا بھی میں سیکرٹری ہوا.یہ سوسائٹی ۱۹۳۷ء میں قائم ہوئی جواب تک یعنی ۱۹۵۷ء تک قائم ہے.اس کے علاوہ ایک اور اصلاح تمدن کے نام سے کو آپریٹو سوسائٹی قائم کی جس کی غرض مسلم ٹاؤن کے باشندوں کی سود، بہبود اور ان کی تمدنی تعلیمی وغیرہ اغراض کا اجراء اور تکمیل وغیرہ ہے.یہ سوسائٹی بھی اب تک قائم ہے گوفنڈ ز کے کافی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کما حقہ اپنے فرئض ادا نہیں کر رہی.انجمن لاہور کی خدمات اور انجمن و مولوی محمد علی صاحب کی عنایات:.مندرجہ صدر تحریر کا آخری حصہ میں نے انجمن اشاعت اسلام کی ملازمت سے ریٹائر ہونے پر مکمل کیا ہے.اس کے بعد میں نے کوشش کی کہ جماعت لاہور کے ساتھ جتنا عرصہ میں رہا اس کے حالات بھی مختصر طور پر میں قلمبند کروں.اس کے لئے میں نے سیکرٹری احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے اپنی سروس بک کی نقل مانگی مگر انہوں نے غالباً مندرجہ صدر تحریر سے مراد حالات کا وہ حصہ ہے جو شروع سے تا عنوان ” خلافت ثانیہ میں لاہور چلے جانا خاکسار نے درج کیا ہے.اس عنوان کے معابعد مندرجہ متن بالا والا مضمون تھا جسے میں نے ترتیب میں اپنی جگہ سے تبدیل کر دیا ہے(مولف)

Page 54

32 مولانا محمد علی صاحب سے دریافت کیا جنہوں نے منع کر دیا اس لئے مجھے سروس بک کی نقل نہ مل سکی.میں جب قادیان سے آیا تھا تو میری وہاں کی سروس کی پوری نقل حضرت مولوی شیر علی صاحب کے دستخطوں کے ساتھ مجھے دی گئی جو اب تک میرے پاس موجود ہے.اور اسی کی مدد سے میں نے قادیان کی رہائش کے حالات بقید تاریخ لکھے ہیں.اس کے بعد میں نے کئی دفعہ اپنی سروس بک کی نقل کے لئے سیکرٹری صاحب انجمن احمد یہ اشاعت اسلام لاہور کو لکھا مگر کوئی جواب نہ آیا.جب مولوی عبداللہ جان صاحب انجمن کے سیکرٹری مقرر ہوئے تو پھر ایک دو دفعہ اس امید پر کہ اب نقل آجائیگی میں نے اپنی سروس بک کی نقل کا مطالبہ کیا جب میں قادیان تھا تو حضرت مولانا غلام حسن خاں صاحب نے اپنے تین لڑکوں عبدالعزیز ، عبد اللہ جان اور عبدالحمید کو پڑھنے کے لئے قادیان بھیجا تھا اور یہ تینوں کچھ عرصہ میرے پاس ہی رہے اس طرح ان سے میرے بہت پرانے تعلقات تھے.حضرت مولانا مجھے بچوں کی طرح سمجھتے تھے.اور آخر عمر تک ان کا میرے ساتھ ایسا ہی سلوک رہا.چنانچہ حضرت میرزا بشیر احمد صاحب کی زبانی ایک دفعہ مجھے معلوم ہوا کہ اپنی مرض الموت کے ایام میں میاں صاحب کو مولانا صاحب نے فرمایا تھا کہ فقیر اللہ کا خیال رکھنا ان دنوں میرا احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے تعلق تھا.لیکن مولوی عبد اللہ جان صاحب کو لکھنے کے باوجود بھی سروس بک کی نقل نہ آئی مگر میں بھی نقل مانگتا رہا.آخر جب مولوی عبد اللہ جان صاحب دوبارہ انجمن کی ملازمت میں مولانا صدر الدین صاحب کے پرسنل اسٹنٹ بن کر آئے تو میں نے پھر ان کو لکھا اور غالباً ان کی کوشش سے مجھے ۶ جون ۱۹۵۹ء کو دفتر سیکرٹری احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے سروس بک کی مختصر سی نقل ملی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یکم اکتو بر ۱۹۱۴ء کو میری ملازمت انجمن میں شروع ہوئی.اور یکم نومبر ۱۹۴۳ء کو ختم ہوئی یعنی ۲۹ سال میں نے انجمن کے ماتحت کام کیا.لاہور میں آجانے کے بعد صرف میں اکیلا انجمن کا سارا کام کرتا تھا.یہاں میں نے انجمن کے سب عہدوں پر کام کیا میجر اخبار.مینجر مطبع.پریس کیپر.سیکرٹری.محاسب - خزانچی.آڈیٹر مہتم تصنیفات گویا انجمن کے ہر ایک چھوٹے سے بڑے عہدے تک خود کام کیا اور دوسرے محرروں کو کام سکھایا.احمد یہ بلڈنگس کی مسجد کا امام بھی میں ہی تھا.پانچوں وقت نماز پڑھاتا.جب میں مسلم ٹاؤن گیا تو یہاں بھی مسجد کا امام مجھے مقرر کیا گیا.گویا احمد یہ بلڈنگس میں اور مسلم ٹاؤن میں بھی میرا سارا وقت مصروفیت کا گذرا.شروع شروع میں مولوی محمد علی نقل سروس بک سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سپر نٹنڈنٹ دفاتر قریباً چھ سال تک مقر ر ر ہے بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 55

33 صاحب کے ساتھ میرے تعلقات بڑے اچھے رہے میں ان کا معتمد خاص تھا اور مجھے بھی ان سے بڑی عقیدت تھی.انجمن کے قواعد وضوابط میں جتنے اختیارات پریذیڈنٹ کے ہیں یہ سارے میرے تجویز کردہ ہیں اور میری ہی رپورٹوں پر انجمن نے منظور کئے ہیں.مگر کچھ عرصہ بعد مولوی صاحب مجھ سے کچھ ناراض ہو گئے.اس کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ مولوی صاحب کی اردو مترجم حمائل چھپ رہی تھی.پریس والے وقت پر کام نہ کرتے تھے.با وجود بار بار تاکید کے پروف وقت پر نہ دیتے.مولوی صاحب پہاڑ پر گئے ہوئے تھے.وہاں سے انہوں نے مجھے خط لکھا کہ تم کام نہیں کرتے.تمہاری سستی کی وجہ سے جمائل جلدی نہیں چھپتی.میں نے جواب لکھا کہ میں جس قدر کام کر سکتا ہوں آپ کے ارشاد کے بغیر ہی کرتا ہوں مگر مطبع والے وقت پر کام نہیں کرتے.اس میں میراقصور نہیں.اور آپ کا مجھے ملامت کرنا بے معنی ہے.میں جتنا کام کر سکتا ہوں کر رہا ہوں آپ کی ملامت سے زیادہ کام نہیں بقیہ حاشیہ پھر مہتم تصنیفات اور ایک سال بعد ساتھ ہی مینجر اخبارات اور ایک سال بعد مہتمم کے علاوہ اسسٹنٹ محاسب.تین سال بعد صرف مہتم.آٹھ ماہ بعد جائنٹ سیکرٹری.پھر آڈیٹر.پھر اسٹنٹ محاسب پھر سپرنٹنڈنٹ دفاتر پھر ساتھ ہی آنریری آڈیٹر.پھر صرف پریذیڈنٹ دفاتر.پھر محر ر اول دفتر محاسب پھر قائم مقام نائب محاسب.پھر ساتھ ہی سپرنٹنڈنٹ دفاتر.پھر صرف نائب محاسب پھر ساتھ ہی سپر نٹنڈنٹ دفاتر پھر آڈیٹر محصل.پھر آڈیٹر انچارج دفتر تحصیل مقرر ہوئے.اور ابتداء میں نہیں روپے الاؤنس تھا اور بالآخر آپ ایک سو پنتالیس روپے مشاہرہ پانے لگے.ریٹائر ہونے کے بعد دوبارہ آپ کو سٹاک کی پڑتال کا کام دیا گیا.اور پھر سٹاک کیپر اور امین اور پھر صرف سٹاک کیپر کے طور پر کام دیا گیا.اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں ماسٹر صاحب کو ایک دفعہ حسن خدمات کے باعث بطور انعام ایک ماہ کی تنخواہ زائد دی گئی.وہاں بحکم مولوی محمد علی صاحب ایک دفعہ آپ کی تنخواہ میں پانچ روپے کی کمی کی گئی.اور ایک بار ۱۹۲۶ء میں یہ لکھا گیا:.دو مہتمم تصنیفات کی سروس بک میں نوٹ کیا جائے.کہ ان کا رویہ بہت قابل افسوس ہے اور وہ نظام دفتر کو خراب کر رہے ہیں.اس نوٹ کی نقل ان کی ترقی کے سوال کے وقت پیش کی جائے مولوی محمد علی صاحب کے اس نوٹ سے ماسٹر صاحب کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ قرآن مجید کی طباعت کے تعلق میں مولوی صاحب ناراض ہو گئے تھے.ہوسکتا.جتنا میری طاقت میں ہے وہ تو میں کر ہی رہا ہوں.اس پر مولوی صاحب نے مجھے لکھا کہ آئندہ میں حمائل

Page 56

34 کے متعلق تمہیں کوئی بات نہ لکھوں گا.یہ مولوی صاحب کی ناراضگی کی ابتداء ہے.اس کے بعد ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے ناراضگی بڑھتی گئی.بہائی مذہب کے لوگوں سے میری دیر کی واقفیت ہے.پروفیسر پریتم سنگھ ، حشمت اللہ ، اسفندیار، محفوظ الحق علمی ، مولوی عبداللہ کشمیری وغیرہ سب لوگ مجھے جانتے ہیں اور میں ان کو جانتا ہوں.میں نے بہائی مذہب کی موافق و مخالف بہت سی کتابیں اردو.فارسی.عربی.اور انگریزی کی پڑھی ہیں.اور کبھی کبھی ان کی محفلوں میں بھی جاتارہا ہوں.پروفیسر مذکور کی معرفت ان کی لاہور کی لائبریری سے یہ ساری کتابیں لے کر میں نے پڑھی ہیں اور کچھ خریدی بھی ہیں.ان کے مؤقت الشیوع رسالے بھی باقاعدہ پڑھتا رہا ہوں.اس سے بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ میں بہائی ہوں جس کا میں ہمیشہ انکار کرتا رہا ہوں لیکن چونکہ بہائی لوگ عموما اپنے عقائد پوشیدہ رکھتے ہیں ان کا عقیدہ ہے اَسْتَرُ ذَهَبَكَ وَ ذَهَابَكَ وَمَذْهَبَكَ.یعنی اپنی دولت، اپنے مقام اور اپنے مذہب کو پوشیدہ رکھو اس پر وہ عمل کرتے ہیں.اس لئے انہوں نے خیال کیا کہ میں بھی شاید اسی عقیدے کے ماتحت غلط بیانی کرتا ہوں.ایک دفعہ میں نے ایک خط محفوظ الحق علمی کو دہلی لکھا تھا.مولوی عبداللہ کشمیری کا چھوٹا لڑکا وہ خط بہائیوں کے دہلی کے دفتر سے چرا کر لاہور لے آیا اور مولوی محمد علی صاحب کو دیا.انہوں نے وہ خط مجھے دکھا کر کہا کہ آپ نے لکھا ہے.میں نے کہا ہاں کہنے لگے کہ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ تم بہائی ہو.میں نے کہا کہ یہ نتیجہ غلط ہے میرا ہرگز وہ منشاء نہیں جو آپ نکالتے ہیں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں تقریبا بارہ سال گزارے ہیں.میں ان کو کبھی بھی جھوٹا نہیں مان سکتا.اور بہائیت کو سچا ماننے سے لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نعوذ باللہ جھوٹے تھے.مولوی محمد علی صاحب کو میری باتوں سے تسلی نہ ہوئی اور وہ سخت ناراض ہوئے.وہی باتیں میں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے کیں تو آپ مجھ سے ناراض نہیں ہوئے.میرا تجربہ ہے کہ ایک شخص مولوی محمد علی صاحب سے دور رہ کر تو ان کے علم اور احمدیت و اسلام کے متعلق ان کی تحریرات کی وجہ سے ان کے ساتھ بہت محبت اور عقیدت رکھ سکتا ہے مگر ان کے قریب آکر اس کی یہ حالت قائم نہیں رہتی.اس کی ایک بڑی مثال خان بہادر میاں محمد صادق صاحب ریٹائر ڈ ڈی ایس.پی ہیں.ان کو مولوی صاحب سے بے حد عقیدت تھی مولوی صاحب کے ہر ایک حکم کا مانا اپنی سعادت سمجھتے تھے.یہ احمدیہ

Page 57

35 انجمن اشاعت اسلام لاہور کی انتظامیہ کمیٹی ممبر بھی تھے.میں نے بار ہادیکھا کہ اگر کسی معاملہ میں انجمن کے باقی سارے ممبر مولوی صاحب کی رائے کے خلاف ہوتے تو یہ ہمیشہ مولوی صاحب کی تائید میں ہوتے.مولوی صاحب جب لاہور سے ڈلہوزی جاتے تو مولوی صاحب کا سارا سامان لاہور سے پٹھان کوٹ پہنچانا اور کبھی ڈلہوزی تک پہنچانا میاں صاحب کے ذمہ ہوتا.مولوی صاحب کو بھی ان پر بڑا اعتماد تھا.جب یہ انجمن کے سیکرٹری مقرر ہوئے اور مولوی صاحب پریزیڈنٹ تھے تو ان کی سابقہ عقیدت قائم نہ رہی.ایسی کئی مثالیں مولوی صاحب کے اپنے رشتہ داروں کی ہیں.اپنے سیکرٹری شپ کے زمانہ میں ہی میاں صاحب کو اس قدر را بتلا ء آیا کہ ان کو انجمن سے قطع تعلق کرنا پڑا اور یہ غیر احمدیوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے لگے.میں نے ان کو منع کیا کہ آپ غیر احمدیوں کے پیچھے نمازیں نہ پڑھا کریں.اگر لاہوری جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے تو قادیانی جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کریں.وہ آخر حضرت مسیح موعود کو ماننے والے ہیں ان سے تعلق پیدا کر لیں.یہ مجھے ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ اگر تم ادھر تعلق پیدا کر لو تو میں بھی کرتا ہوں ورنہ نہیں.میں ہمیشہ ان کو کہتا کہ میں نے تو آخر احمدی جماعت سے تعلق رکھا ہوا ہے.احمدیوں کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں.آپ تو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں یہ ٹھیک نہیں مگر ان کا ہمیشہ مجھے یہی جواب ہوتا.جس پر میں خاموش ہو جاتا.خلافت ثانیہ کی بیعت :.جیسا کہ اوپر مذکور ہوا.میاں محمد صادق صاحب کو انجمن اشاعت اسلام لاہور کی سیکرٹری شپ کے زمانہ میں ہی مولوی محمد علی صاحب کی وجہ سے اس قدرا ابتلاء آیا کہ ان کو انجمن سے قطع تعلق کرنا پڑا اور یہ غیر احمدیوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے لگے.میں نے ان کو منع کیا کہ آپ غیر احمد یوں کے پیچھے نمازیں نہ پڑھا کریں.اگر لاہوری جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے تو قادیانی جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کریں وہ آخر حضرت مسیح موعود کو ماننے والے ہیں ان سے تعلق پیدا کریں.یہ مجھے ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ اگر تم ادھر تعلق پیدا کر لوتو میں بھی کرتا ہوں ورنہ نہیں.میں ہمیشہ ان کو کہتا کہ میں نے تو آخر احمدی جماعت سے تعلق رکھا ہوا ہے.احمدیوں کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں.آپ تو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں یہ ٹھیک نہیں.مگر ان کا مجھے ہمیشہ یہی ہوتا جس پر میں خاموش ہو جاتا.ام طاہر کی علالت و وفات آپ کے لئے باعث برکات :.حضرت ام طاہر نے جس بیماری سے وفات پائی اس کے علاج کے سلسلہ میں آپ کو لاہور لایا گیا تو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب بھی ان

Page 58

36 ہم اظہار افسوس کے کے ساتھ ان کے علاج کے لئے لاہور آئے اور کافی عرصہ تک ( جب تک ان کا علاج ہوتا رہا) لاہور محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی کوٹھی پر ٹھہرے رہے ان ایام میں کئی دفعہ میں اور میاں محمد صادق صاحب سیدہ ام طاہر صاحبہ کی بیمار پرسی کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں آتے رہے کبھی ہم دونوں اکٹھے آتے اور کبھی علیحدہ علیحدہ.آپ خوشی خلقی اور خندہ پیشانی سے ہم سے ملتے.اور بڑی بڑی دیر تک ہم سے باتیں کرتے رہتے.جس کا ہم پر بڑا اچھا اثر ہوا...سیدہ ام طاہر وفات پاگئیں تو لئے شیخ صاحب کی کوٹھی پر آئے لیکن حضرت صاحب ہمارے پہنچنے سے پہلے جنازہ لے کر قادیان روانہ ہو چکے تھے.یہ اتوار ۵ مارچ ۱۹۴۴ء کا واقعہ ہے.اس کے دو تین دن بعد میں نے اور میاں محمد صادق صاحب نے ارادہ کیا کہ ہم قادیان جا کر اظہار افسوس کریں.چنانچہ بدھ کے دن ہم دونوں قادیان گئے.جمعرات کی صبح حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اظہار افسوس کیا.حضرت میاں بشیر احمد صاحب سے بھی ملے.پھر جمعہ کی صبح کو حضرت میاں بشیر احمد صاحب سے ملے.ہم ڈاکٹر احسان علی صاحب کے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے.جمعہ کی صبح باتوں باتوں میں میں نے میاں محمد صادق صاحب سے کہا کہ اب آپ اتفاق سے قادیان آئے ہوئے ہیں.بیعت کر لو تا کہ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی ضرورت نہ رہے.اب بھی میاں صاحب نے یہی جواب دیا کہ تم بیعت کر لوتو میں بھی کرلوں گا.آخر بڑی رڈ وکر کے بعد میں نے کہا کہ اچھا چلو میں بھی بیعت کر لیتا ہوں.اسی وقت فیصلہ ہوا کہ آج جمعہ کی نماز کے بعد بیعت کر لیں.چنانچہ اسی وقت ایک رقعہ حضرت صاحب کی خدمت میں اور ایک حضرت میاں بشیر احمد صاحب کو لکھا گیا.حضرت میاں بشیر احمد صاحب کو پہلے تو باور نہیں آیا.کیونکہ یہ رقعے ڈاکٹر احسان علی صاحب کی طرف سے تھے.وہ کہنے لگے کہ دونوں آج صبح مجھے مل کر گئے ہیں بیعت کا کوئی ذکر نہیں کیا.ایسا ہی حضرت صاحب نے بھی تعجب کا اظہار کیا.خیر جمعہ کی نماز کے بعد ہم دونوں نے مسجد اقصے میں حضرت صاحب کی بیعت کی.بیعت کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا کہ مجھے آپ کی بیعت سے بہت خوشی ہوئی.کیونکہ آپ میرے استاد ہیں اور میری ہمیشہ خواہش رہتی تھی کہ آپ بیعت کر لیں.اور میاں محمد صادق صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے میری بڑی مخالفت کی ہے مگر میں نے کبھی آپ کے لئے بدعا نہیں کی.بلکہ ہمیشہ دعا کرتا رہا ہوں.اسطرح ۱۰مارچ ۱۹۴۴ءکو جمعہ کے دن میں حضرت صاحب کی بیعت سے مشرف ہوا.جدید

Page 59

37 خدمات بعد بیعت خلافت : اگست ۱۹۴۷ء میں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے آپ کے سپرد دفتر وکیل المال تحریک جدید میں مشن ہائے بیرون ہند کے بجٹ تیار کرنے کا کام سپرد کیا.زیر عنوان دو معزز غیر مبائع اصحاب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی بیعت میں الفضل میں مرقوم ہے :.قادیان ۱۰امان.آج بعد نماز جمعہ مجد افضی میں مکرم جناب ماسٹر فقیر اللہ صاحب اور مکرم جناب خان بہادر میاں محمد صادق صاحب سید نا حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک پر شرف بیعت خلافت حاصل کر کے شامل جماعت احمد یہ ہوئے.یہ خبر جماعت احمدیہ کے لئے نہایت خوشی اور مسرت کا موجب ہے ہر دو اصحاب فریق لاہور کے بہت بڑے اور ذمہ دار ارکان تھے.ہدایت محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے کافی عرصہ تک تحقیق کرنے کے بعد انہوں نے بیعت کی ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں احباب اور ان کے خاندانوں کے لئے یہ کار خیر مبارک اور دائمی سعادت کا موجب بنائے“ (10) محترم سید امجد علی شاہ صاحب سیالکوٹی کے مضمون مندرجہ ماہنامہ فرقان بابت ستمبر اکتوبر ۱۹۴۴ء (صفحه ۳ پر ) آپ کا ذکر آتا ہے ماسٹر صاحب کا اپنا مضمون ”مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کے بعض اندرونی اختلافات ( بابت جولائی ۱۹۴۴ء) اور مضمون ” میں مولوی محمد علی صاحب سے کیوں علیحدہ ہوا“.(الفضل مورخہ ۴/۴/۴۴) اور میاں محمد صادق صاحب کا مضمون ”مولوی محمد علی صاحب کا پاکیزہ دودھ ( " بابت اگست ۱۹۴۴ء) قابل مطالعہ ہیں.ماسٹر صاحب الفضل والے مضمون میں لکھتے ہیں کہ سیکرٹری انجمن لاہور نے ”پیغام صلح میں میرے متعلق لکھا ہے کہ میں بہائی ہونے لگا تھا.پھر کسی مصلحت سے جماعت قادیان میں شامل ہو گیا..نیز ماسٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میرے قادیان چھوڑنے کی وجہ اختلاف عقائد یا ایسی کوئی اور بات نہ تھی.اختلاف عقائد کی باریکیوں کا پہلے کسی کوعلم نہ تھا میں حضرت مولانا غلام حسن صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے عقیدت کے باعث لاہور چلا آیا تھا.لیکن مجھے اس امر سے بہت ٹھیس لگی کہ ترجمہ قرآن مجید انگریزی جس کی خاطر صدرانجمن احمدیہ نے مولوی محمد علی صاحب کو بھی فارغ کیا تھا.اور پھر پہاڑ پر بھی اس کے خرچ پر جاتے رہے اس ترجمہ کا مسودہ اور کتب تفاسیر وغیرہ لاہور لے آئے اور ان سب کو اپنی ملکیت بنالیا.مولوی صاحب کے قریب ہونے کا جس کو بھی موقع ملا وہ ان سے متنفر ہوا.پیر پرستی وغیرہ الفاظ سے جماعت مبائعین کو اس لئے مطعون کرتے ہیں کہ خود ان کے ساتھی اس سے ویسی عقیدت نہیں بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر پھر تقسیم ملک کے باعث آپ آخر ستمبر میں قادیان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے.یکم اکتوبر ۱۹۴۷ء سے

Page 60

38 ۳۱ جنوری ۱۹۴۹ ء تک آپ نے تحریک جدید میں کام کیا.بعد ازاں آپ نے چند ماہ محاسب صدر انجمن احمدیہ کا کام کیا.بقیہ حاشیہ:.رکھتے جتنے سر بر آوردہ ممبران کی انجمن کے ہیں ان کا یہی حال ہے اور مولوی صاحب ہر ایک کے متعلق انجمن میں شکایت کر چکے ہیں اور بعض اوقات ناراض ہو کر استعفیٰ بھی دیدیتے ہیں.حضرت مولانا غلام حسن صاحب نے ایک دو دفعہ مولوی صاحب کے رویہ پر اعتراض کیا تو ان کو مہری سے خارج کرنے کے لئے متعدد دفعہ تحریک کی.ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر نے ماسٹر صاحب پر پیغامیوں کے اعتراض کا کہ بہائی ہو گئے ہیں الفضل مورخہ ۴/۷/۴۴ میں شافی جواب دیا ہے.آپ کی بیعت خلافت پر رسالہ ریویو آف ریلیجنز نے لکھا کہ:.احباب جماعت خصوصاً وہ دوست جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اول کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں یہ سن کر خوش ہونگے کہ پچھلے جمعہ مورخہ 1 مارچ ۴۴ء میں مکرم ماسٹر فقیر اللہ صاحب اور خان بہادرمیاں محمد صادق صاحب پنشنر غیر مبائعین نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے دست مبارک پر بعد نماز جمعہ بیعت خلافت کی.ماسٹر فقیر اللہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے آدمی ہیں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے پرانے استاد ہیں اور حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کے استاد ہونے کا بھی فخر رکھتے ہیں.بعض اوقات ریویو آف ریلیجنز کی مینیجری کے فرائض بھی ادا کیا کرتے تھے.مولوی محمد علی صاحب پریذیڈنٹ انجمن اشاعت اسلام لاہور جب قادیان سے چلے گئے تو ماسٹر صاحب موصوف بھی ان کے ساتھ ہی یہاں سے لاہور چلے گئے.آپ غیر مبائعین کے چوٹی کے آدمیوں میں سے تھے اور اپنے خیالات پر سختی سے قائم تھے.مگر آخر میں سال غیر مبائعین میں زندگی گزارنے کے بعد اور ان کے اندرونی اور بیرونی حالات کا مطالعہ کرنے کے بعد پھر قادیان کی طرف رجوع کیا جو خدا کے رسول کی تخت گاہ اور مدینہ اسیح ہے ہمیں ماسٹر صاحب مکرم کے واپس آنے کی بہت خوشی ہے اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بقیہ ایام زندگی حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ کی صحبت میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین (11) ماسٹر صاحب فرماتے ہیں کہ بیعت کے بعد جب میں پہلی دفعہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سے ملا ہوں تو فرمانے لگے کہ مجھے آپ کی بیعت سے مشرف ہونے پر بڑی خوشی ہوئی ہے میری ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ آپ یہاں آجائیں.سوالحمد للہ کہ آپ آگئے (12) یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا کہ ماسٹر صاحب کو بیعت خلافت کی توفیق عطا ہوئی.دراصل آپ کو حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے عناد نہیں تھا جیسا کہ بہت سے دوسروں کو تھا.جو قلوب صافیہ رکھتے تھے.بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر.پھر مئی میں حضور نے فرمایا کہ چونکہ یہ پہلا سال ہے اور ربوہ میں ابھی خاطر خواہ انتظام نہیں ہوا.اور آپ کی عمر زیادہ

Page 61

39 ہے اس لئے آپ تین ماہ یعنی یکم اگست تک لاہور میں بیرونی جماعتوں کا ریکارڈ اکٹھا کرنے کا کام کریں.اس وقت تک ربوہ کے حالات بھی درست ہو جائیں گے.بعد ازاں بذریعہ فیصلہ نمبر ۳۲۷ غـم مورخہ ۱۳/۱۲/۵۰ انجمن تحریک جدید نے حضور کے ارشاد پر آپ کو افسرامانت تحریک جدید مقررفرمایا اور بوجہ آپ کی کبرسنی کے آپ کا ایک نائب بھی مقرر کیا.آپ اس وقت تک اسی عہدہ پر خدمت سلسلہ بجالا ر ہے ہیں متـعـنـا الله بطول حياته.امین.آپ بفضلہ تعالیٰ موصی ہیں اور تحریک جدید دور ثانی کے مجاہدین میں شامل ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کا انجام بخیر کرے.آمین.سلسلہ کے لٹریچر میں ذکر :.آپ کا ذکر سلسلہ کے لٹریچر میں متعدد مقامات پر آتا ہے.مثلاً (۱) پیشگوئی کے گواہ.۲۸ فروری ۱۹۰۷ء والی سخت زلزلہ کی پیشگوئی قبل از وقت سننے والوں میں آپ کا نام مرقوم ہے.حاشیہ صفحہ سابق : اللہ تعالیٰ ان کو اس طرف لے آیا.ماسٹر صاحب کے دل کی صفائی کا علم ان دوشہادتوں سے ہوتا ہے ایک رؤیا کی بناء پر حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ایدہ اللہ نے حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے انجمن انصار اللہ بنائی.اس کا اعلان ہوتے ہی اعتراضات کی بوچھاڑ ہونے لگی کہ اس کا قیام بغرض حصول خلافت ہے.حضور تحریر فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس انجمن کے ممبروں میں سے ایک خاصی تعداد اس وقت ان لوگوں کے ساتھ ہے اور وہ لوگ گواہی دے سکتے ہیں کہ اس انجمن کا کوئی تعلق تغیرات خلافت کے متعلق نہ تھا.بلکہ یہ انجمن صرف تبلیغ کا کام کرتی تھی.اور ان میں سے بعض نے یعنی انکے واعظ محمد حسین عرف مرہم عیسی اور ماسٹر فقیر اللہ سپر نٹنڈنٹ دفتر سیکرٹری اشاعت لاہور نے یہ شہادت دی بھی ہے “(13) ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے بھی شہادت لکھ کر دی ہے کہ میں اس انجم کا ممبر تھا.اس میں اس قسم کی سازش پر کبھی کوئی گفتگو میرے سامنے نہیں ہوئی (14) ج تمتہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۵۷ و بدر بابت ۷/۳/۰۷ صفحہ ان گواہوں سے دستخط کروائے گئے تھے.مقدم الذکر میں آپ کے دستخط ' خاکسار فقیر اللہ نائب ناظم میگزین کے طور پر درج ہیں.گذشتہ صفحات میں ذکر آیا ہے کہ آپ کو نائب ناظم میگزین یکم جون ۱۹۰۷ء کو مقرر کیا گیا تھا.معلوم ہوا کہ حقیقۃ الوحی کی تصنیف کے دوران میں کسی وقت جون یا اس کے بعد ان گواہوں کی گواہی حاصل کی گئی.(۲) جلسه سالانہ ۱۹۱۰ء کے کوائف میں لکھا ہے:.

Page 62

40 ایسا ہی منشی برکت علی صاحب.....ماسٹر فیر اللہ صاحب و شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی نے بھی شب وروز محنت اور جانفشانی سے مہمانوں کی آسائش کے لئے ہر طرح سے کوشش کی.جی (۳) مسجد کا سنگ بنیا درکھنا.محلہ دار الصدر جنوبی ربوہ کا سنگ بنیا دس دسمبر ۱۹۵۷ء کر رکھا گیا.اس بارہ میں مرقوم ہے:.سب سے پہلے حضرت مح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بزرگ صحابی محترم حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے بنیاد میں وہ اینٹ رکھی جس پر سید نا حضرت اقدس خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا فرمائی تھی.(بعد میں چار اینٹیں دیگر احباب نے رکھیں جس کے بعد ).محترم جناب ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے اجتماعی دعا کرائی“.(15) آپ کی علالت کا ذکر (الفضل ۹/۵۷/ صفحه ۲) (۴) سفر بٹالہ - حضرت مسیح موعود علیہ السلام ے نومبر ۱۹۰۲ء کو بروز جمعہ عدالتی کام کی خاطر سات بجے صبح بٹالہ کے لئے روانہ ہوئے.حضور نے چند احباب کو اپنے ساتھ چلنے کی اجازت عنایت کی.احباب تین سیکوں میں سوار ہوئے اور بعض سیکوں میں عدم گنجائش کی وجہ سے باجازت پیدل روانہ ہوئے.حضور کے اس سفر کے رفقاء میں ماسٹر فقیر اللہ صاحب بھی تھے.یہ ہیں ید ریویو آف ریلیجنز بابت جنوری ۱۹۱۱ء (صفحہ ۴۳) علاوہ ازیں الحکم بابت ۲۴/۲/۰۵ ، ۳۱/۳/۰۵ ( صفحه ۱۲ ک۳) میں علی الترتیب آپ کا چندہ ڈیڑھ آنہ اور عید فنڈ 9 پائی درج ہے.آپ سالہا سال سے اجلاسات مشاورت میں تلاوت کرتے ہیں (مثلاً رپورٹ مشاورت ۱۹۴۵ء صفحہ ۶ ۱۹۴۴ء کی مشاورت میں آپ بطور نمائندہ شامل ہوئے (رپورٹ صفحہ ۱۹۰ ) جماعت احمد یہ لاہور کے سالانہ اجلاس میں تلاوت کی (الفضل ۳۰/۳/۴۸ صفحه ۲) مشاورت ہائے ۱۹۵۰ء، ۱۹۵۸ء اور ۱۹۵۹ء میں تلاوت کرنے کا ذکر ( علی الترتیب الرحمت بابت ۱۷/۴/۵۰ صفحه ۴ اک ۳۰۲) الفضل ۲/۵/۵۸ صفحہ ۳ ک۱) اور ۱۹/۴/۵۹ صفحہ اک ۱) ایک اشتہار میں آپ کا ذکر (الفضل ۱۴/۲/۵۹ صفحہ اک ۴۳) مشاورت میں مجلس انتخاب خلافت کے متعلق آپ کی ایک اہم تجویز جو کچھ ترمیم کے ساتھ منظور ہوئی.الفضل ۲/۵/۵۸ صفحه ۳ ک۳) ** البدر بابت ۱۴/۱۱/۰۲ صفحه ۲۳ ک۲، حاشیہ.دیگر رفقاء حضرت میر ناصر نواب صاحب.مولوی شیر علی صاحب مفتی محمد صادق صاحب ، شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی اور مولوی محمد علی صاحب تھے.

Page 63

41 شیخ عبدالرحیم صاحب شرما (از متولف) خاکسار کے تقاضے پر محترم شیخ عبدالرحیم صاحب شرما نے ۱۹۵۷ء میں اپنے قبول اسلام واحمدیت کے حالات قلمبند فرمائے جو آپ کے ہی الفاظ میں ہدیہ قارئین کرام کرتا ہوں تالیف کی خاطر شاذ کے طور پر کسی جگہ خلاصہ یا معمولی تبدیلی کی گئی ہے.خاندانی حالات:.محترم شیخ عبدالرحیم صاحب شر ماتحریرفرماتے ہیں:.خاکسار کا سابق نام کشن لعل تھا.والد صاحب کا نام پنڈت رلیا رام ولد پنڈت مقصدی رام ولد پنڈت گنیش داس ولد بھوانی داس ولد جوالا داس ولد گلزاری رام ساکن قصبہ بنور ریاست پٹیالہ قوم برہمن سارسوت گوت جھائیں.والدہ صاحبہ کا نام جمنا دیوی تھا جو د یوی چند سب انسپکٹر پولیس قوم بر همن گوت بھاردواج ساکن سنور ریاست پٹیالہ کی لڑکی تھیں.ہمارے خاندان کا آبائی پیشہ پر وہتی تھا یعنی ہمارے خاندان کے افرا د نسلاً بعد نسل ہندووں میں بعض اقوام مثلاً درزی.دھوبی.ترکھان چھیے وغیرہ کے کل گرو یعنی پر دہت یعنی پیر سمجھے جاتے تھے.ضلع لدھیانہ، پٹیالہ، انبالہ کی مندرجہ بالا اقوام ہماری مرید تھیں.میرے والد صاحب نے دوکانداری شروع کی.شاہی بنجوتی یعنی ساہوکارہ کرتے تھے.دادا صاحب حسب دستور پر وہتی کرتے تھے.میرے والد صاحب کی خوش خلقی اور حسن معاملکی کی وجہ سے ان کا کاروبار خوب چل نکلا تھا.والد صاحب کی بازار سواہیاں قصبہ بنوڑ میں دکان تھی جو قصبہ بھر میں سب سے بڑی اور مشہور دکان سمجھی جاتی تھی.ولادت تعلیم اور شادی:.میری پیدائش غالبا ۱۸۸۷ء یا ۱۸۸۸ء میں ہوئی.ہمارا خاندان بالعموم ہندی اور سنسکرت کی تعلیم حاصل کرتا تھا.اردو اور انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا رواج ہمارے خاندان میں نہیں تھا.میرے تایا سنہاری رام ٹھیکیدار تعمیرات ریاست پٹیالہ کے زور دینے پر میرے والد صاحب نے سب سے پہلے مجھے مروجہ تعلیم دلوانی شروع کی.ابتدائی تین جماعتیں میں نے اپنے قصبہ کے سکول میں پاس کیس پھرتا یا صاحب کے اصرار پر تعلیم کے لئے والدہ صاحب مجھے پٹیالہ چھوڑ آئیں.چار سال وہاں تعلیم حاصل کرتا رہا.ہمارے خاندان میں بچپن کی شادی کا رواج تھا.چنانچہ طالب علمی کے زمانہ میں ہی میری شادی کر دی گئی.اسی اثناء میں میرے

Page 64

42 والد صاحب بیمار ہو گئے.میں ان کو دیکھنے کے لئے بنوڑ آیا.والد صاحب کا انتقال ہوگیا.پھر میں تعلیم جاری نہ رکھ سکا.ہمارے والدین کے ہاں آٹھ بچے پیدا ہوئے جن میں سے ہم دو بھائی اور ایک بہن زندہ رہے.باقی بچپن ہی میں فوت ہو گئے.بھگت جی :.میرے بڑے بھائی شادی رام مجھ سے قریباً بارہ سال بڑے تھے اور بھگت جی کر کے مشہور تھے.وہ کہا کرتے تھے کہ ان میں بعض دیوی دیوتاؤں کی روح حلول کرتی ہے.چنانچہ ہمارے اعتقادات کے مطابق نیتا دیوی.جوالامکھی دیوی.کالی دیوی لکشمی دیوی اور گوگا پیر جس کا موضع چھپا ریاست مالیر کوٹلہ میں میلہ لگتا ہے.گاہے بگا ہے ان میں حلول کرتے رہتے تھے.اس پر میرے بھائی پر حال کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی.اور وہ جوش میں آکر کھیلنے لگ جاتے تھے ہم ہاتھ باندھ کر دعا ئیں اور التجائیں کرنے لگ جاتے تھے.جب حلول کرنے والی روح میرے بھائی کو چھوڑ جاتی تھی تو وہ چراغ کے سامنے ماتھا ٹیک دیتے تھے.میں بھی بوجہ کٹر سناتن دھرمی ہونے کے ان باتوں پر پختہ اعتقاد رکھتا تھا.اور اکثر نیتا دیوی یاترا کے لئے بھی جایا کرتا تھا.میں نے گھر میں ابرک کا ایک مندر بنارکھا تھا.کچھ زور عقیدت سے اور کبھی ایک آریہ سماجی کو جو ہمارے پڑوس میں رہا کرتا تھا چڑانے کے لئے خوب زور زور سے گھنٹی بجایا کرتا تھا اور پوجا پاٹ کیا کرتا تھا.میرے خیالات کیونکر بدلے:.میرے خیالات کیونکر بدلے! اس کی ایک لمبی تفصیل ہے.مختصراً یہ کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق طاعون کا مرض ملک میں زور سے پھوٹ پڑا.اور ہر طرف موتا موتی لگ گئی اس وقت اس پریشانی اور گھبراہٹ کے عالم میں ہمارے علاقہ میں کسی نے یہ مشہور کر دیا کہ کسی بھگت میں بسنتی دیوی جی نے حلول کر کے یہ آواز کیا ہے کہ لوگوں نے مجھے بھلا دیا ہے اس لئے ملک میں طاعون آیا ہے نجات چاہتے ہو تو میری پوجا کرو.لوگ سہمے ہوئے تو تھے ہی جو نہی دیوی کا یہ فرضی پیغام لوگوں کے کانوں میں پڑا.ہر جگہ بسنتی دیوی کی پوجا ہونے لگی.ہمارے شہر میں میرے بڑے بھائی صاحب مندر چونکہ طاعون موسم بہار میں زیادہ زوروں پر ہو جاتا تھا.جبکہ سرسوں پھولتی ہے اور انہی دنوں بسنت کا تہوار بھی ہوتا ہے.غالباً اسی مناسبت سے طاعون کے دنوں میں یہ دیوی ایجاد ہوئی تھی.ورنہ اس سے قبل اس نام کی کوئی دیوی سننے میں نہیں آئی تھی.وہاں کے ہندووں نے چندہ جمع کر کے ایک اچھا بڑا دیوی کا مندر بھی بنا دیا تھا.اور میرے بڑے بھائی مندر کے پجاری تھے (عبدالرحیم شرما)

Page 65

43 کے بیچاری تھے انہوں نے بھی بسنتی دیوی کی پوجا شروع کرا دی.مندر میں ماہ بماہ دیوی کا میلہ لگتا تھا.دیوی بھی میرے بھائی پر کرم فرما تھی.اور گاہے بگا ہے دوسری دیویوں کی طرح اس میں حلول کرتی رہتی تھی.انہی دنوں میرے والد صاحب اور بھا وجہ صاحبہ دونوں طاعون سے فوت ہو گئے.اس وقت میں نیا نیا پٹیالہ سے تعلیم چھوڑ کر آیا تھا.جب طاعون کی شدت بڑھ گئی تو ہمارے خاندان نے مندر میں جا کر دیوی کے چرنوں میں پناہ لی.دو ہفتہ کے قریب ہم وہاں رہے پھر گھر آگئے.کچھ عرصہ کے بعد اتفاق ایسا ہوا کہ میرے بھتیجے کو جو کہ میرے اسی بھائی شادی رام کا لڑکا تھا.طاعون ہو گئی.لڑکا بہت ہو نہار تھا مجھے اس سے بہت محبت تھی میرے بھائی تو کچھ لا پرواہ سے تھے میں اس کی توجہ سے تیمارداری کرتا تھا.ہم سب کو اس کے بیمار ہونے کا بہت صدمہ تھا.ہم دن رات اس کی شفایابی کے لئے بسنتی دیوی سے التجائیں کرتے تھے.ایک دن اچانک میرے بھائی میں بسنتی دیوی حلول کر آئی.ہم سب ہاتھ باندھ کر بیٹھ گئے.اور فریاد کرنے لگے کہ ” ہے دیوی! دیکھ تیرے بھگت کے پتر کو طاعون نے پکڑ لیا ہے کرم کر اور اس کو اس مرض سے نجات دے تب دیوی میرے بھائی کی زبان سے یوں گویا ہوئی کہ آج سے آٹھ دن کے اندراندرلڑ کے کو آرام آجائے گا.“ یہ خوشخبری سن کر ہم سب کو ایک گونہ تسلی ہو گئی کہ دیوی کی کر پاسے اب لڑکا اچھا ہوکر رہے گا لیکن خدا کی حکمت ایسی ہوئی کہ عین آٹھویں روز لڑ کا فوت ہو گیا.اس واقعہ نے میری طبیعت پر گہرا اثر چھوڑا.کبھی مجھے دیوی کی طرف سے بدظنی ہو جاتی اور کبھی اپنے اعتقاد کی پختگی کی وجہ سے تاویل کرتا کہ دیوی کے اس کہنے کا مطلب کہ لڑکے کو آٹھ دن کے اندر اندر آرام آجائے گا شاید یہ تھا کہ وہ آٹھ روز کے اندر دنیا کی تکالیف سے چھوٹ کر میرے پاس آ رہے گا.لیکن اکثر دل میں یہ خیال آتا کہ بھائی جو د یوی کا اتنا بھگت بنا پھرتا ہے اور دن رات پوجا پاٹ میں لگا رہتا ہے دیوی جب اس کی نہیں سنتی تو دوسروں کی کیا پرواہ کرتی ہوگی.دیوی دیوتا میں کچھ صداقت نہیں :.کچھ دنوں کے بعد اسی قسم کے ایک اور واقعہ سے میرا اعتقاد دیوی دیوتاؤں پر سے بالکل جاتا رہا.وہ واقعہ یوں ہوا کہ جب والد صاحب فوت ہو گئے تو میرے بھائی نے دکان کا کام سنبھال لیا.میری والدہ صاحبہ نے فرما یا کشن ! تم اب پڑھنا چھوڑ دو.اور کاروبار میں بھائی کا ہاتھ بٹاؤ.چنانچہ میں بھائی صاحب کے ساتھ دکان پر کاروبار کرنے لگ گیا.اور اتفاق ایسا ہوا کہ ایک روز شام کے وقت مجھ کو حاجت محسوس ہوئی اور میں قضائے حاجت کے لئے جنگل کو گیا.ہمارے قصبہ میں ایک پرانا جو ہر تھا.لوگ عموما استنجاء کے لئے وہاں سے پانی لیا کرتے تھے.جو ہڑ کا پانی بہت گندہ ہو چکا تھا.اس پر کائی جمی ہوئی تھی.میری

Page 66

44 طبیعت نے گوارا نہ کیا کہ میں اس کے پانی سے آب دست لوں.ہماری دکان سے ذرا فاصلہ پر ایک کنواں تھا میں قضائے حاجت کے لئے جاتے ہوئے لالہ تلک رام کی دکان پر گیا جو کنویں کے پاس ہی تھی ان سے برتن لیا پانی نکالا.اور قضائے حاجت کے لئے چلا گیا.فراغت کے بعد جب میں جو ہر کی طرف نہ گیا بلکہ دوسرے راستہ سے دکان پر آیا اور دکان پر بیٹھ گیا.تو میرے بھائی کو یہ خیال گذرا کہ شاید میں بغیر طہارت کئے ناپاکی کی حالت میں دکان کی گدی پر جس کو سناتنی خیالات کے لحاظ سے ہم لکشمی کی گدی کہتے ہیں آبیٹھا ہوں.اس وقت تو بھائی خاموش رہے رات کو 9 بجے جب ہم دکان بند کر کے گھر گئے تو میرے بھائی میں حال کی سی کیفیت پیدا ہوگئی.اور وہ اپنی عادت کے مطابق کھیلنے لگ گئے.میں اور میری والدہ صاحبہ نے نہایت ادب سے پوچھا کہ کون مہاراج بھگت میں براجمان ہوئے ہیں.جواب ملا میں لکشمی دیوی ہوں.اور سخت برافروختہ ہوکر میری طرف اشارہ کیا.اور کہا اس لڑکے نے آج میری گدی کو بھرشٹ کر دیا ہے.میری والدہ سہم گئیں.اور مجھے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگیں کہ تم نے کیا پاپ کیا کہ لکشمی دیوی کو ناراض کر دیا.اور نہایت عاجزی سے دیوی سے التجا ئیں کرنے لگیں کہ وہ مجھ کو معاف کر دے کیونکہ ڈر تھا کہ دیوی ناراض ہو کر ہم سے دولت نہ چھین لے.ادھر میں سوچ میں پڑ گیا کہ مجھ سے کیا خطا سرزد ہوئی ہے جب مجھے اپنا کوئی قصور نظر نہ آیا تو ڈرتے ڈرتے میں نے دلیری سے پوچھ ہی لیا.تب دیوی نے گرج کر کہا کہ آج بغیر آب دست لئے تم میری گدی پر بیٹھ گئے ہو.اور اب کہتا ہے کہ میں نے کیونکر گدی کو بھرشٹ کیا ہے.تم نے میرا ایمان کیا ہے.میں یہ کروں گی وہ کروں گی وغیرہ.جونہی کہ مجھے یہ جواب ملا.میری آنکھیں کھل گئیں اور میرے اعتقادات کو سخت صدمہ لگا میں چھوٹا تھا.بھائی کے سامنے بولنے کی مجھے کبھی جرات نہ ہوئی تھی لیکن ایک خلاف واقعہ الزام لگتے دیکھ کر مجھ سے نہ رہا گیا.اور نہایت دلیری سے بولا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے کہ میں نے آب دست نہیں لی.جا کر پوچھئے لالہ تلک رام سے میں نے ان سے برتن لے کر کنویں سے پانی لیا ہے اور طہارت کی ہے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے جب میں نے دلیری سے یہ جواب دیا.اور میرے بھائی نے دیکھا کہ اب تو کھیل بالکل بگڑ گیا ہے فورا لکشمی جی ان میں سے نکل گئیں.اور میرے بھائی نے چراغ کے سامنے ماتھا ٹیک دیا.غرض اس واقعہ سے میں سخت بد اعتقاد ہو گیا.اور خیال کرنے لگا کہ یہ سب ہندؤوں کے پاکھنڈ ہیں.ان دیوی دیوتاؤں میں کچھ صداقت نہیں.بت پوجا سے مجھے نفرت ہونے لگی.اس وقت تک مجھ کو کسی مسلمان کی صحبت میسر نہیں ہوئی تھی.اور نہ خدا تعالیٰ کے متعلق صحیح معرفت تھی.اس واقعہ کے بعد میرے دل میں ایک بے چینی

Page 67

45 سی پیدا ہو گئی.اور دل میں طرح طرح کے خیالات اُٹھتے.اسی حالت میں ایک عرصہ تک میں بھائی صاحب کے ساتھ دکان پر کام کرتا رہا.میرے بھائی عیاش طبیعت کے آدمی تھے کاروبار میں پوری توجہ نہ دیتے تھے.شام کو آتے تو جو بکری ہوتی وہ مجھ سے بہانہ بنا کر لے جاتے کبھی کہتے کہ فلاں ساہوکار سے مال منگوایا تھا اس کو رقم دینی ہے کبھی کچھ اور بہانہ کرتے لیکن وہ روپیہ کسی کو دینے کی بجائے اپنی عیاشیوں میں صرف کر لیتے جب ساہوکار کا تقاضا ہوتا تو حقیقت کھلتی.والدہ صاحبہ سے کہتا وہ ادھر ادھر سے روپیہ لے کر قرض بے باق کروا دیتیں کچھ عرصہ تک اسی طرح ہوتا رہا.آخر کب تک؟ کاروبار میں خسارہ پڑنے لگا.قرض معاف کرنا : ایک دفعہ مجھ سے بھی مالی نقصان ہوالیکن وہ نقصان ایسا تھا جس سے آج بھی میں لذت اندوز ہوتا ہوں.میں سمجھتا ہوں شاید یہی بات اللہ تعالیٰ کو پسند آئی کہ جس کے صلہ میں اس نے مجھ کو اسلام جیسی نعمت بخشی.جس کی تفصیل یہ ہے کہ ارد گرد کے مسلمان ہی والد صاحب کے سودی کاروبار کے شکار رہتے تھے.ہمارے قصبہ میں جانی اور رمضانی دو بھائی کا شتکار رہتے تھے.میرے والد صاحب سے کچھ رقم انہوں نے سود پر لی ہوئی تھی.وصولی کا طریق یہ تھا کہ جب فصل کاٹ لی جاتی اور غلہ نکلتا تو والد صاحب سب غلہ اٹھوا لاتے تھے.آئندہ کے لئے پھر وہ ہمارے دست نگر ہو جاتے.اور ہماری دکان سے ادھار غلہ اور روپیہ لیتے رہتے.سال کے بعد پھر انہیں سود میں اپنی فصل ہمیں دینا پڑتی.اسی طرح سالہا سال تک ہوتا رہا.اور آہستہ آہستہ ان کے ذمہ ایک بھاری رقم قرض کی ہوگئی جس سے وہ عہدہ برآنہ ہو سکتے تھے.ایک روز بھائی نے مجھ کو ان کے گھر قرض کے تقاضا کے لئے بھیجا.جانی اور مضانی خود تو گھر میں موجود نہ تھے.گھر کی حالت نہایت خستہ تھی.میں نے دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے بچے برہنہ سردی کے مارے ٹھٹھر رہے ہیں.رمضانی کی بیوی چکی پیس رہی تھی اس کے کپڑے نہایت بوسیدہ تھے.تھوڑی سی مکئی تھال میں پاس پڑی ہوئی تھی جس کو پیس کر وہ اپنے بچوں کا جو بھوک کے مارے رو ر ہے تھے پیٹ بھرنا چاہتی تھی.مجھ کو دیکھ کر اس نے ایک پیڑھی آنچل سے صاف کر کے بڑھائی اور کہا مہاراج! بیٹھ جائیے.رمضانی ابھی آجائیں گے ان کا خستہ حال اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اور کچھ اس عورت کی زبانی حالات سن کر میرے دل کو سخت تکلیف پہنچی میں نے سوچا کہ ان کی سال بھر کی کمائی تو ہم لے جاتے ہیں اور یہ بیچارے اس مصیبت میں دن گزار نے پر مجبور ہو جاتے ہیں.ان دنوں ان کی تنگدستی اور بھی بڑھ گئی تھی کیونکہ والد صاحب کے فوت ہو جانے کے بعد ہمارے کاروبار میں خسارہ پڑنا شروع ہو گیا تھا.اور بھائی نے ان کو مزید قرض

Page 68

46 دینا بند کر دیا تھا.ان کی غربت کو دیکھ کر کوئی ساہوکار بھی ان کو ادھار نہ دیتا تھا اس وجہ سے ان کو زندگی گذارنا دوبھر ہو گیا تھا.اور اکثر فاقوں کی نوبت آتی تھی.اس عورت نے اپنی ساری کیفیت بیان کر کے مجھ سے منت کی کہ ان کو کچھ مہلت دی جائے کیونکہ اس وقت قرض ادا کرنے کے لئے ان کے پاس کچھ نہ تھا.میں نے کہا رمضانی جب آئیں تو اسے میرے پاس بھیجنا.راستہ میں سوچتا آیا کہ ان کی سب مصیبتوں کا باعث ہم ہیں ایسی حالت میں مجھ کو ضرور ان کی مدد کرنی چاہئے.مزید روپیہ تو میں دے نہیں سکتا تھا.میں نے سوچا کہ کسی طرح ان کو اپنے پرانے قرض سے سبکدوش کر دینا چاہئے.لیکن بھائی صاحب کا خوف دامن گیر تھا.مجھ کو قرض معاف کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی.شام کو رمضانی آیا میں نے بہی سے دیکھ کر بتایا کہ کس قدر رقم اس کے ذمہ واجب الادا ہے.وہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا مہاراج ہم پائی پائی ادا کر دیں گے.اس وقت ہمارے پاس کچھ نہیں ہے ہمیں مہلت ملنی چاہئے.ان کی حالت تو میں دیکھ ہی آیا تھا اس کی اس اپیل پر میرے دل نے جوش مارا میں نے کہا رمضانی ! تم اس قرض کی طرف سے بالکل بے فکر ہو جاؤ.میں تم کو معاف کرتا ہوں مگر اس کو یقین نہ آیا کہ ایک ساہوکار کا ہندو بچہ بھی کبھی اس طرح قرض معاف کر سکتا ہے.وہ میری بات کو مذاق سمجھا اور بہ منت درخواست کرنے لگا کہ اس وقت ان کی حالت ایسی ہے کہ ضرور ان پر رحم ہونا چاہئے.میں نے کہا رمضانی ! میں جو کہتا ہوں کہ تم بالکل فکر نہ کرو.تمہارا قرض میں نے معاف کر دیا ہے یہ کہ کر میں نے اس کے روبرو ہی پر قلم پھیر دی.اور کہا لو! تمہارا سب قرض وصول ہو گیا.غرض بڑی مشکل سے رمضانی کو یقین آیا کہ واقعی اس کو قرض سے چھٹکارا مل گیا ہے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور دعائیں دیتا گھر لوٹ گیا.اور تو ان کا کوئی بڑا قرض نہ تھا ان کا لین دین زیادہ تر ہمارے ساتھ ہی تھا جب اس قرض سے سبکدوشی ہوئی تو آہستہ آہستہ ان کی حالت پھر سدھرنے لگی ایک عرصہ تک تو یہ بات میرے بھائی سے چھپی رہی.پھر جب ان کو علم ہوا تو بہت بگڑے لیکن والدہ صاحبہ نے بیچ بچاؤ کرا دیا اور بات رفع دفع ہوگئی.اسلام کی طرف ہدایت کا سامان : میرے بھائی کی لا پرواہیوں اور غلط کاریوں کی وجہ سے ہمارے کاروبار میں خسارہ آنا شروع ہو گیا تھا.والدہ صاحبہ ہماری مربی تھیں جب انہوں نے دیکھا کہ بھائی کی اصلاح کی کوئی صورت نہیں رہی تو انہوں نے فرمایا کہ کشن ! تم دکان کا کام چھوڑ دو اور کوئی ملازمت اختیار کرلو.میں ابھی چھوٹا ہی تھا اور ہمارے خاندان میں پہلے کبھی کسی نے ملازمت بھی نہ کی تھی.مجھ کو کچھ واقفیت نہ تھی کہ کہاں ملا زمت

Page 69

47 تلاش کروں لیکن والدہ صاحبہ کی خواہش کی تعمیل میں میں اسی وقت ملازمت کی تلاش میں گھر سے باہر نکل گیا.ان دنوں ہمارے ہاں چونگی خانہ کا محکمہ نیا یا کھلا تھا.نند کشور نامی ایک ہند و چونگی خانہ میں ملازم تھا.میری اس سے کسی قدر واقفیت تھی میں نے اس سے ذکر کیا کہ والدہ صاحبہ ملازمت کو کہتی ہیں مجھے کوئی ملازمت دلو ادو.اتفاق سے وہ چھٹی پر جارہا تھا اور اپنی جگہ پر ایک آدمی دینا تھا.مجھے یہ بتا کر کہ وہ چونگی خانہ میں محرر ہے اپنی جگہ رکھوا دیا.تھوڑے سے ہی عرصہ کے بعد مجھ کو معلوم ہوا کہ وہ شخص چپڑاسی تھا.میری تنخواہ چار روپے ماہوار مقرر ہوئی.نند کشور کو باؤلے کتے نے کاٹ لیا اور وہ مر گیا.میں اس کی جگہ پر کام کرتارہا.یہ ملازمت میری ہدایت کا موجب ہوئی.چونگی خانہ میں ایک احمدی منشی عبدالوہاب صاحب محرر تھے ان کے والد ہندوؤں سے مسلمان ہوئے تھے.یہ منشی صاحب صوفی منش آدمی تھے ریٹائر ہونے کے بعد دارالبیعت لدہانہ میں رہتے تھے.افسوس تقسیم ملک کے بعد لاہور آکر ان کا انتقال ہو گیا اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے ( آمین ) بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ میں مدفون ہیں.ملازمت کے دوران میں مجھ کو اکثر ان کے پاس بیٹھنے کا اتفاق ہوتا تھا.تبلیغ کا ان کو بہت شوق تھا مجھ کو بھی وہ تبلیغ کیا کرتے تھے.ان کا طریق تبلیغ یہ تھا کہ وہ ہندو مذہب کا ایک نقص ظاہر کر کے اس کے مقابلے میں اسلام کی خوبیاں بیان کرتے تھے اور دلائل سے موازنہ کرتے تھے.میں اپنی سمجھ کے مطابق بحث مباحثہ کرتا تھا لیکن ابتداء سے میری طبیعت میں یہ بات تھی کہ جو بات مجھ کو درست معلوم ہوتی تھی اس پر میں خاموش ہو جا تا تھا.مسلمانوں سے مذہبی گفتگو کا آغاز :.مسلمانوں سے مذہبی گفتگو کا آغا ز ایک معمولی واقعہ سے ہوا.جس چونگی پر میرا تقر ر تھا وہاں ایک سپاہی فقیر محد بھی متعین تھا.ایک روز ہم چار پائی پر بیٹھے تھے کہ ایک گائے ادھر سے گذری.چار پائی کے بالمقابل آکر اس نے پیشاب کر دیا چھینٹے اڑ کر ہمارے کپڑوں پر پڑے.فقیر محمد نے لٹھ لے کر گائے کو خوب زدوکوب کیا.ہند و خیالات کی وجہ سے بچپن سے گائے کی تقدیس میرے دل میں راسخ تھی.میں ایک مسلمان کے ہاتھوں گائے کی بے رحمانہ زدوکوب کو برداشت نہ کر سکا اور اس سے جھگڑ پڑا.فقیر محمد نے کہا کہ یہاں سہو ہے خود منشی صاحب والد کی وفات کے بعد مسلمان ہوئے تھے جیسا کہ ان کے لکھوائے ہوئے حالات میں ہی کتاب میں ذکر ہے.

Page 70

48 گائے دوسرے جانوروں کی طرح ایک جانور ہے تم لوگوں نے اس کو اتنا آسمان پر کیوں چڑھا رکھا ہے؟ میں نے کہا وہ گوما تا ہے اس کے ہم پر بے حد احسان ہیں.ماں کی طرح دودھ سے ہم کو پالتی ہے اسی لئے ہم اس کو مقدس مانتے ہیں.اس پر گفتگو ایک مباحثہ کی صورت اختیار کر گئی اس نے پوچھا کہ تمہارے خیال میں بلحاظ محسنہ ہونے کے تمہاری حقیقی والدہ بڑھ کر ہے یا گئوماتا.میں نے کچھ سوچ کر کہا کہ حقیقی ماں کا درجہ گئوماتا سے بہر حال بڑا ہے اس نے کہا کہ تم ہند ولوگ گو ما تا کا پیشاب تو پی لیتے ہو اپنی والدہ کا پیشاب کیوں نہیں پیتے.اس سوال پر میں کھسیانا ہوا کیوں کہ مجھ کوعلم تھا کہ ہند و عمو ما وضع حمل کے بعد زچہ اور بچہ کو گائے کا پیشاب گنگا جل ملا کر پلاتے ہیں.اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ہندو مذہب میں بعض باتیں بہت تیج پائی جاتی ہیں.غرض گرم سرد ہو کر میں نے اس سے پیچھا چھڑا یا مگر اس کی یہ بات مجھ پر اثر ضرور کر گئی.کیا خدا واقعی دعائیں سنتا ہے؟:.جب ہماری اس گفتگو کا چر چا چونگی خانہ میں ہوا اورمنشی عبدالوہاب صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو ان کو بھی شوق ہوا کہ مجھ سے وہ مذہبی امور پر باتیں کریں.چنانچہ ان سے اکثر مذہبی گفتگو ہوتی.وہ بہت پیار اور محبت سے مجھ کو تبلیغ کرتے ان کی صحبت سے رفتہ رفتہ مجھ پر ہندو مذہب کے نقائص اور اسلام کی خوبیاں ظاہر ہوتی گئیں.اور خدا تعالیٰ کی توحید اور عظمت کا اثر میرے دل پر ہونے لگا.انہوں نے مجھے بتایا کہ خدا تعالیٰ ایک زندہ ہستی ہے جو اس کو پکارتا ہے وہ اس کی سنتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے پھر منشی صاحب نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتا ہیں دکھانا شروع کر دیں.اخبار بدرا اور الحکم ان کے پاس آیا کرتے تھے ان میں حضرت مسیح موعود کے تازہ بتازہ الہام بھی درج ہوتے تھے.وہ اکثر میں پڑھا کرتا تھا.انہی دنوں مجھے بعض مقاصد در پیش تھے میں نے سوچا کہ مسلمان کہتے ہیں کہ خدا تعالی سنتا ہے اور دعائیں قبول کرتا ہے.چلو آزما کر دیکھیں کہ کیا واقعی اسلام کے طریق پر دعا کرنے سے خدا سنتا ہے؟ میرے مقاصد یہ تھے کہ والد صاحب فوت ہو گئے تھے بڑے بھائی لا پرواہ تھے.دکان عیاشی میں ضائع کر دی تھی.میری بہن کی والد صاحب ایک اچھے گھرانے میں منگنی کر گئے تھے شادی کرنا باقی تھا ہمار.تھا ہمارے پاس اتنا سرمایہ نہ تھا کہ ہندو رسم و رواج کے مطابق بہن کی شادی کر سکیں اس وجہ سے والدہ صاحبہ سخت متفکر رہتی تھیں.والدہ صاحبہ کو رنجور دیکھ کر مجھے بھی دکھ ہوتا تھا.دوسرا مقصد میری ترقی کا معاملہ تھا.وہ ملازمت جو میں اس وقت کر رہا تھا ہمارے خاندان کی اس پوزیشن سے

Page 71

49 کہ جس میں میں نے تربیت پائی تھی بہت ہی کم تھی اس لئے میرا دل چپڑاسی کی ملازمت پر تسلی نہ پا تا تھا.اور اس وقت کے لحاظ سے امنگ پیدا ہوتی تھی کہ میں ترقی کروں.تیسری بات یہ تھی کہ منشی عبدالوہاب صاحب کی تبلیغ اور صحبت کی وجہ سے ہندو مذہب کی لغویت اور اسلام کی صداقت مجھ پر کھل گئی تھی مگر ہندو ہونے کی وجہ سے اور گرد و پیش کے ماحول اور حالات کی وجہ سے میں اسلام کو قبول نہیں کر سکتا تھا.میں ایک غیر مسلم ریاست کا باشندہ تھا.شادی ہو چکی تھی.پھر والدہ صاحبہ اور عزیز واقرباء کو چھوڑنا بھی مشکل تھا.ان حالات کی وجہ سے اسلام کو برملا طور پر قبول کرنا میرے لئے بالکل محال تھا اور ادھر ایک صداقت کو دیدہ دانستہ چھوڑا بھی نہیں جا سکتا تھا.دل میں سخت بے چینی تھی دعا کرتا تھا کہ الہی تو خود دستگیری فرما اور مجھے کچے مذہب کے قبول کرنے کی توفیق دے.ہندو ہونے کی حالت میں نماز : یہ تین مقاصد تھے جو میرے پیش نظر تھے.میں نے منشی عبدالوہاب صاحب سے کہا مجھے نماز سکھائیں.میں آپ کے طریق پر اپنے بعض مقاصد کے لئے دعا کرنا چاہتا ہوں.میں نے مقاصد تو ان کو نہیں بتائے تھے البتہ نماز ان سے سیکھنی شروع کر دی.گومیری زبان پر عربی عبارت نہ چڑھتی تھی تاہم اچھی بری میں نے سیکھ ہی لی.اور ترجمہ بھی سیکھا.اور چھپ کر اپنے طور پر نماز پڑھنی شروع کر دی.میرے گھر والوں دفتر کے ملازموں حتی کہ منشی عبدالوہاب صاحب کو بھی اس بات کا علم نہ تھا کہ میں نے نماز پڑھنی شروع کر دی ہے.صرف فقیر محمد سپاہی کو جو میرے ساتھ چونگی پر کام کرتا تھا میں نے اپنا ہم راز بنایا ہوا تھا.نماز کے لئے میں نے دو جگہیں مخصوص کر رکھی تھیں.دن کی نماز میں اپنی چونگی کے ایک کمرہ میں جو کہ ذرا علیحدہ تھا اور لوگوں کی آمد ورفت وہاں نہ ہوتی تھی کواڑ بند کر کے پڑھتا تھا اور فقیر محمد کوتاکید کر رکھی تھی کہ اگر کوئی ہندو ادھر آئے تو مجھے اطلاع کر دینا.فقیر محمد خود نماز نہ پڑھتا تھا.مگر یہ دیکھ کر کہ ایک ہندو نماز پڑھتا ہے اسے شرم آئی اور وہ بھی نماز پڑھنے لگ گیا اور بعد میں احمدی بھی ہو گیا تھا.رات کی نمازوں کے لئے میں نے گھر میں ایک جگہ مخصوص کر رکھی تھی ہمارا مکان پرانی وضع کا تھا سب کمروں کے پیچھے ایک اندھیری کوٹھڑی ہوتی تھی اس کے ایک کو نہ میں کواڑ بند کر کے میں نماز پڑھا کرتا تھا.نمازوں کے متعلق کچھ عرصہ تک مجھے بڑی غلطی لگی رہی.دورکعت کے بعد قعد و تک کو میں ایک رکعت سمجھتا تھا.اس لحاظ سے چار رکعت کی بجائے میں آٹھ رکعت پڑھتا تھا.گویا میری ہر نماز دگنی ہوتی تھی.چونکہ زبان میں روانی نہ تھی.ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا عشاء کی نماز میں مجھے گھنٹہ بھر لگ جاتا تھا.پانچ

Page 72

50 نمازوں میں تقریباً تین چار گھنٹے صرف ہو جاتے تھے گرمیوں کے دن تھے میں پسینہ سے شرابور ہوجاتا تھا.تین چار ماہ مجھے ایسی ہی غلطی لگی رہی.غرض ایک عرصہ تک میں اپنے مقصد کے لئے اسی طرح دعائیں کرتا رہا.اللہ تعالیٰ نے میری دعائیں سن لیں :.آخر میرے رب نے میری سنی اور اپنے اس وعدہ کے مطابق که وَالَّذِينَ جَاهَدُ وَافِيْنَا لَنَهْدِ يَنَّهُمْ سُبُلَنَا - ( 16 ) میری دستگیری فرمائی اور اس صفائی سے میرے مقاصد پورے کئے کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا.کہ کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے.میری ہمشیرہ کی شادی کے لئے ایسا سامان ہوا کہ میری والدہ کو غالباً بھولا ہوا تھا.یا انہیں علم ہی نہ تھا.مکان کے ایک حصہ سے دبا ہوا رو پیل گیا یعنی برآمدہ میں چولہے کے پاس ایک پردہ کی دیوار بنی ہوئی تھی.وہ بارش کی شدت میں گر گئی اس دیوار میں سے دفن کیا ہوا کافی رو پسیل گیا روپیہ بہت کافی تھا.ہمشیرہ کی شادی نہایت ٹھاٹھ سے ہوئی.ہمشیرہ کے سسرال کی حیثیت کے مطابق جہیز مہیا کیا گیا.سب رسم و رواج پورے کئے گئے حتی کہ میرے بھائی نے میری منشاء کے خلاف طوائفوں کا مجرا بھی کروا دیا.ترقی کا معاملہ ایسے ہوا کہ میں ایک چپڑاسی کی حیثیت سے ملازم ہوا تھا پھر مر چونگی ہوا.ہمارے شہر کے چونگی خانہ میں کئی محرر تھے.ان میں سے ایک منشی عبدالوہاب صاحب خود بھی تھے.اور کچھ چپڑاسی تھے یہ سب مجھ سے سینئر تھے لیکن جب چونگی خانہ کا داروغہ ترقی پا کر چیف کورٹ کے اہلمد حمید کی جگہ چلا گیا.اور داروغہ کی جگہ خالی ہوئی تو جاتے ہوئے وہ میری پر زور سفارش کر گیا کہ میرے بعد کشن لعل داروغہ کا کام بخوبی سنبھال سکتا ہے.چنا نچہ محکمہ مال سے منظوری آگئی.اور مجھ کو یک لخت داروغہ بنا دیا گیا.(ان دنوں سپریٹنڈنٹ چونگی کو ریاست پٹیالہ میں داروغہ کہا کرتے تھے ) پھر تیسرا مقصد بھی اس حیرت انگیز طریق پر پورا ہوا کہ اب جب میں حالات پر غور کرتا ہوں کہ میرے جیسا کمزور انسان کہ جو مذہب اور برادری کے بندھنوں میں جکڑا ہوا تھا اور پھر جس کے سامنے ایک غیر مسلم پنجاب کے ان حصوں میں جو سر کار انگریزی کے ماتحت تھے چونگی خانہ کے ملازم میونسپلٹی کے ماتحت ہوتے تھے مگر ہماری ریاست میں ان دنوں چونگی خانہ کا محکمہ حکومت کے محکمہ مال کے ماتحت ہوتا تھا.دوسرے محکموں کے ملازم چونگی خانہ میں تبدیل ہو کر آجاتے تھے اور چونگی خانہ کے اہلکار ترقی پاکر دوسرے محکموں میں چلے جاتے تھے.چونگی کے ملازموں کی ملازمت پینشن والی سجھی جاتی تھی.(عبدالرحیم شرما)

Page 73

51 ریاست کا باشندہ ہونے کی وجہ سے حق کے قبول کرنے کی راہ میں اور بھی بہت سی رکاوٹیں تھیں کیونکر مسلمان ہو گیا.اور نہ صرف مسلمان ہوا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ہاتھ پر اسلام لانے کی سعادت ملی تو میری روح سجدہ میں گر جاتی ہے.میری ہمت ایسی نہ تھی کہ حق کھل جانے کے بعد میں ان تمام رکاوٹوں کا مقابلہ کر سکتا جو میرے راستہ میں حائل تھیں.یہ اللہ تعالیٰ کا سراسر فضل تھا کہ اس نے میری رہنمائی فرمائی اور بغیر میری کسی خاص کوشش کے مجھ کو کشاں کشاں اس منبع نور و ہدایت کے آستانہ پر لا ڈالا اور میرے دل میں حق کو قبول کرنے کے لئے ایک غیبی تحریک اور غیر معمولی جوش پیدا کر دیا کہ میں یکدم تمام مخالفتوں اور رکاوٹوں سے بے نیاز ہوکر اسلام لانے کے لئے تیار ہو گیا.حضرت کرشن ثانی کے درشن :.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ منشی عبدالوہاب صاحب اکثر مجھ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کیا کرتے تھے ان کے پاس اخبار الحکم اور بدر آیا کرتے تھے.ان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حالات اور الہام درج ہوتے.وہ اکثر میں پڑھا کرتا تھا.منشی عبدالوہاب صاحب قادیان آنے لگے تو انہوں نے مجھ سے بھی ذکر کیا.میرے دل میں پہلے ہی حضرت مسیح موعود کی زیارت کا شوق پیدا ہو چکا تھا.میں بھی ان کے ساتھ قادیان آنے کے لئے تیار ہو گیا.چنانچہ میں نے چند روز کی رخصت لی اور ہم حضور کی زیارت کے لئے چل پڑے یہ غالباً ماہ جون یا جولائی ۱۹۰۴ء کا ذکر ہے جمعہ کے روز قریباً گیارہ بجے ہم قادیان پہنچے اور سید ھے مسجد مبارک میں گئے.وہاں چند آدمی بیٹھے تھے ان میں ایک نہایت وجیہہ بزرگ تھے.منشی صاحب نے ان سے مصافحہ کیا میں نے بھی سلام کیا.میں نے خیال کیا کہ غالباً یہی وہ حضرت مسیح موعود ہیں جن کا منشی صاحب ذکر کیا کرتے تھے.انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کھانا کھا آئے ہیں ہم نے کہا نہیں ، ابھی آئے ہیں.انہوں نے فرمایا کہ کھانا کھا آؤ اور جمعہ کے لئے تیاری کرو.بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ بزرگ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ہیں کھانا کھانے کے بعد نہانے کے لئے ہم مسجد اقصیٰ چلے گئے اس وقت میرے کانوں میں سونے کی بالیاں تھیں.ماسٹر عبدالرحمن صاحب نو مسلم سابق مہر سنگھ اور پیر محمد یوسف صاحب وہاں موجود تھے انہوں نے اعتراض کیا کہ مردکو تو سونا پہننا روا نہیں.تم نے سونا کانوں میں کیوں ڈالا ہوا ہے میں حیران تھا کہ کیا جواب دوں کہ منشی صاحب آگئے انہوں نے الگ لے جا کر ان کو سمجھایا غالبا یہ کہا ہوگا کہ یہ ہندو ہے اور اسلام کی طرف راغب ہے وہ مطمئن ہو گئے غسل کر کے ہم مسجد مبارک میں آئے ان دنوں دو جگہ جمعہ ہوتا تھا.مسجد مبارک

Page 74

52 میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے جمعہ پڑھایا تھا اور مسجد اقصیٰ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب نے.ہم نے جمعہ مسجد مبارک میں پڑھا.میں کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا مجھ کو بتایا گیا تھا کہ یہاں سے حضرت اقدس تشریف لائیں گے مسجد چھوٹی سی تھی ایک صف میں بمشکل چھ یا سات آدمی سما سکتے تھے جب کھڑکی کے راستہ سے حضرت اقدس تشریف لائے میں نے حضور سے مصافحہ کیا اور کپڑوں کو چھوا.کپڑوں سے مجھے خوشبو آتی تھی.غالبا حضور نے عطر لگایا ہوا تھا.حضور کی زیارت سے میرے قلب پر خاص اثر پڑا آپ کو دیکھ کر میں بے تاب ہو گیا.اور اسلام کی طرف میری کشش زیادہ ہوگئی.خدا کے فضل نے مجھے صحابی بنا دیا :.جب میں گھر سے چلا تھا تو میری نیت اسلام قبول کرنے کی نہ تھی صرف حضور کی زیارت مقصود تھی اس شوق میں میں نے یہ سفر اختیار کیا تھا.قادیان میں آکر منشی صاحب نے مجھ کو اسلام قبول کرنے کی تحریک نہیں کی بلکہ ان کا مشورہ یہی تھا کہ میں ابھی بیعت نہ کروں.غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی نو عمر تھا.اور بعض احباب کا خیال تھا کہ اگر یہ بات نکل گئی کہ حضور نے ایک نو عمر لڑکے کو مسلمان بنالیا ہے تو ہندو کوئی فتنہ کھڑا کر دیں گے.اور حضور کو تکلیف ہوگی لیکن حضور کو دیکھ کر مجھ سے نہ رہا گیا.مغرب کی نماز کے بعد جب بیعت ہونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو توفیق دے دی.اور میں خود بخود بیعت کے لئے آگے بڑھ آیا.اس وقت قریباً آٹھ آدمیوں نے بیعت کی میری اس جرات کو دیکھ کرمنشی عبدالوہاب صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھ کو سینے سے لگا لیا مگر اس وقت انہوں نے فتنہ کے خیال سے مجھ کو یہ ظاہر کرنے نہ دیا کہ میں ہندوؤں سے مسلمان ہوا ہوں.اس وقت بیعت کے بعد نام لکھے جاتے تھے میں نے اپنا نام رحیم بخش لکھوایا.بعد میں حضرت خلیفتہ اسیح اول کے زمانہ میں رحیم بخش کی بجائے عبدالرحیم نام رکھا گیا.سات روز ہم قادیان میں رہے.اکثر نمازیں ہم مسجد مبارک میں پڑھا کرتے تھے.مغرب کی نماز کے بعد حضور شاہ نشین پر رونق افروز ہوتے اور کسی مقدمہ کے متعلق گفتگو ہوتی.غالباً کرم دین والا مقدمہ تھا سات روز ٹھہر کر ہم واپس وطن آگئے.آتی دفعہ میں نے حضرت صاحب کی چند کتب خریدیں سرمہ چشم آریہ.جنگ مقدس.رپورٹ جلسہ مہوتسو ( مذاہب عالم ) وغیرہ جن کا مطالعہ بعد میں میرے لئے بہت مفید ثابت ہوا.حضرت اقدس کی خدمت میں خط : وطن واپس آکر میں نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں لکھا کہ میں ہندو تھا اور حضور کے ہاتھ پر مسلمان ہوا ہوں لیکن ابھی تک اعلانیہ اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرسکا.ڈرتا ہوں کہ

Page 75

53 اگر میں نے اسلام کا اعلان کر دیا تو ہندو قوم ہمارے خاندان کا بائیکاٹ کر دے گی.ہمارا خاندان میرے ساتھ مسلمان تو نہ ہوگا.مگر یہ ضرور ہو گا کہ میری بہن جس کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے اور مجھے بہت عزیز ہے تکلیف میں پڑ جائے گی.سسرال والے اس کو ہمارے ہاں چھوڑ جائیں گے.اور وہ ہندو ہونے کی وجہ سے بہت تکلیف اٹھائے گی.میں نے سب حالات حضور کے سامنے رکھ کر اپنے لئے دعا کی درخواست کی جس کا جواب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا ملا کہ حضور نے آپ کے لئے دعا فرمائی ہے.دعا کے لئے میں حضور کو گا ہے لگا ہے لکھتا رہتا تھا.جواب بھی آتا تھا جو منشی عبدالوہاب صاحب کی معرفت ہی آتا تھا.وہ سب خطوط منشی عبدالوہاب صاحب کے پاس ہی تھے.افسوس کہ وہ ان سے کہیں ضائع ہو گئے ہیں میری بیعت کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد حضرت مولوی صاحب کا وصال ہو گیا.حضرت اقدس کی زندگی میں مجھے دوبارہ قادیان آنے کا موقع نہیں ملا جس کا مجھے افسوس ہے.نماز پڑھتے پکڑا جانا :.اسلام لانے کے بعد میں کافی عرصہ تک چھپارہا.مگر ایمان ایک ایسی چیز ہے کہ جو چھپانے سے بھی زیادہ عرصہ چھپی نہیں رہ سکتی.چنانچہ میرے مسلمان ہونے کا علم بھی میرے گھر والوں کو جلد ہو گیا.اس طرح کہ رات کی نمازیں جو میں اپنے گھر کی ایک کوٹھڑی میں کواڑ بند کر کے پڑھا کرتا تھا مجھ کومتواتر اس کوٹھڑی میں جاتے دیکھ کر میری بیوی کو شک گزرا اور اسے جستجو ہوئی کہ وہ معلوم کرے کہ میں دروازہ بند کر کے اس کوٹھڑی میں کیا کرتا ہوں.وہ دروازہ کی درزوں سے دیکھنے کی کوشش کرتی لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے اس کو دکھائی نہ دیتا ایک روز نماز میں مجھ پر رقت طاری ہوگئی اور میری آواز اس نے باہر سن لی.وہ گھبرا گئی اور میری والدہ سے جا کرذ کر کیا.میری والدہ نے مکان کی چھت پر چڑھ کر کوٹھڑی کے مگھ سے جھانکا اور مجھ کو رکوع اور سجدہ کرتے دیکھ کر ان کو حیرانی ہوئی چونکہ ان دنوں میرا میل ملاپ مسلمانوں سے بڑھ گیا تھا.اس لئے والدہ صاحب کو شبہ ہوا کہ کہیں مسلمانوں کا اثر مجھے پر نہ ہو گیا ہو.جب میں نماز سے فارغ ہو کر باہر آیا تو والدہ صاحبہ نے دریافت کیا کہ تم اندر کیا کر رہے تھے.میں نے کہا پر میشور کی عبادت کیا کرتا ہوں انہوں نے کہا ہند و تو اس طرح عبادت نہیں کرتے تم تو نیل گروں کی طرح نماز پڑھ رہے تھے.ہمارے پڑوس میں مسلمان رنگریز رہتے تھے.والدہ صاحبہ نے کہیں ان کو نماز پڑھتے دیکھا ہوگا.مجھے اقرار کرنا پڑا اور بات کھل گئی.والدہ صاحبہ بہت برہم ہوئیں میں نے عرض کیا اماں! میں اسلام کو سچا مذہب سمجھتا ہوں.میں نے اس کو آزمایا ہے.میں اس کو کسی طرح بھی نہیں چھوڑ سکتا.محض آپ کی

Page 76

54 خاطر اپنے ایمان کو چھپایا ہوا تھا.اگر آپ ناراض ہوں گی اور مخالفت کریں گی تو میں اعلانیہ طور پر مسلمان ہو جاؤں گا اور گھر چھوڑ کر کہیں چلا جاؤں گا.والدہ صاحبہ مرحومہ کو مجھ سے بہت محبت تھی.وہ ڈر گئیں کہ میں ان کو چھوڑ کر کہیں چلا نہ جاؤں.آخر وہ اس بات پر رضامند ہو گئیں کہ میں چھپ کر بے شک نماز پڑھ لیا کروں مگر اس بات کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دوں.ورنہ انہوں نے فرمایا کہ برادری ہمارا بائیکاٹ کر دے گی.غرض اپنے گھر سے تو مجھے ایک گونہ تسلی ہوگئی.میں اطمینان سے نمازیں پڑھنے لگا.لیکن عام طور پر ہندوؤں کو میرے مسلمان ہونے کا علم نہ تھا اسی اثناء میں میں نے پوشیدہ طور پر منشی عبدالوہاب صاحب سے قرآن شریف بھی پڑھنا شروع کر دیا.میرے اسلام کا علم ہنود کو کیونکر ہوا:.گھر کے لوگوں کے علاوہ میرے مسلمان ہونے کا علم سوائے فقیرمحمد سپاہی کے جو چونگی میں میرے ساتھ کام کرتا تھا اور بعض احمدیوں کے کسی کو نہ تھا.لیکن ان کی غفلت کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ بات نکلنی شروع ہوئی اور ہمارے شہر کے مسلمانوں میں عام طور پر اس کا چرچا ہونے لگا مسلمان مجھ سے تعلق بڑھانے کی کوشش کرنے لگے ہمارے شہر میں زیادہ تر شیعہ فرقہ کے مسلمان تھے وہ مجھے اپنے مذہب کی کتب مطالعہ کے لئے دینے لگے اسی طرح دوسرے فرقہ کے مسلمان بھی بعض کتب پڑھنے کے لئے دے جاتے ایک دن ایک صاحب ایک رسالہ مجھے کو دے گئے اس میں لکھا تھا کہ جو مسلمان دیدہ دانستہ ایک جمعہ جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتا اس کا چوتھا حصہ ایمان کا جاتا رہتا ہے اور اگر وہ دو جمعے نہیں پڑھتا تو نصف ایمان ضائع ہو جاتا ہے اور اگر تین جمعے نہیں پڑھتا تو اس کا دو تہائی ایمان چلا جاتا ہے.اور اگر چار جمعے نہیں پڑھتا تو وہ بالکل بے ایمان ہو جاتا ہے.یہ پڑھ کر میرے دل میں خوف پیدا ہوا کہ میں مسلمان ہو کر پھر جمعہ مسجد میں جا کر نہیں پڑھتا.میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ جمعہ کے لئے مسجد میں جایا کروں گا.احمد یہ مسجد ہمارے قصبہ میں باہر کی طرف تھی جمعہ کے روز میں اپنے دفتر سے ایک کمبل اوڑھ کر قصبہ کے باہر مسجد میں چلا گیا.منشی عبدالوہاب صاحب خطبہ پڑھ رہے تھے میں جا کر بیٹھ گیا.اتفاق کی بات ہے کہ جب میں مسجد میں داخل ہو رہا تھا.تو ایک ہندو نو جوان راجہ رام جو ہمارے قصبہ میں عطاری کی دکان کرتا تھا.پانی بھرنے کے لئے مسجد کے سامنے والے کنویں پر آیا.وہ کنواں آدھا مسجد کے صحن میں تھا.اور آدھا مسجد کے باہر جب اس نے مجھ کو مسجد میں داخل ہوتے دیکھ لیا.شک رفع کرنے کے لئے اس نمونه = مسجد صحن کنواں نے مسجد میں دو تین بار جھانک کر دیکھا جب اس کو یقین ہو گیا کہ میں ہی ہوں.اور پھر اس نے نماز پڑھتے بھی مجھ کو

Page 77

55 دیکھ لیا تو وہ دوڑا دوڑا بازار میں آیا اور شور مچادیا کہ میں نے کشن لعل داروغہ چونگی کومسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھتے دیکھا ہے.لوگوں میں جوش پیدا ہو گیا.اتفاق سے اس وقت ایک برہمن جو ہماری برادری کا بزرگ تھا.اور مالدار بھی تھا.قصبہ میں اس کا بڑا اثر ورسوخ تھا.ادھر آنکلا.اس نے ڈانٹ ڈپٹ کرسب کو چپ کرا دیا.اور کہا کہ اس طرح ہنگامہ کھڑا کرنے سے لڑ کا ضد میں آ کر ہاتھ سے نکل جائے گا.تم خاموش ہو جاؤ.ہم اسے سمجھاتے ہیں شام کو جب میں گھر آیا تو ہماری برادری کے برہمن میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم نے سنا ہے کہ تم مسلمانوں کے ساتھ نمازیں پڑھتے ہو.میں نے کہا ہاں یہ درست ہے میں نے آج جمعہ کی نماز پڑھی ہے.وہ نہایت نرمی سے پیش آئے اور کہنے لگے کہ کوئی بات نہیں اس عمر میں انسان سے اکثر غلطیاں ہو جایا کرتی ہیں.ہم تمہارے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ اگر اپنے مذہب کے متعلق کسی کے بہکانے سے تمہارے دل میں کوئی وسوسہ پیدا ہوگیا ہے تو بتاؤ ہم رفع کر دیں گے.میں نے مورتی پوجا اور تاریخ کے متعلق جو مجھے اعتراض تھے ان پر ظاہر کئے وہ میری تشفی نہ کر سکے.ایک عرصہ تک ان سے بحث مباحثہ ہوتا رہا.آخر وہ مایوس ہو گئے.ان دنوں اگر چہ سناتن دھرمیوں اور آریا سماجیوں کی آپس میں بہت مخالفت تھی لیکن مجھ کو مسلمان ہوتے دیکھ کر انہوں نے بعض آریوں کو کہا کہ ہم تو کشن لعل کو سمجھا نہیں سکے تم جا کر سمجھاؤ.ان میں سے دو شخصوں نے (جن میں سے ایک کا نام لالہ بالک رام اور دوسرے کا نام کر پال سنگھ تھا اور ان کے ساتھ اور لوگ بھی تھے ) جو ہمارے قصبہ میں سرکاری ملازم تھے.اور مذہبی بحث میں اپنے آپ کو بہت چاتر سمجھتے تھے.کہا کہ کشن لعل داروغہ بھلا کہاں کا مناظر آ گیا ہے.جس کے سوالوں کا جواب نہیں دیا جا سکتا.ہم ابھی اس کو ٹھیک کر دیتے ہیں.چنانچہ وہ رات کو میرے پاس آئے باقی ہند و چھپ کر ارد گرد کے مکانوں کی چھتوں پر ہماری گفتگو سننے لگے.منشی عبدالوہاب صاحب نے مجھ کو بتایا کہ ان کو بھی ایک شخص نے آکر یہ اطلاع کر دی تھی کہ ہندووں نے بعض آریوں کو بحث کے لئے کشن لعل کے پاس بھیجا ہے.چنانچہ وہ بھی ایک مسلمان کے مکان پر جو ہمارا پڑوسی تھا آگئے تا دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے.میں اس وقت تک حضرت مسیح موعود کی کتابیں سرمہ چشم آریہ اور چشمہ معرفت پڑھ چکا تھا.دو دن کی بحث میں خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ عاجز گئے.منشی صاحب نے مجھ کو بتایا کہ فاصلہ پر ہونے کی وجہ سے وہ خود تو بحث نہ سن پاتے تھے لیکن جب بحث ختم ہوتی تو گلی میں چلتے ہوئے ہندو یہ ا فسوس کرتے جاتے تھے کہ لڑکا ہاتھ سے نکل گیا ہے.اس کی باتوں کا کوئی بھی جواب نہیں دے سکتا.جس سے مجھ کو اطمینان ہوجاتا تھا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیابی ہوئی ہے.غرض ہند و جب دلائل سے بات کرنے میں عاجز آگئے تو ایک دن ہماری برادری کے بڑے بوڑھے اکٹھے ہوکر میرے پاس آئے اور مجھ کو.

Page 78

56 سمجھانے لگے کہ اگر تم نماز نہیں چھوڑ سکتے تو بے شک پڑھو ہم تم کو منع نہیں کرتے لیکن مسجد میں جاکر نماز پڑھنے سے احتیاط کرو.اور اسلام کا اظہار نہ کرو میری والدہ صاحبہ کے ذریعہ بھی مجھ پر وہ یہی زور ڈالتے.وہ رو رو کر نصیحت کرتیں کہ بیٹا تم اپنے گھر میں جو مرضی ہے کرو مگر باہر نمازیں پڑھکر ہمیں بدنام نہ کرو میری بیوی کو بھی یہ لوگ ورغلاتے.اور کہتے کہ دیکھو تم کشن لعل کو دھرم پر قائم رکھ سکتی ہو.اگر تم نے کمزوری دکھائی اور اس کا ساتھ دیا تو وہ ہاتھ سے نکل جائے گا غرض میں نے ان سب کے زور دینے پر منظور کر لیا کہ میں اسلام کا اعلانیہ اظہار نہیں کروں گا.ادھر پنڈتوں نے میری خاطر باقاعدہ کتھا کرنے کا انتظام کیا.ہماری برادری کے بزرگ بڑے اہتمام کے ساتھ مجھ کو بلا کر لے جاتے حتی کہ انہوں نے مجھ کو اپنی سبھا کا سیکرٹری بھی بنا دیا.اور میری کڑی نگرانی کرنے لگے.تاکہ میری مصاحبت مسلمانوں کے ساتھ نہ ہو.غرض میں ایک آفت میں پڑ گیا.ہر دوار کی یا ترا ہندو بھی تو ہوتے ہی ہیں.پوتر اپوتر کا ان کو بڑا خیال ہوتا ہے چونکہ میں مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا منشی صاحب کے ساتھ مل کر کھانا بھی کئی بار کھایا تھا اس لئے ان کو خیال گذرا کہ اس کو گنگا جی کا اشنان کروانا چاہئے تا کہ شدھ ہو جائے.چنانچہ ایک دن موقع پا کر انہوں نے مجھ کو کہا کہ تم ہر دوار جا کر اشنان کر آؤ وہاں کئی دھر ما تمارہتے ہیں.ان سے مل کر تم کو فائدہ ہوگا میں نے کہا بہت اچھا موقع نکال کر اشنان کر آؤں گا.اس خیال سے کہ شاید میں کسی بہانہ سے اس تجویز کوٹلا نہ دوں انہوں نے میرے لئے خرچ بھی مہیا کر دیا اور مصر ہوئے کہ میں جلد چلا جاؤں.میں سخت گھبرایا.منشی صاحب سے مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے.میں مسلمان ہوں.ہر دوار کیسے جاؤں ؟ انہوں نے کہ کیا حرج ہے تم اشنان کر آؤ گنگا بھی دوسرے دریاؤں کی طرح ایک دریا ہے اس میں نہانے سے تمہارا اسلام تو نہ دھل جائے گا.چنانچہ میں ان کے مشورہ کے مطابق ہر دوار کو روانہ ہو گیا.ہمارے شہر کے برہمنوں نے وہاں کے جان پہچان والے بعض برہمنوں کے نام چٹھیاں لکھ دیں کہ کشن لعل آ رہا ہے.یہ دھرم سے برگشتہ ہے اسے سمجھاؤ.ہردوار جاتے ہوئے راستہ میں میری مصاحبت لدھیانہ کے بعض ہندؤوں سے ہوگئی.وہ بھی ہر دوار یا ترا کے لئے جارہے تھے لکسر کے سٹیشن پر گاڑی بدلنا تھی صبح کی نماز کا وقت تھا.ہماری گاڑی کے آنے میں تھوڑی دیر تھی مجھے کونماز پڑھنے کی فکر ہوئی لیکن اپنے ہم سفروں کے سامنے جو مجھ کو ہند و خیال کرتے تھے میں نماز نہیں پڑھ سکتا تھا.میں اپنا سامان ان کے سپر د کر کے خود اسٹیشن کے باہر چلا گیا تا کہ نماز پڑھوں پانی کی تلاش میں

Page 79

57 دور نکل گیا.ایک جگہ جو ہر تھا.وہاں میں نے وضو کیا اور نماز نیت دی اتنے میں گاڑی آگئی میں شش و پنچ میں پڑ گیا کہ کیا کروں.گاڑی تھوڑی دیر ٹھہرتی تھی نماز ہلکی پڑھتے بھی دل ڈرتا تھا کہ شاید گناہ کی بات نہ ہو.اور تو ڑ بھی نہیں سکتا تھا میرے پاس جس قدر نقدی تھی وہ اسباب کے ساتھ تھی.اس لئے فکر لاحق تھا کہ اگر گاڑی چھوٹ گئی اور میرے ساتھی اس میں سوار ہو کر ہر دوار چلے گئے تو اس موقع پر جبکہ ہزاروں آدمی یا تر ا کے لئے وہاں آئے ہوئے ہیں ان کو کس طرح ڈھونڈونگا نماز ختم کر کے میں اسٹیشن پر پہنچا تو گاڑی چل پڑی میں نے دوڑ کر چڑھنے کی کوشش کی.خدا کی قدرت ! جس دروازہ کو میں لپک کر پکڑتا وہ نہ کھلتا یکے بعد دیگرے گاڑی کے پانچ چھ ڈبے گذر گئے مگر مجھے کامیابی نہ ہوئی اچانک ایک دروازہ پر جو میں نے ہاتھ ڈالا تو کھل گیا جو نہی میں اندر گیا ایک کونے سے آوازیں اُٹھیں.وہ آ گیا کشن لعل وہ آگیا ادھر آؤ ہم تمہارا انتظار کرتے تھے“ دیکھا تو میرے ہمسفر تھے جن کے پاس میرا اسباب تھا میں نے خدا کا شکر کیا اگر میں رہ جاتا تو ان کا تلاش کرنا مشکل ہو جاتا اور مجھ کوسفر میں خرچ نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف اٹھانی پڑتی.یہ بات اگر چہ بظاہر معمولی معلوم ہوتی ہے مگر اس وقت خدا تعالیٰ کی اس تائید کا میرے دل پر بڑا اثر ہوا.ہر دوار کے مختصر حالات ہردوار میں جو برہمن ہیں وہ تیرتھ پر وہت کہلاتے ہیں.یہ پر وہتی ان کو کسی لیاقت کی بناء پر نہیں ملتی بلکہ موروثی ہوتی ہے نسلاً بعد نسل یہ لوگ گرو بنتے چلے آتے ہیں اور جمان یعنی مرید بھی ان کے موروثی ہوتے ہیں.ہندووں میں چار درن ہیں برہمن، کھشتری، ولیش اور شودر.آخری ورن یعنی شودروں کو چھوڑ کر باقی تین ورن یاترا کیلئے ہر دوار جا سکتے ہیں ان تینوں ورنوں میں پھر آگے کئی گوتیں ہیں ہر ایک گوت کے علیحدہ علیحدہ پر وہت ہوتے ہیں.جس طرح موروثی ترکہ تقسیم ہوتا ہے اسی طرح پر وہت کے خاندان کے کل افراد میں نسلاً بعد نسل پر وہتی علاقہ وار تقسیم ہوتی چلی جاتی ہے گویا ان میں سے ہر شخص علیحدہ علیحدہ اپنے اپنے علاقہ کے مخصوص گوت والے ہندووں کا پروہت بن جاتا ہے.جب میں ہر دور پہنچا تو سٹیشن پر میں نے دیکھا کہ بے شمار پروہت اور ان کے ایجنٹ ہاتھوں میں بڑی بڑی بہیاں اٹھائے ادھر ادھر گھومتے پھرتے ہیں اور ہر ایک سے پوچھتے ہیں کہ کون گوت مہاراج ؟ کون گوت مہاراج؟ اور ان میں سے اپنے عجمانوں کو ڈھونڈ نکالتے ہیں میرے پروہت نے بھی جلد ہی مجھ کو ڈھونڈ لیا.اور اپنے ہمراہ اپنی حویلی میں لے آیا.یہ صاحب ضلع لدھیانہ.انبالہ اور ریاست پٹیالہ وغیرہ کے سارسوت گوت والے برہمنوں کے پروہت تھے اس جگہ پہنچ کر میں نے حسب توفیق گرومہاراج کی

Page 80

58 خدمت میں نذر پیش کی وہ خوش ہوئے دعا دی.ہمارے قصبہ کے لوگوں کے حالات پوچھے یہاں کے پروہت شجرہ نسب محفوظ رکھنے میں کمال رکھتے ہیں.بڑی بڑی بہیاں بنائی ہوئی ہیں اور صدیوں سے نسلاً بعد نسل اپنے جمانوں کا شجرہ لکھتے آتے ہیں.طریق یہ ہے کہ جب کوئی عجمان یا ترایا کسی فوت شدہ رشتہ دار کے پھول چڑھانے کے لئے ہر دوار آتا ہے اس سے اس کے خاندان اور قصبہ کے دوسرے جان پہچان والے لوگوں کے ہاں کی پیدائش اور اموات کے حالات دریافت کر کے بہی میں درج کرتے رہتے ہیں اس طرح پشتہا پشت کے جمانوں کا ٹھیک ٹھیک شجرہ نسب محفوظ چلا آتا ہے پروہت جی نے ہمارے خاندان کا شجرہ مجھ کو سنایا اور مجھ سے پوچھ کر بعض ابزادیاں کیں.سب سے بڑی دقت مجھ کو وہاں نماز پڑھنے کے لئے اُٹھانی پڑی.ہندوؤں کے سامنے میں نماز نہ پڑھ سکتا تھا.میں تین چار کوس دور نکل جاتا اور جوالا پور کے پاس جنگل میں چھپ کر نمازیں پڑھتا.ہردوار کی سیر کا مجھے کو خوب موقع مل گیا گر و کل کانگڑی بھی گیا جہاں آریوں کا مذہبی سکول ہے اور گنگا جی کا اشنان بھی کیا.اور خوب کیا گنگا جی میں اتنی کرامت کہاں تھی کہ وہ اسلامی رنگ جو حضرت مسیح موعود کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے چڑھ چکا تھا.دھل جاتا.جتنا اشنان کیا اتنا ہی وہ اور چمکا اور روشن ہوا اور ہندو مذہب سے بیزاری بڑھتی گئی.گنگا کے بیچ میں مندر ہے اس کے قریب ہی گنگا کے پانی کی سطح تک سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں.ان پوڑیوں میں سے ھر کی پوڑی بھی مشہور ہے ان سیٹرھیوں سے اتر کر مرد عورتیں مندر کے گر داشنان کرتی ہیں.گنگا کے اس مقام کو زیادہ متبرک سمجھا جاتا ہے عورتیں پتلا کپڑا یا چادر لپیٹ کر نہاتی ہیں پانی سے بھیگے ہوئے کپڑوں میں عورتوں کا تمام جسم عریاں نظر آتا ہے.صبح جب میں گنگا کے کنارہ پر جاتا تو عجیب سماں ہوتا علی الصبح سورج کی کرنیں پانی پر پڑتی ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گنگا مائی اپنے پتروں کی عقل پر ہنستی ہے کہ مخدوم پجاری بنتا ہے اور خادم پچتا ہے چند روز ہر دوار میں ٹھہرا.پھر وطن لوٹ آیا.اور سیدھا منشی عبدالوہاب صاحب کے گھر گیا.ان کو سارا ماجرا کہہ سنایا ان کی موحدانہ باتیں سنیں کلفت دور ہوئی اور گھر گیا.سب خوش ہوئے اور ہردوار کی باتیں پوچھنے لگے.انہوں نے شکر کیا کہ شدھ ہو آیا میں نے بھی شکر کیا کہ واقعی شدھ ہو آیا ہوں.اگر کوئی رگ شرک کی ابھی باقی تھی تو وہ بھی کٹ گئی اور ہندو دھرم سے بالکل بیزاری ہوگئی.اسلام کا اعلان :.سیدنا حضرت مسیح موعود کا وصال ہوگیا تھا.حضرت خلیفہ المسیح اول کی خلافت کے ابتدائی

Page 81

59 ایام تھے.دن اسی طرح گزر رہے تھے چھپ کر نمازیں پڑھتا تھا.اعلانیہ اسلام کا اظہار نہ کیا تھا.دل میں سخت کڑھتا تھا لیکن کچھ کر نہ سکتا تھا.اللہ تعالیٰ کو مجھے اس حالت میں رکھنا منظور نہ تھا.ایک دن شام کو جب میں دفتر سے گھر آنے لگا تو راستہ میں میری حالت سخت خراب ہوگئی اور مجھ میں چلنے کی سکت باقی نہ رہی.بڑی مشکل سے گھر آیا اور چار پائی پر آکر گر گیا.میری والدہ سخت گھبراگئیں بھائی کو بلایا انہوں نے نبض دیکھی اور فکر مند ہوئے.ڈاکٹر کو بلانے چلے گئے.میں نے بھی اپنی نبض دیکھنے کی کوشش کی مگر گھبراہٹ میں مجھے نبض نہ ملی اس وقت مجھ کو خیال آیا کہ میں دل سے مسلمان ہوں.لیکن میں نے اپنے اسلام کا اعلانیہ اظہار نہیں کیا.اگر مر گیا تو ہند و مجھ کو جلا دیں گے اور میری لاش مسلمانوں کو نہ دیں گے.خدا تعالیٰ کے حضور جا کر اس کوتاہی پر مجھ سے باز پرس ہوگی.اس خیال سے میری طبیعت میں سخت بے چینی پیدا ہوئی.میرے دل میں تحریک ہوئی کہ میں اپنے مولیٰ کے حضور دعا کروں کہ مجھے اتنی مہلت مل جائے کہ میں اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دوں.اسلامی مسائل سے مجھ کو زیادہ واقفیت نہ تھی میں سمجھتا تھا کہ دعا صرف نماز میں ہی ہو سکتی ہے.اور چونکہ میں نے کبھی کسی کو چار پائی پر نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا اس لئے میں اس وقت یہ خیال کرتا تھا کہ چار پائی پر نماز نہیں ہوسکتی اتنی مجھ میں سکت نہ تھی کہ اُٹھ سکتا بڑی مشکل سے میں نے اپنے آپ کو چار پائی سے نیچے گرایا اور زمین پر لیٹ کر نماز پڑھنی شروع کر دی کہ الہی اگر میری موت ہی مقدر ہے تو مجھ کو اتنی مہلت دے کہ میں اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دوں.نماز میں ہی میری حالت سنبھلنے لگی.بھائی صاحب ڈاکٹر صاحب کو لینے گئے ہوئے تھے.ڈاکٹر صاحب کے آنے میں کچھ دیر ہوگئی.جب میں نماز سے فارغ ہوا تو میرے بھائی صاحب ڈاکٹر با بوتانی رام کو ہمراہ لے کر آئے تانی رام با قاعدہ ڈاکٹر نہ تھے ایک قسم کے کمپاؤنڈر تھے لیکن قصبہ میں مشہور اور شہرت یافتہ تھے اور ہمارے قصبہ میں پریکٹس کرتے تھے.انہوں نے ملاحظہ کر کے بتلایا کہ اس کو بند ہیضہ ہو گیا ہے واللہ اعلم کیا مرض تھا.اور تسلی دی کہ اب فکر کرنے کی بات نہیں ہے حالت اچھی ہو رہی ہے.غرض وہ تو یہ کہہ کر چلے گئے ادھر خدا تعالیٰ نے مجھ پر فضل کیا کہ لحظہ بہ لحظہ روبصحت ہونے لگا.دو چار روز میں کمزوری جاتی رہی اور میں بالکل تندرست ہو گیا.دراصل میرے مولیٰ کریم کو پسند نہ تھا کہ میں اسلام کو دل سے قبول کر کے پھر اپنی فطری کمزوری کی وجہ سے چھپارہتا.اس نے اس موقع پر میری دستگیری فرمائی.اور ایک ٹھوکر لگا کر میری آنکھیں کھول دیں.اور مجھ کو مجبور کیا کہ میں اعلانیہ مسلمان بنوں..تندرست ہو کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں کیونکر اسلام کا اعلان کروں.غیر مسلم ریاست تھی.ان دنوں وہاں

Page 82

60 مذہبی آزادی نہ تھی پھر بال بچے دار بھی ہو گیا تھا.بیوی ساتھ نہ دیتی تھی.ملازمت سے برطرف ہونے اور جدی جائیداد سے محروم ہونے کا خوف بھی دامنگیر تھا.جب اس بارہ میں سوچتا تو یہ سب موانع بھیانک شکل بنا کر میرے سامنے آتے دماغ کہتا اپنے انجام کو سوچ.لاوارثوں کی طرح کہاں مارا مارا پھرے گا.اور مجھ کو اس ارادہ سے باز رکھنے کی کوشش کرتا.مگر میں خدا تعالیٰ سے عہد کر چکا تھا کہ اب میں اسلام کا اعلان ضرور کروں گا.جانتا تھا کہ زندگی ختم تھی یہ مہلت مانگ کر لی ہوئی ہے اب غفلت کی اور بد عہدی ہوئی تو خداتعالی کی ناراضگی کا باعث ہوگی.اس کشمکش میں تھا کہ خیال آیا.سب حالات حضرت خلیفتہ ایسی اول کولکھ دوں.اور وہاں سے جو ارشاد ہو اس کے مطابق عمل کروں.چنانچہ ایک مفصل خط حضرت خلیفتہ المسیح اول کی خدمت میں لکھا کہ حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر مسلمان ہوا تھا.لیکن ابھی تک اعلانیہ طور پر اظہار اسلام کی توفیق نہیں ملی.بال بچے بھی ہیں.اور ملازم بھی ہوں اور بہت سے موانع در پیش ہیں جن کی وجہ سے رکا ہوا ہوں چاہتا ہوں کہ اب اسلام کا اعلان کر دوں.حضور نے لکھا کچھ دیر توقف کرو.ہندو عورتیں عموماً وفادار ہوتی ہیں اپنی اہلیہ کو تبلیغ کر اور اس کو بھی اپنے ساتھ لانے کی کوشش کرو.اس ارشاد کی تعمیل میں کچھ عرصہ اور رکا رہا.اپنی بیوی کو اسلام قبول کرنے کے لئے رضامند کرنے کی کوشش کرتا رہا.مگر میری والدہ اور خاندان کے دوسرے لوگ اسے ورغلا لیتے اور کہتے کہ کشن لعل محض تمہاری خاطر رکا ہوا ہے.اگر تم نے کمزوری دکھائی اور اس کا ساتھ دیا تو وہ مسلمان ہو جائے گا.میں نے سوچا اس ماحول میں رہتے ہوئے اس کا مسلمان ہونا مشکل ہے.کسی طرح اس کو ان سے الگ کرنا چاہئے.چنانچہ میں اس کوشش میں کامیاب ہو گیا.اور ایک دوسرے مکان میں اپنی بیوی بچوں کو لے کر الگ ہو گیا.وہاں جا کر وہ مسلمان ہونے کے لئے آمادہ ہوگئی.چنانچہ ایک تاریخ مقرر کی گئی کہ اس دن چند روز کی رخصت لے کر قادیان جائیں گے اور مشرف بہ اسلام ہوں گے لیکن بعد میں نہ معلوم کیا ہوا.اس نے پھر کمزوری دکھائی ادھر مجھ سے قادیان چلنے کا وعدہ کیا دوسری طرف پوشیدہ طور پر اپنے والد کو پیغام بھجوا دیا کہ فلاں دن کشن لعل مسلمان ہونے کے لئے قادیان جائے گا.اور مجھ کو بھی ہمراہ لے جانا چاہتا ہے اگر اس کو بچانا ہے تو آ جاؤ جس صبح ہم نے قادیان کے لئے روانہ ہونا تھا اس سے قبل کی شام کو میرے خسر جو کہ ایک دوسرے قصبہ میں رہتے تھے جو بارہ میل کے فاصلہ پر تھا.نا گہاں آگئے جس وقت وہ ہمارے مکان میں داخل ہوئے میں نے دیکھا کہ وہ ہانپ رہے تھے اور ان کے گھٹنے لرزتے تھے شاید غصہ اور رنج کی وجہ سے ان کی یہ حالت تھی.میں ان کی حالت دیکھ کر سمجھ گیا کہ خیر نہیں ان

Page 83

61 کو ضرور کسی نہ کسی طرح ہمارے عندیہ سے آگا ہی ہوگئی ہے انہوں نے مجھ سے کلام نہیں کی.اور سید ھے اندر چلے گئے.تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ انہوں نے میرے لڑکے کو اٹھایا ہوا ہے اور میری بیوی کو ساتھ لے کر جا رہے ہیں.میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہاں چلی ہو.اس نے کہا کہ میں مسلمان نہیں ہوسکتی جس دھرم میں میرے والد صاحب رہیں گے اسی میں میں رہوں گی میں اپنے والدین کو نہیں چھوڑ سکتی یہ کہہ کر وہ چلی گئی مجھ کو اس کی اس حرکت سے بہت صدمہ ہوا.دل میں کہا اے عورت میں تیری خاطر رکا ہوا تھا جب تو نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا تو اب مزید توقف کی ضرورت نہیں.میں نے اسی وقت تین چار قلمی اشتہار لکھے ان میں لکھا کہ میں اپنی خوشی سے اسلام قبول کرتا ہوں آج سے کوئی شخص مجھے ہندو نہ سمجھے لیٹی بنائی اور رات کو گیارہ بارہ بجے کے قریب جبکہ کاروبار بند ہو جاتے ہیں اور بازاروں میں آمد و رفت نہیں رہتی شہر کی مختلف جگہوں پر جا کر اشتہاروں کو چسپاں کر آیا.صبح ہوئی تو یہ خبر شہر میں آنا فانا پھیل گئی کہ کشن لعل داروغہ مسلمان ہو گیا ہے.ہندو مجھ کو تو کچھ کہہ نہ سکے کیونکہ ان دنوں داروغہ چونگی کو بہت کچھ اختیارات ہوتے تھے وہ چاہتا تو تاجروں کو کافی تنگ کر سکتا تھا.ان دنوں قانون ایسے تھے کہ باوجود چونگی میں محصول ادا کر دینے کے دوکاندار مال کو اس وقت تک کھول نہیں سکتے تھے جب تک داروغہ چونگی خود یا اس کا کوئی نمائندہ آکر تصدیق نہ کر دیتا تھا کہ مال کے مطابق محصول ادا کیا گیا ہے اور اگر کوئی دکاندار داروغہ کی تصدیق سے قبل مال کھول دیتا تھا تو وہ مستوجب سزا اور جرمانہ ہوتا تھا.اور داروغہ چونگی کو یہ اختیار ہوتا تھا کہ اگر کوئی شخص بغیر محصول چونگی ادا کئے شہر میں داخل ہو جائے تو وہ چہار چند تک محصول چونگی وصول کرلے.ہمارے قصبہ میں اکثر ہندو تاجر پیشہ تھے اس لئے ان کو مجھ سے کچھ دبنا پڑتا تھا.براہ راست تو وہ مجھے کو تکلیف نہیں پہنچا سکتے تھے لیکن میری والدہ صاحبہ اور دوسرے رشتہ داروں کو اسی طرح بعض غریب احمدیوں کو انہوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا ہماری برادری نے فوراً میری والدہ صاحبہ اور میرے بھائی صاحب کا بائیکاٹ کر دیا کیونکر میرے خسر نے برادری کی پنچایت میں میری والدہ صاحبہ پر یہ الزام لگایا کہ ان کے ایماء اور مدد سے کشن لعل میری لڑکی کو مسلمان کرنے لگا تھا.اگر میری والدہ مخالفت کرتیں اور کشن لعل کو علیحدہ نہ ہونے دیتیں تو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا تھا.غرض ایک عرصہ تک ہماری برادری نے والدہ صاحبہ اور ہمارے خاندان کا بائیکاٹ رکھا.آخر بعض لوگوں کی سفارش سے بڑی مشکل سے ہمارے خاندان کو معافی ملی اور اس شرط پر ان کو برادری میں داخل

Page 84

62 کیا گیا کہ وہ سب مجھ سے قطع تعلق رکھیں گے میری والدہ کو مجبور آیہ شرط مانا پڑی برادری کے ڈر سے نہ میں ہی والدہ صاحبہ کو مل سکتا تھا.اور نہ میری والدہ مجھ سے مل سکتی تھیں.میری والدہ صاحبہ کو مجھ سے بے حد محبت تھی.وہ میری جدائی کو برداشت نہ کر سکتی تھیں اور روتی رہتی تھیں شام کو دفتر بند کر کے جب میں مسلمانوں کے ہمراہ احمدیہ مسجد کو جاتا اور اپنے محلہ کے پاس سے گذرتا میری والدہ مجھ کو دیکھنے کے لئے بازار کے ایک طرف کھڑی ہو جاتیں.یہ نظارہ بہت تکلیف دہ ہوتا جب میں ادھر سے گذرتا تو اپنی والدہ کو روتے ہوئے پاتا.اکثر تو روتے روتے ان کی گھگی بندھ جاتی.اور دور تک ان کے رونے کی آواز سنائی دیتی مجھ کو بہت تکلیف ہوتی.مگر برادری کے ڈر سے ہم نہ مل سکتے تھے ایک عرصہ اسی طرح ہوتا رہا.والدہ صاحبہ کی حالت دن بدن خراب ہونے لگی مجھ سے یہ برداشت نہ ہوسکا میں نے سوچا کہ کسی طرح والدہ صاحبہ سے ملاقات کر کے ان کی دلجوئی کرنی چاہئے.ہمارے پڑوس میں کچھ گھر مسلمان نیل گروں کے تھے میں نے ایک مسلمان عورت کی وساطت سے والدہ صاحبہ کو کہلا بھیجا کہ میں رات کو فلاں مسلمان کے مکان پر آؤں گا آپ بھی چھپ کر آجائیں وہاں ہم مل لیں گے.والدہ صاحبہ تو پہلے ہی بیقرار تھیں انہوں نے رضامندی کا اظہار کر دیا.کافی رات گذرے میں وہاں گیا.والدہ صاحبہ بھی چھپ کر آگئیں.بہت دیر تک باتیں ہوتی رہیں.اور اس طرح ہماری ملاقات ہونے لگی.جن دنوں میں نے اسلام کا اعلان کیا اس وقت مہا راجہ پٹیالہ ابھی کمسن تھے.اور کونسل آف ایجنسی کا زمانہ تھا.ریاست میں مذہبی آزادی نہ تھی اگر کوئی سرکاری ملازم مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہو جاتا تو اس کو ملا زمت سے برطرف کر دیا جاتا تھا.چنانچہ ہندو میری برطرفی کے منتظر تھے لیکن خدا تعالیٰ کا ایسا تصرف ہوا کہ جب میں نے اس امر کی رپورٹ افسران کو کی کہ میں نے برضاء رغبت اسلام قبول کر لیا ہے اس لئے کاغذات سرکاری اور سروس بک میں میرا نام کشن لعل کی بجائے عبدالرحیم درج کر لیا جائے.ان دنوں ہمارے شہر میں ہند و تحصیلدار کی بجائے ایک مسلمان تحصیلدار غلام محی الدین خان تبدیل ہو کر آگئے تھے.اسی طرح ضلع میں بھی ہندو ناظم (یعنی ڈپٹی کمشنر ) کی جگہ مسلمان ناظم عبد الحمید خان صاحب آگئے تھے.تبدیلی مذہب کے متعلق ایکشن لینا ناظم صاحب اور دیوان صاحب ( یعنی کمشنر ) کے اختیار میں تھا یعنی ناظم صاحب کی سفارش پر دیوان صاحب ملازمت سے برطرف کر سکتے تھے.لیکن ہوا یہ کہ جونہی میری درخواست تحصیلدار صاحب کی طرف سے ناظم صاحب کی خدمت میں بھجوائی گئی.انہوں نے دیوان صاحب کی خدمت میں رپورٹ کرنے کی بجائے میرے نام کی تبدیلی کے لئے

Page 85

63 براہ راست اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر میں رپورٹ بھیج دی.اکاؤنٹنٹ جنرل ان دنوں ایک انگریز مسٹر ہڈلف صاحب ہوا کرتے تھے ان کو اس بات سے کوئی سرو کار نہ تھی کہ کون ہندو ہوتا ہے اور مسلمان.انہوں نے کاغذات میں میرا نام تبدیل کر کے عبدالرحیم درج کرا دیا.چنانچہ عبدالرحیم کے نام سے تنخواہ برآمد ہونے لگی ادھر ناظم صاحب نے اپنے دفتر میں حکم دے دیا کہ سروس بک میں میرا نام درج کر دیا جائے ایک ابتلاء اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دستگیری:.چونگی خانہ کے ایک کمرہ میں میں رہتا تھا سر دیوں کے دن تھے.ایک دفعہ میں بیمار ہو گیا.سخت تیز بخار تھا.میں اکیلا پڑا گھبرا گیا.دل میں شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ مسلمان ہو کر تم نے کیا لیا؟ بیمار پڑے ہو پاس کوئی پانی دینے والا بھی نہیں.بہن بھائی.والدہ بیوی.بچے سب ہی ہیں.لیکن کوئی تمہارے منہ نہیں لگتا.کیا ہندو رہ کر تم خدا کی عبادت نہیں کر سکتے تھے.بت پوجابے شک نہ کرتے مگر رام اور رحیم میں تو کوئی فرق نہیں.وہ تو ایک ہی ذات کے دو نام ہیں ہندورہ کر رام رام جیتے تو کیا تھا غرض اس قسم کے خیالات دماغ میں چکر لگانے لگے لیکن میرے رب نے گرتا دیکھ کر پھر مجھ کو سنبھالا اور میرے دل میں یکلخت تحریک پیدا ہوئی کہ یہ سب شیطانی وساوس ہیں.تم کو دعا اور استغفار کرنا چاہئے.چنانچہ میں نے لحاف میں ہی تیم کر کے نماز پڑھنی شروع کر دی اور دعا کی.الہی ! اگر چہ میرے عزیز واقارب حتی کہ ماں نے بھی مجھے چھوڑ دیا ہے لیکن حضور تو ماں باپ سے بھی بڑھکر ہمدرد اور خیر خواہ ہیں تیری موجودگی میں تجھ سے بڑھکر اور میرا کون ہمدرد ہوسکتا ہے اگر عزیز واقارب نے چھوڑ دیا ہے تو تو موجود ہے تو میری دستگیری فرما.اور اس دکھ کو جو میری روح کو کھا رہا ہے نجات دے نماز میں میں خدا تعالیٰ کے حضور خوب رویا.اسی دوران میں مجھے ایسا پسینہ آیا کہ میرا بخار خدا تعالیٰ کے فضل سے اتر گیا.اور میرے دل کو غیر معمولی تسکین اور راحت ہونی شروع ہوگئی.ہجرت بسوئے قادیان دار الامان: ایک عرصہ اسی طرح گزر گیا.ایک دن مجھ کو خیال آیا کہ تم مسلمان تو ہو گئے ہولیکن اسلام کی تعلیم تو حاصل نہیں کی.میرے دل میں تحریک ہوئی کہ میں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھوں مگر قصبہ بنوڑ میں ایسا ہونا ممن نہ تھا.میں نے دعا شروع کر دی ہوئی تھی.آخر خدا تعالیٰ نے میرے لئے یہ سامان بھی پیدا کر دیا کہ رسالہ تفخیذ الاذہان میرے نام آیا کرتا تھا.حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) اس کے ایڈیٹر تھے.ایک دفعہ میں نے اس میں اشتہار دیکھا کہ رسالہ تحیۃ الاذہان کے لئے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو حساب کتاب رکھ سکتا ہو اور کسی قدر مضمون و غیرہ لکھنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہو.میرے

Page 86

64 دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ میں درخواست کروں.شاید مجھ کو قادیان میں رہنے کا موقع مل جائے میں نے لکھا کہ میں نو مسلم ہوں.اسلام کے متعلق زیادہ واقفیت نہیں رکھتا اس لئے مضمون وغیرہ تو نہیں لکھ سکتا البتہ حساب کتاب کا کام کرسکوں گا.میں اس وقت ریاست میں ملازم ہوں لیکن میری خواہش ہے کہ میں اسلام کی تعلیم سیکھوں.اگر آپ مجھ کو مفید مطلب سمجھیں تو میں قادیان آنے کے لئے تیار ہوں.درخواست دینے کے بعد مجھے ایک رویا بھی ہو چکا تھا کہ میں قادیان میں ہوں ایک کمرہ میں بیٹھا ہوں وہاں اور بھی لوگ ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے مجھے بلایا اور ایک کتب خانہ کی الماریوں کی چابیوں کا گچھا میرے سپرد فرمایا.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب میں بلانے پر قادیان پہنچا تو تفخیذ الاذہان کی لائبریری میں دو ہزار کے قریب کتب تھیں.اس کی چابیوں کا گچھا میرے سپرد کیا گیا.حالانکہ اس سے قبل میں نے تفخیذ الاذہان کی لائبریری بھی نہ دیکھی تھی.حضرت صاحب نے لکھا کہ بتاؤ کس قدر گزارہ پر تم یہاں آ سکتے ہو.میں نے عرض کیا کہ قادیان کے حالات سے مجھ کو واقفیت نہیں کہ کس قدر رقم میں میرا وہاں گزارہ ہو جائے گا بہر حال میں دس روپے ماہوار تک تنخواہ پر آجاؤں گا میری والدہ چونکہ ہندو ہیں حین حیات ہیں پانچ روپے ماہوار میں ان کو بھیج دیا کروں گا اور پانچ روپے میں خود گذارہ کرلوں گا.اور لکھا کہ اگر اس سے کم میں وہاں میرا گزارہ ممکن ہوا تو میں اس سے بھی کم لینے کیلئے تیار ہوں حضرت صاحب نے تحریر فرمایا.آ جاؤ.چنانچہ میں نے اپنی ملازمت سے چھ ماہ کی رخصت بلا تنخواہ لی اور ۲۶ دسمبر ۱۹۱۰ء کو قادیان حاضر ہو گیا.بعد میں قادیان سے ہی اپنا استعفے لکھ کر بھیج دیا.اس وقت سے تقسیم ملک تک اللہ تعالیٰ نے مجھ کو قادیان میں رہنے کی توفیق دی.دینی تعلیم کا اللہ تعالیٰ نے ایسے انتظام کیا کہ قادیان میں میری مصاحبت حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب حلال پوری سے ہوگئی.ایک عرصہ تک ہم دفتر تفخیذ الاذہان میں اکٹھے رہتے رہے.ہمارا کٹھا کھانا پکتا اور اکٹھے ہی کھاتے.حضرت مولوی صاحب کا سلوک مجھ سے بھائیوں کا سا تھا فرمایا کرتے تھے کہ آپ کی شکل و شباہت پر میرا ایک بھائی تھا جو فوت ہو گیا ہے اس وجہ سے بھی مجھ کو آپ سے بہت محبت ہے.اللہ تعالیٰ ان پر بہت بہت برکتیں اور رحمتیں نازل فرمائے.ان کی مہربانی اور توجہ سے میں نے ان سے قرآن کریم کا ترجمہ اور بعض کتب حدیث کی پڑھ لیں.حضرت خلیفہ امسیح اول کے ارشاد کی تعمیل میں قادیان آ کر بھی میں نے اپنی بیوی اور بچوں کو یہاں لانے کی کوشش جاری رکھی.اس غرض کے لئے کئی دفعہ اپنے وطن گیا.ایک دفعہ مستری رحمت اللہ صاحب احمدی ساکن

Page 87

65 بنوڑ کو اپنے ہمراہ لے کر اپنے سسرال موضع نند پور بھی گیا.اور ایک مسلمان عورت کے ذریعہ اپنی بیوی کو مسلمانوں کے گھر ملنے کے لئے بلایا لیکن اس نے کہلا بھیجا کہ اگر اپنی زندگی کی خیر چاہتے ہو تو یہاں سے فوراً چلے جاؤ.میرے والدین کو پتہ لگ گیا تو تمہاری خیر نہیں.پھر ایک دفعہ مجھ کو اطلاع ملی کہ وہ میری والدہ محترمہ کو ملنے کے لئے ہمارے شہر بنوڑ میں آئی ہوئی ہے.یہ خبر سنتے ہی میں اس کو ملنے گیا.گو ہندؤوں کی طرف سے اس کی نگرانی اور حفاظت کا پورا انتظام تھا لیکن پھر بھی اس کے ملنے کی صورت پیدا ہوگئی.اس دفعہ اس نے قادیان میں میرے ساتھ آنے کیلئے آمادگی ظاہر کی.ہم نے چلنے کے لئے رات کا وقت مقرر کیا لیکن اس نے پھر ہند ورشتہ داروں کو اطلاع کر دی جب وقت مقررہ پر میں اس کو لینے کے لئے گیا تو ہندو اکٹھے ہو کر اچانک مجھ پر حملہ آور ہوئے میں ان کے نرغہ میں بری طرح پھنس گیا.ہمارے محلہ کے مسلمانوں نے جو نہیں شور سنا فوراً ہمارے مکان میں آداخل ہوئے اور مجھے ہندوؤں کے نرغہ سے نکال کر اپنے گھیرے میں لے لیا اور محفوظ جگہ پر پہنچادیا.اپنی بیوی کی اس حماقت سے مجھ کو شبہ ہوا کہ ہندوؤں کے منصو بہ اور مشورہ سے دانستہ طور پر مجھ کو مارنے کے لئے یہ تدبیر سوچی گئی تھی لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے میری حفاظت فرمائی اور ان کے شر سے بچالیا.دراصل میرے خسر کی نرینہ اولا دفوت ہو چکی تھی.میری بیوی کو والدین کی جائیداد کا لالچ بھی تھا جو مسلمان ہونے کی صورت میں اس کو نہ مل سکتی تھی اس لئے وہ مسلمان ہو کر اپنے والدین کو ناراض نہ کرنا چاہتی تھی.غرض مجھ کو اس کے لانے میں کامیابی نہ ہوئی.آخر ۱۹۳۰ء میں میری بیوی ، دونوں لڑکے اور خسر طاعون سے فوت ہو گئے.افسوس میری اولاد کا ایک حصہ مشرف بہ اسلام ہونے سے محروم رہ گیا.انا لله و انا اليه راجعون.دوسری شادی : ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ الہ تعالی نصرہ العزیز کی مہربانی سے میری دوسری شادی کا انتظام ہوا.میری بیوی عائشہ بیگم حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پروردہ ہیں.ان کے والد کرم داد خان مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس خادمانہ حیثیت سے رہتے تھے.اصل وطن ان کا موضع ڈھینگ ضلع گجرات تھا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور بعض دیگر بزرگوں کی روایات میں ان کا ذکر آتا ہے غالبا ۱۹۰۴ء میں ان کا وصال ہوا تھا میری بیوی کی والدہ کا نام سلطان بی بی تھا.جو موضع کیٹری کی رہنے والی تھیں.اور مغل قوم سے تھیں.حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب کو انہوں نے دودھ پلایا تھا.آپ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ میری بیوی کا ایک بھائی عبدالرحمن نامی تھا جو بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 88

99 66 پنڈت شادی رام (متوفی) شجر ونسب پنڈت رلیا رام (از بطن اہلیہ اول) شیخ عبدالرحیم شر ما ( صحابی ) از بطن اہلیہ دوم) اہلیہ اول مع ساری اولا د۱۹۳۰ ء میں ) ( طاعون سے فوت ہوگئی ) ( محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ ) عبدالکریم شرما عبدالحمید امتہ الحمید عبدالرشید امته الرشيد عبداللطیف عبدالحفیظ اشرف محمود افضل محمود امتہ السمیع ریحانہ کوثر عبدالشکور عبدالغفور عبدالرؤف عبدالحلیم اہلیہ اول آمنہ بیگم مبارک احمد انور محمود مهار که میگم منور احمد مظفر احمد اہلیہ دوئم مجیدہ بیگم بشری مبشر منور

Page 89

67 تعمیر مکان.خدمات سلسلہ اور لٹریچر میں ذکر :.قادیان میں تعمیر مکانات ”وَسَعُ مَكَانَگ‘‘ (17) کے الہامی ارشاد کی تعمیل ہے.بلکہ قادیان سے باہر بھی ان عمارات کی تعمیر جن کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے رسالہ تفخیذ الاذہان میں مرقوم ہے منشی عبدالرحیم صاحب محرر تشحید بھرتی ڈلوانے کا کام شروع کر چکے ہیں منشی صاحب نو مسلم ہیں تنخواہ تو معمولی گزارہ کے لئے بمشکل کافی ہے ان کی کفایت شعاری قابل قدر ہے کہ بھرتی کے لئے کچھ روپیہ اپنی وجہ کفایت سے بچالیا ہے." ( 18 ) * آپ کو تشحیذ الاذہان کے بعد نظارت امور عامہ اور نظارت بیت المال میں کام کرنے کی توفیق ملی اور بیت المال ہی سے جبکہ آپ ہیڈ کلرک تھے سبکدوش ہوئے.مالی خدمات : الفضل میں اعلان ہوا کہ علاقہ ارتداد ملکانہ میں عیدالاضحی کے موقع پر بکروں کی قربانی کی جانی مناسب ہے قیمت فی بکر اچھ روپے ہے.چنانچہ ایک ہفتہ کے اندر دوصد سولہ قربانیوں کی قیمت بارہ صد چھیانوے روپے وہاں پہنچ گئے اور اس کا وہاں خوشگوار اثر ہوا ایک قربانی کی رقم منشی عبدالرحیم صاحب ( کارکن.ناقل ) تعلیم وتربیت کی طرف سے ادا ہوئی.آپ کو تحریک جدید کے دور اول کے مجاہدین میں شامل ہونے کا موقع ملا.آپ نے قریباً ایک صدانتالیس روپے چندہ دیا.(19) بقیہ حاشیہ :.حضرت خلیفہ المسیح اول کے عہد میں (قادیان کی) ڈھاب میں ڈوب گیا تھا.ایک اخیافی بہن مسماۃ رحمت بی بی زندہ ہیں جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کی رضاعی بہن ہیں اور اس وقت چک ۹۶ گ ب تحصیل جڑانوالہ (ضلع لائل پور ) میں رہتی ہیں.خاکسار مئولف کے استفسار پر حضرت ممدوح رقم فرماتے ہیں ”سلطان بی بی صاحبہ مرحومہ میری رضاعی والدہ تھیں (میری رضاعی ماؤں کی تعداد سات ہے ) مگر اس وقت ان کے خاوند ایک صاحب تھے جو فوت ہو گئے اور ان کے بعد ان کی شادی کرم داد صاحب کے ساتھ ہوئی رحمت بی بی میری رضاعی بہن ہیں وہ کرم داد صاحب کی اہلیہ ہیں“ ہ معلوم ہوتا ہے کہ قادیان گائیڈ کی اشاعت ( ۲۵ دسمبر ۱۹۲۰ء) تک ابھی آپ مکان نہیں تعمیر کر سکے تھے تبھی اس میں دار الفضل والی فہرست میں آپ کے مکان کا ذکر نہیں نو مسلم احباب مقیم قادیان میں آپ کا نام درج ہے (صفحہ ۹۴ ) اور کلرک نظارت امور عامہ ہونے کا بھی ذکر ہے (صفہ ۹۵،۹۴)

Page 90

68 یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ آپ کے صاحبزادہ خویم شیخ عبدالکریم صاحب شر ما مولوی فاضل مشرقی افریقہ میں بطور مجاہد اسلام مصروف خدمت ہیں.دوسری بارسلسلہ کی طرف سے بھجوائے گئے ہیں اور آپ کے فرزند شیخ عبدالرشید صاحب شر ما شکار پور (سابق سندھ ) کی جماعت کے صدر ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی یاد : بحمد اللہ بعد ازاں والدہ صاحبہ قادیان آئیں اور انہوں نے اسلام اور احمدیت کو قبول کر لیا.ان کا نام سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حمیدہ رکھا.۱۹۳۵ء میں فوت ہو کر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں.اس وقت جب میں یہ سوچتا ہوں کہ میں کس طرح مسلمان ہو گیا تو سخت حیران ہوتا ہوں میرے وہ دوست جو مجھ سے واقف ہیں وہ میری حالت کو جانتے ہیں میری طبیعت میں حجاب زیادہ ہے مجھ میں بھلا یہ طاقت کہاں تھی کہ میں از خودمسلمان ہو جاتا اور پھر سب رکاوٹوں اور مخالفتوں کا مقابلہ کر سکتا.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہی تھا کہ اس نے مجھ کو اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی.اور نہ صرف یہ کہ میں مسلمان ہو گیا بلکہ یہ سعادت بھی ملی کہ میں نے سیدنا حضرت مسیح موعود کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آپ کے دست مبارک پر بیعت کی سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم.پھر دنیوی لحاظ سے بھی میں گھاٹے میں نہیں رہا.میں اکیلا قادیان آیا تھا اس وقت میری کیا حالت تھی ایک جوتی ایک دو جوڑے کپڑوں کے اور چند روپے یہ میرا اثاثہ تھا لیکن میرے مولیٰ نے مجھ کو ضائع نہیں کیا.میں نے وطن چھوڑا تھا اس سے بہتر وطن مجھ کوملا بیوی چھوڑی تھی اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بیوی بھی دی دو بچوں کو مجھے چھوڑنا پڑا تھا.اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پانچ لڑکے اور چار لڑکیاں عنایت کیں.رشتہ داروں اور برادری سے تعلق تو ڑا تھا یہاں آکر ان سے بہتر رشتہ دار اور محبت کرنے والی برادری ملی.رہنے کے لئے مکان دیا مجھ کو اپنی محسنہ والدہ کو چھوڑنا پڑا تھا جو مجھ کوسب سے زیادہ عزیز تھیں.بظاہر اس کمی کو پورا کرنا مشکل تھا.پر میرے رب نے یہ کمی پوری کی اور میری الفضل بابت ۱۵ نومبر ۱۹۵۹ء صفہ کے کالم ۱) میں ایک شخص کے لئے درخواست دعا کے طور پر اور ۲۰ جون ۱۹۶۱ء (صفہ ۶ کالم ۲) میں انصار اللہ کی طرف سے قائم کردہ امتحان میں کامیاب ہونے کی وجہ سے شیخ عبدالرحیم صاحب کا ذکر موجود ہے.محترمہ موصوفہ کے مفصل حالات ایک اور کتاب میں درج کئے جارہے ہیں.

Page 91

69 پیاری ماں بھی مجھ کو دی.وہ قادیان آئیں اور مشرف باسلام ہوئیں.میرے پاس ہی آخر دم تک رہیں اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.میرے رب کے مجھ پر کس قدر فضل ہوئے ؟ جب میں سوچتا ہوں تو میری روح سجدہ میں گر جاتی ہے.اے میرے رب ! میں کمزور تھا.تو نے مجھ کو سنبھالا.میں قدم قدم پر گر پڑتا تھا لیکن تو مجھ کو اٹھا تا تھا.میں مشکلات و مصائب کو دیکھ کرگھبرا جاتا تھا.تو مجھ کوتسلی دیتا تھا.اور میری ہمت بڑھاتا تھا.میں اس لائق کہاں تھا کہ مسلمان ہوتا ؟ محض تیرے فضل نے دستگیری کی اور میں مسلمان ہوا مجھ کو کیا پتہ تھا کہ تو نے اپنے کسی بندہ کو دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا ہوا ہے.تو نے خود ہی میری رہنمائی فرمائی.میر اعلم اتنا کہاں تھا کہ میں جانتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ( میری جان ان پر فدا ہو ) کون تھے.اور نبی کس کو کہتے ہیں.تو نے خود میری مشکل کو حل کر دیا.اور پکڑ کر ایک رہنما کے قدموں میں لا ڈالا اور اس منبع نور و ہدایت کی محبت سے میرے دل کو اس حد تک بھر دیا کہ میں بیعت کے لئے خود بخود کھنچا چلا گیا.مجھ کو اس وقت کیا معلوم تھا کہ مجھے کیا سعادت مل رہی ہے.میرے رب یہ تیرے کام تھے اور سب عجیب تھے.اے میرے رب ! اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں یہ میری عمر کا آخر ہے کچھ دنوں میں میں تیرے حضور حاضر ہوں گا میرے اعمال ایسے نہیں کہ میں تیرے حضور کھڑا ہو سکوں میں سراسر گنہگار ہوں اور ہر طرح سے نالائق ہوں.اے میرے رب ! جہاں تو نے مجھ پر اتنے فضل کئے اب یہ بھی کر کہ مجھ کو اپنی ستاری اور مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے اور اپنے فضل سے میرا انجام بخیر کر.ایسا ہواے میرے رب! کہ جب میں تیرے حضور حاضر ہوں تو تو مجھ سے راضی ہو.رَبَّنَا تَقَبّل مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الدُّعَاءِ.آمين.

Page 92

70 شیخ عبدالوہاب صاحب * والدین.وطن اور تعلیم اور اپنے مذہب سے نفرت کا آغاز :.آپ پنڈت چندو لال کے ہاں مسماۃ نکی کے بطن سے پیدا ہوئے.آپ کا وطن بنور ریاست پٹیالہ تھا.آپ چار بھائیوں میں سے تیسرے تھے.مدرسہ میں ایک دن ایک لڑکے نے کہا کہ ایک مسلمان لڑکے نے ، شوجی مہاراج کے بت کے اینٹ ماری تو ان کے سر سے گھڑوں خون بہہ گیا.آپ متعجب ہوئے اور اس امر پر یقین نہ کیا بلکہ کئی اینٹیں خود زورزور سے بت کو مار مار کر تجربہ کر لیا کہ خون کا ایک قطرہ بھی نہیں نکلا.اور آپ نے واقعہ بیان کرنے والے لڑکے کو یہ ماجرا کہہ سنایا.آپ نے آٹھویں جماعت میں مدرسہ چھوڑ دیا.نجوم کا شوق پیدا ہوا پھر پنڈ تائی کا چونکہ آپ کے والد پنڈت تھے اس لئے آپ کو جنم پتری.برس پھل.ٹیوہ وغیرہ بنانے میں خاص ملکہ پیدا ہو گیا اور اس کام میں کمال حاصل کر کے خوب شہرت حاصل کی.اسلام کی آغوش میں :.آپ فرماتے تھے کہ حاجی امیر محمد صاحب کا مجھے نیاز حاصل ہوا.وہ ایک نیک سیرت بزرگ تھے اور اب بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.ان کی خدا ترسی اور نیک اخلاق نے میرے دل کو موہ لیا.اور ان کے نیک نمونے نے مجھے اسلام کی کتابیں پڑھنے کی طرف راغب کیا ان کی وساطت سے غنیۃ الطالبین، فتوح الغیب، اکسیر ہدایت اور احیاء العلوم وغیرہ کتابیں دیکھیں.اسلام سے محبت تو پہلے سے ہی تھی.اب میں علی الاعلان ہندو دھرم چھوڑ کر مسلمان ہو گیا.اس وقت والد وفات پاچکے تھے.اور والدہ وغیرہ نے کسی قسم کی مخالفت نہ کی.نماز سیکھی.قرآن مجید پڑھا.پنڈتائی چھوڑ کر دری بافی کا کام شروع کر دیا.آپ کے حالات با صرا ر آپ سے دریافت کر کے منشی حبیب احمد صاحب کا تب بریلوی نے الفضل ۱/۱۴/۳۵ میں آپ کی زندگی میں شائع کئے تھے.منشی صاحب نے ان سے بار بار خواہش کی کہ اپنے حالات قلمبند کریں لیکن کسر نفسی مانع رہی.فرماتے کہ میں گمنامی کی حالت کو اچھا سمجھتا ہوں.رجسٹر بیعت میں حاجی صاحب موصوف کا اندراج ذیل کے الفاظ میں ہے :.بیعت ۲/۹۲/ ۲۱ بمقام کپورتھلہ محمد امیر خاں ولد چوہڑ خاں ساکن بنور ریاست پٹیالہ ڈاکخانہ سرہند ( نقل رجسٹر ) آپ کی وصیت نمبر ۲۷۹ اور تاریخ وفات ۵ جنوری ۱۹۰۸ ء ہے.اور آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.

Page 93

71 ایک آریہ سے مکالمہ ہونا اور حالت تذبذب میں پڑنا :.فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر تانی رام میرے بڑے گہرے دوست تھے وہ میرے مسلمان ہونے پر اکثر دل ہی دل میں کڑھتے تھے.لیکن مجھ سے کچھ نہ کہہ سکتے تھے.ایک دن مجھے ایک آریہ برہم پر کاش سے ملاقات کے لئے لے گئے.جو بطور منصرم تعینات ہو کر آئے تھے اور تعارف میں کہا کہ یہ ہمارے دوست ہیں اور ہندو سے مسلمان ہوئے ہیں.منصرم صاحب نے بعض تفاسیر کی بناء پر حضرت یوسف اور حضرت داؤد کی عصمت کے خلاف باتیں پیش کیں اور کہا کیا یہی نبیوں کی شان ہے جن کو تم پاک اور معصوم کہتے ہو اور انہی پر ایمان رکھنے کا حکم ہے؟ ان باتوں سے میرے دل پر بڑی چوٹ لگی گو یا غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا.اور میں اس بے چینی میں بہت سے مولویوں کے پاس گیا لیکن کچھ بھی میرے پلے نہ پڑا.میں نے خیال کیا کہ بڑی نادانی ہوئی.جو میں نے اسلام قبول کیا.اور خواہ مخواہ ہندو دھرم اور پنڈ تائی کو چھوڑا اور پر ماتما کی عطا کردہ عزت کو ٹھکرا دیا.ہندو دھرم ہی اچھا ہے اب آریہ مذہب کی کتب کے مطالعہ سے روز بروز اسلام سے دور ہونے لگا شفا خانہ کے سرکاری ڈاکٹر میرے بڑے دوست تھے مجھے پریشان دیکھ کر انہوں نے کہا کہ انسان کی زندگی میں ایسے واقعات ہو ہی جایا کرتے ہیں.انسان غلطی کر بیٹھتا ہے پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں لاہور جا کر شدھ ہو جاؤ.آمد و رفت کا کرایہ میں دے دوں گا.ظلمت میں نور کی جھلک اور قادیان کی زیارت :.شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں اسی کشمکش میں تھا کہ چند دوستوں نے شدھی سے پہلے قادیان دیکھنے کو کہا.لیکن میں مولویوں سے متنفر اور اسلام سے دل برداشتہ تھا.میں نے اس کو کچھ اہمیت نہ دی جب شدھی کے لئے گھر سے چل پڑا تو راستہ میں خیال آیا کہ اس میں حرج ہی کیا ہے کہ قادیان ہو آؤں جہاں اور مولوی دیکھے وہاں یہ بھی دیکھ لوں گا.اگر وہ بھی اسی طرح کے نکلے تو پھر شدھی ہو جائے گی.چنانچہ میں قادیان پہنچاسن یاد نہیں.سب سے پہلے میں نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو دیکھا تو سمجھا کہ یہی حضرت مرزا صاحب ہیں.جب نماز کے وقت حضرت مسیح موعود باہر تشریف لائے تو سب دوست تعظیماً کھڑے ہو گئے تو حقیقت کا علم ہوا.میں نے اپنے تمام اعتراضات حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی خدمت میں پیش کئے.ان اعتراضات کو مولویوں نے تمسخر اور استہزاء کے رنگ میں ٹال دیا تھا جس سے یہ لوگ میرے لئے اسلام سے نفرت و بعد کا ذریعہ بنے لیکن ان بزرگوں نے شرح وبسط سے جواب دے کر تمام شکوک رفع کر دیئے اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کے متعلق اطمینان

Page 94

72 اور سکینت نازل کر دی.احمدیت کی آغوش میں :.فرماتے ہیں کہ میں نے قریب دو ماہ دارالامان میں قیام کیا.خدا کا فرستادہ نبی ہم میں مغرب سے عشاء تک بیٹھتا اور میں اس سے نور حاصل کرتا.اور دربار شام سے لطف اندوز ہوتا.دن کے وقت حضرت مولوی صاحبان کی صحبت سے مستفید ہوتا.آخر میرے دل نے فیصلہ کیا کہ قادیان والے جو اسلام پیش کرتے ہیں اس کا مقابلہ کوئی مذہب کر ہی نہیں سکتا.یہ واقعی نور ہی نور ہے.اور تمام مذاہب میں ظلمت.اس کے بعد میں بیعت کر کے واپس چلا گیا.اور چونگی میں محرر ہو گیا.اور جب موقع ملتا حضور کی خدمت میں حاضر ہوتا.حضور کا ارشاد گرامی خدمت والدین کے متعلق اور شیخ صاحب کی سیرت :.شیخ صاحب بیان کرتے تھے کہ میری تبلیغ سے بفضلہ تعالیٰ والدہ اور بھائی بھی احمدی ہو گئے.میں نے شادی کرنا چاہی تو والدہ نے اس خیال سے کہ میں ان سے الگ ہو جاؤں گا رضامندی ظاہر نہ کی اور جب میں نے شادی کر لی تو اکثر اوقات میری بیوی پر سختی کرتیں اس کے متعلق کچھ عرض کرتا تو برامنا تیں.الغرض والدہ حضور کی خدمت میں دارلامان چلی گئیں اور نہ معلوم حضور سے کیا کیا میری شکایت کی جب وہ واپس آئیں تو حضور کے دست مبارک کا ایک خط ساتھ لائیں جس پر حضور نے اپنے دستخط کرنے کے علاوہ اپنی مہر اور نشان انگوٹھا بھی ثبت فرمایا تھا.حضور کا مکتوب گرامی یہ تھا.اگلے صفحہ پر ) آپ کی بیعت ۱۹۰۳ء کی ہے چنانچہ البدر میں بیعت کنندگان میں آپ کا نام دوبار درج ہے :.(الف) میاں شیخ نتھو صاحب ( بنور ) پٹیالہ :.میاں عبدالوہاب صاحب ( بنور ) پٹیالہ : مورخه ۱/۵/۰۳صفحہ ۱۲۰ کالم ۲) (ب) عبدالوہاب ولد چندو.بنوڑ پٹیالہ : - نتھو ولد چھوٹا بنوڑ پٹیالہ : مورخه ۲۴/۷/۰۳ صفحه ۲۱۶ کالم (۲) چونکہ شیخ عبدالوہاب صاحب کے بیان سے یقینی طور پر ثابت ہے کہ آپ نے قادیان آ کر مطمئن ہوکر بیعت کی تھی پھر بیعت دوبار کیونکر شائع ہوئی اس کی یہ توضیح ہے کہ ممکن ہے کہ چونکہ اول بار جلد بیعت شائع نہیں ہوسکتی تھی.دوسری بار پھر سہوا اس کام کے مہتم نے شائع کر دی آپ کی وصیت کے ریکارڈ سے یہ معلوم ہوا کہ آپ کا وصیت نمبر ۵۸۶۱ مورخہ ۲۹/۳/۲۱ ہے اس وقت آپکی عمر پینسٹھ سال تھی.۱۰ اکتو بر ۱۹۵۴ء کو ۷۸ سال کی عمر میں فوت ہوکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.وصیت جائیداد منقولہ مالیتی تین صد روپیہ اور پنشن ساڑھے سات روپے کے دسویں حصہ کی تھی ایک فرزند منظور حسین صاحب رتن باغ میں رہتے تھے یہ معلوم نہیں آجکل کہاں ہیں اور کیا مرحوم کی اور اولا د بھی تھی یا نہیں.

Page 95

73 بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد ه فصلی علی رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ:- مجھ کو یہ بات سن کر بہت رنج ہوا اور دل کو سخت صدمہ پہنچا کہ تم اپنی والدہ مسماۃ نکی کی کچھ خدمت نہیں کرتے اور سختی سے پیش آتے ہو اور دھکے بھی دیتے ہو تمہیں یادر ہے کہ یہ طریق اسلام کا نہیں.خدا اور اس کے رسول کے بعد والدہ کا وہ حق ہے جو اس کے برابر کوئی حق نہیں.خدا کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ جو والدہ کو بدزبانی سے پیش آتا ہے اور اس کی خدمت نہیں کرتا اور نہ اطاعت کرتا ہے وہ قطعی دوزخی ہے.پس تم خدا سے ڈروموت کا اعتبار نہیں ہے ایسا نہ ہو کہ بے ایمان ہو کر مرو.حدیثوں میں آتا ہے کہ بہشت ماں باپ کے قدموں کے نیچے ہے.اور ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص کی والدہ کو رات کے وقت پیاس لگی تھی اس کا بیٹا اس کے لئے پانی لے کر آیا اور وہ سوگئی بیٹے نے مناسب نہ سمجھا کہ اپنی والدہ کو جگا دے.تمام رات پانی لے کر اس کے پاس کھڑا رہا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ کسی وقت جاگے اور پانی مانگے اور اس کو تکلیف ہو.خدا نے اس خدمت کے لئے اس کو بخش دیا.سو سمجھ جاؤ کہ یہ طریق تمہارا اچھا نہیں ہے.اور انجام کارا ایک عذاب میں گرفتار ہو جاؤ گے.اور اپنی عورت کو بھی کہو کہ تمہاری والدہ کی خدمت کرے اور بد زبانی نہ کرے.اور اگر باز نہ آوے تو اس کو طلاق دے دو اگر تم میری ان نصیحتوں پر عمل نہ کرو.تو میں خوف کرتا ہوں کہ عنقریب تمہاری موت کی خبر سنوں تم نہیں دیکھتے کہ خدا تعالیٰ کا قہر زمین پر نازل ہے اور طاعون دنیا کو کھائے جاتی ہے ایسا نہ ہو کہ اپنی بدعملی کی وجہ سے طاعون کا شکار ہو جاؤ اور اگر تم اپنے مال سے اپنی والدہ کی خدمت کرو گے تو خدا تمہیں برکت دے گا.یہ وہی والدہ ہے کہ جس نے دعاؤں کے ساتھ تمہیں ایک مصیبت کے ساتھ پالا تھا.اور ساری دنیا سے زیادہ تم سے محبت کی پس خدا اس گناہ سے درگذر نہیں کرے گا جلد تو بہ کرو.جلد تو بہ کرو.ورنہ عذاب نزدیک ہے اس دن پچھتاؤ گے دنیا بھی جائے گی اور ایمان بھی.میں نے باوجود سخت کم فرصتی کے یہ خط لکھا ہے خدا تمہیں اس لعنت سے بچاوے جو نافرمانوں پر پڑتی ہے اگر تمہاری والدہ بد زبان ہے اور خواہ کتنا ہی بدخلقی کرتی ہے خواہ کیسا ہی تمہارے نزدیک بری ہے وہ سب باتیں اس کو معاف ہیں.کیونکہ اس کے حق ان تمام باتوں سے بڑھ کر ہیں تمہاری خوش قسمتی ہوگی کہ میری اس تحریر کو پڑھ کرتو بہ کرو.اور سخت بدقسمتی ہوگی کہ میری اس تحریر سے فائدہ نہ اٹھاؤ والسلام على من اتبع الهدى.خاکسار مرزا غلام احمد مسیح موعود ۱۲ فروری ۱۹۰۷ء

Page 96

74 میں اس خط کو پڑھ کر کانپ گیا اور میرے بدن میں کپکپی پیدا ہوگئی.بڑی خوشامد اور لجاجت سے اپنی والدہ سے معافی مانگی اور ان کو خوش کیا.اور زندگی بھر ان کی فرمانبرداری اور دلجوئی کو اپنا نصب العین بنالیا.منشی حبیب احمد صاحب کا بیان ہے کہ حضرت شیخ عبدالوہاب صاحب نہایت نیک متقی اور پرہیز گار بزرگ ہیں گو آپ نو مسلم ہیں مگر تقویٰ و طہارت میں مسلمانوں کے لئے نمود ہیں.میں نے صحابہ میں نمونہ و شہرت سے نفرت اور سادگی پائی.ان کے دل بے حد نرم اور خشیت اللہ سے پر دیکھے.شیخ صاحب جب حضرت مسیح موعود کا تذکرہ فرماتے اس وقت ان کی قلبی کیفیت کا خاکہ کھینچنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں.وہ رقت کے ساتھ اس طرح باتیں کرتے کہ گویا اپنے محبوب کی محبت میں گداز ہو چکے ہیں.اور اس کے لئے نہایت ہی بیتاب و بے قرار.محترم شیخ عبدالرحیم صاحب شرما نے جن کے سوانح اسی کتاب میں درج ہیں.حضرت شیخ عبدالوہاب صاحب ہی کی صحبت و تبلیغ سے اسلام و احمدیت قبول کی تھی.شر ما صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ صوفی منش تھے ملا زمت سے سبکدوش ہونے کے بعد دار البیعت لدھیانہ میں رہتے تھے تقسیم ملک کے بعد بتاریخ ۱۰ اکتوبر ۱۹۵۴ء ان کا لاہور میں انتقال ہوا اس وقت آپ کی عمر ۷۸ سال تھی اور آپ بہشتی مقبرہ ربوہ ( قطعہ صحابہ ) میں دفن ہوئے آپ کا وصیت نمبر ۵۸۶۱ مورخہ ۲۹/۹/۴۱ تھا.اللَّهُمَّ أَغْفَرْلَهُ وَ أَرْحَمُهُ.آمين

Page 97

75 حاجی غلام احمد صاحب ولادت.خاندانی حالات: حضرت حاجی غلام احمد جیسا انمول موتی ۶ ۷.۱۸۷۵ء میں چوہدری گامن خاں (سکنہ موضع کر یام.تھانہ راہوں تحصیل نواں شہر ضلع جالندھر ) کو تین بیویوں میں سے دوسری اہلیہ خیراں بیگم کے بطن سے عطا ہوا.نواں شہر سے یہ موضع جانب غرب دو میل کے فاصلہ پر واقع ہے.گاؤں کی سطح زمین سے کافی بلند ہے.۱۹۴۷ء میں گاؤں کی آبادی تین ہزار نفوس پر مشتمل تھی جن میں سے چھٹا حصہ گویا نصف ہزار کی تعداد میں جماعت احمدیہ سے وابستہ تھے.اس موضع کی زرعی اراضی قریباً چار ہزارا یکڑ کے اکثر حصہ کے مالک راجپوت قوم کے افراد تھے جن میں سے قریباً نصف حصہ افراد جماعت احمدیہ کی ملکیت تھا.حاجی صاحب ایک معزز راجپوت خاندان کے نونہال تھے اور آپ والدین کے اکلوتے بیٹے تھے.دوسرا بھائی عبدالرحمن نو عمری میں ہی وفات پا گیا تھا.اس خاندان کی ملکیت قریباً ڈیڑھ صدا یکڑ تھی جس میں سے حاجی صاحب کو نصف گو یا تین مربعے حصہ میں آئے تھے ہمدردی ، شفقت علی خلق اللہ اور سخاوت اس خاندان کی مشہور صفات تھیں جن کی وجہ سے یہ خاندان بانڈوں کا خاندان یعنی بانٹنے والوں کے نام سے مشہور تھا حاجی صاحب والد صاحب کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ:.وو بہت فیاض تھے (ان کو ) لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا خیال رہتا.اکثر غرباء جن کو پیسہ یا روپیہ کی ضرورت ہوتی تو والد صاحب اپنے پاس سے یا قرض لے کر بھی ان کو دے دیتے.جناب والد صاحب کی وفات کے بعد اس قسم کا بہت سا قرضہ میں نے ادا کیا.(20) عہد طفولیت تعلیم اور قبول احمدیت :.” میں کیونکر احمدی ہوا؟“ کے عنوان کے تحت آپ فرماتے ہیں.میری عمر اس وقت چونسٹھ سال کی ہے میرے والد کا نام گامن خاں ذات راجپوت سکنہ کر یام ہے.میں نے فروری ۱۹۰۳ء میں بیعت کی.بیعت سے پہلے جب میں پرائمری کی تعلیم حاصل کرتا تھا.اس وقت سے نماز پڑھا کرتا تھا.اور گاہے گا ہے جمعہ راہوں میں ادا کیا کرتا تھا.جس میں کثرت سے آدمی جمع ہوتے تھے.اس بیان کے نقل کرنے میں رابط عبارت کے لئے خاکسار مئولف نے بعض الفاظ خطوط وحدانی میں زائد کر کے نشان لگا دیا ہے اس نشان کے بغیر خطوط وحدانیاں اصل عبارت کا حصہ ہیں.

Page 98

76 ان دنوں مجھے ایک فقیر نے نماز پڑھتا دیکھ کر خصوصاً نماز تہجد پڑھتا دیکھ کر جو میں گاہے گا ہے پڑھا کرتا تھا.ایک درود شریف پڑھنے کے لئے بتایا وہ درود شریف یہ ہے اَللَّهُمَّ صَلَّى عَلَى سَيِّدِ نَا مُحَمَّدٍ أَوْعْتُوْبَةٌ بَعَدَ و كُلِّ مَعَلُومُ لَکَ.اس درود شریف کو کثرت سے پڑھا کرتا تھا ایک رات خواب میں مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی میں نے سنہری لباس میں جو چمکتا تھا حضور کو دیکھا.اور خانہ کعبہ میں آپ کے پیچھے نماز پڑھی اس وقت بے شمار مخلوق جمع تھی جیسا کہ حج کے ایام ( ہوں) میں نے اس خواب کا ذکر اس فقیر کے پاس کیا جس نے مجھے درود شریف بتایا تھا.اس نے کہا اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا فیض جاتا رہے گا اور یہ بھی کہا کہ مجھے تو زیارت نہیں ہوئی.میں نے دیر تک اس خواب کا ذکر کسی سے نہ کیا.پھر پرا ئمری پاس کر کے ورنیکلر سکول میں داخل ہوا اس وقت میں وظیفہ حاصل کر چکا تھاور نیکر تعلیم کے ایام میں نماز کبھی پڑھ لیتا تھا کبھی چھوٹ جاتی.مگر میری محبت ( اور ) صحبت نیک دیندار لڑکوں سے ہوتی.اور جو کوئی ہندو یا سکھ کوئی مذہبی بات کرتا میں اس پر اسلام کی خوبی بیان کر کے اسے قائل کر دیتا.اور اپنے اس خواب کو خیال سمجھنے لگا کہ اندھا جب خواب دیکھتا ہے تو ٹٹولنے کے خواب آتے ہیں.ایک دن میں مدر سے سے گھر آرہا تھا اور تاریخ ہند پڑھ رہا تھا اس میں پڑھا کہ اکبر بادشاہ نے حضرت سلیم شاہ کے پاس پا پیادہ جا کر دعا کرائی.اور جب شہزادہ جہانگیر پیدا ہوا تو اس کا نام شہزادہ سلیم اسی بزرگ کے نام پر رکھا.اس بات کا میرے دل پر بہت اثر ہوا کہ اہل اللہ کے پاس بادشاہ بھی حاجات لے جاتے ہیں مگر اہل اللہ اپنی حاجات بادشاہ کے پاس نہیں لے جاتے.میرے والد صاحب ایک رشتہ دار کے مقدمہ میں امداد کے لئے ہوشیار پور جانیوالے تھے میں نے ہوشیار پور جاتے وقت’ حکایت العاقلین نامی ایک کتاب خرید لانے کے لئے رقعہ لکھ کر دیا.چونکہ آپ پڑھے لکھے نہ تھے کتب فروش نے بجائے حکایت العاقلین کے حکایت الصالحین و مقصد الصالحین دو کتابیں ان کو دے دیں.ان کے پڑھنے سے جو نیک اور پرہیز گاروں کے حالات تھے مجھے بہت فائدہ ہوا.فارسی مڈل پاس کر کے میں نے مزید تعلیم حاصل کرنا چھوڑ دیا.کیونکہ میرے والد صاحب امتحان سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے مجھے اپنے والد صاحب کی وفات پر بھی سبق ملا.میرا ایک بھائی عبدالرحمان خان نامی تھا جو نقل مطابق اندراج الحکم سہو ہے اصل الفاظ یہ ہونگے.سید نا محمد وعترته (متولف)

Page 99

77 ابھی بچہ تھا.اور والد صاحب اس سے بہت پیار کرتے تھے.جب والد صاحب کی بیماری بہت بڑھ گئی اور موت کا وقت قریب آ گیا.تو مستورات نے بچے کو آپ کے پاس بٹھانا چاہا مگر والد صاحب نے ان کو ایسا کرنے سے روک دیا.مجھے یہ سبق ملا کہ جب جان پر بن جاتی ہے تو اولاد بھی پیاری نہیں لگتی.میں نے اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد حافظ کریم بخش صاحب سے قرآن پڑھنا شروع کیا.میں ان کے پاس روزانہ قرآن کریم پڑھنے جایا کرتا تھا.وہ قرآن کریم کا ترجمہ نہ جانتے تھے.میں ان کو تر جمہ پڑھ کر سنایا کرتا تھا.تو وہ بہت خوش ہوتے.ان دنوں قرآن کریم کے علاوہ ایک کتاب ”سیرۃ الفاروق“ بھی میرے زیر مطالعہ تھی.جس کے پڑھنے سے مجھے بہت فائدہ ہوا.اس زمانہ میں میں روزہ نماز کا سخت پابند تھا ہاں اکثر بیمار رہتا تھا اور جو مولوی ہمارے گاؤں میں آتے ان کے وعظ ونصیحت کے سننے کے لئے لوگوں کو جمع کرنے کا انتظام کرتا اور ان علماء کی خدمت اور مدارات کرتا.تحریک احمدیت :.حمدیت:.ایک روز کریم بخش صاحب سکنہ موضع حسین چک جو ہمارے گاؤں سے ایک میل کے فاصلہ پر ہے وہ ہمارا کاشتکار تھا.ایک کتاب ازالہ اوہام لے کر آیا اس نے کہا میں لدھیانہ سے ماسٹر قا در بخش صاحب ( والد مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے مبلغ لندن ) سے لایا ہوں اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر ہے.میں نے کہا میں پڑھوں گا.چونکہ میں قرآن کریم پڑھا ہوا تھا جب میں نے ازالہ اوہام“ کو پڑھا تو اس کی صداقت نے مجھے اپنی طرف کھینچنا شروع کیا.ان دنوں تین آدمی ہم اکٹھے رہا کرتے تھے.خاکسار راقم ، چوہدری نجابت علی خاں کرسی نشین ، حکیم کوڑے خان صاحب برادر جیوے خاں.وہ دونوں صاحب فوت ہو چکے ہیں ہر وقت ہمارے مکان پر یہی تذکرہ رہتا.کریم بخش مذکور کو اور کتا بیں لانے کے لئے کہا گیا.چونکہ (ماسٹر * ) قادر بخش صاحب ان کے دور کے رشتہ میں تھے اس لئے وہ ”ست بچن نور القرآن ہر دو حصہ اور چند اشتہارات لائے جن کو پڑھکر ہم بہت خوش ہوئے.چوہدری احمد الدین صاحب بیان کرتے ہیں :.(الف) کہ افسوس کریم بخش مذکور احمدیت کی نعمت سے محروم رہا (ب) حکیم کوڑے خان صاحب احمدیت کا مطالعہ بڑے غور سے کر رہے تھے اور تقریباً صداقت تک پہنچ چکے تھے.لیکن عمر نے وفا نہ کی اور حاجی صاحب کی بیعت کے بعد اسی سال ۱۹۰۳ء میں وفات پاگئے.البتہ ان کے بھائی صاحب جیوے خاں صاحب نے حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کی.اور متعدد دفعہ حضور کی زیارت کا موقع پایا.بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ

Page 100

78 ہمارے پاس جو مولوی صاحبان آتے ان کے پاس ذکر کرنا شروع کر دیا.ان دنوں ہماری مخالفت نہ تھی.بعض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت تعریف کرتے (کہ) انہوں نے تو حید قائم کر دی ہے بعض یوں تعریف کرتے کہ انہوں نے آریوں اور عیسائیوں کو خوب لاجواب کر دیا ہے بعض نے مخالفوں کی کتابیں بھی ہمیں پڑھنے کو دیں.چنانچہ تحفہ قادریہ جو مولوی عبدالعزیز لدھیانوی نے لکھی تھی.اور ایک کتاب قاضی سلیمان پٹیالوی کی تصنیف جو ازالہ اوہام کے جواب میں لکھی گئی ہمیں پڑھنے کو دیں.ان کتابوں کو پڑھ کر ہم خاموش سے ہو گئے.استخارہ :.پھر ہم نے نماز پڑھ کر دعا ئیں کرنا شروع کر دیں.اس وقت میری عمر بائیس اور چوبیس سال کے درمیان ہوگی.اور استخارہ کرنا شروع کیا کہ اللہ اگر یہ بندہ تیری طرف سے اور واقعی مسیح موعود اور مہدی ہے تو مجھے پر ظاہر کر.چنانچہ ایک دن جبکہ بوقت دو پہر سویا ہوا تھا.خواب میں میں نے آسمان پر موٹے اور سنہری خوشخط حروف میں مسیح موعود“ لکھا ہوا دیکھا.میں نے پھر بھی دعا ئیں جاری رکھیں.اور ایک رات خواب میں ایک مجمع دکھایا گیا کہ بہت سے لوگ اکٹھے بیٹھے ہیں.سب کے لباس سفید براق ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے گویا فرشتے ہیں ایک شخص باہر سے آیا اس نے کہا یہ زمانہ مسیح موعود کا ہے.دوسرے نے پوچھا کیا دلیل ہے؟.اس نے کہا کہ صدی پر مجدد ہوتا ہے اس صدی میں سوائے حضرت صاحب کے کسی نے مجدد ( ہونے ) کا دعوی نہیں کیا یہی دلیل ہے.پوچھنے والے نے تصدیق کی کہ ٹھیک ہے ٹھیک ہے.جب میں خواب سے بیدار ہوا تو مجھے اس سچائی میں کوئی شبہ نہ رہا.مگر میں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کرنا چاہتا تھا اس لئے بیعت نہ کی مگر چوہدری نجابت علی کرسی نشین نے بیعت کر لی.اور ایک عورت نے بھی بیعت کر لی.ہم اور لوگوں میں بھی ذکر کرتے رہتے.جود بیندار ( شخص ) باہر سے آتا اس کے پاس بھی ذکر کرتے.ان دنوں پلیگ ڈیوٹی پر ڈاکٹر محمدحسین شاہ صاحب اسسٹنٹ سرجن جو غیر مبائع ہو کر فوت ہو چکے ہیں ہمارے ہاں تشریف لائے.میں نے ان کو دیندار دیکھ بقیہ حاشیہ صفحہ سابق :.۱۹۳۵ء میں فوت ہوئے.چوہدری محمد خاں صاحب کے اقارب میں سے تھے اور چوہدری صاحب نے ہی یہ تفصیل چوہدری احمد الدین خانصاحب کو بتائی ہے.حمد یہ دونوں خواہیں قدرے مختلف الفاظ میں کتاب ” بشارات رحمانیہ صفحہ ۳۴ پر بھی مرقوم ہیں.چوہدری احمد الدین صاحب بروایت چوہدری مہر خان صاحب لکھتے ہیں کہ یہ وہی چوہدری نجابت علی خانصاحب ہیں جن کا ذکر شجرہ میں آتا ہے ۱۹۰۲ء میں آپ نے بیعت کی اور متعدد بار حضور کی زیارت کی ۱۹۱۹ میں وفات پائی.

Page 101

79 کر دینی گفتگو شروع کی.اثنائے گفتگو میں حضرت مرزا صاحب کا بھی ذکر آ گیا.انہوں نے فرمایا میں آپ کا مرید ہوں.تو میں بہت خوش ہوا.اور نجابت علی خانصاحب کو اس کی اطلاع کی.ڈاکٹر صاحب ہمارے پاس آتے جاتے رہے اور انہوں نے ایک کتاب آئینہ کمالات اسلام ڈاکٹر اسماعیل خان صاحب گوڑیانی جو ان دنوں گڑھ شنکر میں متعین تھے، سے لے کر ہمیں بھیجی.اس سے ہمیں بہت فائدہ پہنچا.ان دنوں جو شخص عمدگی سے نماز پڑھتا اور انگریزی خوان با بوڈاڑھی رکھتا اس کو احمدی یقین کر لیا جاتا تھا.چنانچہ ایک ڈپٹی صاحب ایک گاؤں میں گئے ایک تعلیم یافتہ سفید پوش انگریزی خوان جس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی کو ڈپٹی صاحب نے کہا کہ کیا تو مرزائی ہے؟ اس نے کہا نہیں.سفید پوش نے پوچھا جناب نے کسی علامت سے معلوم کیا ڈپٹی صاحب نے کہا کہ تعلیم یافتہ طبقہ سے صرف مرزائی عموماً ڈاڑھی رکھتے ہیں.سفر قادیان :.آخر جنوری یا شروع فروری ۱۹۰۳ء میں خاکسار راقم اور بشارت علی خاں پوسٹ ماسٹر پنشنر قادیان دارلامان کی طرف روانہ ہوئے.جب بٹالہ سے یکہ پر سوار ہوئے تو تیسرا آدمی قادیان شریف کا تھا جو ہندو تھا اور معمر تھا.اس سے میں نے حالات حضرت اقدس دریافت کرنے شروع کئے.اس نے کہا کہ مرزا صاحب بہت نیک آدمی تھے بہت عابد تھے مگر چند سالوں سے کچھ جھوٹ ان کی طرف لگ گیا ہے.یکہ ہمارا مہمان خانہ موجودہ کے دروازہ پر ٹھہرا اسباب اتارا گیا.پہلا آدمی جو ہمیں ملا وہ فلاسفر الہ دین تھا.انہوں نے اسباب اپنی حفاظت میں رکھ کر فرمایا جماعت تیار ہے ہم مسجد اقصیٰ کو چلے گئے.عصر کی نماز ہو چکی تھی.درس قرآن کریم شروع ہونے والا تھا.عصر کی نماز ادا کی اور درس میں شامل ہو گئے.حضرت مولوی نورالدین صاحب اینٹوں کی طرف جو مینارہ کے لئے جمع تھیں پیٹھ کر کے بیٹھ گئے.صحن مسجد اقصیٰ کے اردگر داحمدی احباب قرآن کریم ہاتھوں میں لئے بیٹھے تھے مولوی صاحب کے سر پر سیاہ لنگی بندھی اور سیاہ رنگ کا چونہ زیب تن تھا.گبرون کا پاجامہ پہنے ہوئے تھے.قرآن کریم سے پارہ دوم کے ثلث کے قریب کے حصہ جس میں طلاق کا ذکر ہے آپ نے خاص پیرا یہ میں ایک رکوع تلاوت فرمایا.جو سننے والوں پر ایک خاص اور عجیب اثر پیدا کر رہا تھا.پھر معارف قرآن اور تفسیر بیان کرنی شروع کی.ہم وعظ تو سنا کرتے تھے مگر یہاں اور ہی سماں تھا ہمارا دل تو کھینچا گیا.میں نے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا کہ یہی شخص مسیح موعود ہیں؟ اس نے کہا.یہ تو مولوی نورالدین صاحب ہیں اس پر میں اور بھی خوش ہوا کہ جس دربار کے مولوی ایسے باکمال ہیں وہ خود کیسے بے نظیر ہوں گے.میں نے

Page 102

80 دریافت کیا.آپ یعنی حضرت مسیح موعود کہاں ملیں گے ؟.انہوں نے کہا حضور نماز مغرب کے لئے مسجد مبارک میں تشریف لائیں گے تو زیارت ہوگی.مغرب کے وقت ایک چوبارہ پر جو چھوٹی سی مسجد تھی اس میں گئے نماز مغرب مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے پڑھائی.نماز سے فارغ ہو کر حضرت صاحب" بیٹھ گئے.آپ سے مصافحہ کیا ، آپ کی شکل متبرک تھی گفتگو ہونے لگی.مفتی محمد صادق صاحب ( مبلغ انگلستان وامریکہ ) اخبار سنانے لگے.غرض دیر تک مسجد میں تشریف فرما ر ہے.میرے ساتھی بابو بشارت علی خانصاحب نے کہا آؤ بیعت کر لیں.میں نے کہا کہ پھر کریں گے صبح کے وقت آپ سیر کے لئے تشریف لے جاتے تھے.میل دو میل چلے جاتے.ان دنوں ( موضع ) بسر اواں کی طرف جاتے تھے.اس وقت کا قادیان:.شہزادہ عبداللطیف صاحب کا بلی بھی ان دنوں وہاں تشریف فرما تھے.وہ بھی سیر کو ہمراہ تشریف لے جاتے.راہ میں کوئی ذکر شروع ہو جاتا.حضرت اس طرح اس کو بیان فرماتے کہ سننے والا گویا شربت پی رہا ہے.ان دنوں یہ روحانی نعمتیں میسر تھیں :.حضرت اقدس کا سیر میں اسرار حق بیان فرمانا.مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کا درس قرآن.مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کا امامت میں تلاوت قرآن کریم.احمد نور کا بلی کا خوش الحانی سے بلند اذان دینا.مجھے حقہ پینے کی عادت تھی میں نے مہمان خانہ (اور ) احد یہ بازار میں کسی جگہ بھی حقہ نہ دیکھا.اس سے متاثر ہوکر میں نے اسی روز سے حقہ کو خیر باد کہہ دیا.کہ جب یہ پاک لوگ اس کو استعمال نہیں کرتے.ہمیں بھی نہ کرنا چاہئے.مہمان خانہ میں شہزادہ عبداللطیف صاحب کا بلی اور احمد نور کا بلی کے علاوہ دیگر افغانستان کے احباب بھی فروکش تھے.رات کے وقت جب بھی ہماری آنکھ کھلتی تو ان لوگوں کو تہجد پڑھتے دیکھا گیا.فجر کی نماز کے بعد تمام طلباء اپنی اپنی چار پائیوں پر مشغول تلاوت قرآن کریم دیکھے گئے.اور ادائیگی نماز کے لئے تمام طلباء ایک ترتیب سے با قطار مسجد اقصے میں جاتے.اور استاد صاحبان ہمراہ ہوتے.ان دنوں ایک دکاندار شیخ غلام احمد صاحب نو مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جوشیر فروشی کا کام کرتے تھے ان کی دکان پر شیخ صاحب واعظ کے نام سے مشہور تھے.صاحب کشف بزرگ تھے.بتاریخ ۱۲/۱۰/۳۵ وفات پا کر بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے.

Page 103

81 بعض لوگ خود ہی حسب ضرورت دودھ پی لیتے اور خود ہی قیمت رکھ جاتے.جماعت احمدیہ کی دینی واخلاقی حالت نہایت اعلیٰ دیکھی گئی.ایک دفعہ میں مسلسل ایک ماہ قادیان میں رہا جب میں اپنے گاؤں کر یام آیا.ایک شخص کو گالی نکالتے سنا.میں نے کہا پورے ایک ماہ بعد یہ آواز ناشائستہ میرے کانوں (میں *) پڑی ہے.بیعت اور حضور کی تقریر: اسی طرح چار پانچ یوم گذر گئے تو مغرب کے بعد حسب معمول حضرت صاحب تشریف رکھتے تھے.ہم دونوں نے بیعت کے لئے عرض کی.ہماری عرضداشت قبول ہوئی حضور نے ہمارے ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر کلمہ شہادت پڑھ کر اقرار کرایا کہ بچے دل سے کہو کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھونگا.اس کے بعد حضور نے تقریر فرمائی کہ شرک سے خدا بہت بیزار ہے“.جس طرح کسی خاوند کی عورت دوسرے کے پاس چلی جاوے اس سے بڑھ کر غیرت ہے کہ خدا کا بندہ اپنے معبود کو چھوڑ کر دوسرے کی پرستش کرے اور عبادت کے متعلق فرمایا کہ جس طرح بھوکے کے لئے دو چار روٹیاں اور پیاسے کے لئے ایک دو گلاس پانی پینے کی ضرورت ہوتی ہے اگر بھو کا ایک دانہ اور پیاسا ایک قطرہ پانی کاپی لے تو اس سے بھوک اور پیاس دورنہ اگر بھوکا ہوگی.جب تک پوری خوراک کی مقدار حاصل نہ ہو.اسی طرح زبانی کلمہ پڑھنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک پوری عبادت نہ کی جاوے.آپ کی تقریر کیا تھی.آب حیات تھی جو مردہ دلوں کو زندہ کرتی تھی.دوران تقریر میں آپ نے فرمایا کہ کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا.خاکسار نے عرض کیا کہ حضور بعض آدمی نہ آپ کی بیعت میں شامل ہیں اور نہ آپ کو برا سمجھتے ہیں ان کی نسبت کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا وہ بیعت میں شامل نہیں ہیں.اس لئے ان کے پیچھے بھی (نماز کو ) نہ پڑھنا چاہئے.نیز آپ نے فرمایا.حاجی صاحب دوسری جگہ مفہوماً بیان کرتے ہیں کہ حضور نے بیعت کے بعد تقریر میں فرمایا.کہ شرک اللہ تعالیٰ کو اسی طرح نا پسند ہے.جیسے کسی شخص کی منکوحہ بیوی دوسرے شخص سے ناجائز تعلقات پیدا کر لیتی ہے اس کا خاوند کہتا ہے کہ تیری اور کمزوریوں سے تو درگذر ہو سکتی ہے مگر دوسرے شخص سے تعلق پیدا کرنے سے میں سخت بیزار ہوں.اور عبادت کے متعلق فرمایا.جس طرح جسم کے لئے غذا اور کافی غذا کی ضرورت ہے اسی طرح روح کے لئے غذا اور کافی غذا کی ضرورت ہے.اسی طرح کلمہ پڑھ کر سمجھ لینا کہ عبادت ہو گئی یہ روح کے لئے کافی نہیں نیز فرمایا کہ جس نے میری بیعت نہ کی وہ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں.میں نے عرض کی کہ بعض لوگ حضور کو سچا سمجھتے ہیں اور تعریف کرتے ہیں مخالفت کبھی نہیں کرتے ان کے بارے میں حضور کا کیا حکم ہے؟ فرمایا وہ بیعت کو لغو سمجھتے ہیں.بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 104

82 اس بات کا غم نہ کرنا.اللہ تعالیٰ بہت جلد جماعت قائم کر دے گا.یہ بات کیا تھی.ایک پیشگوئی تھی.جو خدا کے حکم سے کی گئی مجھے یہ بات ہمیشہ یاد رہتی ہے.اور اس کی یاد دل کو ایمان سے بھر دیتی ہے کہ سات ماہ میں جماعت احمد یہ سینکڑوں کی تعداد تک پہنچ گئی تھی پھر (ہم *) ہر سال حضرت صاحب کی زندگی میں دو دو تین تین مرتبہ حضور کی زیارت کا شرف حاصل کرتے.جدید چوہدری بشارت علی خان صاحب اور حاجی صاحب کے اسماء اخبارات سلسلہ کے بیعت کنندگان میں نہیں مل سکے.اور نہ ہی اس قدر تعداد بیعت کنندگان موضع کریام کی سات ماہ میں اخبارات میں درج ہے.سواس کی وضاحت کے لئے تحریر ہے کہ جہاں تک مجھے مطالعہ سے معلوم ہوا ہے حضور کے عہد مبارک میں بیعت کنندگان کے اسماء اس طور پر اخبارات میں شائع نہیں ہوتے تھے کہ کسی کا نام باقی نہ رہ جاتا ہو.کثیر تعداد ایسے صحابہ کی ہے جن کے اسماء اخبارات میں نہیں ملتے باوجود اس کے ۱۹۰۳ء کے بقیہ عرصہ میں موضع کریام کے آٹھ ، چونتیس اور انہیں افراد کے اسماء البدر میں صفحات ۳۲۰،۳۰۴،۲۶۴ پر موجود ہیں.البتہ اس کی تائید رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ بابت ۰۹.۱۹۰۸ء سے بھی ہوتی ہے وہاں مرقوم ہے کہ کر یام میں تعداد مبائعین ایک صد پچاسی (۱۸۵) ہے گذشتہ سال پانچ افراد وفات پاگئے (ص ۱۸) چوہدری بشارت علی خاں صاحب کے حالات اس کتاب میں دوسری جگہ درج کے گئے ہیں.بقیہ حاشیہ صفحہ سابقہ.ان کے پیچھے بھی نماز نہ پڑھیں (خلاصہ از مئولف) نیز فرمایا اللہ تعالیٰ جلد جماعت پیدا کر دیگا.چنانچہ چھ ماہ کے اندر اندر جماعت کر یام بن گئی جس کی ۲۹/۱۱/۱۳۷ کو مردم شماری میں تین صد پندرہ کی تعداد تھی.یعنی ۱۹۰۳ء میں چھ ماہ کے اندراندر جو جماعت تیار ہوئی.اس کے بعد بہت تھوڑی تعداد تھی غیر احمدیوں سے آئی.البتہ پہلے احمدیوں کی اولاد سے ہی تعداد میں ترقی ہوئی.یہ حضور کے کلمات میرے لئے ہمیشہ از دیاد ایمان کا باعث رہے ہیں (ماخوذ از روایات مندرجہ الفضل مورخه ۲۳/۶/۳۸) حاجی صاحب کی روایات مندرجہ الفضل مورخہ ۲۳/۶/۳۸ میں آخر جنوری یا ابتداء فروری ۱۹۰۳ء میں بیعت کرنے کا ذکر ہے.آپ کے فائل وصیت میں بھی ۱۹۰۳ء میں بیعت کرنا درج ہے اور بیعت والے قیام قادیان کے دوران میں حاجی صاحب نے الہام يَوْمُ الاثْنَيْنِ وَ فَتَحُ الْحُنَيْنِ “ ( 21 ) سنا تھا اس کی تاریخ نزول ۷افروری ۱۹۰۳ ء ہے.الحکم میں حضور کے وہ کلمات طیبات درج ہیں جو حضور نے ۵ فروری ۱۹۰۳ء کو بعض افراد کے بیعت کرنے پر ارشاد فرمائے تھے جو ذیل میں نقل کئے ہیں اور حاجی صاحب نے اپنی بیعت کے موقع پر حضور کی تقریر دو مقامات پر درج کی ہے تینوں کے مطالعہ سے عیاں ہے کہ ان میں کیسی مطابقت و مشابہت ہے؛ ان مشابہ امور کو میں نے خط کشیدہ کر دیا ہے.سو ثابت ہوتا ہے کہ حاجی صاحب کی بیعت ۵ فروری ۱۹۰۳ء کی ہے اور آپ کے بیان کے بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 105

83 کرم دین بھیں والے کے مقدمہ گورداسپور میں خاکسار حضور کے ساتھ گیا تھا.حضور یکہ پر سوار ہو کر بٹالہ تشریف لے گئے پھر بٹالہ سے ریل کے ذریعہ گورداسپور.ان دنوں قادیان میں حضور کو الہام ہوا."يَوْمُ الاثْنَيْنِ وَ فَتْحُ الْحُنَينِ “.میں نے حضور کی زبان مبارک سے نہیں سنا مسجد میں ذکر تھا کہ حضور کو الہام ہوا ہے.( ذکر حبیب از حاجی صاحب مندرجہ الفضل مورخه ۲۳/۶/۳۸) بقیہ حاشیہ صفحہ سابقہ:.مطابق مغرب کے بعد بیعت ہوئی.اور بیعت قادیان آنے کے چار پانچ روز بعد ہوئی.اور الہام مذکورہ بالا آپ نے قادیان میں سنا تھا گویا انداز آ آپ کا قیام یکم فروری تا ۷ افروری ۱۹۰۳ء ثابت ہوتا ہے.متوقر الحکم میں ۵ فروری کی ڈائری سے ایک حصہ“ کے زیر عنوان مرقوم ہے." آج کل زمانہ بہت خراب ہورہا ہے قسم قسم کی شرک بدعت اور خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں.بیعت کے وقت جوا قرار کیا گیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھونگا.یہ اقرار خدا کے سامنے اقرار ہے اب چاہیئے کہ اس پر موت تک خوب قائم رہو.ورنہ سمجھو کہ بیعت نہیں کی.اور اگر قائم رہو گے تو اللہ تعالیٰ دین دنیا میں برکت دے گا.اپنے اللہ کے منشاء کے موافق پوری پوری تقویٰ اختیار کرو.زمانہ نازک ہے قہر الہی نمودار ہو رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق اپنے آپ کو بنالے گا.اور اپنی جان اور اپنی آل و اولا د پر رحم کرے گا.دیکھو انسان روٹی کھاتا ہے جب تک سیری کے موافق پوری مقدار نہ کھا لیوے تو اس کی بھوک نہیں جاتی اگر وہ ایک بھورہ روٹی کا کھاوے تو کیا وہ بھوک سے نجات پائے گا؟.ہرگز نہیں اور اگر وہ ایک قطرہ پانی کا اپنے حلق میں ڈالے تو وہ قطرہ اسے ہرگز بچانہ سکے گا.بلکہ باوجود اس قطرے کے وہ مرے گا.حفظ جان کے واسطے وہ قدر محتاط جس سے زندہ رہ سکتا ہے جب تک نہ کھاوے اور نہ پیوے نہیں بچ سکتا.یہی حال انسان کی دینداری کا ہے جب تک اس کی دینداری اس حد تک نہ ہو کہ سیری ہو.بچ نہیں سکتا.دینداری.تقویٰ.خدا کے احکام کی اطاعت کو اس حد تک کرنا چاہئے جیسے روٹی اور پانی کو اس حد تک کھاتے اور پیتے ہیں جس سے بھوک اور پیاس چلی جاتی ہے.خوب یا درکھنا چاہئے کہ خدا کی بعض باتوں کو نہ ماننا اس کی سب باتوں کو ہی چھوڑ دینا ہوتا ہے.اگر ایک حصہ شیطان کا ہو اور ایک خدا کا تو خدا کہتا ہے کہ سب ہی شیطان کا ہے اللہ تعالیٰ حصہ داری کو پسند نہیں کرتا.یہ سلسلہ اس کا اسی لئے ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف آوے.اگر چہ خدا تعالیٰ کی طرف آنا بہت مشکل ہوتا ہے اور ایک قسم کی موت ہے مگر آخر زندگی بھی اسی میں ہے جو اپنے اندر سے شیطانی حصہ نکال کر باہر پھینک دیتا ہے.وہ مبارک انسان ہوتا ہے اور اس کے گھر اور نفس اور شہر سب جگہ اس کی برکت پہنچتی ہے لیکن اگر اس کے حصہ میں ہی تھوڑا آیا ہے تو وہ برکت نہ بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 106

84 * پہلی دفعہ جب بیعت کے لئے آئے جیسا کہ ) اوپر ذکر ہوا.میرا ساتھی چوہدری بشارت علی خاں ایک ہفتہ قیام دارالامان کے بعد واپس ملازمت پر چلا گیا.اور خاکسار دو ہفتہ سے زیادہ حضور کے کلمات طیبات اور مولوی صاحب کے درس قرآن کریم اور حضور کے ساتھ جا کر نمازیں پڑھ کر کر یام واپس ہوا.بقیہ صفحہ سابقہ.ہوگی جب تک بیعت کا اقرار عملی طور پر نہ ہو بیعت کچھ چیز نہیں ہے جس طرح سے ایک انسان کے آگے تم بہت سی باتیں زبان سے کر دیگر عملی طور پر کچھ بھی نہ کرو تو وہ خوش نہ ہو گا.اسی طرح معاملہ خدا کا ہے وہ سب غیرتمندوں سے زیادہ غیرت مند ہے.کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ایک تو تم اسکی اطاعت کرو پھر ادھر اس کے دشمنوں کی بھی اطاعت کرو.اس کا نام تو نفاق ہے.انسان کو چاہئے کہ اس مرحلہ میں زید و بکر کی پرواہ نہ کرے.مرتے دم تک اس پر قائم رہو.بدی کی دو قسمیں ہیں.ایک خدا کے ساتھ شرک کرنا اس کی عظمت کو نہ جاننا.اس کی عبادت اور اطاعت میں کسل نہ کرنا.دوسری یہ کہ اس کے بندوں پر شفقت نہ کرنی.ان کے حقوق ادا نہ کرنے اب چاہیئے کہ دونوں قسموں کی خرابی نہ کرو.خدا کی اطاعت پر قائم رہو.جو عہد تم نے بیعت میں کیا ہے اس پر قائم رہو.خدا کے بندوں کو تکلیف نہ دو قرآن کو بہت غور سے پڑھو.اس پر عمل کرو.ہر ایک قسم کے ٹھٹھے اور بیہودہ باتوں اور مشرکانہ مجلسوں سے بچو.پانچوں وقت نماز کو قائم رکھو.غرضیکہ کوئی ایس حکم الہی نہ ہو جس تم نال دو.بدن کو بھی صاف رکھو اور دل کو ہر ایک قسم کے بے جا کیئے بغض حسد سے پاک کرو.یہ باتیں ہیں جو خدا تم سے چاہتا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ کبھی کبھی آتے رہو.جب تک خدا نہ چاہے کوئی آدمی بھی نہیں چاہتا.نیکی کی توفیق وہی دیتا ہے.دو عمل ضرور خیال رکھو.ایک دعاد وسرے ہم سے ملتے رہنا تا کہ تعلق بڑھے اور ہماری دعا کا اثر ہو.ابتلاء سے کوئی خالی نہیں رہتا.جب سے یہ سلسلہ انبیاء اور رسل کا چلا آرہا ہے جس نے حق کو قبول کیا ہے اس کی ضرور آزمائش ہوتی ہے.اسی طرح یہ جماعت بھی خالی نہ رہے گی.گردو نواح کے مولوی کوشش کریں گے کہ تم اس راہ سے ہٹ جاؤ.تم کو کفر کے فتوے دیویں گے.لیکن یہ سب کچھ پہلے ہی سے اسی طرح ہوتا چلا آیا ہے.لیکن اس کی پرواہ نہ کرنی چاہئے.جوانمردی سے اس کا مقابلہ کرو.پھر بیعت کنندگان نے منکرین کے ساتھ نماز پڑھنے کو پوچھا.حضرت نے فرمایا کہ ان لوگوں کے ساتھ ہرگز نہ پڑھو.اکیلے پڑھ لو.جو ایک ہوگا وہ جلد دیکھے گا کہ ایک اور اس کے ساتھ ہو گیا ہے ثابت قدمی دکھاؤ.ثابت قدمی میں ایک کشش ہوتی ہے.اگر کوئی جماعت کا نہ ہو تو نمازا کیلے پڑھو.مگر جو اس سلسلہ میں نہیں اس کے ساتھ ہرگز نہ پڑھو ہرگز نہ پڑھو.جو ہمیں زبان سے برا نہیں کہتا وہ عملی طور سے کہتا ہے کہ حق کو قبول نہیں کرتا.ہاں ہر ایک کو سمجھاتے رہو.خدا کسی نہ کسی کو ضرور کھینچ لیوے گا.جو شخص نیک نظر آوے سلام وعلیک اس سے رکھو لیکن اگر وہ شرارت کرے تو پھر یہ بھی ترک کر دو.(22)

Page 107

85 کریام میں طاعون :.اس وقت کر یام میں طاعون کا بہت زور تھا.گو یا موتا موتی لگ رہی تھی.رات کے وقت کر یام پہنچا لوگ مسجد میں سن کر انتظار کرنے لگے مگر میں نے اپنے مکان میں نماز پڑھی وہ بڑے حیران ہوئے اور شدہ شدہ یہ خبر تمام گاؤں میں پھیل گئی کریام کی مردم شماری دوہزار کے قریب ہے مالک راجپوت ہیں اور لوگ موروثی.ادھر طاعون کا زور.ادھر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مخالفت.غرض جدھر دیکھو احمدیت کا چرچا جس گھر سنو احمدیت کا ذکر.بعض طاعون زدہ لوگوں کو بیعت کرائی گئی.اور وہ تندرست ہو گئے.غیر احمد یوں میں سے بعض نے بذریعہ خواب بیعت کی.طاعون کا حملہ بہت سخت تھا.یہ جو بیعت کرتا نماز کی پابندی کرتا منشیات وغیرہ سے پر ہیز کرتا.بعض لوگ حیران ہو کر دریافت کرتے کہ یہ بندے کام چھوڑ بیٹھے ہیں.زمینداروں کی کھیتیاں محفوظ ہو گئیں.ایک برہمن ٹھا کر داس نامی کریام کا رہنے والا معمر اور با سمجھ تھا مجھے کہنے لگا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.مگر اس شرط پر کہ اپنے مذہب پر رہوں.چونکہ بعض مسلمان گدی نشین اس قسم کی بیعت لے لیتے تھے کہ مرید اپنے مذہب پر رہے.صرف شیرینی اور چڑھاوا دیتا رہے.میں نے کہا جب تک اسلام میں داخل نہ ہو بیعت کوئی قبول نہیں.بیعت کر کے اپنا باطل مذہب چھوڑ نا پڑے گا.پھر وہ خاموش ہو گیا.انہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک احمدی اور ایک غیر احمدی نمبر دار ایک گاؤں کو جارہے تھے موسم بہار تھا.چنے کے کھیت پکے تھے.احمدی نے راستہ میں ایک ٹہنی تو ڑ کر منہ میں چنا ڈالا پھر معاً اس نے خیال آنے پر تھوک دیا.اور تو بہ تو بہ پکارنے لگا کہ پر ایا مال منہ میں کیوں ڈال لیا.اس کے اس فعل سے نمبر دار مذکور پر بہت اثر ہوا.وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ احمدی اس سے پہلے ایک مشہور مقدمہ باز جھوٹی گواہیاں دینے والا.رشوت خور تھا.بیعت کے بعد ہی اس کے اندر اس قدر جلدی تبدیلی دیکھ کر کہ وہ پابند نماز قرآن کی تلاوت کرنے والا اور جھوٹ سے مجتنب رہنے والا بن گیا ہے.نمبردار مذکور نے بیعت کر لی.اور اس کے خاندان کے لوگ بھی احمدی ہو گئے.کچھ لوگ حضرت اقدس کو جالندھر میں جن دنوں حضور زین العابدین کے مکان پر ٹھہرے تھے اور "ذکر حبیب مندرجہ الفضل مورخہ ۲۳/۶/۳۸ میں یہ بھی مرقوم ہے کہ آپ کا غیر احمدیوں کے ساتھ نماز نہ پڑھنا مخالفت کا باعث بنا.ان دنوں سوائے اس گفتگو کے کریام میں کوئی چر چاہی نہ رہا.جو بیعت کرتا وہ طاعون سے سلامت رہتا.باقی طاعون کا شکار ہوتے جاتے.

Page 108

86 سید عباس علی لدھیانوی بھی ساتھ تھے.زیارت پر آئے تھے.جو ایک مقدمہ کے دوران میں جالندھر گئے ہوئے تھے کہ ہم بھی گفتگو کریں گے.مگر جب حضور کو دیکھا اور اس مجمع میں کلام کرتے سنا تو وہ خاموشی سے سنتے رہے اور میرے آنے پر بیعت کر لی کچھ طاعون نے مدد کی.غرض سات ماہ کے اندراندرسینکڑوں تک جماعت کی تعداد پہنچ گئی.اور پھر گاہے گاہے اور (لوگ) بھی شامل ہوتے رہے.اور پھر ان کی اولادوں کے ذریعہ بھی جماعت بڑھتی گئی جس کی تعداد تین سو چھپیں کے قریب ہے.یو ایک عبرت انگیز واقعہ:.کریام میں ہماری پشتی حاجی والی کے نام سے مشہور ہے ایک شخص پہلے حاجی ہوتا تھا اس پتی میں رہنے والا ذیلدار اس کا بیٹا سب رجسٹرار اور پوتا ر سا ئیدار تھا.جو مخالفت کے لئے کھڑے ہوئے تھے.احمدی جماعت کے بائیکاٹ کا پراپیگنڈا شروع کیا.ذیلدار مذکور گاؤں میں.سب رجسٹرار تحصیل میں رسائیدار گاؤں میں مخالفت اور بائیکاٹ کا پراپیگنڈا کرنے لگے.اور لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے ذیلدار مذکور حضرت اقدس کو جذامی کہا کرتا تھا، وہ خود جذامی ہو گیا.سب رجسٹرارتپ دق میں مبتلا ہو کر دہلی میں علاج کے لئے گیا.مگر لاعلاج ہو کر واپس آیا.راہ میں چل بسا.رسائیدار بھی تپ دق میں گرفتار ہو کر مر گیا اور اس کا بھائی طاعون کا شکار ہوا.گویا کہ اس گھر کو عذاب نے کچل کر رکھ دیا.ذیلدار جذامی ہونے کی حالت میں دعا کیا کرتا کہ اے اللہ ! مجھے موت دے.کیڑے پڑ کر مر گیا.میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں مسجد مبارک کے مغربی حصہ میں جہاں مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حضرت اقدس علیہ السلام نماز کے لئے کھڑے ہوتے.پھر وہ حصہ جس میں چھوٹی سی کوٹھڑی تھی جو توڑ دی گئی عرض کیا کہ ہمارے گاؤں کا ذیلدار حضور کو جذامی کہا کرتا تھا وہ خود جذامی ہو کر مر گیا.حضور نے فرمایا.مخالفین کے اندر تو جذام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بعض کے جسموں پر بھی ظاہر کر دیتا ہے.آپ کے صاحبزادہ چوہدری احمد الدین خانصاحب بتاتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں بٹوارے کے وقت احمدی افراد کی تعداد نصف ہزار تک پہنچ چکی تھی.رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ بات ۰۹.۱۹۰۸ء سے معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ سال جماعت کی تعداد ایک سونو ے تھی (ص ۱۸) مراد روحانی جذام ہوتا ہے جو ان کی مخالفت و بیبا کی سے ثابت ہےالفضل مورخہ ۲۳/۶/۳۸ میں ذیلدار کا مولا بخش راجپوت حاجی صاحب نے بیان کیا ہے.

Page 109

87 جب سب رجسٹرار وغیرہ مر گئے تو اس کی بیوی نے بیعت کر لی.انہوں نے یقین کر لیا کہ ان کے خاندان پر تباہی محض مخالفت احمدیت کی وجہ سے آئی ہے سب رجسٹرار حکام میں با اثر ہستی تھا.اس نے احمدیوں پر جھوٹے فوجداری و دیوانی مقدمات دائر کر دیے ( تھے ) احمدیوں کی طرف سے بھی مقدمات دائر کئے گئے تھے.وہ مقدمات جو احمدیوں کے خلاف دائر کئے گئے وہ خارج کر دیئے گئے اور جو غیر احمدیوں پر ہوئے ان کی ڈگریاں ہوگئیں.الغرض جماعت احمدیہ کر یام نے بڑے بڑے نشان دیکھے بسبب طوالت مضمون اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے.آنحضرت صلعم کی دوسری مرتبہ زیارت :.مجھے بیعت سے پہلے بچپن میں آنحضرت سے کی زیارت ہوئی تھی.پھر مجھے شوق ہوا کہ بیعت کے بعد بھی زیارت ہو.میں اکثر اسی غرض سے درود شریف پڑھا کرتا مگر فروری ۱۹۱۰ء میں مسماۃ مولی صاحبہ اہلیہ غلام نبی خاں سکنہ نورہ حال محلہ دار الفضل قادیان متصل مسجد جو اس وقت بیوہ ہو کر نعمت خاں سکنہ سٹوعہ کے نکاح میں آچکی تھی.اور برادری نے اسے گاؤں سے نکال دیا تھا.وہ کر یام میں آئی اس کے پیچھے اس کا بھائی جو ایک پولیس مین تھا.اور تھا نہ راہواں میں متعین تھا، آیا وہ یکہ پر سوار تھی یکہ ہمارے مکان کے سامنے ٹھہرا چونکہ نعمت خاں سکنہ سر وعہ احمدی تھا.اس واسطے وہ ہمارے ہاں مہمان ٹھہری ہم نے اس کو پولیس میں سے چھڑا کر اپنے ہاں جگہ دی.اور پولیس مین پر مقدمہ دائر کر دیا.اور نعمت خاں مذکور کی رہائش اور خوردنوش کے لئے چندہ اکٹھا کیا.یہ پولیس مین مولی کا بھائی سڑوعہ کا رہنے والا اور غیر احمدی راجپوت تھا وہ کہتا تھا کہ اس عورت نے شرم دور کر دی ہے میں اس کو جان سے ماردوں گا.ان دنوں جب ہم مقدمہ کی پیروی کر رہے تھے اور بیوہ کے لئے خوردنوش اور رہائش کا انتظام کر رہے تھے اور اس کی حفاظت کرتے تھے.آنحضرت صلعم کی زیارت نصیب ہوئی میں نے خواب میں دیکھا کہ بلند چونے کیچ چبوترہ پر حضور" کھڑے ہیں.حضور کالباس سر پر لنگی جس کے چھوٹے چھوٹے خانے اور تہہ بند بھی لنگی جس میں بڑے بڑے خانے اور کر تہ سفید دودھ کی طرح لٹھے کا تھا.زیب تن تھا.آپ کے چہرہ کا رنگ سرخی سفیدی ملا جلا تھا.بال کوئی کوئی سفید چہرہ خوبصورت ڈبلا نہ تھا.حضور سے پہلے حاجی رحمت اللہ صاحب راہوں نے مصافحہ کیا نبی بخش صاحب سے حضور نے کچھ بات بھی کی.مگر وہ یاد نہ رہی اس کی مجھے تعبیر بتلائی گئی کہ حاجی رحمت اللہ صاحب راہواں حج کر چکے ہیں ہم حج کرو گے.اور نبی بخش احمدی ( سکنہ ) گڑھ مشنکر بھی حج کرینگے.خاکسار راقم اور حاجی نبی بخش نے 1911 ء میں حج کیا.خواب پورا ہو گیا.اس وقت یہ سمجھ میں آیا کہ حضور عل اللہ کی زیارت کے لئے درود شریف پڑھنا اور آپ کی سنت پر عمل کرنا یا

Page 110

88 جو سنت مٹ چکی ہو جیسا کہ ہماری قوم میں نکاح بیوہ کو جاری کرنا احیاء سنت ہے.اس پر زیارت ہوتی ہے.جو جن دنوں بیعت کر کے کریام آیا یعنی فروری ۱۹۰۳ء میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مخالفت شدت سے ہوئی ان دنوں جو شخص ہماری باتیں سنتا وہ احمدیت کو اختیار کر لیتا.پھر ایک وقت آیا کہ مخالفت دور ہوگئی.ہمارے پاس لوگ آتے مگر کوئی نہ مانتا.اس پر میری سمجھ میں آیا کہ حضور کے فرمان کے مطابق جو بیعت کے وقت آپ نے فرمایا تھا کہ جلدی جماعت ہو جاوے گی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہماری جماعت قائم ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جو کوئی آکر کہتا کہ حضور ہماری جماعت کی بڑی مخالفت ہو رہی ہے.آپ فرماتے زندہ جماعت ہے اور یہ آیت بھی سمجھ میں آئی.عَسَى أَنْ تُحِبُّو شَيْئًا وَ هُوَ شَرٌّ لَكُمْ (23) سوتیلی والدہ کی بیعت:.حاجی صاحب کے والد ماجد کی تین بیویاں تھیں.زوجہ اول وز وجہ ثانی ( جو حاجی صاحب کی سگی والدہ تھیں ) احمدیت سے قبل وفات پاگئی تھیں تیسری والدہ محترمہ زینب بیگم صاحبہ قوم راجپوت سکنه موضع جالہ تحصیل نواں شہر کی شادی انداز ۱۸۸۴ء میں ہوئی تھی.آپ کا بچہ عبدالرحمن صغرسنی میں وفات پا گیا تھا.آپ کو اور آپ کی دونوں دختران کو بھی حاجی صاحب کی بیعت کے بعد ۱۹۰۳ء ہی میں احمدیت قبول کرنے کی تو فیق حاصل ہوئی.بلکہ تینوں ماں بیٹیوں کو قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کر کے صحابیات میں شامل ہونے کا شرف بھی ملا.حاجی صاحب نے ۱۹۰۴ء میں اپنی سوتیلی بہنوں محترمہ امیر النساء کی شادی مکرم چوہدری طفیل محمد خاں صاحب سے اور محترمہ محمد جان صاحبہ کی شادی مکرم چوہدری محمدعلی صاحب سکنہ کر یام سے کر دی تھی.مرحومہ نے دسویں حصہ کی وصیت کر کے اپنی زندگی میں حصہ جائیداد ادا کر دیا تھا.محترم نعمت خانصاحب موصوف کی بیعت کا اندراج البدر مورخہ ۳۱ جولائی ۱۹۰۳ء صفہ ۲۲۴ کالم ۳ میں موجود ہے.الحکم مورخہ ۱۴ فروری ۱۹۱۰ ء ( صفحہ ۹ ) میں تفصیلاً ذکر ہے کہ سروعہ میں جان کا خطرہ تھا نعمت خاں صاحب نے قادیان پہنچ کر بیوہ سے شادی کر لی.اور موضع کریام میں پناہ لی.بیوہ کے بھائی نے جو کانٹیبل تھا ز دوکوب کیا.اور دروازہ بند نہ کر لیا جاتا تو جان سے ماردیتا اور تھانیدار کے راجپوت قوم کا ہونے کے باعث عدالت میں بھی مقدمہ خارج ہو گیا.مئوقر الحکم نے حکام بالا کو انصاف کے لئے توجہ دلائی.مئولف کے استفسار پر چوہدری مہر خاں صاحب (صحابی) نے لکھا کہ البدر بابت ۴ ستمبر ۱۹۰۳ء میں جو صفحہ ۲۶۴

Page 111

89 پر موضع کریام کے مبائعین میں اہلیہ طفیل محمد صاحب اہلیہ محمد علی صاحب اور والدہ غلام احمد صاحب باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر محترمہ زینب بیگم صاحبہ بہت سخاوت کرنے والی احکام دینیہ پر عامل اور پابند صوم وصلوۃ تھیں.اپریل ۱۹۲۸ ء میں رحلت فرمائی موضع کریام ہی میں مدفون ہوئیں.لیکن آپ کے نام کا کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگایا گیا.سگی ہمشیرہ کی بیعت:.حاجی صاحب کی سگی ہمشیرہ محترمہ دولت بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری بھمبوخان صاحب سکنہ موضع سڑوعہ کو بھی حضرت مسیح موعود کی زیارت کا بحالت ایمان موقع ملا.اور وہ آخر تک احمدیت سے وابستہ رہیں.اور ۱۹۳۶ء میں وفات پائی.(بیان چوہدری مہر خان صاحب) آپ انداز ۱۸۷۳۴ء میں بمقام کریام پیدا ہوئیں.۱۸۹۱ء میں آپ کی شادی ہوئی میاں بیوی کے تعلقات بہت خوشگوار تھے.خاوند بھی صحابی تھے.مرحومہ کو کئی بار قادیان آنے کا موقع ملا.جذبہ خدمت ان میں بہت تھا.چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں.تعمیر مساجد بیرونی ممالک کے چندہ میں بھی انہوں نے شرکت کی تھی.صوم وصلوٰۃ کی بہت پابند تھیں.اور خواتین میں بہت مقبول تھیں.آپ نے بعمر تریسٹھ سال ۱۹۳۶ء میں بقیہ حاشیہ صفحہ سابقہ:.کے اسماء مرقوم ہیں ان سے مراد حاجی صاحب کی دونوں سوتیلی ہمشیرگان امیر النساء بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری طفیل محمد صاحب اور محمد جان صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد علی صاحب اور سوتیلی والدہ زینب بیگم صاحبہ ہی مراد ہیں.دوسری دونوں والدہ قبول احمدیت سے قبل فوت ہو چکی تھیں.یہ دونوں ہمشیرگان علی الترتیب ۱۹۱۱ ء اور ۱۷ جون ۱۹۵۹ئمیں فوت ہوئیں.انہوں نے اور ان کی والدہ صاحبہ نے حضرت مسیح موعود کی زیارت بحالت ایمان کی تھی.گویا صحابیات تھیں.اور آخر وقت تک احمدیت پر قائم رہیں.محمد جان صاحب کی وفات چک ۲۶ اسلام آباد پھالیہ ضلع گجرات میں ہوئی.بحوالہ (24) ہمشیرہ غلام احمد صاحب کریام کی بیعت بھی البدر بابت ۴ ستمبر ۱۹۰۳ء میں درج ہے (صفحہ ۲۶۴) خاکسار کے استفسار پر چوہدری احمد دین صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ مراد محترمہ دولت بیگم صاحبہ ہیں اس لئے کہ حاجی صاحب کی دوسری سگی ہمشیرہ محترمہ حشمت بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری مولا بخش صاحب اپنے بچے چوہدری عبدالغنی صاحب (جن کی ولادت ۱۸۹۵ ء کی ہے ) کی چھ سات سال کی عمر میں وفات پاگئی تھیں گویا انداز ۱۹۰۲ ء میں جبکہ ابھی حاجی اور ان کے اقارب نے بیعت نہیں کی تھی.چوہدری احمد دین صاحب یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ یہ چوہدری بھمبو خانصاحب تقسیم ملک سے قبل وفات پاگئے تھے.ان کے ہم نام جو بحالت درویشی فوت ہوئے اور تھے گو وہ بھی موضع سر وعہ کے باشندہ تھے.

Page 112

90 بمقام سر وعہ وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئیں.ہمیں اہلی زندگی :.آپ کی پہلی شادی ہعمر چودہ سال ۱۸۸۹ء میں محترمہ امام بیگم صاحبہ بنت بھنو خاں صاحب سکنہ موضع رائے پور نزد کا ٹھ گڑھ (ضلع ہوشیار پور) سے ہوئی.موصوفہ حاجی صاحب سے قریباً دو ماہ قبل ۸ئی ۱۹۴۳ء کو وفات پا کر بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئیں.مرحومہ بہت نیک بخت ، پرہیز گار، نماز روزہ کی پابند بلکہ تہجد گزار اور بہت صدقہ خیرات کرنے والی تھیں.حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں احمدیت قبول کی تھی.چونکہ ان کے بطن سے کوئی اولاد نہ ہوئی تھی اس لئے موضع کریام ہی میں محترمہ محمد جان بیگم صاحبہ ہمشیرہ نعمت خان ولد دارے خاں راجپوت) سے رشتہ کی تجویز ہوئی لیکن چونکہ موصوفہ کے بعض اقارب کو اس سے اتفاق نہ تھا اس لئے حاجی صاحب نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ امر جماعتی انتشار کا موجب نہ ہو.موصوفہ کے بھائی چوہدری نعمت خاں صاحب کو جو کہ ولی بھی تھے کہا کہ چونکہ آپ کے گھر میں اختلاف رائے ہے مبادا یہ ذاتی اختلاف جماعتی انتشار کی صورت اختیار کرے اس لئے میری رائے یہ ہے کہ آپ اپنی ہمشیرہ کا رشتہ کسی اور جگہ کر لیں.ممکن ہے فریقین کو ایک دوسرے سے بہتر رشتے میسر آجائیں.یہ معاملہ دو سال تک معلق رہا اور کوئی فیصلہ نہ ہو سکا.اس لئے چوہدری نعمت خانصاحب نے جملہ حالات سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کئے حضور نے فرمایا کہ میں نکاح پڑھ دیتا ہوں.اختلاف خود ہی ختم ہو جائے گا.چنانچہ حضور نے نکاح کا اعلان فرمایا.اور۱۲ جنوری ۱۹۲۳ء کو تقریب رخصتا نہ عمل میں آئی.اور بحمد اللہ کسی قسم کا انتشار پیدا نہیں ہوا.محترم ایڈیٹر صاحب الحکم اس بارہ میں لکھتے ہیں.”میرے مکرم بھائی حاجی غلام احمد خان ساکن کر یام اپنی نیک اور نمونہ کی زندگی کے لئے جالندھر اور د مذکور بالا بیان چوہدری احمد الدین صاحب کا ہے.وہ یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ میں ان کے بڑے بیٹے کا داماد ہوں.(اولاد کے لئے دیکھئے شجرہ) محترم امام بیگم صاحبہ کی وصیت ۷ امئی ۱۹۱۶ء کی ہے سند پر بطور میر مجلس کار پرداز حضرت مرزا محمود احمد صاحب (خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کے دستخط ہیں پہلے موضع کر یام میں امائنا دفن کی گئیں اور جلسہ سالانہ پر تابوت قادیان لایا گیا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قلم مبارک سے تدفین کی اجازت فرمائی ( فائل وصیت )

Page 113

91 ہوشیار پور میں خاص طور پر ممتاز ہیں.ان کے گاؤں کر یام میں احمدیوں کی ایک بڑی جماعت ہے.حاجی صاحب کا ادوسرا نکاح وہاں ہی ہونے والا تھا مگر اس نکاح میں عرصہ سے بعض روکیں اور مشکلات تھیں.راجپوت قوم میں سب سے زیادہ پابندیاں شادی بیاہ میں ہوتی ہیں اور باوجود یکہ اس وقت عام طور پر جاہلیت کی رسموں کو تو ڑا جارہا ہے اور ہمارے احمدی بھائی بہت بڑی قربانی کر کے سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں اور اکثر رسومات کو وہ تو ڑ بھی چکے ہیں مگر ابھی تک بعض رسموں کا اثر ان میں باقی ہے.منجملہ ان کے چھتوں اور مکانوں کا ایک دیرینہ سوال ہے.اور ایسا ہی جہاں لڑکیاں لیتے ہیں وہاں دیتے نہیں.اس نکاح میں بھی اس قسم کی مشکلات کا ایک سلسلہ چلا آتا تھا.ایام جلسہ میں اس کے متعلق کوشش کی گئی مگر اس خیال سے کہ جماعت کے اتحاد کو اس سے صدمہ نہ پہنچے چوہدری صاحب اس قربانی کے لئے آمادہ اور تیار تھے کہ باوجود لڑکی والوں کے بے حد اصرار کے وہ نکاح نہ کریں.حضرت اولو العزم ایدہ اللہ نے جو جماعت کی اصلاح اور فلاح کے لئے کسی مشکل کو مشکل ہی نہیں سمجھتے.یہ دیکھ کر کہ اس رسم کو ٹوٹنا چاہئے نکاح کرنے کے لئے حکم دیدیا.اس لئے جلسہ کے بعد یہ نکاح خود حضرت خلیفۃ اسیح نے بعد نماز فجر پڑھا.یہ امر جماعت کو معلوم ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح صرف ان مخلصین کے نکاح کا خود اعلان فرماتے ہیں جن کے متعلق آپ کو کامل یقین ہوتا ہے کہ ہر امر میں آپ کے فیصلہ کو شرح صدر سے قبول کرتے ہیں.حضرت نے اپنے خطبہ میں ذات پات کے رواج اور پابندیوں کی برائیوں کو بیان کرتے ہوئے اس امر پر اظہار افسوس فرمایا کہ راجپوت قوم میں یہ قیود حد سے زیادہ ہیں.اور اس پر بھی اظہار افسوس فرمایا کہ ابھی تک احمدی راجپوتوں میں بھی اس قسم کی قیود پائی جاتی ہیں.آپ نے فرمایا کہ لوگ چھت اور مکان ( گھر کی چھت وغیرہ) کے قائم رہنے کے لئے دعا کرتے ہیں مگر میں اس چھت اور مکان ( راجپوت برادری کے اصطلاحی چھت اور مکان ) کے گر جانے کی دعا کرتا ہوں.غرض حضرت خلیفہ المسیح نے اپنے خطبہ میں ان چھتوں اور مکانوں کے گر..جانے کی دعا کی.اور یہ بھی فرمایا کہ بعض لوگ دوسروں کی لڑکیاں تو لے لیتے ہیں لیکن ان کو دیتے نہیں.اور اس طرح ان کو ذلیل سمجھتے ہیں ایسے لوگ بے حمیت ہیں جو پھر ان کو لڑکیاں دیتے ہیں.ان کے اس نخوت اور تکبر کو توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کو ہرگز لڑ کیاں نہ دی جائیں.حاجی صاحب کا یہ نکاح اس قسم کا رسم کو توڑنے والا ہے.اور اسی وجہ سے حضرت صاحب

Page 114

92 نے خاص طور پر اس میں دلچسپی لی.(25).آپ حاجی صاحب کے عقد زوجیت میں ہیں سال تک رہیں اور آپ نے وفاداری واطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھایا.مرحومہ کم گو، عبادت گذار اور نیک سیرت خاتون تھیں.خاندان حضرت مسیح موعود سے والہانہ محبت رکھتی اور احمدیت کے لئے دلی اخلاص و عزت رکھتی تھیں.اور خواتین کے لئے اعلیٰ نمونہ تھیں.حضرت حاجی صاحب کے دوش بدوش آپ نے خواتین کے لئے کام کیا.آپ ابتدائی زمانہ میں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئی تھیں.* * آپ بعمر ساٹھ سال ۱۴دسمبر ۱۹۵۸ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ کر بہشتی مقبرہ ربوہ میں آرام فرما ہیں.سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا جنازہ پڑھایا.** آپ کے بطن سے تین بیٹے اور ایک بیٹی حاجی صاحب کی اولاد ہوئی.*** پانچصد روپیہ مہر پر یہ نکاح ہوا.(الفضل مورخہ ۱۱/۱/۲۳ صفہ۱) ماخوذ از الفضل مورخه ۱/۱/۵۹ صفہ ۶ مرحومہ کی بیعت مسماۃ محمد جان صاحبہ کے الفاظ میں والدین کی بیعت کے ہمراہ البدر ۱۰/۰۳/ ۹ صفحه ۳۰۴ میں درج ہے.اس وقت آپ چار پانچ سال کی ہوں گی لیکن ان کا حضرت مسیح موعود کی زیارت کرنے کا علم نہیں ہوسکا.حضور کے جنازہ پڑھانے اور مرحومہ کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کا ذکر الفضل ۲۰/۱۲/۵۸ صفریہ میں ہے.ی بیٹی اڑھائی سال کی عمر میں وفات پاگئی.بڑے بیٹے چوہدری ظہور الدین احمد صاحب کی ولادت پر الحکم نے حاجی صاحب کو مبارک باد دی (۲۱/۹/۲۴ صفحه ۴ ) ان کی ولادت ۱۴/۸/۲۴ کو اور وفات ۳۰/۵/۵۰ کو ہوئی.انہوں نے قادیان سے میٹرک کیا اگلے سال حاجی صاحب کی وفات واقع ہو جانے کے باعث بجائے ملازمت کے جائیداد کا کام سنبھال لیا.اور با وجود کم عمری کے نہایت خوش اسلوبی سے کام سنبھالا.اور جماعت کے کاموں میں خوب حصہ لینے لگے.قائد مجلس خدم الاحمدیہ کی حیثیت سے نوجوانوں کے لئے مفید ثابت ہوئے تقسیم ملک کے بعد پاکستان میں ہجرت کر جانے پر مقامی جماعت میں بطور سیکرٹری مال کام کیا.قرآن مجید کی خوش الحانی سے تلاوت کرتے.تفسیر کبیر، الفضل اور دینی کتب کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے.صوم وصلوٰۃ اور دیگر ارکان اسلام کے پابند تھے.چھوٹی سی عمر میں ہی وصیت کر دی تھی.اور باقاعدگی سے با شرح چندہ ادا کرتے تھے.اور تحریک جدید کے مالی جہاد میں بھی شامل تھے خدمت خلق کا جذ بہ بہت تھا.رفاہ عامہ کے کام بھی کرتے تھے.طبیعت ہنس مکھ تھی ، بشاشت سے پیش آتے تھے.کم گو اور شر میلے تھے ان کی یادگار ایک بچہ بشیر الدین احمد ہے.بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں

Page 115

93 خدمات سلسلہ :.(۱) بیعت و تائید خلافت :.خلافت اولیٰ کی بیعت کرنے والوں میں آپ کا شمار ان احباب میں تھا کہ جنہوں نے مرکز سے اطلاع پہنچے بغیر گویا بصیرت اور فراست سے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی بیعت کا خط بطور خلیفہ اول کے تحریر کر دیا تھا.بدر میں یہ رقم کیا گیا ہے کہ ایسے خطوط اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ خلافت اولی کا قیام تائید الہی سے عمل میں آیا ہے.چنانچہ بطور مثال جن پانچ احباب کے خطوط کا ذکر کیا گیا ہے اس میں مرقوم ہے کہ:.چوہدری غلام احمد صاحب نے کر یام سے لکھا ( کہ ) حاضرین احباب نے متفق ہو کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اس لئے یہ عاجز اور دیگر احمدیان الوصیۃ کے بموجب آپ کے ہاتھ پر تحریری بیعت کرتے ہیں“ (26) ۱۵ مارچ ۱۹۱۴ء کو یہ اعلان کیا گیا تھا کہ حضرت خلیفہ اول رحلت فرما گئے اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ قرار پائے.جن کی بیعت دو ہزار کے قریب احباب نے کی اور آپ نے حضرت مرحوم کا جنازہ پڑھایا.اور حضرت مسیح موعود کے دائیں جانب تدفین عمل میں آئی.حضرت ام المومنین اور اہل بیت بقیہ حاشہ صفحہ سابقہ: گرمی کی شدت کے حملہ سے مرحوم کی دماغ کی رگ پھٹ گئی جس سے آنا فانا موت واقع ہوگئی.ربوہ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے جنازہ پڑھایا اور ان کو بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا.مرحوم کے حالات الفضل ۷/۵۰،۱۸/۷/۵۰/ ۲۹ میں شائع ہو چکے ہیں.آپ کے اقارب میں اختلاف پیدا ہوا.آیا صحیح علاج میسر آجانے سے مرحوم کی زندگی بچ جاتی یا نہ.کیونکہ علاج میں کئی غلطیاں ہوئیں.اور پورا علاج میسر نہ آیا.یا یہ سمجھا جائے کہ موت ہی مقدر تھی.اس بارہ میں حضرت مرزا بشیر الدین احمد صاحب زاد عزہ کی خدمت میں لکھا گیا.آپ نے جو جواب دیاوہ الفضل ۸/۸/۵۰ اور ۱۲۶/۸/۱۵۰ اور ۹/۵۰/ ۳۰ میں شائع ہوا ہے مقدم الذکر میں دارالرحمت مورخہ ۴/۸/۵۰ میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ:.گو میں اس وقت بیمار تھا مگر حاجی غلام احمد صاحب مرحوم سکنہ کر یام کی نیکی اور اخلاص اور علاقہ کی جماعت میں ان کی ممتاز پوزیشن کی وجہ سے میں نے ضروری خیال کیا کہ جو سوال ان کے مرحوم بچے کی وفات کے متعلق پیدا ہوا ہے اس کا مختصر سا جواب دے کر ان کے عزیزوں کی تسلی اور راہنمائی کی کوشش کروں.“ حاجی صاحب کے دوسرے صاحبزادہ چوہدری احمد دین خان صاحب بی.اے بنک آف بہاولپور.لائل پور شہر میں ملازم ہیں اور اپنے خاندن کی جائیداد کا انتظام و انصرام بھی ان کے سپرد ہے.كَانَ اللَّهُ مَعَهُ ( آمین )

Page 116

شجرہ نسب:.نوٹ : ”ق“ سے مراد ہے وفات قبل احمدیت دیگر سب افراد احمدی ہیں جو صحابی یا صحابیہ ہیں جھنڈے خاں (ق) ڈھیرے خاں (ق) رنگے خاں (ق) نام کے ساتھ لکھدیا ہے:.ار یا بیگم (ق) اہلیہ محمد بخش) کریم بی بی ( اہلیہ امام بخش) گامن خال رحمی زینب بیگم برکت بیگم اشرف علی خاں ( ق ) نجابت علی خاں (صحابی ) مولا بخش (صحابی) مراد بخش ( صحابی ) (وفات ۱۸۹۳ء) انداز ۱ ۱۸۵۲ء تا ۱۹۳۷ء) ( وفات ۱۹۱۹ء حالات اسی جلد میں درج ہیں اور اولاد بھی ) (انداز ۱۸۷۲۴ تا ۱۹۴۲ء) لکھاں اہلیہ اول ( ق ) از بطن خیراں بی بی از بطن زینب بیگم ( صحابیہ ) لا ولد ایه دوم ( ا ا ا ا ا ا ا تا به این مقبره ها دران امیر النساء بیگم ( صحابيه ) محمد جان ( صحابیہ ) عبد الرحمان اہلیہ طفیل محمد صحابی اہلیہ محمد علی (صحابی) (وفات بعمر چھ سال) الوطن حشمت بیگم (ق) (وفات انداز ۰۲-۱۹۰۱) ار طن جان بیگم صاحبہ عبد الغنی ( سحابی ) (۱/۵۹۳۱۸۹۵/ ۸) عبدالحی فاطمہ بیگم عبد السلام سلامت بیگم عبد الغنی ( مقیم لاکپور ) حشمت بیگم (ق) (اہلیہ اول مولا بخش ) 94 دولت بیگم ( صحابیه) حضرت حاجی غلام احمد ( صحابی ) اند از ۱۸۷۳ ۶ تا ۱۹۳۰ء) (۷۶-۱۸۷۵ء تا ۱۹۴۳ ۲-۷-۵) مدفون بہشتی مقبره قادیان (اہلیہ اول مولا بخش) اہلیہ بھمبوخاں (صحابی) عبد اللطيف از بطن محمد جان بیگم ابلیه دوم مهر النساء بیگم ( صحابیہ ) (امام بیگم اہلیہ اولی (صحابیہ ) عبداللطیف خاں پینشنر سابق ٹیچر در نیکر مڈل سکول عبد الکریم سپر وائزر شروع.بعد ہجرت ضلع بانان.(ولادت (۱۹۰) آر.ایم.ایس لا ہورڈ ویشان ولادت ۱۹۰۹) احمد دین خال بی.اے نورالدین احمد مدون بهشتی مقیم در بود) (کارکن بنک آف بہاولپور ) ایم.ایس سی ظہور الدین احمد بشیر الدین احمد احمد رحمت الله عبد الغفار امته اللطيف مهرخان ( صحابی ) متیم چک ۱۰۹ ج ب نذیر احمد خاں (وفات ۱۱/۵۹/ مدفون بہشتی مقبر ور بود) تحصیل لائکپور (ولادت ۱۸۸۳ء) الیه با بو بشارت علی خان (صحابی ) وفات ۱۱/۲۵/ ۲۱ د فون بہشتی مقبره بود) عبداللہ خاں عبدالرحمن خاں احمد خان عبدالقادر خان البطن حکومت بی بی ار بطن عنایت بیگم وفات ۱۹۵۴ء دختر امیر خان سکنہ کر یمه تحصیل نواں شہر دختر کوڑے خان سکنہ لنگرود سرودی بیگم محمد سرور محمد انور نصیر احمد اکبری بیگم نسیم اختر اہلیہ عبد القادر خان ولد مهر خاں) عبد الحکیم خان مقیم لائل پور رشید احمد

Page 117

95 حضرت خلیفہ اول نے بیعت کر لی ہے احباب بہت جلد بیعت سے مشرف ہوں.پون صد کے قریب جن احباب کی طرف سے یہ اعلان ہوا تھا ان میں چوہدری غلام احمد پریزیڈنٹ انجمن احمد یہ کر یام ضلع جالندھر کا نام نامی بھی شامل تھا.(27) آپ بیعت کر کے واپس گئے اور احباب جماعت سے فوری طور پر بیعت کے خطوط لکھوا دئیے اور اس طرح ایسے نازک وقت میں اپنی جماعت کو تفرقہ سے بچالیا.ایک اشتہار جو شرائط کے متعلق مخالفین خلافت کے افتراؤں کی تردید میں ۲۱/۳/۱۴ کو حضرت نواب محمد علی خانصاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کی طرف سے شائع ہوا تھا اس کی پشت پر صد روسیکرٹری صاحبان وغیرہ ڈیڑھ صد احباب کی طرف سے احباب کو بیعت کی تحریک کی گئی تھی.اس میں بھی ” چوہدری حاجی غلام احمد صاحب کر یا م سیکرٹری انجمن احمدیہ کے الفاظ میں آپ کا نام موجود ہے.۱۱۲ پریل کو خلافت کی تائید میں جو شوری طلب کی گئی تھی اس میں بھی آپ شامل ہوئے تھے.ہے (۲) تعمیر مسجد احمدیہ : انتضار پر کہ میرے پاس روپیہ موجود ہے مجاور تعیر مسجد میں سے کونسا کام پہلے سرانجام دوں.حاجی صاحب کو حضرت خلیفہ اسی اول نے یہ مشورہ دیا کہ آپ پہلے حج کریں.چنانچہ آپ نے پہلے حج کیا.احباب جماعت آپ کے مکان کی بیٹھک میں باجماعت نماز ادا کرتے تھے اور یہ جگہ نا کافی تھی.اس لئے آپ نے مسجد کی تعمیر کا عزم کر لیا.لیکن بڑی تگ و دو کے بعد اس کے لئے نصف کنال مناسب جگہ ملی جو ایک مسلمان کی کسی ہندو کے پاس رہن تھی.آپ نے ہندو دوست سے کہا کہ میں زرر ہن ساڑھے تین صد روپیہ آپ کو ادا کر دیتا ہوں اور مزید برآں ہم نصف کنال سفید جگہ بھی اس مسلمان کو دوسرے مقام پر دیدیتے ہیں آپ اسے آمادہ کر لیں.چنانچہ وہ مسلمان مان گیا اور معاہدہ ہو گیا لیکن بعض مخالفین کی انگیخت پر اس مسلمان کے ورثاء کی طرف سے حق شفع کا مقدمہ دائر کر دیا گیا.مجسٹریٹ نے اپنی فراست سے اصل حقیقت معلوم کر لی.اور مخالفین کا دعوی خارج کر دیا.۱۹۱۵ء میں وہاں تعمیر شروع ہوئی.حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی سے سنگ الحکم ۲۱/۴/۱۴ اس شوری کی تفصیل گذشتہ جلدوں میں درج ہو چکی ہے کل ایک صدنوے نمائندگان تھے آپ کا نام ”حاجی چوہدری غلام احمد صاحب سیکرٹری انجمن احمد یہ کر یام مضلع جالندھر درج ہے.

Page 118

96 بنیا در دکھنے کے لئے بذریعہ تار درخواست کی گئی.حضور نے جواب دیا کہ میں کتاب حقیقۃ النبوة“ کی تصنیف میں مصروف ہوں.حاجی صاحب خود ہی بنیادرکھدیں.میں دعا کر دیتا ہوں.چنانچہ حاجی صاحب نے بنیا درکھی اخراجات تعمیر کا اکثر حصہ آپ ہی نے برداشت کیا.اور اسی سال مسجد مکمل ہوگئی.(۳) احمد یہ سکول کا اجراء : احمدی بچوں کی تعلیم وتربیت کے مدنظر آپ نے ایک احمد یہ سکول کی ضرورت محسوس کر کے ۳ جون ۱۹۱۶ ء سے اسے اپنے گاؤں میں جاری کیا.بعد ازاں اس کے لئے ایک موزوں عمارت تیار کروالی گئی.شروع میں اس کے جملہ اخراجات جو اساتذہ کے مشاہرہ اور دیگر ضروریات پر مشتمل تھے، خود برداشت کرتے تھے.بعد میں سرکار کی طرف سے پرائمری تک اس کی منظوری لے کر گرانٹ حاصل کر لی گئی.اور پھر صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے بھی کچھ رقم بطور امداد ملنے لگی.پھر بھی اگر کبھی گرانٹ بند ہو جاتی تو آپ ہی مدرسہ کے اخراجات برداشت کرتے.آپ اس کے مینیجر تھے اس کی پوری طرح نگرانی کرتے تھے بعض اوقات خود بھی طلباء کو سبق دیتے.اور سالانہ امتحانات کے مواقع پر افسر متعلقہ کے ساتھ رہ کر خود معائنہ کراتے اور افسر کے کھانے کا انتظام فرماتے.اور معائنہ کے اختتام پر اپنے باغ سے پھل منگوا کر تقسیم فرماتے.افسران کی ہدایات پر پوری طرح عمل کرواتے.بعض اوقات کوئی استاد غیر حاضر ہوتا تو اس کی جگہ پڑھاتے یا اچانک کسی جماعت کا امتحان لیتے اور افسران بھی آپ کی حسن کارکردگی اور دلچسپی کو بنظر استحسان دیکھتے جو کہ ان کے نوشتہ ریمارکس سے ظاہر ہوتا.(۴) تبلیغ میں انہماک :.آپ نے جماعت کر یام کو دس حصوں میں تقسیم کر کے ان کے امیر وفد مقرر کر دیے تھے.ہر گروہ ہفتہ میں ایک دن تبلیغ کے لئے آپ سے ہدایات حاصل کر کے اور لٹریچر لے کر جاتا.حلقه تبلیغ اردگرد کا پانچ میل تک کا علاقہ تھا.واپسی پر روئید ادسنی جاتی.اور اس سے مرکز کو بھی آگاہ رکھا جاتا.علاوہ حضرت حاجی صاحب کی ہبہ کردہ اراضی کے تعلق میں صدر انجمن قادیان کے بعض نمائندے چند ماہ قبل موضع کر یام گئے تھے.وہ اس مسجد کی بہت تعریف کرتے ہیں.رپورٹ مشاورت بابت ۱۹۲۷ء میں مندرجہ ذیل رپورٹ نظارت تعلیم وتربیت میں مرقوم ہے کہ کریام کا مدرسہ بھی ان مدارس میں سے ہے جس کا انتظام وغیرہ مقامی جماعت کرتی ہے صرف عمومی نگرانی نظارت کرتی ہے.(صفہ۸۶)

Page 119

97 از میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تحریک کے مطابق احباب سے سال میں ایک ایک نیا احمدی بنانے کا وعدہ بھی لیتے تھے.ہو آپ نے پا پیادہ گردو نواح کے علاقہ میں تبلیغ کی.اور آپ کو قصبہ راہوں کے چوہدری فیروز خاں صاحب اور کا ٹھگڑھ کے مولوی عبدالسلام صاحب جیسے رفقاء کار بھی مل گئے.ان بزرگوں نے اشاعت حق واعلائے کلمتہ اللہ کے لئے دیوانہ وار کام کئے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ارد گرد کے علاقہ میں تحصیل ہائے نواں شہر و گڑھ شنکر میں حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں ہی کر یام، راہوں، کاٹھ گڑھ ،سڑوعہ لنگڑ وعہ، کریم پور، بنگہ ، پنام.مکند پور.بکھلور.اور لکیری وغیرہ مقامات پر جماعتیں قائم ہوگئیں.کئی کروڑ راجپوتوں کے ارتداد کا منصوبہ اعداء اسلام نے بنایا تھا.اور ان کی یلغاروں کی بروقت اور مناسب طریق سے مدافعت حضرت محمود ایدہ اللہ الودود کی سرکردگی میں آپ کی افواج قاہرہ نے کی.اس کی تفصیل گذشتہ جلدوں میں آچکی ہے.الفضل مورخہ ۴/۶/۲۳ میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ دوسری سہ ماہی میں جانے والے افراد۱۵ جون تک قادیان پہنچ جائیں.ان میں حضرت حاجی صاحب کا اسم گرامی بھی شامل تھا.(صفحہ ۱۱) یہ حکم آپ کو ایسے وقت میں پہنچا جبکہ آپ کے ایک عزیز کی شادی چند دن تک ہونے والی تھی لیکن آپ نے اپنے اقارب کے اصرار کی پرواہ نہ کی بلکہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے قادیان حاضر ہو گئے.دوسری سہ ماہی کا پہلا وفد ۲۰ جون کو بعد نماز عصر روانہ ہوا.سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی مؤقر الحکم نے راجپوت نو مسلموں میں خصوصی تبلیغ کے متعلق بعض احباب کی تحریک کی تائید کی اور پورے زور سے اس بارہ میں تحریک کر کے پانچصد روپیہ مہیا کرنے کی ترغیب دلائی.اور پھر لکھا کہ حاجی صاحب نے خود بھی رقم دی اور دیگر افراد سے بھی روپیہ جمع کر کے دیا.حضرت خلیفہ اول نے اس تحریک کے تعلق میں نومسلموں میں ٹریکٹ شائع کرنے کا انتظام فرمایا.(28) نظارت دعوۃ و تبلیغ کی رپورٹ میں مرقوم ہے کہ جماعت کریام نے تمام ضلع جالندھر میں اور قریب کے پانچ دیہات میں سیرت النبی کے جلسوں کا انتظام کیا.امیر صاحب نے مبلغ کی معیت میں تمام ضلع کا دورہ کیا.تیرہ احباب نے سال میں کم از کم ایک احمدی بنانے کا وعدہ کیا تبلیغی رپورٹیں باقاعدگی سے آتی رہیں (29) سالانہ رپورٹ صدا نجمن احمد یہ بابت ۴۳ ۱۹۴۲ ء میں آپ کا نام نظارت دعوۃ وتبلیغ کے آنریری کارکنان ومبلغین میں مرقوم ہے ایسے افراد گنتی کے چند ایک ہی ہیں (30)

Page 120

98 حسب دستور سابق بیرون قصبہ تک الوداع کہنے کے لئے تشریف لے گئے.قادیان کے قریباً تمام احمدی احباب ساتھ تھے.حضور نے تقریر فرمائی اور سب کو مصافحہ کا موقع دیکر رخصت کیا.وفد کے ان اکیس احباب میں آپ شامل تھے.(الفضل ۲۵/۶/۲۳ صفحه ۱ ) آپ نے تین ماہ تک بفضلہ تعالیٰ وہاں کامیاب طور پر تبلیغ کا کام کیا.آپ کو غالبا ضلع متھرا میں موضع نو گاؤں میں متعین کیا گیا تھا.فتنہ احرار کے زمانہ میں مرکز نے علاقہ مکیریاں میں تبلیغ کی مہم شروع کی.آپ نے بھی ۱۹۲۵ء و ۱۹۲۶ء میں ایک ایک ماہ وقف کیا.پہلے سال موضع عمرا پور میں اور دوسرے سال خاص مکیریاں میں کام کیا.تبلیغ پر جانے سے قبل آپ نے خواب دیکھا کہ آپ ہاتھی پر سوار ہو کر جارہے ہیں.بعد بیداری آپ کو خوف ہوا کہ اس کی تعبیر طاعون نہ ہو.لیکن دوسرے روز سید نا حضرت خلیفہ مسیح اثنی ایدہ اللہ تعالیٰ کا تار موصول ہوا کہ آپ کو علاقہ مکیریاں میں تبلیغ کے لئے امیر المجاہدین مقرر کیا جاتا ہے.اس پر آپ نے سمجھا کہ خواب کی یہ تعبیر تھی کہ گویا ایک اعزاز حاصل ہوگا.دیہاتی مبلغین علاقہ میں پھیلائے گئے تھے.اب وہ آپ کی زیر ہدایت کام کرتے تھے.اور آپ تبلیغ کی روئیداد مرکز کو بھجواتے تھے.مرکز کی طرف سے حسن کارکردگی کے باعث آپ کو خوشنودی کی سندات بھی عطا کی گئی تھیں.آپ کے گاؤں میں ۱۹۲۶ء میں ایک امریکن پادری آیا.اس نے یہ اظہار کیا کہ گویا مقدس کتاب انجیل میں عیسی کو خدا کا بیٹا کہا گیا ہے.حضرت حاجی صاحب نے اس سے کئی گھنٹے مباحثہ کیا اور ۱۸۷۵ء اور ۱۹۲۶ء کی مطبوعہ انا جیل دکھا کر ان کا تحریف و تبدل ظاہر کر کے بتایا کہ یہ قابل اعتبار نہیں.پادری حیران و ششدر رہ گیا.اور کہنے لگا کہ یہ باتیں میں نے پہلی بارسنی ہیں.اور اس نے مشہور مناظر پادری عبدالحق وغیرہ کو بلوالیا.اور بمقام بنگہ مکرم مولوی غلام احمد صاحب بد و ملہوی وغیرہ سے مناظرہ ہوا حاجی صاحب نے صدر کے فرائض سرانجام دیئے.سامعین کا کہنا تھا کہ احمدی مناظرین کے ٹھوس دلائل کے مقابلہ میں عیسائی مناظرین بے بس ہو گئے ہیں.(۵) بھرتی میں امداد :.سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ٹیریٹوریل میں احباب کے بھرتی ہونے کو بعض اہم فوائد کے پیش نظر بہت قابل توجہ قرار دیا تھا.ایک احمد یہ کمپنی کا قیام عمل میں آیا تھا جو کہ بعد میں سی کمپنی ۱۱/۱۵ پنجاب رجمنٹ کے نام سے موسوم ہوئی تھی.حضرت مرزا شریف احمد صاحب بھرتی کے لئے دورہ بھی کرتے تھے.حاجی صاحب کی شادی جنوری ۱۹۲۳ء میں ہونے والی تھی کہ حضرت ممدوح کا تار موصول ہوا

Page 121

99 کہ اپنے علاقہ سے دس رنگروٹ بھجوائیں.چنانچہ حاجی صاحب شادی کا انتظام چھوڑ کر اور اس سلسلہ میں جو اقارب آئے ہوئے تھے ان سے اجازت لے کر روانہ ہو گئے اور گردو نواح میں دورہ کر کے اس کام کو سرانجام دے کر واپس آئے اور اپنی شادی کے کام میں مشغول ہوئے.(1) تحریک نکاح بیوگان :.راجپوتوں میں نکاح بیوگان کو حد درجہ مذموم اور قابل نفرین تصور کیا جاتا ہے اس خلاف اسلام بلکہ ہند و وانہ رسم کو دور کرنے کے لئے آپ نے بہت جدوجہد کی.اور حضرت مولوی عبدالسلام صاحب کا ٹھ گڑھی کو اپنے ساتھ شامل کر کے ایک اشتہار بعنوان ” نکاح بیوگان شائع کیا.اور اس کی اشاعت بالخصوص راجپوت احمدی جماعتوں میں کی.موضع کریام میں اس بارہ میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں آپ نے تقریر کی.اس پر ایک شخص نے کہا کہ آپ کی ( سوتیلی والدہ بیوہ ہیں ان کا نکاح ہونا چاہئے.اس پر آپ نے اعلان فرمایا کہ اگر وہ نکاح پر رضامند ہوں تو میں اس میں انتہائی خوشی محسوس کروں گا بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ان کی زندگی تک میں ان کے نام نصف اراضی یعنی ڈیڑھ مربع زمین لگا دوں گا.ابتداء میں اس تحریک کی پرزور مخالفت ہوئی لیکن آپ اسے کامیاب بنانے میں پوری طرح جد و جہد کرتے رہے.اس بارہ میں مرقوم ہے کہ بمقام کا ٹھ گڑھ ایک بیوہ کا نکاح پڑھا گیا.یہ امید بندھ گئی کہ نکاح بیوگان کی تحریک راجپوتوں میں کامیاب ہوگی.اضلاع ہوشیار پور و جالندھر کے احباب کو دعوت ولیمہ پر مدعو کیا گیا.اور سید القوم چوہدری غلام احمد خاں کر یام والا نے جمعہ پڑھایا جس میں عورتوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی.“ چوہدری صاحب نے دعوت ولیمہ کی فلاسفی بیان کی اور نکاح کرنے والی خاتون کے لئے کچھ نقدی اور کپڑے جمع ہوئے.باہر سے آنے والے احباب بھی تحائف لائے تا بیوگان کو بھی نکاح کی تحریک ہو.(31 ) مالی جہاد :.آپ طوعی و فرضی چندوں میں نمایاں حصہ لیتے تھے.آپ موصی تھے.** تعمیر منارة امسیح رپورٹ سالانہ صدرا مجمن احمد یہ قادیان بابت ۰۹ - ۱۹۰۸ء میں مرقوم ہے:.انجمن سر وعدہ کا ٹھ گڑھ اور کر یام کے متعلق یہ امر بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ بیواؤں کے نکاح ثانی کے لئے طرح طرح کی کوششیں کی جاتی ہیں جو راجپوت قوم میں علی الخصوص غلطی سے بہت بڑا عیب سمجھا جاتا ہے چنانچہ کچھ نکاح ہو بھی چکے ہیں.(صفحہ ۱۷) آپ کی فائل وصیت سے علم ہوا کہ آپ کا نمبر وصیت ۲۷۸ ہے گویا آپ ابتدائی بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 122

100 کے لئے چندہ دینے کے باعث آپ کا نام اس پر نمبر ۸ پر یوں کندہ ہے:.حاجی غلام احمد کریام آپ نے خلافت جو بلی فنڈ اور چندہ تحریک جدید ادا کیا.دفتر اول تحریک جدید میں ( بشمول اس رقم کے جو بعد وفات آپ کے بچوں نے ادا کی ) آپ کی طرف سے ایک ہزار ایک سو اکتالیس روپے ادا ہوئے.حضرت چوہدری برکت علی خاں صاحب وکیل المال اس بارہ میں تحریر فرماتے ہیں:.حضرت حاجی چوہدری غلام احمد صاحب آف کر یام نے اپنی زندگی میں ہر سال اضافہ سے اشاعت اسلام میں مدددی قبل وفات آپ نے وصیت کی کہ میرا تحریک جدید کا چندہ اسی طرح اضافہ کے ساتھ جاری رہے کئی سال ان کی وفات کے بعد بھی ان کی اولا دا ضافہ سے ادا کرتی رہی.مگر آخری چار سال میں حالات کی تبدیلی سے کچھ کمی کر کے ادا کیا.چنانچہ ان کا نام صفحہ ۳۰ پر شائع ہو چکا ہے.خاکسار نے حضرت حاجی صاحب مرحوم کے بیٹے چوہدری احمد دین صاحب چک ۰۹ اگ.ب کو اس وصیت کی طرف توجہ دلائی تو لکھا کہ میں اور میرا چھوٹا بھائی عزیز نورالدین صاحب حضرت ابا جان کی اضافہ کی ۱۹۲ ( روپے کی رقم ضرور ادا کر دینگے بفضل خدا.چنانچہ یہ رقم داخل ہوگئی ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء (32) حاجی صاحب فرماتے تھے کہ ایک شخص سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتا تھا.کسی نے کہا کہ تم بہت بھی ہو کہنے لگا تم غلط کہتے ہو لوگ اپنی ذات ، اولاد ، خاندان کے لئے خرچ کرتے ہیں.میں صرف اپنی ذات کے لئے خرچ کرتا ہوں.میں بہت بخیل ہوں.آپ بھی ہر قسم کے چندہ جات وصدقات میں مال خرچ کرتے تھے اسی لئے آپ کے پاس کبھی روپیہ جمع نہیں ہوا.اکثر دعا فرماتے تھے کہ اے اللہ ! تو مجھے اتنا مال دے کہ جس سے میں با ایمان آسودہ بقیہ حاشیہ صفحہ سابق:.موصیوں میں سے تھے.آپ نے ۲۹ دسمبر ۱۹۰۷ء میں ہی ہبہ کا داخل خارج آپ نے کر وا دیا تھا.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی مختار عام صدر انجمن احمدیہ کی تصدیق سند پر ہے کہ ہبہ کا داخل خارج ہو چکا ہے.۲۶ دسمبر ۱۹۰۹ء کو میر مجلس انجمن حضرت مولوی نور الدین صاحب ( خلیفہ اول) کے دستخط سے حاجی صاحب کے نام سند جاری ہوئی آپ نے ۲۳/۶/۳۴ کو لکھا کہ بروئے فیصلہ مشاورت جس نے وصیت میں زمین دیدی اس پر چندہ عام نہیں مگر بغرض ثواب میں نے بقیہ زمین کی پیدوار سے چندہ عام ادا کرنا اس سال سے شروع کر دیا ہے.

Page 123

101 زندگی گذار سکوں.مجھے ایسے مال وزر کی ضرورت نہیں جو میری ایمان والی زندگی میں مخل ہو.اور مجھے ایمان صالح کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا کر.سلسلہ کے لٹریچر میں ذکر :.سلسلہ کے لٹریچر میں آپ کا ذکر کثیر موجود ہے چند مقامات کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:.ا.ایک پیشگوئی کے گواہ:.۷ مارچ ۱۹۰۷ء کو حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا کہ ” چھپیں دن یا یہ کہ پچھیں دن تک ایک آتشیں گولے کی شکل میں یہ پیشگوئی پوری ہوئی.یہ گولہ پنجاب کے متعدد مقامات پر دیکھا گیا.حضور کو جن باون احباب نے بذریعہ خطوط اطلاع دی.ان کے اسماء مع خلاصہ خطوط حضور نے درج فرمائے.پچاسویں نمبر پر تاریخ خط ۳ اپریل ۱۹۰۷ ء درج کر کے غلام احمد.کریام اور خلاصہ خط آسماں اے غافلواب آگ برسانے کو ہے“.درج فرمایا.(33) ۲.مشاورت میں شمولیت :.آغاز مشاورت سے تا صحت بطورنمائندہ آپ کو بالعموم مشاورت میں شمولیت کا موقع ملتا رہا.اور متعدد بار آپ سب کمیٹیوں کے ممبر بھی مقرر ہوئے.آخری چند ایک میں غالباً طویل علالت کے باعث آپ شرکت سے معذور تھے.اولین مشاورت منعقدہ ۱۹۲۲ء جس میں باون نمائندگان جماعت اور تمہیں نمائندگان مرکزی شامل ہوئے تھے.اس وقت سلسلہ پر نا قابل برداشت مالی بار تھا.ایک لاکھ روپیہ کا قرض تھا.اس لئے چندہ خاص کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا.اور سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے خود ہر جماعت کے لئے اس کی مقدار مقرر فرمائی.نیز مستقل تجاویز پر بھی غور کیا گیا.بالخصوص فصل کے موقع پر با شرح اور " احتیاط اور چستی کے ساتھ فصلانہ کی وصولی کے لئے اضلاع کے لئے انسپکٹر مقرر کئے گئے.چنانچہ اضلاع جالندھر، ہوشیار پور اور لدھیانہ کے لئے حاجی صاحب اور دو اور دوست مقرر کئے گئے.(رپورٹ صفحہ ۵۴۱) ی رپورٹ ہائے متعلقہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مشاورت ہائے ۱۹۳۰ ء ،۱۹۳۲ء ۱۹۳۳ ، اکتوبر ۱۹۳۶ء میں بیت المال ،۱۹۳۹ء میں نظارت علیا، ۱۹۲۳ء ، ۱۹۲۷ء ، ۱۹۲۸، واپریل ۱۹۳۶ء میں اشاعت اسلام یا دعوت وتبلیغ وانسداد ارتداد یا صرف دعوة وتبلیغ ۱۹۲۴ء ، ۱۹۲۵ ۱۹۳۴ء میں تعلیم وتربیت، ۱۹۲۹ء میں امور عامہ اور ۱۹۳۱ء میں نظارت بہشتی مقبرہ کی سب کمیٹیوں میں آپ کو ممبر مقرر کیا گیا تھا.۱۹۳۵ء ، ۱۹۳۷ء ، ۱۹۳۸ء ۱۹۴۰ء میں بھی آپ مشاورت ہائے بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 124

102.قادیان آنیوالوں میں نام :.ہفت ختمہ 4 فروری ۱۹۱۹ء میں قادیان آنے والے دس احباب میں زبر مدینہ مسیح ، آپ کا نام بھی موجود ہے (الفضل ۸/۲/۱۹) علالت و وصیت :.آپ ۱۹۳۰ء میں کار بنکل سے بیمار ہوئے تو آپ نے اپنی زندگی کے بعد جائیداد کے انتظام و شرعی تقسیم کے لئے باقاعدہ ایک ٹرسٹی نامہ تحریر کیا.ٹرسٹی چوہدری نعمت خاں صاحب سکنہ کر یام ، چوہدری مہر بقیہ حاشیہ صفحہ سابق:.میں شریک ہوئے ۱۹۲۶ء کی رپورٹ مجھے دستیاب نہیں ہو سکی.دیگر امور کے متعلق بھی بعض حوالہ جات درج کئے جاتے ہیں :.(الف) بدر کے چندہ وغیرہ کے متعلق دوبار ( بدر ۶/۷/۰۵ صفحه ۸ ک ۲ نیزک ۳ اس سے معلوم ہوا.آپ کا خریداری نمبر ۳۷۶ تھا ) ریویو (اردو) کی اعانت کی بابت اکتوبر ۱۹۰۶ ء - سرورق آخر ) اور خریدار مہیا کئے ( 34 ) (ب) آپ کی معرفت جماعت کریام کے ، وصولہ چندے.(۱) قربانی فنڈ پانچ روپے (الحکم ۳۱/۵/۵۰ صفحه ۸) (۲) اعانت ریویو ( ریویو آف ریلیجنز بابت جنوری ۱۹۰۶ صفحه ماقبل آخر جولائی ۱۹۰۶ ء سرورق آخر متن و حاشیہ.(ج) ادائیگی وصیت ( ریویو آف ریلیجنز بابت جنوری ۱۹۱۳ ء صفه ۴۶ (۳) چندہ مدرسہ سات روپے اڑھائی آنے رسالہ تعلیم الاسلام بابت اگست ۱۹۰۶ ء سرورق ما قبل آخر ) یہاں کتابت کی غلطی سے کریام کے ساتھ نواں شہر کی بجائے نواشتر مرقوم ہے.(۴) سالانہ رپورٹ صدرانجمن احمد یہ قادیان بابت ۰۹-۱۹۰۸ء میں کریام کی جماعت کے متعلق مرکز کی طرف سے بتایا گیا ہے چوہدری غلام احمد خانصاحب نمبر دار اس کے سیکرٹری ہیں اور اس سال قریباً تین صد روپیہ چندہ مرکز میں آیا ہے (صفحہ ۱۸) سالانہ رپورٹ بابت ۱۰-۱۹۰۹ء میں بھی آپ کا نام بطور سیکرٹری درج ہے اور بتایا گیا ہے کہ خزانہ میں چندہ گذشتہ سال سے تمہیں روپے زیادہ آیا.(صفحہ ۷ ) رپورٹ بابت ۱۱.۱۹۱۰ء میں مرقوم ہے کہ :.اس انجمن کے سابق سیکرٹری چوہدری غلام احمد صاحب حج کے لئے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور بخیر و عافیت واپس آئے.خدا ان کا یہ عمل قبول کرے.اور اس جماعت کا دو سال میں پانچصد روپیہ چندہ مرکز میں وصول ہونا مذکور ہے (صفحہ ۷۹) ان چوبیس جماعتوں نے جنہوں نے اا.۱۹۱۰ء ۱۸ ۱۹۱۷ ء میں مرکز میں رپورٹیں بھجوائیں.آپ کا نام بطور سیکرٹری شاخہائے ”نواں شہر اور کر یہ دو مقامات مرقوم ہے.رپورٹ ہائے متعلقہ صفحات ۴۵،۵۲)

Page 125

103 خاں صاحب اور حاجی رحمت اللہ صاحب سکنہ راہوں مقرر کئے کہ یہ کمیٹی بکثرت رائے تابع منظوری خلیفہ وقت کام کریگی.آپ دبلے پتلے اور جسمانی طور پر کمزور تھے لیکن حد درجہ محنتی تھے.۱۹۳۹ء میں جو بلی فنڈ کی فراہمی کے لئے آپ نے اضلاع جالندھر و ہوشیار پور کا پیادہ چکر لگا کر ہزاروں روپے وصول کئے.لیکن موسم گرما میں لمبے سفر کو آپ کا کمزور جسم برداشت نہ کر سکا اور آپ مرض دق (ٹی بی) کا شکار ہو گئے.لیکن علاج معالجہ سے افاقہ نہ ہونے بلکہ مرض کے شدت اختیار کرنے پر آپ مئی ۱۹۴۰ء میں اوڑ کے سرکاری ہسپتال میں داخل ہوئے لیکن وہاں علاج کا مکمل انتظام نہ تھا.اس لئے مکرم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ (حال امیر جماعت راولپنڈی) کے ذریعہ امرت سر کے سول ہسپتال میں داخل ہوئے.محترم ڈاکٹر محمد یعقوب صاحب احمدی (حال ایکس رے انچارج میوہسپتال لاہور ) کی وجہ سے بہت سہولت رہی.چند ماہ میں روبصحت ہونے پر آپ کو سر گو جرمل سینیوریم میں بھیج دیا گیا.اس طرح ہر دو جگہ قریباً نصف سال قیام کر کے صحت یاب ہو کر آپ جلسہ سالانہ پر قادیان آئے.اور سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات بھی کی.اور پھر وطن پہنچ کر حسب معمول کام کاج میں مشغول ہو گئے.بڑا بچہ دسویں میں کامیاب نہ ہوا.اسے مئی ۱۹۴۱ء میں قادیان داخل کرانے گئے.گرمیوں میں مشقت کے باعث پھر ٹی بی کا حملہ ہو گیا.اور آپ امرت سر کے ہسپتال اور سینیٹوریم میں نصف سال داخل رہے.اور جلسہ سالانہ پر قادیان آئے لیکن مارچ ۱۹۴۲ء میں انتہائی خطرناک کار بنکل گردن کی پشت پر نکل آیا اس لئے امرت سر ہسپتال میں اپریشن کے لئے داخل ہوئے.چونکہ اب بہت نحیف ہو گئے تھے اس لئے ٹی بی کے اثرات ظاہر ہونے پر ٹی بی وارڈ میں اور پھر سینیٹوریم میں منتقل ہوئے.ڈاکٹروں نے یہ سمجھ کر کہ اب علاج بے سود ہے نومبر ہندوستان خصوصاً پنجاب میں تقسیم شرعی کا رواج نہیں تھا بلکہ اس کی سخت مخالفت کی جاتی تھی.حاجی صاحب نے شریعت پر عمل پیرا ہونے کے لئے ۱۴/۹/۱۱ کو لکھا کہ میں حج پر جا رہا ہوں میری اراضی کی تقسیم بموجب شریعت اسلام ہو اس پر حضرت خلیفہ اول نے تحریر فرمایا ” مکرم مولوی محمد علی صاحب ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وصیت پر توجہ فرمائیں.نورالدین

Page 126

104 میں آپ کو فارغ کر دیا.آپ نے دسمبر میں جو وصیت لکھوائی اس کے آغاز میں یہ کھوایا :.بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد ه فصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبده السيح الموعود سب حمد اللہ تعالیٰ کے لئے اور درود اور سلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس کے خلیفہ برحق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر سچے دل سے یقین رکھتا ہوں کہ آپ خدا کی طرف سے تھے اور حضرت مسیح موعود امتی نبی ہیں جو آنحضرت کے دین کی اشاعت کا کام کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے اور حاضر ناظر ہے اور صفات کا ملہ کا مالک ہے.اور ہر ایک نقص اور کمزوری سے پاک ہے.فرشتے برحق ہیں رسول برحق ہیں.مرنے کے بعد اٹھنا برحق ہے.اور کتابیں برحق ہیں.ان سب باتوں پر نیچے دل سے ایمان رکھتا ہوں.اسلام کے تمام احکام نماز.روزہ ، حج.زکوۃ ، کلمہ.نیکیاں کرنا.اور بدیوں سے بچنا ان کو اسلام سمجھتا ہوں.تمام عبادتوں کا مغز نماز ہے.نماز کا مغز دعا ہے جو خشوع قلب سے کی جاوے.دعا مومن کے لئے بڑا حربہ ہے کیونکہ یہ مشکلات کی کنجی ہے.مومن کو اللہ تعالیٰ غیب سے روزی عطا فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ شرک سے بیزار ہے.میں اس پر تو کل رکھتا ہوں اسی ایمان پر قائم ہوں.ایمان کا مغز یقین ہے.اعمال کا مغز تقویٰ ہے آخری دم واپسیں تک انشاء اللہ اس ایمان پر قائم رہوں گا.اے اللہ ! با ایمان اس جہان سے اٹھانا اور خاتمہ بالخیر کرنا اسی ایمان پر قائم رہنے کے لئے اپنی وصیت کرتا ہوں کہ چونکہ زندگی کا کچھ اعتبار نہیں اس لئے آج مورخہ ۶ فتح ۱۳۲۱ ہش مطابق ۶ دسمبر ۱۹۴۲ء مندرجہ ذیل یادداشتیں تحریر کرواتا ہوں آپ نے وصیت میں جو کچھ کسی کو دینا تھا یا کسی سے لینا تھا.لکھوا دیا.ایک خاتون فوت ہو گئی تھی.جس کا زیور اور نقدی پ کے پاس امانت تھی لیکن اس کے ورثاء کو علم نہ تھا اس لئے اس معاملہ کو دارالقضاء قادیان کے سپرد کرنے کی.اور اپنی نعش بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کرنے نیز جائیداد کی تقسیم شرعی کی تاکید کی.اور یہ بھی ذکر کیا کہ ۱۹۳۰ ء والا ٹرسٹی نامہ اور اس کا ضمیمہ سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو دکھا کر تحریر کیا گیا تھا.آپ نے یہ بھی وصیت کی کہ مسجد احمد یہ کریام میں ایک کمرہ کا اضافہ آپ کا ایک قطعہ اراضی فروخت کر کے تعمیر کیا جائے جو مستورات کے لئے جمعہ پڑھنے کے کام آئے.اور دیگر ایام میں بطور مہمان خانہ استعمال ہو سکے.وفات سے چند روز پہلے آپ نے مزید یہ وصیت لکھوائی کہ وفات کی اطلاع بذریعہ تار حضور کی خدمت میں اور دفتر بہشتی مقبرہ کو دی جائے اور نعش قادیان پہنچائی جائے.ارد گرد کے مواضعات کے احباب جو جنازہ پر جمع ہوں انہیں

Page 127

105 میر اسلام پہنچا دیا جائے.کثرت رائے سے کریام کی جماعت کا امیر مقرر کیا جائے.میری خواہش ہے کہ چوہدری مہر خاں صاحب کو مقرر کیا جائے.اور انہی کو احمد یہ پرائمری مدرسہ کا مینیجر بھی مقرر کیا جائے.الفضل حسب سابق میرے نام جاری رہے.اور اسی طرح چندہ تحریک جدید بھی میری طرف سے اضافہ کے ساتھ جاری رہے.میرے نام کی ایک دیگ لنگر خانہ قادیان کو دی جائے.اور میرے ذمہ جو بقایا رقوم ہوں.سب سے پہلے ان کی ادائیگی کی جائے.دوران علالت آپ کی قابل تقلید حالت :.اتنی طویل علالت میں آپ نے صبر کا دامن نہ چھوڑا بلکہ متحمل و صبر کا بہترین نمونہ دکھایا.متفکر نہ ہوتے.بلکہ ہشاش بشاش رہتے.اور گھبراہٹ محسوس نہ کرتے.چنانچہ اللہ دتہ صاحب جراح سکنہ سڑوعہ حاجی صاحب کی وفات سے دو تین ماہ قبل ان کی عیادت کے لئے گئے ملاقات کی اور عرض کی کہ پہلے مجھے کوئی نصیحت فرمائیں.آپ نے فرمایا سب سے بڑی نصیحت یہ ہے کہ انسان ہرامر میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اس کی رضا حاصل کرے.صحت کا حال دریافت کرنے پر فرمایا کہ موت سے مجھے خوشی بھی ہے اور قدرے نھی بھی خوشی اس وجہ سے کہ مرنے کے بعد حضرت رسول کریم صلعم اور حضرت مسیح موعود کی زیارت ہوگی.پھر اپنے والدین اور دیگر افراد سے ملاقات ہوگی.اور قدرے نمی اس وجہ سے کہ اولاد ابھی نابالغ ہے.اور گھر کا انتظام سنبھالنے کے ناقابل ہے.مکرم چوہدری محمد اسماعیل صاحب کا ٹھ گڑھی بیان کرتے ہیں کہ میں امرتسر تیمارداری کے لئے گیا تو مجھ سے دریافت کیا کہ آپ پریشان سے کیسے ہیں؟ میں نے کہا کہ آپ کی علالت کی وجہ سے ہی گھبراہٹ ہے.کیونکہ اس مرض کو خطرناک سمجھا جاتا ہے.فرمایا ہمیں ہر حال میں خوش رہنا چاہئے.بیماری میں تو دوا ہم فوائد میسر آتے ہیں.ایک تو بخلاف تندرستی کے غذا نہایت اعلیٰ ملتی ہے اور کام کوئی نہیں سارا دن آرام ملتا ہے دوسرے اپنے اعمال کی تلافی کے لئے اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے صورت پیدا کر دی ہے ورنہ اگلے جہان میں ہمیں اپنے پیرومرشد ، آباؤ اجداد اور دیگر بزرگوں کے سامنے شدید ندامت اٹھانی پڑتی.لیکن اس بیماری کی وجہ سے اپنی غلطیوں کا کفارہ کرنے کا موقع مل گیا ہے.اس طرح بیماری گویا رحمت کا موجب بن گئی ہے.چوہدری صاحب موصوف بیان کرتے ہیں کہ ان دو باتوں کے بیان کرنے پر مجھے یوں معلوم ہوا گویا بیمار میں ہوں اور آپ مجھے نصیحت فرما رہے ہیں.اس کے بعد سے میں جب کسی مریض کے پاس جاتا ہوں تو ان باتوں کا ضرور ذکر کرتا ہوں کیونکہ ان سے

Page 128

106 مریض کی ڈھارس بندھ جاتی ہے.وفات کے قرب کے عرصہ میں جب آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو گھر کے بعض افراد نے اجازت چاہی تا آپ کے بیٹے چوہدری احمد دین صاحب کو قادیان سے بلوالیا جائے جو وہاں تعلیم الاسلام سکول میں زیر تعلیم تھے.آپ نے نہایت اطمینان سے فرمایا کہ نہیں فکر نہ کریں:.وفات و تدفین : ۳ جولائی ۱۹۴۳ء کو بروز ہفتہ بوقت مغرب آپ بمقام کر یام اس دار فانی سے عالم جاودانی کو سدھارے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - اطلاع ملنے پر گرد و نواح کے احمدی احباب تشریف لائے اور اگلے روز عصر کے بعد سینکڑوں احباب کی معیت میں آپ کے ہمشیرہ زاد چوہدری عبدالغنی خان صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی.پھر بس کے ذریعہ جنازہ روانہ ہو کر رات مکرم میاں عطا اللہ صاحب ایڈووکیٹ کے مکان پر امرتسر میں قیام رہا.اور ۵ جولائی کوعلی الصبح قادیان پہنچا.سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں جو ڈلہوزی تشریف فرما تھے اور دفتر بہشتی مقبرہ قادیان کو وفات کی خبر دی جا چکی تھی.دفتر نے حضور کی خدمت میں ذیل کی درخواست کی :.جناب حاجی صاحب مرحوم کی بیعت ۱۹۰۳ ء کی ہے اس لحاظ سے وہ قطعہ خاص میں دفن نہیں ہو سکتے لیکن ان کی خدمات سلسلہ ایسی ہیں کہ میں حضور سے درخواست کرتا ہوں کہ انہیں قطعہ خاص میں دفن کرنے کی اجازت فرما ئیں.اس سے قبل بھی حضور نے بعض اصحاب کو ان کی خدمات کے باعث ایسی اجازت مرحمت فرمائی ہے.سید محمد سرور شاہ.سیکرٹری مقبرہ بہشتی، چنانچہ حضور کی طرف سے منظوری مل چکی تھی.صبح دس بجے کے قریب حضرت سید صاحب موصوف مسل سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکور بالار پورٹ حضرت مولوی عبد المغنی خانصاحب مرحوم ناظر صدر انجمن نے پرسیدن پڑھ فون پر سید نا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کی جس پر حضور نے قطعہ خاص میں تدفین کی اجازت مرحمت فرمائی مؤقر الفضل مورخہ ۶/۷/۴۳ میں زیر مدینہ اسیح " مرقوم ہے.‘ افسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ حاجی غلام احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کر یام ۳ ماہ وفا کی شام کو فوت ہو گئے.جنازہ آج صبح بذریعہ لاری یا یہاں لایا گیا.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور مرحوم بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں دفن ہوئے احباب بلندی درجات کے لئے دعافرما ئیں.

Page 129

107 نے ہی نماز جنازہ پڑھائی اور قطعہ خاص میں تابوت کی تدفین کے بعد پہلے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب زاد عزہ نے اور پھر حضرت مولوی شیر علی صاحب نے مٹی ڈالی اور حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف ہی نے قبر تیار ہونے پر دعا کرائی.نشان صداقت حضرت مسیح موعود :.ایک دفعہ کر یام میں مسمی رحمت ولد آبادان نے حضرت مسیح موعود کے متعلق بہت ناز یبا الفاظ استعمال کئے حاجی صاحب کے منع کرنے پر وہ باز نہ آیا.بلکہ مباہلہ کے لئے آمادہ ہو گیا.اور شرط یہ مقرر کی کہ اگر حضرت مسیح موعود بچے ہوں اور حضرت عیسے فوت ہو چکے ہوں تو رحمت مذکور اور اس کا سارا خاندان ایک سال کے اندر اندر کوئی عبرتناک سزا پائیں.ورنہ اگر حضرت مسیح موعود جھوٹے ہیں اور حضرت عیسے زندہ ہیں تو حاجی صاحب اور ان کے خاندان کو ایک سال کے اندر اندر کوئی عبرتناک سزا ملے.چنانچہ مباہلہ ہوا بھی چند ماہ نہیں گزرے تھے کہ رحمت کے ہاں ایک پوتا پیدا ہوا جو سئو ر کی شکل سے مشابہ تھا.اس پر رحمت حاجی صاحب کے پاس آیا اور معافی مانگی.بہت نادم اور شرمندہ ہوا اور مباہلہ کو ختم کرنے کی التجاء کی اور قوت صداقت کو تسلیم کیا.ایک روز کریام میں ایک مجلس میں حاجی غلام احمد صاحب اور شیر محمد صاحب سکنہ بنگہ ٹانگہ والے (جن کا ذکر حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات میں آتا ہے ) موجود تھے.ایک غیر احمدی شخص چھجو خاں نے کہا کہ اگر آج بارش ہو جائے تو میں احمدی ہو جاؤں گا.شدت کی گرمی پڑ رہی تھی.حاجی صاحب نے احمدی احباب کی معیت میں نہایت سوز وگداز سے دعا کی.ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ بادل آسمان پر چھا گئے اور زور کی بارش برسنے لگی.چنانچہ چھوخاں نے احمدیت قبول کر لی.حضرت خلیفہ ثانی سے محبت اور حضور کی دعا وشفقت اور حضور اور مرکز کے احکام کی اطاعت : ۱۹۱۷ ء میں آپ کے عزیز چوہدری عبدالغنی صاحب رسالہ فوج سے بغیر اطلاع دیئے بھاگ کر کریام آگئے حاجی صاحب کو علم ہوا تو فوراً ان کو قادیان لا کر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش ہو کر واقعہ عرض کیا.حضور اس وقت گول کمرہ میں تشریف فرما تھے.فرمایا کہ واپس ڈیوٹی پر حاضر ہو جائیں.اور افسر فوج کو یہ کہہ دیا جائے کہ چونکہ یہ طالب علم تھا اور نیا بھرتی ہوا تھا.فوج کے قواعد سے ناواقف تھا.طالب علمی کی عادت کے مطابق بھاگ آیا.اور فرمایا کہ میں دعا کروں گا.خدا تعالیٰ اپنا افضل نازل کرے گا.

Page 130

108 چنانچہ جب رسالپور چھاؤنی پہنچ گئے تو انہیں خلاف توقع نظر بند نہیں کیا گیا.کیونکہ بھاگ کر جانیوالوں کو قاعدہ کے مطابق آتے ہی نظر بند کر دیا جاتا ہے اور پھر کورٹ مارشل کے تحت انہیں قید کی سزا دی جاتی ہے اگلے روز دربار میں انہیں پیش ہونا تھا.راستہ بھر حاجی صاحب دعا کرتے جاتے تھے اور چوہدری عبد الغنی صاحب آمین کہتے جاتے تھے.کرنل صاحب نے حاجی صاحب کو دربار میں داخل ہوتے ہی کر سی دی.حالانکہ فوج کے کمشنڈ آفیسر ( Commissioned officer) کو ہی کرسی ملتی ہے.لیکن آپ کے چہرہ کی بزرگی کا اس کے دل پر گہرا اثر ہوا جس کی وجہ سے آپ کے ساتھ بہت عزت و تکریم کے ساتھ پیش آیا.آپ نے اس کے بھاگنے کی چینی وجوہات بیان کیں.جو حضور نے فرمائی تھیں.اس پر کرنل صاحب نے کہا کہ اچھا ہم اسے چھوڑتے ہیں.آئندہ محتاط رہے.سو اس طرح خدا تعالیٰ نے حضور کی دعا اور آپ کی دعا سے رہائی کی صورت پیدا کردی ( بیان چوہدری عبدالغنی صاحب) حاجی صاحب ۱۹۳۰ء میں کار بنکل سے بیمار ہو گئے تو قادیان آئے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پرانا طریق علاج متروک ہو چکا ہے.اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحب سے فرمایا کہ گلیسرین کی پٹی کے ذریعہ علاج کریں.چنانچہ علاج کے لئے نور ہسپتال میں ایک علیحدہ کمرہ آپ کو دے دیا گیا اور گلیسرین کی پٹی سے آپ چند روز کے اندر صحت یاب ہو گئے.انہی ایام میں آپ نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ ہمیں از راہ شفقت وقت دیں تا میں اپنے لڑکے ظہور الدین کی بسم اللہ کر اسکوں.حضور کی طرف سے جواب ملا کہ میں خود چار بجے شام ہسپتال آرہا ہوں.اس موقع پر بسم اللہ کر دوں گا.چنانچہ حضور تشریف لائے اور اس کمرہ میں آگئے جس میں حاجی صاحب ٹھہرے ہوئے تھے.اور چوہدری ظہور الدین صاحب کی بسم اللہ کرائی.اور قاعدہ میسر نا القرآن شروع کرایا.بعدہ شیرینی تقسیم کی گئی.اس کے بعد حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے حضور سے ہسپتال کے ایک حصہ کی توسیع کے متعلق عرض کیا تو حضور نے پانچ صد روپیہ اپنی طرف سے دینے کا وعدہ فرمایا.حاجی صاحب نے بھی پچاس روپے کا وعدہ کیا.دیگر حاضر احباب نے بھی وعدے کئے.چنانچہ اس وقت نقد اور وعدوں کی میزان قریباً ایک ہزار تک پہنچ گئی.۱۹۴۲ء میں جب آپ بعارضہ ٹی بی امرت سر ہسپتال میں زیر علاج تھے تو حضور ایک دفعہ ہسپتال میں اپنا معائنہ کرانے کے سلسلہ میں تشریف لائے.حضور جب واپس تشریف لیجانے لگے تو چو ہدری عبدالغنی صاحب نے

Page 131

109 حاجی صاحب کی طرف سے نذرانہ پیش کیا اور دعا کی درخواست کی اس پر حضور نے فرمایا کہ چلو ہم حاجی صاحب کو دیکھتے ہیں اور وہیں ان کے لئے دعا کر دینگے.چنانچہ حضور مع خدام حاجی صاحب کے کمرہ میں تشریف لے آئے.اور آپ کی عیادت کی اور پھر ہاتھ اٹھا کر خدام سمیت دعا فرمائی.اور تھوڑی دیر کے بعد حضور واپس تشریف لے گئے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہر حکم کی تعمیل تو اپنے ایمان کا جز وسمجھتے اور لبیک کہتے ہوئے اس کو بغیر کسی توقف کے کام کاج چھوڑ کر بھی سرانجام دیتے.اور یہی صورت مرکز سے آمدہ احکام کے متعلق ہوتی.آپ کو تعمیل حکم کے بغیر چین نہ آتا تھا.چوہدری نور احمد صاحب سکنہ سڑر وعد پنشنرخزانچی صدرانجمن احمدیہ) نے بتایا کہ ایک روز حضور نے مجھے بلوایا چنانچہ میں مسجد مبارک سے ملحقہ کمرہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا وہاں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے، حضرت میر محمد اسحاق صاحب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی و دیگر ممبران صدرا انجمن احمد یہ بھی موجود تھے.حضور نے مجھے سڑوعہ سے آمدہ ایک خط دیا جس میں تحریر تھا کہ جماعت سروعہ کے اڑتیس افراد مرتد ہو گئے ہیں.اور ان کے نام بھی تحریر تھے.اس کے متعلق حضور نے میری رائے طلب کی.میں نے عرض کیا کہ دراصل یہ افراد احمدی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی ہماری تنظیم میں شامل تھے.البتہ دوسرے لوگوں کا ان کے متعلق خیال تھا کہ یہ طاعون کے زمانہ سے جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں.کوئی با اثر احمدی مبلغ بھجوانے سے حقیقت معلوم ہو سکے گی.اس پر حضور نے حضرت میر محمد الحق صاحب کو اور ان کے ہمراہ مجھے بھی بھجوانا چاہا لیکن پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی اس تجویز کو پسند فرمایا.کہ حاجی غلام احمد صاحب کو اس امر کی تحقیق کے لئے مقرر کیا جائے.چنانچہ حاجی صاحب کو تار بھجوادی کہ سڑ وعہ جا کر اس واقعہ کی پوری تحقیق کر کے جلد اطلاع دیں.تارا نہیں شام کو ملا.آپ اسی وقت گھوڑے پر سوار ہو کر سر وعہ چلے گئے جو کہ چھ میل کے فاصلہ پر ہے اور رات کو وہاں تحقیقات کی.خط کے مندرجات غلط اور مبنی بر دروغ نکلے.جس کی اطلاع فورا حضور کی خدمت میں آپ نے بھجوا دی.چنانچہ اخبارات میں بھی اس کی تردید کر دی گئی.مرکز سے بزرگان و علماء کی آپ کے پاس آمد و رفت رہتی تھی.چنانچہ ۱۹۰۹ء میں خلافت اولی میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ جمعیت حضرت میر محمد الحق صاحب اس علاقہ میں تشریف لے گئے.پھگواڑہ کا ریل گاڑی میں سفر کیا.مشہور یکہ بان میاں شیر محمد صاحب مرحوم جو بہت مخلص تھے آپ کو اپنے یکہ میں پہلے نواں شہر لائے پھر کاٹھ گڑھ لے گئے.وہاں آپ نے محترم مولوی عبد السلام صاحب

Page 132

110 کے نئے تعمیر شدہ مکان کا افتتاح کیا.اس کے بعد حاجی صاحب کی دعوت پر کر یام تشریف لے آئے آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے یہ سفر گھوڑے پر کیا.آپ احمدی احباب سے متعارف ہوئے.اور آپ کی اقتداء میں نماز ادا کی گئی جس کے بعد آپ نے حاجی صاحب کے مکانات پر جا کر دعا کی مختصر سے قیام کے بعد آپ مراجعت فرمائے قادیان ہوئے.آپ نے اپنے عہد خلافت میں بھی کریام جانے کا وعدہ فرمایا تھا لیکن اپنی گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے تشریف نہ لے جا سکے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب، حضرت مرزا ناصر احمد صاحب اور علماء میں سے حضرت میر محمد اسحاق صاحب.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کبیر.حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر بھی تشریف لائے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب غالباً ۱۹۳۵ء میں تشریف لائے جبکہ فتنہ احرار عروج پر تھا.آپ کی آمد پر مخالفین جماعت نے بہت فتنہ وفساد پیدا کیا.اور احمد یوں کے خلاف ایک جلوس نکالا اور مخش کلامی کی اور پھر لڑائی تک نوبت پہنچا دی.اس وقت گردونواح کی احمدی جماعتوں کا ایک حصہ واپس جاچکا تھا باقیوں نے مقامی افراد کے ساتھ مل کر مخالفین کو پسپا کر دیا گو وہ تعداد میں زیادہ تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کے شر سے جماعت کو محفوظ رکھا.حضرت مرزا شریف احمد صاحب مسجد میں دعا فرماتے رہے وہاں آپ کی حفاظت کے لئے کچھ افراد متعین کر دئیے گئے تھے.خلق اللہ کی خدمات اور سوشل اصلاحات :.آپ نے اصلاح رسومات کی ایک کمیٹی بنائی جس کے آپ صدر تھے.اس کے ذریعہ شادی بیاہ وغیرہ کی فضول رسوم.باجا.راگ رنگ کو ختم کرنے کی کوشش کی.دیہات سدھار کمیٹی آپ کی زیر نگرانی کام کرتی تھی گاؤں کے مشترکہ فنڈ سے جو آپ کے پاس رہتا تھا.سڑکوں اور گلیوں کی فرش بندی اور صفائی کا کام ہوتا.شادی بیاہ کے لئے دیگیں اور دریاں خریدی گئیں.آپ کے حسن تدبر تلقین اور ذاتی قربانی سے اشتمال اراضی کا کام سرانجام پایا.چنانچہ اس بارہ میں آپ کو افسران کی طرف سے پروانہ خوشنودی بھی عطا ہوا.آپ نہایت صادق اور امین مشہور تھے.اغیار بھی اپنے مقدمات میں آپ کو ثالث مقرر کر لیتے چنانچہ ایک غیر احمدی خاندان کی جائیداد کی تقسیم کا جھگڑا آپ کے فیصلہ سے طے ہوا وہ سب چاہتے تھے کہ آپ جو فیصلہ کریں گے انہیں منظور ہوگا.غریب اقارب و غیر اقارب کا بہت خیال رکھتے اور مخفی امداد بھی کرتے.حساب کے

Page 133

111 بہت صاف تھے ہمسفر ساتھی کو سفر کے اخراجات کا حساب باصرار ادا کر کے حساب بیباق کرتے.دوسروں کے جذبات کا احترام : آپ دوسروں کے جذبات کا بہت احترام کرتے تھے ایک غیر احمدی نے گڑشکر کا شربت پیش کیا.آپ نے دو گلاس پی لئے.لیکن آپ کے ساتھی نے نہ پیا.وہاں سے روانہ ہو کر آپ نے اپنے ساتھی کو سمجھایا کہ آپ نے شربت اس لئے نہ پیا کہ گڑشکر کا تھا.یہ اچھا نہیں کیا.پیش کرنے والے کے اخلاص و محبت کو دیکھنا چاہئے تھا اسی لئے میں نے دو گلاس پی لئے تا کہ اس کی دل شکنی نہ ہو بلکہ حوصلہ افزائی ہو.تاثرات چوہدری غلام جیلانی خانصاحب -- اخویم چوہدری غلام جیلانی خانصاحب اسی علاقہ کے ہیں.اور اس وقت لائل پور شہر میں اقامت پذیر ہیں.آپ کا تعلق و تعارف حضرت حاجی صاحب سے ۱۹۲۰ء سے شروع ہوا.آپ حاجی صاحب کی تبلیغ سے ۱۹۲۲ء میں احمدیت سے منسلک ہو گئے.اور پھر آپ کی وفات تک چوہدری صاحب کے مراسم نیاز مندانہ اور دوستانہ قائم رہے.گویا آپ کے تاثرات قریباً چوتھائی صدی کے طویل تجربہ پر مبنی ہیں.آپ بیان کرتے ہیں کہ :.حضرت حاجی صاحب لین دین کے معاملات میں نہایت محتاط تھے اور ہر ایک سے معاملہ صاف رکھتے تھے.ایک دفعہ حاجی صاحب کو دو تین صد روپیہ قرض کی ضرورت تھی.میں روپیہ لے کر حاضر ہوا.باوجود میرے انکار کے آپ نے فوراً ایک ورق پر رسیدی ٹکٹ لگا کر مجھے پر ونوٹ لکھ دیا.اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب لین دین کرو تو تحریر میں لے آیا کرو.اسی طرح ایک دفعہ مجھے ضرورت پیش آئی آپ کے پاس موضع کریام پہنچا.آپ نے قرض دیا.اور ساتھ ہی کا غذا اور رسیدی ٹکٹ دے کر مجھ سے پر ونوٹ لکھوالیا.ایک دفعہ آپ گاؤں واپس جارہے تھے کہ میرے پاس ڈاکخانہ نواں شہر میں (جہاں میں ملازم تھا ) تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی.میں فلاں سے ( جو وہاں سب بھی میں ملازم تھے ) پانچ روپے یہ کہہ کر لے آیا کہ کل واپس کر دونگا اب یاد آیا کہ کل تو جمعہ ہے اس لئے کل تو نہیں آسکتا اس لئے آپ میری طرف سے کل ان کو پانچ روپے دیدیں تا کہ وعدہ خلافی نہ ہو.میں نے کہا کہ وہ تو اپنا آدمی ہے اس میں کیا مضائقہ ہے آپ جب چاہیں ادائیگی کر دیں لیکن آپ نے وعدہ خلافی کو نا پسند کیا.اور آپ کی تاکید کے مطابق میں نے ادائیگی کر دی.متعدد بار ایسا ہوا کہ قادیان میں یا نواں شہر میں کسی دکان پر ہم نے اکٹھی چائے یا سوڈا پیا.اور میں نے رقم ادا کر دی تو آپ باصرارا اپنے حصہ کی

Page 134

112 رقم ادا فرماتے اور میں قبول کرنے سے انکار کرتا تو فرماتے کہ دکان نہ میرا گھر ہے نہ آپ کا یہ مشترکہ جگہ ہے.اس لئے میں پیسے دیتا ہوں.آپ علاقہ میں سلسلہ کے امور کی سرانجام دہی کے لئے تشریف لے جارہے تھے.تو میں نے ریلوے ٹکٹ کی رقم ادا کر دی اور لینے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ آپ سلسلہ کے کام کے لئے سفر کر رہے ہیں.اس لئے یہ حقیر رقم میرے لئے ثواب کا موجب ہوگی یہ کہتے ہوئے مجھے رقم ادا کر دی کہ نہیں.اس طرح مجھے دوسروں سے خرچ کرانے کی عادت ہو جائیگی.ایک دفعہ آپ نے اپنی کچھ اراضی کسی مزارع کو چند سال کے لئے چکوٹہ پر دی.لیکن جلد ہی چکوتہ کی شرح بوجہ اجناس وغیرہ کے نرخ بڑھ جانے کے زیادہ ہو گئی.آپ کے ایک عزیز نے کسی اور مزارع کو زیادہ شرح پر اراضی دینے کی تحریک کی.لیکن حاجی صاحب نے اپنے وعدہ کو توڑنا ناپسند کیا.اور تا اختتام میعاد اراضی اسی مزارع کی تحویل میں رہنے دی.آپ مہمانوں کی تواضع ان کی حیثیت اور مزاج کے مطابق کرتے جو افراد بہت لمبا عرصہ تک آپ کے پاس قیام رکھتے آپ ان کو اپنے گھر کی طرح سہولت بہم پہنچاتے.چنانچہ ایک دوست حکیم مظہر شاہ صاحب کے لئے ایک علیحدہ رضائی تیار کر رکھی تھی وہ جب بھی آتے ان کو دیدی جاتی.آپ اپنے ہمسفر ساتھیوں کا پوری طرح خیال رکھتے اگر کسی راستہ میں کوئی حاجت کے لئے پیچھے رہ جاتا تو آپ کچھ فاصلہ پر رفقاء سمیت ٹھہر کر انتظار کر لیتے تاکہ وہ ساتھ مل جائے.ایک دفعہ ایک ہمسفر کی لوئی گم ہوگئی تو آپ نے اسے اس کی قیمت دیدی تا کہ وہ ملول نہ ہو.متعلق اپنے آپ جماعت کی تربیت کا بہت خیال رکھتے تھے.آپ نے آخری طویل علالت میں میرے منہ ایک عزیز سے دریافت کیا.آیا میں کریام جاتا رہتا ہوں کیونکہ میں کریام کا سیکرٹری تربیت تھا.آپ کو علم ہوا کہ جماعت کے دو افراد میں رنجش پیدا ہوگئی ہے آپ نے امرتسر سے مجھے لکھا کہ میں مصالحت کرا دوں.چنانچہ میں نے مصالحت کرادی.آپ کا نفس مطمئنہ تھا.اور شکر خداوندی سے معمور.باوجود طویل علالت کے آپ کبھی پریشان خاطر نہیں ہوتے تھے جب بھی کوئی پرسش حال کرتا تو پہلے فرماتے ”خدا تعالیٰ کا شکر ہے اور پھر نہایت اطمینان سے اپنا حال بتاتے.

Page 135

113 تاثرات چوہدری احمد علی خانصاحب :.آپ کے ہمشیرہ زاد چوہدری احمد علیخانصاحب حال مقیم سرگودھا شہر لکھتے ہیں.کہ:.میں نے بچپن سے بتیس سال کی عمر تک حضرت حاجی صاحب کا قرب پایا.آپ کا روزانہ کا معمول تھا کہ صبح دو اڑھائی بجے تہجد کے لئے بیدار ہوتے.اکثر فجر کی اذان خود دیتے.نماز فجر کے بعد قرآن مجید کا درس دیتے اور پھر طلباء کو قرآن مجید ناظرہ پڑھاتے.نماز اشراق سے فارغ ہو کر گھر پر طالبات کو قرآن مجید اور کتب حضرت مسیح موعود و کتب دینی پڑھاتے بعد ناشتہ ایک دو گھنٹے کے لئے فصل کی دیکھ بھال کے لئے جاتے.واپس آکر آئے ہوئے بیماروں کا مفت علاج کرتے.دوپہر کے کھانے کے بعد ظہر کی نماز ادا کر کے مسجد میں طلباء کو قرآن مجید وغیرہ پڑھاتے اور سلسلہ کے رسائل و اخبارات آمدہ کا مطالعہ کرتے.اور مرکز و احباب سے آمدہ خطوط کا جواب تحریر کرتے اور بعد عصر فصل کی دیکھ بھال اور سیر کرنے کیلئے جاتے اور مغرب کی نماز پڑھا کر گھر جاتے.اور عشاء کی نماز پڑھا کر طلباء کو نماز با ترجمہ پڑھاتے.آپ ہر جمعرات کو با قاعدگی سے مستورات کو اپنے گھر پر قرآن مجید اور احادیث کا درس دیتے تھے ، یتامی اور بیوگان کی خبر گیری کا خاص خیال رکھتے.اعزہ واقارب کے ساتھ نہایت رواداری کا سلوک کرتے اور قادیان شریف سے کوئی مہمان آتا تو اس کی تواضع میں کمی نہ ہونے دیتے.جمعہ کے روز حجامت اور کپڑے دھونے سے فارغ ہو کر مسجد میں اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتے.اور صفیں بچھاتے اور مسجد میں بالعموم سب سے اول تشریف لاتے.عیدین پر احمدی اور غیر احمدی اقارب کو دعوت طعام دیتے.آپ ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے تھے کلام میں بے حد شیرینی تھی.غلطی اور نقصان معاف کر دیتے تھے.ایک دفعہ میں نے کم عمری میں کسی ہم عمر کوز دو کوب کیا اور گالیاں بھی دیں اس کی شکایت پر میں نے حاجی صاحب کی خدمت میں سچ بولا اور اس امر کا اقرار کیا.اور یہ سچ بولنا آپ ہی کی صحبت و تربیت کا نتیجہ تھا.میری راست گفتاری پر آپ بہت مسرور ہوئے اور اپنی دونوں بیویوں سے بھی خوشی سے اس امر کا ذکر کیا.اور فرمایا کہ احمد علی خاں بڑا سعادت مند اور اچھا لڑکا ہے.اس طرح میری حوصلہ افزائی فرمائی.میں نے آپ کو غصہ اور مسرت ہر دو حالتوں میں دیکھا ہے.آپ کا چہرہ ہمیشہ پھول کی طرح کھلا رہتا.گالی آپ کی زبان سے کبھی نہیں سنی گئی.کسی کو آدھے نام سے نہیں پکارتے تھے ، پورے نام سے مخاطب کرتے

Page 136

114 میرے جیسے کم عمروں کو بھی آپ کہہ کر خطاب فرماتے.آپ سنجیدہ طبع تھے.خلاف واقعہ یا شرعاً معیوب بات پر آپ کبھی بھی نہیں بنتے تھے.ایک دفعہ ایک مقرر نے موضع کریام میں آریوں اور سکھوں کے متعلق بہت ہنسانے والی تقریر کی.آپ صدر جلسہ تھے گو تمام لوگ ہنستے رہے لیکن آپ کوہ وقار بن کر بیٹھے رہے.اختتام جلسہ پر مقرر نے آپ سے کہا کہ میں نے ہنسانے والی بہت باتیں کیں لیکن میں نے آپ کو ہنستے نہیں دیکھا.فرمایا میں اس وقت استغفار کر رہا تھا.مجھے کسی ایسی بات پر ہنسی نہیں آتی قرآن مجید میں واضح حکم لَا يَسْخَرُ قَومٍ مِنْ قَومِ (35) موجود ہے.آپ کی تربیت کا عجیب رنگ تھا.میں نے میٹرک کا امتحان دیا تو فرمایا کہ ان فارغ ایام سے استفادہ کروں.چنانچہ میرے لئے یہ پروگرام بنایا گیا.صبح تین بجے تہجد خوانی.تلاوت کم از کم ایک پارہ قرآن مجید بعد نماز فجر تا ظہر اپنے فرائض کی ادائیگی.بعد نماز ظہر بچوں کو قرآن مجید وغیرہ کی تعلیم دینا بعد عصر سیر کے لئے جانا اور سیر میں مسنون دعاؤں کو وردِ زبان رکھنا.نماز مغرب کے بعد کھانا.بعد نماز عشاء بچوں کو نماز کا سبق ناظرہ اور با تر جمہ پڑھانا.تحریک جہاد ملکانہ میں تحریک کر کے اپنے ساتھ میرے والد مرحوم چوہدری محمد علی خانصاحب اور اپنے عزیز چوہدری عبدالغنی صاحب نیز سائیں رنگ علی شاہ صاحب کو بھی لے گئے جب آپ آخری مرض میں مبتلا ہو کر امرت سر کے ہسپتال میں داخل ہوئے میں ساتھ تھا.ایک پروگرام بنایا گیا.جس کے مطابق سارے کام ہوتے.اور اگر کسی وجہ سے تاخیر ہو جاتی تو آپ اس کی وجہ دریافت فرماتے وہاں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہا.اور آپ کی تبلیغ سے بعض افراد نے احمدیت کو قبول بھی کیا.ایک روز رستم زماں گاماں پہلوان اپنے ایک دوست رحیم پہلوان کو دیکھنے آپ کے وارڈ میں آئے.آپ کے ارشاد پر میں گاما پہلوان کو بلا لایا.آپ نے اس کو اس رنگ میں تبلیغ کی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سَافِلِينُ - (36) احسن تقویم کی مثل آپ ہیں کیا سڈول اور مضبوط جسم پایا ہے اور اسفل سافلین کی مثال میں ہوں کہ دو قدم چلتا ہوں تو ہانپنے لگتا ہوں.اس پر پہلوان مذکور نے کہا کہ آپ بزرگ ہیں میرے لئے خاص دعا فرمائیں.فرمایا.اللہ تعالیٰ آپ کی روح کو بھی ایسا ہی مضبوط بنائے جیسا کہ جسم ہے.

Page 137

115 آپ کے تو کل اور غناء نفس کا مقام بہت بلند تھا.اسی مرض کے دوران ایک روز روپیہ قریبا ختم تھا.مجھے بہت فکر ہوا.اسی روز ضلع گجرات کے ایک احمدی بزرگ پیر شیر عالم صاحب ہیڈ ماسٹر تشریف لائے اور پانچصد روپیہ پیش کر کے فرمایا کہ علاج کے لئے یہ حقیر رقم حاضر ہے اور تو کوئی خدمت میں کر نہیں سکتا.حاجی صاحب نے فرمایا جزاکم اللہ احسن الجزاء : اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے صاحب جائیداد بنایا ہے.اور وہ خود میر اکفیل ہے.پیر صاحب کی دلجمعی کے لئے آپ نے دس روپے لے لئے اور ان کا پھل منگوا کر مریضوں میں تقسیم کروا دیا.اگلے روز محترم چوہدری مہر خانصاحب تشریف لے آئے.گھی کا ایک ٹین بھی لائے اور کافی رقم بھی.حاجی صاحب نے دریافت فرمایا کہ یہ رقم وہ کہاں سے لائے ہیں چوہدری صاحب نے بتایا کہ کچھ رقم تو آپ کے بھوسہ کی فروخت کی ہے.اور بقیہ رقم مسجد احمدیہ کی تعمیر کی رقم کا نصف ہے جس کا میں نے وعدہ کیا تھا.(حضرت حاجی صاحب نے ساری رقم اپنی طرف سے صرف کر کے مسجد بنوالی تھی جس کا نصف حسب وعدہ چوہدری صاحب کے ذمہ تھا) تقسیم ملک کے وقت حضرت حاجی صاحب کی برکت سے ہمارا گاؤں محفوظ رہا اور تمام احباب بحفاظت تمام پاکستان پہنچ گئے.اس برکت کا مجھے یوں علم ہوا کہ میں اس موقع پر لاہور میں تھا اور قتل و غارت کے حالات پڑھ کر سخت متفکر تھا.ایک رات دعا کر کے سویا تو خواب دیکھا کہ ایک بہت بڑے پلنگ پر جالی لگی ہوئی ہے.اور اس پر جلی حروف مرقوم ہے.” کر یام حاجی غلام احمد کا گاؤں بالکل محفوظ ہے غم نہ کریں.چنانچہ بفضلہ تعالیٰ ایسا ہی ہوا گویا ان کی برکت کے باعث ان کی وفات کے بعد بھی ان کے اعزہ واقارب گاؤں والوں پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.تاثرات انسپکٹر صاحب تعلیم وتربیت:.محترم انسپکٹر صاحب تعلیم وتربیت اپنے طویل تجربہ کی بناپر ذیل کے تاثرات رقم فرماتے ہیں:.وو محترم حضرت حاجی غلام احمد آف کر یام.نہایت متقی پارسا خادم دین اور لوگوں کے بچے ہمدرد واقع ہوئے تھے.گویا آپ بچے معنوں میں عابد اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے والے تھے حاجی صاحب جماعت احمدیہ کریام کے امیر تھے اور ہمیشہ ان کی یہ خواہش رہتی تھی کہ احمدیت کے منشاء کے مطابق ہر احمدی کہلانے والا دین میں ترقی کرتا دکھائی دے اس کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو جماعت کے لئے نمونہ بنارکھا تھا اور احباب جماعت کے لئے جذبات کی قربانی کرتے رہتے تھے.

Page 138

116 ایک مرتبہ آپ کے گاؤں میں ایک مجسٹریٹ نے موقع دیکھتے وقت مدعی فریق سے کہا کہ اگر اس جگہ کوئی سچ بولنے والا ہو تو پیش کرو.میں اس سے اصل حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہوں.اس نے حاجی صاحب کا نام لیا.حاجی صاحب کو طلب کیا گیا.حاکم نے عزت سے بٹھایا اور اصل حقیقت دریافت کی.آپ نے سچی بات کہہ دی حاکم نے حاجی صاحب کی شہادت کی بنا کر مدعی فریق کے حق میں فیصلہ کر دیا.مدعا علیہ فریق احمدی تھا.اس نے مسجد میں آنا بند کر دیا.اگر کوئی دنیا دار ہوتا تو شاید خیال کرتا کہ اگر یہ شخص مسجد میں آکر نماز نہ پڑھے گا تو میرا اس میں کیا نقصان ہے.نقصان اسی کا ہوگا.مگر حاجی صاحب نے اپنے بعض دوستوں کی معیت میں جا کر اسے سمجھایا اور کہا کہ میں نے تو خدا کے حکم کے مطابق سچی شہادت دی ہے اس پر آپ کو ناراض نہیں ہونا چاہئے.اور اسے سمجھا بجھا کر مسجد میں لے آئے اور نماز شروع کرا دی.حاجی صاحب مرکز کے احکام کو دل و جان سے قبول کرتے اور تمام کاموں پر انہیں مقدم کرتے تھے ایک دفعہ جماعت بنگہ کا کوئی کیس تھا.نظارت تعلیم و تربیت نے مجھے اس کیس کے تصفیہ کے لئے جانے کا ارشاد فرمایا.اور ساتھ ہی حاجی صاحب کو بنگہ پہنچنے کے لئے تحریر فرمایا.میں جب بنگہ پہنچا تو میں نے دیکھا کہ حاجی صاحب محترم مجھ سے پہلے ہی بنگہ پہنچے ہوئے ہیں کیس کے تصفیہ پر ایک ہفتہ گذر گیا.اس عرصہ میں محترم مذکور نے کبھی واپس جانے کے لئے اشارہ یا کنایہ ذکر نہ کیا.جب تصفیہ ہو گیا تو فرمایا اب میں جاتا ہوں آپ جمعہ پڑھا کر جائیں.نیز فرمایا کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ اتنے دن لگ جائینگے میں گھر میں اطلاع دے کر بھی نہ آیا تھا.یہ کہہ کر آپ تشریف لے گئے مجھے جہاں تک واقفیت ہے حاجی صاحب مکرم نہ صرف اپنوں میں بلکہ بیگانوں میں بھی خیر خواہ سمجھے جاتے تھے اور وہ اپنے تنازعات کا ان کے ذریعہ فیصلہ چاہتے تھے آپ اپنے علاقہ کی جماعتوں کی نگرانی فرماتے رہتے تھے اور مرکزی ہدایات پر فور اجماعتوں میں پہنچ کر اس کی تعمیل کراتے تھے.(37) تاثرات پیر شیر عالم صاحب : محترم پیر شیر عالم صاحب ہیڈ ماسٹر پنشنر سکنہ گولیکی ( گجرات ) تحریر فرماتے ہیں:.میری واقفیت حضرت حاجی صاحب سے اگست ۱۹۱۷ ء میں ہوئی جبکہ دیگر احباب کی طرح رمضان یہاں تک یہ واقعہ الفضل کے حوالہ سے رسالہ ”شمائل احمد “ شائع کردہ شعبہ اطفال مجلس خدام الاحمدیہ قادیان میں بھی درج ہوا ہے.(صفحہ۵۰)

Page 139

117 شریف میں ہم مہمان خانہ قادیان میں قیام پذیر تھے اس وقت میری عمر اکیس برس کی تھی شرمیلا پن کی وجہ سے آپ سے زیادہ بات چیت نہ ہوئی بعد ازاں ہر جلسہ پر ملاقات ہوتی.۱۹۳۵ء کے جلسہ کے ایام میں میں نے آپ کی خدمت میں ایک ملفوف لکھا آپ نے جوا با تحریر کیا کہ اگر آپ نام نہ بھی لکھتے تب بھی میں سمجھ جاتا کہ لکھنے والا کون ہے.فرماتے تھے کہ حج پر روانگی سے قبل حضرت خلیفہ مسیح اول سے ملاقات کی حضور نے نصیحت فرمائی کہ ” حج پر چلے ہو.نماز نہ ترک کرنا اس وقت تو اس کا مفہوم سمجھ میں نہ آیا.البتہ جب قافلہ اونٹوں پر روانہ ہوا تو کئی لوگوں نے پانی نہ ملنے اور نیچے اتر کر زمین پر نماز ادا کرنے کے خیال میں نماز میں ضائع کر دیں ہم کجا ووں پر بیٹھے تیم کر کے نمازیں ادا کر لیتے اس وقت سمجھ آیا کہ اس نصیحت میں کیا حکمت تھی.فرماتے تھے کہ ہماری مسجد کا نام مسجد نور ہے.گاؤں میں کئی قسم کی تحریکات ہیں.میں کسی کا پریزیڈنٹ اور کسی کا سیکرٹری ہوں.ماسوائے قرضہ کی سوسائٹی کے کہ اس میں سود کا لین دین ہوتا ہے اس لئے میں نے اس میں شمولیت نہیں کی.میں ہر سال غرباء کے لئے جلسہ سالانہ پر کپڑا ( کھدر ) لاتا ہوں.اور اپنے دوستوں کے لئے عمدہ تیار کردہ گڑ لاتا ہوں.آپ کے پاس قرآن مجید ہر وقت رہتا تھا.فرماتے تھے میں ہر وقت باوضور ہتا ہوں مجھے آخری پارہ سارا حفظ ہے اور بھی بہت سی سورتیں یاد ہیں.فرماتے تھے کہ جب سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت میں یہ تحریک فرمائی کہ دوست دوسری شادی کریں.تاکہ جماعت احمد یہ تعداد کے لحاظ سے ترقی کرے تب میں نے دوسری شادی کی.اور میرے استفسار پر فرمایا کہ میری دونوں بیویوں میں کبھی شکر رنجی نہیں ہوئی.بلکہ آپس میں پیار سے رہتی ہیں.بڑی بیوی چھوٹی کے بچوں کو پیار سے کھلاتی رہتی ہے میں نے بڑی بیوی کو سمجھایا ہوا ہے کہ گھر کی سردار آپ ہی ہیں اور چھوٹی بیوی کو بتایا ہوا ہے کہ بڑی تو بے اولاد ہے سب کچھ تمہارا اور تمہاری اولاد کا ہے اس طرح دونوں خوش رہتی ہیں.تاثرات الحکم : ایڈیٹرا حکم محترم شیخ محموداحمد صاحب عرفانی تحریر کرتے ہیں:.”جناب حاجی غلام احمد خان صاحب ہمارے سلسلہ کے خاص بزرگوں میں سے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان

Page 140

118 کے سینے کو نور ایمان سے منور فرمایا ہوا ہے.اور سلسلہ کے لئے ہر قسم کی مالی ( و ) جانی قربانی میں پیش پیش رہتے ہیں اور سلسلہ کی اغراض کی تکمیل کے لئے آپ شبانہ روز مصروف رہتے ہیں.نیز اس غرض کے لئے آپ ضلع جالندھر اور ہوشیار پور میں لمبے لمبے دورے کرتے رہتے ہیں.باوجود بڑھاپے کے میلوں پیدل چلنے سے نہیں گھبراتے.ارتداد ملکانہ کے زمانہ میں آپ نے نمایاں خدمات سرانجام دیں.اور اسی طرح مکیریاں ضلع ہوشیار پور کے مشن میں ایک لمبا عرصہ کام فرمایا.اس سلسلہ میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خوشنودی کے سرٹیفکیٹ بھی حاصل کئے آپ گذشتہ ایام میں بیمار ہو گئے تھے احباب نے بکثرت آپ کے لئے دعائیں کیں بیماری سے اٹھنے پر باوجود نقاہت مجلس مشاورت میں تشریف لے آئے.احباب ایسے بزرگ کی درازی عمر کے لئے دعا فرماتے رہیں“ (38).تاثرات وکیل المال صاحب: حضرت چوہدری برکت علی خانصاحب وکیل المال نے تحریر فرمایا کہ:.اکثر احباب کو یاد ہوگا کہ حضرت حاجی صاحب.....علاقہ تحصیل نواں شہر و تحصیل گڑھ شنکر کی احمد یہ جماعتوں میں تبلیغی.تربیتی وغیرہ اور ہر قسم کے کام کے لئے دورہ کرتے رہتے اور آپ کے گھر علاقہ کے احمدی اور مرکز سے آنیوالے مبلغ کریام میں رہتے اور ان کے ساتھ ہوکر علاقہ کا دورہ کرتے اور ہر ایک کے مناسب حال نہایت خندہ پیشانی سے مہمان نوازی میں مسرور رہتے.غرض صاحب موصوف کی ساری زندگی گھر یلو کاروبار سے آزاد ہوکر خدمت اسلام اور خدمت احمدیت کے لئے عملاً وقف تھی.یہی وجہ ہے کہ علاقہ کی جماعتیں ان کو ”سید القوم کے پاکیزہ خطاب سے یاد کرتی تھیں.‘ (39) تاثرات چوہدری غلام مرتضی خانصاحب : - اخویم چوہدری غلام مرتضی خا صاحب کمری (ضلع تھر پارکر سندھ) سے تحریر فرماتے ہیں کہ بندہ کو ۱۹۲۹ء میں اللہ تعالیٰ نے بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اس کے بعد حضرت حاجی غلام احمد صاحب کے ساتھ میرے قریب کے تعلقات رہے.ان کی ذات مبارک کے متعلق دل پر گہرا اثر ہے اور ان کا نمونہ ہمارے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہا ہے جب کبھی بھی کسی مجلس میں جماعت کے بزرگوں کا تذکرہ ہوتا ہے.میں حضرت حاجی صاحب کا ذکر خیر ضرور کرتا ہوں جو سامعین کی روحانی ترقی کا باعث بنتا ہے.اور اکثر اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی ترقی مدارج کے متعلق درد دل سے دعا کی توفیق ملتی ہے.آپ کے قلب صافی میں حضرت مسیح موعود کا روحانی عکس بڑی شان سے جلوہ گر تھا.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی.

Page 141

119 ادائیگی کے وقت عملی تصویر کے رنگ میں اس کا اظہار منظر عام پر آتا تھا.قرآن مجید سے آپ کو عشق تھا.ہر عمل سے پیشتر احکام الہی ان کے مد نظر رہتے تھے.نمازیں نہایت خشوع اور خضوع سے ادا فرماتے تھے.تلاوت قرآن مجید نہایت سوز اور محبت سے فرماتے تھے.آپ کی تبلیغ دل پر گہرا اثر کرتی تھی.کلام انکسار حلیمی اور ہمدردی سے فرماتے تھے.شعائر اسلام کا بہت احترام کرتے تھے.احمدیت کی اشاعت کا آپ کی طبیعت میں خاص جوش تھا.نو جوانوں سے بڑھ کر سرگرم رہتے تھے مرکز کی ہدایات کو پوری طرح عملی جامہ پہناتے تھے.مہمان نوازی آپ کی طبیعت کا خاصہ تھا.آپ ہمیشہ علاقہ کے امیر جماعت رہے اکثر مہمان آپ کے پاس آتے رہتے تھے آپ کبھی مہمانوں کی خدمت سے نہ تھکتے تھے.نہایت اخلاص اور محبت شوق اور بشاشت سے خاطر و مدارات فرماتے تھے.آپ کی صحبت میں طبیعت پر بہت نیک اثر پیدا ہوتا تھا.قوت عمل میں جوش اور طاقت پیدا ہوتی تھی.آپ نے حضرت مسیح موعود حضرت خلیفہ مسیح اول حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نیز دوسرے بزرگان دین سے کثرت سے روحانی فیوض جذب کئے.اور بطریق احسن لوگوں تک پہنچائے.آپ بیان کرتے تھے کہ ایک روز حضرت اقدس مسیح موعود کی خدمت بابرکت میں حاضر تھا.کہ میرے تمام جسم سے دھواں نکلنا شروع ہو گیا.اور دھواں آسمان کی طرف ایسے جاتا دکھائی دیا کہ جیسے کسی بھٹہ کی چمنی سے نکل کر بادل کی طرح جارہا ہو.تاحد نگاہ یہ دھواں اوپر جا تا نظر آتا تھا.میں حیران تھا آیا میرے جسم میں آگ لگ گئی ہے.اتنا دھواں کہاں سے نکل رہا ہے.یہ کیفیت کافی دیر تک جاری رہی.آخر دھواں ختم ہو گیا.اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ قلب بالکل صاف ہو گیا ہے.اور دھویا گیا ہے.اور روح کو بالکل تسکین ہوگئی.ایک نئی زندگی محسوس ہونے لگی اس کے بعد کبھی میرے دل میں کوئی گناہ کا خیال ہی پید نہیں ہوا نیک جذبات کا جوش دل میں کثرت سے پیدا ہونا شروع ہو گیا.نیک کاموں میں لذت اور کشش محسوس ہونے لگی.اور تیزی سے اعمال صالحہ بجالانے کی ایک خاص طاقت پیدا ہوگئی.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک تاثیر نفس کا اثر تھا جو مجھے پاک کر گیا.حاجی صاحب میں ایک جوش اور درد تھا کہ جس چشمہ رواں سے آپ فیض یاب ہوئے ہیں سب لوگ اس میں حصہ دار بنیں.اور نئی روحانی زندگی انہیں حاصل ہو.اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے دروازے ان پر آپ کی روایات میں (جو کتاب کے آخر میں درج کی گئی ہیں) بہت اختصار سے اس واقعہ کا ذکر ہے.کھلیں.اس جوش اور کوشش میں انہوں نے اپنے نفع نقصان کی کبھی پرواہ نہیں کی ان کی زندگی میں ہمارے علاقہ جالندھر و ہوشیار پور میں تبلیغ کا ایک خاص جوش تھا کہیں مناظرات ہورہے ہیں.کہیں جلسے ہورہے ہیں جگہ جگہ

Page 142

120 انفرادی تبلیغ شروع ہے.مبلغین اور علماء مرکز سے آ رہے ہیں.احمدیوں کے دلوں میں ایک خاص حرکت تھی.اور مخالفت بھی پورے زوروں پر تھی.مخالف علماء بھی دور دور کے شہروں سے آتے تھے.اور مخالفین کے بھی کافی جلسے ہوتے تھے.ہر جگہ ان کی باتوں کا نہایت معقول طور پر جواب دیا جاتا تھا.ہمارے دوآبہ کے چیدہ چیدہ گاؤں مثلاً کر یام.راہوں بنگہ.گنا چور کر یہ.سڑوعہ.کا ٹھگڑھ.صاحبہ.بیگم پور.بیرم پور.گڑھ شنکر.پنام.ہوشیار پور.جالندھر.دوسوہہ کیتھاں وغیرہ وغیرہ کا سنجیدہ طبقہ احمدیت کی آغوش میں آگیا تھا.علاقہ کے احمدی اور غیر احمدی سب حاجی صاحب کی نیکی.تقوی.طہارت اور ہمدردی کے قائل تھے.آپ ہر ایک کی پوری مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے.آپ کو ہر احمدی کی ہر بات کا خیال رہتا تھا.ہمارے علاقہ میں اکثر شادیاں حضرت حاجی صاحب کی کوشش سے سرانجام پائیں.سب کو آپ پر اعتماد تھا.اور مناسب رشتہ کروانے کی آپ میں خاص اہلیت تھی.جس قدر شادیاں ان کی معرفت ہوئیں ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بابرکت ثابت ہوئی ہیں.اور خاندان دینی و دنیاوی نعماء سے مالا مال ہوا ہے.میری اپنی شادی کا واقعہ یوں ہوا.کہ میرا گاؤں صاحب واقع تحصیل گڑھ شنکر ضلع ہوشیار پور کافی بڑا قصبہ تھا.وہاں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مجھے احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.میرے والد صاحب چوہدری نواب خان صاحب ڈاکٹر تھے گاؤں میں باعزت خاندان تھا.جب میں نے بیعت کی تو حضرت حاجی صاحب کو خاص خوشی ہوئی.میں ایف.اے کا امتحان دے کر گاؤں میں رہتا تھا.حاجی صاحب جب بھی ہمارے علاقہ میں دورہ فرماتے.میرے پاس ضرور تشریف لاتے.مبلغین کی مرکز سے تشریف آوری پر ہمارے ہاں جلسہ کرواتے میرا خاص طور خیال رکھتے کہ گھبرا نہ جاؤں.ہمارے گاؤں میں شیعہ لوگوں کا بہت زور تھا.مگر اس کا مجھ پر کوئی اثر نہ تھا.احمدیت قبول کرنے سے پیشتر برادری میں کئی باعزت خاندانوں سے مجھے رشتے آئے تھے.مگر اب میری دلی خواہش یہ تھی کہ میری شادی کسی مخلص احمدی خاندان میں ہو.تا ہمارے گاؤں میں احمدیت ترقی کرے.ایک روز میں نے اپنا یہ ارادہ حاجی صاحب کی خدمت میں عرض کیا.آپ از حد خوش ہوئے.اور فرمایا میری اپنی دلی خواہش تھی کہ آپ کی شادی میری معرفت ہو.جس سے خاندان میں دینی ترقی ہو.نیز فرمایا کہ آپ شادی کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دیں.میں خود مناسب رشتے کا انتظام کروں گا.میں ملازمت کے سلسلے میں لاہور چلا آیا وہاں آپ کا خط مجھے ملا کہ آپ کے رشتے کا انتظام ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی میری تائید فرمائی ہے.آپ بھی دعا اور

Page 143

121 استخارہ کر لیں.مجھے بھی پسند ہے اور از حد خوشی ہے.آپ نے تحریر فرمایا کہ جناب ڈاکٹر عطا محمد خان صاحب پنشنر حال مقیم دوسو بہ جو کہ یہاں پر اپنی پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں ان کی چھوٹی لڑکی کا رشتہ تجویز کیا ہے.میں نے مزید کسی تحقیق کے بغیر قبول کرلی.مجھے پورے طور پر انشراح صدر تھا کہ حاجی صاحب کا تجویز کردہ یہ رشتہ ضرور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بابرکت ثابت ہوگا.شادی کے موقع پر خود حاجی صاحب اور دوسرے کافی احمدی بزرگ برات کے ہمراہ گئے.نکاح جناب میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ نواں شہر ( حال ) امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی نے پڑھایا.لوگوں کی شادی کے موقع پر باجہ کھیل تماشے وغیرہ کے شغل ہوتے ہیں.میری برات دوروز ٹھہری.اس میں غیر احمدی دوست بھی شامل تھے.اور اردگرد سے بھی کافی لوگ آگئے تھے.تبلیغ کا میدان خوب گرم تھا.دن رات مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی رہی.اور کافی بحثیں ہوتی رہیں.سب بزرگ ہر موقع پر دعاؤں پر زور دیتے رہے.حاجی صاحب نے رسم ورواج کو ختم کرنے پر بہت زور دیا اور بیاہ شادی کے موقع پر اسلامی طریق پر نبی کریم علیہ اور صحابہ کرام کی مثال کو پیش نظر رکھنے کی تلقین فرمائی.نیز فرمایا کہ ہرا ہم کام کرنے سے پہلے دعا اور استخارہ ضرور کر لینا چاہئے.اس موقع پر ایسا معلوم ہوتا تھا.جیسے تبلیغی جلسہ ہورہا ہو.ڈاکٹر عطا محمد خانصاحب اپنے علاقہ میں کافی اثر رسوخ رکھتے تھے.کسی نے کوئی نا معقول طریق اختیار نہ کیا.بلکہ شرافت سے تبلیغی باتیں سنتے رہے.اس موقع پر بھی حاجی صاحب ہی ہمارے امیر قافلہ تھے ہر قدم ان کی اجازت اور مشورہ سے اٹھایا جاتا.میں اور ڈاکٹر صاحب پہلے سے آپس میں واقف نہ تھے آپ نے طرفین کی اچھی طرح سے تسلی فرما دی.اور آپس میں پورا اعتماد پیدا ہوگیا.اور یہ رشتہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے حق میں بہت بابرکت ثابت ہوا.اس رشتہ کی وجہ سے دینی و دنیوی دونوں طرح کی ترقیات حاصل ہوئیں.خدا تعالیٰ نے رزق میں ترقی دی.علم میں ترقی دی اور نیک اور صالح اولا د چارٹر کے اور دولڑکیاں ) عطا فرما ئیں.سب تعلیم یافتہ اور اپنے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں، دیندار ہیں.الحمد للہ.میں سمجھتا ہوں.ہمارے خاندان کی ترقی میں حضرت حاجی صاحب کی کوششوں اور دعاؤں کا بہت بڑا دخل ہے اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.جنت الفردوس میں ان کے درجے بلند ہوں.نیز اللہ تعالیٰ ان کی اولاد پر بھی ہر قسم کے دینی و دنیوی انعامات نازل فرمائے آمین ثم آمین.میں اکثر مجالس میں آپ کا ذکر خیر کرتا رہتا ہوں.ایک دفعہ مقام جو ہی ( ضلع لاڑکانہ سندھ ) جناب بابو محمد عمر صاحب سپر وائز را نہار کے ہاں باتوں باتوں میں حضرت حاجی صاحب کا بھی ذکر خیر آ گیا.اور میں نے عادتاً ذکر کیا کہ کس طرح حاجی صاحب نے میرا رشتہ کرایا.جو بہت بابرکت ثابت ہوا.تو بابو صاحب نے بتایا

Page 144

122 کہ از راہ کرم میرا رشتہ بھی حضرت حاجی صاحب نے ہی کرایا تھا.اور میرے لئے بہت بابرکت ثابت ہوا ہے میں بہت مطمئن ہوں.اور بھی کافی دوستوں نے ذکر کیا ہے کہ ہمارے رشتوں میں بھی حاجی صاحب کی کوششوں کا دخل ہے.الغرض علاقہ کے اکثر لوگ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کے انتظام کے لئے آپ کی خدمت میں عرض کرتے تھے.اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے بصیرت عطا فرمائی تھی.اور آپ مناسب انتظام فرما دیتے تھے.جوطرفین کے لئے اطمینان کا موجب ہوتا.سب احمدیوں کو آپ پر بھروسہ تھا.اور آپ سب کی امداد کے لئے وقف تھے.قادیان دارالامان سے جب کبھی کوئی تحریک آتی تھی تو آپ عموماً تین افراد پر مشتمل وفد کی صورت میں اپنے حلقہ کی جماعتوں میں تحریک فرمانے کی غرض سے دورہ فرماتے تھے.اور خاص تحریک کے علاوہ آپ دوستوں کو تربیتی باتیں بھی سناتے تھے.جن میں حضرت مسیح موعود کے چشم دید حالات اور واقعات بیان فرماتے تھے اور یہ باتیں احباب کی اصلاح اور روحانی ترقی اور احمد بیت سے وا بستگی اور اخلاص میں مزید ترقی کا موجب بنتی تھیں.اس قسم کے کئی مواقع پر آپ میرے پاس بھی تشریف لائے.ایک دفعہ میں باغبانپورہ میں تھا اور اس حلقہ کا پریذیڈنٹ تھا.آپ ایک وفد کی صورت میں جس میں آپ.حاجی رحمت اللہ صاحب راہوں والے اور ایک اور صاحب جن کا نام میرے ذہن سے اتر گیا ہے شامل تھے.میرے ہاں دورا تیں ٹھہرے.شب وروز دعاؤں میں نیک تحریکوں میں اور مختلف واقعات کے بیان میں گذرے.اکثر حصہ رات کا یہ بزرگ نماز اور دعاؤں میں گذارتے تھے.حضرت حاجی صاحب نے جمائل شریف اپنے ساتھ رکھی ہوتی تھی بوقت فرصت تلاوت فرماتے تھے.ان بزرگوں کی آمد پر ہمارے حلقہ کے دوستوں کو خاص شوق ہوا.اور بکثرت حاضر رہتے اور بزرگوں کی باتوں سے مستفیض ہوتے.دوسری رات جماعت کے دوستوں نے خاص طور پر عرض کیا کہ آپ لوگ پرانے بزرگ ہیں اور احمدیت کا ابتدائی زمانہ آپ نے دیکھا ہے.آپ اپنی زندگی کا کوئی خاص واقعہ سنائیں جس سے ہمارا ایمان بڑھے.حاجی صاحب نے بیان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کی توجہ اور دعاؤں سے مجھ پر قرآن مجید کے علوم کثرت سے کھلے ہیں جب کسی حصہ کو پڑھتا ہوں اس کے معانی اور معارف کھل جاتے ہیں اور بعض معارف بیان بھی فرمائے جو آپ کو تفہیم ہوئے تھے.نیز فرمایا کہ جب کبھی کسی مخالف سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسی باتیں دل میں ڈال دیتا ہے کہ مخالف کا منہ بند ہو جاتا ہے.بعض ایسے واقعات بھی بیان فرمائے کہ

Page 145

123 سوال پیدا ہوا.اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب القاء فرمایا جو پہلے میرے علم میں نہیں تھا آپ کی باتیں سن کر رقت طاری ہوئی اور ہماری آنکھوں سے آنسو جاری تھے.جونکہ باتیں آپ کے دل سے خاص عشق الہی میں ڈوبی ہوئی نکلتی تھیں.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دلوں پر انوار کا نزول ہو رہا ہے یہ بیان خاص طور پر جماعت کے دوستوں کے ایمان میں ترقی کا موجب بنا اور جوتحریک آپ لے کر آئے تھے بہت کامیاب رہی.غالباً ولایت میں کسی مسجد کے لئے چندہ کی تحریک تھی ہر دوست نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اجتماعی دعا بھی کی گئی جس میں دوستوں پر رقت طاری تھی میرا دل باغ باغ تھا کہ ان بزرگوں کی آمد کی وجہ سے دورا تیں ہمارے گھر میں انوار الہیہ کا نزول ہوتا رہا.الحمد للہ.دوسر اوفد میرے سرال کے گاؤں کھرل خورد ( تحصیل ہوشیار پور ) تشریف لایا.اس میں حضرت حاجی صاحب چوہدری چھجو خانصاحب امیر جماعت احمد یہ سڑو ہ ضلع ہوشیار پور.تیسرے غالباً محترم چوہدری عدالت خانصاحب سر وعدہ والے شامل تھے کوئی نو بجے کے قریب ہمارے ہاں پہنچے.ہمیں ان بزرگوں کی آمد سے بہت خوشی ہوئی.وہ جمعہ کا روز تھا ہم نے ہر قسم کے آرام کا سامان کر دیا.حاجی صاحب نے فرمایا آج جمعہ ہے ہم نے غسل کرنا ہے حویلی میں ملکہ لگا ہوا تھا.غسل خانہ بنا ہوا تھا.سقاو ا پانی سے بھر دیا گیا.پہلے حاجی صاحب غسل خانہ میں تشریف لے گئے.مسواک وغیرہ فراہم کر دی گئی.حاجی صاحب نے ایک گھنٹہ کے قریب وقت غسل خانہ میں خرچ کیا.ایک صاحب بار بار فرماتے کہ حاجی صاحب نے بہت وقت لگایا ہے.کھانا وغیرہ بھی آ گیا.جب آپ باہر تشریف لائے تو اس دوست نے کہا کہ حاجی صاحب بہت لمبا غسل کیا ہے اس پر حاجی صاحب نے فرمایا کہ میں جمعہ کا غسل عموماً لمبا کیا کرتا ہوں.اور تمام جسم اور ضروری کپڑوں کی صفائی بھی کر لیتا ہوں.پاؤں وغیرہ کی میل اچھی طرح اتارتا ہوں.جسمانی صفائی کا اثر روح پر پڑتا ہے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے روز کو خاص اہمیت دی ہے نماز جمعہ میں ایک وقت آتا ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے.جمعہ کے روز جسم اور کپڑوں کی صفائی کا ضرور اہتمام کرنا چاہئے.تاجمعہ کی عبادت میں ہماری روحانی ترقی ہو اور دعائیں قبول ہوں.ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خاص دعا کی قبولیت کا وہ وقت عطا فرمائے.اور خاص فضلوں کے دروازے ہم پر کھل جائیں.الغرض بہت لطیف گفتگو تھی اور نصیحت آمیز تھی.ایک سبق آموز واقعہ جس پر میں نے تقریباً ساری عمر عمل کر کے فائدہ اٹھایا وہ یوں ہوا کہ ایک دفعہ نواں شہر میں جو کر یام سے تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر واقعہ ہے.تبلیغی جلسہ ہورہا تھا مبلغین مرکز سے تشریف

Page 146

124 لائے ہوئے تھے حاجی صاحب کا کوئی مزارع پوچھنے آیا کہ گندم نکل آئی ہے اسے کہاں رکھیں.آپ نے فرمایا کہ جتنی گندم نکل چکی ہے بوریوں میں بھر کر فور انواں شہر کی منڈی میں پہنچا کر جو بھاؤ ہو اس کی قیمت لے لیں نیز فرمایا کہ جب جنس تیار ہو جائے جو بھاؤ ہو.اس پر فروخت کر دینی چاہئے.اس انتظار میں کبھی سنبھال کر نہیں رکھنی چاہئے کہ بھاؤ مہنگا ہوگا تو فروخت کریں گے، یہ گناہ ہے.حضرت نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے.میں ہمیشہ فالتو جنس فوراً بازار کے بھاؤ پر فروخت کر دیتا ہوں اللہ تعالیٰ رزق میں برکت دینے والا ہے.لالچ کی خاطر حضرت نبی کریم ﷺ کے منشاء کے خلاف نہیں کرنا چاہئے میری طبیعت پر آپ کی اس بات کا خاص اثر ہوا اور میں نے ساری عمر اس پر عمل کر کے فائدہ اٹھایا ہے.آپ کی زندگی کے بہت سے نصیحت آمیز واقعات ہیں عرصہ گذر چکا ہے بہت سی باتیں ذہن سے اتر چکی ہیں.حضرت حاجی صاحب کا وجود بہت مبارک تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر طرح سے نوازا ہوا تھا.باوجود بڑا زمیندار ہونے کے آپ نے ہمیشہ عاجزی سے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرتے ہوئے زندگی گزاری.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.اور ان کی اولاد کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.اور اپنے خاص فضلوں اور رحمتوں کے دروازے ان پر کھولے.آمین.تاثرات میاں عطاء اللہ صاحب :.جناب میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ ( حال امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی) رقمطراز ہیں:.خدا کی اس زمانہ کی شمع ہدایت پر ایک اور پروانہ جان قربان کر گیا.میخانہ احد کا ایک اور پرانا بادہ کش اُٹھ گیا.آنکھیں ایسے وجودوں کو ترسا کریں گی.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيهِ رَاجِعُونَ.جی چاہتا ہے حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء کا وہ شعر جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت مولانا عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے لئے تحریر فرمایا تھا.گرچه جنس نیکواں ایس چرخ بسیار آورد کم بزائد مادرے یا ایس صفا در یتیم (40)

Page 147

125 اس عاجز نے ۱۹۲۹ء میں حضرت حاجی صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوصلہ دلانے پر نواں شہر ضلع جالندھر میں پریکٹس شروع کی.میں سچ کہتا ہوں مرحوم نے مجھے اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا.اور احسانات کی بارش شروع کر دی.میری ہر ضرورت کا انہیں فکر ہو گیا.میں مسلسل آٹھ سال تک ان کے ماتحت بطور سیکرٹری امور عامہ کام کرتا رہا ہوں.اس طرح مجھے ان کی کتاب زندگی کے گہرے مطالعہ کا موقع ملا.اور میں وثوق اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ تھوڑے ہیں.مرحوم موضع کریام کے ایک معزز راجپوت خاندان کے فرد تھے.نواں شہر کے علاقہ میں جہاں اراضیات نہایت گراں قیمت ہیں آپ تین مربع اراضی کے مالک تھے اسی طرح گزارے کے لحاظ سے ہر فکر سے آزاد تھے مرحوم نے کئی دفعہ مجھے سنایا کہ بچپن ہی سے آپ صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے علاقہ کے تمام واعظ اور مولوی جب ان کے گاؤں میں آتے تو انہی کے ہاں ٹھہرا کرتے تھے.طبیعت میں حیا بہت زیادہ تھی.اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں توفیق دی کہ اپنی جوانی ہر قسم کے عیب سے پاک گزاریں.بیعت : ۱۹۰۲ء میں آپ نے کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مطالعہ شروع فرمایا.پھر ۱۹۰۳ء میں آپ ایک عزیز رشتہ دار چوہدری بشارت علی خانصاحب کو ساتھ لے کر قادیان حاضر ہوئے اور ہر دو نے حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کیا.حضور علیہ السلام نے بوقت بیعت شرک سے بچنے کی نصیحت فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھیں.پھر فرمایا فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ بہت جلد جماعت پیدا کر دے گا.حضرت حاجی صاحب فرماتے تھے کہ ان کی بیعت کے چھ ماہ کے اندراندر موضع کریام میں جماعت احمدیہ قائم ہوگئی.جواب قریبا تین صد زن و مرد اور بچگان پر مشتمل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی لئے فرمایا ہے کہ مجھے لاکھوں نشان دیئے گئے ہیں.بیعت کے بعد ایک دفعہ کسی غیر احمدی نے آپ سے پوچھا کہ بیعت کر کے آپ نے کیا حاصل کیا.فرماتے تھے کہ میں نے اسے کہا کہ بیعت سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ میں نیک ہوں میرے پاس ہر فرقے کے مولوی اور واعظ آکر ٹھہرتے اور ان کی اندرونی حالت مجھ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھی.میں محسوس کرتا تھا کہ میں ان سے بہتر ہوں.بیعت کر کے میں نے یہ حاصل کیا کہ میں نے اچھی طرح محسوس کر لیا کہ میں گنہ گار ہوں.اور اللہ تعالیٰ کے الفضل میں سہو ۱۹۹۲ طبع ہوا ہے.

Page 148

126 طالب بہت آگے نکلے ہوئے ہیں.وصیت اور سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ : حضرت حاجی صاحب ان سابقون الاولون میں سے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ حیات میں ۱۹۰۶ء میں وصیت کر کے اپنا حصہ جائیداد بحق صدر انجمن احمدیہ ہبہ کر دیا تھا.ہے اور اسی وقت قبضہ دے دیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں - آپ سال میں کم از کم تین دفعہ ضرور قادیان حاضر ہوتے.اور پندرہ پندرہ ہیں ہیں روز ٹھہرتے.مرحوم کی تعلیم صرف مڈل تک تھی.آپ نے حضرت مسیح موعود کی تمام اردو فارسی کتابیں پڑھی ہوئی تھیں.اخبارات اور رسائل سلسلہ کے تاریخ بیعت سے لے کر آخر عمر تک باقاعدہ خریدار رہے.ان کا با قاعدہ مطالعہ فرماتے رہتے تھے.قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت فرماتے بلکہ ہر وقت اپنے پاس رکھتے تھے.مہمان نوازی : فکر معاش سے آپ بالکل آزاد تھے پچاس برس کی عمر تک آپ کے ہاں کوئی اولا د ی تھی.اس خانگی زندگی میں کوئی ایسی دلچسپی نہ تھی.جس میں آپ کا وقت زیادہ صرف ہوتا.آپ نے اپنا سارا وقت اور اپنی ساری آمدنی خدمت دین کے لئے وقف کر رکھی تھی.شاید ہی کوئی دن ہوتا جب آپ کے ہاں مہمان نہ آتا.عموماً بڑی تعداد احمدی مہمانوں کی آپ کے ہاں اتری رہتی.اور جس کشادہ روئی اور روح کے انبساط کے ساتھ مرحوم ان کی مہمان نوازی فرماتے.اس کا لطف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں.جو آپ کے مہمان رہے ہیں.آپ کے بہت سے عزیز تھے.اور ایسے لوگ بھی حاضر رہتے تھے جن کا فرض خدمت کرنا تھا.لیکن مرحوم گھر میں ہوتے تو اکثر خود کھانا اٹھا کر لاتے.اور باقی فرائض مہمان نوازی بھی اپنے ہاتھ سے سرانجام دینے کی کوشش فرماتے.تہجد نفلی روزے.صدقات اور چندے: مرحوم اتنی با قاعدگی سے تہجد کی نماز پڑھتے تھے کہ شاید ہی کبھی نماز قضا ہوئی ہو.مجھے یاد ہے کہ موضع سلوہ میں جو قصبہ نواں شہر سے ایک میل کے فاصلہ پر ہے.مرحوم تبلیغ کے لئے گئے.اور اس عاجز کو بھی ساتھ لے گئے رات کے دو بجے تک گفتگو ہوتی رہی.ہم بستروں پر کوئی اڑھائی سن وصیت و ہبہ کی تعین وتفصیل گذشتہ اوراق میں درج ہو چکی ہے.حاجی صاحب کا الفضل کا خریداری نمبر آٹھ ہے اور اب تک آپ کے نام پر آتا ہے تمام رسائل و اخبارات سلسلہ کے آپ با قاعدہ فائل رکھتے تھے.اور کتب حضرت مسیح موعود" وسلسلہ آپ کے پاس تھیں جن کا مطالعہ کرتے اور احباب جماعت و غیر از جماعت کو استفادہ کے لئے دیتے تھے.(بیان اخویم چوہدری احمد دین صاحب)

Page 149

127 بجے کے قریب لیے گرمی کا موسم تھا.کوئی تین سوا تین بجے کروٹ بدلتے وقت میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ حضرت حاجی صاحب تہجد پڑھ رہے تھے پھر صبح کی نماز کے لئے سب سے پہلے جاگنے والوں میں سے تھے.حملہ نفلی روزے کثرت سے رکھتے ہر سال اعتکاف ضرور کرتے سوائے اس کے کہ کسی دینی مصروفیت کے باعث موقع نہ ملا ہو.صدقات اور چندوں میں اتنے با قاعدہ تھے کہ کبھی کسی کو آگے نہ بڑھنے دیتے تھے.دینی واقفیت :.مرحوم کی تعلیم مڈل تک تھی لیکن دین سے گہری واقفیت تھی آپ کوئی کسان لیکچرار نہ تھے لیکن جو فقرہ آپ کی زبان سے نکلتا وہ سیدھا دل میں اتر جاتا تھا.ان کی تقریر میں ایسی تا ثیر تھی کہ اس کے بعد بڑے قادر الکلام لوگوں کی بات سننے کو جی نہیں چاہتا تھا.اس تاثیر کار از اس بات میں مضمر تھا کہ آپ کے قول اور عمل میں کوئی فرق نہ تھا.تبلیغ کا جنون: تبلیغ کا آپ کو جنون تھا.مجھے ان کے خلوص دل کی یہ علامت بہت پسند تھی کہ آپ صرف دین کی تبلیغ ہی نہیں کرتے تھے ہر وہ مفید بات جو انہیں معلوم ہو اور جس سے مخلوق کا بھلا ہو.اسے دوسروں کو بھی ضرور بتاتے تھے اگر کسی بیماری کی کوئی مفید دوا معلوم ہوتی تو فوراً دوسروں کو بتا دیتے.مرحوم دبلے پتلے جسم کے تھے لیکن تبلیغ کے لئے پیدل میں ہیں پچھیں پھیس میں چلے جاتے.اور کبھی تھکان محسوس نہ کرتے.جالندھر اور ہوشیار پور کے اضلاع میں مبلغین کا دورہ خواہ کتنا ہی لمبی دیر کا ہو اور کتنے ہی لمبے فاصلہ کا ہو.مرحوم ضرور ساتھ ہوتے علاقہ میں جہاں میلہ ہو وہاں احمدیوں کو ٹریکٹر دے کر بھجوادیتے اور بعض اوقات خود بھی تشریف لے جاتے.میں بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ اگر کئی مبلغوں کی زندگی بھر کے کام کو جمع کیا جائے تو وہ کام مرحوم کے کام کے برابر نہیں ہوگا.آپ کبھی کوئی موقع تبلیغ کا ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.اسٹیشن پر سے گذررہے ہیں.اور گاڑی آگئی ہے تو آپ وہاں ٹریکٹ تقسیم فرما دیتے.مرحوم اپنے علاقہ میں مبلغین سے اتنا کام لیتے تھے کہ بعض اوقات مبلغین تنگ آ جاتے.ضلع جالندھر اور ضلع ہوشیار پور کی تمام جماعتوں کے قریباً تمام امور آپ کے ذریعہ طے پاتے.جھگڑے چکانے کا نیز تربیتی اور تبلیغی کام اکثر آپ کے ذریعہ سے طے پاتا تھا.فروتنی اور منکسر المزاجی.مرحوم اس درجہ فروتن اور منکسر المزاج تھے کہ اس کی کوئی حد نہ تھی.میں نے کئی سفران کے ساتھ کئے.اگر سواری کا پورا انتظام نہیں ہوا تو جو سواری ملی وہ ساتھی کے لئے وقف کر دیتے.ساتھی خواہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ اشراق اور ضحی کے نوافل بھی باقاعدگی سے ادا فرماتے تھے.( مئولف)

Page 150

128 کتنا ہی اصرار سے عرض کرتا کہ یہ خلاف ادب ہے آپ ہر رنگ میں آرام کے زیادہ مستحق ہیں.پھر بھی آپ نہ مانتے.میرے معاملہ میں تو اکثر میرے موٹا پن اور عادات کی مستی پر رحم فرما کر مجھے سوار کرا دیتے کبھی اگر میں بہت اصرار کر کے اتنی سی بات منوانے میں کامیاب ہو بھی جاتا کہ مرحوم کو سوار ہونے پر مجبور کرلوں تو جب گاؤں نزدیک آتا تو اتر پڑتے اور مجبور کر کے مجھے سوار کرا لیتے.جہاں قیام فرماتے جو اونچی اور اچھی چار پائی اور اچھا بستر ہوتا وہ دوسرے کو دیتے.اگر دوسرا نہ مانے تو الآمُرُ فَوقَ الأَدَبُ فرما کر بھی اپنی بات منوا لیتے.ایک دفعہ اس عاجز نے خواب میں دیکھا کہ یہ عاجز حضرت مسیح موعود کے پاؤں دبا رہا ہے.بعض مجبوریوں کی بنا پر عاجز قادیان نہیں جا سکتا تھا.اس لئے خیال آیا کہ کریام جاؤں اور حضرت حاجی صاحب جو حضور علیہ السلام کے صحابی ہیں، کے پاؤں دبا کر خواب پورا کروں.چنانچہ یہ عاجز کریام گیا.سردیوں کا موسم تھا خاکسار نے مسجد میں ہی بستر بچھوالیا.عشاء کے بعد حضرت حاجی صاحب مرحوم اور یہ عاجزا کیلے رہ گئے تو عاجز نے اپنا خواب سنا کر پاؤں دابنے کی درخواست کی.حضرت حاجی صاحب نے سختی کے ساتھ میری درخواست رد کر دی.میں نے پھر اصرار کیا تو پاؤں آگے کر دیا.اور کوئی ایک دو منٹ کے بعد کھینچ لیا.اور فرمایا اب تم پاؤں آگے کر وایسا نہ ہو کہ میر انفس موٹا ہو جائے کہ کسی نے میرے پاؤں دبائے ہیں.لباس و خوراک: لباس نہایت سادہ رکھتے.غذا بہت کم کھاتے اور ہمیشہ فرماتے ” خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است دیانتداری اور راست بازی:.حضرت حاجی صاحب کی دیانتداری اور راستبازی پر دوست دشمن سب کو یقین تھا.ایک شخص نے پچاس گھماؤں اراضی حاجی صاحب کے نام بغیر اطلاع دیئے کرادی.یہ عدالتیں آپ کو ثالث بنا تیں.اور کبھی کسی فریق کو ان کے فیصلے پر اعتراض نہ ہوتا تھا.آپ اکثر صلح کروانے میں کامیاب ہو جاتے تھے.حج اور حضرت خلیفہ اسیح اوّل:.غالباً 1911ء میں آپ نے بیت اللہ شریف کا حج کیا.واپس آئے تو نبض المسیح، حضرت علامہ نور الدین صدیق خلیفہ مسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھ کر ملے اور معانقہ فرمایا.حضرت حاجی صاحب فرماتے تھے کہ حضرت خلیفہ اسی اول رضی اللہ عنہ نے کئی مرتبہ اپنے قلم سے خطوں میں آپ کے صاحبزادہ محترم چوہدری احمد دین خانصاحب بتاتے ہیں کہ یہ صاحب رام لال بروت ساکن را ہوں تھے.

Page 151

129 انہیں یہ لکھ کر بھیجا کہ ” مجھے آپ سے محبت ہے.اور حضور رضی اللہ عنہ جالندھر، ہوشیار پور کے لوگوں کو نصیحت فرمایا کرتے کہ قادیان آیا کرو.اگر نہ آسکو تو کر یام ہو آیا کرو.حمید صاحب رویاء :.آپ نہایت مستجاب الدعوات اور صاحب رؤیا و کشف الہام تھے.* * دعاؤں کی بہت عادت تھی.اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے یا تبلیغ فرماتے دعا کرتے.کبھی کسی نے ساری عمر بھی مرحوم کو کوئی غیر ضروری بات کرتے نہیں دیکھا.چہرہ خوبصورت تھا.اور نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ (41) کا مصداق.حضرت خلیفہ امسیح الثانی سے عشق :.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے عشق تھا.جس نسبت سے کسی کو حضور ایدہ اللہ سے محبت ہوتی اسی نسبت سے آپ اس آدمی سے محبت کرتے.آپ اپنے چا چوہدری مراد بخش صاحب کی معیت میں 1911ء میں حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے تو اس سفر میں دوماہ کا عرصہ ہو چکا تھا.پھر بھی مقدس قادیان اور حضرت خلیفہ المسیح اول کی محبت کشاں کشاں قادیان لے آئی جہاں حضور کی صحبت فیض پاش میں کئی روز بسر کر کے پھر آپ اپنے وطن تشریف لے گئے.محترم چوہدری نور احمد صاحب متوطن موضع سروعه ( پنشنر خزانچی صدر انجمن احمد یہ ) نے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری موجودگی میں موضع کریم پور (ضلع جالندھر) کے احباب حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے ان کو نصیحت فرمائی کہ آپ بار بار قادیان آتے رہیں تا ایمان تازہ رہے.انہوں نے اپنی مجبوریاں پیش کیں کہ ہم کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں اس کی مصروفیات کی وجہ سے فرصت نہیں ملتی.تو فرمایا اچھا اگر قادیان نہ آسکو تو حاجی غلام احمد صاحب کے پاس کر یام ہو آیا کرو.حاجی صاحب کے عزیز چوہدری عبدالغنی خانصاحب بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۱۰ء کے جلسہ سالانہ پر بعض خاص حالات کی وجہ سے مستورات کے آنے کی ممانعت تھی.جلسہ کے بعد ماہ مئی میں میں قادیان میں تھا.میں نے درخواست لکھی کہ ہمارے خاندان کی بعض مستورات اپنے اشتیاق کی وجہ سے قادیان کی زیارت کرنا چاہتی ہیں اس لئے حاجی صاحب کو اجازت دی جائے کہ وہ مستورات کو اپنے ہمراہ قادیان لاسکیں.اس پر حضرت خلیفہ اول نے تحریر فرمایا.کہ حاجی غلام احمد صاحب نہایت مخلص آدمی ہیں مجھے ان سے محبت ہے.میں یہ لکھ کر انہیں اجازت دیتا ہوں کہ وہ عورتوں کو اپنے ہمراہ قادیان لا سکتے ہیں چنانچہ حاجی صاحب مستورات کو لائے اور وہ حضور کی زیارت سے مشرف ہوئیں.اخویم چوہدری احمد دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ نے خواب دیکھا کہ آپ کے چچازاد بھائی چوہدری مہر خاں صاحب نمبر دار ہوئے ہیں.چنانچہ وہ جلد تحصیل اوکاڑہ میں نمبر دار مقرر ہو گئے.بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 152

130 حضور کی طرف سے کوئی تحریک ہوتی تو اسے کامیاب بنانے کے لئے دن رات ایک کر دیتے.حضور نے تحریک جدید کا اعلان فرمایا تو مرحوم جماعتوں سے چندہ فراہم کرنے اور وعدے لینے کے لئے جون جولائی کی گرمیوں میں متواتر دوماہ سفر کرتے رہے.جس میں سے بیشتر حصہ پا پیادہ طے کرنا پڑا.علالت :.اس سفر کے بعد مرحوم بیمار ہو گئے ایک پتلے دبلے کم خور انسان کو مرض سل اپنا شکار سمجھتا ہے.چنانچہ مرحوم اس میں گرفتار ہو گئے.اور متواتر چار سال تک بیمار رہے.مرحوم علاج کے لئے امرت سر ہسپتال میں تین سال متواتر چھ چھ ماہ کے لئے رہتے رہے.تمام معالج اور نگران ڈاکٹر کہتے کہ مرحوم تمام مریضوں کے لئے نمونہ تھے.معالجوں کی ہر ہدایت پر سختی سے عمل فرماتے.ہسپتال میں اعلائے کلمہ حق تعلیم دینی کا کام جاری رکھا جس وارڈ میں آپ ہوتے کسی کو آپ نماز کا سبق دیتے.کسی کو قاعدہ یسرنا القرآن پڑھاتے کسی کو قرآن کریم پڑھاتے ہند ومریضوں کو بھی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی نظم ”ہمارا خدا یاد کراتے.اس طرح سارا وارڈ درس گاہ بن جاتا تمام مریضوں کو دعا کرنے کی ترغیب دیتے رہتے.شام کو اکثر مریض اکٹھے ہو کر اپنا اپنا قصہ مرحوم کو سناتے اور حضرت مرحوم سے ہدایات لیتے.غرض آپ کے وجود سے جہاں بھی آپ ہوتے لوگ فیض یاب ہوتے.صبر وشکر :.آپ نہایت ہی صابر وشاکر اور اپنے رب کی رضا پر راضی تھے اتنی لمبی بیماری میں بھی کبھی کسی نے آپ کے چہرے پر گھبراہٹ یا بے چینی نہیں دیکھی.مرحوم سے جب کوئی حال پوچھتا تو ہنس کرفرماتے الحمدللہ خدا کا شکر ہے.فرماتے مجھے نہ موت سے گھبراہٹ ہے نہ لمبی زندگی کی کوئی خواہش.میں ہر طرح اپنے رب کی رضا پر راضی ہوں.کئی دفعہ فرماتے کہ اگر مر کر بیوی بچوں اور دوسرے عزیزوں سے جدا ہوں گے تو کیا یہ کم خوشی ہے کہ حضرت نبی کریم علیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام - حضرت خلیفہ اسیح اوّل رضی اللہ عنہ اور ماں باپ سے ملاقات ہوگی.شفقت على خلق اللہ :.مرحوم کے دل میں شفقت علی خلق اللہ کا ایک دریا موجزن تھا.مرحوم اس عاجز کے بقیہ حاشیہ صفحہ سابقہ: - فروخت اراضی پر نمبر داری ختم ہوگئی بعد تقسیم ملک آپ ضلع لائلپور میں پھر نمبردار بنا دیئے گئے.ایک دفعہ آپ کی ہمشیرہ دولت بیگم بیمار ہو گئیں کسی علاج سے شفانہ ہوئی.اور مرض شدت اختیار کر گیا.آپ نے فرمایا کہ اب ہمیں دعا اور صدقہ سے کام لینا چاہئے.چنانچہ صدقہ دیا گیا.اور آپ نے مسجد میں تضرع سے دعا کی اور شربت شفا پلوانے کو کہا.اللہ تعالیٰ نے خارق عادت طور پر آپ کی دعا قبول فرمائی اور موصوفہ جلد صحت یاب ہوگئیں.( مئولف)

Page 153

131 ساتھ محض اللہ بہت شفقت فرماتے تھے.ان کی وفات سے یہ عاجز ایک بہت بڑے محسن اور محبت کرنے والے بزرگ کی دعاؤں سے محروم ہو گیا.مجھے کئی دفعہ بتایا کہ میں تمہارے لئے ہر نماز میں دعا کرتا ہوں.بلکہ یہ بھی فرمایا کہ شاید ہی کوئی سجدہ خالی جاتا ہے.مرحوم کی وفات سے ایک ہفتہ پہلے یہ عاجز کریام حاضر خدمت ہوا تو خوشی کا اظہار فرمایا.مرحوم اس وقت بہت ہی کمزور ہو چکے تھے.فرمایا اب مجھ سے دعا نہیں ہوسکتی.نمازوں میں سے ایک صبح کی نماز میں دعا کر سکتا ہوں.اور اس میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور خاندان....( حضرت مسیح موعود ) کے بعد تمہارے لئے دعا کرتا ہوں.اور اس کے بعد اپنے اور اپنے بچوں کے لئے دعا کرتا ہوں.کون اس التزام اور اس درد کے ساتھ کسی غیر کے لئے دعائیں کر سکتا ہے.میں نے اس امر کا ذکر بہ تفصیل اس لئے کیا ہے تا اندازہ ہو سکے کہ مرحوم رضی اللہ عنہ مخلوق خدا کے لئے کیسا پُر شفقت دل اپنے سینہ میں رکھتے تھے.مجھے ایک اور واقعہ یاد آیا ایک دفعہ ایک مقدمہ تھا جس میں احمدی مدعیان اور ایک غیر احمدی عورت مدعی علیہ تھی.قانونی لحاظ سے احمدیوں کا مقدمہ مضبوط تھا.عورت کے والد کو یہ بات سوجھی کہ وہ حضرت حاجی صاحب کے پاس گیا اور عرض کی کہ شرعی لحاظ سے عورت کو بھی کچھ نہ کچھ حق پہنچتا ہے.حضرت حاجی صاحب نے اس عاجز سے ذکر کیا.اور راضی نامے کی ایک صورت نکل آئی.اس دن افسر مال کا مقام قصبہ کرتار پور میں تھا.میں نے نواں شہر کی کچہری سے جو اسٹیشن سے میل سوا میل کے فاصلے پر ہے جانا تھا.کچہری سے مدعیان اور مدعی علیہا حضرت حاجی صاحب اور یہ عاجز پیدل اسٹیشن کے لئے چل پڑے ابھی تھوڑی دور گئے تھے کہ گاڑی کی سیٹی کی آواز آئی.اب اس مقدمہ میں اگر کسی کو فائدہ پہنچتا تھا یا مدعیان اور مدعی علیہم تھے.اور یا یہ عاجز تھا جس نے محنتانہ لیا ہوا تھا لیکن گاڑی کی آواز سنتے ہی سب سے پہلے بے اختیار جو ٹکٹوں کے لئے دوڑ پڑا وہ ہمارے عمر رسیدہ بزرگ.حضرت حاجی صاحب تھے.جنہیں دنیوی لحاظ سے مقدمہ سے کوئی دلچسپی نہ تھی.صرف خدا کی رضا کا شوق رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا تھا.جو انہیں دوڑنے پر مجبور کر دیتا تھا.اور رگوں میں بوڑھے کو جوانوں سے زیادہ جوان ہمت بنائے رکھتا تھا.تھوڑی دور دوڑنے پر اطلاع ملی کہ ابھی یہ گاڑی راہوں جائے گی پھر واپس آئے گی.اس پر حضرت حاجی صاحب ٹھہر گئے.انتظام جلسہ سالانہ :.جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت حاجی صاحب کو علاقے کی تمام جماعتوں کی بہت ہی فکر ہوتی.اسٹیشن کے تمام افسران سے مل کر مرحوم طبع شدہ واپسی ٹکٹوں کا انتظام کراتے.تمام جماعتوں کو قبل از

Page 154

132 وقت اپنی تاریخ روانگی کی اطلاع دیتے اور ان سے دریافت فرماتے کہ کتنے آدمی جائیں گے.گاڑی چلنے سے بہت پہلے اسٹیشن پر پہنچ جاتے اور جب تک تمام مرد عور تیں اور بچے ٹھیک طور پر بیٹھ نہ جاتے.اور تمام اسباب ٹھیک طرح رکھوا نہ لیا جاتا.مرحوم خود نہ بیٹھتے.اسی طرح راستے میں تمام جلسے پر جانیوالوں کے ہر انتظام کے آپ ذمہ دار ہوتے.بالکل راعی کی سی چستی اور ہوشیاری کے ساتھ آپ اپنے گلے کو منزل پر پہنچا کر اطمینان حاصل کرتے.ہر دینی تحریک میں مسابقت : مختصر یہ کہ للہ تعالیٰ کی رضا کی کوئی راہ نہ تھی جس پر مرحوم نے قدم نہ مارا.قبول احمدیت کے بعد کوئی تحریک ایسی نہ تھی جس میں سابقون کی حیثیت میں آپ شامل نہ ہوئے ہوں.آپ نے ۱۹۰۶ء میں وصیت کر کے حصہ جائیداد کو ہبہ کر دیا.حج بیت اللہ کیا، زکوۃ با قاعدہ دیتے تھے.گاؤں میں ایک فراخ اور عمدہ مسجد احمدیہ تعمیر کرائی.مسجد لندن کی تحریک میں حصہ لیا ملکا نہ جہاد میں متھرا کے ضلع میں ایک گاؤں آنور ( نو گاؤں) میں تین مہینے تبلیغ کی.اخویم مولوی محمد عبد اللہ صاحب درویش ( معاون ناظر دعوة وتبلغ قادیان ) ولد مکرم چوہدری نورمحمد صاحب مرحوم ذکر کرتے ہیں کہ مجھے بھی ان قافلوں میں آنے کا موقع ملا ہے بعض دفعہ حضرت چوہدری عبدالسلام صاحب امیر جماعت احمدیہ کا ٹھ گڑھ اصرار کرتے کہ اڑ مڑ مانڈہ سے قافلہ وہاں تک جانا مناسب ہے اس طرح زیادہ ثواب ہوگا.اس لئے بعض دفعہ چھپیں تھیں مردوں کا قافلہ وہاں اتر پڑتا.چوہدری عبدالسلام صاحب لیمپ لئے آگے آگے چلتے.اور چلو قادیان شریف جانے والے کی آواز دیہات میں سے گذرتے ہوئے بلند کرتے جاتے.راستہ میں کسی جگہ قافلہ خود ہی کھانا تیار کر کے کھاتا.موضع ہر چو وال نزد قادیان پہنچ کر عصر کی نماز ادا کی جاتی.اور قادیان میں داخل ہوتے.اس وقت چوہدری عبدالسلام صاحب دعا کراتے.اور اس طرح چالیس میل کا فاصلہ دس گیارہ گھنٹوں میں طے کر کے قافلہ قادیان آ پہنچتا.اور بقیہ قافلہ حضرت حاجی صاحب کے ساتھ بذریعہ گاڑی قادیان پہنچتا.مولوی محمد عبد اللہ صاحب یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ موضع حسن پور کلاں نزد کا ٹھ گڑھ میں صرف ہمارا گھر احمدی تھا حضرت مولوی شیر علی صاحب بعض دفعہ حضرت حاجی صاحب کو بھینس خرید کر بھیجنے کے لئے لکھتے تو آپ اعلی بھینس تلاش کر کے بھجواتے.ایک دفعہ حضرت حاجی صاحب اس کام کے لئے تشریف لائے شام ہوگئی.میں نے کھانا کھانے پر اصرار کیا کھانا تیار کر والیا تھا فرمانے لگے فلاں گاؤں میں کھانا تیار ہے.اور وہاں پہنچنے کا پروگرام بھی ہے لیکن میرے اصرار پر کھانا کھایا اور فرمایا بتاؤ کس خاص امر کے لئے دعا کی جائے میں نے عرض کیا کہ دینی اور دنیوی بہتری کیلئے چنانچہ آپ نے دعا فرمائی گویا اس موقع کو بھی آپ نے جانے نہ دیا.دعاؤں کی رغبت دلائی.اور اپنی محبت کا بھی اظہار کیا.

Page 155

133 جلسہ سیرت النبی مکیریاں دار التبلیغ :.سیرت النبی کے جلسوں میں ہر سال نہایت ہی ذوق وشوق سے بجائے ایک دن کے دودن جلسے کرواتے مقررہ تاریخ سے آپ ایک دن پہلے تین دیہات میں جو کئی کئی میل کے فاصلہ پر تھے جاتے اور ان میں تقریریں فرماتے.مقررہ تاریخ کو قصبہ راہوں کو صبح کے وقت قصبہ نواں شہر میں.دوپہر کے بعد قصبہ بنگہ میں شام کے بعد جلسے منعقد کراتے.اور پھر خود تقریر میں فرماتے.حضرت امیر المومنین ایده اللہ تعالیٰ کے تمام درسوں میں شمولیت فرماتے.میریاں دار التبلیغ میں متواتر دوسال با قاعدہ ایک ایک ماہ دیا.تحریک جدید میں..غیر معمولی حصہ لیا.عاقبت محمود کے متعلق ایک خواب :.مرحوم نے کئی سال ہوئے اپنا ایک خواب مجھے سنایا تھا.جو آپ کے حالات کے لحاظ سے نہایت ہی صحیح تھا.فرماتے تھے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت کا دن ہے ایک طرف ایک پتھر جس میں دوزخیوں کے نام لکھے ہیں اور اس پتھر کے پاس ایک فرشتہ کھڑا ہے.میں ڈرتا ڈرتا اس پتھر کے پاس گیا.تا کہ دیکھوں کہ کہیں اس میں میرا نام تو نہیں تو وہ فرشتہ مجھے دیکھ کر کہتا ہے کہ یہ نام اس جگہ نہیں ہوسکتا.پھر میں دوسری طرف گیا وہاں ایک کتاب پڑی ہے میں وہ کتاب کھول کر دیکھتا ہوں.تو کئی صفحوں میں میرا نام لکھا ہوا ہے.یقیناً وہ زندہ جاوید انسان مرا نہیں ہماری آنکھوں سے اوجھل ضرور ہو گیا ہے.ہرگزنه مرد آنکه دلش زنده شد بعشق ! ثبت است بر جریده عالم دوام شال اللہ تعالیٰ مرحوم کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے ان کے بچوں کا آپ حافظ و ناصر ہو.اور اپنی تمام دینی ودنیوی نعمات کا وارث بنائے.آمین ثم آمین.(42).آپ کی روایات کتاب کے آخر پر درج کی گئی ہیں.(مؤلف)

Page 156

134 از محترم قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل مست جام مئے تو حید ، حقائق آگاہ واقف رازِ دروں میر عنایت علی شاہ ہم سے بچھڑے ہیں بچھڑ جانے کا غم ہے ہمکو ہائے وہ صدق وصفا، رنگ وفا آہ صد آہ یہی وہ لوگ ہیں جن میں ہے صحابہ کا رنگ دین پر مر مٹے، دنیا پہ نہ کی کچھ بھی نگاہ جب منادی کی صدا آئی تو لبیک کہا پاکبازوں کی نظر میں ہے تو قف بھی گناہ ساتھ دیتے رہے ہر رنج و بلا میں حق کا لغزش آئی نہ قدم میں کہ چلے سیدھی راہ تھے محبت میں مسیحائے محمد " کی گداز انہی کا ذکر تھالب پر تو انہی پر تھی نگاہ یاد آتے ہیں ”غلام احمد کریا می“ بھی يغفر الله لهم کی ہے دعا شام و پگاه خاک پا ایسے بزرگوں کی ہیں اکمل سے کئی یا الٹی تیرے غفران کی ہے سب کو چاہ (الفضل ۱۰/۹/۴۳)

Page 157

135 چوہدری مراد بخش صاحب چوہدری مہر خانصاحب (پسر) حرمت بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری مہر خانصاحب چوہدری نذیر احمد صاحب (پسر) چوہدری مراد بخش صاحب : * محترم چوہدری مراد بخش صاحب ولد چوہدری رنگے خان قوم راجپوت بموضع کریام (ضلع جالندھر (۱۸۵۲ء میں پیدا ہوئے.آپ حضرت چوہدری غلام احمد صاحب کے جن کے سوانح پہلے آچکے ہیں ، چاتھے.حاجی صاحب کے فروری ۱۹۰۳ء میں بیعت کر لینے پر ان کی اقتداء میں چوہدری مراد بخش صاحب نے بھی بیعت کا خط لکھ دیا.ہے اور چند ماہ بعد حضور کی زیارت کے لئے قادیان گئے.بوقت ملاقات نہ صرف مصافحہ کیا.بلکہ وفور اشتیاق سے حضور سے معانقہ بھی کیا.بیعت کے بعد کیونکہ شدید مخالفت ہوئی اور حضرت مسیح موعود کے کہنے کے مطابق کس طرح وہاں جلد کئی سو افراد پر مشتمل جماعت ہوگی اس کی تفصیل قبل از میں حاجی صاحب کے تذکرہ میں آچکی ہے.آپ نماز روزہ اور دیگر شرعی امور کے بہت پابند تھے.نواحی کے احمدی بکثرت کر یام آتے اور صحابہ سے فیض یاب ہوتے وہ لوگ ان صحابہ کے تقویٰ کے اعلیٰ معیار کے باعث موضع کر یام کو قادیان کاظل سمجھتے تھے آپ چندوں کی ادائیگی میں با قاعدہ تھے.1911ء میں حاجی صاحب کے ہمراہ حج کو گئے.حج سے فراغت کے بعد مدینہ شریف میں دوماہ قیام کیا.ہوئے ہیں ؟.یہ حالات آپ کے فرزند چوہدری مہر خانصاحب سے بتوسط اخویم چو ہدری احمد دین خان صاحب حاصل آپ کی بیعت البدر بابت ۲۳ اکتوبر ۱۹۰۳ء میں مراد بخش صاحب کر یام“ کے الفاظ میں موجود ہے (صفحہ ۳۲۰) بلکہ اسی جگہ آپ کے بیٹے نذیر احمد صاحب کی بھی.لیکن چوہدری نذیر احمد خاں صاحب صحابی نہیں یعنی حضرت اقدس کی زیارت کا ان کو موقع نہیں ملا.

Page 158

136 آپ نے موضع کر یام میں مدرسہ احمدیہ اور مسجد احمدیہ کے قیام میں بھی حصہ لیا.گو اس کے اخراجات کا زیادہ حصہ حاجی صاحب نے ہی برداشت کیا.آپ کو مہمان نوازی کا بہت شغف تھا.جس میں بہت مسرت محسوس کرتے.لوگوں کے کاروبار میں بے دریغ اپنی ضمانت دے دیتے جس سے غرباء کو بہت سہارا ملتا.رفاہ عامہ کے کاموں میں خوب شرکت کرتے تھے.گوطبیعت بہت سادہ تھی لیکن معاملہ فہم تھی اور گومدرسہ کی تعلیم نہ پائی تھی.تاہم دینی و دنیوی امور میں وسیع تجربہ رکھتے تھے.آپ تین مربعہ اراضی کے مالک تھے اس لئے آپ کی مالی حالت بہت اچھی تھی اس لئے آپ وسعت قلب سے فی سبیل اللہ خرچ کرتے تھے.اور غریبوں کی حاجت روائی کر کے انکی دعائیں لیتے تھے.آپ کی شادی ۱۸۷۲ء میں محترمہ جیماں (دختر بلند خاں قوم راجپوت سکنہ موضع لنگڑو یہ تحصیل نواں شہر ضلع جالندھر ) سے ہوئی محترمہ صحابہ تھیں موضع کریام میں فوت اور دفن ہوئیں.بوجہ موصیہ ہونے کے ان کا کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگایا گیا.آپ کی رفیقہ حیات نیک اور پارسا خاتون تھیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے دیئے چوہدری مہر خانصاحب ( جن کا تذکرہ آگے آتا ہے ) چوہدری نذیر احمد خانصاحب اور بیٹی محترمہ مہر النساء صاحبہ (صحابیہ ) عطا کیں.آپ ۱۹۲۷ء میں راہی ملک بقا ہوئے اَللّهُمَّ اغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ.آمین.آپ موصی نہیں تھے.آپ کر یام میں دفن ہوئے.چوہدری مهر خانصاحب : - * * * آپ محترم چوہدری مراد بخش صاحب صحابی مذکورہ بالا کے ہاں ۱۸۸۳ء میں موضع کر یام ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے اپنے گاؤں میں پرائمری سکول تک تعلیم حاصل کر کے نواں شہر میں مڈل میں داخل ہوئے لیکن آٹھویں میں آپ کو تعلیم چھوڑنی پڑی.چوہدری بلند خانصاحب کے حالات اسی کتاب میں درج ہیں.محترمہ مہر النساء صاحبہ مرحومہ کا تذکرہ ان کے خاوند مکرم چوہدری بشارت علی خان صاحب کے حالات میں اسی جلد میں درج کیا گیا ہے.*** آپ بفضلہ تعالیٰ زندہ ہیں.یہ حالات آپ ہی سے بذریعہ اخویم چوہدری احمد دین صاحب بی.اے خلف حضرت حاجی غلام احمد خانصاحب حاصل کئے ہیں.خاکسار نے آپ کو دیکھا ہوا ہے خاندانی حالات حضرت حاجی صاحب کے سوانح میں درج ہیں آپ حاجی صاحب کے چازاد بھائی ہیں.

Page 159

137 قبول احمدیت :.حضرت حاجی غلام احمد خانصاحب ( بیعت فروری ۱۹۰۳ء) کے بعد آپ نے بذریعہ خط بیعت کرنے کی توفیق پائی.اور چند ماہ بعد آپ نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر دستی بیعت بھی کی.بعد ازاں کئی بار حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور کئی کئی دن حضور کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا آپ کو موقع ملتا رہا.آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں قادیان گیا.اور حضور کی خدمت میں عرض کی کہ آج کل ہماری مخالفت بہت ہو رہی ہے.فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد جماعت قائم کر دے گا چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے جماعت قائم کر دی.پھر ایک دفعہ میں حضور کی ملاقات کے لئے قادیان پہنچا.اس وقت حضور بہشتی مقبرہ قادیان سے ملحقہ باغ میں قیام پذیر تھے.اور جس وقت میں پہنچا.حضور احباب میں تشریف رکھتے تھے.میں نے مصافحہ کیا.اور حضور کے دست مبارک کو بوسہ دیا.حضور نے حال پوچھا تو عرض کی کہ حضور اب ہماری مخالفت ختم ہوگئی ہے.حضور خاموش سے ہو گئے جس سے میں نے سمجھا کہ آپ مخالفت کے ختم ہونے کو پسند نہیں فرماتے.( حضور بڑے باغ میں ۱۹۰۵ء میں اپریل تا جون قیام پذیر ہے) کرم دین بھیں والے مقدمہ کے دوران میں چوہدری صاحب کو ایک دفعہ حضرت اقدس کے ہمراہ گورداسپور جانے کا موقع ملا.ایک دفعہ آپ قادیان آئے تو حضرت مولوی نورالدین صاحب سے ملاقات کر کے ایک روپیہ نذرانہ پیش کیا.دوسرے دن آپ نے چوہدری صاحب کو تلاش کروایا اور آپ کو روپیہ واپس کر کے فرمایا کہ یہ حضرت مسیح موعود کا حق ہے.میرا نہیں تو چوہدری صاحب نے عرض کیا کہ میں نے غلطی سے نہیں بلکہ آپ کو پہچان کر ہی دیا تھا.یہ آپ کے واسطے ہی تھا.اس پر آپ نے قبول فرما لیا.آپ کے والد ماجد نے حضرت حاجی غلام احمد صاحب سے بھی پہلے یعنی ۱۹۰۲ء میں بیعت کر لی تھی اور حاجی صاحب کی بیعت سے ان کو بھی تقویت حاصل ہوگئی.پھر اس خاندان کے کثیر افراد نے بیعت کر لی تھی چنانچہ ”ہمشیرہ مہر النساء صاحبہ نے بھی ۱۹۰۳ء میں بیعت کر لی.(43) اور اہلیہ مہر خان صاحب (44) نے بھی تو یہ باور کرنے کے وجوہ موجود ہیں کہ چوہدری مہر خان صاحب نے بھی ۱۹۰۳ ء ہی میں بیعت کی ہوگی اور چوہدری صاحب کے بیان میں بھی یہی سن مذکور ہوا ہے.حضرت حاجی غلام احمد خانصاحب کے سوانح میں تفصیل درج ہے کہ موضع کر یام میں مخالفت کے ایام میں ہی جو ترقی جماعت مقامی کی ہوئی.اس کے بعد نہیں.

Page 160

138 خانگی زندگی:.تیرہ سال کی عمر میں ۱۸۹۶ء میں آپ کی شادی محترمہ حرمت بیگم صاحبہ سکنہ موضع لنگر وعد تحصیل نواں شہر سے ہوئی.جیسا کہ گذشتہ حاشیہ میں حوالہ دیا گیا ہے.موصوفہ نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی تھی پھر ان کو زیارت کا موقع ملا.۱۲ جنوری ۱۹۵۱ء کو اللہ تعالیٰ کو پیاری ہوئیں.آخر تک جماعت احمدیہ سے وابستہ رہیں.اللهم اغفر لها وارحمها.صاحب اولاد تھیں.اولا درزمیندارہ کام کرتی ہے.آپ ۱۹۳۱ء اور اپریل ۱۹۳۶ء کی مشاورت میں شامل ہوئے.چوہدری نذیر احمد صاحب :.آپ نے بیان کیا کہ میری ولادت ۱۸۹۵ء کی ہے.میں نے بچپن میں والدہ محترمہ کے ہمراہ بہعمر ۹-۱۰ سال قادیان جا کر حضرت مسیح موعود کی زیارت کی اور حضور کے گھر (دار مسیح میں ) بھی گیا.آپ صاحب اولاد ہیں اور تقسیم ملک کے بعد چک ۱۰۹ گوگیرہ برانچ تحصیل جڑانوالہ ضلع لائلپور میں مقیم ہیں.جو انہوں نے دو شادیاں کیں.مالی فراخی :.آپ کے والد صاحب تین مربعہ اراضی کے مالک تھے ان کی وفات کے بعد دونوں بھائیوں میں یہ مشتر کہ رہی اور اس کا انتظام آپ ہی کے سپر د ر ہا جو آپ خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے.اور اس کی آمد سے دو مربع اراضی چک 1 گیمبر والہ (ضلع منٹگمری) میں آپ نے خرید لئے اور وہاں نمبر داری بھی مل گئی.پھر اسے فروخت کر کے میاں چنوں میں ایک مربع خرید اتقسیم ملک کے بعد وہ بھی فروخت کر دیا.اراضی کی خرید وفروخت سے کافی منافع ہوا.چنانچہ دوسری جنگ عظیم میں آپ نے سرکار کو ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ بطور قرض دیا.قیام پاکستان پر آپ چک ۱۰۹ گوگیرہ برانچ ( تحصیل جڑانوالہ ضلع لائل پور) میں مستقل طور پر آباد ہو گئے.اس چک کے علاوہ چک ۱۰ اگ ب اور چک ۶۲ گ.ب میں اراضی اور باغ الاٹ ہوئے اور چک ۱۰اگ ب میں آپ نمبر دار بھی مقرر ہوئے.حضرت حاجی غلام احمد صاحب نے خواب دیکھا تھا کہ چوہدری صاحب نمبر دار مقرر ہوئے ہیں اور یہ خواب دوبارہ پوری ہوئی.☆☆ اولاد کے لئے دیکھئے شجرہ جو حضرت حاجی غلام احمد خانصاحب کے سوانح میں درج ہے.یہ حالات اخویم چوہدری احمد دین صاحب بی اے.کی وساطت سے حاصل ہوئے آپ کی اولاد درج ذیل ہے از بطن محترمه حکومت بیگم صاحبہ (اہلیہ اولی ) عبدالرشید از بطن محترمه عنایت بیگم صاحبہ (اہلیہ ثانیہ ) محمد سرور ، محمد انور.نصیر احمد.سروری بیگم.اکبری بیگم اور نسیم اختر.

Page 161

139 خدمات سلسلہ :.آپ نے ۱۹۳۰ء میں والد صاحب کی طرف سے ایک دیگ لنگر خانہ قادیان کو دی.آپ دسویں حصہ کے موصی ہیں آپ کی وصیت کا نمبر ۳۷۷۹ مورخہ ۶/۱۰/۳۳ ہے آپ کی موجودہ جائیداد کی قیمت نظامت جائیداد کے ذریعہ چالیس ہزار روپیہ مقرر ہوئی ہے اور آپ نے اس کا دسواں حصہ چار ہزار روپے ادا کر دیا ہے.آپ دفتر اول سے تحریک جدید کے مالی جہاد میں شامل ہیں اور دور اول میں چار صد ستر روپے ادا کر چکے ہیں (صفحه ۳۰۰) قریباً چالیس سال قبل کی بات ہے کہ آپ کو معلوم ہوا کہ سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کو کچھ روپیہ کی ضرورت ہے آپ قادیان گئے اور اراضی رہن لئے بغیر روپیہ کی پیشکش کی حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ سے ملاقات کے لئے کہا.جنہوں نے فرمایا کہ اراضی رہن رکھے بغیر روپیہ نہیں لیا جاسکتا.چنانچہ مجبوراً آپ نے یہ امر قبول کر کے روپیہ دیدیا.حضرت حاجی صاحب موصوف نے ۱۹۴۳ء میں وفات سے قبل اپنی وصیت میں یہ بھی لکھوایا تھا کہ میرے بعد امیر جماعت کثرت رائے سے مقرر کیا جائے.البتہ میری خواہش ہے کہ چوہدری مہر خاں صاحب کو مقرر کیا جائے.چنانچہ آپ کے بعد با تفاق رائے چوہدری صاحب کو ہی امیر جماعت منتخب کیا گیا.نیز آپ مدرسہ احمد یہ موضع کر یام کے مینجر بھی مقرر ہوئے.چک ۰۹ اگ.ب میں جہاں آپ قریباً چودہ سال سے آباد ہیں آپ صدر جماعت ہیں اور جماعت کا کام خوب خوش اسلوبی سے چلا رہے ہیں.آپ مہمان نواز ہیں اور ضرورت مند کی حاجت روائی کرتے ہیں.

Page 162

140 چوہدری مولا بخش صاحب ہیں چوہدری عبدالغنی صاحب (پر) چوہدری مولا بخش صاحب :.محترم چوہدری مولا بخش صاحب ولد چوہدری امام بخش صاحب قوم راجپوت انداز ۱۸۷۲۴ء میں موضع سڑوعہ ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے.چوہدری امام بخش صاحب کی شادی چوہدری رنگے خاں سکنہ کر یام کی دختر محترمہ کریم بی بی سے ہوئی.جو حضرت حاجی غلام احمد صاحب کی سگی پھوپھی تھیں.موصوفہ چونکہ اپنے والد کی ایک ہی بیٹی تھیں.ان کے والد نے جہیز میں اپنی کچھ اراضی بھی دیدی.چونکہ یہ گزارہ کے لئے کافی تھی اس لئے ان کے خاوند چوہدری امام بخش صاحب موضع سروعہ کی سکونت ترک کر کے موضع کریام میں ہی آباد ہو گئے.آپ نے ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود کی بیعت کی اور آپ کی والدہ محترمہ نے بھی.آپ کی والدہ محترمہ کریم بی بی نے حضرت مسیح موعود کی بیعت خط کے ذریعہ کی تھی.حضور کی زیارت کا موقع نہیں ملا.بحالت ایمان ۱۹۲۰ء کے قریب وفات پائی.آپ کی بیعت والدہ صاحبہ مولا بخش صاحب کے الفاظ میں دیگرا قارب کے ہمراہ جو کل آٹھ افراد تھے.البدر مورخہ ۴ ستمبر ۱۹۰۳ء میں درج ہے.( صفحہ ۲۶۴) آپ کو قادیان میں حضور کی زیارت کا بھی موقع ملا.آپ کی پہلی شادی حضرت حاجی صاحب کی سنگی ہمشیرہ محترمہ حشمت بیگم سے ہوئی جن کے بطن سے چوہدری عبدالغنی صاحب پیدا ہوئے.حشمت بیگم کی وفات انداز ۱۹۰۲ء میں ہوئی تو حضرت حاجی صاحب کی پہلی بیوی محترمہ امام بیگم کی ہمشیرہ محترمہ جان بیگم سکنہ موضع رائے پور سے آپ نے شادی کر لی آپ نے ۱۹۴۲ء میں وفات پائی آپ موصی نہیں تھے موضع کریام میں یہ سوانح اخویم چوہدری احمد دین صاحب بی اے خلف حضرت حاجی غلام احمد صاحب کی توجہ سے مکرم چوہدری مہر خاں صاحب ( صحابی ) سکنہ کر یام حال صدر جماعت چک ۰۹ اگ.بضلع لائلپور سے حاصل ہوئے ہیں دیکھئے تجرہ حالات حاجی صاحب.

Page 163

141 فن ہوئے.اَللَّهُمَّ اغْفِرْلَهُ وَارْحَمْهُ....آمین.چوہدری عبد الغنی صاحب :.محترم چوہدری عبدالغنی صاحب ولد محترم چوہدری مولا بخش صاحب صحابی کے ہاں محترمہ حشمت بیگم ہمشیرہ حضرت حاجی غلام احمد خانصاحب کے بطن سے بمقام کر یام ۱۸۹۵ء میں پیدا ہوئے.آپ کی والدہ انداز ۱۹۰۲ء میں وفات پا چکی تھیں.جبکہ آپ چھ سات سال کے تھے اگلے سال والد صاحب نے بیعت کی تو آپ کا نام بھی بیعت کے لئے بھیجا گیا.آپ کو باوجود صغر سنی کے حضرت اقدس کی ایک دو بار زیارت قادیان آکر کرنے کا موقع ملا.پرائمری تک مقامی مدرسہ میں اور مڈل تک نواں شہر کے ور ٹینکر مڈل سکول میں آپ نے تعلیم پائی.ان (الف) حاجی صاحب کے شجرہ میں چوہدری مولا بخش صاحب کا بھی ذکر ہے.(ب) البدر بابت ۴ ستمبر ۱۹۰۳ء میں فہرست مبایعین میں کریام کے ”مولا بخش “عبدالغنی اور والدہ صاحبہ مولا بخش کے اسماء مرقوم ہیں (صفحہ ۲۶۴) خاکسار کے استفسار پر چوہدری مہر خانصاحب تحریر فرماتے ہیں کہ کریام میں دو مولا بخش تھے دونوں صحابی تھے.چونکہ یہاں ولدیت نہیں لکھی لہذا معلوم نہیں کہ کونسا مولا بخش مراد ہے.ایک مولا بخش ولد امام بخش تھے جن کا نام شجرہ حاجی غلام احمد صاحب میں آچکا ہے.جو صحابی تھے.دوسرے مولا بخش ولد گلاب خاں بھی صحابی تھے ان کی وفات ۳ مئی ۱۹۳۶ء کو ہوئی.“ خاکسار مئولف عرض کرتا ہے کہ چوہدری مہر خانصاحب کو چونکہ معلوم نہیں کہ دیگر کون سے اسماء قریب میں متصل درج ہیں اس لئے انہوں نے اس پر شک کا اظہار کیا ہے.ورنہ چونکہ مولا بخش کے ساتھ ان کے لڑکے عبدالغنی اور والدہ مولا بخش کا بھی ذکر ہے اس لئے تعین ہو جاتی ہے کہ مولا بخش ولد امام بخش ہی مراد ہیں.اس کی مزید تائید اس سے بھی ہو جاتی ہے کہ چوہدری مہر خان صاحب بھی عبدالغنی سے ان کا لڑکا اور والدہ مولا بخش سے کریم بی بی والدہ مولا بخش ولد امام بخش ہی مراد لیتے ہیں اور موصوفہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ انہوں نے حضور کی بیعت کی.لیکن یہ صحیح یاد نہیں ہے کہ حضور کی زیارت بھی کی ہے یا نہیں.اور یہ کہ سن وفات کیا ہے.نیز خاکسار مئولف کے نزدیک مولا بخش ولد گلاب خاں کا ذکر قریباً ایک ماہ بعد کے بیعت کنندگان میں البدر بابت ۱۹اکتو بر ۱۹۰۳ء میں آتا ہے.الفاظ یہ ہیں ” مولا بخش صاحب کر یام اور ا سکے متصل اہلیہ مولا بخش صاحب ( سکنہ کریام) بھی درج ہے.(ص۳۰۴) آپ کے حالات بھی معرفت اخویم چوہدری احمد دین صاحب بی اے مکرم چوہدری مہر خان صاحب ( صحابی ) موصوف سے حاصل ہوئے ہیں خاکسار نے چوہدری عبد الغنی صاحب کو دیکھا ہوا ہے.

Page 164

142 دنوں قادیان میں ٹریننگ کلاس کھلی تھی.چنانچہ آپ نے قادیان میں ہے.وی کی ٹرینگ اعلیٰ نمبروں پر حاصل کی ان دنوں جنگ عظیم نمبر 1 جاری تھی آپ بھی رسالہ فوج میں بھرتی ہو گئے.چند سال کی ملازمت کے بعد ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جانے کے باعث آپ کو ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا.خدمت مدرسہ احمدیہ :.بعد ازاں آپ کے ٹرینڈ استاد ہونے کی وجہ سے مینجر مدرسہ احمدیہ کر یام حضرت حاجی غلام احمد صاحب نے آپ کو مدرسہ میں تعین کر دیا.پہلے یہ مدرسہ مسجد احمد یہ میں ۱۹۱۶ء میں جاری کیا گیا تھا آپ نے کچھ عرصہ اس کے انچارج ماسٹر بہادر جنگ صاحب کے ساتھ کام کیا.اور پھر بطور انچارج تھیں سال تقسیم ملک تک نہایت ہی خوش اسلوبی سے کام سرانجام دیا.اور طلباء کی تعلیم وتربیت میں خوب کوشاں رہے.پھر یہ مدرسہ باہر ایک علیحدہ عمارت میں منتقل کر دیا گیا تھا.آپ مدرسہ کے وقت کے علاوہ طلباء کو ظہر وعصر کے لئے مسجد میں لاتے.نماز فجر کے بعد مسجد میں طلباء کو قاعدہ میسر نا القرآن اور قرآن مجید پڑھاتے اس تمہیں سالہ عرصہ میں کئی بارسرکاری گرانٹ بند رہی.چنانچہ دوسری جنگ عظیم پر تو مدت تک بند رہی لیکن آپ نے ہمیشہ صبر وقتل اور توکل سے کام لے کر مدرسہ کا کام جاری رکھا اور اس میں فرق نہیں آنے دیا.جبکہ دیگر نائب مدرسین اس بے اطمینانی کی صورت کے باعث مدرسہ چھوڑ کر بھاگ گئے.گو آپ کے ماموں حضرت حاجی صاحب اس عرصہ میں آپ کو مشاہرہ دے دیتے تھے.لیکن آپ نے کبھی بھی اس کا مطالبہ نہیں کیا تھا.خدمات جماعت مقامی :.آپ مقامی جماعت کے سیکرٹری مال تھے.اور اس کام کو آپ نے ایسی خوش اسلوبی سے انجام دیا کہ نظارت بیت المال نے اس جماعت کی سو فیصد وصولی اور چوہدری صاحب کی اعلیٰ کار کردگی کا متعدد بار اعتراف کیا.جولائی ۱۹۴۳ء میں حضرت حاجی صاحب کی وفات پر آپ ہی مقامی جماعت کے روح رواں بن گئے.آپ امام الصلواۃ کے فرائض بھی ادا کرتے اور جلسوں اور دیگر تقاریب کا انتظام اور مرکزی احکام کی تعمیل و تکمیل اور جماعت کی تنظیم آپ ہی کرتے تھے.۱۹۴۴ء میں ضلعدار نظام کے قیام پر ضلع جالندھر کا ہیڈ کوارٹر موضع کر یام ہی مقرر ہوا.وہاں سے نوعمری میں بھاگنے اور سید نا حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالی کی دعاؤں اور نیک مشورہ سے اس کی پاداش سے محفوظ رہنے کا ذکر حاجی صاحب کے حالات میں تفصیلاً دیا گیا ہے.

Page 165

143 امیر ضلع محترم چوہدری عبدالمجید صاحب سکنہ قصبہ را ہوں اور جنرل سیکرٹری با تفاق رائے آپ منتخب ہوئے.اور آپ نے تقسیم ملک تک اس فرض کو بھی پوری طرح نباہا.ازدواجی زندگی -:- آپ کی شادی محترمہ الفت بیگم صاحبه دختر مرحوم چوہدری نور احمد صاحب (سکنه :.سروعد ) پیشنر کارکن صدرانجمن احمد یہ حال مقیم ملتان شہر سے ہوئی تھی جن کے بطن سے آپ کا ایک بیٹا عبد الغنی ہے (دیکھئے شجرہ بحالات حضرت حاجی صاحب) دینی حالت :.آپ نماز روزہ کے سختی سے پابند اور تہجد گزار تھے.کثرت سے درود شریف پڑھتے.قرآن مجید اور کتب حضرت مسیح موعود با قاعدگی سے پڑھتے اور ان کا درس دیتے.آپ کو بکثرت رؤیا وکشوف ہوتے جو بعینہ پورے ہو جاتے.خاندان حضرت مسیح موعود اور بزرگان سلسلہ کا بہت احترم کرتے اور ان کی خدمت بجالا نا فرض سمجھتے تقسیم ملک کے بعد ہجرت کر کے آپ چک ۱۰۹ گ.ب نرائن گڑھ تحصیل جڑانوالہ (ضلع لائلپور ) میں آباد ہوئے.یہاں بھی آپ امام الصلوۃ ہونے کے علاوہ سیکرٹری مال کے طور پر کام کرتے تھے اور ساتھ کے چک ۱۰۸ میں وفات تک برانچ پوسٹ ماسٹر کے طور پر کام کرتے رہے.بعد ہجرت آپ کو مالی تنگی اور بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ کے اقارب نے ان کی محبت کی وجہ سے ان کی وصیت (۳۷۸۰) کا بقایا صدستائیس ان کی وفات کے بعد ادا کر دیا.جون ۱۹۵۵ء میں میوہسپتال میں پتھری کا اپریشن ہوا.دوبارہ مثانہ میں پتھری ہوگئی.لیکن گنگا رام ہسپتال میں دوران عمل جراحی میں آپ کی طبیعت خراب ہو گئی اور چند گھنٹے میں آپ ۸ جنوری ۱۹۵۹ء کو صبح چھ بجے جاں بحق ہو گئے.اور اگلے روز چک ۰۹اگ.ب میں ہی آپ کو دفن کر دیا گیا.اللَّهُمَّ اغْفِرْلَهُ وَاَرحَمُهُ.آمین بطور جنرل سیکرٹری آپ کی دو تبلیغی رپورٹیں الفضل بابت ۴۷/ ۳۰/۷( صفحہ۵ ) و ۴۷/ ۱۱/۸( صفحہ ۶ ) میں درج ہیں.

Page 166

144 صحابہ کرام سکنه موضع کریاتم (ضلع جالندھر) ذیل میں جو متواتر صحابہ کرام ساکنان موضع کر یام (ضلع جالندھر ) کے سوانح درج کئے ہیں یہ سب مواد خاکسار کی تحریک پر خویم چوہدری احمد دین صاحب بی.اے مقیم لائل پور شہر ( خلف حضرت حاجی غلام احمد صاحب ساکن کریام ) نے کریام کے سابق ساکنین محترم چوہدری مہر خاں صاحب (صحابی ) حال صدر جماعت چک ۱۰۹ ت.ب تحصیل و ضلع لائل پور.چوہدری عبد الرحمن خانصاحب ( صحابی ) ولد چوہدری مولا بخش صاحب اور چوہدری غلام حسن صاحب ولد چوہدری حاکم خانصاحب ( ہر دو مئوخر الذکر حال مقیم چک نمبر ۸۸ ج.تحصیل وضلع لائل پور ) سے ماہ اکتوبر ۱۹۶۱ء میں جمع کئے ہیں.سوائے اس کے کہ کسی کے حالات میں کچھ اور ذکر کیا گیا ہو پھر بھی تصدیق انہیں تین صاحبان کی مشترکہ طور پر حاصل ہوئی ہے اور خاکسار نے حوالہ جات سے تکمیل کی ہے.چوہدری احمد دین صاحب نے نہایت ہی مستعدی سے حالات فراہم کئے ہیں کاش دیگر دوست بھی اسی طرح توجہ کریں.بلا مبالغہ بہت سے افراد سے ہیں بیس سال سے میں حالات طلب کر رہا ہوں لیکن وہ اپنے بزرگوں کے حالات مہیا کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتے میں چوہدری صاحب کا بے حد ممنون ہوں.اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزا دے.آمین.موضع کریام کے جن صحابہ کے سوانح اس جلد سے رہ گئے ہیں وہ کسی دوسری جلد میں درج کر دئیے جائیں گے ساتھ ہی ان احباب کی فہرست بھی شائع کر دی جائے گی.جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں بیعت کی لیکن ان کو زیارت کا موقع نہیں ملا.یا زیارت کرنے کا یقینی طور پر علم نہیں ہوتا.انشاء اللہ تعالیٰ.جلد ہذا میں موضع کر یام کے کل انتالیس صحابہ اور ضمناً ایک کثیر تعداد غیر صحابہ کے حالات درج کئے جارہے ہیں.ضروری نوٹ :.ان صحابہ کے تعلق میں البدر ۱۰/۰۳/ ۹ ( صفحہ ۳۰۴) ۲۳/۱۰/۰۳۰ ( صفحه ۳۲۰) مندرجه فہرست ہائے بیعت کا حوالہ بار بار دیا جائے گا کہ ان میں سے فلاں فلاں کی بیعت وہاں شائع ہو چکی ہے.لیکن میں یکجائی طور پر یہاں یہ امر قارئین کرام کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ مجھے موضع کر یام کے ان بیعت کنندگان کی بیعت بذریعہ خط معلوم ہوتی ہے.نہ صرف یہ کہ مقدم الذکر فہرست کے انیس افراد میں چھ خواتین اور موخر الذکر فہرست کے بتیس افراد میں سے بارہ خواتین ہیں.اور کسی مطبوعہ یا غیر مطبوعہ روایت میں میرے علم میں یہ نہیں آیا

Page 167

145 کہ موضع کریام کے اتنے کثیر افراد بیک وقت قادیان آئے ہوں.خصوصاً یہ بھی قابل فہم معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ سفر کی سہولتیں موجود نہ تھیں اور اتنی اتنی خواتین ساتھ ہوں.دوسرے یہ کہ ۱۰/۰۳/ ۹ کو یا اس کے قریب اس چھوٹے سے گاؤں سے انیس افراد آئے ہوں.اور چودہ دن کے تھوڑے سے عرصہ کے بعد وہاں سے تمہیں افراد آئے ہوں.تیسرے یہ کہ جلسہ سالانہ کے یا اور کسی قسم کے اجتماع کے مواقع بھی نہ تھے علاوہ ازیں ان میں سے جو افرا دزندہ ہیں وہ بھی اس کی شہادت دیتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ ہم نے یا ہمارے اقارب و بزرگان نے حضرت مسیح موعود کی زیارت کا موقع نہیں پایا.بلکہ بذریعہ خط بیعت کی تھی چوتھی شہادت آخر پر مذکور ہوگی.تیسری قسم کی شہادت کی تفصیل درج ذیل ہے:.فہرست اول (۲۱) چوہدری حسن محمد صاحب ولد نتھو خاں اس وقت چک ۸۸ ج.ب (تحصیل وضلع لائلپور ) میں زندہ ہیں.اور ان سمیت نو اقارب کی بیعت اس فہرست میں درج ہے ان کا بیان ہے کہ میری اور میری والدہ صاحبہ کی بیعت تحریری تھی اور اس فہرست میں سے اپنے تایا زاد بھائی چوہدری غلام جیلانی صاحب کے متعلق بھی بتاتے ہیں کہ انہوں نے تحریری بیعت کی تھی.(۳) چوہدری چراغ محمد صاحب اور ان کے والد عمر بخش نمبردار کے بھائی گل محمد ، اہلیہ گل محمد، ہمشیرگان جنت بی بی اور صاحب نساء گویا چھ افراد کی بیعت اس فہرست میں درج ہے.چوہدری چراغ محمد صاحب زندہ ہیں اور وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود کی زیارت نہیں کی انکی ولادت ۱۸۹۵ء کی تھی گویا ۱۹۰۳ء میں بوقت بیعت آٹھ نو سال کی عمر تھی.(۵۴) چوہدری عبدالرحمن صاحب ولد چوہدری مولا بخش صاحب ( صحابی ) سمیت آٹھ افراد خاندان یعنی والدین.چچا.چچا زاد بھائی.بھائی اور ہمشیرہ کے اسماء اس فہرست بیعت میں موجود ہیں.چوہدری عبدالرحمن صاحب چک ۸۸ جب تحصیل لائکپور میں زندہ ہیں ، بیان کرتے ہیں کہ یہ بیعت بذریعہ خط تھی.ان کے بھائی چوہدری عبداللہ صاحب بھی زندہ ہیں ان کا بھی یہی بیان ہے.فہرست دوم :.اس میں چوہدری غلام حسن صاحب کے والد چوہدری حاکم خانصاحب اور دادا ( چوہدری بڑھے خانصاحب ) اور دادی کی بیعت بھی اس فہرست میں درج ہے چوہدری غلام حسن صاحب زندہ ہیں اور ان کا بیان ہے کہ یہ بیعت بذریعہ خط ہوئی تھی.اور دادی صاحبہ کو حضرت مسیح موعود کی زیارت کا موقع

Page 168

146 نہیں ملا.علاوہ ازیں ہر دو فہرستوں میں سے بڑی عمر کے بہت سے احباب کے متعلق حالات بتانے والے یقینی طور پر بتاتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کی زیارت نہیں کی.چوتھی شہادت :.بعض کی بیعت دوبارہ بھی شائع ہوئی.بعض اوقات سہوا بھی دوبارہ شائع ہوسکتی ہے لیکن یہ قاعدہ کلیہ نہیں سمجھا جاسکتا.اس لئے دوبارہ بیعت شائع ہونے کی صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ پہلی بار کی بیعت بذریعہ خط تھی.دوسری بار دستی کرنے کی وجہ سے شائع ہوئی.عقل اسے باور نہیں کرتی کہ پہلی بار تو دستی بیعت کی.لیکن دوسری بار بذریعہ خط بیعت کی.کیونکہ پھر بذریعہ خط بیعت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.چنانچہ میاں احمد علی صاحب مندرجہ البدر ۲۳/۱۰/۰۳ کے متعلق حالات بتانے والے دوست بتاتے ہیں کہ یہ چوہدری نجابت علی خانصاحب کے بیٹے ہیں.اور ان کی بیعت بالفاظ احمد علی صاحب ولد نجابت علی صاحب‘ الحکم ۲۴/۸/۰۵ میں بھی درج ہے.(صفحہ ۲ کالم ۴) جس سے پہلی فہرست بیعت بذریعہ خط قرار پاتی ہے.(ان کے دونوں بھائی اور دونوں والدہ چودہ دن پہلے بیعت کر چکے تھے.(دیکھئے البدر ۱۰/۰۳/ ۹ صفحه ۳۰۴)

Page 169

147 رض چوہدری برکت علی صاحب چوہدری نعمت خانصاحب ( برادر ) * والدین : محترم چوہدری برکت علی صاحب و محترم چوہدری نعمت خانصاحب اور ان کے کئی اقارب اور والد صاحب چوہدری دارے خاں صاحب قوم راجپوت سکنہ موضع کر یام اور والدہ صاحبہ زینب بیگم صاحبہ قوم راجپوت نے ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود کی بیعت کی.والدین کے متعلق یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہوں نے حضور کی زیارت کی تھی یا نہیں.ہر دو نے بحالت ایمان وفات پائی والد محترم نے ۱۱.۱۹۱۰ ء میں اور والدہ محترمہ نے ۱۹۲۷ء میں.مرحومہ بہت نیک بخت خاتون تھیں.اور خدمت خلق کا بے پناہ جذبہ رکھتی تھیں.شجرہ نسب ذیل میں درج کیا جاتا ہے.بہاول خاں دارے خاں (۱) نتھو خاں(۷) برکت علی مرحوم (۴) نعمت خاں مرحوم عبدالعزیز محمد جان بیگم مرحومه (۲) عطا محمد مرحوم (۵) غلام جیلانی (۶) ( صحابی) (صحابی) امتدال (اہلیہ عبد الحق x) (اہلیہ حضرت حاجی غلام احمد صاحب) نواب بیگم (۳) اہلیہ محمد نواز سکنہ کا ٹھ گڑھ مرحوم نذیر احمد (لیس نائک عبدالحق لاولد ) مرحوم طفیل محمد عبد اللطیف عبد الستار عبدالمجید حسن محمد (۸) مرحوم مرحوم امت ال (۹) اہلیہ برکت علی حلوارہ ضلع لدھیانہ جو غیر احمدی تھے ) شجرہ میں جن نو افراد پر نمبر شمار لگایا ہے.ان نو نے نیز اہلیہ چوہدری دارے خاں اور اہلیہ تقو خاں نے حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں بیعت کی تھی جس کا اندراج ذیل کے الفاظ میں مسلسل طور پر البدرمورخہ ۱۹اکتو بر ۱۹۰۳ء بقیہ اگلے صفحہ پر

Page 170

148 چوہدری برکت علی صاحب:.چوہدری برکت علی صاحب کو حضرت مسیح موعود کی زیارت کی توفیق بھی ملی بہت نیک خصلت اور خدا ترس انسان تھے.۱۹۳۷ء میں وفات پا کر موضع کریام میں دفن ہوئے.اللَّهُمَّ اغْفِرُ لَهُ وَارُحَمُهُ.آمين.چوہدری نعمت خانصاحب ولادت تعلیم.ذریعہ معاش :.محترم چوہدری نعمت خانصاحب ۱۸۸۶ ء میں بموضع کر یام پیدا ہوئے.آپ نے مڈل تک تعلیم پائی لیکن عربی زبان سے خاص لگاؤ تھا.بقیہ حاشیہ:.میں صفحہ ۳۰۴ پر موجود ہے:.دارے خاں صاحب، اہلیہ دارے خانصاحب، مسماۃ محمد جان صاحبہ، نواب بیگم صاحبہ، برکت علی صاحب.عطا محمد صاحب، غلام جیلانی صاحب ، نتھو خانصاحب حسن محمد صاحب، اہلیہ تقو خانصاحب ہمسماۃ امت ال.ان افراد کے مختصر حالات ذیل میں درج ہیں.( یہ یادر ہے کہ البدر والی بیعت بذریعہ خط تھی.جیسا کہ صحابہ کرام سکنہ موضع کریام“ کے عنوان کے تحت تفصیل دی گئی ہے:.(۲۱) دارے خانصاحب اور ان کی اہلیہ صاحبہ کا ذکر اوپر ہو چکا ہے.محمد جان بیگم صاحبہ کا ذکر ان کے خاوند حضرت حاجی غلام احمد صاحب سکنہ کریام کے حالات میں کیا گیا ہے.(۳) نواب بیگم صاحبہ.آپ موضوع کا ٹھ گڑھ میں مسمی محمد نواز خاں سے بیاہی گئیں.اور چارلڑ کے پیدا ہوئے.۱۹۳۶ ء میں بعمر ۴۵ سال وفات پائی.اور کا ٹھ گڑھ میں مدفون ہوئیں.(۴) چوہدری برکت صاحب (صحابی کے حالات متن میں درج ہیں ) (۵) چوہدری عطا محمد صاحب ( وفات ۱۹۱۱ء بحالت ایمان ) حضرت مسیح موعود کی زیارت کرنے کا علم نہیں.آپ اس چھوٹی سی عمر میں بہت نیک اعمال بجالائے جوانی کے عالم میں بعمر ہیں سال وفات پائی نماز روزہ کے بہت سختی سے پابند تھے.خدا ترس اور پرہیز گار تھے.تقویٰ کے باعث اس قدر محتاط تھے کہ کسی کے گھر کی پکی ہوئی سبزی نہ کھاتے مبادا وہ کسی غیر کے کھیت سے بلا اجازت تو ڑ لایا ہو.کیونکہ دیہات میں احتیاط نہیں کی جاتی اور اسے ناجائز نہیں سمجھا جاتا.(1) چوہدری غلام جیلانی صاحب.حضرت مسیح موعود کی زیارت نہیں کر سکے ۱۹۱۳ء میں کو ٹھے سے گر کر عمر چھپیں سال وفات پائی.آخر وقت تک احمدیت سے وابستہ رہے.(۸۷) چوہدری حسن محمد صاحب مقیم چک ۸۸ ج ب تحصیل و ضلع لائلپور ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے اور میری والدہ رحمی صاحبہ نے تحریری بیعت کی تھی.حضرت مسیح موعود کی زیارت نہیں کی والد صاحب چوہدری نتھو خان صاحب کے متعلق یقینی طور پر معلوم نہیں کہ حضور کی زیارت کی تھی یا نہیں.بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر :-

Page 171

149 چنانچہ ڈسٹرکٹ بورڈ مڈل سکول بمقام نواں شہر اور نورمحل آپ بطور عربی مدرس کے کچھ عرصہ ملازم رہے.جس کے بعد آپ نے زمینداری کے علاوہ گاؤں میں ہی کریانہ کی دکان کھول لی.جس سے مالی حالت مستحکم ہو گئی.کاروبار میں آپ دیانتداری کا دامن تھامے رکھتے تھے.خانگی زندگی :.آپ.آپ کی شادی محترمہ محمد جان بیگم صاحبہ دختر چو ہدری غلام احمد صاحب غیر احمدی سکنہ کا ٹھ گڑھ سے ہوئی.آپ کی اولا د صرف ایک بچی تھی جس کی شادی آپ نے اپنے بھتیجے چو ہدری عبدالحق صاحب سے کر دی تھی لیکن فروری ۱۹۴۳ء میں وہ وفات پاگئیں اور اگلے روز چوہدری نعمت خاں صاحب کی اہلیہ بھی جو کچھ عرصہ سے بیمار چلی آرہی تھیں، انتقال فرما گئیں.ان کی وفات کچھ صدمے اور کچھ بیماری کی وجہ سے واقعہ ہوئی.قبول احمدیت و خدمت سلسلہ :.آپ نے ۱۹۰۳ ء میں حضرت مسیح موعود کی بیعت پہلے خط کے ذریعہ اور پھر قادیان آکر دستی کی.بعد ازاں کئی بار آپ کو قادیان آ کر حضور کی زیارت کرنے اور صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا.آپ ذکر کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں لنگر خانہ سے نماز سے قبل ہی مسجد مبارک میں چلا گیا.ابھی میں چند منٹ ہی بیٹھا تھا کہ حضور کھڑکی سے مسجد میں تشریف لے آئے.میں نے مصافحہ کیا اور حضور سے باتیں کیں.آپ تقسیم ملک تک جماعت کے سیکرٹری تعلیم و تربیت رہے.آپ بچوں کو قاعدہ اور قرآن مجید پڑھاتے.اور سورتیں یاد کراتے.تقسیم ملک کے بعد ہجرت کر کے آپ چک ۰۹اگ.تحصیل جڑانوالہ میں آباد ہو گئے تھے.آپ یہاں بھی جماعتی امور میں پورے انہماک سے توجہ دیتے.اور آپ یہاں بھی سیکرٹری تعلیم و تربیت اور اصلاح وارشاد کے طور پر کام کرتے رہے.دیگر حالات و اخلاق:.آپ کی ہمشیرہ محترمہ محمد جان صا حبہ کی شادی بالآخر حضرت حاجی غلام احمد صاحب سکنہ کر یام کے ساتھ ہو گئی تھی.اس کی تفصیل حاجی صاحب کے حالات میں درج ہے.آپ ہی کی ثابت قدمی کا یہ نتیجہ تھا کہ یہ رشتہ ہوا اور حد درجہ با برکت ثابت ہوا.بعد ہجرت چک ۱۰۹ میں دکانداری ویسی کامیاب ثابت نہ ہوئی.لیکن ۵۴-۱۹۵۳ء میں کچھ اراضی بقیہ حاشیہ :.(۹) مسماۃ امت ال.خاوند غیر احمدی تھا.افسوس کہ اس وجہ سے ان کا تعلق احمدیت سے قائم نہیں رہ سکا.ان کی بیعت البدر میں درج ہے.(صفحہ ۲۲۴)

Page 172

150 بمقام احمد نگر نزد ربوہ آپ نے حاصل کی.چنانچہ بعد ازاں آپ اکثر وہیں قیام کرتے اور جمعہ وغیرہ کے لئے ربوہ میں بکثرت جانے کا موقع پاتے.آپ نماز روزہ کے پوری طرح پابند تہجد گزار تھے بلکہ اشراق اور چاشت کی نمازیں بھی پڑھتے اور کثرت سے دعائیں کرتے تھے.آپ موصی تھے اور چندہ تحریک جدید بھی ادا کرتے تھے آپکے بھائی آپ کے مشورہ پر عمل کرتے تھے.انتقال :.احمد نگر میں آپ پر نمونیہ کا حملہ ہوا اور آنافا نام نومبر ۱۹۵۶ء کو آپ انتقال فرما گئے.اور اگلے روز بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.

Page 173

151 چوہدری بڑھے خاں صاحب چوہدری حاکم خاں صاحب (پسر) چوہدری ولی محمد صاحب (برادرزاده) چوہدری گل محمد صاحب ( بر اور زادہ ) رض چوہدری بڑھے خاں صاحب :.محترم چوہدری بڑھے خانصاحب قوم راجپوت سکنہ موضع کر یام (ضلع جالندھر ) نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی.اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا.ایک دفعہ آپ پر سکتہ طاری ہوگیا اور سمجھا گیا کہ آپ وفات پاگئے ہیں قبر تیار کی گئی.یغسل دیا جار ہا تھا کہ آپ اُٹھ بیٹھے اور پوچھنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو.اور کہا کہ میں ابھی ابھی جنت سے آیا ہوں.وہاں بہت میوے دیکھے ہیں.* ۱۹۲۵ء میں آپ نے سوا سو سال کی عمر میں بحالت ایمان وفات پائی.آپ بہت عبادت گزار تھے.تہجد گزار تھے.اور نوافل ادا کرتے تھے.اور شریعت کی پابندی کرتے تھے.جو جدید گویا اللہ تعالیٰ نے جنت کی بشارت سے ان کو نو از اجو ان کے حسن خاتمہ پر دلالت کرتی ہے.مئولف.بودے خاں.اہلیہ بودے خان حاکم خان سکنہ کر یام کی بیعت البدر بابت ۲۳/۱۰/۰۳ میں درج ہے (صفحہ ۳۲۰) حالات لکھنے والے دوست بیان کرتے ہیں کہ موضع کر یام بودے خاں‘نام کا کوئی شخص نہ تھا بڑھے خاں کو بودے خاں درج کیا گیا ہے.اور یہ بات درست نظر آتی ہے ان کے پوتے چوھدری غلام حسن صاحب یہی امربیان کرتے ہیں.اس قرینہ سے بھی یہ درست معلوم ہوتا ہے کہ ان کے والد حاکم خاں کا اپنے والدین کے معابعد نام بیعت میں درج ہے.اس مقام پر اس موضع کے انہیں افراد بشمول چھ خواتین کی بیعت درج ہے.یہ بیعت بذریعہ خط معلوم ہوتی ہے چنانچہ ان بیعت کنندگان میں سے چوہدری نذیر احمد صاحب ولد چوہدری مراد بخش صاحب زندہ ہیں اور وہ اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ بیعت بذریعہ خط تھی اور والد صاحب نے میرا نام بھی اس میں درج کرا دیا تھا.بقیہ حاشیہ اگلے پر

Page 174

152 چوہدری کرم بخش صاحب:.محترم چوہدری کرم بخش صاحب (برادر چوہدری بڑھے خانصاحب جن کے حالات اس سے پہلے درج ہیں ) نے بھی ۱۹۲۳ء یا ۱۹۲۴ء میں بحالت ایمان بعمر ۷۰ سال وفات پائی.آپ کی اہلیہ صاحبہ کا نام معلوم نہیں.بقیہ حاشیہ صفحہ سابقہ :.اور چوہدری غلام حسن صاحب ولد چوہدری حاکم خاں ولد چوہدری بڑھے خانصاحب بھی جو کہ زندہ ہیں بیان کرتے ہیں کہ یہ بیعت بذریعہ خط ہوئی تھی اور میری دادی صاحبہ نے ۱۹۰۵ ء میں وفات پائی ان کو حضرت مسیح موعود کی زیارت کا موقع نہیں ملا.چوہدری غلام حسن صاحب موصوف (ریٹائر ڈ دفعدار ) ایک برد بار طبع.نیک سیرت اور دنیوی امور میں سمجھدار اور احکام شریعت کے پابند دوست ہیں.بیان کرتے ہیں کہ میری بیعت کا خط بھی والد صاحب نے لکھایا تھا.لیکن مجھے حضرت مسیح موعود کی زیارت کا موقع نہیں ملا.میری ولادت ۱۸۹۶ء کی ہے.شجره سلطان خاں عمر بخش نمبر دار بڑھے خاں مرحوم (صحابی) کرم بخش (صحابی) حاکم خان مرحوم لیمن x برکت بی بی ولی محمد (صحابی x) (صحابی) غلام حسن ( مقیم چک ۸۸ج ب تحصیل لائکپور ) اہلیہ ولی محمد ) اہلیہ گل محمد ) غلام محمد محمد طفیل عبد القيوم گل محمد نمبر دار چراغ محمد بی صاحبہ بنو (صحابی) جنت بی بی صاحب نساء اہلیہ علی گوہر صحابی اہلیہ حاکم خان اہلیہ عبدالرحمن خاں (اہلیہ امید علی خاں) (البطن برکت بی بی ) ار بطن حمیده رحمت بی بی ولد گلاب خاں) (صحابی x) (صحابی) ولد مولا بخش ( صحابی) اہلیہ عبد اللہ خاں) فیض محمد بشری

Page 175

153 ☆ چوہدری ولی محمد صاحب :.آپ کے فرزند محترم چوہدری ولی محمد صاحب نے بھی ۱۹۰۳ء میں بیعت کی توفیق پائی.اور بعد ازاں حضرت مسیح موعود کی زیارت بھی نصیب ہوئی تقسیم ملک کے موقع پر قافلہ کے ہمراہ اکتوبر ۱۹۴۷ء میں بطرف پاکستان ہجرت کرتے ہوئے راستہ میں ہی بعمر ستر سال بحالت ایمان جاں بحق ہوئے آپ کی اہلیہ کا نام حکیمن تھا.چوہدری گل محمد صاحب :.محترم چوہدری گل محمد صاحب ولد چوہدری عمر بخش صاحب نمبر دار قوم راجپوت سکنہ موضع کریام ( جالندھر) اپنے والد کے بعد نمبر دار بنے.آپ نے۱۹۰۳ء میں بیعت کی.اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کا موقعہ پایا.بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہم نے حضور کے ہمراہ کھانا کھایا.دینداری کا جذ بہ آپ میں نمایاں تھا.اور دنیوی امور سے بھی خوب واقفیت رکھتے تھے.آپ نے بعمر ۶۵ سال ۱۹۴۹ء میں بحالت ایمان وفات پائی.آپ کی تصویر موجود نہیں ہے.البدر مورخه ۲۳/۱۰/۰۳ ( صفحه ۳۲۰) کی فہرست بیعت میں میاں ولی محمد صاحب آپ کا نام موجود ہے کیونکہ یہ بیعت بذریعہ خط معلوم ہوتی ہے.زیر عنوان ” صحابہ کرام موضع کر یام میں ملاحظہ فرمائیے.آپ کے والد محترم اور اہلیہ محترمہ برکت بی بی نے بھی اسی سال بیعت کی تھی لیکن آیا حضور کی زیارت کا ان کو موقع ملایا نہیں.یہ امر قابل تحقیق ہے.گل محمد صاحب، اہلیہ گل محمد صاحب، عمر بخش نمبر دار چراغ محمد ، جنت بی بی صاحب نساء کے اسماء فہرست بیعت مندرجہ البدر بابت ۱۰/۰۳/ ۹ میں موجود ہیں (صفحہ ۳۰۴) اس کی مزید تصدیق ان میں سے بعض کے بیانات سے یقینی طور پر ہو جاتی ہے کہ یہ بیعت بذریعہ خط تھی اس کی کچھ تفصیل زیر عنوان صحابہ کرام سکنہ موضع کریام دیکھیں) ان میں سے چراغ محمد زندہ ہیں اور بتاتے ہیں کہ مجھے حضرت مسیح موعود کی زیارت کا موقع نہیں ملا.اور میری ولادت ۱۸۹۵ء کی ہے.والد صاحب نے اپنے نام کے ساتھ میرا نام بھی بیعت کے لئے لکھوایا ہوگا.جنت بی بی نے ۱۱/۴۸/ ۸ کو بعمر ۴۸ سال بمقام لاہور وفات پائی گویا ۱۹۰۳ء میں بوقت بیعت وہ بمشکل تین سال کی ہونگی انہوں نے بھی حضور کی زیارت نہیں کی تھی.بیعت کرتے ہوئے والد نے ان کا نام بھی لکھوایا ہوگا.صاحب نساء کا ذکر اسی جلد میں بحالات چوہدری گا ہے خاں دوسری جگہ کیا گیا ہے.

Page 176

154 چوہدری برکت علی صاحب چوہدری طفیل محمد صاحب (پسر) چوہدری محمد علی صاحب (پسر) چوہدری برکت علی صاحب : محترم چوہدری برکت علی صاحب ولد چوہدری محمد بخش صاحب قوم راجپوت سکنہ موضع کریام نے ۱۹۰۴ء یا ۱۹۰۵ء میں احمدیت قبول کی.اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کی بھی توفیق پائی.آپ جمعیت سید بدرالدین صاحب قادیان گئے تھے اور تقریباً ایک ماہ تک قادیان میں قیام کیا تھا.حضور بڑی محبت فرماتے تھے.اور اپنے نتھیال جو کہ موضع ایمہ ضلع ہوشیار پور میں تھے.ان کے حالات دریافت فرمایا کرتے تھے.آپ آخر وقت تک احمدیت سے وابستہ رہے.۱۹۱۸ء میں وفات پائی.آپ کے دونوں بیٹے جن کا آگے ذکر آتا ہے صحابی تھے.اور حضرت حاجی غلام احمد صاحب سکنہ کر یام کے بہنوئی بھی تھے.چوہدری طفیل محمد صاحب : - محترم چوہدری طفیل محمد صاحب ولد چوہدری برکت علی صاحب نے بھی ۱۹۰۳ء میں ہی بیعت کی تھی.اور آپ اور آپ کے بھائی محمد علی صاحب نے ۱۹۰۴ ء یا ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود کی قادیان میں زیارت کی اور دستی بیعت بھی کی.ا سید بدرالدین مذکور کی بیعت البدر مورخہ ۲۳ اکتو بر ۱۹۰۳ء میں درج ہے ( صفحہ ۳۲۰) ولدیت کا علم نہیں.کریام کے اصل باشندے نہیں تھے بلکہ باہر کے تھے.محض احمدیت کی وجہ سے انہوں نے جماعت کریام میں شامل ہو کر وہاں رہائش اختیار کر لی تھی.چابک سوار تھے.۱۹۰۳ء میں بیعت کی تھی.حضور کی زیارت کی اور جتنا عرصہ قادیان میں قیام کیا حضور کی ایک بچھری کو پھیرا کرتے تھے اور اسی اثناء میں حضور کی ایک بھینس کو دندی کا مرض ہو گیا.جس کا علاج بھی انہوں نے کیا.افسوس کہ آخری عمر میں ۱۹۳۴ء میں احرار کی یورش کے دوران مخالفین نے انکو پھسلایا اور وہ ایمان پر قائم نہ رہے.اور اسی دوران میں وفات پائی.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْهَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.آمین - شجرہ اگلے صفحہ پر درج ہے

Page 177

155 اور کافی دن قادیان میں قیام کیا." آپ محکمہ ڈاک میں سب پوسٹ ماسٹر تھے آخر پر بمقام بھوانی ضلع حصار معین تھے.جون یا جولائی ۱۹۲۲ء بعمر قریباً ۳۷ سال حرکت قلب بند ہو جانے سے اچانک وفات پائی.اللَّهُمَ اغْفِرْلَهُ وَارْحَمْهُ ، آمین.آپ نہایت صالح.نمازی اور پرہیز گار تھے.تبلیغ کا خاص جوش رکھتے تھے طبیعت حساس تھی.اور دانش مند تھی.چہرہ ہر وقت متبسم رہتا تھا.سلسلہ احمدیہ سے شدید محبت رکھتے تھے.سلسلہ کے تمام اخبارات ورسائل کے با قاعدہ خریدار تھے اور ان کا مطالعہ کرتے تھے.مالی قربانی میں بھی پیش پیش تھے.احمد یہ مدرسہ کر یام کیلئے آپ نے ایک دفعه از خود گھڑیال اور ٹاٹ خرید کر دئیے.اور اس مدرسہ میں بچوں کے لئے کوئی نہ کوئی تحفہ لاتے رہتے تھے.* آپ کا نام بیعت کنندگان کی فہرست مندرجه البدر مورخه ۱۹اکتو بر ۱۹۰۳ء میں تمیں افراد کر یام میں طفیل محمد صاحب مرقوم ہے جیسا کہ زیر عنوان صحابہ کرام سکنہ موضع کر یام میں تفصیلاً مرقوم ہے.یہ بیعت خط کے ذریعہ ہوئی ہوگی.اور یہ سوانح چوہدری احمد علی صاحب آپ کے بھتیجے سے حاصل ہوئے ہیں.بقیہ حاشیہ صفحہ سابقہ.شجرہ درج ذیل ہے.طفیل محمد مرحوم (صحابی) عبد اللطیف امتہ اللطیف ی (اہلیہ احمد علی) چوہدری برکت علی مرحوم ولد محمد بخش.(صحابی) محمد علی مرحوم عدالت خاں شوکت علی امت ال (صحابی) احمد علی ٭ صاحب رحمت اللہ (ملازم ملٹری اکاونٹس کراچی) (اہلیہ یار محمد غیر احمدی) عبدالغفار

Page 178

156 آپ کی اہلیہ محترمہ امیر النساء صاحبہ " جن کے حالات گذشتہ صفحات میں مرحومہ کے بھائی حضرت حاجی غلام احمد صاحب کے حالات میں درج ہو چکے ہیں) بہت نیک بخت خاتون تھیں اور صحابیہ تھیں.انہوں نے خواب دیکھا کہ میں گیارہ جنتوں میں گئی ہوں.اس وقت تو حاجی صاحب یہ خواب سن کر خاموش رہے لیکن ۱۹۱۱ء میں ان کے فوت ہو جانے پر فرمایا کہ چونکہ مرحومہ نے گیارہ سپارے پڑھے ہوئے تھے اس لئے انہوں نے گیارہ بہشت دیکھے.چوہدری محمد علی صاحب :.* آپ کے قادیان آکر دستی بیعت کرنے کا ذکر اوپر آچکا ہے.آپ نے خلافت اولی میں تلخ کی تعلیم قادیان میں با قائدہ حاصلکی تھی.اور اس کی سند بھی حاصل کی تھی.اس زمانہ کا ایک واقعہ آپ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اسیح اول ہمیں سبق پڑھا رہے تھے کہ حضور نے ایک مبلغ کو کسی جگہ جانے کا ارشاد فرمایا.اس نے معذرت کی تو فرمایا کہ مولوی صاحب آپ کو وہاں جانا پڑے گا.ورنہ اگر آپ کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے تو پھر تو یہ مثال صادق آتی ہے کہ ٹو کرایہ پر ہی لینا ہے تو کیا ضروری ہے کہ گردموں ( سمدھیوں ) کا لیا جائے.جہاں سے سستا ملے گا لے لیا جائے گا.آپ کو تبلیغ کا بے حد شوق تھا.اور عمر کا اکثر حصہ آپ جماعت احمد یہ کریام کے سیکرٹری تبلیغ رہے.احمدیت کے فدائی تھے.کافی عرصہ تک آپ کو پرائمری مدرسہ احمدیہ کر یام میں بطور نائب مدرس خدمت کرنے کی بھی توفیق ملی.عموماً آپ ایسی مجالس میں شرکت سے احتراز کرتے تھے جہاں رسومات وغیرہ بجالائی جاتیں.چنانچہ اپنے ایک بھائی کی شادی میں جو قریب کے موضع کر یہہ میں ہوئی تھی.رسومات با جا اور آتش بازی کے باعث آپ نے اس میں شرکت نہ کی کہ آپ ان امور کو خلاف شریعت سمجھتے تھے.آپ خلاف شریعت امور د یکھ کر دلیری سے اور بغیر ہچکچاہٹ کے نفرت کا اظہار کر دیتے تھے.تقسیم ملک سے جماعت احمد یہ کریام کے منتشر ہو جانے سے آپ کو سخت صدمہ پہنچا.آپ ہجرت کر کے چک ۲۶ ضلع گجرات میں آباد ہوئے.وہاں جو چند گھر احمدیوں کے تھے آپ انہیں آپ کے حالات آپ کے پسر چوہدری احمد علی صاحب سے دستیاب ہوئے ہیں.** آپ نے ارتدادم کانہ کے موقع پر لیغی جہاد میں شرکت ی تھی اور کئی ماہ کے لئے اپنے خرچ پر وہاں گئے تھے.آپ اس وفد میں شامل تھے جس کو سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۰ جون ۱۹۲۳ء کوخو دالوداع فرمایا تھا.(45)

Page 179

157 باجماعت نماز پڑھاتے.آپ نے ۱۲ جنوری ۱۹۵۶ء کو وفات پائی اور اسی چک میں مدفون ہوئے.آپ کی تصویر موجود نہیں ہے.جیو آپکی اہلیہ محترمہ محمد جان صاحبہ بھی صحابیہ تھیں ان کے حالات ان کے بھائی حضرت حاجی غلام احمد صاحب کے حالات میں درج کئے گئے ہیں.

Page 180

158 چوہدری کالے خاں صاحب محترم چوہدری کالے خاں صاحب ولد چوہدری محمد بخش صاحب قوم راجپوت سکنہ موضع کریام ( جالندھر ) نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور حضور کی زیارت بھی کی.آپ کی اولاد نہیں تھی.۱۹۰۶ء یا ۱۹۰۷ء میں بحالت ایمان وفات پائی.یو چوہدری گا ہے خاں صاحب چوہدری خان بہادر صاحب (پسر) چوہدری منشی خانصاحب (پسر) چوہدری گا ہے خانصاحب : محترم چوہدری گا ہے خانصاحب ولد چوہدری رنگے خانصاحب قوم راجپوت سکنہ کر یام اور ان کے چاروں بیٹوں ایک بہو اور ایک پوتے اور آپ کے پوتے کی اہلیہ نے بھی حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں ۱۹۰۳ء میں ہی بیعت کی توفیق پائی چوہدری صاحب کو حضرت مسیح موعود کی زیارت کا بھی موقع ملا.۱۹۰۸ء میں آپ نے بحالت ایمان بعمر ۵۷ سال وفات پائی.چوہدری خان بہادر صاحب:.آپ کے بیٹے محترم چوہدری خان بہادر صاحب نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کے علاوہ حضرت مسیح موعود کی زیارت کی بھی توفیق پائی.اپنے خاندان میں خوب انتظام کرتے تھے.نیک تھے.۱۹۱۰ء میں بحالت ایمان بعمر ۶۸ سال وفات پائی.چوہدری منشی خانصاحب :.دوسرے بیٹے محترم چوہدری منشی خانصاحب نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور آپ کا نام میاں کالے خاں صاحب البدر بابت ۲۳/۱۰/۰۳ ( صفحه ۳۲۰) میں فہرست بیعت میں مرقوم ہے.یہ بیعت بذریعہ خط ہوگی ( تفصیل دیکھئے زیر عنوان صحابہ کرام سکنہ موضع کریام) اولاد کے لئے شجرہ اگلے صفحہ پر :- شجرہ اگلے صفحہ پر.

Page 181

159 حضور کی زیارت کا بھی آپ کو موقع حاصل ہوا.اور ۱۹۳۹ء میں بحالت ایمان بعمر ۵۹ سال وفات پائی:.خان بہادر مرحوم (صحابی) گا ہے خاں ( مرحوم ) ولدر نگے خاں (صحابی) منشی خاں مرحوم رحمت خاں امید علی خاں (صحابی) اتو اہلیہ دولت خاں سکنہ حلوار ضلع لدھیانہ) عائشہ بی بی مجیدن بیگم حسن عالم مرحوم عبد العزيز عبدالکریم مرحوم اہلیہ عبدالکریم) (اہلیہ عبد الحبیب خان ولد مولا بخش ( صحابی) ولد گلاب خاں ) عبداللطیف عبدالجبار سروری احمد بي بي (اہلیہ فضیل محمد ) (اہلیہ غلام محمد ) محمد یوسف عبدالرحمن T نواب بی بی جنت غلام فاطمه مرحومه اہلیہ حسن عالم) (اہلیہ محمد یوسف) (اہلیہ غلام حسین) بقیہ حاشیہ:.رحمت خاں، امیر علی خاں، صاحب نساء اہلیہ امیر علی خاں اور حسن عالم ولد منشی خاں نے ۱۹۰۳ء میں بذریعہ خط بیعت کی لیکن ان میں سے کسی کے متعلق یقینی طور پر علم نہیں ہوسکا کہ حضور کی زیارت کا موقع حاصل ہوا یا نہیں.ان سب نے بحالت ایمان علی الترتیب ۱۹۱۱ء ، ۱۹۳۵ء ۱۹۳۸ء ۱۹۳۲۷ء میں وفات پائی.نواب بیگم اہلیہ حسن عالم کی بھی اس وقت کی بذریعہ خط بیعت ہے.وہ اس وقت بعمر اسی سال بمقام چک ۸۸ ج ب ( ضلع لائل پور ) زندہ ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود کی زیارت نہیں کی.صاحب نساء کی بیعت البدر مورخہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۰۳ء میں درج ہے (صفحہ ۴ ۳۰ ) وہاں اس خاندان کے نصف درجن افراد کی بیعت درج ہے.جو بذریعہ خط معلوم ہوتی ہے تفصیل کے لئے دیکھئے زیر عنوان (صحابہ کرام سکنہ موضع کریام) چوہدری حسن عالم صاحب نے موضع صیغر وال ( ضلع لدھیانہ) میں اراضی خرید کی تھی.اور وہ وہاں نمبردار بھی تھے.رحمت خاں کی بیعت کا اس حاشیہ میں اوپر ذکر آچکا ہے بعد تحقیق اگر بعد بیعت حضرت مسیح موعود کی زیارت ثابت ہوئی تو اصحاب احمد کی کسی اور جلد میں ان کے حالات درج ہونگے.انشاء اللہ تعالی.

Page 182

160 چوہدری مولا بخش صاحب چوہدری علی گوہر صاحب (برادر ) امیر علی صاحب (ملازم) چوہدری مولا بخش صاحب:.محترم چوہدری مولا بخش صاحب ولد گلاب خاں قوم راجپوت سکنہ موضع کریام ( جالندھر ) نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی.آپ اپنے خاندان کے سرکردہ فرد تھے.آپ کی بیعت پر آپ کے خاندان کے جملہ افراد نے بیعت کر لی.بعد بیعت آپ کو متعدد دفعہ قادیان آنے کا موقع ملا.فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود کی معیت میں کھانا بھی کھایا تھا.آپ صوم وصلوٰۃ کے سختی سے پابند تھے.نماز باجماعت ادا کرتے اور باقاعدہ تہجد گزار اور احکام شریعت پر پوری طرح عامل تھے.بحالت ایمان بعمر پچاسی (۸۵) سال ۳ مئی ۱۹۳۶ء کو وفات پائی.آپ کی تصویر موجود نہیں ہے.چوہدری علی گوہر صاحب:.آپ کے بھائی محترم چوہدری علی گوہر صاحب کو بھی بحالت ایمان حضرت البدر بابت ۹/۱۰/۰۳ میں مندرجہ فہرست بیعت کنندگان موضع کر یام آپ ہی کے نام سے شروع ہوتی ہے اور خاندان کے افراد مسلسل وہاں یوں مرقوم ہیں : ” مولا بخش صاحب کر یام اہلیہ مولا بخش صاحب ام کلثوم صاحبہ، عبدالرحمن صاحب ، میاں عبداللہ صاحب علی گوہر صاحب کر یام، اہلیہ علی گوہر صاحب (صفحه ۳۰۴) لیکن یہ بیعت بذریعہ خط معلوم ہوتی ہے.(تفصیل کے لئے دیکھئے زیر عنوان صاحبہ کرام سکنہ موضع کر یام) کچھ حالات درج ذیل ہیں:.(۱) اہلیہ صاحبہ چوہدری مولا بخش صاحب ساکن موضع جاؤلہ ( تحصیل نواں شہر ضلع جالندھر) کا نام نیوی تھا.قبول احمدیت کے باعث ان کے والد اور بھائیوں نے شدید مخالفت کی اور اپنے ہاں آنے سے روک دیا.چنانچہ چھ سات سال تک مقاطعہ جاری رہا لیکن موصوفہ نے خوب استقامت دکھائی.بیعت ۱۹۰۳ء میں کی تھی.اور ۱۲ مارچ ۱۹۱۳ء کو بحالت ایمان وفات پائی حضرت مسیح موعود کی زیارت کا موقع نہیں پایا.(۲) ام کلثوم دختر چوہدری مولا بخش صاحب اپنی والدہ کی وفات کے اگلے روز ۱۳/۳/۱۳ کو عمر دس سال وفات پائی.اس چھوٹی سی عمر میں دو دفعہ قرآن کریم ختم کیا تھا بقیہ حاشیہ اور شجرہ اگلے صفحہ پر دو

Page 183

161 مسیح موعود کی زیارت کا موقعہ ملا.اور بحالت ایمان ہی ۱۹۳۷ء یا ۱۹۳۸ء میں وفات پائی.بہت مخلص اور دیندار تھے.نماز روزہ کا خاص اہتمام رکھتے تھے آپ کی تصویر موجود نہیں.ہم چوہدری علی گوہر صاحب کی اولا د کا ذکر گذشتہ حاشیہ میں ہو چکا ہے نیز آپ کی اور آپ کی اہلیہ کی بذریعہ خط بیعت کا ذکر بھی وہاں ہے اہلیہ کا نام بی صاحبہ تھا.۱۹۲۲ء میں بحالت ایمان وفات پائی.بقیہ حاشیہ :.والد صاحب نے بیعت کے وقت ان کا نام بھی بھجوایا تھا.(۳) عبدالرحمن ولد مولا بخش.آپ اس وقت چک ۸۸ ج - ب تحصیل و ضلع لائلپور میں بطور مہاجر زمیندار مقیم ہیں.آپ کا بیان ہے کہ میری ولادت ۱۸۹۴ء کی ہے گویا ۱۹۰۳ء میں بوقت بیعت صرف ۹ سال کی عمر تھی.والد صاحب نے میرا نام بیعت کے لئے درج کروایا تھا.ہوش کی حالت میں حضرت مسیح موعود کا دیکھنایا نہیں.موصوف نماز روزہ کے پابند ہیں سب انسپکٹر کو آپریٹو سوسائٹیز کے عہدہ پر فائز رہے ہیں.(۴) عبد اللہ ولد مولا بخش زندہ ہیں بیان کرتے ہیں کہ میں چند سال کا تھا جب والد صاحب نے میرا نام بھی بیعت کے لئے لکھوایا.اور ہوش کی عمر میں حضرت مسیح موعود کی زیارت کرنا مجھے یاد نہیں.آپ نماز روزے کے پابند ہیں.(۵) فتح محمد ولد علی گوہر.۱۹۱۰ء میں بھر دس سال وفات پائی بزرگوں کی بیعت کے ساتھ قریباً تین سال کی عمر میں مرحوم کا نام بھی بیعت کے لئے لکھا گیا.شجرہ:.گلاب خاں مولا بخش مرحوم (صحابی) عبدالرحمن عبدالحبیب عبداللہ خاں مقیم چک نمبر ۸۸ ج ب تحصیل لائکپور ) علی گوہر مرحوم (صحابی) ام کلثوم مرحومه فتح محمد مرحوم

Page 184

162 امیر علی صاحب : محترم امیر علی صاحب کا اصل نام امر علی تھا.ولدیت معلوم نہیں اور نہ تصویر موجود ہے ان کی اصل سکونت موضع کہاں کھرالہ (ضلع لودھیا نہ ) کی تھی.موضع کریام میں چوہدری مولا بخش و چوہدری علی گوہر صاحبان کے پاس بطور ملازم مدت سے رہتے تھے اور گھر کے کاموں میں مالک فرد کے طور پر حصہ لیتے تھے.۱۹۰۳ء میں ان کے ہمراہ بیعت کی تھی.اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کا بھی موقع ملا تھا.بحالت ایمان ۱۹۴۰ء میں وفات پائی اور موضع کریام میں ہی دفن ہوئے.آپ کی شادی نہیں ہوئی تھی.جیو البدر مورخه ۹/۱۰/۰۳ کی ہی فہرست میں آپ کا نام بھی بیعت کنندگان میں درج ہے.سابق حاشیہ میں بتایا جاچکا ہے کہ یہ بیعت بذریعہ خط ہوئی تھی.

Page 185

163 چوہدری چھجو خاں صاحب محترم چوہدری چھجو خاں صاحب ولد رحمے خان قوم راجپوت سکنہ کریام (جالندھر ) نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور بعد ازاں حضرت مسیح موعود کی زیارت کی توفیق پائی.اور ۱۹۱۸ء میں بحالت ایمان وفات پائی.ان کی تصویر موجود نہیں ہے.چوہدری صوبہ خان صاحب رض محترم چوہدری صوبہ خان صاحب ولد جلال خال موضع سر وعد سے آکر موضع کریام میں آباد ہوئے تھے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی تھی اور حضور کی زیارت بھی کی تھی.بحالت ایمان ۱۹۱۵ء میں وفات پائی.آپ کی تصویر موجود نہیں ہے.آپ راجپوت قوم سے تعلق رکھتے تھے.چوہدری نبی بخش صاحب محترم چوہدری نبی بخش صاحب ولد سے خاں قوم راجپوت نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کی.اور متعدد بار قادیان حضور کے عہد مبارک میں آئے.آپ نے ۱۹۱۸ء میں بحالت ایمان وفات پائی.آپ کا اصل وطن موضع سٹرو ہ ضلع جالندھر تھا.ترک سکونت کر کے آپ موضع کر یام میں مستقل طور پر آباد ہو گئے تھے.ہے ہے آپ کی بیوہ امیر النساء چک ۰۹ اگ.ب (ضلع لائلپور ) میں زندہ ہیں.لیکن افسوس کہ نعمت احمدیت سے محروم ہیں.چوہدری صاحب کی کوئی اولاد نہیں تھی.آپ نمازی اور دیندار اور نہایت مخلص تھے.آپ کا نام بیعت میں میاں چھو صاحب البدر مورخہ ۲۳/۱۰/۰۳ میں مرقوم ہے.(صفحہ ۳۲۰) یہ بیعت بذریعہ خط معلوم ہوتی ہے ( تفصیل دیکھئے زیر عنوان صحابہ کرام سکنه موضع کریام) آپ کی بیعت بدر بابت ۱۰/۱/۰۷ میں صوبہ خاں صاحب ولد جلال خاں صاحب مرقوم ہے.(صفحہ ۲۲) آپ کی اولا دصرف دولڑ کیاں امت ال (اہلیہ رحمت ) اور مہر و اہلیہ مبارک علی ) تھیں.*** آپ کی بیعت بالفاظ نبی بخش صاحب کر یام بدر بابت ۱۴/۳/۰۷ میں درج ہے.(صفحہ اک۲) ممکن ہے پہلے بذریعہ خط ۱۹۰۳ء میں بیعت کی ہو اور پھر ۱۹۰۷ء بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 186

164 چوہدری نتھے خاں صاحب محترم چوہدری تھے خاں صاحب قوم راجپوت کی اصل سکونت قصبہ نواں شہر کی تھی.لیکن آپ موضع کریام کی جماعت کے ساتھ منسلک تھے.اور یہیں جمعہ وعیدین ادا کرتے تھے آپ نے ۱۹۰۴ء میں بیعت کی تھی اور حضرت مسیح موعود کی زیارت متعدد بار قادیان آ کر کرتے رہے.۱۹۳۷ء میں وفات پائی.بہت نیک ، دیندار اور خدا ترس تھے.عشق رسول کریم صلعم کا جذ بہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.آپ نے ارتداد مکانہ کے موقع پر جہاد میں اپنے خرچ پر حصہ لیا.چنانچہ دوسری سہ ماہی کے پہلے وفد میں ان بتیں مجاہد دین میں آپ شامل تھے.جن کو سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جمعیت احباب قاریان بیرون قصبہ تک الوداع کہنے کے لئے ۲۰ جون ۱۹۲۳ء میں تشریف لے گئے.(47) آپ کی تصویر موجود نہیں ہے.چوہدری نجابت علی خانصاحب چوہدری احمد علی خانصاحب (پسر) چوہدری نجابت علی خانصاحب : محترم چوہدری نجابت علی خانصاحب ولد محمد بخش قوم راجپوت موضع کر یام کو دنیوی و جاہت بھی حاصل تھی.چنانچہ آپ کرسی نشین تھے.اور جماعت احمد یہ کر یام کے ایک نہایت معزز بقیہ حاشیہ:.میں دستی بیعت کی ہو.آپ نے اپنے ایک بیٹے بوٹے خاں کو مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل کیا.لیکن وہ جوانی میں فوت ہو گیا.دوسرا بیٹا غلام رسول زندہ ہے اور چاہ دو ہر یہ موضع نیل کوٹ تحصیل و ضلع ملتان میں بطور مہاجر مقیم ہے.میاں عمر دین صاحب کر یام کی جو بیعت بدر بابت ۲۱/۱۰/۰۷ میں درج ہے.(صفحہ ہم ک ۲) اس بارہ میں حالات بیان کرنے والے احباب ذکر کرتے ہیں کہ یہی چوہدری تھے خاں صاحب کے بیٹے تھے یہ معلوم نہیں کہ زندہ ہیں یا نہیں.اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کی تھی یا نہیں.ایک لڑکا ہادی حسن زندہ ہے لیکن اس کا ایڈریس معلوم نہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ اور اولاد تھی یا نہیں.

Page 187

165 رکن تھے.آپ نے حضرت حاجی غلام احمد صاحب سکنہ کر یام سے قبل ۱۹۰۲ء میں بیعت کر لی تھی.اور بعد ازاں حضرت مسیح موعود کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا تھا.بحالت ایمان ۱۹۱۹ ء میں وفات پائی.آپ کے نانا اور حاجی صاحب کے دادا بھائی تھے.( شجرہ بحالات حاجی صاحب ) آپ رسم ورواج کے سخت مخالف اور دینی احکام کے پابند تھے.آپ کی تصویر نہیں ہے.آپ کا ذکر حاجی صاحب کے حالات میں درج ہو چکا ہے.جملہ حملو چوہدری احمد علی خانصاحب :.آپ کے بیٹے چوہدری احمدعلی صاحب نے عمر پچھتر سال ۱۹۵۸ء میں ان کی بیعت بالفاظ نجابت علی خاں صاحب موضع کر یام.احکم بابت ۷/۲/۲ میں شائع ہوئی (صفحہ ۹۱۶) گویا حضرت حاجی غلام احمد صاحب سے ان کی تصدیق ہو گئی کہ آپ کی بیعت سے پہلے چوہدری صاحب نے بیعت کی تھی.البدر بابت ۹/۱۰/۰۳ میں اہلیہ نجابت علی خاں صاحب ، اہلیہ نجابت علی خانصاحب ( گویا دوبار.مولف) عابد علی خانصاحب محمد یوسف علی خانصاحب کے الفاظ میں بیعت درج ہے ( صفحیم ۳۰) یہ بیعت بذریعہ خط معلوم ہوتی ہے.(تفصیل دیکھے زیر عنوان صحابہ کرام سکنہ موضع کریام) (۲۱) اہلیہ اول مسماۃ میر و اور اہلیہ دوم مسماۃ دولی دونوں کو حضرت مسیح موعود کی زیارت کا موقع نہیں ملا.اور دونوں نے بحالت ایمان علی الترتیب ۱۹۱۲ء اور ۱۹۴۴ء میں وفات پائی.(۳) عابد علی خاں آپ کے بیٹے نے بعمر ۵۶ سال ۱۹۴۹ء میں وفات پائی.گویا ۱۹۰۳ء میں بوقت بیعت دس سال کی عمر ہوگی.آپ نے حضرت مسیح موعود کی زیارت نہیں کی.والد صاحب نے آپ کی بیعت خط میں لکھوادی تھی.(۴) محمد یوسف علی خاں ( ولادت ۱۹۰۱ء.وفات ۱۹۵۰ء) گویا ۱۹۰۳ء میں دو سال کی عمر ہوگی.جب والد صاحب نے بیعت میں نام لکھوایا.آپ کو حضرت مسیح موعود کی زیارت کا موقع نہیں ملا.آپ نے کافی عرصہ تک احمدیہ پرائمری سکول کر یام میں بطور نائب مدرس کام کیا.اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں

Page 188

166 وفات پائی.موصی تھے.فی الحال ربوہ میں امانت کے طور پر دفن ہیں آپ کی تصویر موجود نہیں ہے.بقیہ سنجرہ:.نجابت علی خاں مرحوم والد محمد بخش (صحابی) از بطن اہلیہ اول احمد علی مرحوم ( صحابی ) از بطن اہلیہ دوم) عابد علی خاں عباس علی خاں محمد یوسف علی خاں عزیز احمد خاں رضیہ بیگم نصیب جان اہلیہ نواب خاں غیر احمدی) (اہلیہ عبداللطیف غیر احمدی) م حالات مہیا کر نیوالوں نے تحریر کیا ہے کہ ان کی بیعت گویا کہ والد صاحب کے ساتھ کی یعنی ۱۹۰۲ء کی ہے میرے نزدیک یہ درست نہیں جو اس امر سے ظاہر ہے کہ ان کے والد کی بیعت ۱۹۰۲ء کی تھی اس لئے البدر مورخہ ۲۳/۱۰/۰۳ کی فہرست بیعت میں ان کی دونوں اہلیہ اور دو بیٹوں کے اسماء موجود ہیں.لیکن خود والد چوھدری نجابت علی خان ) کا نام نہیں کیونکہ وہ پہلے بیعت کر چکے تھے.اور یہ بیعت بذریعہ خط تھی.سو اسی طرح البدر بابت ۲۳/۱۰/۰۳ والی بیعت کے اسماء میں ( جو شہادات وقرائن سے بذریعہ خط متعین ہوتی ہے )‘میاں احمد علی صاحب کا نام جو مرقوم ہے نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ بقول حالات مہیا کر نیوالوں کے وہ ۱۹۰۲ء میں بذریعہ خط بیعت کر چکے تھے تو پھر دس گیارہ ماہ کے بعد دوبارہ خط بیعت میں اپنا نام لکھوانے کی کیا ضرورت تھی.سو مؤلف کے نزدیک چوہدری احمد علی صاحب نے اپنے والد صاحب کے ساتھ ۱۹۰۲ء میں بیعت نہیں کی بلکہ اکتوبر ۱۹۰۳ء میں بذریعہ خط کی.البتہ جو بیعت احمد علی صاحب ولد نجابت علی صاحب کی مندرجہ الحکم مورخہ ۲۴/۸/۰۵ ( صفحہ ۲ کال ۴) اس وقت کی ہوگی جب دستی بیعت کا موقع ملا کیونکہ دوبارہ بذریعہ خط بیعت کرنے کی ضرورت نہ تھی.آپ نے ڈیڑھ مربع اراضی تحصیل وہاڑی ( ضلع ملتان ) میں خرید لی تھی جس پر آپ کی اولاد آباد ہے.آپ نمبر دار تھے اب دوسری اہلیہ کے بطن سے آپ کا بڑا لڑ کا افضال احمد نمبر دار ہے یہ کل تین بھائی اور ایک بہن ہیں جو زندہ ہیں اور پہلی اہلیہ کے بطن سے کوئی اولا دزندہ نہیں.

Page 189

167 وزیر محمد صاحب محترم وزیر محمد صاحب ولد بنہ قوم حجام نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کا بھی شرف حاصل کیا.آپ کا پیشہ بھی حجام کا تھا.۱۹۲۴ء میں بحالت ایمان وفات پائی.بہت نیک پابند صوم وصلوٰۃ، دیندار اور تہجد خواں تھے.غرباء کی امداد کرتے تھے.اللَّهُمَّ اغْفِرُ لَهُ وَارحَمُهُ.آمین.چوہدری اکبر خاں صاحب محترم چوہدری اکبر خاں صاحب ولد مادے خان قوم راجپوت کی اصل سکونت موضع کا ٹھ گڑھ تھی.وہاں سے آپ مستقل طور پر موضع کریام میں منتقل ہو گئے تھے.آپ نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کی توفیق پائی.اور ۱۹۱۵ء میں بحالت ایمان وفات پائی.آپ کی تصویر موجود نہیں ہے.چوہدری منشی خاں صاحب ☆☆ مکرم چوہدری منشی خاں صاحب ولد مولا بخش قوم راجپوت سکنہ موضع سڑو ہ ضلع ہوشیار پور تھے.یہ خاندان وہاں سے موضع کر یام آکر آباد ہو گیا تھا.چوہدری صاحب نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کا موقع بھی بعد ازاں پایا.۱۹۰۶ء میں بحالت ایمان وفات پائی.مرحوم کا ایک ہی بیٹا بنام ولی محمد تھا جو وفات پا گیا اور احمدی نہیں تھا.وزیرمحمد صاحب کی بیعت کا ذکر بالفاظ وز یرمحمد ( یعنی ولد بند کر یام ) الحکم بابت ۲۴/۸/۰۵ میں مرقوم ہے (صفحه ۲ ک۴) یہ بیعت قادیان آکر دستی معلوم ہوتی ہے.اگر واقعی انہوں نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی ہوتو دوبارہ ۱۹۰۵ء میں بذریعہ خط بیعت کرنا بے معنی بنتا ہے.آپ کی اہلیہ کا نام میرو تھا.انہوں نے بھی حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں بیعت کی تھی لیکن حضور کی زیارت نہیں کر سکی تھیں.بحالت ایمان ۱۹۱۰ ء میں فوت ہوئیں کوئی نرینہ اولاد نہ تھی.رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ قادیان بابت ۱۰-۱۹۰۹ء میں یہ ذکر ہے کہ بیوہ اکبر خاں صاحب نے پچاس روپیہ سلسلہ کی امداد کی.( صفحہ ے کوائف صحابہ کریام)

Page 190

168 شرعی احکام اور صوم وصلوٰۃ کی پابندی کرتے تھے.ان کی تصویر موجود نہیں ہے.چوہدری غلام محمد صاحب محترم چوہدری غلام محمد صاحب ولد بدر بخش نے ۱۹۰۳ء میں بحالت ایمان وفات پائی.پکے احمدی بہت نیک اور پر ہیز گار تھے.آپ کی تصویر موجود نہیں ہے.چوہدری رحمت خاں صاحب محترم چوہدری رحمت خاں صاحب ولد بلو خاں راجپوت سکنہ کریام (ضلع جالندھر ) نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور بعد میں حضرت مسیح موعود کی زیارت کا شرف بھی حاصل کیا.آپ نے بحالت ایمان ۱۹۳۵ء میں وفات پائی.حضرت حاجی غلام احمد صاحب کی صدرانجمن احمدیہ کو موہو یہ اکسٹھ کنال دومرلہ اراضی کے چوہدری صاحب ہی مختار عام تھے.اور یہ کام کو بہت دیانتداری سے سرانجام دیتے تھے.آپ کی تصویر موجود نہیں ہے.آپ کی اولاد نیاز احمد.بشیر احمد.مبارکہ مرحومہ (اہلیہ جلال الدین سکنہ کر یام ) ہیں.یہ تین بھائی رحما مرحوم، منشی خاں مرحوم اور نواب تھے رحما ۴۰.۱۹۳۹ء میں بحالت ایمان فوت ہوئے نمازی اور نیک تھے.یہ یقینی طور پر معلوم نہیں کہ صحابی تھے یا نہیں.نواب، چک نمبر ۳۴ جنوبی ( ضلع سرگودھا) میں موجود ہے لیکن افسوس کہ جماعت سے منقطع ہو چکا ہے.نواب ولد مولا بخش صاحب کے الفاظ میں بیعت البدر بابت ۱/۲/۰۵ میں درج ہے (صفحہ ۹ کالم ۱) ** آپ کے اکلوتے بیٹے ولی محمد خاں نے ۱۹۰۴ء یا ۱۹۰۵ء میں بیعت کی.آپ کی بیعت بدر بابت ۱۰/۱/۰۷ (صفحہ ۲۲ ک ۳) میں بالفاظ ولی محمد خانصاحب ولد غلام محمد خاں صاحب موجود ہے.حضرت مسیح موعود کی زیارت کرنے کا یقینی طور پر علم نہیں ہو سکا.صوم وصلوٰۃ کے پابند اور احکام دینیہ کا خاص اہتمام کرنے والے اور نیک سیرت انسان تھے.بحالت ایمان نومبر ۱۹۴۷ء میں لاہور میں مہاجر ہونے کی حالت میں وفات پائی.آپ کی اولا دعطا اللہ صابر (مدرس چک نمبر (۷۰ ضلع منٹگمری) سلامتے بیگم (اہلیہ رائے احمد کیرام والے) اور مبارکہ بیگم (اہلیہ عبداللطیف ولد طفیل محمد خاں کر یام والے ) ہیں.

Page 191

169 چوہدری امیر باز خانصاحب محترم چوہدری امیر باز خاں صاحب ولد کیمن خاں قوم راجپوت کا خاندان موضع سٹروعہ ضلع ہوشیار پور سے موضع کر یام ( جالندھر ) آکر آباد ہو گیا تھا.چوہدری صاحب نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور حضرت مسیح موعود کی زیارت بھی نصیب ہوئی.آپ جسمانی لحاظ سے کمزور تھے.حضرت حاجی غلام احمد صاحب انہیں حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں لائے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.مرض کوئی نہیں.صرف غذا کی کمی ہے جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.آپ شرعی احکام اور صوم صلوۃ کے بیت پابند تھے.۱۹۲۵ء میں بحالت ایمان فوت ہوئے.آپ کی اولا د عبد العزیز.احمد علی عبد السلام اور مہندی میں سے صرف عبد السلام زندہ ہے.

Page 192

170 ☆ چوہدری بشارت علی خانصاحب ہیں مہر النساء بیگم صاحبہ (اہلیہ) خاندانی حالات:.شہنشاہ اکبر کے راجپوتانہ پر یورش کے وقت خاندان پرتھوی راج کے شہزادگان اچھوا جی اور کچھوا جی بچوں کے بھدنوں کی رسومات کی ادائیگی کے لئے نیناد یوی ضلع کا ٹھگڑھ آئے ہوئے تھے مگر واپسی مقدر نہ ہوئی اور وہیں آباد ہونا پڑا.پھر لاہور میں شہنشاہ اکبر کی آمد پر یہ حاضر خدمت ہوئے اور بطور نذرانہ راجپوتانہ سے لائے ہوئے گھوڑے پیش کئے.اکبر نے ان کے حالات سن کر اضلاع جالندھرو ہوشیار پور میں ایک ہزار ایک صد ہیں مواضعات پر مشتمل جاگیر عطا کی.ان کی اولاد میں سے رانامل بمقام سر وعدہ تحصیل گڑھ شنکر ضلع ہوشیار پور اور دوسرے دو بھائی بمقام لنگڑ وعہ وراہوں ضلع جالندھر آباد ہوئے.اصل نام شاہجہاں آبا دیگر کرسر وعہ بن گیا.رانامل کے چار بیٹے دودے خاں ، تاج خاں.قیام خاں، اور قابوخاں مشرف اسلام ہوئے.ولادت و تعلیم اور ملازمت:.دورے خاں کی اولاد میں سے چوہدری دارے خاں کے ہاں جو کہ پٹواری تھے.۱۵ دسمبر ۱۸۸۲ء کو چوہدری بشارت علی خانصاحب پیدا ہوئے.آپ نے ابتدائی تعلیم سروعہ میں ہی پائی اور پرائیویٹ طور پر مڈل اور انٹرنس کے امتحانات علی الترتیب ۱۸۹۹ ء اور ۱۹۰۰ء میں پاس کئے.اور محکمہ ریلوے میں بطور سگنیلر ملازمت اختیار کی.جسے کچھ عرصہ بعد ترک کر کے ۲ مارچ ۱۹۰۴ء کومحکمہ ڈاک و تار میں بطورریز روسگنیلر بھرتی ہوئے اور ۱۵ دسمبر ۱۹۳۸ء کو ڈپٹی پوسٹماسٹر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے.آپ کی ملازمت دیانتداری محنت اور ماتحتوں سے باپ جیسی شفقت کے باعث ممتاز نظر آتی تھی.آپ تقریباً تمیں سال تک بطور انچارج رہے.قبول احمدیت.آپ نے جمعیت حضرت حاجی غلام احمد صاحب سکنہ کر یام جو آپ کی اہلیہ محترمہ کے تایا زاد بھائی تھے.قادیان جا کر ۶ فروری ۱۹۰۳ء کو حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت کر لی.یو یہ حالات چوہدری صاحب کے صاحبزادہ مکرم چوہدری عبدالحکیم صاحب (جنرل مینجر پاکستان لائکپورسمندری ٹرانسپورٹ لائکپور) بواسطه اخویم چوہدری احمد دین صاحب بی اے حاصل ہوئے.ید بیعت کی تفصیل گزشتہ صفحات میں حضرت حاجی صاحب کے حالات میں درج ہے آپ کی بقیہ حاشیہ اگلے

Page 193

صفحہ 171 اور کئی روز آپ کو قادیان میں قیام کا موقع ملا.اپنے گاؤں سڑوعہ میں اولین شرف بیعت آپ ہی کو حاصل ہوا.آپ کی بیعت کے بعد آپ کے تمام خاندان نے بیعت کرلی اور گاؤں میں سعید روحیں یکے بعد دیگرے حلقہ بگوش احمدیت ہونے لگیں.اور وہاں مخالفت نہیں ہوئی.اور ۱۹۴۷ء میں بوقت ہجرت احمدیوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی.اہلی زندگی:.آپ کی شادی محترمہ مہر النساء بیگم صاحبہ سے ہوئی تھی.جب آپ بیعت کر کے گھر واپس پہنچے تو موصوفہ نے بھی اپنی بیعت کا خط لکھوا دیا.اور اگلے ماہ قادیان پہنچ کر پھر حضور کی بیعت کی.آپ آخر تک احمدیت پر قائم رہیں.اور یکم نومبر ۱۹۵۹ء کو وفات پا کر بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ میں مدفون ہوئیں.اَللَّهُمَّ اغْفِرُ لَهَا وَارُحَمُهَا.آمین.آپ کی یاد گار ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں.آپ تحریک جدید کے دفتر اول کے مجاہدین میں شامل تھیں.(47) خدمات سلسلہ اور آپ کا اُسوہ حسنہ:.کرتار پور.نواں شہر ، جالندھر شہر وغیرہ جن مقامات پر بھی آپ متعین رہے.احمد یہ مساجد نہ ہونے کے باعث آپ کے مکان کا ایک کمرہ نمازوں.جمعہ وعیدین کے لئے بقیہ حاشیہ : فائل وصیت میں بھی بیعت کی تاریخ فروری ۱۹۰۳ ء درج ہے.حضرت چوہدری برکت علی خانصاحب وکیل المال نے بھی اپنے حالات میں لکھا ہے کہ میں اپنے ماموں چوہدری بشارت علی خانصاحب اور ماموں چوہدری عالمگیر خانصاحب کے پاس بمقام سڑوعہ تعلیم کے لئے رہا.چوہدری بشارت علی خانصاحب نے ۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور چوہدری عالمگیر خانصاحب نے ۱۹۳۸ء میں بیعت کی.اور ۱۹۴۱ء میں وفات پائی.( 48 ) مرحومہ کے والد نیز بھائی چوہدری مہر خاں صاحب بھی صحابی ہیں.اور تینوں کی بیعت کا اندراج فہرست بیعت کنندگان میں دیگر اقارب کے ہمراہ البدر بابت ۴ ستمبر ۱۹۰۳ء میں موجود ہے آپ کا نام ہمشیرہ مہر خانصاحب“ کے طور پر مرقوم ہے.(صفحہ ۲۶۴) بیٹے کا نام چوہدری عبدالحکیم خاں ہے اور وہ لائلپور میں ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کے جنرل مینجر ہیں اور بیٹی محترمہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ہیں جو چوہدری شفیق الرحمان صاحب سب ڈویژنل کلرک سرگودہا کی اہلیہ ہیں.

Page 194

172 شجرہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں.مخصوص رہتا.مرکز سے آمدہ مبلغین اور انسپکٹر ان آپ کے ہاں ہی قیام کرتے اور آپ کا پورا تعاون انہیں حاصل ہوتا تبلیغ کا سلسلہ آپ جاری رکھتے.انفرادی تبلیغ کے آپ زیادہ قائل تھے آپ احمدیت کا ایک نیک نمونہ تھے.چنانچہ آپ ہی کے زیر اثر چوہدری غلام جیلانی خانصاحب سکنہ موضع پنام چوہدری غلام احمد خان صاحب سکنہ سر وعد اور منشی رحمت اللہ صاحب سکنہ نارووال حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.آپ قادیان به تو اتر آتے اور مشاورت اور جلسہ سالانہ میں شمولیت فرماتے.اور دوسروں کو بھی ساتھ لاتے.چوہدری چھجو خاں صاحب کے پنشن پر آنے تک گو آپ نواں شہر میں پوسٹ ماسٹر تھے بایں ہمہ سڑوعہ کے امیر جماعت بھی تھے.اور پنشن پر آنے پر آپ سیکرٹری مال مقرر ہوئے.آپ ہجرت کے بعد چک ۰۹اگ ب (ضلع لامکپور ) میں مقیم ہو چکے تھے.بوقت وفات آپ وہاں محاسب تھے.بقیہ شجرہ :- چوہدری دارے خان چوہدری بشارت علی خاں (صحابی) مدفول بہشتی مقبرہ.ربوہ عبدالحکیم نصرت جہاں بیگم (اہلیہ شفیق الرحمن ) نذیر احمد بشیر احمد لیل هم مردم شفیق الرحمن *

Page 195

173 آپ کو بچپن سے نمازوں میں شغف تھا.آپ بالالتزام تلاوت قرآن مجید کرتے.جھوٹ اور فریب سے سخت متنفر تھے.اور اپنی طویل عمر میں کسی سے آپ کا جھگڑا نہیں ہوا.نہ کسی کو آپ کے خلاف کوئی شکایت پیدا ہوئی.آپ خدمت سلسلہ کرتے او دوسروں میں بھی یہی جذبہ دیکھنا چاہتے.آپ اس امر کو نا پسند کرتے کہ کوئی شخص آمد سے کم چندہ ادا کرے یا وجاہت طلبی کے جذبہ سے کسی عہدہ کا طالب ہو.اور اس بارہ میں اس کی مخالفت ضرور کرتے.آپ موصی تھے اور دفتر اول تحریک جدید کے مجاہدین میں سے تھے.آپ کا ذکر سلسلہ کے لٹریچر میں موجود ہے.یو ایک خاص خدمت به تائید خلافت ثانیہ : یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ آپ بھی خلافت ثانیہ کے مئویدین میں سے تھے.چنانچہ ۲۱ مارچ ۱۹۱۴ء کو ایک اشتہار صرف حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت نواب محمد ولی خانصاحب رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی طرف سے شائع کیا گیا کہ جو لوگ انتخاب خلافت سے نا خوش ہیں غلط بیانوں اور افتراؤں کے مرتکب ہورہے ہیں.ایک افترا یہ ہے کہ حضور نے بیعت میں یہ شرائط بھی رکھی ہیں کہ فلاں فلاں کو منا فق سمجھا جائے.اور غیر احمدیوں کو کا فرسمجھا جائے.چنانچہ ان افتراؤں کی تردید کے لئے اس اشتہار میں شرائط بیعت درج کی گئیں.اس اشتہار کی پشت پر جماعت کے سرکاری عہدہ داروں ، معززین و تجار: صدر وسیکرٹری صاحبان، گریجویٹ اور ایڈیٹر صاحبان کی طرف سے الگ الگ فہرست دی گئی ہے ان قریباً ڈیڑھ صد احباب کی طرف سے احباب کو بیعت خلافت ثانیہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے ان میں سرکاری عہدہ داروں میں آپ کا نام ” چوہدری بشارت علی خاں صاحب سب پوسٹ ماسٹر کرتار پور درج ہے.آپ کا چندہ معہ اہلیہ صاحبہ و دختر نوصد چھتر روپے مرقوم ہے ( پنجهزاری مجاہدین صفحہ ۳۰۰) آپ کی وصیت نمبر مورخہ ۸/۱۰/۲۸ ہے آپ کے تقوی وطہارت کی تصدیق فائل وصیت میں چک نمبر ۰۹ اگ ب کے جنرل سیکرٹری چوہدری عبدالغنی صاحب (صحابی) اور امیر جماعت چوہدری مہر خاں صاحب (صحابی ) کی طرف سے کی گئی ہے.** مثلاً الحکم بابت ۳/۳۱/۰۵ میں چوہدری بشارت علی صاحب سب پوسٹماسٹر لوہار و۲ ، مدرسه گویا چنده مدرسه درج ہے (صفحہ ۲ اک ۴ ) امتحان تار میں کامیابی کیلئے اور ریواڑی سے تبادلہ کے لئے جہاں آپ سنکنیلر تھے.درخواست

Page 196

174 دعا ( البدر ۵/۳/۰۵ صفحه ۷ و بدر ۲۰/۸/۰۸ صفحه ۱۳ ) چنده بدر کی رسید (بدر ۲۹/۱۲/۰۵ صفحہ ۵ ) آپ کا خریداری نمبر ۶۳۲ مرقوم ہے.حسن خاتمہ:.آپ کو بالعموم سچی خوا ہیں آتی تھیں جو بعینہ پوری ہوتی تھیں.وفات سے چند یوم پیشتر آپ اپنی بیٹی کی ملاقات کے لئے سرگودھا گئے.اہلیہ محترمہ کی وفات سے آپ کی صحت پر بہت برا اثر پڑ چکا تھا.آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی اہلیہ صحن میں چار پائی پر لیٹی ہوئی ہیں.اور آپ باہر سے صحن میں داخل ہو کر ان کے پاؤں کی طرف لیٹ گئے.تیسرے روز ۲۱ نومبر ۱۹۶۰ء کو گیارہ بجے دن آپ نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی.چنانچہ آپ کو قطعہ صحابہ بہشتی مقبرہ میں ایسی جگہ دفن کیا گیا کہ جو جگہ اہلیہ محترمہ کے پاؤں کی طرف ہے اس طرح یہ خواب گویا ظاہر احسن خاتمہ پر دلالت کرتی تھی.کہ آپ اپنی اہلیہ صاحبہ کی جائے تدفین ( بہشتی مقبرہ) میں دفن ہوں گے.زیادہ وضاحت کے ساتھ ظاہری نشان کے ساتھ پوری ہوگئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ الْمُؤْمِنُ يَرَى وَيَرَى لَهُ (49).اللَّهُمَّ اغْفِرُ لَهُ وَارْحَمْهُ.آمین.میاں رمضان علی صاحب * ولادت و تعلیم :.محترم میاں رمضان علی صاحب ولد میاں حسین صاحب قوم راجپوت کی تاریخ ولادت محفوظ نہیں.۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود کی وفات کے وقت آپ کی عمر انداز ا اکتالیس سال تھی.آپ ابھی آٹھویں جماعت میں تعلیم پارہے تھے کہ آپ کے والد وفات پاگئے.اس لئے باوجود یکہ آپ نے آٹھویں میں اعلیٰ نمبروں سے کامیابی حاصل کی اور حساب کے مضمون میں انعامی کتب بھی حاصل کیں.لیکن آپ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے.اور دینی شغف میں لگ گئے اور فقراء کی صحبت اختیار کر لی اور لباس فقیری زیب تن کر کے تمام پنجاب.سندھ اور سرحد و بلوچستان کا چکر لگایا.اور بڑے بڑے مزاروں اور گدی نشینوں کے طور طریق کا بغور مطالعہ کیا.قرآن شریف سے لگاؤ ابتداء ہی سے تھا.لکھو کے مدرسہ دینیہ میں بھی تعلیم حاصل کی.آپ قرآن شریف بڑی خوش الحانی سے پڑھتے تھے اپنی قرآت کی وجہ سے وہاں مشہور تھے.وہاں بعض مخالف علماء سے حضرت مسیح موعود یہ سوانح بوساطت اخویم مولوی عبدالرحمن صاحب انور اسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایده اللہ تعالی ) کی توجہ سے میاں رمضان علی صاحب کے فرزند خویم سعد اللہ خانصاحب ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ سے

Page 197

175 حاصل ہوئے ہیں.واقعہ بیعت و زیارت اخویم انور صاحب نے ۲۴ نومبر ۱۹۳۳ء کو مرحوم سے قلمبند کیا تھا.اور اس وقت تصویر بھی اتاری تھی.مرحوم اس وقت ملازمت سے فارغ ہو کر جھنگ میں مقیم تھے.کا تذکرہ سنا اور تحقیقات میں مصروف رہے.اسی اثنا میں ان کے بہنوئی مولوی صالح محمد مرحوم نے جو ان سے پہلے بیعت کر چکے تھے.اور سہارنپور کے اسٹیشن ماسٹر تھے آپ کو ریلوے میں ملازم کروادیا.آپ ۱۹۲۶ء میں اسٹیشن ماسٹری کے عہدہ سے ملازمت سے سبکدوش ( ریٹائر ) ہوئے.بیعت و زیارت :.آپ بیان کرتے تھے کہ :.میں ۱۹۰۲ء میں لدھیانہ اسٹیشن پر تبدیل ہو کر آیا.حضرت مسیح موعود پٹیالہ تشریف لے جارہے تھے.اور سیکنڈ کلاس میں تشریف رکھتے تھے.ریل کا ڈبہ ریز رو نہیں کرایا ہوا تھا.اس وقت ایک گھنٹہ تک وہ گاڑی لدھیانہ اسٹیشن پر کھڑی رہی.اس وقت گاڑی کے اوپر بیٹھ کر میں نے حضرت صاحب کی بیعت کی.بہت سے ہندو اور مسلمان اسٹیشن پر اکٹھے ہو گئے تا کہ آپ کی زیارت کر سکیں.اور پلیٹ فارم کھچا کھچ بھر گیا.وہاں مجھ سے کوئی خاص بات نہیں ہوئی.اور نہ ہی کسی شخص نے کوئی بات پوچھی.نہ ہی میں نے کوئی خاص بات دریافت کی.اہلی زندگی :.آپ نے تین شادیاں کیں.اہلیہ اول محترمہ فاطمه صا حبہ مرحومہ (اولد ) اہلیہ دوم محترمه فاطمہ صاحبہ (اولاد.سعد اللہ خاں ٹیچر ربوہ.عبدالحمید مرحوم ) اور اہلیہ سوم محتر مہ صالحہ بی بی صاحبہ.(اولاد عطاء اللہ مرحوم.نعیم اللہ.عطا اللہ، اور ثناء اللہ مرحوم ) خدمات سلسلہ : ۱۹۲۶ء میں ملازمت سے سبکدوش ہونے پر آپ نے قرآن شریف مکمل حفظ کیا.اور صحاح ستہ کا مطالعہ کیا اور رمضان شریف میں مسجد احمد یہ میں جہاں آپ امام الصلوۃ تھے قرآن کریم سناتے تھے.آپ کو مسائل دینیہ خصوصاً احادیث اور کتب سلسلہ اور شنائی لٹریچر پر اتنا عبور حاصل تھا کہ کسی مخالف کو آپ کے سامنے اعتراض کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی.آپ ہمیشہ تبلیغ میں مشغول رہتے تھے.ایک عالم کا بیٹا بیعت پر آمادہ ہوالیکن والد کے مقاطعہ کی دھمکی سے خائف ہو کر رک گیا.وہ زمانہ بحث و مباحثہ کا تھا.چنانچہ آپ نہ صرف خود اس میں دلچسپی لیتے تھے بلکہ مرکز سے بھی علماء بلوا کر تقاریر کرواتے تھے.چنانچہ ایک زبر دست مباحث میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب فاضل ( حال رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ ) سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری نے سخت

Page 198

176 ۱۹۰۲ ء میں حضرت اقدس کا کوئی سفر پٹیالہ کا نہیں ہوا.غالباً دہلی کے سفر ۱۹۰۵ء میں لدھیانہ کے اسٹیشن پر انہوں نے بیعت کی ہوگی.زک اٹھائی.ایک اور موقع پر مکرم مولوی محمد سلیم صاحب فاضل ( حال مقیم دہلی ) سے مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی نیشکست کے خوف سے بحث کرنے سے انکار کر دیا تھا.سیرت :.آپ پابند صوم صلوۃ ،شب بیدار، خاندان حضرت مسیح موعود سے محبت کرنے والے، چندوں کو با قاعدہ ادا کرنے والے بزرگ تھے.آپ کے نیک نمونہ سے ایک بیدار مغز شیعہ نے احمدیت قبول کی آپ نے اپنے بیٹے سعد اللہ خاں صاحب کی شادی پر برادری کے مقاطعہ کی پرواہ نہ کی اور استقامت دکھائی.وفات :.آپ نے ۱۹۵۰ ء میں وفات پائی.اور جھنگ شہر میں مدفون ہوئے.غیر موصی تھے.

Page 199

177 مولوی غلام حید ر صاحب مولوی غلام رسول صاحب (پسر) مولوی غلام حید رصاحب محترم مولوی غلام حید رصاحب ولد مولوی سخی محمد صاحب قوم قاضی سکنہ موضع مجو کہ تحصیل خوشاب ضلع سرگودھا کو پرانے رواج اور دستور کے مطابق مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی کی شاگردی اور تلمذ میں دستار فضیلت باندھی گئی تھی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ہم درس تھے.قبول احمدیت.جلسہ مذاہب لاہور کے بعد ۱۸۹۷ء میں حضرت اقدس نے حضرت پیر غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والوں کو اپنی کتاب سراج منیر بھجوائی.ہم اس موقع پر آپ پیر صاحب کے پاس بہاولپور میں تھے ان سے حضور کے دعوی کا علم ہوا بہاولپور سے سیدھے دارالامان پہنچے.حضرت اقدس سے برائے افہام و تفہیم گفتگو کی درخواست کی حضور نے از راہ شفقت حضرت خلیفہ اول گوار شاد فرمایا.اس طرح تین دن پوری تحقیق کے بعد گویا ، ۱۸۹۷ء میں بیعت کر کے گھر واپس لوٹے مگر کچھ عرصہ کے بعد بیمار ہو گئے.اور ۱۹۰۶ء میں طویل علالت کے بعد بعمر تریسٹھ برس وفات پاگئے اور اپنے گاؤں کے قبرستان میں مدفون ہوئے.موصی نہیں تھے آپ کی تصویر نہیں کھچوائی گئی تھی.دیگر حالات :.چونکہ آپ پہلے اہل حدیث تھے.اور فرقہ اہل حدیث کے اپنے گاؤں میں موسس تھے.وہ سب جماعت جو پہلے اہل حدیث کی جماعت کہلاتی تھی.فوراً ہی ان کے صدق واخلاص کی برکت سے احمدیت سے وابستہ ہوگئی.ان کی شادی اپنے ہی خاندان میں محترمہ عائشہ بی بی سے ہوئی تھی.آپ کی اولاد کے اسماء یہ ہیں (۱) مولوی غلام رسول صاحب مرحوم صحابی (جن کے حالات آگے درج ہیں) (۲) محمد اسحاق مرحوم.(۳) محمد رفیق مرحوم (۴) بخت بھری مرحومہ (۵) فاطمہ مرحومہ (۶) زینب مرحومہ.

Page 200

178 جلسه اعظم مذاہب دسمبر ۱۸۹۶ء میں منعقد ہوا.سراج منیر ۱۸۹۷ء کی تصنیف ہے جس میں حضرت پیر صاحب موصوف کے تین مکتوبات بھی درج ہیں.مولوی غلام رسول صاحب : محترم مولوی غلام حیدر صاحب کے صاحبزادہ مولوی غلام رسول صاحب کی عمر حضرت مسیح موعود کی وفات کے وقت تمیں برس کے قریب تھی.ان کی تصویر نہیں کھچوائی گئی تھی.آپ نے پرانے درس نظامی کے نصاب کے مطابق فارسی کی تکمیل کی ہوئی تھی.صرف و نحو، تفسیر اور صحاح ستہ کی حافظ عبدالمنان صاحب وزیر آبادی اور مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی کی شاگردی میں تحمیل کی تھی.قبول احمدیت و دیگر حالات:.فرماتے تھے کہ ۱۸۹۴ء میں جب سورج گرہن اور چاند گرہن ہوا.اس وقت میں لاہور میں مولوی حافظ عبدالمنان صاحب سے ترمذی شریف پڑھتا تھا.علماء کی پریشانی اور گھبراہٹ نے میرے دل پر اثر کیا.گو علما ، لوگوں کو طفل تسلیاں دے رہے تھے.مگر دل میں سخت خائف تھے کہ اس بچے نشان کی وجہ سے لوگوں کا بڑی تیزی سے حضرت اقدس کی طرف رجوع ہوگا.ان دنوں حافظ محمد صاحب لکھو کے والے پتھری کا اپریشن کروانے کے لئے لاہور آئے ہوئے تھے.میں بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا.ان سے جب عوام نے دریافت کیا کہ یہ نشان آپ نے اپنی کتاب ”احوال الآخرہ میں واضح طور پر لکھا ہے.اور مدعی ( حضرت مرزا صاحب) بھی موجود ہیں اور اس نشان کو اپنا مئوید قرار دے رہے ہیں.آپ اس بارہ میں کیا مسلک اختیار فرماتے ہیں.انہوں نے کہا کہ میں بیمار اور سخت کمزور ہوں صحت کی درستی کے بعد کچھ کہہ سکوں گا.البتہ اپنے لڑ کے عبد الرحمن محی الدین کو حضرت مرزا صاحب کی مخالفت سے روکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے راز عجیب ہوتے ہیں لیکن وہ زندہ نہ رہ سکے.اور جلد ہی راہی ملک عدم ہو گئے.ان باتوں سے گو میرا دل حضرت اقدس کی سچائی کے بارہ میں مطمئن ہو چکا تھا.لیکن علم حدیث کی تکمیل کی خاطر امرت سر چلا گیا.اور وہاں دو تین سال رہ کر دورہ حدیث سے فراغت حاصل کر کے میں دارالامان میں حاضر ہو کر حضرت اقدس کی بیعت سے مشرف ہوا.۱۹۴۳ء تک تا وفات قریباً بمر تہتر برس آپ جماعت کے سیکرٹری مال اور امام الصلوۃ رہے.اور آپ نے جماعت کی تربیت کی.آپ کی خدمات کے نتیجہ میں جماعت کی تعداد مع مردوزن اور اطفال پانچ صد کے قریب پہنچ گئی تھی.آپ غیر موصی تھے.اپنے گاؤں کے قبرستان میں دفن ہوئے.

Page 201

179 آپ کی شادی آپ کے چچا کے گھر محترمہ سردار بی بی سے ہوئی.آپ کی وجہ سے یہ سارا کنبہ بھی احمدی ہو گیا.آپ کی اولاد کے نام یہ ہیں.(۱) مولوی عبد الرحمن صاحب مولوی فاضل.(۲) عبدالمنان (۳) عائشہ بی بی (۴) فاطمہ بی بی.بیعت کے متعلق مولوی غلام رسول صاحب کا اپنا بیان یہ ہے:.میں نے بیعت ۱۹۰۱ء میں بذریعہ خط کی.میں ان دنوں مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی کے درس میں پڑھا کرتا تھا.میں ان سے چھپ کر حضرت صاحب کی زیارت کو قادیان گیا اور بیعت کی.اس وقت میری عمر بائیس سال کی تھی.میرے ساتھ ایک اور دلی کا طالب علم بھی تھا.اس وقت باتیں تو حضور علیہ السلام سے بہت ہوئیں لیکن صرف یہ بات (یاد) رہی ہے کہ حضور نے فرمایا.خدا رحمت کرے محمد بن اسمعیل بخاری پر.اگر وہ میرا حلیہ مسیح ناصری کے حلیہ سے جدا بیان نہ کرتے تو مجھ کو محد ثین کب مانتے تھے.“ چوہدری تھے خانصاحب محترم چوہدری تھے خاں صاحب ولد فضل دین قوم جٹ راجو سکنہ گرا ( تحصیل وضلع سیالکوٹ ) بعدہ متوطن چک نمبر ۹۸ شمالی ضلع سرگودھا کی تاریخ ولادت محفوظ نہیں.۱۹۰۸ء میں آپ کی عمر قریباً پچاس سال کی تھی ناخواندہ تھے.موصی نہیں تھے.۱۹۴۶ء میں وفات پائی اور چک ۹۸ شمالی میں ہی دفن ہوئے.یہ روایت اخویم مولوی عبد الرحمن صاحب انور نے ان سے ۲۶ ستمبر۱۹۳۳ء کو بمقام مجوکہ قلمبند کی تھی.بقیہ حالات بھی اخویم موصوف کی معرفت اخویم مولوی عبدالرحمان صاحب فاضل پسر مولوی غلام رسول صاحب سے حاصل ہوئے ہیں جو بتاتے ہیں کہ میرے دادا میری ولادت سے قریباً تیرہ سال قبل وفات پاگئے تھے.اور میں نے جو کچھ بیان کیا ہے، والد صاحب سے سنا تھا.مولوی عبدالرحمان صاحب مولوی غلام رسول صاحب کی بیعت ۱۸۹۸ء کی بتاتے ہیں جو سہو ہے.کیونکہ مولوی غلام رسول صاحب نے روایات بالا میں اپنی بیعت ۱۹۰۱ء کی بتلائی ہے چونکہ ۱۹۰۱ء میں انکی عمر بائیس سال کے قریب تھی اس لئے ۱۹۴۳ء میں بوقت وفات چونسٹھ سال کے قریب ہوئی نہ کہ تہتر سال جو کہ ان کے فرزند مولوی عبدالرحمان

Page 202

180 صاحب بتلاتے ہیں.** آپ کی پہلی اہلیہ حاکم بی بی سکنہ موضع بن باجوہ (تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ ) کے بطن سے بقیہ اگلے صفحہ پر بیعت و زیارت :.آپ محترم چوہدری غلام حسین صاحب کے پڑوسی تھے.اور ان کی تبلیغ سے ہی اللہ تعالیٰ نے احمدیت میں شمولیت کا شرف بخشا.آپ کا اپنا بیان درج ذیل ہے :.یہ سب پہلے ہمارے چک میں سے چوہدری غلام حسین صاحب نے بیعت کی تھی.ان کی زبانی حضرت مرزا صاحب کی باتیں سنتا تھا اور مخالفت نہ کرتا تھا.میرے لڑکے اللہ رکھا نے مجھ سے ایک ماہ پہلے بیعت کی.میں نے انداز ۱۹۰۶ء میں بیعت کی.آخر میں قادیان جانے کے ارادہ سے روانہ ہوا.راستہ میں چوہدری حاکم علی صاحب پنیار ملے.وہ بھلوال کے اسٹیشن سے قادیان اپنے لڑ کے غلام مصطفیٰ کے نکاح کے لئے جا رہے تھے مل کر بڑی خوشی ہوئی.میں نے قادیان پہنچ کر چھ دن قیام کیا.ارد گرد کے گاؤں کے لوگوں سے حضرت مرزا صاحب کے متعلق دریافت کیا.لوگوں نے کہا یہ پاکھنڈ بنایا ہوا ہے لیکن مجھے کوئی پاکھنڈ نظر نہ آتا تھا.بیعت کے بعد میں نے مولوی نورالدین صاحب کو دیکھا وہ صحن کے ایک طرف تھے میری محبت نے جوش مارا اور ان سے ملنا چاہا لیکن انہوں نے اشارہ کیا.حضور کی طرف کہ اس کے لئے وہی جگہ ہے.میں وہ نہیں ہوں.اس کے مستحق وہی ہیں.میں روز حضرت صاحب کے ساتھ مدرسہ ہائی سکول کی طرف سیر کو جاتا.آخر ایک دن حضرت صاحب بقیہ حاشیہ: اللہ رکھا مرحوم اور غلام علی پیدا ہوئے.دوسری اہلیہ محد بی بی قوم مہاجر اور چوتھی اہلیہ حاکم بی بی قوم باجوہ سکنہ موضع قلعہ راجکور وضلع گوجرانوالہ تھیں ان دونوں سے کوئی اولاد نہیں ہوئی.تیسری اہلیہ ریشم بی بی قوم کلو سکنہ موضع بہلولہ ( ضلع سیالکوٹ ) کے بطن سے اقبال بیگم پیدا ہوئیں.محترم چوہدری غلام حسین صاحب ( والد استاذی المکرم مولوی محمد یار صاحب عارف سابق مجاہد انگلستان حال مقیم سرگودہا) بفضلہ تعالیٰ زندہ ہیں.آپ چک نمبر ۹۸ میں آباد ہیں.حضرت چوہدری حاکم علی صاحب مدفون بہشتی مقبره قادیان ( تاریخ وفات ۶/۱/۴۲) غلام مصطفیٰ ان کے فرزند زندہ ہیں.حضرت چوہدری حاکم علی صاحب کے فرزند غلام مصطفی کا نکاح حضرت مسیح موعود کی موجودگی میں حضرت مولوی نورالدین صاحب نے پانصد روپیه مهر پر محترم زینب بی بی صا حبه دختر مکرم با بو غلام حسن صاحب سکنه لومیر یواله (ضلع گوجرانوالہ ) سے ۲۶ مارچ ۱۹۰۸ء کو پڑھا تھا.( 50 ) گویا چوہدری نتھے خانصاحب کی بیعت اور آخر مارچ ۱۹۰۸ء کی

Page 203

181 ہے.اس سے ان کی روایت کی تصیح ہو جاتی ہے.اور قریب قریب آپ کی تاریخ بیعت کا تعین ہو جاتا ہے.نے نماز کے بعد اعلان کیا کہ جس جس نے بیعت کرنی ہو وہ کر لے.چنانچہ میں بھی تیار ہو گیا جس وقت میں حضرت صاحب سے مصافحہ کرنے لگا تو محبت نے اتنا جوش مارا کہ قریب تھا کہ حضرت صاحب کی ہتھیلی کو کاٹ کھاتا کہ حضرت صاحب نے میرے ماتھے کو ہاتھ سے پکڑا اور کہا کہ ایسا نہیں کیا کرتے.کیونکہ میں نے دل میں حضور کے ہاتھ کو کاٹنے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا.آخر میں نے بیعت کی.اس وقت حضرت صاحب سفید ململ کی پگڑی باندھے ہوئے تھے جسے مایہ ( یعنی کلف) لگی ہوئی تھی.اور آپ کی داڑھی مہندی سے سرخ تھی.حضرت صاحب کا قد درمیانہ رنگ گندم گوں تھا.سیر کو میل ڈیڑھ میل تک جایا کرتے تھے.اس وجہ سے کہ لوگوں کی توجہ اور چہرہ حضور کی طرف ہوتا تھا.رستے کی کچھ خبر نہ ہوتی تھی.اس لئے راستے میں لوگوں کے کپڑے جھاڑیوں وغیرہ سے پھٹ جاتے تھے.میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب نماز میں سجدہ کرتے وقت ہاتھ جائے نماز پر گھسیٹتے ہوئے لے جاتے تھے جس سے دری کے شکن نکل جاتے تھے.حضرت صاحب مولوی نور الدین صاحب کے دائیں طرف کھڑے ہوا کرتے تھے.سیرت :.آپ چندوں میں با قاعدہ تھے.چندہ تعمیر مسجد لندن میں اور چندہ احمدیہ ہال سیالکوٹ اور چندہ خلافت جو بلی فنڈ میں بھی حصہ لیا تھا.یہ روایت اخویم مولوی عبد الرحمن صاحب انور نے ان سے ۱۹ جولائی ۱۹۳۳ء کوسن کر قلمبند کی تھی.اور آپ کی تصویر بھی خودا تاری تھی جو محفوظ ہے دیگر کو الف بھی اخویم موصوف ہی نے مہیا فرمائے ہیں.ابھی یہ معلوم

Page 204

182 نہیں ہو سکا کہ ان کے بڑے بیٹے نے بحالت ایمان حضرت مسیح موعود کی زیارت کی تھی یا نہیں.چوہدری اللہ بخش صاحب محترم چوہدری اللہ بخش صاحب ولد میراں بخش قوم وڑائچ ساکن موضع لکھن وال ( ضلع گجرات ) بعده متوطن چک ۹ شمالی پنیار متصل بھلوال (ضلع سرگودھا) کی تعلیم لوئر مڈل تک تھی.بطور پٹواری ملازم ہوئے.آپ کی شادی محترمہ حسین بی بی قوم ساہی سکنہ پٹیالہ ساہیاں ( ضلع گجرات ) سے ہوئی.اولاد کے نام فضل احمد ، غلام احمد ، غلام نبی مرحوم اور منظور بیگم ہیں.احمدیت کیونکر قبول کی وغیرہ کی روایت آپ نے یوں بیان کی:.میں نے ۱۹۰۳ ء یا ۱۹۰۴ء میں بیعت کی.چوہدری حاکم علی صاحب سفید پوش چک ۹ شمالی کی تبلیغ کے ذریعہ احمدی ہوا.جب کرم دین کا مقدمہ گورداسپور میں تھا تو میں ان دنوں قادیان گیا.اور پھر سیدھا گورداسپور آیا.مقدمہ سے فراغت کے بعد سوہل کے اسٹیشن پر اُتر کر فیض اللہ چک رات گزاری اور اگلے دن صبح قادیان آگیا.حضرت صاحب کے پاس ایک آدمی ضلع سیالکوٹ سے آیا اور کہا کہ ہم پیر تھے.تعویز دیا کرتے تھے.اس پر لوگوں کو اعتقاد تھا.اب کیا ارشاد ہے.حضور نے فرمایا.قرآن مجید کی کوئی آیت لکھ کر دیدیا کریں.پھر اس نے رہن کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ جو شخص زمین رہن رکھ کر خود کاشت کرے اس کے لئے جائز ہے کیونکہ پیداوار لینے کی حالت میں نفع و نقصان دونوں باتیں ہوسکتی ہیں.اس لئے جائز ہے.یو آپ نے پچھتر چھہتر سال کی عمر میں ۱۹۴۸ء یا ۱۹۴۹ء میں وفات پائی.اور چک 9 شمالی میں دفن ہوئے آپ نے نویں حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی.آپ نصف مربع اراضی کی آمد اشاعت اسلام کے لئے و اور دیگر چندوں میں بھی یہ شوق حصہ لیتے تھے.اور احمدیت کی تبلیغ کرتے تھے.- حمدا یہ روایت اخویم مولوی عبد الرحمن صاحب انور نے ان سے ۲۹ اگست ۱۹۳۳ء کو سن کر قلمبند کی.اور اس وقت آپ

Page 205

183 نے ان کی تصویر بھی اتاری جو محفوظ ہے.ورنہ ان کے گھرانے میں بھی ان کی کوئی تصویر موجود نہیں.دیگر کوائف بھی اخویم انور صاحب نے حاصل کر کے مبیا فرمائے ہیں.اس وقت انہوں نے اپنی عمر قریباً ساٹھ سال بتائی تھی.رض میاں کرم الدین صاحب محترم میاں کرم الدین صاحب پسر حاجی جان محمد قوم کشمیری ساکن موضع پوہلہ مہاراں (ضلع سیالکوٹ) بعدہ متوطن چک نمبر ۳۳ جنوبی ملکے والا ( ضلع سرگودھا) قرآن مجید سادہ جانتے تھے.مزید تعلیم کچھ نہ تھی.آپ کا ایک ہی لڑکا محد جمیل تھا جو آپ کی زندگی میں ہی داغ مفارقت دے گیا تھا.آپ بیان فرماتے تھے کہ :.غالباً ۱۹۰۴ء کا ذکر ہے جب حضرت مسیح موعود لاہور آئے اور میاں معراج الدین صاحب کے مکان پر اُترے.تھوڑے ہی عرصہ کے بعد دیکھا کہ ایک مولوی ٹانگے پر سوار ہو کر اس طرف آیا.اور حضرت مسیح موعود کو گالیاں دینی شروع کیں.بالآخر جب اس طرح گالیوں کو کارگر نہ دیکھا تو ٹانگے سے اتر کر سڑک پر جو ایک درخت تھا.اس پر چڑھ گیا اور حضرت صاحب کو گالیاں دینی شروع کیں.بعض احمدی احباب اس کی گالیوں کو سن کر جوش میں آنے لگے تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ جو کچھ یہ کرتا ہے اسے کرنے دو.اور کوئی جواب نہ دو.لوگ اس شخص کو خوب سراہتے کہ وہ ٹاہلی والا مولوی ہے جومرزے کو گالیاں دیتا ہے.حمید آپ جلسہ سالانہ میں باقاعدہ شمولیت کرتے تھے.چندے بھی دیتے تھے.فتنہ ارتداد ملکانہ کے موقع پر اپنے خرچ پر کئی ماہ تک آپ اس علاقہ میں تبلیغ کرتے رہے.جب بھی سلسلہ کی خاطر قربانی کا کوئی موقع پیش آتا اپنا کام کاج چھوڑ کر خوشی وقت دیتے.ہمیشہ تبلیغ میں مشغول رہتے تھے.احمدیت کے خلاف بد زبانی برداشت نہیں کرتے تھے.صوم وصلوٰۃ کے بڑے پابند تھے آپ پانچ فروری ۱۹۵۶ء کو فوت ہوکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے.آپ کی وصیت ۱/۸ کی تھی.اور دفتر اول تحریک جدید کے مجاہدین میں سے تھے.آپ نے ۹۳ سال کی عمر میں وفات پائی.یہ روایت اخویم مولوی عبدالرحمن صاحب انور نے ان سے ۲۰ جون ۱۹۳۳ء کو سن کر قلمبند کی تھی.دیگر کوائف بھی انور صاحب ہی نے مہیا فرمائے ہیں.

Page 206

184 پانچ ہزاری مجاہدین میں آپ کا نام چک ۳۳ ج سرگودھا میں بالفاظ 'بابا کرم دین صاحب ایک سوانتیس روپے کے قریب چندہ درج ہے.شیخ رحمت اللہ صاحب دولت بی بی صاحبہ ( ہمشیرہ) عائشہ صاحبہ (اہلیہ) شیخ جھنڈ ا صاحب (والد) شیخ رحمت اللہ صاحب : محترم شیخ رحمت اللہ صاحب پسر مکرم شیخ جھنڈ ا صاحب قوم شیخ موضع طغل والہ نزد قادیان تقریباً ۱۸۷۶ء میں پیدا ہوئے تاریخ ولادت محفوظ نہیں.یہ شیخ جھنڈا صاحب نے والد ماجد حضرت مسیح موعود سے چھ سال تک طب پڑھی.اس لئے انہیں نہایت قریب سے حضور کی قبل از دعوی زندگی کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا تھا.اور وہ حضور کی بے داغ سیرت اور بلند کرداری کے بہت مداح تھے.سناتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے مجھے حضرت مرزا صاحب ( مسیح موعود ) کو بلا لانے کے لئے فرمایا.میں آپ حضور کے دروازے پر پہنچا تو یوں آواز آئی گویا کوئی عورت دردِ زہ کی وجہ سے کراہ رہی ہے سمجھا کہ شاید میں کمرہ بھول گیا.لیکن دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہی کمرہ ان کا ہے.چنانچہ میں دستک دے کر انتظار کرنے لگا.تھوڑی دیر میں آپ نماز ظہر سے فارغ ہو کر تشریف لائے.اور مجھ سے مصافحہ کیا.میرا پیغام سن کر فر مایا کہ میں آتا ہوں.آپ آئے تو والد ماجد نے بتایا کہ کل مقدمہ کی پیشی ہے.آپ عدالت میں یہ بیان دیں.آپ یہ سارے سوانح خاکسار مولف کی بار بار کی تحریک پر اخویم حاجی شیخ عبداللطیف صاحب ( قائد خدام الاحمد بید و سیکرٹری امور عامه لائلپور شہر ) پسر مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب نے ان سے دریافت کر کے مہیا کئے ہیں.خاکسار نے بھی تقسیم ملک کے بعد پہلی بار شیخ صاحب محترم سے جولائی ۱۹۶۱ء میں بمقام لائکپور ملاقات کی اور ان سے دعا کرائی اور سوانح کے تعلق میں بعض امور دریافت کئے.جنوری ۱۹۳۵ء میں صحابہ قادیان کی فہرست کی تیاری کے وقت آپ نے اپنی عمر پچپن سال بتائی تھی.اور آپ

Page 207

185 نے بتایا کہ بوقت بیعت (۱۹۰۲ء میں) آپ کی عمر بائیس برس تھی.یہ دونوں بیانات باہم مطابق ہیں.نے والد صاحب کیخدمت میں عرض کی کہ آپ مجھے لکھ دیں.میں عدالت میں پیش کر دونگا.والد ماجد نے کہا کہ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں.یہ باتیں زبانی بیان کر دیں.لیکن حضور نے جواب دیا کہ میں اپنی زبان سے بیان نہیں کر سکتا.کیونکہ مجھے اس بیان کی صحت کے متعلق یقین نہیں.البتہ آپ کا بیان آپ کی طرف سے عدالت میں پیش کر دوں گا شیخ صاحب حضور کی صاف گوئی ، صداقت پسندی اور گریہ وزاری سے بہت متاثر ہوئے.بیعت :.مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ:.والد صاحب سے اس خاندان کے حالات سن کر میں حضرت مسیح موعود کی عظمت سے متاثر تھا.میں پھیری کر کے بزازی کا کاروبار کرتا تھا.اس لئے حضور کے دعوی کی طرف کوئی توجہ نہ ہوئی.ایک دن محمد چراغ صاحب مصنف سیف حق اور امام الدین صاحب ساکن قلعہ ہمارے گاؤں میں آئے.محمد چراغ صاحب کی سہ حرفی کا مجھے صرف ایک شعر یاد ہے.الف.اُٹھ جیا چل قادیاں نوں جتھے مہدی مسیح نزول کیتا راسخ علم والے جیہڑے لوک آہے حلیہ دیکھ کے اونہاں قبول کیتا یہ موسم گرما تھا میں نماز تہجد کے لئے اٹھا تو دیکھا کہ چار پانچ گھروں کے فاصلہ پر چھت پر دو اشخاص عبادت میں مصروف ہیں اور جب میں نے نماز تہجد ختم کر لی تو پھر بھی ان دونوں کو میں نے مصروف عبادت دیکھا تو خیال آیا کہ یہ جو فرشتہ سیرت لوگ ہمارے گاؤں میں آئے ہیں ان سے ملاقات کرنی چاہئے.چنانچہ ان سے ملاقات کی تو ان کی پاکیزہ دلی ان کے چہروں سے ہی نظر آتی تھی اور دریافت کرنے پرانہوں نے بتایا کہ ہم احمدی ہیں اور ہم نے یہاں ٹھیکہ پر کام لیا ہے.اور چھ ماہ تک اسی گاؤں میں ہمارا قیام ہوگا.امام الدین صاحب بھی موضع قلعہ میں خلافت اولی کے زمانہ میں فوت ہوئے.** استفسار پر آپ نے بتایا کہ محمد چراغ صاحب کی بیعت غالبا ۱۹۰۰ء کی ہے.آپ واقعی محمد کے چراغ تھے تہجد گزار، متقی اور نیک سیرت.آپ ۱۹۰۶ء میں الہ بخش صاحب ٹوپی فروش امرت سر کی دکان پر فوت ہوئے اور امرت سر میں دفن

Page 208

186 ہوئے.حضرت مسیح موعود نے آپ کا جنازہ غائب پڑھایا تھا.ان کے لڑکے عبدالواحد صاحب اوور سیئر جہلم میں قیام رکھتے ہیں جن کی شادی امتہ اللہ صاحبہ دختر مستری دین محمد صاحب قادیانی مرحوم سے ہوئی تھی.اور انہوں نے بتایا کہ احمدیت اور حضور علیہ السلام کا دعوی کیا ہے.حضور علیہ السلام کا دعوی میرے لئے باعث تعجب تھا.کیونکہ میں حیات مسیح کا قائل تھا.میں نے حیات مسیح کے متعلق کچھ آیات پیش کیں جو انہوں نے فورا حل کر دیں.اور میں ان کے دلائل سے اسی وقت وفات مسیح کا قائل ہو گیا.ان کا انداز گفتگو اس قدر حلیمانہ اور پر خلوص تھا کہ ان کی ایک ایک بات میرے دل میں کا اُترتی چلی گئی.میرے دریافت کرنے پر کہ وہ قادیان کب جائیں گے انہوں نے بتایا کہ وہ کل جمعہ وہیں پڑھیں گے.تو میں نے کہا کہ مجھے بھی کل ساتھ لے چلیں.چنانچہ ہم تینوں قادیان پہنچے اور مسجد مبارک میں گئے.مئوذن نے اس قدر خوش الحانی سے اذان دی کہ گویا ایک وجد کا عالم طاری ہو گیا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے خطبہ دیا جو پر سوز تھا.جس کا نماز میں بھی اثر قائم رہا.حضور کوئی ڈیڑھ بجے مسجد میں تشریف لائے..یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا آپ غسل خانہ سے نکل کر آئے ہیں.حضور کا انوار سے منور چہرہ دیکھ کر حضور کی محبت میرے دل میں گھر کر گئی.ایک دوست نے بعد جمعہ عرض کیا.ایک شخص بیعت کے لئے حاضر ہے.فرمایا.عصر کے بعد.چنانچہ عصر کے بعد جب حضور نے اپنے دست مبارک میں میرا ہاتھ لے کر الفاظ بیعت پڑھوائے تو اس کلمہ شہادت کے پڑھنے سے عجیب کیفیت پیدا ہوئی اور یوں محسوس ہوا گویا پہلی بار یہ کلمہ صحیح معنوں میں پڑھ رہا ہوں.اور استغفار کے الفاظ حضور کے دل سے نکلتے محسوس ہوتے تھے..اور اس وقت بے ختیار میری چیخ نکل گئی.بیعت کے وقت کا سرور اور حلاوت اس وقت تک دل کی گہرائیوں میں موجود ہے بعد بیعت میں نے ایک روپیہ نذرانہ پیش کر کے دعا کے لئے عرض کیا.حضور نے نہایت شفقت اور پیار سے فرمایا.آپ کے لئے دعا ضرور کی جائے گی.غالبا ۱۹۰۲ء کی یہ بات ہے.حضور کی شفقت کے اثر سے میں آٹھ دن قادیان میں ٹھہرا.اس وقت میری عمر بائیس سال کی تھی.اور ابھی ہیں دن پہلے میری شادی ہوئی تھی.اور میں بزازی کی پھیری کا کام چھوڑ کر کر یا نہ کی دکان شروع کرنے والا تھا.اور کریانہ کا سامان دکان میں رکھ چکا تھا.اور دکان ابھی شروع نہیں کی تھی.اور گھر میں میرا نتظار تھا.والد صاحب نے چراغ محمد صاحب اور امام الدین صاحب سے دریافت کیا کہ ہمارا بچہ آپ کہاں چھوڑ آئے ہیں.انہوں نے بتایا کہ آپ کے بچے پر بیعت کا ایک عجیب اثر ہوا ہے.اور وہ قادیان ہی میں ہیں.

Page 209

187 قادیان کے لئے بیقراری اور بالآخر ہجرت کر آنا :.آپ بیان کرتے ہیں کہ آٹھ دن کے بعد قادیان سے واپس آیا گھر والے میری گریہ وزاری اور قادیان کی محبت کو دیکھ کر حیران ہوتے تھے.والد صاحب چونکہ حضور کی پاکیزہ سیرت کے عینی شاہد تھے.اور انہوں نے خود مجھے برضا و رغبت بھیجا تھا.اس لئے انہوں نے مخالفت نہ کی.میں ہر جمعہ قادیان میں پڑھتا اور قادیان آنے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرتا.صبح دکان پر بھائی کو بٹھا کر قادیان آجا تا جو کہ صرف تین میل کے فاصلہ پر ہے.اور شام کو نماز مغرب ادا کر کے گھر پہنچتا.اور کبھی پانچ پانچ چھ چھ دن قادیان ہی میں قیام رکھتا.با وجود اس کے دل کو چین نہ آتا اور آپ کے دل میں یہ خیال سمایا ہوا تھا کہ دیار محبوب میں دھونی رما کر بیٹھ جائیں.کاروبار اچھا تھا.اس لئے گھر والے آپ کو قادیان بھیجنے کے حق میں نہ تھے.اس طرح ایک دو سال گذر گئے.اس کے بعد آپ نے حضور سے قادیان کی سکونت اختیار کرنے کی اجازت لینے کے لئے عرض کیا.فرمایا کہ مولوی صاحب یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب سے مشورہ کر لیں.یہ الفاظ تین دفعہ دہرائے.حضرت مولوی صاحب نے آپ کی درخواست کو قبول فرمایا.اب والد صاحب کو رضامند کرنے کا مرحلہ باقی تھا.وہ چونکہ حضرت مولوی صاحب کے پاس طبی امور میں مشورہ کیلئے اکثر آتے تھے.اس لئے آپ نے ایک روز والد صاحب سے فرمایا کہ آپ رحمت اللہ کو قادیان آنے کی اجازت دے دیں.جسے والد صاحب نے بلا تامل مان لیا.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ میاں تمہیں مبارک ہو.تمہارے والد صاحب کو میں نے راضی کر لیا ہے.۱۹۰۵-۰۶ء میں آپ نے مسجد مبارک کے ساتھ والی دود کا نیں کرایہ پر لے لیں اور حضور کی خدمت میں عریضہ بھیج کر دریافت کیا کہ میں کون سا کاروبار شروع کروں.جو حضور نے جواب تحریر فرمایا کہ:.دنیا کے کام آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں جو کام بھی آپ شروع کریں گے.میں اس کے لئے دعا کروں گا.اور اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے گا.“ تعیین بیعت اور ہجرت ذیل امور سے ہوسکتی ہے:.(۱) شادی کے کتنے عرصہ بعد پہلا بچہ ہوا.( کیونکہ پہلا بچہ ۱۹۰۵ء میں طغل والہ میں ہونا آپ بیان کرتے ہیں اور بیعت شادی کے ہیں بائیس دن بعد آپ نے کی تھی ) ( جواب.پہلا بچہ شادی کے دوسال بعد پیدا ہو تھا.)

Page 210

188 (۲) بچی قادیان میں پہلے بچہ کے کتنے ماہ بعد پیدا ہوئی.بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر چنانچہ آپ نے پنساری کی دکان کھول لی اور اس کے بعد اور بھی مختلف کام کئے.مثلاً کوئلہ اور چونا بھی فروخت بقیہ حاشیہ : ( کیونکہ ۱۹۰۶ء میں بچی قادیان میں ہجرت کر آنے کے بعد آپ بیان کرتے ہیں ) جواب دو سال بعد (۳) بوقت بیعت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ابھی زندہ تھے ؟.( آپ کی وفات ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو ہوئی ) (۴) بلکہ اس سے بھی قبل کے دو واقعات آپ بتاتے ہیں جن سے بیعت کی ایک حد تک تعین ہو جاتی ہے ایک تو یہ کہ آپ سفر جہلم کے موقع پر حضرت مسیح موعود کے ساتھ جہلم گئے تھے.( یہ سفر قادیان سے ۱۵ جنوری ۱۹۰۳ء کو شروع ہوا اور ۱۹ جنوری کو حضور مراجعت فرمائے قادیان ہوئے ) اس سفر والے عرصہ کی مزید توثیق و تائید مکرم شیخ صاحب کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید جب قادیان سے الوداع ہونے لگے اور وہ بے ختیار حضرت مسیح موعود کے پاؤں پر گر گئے.یہ واقعہ میرے سامنے کا ہے.حضرت شہید صاحب سفر جہلم میں حضور کے ہمراہ تھے.اور غالبا اکتو بر ۱۹۰۲ء میں قادیان آئے تھے.اور چند ماہ قیام کر کے ۱۹۰۳ء میں وطن کے لئے واپس ہوئے تھے.امور متذکرہ بالا سے ثابت ہوا کہ کم از کم دسمبر ۱۹۰۲ء یا آغاز جنوری ۱۹۰۳ء میں مکرم شیخ صاحب کی بیعت ہوئی ہوگی.کیونکہ بیعت کے بعد آٹھ دن آپ قادیان میں بھی رہے تھے.آپ کا بیان یہی ہے کہ غالب ۱۹۰۲ء میں بیعت کی تھی اس معاملہ میں مجھے بہت غور کرنا پڑا.اس لئے کہ شیخ صاحب بہت ضعیف ہو چکے ہیں اور فالج کے شدید حملہ میں مبتلا ہوکر قریب میں ایک حد تک صحت یاب ہوئے ہیں گو چل پھر سکتے ہیں مبادا کسی سہو ونسیان کا ان کی اس بات پر اثر نہ ہو.لیکن الحمد للہ کہ پچیس سال قبل کا ان کا بیان مجھے مل گیا ہے جس سے مزید تائید ہوتی ہے جنوری ۱۹۳۵ء میں صحابہ قادیان کی فہرست عید کی خاطر تیار کی گئی تھی.اس میں آپ کی بیعت و زیارت کا سال ۱۹۰۲ء ہی مرقوم ہے جو لازماً آپ سے دریافت کر کے ہی لکھا گیا ہوگا.مکرم میاں اللہ بخش صاحب ( ولد محکم دین سکنہ ہر چووال ) درویش قادیان جنوری ۱۹۳۵ء والی فہرست کی تیاری کے موقع پر قادیان میں مہمان کے طور پر آئے ہوئے تھے.ناظر ضیافت حضرت میر محمد الحق صاحب نے مہمانوں میں سے صحابہ کی بھی فہرست تیار کی.اس میں میاں اللہ بخش صاحب نے اپنی بیعت ۱۹۰۵ء لکھوائی ہے اور ۱۹۴۲ء میں ( جبکہ آپ ناصر آباد قادیان میں مقیم تھے ) وصیت کرتے ہوئے اپنی بیعت ۱۹۰۳ لکھوائی ہے میاں اللہ بخش صاحب و شیخ رحمت اللہ صاحب ہر دو نے ایک دوسرے سے پہلے بیعت کرنے کا ذکر کیا ہے لیکن تفصیل متذکرہ بالا سے یہ ظاہر ہے کہ شیخ رحمت اللہ صاحب کا اپنا بیان ثابت ہو جاتا ہے.اور میاں اللہ بخش صاحب چونکہ ان پڑھ ہیں اس لئے ان کے اپنے

Page 211

189 بیانات میں تضاد ہے اس لئے تقدم کے متعلق محض ان کے بیان پر انحصار نہیں جب تک دیگر قرائن مرجمہ بھی نہ ہوں.کرتے تھے.حضور کی دعاؤں کی برکت سے کبھی کوئی نقصان نہیں اٹھایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہی برکت دی:.آپ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح مجھے حضرت اقدس کی صحبت با برکت میں رہنے اور نشانات دیکھنے کا موقع ملا.اور کئی دفعہ میں پکار اٹھتا کہ لوگو! دیکھو زبان انسان کی ہے لیکن بولتا خدا ہے.ایک دفعہ کسی نے حضرت مولوی نورالدین صاحب سے شکایت کے رنگ میں کہا کہ مسجد کے قریب دکان نہیں ہونی چاہئے.حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود سے ذکر کیا تو فرمایا.آپ جانتے ہیں یہ کون لوگ ہیں یہ اصحاب الصفہ ہیں یہ سن کر خوشی کے مارے میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے.حمد حضرت خلیفہ اول سکا گھوڑے سے گرنا:.مکرم شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دوست نے سرخ رنگ کی ایک گھوڑی حضرت خلیفہ اول کو تحفہ کے طور پر دی تھی.آپ اس پر سوار ہو کر اس گلی میں سے آ رہے تھے جو مہرالدین آتشباز کے مکان کے قریب ہے گھوڑی بہت بد کنے والی تھی.چنانچہ وہ بدک گئی اور حضرت خلیفہ اول کا پاؤں رکاب میں لٹک گیا.اور حضور ایک طرف کو لٹک گئے.میں نے دیکھا تو فوراً بھاگ کر لگام پکڑ لی.میں جوان تھا میں نے گھوڑی کو چھوڑ انہیں وہ مجھے دھکیل کر آٹھ دس قدم تک لے گئی.اتنے میں آپ کا پاؤں رکاب سے نکل گیا.اور آپ ایک کھنگر پر گرے جس کی وجہ سے آپ کی کنپٹی پر چوٹ آئی جو بعد میں ناسور بن گئی.اور یہ ناسور آپ کی وفات تک باقی رہا.حضور گرنے سے بیہوش ہو گئے.میں نے آپ کو اٹھایا اور چونکہ یہ واقعہ میرے مکان کے سامنے پیش آیا تھا.اس لئے اپنی اہلیہ کو آواز دی.وہ چار پائی اور کپڑا لے آئیں اور آپ چار پائی پر لیٹ گئے حضور کے سر میں پانی ڈالا مگر خون بند نہ ہوا.میں نے اپنی پگڑی سے خون صاف کیا جو نصف کے قریب خون آلود ہوگئی.تھوڑی دیر کے بعد ہوش آئی تو فرمایا کہ خدا کے مامور کی بات پوری ہوگئی.خاکسار کے استفسار پر آپ نے بتایا کہ ان دوکانات کے مالک مرز انظام الدین صاحب تھے اور فی دکان ڈیڑھ روپیہ ماہوار کرایہ تھا.نیز سب سے پہلی دکان کریانہ کی جو کسی احمدی نے کھولی وہ میری تھی.کچھ سامان میں لنگر خانہ کے پاس فروخت کر دیتا تھا.اور کچھ حضرت مسیح موعود کے پاس اور اسی سے میرا گزارہ ہو جا تا تھا.خاکسار مولف نے توثیق کی خاطر کہ شیخ صاحب کی کریانہ کی اولین دکان تھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ کی خدمت میں تحریر کیا.آپ فرماتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ شیخ رحمت اللہ صاحب حال لائلپور قادیان میں

Page 212

190 سالہا سال سے کام کرتے تھے.مگر مجھے تفصیل یاد نہیں.“ اور میرے دریافت کرنے پر کہ کونسی؟ فرمایا کیا آپ نے اخبار میں نہیں پڑھا کہ حضور نے میرے گھوڑے سے گرنے کی خواب دیکھی تھی.(51) میری اہلیہ نے عرض کی کہ حضور دودھ لاؤں.فرمایا نہیں.میں دودھ کا عادی نہیں اس سے مجھے اسہال کی شکایت ہو جاتی ہے.پھر حضور کو چار پائی پر ہی اٹھا کر آپ کے مکان پر حکیم غلام محمد صاحب امرت سری آپ کے شاگرد اور غلام محی الدین صاحب جو بچوں کے خادم تھے وغیرہ اٹھا کر لے گئے.میں بھی ساتھ تھا لیکن چار پائی اٹھانے کا مجھے موقع نہیں ملا.تیسرے روز حکیم غلام محمد صاحب موصوف آئے اور کہا کہ حضرت خلیفہ اول خون آلود پگڑی منگواتے ہیں میں ان کے ساتھ حاضر ہوا تو فرمایا وہ پگڑی ہمیں دے دو.میرے تو قف پر حضور میر امطلب سمجھ گئے اور فرمایا.اچھا اسے دھلالو.اور استعمال کرو لیکن ٹکڑے کر کے لوگوں میں تقسیم نہ کرنا اور مجھے ایک نئی پگڑی بھی عنایت کی.احباب پگڑی دیکھنے آتے اور ان کی خواہش ہوتی کہ پگڑی انہیں مل جائے.لیکن میں نے حسب ارشاد اسے دھلا لیا اور دونوں پگڑیاں استعمال کر لیں.محترم سید عبدالرحمن صاحب خلف حضرت سید عزیز الرحمن صاحب جنوری ۱۹۵۲ء میں قادیان تشریف لائے ہوئے تھے.انہوں نے حضرت خلیفہ اول کے گرنے کی جگہ موقع پر لیجا کر دکھا ئی تھی.ان کا بیان تھا کہ اس حادثہ کا میری طبیعت پر گہرا اثر ہوا.اور اب تک اس کا نقشہ مجھے پوری طرح یاد ہے اور آپ نے ذیل کا تحریری بیان دیا.حضرت خلیفہ مسیح اول جب تنگ گلی میں سے گذر کر شیخ رحمت اللہ صاحب کوئلہ فروش کے مکان کے سامنے دروازہ کی جانب جنوب قریباً دس فٹ کے فاصلہ پر نالے کے نیچے وہاں ایک بڑا کھٹنگر پڑا تھا جس سے گھوڑی نے ٹھوکر کھائی اور حضور زمین پر آرہے اور اسی کھنگر سے حضور زخمی ہو گئے باہر سے کسی کی آواز آپ کے گرنے سے متعلق سن کر فوراً شیخ صاحب کی اہلیہ محترمہ گھر سے باہر نکل آئیں میرحسین صاحب بریلوی میرے پھوپھا کی گلی کے سرے پر آتشباز مہر دین کے مکان کے ملحق رہتے تھے.والدہ صاحبہ اور میں وہاں آئے ہوئے تھے اہلیہ محترم شیخ صاحب وہاں بھی بتانے آئیں.گھر میں مردصرف میں ہی تھا.میں فوراً حضور کے پاس گھر پہنچا تو حضور زمین پر گرے پڑے تھے اور اُٹھنے کی کوشش کر رہے تھے.اتنے میں شیخ صاحب چار پائی لے کر آگئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو مجھ سے پہلے علم ہو چکا تھا.اب چار پائی پر

Page 213

191 ڈال کر وہاں احباب لے گئے.اب اس وقت کافی لوگ وہاں جمع ہو چکے تھے.بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر خلافت ثانیہ سے وابستگی :.آپ بیان کرتے ہیں کہ میں حلفا سنا تا ہوں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں رورہا ہوں اور حضرت خلیفہ اول کے پاس بیٹھا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ حضور تو جار ہے ہیں تو ہمیں کس کے سپر د کر کے جارہے ہیں.مسجد مبارک میں گویا ظہر کے وقت نمازی جمع ہیں اور بہت سے ابھی بھی آ رہے ہیں.اتنے میں حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب تشریف لے آئے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ میاں اس محراب میں کھڑے ہو جاؤ.“ جب حضرت میاں صاحب کھڑے ہو گئے تو آپ نے اپنا ایک ہاتھ میرے سر پر رکھ کر اور ایک ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر منہ ادھر گھما کر فرمایا کہ یہ ہے جس کے سپر د کر چلا ہوں.میرے بعد یہ تمہارا خلیفہ ہوگا.اور آپ نے یہ الفاظ دودفعہ دہرائے.اگلے روز خواب میں دیکھا کہ ایک سڑک پر دومنہ والے سولہ سانپ کھڑے پھنکارتے ہیں.منظر نہایت ہیبت ناک ہے لوگ خوف کے مارے کھڑے ہیں.اور راستہ صاف ہونے کے منتظر ہیں میں بھی سڑک پار کرنا چاہتا ہوں مگر سانپوں کی وجہ سے نہیں کر سکتا.اتنے میں ایک شخص آیا میرے پوچھنے پر بتایا کہ میں فرشتہ ہوں میرا نام رحمت علی ہے اور میں تمہارے لئے ایک حربہ لایا ہوں.اس نے گھاس کھود نے والا نمبہ مجھے دیا اور اس کے چلانے کا طریقہ مجھے بتا کر کہا کہ اسطرح چلاؤ کہ یہ سانپ کٹ جائیں.چنانچہ میں نے اس تیزی سے چلایا کہ ان کے نچلے منہ کٹ گئے اور وہ کھنڈرات میں گر گئے اور میں نے زور زور سے پکارا کہ لوگو! آجاؤ کہ راستہ صاف ہے.اور لوگ گزرنے لگے.بقیہ حاشیہ :.اگلے روز حضرت خلیفہ اول انتقال فرما گئے.اور ہفتہ کے روز مسجد نور کے قریب بڑ کے درخت کے نیچے خاکسار کے استفسار پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ نے رقم فرمایا:.اس زمانہ میں اس گلی میں اور اس کے قریب کھنگر پڑے ہوئے تھے.“ اور حضرت عرفانی صاحب نے تحریر فرمایا:.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ وہ گلی جو اسکول کو جاتی یا اسکول سے الحکم سٹریٹ میں آتی ہے اس گلی سے آئے تھے اور شیخ رحمت اللہ کے گھر کے قریب گرے تھے.(52) حضرت عرفانی صاحب نے اس کتاب کا سارا مسودہ از راہ کرم ملاحظہ فرمایا تھا صفحہ ۳۲۶ پر نقشہ بھی دیا گیا ہے.مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب کے بیان سے مکرم سید عبدالرحمن

Page 214

192 صاحب کے بیان کی تکمیل و تصیح بھی ہو جاتی ہے.یہ حادثہ ۱۸ نومبر ۱۹۱۰ء کو وقوع میں آیا (53) مولوی محمد علی صاحب کے ساتھی جمع ہو گئے جو لوگوں میں ٹریکٹ تقسیم کرتے تھے.مسجد میں سید محمد احسن صاحب امروہی کھڑے ہوئے اور آپ نے حضرت میاں محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کہا کہ حضور خلافت کے لائق ہیں.اس وقت مجھے یکدم جوش آیا.اور میں نے زور سے کہا کہ حضور اسی وقت بیعت ہونی چاہئے.میرے منہ سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ حاضرین نے میری آواز میں آواز ملا دی.اور ہر طرف سے یہی آواز آنے لگی اس وقت مولوی محمد علی صاحب اور مولوی صدرالدین صاحب نے کہا کہ ٹھہر وا ٹھہرو! ابھی بیعت میں جلدی نہ کرو.میں نے جوش میں کہا کہ نہیں ٹھہریں گے.اس پر سید احمد نور صاحب کا بلی کو بھی جوش آ گیا.اور انہوں نے مولوی غلام رسول صاحب پٹھان کو کہا کہ انہیں باہر نکال دو.یہ لوگ جن کی تعدا د سولہ تھی وہاں سے بھاگ گئے.میں نے اپنی پگڑی اور سید احمد نور صاحب کی لنگی کو باندھ کر حضور کی طرف پھینکا.حضور نے پگڑی کا سرا اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور بیعت لی.خلافت ثانیہ کی ابتداء میں میں نے ایک خواب دیکھا کہ میرے ہاتھ میں حقیقۃ الوحی“ کتاب ہے حضرت مفتی محمد صادق صاحب گلی میں سے گزر رہے ہیں اور پوچھنے پر کہ کہاں جار ہے ہیں.فرمایا کہ آپ نے نہیں سنا کہ یہاں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دربار لگا ہے.میں بھی مفتی صاحب کے ساتھ روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کردیکھتا ہوں کہ ایک پر جلال تخت ہے اور بوجہ کثرت انوار البہیہ نگاہیں چکا چوند ہورہی ہیں.اور حضور قبلہ رو تشریف رکھتے ہیں اور میں نے مصافحہ کیا پھر دیکھا کہ حضرت مسیح موعود اسی تخت پر تشریف رکھتے ہیں.تیسری دفعہ دیکھا کہ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ تشریف فرما ہیں.میں بہت حیران ہوا تو زور دار آواز آئی.کیا تم دوسمجھتے تھے.یہ ایک ہی ہے.میرا خیال ہے کہ اس زور کی آواز تھی کہ ظاہر میں ایسی زور کی آواز پانچ چھ گھروں کے فاصلہ تک سنی جاتی.( گویا شیخ صاحب مکرم کو حضرت مسیح موعود کے آنحضرت ﷺ کی محبت وعشق میں فنا ہونے اور حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود کے محبت و عشق میں فنا ہو کر مثیل ہونے کے متعلق رؤیا دکھائی گئی.(مؤلف) خدمت سلسلہ:.آپ نے منارہ مسیح کی تعمیر کے لئے پچاس روپے کا سینٹ اور چونا اور چالیس روپے نقد دیئے تھے.ارتداد ملکانہ کے موقع پر اپنی طرف سے اپنے ایک عزیز کو وہاں تبلیغ کے لئے بھجوایا تھا.اور ڈیڑھ صد

Page 215

193 روپیہ خرچ برداشت کیا تھا.آپ نے وقف جائیداد کی تحریک میں اپنی جائیداد بھی وقف کی تھی.تحریک جدید کے دفتر اول کے مالی جہاد میں آپ شامل ہیں.(54) نوٹ :.آپ کی روایات کتاب ہذا کے آخر میں درج ہیں.بیعت دولت بی بی صاحبہ: مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میری ہمشیرہ محترمہ دولت بی بی صاحبہ نے میری بیعت سے تین ماہ قبل بیعت کر لی تھی.ان کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی.اور عمر بھی کافی ہوگئی تھی.وہ حضرت مسیح موعود کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر عرض کرتی رہتی تھیں کہ حضور دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ مجھے ایک ہی بچہ دے دے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعا کی برکت سے با وجو د شدید مایوسی کی حالت کے ایک بچہ عنایت کیا.یعنی شیخ فضل احمد صاحب بز از حال مقیم لائل پور جو صاحب اولاد ہیں.یہ حضرت مسیح موعود نے ان کو گود میں اٹھایا اور دعا بھی فرمائی.موصوفہ نے ۱۹۰۹ء میں وفات پائی.حضرت خلیفتہ امسیح اول نے از راہ کرم جنازہ پڑھایا اور موصوفہ کو قبرستان عید گاہ قادیان میں دفن کیا گیا ان کی وصیت نہیں تھی.محتر مہ فضل بی بی صاحبہ سے شادی اور ان کی بیعت:.مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب کی اہلیہ محترمہ فضل بی بی صاحبہ (جن کا آپ نے بعد شادی عائشہ نام رکھ دیا تھا) دختر شیخ نظام الدین صاحب سکنہ ڈھپئی نے اپنے خاوند کی بیعت کے آٹھ دن بعد محترمہ دولت بی بی صاحبہ کے ساتھ قادیان جا کر بیعت کر لی تھی.ان دونوں کو حضرت ام المومنین کی معیت میں سیر کو جانے کا موقع ملتا رہا.جبکہ وہ حضرت مسیح موعود کے ہمراہ مع بچگان تشریف لے جاتی تھیں.آپ بہت نیک بخت خاتون تھیں.انہوں نے مسجد لندن کے چندے میں اپنی سونے کی انگوٹھی دی تھی.اور تحریک جدید کے مالی جہاد میں دفتر اول میں شریک تھیں.( 55 ) ۱۲ مارچ ۱۹۶۱ء کو وفات پا کر بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ میں دفن ہوئیں.اس کا وسیت نمبر ۲۹/۱۰/۱۸/ ۱۵۷۵ ہے.ربوہ میں شیخ فضل احمد صاحب تقسیم ملک سے پہلے قادیان میں بزاز کی دکان کرتے تھے.بعد تقسیم ملک ہجرت کر کے لائکپور شہر میں مقیم ہیں اور یہی کاروبار ہے اور صاحب اولاد ہیں.تحریک جدید کے وہ اور ان کی اہلیہ صاحبہ پانچیز اری مجاہدین دفتر اول میں سے ہیں (صفحہ ۲۸۸) ان کی اولاد چارلٹر کے اور چار لڑکیاں ہیں.

Page 216

شجرہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں 194 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ تعالیٰ نے جنازہ پڑھایا.(56) شجرہ نسب شیخ چراغ دین وفات ۱۲.اپریل ۱۹۱۰ ء ) رحمت بی بی (فوت شده رحمت بی بی فوت شده ) دولت بی بی شیخ رحمت اللہ فضل بی بی اللہ بخش ( غیر احمدی) (غیر احمدی) صحابیہ وفات ۱۹۰۹ (صحابی (غیرادی نو ست شده) (فوت شده) الیہ برکت علی غیراحمدی مهاجر اکمل پر شہر لا ولد اللہ لوک برکت علی دونوں غیر احمدی مقیم لائلپور ) ( شیخ فضل احمد نیاز مهاجر ) لائل پور شہر صفدر علی محمد علی دونوں غیر احمدی ( مقیم لائل پول) حاجی شیخ محمد عبد الله تاجر شیخ عبدالرحمن تاجر امتہ الحفیظ حاجی شیخ عبداللطیف) شیخ عبد الغفور تاجر امتدالحلیم مہاجر لائل پور شہر مہاجر لائل پور شہر مدفون بہشتی مقبرہ قادیان قائد خدام الاحمدیہ مہاجر لائل پور شہر اہلیہ شیخ طاہر احمد ابن اہلیہ شیخ محمد یعقوب امرتسری وسیکرٹری امور عامه حال مقیم لاہور لائل پور شہر محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت الائل پور شیخ عبدالمجید تاجر خلف حضرت منشی ظفر احمد امتہ العزیز اہلیہ محمد اسماعیل فاضل ناظم تربیت و اصلاح صاحب کپور تھلوی سابق پرو فیسر جامعه احمد سید بود خدام الاحمدیہ لائل پور شہر

Page 217

195 بیعت شیخ جھنڈا صاحب:.محترم شیخ جھنڈا صاحب ولد شیخ چراغ الدین نے اپنے بیٹے کی بیعت کے قریباً ڈیڑھ سال بعد ۱۹۰۵ء میں حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت کی.اس وقت وہ اکیلے بیعت کنندہ تھے آپ بعمر تریسٹھ برس فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں حضرت مسیح موعود کے قدموں میں حضور والی چار دیواری کے باہر مدفون ہیں.یہ طغلوالہ کے دیگر صحابہ :.خاکسار کے استفسار پر مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب طغل والہ کے دیگر ذیل صحابہ کے اسماء بتائے ہیں :.(۱) شیخ نور محمد صاحب ولد بڈھا قوم شیخ میرے بعد غالباً ۱۹۰۷ء میں احمدی ہوئے اور خلافت اُولیٰ میں طغلوالہ میں وفات پائی.(۲) بابا جیون صاحب.(۳) قا در بخش صاحب.دفتر مجلس ار پرداز بہشتی مقبرہ ربوہ کے ذریعہ ذیل کی کو الف مرحوم کے فائل سے حاصل ہوئے نمبر وصیت ۳۹۶ مورخہ ۱۴/۴/۱۰.یہ وصیت ان کی وفات پر ۱۴ اپریل ۱۹۱۰ء کو ان کے پر شیخ رحمت اللہ صاحب نے لکھ کر دی تھی مرحوم کی جائیداد بعد وفات چودہ صد ثابت ہوئی تھی جس کا دسواں حصہ انہوں نے ادا کیا تھا تاریخ بیعت اس میں درج نہیں.سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ ۱۰.۱۹۰۹ء میں جو ایک اور صاحب اور آپ کے متعلق یہ مرقوم ہے اور شیخ جھنڈا اسکنہ طغلوالہ کی وصایا پوری ہو چکی ہیں مر مقبرہ میں دفن نہیں ہوئے دونوں دوسری جگہ دفن ہیں.“ (صفحہ ۳)

Page 218

ย 196 میاں کرم الہی صاحب (درویش) میاں نظام الدین صاحب (بڑے بھائی) میاں کرم الہی صاحب : محترم میاں کرم الہی صاحب ولد میاں عیدا قوم موچی سکنہ موضع بھنڈ یار ڈاکخانہ اٹاری ( ضلع امرت سر) کی تاریخ ولادت محفوظ نہیں.آپ کا گزارہ موچی کے کام اور معمولی کاشت پر تھا.آمدنی بالکل معمولی تھی آپ ان پڑھ تھے.آپ کی اہلیہ مسماۃ جینز تھیں.آپ صاحب اولاد تھے ہیں حالات قبولیت احمدیت : ** آپ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ملتان تشریف لے گئے.ہمارے گاؤں موضع بھڑ یار ضلع امرت سر کے دو نوجوان لڑکے کرم دین مرحوم اور جلال الدین مرحوم پسران گلاب ترکھان ملتان میں کام کرتے تھے.انہوں نے وہاں حضرت مسیح موعود کے لیکچر سنے اور بہت متاثر ہوئے.(الف) یہ حالات موضع بھڈیار کے میاں جلال الدین صاحب ( درویش ) ولد میاں صدرالدین صاحب عرف ستر دین سے معلوم ہوئے ہیں جن کی اپنی عمران کی فائل وصیت کی رو سے اکسٹھ باسٹھ سال کی ہے وہ یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ میاں الہی صاحب ان کے بڑے بھائی میاں نظام الدین صاحب عرف جامو میرے والد میاں صدرالدین صاحب ولد عمر اور میرے دادا میاں عمر کے برادر زادگان بنام ماہی و شادی پسران میاں رجا نے اکٹھے ہی حضرت مسیح موعود کی دستی بیعت قادیان میں کی تھی.ماسوا میاں کرم الہی صاحب کے باقی تمام مذکورہ بالا بیعت کنندگان تقسیم ملک سے پہلے وفات پاچکے ہیں.( ب ) ۲۳/۱۲/۴۵ کو بوقت وصیت میاں کرم الہی صاحب کی عمر اسی سال تھی.(ج) مسماۃ جینو ( جو غالبا زینت یا زینب کا محرف ہے.مؤلف ) قریباً ہمیں سال پہلے وفات پاچکی ہیں اولاد کے اسماء یہ ہیں جلال الدین مرحوم.امام الدین ( حال مقیم موضع شام کی ضلع شیخو پورہ ) شہاب الدین مرحوم حسین بی بی مرحومہ.جو موضع تیجہ نز د فتح گڑھ چوڑیاں میں بیاہی ہوئی تھیں اور حلیمہ بی بی اہلیہ میاں رحیم بخش صاحب مقیم شاہدرہ نز دلاہور مرحوم کے سب اہل وعیال مرحوم کی وجہ سے احمدیت قبول کر چکے تھے ( بیان میاں جلال الدین صاحب موصوف ) قبول احمدیت کے یہ حالات آپ نے مئی ۱۹۴۸ء میں مسجد مبارک میں بطور ذکر حبیب کے سنائے تھے.اور خاکسار مولف نے محفوظ کر لئے تھے.اور جو خواب آگے درج ہے وہ آپ نے اسی موقع پر بیان کی تھی :.

Page 219

197 تھوڑے دنوں کے بعد وہ دونوں واپس آئے.اور کچھ عرصہ کے بعد بیعت کرنے کے لئے وطن سے قادیان آئے.بیعت کر کے جب وہ واپس گئے تو انہوں نے مجھے بھی تبلیغ کی.اور بتایا کہ وہ مسیح جس کی دنیا دیر سے منتظر تھی، قادیان میں نازل ہو چکا ہے.جب حضور ۱۹۰۸ء کے آخری سفر میں لاہور تشریف لے گئے تو میں بھی لاہور پہنچا اور لاہور میں جہاں آپ ٹھہرے ہوئے تھے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی.لاہور میں تین دن رہنے کے بعد میں واپس گھر چلا آیا.حمید لاہور کے اس سفر میں حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ میں شاہدرہ جا کر مقبرہ جہانگیر دیکھنا چاہتا ہوں.فرمایا کہ جانا ہے تو بے شک جاؤ مگر وہاں دعا نہ کرنا.کیونکہ جہانگیر اپنے بعض مظالم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نیچے ہے.یہ بات میں نے خود حضور کی زبان مبارک سے نہیں سنی تھی.ہاں بعض دوستوں کی زبانی وہاں لاہور میں ہی اسی سفر میں سنی تھی.“ ایک خواب:.آپ نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ میں ایک ایسے ملک میں ہوں جو اس سے پہلے میں نے نہیں دیکھا تھا اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک اور شخص آ گیا.اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ یہ کونسی جگہ ہے اور کونسا ملک ہے.میں نے کہا کہ مجھے تو معلوم نہیں.اس نے کہا کہ یہ مکہ مکرمہ کی سرزمین ہے.یہ سن کر میں نے اسے بصد منت کہا کہ خدا کے لئے مجھے کعبہ شریف لے چلو.وہ مجھے اپنے ہمراہ وہاں لے گیا.اس کے اندر میں نے ایک محراب میں دیکھا کہ حضرت رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود ساتھ ساتھ تشریف فرما ہیں حضرت رسول کریم ﷺ نے بھی اور حضرت مسیح موعود نے بھی سفید کپڑے پہنے ہوئے ہیں.اور دونوں چوکڑی مار کر بیٹھے ہوئے ہیں.میں دیکھ کر اپنے دل میں خیال کرتا ہوں کہ مولوی لوگ جو کچھ کہا کرتے تھے وہ بالکل سچ نکلا.وہ کہتے تھے کہ مسیح موعود رسول کریم ﷺ کے ساتھ دفن ہوں گے.(الف) با با گلاب دین صاحب مدفون بہشتی مقبرہ قادیان بعد میں احمدی ہوئے.جمال الدین صاحب و کرم الدین صاحب صحابی تھے.دونوں ان کے بیٹے تھے.یا ایک بیٹا تھا اور ایک بھتیجا.بابا موصوف صحابی نہیں تھے.بھڑ یا رہی کے حاجی رحیم بخش صاحب و مہتاب دین صاحب ( دونوں مدفون بہشتی مقبرہ) کے متعلق معلوم نہیں کہ صحابی تھے یا نہیں.بیان میاں جلال الدین صاحب در ویش) (ب) فائل وصیت میں بیعت ۱۹۰۸ء مرقوم ہے.

Page 220

198 چنانچہ حضور اس وقت رسول کریم ﷺ کے ساتھ تشریف فرما ہیں.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.جدید آپ کے اخلاق حسنہ:.آپ کو قادیان سے عشق تھا.آپ اپنے گاؤں سے بکثرت قادیان آتے.کئی روز قیام کرتے نمازیں پڑھتے ، دعائیں کرتے.آپ کو خاندان حضرت مسیح موعود سے بہت محبت تھی.* لین دین کے صاف تھے.احمدی احباب نے اپنے گاؤں میں پہلے کچی مسجد بنائی اور پھر پکی بنائی اس کی تعمیر میں اپنی توفیق کے مطابق مرحوم نے بھی شرکت کی.خود اس میں اذان دیتے تھے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.وفات و تدفین : قادیان ۲۵ستمبر کل رات یعنی ۲۴/۲۵ کی درمیانی شب بوقت گیارہ بجے.مکرم بابا کرم الہی صاحب وفات پا گئے.آج بعد نماز جمعه محترم مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر مقامی نے درویشوں ( کی) کثیر تعداد کے ساتھ مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں بارش کا پانی جمع ہونے کے وجہ سے مرحوم کو مسجد اقصی کے قریب اماننا دفن کیا گیا...( آپ ) صحابی تھے اور ایک عرصہ سے بوجہ پیرانہ سالی چلنے پھرنے سے معذور ہو چکے تھے.اور آنکھوں کی بینائی بھی جاتی رہی تھی.خاکسار مؤلف کی رائے میں خواب کی تعبیر یہ تھی کہ آپ کو قادیان میں جو ارض حرم“ ہے قیام کا موقع ملے گا.اور اس مقام والا علاقہ ایک نئے اور غیر ملک کی شکل اختیار کر چکا ہوگا.اور آپ اسے پہچان نہیں سکیں گے.اس لئے کہ جس درویشی دور میں آپ نے قادیان آنا تھا وہ اپنے وقت پر ہی معرض وجود میں آتا.یہ یکی دور ظاہر ہوا اور اس مقام پر ظاہر ہوا.جو حضور کا مدفن ہے.آپ قادیان امئی ۱۹۴۸ء کو آنیوالے قافلہ میں قادیان آئے تھے.میاں جلال الدین صاحب در ولیش بتاتے ہیں کہ مرحوم موضع پھیر و پیچی ( نزد قادیان ) اپنی لڑکی کے پاس گئے ہوئے تھے کہ وہاں سے مسلمانوں کو نکلنا پڑا.اور اس گاؤں کے لوگ قادیان آگئے اور مرحوم یہاں سے پاکستان جا کر پھر قادیان کے لئے آنیوالوں میں نام دے کر آگئے.بیان مرزا محمد زمان صاحب درویش جنہوں نے جولائی ۱۹۴۵ء سے لنگر خانہ میں کارکن کے طور پر کام شروع کیا تھا.گویا ان کو یہ تجر بہ بابا جی کے متعلق ایک سال کا ہے.بیان میاں جلال الدین صاحب درویش.

Page 221

199 مرحوم بڑے دعا گو اور نیک سیرت بزرگ تھے (57) 6 خاکسار مؤلف کے ذیل کے تاثرات ان کی وفات پر شائع ہوئے تھے:.مکرم میاں کرم الہی صاحب....سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تحریک پر اپریل ۱۹۴۸ء میں قادیان کی آبادی کی خاطر پاکستان سے آئے تھے.آپ نے راقم کو بتایا تھا کہ آپ (نے) سید نا حضرت مسیح موعود کی بیعت ۱۹۰۸ء میں بمقام لاہور حضور کے وصال سے ایک دور روز قبل کی تھی.چھ سات سال قبل آپ کا نور ہسپتال میں موتیا بند کا اپریشن ہوا.لیکن آپ بینائی سے محروم ہو گئے جس صبر ورضا کے ساتھ آپ نے یہ سارا عرصہ گزارا.قابل رشک تھا.ان کی شدید خواہش ہوتی تھی کہ حسب سابق وہ مسجد مبارک میں امام کے قریب کھڑے ہو کر باجماعت نماز ادا کریں اور اپنے بعض رفقاء کو ساتھ لے کر آنے کی تاکید کرتے تھے.نماز ظہر کے لئے بالعموم بہت پہلے آجاتے اور ظہر و مغرب کے بعد دیر تک نوافل ادا کرتے اور مغرب کے وقت آ کر عشاء پڑھ کر ہی اپنی قیام گاہ کو جاتے.اور جو شخص ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کو سیڑھیوں تک لے جاتا ایسے شخص کی رفاقت تک اس کے لئے ہی دعائیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ اسے نیک نیت بنائے وغیرہ.اگر کوئی ان کو قیام گاہ تک پہنچا تا تو دریافت کرتے کہ کون ہو.کس مکان میں قیام ہے.اور اس کی خدمت کے باعث دعائیں دیتے.غرض ان کی زندگی کا طرہ امتیاز دعائیں کرنا ہی تھا.کئی سال سے شنوائی میں بھی بھاری پن آ گیا تھا اور ایک سال سے تو بہت مشکل سے بات سن سکتے تھے.اور بالعموم اپنی چار پائی پر نوافل ادا کرتے دیکھے جاتے تھے.غریب طبع اور صابر شاکر تھے.معذوری سے قبل بھی کم گوہی پائے گئے.خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہہ کر دیار محبوب کی آبادی کے لئے آجانا اور بڑھاپے میں عزیز و اقارب میں آرام و سکون سے رہنے پر ترجیح دینا بہت بڑی قربانی ہے.مرحوم سالہا سال سے دار اسیح میں اس کمرہ میں قیام رکھتے تھے.جو ڈیوڑھی اور گول کمرہ کے درمیان ہے.اور حافظ صدرالدین صاحب کی وفات کے بعد ڈیوڑھی کے ملحق شمالی جانب والے کمرہ میں منتقل کر دیے گئے.جو جدید آپ نے ۲۳ دسمبر ۱۹۴۵ء کو چالیس روپے نقد کی جائیداد اور پچاس روپے سالانہ آمد کی اور ترکہ کی چوتھائی کی وصیت کی تھی آپ کا وصیت نمبر ۹۲۲۲ ہے.آپ کو ۲ جون ۱۹۶۰ء کو بہشتی مقبرہ میں منتقل کیا گیا.تاریخ سہو اغلط درج ہوئی ہے وہ امئی کو آئے تھے.حافظ صدرالدین صاحب ۱۳ اپریل ۱۹۵۸ء کو فوت ہوئے.

Page 222

200 اور اسی کمرہ میں اس مقدس دار میں ہی انہوں نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی.اللَّهُمَّ اغْفِرْلَهُ وَارْحَمْهُ وَارْفَعَ دَرَجَهُ فِي الْجَنَّهُ آمين (58) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ نے تحریر فرمایا:.مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل قادیان سے بذریعہ تار اطلاع دیتے ہیں کہ بابا کرم الہی صاحب در ولیش وفات پاگئے ہیں.انا للہ وانا اليه راجعون بابا كرم الى صاحب بہت معمر آدمی تھے.(ان کی عمر غالباً ایک سوسال سے زیادہ تھی اور انہوں نے بڑے صبر اور استقلال اور اخلاص کے ساتھ قادیان میں اپنی درویشی زندگی کے دن گزارے.وہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان آگئے تھے.مگر پھر بڑھاپے کے باوجود اخلاص کے جوش میں قادیان چلے گئے.اور وہیں فوت ہوئے.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے.اور ان کے پسماندگان کا دین ودنیا میں حافظ و ناصر ہو.ان کے سارے لڑکے ان کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے.البتہ ان کے بعض پوتے پوتیاں اور نواسیاں اور ایک لڑکی پاکستان میں ہیں.“ (59) میاں نظام الدین صاحب : - محترم میاں نظام الدین صاحب عرف جامو میاں کرم الہی صاحب کے بڑے بھائی تھے.دونوں کے اکٹھے بیعت کرنے کا ذکر ہو چکا ہے.میاں نظام الدین صاحب بعمر قریباً اسی سال تقسیم ملک سے بہت پہلے وفات پاگئے تھے.موصی نہیں تھے.صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے.گاؤں کی احمد یہ مسجد کی تعمیر میں انہوں نے بھی حصہ لیا تھا.صاحب اولا د تھے.یو ایک بیٹا زندہ ہے جیسا کہ قبل ازیں مرقوم ہوا.(مؤلف) بیان میاں جلال الدین صاحب در ولیش.

Page 223

☆ 201 قاضی اشرف علی صاحب مختصر حالات خاندان وغیرہ :.محترم قاضی اشرف علی صاحب ولد قاضی یعقوب علی صاحب عباسی خاندان کے نونہال تھے آپ کا خاندان علی پور کھیڑہ ( تحصیل بھوگام )ضلع مین پوری میں آباد ہے.یہ حالات ان کے چچا کے پوتے محترم قاضی شاد بخت صاحب ریٹائر ڈ انسپکٹر پولیس سے حاصل ہوئے ہیں.افسوس کہ نہ ان کی تصویر موجود ہے اور نہ ان کی تاریخ ولادت محفوظ ہے.قاضی شاد بخت آج کل قادیان میں مقیم ہیں آپ کی دو بچیوں سمیت آپ کے خاندان کی کل پانچ بچیوں کی شادیاں درویشان قادیان سے ہوئیں اور آپ کے ایک بھائی کا پوتا بھی بطور کار کن صدر انجمن احمدیہ کی ملازمت میں ہے.آپ کی اہلیہ محترمہ سیدہ خدیجه خاتون صاحبه ( بنت سیدا کرام حسین سکنہ علی پور کھیڑہ ) کا جنازہ غائب پڑھاتے وقت سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.قاضی شاد بخت صاحب پر انے احمدی ہیں اور ایک مشہور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اپنی قوم پر بھی ان کا بڑا اثر ہے جب ملکانہ میں ارتداد ہوا اور ہندوؤں میں تبلیغ کی گئی تو اپنی قوم کے اثر کی وجہ سے ملکانوں پر ان کا بڑا اثر پڑا تھا (60) محتر مہ خدیجه خاتون صاحبہ کا وصیت نمبر ۱۳۰۶۶ ہے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں یاد گار نمبر ۷۶۰ لگ چکی ہے.بعمر ۶۵ سال وفات پائی.سورہ بی اسرائیل کی تغیر میں بنی اسرائیل کیطرح مسلمانوں کی دوبارتاہی کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے تفسیر کبیر میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ رقم فرماتے ہیں:.اٹھارہ لاکھ مسلمان صرف بغداد اور اس کے گرد و نواح میں قتل کیا گیا.شاہی خاندان کے تمام لوگوں کو ان کی فہرستیں بنا بنوا کر اور تلاش کر کر سکے قتل کیا گیا.کہتے ہیں کہ صرف ایک شخص بھاگ کر بیچ سکا.اور اسی کی نسل سے بہاولپور کے والیان ریاست ہیں ان کے علاوہ کوئی بھی خاندان ایسا نہیں جو اپنے آپ کو عباس کی طرف منسوب کرے(اس نوٹ لکھنے کے بعد مجھے معلوم ہوا ہے کہ یو.پی میں عباسی خاندان کی بعض شاخیں موجود ہیں ان میں سے ایک نے مجھے اپنا شجرہ نسب بھی بھجوایا ہے.‘) (61) اس میں یہ خاندان مراد ہے اور قاضی شاد بخت صاحب سے اس بارہ میں حضور کی تفصیلی گفتگو ہوئی تھی.اور حضور کے ارشاد پر قاضی صاحب نے شجرہ حضور کی خدمت میں بھیجا تھا.

Page 224

202 آپ کا رنگ گندمی اور قد قریبا پانچ فٹ تھا.آپ نے مڈل پاس کر کے آگرہ سے مدرسی کی تربیت حاصل کی تھی.فارسی اور عربی اچھی جانتے تھے.اور وطن کے قرب وجوار کے مدارس میں بطور مدرس کام کرتے رہے تھے.قاضی صاحب نے قریباً ساٹھ باسٹھ سال کی عمر میں غالباً ۱۹۳۰ء میں وفات پائی اور موضع علی پورکھیڑہ میں دفن ہوئے.اس وقت ان کی قبر معروف نہیں.آپ کی اہلیہ صاحبہ آپ کے احمدی ہونے سے قبل وفات پا گئی تھیں.افسوس کہ مرحوم کی اولا واحمدیت سے محروم رہی.جدید شجرہ نسب سر پوتا یعنی پڑ پوتے کا لڑکا:.قاضی بازید بن قاضی اسلام الدین بن قاضی محمد سالم ( آمده علی پورکھیڑہ ) بن قاضی محمد طاہر بن قاضی حافظ بن قاضی طاہر بن قاضی یعقوب عباسی ( آمده پر تا پور تحصیل بھونگام ضلع مین پوری.یو.پی ) (سرپوتے) (سرپوتے) (سریوت) تاج الدین بہرام علی محبوب عالم امام علی حکیم الدین (احمدی) معظم علی پڑپوتے مقصود حسین تجمل حسین (احمدی) نظام الدین احمدی صلاح الدین احمدی مقیم آگرہ مقیم مین پوری قائمی رییسه بقیہ دوسرے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں:.) اہلیہ محمد ایوب ہیڈ کلرک ) اہلیہ صلاح الدین انتظام الدین احمدی محکمہ پولیس کیمبل پور مقیم علی پور کھیڑہ اختر بیگم (احمدی) اہلیہ انوار حسین علی پور کھیڑہ

Page 225

عبد العزيز اشرف علی (عرف اچھے میاں ) بقیه شجرہ:.تو نگر علی ( بیعت ۱۹۰۰ ء وفات ۱۹۲۸ء) اس خاندان میں اولین احمدی محمد اسمعیل ( غیر احمدی) مقیم بھوپال طالب علی ( واصل باقی نویس) اشفاق علی (احمدی) محمد الحق مرحوم ( احمدی ) وفات ۱۸۹۵ء سے قبل سب انسپکٹر پولیس لا ولد وفات ۱۹۱۹ء لا ولد شاد بخت (احمدی) فیروز بخت (احمدی) ہمایوں بخت (احمدی) سلیمان بخت (احمدی) وفات انداز ۱۹۵۶۱ء ان کی ایک لڑکی کی شادی ایک درویش ( وفات قریباً ۱۹۵۶ء) ( صحابی ) وفات غالباً ۱۹۳۰ء ) متوفی ظہیر الدین امام الدین محمد بختیار متوفی محمد حافظ متوفی لڑکی لا ولد ظہور الدین لا ولد لا ولد ( مقیم علی پور کھیرہ) غیر احمدی ان میں سے کوئی بھی احمدی نہیں) عیسی مقیم قادیان مهدی غیر احمدی (احمدمی) محمد اسلم ( احمدی) محمد امین (احمدی) مقیم مین پوری مقیم سلطان گنج ضلع مین پوری لا ولد سے ہوئی تھی وہ فوت ہو گئی ہے ) ( راہنما بخت (احمدی ) مقیم لاہور محمد سلیم مرحوم محمد جمیل (احمدی) نسیم بیگم احمدی شمیم بیگم الحمدی نعیم فاطمه (احمدی) اخترنی بیگم (احمدی) عطائی بیگم احمدی راہنمائی بیگم محمودی بیگم (احمدی) (احمدی) ( مقیم بلند شہر یو پی) (زوجہ محمد اسم) اہلیہ مولوی محمد یوسف اہلیہ مولوی عبد الحق اہلیہ حمد متین سکنہ علی پور کھیرہ) اہلیہ محمد جمیل ) المیہ عبدالودود فاروقی مقیم لاہور اہلیہ محمد صادق عارف درویش قادیان جمال احمد (احمدی) عطاء الرحمان (احمدی) محمد عرفان ملا زم صدرانجمن احمد سید (احمدی) قادیان (درویش قادیان) فضل درویش مبلغ (بہار) محمد عثمان سکندر بخت (احمدی) (احمدی) محمود بخت (احمدی) نادر بخت (احمدی) مشتری بیگم (احمدی) ( مقیم فیروز آباد ضلع آگرہ) (ایکسائز انسپکٹر ضلع جھنگ) (اہلیہ محمد یوسف گجراتی درویش قادیان) مقیم لاہور 203

Page 226

204 تفصیل قبول احمدیت :.سید تفضل حسین صاحب انا وی غالبا ۱۸۹۶ء میں تحصیل ہو گام میں بطور تحصیل دار متعین ہوئے.آپ کی تبلیغ سے ( قاضی شاد بخت صاحب کے دادا ) قاضی تو نگر علی صاحب نے (جن کی وفات ۱۹۲۸ء کے قریب ہوئی ) احمدیت قبول کی لیکن حضرت مسیح موعود کی زیارت کا موقع نہیں پایا.قاضی صاحب کے زیر اثر قاضی اشرف علی صاحب نے احمدیت قبول کی اور ۱۹۰۵ء میں قادیان آکر حضرت مسیح موعود کی زیارت کا شرف حاصل کیا.فرماتے تھے کہ علی پور کھیڑہ تا شکوہ آباد اور بٹالہ تا قادیان کے درمیان ریل نہ ہونے کے باعث علی الترتیب ڈیڑھ صد چوبیس میل کا فاصلہ آمد ورفت کے وقت پیدل طے کیا تھا.سیرت :.قاضی اشرف علی صاحب مرحوم کو غیبت اور چغلی بہت نا پسند تھی.چنانچہ اقارب کی مستورات کو ہمیشہ ہی اس بات سے اجتناب کی تاکید کرتے تھے.مبالغہ کی حد تک امین تھے کوئی امانت رکھے تو بعینہ وہ رقم پوٹلی میں باندھ کے رکھتے اور عند الطلب واپس کرتے اس امر کو نا پسند سمجھتے تھے کہ امانت کی رقم بعینہ اور اصل ہی واپس نہ کی جائے.نقل رجسٹر بیعت میں اٹھتر ویں نمبر پر آپ کی بیعت ۷ اپریل ۱۸۸۹ء میں درج ہے جس کے الفاظ یہ ہیں.”مولوی محمد تفضّل حسین صاحب ولد مولوی الطاف حسین صاحب مرحوم رئیس اناوه وسررشتہ دار کلکٹری علی گڑھ“ آپ کا نام ۱۳۶ نمبر پر۳۱۳ صحابہ میں ضمیمہ انجام آتھم میں مرقوم ہے؟ قاضی تو نگر علی صاحب علی پور کھیڑہ ض ( یعنی ضلع مین پوری کے الفاظ میں بیعت الحکم مورخہ نومبر ۱۹۰۰ء میں موجود ہے.( صفحہ اک ۳) آپ صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے ظلم و تعدی سے اولا دکور و کتے اور اقارب میں خوب تبلیغ کرتے تھے.اس خاندان میں قاضی شاد بخت قاضی فیروز بخت اور قاضی ہمایوں بخت صاحبان نے ۱۹۰۵ء میں بذریعہ خط بیعت کی لیکن زیارت نہیں کر سکے.

Page 227

205 ملک محمود خان صاحب * قوم وتعلیم :.حضرت ملک محمود خان صاحب رئیس معیار تحصیل وضلع مردان صو به سرحد ولد جناب محمد شکر خاں صاحب قوم یوسف زئی کمال زئی افغان قریباً ۱۸۶۵ء ( مطابق ۱۲۸۲ھ ) میں تولد ہوئے.آپ نے آغاز تعلیم قرآن مجید مسجد میں ناظرہ پڑھنے سے کیا.اور مدرسہ میں داخل ہو کر آٹھویں جماعت تک اردو میں تعلیم حاصل کی.اور اس زمانہ میں اسی قدر تعلیم ضلع پشاور کے مدارس میں میسر تھی.آپ اپنے گاؤں میں پانصد جریب اراضی زرعی کے مالک تھے اور نمبر دار بھی تھے اپنے گاؤں میں مالک خان کے نام سے یاد کئے جاتے تھے آپ کے دوست اہل دیہہ اور گردونواح کے واقف حال بڑی عزت کرتے تھے.اور حکومت کے افسر بھی بڑے احترم سے پیش آتے تھے اور قصبہ طور و کے نواب محبت خاں صاحب اور ان کی اولا د بھی آپ کی بہت عزت کرتی تھی.واقعات قبول احمدیت :.آپ فرماتے تھے کہ میں نے ۱۹۰۰ ء کے قریب چونتیس یا پینتیس سال کی عمر میں ایک رؤیا دیکھی کہ میں ایک اجنبی مقام میں ہوں جہاں ایک چار دیواری ہے اور اس کے اندر ایک وسیع صحن ہے اس صحن کے ایک اونچے مقام پر ایک شخص بڑا باوقار کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک کتاب ہے جس میں سے وہ وعظ کر رہا ہے سامعین کثرت سے موجود ہیں.مگر اکثر مخالف ہیں جب وہ بزرگ تقریر کرتا ہے تو یہ لوگ شور مچاتے ہیں تا کہ کوئی اس کی تقریر نہ سنے.میں ان لوگوں کی یہ بد تمیزی دیکھ کر کسی کو کہتا ہوں کہ یہ نالائق لوگ کیوں یہ تقریر نہیں سنتے اور شور وغل کرتے ہیں.اس کے بعد دوسر نظارہ دیکھتا ہوں کہ میں ایک بلند دیوار پر کھڑا ہوں اور سامنے سے ایک ریچھ میری طرف آرہا ہے اور میں نے اس دیوار سے ڈھیلے اٹھا اٹھا کر اس کو مار کر مار دیا.اور میں اس کے گزند سے ہر طرح محفوظ رہا.اس موقع پر کسی نے مجھ کو کہا کہ یہ مقام شیطان کے مقابلہ کا ہے اور اس کے ہلاک کرنے کی جگہ ہے اور یہیں شیطان مرتا ہے.فرمایا.اس رویا نے میرے دل پر گہرا اثر کیا اور میں اس کی تعبیر کا خواہاں اور جو یا ہوا.انہی ایام میں یہ حالات حضرت قاضی محمد یوسف صاحب (امیر جماعت ہائے احمد یہ پشاور ڈویژن نے مئی ۱۹۵۵ء میں مرحوم کی زندگی میں تحریر کئے تھے.اور بعد وفات صرف وفات جنازہ اور تدفین والا حصہ ۱۲/۵۹/ ۲۱ کوتحریر کیا.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء.

Page 228

206 پنجاب کے اردو اخبارات میں میں نے پڑھا کہ وہاں قادیان نامی ایک گاؤں ہے وہاں ایک صاحب عیسی موعود اور امام مہدی آخرالزمان ہونے کا مدعی ہے.مگر مولوی لوگ اس کے سخت مخالف ہیں اور اس کو برا کہتے ہیں اس سے مجھے اپنی رؤیا کا واقعہ یاد آ گیا.اور میں نے خود جا کر اس شخص کو دیکھ کر حقیقت معلوم کرنے کا ارادہ کر لیا.بیان کرتے تھے کہ ۱۹۰۱ ء کے ابتدائی ایام میں میں اپنے ملازم موسیٰ خاں کو لے کر قادیان پہنچا اور ہم سید ھے مہمان خانہ میں اترے جسے دیکھ کر رویا کی چار دیواری والا مکان اور صحن مجھے یاد آیا اور میں نے اپنے ملازم سے اس کا ذکر کیا.پھر ہم مسجد مبارک میں پہنچے.مولوی محمد احسن صاحب امروہی وہاں موجود تھے جو درمیانہ قد کے سرخ ریش تھے.وہ ان دنوں امام الصلوۃ تھے.اتنے میں حضرت احمد گھر سے ادا ئیگی نماز کے لئے تشریف لائے.جب میں نے حضور کے چہرے پر نظر ڈالی تو مجھ کو بعینہ وہ بزرگ نظر آئے جن کو میں نے رویا میں ایک اونچے مقام پر کھڑے تقریر کرتے دیکھا تھا.چنانچہ میں نے موسیٰ خاں کو کہا کہ الحمد للہ میری ساری کی ساری خواب پوری ہوگئی.نماز میں حضرت سید نا مرزا محمود احمد صاحب (خلیفتہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ) جو اس وقت کوئی گیارہ برس کے ہو نگے میری دائیں طرف کھڑے تھے.مزید بیان کیا کہ میں نے اپنی رؤیا کے پورا ہونے پر مسجد مبارک میں حضرت احمد کے دست مبارک پر بیعت کر لی اور احمدیت میں داخل ہو گیا.اور میرا نام الحکم میں شائع ہوا.بیعت کے بعد دو دن اور ٹھہر کر وطن واپس چلا آیا.اور اس کے بعد دسمبر میں ہر سال جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان آتارہا.اور حضرت احمد کی صحبت سے مستفید ہوتا رہا.حضرت با بوشاہ دین صاحب:.فرماتے تھے کہ ۱۹۰۱ء میں نوشہرہ سے بجانب درگئی مالا کنڈ ریلوے لائن بڑھائی گئی.حضرت بابوشاہ دین صاحب جو حضرت احمد کے پاؤں کی طرف دفن ہیں مردان کے ریلوے اسٹیشن کے سب سے پہلے اسٹیشن ماسٹر مقرر ہوئے.وہ نہایت مخلص، دیندار اور با اخلاق احمدی تھے.اور احمدیت کے قابل قدر مبلغ تھے جن کی جدو جہد سے بکٹ گنج مردان میں جماعت احمدیہ کی بنیاد پڑی.آپ مہمان نواز اور جاذب شخصیت کے مالک تھے.آپ کے نیک نمونہ اور حسن اخلاق سے نوشہرہ سے لے کر درگئی تک اکثر ریلوے ملا زم احمدیت میں داخل ہوئے.جولائی ۱۹۰۱ء میں میاں محمد یوسف صاحب،مرزا میراحمد صاحب اور مرزا امیراکبر صاحب عرائض نویسان ہوتی نے بیعت کی.یہ وہاں کے ابتدائی احمدی تھے اور نماز اور درس قرآن حضرت

Page 229

207 میاں محمد یوسف صاحب کے مکان کی ڈیوڑھی میں ادا ہونا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ جماعت وسیع ہوتی گئی.ازدواجی زندگی :.حضرت ملک صاحب نے دو شادیاں کیں.دوسری شادی محترمہ ہمشیرہ صاحبزادہ سیف الرحمان خان صاحب احمدی مبلغ بازید خیل ضلع پشاور سے ہوئی.لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی.پہلی شادی سے تین لڑکیاں اور ایک لڑکا ہوا.لڑکیاں طور اور معیار میں شادی شدہ ہیں ایک داماد خانزادہ محمد عظیم اللہ خانصاحب ساکن طور تھے اور ایک محمد بہرام خان صاحب وکیل ساکن معیار ہیں.اکلوتا لڑکا میر افضل خاں خلافت اولیٰ میں قادیان تعلیم پانے آیا تھا.لیکن تعلیم نہ پاسکا افسوس کہ آوارہ مزاج ہو گیا.بعض اقارب اسے حضرت ملک خان کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن وہ خود ہی ۱۹۱۴ء میں جوانی میں وفات پا گیا.خلافت سے وابستگی :.آپ نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت بھی کی اور دسمبر ۱۹۰۸ء کے جلسہ سالانہ میں بھی شرکت کی.اور سید نا حضرت مرزا محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ثانی منتخب ہونے پر ان کی بھی بیعت کی ان پر اختلاف کا کوئی اثر نہ تھا.ساری عمر مرکز سے وابستہ رہے.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب نے ابتداء میں خلافت ثانیہ کی بیعت نہیں کی تھی.حضرت ملک صاحب بیان کرتے تھے کہ ۱۹۱۴ء کے جلسہ سالانہ پر میں نے بعض احباب کو کہا کہ آپ قاضی صاحب کو سمجھا ئیں کہ بیعت کر لیں.چنانچہ قاضی صاحب نے بھی ۳۰ دسمبر ۱۹۱۴ء کو بیعت کر لی تو میں مطمئن ہو گیا.فرماتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ۱۱ نومبر ۱۹۰۱ء کو جب صوبہ سرحد پنجاب سے الگ صوبہ بن گیا.تو وہاں ایک قانون فرنٹیر کرائمز ریگولیشن ( frontier crimes regulation ) پاس ہوا.جو بڑا سخت تھا.آپ لوگوں نے کس طرح منظور کیا میں نے کہا کہ یہ ہمارے بس کی بات نہ تھی.عبرة لأولى الابصار :.سب سے مقدم مرزا محمد عباس عرائض نو لیس بکٹ گنج مردان.احمدیت کے خلاف خلافت ثانیہ کی تائید میں ایک خاص اجتماع نمائندگان جو ۱۲ اپریل ۱۹۱۴ء کو قادیان میں ہوا تھا (جس کی تفصیل اصحاب احمد“ کی سابقہ جلدوں میں خلاصہ آچکی ہے ) اس میں آپ بھی شریک تھے.آپ کا نام بطور ملک محمد خانصاحب پریذیڈنٹ انجمن مردان مرقوم ہے.(62)

Page 230

208 میدان تحریر میں اترا.اور اخبار چودھویں صدی راولپنڈی میں سرسید آنجہانی اور مرزا غلام احمد قادیانی“ کے عنوان سے مضامین شائع کرتا رہا.مگر آخر میں اپنا نام الٹا کر کے آزرم سابع از نادرم“ لکھتا رہا.مگر اس کا نتیجہ اس کو بہت خطرناک ملا.آج بکٹ گنج میں اس کا مکان ایک قابل عبرت یادگار ہے.سب خاندان تباہ ہو گیا.اور مکانات کھنڈر پڑے ہیں فَتَلكَ بَيُوتِهِمْ خَاوِيَهِ عَلَى عُرُوشِهَا.نواب محبت خانصاحب ساکن طورو کے حجرہ میں مولوی لوگ جمع ہوتے تھے ان میں ایک مولوی قطب شاہ نام تھا.جو موضع شام پور کا باشندہ تھا.اور اس کا مطالعہ کتب دیگر مولویوں کی نسبت قدرے وسیع تھا.جوں جوں مولویوں کو سلسلہ احمدیہ کا علم ہوتا گیا.وہ مخالفت پر آمادہ ہوتے گئے.۱۹۱۳ء میں اسلامیہ کالج پشاور میں کھلا تھا تو قطب شاہ سب سے پہلا ڈین (DEAN) یا معلم دینیات مقرر ہوا.اس کا کالج کے طلباء کے سامنے یہ رویہ تھا کہ وہ اسلام کو اسی رنگ میں پیش کرتا جس طرح ایک احمدی یا کوئی معقول انسان مذہب کو پیش کرتا ہے مگر مولویوں کی مجلس میں عام ملاؤں کی خلاف عقل باتوں کی تصدیق کرتا تھا.چنانچہ وہ خود حیات عیسی کا قائل نہ تھا.مگر حیات کے ماننے والوں کے خلاف بھی نہیں بولتا تھا.ایک دن نواب محبت خاں صاحب کے حجرہ میں مجلس علماء میں احمدیت کا ذکر آنے پر قطب شاہ مذکور نے کچھ ہتک آمیز باتیں حضرت احمد علیہ السلام کے خلاف کہیں جن سے ملک خان محمود خانصاحب کی ہتک بھی مقصود تھی.یہ بات ملک خان کے کانوں تک پہنچ گئی.اور انہوں نے اسے کہلا بھیجا کہ کب تک شامت پور اور طور و میں پناہ ڈھونڈو گے آخر تمہارا مردان جانے کا راستہ طور و سے معیار کی طرف سے ہی ہے.میں تم کو کان پکڑوا کر چھوڑوں گا تا کہ پھر تم خدا کے مرسل“ یا میری تو ہیں کا خیال تک نہ لاؤ.چنانچہ ایک دن وہ مردان جارہا تھا.خان محمود خاں صاحب کو پتہ لگا.اور وہ سڑک کے کنارے چار پائی ڈال کر انتظار کرتے رہے.چنانچہ اسے ٹانگہ سے اتار کر اس کی خوب مرمت کی پھر قطب شاہ نے کبھی جماعت احمدیہ کے خلاف کچھ نہیں کہا.یہ واقعہ ۱۹۱۲ ء سے قبل کا ہے.نواب محبت خاں صاحب ملک خاں کا بہت احترام کرتے تھے.انہیں اس واقعہ کا علم ہوا تو انہوں نے اہل مجلس سے کہا کہ آئندہ ہماری مجلس میں کوئی شخص احمدیت کے خلاف بات نہ کیا کرے جسے ملک محمود خاں صاحب سن کر ناراض ہوں.حاجی صاحب تو رنگ زائی کی شرانگیزی کیا رنگ لائی :.حاجی فضل واحد صاحب

Page 231

209 المعروف به حاجی صاحب تو رنگ زائی جو و رنگ زائی تحصیل چارسدہ ضلع پشاور کے باشندے تھے.جب ۱۹۱۲ء میں مردان کے دورہ پر آئے تو قطب شاہ مولوی مذکور نے اپنی تذلیل کا واقعہ بیان کیا.حاجی صاحب نے نواب صاحب طور و کو کہا کہ آپ ملک محمود خانصاحب کو تنبیہہ کریں کہ انہوں نے کیوں مولوی قطب شاہ کی بے عزتی کی ہے مگر نواب صاحب نے اپنی معذوری ظاہر کی.۱۶.۱۹۱۵ ء میں حاجی صاحب ہشت نگر سے یوسف زائی کے علاقہ میں آئے کہ وہ اس علاقہ میں پھر کر عامتہ الناس کو خان محمود خانصاحب کے خلاف اشتعال دلائیں.مگر اللہ تعالیٰ کی شان کہ جونہی وہ علاقہ یوسف زائی میں وارد ہوئے علاقہ لونڈ خور سے ہی آزاد علاقہ بوشہر کو سرحد پار کر گئے.اور حکومت برطانیہ کے خلاف برسر پیکار ہوئے اور ہمیشہ کے واسطے ملک بدر ہو گئے.کہتے ہیں کہ حاجی صاحب تو رنگ زائی کا پختہ ارادہ یہ تھا کہ وہ احمدیت کو صوبہ سرحد سے مٹائے مگر اللہ تعالیٰ نے تازیست انہیں صوبہ سرحد سے جلا وطن کر دیا.احمدیت جس زندہ خدا کو مانتی اور پیش کرتی ہے وہ بڑا غیور اور قدیر خدا ہے.وفات :.آپ پر ۱۹۴۶ء میں جسم کے دائیں جانب فالج کا حملہ ہوا.پھر اس کا اثر کم ہو گیا اور آپ چلنے پھرنے لگے اور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ربوہ سے صوبہ سرحد کے دورہ پر ۱۹۴۸ء میں تشریف لائے تو مردان آکر ملک خاں نے حضرت صاحب کی ملاقات کا شرف حاصل کیا.بالآخر الله تعالى كا حكم يايّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِى الى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي ( 63 ) صادر ہوا.اور بروز جمعۃ المبارک ۲ جنوری ۱۹۵۹ء مطابق ۲۱ جمادی الثانی ۱۳۷۸ علی الصباح اپنے گھر موضع معیار میں بعمر قریباً چورانوے سال شمسی فوت ہوئے.اطلاع پاتے ہی قریباً تمام جماعت مردان موضع معیار حاضر ہوئی.اور حضرت قاضی محمد یوسف صاحب نے نماز جنازہ ادا کی.جنازہ میں طور د معیار.ہوتی اور مردان کے اقارب واحباب شریک ہوئے.معیار کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی.ان کی قبر موضع معیار سے جانب جنوب کوئی ایک فرلانگ کے فاصلہ پر لب سڑک ہر رہ جانب مغرب ہے.اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَاَرحَمُهُ وَاَدْخِلْهُ فِي جَوَارِ رَحْمَتِكَ.آمین.سیرت :.آپ بچپن سے سعید الفطرت بہادر.کم گو.اور فطرۃ غیور واقع ہوئے تھے آپ کے اخلاق حمیدہ کے سب مداح ہیں.آپ نہایت مہمان نواز فیاض جری، جوانمرد دوست پرور، غیور طبع اور مستقیم الاحوال تھے.سلسلہ کی خاطر چندے بطیب خاطر دیتے تھے.

Page 232

210 مولوی عبدالواحد خانصاحب غفور النساء صاحبہ (اہلیہ) ولدیت.وطن وغیرہ :.حضرت مولوی عبد الواحد خانصاحب کے والد محمد رمضان خاں رسالدار میجر رسالہ نمبرا راجپوت، قوم سورج بنسی راجپوت ساکن سلطان پور (یو پی) بوجہ تبادلہ صدر بازار سیالکوٹ چھاؤنی میں مقیم ہو چکے تھے.اور مولوی صاحب وہاں فروری ۱۸۷۱ء میں پیدا ہوئے.اور میٹرک پاس کیا اور مولوی عالم تک تعلیم پائی.آپ اور محمد علی خانصاحب شاہجہانپوری مرحوم دونوں نے گائیڈ کا کام بھی کیا ہے وائسریگل لاج میں بطور گائیڈ رجسٹرڈ تھے.شاہی مہمان جو ہندوستان ، برما، رنگون اور ریاستوں میں سیاح کے طور پر آتے تھے ان کے لئے بطور گائیڈ کام کرتے تھے.اس سلسلہ میں برما ، رنگون بمبئی ، کلکتہ ، دہلی ، آگرہ بنارس، جے پور ، جودھ پور، الہ آباد اور ریاستوں میں سیاحوں کے ساتھ جانا ہوتا تھا.پانچ سال تک آپ نے یہ کام کیا اس کے علاوہ آپ نے ہمیشہ کافی شاپ یا کنٹین کے ٹھیکے لئے ہیں.اور آپ ملازموں کے ذریعہ ان کا کام چلاتے تھے.۱۹۳۶ء میں جب آپ کو کوئٹہ میں خاکسار نے دیکھا اس وقت آپ میجر جنرل ہڈلٹسن کے ہاں بطور میجر ملازم تھے اور اس کے قیام و طعام اور خدام اور اصطبل کا حساب کتاب آپ کے سپرد تھا.جنرل موصوف ایک طویل عرصہ تک سوڈان میں بطور وائسرائے متعین رہ چکے تھے.مولوی صاحب نے چھ سات سال جھانسی میں ملازمت بھی کی تھی.قبول احمدیت :.آپ سیالکوٹ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے درس میں حاضر ہوتے تھے اور ان سے فارسی بھی پڑھی حضرت میر حامد شاہ صاحب اور ان کے والد حکیم میر حسام الدین صاحب جیسے بزرگوں سے اکثر و بیشتر ملاقات ہوتی.حضرت مسیح موعود کے ایک استاد مولوی فضل احمد صاحب کے بیٹے ابو یوسف مولوی مبارک علی صاحب صدر بازار چھاؤنی سیالکوٹ میں امام مسجد بھی تھے اور متولی بھی.ان کی صحبت میں رہنے کا خاکسار کا تعارف آپ سے ۱۹۳۶ء میں کوئٹہ میں ہوا تھا.میری اور میرے اقارب کی خوش قسمتی ہے کہ اس وقت بھی ہماری خط و کتابت ہے.فالحمد للہ.اور یہ سارے حالات آپ ہی سے حاصل کر کے ان کی تکمیل کی ہے.

Page 233

211 موقع ملا.نیک صحبت اور درس میں شمولیت اور حضور کی چند کتب کا مطالعہ آپ کے شرح صدر اور آپ کی سعید فطرت میں تخم ریزی اور آبپاشی کا موجب بنا.آپ نے بیعت کے متعلق کسی سے مشورہ نہیں لیا آپ صرف بیعت کی خاطر مولوی مبارک علی صاحب کے ہمراہ دسمبر ۱۸۹۶ء میں قادیان پہنچے اور حضور کی بیعت سے مشرف ہوئے.آپ نے حضرت رسول اللہ ﷺ کا سلام حضور علیہ السلام کو پہنچایا.حضور نے وعلیکم السلام فرمایا.آپ کو کئی بار پھر بھی حضور کی زیارت کا موقع ملا.چنانچہ ایک دفعہ پھر بمعیت مولوی مبارک علی صاحب قادیان میں ایک دفعہ لاہور میں اور ایک دفعہ سیالکوٹ میں جب حضور بہ تعلق لیکچر سیالکوٹ تشریف لائے.اور حضور جب بمقدمہ کرم دین جہلم جارہے تھے تو مولوی عبد الواحد خاں صاحب بھی سیالکوٹ کے دو اور صحابہ کے ہمراہ وزیر آباد سے حضور کی معیت میں ریل گاڑی میں جہلم گئے اور حضور کے ساتھ ہی واپس ہوئے.تبرک :.سیدہ حضرت ام المومنین اعلی الله در جانتہا نے از راہ شفقت آپ کو حضرت مسیح موعود کی گرم واسکٹ بطور تبرک عنایت فرمائی تھی.جو آپ کے پاس ہے اس کی برکت کی تفصیل آپ کی روایات میں درج کی گئی ہے جو کتاب کے آخر میں درج ہیں.اہلی زندگی :.آپ بیان کرتے ہیں کہ قبول احمدیت کے گیارہ ماہ بعد میری شادی محترمہ غفور النساء صا حبه بنت منیر خاں سے ہوئی جو میرے رشتہ کے ماموں تھے.اور ہاتھی باتری میں صو بیدار تھے.والدہ مرحومہ ، بڑے بھائی رستم خاں مرحوم ، اور چند اور ا قارب واحباب کے ہمراہ میں شادی کے واسطے ملتان پہنچا.چونکہ وہاں فوج میں ہمارے کچھ اقارب تھے جن کو بخوبی معلوم تھا کہ میں حضرت مسیح موعود کی غلامی میں آچکا ہوں اور وہ بھی تقریب نکاح میں شامل تھے نکاح خوانی کے وقت ایک فوجی افسر نے نکاح خواں مولوی سے کہا کہ لڑکا میرزائی ہے.اور صو بیدار صاحب میرزائی نہیں آپ نکاح نہیں پڑھ سکتے ملاں بیچارہ ڈر گیا.کیونکہ فوج کی مسجد کا امام تھا.ماموں صاحب نے مجھے کہا کہ آپ کہہ دیں کی میں میرزائی نہیں.گو مجھے ابھی تک اہمیت کا پورا احساس نہیں تھا.آپ بیان کرتے ہیں کہ شروع میں ہندوستان میں تین توپ خانے ہاتھیوں کے بھی تھے ملتان جھانسی اور سکندر آباد دکن میں گھوڑوں کے توپ خانہ کی طرح ہاتھی توپ خانہ میں بھی چھ تو ہیں ہوتی تھیں اور ایک توپ میں دو ہاتھی لگتے تھے گویا ایک توپ خانہ بارہ ہاتھیوں پر مشتمل ہوتا تھا.اور سپاہی مہارت، نوکر ، بہت بڑاعملہ ہوتا تھا.اور با قاعدہ ہند وستانی اور یور چین افسر ہوتے تھے.

Page 234

212 کہ تھوڑی دیر کے لئے نہ کہد ینے میں بھی حرج ہے اور میرے ہاں یا نہ کہنے پر شادی کا دارو مدار تھا.لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوا.اور میں نے انہیں کہا کہ میں یہ نہیں کہونگا مولوی خاموش ہو گیا.اور وہ احباب واپس چلے گئے اور خسر صاحب اور اقارب کو بہت افسوس ہوا اور فکر مند ہوئے کہ اب کیا کرنا چاہئے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی دعا کے متعلق ایک تقریر کا مجھ پر گہرا اثر تھا رات کو میں نے بہت الحاج سے دعا کی.صبح ناشتہ کے وقت سب افسردہ تھے.بھائی نے کہا اب کیا ہوگا.میں نے کہا اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.معاملہ ٹھیک ہو جائیگا.اور خسر صاحب سے کہہ کر تنہا مولوی مذکور کو بلوالیا.مولوی صاحب کی ناشتہ سے خاطر تواضع کرتے وقت میں نے ان سے کہا کہ نکاح نہ پڑھنے کا سبب میری سمجھ میں نہیں آیا.ایک مسلمان کیلئے امنٹ بِاللهِ وَمَلَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِہ کی صفات ہیں اور ہم ان سب باتوں پر ایمان رکھتے ہیں.اور دل سے یقین کرتے ہیں.قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا کلام سمجھتے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا کلمہ پڑھتے اور کعبة اللہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے ہیں.باوجود اس کے ہمیں کافر کہنا کتنی بے انصافی ہے اور میں نے اسی دوران میں دس روپے کا ایک نوٹ ان کی طرف سرکا دیا.وہ راضی ہو گیا.اور میں نے ماموں صاحب سے کہا کہ آپ اپنے ڈھب کے دو تیں افسر بلا لیں زیادہ آدمیوں کی ضرورت نہیں.مولوی صاحب خود ہی ان لوگوں کو سمجھا لیں گے.الغرض پانچ سات آدمی آگئے.اور مولوی مذکور نے ان کو سمجھایا اور بہت جلدی خطبہ پڑھنا شروع کر دیا.جس کے اختتام پر مبارک سلامت ہوئی.دعا کر کے مولوی چمپت ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا کام ہو گیا.اور ہم دودن کے بعد دلہن لے کر سیالکوٹ چلے آئے.آپ کی اہلیہ محترمہ نے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور پھر حضرت مسیح موعود" کی زیارت قادیان میں کی.باتیں سنیں.مرحومہ قادیان آتیں تو چونکہ یو.پی کی رہنے والی تھیں.اس لئے سیدہ ام المومنین انہیں دارا اسی میں اپنے پاس ٹھہرا تیں.اور کسی دوسری جگہ ٹھہر نے نہ دیتیں.آپ نے اکتوبر ۱۹۲۶ء میں بمقام میرٹھ وفات پائی اور وہیں دفن ہوئیں.موصیبہ نہیں تھیں.مولوی صاحب تھیں سالہ ازدواجی زندگی کا تجربہ بتاتے ہیں کہ خدا کی بندی (مرحومہ ) نے اس عرصہ میں نماز اور تجد بھی نہیں چھوڑی.بہت نیک اور دعا کر نیوالی خاتون تھیں.آپ کی اولاد عبدالحکیم خان ( وفات بتاریخ ۲۸ جون ۱۹۵۹ء بعمر تریسٹھ سال اور اقبال احمد خاں (ولادت ۱۹۰۰ء ) ہے لیکچر سیالکوٹ کے موقع پر ان دونوں نے سیالکوٹ میں حضرت اقدس مسیح موعود کی زیارت کی تھی.ہے حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 235

213 تائید خلافت ثانیہ :.حضرت خلیفہ اول کی وفات کے وقت آپ مہو چھاؤنی میں تھے.حضور کی وفات کی اطلاع بذریعہ تار موصول ہوئی تھی.اور یہ کہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد خلیفہ ثانی منتخب ہوئے ہیں.مولوی صاحب نے ان تیرہ افراد کو جمع کیا جن پر جماعت مشتمل تھی.اور مختصر تقریر کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کے دستخط کروا کر قادیان تحریر بھجوادی.آپ کو خلافت ثانیہ کے متعلق ایک لمحہ کے لئے بھی شک پیدا نہیں ہوا.آپ روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا.اللہ تعالیٰ ایک ولی کو بھی خراب اولاد کی بشارت نہیں دیتا.چہ جائیکہ مسیح موعود کو خراب اولاد کی بشارت دیتا.اور اپنی اولاد کے متعلق فرمایا.کہ وہ متقی اور صالح ہوں گے کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کی بشارت دی ہے.آپ نے یہ روایت مولوی محمد علی صاحب کو سنائی تو انہوں نے ناراضگی کے لہجہ میں کہا کہ:.” بھائی عمل کی ضرورت ہے.“ تبلیغی سرگرمی :.اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے کہ آپ کو تبلیغ کا جوش عطا ہوا ہے.۱۹۳۶ء میں خاکسار کو کوئٹہ کے احباب نے بتایا تھا کہ آپ انگریز حکام کو جن سے آپ کو واسطہ پڑتا ہے تبلیغ کرتے ہیں اور عند الملاقات آپ نے بتایا تھا کہ آپ ان کو تبلیغی لٹریچر دیتے ہیں.یہ میجر جنرل ہڈلٹن جس کے آپ وہاں مینجر تھے.ایک طویل مدت تک سوڈان میں وائسرائے رہ چکے تھے اور عربی خوب جانتے تھے.مولوی صاحب نے ان کی خدمت میں ٹیچنگز آف اسلام پیش کی.جسے انہوں نے تین دفعہ مطالعہ کیا اور مولوی صاحب کے دریافت کرنے پر کہ کیا کوئی اور کتاب دوں تو جنرل موصوف نے کہا کہ دیجئے لیکن اس سے بہتر کتاب آپ کے سلسلہ میں نہیں ہوگی.جنرل موصوف نے کئی بار اپنی تقاریر میں مولوی صاحب کا ذکر کیا کہ کوئٹہ میں صحیح معنوں میں صرف وہی مسلمان ہے.بہت ایماندار ہے.حاشیہ صفحہ سابقہ:.عبد الحکیم خاں مرحوم کی اولاد چارٹر کے ( مبارک احمد خاں بی.اے ملازم لندن نسیم احمد خاں ریڈیو مکینک ایرفورس ، محمد شفیع خاں اور خورشید احمد خاں ) پانچ لڑکیاں اور اقبال احمد خاں کی اولا د آٹھ لڑکے ( ناصر احمد خاں بی کام متعلم لندن وغیرہ ) اور تین لڑکیاں زندہ ہیں اقبال احمد خاں کا نام پہلے عبد الحکیم خاں تھا.ڈاکٹر عبدالحکیم پیٹیالوی کے ارتداد پر نام تبدیل کر لیا.مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ خسر اور بڑے بھائی دونوں نے گواحدیت قبول نہیں کی لیکن مخالف بھی نہیں تھے.اور بھائی احمدیوں کی حمایت کرتے تھے.

Page 236

214 آپ کی تبلیغ اور تالیف قلوب کے ذریعہ آپ کے سرال کے چالیس اکتالیس افراد حضرت مسیح موعود اور خلافت ثانیہ کے زمانہ میں احمدیت میں داخل ہوئے.جھانسی میں آپ چھ سال ملازمت میں رہے.اور وہاں بھی آپ کی مذہبی گفتگو ہوتی رہتی وہاں مخدوم بخش صاحب ٹیلر - خاں فیض محمد خان صاحب.کریم الدین چودھری اور متعدد احباب احمدیت میں داخل ہوئے.انبالہ چھاؤنی میں تین دوست آپ نے احمدی بنائے.با بومحمد علی خانصاحب شاہجہانپوری کو پانچ سال تبلیغ کر کے احمدی بنایا.یہ اس وقت ریاست اندور میں تھے.آپ بیان کرتے ہیں کہ میرٹھ میں ہمارے خلاف اہلحدیث ہر سال جلسہ کراتے تھے.مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری.مولا نا مرتضی حسن صاحب در بھنگی.مولوی محمد صاحب جونا گڑھی کو فیس پر بلاتے اور تقریریں کراتے.ایک ایسے ہی موقع پر ان کی طرف سے شدومد سے انتظام ہوا اور بارہ علماء بلائے گئے.ہم پانچ احمدی جلسہ میں پہنچے.پہلی تقریر مولوی ثناء اللہ صاحب کی تھی.جس میں حسب عادت اس نے استہزاء ،شعر بازی اور الہامات اور پیشگوئیوں اپر اعتراضات کئے اور بطور چیلنج کہا کہ میری تقریر کے بعد کوئی صاحب جواب دینا چاہیں یا اعتراض کرنا چاہیں تو اجازت ہے.شیخ عبدالرشید صاحب رضی اللہ عنہ ریس میرٹھ نے جو صحابی تھے.مجھے کہا کہ کچھ کہو گے.میں نے کہا ہاں کہونگا.آپ دعا کریں.مولوی صاحب کی تقریر کے دوران میں مجھے کچھ مجھ نہیں آیا.کہ میں کیا کہوں.میں نے دعا کی کہ یالہی ! تو نے حضرت صاحب کو الہام کیا.وَجَاعِلُ الذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوَ إِلَى يَوْمَ الْقِيَمَةِ - (64) اس کی تقریر ختم ہونے پر میں کھڑا ہوا.اور میں نے جو بیان کیا وہ گویا معجزانہ رنگ میں القاء ہوا میں نے کہا کہ ہم پانچ احمدی جلسہ میں ہیں دووہ جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت کی.آپ کی بیعت کے طفیل ہم کو حضرت نبی کریم ﷺ کی زیارت ہوئی اور ہم نے رویا میں دیکھا حضور علیہ السلام حضرت مسیح موعود سے بڑی محبت سے گفتگو فرما رہے ہیں.پھر دوسری مرتبہ بھی دیکھا اور ہم یہ بات موکد بعذاب قسم کھا کر بیان کرتے ہیں.اب میرا سوال یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کو صادق ماننے اور آپ کی غلامی میں داخل ہونے کی برکت سے مجھے حضرت نبی کریم ﷺ کی تین مرتبہ زیارت ہوئی.با بوحمد علی خاں صاحب نے کراچی میں وفات پائی.اور بہشتی مقبرہ قادیان میں آپ کا کتبہ لگا ہوا ہے.آپ کراچی میں دفن ہیں.

Page 237

215 آپ لوگ جو بارہ تیرہ مولانا صاحب جو سٹیج پر بیٹھے ہیں نیز مولوی ثناء اللہ صاحب بھی جو صحیح اسلام بردارا اپنے آپ کو خیال کرتے ہیں کیا اپنے بال بچوں کی موکد بعذاب قسم کھا کر بیان کریں گے ) کہ آپ کو حضرت نبی کریم علی کی زیارت ہوئی اور یہ کہ حضور نے فرمایا کہ مرزا صاحب کا دعویٰ غلط ہے مگر قسم مؤکد بعذ اب ہوگی.بس میرا یہ کہنا تھا کہ سٹیج پر اوس پڑ گئی.ایک دو منٹ کی خاموشی کے بعد میرے ایک دوست قاضی نجم الدین صاحب ریئس میرٹھ نے جو غیر احمدی تھے لیکن حضرت مسیح موعود کی کتب کا مطالعہ کرتے تھے کہا کہ کوئی مولوی نہیں بولتا.کیا کسی کو بھی نبی کریم ﷺ کی زیارت نہیں ہوئی.فرمایا چلو بھائی جلسہ ختم.ہم سب چلے آئے اور بھی کچھ غیر احمدی چلے آئے.اور جلسہ پھیکا پڑ گیا.اس خاطر کہ مولوی عبدالواحد خاں صاحب کی طرز تحریر محفوظ ہو جائے.ذیل میں چہ بہ دیا جاتا ہے.“ اصل تحریر کے الفاظ ذیل میں دیئے جاتے ہیں.ہم یہ موکد محبہ اسے قسم کہا کہ بیان کرتے ہیں.این میرا سوال یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ رسم کو صادق ماننے اور آپکی شارمی میں داخل ہو نیکی برکت سے حضرت نبی کر غیر مسلے اللہ علیہ وسلم کی تین رضیہ کریارت ہوئی.آپ لوگ جو بارہ تیرہ مولانا مجہ جو سٹیج پر بیٹھے ہیں.نیز مولانا ثناء اللہ بھی کبھی جو صحیح رسم کہ مردار ہیں ، اپنے آپ کی خیال کرتے ہیں کیا ،اپنے بال بچوں کی یو مولک بند از آب قسم کھا کر بیان کر لینا کہ آپکو حضرت انہی کو میر نے اللہ علیہ وسلم کی زیادہت ہوئی اور یہ کہ حضور علیہ وسلم نے فرما یا کہ میرزا مل کا وعوالے ماسک ہے.مگر قسم کی کہ بندر بس ہوگی.برائے کرنا انسان کے پیٹھ پر اداس ہار گئی.

Page 238

216 خدمت سلسلہ اور لٹریچر میں ذکر :.آپ کو سلسلہ کی مالی خدمات کی بھی توفیق ملی ہے چنانچہ آپ موصی ہیں سلسلہ کے لٹریچر میں بھی آپ کا ذکر آتا ہے.چنانچہ الفضل میں قادیان میں آنے والے مہمانوں کے تعلق میں مرقوم ہے:.الہ آباد سے خانساماں عبدالواحد صاحب جو بارادہ حج مکہ معظمہ جارہے ہیں (67) وہاں مرقوم ہے کہ ساٹھ مہمان آئے لیکن نام صرف سات کا دیا گیا ہے.جس سے یہ مترشح ہوا کہ آج سے اڑتالیس سال قبل خلافت اولیٰ میں آپ کا شمار جماعت کے ممتاز اور قابل ذکر افراد میں تھا.جیو دعاؤں کی قبولیت:.جماعت احمدیہ پر حضرت مسیح موعود کے طفیل ہزاروں برکات نازل ہوئی ہیں.ان میں سے ایک عظیم برکت دعاؤں کی قبولیت پر یقین اور دعاؤں میں انہاک بھی ہے.حضرت مولوی عبد الواحد خان صاحب بھی بہت دعائیں کرنے والے بزرگ ہیں ذیل میں قبولیت دعا کے بعض واقعات درج کئے جاتے ہیں (۱) میرے بڑے لڑکے عزیزم ملک رشیدالدین انور سلمہ نے اس دفعہ میٹرک کا امتحان دیا.بظاہر کامیابی کی امید نہیں تھی.وہ پڑھائی نہیں کر سکا آپ کو دکھایا گیا کہ کامیاب ہوا ہے.چنانچہ بفضلہ تعالیٰ غیر متوقع طور پر کامیاب ہو گیا.(۲) وسط ہند میں چھاؤنی مہو میں آپ برطانوی فوج میں ٹھیکہ لے کر تین سال تک رہے وہاں ایک صاحب منصور علی کے لڑکے نے جو تعلیم یافتہ تھا سب انسپکٹر پولیس بھرتی ہونے کے لئے درخواست دی.غیر مسلم کلرک کی شرارت سے وہ نا کام ہوا.نصف سال بعد دوبارہ بھی مذہبی تعصب کے باعث اسے نا کام کیا گیا.اہلیہ منصور علی نے اہلیہ مولوی صاحب کے ذریعہ مولوی صاحب کو کہلوایا کہ اس کے لئے دعا کریں.ملازمت نہ ملنے کے باعث اسے رشتہ بھی نہیں مل سکتا.آپ نے لڑکے کی والدہ کو کہلا بھیجا کہ اگر بیٹا پولیس کی ٹریننگ میں منظور کر کر لیا آپ کی وصیت کا نمبر ۵۲۶ مورخہ ۸/۱۱/۱۱ ہے.آپ کا چندہ مدرسہ کے لئے بنارس سے تین روپے، پھر نصف رو پید اور کالج فنڈ ایک روپیہ مس کوٹ جھانسی سے اور برائے تعمیر مدرسہ ایک لاکھ کی تحریک میں بنارس چھاؤنی کوٹھی ٹکسالی سے تمہیں روپے اور پھر سترہ روپے اور بدر کے لئے سوار و پیہ مرقوم ہیں.(دیکھئے علی الترتیب الحکم۳۱/۳/۵۰ صفحہ ۳۱/۸/۵۰،۱۲ صفحه ۲ اک۳،۲.ریویو (اردو) بابت ۱۹۱۲ء ( صفحه ۲۳۰،صفحه ۴۴۵ ) و بدر ۶/۰۵/ ۸ صفحه ۸)

Page 239

217 جائے تب تو آپ لوگ مانیں گے کہ احمدیت کچی ہے.اور حضرت مسیح موعود مامور ہیں اور یہ اقرار اپنے خاوند سے بھی کراؤ.چنانچہ ان سب نے اس صورت میں احمدیت قبول کرنے کا وعدہ کر لیا.سومولوی صاحب محترم نے دوماہ متواتر دعائیں کرنے پر خواب میں اس نوجوان کو سب انسپکٹر پولیس کی وردی میں ملبوس دیکھا.سواس سے پھر درخواست دلوائی.وہی کلرک اور وہی انگریز ایس.پی تھا.اور کلرک نے پھر وہ فائل سامنے رکھدی ایس.پی نے اس نوجوان کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو شکیل نو جوان ہے اسے میں نے کیوں نامنظور کر دیا تھا.چنانچہ یہ عزیز ٹرینگ کے لئے بھجوادیا جس کے بعد وہ سب انسپکٹر ہو گیا.پہلے تو اس کے باپ نے اقارب کے خوف سے بیعت میں ہچکچاہٹ ظاہر کی لیکن اس کی بیوی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو.ورنہ ہمیں ہی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے.مبادا مولوی صاحب الٹی تسبیح پھیر نے لگیں.چنانچہ چھ افراد نے بیعت کر لی.اور مولوی صاحب کے مکان پر جمعہ ادا ہونے لگا.(۳) مکرم میاں عبدالحق صاحب رامہ کراچی میں اپنا دومنزلہ بنگہ تعمیر کرارہے تھے کہ بچلی منزل کی تعمیر کے بعد روپیہ ختم ہو گیا.بہت فکر مند تھے کیونکہ اوپر کی منزل کی تعمیر کے بغیر حسب منشاء کرایہ پر عمارت نہیں اٹھ سکتی تھی.میاں صاحب نے مولوی صاحب سے دعا کی درخواست کی چنانچہ آپ نے دعا کی اور رات کو دیکھا کہ ایک انگریز بہت اچھا سوٹ پہنے ہوئے آپ کے سامنے کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ میرا نام COMPLETE MAN ( مکمل آدمی ) ہے چنانچہ آپ کو یقین ہوگیا کہ ان کا کام ہو جائے گا.چنانچہ صبح ہی ایک امریکن نے آکر رامہ صاحب کو پانچ ہزار روپیہ پیشگی کرایہ دیا.جس سے ان کی مشکل حل ہوگئی.(۴) عبد الخالق صاحب ( سابق سیکرٹری مال حلقہ مارٹن روڈ کراچی.حال راولپنڈی ) نے دعا کی درخواست کی کہ بارہ تیرہ سال شادی پر گذر چکے ہیں.اولاد نہیں ہوئی اسی طرح مکرم ڈاکٹر عبید اللہ صاحب بٹالوی (مقیم لاہور ) نے بھی دعا کی درخواست کی کہ ان کی بچی (اہلیہ محترمہ وحید صاحب مقیم کراچی ) کی شادی پر دس سال بیت چکے گود ہری نہیں ہوئی.مولوی صاحب محترم ڈیڑھ ماہ کے قریب دعا کرتے رہے.چنانچہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ دو بچے لائے ہیں.اور کہتے ہیں کہ آپ کے لئے لایا ہوں.آپ نے کہا الحمد للہ.مہربانی کر کے ایک بچہ عبدالخالق صاحب کو اور ایک وحید صاحب کو دے دیں.چنانچہ بفضلہ تعالیٰ دونوں کے ہاں بچے ہوئے جو زندہ سلامت ہیں.(۵) ایک صاحب آفتاب احمد صاحب بہل جو شاعر اور ادیب ہیں.گھر پر لے گئے اور مولوی صاحب

Page 240

218 سے کہا کہ چار پانچ بچیاں عطا ہوئیں لیکن نرینہ اولاد سے محروم ہوں.آپ دعا کریں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی.اور انہیں بچہ عطا کیا.جواب اچھا بڑا اور تندرست ہے.(۲) مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی مقیم میر پور خاص سندھ ( داماد حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب معالج خصوصی سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) کے ایک مقدمہ میں کامیابی کے لئے مولوی صاحب مکرم نے بہت دعا کی.آپ نے دیکھا کہ ریچھ جیسا ایک جانور صدیقی صاحب پر حملہ کرنا چاہتا ہے.اور جس راستہ سے اس نے حملہ کے لئے گزرنا ہے وہاں ایک بہت بڑا درخت ہے جس کے تنے میں خلا ہے مولوی صاحب اس میں چھپ گئے اور آپ کے ہاتھ میں کاغذوں کا ایک گیند نما پلندہ ہے جس میں شیشے کے ٹکڑے اور لوہے کی کر چیں ہیں.جب جانور حملہ کے لئے گزرا تو آپ نے زور سے اس کے پیٹھ پر یہ پلندہ دے مارا جس سے وہ زخمی ہوا.اور خون بہنے لگا.اور وہ لڑکھڑاتا ہوا جنگل کو بھا گا.معلوم ہوتا تھا کہ ضرور مر جائے گا.اسی طرح ان کے ایک اور مقدمہ کے متعلق آپ نے دعا کی.تو دیکھا کہ کچھ سانپ ایک بڑے سانپ کی اقتداء میں صدیقی صاحب کی طرف جارہے ہیں مولوی صاحب نے جلدی سے بڑے سانپ کا سر کچل دیا تو سارے چھوٹے سانپ بھاگ گئے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دونوں مقدمات میں کامیاب کر دیا.(2) ایک سرکاری افسر ابوالحسن صاحب پر مقدمہ بن گیا.ان کے برادر نسبتی نے مولوی صاحب سے دعا کی درخواست کی.آپ دعا کرتے رہے.ایک ماہ بعد آپ نے دیکھا کہ لوہے کی ایک بہت موٹی زنجیر جو آگ کی طرح لال ہے گویا بھٹی سے نکال کر لٹکائی گئی ہے دور تک جارہی ہے.اور ایک طرف ابوالحسن صاحب اور دوسری طرف مولوی صاحب ہیں.اور ابوالحسن صاحب اس کی سخت گرمی سے بہت بے چین ہیں اور مولوی صاحب کی طرف آنا چاہتے ہیں.لیکن اس کی گرمی کی وجہ سے آگے بڑھ نہیں سکتے.مولوی صاحب نے سورۃ الفلق زور زور سے پڑھنی شروع کی جس سے وہ رفتہ رفتہ زنجیر ٹھنڈی ہوگئی.اور ابوالحسن صاحب مولوی صاحب کی طرف آگئے جہاں خوب آرام تھا اور ٹھنڈک تھی اور تفہیم ہوئی کہ ان کو اللہ تعالیٰ بری کر دے گا.سو بفضلہ تعالیٰ ایسا ہی ہوا.اللہ تعالیٰ نیک بندوں کی دعائیں سنتا ہے.اور ان کو بشارتیں عطا کرتا ہے جو روحانی ترقی اور ازدیاد ایمان وایقان کا موجب ہوتی ہیں.آنحضور ﷺ کی زیارت بھی تین بار ہوئی.چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں کہ.ایک بہت بڑی عمارت ہے جس کے چاروں طرف چھ فٹ کی دیوار ہے.احاطہ کا رقبہ چھ ایکڑ ہوگا.برآمدے میں دو کرسیاں ہیں ایک پر میں بیٹھا ہوں.حضرت چوہدری محمد حسین صاحب ( برادر حضرت

Page 241

219 نواب صاحب سے میں نے دوسری پر بیٹھنے کو کہا تو انہوں نے کہا کہ میں نہیں بیٹھوں گا.پھر دیکھا کہ پھاٹک میں صلى الله صلى الله.سے حضرت نبی کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود چلے آرہے ہیں.آتے آتے حضرت رسول کریم علیہ حضرت الله مسیح موعود کے جسم میں ایک حصہ سما گئے اور آگے آتے آتے سارا جسم مبارک حضور ﷺ کا حضرت مسیح موعود کے جسم مبارک میں داخل ہو گیا اور صرف حضرت مسیح موعود تنہا رہ گئے.میں پہلے ہی کرسی پر سے کھڑا ہو گیا تھا.قریب آنے پر میں نے السلام علیکم عرض کر کے مصافحہ کرنا چاہا.حضور نے فرمایا معانقہ کریں گے.چنانچہ حضور نے بڑی محبت سے مجھے چھاتی سے لگایا اور خوب زور سے معانقہ کیا.چوہدری صاحب محترم نے عرض کیا کہ حضور ! یہ پرانے صحابی ہیں.سر مبارک ہلاتے ہوئے فرمایا ہم کو معلوم ہے.حضور نے عمارت میں داخل ہو کر مر کر فرمایا فضل ہے فضل.میں ایک دوست کے اہم معاملہ کے تعلق ان دنوں دعا کر رہا تھا.فضل ہے فضل گو اس کے متعلق تھا.و میں نے اکثر اور بیشتر دیکھا کہ جب میں حضرت مسیح موعود کو رویا میں دیکھتا تو مجھے یقین ہوجاتا کہ دعا قبول ہوگئی میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ خواب اسی طرح دیکھا ہے.لعنت ہے جھوٹ بولنے والے پر.

Page 242

220 مولانا محمد ابراہیم صاحب بقایوری ہیں خاندانی حال حالات :- حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کے مورث اعلیٰ حافظ سعد اللہ صاحب حضرت اور نگ زیب کے درباری تھے.ان کے بیٹے چوہدری محمد سعید صاحب نے ایک ہزار فقہی مسائل پر مشتمل ایک کتاب بنام ” ہزاری ۱۶۴ ہجری میں تالیف کی تھی.اور ۱۱۵۶ھ میں اپنے نھیال کی اراضی واقعہ موضع بقاپور میں آئے تو سکھوں نے اراضی زبردستی چھین لی تو ان کے فرزند چوہدری شیر محمد صاحب جو مشہور عالم تھے مہاراجہ رنجیت سنگھ سے حکم نامہ لے آئے اور اراضی واپس حاصل کر لی.مولا نا بقا پوری کے والد ماجد چوہدری صدرالدین صاحب قوم جالب کھوکھر زمیندار تھے ہمدردی رکھنے والے بزرگ تھے.آپ نے چک چٹھہ ( تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ ) کے نمبردار کے حق میں جھوٹی گواہی دینے سے انکار کر دیا.گو اس کے نتیجہ میں اس بد کردار نے آپ کو گاؤں سے نکال دیا.مولا نا صاحب کی والدہ محترمہ دیندار ، روزہ نماز کی پابند تھیں.بچوں کا علاج بلا معاوضہ کرتی تھیں.مولانا کے تایا چراغ دین بھی بہت نیک بزرگ تھے.رات کا بیشتر حصہ مسجد میں نوافل ادا کرتے.ولادت و تعلیم و حضرت مسیح موعود کی اولین زیارت:.حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ۱۸۷۵ء میں بمقام چک چٹھہ پیدا ہوئے.آپ نے سات سال کی عمر تک تیسری جماعت تک اسی جگہ سرکاری جملہ حضرت مولانا صاحب کے خود نوشت حالات حیات بقا پوری ہر چہار حصص میں شائع ہو چکے ہیں.جو علی الترتیب ۱۲۴،۲۵۶، ۴۸ اور ۸۵ صفحات پر مشتمل ہیں.خلاصہ بعض مزید ضروری حوالہ جات کے ساتھ تکمیل کر کے خاکسار یہاں شائع کر رہا ہے زیادہ تفصیل کیلئے احباب حیات بقا پوری کی طرف رجوع فرما ئیں.حصہ پنجم بھی گذشتہ سال شائع ہوا ہے.لیکن مجھے اس کے دیکھنے کا موقع نہیں ملا.حیات بقا پوری کے متعلق سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود کے بعض فتاوی بھی جمع کئے ہیں نہ معلوم وہ ہیں جن میں وہ بھی اس وقت بیٹھے ہوئے تھے یا ان کو پسند تھے.کہ انہوں نے لکھ لئے لیکن اس میں حضرت مسیح موعود کے بعض خیالات اور آپ کے افکار بعض مسائل کے متعلق نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے لکھے گئے ہیں.بلکہ ایک حوالہ تو ایسا ملا ہے جس کی ہم کو تلاش رہی اور پہلے ہم کو نہیں ملا.اس میں ہمیں مل گیا.یہ بھی اچھی دلچسپ کتاب ہے.“ (66)

Page 243

221 مدرسہ میں تعلیم پائی.۱۸۸۴ء میں اپنے جدی گاؤں بقا پور سے دو میل کے فاصلہ پر موضع حمید پور میں ایک مولوی صاحب کے پاس قرآن شریف کے علاوہ گلستان و بوستاں تک فارسی پڑھی.اور اسی سال نیلہ گنبد لا ہور کے مدرسہ رحیمیہ میں داخل ہو کر قدوری.کافیہ اور فصول اکبری وغیرہ کتب پڑھیں ۹۰.۱۸۸۹ء میں دو سال لدھیانہ میں حضرت مولانا عبدالقادر صاحب ( یکے از ۳۱۳ صحابہ ) سے تعلیم حاصل کی.۱۸۹۱ء میں ایک دفعہ استاد محترم نے آپ کو نصف روپیہ دے کر محلہ اقبال گنج روانہ کیا.تا کہ حضرت مسیح موعود سے کتاب ”فتح اسلام لے آئیں.اس موقع پر آپ کو حضرت مسیح موعود کی اقتداء میں عصر کی نماز ادا کرنے کا موقع بھی ملا.اس عرصہ طالب علمی کے متعلق جبکہ آپ صرف پندرہ سولہ سالہ نوجوان تھے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے تاثرات کتاب کے آخری حصہ میں درج کئے گئے ہیں.عرفانی صاحب کے تجربہ میں مولا نا بقا پوری صاحب میں اس وقت بھی روحانی ترقی کی تڑپ تھی اور ان کے چہرے پر رشد کے آثار ہو یدا تھے.قادیان کی زیارت اور حصول قرب احمدیت :.آپ نے ۱۸۹۱ء تا ۱۸۹۳ء مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں تعلیم مکمل کی.۱۸۸۳ء کے واقعہ انتشار علوم کا آپ کو علم تھا اور ۱۸۹۴ء میں جبکہ آپ ریاست کچھ بھوج کے شہر مندرا کے مدرسہ عربی میں اول مدرس عربی تھے اور آپ کی عمر قریبا بیس سال کی تھی.رمضان شریف میں کسوف وخسوف ہوا.اور آپ سے لوگوں نے پوچھا کہ کیا اس نشان کی رو سے (حضرت) مرزا صاحب صادق ہیں.آپ نے کہا کہ یہ علامت ہے کہ حضرت امام مہدی پیدا ہو چکے ہیں.لیکن آپ کے دل پر اس نشان کا یہ ا ثر ہوا کہ حضرت مسیح موعود کی طرف آپ کی توجہ ہوگئی.اور آپ کبھی کبھی قادیان آتے اور اپنے پرانے دوستوں حضرت عرفانی صاحب ، حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت قاضی امیرحسین صاحب سے بھی ملاقات ہوتی.اور ہر بار قادیان آنے پر جماعت کے ساتھ آپ کا تعلق زیادہ پختہ ہو جاتا.جب آپ ۱۹۰۳ء میں قادیان آئے تو آپ کے ایک سوال پر حضرت مسیح موعود نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا.مولوی صاحب یہ ایمان نہیں کہ تھوڑے سے ایمان میں انسان کمزوری دکھائے اور حضور نے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الخَوفِ وَالْجُوعِ ( 67 ) کی تفسیر بیان فرمائی اس سے مولانا صاحب اسقدر متاثر ہوئے کہ آپ نے عزم کر لیا کہ آئندہ آپ ضرور بیعت کے لئے تیار ہو کر آئیں گے.ان دنوں آپ اپنے ماموں کے پاس قصبہ مرالی والہ (ضلع گوجرانوالہ ) میں رہتے تھے.آپ نے وہاں پہنچ کر اس بات کا تذکرہ شروع

Page 244

222 کر دیا کہ حضرت مرزا صاحب صادق مسلمان ہیں اور جماعت احمدیہ بھی دیگر مسلم فرقوں کی طرح ایک فرقہ ہے اس پر وہاں کے اہلحدیث افراد نے امرت سر سے مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی کو بلا لیا.جنہوں نے آپ پر زور ڈالا کہ دیگر دوصد علماء کی طرح آپ بھی عقیدہ وفات عیسی اور دعویٰ مسیحیت و مہدیت کے باعث ( معاذ اللہ ) حضرت مرزا صاحب کے کفر کا اعلان کریں.آپ نے جرأت سے کام لے کر کہا کہ میں حنفی ہوں بہت بڑے حنفی عالم مولوی غلام قادر صاحب کا یہ فتویٰ میرے پاس موجود ہے کہ اہلحدیث کا فر اور خارج از اسلام ہیں.سو آپ کو تو کافر کہنے کو تیار ہوں لیکن حضرت مرزا صاحب کو نہیں.کیونکہ میں نے بارہا قادیان جا کر دیکھا.ان کی باتیں سنیں مجھے کفر کی کوئی بات نظر نہیں آئی.اس پر غزنوی صاحب نے کہا یہ پکا مرزائی ہو گیا ہے.اور مرزا صاحب نے دعویٰ نبوت کیا ہے اسی دوران میں باپ بیٹا دو شخص غزنوی مذکور کے پاس آئے اور کسوف وخسوف کے نشان کے متعلق دریافت کیا مولوی مذکور نے کہا کہ اس بارہ میں حدیث صحیح ہے.باپ نے بیٹے کو کہا چلو چلیں.ہم نے جو کچھ پوچھنا تھا.پوچھ لیا.مولوی مذکور نے کہا کہ تم مرزا کے پھندے میں نہ پھنس جانا.وہ کہتا ہے کہ کسوف وخسوف میری صداقت کا نشان ہیں.اس نشان کا ذکر قرآن مجید میں نہیں اور یہ علامت مہدی کے پیدا ہونے کی ہے بوڑھے نے کہا کہ مجھے کئی مقدمات سے واسطہ پڑا ہے.جب مدعی علیہ انکار کرے تو گواہ پیش کرنے پڑتے ہیں.ان آسمانی نشانات نے ظاہر کر دیا کہ دنیا میں کوئی مدعی مہدویت ہے جس کا انکار کیا جارہا ہے.اس واقعہ سے بھی مولانا بقا پوری صاحب کو احمدیت کی طرف زیادہ توجہ ہوگئی.اور آپ مخفی طور پر جلد جلد قادیان جانے لگے.اور ۱۹۰۴ء میں آپ نے مسئلہ نبوت کے متعلق بھی تسلی کر لی.سفر برائے بیعت : بالآخر ۱۹۰۵ء میں آپ بیعت کے ارادہ سے قادیان کے لئے روانہ ہوئے.اور اپنے بڑے بھائی مولوی محمد اسمعیل صاحب کو جو عالم فاضل اور صوفی منش تھے اپنے ساتھ لیا.اور انہیں کہا کہ اگر آپ کو قادیان میں کوئی امر خلاف شریعت نظر آئے تو مجھے بتلا دیں اور اگر وہاں کی فضا مطابق شریعت پائیں تو بھی آگاہ کر دیں.آپ کا یہ مقصد تھا کہ بھائی صاحب بھی اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ پائیں.اور دونوں بھائیوں میں مخالفت پیدا نہ ہو.پیدل سفر کرتے ہوئے جب دونوں دریائے راوی کو عبور کر کے فتح گڑھ چوڑیاں پہنچے تو انہوں نے

Page 245

223 دو مسلمانوں سے بٹالہ کا راستہ دریافت کیا اور پوچھنے پر بتایا کہ ہم قادیان جارہے ہیں.یہ سنتے ہی ان دونوں نے بے نقط گالیاں ماں بہن کی نکالنی شروع کر دیں کہ ان دونوں کو دیکھو انہوں نے داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں.مولوی معلوم ہوتے ہیں مگر نہ معلوم انہیں کیا ہو گیا ہے کہ مرزا کے پاس گمراہ ہونے جارہے ہیں.یہ وہاں سے چل پڑے اور وہ مسلمان وہاں پر ہی کھڑے گالیاں دیتے رہے.مولوی صاحب کے بھائی صاحب نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے مرزا صاحب بچے ہیں.اب ہم کسی مسلمان سے راستہ دریافت نہیں کریں گے.رات بٹالہ میں رہے اور دوسرے دن قادیان پہنچ گئے.آپ کے کہنے پر تین دن بھائی صاحب نے استخارہ کر کے بتلایا کہ حضرت مرزا صاحب واقعی صادق ہیں.اس لئے آپ بیعت کر لیں.اور خود کسی اور وقت میں بذریعہ خط بیعت کر لینے کا اظہار کیا.اور کہا کہ ہمارا باہمی معاہدہ تھا کہ آپ مجھے بیعت کے لئے نہیں کہیں گے.بیعت :.قادیان پہنچنے کے چوتھے روز آپ نے بیعت کا ارادہ کر لیا.اس دن حضرت مسیح موعود کی طبیعت ناساز حضور کی عیادت کے لئے حضرت خلیفہ اول حضرت مولوی عبدالکریم صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب وغیر ہم بیت الفکر میں بیٹھے تھے کہ حضور کو مولا نا بقا پوری صاحب کے متعلق اطلاع دی گئی کہ وہ حاضر ہونا چاہتے ہیں حضور نے آپ کو بھی اندر آنے کی اجازت دی.چونکہ اس وقت وہاں پر کوئی خالی کرسی یا موڑ ھا وغیرہ نہ تھا.اس لئے مولوی صاحب نیچے بیٹھنے کے لئے جھکے ہی تھے کہ حضور نے فرمایا.نہیں نہیں آپ میرے پاس چار پائی پر بیٹھ جائیں.آپ جھجکتے ہوئے پاؤں نیچے لٹکا کر چارپائی پر بیٹھ گئے تو حضور نے کمال مہربانی سے فرمایا.مولوی صاحب! میری طرح چار پائی پر پاؤں رکھ کر بیٹھ جائیں.“ چنانچہ آپ حضور کے سامنے بیٹھ گئے اور عرض کی کہ حضور اب مجھے کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہا.اور حضور نے تین چار روز یہاں قیام کرنے کا ارشاد فرمایا تھا.آج چوتھا دن ہے.میری بیعت لے لیں.حضور نے ہاتھ بڑھایا اور آپ کی بیعت لے لی.اس نظارہ سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جو وہاں تشریف فرما تھے.بہت ہی متاثر ہوئے اور فرمایا.مولوی صاحب ! اس طرح کی بیعت کرنا آپ کو مبارک ہو.“

Page 246

224 قبول احمدیت سے مولوی صاحب کے تایا چراغ دین صاحب کی ( جو کہ ولی اللہ تھے ) یہ بات پوری ہوگئی جو کہ وہ مولوی صاحب کی والدہ کو کہا کرتے تھے.کہ ابراہیم تمہارے گھر ایک نور لائے گا جسے تم وقت پر سمجھ لو گے حضرت مولوی صاحب اپنے خاندان میں احمدیت کے آدم تھے.مخالفت بعد اعلان بیعت :.آپ نے قصبہ مرالی میں پہنچ کر اپنی بیعت کا مسجد میں اعلان کر دیا اور یہ بھی بتادیا کہ جماعت احمدیہ کا کلمہ،قبلہ، اور دین اور نماز وہی ہے اور قادیان میں ہر وقت قال اللہ وقال الرسول کا ذکر ہوتا اور اشاعت دین کا کام ہوتا ہے.اس پر قصبہ میں شور برپا ہوا.اور شدید مخالفت کا آغاز ہو گیا.اہلحدیث مولویوں کی طرف سے مقاطعہ کرا دیا گیا.لوگ آپ کو کھلے بندوں گالی گلوچ دیتے.ایسے کٹھن مرحلہ پر مولانا صاحب آستانہ (الہی ) پر جھکنے ،تہجد میں گریہ وزاری میں مصروف ہونے لگے.اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر رویا وکشوف کا دروازہ کھول دیا.اور یہ امر آپ کے لئے بالکل نیا تھا.اس طرح آپ کے لئے تسلی کے سامان ہونے لگے.ایک دفعہ حضرت عائشہ نے فرمایا بیٹا ! عزم رکھنا.ایک دفعہ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ میں نے بھی اسی طرح پختہ عزم کیا تھا.سواب آپ کے ایمان و عرفان میں ترقی ہونے لگی اور حضرت مسیح موعود کے ساتھ عشق و وفا بھی بڑھنے لگا.اور آپ دیوانہ وار تبلیغ میں لگ گئے جس پر آپ کے ماموں نے جو خسر بھی تھے آپ کو گھر سے نکل جانے پر مجبور کیا اور پولیس سے اس بارہ میں استمداد کی بھی دھمکی دی.اس لئے آپ موضع بقا پور چلے آئے.یہاں اپنی زمینداری کے باعث مقاطعہ تو نہ ہوا.لیکن مخالفت پورے زور سے رہی.عوام کے علاوہ آپ کے والدین اور چھوٹا بھائی بھی زمرہ مخالفین میں شامل تھے.البتہ بڑے بھائی مخالف نہ ہوئے.ایک روز آپ کی والدہ نے آپ کے والد سے کہا کہ آپ میرے بیٹے کو کیوں برا کہتے ہیں وہ پہلے سے زیادہ نمازی ہے.والد صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب کو جن کا دعویٰ مہدی ہونے کا ہے مان لیا ہے.والدہ صاحبہ نے کہا کہ امام مہدی کے معنے ہدایت یافتہ لوگوں کے امام کے ہیں ان کے ماننے سے میرے بیٹے کو زیادہ ہدایت نصیب ہوگئی ہے جس کا ثبوت اس کے عمل سے ظاہر ہے اور مولوی صاحب کو اپنی بیعت کا خط لکھنے کو کہا.آپ تبلیغ میں مصروف رہے اور ایک سال کے اندر والد صاحب چھوٹا بھائی اور دونوں بھاوجوں نے بھی بیعت کر لی.اور بڑے بھائی صاحب نے خلافت اولی میں بیعت کر لی.۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ء تین سال بقا پور میں ہر طرح کی مالی اور بدنی ابتلاؤں کے گزرے کئی کئی دن فاقہ کشی

Page 247

225 تک بھی نوبت پہنچی.لیکن روحانی مسرتوں کے باعث ان تکالیف کا احساس نہ ہوا.کیونکہ آپ زمینداری نہیں کرتے تھے اس لئے آمد کی کوئی صورت نہ تھی.پھر چند لڑ کے آپ سے فارسی پڑھنے لگے.اس طرح قدرے معاش کا سامان ہو گیا.اہلیہ اولی کے متعلق ایک نشان :- آپ کی شادی آپ کے ماموں کی لڑکی کے ساتھ ہوئی تھی.جب آپ ابھی نھیال میں مقیم تھے تو آپ جمعہ گوجرانولہ میں ادا کرتے تھے.ایک جمعہ پر امام الصلوۃ حکیم محمد دین صاحب نے کہا کہ آپ طبابت کرتے ہیں.سنکھیا کوئی کھالے تو اس کا علاج یہ ہے.آپ یا درکھیں.آپ گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ کی بیوی نے غلطی سے سنکھیا کھا لیا ہے اور ان کی حالت غیر ہو چکی تھی.اور مخالفین خوش ہو کر کہتے تھے کہ مرزائی کی خانہ بربادی مرزائیت کے باعث ہونے لگی ہے.مولانا نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے علاج بتا دیا ہوا ہے.یہ بچ جائے گی.چنانچہ اس علاج سے معجزانہ طور پر شفا ہوگئی.مباہلہ وغیرہ اور نکاح ثانی :.آپ کے ساتھ موضع حمید پور کے ایک مولوی نے مباحثہ اور پھر مباہلہ کیا.اور ایک سال کے اندر ہلاک ہوا.اسی طرح دیگر معاندین کو بھی اللہ تعالیٰ نے ذلیل کیا.اور مخالفت کم ہوگئی.اور ایک دو گھرانے احمدی ہو گئے.اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے شَمَاتَتَ أَعْدَاء سے بچا کر فوری ہلاکت سے آپ کی اہلیہ صاحبہ کو فوری بچالیا.بعد میں کچھ اس زہر کے اثر سے اور کچھ جسمانی تکالیف کی وجہ سے صحت خراب ہوگئی.حضرت مسیح موعود کے وصال کی خبر سے ایسا گہرا اثر پڑا کہ جانبر نہ ہوسکیں.اور ۲ دسمبر ۱۹۰۸ء کو وفات پاگئیں.آپ نے جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفہ اول سے ان کی وفات کا ذکر کر کے نکاح ثانی کے لئے دعا کی درخواست کی.حضور نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ میں ضرور دعا کروں گا.مولانا صاحب نے بھی دعا کی کہ حضور کو توجہ سے دعا کرنے کی توفیق ملے.جلسہ سالانہ کے بعد واپسی کی اجازت کے لئے آپ اور دیگر احباب حاضر ہوئے تو حضور نے سب کے لئے دعا فرمائی اور مولانا صاحب سے کہا کہ میں نے آپ کے نکاح کے متعلق دعا کی ہے.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ قبول کر لی گئی ہے.محترم مولانا صاحب نے رویا میں دیکھا کہ کوئی شخص ایک نو جوان لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ آپ کو دی گئی ہے.آپ کے چا صاحب نے خواب سن کر فرمایا کہ اس شکل وصورت کی لڑکی چک ۹۸ شمالی شرگودھا میں ہے.آپ وزیر آباد گئے.اور حضرت حافظ غلام رسول صاحب سے خواب وغیرہ کا ذکر کیا.دونوں اس گاؤں میں

Page 248

226 پہنچے تو دیکھا کہ ایک غیر احمدی مولوی سے مباحثہ کے لئے احمدی مولوی کی ضرورت تھی.اور یہ دونوں تائید غیبی کے رنگ میں پہنچ گئے تھے.حافظ صاحب کے ذکر کرنے پر احباب جماعت نے اپنے امام الصلوۃ قریشی غلام حسین صاحب کو تحریک کی.انہوں نے تین شرائط کے ساتھ منظور کر لیا.اور ہر سہ امور کے متعلق انہوں نے بقا پور جا کر معلومات حاصل کرنی تھیں.لیکن غیر احمدی مولوی کو حضرت مولانا بقا پوری صاحب نے اس بُری طرح لا جواب کیا کہ اس کے زیر اثر ان شرائط کو نظر انداز کر کے رشتہ کر دینا منظور کر لیا.اور ان کی صاحبزادی محترمہ حیات بیگم صاحبہ سے آپ کی شادی ہوگئی ،موصوفہ کو بھی خدمت سلسلہ کا موقع ملتا رہا ہے.٭ بعد میں مولوی صاحب ۱۹۰۹ء سے ۱۹۱۴ء تک اسی علاقہ میں ٹھہرے اور آپ کی تبلیغ سے کئی جماعتیں قائم ہوئیں.حصول اولاد کے لئے دعا :.آپ نے ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں نرینہ اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی تاکہ آپ کے بعد بھی تبلیغ کا سلسلہ جاری رہے.فرمایا میں دعا کروں گا.دوسرے دن پھر عرض کیا.فرمایا میں نے دعا کی ہے.اور پھر بھی کروں گا.تیسرے روز پھر عرض کی.فرمایا میں نے دعا کی ہے پھر بھی کروں گا.اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور اولاد بخشے گا.آپ تو اس طرح بات کرتے ہیں.گویا آپ کی عمر اسی برس کی ہوگئی ہے.سو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بابرکت اولا دعطا کی.آپ کے بڑے بیٹے چوہدری محمد اسمعیل صاحب کی شادی حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی خواہر نسبتی ( محترمہ مجیدہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میرزا محمد شفیع صاحب) سے ہوئی جو گویا حضرت سیده ام متین صاحبه حرم سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( * خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی خالہ ہیں.رپورٹ مشاورت ۱۹۲۳ء میں نظارت تعلیم وتربیت کی رپورٹ میں مرقوم ہے کہ مولانا صاحب کی اہلیہ صا حبہ ان خواتین میں سے ہیں جو مصباح کے لئے مضامین بھجوانے کا جوش رکھتی ہیں اور مصباح کے لئے خریدار مہیا کرنے میں زیادہ مستعد ہیں.( صفحہ ۷۴ ) آپ نے چندہ درویشاں دیا.(68)

Page 249

227 شجرہ نسب:.بڑھا ولد غلام رسول ولد شبیر محمد ولد محمدسعید ( مصنف کتاب ہزاری) ولد سعید الله ( درباری) امام الدین چراغ الدین شمس الدين صدرالدین (لاولد ) ( لا ولد ) لاولد ) محمد اسماعیل حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری مولانامحمد ابقا محبوب عالم شبیر محمد محمد سعید ( نمبر دار بقا پور ) محمد حفیظ ( درویش قادیان) ب اولا د حضرت مولانامحمد ابراہیم صاحب بقا پوری مدظلہ، مبار کہ بیگم اولی ۱۹۱۲ ء امتہ الحفیظ ۱۹۱۸ء محمد اسمعیل ۱۷ اگست ۱۹۲۱ء محمد الحق ۱۷ اگست ۱۹۲۱ء مبارکہ بیگم ثانیہ مبارک احمد ( وفات ۱۹۲۷ء دونوں تو ام پیدا ہوئے ۱۷ اپریل ۱۹۲۸ء ۲۳ جنوری ١٩٣٢ء بشری محمد مبشر منصوره ۵۸ء ۴۶ء محمد یوسف محمد الیاس محبوب احمد ادریس امته النصیر امتہ الکریم پیدائش 9 جولائی ٢٨/١٠/٤٣ ۴۵ء محمد یعقوب محمد ادریس ۵۱ء زاہدہ منصورہ ساجده زاہدہ منصور محمد سلیمان ۶۱ء فضل احمد

Page 250

228 تائید خلافت :.آپ ہمیشہ سے خلافت کے مؤید رہے ہیں.خلافت اولی میں بعد میں ہونیوالے مخالفین خلافت کے فتنہ کا آغاز ہو چکا تھا.وہ تمام حالات آپ ہی کے سامنے گذرے ہیں.آپ ۱۹۱۱ء یا ۱۹۱۲ء میں بعد استخارہ انجمن انصار اللہ کے ممبر بن گئے تھے.یہ فروری ۱۹۱۴ ء سے سیکرٹری انجمن انصار اللہ حضرت حافظ روشن علی کے دستخط سے روزانہ حضرت خلیفہ اول کی حالت کے متعلق اطلاع موصول ہوتی تھی.اس وقت مولوی صاحب چک ۹۹ شمالی سرگودھا میں تھے.۴ مارچ کے متعلق اطلاع ملی کہ حضور کی حالت تشویشناک ہے.جو دوست زیارت کرنا چاہیں وہ ہفتہ عشرہ کے اندر آجائیں.چنانچہ آپ امارچ کو قادیان پہنچے.سیالکوٹ میں آپ کو حضرت چوہدری نصر اللہ خانصاحب نے بتایا تھا کہ قادیان میں خلافت کے متعلق دو گروہ ہیں.آپ قادیان پہنچے تو کوٹھی دارالسلام پہنچے اس وقت آپ کی موجودگی کا واقعہ ہے کہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے حضور کو دہی پلایا جو قے ہو گیا.ہوش و حواس قائم تھے.مولوی صاحب کے سلام کا جواب دیا.اور خیر و عافیت پوچھی.مولوی صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے کمرہ میں گئے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کو ایک مضمون لکھ کر بھیجا تھا کہ وہ بھی دستخط کر دیں.اور الفضل اور پیغام صلح میں شائع کر دیا جائے.مضمون یہ تھا کہ یہ افواہ جھوٹی ہے کہ بعض کے نزدیک.فلاں خلیفہ ہوگا.جس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نعوذ باللہ خلیفہ وقت کی موت چاہتے ہیں.مکرم مولوی فضل الدین صاحب وکیل نے آکر بتایا کہ مولوی محمد علی صاحب کہتے ہیں کہ یہ اختلاف قادیان ہی میں ہے اس طرح یہ خبر باہر بھی پہنچے گی ہم دونوں عصر کے بعد یہاں تقریر کر دیں تو کافی ہے.یہ سن کر مولانا بقا پوری صاحب نے حضرت چوہدری نصر اللہ خانصاحب کی گفتگو کا ذکر کیا.اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس حوالہ سے دوبارہ مولوی فضل الدین صاحب کے ذریعہ مولوی محمد علی صاحب کو کہلا بھیجا لیکن مولوی محمد علی صاحب نے اخباروں میں شائع کرانا نہ مانا.جمعہ کے دن حضرت خلیفہ اول کا وصال ہو گیا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے عصر کے بعد مختصر تقریر میں بتلایا کہ یہ دن ابتلاء کا ہے.احباب رات بھر اور صبح روزہ رکھ کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ خلافت کے لئے اس شخص کو چنے جو سلسلہ کے لئے مفید ہو.اور اس کی رضا کی راہ پر چلنے والا ہو.اس کی تصدیق انصار اللہ کے قابل قدر تاریخی ٹریکٹ اظہار حقیقت مطبوعہ ۱۶/۱۳/ ۲۸ سے ہوتی ہے اس میں چالیس انصار اللہ کے اسماء درج ہیں اور بیسویں نمبر پرمحمد ابراہیم علاقہ سرگودھا مرقوم ہے.

Page 251

229 اس کے بعد آپ جنگل کی طرف روانہ ہوئے تو مولوی محمد علی صاحب نے کھڑا کر کے کچھ دیر باتیں کیں.رات کو حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضرت میر ناصر نواب صاحب ، حضرت نواب محمد علی خانصاحب اور اپنے بھائیوں کو جمع کر کے یہ کہا کہ اگر یہ لوگ اس بات پر راضی ہو جائیں تو مولوی محمد علی صاحب ہمارے خلیفہ ہو جائیں تو میں ان کی بیعت کرلوں گا.ہم انصار اللہ نے بھی یہ بات مان لی.احباب رات بھر دعائیں کرتے رہے.اور صبح روزہ رکھا.اور بعد نماز فجر حضرت صاحبزادہ صاحب نے مولا نا بقا پوری صاحب سے کہا کہ میرے کمرے میں چالیس احباب کو جمع کریں میں نے ان سے مشورہ کرنا ہے.چنانچہ ان کے جمع ہونے پر آپ نے مختصر افر مایا کہ الوصیت میں لکھا ہے کہ جس پر چالیس آدمی متفق ہوں.وہ بیعت لینے کا مجاز ہے.سو آپ چالیس یہ بتلائیں کہ خلیفہ انجمن کا مطیع ہوگا یا مطاع.اور کیا وہ ہر ایک نئے اور پرانے سے بیعت لے گا یا صرف آئندہ احمدی ہونے والوں سے سب نے کہا کہ خلیفہ مطاع ہوگا.اور ہر نئے اور پرانے احمدی سے بیعت لے گا.مولا نا بقا پوری صاحب یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عرفانی صاحب نے کہا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کو ہم خلیفہ مانتے ہیں، ہم سے بیعت لے لیں.آپ نے فرمایا کہ میں اس طرح خفیہ بیعت نہیں لینا چاہتا.نہ میں نے بیعت کے لئے آپ لوگوں کو بلایا ہے.آپ لوگ آنے والے لوگوں سے ہر دو امور کے متعلق دریافت کریں.چنانچہ اڑھائی ہزار افراد سے دریافت کیا گیا.سب نے چالیس افراد والا جواب ہی دیا.ان میں سے چالیس پچاس سے مولا نا بقا پوری صاحب نے بھی دریافت کیا تھا.مولانا صاحب ذکر کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات سے قبل ہی مولوی محمد علی صاحب نے ایک فتنہ سازٹریکٹ چھپوا رکھا تھا.جو میرے نام راولپنڈی سے ۱۴ مارچ کو حوالہ ڈاک کیا گیا.اس میں انجمن کو حضور کی جانشین بتلایا گیا تھا.اور یہ کہ الوصیت کا مفہوم یہ ہے کہ پرانے لوگوں سے نہیں بلکہ نئے احمدی ہونے والوں سے بیعت لی جائے گی وغیرہ.اور یہ ٹریکٹ مجھے رات دو بجے ملا.ہفتہ کے روز انجمن کے ممبران کا مشورہ میں اتفاق نہ ہوسکا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس امر پہ رضامندی کا اظہار کیا کہ آپ لوگ خلافت کے قیام کے قائل ہوں تو ہم تو مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کو بھی تیار ہیں لیکن مخالفین خلافت یہ کہتے تھے کہ حضرت خلیفہ اول کی تدفین عمل میں لائی جائے.اور انتخاب خلافت کے لئے کوئی اور تاریخ مقرر کر لی جائے.حضرت صاحبزادہ صاحب کا انتخاب بطور خلیفہ ہوا.اور آپ نے حضرت خلیفہ اول کا جنازہ پڑھایا.چند آدمی جنہوں نے بیعت نہ کی

Page 252

230 تھی وہ بھی جنازہ اور تدفین میں شریک ہوئے.مولانا صاحب بیان کرتے ہیں کہ اگلے روز یہ معلوم ہونے پر کہ مولوی محمد علی صاحب قادیان چھوڑ کر لا ہور جارہے ہیں.حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہم تین اشخاص ان کو سمجھانے گئے.اور حضور کا یہ پیغام دیا کہ آپ کو قادیان میں کسی قسم کی تکلیف نہ ہوگی.انہوں نے کہا کہ یہ کسی نے جھوٹ کہا ہے میں تو دو چار روز کے لئے لاہور جارہا ہوں.پھر حضور خود مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی پر گئے لیکن مولوی صاحب نے سلام کا جواب دینے اور حضور کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے میاں بگا سے باتیں کرنی شروع کر دیں.اس لئے حضور واپس آگئے اور مولوی صاحب راتوں رات قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ اور متعلقہ کتب لے کر لاہور چلے گئے.ہم مولوی صدرالدین صاحب کو سمجھانے بھی گئے لیکن انہوں نے کہا کہ اب تو ہم جارہے ہیں اور ہمارے ذریعہ ہی چندہ آتا تھا.اب یہاں عیسائی آئیں گے اور اپنا مشن چلائیں گے.اللہ تعالیٰ نے حضور کی عجیب نصرت فرمائی.حضور نے بارہ ہزار روپیہ چندہ کی تحریک کی قادیان کی غریب جماعت نے عجیب نمونہ دکھایا.تین ہزار اپنے ذمہ لیا.دو ہزار کے وعدے نصف گھنٹے میں پیش کر دیئے.اور ارادہ کیا کہ بارہ ہزار ضلع گورداسپور کی طرف سے پیش ہو.خواتین نے بھی غیر معمولی حصہ لیا.(69) مولا نا بقا پوری صاحب کو حضور نے فرمایا.کہ آپ کو علاقہ سرگودھا سے آئے دس بارہ روز ہو گئے ہیں اور وہاں لائل پوری شیخوں کا اثر بھی ہے.اس لئے آپ وہاں جائیں اور کمزور اور متردد طبائع کو دلائل اور دعاؤں سے سہارا دیں چنا نچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سوائے ایک گھرانہ کے جو شیخوں کا تھا.باقی سب نے بیعت کر لی.خلافت کے متعلق گیارہ وزنی شبہات کے شافی جواب مولانا صاحب نے رقم کئے (الفضل ۳/۴/۱۴ ، صفحہ ۸،۷) آپ اس وقت سیکرٹری انجمن احمد یہ نمبر۹۹ شمالی علاقہ سرگودھا “ تھے.۱۵/۳/۱۴ کو قریباً پون صد ا حباب کی طرف سے حضرت خلیفہ اول کی وفات ،حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے انتخاب کا ذکر کر کے احباب کو بیعت کرنے کی تلقین کی گئی.اس میں بھی آپ کا نمبر بطور سیکرٹری انجمن احمد یہ چک ۹ سرگودھا درج ہے.(الفضل ۳/۱۴/ ۱۸ صفحہ ۱۶) معلوم ہوتا ہے ۹۹ کی بجائے 9 سہوڑیا کا تب کی غلطی سے شائع ہوا.۲۱/۳/۱۴ کو بھی پوسٹر کے طور پر ایک ایسی تحریک کئی صد عہدیداران وغیرہ کی طرف سے شائع ہوئی اس میں بھی اسی جگہ کے ایسے عہدیدار کے طور پر آپ کا نام شامل ہے.اس پوسٹر کے ایک طرف بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 253

231 صدرانجمن کی ملازمت :.حضرت مولوی فضل الہی صاحب بھیروی نے (جنہوں نے مولانا بقا پری صاحب کی دوسری شادی میں بھی امداد کی تھی.) سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ۱۹۱۴ء تحریر کیا کہ مولوی صاحب عالم اور نیک ہیں.اور اس وقت جماعت کو ایسے ہی افراد درکار ہیں.ان کو مبلغین میں شامل کرنا مفید ہوگا.(70) چنانچہ حضور نے خط لکھ کر آپ کو اکتوبر ۱۹۱۴ء میں سرگودھا سے بلا کر فرمایا کہ ترقی اسلام کے منتظم اعلیٰ حضرت مولوی شیر علی صاحب سے مل کر اپنے گزارے کے متعلق بھی بات چیت کر لیں.مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود نے بوقت بیعت میرے عرض کرنے پر فرمایا تھا کہ لوگوں سے کہہ دینا کہ میں نے حق کو پالیا ہے.اور دعا کرنے کے بعد ان کو تبلیغ کرنا.اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا.اور پھر جب حضور نے وقف زندگی کی تحریک کی تو حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت بابا حسن محمد صاحب اور حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ وغیرھم کے ساتھ میں نے بھی زندگی وقف کی تھی.اور جس طرح دس سال سے گذارہ کا انتظام ہے اب بھی ہوتا رہے گا.حضور نے فرمایا کہ اب چونکہ کلیہ انجمن کے ماتحت ہوں گے اس لئے گزارہ لینا جائز ہے.حضرت مولوی شیر علی صاحب نے آپ سے یہ سن کر کہ دس بارہ روپے میں گزارہ ہو جائے گا پندرہ روپے مشاہرہ مقرر کیا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ کم ہے کیونکہ اب دیہاتی زندگی کی بجائے شہری زندگی اختیار کرنی ہوگی.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے بائیس روپے مقرر کر دیئے.اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ خود آپ کی ترقی کا خیال رکھتے رہے.چنانچہ پنشن قاعدہ کی رو سے قریباً پچیس روپے بنتی تھی.حضور نے چالیس کر دی.حضور کی نظر میں آپ کی خدمات قابل قدر ہیں.چنانچہ حضور نے اپریل ۱۹۳۶ء کی مشاورت میں یہ بتاتے ہوئے کہ مبلغین کیسے ہونے چاہئیں آپ کا بھی ذکر مثالی رنگ میں فرمایا.(صفحہ ۲۶) آپ کو ملازمت میں ہندوستان کے بہت سے مقامات پر تبلیغ کے متعلق جانے کی توفیق حاصل ہوئی.سندھ میں بھی کئی سال متعین رہے.وہاں سے واپسی پر قادیان میں واعظ مقامی مقرر ہوئے.اور ۱۹۳۵ء میں آپ نے پنشن پائی.اس عرصہ میں بھی آپ کو بیرونی جماعتوں میں رفع تنازعات کے لئے بھجوایا جاتا.نظارت تعلیم وتربیت کی ایک سالانہ رپورٹ میں آپ کے کام کی شخص یوں درج ہے :.’ایک ذریعہ تربیت کا قادیان کی بڑھتی بقیہ حاشیہ :.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کی طرف سے مخالفین خلافت کے افتراؤں کی تردید کی گئی ہے.

Page 254

232......ہوئی جماعت کو اصلاح پر قائم رکھنا ہے.آبادی بڑھتی رہتی ہے.اور نئے آنے والے احباب میں سے کئی ایسے ہوتے ہیں.جو قابل اصلاح ہوتے ہیں اور اگر فی الفور ان کی اصلاح کی طرف توجہ نہ کی جائے تو وہ دوسرے احباب پر بھی اثر ڈالنے کا موجب ہو جاتے ہیں.ایسے نو وار دین اور مہمانوں کی اصلاح اور تربیت کے لئے مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری بعہدہ واعظ مقامی کام کرتے ہیں جن کا یہ کام ہے کہ قرآن کریم ، حدیث شریف اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا درس جاری رکھتے ہیں اورنو واردین کی تعلیم وتربیت کا خاص خیال رکھتے ہیں اور اس طرح قادیان کی پاک بستی کو ہر قسم کی خرابی سے بچاتے ہیں.یو تبلیغ اور مباحثات :.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ آپ کو تبلیغ اسلام واحمد بیت کی خوب تو فیق ملی.اور آپ نے کامیاب مباحثے اور علمی گفتگو میں کہیں.بعض اوقات سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی قلم مبارک سے ہدایات تحریر کر کے ارسال کیں.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے تحریر کیا کہ:.مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری میں بفضلہ تعالیٰ یہ خوبی ہے کہ ان کی تقریر مدلل ہونے کے ساتھ ساتھ عام فہم اور فریق ثانی کے دلوں کو کھینچنے کی تاثیر رکھتی ہے.اور فریق ثانی کے مباحث خواہ کیسی ہی اشتعال انگیزی کریں.مولوی صاحب کبھی غصہ میں نہیں آتے تھے.رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمد یه بابت ۳۶ - ۱۹۳۵ء (صفحہ ۹۸ نیز صفحه ۱۴۶ر پورٹ نظارت ضیافت ) مولانا صاحب کی دو صفحات کی رپورٹ بھی ہے کہ کس طرح درس قرآن وحدیث کے علاوہ متفرق کلاس کا انتظام بعض افراد کی تربیت اور مقامی مساجد میں تقاریر وہ کرتے ہیں.علاوہ ازیں اس عرصہ میں ان سے سندھ وغیرہ کا اڑھائی ماہ کا دورہ بھی کرایا گیا.(صفحہ ۱۰۵.۱۰۶) آپ کو دوالمیال مصالحت کے لئے بھجوایا گیا.(الفضل ۲۰/۹/۴۵ زیر مدینہ المسیح ( رپورٹ سالانہ بابت ۴۳ ۱۹۴۲ء میں واعظ مقامی کی اسامی کے بارے میں کچھ ذکر ہے.(صفحہ ۳۲) حیات بقا پوری حصہ اول ( صفحہ ۲۴۳) حصہ اول و دوم میں آپ کے مباحث کا تفصیلی ذکر موجود ہے.ختم نبوت کے متعلق موضع خان پور (ریاست پٹیالہ) میں ایک ایسی گفتگو کے نتیجہ میں چوہدری مولا بخش صاحب نمبر دار مع آٹھ دس گھر متعلقین کے احمدی ہو گئے.( حصہ دوم ۲۶ تا ۳۰) اور ضلع سیالکوٹ میں دو افراد نے بیعت کی ( حصہ سوم صفحہ ۴۴ ) حضرت چوہدری عبداللہ خانصاحب بہلولپوری نے آپ سے قرآن مجید با ترجمہ پڑھا اور اس علاقہ میں چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل کے والد چوہدری فضل احمد صاحب نیز حاجی چوہدری اللہ بخش صاحب نے بیعت کر لی ( حصہ اول صفحه ۴۶ تا ۴۸ ) موضع گوکھو وال (ضلع لائلپور) میں سات افراد نے بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 255

233 ۱۹۲۲ء میں اولین با قاعدہ مشاورت میں سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس امر پر زور دیا کہ تمام احمدی تبلیغ کریں.اور اس تعلق میں یہ بھی فرمایا:.میں نے مبلغوں کے حلقے تقسیم کئے ہیں کہ ان کی نگرانی میں یہ کام کرائے جائیں لیکن آپ لوگ آزاد نہیں.آپ نے ابھی سے عمل کرنا ہے.مبلغ مشورہ دے گا.مولوی غلام رسول صاحب راجیکی اور بقیہ حاشیہ:.بیعت کی.(صفحہ ۵۶) ہوشیار پور میں آپ نے مولوی ثناء اللہ امرتسری سے کامیاب مناظرہ کر کے ان کے استہزاء کا ایسے رنگ میں جواب دیا کہ وہ لاجواب ہو گیا.(صفحہ ۵۷ تا ۶۰) ہوشیار پور میں پادری جوالا سنگھ سے سات آٹھ ہزار کے مجمع میں آپ کا کامیاب مناظرہ ہوا.جبکہ مسلمان مولوی کی کمزوری کا اقرار از خود مسلمانوں نے کرلیا تھا.(صفحہ ۶۰ تا ۶۲ ) ضلع جالندھر میں وفات عیسی پر مناظرہ ہوا.(صفحہ ۶۷ (۱۹۱۹ ء میں سیالکوٹ میں مولوی محمد ابراہیم سیالکوٹی سے اس بارہ میں مناظرہ ہوا ( ۶۷ تا ۷۲ ) بمقام سکرنڈ (سندھ) وفات عیسی پر بحث کے نتیجہ میں ایک شخص احمدی ہو گیا (صفحہ ۷۲ تا ۷۴ ۱۹۱۵ء میں چنگا بنگیال کے قریب مناظرہ کیا جس پر مخالف مولوی ساکت ہوگیا.( صفحه ۴ ۷ تا ۷۸ ) ۱۹۱۵ء مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبائعین سے کامیاب گفتگو (صفحہ ۷۸ تا ۸۵ ) حکمت کے ساتھ ۱۹۱۱ء میں ضلع سرگودھا میں غیر احمدی مخالفین سے اجازت لے کر تبلیغی باتیں سنائیں (صفحہ ۸۵ تا ۸۷) ۱۹۱۵ء میں مفکر احرار چوہدری افضل حق کو دہریہ سے مسلمان بنایا.(صفحہ ۸۷ تا ۸۹) خواجہ کمال الدین صاحب سے گفتگو ( صفحه ۹۱،۹۰) ایک غیر مبائع مبلغ کومسکت جواب (صفحہ ۹۲۹۱) آپ کے دلائل کی وجہ سے ایک احمدی ہونے والے کی بیوی کا مقدمہ تنسیخ نکاح انگریز مجسٹریٹ نے خارج کر دیا.(صفحہ ۹۴-۹۳) ایسے ہی ایک مقدمہ میں پٹیالہ کے شیعہ مجسٹریٹ کو آپ نے رام کر لیا.(صفحہ ۳ ۹ تا ۹۷) آپ کے مباحثہ سے ایک رئیس وڈیرا اللہ وسایا صاحب سکنہ کمال ڈیرہ نے احمدیت قبول کر لی.(صفحہ ۹۹-۹۸) ۱۹۱۷ء میں آریہ شانتی سروپ کا جو مسلمانوں سے مرتد ہوا تھا آپ نے پبلک میں ناطقہ بند کر کے عاجز کر دیا.جبکہ دوسرے مسلمان مولویوں نے اسلام کی مدافعت میں کامیاب ہونے کی بجائے مسلمانوں کو حد درجہ شرمندہ کر دیا تھا.اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مولا نا بقا پوری صاحب کو مسکت جواب سمجھا دیا.(صفحہ ۱۰۲ تا ۱۱) ضلع نواب شاہ میں سرہند شریف کے ایک خلیفہ کے مرید کو مولانا نے احمدی کر لیا تو خلیفہ ( پیر ) نے آپ کو بلوایا.اور آپ پر توجہ ڈالی لیکن خود بیہوش ہو گیا.اور حد درجہ مرعوب ہو گیا.اور سیدنا حضرت صاحب کی ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیا.(صفحہ ۱۱۴ تا ۱۱۸) ۱۹۱۵ء میں مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی کو نبوت حضرت مسیح موعود کے متعلق لاجواب کیا.(صفحہ ۱۲۲ تا ۱۲۴) مولوی ثناء اللہ امرتسری سے ایک مناظرہ (صفحہ ۱۲۶ تا ۱۲۸) سندھ کے پیر صاحب سے کامیاب گفتگو کے نتیجہ میں پیر صاحب نے نماز ایک احمدی کی اقتداء میں ادا کی اور مولانا صاحب کے متعلق بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 256

234 مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری اور حافظ روشن علی صاحب کو مقرر کیا ہے ان کا کام یہ ہے کہ صیغے مقرر کریں.اور مبلغ مقرر کریں.جہاں احمدی ہوں وہاں احمدیوں کو مقرر کریں.اور جہاں احمدی نہیں وہاں خود تبلیغ کریں.(71) اسی شوری میں صدرانجمن کا ایک لاکھ قرض کے دور کرنے کیلئے جو خاص انتظام فراہمی چندہ بالخصوص چندہ خاص کیا گیا تھا اس میں مولانا بقا پوری صاحب اور تین اور احباب کو ضلع شاہ پور کے لئے متعین کیا گیا تھا.(72) علاقہ سندھ میں کامیاب تبلیغ:.سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ایک رؤیا کی بناء پر اپریل ۱۹۲۳ء میں علاقہ سندھ میں تبلیغی مشن قائم فرمایا.اور حضرتمولا نا بقا پوری صاحب کو اس علاقہ کا امیر التبلیغ مقر فرمایا اور اپنے ہاتھ پر بیعت لینے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی.اس وقت سنجوگی قوم پر جوسندھ میں ایک لاکھ کے قریب ہے آریہ قوم نے ملکانوں کی طرح ارتداد کا جال پھیلا دیا تھا.مولانا صاحب محنت کر کے چند ماہ میں سندھی کی چند کتابیں پڑھ کر تقریر کرنے کے قابل ہو گئے.اور اولاً سب علاقہ میں آریہ سماجیوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا.جس جگہ یہ لوگ سادہ لوح سندھیوں کو ورغلا کر ارتداد پر آمادہ کرتے مولانا صاحب وہاں پہنچ کر انہیں بقیہ حاشیہ :.اپنے بیٹے سے کہا کہ یہ بہت بڑے عالم فاضل ہیں (صفحہ ۱۲۸ تا ۱۳۰) آپ نے سید والہ میں تین دن میں ۱/۲.۲۵ گھنٹے تقریریں اور مناظرے کئے.(صفحه ۱۳۶،۱۳۵) حکمت عملی سے حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب کی بہو کا رخصتانہ کرایا ( صفحه ۱۳۷ تا ۱۲۹) مولوی عبد الله چکڑالوی سے کامیاب گفتگو (صفحہ ۱۳۹ تا۱۴۲) ایک علاقہ کے رئیس کا متاثر ہوکر اپنے مولوی کو ناراض ہونا.( صفحہ ۱۴۷ تا ۱۵۰) مولانا صاحب کا بمعیت حضرت مولوی سرور شاہ صاحب و حضرت میر محمد اسحاق صاحب علاقہ مانسہرہ ود دیگر اں اور دانہ میں تبلیغ کے لئے ۱۹۱۵ء میں جانا ( صفحہ ۱۵۰ ۱۵۱) بیگم پور ضلع جالندھر میں جمعیت حضرت حافظ روشن علی صاحب و حضرت میاں محمد اسحاق صاحب تبلیغ اور مولوی ثناء اللہ کا آنے سے انکار (صفحہ ۱۵۶ ۱۵۷) حکمت کے ساتھ شیعہ کو جواب جس کو شیعہ نواب صاحب نے قبول کر لیا.(صفحہ ۱۶۰، ۱۶۱) گوجرانوالہ میں ایک نوجوان کی قبول احمدیت (صفحہ ۱۶۴، ۱۶۵) لاکھ (سندھ) کے قریب ایک جگہ آپ کی برکت کے ظاہر ہونے پر ایک خاندان نے بیعت کر لی (صفحہ ۱۷۵،۱۷۴) ریویوارد و بابت فروری ۱۹۱۸ء میں ضلع جالندھر میں آپ کے مصروف تبلیغ ہونے کا ذکر ہے.(صفحہ ۷۸ ) اور ریویو بابت نومبر ۱۹۲۰ء میں مرقوم ہے کہ مشرقی بنگال کے احمدیوں کی استدعا پر آپ کو وہاں بھجوایا گیا.پینتیس تقاریر ہوئیں جو پسند کی گئیں اب احباب کلکتہ کی درخواست پر آپ ایک ماہ وہاں قیام کریں گے.(صفحہ ۴ ۳۸) ریویوار دو.

Page 257

235 اسلام پر پختہ کرتے اس طرح شب و روز کی ایک لمبی جد و جہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ سات آٹھ ماہ میں ہی سنجوگی قوم سے آریہ سماج کو مایوس ہونا پڑا.اور ارتداد کی یہ آگ سرد ہو گئی.دوسرے سال ۱۹۲۴ء میں علماء فقراء اور امراء تینوں سے مقابلہ کرنا پڑا جا بجا مباحثات شروع ہو گئے.مولانا تنہا ہوتے اور مقابل پر غیر احمدی علماء بعض اوقات درجن تک ہوتے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ آپ ہی کو غلبہ ہوتا.نتیجہ احمدیت کی طرف لوگوں کی توجہ بڑھتی گئی.مباحثات کا بھی عجیب رنگ تھا.جتنا بھی کوئی وقت لیتا آپ اسے دیتے اور جو سوال ہوتا چاہے کیسا ہی غیر متعلق ہوتا آپ ہمیشہ متانت سے اس کا تحقیقی جواب دیتے.اور کوشش فرماتے کہ لوگ حقیقت کو سمجھ لیں.ابتداء میں سندھی پنجابیوں سے سخت نفرت رکھتے تھے اس کے علاوہ آریہ سماجیوں کا پھیلایا ہوا ز ہر علماء فقراء کی مخالفت ،ان سب سے عوام کا متاثر ہونا لازمی امر تھا.گالی گلوچ کا بازار تو ہر جگہ ہی گرم رہتا.بلکہ بعض جگہ قتل پر بھی آمادہ ہوتے مگر آپ گالیوں کا جواب دینے کی بجائے تہجد میں ان کی ہدایت کے لئے دعائیں کرتے.نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۲۶ء میں یہ عسر کی حالت قدرے دور ہوئی.سندھ میں بعض مقامات پر جماعتیں قائم ہوگئیں.لوگ باتیں سننے لگے.علماء پر خاص طور پر رعب پڑا.بلکہ مولوی بقا پوری کا نام لے کر کہتے کہ ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس سے بھی سعید روحیں متوجہ ہوئیں.اور بہت سے افراد کو اللہ تعالیٰ نے قبول احمدیت کی توفیق عطا فرمائی.آپ ۱۹۲۸ء میں باوجود علالت کے مصروف تبلیغ رہے اور پچاس افراد جماعت میں داخل ہوئے.آپ جس وقت سندھ میں متعین ہوئے تھے اس وقت سندھی احمدیوں کی صرف ایک جماعت تھی.جو دو چار خاندانوں پر مشتمل تھی.لیکن حضرت مولانا صاحب کی برکت سے قریباً پچاس جماعتیں قائم ہوئیں.جو سینکڑوں افراد پر مشتمل ہیں آپ کلمہ حق کہنے میں نڈر تھے.اب بہت سے لوگ احمدیت کے مصدق اور مداح بھی ہو گئے ہیں.اخویم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر (نائب وکیل التبشیر ربوہ مزید بیان کرتے ہیں کہ سنجوگی قوم نے قبول اسلام کے بعد غیر مسلم اقارب سے رشتے ناطے جاری رکھے.اور یہی وجہ ان کے ایمان کی کمزوری کی ہوئی.حضرت مولانا صاحب کو علم ہوا کہ لاڑکانہ کے قریب ایک شہر میں شدھی ہونے والی ہے.تو آپ وہاں پہنچے اور مسلمان حافظ گوکل چند نامی کو جور کیس تھے سمجھایا کہنے لگے مولویوں نے ہماری مدد نہیں کی.اب ہندووں سے عہد ہو چکا ہے یہ کوائف پر مشتمل ایک طویل چٹھی کا خلاصہ ہے جو مولانا صاحب کی علالت کے باعث مستقل واپسی پر میر مرید احمد خان صاحب تالپور جاگیردار اور محمد پریل صاحب ہیڈ ماسٹر کمال ڈیرہ کی طرف سے نظارت دعوۃ وتبلیغ کو موصول ہوئی.اور الفضل مورخہ ۳۱ اگست ۱۹۲۸ء میں شائع ہوئی.

Page 258

236 پرسوں سارا شہر ہندو ہو جائے گا.مولوی صاحب کو کھانے کے لئے کہا گیا تو آپ نے کھانے سے انکار کیا.اور کہا میں تمہاری روٹی ہرگز نہیں کھاؤں گا.اور آپ زار زار رونے لگے.لوگ متاثر ہوئے اور کہا کہ کھانا کھا لیں.پھر باتیں کریں گے لیکن آپ نے انکار کیا اور آپ کے آنسو جاری تھے.ریکس نے کہا کہ عہد تو ڑنا جرم ہے.مولوی صاحب نے کہا کہ ایمان سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہوسکتی ہے.یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی.اور اس نے کہا کہ ہم ہر گز شدھ نہیں ہوں گے.اور ہم خط بھجوا دیتے ہیں کہ وہ ہر گز نہ آئیں.مولوی صاحب نے کہا کہ آپ پہلے خط لکھیں پھر میں کھانا کھاؤں گا.چنانچہ آپ نے خط میں لکھوایا کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور ہم تمہیں بھی اس کے قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں.ہم میں سے کوئی بھی اپنا مذ ہب نہیں چھوڑے گا.اور اگر کسی نے دوبارہ آنے کی کوشش کی تو وہ بہت ذلیل ہوگا.اس کے بعد آپ نے کھانا کھایا.اور چند دن قیام کر کے درس و تدریس کا کام جاری رکھا.آریہ بہت تلملائے اور وہاں دوبارہ نہیں آئے.اسی طرح ایک اور گاؤں کے مسلمانوں نے شدھی ہونے کا اقرار کر لیا تھا.آپ نے وہاں پہنچ کر ان کو بھی شدھ ہونے سے بچالیا.چنانچہ اس سے غیر احمدیوں پر بھی بہت نیک اثر ہوا.حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال مرحوم ناظر دعوة و تبلیغ حضرت مولانا صاحب کے متعلق رقم فرماتے ہیں:.کہ سندھ کی تبلیغ میں مولانا صاحب نے نہایت دیانتداری اور جانفشانی سے کام کیا اور علاقہ کی جماعتیں اور افراد کا خود ہی خیال رکھا کبھی شکایت نہیں ہوئی کہ فلاں جماعت کی طرف توجہ نہیں کی گئی.بعض چھوٹے واقعات سے بھی تقویٰ کا علم ہوتا ہے آپ نے لکھا کہ کوئٹہ کے دوست چاہتے ہیں کہ میں وہاں جاؤں.یہ جگہ میرے حلقہ سے باہر ہے.نظارت کی طرف سے اجازت نہ دی گئی تو کسی نے مولوی صاحب کو لکھا کہ آپ جماعت کوئٹہ کو لکھیں کہ وہ مرکز میں اس بارہ میں چٹھی لکھیں.تو مولوی صاحب نے جواب دیا کہ میں ایسا لکھنا تقویٰ کے خلاف سمجھتا ہوں.اس کا یہ مطلب ہوگا کہ مجھے وہاں جانے کی خواہش ہے.نظارت کے احکام کی اطاعت اور تعاون خوشکن رنگ میں آپ نے کی.گھر سے آپ کو اپنی جوان بچی کی شدید علالت کی خبر ملتی رہی چونکہ آپ قریب ہی میں قادیان سے گئے تھے اس لئے آپ نے آنے کے لئے اجازت طلب کرنے میں حجاب محسوس کیا.جب مرکز کی اجازت سے کراچی تار دیا گیا تو آپ اپنے مرکز روہڑی آئے اور ایک رات قیام کر کے مناسب ہدایات دے کر قادیان آئے.اس وقت جنازہ گھر سے لایا جا چکا تھا.اور صرف ان کا انتظار ہورہا تھا.آپ نے بوجہ علالت رخصت کی درخواست دی تھی.آپ سے یہ خواہش کی گئی کہ ایثار کریں اور وہیں علاج کرالیں تو آپ نے تعاون

Page 259

237 کرتے ہوئے درخواست رخصت واپس لے لی.آپ نے علاقہ میں خوب رسوخ پیدا کر لیا ہے اور مخالف انجمنیں بھی اپنے خرچ پر ہمارے مبلغوں کو بلانے لگی ہیں اور ایک جلسہ میں انجمن اسلامیہ نے آپ کو صدر بنایا.متفرق خدمات اور لٹریچر میں ذکر :.آپ موصی ہیں آپ نے تحریک جدید کے جہاد میں دفتر اول سے شرکت کی.آپ کو بطور ممبر مجلس کار پرداز مصالح قبرستان بہشتی مقبرہ بھی خدمت کرنے کا موقع ملا.آپ محلہ دار الفضل قادیان ( بشمول دار السعہ ) کے تین سال کے لئے امین منتخب ہوئے.آپ کو سالانہ مشاورت میں بھی بعض دفعہ شمولیت کا موقع ملتا رہا ہے.اسی طرح بعض دیگر خدمات کا بھی آپ کو موقع ملا.آپ کے بعض مضامین بھی سلسلہ کے لٹریچر میں ہیں.جملہ حملہ یہ اڑھائی کالم کا طویل مضمون ہے جو الفضل مورخہ ۳۱/۸/۲۸ میں شائع ہوا ہے.احمد یہ گزٹ مورخہ ۲۶ جولائی ۱۹۲۶ء میں ذکر ہے.کہ باوجود شدید گرمی کے آپ نے سندھ میں ایک اور مبلغ کی معیت میں بہت سے دیہات کا دورہ کیا ( صفحہ ۹) رپورٹ نظارت دعوت وتبلیغ میں مرقوم ہے کہ آپ نے ایک اور مبلغ کی معیت میں سارے سندھ کا دورہ کیا.اور ایک تبلیغی وفد مرکز سے آیا.آپ نے ان کو لے کر تمام علاقہ سندھ میں کامیابی کے ساتھ دورہ کرایا.اور جلسوں کو کا میاب بنایا (73) آپ کا وصیت نمبر ۴۶۴۲ مورخہ ۱۵/۱۱/۶ ہے آپ کی وصیت نمبرا کی ہے آپ نے اور آپ کی اہلیہ محترمہ نے دفتر اول کے جہاد تحریک جدید میں قریباً ایک ہزار اور آپ کی اولاد نے قریباً سوا تین ہزار روپیہ دیا.( پانچ ہزار مجاہدین صفحہ ۱۱۸) میاں بیوی کے ایک سال کے چندہ کے جلد ادا کرنے کا ذکر الفضل بابت ۶ ۱۱/۲/۵ میں ہے (صفحہ ا کالم ۳) مجلس کار پرداز کا نمبر ہونا ( رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ بابت ۴۲ - ۱۹۴۱ء صفحہ ۶۷) دارالفضل قادیان کا امین منتخب ہونا.الفضل ۱۷/۶/۴۴اصفهیم ) ۱۹۲۳ء کی مشاورت میں بطور مرکزی نمائندہ شریک ہوئے.اور ۱۹۲۴ ء کی مشاورت کی سب کمیٹی دعوۃ و تبلیغ و انسداد وارتداده ملکانہ ) کے ممبر بھی بنائے گئے تھے.(رپورٹ متعلقہ ) ریویو کے خریدار بنانے میں آپ نے مدددی.( ریویوار دو بابت اپریل ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۵۷) اس سال کا جلسہ جو مارچ 1919ء میں ہوا.اس میں آپ نے مستورات میں تقریر کی.( ریویوار دو بابت مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۱۶ آپ کی اور آپ کے اقارب کی علالت وغیرہ کا ذکر الفضل ۱۶/۱/۵۷ ( صفحه ۱)، ۱۲/۱/۵۸ ( ص۱) ۲۷/۸/۵۸ ( ص۱)، ۱۳/۱۱/۵۸ صفحه۲)، ۲۳/۱۱/۵۸ (صفحه۱)، ۲۰/۱/۵۹ ( صفحه ۸)، ۱/۵۹/ ۲۸ (صفحه ۱)، ۷۲/۵۹ (صفحہ ۱) ۱۰/۵۹ ۱/۱۰/۵۹ ( صفحہ ۸) میں اور آپ کی طرف سے احمدیت کی ترقی کے لئے خصوصا تہجد میں دعاؤں کی تحریک الفضل بابت ۱۳/۱۰/۵۸ بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 260

238 حضرت اقدس سے حصول برکات :.آپ نے ۳ مارچ ۱۹۰۵ء کو حضور سے سوالات کئے کہ اطمینان قلب کیسے حاصل ہو سکتا ہے.دعا جب تک دل سے نہ اٹھے کیا فائدہ ہوگا نمازیں پڑھنے کے باوجود ہم منہیات سے باز نہیں رہتے.اور نہ اطمینان قلب میسر آتا ہے.اور ہم عزم کرنے ولے ہوتے تو پھر حضور کی کیا ضرورت تھی.ان سوالات کے جوابات حضور نے بسط و شرح سے بیان فرمائے کہ ذکر الہی سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے.ایک کسان کی طرح جب انسان صبر دکھاتا ہے اور کوشش کرتا ہے تو اسے ذوق وشوق اور معرفت عطا ہوتی ہے.معرفت کے حصول کے لئے مجاہدہ درکار ہے.بے شک استقامت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتی ہے جب فقیر کسی بخیل کے دروازہ پر دھر نا مار کر بیٹھ جاتا ہے تو کچھ نہ کچھ پاہی لیتا ہے.تو رحیم و کریم ذات کے در پر گر کر کوئی خالی نہیں اُٹھ سکتا دل چاہے نہ چاہے کشاں کشاں مسجد میں چلے جاؤ سعی و مجاہدہ انسان کے ذمہ ہے پھر اللہ تعالیٰ استقامت عطا کرتا ہے.جلد بازی جیسے دنیوی امور میں فائدہ نہیں دیتی.دینی امور میں بھی مفید نہیں ہو سکتی.نمازوں کو سمجھ کر پڑھنے اور کلام الہی اور ادعیہ ماثورہ کے علاوہ اپنی زبان میں دعائیں کرو.تو اثرات مرتب ہوں گے دنیا کو اپنا معبود نہ بناؤ اور حضرت ابراہیم کی طرح صادق و وفا دار بننے کی کوشش کرو.اور خدا کے ہو جاؤ.اور اس کی ابتدائی منزل یہ ہے کہ جسم کو اسلام کے تابع کرو.مولانا صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور ظہر کی نماز کے بعد اندرون خانہ جانے لگے تھے کہ میں نے سوال کیا اور حضور میرے پاس آکر کھڑے ہو گئے اور حضور نے یہ باتیں ایسی محبت اور خوشی سے بیان کیں کہ سامعین محظوظ ہوئے.اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ یہ شخص بہت خوش قسمت ہے کہ اس نے اپنی تمام بیماریاں ڈاکٹر کے سامنے رکھ دیں ہیں.اب اس کا علاج ہو جائے گا.حمید بقیہ حاشیہ :.( صفحہیہ ) میں درج ہے آپ کے مضامین رفع مسیح، توفی بمعنی موت اور رفع کے حقیقی معنی کے متعلق ۱۹۱۷ ء میں رسالہ تفخیذ الا ذہان میں ماہ مارچ میں (صفہیم ۱ تا ۳۳) اور اپریل میں (صفحہ ۱۳ تا ۲۴) شائع ہوئے.یہ کلمات طیبات الحکم مورخه ۱۰/۷/۰۵ میں درج ہیں اور وہاں لکھا ہے کہ ۳/۳/۰۵ کو قبل ظہر حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے مولوی محمد ابراہیم صاحب کو حضور کی خدمت میں پیش کیا.اور مولوی صاحب نے حضور سے کچھ استفسارات کئے (صفحہ ۹ ) دوبارہ الرحمت مورخہ ۳/۴/۵۰ میں بھی شائع ہوئے.

Page 261

239 آپ کو یہ شدید احساس ہوا کہ میں نے ۱۸۹۱ء میں کیوں نہ بیعت کر لی.اور تلافی مافات کے طور پر آپ نے تیرہ سال تک شدید مجاہدات کیے.آپ ہر ماہ قادیان پنتالیس میل کا سفر پیدل کر کے آتے اور حضرت اقدس کی صحبت میں دو ہفتے قادیان میں قیام کرتے.جس کے نتیجہ میں قرآن مجید کے معارف آپ پر کھلے اور اس کا فہم عطا ہوا.الى مدد: مَنْ كَانَ للَّهَ كَانَ الله لَهُ کا ایک عجیب واقعہ ہے.کہ حضرت خلیفہ اول نے رمضان شریف میں سارے قرآن مجید کا درس دینا تھا.ادھر بھائیوں کی طرف سے یہ اطلاع ملی کہ والد مرحوم کی جائیداد کے انتقال کے لئے فلاں روز پہنچنا ضروری ہے آپ نے سوچا کہ اس طرح تین دن صرف ہو کر تین سپارے کے درس سے محروم رہ جائیں گے.ان کو اطلاع دی کہ میں قادیان درس قرآن میں شمولیت کے لئے جارہا ہوں.خواہ میرے نام انتقال ہو یا نہ ہو.تحصیلدار بندوبست کی آنکھیں اس خط کو دیکھ کر پر آب ہوگئیں.اور اس نے کہا کہ ایمان تو ایسے لوگوں کا ہے.میں مسل دبا رکھتا ہوں.مولوی صاحب کے آنے پر مہتم بندو بست کے پیش کروں گا.ہجرت پاکستان:.تقسیم ملک کے حالات سب پر واضح ہیں.آپ کو بھی احباب جماعت کی طرح یکم اکتو بر ۱۹۴۷ء کو ہجرت کرنی پڑی پہلے آپ کا قیام اپنے بیٹے کیپٹن ڈا کٹرمحمد اسحاق صاحب کے ہاں ماڈل ٹاؤن لاہور میں رہا.پھر آپ بالقاء ربانی ربوہ منتقل ہو گئے.جہاں سید نا حضرت صاحب کی خاص شفقت سے آپ کو رہائش کے لئے ایک پکا کوارٹر دیا گیا.دعاؤں کی قبولیت : اللہ تعالیٰ کا خاص فضل آپ پر ہوا کہ مجاہدات کو اللہ تعالیٰ نے قبول کر کے آپ کی دعاؤں کو قبول کرنا شرع کیا.اور رویا وکشوف کا سلسلہ جاری ہو گیا.اور آنحضرت اللہ ، حضرت مسیح موعود حضرت جبریل.حضرت عائشہ اور بزرگوں کی زیارت ہوئی.چند واقعات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.حضرت مولوی شیر علی صاحب نے ۱۹۳۹ء میں آپ کو کہا کہ میری نواسی رقیه بیگم ( جواب حضرت مولانا بقا پوری صاحب کی بہو ہیں ) تپ محرقہ سے بیمار ہیں.آج رات مجھے الہام ہوا ہے کہ آپ سے دعا کراؤں.چنانچہ دعا کے نتیجہ میں مولانا بقا پوری صاحب کو صحت کے متعلق الہام ہوا.اور موصوفہ کو اللہ تعالیٰ نے صحت یاب کر دیا.۱۹۳۰ء میں آپ کی اہلیہ کو جن کو بچہ ہونے والا تھ بار بارتپ محرقہ ہونے لگا.لیڈی ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ اگر اہلیہ کی زندگی مطلوب ہے تو اسقاط حمل کرا دیا جائے.لیکن مولانا صاحب نے استخارہ کے بعد الہام سے اطمینان

Page 262

240 پا کر اس سے انکار کر دیا.بعد ازاں آپ کو معالج ڈاکٹر کا تار پہنچا اور آپ سندھ سے آئے اور سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تار دیا اور خط لکھا.حضور نے رفقاء سفر سمیت دعا کی اور اطلاع بھجوائی کہ میں نے دعا کی ہے اور انشاء اللہ بچ جائیں گی.معالج نے ایک شام کو بتایا کہ وہ آج کی رات بمشکل زندہ رہیں گی.ان کی نبضیں چھوٹ رہی تھیں اور آنکھوں میں کھچاوٹ پیدا ہوگئی تھی.آپ نے ان سے کہا تھا کہ ایسی حالت میں مجھے اطلاع کردیں.تا میں اضطراب کے ساتھ دعا کر سکوں.حضرت مولوی صاحب نے نہایت اضطراب سے دعا کرنی شروع کی.اور درگاہ الہی میں عرض کی کہ پہلے میری لڑکی فوت ہوگئی اور اب میراگھر تباہ ہو رہا ہے تو آواز آئی ”ہم تو اچھا کر رہے ہیں.آپ نے جا کر دیکھا تو ان کی نبض لگی تھی.گو آہستہ تھی پھر کروٹ بدلی اور منہ کے قریب کان کیا تو ”پانی کی آواز آئی.آپ نے پانی پلایا.پانچ منٹ کے اندر حالت بہت سدھر گئی اور صبح معالج آئے تو وہ اُٹھ کر بیٹھی ہوئی تھیں.66.1911ء میں چک ۹۹ شمالی سرگودھا کے چار صحابی ایک عورت کے اغوا کے مقدمہ میں پانچ مجرم غیر احمد یوں کے ساتھ ناحق شامل کر لئے گئے.اور متعصب تھانیدار نے ناجائز طور پر مواد جمع کر کے مجسٹریٹ پر اثر ڈالا.اس نے کہا کہ سب کو سات سات سال کی قید دوں گا.اور ایک پیشی پر مجسٹریٹ نے کہا کہ کل نو ہتھکڑیاں لائی جائیں.اور ان سب کو جیل میں چکیاں دی جائیں گی (یعنی قید با مشقت ہوگی ) کل میں فیصلہ سناؤں گا.حضرت مولوی صاحب کو دعا کے بعد بشارات ہوئیں.بعد میں معلوم ہوا کہ مجسٹریٹ کے بیٹے کو کسی نے بتایا کہ چند شریف آدمیوں کا مقدمہ تمہارے والد کے پاس ہے وہ بے گناہ ہیں.اس نے والد کو بتایا.ان کی تسلی ہوئی اور اس نے اپنے ناظر کو کہہ کر مسل میں تبدیلیاں کر دیں.دوران مقدمہ میں وکیل کو غیر احمد یوں نے کہا.کہ احمدی راستبازی کو ترک نہیں کریں گے..ان کے مولوی صاحب ان کو کہیں تو شائد مان جائیں.مولا نا بقا پوری صاحب کو بلایا گیا تو آپ نے وکیل کو کہا کہ جان بچانا نہیں بلکہ ایمان بچانا فرض ہے میں ہمیشہ یہ وعظ کرتا ہوں کہ جھوٹ بولنا لعنتوں کا کام ہے.اب کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ احمدی اپنے بیان میں جھوٹ بولیں.وکیل نے کہا کہ پھر سب جیل جائیں گے.مولوی صاحب نے کہا کہ قید کیا چیز ہے بے ایمانی کی زندگی سے موت بہتر ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی تکالیف رفع ہونے.آپ کے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی امتحان آئی.سی.ایس میں کامیابی، شیخ نیاز محمد صاحب مرحوم انسپکٹر پولیس کی مقدمات میں بریت.اور آخری پیشی پر ایک غیر احمدی نے ہی احمدیوں کے حق میں اور غیر احمدیوں کے خلاف گواہی دی اور مجسٹریٹ نے ان احمدیوں کو بری کر دیا.

Page 263

241 جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کے ہاں بچی کی ولادت حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی ولایت کے ایک امتحان میں کامیابی.مولانا مبارک احمد صاحب (پروفیسر جامعہ احمدیہ ) کے ہاں اولاد ہونے اور صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب کے رشتہ محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محمد عبداللہ خانصاحب کے ساتھ مبارک ہونے کے متعلق آپ کی دعائیں سنی گئیں اور ان امور کے متعلق آپ مبشرات ہوئیں.ایک دفعہ سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ آپ جا کر جن نکال آئیں خط لکھنے والے نے لکھا تھا کہ میری بچی جن کی وجہ سے مرگئی.جن کہتا تھا کہ میری جگہ پر مکان بنایا ہے.میں تمہیں مار دونگا.میں اسے سمجھا رہا کہ جن کوئی چیز نہیں لیکن وہ تیسرے دن جن دیکھ کر چیخ مار کر مرگئی.اسی طرح میرا نو جوان بچہ مر گیا.حضور نے مولوی صاحب کو بتایا کہ جس طرح مرضی ہو آپ جن نکالیں.یہ ایک وہم ہے جو بڑھتے بڑھتے حقیقت اختیار کر گیا ہے.آپ جا کر دعائیں کریں.اور ظاہری تدبیر جو مناسب ہو کر یں.میں بھی آپ کے لئے دعا کروں گا.چنانچہ مولوی صاحب چوہدری والہ ( تحصیل بٹالہ ) جا پہنچے.خط لکھنے والے احمدی دوست نے جن کے واقعات سنائے اور کہا کہ میں نے لاحول وغیرہ ورد کئے لیکن فائدہ نہیں ہوا.مولوی صاحب نے کہا کہ یہ شیطان ہے اور اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الْشَّيطنِ الْرَحِيمُ پڑھنے سے نکلے گا.یہ تو آپ نے نہیں پڑھا.کہنے لگے نہیں.مولوی صاحب کی بات سے ان کی ڈھارس بندھی.اور جن والی جگہ پر مولوی صاحب نے مصلیٰ بچھالیا.اور یقین دلایا کہ میں جن کو نکلنے ہی نہیں دوں گا.یہیں دبا دوں گا.آپ دعا کر رہے تھے.کہ اس شخص نے گھبرا کر کہا کہ وہ نکلا جن.آپ نے کہا گھبراؤ نہیں میں نے دبا لیا ہے.اور دیکھو اس کا قد پہلے سے چھوٹا ہے.اس نے کہا قد ہے تو چھوٹا.آپ نے کہا کہ اب چھوٹا ہی ہوتا جائے گا.دوسری رات اس نے کہا کہ جن نکلا تو ہے لیکن دبا ہوا ہے اور بہت چھوٹا رہ گیا ہے.تیسری رات جن نہیں نکلا اور اس کی تسلی ہوگئی.اور آپ واپس چلے آئے.سیرت :.یہ معلوم کر کے کہ حضرت مولانا بقا پوری صاحب کے سوانح شائع ہونے والے ہیں حضرت عرفانی صاحب نے تحریر فرمایا.کہ مولانا بقا پوری صاحب اور ان کے بڑے بھائی محمد اسمعیل صاحب سے مجھے اس وقت تعارف ہوا جبکہ دونوں لدھیانہ میں تحصیل علم میں مصروف تھے.مجھے ان کے علمی ذوق کی وجہ سے کشش ہوئی.اور مجھے نوعمر کا عیسائیوں اور آریوں سے دلیرانہ مباحثات کرنا مولا نا بقا پوری صاحب کو میرے قریب کرنے کا باعث ہوا رؤیا و کشوف حیات بقا پوری حصہ دوم ( صفحه ۱۱۰ تا ۱۲۳) وحصہ سوم (صفحہ ۳۱ تا ۳۶) میں درج ہیں.

Page 264

242 میں نے اس طالب علمی میں ان کے چہرے پر طہارت نفس کی روشنی نمایاں دیکھی ان کی متبسم صورت اور طبیعت میں فروتنی اور انکسار کے ساتھ مومنانہ جرات پائی.میں وہاں کے طلبہ کے مذاق اور حالات سے واقف تھا.مگران دونوں بھائیوں میں عموماً اور حضرت بقا پوری صاحب میں خصوصاً وو در جوانی تو به کردن شیوه پیغمبری کے آثار ہویدا تھے.اور آپ اپنی علمی موشگافیوں سے زیادہ اپنی قلبی قوتوں کی ترقی کی طرف متوجہ تھے.آپ نصاب تعلیم میں بھی سست نہ تھے.لیکن.ایکه خواندی حکمت یونانیاں یا حکمت روحانیاں راہم بخواں کے مطابق حکمت ایمانیاں کو ترجیح دیتے تھے.اور یہی تڑپ بالآخر آپ کو منہاج نبوت پر روحانی تربیت کے سرچشمہ پر لے آئی.چنانچہ ۱۹۰۵ء میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو سوالات کئے وہ اصلاح نفس اور روحانی ترقی کے ذرائع معلوم کرنے کے لئے کئے.آپ قرآن مجید میں مذکور حقیقی علماء میں سے ہیں جن کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی خشیت ہوتی ہے ان میں مقصود خلق پانے کی تڑپ تھی.اور موجودہ عملی تصوف کو وہ تزکیہ نفس کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے.اور اس تڑپ نے بالآخر گو ہر مقصود کو احمدیت میں پالیا جس سے آپ کو ایک نئی زندگی ملی.اور آپ نے اپنی زندگی احمدیت کے لئے وقف کر دی.آپ اپنے خاندان میں احمدیت کے آدم ہیں اور آپ کی عملی زندگی نے آپ کے خاندان کو احمدیت میں داخل کر دیا بلکہ ان میں احمدیت کی روح پیدا کر دی.جی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ نے آپ کی علالت کی وجہ سے احباب کو دعا کی تحریک کرتے ہوئے تحریر فرمایا:.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری مخلص بزرگوں میں سے ہیں اور صحابی بھی ہیں.آج کل وہ...بیمار ہیں اور انہوں نے ایک غیبی تحریک کی بناء پر مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان کے لئے الفضل میں احباب سے دعا کی تحریک کروں.سو میں امید کرتا ہوں کہ دوست جماعت کے اس مخلص بزرگ کوفر ورا اپنی دعاؤں میں یا درکھیں گے جوں جوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ گذرتے جاتے ہیں لازماً اس مقدس جماعت کی قدر بڑھ حمد حیات بقا پوری حصہ اول صفحه ۲۳۱ تا ۲۳۷ - حضرت عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں کہ مولا نا بقا پوری صاحب کی ۱۹۰۵ء والی ملاقات حضرت اقدس سے اولین ملاقات تھی.یہ سہو ہے جیسا کہ گذشتہ اوراق میں اولین ملاقات ۱۸۹۱ء میں ہونے اور بعد ازاں ۱۹۰۵ ء تک کئی بار ملاقات ہونے کا ذکر ہے.

Page 265

243 جاتی ہے اور اسی نسبت سے ان کے واسطے دعائیں بھی زیادہ ہونی چاہئیں.اور دراصل یہ بھی خدا کی شکر گذاری کا ایک پہلو ہے.وَمَنْ لَمْ يُشْكُرُ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرُ اللهَ.(74) سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۳۶ء کی مشاورت میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ مبلغین کیسے ہونے چاہئیں.فرمایا:.پرانے مبلغ مثلاً حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی.مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ،مولوی محمد ابرا ہیم صاحب بقا پوری.انہوں نے ایسے وقتوں میں کام کیا ہے.جبکہ انکی کوئی مدد نہ کی جاتی تھی.اور اس کام کی وجہ سے ان کی کوئی آمد نہ تھی.اس طرح انہوں نے قربانی کا عملی ثبوت پیش کر کے بتادیا کہ وہ دین کی خدمت بغیر کسی معاوضہ کے کر سکتے ہیں.ایسے لوگوں کو اگر ان کی آخری عمر میں گزارے دیے جائیں.تو اس سے انکی خدمات حقیر نہیں ہو جاتیں بلکہ گزارے کو ان کے مقابلے میں حقیر سمجھا جاتا ہے.کیونکہ جس قدر ان کی امداد کرنی چاہئے اتنی ہم نہیں کر رہے.“ (75) جلسہ سالانہ۱۹۲۲ء میں حضور نے تبلیغی کوائف کے بیان میں فرمایا :.و تبلیغ کو باقاعدہ کرنے کے لئے اس سال میں نے تبلیغ کے حلقے مقرر کئے تھے.یعنی دو مبلغ اس کام کے لئے مقرر کئے گئے ایک مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اور دوسرے مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری جن علاقوں میں یہ مبلغ مقرر کئے گئے ہیں ان میں بیداری پیدا ہوگئی ہے اور وہاں کے لوگ تبلیغ میں حصہ لینے لگ گئے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کئی لوگ سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں اور ایک ایسی جماعت بھی پیدا ہوگئی ہے جو آئندہ سلسلہ میں داخل ہونے کی تیاری کر رہی ہے.” میں خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسے بے نفسی سے کام کرنے والے آدمی دیئے ہیں.اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کے اخلاص میں اور ترقی دے اور ایسے ہی آدمی دے.اس کے ساتھ ہی میں آپ لوگوں سے بھی چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے لئے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو اور کام کرنے کی توفیق دے...اس (مبلغ) کا یہ فرض نہ تھا کہ تبلیغ کرتا بلکہ ہمارا بھی یہ فرض تھا کہ ہم بھی تبلیغ کے لئے جاتے اس لئے احسان فراموشی ہوگی اگر ہم ان مبلغوں کی قدر نہ کریں اور ان کے لئے دعا نہ کریں کہ خدا تعالیٰ ان کی تبلیغ کے اعلیٰ ثمرات پیدا کرے.اللہ تعالیٰ ایسے لوگ ہمیں کثرت سے دے اور اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کے مخلص اور بے نفس انسان اس مقصد کے لئے پیدا ہوں.(76)

Page 266

244 روایات ذیل کے صحابہ کرام کی روایات یہاں یکجائی طور پر درج کی جاتی ہیں:.۱- محترم ماسٹر فقیر اللہ صاحب - حال افسر امانت تحریک جدید ربوہ.( ولادت ۲۴ جون ۱۸۷۶ء بیعت اواخر ۱۸۹۶ء.اولین زیارت حضرت اقدس اوائل ۱۸۹۷ ء ہجرت و ملازمت ۱۸۹۸ء ملا زمت بیرون قادیان از اواخر ۱۸۹۸ء.واپسی قادیان ۸ دسمبر ۱۸۹۹ء ملازمت بیرون از یکم دسمبر ۱۹۰۵ء.واپسی قادیان از ۲۰ جولائی ۱۹۰۶ء تا آخر خلافت اولی.قریباً ساڑھے آٹھ سال حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں قادیان میں قیام کا آپ کو موقع ملا کل عرصہ بیعت ۶۵ سال.۲.مکرم ڈاکٹر عطر الدین صاحب.ولادت ۱۸۸۸ء.اولین زیارت حضرت اقدس ۱۸۹۸ء بیعت ۱۸۹۹ء.قیام قادیان از اواخر ۱۹۰۰ ء تا اوائل ۱۹۰۶ ء بعد کا قیام لاہور برائے حصول تعلیم و گاہے گاہے زیارت حضرت اقدس در قادیان و لاہور.گویا عرصہ قیام متواتر در قادیان زائد از سوا پانچ سال.وکل عرصہ ملاقات و زیارات قریباً دس سال.- محترم حاجی غلام احمد صاحب.ولادت ۷۶-۱۸۷۵ء.بیعت اوائل فروری ۱۹۰۳ء گویا عرصہ ملاقات وزیارت قریباً سوا سات سال.بارہ سال.۴.مکرم مولوی عبد الواحد خاں صاحب.ولادت ۱۸۷۲ء بیعت ۱۸۹۶ء عرصہ ملاقات وزیارت قریباً ۵ - مکرم مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری.ولادت اکتوبر ۱۸۷۵ ء زیارت اولین حضرت اقدس در سال ۱۸۹۱ء بیعت ۱۹۰۵ء گویا عرصہ بعد بیعت در عہد حضرت اقدس قریباً تین سال اور عرصہ زیارت قریباً سترہ سال..شیخ رحمت اللہ صاحب.اس وقت عمر انداز اسی اکاسی سال بیعت ۱۹۰۲ ء ان بزرگوں کی بتیس کے قریب روایات پہلی بار شائع ہورہی ہیں.علاوہ ان کے سوانح میں بیسیوں روایات پہلے درج ہو چکی ہیں.ا.(از حاجی غلام احمد صاحب ) جب کوئی مہمان حضرت اقدس سے قادیان سے جانے کی اجازت طلب کرتا تو حضور فرمایا کرتے ابھی اور ٹھہر.اور حضور سے کوئی وظیفہ پوچھتا تو فرماتے.نماز کو سنوار کر پڑھا کر و آنحضرت ﷺ پر درود بھیجو اور انتظار کرو.

Page 267

245 ۲.(از حاجی صاحب موصوف ) ایک دفعہ حضور موضع کھارا کی طرف سیر کے لئے گئے.راستہ میں بیریوں کے پیروں کے نیچے گرے ہوئے بیر بعض لوگوں نے اٹھانے شروع کئے حضور کو اس کا علم ہوا تو فرمایا.کہ شریعت ایسا کرنے سے منع کرتی ہے.بعض نے عرض کیا کہ حضور اگر ہم نہ اٹھا ئیں تو یہ گرے پڑے ہیر ضائع ہو جائیں گے.تو فرمایا کہ یہ آپ کی ملکیت تو نہیں ہیں کہ آپ کا ان پر حق ہو.۳ - ( از اخویم چوہدری احمد الدین صاحب ( ۱۹۰۶ ء یا ۱۹۰۷ ء میں والد صاحب حضرت حاجی غلام احمد صاحب موضع بیرسیاں ضلع جالندھر سے ایک اعلی قسم کی جوتی نری کے چمڑے کی تیار کروا کے قادیان لائے.اور حضور کی خدمت میں پیش کر کے عرض کیا کہ حضور اپنا کوئی مستعمل کپڑا عنایت فرما ئیں.اس وقت حضور ایک ہلکے سرخ رنگ کی ڈبی دار دھوتی زیب تن کئے ہوئے تھے.آپ اندرون خانہ تشریف لے گئے.اور شلوار پہن کر یہ دھوتی لادی.یہ دھوتی ہمارے خاندان میں محفوظ ہے گو وہ تمام خطوط جو حضرت مسیح موعود کی طرف سے حاجی صاحب کو موصول ہوتے رہے تھے ۱۹۴۷ء کے فسادات کی نذر ہو گئے.۴، ۵.حاجی غلام احمد صاحب ۱۹۰۳ء میں اپنی بیعت اور چھ ماہ کے اندر جماعت احمدیہ کے موضع کریام میں قائم ہونے اور ترقی پانے کا ذکر کر کے تحریر فرماتے ہیں کر یام کا ایک ذیلدار مولا بخش راجپوت حضور کو جذامی کہا کرتا تھا.آخر وہ خود جزامی ہوکر مرا.خاکسار نے مسجد مبارک میں حضور کی خدمت میں ذکر کیا تو حضور نے فرمایا کہ مخالفین کے اندر جذام تو ہوتا ہی ہے مگر اللہ تعالیٰ بعض کے جسم پر بھی ظاہر کر دیتا ہے.“ ان دنوں لدھیانہ کا شہزادہ ہمدم نواں شہر تحصیل میں تحصیلدار تھا اس کے پاس حضور کے دعوی کا ذکر ہوا کرتا تھا.ایک دفعہ تحصیلدار صاحب موصوف نے خواب میں دیکھا کہ حضور اس مکان پر تشریف لائے ہیں مجھ سے انہوں نے خواہش کی کہ حضور کی خدمت میں اس خواب کا ذکر کیا جائے.حمد استفسار پر اخویم چوہدری احمد الدین خان صاحب نے تحریر کیا کہ اس سوتی کپڑے کی دھوتی کی زمین سفید اور اس پر چھوٹی چھوٹی سرخ ڈبیاں ہیں یعنی سرخ چیک ہے.کپڑا سادہ ہے اس کی لمبائی ایک صد دو انچ اور چوڑائی اڑتالیس انچ ہے.خاکسار مولف نے اخویم موصوف کے پاس یہ مبارک دھوتی جولائی ۱۹۶۱ء میں لائل پور شہر میں دیکھی ہے جو انہوں نے نہایت احتیاط سے رکھی ہوئی ہے.

Page 268

246 چنانچہ خاکسار نے مسجد مبارک میں ذکر کیا.حضور نے فرمایا جس جگہ اہل اللہ جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس مکان کی بلائیں دور کر دیتا ہے.چنانچہ تحصیلدار صاحب کو حضور کا ارشادسنادیا گیا.یہ دونوں مسجد مبارک کی باتیں اس وقت کی ہیں.جب مسجد میں صرف چند نمازی آسکتے تھے.یعنی ابھی دوسرا حصہ شامل نہ کیا گیا تھا.“ (77) ۶.۷.(از حاجی صاحب موصوف ) مسجد مبارک میں مغرب کی طرف ایک کوٹھڑی تھی جس میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب حضور کے ساتھ کھڑے ہو کر امامت کرایا کرتے تھے.اس کوٹھڑی میں دوباتیں جو حضور نے ارشاد فرمائیں مجھے یاد ہیں.یہ دونوں باتیں مختلف وقتوں کی ہیں.(الف) خاکسار کوٹھڑی میں موجود تھا.ایک شخص جو ضلع گورداسپور کا رہنے ولا تھا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی گاؤں کا نمبر دار ہے.اس نے حضور سے دریافت کیا کہ بنک زمیندارہ میں شامل ہو جاؤں.حضور نے فرمایا کہ نہیں.اس پر اس نے کچھ مجبوریاں بیان کیں کہ حکام سے تعلق رکھنا پڑتا ہے اور روپیہ کی بھی ضرورت پوری ہو جاتی ہے.حضور نے فرمایا.مومن بنو.اللہ تعالیٰ اغراض کو پورا کریگا.پھر فرمایا.دنیا میں بے شمار لوگ ہیں جنہوں نے نہ سود لیا اور نہ دیا.جب خدا ان کے کام چلاتا رہا ہے تو کیا آپ کے کام نہ چلائے گا.اگر اللہ تعالیٰ حکم کرتا کہ بارش کا پانی پی تو ہر روز آسمان سے بارش نازل کرتا جب خدا سود کو حرام کرتا ہے تو اس کے سوا کام کیوں نہیں چلتا.“ (ب) ایک شخص نے دریافت کیا کہ نماز میں ہاتھ کس جگہ باندھیں.آپ نے فرمایا کہ ظاہری آداب بھی ضروری ہیں.مگر زیادہ توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف نماز میں رکھنی چاہیے.“ از حاجی صاحب موصوف ) جن دنوں کرم دین کا مقدمہ گورداسپور میں تھا ان دنوں حضور کو الہام ہوا.خاکسار بھی ایک دفعہ اس مقدمہ کے دوران میں حضور کی خدمت میں گورداسپور گیا تھا.وہاں الہام قادیان شریف میں ہوا.اس کا ذکر مسجد مبارک میں ہو رہا تھا.میں نے حضور کی زبان مبارک سے نہیں سنا مسجد میں ذکر تھا.کہ حضور کو الہام ہوا ہے.يَوْمُ الاثْنَيْنِ وَفَتْحُ الْحُنَيْنِ (78) ۹.( از حاجی صاحب موصوف ) خاکسار اور حاجی رحمت اللہ صاحب سکنہ راہوں اور حکیم عطا محمد صاحب مرحوم مسجد مبارک میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.عطا محمد مرحوم سکنہ بیر سیال ضلع جالندھر ایک نرم چھڑے کی دیسی جوتی حضور کے لئے بنوا کر لائے.اور حضور کی خدمت میں پیش کرتے وقت مرحوم نے عرض کی کہ حضور یہ جوتی پاؤں کو لگے گی نہیں یعنی نرم ہے آرام دے گی.

Page 269

247 حضور نے فرمایا.ایسی ہی جوتی چاہیئے.حضور خود اٹھا کر اندر لے گئے.اگلے روز وہ جوتی مہمانخانہ سابق میں ایک بوڑھے شخص کے پاؤں میں دیکھی گئی.‘ ۱۰.(از حاجی صاحب موصوف ) ان دنوں مسجد مبارک کے ساتھ ابھی دوسرا حصہ شامل نہ تھا سابق زینہ کے ساتھ والی کوٹھڑی جس میں لکڑی کی سیڑھی بھی تھی.جہاں سے مولوی عبدالکریم صاحب مسجد میں آتے تھے.چند مہمان حضور کی ملاقات کے لئے آئے.حضور نے بالوں کو مہندی لگائی ہوئی تھی.ریش مبارک اور سر مبارک کو مہندی لگی ہوئی تھی.اور اس پر کپڑا لپیٹا ہوا تھا.اسی حالت میں حضور تشریف لے آئے.میں بھی ان نو واردوں میں شامل ہو کر اس کوٹھڑی میں بیٹھ گیا.حضور سے نو وارد باتیں کرتے رہے مگر وہ باتیں مجھے یاد نہیں رہیں.میں نے اس وقت دیکھا کہ میرے اندر سے کوئی چیز دھوئیں کی طرح نکل رہی ہے.میں اس وقت حضور کے سامنے بیٹھا تھا.میں نے بہت غور کیا مگر مجھے ایسا ہی معلوم ہوتا رہا.کہ یہ گناہ ہیں جو اندر سے دھواں بن کر نکل رہے ہیں اور یہ حضور کی صحبت کی برکت ہے.“ ۱۱.(از حاجی صاحب موصوف ایک دن حضور مسجد اقصیٰ میں مسجد مبارک کی طرف سے تشریف لا رہے تھے.آپ کے ساتھ کئی شخص تھے.جب آپ سیڑھی سے اتر کر کچھ فاصلہ پر پہنچے.خاکسار مسجد اقصی کی طرف جارہا تھا.( وہ جمعہ کا دن نہ تھا ) جب میں نے حضور کو آتا دیکھا میں نے دل میں خواہش کی کہ حضور کو میں پہلے السلام علیکم کہوں مگر میرے کہنے سے پہلے حضور نے السلام علیکم کہا.میر ۱۲ از شیخ رحمت اللہ صاحب) میرے قادیان ہجرت کر آنے سے پہلے کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود صبح آٹھ بجے کے قریب ہم آٹھ نو افراد کے ہمراہ موضع بسر اواں کی طرف سیر کرنے کے لئے نکلے.راستہ میں ایک دیہاتی کو جس نے کندھے پر گنے اٹھائے ہوئے تھے.اپنی طرف آتا دیکھ کر حضور ٹھہر گئے.اس نے قریب آکر کہا.مرزا جی ! السلام علیکم ! حضور نے فرمایا وعلیکم السلام.اس نے گنے زمین پر ڈال دیئے اور پنجابی میں کہا کہ بارش کی کمی کی وجہ سے کنوؤں کا پانی سوکھ گیا ہے.مویشی بھوکے پیاسے مرنے لگے ہیں.فصل تباہ ہوگئی ہے.گنے میں دیکھیئے رس نہیں رہا.آپ بارش کے لئے دعا کریں.فرمایا.اچھا ضرور کرونگا.اور حضور روانہ ہو گئے.اور اس نے الفضل ۲۳/۶/۳۸ میں جو روایات شائع ہوئی ہیں وہ رجسٹر صحابہ والی ہیں.روایت ہذا میں خطوط وحدانی والے الفاظ درج ہیں جو الفضل میں درج نہیں ہو سکتے.

Page 270

248 کہا کہ گنے میں آپ کے گھر چھوڑ آتا ہوں.کوئی دو بجے بعد دو پہر ایک بادل ظاہر ہوا.اور دیکھتے دیکھتے سارے آسمان پر چھا گیا اور خوب زور سے بارش ہوئی.اور اسی وجہ سے مجھے بھی رات قادیان ہی میں ٹھہر نا پڑا..۱۳ ( از شیخ صاحب موصوف ) ایک دفعہ حضور سیر سے واپس آرہے تھے.ہم حضور کے ہمراہ تھے.ایک شخص کو حضور کا منتظر پایا.وہ بے تحاشا حضور کی طرف دوڑا اور حضور کے قدم پکڑ نا چاہے.حضور نے اسے پکڑا اور سیدھا کھڑا کر کے پوچھا کہ کیا بات ہے.اس نے کہا کہ میری زندگی موت سے بدتر ہے.آپ دعا کریں کہ مجھے اس زندگی سے نجات مل جائے.حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا.کہ خدا نے تو مجھے زندہ کرنے کے لئے بھیجا ہے.مارنے کے لئے نہیں.میں آپ کی صحت کے لئے دعا کروں گا.وہ شخص مرگی کے مرض میں مبتلا تھا.اس کے بعد وہ بیس دن قادیان میں ٹھہرا رہا لیکن اس پر مرض کا حملہ نہیں ہوا.پھر وہ بیعت کر کے گیا.بعد ازاں دو سال تک کبھی نہ کبھی اس سے ملنے کا اتفاق ہوتارہا.اور وہ یہی بتا تا تھا کہ اس کے بعد مجھ پر اس مرض کا حملہ نہیں ہوا.۱۴.(از شیخ صاحب موصوف ) میری اہلیہ کو جب پہلا بچہ پیدا ہونے والا تھا.تو زچگی کے دوران میں عورتوں سے کچھ بے احتیاطی ہوگئی.اور ہوا لگنے کی وجہ سے بچہ اندر ہی فوت ہو گیا.اور اسے شیخ کے دورے پڑنے لگے.میں نے ایک رقعہ کے ذریعے سارا حال حضور کی خدمت میں عرض کیا.حضور نے ایک انگریزی دوائی وائی برنم ! پر کاک“ لکھ کر دی اور فرمایا اس کے پانچ پانچ قطرے پانچ پانچ منٹ کے بعد پلائے جائیں بچہ خارج ہو جائے گا.میں نے وہ دوائی اپنی اہلیہ کو پلائی اس سے بچہ تو خارج ہو گیا.لیکن تشنج کے دورے بدستور قائم رہے.اگلے دن جب حضور صبح کو سیر پر جانے لگے تو میں نے یہ خیال کر کے کہ الہی مرسل و مامور کی ہر چیز برکت والی ہوتی ہے.اور میری نیت شرک کی نہیں.جب حضور نے سیر کے لئے پہلا قدم اٹھایا تو وہاں سے خاک پالا کر تیل میں ملا کر مالش کرنی شروع کی اور ساتھ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم پڑھتا گیا.پہلے تو بیہوش تھیں اور شیخ کا دورہ شدید تھا اب بفضلہ تعالیٰ ہوش آنا شروع ہوا.اور چند منٹ میں مجھ سے باتیں کرنے لگیں.۱۵.( از ڈاکٹر عطرالدین صاحب) مجھے ۱۸۹۸ء سے ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود کے وصال تک قریبا دس سال حضور کی زیارت کے مواقع حاصل ہوئے.۱۹۰۰ء سے ۱۹۰۷ ء تک تمام سالانہ جلسوں میں شمولیت کی ۱۹۰۱ء سے اوائل ۱۹۰۶ ء تک قادیان میں تعلیم پائی.مسجد مبارک کا راستہ بند کرنے کے لئے حضور کے اقارب

Page 271

249 نے جود دیوار بنائی تھی.وہ بھی میں نے دیکھی تھی.یہ بارہا حضور کے ہمراہ سیر کرنے اور ہمیشہ مسجد مبارک میں حضور کی مجالس میں شریک ہونے کا موقع ملتا رہا.۱۹۰۵ء میں جب حضور بڑے باغ میں کئی ماہ تک مقیم رہے تو مجھے اس عرصہ میں دیگر بہت سے احباب وطلبہ کی طرح رات کو پہرہ دینے کا موقع ملتا رہا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ہر دو کی نماز جنازہ اور تدفین میں شریک تھا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو ابتداء میں روڑی قبرستان میں دفن کیا گیا تھا.میاں عبدالکریم صاحب حیدر آبادی کو جو باؤلے کتے نے کاٹا اور ان پر آثار دیوانگی ظاہر ہوئے.اور ان کو بورڈنگ سے الگ ایک جگہ رکھا گیا.اس وقت میں قادیان میں تھا.ملا ہے امرت سر میں کنھیا لال کے منڈوے میں جب حضور کی تقریر ہوئی.اور اس وقت حضور کی خدمت میں چائے پیش کی گئی جس کے پینے پر ہنگامہ آرائی ہوئی.اس جلسہ میں میں بھی موجود تھا.* * * * حضور جب بھی بٹالہ اور گورداسپور میرے عرصہ قیام میں مقدمات کی خاطر تشریف لے جاتے رہے.میں بھی ساتھ جاتا تھا.ہم نوجوان رتھ وغیرہ کے ساتھ پیدل جاتے تھے.جب بمقد مہ کرم دین.حضور گورداسپور میں متواتر کافی دنوں تک مقیم رہے اس وقت بھی میں شریک سفر تھا.اور جب حضور اقدس کو آریہ مجسٹریٹ نے ہتھکڑی لگانے کا پروگرام بنایا.اور حضور کو خون کی قے آگئی اور ڈاکٹری سارٹیفیکیٹ بھجوا کر حضور قادیان تشریف لے آئے.***** اس اس موقع پر بھی میں گورداسپور میں تھا.اور حضور کے ہمراہ واپس آ گیا تھا.سفروں میں حضور کی امامت میں دو تین دفعہ نمازیں پڑھنے کا بھی مجھے موقع ملا ہے.دعا کے لئے قادیان میں اور لاہور سے حضور کی خدمت میں چٹھیاں لکھتا تھا.ان کے جواب حضور کے قلم سے نوشتہ ملتے تھے.افسوس کہ ان میں سے ایک بھی محفوظ نہیں رہا.یہ دیوار اوائل ۱۹۰۰ء میں تعمیر ہوئی تھی اور حسب حکم ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ۲۰ اگست ۱۹۰۱ء کوگرائی گئی.باغ میں حضور کا قیام اپریل تا جون ۱۹۰۵ء رہا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اکتوبر ۱۹۰۵ء کو فوت ہوئے اور روڑی نام قبرستان میں جو جانب شرق ہے تدفین عمل میں آئی اور ۲۷ دسمبر کو بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا.وہاں آپ ہی سب سے پہلے دفن ہو نیوالے تھے.مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ۶ استمبر ۱۹۰۷ء کو فوت ہوئے.☆☆☆ باولے کتے کے کاٹنے والا واقعہ ۱۹۰۶ ء کا ہے.اور دہلی اور لدھیانہ سے واپسی پر 9 نومبر ۱۹۰۵ء کو امرت سر میں حضور کی تقریر ہوئی تھی.یہ ۱۶ فروری ۱۹۰۴ء کی بات ہے.

Page 272

250 ۱۶.(از ڈاکٹر صاحب موصوف ) حضور کی عادت تھی کہ جہاں تشریف لے جاتے سب سے پہلے السلام علیکم کہتے.چنانچہ ایک دفعہ جبکہ میری عمر چودہ سال کی تھی.اور میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی تھر ڈیڈل کا طالب علم تھا لیکن بالکل غریب.سر سے اور پاؤں سے ننگا.میں مغربی گیٹ میں کھڑا تھا.حضور تشریف لائے اور آتے ہی حضور نے خاکسار کو السلام علیکم کہا.اس وقت یہ مدرسہ موجودہ احمدیہ مدرسہ والی اندرون شہر کی جگہ میں ہوتا تھا.حضور کا یہ بھی طریق تھا کہ جب کوئی شخص بات کرتا تو حضور سنتے رہتے ، جب تک کہ وہ بات ختم نہ کر لیتا.۱۷.(از ڈاکٹر صاحب موصوف ) میرے پاس حضرت اقدس کے بہت سے تبرکات مثلاً مو مبارک مہندی والا کر تہ وغیرہ تھے.لیکن وہ کھوئے گئے اب صرف کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے جو کہ میرے خسر حضرت سید عزیز الرحمن صاحب بریلوی کے پاس حضور کے ایک تبرک قمیص کا ٹکڑا ہے.اس کے ایسے ٹکڑے میری اہلیہ اور سید صاحب کی دیگر اولاد میں بھی تقسیم ہوئے تھے.اور مجھے بھی ملا تھا.۱۸.( از ڈاکٹر صاحب موصوف ) جوانی میں میں خوب ورزشی تھا ،فٹ بال.کبڈی.میروڈ بہ.تیرا کی اور دوڑ وغیرہ میں خوب مہارت رکھتا تھا.ایک دفعہ حضرت اقدس کے زمانہ میں فٹ بال کا میچ قادیان کی احمد یہ ٹیم اور بیرنگ ہائی سکول بٹالہ کی ٹیم کے درمیان بٹالہ میں ہوا.جب احمد یہ ٹیم گول کرتی تو بطور شکرانہ کے میدان میں سجدہ کرتی جس کا لوگوں پر بہت اچھا اثر ہوا.ٹیم کی واپسی پر کسی نے خوشی سے باجا بجایا.لیکن حضرت اقدس نے اسے نا پسند فرمایا.اور منع فرمایا.۱۹.( از ڈاکٹر صاحب موصوف ) :.ایک دفعہ مسجد مبارک میں حضرت اقدس کی مجلس میں حاضر تھا.حضرت میر ناصر نواب صاحب نے مجھے حضرت مسیح موعود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا.کہ عطر دین تو وہ بیٹھے ہوئے ہیں.تمہارا تو صرف نام عطر دین ہے.میں نے کہا کہ اصل عطر دین تو حضور صاحب ہی ہیں اور یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ حضور اقدس کی برکت سے ہمیں بھی روحانی عطر سے معطر کر دے.۲۰.(از ڈاکٹر صاحب موصوف ) حضرت مسیح موعود ایک دفعہ مسجد مبارک میں اپنے اصحاب میں رونق افروز تھے.خاکسار نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ حضور میرے لئے دعا فرمائیں.حضرت علیہ السلام نے اسی وقت مجلس میں میرے جیسے بیکس اور مفلس کیلئے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی جس کا اثر مجھے ہمیشہ ہی محسوس ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے کافی روپیہ کمایا.خدمت دین کی بھی توفیق ملی.نیک خاندان میں شادی ہوئی.اور اللہ تعالیٰ نے اولا د بھی عطا کی اور اب درویشی کے دور میں قادیان میں رہنے کا بھی موقع عطا کیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدَاً كَثِيراً.

Page 273

251 ۲۱.( از حضرت ڈاکٹر صاحب موصوف) حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور خاکسار شکار کے لئے گئے.محترم صاحبزادہ صاحب کے پاس ہوائی بندوق تھی.ایک لٹور کا نشانہ انہوں نے کیا.چھڑ ا تو اس کو نہ لگا لیکن وہ چھوٹا سا پرندہ ڈر کر سہم گیا.اور میں نے اس کو ہاتھ سے ہی پکڑ لیا.وہ اسے گھر لے گئے.اور کہا کہ اسے پنجرے میں رکھیں گے.جب حضرت نے اس کو دیکھا تو فرمایا میاں! یہ جانور رکھنے کے لئے نہیں ہوتا.اس کو آزاد کر دو چنا نچہ وہ لٹور چھوڑ دیا گیا.۲۲.از ڈاکٹر صاحب موصوف) ایک دفعہ حضرت میر محمد الحق صاحب جبکہ ابھی چھوٹے بچے تھے کہ اپنے والد صاحب سے ناراض ہو کر کہیں ادھر ادھر چلے گئے.حضرت اقدس کو خبر ہوئی تو بہت متفکر ہوئے اور کسی خادم کو بورڈنگ میں بھجوا کر تیز دوڑنے والے طلب فرمائے حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب سپر نٹنڈنٹ نے ہم چند لڑکوں کو حضور کی خدمت میں بھجوایا چونکہ میں بہت تیز دوڑتا تھا.اس لئے ان لڑکوں کا لیڈ رشمار ہوتا تھا.مغرب کے بعد کا وقت تھا.حضور نے بڑی محبت سے فرمایا آپ سب کو بڑی تکلیف ہوئی.آپ کو بھوک لگے گی میں آپ کے لئے روٹیاں لاتا ہوں.چنانچہ آپ خود پندرہ ہیں روٹیاں لے آئے اور مجھے دیں اور پھر محبت سے فرمایا.اچھا سالن بھی لیتے جاؤ.پھر آپ دال کی دیچی اٹھا کر لے آئے اور مجھے دی جو میں نے روٹیوں پر انڈیل لی ہم جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ اتنے میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی میر محمد الحق صاحب کو کہیں سے تلاش کر کے لے آئے.اور ہمارے جانے کی ضرورت نہ رہی.۲۳.از ڈاکٹر صاحب موصوف : جب الہی بخش اکو نٹنٹ نے ” عصائے موسیٰ“ کتاب حضرت مسیح موعود کی مخالفت میں شائع کی.اور حضرت اقدس کو اس کا علم ہوا تو حضور نے مجلس میں فرمایا کہ اس کتاب کے فوری منگوانے کی ضرورت ہے.کوئی شخص لاہور جا کر لے آئے.میں جھٹ کھڑا ہو گیا.اور عرض کیا کہ حضور! میں یہ کتاب لاؤں گا.حضور نے آمد ورفت کے لئے دو روپیہ خرچ عطا فرمایا.غالباًا عصر کے بعد کا وقت تھا.میں بٹالہ تک پیدل گیا اور وہاں سے ریل گاڑی میں لاہور پہنچا ان دنوں بٹالہ لاہور کا ریلوے کرایہ چودہ آنے تھا وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہ کتاب کسی دوست کے ذریعے حضرت اقدس کی خدمت میں بھجوائی جاچکی ہے.چنانچہ میں اگلے روز ریل کے ذریعہ بٹالہ پہنچ کر وہاں سے پیدل قادیان آ گیا میرے آنے سے پہلے کتاب حضور کے پاس پہنچ چکی تھی.ان دنوں میں وٹرنری کالج لاہور میں تعلیم پاتا تھا اور موسم گرما کی تعطیلات میں قادیان آیا ہوا تھا.بابو الہی بخش پہلے معتقد تھا.پھر اپنے تئیں ملہم اور موسے ہونے کا مدعی ہوا.بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں

Page 274

252 ۲۴.(از ڈاکٹر صاحب موصوف ) :.مجھے حضرت مسیح موعود کا تبرک حاصل کرنے کا بار ہا موقع ملا.یہ تبرک میں اکثر صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب مدظلہ تعالیٰ کی معرفت اندرون خانہ سے منگایا کرتا تھا.ہے بقیہ حاشیہ :.اور حضرت مسیح موعود کے خلاف یہ کتاب شائع کی.ایک ہی روز میں طاعون سے لقمہ اجل ہوا.اس کی ہلاکت کے.اپریل ۱۹۰۷ء کو ہوئی.(79) ذیل میں ڈاکٹر صاحب محترم کی تحریر کا چربہ آپ کی طرز تحریر محفوظ کرنے کیلئے دیا جاتا ہے :.چربہ کا طرز تحریر درج ذیل ہے.باسم الرحمن الرحيم عزیزم ملک صلاح الرسم صاحب موعود کے السلام اور مجھے حضرت کے لیے میلہ اسلام کا ترک حاصل کرنیکا با رام موقع یہ ترک میں اکثر حضرت کا جدہ میر کا شرایط احمد وصحب مد ظلہ العالی کی موقت اند برون خانہ سے مشکایا کرتا تھا و وسیع قدراکر عطر میں بیٹا ہو 2/11/61

Page 275

253 ۲۵.از ڈاکٹر صاحب موصوف ) : میں نے وٹرنری کالج کے پہلے سال کا امتحان دینا تھا.میں نے حضور کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا.فرمایا تین دفعہ (رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً پڑھ لینا اور پھر اندر جا کر امتحان دے دینا چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور امتحان میں کامیاب ہو گیا.۲۶.( از ڈاکٹر صاحب موصوف ) : حضور" معمولی سا تحفہ بھی قبول فرما لیتے تھے.ایک دفعہ موضع بسراواں کی طرف سیر میں ایک زمیندار نے اپنے کھیت کے پچھپیں تمہیں کا ٹھے گنے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے کنویں کے قریب پیش کئے جو میں نے اٹھا لئے.یہ کنواں محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی دارالانوار والی کوٹھی النصرۃ کے قریب ہے.قصبہ میں پہنچ کر دوست رخصت ہو گئے.میں حضور کے ہمراہ ڈیوڑھی دارا مسیح تک آیا.اندر داخل ہوتے وقت مسکرا کر فرمایا.میں آپ کے گنے لیتا جاؤں اور دونوں ہاتھ پھیلا کر گنے جو بندھے ہوئے تھے اٹھا کر اندر تشریف لے گئے.۲۷.از ڈاکٹر صاحب موصوف ) : مسجد مبارک میں مجھے حضرت مسیح موعود کا جسم دبانے کے بہت کثرت سے موقعے ملے.حضور نے کبھی منع نہیں فرمایا.خواہ کتنی دیرد با تارہتا.حضور کی عمر کے آخری سالوں میں بھی حضور کا جسم بہت مضبوط تھا.۲۸ - ( از مولانا محمد ابرہیم صاحب بقا پوری : ۱۹۰۴ء میں میں نے اپنی مذہبی حالت کے پیش نظر مولوی عبدالجبار صاحب وغیرہ کو جوابی خطوط لکھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں صرف پوسٹ کارڈ بھیجا.ان سب کا مضمون یہ تھا کہ میں زبان سے تو بے شک خدا تعالیٰ کا اور حشر و نشر کا مقر ہوں اور مسجدوں میں وعظ بھی کرتا ہوں مگر امر واقعہ اور کیفیت قلبی یہ ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ کے وجود میں ہی شک ہے اس لئے مجھے ایسے مرشد کی تلاش ہے جس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا وجود مع اس کی عظمت اور محبت کے دل میں جاگزیں ہو جاوے وغیرہ

Page 276

254 وغیرہ.دوسروں کی طرف سے تو کوئی جواب نہ آیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحریری ارشاد آیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسی غرض اور ایسی بیماریوں کے لئے ہی بھیجا ہے.آپ یہاں آجاویں.حدیث شریف میں وارد ہے کہ مَنْ أَتَى الى شِبراً (80) پس خاکسار حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ عرصہ رہ کر بیعت سے مشرف ہو گیا.“ (81) ۲۹ - ( از مولوی صاحب موصوف :.ایک دن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جلاب لیا ہوا تھا کہ دو تین خاص مرید جن میں مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بھی تھے.عیادت کے لئے اندر ہی گھر میں حاضر ہوئے.اس وقت خاکسار کو بھی حاضر ہونے کی اجازت فرمائی.خاکسار نیچے فرش پر بیٹھنے لگا اس پر حضور اقدس نے فرمایا کہ آپ میرے پاس چار پائی پر بیٹھ جائیں.خاکسار " الامر فَوقَ الْادَبُ “ کوملحوظ رکھ کر چار پائی پر بیٹھ گیا بوقت رخصت میں نے بیعت کے لئے عرض کی فرمایا کل کر لینا.میں نے دوبارہ عرض کی کہ آج جانے کا ارادہ ہے اس پر حضور نے چار پائی پر ہی میری بیعت لی.اور دعا فرمائی.اس پر مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم مجھ کو مبارک باد دی کہ یہ خاص طور پر بیعت لی گئی ہے.(82) ۳۰.( از مولوی صاحب موصوف )‘ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے جمعہ پر حضرت مسیح موعود میرے قریب تشریف فرما ہوئے.حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے جلدی سے آکر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ حضور یہ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ہیں حضور نے ارشاد فرمایا کہ میں ان کو اچھی طرح جانتا ہوں.یہ بہت دفعہ قادیان آتے جاتے ہیں.“ (83) ۳۱.( از مولوی صاحب موصوف ) :‘ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں (جب سیر کے بعد گھر تشریف لیجانے لگے ) عرض کیا کہ میری آنکھوں سے پانی بہتا رہتا ہے.میرے لئے دعا فرمائیں.آپ نے فرمایا.میں دعا کروں گا اور فرمایا آپ مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اول ) سے اطریفل زمانی بھی لے کر کھائیں.(میں نے حضرت مولوی صاحب سے جا کر عرض کیا اور آپ نے مجھے ایک چھٹانک اطریفل زمانی دیا ) الحمد اللہ ( حضور کی دعا اور بتلائی ہوئی دوا سے ایسا صریح فائدہ ہوا ) کہ اس کے بعد آج تک خاکسار کو پھر کبھی یہ عارضہ (ڈھل کا یعنی آنکھوں سے پانی جاری ہونا) نہ ہوا.“ ( روایت ۸۱۷.سیرت المہدی) (84) بغیر الفاظ یہ روایت سیرۃ المہدی میں درج ہے.( نمبر ۷۲۹) ہے اس میں خطوط وحدانی میں الفاظ الحکم ۲/۲۵/ ۲۸ صفحہ ۳ سے زائد کئے ہیں.

Page 277

255 ۳۲ از مولوی صاحب موصوف ).ایک دفعہ میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی فرمایا ، دعا کروں گا.پھر دوسرے دن اسی طرح عرض کی پھر تیسرے دن بھی عرض کی.اس پر فرمایا کہ مولوی صاحب! آپ تو اس طرح سے کہتے ہیں.جیسے آپ کی عمر اسی سال کی ہوگئی ہے.آپ کے ہاں تو بیسیوں لڑکے ہو سکتے ہیں.سوالحمد اللہ کہ اب میں صاحب اولاد ہوں.“ اس پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں.کہ:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ مرد کو اولاد سے جلد مایوس نہیں ہونا چاہئے.اگر کوئی خاص نقص نہ ہو تو اسی نوے سال تک مرد کے اولاد ہوسکتی ہے.“ (85) ۳۳ - ( از مولوی صاحب موصوف).ایک مرتبہ خاکسار نے حضور اقدس علیہ السلام سے عرض کی کہ مجھے مولویوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے.اس لئے حضور کچھ ارشاد فرما دیں.آپ نے فرمایا کہ جب کہیں گفتگو کا موقع ملے تو دعا کر لیا کرنا اور یہ کہ دیا کرنا کہ میں نے حق کو پہچانا اور قبول کر لیا ہے.‘ (86) ۳۴ - ( از مولوی صاحب موصوف ) : ایک دفعہ ایام جلسہ میں حضور علیہ السلام سیر کے لئے تشریف لے گئے ایک شخص نے آیت شریف اَوَمَنْ كَانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْنَهُ ( 87 ) کا مطلب حضور علیہ السلام سے دریافت کیا.مرزا یعقوب بیگ صاحب بھی اس وقت پاس موجود تھے.انہوں نے اس شخص سے کہا کہ حضرت مولوی صاحب (خلیفہ اول) سے اس آیت کا مطلب پوچھ لینا.اس نے ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ میں تو صرف حضرت صاحب کا ہی مرید ہوں اور کسی کا نہیں.اس پر حضور علیہ السلام نے تبسم فرما کر فرمایا کہ ہر شخص کا مذاق علیحدہ ہوتا ہے.اور پھر آیت شریفہ کے معنے بیان فرمائے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام عزه مئولف سیرۃ المہدی اس پر تحریر فرماتے ہیں:.”مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم نے اپنی طرف سے یہ خیال کر کے اس شخص کو روکا ہوگا کہ ایسی معمولی بات کے لئے حضرت صاحب کو تکلیف نہیں دینی چاہئے.مگر حضرت صاحب نے اس کی دلداری کیلئے اس کی طرف توجہ فرمائی.اور ویسے بھی جبکہ ایک قرآنی آیت کے معنی کا سوال تھا تو آپ نے مناسب خیال فرمایا کہ خود اس کی تشریح فرماویں.ویسے عام فقہی مسائل میں حضرت صاحب کا یہی طریق ہوتا تھا کہ جب کوئی شخص کوئی مسئلہ پوچھتا تھا تو آپ فرما دیتے تھے کہ مولوی صاحب سے پوچھ لیں.یا مولوی صاحب پاس ہوتے تو خود انہیں فرما دیتے کہ مولوی صاحب یہ مسئلہ کیسے ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ جو لوگ خلافت ثانیہ کے موقع پر

Page 278

256 ٹھوکر کھا گئے.ان میں میرے خیال میں دو شخص ایسے تھے کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ سے بہت محبت تھی.اور آپ بھی ان سے محبت فرماتے تھے.ایک مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم اور دوسرے شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم.مگر افسوس کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات پر انہیں ٹھوکر لگ گئی.‘( 88) ۳۵ - ( از مولوی صاحب موصوف ) ” ایک دفعہ خاکسار نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ عبداللہ چکڑالوی مجھے کہتا تھا کہ آیت كُلَّ شَيْ هَالَكَ الْاوَجْهَهُ.سے ثابت ہے کہ روحیں فنا ہو جاتی ہیں.اور کہیں آتی جاتی نہیں.اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا.(مولوی صاحب! آپ کسی دہریہ کے پاس سے ہو کر آئے ہیں.اس کے معنی تو یہ ہیں کہ ہر شے معرض ہلاکت اور فنا میں ہے.سوائے خدا کی توجہ اور حفاظت کے یعنی كُلَّ شَـي مَالَكَ الاَبَوَجْهِهِ.پھر فرمایا اگر روحوں کو بقا ہے تو وہ بھی خدا کی موہبت ہے.اور اگر ان کے لئے کسی وقت ان پر فنا آجائے تو وہ بھی کوئی حرج نہیں.‘ (90) ی ۳۶.( از مولوی صاحب موصوف ) ” ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ ہم اپنے گاؤں میں دو شخص احمدی ہیں.کیا ہم جمعہ پڑھ لیا کریں.حضور نے مولوی محمد احسن صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کیوں مولوی صاحب ؟ اس پر مولوی صاحب نے کہا جمعہ کے لئے جماعت شرط ہے.اور حدیث شریف سے ثابت ہے کہ دو شخص بھی جماعت ہیں.لہذا جائز ہے.حضور علیہ السلام نے اس شخص سے فرمایا کہ فقہا نے کم از کم تین آدمی لکھے ہیں آپ جمعہ پڑھ لیا کریں.اور تیسرا آدمی اپنے بیوی وبچوں میں سے شامل کر لیا کریں.‘ (90) ۳۷.( از مولوی صاحب موصوف).میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ کی اللہ تعالیٰ نے صدیقہ کے لفظ سے تعریف فرمائی ہے.اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ حضرت عیسی کی الوہیت توڑنے کے لئے ماں کا ذکر کیا ہے.اور صدیقہ کا لفظ اس جگہ اس طرح آیا ہے جس طرح ہماری زبان میں کہتے ہیں.بھر جائی کا نیئے سلام آکھناں واں.“ جس سے مقصود کا نا ثابت کرنا ہوتا ہے نہ کہ سلام کہنا.اسی طرح اس آیت میں اصل مقصود حضرت مسیح کی والدہ ثابت کرنا ہے جو منافی الوہیت ہے نہ کہ مریم کی صدیقیت کا اظہار.مئولف سیرۃ المہدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ ہ اس پر تحریر فرماتے ہیں کہ :.پنجابی کا معروف محاورہ ”بھابی کا نیئے سلام ہے.اس لئے شاید مولوی صاحب کو الفاظ کے متعلق کچھ سہو اس میں الحکم ۲/۳۵/ ۲۸ ( صفحہ ۳) سے خطوط وحدانی میں اضافہ کیا ہے.

Page 279

257 ہو گیا ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ منشار نہیں تھا کہ نعوذ باللہ حضرت مریم صدیقہ نہیں تھیں.بلکہ غرض یہ ہے کہ حضرت عیسی کی والدہ کے ذکر سے خدا تعالیٰ کی اصل غرض یہ ہے کہ حضرت عیسی کو انسان ثابت کرے.‘‘ (91) ۳۸ - ( از مولوی صاحب موصوف ) : " حکیم محمد حسین صاحب قریشی نے اپنے دادا بابا چٹو کو قادیان میں لاکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے درخواست کی کہ حضور ان کو سمجھا ئیں.فرمایا.اچھا سمجھا ئیں گے.اس وقت حضور علیہ السلام سیر کے لیباہر تشریف لے جارہے تھے.راستہ میں فرمایا کہ پیر فرتوت ہے.اس کا سمجھنا مشکل ہے.قریشی صاحب کے دادا سیر میں نہیں گئے تھے بلکہ قریشی صاحب بھی ان کی رہائش کے انتظام میں مشغول تھے.اور ساتھ نہیں گئے تھے.“ مولف سیرۃ المہدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ تحریر فرماتے ہیں کہ :.قریشی صاحب کے دادا چٹو اہل قرآن تھے جنہیں لوگ چکڑالوی کہتے ہیں اور جہاں تک مجھے علم ہے اسی عقیدہ پر ان کی وفات ہوئی تھی.“ (92) ۳۹ ( از مولوی صاحب موصوف ) : " حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں یہ دیکھنے میں آیا کہ جب تکبیر ہوتی تھی.تو جو احباب سنتیں پڑھ رہے ہوتے تھے وہ انہیں پوری کر کے جماعت میں شامل ہوتے تھے.اسی طرح حضرت خلیفہ المسیح اول کے زمانہ میں بھی مندرجہ بالا حدیث کا مطلب ہم یہ سمجھتے تھے کہ جب امام تکبیر کہے تو اس کے بعد اگر سنتیں پڑھنے والا ایسی حالت میں ہو کہ اگر وہ اپنی سنت کی نماز ختم کرے رکوع میں امام کے ساتھ مل سکتا ہو تو وہ پوری کر لے.‘(93) ۴۰.(از حضرت مولوی صاحب ) : " حضرت مسیح موعود کو ایک دفعہ میں نے نماز جمعہ سے پہلے دورکعت سنت پڑھتے ہوئے دیکھا.آپ کا رکوع قیام قومہ جلسہ درمیانہ تھا.ہر ایک رکن میں اطمینان اور تسلی ہوتی تھی.پھر میں نے ہاتھ باندھنے کی کیفیت دیکھی کہ سینے پر ہاتھ بندھے ہوئے تھے..اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر تھا.اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور چھنگلی سے باز و پکڑا ہوا تھا.اور تینوں درمیانی انگلیاں باز و پرتھیں.اور کہنیوں کے جوڑ سے ورلی طرف ملی ہوئی تھیں.“ (94) ۴۱ - ( از مولوی صاحب موصوف ).ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نماز میں کھڑے ہوئے تھے.کہ آپ نے ناک کو دائیں ہاتھ سے کھجلایا.ایسا ہی ایک اور دفعہ میں نے دیکھا کہ آپ نے قیام میں دائیں پاؤں سے

Page 280

258 بائیں پاؤں کو کھجلایا.“ ۴۲.( از مولوی صاحب موصوف ).ایک دفعہ نماز عصر میں جس میں حضرت خلیفہ اول امام تھے.حضور نے امام کی اقتداء کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا جو قریباً ہم سب مقتدی ادا نہ کر سکے یعنی حضرت خلیفہ اول نے دوسری رکعت کے لئے اٹھنے میں ذرا دیر لگائی ہم سب مقتدی کھڑے ہو گئے لیکن حضرت مسیح موعود اسی طرح بیٹھے رہے اور جس طرح آہستہ آہستہ مولوی صاحب کھڑے ہوئے اسی طرح بعد میں حضرت مسیح موعود کھڑے ہوئے.“ ۴۳.( از مولوی صاحب موصوف ).ایک دفعہ خوابوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذکر فرمار ہے تھے میں نے عرض کیا مومن کی رؤیا صادقہ کس قسم میں سے ہے.فرمایا.القاء ملک ہے.“ (95) ۴۴.( از مولوی صاحب موصوف ).’۱۹۰۶ء کے سالانہ جلسہ کے تین چار دن بعد کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود اپنے خدام کے ساتھ سیر کو تشریف لے گئے ایک شخص نے حضرت مسیح موعودؓ سے سوال کیا کہ یہ جو صوفیوں میں مشہور ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بعض باتیں عام لوگوں کو نہیں بتا ئیں بلکہ بعض خاص لوگوں کو بتلائی ہیں کیا یہ درست ہے؟ حضور نے فرمایا کہ قرآن شریف سے تو یہ ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے سب باتیں لوگوں تک پہنچادیں.چنانچہ فرمایا.يَأَيُّهَا الرَّسُولَ بَلَغَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ“ ( 96 ) میں عرض کیا کہ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ کا قول ہے عَلِمْتُ وَعَائِينُ مِنَ الْرَسُول (97) یعنی میں نے رسول اللہ سے دو برتن علم کے سیکھے ہیں ایک کی تو میں نے تمہارے درمیان اشاعت کر دی ہے اور دوسرا برتن علم کا ایسا ہے کہ اگر میں وہ تمہیں بتلاؤں تو میرا گلا کاٹا جائے.میں نے عرض کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض باتیں اسلام کی جو گہرے حقائق و معارف ہیں وہ نبی کریم ع له بعض صحابہ کو بتلایا کرتے تھے کیونکہ عام لوگوں کی طبائع اس کی متحمل نہیں ہوتیں.حضور نے فرمایا.اگر آپ کا یہ مطلب ہے تو اس کے لئے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق اور صلى الله دیگر فقہاء صحابہ اہل تھے نہ کہ ابو ہریرہ.مطلب یہ ہے کہ بعض دفعہ بتلانے والے کی طرف سے تو روک نہیں ہوتی مگر سنے والا اپنی سمجھ میں اس کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا.اسی طرح کی یہ بات ہے.حضرت ابو ہریرہ نے رسول اللہ علی سے حدیث سن لی.جو آپ نے بنی امیہ کے متعلق بیان فرمائی اور ابو ہریرۃ اس کا اظہار کرنا موجب فتنہ وفساد سمجھتے تھے.“ (98) یہ روایت بغیر الفاظ الحکم مورخہ ۲/۳۵/ ۲۸ میں بھی درج ہے.اس میں موضع بسراء کی طرف سیر کا ذکر ہے.اور حدیث کے الفاظ عَلِمْتُ مِنَ رَسُولِ اللَّهِ وَعَائِيْنُ مِنَ الْعِلِمُ درج ہیں.

Page 281

259 ۴۵.( از مولوی صاحب موصوف ).ایک دفعہ ایام جلسہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت کچھ علیل تھی مگر جب آپ نے سیر فرماتے وقت دیکھا کہ بہت سے لوگ آگئے ہیں.اور سننے کی خواہش سے آئے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ چونکہ دوست سنے کی نیت سے آئے ہیں.اس لئے اگر اب کچھ بیان نہ کروں تو گناہ ہوگا.لہذا آج کچھ بیان کروں گا.اور فرمایا لوگوں میں اطلاع کر دیں.“ (99) ۴۶ - ( از مولوی صاحب موصوف ).ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے جمعہ پر حضرت مسیح موعود مع چند احباب میرے قریب تشریف فرما ہوئے.اور مجھے فرمایا کہ مولوی صاحب ( مولوی نورالدین صاحب) سے کہہ دیں کہ دوستوں نے بعد نماز جمعہ جانا ہے.اس لئے خطبہ مختصر پڑھیں.چنانچہ میرے پیغام پہنچانے پر مولوی صاحب نے ایسا ہی کیا.“ ( 100 ) ۴۷.( از مولوی صاحب موصوف ) :.ایک دفعہ خاکسار نے حضور علیہ السلام سے عرض کی کہ مجھے نسیان کی بیماری بہت غلبہ کر گئی ہے.اس پر حضور علیہ اسلام نے فرمایا کہ رَبِّ كُلُّ شَيْ ءٍ خَادِ مُكَ رَبِّ فَأَحْفَظْنِي وَانْصُرُنِي وَرُحَمُنِي پڑھا کرو.الحمد اللہ کہ اس سے مجھے بہت ہی فائدہ ہوا ہے.“ (101) ۴۸ - ( از مولوی صاحب موصوف ).جن دنوں حقیقۃ الوحی کے عربی استفتاء کا پروف دیکھا جا رہا تھا میں بھی حاضر خدمت تھا.نماز ظہر کے وقت مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پروف دیا اور عرض کیا کہ حضور پروف میں فلاں نشان کردہ لفظ تو درست ہے.(اس کی کیوں اصلاح کی گئی ) حضور نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تو نشان نہیں کیا.مولوی صاحب نے عرض کیا کہ ( یہ پروف یا میں نے دیکھا ہے یا آپ نے ) پھر کس نے کیا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ صاحب نے کیا ہوگا.مولوی صاحب نے عرض کیا کہ ( ان کو دخل دینے کا کیا حق ہے.حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا.ان کو بھی ایک حق حاصل ہے جسے دخل بے جا کہتے ہیں.“ (102) وید ۴۹ - ( از مولوی صاحب موصوف) - جھنگی ضلع گورداسپور کے پیر زادے تین بھائی تھے ان میں سے د نور محمد کو مرض ذات الحب کا سال میں دو دفعہ دورہ ہوا کرتا تھا.جب وہ تینوں بھائی دورہ کرتے ہوئے قادیان کے تغیر الفاظ یہ روایت الحکم بابت ۲/۳۵/ ۲۸ میں بھی درج ہے.لله الحکم بابت ۲/۳۵/ ۲۸ سے اضافہ کر کے الفاظ خطوط وحدانی میں دیئے گئے ہیں.

Page 282

260 قریب آئے.تو نورمحمد کے علاج کے لئے حضرت خلیفتہ امسیح اول کے پاس حاضر ہوئے.آپ نے تشخیص کے بعد فرمایا کہ آپ چند روز ٹھہر کر علاج کرائیں تو پھر میں بتلا سکوں گا کہ یہاں پر رہ کر علاج بہتر ہوگا.یا گھر پر بھی دوائی استعمال ہو سکے گی.ان تینوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں بھی حاضر ہونے کی خواہش کی چنانچہ حضور نے بوقت نماز ظہر شرف ملاقات بخشا.دوران گفتگو میں ان میں سے ایک نے سوال کیا کہ سفر کتنی مسافت کا ہو تو نماز قصر کی جاسکتی ہے.حضور نے فرمایا آپ کو سفر کی کیا ضرورت پیش آتی ہے پیر زادہ نے کہا کہ مریدوں کے پاس جانا ہوتا ہے.حضور نے فرمایا کہ آپ مریدوں کے پاس کیوں جاتے ہیں اور کیوں جا کر بیچاروں کو تنگ کرتے ہیں ہماری طرح گھر پر ہی کیوں نہیں بیٹھتے ؟ جو رزق اللہ تعالیٰ نے آپ کی قسمت میں لکھا ہے وہ مل رہے گا.اس طرح رزق کی کسر بھی جاتی رہے گی اور نماز کو قصر کرنے کی ضرورت بھی نہ پڑے گی نیز فرمایا کہتے ہیں کہ ایک پیر صاحب شام کو ایک گاؤں میں اپنے ایک غریب مرید کے گھر پہنچے جو نذرانہ دینے کی طاقت نہ رکھتا تھا.وہ مرید پیر صاحب کو دیکھ کر باہر ایک کماد کے کھیت میں جا چھپا.صبح کو خیال کر کے کہ اب پیر صاحب غالبا رخصت ہو چکے ہوں گے وہ گھر کی طرف لوٹا لیکن سوئے اتفاق سے پیر صاحب باہر نکلتے ہوئے گلی میں دو چار ہو گئے.اور بغیر سلام علیکم کہنے لگا لاؤ ہماری نذر.مرید بولا اگر اپنی نظر آپ کو دیدوں تو خود کیسے دیکھوں گا پیر کہنے لگے بھئی پیر کا نذرانہ روپیہ دو.مرید نے کہا.حضرت میرے پاس روپیہ ہوتا تو ساری رات کماد کے اندر کیوں چھپا رہتا.پھر مسکراتے ہوئے آپ نے فرمایا.اس طرح جا کر غریبوں کو تنگ کرنا اور شرمندہ کرنا اچھا نہیں.اس کلام کا ان تینوں بھائیوں پر یہ اثر ہوا کہ تینوں نے بیعت کر لی.مگر سنا ہے کہ بعد میں پھر دنیوی لالچ سے انہوں نے بیعت فسخ کردی.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا آلَيْهِ رَاجِعُونَ.میں نے ان میں سے ایک کی زبان سے بار ہا یہ صدا سنی.مرزا نور خدائے دا اکھیں ڈٹھا آج.“ (103) یہ روایت به تغیر الفاظ سیرت المہدی ( نمبر ۷۴۴ ) اور الحکم ۲/۳۵/ ۲۸ ( صفحہ ۵ پر ) بھی درج ہے اور ان میں قدرے اختلاف ہے.الحکم میں ضلع سیالکوٹ مرقوم ہے.اور یہ بھی کہ وہ مرزا نظام الدین صاحب کے مکان پر ٹھہرے.حضور علیہ السلام کو خبر ہوئی تو آپ نے ان کو کہلا بھیجا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں.آپ ہمارے ہاں ٹھہریں مگر انہوں نے جواب دیا کہ ہم مولوی صاحب کے پاس نور محمد کا علاج کرانے آئے ہیں.نہ کہ آپ کے پاس.“ اور یہ بھی لکھا ہے کہ ظہر کے وقت کی ملاقات کا ایسا اثر ہوا کہ عصر کے وقت سب سے پہلے وہ مسجد میں آئے.اور اس وقت قصر کے متعلق گفتگو ہوئی.نور محمد کے علاوہ ایک کا نام غلام محمد آپ کو یاد ہے.بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ

Page 283

261 ۵۰ - ( از مولوی صاحب موصوف ).ایک سالانہ جلسے پر دو چار مہمان کھانا کھانے سے رہ گئے.صبح حضور سیڑھیوں سے اترے اور ہم خدام گول کمرے کے پاس منتظر کھڑے تھے آپ نے فرمایا:.رات کو مجھے الہام ہوا ہے.يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ.( 104 ) معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا گیا.اور ان کی بھوک کی خدا تعالیٰ نے عرش سے اطلاع دی ہے چنانچہ تلاش کی گئی.اور ان دو تین مہمانوں کو خصوصیت سے کھانا کھلایا گیا.اور عذر بھی کیا حضور نے لفظ معتر کی یہ تشریح فرمائی کہ معتر کھلی والے اونٹ کو کہتے ہیں یعنی جس طرح کھجلی والا اونٹ اپنے بدن کو کھجلاتا ہے اسی طرح بھو کے کا معدہ بھی کھجلاتا ہے.‘‘(105) ۵۱ - ( از مولوی عبدالواحد خانصاحب) مسیح موعود کے رسول کریم ﷺ کی قبر میں دفن ہونے کے ذکر ہونے پر حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ ہر ایک مومن کے ایمان اور اخلاص کے مطابق اس کی قبر کو رسول اللہ ﷺ کی قبر سے قرب عطا کیا جاتا ہے مسیح موعوڈ چونکہ اتحاد و اخلاص میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ کامل یگانگت رکھتا ہے اس لئے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول کریم علیہ کی قبر میں دفن ہو گا.۵۲.مولوی صاحب موصوف لکھتے ہیں :.دو ۲۱ ۱۹۲ء میں میرا ٹھیکہ لاہور چھاؤنی میں تھا لیکن میرا زیادہ تر وقت شیخ عبدالحمید صاحب ریلوے آڈیٹر لاہور کے ہاں گذرتا تھا.ایک مرتبہ میں اور شیخ صاحب شاہدرہ جہانگیر کا مقبرہ دیکھنے گئے.غالباً برسات کا موسم تھا.واپسی پر...جب ہم پل پر سے گذررہے تھے.میں نے شیخ صاحب سے کہا کہ حضرت مسیح موعود کا الہام ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ لوگ کہیں گے کہ لاہور بھی کوئی شہر ہوتا تھا.میں نے حضرت مسیح موعود کی بیعت غالباً ۱۸۹۶ء میں کی ہے اور یہ الہام ۲۱ ء سے ۲۲ ء سے بہت پہلے سلسلہ کے احباب سے سنتا آرہا ہوں “ (106) بقیہ حاشیہ:.سیرۃ المہدی میں یہ ذکر ہے کہ مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں ٹھہر نا چاہا مگر جب حضور علیہ السلام کو معلوم ہوا تو حضور نے ان کے قیام وغیرہ کا بندو بست اپنے ہاں کروایا.حضرت خلیفہ اول نے انہیں تین دن ٹھہرایا.اس وجہ سے ان کو حضور کے پاس آنا پڑتا تھا.یہاں ملاقات کی خواہش کا اور بیعت کا ذکر نہیں.لاہور کے متعلق روایات کے متعلق بعض دیگر صحابہ کے ساتھ مولوی عبدالواحد خانصاحب کا ذکر بھی تذکرہ میں موجود ہے.(107)

Page 284

262 ۵۳.( از مولوی صاحب موصوف ).حضور کی مجلس میں حدیثوں کے متعلق ذکر ہور ہا تھا.سید محمد احسن صاحب اور دوسرے مولانا صاحبان میں سے کوئی فرماتے کہ یہ حدیث ضعیف ہے کوئی فرماتے کہ اس حدیث کا راوی ثقہ نہیں.حضور نے فرمایا کہ ہم تو اس بحث میں نہیں پڑتے.حدیث والے سے پوچھ لیتے ہیں کہ کیا یہ آپ کی حدیث ہے یا نہیں.فرمایا.حدیثوں پر غور نہیں کیا گیا.یہی سلام والی حدیث ہے اگر مولویوں کے خیال کے مطابق مسیح علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں تو کبھی رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل کو نہیں فرمایا کہ ہمارا سلام عیسی کو کہہ دینا.حالانکہ بائیس تئیس برس تک جبریل روزانہ وحی لے کر آپ کے پاس آتے رہے بعض دفعہ دن میں دو مرتبہ.پھر جب حضور علیہ السلام کا وصال ہو گیا.تو خود بھی حضور مسیح علیہ السلام کے پاس چلے گئے تو کیا وہ نہ کہیں گے کہ یہ سلام کیسا میں تو خود ان کے پاس سے آرہا ہوں تو وہی مثال ہوئی ( گھروں میں آواں نے سنیے کسی دیود ) ہے ۵۴.مولوی عبدالواحد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ :.مقد مه کرم دین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جہلم جانے کی تاریخ مقرر ہو چکی تھی.چنانچہ حافظ عبدالعزیز صاحب مرحوم، مستری نظام الدین صاحب مرحوم مالک سپورٹس ورکس سیالکوٹ اور خاکسار تینوں سیالکوٹ سے روانہ ہوئے.تا کہ وزیر آباد پہنچ کر اس ٹرین میں سوار ہوسکیں جس میں حضور تشریف لے جار ہے تھے.وزیر آباد اسٹیشن پر جب ہم گاڑی سے اترے تو وہاں عجیب نظارہ تھا.حضور والی ٹرین ہمارے سامنے دوسرے پلیٹ فارم پر کھڑی تھی لوگوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ ٹرین کے ڈبے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے یہ دیکھ کر ہمیں مایوسی ہوئی کہ شاید اس میں ہم لوگ سوار نہ ہو سکیں.اس کثرت سے لوگ حضور کی زیارت کے لئے چلے آرہے تھے کہ ایک نہ ختم ہونے والا تانتا بندھا ہوا تھا.پلیٹ فارم ٹکٹ.پلیٹ فارم ٹکٹ کا شور مچ رہا تھا.اتنے میں اسٹیشن ماسٹر تشریف لائے اور بلنگ کلرک پر ناراض ہوتے ہوئے بولے ٹکٹ بند کر دو.اور گیٹ کھول دولوگوں کو جانے دو ہجوم میں مرزا صاحب کی زیارت کا جوش ہے کھڑ کی بند کر و خطرہ ہے لوگ کھڑ کی نہ توڑ دیں.گیٹ کے قریب ایک ادھیٹر عمر کی ہندو عورت کو پنجابی میں یہ کہتے سنا کہ بڑی دنیا درشن کے واسطے آئی ہے پر ماتما کا اوتار آیا ہے.قریب نہیں جاسکتی دور سے دیکھ لوں گی.لوگوں میں حضور کی زیارت کا اس قدر جوش تھا کہ ہجوم نے ٹرین روک لی اور اسٹیشن ماسٹر نے بھی ٹرین لیٹ کر دی.پھر گجرات اور لالہ موسیٰ کے اسٹیشنوں پر بھی لوگ آئے.اس پنجابی محاورہ کا ترجمہ یہ ہے کہ گھر سے تو میں آرہا ہوں اور پیغام ( گھر والوں کی طرف سے ) تم دیتے ہو.حضور ۱۵ جنوری ۱۹۰۳ء کو جہلم کے سفر کے لئے قادیان سے روانہ ہوئے اور ۱۹ جنوری کو مراجعت فرما ہوئے.

Page 285

263 پھر جہلم کے اسٹیشن پر تو کچھ نہ پوچھو.نہ معلوم کہاں کہاں سے لوگ حضور کی زیارت کو اسٹیشن پر آئے ہوئے تھے پلیٹ فارم بھرا ہوا تھا.جہلم کی جماعت نے حضور کے لئے ایک کوٹھی لی ہوئی تھی.ہم بھی اس میں ٹھہرے تھے ہمارے تینوں کے بستر پاس ہی تھے.حضور کے واسطے جب کھانا آیا.تو اور بھی بہت سے دوست حضور کے ساتھ کھانے میں شامل تھے.کھانے میں قورمہ.روٹی اور ایک لگن ( تھال) پلاؤ کی بھری ہوئی تھی.حضور نے پلاؤ نہیں کھایا.شور بے میں روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لگا کر تناول فرمائے.کسی دوست نے عرض کیا کہ حضور کچھ پلاؤ بھی تبر کا تناول فرمائیں تب حضور نے تبر کا تھوڑے سے چاول تناول فرمائے.باقی پلاؤ ہم سب نے تبر کا تقسیم کر لیا.احاطہ کچہری میں حضور کرسی پر بیٹھے رہتے تھے اور لوگ فرش پر اور چاروں طرف حلقہ کی صورت میں کھڑے ہوتے.حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید حضور کی کرسی کے قریب بالکل پاس ہی فرش پر بیٹھے رہتے تھے.ایک دفعہ حضور فارسی زبان میں حضرت سید عبداللطیف صاحب سے گفتگو فرما رہے تھے ایک دوست نے عرض کیا کہ حضور اردو میں بھی فرمائیے تا ہم سب بھی مستفید ہوں.حضور نے فرمایا کہ مسلمانوں کے سب فرقے جس مہدی کا انتظار کر رہے ہیں وہ میں ہوں.اگر ہم شیعہ صاحبان کو کہیں کہ تمہاری روایتیں صحیح ہیں اور اسی طرح حنفیوں کو کہیں کہ تمہاری روایتیں صحیح ہیں تو یہ منافقت ہوگی.مسلمانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ مہدی حکم و عدل ہوگا سب کی غلطیاں وہ بتائے گا اس وجہ سے سب فرقے دشمن ہو گئے ورنہ ہم نے ان کا کیا نقصان کیا ہے.ایک دفعہ وہاں کچہری میں مولوی ابراہیم سیالکوٹی حضور کے خلاف بڑے زور سے شور کر رہا تھا.حضور نے دریافت فرمایا کہ یہ کون ہے عرض کیا گیا کہ مولوی ابراہیم سیالکوٹی ہے فرمایا.جاؤ ہماری کتاب اس کو دے آؤ جو غالباً مواہب الراحمین تھی.حضور نے فرمایا کہ اگر میں اس بات پر قسم بھی کھا کر کہوں کہ میرے ذریعہ پچاس ہزار معجزے اللہ تعالیٰ نے ظاہر کئے تب بھی جھوٹ نہ ہوگا.ہر ایک پہلو سے ہم پر اللہ تعالیٰ کی تائیدات کی بارش ہو رہی ہے عجیب تر ان لوگوں کے دل ہیں جو ہم کو تقی کہتے ہیں مگر وہ کیا کریں ولی را ولی سے شناسد.کوئی تقویٰ کے بغیر ہمیں کیونکر پہچانے.رات کو چور چوری کے لئے نکلتا ہے راہ میں کسی گوشہ کے اندر کسی ولی کو دیکھے جو عبادت کر رہا ہو تو وہ یہی سمجھے گا کہ یہ بھی میری طرح چور ہوگا.ایک دن حافظ عبدالعزیز صاحب اور خاکسار شہر جہلم میں پھرتے پھرتے ایک ہوٹل میں چائے پینے بیٹھ گئے.وہاں اور لوگ بھی جو غیر احمدی تھے بیٹھے ہوئے تھے اور آپس میں حضرت مسیح موعود کے متعلق گفتگو کر رہے تھے

Page 286

264 ایک اچھے خاصے خوش پوش غیر احمدی نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے پنچابی میں کہا کہ کرم دین بڑا بے وقوف ہے.مقدمہ کر کے ( حضرت ) مرزا صاحب کو جہلم بلایا دیکھو کئی سو بندے مرزائی ہو گئے اور ابھی بڑی تیزی سے لوگ مرزائی ہوئے جارہے ہیں.اگر ایک بار پھر مرزا صاحب جہلم آئے تو جہلم میں اہل سنت والجماعت کا ایک فرد بھی نظر نہیں آئے گا.۵۵.(از مولوی صاحب موصوف ).حضرت مسیح موعود کا معمول تھا کہ نماز کے بعد ا کثر مسجد میں تشریف فرما ہوتے تھے.اور کچھ فرماتے ایک دفعہ تقریر فرماتے ہوئے فوراً حضور علیہ السلام اُٹھ کھڑے ہوئے سیڑھیوں سے اتر کر جلدی جلدی مدرسہ احمدیہ میں سے ہو کر ڈھاب کی طرف چلے جس طرف عبدالکریم وغیرہ مستریوں کے مکان تھے بڑی ڈھاب میں کچھ چھوٹے لڑکے چھ سات برس کے نہار ہے تھے اور پانی میں کھیل رہے تھے ایک چھوٹا لڑکا کھیلتا ہوا پانی میں چلا گیا.اور ڈوبنے لگا.حضور علیہ السلام کو شفی طور پر معلوم ہوا کہ بچہ ڈوب رہا ہے اس لئے حضور نے باہر نکالا اور پھر واپس آئے.تقریر فرماتے ہوئے آپ کو اللہ تعالیٰ نے بتایا.اکثر دفعہ آپ کو اپنے مریدوں میں بیٹھے ہوئے بھی الہام ہوتا رہا ہے.“ ۵۶ - ( از شیخ رحمت اللہ صاحب ) حضرت شہید صاحب کو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام الوداع کہنے کے لئے موضع ڈلہ کے موڑ یا کنویں تک تشریف لے گئے تو میرے سامنے کی بات ہے کہ انہوں نے حضور کے قدم مبارک پکڑ لئے ( یا فرط محبت سے حضور کے قدموں میں گر گئے.چونکہ حضور ایسی تعظیم نا پسند فرماتے تھے اس لئے ان کو اٹھنے کے لئے کہا لیکن چونکہ وہ نہ اٹھے ) حضور نے فرمایا.الامر فوق الادب.تو وہ فوراً کھڑے ہو گئے حضور نے فرمایا آپ کچھ اشتہار اپنے ہمراہ لے جاتے.تو انہوں نے عرض کی کہ میرے خون کے اشتہار نہ پہنچیں گے.شیخ صاحب کہتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کو بوجہ صاحب الہام ہونے کے علم تھا کہ ان کو شہید کر دیا جائے گا.جملے ۵۷.( از حاجی غلام احمد صاحب) مسجد مبارک میں ایک نو وارد شخص حضور سے باتیں کرتا تھا اس وقت حضرت عبداللطیف صاحب شہید موجود تھے.اور نو وارد اثنائے گفتگو میں کہنے لگا کہ دعویٰ مسیح و مہدی ہونے کا.زبان سے حق ادا نہیں ہو سکتا آپ نے فرمایا میری سچائی کی یہی علامت ہے کہ اس کی زبان میں دباؤ ہوگا.(108) خطوط وحدانی کے الفاظ خاکسار مولف نے تکمیل کی خاطر زائد کئے ہیں.اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں:.

Page 287

265 ۵۸ - (از شیخ رحمت اللہ صاحب ).ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید کو فرمایا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب سے کچھ پڑھ لیں.چنانچہ حضرت شہید صاحب نے بخاری شریف کھولی.اور حضرت مولوی صاحب کچھ درس دینے لگے تو حضرت شہید صاحب نے کہا کہ میں تو حکماً پڑھ رہا ہوں.میرا سینہ علم سے بھرا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود کے سفر جہلم میں حضرت شہید صاحب حضور کے ساتھ تھے.۵۹.حضرت مسیح موعود کے ساتھ جہلم کے موقع پر وہاں کے قیام کے ذکر میں مولوی عبدالواحد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید ہمارے کمرے میں آگئے ہم نے آپ کو بستر پر بٹھا یا دوران گفتگو میں آپ نے فرمایا کہ بار بارالہام می شود.وو سریده - سریده - سریده 66 ۶۰.( از مولوی صاحب موصوف ).حافظ نبی بخش صاحب سکنہ فیض اللہ چک کی آنکھیں اٹھ آئی تھیں.ڈاکٹروں اور حکیموں کی علاج کرتے رہے کچھ فائدہ نہیں ہوا.کافی عرصہ آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا رہے.فرماتے تھے کہ ایک دن مجھے خیال آیا کہ حضور کا الہام ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.میں کیوں نہ برکت حاصل کروں.چنانچہ مسجد مبارک میں بعد نماز حضور تشریف فرما تھے.حافظ صاحب کیا کرتے تھے کہ حضور کے پیچھے بیٹھ جایا کرتے.اور شملہ اپنی آنکھوں پر لگایا کرتے.وہ دن برابر لگاتے رہے.تیسرے دن بغیر دوا کے آنکھیں کٹو راسی ہوگئیں نہ لالی رہی.سرخی وغیرہ سب صاف بالکل اچھی ہو گئیں.حضور کی دستار مبارک کا شملہ جو پیچھے لٹکتا رہتا تھا.وہ ذرا لمبا ہوتا تھا.ہو بقیہ حاشیہ صفحہ سابقہ:.لکھنو کے بغدادی الاصل ڈاکٹر سید محمد یوسف صاحب نے یہ بات کہی تھی کہ آپ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ عربی میں مجھ سے کوئی فصیح نہیں حالانکہ قاف تو ادا نہیں کر سکتے.حضور نے فرمایا میں پنجابی ہوں حضرت موسے پر بھی لایـــــادِ ببین کا اعترض ہوا تھا.حدیث شریف کی رو سے تو یہ نشان ہے کہ آنیوالے مہدی کی زبان میں لکنت ہوگی.(109) حضرت حافظ نبی بخش صاحب بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں حکیم فضل الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ مجاہد مغربی افریقہ آپ کے بڑے بیٹے تھے.مشہور سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب پروفیسر لنڈن حافظ صاحب کے نواسے.اور ملک منور احمد صاحب ایم.ایس سی واقف زندگی کارکن فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ربوہ حافظ صاحب کے پوتے ہیں حضرت حافظ صاحب حضور کے دعویٰ سے بہت قبل کے حضور کے ملاقاتی تھے.

Page 288

266 ایک سوال ہوا کہ قرآن مجید میں اسم اعظم کونسی آیت ہے.حضور نے فرمایا کہ قرآن مجید کی ساری آیتیں اسم اعظم ہیں اور ہماری دعا رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ ( 110 ) بھی اسم اعظم ہے.مولوی عبدالواحد صاحب بیان کرتے ہیں کہ احمدیوں کو اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے ڈرکا مقام ہے.حضور نے ایک دفعہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن میں تم کو گواہ کے طور پر کھڑا کرونگا.حضور نے فرمایا کیا ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جس کی اچھی گواہی میں دے سکوں.۶۱.( از مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ).دسمبر ۱۹۰۶ ء کا واقعہ ہے کہ مہمانخانہ میں ایک وحدت وجودی آیا اور کہنے لگا کہ میرے دس اعتراض ہیں اگر وہ حل ہو گئے تو میں احمدی ہو جاؤں گا.اور ہم نے بہت پوچھا کہو اعتراض کیا ہیں اس نے کہا صبح حضرت صاحب کو ہی بتلاؤں گا.چنانچہ جب صبح حضور سیر کیلئے گاؤں بسر اواں کی طرف تشریف لے گئے اس وقت ہم خدام کوئی پندرہ ہیں ہمراہ تھے.اور وہ شخص بھی ہمارے ساتھ تھا حضرت اقدس نے خود ہی ایک تقریر شروع کر دی جو واپس گھر آنے تک ختم ہوئی.جب ہم مہمان خانہ میں واپس آئے اور ہم نے اسے کہا کہ اب تم ظہر کی نماز کے وقت ہی اگر حضور تشریف لائے تو دریافت کرو گے.وہ کہنے لگا کہ میرے دس سوال ہی حضور کی تقریر سے حل ہو گئے ہیں.اب تو میں ظہر کے وقت بیعت ہی کر لونگا.(111) ۶۲.( از مولانا صاحب موصوف ).ایک سالانہ جلسہ پر شب دیگ جو خواجہ کمال الدین صاحب نے رات کو پکوائی ( آگ جلانے والے سو گئے اور دیگ ٹھنڈی ہونے کے باعث) کتوں نے چولہے سے گرا کر کچھ کھا لیا.صبح اس بات میں اختلاف ہوا کہ بھنگی کو دینی جائز ہے یا نہیں.میں بھی اس وقت وہاں کھڑا ہوا تھا.فیصلہ یہ ہوا کہ حضرت صاحب سے دریافت کیا جائے.چنانچہ حضور سے دریافت کیا گیا.(حضور نے فرمایا.شب دیگ کیا ہوتی ہے.عرض کیا گیا کہ شاخم ہوتے ہیں جو ساری رات دیگ میں پکائے جاتے ہیں.فرمایا اس میں کیا ہوتا ہے.عرض کیا کہ بہت لذیز ہو جاتے ہیں.آپ نے فرمایا یہ تکلفات ہیں ) بھنگی کو اطلاع کر دینی چاہئے ( کہ یہ کتے کا بقیہ ہے ) پھر وہ لے لیتا ہے تو لے لے (اس کی مرضی ).“ (112) ۶۳.حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے ولادت سے بیعت اور ہجرت قادیان اور ستمبر ۱۹۰۱ء میں شادی حی خطوط وحدانی والے الفاظ الحکم مورخہ ۲/۳۵/ ۲۸ سے زائد کئے ہیں.آخر پر نوٹ ہے جو ایڈیٹر صاحب کی طرف سے ہو گا.کہ اس زمانہ میں بھنگی مردار وغیرہ چیزیں کھا لیا کرتے تھے اس لئے کسی کو خیال ( آیا ) کہ بھنگی کھا لے.

Page 289

267 تک کے حالات لکھنے کے بعد تحریر فرمایا:.ان دنوں حضرت صاحب دن کا کھانا چھوٹی مسجد میں تمام مہمانوں کے ساتھ کھایا کرتے تھے.جتنے اصحاب قادیان میں مقیم تھے سب حضرت صاحب کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے.حضرت صاحب کی عادت تھی کہ ایک روٹی لے کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اپنے آگے رکھتے جاتے.ہم لوگ جو حضرت صاحب کے قریب بیٹھے ہوتے وہ ٹکڑے حضرت صاحب کے آگے سے اٹھا کر کھاتے.اگر کوئی اچھی چیز حضرت صاحب کے آگے ہوتی تو جو آپ کے دائیں جانب بیٹھا ہوتا.اٹھا کر حضور اسے دیدیتے پھر جو بائیں جانب ہوتا اسے دیتے.جب تک میری شادی نہ ہوئی میں صبح کا کھانا حضرت صاحب کے ساتھ ہی کھاتا رہا اور مہمان خانہ میں رہا کرتا تھا..جے ۶۵- از ماسٹر صاحب موصوف ).جب تک حضرت مولانا عبدالکریم صاحب زندہ رہے.مسجد مبارک میں نماز وہی پڑھاتے رہے اور مسجدا قصے میں جمعہ بھی وہی پڑھایا کرتے تھے.موسم گرما میں کبھی ظہر یا عصر کی نماز کے بعد ان کو پیاس محسوس ہوتی تو مسجد مبارک میں بیٹھ جاتے.اور کسی طالب علم کو کہتے کہ مسجد اقصے میں جا کر کسی مٹی کے کورے لوٹے میں تازہ پانی کنویں سے نکال کر لاؤ.ان دنوں مسجد اقصیٰ میں وضو کے لئے لوٹے رکھے ہوتے تھے چنانچہ وہ پانی نکال کر لاتا.تو آپ لوٹے کے گلے سے منہ لگا کر پانی پیتے.یہاں اس روایت کی ماسٹر صاحب کی تحریر کا چہ بہ آپ کے طرز تحریر کے محفوظ کرنے کے لئے دیا جاتا ہے.نمونہ طرز تحریر..بیٹے ہوتے.وہ مکتب حضرت نہ میری شادی نہ ہو گیا میں صحیح کا کی اتا رہا.اور بہاتیانہ میں رہا کرتا تاکہ م کیسے دیا ہے.پھر جو باقی حمایت ہو گا اُسے دیئے.نفرت خواب داری کا کھانا چھوٹی میں میں تم مہمانوں کے ساتمہ نگارا کرتے رہے.جس نے اصحاب قاریاں میں تقسیم ہے انے کا کیا کرتے تھے.حضرت لانے کی عادت تھی.کہ ایک روئی کو کر اُسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اپنے شراب کے آگے سے انہا کر لکھا ہے.خیبر کوئی

Page 290

268 اور پانی پی کر بڑے زور سے سانس لیتے اور زور سے الحمد للہ کہتے.ان دنوں قادیان میں برف نہیں آتی تھی.مولانا صاحب کا انتقال کا ر بنکل پھوڑے سے ہوا تھا.کار بنکل کا تین چار دفعہ اپریشن ہوا تھا ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم نے اپریشن کیا تھا.ہر دوسرے تیسرے روز مرزا صاحب خبر گیری کیلئے آتے تھے.ایک دفعہ مرزا صاحب کو آنے میں ذرا زیادہ دن لگ گئے جب آئے تو حضرت مولانا صاحب نے فرمایا.جب مر گئے تو آئے ہمارے مزار پر پتھر پڑیں صنم ترے ایسے پیار پر آخر مولانا کا اسی مرض سے انتقال ہو گیا.جس دن مولانا صاحب کا انتقال ہوا.اور تجہیز وتکفین ہونے لگی تو قادیان کے شمالی جانب سے ایک بدلی اُٹھی.جس وقت جنازہ تیار ہو گیا تو بدلی عین قادیان کے اوپر آگئی اور بوندیں پڑنے لگیں.جب تک حضرت مولانا کو دفنایا نہیں گیا.بوندیں پڑتی رہیں.جنازہ اس میدان میں لایا گیا جو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ اور ریویو آف ریلینجز کے دفاتر کے سامنے تھا.حضرت مسیح موعود نے جنازہ پڑھایا میں بالکل حضرت صاحب کے پیچھے پہلی صف میں کھڑا تھا.جب حضرت صاحب جنازہ پڑھا چکے تو ہماری طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ میں نے آپ سب کا جنازہ پڑھ دیا ہے.“ ۶۶ - ( از مولوی عبدالواحد صاحب ).ایک دفعہ حضور کے رخسار مبارک پر ایک مئہ نکل آیا جس سے حضور کو تکلیف محسوس ہوتی رہی.حضور کو الہاما بسم اللہ الکافی (113 ) (الخ) دعا سکھلائی گئی.جسے پڑھ کر حضور نے دم کیا.شام کو حضور تشریف لائے تو درد نہیں تھا.اور منہ بھی نہایت خفیف سا معلوم ہوتا تھا.ریویو آف ریلیجنز میں اس تعلق میں مرقوم ہے:.یہ ایک عجیب بات قابل ذکر ہے کہ حضرت مولوی صاحب مرحوم کی وفات پر نہ صرف جماعت ہی روتی تھی.بلکہ آسمان بھی رویا.آپ کی وفات سے پہلے آسمان بالکل صاف تھا.اور کئی دنوں سے اسی طرح صاف چلا آتا تھا.مگر جبھی کہ آپ نے آخری دم لیا.آسمان پر بادل نمودار ہو گیا.اور آخر جب آپ کا جنازہ میدان میں رکھا گیا.اور حضرت مسیح موعود نماز جنازہ کے لئے تشریف لائے تو ایسے قطرے آسمان سے برسنے شروع ہوئے جو بالکل رونے سے مشابہ تھے.“ (114) یه ۲۷ جنوری ۱۹۰۵ء کی بات ہے اس کا ذکر تذکرہ میں آتا ہے کہ رخسار پر اماس کے وقت یہ دعا سکھلائی گئی تھی.

Page 291

269 ۶۷- از ماسٹر فقیر اللہ صاحب) ” میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں بہت کم دعا کے لئے لکھتا تھا کیونکہ کئی دفعہ حضرت صاحب جب نماز کے لئے تشریف لاتے تو فرماتے کہ میں نے آپ سب لوگوں کے لئے دعا کی ہے.تو میرا خیال تھا کہ جب حضرت صاحب کو خود ہمارا خیال ہے اور دعا فرماتے رہتے ہیں.تو ان کے اوقات گرامی میں حارج نہیں ہونا چاہئے.چنانچہ مجھے تقریبا بارہ سال حضور کی خدمت میں رہنے کا موقع ملا.اس سارے عرصہ صرف چند بار میں نے دعا کے لئے لکھا ہوگا.شروع شروع میں جب میں نے قادیان کی رہائش اختیار کی تو عموماً مقروض رہتا ایک دفعہ حضرت صاحب کی خدمت میں قرضہ کی سبکدوشی کے لئے دعا کرنے کے واسطے عریضہ لکھا جواب میں حضور نے تحریر فرمایا دعا کیا کرو.اللہ تعالیٰ بے پرد نہ کرے.چنانچہ اس وقت سے اب تک میں حضور کے اس ارشاد کا اثر محسوس کر رہا ہوں.بڑے بڑے سخت مراحل میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بے پرد نہیں کیا.اور آئندہ بھی انشار اللہ نہیں کرے گا.بعض اوقات میں ہزاروں کا مقروض ہو گیا ہوں لیکن کبھی بے پر نہیں ہوا جس وقت کسی قرض خواہ نے مجھ سے کوئی رقم طلب کی خود اللہ تعالیٰ کوئی سبب بنادیتا ہے جو مجھے مطلوبہ رقم مل جاتی ہے اور میں ادا کر دیتا ہوں.اگر میں کسی سے کوئی وعدہ کروں تو ہر وقت میری یہ خواہش رہتی ہے کہ وقت پر وعدے کا ایفاء ہو جائے.اور اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی سامان بھی پیدا کر دیتا ہے.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يَوْتِيهِ مَنْ يَّشَاءَ.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ “ " ۲۸ - ( از مولوی صاحب موصوف ).جب میں کوئٹہ میں کمانڈر میجر جنرل ہڈلٹسن کا مینجر تھا.(یعنی ۱۹۳۶ء کے قریب.مؤلف ) میری آنکھوں میں موتیا بند کا پانی آرہا تھا.اور میں بمشکل سے پڑھ سکتا تھا.ایک انگریز ڈاکٹر ہالینڈ جو آنکھوں کا خاص ڈاکٹر تھا.اس کے پاس جنرل موصوف نے ایک رقعہ دے کر مجھے بھیجا اس نے اچھی طرح معائنہ کر کے کہا کہ تین ماہ بعد بینائی بند ہو جائے گی پھرا پریشن کروں گا.آپ تین ماہ بعد پھر آئیں میں نے حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کیا تھا.کہ مجھے حضور کا کوئی تبرک دیں تو انہوں نے ایک واسکٹ دی اور فرمایا کہ میں تم کو ایسی چیز دیتی ہوں.جو حضرت صاحب کے جسم پر خوب لگی ہوئی ہے.اور اس کے استعمال کا طریقہ بھی بتادوں.کہ جب کوئی اہم کام یا مشکل در پیش ہو تو درود شریف پڑھنے کے بعد اس کو ہاتھوں پر رکھ کر دعا کرنا.مشکل انشاء اللہ حل ہو جائے گی.یہ معنی ہیں اس کے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی حافظ نبی بخش صاحب کی طرح اس مقدس تبرک سے برکت حاصل کروں.چنانچہ تہجد کے نوافل کے بعد میں درودشریف پڑھ کر حضور کی اس

Page 292

270 واسکٹ کو آنکھوں میں لگا تا رہا.تین ماہ کے بعد پھر ڈاکٹر مذکور نے معائنہ کیا.اور کہا کہ اور تین ماہ کے بعد آیئے.دو تین بار گیا.لیکن ڈاکٹر صاحب کا منشاء پورا نہ ہوا.میں برابر لکھ پڑھ سکتا ہوں.نزول الماء جہاں تھا وہیں رکا ہوا ہے.الحمد للہ الحمد للہ ( گویا اس پر ستائیس برس گزر چکے ہیں اور اس وقت آپ کی عمر نوے برس کے قریب ہے.مولف) ۶۹.( از مولوی صاحب موصوف).ایک مرتبہ مولوی سید محمد احسن صاحب مرحوم اپنے وطن سے اپنے ساتھ ایک آدمی کو لائے.جو کان سے بہت بہرہ تھا.وہ بات سنتے وقت ایک بانس کی لمبی سی نلکی کان میں لگا لیتا تھا.مولوی صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ شخص نو دس برس سے بہرہ ہے.بہت علاج کیا.فائدہ نہیں ہوا.حضور دعا فرماویں.حضور نے جواب نہیں دیا اور تقریر شروع کر دی.تقریر ختم ہونے پر حضور جانے لگے تو وہ بہرہ آدمی اچھل کر کھڑا ہو گیا.اور اس نے نلکی تو ڑ کر پھینک دی اور کہا کہ میں نے ساری تقریر حضور کی سنی ہے.۷۰.(از ماسٹر فقیر اللہ صاحب ).ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک شخص منشی عطا محمد خاں پشاوری جو کوئٹہ میں عرائض نویس تھا.حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.مہمان خانہ میں مقیم تھا کہ اسے پاؤں کے دونوں انگوٹھوں میں نقرس کی درد شروع ہوگئی.بیچارہ سخت لاچار اور چلنے پھرنے سے عاجز ہو گیا.ایک دن ظہر کی نماز کے لئے گھٹتا ہوا چھوٹی مسجد میں نماز پڑھنے گیا.اور اس کھڑکی کے قریب بیٹھ گیا جہاں سے حضرت صاحب حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ :.ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی اپنے ایک رشتہ دار کو امروہے سے قادیان ہمراہ لائے.وہ شخص فربہ اندام ۵۰-۶۰ سال کی عمر کا ہوگا اور کانوں سے اس قدر بہرہ تھا کہ ایک ربڑ کی نلکی کانوں میں لگایا کرتا تھا اور زور سے بولتے تو وہ قدرے سنتا.حضرت صاحب ایک دن تقریر فرما رہے تھے اور وہ بھی بیٹھا تھا.اس نے عرض کی کہ حضور مجھے بالکل سنائی نہیں دیتا میرے لئے دعا فرما ئیں کہ مجھے آپ کی تقریر سنائی دینے لگے آپ نے دوران تقریر میں اسکی طرف روئے مبارک کر کے فرمایا.کہ خدا قادر ہے.اسی وقت اس کی سماعت کھل گئی.اور وہ کہنے لگا حضور مجھے ساری تقریر آپ کی سنائی دیتی ہے.اور وہ شخص نہایت خوش ہوا اور نکی ہٹا دی.اور پھر وہ سننے لگ گیا.(115) یہ روایت مختصر أسيرة المہدی حصہ اول میں ۵۱۴ پر بھی درج ہے.مولوی عبدالواحد خانصاحب کا کہنا ہے کہ حضور نے دعا کی درخواست پر جواب نہیں دیا.اس کا صرف اتنا مطلب ہے کہ ان کو علم نہیں اور عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتی سو جزئی طور پر بھی ہر دو کی روایات میں کوئی تعارض نہیں.

Page 293

271 تشریف لایا کرتے تھے.جب حضرت صاحب نماز کے لئے تشریف لائے.تو چونکہ منشی عطا محمد خاں بالکل کھڑ کی کے آگے بیٹھے ہوئے تھے غلطی سے حضرت صاحب کا پاؤں منشی عطا مجمد خاں کے دائیں پاؤں پر انگوٹھے کے اوپر پڑا معاً ان کا پاؤں اچھا ہو گیا.اور درد جاتا رہا.چنانچہ نماز سے فارغ ہو کر لکڑی کے سہارے چلتے ہوئے مہمانخانہ میں واپس آئے دوسری نماز میں یعنی عصر کے وقت پھر کھڑکی کے آگے بیٹھ گئے اور جب حضرت صاحب تشریف لائے تو اپنا دوسرا پاؤں آگے کر دیا اور عرض کیا.حضور ! میرے پاؤں پر پاؤں رکھیں.“ دو میرے روایت بالا لکھ کر بھجوا کر عرض کرنے پر کہ اسے مکمل فرما دیں حضرت ماسٹر صاحب نے تحریر فرمایا کہ:.یہ سارا واقعہ ایک ہی نماز عصر کے وقت کا ہے حضرت صاحب کے کھڑکی کے راستہ واپس ہونے پر منشی عطا محمد صاحب نے دوسرا پاؤں بھی آگے رکھ دیا.اور جب نماز سے واپس آئے مہمان خانہ تو دونوں پاؤں اچھے تھے.محترم مولوی عبدالواحد خاں صاحب میر بھی بیان کرتے ہیں کہ :.ایک مرتبہ میں اور مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب مرحوم سیالکوٹ سے دارالامان آئے حضور کو ہم نے اپنی مسجد کے مقدمہ کے حالات سنانے اور دعا کے لئے عرض کرنی تھی.یہ بہت بڑی مسجد صدر بازار چھاؤنی سیالکوٹ میں ہے حضرت مولوی فیض الدین صاحب والی مسجد موسومہ کبوتراں والی کا مقدمہ اس کے بعد ہوا ہے ہماری اس صدر والی مسجد کے مقدمہ میں حضرت چوہدری نصر اللہ خانصاحب نے بیعت کی تھی.ایک شخص کو ئٹہ سے آیا جس کے پیروں میں سات آٹھ برس سے درد تھا.اور بہت علاج کرانے سے بھی آرام نہیں ہوا.اس قدر تکلیف تھی کہ وہ بیچارہ چلنے سے معذور تھا.یکہ پر سے دو تین احمدیوں نے اتارا غالباً نماز کا وقت تھا ان صاحب نے کہا کہ نماز ہوگئی ہے؟ کہا گیا کہ ہونے والی ہے.ان کے کہنے پر دونو جوانوں نے مسجد مبارک میں پہنچایا.وہ صاحب اتفا قاد یوار سے ٹیک لگا کر اس کھڑکی کے سامنے ایک ٹانگ لبی کر کے بیٹھ گئے جس کھڑکی میں سے حضور دارا مسیح میں سے بیت الفکر کے راستہ مسجد مبارک میں تشریف لاتے تھے.جب حضور تشریف لائے تو حضور کا پیر اس کے پیر پر پڑ گیا.حضور نے افسوس ظاہر کیا آخر نماز کھڑی ہوگئی.حضور نماز کے بعد کچھ دیر تشریف فرما ہوئے اکثر حضور بیٹھ جایا کرتے اور کچھ ملفوظات طیبات فرمانے کے بعد تشریف لے جاتے.اسی نماز کے وقت یا دوسری نماز کے وقت دانستہ یا نادانستہ حضور کی آمد یا واپسی کے وقت اس نے دوسرا پیر کھڑکی کے سامنے رکھا ہوا تھا.حضور کا پاؤں اس کی ٹانگ پر پڑ گیا.حضور نے افسوس فرمایا یہ شخص بغیر کسی تکلیف کے خود بخود بغیر سہارے چلا گیا.اور پھر درد کی شکایت نہیں ہوئی.اس کا بیان ہے کہ مجھے بالکل صحت ہوگئی.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب میاں عطا محمد صاحب موصوف کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ:.آپ شہر پشاور علاقہ یکہ توت کے باشندے تھے اور کوئٹہ بلوچستان میں عرائض نویس تھے.بقیہ اگلے صفحہ پر

Page 294

272 اے.(از مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ).ایک دفعہ ایام جلسہ میں سیر سے واپسی پر ایک دوست نے عرض کیا کہ مولوی مبارک علی صاحب سیالکوئی اپنی کو ئی نظم سنانا چاہتے ہیں اس پر جہاں اب مدرسہ تعلیم الاسلام ہے حضور علیہ السلام تھوڑی دیر کیلئے ٹھہر گئے.مگر ایک دوست نے چادر بچھادی جس کو پہنچابی میں لوئی کہتے ہیں.اس پر حضور بیٹھ گئے.مگر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جوا بھی بچہ تھے کھڑے رہے.اس پر حضوڑ نے دیکھ کر فرمایا میاں محمود ! تم بھی بیٹھ جاؤ.اس پر آپ چادر پر بیٹھ گئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی فرماتے ہیں.”حضرت صاحب کا عام طریق یہ تھا کہ یا تو اپنے بچوں کو صرف نام لیکر بلاتے تھے اور یا خالی میاں کا لفظ کہتے تھے میاں کے لفظ اور نام کو لا کر بولنا مجھے یاد نہیں مگر ممکن ہے کسی موقعہ پر ایسا بھی کہا ہو.“ ( روایت ۶۰ ۵ سیرۃ المہدی ) د ۷۲.( از مولانا صاحب موصوف ).ایک دفعہ ایام جلسہ میں حضور ٹھیکر یوالہ کی طرف مع خدام سیر کو تشریف لے گئے.واپسی پر دو تین جگہ حضور تشریف فرما ہوئے.جہاں جہاں آپ بیٹھے وہ وہ جگہیں ہیں جہاں اب حضرت نواب محمد علی خانصاحب کی کوٹھی.اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت و بورڈنگ ہے دوستوں نے نظمیں پڑھیں اور حضور نے سنیں.‘ (116).‘‘ ۷۳.(از مولانا صاحب موصوف ).ایک دن جب سیر کو جانے سے قبل حضور علیہ السلام چوک متصل مسجد مبارک میں قیام فرما تھے تو آپ نے خاکسار کو فرمایا کہ مولوی صاحب (یعنی حضرت خلیفہ اول ) کو بلا لاؤ.خاکسار بلالایا.سیر میں جب مولوی صاحب حضرت مسیح موعودؓ سے پیچھے رہ جاتے تو حضور علیہ السلام سے عرض کیا جا تا کہ حضور ! مولوی صاحب پیچھے رہ گئے ہیں تو حضور علیہ السلام صرف قیام ہی نہ فرماتے بلکہ بعض اوقات بقیہ حاشیہ:.ساری عمر کوئٹہ میں گزاری.آپ حضرت مولانا غلام حسن خانصاحب کے شاگرد تھے اور انہی کی وجہ سے احمدیت کی طرف رغبت ہوئی.حضرت احمد علیہ السلام کے زمانہ میں داخل احمدیت ہوئے کبھی کبھی جب پشاور آتے تو حضرت مولانا کو ملنے آتے.حضرت نورالدین کے زمانہ خلافت میں بھی بقید حیات تھے.اختلاف کے زمانہ میں فوت ہوئے معلوم نہ ہوسکا کہ کب اور کہاں فوت ہوئے.مگر بظاہر خاموش طبع اور صالح انسان معلوم ہوتے تھے غالبا کوئٹہ میں فوت ہوئے.مزید حالات معلوم نہیں.( تاریخ احمدیہ (117) خطوط وحدانی والی عبارت کا اضافہ الحکم بابت ۲/۳۵/ ۲۸ سے کیا گیا ہے.الحکم میں صرف محمود ہے میاں محمود نہیں.گویا مولا نا صاحب کے حافظہ کا اصرار میاں محمود پر نہیں.

Page 295

273 مولوی صاحب کی طرف لوٹتے بھی تا کہ مولوی صاحب جلدی سے آکر مل جائیں.“ اس پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں:.ایسا نظارہ میں نے بھی متعدد دفعہ دیکھا ہے.مگر واپس لوٹنا مجھے یاد نہیں بلکہ میں نے یہی دیکھا ہے کہ ایسے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام انتظار میں کھڑے ہو جایا کرتے تھے.اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت خلیفہ اول بہت آہستہ چلتے تھے.اور حضرت صاحب بہت زود رفتار تھے مگر اس زود رفتاری کی وجہ سے وقار میں فرق نہیں آتا تھا.“ (118) ۷۴.( از مولانا صاحب موصوف ).ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مسیح موعود نے فرمایا.کہ سب کو ایک ہی کھانا دیا جائے.خواجہ کمال الدین صاحب نے کہا کہ حضور ! غریب تو دال کو بھی غنیمت سمجھتے ہیں کیونکہ بعض غرباء ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اپنے گھر میں دال بھی میسر نہیں آتی ) حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا.دوسرے کو گوشت یا پلاؤ ) کھاتے دیکھ کر تو ان کے دل میں بھی خواہش ہوتی ہے.کہ ہمیں بھی گوشت ( یا پلاو ) ملے.اس لئے سب کو ایک ہی کھانا دیا جائے.( گوشت.پلا ؤ وغیرہ دو تو سب کو دال دو تو سب کو.میرے مرید خواہ وہ غریب ہوں یا امیر میرا ان کے ساتھ ایک ہی جیسا تعلق ہے ).(119) ۷۵.( از مولانا صاحب موصوف ).جن دنوں ایڈیٹر اخبار وطن نے مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب سے کہا تھا کہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز بہت عمدہ ہے اگر اس میں...حضرت مسیح موعود کا ذکر نہ ہو تو ہم اس کی خریداری کو دس ہزار تک پہنچا دیں گے.مولوی صاحب اس بات پر رضا مند ہو گئے کہ حضرت مسیح موعود کا ذکر چند صفحات پر بطور ضمیمہ کے چھپوا کر احمدی خریداروں کو بھیج دیا کریں.اور دوسرے خریداروں کو بغیر اس ضمیمہ کے.حضرت مسیح موعود نے علم ہونے پر فرمایا کہ خواجہ صاحب مجھ کو چھپا کر آپ کو نسا اسلام دنیا کے سامنے پیش کریں گے.اسلام کا زندہ ثبوت تو میں ہوں.“ (120) ۷۶.(از مولانا صاحب موصوف ).(۱۹۰۶ء کے ) سالانہ جلسے کے بعد (واپسی پر ) خواجہ کمال الدین صاحب ( حضرت مسیح موعود کو ملنے کے لئے وہاں تشریف لائے ) مسجد مبارک میں آئے اور حضور ان کو رخصت کرنے کیلئے وہاں تشریف لائے ) مسجد مبارک ان دنوں بہت چھوٹی سی تھی.جس میں پانچ آدمی بعد ی خطوط وحدانی والے الفاظ الحکم بابت ۲/۳۵/ ۲۸ سے زائد کئے ہیں.

Page 296

274 مشکل کھڑے ہو سکتے.حسن اتفاق سے میں بھی اس وقت حاضر خدمت ہو گیا.خواجہ صاحب نے کہا کہ حضور! آپ نے جو سعد اللہ لدھیانوی کے متعلق حقیقۃ الوحی کے حاشیہ پر ( تحدی سے ) لکھا ہے کہ اس کا بیٹا جو ۲۲ سال کا ہو چکا ہے وہ نامرد ہے.حضور اس حاشیہ کو کاٹ ڈالیں.کیونکہ اگر سعد اللہ نے مقدمہ کر دیا.تو پھر اس کے بیٹے کا نامرد ثابت کرنا مشکل ہوگا.(اس کا ثبوت ہمارے پاس کوئی نہیں ) حضور علیہ السلام نے فرمایا.کہ میں نے خدا تعالیٰ کی مرضی سے لکھا ہے میں اس کو نہیں کاٹوں گا خواجہ صاحب نے کہا کہ حضور نے یہ کوئی الہام سے تو نہیں لکھا.حضور نے فرمایا:.خدا تعالیٰ کی سنت میرے ساتھ یوں ہے کہ جو اس کے منشاء کے برخلاف ہواس سے وہ مجھے روک دیتا ہے.اس حاشیہ کے لکھنے سے چونکہ اس نے مجھے روکا نہیں.لہذا اس کی منشاء اور مرضی ہے.خواجہ صاحب نے پھر کہا کہ حضور مجھے تو بہت ہی گھبراہٹ رہے گی.جب تک آپ اس کو کاٹیں نہیں.حضور علیہ السلام نے (مسکراتے ہوئے ) جواب میں فرمایا.اگر سعد اللہ مقدمہ کر یگا تو ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہم آپ کو وکیل نہیں بنائیں گے.اس پر وہ خاموش ہو گئے.لیکن ان کے جانے کے بعد تیسرے دن جب حضرت مسیح موعودؓ بمعہ خدام سیر کو تشریف لے جارہے تھے تو مولوی محمد علی صاحب نے حضور سے عرض کی کہ خواجہ صاحب کا لاہور سے خط آیا ہے کہ رات مجھے نیند نہیں آئی.کہ اگر سعد اللہ نے دعویٰ کر دیا.تو پھر اس کو ثابت کرنا مشکل ہے چین کی دو ہی صورتیں ہیں کہ حضرت صاحب اس حاشیہ کو کاٹ ڈالیں یا پھر سعد اللہ مر جائے.حضور علیہ السلام نے سن کر فرمایا.کوئی تعجب نہیں کہ سعد اللہ جلد ہی مرجائے.“ دوسرے دن جب حضور سیر کیلئے تشریف لائے.تو سیڑھیوں پر سے اترتے ہی گول کمرے کے پاس مجھے فرمایا.مولوی صاحب (خلیفہ اول) کو بلا لاؤ.راستہ میں فرمایا :.آج مجھے الہام ہوا ہے.رَبَّ أَشْعَثَ اَغْبَرَ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَابَرَّهُ....( 121 ).جس کا ترجمہ یہ ہے کہ بہت سے خدا کے بندے غبار آلودہ جسم والے اور پراگندہ بالوں والے لوگوں کی نظروں میں معمولی ہیں لیکن خدا کے نزدیک ان کا اتنا مرتبہ ہے کہ اگر اپنے بھروسے پر کوئی لفظ زبان سے نکالیں تو خدا ان کو پورا کرتا ہے.اس الہام کے بعد فرمایا.معلوم ہوتا ہے کہ یہ سعد اللہ کی موت کے متعلق ہے جو کل ہم نے بیان کیا تھا.تیسرے دن جب پھر حضور سیر کے لئے تشریف فرما ہوئے تو خاکسار کو ہی حضرت خلیفہ اول کو بلانے کے لئے بھیجا راستہ میں آپ نے فرمایا:.

Page 297

275 رات جولدھیانہ سے تار آیا ہے اس میں مولوی سعد اللہ کی موت کا ذکر ہے.جو اچانک اس کو طاعون ہو کر واقع ہوئی.پھر مولوی محمد علی صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا:.مولوی صاحب ! خواجہ صاحب کو لکھو کہ آپ تو لکھتے تھے کہ اس حاشیہ کو کاٹ ڈالو.لیکن اب تو اللہ تعالیٰ اس کے متعلق کچھ اور لکھانا چاہتا ہے.چنانچہ حضور علیہ السلام نے تمہ حقیقۃ الوحی میں دوبارہ اس نشان کو تشریح سے بیان فرمایا ہے.(الحکم ۲/۳۵/ ۲۸ صفر ۴۳) ۷۷.( از مولانا صاحب موصوف ) ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر حضرت صاحب کی تقریر کرنے کے لئے منبر مسجد اقصیٰ کے صحن میں اندر کی طرف دیوار کے ساتھ رکھا گیا.شیخ مولا بخش صاحب بوٹ فروش سیالکوٹی نے جو بعد میں غیر مبائع ہو گئے.حضرت صاحب سے اس وقت عرض کیا جب حضور" منبر پر تشریف فرما ہوئے کہ حضور خواجہ صاحب وغیرہ دوست مسجد کے صحن کی مشرقی دیوار کے پاس ہیں ( گویا زیادہ لوگ باہر ہیں ) اس لئے منبر کو صحن میں آگے کی طرف رکھنا چاہئے تا کہ ان کو بھی آواز پہنچے.حضرت مسیح موعود نیچے اتر آئے.تاکہ منبر آگے کر کے رکھا جائے اس پر ان دوستوں میں سے جو مسجد کے اندر بیٹھے ہوئے تھے.ایک نے کہا کہ اگر صحن میں آگے کر کے ممبر رکھا گیا تو اندر والے دوستوں کو جن میں چوہدری نصر اللہ خانصاحب بھی ہیں آواز نہیں آئے گی.اس لئے یہاں ہی منبر رکھا رہنا چاہئے.اس پر حضرت مسیح موعود پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے.جوں ہی آپ بیٹھے تھے کہ پھر شیخ مولا بخش صاحب نے دوبارہ کہا کہ نہیں حضور ! مسجد کا اندر نزدیک ہے.منبر کو آگے کرنے سے بھی اندر والے دوستوں کو آواز پہنچتی رہے گی.اس پر حضور پھر اتر پڑے.اس بارہ میں سیرۃ المہدی میں مولوی صاحب کی روایات ۷۴۳٬۳۸۷ دروایات مندرجہ حیات بقا پوری حصہ دوم صفحہ ۹۸، ۹۹ سے خطوط وحدانی والے الفاظ درج کئے گئے ہیں روایت ۳۸۷.پر مولف سیرۃ المہدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب زاد مجددہ تحریر فرماتے ہیں:.خواجہ صاحب نے از راہ ہمدردی اپنی رائے پر اصرار کیا ہوگا کہ مبادا یہ بات شماتت اعداء کا موجب نہ ہو جائے.مگر ان سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے صرف ایک قانون دان کی حیثیت میں غور کیا اور اس بات کو نہیں سوچا کہ خدائی تصرفات سب طاقتوں پر غالب ہیں.نیز فرمایا :.”اب سعد اللہ کا لڑکا بھی لا ولد مر چکا ہے.“

Page 298

276 اور اندر والا شخص ( جو وہ بھی اب غیر مبائع ہے) پھر بولنے لگا.تو محترمی چوہدری نصر اللہ خانصاحب نے اس کو ختی سے روکا کہ شیخ صاحب تو گستاخی کر رہے ہیں تم ہی باز آ جاؤ.جس پر وہ خاموش ہو گیا.اور منبر آگے کر کے بچھایا.گیا اور حضور نے تقریر فرمائی.( الحکم مورخہ ۲/۳۵/ ۲۸ صفحه۴) * ۷۸.( از مولانا صاحب موصوف ).ایک دفعہ ایام جلسہ میں نماز جمعہ کے لئے مسجد اقصیٰ میں تمام لوگ سمانہ سکتے تھے.تو کچھ لوگ جن میں خواجہ کمال الدین صاحب بھی تھے ان کو ٹھوں پر جواب مسجد میں شامل ہو گئے ہیں اور پہلے ہندوؤں کے گھر تھے.نماز ادا کرنے کے لئے چڑھ گئے.اس پر ایک ہند و مالک مکان نے گالیاں دینا شروع کر دیں.کہ تم لوگ یہاں شور با کھانے کے لئے آجاتے ہو.اور میرا مکان گرانے لگے ہو.غرضیکہ کافی عرصہ تک بدزبانی کرتا رہا.نماز سے سلام پھیرتے ہی حضور نے فرمایا.کہ دوست مسجد میں آجائیں.(اور مسجد میں عصر کی نماز ادا کریں) چنانچہ دوست آگئے.اور بعد جمع صلو تین حضور منبر پر رونق افروز ہوئے اور ایک مبسوط تقریر فرمائی.جس میں قادیان کے آریہ (لوگوں نے اس قدر نشان دیکھے ہیں کہ یہ ) نہیں بچ سکتے.اس وقت حضور کی طبیعت میں اس قدر جوش تھا کہ اثنائے تقریر میں آپ بار بار عصائے مبارک زمین پر مارتے تھے.“ مولف سیرۃ المہدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ اس پر فرماتے ہیں کہ :.عصاء کو زمین پر مارنے سے یہ مراد نہیں کہ لٹھ چلانے کے رنگ میں مارتے تھے.بلکہ مراد یہ ہے کہ جو چھڑی آپ کے ہاتھ میں تھی اسے آپ کبھی کبھی زمین سے اٹھا کر اس کے سم سے زمین کوٹھکراتے تھے جیسا کہ عموماً جوش کے وقت ایسا شخص کرتا ہے جس کے ہاتھ میں چھڑی ہو.(روایت ۸۰۲.سیرۃ المہدی) و ۷۹.( از مولانا صاحب موصوف ).ایک دفعہ سالانہ جلسہ کے ایام میں حضرت اقدس اپنے خدام کے ساتھ بڑے بازار سے گذر کر ریتی چھلہ میں لسوڑھی کے درخت کے پاس ٹھہر گئے اور خدام پروانہ وار مصافحہ کی خاطر ایک دوسرے پر گرنے لگے کسی دوست نے کہا.بھائیو اتحمل سے کام لو کیوں بے تابی کا مظاہرہ کرتے ہو.اس سے حضور کو بھی تکلیف ہورہی ہے.اس پر ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کہنے لگے.لوگ کیا کریں تیرہ سو سال کے بعد ایک نبی کا مبارک چہرہ نظر آیا ہے.نیز اسی مجلس میں ایک شخص بلند آواز سے الصَّلَوةُ وَ الْسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا حیح اس بارہ میں مولانا صاحب کی سیرۃ المہدی میں مندرجہ روایت (۸۰۳) سے اضافہ کردہ الفاظ خطوط واحدانی میں دئے گئے ہیں.خطوط وحدانی والے الفاظ الحکم بابت ۲/۳۵/ ۲۸ سے زائد کئے گئے ہیں.

Page 299

277 رَسُولُ اللَّهِ.اَلصَّلَوةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَانَبِی اللَّهُ پڑھتا تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کبھی اس طرف چشم مبارک اٹھا کر دیکھتے اور آپ کے چہرہ مبارک سے بشاشت مترشح ہوتی تھی.“ (122) ۸۰.( از مولانا صاحب موصوف ).ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے حضرت مسیح موعود سے عرض کیا کہ:.رسالة تشحيذ الاذہان کے اجراء کے وقت بطور ایڈیٹوریل حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کا مضمون شائع ہونے پر مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ اشاعت السنہ میں ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ہم تو خیال کرتے تھے کہ یہ سلسلہ (حضرت ) مرزا صاحب ( مسیح موعود ) کی زندگی تک ہی رہے گا.مگر یہ مضمون پڑھ کر معلوم ہوا کہ آپ کے بعد آپ کا لڑکا اس گدی یادکان) کو اچھی طرح چلائے گا.جب اس کا ذکر حضرت مسیح موعود سے کیا گیا.تو حضور علیہ السلام نے حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف محبت بھری نگاہوں سے دیکھا ( اور زبانی کچھ نہ فرمایا.ایسا معلوم ہوتا تھا) گویا کہ آپ کے لئے دعا فرمارہے ہیں خاکسار بھی اس مجلس میں حاضر تھا.“ ( حیات بقا پوری حصہ دوم صفحه ۱۰۵) جو ۱ - ( از مولانا صاحب موصوف ) جلسه سالانه ۱۹۰۶ء پر مکرم میر حامد شاہ صاحب چوہدری نصر اللہ خاں صاحب حافظ مولوی محمد فیض الدین صاحب ، خاکسار اور جماعت سیالکوٹ کے بعض احباب حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے.میر حامد شاہ صاحب نے ایک تھیلی روپوں کی نذرانے میں پیش کی حضور علیہ السلام نے تحصیلی اپنے دست مبارک میں لئے ہوئے فرمایا.الحمد للہ اور پھر فرمایا.جزاکم اللہ “ (صفحہ ۱۰۷) ۲.محترم ڈاکٹر عطر الدین صاحب کا نام “ جنازہ حضرت مسیح موعود اور اہل بیعت حضور کے ساتھ لاہور سے ریل گاڑی میں بٹالہ تک آنے والی مختصر فہرست میں موجود ہے.(123) ☆☆ حضور ۲۷ اپریل ۱۹۰۸ء کو آخری قیام لاہور میں میں صبح و شام دو وقت حضور کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا.وفات سے ایک روز پہلے یعنی ۲۵ مئی کو عصر کی نماز میں حضور نے شرکت فرمائی.جب حضور بعد نماز اندرون خانہ تشریف لے جانے لگے تو چونکہ اس وقت مجھے حضور میں بہت زیادہ کشش اور جاذبیت محسوس ہوئی تھی.ہے دل کرتا تھا کہ حضور سے لپٹ جاؤں.تا ہم حضور آخری بار مغرب سے پہلے سیر کے لئے گئے.اس پہلے میں نے خطوط وحدانی میں مولانا صاحب کی روایت مندرجہ سیرۃ المہدی سے اضافہ کیا ہے.(روایت نمبر ۶۵۲) ے حضور کی آخری تقریر جو حضور نے ۲۵ مئی کو قبل عصر فرمائی تھی.درج کرتے ہوئے حضرت بھائی بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 300

278 نیچے سے حضور کو دیکھا کہ احمد یہ بلڈنگ میں چھت پر ٹہل کر مضمون لکھ رہے ہیں.حضور کی مبارک زندگی میں میری یہ آخری زیارت تھی.۲۶ مئی کو میں حسب معمول صبح آیا تو مخالفین سلسلہ کو احمد یہ بلڈنگکس کے قریب نگ انسانیت حرکات کرتے دیکھا تب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود کا وصال ہو چکا ہے.إِنَّ لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اندر جا کر دیکھا تو حضور کے جسم مبارک پر چادر ڈالی ہوئی تھی.میں نے حضور کی پیشانی پر بوسہ دیا.اور پھر جنازہ کے ہمراہ ریل میں بٹالہ تک اور بٹالہ سے قادیان تک پیدل آیا اور جنازہ کو کندھا دینے کا موقع بھی ملا.اور حضرت خلیفہ اول کی اولین بیعت میں شریک ہوا.حضرت مسیح موعود کی نعش مبارک کی آخری بار زیارت کی اور تدفین میں شرکت کی.۳ - ( از مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری) ” غالباً ۱۹۰۶ء کے سالانہ جلسے کے موقع پر آپ نے اپنی وفات کا ذکرتے ہوئے فرمایا:.”میری موت اب قریب ہے اور میں جب اپنی جماعت کی حالت کو دیکھتا ہوں تو مجھے اس ماں کی طرح غم ہوتا ہے جس کا دو تین دن کا بچہ ہو اور وہ مرنے لگے.لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدے پر مجھے کامل یقین ہے.کہ وہ میری جماعت کو ضائع نہیں ہونے دیگا.یہ ایک دل کا اطمینان ہے.“ ( 124 ) اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلَّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد ط تَمَّت بالخَير بقیہ حاشیہ:.عبدالرحمن صاحب قادیانی تحریر کرتے ہیں.کہ:.دوران تقریر میں آپ کا چہرہ اس قدر روشن اور درخشاں ہو گیا تھا کہ نظر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں جاتا تھا.حضور کی تقریر میں ایک خاص اثر اور جذب تھا.رعب ، ہیبت اور جلال اپنے کمال عروج پر تھا.(الحکم ۱۸/۷/۰۸ صفحہ۸)

Page 301

279 ا.البدر 6 جولائی 1905 ء حوالہ جات اصحاب احمد جلد دہم ۲.الحکم 24 فروری 1905 ء ص 6 ک4، ص8 ک1..خطبات محمود جلد 3 ( خطبات نکاح )صفحہ 31 فرمودہ 22 جون 1918ء الفضل 15 فروری 1923 ء.ص.3.۵- اصحاب احمد جلد ششم صفحه 88 +1 - بدر 20 جون 1908ء - ص -3- ک2.بدر 25 جنوری 1912 ء ص 11 ک 1.رسالہ تعلیم الاسلام بابت ماہ دسمبر 1906ء صفحہ 223.بدر مورخہ 26 جولائی 1906 ء ص 2 ک 1.الفضل 12 مارچ 1944 ء ص 4.11.ریویو آف ریجنز بابت ماہ اپریل 1944 ء ص 40.الفضل 25 جولائی 1947 ء ص 5.۱۳ آئینہ صداقت انوار العلوم جلد 3 صفحہ 202-207 ۱۴.آئینہ صداقت انوار العلوم جلد 3 صفحہ 253 ۱۵.الفضل 12 اپریل 1957 ص 1 ، 8.١٦- العنكبوت - 70 ۱۷.تذکرہ صفحہ 41 طبع 2004ء.۱۸ تشخید الاذہان بابت ماہ اکتوبر 1916 ص 52.

Page 302

280 ۱۹.تحریک جدید کے پنج ہزاری مجاہدین.صفحہ 96-97.۲۰.الحکم 14 / 7 نومبر 1940ء.۲۱.تذکرہ صفحہ 382 طبع 2004ء.۲۲.بدر 13 فروری 1903 ء.۲۳ - البقره - 217.۲۴.الفضل 7 فروری 1959ء ۲۵.الحکم 14 جنوری 1923ء.۲۶.بدر 9 جون 1908ء ۲۷.الحام 21 مارچ 1914 ء.الفضل 18 مارچ 1914.۲۸.الحکم 21 فروری 1910ء ص 5 - 7 مارچ 1910 ء ص 7- 20 مئی 1910 ء ص 10-28 مئی 1910 ءص 10.۲۹.رپورٹ مجلس مشاورت 1930.رپورٹ مجلس مشاورت 1930 - ص 35.۳۱.ملخص از الحام 14/21 ستمبر 1909 صفحہ 5،4.۳۲.تحریک جدید کے پنج ہزاری مجاہدین.صفحہ 6-7.۳۳.تتمہ حقیقۃ الوحی زیر نشان 197 - روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 532.۳۴.ریویو آف ریلیچنز اپریل 1918ء ص 157.۳۵.الحجرات.12 ۳۶.التین : 5-6.۳۷.الفضل 18 جولائی 1943ء ۳۸.الحکم 14/21 نومبر 1940ء تحریک جدید کے پنج ہزاری مجاہدین.صفحہ 7.۴۰.البدر 9 فروری 1906ء.

Page 303

281 ۴۱.التحریم.9.الفضل 31 جولائی، یکم اگست 1943ء.۴۳.بدر 4 ستمبر 1903ء ۴۴.بدر 23 اکتوبر 1903 ۴۵ - الفضل 25 جون 1923 ء - صفحہ 1 ۴۶ - الفضل 25 جون 1923 ء.صفحہ 1 ۴۷.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین.صفحہ 300 ۴۸.اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ 201 -۴۹.مسند احمد بن حنبل جلد 1 - صفحہ 219.۵۰ - الحکم 30 مارچ 1908 ، صفحہ 2 ک 2 ، 3- بدر 2 اپریل 1908ء.صفحہ 2 ک3 ۵۱.تذکرہ صفحہ 671 طبع 2004ء.۵۲.اصحاب احمد جلد دوم صفحہ 827.۵۳ - تشخیز الاذہان بابت ماہ نومبر 1910 صفحہ 399.۵۴.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین.ص6.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین.ص6.۵۶ الفضل 18 مارچ 1961 ء ص 4 ک2.۵۷.یکم اکتوبر 1959ء ۵۸ بدر 15 - اکتوبر 1959ء ۵۹ - الفضل 30 ستمبر 1959 ء -٦٠ الفضل 19 جون 1957 ص 4.۶۱.تفسیر کبیر جلد جہارم صفحہ 307.۶۲ - الحام 21 اپریل 1914 ء ص 8 ک 1.۶۳ - الفجر : 28 تا 31

Page 304

282 ۶۴.آل عمران.56.۶۵.الفضل 30 جولائی 1913 ص1.- الفضل 24 اکتوبر 1955ء - ۶۷.البقرہ:.156.- الفضل 9 اپریل 1959 ص4.4.الفضل 21 اپریل 1914‘.زیر مدینہ مسیح ۷۰ - الفضل یکم ستمبر 1957 ے.رپورٹ مجلس مشاورت 1922 ، صفحہ 30 ۷۲.رپورٹ مجلس مشاورت 1922 ، صفحہ 55.۷۳.رپورٹ مجلس مشاورت 1927 ء ص 49،42.۷۴.الرحمت 7 اگست 1950 ء.۷۵.رپورٹ مجلس مشاورت 1936 ص 26.۷۶.خطاب جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1922 ء انوار العلوم جلد 7 صفحہ 5-6- ۷۷.الفضل 23 جون 1938 ء.۷۸.تذکرہ صفحہ 382 طبع 2004ء.۷۹.تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 97 تا 152 - روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 533 تا 590 - ۸۰.مسند امام احمد بن حنبل - الجزء الثالث.مسندابی سعید الخدری.(مفہوماً) ۸۱.سیرت المہدی جلد سوم روایت نمبر 489 صفحه 19 ۸۲.سیرت المہدی جلد سوم روایت نمبر 742 صفحه 164 ۸.حیات بقا پوری صفحہ 103.۸۴.سیرت المہدی جلد سوم روایت نمبر 817.صفحہ 229 ۸۵.سیرت المہدی جلد سوم روایت نمبر 730 - صفحہ 159 ۸۶.سیرت المہدی جلد سوم روایت نمبر 728 صفحہ 158 -

Page 305

283 ۸۷ - الانعام : 123 - ۸۸.سیرت المہدی جلد سوم روایت نمبر 657 صفحہ 112 ۸۹ - سیرت المہدی جلد سوم روایت نمبر 658 صفحہ 112 - 113 ۹۰ - سیرت المہدی جلد سوم روایت نمبر 792 صفحہ 215 ۹۱ - سیرت المہدی جلد سوم روایت نمبر 801 صفحہ 220 ۹۲ - سیرت المہدی جلد سوم روایت نمبر 804 صفحه 221 ۹۳.حیات بقا پوری حصہ دوم صفحہ 60 ۹۴.الحکم 28 فروری 1935 صفحہ 5 ۹۵ - سیرت المہدی جلد سوم روایت نمبر 582 صفحہ 56 ۹۶.المائده: 68- ۹۷.صحیح البخاری کتاب العلم باب حفظ العلم.(مفہوماً) ۹۸.حیات بقا پوری حصہ دوم صفحہ 100 ،101 ۹۹.سیرت المہدی جلد سوم روایت نمبر 791 - صفحہ 215 ۱۰۰.حیات بقا پوری حصہ دوم صفحہ 103 - 104 ۱۰۱.سیرت المہدی جلد سوم روایت نمبر 490 صفحہ 19 - 20 ۱۰۲.حیات پتا پوری حصہ دوم صفحہ 104 ۱۰۳.حیات بقا پوری حصہ اول صفحہ 157 تا 159 ۱۰۴.تذکرہ صفحہ 631 طبع 2004ء ۱۰۵.الحام 28 فروری 1935ء.١٠٦ الفضل 12 جولائی 1947 ء ص 3 ۱۰۷.تذکرہ صفحہ 677 طبع 2004ء.١٠٨ - الفضل 23 جون 1938 ء.109.الحکم 21 فروری 1903 ء.البدر 27 فروری 1903 ، صفحہ 44-45

Page 306

284 ۱۱۰.تذکرہ صفحہ 569 طبع 2004ء.ا.حیات بقا پوری حصہ دوم صفحہ 99-100 ۱۱۲.حیات بقا پوری حصہ دوم صفحہ 99 ۱۱۳.تذکرہ صفحہ 442 طبع 2004ء - ۱۱۴ ریویو آف ریلیجنز بابت ماہ اکتوبر 1905 صفحہ آخر سر ورق.۱۱۵.اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 179.۱.الحکم 28 فروری 1935 صفحہ 4 ۱۱۷.تاریخ احمدیت سرحد - صفحہ 159 - 160 ۱۱۸.سیرت المہدی جلد سوم روایت نمبر 581 صفحہ 56 ۱۱۹.حیات بقا پوری حصہ دوم صفحہ 104.۱۲۰.حیات بقا پوری حصہ دوم صفحہ 104 - 105.۱۲۱.تذکرہ صفحہ 581 طبع 2004ء.۱۲۲.حیات بقا پوری حصہ اول صفحہ 159.۱۲۳.بدر 2 جون 1908 ء ص 3 ک2.حاشیہ.۱۲۴.احکام 28 فروری 1935 ء

Page 307

285 حصہ دوم

Page 308

286

Page 309

287 بسم الله الرحمن الرحيم احباب کپورتھلہ فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے کپورتھلہ کے دوستوں سے دلی محبت ہے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میرے ساتھ ہوں گے.فرمایا حضرت مصلح موعود (رضی اللہ عنہ ) نے : احباب کپورتھلہ بفضلہ تعالیٰ بڑے بڑے ابتلاء میں محفوظ رہے اور انہوں نے اپنے اندر عشق پیدا کیا.اُن کا یہی اخلاص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہاں کھینچ کر لے گیا اور حضرت اُم المومنین کو اور مجھے بھی (۱۹۰۹ء میں ) انبیاء کی صحبت وقرب حاصل کرنے والے خلفاء کے بعد دوسرے درجہ پر امن وسکون کا باعث ہوتے ہیں.ان کی قدر کرو اور ان کے نقش قدم پر چلو.منشی حبیب الرحمن صاحب حضرت اقدس کے پرانے مخلصین وسابقین میں سے تھے.جماعتیں ان کا جنازہ پڑھیں تو موجب رضائے الہی ہوگا.☆ فرمایا حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے : احباب کپورتھلہ کی ملاقات کے وقت حضرت اقدس کا ان گفتگو نرالا ہوتا تھا.وہ تمہارے ساتھ بے تکلف تھے اور تمہاری ناز برداری کرتے تھے.

Page 310

288

Page 311

289 بسم الله الرحمن الرحيم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ عرض حال الْحَمْدُ لِله کہ صحابہ کرام میں سے ایک جلیل القدر صحابی حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی رضی اللہ عنہ کی روایات جو دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت ہیں، تین بار شائع کرنے کا خاکسار کو موقعہ ملا ہے.جلد ہذا میں کپورتھلہ کے احباب میں سے حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب ضی اللہ عنہ کی روایات و سوانح ہدیہ ناظرین کرنے کی توفیق خاکسار کو اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے عطا ہوئی ہے.کئی سال کی کاوش کا یہ نتیجہ ہے.بعض موانع بھی حائل رہے.ایک نئے سلسلہ تالیفات، تین سو تیرہ اصحاب احمد کی جلد دہم ہے.اولین نو جلد میں ابھی زیر تکمیل ہیں.احباب سے دُعاؤں کی التجا ہے کہ اللہ تعالیٰ تالیف کے کام کی توفیق خاکسار کو عطا فرمائے اور اسے اپنی ستاری سے قبول فرمائے اور خاکسار کا خاتمہ بالخیر ہو.خاکسار ملک صلاح الدین درویش ۶ار جمادی الثانی ۱۴۰۰ ہجری قمری ۲ ہجرت ۱۳۵۹ هجری شمسی ۲ رمئی ۱۹۸۰ء عیسوی بیت اله عا ، دارایح قادیان (بھارت)

Page 312

290 مسودہ کے بارہ میں مسودہ کی منظوری نظارت خدمت درویشان سے ساڑھے چار سال سے ملی ہوئی ہے.لیکن طباعت کے سامان میسر نہیں آسکے تھے.میں ممنون ہوں محترم مرزا خورشید احمد صاحب ناظر خدمت در ویشان کا، نیز محترم مولوی نور الحق صاحب انور فاضل ( سابق مجاہد مشرقی افریقہ دریاست ہائے متحدہ امریکہ ) کا جو قریب میں وفات پاچکے ہیں اور محترم مختار احمد صاحب ہاشمی ( سابق ہیڈ کلرک نظارت خدمت درویشان) کا کہ دونوں نے محترم ناظر صاحب کی ہدات پر سارا مسودہ گہری نظر سے مطالعہ کیا اور مجھے مفید مشورے عطا کئے.فجزاھم اللہ احسن الجزاء.مرحوم بار بار مجھے کہلواتے رہے کہ اس کتاب کو جلد طبع کرواؤں.آخری بار وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے اُن کا ایسا پیغام ملا تھا.آپ جامعہ احمدیہ قادیان میں خاکسار کے شاگر در ہے تھے.اپنی حد درجہ منکسرانہ طبع کے باعث بہت احترام سے پیش آتے تھے.رضی اللہ عنہ وارضاہ.آمین مؤلف ۱۷ ہجرت ۱۳۶۴ ہش (۷ ارمئی ۱۹۸۵ء)

Page 313

291 بِسم الله الرَّحمَنِ الرَّحِيم دیباچہ b حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب کی سوانح حیات کے مرتب کرنے کے لئے سلسلہ کے لٹریچر کے علاوہ خاص طور پر ذیل کے ماخذوں سے استفادہ کیا گیا ہے: (1) حیات احمد و مکتوبات احمدیہ ( تالیفات حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) (۲) منشی صاحب کی ایک قلمی کاپی.(۳) آپ نے اپنے فرزند شیخ عبد الرحمن صاحب کو بہت سی باتیں لکھوائیں جس کا ذکر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ذیل کے مکتوب بنام شیخ عبدالرحمن صاحب میں ہے: بسم الله الرَّحمنِ الرَّحِيم QADIAN مگرم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۱۸/۲/۲۴ میں آپ کے والد صاحب کا بہت مشکور ہوں کہ انہوں نے سیرت المہدی کے لئے مواد جمع کرنے کا کام شروع کر دیا ہے.جب پچاس ساٹھ صفحے لکھے جایا کریں تو مجھے بھجوا دیا کریں.اور اس بات کا خاص خیال رکھا جاوے کہ ہر واقعہ کی تاریخ حتی الوسع ضبط میں آجاوے.اگر تاریخ یا ماہ یاتسن یاد نہ ہو تو کم از کم اتنا نوٹ ضرور دیا جاوے کہ یہ فلاں زمانہ کا واقعہ ہے.فقط (۴) خاکسار مرزا بشیر احمد آپ کے فرزند منشی تنظیم الرحمن صاحب کا مضمون ( مندرجہ الحکم بابت ۲۸ ؍ جولائی، ۲۱ اگست، ۷ ستمبر ۱۹۳۵ء) جس کے آخر پر (آخری شمارہ میں ) بالفاظ ذیل حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے تصدیق فرمائی تھی: میں نے یہ تمام مضمون اوّل سے آخر تک سُنا اور دُرست پایا.“ (۵) آپ کے فرزندان کے بیانات.ظفر احمد ۲۶/۰۴/۳۵ آپ کی قلمی کاپی مذکورہ بالا منشی حبیب الرحمن صاحب کی چوراسی صفحات کی ایک کاپی قریباً ۷۵ ۶ (اینچ)

Page 314

292 سائز کی دستیاب ہوئی ہے.صفحہ بہتر پر آپ کے دستخط عاجز حبیب الرحمن از حاجی پورہ پھگواڑہ مثبت ہیں اور مہر بھی.گویا اس وقت جو کچھ سپر د قلم کرنا آپ کے مدنظر تھا، آپ اس کی تکمیل کر چکے تھے.بعد میں آپ نے صفحہ تہتر تا چوراسی کا اضافہ کیا.آخری صفحہ کا کچھ حصہ خالی ہے لیکن وہاں آپ کے دستخط نہیں.جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مزید امور تحریر میں لا نامۂ نظر ہوگا.جس کا بعد میں موقع نہیں ملا ہوگا.یا یہ آخری صفحات موجود نہیں.مُہر مذکورہ اس کا پی پر چڑھائے گئے موٹے کاغذ پر ان الفاظ کی ثبت ہے: HABIBUR RAHMAN VILLAGE HAJIPUR P.O PHAGWARA ہر ورق کے دونوں طرف تحریر کے لئے استعمال ہوئے ہیں.اور اس کے صفحات کا شمار ۱-۳-۵ کے طریق پر سُرخ روشنائی سے درج ہے.صفہ ہے کے بعد کے ورق پر ۷۴ رقم ہے.گویا دونوں کے درمیان ایک الگ ورق کا ایک صفحہ لکھا گیا ہوگا جس کا شمار سے تھا.لیکن یہ ورق موجود نہیں.صفحہ ۷۲ کے آخر پر مہر جس کا نقش او پر درج کیا گیا ہے ثبت ہے اور ذیل کے الفاظ میں دستخط ثبت ہیں: " عاجز حبیب الرحمن از حاجی پور پھگواڑہ اس کاپی کے ایک صفحہ پر پندرہ سے اٹھارہ تک سطور ہیں.لیکن صفحات ۷۴، ۷۵ والا ورق دریدہ ہے جس کی دونوں طرف دس دس ابتدائی سطور مکمل طور پر موجود ہیں اور بقیہ سطور ضائع ہو چکی ہیں اور صفحات ۷۷،۷۶ والا ورق بھی قریباً ایک انچ دریدہ ہے.صفحات ۷۲ تا ۸۴ کسی کے نجی معاملہ کے متعلق ہیں، ان کو کتاب ہذا میں شامل نہیں کیا گیا.بیان شیخ محب الرحمن صاحب.آپ کے فرزند اکبر حضرت والد صاحب نے اپنی روایات و حالات کا کچھ حصہ ایک بڑے بیاض ( رجسٹر ) میں درج کیا تھا.سب سے زیادہ خود ذمہ دار ہونے کی وجہ سے میں نے اس کی تکمیل کا ارادہ کیا.لیکن ملازمت کی مشغولیت وغیرہ کی وجہ سے میں اس اہم کام کو سر انجام نہ دے سکا.افسوس کہ تقسیم ملک کے حوادث میں مذکور مسودہ اور مکتوبات حضرت مسیح موعود علیہ السلام وغیرہ کا اہم ذخیرہ ضائع ہو گیا.میں نے بہت سا مواد جمع کر لیا ہے.لیکن یہ مواد کسی ٹھوس شکل میں موجود نہیں.حمید م مکتوب ۱۴ ستمبر ۱۹۶۰ء

Page 315

293 قلمی کاپی کے آغاز میں منشی حبیب الرحمن صاحب رقم فرماتے ہیں.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله لكريم اشهد ان لا اله إلا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده و رسوله أمن الرسول بما أنزل اليه من ربه والمؤمنون - (١) كُلُّ امن بالله و ملئكته وكتبه (M) (۳) ورُسُله لا نفرق بين احد من رسله وَعَدَ الله الذين امنوا منكم و عملوا الصلحت لَيَنَسْتَخْلِفَنَّهم فى الأرض كما استخلف الذين من قبلهم اب اس میں شک کی گنجائش نہیں رہی کہ سلسلہ احمدیہ جس کی بنیاد حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود نے بحکم باری تعالیٰ ڈالی ، منہاج نبوۃ پر قائم ہوا.اور بالیقین حضرت مرزا صاحب موصوف پر ایمان لاناجز وایمان ہے جیسا کہ آیت مندرجہ بالا میں خبر اور ہدایت موجود ہے.کوئی مامور جو ہدایت خلق کے لئے مبعوث ہوا ہمیشہ زندہ نہیں رہا.اور نہ ہمیشہ زندہ رہنے کے واسطے اس کا نزول ہوتا ہے.البتہ اس کی ہدایت ابدی ہوتی ہے...اس تعلیم اور ہدایت کے دو حصے ہوتے ہیں.ایک وہ کلام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے فرشتے کے ذریعہ اس مامور اور نبی پر نازل ہوتا ہے.جس کی حفاظت ضروری ہوتی ہے اس لئے اس کو یاد کر لیا جاتا ہے یا لکھ لیا جاتا ہے.دوسراحصہ نبی کا قول اور فعل ہے اس کی حفاظت کا ذمہ اُن لوگوں کا ہے جنہوں نے اس نبی کا وقت پایا.اور اس کی صحبت سے فیض حاصل کر کے آئیند ہ آنے والی نسلوں کے لئے نمونہ چھوڑا.اس لئے اس زمانہ کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اس نبی اور اس زمانہ کے حالات قلم بند کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے اس فرض کو نہایت دیانت اور امانت کے ساتھ ادا کیا جس کے باعث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور سنت کی بے گنت کتا ہیں موجود ہیں جو قرآن شریف کے بعد ہماری رہبری کرتی ہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی معلومات کو قلم بند کر کے محفوظ کریں.تا کہ آئندہ آنے والی نسلیں فائدہ حاصل کریں.آپ کے الہامات محفوظ ہیں اور ایک جگہ جمع ہیں لیکن اقوال اور افعال اس طرح محفوظ نہیں ہوئے کہ ایک جگہ جمع ہو جا ئیں.بہت سے ایسے ہیں کہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور اپنی معلومات کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے فیض حاصل کیا تھا، ساتھ ہی لے گئے.تاہم ابھی ایسے بہت سے لوگ زندہ موجود ہیں.اس لئے مناسب یہ ہے کہ وہ اپنی معلومات کو تحریر میں لے آویں.یہی مجموعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح اور سیرت کے لئے کارآمد ذخیرہ

Page 316

294 ہوگا.جناب مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ نے جو حضرت ممدوح کے دوسرے فرزند ارجمند ہیں اس کے جمع فرمانے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک حصہ اس مجموعہ کا شائع بھی کر دیا ہے.جس سے ہر ایک دل میں انشاء اللہ تعالیٰ تحریک پیدا ہوگی کہ وہ اپنی معلومات تحریر میں لا کر جناب میاں صاحب موصوف کے پاس بھیج دے.“ ” میرے دل میں اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی پیدا ہوا ہے کہ (وہ) صاحب جو اپنی معلومات کو قلم ( بند ) کریں.اور جناب میاں صاحب کی خدمت میں بھیجیں، اس کے ساتھ ہی کچھ اپنے ذاتی حالات بھی تحریر کریں.اور یہ بھی تحریر فرماویں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کب بیعت کی اور کس کے ذریعہ (سے) اور جو کوائف اِس نعمت کے حصول میں ان کو برداشت کرنے پڑے مختصراً اور مجملاً اس کا تذکرہ کریں.اس سے جو کچھ فائدہ ہوگا مجھے اس کی تحریر کی ضرورت نہیں.درخت اپنے پھلوں سے شناخت کیا جاتا ہے.یہی وہ پھل ہوں گے جو باغ احمد کے درختوں پر لگے ہوئے ہوں گے.مجھے خدا تعالیٰ جل شانہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شناخت کی توفیق بخشی اور محض اپنے فضل سے اس نے مجھے یہ راستہ دکھایا اور آپ کی بیعت میں داخل فرما کر اس جماعت مؤمنین میں شامل فرمایا.الحمد للہ.آپ کے وصال سے قریب ۱۸ سال قبل میں داخل بیعت ہو چکا تھا.اس عرصہ میں اگر چہ میں زیادہ عرصہ تک آپ کی صحبت میں نہیں رہا.تاہم میری آمد و رفت رہتی تھی.اور جتنے دن رہتا قریب تر رہتا تھا.مجھے افسوس ہے کہ میں نے اس وقت کی قدر نہیں کی.اور اپنی معلومات کو تحریر میں نہیں لایا اگر تحریر کیا بھی تو بے قاعدہ اور وہ بھی محفوظ نہیں رہا البتہ وہ سب دماغ میں موجود ہیں.انشاء اللہ تعالے میں کوشش کروں گا کہ وہ سب تحریر میں آجائیں گو تاریخ ساتھ نہ دے سکوں.اب میں مختصراً اپناذاتی حال لکھ کر کہ جس سے معلوم ہو سکے کہ میں کون ہوں اور دنیا کے کون سے کونہ میں میرا مسکن ہے.اور کس خاندان سے میرا تعلق ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعارف کی وجہ اور واسطہ اور پھر آپ کے دعوای مسیحیت پر ایمان لانے کا حال تحریر کروں گا.اس کے بعد وہ واقعات اور حالات عرض کروں گا جو میں نے حضرت سے سنے یا دیکھے.بطور یادداشت میں یہ بھی عرض کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ ابتداء مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات جمع کرنے کا شوق ہوا.جس قدر میں جمع کر سکا اس جملہ کتاب میں خوشخط لکھوائے وہ کتاب آخرش میرے قبضہ سے نکل گئی اور دفتر الحکم میں پہنچ گئی.یہ تمام مکتوبات رفتہ رفتہ اخبار الحکم میں شائع ہو گئے.مجھے مکتوبات جمع کرنے کا پھر شوق ہوا.اس لئے میں نے بہت سے مکتوبات حضرت مسیح

Page 317

295 موعود ایک فل سکیپ سائز کی مجلد میں اپنے قلم سے تحریر کئے اور ساتھ ہی میں نے حضرت مولوی حکیم حاجی نورالدین صاحب رحمتہ اللہ علیہ ) خلیفہ اول کے مکتوبات تلاش کر کے جمع کئے.اور وہ دوسری جلد میں اپنے قلم سے لکھے.ان دونوں کو میں نے اپنی لائبریری میں رکھ دیا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب جو اولین میں ( سے ) ہیں.میرے صادق و دوست اور بھائی ہیں.مجھے اُن سے اور اُن کو مجھ سے اس قدر محبت ہے کہ نہ اس کی ابتداء اور نہ انتہاء میں اُن کے ساتھ اپنے اس تعلق کو فخر سمجھتا ہوں.میرے لئے ان کی دُعائیں بے حد قبول ہوئی ہیں.وہ اکثر تبلیغی دورہ پر جب تشریف لے جاتے تو ضرور میرے پاس تشریف لاتے اور جس قدر ممکن ہو سکتا قیام فرماتے.دورانِ قیام میں وہ ایسے معلوم ہوتے تھے کہ گویا وہ میرے کنبہ کے ممبران میں سے ایک ہیں.میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان کو غیر نہیں سمجھتے تھے.وہ ایک ایک سے ایسی محبت کرتے تھے اور کرتے ہیں، جیسے حقیقی رشتہ دار کرتے ہیں.ایک دفعہ یہاں سے روانگی کے وقت فرمایا کہ مجھے آپ سے اور آپکے بچوں سے اس قدر محبت ہے کہ جب میں آپ کے گھر سے رخصت ہوتا ہوں تو اس قدر قلق ہوتا ہے کہ اپنے گھر سے روانگی کے وقت اس قد رقاق نہیں ہوتا.”انہوں نے میرے کتب خانہ سے چند کتابیں اپنی صادق لائبریری کے لئے پسند فرمائیں جو میں نے دے دیں انہی میں یہ دونوں مکتوبات کی جلدیں بھی تھیں.ان کے واسطے وعدہ فرمایا تھا کہ نقل کرا کر واپس کر دوں گا.لیکن وہ نقل نہ کر سکے.مگر وہ جملہ مکتوبات اخبار بدر میں جس کے وہ ایڈیٹر تھے ،شائع کر دیئے.میں خوش ہوں کہ جہاں میری چند کتابوں نے ان کی صادق لائیبریری میں جگہ پائی، وہاں میرے قلم کے لکھے ہوئے دو نسخے بھی ان کی لائیبریری میں ہوں گے.اور مجھے امید ہے کہ جو اہلِ علم ان کو دیکھے گا میرے حق میں دُعا کرے گا.(قلمی کا پی صفحہ اتنا ) اس قلمی کا پی پر تاریخ درج نہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ اس کی تحریر کا کام کب شروع کیا گیا.البتہ بیان بالا سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس وقت تک حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی روایات کی جلد اول (یعنی سیرت المہدی ) طبع ہو چکی تھی جس کی تاریخ طبع دسمبر ۱۹۲۳ء ہے اور جلد دوم کی تاریخ طبع دسمبر ۱۹۲۷ء ہے گویا دونوں کتب کی تاریخ طبع کے درمیانی عرصہ میں منشی حبیب الرحمن صاحب یہ حالات وغیرہ قلمبند کر رہے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے منقولہ بالا مکتوب مورخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۲۴ء میں ذکر آیا ہے کہ منشی صاحب نے اس وقت مواد جمع کرنے کا کام شروع کر رکھا تھا.(باقی اگلے صفحہ پر )

Page 318

296 کپورتھلہ شہر و ریاست کپورتھلہ صدر مقام ریاست کپورتھلہ کے بارے میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ ، ذیل کے کوائف رقم کرتے ہیں.جو ۱۹۰۸ء میں تھے.شہر کپورتھلہ ، ریلوے اسٹیشن کرتار پور سے آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے یہ اسٹیشن امرتسر سے جالندھر جاتے ہوئے دو گھنٹہ کے فاصلہ پر ہے.کرتار پور سے کپورتھلہ تک پختہ سڑک ہے اور ٹمٹم کا ایک گھنٹہ کا راستہ ہے.تمام سرکاری مکانات اور باغات اور کوٹھیاں شہر کے اندر ہیں.سڑکیں بہت وسیع ہیں.صفائی بہت عمدہ ہے مکانات یوروپین طرز پر بنے ہوئے ہیں.کچہریوں کی بناوٹ اور سجاوٹ سب انگریزی طرز پر ہے.مہاراجہ کے اپنے مکانات اس قدر یورپین طرز پر ڈھلے ہوئے ہیں.اور ان کے اندر کا سامان اور وضع ایسی ہے کہ اگر انہیں یورپین طرز رہائش اور سامان عشرت کی نمائش کہا جائے تو غلط نہ ہوگا.مہاراجہ صاحب نے اپنی ہسپانوی رانی کے لئے ایک شاندار محل بنوا کر اس میں فرنگی عیش و آرام کے تمام سامان نہایت فراخدلی سے مہیا کئے ہیں.(۴) تاریخ احمدیت میں کپورتھلہ کی اہمیت کپورتھلہ کے ساتھ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندانی تعلقات کی ابتداء در اصل ۱۸۰۲ء یا ۱۸۰۳ ء میں ہوئی جبکہ سکھوں کی رام گڑھیہ مسل نے حضور کے دادا مرزا عطا محمد صاحب کے زمانہ میں قادیان پر قبضہ کر لیا اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے خاندان سمیت ریاست کپورتھلہ کے مقام بیگووال میں پناہ لینی پڑی.ان ایام میں ریاست کپورتھلہ کے حکمران سردار فتح سنگھ اہلوالیہ تھے.جنہوں نے مرزا عطا محمد صاحب سے نہایت فراخدلانہ اور شریفانہ سلوک کیا.حتی کہ آپ کے گزارہ کے لئے دو گاؤں کی پیشکش بھی کی لیکن مرزا صاحب موصوف نے بشکریہ اس پیشکش کے قبول کرنے سے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ اگر ہم نے یہ گاؤں لے لئے تو ہماری اولاد کی ہمت پست ہو جائیگی.اور انہیں اپنی خاندانی روایات کے قائم رکھنے اور قادیان واپس لینے کا خیال نہ رہے گا.کتاب تذکرہ رؤسائے پنجاب کے مصنف سر لیپل گریفن کی تحقیقات کے مطابق مرزا عطا محمد صاحب بارہ سال تک ریاست کپورتھلہ میں مقیم رہے اور وہیں وفات پائی.لیکن آپ کے جواں ہمت اور بہادر بیٹے مرزا بقیہ حاشیہ نشان x ولے الفاظ ربط کے لئے مؤلف ہذا کی طرف سے زائد کئے گئے ہیں.نوٹ : - غالباً یہ کاپی اس مواد سے الگ ہے جو حضرت میاں صاحب کے لئے منشی صاحب جمع کر رہے تھے اور حضرت میاں صاحب کی خواہش تھی کہ پچاس ساٹھ صفحات ہونے پر انہیں بھجوادئے جایا کریں.فروری ۱۹۲۴ء سے اپنی وفات تک کئی سال تک یہ موادشی صاحب انہیں رو کے نہ رکھتے نہ حضرت میاں صاحب رو کنے پر خاموش رہتے.

Page 319

297 غلام مرتضی صاحب ان کی نعش کو کپورتھلہ سے راتوں رات قادیان لائے اور یہاں اپنے خاندانی قبرستان میں ان کی آخری آرامگاہ بنائی جہاں وہ اپنے بزرگوں کے پہلو میں آسودہ ہیں.احباب کپورتھلہ کا عشق و ایمان (۱) --- حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ، خلافتِ اولی میں ایک سفر کے حالات کے سلسلہ میں احباب کپورتھلہ کے عشق و ایمان کے تذکرہ میں تحریر فرماتے ہیں: چونکہ والدہ صاحبہ حضرت اُم المومنین نے کپورتھلہ میں ٹھہرنا تھا، اسی لئے میں بھی سیدھا کپورتھلہ ساتھ گیا..یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں حضرت اقدس مسیح موعود کا بھی کچھ مدت قیام رہا ہے.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ خاص خاص جگہوں میں خاص خاص خصوصیتیں ہوتی ہیں.کپورتھلہ کی مٹی میں خدا تعالیٰ نے وہ اثر رکھا ہے کہ یہاں جس قدر لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں، کسی دلیل کسی معجزہ کسی نشان کی وجہ سے نہیں ہوئے اور نہ انہیں کسی کشف و کرامت کی ضرورت ہے کہ ان کے ایمان کو قائم رکھے.بڑے سے بڑا ابتلا ء ہوا اور کیسا ہی سخت امتحان ہوان لوگوں پر خدا کا کچھ ایسا افضل ہے کہ ان کا پائے ثبات ذرہ بھی لغزش نہیں کھا تا.اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کی معجزانہ زندگی کو دیکھ کر آپ کی بیعت ہی نہیں کی بلکہ عشق پیدا کیا ہے.اور یہاں تک ترقی کی ہے کہ دلیلی را سمجھوں باید دید کا معاملہ ہو گیا ہے.ان لوگوں نے خدا کے مرسل کی زندگی کو دیکھ لیا ہے کہ وہ کیسی پاک اور صاف تھی.اور مشاہدہ کر لیا ہے کہ وہ گناہوں سے کیسا پاک تھا.پس اب جو کچھ ہو، کوئی بات ان کے ایمان کے برخلاف نہیں ہوتی.اُن کے ہاتھ میں وہ دلیل آگئی ہے کہ اسے کوئی تو ڑ ہی نہیں سکتا.اور وہ یہ کہ کیا ایسا راستباز آدمی جھوٹ بول سکتا ہے.اور یہ ایک ایسی کی بات ہے کہ اس کا توڑنا پھر انسان کی طاقت سے باہر ہے.قرآن شریف نے بھی فقد لبثت فیکم عمرا کے ایک چھوٹے سے جملہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سچائی کا نقشہ کھینچ دیا ہے.چنانچہ اس جماعت کے ایک بزرگ کی نسبت حضرت صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ مجھے یہ تو خطرہ نہیں کہ انہیں کبھی میری وجہ سے کوئی ابتلا آئے گا ہاں یہ ڈر ہے کہ محبت کے جوش میں حد سے نہ بڑھ جاویں.چنانچہ ان کا یہی اخلاص اور محبت ہی حضرت صاحب کو وہاں کھینچ کر لے گیا.اور یہی ہمیں بھی وہاں لے گیا ہے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص سے ہمیں محبت ہے اس کے متعلقین سے بھی قدرتاً محبت ہوتی ہے.اس لئے سچی دوستی کی نشانی یہی سمجھی گئی ہے کہ ایک دوست دوسرے دوست کے مال و جان اور عزیز و

Page 320

298 اقارب کا اسی طرح محافظ ہو اور چاہنے والا ہو جیسے کہ وہ اپنے مال و جان کی حفاظت کرتا اور اپنے عزیز واقارب کو چاہتا ہے.پس وہ شخص جس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر یہ اقرار کیا ہو کہ ہم تجھ سے تمام دنیا کے رشتوں اور دوستیوں سے بڑھ کر سلوک کریں گے.اس کی ہر ایک چیز کیوں پیاری نہ ہو.غالباً یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کو ہم (یعنی افراد خاندان حضرت مسیح موعود ) سے ایک خاص محبت اور اخلاص ہے بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ محض اخلاص ہی اخلاص ہے اور نفسانی خواہشیں ان میں بالکل نہیں.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حضرت صاحب نے ان کو ایک موقع پر لکھا (کہ) میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ قیامت کو بھی میرے ساتھ ہوں گے.کیونکہ دنیا میں بھی آپ نے میرا ساتھ دیا ہے اس جگہ میں نے کامل ایمان کے کئی نمونے دیکھے اور سنے.(۵) (ب) حضرت خلیفتہ اسیح الثانی حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے انتقال پر ملال پر ابتدائی صحابہ کے بارے میں ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: لوگوں کو یہ احساس ہونا چاہیئے کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کے ابتدائی ایام میں آپ پر ایمان لائے ، آپ سے تعلق پیدا کیا اور ہر قسم کی قربانیاں کرتے ہوئے اس راہ میں انہوں نے ہزاروں مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں.ان کی وفات جماعت کے لئے کوئی معمولی صدمہ نہیں ہوتا.میرے نزدیک ایک مومن کو اپنی بیوی ، اپنے بچوں ، اپنے باپ ، اپنی ماں اور اپنے بھائیوں کی وفات سے ان لوگوں کی وفات کا بہت زیادہ صدمہ ہونا چاہئیے پس ایسے لوگوں کی.وفات ایک بہت بڑا اور اہم مسئلہ ہوتا ہے.اور ان لوگوں کے لئے دعا کرنا ان پر احسان کرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنے اوپر احسان ہوتا ہے.کیونکہ جو شخص ان لوگوں کے لئے دعا کرتا ہے خدا تعالے اس کا بدلہ دینے کے لئے اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس دعا کرنے والے کے لئے دعا کریں.یہی حال جنازہ کی دعا کا ہے جو مرنے والے کے لئے آخری دعا ہوتی ہے.اس میں بھی خدا تعالیٰ کے فرشتے بہت زیادہ جوش کے ساتھ نماز جنازہ پڑھنے والوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں.پس جب کوئی شخص جنازہ پر دعا مانگتا ہے تو وہ....خود بہت زیادہ فائدہ میں رہتا ہے.” وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ابتدائی زمانہ میں خدمات کی ہیں، ایسی ہستیاں ہیں جو دنیا کے لئے ایک تعویذ اور حفاظت کا ذریعہ ہیں.چونکہ یہ مغربیت کے زور کا زمانہ ہے اس لئے لوگ اس کی قدر نہیں جانتے.بارش صحن میں ہو رہی ہوتی ہے تو برآمدہ وغیرہ بھی گیلا ہو جاتا ہے.اسی طرح خدا کا نبی ہی اس کا نبی تھا مگر اس سے تعلق رکھنے والے...اس کے

Page 321

299 دوست اور اس کے رشتہ دار سب ان برکات سے کچھ نہ کچھ حصہ لے گئے جو اس پر نازل ہوئی تھیں.....وہ گہرے دوست بھی....یہ لوگ خدا کی طرف سے ایک حصن حصین ہوتے ہیں.اور دنیا ان کی وجہ سے بہت سی بلاؤں اور آفات سے محفوظ رہتی ہے.ان کا وجود ہی لوگوں کے لئے برکتوں اور رحمتوں کا موجب ہوتا ہے.یہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ کے انبیاء کی صحبت حاصل ہوتی ہے، یہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے انبیاء کا قرب رکھتے ہیں ، خدا تعالیٰ کے نبیوں اور اس کے قائم کردہ خلفاء کے بعد دوسرے درجہ پر دنیا کے امن اور سکون کا باعث ہوتے ہیں......یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائے یہ تو اس عام درجہ سے بھی بالا تھے ( جو حضرت جنید جیسے بزرگوں کو حاصل تھا ) ان کو خدا نے آخری زمانہ کے مامور اور مرسل کا صحابی اور پھر ابتدائی صحابی بنے کی توفیق عطا فرمائی اور ان کی والہانہ محبت کے نظارے ایسے ہیں کہ دنیا ایسے نظارے صدیوں میں بھی دکھانے سے قاصر رہے گی.پس اپنے اندر عشق پید کرو اور وہ راہ اختیار کر و جوان لوگوں نے اختیار کی.“ " کپورتھلہ کی جماعت کو ایک خصوصیت یہ بھی حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جماعت کو یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ جس طرح خدا نے ہمیں اس دنیا میں اکٹھا رکھا ہے اس طرح اگلے جہان میں بھی کپورتھلہ کی جماعت کو میرے ساتھ رکھے گا.پس ایک ایک صحابی جو فوت ہوتا ہے وہ ہمارے ریکارڈ کا ایک رجسٹر ہوتا ہے جسے ہم زمین میں دفن کر دیتے ہیں.اگر ہم نے ان رجسٹروں کی نقلیں کر لی ہیں تو یہ ہمارے لئے خوشی کا مقام ہے.انلوگوں کی قدر کرو ان کے نقش قدم پر چلو (4)66 (ج) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تحریر فرماتے ہیں: تاریخ سلسلہ احمدیہ میں جماعت کپورتھلہ کو اپنے اخلاص اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عشق و محبت میں ایک خاص امتیاز حاصل ہے اور اس جماعت کی قربانیاں ایک غیر معمولی رنگ رکھتی ہیں اس جماعت کے تمام افراد میں قربانیوں کے لئے باہم رشک اور جذبہ مسابقت تھا.اس قسم کے ان کے رشک کے بعض واقعات ایک لذیذ ایمان پیدا کرتے ہیں.ان میں باہمی اخوت و محبت کا بے نظیر جذ بہ تھا گویا کہ وہ ایک بنیان مرصوص ہیں.کبھی ان کو کسی دوسرے سے شکایت ہوتی تو کسی دنیوی امر سے نہیں بلکہ اسی قربانی کے سلسلہ میں ہوتی تھی مثلاً ایک دفعہ لدھیانہ میں حضور نے منشی ظفر احمد صاحب سے فرمایا کہ ایک اشتہار کی اشاعت کی ضرورت ہے کیا آپ کی جماعت

Page 322

300 ساٹھ روپے دینے کی متحمل ہو سکے گی ؟ منشی صاحب نے اثبات میں جواب دیا اور کپورتھلہ پہنچ کر اپنی اہلیہ کا سونے کا زیور فروخت کر کے ساٹھ روپیہ لے کر اُڑ گئے اور رقم پیش کر دی.چند روز بعد منشی اروڑ ا صاحب لدھیانہ گئے تو حضور نے ان سے فرمایا کہ آپ کی جماعت نے بڑے اچھے موقع پر امداد کی انہوں نے عرض کی کہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں اور منشی ظفر احمد صاحب سے بہت ناراض ہوئے اور حضور سے عرض کیا کہ انہوں نے ہمارے ساتھ بہت دشمنی کی کہ ہم کونہیں بتایا.منشی ارور صاحب ایک عرصہ تک منشی ظفر احمد صاحب سے ناراض رہے کہ اس قربانی میں وہ شریک نہ ہو سکے تھے.یہ تھی روح جماعت کپورتھلہ کی قربانیوں میں.اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تقریروں میں بار ہا یہ بیان ہوا ہے کہ آپ کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد منشی اروڑا صاحب کچھ اشرفیاں لے کر حاضر ہوئے اور بے تاب ہو گئے.( کہ حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے قابل ہوئے تو حضور کا وصال ہو گیا.) جماعت کپور تھلہ کی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ کپورتھلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کئی نشانات ظاہر ہوئے سب سے بڑا نشان وہاں کی مسجد کے متعلق ہے کہ حضور نے فرمایا کہ اگر ہمارا سلسلہ سچا ہے تو یہ مسجد تم لوگوں کومل جائے گی.چنانچہ بالآ خر مقدمہ میں جماعت احمد یہ فتح یاب ہوئی.ایک ہی نشان ظاہر ہوا کہ حضرت منشی محمد خان صاحب کی وفات کے بعد حضرت اقدس کو یہ الہام ہوا کہ ان کی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کیا جاوے گا معجزانہ رنگ میں اس کی تجلی ظہور میں آئی.بہت سے لوگ کوشش کر رہے تھے کہ بگھی خانہ کی افسری جو خان صاحب کی وفات سے خالی ہوئی تھی ان کو ملے لیکن مہاراجہ نے ولایت سے واپس آتے ہی خان صاحب کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے آپ کے فرزند خان صاحب عبدالمجید خان صاحب کے تقرر کے احکام د یے اور بھی متعد دنشانات کپورتھلہ میں سلسلہ کے دشمنوں پر قہری تجلی کے رنگ میں ظاہر ہوئے.ایک صداقت کا نشان حضرت منشی عبدالرحمن صاحب نے بیان کیا کہ اس ریاست کے موضع شیر انوالی کے مہتاب نام احمدی نے جس سال اس گاؤں میں سخت طاعون پڑی، اپنے کوٹھے پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ اے لوگو! جس نے طاعون سے بچنا ہے وہ میرے گھر میں داخل ہو جائے اس پر بہت سے غیر از جماعت افرادان کے گھر میں آگئے.موصوف نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر تیر امسیح سچا ہے تو ان کو طاعون سے بچالے.خدا کی قدرت جولوگ ان کے گھر میں آئے ان میں سے کوئی بھی طاعون سے نہ مرانہ بیمار ہوا، گاؤں کے اور بہت سے لوگ مر گئے.کپورتھلہ کی جماعت کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی اولاد کے ساتھ ملائم سلوک کیا جائے گا.(تذکرہ صفحہ ۴۱۸ طبع ۲۰۰۴ء)

Page 323

301 جماعت کو تحریری بشارت دی کہ کپورتھلہ کی جماعت دنیا میں ہمارے ساتھ ہے اور قیامت (یا جنت ) میں بھی ہمارے ساتھ رہے گی.(۷) ( د ) حضرت عرفانی صاحب یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے پرانے خدام کی خصوصیت سے دلجوئی اور قد رفرمایا کرتے تھے.اور ان کے ساتھ شفقت و محبت کے ایسے برتاؤ کرتے کہ ان کی یاد آج دلوں کو تڑپا جاتی ہے.نمائش اور تکلفات سے آپ ہمیشہ آزاد تھے اس جماعت مخلصین میں سے دو بزرگ حضرت اخویم محمد خان صاحب اور حضرت منشی محمد اروڑے خان صاحب رضی اللہ عنہما اپنے محبوب سے جاملے ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک گرامی نامہ میں تحریر فر مایا تھا کہ میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس دنیا اور آخرت میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے ساتھ ہوں گے.(۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہیں.دو ختمی محمد و می حضرت منشی ظفر احمد صاحب اس بزم محبوب کی ایک دلر با یادگار ہیں وہ اکثر بیمار رہتے ہیں.میں خصوصیت سے احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ ان کی صحت اور درازی عمر کے لئے دعا کرتے رہیں.ایسا ہی محبی مخدومی منشی حبیب الرحمن صاحب پیارے آقا کے فدائیوں میں سے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر پر ہمہ در داور اضطراب ہو جاتے ہیں ان کے لئے بھی درخواست دعا ہے.یو (۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر بغرض تعزیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحب کپور تھلہ تشریف لے گئے اس وقت منشی حبیب الرحمن اور بعض دیگر احباب وہاں موجود نہ تھے اس لئے ان سے ملاقات نہ ہوسکی.آپ رقم فرماتے ہیں.☆ الحکم ۲۸ مئی ۱۹۲۵ء ( صفہ ہ) یہان عرفانی صاحب یہ بھی تحریر کرتے ہیں کہ مامور ہونے کے بعد جب محبت و اخلاص سے ان احباب نے جو کوئی مرتبہ یا و جاہت نہیں رکھتے تھے حضور کو بلایا تو حضور کپورتھلہ تشریف لے گئے حالانکہ افسر صیغہ تعلیم مقرر کئے جانے کے لئے ماموریت سے پہلے اس ریاست نے آپ کو بلایا تھا تو آپ نے حضرت والد صاحب سے یہ عرض کر کے انکار کر دیا تھا کہ میں کوئی نوکری نہیں کرنا چاہتا ہوں دو جوڑے کھڈ ر کے کپڑوں کے بنادیا کرو اور روٹی جیسی بھی ہو بھیج دیا کرو (۹)

Page 324

302 میرے ر بعض دوست تعجب کرتے ہوں گے کہ میں کپورتھلہ کا ذکر کیوں چھیٹر بیٹھا ہوں.عزیز و! یہ بلا وجہ نہیں آپ جانتے ہیں ( کہ ) انسان کو اپنے محبوب کا ہر ایک فعل پیارا لگتا ہے.کپورتھلہ کی سڑکوں اور گلیوں اور مکانوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دو دفعہ وہاں صرف اپنے مخلص دوستوں کی ملاقات کے واسطے تشریف لے گئے تھے اور آپ نے ان تمام مکانات اور باغات کی سیر کی تھی.کپور تھلہ کے احمدی برادران حضرت اقدس کے پرانے دوستوں میں سے ہیں جبکہ حضور علیہ السلام نے کوئی دعوای مسیحیت یا مہدویت کے متعلق نہ کیا تھا اس وقت سے یہ صاحبان حضرت صاحب کے ملنے والے ہیں ریاست میں ایک وزیر حاجی ( ولی اللہ ) صاحب کے نام سے مشہور گزرے ہیں.انہوں نے کتاب براہین احمد یہ منگوائی تھی جس کو برادر مکرم منشی ظفر احمد صاحب منشی محمد اروڑا صاحب ، خاں صاحب محمد خاں (صاحب) مرحوم.ومنشی عبدالرحمن صاحب نے دیکھا اور حضرت اقدس کی ملاقات کے واسطے تشریف وو (14)66 لائے.تب سے یہ دوست حضرت اقدس کے ساتھ ایک ایسا دلی تعلق ، محبت اور اخلاص کا رکھتے ہیں کہ کوئی امر کبھی ان کے واسطے ابتلاء کا موجب نہیں ہوسکا..مفتی صاحب نے اس عرصہ قیام میں احباب کپورتھلہ کو ( تحریری ) خطاب میں فرمایا: - پیارے بھائیو اور معزز دوستو! خدا کی رحمت ہو تم پر اور اس کا فضل کہ تم میرے پیارے کے پرانے رفیق اور عاشق مزاج خادم اور دلدادہ مرید ہو.اسی محبت کے تقاضا سے جو تم کو اللہ کے رسول کے ساتھ تھی اور ہے، ہم نے بارہا چاہا کہ تمہارے پیارے مسیح کا یہ خادم تمہارے شہر میں آوے....الغرض یہی مقد رتھا کہ میں ایسے وقت میں آؤں جب کہ ہمارا پیارا امام اس دنیا سے چلا گیا ہے.گویا میں تمہارے محبوب اور معشوق کی ماتم پرسی کے لئے آیا ہوں کیونکہ تم اس امر کے حقدار ہو کہ تمہارے ساتھ یہ ہمدردی کی جائے.تمہارے تعلقات اس پیارے کے ساتھ بہت پرانے تھے.تم اس کے پرانے یار اور وفادار دوست اور غمگسار فریق اس کی آخری عمر تک رہے.تم سب سے پہلے آئے اور آخر دم تک رہے.تمہارے دلوں کو جو صدمہ اس کی جدائی سے پہنچا ہے وہ تمہارے ہی دل جانتے ہیں، میں اس کا کیا اندازہ کروں ؟ مگر میرے دوستو! صبر سے کام لو تم اس کے عاشق تھے.تمہارا عشق بہت بڑا تھا.تم اس کے دیدار کے خواہشمند تھے ،تو وہ بھی اپنے محبوب کے وصال کا آرزومند تھا.اس نے بہت صبر کیا جو اتنے سال تمہارے درمیان رہا مگر کب تک؟ آخر وہ اپنے پیارے کے پاس چلا ہی گیا.اور اس کی آخری کلام یہی تھی کہ ”اے میرے پیارے اللہ.اے میرے پیارے الله

Page 325

303 اور اس کا آخری فعل اس دنیا اس اپنے پیارے کے حضور میں نماز پڑھنا تھا.یہ خادم اس آخری وقت کے چھ سات گھنٹے برابر اس کے قدموں میں حاضر تھا اور اس نظارے کو دیکھ رہا تھا کہ کس طرح وہ دنیا و مافیہا سے لا پرواہ ہو کر اپنے محبوب حقیقی کی طرف چلا گیا..” خدا صالح کی اولاد کو ضائع نہیں کرتا.یہ پودا خدا کا لگایا ہوا ہے یہ پھلے گا اور پھولے گا اور بڑا درخت بنے گا.ہاں غم ہے تو ان ذاتی تعلقات کے لحاظ سے ہے جو ہم کو اس پیارے کے ساتھ تھے.اس نے اپنے حسن واحسان سے ہمارے دلوں کو نبھایا تھا اور تم تو اے اہل کپورتھلہ ان تعلقات کو بہت زیادہ محسوس کرنے والے ہو.میں دیکھتا تھا کہ حضرت اقدس تم لوگوں پر کس قدر شفقت کرتے تھے.وہ اپنے قدیم دوستوں کو خصوصیت سے یاد کرتے تھے.تمہاری ملاقات کے وقت ان کا انداز گفتگو نرالا ہوتا تھا.وہ تمہارے ساتھ بے تکلف تھے اور وہ تمہاری ناز برداری کرتے تھے.سو میرے عزیز دوستو! تم اس درخت کی پرانی شاخیں ہو.خدا تم کو سر سبز رکھے..اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے اخلاص اور محبت میں ترقی دے اور آپ کو استقامت عطا فرما دے اور نیکوں کی راہ پر چلنے کی توفیق دے.آمین ثم آمین.(۱۱) (و) حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے انتقال پر صحابہ کپور تھلہ کے بارے میں حضرت شیخ یعقوب علی ،، صاحب عرفانی تحریر فرماتے ہیں.” میرے لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ ان عشاق میں سے کس کا کیا مقام تھا.یہ اللہ تعالیٰ کو ہی علم ہے.میں نے حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب، حضرت منشی محمد خان صاحب ، حضرت منشی اروڑے خان صاحب اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب کو نہایت گہری نظروں سے دیکھا.ان بزرگوں کو بھی اپنے خادم بھائی سے محبت تھی.اس کی کسی خوبی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اس لئے کہ وہ بزم احمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ایک پروانہ تھا.میں نے ان میں سے جس کے حال پر غور کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ محبت و عشق اور آپ کی اطاعت وفدائیت کے پہلو میں بے نظیر پایا.جماعت کے ہزار ہا صلحاء اور اولیا ء ایسے ہیں کہ ان کی خدمات اور تعبد اور زہد و عبادت یا خدمات کے لحاظ سے ان کا مقام بہت بلند ہے مگر ان ( احباب کپورتھلہ ) کا رنگ ہی اور تھا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کو جماعت کپورتھلہ میں السابق الاوّل کا درجہ حاصل ہے.بعض حالات اور واقعات سے حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب کا تقدم بھی پایا جاتا ہے.مگر میری تحقیقات میں یہ مقام منشی ظفر احمد صاحب ہی کا تھا.‘،(۱۲)

Page 326

304 (۱) البقرہ : ۲۸۶ (۲) البقرہ: صفحه ۳ (۳) سورة النور صفر ۳ (۴) ملخص.بدر ۸ اکتوبر ۱۹۰۸ء ( ۵ ) الحکم ۷ تا ۱۴ مئی ۱۹۰۹ء حوالہ جات (۶) خطبہ جمعہ مطبوعه الفضل ۲۸ /اکتوبر ۱۹۴۱ء (۷) حیات احمد حالات زندگی ۱۸۸۹ء تا۱۸۹۲ء صفحه ۲۲۳ تا ۲۲۵ ( ملخص ) (۸) بدر مورخہ یکم اکتوبر ۱۹۰۸ء (۹) حیات النبی جلد اوّل نمبر دوم صفحه ۱۸۵ ( الحکم ۲۸ مئی ۱۹۲۵ء) (۱۰) بدر یکم اکتو بر ۱۹۰۸ صفحه ۶ (۱۱) بدر ۸/اکتوبر ۱۹۰۸ء ۵ تا ۸ (۱۲) الفضل ۴ ستمبر ۱۹۴۱ء صفحه ۵ کالم ۴

Page 327

305 تعارف منشی حبیب الرحمن صاحب حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب اُن چنیدہ احباب میں سے ایک تھے جن کے اسماء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں بطور مخلص دوست درج کرتے ہوئے یہ دعا فرمائی ہے کہ.”اے قادر خدا! میرے اس طرن کو جو میں اپنے ان تمام دوستوں کی نسبت رکھتا ہوں.سچا کر کے مجھے دکھا اور ان کے دلوں میں تقوی کی سبز شاخیں جو اعمال صالحہ کے میووں سے لدی ہوئی ہیں، پیدا کر.اُن کی کمزوری کو دور فرما.اور اُن کا سب کسل دور کر دے اور ان کے دلوں میں اپنی عظمت قائم کر اور ان میں اور ان کے نفسوں میں دوری ڈال اور ایسا کر کہ وہ تجھ میں ہو کر بولیں اور تجھ میں ہو کر سنیں اور تجھ میں ہو کر دیکھیں اور تجھ میں ہو کر ہر حرکت ( و ) سکون کریں.ان سب کو ایک ایسا دل بخش جو تیری محبت کی طرف جھک جائے.اور اُن کو ایک ایسی معرفت عطا کر جو تیری طرف کھینچ لیوے.اے بارِ خدا! یہ جماعت تیری جماعت ہے.اس کو برکت بخش اور سچائی کی رُوح ان میں ڈال کہ سب قدرت تیری ہی ہے.آمین.احباب کپورتھلہ کے متعلق ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ :- میں اس تمام مخلص جماعت کو ایک وفادار اور صادق گروہ یقین رکھتا ہوں.اور مجھے کپورتھلہ کے دوستوں سے دلی محبت ہے.میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس دنیا اور آخرت میں خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے میرے ساتھ ہوں گے.(۲) (1) حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :- خاکسار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ قلمی تحریر دیکھی ہے جس میں حضور نے اس زمانہ کی جماعت کپورتھلہ کی بابت لکھا تھا کہ وہ انشاء اللہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے.(۳) حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کے انتقال پر حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ ابتدائی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمات کرنے والے صحابہ ایک تعویذ ، ذریعہ حفاظت اور حصن حصین ہیں.جن کی وجہ سے دنیا بہت سی بلاؤں سے محفوظ رہتی ہے.یہ لوگ انبیاء اور ان کے خلفاء کے بعد دوسرے درجہ پر امن وسکون کا باعث ہوتے ہیں.(۴)

Page 328

306 حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب کی وفات پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اعلان ہوا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے مخلصین اور سابقون میں سے تھے.بیرونی جماعتیں ان کا جنازہ پڑھیں.تو یہ امر سابقون کے اعزاز کے لحاظ سے مناسب اور موجب رضائے الہی ہوگا.(۵) آپ کے خاندانی حالات حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب قوم کا ئستھ ، گوت بھٹنا گر کی ولادت قصبہ سراوہ ضلع میرٹھ (یو.پی ) میں شیخ عبدالہ ائم متوطن قصبہ بوڑھا نہ ضلع مظفرنگر (یو پی) کی نسل میں چودہویں پشت میں ہوئی تھی.شیخ صاحب پہلے لالہ دُنی چند تھے.اور بعد وفات عبد الدائم شہید کے نام سے مشہور ہوئے.شہنشاہ اورنگ زیب کے زمانہ میں ان کے قبول اسلام کا واقعہ یوں ہے کہ ہنود اپنے شیر خوار بچوں کو دفن کرتے ہیں ، اسی طریق پر آپ کی ایک ایسی بچی دفن کر دی گئی.لیکن یہ بات آپ کو ناگوار گزری کہ ایک مسلمان کی بچی بلاغسل و تکلفین دفن ہو.کیونکہ آپ مخفی طور پر اسلام قبول کر چکے تھے.اور خفیہ طور پر قرآن مجید اور نماز پڑھتے تھے جس کا علم صرف آپ کے مسلم احباب کو تھا.سو آپ نے ان کی مدد سے نعش کو نکال کر بعد غسل و تکفین و جنازہ دوبارہ دفن کیا.صبح مالی نے آپ کے والد صاحب کو (غالبا قبر کی طرز وسمت سے اندازہ کر کے.مؤلّف ) خبر دی کہ باغ میں ایک قبر بنی ہوئی ہے.انہوں نے اپنے بیٹے دُنی چند سے کہا کہ اگر تمہار ادل اسلام کی طرف مائل ہے تو اس کا اظہار کر دو.چنانچہ انہوں نے اپنے تینوں بھائیوں اور اپنے کنبوں سمیت قبول اسلام کا اعلان کر دیا.شیخ صاحب موصوف صوبہ مقرر ہوئے.یہ منصب آج کل گورنر کے نام سے موسوم ہے.آپ نے بہت سی مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے اکثر آج تک موجود ہیں.مثلاً بُوڑھانہ کی بڑی مسجد اور سہارنپور کی شاہی مسجد اور ان کے خاندان میں جو مختلف شہروں اور قصبوں اور دیہات میں پھیلا ہوا ہے اب تک دین اسلام کا چرچا چلا آتا ہے.حکومت نے ان کی قوم کا نام شیخ قانونگو تجویز کیا تھا اور قانونگوئی جو مالیات کا اعلیٰ عہدہ ہوتا تھا اور اس وقت فنانشنل کمشنر کہلاتا ہے، اس خاندان کے لئے مخصوص کر دیا تھا اور انگریزی حکومت نے بھی اس خاندان کا یہ حق تسلیم کر لیا تھا.چنانچہ منشی صاحب کے تایا صاحب اور والد صاحب بھی ان عہدوں پر فائز رہے ہیں.لیکن بعد میں ریاست کپورتھلہ سے دونوں کا تعلق ہو جانے کی وجہ سے یہ مخصوصیت جاتی رہی.منشی محمد ابو القاسم صاحب والد منشی حبیب الرحمن صاحب) انسپکٹر یعنی مشیر مال ( کلکٹر) کے عہدہ پر ریاست کی جا گیر اودھ پر متعین رہے.

Page 329

307 منشی حبیب الرحمن صاحب اپنے خاندان کے حالات کے سلسلہ میں رقم فرماتے ہیں کہ ”میرے دادا شیخ امیر علی صاحب مرحوم نے اپنے جدید رشتہ کی وجہ سے اپنی سکونت مستقل طور پر قصبہ سراوہ ضلع میرٹھ میں تبدیل فرمائی جو بوڑھانہ سے تمہیں کوس کے فاصلہ پر جانب جنوب واقع ہے.یہاں بھی اس قوم کی بکثرت آبادی تھی اور یہ ہی اپنی قوم میں سر بر آوردہ سمجھے جاتے تھے.شیخ امیر علی صاحب کے دو فرزند تھے حاجی محمد ولی اللہ صاحب مرحوم اور منشی محمد ابوالقاسم صاحب مرحوم.حاجی صاحب مرحوم کے اولاد نہ تھی اور منشی محمد ابوالقاسم صاحب کے دوفر زند ہوئے.حافظ فضل الرحمن مرحوم اور احقر العباد حبیب الرحمن.“ حاجی محمد ولی اللہ صاحب مہاراجہ رندھیر سنگھ والی کپورتھلہ کو اپنی ریاست کا بندو بست (سیٹلمنٹ ) کرانے کے لئے کسی اس قابلیت کے مالک شخصیت کی ضرورت تھی.سو۱۸۶۳ء کے قریب حاجی محمد ولی اللہ صاحب نے سرکا را نگریزی کی ملازمت ترک کر دی اور اس ریاست کی ملازمت اختیار کر لی.(بیان منشی حبیب الرحمن صاحب) حاجی صاحب سرکار انگریزی میں بعہدہ فنانشنل کمشنر فائز تھے.لیکن ان کو انگریزی سرکار کی ملازمت نا پسند تھی.انہوں نے منت مانی تھی کہ اگر انہیں کوئی ریاستی ملازمت میسر آجائے تو وہ حج کریں گے.انگریزی علاقہ میں وہ اضلاع جالندھر وغیرہ کے بطور متہم بندوبست سرانجام دے چکے تھے اور آپ کی دیانت و قابلیت کا شہرہ دور دور تک پہنچ چکا تھا.سو اس ریاست کی ملازمت حاصل ہونے پر آپ نے اپنی نذر پوری کرنے کے لئے ۱۸۶۹ ء یا ۱۸۷۰ء میں حج کیا.( بیان مولوی محب الرحمن صاحب) مولوی محب الرحمن صاحب مزید یہ قابل ذکر بات بھی بیان کرتے ہیں کہ حاجی صاحب کی شہرت کے باعث والی بھوپال کی طرف سے پانصد روپیہ مشاہرہ اور دوصد روپیہ بستہ فوجی پہرہ ، ہیں ارد لی اور آراستہ رہائشی مکان کی پیشکش آئی.راشن بشمول زعفران عطریات ، مشک ، وغیرہ وغیر ہ ”بستہ کہلاتا تھا.موصولہ روبکار ( پیشکش ) حاجی صاحب نے مہاراجہ صاحب کی خدمت میں پیش کی تو انہوں نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا آیا آپ مجھے چھوڑ کر بھوپال چلے جائیں گے.آپ نے جوا با بتایا کہ ہم مسلمان زبان کے پابند ہوتے ہیں چونکہ میں آپ سے زبان کر چکا ہوں آپ کے اجازت دیئے بغیر میں وہاں نہیں جاؤں گا.مہا راجہ صاحب باور نہیں کر سکتے تھے کہ واوین کے درمیان عبارت قلم کا پی صفحہ ے کی ہے.بقیہ مضمون اس کا پی اور مضمون منشی کظیم الرحمن صاحب مصدقہ منجانب حضرت منشی ظفر احمد صاحب مندرجہ الحکم ۲۸ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۲۱ سے اخذ کردہ ہے.

Page 330

308 مراعات سمیت قریباً ایک ہزار روپیہ ماہوار بشمول پانصد روپیہ مشاہرہ کو چھوڑ کر وہ کیسے دوصد روپیہ مشاہرہ کو ترجیح دیں گے.لیکن حاجی صاحب نے نواب صاحب بھوپال کو تحریر کر دیا کہ میں آپ کی پیشکش کو قبول کرنے سے معذور ہوں کیونکہ آپ کی طرف سے روبکار موصول ہونے سے پہلے میں مہاراجہ صاحب کپورتھلہ کی ملازمت قبول کرنے کا وعدہ کر چکا ہوں اور وہ مجھے چھوڑ نا پسند نہیں کرتے.دوران ملازمت ریاست میں متعین انگریز ریذیڈنٹ اور بعض محکمہ جات کے افسران آپ کے مشوروں کو قبول کرتے تھے.منشی صاحب یہ بھی تحریر کرتے ہیں کہ :- " (حاجی صاحب نے ) ریاست کا نبدو بست کیا بعد فراغت ریاست میں (ان کو) مجسٹریٹی کا عہدہ دیا گیا.اور پھر (آپ) سیشن جج ( مقرر ) ہو گئے.نیز آپ کو بعوض حسن خدمات سرکار کپورتھلہ سے کچھ اراضی عطا ہوئی جہاں آپ نے گاؤں آباد کیا اور اپنے نام پر حاجی پورہ نام دیہہ رکھا.گاؤں میں.مسلمان آباد کئے اور گاؤں میں ایک مسجد تعمیر کرائی جس کے متعلق پس و پیش کئی مکان ہیں.“ (علاوہ ازیں آپ کی ) ذاتی ملکیت کی جدی اراضی بھی تھی.منشی تنظیم الرحمن صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حاجی صاحب وزارت کے منصب پر بھی فائز رہے.آپ نے ریاست میں جو قوانین وضع کئے وہ اب تک ( یعنی مضمون ہذا کے ۱۹۳۵ء میں معرض تحریر میں آنے تک.ناقل ) بلاتر میم محفوظ ہیں.اس سے پہلے با قاعدہ قوانین نہ تھے.آپ نے رعایا کو رعایات اور سہولتیں دیں اور یہ بات مشہور تھی کہ ایسا نیک اور عادل حاکم اس ریاست کو پھر کبھی میر نہیں آیا.اس وجہ سے اہالیان ریاست آپ کے خاندان کے بچہ بچہ کو بہ نظر عزت و احترام دیکھتے تھے آپ صاحب فراست تھے باقی اہلکار تو کیا آپ کی وجاہت اور قابلیت کی وجہ سے مہاراجہ صاحب بھی آپ کی بہت قدر اور عزت کرتے تھے.اور وزیر صاحب بھی آپ سے بہت خائف رہتے تھے.آپ دیندار اور صاف گو تھے.راستی کے پابند ہونے کی وجہ سے باوجود اصرار ہونے کے آپ نے ایک معاہدہ پر بطور گواہ اپنے دستخط ثبت نہ کئے کہ وہ راستی پر مبنی نہ تھا.گو اس کے نتیجہ میں آپ کی اور آپ کے خاندان کی حق تلفی بھی ہوئی.منشی حبیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ : " (حاجی صاحب) علم دین اور (علم) دنیا میں کمال رکھتی ھے.اس واسطے ان کو مولوی بھی کہتے تھے.انہوں نے تین حج کئے.آپ کی دیانت، آپ کی قابلیت، آپ کا انصاف مشہور ہے اور ہر موقع پر آپ کا اسم مبارک ہر ایک زبان پر آتا ہے صوم وصلوٰۃ کے پابند تہجد گزار ، ورد و ظائف بھی کرتے تھے.جو صرف استغفار

Page 331

309 اور درود شریف ہی تھا.اگر ایک گھنٹہ کے واسطے اپنے مکان سے کسی جگہ جاتے تو لوٹا اور جائے نماز ضرور ہمراہ جاتا.جب نماز کا وقت ہوتا.جہاں ہوتے پہلے نماز ادا کرتے.“ " (حاجی صاحب نے )۱۸۹۲ء میں ۶۷ سال کی عمر میں انتقال کیا اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اپنی رحمت کا نزول فرمائے.(۱) منشی حبیب الرحمن صاحب کا بیان ان کی قلمی کاپی کے صفحہ ۱۰۰۹ سے اخذ کردہ ہے.(ب) بیان منشی کظیم الرحمن صاحب کے لئے دیکھئے الحکم ۷ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم او۲ ( یہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا مصدقہ ہے.) اس مضمون میں سابقاً درج شدہ عنوان ” کپورتھلہ کی اہمیت تاریخ سلسلہ احمدیہ میں“ کے تحت یہ ذکر ہے کہ حاجی صاحب وزیر کے عہدہ پر فائز رہے تھے.لیکن حاجی صاحب کے برادر زادہ اور متنی منشی حبیب الرحمن صاحب کی قلمی کاپی کے بیان میں ان کا سیشن جج ہونا مرقوم ہے.بزرگ صحابی حضرت منشی فیاض علی صاحب کپور تھلوی کا بیان ہے کہ: ” حاجی ولی اللہ صاحب کپور تھلہ کے حج تھے ( الحکم ۲۱ اکتوبر ۱۹۳۴، صفحہ ۵ کالم ۱) نیز تبلیغ رسالت میں ان کو جج لکھا گیا ہے.(حوالہ آگے اسی حاشیہ میں درج ہے) حضرت اقدس کے نام حاجی صاحب نے اپنے مکتوب میں جس کی صحیح تاریخ ( جو چند صفحات بعد درج ہے ) ۲ یا ۲۴ جنوری ۱۸۸۷ء ہے ، اپنے آپ کو میشن بج لکھا ہے جس کے ساڑھے چار سال بعد ان کی وفات فالج سے بیمار رہ کر ہوئی.(ج) حاجی صاحب کی تاریخ وفات معین معلوم نہ ہو سکی لیکن بیان منشی حبیب الرحمن صاحب کے مطابق ان کی اپنی بیعت کے بعد ( جو ۲۵ / مارچ ۱۸۹۱ء کی ہے) قریب کے عرصہ میں حاجی صاحب وفات پاگئے تھے.تبلیغ رسالت جلد دوم میں مندرجہ اشتہار مؤرخہ ۲۲ را گست ۱۸۹۱ء میں جہاں نام سہؤ اولی محمد صاحب درج ہے مرقوم ہے.د منشی حبیب الرحمن برادر زادہ حاجی ولی محمد صاحب حج مرحوم ساکن کپورتھلہ ( صفحه ۶۵ حاشیہ) گویا حاجی صاحب کی وفات ۲۵ / مارچ ۱۸۹۱ء اور ۲۲ راگست ۱۸۹۱ء کے درمیانی عرصہ میں واقع ہوئی تھی.تبلیغ رسالت کا یہ اندراج وفات کے قریب کے عرصہ کا ہوگا.ایک تہائی صدی بعد قلمی کاپی میںکی گئی تحریر کا یہ حصہ تو صحیح ہے کہ منشی صاحب کی بیعت کے جلد بعد حاجی صاحب کی وفات ہوئی لیکن اس حصہ میں سہو ہے کہ وفات ۱۸۹۲ء میں ہوئی اور اس کی تصحیح تبلیغ رسالت کے اندارج سے ہوتی ہے.نوٹ :- خاکسار نے ۱۹۸۴ء کے قریب عثمانیہ یونیورسٹی (حیدر آباد کی لائبریری میں ایک بہت قدیم انگریزی کتاب کپور تھلہ کی بابت دیکھی اس کے انڈکس میں حاجی صاحب کا نام بطور حج یا سیشن جج کے درج تھا اور یہ کتاب ان کی وفات سے معاً پہلے یا معا بعد کی ہے.اس وقت اس بارے میں میری یادداشت سامنے نہیں.

Page 332

310 حضرت عرفانی صاحب مکتوبات احمدیہ میں رقم فرماتے ہیں:.( حاجی صاحب ) صاف گواور دلیر عہدہ دار تھے ریاستی پالیٹکس کے قابل نہ تھے اس لئے وہ ریاست کے وزیر اعظم تو نہ ہو سکے.مگر یہ واقعہ ہے کہ ریاست کے وزیر اعظم تک ان سے دیتے تھے.حاجی صاحب کا خاندان ضلع میرٹھ کا ایک معز ز خاندان تھا اور ایک مدبر اور علم دوست خاندان سمجھا جاتا تھا.(۶) نشی صاحب کا عہد طفولیت اور تعلیمی حالات اُس وقت کے رواج کے مطابق شرفاء کے بچوں کے لئے گھر پر ہی تعلیم کا انتظام ہوتا تھا.سو آپ نے گھر پر ہی ابتدائی تعلیم پائی.پھر اپنے بڑے بھائی کے ساتھ حفظ قرآن شروع کیا اور ساتھ کے ساتھ مروجہ علم فارسی اور عربی کی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے.ابھی آپ سات پارے ہی حفظ کر پائے تھے کہ آپ کے تایا حاجی محمد ولی اللہ صاحب نے جو اس وقت سرکار انگریزی میں محکمہ مال میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ پر متمکن تھے.آپ کو جو چھ سات سال کے بچے تھے، اپنے پاس بلالیا.اور پھر رفتار زمانہ کو بھانپ کر ان کو مدرسہ میں داخل کر دیا.حالانکہ اس وقت مسلمان عام طور پر انگریزی تعلیم کے مخالف تھے.حاجی صاحب خود انگریزی سے شناسانہ تھے لیکن واسطہ آپ کو زیادہ تر انگریز حکام سے رہتا تھا اور یہ نو جوان انگریزی خوان بطور ترجمان کام آنے لگا ( بیان مولوی محب الرحمن صاحب ) اس طالب علم بچے کو ہر معاملہ میں دور اندیشی کی عادت تھی.حساب اور معاملہ فہمی کا خاص ملکہ اس کو عطاء ہوا تھا.آپ بیان کرتے تھے کہ مدرسہ میں حساب، تاریخ ، جغرافیہ وغیرہ کے خلاصے میں خود ہی تیار کر لیتا تھا.جو مشکل سوال حل نہ ہوتا تو ویسا ہی چھوٹا سا سوال بنا کر میں اسے حل کر لیتا تو مشکل سوال بھی حل ہو جاتا.آپ چوتھی جماعت میں ہی انگریزی میں مراسلت کے قابل ہو گئے تھے.مدرسہ کے اوقات کے باہر متعدد اساتذہ آپ کو تعلیم دیتے تھے.آپ کی صحبت اور میل جول شریف اور نیک بچوں سے تھا.شریر بچوں سے آپ محتر زرہتے تھے.اور اساتذہ کی تعظیم کرتے تھے.اور حق گوئی آپ کا شیوہ تھا.(۷) آپ نے میٹرک تک تعلیم پائی (جو اس زمانہ میں اچھی معیاری تعلیم تھی ) تکمیل تعلیم پر حاجی صاحب نے آپ کو آموخت ( یعنی کام سیکھنے ) پر لگا دیا.آپ مشیر مال کی پیشی میں پوری محنت سے کام کرتے تھے.حاجی صاحب کی وفات پر آپ کو عہدہ تحصیل داری پیش کیا گیا لیکن آپ نے قبول نہ کیا کیونکہ آپ اس مولوی صاحب نے اس انگریز استاد کیپٹن پین (pane) کو دیکھا ہے جو مدرسہ سے فارغ اوقات میں منشی حبیب الرحمن صاحب کو انگریزی کی تعلیم دیتے تھے.

Page 333

311 وجہ سے ملا زمت سے نفرت کرتے تھے کہ اس میں جھوٹ ، فریب اور دھوکہ بازی میں ملوث ہوتا پڑتا ہے اور ایسے قبائح کا ارتکاب خلاف رضائے الہی ہے.حاجی صاحب جنہوں نے آپ کی تربیت مثل فرزند کی تھی ، اُن کی وفات پر ریاست کے دستور کے مطابق آپ کی دستار بندی کی رسم ادا کر کے آپ کو حاجی صاحب کا جانشین بنایا گیا.ہمیں حاجی صاحب کو براہین احمدیہ کا اشتہار ملنا اور حضرت اقدس سے خط وکتابت ہونا منشی حبیب الرحمن صاحب تحریر کرتے ہیں کہ : غالباً ۱۸۸۴ء کا ذکر ہے کہ والد صاحب مرحوم حضرت حاجی محمد ولی اللہ صاحب سیشن جج ریاست کپورتھلہ کے پاس چار اشتہار بذریعہ ڈاک آئے.یہ اشتہار بہت بڑے کا غذ پر تھے.یہ اشتہار حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ السلام کا شائع کیا ہوا تھا اس میں براہین احمدیہ ہر چہار حصہ کا اشتہار تھا اور مسلمانوں کواس کی خرید کی دعوت دی تھی اور حضرت صاحب نے اپنے آپ کو اس اشتہار میں اس صدی کا مجد دظاہر کیا تھا.ساتھ ہی ایک خط بھی تھا جو مرزا سلطان احمد صاحب کی جانب سے اور ان ہی کے قلم سے لکھا ہوا تھا اور ان کا مضمون بھی ایسا ہی تھا اور لکھا تھا کہ ایک اشتہار خود اپنے پاس رکھ کر تین اشتہار اپنے دوستوں میں تقسیم کر دیں.چنانچہ حضرت والد صاحب مرحوم نے ایک اشتہار کرنل محمد علی خان صاحب اور ایک اشتہار میاں عزیز بخش صاحب مرحوم کلکٹر ریاست کپورتھلہ اور ایک اشتہار منشی محمد چراغ صاحب کو بھیج دیا اور ایک خط حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا کہ آپ کے اشتہارات پہنچے اور میں نے تقسیم کر دیئے.اور کچھ ایسے کلمات بھی تحریر کئے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کو ان ( یعنی حضور * ) پر یقین نہیں آیا.اور بے اعتباری ظاہر ہوتی تھی.غالبا یہ بھی لکھا کہ الحکم ۲۸ جولائی ۱۹۳۵ء (صفحہ ۷ کالم ۲ ۳)، ۷ اگست (صفحہ ۷ کالم ۲ و ۳) مضمون مصدقہ منجانب حضرت منشی ظفر ☆ احمد صاحب منشی حبیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ میں اپنے تای حاجی محمدولی اللہ صاحب کی خدمت میں مثل فرزندان رہا.اس لئے قلمی کاپی میں والد صاحب سے مراد وہی ہیں (قلمی کاپی صفحہ ۸) مضمون مصدقہ منجانب حضرت منشی ظفر احمد صاحب (مندرجہ الحکم ۲۸ جولائی ۱۹۳۵ء) ( صفحہ سے کالم۳) میں میں یہ ذکر ہوا ہے کہ یہ واقعہ غالباً ۱۸۸۵ء کا ہے.یہ سہو ہے یہ واقعہ ۱۸۸۴ء کا ہے کیونکہ مجددیت کے بارے حاجی صاحب کے سوالات کا جواب حضور کی طرف ۱۸۸۴ء میں دیا گیا ہے جو آگے درج ہے.* یہ خطوط واحدانی کے الفاظ خاکسار موقف کی طرف سے ہیں.

Page 334

312 ☆.دنیا کی عجیب حالت ہے کہ لوگ دکانیں بنا کر کوئی مجد دبن جاتا ہے.کوئی مصلح بن جاتا ہے.اس طرح لوگوں کو دھوکا دے کر اور فریب سے روپیہ کماتے ہیں.وغیرہ وغیرہ.میری عمر اس وقت قریبا تیرہ سال کی تھی.میں نے یہ خط نہیں پڑھا لیکن بعد کی خط وکتابت دیکھنے سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس خط کے ایسے ہی الفاظ تھے.اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو خط آیا وہ میں نے پڑھا ہے جو حضرت والد صاحب نے مجھے دیدیا تھا کہ میں اس فائل کو حفاظت سے اپنے پاس رکھوں.اب وہ خط اخبار الحکم میں طبع ہو چکا ہے.7 یہ خط حضرت صاحب نے ناراضگی کے ساتھ لکھا تھا.اس میں نصیحتیں بھی تھیں کہ اپنے ایمان کو پختہ کرو اور ساتھ ہی ایک اور اشتہار بھیجا جس کے ایک طرف انگریزی اور دوسری طرف اردواشتہا ر تھا.جوابتداء زمانہ میں بکثرت شائع فرمایا تھا.اور نیز وہ اشتہار سُرمہ چشم آریہ کے پیچھے بھی شامل کیا ہوا تھا.یہ اشتہار حضرت والد صاحب نے نماز جمعہ کے بعد نمازیوں کو سنایا لیکن ان کی گفتگو سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ مطمئن نہیں.اس وقت منشی اروڑ ا صاحب مرحوم اور منشی محمد خان صاحب مرحوم اور منشی عبدالرحمن صاحب بھی موجود تھے.بلکہ یہ خاص طور پر مخاطب تھے فرمایا کہ تم ہر ایک کے پیچھے بلا سوچے سمجھے لگ جاتے ہو.ان کی طرف بھی چلے جاؤ.اسکی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں میں مولوی محمد علی بو پڑی کپورتھلہ زیادہ آیا کرتا تھا.اور اپنی بناوٹی آواز سے لوگوں پر اثر زیادہ کرتا تھا.اور اس طرح چندہ بھی (اسے ) زیادہ مل جاتا تھا.منشی اروڑا صاحب مرحوم اس کے خاص پیروؤں میں (سے) تھے.اور چندہ بھی وہ ہی جمع کر کے دیا کرتے تھے.یہ مولوی وہابی یا اہل حدیث تھا.چونکہ والد صاحب اس کے حالات اور عادات کو دیکھ کر اس کو نا پسند فرماتے تھے.اس لئے جو کچھ اس اشتہار کے سُنانے کے بعد فرمایا، یہ اُسی کی طرف اشارہ تھا.یہ اشتہار بھی حضرت مرحوم نے میرے سپرد فرمایا.کپورتھلہ میں حضرت صاحب کے وجود کا سب سے پہلا اعلان یہ تھا.قلمی کا پی صفحہ ۱ تا۱۲) براہین احمدیہ حاجی صاحب کو میسر آنا منشی صاحب مزید لکھتے ہیں : حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کبھی کوئی اشتہار شائع فرماتے ، والد صاحب مرحوم کے پاس بھی روانہ فرماتے اور وہ پڑھ کر مجھے دے دیتے تھے.ایک دفعہ ایک شہزادہ صاحب لودیانہ سے کپورتھلہ آئے جو ☆ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے مصدقہ مضمون میں تفصیل بالا کی مفہو ما تصدیق موجود ہے ( دیکھئے الحکم ۲۸ / جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۳)

Page 335

313 ریاست کے مہمان تھے.اُن کی مصاحبت میں ایک مولوی صاحب تھے جن کا نام غالباً مولوی محمد تھا.یہ دونوں جناب والد صاحب مرحوم کی ملاقات کے واسطے ہمارے مکان پر آئے.اس وقت ان مولوی صاحب سے حضرت صاحب کے متعلق بھی تذکرہ ہوا.میں بھی موجود تھا.مولوی صاحب نے صاف الفاظ میں کہا کہ وہ کافر ہے.اس نے قرآن شریف میں بھی تحریف کی ہے.اس نے لکھا ہے کہ قرآن شریف (میں) یہ ہونا چاہیے جو مجھے الہام ہوا ہے.إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قَرِيباً مِّنَ الْقَادِيَانِ (۸) اس قسم کا تذکرہ تھا لیکن میں نے دیکھا کہ حضرت والد صاحب کے منہ سے کوئی ایسا کلمہ نہیں نکلا جو حضرت صاحب کی ہتک کا باعث ہو.لیکن وہ مولوی صاحب نہایت سخت الفاظ استعمال کرتے تھے.اس واقعہ سے چند یوم کے بعد ایک شخص خلیفہ غلام محی الدین نے جناب والد صاحب مرحوم سے بیان کیا کہ میں نے براہین احمد یہ منگائی ہے.والد صاحب مرحوم نے بتاکیدان سے فرمایا کہ براہین احمدیہ دیکھنے کے واسطے میرے پاس بھیج دو.اور اس وقت (ہی) ان سے منگائی.تیسری اور چوتھی جلد انہوں نے والد صاحب مرحوم کے پاس بھیج دی.آپ نے اس کا مطالعہ کیا.میں نے دیکھا کہ وہ ہر وقت آپ کے مطالعہ میں رہتی تھی.یہاں تک کہ دونوں جلد میں ختم کر لیں.اس کے بعد آپ نے دو خط تحریر فرمائے ایک خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام اردو میں دوسرا مولوی محمد صاحب کے نام فارسی زبان میں مولوی صاحب کو لکھا تھا کہ آپ...نے جو حالات مرزا صاحب کے سنائے تھے ، اب جو میں نے براہین احمد یہ دیکھی تو وہ سب غلط ثابت ہوئے اور حضرت صاحب کا حق پر ہونا ظاہر فرمایا.مولوی صاحب نے خط کا کچھ جواب نہ دیا.‘ ( قلمی کا پی صفحه ۱۳ تا ۱۵) ☆ آپ مزید لکھتے ہیں کہ : جو خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام لکھا وہ بہت طویل تھا، ٹل سکیپ کے چار ورق پر.اس کی خود ہی نقل کی.اصل خط روانہ فرما دیا.اور نقل مجھے دی کہ اس کو فارسی زبان میں ترجمہ کر کے دکھاؤ.اور اصل کو اپنے پاس محہ محفوظ رکھو اور دوسرا جو مولوی صاحب کے نام فارسی میں تھا.وہ اصل مجھے دیا کہ اس کا ترجمہ کر کے مجھے دکھاؤ.اور خط کو ڈاک میں ڈالو ادو.میں نے اس ارشاد کی تعمیل کی.پہلے بھی ایسے ترجمے اکثر مجھ سے کرایا کرتے تھے.کیونکہ میں سکول میں پڑھتا یہ ہی فائل خط و کتابت کا میرے لئے سلسلہ میں داخل ہونے کا متحرک ہوا ہے.اس سے بڑھ کر یہ کہ کپورتھلہ میں احمدیت کی بنیا دہی جو حضرت مرحوم سے پڑی اور آپ کی تعمیر کردہ مسجد بالآ خرمسجد احمد یہ ہوئی اپنی حیات ہی میں مجھے مسجد کا متوتی مقرر کیا.( قلمی کا پی صفحه ۱۴-۱۵) حضرت اقدس علیہ السلام کے نام حاجی صاحب کے خط مذکورہ بالا پر تاریخ ۲۲ جنوری ۱۸۸۵ء درج ہے.یہ تھا.چند صفحات بعد درج ہے اور اس بارے میں بعض امور بھی.(بقیہ اگلے صفحہ پر )

Page 336

314 حضور کے مجد دہونے کے بارے میں حاجی صاحب کے سوالات براہین احمدیہ کے بارے میں جو اشتہار حاجی محمد ولی اللہ صاحب نے نمازیوں کو سُنا یا ، اس کا ذکر کرنے کے بعد منشی حبیب الرحمن صاحب تحریر کرتے ہیں :- " (حاجی صاحب نے ایک اور خط حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا اور اس طرف سے اطمینان چاہا کہ آپ واقعی مجد دوقت ہیں.اس خط میں دس سوال کئے اور لکھا کہ اگر آپ واقعی مجدد ہیں تو اس کا جواب دیں.اس خط کی نقل اپنے قلم سے کر کے مجھے دی لیکن حضرت صاحب کی طرف سے جواب میں تو قف ہوا اور والد صاحب مرحوم کو بے حد انتظار تھا.اس لئے آپ نے بطور یاد دہانی دوسرا خط حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا اور دو سوال اور ایزاد کئے اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواب دیا.یہ خط بھی اخبار الحکم میں طبع ہو چکا ہے لیکن جناب والد صاحب مرحوم کے محتاط قلب نے ابھی تک یہ یقین نہ کیا.کیونکہ بعض دفعہ اپنے دوستوں سے ذکر اذکار کرتے ہوئے میں نے سُنا تھا.(قلمی کا پی صفحہ ۱۲.۱۳) تھا کہ: حضرت عرفانی صاحب رقم فرماتے ہیں کہ : اگر چہ حضرت نے براہین احمدیہ کی تالیف واشاعت کے لئے جو اعلان شائع کیا تھا اس میں یہ صاف لکھا خدا تعالیٰ کی طرف سے مولف نے ملہم و مامور ہو کر بغرض اصلاح وتجدید دین تالیف کیا ہے.“ جب رفتہ رفتہ آپ کے دعوے کا چرچا ہونے لگا تو بعض لوگوں نے کھلم کھلا آپ سے دعویٰ مجددیت کے متعلق سوالات شروع کر دیئے.اس قسم کے سائلین میں سے ایک حاجی ولی اللہ صاحب ریاست کپورتھلہ کے ایک معزز عہدہ دار تھے.یہ وہی بزرگ ہیں جن کے نام پر پھگواڑہ کے قریب حاجی پور نام ایک گاؤں آباد ہے اور آپ ہمارے مخلص اور باصفا بھائی منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کے عزیزوں میں سے تھے.انہوں نے حضرت کی خدمت میں آپ کے دعویٰ مجددیت کے متعلق خطوط لکھے جن میں آپ سے سوال کیا گیا کہ (بقیہ حاشیہ سابقہ ) حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے تصدیق شدہ مضمون میں جو شی نظیم الرحمن صاحب نے تحریر کیا تھا، یہ امور درج ہیں کہ اس مولوی نے حضرت اقدس پر اعتراض کیا لیکن حاجی صاحب کے منہ سے حضور کے خلاف کوئی کلمہ نہیں نکلا.یہ بھی کہ ایک شخص نے بتایا کہ اس نے براہین احمدیہ منگوائی ہے تو حاجی صاحب نے اس سے حاصل کر کے مطالعہ کیا اور پھر مولوی مذکور کو خط لکھا اور حضور کی خدمت میں طلب عفو کے لئے عرض کیا.(۹) براہین احمدیہ حصہ سوم و چہارم کے ملنے اور طلب معافی کے خط لکھنے کی تاریخوں کا مفصل ذکر دوسری جگہ کیا گیا ہے.

Page 337

315 آپ شریعت میں مجدد ہیں یا طریقت میں.اور تجدید سے کیا مراد ہے اور قرآن مجید سے مجدد کا کیا ثبوت ہے.اس مجدد کو پہلوں پر کوئی فضیلت ہے یا نہیں اور کیا آپ مجددالف ثانی کے پیرو ہیں وغیرہ ان کے ) سوالات نے ایک حقیقت کا اظہار کرا دیا.اگر چہ خود حاجی صاحب کو اس نعمت اور فضل کے قبول کرنے کی توفیق نہ ملی بلکہ ان کو براہین کے التوائے اشاعت سے بعض شکوک اور شبہات پیدا ہوئے اور انہوں نے بعض نا ملائم الفاظ بھی اپنے مکتوب میں لکھے.حضرت اقدس نے ان کو ان کے اُن خطوط کا بھی ایسا جواب دیا کہ جو ایک سلیم الفطرت کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے.حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور ایسے داخل ہوئے کہ مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے ان سے اور ان کے دوسرے رفقاء سے اپنے ساتھ جنت میں ہونے کا وعدہ دیا.“ بہر حال وہ مکتوب حضرت اقدس یہ ہے: مخدومی مکر می اخویم سلّمہ اللہ.بعد سلام مسنون- آنمخدوم کا دوبارہ عنایت نامہ پہنچا.اس عاجز کو اگر چہ باعث علالت طبع طاقت تحریر جواب نہیں لیکن آنمخدوم کی تاکید دوبارہ کیوجہ سے کچھ بطورا جمال عرض کیا جاتا ہے.(۱) یہ عاجز شریعت اور طریقت دونوں میں مجدد ہے.(۲) تجدید کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کم یا زیادہ کیا جاوے.اس کا نام تو نسخ ہے بلکہ تجدید کے یہ معنی ہیں کہ جو عقائد حقہ میں فتور آ گیا ہے.اور طرح طرح کے زوائد ان کے ساتھ لگ گئے ہیں یا جو اعمال صالحہ کے ادا کرنے میں ستی وقوع میں آگئی ہے.یا جو وصول اور سلوک الی اللہ کے طریق اور قواعد محفوظ نہیں رہے.ان کو مجددا تاکیداً بالاصل بیان کیا جائے.وقال اللہ تعالیٰ اعْلَمُوا اَنَّ اللهَ يُحْى الأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ) (1+) یعنی عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ دل مرجاتے ہیں اور محبت الہیہ دلوں سے ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور ذوق اور شوق اور حضور اور خضوع نمازوں میں نہیں رہتا اور اکثر لوگ رو بہ دنیا ہو جاتے ہیں اور علماء میں نفسانیت اور فقراء میں عجب اور پست ہمتی اور انواع و اقسام کی بدعات پیدا ہو جاتی ہیں تو ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ صاحب قوت قدسیہ پیدا کرتا ہے اور وہ حجتہ اللہ ہوتا ہے.اور بہتوں کے دلوں کو خدا کی طرف کھینچتا ہے.اور بہتوں پر اتمام حجت کرتا ہے.یہ وسوسہ بالکل نکہتا ہے کہ قرآن شریف و احادیث موجود ہیں پھر مجدد کی کیا ضرورت ہے.یہ انہی لوگوں کے خیالات ہیں جنہوں نے کبھی غمخواری سے اپنے ایمان کی طرف نظر نہیں کی.اپنی حالت اسلامیہ کو نہیں

Page 338

316 جانچا.اپنے یقین کا اندازہ معلوم نہیں کیا بلکہ اتفاقاً مسلمانوں کے گھر پیدا ہو گئے.اور پھر رسم و عادات کے طور پر لا اله الا اللہ کہتے رہے.حقیقی یقین اور ایمان بحجر صحبت صادقین میسر نہیں آتا.قرآن شریف تو اس وقت بھی ہوگا جب قیامت آئے گی مگر وہ صدیق لوگ نہیں ہوں گے کہ جو کہ قرآن شریف کو سمجھتے تھے اور اپنی قوت قدسی سے مستعدین پر اس کا اثر ڈالتے تھے.لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (۱) پس قیامت کے وجود کامانع صرف صدیقوں کا وجود ہے.قرآن شریف خدا کی روحانی کتاب ہے.اور صدیقوں کا وجود خدا کا ایک مجسم کتاب ہے.جب تک یہ دونوں نمایاں انوار ایمانی ظاہر نہیں ہوتے تب تک انسان خدا تک نہیں پہنچتا - فتد برو او تفکروا (۳) اس کا جواب جواب دوم میں آ گیا ہے.(۴) اول قرآن شریف مجدد کی ضرورت بتلاتا ہے.جیسے میں نے ابھی بیان کیا ہے.قال اللہ تعالیٰ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (۱۲) وقال الله تعالیٰ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (۱۳) اور ایسا ہی حدیث نبوی بھی مجد د کی ضرورت بتلاتی ہے: عن ابي هريرة قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عليه وسلم إِنَّ اللَّهَ يَبْحَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَاسٍ كُلَّ مِائَةٍ مَنْ يُحِدَّدُ لَهَارِيْنَهَا (اله) اور اجماع سنت و جماعت بھی اس پر ہے کیونکہ کوئی ایسا مومن نہیں کہ جو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روگردان ہوسکتا ہے اور قیاس بھی اسی کو چاہتا ہے.کیونکہ جس حالت میں خدا تعالیٰ شریعت موسوی کی تجدید ہزار ہا نبیوں کے ذریعہ سے کرتا رہا ہے اور گو وہ صاحب کتاب نہ تھے مگر مجد دشریعت موسوی تھے.اور یہ اُمت خیر الام ہے قال الله تعالى:- كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ) (۱۵) پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس امت کو خدا تعالیٰ بالکل گوشئہ خاطر عاطر سے فراموش کر دے اور باوجود صد ہا خرابیوں کے کہ جو مسلمانوں کی حالت پر غالب ہو گئی ہیں اور اسلام پر بیرونی حملے ہورہے ہیں ، نظر اُٹھا کر نہ دیکھے جو کچھ آج کل اسلام کی حالت خفیف ہو رہی ہے، کسی عاقل پر مخفی نہیں یعنی تعلیم یافتہ عقائد حقہ سے دست بردار ہوتے جاتے ہیں.پرانے مسلمانوں میں صرف یہودیوں کی طرح ظاہر پرستی یا قبر پرستی رہ گئی ہے.ٹھیک ٹھیک رو بخدا کتنے ہیں، کہاں ہیں اور کدھر ہیں.ہر ایک صدی میں کوئی نامی مجدد پیدا ہونا ضروری نہیں.نامی گرامی مجد دصرف

Page 339

317 اسی صدی کے لئے پیدا ہوتا ہے کہ جس میں سخت ضلالت پھیلتی ہے جیسے آج کل ہے.(۵) پانچواں سوال میں آپ کا سمجھا نہیں.مجھ سے اچھی طرح پڑھا نہیں گیا.(۶) حضرت مجد دالف ثانی اپنے مکتوب میں آپ ہی فرماتے ہیں کہ جولوگ میرے بعد آنے والے ہیں.جن پر حضرت احدیت کی خاص عنایات ہیں ان سے افضل نہیں ہوں.اور نہ وہ میرے پیر و ہیں.سو یہ عاجز بیان کرتا ہے.نہ فخر کے طور پر بلکہ واقعی طور پر شكراً لنعمة الله کہ اس عاجز کو خدا تعالیٰ نے ان بہتوں پر افضلیت بخشی ہے کہ جو حضرت مجد دصاحب سے بھی بہتر ہیں.اور مراتب اولیاء سے بڑھ کر نبیوں سے مشابہت دی ہے.سو یہ عاجز مسجد دصاحب کا پیر نہیں ہے.بلکہ براہ راست اپنے نبی کریم کا پیرو ہے اور جیسا سمجھا گیا ہے، بدلی یقین سمجھتا ہے کہ ان سے اور ایسا ہی ان بہتوں سے کہ جو گزر چکے ہیں، افضل ہے، و ذلك فضل الله يُؤتيه من يشاء- (۷) خدا تعالیٰ کے کلام میں مجھ سے یہ محاورہ نہیں ہے.مجھ کو حضرت خداوند کریم محض اپنے فضل.صدیق کے لفظ سے یاد کرتا ہے.اور نیز دوسرے ایسے لفظوں سے جن کے سننے کی آپ کو برداشت نہیں ہوگی اور حضرت خداوند کریم نے مجھ کو اس خطاب سے معز ز فرما کر (14) إِنِّي فَضَّلْتُكَ عَلَى الْعَالَمِيْنَ قُلُ أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (١٢) یہ بات بخوبی کھول دی ہے کہ اس نا کارہ کو تمام عالمین یعنی تمام روئے زمین کے باشندوں پر فضیلت بخشی گئی ہے.پس سوال ہفتم کے جواب میں اسی قدر کافی ہے.(۸) اس ناکارہ کے والد مرحوم کا نام غلام مرتضیٰ تھا.وہی جو حکیم حاذق تھے.اور دنیوی وضع پر اس ملک کے گردو نواح میں مشہور بھی تھے.والسلام علیٰ من اتبع الهدى / دسمبر ۱۸۸۴ء (۱۷) التو ئے براہین احمدیہ پر اعتراض حضرت عرفانی صاحب رقم فرماتے ہیں کہ حاجی ولی اللہ صاحب کو ابتداء حضرت اقدس سے کچھ اخلاص تھا.اور وہ براہین احمدیہ کے خریدار بھی تھے.لیکن جب براہین کی چوتھی جلد کی اشاعت کے ساتھ اس کی آئندہ اشاعت ایک غیر معتین عرصہ کے لئے معرض التواء میں آئی تو جن لوگوں کو شکوک و شبہات شروع ہوئے ان میں سے ایک حاجی ولی اللہ صاحب بھی تھے.وہ ریاست کپورتھلہ میں ایک معزز عہدہ دار تھے اور اپنی حکومت و امارت کا بھی ایک نشہ تھا.حضرت کو انہوں نے ایک سخت خط لکھا.جس میں براہین احمدیہ کے التوائے اشاعت کی وجہ سے وعدہ شکنی وغیرہ کے الزامات لگائے گئے

Page 340

318 مگر حضرت نے ان کے مکتوب کو تو حوصلہ اور برداشت سے پڑھا لیکن خیانت اور بددیانتی کا الزام چونکہ محض اتہام تھا آپ نے اس کا نہایت دندان شکن جواب ایسے رنگ میں دیا جو صرف خدا تعالے کے مامورین و مرسلین کا خاصہ ہے.آخر حاجی صاحب براہین کے متعلق اعتراضات کرنے سے تو باز آ گئے اور انہوں نے حضرت سے اپنے دعوی کے متعلق سوالات کئے جن کا جواب او پر دیا گیا ہے.لیکن اس کے بعد ان کے تعلقات کم ہوتے گئے.اور خدا تعالیٰ نے ان کی جگہ ایک نہایت مضبوط اور مخلصین کی جماعت حضرت کو دیدی.اور یہ کپورتھلہ کی جماعت ہے جن میں خود ان کے بعض عزیز اور رشتہ دار بھی تھے اور ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ ابتداء جب کہ حضرت نے کوئی دعوا می نہ کیا تھا.براہین ہی کو دیکھ کر حاجی صاحب خودلوگوں پر ظاہر کیا کرتے تھے کہ یہ مجدد ہیں.چنانچہ منشی ظفر احمد صاحب.......فرماتے ہیں کہ حاجی صاحب ۳۸ یا ۳۹ بکرمی میں قصبہ سراوہ ضلع میرٹھ میں تشریف لے گئے تھے.اس وقت ان کے پاس براہین احمدی تھی.وہ حاجی صاحب سنایا کرتے تھے.اور بہت سے آدمی جمع ہو جایا کرتے تھے.مختلف لوگوں اور مجھ سے بھی سنا کرتے تھے.اور حاجی صاحب لوگوں پر یہ ظاہر فرماتے تھے کہ یہ مجدد ہیں.وو حاجی صاحب کو جو مصیبت پیش آئی وہ کسی مخفی مصیبت از قسم کبر وغیرہ یا اعتراض کے نتیجہ میں آئی جو براہین کے التواء پر کیا تھا جن ایام میں ان کے اندر مخالفت یا انکار کے کیڑے ابھی پیدا نہ ہوئے تھے انہی ایام میں خدا تعالیٰ مخلصین کی اس جماعت کو تیار کر رہا تھا.جیسا کہ منشی ظفر احمد صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو انہی دنوں بڑی عقیدت پیدا ہوگئی تھی.جب حاجی صاحب سرا وہ گئے تھے اور منشی صاحب براہین سنایا کرتے تھے.لیکن ۱۹۴۱ء بکرمی (۱۸۸۴ء) وہ کپورتھلہ آگئے تو براہین کا باقاعدہ درس انہوں نے شروع کر دیا.اور یہی جماعت صالحین پیدا ہونے کا ذریعہ ہو گیا.ادھر ۱۸۸۴ء کے آخر تک حاجی صاحب نے قریباً قطع تعلق کر لیا اور خدا کے فضل نے ان کی جگہ مخلصین کی ایسی جماعت پیدا کر دی جو اپنے اخلاص و وفا میں بے نظیر ثابت ہوئی.(۱۸) التوائے براہین احمدیہ کے بارے اعتراض کے جواب میں حضرت اقدس کا متذکرہ بالا مکتوب درج ذیل ہے.مخدومی مکر می اخویم حاجی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ☆ (۱) '' (۱۸۸۴ء)‘ اصل عبارت میں موجود ہے.۱۹۴۱ء بکرمی، کا سال ۲۸ / مارچ ۱۸۸۴ء تا ۱۸۸۵ء ممتد ہے.(باء)’حاجی صاحب کو مصیبت پیش آئی وہ کسی مخفی مصیبت از قسم کیپر وغیرہ میں مصیبت کا لفظ دونوں جگہ سہو کتابت سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے.در حقیقت لفظ ”معصیت ہے.( مؤلّف اصحاب احمد )

Page 341

319 بعد سلام مسنون آج مدت کے بعد عنایت نامہ پہنچا.آپ نے جس قدر اپنے عنایت نامے میں اس احقر عباداللہ کی نسبت اپنے بزرگانہ ارشادات سے بدنیتی ، ناراستی ، اور خراب باطنی اور وعدہ شکنی اور انحراف از کعبہ حقیقت وغیرہ وغیرہ الفاظ استعمال کئے ہیں.میں ان سے ناراض نہیں ہوسکتا کیونکہ اول تو ع هر چه از دوست می رسد نیکوست ماسوا اس کے اگر خداوند کریم ورحیم ایسا ہی برا انجام کرے جیسا آپ نے سمجھا ہے تو میں اس سے بدتر ہوں اور درشت تر الفاظ کا مستحق ہوں.رہی یہ بات کہ میں نے آپ سے کوئی وعدہ خلافی کی ہے یا میں عہد شکنی کا مرتکب ہو ا ہوں تو اس وہم کا جواب زیادہ تر توجہ سے خود آپ ہی معلوم کر سکتے ہیں جس روز چھپے ہوئے پر دے کھلیں گے اور جس روز حــــــل مـــافــی الصدور کا عمل درآمد ہوگا اور بہت سے بدظن اپنی جانوں کو رویا کریں گے.اس روز کا اندیشہ ہر ایک جلد باز کو لازم ہے.یہ سچ ہے کہ براہین احمدیہ کی طبع میں میری اُمید اور اندازے سے زیادہ تو قف ہو گیا مگر اس تو قف کا نام عہد شکنی نہیں میں فی الحقیقت مامور ہوں اور درمیانی کارروائیاں جو الہی مصلحت نے پیش کر دیں ، دراصل وہی توقف کا موجب ہو گئیں جن لوگوں کو دین کی غمخواری نہیں.وہ کیا جانتے ہیں کہ اس عرصہ میں کیا کیا عمدہ کام اس براہین کی تکمیل کے لئے ہوئے اور خدا تعالیٰ نے اتمام حجت کے لئے کیا کیا سامان میسر کئے.آپ نے سُنا ہوگا کہ قرآن شریف کئی برسوں میں نازل ہوا تھا کیا وہ ایک دن ( میں ) نازل نہیں ہوسکتا تھا.آپ کو اگر معلوم نہ ہو تو کسی باخبر سے دریافت کر سکتے ہیں کہ اس عرصہ میں یہ عاجز بے کار ہایا بڑا بھاری سامان اتمام حجت کا جمع کرتا رہا تمیں ہزار سے زیادہ اشتہارات اردو انگریزی میں تقسیم ہوئے.بیس ہزار سے زیادہ خطوط میں نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر مختلف مقامات میں روانہ کئے.ایک عقلمند اندازہ کر سکتا ہے کہ علاوہ جد و جہد اور محنت اور عرقریزی کے کیا کچھ مصارف ان کارروائیوں پر ہوئے ہوں گے.ہر ایک کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.بد باطن اور نیک باطن کو ( وہ ) خوب جانتا ہے.وان یک کاذباً فعلیه کذبہ اور اگر بقول آپ کے میں خراب اندروں ہوں اور کعبہ کو چھوڑ کر بت خانہ کو جارہا ہوں تو وہ عالم الغیب ہے آپ سے بہتر مجھے جانتا ہوگا لیکن اگر حال ایسا نہیں ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ روز مطالبہ اس بدظنی کا کیا جواب دیں گے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے.ولا تقف ماليس لك به علم ان السمع والبصرَ وَالْفُوز و كلّ أُوْلَئِكَ كان عنه مسئولا والسَّلام على مَن اتَّبع الهدى (۲۳/ دسمبر ۱۸۸۴ء) (۱۹) حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 342

320 پھر حضور کی جانب سے ذیل کا مکتوب حاجی صاحب کو رقم فرمایا گیا: مخدومی مگر می اخویم حاجی محمد ولی اللہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ کا جواب بھیجا گیا تھا مگر آج تک انتظار رہا کہ آپ کی طرف سے کوئی جواب آوے تا پورا منشاء خط سابق کا ظاہر کیا جاوے.آخر جواب سے نا امید ہو کر خود اپنی طرف سے تحریک کی جاتی ہے کہ آنمخدوم کے خط سابق میں اس قدر حرارت اور تلخی بھری ہوئی تھی اور ایسے الفاظ درشت اور ناملائم تھے جن سے یہ بداہت یہ بو آ رہی تھی کہ آن مکرم کی بدظنی غایت درجہ کے فساد اور خرابی تک پہنچ گئی ہے.حاشیہ سابقہ: بعض امور کی تصحیح یہاں پیش کی جاتی ہے:- (۱) سہو.تاریخ مکتوب ۲۳ / دسمبر ۱۸۸۴ء تصحیح :- (الف) - براہین احمدیہ کے سالہائے طبع یہ ہیں: حصہ اوّل و دوم -۱۸۸۰ء حصہ سوم.۱۸۸۲ء ( گویا دو سال بعد ) حصہ چہارم ۱۸۸۴ء ( گویا دو سال بعد ) سو جبکہ حصہ سوم، حصہ اول و دوم کے مجموعہ کے دو سال بعد اور حصہ چہارم حصہ سوم کے دو سال بعد شائع ہوا.ظاہر ہے کہ چند ہی ماہ بعد کسی خریدار کو حصہ پنجم کے شائع نہ ہونے کا شکوہ پیدا نہیں ہوسکتا تھا.نہ ہی چند ماہ بعد حضرت اقدس کو یہ کہنا پڑتا (جیسا کہ) مکتوب زیر، تذکرہ میں حضور نے رقم فرمایا کہ براہین احمدیہ کے بقیہ کے طبع میں میری امید اور اندازے سے زیادہ تو قف ہو گیا ہے.لوگوں کو کیا معلوم ہے کہ اس عرصہ میں کیا کیا کام تکمیل براہین کے لئے ہوئے.میں بریکار نہیں رہا.بلکہ بڑا بھاری سامان اتمام محبت کا جمع کرتا رہا.بیس ہزار سے زیادہ خطوط میں نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر روانہ کئے.تفصیل ہذا سے عیاں ہے کہ بیس ہزار خطوط اپنے قلم سے تحریر کرنا اور دیگر امور یہ عظیم کام چند ماہ میں سرانجام نہیں پاسکتے تھے اس لئے ممکن ہے مکتوب زیر تذکرہ کی تاریخ تحریر ہونے یا شائع ہونے میں سہو ہوا ہو.خاکسار مؤلف اصحاب احمد کے پاس اس مکتوب کی نقل بقلم منشی تنظیم الرحمن صاحب موجود ہے جس میں صاف تحریر میں تاریخ ۲۳ / دسمبر ۱۸۸۶ء درج ہے.اور یہی صحیح معلوم ہوتی ہے.باء-حضرت اقدس کو اس مکتوب کا جواب نہ آیا تو پھر حضور نے یاد دہانی کروائی.یاددہانی کرنے والے مکتوب کی تاریخ ۴ فروری ۱۸۸۵ طبع ہوئی ہے.جو مکتوب در حقیقت جنوری ۱۸۸۷ء کا ہے.( یہ مکتوب آگے درج ہے) (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )

Page 343

321 اگر کتاب کی خرید وفروخت کا تعلق نہ ہوتا تو ہر گز امید نہ تھی کہ آپ کے قلم سے ایسے الفاظ نکلتے.پس اس سے ثابت ہوا کہ ایسے منحوس تعلق نے آپ جیسے بزرگ کی طبیعت کو آشفتہ کیا.اور ابھی معلوم نہیں کہ آشفتگی اور پریشاں بدظنی بقیه حاشیه سابقه : گویا ۲۳ دسمبر ۱۸۸۶ء کے مکتوب کا جواب نہ آنے پر حضور نے جنوری ۱۸۸۷ء میں یاد دہانی کروائی تھی.(۲) سہو.حاجی صاحب کے پاس ۱۹۳۸ء یا ۱۹۳۹ء بکرمی میں براہین احمدیہ موجود تھی تصحیح:.اولاً حاجی صاحب نے براہین احمدیہ حصہ سوم وحصہ چہارم مطالعہ کے لئے کسی سے مستعار حاصل کئے تھے اور حصہ چہارم کا سنِ طباعت ۱۸۸۴ء ہے جو مطابق ہے.۳ پوس ۱۹۴۰ء / ما گھر ۱۹۴۱ء بکرمی کے گویا ۱۹۳۸ اور ۱۹۳۹ بکرمی میں تو ابھی براہین احمدیہ کے یہ قصص طبع ہی نہیں ہوئے تھے.(۳) سہو.التوائے براہین احمدیہ کی وجہ سے حاجی صاحب نے وعدہ شکنی کے الزامات لگائے جن کا جواب ملنے پر حاجی صاحب ان الزامات سے باز آ گئے اور انہوں نے دعوی مجد دیت کے بارے سوال کئے.صحیح ترتیب یہ ہے کہ اولاً حاجی صاحب کی طرف سے مجددیت کے بارے سوالات ہوئے جس کا ثبوت حضور کا جواب ہے.جو ۳۰ دسمبر ۱۸۸۴ء کارتم فرمودہ ہے.بعدۂ حاجی صاحب نے التوائے طبع براہین احمدیہ کے بارے اعتراض کیا جس کا جواب حضور نے اس مکتوب میں دیا جس کی صحیح تاریخ او پر ۲۳ دسمبر ۱۸۸۶ء بتائی گئی ہے.(۴) سہو:- آخر ۱۸۸۴ء تک حضور سے حاجی صاحب نے قطع تعلق کر لیا تصحیح:.جب التوائے طبع براہین احمدیہ کے بارے حاجی صاحب نے اعتراض کیا تھا تو حاجی صاحب کے حضور سے تعلق میں کمی آئی تھی پھر حاجی صاحب نے معافی طلب کر لی اور سہ ماہی اوّل ۱۸۸۹ء تک ان کا تعلق حضور سے قائم رہا.عنوان ” حاجی محمد ولی اللہ صاحب کی آخری حالت کا جائزہ میں تفصیل درج ہے.

Page 344

322 کہاں تک منجر ہو.اور اس عاجز کا حال یہ ہے کہ تمام کاروبار بجز ذات باری عز اسمہ کسی کے بھروسہ پر نہیں.پس اسی صورت میں قرین مصلحت ہے کہ فسخ بیع اور استرداد قیمت مرسلہ سے آپ کی طبیعت کو ٹھنڈا ( کیا ) اور آرام پہنچایا جاوے.کیونکہ اس تمام اشتعال کا بجز اس کے اور کوئی موجب نظر نہیں آتا کہ چند درہم کی جدائی نے جو بہر صورت جدا ہو نیوالے ہیں.آپ کی طبیعت کو تر ددو تاسف و پریشانی و حیرت میں ڈال دیا ہے تو اسی نظر سے یہ خط بھیجا جاتا ہے کہ اگر ان سخت اور نالائق الفاظ کا موجب یہی ہے جو میں نے سمجھا ہے تو آپ مجھ کو قیمت کے لئے اطلاع دیں تا کہ آپ کی قیمت مرسلہ واپس کر کے وہ علاج کر دیا جائے جس سے کف لسانی کی سعادت جو شعار مؤمنین ہے، آپ کو حاصل ہو.اگر آپ رسالہ سرمہ چشم آریہ دیکھتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ اس عاجز نے پہلے ہی اشتہار دے دیا ہے کہ اگر کوئی تو قف طبع براہین احمدیہ پر ناراض ہو اور اپنی قیمت واپس لینا چاہے تو وہ اطلاع دے تو ویسے سب خریداروں کی قیمت واپس ہوگی.آپ پر یہ واضح رہے کہ جو لوگ بدظنی کرتے ہیں اور منہ سے گندی باتیں نکالتے ہیں وہ ہمارا کچھ نقصان نہیں کر سکتے.وہ آپ ہی بدظن ہو کر خَسِرَ الدُّنيا و الآخرة کے مصداق ٹھہر جاتے ہیں.یہ کاروبار سب جناب الہی کی طرف سے ہے.اور وہی اس کو بخیر و خوبی پورا کرے گا.اگر تمام بنی آدم ایسا ہی خیال دل میں پیدا کریں جیسا کہ آج کل آپ کا ہے.تو تب بھی ایک ذرہ ہم کو ضر ر نہیں پہنچا سکتا.ہمارا وہ مربی کریم ہے جس نے تاریکی کے زمانہ میں مامور کیا.وہ ہمارے ساتھ ہے اور وہی کافی ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبِعَ الْهُدَى - ۱۸ ؍ ربیع لثانی ۱۳۰۲ھ ( ۴ فروری ۱۸۸۵ء) (۲۰) بقیہ حاشیہ: حضور نے ۱۸۹۱ء میں منشی صاحب کی بیعت کے وقت بھی ان سے حاجی صاحب کے بارے دریافت فرمایا تھا.اس سے بھی اس امر پر روشنی پڑتی ہے.☆ عبارت سے ایسے صحیح معلوم ہوتا ہے، گویا کہ سہو کتابت ہے (مؤلف اصحاب احمد ) (۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام ” اشتہار واجب الاظہار میں جوسرمہ چشم آریہ کے سرورق اول کے اندرون کی طرف شائع کیا گیا ہے.براہین احمدیہ کے بقیہ حصہ کی طباعت کے التواء کے سلسلہ میں رقم فرماتے ہیں کہ حصہ چہارم کے بعد بہت سے کام کئے گئے.تیس ہزار اشتہار تقسیم کئے گئے.اور ایشیا، یورپ و امریکہ کے صدہا مقامات پر اردو اور انگریزی میں طبع کرا کے اشتہارات رجری کرا کے بھجوائے گئے.بایں ہمہ اگر کوئی صاحب اس توقف سے ناراض ہوں تو ہم ان کو فسخ بیچ کی اجازت دیتے ہیں.وہ ہمیں تحریر کر کے قیمت مرسلہ واپس حاصل کر لیں ، (۲) (بقیہ اگلے صفحہ پر ) ،،

Page 345

323 حضرت اقدس سے حاجی صاحب کا طلب عفو بعد کا خط مرقومہ منجانب حاجی محمد ولی اللہ صاحب (جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے ) ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:- الله اكبر بخدمت با برکت مرزا صاحب مجمع فضائل و کمالات دینی و دنیوی دام مسجد کم ! پس از ابراز لوازم مکرمت و احترام گذارش آنکه یه عاجز گنہ گار معافی چاہتا ہے جو سابقہ نیاز نا مجات ارسال خدمت کئے تھے اور اس میں آپ کو مقلد سید احمد نیچری کا تحریر کیا تھا.یا کوئی اور لفظ خلاف ادب تحریر ہوگیا ہو یا آپ کے غائبانہ کوئی لفظ بر خلاف ذات شریف اور منشاء شریف کے زبان پر گذر گیا ہو.کیونکہ وہ وقت نادانی اور نا واقفی اصل حال کا تھا.اس زمانہ میں جو ظلمات کا دورہ ہے اور ہر طرف سے دیکھا جاتا ہے (کہ) جو فروش اور گندم نما اول اپنی خوبیوں کو ظاہر کرتے ہیں.پھر وہ اپنی دنیا طلبی دکھلاتے ہیں.یہ بڑی احتیاط کا زمانہ ہے اگر ( کوئی بقیہ حاشیہ: (۲) سرمه چشم آریہ والا مناظرہ ۱ اوم ار مارچ ۱۸۸۶ء کو ہوا جس کی بحث پر مشتمل یہ کتاب طبع ہوئی.اس کے ورق پر تاریخ طبع ستمبر ۱۸۸۶ ء مرقوم ہے.(۳) مکتوب مندرجہ متن میں سرمہ چشم آریہ کا ذکر حضور کر کے تحریر کرتے ہیں کہ اگر آپ یہ رسالہ دیکھتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ اس عاجز نے پہلے ہی اشتہار دیدیا ہے کہ جو صاحب چاہیں ادا شدہ قیمت واپس لے لیں.سواس داخلی شہادت سے ظاہر ہے کہ یہ مکتوب تاریخ اشاعت رسالہ مذکورہ (ستمبر ۱۸۸۶ء) سے پہلے کانہیں.ستمبر یا اس کے بعد کارتم کردہ ہے اور مکتوبات احمد یہ میں اندراج تاریخ میں سہو ہوا ہے.(۴) حضرت عرفانی صاحب کو بھی تاریخ کا یہ ہو کھٹکا ہے آپ اس مکتوب کے اندراج کے بعد رقم فرماتے ہیں کہ اس مکتوب میں آپ نے براہین احمدیہ کی قیمت کی واپسی کے متعلق اشتہار مندرجہ سرمہ چشم آریہ کا بھی حوالہ دیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید تاریخوں میں کچھ غلطی ہوئی ہو.(۲۲) (۵) نقل مکتوب ہذا بقلم منشی تنظیم الرحمن صاحب جو خاکسار کے پاس موجود ہے.اس میں عیسوی تاریخ درج نہیں صرف ۸۸ ربیع الثانی ۱۳۰۴ھ صاف خط میں تحریر ہے.جو کہ مطابق ہے سر جنوری ۱۸۸۷ء کے.اگر یہ تاریخ ۱۸ ربیع الثانی مطابق ” مکتوبات احمدیہ ہو تو مطابق ہے ۱۳/ جنوری کے.تاریخ مکتوب ۱۳ یا ۱۳ جنوری ۱۸۸۷ء (باقی اگلے صفحہ پر )

Page 346

324 شخص ) احتیاط نہ کرے تو سلامتی ایمان کی ناممکن ہے.اشتہارات اور آدازہ تصنیفات سید احمد کے دیکھ سُن کر میں نے ایک دوست کو مشورہ دیا تھا کہ تصنیفات اس کی منگا لینی چاہیں تا کہ دیکھ کر اصل بات سے واقفیت پیدا ہوگی.چنانچہ اس نے اپنا روپیہ صرف کیا.جب ان کو دیکھا، معلوم ہوا کہ یہ جانب دین سے بالکل پردہ ڈالتی ہیں.اور ظلمت کو زیادہ کرتی ہیں اور جیفہ دنیا کی طرف زور سے پکڑ کر زنجیر نگین ڈال کر کھینچے لئے جاتی ہیں.اس واسطے بندہ کو افسوس اس مشورہ سے ہوا.جس دوست کو مشورہ دیا تھا اس کی تعلیم اور صحبت مستعد ہوگئی تھی.اس نے اس کی طرف توجہ مفرط کر لی اور اس کے مسائل پر قائم ہو گیا.چونکہ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ منیش نہیں کھاتا.اور چھاچھ کو بھی دودھ کی طرح گرم سمجھ کر پھونک پھونک کر نوش کرتا ہے.اس واسطے آپ بقیہ حاشیہ ثابت ہونے سے نیچے سرمہ چشم آریہ کے ذکر سے پیدا شدہ اشکال بابت تاریخ مکتوب بھی حل ہو جاتا ہے.گویا یہ معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ حاشیہ میں جس مکتوب کی صحیح تاریخ ۲۳ / دسمبر ۱۸۸۶ء بتائی گئی ہے.اس کا جواب حاجی صاحب کی طرف سے نہ آنے پر بطور یاد دہانی حضرت اقدس نے یہ مکتوب رقم فرمایا جس کی صحیح تاریخ ۳ یا ۱۳ جنوری ۱۸۸۷ء ثابت ہوتی ہے.(4) اس مکتوب میں جس کی صحیح تاریخ جنوری ۱۸۸۷ء کی بتائی گئی ہے.حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں کہ آپ (حاجی صاحب) نے طبع براہین احمدیہ کے التواء کے بارے اعتراض کیا ہے کیونکہ میرے ساتھ آپ کا اس کتاب کی خرید وفروخت کا تعلق ہے.حضور کے مکتوب سے یہی ظاہر ہے کہ حضور حاجی صاحب کو خریدار سمجھتے تھے.لیکن اس کے بعد حاجی صاحب نے جو خط حضور کی خدمت میں تحریر کیا ہے اس میں صاف درج ہے کہ انہوں نے براہین احمدیہ نہیں خرید کی تھی.اور اب چاہتے ہیں کہ حضور یہ کتاب ارسال فرما ئیں.گویا حضور اعتراض کی وجہ سے سمجھے ہوں گے کہ حاجی صاحب خریدار ہیں.تبھی اس شد و مد سے حاجی صاحب نے اعتراض کیا ہے.(۷) حاجی صاحب کے جس مکتوب کی تاریخ ۲۲ جنوری ۱۸۸۵ طبع ہوئی ہے.اس میں حضرت اقدس کو حاجی صاحب نے مجمع فضائل و کمالات دینی قرار دیا ہے اور حضور کی روحانی اور باطنی قوت کی بہت مدح و توصیف کی ہے.اور اپنی گزشتہ باتوں کی معافی نہایت عاجزی سے حضور سے طلب کی ہے اور براہین احمدیہ کی افادیت کی بہت تعریف کرنے ہوئے اس کی جلد بھیجوانے کے لئے عرض کیا ہے.یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ حاجی صاحب کے ایسے خط کے چند دن بعد حضرت اقدس ان کو رقم فرماتے کہ آپ چاہیں تو براہین احمدیہ (باقی اگلے صفحہ پر )

Page 347

325 کے اشتہار کو بھی دیکھ کر احتیاطاً اسی قسم کا سمجھا تھا.اب اتفاقیہ دو جلدیں سویم و چهارم کتاب آپ کی دستیاب ہوگئیں.اور اوّل سے آخر تک مطالعہ میں آگئی ہیں اور اس عاجز کو وہ ایسی بر خلاف تصنیفات سید احمد سے معلوم ہوئی ہیں گویا زمین آسمان کا فرق ہے یعنی وہ دنیا کی طرف لے جانے کا زور دیتی ہیں.اور آپ کی کتاب دین کی طرف لے جاتی ہے.وہ خیالات جو دین اور اہل دین ،سابقین اولین اور متأخرین اور محققین کی جانب سے بجبر منہ پھیرے دیتے ہیں.اور شکوک اور توہمات، دین اور قرآن شریف اور نبوۃ صلی اللہ علیہ وسلم پر اثر شیاطین اور دجا لان سے کسی کے دل میں کسی وقت پیدا ہوتے ہیں.ان کی بڑے زور شور سے بیخ کنی کرتی ہے.اور انوار اور برکات کے نزول کا سبب ہوتی ہے..بقیہ حاشیہ: - کے التواء کی وجہ سے قیمت واپس لے سکتے ہیں اور حضور خَسِرَ الدُّنيا والآخرة کے مصداق لوگوں کا ذکر فرماتے.نتیجہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ طلب عفو والا خط حاجی صاحب کا بعد کا ہے.جواشی کا جن میں حاجی صاحب کی چٹھی مؤرخہ ۲۲ / جنوری ۱۸۸۵ء کے بارے حاشیہ آگے آئیگا خلاصہ یوں ہے: خلاصه مضمون مکتوب تاریخ مطبوعہ (۱) التوائے براہین احمدیہ کے اعتراض ۲۳ دسمبر ۱۸۸۴ء کے بارے حضرت اقدس کا مکتوب (ب) اپنے مکتوب بالا کا جواب حاجی |۴ رفروری ۱۸۸۵ء صاحب کی طرف سے نہ آنے پر حضور کی طرف سے یاددہانی.(ج) حاجی صاحب کا خط بابت معافی ۲۲ / جنوری ۱۸۸۵ء صحیح تاریخ عیسوی مع تاریخ بکرمی ۲۳ رو سمبر ۱۸۸۶ء (مطابق ۱۳ پوس ۱۹۴۳ء) ۳ یا ۱۳ار جنوری ۱۸۸۷ء ( ۱۳ جنوری مطابق ۴ / ماگ ۱۹۴۳ء) ۲۲ یا ۲۴ جنوری ۱۸۸۷ء (مطابق ۱۳ یا ۱۵ار ماگ ۱۹۴۳ء) گویا حاجی صاحب کا طلب عفو کا خط حضرت اقدس کے مکتوب کے بعد کا ہے.اور جیسا کہ آگے ذکر آئے گا اس طلب معافی کے خط کے بعد حضور نے ان سے محبانہ رابطہ رکھا.اس خط میں حاجی صاحب لکھتے ہیں کہ اب اتفاقیہ دو جلد میں سوم و چہارم کتاب آپ کی دستیاب ہو گئیں اور اول سے آخر تک مطالعہ میں آگئی ہیں.اس سے تعیین و تصحیح ہوتی ہے کہ ماگ ۱۹۴۳ کرمی میں یا اس سے جلد پہلے یہ جلد میں حاجی صاحب کو میسر آئی تھیں.جن کے مطالعہ کے بعد حاجی صاحب نے حضور سے معافی طلب کی.

Page 348

326 اس زمانہ میں جو مذاہب باطلہ اور اعتقادات ناحقہ نے بہ سبب میسر ہو جانے اور پڑھائے جانے علم منطق اور فلسفہ اور ریاضی وغیرہ کے مخالف دین متین کے عموماً رواج اور شہرت پا کر مسلمانوں کے دلوں پر اثر کر کے حقیقت دین اسلام اور قرآن شریف پر پردہ ڈال رہے ہیں.اور نیچری اور عیسائی اور سماج اور دھرم سماج مقابلہ پر کھڑے ہو گئے ہیں اور مسلمانوں میں نادانی اور بے علمی اور مفقود ہونے وجود علماء راسخین کے سبب سے مخالفین کے تفوہات نے زیر ڈال دیا ہے.ضرور تھا اور لازمی تھا کہ خدا تعالیٰ کسی ایسے شخص کو واسطے محافظت اپنے دین حق کے (کھڑا) کرتا.جو مخالفین کا من کل الوجوہ مقابلہ کرتا اور عام خاص کو تزلزل سے بچاتا.سوشکر ہے خداوند کریم رحمان و رحیم کا ، کہ ہندوستان میں آپ کی ذات کو یہ شرف دیا اور اپنے نبی مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ایسے نازک وقت میں کہ جب ان کی دنیا میں کہیں نہ حکومت باقی ہے، نہ شردت ، نہ قدرومنزلت ، ملک پر ہر جگہ ذلیل نظر آتے ہیں.تقویت بخشی دعا ہے، اسی سے جو سب کا خالق اور حاکم ( اور ) رب العلمین ہے کہ آپ کے الہامات کے منشاء اور اثر کو جیسی کہ اس کی مرضی ہے پورا کرے.ہندوستان میں اس وقت اور ملکوں سے زیادہ اس کی ضرورت تھی.سوشکر ہے اسی ہندوستان میں آپ کو شرف دیا.جو آپ نے اپنی کتاب کے متن اور حاشیوں میں حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم وقرآن شریف کے باب میں درج فرمایا ہے.اس میں کوئی مسلمان جاہل اور عالم سوائے امنا اور صدقنا کے ( اور کچھ ) زبان پر نہیں لاسکتا.ہاں وہ زبان کھولے جس کو دین اسلام سے ظاہر اور باطن میں مس نہ ہو اور شرم و حیا بھی نہ ہو.البتہ جن اشخاص کو حسد و تکبر غالب ہوگا.وہ آپ کے الہامات اور پیشگوئیوں پر اعتراض کریں گے مگر اس عاجز کے خیال میں نہیں آتا ( کہ ) وہ ایسا کیوں خیال کرتے ہیں یا کریں گے جب (کہ) گزشتہ اولیاء اللہ اور عالمان دین سے ایسے الہامات اور کشف اور کرامت سنتے دیکھتے رہے ہیں.اور ہرمست ، مدہوش ، دیوانہ کے در پے واسطے حاصل کر نے پیشگوئیوں کے پھرتے رہتے ہیں.اور اس وقت کچھ لحاظ اتباع سنت ہونے یا نہ ہونے ( کا) اس شخص کا نہیں کرتے بلکہ خلاف مذہب کے ایسے لوگوں پر خیال نہیں کرتے.جب ہم ایام گزشتہ میں جس کو سو برس نہیں گذرے جن کے دیکھنے والے اب تک موجود ہیں.خاندان شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی اور ان کی اولاد، سید احمد صاحب مرحوم بریلوی کو دیکھ سن چکے ہیں.اور ان کی کتابوں کو معائنہ کر چکے ہیں.اور اس میں اس قسم کے الہامات ان کے پڑھ چکے ہیں.پھر ہم اب کسی شخص پر اعتراض کریں.جس پر اس قسم کے حالات وارد ہوں اور معلوم ہوں کیونکر انکار کے مستحق ہو سکتے ہیں؟ جب عموماً اس خاندان کی افضلیت اور باکمال ہونے کے (لوگ) قائل ہیں؟ یہ قائل ہونا خاص کسی پر منحصر نہیں.اہل اسلام ہندوستان کیا

Page 349

327 اہل ہنود بھی تعریف اور توصیف سے یاد کرتے ہیں اور اعتقاد اپنا جتلاتے ہیں.اس عاجز نے جب سے ہوش پائی ہے اسی خاندان کو اپنا پیشوا گر دانا ہے.اگر چہ بزرگان عاجز کے بھی ایسا خیال کرتے رہے اور محبت پوری بجالاتے رہے ہیں.ان کی تصنیفات اور تالیف جہاں تک ممکن ہوئی (خاکسار ) مطالعہ کرتا رہا ہے.اور جو ان کے خاندان کا آدمی مل سکا ان سے صحبت کا فیض حاصل کرتا ہے.اور اقوال پسندیدہ اور افعال حمیدہ کو ذہن نشین کر کے اس زمانہ کے اشخاص ، واعظ اور علماء کے اقوال (و) افعال کے قبول کرنے کے واسطے انہیں کو معیار مقرر کیا ہے.چونکہ آپ کی کتاب جو مطالعہ کی گئی ہے، ( اس کو ) ان کے طریقہ اور خیالات دینی سے متفق پایا.اس واسطے اس کو مانا اور تحسین و آفرین کی صدا دل سے بلند ہوئی ہے اور آپ کے اقوال کو معتبر تصور کرتا ہوں جو زبانی مولوی عبدالقادر خلف عبداللہ لود یا نوی نے مجھ سے بیان کیا کہ آپ کو مولوی سید احمد صاحب نے جود یو بند کے قریب رہتے ہیں، جوان صالح فرمایا.ان کی درخواست پر توجہ نہیں فرمائی، اس سے بھی مجھ کو آپ کی تصدیق کی تقویت ملی ہے کہ وہ لوگ بھی صاحب ظاہر و باطن ہیں اور ان کا خاندان بھی ہندوستان میں لاثانی ہے.ان پر انوار البہی کا اثر پایا جاتا ہے.یہ بھی ظاہر کرنا کچھ نقص نہیں معلوم ہوتا کہ میں اپنے حال پر اور اہل دین کے خیالات پر جو بندہ کو معلوم ہوئے ہیں کہ جو عموماً حالات مخالفان زمانہ دیکھ سن کر ذکر کرتے ہیں تو اسی وقت ایسے سوالات دل میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کے جوابات بھی اس وقت پیدا ہو جاتے جس کو آپ نے بشرح اور مفصل طور پر اپنی کتاب میں درج فرما کر مشتہر فرمایا ہے.اس سے یہ مراد حاصل ہوتی ہے کہ ملاء اعلیٰ میں توجہ اس طرف ہے اور جس کا انعکاس اس عالم فانی میں ہوتا ہے.مگر جس قدر جس کی استعداد ہے اس پر اثر کرتا ہے.آپ کی جیسی استعداد مخلوق فرمائی گئی، آپ پر اُسی قدر ظاہر ہوا.آپ کو خلعت اس فخر کا پہنایا گیا.اللہ تعالیٰ اپنی عنایت رحمانی سے روز افزوں شرف یاب فرما دے.جوا شارات اور بشارات آپ پر نازل ہوئے ہیں اس کو اعلان فرما دے.آمین ثم آمین یہ کتاب ایسی اس زمانہ میں ہے جس کی ہر جگہ رائج ہونے کی ضرورت ہے.آپ کی تجویز پر سوائے احسنت کے اور کچھ زائد کرنا مناسب نہیں ہے مگر دست بستہ نیک نیتی سے عرض کرتا ہوں.امید ہے کہ با وجود اس قدر بلند منزلت کے ناگوار نہ ہو گا.اس وقت تعداد قیمت ادنی بھی (موجودہ) حالات ( میں ) مسلمانوں پر گراں ہے اور تابع رواج اور اشتہار کے ہورہی ہے.اکثر غریب مسکین آدمیوں کو شوق دین کا ہوتا ہے ،متمول آدمیوں کو تو اپنے اشغال سے فرصت ہی نہیں ہوتی کہ توجہ دنیا سے دین کی طرف کریں.اس واسطے کم استطاعت آدمی قیمت سن کر خاموش رہ جاتے ہیں کہ اپنی قدر و منزلت سے زیادہ سمجھتے ہیں.جب آپ نے کل اوقات اور جائداد اس کارخیر میں مستغرق کر دی ہے.اور آپ کا درجہ اعلیٰ ملاء اعلیٰ میں ہے اس وقت اس فیضان عام کو کیوں

Page 350

328 محدود کیا گیا ہے؟ استمداد منعم حقیقی پر ہی کیوں تعلق چھوڑا نہیں گیا ؟ اب یہ عاجز اپنا حال عرض کرتا ہے کہ ابتداء سے عاجز کو مطالعہ کتاب کا خصوص دینی اور تواریخ کا اس قدر خیال ہے کہ ) جب کتاب دستیاب ہو کسی وقت صبر نہیں آتا جب تک اوّل سے اخیر تک مطالعہ نہ کر لی جاوے اور در باب خرید کتب ہائے کے کچھ شوق نہیں معلوم ہوتا، بلکہ روک ہو جاتی ہے.کبھی اپنے ذہن میں مالیخولیا اس کو قرار دیتا ہوں اور کبھی بخل.مگر یہ عادت بدلتی نہیں.وجہ اس عادت کی یہ ہے کہ ایام شباب میں جب ایک دفعہ کسی کتاب کو مطالعہ کر لیا، یا کوئی واقعہ سن لیا یا سامنے گذر گیا ، جس وقت بر وقت ضرورت خیال کیا جاتا تھا، یاد آ جاتا تھا سہونہیں ہوتا تھا.اور دوسری دفعہ کسی کتاب کو مطالعہ کرنے سے طبیعت نفرت کر جاتی تھی.اب ذرا زیادہ غور سے یاد آتا ہے.بلکہ جب کوئی خود ( ذکر ) کرے یاد آتا ہے جناب سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر یہ باعث بخل کے ہو تو دعا فرما دیں کہ خدا تعالیٰ نجات بخشے.* حسب حال اپنے درخواست کرتا ہوں کہ یہ کتاب بندہ عاجز کو آپ محض خدا کے واسطے عطا فرما دیں اگر خدا کی مرضی ہے کیونکہ بندہ کا کچھ اختیار نہیں.تو یہ عاجز حسبہ اللہ نہ بلحاظ قیمت محض بنظر حصول خوشنودی خداوند تعالیٰ کی ، زر نقد جلد ارسال خدمت کرے گا.اگر اب کتاب عطا فرمانی ہو جس قدر اب تک طبع ہو چکی ہے تو ۲۷ جنوری سے پہلے عطا فرمائی جاوے.کیونکہ بندہ اس درمیان میں غیر حاضر اپنے مقام سے رہے گا.اپنے وطن قصبہ سراوہ چوکی کہر کہودہ ضلع میرٹھ میں جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ اور اگر بعد تاریخ مندرجہ بالا عنایت کرنی ہو تو ۸ فروری تک مقام مندرجہ بالا میں ارسال کرنی چاہیئے اور پھر کپورتھلہ میں بھیج دینی مناسب ہے اگر وطن میں پہنچ جاوے گی ، امید ہے وہاں دیکھ کر اور بہت خواہشمند ہوں اور خیالات جو اس عاجز گنہگار کے دل میں واسطے دین کے مستحکم ہوئے تھے.ان میں سے اکثر تو مطالعہ کتاب سے ظاہر ہو گیا کہ اس کتاب نے پورے کر دیئے اور امید ہے کہ اتفاق بھی جیسی ضرورت ہے اس سے پیدا ہو اور نفاق کی بیخ کنی ہومگر یہ خیال کہ عام خاص مسلمان پانچوں شرائط اسلام بجالایا کریں یا جس میں نقص ہے اس کو پورا کریں تب ترقی ہوگی اور منجملہ اس کے ایک زکوۃ ہے جو اب فرض ہونا اس کا عام لوگوں کے خیالات سے مفقود گیا ہے.اس کو زور دے کر رواج دیا جاوے.یہ اپنا خیال اکثر واعظوں پر ظاہر کیا گیا اور کئی سے موقع موقع پر جتلایا گیا کہ مجلس اور کمیٹی مقرر کر کے کیوں اس کو جاری نہیں کرتے جس سے ایسے اخراجات دینی کے اور چندہ وغیرہ بآسانی دئے جاسکیں.صاحبانِ امرتسر نے چرم قربانی منشی حبیب الرحمن صاحب نے بواسطہ شیخ عبدالرحمن صاحب بیان کیا کہ حاجی صاحب کا حافظہ الیسا تھا کہ اگر وہ کسی کتاب کا مطالعہ کرتے تو اس کا صفحہ اور سطر تک ان کو یا د رہتی.اعلیٰ حکام نے بھی آزمائش کی اور آپ کے حافظہ کو قابل قدر پایا تھا.

Page 351

329 کا تو مدرسہ اسلامیہ کے لئے جمع کرنا قرار دیا مگر اس طرف توجہ نہیں کی.جناب توجہ باطنی اگر اس پر فرما کر اور دعا اور التجا جناب باری کر کے خلق کو توجہ دلا دیں تو عام خاص اہل اسلام کو فائدہ مند ہو گا.اب یہ عاجز گنہگار السلام علیکم پر اس عریضہ کو ختم کر کے التجا کرتا ہے کہ اوقات عزیز میں یا درکھ کر دعائے خیر بابت درستی دنیا و آخرۃ کے مشرف فرمایا کریں.قلمی کاپی (صفحه ۱۵ تا ۲۴) معروضه ۲۲ جنوری ۱۸۸۵ء روز چهارم شنبه عریضه نیاز گنہگار محمد ولی اللہ از کپورتھلہ ( سیشن جج ) حاجی ولی اللہ صاحب کی چٹھی ہذا مندرجہ مکتوبات احمد یہ جلد ششم (حصہ اوّل صفحہ ۱۵ تا ۲۰) میں سہو کتابت کی وجہ سے قلمی کاپی سے بعض مقامات پر کچھ الفاظ رہ گئے ہیں.یا اختلاف ہے.لیکن مفہوم پر یہ امور اثر انداز نہیں ہیں.بطور نمونہ چند ایک کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے.مکتوبات میں جولفظ مختلف ہے اس پر نشان لگا دیا گیا ہے.مکتوبات احمدیہ ا.ظلمات کا وعدہ ۲- علماء راستین قلمی کایی ا - دوره ۲- راسخین - باکمال ہونے کے مائل ہیں یہ مائل ہو ۳- قائل.قائل ہونا ۴- خیالات دینی سے متفق پایا اس واسطے اس کو ملنا م - مانا ۵- قیمت آدمی - خیال کیا جاتا تھا.سہو نہیں ہوتا تھا.ے.اب ذرا زیادہ غور سے یاد آتا ہے.۸- جلد ارسال ۹.ضلع پر گھر میں ۵- ادفی خیال کیا جاتا تھا، یاد آ جاتا تھا سہو نہیں ہوتا تھا ے.اب ذرا زیادہ غور سے یاد آتا ہے بلکہ جب کوئی خود (ذکر) کرے یاد آتا ہے.-- زر نقد جلد ارسال ۹.ضلع میرٹھ میں ۱۰- از کپورتھلہ ☆ آپ مزید لکھتے ہیں کہ: ۱۰- از کپورتھلہ (سشن حج) یہ براہین احمدیہ اب تک میرے پاس ہے.یہ بھی واضح رہے کہ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)

Page 352

330 منشی حبیب الرحمن صاحب اس سلسلہ میں مزید تحریر کرتے ہیں کہ :- اس خط کے پہنچنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمد یہ سفید ورق پر ہر چہار جلد بذریعہ رجردی پیکٹ روانہ فرمائی اور ( یہ ) کپورتھلہ ہی میں پہنچ گئی.مجھے بلا کر پچاس روپے دئے کہ آج ہی جناب مرزا صاحب کی خدمت میں بذریعہ منی آرڈر روانہ کر دو.چنانچہ میں نے روانہ کر دئے اور جناب والد صاحب نے ایک خط لکھ دیا.قلمی کا پی صفحہ ۳۸) * حاجی صاحب کی آخری حالت کا جائزہ (۱) حضرت اقدس علیہ السلام نے حاجی محمد ولی اللہ صاحب کے ایک خط پر ناراضگی کا اظہار فرمایا لیکن بالآخر حاجی صاحب نے ندامت کا اظہار کیا.حضرت عرفانی صاحب نے تمام امور کا جائزہ لے کر حاجی صاحب کے نام حضرت اقدس کے مکتوبات درج کرنے سے قبل ذیل کا تعارف رقم کیا ہے :- ” حاجی ولی اللہ صاحب ریاست کپورتھلہ کے ایک معزز عہدہ دار تھے.اپنی سمجھ اور فکر کے موافق اس عہد کے دیندار مسلمانوں میں آپ کا شمار تھا.بقیہ حاشیہ : جناب والد صاحب مرحوم کے پاس باوجود اس قدر علم وفضل کے صرف چار کتب رہا کرتی قرآن شریف ، حجتہ اللہ البالغہ عربی مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حصن حصین (اور ) براہین احمدیہ.ان میں سے حجتہ اللہ البالغہ جناب مفتی محمد صادق صاحب نے جب دورہ تبلیغ پر تشریف لائے ، پسند کی اور لے لی.جو ان کی صادق لائبریری میں ہے.باقی میرے پاس ہیں.جو براہین احمدیہ ابتداء غلام محی الدین سے لے کر جناب والد صاحب نے مطالعہ فرمائی تھی، چونکہ وہ مخالف تھا اس لئے وہ بھی میں نے اس سے خرید لی تھی.اور کسی دوست کو دے دی تھی.وجہ یہ کہ دعوای مسیح موعود کے بعد اکثر مخالفت کا زور ہوا.جنہوں نے پہلے براہین احمد بھریدی ہوئی تھی اور ان کے مخالفانہ خیال ہو گئے تھے تو وہ شکایت کرتے پھرتے تھے کہ ہمارا روپیہ مرزا صاحب نے مارلیا.اور باقی جلدیں براہین احمدیہ کی نہیں بھیجیں اور مسیح بن بیٹھے.اس لئے ہم نے جہاں سے کوئی نسخہ براہین احمد یہ کامل سکا خرید لیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی پسند فرمایا اور فرمایا کہ ضرور خرید لیا کرو خواہ ہمارے پاس لے کر بھیج دیا کرو.اس عام شکایت پر حضور نے ایک اشتہار بھی دیا تھا کہ جس کو شکایت ہو کتاب واپس بھیج کر اپنا پر روپیہ منگالے-فقط- قلمی کاپی صفحہ ۳۹۹۳۸) (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )

Page 353

331 حاجی صاحب اگر چہ خود احمدی نہ ہو سکے مگر یہ واقعہ ہے کہ کپورتھلہ کی جماعت کا باعث وہی ہوئے اور ان کے خاندان میں حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ ان سے تعلق رکھنے والے حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ حاجی صاحب کے ہی ذریعہ سے سلسلہ میں آئے حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب تو آپ کے بھتیجے اور وارث ہی تھے.حاجی صاحب براہین احمدیہ کے خریدار تھے اور اس کے حصص آپ کے پاس جارہے تھے.وہ خود بھی پڑھا کرتے تھے اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب کو بھی سنانے کے لئے فرمایا کرتے تھے اور حضرت ظفر نے عین عنفوانِ شباب میں ہی براہین احمدیہ حاجی صاحب کو سناتے اس نعمت کو پالیا..غرض حاجی صاحب براہین احمدیہ کے خریدار تھے اور شوق و ذوق سے اسے پڑھتے اور سنتے تھے مگر ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قبول کرنے کی توفیق نہ ملی.البتہ ان کے ذریعہ حضرت اقدس کی دعوت کپورتھلہ پہنچی اور ان کے خاندان میں ایک مخلص شاخ حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کے خاندان (بقیه حاشیه) حاجی صاحب نے اس خط کے ذریعہ کتاب براہین احمدیہ بلا قیمت حاصل کرنے کے لئے عرض کیا تھا.اس خط سے ظاہر ہے کہ اس سے پہلے قیمت دے کر حاجی صاحب نے براہین احمدیہ کی خریداری اختیار نہ کی تھی.گویا حاجی صاحب نے التوائے براہین کے بارے جو اعتراض کیا تھا.وہ دوسروں سے متاثر ہوکر کیا ہوگا.نہ اس لئے کہ خود پیشگی قیمت دینے والے خریدار تھے.البتہ حضرت اقدس نے جو مکتوب میں خرید و فروخت کے تعلق کا اور فتح بیع اور واپسی قیمت کی پیشکش کا ذکر کیا ہے وہ اس وجہ سے ہوگا کہ حضور نے اعتراض سے یہ خیال فرمایا ہوگا کہ حاجی صاحب تبھی اعتراض کر رہے ہیں کہ وہ پیشگی قیمت دے چکے ہیں.حاجی صاحب نے اس معذرت نامہ کو حضور کے نام کے ساتھ مجمع فضائل و کمالات دینی و دنیوی دام مجد کم کے الفاظ سے شروع کیا ہے.خط کا خلاصہ یہ ہے کہ خلاف ادب نادانی سے جو کچھ میں نے حضور کو لکھا تھا، اس پر طالب عفو ہوں.دجالوں اور شیاطین کی طرف سے پیدا ہونے والے شکوک کی بیخ کنی آپ کی کتاب (یعنی براہین احمدیہ ) بڑے زور شور سے کرتی ہے.اور موجب نزول انوار و برکات ہے.علوم فلسفہ وغیرہ سے مسلمانوں کو مغلوب کر لیا گیا ہے.لازم تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو محافظت دین اسلام کے لئے کھڑا کرتا اور تمام افراد کو تن تنزل سے محفوظ کرتا.شکر ہے کہ امت مسلمہ کو آپ کے ذریعہ طاقت عطا ہوئی.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کے متعلق آپ نے جو کچھ بیان کیا ہے.سوائے امنا و صدقنا کے کچھ نہیں کہا جاسکتا.براہین احمدیہ کے بارے میں دل سے صدائے تحسین و آفرین بلند ہوتی ہے.اور فلاں بزرگ (بقیہ اگلے صفحہ پر )

Page 354

332 کی بار آور ہوئی.’ حاجی صاحب کو میں مخالفین کے زمرہ میں نہیں سمجھتا.ہاں عملاً وہ سلسلہ کبیعت میں بھی شریک نہ ہو سکے.براہین ہی کے زمانہ میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کچھ سوالات کئے جن کے جواب میں حضرت نے آپ کو خط لکھا.حاجی صاحب کے ذریعہ جماعت کپور تھلہ (اس لئے کہ براہین، کپورتھلہ میں ان کے ذریعہ پہنچی) کا قیام عمل میں آیا اور یہ جماعت اپنے اخلاص و وفا میں ایک ایسی جماعت گذری ہے.جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ساتھ جنت میں رہنے کی بشارت دی.رضی اللہ عنہم.” حاجی صاحب کی تعمیر کردہ مسجد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک نشان ہے.غیر احمدی اس مسجد کو لینا چاہتے تھے.اور اس کا مقدمہ عرصہ تک چلتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کو بشارت دی کہ اگر میں سچا ہوں تو یہ مسجد تم کو ملے گی.آخر وہی ہوا.یہاں تک کہ ایک حاکم عدالت جو احمدیوں کے خلاف اپنے دل میں فیصلہ کر چکا تھا.قبل اس کے کہ فیصلہ سنائے ، اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آ کر فوت (بقیہ حاشیہ) نے بھی آپ کو صالح قرار دیا ہے.آپ کو اعلیٰ استعداد کے فخر کا خلعت عطا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ اسے اپنی عنایت سے روز افزوں کرے.اس کتاب کی اشاعت میں توسیع ہونی چاہیئے.آخر میں حاجی صاحب نے حضور کے ملاء اعلیٰ میں درجہ اعلیٰ ہونے اور حضور کی باطنی قوت کا اقرار کرتے ہوئے اپنی دنیا و آخرہ کی بہتری کے لئے دعا کی درخواست کی ہے.ایسے عاجزانہ طلب عفو کے خط کے بعد حضرت اقدس جیسا رحیم و کریم وجود حاجی صاحب کے کسی سابق خط کے تلخ اور درشت اور نا ملائم الفاظ اور خط کی حرارت کو یادنہ دلاتا.اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حاجی صاحب کا طلب عفو والا خط حضرت اقدس کے مکتوب کے بعد کا ہوگا.اس کے اثبات میں ایک مزید شہادت موجود ہے اور وہ یہ کہ مکتوبات احمدیہ ( جلد ششم.حصہ اول) میں اس مکتوب کی تاریخ ۲۲ / جنوری ۱۸۸۵ء چہارشنبہ درج ہوئی ہے.جو بروئے جنتری پنجشنبہ ہونے کی وجہ سے حضرت عرفانی صاحب نے خطوط وحدانی میں ( پنجشنبہ ) مکتوبات احمد یہ میں گویا بطور تحمید رج کر دیا ہے.یعنی یہ سہوان کو بھی کھٹکا ہے.علاوہ ازیں ایک تفصیل کے سلسلہ میں حضرت عرفانی صاحب نے وہاں مکتوبات احمد یہ میں اس خط کی تاریخ دو بار ۲۲ جنوری اور ایک بار ۲۴ جنوری تحریر کی ہے.(بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )

Page 355

333 ہو گیا.حاجی صاحب کے یہ کام اپنی جگہ ایک وزن رکھتے ہیں.مگر حضرت اقدس کے ابتدائی زمانہ کے بعض معاونین کو سنت اللہ کے موافق ابتلاء آیا اور یہ اس لئے بھی ہوا تا خدا تعالیٰ کی قدرت نمایاں ہو.حاجی صاحب نے براہین کے التواء کے متعلق اعتراضات کئے اور ادب کے مقام سے ہٹ کر وہی غلطی ان کے سامنے آ گئی، اور وہ اس نعمت کی قدر نہ کر سکے.اب ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اور وہ مکفرین اور سب وشتم کرنے والوں میں نہ تھے.ان کو ایک وقت حجاب ہوا ورنہ براہین کے ابتدائی دور میں خود حضرت کو مجد د تسلیم کرتے تھے.اس خصوص میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی شہادت میں نے حیات احمد جلد دوم نمبر دوم کے صفحہ ۸۲ پر میں درج کی ہے.اس خط و کتابت کے پڑھنے سے جو حاجی صاحب اور حضرت اقدس کے مابین ہوئی.معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا حاجی صاحب کو بعض حالات اور اثرات کے ماتحت کچھ قبض ہو ا.اور اس کا اظہار انہوں نے اپنے کسی خط میں کیا جس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دسمبر ۱۸۸۴ء کو دیا اور پھر اس خط کے بعد حاجی صاحب نے کچھ سوالات کئے جن کا جواب حضرت نے ۳۰ دسمبر ۱۸۸۴ء کے مکتوب میں تحریر فرمایا.اس کے بعد ۲۴ جنوری ۱۸۸۵ء کو حاجی صاحب نے ایک تفصیلی خط حضرت کی خدمت میں لکھا جس سے پایا جاتا ہے کہ وہ حضرت اقدس کو احیاء اسلام کا ذریعہ سمجھتے تھے.اور ہندوستان ہی میں آپکی بعثت کو ضروری سمجھتے تھے.میں حاجی صاحب کے اس خط کو حضرت اقدس کے دوسرے مکتوب کے بعد درج کر دینا اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ تاریخ سلسلہ میں حاجی صاحب کے متعلق کوئی غلط فہمی نہ رہے.(۲۳) (بقیہ حاشیہ منشیانہ طرزتحریر پڑھنے میں سہو ہو جانے کا امکان ہوتا ہے.جسے۲۲یا ۲۴ پڑھا گیا ممکن ہے وہ ۲۶ ہواور سن جس کو ۸۵ پڑھا گیا ممکن ہے وہ ۸۷ ء ہو.نقول بقلم شیخ کظیم الرحمن صاحب خاکسار کے پاس موجود ہیں جن میں حضرت اقدس کے دو مکتوبات کی تاریخیں ۲۳ / دسمبر ۱۸۸۶ ء اور ۸ / ربیع الثانی ۴-۱۳ ۱۳-۴ھ ہیں.۸ ربیع الثانی مطابق ۳ جنوری ۱۸۸۷ء ہے.۲۳ دسمبر والے مکتوبات کا جواب نہ آنے پر حضور نے ۸ ربیع الثانی (۳/ جنوری ) والا مکتوب بطور یاد دہانی تحریر فرمایا تھا.گویا ۳ /جنوری ۱۸۸۷ء یاد دہانی کرانے پر حاجی صاحب کا جواب آیا جو طلب معافی والاخط ہے.سوطلب معافی کا خط جنوری ۱۸۸۷ء سے پہلے کا ہوتا اور ۱۸۸۵ء کا ہونا امر صحیح نہیں اور لازماً حضور کے ۱۸۸۷ء کے مکتوب کے بعد کا ہے

Page 356

334 حاجی صاحب کے ۲۲ جنوری ۱۸۸۵ء کے معذرت نامہ کے متعلق حضرت عرفانی صاحب یہ بھی رقم فرماتے ہیں:- ”حاجی صاحب نے آپ کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اپنے اعتراضات کو واپس لے کر اظہار معذرت کیا.اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے.التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ له محمد (الله) حضرت عرفانی صاحب کے مندرجہ بالانوٹ کے بعد جو کہ مَا قَلَّ وَدَلُّ کا مصداق ہے.متذکرہ بالا چٹھی کا کچھ خلاصہ جملہ حالات اور حاجی صاحب کی قلبی کیفیت.قارئین کرام پر مستحفر کرنے کے لئے پیش کرنا مناسب ہے.اس عریضہ میں محترم حاجی صاحب بجز وانکسار سے عرض کرتے ہیں کہ خلاف ادب کوئی بات تحریر آیا زبانی میری طرف سے کہی گئی ہو تو یہ عاجز گنہگار اس کی معافی چاہتا ہے.کیونکہ وہ وقت نادانی اور نا واقعی کا تھا.براہین احمدیہ حصہ سوم وحصہ چہارم کو میں نے دین کی طرف لے جانے والا پایا.دین قرآن شریف اور نبوۃ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے شیاطین ود جالین کے پیدا کردہ اثر کی بیخ کنی یہ کتاب زور وشور سے کرتی ہے.اور باعث نزول برکات وانوار ہے.ضروری تھا کہ دین حق کی محافظت اور مخالفین کے ہر طرح کے مقابلہ کے لئے اور لوگوں کو تزلزل سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کسی کو کھڑا کرتا.جب امتِ مسلمہ ہر جگہ انحطاط پذیر ہے.شکر خدائے رحمان و رحیم کہ اس نے اس امت کو آپ کے ذریعہ تقویت بخشی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کے بارے آپ نے جو کچھ تحریر کیا ہے.کوئی مسلمان سوائے امنا وصدقنا کہنے کے اور کچھ نہیں کہہ سکتا.شرم و حیا کو جواب دینے والا ہی آپ کی مخالفت میں زبان کھول سکتا ہے.آپ کے ایک مخالف مولوی نے سنایا کہ اس نے فلاں بزرگ کے پاس آپ ( یعنی حضرت مرزا صاحب ) کے خلاف بات کہی تو اس بزرگ نے توجہ نہ دی بلکہ کہا کہ ( مرزا صاحب ) جوان صالح ہیں.آپ کے کل اوقات اور جائیداد کارِ خیر میں مستغرق ہیں.توجہ باطنی اور دعا سے مسلمانوں کو فریضہ زکوۃ کی ادائیگی کی طرف متوجہ فرمائیں.نیز میری استدعا ہے کہ محض اللہ ایک جلد براہین احمدیہ مجھے عنایت فرمائیں بتوفیق الہی حصول ثواب کے لئے میں رقم بھیجوں گا.ملاء اعلیٰ میں آپ کا درجہ اعلیٰ ہے.میری دین و دنیا کی بہتری مکتوبات احمد یہ جلد ششم (حصہ اول صفحہ ۱۲) حدیث شریف کے بارے سہو کتابت کو تصحیح کے ساتھ نقل کیا گیا ہے.

Page 357

335 کے لئے دعا فرماتے رہیں.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حاجی صاحب کا باہم رابطہ قائم رہا.چنانچہ منشی حبیب الرحمن صاحب تحریر کرتے ہیں کہ سرمہ چشم آریہ (ستمبر ۱۸۸۶ء میں طبع ہو گئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جناب والد صاحب کو اطلاع دی جو والد صاحب مرحوم نے منگالی.سراج منیر کا اشتہار بھی ایک کارڈ پر آیا.لیکن وہ اس زمانہ میں طبع نہیں ہوئی تھی.اس کے بعد جناب والد صاحب فالج کے مرض سے بیمار ہو گئے تھے.اس لئے یہ سلسلہ خط وکتابت بند ہو گیا.جب سبز اشتہار (مورخہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ) آیا جس میں بیعت کا اعلان اور پھر شرائط بیعت (مندرجہ تکمیل تبلیغ ، مورخہ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء) آئے یہ بھی والد مرحوم نے مسجد میں سنادئے تھے.“ (قلمی کاپی صفحه ۲۶-۲۷ ) منشی حبیب الرحمن صاحب کی بیعت ۲۵ / مارچ ۱۸۹۱ ء کی ہے.بیعت کے موقع کے بارے آپ تحریر کرتے ہیں کہ ( حضرت اقدس نے ) * والد صاحب کی طبیعت کا حال دریافت فرمایا.کوائف بالا سے ذیل کے دوامور ظاہر ہیں : (قلمی کا پی صفحه ۳۵) اول : حضرت اقدس سے حاجی صاحب کا رابطہ کچھ عرصہ منقطع رہا تھا.چنانچہ حضرت اقدس کے جس مکتوب کی تاریخ جنوری ۱۸۸۷ء متعین کی گئی ہے.اس میں طباعت "سرمه چشم آریہ" (شائع کردہ ستمبر اس عبارت میں نشان x والی عبارت واوین میں موقف ہذا نے بطور وضاحت زائد کی ہیں رسالہ سراج منیر کے اشتہار کے وقت کی تعیین کے لئے بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت اقدس ایک اشتہار میں تحریر فرماتے ہیں کہ رسالہ سراج منیر چھپنے والا ہے اور رسالہ محنہ حق چھپ کر تیار ہے.(باقی اگلے صفحہ پر ) رسالہ سراج منیر جو بھی طبع نہیں ہو ا تھا.اس کے خریداروں کے نام رسالہ شحنہ بھی میں ایک اعلان کر کے طلب کئے گئے ہیں.(صفحہ ) محنۂ حق کے آخر پر حضرت اقدس کے ایک مکتوب کی تاریخ ۴ اپریل ۱۸۸۷ء معلوم ہوتی ہے جس کی نقل وہاں درج ہے.گویا ۱۸۸۷ء میں سراج منیر کے متعلق اشتہار شائع ہوا تھا.(حاجی صاحب اس وقت زندہ تھے.ان کا انتقال ۱۸۹۱ء میں ہو ا تھا.) خطوط واحدانی کے الفاظ خاکسار مؤلف کی طرف سے ہیں.

Page 358

336 ۱۸۸۶ء) کا ذکر ہے.اس مکتوب میں حضرت اقدس نے حاجی صاحب پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے.اس کے چند دن بعد جنوری ۱۸۸۷ء میں ہی حاجی صاحب نے نہایت عاجزانہ طلب عفو کا خط تحریر کیا ہے.سوطلب عفوتا وفات جو ۱۸۹۱ء میں ہوئی.حاجی صاحب حضور کے مصدق رہے چنانچہ حضرت اقدس کے اشتہارات مورخہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء و۱۲ جنوری ۱۸۹۱ء حاجی صاحب نے دونوں بار مسجد میں سنائے حالانکہ حاجی صاحب مخالف اور برگشتہ ہوتے تو وہ خود نہ سناتے.دوم :- اشتہارات اعلان بیعت و شرائط بیعت اسلام میں ایک عظیم تاریخ ساز ا ہمیت کے حامل ہیں.حضرت اقدس ایسے اہم اور نازک مرحلہ پر احباب کپورتھلہ میں سے جسے منتخب فرماتے وہ ایسا فرد نہیں ہو سکتا تھا.جو مخالف ہو اور سلسلہ کے آغاز میں بد باطنی اور شر انگیزی اور نقصان کا باعث بن سکتا ہو.گویا حضور نے حاجی صاحب کو زمرہ مخالفین میں شامل نہیں سمجھا بلکہ قابل اعتماد افراد میں سے یقین کر کے اشتہارات اعلان بیعت و شرائط بیعت ان کو بھجوائے ( جو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فالج سے اس حد تک افاقہ پاچکے تھے کہ مسجد میں جا کر انہوں نے یہ اشتہارات سنائے) سوحضور کے اعتما دو تو قع پر حاجی صاحب دیانتداری سے پورا اترے وانـــــا الاعتبار بالخواتيم- حضرت اقدس کا ورود تین بار کپورتھلہ میں منشی حبیب الرحمن صاحب تحریر کرتے ہیں: (ایک دفعہ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کپورتھلہ تشریف لائے.اور ڈاکخانہ میں ایک مسلمان سب پوسٹ ماسٹر کے مہمان ہوئے اور غالباً ایک دن قیام فرما کر تشریف لے گئے.عام طور پر لوگ آکر ملاقات کرتے تھے ایک دفعہ اس سے پہلے بھی کپور تھلہ تشریف لائے تھے اور غالبا ایک شب قیام فرمایا تھا.یہ میں نے حضرت صاحب سے سنا تھا اس کے سوا تیسری دفعہ پھر کپورتھلہ تشریف لائے اس وقت جماعت قائم ہو چکی تھی ہرسہ اسفار کے بارے حضرت عرفانی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ :- (قلمی کا پی صفحه ۲۴-۲۵) (1) پہلے سفر کے بارے جو آغاز بیعت سے پہلے حضور نے کیا تھا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا بیان ہے کہ.ایک دفعہ لدھیانہ میں منشی اروڑا صاحب اور میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ حضور کبھی کپورتھلہ تشریف لائیں.حضور نے وعدہ فرمایا کہ ہم ضرور کبھی آئیں گے.( پھر تاریخ لکھ دی حضور اس وقت نہ پہنچ سکے

Page 359

337 ہم لوگوں نے استقبال کا بڑا انتظام کیا تھاوہ انتظام کسی کام نہ آیا اور ہم مایوس ہوکر چلے آئے ) پھر اس کے بعد حضور جلدی ( خاموشی کے ساتھ ) بغیر اطلاع دیئے ایکا ایکی تشریف لے آئے اور یکہ خانہ سے اتر کر اس کے قریب واقع مسجد مفتح والی میں چلے گئے.ان دنوں ابھی کپورتھلہ ریل نہیں آئی تھی.( یہ سفر حضور نے محض ایفائے عہد کے طور پر کیا تھا ) مسجد سے حضور نے ملا کو اپنی آمد کی اطلاع منشی اروڑا صاحب یا مجھے دینے کے لئے بھیجا.اس نے ہمیں کچہری میں اطلاع دی.یہ سن کر منشی اروڑا صاحب نے بڑے تعجب انگیز ناراضگی کے لہجہ میں کہا کہ دیکھو تو سہی.بھلا تیری مسجد میں مرزا صاحب نے آ کر ٹھہر نا تھا.میں نے کہا کہ چل کر دیکھنا تو چاہیئے.(حضرت اقدش نمود و نمائش کو تو پسند نہیں کرتے.ممکن ہے آہی گے ہوں پھر منشی صاحب جلدی سے پگڑی باندھ کر چل پڑے ( ہم دوڑتے گئے دیکھا کہ حضور مسجد میں ( چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں.اور حافظ حامد علی صاحب جو ساتھ آئے تھے حضور کے پاؤں دبا ر ہے ہیں.اور پاس ایک پیالہ اور چمچہ پڑا ہے جس سے معلوم ہوا کہ شاید آپ نے دودھ ڈبل روٹی کھائی تھی ( حضور ہم سے نہایت محبت و شفقت سے ملے ہم نے عرض کیا کہ حضور نے اطلاع بھی نہیں دی تو ☆ فرمایا کہ آنا ہی تو تھا.پھر ہم نے کہا کہ حضور کو بڑی تکلیف ہوئی ہوگی.فرمایا نہیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی ) پھر ہم حضور کو اپنے ہمراہ لے آئے اور آپ کو اس مکان میں ٹھہرایا جو حملہ قائم پورہ میں بعد میں پرانا ڈاکخانہ رہا ہے.کر نیل محمد علی خان صاحب اور بہت سے لوگ اور علمائے کپورتھلہ میں سے مولوی غلام محمد صاحب وغیر ہم وہاں حضور کے پاس جمع ہو گئے.حضور کچھ تصوف کے رنگ میں تقریر فرماتے رہے.حاضرین بہت متاثر ہوئے.مولوی غلام محمد صاحب آبدیدہ ہو گئے.اور انہوں نے بیعت کرنے کے لئے ہاتھ بڑھائے لیکن حضور نے انکار کیا.بعد میں مولوی مذکور سخت مخالف رہا.غرض حضور ایک دن قیام کر کے قادیان تشریف لے جانے کے لئے روانہ ہوئے.میں منشی اروڑ ا صاحب اور محمد خان صاحب حضور کو کرتار پور اسٹیشن تک چھوڑنے گئے.کوئی اور ساتھ گیا ہو تو مجھے یاد نہیں.اسٹیشن پر حضور کے ساتھ ہم نے ظہر و عصر کی نمازیں جمع کر کے ادا کیں.بعدہ میں نے پوچھا کہ کس قدر مسافت پر نماز جمع کی جاسکتی ہے.اور قصر کی جاسکتی ہے.حضور نے فرمایا کہ انسان کی حالت پر منحصر ہے.ایک شخص نا طاقت اور ضعیف العمر ہو تو پانچ چھ میل پر بھی قصر کر سکتا ہے.☆ الحکم ۲۸ مارچ ۱۹۳۴ صفحہ ۳ میں مندرجہ بیان منشی روڑ صاحب سے منشی ظفر احمد صاحب کے بیان میں خطوط وحدانی والے حصہ کا اضافہ کیا گیا ہے.× والے الفاظ خاکسار مؤلف کی طرف سے وضاحت کے لئے اضافہ ہیں

Page 360

338 حضرت عرفانی صاحب کو احباب کپورتھلہ نے مزید یہ بھی بتایا کہ ہم حضور کو جشن ہال دکھانے کے لئے لے گئے اس وقت مہا راجہ اور انگریز مرد اور عورتیں کھیلنے میں مصروف تھے اور اندر جانے کی اجازت نہ تھی لیکن مہا راجہ صاحب کو حضرت صاحب کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے اجازت دیدی حضور اندر تشریف لے گئے لیکن حضور پر ایسی حالت استغراق طاری تھی کہ حضور ایک طرف کھڑے رہے اور کسی چیز کی طرف چنداں توجہ نہ کی اور مہاراجہ صاحب نے دور سے حضور کو دیکھ کر اپنا وزیر بھیجا تا کہ حضور سے ملاقات کرے اور اس نے تین دفعہ سلام کیا لیکن آپ اسی حالت میں محور ہے اور اس کی طرف توجہ نہ ہوئی (۲) مطابق بیان حضرت منشی عبدالرحمن صاحب حضرت اقدس دوسری بار کپور تھلہ سلسلۂ بیعت شروع ہو جانے کے بعد تشریف لے گئے اور تین دن قیام فرمایا.قیام حضرت منشی گو ہر علی صاحب افسر ڈاک خانہ کے مکان پر رہا جو کہ مطابق بیان حضرت عرفانی صاحب جالندھر کے رہنے والے تھے.السابقون الأولون میں سے تھے.اور حضور سے ان کا تعلق حضرت چودھری رستم علی صاحب کے ذریعہ ہوا تھا.(۳) حضرت منشی عبدالرحمن صاحب کے بیان کے مطابق حضرت اقدس تیسری دفعہ کپورتھلہ دعوای مسیحیت کے بعد تشریف لے گئے تھے.میاں سردار خان صاحب کے مکان میں حضور نے قیام فرمایا جو موصوف نے خالی کر دیا تھا.دس پندرہ روزہ قیام کے دوران میر نواسہ حافظ محمود الحق مکان کی بالائی سیڑھی سے گر کر لڑھکتا ہوا نیچے تک آیا.حضور سے کسی نے عرض کیا کہ ان کا نواسہ اس طرح اوپر کے مکان سے نیچے آپڑا ہے حضور نے فرمایا کہ اس کو چوٹ نہیں لگی.اسے لے آؤ.دیکھا تو واقعی اسے کوئی چوٹ نہیں لگی تھی.منشی حبیب الرحمن تحریر کرتے ہیں کہ " حضرت مسیح موعود علیہ السلام (جب) تیسری دفعہ کپورتھلہ تشریف لائے ، یہ ہماری دیرینہ درخواست الحکم ۲۸ رمئی ۱۹۳۵ء ( صفحه ۴ کالم ۲) حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی طرف سے مختصراً اس دفعہ کی تشریف آوری کا ذکر بدر یکم اکتو بر ۱۹۰۸ء ( صفحہ ۷ کالم او۲) میں بھی ہے.☆ تینوں سفروں کے کوائف جو بلا حوالہ اوپر درج ہوئے ہیں.وہ حیات احمد جلد سوم (صفحہ ۲۲۶،۲۲۵،۲۲۲،۲۲۱) اور یویو آف ریلیجنز (اردو) بابت جنوری ۱۹۴۱ء ( صفحہ ۱۵،۱۴) سے اخذ کردہ ہیں ) حضور فروری ۱۸۹۲ء میں دوسرے ہفتہ میں سیالکوٹ تشریف لے گئے پھر وہاں سے کپورتھلہ ( تیسری بار ) تشریف لے گئے میاں سردار خان صاحب حضرت میاں محمد خاں صاحب کے بھائی تھے.

Page 361

339 تھی.حضرت مولوی نورالدین صاحب مرحوم خلیفہ اول اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بھی ہمراہ تھے.حضور کو مع اہل بیت خاں صاحب منشی محمد خاں صاحب مرحوم کے مکان میں ٹھہر آیا تھا.انہی کا ایک قریب ( کا) مکان بطور مردانہ بیٹھک استعمال ہوتا تھا.میرے مسجد کے قریب کے مکانات میں حضرت مولوی صاحبان اور دوسرے لوگ فروکش تھے.ہمارا جو مکان تھاس کے صحن میں فرش پر اکثر بیٹھ کر حضور ) تقریر فرماتے تھے.اور تلاوت فرماتے تھے.ہمارے ایک مکان میں کھانا تیار ہوتا تھا.اس وقت ریل نہ تھی کرتار پور سے اتر کر کپورتھلہ جو سات میل کے فاصلہ پر ) ہے جانا پڑتا تھا.استقبال کے واسطے میں اور چند دوست کرتار پور گاڑیاں بگھیاں لے کر گئے.سہ پہر کو ایک دن جلسہ عام تھا.اکثر اہلکار ہندو مسلمان حضور کی ملاقات کو آئے.کثرت سے آدمی جمع تھے (حضور کے بیٹھنے کے لئے سرکاری فراشخانہ سے دریاں، سفید فرشی چاند نیاں، قالین وغیرہ منگوائے گئے تھے.اعلیٰ حکام ریاست جن میں ہندو افسران کی اکثریت تھی ، اپنی بگھیوں میں آنے لگے تھے ) ایک شخص مولوی عبدا لقادر جو بیگوال کا رہنے والا تھا.وہ بھی آیا اور بیٹھ گیا.حضور تقریر فرمارہے تھے.جو وجود باری تعالیٰ پر تھی اور لوگ ہمہ تن متوجہ تھے کہ حضور کی زبان سے لفظ ” حلیہ بہ ضَمّ حَ نکلا.عبدالقادر نے کہا کہ یہ لفظ ”حلیہ ہے.حضور نے فرمایا کہ عام طور پر حلیہ ہی مشہور ہے.غلط العام صحیح لوگوں نے عبدالقادر کور وکا کہ نہ بولومگر وہ نہ رکا بولا ( کہ ) آپ عام نہیں ہیں آپ خاص ہیں.فرمایا کہ میں عربی میں گفتگو نہیں کر رہا ہوں ، اردو میں بول رہا ہوں، اس پر بھی وہ باز نہ آیا ہر طرف سے آواز اٹھی (کہ) چپ رہو.میر اوہ مکان تھا.میں نے ایک شخص کو کہا کہ اس کو.....باہر نکال دو ایسا کرنے پر امن ہوا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مجلس میں سے ایک جن نکل گیا.(حضور کی ) تقریر پھر شروع ہوئی (اس وقت کے لوگ بہت علم دوست تھے اور یہ شوق علمی باتوں سے محظوظ ہوتے تھے.اور حضور کی تقریروں سے انہوں نے بہت ہی اچھا اثر لیا تھا.اور بہت شکر گزار ہوئے تھے ) حضور نے بعض کو ٹھیوں کی سیر بھی فرمائی،، ( قلمی کا پی صفحہ ۶۷ تا ۶۹ ) * ☆ (۱) حِلية لانسان : ما يُرى من لونه وظاهره دهيته (المنجد) ☆ (ب) لیکن اردو میں حُلیہ ہی استعمال ہوتا ہے.چنانچہ فرہنگ آصفیہ میں جو چار جلدوں میں خان صاحب مولوی سید احمد دہلوی نے تالیف کی ہے.اور دہلی میں ۱۹۷۴ء میں ترقی اردو بورڈ ایڈیشن میں درج ہے.حلیہ (ح کی ضمہ کے ساتھ ) ح (یعنی اصل اس کا عربی معنی لکھا ہے.”صورت چہرہ.نشان × والے حصہ کا اضافہ مولوی محب الرحمن صاحب کے واسطے سے حاصل شدہ روایت سے کیا گیا ہے.

Page 362

340 حضرت اقدس سے منشی صاحب کی اولیں ملاقات ( جالندھر میں ) ہوشیار پور میں چلہ کرنے کے بعد حضرت اقدس نے مشہور آریہ سماجی ماسٹر مرلیدھر سے ۱۴٫۱۱ / مارچ ۱۸۸۶ء کو ایک معرکۃ الآراء مباحثہ کیا جو بعد تکمیل حضور کی طرف سے سرمہ چشم آریہ کے نام سے شائع کیا گیا.حضور واپسی پر جالندھر کچھ دیر ٹھہرے.اس موقع پر حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب کو بھی حضور کی زیارت کا موقع ملا.یہ منشی صاحب کی اولیں زیارت معلوم ہوتی ہے.آپ تحریر کرتے ہیں:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب ہوشیار پور میں چند روز قیام فرمایا اور ماسٹر ( مرلیدھر ) سے بحث ہو کر سرمہ چشم آریہ کتاب طبع ہوئی ، ہوشیار پور سے واپسی پر جالندھر سے ریل میں سوار ہونا تھا.اس لئے چند گھنٹے جالندھر میں قیام فرمانا تھا، ہم کو بھی کپورتھلہ میں اس کی اطلاع پہنچ گئی.اس لئے خاکسار اور منشی ظفر احمد صاحب اور ایک اور صاحب جالندھر آپ کی زیارت کے واسطے گئے.وہاں ہمارے پھوپھا صاحب مرحوم ملازم تھے.جالندھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب ہمارے پھوپھا صاحب کے مکان پر ہی چند گھنٹے قیام فرما دیں گے.قریب دو پہر کے حضور تشریف لائے.آپ کو دردسر کا دورہ تھا.کثرت سے آدمی جمع تھے.تمام مکان آدمیوں سے بھرا ہوا تھا.جناب پھوپھا صاحب نے کھانے کے واسطے عرض کیا تو فرمایا کہ مجھے دردسر کی سخت تکلیف ہے اگر کھانا کھاؤں گا تو نکل جائے گا.اس پر بھی ایک طشتری میں حلوائی بیضہ مرغ حضور کے سامنے پیش کیا، حضور نے ہاتھ دھو کر چمچہ سے چند لقمے تناول فرمائے.پھوپھا صاحب منشی عبداللہ صاحب نے سوال کیا کہ آپ کا سید احمد خان کی نسبت کیا خیال ہے.حضور نے فرمایا کہ میں نے ان کی تمام تصانیف تو دیکھی نہیں اس لئے میں ان کی دینی حالت کے متعلق تو کچھ نہیں کہہ سکتا.البتہ اس قدر جانتا ہوں کہ دنیاوی طریق پر سید صاحب مسلمانوں کی بہتری اور بہبودی کے واسطے بہت کوشش کرتے ہیں.اس لئے مسلمانوں کو ان کا مشکور ہونا چاہیئے.اس کے علاوہ اور بھی سوالات ہوئے اور (حضور نے ان کے ) جواب دے مگر مجھے یاد نہیں.کسی قدر آرام فرما کر ظہر کی نماز کے لئے مسجد میں جو قریب ہی تھی ، تشریف لے گئے.اگر چہ در دسر کے عذر کی وجہ سے حضور نے فرمایا کہ کوئی دوسرا نماز پڑھائے لیکن سب کے اصرار پر حضور نے ہی نماز پڑھائی.دورکعت آپ نے پڑھائیں.باقی دو رکعت ہم نے خود پڑھیں.بہت کثرت سے آدمی جمع ہو گئے تھے“.( قلمی کا پی صفحه ۲۵ تا ۲۶) * منشی حبیب الرحمن صاحب نے بواسطہ شیخ عبدالرحمن صاحب بیان کیا کہ یہ میرے ( باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )

Page 363

بعض احباب کپورتھلہ کی بیعت 341 اس تعلق میں منشی حبیب الرحمن صاحب تحریر کرتے ہیں : سرمه چشم آریہ طبع ہو گئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جناب والد صاحب کو اطلاع دی جو والد صاحب مرحوم نے منگالی.سراج منیر کا اشتہار بھی ایک کارڈ پر آیا لیکن وہ اس زمانہ میں طبع نہیں ہوئی تھی.اس کے بعد جناب والد صاحب فالج کے مرض سے بیمار ہو گئے تھے.اس لئے یہ سلسلہ خط و کتابت بند ہو گیا.جب سبز اشتہار آیا جس میں بیعت کا اعلان تھا اور پھر شرائط بیعت بھی آئے یہ بھی والد صاحب مرحوم نے مسجد میں سنادے تھے.اس پر منشی اروڑ اصاحب مرحوم منشی محمد خان صاحب مرحوم اور منشی ظفر احمد صاحب اور منشی عبدالرحمن صاحب جو میرے دوست اور ہر وقت کے ہم نشین تھے.بیعت کے لئے تیار ہو گئے.کیونکہ پہلے خطوط اشتہارات اور براہین احمدیہ ( اور ) سرمہ چشم آر یہ دیکھ کر ان کی طبیعت اس طرف راغب ہو چکی تھی.میں چونکہ سکول میں پڑھتا تھا.اس لئے میں نہیں جاسکا.یہ سب سے پہلی بیعت تھی جو لود بیانہ میں ہوئی.غالباً چھ آدمی ( یعنی کپورتھلہ کے.ناقل ) اس وقت داخل بیعت ہوئے.منشی محمد خان صاحب مرحوم منشی اروڑا صاحب مرحوم منشی ظفر احمد صاحب منشی عبدالرحمن صاحب ہمنشی فیاض علی صاحب ( اور ) اجین فضل حسین.ان سے ابتدائی پانچ دعوائی مسیح موعود پر مستقل رہے لیکن بقیہ حاشیہ: سگے پھوپھا تھے اور جالندھر میں صدر و اصل باقی نولیس تھے.حاجی ولی اللہ صاحب بیمار تھے.میں ان سے اجازت لے کر گیا تھا.منشی ظفر احمد صاحب کے بیان (مندرجہ اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ ۷۸ ۷۹) سے منشی عبداللہ صاحب کے نام اور ان کے اس عہدہ اور اس قرابت ، حلوہ بیضہ کھانے کا اور سرسید احمد خان صاحب کے استفسار کا اور حضور کے مسجد میں نماز پڑھنے کا اور بعدۂ ٹرین سے روانگی کا علم ہوتا ہے اور یہ کہ یہ واقعہ سرمہ چشم آریہ کے طبع ہونے سے پہلے کا ہے اور یہ کہ میں جالندھر گیا ہوا تھا جبکہ مجھے حضور کی متوقع آمد کا علم ہوا.اور ہم جالندھر ریلوے اسٹیشن پر گئے.وہاں دو تین سو افراد حضور کی پیشوائی کے لئے موجود تھے.حضور گاڑی سے اترنے لگے تو بہت ہجوم ہو گیا.عورتیں اپنے بچے حضور کی طرف کرتی تھیں کہ حضور کے کپڑوں کی ہوا لگ جائے.کنور بکر مان سنگھ نے اپنا ایک وزیر حضور کو اپنے ہاں لانے کے لئے بھجوایا تھا.لیکن حضور کنور صاحب کی سواری میں منشی عبداللہ صاحب موصوف کے ہاں تشریف لے گئے اور اُن کی بیٹھک میں فروکش ہوئے حضور کی معیت میں حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری اور حضرت حافظ حامد علی صاحب تھے.

Page 364

342 آخری دعوای مسیحیت سنتے ہی علیحدہ ہوگیا.‘ ( قلمی کاپی صفحہ ۲۶ و ۲۷) حضرت اقدس کا دعوای مسیحیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اواخر ۱۸۹۰ء میں وفات مسیح ابن مریم علیہ السلام کا اور اپنے مثیل مسیح ہونے کا اعلان فرمایا.یہ بات منشی حبیب الرحمن صاحب کے بیعت میں آنے سے پہلے کی ہے.آپ تحریر کرتے ہیں.دعوای کی اشاعت سے چند ماہ قبل منشی ظفر احمد صاحب اور اجین فضل حسین نے قادیان جانے کا قصد کیا.میں بھی ان کے ہمراہ جانے کے واسطے تیار ہوا.اور حضرت والد صاحب سے اجازت جانے کی طلب کی مگر ( انہوں نے ) اجازت نہیں دی.فرمایا کہ ابھی ٹھہر و.جناب والد صاحب بیمار تھے اور جیسا کہ پہلے عرض ہوا ہے.ان کو مرض فالج تھا.جس میں روز بروز زیادتی ہوتی جاتی تھی.میں خبر گیری اور خدمت کرتا تھا.جب یہ دونوں صاحبان قادیان سے واپس آئے تو بیان کیا کہ حضرت مرزا صاحب نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کر دیا ہے.منشی ظفر احمد (صاحب) نے بیان کیا کہ میاں فضل حسین نے سنتے ہی علیحدگی اختیار کی اور واپسی کے لئے جلدی کرنے لگے.رجسٹر بیعت کے اندراجات یوں ہیں : نمبر بیعت ۲۶ منشی اروڑے خان صاحب نمبر بیعت ۵۷ بنشی ظفر احمد صاحب نمبر بیعت ۵۸: میاں محمد خان صاحب ان چاروں کی بیعتیں اولین روز بیعت ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کی ہیں.نمبر بیعت ۱۶۳) بنشی فیاض علی صاحب.تاریخ بیعت ۲۱ راگست ۱۸۸۹ء نمبر بیعت ۱۵۶ بنفش فضل حسین صاحب ولد منشی غلام محی الدین اصل متوطن علی گڑھ حال سکونت مستقل کپورتھلہ.اجنین تو پخانہ ریاست کپورتھلہ.تاریخ بیعت ۲۸ / دسمبر ۱۸۸۹ء منشی حبیب الرحمن صاحب نے لکھا ہے کہ پھر انجئین فضل حسین کی زندگی عبرتناک ہوگئی اور نماز روزہ کیا، اسلام سے بھی تعلق باقی نہ رہا.( قلمی کا پی صفحه ۲۶ تا ۲۸ ).مولوی محب الرحمن صاحب کا بھی یہی بیان ہے.اجنین مذکور کی بری زندگی کے بارے میں یہ بیانات ترک کر دیئے گئے ہیں اور شامل کتاب ہذا نہیں کئے گئے.

Page 365

343 مگر میں ٹھہرا اور ددو چار یوم کے بعد واپس آیا.منشی محمد خان صاحب نے قبول کیا اور منشی اروڑ ا صاحب نے (بھی).منشی عبدالرحمن صاحب نے سن کر کہا کہ یہ منہ جھوٹ بولنے والا نہیں.(قلمی کاپی صفحه ۲۸ و ۲۹) غشی حبیب الرحمن صاحب کا بیعت کر نالد حیا نہ پہنچ کر دعوای مسیحیت کی اشاعت سے پہلے حضرت منشی ظفر احمد صاحب اور فضل حسین مذکور کے قادیان جانے کا تذکرہ کر کے جو پہلے درج ہو چکا ہے.معا بعد منشی حبیب الرحمن صاحب تحریر کرتے ہیں کہ.میں نے تحقیق شروع کی.اس سے پہلے میری یہ حالت تھی کہ میں نماز کا پابند نہ تھا اور تمام کنبہ میں محض میں ہی ایسا تھا.باقی سب پابند تھے.والد صاحب کو ہمیشہ اس کا خیال رہتا اور تنبیہ فرماتے رہتے تاہم مجھے اسلام سے محبت تھی.سکول چھوڑنے کے بعد میں نے نماز کا پابند ہونا چاہا لیکن پوری پابندی نہ ہوئی.تب میں نے ارادہ کیا کہ کسی بزرگ سے بیعت کروں تا کہ صحبت اور توجہ سے نماز کی پابندی اختیار کروں.مرشد کے انتخاب کے لئے میں سوچتا رہا اور کئی وجود میرے ذہن میں آتے تھے.لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خیال آتا تو زیادہ خیال اس طرف ہوتا.میں نے سوائے اپنے دل کے کسی سے مشورہ نہ کیا.اور خاموشی سے سوچتار ہا مولوی رشید احمد گنگوہی سے بوجہ اس کے کہ وہ حاجی امداداللہ صاحب مرحوم مہاجر مکہ کے خلیفہ اور حنفی المذہب تھے ، مجھے عقیدت تھی، جب میں ارادہ کرتا کہ ان سے بیعت کروں تو میرے قلب سے آواز آتی کہ حضرت مرزا صاحب اس زمانہ کے مجدد ہیں.منشی ظفر احمد صاحب ایک دفعہ قادیان جارہے تھے منشی حبیب الرحمن صاحب نے اجازت طلب کی تاکہ وہ بھی جائیں لیکن حاجی ولی اللہ صاحب نے کہا کہ ابھی ٹھہر وواپس آکر منشی ظفر احمد صاحب نے بتایا کہ حضرت اقدس نے مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے.منشی محمد اروڑا صاحب منشی عبداللہ صاحب اور منشی محمد خان صاحب نے فوراً یہ دعوے تسلیم کر لیا.(مضمون منشی کظیم الرحمن صاحب مصدقہ منجانب حضرت منشی ظفر احمد صاحب مندرجہ الحکم ۲۸ ۱ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم ۲۱) ”ہمارے اس مجمع میں جو سب ہم خیال تھے.گو میں ابھی بیعت نہیں ہوا تھا منشی محمد خاں صاحب مرحوم ایک فہیم آدمی تھے.اور جو بات زبان سے نکالتے سوچ کر اور غور کرنے کے بعد کہتے.مجھے ان سے اور ان کو مجھ سے اس قدر محبت تھی کہ اکثر اوقات میں ہم ایک جگہ رہتے.خدا تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے.(قلمی کا پی صفحہ ۲۶ تا ۲۸)

Page 366

344 آخرش میں نے مولوی رشید احمد (صاحب) کو خط لکھا کہ میں کسی سے بیعت کرنا چاہتا ہوں.مگر اس قدر طریق ہیں کہ میں ان میں سے منتخب نہیں کر سکتا.مجھے آپ سے عقیدت ہے.لیکن جناب مرزا صاحب نے اس زمانہ کے مجدد ہونے دعوای فرمایا ہے، اگر یہ اطمینان ہو جائے کہ حضرت مرزا صاحب اس صدی کے مجدد ہیں تو پھر مجھے ان کی بیعت کرنی چاہئیے ، اگر ان کا دعوی ٹھیک نہیں ہے تو پھر میں دوسرے سے بیعت کروں.اس لئے آپ حضرت مرزا صاحب کے متعلق اپنا خیال تحریر فرماویں.میرے اس خط کے جواب میں مولوی رشید احمد صاحب نے جو خط بھیجا اس کا مضمون یہ تھا: میں نے جناب مرزا صاحب کی تمام تصانیف تو نہیں پڑھیں لیکن جس قدر پڑھی ہیں ان میں یہ ایک نئی بات پائی جاتی ہے کہ مخالفین اسلام کے اعتراضات کا جو جواب مرزا صاحب نے دیا ہے اس کا ثبوت قرآن شریف سے دیا ہے.یہ ایک ایسی بات ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوئی.اس لئے مرزا صاحب بے شک وشبہ مجددمان لینے کے قابل ہیں.“ اس خط کے آنے پر میں نے قطعی فیصلہ کر لیا کہ میں حضرت صاحب سے بیعت کرلوں گا.کیونکہ پہلے بھی اس طرف کشش پائی جاتی تھی.اس کے بعد وہ واقعہ ہوا جو میں نے اس سے پہلے لکھا ہے.یعنی دعوای مسیح موعود ( ہونا ) جس نے پھر مجھے خاموش کر کے تحقیق کی طرف متوجہ کر دیا.اب آپس میں جو ہم باہم دوست تھے، تحقیقی طور پر گفتگو شروع ہوگئی.ابھی تک فتح اسلام بھی شائع نہ ہوا تھا.ہر وقت مجھے اس کا خیال رہتا.میں نے بحث کو چھوڑ دیا اور دعا کی طرف طبیعت متوجہ ہوئی.میں روز مرہ تہجد کی نماز پڑھ کر دعا مانگتا رہا.آخر طبیعت پر اس طرح اطمینان ہوا کہ جب کتاب آ جائے گی پورا اطمینان ہو جائے گا.میں اس وقت کلکٹری کے محکمہ میں کام سیکھتا تھا اور روز مرہ کچہری جاتا تھا.منشی محمد خاں صاحب مرحوم بھی محکمہ اسٹنٹ مجسٹریٹ میں اہلمد تھے.منشی ظفر احمد (صاحب) عدالت مجسٹر یٹی میں اپیل نویس تھے اور منشی اروڑا صاحب مرحوم مجسٹریٹی ( میں ) نقشہ نویس اہلمد برخاستگی عدالتوں کے وقت ہم سب مل کر واپس آیا کرتے تھے.فتح اسلام کا روز مرہ انتظار رہتا تھا.اور سب سے زیادہ مجھے انتظار تھا.ایک دفعہ منشی اروڑا صاحب مرحوم قادیان تشریف لے گئے.ایک دن دو پہر کو بارہ بجے کچہری سے فارغ ہو کر میں منشی اروڑ ا صاحب کے کمرہ میں گیا جہاں پر ہم سب واپسی کے واسطے جمع ہوا کرتے تھے.میں نے دیکھا کہ منشی اروڑا صاحب واپس آگئے تھے.ملاقات کے بعد میں نے کتابوں کی بابت دریافت کیا تو (انہوں نے) فتح اسلام، توضیح مرام مجھے دی میں شوق میں غرق تھا.فوراً اپنے کمرہ میں واپس چلا گیا.اور وہاں بیٹھ کر فتح

Page 367

345 اسلام بتمام و کمال توجہ کے ساتھ پڑھی.اس کو پڑھ کر میں کیا عرض کروں کہ میری کیا حالت ہوئی میرا ایمان ، میرا یقین اس درجہ پر پہنچا کہ گویا ایک آہنی کیل میرے قلب میں گڑ گئی.وہاں نہ کوئی ثبوت تھا.اور نہ کوئی دلیل ، نہ نظیر، معمولی الفاظ میں دعوی اور اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کا فوٹو اور ترقی اسلام کی کسی قدرتدابیر، مگر میرا ادل تھا کہ ایمان ، عرفان اور یقین سے بھر گیا.جب یہ پڑھ کر اٹھا تو دو بجے تھے راستہ میں جو ملا اس سے تذکرہ حق الیقین کے پیرا یہ میں کیا.دوستوں میں اپنے یقین کا اعلان کر دیا.اس وقت بذریعہ خط بیعت نہیں ہوتی تھی.تاہم میں نے ایک عریضہ حضور علیہ السلام کی خدمت ( میں) لکھ دیا اور دوسروں سے بحث شروع کر دی.مولوی رشید احمد صاحب کو پھر خط لکھا اور اس دعوی کی بابت دریافت کیا.جواب آیا کہ تم اسی عقیدہ پر رہو جو خلف سلف سے چلا آتا ہے.میں نے لکھا کہ حضرت مرزا صاحب کے مرید یہ یہ ثبوت پیش کرتے ہیں کیا جواب دوں؟ مگر پھر وہی جواب (آیا) کہ خلف سلف سے جو عقیدہ ہے،اس کو نہ چھوڑ و مگر میں نے خطوط کا سلسلہ ( شروع کر دیا.جواب آیا کہ تم ان سے بات نہ کرو اور مشکوۃ کی ایک حدیث کا پتہ بتلایا پھر ایک (خط) میں لکھا کہ مرزا صاحب کو جنون ہو گیا ہے.یہ سب خطوط میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بھیج دیئے حضرت صاحب سے میری خط و کتابت رہی.حضور نے تحریر فرمایا تھا کہ اگر کوئی اعتراض ہوتو لکھوتا کہ ازالہ اوہام میں اس کا جواب دیا جائے.چنانچہ میں نے کئی اعتراض حضور کی خدمت بابرکت میں تحریر کئے.جن کے جواب ازالہ اوہام میں موجود ہیں.* خطوط وحدانی میں الفاظ (شروع) اور ( خط ) والا حصہ ورق وریدہ ہے ش کا ایک حصہ یعنی “ باقی ہے.خط کا لفظ سیاق وسباق کے مطابق درج کیا گیا ہے.مضمون منشی کظیم الرحمن صاحب مصدقہ منجانب حضرت منشی ظفر احمد صاحب میں یہ بھی درج ہے کہ منشی حبیب الرحمن صاحب کا رحجان حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف ہوا تو حضور سے منشی صاحب نے خط و کتابت شروع کر دی اور سوالات تحریر کر کے جوابات منگواتے رہے.منشی ظفر احمد صاحب نے بیعت کر لی تو ان کے ذریعہ (۲۵) بہت سے حالات معلوم ہوتے رہے.مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کا کیا انجام ہوا اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر درج ہے.حضور فرماتے ہیں.” میں نے اپنے رسالہ انجام آتھم میں بہت سے مخالف مولویوں کا نام لے کر مباہلہ کی طرف ان کو بلایا تھا.اور صفحہ ۶۶ رسالہ مذکور میں یہ لکھا تھا کہ اگر کوئی ان میں سے مباہلہ کرے تو میں یہ دعا (باقی اگلے صفحہ پر )

Page 368

346 حضور اود ہیا نہ میں تشریف لے آئے تھے بیعت کے لئے میں جانا چاہتا مگر والد (یعنی) حاجی محمد ولی اللہ صاحب کی علالت اور دوسرے کاموں سے فرصت نہ ہوتی تھی.ایک دن خواب میں دیکھا کہ حضور پلنگ پر سرہانہ کی جانب بیٹھے ہیں.صحن میں میں سامنے بیٹھا ہوں اس پلنگ پر اور آپ کی ٹانگیں دبارہا ہوں.اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی ٹانگیں مثل روئی کے نرم ہیں اور ہڈی نہیں ہے.مجھے تعجب ہو رہا ہے.میں نے عرض کیا کہ حضور! ازالہ اوہام ابھی نہیں چھپا ؟ فرمایا کہ چھپ گیا ہے.کیا آپ کو ابھی نہیں ملا؟ میں نے عرض کیا ( کہ ) نہیں.حضور نے حافظ حامد علی صاحب مرحوم کو اشارہ کیا اور فرمایا کہ ازالہ اوہام کی ایک جلد لا کر ان کو دیدو.وہ کمرہ کی طرف گئے میں نے عرض کیا حضور! یہاں پینے کا پانی ہے؟ حضور نے حافظ نوراحمد (صاحب) لدھیانوی کو فرمایا کہ ان کو پانی پلاؤ.حافظ نور احمد صاحب ایک پیتل کے کٹورہ میں پانی لائے.وہ پانی میں نے پیا بہت سرد پانی تھا پھر آنکھ کھل گئی.” حافظ حامد علی صاحب اور حافظ نور احمد (صاحب) سے میں واقف نہ تھا.نہ حضور نے ان کا نام لیا تھا.بلکہ بعد میں جب میں گیا تو ان کو دیکھ کر شناخت کیا کہ ان کو خواب میں دیکھا تھا.نام بھی اسی وقت معلوم ہوئے..اس کے بعد مجھے پھر ایک خواب آیا کہ لدھیانہ کے چوڑے بازار میں ایک شخص زور سے مجھے آواز دے رہا ہے کہ جلد آؤ توقف کیوں ہے؟ اس خواب سے کشش زیادہ (سے) زیادہ ہوئی اور میں نے لودیا نہ کروں گا کہ ان میں سے کوئی اندھا ہو جائے اور کوئی مفلوج اور کوئی دیوانہ اور کسی کی موت سانپ کے کاٹنے سے ہو اور کوئی بے وقت موت سے مرجائے اور کوئی بے عزت ہو اور کسی کو مال کا نقصان پہنچے.پھر اگر چہ تمام مخالف مولوی مرد میدان بن کر مباہلہ کے لئے حاضر نہ ہوئے مگر پس پشت گالیاں دیتے رہے اور تکذیب کرتے رہے.چنانچہ ان میں سے رشید احمد گنگوہی نے صرف لعنتہ اللہ علی الکاذبین نہیں کہا.بلکہ اپنے ایک اشتہار میں مجھے شیطان کے نام سے پکارا ہے.آخر نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ تمام بالمقابل مولویوں میں سے جو باون تھے آج تک صرف ہیں زندہ ہیں اور وہ بھی کسی بلا میں گرفتار، باقی سب فوت ہو گئے.مولوی رشید احمد اندھا ہوا اور پھر سانپ کے کاٹنے سے مر گیا.جیسا کہ مباہلہ کی دعا میں تھا.، (۲۶) یہ ہے انجام تصدیق کرنے کے بعد پھر تکذیب ہی نہیں اس میں انتہا کرنے والے دوسرے متعدد افراد کی صورت ہلاکت کا بھی ذکر ہے - فَاعتَبِرُ وُ ايا أولى الأبصار!

Page 369

347 جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقیم ( تھے ) بہت جلد جانے کا ارادہ کیا.مجھے تاریخ یاد نہیں غالباً ۹۰ ء یا ۱۸۹۱ء تھا.میں نے منشی ظفر احمد (صاحب) کو اپنے ہمراہ جانے کے واسطے تیار کیا.منشی ظفر احمد صاحب رشتہ میں میرے بھائی بھی ہیں.میرے ہمراہ روشن علی جو عربی پڑھا ہوا اور مسن آدمی تھا اور محبوب جو ایک غریب پر دیسی تھا.اور ہماری مسجد میں رہتا تھا.اور ہمارے ہاں کھانا کھاتا تھا، بیعت کرنے کی غرض سے تیار ہوئے اور لود یا نہ پہنچے.حضرت صاحب محلہ اقبال گنج میں رہتے تھے.آپ نے ایک مکان کرایہ پر لیا ہوا تھا اور ایک مردانہ جو بالکل ملے ہوئے تھے.مردانہ مکان سے زنانہ مکان میں جانے کے واسطے بیرونی سڑک شارع عام پر سے کسی قدر چل کر جانا پڑتا تھا.زنانہ مکان کی ڈیوڑھی تھی جس کا بڑا دروازہ تھا.اس ڈیوڑھی میں قریباً بیس فٹ لمبا ایک کمرہ تھا.اس کمرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رہا کرتے تھے اور اس کمرہ کا ایک دروازہ زنانہ جس کا ایک دروازہ سڑک کی طرف کھلتا تھا جو سڑک سے اونچا تھا مکان کی طرف ایک چبوترہ پر کھلا ہوا تھا.اس چبوترہ پر صف بچھا کر گرمیوں میں بیٹھا کرتے تھے اور ڈیوڑھی میں بھی دروازہ تھا.اکثر جب اپنے کسی خاص خادم سے باتیں کرنی ہوتی تھیں تو زنانہ مکان کا دروازہ بند کر دیتے تھے.اور ڈیوڑھی کا دروازہ کھول دیتے تھے.اندر زنانہ مکان بہت وسیع تھا.مردانہ مکان میں ایک کمرہ اسی قدر لمبا ( تھا) اور اس کا برآمدہ تھا.چبوترہ اور محن.اس کمرہ کا ایک دروازہ سڑک کی طرف مگر سڑک سے اونچا.وہ دروازہ نشست برخاست کے وقت دن کو کھول دیا جاتا تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دروازہ کے پاس بیٹھا کرتے تھے.وہ دروازہ غرب کی جانب تھا.اس طرح وہ ہی جگہ نماز کے وقت امام کی ہوتی تھی.اور آپ خود نماز پڑھایا کرتے تھے.” ہم چاروں دو پہر کو بارہ بجے کے بعد پہنچے تھے صحن میں چبوترہ سے نیچے دو پلنگ بچھے ہوئے تھے، ایک پلنگ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف فرما تھے.اس طرح کہ قدم شریف زمین پر اور جوتا پہنے ہوئے تھے.اور مہندی ریش مبارک کو لگائی ہوئی تھی حافظ حامد علی صاحب مرحوم اور حافظ نوراحمد صاحب بھی اس مکان میں موجود تھے ان کو میں نے کچھ دیر کے بعد شناخت کیا کہ یہ خواب والے آدمی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے دیکھ کر شناخت کر لیا.وہی شکل و شباہت تھی جو خواب میں دیکھی تھی.حضرت صاحب ہم سے مل کر بہت خوش ہوئے اور مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کا نام حبیب الرحمن ہے؟ پھر فرمایا کہ آپ کے خط آیا کرتے ہیں.اس کے بعد میرے والد صاحب کی طبیعت کا حال دریافت فرمایا دیر تک خاکسار سے باتیں کرتے رہے.میرے ساتھیوں کا نام بھی دریافت کیا اور کچھ بات بھی کی لیکن زیادہ تر مجھ سے ہی ہمکلام رہے پھر فرمایا کہ میں مہندی دھو آؤں اور زنانہ مکان میں تشریف لے گئے.فارغ ہو کر جلد ہی تشریف لائے ظہر کی نماز کا وقت تھا اور خود ( نماز کی امامت

Page 370

348 کی اور ہم ( لوگوں نے ) جس قدر موجود تھے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی اس وقت حضور خود ہی نماز پڑھایا کرتے تھے اور لودیانہ ( میں ) مکان پر ہی نماز با جماعت پڑھتے تھے.پھر (بعد نماز آپ ) بیٹھ گئے اور اپنے دعوی کے دلائل اور حالات زمانہ اور ضرورت مصلح پر تقریر فرماتے رہے.عصر کی نماز کے بعد آپ زنانہ مکان کو تشریف لے گئے میں نے منشی ظفر احمد (صاحب) کو بھیجا کہ عرض کرو کہ میں اور باقی دونوں ساتھی داخل بیعت ہونا چاہتے ہیں.اس زمانہ میں حضور بیعت ( قبول) کرنے میں بہت احتیاط فرمایا کرتے تھے.اور ہر ایک سے جو بیعت کے لئے درخواست کرتا تھا، فرمایا کرتے تھے کہ ابھی ٹھہرو سوچ لو اور غور کر لو.و منشی ظفر احمد صاحب میرے کہنے پر حضور کے پیچھے ہی گئے.اور ڈیوڑھی میں حضور سے مل گئے.اور میری اور باقی دونوں کی بیعت کی درخواست کے بارہ میں عرض کیا آپ نے کچھ دیر سوچ کر فرمایا میری بابت کہ یہ فہیم اور مستقل مزاج تو معلوم ہوتا ہے.اچھا میں بیعت ( قبول ) کرلوں گا ان دونوں کی بابت بھی (منشی ظفر احمد صاحب نے ) عرض کیا کہ وہ بھی بہت معتقد ہیں.اور دعوی کے متعلق پورے طور پر ان کا اطمینان ہو گیا ہے لیکن آپ نے منظور نہیں فرمایا پھر فرمایا کہ بعد نماز مغرب میں حبیب الرحمن کی بیعت لوں گا قبل از نماز مغرب حضور تشریف لائے نماز پڑھائی پھر فرمایا میری طرف مخاطب ہو کر کہ تم ٹھہر و.باقی سب باہر چلے جائیں اس زمانہ میں حضور تنہا ہو کر ایک ایک کی بیعت لیا کرتے تھے چنانچہ حضور نے خاکسار ( کو ) داخل بیعت کیا اور دعا کی اور پھر فوراً اٹھ کر زنانہ مکان کی طرف تشریف لے گئے.اس وقت باقی دونوں کو بیعت میں داخل نہیں فرمایا.” دوسرے دن پھر ہم نے ان دونوں کی بیعت کے لئے سفارش کی پہلے تو صرف منشی ظفر احمد صاحب نے ہی عرض کیا تھا.اب اس سفارش میں خاکسار نے بھی شرکت کی اور عرض کیا کہ روشن دین سمجھدار اور عربی پڑھا ہوا ہے.اور دینی کتب کا مطالعہ کرتا رہتا ہے.مسئلہ وفات مسیح کو خوب سمجھے ہوئے ہے.اس پر حضور نے منظور فرما لیا کہ بعد نماز مغرب بیعت ( قبول) کروں گا.چنانچہ اس دن بعد نماز مغرب ہم سب باہر چلے آئے اور آپ کمرہ میں بیٹھے رہے پہلے محبوب کو طلب فرمایا اور داخل بیعت کیا.اس کے بعد روشن دین کو بلایا اور بیعت لی.اس وقت روشن دین پر حضور کی توجہ کا اس قدر اثر ہوا کہ اس نے) چیخ چیخ کر رونا شروع کیا حضور بیعت کے بعد فوراً ہی زنانہ مکان کی طرف تشریف لے گئے روشن دین بے تحاشا حالت ربودگی میں حضور کے عقب میں دوڑا اور روتا جا تا تھا.ہم نے اسے روکا کچھ دیر کے بعد اس کی حالت درست ہوئی اس وقت میں نے سوچا اور

Page 371

349 غور کیا کہ روشن دین بہت نیک اور متقی ہے کہ تو بہ کا بہت اثر ہوا.اور میں اس قدر گنہگار ہوں کہ مجھ پر کچھ اثر نہیں ہوا.اس وقت میری عمر بیس سال کی تھی یا کچھ زیادہ بہت مدت تک مجھے اپنی اس حالت کا فکر رہا کہ میں بہت گنہ گار ( اور ) نا پاک معلوم ہوتا ہوں اور سخت دل کہ میرے اوپر رقت طاری نہیں ہوئی تھی لیکن ایک عرصہ کے بعد یہ مسئلہ میری سمجھ میں آیا.اس کے بعد ہم سب کپورتھلہ چلے آئے.حضرت صاحب قریباً تمام دن باہر بیٹھک میں تشریف رکھتے تھے.اور ہر وقت وفات مسیح کا ہی تذکرہ رہتا تھا.اور ( حضور ) دلائل (بیان ) فرماتے تھے..چونکہ والد صاحب مرحوم بیمار تھے اس لئے میں زیادہ نہ ٹھہرا اور چوتھے دن واپس چلا آیا.ازالہ اوہام ابھی زیرطبع تھا.“ ( قلمی کا پی.صفحہ ۲۹ تا ۳۹) * حضرت اقدس کی فراست کا ایک واقعہ منشی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ فراست مؤمنین کے تعلق میں......عرض کرتا ہوں (کہ) جس دن بفضلہ تعالیٰ شانہ ( میں ) داخل بیعت ہوا، محبوب اور روشن بھی دوسرے دن داخل بیعت ہوئے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاکسار کو داخل بیعت فرمانے کا تو اسی وقت ارادہ ظاہر فرما دیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہ مستقل مزاج معلوم ہوتا ہے.لیکن (ان) دونوں کے متعلق فرمایا تھا کہ ابھی نہیں کچھ اور سوچیں لیکن ہم نے بار بار عرض کیا تو دوسرے دن ان سے بھی بیعت لے لی.میرا استقلال تو ظاہر ہے.اللہ کریم کا ہزار ہزار شکر ہے اور احسان ہے کہ اس نے ہر ایک زلزلہ کے وقت مجھے ہلاکت سے بچایا.اس زمانہ دراز میں مجھے کبھی شک کا خیال بھی نہیں آیا.دوسرا محبوب دراصل وہ جوان عمر تھا.اور مثل درویشوں کے تھا.لیکن اس کا جلد ہی انتقال ہو گیا.خدا مغفرت فرمائے.روشن دین کی تا مرگ یہ حالت رہی کہ بات بات پر اس کو شک ہو جاتا تھا.پہلے دن کے حالات میں چونکہ حضور زیادہ تر خاکسار سے ہی ہمکلام رہے تھے.اس نے کپورتھلہ واپس آ کر بیان کیا تھا کہ (حضور ) ☆ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے مصدقہ مضمون رقم کردہ منشی تنظیم الرحمن صاحب (مندرجہ الحام ۲۸ جولائی ۱۹۳۵ء - صفحہ ۸ کالم۲) میں خلاصہ یہی ذکر ہے کہ حضور نے مہندی لگائی ہوئی تھی.پلنگ پر تشریف فرما تھے.منشی ظفر احمد صاحب کے کہنے پر صرف منشی حبیب الرحمن صاحب کی بیعت حضور نے قبول کی اور دوسرے روز دوسرے دو ساتھیوں کے بارے عرض کرنے پر ان کی بیعت بھی حضور نے قبول فرمائی اور پھر ان دونوں (بعد کے بیعت کنندگان) کے ارتداد کا ذکر کیا ہے.

Page 372

350 امیروں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اور امیروں ہی سے زیادہ کلام کرتے ہیں.اور اپنی موت سے پہلے کئی دفعہ اس نے بیت و یا ور پھر ان ہی اللہ کریم کو علم ہے کہ اس کی موت کس حالت میں ہوئی لیکن ظاہری حالات مشکوک ہی نظر آتے ہیں، (قلمی کا پی صفحه ۴ و ۴۵) * (الف) رجسٹر بیعت میں ان تینوں کی بیعت کا اندراج ایک ہی روز یعنی ۲۵ مارچ ۱۸۹۱ء میں ہے.گویا فوری طور پر اندراجات رجسٹر بیعت میں نہیں ہے.یہ اندراجات رجسٹر بیعت میں زیر نمبر ۲۱۹ تا ۲۲۱ علی الترتیب یوں ہیں :- د منشی حبیب الرحمن برادا زادہ حافظ حاجی ولی اللہ صاحب اصل سکونت سراوہ ضلع پر گنه وار د حال کپورتھلہ (پیشہ وغیرہ) حال خانه نشیں پیشہ ملازمت ”میاں روشن دین ولد غلامی ساکن کپورتھلہ (پیشہ وغیرہ) خانه نشیں“ محبوب عالم درویش نو عمر بعمر ہفتند و سالہ ولد بڈھے شاہ ساکن کپورتھلہ (پیشہ وغیرہ) خانه نشیں (باء) مندرجہ ذیل امور کی تصحیح کا ذکر کیا جاتا ہے.۱- حیات احمد جلد سوم ( صفحہ ۴۳ حاشیہ) میں درج ہے.کہ منشی اروڑے خاں صاحب، منشی ظفر احمد صاحب ہمنشی محمد خاں صاحب اور منشی حبیب الرحمن صاحب کی بیعت ایک ہی روز ہوئی تھی.یہ ہو ہے.تصحیح شہادت ذیل سے ہوتی ہے.قلمی بیان منشی حبیب الرحمن صاحب مضمون منشی کظیم الرحمن صاحب مصدقہ منجانب منشی ظفر احمد صاحب میں مرقوم ہے کہ منشی حبیب الرحمن صاحب نے بیعت حضرت اقدس کے دعوی مسیحیت کے بعد کی تھی (الحکم ۲۸ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم او۲ ) اور جسٹر بیعت کے اندراجات.دیگر بزرگوں نے بیعت کے اولیں روز بیعت کی تھی.محولہ بالا مضمون منشی تنظیم الرحمن صاحب میں یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ منشی حبیب الرحمن صاحب کی بیعت تک غالباً اسی یا اس سے کم افراد بیعت کر چکے تھے.یہ سہو ہے.تصحیح اس سہو کی نمبر بیعت احباب مذکورین کے اندراجات سے ہوتی ہے.جو او پر درج ہو چکے ہیں.محولہ بالا مضمون منشی کظیم الرحمن صاحب میں روشن دین اور محبوب دونوں کے ارتداد کا ذکر ہے.یہ ہو ہے.تصحیح قلمی کا پی منشی حبیب الرحمن صاحب کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ صرف روشن دین مرتد ہوا

Page 373

351 حضرت اقدس کی فراست کا ایک اور واقعہ حاجی محمد ولی اللہ صاحب کا انتقال منشی حبیب الرحمن صاحب بیعت کر کے لدھیانہ سے آنے کے بعد کے عرصہ سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فراست کا ایک واقعہ یوں رقم کرتے ہیں: مولوی احمد علی صاحب مرحوم سہارنپوری جو ایک نیک آدمی تھے،حضرت مولوی حاجی حکیم نورالدین صاحب خلیفہ اول...اکثر ان کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے اور تعریف کیا کرتے تھے.ایک دفعہ فرمایا کہ ایک یا چند احادیث بخاری شریف غالباً سمجھنے کی غرض سے بہ ہیئت سادہ میں سہارنپور مولوی احمد علی صاحب کے پاس گیا وہ مسجد میں بیٹھا کرتے تھے.جس وقت میں گیا مولوی صاحب نہ تھے لیکن ان کے ایک فرزند تھے اور ایک اور شخص ان کے پاس بیٹھا تھا.میں نے دریافت کیا تو انہوں نے لا پرواہی سے جواب دیا کہ زنانہ مکان میں گئے ہیں.میں ایک طرف کو بیٹھ گیا.وہ مولوی صاحب جو ان کے فرزند تھے طبیب بھی معلوم ہوتے تھے.وہ شخص جو ان کے پاس تھا.ان سے ایک نسخہ خاص مانگ رہا تھا.اور معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس نسخہ کا دیر سے طالب تھا.اور مولوی صاحب ان کو ٹالتے رہتے تھے.اس دن اس نے بہت منت ( کی ) مگر مولوی صاحب ٹالتے ہی رہے مگر ساتھ وعدہ کرتے رہے.اس کے منت کرنے پر مجھے رحم آیا میں نے اس شخص سے کہا کہ اگر آپ کہیں تو وہ نسخہ میں آپ کو لکھدوں مگر اس نے کہا کہ میں تجھ سے نہیں لکھوا تا اور پھر منت شروع کی.میں نے کاغذ پنسل نکال کر نسخہ لکھا اور اس شخص کی طرف ڈال دیا اور کہا کہ آپ نہ لکھا ئیں لیکن ہم نے تو ضرور لکھنا ہے.اس پر مولوی صاحب نسخہ دیکھ کر بہت ناراض ہوئے.اتنے میں مولوی احمد علی صاحب تشریف لے آئے گو وہ میرے واقف نہ تھے.لیکن بہت محبت اور عزت سے ملے اور مصافحہ کے ساتھ ہی میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر بیٹھا لیا.اور معمولی باتوں کے بعد میرے آنے کا مقصد دریافت کیا.میں نے بخاری شریف کی ان احادیث کے متعلق دریافت کیا اور ان کے متعلق ( انہوں نے ) میرا اطمینان کر دیا.میں نے اجازت چاہی لیکن انہوں نے کئی دن بعد مجھے اس طرح رخصت کیا کہ ایک نسخہ قلمی بخاری شریف کا لائے اور مجھے دیا کہ مجھے خیال تھا کہ میری اولاد میں سے تو اس کے رکھنے ( کی ) قابلیت کوئی نہیں بقیہ حاشیہ: تھا محبوب موصوف منشی صاحب کا ہاں کھانا کھاتا تھا اس قرب و تعلق کی وجہ سے ان کا بیان ہی قابل قبول ہے.چونکہ ۱۸۹۱ء میں بیعت کے بعد محبوب نے جلد وفات پائی اور منشی کظیم الرحمن صاحب کی ولادت ۱۸۹۳ء کی ہے اور ہوش کی عمر بہت سال بعد میں شروع ہوئی.انہوں نے جو بیان کیا وہ عینی شہادت پر مبنی نہیں.

Page 374

352 رکھتا.میں چاہتا تھا کہ ایسے شخص کو دوں جو اس کے رکھنے ( کا) شائق ( ہو ) اور قابلیت رکھتا ہو اور یہ بات میں آپ کے اندر پاتا ہوں.اس کے بعد میں رخصت ہوا.ان مولوی صاحب کا نام جو مولوی احمد علی صاحب کے فرزند تھے ، حبیب الرحمن تھا.اور ان دنوں میں جس کا تذکرہ میں کر رہا ہوں.(وہ) مدرسہ عربی اسلامیہ میں مدرس اول تھے.چونکہ وہ طبیب بھی تھے ، ہمارے ایک رشتہ دار نے لکھا کہ اگر اجازت دو تو میں ان کو حضرت قبلہ حاجی ( ولی اللہ ) صاحب کے علاج کے لئے بھیج دوں میں نے ان کو بھیجنے کے واسطے لکھا اور وہ آگئے ، بظاہر بہت خلیق تھے.انہوں نے علاج شروع کر دیا ہم نے حضرت صاحب کے دعوی کے متعلق بھی ان سے گفتگو شروع کر دی.مولوی صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کا اشتیاق ظاہر کیا ہم بھی یہ ہی چاہتے تھے ان کی رخصت ختم ہوئی تو انہوں نے واپسی کا ارادہ کیا کہ بعد حصول رخصت اور دوسرے کاموں سے فارغ ہو کر میں جلد واپس آ جاؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام لو دیا نہ میں ہی تھے.ہم نے ان کو راستہ میں حضرت صاحب کی خدمت میں چند گھنٹہ کے لئے اترنے کے لئے کہا جو انہوں نے شوق کے ساتھ منظور کیا.جب وہ روانہ ہوئے تو بندہ خاکسار اور منشی ظفر احمد صاحب بھی لود یا نہ تک ساتھ ہوئے اور حضرت صاحب سے ملایا - ۵-۶ گھنٹہ وہ حضرت صاحب کے پاس رہے حضرت نے ان کے سامنے اپنا دعوای کھول کر مع دلائل کے جو اس وقت تک پیدا کر چکے تھے، بیان فرمائے.وہ ہر ایک بات کو منظور اور قبول کرتے رہے.اور آپ کی بات کی تصدیق کرتے رہے.ایک ایسے عالم کا مصدق بن جانا ہماری خوشی کا باعث ہوا.ان کی عدم موجودگی میں میں نے عرض کیا کہ حضور ! یہ مولوی صاحب تو مانتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ یہ بالکل نہیں مانتے.ایک ایسا عالم اور فاضل ہو اور یہ دعوای سن کر ایک اعتراض بھی نہ کرے بلکہ جو بات بھی پیش کی جاوے بلا کسی تردید اور بحث کے مان لے ایسا نہیں ہوسکتا.یہ منافقانہ حالت ہے.ابتدائی زمانہ تھا اور ایمان کا معاملہ تھا میں نے اور منشی ظفر احمد (صاحب) نے آپس میں کہا کہ یہ تو بد گمانی ہے.مولوی صاحب نے صاف الفاظ میں تصدیق کی ہے.غرض ہم کپورتھلہ چلے آئے اور مولوی صاحب بھی ایک دو یوم کے بعد سہارنپور سے کپورتھلہ پہنچ گئے.مولوی صاحب کو اسی مکان میں ٹھہرایا ہوا تھا.جہاں میری نشست تھی.مولوی (صاحب) ہمارے سامنے حضرت صاحب کی بے حد تعریف کرتے تھے.اور دعوی کو بالکل تسلیم کرتے تھے.غیر احمدی بھی مولوی صاحب کے پاس آ کر بیٹھا کرتے تھے.ہم کو معلوم ہوا کہ مولوی صاحب ہمارے سامنے تو حضرت صاحب کی تصدیق اور تعریف کرتے ہیں لیکن ہماری غیر موجودگی میں غیر احمدیوں کے ہم خیال ہو کر برا ( بھلا) کہتے ہیں.اور

Page 375

353 استہزاء کرتے ہیں.اس لئے ہم نے چھپ کر سنا اور کئی موقعے ایسے پیدا کئے کہ ان کو معلوم ہو کہ (وہاں ) ہم میں سے کوئی نہیں ہے.اور غیر احمدی ان کے پاس ہوتے تھے.ہم اس وقت ( ساتھ ) کے کمرہ میں خاموشی سے ان کی باتیں سنتے تھے.تب ہم کو ان کی منافقت کا حال معلوم ہوا.ہم نے توبہ کی اور یہ تمام حال حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا.دراصل فراست مومنین کی ضرور ہوتی ہے.دو چار یوم کے بعد ہی حضرت والد صاحب نے انتقال کیا اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے، (قلمی کا پی صفحہ ۳۹ ۴۴) اس سفر لدھیانہ کا ایک اور واقعہ منشی صاحب اسی سفر کے سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں کہ اسی وقت کا یہ واقعہ ہے کہ میں اپنے (ایک) رشتہ دار کے ہاں مقیم تھا.وہ رشتہ میں میرے چچا تھے.رات کو مجھے معلوم ہوا کہ ان کی نواسی ( کو جس کی ) سات آٹھ سال عمر ( تھی..بخت تپ ہے اور (وہ) بے ہوش ہے.لیکن انہوں نے مجھ سے تذکرہ نہیں کیا کیونکہ ان دنوں میں طاعون کا چرچا تھا.ان کو خیال تھا کہ اس کو طاعون ہو گیا ہے.ایک طبیب بھی ان کے ہاں رہا کرتا تھا اور...مطب کرتا تھا...........ان سے اشارہ سے تذکرہ کرتے رہے مگر میں نہ سمجھا انہوں نے) لڑکی کو لا کر طبیب کو دکھایا.اس نے خاموشی سے ان کو کہا.اس کو ضر ور طاعون ہو گیا ہے.ان کے اشاروں سے مجھے بھی شک ہو گیا.وہ جانتے تھے کہ اگر اس کو معلوم ہو گیا کہ لڑکی کو طاعون ہو گیا ہے.تو ہمارے گھر سے چلا جائے گا.کیونکہ مجھے ( اس بارے میں ) بہت وہم سا تھا.اور ( میں) بہت احتیاط کرتا تھا.....طبیب صاحب تو چلے گئے.میں نے ان سے دریافت کیا کہ لڑکی کو کیا شکایت ہے.لیکن انہوں نے معمولی سی بات کہہ کر ٹال دیا.پھر میں نے کہا کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اور حکیم صاحب کو خیال ہے کہ اس کو طاعون ہو گیا ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ سب علامات موجود ہیں.تپ بھی ویسا ہی ہے.اور بن ران میں گلٹی نکلی ہوئی ہے.میں نے ان سے کہا کہ یہ غلط ہے.اس گھر میں رہ کر آپ کو یا آپ کے گھر کے کسی آدمی کو طاعون نہیں ہوسکتا.یہ مکان جس میں منصف صاحب (یعنی میرے چا) رہتے تھے.وہی مکان تھا جس میں حضرت صاحب سالہا سال رہے تھے.میں نے کہا کہ یہاں رہنے والوں کو طاعون نہ ہو گا پھر میں نے کہا کہ میں لڑکی کو دیکھوں گا.اندر گیا تو اس کی والدہ ) منتظر تھی لڑکی کا تپ دیکھا.گلٹی دیکھی اس کی والدہ سے دریافت کیا کہ اس کو چوٹ تو نہیں آئی کیونکہ اس کا انگوٹھا پیر کا کچھ ورم کیا ہوا تھا.پھر معلوم ہوا کے ایک دن پہلے وہ زینہ سے گرگئی تھی اور پیر میں

Page 376

354 چوٹ آئی تھی تب سب کو یقین ہو گیا کہ یہ گلٹی اس چوٹ کے باعث ہے.پھر وہ تپ کا علاج کرنے لگے.میں تو حضرت صاحب کے پاس چلا آیا وہ بھی نیاز حاصل کرنا چاہتے تھے.میں ان سے کہہ گیا تھا کہ آپ وہاں آ جائیں جب وہ حضرت صاحب کی فرودگاہ پر آئے تو مجھ سے کہا کہ تم سچ کہتے تھے.لڑکی کو طاعون نہیں ہے.اس کو اب چیچک نمودار ہوگئی ہے.“ زیارت حضرت اقدس کا وفور شوق (قلمی کاپی صفحه ۴۸ ۴۹ ) منشی حبیب الرحمن صاحب بکثرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے.قادیان کے علاوہ جالندھر،لدھیانہ، امرتسر میں اور تمام مقدمات کی پیشیوں کے مواقع پر بہت سے مواقع کا ذکر اسی تالیف میں آیا ہے.منشی کظیم الرحمن صاحب بیان کرتے ہیں کہ حاجی محمد ولی اللہ صاحب کی وفات کے بعد والد صاحب کو شرکاء اور کاشتکاروں کی طرف سے اپنے اصلی وطن اور ریاست کپورتھلہ میں مقدمات میں الجھایا گیا.جس کی وجہ سے آپ شب وروز بھاگ دوڑ میں رہتے تھے.ان مصروفیتوں کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو یاد رہتے تھے.آپ اکثر عیدین قادیان میں پڑھتے تھے.حضور کے تمام مقدمات کی پیشیوں کے موقع پر آپ حاضر ہوتے تھے.حضور کے زمانہ میں قادیان آنے کے لئے کوئی خاص وجہ ہی محرک نہ ہوتی تھی.بلکہ بیٹھے بیٹھے جب حضور کی یاد نے جوش مارا، دار الامان کی (طرف) روانگی ہوگئی اور جب دربار نبوت سے اجازت ہوتی ، واپس جاتے بٹالہ اور قادیان کے درمیان کا گیارہ میل کا فاصلہ سفر کے لحاظ سے بہت کٹھن تھا.چنانچہ منشی حبیب الرحمن صاحب کا بیان ہے کہ: مضمون منشی کظیم الرحمن صاحب تصدیق شدہ منجانب حضرت منشی ظفر احمد صاحب (الحکم ۷ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۷- کالم ۳ و ۲۱ را گست- صفحہ ۷ کالم۲) منشی حبیب الرحمن صاحب نے بواسطہ شیخ عبدالرحمن صاحب بتایا کہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب، حضرت میاں محمد خاں صاحب ، حضرت منشی اروڑے خاں صاحب وغیر ہم ،سب با ہمی مشورہ سے اکٹھے قادیان جاتے تھے جب میں کپورتھلہ سے حاجی پور منتقل ہو گیا تو بھی کرتار پور کی ٹرین کی بابت اطلاع دیدی جاتی اور میں حاجی پور سے روانہ ہو کہ ان کا ہم سفر پھگواڑہ سے ہو جاتا.

Page 377

355 ابتدائی زمانہ میں سواری قادیان سے بٹالہ کو جانے کے واسطے بہت دقت ( تھی ) صرف ایک یکہ قادیان میں تھا اور وہ بھی باقاعدہ نہیں چلتا تھا.کئی دفعہ پیدل آنا جانا ہوتا تھا.جب کوئی مہمان رخصت کے لئے اجازت طلب کرتا تو ( حضرت صاحب) ضرور دریافت فرماتے کہ (سواری کا انتظام ہو ( گیا) ہے؟ ہم اجازت ہی اس وقت لیتے تھے.جب (سواری کا) (انتظام ہو جاتا ) یا پیدل چلنے کا ارادہ ہو جاتا اور عرض کی جاتی ) کہ روانگی ہے) تو حضور ( روانگی سے پہلے (فرماتے) کہ ذرا ٹھہریں (کھانا کھا) (کر جائیں اور کھانا بھجواتے ) اور ( کھانے وغیرہ ) ( کے بعد ) تشریف لاتے اور کچھ (فاصلہ ) ( تک تشریف لے جاتے )،، * منشی حبیب الرحمن صاحب بیان کرتے ہیں.ا.جب بھی میں قادیان جا تا تو اولین تڑپ میری یہ ہوتی کہ حضرت اقدس کی زیارت مجھے میسر آ جائے تا طبیعت کا اضطراب دور ہو جائے.جب بھی حضور کو اطلاع ہوئی یا کچھ تحائف پھل اور پان وغیرہ اندرون خانہ بھجوانے کی وجہ سے حضور کو میرے آنے کا علم ہوا تو حضور مجھے اندر بلوالیتے تھے.متعدد مرتبہ ایسا ہوا اور پھر میں دیر تک حضور کی صحبت سے فیض یاب ہوتا.بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ صرف حضور اور میں دونوں سیر کے لئے گئے ہیں.( روایت بواسطہ شیخ خلیل الرحمن صاحب) قلمی کاپی (صفحہ ۷۵) یہ ورق دریدہ ہے اس لئے جن الفاظ کا اندازہ سیاق و سباق سے ہو سکا ان کو خطوط وحدانی میں درج کر دیا ہے البتہ جس جس لفظ کا کچھ کچھ حصہ موجود ہے ان پر نمبرا تا ۹ درج کر کے ذیل کی تفصیل درج کی جاتی ہے.تھوڑا حصہ جو موجود ہے سوا 1 تحمیل کردہ الفاظ ا.سواری کا ۲.گیا ۳ سوارے کا ( یعنی سواری کا) سواے روانگی آ ۴.روانگی ہے تو انگی ۵.روانگی فر کھا اغیرہ ے کھانا کھا کھانے وغیرہ کوفا ۹.کچھ فاصلہ

Page 378

356 آمد کی اطلاع ہونے پر حضور کبھی ذرا توقف سے موسم کے مطابق شربت یا چائے اٹھائے ہوئے شگفتہ چہرہ اور ہشاش بشاش باہر تشریف لے آتے اور کبھی مصروفیت کی وجہ سے آنے سے پہلے کسی کے ہاتھ شربت یا چائے بھجوادیتے اور بوقت ملاقات خوشی کا اظہار فرماتے.جب خدام واپسی کی اجازت چاہتے تو حضور فرماتے ابھی اور ٹھہرئیے خدام حضور پر پروانہ وار قربان تھے.اور حضور کی باتیں سننے کے بھو کے تھے.حضور کا خدام سے سلوک بھی بے حد محبت کا تھا.(روایت بواسطه شیخ عبدالرحمن صاحب) ۳- ایک دفعہ میں قادیان گیا ہو اتھا.متواتر چار دن بارش ہوتی رہی.بارش بند ہوئی تو حضور سے فجر کے بعد میں نے اجازت حاصل کی.بٹالہ جانے کے لئے حضرت میر ناصر نواب صاحب نے ایک ٹمٹم کرایہ پر لی اور خواجہ جمال الدین صاحب اور میں نے بھی ایک ٹمٹم کرایہ پر لی.صبح کو ہم مصافحہ کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے فرمایا ذرا ٹھہریئے میں ابھی آتا ہوں عرض کیا گیا کہ پانی ہی پانی ہے.حضور تکلیف نہ فرما ئیں مگر حضور نے یہ بات قبول نہ کی.اندر تشریف لے گئے اور فورا ہمارے لئے چائے بھجوائی.ہم نے پی لی پھر حضور تشریف لائے اور پاپیادہ ہمارے ساتھ خاکروبوں کے محلہ تک تشریف لے گئے.اس سے آگے بارش کا پانی بہت زیادہ تھا.میر صاحب تو ٹمٹم میں سوار ہو گئے حضور نے فرمایا کہ پیدل چلنا چاہیئے پانی ہونے کی وجہ سے تمام راستہ مخدوش ہے.ہم نے دھوتیاں باندھی ہوئی تھیں.خواجہ صاحب نے کہا کہ میں تو تیا رہوں لیکن منشی صاحب زیادہ پانی سے ڈرتے ہیں.میں نے عرض کی کہ میں پانی سے بہت ڈرتا ہوں اور کبھی ٹخنے ٹخنے پانی تک میں بھی میں نہیں چلا - حضور واپس تشریف لے گئے.تھوڑی دور جا کر ہماری ٹمٹم غراپ سے کسی جو ہر میں پانی میں گر گئی.ایک پہیہ پانی سے باہر تھا.ہم دونوں اترے اور پا پیادہ بٹالہ پہنچے.۴- ایک دفعہ میں قادیان گیا.میرا قیام گول کمرہ میں تھا.دو تین دن کے قیام کے بعد حضور سے اجازت چاہی گئی.حضور نے فرمایا ٹھہر و.سو میں ٹھہرا رہا اور جب چھ سات روز ہو گئے تو صبح کے وقت اجازت چاہی فرمایا.ٹھہرئیے میں ابھی آتا ہوں.منشی ظفر احمد صاحب اور غالب نشی اروڑے خاں صاحب بھی ساتھ تھے.ہم نے تیاری شروع کر دی حضور تھوڑی سی دیر میں اندرون خانہ سے کافی ناشتہ لے کر گول کمرہ میں تشریف لائے.ایک سینی میں گرم گرم پر اٹھے تھے اور ایک بڑے سے لوٹے یا جگ میں پانی یا سی تھی.ہم کھڑے ہو گئے اور یہ سب کچھ حضور کے ہاتھوں سے پکڑ لیا اور معذرت کی لیکن حضور نے فرمایا نہیں.کوئی حرج نہیں یہ میرا فرض ہے، آپ شروع کریں میں خواجہ کمال الدین صاحب لاہور کے برادر خواجہ جمال الدین صاحب جموں میں ملازم تھے (مولف اصحاب احمد )

Page 379

357 ابھی آیا.ہم بہت شرمسار ہوئے کہ حضور خود ہماری خدمت کر رہے ہیں.ہم ناشتہ سے فارغ ہوئے تو حضور پھر تشریف لائے ہم نے ہر چند کوشش کی کہ ہم خالی برتن پہنچادیں لیکن حضور نے یہ بات قبول نہ کی اور خود برتن واپس لے گئے اور فرمایا.ٹھہرئیے.میں ابھی آیا.اور پھر چونہ پہن کر اور چھڑی لے کر تشریف لائے اور فرمایا آئیے.ہمارا سامان یکہ میں تھا.حضور تقریر کرتے ہوئے ہمارے ساتھ پیدل نہر کے پل تک تشریف لے گئے اور ہمیں یکہ پر سوار کرا کے رخصت کر کے واپس ہوئے.ہم غلام اپنے آقا کی اس غلام نوازی پر بے حد شرمندہ تھے.۵- مولوی محب الرحمن صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ والد صاحب ظہر کے وقت قادیان پہنچے اور نماز ظہر میں مسجد مبارک میں شریک ہوئے.نماز کے بعد اندرون خانہ جاتے ہوئے حضور پاس سے گذرے تو والد صاحب نے سلام عرض کیا.حضور نے آواز پہچان کر آپ کو دیکھا اور پاس ہی کچھ دیر تشریف فرما ہوئے اور حال وغیرہ دریافت کیا.پھر فرمایا کہ ابھی تو آپ ٹھہریں گے اور پھر اسلام علیکم کہہ کر اندر تشریف لے گئے.* اخبارات سلسلہ میں بھی آپ کی آمد قادیان کا ذکر ہے.چنانچہ (۱) زیر عنوان ” دارالامان کا ہفتہ قادیان میں اس ہفتہ آنے والے گیارہ احبابمیں ”حاجی پور پھگواڑہ سے آنے والے ) جناب حبیب الرحمن صاحب رئیس“ کا نام شامل ہے.اس وقت جلسہ سالانہ کے لئے احباب کی آمد شروع ہوگئی تھی اور یہاں مرقوم ہے کہ بوجہ کثرت احباب اب ان کے نام درج نہ کئے جاسکیں گے.اور صرف شہروں کے نام دیئے جا سکیں گے.چنانچہ (مشرقی) افریقہ کے علاوہ سیالکوٹ مالیر کوٹلہ ، امرتسر ، امروہہ (یو پی) اور جموں کے نام درج کئے گئے ہیں.۲ - زیر عنوان ” امام الزمان کی ڈائری ۳ اکتو بر۱۹۰۲ء کے بارے رقم ہے کہ آج جمعہ کا دن ہے.حضرت اقدس کا معمول ہے کہ جمعہ کو سیر کو تشریف نہیں لے جاتے بلکہ نماز جمعہ کی تیاری کے لئے مسنون طریق پر نسل حجامت، تبدیلی لباس حنا وغیرہ امور میں مصروف رہتے ہیں.اس لئے تشریف نہیں لے گئے.جمعہ سے پیشتر ندوہ کے لئے ایک اشتہار لکھا جو کل...عصر کے وقت صرف ایک صفحہ کا تجویز کیا تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلم اور کلام میں وہ قوت اور روانگی دی ہے.کہ جو اعجازی رنگ سے رنگین ہے.اس لئے بجائے ایک صفحہ کے کئی صفحے ہو گئے.✗ مولوی محب الرحمن صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ واقعہ میرے سامنے کا غالبا ۱۹۰۳ء کا ہے.میں اس وقت قادیان میں آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھا.سہو کتابت صحیح لفظ روانی ہے (مولف اصحاب احمد )

Page 380

358 جمعہ کی نماز کے لئے آپ ایک بجے سے کچھ منٹ پہلے تشریف لے گئے منشی حبیب الرحمن صاحب نمبردار حاجی پور بھی آپ کے ساتھ تھے....ٹھیک ایک بجے حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سلمہ ربہ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے.اس عنوان کے آخر پر حضرت عرفانی صاحب کے ذیل کے بیانات درج کرنے مناسب ہیں جن سے اصحاب کپورتھلہ کے مقام رفیع کا علم ہوتا ہے.اور یہ بھی کہ شوق ملاقات کا کیسا جذبہ ان کے پاک دلوں میں موجزن تھا.آپ رقم فرماتے ہیں کہ کپورتھلہ کی جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک ایسا تعلق محبت و اخلاص کا تھا کہ حضرت اقدس نے انہیں تحریری بشارت دی کہ تم جنت میں میرے ساتھ ہو گے.کپورتھلہ کے احباب ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتے.جونہی فرصت ہوئی خواہ وہ ایک ہی دن کی ہو تو وہ دیوانہ وار قادیان کو بھاگتے تھے.اور جس قدروقت بھی میسر آتا حضرت کی صحبت میں رہتے اور اسے اپنی زندگی کا بہترین حصہ یقین کرتے.یہ لوگ حضرت کی محبت میں اس قدر محو تھے کہ وہ آپ کے چہرہ کو تکنا اور (اپنے ) اخلاص کو بڑھانا ہی اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے رہے.اہم واقعات کے متعلق ان کی روایات نہایت ثقہ اور صحیح ہیں.“ ( حضرت منشی اروڑے خاں صاحب) فرمایا کرتے کہ جب ہم کپورتھلہ سے آتے تو آتے ہی حضرت اقدس کو اطلاع کرتے تھے.،، (۲۷) مخلصین کپورتھلہ“ کے متعلق حضرت عرفانی صاحب یہ بھی رقم فرماتے ہیں کہ عشق و محبت کے یہ پروانے ذرا فرصت پاتے تو قادیان پہنچ جاتے.جہاں حضرت جاتے یہ ساتھ جاتے“ نیز حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی وفات پر اپنے مضمون میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ لوگ طبیعت میں جب بے کلی محسوس کرتے ، دیوانہ وار بھاگے چلے آتے تھے.حضرت کود یکھ لیا.کچھ باتیں سن لیں زندگی کی نئی روح لے کر واپس چلے گئے، (۲۸) احباب کپور تھلہ جب بھی اپنے دل میں ایک جوش پاتے فورا قادیان چلے آتے ، انہوں نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں الحکم ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۲ء ( صفحه ۱۵ کالم ۲۶۱) خلافت ثانیہ میں ایک موقع پر ایک ہفتہ میں آنے والے ڈیڑھ درجن مہمانوں میں ” حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور کا نام نامی مرقوم ہے ( الفضل ۱۲۰ اگست ۱۹۲۵ء زمیر مدینہ امسیح ) اصل سہو کتابت سے یونہی مرقوم ہے.(مؤلف اصحاب احمد ) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحہ ۵۳، مراد یہ ہوگا کہ اکثر ایسا ہوتا ہوگا.

Page 381

359 تھا (کہ) اس راہ میں کسی قسم کا نقصان بھی ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے.انہوں نے عملی طور پر دین کو دنیا پر مقدم کرلیا تھا.(۲۹) بیعت مولوی غلام نبی صاحب خوشابی منشی حبیب الرحمن صاحب نے بواسطہ شیخ عبدالرحمن صاحب بیان کیا کہ: ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عرصہ قیام لدھیانہ میں میں بھی حضور کے قدموں میں حاضر تھا.وہاں بڑی مخالفت ہوئی.ایک مولوی اپنے عناد کی وجہ سے ہر ہر گلی میں تھوڑی تھوڑی دور آپ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا تھا.ایک روز وہ اس کو چہ میں بھی آ گیا.جس میں حضور کا قیام تھا اس مکان کی بیٹھک سڑک کے کنارہ پر تھی اور زنانہ حصہ مکان عقب میں تھا.اور زنانہ حصہ سے بیٹھک کے اندر جانے کے لئے سڑک پر سے گذرنا ہوتا تھا.اتفاق ایسا ہوا کہ جب وہ مولوی اس کو چہ میں باتیں کر رہا تھا تو حضور عقبی حصہ مکان سے بیٹھک کی طرف تشریف لا رہے تھے.جب اس مولوی نے برکات انوار الہیہ سے روشن حضور کے روئے مبارک کو دیکھا تو تاب نہ لا سکا اور ایسا معجزانہ تصرف الہی ہوا کہ یا تو وہ حضور کے برخلاف کئی روز سے بول رہا تھا.یا حضور کا مبارک چہرہ دیکھتے ہی فورا حضور پر نور کی طرف لپکا اور تقریر وغیرہ سب بھول گیا.حضور نے مصافحہ کو اپناہاتھ دے دیا.وہ حضور کا ہاتھ پکڑے پکڑے حضور کے ساتھ ہی بیٹھک کے اندر داخل ہو گیا اور پاس بیٹھ گیا اور عقیدت کا اظہار کرنے لگا.اس کے تمام ساتھی باہر گلی میں کھڑے اس ماجرا کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے اور باہر کھڑے انتظار کرتے رہے.مگر مولوی صاحب تھے کہ اندر سے باہر ہی نہ آتے تھے.ادھر مولوی صاحب تائب ہو کر آپ پر ایمان لے آئے اور ان کی درخواست پر حضرت اقدس نے ان کی بیعت قبول فرمائی.ان کے ساتھیوں نے جو برابر باہر انتظار میں تھے ، غالباً مولوی صاحب کو بلانے کے لئے اندر پیغام بھی بھیجا مگر یہاں سماں ہی اور تھا.یہ علم ہونے پر کہ مولوی صاحب نے تو بیعت بھی کر لی ہے.ان کے تمام ساتھی مولوی صاحب کو گالیاں دیتے ہوئے منتشر ہو گئے اور پھر کسی نے مولوی صاحب کا ساتھ اختیار نہ کیا.یہ بزرگ حضرت مولوی عبدالغنی صاحب المعروف مولوی غلام نبی خوشابی تھے.آپ کے اس واقعہ بیعت کو حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے.آپ نے جو کچھ تحریر فرمایا اس کا لخص یہ ہے.لدھیانہ میں ۱۸۹۱ء میں حضرت اقدس علیہ السلام کے قیام کے زمانہ کی بات ہے کہ علمائے لدھیانہ اور مولوی غلام نبی صاحب خوشابی جو ایک جید عالم اور واعظ خوش بیاں تھے.مخالفت میں دیوانہ ہو رہے تھے.مولوی

Page 382

360 صاحب کی وہاں دھوم مچ گئی اور جابجا ان کے علم وفضل کا چرچا ہونے لگا.ہر وعظ میں مولوی صاحب حضرت مسیح کے بارے میں آیتوں پر آیتیں اور حدیثوں پر حدیثیں پڑھنے لگے.ایک روز ان کا اس محلہ میں وعظ تھا جس میں حضرت اقدس قیام رکھتے تھے.اس وعظ کے سننے کے لئے ہزاروں آدمی جمع تھے.مولوی محمد حسن ، مولوی شاہ دین، مولوی عبد العزیز ، مولوی محمد ، مولوی عبد اللہ صاحبان اور دو چار اور مولوی صاحبان جو بیرون سے مولوی غلام نبی صاحب کی علمی لیاقت و شہرت کو دیکھنے کے شوق میں آئے تھے، اس خاص وعظ میں حاضر تھے.اس وعظ میں مولوی غلام نبی صاحب نے اپنا سارا علم ختم کر دیا اور تحسین و آفرین اور مرحبا کے نعرے بلند ہورہے تھے جو ہمارے کانوں تک پہنچ رہے تھے.اور ہم پانچ چار آدمی چپکے بیٹھے تھے.حضرت اقدس زنانہ میں ایک کتاب کا مسودہ تیار کر رہے تھے.مولوی صاحب وعظ میں پوری مخالفت کا زور لگا کر چلے اور ان کے ساتھ ایک جم غفیر اور مولوی صاحبان تھے.اور ادھر سے حضرت اقدس مردانہ مکان میں جانے کے لئے زنانہ مکان سے نکلے تو مولوی صاحب سے سامنا ہو گیا.اور خود حضرت اقدس نے السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا.اور مولوی صاحب نے جواب دیتے ہوئے مصافحہ کیا.خدا جانے اس مصافحہ میں کیا برقی قوت تھی اور کیا مقناطیسی طاقت اور روحانی کشش کہ ید اللہ سے ہاتھ ملاتے ہی مولوی صاحب ایسے از خود رفتہ ہوئے کہ کچھ چون و چرا نہ کر سکے اور ہاتھ میں ہاتھ دیئے سیدھے مردانہ مکان میں ساتھ ہی چلے گئے اور سامنے دوزانو ہوکر بیٹھ گئے.باہر سامعین اور مولوی حیرت زدہ تھے اور باہم گفتگو کرتے تھے.ایک نے کہا ارے! یہ کیا ہو ا.مولوی صاحب نے یہ کیا حماقت کی کہ مرزا صاحب کے ساتھ چلے گئے.دوسرے نے کہا.مرزا جادوگر ہے.خبر نہیں کیا جادو کر دیا ہو گا.تیسرے نے کہا مولوی صاحب دب گئے.مرزا صاحب کا رعب بڑا ہے.چوتھے نے کہا.اجی ! مرزا صاحب نے جو اتنا بڑا دعوی کیا ہے.مرزا خالی نہیں ہے.کیا یہ دعوی ایسے ویسے کا ہے؟ پانچواں بولا مرزا روپیہ والا معلوم ہوتا ہے.مولوی لالچی ہوتے ہیں.مرزا صاحب نے کچھ لالچ دیدیا ہوگا.بعض نے یہ کہا کہ مولوی صاحب عالم فاضل ہیں.مرزا کو سمجھا کے اور توبہ کر ا کے آئیں گے.کسی نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے اور ایسا موقع ملاقات اور صحیح کر نے کا بار بار نہیں ملتا.عام لوگ یہ کہتے تھے کہ مولوی پھنس گیا اور پھنس گیا خواہ طمع میں، خواہ علم میں خواہ کسی اور صورت سے.مرزا بڑا چالاک اور علم والا ہے.مولوی صاحبان یہ کہتے تھے کہ مولوی صاحب مرزا سے علم میں کم نہیں.لالچی نہیں.صاحب روزگار ہیں اللہ اور رسول کو پہچانتے ہیں.فاضل ہیں ، مرزا کی خبر لینے گئے ہیں دیکھنا تو سہی مرزا کی کیسی گت بنتی ہے مرزا کو نیچا دکھا کے آئیں گے.

Page 383

361 ادھر مولوی غلام نبی صاحب مکان کے اندر خاموش بیٹھے تھے اور انہوں نے پوچھا کہ حضرت! آپ نے وفات مسیح کا مسئلہ کہاں سے لیا ہے؟ فرمایا.قرآن شریف، حدیث اور علمائے ربانی کے اقوال سے (مولوی صاحب کے دریافت کرنے پر ) دو آیات یا عیسی انتی متر فیک اور فلما تو فیتَنِی والی دکھا ئیں اور بتایا کہ توقیت اور یو فی دو الگ الگ باب سے ہیں آپ غور کریں.مولوی صاحب دو چار منٹ سوچ کر کہنے لگے کہ معاف فرمائیے آپ نے جو فر مایا وہ صحیح ہے قرآن مجید آپ کے ساتھ ہے.حضور نے پوچھا کہ جب قرآن مجید ہمارے ساتھ ہے تو آپ کس کے ساتھ ہیں.اس پر مولوی صاحب کے آنسو جاری ہو گئے.اور ان کی پہچکی بندھ گئی اور انہوں نے عرض کیا کہ یہ خطا کار بھی حضور کے ساتھ ہے.جب دیر ہوگئی تو لوگ آواز پر آواز دینے لگے کہ مولوی صاحب ! باہر تشریف لائیے ! پھر بھی مولوی صاحب نے جواب نہ دیا تو لوگ بہت چلائے.مولوی صاحب نے کہلا بھیجا کہ میں نے حق پالیا.اب میرا تم سے کچھ کام نہیں.اگر تم اپنا ایمان سلامت رکھنا چاہتے ہو تو تائب ہو کر اس امام کو مان لو.میں اس امام صادق سے کس طرح الگ ہوسکتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا موعود ہے.جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام بھیجا.سلام کا ذکر کر کے مولوی صاحب نے حدیث پڑھی پھر حضرت اقدس کی طرف متوجہ ہو کر دوبارہ پڑھی اور پھر عرض کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق میں اس وقت حضور کا سلام کہتا ہوں اور پھر دوبارہ بھی سلام کیا.حضرت اقدس نے اس وقت عجیب آواز سے وعلیکم السلام فرمایا کہ دل سنے کی تاب نہ لائے اور مولوی صاحب نے کہا کہ اولیاء وعلماء امت اس انتظار میں چل بسے اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا.یہ غلام نبی اس کو کیسے چھوڑے.یہی مسیح موعود اور امام مہدی موعود ہیں.اور مسیح ابن مریم مر گئے بلا شک مر گئے.وہ نہیں آئیں گے آنے والے آگئے ، آگئے بے شک وشبہ آگئے.لوگوں کو مولوی صاحب نے کہا کہ تم جاؤ یا میری طرح حضرت اقدس کے مبارک قدموں میں گرو تا کہ نجات پاؤ.منتظر لوگوں کو جب یہ جواب ملا تو کیا مولوی ملا اور کیا خاص و عام سب کی طرف سے کافر کافر کا شور بلند ہوا اور وہ گالیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے منتشر ہو گئے.پھر مولویوں کی طرف سے مولوی غلام نبی صاحب کو مباحثہ کے پیغام آنے لگے اور بعض کی طرف سے پھسلانے کے لئے کہ ہماری ایک دو بات سن جاؤ لیکن مولوی صاحب نے جوابا یہ شعر پڑھا.حضرت ناصح جو آئیں دیدہ و دل فرش راہ کوئی مجھ کو یہ تو سمجھائے کہ سمجھائیں گے کیا مولوی صاحب نے مباحثہ کرنا قبول کر لیا لیکن مباحثہ کے لئے کوئی نہ آیا.پھر مولوی صاحب نے ایک

Page 384

362 اشتہار شائع کیا کہ میں مباحثہ کرنے کو طیار ہوں.پھر مولوی صاحب کو امرتسر یا لا ہور سے خط آیا کہ خواہ تم یا مرزا صاحب یا کوئی اور وفات عیسی کے بارے ایک آیت یا متعدد آیات پیش کرے میں فی آیت پچاس روپے انعام دوں گا.حضرت اقدس کے مشورہ سے مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ہم اڑ ہائی درجن آیات پیش کریں گے.آپ اپنے اقرار کے مطابق پندرہ سور و پیہ لاہور کے بنک میں جمع کرا کے رسید بھجوا دیں لیکن جواب ندارد.پھر خود مولوی صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا کہ جو شخص حیات مسیح کے بارے قرآن شریف کی آیت صریح اور حدیث صحیح پیش کرے تو فی آیت اور فی حدیث دس روپے دیئے جائیں گے اور روپے پہلے بنک میں جمع کرادئیے جائیں گے لیکن اشتہار کے بعد مولویوں کی طرف سے خاموشی رہی.مولوی غلام نبی صاحب حضرت اقدس کے ہی ہور ہے اور ان کا بحر ایسا کھلا کہ جو کوئی آتا اس سے گفتگو اور مباحثہ کے لئے آمادہ ہو جاتے اور پہلے خود ہی گفتگو کرتے.مولوی صاحب حضرت اقدس کا چہرہ دیکھتے رہتے.حضرت اقدس نے إِذَا زُلزلَتِ الأرضُ کے متعلق تفسیراً کچھ فرمایا تو مولوی صاحب وجد میں آگئے اور کہنے لگے کہ یہ ہے فہم قرآن ان کی عشقیہ حالت ترقی کرتی گئی.حضرت اقدش اندرونِ خانہ تشریف لے جاتے تو مولوی صاحب کی حالت بیقراری اور دیوانگی کی سی ہو جاتی.اور حضرت اقدس کے آنے پر آپ کو چین آتا.مولوی صاحب کو سابقاً مخالفت کرنے کی وجہ سے بے چینی تھی، وہ بار بار کہتے کہ اتنے روز جو میری طرف سے مخالفت ہوئی یا میری زبان سے گستاخانہ الفاظ نکلے قیامت کے روز میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا.پھر استغفار کرتے اور سخت بے قرار اور ندامت سے روتے تھے.مولوی صاحب کو خط آیا کہ جلد آ جائیں ورنہ ملازمت جاتی رہے گی لیکن مولوی صاحب نے کہا کہ بیعت میں شرط دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی ہے، مجھے ملازمت کی پرواہ نہیں.ایک روز اس کا ذکر ہونے پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ خود ملازمت ترک کرنا ناشکری ہے آپ کو ملازمت پر ضرور چلے جانا چاہیے.چنانچہ دوبارہ بیعت کر کے مولوی صاحب مجبور روانہ ہو گئے.لیکن پھر ہنستے ہوئے واپس آئے کہ ریل گاڑی جا چکی تھی.دوسری گاڑی کے آنے میں وقت تھا.میں نے کہا کہ جتنی دیر اسٹیشن پر لگے، اتنی دیر حضرت کی صحبت میں رہوں تو بہتر ہے.یہ صحبت کہاں میسر ؟ حضور نے فرمایا.جزاک اللہ یہ خیال بہت اچھا ہے.اس میں کچھ حکمت الہی ہے.یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ دوسرا خط آیا کہ اپنی ملازمت پر حاضر ہو جائیں یا درخواست رخصت بھیج دیں میں کوشش کر کے رخصت دلوا دوں گا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ریل کے نہ ملنے میں یہی حکمت الہی تھی.حضور کے ارشاد پر مولوی

Page 385

363 صاحب نے رخصت کی درخواست دے دی جو منظور ہوگئی.اور مولوی صاحب کو بہت روز تک حضرت اقدس کی خدمت میں رہنے اور فیض صحبت حاصل کرنے کا موقع ملا.* حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں ان مخلصوں کے اسماء درج فرمائے ہیں، جنہوں نے حتی الوسع آپ کے دینی کاموں میں مدددی یا جن پر مدد کی امید تھی یا جن کو اسباب میسر آنے پر حضور طیار دیکھتے تھے (جس کی تفصیل دوسری جگہ تحریر ہوئی ہے.) اور حضور نے ان کے لئے دعا فرمائی ہے.جن کے کچھ احوال حضور نے رقم فرمائے ہیں ان میں فرماتے ہیں.(۲) جسی فی اللہ مولوی عبد الغنی صاحب معروف مولوی غلام نبی خوشابی دقیق فہم اور حقیقت شناس ہیں اور علوم عربیہ تازہ بتازہ ان کے سینہ میں موجود ہیں.اوائل میں مولوی صاحب موصوف سخت مخالف الرائے تھے.جب ان کو اس بات کی خبر پہنچی کہ یہ عاجز مسیح موعود ہونے کا دعوے کر رہا ہے اور مسیح ابن مریم کی نسبت وفات کا قائل ہے تب مولوی صاحب میں پورا نے خیالات کے جذبہ سے ایک جوش پیدا ہوا اور ایک عام اشتہار دیا کہ جمعہ کی نماز کے بعد اس شخص کے رد میں ہم وعظ کریں گے.شہر لودھیانہ کے صد با آدمی وعظ کے وقت موجود ہو گئے.تب مولوی صاحب اپنے علمی زور سے بخاری اور مسلم کی حدیثیں بارش کی طرح لوگوں پر برسانے لگے اور صحاح ستہ کا نقشہ پرانی لکیر کے موافق آگے رکھ دیا ان کے وعظ سے سخت جوش مخالفت کا تمام شہر میں پھیل گیا کیونکہ ان کی علمیت اور فضیلت دلوں میں مسلم تھی.لیکن آخر سعادت از لی کشاں کشاں ان کو اس عاجز کے پاس لے آئی اور ( وہ ) مخالفانہ خیالات سے تو بہ کر کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے.اب ان کے پرانے دوست ان سے سخت ناراض ہیں.مگر وہ نہایت استقامت سے اس شعر کے مضمون کا ورد کر رہے ہیں.☆ حضرت ناصح جو آویں دیدہ و دل فرش راہ پر کوئی مجھ کو تو سمجھا وے کہ سمجھائیں گے کیا ، 66 حیات احمد جلد سوم ( صفحہ ۱۳۷ تا ۱۴۲) میں مندرج بیان حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمائی.ان کی كتاب تذكرة المھدی سے ازالہ اوہام حصہ دوم ( طبع اول صفحه ۷۸۵-۷۸۶) آپ کی بیعت ۲۹ مئی ۱۸۹۱ء میں نمبر ۲۳۱ پر یوں درج ہے.مولوی غلام نبی ساکن خوشاب ضلع بھیرہ (سکونت ) خوشاب ضلع بھیرہ (رجسٹر بیعت) شیخ نور احمد صاحب جن کے مطبع میں امرتسر میں ازالہ اوہام زیر طبع تھا، بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت اقدس کی خدمت میں لدھیانہ میں حاضر ہوا تو مولوی غلام نبی صاحب موصوف اس وقت وہاں (باقی اگلے صفحہ پر )

Page 386

364 علمائے اسلام کو دعوت مقابلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والے اور دیگر مسلمانانِ لدھیانہ وغیرہ ایک سو چھ افراد نے ۲۳ /اگست ۱۸۹۱ء کوعلماء و بزرگان اسلام مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور سید محمد نذیرحسین صاحب دہلوی وغیرہ کو ایک اشتہار کے ذریعہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام سے مقابلہ کرنے کی دعوت دی اور یہ لکھا کہ مرزا صاحب مدعی ہیں کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور جس مسیح کے روحانی طور پر ظہور کی خبر قرآن مجید و احادیث صحیحہ میں دی گئی تھی ، وہ مسیح موعود وہ خود ہیں.اور آپ نے اپنے دعوی کی تائید میں تین کتب ازالہ اوہام فتح اسلام اور توضیح مرام تصنیف کی ہیں اور آپ کا سلسلہ روز بروز ترقی پذیر ہے.اور چودہ تبحر علماء ان کی جماعت میں داخل ہو چکے ہیں.طالبانِ حق متحیر ہیں کہ ایک طرف مرزا صاحب کی جماعت بڑھتی جا رہی ہے.اور دوسری طرف مشاہیر علماء اورا کا بر صوفیاء کنارہ کش ہیں اور اگر مولویوں میں سے کوئی بحث کرنے کے لئے آتا بھی ہے تو مغلوب ہو کر ایک طور سے ان کے سلسلہ کی تائید کی صورت پیدا کر دیتا ہے.جیسے پنجاب کے مشہور عالم مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی بحث میں کمزوری اور گریز کو دیکھ کر اور بھی کئی افراد مرزا صاحب کی جماعت میں داخل ہوئے ہیں.ایک بڑی خجالت کی بات یہ ہوئی ہے کہ مرزا صاحب نے تصفیہ کے لئے ایک روحانی طریق بھی پیش کیا بقیه حاشیه موجود تھے.(رسالہ نوراحمد نمبر اصفحه ۱۴) اشتہار مورخه ۲۳ را گست ۱۸۱۹ء کے ذریعہ احباب ، لدھیانہ وغیرہ نے علماء کو حضرت اقدس سے مقابلہ کی دعوت دی تھی ان داعیان میں اکاون نمبر پر آپ کا اسم گرامی یوں درج ہے.مولوی عبد الغنی عرف غلام نبی خوشابی تبلیغ رسالت جلد دوم - صفحه ۶۵ حاشیہ ومکتوبات احمدیہ جلد ششم حصہ اول صفحه ۲۱) حضرت اقدس کی تصنیف انجام آتھم میں جس کے آخر پر تاریخ تصنیف ۲۲ جنوری ۱۸۹۷ء رقم ہے تین سو تیرہ خاص صحابہ کرام کی فہرست میں آپ کا نام یوں موجود ہے.”مولوی غلام نبی صاحب مرحوم خوشاب شاہ پور گویا مولوی صاحب کی وفات ۲۳ اگست ۱۸۹۱ء اور جنوری ۱۸۹۷ء کے درمیانی عرصہ میں واقع ہوئی تھی معین تاریخ کا علم نہیں ہوسکا.

Page 387

365 تھا کہ تم بھی دعا کرو اور ہم بھی دعا کریں تا مقبول اور اہل حق کی تائید میں آسمانی نشان ظاہر ہو لیکن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس طرف رخ بھی نہ کیا.آپ اکابر جلیل القدر صوفیاء اور صاحب عرفان اور صاحب سلسلہ اور مشاہیر علماء میں سے ہیں.آپ سے بڑھکر اور کس کا حق ہے کہ ظاہری اور باطنی طور پر مرزا صاحب سے مقابلہ کریں اور حیات مسیح اور بجسم عنصری آسمان پر اٹھائے جانے اور آخری زمانہ میں آسمان سے نزول کے بارے میں دلائل قاطعہ اور نصوص صریحہ اور احادیث صحیحہ پیش کریں اور باطنی طور پر کچھ کرامات بھی دکھا ئیں.آپ مدعوین نے بھی مقابلہ سے گریز کیا تو ہم سخت مخالف بن کر آپ کی اس شکست کی تشہیر کریں گے اور اخبارات میں اس امر کی اشاعت کا وعدہ حلفاً ہم مرزا صاحب سے کر چکے ہیں.ہم نے مرزا صاحب سے لکھوا لیا ہے، جس کی نقل آپ کی خدمت میں بھیجی جاتی ہے.اور ہم نے حلفاً وعدہ کر لیا ہے کہ آپ مدعوین بحث کے لئے ضرور تشریف لائیں گے.ایسے نازک وقت میں کہ لوگ جوق در جوق مرزا صاحب کی پیروی کرتے جاتے ہیں، اگر بزرگانِ دین ایسے امر میں کہ جس میں ہزاروں مسلمانوں کا ایمان تلف ہو کام نہ آئے تو کب آئیں گے؟ اگر مرزا صاحب نے گریز کیا تو ہم اس گریز کی تشہیر دس گنا زیادہ کریں گے.ان داعیان مقابلہ میں ایک درجن افراد کپورتھلہ کے ہیں.تیرہویں نمبر پر منشی حبیب الرحمن صاحب برادر زادہ حاجی ولی محمد صاحب حج مرحوم ساکن کپورتھلہ کا نام درج ہے.* مباحثات دہلی ۱۸۹۱ء میں شرکت ہیں کہ :.(۱) مباحثه مولوی سید نذیر حسین صاحب سے منشی حبیب الرحمن صاحب اس بارے تحریر کرتے دعوای مسیح موعود کے بعد جب حضور علیہ السلام دبلی تشریف لے گئے تو خاکسار کو بھی اطلاع آگئی تھی اس لئے میں بھی دہلی پہنچ گیا.( قلمی کا پی صفحہ ۵۶) حضور نے ۲ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ شیخ الکل سید نذیر حسین صاحب دہلوی اور شمس العلماء مولوی عبدالحق صاحب کو وفات مسیح کے بارے تحریری بحث کرنے کی دعوت دی.مولوی صاحب نے تبلیغ رسالت جلد دوم ( صفحه ۶۵ حاشیه و غیره) یہ داعی احباب پنجاب کے مقامات کپورتھلہ ، لدھیانہ، پٹیالہ، سیالکوٹ، گورداسپور، گجرات وغیرہ کے علاوہ کشمیر، بلوچستان اور میسور کے ہیں.

Page 388

366 معذرت کر دی البتہ سید صاحب کے شاگردوں نے حضور کی اطلاع کے بغیر مباحثہ کے لئے ایک دن مقرر کر لیا اور عین وقت پر آنے کے لئے حضور کو کہلا بھیجا.حضور پھر بھی جانا چاہتے تھے لیکن عوام کو حضور کے خلاف مشتعل کر دیا گیا.جنہوں نے حضور کی قیامگاہ کا محاصرہ کر لیا اور بعض لوگ اندر گھس آئے.اس صورتِ حال میں حضور تشریف نہ لے گئے.اس پر ان لوگوں نے اپنی فتح کا شور برپا کر دیا پھر حضور نے ایک اشتہار دیا کہ حفاظت کا انتظام میں نے کر لیا ہے.سید صاحب جہاں چاہیں حاضر ہو جاؤں گا.ہر گز تخلف نہ کروں گا.و لعنة الله على من تخلف.حضور نے قسم دے کر سید صاحب سے کہا کہ وہ تحریری بحث کر لیں.بحث نہ چاہیں تو ایک مجمع میں میرے دلائل سن کر تین دفعہ قسم کھا کر کہدیں کہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیں.اور حضرت مسیح ابن مریم اپنے جسم عصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے.یہ مسیح ہے اور میرا یہی عقیدہ ہے.پھر ایک سال کے اندر عبرتناک عذاب الہی سے وہ بچ جائیں تو میں کا ذب ہوں.(۳۰) منشی صاحب لکھتے ہیں کہ اس کی تفصیل سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں شائع ہو چکی ہے.اس لئے اس بارے میں چند واقعات لکھتا ہوں جامع مسجدہ دہلی کا مقام طے ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری خط جو وقت مقررہ مباحثہ سے چند گھنٹہ قبل حضور نے میاں نذیر حسین صاحب کے پاس بھیجا، وہ منشی محمد خاں صاحب مرحوم اور منشی اروڑ ا صاحب مرحوم اور منشی ظفر احمد صاحب اور بندہ خاکسار لے کر میاں صاحب کے پاس گئے تھے.جس وقت ہم میاں صاحب کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ میاں صاحب مسجد میں ہیں، جو قریب ہی تھی.ہم وہاں گئے تو میاں صاحب طلباء کو قرآن شریف پڑھا رہے تھے.ہم نے وہ مراسلہ پیش کیا تو ( میاں صاحب) نے دریافت کیا کہ کیا ہے.کہہ دیا گیا کہ حضرت مرزا صاحب کا مراسلہ ہے.اس پر میاں صاحب نے کہا کہ ہمارے مکان پر لے جاؤ اور مولوی محمد حسین کو دیدو.ہم نے عرض کیا کہ آپ کے نام ہے اس پر پھر کہا کہ میں جو کہتا ہوں کہ محمد حسین کو دیدو میں ابھی آتا ہوں.ہم پھر مکان پر آئے تو مولوی محمد حسین بھی اس وقت آگئے اور پھر میاں صاحب بھی آ گئے اور ایک بالا خانہ پر ہم کو لے گئے.میاں صاحب لاغر اندام ، لمبا قد، سفید لمبی داڑھی، بڑھے وغرارہ پہنا ہوا.اور انگرکھا پہنا ہوا، سر پر ٹوپی، صدر میں میاں صاحب بیٹھ گئے.اور ایک بغل میں مولوی محمد حسین اور ہم چاروں روبرو بیٹھ گئے اور پھر خط پیش کیا جو مولوی محمد حسین نے لے لیا اور کھول کر پڑھا میاں صاحب کے بڑھاپے نے ان کے کانوں پر خاصا اثر کیا ہوا تھا.خط پڑھ کر مولوی محمد حسین نے بلند آواز سے میاں صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ

Page 389

367 حضرت! وہ آپ کی بات کو نہیں مانتا.چونکہ یہ بات خلاف تحریر کے تھی اس لئے ہم میں سے ایک نے کہا کہ آپ میاں صاحب کو خط سنا دیں آپ خلاف تحریر کے کیوں فرماتے ہیں.اس پر محمد حسین نے کہا کہ تم قاصد ہو تم کو بولنے کا حق نہیں ہے.جواب طلب کیا تو کہا کہ تم جاؤ ہم جواب بھیج دیں گے..”میاں صاحب نے اس وقت غیظ و غضب میں اور جوش کے ساتھ بات کی.یہ ایک عجیب حالت تھی جس کو تحریر میں لانا مشکل ہے.میاں صاحب غصہ ( میں ) خود بخودہی بول رہے تھے.جوش میں آ کر گھٹنوں کے بل نیم ایستادہ ہو گئے ہاتھ آگے کر کے کہا.یوں کاغذی گھوڑے دوڑاتا ہے.سامنے آ کر دو بدو بات کرے تو معلوم ہو.ہم کو تو اس حالت پیرانہ سالی میں جس کے ساتھ ضعف بھی تھا اور پھر عالم اور ایک گروہ کے مقتدا اور جوش غضب کی یہ کیفیت.حضرت صاحب سامنے موجود نہ تھے ، اگر سامنے ہوتے تو خدا جانے کیا کچھ کر گذرتے اور کچھ نہیں تو حضور کے اوپر گر پڑتے (یعنی بوجہ ضعف و پیرانہ سالی.ناقل ) علماء دین کی یہ حالت دیکھ کر افسوس ہوا.ہے تعجب آپ کے اس جوش پر عقل پر اور فہم پر اور ہوش پر ”ہم نے خاموش بیٹھ کر یہ تماشا دیکھا.کچھ امن ہوا تو مولوی محمد حسین ہماری طرف متوجہ ہوئے اور نوبت بنوبت ہم سے ہمارا نام اور سکونت دریافت کی.میری نوبت آخر میں آئی.جب میں نے اپنا نام اور کپورتھلہ سکونت بتلائی تو فرمایا کہ آپ ہمارے رسالہ اشاعۃ السنہ کے بھی تو خریدار ہیں.میں نے عرض کیا کہ ہاں میں خریدار ہوں.پھر بڑی توجہ سے فرمایا پھر آپ تو بہت سمجھدار آدمی ہیں آپ کس طرح ان کے ساتھ پھنس گئے.میں نے عرض کیا کہ اسی طرح کہ میں سمجھدار ہوں اس پر دو تین دفعہ اچھا اچھا کہا اور پھر کہا کہ پھر باتیں کریں گے میں نے کہا کہ اس سے بہتر وقت تو پھر شاید نہ مل سکے اب ہی باتیں کر لیں.خاموش ہو گیا.ہم سب بلا جواب کے چلے آئے اور ظہر (و) عصر کی نمازیں جمع کر کے حضرت علیہ السلام جامع مسجد کو سواری میں تشریف لے گئے مسجد کا درمیانی دروازہ جو ایک دالان کے برابر چوڑا ہے وہاں سب بیٹھ گئے ، جنوب کی دیوار سے تکیہ لگا کر حضور علیہ السلام تشریف فرما ہوئے اور ( حضور کے گرد ہم خادمان حلقہ کر کے بیٹھ گئے حفاظت اور امن کے واسطے پولیس کو اطلاع دے دی گئی تھی کچھ دیر بعد یورپین سپرنٹنڈنٹ پولیس مع سپاہیوں کے آگئے.اس نے دروازہ کے اندر باہر کی طرف لائن بنا کر سپاہیوں کو کھڑا کر دیا.اس طرح ہم درمیان میں آگئے باہر لائن میں.خود بھی کھڑا ہو گیا اور حکم دے دیا کہ جو شخص اندر آنا چاہے پہلے مرزا صاحب سے اجازت لے کر اندر آنے دو.”میاں صاحب بھی ڈولی میں بیٹھ کر تشریف لائے ان کے ہمراہ مولوی محمد حسین (صاحب) اور بہت سے مولوی تھے.شرائط کے متعلق انہوں نے پھر بات شروع کر دی.کبھی کہتے کہ ہم تمہارے عقیدہ کے متعلق بحث کریں گے

Page 390

368 کبھی کچھ.یہاں تک ( کہ ) مغرب کا وقت قریب آ گیا.بدامنی ( کا) بہت اندیشہ تھا.کثرت سے آدمی جمع تھے.اور امینٹ کنکر ان کے پاس چھپائے ہوئے تھے اور موقع ( کا ) انتظار کر رہے تھے.مگر پولیس نے ان کو موقع نہ دیا.”جب شام قریب ہوئی تو سپر نٹنڈنٹ پولیس نے بایں الفاظ حضرت صاحب کی خدمت میں ادب سے عرض کیا کہ.حضرت! یہ لوگ بحث نہیں کریں گے وقت گزار رہے ہیں شام ہوگئی ہے اب آپ تشریف لے چلیں.حضور نے فرمایا (کہ) ہم کو اس سے بھی انکار نہیں.مگر جب ہم چلیں گے تو یہ لوگ شور ڈال دیں گے کہ بحث سے بھاگ گئے.سپر نٹنڈنٹ (پولیس نے ) کہا کہ میں ان کو اسی وقت دوسرے دروازہ سے نکالتا ہوں.چنانچہ (انہیں) بھی اٹھایا ہم نے حضور کو درمیان میں کر لیا اور ہمارے گرد پولیس نے حلقہ بنایا اور آگے آگے سپر نٹنڈنٹ پولیس تھے.دروازہ پر جا کر سپرنٹنڈنٹ بولے کہ مرزا صاحب کی گاڑی جلدی لا.اس میں کچھ توقف ہوا تو سپرنٹنڈنٹ صاحب نے حضرت صاحب کو اپنی گاڑی میں بٹھایا.جلدی سے گاڑی چلا دی اور فرودگاہ پر اتار کر اپنے مکان کو چلے گئے.قلمی کا پی صفحہ ۵۷ تا ۶۰۱) * (۲) مباحثہ مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی سے.مشہور و معروف اور ذی اثر علی جان والوں نے چاہا کہ وفات و حیات مسیح پر مباحثہ حضرت اقدس سے ہو کیونکہ جامع مسجد دہلی میں مباحثہ نہیں ہوا تھا.چنانچہ انہوں نے اپنے ہم عقیدہ ایک اہل حدیث عالم مولوی محمد بشیر صاحب سہسوانی کو جو بھوپال میں نواب صدیق حسن خان صاحب کے بواسطه شیخ عبدالرحمن صاحب منشی حبیب الرحمن صاحب نے بتایا کہ جس راستہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی قیامگاہ پر جانا تھا.اس بازار کی دکانوں اور چھتوں پر دشمنان احمدیت جھولیوں میں اینٹ پتھر بھرے منتظر بیٹھے تھے کہ کب حضور کی سواری گزرے اور وہ اینٹ پتھر کی بارش برسائیں لیکن وہ ناکام رہے.اس لئے کہ لگ کے گھوڑے نے یکلخت اپنا رخ دوسرے راستہ کا اختیار کر لیا اور اس دور کے اور لمبے راستہ کو طے کر کے حضور اپنی قیام گاہ پر پہنچے اس طرح افسر موصوف حضور کو بفضلہ تعالے اپنی قیامگاہ پر بعافیت پہنچانے میں کامیاب ہو گیا.ہم خدام بعد میں سواریوں پر قیام گاہ پر پہنچ گئے.حضور جامع مسجد سے باہر دریسے والے گیٹ کی جانب سے تشریف لائے تھے.تھے ،، (۳۱) مضمون منشی کظیم الرحمن صاحب میں جو حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا تصدیق شدہ ہے.یہ مرقوم ہے.”دہلی کے مباحثہ میں بھی آپ (یعنی منشی حبیب الرحمن صاحب ) حضرت صاحب کے ساتھ

Page 391

369 ادارہ تصنیف میں کام کرتے تھے آمادہ کیا.اس بارے میں منشی حبیب الرحمن صاحب نے بواسطہ شیخ عبدالرحمن صاحب بیان کیا کہ: - حضرت اقدس نے اپنے بعض خدام کو اس سلسلہ میں اپنے واقفوں سے کتب لانے کے لئے مقرر فرمایا تاکہ ان کے مسلمات سے ان کو ساکت کیا جاسکے.اس کوشش میں صحیح بخاری نہ مل سکی.میں حضور کی اجازت سے مدرسہ شاہ عبدالعزیز صاحب میں گیا.ان سے میرے دیرینہ تعلقات تھے.منشی ظفر احمد صاحب بھی میرے ہمراہ تھے.وہاں ان لوگوں کی طرف سے خندہ پیشانی اور محبت سے ملاقات ہوئی اور عند الطلب صحیح بخاری فورا مل گئی ، جو ہم لے آئے.بعد میں جب واپس کرنے گئے تو چونکہ دہلی کے علم دوست طبقہ نے یہ ایکا کیا ہوا تھا کہ وہ حضرت مرزا صاحب کے ساتھیوں کو کوئی کتاب نہ دیں اور ان کو یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ ہم حضرت اقدس کے لئے کتب لے کر گئے تھے.اس لئے مولوی صاحب نے ہمیں بے نقط گالیاں نکالنی شروع کر دیں لیکن ہم خاموش ہی واپس چلے آئے.* اولیں جلسہ سالانہ (۱۸۹۱ء) میں شمولیت اولیں جلسہ سالانہ جو بمقام قادیان دسمبر ۱۸۹۱ء میں منعقد ہوا.اس کی غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ ”آسمانی فیصلہ میں بوقت اشاعت اطلاع کے زیر عنوان بدمیں الفاظ بیان فرمائی ہے.تمام مخلصین داخلین سلسہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولی کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہو.لیکن اس غرض کے حصول کے لئے صحبت میں رہنا اور ایک دو یه مباحثه ۲۳ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو شروع ہوا تھا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں اور ( حضرت ) پیر سراج الحق صاحب حضور کے ارشاد پر کتب لائے تھے.صحیح بخاری ابھی تک نہ ملی تھی.پھر (منشی) حبیب الرحمن صاحب مرحوم جو اس اثناء میں حاجی پور سے دہلی آگئے تھے.اور میں مدرسہ شاہ عبدالعزیز صاحب میں گئے.اور اس مدرسہ کے پاس میرے ماموں حافظ محمد صالح صاحب صدر قانونگو دہلی کا مکان تھا، وہاں جا کر ہم نے بخاری شریف کا آخری حصہ دیکھنے کے لئے مانگا انہوں نے دیدیا ، ہم لے آئے.“.(۳۲) جس کو کتب واپس کی جاتیں وہ ہماری کامیابی کی وجہ سے ہمیں گالیاں دیتا.(۲)

Page 392

370 حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے تا کسی برہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے..جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہیئے کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پرواہ نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی اور چونکہ ہریک کے لئے باعث ،ضعف فطرت یا کمی مقدرت یا بعد مسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لئے آوے لہذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قو یہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں.سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ ۲۹ دسمبر تک قرار پائے..ر حتی الوسع تمام دوستوں کو محض اللہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آ جانا چاہیئے.اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا.جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں.اور نیز ان دوستوں کے لئے خاص دعا ئیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدا تعالے اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ اپنے پہلے بھائیوں سے روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تو دو تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا.اور جو بھائی اس عرصہ میں...انتقال کر جائیگا اس جلسہ میں اس کے لئے دعا مغفرت کی جائے گی.اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور ان کی.اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہ حضرت عزت جل شانہ کوشش کی جائے گی....اوراب جو ۲۷ دسمبر ۱۸۹ء کو دینی مشورہ کے لئے جلسہ کیا گیا.اس جلسہ پر جس قد را حباب محض اللہ تکلیف سفر اٹھا کر حاضر ہوئے.خدا ان کو جزائے خیر بخشے اور ان کے ہر یک قدم کا ثواب ان کو عطا فرما دے.آمین ثم آمین.،، (۳۳) یہ رسالہ ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۱ء کو مسجد کلاں میں اس جلسہ میں ایک جم غفیر کے روبرو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھ کر سنایا.* اس رسالہ میں حضور فرماتے ہیں کہ میاں نذیر حسین دہلوی کو ) دوسرے مسلمانوں کے کافر بنانے کا اس قدر جوش ہے کہ جیسے راست با زلوگوں کو مسجد کلاں بعد میں مسجد اقصیٰ کے نام سے معروف ہوئی.(مؤلف اصحاب احمد )

Page 393

371 مسلمان بنانے کا شوق ہوتا ہے.وہ اس بات کے بڑے ہی خواہشمند پائے جاتے ہیں.کہ کسی مسلمان پر خواہ نخواہ کفر کا فتوی لگ جائے گو کفر کی ایک بھی وجہ نہ پائی جائے.اور ان کے شاگر در شید میاں محمد حسین بٹالوی...تکفیر کے شوق میں اپنے استاد سے بھی کچھ بڑھ چڑھ کر ہیں.“ میں نے دہلی میں اشتہارات میں بار بار ظاہر کیا کہ میں مسلمان ہوں اور عقیدہ اسلام رکھتا ہوں.مسئلہ وفات مسیح کے متعلق میاں نذیر حسین نے بار بار کی درخواست پر بھی توجہ نہ کی نہ بحث کی نہ قسم کھائی اور نہ کافر کہنے سے باز آئے.البتہ اس کنارہ کشی کی ذلت کو لوگوں سے مخفی رکھنے کے لئے جھوٹے اشتہارات شائع کئے کہ وہ تو بحث کرنے پر تیار تھے.لیکن یہ عاجز ہی ان سے ڈر گیا حالانکہ یہ عاجز قادیان سے جا کر خرچ کر کے اور حرج کر کے ایک ماہ دہلی میں ٹھہرا.سانچ کو آنچ نہیں میں اب بھی وفات مسیح پر بحث کے لئے تیار ہوں اگر میاں صاحب لاہور آ کر بحث کرنے کو تیار ہوں تو ان کی تحریر آنے پر بلا توقف ان کو آمد ورفت کا کرایہ پیشگی بھیج دوں گا.مگر یہ پیشگوئی یا درکھو کہ وہ ہر گز بحث نہ کریں گے اور اگر کریں گے تو ایسے رسوا ہوں گے کہ منہ دکھانے کی جگہ نہ رہے گی.بالغ نظر جانتے ہیں کہ وہ خواستہ ایزدی پورا ہو گیا.اور نذیر حسین کے تقویٰ اور خدا پرستی اور علم اور معرفت کی ساری قلعی کھل گئی اور ترک تقویٰ کی شاعت سے ایک ذلت ان کو پہنچ گئی مگر ایک اور ذلت ابھی باقی ہے جو ان کے لئے اور ان کے ہم خیال لوگوں کے لئے تیار ہے جس کا ہم ذکر کرتے ہیں“ ایک شخص اپنے متعلق یہ کہتا ہے کہ وہ مومن ہے اور تمام فرائض و احکام الہیہ پرحتی الواسع عمل پیرا ہے لیکن علماء اسے کا فر مفتری دجال و ملحد قرار دیتے ہیں.تو اس بارے میں فیصلہ کا ایک آسمانی طریق ہے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک برگزیده گروه میں فی وجوههم من اثر السجود کے کے مطابق آثار مجود عبودیت ضرور پائے جانے چاہیئں اور انہی علامات ایمان میں آزمائش کرنا اور انہی میں مقابلہ ہونا چاہیئے (اس طرح ظاہر ہو جائے گا کہ وہ شخص کامل مومن ہے یا اسے مفتری ملحد وغیرہ قرار دینے والے) کامل مومن کی علامات یہ ہیں : اول.اسے منجانب اللہ اکثر پیش از وقوع خوشخبریاں بتلائی جاتی ہیں.دوم.صرف اسی کی ذات یا اس سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں نہیں بلکہ جو کچھ دنیا میں قضاء وقدر نازل ہونے والی ہے یا دنیا کے بعض افراد مشہودہ پر کچھ تغیرات آنے والے ہیں ان سے اکثر اوقات خبر دی جاتی ہے.سوم.اکثر اس کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور استجابت دعا کے بارے اکثر اسے پیش از وقت اطلاع

Page 394

372 بھی دی جاتی ہے.جاتے ہیں.چهارم- قرآن کریم کے وقائق و معارف جدیدہ ولفائف و خواص عجیبہ سب سے زیادہ اس پر کھولے حضور فرماتے ہیں کہ پنجاب کے صدر مقام لاہور میں اس مقالہ کے بارے حقائق وغیرہ جمع کرنے کے لئے ایک انجمن ( کمیٹی ) مقرر کر لی جائے جو کچھ فریقین کے پاس بذریعہ کشف والہام ظاہر ہو اس اس طرح اس انجمن کے پاس اطلاع دی جائے جس کی رسید تفصیل مرسلہ کے ساتھ کشف والہام بھجوانے والے کو بھجوائی جائے امر اول و دوم کے بارے اطلاعت کو مخفی کیا جائے امر سوم کے بارے یہی انجمن مصیبت زدگان کی فراہمی اور تاریخ مقررہ پر ان کے حاضر ہونے کے لئے چند ہفتے پہلے اشتہارات شائع کرے گی ان کی تقسیم فریقن میں کی جائے گی.ان اشتہارات کا خرچ میرے ذمہ ہوگا.پھر بذریعہ قرعہ اندازی ان مصیبت زدگان کی تقسیم فریقین میں کی جائے گی.اور ہر فریق اپنے حصہ کے ایسے افراد کے لئے سال پھر دعا کرتا رہے گا کثرت استجابت دعا سے عند اللہ مقبولیت کا علم ہوگا.حضور تحریر فرماتے ہیں.وو در حقیقت خدا تعالے کا پاک قانون قدرت یہی ہے کہ تمام امور مقبولوں کے ہی اثر وجود سے ہوتے ہیں اور ان کے انفاس پاک سے اور ان کی براکات سے یہ جہان آباد ہو رہا ہے انہیں کی برکت سے بارشیں ہوتی ہیں اور فسادمٹائے جاتے ہیں.اور انہیں کی برکت سے دنیا میں امن رہتا ہے اور وبائیں دفعہ ہوتی ہیں.اور انہیں کی برکت سے دنیا دار لوگ اپنی تدابیر میں کامیاب ہوتے ہیں.اور انہیں کی برکت سے چاند نکلتا اور سورج چمکتا ہے وہ دنیا کے نور ہیں.جب تک وہ اپنے وفود ، نوعی کے لحاظ سے دنیا میں ہیں دنیا منور ہے اور ان کے وفود نوعی کے خاتمہ کے ساتھ ہی دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ حقیقی آفتاب و ماہتاب دنیا کے دہی ہیں.اگر چه مومن کامل کا فیض تمام دنیا میں جاری وساری ہوتا ہے لیکن جولوگ خاص طور پر ارادت اور عقیدت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں وہ نہ صرف اس کی برکت سے دنیا کی مرادات پاتے ہیں بلکہ اپنا دین بھی درست کر لیتے ہیں اور اپنے ایمانوں کو قومی کر لیتے ہیں.اور اپنے رب کو پہچان لیتے ہیں.اور اگر وہ وفاداری سے مومن کامل کے زیر سایہ پڑے رہیں اور درمیان سے بھاگ نہ جائیں تو بکثرت آسمانی نشانوں کو دیکھ لیتے ہیں.معارف قرآن کے مقابلہ میں ہر ایک فریق چند آیات قرآئینہ کے حقائق ومعارف انجمن میں جلسہ عام

Page 395

373 میں سنائے.سو جس فریق کے معارف صحیح ہونے کے علاوہ جدید اور تکلف سے پاک اور قرآن کریم کے اعجاز اور کمال عظمت اور شان کو ظاہر کرتے ہوں اور اپنے اندر ایک جلالت اور ہیبت اور صداقت کا نور رکھتے ہوں تو سمجھنا چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں." (سو) حق اور باطل میں کھلا کھلا فرق ظاہر کرنے کے لئے مقابلہ کی از حد ضرورت ہے...میں نے حضرت شیخ الکل (مولوی نذیر حسین ) صاحب اور ان کے شاگردوں کی زبان درایوں پر بہت صبر کیا اور ستایا گیا اور اپنے ) آپ کو روکتا رہا.اب میں مامور ہونے کی وجہ سے اس دعوۃ اللہ کی طرف شیخ الکل صاحب اور ان کی جماعت کو بلاتا ہوں اور یقین رکتھا ہوں کہ خدا یتعالی اس نزاع کا آپ فیصلہ کر دے گا.وہ دلوں کے خیالات کو جانچتا ہے اور کسی سے دل آزار زیادتی پسند نہیں کرتا.متقی وہی ہے جو اس سے ڈر ے اور میری اس میں کیا کسرشان ہے اگر کوئی مجھے کتا کہے یا کافر اور دجال کر کے پکارے.در حقیقت حقیقی طور پر انسان کی کیا عزت ہے؟ صرف اس کے نور کے پر توہ پڑنے سے عزت حاصل ہوتی ہے.اگر وہ مجھ پر راضی نہیں اور میں اس کی نگاہ میں براہوں تو پھر کتے کی طرح کیا ہزار درجہ کتوں سے بدتر ہوں“.پیارو! یقیناً سمجھو کہ جب تک آسمان کا خدا کسی کے ساتھ نہ ہو ( وہ) ایسی شجاعت کبھی نہیں دکھا تا کہ ایک دنیا کے مقابل پر استقامت کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور ان باتوں کا دعوی کرے جو اس کے اختیار سے باہر ہیں.وہ اس ذات قدسیہ کی پناہ سے اور ایک غیبی ہاتھ کے سہارے سے کھڑا ہوتا ہے جس کے قبضہ قدرت میں تمام زمین و آسمان اور ہر ایک روح اور جسم ہے سو آنکھیں کھولو اور سمجھ لو کہ اس خدا نے مجھ عاجز کو یہ قوت اور استقامت دی ہے جس کے مکالمہ سے مجھے عزت حاصل ہے اسی کی طرف سے اور اسی کے کھلے ارشاد سے مجھے یہ جرات ہوئی کہ میں ان لوگوں کے مقابل پر بڑی دلیری اور دلی استقامت سے کھڑا ہو گیا.جن کا یہ دعوی ہے کہ ہم مقتدا اور شیخ العرب والعجم اور مقرب الی اللہ ہیں.“ سنتر احباب میں تیسرے نمبر پر د منشی محمد حبیب الرحمن صاحب رئیس کپورتھلہ“ کا نام نامی مرقوم ہے.حضور فرماتے ہیں کہ.حاضرین نے جو محض تجویز مذکورہ بالا پر غور کرنے اور مشورہ کرنے کے لئے تشریف لائے تھے.بالاتفاق یہ قرار دیا کہ سردست رسالہ مذکور شائع کرایا جائے اور مخالفین کا عندیہ معلوم کر کے بعد ازاں بتراضی فریقین انجمن کے ممبر مقرر کئے جائیں.6 حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 396

374 لدھیانہ میں زیارت کے مواقع وو منشی حبیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں: ” والد صاحب کے انتقال کے بعد کچھ ایسے (حالات ) پیدا ہو گئے کہ مجھے کچھ عرصہ کے واسطے مع متعلقین حاجی پور آنا پڑا لیکن مشیت ایزدی یہ تھی کہ گو میں کپورتھلہ سے کچھ عرصہ کے ارادہ سے آیا تھا لیکن بالآخر مستقل رہائش یہاں ہوگئی.میں غالباً ۹۱ء یا۱۸۹۳ء میں حاجی پور آ گیا.حضرت صاحب کا قیام اکثر لدھیانہ رہتا تھا اور کبھی کبھی قادیان بھی تشریف لے جایا کرتے تھے.جب لود یا نہ میں ہوتے تھے چونکہ حاجی پور کے ریلوے اسٹیشن سے ( ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر پھگواڑہ ہے.وہاں سے لودھیانہ کا صرف ایک گھنٹہ کا راستہ ہے.گو مجھے اب (بوجہ ) باہمی مقدمات اور دیگر ضروری انتظام خانه داری فرصت بہت ہی کم ہوتی تھی تاہم میں لودھیانہ کثرت سے جاتارہتا تھا اور اکثر صبح کو جا کر شام کو واپس آ جاتا تھا.کبھی رات کو بھی مقیم ہوتا تھا.ساتھ تھا.ان ہی دنوں میں جو مباحثہ مولوی محمد حسین بٹالوی سے مولوی محمد حسن صاحب کے مکان پر ہوا تھا، میں گرمی کا موسم تھا.ایک دفعہ میں لدھیانہ میں دو پہر کے بعد پہنچا.رمضان شریف کا مہینہ تھا.حضرت بیوی صاحبہ اُم المومنین کا خالہ زاد بھائی محمد سعید بھی حضرت کی خدمت میں رہا کرتا تھا.میرے پہنچنے پر اس نے کھانے یا شربت کے واسطے دریافت کیا.میں نے کہا کہ مجھے روزہ ہے.اس نے روزہ افطار کرنے کے واسطے کہا مگر میں نے منظور نہ کیا.اس نے کہا کہ منشی ظفر احمد (صاحب) کپورتھلہ آئے تھے.حضرت صاحب نے ان کا روزہ افطار کر دیا تھا.اب تمہارا روزہ بھی افطار کرا دیں گے ورنہ تم ابھی روزہ افطار کر دو.میں نے یہ منظور نہ کیا کہ جب حضرت صاحب فرماویں گے تو مضایقہ نہیں.اس نے حضرت صاحب سے میرے آنے کی اطلاع دی.پنے کمرہ میں جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے، تشریف فرما تھے.مجھے بھی اس جگہ طلب فرمایا محمد سعید نے کہا حاشیہ سابقہ صفحہ: آسمانی فیصلہ صفحہ (۱ تا ۲۷) کپورتھلہ کے دیگر ذیل کے آٹھ احباب نے بھی اس جلسہ میں شمولیت کی سعادت پائی تھی.گویا قریباً ساڑھے نواں حصّہ اس اجتماع کا صرف کپورتھلہ کا تھا:.منشی محمد اروڑ ا صاحب منشی محمدعبدالرحمن صاحب منشی ظفر احمد صاحب منشی محمد خان صاحب منشی سردار خاں صاحب منشی امداد علی خاں صاحب، مولوی محمدحسین صاحب اور حافظ محمد علی صاحب.یہ مباحثہ ۲۰ تا ۳۱ جولائی ۱۸۹۱ء ہوا تھا.(الحق لدھیانہ صفحہ ۱۲۳۸ مع حاشیہ )

Page 397

375 کہ یہ چل کر آئے ہیں.ان کو روزہ ہے.فرمایا کیا حرج ہے؟ حاجی پورکیا دور ہے؟ جوان آدمی ہیں چنانچہ میں نے روزہ پورا کیا.اور دوسرے دن بھی رکھا.(قلمی کا پی صفحہ ۴۵ تا ۴۷) وو حضور نے سفر میں بار ہاروزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا کفران نعمت ہے.اور اکثر جو ( دوست ) آتے تھے اور ( ان کا ) روزہ ہوتا تھا.خواہ کوئی وقت ہو ( حضور ) روزہ افطار کرا دیتے تھے.اور بہت تاکید فرماتے کہ سفر میں خواہ کسی قدر ہو روزہ نہیں رکھنا چاہئیے تعداد (میل) سفر کی بابت دریافت پر فرمایا کہ یہ علیحدہ علیحدہ ہے.ایک آدمی جس کو کبھی کبھی سفر کرنا پڑتا ہے، اس کے لئے گھر سے روانہ ہوتے ہی سفر ہے.لیکن ایسا آدمی جس کا کام روز مرہ یا اکثر سفر کرنا ہے.وہ مسافر نہیں ہوسکتا.زمیندار دھوپ میں ہل چلاتے ہیں ان کے لئے دس پانچ کوس کا کچھ سفر نہیں.قلمی کا پی صفحه ۲ ۵ تا ۵۴) جلسہ سالانہ (۱۸۹۲ء) میں شمولیت اور تبلیغ یورپ و امریکہ کے بارے مشاورت جلسہ سالانہ منعقدہ ۱۸۹۲ء کے کوائف درج کئے جاتے ہیں.ا.حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک اشتہار میں رقم فرمایا: سال گزشتہ میں بمشورہ اکثر احباب یہ بات قرار پائی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگ کم سے کم ایک مرتبہ سال میں یہ نیت استفادہ ضروریات دین و مشورہ اعلائے کلمہ اسلام و شرع متین اس عاجز سے ملاقات کریں اور اس مشورہ کے وقت یہ بھی قرین مصلحت سمجھ کر مقرر کیا گیا تھا کہ ۲۷ / دسمبر کو اس غرض سے قادیان میں آنا انسب اور اولیٰ ہے کیونکہ یہ تعطیل کے دن ہیں اس جلسہ ) کی بڑی غرض یہ بھی ہے کہ تا ہر یک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقعہ ملے اور ان کے معلومات دینی وسیع ہوں......( لیکن ) لاہور میں چینیاں والی مسجد کے امام نے ایک فتوی دیتے ہوئے ).......ایک طول طویل عبارت لکھی ہے کہ ایسے جلسہ پر جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور ایسے جلسوں کا تجویز کر نا محدثات میں سے کرنا ہے.جس کے لئے کتاب اور سنت میں کوئی شہادت نہیں اور جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے، مردود ہے.“ سوعلماء اور ان کے تابع عوام کے ایسے خیالات تھے جن کی تردید میں حضرت اقدس کو ایک مبسوط اشتہار ( جو آئینہ کمالات اسلام میں آٹھ صفحات میں درج ہوا ) شائع کرنا پڑا جس میں بتایا کہ بزرگوں کی ملاقات کے لئے سفر کرنے والے ہرگز مردود نہیں قرار پاسکتے.بخاری شریف کی ایک حدیث کے مطابق جو شخص طلب علم کی خاطر سفر کرے، اللہ تعالیٰ بہشت کی راہ اس پر آسان کر دیتا ہے.اور تحریر فرمایا: - صد ہالوگ طلب علم یا ملاقات کے لئے نذیر حسین خشک معلم کے پاس دہلی میں جائیں اور وہ سفر جائز

Page 398

376 ہوا اور پھر خودنذیرحسین صاحب ( محمد حسین ) بٹالوی صاحب کا ولیمہ کھانے کے لئے بدیں عمر و پیرانہ سالی دوسوکوس کا سفر اختیار کر کے بٹالہ میں پہنچیں اور وہ سفر بالکل روا ہو ہے.نیز حضور رقم فرماتے ہیں: (۳۴) ،، اس بات کے سمجھنے کے لئے کہ انسان اپنے منصوبوں سے خدا تعالیٰ کے کاموں کو روک نہیں سکتا.یہ نظیر نہایت تسلی بخش ہے کہ سال گزشتہ میں جب ابھی فتوای تکفیر میاں بٹالوی صاحب کا طیار نہیں ہو اتھا.اور نہ انہوں نے کچھ بڑی جد و جہد اور جان کنی کے ساتھ اس عاجز کے کافر ٹھہرانے کے لئے توجہ فرمائی تھی.صرف ۷۵ احباب اور مخلصین تاریخ جلسہ پر قادیان میں تشریف لائے تھے.مگر اب جب کہ...بٹالوی صاحب نے ناخنوں تک زور لگا کر اور آپ بعد مشقت ہر یک جگہ پہنچ کر اور سفر کی ہر روزہ مصیبتوں سے کوفتہ ہو کر اپنے ہم خیال علماء سے اس فتوی پر مہریں ثبت کرائیں اور وہ اور ان کے ہم مشرب علماء بڑے ناز اور خوشی سے اس بات کے مدعی ہوئے کہ گویا اب انہوں نے اس الہی سلسلہ کی ترقی میں بڑی بڑی روکیں ڈال دی ہیں تو اس سالانہ جلسہ میں..تین سوستائیس احباب شامل جلسہ ہوئے اور ایسے صاحب بھی تشریف لائے جنہوں نے تو بہ کر کے بیعت کی.اب سوچنا چاہیئے کہ کیا یہ خدا تعالیٰ کی عظیم الشان قدرتوں کا ایک نشان نہیں کہ بٹالوی صاحب اور ان کے ہم خیال علماء کی کوششوں کا الٹا نتیجہ نکلا اور وہ سب کوششیں برباد گئیں؟ کیا یہ خدا تعالیٰ کا فعل نہیں کہ میاں بٹالوی کے پنجاب اور ہندوستان میں پھرتے پھرتے پاؤں بھی گھس گئے لیکن انجام کار خدا تعالیٰ نے ان کو دکھلا دیا کہ کیسے اس کے ارادے انسان کے ارادوں پر غالب ہیں.واللہ غالب عــلــى أمــره والـكـن اكثــر الـنـاس لا يَعْلَمون - حلا (۳۵) ،، فہرست ۳۱۳ صحابہ سے پہلے حضور رقم فرماتے ہیں: اس جلسہ کے موقع پر اگر چہ پانسو کے قریب لوگ جمع ہو گئے تھے لیکن وہ احباب اور مخلص جو محض اللہ شریک جلسہ ہونے کے لئے دور دور سے تشریف لائے ان کی تعداد قریب تین سو پچیس کے پہنچ گئی تھی.،، (۳۶) ۴- منشی حبیب الرحمن صاحب ایسے عشاق حضرت اقدس تو سال کے دوران پروانہ وار کئی بار حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے.اور پھر اولین جلسہ سالانہ (۱۸۹۱ء) کے فوائد وبرکات سے وہ مستفیض ہو چکے تھے، بھلا اس دوسرے سالانہ جلسہ سے کیونکر وہ غیر حاضر ہو سکتے تھے.لیکن اس کے انعقاد کے قریب حضور کومنشی صاحب کے ایک خط سے ان کی علالت کا علم ہوا تو 19 دسمبر کو اپنے ایک مکتوب میں عیادت کرتے ہوئے اپنی اس شدید آرزو کا اظہار فرمایا کہ بشرط صحت وہ شرکت کریں.اور اللہ تعالیٰ نے منشی صاحب کو شرکت کی توفیق عطا فرمائی.☆ اشتہارے دسمبر ۱۸۹۲ء بعنوان ” قیامت کی نشانی“ مندرجہ آئینہ کمالات اسلام (بعد صفحه ۶۰۴)

Page 399

377 حضور کا مکتوب درج ذیل ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی مجی اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا محبت نامہ پہنچا.آپ کی علالت کی خبر سن کر تفکر ہوا.اللہ تعالیٰ آپ کو جلد صحت کامل عطا فرما دے.نہایت آرزو ہے کہ آپ ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۲ء کے جلسہ میں تشریف لائیں اگر آٹھ نو روز تک صحت کامل ہو جاوے تو آپ آ سکتے ہیں.اُمید کہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.مرض کی حالت میں قصر نماز نہیں چاہیئے البتہ اگر طاقت کھڑے ہونے کی نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں.والسلام ۱۹ دسمبر ۱۸۹۲ء ۲۴ ۵- مقام جلسہ مسجد مبارک کے سامنے راستہ کے دوسری طرف تقسیم ملک تک احمد یہ بک ڈپورہا ہے.حضرت اقدس کے زمانہ میں ۱۸۹۲ ء کے بعد کسی وقت یہاں احمد یہ شفا خانہ قائم کیا گیا تھا.ایک کمرہ تیار کر کے جس کے اوپر حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کی رہائش گاہ تعمیر کی گئی تھی.اس شفاخانہ کے مقام سے مہمان خانہ تک ڈھاب کے کنارے کچی انیوں سے ایک وسیع چبوترہ تیار کیا گیا تھا.جس میں مدرسہ احمدیہ، مہمان خانہ اور مکان حضرت مولوی نورالدین صاحب کی بنیاد میں رکھی تھیں.اس مقام پر یہ جلسہ ہوا.(۳۷) مقام جلسہ پر ایک اونچے چوبی تخت پر حضور علیہ السلام کے لئے ایک قالین بچھا دیا گیا تھا.احباب حضور کے چاروں طرف بیٹھے.سامنے شمال کی طرف حضرت مولوی نورالدین صاحب ، مغرب کی طرف حضرت مولوی یہاں یہ مکتوب ( نمبر ) مندرجہ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم ( صفحه ۵۴) اور الحکم ۲۸ جنوری ۱۹۳۴ء (صفحہ ۷ کالم۲) سے نقل کیا گیا ہے.مرکزی لائبریری ربوہ میں موجود نقل اور خاکسار مؤلف اصحاب احمد کو بقلم منشی کظیم الرحمن صاحب فرزند حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب سے موصولہ نقل ایک جیسی ہیں.خاکسار کی طرف سے متن میں جن پر نمبر دیئے گئے ہیں ان کی نقول لائبریری ونشی نظیم الرحمن میں وہ الفاظ یوں مرقوم ہیں.سلمہ اللہ تعالیٰ ۹۴ لاویں

Page 400

378 برہان الدین صاحب اور گوشہ مغرب و جنوب میں حضرت پیر سراج الحق صاحب، اور ان کے اگلی طرف مولانا سید (۳۸) محمد احسن صاحب بیٹھے.کوائف جلسہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب تو ضیح المرام میں ملائکہ کے بارے جو باتیں بیان کی ہیں، ان پر مولویوں کے بیان کردہ اعتراضات پر حضور نے شرح وبسط سے تقریر فرمائی.سید محمد احسن صاحب پر اس وقت ایسی رقت طاری ہوئی کہ اس سے حاضرین کے دل پکھل گئے اور سب پر عجیب کیفیت طاری ہوئی.بعض کے دلوں میں جو شبہات تھے اس تقریر سے رفع ہو گئے.حضور نے یہ بھی بیان فرمایا کہ انبیاء کے دعاوی کی طرح میرا دعوی بھی ارشاد الہی پرمبنی ہے.میں اپنے دعوی میں صادق ہوں حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب نے قرآن کریم سے بتایا کہ مثل دیگر انبیاء کے حضرت عیسی موت کا پیالہ پی کر اس فانی دنیا سے دار النعیم میں پہنچ گئے ہیں اور احادیث میں آمد ثانی کے بارے میں نزول کا لفظ استعارہ استعمال ہوا ہے.(۳۹) حضور نے ایک تقریر میں علمائے زمانہ کی چند ایک باتوں کا جواب دیا جو ان کے نزدیک بنائے تکفیر ہیں.اور نشانات سماویہ کے ذریعہ اپنے مسیح موعود ہونے کا ثبوت پیش کیا اور اپنی جماعت کو باہمی محبت اور تقوی اور طہارت کے بارے میں نصائح کیں.دوسرے روز یورپ اور امریکہ میں اشاعت اسلام کے تعلق میں بمشورہ احباب موجودہ ضروریات و عقائد اسلام کے بارے ایک رسالہ شائع کر کے وہاں بھجوایا جائے اور قادیان میں ایک مطبع کے قیام اور قادیان سے ایک اخبار کے اجراء اور مولوی سید محمد احسن صاحب کے بطور واعظ تقرر اور ان کے ہندوستان میں دورہ کرنے کے بارے امور طے ہوئے اور یہ کہ جلسہ سالانہ پر اشاعت اسلام اور ہمدردی کو مسلمین امریکہ و یورپ کے بارے میں احسن تجاویز سوچی جائیں اور دنیا میں تقوی وطہارت کو ترقی دینے اور عادات و رسوم قبیحہ کے دور کرنے کی تدابیر کی جائیں اور ان امور کی سرانجام دہی کے لئے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی صدارت میں ایک کمیٹی قائم کی گئی.اس کمیٹی کے سیکرٹری کی رپورٹ ہے کہ اجرائے مطبع و اخبار کے ماہوار اخراجات کا اندازہ اڑہائی صد روپیہ تھا.چنانچہ.اس پر ہر ایک مخلص نے اپنے مقدور کے موافق بطیب خاطر چندہ لکھوایا اس تجویز سے پہلے بہت سے معزز اصحاب واپس تشریف لے جاچکے تھے.وہ اس کار خیر میں شامل نہیں ہو سکے.امید کہ صادقانِ باوفا (اور ) مخلصان بے ریا ضرور اس نیک کام میں شمولیت فرما کر سعادت دارین کے مستحق ہوں گے...لیکن حضرت

Page 401

379 اقدس فرماتے ہیں کہ کوئی صاحب مجبور چندہ ن لکھوائیں بلکہ اپنی خوشی سے حسب استطاعت لکھوائیں.“ تعداد وعده کنندگان (جس کے نمبر شمار میں سہو ہے ) ترانوے ہے.کپورتھلہ کے دیگر نو احباب کے وعدے دو آنے سے چار آنے ماہوار تک ہیں ان ترانوے احباب میں سے ستاسی کے ماہوار وعدے آٹھ پائی سے دو روپے تک کے ہیں.منشی حبیب الرحمن صاحب ( یعنی کپور تھلوی ) کا وعدہ اڑہائی روپے ماہوار کا ہے.آپ سے بڑھ کر وعدہ صرف پانچ احباب کا ہے.اس سے منشی صاحب کے چندہ کی اہمیت ظاہر ہے.مطلوبہ ماہوار اخراجات قریباً اڑہائی صد گویا سالانہ تین ہزار میں سے وعدے ساڑھے اکہتر روپے ماہوار گویا آٹھ صد اٹھاون روپے سالانہ کے تھے.نقد وصولی قریباً پونے اڑتالیس روپے ہوئی تھی.(آئینہ کمالات ، اسلام ضمیمہ صفحہ ۱۹ تا ۲۲۳) غالباً یہ آغاز تھا با قاعدہ تحریک و وصولی چندہ کا اللہ تعالیٰ نے اسے بے حد با برکت اور مثمر ثمرات حسنہ بنایا فالحمد الله على ذلك حمد اكثيرا ماہوار وعدہ فی کس گویا سالانه چنده فی کس تعدا د وعده کنندگان کل میزان وعده نصف روپیه ایک آٹھ پائی ایک آنہ چار پائی نصف روپیه چھیں چھبیس روپیہ ایک روپیہ ساڑھے دس روپیہ سات دو آنے ڈیڑھ روپیہ دو آ نے آٹھ پائی دو روپیه چھ باره روپیه اکاون روپیه چار آنه تمین روپیه ستره آٹھ اڑتالیس روپیہ آٹھ آنہ چھ روپیہ ایک دس روپیه تیرہ آنہ چار پائی دس روپیه چودہ ایک روپیہ باره روپیه ایک روپیہ پانچ آنہ چار پائی سولہ روپیہ ایک سولہ روپیہ ایک سواڑسٹھ روپیہ ایک سو چوالیس روپیہ چوبیس روپیہ دورو په اڑ ہائی روپیہ تمیں روپیہ ایک تمیں روپیہ تمین روپیه چھتیس روپیہ بہتر روپیہ دو چار روپیہ دو آنہ آٹھ پائی پچاس روپیہ ایک پچاس روپیہ آٹھ روپیہ پانچ آنہ چار پائی ایک سور و پیر دس روپیه ایک ایک سو روپیہ ایک سو بیس روپیہ ایک ایک سو بیس روپیہ میزان وعده کنندگان ترانوے میزان وعدہ سالانہ آٹھ صد اٹھاون روپے

Page 402

380 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خسر حضرت میر ناصر نواب صاحب ابھی تک داخل سلسلسہ احمدیہ نہ ہوئے تھے.حضور کی طرف سے اس جلسہ میں شریک ہونے کی تحریک پر قادیان تشریف لائے اور حضرت اقدس کی باتیں سن کر آپ کے تمام شبہات دور ہو گئے.چنانچہ آپ تحریر کرتے ہیں:.اس جلسہ پر تین سو سے زیادہ شریف اور نیک لوگ جمع تھے.جن کے چہروں سے مسلمانی نورٹپک رہا تھا.امیر، غریب، نواب، انجینئر، تھانہ دار، تحصیلدا، زمیندار، سوداگر، حکیم، غرض ہر قسم کے لوگ تھے.ہاں چند مولوی بھی تھے مگر مسکین مولوی.مولوی کے ساتھ مسکین اور منکسر کا لفظ یہ مرزا صاحب کی کرامت ہے کہ مرزا صاحب سے مل کر مولوی بھی مسکین بن جاتے ہیں.ورنہ آج کل مسکین مولوی اور بدعات سے بچنے والا صوفی کبریت احمر اور کیمیائے سعادت کا حکم رکھتا ہے...وہ وقت عنقریب (آتا) ہے کہ جناب مرزا صاحب کی خاک پا کو اہل بصیرت آنکھوں میں جگہ دیں اور اکسیر سے بہتر سمجھیں اور تبرک خیال کریں.مرزا صاحب کے سینکڑوں ایسے دوست ہیں جو مرزا صاحب پر دل و جان سے قربان ہیں..مولوی اور خصوصاً مولوی محمد حسین صاحب سرآمد علماء پنجاب (بزعم خود ) سے لوگوں کو اس قد رنفرت کہ جس کے باعث مولوی صاحب کو لاہور چھوڑنا پڑا.موحدین کی جامع مسجد میں اگر اتفا قالا ہور میں تشریف لے جاویں تو مارے ضد اور شرم کے داخل نہیں ہو سکتے.اور مرزا صاحب کے پاس ( جو بزعم مولوی صاحب ) کافر بلکہ اکفر اور دجال ہیں، گھر بیٹھے لاہور، امرتسر ، پشاور، کشمیر، جموں ، سیالکوٹ ، کپورتھلہ ،لدھیانہ، بمبئی مما لک شمال و مغرب، اودھ، مکہ معظمہ وغیرہ بلاو سے لوگ گھر سے بوریا بدھنا باندھے چلے آتے ہیں.پھر آنے والے ، موقد ، الحدیث مولوی ،مفتی ، پیرزادے ، شریف ،امیر ، نواب ، وکیل.اب ذرا سوچنے کا مقام ہے کہ باوجود اکثر مولویوں سے کفر کے فتویٰ پر مہریں لگوانے کے اللہ جل شانہ نے مرزا صاحب کو کس قدر چڑھایا اور کس قدر خلق خدا کے دلوں کو متوجہ کر دیا.یہ لوگ ) مرزا صاحب کے گرد ایسے جمع ہوتے تھے جیسے شمع کے گرد پروانے نائین رسول ( کہلانے والے)..کسی ملک میں ہدایت پھیلانا اور مخالفین اسلام کو زیر کرنا تو در کنار ایک شہر بلکہ ایک محلہ کو بھی درست نہیں کر سکتے.برخلاف اس کے مرزا صاحب نے شرقاً غر با مخالفین اسلام کو دعوت اسلام کی اور ایسا نیچا کر دکھایا کہ کوئی مقابل آنے جو گا نہیں رہا وہی نیچری جو مسلمان صورت بھی نہیں تھے،مرزا صاحب کے ملنے سے مومن سیرت ہو گئے.اہلکاروں ، تھانہ داروں نے رشوتیں لینی چھوڑ دیں ، نشہ بازوں نے نشے ترک کر دئے.مرزا صاحب کے شیعہ مریدوں نے تبر اترک کر دیا.صحابہ سے محبت کرنے لگے بعض پیر زادے جو

Page 403

381 محمد اسمعیل شہید کو بھی کافر سمجھتے تھے، مرزا صاحب کے معتقد ہونے کے بعد (ان کو) اپنا پیشوا اور بزرگ سمجھنے لگے.اگر یہ تاثیریں دجالین ، کذابین میں ہوتی ہیں.اور نائبین رسول مقبول ( گویا ایسی ) نیک تا شیروں سے محروم ہیں تو بصد خوشی ہمیں دجالی ہونا منظور ہے.۷.جلسہ سالانہ ۱۸۹۳ء کو حضرت اقدس نے ملتوی فرمایا.وجوہات التوا میں سے ایک وجہ سے ان (•)☆ مشکلات کا علم ہوتا ہے جن کا سامنا اس جلسہ سالانہ کے منعقد کرنے کے وقت ہوا تھا.نیز جلسہ سالانہ۱۸۹۲ء کے مزید کوائف بھی سامنے آتے ہیں.حضرت اقدس بیان فرماتے ہیں کہ ”ابھی ہمارے سامان نہایت نا تمام ہیں اور صادق جانفشاں بہت کم اور بہت سے کام ہمارے اشاعت کتب کے متعلق قلت مخلصوں کی سبب سے باقی پڑے ہیں.پھر ایسی صورت میں جلسہ کا اتنا بڑا اہتمام جوصد ہا آدمی خاص اور عام کئی دن آ کر قیام پذیر رہیں اور جلسہ سابقہ کی طرح بعض دور دراز کے غریب مسافروں کو اپنی طرف سے زادراہ دیا جاوے.اور کما حقہ کئی روز صد ہا آدمیوں کی مہمان داری کی جاوے اور دوسرے لوازم چار پائی وغیرہ کا صد ہالوگوں کے لئے بندوبست کیا جائے اور ان کے فروکش ہونے کے لئے کافی مکانات بنائے جائیں، اتنی توفیق ابھی ہم میں نہیں اور نہ ہمارے مخلص دوستوں میں.اور یہ بات ظاہر ہے کہ ان تمام سامانوں کو درست کرنا ہزار ہا روپیہ کا خرچ چاہتا ہے اور اگر قرضہ وغیرہ پر اس کا انتظام بھی کیا جائے تو بڑے سخت گناہ کی بات ہے کہ جو ضروریات دین پیش آرہی ہیں.وہ تو نظر انداز رہیں اور ایسے اخراجات جو کسی کو یاد بھی نہیں رہتے.اپنے ذمہ ڈال کر ایک رقم کثیر قرضہ کی خواہ نخواہ اپنے نفس پر ڈال لی جائے.ابھی با وجود نہ ہونے کسی جلسہ کے مہمان داری کا سلسلہ ایسی ترقی پر ہے کہ ایک برس سے یہ حالت ہو رہی ہے کہ کبھی تھیں تھیں، چالیس چالیس اور کبھی سو تک مہمانوں کی موجودہ میزان کی ہر روزہ نوبت پہنچ جاتی ہے.جن میں اکثر ایسے غرباء فقراء دور دراز ملکوں کے ہوتے ہیں جو جاتے وقت ان کو زادِ راہ دے کر رخصت کرنا پڑتا ☆ اس جلسہ سالا نہ میں منشی حبیب الرحمن صاحب ہمنشی ظفر احمد صاحب ہنشی محمد خاں صاحب ہمنشی اروڑا صاحب ہمنشی عبدالرحمن صاحب اور منشی فیاض علی صاحب رضی اللہ عنہم سمیت انہیں احباب کپورتھلہ نے شرکت کی تھی.(جن کے نمبر فہرست میں ۲۲۳ تا ۲۴ ہیں ) گویا حاضرین کا حصہ احباب کپورتھلہ کا تھا.یہاں ۲۲۷ نمبر پر نام یوں مرقوم ہے منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور ریاست کپورتھلہ“

Page 404

382 ہے.برابر یہ مسئلہ ہر روز لگا ہوا ہے.اور اس کے اہتمام میں مکرمی مولوی حکیم نورالدین صاحب بدل و جان کوشش کر رہے ہیں.اکثر دور کے مسافروں کو اپنے پاس سے زاد راہ دیتے ہیں.چنانچہ بعض کو قریب تمیں تھیں یا چالیس چالیس روپیہ کے دینے کا اتفاق ہوا ہے.اور دو دو چار چار تو معمول ہے اور نہ صرف یہی اخراجات بلکہ مہانداری کے اخراجات کے متعلق قریب تین چار سو روپیہ کے انہوں نے اپنی ذاتی جوانمردی اور کریم انفسی سے علاوہ امدادات سابقہ کے ان ایام میں دیئے ہیں اور نیز طبع کتب کے اکثر اخراجات انہوں نے اپنے ذمہ کر لئے کیونکہ کتابوں کے طبع کا سلسلہ بھی برابر جاری ہے.گو بوجہ ایسے لا بدی مصارف کے اپنے مطبع کا اب تک انتظام نہیں ہو سکا.لیکن مولوی صاحب موصوف ان خدمات میں بدل و جان مصروف ہیں اور بعض دوسرے دوست بھی اپنی ہمت اور استطاعت کے موافق خدمت میں لگے ہوئے ہیں.مگر پھر بھی کب تک اس قدر مصارف کا متحمل نہایت محدود آمدن سے ممکن ہے؟ غرض ان وجوہ کے باعث سے اب کے سال التوائے جلسہ مناسب دیکھتا ہوں.(۴۱) ،، تین سو تیر و صحا بہ میں شمولیت دو بار حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب ان خوش قسمت بزرگوں میں سے تھے جن کے اسماء دو باران فہرستوں میں درج ہوئے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مثیل صحابہ بدر قرار دیا ہے.حضور رقم فرماتے ہیں کہ حدیث صحیح میں آچکا ہے کہ مہدی موعود کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہوگی جس میں اس کے وہ پیشگوئی آج پوری ہوگئی تین سو تیرہ اصحاب کا نام درج ہوگا.نیز فرمایا کہ میں پہلے اس سے بھی آئینہ کمالات اسلام میں (اتنے ) نام درج کر چکا ہوں اور اب دوبارہ اتمام حجت کے لئے تین سو تیرہ نام درج کرتا ہوں.بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلت صدق و صفار کھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی رضا کی راہوں میں ثابت قدم کرے.☆ انجام آتھم (ضمیمہ ) صفحہ ۴۰ تا ۴۵ - اس میں آپ کا نام نمبر ۲۳۶ پر منشی حبیب الرحمن صاحب حاجی پور کپورتھلہ مرقوم ہے اس فہرست میں کپور تھلہ کے دیگر احباب منشی اروڑ ا صاحب، ( باقی اگلے صفحہ پر )

Page 405

383 جادو کچھ چیز نہیں نشی حبیب الرحمن صاحب تحریر کرتے ہیں: والد صاحب مرحوم کے انتقال کے بعد آپس میں مقدمات شروع ہو گئے.میں ناتجربہ کار مجھے بہت فکر رہتا تھا.میرا جو مخالف تھا، ایک تو وہ مزاج کا شریر تھا اور غیر احمدی بلکہ احمدیوں کا دشمن، اس نے ارادہ کیا کہ میرے اوپر جادو کر کے ( مجھے ) تباہ کر دیا جائے.میرے دوست منشی محمد خاں صاحب نے کہیں سے سن لیا کہ مرغ سفید کے ذریعہ جادو کرنا چاہتے ہیں.ہر چند کہ وہ ایسے خیال کے آدمی نہ تھے.تب بھی ان کو فکر ہوئی.مجھے (انہوں نے ) لکھا کہ اگر کوئی سفید ریش (شخص) سفید مرغ آپ کو دے تو نہ لینا.سفید ریش میرے مخالف کا آدمی تھا.میں جانتا تھا کہ یہ لوگ ایسے ہی بیہودہ خیال کے آدمی ہیں.خان صاحب نے کہیں سے سن لیا ہے.گو میں جادو وغیرہ کا قائل نہ تھا مگر خاں صاحب کی تحریر کا میرے اوپر اثر ہوا اور رنج ہوا.حضرت صاحب لدھیانہ میں تھے.میں حضور کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے مخالف جو دینی اور دنیوی طور پر میرے دشمن ہیں، اب معلوم ہوا کہ وہ میرے اوپر جادو کر رہے ہیں.اگر حضور اجازت دیں تو میں سب کچھ چھوڑ دوں ( یعنی جائیداد جس کے ان لوگوں سے مقدمات ہیں.ناقل ) حضور نے فرمایا ( کہ ) اس طرح اپنا حق چھوڑ دینا گناہ ہے.جس طرح دوسروں کا حق لینا گناہ ہے اسی طرح اپنا حق چھوڑ دینا گناہ ہے.جادو کچھ چیز نہیں.تم اس کا کچھ فکر نہ کرو.اور الحمد شریف اور معوذتین زیادہ پڑھا کرو.پھر کسی طرح خوف نہیں.میں دعا کروں گا.یہ تو مجھے معلوم ہو گیا کہ مجھ پر جادو ہو اگر مجھ پر قطعا کسی قسم کا اثر نہیں ہو ا.اور نہ پھر میرے دل میں اس کا خیال ہی ہوا کہ جادو کا کچھ اثر ہوا کرتا ہے.بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میرا ایمان ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دامن پکڑا ہے اور حضور کے وجود کو میں ( نے ) چھوا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ میری ظاہری اور باطنی طور پر حفاظت فرمائے گا.اور آخرت میں بھی مجھ گنہگار کو اپنے فضل سے میرے گناہوں پر پردہ پوشی فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ السلام کے دربار سے علیحدہ نہ فرمائے گا.تاہم ایمان کامل کے ساتھ ان بقیہ حاشیہ: میاں محمد خاں صاحب ہنشی ظفر احمد صاحب ہنی عبدالرحمن صاحب منشی فیاض علی صاحب اور مولوی محمد حسین صاحب کے اسماء بھی شامل ہیں.انجام آتھم کے آخری صفحہ ۶۳ ( ضمیمہ) پر حضور نے اپنے نام کے ساتھ تاریخ تکمیل کتاب ۲۲ جنوری ۱۸۹۷ء رقم فرمائی ہے.

Page 406

384 اعمال کا عمل میں آنا ضروری ہے جو عبادات اور معاملات کے متعلق بارگاہ رب العزت اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے کامل مطیع اور غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احکام صادر فرمائے جس قدر بجا آوری احکام میں ( کوئی ) مستعد اور منہمک ہوگا.قرب حاصل کرے گا خدا تعالیٰ مجھے توفیق بخشے.قلمی کاپی ۵۴-۵۶) ایک منصف کی طرف سے حضرت اقدس کو دعوتِ طعام منشی حبیب الرحمن صاحب نے بواسطہ شیخ عبدالرحمن صاحب بیان کیا کہ رشتہ میں میرے چانشی محمد اشرف صاحب منصف بمقام لدھیانہ تھے.وہ مشرع داڑھی رکھتے تھے.لباس میں سادگی تھی مجھ سے ان کو بہت محبت تھی.اور وہ میری بات بھی مان لیتے تھے.ان کی دیانت اور انصاف پسندی کی وجہ سے حکام بھی ان کا احترام کرتے تھے.حضرت اقدس علیہ السلام کے لدھیانہ کے قیام میں میں روزانہ لودھیانہ آتا تھا.اور کبھی رات کومنشی صاحب کے پاس ٹھہر جاتا تھا.اور ان سے حضور کا تذکرہ اور تبلیغ کا سلسلہ جاری رہتا تھا.اس لئے ان کے دل میں حضور کی قدرومنزلت تھی اور حضور کی زیارت و ملاقات کے لئے حضور کی جائے قیام پر آتے رہتے تھے.حالانکہ اس وقت اس شہر میں حضور کی شدید مخالفت ہو رہی تھی.گو انہوں نے بعد میں بھی بیعت نہیں کی.ایک دفعہ انہوں نے حضور کو ولی اللہ اور اہل اللہ سمجھ کر اور آپ کی خدمت کو باعث نجات جان کر حضور کی کھانے کی دعوت کرنا چاہی اور مجھ سے اپنا اشتیاق ظاہر کر کے چاہا کہ حضور سے عرض کروں کہ حضور ان کی دعوت قبول فرمائیں اور اگر دینی مصروفیات کی وجہ سے ان کے مکان پر تشریف نہ لا سکتے ہوں تو کھانا حضور کی جائے قیام پر پیش کر دیا جائے گا.میں نے حضور کی خدمت میں ان کی اس خواہش کا ذکر کرتے ہوئے اپنی قرابت بھی بتائی.حضور نے دعوت منظور کی اور فرمایا کہ ہم ان کے ہاں جا کر کھانا کھا ئیں گے.منشی صاحب نے دعوت کے روز صفائی وغیرہ کا اہتمام کیا.بوقت شب حضور معہ قافلہ میرے ہمراہ وہاں تشریف لے گئے.کھانے بہت تکلف سے تیار کروائے گئے تھے.تکلفات کو تو حضور نے پسند نہیں فرمایا.لیکن منشی صاحب کی شرافت اور خاموش طبیعت کی تعریف فرمائی.منشی صاحب کی طرف سے واپسی کے لئے انتظام تھا ٹانگوں کا لیکن حضور نے فرمایا کہ ہم پیدل جائیں گے چنانچہ حضور پیدل تشریف لے گئے میں بھی ہمراہ تھا.حضرت اقدس کا منشی صاحب کو یاد کرنا حضرت عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں کہ

Page 407

385 ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جالندھر کے مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے.اور اکثر احباب بھی اس موقع پر آگئے تھے.ایسا کبھی ہوا ہی نہیں کہ حضور کسی مقام پر گئے ہوں اور احباب پروانوں کی طرح ادھر ادھر سے آ کر جمع نہ ہو گئے ہوں.ان آنے والوں میں دور ونزدیک یعنی فاصلہ اور خرچ کا سوال ہی نہ ہوتا تھا.ان کی ایک ہی غرض ہوتی تھی کہ روز واقعه پیش نگار خود باشم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قیام کسی قدر لمبا ہو گیا.اور احباب جو رخصت لے کر آئے تھے.یکے بعد دیگر کے رخصت ہوتے چلے گئے.یہاں تک کہ صرف منشی ظفر احمد صاحب رہ گئے.حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ حاجی پور سے روز آتے اور چلے جاتے ( تھے ).اس بارے میں منشی حبیب الرحمن صاحب کی ایک تحریر کا مخص یہ ہے: ( ۴۲ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ جالندھر تشریف لائے ہوئے تھے.اور حضور کو اپنے ایک کام کے لئے کسی کو بار بار ایک اور ضلع میں بھجوانا پڑتا تھا.ریل گاڑی کا انتظام نہ تھا.میں نے اپنا یکہ جس میں اپنی بگھی کی ایک مضبوط گھوڑی لگائی ہوئی تھی.حضور کے کام کی خاطر وہاں چھوڑ رکھا تھا.میں روز مرہ صبح حضور کی خدمت میں جالندھر چلا جاتا اور شام کو واپس آجاتا تھا.ایک دن میں کسی ضرورت کی وجہ سے نہ جاسکا.کپورتھلہ سے منشی ظفر احمد صاحب آئے ہوئے تھے.حضور نے فرمایا کہ آج حبیب الرحمن نہیں آیا.تم جا کر خبر لاؤ کہ خیریت ہے.دو پہر کونشی ظفر احمد (صاحب) حاجی پور آئے تو ( میرے ) نہ آنے کا سبب دریافت کیا کہ حضور کو فکر ہؤا کہ خلاف عادت تم نہیں گئے.اور بتایا کہ حضور کو ایک کام کے واسطے سات صد روپیہ درکار ہے.اس رقم کو جمع کرنے کے واسطے جماعت کپورتھلہ نے بھی کچھ دینا ہے.مجھے بہت خوشی ہوئی.“ " میں جانے کے لئے فوراً تیار ہو گیا.اور شام کو جالندھر پہنچا.اطلاع کرائی حضور نے اندر بلالیا.میں اندر گیا تو تیسری منزل پر تشریف لے گئے.جالندھر میں اس نیچے کی منزل میں مردانہ تھا اور دوسری منزل میں زنانہ.تیسری منزل خالی تھی.غرض حضور مجھے ( گویا بالکل علیحدگی میں ) لے گئے.اور اپنے معاملہ کی تفصیل بتائی اور میں نے ایک نقصان کا خدشہ اپنے مشورہ میں ظاہر کیا حضور نے فرمایا کہ سات سو روپیہ مطلوب ہے اور یہ روپیہ جمع کرنا ہے.میں جو تم اس غرض کے واسطے ہمراہ لے گیا تھا.(وہ ) پیش کی.حضور نے دعا کی.“ نا میں نے حاجی پور تشریف لے جانے کے واسطے عرض کیا تھا فرمایا کہ اس در پیش کام کے بعد ہم مع سب کے حاجی پور آجائیں گے.آپ کے یکہ ہی میں آئیں گے.اس لئے میں حاجی پور کو واپس چلا آیا اور اپنے

Page 408

386 متعلقین کو دوسرے مکان میں جو ملا ہوا تھا اور ( دونوں کے درمیان ) راستہ بھی تھا منتقل کر دیا اور ہر ایک سامان جمع کر دیا.کیونکہ حضور کا ارادہ حاجی پور میں پندرہ یوم قیام کا تھا.میں اور میرا کنبہ خوشی میں نہ سماتے تھے.میری والدہ صاحبہ مرحومہ بھی حیات تھیں.ان کو ہم سب سے زیادہ خوشی تھی.وہ خود ہر ضروری شے کا انتظام فرماتی تھیں.دو تین یوم تک انتظار کرنے کے بعد میں یکہ میں سوار ہو کر جالندھر کو گیا.چھیڑو کے پھاٹک کے پاس سے جب ایک گاڑی گزری تو پھاٹک بند تھا.جب میں جالندھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ حضور آج ہی لو دھیانہ تشریف لے گئے (ہیں) میں متفکر ہوا اور مجھے کچھ حال معلوم نہ ہوا.اس لئے دوسری گاڑی سے سیدھالو دھیانہ پہنچا.حضور نے ملاقات میں تفصیل سے اس معاملہ کے متعلق بتایا کہ خاکسار کا مشورہ درست نکلا اور حضور نقصان سے محفوظ رہے اور حاجی پور جانے کا موقع نہیں تھا.فرمایا کہ ہم سید ھے لودھیا نہ ہی چلے آئے جب آپ یکہ میں پھاٹک کے سامنے کھڑے تھے تو محمد سعید صاحب نے ہم کو بتلایا تھا.ہم نے کہا تھا کہ اشارہ کر دونگر آپ نے دیکھا نہیں.(قلمی کا پی صفحہ ۶۲ تا ۶۷) ☆ (۱) منشی صاحب نے شیخ عبدالرحمن صاحب کو لکھوایا تھا کہ حضور کی خاطر مکان میں سفیدی کروائی تھی اور گاؤں کے کچے راستہ کومٹی وغیرہ ڈلوا کر درست کرا دیا گیا تھا.اور چو پہیہ گھی کور دفن وغیرہ کروالیا گیا تھا.منشی صاحب کی اولاد نے آپ کی والدہ صاحبہ کا نام عائشہ بیگم بتایا ہے.(ب) مضمون منشی تنظیم الرحمن صاحب مصدقہ منجانب حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرقوم ہے کہ حضرت اقدس کی طرف سے بھجوانے پر منشی ظفر احمد صاحب حاجی پور پہنچے اور بتایا کہ حضور نے آج احباب سے چندہ کی خاص تحریک فرمائی ہے اور آپ کو بلوایا ہے.سوشی حبیب الرحمن صاحب کے پاس جتنی نقدی گھر میں تھی.ساتھ لے لی اور جالندھر جا کر حضور کی خدمت میں پیش کر دی اور پیش کردہ رقم ایک صد روپیہ سے کم تھی اور تحریک کردہ رقم میں بھی اس قدر تم کم تھی جتنی منشی حبیب الرحمن صاحب نے پیش کی تھی اور حضور نے فرمایا کہ بس اب ہماری تحریک پوری ہوگئی (۴۳) منشی حبیب الرحمن نے شیخ عبدالرحمن صاحب کو بتایا کہ میری پیش کردہ رقم بہتر روپے تھی.(ج) الحکم کے اس بیان میں یہ سہو ہے کہ تحریک کردہ رقم میں اسی قدر کمی تھی جو نشی حبیب الرحمن صاحب کی پیش کردہ رقم سے پوری ہوگئی.اس سہو کا دوامور سے ثبوت ملتا ہے.اول منشی ظفر احمد صاحب نے بتایا کہ آج اس رقم کی تحریک حضور نے فرمائی ہے اتنی خطیر رقم کا قریباً ایک دن میں جمع ہو جانا اس وقت کے حالات سے کم ہی ممکن ہے بلکہ امر دوم سے یقینی علم ہوتا ہے کہ وہ ابھی بالکل فراہم نہیں ہوئی تھی.(باقی اگلے صفحہ پر )

Page 409

387 منشی صاحب ایک نشان کے گواہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ایک پیشگوئی کے متعلق تحریر فرماتے ہیں : ۲۹ / جولائی ۱۸۹۷ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاعقہ مغرب کی طرف سے میرے مکان کی طرف چلی آتی ہے.جو بے آواز اور بے ضرر ایک روشن ستارہ کی مانند آہستہ حرکت کرتی ہوئی میرے مکان کی طرف متوجہ ہوئی ہے اور جب قریب پہنچی تو میری آنکھوں نے صرف ایک چھوٹا ستارہ دیکھا جس کو میرا دل صاعقہ سمجھتا تھا.الہام ہوا.ماهذ اإِلَّا تَهْدِيد الحُكّام یعنی یہ ایک مقدمہ ہوگا اور صرف حکام کی باز پرس تک پہنچ کر پھر نابود ہو جائے گا اور بعد اس کے الہام ہوا إِنِّي مَعَ الأفواج ۱ تیک بغتة يأاتیک نُصرتى إبراء إنّي انا الرحمن ذوالمجد و العلى یعنی میں اپنی فوجوں ( یعنی ملائکہ ) کے ساتھ نا گہانی طور پر تیرے پاس آؤں گا اور اس مقدمہ میں میری مدد تجھے پہنچے گی.میں انجام کار تجھے بری کروں گا.اور بے قصور ٹھہراؤں گا.میں ہی وہ رحمان ہوں جو بزرگی اور بلندی سے مخصوص ہے اور پھر ساتھ اس کے یہ الہام ہوا.بَلَجَتُ آ یا تی یعنی میرے نشان ظاہر ہوں گے اور ان کے ثبوت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوں گے اور پھر الہام ہو الواء فتح یعنی فتح کا جھنڈا پھر الہام ہوا انما امرنا اذ ا ا رَدْنَا شَيْئًا ان نَقُولَ لَهُ كُن فيكون اس پیشگوئی سے قبل از وقت پانسو آدمیوں کو خبر دی گئی تھی کہ ایسا ابتلاء آنے والا ہے.مگر آخر بریت ہوگی اور بقیہ حاشیہ: دوم- (بروئے بیان قلمی کاپی ) منشی حبیب الرحمن صاحب کو حضرت اقدس نے عند الملاقات فرمایا کہ سات صدر و پیه مطلوب ہے جو جمع کرنا ہے.گویا امر اول کی تصدیق اس تحریری بیان سے ہوتی ہے.(د) حضور کے جالندھر قریبا ایک ماہ کے قیام اور وہاں سے لدھیانہ جانے کا ذکر تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۲۷۵ میں بھی ہے منشی صاحب نے شیخ عبدالرحمن صاحب کو اتنے عرصہ کا قیام بتلایا تھا.حضور فروری ۱۸۹۲ء کے دوسرے ہفتہ میں سیالکوٹ تشریف لے گئے پھر وہاں سے کپورتھلہ جہاں دو ہفتہ قیام رہا.پھر جالندھر جا کر قریبا ایک ماہ قیام رہا اور وہاں سے لدھیانہ چلے گئے.جہاں سے مئی کے تیسرے ہفتہ میں قادیان مراجعت فرما ہوئے.تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۱۲۸۸ ۳۲۹۳۲۲۹۲-۴۲۹۴-۵۹۵)

Page 410

388 خدا تعالیٰ کا فضل ہوگا.چنانچہ میرے رسالہ کتاب البرية میں یہ تمام الہامات درج ہیں جو قبل از وقت دوستوں کو سنائے گئے اور پھر انہیں کے لئے کتاب البریہ بھی تالیف ہوئی.تا ہمیشہ کے لئے ان کو یادر ہے کہ جو کچھ قبل از مقدمہ ان دوستوں کو خبر دی گئی وہ سب باتیں کیسی صفائی سے ان کے روبروہی پوری ہو گئیں.یہ مقدمہ اس طرح سے ہوا کہ ایک شخص عبدالمجید نام نے عیسائیوں کے سکھلانے پر مجسٹریٹ ضلع امرتسر کے روبرو اظہار دیے کہ مجھے مرزا غلام احمد نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے.اس پر مجسٹریٹ امرتسر نے میری گرفتاری کے لئے یکم اگست کو وارنٹ جاری کیا ، جس کی خبر سن کر ہمارے مخالفین، امرتسر و بٹالہ میں ریل کے پلیٹ فارموں اور سڑکوں پر آ آ کر کھڑے ہوتے تھے تا کہ میری ذلت دیکھیں لیکن خدا کی قدرت ایسی ہوئی کہ اول تو وہ وارنٹ خدا جانے کہاں گم ہو گیا.دوم مجسٹریٹ ضلع امرتسر کو بعد میں خبر گی کہ اس نے غیر ضلع میں وارنٹ جاری کرنے میں بڑی غلطی کھائی ہے.پس اس نے ۶ راگست کو جلدی سے صاحب ضلع گورداسپور کو تار دیا کہ وارنٹ فور روک دو.جس پر سب حیران ہوئے کہ وارنٹ کیسا.لیکن مثل مقدمہ آنے پر صاحب ضلع گورداسپور نے ایک معمولی سمن کے ذریعہ مجھے بلایا اور عزت کے ساتھ اپنے پاس کرسی دی.یہ صاحب ضلع جس کا نام کپتان ایم ڈبلیوڈ گلس تھا.یہ سبب زیرک اور دانشمند اور منصف مزاج ہونے کے فورا سمجھ گیا کہ مقدمہ بے اصل اور جھوٹا ہے.اس لئے میں نے ایک دوسرے مقام میں اس کو پیلاطوس سے نسبت دی ہے.بلکہ مردانگی اور انصاف میں اس سے بڑھ کر لیکن خدا کا اور فضل یہ ہوا کہ خود عبدالمجید نے عدالت میں اقرار کر لیا کہ عیسائیوں نے مجھے سکھلا کر یہ اظہار دلایا تھا ورنہ یہ بیان سراسر جھوٹ ہے کہ مجھے قتل کرنے کے لئے ترغیب دی گئی تھی.پس صاحب ضلع نے اس آخری بیان کو صحیح سمجھا اور بڑے زور وشور کا چٹھا لکھ کر مجھے بری کر دیا اور تقسیم کے ساتھ عدالت میں مجھے مبارکباد دی - فــالـحـمـد الله علیٰ ذلک ،، (۴۴) یر الف نزول المسیح پیشگوئی نمبر ۶۰ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴ ۵۷ تا ۷ ۵۷ و حاشیہ اس نشان کے رویت کے زندہ گواہوں میں حضرت اقدس نے منشی ظفر احمد صاحب - میاں محمد خاں صاحب ہنسی محمد اروڑ ا صاحب و دیگر جماعت کپورتھلہ کے اسماء درج فرمائے ہیں یه فیصله ۲۲ را گست ۱۸۹۷ء کو سنایا گیا.اس سے ایک روز پہلے کی پیشی کے بارے منشی حبیب الرحمن صاحب نے بواسطہ شیخ عبدالرحمن صاحب بیان کیا کہ میں رات کو گورداسپور پہنچا تھا.(باقی اگلے صفحہ پر )

Page 411

389 کیپٹن ڈگلس نے مبارک باد دیتے ہوئے پوچھا کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر مقدمہ چلائیں.اگر چاہتے ہیں تو آپ کو حق ہے حضور نے فرمایا کہ میں کسی پر مقدمہ کرنا نہیں چاہتا.میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے.“ پیلاطوس ثانی ولیم ڈگلس نے چونکہ پیلاطوس اول کے برعکس بریت کا فیصلہ دے کر عدل وانصاف کا شاندار کارنامہ دکھایا تھا.اس لئے حضور نے بھی ان پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے متعدد تصانیف میں ان کی بیدار مغزی منصف مزاجی ، مردانگی حق پسندی اور خدا ترسی کی بے حد تعریف فرمائی ہے.چنانچہ ایک مقام پر حضور نے لکھا ہے : ” جب تک کہ دنیا قائم ہے اور جیسے جیسے یہ جماعت لاکھوں کروڑوں افراد تک پہنچے گی.ویسی ویسی تعریف کے ساتھ اس نیک نیت حاکم کا تذکرہ رہے گا.اور یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ خدا نے اس کام کے لئے اسی (۴۵) ،، بقیہ حاشیہ: اور نماز فجر میں حضور سے ملاقات ہوئی صبح ( گویا بوقت ناشتہ ) دس پندرہ انڈے لائے گئے.حضور نے کئی انڈے توڑے لیکن حضور نے غالباً کل ایک دو ماشہ انڈہ کھا ہو گا.( دوسروں نے بطور تبرک لے لئے یا حضور نے دوسروں کو دیدیئے.مولف ہذا) دس بجے کے قریب میں نے عرض کیا کہ حضور ! دس بجنے والے ہیں انگریز وقت کے پابند ہوتے ہیں، چلنا چاہیے.حضور ایک وکیل کی کوٹھی کے باغ میں قیام فرما تھے.برسات کا موسم تھا.پانی ہی پانی تھا.نماز فجر کے بعد بارش بہت موسلا د ہار ہونے لگی تھی.میری بات سن کر فرمایا بہت ٹھیک ہے فوراً کھڑے ہو گئے اور پا پیادہ ہی کچہری کو روانہ ہونے لگے اور بارش یکلخت بند ہوگئی یا تو موسلا د ہار بارش تھی.یا ایک بوند بھی نہ تھی.حضور کچہری پہنچے ہی تھے کہ عین وقت پر کپتان ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ آگئے اور مقدمہ کی سماعت شروع ہو گئی.بارش پھر شروع ہوئی اور چار بجے شام تک ختم ہو کر آئندہ روز کی تاریخ پڑی.حضور روانہ ہونے کے لئے باہر نکلے تو بار ش پھر بالکل تھم گئی اور آپ جائے قیام پر پہنچ گئے.حالات مقدمہ سے معلوم ہو گیا تھا کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہو گا.دوسرے روز صرف فیصلہ ہی سنایا جاتا تھا.میری بڑی لڑکی بیمارتھی میں نے حضور سے اجازت چاہی اور لڑکی کی صحت کے لئے دعا کے لئے عرض کیا.فرمایا کہ میں دعا کروں گا.جب میں حاجی پور واپس پہنچا تو لڑکی کو صحت تھی

Page 412

390 ممدوح نے بعمر ۹۳ سال ۲۵ رفروری ۱۹۵۷ء کو لندن میں انتقال فرمایا.(۴۶) ان کے ذہن میں آخر تک اس مقدمہ کے واقعات پوری طرح محفوظ تھے.اور وہ جب تک زندہ رہے اپنی زندگی کے اس اہم ترین واقعہ کا تذکرہ کرتے رہے اور ہر احمدی ملاقاتی کو اس واقعہ کی تفصیل ضرور سناتے اور نہایت عقیدتمندانہ لب ولہجہ میں کہتے کہ میں نے مرزا صاحب کو دیکھتے ہی یقین کر لیا تھا کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول سکتا.ایک مرتبہ یوم التبلیغ کی تقریب پر انہوں نے مسجد احمد یہ لندن میں اپنی صدارتی تقریر میں احمدی نو جوانوں کو یہ پیغام دیا کہ ” مجھ سے بار ہا سوال کیا گیا ہے کہ احمدیت کا سب سے بڑا مقصد کیا ہے.؟ میں اس سوال کا یہی جواب دیتا ہوں کہ اسلام میں روحانیت کی روح پھونکنا.بانی جماعت احمدیہ نے آج سے پچاس برس پیشتر یہ معلوم کر لیا تھا کہ موجودہ زمانہ میں مذہب اور سائنس کا میلان کس طرف ہو گا.احمدیت کا ایک مقصد اسلام کو موجودہ زمانہ کی زندگی کے مطابق پیش کرنا ہے.میں نے جب ۱۸۹۷ء میں بانی جماعت احمدیہ کے خلاف مقدمہ کی سماعت کی تھی اس وقت جماعت کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی.لیکن آج دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے.پچاس سال کے عرصہ میں یہ نہایت شاندار کامیابی ہے اور مجھے یقین ہے کہ موجودہ نسل کے نوجوان اس کی طرف زیادہ توجہ دیں گے اور آئندہ پچاس سال کے عرصہ میں جماعت کی تعداد بہت بڑھ جائے گی.(۴۷) بمقام امرتسر مباحثہ آتھم و مباہلہ (۱) مباحثہ آتھم.پادری ڈا کٹر ہنری مارٹن کلارک جنڈیالہ ضلع امرتسر آئے جہاں زبر دست مسیحی مشن تھا.اور ایک مسلمان پاندہ کو کہا کہ آپ کے شاگردوں کا مسیحی منادوں کو تنگ کرنا بے فائدہ ہے.یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ دین حق کونسا ہے.ایک جلسہ میں مولویوں کو بلا ؤ.اس بارے میں پاندہ صاحب نے تحریک کی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباحثہ پر آمادگی ظاہر کی اور پاندہ صاحب اور پادری صاحب کو تحریر کیا کہ اگر جنڈیالہ یا امرتسر یا بٹالہ میں جلسہ ہو تو ہم اپنے خرچ پر آئیں گے کسی پر بوجھ نہیں بنیں گے اور اگر پادری صاحبان آئیں تو ان کا سارا خرچ سفر اور خوراک وغیرہ کا ہمارے ذمہ ہوگا.پھر پاندہ صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ مولوی صاحبان سفر خرچ اور انعام طلب کرتے ہیں ان میں ذرہ بھر للہیت نہیں.آپ خالصاً لوجہ اللہ کا م کرتے ہیں میں آپ کو آنے کی تکلیف دیتا ہوں.نمائندہ میسحیت ڈپٹی آتھم کے ساتھ بحث طے ہونے کا علم ہونے پر بعض مولویوں نے آتھم سے کہا کہ

Page 413

391 آپ ہم سے مباحثہ کریں مرزا صاحب کو تو علماء کا فرقرار دینے کا فتوی دے چکے ہیں.آتھم نے ڈاکٹر کلارک سے کہا کہ مرزا صاحب سے بحث کرنا کوئی آسان نہیں.بھڑوں کے چھتہ میں ہاتھ ڈالنا ہے.چنانچہ عذر ہاتھ آنے پر پادریوں نے حضرت اقدس کو لکھا کہ آپ بحث کے لئے آنے کی تکلیف نہ کریں.آپ اسلام کے نمائندہ نہیں دیگر مسلمان آپ کو کافر کہتے ہیں.دوسرے مولوی بحث کے لئے آمادہ ہو گئے ہیں.ہم ان ہی سے بحث کریں گے حضور نے جواب دیا کہ فتاوی کفر کے لحاظ سے ہم دونوں برابر ہیں پروٹسٹنٹ فرقہ کو کیتھولک فرقہ کے لوگ کافر بلکہ واجب القتل یقین کرتے ہیں.ہم بفضل تعالیٰ مسلمان ہیں اور ایک خدا ترس اور عالم فاضل مسلمانوں کی جماعت ہمارے ساتھ ہے.میرے ساتھ بحث طے ہونے کے بعد اپنی شکست تسلیم کر لو تو بے شک اور جس سے چاہو بحث کرلو.سو یہ تحریری مباحثہ پندرہ روز ۲۲ رمئی تا ۵/جون ۱۸۹۳ء ڈاکٹر کلارک کی وسیع کوٹھی میں ہوا.بذریعہ ٹکٹ فریقین کے صرف پچاس پچاس افراد کو شمولیت کی اجازت تھی.پرچے لکھے جانے پر سنائے جاتے.حضرت اقدس کی طرف سے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی لطف و وجد پا کر نہایت عمدگی سے سناتے تھے.چونکہ احاطہ کے باہر سینکڑوں افراد اس بحث کی وجہ سے جمع ہو جاتے تھے.اس لئے شیخ نور احمد صاحب فریقین کی اجازت سے روزانہ پرچے افادہ عام کے لئے چھپوا دیتے اور شائقین خرید لیتے تھے.حضرت اقدس نے یہ لکھوایا کہ ایک عاجز انسان جو عورت کے پیٹ میں نو ماہ رہا اور خون حیض سے پرورش پا کر عام انسانوں کی طرح پیدا ہوا کیا تم اسے خدا مانتے ہو اور کیا وہ خدا ہوسکتا ہے؟ اس پر پادری اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہم اپنے خداوند یسوع کے متعلق یہ الفاظ نہیں سننا چاہتے.مرزا صاحب ہماری گردنوں پر تلوار میں چلا رہے ہیں.اور مباحثہ چھوڑ کر چلنے کو تیار ہو گئے تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ تو اب بھاگیں گے.میں جو لکھواتا ہوں لکھتے جاؤ.ڈاکٹر کلارک نے کہا کہ میں تو سمجھتا تھا کہ مسلمانوں میں شور اٹھے گا لیکن الٹا عیسائیوں میں ہی شور پڑ گیا اور عیسائیوں سے کہا کہ بیٹھ جاؤ.اب تمہارا بھا گنا بے فائدہ ہے.ایک یہ عجیب بات ہوئی کہ آتھم نے لکھوایا کہ مسیح تمیں برس تک عام انسانوں کی طرح تھا جب اس پر روح القدس نازل ہوا تو وہ مظہر اللہ کہلایا.اس پر حضرت اقدس نے جوابا لکھوایا کہ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ مسیح انسان اور نبی تھا.جب کسی انسان پر روح القدس نازل ہوتا ہے تو وہ مظہر اللہ یعنی نبی بن جاتا ہے.یہ بات سن کر عیسائیوں کے رنگ فق ہو گئے اور ڈاکٹر کلارک صاحب اور آتھم صاحب بھی گھبرا گئے.دوران مباحثہ ایک عجیب واقعہ یہ ہوا کہ عیسائیوں نے خفیہ طور پر ایک اندھا.ایک بہرہ اور ایک لنگڑ الا کر

Page 414

392 ایک طرف بٹھا دیئے.اور مباحثہ میں حضور سے کہا گیا کہ لیجئے مسیح کی طرح ان کو ہاتھ لگا کر اچھا کر دیجیئے.لوگ حیران تھے کہ اب حضرت اقدس کیا جواب دیں گے.حضور نے لکھوایا کہ میں مسیح کے ایسے معجزہ کا قائل نہیں اگر آپ قائل ہیں اور دوسری طرف آپ کا یہ بھی ایمان ہے کہ جس شخص میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہے وہ وہی کچھ دکھا سکتا ہے.جو مسیح دکھا سکتے تھے.میں شکر گزار ہوں کہ مجھے ایسے بہاروں کی تلاش سے آپ نے بچالیا.اب آپ ہی کا تحفہ آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.اگر آپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہے تو مسیح کی طرح آپ ان کو چنگا کر دیں یہ جواب سن کر پادریوں کی ہوائیاں اڑ گئیں.اور انہوں نے جھٹ اشارہ سے ان لوگوں کو وہاں سے رخصت کر دیا.☆ (۲) مباہلہ منشی حبیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں.” جب عبد اللہ آتھم کے ساتھ جو مباحثہ ہوا میں ساتھ تھا.درمیان میں واپسی کے لئے اجازت طلب کرنے پر فرمایا کہ پرسوں کو مباہلہ ہوگا اس میں ضرور شامل ہوں.چنانچہ میں مباہلہ کے وقت موجود تھا اور شامل مباہلہ ہو ا تھا.دعا کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب مرحوم خلیفہ اول پر بے خودی طاری ہو گئی تھی.مولوی محمد حسین بٹالوی اس میدانِ عید گاہ میں جہاں مباہلہ ہو ا تھا.موجود تھا.لیکن مباہلہ کے وقت دور جا کر وعظ کرنے لگا، شامل نہیں ہوا، مباہلہ کے بعد حضور علیہ السلام نے مولوی محمد حسین کے پاس پیغام بھیجا کہ تم بھی مباہلہ کر لو.اب میں آیا ہوا ہوں مگر اس نے انکار کیا اور اس جگہ سے بھی چلا گیا.( قلمی کا پی ۶۲) مباحثہ آتھم کے بعد مولویوں نے پھر شور مچایا کہ عیسائیوں کے ساتھ تو بحث ہو چکی اب ہمارے ساتھ بحث کر لو.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی لاہور سے ایک اشتہار بھیجا کہ میں مباہلہ کے لئے امرتسر آتا ہوں صرف مباہلہ ہوگا کوئی تقریر نہ ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جوابا ایک اشتہار میں لکھا کہ مولوی صاحب مجھ سے ہرگز مباہلہ نہیں کریں گے اور میرے سامنے تک نہیں آئیں گے.دوسرے دن جو مباہلہ قرار پاچکا تھا.عیدگاہ میں بہت ہجوم ہو گیا.اور مولوی محمد حسین صاحب بھی اسی ہجوم میں اچھے فاصلہ پر جا کھڑے ہوئے لوگوں کا خیال تھا کہ مولوی صاحب جو تقریر کرنے لگے ہیں اس کے بعد وہ مباہلہ کریں گے مرزا صاحب نے لکھا تھا کہ یہ روایت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب (سیرۃ المہدی حصہ اوّل نمبر ۱۷۶) منشی حبیب الرحمن صاحب بیان کرتے تھے کہ اس مباحثہ کے سلسلہ میں یہ واقعہ میرا چشمدید ہے.(بیان بواسطه مولوی محب الرحمن صاحب) قلمی کاپی کے بیان میں (جو مباہلہ امرتسر کے سلسلہ میں آگے درج ہے) منشی صاحب اس مباحثہ میں اپنا موجود ہونا بیان کرتے ہیں.

Page 415

393 میرے سامنے مباہلہ کے لئے نہیں آئیں گے یہ تو آگئے.جب انہوں نے آدھ پون گھنٹہ تقریر میں گزار دیا تو مولوی عبدالحق صاحب مباہلہ کے لئے آگے بڑھے.حضور نے مباہلہ کی وہ دعا انہی الفاظ میں زور سے پڑھی جو مولوی عبدالحق صاحب نے لکھ کر دئے تھے.شیخ نوراحمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں بھی پاس ہی کھڑا تھا.حضور نے اور سب نے اور میں نے بھی الفاظ دعا سن کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے.حضور کی دعا کا لوگوں پر بہت اثر ہوا.غزنوی مولویوں اور ان کے معتقدین میں سے ایک شخص چیخ مار کر روتے ہوئے حضور کے قدموں میں آپڑا اور اس نے بیعت کے لئے عرض کیا یہ نظارہ دیکھ کر تمام غزنویوں اور ان کے معتقدین کے ہوش اڑ گئے اور مولوی محمد حسین صاحب تو خدا جانے کہاں غائب ہو گئے.اس پر لوگوں کو یقین ہوا کہ حضرت مرزا صاحب کی بات سچی ہوئی کہ مولوی محمد حسین صاحب مباہلہ کے لئے نہیں آئیں گے.عبدالحق صاحب غزنوی نے کوئی دعا نہ کی.مولویوں نے پھر شور مچایا کہ ہم سے بحث ہونی چاہئیے.اس پر حضور نے ایک اشتہار شائع کیا کہ جن مولوی صاحب نے بحث کرنی ہو وہ کوئی مقام تجویز کریں ہم تیسرے روز یہاں سے چلے جائیں گے.خواجہ یوسف شاہ صاحب رئیس امرتسر نے مولویوں کو کہا کہ اب بحث کیوں نہیں کرتے ؟ جب وہ چلے جائیں گے تو شور مچاؤ گے کہ مرزا صاحب بھاگ گئے.انہوں نے جواب دیا کہ ہم بحث کریں گے پہلے ہم باہم مشورہ کر لیں لیکن مولویوں کو مولوی محمد حسین صاحب نے ڈرا رکھا تھا کہ تم میں سے کوئی بھی مرزا صاحب سے بحث نہیں کر سکتا.ذراسی دیر میں وہ تمہیں قابو کر لیں گے اور ایک دو باتوں میں تمہارا ناطقہ بند کر دیں گے.بہتر ہے کہ کسی بہانہ سے بحث کو ٹال دیا جائے.چنانچہ یہ علمائے امرتسر مسجد محمد جان کے نیچے کے حجرہ میں جابیٹھے اور مؤذن سے دروازہ باہر سے مقفل کرواتے ہوئی اسے ہدایت دی کہ جو کوئی ہمارے متعلق پوچھے تو کہہ دینا کہ وہ کہیں دعوت میں گئے ہیں.خواجہ صاحب ان مولویوں کی تلاش میں اس مسجد میں آئے تو ان کو مؤذن نے یہی جواب دیا.وہ مولوی عبدالجبار صاحب کے پاس گئے تو ان سے بھی یہی جواب ملا.اس پر خواجہ صاحب نے کہا کہ آج کا دن بحث کا تھا اور سب مولوی دعوت میں چلے گئے یہاں کوئی بھی نہیں.مرزا صاحب کے جانے کے بعد مولوی شور مچائیں گے مولوی کب بحث کریں گے؟ یہ معلوم کرتے ہوئے کہ کہاں دعوت ہے.اس مسجد میں آگئے کسی سے مولویوں کے اس حجرہ میں بند ہونے کا ان کو علم ہوا تو انہوں نے مؤذن سے چابی لے کر اسے کھولا تو دیکھا کہ سب مولوی اس حجرہ میں بیٹھے ہیں.مولویوں کا رنگ زرد ہو گیا اور وہ کانپنے لگے.خواجہ صاحب نے کہا کہ آج بحث کا دن ہے اور تم چھپ کر بیٹھے ہو اور کل مرزا صاحب چلے جائیں

Page 416

394 گے.بحث کب ہوگی؟ مولویوں نے کھیسانے ہو کر کہا کہ ہم مشورہ کر رہے ہیں آپ تسلی رکھیں.تھوڑی دیر میں ہم آپ کو اطلاع دیں گے.خواجہ صاحب چلے گئے اور مولویوں میں یہ مشورہ ہوا کہ ایک اشتہار چھپوالو کہ مرزا صاحب نے بحث نہیں کی اور بھاگ گئے اور علماء کے مقابلہ پر نہ آئے جس وقت مرزا صاحب اسٹیشن پر پہنچ جائیں تو اشتہار لگا دوتا ہماری بات بنی رہے.خواجہ صاحب یہ معلوم کر کے خاموش ہوگئے کہ مولوی بحث نہیں کریں گے اور در حقیقت کر ہی نہیں سکتے.چنانچہ حضور کی روانگی پر حضور کی سواری (گاڑی ) کے پیچھے پیچھے مولوی صاحبان اس اشتہار کوتقسیم کرتے جاتے اور دیواروں پر بھی چسپاں کرتے اور کہتے جاتے تھے کہ مرزا بھاگ گیا.بھاگ گیا.چند روز بعد یہ مولوی جمع ہوئے اور مشورہ کیا کہ مرزا صاحب کے مقابلہ میں کون کھڑا ہو.اس بارے میں ان میں اتفاق نہ تھا.ایک نے یہ مشورہ دیا کہ بحث سے انکار نہیں کرنا چاہیئے بلکہ یہ کھو کہ کابل یا مکہ معظمہ ومدینہ منورہ میں چل کر بحث کرنی چاہیئے اس طرح یہ ہوگا کہ نہ وہ وہاں جائیں گے.نہ مباحثہ ہوگا.نتیجہ مباہلہ و مباحثہ.اس مباہلہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت سی برکات سے (۴۸) نواز ا چنانچہ حضور بیان فرماتے ہیں کہ.آتھم کے بارے میری پیشگوئی پوری ہوئی.پادریوں اور مولویوں کی عزت میں میرے عربی رسائل سے کمی آئی جو میں نے مباہلہ کے بعد تصنیف کئے تھے.اس مباہلہ سے پہلے اس سلسلہ کی راہ میں جانفشانی کرنے والے افراد کی تعداد تین چار سو تھی جو مباہلہ کے بعد آٹھ ہزار سے زائد ہوگئی.موعودہ کسوف و خسوف ماہ رمضان میں وقوع میں آ کر میری عزت کا باعث ہوا اور علم قرآن میں اتمام حجت بھی.بعد مباہلہ مولوی عبدالحق صاحب نے اشتہار دیا کہ اس کے ہاں لڑکا ہوگا.لیکن لڑکا پیدا نہ ہوا لیکن میرے اشتہار کے مطابق مجھے شریف احمد بیٹا عطا ہوا.راستباز بندوں نے میری خدمت کے لئے جو مخلصانہ جوش دکھلایا وہ میری قبولیت و توقیر کا باعث ہوا نیز اس درویش خانہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے مالی فتوحات دیں جو ربانی کام پر صرف ہوئیں.ست بچن کتاب کی تالیف کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے سامان عطا کئے جو تین سو برس سے کسی کے خیال میں بھی نہ آئے ہوں گے.قریباً آٹھ ہزار افراد کا میرے ہاتھ پر تو بہ کر کے بیعت کرنے کا قبولیت کا نشان مجھے عطا ہوا جو رضائے الہی کے بعد حاصل ہوتی ہے.جلسہ مذاہب لاہور میں مجھے اور میرے مضمون (اسلامی اصول کی فلاسفی ) کو بہت دلی جوش سے اور نگاہ عظمت سے دیکھا گیا سب لوگ بے اختیار بول اٹھے کہ اگر یہ مضمون نہ ہوتا تو اسلام کو مولوی محمد حسین صاحب وغیرہ سے سبکی کا سامنا ہوتا.دو اسی سلسلہ میں حضور رقم فرماتے ہیں کہ.میں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقومی ترقی پذیر ہے.اور ایام

Page 417

395 مباہلہ کے بعد گویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہو گیا ہے.میں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں.نا پاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں.اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں.”اب ہمارے مخالفین کو سوچنا چاہیے کہ اس باغ کی ترقی اور سرسبزی عبدالحق کے مباہلہ کے بعد کس قدر ہوئی ہے.یہ خدا کی قدرت نے کیا ہے.جس کی آنکھیں ہوں وہ دیکھے.ہماری امرتسر کی مخلص جماعت ، ہماری سیالکوٹ کی مخلص جماعت ، ہماری کپورتھلہ کی مخلص جماعت، ہماری ہندوستان کے شہروں کی مخلص جماعتیں وہ نو را خلاص اور محبت اپنے اندر رکھتی ہیں کہ اگر ایک بافر است آدمی ایک مجمع میں ان کے منہ دیکھے تو یقینا سمجھ لے گا کہ یہ خدا کا ایک معجزہ ہے جو ایسے اخلاص ان کے دل میں بھر دیے.ان کے چہروں پر ان کی محبت کے نور چمک رہے ہیں وہ ایک پہلی جماعت ہے جس کو خدا صدق کا نمونہ دکھلانے کے لئے طیار کر رہا ہے.جماعت احمدیہ کے بنیادی احوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک سولہ صفحات کے مفصل اشتہار میں ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء کو حکومت کے لئے اپنی جماعت کے حالات بیان کرتے ہوئے رقم فرمایا ہے کہ.میں ایک نئے فرقہ کا پیشوا اور امام ہوں جو پنجاب اور ہندوستان کے اکثر شہروں میں زور سے پھیلتا جا رہا ہے.اور بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور رؤسا فقیر ہم کا ایک گروہ کثیر اس میں شامل ہو گیا ہے.چونکہ ہر نئے فرقہ کے اندرونی حالات کے بارے جاننے کی ضرورت گورنمنٹ کو ہوتی ہے.اور امکان ہے کہ مخالفین کی طرف سے خلاف واقعہ خبریں پہنچانے سے حکومت بدظنی کی طرف مائل ہو اس لئے میں نے قرین مصلحت سمجھا کہ اپنی جماعت کے حالات سے لیفٹینٹ گورنر صاحب پنجاب کو آگاہ کروں.ہماری جماعت جاہلوں اور وحشیوں کی جماعت نہیں.نہ باغیانہ خیالات رکھتی ہے.پادریوں نے نہایت دلآزار حملے کئے اور توہین آمیز اور فتنہ انگیز کتابیں مثل ” امہات المؤمنین یعنی دربار مصطفائی کے اسرار شائع کر کے مسلمانوں میں کثرت سے پھیلا کر دل آزاری کی لیکن ہم حکومت کے مساویانہ سلوک کو قابل تعریف یقین جانتے ہیں کہ باوجود حکومت کے عیسائی ہونے کے ہمیں پورے طور پر مدافعت اسلام کی گویا مذہبی آزادی حاصل ہوئی.اور حکومت نے پادریوں کا پاس نہیں کیا.انجام آنتم ضمیمہ روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۳۱۵.اس ضمیمہ میں حضرت اقدس نے تین سو تیرہ مخلص صحابہ امثال صحابہ بدر کی فہرست شامل فرماتی ہیں.جس میں منشی صاحب اور دیگر اصحاب کپورتھلہ کے اسماء بھی درج ہیں.

Page 418

396 میں کسی خونی مہدی کی آمد کا قائل نہیں میرا دعوای ایسے مسیح موعود ہونے کا ہے.جو حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح غربت کے ساتھ زندگی بسر کرے گا.اور نرمی اور صلح کاری اور امن کے ساتھ خدائے ذوالجلال کا چہرہ دکھلائے گا.میرے ماننے والوں کی تعداد بڑھنے سے ایسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مان لینا ہی ایسے مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے.میرے بڑے اصول پانچ ہیں : اول : اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک اور ہر نقص موت وغیرہ سے پاک سمجھنا.دوم: منجانب اللہ قائم شدہ سلسلہ نبوۃ کا خاتم اور آخری شریعت لانے والا اور نجات کی حقیقی راہ بتلانے والاحضرت سیدنا ومولانامحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین رکھنا.سوم محض ولائل عقلیہ اور نشانات سماویہ سے دین اسلام کی دعوت دینا اور جہادکو اس زمانہ کے لئے ممتنع سمجھنا.چهارم : گورنمنٹ کے خلاف باغیانہ خیالات نہ رکھنا.پنجم : بنی نوع انسان سے ہمدردی رکھنا صلح کاری اور امن کا مؤید ہونا اور نیک اخلاق پھیلانا.نیز حضور رقم فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت نیک نام معزز عہدوں پر ممتاز افراد، رؤسا اور ان کے خدام واحباب ، تاجران و وکلاء ، نو تعلیم یافتہ انگریزی خواں اور علماء، فضلاء اور دیگر شرفاء یا غریب طبع سجادہ نشینوں وغیرہ ہم پرمشتمل ہے.(۴۹) حضور نے اس درخواست کے ساتھ تین سوسولہ اسمائے مریدین شامل فرمائے تا کہ بلاوجہ کوئی شخص جماعت احمد یہ کی آبروریزی کے لئے دلیری نہ کر سکے.ان میں نمبر ۶۳ اپر و منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور کپورتھلہ کا اسم گرامی بھی شامل ہے.* کتاب ” آریہ دھرم میں منشی صاحب کا ذکر آٹھ نوصد مسلمانوں کی طرف سے جن میں ”میاں حبیب الرحمن صاحب مالک و نمبر دار موضع حاجی پور سمیت کپورتھلہ کے ایک درجن احباب شامل تھے.۲۲ ستمبر ۱۸۹۸ء کو ایک اشتہار میں پادری صاحبان وغیر ہم کو نوٹس دے کر توجہ دلائی گئی کہ ہم سب پر فرض ہے کہ مذہبی مباحثات میں ناحق دوسروں کا دل نہ دکھایا جائے اور ایسی کتابوں کے حوالے پیش نہ کئے جائیں جو فریق مقابل کی مسلمہ نہ ہوں یا ایسے اعتراضات پیش نہ کئے جائیں جو خود اعتراض کنندہ کے مذہب پر وارد ہوتے ہوں.نیز حکومت کی خدمت میں بہ تاکید گزارش کی گئی تھی کہ قانون یا سرکلر اس فہرست میں دیگر آٹھ احباب کپور تھلہ کے نام بھی شامل ہیں.منشی صاحب کا نام صفحہ ۲۴ میں کالم اپر درج ہے.

Page 419

397 کے ذریعہ اہل مذہب کو ان امور کا پابند کیا جائے.(۵۰) حقہ سے حضرت اقدس کو نفرت منشی صاحب لکھتے ہیں کہ : جالندھر کی رہائش میں حضور نماز مغرب زنانہ مکان میں پڑھ رہے تھے حضرت ام المومنین بھی نماز میں مصروف تھیں.کسی خادمہ نے حقہ رکھا اور کسی کام کو چلی گئی.آگ فرش پر گر گئی تو فرش کا کچھ حصہ جل گیا.نماز سے فارغ ہو کر دیکھا اور بجھایا گیا ) اس وقت حضور نے حقہ پینے والوں سے ناراضگی سے اظہار نفرت فرمایا تو نیچے تک اطلاع پہنچی.کئی آدمی حقہ پیتے تھے.اور ان کے حقے مکان میں موجود تھے.جب اس ناراضگی کا ان کو علم ہوا تو سب حقہ والوں نے اپنے حقے تو ڑ دیئے اور پینا ترک کر دیا.اس دن سے جماعت کو بھی معلوم ہوا کہ حضور حقہ کو نا پسند فرماتے ہیں.تو بہت سے باہمت احمدیوں نے حقہ پینا ترک کر دیا.( قلمی کا پی صفہ ۲۲) * ایک رمضان شریف کا آخری عشرہ قادیان میں گزارنا منشی حبیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ : ایک دفعہ میں نے رمضان شریف کا آخری عشرہ قادیان میں گذارا.ان دنوں میں حضور علیہ السلام کو تپ لرزہ یومیہ آتا تھا.ظہر کے بعد لرزہ سے تپ ہو جاتا تھا.اس لئے ظہر کے وقت حضور جماعت میں شریک ہوا کرتے تھے اور باقی نمازوں میں شریک نہیں ہو سکتے تھے.ظہر سے پہلے کبھی کبھی بانتظار نماز یاں بیٹھتے تھے.میری عادت تھی کہ میں ضرور اس جگہ پہنچ جایا کرتا تھا.جہاں حضور بیٹھتے تھے.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں دور رہا ہوں اگر ایسا اتفاق ہوتا بھی جو صرف ایک دفعہ ہوا تو خدا تعالی کوئی نہ کوئی سامان کر دیتا کہ میں قریب پہنچ جاؤں.غرض جب حضور ظہر کی نماز کے واسطے تشریف لاتے میں طبیعت کا حال دریافت کرتا تو فرماتے کہ سردی معلوم ہورہی ہے.بعض دفعہ فرماتے کہ نماز پڑھو.سردی زیادہ معلوم ہورہی ہے.مگر باوجود علالت کے حضور روزہ برابر رکھتے تھے.ایک دن میں نے عرض کیا کہ آپ کی تکلیف ہے اور کئی دن ہو گئے ہیں.اگر روزہ افطار کر دیا (یعنی بوقت بخار کھول یا تو ڑ لیا) کریں (تو بہتر ہو ) فرمایا کہ روزہ کی وجہ سے کچھ تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے بلکہ ☆ حضرت اقدس نے جالندھر میں منشی حبیب الرحمن صاحب کو نشی ظفر احمد صاحب کو بھجوا کر بلوایا تھا.یہ روایت الگ درج ہے.یہ۱۸۹۲ء کی بات ہے.اسی قیام جالندھر کے سلسلہ میں یہ حقہ والی روایت منشی صاحب نے درج کی ہے.

Page 420

398 آرام معلوم ہوتا ہے.بھوک پیاس کچھ معلوم نہیں ہوتی.رات کو البتہ کچھ زیادہ تکلیف ہوتی ہے.اس لئے روزہ رکھ لیتا ہوں.صبح کو تپ اتر جا تا تھا تو حضور سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے.(قلمی کا پی صفہ ۵۲ تا ۵۴ ) نسخه سر منه مقوى بصر منشی حبیب الرحمن صاحب تحریر کرتے ہیں: د منشی ظفر احمد ( صاحب ساکن) کپورتھلہ کے والد صاحب مرحوم کی بینائی کم ہو گئی تھی.انہوں نے حضرت سے تذکرہ کیا تو حضور نے دو قسم کے سرمے بنا کر لگانے کا ارشادفرمایا جو ذیل میں لکھتا ہوں : (۱) سُرمہ اچھی قسم کا لے کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر لیا جاے.سرس کی موٹی لکڑی جس کا قطر آٹھ دس انچ ہو اور تین ہاتھ لمبی ہو اس کی لمبائی کے درمیان ایک گڑھا کھود کر اس میں سرمہ بھر دیا جائے اور اس پر وہ لکڑی ( جو ) نکالی گئی ہے رکھ کر مٹی سے بند کر دیا جاوے اور لکڑی کی دونوں طرف پا تھیاں (اوپہلے ) رکھ کر آگ لگادی جائے لکڑی تازہ یعنی گیلی ہو.جب دونوں طرف سے آگ جلتی جلتی سرمہ کی جگہ سے قریب آجائے تو سرمہ نکال لیا جاوئے اور پیس کر استعمال کیا جاوے.(۲) تل کا پھول جمع کر کے اس کا پانی نکال لیا جائے اور وہ پانی سرمہ میں ڈال کر کھرل کیا جائے جب ☆ خشک ہو جائے ، استعمال کیا جائے.فر مایا کہ آپ یعنی خاکسار آسانی سے یہ سرمے تیار کر سکتے ہیں.چنانچہ میں نے سرس کی لکڑی میں سرمہ تیار کر کے منشی ظفر احمد (صاحب) کو دیا تھا.چونکہ دیرینہ بات ہے.اس لئے اس کا نتیجہ یاد نہیں رہا.“ حضرت اقدس کی غذا حضور کی غذا کے بارے منشی حبیب الرحمن صاحب تحریر کرتے ہیں.( قلمی کا پی صفحہ ۷۶ ۷۷ ) گوشت اور تنور کی روٹی اور کبھی دال اور کبھی پلاؤ وغیرہ.حضور کی غذا خاص نہ ہوتی تھی.(اوپلے ) کا حصہ دریدہ ہے صرف ’دا‘ باقی ہے.نیز اس صفحہ کی آخری سفر دریدہ ہے تسلسل عبارت کو طرف سے آگ کے ساتھ مکمل کیا ہے.صفحہ ۷۳ موجود نہیں صفحہ ۷۴، ۷۵ والا ورق دریدہ ہے جو حصہ موجود ہے نقل کر دیا گیا ہے.دریدہ حصہ کو خطوط وحدانی والے الفاظ سے مکمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے.جہاں تکمیل ممکن نہ تھی نقطے ڈال دئے گئے ہیں.

Page 421

399 چونکہ حضور کو دماغی کام زیادہ کرنا پڑتا تھا.اس لئے حضور کے خادم اکثر عرض کرتے کہ کوئی مقوی غذا ہونی چاہئیے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو اس کا بہت خیال رہا کرتا تھا.ایک دن دستر خوان پر میں حضور کے پاس تھا اور دوسری طرف خواجہ کمال الدین صاحب تھے.دستر خوان پر کھانا رکھا گیا.ہمیں چھپیں آدمی تھے.سب کے سامنے گوشت تنوری روٹی بعض کے سامنے چاول کیونکہ ہر ایک ( کی عادت کے مطابق ہی کھانا تیار ہوتا تھا.جس کی مہمان فرمائش کرے.حضور کے سامنے گوشت کا ظرف نہیں رکھا گیا.آخر میں ایک برتن میں ایک اور چیز جو گوشت نہ تھا، رکھی گئی اور توے کی روٹی.غالباً حضور تنوری روٹی نہیں کھاتے تھے کیونکہ نقصان کرتی تھی.میں نے یہ دیکھ کر کہ حضور کے سامنے دوسری چیز ہے، یہ سمجھا کہ اب کسی مقوی غذا کے ( تیار کرنے کا انتظام ہو گیا ہے.دل میں خوشی ہوئی کھانا شروع ہو ا حضور نے ایک روٹی لے کر اس پیالہ میں سے.اس روٹی پر رکھا اور خواجہ کمال الدین (صاحب)....اس پر بھی پیالہ میں.خشک تھا.دوسری دفعہ مقوی غذا کو کہا تو شلجم کا بھرتا تھا.اس میں روغن زرد بھی تھا.مگر نہ اس قدر کہ ظاہر ہو آپ روٹی اٹھاتے اور اس میں ( سے ) سخت جگہ دیکھ کر نکالتے اور وہ اس خالی پیالہ میں لگا کر تناول فرماتے.میں حضور کو کھاتے دیکھتا جاتا تھا.اور مقدار غذا پر حیران ہوتا تھا.حضور کو ضعف معدہ کی بھی شکایت تھی.اور جب تحریر کا کام زیادہ کرتے تھے تو دست آنے لگتے تھے.اس لئے روٹی کا وہ حصہ تناول فرماتے تھے جو توے پر سخت ہو جاتا ہے.جس کو اردو میں کر کرا کہتے ہیں.میں نہیں کہہ سکتا کہ حضور نے پورا ایک تولہ کھایا ہو.لودھیانہ اور قادیان میں بارہا حضور کے دستر خوان پر کھایا اور یہ حالت دیکھی چونکہ حضرت منشی صاحب کو حضرت اقدس کی معیت میں کھانا کھانے کا موقع ملتارہا.اس لئے ذیل کی روایت درج کی جاتی ہے.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب بیان فرماتے ہیں کہ : - مدتوں آپ ( یعنی حضرت اقدس ) مہمانوں کے ہمراہ کھانا کھایا کرتے تھے.اور یہ دستر خوان گول کمرہ یا مسجد مبارک میں بچھا کرتا تھا اور خاص مہمان آپ کے ہمراہ دستر خوان پر بیٹھا کرتے تھے.یہ عام طور وہ لوگ ہوا کرتے تھے.جن کو حضرت صاحب نامزد کر دیا کرتے تھے.ایسے دستر خوان پر تعداد کھانے والوں کی دس سے ہیں چھپیں تک ہو جایا کرتی تھی.،، (۵۱) قلمی کاپی - (صفحہ ۷۴ ) اس صفحہ کی دس اور صفحہ ۷۵ کی گیارہ سطریں مکمل ہیں.چار سطریں دریدہ ہیں.اور نقد تین سطور ورق موجود نہیں.” دوسری دفعہ“ کے بعد کی عبارت آخر صفحہ ۷۵ کی ہے.

Page 422

400 نزول الہام کے دو مواقع پرمنشی صاحب کی موجودگی معدودے چند صحابہ کرام کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کشفی حالت طاری ہوتے وقت بھی دیکھنے کی سعادت ملی ہے.ایک موقع خطبہ الہامیہ کا تھا جس میں دوصد کے قریب احباب کو ایسا نادر موقع نصیب ہوا تھا.ان میں منشی صاحب بھی شامل تھے.(۱) خطبہ الہامیہ کی تقریب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۰ راپریل ۱۹۰۰ء کوعید سے ایک روز پہلے حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ذریعہ قادیان میں حاضر احباب کی فہرست بنوالی تھی تا کہ ان کے لئے دعا کر سکیں.حضور سارا دن بیت الدعاء میں دروازے بند کر کے دعا میں مصروف رہے.اس عید میں کپورتھلہ ،سیالکوٹ ، لا ہور ، راولپنڈی، جموں بمبئی لکھنو وغیرہ بہت سے مقامات سے کثیر تعداد میں احباب قادیان آئے ہوئے تھے.منشی صاحب نے بواسطہ شیخ عبدالرحمن صاحب اس بارے میں بیان کیا کہ عید لاضحیہ کے روز حضور کو الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو (۵۳) میں اس روز قادیان میں تھا.چنانچہ ہم سب احباب کو اس سے اطلاع دی گئی.حضور نے اس سے پہلے کبھی کوئی تقریر عربی میں نہیں کی تھی.ہم اس الہام کی وجہ سے خیال کرتے تھے کہ کوئی معجزہ رونما ہوگا.نما ز عید کے بعد حضرت اقدس خطبہ کے لئے کھڑے ہو گئے حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو خطبہ قلم بند کرنے کے لئے حضور کی طرف سے مقرر کیا گیا تھا.دونوں حضور کے قریب بیٹھے ہوئے تھے.اور نہایت قوت اور تیزی کے ساتھ خطبہ قلمبند فرما رہے تھے.سامعین میں سے بعض اور دوست بھی اپنے طور پر لکھ رہے تھے.حضور کے خطبہ میں روانی تھی جس کی زبان نہایت فصیح و بلیغ تھی.حضور کی آنکھیں بند تھیں.چہرہ مبارک نہایت سرخ تھا جس سے نورانی کرنیں نمودار ہو رہی تھیں اور ایک عجیب مبارک سماں تھا.قریباً دوصد احباب اس وقت حاضر ہوں گے.دونوں مولوی صاحبان بڑی تیزی سے خطبہ تحریر کرنے کے باوجود پیچھے رہ جاتے تھے.اور کئی دفعہ حضور سے دریافت کرتے تھے.کیونکہ حضور نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ جو کچھ دریافت کرنا ہو مجھ سے اسی وقت دریافت کر لیں.خطبہ ختم ہونے کے بعد حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے اس کا اردو تر جمہ سنایا.اس دوران حضرت

Page 423

401 اقدس یکلخت سجدہ میں چلے گئے.ساتھ ہی ہم سب خدام بھی سجدہ میں گر پڑے.سجدہ سے سر اٹھانے پر حضور نے فرمایا کہ ابھی میں نے سرخ الفاظ میں مُبارَک لکھا دیکھا ہے پھر مولوی صاحب نے بقیہ ترجمہ سنایا.بعد میں خطبہ میں بیان شدہ ایک عربی لفظ کے متعلق دونوں مولوی صاحبان نے عرض کیا کہ اس کی صحت میں کچھ شک ہے.یہ دراصل یوں ہے.حضور نے فرمایا کہ مجھ سے اسی وقت کیوں نہ دریافت کر لیا گیا.لفظ وہی درست ہے جو میری زبان سے نکلا تھا.حضور کے ارشاد پر ایک لغات دیکھی گئی تو اس سے حضور کا بیان کردہ لفظ نکل آیا.اس روز عید تو تھی ہی مگر ہم سب اس مبارک دن میں حضور کے ایک معجزانہ نشان کے پورا ہونے پر بہت خوش تھے اور ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے تھے.حضرت اقدس حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں.ار اپریل ۱۹۰۰ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کر تمہیں قوت دی گئی اور نیز یہ الہام ہوا كَلَامٌ أَفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنُ رَبِّ كَرِيمٍ یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی چنانچہ اس الہام کو اسی وقت...بہت سے دوستوں کو اطلاع دی گئی تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی، ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الہی کے بیان کر سکے جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام ” خطبہ الہامیہ " رکھا گیا، لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو کے قریب ہوگی سبحان اللہ ! اُس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا.مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا.خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے.اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا.سی ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا.،، (۵۴) (۲) ایک اور نزول الہام کے وقت موجودگی : منشی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں لدھیانہ گیا تو بعد سہ پہر حضور نے زنانہ مکان میں خاکسار کو بلایا.کمرہ کے پاس صف پر

Page 424

402 حضور تشریف فرما تھے.دیر تک باتیں فرماتے رہے.پھر خاموش ہو گئے.پھر فرمایا کہ مجھے اس وقت الہام ہوا ہے وہ الہام اب مجھے یاد نہیں رہا اس وقت میں ( نے) دیکھا کہ آپ نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور دیوار سے تکیہ لگایا ہوا تھا.غنودگی کی مانند حالت معلوم ہوئی تھی.” (جب حضور بیمار ہوتے ) تو آپ کئی کئی دن تک مسجد میں تشریف نہیں لا سکتے تھے اور جس دن بعد صحت مسجد میں تشریف لاتے تھے.حضور کا چہرہ سرخ (ہوتا) اور ایک ہیبت معلوم ہوتی تھی.ایام علالت میں الہام زیادہ ہوتے تھے.( قلمی کا پی ۶۶-۶۷) حضور کی دُعا سے طاعون سے حفاظت حضور علیہ السلام کو طاعون کا نشان دیا گیا تھا اس کے متعلق حضور رقم فرماتے ہیں: وہ طاعون سخت بر بادی بخش ہے جس کا نام طاعون جارف ہے یعنی جھاڑو دینے والی جس سے لوگ جابجا بھاگتے ہیں.اور کتوں کی طرح مرتے ہیں.(۵۵)،، خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانہ میں انسانوں کے لئے ایک آسمانی رحمت کا نشان دکھاوے.سواس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہوگا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور بچے تقوی سے تجھ میں محو ہو جائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے.(۵۶) وہ عجیب قادر ہے اور اس کی پاک قدرتیں عجیب ہیں ایک طرف نادان مخالفوں کو اپنے دوستوں پر کتوں کی طرح مسلط کر دیتا ہے.اور ایک طرف فرشتوں کو حکم کرتا ہے کہ ان کی خدمت کریں.ایسا ہی جب دنیا پر اس کا غضب مستولی ہوتا ہے.اور اس کا قہر ظالموں پر جوش مارتا ہے تو اس کی آنکھ اس کے خاص لوگوں کی حفاظت کرتی ہے.(۵۷) إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِی الدَّار یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہے.میں اس کو بچاؤں گا.اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خاک وخشت کے گھر میں بود و باش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں.(۵۸) اس نے مجھے چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ بھیجا ہے.از انجملہ ایک طاعون بھی نشان ہے.پس جو شخص مجھ سے کچی بیعت کرتا ہے اور بچے دل سے میرا پیر و بنتا ہے.اور میری اطاعت میں محو ہو کر اپنے تمام ارادوں کو چھوڑتا ہے.وہی ہے جو ان آفتوں کے دنوں میں میری روح اس کی شفاعت کرے گی سواے دے تمام لوگو! جو

Page 425

403 اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گئے جب بھی سچ تقوی کی راہوں پر قدم مارو گے.(۵۹) ،، حضرت منشی عبدالرحمن صاحب ( یکے از ۳۱۳ صحابہ ) نے بیان کیا کہ ایک دفعہ طاعون شروع ہونے پر جماعت کپورتھلہ نے حضرت اقدس سے اجازت چاہی کہ ہم قادیان آجائیں حضور نے جواب میں رقم فرمایا :- نہیں.تم اسی جگہ رہو اور کپورتھلہ کو قادیان کا محلہ تصور کرو ، (۲۰) ،، حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی متابعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۲ء میں ہدایت دی تھی کہ سیالکوٹ ، جموں ، وزیر آباد، لائل پور گورداسپور جالندھر لدھیانہ پٹیالہ سرہند بسی وغیرہ وغیرہ مقامات جہاں طاعون ہے وہاں کے احباب عید کے موقع پر ہر گز ہرگز قادیان نہ آویں بلکہ جب تک ان کے شہروں میں طاعون کا دور اور اثر ہے ادھر آنے کی کوشش نہ کریں.(۱) (41) منشی حبیب الرحمن صاحب طاعون کے سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں:.ایک دفعہ پلیگ کا بہت زور تھا.سرکار کی طرف سے یہ انتظام تھا کہ جہاں طاعون ہو وہاں کوئی شخص نہ جائے اور نہ وہاں سے کوئی دوسری جگہ جائے اور جہاں طاعون ہوتا تھا لوگوں کو آبادی سے باہر کر دیا جاتا تھا.اور طاعون زدہ جگہ ( کو ) چھوڑ دیا جاتا تھا.پھگواڑہ میں طاعون کی شدت ہوئی غالبا ۱۹۰۲ء تھا.تمام باشندگان شہر آبادی سے باہر گئے.باہر آئے ہوئے لوگ حاجی پور کی سرحد تک پھیل گئے.میں نے یہ انتظام کیا تھا کہ نہ کوئی حاجی پور سے اس رقبہ میں جائے اور نہ اس رقبہ کا آدمی حاجی پور میں داخل ہو.تا ہم ابتدا میں بہت ( سے ) لوگوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم کو حاجی پور میں جگہ دے دو.چنانچہ بہت سے آدمی تحصیل کے ملازم منشی وغیرہ حاجی پور میں آگئے میں نے ان کو رہائش اور آرام کا انتظام کر دیا.جب میں نے دیکھا کہ ہر ایک کی یہ ہی خواہش ہے تو میں نے ایک تاریخ مقرر کر دی کہ اس کے بعد کوئی نہ آسکے گا.یہ لوگ رات کو میرے پاس جمع ہو جاتے تھے.اور میں ان کو سلسلہ کی باتیں سنایا کرتا تھا.ان میں ہندو بھی تھے، مسلمان بھی تھے.” میری طبیعت میں بہت وہم تھا اور ( میں) بہت ہی احتیاط کیا کرتا تھا اور خوفزدہ رہتا تھا.میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے عریضہ لکھا اس کا جواب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے دیا کہ حضرت نے آپ کے لئے دعا کی.اس پر میرا قلب مطمئن نہ ہوا.میں نے پھر حضور کی خدمت بابرکت میں عریضہ لکھا کہ حضور کے ہاتھ کا لکھا ہوا ( جواب ) ہو تو اطمینان ہو.یہ خط حضرت مولوی صاحب نے حضور کی سامنے پیش کیا تو حضور نے اپنے دست مبارک سے حسب ذیل الفاظ تحریر فرمائے :

Page 426

جواب 404 میں نے اطلاع پانے کے بعد آپ کے لئے مع عزیز ان کے دعا کردی ہے دستخط خدا تعالے قبول فرمادے.آمین گوان الفاظ نے میرے دل پر بہت اثر کیا اور اطمینان ہوا مگر قبولیت دعا ایک اور عجیب طریق سے معلوم ہوئی.وہ یہ کہ میری رعایا میں سے ایک مسمی روڈ اولد النہیا ارائیں سکنہ حاجی پور، عمر قریباً پینسٹھ سال اپنے کھیت میں پلنگ پر سویا ہوا تھا اس کا سر غرب کی طرف تھا.اور (وہ) تنہا تھا.چاند کی چاندنی تھی.رات کو قریباً تین بجے کسی شخص نے جو خدا کا فرشتہ تھا سرہانہ کی طرف سے آواز دی کہ او بز رگا ! تو سوتا ہے یا جاگتا ہے؟ اس شخص ( روڈا ) نے جواب دیا کہ جاگتا ہوں اس نے پھر دریافت کیا کہ سوتا ہے یا جاگتا ہے؟ اس نے کہا کہ جاگتا ہوں.پھر کہا اچھی طرح سے سن.اس نے کہا کہ اچھا جی پھر اس نے کہا کہ ”میاں حبیب سے کہدینا کہ زیادہ اندیشہ نہ کرے.تیرے پیڈ وچ پلیگ نہیں ہوگی.“ اس نے جواب دیا اچھا جی.اس نے دریافت کیا کہ سن لیا ہے؟ یاد کر کے کہہ دینا روڈا نے کہا کہ اچھا جی.اس کے بعد یہ آدمی (یعنی روڈا) متعجب ہو کر اٹھا اور دیکھا تو کوئی ( بھی موجود ) نہ تھا.پھر دور تک نظر دوڑائی مگر کسی کو نہ دیکھا.پھر خود ہر طرف بھاگ دوڑ کر تلاش کی مگر پتہ نہ لگا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا فرشتہ تھا.اس (روڈا) نے کسی دوسرے آدمی کو یہ (بات) سنائی کہ میاں (حبیب الرحمن صاحب) سے کہ دینا.مجھے شرم آتی ہے.جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے اسے بلا کر سنا.حضور کا خط متذکرہ (بالا) آچکا تھا میں نے اس واقعہ اور خط کی تاریخ کا مقابلہ کیا تو ایک تھی.یعنی ۷ ا پریل ۱۹۰۶ ء دن کو حضور نے تحریر فرمایا تھا اور دعا کی تھی اور رات کو یہ واقعہ ہو ا جس طرح کسی کو خط لکھا جائے اور اس خیال سے کہ خط دیر میں پہنچے گا.تار بھی دے دیا جائے.اس سے معلوم ہوتا ہے (کہ) حضرت ربّ العزت نے دعا قبول فرمائی وہ خط میرے پاس موجود ہے.ایک اور بات ہے کہ میں نے عرض کیا تھا کہ میرے اور میرے کنبہ اور رعایا کے واسطے دعا کریں (حضور کی ) دعا کے وقت رعایا شامل نہ تھی جیسا کہ حضور کے الفاظ سے ظاہر ہے اس سال تو بالکل امن رہا.یعنی کا شتکاران (مؤلف) پنڈ وچ پنجابی الفاظ ہیں یعنی گاؤں میں

Page 427

405 مگر پھر گاؤں میں طاعون ہو اتھا.( قلمی کا پی صفحہ ۶۹ تا۷۳ ) منشی صاحب نے بواسطہ مولوی محب الرحمن صاحب بیان کیا کہ ۱ - روڈ امڈ کوران پڑھ ، سادہ مزاج اور خاموش طبع تھا.مزار عین کی شرارتوں کے وقت ان سے الگ رہتا اور ان کو سمجھاتا تھا.فرشتہ کے اس پیغام کے واقعہ کے بعد میں نے اس کو بہت سی تصاویر دکھائیں.ہر تصویر دیکھ کر کہتا کہ شکل ایسی نہ تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھ کہ اس نے شناخت کر لیا اور کہا یہ یہی تھے.دوسری دفعہ کی طاعون کے وقت حاجی پور میں ہمارا واحد گھرانہ تھا جو بکلی محفوظ رہا اور اس گاؤں میں یہی واحد احمدی خاندان آباد تھا.۲- حاجی پور کے ہر چہار طرف کی ملحقہ آبادیوں میں اس شدت سے طاعون نمودار ہوئی کہ الامان دالحفیظ! روزانہ بے شمار اموات ہوتیں.کئی گھر بالکل خالی ہو گئے.ان آبادیوں قبرستانوں اور مرگھٹوں میں تدفین اور جلانے کے لئے کوئی جگہ باقی نہ رہی.اس لئے نئے قبرستان اور مرگھٹ قائم کئے گئے جو حاجی پور کی ہر چہار حدود کے ملحق تھے.دن رات رونے پیٹنے اور جزع فزع کرنے کی دل شگاف آواز میں مضطرب کرتی تھیں.کثرت اموات کا یہ حال تھا کہ قبرستان میں چھ چھ لاشوں پر یکجائی طور پر نماز جنازہ ادا کی جاتی تھی.* محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ آپ کے محبوں کی عمر میں برکت عطا کرے گا اور جماعت کپورتھلہ کے قریباً تمام صحابہ نے لمبی عمریں پائیں.راقم نے ان تمام صحابہ کو دیکھا ہے اور ان کی عمروں میں برکت کا پایا جانا اس امر سے اور بھی نمایاں اور ا ہم ہو جاتا ہے کہ ۱۹۰۰ء کے بعد طاعون کی وبا ملک میں پھیلی.کپورتھلہ میں بھی اس وبا نے بہت شدت اختیار کی مُردے اٹھانے اور کفن دفن کے لئے آدمی مشکل سے ملتے تھے.روزانہ کثیر اموات ہوتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ آپ کے بچے مرید طاعون سے محفوظ رہیں گے.(یہ) تمام صحابہ (بشمول منشی حبیب الرحمن صاحب ) اس وبا کے اندر موجود تھے.خدا کے فضل نے سب کو محفوظ رکھا.ان کے اردگر درہنے والے کثرت سے طاعون کا شکا ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت اور شان ہے کہ کپورتھلہ کی جماعت میں ہر فرد محفوظ رہا کسی کا کان بھی گرم نہ ہوا والله غالـب عـلـى امره ولكن اكثر الناس مضمون منشی کظیم الرحمن صاحب مصدقہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب میں روڈا والا واقعہ درج ہے.دیکھیئے احکام ۲۱ اگست ۱۹۳۵ صفحه ۸ کالم۲ ۳) - شیخ عبدالرحمن صاحب کی طرف سے روڈ اوالا سارا واقعہ الفضل ۱۳ را پریل ۱۹۵۵ء ( صفحہیہ ) میں شائع ہوا.

Page 428

406 (۶۲) ،، لا يعلمون لاہور کے متعلق پیشگوئی منشی حبیب الرحمن صاحب نے بواسطہ شیخ عبد الرحمن صاحب بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں احباب میں تشریف فرما تھے.کہ فرمایا کہ لاہور شہر کا نام ونشان نہیں رہے گا.اور لوگ پوچھا کریں گے کہ یہاں ایک شہر لاہور آباد ہوا کرتا تھا.حضرت اقدس کا سفر دہلی ۱۹۰۵ء میں حضرت ام المومنین کا ارادہ دہلی اپنے وطن جانے کا تھا جس کی ایک عمدہ تقریب یہ پیدا ہوئی کہ آپ کے بھائی ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب دہلی میں متعین ہو گئے تھے.پہلے یہ خیال تھا کہ آپ اپنے والد ماجد کی معیت میں تشریف لے جائیں گی لیکن مسنون استخارہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا کہ لَا تَقُومُوا وَلَا تُقْعَدَوا إِلَّا مَعَهُ ☆ (۶۴) شیخ عبدالرحمن صاحب کی طرف سے الفضل ۳۰ / جولائی ۱۹۶۷ء ( صفحہ ۲) میں اپنے والد صاحب کی یہ روایت شائع ہوئی جو والد صاحب نے حاجی پور آنے والے برگزیدہ اصحاب کو سینکڑوں بارسنائی منشی صاحب نے بتایا کہ میں اس مجلس میں موجود تھا.شیخ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے.کہ والد صاحب سے سن کر ہم بھائیوں نے دیگر احباب سے اکثر اس روایت کو بیان کیا.(اس بارے میں اٹھا ئیں صحابہ کرام کی روایات کا حوالہ تذکرہ میں دیا گیا ہے.طبع چہارم صفحہ ۷۹۴ و ۷۹۵ ) الفضل میں شائع شدہ ان روایات کو غور سے مطالعہ کرنے پر خاکسار مؤلف کو یہ سمجھ آیا کہ حضرت اقدس نے ۱۸۹۷ء سے ۱۹۰۴ء تک متعدد بار گورداسپور اور قادیان میں اس پیشگوئی کا ذکر کیا کیونکہ بعض نے گورداسپوریا قادیان میں معین طور پر سننے کا ذکر کیا ہے اور بعض نے بعض واقعات کے سلسلہ میں اس کا بیان ہونا بتایا ہے.۱.حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری سابق مہر سنگھ کا بیان ہے کہ حضور نے فرمایا کہ نشان لیکھر ام سے ( جو پورا ہو ابتاریخ ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء ) لوگوں نے فائدہ نہیں اٹھایا اور اس سلسلہ میں لاہور کی تباہی کی پیشگوئی کا ذکر مسجد مبارک میں کیا.( الفضل ۳۰ / جون ۱۹۴۷ء - صفحہ ۴ ) ۲ - حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب غیر معین طور پر غالباً جون ۱۹۰۴ء میں گورداسپور میں حضور کی طرف سے اس کے بیان کا ذکر کرتے ہیں.جبکہ حضور کسی مقدمہ میں تشریف لے گئے تھے اور لاہور کی عظمت کا ذکر ہوا تھا.نیر صاحب کا بیان ہے کہ میں اس مجلس میں موجود تھا.(الفضل ۴ جولائی ۱۹۴۷ء صفحہ ۳ ) ( باقی اگلے صفحہ پر )

Page 429

407 ترجمہ: نہ کھڑے ہو اور نہ بیٹھو مگر اس کے ساتھ.نہ اتر و کسی جگہ میں مگر میرے ساتھ.میں تیرے اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں.حضور نے ۲۲ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو صبح آٹھ بجے مع اہل بیت قادیان سے روانہ ہونے سے پہلے رات کا رویا سنایا کہ ” دہلی گئے ہیں تو تمام دروازے بند ہیں.پھر دیکھا کہ ان پر قفل لگے ہوئے ہیں.پھر دیکھا کہ کوئی شخص کچھ تکلیف دینے والی شے میرے کان میں ڈالتا ہے.میں نے کہا تم مجھے کیا دکھ دیتے ہو ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے زیادہ دکھ دیا گیا تھا.(۶۵) قافلہ ایک رتھ اور سات یکوں میں روانہ ہوا.اور حضور کے حکم اور اجازت سے چند خدام بھی ساتھ تھے.بخار کی وجہ سے چند روز سے مفتی محمد صادق صاحب (ایڈیٹر بدر ) بیمار تھے لیکن حضور نے فرمایا کہ چلے چلو.تبدیلی آب و ہوا سے فائدہ ہوتا ہے.چنانچہ وہ بھی ساتھ روانہ ہوئے.شیخ یعقوب علی صاحب ( عرفانی ایڈیٹر الحکم ) کو ایک روز پہلے گاڑی کی ریز رویشن وغیرہ کے لئے بٹالہ بھیجا گیا تھا جو بٹالہ میں ساتھ شامل ہو گئے.خدام ذیل بھی شامل ہوئے: مولوی سید محمد احسن صاحب سیٹھ عبدالرحمن صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ،مولوی عبدالرحیم صاحب میرٹھی ، خلیفہ رجب الدین صاحب لاہوری ، شیخ غلام احمد صاحب نو مسلم ، حافظ حامد علی صاحب اور با بونو رالدین صاحب کلرک ڈاکخانہ.قیہ حاشیہ: چونکہ نیر صاحب کی بیعت و زیارت ۱۹۰۱ء کی ہے (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ہشتم.ضمیمہ صفحہ ۵۱) اس لئے ان کی بیعت و زیارت سے قبل کا حضور کا یہ بیان نہیں ہوسکتا اگر حضور نے ایک ہی بار یہ پیشگوئی بیان فرمائی ہو.بہر حال انہوں نے بیعت کے بعد ہی یہ بات حضور سے سنی گورداسپور میں.۳- حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب امام مسجد محله دار لفضل قادیان آنکھوں سے نابینا تھے وہ گورداسپور جا کر کوئی بات سن نہیں سکتے تھے.ان کی بیعت و زیارت ( مطابق تاریخ احمدیت جلد ہشتم.ضمیمہ صفحہ ۴۴) ۱۹۰۰ ء کی ہے.وہ یہ بات ۱۹۰۴ء میں مسجد مبارک میں سنتا بیان کرتے ہیں (الفضل ۷ ارجولائی ۱۹۴۷ صفحہ ۳ ) ( دیکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ ان کا حافظہ بہت اچھا تھا.خاکسار کے محلہ دارالفضل میں امام مسجد تھے بہت دفعہ بطور درس روایات بیان فرماتے تھے ) اس لئے یہ روایت بہر حال ۱۹۰۱ء یا بعد کے عرصہ کی ہے.یا اس وقت بھی بیان ہوئی ہے.۴- مکرم امیر صاحب ساکن کو ٹلی ضلع میر پور (جموں) نے جموں میں جن دو صحابہ میں سے کسی ایک سے یہ روایت ۶ / اپریل ۱۹۴۱ء کوسنی اور یہ تاریخ نوٹ کی اس صحابی نے کہا کہ یہ روایت ۱۹۰۳ء کی ہے.(الفضل یکم جولائی ۱۹۴۷ء صفحہیہ )

Page 430

408 ان احباب کے سوا جو رتھ ، سیکوں اور گھوڑے پر سوارے تھے ذیل کے احباب حضرت اقدس کی سواری کے ساتھ پیدل دوڑتے ہوئے قادیان سے بٹالہ تک آئے.حضرت کے ہمراہ ان کا دوڑ نا عشق و محبت کا ایک سچا نمونہ تھا.مولوی سید احمد نور صاحب افغان ، حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے صاحبزادگان کے اتالیق شیخ (بھائی) عبدالرحیم صاحب، میاں شادی خاں صاحب.نیز یہ لڑ کے.عبدالرحمن ، صوفی عبداللہ عبداللہ درزی، میاں مظہر حق.(44)66 اللہ تعالے ان کی نیکی اور عمر میں برکت دے.(۶۶) انحام و بدر دونوں اخبارات سے معلوم ہوتا ہے.کہ حضرت اقدس کی روانگی کی خبر کسی طرح موضع سیکھواں بھی پہنچ گئی تھی ( جو قادیان سے چند میل کے فاصلہ پر ہے ) اس لئے وہاں کے مخلص احباب میاں جمال الدین صاحب اور منشی عبد العزیز صاحب او جلوی پٹواری شرف زیارت کے لئے حضرت کی آمد سے پہلے ہی بٹالہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے تھے.اور بٹالہ کی جماعت احمد یہ بھی موجود تھی.اور چوہدری فضل محمد صاحب بیگووال بھی.حضرت دس بجے ( قبل دو پہر) کے بعد بٹالہ پہنچے.سٹیشن پر زائرین کا ایک خاصہ اثر دھام ہو گیا.چوہدری اللہ داد خان صاحب ہیڈ کلرک دفتر ریویو (میگزین ) جو لاہور سے واپس آ رہے تھے.حضور کی بٹالہ سے روانگی تک ساتھ رہے.میاں امام بخش صاحب سپاہی چکوال سے قادیان جا رہے تھے ان کی اہلیہ نے بیعت کی.حضور نے اور احباب نے دوپہر کا کھانا یہیں کھایا.اور ظہر وعصر کی نماز میں بوجہ سفر جمع کر کے پڑھی گئیں.حضور ایک مستعد ، ہشیار انسان کی طرح جو انبیاء علہیم السلام کا خاصہ ہے،سفر کرتے ہیں.مستورات اور بچوں کو خوب احتیاط کے ساتھ گاڑی میں سوار کرانے کے بعد آپ سوار ہوئے آپ کا ڈبہ ریز رو تھا.جس میں سامان شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے رکھوایا.بٹالہ سے گاڑی بعد دو پہر ایک بج کر پینتیس منٹ پر روانہ ہوئی آپ نے فرمایا تھا کہ کسی کو روانگی کی اطلاع نہ دی جائے کیونکہ روانگی غیر یقینی تھی اور کئی دفعہ ارادے فسخ ہو چکے تھے اور ایک دفعہ اطلاع دینے کی وجہ سے پھگواڑہ پھلور اور لدھیانہ کے ریلوے اسٹیشنوں پر خدام کئی دن حاضر رہے اور آخر انتظار کے بعد بنگہ (ضلع جالندھر) کی جماعت قادیان ہی آ پہنچی وہ تو حضور کی زیارت سے خوش تھے لیکن حضور ان کی تکلیف کو بہت محسوس کرتے تھے.اس وجہ سے فرمایا تھا کہ کسی جگہ اطلاع نہ دی جائے.امرتسر میں گاڑی نے قریباً پانچ گھنےٹھہر نا تھا.ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ کپورتھلہ کے احباب جو اخلاص کا ایک خاص نمونہ ہیں ان میں سے منشی ظفر احمد صاحب ہمنشی اروڑا صاحب اور ڈاکٹر فیض قادر صاحب

Page 431

409 تشریف لے آئے اور اس کے کچھ دیر بعد لاہور سے حکیم محمدحسین صاحب، ماسٹر غلام محمد صاحب اور حکیم صاحب کے پسر محمد یوسف صاحب بھی آپہنچے.حضرت اقدس گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم کے ایک ایسے حصہ پر جہاں مسافروں کی آمد ورفت نہیں، درختوں کے نیچے حلقہ خدام میں تشریف فرما ہوئے.مستورات تھوڑی دور ایک طرف بیٹھ گئیں.امرتسر بھی اطلاع نہیں دی گئی تھی لیکن ڈاکٹر عبداللہ صاحب کو خبر ہوگئی.اور وہ دوڑے ہوئے اسٹیشن پر پہنچے اور احباب امرتسر کو بھی انہوں نے حتی المقدور اطلاع دی.اور اس جماعت کی طرف سے کھانا پیش کرنے کی اجازت لے کر شہر گئے اور یہ عجلت نماز مغرب ہوتے ہوتے نہایت فراخدلی کے ساتھ مکلف کھانا تیار کر کے لائے جن احباب امرتسر کو اطلاع ہو چکی تھی وہ ڈاکٹر صاحب کے جانے کے بعد حصول نیاز کی خاطر حاضر ہوئے اور ملاقات کر کے بہت خوش ہوئے مغرب وعشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھی گئیں اور احباب امرتسر ٹرین کی نوبجے شب کے قریب روانگی تک حاضر رہے.جماعت بنگہ کی ملاقات پھر امرتسر میں ہوگئی.اور یہ احباب پھگواڑہ تک حضرت اقدس کے ساتھ سفر میں شامل رہے." کرتار پوراسٹیشن سے جماعت کپورتھلہ کے معزز احباب نے اعلیٰ حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور شرف نیاز پایا.خاں صاحب عبدالمجید خاں صاحب انچارج آفیسر لکھی خانہ اور کئی اور بھائی چھاؤنی جالندھر تک ساتھ گئے.منشی حبیب الرحمن نمبر دار ورئیس حاجی پور متصل پھگواڑہ بھی حاضر ہوکر سعادت اندوز ہوئے“ باوجود یکہ سفر رات کا اور پھر طویل تھا تا ہم کسی اسٹیشن پر بھی خدام ڈبے کے سامنے آکر السلام علیکم کہتے تو حضور بڑی مستعدی سے فورا اٹھتے اور تقسیم کرتے ہوئے مصافحہ کرتے ان کی خیریت پوچھتے اور خوش ہوتے تھے.احباب جماعت لدھیانہ (براہ راست ) اطلاع ملے بغیر کئی روز سے ریلوے اسٹیشن پر آ رہے تھے.اس وقت بھی نصف شب کے بعد سردی میں ٹھٹھرے موجود تھے.امید تھی کہ خاں صاحب ذوالفقار علی خاں صاحب اور جماعت میرٹھ وہاں ملے گی.لیکن ان کو تار نہیں ملا تھا.☆ دہلی میں پہنچنے کے سلسلہ میں مرقوم ہے کہ تین بجے کے قریب ہم دہلی پہنچے وہاں بھی عجیب حالت ہوئی.بٹالہ سے روانہ ہوتے وقت میر محمد الحکم ۱۰ر دسمبر ۱۹۰۵ء ( صفحه ۴ و۵ ) و ۷ار دسمبر (صفحہ ۱۱) و بدر ۲۷/اکتوبر ( صفحه ۲) حضرت حکیم دین محمد صاحب مهاجر دارالرحمت وسطی ربوہ جن کو حضرت مصلح موعودؓ کے ہم جماعت ہونے کا شرف حاصل ہوا ، بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۰۵ء میں اس سفر کے موقع پر میں نے دیکھا کہ منشی صاحب نے حضرت اقدس اور حضور کے قافلہ کو ریلوے اسٹیشن پھگواڑہ پر دو پہر کا کھانا پیش کیا تھا.

Page 432

410 اسمعیل صاحب اسٹمنٹ سرجن کو روانگی کا تار دیا گیا تھا مگر وہ یہ خیال کر کے کہ غالبا حضرت اقدس نہیں آئیں گے شب گزشتہ کو دہلی سے مع حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد (صاحب) اور میر ناصر نواب صاحب قبلہ روانہ ہو چکے تھے.ان کو تار نہیں مل سکا.اور اسی وجہ سے دہلی کی جماعت بھی اسٹیشن پر نہ آ سکی لیکن تین بجے کے بعد تار مذکور پھرتا پھرا تا ڈاکٹر میر محمداسماعیل خاں صاحب کو ملا.وہ اطلاع پاتے ہی اسٹیشن کو بھاگتے ہوئے آئے اور راستہ میں باغ میں ہمیں آکر ملے.،، (۶۷) دہلی کے عرصہ قیام میں حضور کی کوئی پبلک تقریر نہیں ہوئی البتہ بعض علماء نے آ کر حضور سے ملاقات کی اور دینی امور کے بارے گفتگو کی.حضور نے فرمایا کہ قبرستان میں انسان کو اپنا مقام یاد آ جاتا ہے.کہ انسان دنیا میں مسافر ہے آج زمین کے اوپر ہے تو کل زمین کے نیچے ہے.حضور نے بزرگان حضرت شیخ احمد سر ہندی کے مرشد حضرت خواجہ باقی باللہ - حضرت خواجہ میر درد ، حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے والد حضرت شاہ عبدالرحیم ،حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اور حضرت امیر خسر ورحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی قبور پر جا کر دعائیں کیں اور فرمایا کہ ان کے لئے بھی اور اپنے لئے بھی دعا کی جانی چاہیے.) اہالیان دہلی نے حضور کی آمد سے استفادہ نہیں کیا.ایک صاحب نے اپنے اخبار میں حضور کے خلاف زہرا گلا اور مناظرہ طلبی کی.حضور جب حضرت خواجہ شیخ نظام الدین اولیاء کے مزار پر تشریف لے گئے تو خواجہ احسن نظامی صاحب کے اصرار پر ۱۲ نومبر کو ایک تحریر بھجوائی جس میں لکھا کہ (YA) ” جب مجھے دہلی والوں سے محبت اور انس محسوس نہ ہوئی تو میرے دل نے اس بات کے لئے جوش مارا کہ وہ ارباب صدق و وفا اور عاشقانِ حضرت مولیٰ جو میری طرح اس زمین کے باشندوں سے بہت ساجور و جفا دیکھ کر اپنے محبوب حقیقی کو جاملے ان کی متبرک مزاروں کی زیارت سے اپنے دل کو خوش کرلوں، (۶۹) دہلی سے سفر مُراجعت اس سفر دہلی سے مراجعت کے موقع پر حضرت مولوی عبدالقادر صاحب نے دہلی آ کر بطور نمائندہ جماعت لدھیانہ عرض کیا کہ واپسی پر حضور لدھیانہ میں قیام فرمائیں.حضورم رنومبر ۱۹۰۵ء شام کو دہلی سے روانہ ہو کر دوسرے روز قریباً گیارہ بجے قبل دو پہر ریل گاڑی میں لدھیانہ پہنچے.اسٹیشن پر جس قدر جم غفیر تھا، اس کا شمار نہیں بتایا جا سکتا.بجز اس کے کہ ہزاروں انسان ہر طبقہ، عمر اور مذاق کے موجود تھے.ایک مقامی اخبار کے مطابق

Page 433

411 ایک میلا لگا نظر آتا تھا.جماعت احمدیہ نے نہایت جوش سے استقبال کیا اور سڑک کے کنارے واقع ایک کوٹھی میں آپ کو اتارا گیا.(۷۰) منشی حبیب الرحمن صاحب تحریر کرتے ہیں کہ دہلی (سے) واپسی پر حضور نے لدھیانہ میں قیام فرمانا تھا.مجھے اطلاع ہوئی تو میں لدھیانہ تاریخ معینہ پر چلا گیا مگر معلوم ہوا کہ حضور کل کو تشریف لاویں گے.میرے ایک رشتہ دار وہاں ان دنوں میں منصف تھے ان کے ہاں ٹھہر گیا.رمضان شریف کا مہینہ تھا.( دوسرے روز ) میں اسٹیشن پر گیا لیکن ہجوم اس قدر تھا کہ میں قریب نہ پہنچ سکا.آپ کی گاڑی ( کی بوگی) کاٹ کر علیحدہ کھڑی کر دی گئی تھی.آپ سوار ہو کر آہستہ آہستہ فرودگاہ کو تشریف لے گئے.( قلمی کا پی صفحہ ۴۷) ( بیان بوساطت شیخ عبدالرحمن صاحب ) فرودگاہ کے پاس میں حضور کی ٹمٹم کے پاس کھڑا ہو گیا کہ مصافحہ تو کرلوں گا مگر کثرت ہجوم کی وجہ سے میں مصافحہ نہ کر سکا.حضور یہ کہہ کر کہ کل آٹھ بجے تقریر ہوگی ، اندر تشریف لے گئے.میں یہ سمجھ کر کہ شاید حضور اب باہر تشریف نہ لائیں گے، اپنی جائے قیام پر چلا آیا بعد میں علم ہوا کہ حضور باہر تشریف لاکر بہت دیر تک احباب میں تشریف فرما رہے تھے.میں دوسرے روز صبح چھ بجے ہی حضور کی قیام گاہ پر پہنچ گیا اور حضور کی خدمت میں اطلاع کروائی.حضور دروازہ کے پاس تشریف لائے اور کھڑے باتیں کرتے رہے اور فرمایا آیا ہوا ہوں.اچھا ہوا آپ تشریف لے آئے“ میں نے گذشتہ روز کی اپنی آمد کا سارا حال کہ سنایا اور عرض کیا کہ میری غلطی تھی ورنہ میں تو پرسوں سے الحکم میں مرقوم ہے کہ لوگوں کا ہجوم ہر وقت رہتا اور زائرین کی آمد کا تانتا بندھا رہتا تھا.گردونواح کے اضلاع سے بھی بہت سے احمدی آگئے تھے.جماعت لدھیانہ نے حتی الوسع نہایت قابلیت سے مہمان نوازی کی مگر بالآ خر لوگوں کی کثرت نے اسے بے بس کر دیا.تاہم جماعت لدھیانہ نے جو کچھ کیا اپنی ہمت اور طاقت سے بڑھ کر کیا.دوسرے روز کی حضور کی تقریر کے لئے جماعت نے راتوں رات پورے شہر سے اشتہار چھپوا کر چسپاں کر دیے اور پھر علی الصباح تقسیم بھی کر دیئے.بوقت تقریر ہزاروں افراد کی حاضری تھی.پولیس کا انتظام نہایت قابل تعریف تھا.حضرت اقدس نے اپنی تقریر میں فرمایا :- میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ چودہ برس بعد لدھیانہ شہر میں مجھے آنے کا

Page 434

412 اس نے موقعہ عطا کیا جب میں اس شہر سے گیا تھا تو میرے ساتھ چند ہی افراد تھے اور لوگ مجھے مطر و دو مخذول سمجھتے تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ تھوڑے دنوں میں یہ جماعت منتشر ہو جائے گی.اور اس سلسلہ کا نام ونشان مٹ جائے گا.مجھ پر فتوای تکفیر جاری کیا گیا.اولیں فتوای کفر اسی شہر کے چند مولویوں نے دیا.وہ کافر کہنے والے موجود نہیں.مجھے اللہ تعالیٰ نے زندہ رکھا.اور جماعت کو تین لاکھ تک بڑھایا.جیسے کفار حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دلائل سے عاجز آ گئے تو قتل وغیرہ کے منصوبے کرنے لگے اسی طرح ایک پادری کے میرے خلاف اقدام قتل کے مقدمہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے میرے خلاف شہادت دی لیکن اللہ تعالیٰ نے جو ہمیشہ اپنے بندوں کی مددکرتا ہے، میری حمایت کی.پچیس سال پہلے میں گمنام تھا.اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام کیا تھا کہ لوگ دور دراز ممالک سے اور کثرت سے تیرے پاس آئیں گے اور ان کی مہمان نوازی کے ہر قسم کے سامان بھی آئیں گے ان سے کج خلقی نہ کرنا.اور ان کی کثرت دیکھ کر تھک نہ جانا.حالانکہ (21)66 میں اس زمانہ میں اکیلا تھا اور مجھے لوگوں کی ملاقات سے نفرت تھی.(۷۱) قوم نے میری مخالفت میں نہ صرف جلدی کی بلکہ بہت بے دردی بھی کی.اور مسئلہ وفات مسیح کی وجہ سے مجھے کا فر ٹھہرایا، دجال قرار دیا، قبرستانوں میں احمدیوں کی تدفین سے روکا احمدیوں کے اموال لوٹنے کو اور احمدیوں کی عورتوں کو بغیر نکاح گھر میں رکھ لینے کو اور احمد یوں کوقتل کر دینے کو جائز قرار دیا.حالانکہ وفات عیسی قرآن مجید وغیرہ سے ثابت ہے.(۷۲) اور غلبہ اسلام کا حربہ موت مسیح ہے.(۳) کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے سامنے ڈاکٹر مارٹن کلارک عیسائی کا دائر کرده استغاثہ میرے خلاف اقدام قتل کا پیش ہو ا شد و مد سے میرے خلاف شہادتیں پیش ہوئیں اور مجھے پھانسی یا عبور دریائے شور ( عمر قید جزائر انڈیمان میں ) سزا ملنے کی صورت تھی.اور کپتان موصوف کے پاس میرے خلاف سفارشات بھی آئیں اور مستغیث اس کا ہم مذہب تھا لیکن اس نے اس کی ناجائز طرفداری نہ کی اور سمجھ لیا کہ یہ استغاثہ جعلی ہے.چنانچہ عبدالحمید نے جس سے میرے خلاف بیان دلوایا گیا تھا، اس کے جعلی ہونے کا اقرار کیا.کپتان موصوف نے مجھے کہا کہ آپ ان عیسائیوں پر مقدمہ کر سکتے ہیں لیکن میں نے

Page 435

413 کہا کہ میں مقدمہ نہیں کرنا چاہتا میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے.اس نے مجھے بری کر دیا اور مجھے مبارک باد دی.(۷۴ ) میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس کی طرف سے ہوں اور مفتری اور کذاب نہیں.میں قسم دیتا ہوں کہ مجھے ایسا شخص دکھاؤ جو باجود ہر روز کذب و افتراء کے موید من اللہ ہو.(۷۵) ”میرے نشانات تھوڑے نہیں ایک لاکھ سے زیادہ انسان میرے نشانوں پر گواہ ہیں.اور زندہ ہیں.میرے انکار میں جلدی نہ کرو ورنہ مرنے کے بعد کیا جواب دو گے ؟ " (24) لدھیانہ سے حضور کی مراجعت کے بارے منشی صاحب تحریر کرتے ہیں.” جب میں صبح کو گیا تو معلوم ہوا کہ دوسرے دن صبح کی کلکتہ میں میں حضور کی گاڑی لگائی جاوے گی.مفتی محمد صادق صاحب اس وقت اس کی اطلاع دینے کے واسطے جارہے تھے.میں نے ان سے کہا کہ بجائے اسکے اگر گیارہ بجے کی ٹرین میں روانگی ہو تو بہتر ہے.کہ چھوٹے اسٹیشنوں پر جو لوگ زیارات کے لئے آئیں وہ بھی محروم نہ جائیں گے.مفتی صاحب نے فرمایا کہ اب طے ہو چکا تبدیلی نہیں ہوسکتی.میں نے اطلاع کرائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے.میں نے عرض کیا کہ ڈاک ( میل ٹرین.ناقل ) کے ذریعہ حضور نے سفر کا ارادہ فرمایا ہے وہ تیز چلتی ہے جو حضور کی طبیعت پر گراں گزرے گا اور چھوٹے اسٹیشنوں پر وہ ٹھہرتی نہیں جو لوگ آئیں گے محروم از زیارت رہیں گے اس کے بعد ہی مسافر گاڑی جاتی ہے ( جو ہر ایک اسٹیشن پر ٹھہرتی ہے.) وہ مناسب معلوم ہوتی ہے.فرمایا بہت درست ہے اسی میں جانا چاہیئے ( ہمیں معلوم نہیں تھا ) مفتی صاحب کو بلا ئیں مفتی صاحب آئے فرمایا کہ میرا نام لے کر ) یہ ٹھیک کہتے ہیں ڈاک تیز چلتی ہے وہ مجھے پسند نہیں اور وہ چھوٹے اسٹیشنوں پر ٹھہرتی نہیں اس کے بعد جو گاڑی جاتی (ہے) وہ بہتر ہے.میں نے دیکھا کہ جو الفاظ میں نے عرض کئے تھے وہ ہی دہرا دئیے.جب تجویز ہوئی ہوگی گاڑیوں کے اوقات سامنے ہوں گے.مجھ سے کوئی نئی معلومات حاصل نہیں ہوئیں.مگر ہر ایک کی خواہش کو پورا فرماتے تھے.ان کے نزدیک ایک ہی بات تھی کہ پہلے روانہ ہوں یا بعد میں بہت خوش ہوا کہ میری رائے کو (حضور نے ) پسند فرمایا اور اس واقعہ نے میرے ایمان پر بھی بڑا اثر کیا ( قلمی کا پی صفحہ ۵۰،۴۹) اس روز سارادن میں حضور کے پاس رہا.شام کو حضور سیر کے لئے تشریف لے گئے تب بھی میں ہمراہ حضرت حکیم دین محمد صاحب مقیم دار الرحمت وسطی ربوه بیان کرتے ہیں کہ دہلی کے سفر کے دوران ۱۹۰۵ء سے مراجعت پر حضور نے لدھیانہ میں قیام فرمایا اور وہاں تقریر بھی فرمائی.اس وقت وہاں منشی حبیب الرحمن صاحب اور دیگر صاحبان سے میری ملاقات ہوئی.(باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر ) ☆

Page 436

414 تھا.آگے جا کر مسجد کے قریب بہت ساری خلقت آپ کو دیکھنے کی غرض سے جمع تھی میں نے اس وقت حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ! یہ سب لوگ حضور کے دیدار کے متوالے ہیں.وہاں ایک ٹوٹی سی بیچ مسجد کے پاس ہی پڑی تھی حضور و ہیں اتر کر پیچ پر ہی بیٹھ گئے اور میرے ساتھ باتیں کرتے رہے اور پھر روانہ ہوئے.میرا ارادہ ہوا کہ صبح کو سویرے جو گاڑی جاتی ہے اس میں جا کر حاجی پور اور پھگواڑہ اطلاع کر دوں گا اور راستہ کے واسطے کھانا بھی کسی قدر تیار کروا دوں گا.کیونکہ کوئی دو گھنٹہ کا وقفہ تھا.اس نیت سے میں روانگی کے دن صبح کو فرودگاہ پر آیا اور حضور کو اطلاع دے کر خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں اس گاڑی سے حاجی پور جاؤں گا.اگر اجازت ہو تو کسی قدرکھانا تیار کر الاؤں.فرمایا کہ جس وقت ہم یہاں سے روانہ ہوں گے وہ کھانے کا وقت ہے یہاں کی جماعت کھانا کھلا کر روانہ کرے گی.اس لئے ضرورت معلوم نہیں ہوتی غرض ( میں ) اس ٹرین سے حاجی پور آ گیا.اور پھگوڑاہ میں عام طور پر اطلاع کرادی اور سب لڑکوں کو اسٹیشن پر ساتھ لے آیا گاڑی آئی تو میں نے ایک ایک کا حضور سے تعارف کرایا.اور خود مع لڑکوں کے ساتھ جالندھر چھاؤنی تک گیا.(قلمی کا پی صفحه ۵-۵۱) میں ہر ایک بچے کو حضور کی خدمت میں پیش کرتا رہا.حضور بچوں کو شفقت سے پیار فرماتے رہے.جب عزیز مسعود احمد کو پیش کیا تو وہ بہت دبلا پتلا اور چھوٹا تھا.حضور نے خود اس کو اٹھا کر اپنی ران پر بٹھا لیا اور شفقت سے اس کے سر پر پیار کرتے رہے.میں نے عرض کیا کہ حضور اس کا نام مسعود احمد ہے یہ اپنے بھائیوں سے لڑتا رہتا ہے کہ ان کے نام تو رحمان پر رکھے ہیں.اور میرا نام ان سب سے جدا ”احمد“ پر رکھ دیا ہے.حضور نے مسعود احمد کو پیار کرتے ہوئے فرمایا.وو اچھا! یہ بات ہے تو ان کا نام مسعود الرحمن رکھ دو.“ سواس دن سے ان کا نام مسعود الرحمن ہو گیا.پھر میں مختلف امور پر حضور سے باتیں کرتا رہا اور جالندھر چھاؤنی اسٹیشن سے اتر کر دوسری گاڑی سے واپس آکر ( ہم ) حاجی پور پہنچ گئے ( بیان ہذا بواسطه شیخ عبدالرحمن صاحب) وہاں ( جالندھر چھاؤنی ریلوے اسٹیشن پر گاڑی دیر تک کھڑی رہی فرمایا کہ اگر ہم آپ کو کھانا لانے کے واسطے کہہ دیتے تو اچھا تھا کیونکہ وہاں (لدھیانہ ) سے کھانا پلا کھائے روانگی ہوئی ہے..چونکہ اہل بقیہ حاشیہ سابقہ اس وقت کے احباب لدھیانہ میں سے حضرت قاضی خواجہ علی صاحب اور حضرت ماسٹر قادر بخش صاحب ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول والد حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درڈ مجھے یاد ہیں.اس لیکچر میں میرے ساتھ میرے چھوٹے بھائی ملک نیاز محمد صاحب (یعنی خاکسار مؤلف اصحاب احمد کے والد ماجد ) بھی شامل ہوئے تھے.

Page 437

415 بیت ہمراہ تھے اور سب بھو کے تھے اور بھی بہت سے آدمی ہمراہ تھے.حضرت میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی نے مجھ سے دریافت کیا کہ یہاں (ریلوے اسٹیشن پر ) کچھ کھانے کو بھی مل سکتا ہے.میں گیا اور اپنے ایک واقف بابو کے ذریعہ دکاندار کو مع سامان کثیر ہمراہ لے آیا جو سب نے حسب ضرورت لیا.مجھے اس وقت بہت افسوس ہوا کہ اگر میں کسی قدر کھانا بھی ہمراہ لاتا تو اچھا ہوتا.اس کے بعد میں نے یہ قاعدہ مقرر کر لیا ہے کہ بزرگان دین میں سے جب کوئی اس راستہ سے سفر کر رہا ہو اور مجھے اطلاع ہو جائے میں ضرور کچھ نہ کچھ کھانا لے کر اسٹیشن پر جاتا ہوں خواہ کوئی وقت ہو ( قلمی کا پی صفحہ ۵۱ ۵۲) * منشی حبیب الرحمن صاحب نے بواسطہ شیخ عبدالرحمن صاحب بیان کیا کہ حضرت اقدس جب لدھیانہ تشریف پر کر لاتے تو میں روزانہ ٹرین پر پھگوڑاہ سے لدھیانہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوتا اور شام کوٹرین سے پھگواڑہ پہنچ کر حاجی پور پہنچ جاتا.حضور کی قادیان کو واپسی کے موقع پر پھگواڑہ اسٹیشن پر آپ کے قافلہ کوکھانا پیش کرتا اور جالندھر تک ساتھ جاتا اور وہاں سے برتن وا پسی لے آتا.کبھی برتن قادیان چلے جاتے تو بعد میں مل جاتے.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے مصدقہ مضمون نوشته منشی تنظیم الرحمن صاحب میں بیان ہوا ہے کہ ایک دفعہ حضور دہلی لدھیانہ سے قادیان واپس تشریف لے جارہے تھے.پہلے جس ٹرین سے روانگی تھی اس کی بجائے دوسری ٹرین سے روانگی تھی اس کی بجائے دوسری ٹرین سے روانگی کا فیصلہ ہوا حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب حضرت اقدس علیہ السلام سے اجازت حاصل کر کے پہلی ٹرین سے پھگوڑاہ آگئے تھے.تا کہ بنگہ کریام وغیرہ اردگرد سے آمدہ احمدی جماعتوں کو مطلع کر سکیں کہ حضور دوسری ٹرین سے تشریف لائیں گے.چنانچہ آپ نے اطلاع دی دوسری گاڑی کے آنے میں ابھی دو گھنٹے کا وقفہ تھا.آپ نے ریلوے اسٹیشن سے گوشت وغیرہ کا انتظام کیا اور ان احباب کو بخوشی حاجی پور لے گئے فوڈ اسنور کرم کروادیئے اور دیکھیں چڑھواد میں اور ایک قلیل عرصہ میں چار پانچ سو احباب کو پر تکلف کھانا کھلا کر وقت پر اسٹیشن پہنچا دیا.ٹرین آنے پر سب احباب حضور کی زیارت سے مشرف ہوئے اور آپ نے حضور کی خدمت میں اپنی با میچی کے پھل پیش کئے اور جالندھر تک حضور کے ہمرگاب رہے اور وہاں سے واپس آئے.یہاں یہ بھی مرقوم ہے کہ حضور جب پھگواڑہ اسٹیشن سے گزرتے آمد ورفت کے وقت منشی صاحب کو اطلاع ہوتی آپ اس طرف جالندھر سے لدھیانہ تک اور اس طرف لدھیانہ یا پھلور سے جالندھر تک حاضر رہ کر حضور کی صحبت سے فیض یاب ہوتے ( الحکم ۲۱ اگست ۱۹۳۵ ء صفحہ ۱۰ کالم اوم - وے ستمبر صفحہ ۵ کالم ) شیخ عبدالرحمن صاحب نے ایسے مواقع کے بارے یہ بھی بتایا کہ ان کو بھی یاد ہے کہ والد صاحب ہمیشہ اپنیسا ری اولاد کے پھگواڑہ اسٹیشن پر پہنچنے کا انتظام کرتے اور ٹرین میں حضور بعض دفعہ چھوٹے بچوں کو گود میں بٹھاتے اور بڑے بچوں کے سروں پر دست شفقت پھیرتے.اس طرح یہ بچے حضور کی برکات و فیوض سے بہرہ ور ہوتے.

Page 438

416 مسجد کپورتھلہ کا مقدمہ اور معجزانہ کامیابی کا نشان جماعت کپورتھلہ کی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کئی نشانات وہاں ظاہر ہوئے.سب سے بڑانشان وہاں کی مسجد کے متعلق ہے.۱۹۰۵ء میں دہلی سے مراجعت پر حضور نے لدھیانہ میں ایک پبلک تقریر فرمائی تھی.جلسہ میں سیالکوٹ وغیرہ شہروں سے بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے.جلسہ گاہ میں منشی فیاض علی صاحب نے عرض کیا کہ ہماری مسجد کا مقدمہ دائر ہے.شہر کے تمام رؤسا اور حکام غیر احمدیوں کی امداد کر رہے ہیں.ہم معدودے چند احمدیوں کی بات بھی کوئی نہیں سنتا.حضور دعا فرمائیں اس پر حضور نے فرمایا کہ اگر ہمارا سلسلہ سچا ہے تو یہ مسجد تم لوگوں کومل جائے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.حاکم اول نے فیصلہ غیر احمدیوں کے حق میں دیا اور چار ورق پر لکھا اور کہا کہ ہم فیصلہ کل سنادیں گے.وہاں دستور تھا کہ حاکم اپنا بستہ گھر لے جایا کرتے تھے.چنانچہ اس کا بستہ اس کے گھر پہنچا.اس کے ایک آدمی کی زبانی جو کہ جمعدار تھا معلوم ہوا کہ رات کے دو بجے وہ حاکم اٹھا خدا جانے اسے خواب میں کیا نظر آیا.اپنا بستہ طلب کر کے اس نے آخر کے دو ورق پھاڑ دیئے اور مقدمہ کا فیصلہ احمدیوں کے حق میں کر دیا.جس میں لکھا کہ غیر احمدیوں کو اس مسجد میں نہ اذان دینے کا حق ہے نہ جماعت کرنے کا.اگر ان کو نماز پڑھنا ہے تو احمدی امام کے پیچھے پڑھیں.اگر اس فیصلہ کو کوئی دیکھے تو اسے بڑا تعجب ہو.اول دود ورق کا مضمون ایسا ہے کہ گویا غیر احمدیوں کو مسجد دے گا.لیکن آخری دو ورق میں احمدیوں کے حق میں فیصلہ کیا گیا ہے.مخالفین کی اس پر اپیل کو جج نے جو ہند و تھارڈ کر کے ماتحت عدالت کا فیصلہ بحال رکھا پھر عدالت بالا میں اپیل ہوئی.ہمارے وکیل نے کہا کہ یہ حاکم آریہ ہے.مخالفت مذہبی کی وجہ سے فیصلہ جماعت کے خلاف ہو گا.اس حاکم نے ایک بڑے وکیل کے پاس مثل رائے کے لئے بھیج دی.اس وکیل نے بلا رور عایت جماعت احمدیہ کے حق میں رائے دی جبکہ مخالفین کی طرف سے وکیل کے استاد حکیم جعفر علی بھی اثر ڈالنے کے لئے آئے تھے.پھر مخالفین کی طرف سے اپیل کونسل میں ہوئی جس کے تین ججوں میں سے ایک غیر از جماعت تھا.جب غیر احمدی اس کے پاس جاتے تو وہ ان کو تسلی دیتا اور کہتا کہ آخر کار یہ اپیل ہمارے پاس ہی آئے گی.ہم تم لوگوں کو یہ مسجد دلاویں گے تم کچھ فکر نہ کرو.اس نے احمدیوں سے کہہ بھی دیا کہ یہ مسجد پرانے مسلمانوں کو دی جائے گی.تم نے نیا مذہب اختیار کیا.تم نئی مسجد بناؤ اور یہ بھی کہا کہ اگلی پیشی میں فیصلہ سنادیا جائے گا لیکن اگلی پیشی سے پہلے ہی وہ مر گیا.اس کی موت اس طرح واقع ہوئی کہ ایک دن کچہری

Page 439

417 جانے سے پہلے وہ حقہ پی رہا تھا کہ خون کی قے آئی.اس نے مقدمہ کی مثل منگوائی تا فیصلہ غیر احمدیوں کے حق میں لکھ دے لیکن مثل آنے سے پہلے ہی اسے دوسری قے آئی الغرض وہ مر گیا.غیر احمدیوں کی انتہائی مخالفت اور کوشش پر بھی مسجد احمدیوں کے قبضہ میں رہی.یہ مجسٹریٹ جو اس نشان کا موضوع ٹھہرا، میاں عزیز بخش تھا جو ریاست میں بہت بڑا اعزاز رکھتا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس کو توفیق اور مہلت نہ دی کہ وہ خلاف فیصلہ لکھے.والله لحمد“ (۲) مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر تحریر فرماتے ہیں کہ مخالفین کے احمد یہ مسجد پر قبضہ کر لینے پر احمدیوں کو عدالت کی طرف رجوع کرنا پڑا.عمائد ورؤسائے شہر مدعی علیہم تھے.احمدی چند حباب تھے جو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ان کا رسوخ واثر کوئی نہ تھا.جماعت مسجد چھن جانے کی وجہ سے بے کس اور مظلوم تھی لیکن حالات غیر موافق تھے.جو شخص یہ یقین کرتا کہ مسجد احمد یوں کومل جائے گی کپورتھلہ کے اس ماحول میں یقیناً اسے کوتاہ اندیش تصور کیا جاتا.مخالفین کو یقین کامل تھا کہ عدالت ان کے حق میں فیصلہ کرے گی.میں نے بچپن میں مخالفین کے یہ تیور دیکھے ہیں.احمدیوں کے راستے تک بند تھے.منشی عبدالرحمن صاحب چکر کاٹ کر گھر کو جاتے.حافظ امام الدین صاحب امام مسجد احمدیہ کو پیٹا گیا اور گھسیٹا گیا.ان کی پگڑی میں آگ پھینکی گئی.احمدیوں کو گالی گلوچ کرنا ایک عام بات تھی بعض آوارہ طبع لوگ راستہ روکے رہتے تھے اور احمدیوں کوستا نا اور ان کو گالی دینا ان کا ایک محبوب اور ان کے نزدیک موجب ثواب مشغلہ تھا.سات سال تک یہ مقدمہ جاری رہا.اتفاقاً دوران مقدمہ میں منشی فیاض علی صاحب نے لدھیانہ کے مقام پر ایک محفل میں بڑے عجز والحاح سے آبدیدہ ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ ہم سے مسجد چھن گئی ہے.حضور دعا فرمائیں کہ وہ ہمیں مل جائے.حضرت صاحب نے بڑے جلال کے رنگ میں فرمایا کہ اگر میں سچا ہوں اور میر اسلسلہ سچا ہے تو مسجد تمہیں ضرور ملے گی.“ صداقت کے بیان کرنے میں منشی فیاض علی صاحب بڑے بے دھڑک آدمی تھے.انہوں نے لدھیانہ سے واپس آ کر مخالفین سے اعلانیہ اس بات کا اظہار کر دیا کہ حضرت صاحب نے یہ الفاظ فرمائے ہیں.فَانتَطرُهُ إِنِّي معكم من المنتظرين - دوران مقدمہ میں اس قسم کی تحدی اور مخالفین سے اظہار احتیاط کے خلاف معلوم ہوتا ہے.تو ہو لیکن منشی صاحب نے حضرت صاحب کے منہ سے مندرجہ بالا الفاظ سنے تھے.اور ان کے واہمہ میں بھی یہ بات نہ آ سکتی تھی

Page 440

418 کہ یہ بات اب غیر یقینی ہو سکتی ہے.نوبت یہاں تک پہنچی کہ محلہ کے ایک ڈاکٹر صاحب کے ساتھ منشی صاحب کی شرط بندھ گئی کہ اگر مسجد احمدیوں کو مل جائے تو وہ ڈاکٹر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرلے گا.ورنہ منشی صاحب اپنی بیعت سے دستکش ہوں گے.یہ بات ٹھن گئی.اور اس سے ظاہر ہے کہ دونوں فریق کو اپنی اپنی کامیابی کے متعلق کسی قسم کا کوئی شک نہ تھا.بالآ خر مسجد کا فیصلہ احمدیوں کے حق میں ہوا.اور نہایت مخالفانہ حالات کے باوجود ہو ا.آخری عدالت کے حاکم نے ہمارے خلاف فیصلہ کرنا چاہا.وہ بحث سن چکا تھا.اور مخالفانہ انداز خیال ظاہر کر چکا تھا.بحث کے بعد مقدمہ فیصلہ پر رکھا گیا کہ ایک دن وہ کچہری آنے کی تیاری میں تھا کہ اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے اس کی موت واقع ہو گئی.منشی عبدالسمیع صاحب کپور تھلوی ایک روز پیشتر یہ ردیاد یکھ چکے تھے کہ کسی شخص نے بازار میں ان سے ذکر کیا ہے کہ اس حاکم کی اچانک موت واقع ہوگئی ہے.دوسرے دن یہ واقعہ من و عن ظہور میں آیا اور بازار میں جاتے ہوئے ایک شخص نے منشی صاحب سے یہ ذکر کیا کہ وہ حاکم فوت ہو گیا ہے گویا ان کا رویا من وعن پورا ہوا اور حضرت صاحب کی بات پوری ہوئی.گفته او گفته الله بود گر چه از حلقوم عبد الله بود مقدمہ کی بحث سننے کے بعد حاکم کا فوت ہو جانا مسل متعلقہ سے ثابت ہے.☆ (۳) حضرت منشی فیاض علی صاحب نے اس بارے میں یہ رقم فرمایا تھا کہ حاجی ولی اللہ صاحب کی اس مسجد کے نام سولہ گھماؤں اراضی ریاست کپورتھلہ کی طرف سے کاغذات میں درج تھی اور اس مسجد کے متولی منشی حبیب الرحمن صاحب احمدی تھے.” جب حضرت مسیح موعود نے اعلان فرمایا کہ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھو.اس وقت جماعت کے متعلق اس مسجد کپورتھلہ کی احمدی جماعت میں گنتی کے چھ آدمی تھے اور باقی سب غیر احمدی ، اعلیٰ حکام کے ایماء سے شہر والوں نے احمدی جماعت کو مسجد سے نکال دیا جب حضرت صاحب سے سارا حال بیان تو حضور نے فرمایا (کہ) اپنے حقوق کو چھوڑ نا معصیت ہے.عدالت سے چارہ جوئی کرو.حسب لارشاد استقرار حق کا دعوی دائر کیا گیا.یہ مقدمہ سات سال تک اپیل در اپیل عدالت میں دائر رہا.پہلی عدالت سے فیصلہ احمدیوں کے حق میں ہوا اور صورت یہ ہوئی کہ حاکم اپنی تحریر میں شروع سے لے کر اخیر اصحاب احمد جلد چہارم (طبع سوم صفحہ ۱۶و۱۷) حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے بھی بیان فرمایا تھا کہ کپور تھلہ کی مسجد کا مقدمہ تھا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ اگر میں سچا ہوں تو یہ مسجد ضرور ملے گی.(۷)

Page 441

419 تک غیر احمدیوں کے حق میں لکھتا گیا.مگر جب اخیر پر پہنچا تو خدا تعالیٰ نے اس کے دل کو پھیر دیا اور یہ حکم دیا کہ مسجد احمدیوں کو دی جاتی ہے.ان کو انتظام کے متعلق پورا حق حاصل ہو گا.غیر احمدی فرداً فرداً نماز پڑھ سکتے ہیں.دوران مقدمہ میں ایک احمدی نے خواب دیکھا کہ حاکم ایک مکان بنا رہا ہے.تمام دیوار میں مکان کی غیر احمد یوں کے واسطے بنائی جارہی ہیں مگر جب چھت ڈالنے لگا تو احمدیوں کے واسطے ڈالی.غیر احمدیوں کی طرف سے اس فیصلہ کا اپیل ہوا.دو برس تک مقدمہ رہاہر قسم کی سفارشیں ہوئیں مگر عدالت ماتحت کا فیصلہ بحال رہا.حضرت اقدس دہلی سے قادیان تشریف لا رہے تھے.لدھیانہ (میں) خاکسار فیاض علی اور منشی عبدالرحمن صاحب کپورتھلہ سے حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے......دوسرے دن (بعد تقریر) خاکسار نے عرض کیا کہ جماعت کو نماز کی بہت تکلیف ہے.مسجد کے واسطے دعا فرمائی جائے اس سے پیشتر بھی چند مرتبہ مسجد کے واسطے یاد دلا چکا تھا.حضور نے فرمایا کوئی ضرورت دعا کی نہیں ہے اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے تو مسجد تمہارے پاس واپس آ جائے گی.” میں نے اس پیشگوئی کا کپورتھلہ اور لدھیانہ میں عام طور سے اعلان کر دیا اور مسجد میں بھی لکھ کر لگا دیا اور ہر ایک کو متنبہ کیا کہ حکام رعایا ، چھوٹے بڑے سب زور لگا لیں مگر مسجد ہمارے پاس واپس آئے گی.اس پیشگوئی پر ہر ایک کو تعجب تھا کہ کیسے پوری ہو سکتی ہے.غیر احمدی نے مسجد بنائی اور غیر احمدی کے پاس آخر * اپیل ہے جس کے ایماء سے احمدی جماعت مسجد سے نکالی گئی تھی ایک شخص شفاعت احمد جو ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھا، اس نے کہا کہ مسجد تمہارے پاس واپس آگئی تو میں مسیح موعود پر ایمان لے آؤں گا.بالآ خرابیل ریاست کے چیف کورٹ میں پیش ہوئی.فریقین حاضر عدالت ہوئے.جج نے مثل دیکھ کر حکم دیا ( کہ ) غیر احمدیوں نے مسجد بنائی اور غیر احمدی ہی قابض ہیں لہذا غیر احمد یوں کو مسجد دی جاتی ہے.فریقین عدالت سے باہر آ گئے.اس وقت وہی ڈاکٹر شفاعت احمد مجھ کو ملا.سلام کر کے کہنے لگا کہ تمہارے مسیح موعود کی پیشگوئی کہاں گئی ؟ مسجد تو غیر احمدیوں کو مل گئی.میں نے اس کو جواب دیا کہ حکم کے لکھنے میں ابھی دورا تیں درمیان ہیں.اور اس کے اوپر ایک احکم الحاکمین ہے.انتظار کرو کہ وہ فریقین میں کیا فیصلہ کرتا ہے.میں نے اس کو تحدی کے ساتھ کہا کہ زمین و آسمان ٹل جائیں گے مگر مسیح موعود کی پیشگوئی نہیں ملے گی.وہ میرے یہ فقرے سن کر حیران ہو گیا.و منشی حبیب الرحمن (صاحب) احمدی نے جو اس مسجد کے متولی تھے رات کو خواب میں دیکھا کہ یہ حاکم یعنی آخری.ناقل

Page 442

420 ہمارے مسجد کا فیصلہ کرنے والا نہیں ہے کوئی اور حاکم ہے جو اس مسجد کا فیصلہ کرے گا.یہ خواب بھی مشتہر کر دی گئی.جب پیشی مثل کا دن آیا تو کثرت مقدمات کی وجہ سے پیش نہ ہوسکی اور تاریخ بدل گئی حتی کہ چھ ماہ گذر گئے اور تاریخیں بدلتی رہیں.اور اس حاکم کو توفیق نہ ملی کہ کچھ کم لکھ سکتا اس دوران میں ایک احمدی نے خواب دیکھا کہ وہ بازار میں جارہا ہے.راستے میں ایک شخص نے کہا کہ وہ حاکم جو تمہاری مثل کا فیصلہ کرنے والا تھا.فوت ہو گیا ہے..چنانچہ ایک روز ) دس بجے دن کے حاکم اور اس کے بیٹے نے مل کر کھانا کھایا.بیٹا کھانا کھا کر کوٹھی کے چبوترے پر ٹہلنے لگا.خدمت گار (حقہ کی) چلم بھرنے چلا گیا.اور سواری کچہری جانے کے لئے آگئی جب خدمت گار چلم لے کر واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ حاکم کی دل کی حرکت بند ہوگئی.اور وہ مر گیا (ہے) جس شخص نے خواب میں اس احمدی کو مرنے کی خبر دی تھی اس نے اس احمدی کو مل کر حاکم کے مرنے کی خبر دی.اس حاکم کے فوت ہو جانے پر ایک آریہ حج مقرر ہوا جو احمدیوں کا سخت مخالف تھا.آخر مثل اس کے پیش ہوئی جس نے دو جوں کی اتفاق رائے سے فیصلہ کرنا تھا.مگر دونوں کی رائے متفق نہ ہو سکی.ایک کی رائے یہ ہوئی کہ غیر احمدیوں کو مسجد دی جائے اور دوسرے کی یہ کہ احمدیوں کو دی جائے اس پر یہ رائے قرار پائی کہ انگریزی گورنمنٹ کے کسی بیرسٹر کی رائے لی جائے جس کی رائے سے وہ اتفاق کرے وہی فیصلہ ناطق ہو.آریہ حاکم کا ایک برادر زادہ بیرسٹر تھا.اس کے پاس مثل بھیجی گئی اور اس کو پچاس روپے فیس کے دیئے گئے جو فریقین سے نصفا نصف لے لئے گئے.اس بیرسٹر کے پاس یہ مشل دیر تک پڑی رہی.فریق مخالف ہو نے اس کے پاس سفارش لے جانے کی بہت کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت ماتحت عدالت کا فیصلہ بحال رہا اور مسجد احمد یوں کو دے دی گئی...پیشگوئی پوری ہوگئی.الحمد لله على ذلک.میں ایک روز ڈاکٹر شفاعت احمد مذکور کے مکان پر بیٹھاہوا تھا.اور بھی کچھ آدمی بیٹھے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر آ گیا.تو میں نے ڈاکٹر شفاعت احمد سے کہا کہ آپ نے تو وعدہ کیا تھا.کہ اگر مسجد احمدیوں کو دلائی گئی تو میں حضرت مسیح موعود پر ایمان لے آؤں گا اب آپ پر واجب ہے کہ ایمان لے آئیں.حمد یہاں سہوا ” فریقین درج ہوا ہے.ناقل

Page 443

421 اس نے کہا کہ میں نے تو کوئی وعدہ نہیں کیا.اگر میں نے جھوٹ بولا ہے تو مجھ پر عذاب نازل ہو.میرا فرزند مرجائے ، میری بیوی مرجائے.تب میں نے اس سے کہا کہ تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یکطرفہ مباہلہ کر لیا ہے.اب تم ایک سال تک اس کے نتیجہ کا انتظار کرو.چنانچہ اس اثناء میں ڈاکٹر مذکورالیسا سخت بیمار ہوا کہ اس کے بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی.وہ اچھا تو ہو گیا مگر کانوں سے قطعی بہرہ ہو گیا.اس کا لڑ کا بھی فوت ہو گیا اور آئندہ کے لئے نسل بھی قطع ہوگئی.(۷۸) (۴) کپورتھلہ کی مسجد کا فیصلہ ہو گیا وو اس عنوان کے تحت مرقوم ہے: خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے جب آتی...کپور تھلہ میں احمدیوں کی ایک مسجد کے متعلق عرصہ سے عدالت کپورتھلہ میں مقدمہ چلا آتا تھا.وہ مقدمہ آخر لالہ ہری کشن داس صاحب بی.اے نائب عدالتی کی عدالت سے فیصلہ ہو گیا جس کی نقل ذیل میں درج کرتا ہوں.لالہ صاحب نے جس قابلیت اور انصاف پسندی کے ساتھ یہ فیصلہ لکھا ہے وہ ان کے فیصلہ کے پڑھنے سے معلوم ہو جائے گا.میں صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے مخالف مسلمان اس فیصلہ کو پڑھیں.ایک ہندو حج تو اس نتیجہ پر آ جاتا ہے کہ احمدی مسلمان ہیں ، کافر نہیں مگر ہمارے علماء اور سجادہ نشین صبر ہی نہیں کر سکتے.جب تک اپنے ایک کمز ور بھائی کو کافر نہ کہہ لیں.وسَلّمْ.وو خدا کا شکر ہے کہ آخر اس مقدمہ میں بھی خدا تعالیٰ نے ہماری مدد کی اور تائید حق کا کھلا کھلا ثبوت نظر آیا...اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک میں بڑی ہی ناسپاسی کروں گا اگر احمدی قوم کی طرف سے لالہ ہری کشن داس صاحب کا شکریہ ادا نہ کروں.انہوں نے باوصفیکہ مدعا علیہم میں بڑے بڑے بارسوخ اور ریاست کے بعض عہدہ دار تھے اپنے کانشنس کا خون نہیں کیا اور بڑی جرأت اور دلیری کے ساتھ کسی اثر سے متاثر نہ ہو کر دیانت داری کے ساتھ فیصلہ کیا ہے.(ایڈیٹر) و نمبر مقدمه تاریخ مرجوعه تاریخ فیصلہ

Page 444

422 کا تک ۶۰ ء ۲۵/چیت ۶۶۰ نقل پرت حکم آخر بمقد مہ دیوانی راج کپورتھلہ ۲۶ ہاڑ ا ء ر مگر ۶۶۲ با جلاس لالہ ہری کشن داس صاحب نائب عدالتی بہادر بی.اے حبیب الرحمن خلف شیخ ابوالقاسم ما لک و متولی مسجد واقع کپورتھلہ....مدعی بنام عبداللہ ناظر محکمہ نظامت، حکیم صادق علی اسٹنٹ سرجن ملٹری ہسپتال مولوی محمود علی پر رندھیر * کالج محمد رمضان منشی ذخیره محمد خلیل نقشہ نویس میونسپلٹی وزیر ولد فریدا - محلہ شیر گڑھ محمد خاں ولد پیارے باجہ نواز تا با تیلی نابینا صابر خاں مدرس رند ہیر کالج عبد الخالق کورٹ حوالدار میجر و امام الدین سپاہی و جان محمد حوالدار و شیر احوالدار میجر دلال محمد ناٹک و کالے خاں ناٹک وغیرہ ملا زمان پیلٹن دویم وعلی محمد سپاہی تو پخانه مد عاعلیہم تجویز عدالت- مدعی یہ دعوی اس طرح دائر کرتا ہے کہ مدعی مسجد زیر بحث کا متولی و مالک ہے.مدعی نے مسجد میں امام و مؤذن مقرر کئے ہوئے ہیں مدعا علیہم نے خلاف مرضی مدعی مسجد میں ناجائز حرکات کرنی شروع کی ہوئی ہیں.جو مدعی مالک کے حقوق کے سخت مضر ہیں وہ نا جائز حرکات ہیں کہ مدعی علیہ نے ایک جدید امام اور موذن اپنی طرف سے مقرر کیا ہے.جس کے مقرر کرنے کا مسجد مدعی میں مدعا علیہم کو کوئی حق نہیں ہے.مؤذن مسجد مقرر کردہ مجھ مدعی متولی مسجد جب وقت پر اذان دے چکتا ہے.تو اس کے بعد اسی وقت مدعا علیہم اپنے مؤذن سے مسجد میں اذان دلواتے ہیں.اور جب امام مسجد مقرر کردہ مدعی جماعت کے واسطے مسجد میں کھڑا ہوتا ہے تو ساتھ ہی مد عاعلیہم کی علیحدہ نماز پڑھنے کے واسطے کھڑی ہوتی ہے.بعد نماز جمعہ اس کو پڑھانے سے مدعاعلیہم رکتے نہیں.اور چاہتے ہیں کہ مدعی کا مقرر کردہ امام جو روز تعمیر مسجد سے ہے.نکال دیا جاوے ان افعال کے کرنے کا مدعی علیہم کو اذان دلوانے سے اور اس طرح جماعت بالمقابل کرانے سے اور جمعہ کی امامت سے روکا جاوے.مد عاعلیہم نے تحریری جواب دعوای پیش کیا.مدعی علیہم کو دعوی مدعی سے صاف انکار ہے کہتے ہیں کہ مدعاعلیہم نے کبھی نہ مسجد میں کوئی فساد یا جھگڑا کیا.نہ کبھی اذان یا جماعت خلاف شرع کی ہے مدعی متولی مسجد نہیں غالباً پروفیسر“ کا لفظ سہواً ایسا لکھا گیا.(مؤلف)

Page 445

423 ہے.مدعی کو حقوق ملکیت حاصل نہیں ہے حاجی محمد ولی اللہ صاحب مرحوم نے مسجد کو فرقہ اہل سنت جماعت کے واسطے وقف کیا تھا مدعی جو حاجی صاحب مرحوم کا بھتیجا ہے.اور وہ جو مسجد کا امام ہے.ہر دو نے مذہب اہل سنت جماعت چھوڑ کر بیعت مرزا غلام احمد قادیانی کے ہو گئے ہیں.جن کا طریقہ اہل سنت جماعت کے برخلاف ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ مسجد فرقہ مرزائیہ کے لئے مخصوص کی جاوے اور حاجی صاحب مرحوم ( کے ) فرقہ وطریقہ یعنی اہل سنت جماعت کو وہاں نماز پڑھنے نہ دی جائے اور کہ متعلق مسجد قانونا ہر ایک اہل سنت جماعت کو انتظام جائیداد کا یکساں اختیار ہے اس لئے مدعی دعوی کرنے کا مجاز نہیں ہے.امور تنقیح طلب یہ ہوئے.(۱) مسجد متنازعہ ملکیت واحد مدعی ہے یا کہ وقف ہے ثبوت بذمه مدعی (۲) حاجی محمد ولی اللہ صاحب بانی مسجد کا بوقت تعمیر مسجد کیا اعتقا دتھا.آیا وہ مرزا صاحب قادیان والے کے مرید تھے یا کہ اہل سنت جماعت میں ہی تھے.اور کہ مسجد کی تعمیر اور وقف ہو چکنے کے بعد انہوں نے اپنا اعتقاد تبدیل کر لیا تھا.یا کہ وفات تک ان کا وہی اعتقاد رہا جو وقت تعمیر مسجد کے تھا.ثبوت بذمہ فریقین (۳) حاجی صاحب نے کسی خاص فرقہ کے نماز کے پڑھنے کے واسطے مسجد کو وقف کیا.ثبوت نذمه فریقین (۴) اگر حاجی صاحب نے بعد وقف کر دینے مسجد کے اپنا اعتقاد بدل لیا تو کیا وہ مسجد سے اس فرقہ کو جس کے واسطے پہلے وقف ہوئی محروم کر کے جدید فرقہ کو استعمال کے واسطے مسجد نہیں دے سکتے تھے.ثبوت بذمہ مدعاعلیہم (۵) مدعی متولی مسجد کا ہے اگر ہے تو مدعی کو اس فرقہ کے سوائے حس کی نماز کے واسطے مسجد وقف ہوئی دیگر اعتقاد والے فرقہ کو مسجد کے استعمال کے بعد میں مداخلت کرنے سے روکنے کے حقوق حاصل ہیں ثبوت بذمه مدعی ”ہر ایک امر کی نسبت علیحدہ علیحدہ ظاہر کیا جاتا ہے نسبت امراول.حمد سہوا’ دعا‘ رقم ہوا ہے.(مؤلف)

Page 446

424 شہادت پیش کردہ فریقن کا یہ ہی نتیجہ ہے کہ مسجد نہ وقف ہو چکی ہوئی ہے اور یہ امر مسلمہ قانون ہے کہ وقف شدہ چیز ملکیت نہیں رہتی ہے.نسبت امر دوم : شہادت پیش کردہ فریقین کا نتیجہ ہے کہ وقت تعمیر مسجد حاجی صاحب بانی مسجد اہل سنت اجماعت تھے.مدعی نے اس امر کے ثبوت میں کہ حاجی صاحب نے مسجد کی تعمیر اور وقف ہو چکنے کے بعد اپنا اعتقاد تبدیل کر لیا تھا.یعنی مرزا صاحب کے مرید ہو گئے تھے.محض ایک خط تحریر کردہ حاجی صاحب اسمی * مرزا صاحب مورخه ۲۲ / جنوری ۱۸۸۵ء پیش کیا اور اس خط کی جس جس عبادت سے مدعی یہ نتیجہ نکالتا ہے اس اس پر پنسل سرخ کے نشانات دیے گئے ہیں اور اس عبارت کو عدالت نے بغور تمام مدعی کے محتاط سے سنا اور پڑھا اس سے عدالت کو یہ نتیجہ نکالنے میں (که ) حاجی صاحب مرحوم مرزا صاحب قادیان کے مرید ہو گئے تھے.بالکل تأمل ہے عدالت اس سے صرف اس قدر نتیجہ نکال سکتی ہے.کہ وقت تحریر کرنے اس خط کے حاجی صاحب مرحوم مرزا صاحب کو نہایت نیک پارسا اور دین اسلام میں عالم متصور کرتے تھے.اور مدعی کسی شہادت سے حاجی صاحب مرحوم کا مرزا صاحب کا مرید ہونا ثابت نہیں کر سکا اس لئے عدالت قرار دیتی ہے کہ حاجی صاحب نے اپنا اعتقاد تبدیل نہیں کیا تھا.اور اپنی وفات تک حاجی صاحب نے اپنا اعتقاداہل سنت جماعت ہی رکھا تھا.نسبت سویم.شہادت پیش کردہ فریقین سے ظاہر ہے کہ مسجد کو تعمیر ہوئے عرصہ قریباً چالیس سال کا گذرتا ہے یا کہ اس سے دو تین سال کم ہوں گے.یہ امر ظاہر ہے اور فریقین (میں) سے کسی کو اس میں انکار نہیں ہے.کہ اس وقت مرزا صاحب کا کوئی دعوے ظہور میں نہیں آیا تھا.اور نہ کوئی کتاب ان کی اس وقت شائع ہوئی تھی مرزا صاحب کے مریدان کا اس وقت وجود ہی موجود نہ تھا.اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسجد اہل سنت جماعت کی نماز پڑھنے کے واسطے وقف ہوئی تھی اور یہ ہی شہادت سے ثابت ہوتا ہے.نسبت امر چهارم - زیادہ بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ اوپر ثابت ہو چکا ہے کہ حاجی صاحب مرحوم نے اپنی وفات تک اپنا اعتقاد بدلا نہیں تھا نسبت امر پنجم.یعنی بنام (مؤلف)

Page 447

425 بموجب شرع محمد بانی و واقف مسجد خود متولی ہو سکتا ہے اگر وہ بلا متولی بنانے کے فوت ہو جاوے تو اس کی اولا دمتولی ہوسکتی ہے.مقدمہ حال ( میں ) مدعی حاجی صاحب مرحوم کا بھیجا حقیقی ہے اور حاجی صاحب نے جو اپنی اخیر وصیت مورخہ ۱۲ / بسا کھ ۴۶ بکر می نمبرسی - ایف-سی- صاحب بہادر سپر نٹنڈنٹ ریاست ۱۲ را پریل ۱۸۸۹ء کو کی ، اس کی نقل مشمولہ مثل کے ملاحظہ سے ظاہر ہے کہ اس میں نسبت جائداد غیر منقولہ عبارت ذیل میں درج ہے.گھماؤں معافی مسجد کپورتھلہ واسطے مصارف مسجد کے حبیب الرحمن ( مدعی حال ) حسب عمل درآمد حال عمل کرے گا.اس میں وہ وہانہ چاہ لاگست میرے سے تیار ہوتی ہیں.“ اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حاجی صاحب نے مسجد کے مصارف کا انتظام مدعی کے سپر دکیا.گولفظ متولی استعمال نہیں کیا گیا.مگر یہ عبارت مدعی کے متولی مسجد قرار دئے جانے کی نسبت بخوبی دلالت کرتی ہے اور عبدالغنی مدعا علیہ کے بیان مؤرخہ ۹ ماگھ ۱۹۲۰ میں درج ہے.کہ محکمہ نظامت سے مدعی کو مسجد کی حالت درست کرنے کے واسطے مہلت مل چکی ہے اس سے بھی ظاہر کہ حکام بالا دست کی طرف سے بھی مدعی ہی منتظم مسجد تسلیم کیا گیا ہے.اور کثیر التعداد شہادت پیش کردہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد کے شکست ریخت ڈول موٹہ صف امام وغیرہ کا انتظام برابر اس وقت تک مدعی ہی کرتا رہا ہے.ایسی صورت میں مدعی کا متولی مسجد متنازعہ ہونا بلا شبہ ثابت ہے جبکہ مدعی متولی مسجد ثابت ہو چکا تو مدعی کو بموجب فیصلہ پر یوی کونسل مورخه ۲۱ فروری ۱۸۹۱ء مقدمه اپیل فضل کریم وغیرہ ا پیلانٹ بنام حاجی مولا بخش وغیرہ رسپانڈنٹ مسجد میں کسی غیر اسلام کے مداخلت کرنے اور افعال خلاف شرع محمدی کے ہونے سے ممانعت کرنے کے حقوق حاصل ہیں.مدعی قبول کرتا ہے کہ وہ مرید مرزا صاحب قادیان کا ہے.اور مدعا علیہم کہتے ہیں کہ مریدان مرزا صاحب اہل سنت جماعت سے خارج ہیں.جن کے واسطے مسجد کا وقف ہونا اوپر ثابت ہو چکا ہے.اب دیکھنا اس امر کا ضروری ہے آیا مریدان مرزا صاحب اہل سنت جماعت سے خارج ہیں.یعنی فتوای کفر کا ان پر دیا جا سکتا ہے.شرع محمد ٹی مؤلفہ مسٹر امیر علی صاحب سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمان وہ شخص ہے جو کہ خدا کو ایک جانے اور پیغمبر صاحب یعنی محمد صاحب کو رسول الله صدق دل سے تصور کرے اور جو شخص ان دونوں کو یا دونوں میں سے ایک کو تسلیم نہ کرے، وہ کافر ہے.مرزا صاحب یا مریدان مرزا صاحب کفر کی اس تعریف میں نہیں آسکتے، کیونکہ وہ بلا شبہ خدا کو ایک اور محمد صاحب کو رسول اللہ تسلیم کرتے ہیں.قرآن پر ان کا پورا ایمان ہے.ایسی صورت مدعاعلیہم کی محض سینہ زورہی ہے کہ مرزا صاحب یا مریدان صاحب کو اہل سنت جماعت سے خارج یہ لفظ صحیح طور پر پڑھا نہیں جاتا.اس طرح لکھا ہوا ہے ” گینا نو (مؤلف)

Page 448

426 تصور کرتے ہیں.عدالت مدعا علیہم کے اس خیال کو غلط قرار دیتی ہے.مرزا صاحب کے مرید ان اہل سنت جماعت سے خارج نہیں ہو سکتے ہیں.اس سے ثابت ہوا کہ فریقین مقدمہ ہذا ایک ہی فرقہ اہل سنت جماعت کے متعلق ہیں.مدعی ہرگز دین اسلام سے باہر نہیں ہوا.بدیں وجہ مدعی نے اپنے حقوق متولی ہونے کو ہرگز رائل نہیں کیا.مدعی میں کوئی ایسا نقص نہیں ہوا ہے.جس کی وجہ سے وہ مسجد متنازعہ کے متولی ہونے سے علیحدہ کیا جاسکے.” جب یہ ثابت ہو گیا کہ فریقین اہل سنت جماعت ہیں.اب دیکھنا اس امر کا ضروری ہے کہ آیا مدعی متولی مسجد مدعاعلیہم کو نماز پڑھنے سے روک سکتا ہے.شہادت پیش کردہ مدعی سے بھی بخوبی ثابت ہے کہ مدعی کسی * مسلمان کو نماز پڑھنے سے روک نہیں سکتا ہے." حسب روئداد بال نتیجه تحقیقات یہ ہے کہ مدعی متولی مسجد ہے.اس کو امام اور موذن کے مقرر کرنے کا ہر طرح سے اختیار ہے.مدعا علیہم فرداً فرداً اپنی اپنی نماز جس طرح چاہیں مسجد متنازعہ میں پڑھ سکتے ہیں.مگر علیحدہ امام و مؤذن مقرر نہیں کر سکتے.اور نہ جماعت بالمقابل امام مقرر کردہ مدعی متولی کے کھڑے کر سکتے ہیں لہذا حکم ہوا کہ ڈگری استقرار یہ اور حق مدعی نسبت جملہ مدعا علیہم بلا خرچہ اس امر کی دی جاوے کہ مدعا علیہم امام و موذن مقرر کردہ مدعی متولی مسجد کے سوائے کسی دیگر مؤذن سے اس مسجد میں اذان نہیں دلا سکیں گے.اور نہ امام مقرر کردہ مدعی کے جماعت کے بالمقابل جماعت کھڑی کر سکیں گے.مدعاعلیہم کو اختیار ہے کہ فرداً فرداً اپنی اپنی نماز جس طرح چاہیں مسجد متنازعہ میں پڑھ سکتے ہیں.مدعی ان کو نماز پڑھنے سے روکنے کا مجاز نہیں ہو گا.فردا فردا کے واسطے لازمی نہیں ہے کہ امام کے پیچھے ہی نماز پڑھیں.د مثل داخل دفتر ہوئی.فریقین حاضر حکم سنایا گیا.مورخه ۶ مگر ۱۹۶۲ بکرمی سہو کتابت سے کسی کو ” سے لکھا گیا ہے.الحکم ۴۲ / دسمبر ۱۹۰۵ء ( صفحه ۴۳) بدر ۱۲ جنوری ۱۹۰۶ء میں مرقوم ہؤا.،، کپورتھلہ میں جو مخالفین نے ایک مسجد میں سے احمدیوں کو نکالنے کی ٹھان کر مقدمہ کھڑا کر رکھا تھا، اس میں مسجد احمد یوں کومل گئی اور مخالفوں کا کوئی دخل و تعلق نہ رہا.فالحمد لله (صفحہ ۸- زیر عنوان مقدمہ کپورتھلہ)

Page 449

427 روایات منشی حبیب الرحمن صاحب ماخذ کتاب میں ذکر کیا گیا ہے کہ روایات کے سلسلہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ۱۸ فروری ۱۹۲۴ء کو ایک مکتوب منشی صاحب کو تحریر کیا تھا.منشی صاحب نے اپنے بیٹے شیخ عبدالرحمن صاحب کو روایات لکھوائی تھیں.جہاں ذیل کی روایات میں کسی اور ماخذ کا ذکر نہیں وہ بواسطہ شیخ عبدالرحمن صاحب حاصل ہوئی ہیں.(۱) مرزا احمد بیگ کا انتقال- مرز احمد بیگ کی وفات سے تین روز پہلے جب حضور نماز کے لئے تشریف لاتے تو فرماتے کہ کوئی نشان ظاہر ہونے والا ہے.میں قادیان ہی میں تھا دوسرے روز بھی یہی فرمایا.تیسرے روز جب حضور مسجد مبارک میں نماز ظہر سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کوئی نشان ظاہر ہونے والا ہے.آسمان پر کھچڑی سی پک رہی ہے.تھوڑی دیر بعد (حضور کے عمزاد ) مرز انظام الدین کے گھر سے رونے کی آواز آئی.معلوم ہوا کہ مرزا احمد بیگ کا انتقال ہو گیا ہے.(۷۹) (۲) امین مرزا محمود احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کی ختم قرآن کی امین کی تقریب پر حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف سے مجھے بھی بلایا گیا تھا.اور میں اس مجلس میں حاضر تھا جس میں یہ نظم پڑھ کر سنائی گئی تھی.احباب سارے آئے تو نے یہ دن دکھائے تیرے کرم نے پیارے یہ مہرباں بلائے یہ دن چڑھا مبارک مقصود جس میں پائے یہ روز کر مبارک سُبحان من يراني مہان جو کر کے الفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی ( از مؤلّف ) اس پرسوز اور ایمان افروز ، دعائیہ نظم میں یہ اشعار بھی ہیں: تو نے یہ دن دکھایا، محمود پڑھ کے آیا دل دیکھ کر یہ احساں تیری ثنائیں گایا صدشکر ہے خدایا صد شکر ہے خدایا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی لخت جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا دے اس کو عمر ودولت کر دور ہر اندھیرا دن ہوں مرادوں والے پر نور ہو سویرا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی اس کے ہیں جو برادر ان کو بھی رکھیو خوشتر تیرا بشیر احمد، تیرا شریف اصغر

Page 450

428 کر فضل سب پہ یکسر، رحمت سے کر معطر یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی اے واحد یگانہ، اے خالقِ زمانہ میری دعائیں سن لے اور عرض چاکر انہ تیرے سپرد تینوں دین کے قمر بنانا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی یہ تینوں تیرے چاکر، ہوویں جہاں کے رہبر یہ ہادی جہاں ہوں یہ ہوں نور یکسر (۸۰) یہ مرجع شہاں ہوں یہ ہوں مہر انور یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی تاریخ احمدیت جلد دوم کے مطابق حضرت صاحبزادہ صاحب نے قرآن مجید حضرت حافظ احمد اللہ صاحب سے پڑھا تھا اور ے جون ۱۸۹۷ء کی تقریب امین میں بیرونِ قادیان کے احباب نے بھی شرکت کی تھی اور اس خوشی میں حضرت اقدس کی طرف سے حاضرین کو پر تکلف دعوت دی گئی تھی اور اسی روز حضور نے یہ نظم دی تھی جو آپ کے ارشاد پر اسی روز زیور طبع سے مزین ہوئی تھی.(۳) میراں بخش نامی ایک مجذوب قادیان میں رہتا تھا اور دن رات کو چوں میں پھرتارہتا.کبھی رات کو دو تین بجے مسجد مبارک میں اذان دے دیتا.احباب اذان فجر سمجھ کر اٹھ آتے.رفتہ رفتہ سب کو علم ہو گیا اور وہ اس کی اذان پہچان لیتے تھے.البتہ نا واقف مہمان تکلیف پاتے تھے.حضور کا حکم تھا کہ اسے لنگر خانہ سے کھانا مل جایا کرے.قادیان میں میں تھا.ایک روز حضور صبح کو سیر کے لئے تشریف لے جارہے تھے.وہ سامنے سے آ گیا.حضور ٹھہر گئے اس نے حضور سے خوب معانقہ کیا.اور بار بار معانقہ کرتا رہا.جب وہ معانقہ کر چکا تو حضور نے پوچھا."راضی ہیں ؟ اس نے کہا ہاں مجھے لنگر سے دال اچھی نہیں ملتی حضور نے حکم دیا کہ اسے کھانا اچھا دیا کریں.اور حضور روانہ ہو گئے.وہ بہت خوش ہوا.اور کہنے لگا کہ ”ہن ناں دین تاں‘ کہ اب بھلا لنگر خانہ والے کھانا اچھانہ دیں تو دیکھیں) (۴) جب حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کی شادی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے بھی اس موقع پر قادیان بلایا تھا.بارات پانچ چھ افراد پر مشتمل تھی بارات قادیان پہنچی تو میں قادیان میں ہی تھا.اس موقع پر شادی کی کتر وفر اور دھوم دھام اور کوئی رسم وغیرہ نہ تھی.کسی دوست نے دوڑ کر حضور کی خدمت میں اطلاع دی کہ بارات آ گئی ہے.تو حضور نے سادگی سے فرمایا کہ آگئی ہے تو آنے دو“ (۵) بابت روح کیوڑہ.ایک دن میں نے حسب معمول صبح کو حضور کی خدمت میں اطلاع کروائی.حضور نے مجھے اندر بلوالیا.فرمایا کہ روح کیوڑہ آیا ہوا ہے.اسے بوتلوں میں بھرنا ہے.حضور اٹھے اور روح کیوڑہ کے دو کنستر اٹھا لائے.میرے اصرار پر غالباً یہ خیال کر کے کہ میں حضور کو بوتلیں بھرنے نہ دوں گا.فرمایا

Page 451

429 کہ کسی آدمی کو باہر سے بلا لیتا ہوں.اور میرے بار بار کے اصرار کے باوجود خود ہی حضور نے ایک شخص کو بلا لیا.کنستروں کو کھول کر طسلے میں الٹوایا گیا.تو کچھ حصہ تو ٹھیک نکلا.بقیہ سارا سرخ زنگ آلودہ نکلا.میں نے عرض کیا کہ پیپوں کی وجہ سے زنگ سے خراب ہو گیا ہے.فرمایا ٹھیک ہے.اور دریافت فرمایا کہ اس کے منگوانے کی کیا صورت ہوسکتی ہے.میں نے عرض کیا کہ تانبے کی گاگروں کو قلعی کروا کے اس میں بھر کرٹانکہ سے منہ بند کر کے بھیجتے ہیں.فرمایا درست ہے.(۶) کامل اتباع مطلوب ہے.ایک دفعہ قادیان میں ایک مجلس میں کسی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ محض بیعت کر لینا ہی غرض نہیں میں تمہیں مسیح موعود بنانے آیا ہوں.( یعنی محض بیعت کر لینے کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ حضوڑ کی کامل متابعت کی کوشش کرنا چاہیئے.مؤلف ) (۷) ضیاع وقت کا قلق.میں نے ایک دفعہ قادیان میں حضور سے سنا.فرمایا کہ قضائے حاجت میں وقت ضائع ہونے پر بھی ہمیں بہت قلق ہوتا ہے.ہم چاہتے ہیں کہ یہ وقت بھی دینی کاموں کی سرانجام دہی میں صرف ہو.(۸) ایک دفعہ میں قادیان میں تھا.اس وقت کی بات ہے کہ حضور کسی تصنیف میں بہت مصروف تھے.آپ کی اجازت سے آپ کے سامنے دستر خوان پر کھانا رکھا گیا.ظہر کی اذان ہونے پر حضور تحریر کے کام سے فارغ ہوئے اور کچھ بھوک اور کمزوری محسوس کرنے پر کھانے کے بارے دریافت کیا معلوم ہوا کہ برتن صاف پڑے تھے اور روٹیاں بھی موجود نہ تھیں.اس لئے یہ سمجھا گیا کہ حضور نے کھانا تناول فرمالیا ہے.اور خادمہ خالی برتن اٹھا لے گئی.اب حیرانی ہوئی کہ کھانا کہاں گیا.اور دیکھ بھال پر روٹی کے کچھ ٹکڑے اور چونڈی ہوئی کچھ ہڈیاں ایک کونے میں پڑی ملیں.جس سے اندازہ ہوا کہ یکی تمام کھانا کھا گئی ہے اور حضور کو تصنیف کے استغراق میں اس کا علم نہیں ہوا.(۹) حضرت کی خدمت میں پان پیش کرنا.ابتدائی زمانہ میں قادیان میں پان نہیں ملتے تھے.بلکہ بٹالہ، امرتسر یا لاہور وغیرہ سے منگوانے پڑتے تھے.حضرت ام المومنین پان کی عادی تھیں.اس لئے میں ایک دو ڈھولی پان ہمراہ لے جایا کرتا تھا.خود بھی عادی ہونے کی وجہ سے میں اپنا پا ندان بھی ساتھ رکھتا تھا.ایک دفعہ میرا قیام گول کمرہ میں تھا.ایک روز بعد نماز ظہر حضور نے مسجد مبارک میں تقریر شروع کر دی.میں نے حضور کے قدموں میں بیٹھنے کا یہ طریق اختیار کیا کہ گول کمرہ میں جلدی پہنچ کر ایک بڑے سے بیگمی پان کے پتہ کو خوب صاف کر کے پان لگایا اور اس میں الائچیاں وغیرہ ڈال کر بیڑہ ہاتھ میں لئے مسجد میں حضور کے قریب پہنچا اور حضور کی خدمت میں

Page 452

430 پیش کیا.اس وقت مسجدا بھی چھوٹی تھی اور شاید پانچ چھ افراد ایک صف میں کھڑے ہو سکتے تھے.جو اس وقت کھچا کھچ بھری ہوئی تھی.حضور نے پان لے لیا.لیکن اسے چھوٹا کرنے کوفر مایا اور یہ بھی کہا کہ یہ پان ہے یا ہاتھی کا کان.میں حضور کے قدموں میں بیٹھ گیا.اور پان پیش کر نیکی یہی غرض تھی پان کو چھوٹا کرنے کی اور کوئی سبیل مجھے نظر نہ آئی سوائے اس کے کہ اسے تو ڑ کر منہ میں ڈالتا گیا.پھر پیش کیا تو حضور نے منہ میں ڈال لیا اور جزاکم اللہ فرمایا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے میری بہت محبت اور بے تکلفی تھی.آپ مجھے یا حبیب“ کہہ کر پکارتے تھے.اور جب پان کھانا ہوتا تو مجھے فرماتے کہ اس بدعت کا مزہ ہمیں بھی چکھا ئیں اور میں پان بنا کر پیش کر دیتا.اس روز جو میرے حضور کی خدمت میں پان پیش کرنے پر حضور نے جزاکم اللہ فرمایا تو میں نے مولوی عبدالکریم صاحب کی طرف دیکھا لیکن آپ نے کچھ شرمساری کی وجہ سے آنکھیں نیچی کر لیں.تقریر ختم کر کے جب حضور اندرونِ خانہ تشریف لے گئے تو مولوی صاحب نے سیدھے میرے پاس آ کر کہا کہ آج کے بعد میں پان کو بدعت نہیں کہوں گا.جس کے پیش کرنے پر خدا کا مسیح جزاکم اللہ کہیں اور ہم بدعت کہیں.میرا مقصد اس کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ حضور بعض اوقات مزاحیہ کلمات بھی استعمال فرما لیتے تھے.آج کل کے پیروں وغیرہ کی طرح نہیں تھے.ہم حضور کے ساتھ آزادانہ گفتگو کر لیتے تھے.دوسرے ادھر حضور کی زبان سے بات نکلی اور ادھر خدام اس پر عمل کر لیتے تھے.چنانچہ جزاکم اللہ کہنے پر مولوی صاحب نے بدعت“ کہنے کے عمل میں فوراً تبدیلی کر لی.(۱۰) بڑے باغ کی نگہداشت : مہمان خانہ کی جگہ مٹی کا ایک بڑا تو دہ ہوتا تھا.ایک بار میں نے عرض کی کہ یہ جگہ ہموار ہو جائے تو کچھ ترکاری وغیرہ مہمانوں وغیرہ کے لئے اس جگہ ہو جایا کرے.فرمایا ہاں.آئیے آپ کو دکھا ئیں حضور نے مجھے لے جا کر اپنا تمام باغ دکھایا.اور اس کی حدود و غیرہ بھی دکھا ئیں اور باغ کی سیر کرائی اور جو پھول دار پودے لگائے ہوئے تھے.وہ بھی دکھائے.باغ میں ایک چبوترہ سا تھا.وہاں حضور بیٹھے بھی تھے.میں نے عرض کیا کہ باغ میں بہت سے درخت فضول ایستادہ ہیں اگر یہ نکالے جائیں تو سارا باغ درست ہو جائے اور باغ کی نشو و نما کے لئے بھی بعض باتیں عرض کیں حضور نے میرے مشورہ کو بہت پسند کیا اور فرمایا کہ ہمیں تو فرصت نہیں کون کرے؟ یوں کریں کہ کوئی نوکر آپ اچھا سارکھوادیں جو کام کرتا رہے.وقتاً فوقتاً آپ دیکھ لیا کریں.میں نے عرض کیا کہ بہت بہتر ہے.میں ابھی نوکر کی جستجو میں ہی تھا کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب ( گویا مستقل طور پر ) قادیان تشریف لے آئے.پھر ایک دفعہ قادیان آنے پر میں نے حضور سے اس باغ کے متعلق ذکر کیا تو فرمایا کہ میر صاحب باغ

Page 453

431 کی غور و پرداخت کرتے ہیں آپ ان کو اس کے متعلق بتادیں پھر میں ہمیشہ میر صاحب سے اس بارے میں بات کرتا اور باغ کی مزید ترقی وشادابی کے وسائل اختیار کرتا تھا اور آپ کی منشاء کے مطابق ہر قسم کے تخم بھجواتا تھا.پھل دار پودوں میں سے انجیر، انار سنگترہ، اور شہتوت وغیرہ کے پودے بھجوائے تھے.مولوی محب الرحمن صاحب بیان کرتے ہیں کہ والد صاحب نے ایک دفعہ اپنے باغ کے غالباً دو ٹوکرے انجیر کے حضور کی خدمت میں بھیجے.پھر حضرت میر صاحب نے والد صاحب کو بتایا کہ حضور نے انجیر بہت پسند فرمائے تھے.اس پر والد صاحب نے انجیر کی جڑھیں اور پور میر صاحب کی خدمت میں بھیجے جو بار آور ہو گئے تھے.(۱۱) حضور کا قرآن مجید سننا: حضرت مفتی محمد صادق صاحب بیان فرماتے ہیں کہ : میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف ایک دفعہ روتے دیکھا ہے.اور وہ اس طرح کہ ایک دفعہ آپ اپنے خدام کے ساتھ سیر کے لئے تشریف لے جارہے تھے.اور ان دنوں میں منشی حبیب الرحمن صاحب حاجی پورہ والوں کے داماد قادیان آئے ہوئے تھے کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور ! یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں.حضرت صاحب وہیں راستہ کے ایک طرف بیٹھ گئے.اور فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنا ئیں.چنانچہ انہوں نے قرآن شریف سنایا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے.اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات پر میں نے بہت غور سے دیکھا مگر میں نے آپ کو روتے نہیں پایا.حالانکہ آپ کو مولوی صاحب کی وفات کا نہایت سخت صدمہ تھا.سیرة المحمدی حصہ دوم ( روایت ۴۳۳) شیخ عبدالرحمن صاحب اپنے مکتوب محرره ۱۸ مارچ ۱۹۸۰ء میں یہ وضاحت تحریر کرتے ہیں :.مہاراجہ ریاست کپور تھلہ کی بہت بڑی جائیداد اور ضلع بہرائچ میں تھی اور ایک اعلیٰ افسر اس کا منیجر تھا اور وہاں بہت سے دفاتر اس کے انتظام کے تھے.حافظ فضل الرحمن صاحب برا در کلاں والد منشی حبیب الرحمن صاحب منیجر کے دفتر میں اہلمد تھے.حافظ فضل الرحمن صاحب کے بڑے بیٹے حافظ محبوب الرحمن صاحب کی رہائش حاجی پور میں تھی اور ہمارے والد صاحب کا ہاتھ ان کی اراضی کے انتظام میں بٹاتے تھے ہمارے والد صاحب نے انہیں قرآن مجید حفظ کروایا اور وہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اخبارات سلسلہ احمدیہ کا مطالعہ کرتے رہے.بالآخر انہوں نے احمدیت قبول کرلی.اس پر ان کے والد آگ بگولہ ہو گئے.کیونکہ وہ شدید معاند احمدیت تھے.حافظ محبوب الرحمن صاحب

Page 454

432 (۱۲) دھرمپال کا ارتداد : آپ تحریر کرتے ہیں.ایک دفعہ ایک شخص نے جبکہ بعد مغرب حضور چھت مسجد پر تشریف فرما تھے.عرض کیا کہ حضور ایک شخص بقیہ حاشیہ: انہیں تبلیغی خطوط تحریر کرتے رہے.حافظ محبوب الرحمن صاحب کی شادی ہماری بہن امت الرشید صاحبہ سے والد صاحب نے کرنا چاہی جسے حافظ فضل الرحمن صاحب نے بہت خوشی سے قبول کیا اور خود اور اقارب نے شادی میں شرکت کی.یہ ۱۹۰۶ ء یا ۱۹۰۷ء کی بات ہے.اس کے کچھ عرصہ بعد جبکہ شیخ محب الرحمن صاحب قادیان میں قیام رکھتے تھے.اور قرآن کریم وغیرہ پڑھ رہے تھے.ان کے ہمراہ حافظ محبوب الرحمن صاحب بھی قادیان چلے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ سیر کو بھی جایا کرتے تھے.کسی کے عرض کرنے پر کہ یہ محبوب الرحمن صاحب ہمنشی حبیب الرحمن صاحب کے عزیز ہیں اور حافظ قرآن ہیں.تو حضور وہاں بیٹھ گئے اور حافظ صاحب نے جو خوش الحان قاری تھے حضور کے ارشاد پر قرآن مجید سنایا.حضور کو قرآت بہت پسند آئی اور وہیں حضور نے فرمایا کہ روزانہ بعد نماز عشاء ہمیں قرآن مجید سنایا کریں قریباً ایک ماہ وہ حضور کو قرآن مجید سناتے رہے.اور اس دوران حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ بھی ان کے گہرے مراسم ہو گئے تھے اور حضرت مصلح موعود نے ایک دو دفعہ حافظ صاحب کی دعوت طعام بھی کی تھی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت لے کر حافظ محبوب الرحمن صاحب حاجی پورواپس آگئے ان کی اہلیہ ہماری ہمشیرہ شادی کے ایک سال کے اندر بیار ہوکر سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں راہی ملک بقا ہو گئیں انسا لله وانا اليه راجعون پھر حافظ محبوب الرحمن صاحب منیجر جائیدادریاست کے دفتر میں بہرائچ میں اہلمد ہو گئے.اور سلسلہ احمدیہ کے اخبارات خلافت اولیٰ کے آخر تک منگواتے رہے.لیکن خلافت ثانیہ کی بیعت انہوں نہیں کی.پھر حاجی پور آ گئے تب ہمیں معلوم ہوا کہ ان کو احمدیت میں اعتقاد نہیں رہا اور خود انہوں نے ہمیں کہہ دیا کہ میرے پیچھے نمازیں نہ پڑھا کرو.اسی حالت ارتداد میں وہ بہرائچ میں فوت ہو گئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ہمیشہ بھائی محبت الرحمن صاحب سے حافظ محبوب الرحمن صاحب کی بابت دریافت فرماتے رہتے تھے.ان کی وفات کے بعد دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ حافظ صاحب کی وفات ہوگئی ہے.ہماری ہمشیرہ کی وفات کے بعد حافظ صاحب نے اپنے غیر احمدی اقارب میں شادی کر لی تھی ان کی ایک بیٹی مسماۃ ناصرہ صاحبہ سے محترم سید غلام حسین صاحب وٹرنری ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے شادی کر لی تھی اور بعد تقسیم ملک سید صاحب مع اہل وعیال بمقام بھلوال ضلع سرگودھا مقیم ہوئے تھے.

Page 455

433 عبدالغفور ہے.وہ آریہ ہو گیا.میں نے یہ خبر اسی دن سنی تھی.یہ سن کر مجھے تمام دن رنج رہا شام کو یہ خبر حضرت کو سنائی گئی اس پر حضور نے فرمایا کہ اسلام ایسے کوڑا کرکٹ سے پاک ہونا چاہیئے اس پر جور نج مجھے تھاوہ دور ہو گیا کہ ہم میں سے ایسا آدمی نکل گیا جس کو اسلام ( کا) کوڑا کہا جا سکتا ہے......( اور ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر اطمینان ہو گیا ( قلمی کاپی صفحه ۸۱،۸) ☆ منشی صاحب کی غیر تمندانہ اپیل اخبار وطن“ کی ایک تحریک پر اخبار وطن کے ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ خاں صاحب نے ۱۹۰۵ء کے آخر میں تحریک کی کہ اگر آپ انگریزی رسالہ ریویو آف ریلجیز کو مرزا صاحب کے مشن سے بالکل جدا کر دیں اور صرف اسلام کی خوبیوں اور اسلامی عقائد کی وضاحت وغیرہ جنرل ٹاپکس ( عام مضامین ) تک قلم کو محدود رکھیں تو میں ممالک غیر ، خاص کر جاپان و امریکہ میں اس کی مفت اشاعت کے فنڈ میں دس روپیہ ماہوار اپنے پاس سے دینے کو تیار ہوں.اور وطن کے ذریعہ بھی اس کی خدمت کرنا فرض سمجھوں گا.“ اس پر ایڈیٹر ریویو مولوی محمد علی صاحب کے اتفاق سے خواجہ کمال الدین صاحب نے مولوی انشاء اللہ خان صاحب کو اطلاع دی کہ میں اس حد تک متفق ہوں کہ ریویو کو بلا لحاظ فرقہ شائع کیا جائے اور تمام مسلمان اسے اپنا آرگن سمجھ کر اشاعت ، اسلام میں کوشش کریں.اور ادارہ ریویو کا فرض ہوگا کہ آئندہ ریویو کو حضرت مرزا صاحب کے خاص دعاوی سے خالی رکھیں البتہ ریویو کا ایک ضمیمہ الگ سرورق کے ساتھ شائع ہو.اس کی قیمت بھی الگ ہو.اس میں صرف احمد یہ مذاق کے مطابق مضامین صرف احمدی احباب کے لئے شائع ہوں یا ان کے لئے جوخود دعاوی حضرت مرزا صاحب کے بارے باخبر ہونا چاہیں.(۸۱) جماعت احمدیہ نے ہرگز پسند نہ کیا کہ رسالہ ریویو کی موجودہ حالت میں سرموفرق ہو.مثلاً حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب نے ۲۸ فروری ۱۹۰۶ء کو اپیل بحضور حضرت مسیح موعود مهدی مسعود امام الزمان سلمه، الرحمان میں عرض کیا کہ پہلے میں نے ایک مضمون سے یہ سمجھ کر خوشی محسوس کی تھی کہ منشی انشاء اللہ خاں صاحب نے رسالہ ریویوکو پسند کیا ہے اور اس کی خریداری کے لئے توجہ دلائی ہے.اور دو سوخریدار بہم پہنچانے کا وعدہ کیا ہے لیکن ☆ پھر اس شخص نے ”ترک اسلام نام کتاب لکھی جس کا جواب حضرت مولوی نورالدین صاحب نے لکھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا گیا.یہ جواب ”نورالدین نام سے شائع ہوا.سر ورق پر تاریخ اشاعت ۲۷ فروری ۱۹۰۴ء مرقوم ہے.

Page 456

434 منشی صاحب کے اور مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب کے درمیان خط و کتابت اور معاہدہ علم میں آنے پر کچھ اور ہی ظاہر ہوا.گویار یو یو کو ہمارے امام صادق اور رسول برحق کی پاک تعلیم ، الفاظ، خیالات، اعتقادات ( اور ) الہامات سے علیحدہ کر دیا گیا ہے.اور ہم کو جو فدائے مسیح موعود ہیں.خوش کرنے یا بالفاظ دیگر (ان کے) آنسو پونچھنے کے واسطے ایک ضمیمہ شامل کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے.جس کی اشاعت ہم خادمان ہی تک محدود رہے گی.اس قدر معلوم ہونے کے بعد خاکسار کے لئے ماتم تھا اور ہے.میں اپنی اس حالت کو ظاہر نہیں کر سکتا جو یہ خبر سن کر ہوئی..” میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر یہ لوگ اس زمانہ کے رسول کے خیالات ارتعلیم اور وہ کلام ربانی جو اس رسول پر نازل ہوتا ہے.چھوڑیں گے تو وہ اور کونسی باتیں ہیں جن کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں؟ کیا اسلام کوئی دوسری چیز ہے.جو اس رسول سے علیحدہ ہو کر بھی مل سکتا ہے؟ جس نے احمد کو چھوڑا اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی چھوڑا.وہ ہرگز ہرگز اخرين منهم لما يلحقو ابهم (۸۲) کا مصدق نہیں.کیا اس خدائی سلسلہ کی اشاعت انشاء اللہ خاں کی امداد پر منحصر ہے؟ ریویو پہلے کیا تھا.اور اب کیا ہے؟ یہ ترقی اور قبولیت منشی انشاء اللہ خاں کی وجہ سے ہوئی ہے؟ ہر گز نہیں.خدا تعالیٰ ہی سب کچھ کر رہا ہے اور حضور کی دعائیں ہیں اور بس.ریو یوصرف اس واسطے ہے کہ یورپ اور امریکہ میں عیسائیوں کے بناوٹی خدا کو انسان بنا دے جس نے بالآخر وفات پائی.کیا یہ عقیدہ ظاہر کرنے کے واسطے ان کے لئے کوئی راہ ہے جبکہ وہ مسیح موعود کی پاک تعلیم کو ریویو سے علیحدہ کرلیں گے؟ کیا ریویو کے مضامین کی قبولیت اور قابل تعریف ہونا جناب ایڈیٹر صاحب و میجر صاحب نے اپنی ذات تک ہی محدود سمجھ لیا ہے؟ اگر ان کا ایسا خیال ہے تو غلط ہے بلکہ یہ سب کچھ حضور ہی کی برکت کا نتیجہ ہے.یوں ان کو اختیار ہے کہ وہ علیحدہ رسالہ جاری کر دیں لیکن وہ بھی دوسرے اسلامی رسالوں کی طرح بے مغز اور بے برکت ہوگا احمدی فرقہ کا رسالہ اسی وقت تک احمدی ہے جب تک احمد مسیح موعود کی پاک تعلیم اپنے ساتھ رکھتا ہے ریویو کے زیادہ خریدار پیدا کرنے کا یہ منشاء ہے.کہ اسلام یا یوں کہو کہ مسیح موعود کی تعلیم کی اشاعت ہو اگر یہ نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں خدا کے لئے ( حضور ) منیجر ریویو آف ریلیجیز کو حکم دے دیو ہیں کہ وہ اپنے ان خیالات کو چھوڑ دیں ورنہ جو رسالہ یا کتاب یا اخبار ہمارے سردار حضرت مسیح موعود کے ذکر اور تعلیم سے خالی ہے ہو ہمارا نہیں ہم کو اس ( رسالہ) کی ضرورت ہے جس میں حضور کا ذکر ہو اور تعلیم ہو جو ہم

Page 457

435 کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے.جوایمان حضور پر خدا تعالیٰ نے مجھے بخشا ہے.جس کی تصدیق میرا بال بال کر رہا ہے.وہ گوارا نہیں کرتا کہ اشاعت اسلام کا طریقہ ہمارے بھائیوں کی طرف سے ایسا رکھا جاوے فقط...خاکسارحبیب الرحمن از موضع حاجی پورہ ڈاک خانہ پھگواڑہ ، * حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وطن والی تجویز کو رد فرما دیا تھا کہ مجھ کو چھوڑ کر کیا مردہ اسلام پیش کرو گے؟ ۹۰ مولوی انشاء اللہ خاں صاحب نے اپنی تجویز کونا کام دیکھ کر جماعت احمدیہ پر تنگ ظرفی کا الزام لگایا اور مخالفت شروع کر دی اور یہ ظاہر کیا کہ ان کی تحریک پر مسلمانوں نے ریویو کی بہت سی مدد کی ہے.جبکہ حقیقت یہ ثابت ہوئی کہ بیرون از جماعت احمدیہ صرف دو مسلمانوں نے کچھ چندہ بھجوایا تھا.اور ان کو لکھا گیا کہ وہ اپنی رقوم واپس لے لیں لیکن انہوں نے واپس نہیں لیں.حقیقی وطن کی تجویز کسی خدمت اسلام کے جذبہ پر مبنی نہ تھی.چنانچہ محترم ایڈیٹر صاحب الحکم نے یہ راز افشا کیا کہ شدید ترین معاند اسلام پادریوں میور وغیرہ کی دل آزار مخالف اسلام کتب کو مولوی انشاء اللہ خاں صاحب روپیہ کے لالچ میں اسلام کی حامی اور نادر “ اور ” مفید کتب ظاہر کر کے زیادہ قیمت پر فروخت کرتے اور اس طرح کفر و الحاد کی اشاعت کرتے ہیں.ان حالات کی وجہ سے الہ آباد کے سرکردہ علماء نے مولوی مذکور کے کافر، ضال مضل اور دشمن اسلام ہونے کا فتوی صادر کیا.(۸۳) مقدمه کرم دین بعدالت چند ولال بیان منشی صاحب مولوی کرم دین کی طرف سے ایک مقدمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت الحکم ۱۰ مارچ ۱۹۰۶ صفحه ۳ مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم کو خط محولہ بالا کو شائع کرنے کے لئے بھجواتے ہوئے یہ لکھا گیا جو اصل مضمون کے عنوان و مضمون سے پہلے یوں درج ہوا ہے:.ا پیل مکرمی شیخ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جناب حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پورہ کی اس اپیل کو جو منسلک ہذا ہے شائع فرما دیں کیونکہ شاید بہت سے دلوں میں ایسے خیالات ہوں.میرا جواب صرف یہ ہے کہ جو کچھ میں نے کیا اپنی رائے سے نہیں کیا.محمد علی“

Page 458

436 مولوی فضل دین صاحب بھیروی مالک مطبع ضیاء الاسلام قادیان کے خلاف زیر سماعت تھا.منشی حبیب الرحمن صاحب ایک پیشی میں شمولیت کے لئے براستہ امرتسر گورداسپور کا سفر کر رہے تھے.کہ سماعت کنندہ مجسٹریٹ درجہ اول لالہ چند ولال بی.اے بھی اسی ٹرین میں سفر کر رہے تھے.وہ امرتسر میں ٹرین کے تبدیلی کے وقت قلی کی سہولت کے بارے میں پریشان تھے.منشی صاحب نے ان کی مدد کی.جناب خواجہ کمال الدین صاحب لاہور سے اس مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور جارہے تھے.منشی صاحب نے انہیں بتایا کہ مجسٹریٹ رخصت سے واپس آگئے ہیں.چنانچہ خواجہ صاحب نے آکر مجسٹریٹ سے ملاقات کی.گورداسپور منشی صاحب اور خواجہ صاحب حضور کی قیام گاہ پر پہنچے تو حضرت اقدس اور حضرت میر ناصر نواب صاحب وہاں تشریف رکھتے تھے.(بیان بواسطہ شیخ عبدالرحمن صاحب) یہ مقدمہ ازالہ حیثیت عرفی کا جنوری ۱۹۰۳ء میں دائر کیا گیا تھا.پرائیویٹ طور پر بعض بااثر افراد نے اس مجسٹریٹ کو انتقام کے لئے مشتعل کیا اور کہا کہ ساری قوم کی نظر آپ پر ہے.ملزم آپ کا شکار ہے.مجسٹریٹ نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ پیشی پر آپ کو گرفتار کر لے گا.اس وقت ظاہری حالات مجسٹریٹ کی کارروائی کے موافق تھے.انتقال مقدمہ کی درخواست اور پھر چیف کورٹ سے اس بارے میں اپیل نا منظور ہو چکی تھی.مجسٹریٹ کے اس عزم کی اطلاع حضور کو اس وقت ملی جب حضور پیشی کے لئے ایک رات پہلے گورداسپور پہنچے.اس پر حضور نے نہایت جلال سے فرمایا کہ میں شیر ہوں اور شیر بھی خدا کا شیر.وہ بھلا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ میں کیا کروں میں نے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھ پاؤں میں لوہا پہنے کو تیار ہوں مگر وہ کہتا ہے کہ میں تجھے ذلت سے بچاؤں گا اور عزت کے ساتھ بری کروں گا.اللہ تعالے نے اس پیشی میں گرفتاری سے بچانے کا یہ سامان کیا کہ آپ کو خالص خون کی قے ہوئی انگریزی ڈاکٹر کو بلایا گیا.اس نے کہا کہ بڑھاپے میں خون کی قے آنا خطر ناک ہے اور سرٹیفکیٹ دیا کہ ایک ماہ کے لئے آپ کو میں کچہری میں پیش ہونے کے قابل نہیں سمجھتا.حضور پیشی سے پہلے ہی قادیان روانہ ہو گئے.سرٹیفکیٹ دیکھ کر اپنے منصوبہ کو خاک میں ملایا کر مجسٹریٹ بہت تلملایا اور دوسرے روز ڈا کٹر مذکور کی شہادت لی جس نے شہادت دی کہ میرا سرٹیفکیٹ بالکل درست ہے.(۴) (۸۴) ایک پیشی میں اس مجسٹریٹ (چندو لال) نے حضور سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو نشان نمائی کا بھی دعوی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اور تھوڑی دیر کے بعد آپ نے بڑے جوش کے ساتھ فرمایا کہ جونشان چاہیں میں

Page 459

437 اس وقت دکھا سکتا ہوں اس پر وہ سناٹے میں آ گیا.اور لوگوں پر اس کا بڑا اثر ہوا ایک دفعہ اس نے الہام إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ إِهَا نَنگ کے متعلق سوال کیا کہ کیا یہ خدا نے آپ کو بتایا ہے؟ حضور نے فرمایا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس کا مجھ سے وعدہ ہے اس نے پوچھا کہ کیا جو آپ کی ہتک کرے وہ ذلیل وخوار ہو گا ؟ فرمایا بے شک اس نے کہا کہ اگر میں کروں؟ فرمایا چاہے کوئی کرے اس نے دو تین دفعہ یہ پوچھا.آپ یہی جواب دیتے رہے کہ چاہے کوئی کرے.(۸۵).یہ مجسٹریٹ بعد ازاں دماغی خلل میں مبتلا ہو کر موت کی آغوش میں چلا (AY) گیا.(۸۲) ڈاکٹر عبدالحکیم کے سلسلہ میں اظہار غیرت ڈاکٹر عبدالحکیم پیٹالوی نے قرآن مجید سے یہ غلط استدلال کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا نجات کے لئے ضروری نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سمجھانے پر بھی وہ اپنی بے راہ روی میں بڑھتا گیا.اس پر منشی صاحب نے غیرت ایمانی کا اظہار کیا اس بارے میں مرقوم ہے:.اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور نے ڈاکٹر مرتد سے خرید کی ہوئی چند ایک کتابیں اسے واپس کی ہیں اس پر (وہ) یکدفہ آگ بولا ہو کر نا پاک طبع لوگوں کی طرح حضرت مرزا صاحب کو گالیاں...دینے اور.........نا پاک الفاظ.بولنے لگ پڑے ہیں (ایسے) لوگوں میں یہی دستور چلا آیا ہے کہ جب کسی پر خفا ہوتے ہیں.تو اس کے پیر کو گالیاں دیا کرتے ہیں“.(۸۷) ڈاکٹر مذکور نے حضرت اقدس کی شدید مخالفت شروع کر دی اور حضور کے خلاف متعدد پیشگوئیاں شائع کیں جو جھوٹی ثابت ہوئیں اور حضور نے جو حقیقۃ الوحی میں تحریر فرمایا کہ اس نے اپنے مرتد ہونے پر ایسی مہر لگادی ہے کہ اب غالبا اس کا خاتمہ اسی پر ہو گا.(۸۸) چنانچہ اس کا ایسا ہی انجام ہوا.جلسه تشخيذ الأ ذبان ۲۵ دسمبر ۱۹۰۶ء کو منعقدہ جلسہ تشحید الاذہان کے سلسلہ میں مرقوم ہے کہ چونکہ مہمانوں کی کثرت ہے جن کے لئے وضووغیرہ کا بار بار انتظام ہونا مشکل ہوتا ہے اور ان سب کے کھانے کا ایک جگہ انتظام ضروری ہے اس لئے ظہر وعصر کی نمازیں مسجد اقصیٰ میں جمع کی گئیں اور حضرت اقدس علیہ السلام اندرون خانہ تشریف لے گئے.نئے مہمان خانہ کے ساتھ کے میدان میں احباب جلسہ تفخیذ الاذہان کے لئے جمع ہوئے.جہاں چٹائیوں اور دریوں کے ایک فراخ فرش کے علاوہ بنچوں اور میزوں اور کرسیوں کا بھی انتظام کیا گیا تھا.صدر جلسہ حضرت حکیم

Page 460

438 مولوی نورالدین صاحب تھے.تلاوت قرآن ہوئی پھر بانی انجمن ہذا حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے ایک مختصر تقریر زمانہ کی حالت اور ضرورت مصلح کے بارے کی.اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو نور بھیجا ہے اس کے ذریعہ سے احمدی نوجوانوں میں محبت اور یگانگت قائم کرنا اور تاریخ زمانہ بتا کر ان کو ہدایت پر لگانا اور نو جوانوں کو اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی طرف توجہ دلانا اس انجمن کا اصل مقصد ہے.اسی مقصد کے حصول کے لئے رسالہ تشخیز الا ذہان جاری کیا گیا ہے.اور سالانہ جلسوں میں تقاریر کی جاتی ہیں.(پھر) سیکرٹری انجمن حافظ عبدالرحیم صاحب نے ان بزرگوں کا شکر یہ ادا کیا جنہوں نے انجمن اور اس کے مقاصد میں امداد کی ہے.اور شکریہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب اور خادم راقم ( یعنی مفتی محمد صادق صاحب ) اور ایڈیٹر صاحب الحکم اور منشی حبیب الرحمن صاحب اور سیٹھ عبدالرحمن صاحب اور بابو اقبال علی (صاحب) اور دیگر احباب کا بالخصوص ذکر کیا.." (رضی اللہ عنہم اجمعین) پھر حضرت صاحب صدر مولوی نور الدین صاحب نے الله نُورُ السَّمَواتِ وَالأَرض الخ پر تقریر فرمائی اور بتایا کہ ہر انجمن ہر شخص اور ہر جماعت کی کامیابی کا واحد راستہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا ، عاجزی اور گڑ گڑانا اور رونا اور تسبیح اور تنزیہہ بار چھالے کرنا ہے.(۹ مکتوبات حضرت اقدس بنام منشی صاحب (۸۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات علی الترتیب حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب ، حضرت منشی ظفر احمد صاحب اور حضرت خان عبدالمجید خاں صاحب رضی اللہ عنہم کے نام مکتوبات احمد یہ جلد پنجم میں درج کرتے ہوئے.تعارفی نوٹ میں حضرت عرفانی صاحب رقم فرماتے ہیں.جماعت کپورتھلہ کے وہ بزرگ جو جماعت مذکور کے بانیوں میں سے تھے.اور جنہوں نے اپنے عشق دوفا کا وہ عملی ثبوت دیا کہ خدا کے برگزیدہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں جنت میں اپنے ساتھ ہونے کا وعدہ دیا.گویا یہ وہ لوگ تھے جو عشرہ مبشرہ کے نمونہ کے لوگ تھے ہر ایک اپنے اپنے رنگ میں بے نظیر اور واجب التقلید تھا.اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنے رحم وکرم کے بادل برسائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات دے اور ہمیں ان کی عملی زندگی کی تو فیق.جماعت کپورتھلہ کے مخلصین کے نام مکتوبات بہت کم ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ عشق و محبت کے یہ پروانے ذرا فرصت پاتے تو قادیان پہنچ جاتے اور خط و کتابت کی نوبت ہی نہ آتی.جہاں ☆ حضرت جاتے یہ ساتھ جاتے تاہم جو تبرکات ان سے حاصل ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں.“ ( صفحہ ۵۲) حضرت عرفانی صاحب کی مراد دیگر بعض پرانے صحابہ کرام کی خط و کتابت سے مقابلہ ہوگی حس ☆

Page 461

439 (۱) حضور علیہ السلام نے آپ کے نام ذیل کا تعزیتی مکتوب ارسال فرمایا: مشفقی مجی اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہونچ کر بدریافت واقعہ ہائکہ حادثہ وفات آپ کی ہمشیرہ کے بہت غم واندوہ ہوا.انا للہ و انا اليه راجعون - خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اور اس مرحومہ کو راضیات جنت میں داخل فرمائے.آمین ثم آمین.باقی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.(۲) بسم اللہ الرحمن الرحیم محبی اخویم والسلام خاکسار غلام احمد ۱۷ مئی ۹۲ حمد محمدہ و نصلی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہونچا.ڈیڑھ میل تک شہر میں اپنے گاؤں سے آنا بجز حرج کے متصور نہیں.چونکہ گاؤں میں مسجد ہے.اگر شہر کے نزدیک بھی ہے.تب بھی ایک محلہ کا حکم رکھتا ہے.کسی حدیث صحیح میں ممانعت کا نام ونشان نہیں.بلاشبہ جمعہ جائز ہے.خدا تعالیٰ کے دین میں حرج نہیں.کتاب دافع الوساوس چھپ بقیہ حاشیہ: ضرورت منشی حبیب الرحمن صاحب خط و کتابت کرتے رہتے تھے.منشی کظیم الرحمن صاحب کے مضمون مصدقہ منجانب حضرت منشی ظفر احمد صاحب میں مرقوم ہے.حضور سے آپ کی بہت خط و کتابت رہا کرتی تھی جس کا افسوس ہے کہ ہمارے پاس ریکارڈ نہیں رہا صرف ایک خط کا عکس پیش کیا جا رہا ہے (الحکم ۷ راگست ۱۹۳۵ صفحہ۸ کالم ۱) یہاں ذکر ہوا ہے کہ دیمک کی وجہ سے یہ ریکا رڈ ضائع ہوا ( بعد تقسیم ملک ایک مکتوب بھی محفوظ نہیں رہا) مکتوبات احمدیہ کی اس جلد میں زیر عنوان ” حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور کے نام چھ مکتوبات درج ہوئے ہیں جن میں سے تالیف ہذا میں مکتوبات نمبر زیر عنوان انفاق فی سبیل اللہ اور نمبر اویر عنوان ” جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء درج کئے گئے ہیں.الحکم ۲۸ جنوری ۱۹۳۴ء (صفحہ ۷ کالم۲) ومکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر پنجم ( مکتوبات نمبر ۳ صفحه ۵۵) اس مکتوب کی نقل جو بقلم منشی تنظیم الرحمن صاحب خاکسار مؤلف کے پاس ہے اس میں مندرجہ دونوں

Page 462

رہی ہے.خاکسار 440 غلام احمد ۱۳ را گست ۱۸۹۲ء (۳) بسم اللہ الرحمن الرحیم مجی مشفقی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مدت کے بعد آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا.ایک رسالہ آپ کے نام روانہ ہو گیا ہے.دافع الوساس بعد اس کے شائع ہوگا.زیورات کی نسبت جو آپ نے دریافت کیا ہے، یہ اختلافی مسئلہ ہے مگرا کثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ جو زیور مستعمل ہو اس کی زکوۃ نہیں ہے مگر بہتر ہے کہ دوسرے کو عاریتاً کبھی دیدیا کریں مثلاً دو تین روز کے لئے کسی عورت کو اگر عاریتا پہننے کے لئے دیدیا جائے تو پھر بالاتفاق ساقط ہو جاتی ہے.خواب آپ کی نہایت عمدہ ہے.راقم خاکسار والسلام غلام احمد از قادیان ۲۵ جنوری ۱۸۹۲ء بقیہ حاشیہ: حوالہ جات سے یہ معمولی اختلاف ہے.ا.فرمائے کی بجائے ” فرمادے“ ۲ - تاریخ ۷ ارمنی کی بجائے ۲۷ مئی شیخ عبد الرحمن صاحب مقیم اسلام آباد ۱۸ مارچ ۱۹۸۰ء کے مکتوب میں ذیل کی وضاحت کرتے ہیں:.موصوفہ ہمشیرہ والد صاحب مسماۃ امت الوہاب صاحبہ زوجہ اہتمام الدین صاحب اولین زچگی کے چھلہ میں وفات پاگئیں.اہتمام الدین نے حج پر جانے پر مکہ مکرمہ میں وفات پائی اس جوڑے کا کم سن بچہ حاجی برہان الدین وہاں سے واپس آ کر کچھ عرصہ منشی حبیب الرحمن صاحب کے پاس مقیم رہا پھر یہ کسی چھا پہ خانہ میں ملازم ہو گئے اور میرٹھ میں شادی کر لی.اکلوتی اولا دلڑکی کے ساتھ بعد تقسیم ملک کراچی پہنچے اس کے ساتھ ناظم آباد میں بعمر اٹھاسی برس مقیم ہیں.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم ( مکتوب نمبر ۱۱/۳ صفحه ۵۴ ۵۵) والحکم ۲۸ جنوری ۱۹۳۴ء (صفحہ ۷ کالم ۱و۲ ) و نقل بقلم منشی تنظیم الرحمن صاحب

Page 463

441 (۴) (0) ایک مکتوب کا چہر بہ الحکام سے : ( الحکم ۷ را گست ۱۹۳۵ صفحه ۸).سم میں لحم حمد السالم نے بہت مجھے حور ترویح رستم یکی دو ر وہ کام جوتا جو چاہئے محمد اتنا بہت عمور تما ممت القصد فرق تھا کرده گمه نور آب قطع تقی دردسر جوتی بھی کہ عصا که زنانه جوبتا ہی ہوا کرتی ہیں تاریک و 2.جو اس چھوتی عمر باقی سے اور اسکالیا بات ہجر تھا در سلام تاکه معالم ادرار قادیانی بنام حاجی پوره تحقیق و بهانه میگوری پریت کور اور مقام تواري بعد تمت مجھے عریمہ کی قویم منے الحکم ۷ را گست ۱۹۳۵ء (صفحه ۸) ایک چہ بہ منشی تنظیم الرحمن صاحب کا تیار کردہ پیش کیا جا رہا ہے.منشی صاحب نے اپنے والد حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب کے حالات زندگی کے بارے مضمورن تیار کیا جس کی تصدیق حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے فرمائی تھی یہ مضمون الحکم میں شائع ہوا.

Page 464

442 (ب) چه به منشی صاحب والا : اروالي بسم الله شاه مجھے از ار خوج بھیا تہا بہت عمل ما صرف اسقدر فرق کہا کردہ کچھہ مردانہ قطعاتی را در جوتی بھلا که جا کہ زمانہ جو بیان مو کرتی ہیں نارک کھے انجان کم ما را در یک جو اس پہلی جو گی چھوٹی ہر باتھی سے احا بی ا کر تھا واللام ماکرو عظام حمد در مادیان حاجی پوره خطی دوستانه سیگار میت کو مسلم بلواره ریا حکومت مجھے عزیز را خوبم من بنے جید الرحمان باب لیے (ج) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم سے یہ مکتوب یہاں نقل کیا جارہا ہے :- بسم اللہ الرحمن الرحیم مجی عزیزی اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب نحمدہ ونصلی بقیه حاشیه نشی کظیم الرحمن صاحب کا قلمی مسودہ میرے پاس ہے.میرا اندازہ ہے کہ یہ وہی اصل مسودہ ہے جو الحکام کو دیا گیا تھا.اگر مضمون چھپنے پر اسے نقل کیا جاتا تومنشی صاحب جیسے پختہ محر کوئی چھتیں مقامات پر الفاظ مانصف نصف سطر قلمزن نہ کرتے وہ نظارت امور عامہ میں سالہا سال تک ہیڈ کلرک رہے ان کی تیار کردہ رپورٹیں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ کے دستخط سے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں

Page 465

443 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.جوتا جو آپ نے بھیجا نہایت عمدہ تھا.صرف اس قدر فرق تھا کہ وہ کچھ مردانہ قطع تھی.دوسرے جیسا کہ زنانہ جوتیاں ہوا کرتی ہیں نازک کا حصہ انچان کم ہے اور بقدر ایک جو اس پہلی جوتی کے چھوٹی ہے اور اس لئے...........والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ۱۹ را کتوبر ۱۸۹۴ء * حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اس مکتوب کے بعد ایک نوٹ میں رقم فرماتے ہیں کہ بقیہ حاشیہ: پیش ہوتی تھیں ان میں کانٹ چھانٹ نہیں ہوتی تھی خاکسار جب پرائیویٹ سیکرٹری تھا تو خاکسار نے یہ رپورٹیں دیکھی تھیں.منشی صاحب کے اس مسودہ میں حضرت اقدس کے اس مکتوب کا چہ بہ (عکس) منشی بھی ہے.چونکہ چر بہ اتارنے کا فن الگ ہے اور کاتب کے پیشہ سے تعلق رکھتا ہے.اس لئے منشی صاحب والے چمہ بہ اور الحکم میں شائع شدہ چہ یہ میں نمایاں فرق ہے.ان کوائف کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے.کہ الحکم کے ادارہ نے چہ بہ کو اصل مکتوب سے اتر وایا ہوگا اور اس کی وجہ یہ بھی ممکن ہے ہوئی ہو کہ اس مسودہ میں اس عکس کے ساتھ منشی صاحب نے اپنی یہ رائے تحریر کی ہے.جو الحکم میں درجہ نہیں کی گئی کہ صاف طور پر عکس نہیں آسکا سیاہی اڑی ہوئی ہے.“ غیر ماہرفن غیر کاتب کے اپنے خیال کا پر تو بھی چہ بہ پر پڑتا ہے اور اس مکتوب کے چہ بہ پرمنشی صاحب کے خیال کا اثر نظر آتا ہے.مکتوب نمبر ۱۰/۶ ( صفحه ۵۶) مکتوب کے اوپر کے نمبر کا مطلب ہے کہ اس کتاب میں اس سے پہلے چودہ مکتوبات درج ہو چکے ہیں اور نچلے نمبر کا مطلب ہے کہ اس مکتوب الیہ کے نام یہ چھٹا مکتوب ہے اوپر کا نمبر ۱۳ کے بعد ۱۴ چاہیے تھا.لیکن یہاں سہو ہوا ہے اوپر کا نمبر ۹ سے شروع ہو کر یہ چھٹا مکتوب ۴ ابنتا ہے.

Page 466

444 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عموم آلود ہانہ کا بنا ہوا انرم نری کا سرخ رنگ کا جوتا پہنا کرتے تھے.اور منشی حبیب الرحمن مرحوم کی یہ عادت تھی کہ وہ عمو مالود ہانہ سے جو تا بنوا کر پیش کیا کرتے تھے.ان کے گاؤں میں دیمک کی کثرت تھی.اکثر کا غذات اور کتب ان کے تباہ ہو گئے یہ خط بھی ایک دو جگہ سے صاف نہیں پڑھا جاتا.البتہ یہ سمجھ میں آتا تھا کہ اس مرتبہ جو جوتا آپ نے پیش کیا اس میں بعض نقائص رہ گئے.تاہم حضور نے اولا اس کی خوبی اور عمدگی کو بیان کیا تا کہ جس اخلاص اور محبت سے تیار کرا کر انہوں نے بھیجا تھا اس کو ٹھیس نہ لگے اور اس میں جو واقعی نقص رہ گیا تھا وہ اس وجہ سے کہ اصل غرض پوری نہ ہو سکتی تھی اس کا بھی ذکر فر ما دیا ، ( د ) دونوں عکسوں اور مکتوبات احمدیہ میں درج شدہ کا مقابلہ کر کے خاکسار مؤلف نے اس مکتوب کی تعمیل کرنے کی کوشش کی ہے.وجو ہات تکمیل حاشیہ میں درج کی گئی ہیں.تکمیل شدہ مکتوب یوں ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم مجی عزیزی اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ محمدہ ونصلی جوتا جو آپ نے بھیجا ( تھا) بہت عمدہ تھا.صرف اس قدر فرق تھا کہ وہ کچھ مردانہ قطع تھی.دوسرے جوئی میں کرا) جیسا کہ زنانہ جوتیاں ہوا کرتی ہیں نازک بھی است) کا المان کم ہے.اور بندر ایک (ایک) جو ۱۳۱۲ ۱۱ اس پہلی جوتی کے چھوٹی ہے اور (اس کا ناپ و پلی اتھا) والسلام ☆ خاکسار غلام احمد از قادیان جوتے کی عمدگی کا ذکر کر کے حضور کا تحریر فرمانا کہ صرف اس قدر فرق تھا کہ وہ کچھ مردانہ قطع تھی.ظاہر کرتا ہے کہ مردانہ قطع ہونا نقص تھا.گویا یہ جوتا زنا نہ بھجوایا گیا تھا.عمومی رنگ میں بات ٹھیک ہے کہ منشی حبیب الرحمن صاحب حضور کے ذاتی استعمال کے لئے جوتا بھجواتے تھے.لیکن زیر ذ کر زنانہ جوتے کے طور پر پیش کیا گیا تھا.اس مضمون میں منشی کظیم الرحمن صاحب نے بھی تحریر کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی خدمت آپ ( والد صاحب) کے لئے مایہ نا تھی چنانچہ ابتداء میں لدھیانہ کا جوتا جو حضور پہنا کرتے تھے.خرید کر اکثر حضور کی خدمت میں پیش کرتے تھے.“

Page 467

(ایڈریس) 445 بمقام حاجی پورہ تحصیل و تھا نہ پھگواڑہ ریاست کپورتھلہ بخدمت مجبی عزیزی اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب دونوں عکسوں اور مکتوبات احمدیہ میں درج شدہ مکتوبات کا تقابلی جائزہ یہاں پیش کر کے بتایا ہے کہ کن شواہد کی رو سے مکتوبات احمد یہ والے مکتوبات کے تیرہ چھوٹے ہوئے الفاظ کو معین کیا گیا ہے.اور بعض دیگر سہووں کی نشاندہی کی گئی ہے.تکمیل شدہ مکتوب میں ان چھوٹے ہوئے الفاظ کو خطوط وحدانی میں دیتے ہوئے اوپر نمبر شمار بھی دیدیئے گئے ہیں تقابلی جائزہ.تینوں مقامات پر یہ مکتوب مکمل صورت میں موجود نہیں (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر ) ا.دونوں عکسوں (چریوں) کے مطابق بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بائیں طرف ہے ( مکتوبات احمدیہ میں تاریخ مکتوب کے آخر پر سہو درج ہوئی ہے) ۲- دونوں عکسوں میں تاریخ ۱۲ اکتوبر ۹۲ درج ہے.(مکتوبات احمد یہ میں ۱۹ اکتوبر۱۸۹۴ء درج ہونا کہو ہے.) ۳- دونوں عکسوں میں سلمی موجود ہے ( مکتوبات احمد یہ میں نہیں) ۴ - دونوں عکسوں میں بھیجا تھا.بہت عمدہ تھا.پڑھا جاتا ہے.(مکتوبات احمدیہ میں دراصل تھا بہت منشیانه طرز پر رقم شده نہایت درج ہو ا جو ایسا پڑھا جا سکتا ہے.) ۵- دونوں عکسوں میں دوسرے جوتی میں جیسا کہ جیسا کہ زنانہ جوتیاں ہوا کرتی ہیں کے الفاظ صاف پڑھے جاتے ہیں ( مکتوبات احمدیہ میں جوتی میں کہ کے الفاظ درج نہیں) مطابق مکتوبات احمدیہ - "نازک کا حصہ انچان کم ہے ( گویا نازک“ کے بعد نقطے اس عبارت کی جگہ دیئے گئے ہیں جو کرم خوردہ تھا.یا اس کی سیاہی اڑ چکی تھی.دونوں عکسوں میں نازک“ کے بعد کچھ جگہ خالی ہے.احکم میں اس خالی جگہ کی عبارت کا بقایا موجود ہے یہ الفاظ یہ تھی ربط کلام کے مطابق ہیں یہ بقایا’ما ہے.اس بقایا کے اوپر سطر بالا کے لفظ ”میں“ کے نقطوں کا بقایا دونوں عکسوں میں موجود ہے یہ نقطے منشیانہ طرز کے ہیں جو تیزی سے لکھنے میں اوپر سے نیچے تک جاتے ہیں.۶،۵ کی عبارت یوں بنتی ہے.دوسرے جوتی میں کہ جیسا کہ زنانہ جوتیاں ہوا کرتی ہیں.نازک نہ تھی.“ ۷.منشی صاحب والے عکس میں ” کا حصے انچان کم ہے“ کے الفاظ پڑھنے میں آتے ہیں.حالانکہ اردو گرائمر

Page 468

446 اولا د نشی محمد خاں صاحب کے ساتھ نرم سلوک کیا جانیکی الہی خبر حضرت عرفانی صاحب رقم فرماتے ہیں کہ حضرت منشی محمد خاں صاحب ریاست کپور تھلہ میں افسر بھی خانہ تھے.آپ کی علالت کی طوالت کے بقیہ حاشیہ: کے لحاظ سے’ کا حصہ “یا ” کے حصے صحیح ہو گا منشی صاحب والے عکس میں لفظ ”حصے کو چہ بہ بناتے وقت واضح کر دیا گیا ہے.لفظ حصے الحکم کے چہ بہ میں قلمزن کردہ لفظ ہے جو دھبہ کی شکل بن چکا ہے.اس دھبہ سے پہلے لفظ ” کا دونوں عکسوں میں صاف پڑھا جاتا ہے.اور کا“ سے پہلے ایک اڑے ہوئے لفظ کا بقایا بھی دونوں عکسوں میں موجود ہے.دھبہ والے لفظ کو دھبہ قرار دیتے ہوئے ربط کلام سے عبارت یوں بنتی ہے.اس کا انچان کم ہے.گویا ” کا سے پہلے بقایا لفظ ”اس کا ہے.- مکتوبات احمدیہ اور بقدر ایک جو اس پہلی جوتی کے چھوٹی ہے“ الحکم والے عکس میں لفظ جوتی ، مکمل باقی نہیں تا ہم " وتی “ پڑھا جاتا ہے منشی صاحب والے عکس میں اسے صاف طور پر جوتی “ بنادیا گیا ہے.بنادینا خاکسار مؤلف نے اس لئے کہا ہے الحکم کے عکس میں ”جوتی“ کی ت کے کش کا بقایا اور نقطوں کا بقایا 9966 " جو سے بہت اوپر ہے جبکہ منشی صاحب کے عکس میں یہ کش جوتی جو متوازی اور نقطے بھی متوازی بنادیئے گئے ہیں.ربط کلام کے مطابق ”جوتی “ کے بعد لفظ ” سے‘یا کے ہونا چاہیئے.منشی صاحب والے عکس میں جوتی“ کے لفظ کے اوپر سے درج کر دیا گیا ہے.حالانکہ اس کی جگہ اگلی سطر کے شروع میں خالی دونوں عکسوں میں موجود ہے.۹.منشی صاحب والا عکس اور بقدر ایک ایک جو اس پہلی جوتی سے جھوٹی ہے جاتی ہے.“ عکس الحکم میں جاتی ہے" کی جگہ باقی ہے“ کے الفاظ قلمزن شدہ نظر آتے ہیں یہ الفاظ ربط کلام کی رو سے بے تعلق اور حقیقۂ قلمزن شدہ ہی ہیں.۱۰.منشی صاحب والا عکس اور اس ناپ ہی تھا اس اور ناپ“ کے درمیان کچھ جگہ خالی ہے گویا کوئی لفظ اڑ ہوا تھا.یا یہ حصہ کرم خوردہ تھا.الحکم کے عکس میں الفاظ اس کا بات ہی تھا.پڑھے جاتے ہیں تابت میں گویا کے پ کے تین نقطوں میں صرف ایک باقی ہے ربط کلام سے یہ عبارت ہے اس کا ناپ وہی تھا.”پ“ کے اوپر نقطہ س دراصل ”وہی“ کے ”و“ کا بقایا ہے.

Page 469

447 باعث آپ کا حساب نامکمل تھا ان کے فرزند حضرت عبدالمجید خان صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام حبی فی اللہ کے ساتھ مخاطب کر کے ۱۴ جون ۱۹۰۷ کور قم فرماتے ہیں کہ آپ کے واسطے دعا کی جاتی ہے.حساب سرکاری میں اللہ تعالیٰ سہولت عطا فرمائے آپ کا قریباً ہر روز خط پہنچتا ہے“ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ وحی بتا دیا تھا.کہ ان کی اولا د کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا.ایام علالت کے حساب کی تکمیل کا کام حضرت منشی اروڑے خاں صاحب اور حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب کر رہے تھے.اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق حساب میں سہولت اور اولاد کے ساتھ نرم سلوک کے انوار ظاہر کر دیئے.اور مرحوم ہی کا کچھ روپیہ ایصال طلب ( قابل وصول ) ثابت ہوا اور حکومت (ریاست) کپور تھلہ نے اسے ادا کر دیا.(۹۰) (از مؤلف یہ وحی نہایت شان سے پوری ہوئی کہ اپنے والد کی جگہ خان عبدالمجید خان صاحب کو افسر بگھی خانہ بھی مقرر کر دیا گیا تھا.پھر وہ ترقی پا کر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے تھے.) (9+) سواس وحی کے نشان کے پوری شان سے اور غیر معمولی حالات میں جبکہ خطرہ تھا کہ عظیم رقم مرحوم کے خاندان کے ذمہ پڑے گی پورا کرنے کے اہل اور دست و باز وعند اللہ یہ دو بزرگ ثابت ہوئے- و ذلک فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذُو الفضل العظيم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال حضرت اقدس کے وصال کی خبر منشی حبیب الرحمن صاحب کو ایسے وقت میں ملی کہ آپ وقت پر نماز جنازہ میں شرکت کے لئے نہ پہنچ سکے.آپ اس صدمہ سے اس قدر غمگین تھے کہ آپ کے منہ سے آواز نہ نکلی تھی.آپ نے خلافت اولیٰ کی بیعت کی.آپ کو حضرت مسیح موعود اور حضور کے خاندان سے ایک قسم کا عشق تھا.حضور کے ذکر پر بعض دفعہ بے قرار ہو کر روتے روتے آپ کی پہچکی بندھ جاتی اور بے اختیا ر آپ کے منہ سے نکلتا کہ ہم تو یتیم رہ گئے.ره بیان منشی تنظیم الرحمن صاحب مصدقہ منجانب منشی ظفر احمد صاحب ( الحکم کے راگست ۱۹۳۵، صفحه ۸ کالم او ۲ راگست صفحه ۷ کالم صفحہ ۸ کالم ۳)

Page 470

448 منشی صاحب کی بیعت خلافت ثانیہ و تائید حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے خلاف بہت وسیع پراپیگنڈہ دوران ، خلافت اولی کیا گیا تھا.قلب صافی رکھنے والوں پر اس کا ذرہ بھر اثر نہ ہوا بلکہ یہ امران کے از دیا دایمان کا باعث ہوا.ایسے باصفا احباب میں منشی حبیب الرحمن صاحب بھی شامل تھے.آپ حضرت صاحبزادہ صاحب کے روحانی علومرتبت سے متاثر تھے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے وصال کی خبر ہوتے ہی انتخاب خلافت کی خبر کا انتظار کئے بغیر آپ نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں تحریر کیا کہ میرے افراد خاندان سمیت میری بیعت قبول فرمائیں اور اگر کسی اور کی بیعت ہوئی ہو تو اس کے ہاتھ پر ہماری بیعت قبول کی جائے.منشی صاحب اپنی اولادکو ہمیشہ تائید خلافت ثانیہ کی تلقین کرتے رہتے تھے.( بیان شیخ عبدالرحمن صاحب) خلافت ثانیہ سے اختلاف رکھنے والوں نے بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کے بارے بھی نیا موقف اختیار کیا لیکن اخبار وطن کے تعلق میں منشی صاحب نے جو اپیل حضور علیہ السلام کی خدمت میں کی تھی (جو پہلے درج ہو چکی ہے.) اس سے ظاہر ہے کہ آپ حضور کے عہد مبارک میں کیا مقام حضور کا یقین رکھتے تھے.اور پھر تا دم واپسیں آپ اپنے اس عقیدہ راسخ پر قائم رہے.؟ اس وقت کے حالات کا اندازہ امور ذیل سے ہوتا ہے.جن سے منشی صاحب کی تائید وحمایت خلافت اخبار وطن کے تعلق میں مضمون مذکورہ زیر عنوان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدیمی صحابہ کرام کا مذہب منشی تنظیم الرحمن صاحب کے ذیل کے تشریحی کلمات کے ساتھ دوبارہ الحکم ۲۸ نومبر ۱۹۲۱ء میں ☆ شائع ہوا.مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب نے ایڈیٹر وطن سے خط و کتابت کر کے ریویو آف ریلیجنز کی بابت یہ طے کیا تھا کہ اس میں حضرت مسیح موعود کے دعویٰ کا تذکرہ نہ ہوگا اور اس کی تکمیل کے واسطے ایک ضمیمہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا تھا.اور ایسا کرنے پر مولوی انشاء اللہ صاحب ایڈیٹر اخبار وطن نے ریویو کے لئے خریدار بھی دینے کا ۸، ایک عریضہ بطور اپیل گذارش کیا جو بغرض جواب واشاعت حوالہ مولوی محمد علی صاحب کیا گیا.ہم کو معلوم ہوا ہے کہ جس دن یہ عریضہ حضور نے پڑھا اسی دن ایک تقریر بھی مسجد مبارک میں فرمائی تھی جو اسی مضمون پر تھی.“ ی مضمون منشی حبیب الرحمن صاحب کے حالات میں بھی الحکم ۲۱ اگست ۱۹۳۵ء میں درج ہوا ہے.

Page 471

449 ثانیہ بھی ظاہر ہے.(۱) شرائط بیعت.افتراؤں کی تردید : قیام خلافت کے مخالفین نے خلافت ثانیہ کے خلاف عجیب باتیں گھڑیں.۲۱ مارچ ۱۹۱۴ ء کو حضرت نواب محمد علی خاں صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کی طرف سے مشترکہ شرائط بیعت“ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع ہوا ( جو الحکم کے اس سال کے فائل میں قادیان کی مرکزی لائیبریری میں موجود ہے ) اس میں یہ مرقوم تھا کہ ( جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ حضرت سید نا اولوالعزم فضل عمر مرزا بشیر الدین محمود احمد سلمہ اللہ تعالیٰ واید خلیفتہ المہدی کی خلافت پسند نہیں وہ عوام کو دھوکہ دیگر حضور مدوح سے بدظن کرنے کے لئے طرح طرح کی غلط بیانیوں اور افتراؤں کے مرتکب ہو رہے ہیں.ممکن نہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مقابلہ کر کے کامیابی کا منہ دیکھیں.کیا انسان خدا تعالیٰ پر غالب آ سکتا ہے؟ ایک یہ افتراء ( کیا گیا ہے کہ حضور نے بیعت میں یہ شرائط بھی رکھے ہیں کہ فلاں فلاں کو منافق سمجھا جائے یا..کہا جائے.نیز یہ کہ غیر احمد یوں کو کافر ) کہا جائے).دونوں باتیں محض افتراء ہیں اس اعلان کے آخر پر الفاظ بیعت درج کئے گئے ہیں.اور اس کی پشت پر کئی صد افراد کی طرف سے ایک ”اعلان“ شائع ہوا.ان افراد کے اسماء متعدد عنوانات مثلاً افراد خاندان حضرت مسیح موعود ارکان صدر انجمن احمدیہ، ایڈیٹر صاحبان ، گریجویٹ صاحبان وغیرہ کے تحت درج ہیں معززین و تجار“ کے عنوان کے تحت مندرجہ ستائیں ناموں میں منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پورہ کا اسم گرامی مرقوم ہے.اس اعلان میں ان احباب کو جو بوقت بیعت اولی حاضر نہ تھے بیعت سے مشرف ہونے کی تلقین کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ حضرت خلیفتہ اسیح اول وفات پاگئے ہیں اور ۱۴ / مارچ ۱۹۱۴ء کو بعد نماز عصر مسجد نور میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ قرار پائے ہیں.اور قریباً دو ہزار افراد نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ نے ایک مختصر تقریر اور دعا کے بعد ( تعلیم الاسلام ) ہائی سکول کے شمالی جانب میدان میں نماز جنازہ پڑھائی اور مزار مبارک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دائیں جانب حضرت مولوی نورالدین صاحب کی تدفین ہوئی.(۲) مولوی محمد علی صاحب کا ٹریکٹ : مولوی محمد علی صاحب نے جوز ہر بلاٹر یٹ حضرت خلیفہ امسیح اول کی زندگی میں آپ کی وصیت کو پڑھنے اور سنانے کے باوجود مخفی طور پر لکھا اور طبع کرا کے اسے آپ کی وفات

Page 472

450 کے روز تقسیم کرنے کے لئے رکھ چھوڑا ، قوم میں تفرقہ کا موجب ہوا ہے.بعض افراد کے تائیدی خطوط اس بارے میں پیغام صلح میں شائع ہونے پر محترم ایڈیٹر صاحب الحکم نے اظہار نفرت کے خطوط شائع کئے جن میں ساتویں نمبر پر ذیل کا خط درج ہے.جس سے پہلے نویسندہ کا تعارف بھی کرایا ہے کہ.برادرم مکرم منشی حبیب الرحمن صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے اور مخلص احباب ( میں ) سے ہیں وہ سابقون الاولون میں داخل ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہر موقعہ پر جب جماعت کو کوئی ابتلاء آیا.انہیں محفوظ رکھا.ان کی طبیعت ناساز ہے اسی حالت میں وہ ذیل کا مختصر مضمون بھیجتے ہیں امید کرنی چاہیئے کہ وہ اور بھی کچھ لکھیں لگے (ایڈیٹر ) بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد و نصلی علی رسولہ لکریم حضرت مولانا حکیم حاجی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات اور مسئلہ جانشینی : حضرت خلیفتہ اول نے جو صدمہ قوم کو پہو نچایا بس ان کا دل ہی جانتا ہے مگر صبر قرآنی تعلیم ہے جس کا اجر مل کر رہتا ہے.اخباروں - اعلانوں ( اور ) خطوں میں جو حالات پڑھے اور سنے ( انہوں نے ) اور بھی صدمہ پہنچایا.احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ پایا اور جب ان کے متلاشی دل نے مان لیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور جماعت میں داخل ہو گئے.بیعت کے بعد سب احمدی آپس میں بھائی تھے.کسی کو کسی پر برتری نہ تھی.ان احمد یوں کو اپنے دوستوں سے عزیزوں سے، رشتہ داروں سے پڑوسیوں سے جو جو انعامات ملے وہ سب کو معلوم ہیں اور زیادہ تر حصہ داران انعامات کے بیچارے غرباء ہی تھے.جن کی بیویاں بھی چھن گئیں.اگر گھر بنا بھی رہا تو آئندہ کو رشتہ ناطہ بند، مار پیٹ ، مکانوں سے بیدخل.یہ سب کچھ ان غریب احمدیوں کو برداشت کرنا پڑا امگر اس سچائی کو نہ چھوڑا جس کو ان کے دلوں نے قبول کیا.اگر غور کرو تو کوئی امیر نواب، وکیل، مجسٹریٹ ، ڈاکٹر سوداگر وغیرہ ان مصائب میں گرفتار نہیں ہوا.مگر ان کے امتحانوں کا بھی ایک وقت ہے.جن میں ان کو جانچا جائے گا.ان بڑے بڑے لوگوں ہی میں سے ممبر انجمن کے منتخب ( اور ) مقرر ہوئے.اس طرح وہ اور زیادہ بڑے ہوئے.قوم جبکہ ان کو اپنے ساتھ ایک ہی تسبیح میں پرویا ہوا دیکھتی جن کا صرف ایک ہی امام تھا.ان کی اور زیادہ عزت کرتی.بقول گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر تمام قوم نے حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحبہ

Page 473

451 مرحوم و مغفور کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کو خلیفہ اول مانا.اس وقت بھی ان بڑے لوگوں نے ابتداء کی اور ان کے طریق عمل نے ثابت کر دیا کہ خلافت ضروری ہے.اگر چہ بقول ان کے بعض نے بیعت نہیں کی مگر قوم نے ان کی طرف اس واسطے بھی توجہ نہیں کی اور یہ ان کا فرض نہ تھا کہ خواہ مخواہ ان لوگوں کو بیعت کرائیں تاہم بعض لوگوں نے ان لوگوں کے اعتراضات کے جواب دئے.اس واقعہ سے کچھ عرصہ کے بعد ان بڑوں (امیروں ) کو اور ممبران صدر انجمن احمدیہ کو ان کی آزادی نے بڑائی کا رنگ پکڑا جس پر ان کے دل نے ٹھو کر کھائی اور اب ان کی چند ہیائی ہوئی آنکھوں کے سامنے خلیفہ کی کچھ حقیقت نہ تھی اور مجھ بیٹھے کہ خلیفہ ہم ہی نے بنایا ہے.اور خلیفہ ہمارا ماتحت ہونا چاہیے ایک دفعہ نہیں بلکہ بارہا حضرت خلیفہ مسیح مرحوم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خلیفہ خدا تعالی بنایا کرتا ہے.غرض اس موقعہ پر اور پیغام صلح میں متواتر مضامین اور ا ظہار حق کے ٹریکٹ میں جو کچھ لکھا گیا.اس کو سب نے دیکھا.حضرت خلیفہ اسی رضی اللہ عنہ اور جناب میاں صاحب کی ذات کے خلاف جو کچھ ان ٹریکٹوں اور اخباروں میں لکھا یہ لکھنے والے کے باطن کو اچھی طرح ظاہر کرتا ہے.لیکن جلد ہی ( ایسا ہوا کہ ) حضرت خلیفتہ ایسے مرحوم رضی اللہ عنہ کی قدری طاقت نے (جماعت کو ) منتشر ہونے نہ دیا اور سب کو ایک راستہ پر چلایا.مگر ٹھو کر خوردہ دل کب سنبھلتا تھا.حضرت خلیفتہ امسیح رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو پھر موقعہ دیا اور یہ ہی ان بڑے بڑے لوگوں کے امتحان کا وقت تھا.اب وہ ہی ٹریکٹ اظہار حق اور پیغام مصلح کے مضامین ان کی زبان پر ہیں.جو پہلے گمنامی کے ساتھ شائع ہوئے تھے.حالانکہ اس بات کو حضرت خلیفۃ اسح مرحوم نے لے کر دیا تھا کہ میرے بعد خلیفہ ہوگر خلیفہ کا نام تعین نہیں فرمایا کیونکہ وہ.تو فرمایا کرتے تھے کہ خلیفہ خدا تعالے بنایا کرتا ہے.آپ کے بعد کس کے ہاتھ پر بیعت کرنا نہ کرنا ہر ایک کا ناول ہے جس دل نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفتہ اُسی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرائی وہ دل اب بھی موجود ہے اور وہ ایمان اب بھی موجود ہے نہ اس وقت ہم کو کوئی مولوی یا اہل الرائے بیعت کرانے پر مجبور کر سکتا تھا اور نہ آج کسی کو یہ حق حاصل ہے.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے ہمارے دل بھی مولا کریم کے ہاتھ میں ہیں وہ جس طرف چاہے لے جائے.”پیغام صلح میں بہت سے مضامین شائع ہوئے ہیں جو زیادہ تر مولوی محمد علی صاحب کے قلم سے نکلے ہوئے ہیں اور ایک اعلان ڈاکٹر محمد حسین صاحب کی جانب سے جس میں لکھا ہے کہ قوم کے اہل الرائے کو پہلے مشورہ کرنے دو پھر وہ جو تجویز کریں اس پر عمل کرنا مگر ڈاکٹر صاحب نے ان اہل الرائے لوگوں کی فہرست نہیں دی.ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان اہل الرائے کا انتخاب ڈاکٹر صاحب نے کہاں سے نکال لیا.حضرت مسیح موعود

Page 474

452 علیہ الصلوۃ والسلام نے تو فرمایا ہے کہ جس پر چالیس مومنوں کا اتفاق ہو وہ ہی امام اور خلیفہ ہو جس کے ہاتھ پر بیعت کی جاوے اور ڈاکٹر صاحب بجائے مومن کے اہل الرائے گا رہے ہیں.غالباً جس طرح عام طور پر لوگوں کو لیڈر بنے کا شوق ہے، وہ اس زمانہ میں ایک فیشن ہو گیا ہے.اس فیشن کو یہ اہل الرائے صاحبان اختیار کرنا چاہتے ہیں.جو بوجہ اپنی امارت اور ڈگریوں کے اپنے آپ کو اس کا مستحق پاتے ہیں ہمارے ان دوستوں کو سمجھ لینا چاہیئے کہ ہمیں خدا تعالے اور اس کے رسول اور خلیفہ اور قرآن شریف کافی ہے ہمیں نہ کسی اہل الرائے کی ضرورت ہے، نہ لیڈر کی، جو دنیاوی وجاہت کے باعث بننا چاہتا ہے.مولوی محمد علی صاحب نے عجیب ڈھنگ اختیار کیا ہے.سوال یہ اٹھا تھا کہ خلیفہ یا جانشین ہو یا نہ ہومگر مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ ہم اس کے ہاتھ پر بیعت نہ کریں گے جو عام مسلمانوں کو کافر کہتا ہے.مولا نا ! کون کہتا ہے کہ آپ اس کے ہاتھ پر بیعت کریں جس کو ہم کہیں؟ ہم نے آپ سے کیا کہا تھا کہ آپ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور پھر حضرت خلیفہ اُسیح (اول) کے ہاتھ پر بیعت کریں ؟ جس دل نے آپ کو ان کے حضور جھکا دیا وہی دل اگر اب انکار کرتا ہے تو آپ کو اختیار ہے اسی طرح آپ کسی کو روک بھی نہیں سکتے.مولانا !حضرت صاحب علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اقل درجہ چالیس مومن جس پر اتفاق کریں وہ میری طرف سے لوگوں سے بیعت لے.اس کی حیثیت قوم اور پھر انجمن کے سامنے کیا ہونی چاہیئے ؟ کیا وہ انجمن کا خادم ہوگا یا مخدوم؟ طریق عمل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ قوم اور انجمن کا مخدوم ہو گا.مولانا جس پر بحث اور تردید آج آپ کرنا چاہتے ہیں.وہ نیا نہیں بلکہ تین چار سال سے گشت لگا رہا ہے.پہلے آپ نے کوئی تردید نہیں کی اور نہ حضرت خلیفہ اسیح ( اول ) رضی اللہ عنہ نے مخالفت ظاہر فرمائی بلکہ فرمایا اور لکھوایا کہ مجھے اس مضمون سے مخالفت نہیں اور ہرگز مخالفت نہیں.آپ کے لئے موقع تھا کہ آپ عرض کرتے یا حضور سے بحث کرتے اور ایسا کرنا اچھا ہوتا، بمقابلہ اس کے کہ آپ نے دل میں مخالفت کی اور حضرت خلیفتہ اسیح مرحوم کی وفات نے ہی آپ کو اس مسئلہ کی یاد دلائی جو پہلے یاد نہ تھا.قوم نے جس کی تعداد چالیس سے گذر کر ہزاروں تک ہے اور جس میں حضرت مولوی محمد احسن صاحب اور مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب جیسے بزرگ متقی شامل ہیں حضور میاں صاحب کو اپنا امام مان لیا ہے.اور جناب ممدوح کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے پس اسی طرح اللہ تعالیٰ خلیفہ بنایا کرتا ہے.اور بڑے چھوٹے ہو جاتے ہیں.وَاعْتَصِمُو بِحَبْلِ الله جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّ قو ا - فقط “ ☆ الحکم ۲۸ / مارچ ۱۹۱۴ء (صفحه ۵،۴) زیر عنوان ” جناب مولوی محمد علی صاحب کا زہر یلاٹریکٹ اور قوم کا اظہار نفرت اس اشاعت میں دیگر سات احباب کے مکتوبات تین کالم میں اور آپ کا مکتوب اڑہائی کالم میں گویا سب سے مبسوط درج ہے.اور تعارف بھی صرف آپ کا کروایا گیا ہے.

Page 475

453 (۳) کھلی چٹھی.منشی صاحب لکھتے ہیں : برادران اسلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته حضرت خلیفۃ اسی مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد جماعت احمد یہ میں جو اختلاف ہوا تھا، مجھے اس کے جلد مٹ جانے کی امید تھی.مگر افسوس صد افسوس که اخبار پیغام صلح مورخه ۳۱ / مارچ ۱۴ء کو پڑھ کر یہ امید خاک میں مل گئی انا للہ وانا اليه راجعون آپ خواہ کچھ کہیں اور آپ لوگوں کے خیالات خواہ کچھ ہی ہوں مگر آپ مجھے معاف فرما دیں کہ میں یہ کہنے کے لئے تیار ہوں کہ فتنہ عظیمہ کے بانی میرے خیال میں آپ صاحبان ہی ہیں جن کے باعث قوم کا شیرازہ ٹوٹ گیا.اگر آپ لوگ ذرا صبر کرتے اور اپنی آرزوؤں کی پیروی نہ کرتے اور تحمل اور بردباری سے کام لیتے تو آج ہم کو یہ روز بد نہ دیکھنا پڑتا.میں ایک معمولی آدمی ہوں آپ صاحبان کے سامنے میری کچھ حقیقت نہیں نہ عالم ہوں نہ اہل الرائے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اول روز سے خادم نہ تعلق کا فخر حاصل ہے اور آپ کی صحبت میں بہت رہنے کا اتفاق ہوا ہے ( گو میں اس میں بھی آپ کی برابری نہیں کر سکتا ) آپ ( یعنی حضرت اقدس علیہ السلام ) کے احکام کی تعمیل میں کسی کی پرواہ نہیں کی.آج یہ حالت دیکھ کر جو رنج اور صدمہ میرے قلب پر ہے اس کا حال خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے.میں تو حضرت صاحب کے ہاتھوں بک چکا ہوں.آپ کے بعد جس نے دست شفقت ہمارے سر پر رکھا، اس نے ہمارے اوپر احسان کیا.خدا تعالیٰ حضرت مولوی نورالدین صاحب مرحوم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرما دے جس نے ہماری سر پرستی کی.اب صاحبزادہ صاحب حضرت میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بھی ہمارے سر پر ہاتھ رکھا تو ہم کو ان کا بھی احسان مند ہونا چاہیئے.میں آپ سے بحث مباحثہ نہیں کرنا چاہتا اور نہ میں اپنے آپ کو اس قابل سمجھتا ہوں..آپ نے جو مجلس شورای منعقد فرمائی وہ بھی غلطی سے خالی نہ تھی.اور تقبیل سے کام لیا گیا..صد را انجمن.کے ماتحت صد ہا مقامی انجمنیں ہیں.کیا آپ نے اس مجلس شوری میں ان کو مدعو کیا اور ان سے مشورہ کیا ؟ ان کو اطلاع دی ؟ ضرورت تھی کہ آپ کشادہ دلی کے ساتھ اپنی آرزوؤں کو بالائے طاق رکھ کر تمام انجمنوں کو باقاعدہ انعقاد مجلس شورای کی اطلاع دیتے اور ان کے پریذیڈنٹ ( اور ) سیکرٹری کو مدعو کرتے.جو کچھ سے مجلس شورای میں طے پاتا وہ واپس جا کر اپنی مقامی انجمنوں میں پیش کرتے اور نتیجہ سے آپ کو اطلاع دیتے پھر ایک رائے قائم ہو جاتی اور یہ رائے قوم کی متفقہ رائے ہوتی اب آپ سوچ لیں کہ آپ نے

Page 476

454 ایسا کیا ؟ ہرگز نہیں آپ نے اپنے چند اشخاص کی رائے کے مقابلہ میں کسی کی پرواہ نہیں کی اور اپنے سے چند ہم خیال اصحاب کو جمع کر کے مجلس شورای منعقد کر لی اور ریزولیوشن پاس کر لئے کیا یہ شورای احمدی سلسلہ کی ہو سکتی ہے؟ کیا جو ریزولیوشن اس میں پاس ہوئے ہیں وہ احمدی جماعت کی طرف سے ہو سکتے ہیں؟ جو انجمن اشاعتِ اسلام آپ نے قائم کی ہے یہ احمدیوں کی طرف سے ہو سکتی ہے.اگر آپ کی مجلس نے وفد بخدمت جناب میاں صاحب بھیجنا تجویز کیا تھا.پہلے تو یہ ضروری تھا کہ ایسی مجلس شورای قائم ہوکر جس کا تذکرہ میں نے کیا ہے.اگر تجویز ہوتا تو پھر وفد بھی جاتا اور اس میں انجمنوں کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری شامل ہوتے اور یقیناً حضرت صاحبزادہ صاحب وفد کو باریابی کی اجازت دیتے.پھر اس وفد میں ضرورت تھی کہ مولوی محمد علی صاحب وڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب خود جاتے اور عرض کرتے.اور جبکہ یہ بھی نہیں ہوا تو انہی اشخاص کو بھیج دیا جاتا جن کو جناب ممدوح نے اجازت دی تھی.میرے خیال میں تو محض سید حامد شاہ صاحب ہی کافی تھے.جو حضرت صاحب کے سابقین خادمان میں سے ہیں انہوں نے وہ زمانہ دیکھا ہے جو بعد والوں کو نصیب نہیں ہوا.وہ نہایت عمدگی سے جملہ امورات متنازعہ کو طے کرتے.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ابتداء سے بہت سی غلطیاں ہوتی رہی ہیں.اور اپنے خیالات اور آرزو کی پیروی ہوتی رہی ہے.میرے خیال میں انجمن اشاعت اسلام کے تقرر میں بہت جلدی کی گئی ہے.کیا جو صدرانجمن پہلے سے ہے اس کی یہ غرض نہیں؟ اور جناب میاں صاحب نے فرما دیا ہے کہ تمہارا اس سے کوئی تعلق نہیں؟ جہاں تک میں نے سنا ہے.جناب میاں صاحب نے ہرگز ہرگز ایسا نہیں فرمایا جناب میاں صاحب تو یہاں تک بھی راضی ہیں کہ اس خاص مسئلہ میں اپنے عقیدہ پر رہو مگر قوم کے شیرازہ کو پراگندہ نہ کرو مگر آپ صاحبان اس پر بھی راضی نہیں اور فرماتے ہیں کہ بصورت اختلاف عقیدہ ہم بیعت نہیں کر سکتے.میں آپ کو جناب مولوی محمد احسن صاحب کے اس عربی خط کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو انہوں نے حضرت خلیفہ اسی مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد لکھا جس میں لکھا ہے کہ میں نے بیعت کر لی ہے اور میں آپ کو ایسا ایسا سمجھتا ہوں مگر بعض آیات قرآن مجید کی تفسیر میں میرا آپ سے اتفاق نہیں.حضرت میاں صاحب آپ اور سب احمدیوں کو اس عقیدہ پر جمع کرنا چاہتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا.نہ ایک انچ آگے نہ پیچھے.جو دعویٰ حضرت مسیح موعود نے کیا وہی منوانا چاہتے ہیں اور بس اور اشاعت اسلام کا کام جس طریق پر پہلے جاری ہے.اس میں فی الحال کوئی دخل نہیں.صدر انجمن میں کوئی ترمیم کا ارادہ معلوم نہیں

Page 477

455 ہوتا.پہلے بھی بحیثیت پریذیڈنٹ صدرانجمن ہونے کے وہ جملہ ممبران پر فوقیت رکھتے تھے.اور آپ میاں صاحب کو اپنا اور قوم کا امیر تسلیم فرمانے کو تیار بھی ہیں.پھر میں سمجھ نہیں سکا اب کیا بات باقی رہ گئی ہے.پھر میں عرض کرتا ہوں کہ آپ کیوں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنانا چاہتے ہیں صدر انجمن موجود ہے کسی نے آپ کو اس میں کام کرنے سے نہیں روکا مجلس شورای اگر با قاعدہ کرنی ہے.تو ماتحت انجمنوں کو آپ شامل کریں ورنہ یہ مجلس شورای جو آپ نے کی آپ کی ذاتی ہے نہ کہ سلسلہ کی.مجھے خیال گزرتا ہے کہ آپ نے خواجہ کمال الدین صاحب سے بھی غالباً مشورہ نہیں کیا جو شاید ممکن نہ تھا.آخر میں آپ صاحبان سے عرض کرتا ہوں کہ خدا کے واسطے دوبارہ غور کرو اور وہ راہ اختیار کرو جس میں ی فتنہ فرد ہوا اور قوم کوکلمہ واحد پر جمع کرنے کی کوشش کر و حضرت خلیفتہ امسیح مرحوم نے سچ فرمایا کہ یا درکھو کہ ساری خوبیاں وحدت میں ہیں.جس ( قوم کا ) کوئی رئیس نہیں وہ مر چکی.“ مولا نا ! شورای جو آپ کو کرنا چاہیئے تھا اور جس کی میں نے تائید کی ہے.اس میں تو فقط یہ طے کرنا تھا کہ کیا حضرت صاحبزادہ صاحب سے یہ جزوی اختلاف رکھ کر ہم کو بیعت کر لینے میں حرج تو نہیں اور کیا صاحبزادہ صاحب اس کو قبول کر لیں گے.وفد کے بھیجنے کی بھی اصل غرض یہی ہونی چاہیے تھی مگر افسوس ہے آپ لوگوں نے راہ ترکستان اختیار کر لی وحدت کے لئے خلیفہ کی ضرورت ہے انجمنوں کے ذریعہ سے وحدت نہیں رہ سکتی، اور منہاج نبوت پر جو سلسلے ہوں وہ انجمنوں کے طریق پر چل نہیں سکتے کیونکہ خدا ایک شخص کو مامور کر کے بھیجتا ہے اس نے کبھی کسی انجمن کو نبی نہیں بنایا.بہر حال آپ خدا کے لئے اس حبل اللہ سے الگ نہ رہو تم اس کے دامن کے ساتھ وابستہ ہو جاؤ.اس میں خیر وبرکت ہے.آپ کا نیاز مند - حبیب الرحمن از حاجی پورہ - (۹۱) (۴) خلافت ثانیہ میں اولیس شورای : مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں نے جماعت احمدیہ کے خیالات کو مسموم کرنے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.مضامین لکھے.مختلف مقامات پر جا کر تقاریر کیں.بالآ خر اعلان کیا کہ قادیان میں چندہ نہ بھجوایا جائے.لاہور میں ایک انجمن قائم کی اور وہ اس کی شاخیں قائم کرنے کی فکر میں ہیں.اور ان کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ چندہ کے اموال قادیان میں خطرہ میں ہیں.جبکہ جماعت میں تفرقہ پیدا کیا جاتا تھا.اور مرکزی کام کے لئے روپیہ مطلوب تھا.حسب ارشاد حضرت خلیفہ ثانی ایک نیابتی (یعنی جماعتوں کے نمائندگان پر مشتمل) جلسہ طلب کیا گیا تا کہ نظام سلسہ اور اس کے بعض

Page 478

456 امور کے متعلق ضروری امور کے بارے مشورہ کیا جائے.سو حضرت سید محمد احسن صاحب حضرت نواب محمد علی خان صاحب حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کی طرف سے مشتر کا ایسا دعوت نامہ بھجوایا گیا.جس میں لکھا گیا کہ بے شک آپ لوگوں کو اس سال قادیان میں کئی بار آنا پڑا ہے مگر اس موقعہ پر جو ہر طرح سے خدمت دین کا موقعہ ہے ہمیں وقت اور روپیہ کا سوال ہرگز نہیں روک سکتا.امید ہے جماعت اپنے نمائندہ کو بھجوادے گی اور جو وقت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا جائے گا وہ اسے ضائع نہیں کرے گا.احباب دود دن پہلے ۱۰ار اپریل ۱۹۱۴ ء کو آنے شروع ہو گئے جماعت کے اس اخلاص و محبت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر عجیب ولذیذ ایمان بڑھا کہ حقیقہ اس جماعت نے دین کو دنیا پر مقدم کر لیا ہے.مسجد مبارک میں ۱۲ اپریل کو صبح اجلاس کے لئے حضور کی ہدایات کے مطابق ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے احباب کی نشستوں کا انتظام نہایت مستعدی اور قابلیت کے ساتھ کر دیا.ایک سونوے شرکاء میں سے ڈیڑھ صد سے زیادہ احباب بیرون مرکز کے تھے.حضور تشریف لائے اور آپ کے حکم سے حضرت پیر منظور محمد صاحب ( موجد قاعدہ یر نالقرآن ) کا مضمون حضرت میر قاسم علی صاحب (ایڈیٹر الحق) نے سنایا.یہ مضمون پسر موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے بارے میں تھا.پھر حضور نے منصب خلافت کی حقیقت کے بارے میں اڑہائی گھنٹے تقریر فرمائی اور جو پروگرام آپ کے مدنظر ہے اسے مختصر بیان کیا.اس تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کی بہبودی کا کس قدر درد اور جوش آپ کے دل میں ہے.اور کس قدر عزم و ہمت عالی آپ کو ودیعت ہوئی ہے اس تقریر میں بالکل اچھوتے نکتے تھے.اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ حقائق ومعارف کا دریا ہے جواندا آتا ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب کے بارے میں حضرت اقدس علیہ اسلام نے جو پیشگوئی بیان فرمائی تھی کہ آپ زندگی کے خواہوں کو موت کے پنجہ سے نجات دینے والے اور قبروں میں دبے ہوؤں کو باہر لانے والے اور دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کر نیوالے ہوں گے.یہ تقریر اس الہامی بشارت کو پورا کرنے والی تھی.اس تقریر میں حضور نے تلاوت آیات تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ کے لئے تجاویز بھی بیان فرمائیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی زیر ہدایت دوسرا اجلاس بعد ظہر زیر صدارت سید محمد حسن صاحب منعقد ہوا جس میں ذیل کی قراردادیں منظور کی گئیں :.۱- صدر انجمن احمدیہ کے اخراجات سے ملک بھر میں واعظ بھجوائے جائیں.۲- صدرانجمن احمدیہ کے ایک قاعدہ میں ترمیم منظور کی گئی کہ مجلس معتمدین اور اس کی ماتحت مجلس یا مجالس اور

Page 479

457 صدرانجمن احمد یہ اور اس کی کل شاخوں کے لئے حضرت خلیفتہ امسیح ثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا حکم قطعی اور ناطق ہو گا اور اس ترمیم کا ریزولیوشن مجلس معتمدین کی خدمت میں حضرت نواب محمد علی خاں صاحب، حضرت سید محمد احسن صاحب، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ذریعہ پیش ہو کر بعد میں یہ ترمیم مجلس معتمدین نے اکثریت سے منظور کر لی تھی.کا کام کریں.بھجوا ئیں.- احباب مرکز میں ایک ایک ماہ کے لئے آکر علم دین حاصل کر کے اپنی اپنی جماعت میں درس تدریس -۴- مرکز دینی نصاب مقرر کر کے احباب سے اس کا امتحان لیا کرے.۵- مقامی انجمنیں اپنے خرچ پر ایک ایک سال کے لئے افراد کو مرکز میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے مبلغین تیار کرنے کے لئے ہر ضلع چند افراد کومدرسہ احمدیہ میں تعلیم دلانے کے لئے بھجوائے.ے.وصولی زکوۃ کا انتظام خاص طور پر کیا جائے اور زکوۃ اور چندہ اشاعت اسلام کی رقوم براہ راست حضور کی خدمت میں بھجوائی جائیں.جہاں جہاں ممکن ہو اشاعت تعلیم کے لئے مدارس اور احمد یہ ہوٹل کھولے جائیں.کس طرح جلد اور کم خرچ پر مرکز میں کالج جاری کیا جا سکتا ہے یہ تجویز ایک کمیٹی کے سپر د کی جائے * حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی امریکہ سے مراجعت حضرت مفتی محمد صادق صاحب ساڑھے چھ سال یورپ و امریکہ میں اعلائے کلمتہ اللہ کر کے مراجعت فرما ہوئے.حضرت عرفانی صاحب رقم فرماتے ہیں کہ جماعت احمدیہ حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب حاجی پوری کے نام سے واقف ہے.منشی صاحب سلسلہ کے ان قدیم اور مخلص فدائیوں میں سے ہیں جن کو حضرت اقدس کے ساتھ اپنی ارادت اور عقیدت میں ہر ☆ الحکم ۱۴ را پریل ۱۹۱۴ء (صفحه ۹) ۲۱ اپریل و منصب خلافت (سرورق ) و آئینه صداقت الحکم ۲۱ را پریل میں منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی کپورہ ریاست کپورتھلہ نام نمبر تریپن پر درج ہے.(صفحہ ے کالم ۳) ان ایک سونوے نمائندگان میں کپورتھلہ کے دیگر چار نمائندگان منشی ظفر احمد صاحب سیکرٹری میاں عبدالسمیع صاحب منشی عبدالرحمن صاحب اور شیخ محمد احمد صاحب (مظہر ) بھی شامل تھے ( نمبر ۴ ۵ تا ۵۷ )

Page 480

458 آن ترقی ہوئی ہے.اور کبھی کسی ابتلاء اور امتحان نے ان کے قدم کو پیچھے نہیں کیا بلکہ انہوں نے جو شرائط بیعت میں عہد کیا تھا کہ.عسر ویسر میں قدم آگے بڑھاؤں گا“ وہ آگے ہی بڑھتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدام قدیم سے بھی انہیں بے حد محبت اور اخلاص ہے.حضرت مفتی صاحب کی واپسی کی خبر جب ان کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اپنے خاندان کے ممبروں کو جو حاجی پور میں موجود نہ تھے مختلف مقامات سے جمع کر کے ایک ایڈریس تیار کیا مگر پروگرام کی تبدیلی کی وجہ سے انہیں اپنی دلی آرزو کے پورا کرنے کا موقعہ نہ ملا (میں یہ ایڈریس ) درج کر دیتا ہوں اور اگر ممکن ہوا تو جناب مفتی صاحب کا تحریری جواب بھی دے سکوں گا.اس سپاسنامہ میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آپ کے اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے روانگی کے وقت ۱۰/ مارچ ۱۹۱۷ء کو اسی پھگواڑہ ریلوے اسٹیشن سے آپ کو ہم نے دعاؤں کے ساتھ با چشم گریاں رخصت کیا تھا.آپ نے خدمت دین کی توفیق پائی.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.آپ نے اپنے اعمال سے ثابت کر دیا ہے کہ 66 آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخشندہ گوہر ہیں اور برگزیدہ صلحاء وصادقین میں سے ہیں.حضرت مفتی صاحب نے اپنے جواب میں بیان کیا کہ آپ کا سپاسنامہ دیگر سپاسناموں سے ممتاز ہے اور مجھے جو آپ سے قدیمی تعلقات ہیں ان کی وجہ سے ایک خاص کیفیت کا حامل ہے جس کا ایک عجیب اثر میں اپنے دل میں پاتا ہوں اور سب سے زیادہ مسرت بخش آپ کے یہ الفاظ ہیں کہ الوداع کے وقت سے اب تک میرے لئے دعائیں جاری ہیں.میں یقین دالا تا ہوں کہ میں آپ کی دعاؤں کی قبولیت کے آثار دیکھتارہا ہوں اور آپ سب سے میں مزید دعاؤں کی درخواست کرتا ہوں.ان سات برسوں میں جو مصائب اور اضطراب مجھے پیش آئے میں آپ اور آپ کے اہل وعیال کے لئے نام بنام بھی دعا کرتا رہا ہوں.جب ( جنگ عظیم اوّل میں ) جرمن کی طرف سے لندن پر آتشیں گولے برسائے جاتے تھے.اور لوگ ڈر کر تہ خانوں میں گھس جاتے تھے.میں اپنے بسترے پر لیٹا ہوا دعاؤں میں مصروف رہتا تھا.میرے پیارے! میں آپ کی دعاؤں کا ممنون ہوں.میں آپ کی خواہش کے مطابق کسی وقت دو تین روز کے لئے آپ کے ہاں آنے کی کوشش کروں گا.حضرت مفتی صاحب یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ امریکہ میں ایک پادری نے ایک کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی اور میری تصاویر شائع کرتے ہوئے لکھا کہ یسعیاہ کتاب (بائیل ) میں جو لکھا ہے کہ صادق کو کس نے مشرق سے مبعوث کیا ، وہ صادق اس زمانہ کا نبی مسیح موعود ہے جس کا

Page 481

459 حواری صادق نام امریکہ میں دین اسلام کی اشاعت کے واسطے آیا اور مجھے ان پادری صاحب نے ایک خط میں لکھا کہ امریکہ کا آئندہ مذہب یہی ہوگا جس کی اشاعت آپ نے کی ہے * حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا خیر مقدم سفر یورپ سے مراجعت پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی سلسلہ احمدیہ کے اولیں خلیفہ ہیں جو دوران خلافت بیرونِ ملک تشریف لے گئے.اب تو ایسے سفر کے فوائد اظہر من الشمس ہو چکے ہیں سفر یورپ وغیرہ سے کامیاب مراجعت پر حضور کو بمبئی سے قادیان تک خوش آمدید کہا گیا اور سپاسنامے سے پیش کئے گئے ۲۳ نومبر ۱۹۲۳ء کے بارے مرقوم ہے.لدھیانہ کے بعد گاڑی جالندھر چھاؤنی پر ٹھہری جہاں ضلع جالندھر اور ہوشیار پور اور کپورتھلہ کی جماعت کے نمائندے کثیر تعداد میں موجود تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص قدیم اور محب تصمیم حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور نے اپنا ایڈریس پڑھا، (۹۲) ذیل کا سپاسنامہ پیش کیا گیا تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد نصلی علی رسولہ الکریم اليس الله بکاف عبده خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھو الناصر يُسبّح الله مافي السموات ومافي الأرض الملك القدوس العزيز الحكيم.....والله ذو الفضل العظيم.......سوره جمعه - الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام.”مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا وہ دنیا میں آئے گا.اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے وہ سخت ذہین وہی ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا.دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه - فرزند دلبند گرامی ارجمند مظہر الا وال والآخر مظہر الحق والعلا كان اللہ نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہو گا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد لله الحکم ۲۱ دسمبر ۱۹۲۳ء زیر عنوان ہدیہ حبیب به خدمت حبیب سپاسنامہ ساڑھے تین کالم کا اور جواب ڈیڑھ کالم کا ہے.

Page 482

460 بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وکان امر امتقضیا.(۹۳) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سیدنا وسید المسلمين ! اگر چہ حضور کے خادمان کا وہی ایڈریس ہے جو قوم کی جانب سے جناب ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے بحیثیت جنرل سیکرٹری ہونے کے بر وقت ورود بمبئی میں پیش کیا ہے اس کے بعد ضرورت نہ تھی کہ ہر جگہ کی جماعتیں فرداً فرداً ایڈریس و خیر مقدم پیش کریں لیکن دلی جذبات ہر ایک کے اندر موجود ہیں وہ بے چین کر دیتے ہیں.جب تک مناسب طریق اور مناسب وقت سے ادا نہ ہوں اس لئے میں اپنی طرف سے اور اپنے خاندان کے ہر ایک فرد کی جانب سے جن میں سے اکثر اس وقت حاضر ہیں حضور کو اس قدر دور دراز سفر سے بخیریت واپسی پر مبارک باد عرض کرتا ہوں.اے حضرت مصلح موعود ! جو پروگرام بر وقت روانگی حضور نے اپنے لئے بغرض اشاعت اسلام مقرر فرمایا تھا.جس کو حضور نے اپنے گرامی نامہ میں جو قبل از وقت روانگی شائع فرمایا تھا.صراحت کے ساتھ مذکور فرمایا ہے.اس میں پورے طور پر اور ہر طریق پر حضور کو کامیابی حاصل ہوئی.اور سلسلہ احمدیہ کے حالات اور خیالات امن جو مذہب اسلام کی ترقی کا روشن اور کامیاب پہلو ہے یورپ ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے اعلیٰ اور ادنیٰ طبقہ میں پہنچانے میں جو نصرت حضور کو حضرت رب العزۃ نے عطا فرمائی اس کی میں حضور کو دوبارہ مبارک بادعرض کرنے کی تمنا کرتا ہوں.یا خلیفتہ امسیح الموعود ! گو حضور نے یورپ، امریکہ بلکہ تمام دنیا میں ترقی اسلام کے وسائل سالہا سال سے پہلے بموجب حکم حضرت احدیت جل و علی شانہ مستحکم طور پر قائم فرمائے ہوئے تھے.لیکن مسجد لنڈن کا بنیادی پتھر..دست مبارک سے مسجد پر چسپاں فرما کر اسلام اور خدائے واحد کا نام خطہ یورپ میں مستحکم فرما دیا.گو یا خدائے واحد نے اپنے واحد نام کے دنیا میں روشن کرنے اور خاتم النبین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور (حضور کے تابع ) نبی حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام دنیا کے کناروں تک پھیلانے کے لئے حضور کو منتخب فرمایا.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملاء اعلیٰ میں جو مرتبہ اور فضلیت ور کو حاصل ہے آج دنیا میں اس کا ثانی نہیں.اور یہی انسانی پیدائش کی غرض اصل ہے اس لئے میں حضور کی خدمت بابرکت میں تیسری دفعہ پھر اپنے..حضور اخبار میں خطوط وحدانی والی جگہ خالی ہے.کوئی لفظ یا الفاظ چھپنے سے رہ گئے ہیں.یہ الفاظ ربط کلام کے مطابق خاکسار کی طرف سے درج ہیں (مؤلف)

Page 483

461 مبارک باد عرض کرتا ہوں.اور امید وار ہوں کہ میرے خاندان کے لئے دعاؤں کے ساتھ قبولیت کا شرف بخشا جائے گا.جناب اعلیٰ ! وہ کوائف اور صدمات جو حضور کو اپنے خاندان اور قومی افراد کی تکالیف اور مصائب کی وجہ سے دوران سفر میں پیش آئے جن کو حضور نے نہایت صبر سے برداشت فرما کر قوم کوصبر کی تلقین فرمائی.حضور عالی! ہر جا که گل است خار است جس طرح پھول تک ہاتھ پہنچانے میں کانٹوں سے واسطہ پڑتا ہے.اسی طرح مبشرات سے پہلے منذرات کا ہونا لازمی ہے اور خدائے قدوس عالم الغیب نے پہلے ہی ان کی اطلاع حضور کو دے دی تھی.جیسا کہ گرامی نامہ میں تحریر ہے ان کا ظاہر ہونا ضروری تھا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی متواتر فرمایا ہے.اس لئے یہ یقینا آنے والی کامیابی اور نصرت کا پیش خیمہ ہے.ہم حضور کو یقین دلاتے ہیں کہ نعمت اللہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کے واقعہ سنگساری نے ہمارے خون میں جوش پیدا کر دیا تھا.اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھی تھی لیکن جیسا کہ اسلامی تعلیم نے ہماری رہنمائی کی اور حضور نے اس پر عمل فرما کر ہمارے جوشوں کو صبر کے ساتھ مبدل کر دیا.ہم رب العالمین کے حضور میں دست بہ دعا ہیں کہ خدا تعالیٰ ہم کو نعم البدل عطا فرمائے اور وہ یہ کہ سرزمین کابل میں احمدیت کا سورج روشن ہو.پیارے اور واجب الاحترام امام! بے شک اس والدہ کی طرح حضور نے بھی ہم سے دریافت فرمایا کہ میں لنڈن ہو آؤں اور ہم نے بھی یہی رائے دیدی مگر پھگواڑہ ریلوے اسٹیشن سے حضور کی سواری کا روا نہ ہونا تھا کہ ہمارے دلوں کی وہی حالت تھی جو مجھے اپنی والدہ کی نظر سے اوجھل ہو جانے کی حالت میں ہوتی ہے.اور جوں جوں زمانہ زیادہ گزرتا جاتا تھا، محبت اور جدائی کی تڑپ بھی زیادہ ہوتی جاتی تھی.یہی تڑپ تھی جس نے ہم کو دعاؤں میں مصروف کر دیا اور دن رات کی تنہائی کی دعاؤں کے علاوہ پنجوقت نماز کے اوقات میں بھی ہم سب مل کر دعا کرنا ہم نے ایک فرض کر لیا تھا.میری اس دلی تڑپ کو خدا تعالیٰ نے مقبول فرمایا اور چند یوم کے بعد رڈیا میں مجھے دعا کا نظارہ دکھا کر دعا کی تعلیم فرمائی اس طرح پر کہ تختہ جہاز پر حضور نے میری روح کو طلب فرمایا اور دعا شروع کی جس میں میں بھی شریک تھا بہت لمبی دعا کی گئی.اور ختم فرمانے کے بعد حضور نے بالکل اسی طریق پر جیسا کہ مسیح موعود علیہ السلام کا لہجہ اور صورت تھی فرمایا کہ اگر اس طرح دعا کی جائے تو خدا تعالی بیٹرا پار فرما دیتا ہے.حضور اعلیٰ ! ہمارے دلی جذبات کی کوئی انتہا نہیں.اور ان کے بیان کرنے کے لئے وقت بھی کافی

Page 484

462 نہیں.اس لئے بخوف طوالت میں دعا کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ خداوند کریم ورحیم محض اپنے فضل سے حضور کو دائمی تندرستی اور لمبی عمر عطا فرمائے کہ اسلامی انتہائی ترقی اور شوکت اور عظمت حضور کے دست مبارک سے ہو.آمین.اور درخواست کرتا ہوں کہ حضور میرے واسطے) اور میرے خاندان کے واسطے بہودی اور (فلاح) دارین کے لئے دعا فرماویں.والسلام گذرائیند ہ عاجز دعا گو اور طالب دعا خاکسار حبیب الرحمن عفی اللہ عنہ احمدی حاجی پور- ریاست کپورتھلہ.* انفاق فی سبیل اللہ اللہ تعالیٰ نے حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب کو ابتداء سے سلسلہ احمدیہ کی ممتاز مالی خدمات کرنے کی توفیق عطا فرمائی.آپ احباب کو بھی اس کی تلقین فرماتے تھے.یہاں اختصار ا اور بعد میں بعض کا تفصیلاً ذکر کیا جاتا ہے.☆ (۱و۲) یورپ اور امریکہ میں اشاعت اسلام کے لئے ۱۸۹۱ء اور ۱۸۹۲ء میں پیشکش.(ازالہ اوہام و آئینہ کمالات اسلام ) (۳) ایک اہم ضرورت کے لئے جالندھر میں معقول رقم پیش کرنا.(۱۸۹۲ء میں ) (۴) حضرت اقدس کی دس کتب مفت تقسیم کرنا ( جنوری ۱۸۹۲ء میں ) (۵) خریداری ترجمۃ القرآن (۱۹۰۰ء میں ) (1) چندہ تعمیر منارة اصبح میں شرکت ( ۷ و ۸) اعانت مدرسہ تعلیم الاسلام ( ۱۹۰۰ و ۱۹۰ء میں ) (۹) چندہ مساکین فنڈ میں شمولیت (۱۹۰۱ء میں ) (۱۰) اجراء رسائل سلسلہ مستحقین کے لئے (۱۹۰۶ ء میں ) الحکم ۷ ستمبر ۱۹۲۴ء ( صفحه ۸،۵) زیر عنوان ”ایڈریس بحضور حضرت اقدس فضل عمر مصلح موعود حضرت مرزا بشر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ مسیح الموعود ایدہ اللہ بصرہ بموقعہ مراجعت از سفر مصر ، دمشق ، بیت المقدس ،لنڈن وغیرہ بر وقت گزر بمقام شیشن چھاؤنی جالندھر“

Page 485

463 (۱۱) ایک پمفلٹ کی اشاعت میں مدد (۱۹۱۵ء میں ) (۱۲) ولایت میں احمدیہ مسجد کی تعمیر میں خطیر رقم دینا (۱۹۲۰ء میں ) (۱) یکے از انصار حضرت مسیح موعود و بعض مبائعین کا ذکر اور نیز اس سلسلہ کے معاونین کا تذکرہ اور اسلام کو یورپ و امریکہ میں پھیلانے کی احسن تجویز کے زیر عنوان حضرت مسیح موعود علیہ السلام ازالہ اوہام حصہ دوم میں جو ۱۸۹۱ ء میں شائع ہوئی تحریر فرماتے ہیں: اسلام کے ضعف اور غربت اور تنہائی کے وقت میں خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے.سنت اللہ اسی طرح واقع ہے کہ خزائن معارف و دقائق اُس قدر ظاہر کئے جاتے ہیں جس قدر ان کی ضرورت پیش آتی ہے.سو یہ زمانہ ایک ایسا ہے جو اس نے ہزار ہا عقلی مفاسد کو ترقی دیکر اور بے شمار معقولیشبہات کو بمنقہ ظہور لا کر بالطبع اس بات کا تقاضا کیا ہے کہ ان اوہام و اعتراضات کے رفع دفع کے لئے فرقانی حقائق و معارف کا خزانہ کھولا جائے جس قدر حق کے مقابلپر اوہام باطلہ پیدا ہوئے ہیں اور عقلی اعتراضات کا ایک طوفان برپا ہوا ہے، اس کی نظیر کسی زمانہ میں نہیں پائی جاتی.لہذا ابتدا سے اس امر کو بھی ( کہ ) ان اعتراضات کا براہین شافیہ وکافیہ بحوالہ آیات قرآن مجید بگلی استیصال کر کے تمام ادیان باطلہ پر فوقیت اسلام ظاہر کر دی جائے اسی زمانہ پر چھوڑا گیا تھا.کیونکہ پیش از ظهور مفاسد ان مفاسد کی اصلاح کا تذکرہ محض بے محل تھا.ان حقائق کے اظہار کے وقت کی ) جو آیت هُو الذی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى میں صاف اور کھلے کھلے طور پر مرقوم ہے.سواب وہی وقت ہے اور ہر یک شخص روحانی روشنی کا محتاج ہورہا ہے.سوخدائے تعالیٰ نے اس روشنی کو دیکر ایک شخص کو دنیا میں بھیجا.وہ کون ہے؟ یہی ہے جو بول رہا ہے.رسالہ فتح اسلام میں یہ امر مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ایسے عظیم الشان کاموں کے لئے قوم کے ذی مقدرت لوگوں کی امداد ضروری ہے اور اس سے زیادہ اور کونسی سخت معصیت ہوگی کہ ساری قوم دیکھ رہی ہے کہ اسلام پر چاروں طرف سے حملے ہورہے ہیں اور وہ وبا پھیل رہی ہے.جو کسی آنکھ نے پہلے اس سے نہیں دیکھی تھی اس نازک وقت میں ایک شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے اٹھا اور چاہتا ہے کہ اسلام کا خوبصورت چہرہ تمام دنیا پر ظاہر کرے اور اس کی راہیں مغربی ملکوں کی طرف کھولے لیکن قوم اس کی امداد سے دستکش ہے اور سو عظن اور دنیا پرستی کی راہ سے بکلی قطع تعلقات کر کے چپ چاپ بیٹھی ہے.میرے پیارے دوستو ! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے.اس

Page 486

464 معرفت کی آپ اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے سو میں اس لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیبہ سے اپنی دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر ایک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت وطاقت ومقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے، تالیفات کے ذریعہ سے ان علوم اور برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں یہ سچ بات ہے کہ یورپ اور امریکہ نے اسلام پر اعتراضات کرنے کا ایک بڑا ذخیرہ پادریوں بیہ دو تین ہزار سے حاصل کیا ہے.اور ان کا فلسفہ اور طبعی بھی ایک الگ ذخیرہ نکتہ چینی کا رکھتا ہے.کے قریب حال کے زمانہ میں باتیں) اسلام کی نسبت بصورت اعتراض سمجھی گئی ہیں..”اس میں کچھ شک نہیں کہ اسلام میں اس قدر صداقت کی روشنی چمک رہی ہے اور اس قدر اس کی سچائی پر نورانی دلائل موجود ہیں کہ اگر وہ اہل تحقیق کے زیر توجہ لائی جاویں تو یقینا وہ ہر ایک سلیم العقل کے دل میں گھر کر جاویں لیکن افسوس کہ ابھی وہ دلائل اندرونی طور پر بھی اپنی قوم میں شائع نہیں چہ جائیکہ مخالفوں کے مختلف فرقوں میں شائع ہوں.سو انہیں براہین اور دلائل اور حقائق اور معارف کے شائع کرنے کے لئے قوم کی مالی امداد کی حاجت ہے.کیا قوم میں کوئی ہے جو اس بات کو سنے؟ ” جب سے میں نے رسالہ فتح اسلام کو تالیف کیا ہے ہمیشہ میرا اس طرف خیال لگا رہا کہ میری اس تجویز کے موافق جو میں نے دینی چندہ کے لئے رسالہ مذکور میں لکھی ہے دلوں میں حرکت پیدا ہوگی...مگر افسوس کہ بجز چند میرے مخلصوں کے جن کا ذکر میں عنقریب کروں گا کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی.میں حیران ہوں کہ کن الفاظ کو استعمال کروں تا میری قوم پر وہ مؤثر ہوں میں سوچ میں ہوں کہ وہ کونسی تقریر ہے جس سے وہ میرے غم سے بھرے ہوئے دل کی کیفیت سمجھ سکیں.اے قادر خدا! ان کے دلوں میں آپ الہام کرا اور غفلت اور بدظنی کی رنگ آمیزی سے ان کو باہر نکال اور حق کی روشنی دکھلا.پیارو! یقیناً سمجھو کہ خدا ہے اور وہ اپنے دین کو فراموش نہیں کرتا بلکہ تاریکی کے زمانہ میں اس کی مدد فرماتا ہے مصلحت عام کے لئے ایک کو خاص کر لیتا ہے اور اس پر علوم لدنیہ کے انوار نازل کرتا ہے.سواسی نے مجھے جگایا اور سچائی کے لئے میرا دل کھول دیا.میری روزانہ زندگی کا آرام اسی میں ہے کہ میں اسی کام میں لگا رہوں بلکہ میں اس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا.کہ میں اس کا اور اسکے رسول مگا اور اس کی کلام کا جلال ظاہر کروں میرا فرض بھی ہے کہ جو کچھ مجھے دیا گیا وہ دوسروں کو بھی دوں اور دعوت مولیٰ میں ان سب کو شریک کرلوں جو ازل سے بلائے گئے ہیں.میں اس مطلب کے پورا کرنے کے لئے قریباً سب کچھ کرنے کے لئے مستعد ہوں.

Page 487

465 لیکن جو امر میرے اختیار میں نہیں میں خدا وند قدیر سے چاہتا ہوں کہ وہ آپ اس کو انجام دیوے.میں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ ایک دست غیبی مجھے مدد دے رہا ہے اور اگر چہ میں تمام فانی انسانوں کی طرح نا تواں اور ضعیف البنیان ہوں.تاہم میں دیکھتا ہوں کہ مجھے غیب سے قوت ملتی ہے اور میں جو کہتا ہوں کہ ان الہی کاموں میں قوم کے ہمدرد مدد کریں وہ بے صبری سے نہیں بلکہ صرف ظاہر کے لحاظ اور اسباب کی رعایت سے کہتا ہوں ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل پر میرا دل مطمئن ہے اور امید رکھتا ہوں کہ وہ میری دعاؤں کو ضائع نہیں کریگا اور میرے تمام ارادے اور امید میں پوری کر دے گا.آخر پر حضور نے فرمایا کہ اب میں ان مخلصوں کا نام لکھتا ہوں جنہوں نے حتی الوسع میرے دینی کاموں میں مدددی یا جن پر مدد کی امید ہے یا جن کو اسباب میسر آنے پر طیار دیکھتا ہوں.“ پھر حضور نے انتالیس مخلصین کے اسماء مع ان کے اوصاف و خصائل رقم کئے ہیں پھر باقی اسماء بعض مبائعین درج کئے ہیں جو پینتیس ہیں.اور ان میں ستر ہویں نمبر پر " جسی فی اللہ منشی حبیب الرحمن صاحب“ کا نام مرقوم ہے ان مؤخر الذکر احباب کے بارے میں حضور تحریر فرماتے ہیں کہ یہ سب صاحب علی حسب مراتب اس عاجز کے مخلص دوست ہیں اور بعض ان میں سے اعلیٰ درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں.اسی خلاص کے موافق جو اس عاجز کے منتخب دوستوں میں پایا جاتا ہے اگر مجھے طول کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں جدا گانہ ان کے مخلصانہ حالات لکھتا.انشاء اللہ القدیر کسی دوسرے مقام میں لکھوں گا.اب میں اس تذکرہ کو دعا پر ختم کرتا ہوں: ”اے قادر خدا! میرے اس ظن کو جو میں اپنے ان تمام دوستوں کی نسبت رکھتا ہوں سچا کر کے مجھے دکھا اور ان کے دلوں میں تقوی کی سبز شاخیں جو اعمال صالحہ کے میووں سے لدی ہوئی ہیں پیدا کر ان کی کمزوری کو دور فرما اور ان کا سب کسل دور کر دے اور ان کے دلوں میں اپنی عظمت قائم کر اور ان میں اور ان کے نفسوں میں دوری ڈال اور ایسا کر کہ وہ تجھ میں ہو کر بولیں اور تجھ میں ہو کر سنیں اور تجھ میں ہو کر دیکھیں اور تجھ میں ہو کر ہر ایک حرکت ( و ) سکون کریں.ان سب کو ایک ایسا دل بخش جو تیری محبت کی طرف جھک جائے اور ان کو ایک ایسی معرفت عطا کر جو تیری طرف کھینچ لیوے.اے بار خدا ! یہ جماعت تیری جماعت ہے اس کو برکت بخش اور سچائی کی روح ان میں ڈال کہ سب قدرت تیری ہی ہے.آمین.حاشیہ اگلے صفحہ پر

Page 488

466 بعدہ انتیس چندہ دہندگان کے اسماء مع تفصیل چندہ درج کئے گئے ہیں ان میں منشی حبیب الرحمن صاحب“ کا ماہوار چندہ نصف روپیہ شامل ہے اس چندہ کا سالانہ میزانا پانصد چہتر روپے کچھ آنے اور ماہوار اڑتالیس روپے اور چند پائی بنتا ہے.ایسی عظیم آسمانی مہم کے ایسے غریبانہ آغاز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے شرف قبول بخشا.اور اس سلسلہ کو ایک عظیم تناور درخت بنادیا - فالحمد لله على ذلک (۲) حضرت اقدس کی خوشنودی ایک رسالہ کی اشاعت پر.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جس قدر اموال کی ضرورت اشاعت حق کے لئے تھی اور جو اس میں مدد کرتے تھے.ان کا یہ کام کیسا باعث ثواب تھا حضور کے اس اشتہار سے ظاہر ہے جس کا عنوان ہے.ضروری گذارش ان با ہمت دوستوں کی خدمت میں جو کسی قدر رامداد امور دین کے لئے مقدرت رکھتے ہیں اے مرداں بکواشید و برئے حق بجوشید اگر چہ پہلے ہی سے میرے مخلص احباب للہی خدمت میں اس قدر مصروف ہیں کہ میں شکر ادا نہیں کر سکتا اور دعا کرتا ہوں کہ خداوند کریم ان کو ان تمام خدمات کا دونوں جہانوں میں زیادہ سے زیادہ اجر بخشے.لیکن اس وقت خاص طور پر توجہ دلانے کے لئے یہ امر پیش آیا ہے کہ آگے تو ہمارے صرف بیرونی مخالف تھے اور فقط بیرونی مخالفت کی ہمیں فکر تھی اور اب وہ لوگ بھی جو مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں بلکہ مولوی اور فقیہ کہلاتے ہیں، سخت مخالف ہو گئے ہیں یہاں تک کہ وہ عوام کو ہماری کتابوں کے خرید نے بلکہ پڑھنے سے منع کرتے اور روکتے ہیں اس لئے ایسی دقتیں پیش آگئی ہیں جو بظاہر ہیبت ناک معلوم ہوتی ہیں.لیکن اگر ہماری جماعت ست حاشیہ سابقہ : ازالہ اوہام حصہ دوم طبع اوّل (صفحہ ۷۶۸ تا ۸۱۹ و ۸۲۴۱۸۲۳) ان انتیس احباب کا چندہ بعض کا ماہوار اور بعض کا سالانہ درج ہے ان میں سے پانچ کپورتھلہ کے ہیں سب کا ماہوار حساب خلاصہ یوں بنتا ہے:.ماہوار چنده تعداد افراد ماہوار چنده تعداد افراد (۱) ایک آنہ چار پائی رو (۷) ایک روپیہ آٹھ (۲) دو آنے (۸) دورو پیه چار (۳) دو آنے آٹھ پائی تین (۹) تین روپیه ایک (۴) ساڑھے تین آنہ ایک (۱۰) پانچ روپیه (۵) چار آنے (۶) آٹھ آنے دو (۱۱) ہیں روپیہ

Page 489

467 نہ ہو جائے تو عنقریب یہ سب دقتیں دور ہو جائیں گی.اس وقت ہم پر فرض ہو گیا ہے کہ بیرونی اور اندرونی دونوں قسم کی خرابیوں کی اصلاح کرنے کے لئے بدل و جان کوشش کریں اور اپنی زندگی کو اسی راہ میں فدا کردیں.اور وہ صدق قدم دکھلا دیں جس سے خدا تعالے جو پوشیدہ بھیدوں کو جانے والا اور سینوں کی چھپی ہوئی باتوں پر مطلع ہے راضی ہو جائے.اسی بناء پر میں نے قصد کیا ہے کہ اب قلم اٹھا کر پھر اس کو اس وقت تک موقوف نہ رکھا جائے جب تک کہ خدا تعالیٰ اندرونی اور بیرونی مخالفوں پر حجت پوری کر کے حقیقت عیسویہ کے حربہ سے حقیقت دجالیہ کو پاش پاش نہ کرے.لیکن کوئی قصد بجز تو فیق و فضل و امدا د ورحمت الہی انجام پذیر نہیں ہو سکتا اور خدا تعالیٰ کی بشارات پر نظر کر کے جو بارش کی طرح برس رہی ہیں.اس عاجز کو بھی امید ہے کہ وہ اپنے اس بندہ کو ضائع نہیں کرے گا.اور اپنے دین کو اس خطر ناک پراگندگی میں نہیں چھوڑے گا.جواب اس کے لاحق حال ہے.مگر بر عایت ظاہری جو طریق مسنون ہے- من انصاری الی اللہ بھی کہنا پڑتا ہے سو بھائیو!..سلسلہ تألیفات کو بلا فصل جاری رکھنے کے لئے میرا پختہ ارادہ ہے.اور یہ خواہش ہے کہ اس رسالہ کے چھپنے کے بعد جس کا نام نشان آسمانی ہے.رسالہ دافع الوساوس طبع کرا کر شائع کیا جاوے اور بعد اس کے بلا توقف رسالہ حیات النمئی و ممات امسیح “ جو یورپ اور امریکہ کے ملکوں میں بھی بھیجا جائے گا شائع ہو.اور بعد اس کے بلا توقف حصہ پنجم ” براہین احمدیہ جس کا دوسرا نام ”ضرورت قرآن رکھا گیا ہے.ایک مستقل کتاب کے طور پر چھپنا شروع ہو.و لیکن میں اس سلسلہ کے قائم رکھنے کے لئے یہ احسن انتظام خیال کرتا ہوں کہ ہر ایک رسالہ جو میری طرف سے شائع ہو، میرے ذی مقدرت دوست اس کی خریداری سے مجھ کو بدل وجان مدد دیں.اس طرح پر کہ حسب مقدرت اپنے ایک نسخہ یا چند نسخے اس کے خرید لیں.جن رسائل کی قیمت تین آنہ یا چار آنہ یا اس کے قریب ہوان کو ذی مقدرت احباب اپنے مقدور کے موافق ایک مناسب تعداد تک لے سکتے ہیں اور پھر وہی قیمت دوسرے رسالہ کے طبع میں کام آ سکتی ہے.اگر میری جماعت میں ایسے احباب ہوں جو ان پر زکوة فرض ہو تو ان کو سمجھنا چاہیئے کہ اس وقت دین اسلام جیسا غریب اور یتیم اور بیکس کوئی بھی نہیں اور زکوۃ نہ دینے میں جس قدر تہدید شرع وارد ہے وہ بھی ظاہر ہے اور عنقریب ہے جو منکر زکوۃ کافر ہو جائے پس فرض عین ہے جو اسی راہ میں اعانت اسلام میں زکوۃ دی جاوے زکوۃ میں کتابیں خریدی جائیں اور مفت تقسیم کی جائیں اور میری تألیفات بجز ان رسائل کے اور بھی ہیں.آیندہ ہر ایک امر اللہ جل شانہ کے اختیار میں ہے.یــفــعــل

Page 490

468 - مايشاء وهو على كُلّ شيءٍ قدير ـ ،، (۹۴) منشی حبیب الرحمن صاحب نے اس تحریک کے بغیر اور اس سے قریباً پانچ ماہ پہلے دس رسالے منگوا کر مفت تقسیم کئے.چنانچہ حضرت اقدس آپ کو تحریر فرماتے ہیں :- مشفقی محبی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محبت نامہ پہونچ کر آپ کے ترددات کا حال معلوم کر کے بہت غم ہؤا.دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو تمام ترددات سے مخلصی عطا فرما دے.آپ نے بہت ثواب کا کام کیا کہ دس رسالے مفت تقسیم کئے.جزاکم اللہ - اب عنقریب انشاء اللہ رسالہ دافع الوساوس“ بھی شائع ہو جائے گا.میں یقینا کہتا ہوں کہ آپ کی خواب نہایت عمدہ ہے.منشی ظفر احمد (صاحب) جو موجود تھے اس سے مراد انشاءاللہ ظفر ہے.یعنی فتح آپ کو ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ۴ /جنوری ۱۸۹۲ء (۳) ترجمۃ القرآن کی خریداری.حضرت مولانا نورالدین صاحب کے درس قرآن کو جمع کر کے ترجمۃ القرآن“ کو تیار کیا گیا تھا.اور اس پر حضرت ممدوح نے کئی بار نظر ثانی فرمائی تھی.(۹۵) ادارہ الحکم نے افادہ عام کے لئے اعلان کیا تھا کہ تین صد جلدوں کی خریداری کی اطلاع آنے پر اس کی طباعت شروع کی جائیگی اور جنوری ۱۹۰۰ء کے آغاز میں بتایا کہ چھ افراد کی طرف سے مزید آٹھ جلدوں کی خریداری کی اطلاع ملی ہے جن میں سے دو جلدوں کی خریداری منشی حبیب الرحمن صاحب نے قبول کی ہے.اور اس وقت تک ستر جلدوں کی خریداری کی اطلاع ملی ہے.(۲) تعمیر منارة امسیح.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ حضرت عیسی کا نزول ایک سفید منارہ کے پاس دمشق کے مشرق کی طرف ہوگا.( صحیح مسلم ) مجد دصدی نم حضرت امام جلال مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم (مکتوب نمبر ۹ صفحه ۵۴۹۵۳ ) الحکم ۲۸ جنوری ۱۹۳۴ء (صفحہ ۷ کالم ☆ ۱) منشی ظفر احمد کے ساتھ ”صاحب“ کا لفظ صرف نقل بقلم منشی تنظیم الرحمن صاحب میں موجود ہے.الحکم ۱۰ جنوری ۱۸۹۹ء (صفحہ ۷) تین ماہ میں صرف ستر خریدار ملے.جماعت کی مالی حالت کا اس سے اندازہ ہوتا ہے.

Page 491

469 الدین سیوطی کے نزدیک یہ منار دمشق کی طرف ہونا چاہیئے اور ضروری نہیں کہ دمشق میں واقع ہو.( حاشیہ ابن ماجہ مصری ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الہی تحریک پر اشتہار مورخہ ۱۸ مئی ۱۹۰۰ء ( مشہور خطبہ الہامیہ ) کے ذریعہ یہ اعلان کیا کہ مسجد اقصیٰ قادیان میں ایک منارہ تعمیر کیا جائے گا.جس کا اسلام کی سر بلندی کے ساتھ گہرا تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منارہ کی پیشگوئی کا ذکر کر کے اس کے فوائد بیان کئے ہیں اور مسجد اقصیٰ کے بارے تفصیل بھی بیان کی ہے حضور رقم فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے قادیان کی مسجد جو میرے والد صاحب مرحوم نے مختصر طور پر دو بازاروں کے وسط میں ایک اونچی زمین پر بنائی تھی.اب شوکت اسلام کے لئے بہت وسیع کی گئی لہذا اب یہ مسجد اور رنگ پکڑ گئی ہے.یعنی پہلے اس مسجد کی وسعت صرف اس قدر تھی کہ بمشکل دوسو آدمی اس میں نماز پڑھ سکتا تھا لیکن اب دو ہزار کے قریب اس میں نماز پڑھ سکتا ہے.اور غالباً آئیندہ اور بھی یہ مسجد وسیع ہو جائے گی.میرے دعوای کی ابتدائی حالت میں اس مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے زیادہ سے زیادہ پندرہ ہیں آدمی جمع ہوا کرتے تھے.لیکن اب خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ تین سو یا چار سونمازی ایک معمولی اندازہ ہے اور کبھی سات سو یا آٹھ سو تک بھی نمازیوں کی نوبت پہنچ جاتی ہے.لوگ دور دور سے نماز پڑھنے کے لئے آتے ہیں.یہ عجیب خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں نے بہت زور مارا کہ سلسلہ ٹوٹ جائے اور درہم برہم ہو جائے.لیکن جوں جوں وہ بیخ کنی کے لئے کوشش کرتے گئے اور بھی ترقی ہوتی گئی اور ایک خارق عادت طور پر یہ سلسلہ اس ملک میں پھیل گیا.نیز فرمایا کہ اس مسجد کے مشرقی حصہ میں تین امور کی خاطر منارہ تعمیر کیا جائے گا کہ اول: - پانچ وقت اس پر اذان دی جائے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ لا اله الا اللہ کی آواز ہر ایک کان تک پہنچے.گویا حضرت رسول پاک محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس از لی ابدی زندہ خدا کی طرف رہنمائی کی تھی، اس کے سوا دیگر معبود باطل ہیں کیونکہ ان پر ایمان لانے والے کوئی نشان نہیں دکھلا سکتے.دوم: اس مینار پر روشنی کا انتظام کیا جائے گا گویا لوگ معلوم کریں کہ آسمانی روشنی کا زمانہ آ گیا ہے.سوم :.اس پر جو گھڑیال آویزاں کیا جائے گا.اس کی حقیقت یہ ہے کہ لوگ پہچان لیں کہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا وقت آ گیا ہے.نیز فرمایا کہ منارہ بیضاء کے پاس نزول کا مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے کہ اس وقت دینا میں میل جول اور ملاقات اور تبلیغ اور دینی روشنی پہچانے اور ندا کرنے کی ایسی سہولت ہوگی گویا یہ شخص منارہ

Page 492

470 پر کھڑا ہے.اور اس کی روشنی اور آواز جلد تر دنیا میں پھیلے گی.اور یہ باتیں کسی اور نبی کو میسر نہیں آئیں.احادیث نبویہ میں جو یہ آیا ہے کہ آنے والا سیج صاحب المنارہ ہوگا اس کے اندر یہ حقیقت مخفی ہے کہ اس کے زمانہ میں اسلامی سچائی بلندی کے انتہاء تک پہنچے گی.جو اس منارہ کی مانند ہے جو نہایت اونچا ہو اور دین اسلام آیت هُوَ الَّذِى أَرسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه کے مطابق تمام ادیان پر غالب آ جائے گا.جیسے مینار سے اذ ان تمام آوازوں پر غالب آجاتی ہے یہی اشارہ میرے اس الہام میں ہے کہ بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتادی دمشق کا ذکر اس لئے ہے کہ تثلیث کی تخم ریزی دمشق ہی سے شروع ہوئی تھی.اور مسیح موعود کے دمشق کے قریب نزول میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی غرض یہ ہے کہ تا تثلیث کے خیالات کو محو کر کے ایک خدا کا جلال دنیا میں قائم کرے.ایسی الہی باتوں کی تہہ میں اسرار و رموز ہوتے ہیں.پولوس یہودی نے ایک خواب کا منصوبہ بنا کر تثلیث کا آغاز کیا اور اس شرک عظیم کا کھیت اول دمشق میں ہی بڑھا اور پھولا اور پھر یہ زہر دیگر مقامات میں پھیلا اللہ تعالیٰ کو تو معلوم تھا کہ ایک انسان کو خدا بنانے کا بنیادی پتھر اول دمشق میں ہی رکھا گیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے ذکر کے وقت کہ جب غیرت خداوندی اس باطل تعلیم کو نابود کرے گی پھر دمشق کا ذکر فرمایا اور پیشگوئی کا مطلب یہ تھا کہ مسیح موعود کا نور آفتاب کی طرح دمشق کی طرح دمشق کے مشرقی جانب سے طلوع کر کے مغربی تاریکی کو دور کر دے گا.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح موعود آفتاب کی طرح جو مشرق سے طلوع کرتا ہے ظہور فرمائے گا.اور اس کے مقابل پر تثلیث کا چراغ مردہ جو مغرب کی طرف واقع ہے دن بدن پر مردہ ہو جائے گا کیونکہ الہی کتب میں مشرق کی طرف سے طلوع اقبال کی نشانی اور مغرب کی طرف سے جانا ادبار کی نشانی ہے.پھر حضرت اقدس نے ایک اور اشتہار کے ذریعہ اس اہم خدمت دین کے بارے توجہ دلاتے ہوئے رقم فرمایا: میں آج خاص طور سے اپنے ان مخلصوں کو اس کام کے لئے توجہ دلاتا ہوں جن کی نسبت مجھے یقین ہے کہ اگر وہ سچے دل سے کوشش کریں.جیسا کہ اپنے نفس اغراض کے لئے اور اپنے بیٹوں کی شادیوں کے لئے پورے زور سے انتظام سرمایہ کر لیتے ہیں تو ممکن ہے کہ یہ کام ہو جائے.اگر انسان کو ایمانی دولت سے حصہ ہو تو گو کیسے ہی مالی مشکلات کے شکنجہ میں آجائے تا ہم وہ کار خیر کی تو فیق پالیتا ہے.چنانچہ حضور نے بطور مثال دو غریب لیکن مخلص احمدیوں کے اسماء درج کئے ہیں.جنہوں نے اپنی مقدور سے بہت بڑھ کر تعمیر منارہ کے لئے مالی پیشکش کی ہے.نیز حضور فرماتے ہیں کہ منارہ کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے اسلام میں دو دفعہ کوشش کی گئی.۴۱ ۷ ہجری سے پہلے کئی لاکھ روپے سے ایک مینار تعمیر ہوا.نصاری نے اسے تذکرہ صفحہ ے ے طبع ۲۰۰۴ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۲۲

Page 493

471 جلا دیا.پھر ا۷۴ ہجری میں پھر منارہ تیار کیا گیا جو آگ لگنے سے مع جامع اموی جل گیا.”سواب یہ تیسری مرتبہ ہے اور خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو موقع دیا ہے کہ اس ثواب کو حاصل کریں.جو شخص اس ثواب کو حاصل کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے انصار میں سے ہوگا.میرا نور قلب مجھے اس وقت اس بات کی طرف تحریک کرتا ہے جو ایسے مبارک کام کے لئے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہوتی ہے اپنی مخلص جماعت کو اس مالی مدد کی تکلیف دوں جو مومن کے لئے جنت کو واجب کرتا ہے.پس میں اسی غرض سے چند مخلصین کے نام..لکھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ہر ایک ان میں سے کم سے کم ایک سورو پید اس عظیم الشان کام کے لئے پیش کرے.سوائے مخلصو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو قوت بخشے.خدا تعالیٰ نے آپ کو ثواب حاصل کرنے اور امتحان میں صادق نکنے کا یہ موقع دیا ہے.مال سے محبت مت کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ اگر تم مال کو نہیں چھوڑتے تو وہ تمہیں چھوڑ دے گا.مسیح موعود کے لئے دو پیشگوئیاں تھیں.ایک کسوف و خسوف کا رمضان کی مقررہ تاریخوں میں ہونا جس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہیں، یہ پوری ہو چکی.دوسری جس میں انسانی ہاتھ کا دخل ہے یہ منارہ کا تیار کرنا ہے.مسیح موعود کا حقیقی نزول یعنی ہدایت اور برکات کی روشنی کا دنیا میں پھیلنا یہ اسی پر موقوف ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو یعنی منارہ طیار ہو لفظ نازل ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بغیر وسیلہ انسانی اسباب کے آسمان سے ایک قوت نازل ہوگی جو دلوں کو حق کی طرف پھیرے گی.اور مراد اس سے انتشار روحانیت اور بارش انوار و برکات ہے.سوا بتداء سے یہ مقدر ہے کہ حقیقت مسیحیہ کا نزول جونور اور یقین کے رنگ میں دلوں کو خدا کی طرف پھیرے گا منارہ کی طیاری کے بعد ہوگا.بیہ جولکھا ہے کہ منارہ کے قریب مسیح کا نزول ہو گا.اس کے معنوں میں یہ بات داخل ہے کہ اسی زمانہ میں جبکہ منارہ طیار ہو جائے گا مسیحی برکات کا زور وشور سے ظہور بروز ہو گا اور اسی ظهور و بروز کو نزول کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے جن کے نام منارہ پر لکھے جائیں گے وہ) زمانہ دراز تک بطور کتبہ کے منارہ پر کندہ رہیں گے جو آئندہ آنے والی نسلوں کو دعا کا موقع دیتے رہیں گے.فہرست چندہ دہندگان میں چھہتر نمبر پر آپ کا نام نامی منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور- کپورتھلہ“ مرقوم ہے.* منارۃ اُسیح پر آپ کا نام یوں درج ہے :- ر مجموع اشتہارات جلد دوم صحه ۳۲ تا۴۲۶ اشتهار به عنوان ” اپنی جماعت کے خاص گروہ کے لئے منارہ مسیح

Page 494

472 ۸۳ منشی حبیب الرحمن صاحب حاجی پوره گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس عظیم الشان سعادت سے حصہ پانے کی توفیق عطا کی.منارہ کی تکمیل ۱۹۲۳ء میں ہوئی.اس سال میں ارتداد مالکانہ کے انسداد کے باعث سلسلہ احمدیہ کا نام روشن ہوا اور ۱۹۲۴ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے اسلامی ممالک میں سے گذرتے ہوئے انگلستان میں ” ویمبلے مذاہب کانفرنس“ میں شمولیت کرنے اور آپ کے مضمون کے سنائے جانے ، انگلستان کی اولیں مسجد کی اس کے مرکز میں سنگ ، بنیاد آپ کے ہاتھوں رکھے جانے اور اس عرصہ قیام میں حضرت مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کی المناک شہادت واقع ہونے اور بعدہ تحریک جدید کی الہی تحریک کے ذریعہ ہر چہار اطراف عالم میں مبلغین کے بھجوائے جانے سے اشاعت سلسلہ احمدیہ کا خاص سامان البہی نصرت و تائید سے ہوا جو خلافت ثانیہ کے اواخر میں اور خلافت ثالثہ میں یہ فتوحات و کامرانیاں برق رفتاری اختیار کر گئی ہیں.فالحمد للہ علی ذلک.(۶٫۵) اعانت مدرسہ تعلیم الاسلام ومساکین فنڈ میں شرکت مدرسہ تعلیم الاسلام کا کیا احسن اور اہم مقصد تھا اور اس کی اعانت کتنی کار خیر تھی اس کا علم حضرت مسیح موعود علیہ الاسلام کے ۱۵ ستمبر ۱۸۹۷ء کے اشتہار بہ عنوان ” ایک ضروری فرض کی تبلیغ “ سے ہوتا ہے.حضور فرماتے ہیں:.اگر چہ ہم دن رات اس کام میں لگے ہوئے ہیں کہ لوگ اس سچے معبود پر ایمان لاویں جس پر ایمان لانے سے نور ملتا اور نجات حاصل ہوتی ہے.لیکن اس مقصد تک پہنچانے کے لئے ایک طریق...یہ ہے کہ ایک مدرسہ قائم ہو کر بچوں کی تعلیم میں ایسی کتابیں ضروری طور پر لازمی ٹھہرائی جائیں جن کے پڑھنے سے ان کو پتہ لگے کہ اسلام کیا شے ہے..پھیلاؤں.میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بچوں کی تعلیم کے ذریعہ سے اسلامی روشنی کو ملک میں...ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اس طوفان ضلالت میں اسلامی ذریت کو غیر مذاہب کے وساوس سے بچانے کے لئے اس ارادہ میں میری مدد کرے.سو میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بالفعل قادیان میں ایک مڈل سکول قائم کیا جائے اور علاوہ تعلیم انگریزی کے ایک حصہ تعلیم کا وہ بقیہ حاشیہ کے بارے میں توجہ دہانی اور اس کام کے لئے ان سے ایک درخواست نیز الفضل ۳/جنوری ۱۹۳۰ء میں ان چندہ دہندگان کی فہرست میں نمبر ۴۵ پر آپ کا نام منشی حبیب الرحمن صاحب‘ درج ہے (صفحہ ۱۴ کالم ۲) فروری ۱۹۲۳ء میں منارہ پر گیس کے ہنڈے لگائے گئے تھے.اس وقت منارہ کی تعمیر مکمل ہو گئی تھی.)

Page 495

473 کتابیں رکھی جائیں.(جن میں ) مخالفوں کے اعتراضات کا جواب دے کر اسلام کی خوبیاں سکھلائی جائیں.اس طریق سے اسلامی ذریت نہ صرف مخالفوں کے حملوں سے محفوظ رہے گی.بلکہ بہت جلد وہ وقت آئے گا کہ حق کے طالب سچ کی روشنی اسلام میں پا کر باپوں اور بیٹوں اور بھائیوں کو اسلام کے لئے چھوڑ دیں گے.مناسب ہے کہ ہر ایک صاحب توفیق اطلاع دیوے کہ وہ اس کار خیر کی امداد میں کیا کچھ ماہواری مدد کر سکتا ہے.اگر یہ سرمایہ وو ،، زیادہ ہو جائے تو کیا تعجب ہے کہ یہ سکول انٹرنس تک ہو جائے." اول بنیاد چندہ کی اخویم مخدومی مولوی حکیم نورالدین صاحب نے ڈالی ہے کیونکہ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ میں اس سکول کے لئے دس روپیہ ماہواری دوں گا.اور مرزا خدا بخش نے دورو پید اور محمد اکبر صاحب نے ایک روپیہ......اور میر ناصر نواب صاحب نے ایک روپیہ.اور اللہ داد صاحب کلرک شاہ پور نے ۸/ ( یعنی نصف روپیہ ) ماہواری چندہ دنیا قبول کیا ہے.(۹۷) منشی حبیب الرحمن صاحب کی اعانت کا ذکر کرنا یہاں مقصود ہے.اس دوران میں عظیم ترین اعانت حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی طرف سے ہوئی جو ایک بھاری جاگیر کی وجہ سے صاحب توفیق تھے.حضور کی تحریر سے ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں چند آنے بھی اہمیت رکھتے تھے.مدرسہ کی اعانت کے سلسلہ میں مجلس منتظمہ کی طرف سے سیکرٹری صاحب کا اعلانِ شکر یہ درج کرتے ہوئے حکم کی طرف سے تحریر ہوا کہ ”مبارک ہیں وہ لوگ جو اس شکریہ کے مصداق ہیں کیونکہ مدرسہ تعلیم الاسلام حقیقت میں حضرت اقدس کی پاک اغراض میں سے ہے اور آپ ہی کا مدرسہ ہے.اس صورت میں شکر یہ امام موعود کی طرف سے ہے پس جو امام الزمان کے پاک ارادوں کی تعمیل میں کوشاں ہوتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کے حضور سرخروئی (پاتا) ہے.سیکرٹری صاحب موصوف نے اس موقع کے تمام احباب چندہ دہندگان میں سے صرف چار احباب کے نام تحریر کئے ہیں.جنہوں نے بڑی عالی حوصلگی سے مجلس منتظمہ کے نمائندہ مرزا خدا بخش صاحب کا خیر مقدم کیا.(۹۸) ،، (اور نہ صرف) خود معقول رقموں سے مدد کی بلکہ اوروں سے دلانے میں بھی کوشش کی.“

Page 496

اور لکھا کہ 474 در مجلس منتظمہ دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہمتوں میں برکت دے اس سلسلہ میں منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس و نمبردار حاجی پور کے بارے لکھتے ہیں کہ ” (انہوں نے ) اپنی ہمت اور طاقت سے بڑھ کر امداد کی یعنی ہیں روپے اپنی طرف سے اور پانچ روپے اپنی اہلیہ کی طرف سے دیئے * (۷) قابل تقلید نمونہ اخبارات ورسائل سلسلہ احمدیہ کی خریداری قبول کرنا.ان کے لئے خریدار مہیا کرنا، مالی اعانت مہیا کرنا اور اعانت کا کوئی طریق نکالنا اور احباب میں خریداری کے بارے تلقین کرنا.خصوصاً ابتدائی زمانہ میں جبکہ جماعت قلیل التعداد اور قلیل الوسائل تھی ، ایک عظیم خدمت تھی.موقر الحکام کو سلسلہ احمدیہ کے اولین اخبار اور ترجمان ہونے کا شرف حاصل ہے.اس کو اور بعد میں جاری ہونے والے بدر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دوباز و قرار دیا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی جیسے صاحب عزم نے الحکم کو شدید نا موافق حالات میں جاری رکھا.الحکم، ارجنوری ۱۹۰۱ء (صفحہ ۱۰) دیگر تین احباب سے ایک آنریبل خلیفہ محمد حسین صاحب ممبر کونسل پٹیالہ تھے.جنہوں نے اس وقت بھی اس نمائندہ کو پچاس روپے دیئے تھے.جبکہ اسی ماہ میں اسی مدرسہ کو وہ ایک خطیر اور گرانقدر رقم عطا فرما چکے تھے.تیسرے اہلیہ مشی عزیز الرحمن صاحب کپور تھلہ جنہوں نے اپنا زیور ہیں عدد چوڑیاں فی سبیل اللہ پیش کر دی تھیں.اس وقت مدرسہ کی امداد کی اہمیت جس قدر تھی وہ اس امر سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس نے احباب کو یہ تحریک کی تھی کہ تقریب عید پر ہر احمدی ایک ایک روپیہ اس مدرسہ کی اعانت کے لئے دے (صفحہ ا ا کالم ا) الحکم بابت ارجنوری میں جس اعانت کا ذکر ہے کہ بذریعہ مرزا خدا بخش صاحب وصولی ہوئی تھی اس کی وصولی دسمبر ۱۹۰۰ میں ہوئی تھی.اور اس کی اسم وار تفصیل الحکم بابت ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ء میں صفحہ ۱۶ کالم ۲ میں ہوئی زیر روز نامچه آمد مدرسہ تعلیم الاسلام میں مرقوم ہے الحکم بابت ۲۴ فروری ۱۹۰۱ء کے مطابق منشی صاحب اور آپ کی اہلیہ صاحبہ نے اسی ماہ جنوری میں اعانت مدرسہ کے لئے مزید دو روپے بھی دیئے تھے.(صفحہ ۱۶ کالم ۳) اس فہرست کے مطابق پانچ افراد ایک ایک روپیہ سے کم ، پچاس افراد نے ایک ایک روپیہ اور قریباً اڑہائی درجن نے ایک روپیہ سے زیادہ چندہ دیا نیز اسی سال میں منشی صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبہ نے تین روپے مساکین فنڈ میں دیئے تھے.(احکم ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۶ کالم او۲)

Page 497

475 شیخ صاحب نے اکتوبر ۱۹۰۰ ء میں احباب کو توجہ دلائی کہ یہ اخبار شدید مشکلات میں ہے.ایک ہزار سے زائد روپیہ خریداروں کے ذمہ بقایا ہے.بے سروسامانی کے باوجود گذشتہ ایک سال سے زائد عرصہ تک کاغذ و کتابت تقطیع اور طباعت میں نمایاں تبدیلی کر کے میں نے اسے چلا کر دکھایا ہے.(99) اس پر احباب نے قدر دانی کا اظہار کیا.جن کے خطوط الحکم میں شائع ہوئے.منشی حبیب الرحمن صاحب نے الحکم کی قدردانی کرتے ہوئے اپنے خط میں تحریر کیا کہ اس کی ترقی خوشکن ہے.اور اللہ تعالیٰ سے چاہا کہ وہ دن آئے جب یہ روز نامہ بن جائے.(۱۰۰) الحکم نے قابل تقلید نمونہ کے عنوان کے تحت رقم فرمایا کہ منشی صاحب نے اپنی ایک بچی کی وفات پر اسے ایصال ثواب کے لئے ایک نیک نمونہ اور قابل تقلید ذریعہ یہ تجویز کیا ہے کہ سلسلہ احمدیہ کے رسائل ہمیشہ کے لئے ( یعنی تاحد امکان.ناقل ) کسی غریب لیکن شائق کے نام جاری کرائے جائیں.( غالباًا اولیت آپ کو حاصل ہوئی) منشی حبیب الرحمن صاحب نے ایک ایسے نیک کام کی ابتداء کی ہے جو مرحومہ کے لئے الدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَا عِلِهِ (١٠) کے موافق بہت بڑی نیکی اور ثواب کا موجب ہوگا.“ نیز تحریر کیا کہ اگر تقریبات پر احباب ان ذرائع اشاعت کا لحاظ رکھیں تو بہت امداد کر سکتے ہیں.جبیں (۸) چندہ حضرت نانا جان کو دیا.حضرت میر ناصر نواب صاحب نے ۱۹۰۹ء میں جو دورہ وصولی چندہ کا ہندوستان میں کیا اس بارے میں آپ رقم فرماتے ہیں کہ اول قادیان سے کپور تھلہ گیا اور وہاں سے کچھ چندہ وصول کر کے جالندھر پہنچا..وہاں سے حاجی پور گیا.وہاں بھی حبیب الرحمن صاحب کی کوشش سے چندہ مل گیا ۱۰۲) الحکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۶ء (صفحہ ۶) اس بارہ میں مختصر اعلان بدر ۴ را کتوبر ۱۹۰۶ء میں درج ہے (صفحہ ۱۳) بدر ۲۴ / مارچ ۱۹۰۴ء (صفحہ ۲ کالم ۱) میں بدر کی توسیع اشاعت کی اعانت کرنے والے کرم فرماؤں کا عمومی رنگ میں بہت شکریہ ادا کر کے مزید توجہ دینے کی تلقین کی گئی ہے.اعانت اس وقت قلیل معلوم ہوتی ہے.اس زمانہ کے لحاظ سے عظیم تھی جناب حبیب الرحمن صاحب پھگواڑہ “ کی وصولی شدہ قیمت زیر رسید زر دو روپے چھ آنے درج ہے (ایضاً صفحہ ۹ کالم ۴) ریویو آف ریلیجز (اردو) کی اپریل ۱۹۰۶ء کی فہرست خریدار دہندگان کی رو سے منشی حبیب الرحمن صاحب

Page 498

476 (۹) ایک مضمون کی اشاعت میں اعانت ایک شخص نے پانچ سوالات کئے اور لکھا کہ میں حضرت مرزا صاحب کو مصلح اعظم ماننے کو تیار ہوں لیکن اظہار احمدیت سے خائف ہوں کیونکہ قبول احمدیت کی صورت میں مجھے تمام مسلمان کا فر کہیں گے مجھے ان کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے رکنا پڑے گا.تکالیف اٹھانی پڑیں گی.اسلام نے فرقہ بندی سے منع کیا ہے.قرآن وحدیث میں مہدی ومسیح پر علانیہ ایمان لانے کی ہدایت نہیں خفیہ ایمان رکھنے میں حرج نہیں دیکھتا.ان سوالات کے مدلل ومفصل جوابات حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف سے الفضل بابت ۱۳ را پریل ۱۹۱۵ء کے نو کالموں میں شائع ہوئے.مزید یہ مرقوم ہے :- حضور کا (یہ) مضمون پمفلٹ کی صورت میں سولہ صفحہ حجم پر تین ہزار طبع ہوا ہے ایک ہزار جناب حبیب الرحمن صاحب کی طرف سے اور باقی کے دو ہزار کے کاغذ کا خرج منشی ہاشم علی صاحب نے دیا ہے اور لکھائی چھپوائی جناب ذوالفقار علی خاں صاحب نے.جزا ہم اللہ احسن الجزاء.اب تمام احباب کو چاہیئے کہ محصول (101)66 ڈاک حسب ضرورت فی پانچ، آدھ آنے کے حساب سے بھیج کر ایسے لوگوں میں تقسیم کریں جو سلسلہ کی طرف متوجہ ہیں مگر بیعت سے رکے ہوئے ہیں،، (۱۰۳) گویا اس وقت جماعتی طور پر اسی تعداد میں پمفلٹ مطلوب تھے اور ان تین احباب کو اس کے سارے اخراجات برداشت کر کے ثواب عظیم کے حصول کی توفیق عطا ہوئی.(۱۰) مسجد ولایت کے لئے مالی اعانت اور اس کی ترغیب.حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ انگلستان نے جو امریکہ میں متعین ہو کر جانے والے تھے.ایک رپورٹ میں یہ ذکر کیا تھا کہ انگلستان سے تبلیغ کے لئے ایک رسالہ کا اجراء ضروری ہے.ایام جنگ عظیم ( نمبرا) میں کسی نئے رسالہ کے اجراء کی ممانعت تھی.اب اجازت ہے دوسرے مضافات لندن میں ایک احمدیہ مسجد اور ایک مہمان خانہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے.آپ کا یہ مکتوب ۱۹۱۹ء کے جلسہ سالانہ میں سنا دیا گیا تھا.(۱۰۴) بعد ازاں ۷ جنوری ۱۹۲۰ء کو حضرت خلیفتہ اسی رضی اللہ عنہ نے قادیان کی مستورات میں چندہ مسجد بقیہ حاشیہ: رئیس حاجی پور نے ایک خریدار مہیا کیا ( شمارہ جولائی ۱۹۰۶ ء سر ورق صفحه ماقبل آخر ) رسالة تفخیذ الاذہان کا چندہ دوروپے ایک آنہ اور چار روپے دو نہ کی ادائیگی علی الترتیب شمارہ مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ”ب“ کالم ۳ و شمارہ جولائی ۱۹۱۳ء سر ورق ما قبل آخر میں درج ہے

Page 499

477 احمد یہ لنڈن کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ ”ہمارے مشنری جولنڈن گئے ہوئے ہیں جس مکان میں وہ ٹھہرے ہوتے ہیں.اور کام زور شور سے شروع ہوتا ہے تو کسی وجہ سے مکان تبدیل کرنا پڑتا ہے.لنڈن شہر ایک سو بیس میل میں آباد ہے.اس لئے بعض دفعہ وہاں پہلے مکان سے تمیں چالیس میل پر دوسرا مکان ملتا ہے.یہ تبدیلی گویا ایسی ہے جیسے قادیان سے کوئی امرتسر یا لاہور میں مکان تبدیل کر کے حاصل کرلے.مکان کی تبدیلی سے زیر تبلیغ افراد پر بہت برا اثر پڑتا ہے.لوگ ہمارے مبلغ سے تعلق پیدا کرنے سے ڈرتے ہیں کہ یہ پر دیسی ہے چند روز کے لئے ٹھہرا ہوا ہے لیکن مکان بنوانے سے سمجھتے ہیں کہ اب یہ یہاں ہی رہے گا.لنڈن میں مہنگائی ہے چھ سات روپے مزدور کی یومیہ اجرت ہے.وہاں چھوٹا سا مکان بھی کسی کو ملے تو بسا غنیمت متصور ہوتا ہے.پس لنڈن میں ایک چھوٹا مکان اور مسجد بہت بڑی سمجھی جائے گی اور اس کا بہت بڑا نام ہو گا.اس وقت وہاں لاکھوں لوگ ہیں.جن کے پاس گھر نہیں ہیں.ہمیں پچاس ساٹھ ہزار روپیہ مطلوب ہے.اگر ایک ماہ میں تمیں ہزار جمع ہو جائے تو پونڈ کی قیمت بہت کم ہو جانے کی وجہ سے یہی رقم پچاس ہزار ہو جائے گی.کسی مسجد یا کنویں یا سرائے کی تعمیر کو عورتیں باعث ثواب سمجھتی ہیں.سوامید ہے کہ مستورات اس چندہ میں خاص طور پر حصہ لیں گی.‘، (۱۰۵) حضور کی اس تحریک پر عورتوں نے قریباً اڑہائی ہزار روپیہ چندہ دیا.پھر حضور نے ایک مفصل سات کالم کی تحریک جماعت کو فرمائی جس میں مزید یہ بتایا کہ ہماری یہ مسجد اولین مسجد کہلانے کی مستحق ہوگی.کیونکہ اسے ضرورت ہونے پر تعمیر کیا جانا ہے.وہ کنگ کی مسجد بلاضرورت تعمیر ہوئی پھر سالہا سال مقفل رہی.احباب خصوصاً صاحب ثروت و دولت دوسرے متمول افراد سے زیادہ ہمت دکھا ئیں اور الہی افضال اور آئندہ آنے والی نسلوں کی دعاؤں کے مستحق بنیں.انگلستان وہ مقام ہے جو صدیوں سے تثلیث پرستی کا مرکز ہے.اس میں ایک ایسی مسجد کی تعمیر جس پر سے پانچ وقت لا الہ الا اللہ کی صدا بلند ہو، کوئی معمولی کام نہیں ہے.یہ عظیم الشان کام ہے جس کے نیک ثمرات نسلاً بعد نسل پیدا ہوتے رہیں گے اور تاریخ اسے یا در کھے گی.یہ مسجد ایک نقطہ مرکزی ہوگی جس میں نورانی شعاعیں نکل کر تمام انگلستان کو منور کر دیں گی.سواے صاحب ثروت احباب ! اٹھو اور ہمیشہ کے لئے ایک نیک یاد گار چھوڑ و تا ابدی زندگی میں اس کے نیک ثمرات پاؤ.وہ شمرات جن کی لذت کا اندازہ انسانی دماغ کر ہی نہیں سکتا.غرباء تو ہزاروں طریق سے خدمت دین کر کے ثواب کمار ہے ہیں اور اس میں بھی وہ کوشش کریں گے وہ بوجھ اٹھانے کے عادی ہو گئے ہیں.یہ مضمون ۶ / جنوری ۱۹۲۰ ء کا تھا.اس کے تمہ میں حضور نے لکھا کہ :

Page 500

478 میں نے احباب قادیان کو جمع کر کے تحریک کی تو پانچ ہزار کے قریب چندہ ہو گیا.دوسرے روز مردوں اور مستورات میں تحریک کی تو کل چندہ بارہ ہزار کے قریب ہو گیا.انشاء اللہ تعالیٰ اس غریب جماعت سے اس قدر وصولی خاص تائید الہی کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی.اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اس چندہ کے ساتھ شامل ہے.قادیان کے لوگوں کا جوش وخروش دیکھنے کے قابل تھا.اخلاص تو دل میں پہلے سے ہوتا ہے.یہ اس کے اظہار کا خاص موقع تھا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ قادیان کے احمدیوں کا اخلاص اہلنے کے درجہ تک پہلے سے پہنچا ہوا تھا.اور صرف بہانہ ڈھونڈ رہا تھا اور مرد اور عورت اور بچے سب ایک خاص نشہ محبت میں چور نظر آتے تھے.عورتوں کا چندہ ہی دو ہزار سے بڑھ گیا.اور سب کا سب وصول ہو گیا.کئی عورتوں نے اپنے زیور اتار دیے اور بہتوں نے ایک دفعہ چندہ دے کر ہوش آنے پر دوبارہ اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دینا شروع کیا اور پھر بھی جوش کو دبتانہ دیکھ کر اپنے وفات یافتہ رشتہ داروں کے نام سے چندہ دیا.بچوں کا یہ حال تھا کہ ایک غریب محنتی شخص کے بچے نے جیب خرچ کے پیسے ساڑھے تیرہ روپے نہ معلوم کن امنگوں سے جمع کئے تھے.ان امنگوں کو بھی قربان کرتے ہوئے سارے پیش کر دیئے.مدرسہ احمدیہ کے غریب طلباء نے جو ایک سو سے بھی کم ہیں اور ان میں سے اکثر وظیفہ خوار ہیں، ساڑھے تین سو روپیہ چندہ لکھوایا گویا کئی ماہ کی اشد ضروریات پورا کرنے سے انہوں نے محرومی اختیار کرلی.مردوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی ماہوار آمد نیوں سے زیادہ چندہ لکھوایا بعض نے جو کچھ نقد پاس تھا.دے دیا اور کھانا پینے کا انتظام قرض لے کر کیا.ایک صاحب نے جو بوجہ غربت زیادہ چندہ نہیں دے سکتے تھے.نہایت حسرت سے مجھے لکھا کہ میرے پاس اور کچھ نہیں.میری دکان نیلام کر لی جائے.بعض نے سکنی اراضی چندہ میں دے دیں.بعض لوگوں نے بجائے ( آئندہ کچھ عرصہ میں ) آہستہ آہستہ ادائیگی کرنے کے زیورات وغیرہ فروخت کر کے اپنے وعدے ایفاء کر دیئے.قادیان والوں کے اسجذ بہ کے ظاہر ہونے سے بعض لوگوں میں جو غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے، دور ہوگی کہ قادیان میں لوگ سکتے بیٹھے ہیں ان کو باہر بھیجا جائے تا وہ کمائیں اور چندہ بھی دیں.حالانکہ چند معذور افراد کے سوا احباب سخت محنت سے روزی کماتے ہیں اور اپنے فارغ اوقات کو اشاعت دین میں صرف کرتے ہیں اور دیگر جماعتوں کی نسبت زیادہ چندہ دیتے ہیں.میں یہ خوشخبری بھی سناتا ہوں کہ امرتسر اور لاہور کی جماعتوں نے بھی خاص ایثار سے کام لیا ہے اور اوپر بیان کردہ بدظنی سے پاک ہیں کیونکہ بوجہ قرب اور کثرت تعلقات کے وہ اہل قادیان کے بارے حقیقت سے آگاہ ہیں.امرتسر کی غریب اور قلیل جماعت نے بھی دو ہزار سے اوپر چندہ لکھوایا ہے اور لاہور کے بارے اطلاع کے

Page 501

479 (۱۰۶) مطابق وہاں سے دس ہزار سے زیادہ چندہ جمع ہو جائے گا.گویا مطلوبہ رقم گورداسپور ، امرتسر اور لاہور کے اضلاع سے ہی پوری ہو جائیگی.( حضور نے ۹ جنوری ۱۹۲۰ء کو اپنے خطبہ میں احباب کو تلقین کی کہ حسن نیت سے چندہ دیں اور جیسے زمیندار دگنا خرچ کر کے بھی پکنے والی فصل کو پانی دلواتا ہے، اسی طرح ولایت میں تبلیغ پر صرف کردہ روپیہ سے نیک نتیجہ کے نکلنے کے لئے ہمیں ضروری اسباب مہیا کرنے چاہیں.چونکہ لنڈن کفر کا مرکز ہے، اس لئے ہمیں وہاں مستقل جماعت کی بنیا د رکھنی چاہیے ورنہ پہلے کا صرف کردہ رقم ایک لغو فعل شمار ہوگا.مجھے یقین ہے کہ یہ کام رضائے الہی کے ماتحت ہو رہا ہے مجھے تین اہم معاملات میں اب تک رویت الہی ہوئی ہے پہلے بچپن میں جبکہ مجھے حشر ونشر نظارہ بھی دکھایا گیا.میری توجہ دین سیکھنے اور دین کی خدمت کرنے کی طرف پھیری گئی.دوسرا جب کہ وہ لوگ جن کے ہاتھ میں سلسلہ احمدیہ کے دنیا وی امور تھے.اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو گھٹانے کی کوشش میں تھے اس وقت میں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور مجھے حضرت صاحب کی نبوۃ پر یقین دلایا گیا.تیسری دفعہ آج مجھے رویت الہی ہوئی ہے جس سے مجھے یقین ہے کہ یہ کام عند اللہ مقبول ہے.جہاں تک مجھے یاد ہے وہ یہ ہے کہ میں مسجد لندن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور دوزانو بیٹھا پیش کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جماعت کو چاہیے کہ ”جد سے کام لے ”ہنرل سے کام نہ لے.یعنی جماعت سنجیدگی اور نیک نیتی سے کام لے.ہنسی اور محض واہ واہ کے لئے کوشش نہ کرے گویا نیک نیتی کے ساتھ اس مسجد سے لاکھوں فوائد ہو سکتے ہیں.(۱۰۷) وو اخبار تنظیم امرتسر نے اس جماعتی ایثار کو فدائیت کی حیرت انگیز مثال قرار دیتے ہوئے لکھا کہ تعمیر مسجد کی تحریک ۶ جنوری ۱۹۲۰ء امیر جماعت احمدیہ نے کی.اس سے زیادہ مستعدی اس سے زیادہ ایثار اور اس سے زیادہ سمع واطاعت کا اسوہ حسنہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ۱۰ جون تک ساڑھے اٹھہتر ہزار روپیہ نقد اس کارِ خیر کے لئے جمع ہو گیا تھا.کیا یہ واقعہ نظم و ضبط امت اور ایثار و فدائیت کی حیرت انگیز مثال نہیں ؟ (۱۰۸) اس سے قبل آریہ اخبار کاش لا ہور نے جماعت احمدیہ کی داد دیتے ہوئے تحریر کیا کہ اس ( مسجد لندن کی تعمیر) کا اندازہ نہیں ہزار لگایا گیا ہے.لنڈن جیسے شہر میں تمیں ہزار کی لاگت پر ایک مسجد کا تیار ہونا ہماری سمجھ میں نہیں آیا ہے لیکن اس بات کو چھوڑ کر ہم ان کی ہمت کی طرف نظر ڈالتے ہیں.مرزا محمود احمد صاحب نے قادیان کے احمدیوں سے اپیل کی جس پر بارہ ہزار روپیہ جمع ہو گیا.جب قادیان میں اس قدر

Page 502

480 (109)66 روپیہ جمع ہو گیا تو تمیں ہزار کا جمع ہونا کیا مشکل ہے.(۱۰۹) حضور کی تحریک ابھی الفضل کے ذریعہ بیرون قادیان نہیں پہنچی تھی کہ ۱۰ار جنوری ۱۹۲۰ء کومحترم منشی حبیب الرحمن صاحب نے اس بارے میں ایک مفصل و مؤثر تحریک الفضل کے لئے رقم کی اور اس میں لکھا کہ گوا بھی تک قادیان سے باہر اس چندہ کی تحریک شروع نہیں ہوئی لیکن ہم کیوں اس دن کا نتظار کریں جب ہم کو چندہ کے واسطے کہا جاوے اور اس طرح ثواب کی وقعت کو کم کریں.“ اور احباب کو تلقین کی کہ صحابہ کرام کے مثیل بن کر قربانی کریں اور ابتدائے مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذیل کے اشعار درج کئے اور بتایا کہ جس وقت حضور نے یہ اشعار لکھے تھے اس وقت وہاں مسلمان موجود نہ تھے.اور اب یہ پیشگوئی پوری ہونے لگی ہے اور لوگ اسلام میں داخل ہور ہے ہیں اور وہاں اسلام کا جھنڈا ہے سے مستانہ وار گاڑا جا چکا ہے..کیوں عجب کرتے ہو گر میں آگیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار آسماں پر دعوت حق کیلئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ دار کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع پھر ہوئے ہیں چشمہ توحید پر از جاں نثار باغ میں ملت کے سے کوئی گل رعنا کھلا آئی ہے باد صبا گلزار آ رہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے گوکہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار ہر طرف ملک میں ہے بت پرستی کا زوال کچھ نہیں انساں پرستی کوکوئی عز و وقار آسماں سے ہے چلی توحید خالق کی ہؤا دل ہمارے ساتھ ہیں گو منہ کریں......ہزار اسمعوا صوت السماء جاء المسيح جاء المسيح نیز بشنو از زمین آمد امام کامگار ہے قلمی خدمات منشی حبیب الرحمن صاحب کو متعدد قابل قدر قلمی خدمات سرانجام دینے کی توفیق عطا ہوئی.مثلاً : (۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مکتوبات کی نقول میر عباس علی صاحب لدھیانوی کو بھجوایا کرتے الفضل ۲ فروری ۱۹۲۰ء ( صفحہ ۸ و۹) اس مضمون کے آخر میں درج ہے کہ میں فی الحال پچاس روپے دنیا کے مرکز لندن میں تعمیر مسجد کے لئے دیتا ہوں اس کے دینے کا ذکر الفضل بابت فروری ۱۹۲۰ء میں بھی صفحہ ۱ کالم ۲ پر ہے.

Page 503

481 تھے جو بعد ازاں افسوس مرتد ہو گئے.۱۸۹۲ء میں انہی نقول سے منشی صاحب نے ” مکتوبات امام ہمام“ کی تین جلد میں تیار کیں.جن میں حضور کے قیمتی مکتوبات کا ایک بڑا ذخیرہ محفوظ ہوگیا.خاکسار کے نزدیک اس بارہ میں اولیت کا سہرا آپ کے سر پر ہے.اس وقت ابھی الحکم کا اجراء نہیں ہوا تھا جس میں ایسے نوادر محفوظ ہونے لگے.ان مجموعات کی افادیت کا اس سے علم ہوتا ہے کہ حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کو حضرت اقدس نے ایک دعائیہ تحریک لکھ کر دی تھی جو وہ حج کے موقع پر پڑھیں اور صوفی صاحب نے اس تحریر دعا کو بیت اللہ شریف اور عرفات میں پڑھا تھا.صوفی صاحب کے فرزند حضرت پیر منظور محمد صاحب ( موجد قاعدہ میسر نالقرآن ) کی طرف سے اس دعا کی نقل اصل مکتوب سے الحکم میں ۱۸۹۸ء میں شائع ہوئی تھی.اور چونکہ اس مکتوب کی روشنائی بعض جگہ مدہم یا محو ہو چکی تھی.الحکم میں وہاں نقطے دئے گئے تھے لیکن منشی صاحب کے ذریعہ یہ تحریر کاملا محفوظ ہوگئی.(۱۱۰) (۲) الحکم کی قدر دانی کے بارے مضمون (۱۹۰۰ء میں) (۳) احمد دین صاحب ولد وزیر احمد صاحب ساکن بہرام ضلع جالندھر کا احکام کا پرچہ مشرقی افریقہ سے اس نوٹ کے ساتھ واپس آگیا کہ وہ فوت ہو گئے ہیں اس پر منشی صاحب رئیس اور نمبردار حاجی پور کی چٹھی الحکم میں شائع ہوئی کہ مرحوم کی والدہ اور بھائی زندہ ہیں.احباب افریقہ ان کا روپیہ اور سامان پسماندگان کے لئے بھجوادیں.اور مجھ سے خط و کتابت کریں.(۴) اخبار وطن سے معاہدہ کے بارے منشی صاحب کی غیر تمندانہ اپیل (۱۹۰۶ ء میں ) (111) (۶۵) پھگواڑہ ریلوے اسٹیشن کے دو ملازمین کے بارے اور پھگوڑاہ کے ایک وقوعہ کے بارے مراسلات ( بدر ۲ اپریل ۱۹۰۸ء ( صفحه ۱۳) ۲۳ اپریل ۱۹۰۸ء (صفحه ۱۱) تحریر کیا کہ (۷ تا ۹ ) تائید خلافت ثانیہ کے بارے تین مضامین ( دوسری جگہ درج ہوئے ہیں ) ( ۰ اواا) جماعت احمد یہ میں رشتہ ناطہ کی مشکلات کے بارے ایک مبسوط مضمون میں منشی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب سب سے پہلے حکم دیا کہ احمدی لڑکیاں غیر احمدیوں کے عقد میں نہ دیں بلکہ احمدیوں کے ساتھ ہی ان کا عقد ہو تو جس شخص نے سب سے پہلے یہ تجویز پیش کی کہ ایک رجسٹر ہونا چاہیے جس میں قابل شادی مردو عورتوں کے نام درج ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس کا جس کے ساتھ نکاح کرنا چاہیں کر دیں.اتفاق سے اسی کی لڑکی کا عقد ایک احمدی سے آپ نے کرنا چاہا لیکن وہ کب جانتا تھا کہ

Page 504

482 سب سے پہلے میں ہی امتحان میں ڈالا جاؤں گا.اور ناکام رہوں گا.اس نے منظور نہ کیا اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ابھی قوم کی حالت اس حد تک نہیں پہنچی اس تجویز کو مستر د کر دیا.اس کے بعد آپ نے قوم کے اس معاملہ میں مداخلت نہیں فرمائی البتہ قوم کو اس طرف متوجہ فرماتے رہے اور قوم نے بھی اس طرف قدم بڑھایا.البتہ جو ارادہ رجسٹر بنوانے کا تھا.اس کو آپ نے ملتوی فرما دیا.منشی صاحب نے ایک اور مضمون میں احباب کو توجہ دلائی کہ ابتدائے اسلام کا طریق اختیار کر کے برادری اور قومیت کا لحاظ ر کھے بغیر ہمیں رشتے کرنے چاہئیں کیونکہ بعض دفعہ صرف ایک شخص ہی برادری میں احمدی ہوتا ہے جسے اپنی برادری میں رشتہ میسر نہیں آسکتا.کچھ عرصہ بعد یہ مشکلات رفع ہو جائیں گی.الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۱۶ء ( صفحه ۹) حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے خاکسار مؤلف کو یہ روایت سنائی تھی.اور فرمایا تھا کہ اس شخص نے حضور کی بات نہ مانی اور نا راضگی مول لی.نتیجہ وہ خود اور اس کی اولاد کا ایک حصہ خلافت ثانیہ کو قبول کرنے سے الگ رہا اور غیر مبائعین میں شامل ہو گیا.بھائی جی نے فریقین کے اسماء بھی خاکسار کو بتائے تھے.لیکن شائع کرنے سے منع کیا تھا.الفضل ۲۲/ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۱۶ء (صفحہ ۱۱و۱۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہ عنوان ” اپنی جماعت کے لئے ضروری اشتہار ۷ جون ۱۸۹۸ء کو یہ اعلان فرمایا کہ ”ہماری جماعت کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے.اور عنقریب لاکھوں تک پہنچنے والی ہے قرین مصلحت ہے کہ احباب جماعت کے باہمی اتحاد کو بڑھانے کے لئے اور بداثر اور بد نتائج سے محفوظ رکھنے کے لئے ان کی اولاد کے نکاحوں کا احسن انتظام کا جائے کیونکہ ظاہر ہے کہ وہ لوگ مخالف مولویوں کے زیر سایہ تعصب اور عناد کیا جائے کیونکہ ظاہر ہے کہ جو لوگ مخالف مولویں کے زیر سایہ تعصب اور رعناد وحدانت کے کمال کو پہنچ گئے ہیں.ان سے ہماری جماعت کے نئے رشتے ناممکن ہو گئے ہیں مال ، دولت علم ، فضلیت ، خاندان اور خداترسی میں سبقت رکھنے والے افراد ہماری جماعت میں بکثرت موجود ہیں.اور ہر سلامی قوم کے افراد موجود ہیں سو ہمیں ضرورت نہیں کہ لوگ ہمیں کافر و دجال کہتے ہیں.یا ایسا کہنے والوں کے ثناء خوار اور تابع ہیں.ہماری جماعت ان سے نئے تعلق پیدا کر کے.” (سو) ”میں نے انتظام کیا ہے کہ آئیندہ خاص میرے ہاتھ میں مستور (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )

Page 505

483 (۱۳۱۲) حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہما کی سفر یورپ سے مراجعت پر سپاسنا ہے.(۱۴) سوانح سرسید احمد خاں دیکھ کر آپ کے دل میں شدید تڑپ پیدا ہوئی کہ سوانح حضرت مسیح موعود علیہ السلام تیار کروائیں.چنانچہ ایک احمدی صاحب قلم بزرگ کو آپ نے سلسلہ کا لٹریچر مہیا کر کے دیا لیکن آپ کی زندگی نے وفانہ کی.(۱۱۲) الحکم ۷ ستمبر ۱۹۳۵ء ( صفحه ۵ کالم ۲ و تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۸۳ حاشیه ) (۱۵) تحریک تنظیم کے بارے آپ کا مضمون ( جو دوسری جگہ درج ہوا ہے ) (۱۲) قرآن کریم احادیث اور اقوال بزرگان کی روشنی میں پردہ کے بارے میں آپ نے کتاب الحجاب تالیف کی جو آپ کے گہرے دینی مطالعہ اور تفقہ کی نشاندہی کرتا ہے.اسے علامہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے ” قابل قدر قرار دیا ہے.منشی صاحب کی اہلیہ محترمہ محترمہ کلثوم بی بی صاحبہ نے بواسطہ شیخ عبدالرحمن صاحب بتایا کہ میں نے اپنے خاوند منشی حبیب الرحمن بقیہ حاشیہ سابقہ اور مخفی طور پر ایک کتاب رہے جس میں اس جماعت کی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام لکھے رہیں اور اگر کسی لڑکی کے والدین اپنے کنبہ میں ایسی شرائط کا لڑکانہ پاویں ایسا ہی اگر ایسی لڑکی نہ پاویں تو اس صورت میں ان پر لازم ہوگا کہ وہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اس جماعت میں سے تلاش کریں اور ہر ایک کو تسلی رکھنی چاہیئے کہ ہم والدین کے بچے ہمدرد اور غمخوار کی طرح ( رشتہ ) تلاش کریں گ........لازم ہے کہ اپنی اولاد کی ایک فہرست بقید عمرو قومیت بھیج دیں تا وہ کتاب میں درج ہو جائے (۱۱۳) فاضل اجل حضرت میر محمد الحق صاحب اپنے تبصرہ میں رقم فرماتے ہیں کہ :- مخلصوں پر ”جناب ( ناظر صاحب تالیف و تصنیف) کے فرمانے پر میں نے "کتاب الحجاب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا نفس مضمون اور مدعا میرے نزدیک بالکل درست ہے کہ غیر محرم کے سامنے عورت کا کوئی حصہ حتی کہ ہاتھ پاؤں چہرہ وغیرہ نہ ہونے چائیں مضمون کی بنیا دستر اور حجاب دو الگ الگ مسئلے ہیں اور دونوں احکام قرآن مجید اور احادیث میں بیان کئے گئے ہیں اور یہ کہ غلطی سے مخالفین پردہ نے ستر کے احکام حجاب پر چسپاں کر کے بے حجابی پر استدلال کیا ہے

Page 506

484 صاحب کی بیعت کے جلد بعد بذریعہ خط بیعت کر لی تھی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹۲ء میں کپورتھلہ تشریف لائے تو حضور کا قیام حضرت میاں محمد خاں صاحب کے مکان پر تھا اور تمام احمدی مستورات وہاں حضور کی زیارت کو ئی تھیں.میں اور اہلیہ صاحبہ منشی ظفر احمد صاحب اکٹھی وہاں زیارت کے لئے گئی تھیں.حضور کی گردن جھکی ہوئی تھی.آنکھیں نیم وا تھیں ایک خاتون ہر خاتون کا یہ بتا کر حضور سے تعارف کروارہی تھیں کہ یہ فلاں دوست کے گھر سے ہیں.ہم دونوں نے اپنے برتھے اوڑھ رکھے تھے اور ایک طرف ہوکر بیٹھ کر واپس آ گئی تھیں.آپ کی وفات کے بارے ۲۸ ستمبر ۱۹۴۱ء میں زیر مدینہ اسیح " مرقوم ہے:- افسوس منشی تنظیم الرحمن صاحب کی والدہ صاحبہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابی تھیں بعمر ۷۳ سال وفات پاگئیں.انا للہ وانا اليه راجعون.کل عصر کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے نماز جنازہ پڑھائی اور مرحومہ کو بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص صحابہ میں دفن کیا گیا.احباب بلندی درجات کے لئے دعا کریں.سیرۃ حضرت منشی صاحب حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب کی نیک سیرۃ کا ایمان افروز تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:.بقیہ حاشیہ سابقہ : - میرے نزدیک ایک مضبوط بنیاد ہے کہ اس سے قبل میں نے کسی مضمون یا کتاب میں نہیں پڑھی.اور پردہ کی بحث کو صحیح راستہ پر چلانے کے لئے واقعہ میں یہی صحیح راستہ ہے کہ ستر اور حجاب یعنی محرم مردوں کے سامنے آنے (یا نہ ) آنے اور غیر محرم کے سامنے آنے یا نہ آنے کے متعلق آیت یا حدیث ستر کے متعلق اور کونسا حکم حجاب کے بارہ میں ہے پس میں دعوالی مصنف اور مدعاءِ کتاب سے پوری طرح متفق ہوں.تمہید میں منشی صاحب نے تحریر کیا کہ پردہ کے متعلق اخبارات ورسائل میں مضامین شائع ہونے پر میں نے بھی قلم اٹھایا ہے.مضمون طویل ہونے پر کتابی صورت میں شائع کیا گیا.یورپ کے علماء اور فلاسفروں کی آراء کا بھی ذکر کیا گیا ہے.سائز کتاب ۲۰۷۲۰ صفحات ایک سو چارسن طبع ۱۹۳۰ء مطبع وزیر ہند پریس امرتسر میں پانصد کی تعداد میں طبع ہوئی قیمت بہت کم یعنی فی نسخہ چھ آنے مقرر کی گئی اور اکثر جلد میں مفت تقسیم کی گئیں.(۱) الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۴۱ء گویا ان کی وفات قادیان میں ہوئی تھی کیونکہ باہر سے جنازہ آنے کا ذکر نہیں آپ کی قبر قدیم صحابہ کے قطعات میں سے قطعہ نمبر ۵ میں ہے.یہ قطعہ ہے جس کے حصہ ( قطار ) نمبر۳ میں دوسری قبر ہے.

Page 507

485 (۱) قبول احمدیت کی وجہ سے مخالفت کا سامنا ہونا.مولوی محب الرحمن صاحب کی شادی ان کے ماموں کے ہاں ہوئی تھی یہ سوال اٹھا کہ لڑکا اور اسکے والد احمدی ہونے کی وجہ سے کافر ہیں.اس لئے یہ رشتہ قائم نہیں رہنا چاہیئے لیکن لڑکی کے والد نے اس بات کی طرف التفات نہ کیا اور شادی ہوگئی.مولوی صاحب اور ان بقیہ حاشیہ سابقہ: جس کے ملحقہ جانب مشرق قبر نمبر ۲ آپ کے بھائی حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی ہے.نقل کتبہ درج ذیل ہے:.بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ کلثوم بی بی صاحبہ زوجہ شیخ حبیب الرحمن صاحب قوم شیخ قانونگو حاجی پورہ ریاست کپورتھلہ عمر تہتر برس وفات ۲۶ ۲۷ وصیت ۵۳۲۳ (۲) الفضل میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کے فرزند محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کپورتھلہ کی طرف سے شائع ہوا.(اب آپ امیر جماعت وضلع فیصل آباد پاکستان ہیں.): قطعہ تاریخ وفات حضرت والدہ صاحبہ شیخ کظیم الرحمن صاحب زدار الفناشد بدار البقا مقامش بجنت فراتر شود بگفتا که مغفور ایزد بعود بتاریخ مظہر نه درد و به غم (۳) مختصر شجرہ:- ۱۳۶۰ھ ا- حاجی محمد ولی اللہ و ابوالقاسم ( اولاد میر علی ولد غلام مرتضی ولد غلام نبی ولد غلام احمد ولد محفوظ احمد ولد عبد الدام سابق لالہ دنی چند) ۲- اولا دابوالقاسم حافظ فضل الرحمن و حضرت منشی حبیب الرحمن (۳) اولا د منشی حبیب الرحمن : منشی محب الرحمن منشی کظیم الرحمن شیخ مسعود الرحمن شیخ عبد الرحمن شیخ فیض الرحمن شیخ خلیل الرحمن.منشی محب الرحمن صاحب ولادت ۲ جولائی ۱۸۸۹ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں تعلیم پائی لاہور میں ملازمت (باقی اگلے صفحہ پر )

Page 508

486 کے دو برادران کی شادیوں کے بعد جماعت احمدیہ کے خلاف مولویوں کا شور بڑھ جانے کی وجہ سے بعض دیگر بھائیوں کے جو رشتے برادری میں طے ہو چکے تھے ، ٹوٹ گئے.برادری نے خود قطع تعلق کیا اور برادری کے ان بقیہ حاشیہ سابقہ کی ایک چوتھائی صدی تک جماعت کی کئی بار بطورنمائندہ مشاورت میں شرکت کی.منشی کظیم الرحمن صاحب ولادت ۱۸۹۳ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ صحابی حضرت اقدس علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں تعلیم پائی عرصہ دراز تک صدرانجمن کے کارکن کے طور پر خدمت سلسلہ بجالائے.شیخ مسعودالرحمن صاحب صحابی شیخ عبدالرحمن صاحب اپنے بھائیوں میں سے صرف آپ ہی زندہ ہیں ضلع ہوشیار پور کی ایک جماعت کے سات سال صدر ہے جماعت کپورتھلہ کے تین سال سیکرٹری تعلیم وتربیت اور چار سال سیکرٹری مال رہے ریٹائر منٹ کے بعد دفتر نصرت جہاں ریز روفنڈ میں کچھ عرصہ اعزازی طور پر کام کیا.آپ کے فرزند شیخ عبدالوہاب صاحب (ڈپٹی الیکشن کمشنر برائے پاکستان) اس وقت کئی سال سے امیر جماعت اسلام آباد ہیں.ایک تہائی صدی تک راولپنڈی کراچی لاہور وغیرہ متعدد مقامات پر مجلس خدام الاحمدیہ کے قائد جماعت کے سیکرٹری مال کے طور پر خدمات کی آپ توفیق پاچکے ہیں مشاورت ۱۹۸۲ء میں آپ سب کمیٹی نظارت ہائے علیا تعلیم و تربیت وامور عامہ کے صدر تھے اور اس کی رپورٹ آپ نے سنائی.(۱۱۴) شیخ خلیل الرحمن صاحب ولادت یکم فروری ۱۹۰۲ صحابی حکومت ہند کی طرف سے محکمہ موسمیات کی آبز رویری مسقط میں قائم کرنے کیلئے مقرر ہوئے.پھر منگلا ( علاقہ مدراس) میں، آگرہ میں پھر وکٹوریہ پوائنٹ (برما) پورٹ بلیئر ملتان دہلی جہلم جیکب آباد بریلی میں تبدیل ہوتے رہے.پھر تقسیم ملک کے بعد کراچی میں منتقل ہوئے.ہر مقام پر آپ کا شغف تبلیغ رہا کراچی کی جماعت میں آپ انچارج لائبریری مقرر ہوئے.لائبریری کو آپ نے بہت ترقی دی اس کی کشش سے غیر از جماعت افراد آتے تھے.اور انہیں تبلیغ کا موقع ملتا پھر ۱۹۴۹ء میں آپ سیکرٹری ضیافت مقرر ہوئے اسی اہم عہدہ پر تا وفات آپ فائز رہے.آپ غیر ملکی آنے والے سرکاری نمائندگان پروفیسروں وغیرہ سے ملاقات کر کے سلسلہ کا تعارف کراتے اور انہیں لٹریچر دیتے.اور ان کے بارے میں مرکز کو اور غیر ممالک کے متعلقہ احمدیہ مشنوں کو اطلاع دیتے تھے.آخری سالوں میں اسی کام میں سید ناصر ارتضیٰ علی صاحب لکھنوی اور عبدالرحیم صاحب مدہوش رحمانی ( مرحوم ) بھی آپ کے معاون رہے.(باقی اگلے صفحہ پر )

Page 509

487 گھروں پر تباہی اور بربادی آئی.بر بادی کے حالات معروف ہوتے ہیں.برادری کے باہر تعلق پیدا کرنا سہل نہیں ہوتا.منشی صاحب کی محتاط طبیعت فیصلہ کرنے میں مشکل محسوس کرتی تھی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی معاونت سے ان کے سمدھی با بومحمدعلی خاں صاحب شاہجہانپوری کے ہاں فریقین کے استخارہ کے بعد گویا اولیس رشته بیرون برادری شیخ مسعود الرحمن صاحب کا ہوا اور بفضلہ تعالیٰ مبارک ثابت ہوا.۲- آپ کے دوست.انسان اپنے دوستوں سے شناخت کیا جاتا ہے کہ کیسی افتاد کا مالک ہے آپ کے دوست حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری ، حضرت عرفانی صاحب اور حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب غیر تھے.رضی اللہ عنہم.۳- قابلیت و اعزاز ۱۹۲۳ء میں حضرت عرفانی صاحب نے مہا راجہ صاحب کپور تھلہ کو منشی ح الرحمن صاحب کی قابلیت سے استفادہ کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تحریر کیا کہ.و منشی حبیب الرحمن صاحب ایسی قابلیت کے آدمی کی خدمات سے ریاست کا عملی فائدہ نہ اٹھانا ریاست کپورتھلہ سے اس روشن ترین عہد میں ایک تعجب خیز امر ضرور ہے.اگر چہ خود منشی صاحب کی طبیعت گوشہ نشین واقع ہوئی ہے.لیکن وہ خدا داد قابلیت سے اپنے.علاقہ اور والی کی ) بہت بڑی خدمت کر سکتے ہیں.اگر ان کو مجبور کیا جاتا یا ان کی خدمات کی خواہش کی جاتی کوئی تعجب نہ ہوتا کہ منشی حبیب الرحمن ایسے مذہبی انسان کو ان کا مذہبی فرض آگے بڑھنے کا حکم دیتا.ان کی قابلیت اس کی حقدار ضرور ہے کہ ریاست اپنی رعایا کے مفاد کیلئے اس سے فائدہ اٹھائے ان کی ریاست میں ایک ایسا شخص موجود ہے جو اپنی نیکی اور معاملہ فہمی میں مشہور اور اپنی قابلیت کے لحاظ سے ممتاز ہے وہ سکنج عافیت میں پڑے رہنے پر شاداں ہیں مگر رعایا کے مفاد اسی امر کے داعی ہیں کہ انہیں اس گوشہ عافیت سے باہر نکالا جائے.ان کا بقیہ حاشیہ سابقہ سکیم کے تحت بیرون ملک جانے اور واپس آنے والے مجاہدین کے الوداع استقبال کا انتظام و دیگر متعلقہ انتظامات کرتے.حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمۃ اللہ علیہ کے ورود کراچی کے وقت محترم امیر صاحب کی طرف سے جو منتظمہ کمیٹی مقرر کی جاتی اس میں شیخ صاحب بھی اس کے ممبر ہوتے.ڈیوٹی کے طور پر کئی دفعہ آپ حضور کے ہمراہ موٹر میں شانہ بشانہ ساتھ بیٹھ کر جانے کی سعاست پاتے تھے.بیان منشی کظیم الرحمن صاحب مصدقہ منجانب حضرت منشی ظفر احمد صاحب (احکم ۱۲۸ جولائی ۱۹۳۵ صفحہ۸.کالم ۳۶۲) بیان شیخ لطف المنان صاحب ( الفضل ۹ را پریل ۱۹۶۰ء صفحه ۵)

Page 510

488 انتخاب ایک موزوں انتخاب ہوگا.میں ذاتی علم سے جانتا ہوں کہ وہ ہر ذمہ داری کے کام کو نہایت عمدگی محنت اور دیانت سے کرنے کے لئے اہل ہیں.آپ ریاست میں ایک قابل منشی نیز منتظم تسلیم کئے جاتے تھے اور ہر ایک قانونی استعداد کے مالک تھے.حالانکہ آپ نے کبھی عدالتی کام نہیں کیا تھا.اکثر تحصیل داران وغیرہ مقدمات و انتظامی معاملات کے بارے میں مشورہ کے لئے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے.اور پیچیدہ مقدمات کے فیصلے لکھنے کے لئے امثلہ آپ کے پاس بھجوا دیتے تھے.یہاں تک کہ تحصیل پھگواڑہ سے تبادلہ کے بعد بھی یہ حکام آپ سے مشورہ کرتے تھے.اس علاقہ کے اکثر پیچیدہ معاملات کی تحقیقات کے لئے آپ کو منصف مقرر کیا جاتا.علاقہ بھر میں یہ شہرت تھی کہ آپ دیانت وانصاف کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے.حکام آپ کو سر بر اہ تحصیل داران کے نام سے موسوم کرتے تھے.آپ کی انتہائی کوشش ہوتی تھی کہ فریقین میں مصالحت کرا دیں.اور آپ ہمیشہ اس میں کامیاب ہو جاتے.حکام حیران ہوتے کہ ہم نے تو ہر چند کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے اور معاملہ پیچیدہ تھا اس لئے آپ کے سپر د کیا تھا.منشی صاحب فیصلہ میں ہر قانونی پہلو کو مد نظر رکھتے تھے اس لئے اپیل میں بھی فیصلہ قائم رکھا جاتا تھا.آپ اس قدر محتاط تھے کہ فریقین مقدمہ کے ہاں سے پانی پینا بھی روا نہ سمجھتے تھے.اور اپنے کھانے کا اپنی طرف سے انتظام ہوتا تھا.الحکم کے فروری ۱۹۲۳ء اس دو کالم کے مضمون میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ راجہ صاحب کی پھگواڑہ میں آمد پر رعایا کے جذبات توقعات وضروریات ایک سپاسنامہ میں پیش کرنے کی عزت ” ہماری جماعت کے ایک مخلص اور ممتاز رکن حضرت منشی حبیب الرحمن رئیس حاجی پور کے حصہ میں آئی.اس سے پہلے بھی یہ عزت انہیں بار ہامل چکی ہے.نیز یہ کہ منشی صاحب ایک معزز خاندان کی یادگار ہیں.اور ان کی قابلیت اور معاملہ فہمی اس سپاسنامہ سے ظاہر ہے.حضرت عرفانی صاحب اور منشی صاحب نے راجہ صاحب کی انصاف و امن پسندی کی تعریف کی ہے اور بتایا ہے کہ حکومت انگلشیہ نے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک پر توجہ نہ دی تھی.کہ قانو نا یہ پابندی عائد کی جائے کہ ہر مذہب والا اپنے مذہب کے محاسن بیان کرے اور تہذیب اور نرمی سے باہر نہ جائے تا قوموں کے مابین مصالحت کی روح پھیلے لیکن راجہ صاحب نے ایک گزٹ کے ذریعہ ایسا حکم صادر کیا ہے.(الحکم ۲۸ فروری ۱۹۲۴ء صفحه ۲) حضرت منشی صاحب راجہ صاحب کی آمد پر سپاسنامہ تیار کرتے تھے.اور خود ہی پڑھتے تھے.بیان منشی تنظیم الرحمن صاحب مصدقہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب (الحکم ۲۱ را گست ۱۹۳۵ صفحه ۹) بیان تنظیم الرحمن صاحب

Page 511

489 ایک دفعہ مہا راجہ صاحب کے دورہ کے موقع پر زمینداران علاقہ نے اپنی تکالیف بیان کیں تو اسی اثنائے دورہ میں مہاراجہ صاحب نے دربار میں منشی صاحب کو تحصیل پھگواڑہ کے علاقہ کے لئے آنریری مجسٹریٹ کے اختیارات تفویض کر دئیے جن کی توثیق کپورتھلہ جا کر کی گئی.اس طرح مطالبہ پر دورہ میں اسی وقت اختیارات عطا کرنا خلاف معمول امر تھا.جو منشی صاحب کے لئے باعث اعزاز و تکریم ہوا.معمول یہ تھا کہ راجہ صاحب کی طرف سے یہ وعدہ کیا جاتا کہ اس بارہ میں غور کیا جائے گا.اور پھر کپورتھلہ (صدر مقام ) سے احکام صادر کئے جاتے تھے.آپ ریاستی اسمبلی کے بھی رکن رہے.اور لوکل بورڈ کے نامزد ممبر بتیس سال تک نیز پنچایت کے پریذیڈنٹ اور انجمن زراعت کے سیکرٹری بھی.ان اعزازات کے باوجود آپ نے کبھی اپنی قابلیت یا وجاہت کا اظہار نہیں کیا بلکہ آپ کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اور حضور کی کتب کے مطالعہ کی برکت سے حاصل ہوا ہے.اور یہ شہرت، عز و ہم سب ہی حضور کی غلامی کی وجہ سے مجھے عطاہوا ہے ورنہ میری ذاتی قابلیت دو جاہت کچھ نہیں.بڑے بڑے رئیس بھی منشی حبیب الرحمن صاحب کو رئیس لکھتی ھے.منشی صاحب کا کہنا تھا کہ مجھ سے بڑے جاگیر دار بھی اس ریاست میں موجود ہیں جن کے مقابل میں معمولی زمیندار ہوں مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اس لفظ سے خطاب کیا ہے اس لئے سب ہی میرے لئے یہ لفظ استعمال کرتے ہیں.(۴) مطالعہ اور تبلیغ و تربیت کا شوق.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ احمدیہ کی کتب اور اخبارات ورسائل کی خرید کا آپ کو بہت شوق تھا.آپ کے رہائشی کمرہ میں قرآن مجید ، تفاسیر ، احادیث کتب، کتب سلسلہ اور تاریخ وغیرہ علوم کی کتب کی لائبریری تھی.حضرت اقدس بالخصوص آپ کے زیر مطالعہ رہتی تھیں.بیان منشی تنظیم الرحمن صاحب بیانات منشی تنظیم الرحمن صاحب مصدقہ منجانب حضرت منشی ظفر احمد صاحب (احکم ۲۱ اگست ۱۹۳۵ صفحه ۹ کالم ۳۲) مضمون نشی کظیم الرحمن صاحب مصدقہ منجانب حضرت منشی ظفر احمد صاحب (حکم ۲ اگست ۱۹۳۵ صفحه ۸ کالم۲) یہاں یہ بھی رقم ہوا ہے کہ حضرت اقدس منشی صاحب کے لئے ”رئیس“ کا لفظ ان کے نام کے مکتوبات میں استعمال فرماتے تھے.الحکم اور مکتوبات احمد یہ میں شائع شدہ مکتوبات میں جن میں سے ایک کا ایڈریس بھی درج ہے ”رئیس“ کا لفظ موجود نہیں کچھ مکتوبات ضائع ہو چکے ہیں ممکن ہے ان میں یہ لفظ درج ہو.چونکہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب جیسے ثقہ بزرگ نے اس امر کی تصدیق کی ہے اس لئے لاز م یہ امرمبنی بر صداقت ہے البتہ حضرت اقدس کی بعض دیگر تحریرات میں اور غالبا حضور کے تتبع میں لفظ ”رئیس“ سلسلہ کے لٹریچر متواتر (باقی اگلے صفحہ پر )

Page 512

490 آپ کی تبلیغ ہر مذہب وملت کے حکام تک بھی وسیع تھی حضرت مصلح موعودؓ کا کوئی اصولی خطبہ یا کسی انتظام کے بارے خطبہ شائع ہوتا تو مقامی حکام کو پڑھنے کے لئے دیتے جن پر حضور کی خداداد قابلیت کا اثر ہوتا، آپ تبلیغی لٹریچر کثیر تعدا میں منگوا کر تقسیم کرتے تھے.آپ جن افرادکار جا تحقیق کی طرف پاتے تو ان کے لئے دن رات ایک کر دیتے.بہت سی سعید روحیں آپ کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوئیں مثلاً حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر مبلغ انگلستان و مغربی افریقہ جن کی تعلیم کا ایک حصہ پھگواڑہ میں ہوا.اور اس وقت ہی آپ بقیہ حاشیہ سابقہ :- تیس سال تک استعمال ہوا ہے.مثلاً (۱) فہرست تین صد تیره صحابه کرام (آئینہ کمالات اسلام) (۲) اشتهار ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء جس میں حضور نے معززین کے اسماء درج فرمائے ہیں ( تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه ۲۴) (۳) الحکم ۲۴ / جولائی ۱۹۰۱ ( صفحه ۱۴) (۴) الحکم ۷ار دسمبر ۱۹۰۵ صفحه اا کالم ۴) (۵) بدر ۲۵ اکتوبر ۱۹۰۶ء (صفحه ۸ کالم۱) (۶) ریویو آف ریلیجنز (اردو) بابت جولائی ۱۹۰۶ ء (فہرست خریدار دہندگان میں نام منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور سر ورق ماقبل آخر ) (۷) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم ( آپ کے نام مکتوبات حضرت اقدس کو اس عنوان کے تحت درج کیا گیا ہے:- حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور کے نام (۸) آغاز ، خلافت ثانیہ میں اشتہار بہ عنوان شرائط بیعت افواہوں کی تردید “ جو منجانب اکابرین و معززین شائع ہوا.(۹) فہرست نمائندگان شورای منعقده بماه ۱۰ اپریل ۱۹۱۴ء (الحکم ۲۱ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۷ کالم ۳) (۱۰) سفر یورپ سے حضرت مصلح موعود کی مراجعت پر سپاسنامہ پیش کرنے کے سلسلہ میں (الحکم ۲۸ نومر ۱۹۲۴ء صفحه ۳ کالم ۱) (۱) مہمانان آمدہ قادیان میں ذکر الفضل ۲۰ اگست ۱۹۲۵ زیرمدینتہ السی) (۱۲) وفات کے بارے اعلان (الفضل ۹؍ دسمبر ۱۹۳۰ صفحه ۲)

Page 513

491 نے بیعت کی تھی.حاجی پور میں آباد کردہ مسلمانوں کی دینی تربیت کی کوشش میں آپ نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور مبلغین وغیرہ سے اس بارے میں استفادہ کرتے تھے.جدید (۵) حقوق العباد میں انصاف پروری اپنی جائیداد کی حفاظت کی طرح آپ اپنے ایسے شدید معاند کی جائیداد کی حفاظت کا خیال رکھنے سے بھی کوتا ہی نہیں کرتے تھے.جس کے خاندان نے عمر بھر آپ کو جھوٹے مقدمات میں الجھائے رکھا.ایک شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ آپ کا مخالف ہے اس کے درخت کاٹ لئے اور آپ کے روکنے پر کہا کہ یہ درخت آپ کے نہیں آپ نے اسے سختی سے روکا.اور کہا کہ وہ اور میں دو نہیں ہیں.اس کے درخت کاٹنا میری انگلیاں کاٹنے کے مترادف ہے.چنانچہ وہ رک گیا بلکہ اس نے معافی مانگی.آپ دوست دشمن ہر ایک کی اعانت کے لئے مستعد رہتے تھے.اس مخالف شریک بیٹے کے آ کر آر سے التجا کی کہ ہمارا کپورتھلہ کا مکان تنگ ہے.آپ اپنے ملحقہ مکان کا کچھ حصہ ہمیں دیدیں آپ نے عبدالرحمن صاحب کے مشورہ پر اس کا سوال پورا کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ یہ مکان خود اپنے لئے بھی غیر مستفی تھا.لیکن کچھ وقفہ کے بعد اسے تحریری اجازت دیدی کہ وہ ایک حصہ کو اپنے مکان میں شامل کرلے اور شیخ صاحب کے دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا کہ وہ بھی میرے لئے تمہارے جیسا بچہ ہے جب وہ مجھے باپ سمجھ کر میرے پاس اپنی تکلیف لے کر آیا ہے.تو میری ضمیر نے فتوی نہیں دیا کہ میں اس کے سوال کو رد کر دوں.(۱۱۶) (۶) دھوکہ سے نفرت آپ کو دھوکہ فریب اور جھوٹ سے نفرت تھی آپ کی ایک بھینس میں کئی نقائص تھے جب بھی ملازم کسی خریدار کو لاتے اور قیمت طے کر لیتے تو آپ اس کے عیب کا ذکر کر دیتے جس پر وہ فروخت نہ ہوتی.ملازموں نے مشورہ کر کے ایک خریدار کو بالکل صبح کا وقت قیمت لانے کو بتلایا جبکہ ابھی آپ اندرونِ خانہ ہوتے تھے اور قیمت لے کر بھینس دیدی.جب سمجھا کہ خریدار بہت دور نکل گیا ہے تو اندرونِ خانہ قیمت بھیج دی آپ فورا باہر تشریف لائے اور پوچھا آیا اسے اس کے عیب سے آگاہ کر دیا تھا وہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ تو بہت دیر ہوئی جاچکا ہے اور دور چلا گیا ہے بھر بھی فرمایا کہ دیکھول جائے تو بلا لاؤ مگر وہ دور جاچکا تھا.آپ ملازموں الحکم ۲۱ را گست ۱۹۳۵ء (صفحہ ۷ کالم ۲۱ صفحہ ۸ کالم ۳ - صفحہ ۸ کالم ۳ صفحہ کالم ۲) مضمون مصدقہ منجانب حضرت منشی ظفر احمد صاحب ☆ حضرت نیر صاحب کے بارے میں یہ بات ان کی زندگی میں ہی شائع ہوئی تھی.شیخ لطف المنان صاحب ( بغیر منشی حبیب الرحمن صاحب) لکھتے ہیں کہ جب حضرت نیر صاحب کو حضرت مصلح موعودؓ نے تبلیغ کے لئے ( بیرون ملک بھیجوانے کے لئے ) منتخب فرمایا تو آپ حاجی پور دادا جان کے پاس آئے.اور کہا کہ میں کچھ نہیں جانتا کہ میں اس فریضہ کو کیسے ادا کروں گا.دادا جان نے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں.ہمارے خاندان کے کسی فرد کو دیکھتے تو فرماتے کہ ہمیں احمدیت انہی کے گھر سے ملی ہے.)

Page 514

492 پر بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ دھوکہ نہیں دینا چاہیے.یہ اللہ کریم کو نا پسند ہے.(۱۱۷) (۷) خدمت خلق.بزرگان سلف کی طرح آپ کو علم طب کا خاص ملکہ عطا ہوا تھا.آپ بنی نوع انسان سے ہمدردی رکھتے تھے.ہر ضرورتمند کی مدد کرتے تھے.کسی کی لڑکی کی شادی ہو تو نقدی وغیرہ سے امداد کرتے تھے.(۱۱۸) (۸) جراتمندانہ شیوۂ راستگو ئی.راستگوئی آپ کا شیوہ تھا جسے اختیا ر کرنے پر آپ نے بہت سے نقصانات اور تکالیف برداشت کیں لیکن اس کا دامن نہ چھوڑ.آپ مہاراجہ والئی ریاست سے بھی بلا روک آزادانہ گفتگو کر لیتے تھے.اس ریاست کے ایک وزیر کے خلاف بولنے کی کسی کو مجال نہ تھی اسے ایک تحصیل دار نے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یہ بات پہنچادی کہ آپ تو تجربہ کار ہیں مگر منشی صاحب نے کہا ہے کہ آپ نے فلاں سرکاری جاگیر فروخت کرنے میں جلد بازی سے کام لیا ہے.وہ بہت قیمتی تھی.عند الملاقات وزیر موصوف نے کہا کہ آپ نے فلاں کام کے متعلق بتایا ہے کہ میری نا تجربہ کاری اور غلطی تھی منشی صاحب نے بلاتر در خوف کہہ دیا کہ درست ہے میرا یہی خیال ہے چونکہ اسے معلوم تھا کہ آپ راستگو انسان ہیں اور سچائی کے اظہار میں کبھی نہیں گھبراتے اس لئے وہ خاموش رہا.(۱۱۹) (۹) قانون کی پابندی.آپ بڑی سختی سے قانون کی پابندی کرتے تھے چونکہ ریاست میں گائے کشی پر پابندی عائد تھی.اس لئے آپ نے عمر بھر اس قانون کی پابندی اپنے گھرانے میں کی.(۱۲۰) (۱۰) فیاضی طبع ایک جراح کے علاج سے آپ کا پھوڑا دور ہوا تو اسے انعام دے کر آپ نے ہر ششماہی انعام دینے کا وعدہ کیا جو ایفاء کیا بلکہ اس جراح کی وفات کے بعد ایک دفعہ اس کے بیٹے نے بھی انعام حاصل کیا.(۱۲۱) (۱۱) آپ کی مومنانہ فراست شیخ عبدالرحمن صاحب یبان کرتے ہیں کہ حضرت والد صاحب نے آخری بار جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء میں شرکت کی تھی.آپ کے بخار سے علیل ہونے اور کمزور اور معذور ہونے کی اطلاع کے ساتھ مرکز میں درخواست کی گئی کہ پندرہ سولہ افراد کے لئے ایک الگ کمرہ کا انتظام فرمایا جائے.منتظم مکانات اندرون قصبہ نے جوا با مطلع کیا کہ ایسا انتظام کر دیا گیا ہے.قادیان ہم پہنچے تو مسجد اقصیٰ کے قریب ایک کمرہ دس فٹ لمبا اور آٹھ فٹ چوڑا دیا گیا جونا کافی اور نو تعمیر شدہ تھا.ابھی وہ تر ہ تر تھا.اس میں گیلی گھانی اور گارا پڑا تھا.کمرہ کی کرسی زمین سے پانچ چھ فٹ اونچی تھی اور دروازہ کے لئے کوئی سیڑھی نہ تھی.یہ حالات دیکھ کر والد صاحب ہمارے ساتھ منتظم مکانات شیخ عبدالرحمن صاحب مصری سے ملاقات کے لئے مدرسہ احمدیہ میں پہنچے.تین دفعہ اطلاع کروائی گئی اور بھی بہت سے احباب ان سے ملاقات کے لئے آرہے تھے.والد صاحب کو آدھ گھنٹہ کھڑا رہنا پڑا بالآخر وہ آئے والد صاحب کی علالت کے پیش نظر ان تکالیف کا ذکر

Page 515

493 کر کے لجاجت سے التجا کی گئی کہ اگر کسی اور کمرہ کا انتظام کر دیا جائے تو بہت مہربانی ہوگی.اس پر مصری صاحب نے کھڑے کھڑے درشتی اور بے اعتنائی سے تیز اور کرخت لہجہ میں جواب دیا کہ ہم کیا کریں.ہم کوئی انتظام نہیں کر سکتے مکانات ہوتے نہیں.اور یونہی چٹھیاں تحریر کر دی جاتی ہیں یہ جواب دیتے ہی مصری صاحب اپنے گھر کے اندر چلے گئے.مغرب کے بعد کا وقت تھا ہم واپس آئے.والد صاحب کا بخار بڑھ گیا تھا.اور بے چینی ہو گئی تھی.ہم نے خود ہی کمرہ سے اینٹیں اور گارا نکالا اور اسے صاف کیا اور خشک مٹی اس میں ڈالی.نیچے بچھانے کے لئے پرالی کا نیز روشنی کا انتظام کیا.والد صاحب نے صبر سے ساری تکلیف برداشت کی البتہ فرمایا کہ مصری عبد الرحمن منافق ہے جماعت کو اس کا خیال رکھنا چاہیے اس وقت مصری صاحب کا جماعت میں بہت احترام تھا.ہم والد صاحب سے بار بار کہتے کہ مصری صاحب مخلص ہیں.والد صاحب تو ۱۹۳۰ء میں وفات پاگئے لیکن چھ سات سال بعد مصری صاحب کی منافقت ظاہر ہوئی.(۱۲) احمدیت کے لئے غیرت آپ کے خاندان کے ایک پرانے حکیم کو آپ سے بہت محبت تھی.اور وہ آپ کے زیر تبلیغ بھی تھے.ایک روز حکیم صاحب اپنے ایک بھائی کی معیت میں جو ریاست مالیر کوٹلہ میں مفتی تھے.آپ کی عیادت کے لئے آئے.دوران گفتگو احمدیت کے بارے میں باتیں شروع ہوگئیں.اس مفتی نے احمدیوں کو واجب القتل قرار دیا اس سے منشی صاحب کو نا قابل برداشت صدمہ ہوا اور آپ بہت روئے اور کہتے تھے کہ بہتر ہوتا کہ اس بات کے سننے سے پہلے مرجاتا.اس واقعہ کے بعد آپ نے اس مفتی کا منہ تک نہیں دیکھا اور حکیم صاحب سے خاندانی تعلقات ہونے از مؤلف - اس جلسہ سالانہ کے دس سال بعد خود اپنی منافقت کا اظہار اپنی چٹھیوں سے مصری صاحب نے کیا، وہ یہاں ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ، مرکزی قاضی، کبھی قائم مقام ناظر تعلیم اور کبھی امیر مقامی مقرر ہوتے تھے.۱۹۲۴ء کے سفر عرب و یورپ میں حضرت مصلح موعودؓ کے رفقاء میں سے تھے.معتمد تھے.لیکن شومی قسمت کہ جیسے خلافت اولی میں حضرت مصلح موعودؓ نے خصوصی طور پر عربی تعلیم دلائی اس نے خلافت سے انحراف کیا.اب وہ برے انجام سے فوت ہوئے.اپنے عقائد سے انحراف کر کے غیر مبائعین میں شامل ہوئے.مولوی محمد علی صاحب سر براہ غیر مبایعین کا بھی اعتماد کھویا اور ان کی وصیت تھی کہ تین چار فلاں فلاں افراد بشمول مصری صاحب ان کے جنازہ کو ہاتھ نہ لگائیں.بڑے لڑکے بشیر احمد نے احمدیت ترک کی اور دو کنگ مسجد خود غیر از جماعت لوگوں کے سپرد کردی- انا لله وانا اليه راجعون

Page 516

494 کے باوجود آپ نے تعلق قطع کر لیا.حکیم صاحب نے دوسروں کی معرفت معافی طلب کی.لیکن آپ کا کہنا تھا کہ ایسے خیالات رکھنے والے شخص کو آپ میرے پاس لائے ہی کیوں تھے.پھر حکیم صاحب خود آئے اور اپنے بھائی کے قصور کا اعتراف کر کے معافی چاہی اور اپنی کسی ضرورت کے لئے امداد بھی چاہی اس پر منشی صاحب نے اُن کو معاف کر کے ان کی امداد بھی کر دی.آپ کے ایک ہی حقیقی بھائی تھے.جو آپ سے بڑے بھی تھے.اور بڑا ہونے کی وجہ سے آپ ان کا بہت احترام کرتے تھے اور محبت بھی.وہ معمولی دنیا دار انسان تھے ایسے عالم بھی نہیں تھے اور بوجہ ملازمت زیادہ تر اودھ میں رہائش رکھتے تھے.گو وہ سلسلہ احمدیہ سے بہت عداوت رکھتے تھے.لیکن آپ کی موجودگی میں کبھی مخالفت نہ کرتے تھے.لیکن ایک شادی کی تقریب میں اقارب کی موجودگی میں انہوں نے دوران گفتگو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ کلمہ استعمال کر دیا.منشی صاحب کے لئے یہ امر نا قابل برداشت تھا اس پر بڑے بھائی کو آپ سے معافی طلب کرنا پڑی.۲ (۱۳) اکرام ضیف - آپ اس میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتے تھے.اور آپ کا یہ خلق زبان زد خلائق تھا.جب (۱۹۰۵ء میں) حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی سے مراجعت فرما ہوئے تو منشی صاحب اجازت لے کر لدھیانہ سے پہلی گاڑی سے پھگواڑہ پہنے تانگہ، کریام وغیرہ کے منتظر احباب کو اطلاع دے سکیں.اور ان سب کو سامان خوردونوش لے کر ساتھ حاجی پور لے گئے اور تنور گرم کروا دئیے اور دیکھیں چڑھوا دیں اور تھوڑے سے وقفہ میں پر تکلف کھانا سب کو کھلا کر اسٹیشن پر پہنچا دیا گیا.اور یہ احباب حضور کی ملاقات سے مشرف ہوئے اور منشی صاحب نے حضور کی خدمت میں اپنی باغیچی کا پھل وغیرہ پیش کیا.اور جالندھر تک حضور کے ہمرکاب رہنے کے بعد آپ واپس ہوئے.جدید (الهه) (۱۴) اسوۂ نبوی کی اقتدا.روزمرہ کی زندگی میں چھوٹی سی چھوٹی بات میں آپ حضرت رسول الحکم ۲۱ را گست ۱۹۳۵ء (صفحہ ۱ کالم او۳) ۷ ستمبر (صفحہ ۵ کالم ۱) ۷ ستمبر والے حصہ میں یہ بھی درج ہے کہ پھگواڑہ کے راستہ آمد ورفت کی اطلاع منشی حبیب الرحمن صاحب کو ہوتی اور وہ جالندھر سے لدھیانہ تک اور ادھر لدھیانہ یا پھلور سے جالندھر شہر تک ہمرکاب رہتے.بزرگان و مبلغین سلسلہ کی آمد ورفت کی اطلاع ہونے پر بھی منشی صاحب ان سے ملاقات کرتے اور کچھ تحفہ پیش کرتے.حضرت میر ناصر نواب صاحب سال میں ایک دو دفعہ ضرور حاجی پور تشریف لاتے تھے.یہ مصدقہ منجانب حضرت منشی ظفر احمد صاحب ہے.) مضمون

Page 517

495 کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو مد نظر رکھتے تھے.گھر میں خادمات ہونے کے باوجود آپ اپنی اہلیہ محترمہ کا ہاتھ امور خانہ داری میں بٹاتے تھے حتی کہ کھانا پکانے برتن صاف کرنے یا چائے تیار کرنے اور پلانے میں باک نہ سمجھتے تھے بلکہ چائے اکثر آپ خود تیار کر کے سب کو اپنے ذاتی کمرہ میں بلا کر بنا بنا کر دیتے اور ساتھ ہی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح احادیث اور دینی مسائل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات کا تذکرہ کرتے تھے.(۱۲۳) (۱۵) دعا ئیں اور ذکر الہی جب کوئی امر باعث تشویش لاحق ہوتا تو آپ بہت دعائیں کرتے دوسرے روز آپ کے عزیز بہت حیران ہوتے کہ کل کیا حال تھا اور آج آپ بالکل مطمئن ہیں اور اس تکلیف کا ذکر تک نہیں کرتے آپ بتاتے کہ خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی زیارت ہوئی ہے.اور حضور نے تشفی دی ہے.آپ تہجد کے پابند تھے ذکر الہی میں مصروف رہتے تھے.انسـت الهـادي أنت الحق ليس الهادى الا هو اوریاحی یا قیوم برحمتک استغیث آپ کے ورد زبان رہتا تھا.عمر کے آخری بیس برس خصوصاً آپ کے عبادت الہی میں صرف ہوئے.آپ بہت کم سوتے تھے.آپ کے پوتے شیخ لطف المنان صاحب بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت منشی صاحب کو نور فراست اور کشوف صحیحہ سے نوازا تھا.(۱۲۵) (۱۲۴) (۱۲) حضرت مسیح موعود سے محبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متبعین میں بفضلہ تعالی الہی محبت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام اور قرآن کریم سے والہانہ عشق پیدا کر دیا تھا.اس احسانِ عظیم کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب کے اندر حضور کے لئے عشق کا جذ بہ موجزن تھا منشی کظیم الرحمن صاحب تحریر کرتے ہیں کہ والد صاحب حضرت اقدس اور حضور کے خاندان سے ایک قسم کا عشق رکھتے تھے جب بھی آپ حضرت اقدس کا ذکر کرتے تو چشم پر نم ہو جاتے اور بعض دفعہ بیقرار ہوکر آپ کی پیچکی بندھ جاتی اور بالآخر آپ بے اختیار ہو کر کہتے کہ ہم تو یتیم رہ گئے.(۲۲) حضرت عرفانی صاحب بھی رقم فرماتے ہیں کہ.ایسا ہی محبی مخدومی حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب پیارے آقا کے فدائیوں میں سے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر پر ہمہ درد اور اضطراب ہو جاتے ہیں.(۱۲۷) ا آپ ۱۹۸۳ء میں وفات پاگئے اور بہشتی مقبرہ ر بو میں مدفون ہوئے.الطعم المطران وارحمہ آمین

Page 518

496 (۱۷) تأثرات حکیم دین محمد صاحب حضرت حکیم دین محمد صاحب مہاجر دار الرحمت وسطی ربوہ (جن کا وطن ضلع جالندھر تھا.اور جو حضرت مصلح موعودؓ کے ہم جماعت ہیں ) بیان کرتے ہیں کہ مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں زیر تعلیم رہا.حضرت میاں حبیب الرحمن خاکسار ۱۹۰۲ ء تا ۱۹۰۵ء مدرسه می صاحب کے صاحبزادہ میاں محب الرحمن صاحب جو ۱۹۰۱ء سے وہاں تھے ہمارے ساتھ تعلیم میں شامل ہوئے ہمارا قیام بورڈنگ ہاؤس میں تھا.ہم آپس میں بے تکلف ہو گئے اور اس بات سے خوش تھے کہ ہم ہموطن ہیں موضع حاجی پورہ کی تحصیل پھگواڑہ تھی اور پھگواڑہ واحد ریلوے سٹیشن تھا جو راہوں بنگہ اور نواں شہر کے مقامات کے لوگوں کی آمد و رفت کا ذریعہ تھا.اور موضع حاجی پور راستہ میں واقع تھا.خاکسار تحصیل نواں شہر کے قصبہ راہوں کا باشندہ تھا.حضرت میاں صاحب سے میری اوّلیں ملاقات قادیان میں ہی ہوئی تھی.بعد ازاں موسم گرما کی تعطیلات میں اپنے گھر جاتے ہوئے میاں محب الرحمن صاحب کی دعوت پر خاکسار نے ایک دوروز حاجی پور میں قیام کیا تھا.لیکن ۱۹۰۵ء میں قادیان سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد مجھے چند ماہ وہاں آپ کی بابرکت صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع میسر آیا اور میں اپنے تاثرات اس زمانہ کے بیان کرتا ہوں.اس موضع کے تمام مکانات کچے تھے.البتہ حضرت میاں صاحب کا مکان اور اس سے ملحقہ مسجد دونوں پکے تھے.چھوٹی اینٹوں سے تعمیر شدہ تھے اور ساڑھے آٹھ صدا یکٹر اراضی کا نصف آپ کی ملکیت تھا یہ اراضی چاہی تھی لیکن اس علاقہ کی دیگر اراضیات کی طرح بارش سے بھی اس کی آبیاری ہوتی تھی اور آپ کا گزارہ اس کی آمدنی پر تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی زندگی شریفانہ اور رئیسانہ طریقہ سے بسر ہوتی تھی سب ہی افراد خاندان دھوبی دھلے ،صاف ستھرے، اجلے لباس میں ملبوس ہوتے تھے تخت پوشوں اور بستروں کی چادریں ہر ہفتہ تبدیل کی جاتی تھیں.کھانا اندر سے طشتوں میں لگ کر آتا اور آپ بچوں اور مہمانوں کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے تھےمہمان نوازی آپ کے اخلاق کا ایک حصہ تھا.آپ کے خاندان کی مادری زبان اردو تھی لیکن آپ کے مزارعان پنجابی زبان بولتے تھے ان کو آپ کی صحبت میں پیٹھ میں نے نہیں دیکھا.ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ حقہ نوشی کے عادی تھے جبکہ آپ کے خاندان کا کوئی فرد بھی اس کا عادی نہیں تھا.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا کر مطمئن تھے آپ کے رشتہ کے بھائی حضرت منشی ظفر احمد -

Page 519

497 صاحب کپور تھلوی کبھی تشریف لاتے تو حضور کی تازہ ملاقاتوں کا تذکرہ فرماتے اور کر دیں بھیں کی طرف سے دائر شدہ مقدمات کے بارے میں بھی لوگوں کی چہ میگوئیوں کے تذکرے فرماتے اور خاکسار سے جو بچہ تھا، خوش خلقی سے پیش آتے تھے.آپ کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام و بزرگان سلسلہ کی جملہ کتب اور اخبارات سلسلہ احکام، البدر، ریویو آف ریلیجنز اردو، انگریزی کی سال وار جلدیں، نہایت شوق و احتیاط کے ساتھ ایک الماری میں محفوظ تھیں جو وسیع بیٹھک میں تھی اور اس کے قریب ایک تخت پوش ہوتا تھا.جس پر سفید چاندنی بچھی ہوتی تھی.تا کہ اس پر بیٹھ کر مطالعہ کیا جاسکے آپ اپنے بچوں کے ہمراہ مسجد میں نماز با جماعت ادا کرتے تھے.اس زمانہ میں آپ کے مقدمات آپ کے بعض مزارعان سے ہو رہے تھے آپ کو قانونی واقفیت پوری طرح حاصل تھی اور مقدمات کی تحریرات آپ خود اپنے قلم سے تیار کرتے تھے.آپ کا املاء وانشاء اعلیٰ درجہ کا تھا.آپ کا وکیل جو ہندو تھا آپ کی قانونی واقفیت کا معترف تھا.منشی صاحب کا انتقال پر ملال حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب کو آخری ایام میں دینوی معاملات انتظام وانصرام جائیداد وغیرہ سے ایک گونہ انقباض محسوس ہوتا تھا.اور ان میں آپ بہت کم توجہ دیتے تھے.اور یا دالہی مصروف رہتے تھے.انتقال کے روز صبح آپ نے صفائی کا خاص اہتمام کیا.نیا برش اور نیا منجن منگوا کر دانت صاف کئے سامان نکلوا کر اپنا کمرہ صاف کروایا.اور وہاں اگر بتی جلوئی اپنا پلنگ اور بستر صاف کروا کے شام کو چار بجے اس پر لیٹ گئے آپ کو کچھ عرصہ سے شام کو سردی سے تپ ہو جاتا اور رات کو پسینہ آ کر اتر جا تا تھا.اس روز پلنگ پر لیٹے تو طبیعت میں گھبراہٹ پیدا ہوئی اس پر دوسروں کو مختلف خیال پیدا ہوئے مثلاً یہ کہ تپ کا وقت ہے یا یہ کہ چائے چھوڑنے یا فلاں شے نہ کھانے کی وجہ سے جس کی عادت تھی یا صبح سے پان نہیں کھا یا لیکن پیش کرنے پر آپ نے کوئی چیز قبول نہ کی آپ کے منہ سے اللہ ھو اللہ ھو کے ورد کے سوا کچھ نہ نکلتا تھا.بالآ خر آپ بتاریخ یکم دسمبر ۱۹۳۰ء بروز دوشنبه ساڑھے پانچ بجے شام بعمر تریسٹھ سال اپنے معبود حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے انا للہ وانا اليه راجعون مولوی محب الرحمن صاحب کی طرف سے درخواست دعائے مغفرت کے ساتھ یہ اعلان ہوا: - (۱۲۸) ” میرے والد حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پورہ ریاست کپورتھلہ نے یکم دسمبر ۳۰ ء کی

Page 520

498 شام کو انتقال فرمایا.آپ حضرت مسیح موعود کے اولیس خدام میں سے تھے.ازالہ اوہام اور دوسری کتب میں آپ کا ذکر بھی ہے سلسلہ سے بے حد محبت تھی.آپ ۳۱۳ اصحاب میں سے تھے.مقدمات اور بہت سے مباحث وغیرہ میں حضرت مسیح موعود کے ساتھ رہے.حضرت مسیح موعود کا ذکر آتے ہی رونے لگ جاتے.آپ حضرت مسیح موعود کے عاشق صادق تھے آپ رفاہ عام کے کاموں اکثر حصہ لیتے تھے.نیز حکام ریاست میں بڑی عزت تھی.علاقہ بھر کے لوگ آپ کا احترام کرتے تھے.“ اس اعلان کے بعد موقر الفضل نے تحریر کیا :- ہمیں جناب منشی صاحب کی وفات کا سخت صدمہ ہے ہم انکے سارے خاندان سے اس رنج افزا صدمہ میں اظہار ہمدردی کرتے ہیں.اور دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ دے.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی طرف سے اعلان ہوا کہ.(۱۲۹) " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پرانے اور مخلص خادم جناب منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پورہ کی وفات کی افسوس ناک خبر الفضل میں شائع ہو چکی ہے...حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ منشی حبیب الرحمن صاحب حضرت مسیح موعود کے پرانے مخلصین اور سابقون میں سے تھے.بیرونی جماعتیں اگر ان کا جنازہ پڑھیں تو یہ سابقون کے اعزاز کے لحاظ سے محمد مناسب وموجب رضائے الہی ہوگا.جے نماز جنازه و تدفین ☆ منشی کظیم الرحمن صاحب تحریر کرتے ہیں کہ والد صاحب ہمیشہ ہم سب کو اور خصوصا والدہ صاحبہ کو فرماتے تھے کہ میری نماز جنازہ ہمارے ماموں الفضل ۱۸؍ دسمبر ۱۹۳۰ء شیخ عبدالرحمن صاحب بیان کرتے ہیں.کہ اس سال جلسہ سالانہ کے دوران حضور نے جمعہ مسجد نور میں پڑھایا اور منشی حبیب الرحمن صاحب اور چند احباب کا جنازہ غائب بھی پڑھایا اور اعلان میں فرمایا کہ منشی صاحب السابقون الاولون اور تین سو تیرہ صحابہ میں سے تھے لیکن اس جنازہ پڑھانے کا الفضل میں ذکر نہیں ہوا.خاکسار مؤلّف عرض کرتا ہے کہ یہ بات درست ہوگی کیونکہ حضور نے بیرونی جماعتوں کو ان کے السابقون اور پرانے مخلصین میں سے ہونے کی وجہ سے جنازہ غائب پڑھنے کی تلقین کی تھی بظاہر یہ امکان نہیں تھا کہ حضور خود جنازہ نہ پڑھاتے.

Page 521

499 حضرت منشی ظفر احمد صاحب پڑھا ئیں بلکہ ان سے بھی کئی بار آپ نے یہ بات کہی اور عہد بھی لیا کہ نماز جنازہ آپ نے پڑھانی ہوگی.ماموں صاحب فرماتے کہ موت اور زندگی کا کیا اعتبار کہ کس کی باری پہلے آئے اس پر بھی اصراراً کہتے کہ میری وفات پہلے واقع ہوگی اور آپ نے میرا جنازہ پڑھانا ہوگا.بذریعہ تار ماموں جان کو بلوایا گیا.ایک کثیر مجمع کے ساتھ جس میں کپورتھلہ پھگواڑہ اور حاجی پور وغیرہ کے غیر از جماعت افراد بھی شامل تھے آپ نے نماز جنازہ پڑھائی اور والد صاحب کے باغیچہ میں تدفین عمل میں آئی اسی مقام کے متعلق آپ نے چار ماہ قبل فرمایا تھا کہ یہاں آپ کو دفن کیا جائے.حضرت ماموں جان اور حضرت والد صاحب میں جسقد ربا ہم محبت تھی نا قابل بیان ہے اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ہماری درخواست پر ماموں جان کا قیام کچھ روز حاجی پور میں رہا آپ ہر وقت چشم پر نم رہے اور بار بار فرماتے کہ میں اکیلا رہ گیا ہوں.اتنا عرصہ گذرنے پر بھی آپ اس صدمہ کو شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں.جی خاتمہ بالخیر کے متعلق خواہیں حدیث شریف الْمُوَ مَنْ يَرى ويُرى لَهُ کے مطابق حضرت منشی صاحب کے اقارب نے متعد در ویا قبل و بعد وفات آپ کے حسن خاتمہ کے متعلق دیکھیں.منشی کظیم الرحمن صاحب کو ایک رؤیا ہوئی جسے وہ بظاہر بہت خطر ناک خیال کرتے تھے.آپ نے بیان مصدقہ منجانب حضرت منشی ظفر احمد صاحب ( الحکم سے ستمبر ۱۹۳۵ صفحہ ۵ کالم ۳ صفحہ ۶ کالم۱) شیخ لطف المنان صاحب ابن منشی تنظیم الرحمن صاحب نے لکھا کہ بھارت سرکار نے حضرت منشی صاحب کی قبر پختہ کروا کے یہ کتبہ لگوا دیا ہے کہ ایک مسلمان بزرگ کی قبر“ (الفضل، ار اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ ۵ کالم ۱) منشی حبیب الرحمن صاحب کی وفات دسمبر ۱۹۳۰ء میں ہوئی آپ کی عمر کے بارے مختلف بیانات ہیں مثلاً بیان منشی تنظیم الرحمن صاحب کہ بوقت وفات والد صاحب کی عمر تریسٹھ سال تھی (الحکم ۷ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم (۲) منشی تنظیم الرحمن صاحب کا ہی دوسرا بیان ہے کہ حاجی محمد ولی اللہ صاحب کو براہین احمدیہ میسر آنے کے وقت ان کی عمر پندرہ سال کی تھی (الحکم ۲۸ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ے کالم ۳ وصفحہ ۸ کالم) اس حساب سے والد صاحب کی عمر اکسٹھ سال بنتی ہے.تیسرا بیان اس وقت والد صاحب کی عمر قریباً بارہ سال ہونے کا ہے.(ایضا صفحہ ۷ کالم ۳) منشی حبیب الرحمن صاحب بھی بیان کرتے ہیں کہ جس وقت براہین احمدیہ کے بارے اشتہار آئے تو میری عمر تقریباً تیرہ سال کی تھی ( قلمی کا پی صفحہ ۱۰ تا۱۲) اس حساب سے انکی عمر انسٹھ سال کی ہوتی ہے.(باقی اگلے صفحہ پر )

Page 522

500 (۱۳۰) ڈرتے ڈرتے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں تحریر کی حضور نے یہ تعبیر فرمائی کہ آپ کے والد صاحب مخلص ہیں اور مخلص ہی رہیں گے.منشی کظیم الرحمن صاحب ایک اور ر دیا تحریر کرتے ہیں کہ سندھ میں جہاں میں بطور او ورسیئر کام کرتا تھا.حضرت والد صاحب کی شدید علالت کی اطلاع آپ کی وفات سے قریباً ڈیڑھ سال پہلے ملی.میں نے اہل وعیال سے مل کر آپ کی صحت کے لئے دعا کی اسی اثناء میں میں نے دیکھا کہ ایک وسیع میدان میں جس کی کوئی حد معلوم نہیں ہوتی.جنتوں کا ایک بہت بڑا اور بار لگا ہوا ہے اس میں ایک طرف شہ نشین پر تین نشستیں ہیں جن پر اللہ تعالیٰ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رونق افروز ہیں.درباری ان تینوں کی طرف منہ کئے بیٹھے ہیں میں درباریوں میں سے گذر کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور والد صاحب کی علالت کا ذکر کر کے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ان کی صحت کے لئے سفارش کر دیں.اس پر حضور نے اللہ تعالیٰ کی طرف منہ کر کے عرض کیا تو جواب ملا کہ اچھا یہ جواب میں اپنے کانوں سے سنا اور پھر غنودگی جاتی رہی.غنودگی دور ہونے کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں اسی طرح مع اہل وعیال دعا میں مصروف ہوں پھر دعا کرتے کرتے ویسی ہی غنودگی طاری ہو گئی جس میں نے وہی دربار لگا ہوا دیکھا پھر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں والد صاحب کی بیماری کا ذکر کر کے صحت کے لئے سفارش کرنے کی درخواست کی.اس پر حضور نے شہادت کی انگلی سے اپنے دائیں طرف اشارہ فرمایا اشارہ ہوتے ہی والد صاحب سفید لباس پہنے اٹھ کھڑے ہوئے.پھر حضور نے دوسری طرف اشارہ کیا تو ماموں حضرت منشی ظفر احمد صاحب قبلہ رخ کھڑے ہوئے.مجھے یہ بتلایا گیا کہ موجودہ علالت سے والد صاحب صحت یاب ہو جائیں گے لیکن اس کے بعد جو تکلیف ہوگی اس سے وہ جانبر نہ ہوں گے اور یہ کہ یہ دونوں بزرگ جنتی ہیں پھر ہماری دعاختم ہوگئی.میں نے یہ بات سب کو بقیہ حاشیہ سابقہ تجربہ سے ظاہر ہے کہ عمر کے بارے بعض دفعہ شدید سہو ہو جاتا ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عمر کے بارے مختلف اندازے لکھے ہیں حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو اپنی عمر کے بارے اندازے میں بھی سہو تھا.آپ کے فرزند شیخ عبدالرحمن صاحب والد صاحب کی عمر بوقت بہتر سال بتلاتے ہیں اور حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر (امیر جماعت وضلع فیصل آباد ) ان کی عمر ستر سال تحریر کرتے ہیں (اصحاب احمد جلد چہارم (طبع سوم) صفحہ ۸) اٹھاون انسٹھ اور ستر بہتر سال میں بڑا فرق ہے.دیکھنے والے قریبی رشتہ دار بالعموم صحیح اندازہ کرتے ہیں سو خاکسار کے نزدیک شیخ عبدالرحمن صاحب اور حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کے اندازے ملتے جلتے اور درست معلوم ہوتے ہیں.

Page 523

501 بتادی اور بعد میں ایسا ہی وقوع میں آیا.(۱۳۱) شیخ عبدالرحمن صاحب اپنے والد صاحب کی وفات سے پہلے کا یہ رویا بیان کرتے ہیں کہ میں دہلی ریلوے اسٹیشن کے ایک پلیٹ فارم پر ہوں اور ریلوے کے کراسنگ پل پر سے گذر رہا ہوں کہ دیکھا اس پلیٹ فارم سے ایک جم غفیر پل کی طرف آرہا ہے اور بہت شور ہے اور لوگ بھاگ بھاگ کر اس انبوہ کثیر کی طرف جارہے ہیں.اتنے میں یہ شور بلند ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لا رہے ہیں اور ایک بھاری مجمع حضور کیسا تھ ہے میں پل پر کھڑ انظارہ دیکھ رہا ہوں اور یہ مجمع میری طرف ہی آ رہا ہے حتی کہ وہ ریلوے پل پر چڑھ گیا اور میں نے پل پر حضور کا مبارک چہرہ اچھی طرح دیکھا اور حضور میرے پاس سے گذر کر آگے نکل گئے اور اتنے بڑے مجمع کے دھکم پیل میں میں اور والدہ ماجدہ جو اس وقت زندہ تھیں مع بھائی مسعود الرحمن صاحب پیچھے رہ گئے یہ دونوں مجھ سے آملے حضور کے گذر جانے کے بعد کوئی کوئی آدمی رہ گیا.اس وقت میں بہت پریشان تھا میں بھی ان لوگوں کے ساتھ ہو لیا جو تھوڑی تعداد میں باقی رہ گئے تھے.اتنے میں حضرت اقدس اس بھاری مجمع سمیت ریلوے پل سے بجلی کی چمک کی طرح گویا برق رفتاری سے نیچے پلیٹ فارم نمبرا پر اتر گئے.جہاں ایک سپیشل ٹرین کھڑی ہے.حضور اس میں سوار ہو گئے.معلوم ہوا کہ یہ پیشل ٹرین جنتیوں کی ہے.اور حضور ان سب کو ہمراہ لے کر دہلی سے قادیان تشریف لے جارہے ہیں.یہ ٹرین وفات یافتہ افراد سے کچھا کچھ بھری ہوئی ہے.ہم نے ڈبوں میں جھانک جھانک کر والد صاحب کی تلاش کی جو وفات یافتہ تھے اس ٹرین کے تمام مسافر خشوع خضوع سے ذکر الہی میں مصروف ہیں.نہ وہ ایک دوسرے سے کلام کرتے ہیں نہ نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں سب نے ادب سے گردنیں جھکائی ہوئی ہیں.آخری ڈبہ میں ایسی ہی حالت میں ہم نے والد صاحب کو دیکھا اور دوسروں کی طرح ان کو سفید لباس میں ملبوس پایا.ہمیں بھی یہ خواہش ہوئی کہ ہم بھی جو زندہ تھے اس ٹرین میں سوار ہو جائیں جب ہم سوار ہونے کے لئے آگے بڑھتے تو بوگی بہت بلند ہو جاتی اور ہم اس میں سوار نہ ہو سکتے.جب ہم پیچھے ہٹ جاتے تو ڈبہ پھر نیچے ریلوے فارم پر جہاں ٹرین ختم ہوتی تھی آگے بڑھکر ریلوے یارڈ میں میں نے دیکھا کہ وہاں بہت سے افراد ہیں.لمبی سفید ریش والے، بوڑھے، ضعیف، سفید لباسوں میں ملبوس انہوں نے زمین میں چھوٹے چھوٹے گڑھے کھود کر اپنے اپنے چولہے بنائے ہوئے ہیں.وہ آٹا گوندھ رہے ہیں.جن سے آنا فاناڈبل روٹی تیار ہوتی جاتی ہے جسے وہ تو ڑ تو ڑ کر دودھ میں ڈال کر جلدی جلدی کھا رہے ہیں.اتنے میں اس اسپیشل ٹرین کی روانگی کا وقت ہو گیا.یہ سب

Page 524

502 احباب فوراً اس میں سوار ہو گئے.اور ٹرین یہ جا وہ جا اور ہم وہاں تنہا رہ گئے.حضرت منشی صاحب کی وفات کے نصف سال بعد شیخ فیض الرحمن صاحب نے خواب دیکھا کہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نہایت ہی سفید بند موٹر میں حاجی پور تشریف لائے اور موٹر سے اتر کر سید ھے والد صاحب کی قبر پر تشریف لے گئے اور وہاں بہت دعا کی اور بعد دعا فرمایا: - شخص جنتی ہے“ اور پھر موٹر میں واپس تشریف لے گئے.(۱۳۲) محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے حضرت منشی ظفر احمد صاحب حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب، حضرت منشی اروڑ صاحب اور حضرت منشی عبدالرحمن صاحب سمیت بارہ قدیم صحابہ کپورتھلہ کے اسماء درج کر کے تحریر فرمایا ہے کہ یہ تمام وہ دوست ہیں جنہوں نے اپنے اپنے رنگ میں سلسلہ حقہ کی خدمات کیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بچے محبوں میں شامل ہوئے.بموجب وعدہ ایزدی لمبی عمریں پائیں- وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ الناس فيمكتُ فِي الأرض - (۱۳۳)،، حضرت مسیح موعود کا وعدہ صحابہ کپورتھلہ سے (۱) حضرت اقدس نے کشف دیکھا کہ اس سال تین چار دوست داغ مفارقت دے گئے ہیں منشی ظفر احمد صاحب نے عرض کیا کہ حضور! وہ قادیان میں سے تو نہیں فرمایا نہیں پھر منشی صاحب نے عرض کی کہ وہ کپورتھلہ کے تو نہیں فرمایا نہیں.کپورتھلہ تو قادیان کا ایک محلہ ہے“ (۱۳۴) ،، (۲) حضور نے جن احباب کپورتھلہ کے بارے فرمایا کہ وہ میرے جنت میں ساتھ ہوں گے ان میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب اور حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب بھی شامل ہیں.* (۳) ۱۸۹۱ ء تک کے چند درجن اخص صحابہ کرام میں حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب کا اسم گرامی مرقوم ہے.بیان شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ( حیات حمد جلد دوم نمبر ۷۷ ) منشی ظفر احمد صاحب بھی تصدیق کرتے ہیں ( الحکم ۷ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم ۳۲) اس میعت کے بارے حضور کی تحریر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے بھی دیکھی تھی.(سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت (۹۰۸) غالباً وہ مکتوب مراد ہے جو آگے درج ہے.

Page 525

503 (۴) مثیل بدر تین صد تیره خاص صحابہ کرام کی دونوں فہرستوں (مندرجہ آئینہ کمالات اسلام و انجام آتھم ) میں حضرت منشی صاحب کا نام نامی موجود ہے.(۵) بعض مخلصین کے انفاق فی سبیل اللہ کے ذکر کے ضمن میں حضور علیہ السلام رقم فرماتے ہیں:.”ہماری عزیز جماعت حیدرآباد اور فلاں احباب........اورمنشی اروڑ ا صاحب کپورتھلہ اور ان کے رفیق اور ایسا ہی ہماری مخلص اور محبت جماعت سیالکوٹ یہ تمامحسین اپنی طاقت سے زیادہ خدمت میں مصروف ہیں.”ہماری امرتسر کی مخلص جماعت ، ہماری کپورتھلہ کی مخلص جماعت ، ہماری ہندوستان کے شہروں کی مخلص جماعتیں وہ نو را خلاص اور محبت اپنے اندر رکھتی ہیں کہ اگر ایک با فراست آدمی ایک مجمع میں ان کا منہ دیکھے تو یقینا سمجھ لے گا کہ یہ خدا کا ایک معجزہ ہے جو ایسے اخلاص ان کے دل میں بھر دیے ان کے چہروں پر ان کی محبت کے نور چمک رہے ہیں.وہ ایک پہلی جماعت ہے جس کو خدا صدق کا نمونہ دکھلانے کے لئے طیار کر رہا ہے.(۱۳۵) (۲) اپنے دست مبارک سے رقم کردہ مکتوب بنام حضرت میاں محمد خاں صاحب کپور تھلوی میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.آپ دلی دوست اور مخلص ہیں.اور میں آپ کو اور اپنی اس تمام مخلص جماعت کو ایک وفادار اور صادق گردہ یقین رکھتا ہوں اور مجھے آپ سے اور منشی اروڑ ا صاحب اور دوسرے کپورتھلہ کے دوستوں اور سے دلی محبت ہے میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس دنیا اور آخرۃ میں خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے میرے ساتھ ہوں گے.(۱۳۶) اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَّ بارِک وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مجيدوَاخِرُ دعونا أَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ

Page 526

504 حوالہ جات (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۴۵ (۲) بدریکم اکتوبر ۱۹۰۸ء صفحه ۶ (۳) سیرۃ المہدی جلد سوم روایت نمبر ۹۰۵ (۴) خطبہ جمعہ مطبوعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۴۱ء مفہوماً (۵) الفضل ۱۸؍ دسمبر ۱۹۳۰ء (۶) مکتوبات احمد جلد ۶ حصہ اول صفحه ۳ ( ۷ ) الحکم ۷/اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ (۸) تذکره صفحه ۵۹ طبع ۲۰۰۴ء (۹) الحکم ۲۸ / جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم ۱ (۱۰) الحديد - ۱۸ (۱۱) الواقعہ.۸۰ (۱۲) الحدید - ۱۸ (۱۳) الحجر ۱۰ (۱۴) سنن ابو داؤد کتاب الملاحم باب یذکر فی قدرقرن المائية (۱۵) ال عمران.۱۱۱ (۱۶) تذکره صفحه ۹۹ طبع ۲۰۰۴ء (۱۷) حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحه ۷۵ تا ۸۰ (۱۸) حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحه ۸ تا ۸۲ (۱۹) حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحه ۸۰-۸۱ حاشیہ، مکتوبات احمد یہ جلد 4 صفحہ ۷-۸ (۲۰) مکتوبات احمد یہ جلد ۶ صفحه ۱۲-۱۳ (۲۱) مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۱۵ مفهوماً

Page 527

505 (۲۲) مکتوبات احمد یہ جلد ششم صفحه ۱۴ (۲۳) مکتوبات احمد یہ جلد ششم حصہ اول صفحه ۳ تا ۶ (۲۴) سنن ابن ماجہ کتاب الذھد باب ذکر التوبہ.(۲۵) الحکم ۷ را گست ۱۹۳۵ ء صفحہ ۷ کالم ۲ (۲۶) حقیقۃ الوحی نشان نمبر ۱۳۰ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۱۳ (۲۷) الحکم ۲۸ مارچ ۱۹۳۴ء صفحه ۳ (۲۸) الفضل ۴ ستمبر ۱۹۴۱ء صفحہ ۶ کالم نمبرا (۲۹) الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۴۱ صفحه ۳ کالم نمبرا (۳۰) تذكرة المهدی صفحه ۲۴۹ طبع جدید (مفهوماً) (۳۱) الحکم ۷ را گست ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۳ (۳۲) اصحاب احمد جلد چهارم طبع جدید ۱۹۰، الفضل ۵ جنوری ۱۹۴۲ء.(۳۳) رساله نشان آسمانی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۵۱ تا ۳۵۴ (۳۴) مجموعه اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۴۹۰-۴۹۱ بعنوان ” قیامت کی نشانی (۳۵) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۲۹_۶۳۰ (۳۶) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۱۳ (۳۷) رساله نور احمد حصہ اوّل صفحہ ۴۳ ۴۴ ، اصحاب احمد جلد دوم ۷۰-۷۱ (۳۸) تذکرۃ المہدی حصہ اوّل صفحه ۱۵۹ تا ۱۶۰ ، اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۱۴۳ مفهوماً (۳۹) تذکرۃ المہدی حصہ اوّل صفحه ۱۵۹ تا ۱۶۱ ، اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۱۴۳ ۱۴۴ ( مفهوماً ) (۴۰) ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۳۹ تا ۶۴۳ (۴۱) مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۳۶۵ بعنوان التوائے جلسہ ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۳ء ( ۴۲ ) الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۴۱ء صفحه ۳ کالم ۲۹۱ (۴۳) احکام کے راگست ۱۹۳۵ صفحه ۸ کالم ۲ (۴۴) نزول مسیح پیشگوئی نمبر ۶۰ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۷۴ ۵ تا ۵۷۷ (۴۵) کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۵۶

Page 528

506 (۴۶) تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۴ ۴۷ ، الفضل ۲۸ فروری ۱۹۵۷ء (۴۷) تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۴۷۴، ریویو آف ریجنز اردو.ستمبر ۱۹۳۹ء (۴۸) رساله نور احمد نمبر اصفحه ۳۲ تا ۳۵ (۴۹) مجموعہ اشتہارات جلد اول بعنوان بحضور لیفٹیننٹ گورنر بہا در رام اقبالہ (ملخص) (۵۰) آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد اصفحه ۹۳ (۵۱) سیرت المہدی جلد ۲ ، روایت نمبر ۴۴۳ (۵۲) الحکم ۱۷ را پریل ۱۹۰۰ ء صفحہ ۲ کالم نمبرا (۵۳) تذکره صفحه ۴۹۰ طبع ۲۰۰۴ء (۵۴) حقیقت الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۷۵ ۳۷۴ (۵۵) نزول مسیح.روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۳۸۷ (۵۲) کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ی۲ (۵۷ ) کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳ (۵۸) کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه۱۰ (۵۹) کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۴ تا ۱۵ (۶۰ ) الحکم ۷ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۶ (۶۱ ) الحکم ۷ ار مارچ ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۶ (۶۲) اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۳ اطبع جدید (۶۳) الفضل ۳۰ جون ۱۹۴۷ صفحه ۴ (۶۴) تذکره صفحه ۶ ۴۸ طبع ۲۰۰۴ء (۶۵) تذکرہ صفحہ ۷ ۴۸ طبع ۲۰۰۴ء (۶۶) بدر ۲۷ اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۲ (۶۷) الحکم ۲۴ / دسمبر ۱۹۰۵ء (۶۸) بدر ۳۱ اکتوبر ، ۱۵و۲۴ / نومبر ۱۹۰۵ء (۶۹) بدر ۲۴ / نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۱

Page 529

507 (۷۰) بدره ارنومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۱۰۰ رستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۸ کالم نمبر ۲ (۷۱) الحکم، ارستمبر ۱۹۰۶ ، صفحہ ۸ و۹ ( مفہوماً) (۷۲) الحکم ۷ارستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ۳،۲ (مفہوماً) (۷۳) الحکم ۲۴ رستمبر ۱۹۰۶ء صفر یہ مفہوماً (۷۴ ) الحکم ۳۰ ستمبر ۱۹۰۶ صفحه ۳ ( مفہوماً) (۷۵) الحکم ۷ ارا کتوبر ۱۹۰۶ صفحهیم ( مفہوماً) (۷۶) الحکم ۳۰ رنومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۶ کالم نمبرا (۷۷) منصب خلافت صفحه ۵۰.رپورٹ مشاورت ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۱،۱۰ (۷۸) الحکم ۳۱ را کتوبر ۱۹۳۴ صفحه ۵،۶ (۷۹) تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ، تاریخ وفات مرزا احمد بیگ صاحب ۱۳ ستمبر ۱۸۹۲ء (۸۰) محمود کی آمین.مطبوعہ ۱۸۹۷ء (۱) الحکم ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۶، صفحہ ۲، کالم نمبر ۲ (۸۲) الجمعة -۴ (۸۳) احکام ۷ ار تمبر ۱۹۰۶ صفحه ۲۴۸/اکتوبر ۱۹۰۶، صفحه ۱۰۷۹ (۸۴) سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر ۱۰۴ صفحه ۷۹-۸۱ (مفہوماً) (۸۵) اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۶۴ طبع جدید - (۸۶) الحکم ۱۴؍ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ (۸۷) بدر ۲۵ / اکتوبر ۱۹۰۶ ء صفحه ۸ ( ۸۸ ) حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴۸ - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۲ (۸۹) بدر ۲۷ / دسمبر ۱۹۰۶ صفحه ۶ (۹۰) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحه ۶۸ - ۶۹ ،الحکم ۲۸ مارچ ۱۹۱۶ صفحه ۴-۵ (۹۱) الحکم ۲۱ را پریل ۱۹۱۴ء صفحه ۱۱ (۹۲) الحکم ۲۸ نومبر ۱۹۲۴، صفحه ۳ ، کالم ۳،۱، الفضل ۶ / دسمبر ۱۹۲۴، صفحه ۲ تا ۳ (۹۳) مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۹۶ بعنوان " رساله سراج منیر مشتمل بر نشان ہائے رب قدیر

Page 530

508 (۹۴) مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۲۶۶-۲۶۷ (۹۵) الحکم ۱۰ار نومبر ۱۸۹۹ء صفحہ ۷ کالم ۱ (۹۶) الفضل ۲۲ فروری ۱۹۲۳ صفحه ۱ (۹۷) مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۵۹ تا ۱۸۵،۲۶۰ (۹۸) احکام، ارجنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۱۰ (۹۹) الحکم ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۰ء (۱۰۰) الحکم ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۰ صفحه ۱۲، کالم نمبر ۳ (۱۰۱) سنن الترمذی، کتاب العلم باب ما جاء الدال على الخير كفاعله (۱۰۲) الحام ۲۱/۲۸ فروری ۱۹۱۱ صفحه ۱ کالم ی (۱۰۳) الفضل ۱۳، ۶ امئی ۱۹۱۵ ء زیر مدینه امسیح (۱۰۴) الفضل ۵ جنوری ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۱،۱۰ (۱۰۵) الفضل ۶ جنوری ۱۹۶۰ء (۱۰۶) الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۴،۳ (۱۰۷) الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۳ ،۴۰ (۱۰۸) تاثرات قادیان - مرتبہ ملک فضل حسین مہاجر قادیان.(۱۰۹) پر کاش ۱۸ار جنوری ۱۹۲۵ء بحوالہ ۲۹ جنوری ۱۹۲۵ء (۱۱۰) الحکم کے رستمبر ۱۹۳۵ء.تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۸۳ حاشیہ.(۱۱۱) الحکم ۲۴ / جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴ کالم ۳۱۲ (۱۱۲) الحکم ۷ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۲ ، تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۸۳ حاشیه (۱۱۳) مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۲۲۳-۲۲۴ (۱۱۴) بدر ۶ مئی ۱۹۸۲ء صفحه ۵ کالم ۱و۳ (۱۱۵) الفضل ۶ را پریل ۱۹۴۰ء صفحه ۵ (۱۱۶) الحکم ۲۹ اگست ۱۹۳۵ء صفحه ۹ کالم ۱و۲ (۱۱۷) الحام ۲۹ اگست ۱۹۳۵ء صفحه ۹ کالم ۱و۲

Page 531

509 (۱۱۸) الفضل ۹ / اپریل ۱۹۶۰ء صفحه ۵ ( بیان شیخ لطف الحنان صاحب) (۱۱۹) الحکم ۷ را گست ۱۹۳۵ ، صفحہ سے کالم ۲۱،۲ را گست ۱۹۳۵ صفحه ۹ کالم ۲.صفحہ ۱، کالم ۱ (۱۲۰) الفضل ۹ را پریل ۱۹۶۰ صفحه ۵.بیان شیخ لطف الحنان صاحب (۱۲۱) الفضل ۹ را پریل ۱۹۶۰ صفحه ۵ - بیان شیخ لطف الحنان صاحب (۱۲۲) الحکم ۲۱ راگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کال ۳.۷/اگست صفحه ۸ کالم ۳ (۱۲۳) الحکم ۲۱ / اگست ۱۹۳۵ صفحہ ۸ کالم ۳.۷ را گست صفحه ۸ کالم ۳ (۱۲۴) الحکم ۲۱ اگست ۱۹۳۵ صفحه ۸ کالم ۳.۷ اگست صفحه ۸ کالم۳ (۱۲۵) الفضل ۹ را پریل ۱۹۴۰، صفحه ۵ (۱۲۶) الحکم ۲۱ را گست ۱۹۳۵ء (۱۲۷) الحکم ۲۸ رمئی ۱۹۳۵ء صفحه ۴ (۱۲۸) الحکم سے ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۲ (۱۲۹) الفضل ۹؍ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحه ۲ (۱۳۰) الحکم ۷ راگست ۱۹۳۵ صفحہ ۸ کالم ۲ (۱۳۱) الحکم ۷ ستمبر ۱۹۳۵، صفحه ۶،۵ (۱۳۲) الحکم سے ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ کالم (۱۳۳) اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۴ (۱۳۴) تذکره صفحه ۶۸۸ طبع ۲۰۰۴ء (۱۳۵) ضمیمه انجام آنقم روحانی خزائن جلدا اصفحه ۳۱۵ (۱۳۶) بدرمورخہ یکم اکتوبر ۱۹۰۸ء

Page 532

J_T 1 اشاریہ اصحاب احمد جلد دہم مرتبہ : عبدالمالک اسماء آبادان - 107 آتھم ( عبد اللہ آتھم )394.392.391.390 آفتاب احمد بسمل.217.جين فضل حسین 342.341 ابراہیم علیہ السلام - 238.ابراہیم خان : میاں.6.ابوبکر.258.ابوالحسن - 218 ابوہریرہ.258.احسان علی.36.احسن نظامی : خواجہ.410.احمد الدین.245.احمد بیگ : مرزا.وفات.427.احمد جان : منشی -15-18-19-481- احمد دین.170.احمد دین.70.احمد شاہ : میر.13.احمد علی (چوہدری نجابت علی صاحب کے بیٹے ) - 146.-166_165-164.احمد علی (چوہدری محمد علی صاحب کے بیٹے ) - 155-156 - احمد علی (چوہدری امیر باز خان صاحب کے بیٹے ).169 احمد علی خان.113.احمد علی :مولوی.351.352.احمد نور کاہلی.80-192-408.اچھوا جی.170.اسفند یار.34.اسماعیل: میاں.15.اسماعیل خان گوڑیانی: ڈاکٹر.79.اشرف علی : قاضی - 201-204 افضال احمد نمبر دار.166 - افضل حق ( مفکر احرار ( 233 افضل خان : میر.207.احمد دین : چوہدری.77-78-90-93-106-128 - اقبال احمد خان.(مولوی عبد الواحد خان صاحب کے بیٹے ).-144-141-138-136-135-129 احمد دین.481.احمد سرہندی : شیخ.410.-212- آپ کی اولاد.213- اقبال علی بابو - 438.

Page 533

2 اکبر ( مغل شہنشاہ ) - 76-170 - اکبر خاں.167.اکبر شاہ خاں نجیب آبادی.27-28.اکبری بیگم.138 - اکرام حسین - 201.النہیا.404.الطاف حسین (اٹاوہ).204.الفت بیگم.143 - اللہ بخش - 182 - 188 - اللہ بخش چوہدری -232.اللہ داد خان.408-473.اللہ رکھا.180.اللہ وسایا.قبول احمدیت.233.اللہ دین ٹوپی فروش 185 - ام طاہر - 35-36.ام کلثوم - 160 - ام متین: سیدہ-226.امیر احمد : مرزا - 206 - امیراکبر : مرزا.206.امیر خسرو.410.امت ال - 148 - 149.امت ال.163.امت اللہ بیگم.185.امیر النساء : 88-89-156- امیرالنساء ( چوہدری چھیجو خاں صاحب کی اہلیہ ).163 - امیر باز خان.169.امیر حسین : قاضی - 221.امیر علی.162.امیر علی شیخ - 307 الہ دین فلاسفر 79.الہی بخش بابو.251 امام الدین.21.امام الدین.185-186.امام الدین: حافظ.417.امام الدین: مولوی.14.امیر علی.مسلمان کی تعریف - 425.امیر علی خان.159.امیر محمد : حاجی.70.انشاء اللہ خاں: مولوی - 435 - ریویو آف ریلیجنز کو حضرت اقدس کے مشن سے علیحدہ کرنے کی تحریک - 433-448.امام بخش ( چوہدری مولا بخش صاحب کے والد ) - 140 - اور نگ زیب.( مغل شہنشاہ ) - 220-306- امام بخش ( ماسٹر فقیر اللہ صاحب کے والد ) - 13 - امام بخش سپاہی.408.امام بیگم - 90-140 - امتہ الرشید - 432.امتہ الوہاب.440.امجد علی شاہ - 37.امداد اللہ حاجی.343.اہتمام الدین.440.ایوب بیگ مرزا - 22 - باغ دین.14.باقی اللہ : خواجہ - 410.بالک رام 55 بخت بھری.177.بدرالدین : سید.154.

Page 534

3 بدر بخش.168.بڈلف -63.ڑھا: شیخ.195 - بڑھے خان : چوہدری.145-151 -152.بڑھے شاہ.350.برکت بی بی.153.برکت علی.154.برکت علی : چوہدری.147 - 148 - برکت علی خاں : چوہدری.118.171.برھان الدین.440.برہان الدین جہلمی : مولوی -21-22-378 برہم پر کاش.71.بشارت احمد: ڈاکٹر.276.بشارت احمد نیر (نائب وکیل التبشیر ) - 235 بشارت علی خاں پوسٹ ماسٹر.79-80-82-84-125.بھمبھوخان -89-90.بھولا ؛ میاں.(حضرت ڈاکٹر عطر الدین صاحب کے والد ).1.پریتم سنگھ : پروفیسر - 34.پولوس.470.پیلاطوس.388 389.ت - ٹ - ث تاج خان.170.تانی رام - 59-71.تلک رام.44.تفضل حسین : سید - 204 - تو نگر علی : قاضی - 204.ٹھا کر داس برہمن.85.ثناء اللہ امرتسری: مولوی.214-215-233_234.ج - چ -173-171-170-136 بشیر احمد - 168 - حانی 45.جلال الدین..168.بشیر احمد ( عبد الرحمن مصری کا بیٹا ) - 493 - بشیر احمد شیخ - 36 جلال الدین - 196 - 197 - 198.جلال الدین سیوطی: امام - 649 بشیر احمد : صاحبزادہ مرزا.32 - 36 - 65 - 107 - 109 | جلال خاں.163.191-189-139 - 256-255-242-240-200 | جمال الدین.408.-295-293-291-275-273-272-257- جمال الدین : خواجہ - 356.-427-457 جمنا دیوی (شیخ عبدالرحیم صاحب شرما کی والدہ ) 41.محترمه فضل بی بی صاحبہ کی نماز جنازہ پڑھانا.194.جنت بی بی.145-153.بشیر الدین احمد - 92-93 - بة - 167 - ہوئے خان.64.بہادر جنگ ( انچارج مدرسہ احمدیہ کر یام ) - 142 - جوالا سنگھ.یادری.233.جھنڈا : شیخ.( شیخ رحمت اللہ صاحب کے والد ).184.195.جہانگیر ( مغل شہنشاہ ) - 76 - 261.خدائی عذاب کے نیچے ہونا.197.جیماں.چوہدری مراد بخش صاحب کی اہلیہ ).136.

Page 535

جینو - 196 - جیون : بابا - 135 - جیوے خاں.77.چٹو : بابا - 257.چراغ - 153 - 4 415.413.411.409.405.404.403.400.398.438.437.436.435.432.431.425.421.420.457.455.450.449.447.444.442.441.440.483.481.480.476.473.471.466.465.462.501.499.498.496.495.491.490.488.485.چراغ دین ( مولانا محمدابراہیم صاحب بقا پوری کے تایا ).220-224 502 چراغ محمد نمبر دار.145.چند ولال.435-436.اولین جلسہ میں شرکت - 376.آپ کے نام حضرت اقدس کا مکتوب.468.439.377 چند ولال: پنڈت (شیخ عبدالوہاب صاحب کے والد ).72.70 | تین سو تیرہ صحابہ میں شرکت -382.چھچو خان.107 -.123-163-172.آپ کی روایات.427.چھجو خان.107 -.123-163-172.ح - خ حضرت اقدس کی خدمت میں پان پیش کرنا.424.حضرت اقدس کا آپ کی تلاوت قرآن پاک سننا.431.حضرت اقدس کی تعلیمات کے لئے آپ کی غیرت 433.مفتی محمد صادق صاحب کی یورپ و امریکہ سے مراجعت پر حاکم بی بی ( چوھدری تھے خاں صاحب کی اہلیہ اول).179.افراد خاندان سمیت خلافت ثانیہ کی بیعت - 448.حاکم بی بی.180.حاکم خان : چوہدری.144 - 145.151-152.سپاسنامہ - 458 حاکم علی : چوہدری 182 - حاکم علی پنیار : چوہدری.180.حامد شاه میرسید - 210-277-454.حبیب احمد : منشی.74.حضرت مصلح موعود کی سفر یورپ سے مراجعت پر سپاسنامہ - 459.اعانت مدرسہ کے لئے چندہ.474.کسی غریب لیکن شائق کے نام سلسلہ کے رسائل لگوانے کی حامد علی : حافظ - 337-341-346-347-407.تجویز.475.مکتوبات حضرت اقدس کی حفاظت - 481.حبیب الرحمن ( مولوی احمد علی صاحب کے فرزند )352.آپ کی اہلیہ کی وفات.484.بیب الرحمن : منشی - 287-288-291-292-293.| آپ کی اولاد.485.310 | آپ کے دوست.487.309.308.307.306.305.301.295.338.336.335.331.330.328.315.314.311 | حقوق العباد.491..354.351.350.349.348.347.343.342.440 | آپ کا انتقال.497..381.379.377.373.369.368.365.357.355 آپ کے جنتی ہونے کے متعلق رویا.200..397.396.392.388.387.386.385.384.383 حبیب اللہ : ڈاکٹر سید.7.

Page 536

5 حرمت بیگم (چوہدری مہر خان صاحب کی اہلیہ ) - 138 - دولت بیگم.( حاجی غلام احمد صاحب کی بہن ).89-130.حسام الدین : میر.210.حسن بصری : خواجہ - 224 حسن عالم.159.حسن محمد : بابا.231.حسن محمد : چوہدری.145-148.حسین بخش.14.حسین بی بی.196.حسین بی بی.(چوہدری اللہ بخش صاحب کی اہلیہ ).182.حشمت اللہ.34.حشمت اللہ : ڈاکٹر.108-218.دھرمپال.432.دین محمد حکیم.( حضرت مصلح موعود کے ہم جماعت ).409.-495-413 دین محمد : مستری.185.ڈگلس : ایم.ڈبلیو-388-389-412.احمدی نوجوانوں کے نام پیغام.390.ذوالفقار علی خان.409.ز راجہ رام - 54 - رام لال بروت - 128 - حشمت بیگم.(چوہدری اللہ بخش صاحب کی اہلیہ ) - 182.را نامل.170.حکومت بیگم.138 - رجا : میاں.196.حیات بیگم.(مولانا محمدابراہیم صاحب بقا پوری کی دوسری اہلیہ ) - 226.رحما - 168.خان بہادر : 158.خدا بخش : مرزا.473-474.رحمت اللہ ولد آبا دان.107.رحمت اللہ : حاجی - 87-103-122-246.رحمت اللہ : شیخ - 16-23-184 - 187 - 189 - 190 - خدیجہ خاتون - 201.خواجہ علی : قاضی.414.خورشید احمد : صاحبزادہ مرزا.290.خیراں بیگم.( حاجی غلام احمد صاحب کی والدہ ).75.د.ڈ دارے خان.90.147 - 148-170 - دلاور خان.17.دنی چند : لالہ.306.دورے خاں.170.-256-248-247-244-223-195-193-191 -454-264 خلافت ثانیہ کے متعلق خواب.191.رحمت اللہ : سردار.21.رحمت اللہ : مستری.64.رحمت اللہ : منشی 172 - رحمت بی بی.( عبد الرحیم صاحب شرما کی رضاعی بہن ).67.رحمت خان - 159.رحمت خان : چوہدری.168 - دولت بیگم ( شیخ رحمت اللہ صاحب کی ہمشیرہ) حضرت اقدس کی دعا رحیم بخش - 196 - 197 - سے اولاد..193.رحیم پہلوان.114.

Page 537

6 رحم خان - 163 - رستم علی : چوہدری 338 سردار بی بی - مولوی غلام رسول صاحب کی اہلیہ ) - 178 - سرور جان.ماسٹر فقیر اللہ صاحب کی دوسری اہلیہ ).13.رشید احمد گنگوہی.343 344-345-346-364.سروری بیگم.138 - رشید الدین انور.(مولوی عبدالواحد خان صاحب کے بیٹے ) - 216 - سعد اللہ : حافظ.( مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کے مورث اعلیٰ ) - 220 رشید الدین : ڈاکٹر خلیفہ.456-457.رضاء الله - 28.رقیه بیگم ( مولانا شیر علی صاحب کی نواسی ).239.سعد اللہ خان.174-176.سلامتے بیکم.168.سعد اللہ لدھیانوی.274_275.رلیا رام ( شیخ عبدالرحیم صاحب شرما کے والد.41.سلطان احمد صاحبزادہ مرزا -21-23-24-252-311.رمضان علی: میاں.174.رمضانی_45-46- رنجیت سنگھ.220.رندھیر سنگھ - 307 رنگ علی شاہ: سائیں.144.رنگے خان: چوہدری.140-158 - سلطان بی بی.(عبدالرحیم صاحب شرما کی اہلیہ ثانی کی والدہ) -65-67.سلیم شاہ.76.سے خان: چوہدری.163.سنہاری رام.( شیخ عبدالرحیم صاحب شرما کے تایا ) - 41.سید احمد : 326.سید احمد : سر - 208-323-324-340-483.رنگے خان: چوہدری.(چوہدری مراد بخش صاحب کے والد ) - 135.سید احمد دہلوی.339.روڈا.404.405.سید احمد : مولوی.327.روشن دین.347-348-349-350.روشن علی : حافظ - 228-231-234.ریشم بی بی.180.زینب - 177.زینب بیگم - 147 - سیف الرحمن خان : صاحبزادہ - 207.سیف الدین کچلو: ڈاکٹر.2.ش شاد بخت قاضی.201.204.شادی.196.زینب بیگم.( حاجی غلام احمد صاحب کی سوتیلی والدہ ) - 88-89- شادی خان : میاں.408.زین العابدین -85.س شادی رام ( شیخ عبدالرحیم صاحب مشرما کا بڑا بھائی ) - 42-43- شاہ دین : بابو.206.سخنی محمد : مولوی.( مولوی غلام حیدر صاحب کے والد ) - 177.شاہ دین : مولوی.360.سراج الحق نعمانی : -378-377-369-359- سردار احمد خان.338-374.سردار بیگم.13.21.شریف احمد : صاحبزادہ مرزا.98-110-251-252-394 | شفاعت احمد : ڈاکٹر - 419-420.حضرت اقدس سے یکطرفہ مباہلہ - 421 -

Page 538

7 شفیق الرحمن: چوہدری.171 - شمس الدین.15.شیر عالم : پیر.115 - 116 - شیر علی : مولوی.21-22-28-32-40-95-107- -457-456-449-239-231-173-132- شیر محمد : چوہدری.220.شیر محمد.( ٹانگہ والے).107.شیر محمد : ملک - 20 - شہاب الدین.196.شہزادہ ہمدم - 245.ص.ض صاحب نساء.145-153-159.صالح محمد - 175 - 405.398.397.388.386.385.383.381.374.484.468.457.447.441.439.438.415.408.500.499.496.494.491.489.488.487.485.502.501.ظہور الدین.108.ظہور الدین : چوہدری.92.ع عابد علی خان.165 - عالمگیر خان.171 - عائشہ ( حضرت ام المومنین ) - 224.عائشہ -5-6- عائشہ.( شیخ رحمت اللہ صاحب کی اہلیہ ).193.عائشہ بیگم.( عبد الرحیم صاحب شرما کی اہلیہ ثانی ) - 65-67.صالحہ بی بی.( میاں رمضان علی صاحب کی اہلیہ سوم).175.عائشہ بی بی.(مولوی غلام حید ر صاحب کی اہلیہ ).177 - صدر الدین : چوہدری ( مولانا محمدابراہیم صاحب بقا پوری کے والد ) - 220 عباس علی لدھیانوی : میر.86.480.صدر الدین : مولوی.27-32-192-230.صدر الدین: میاں.196-199.: صدیق حسن خان نواب -368.صلاح الدین : ملک - 289.صوبہ خان : چوہدری.163 - ضیاء اللہ.(سیکنڈ ماسٹر ) -16- b- b طفیل محمد.154-155.طفیل محمد خان: چوہدری-88-89.عبد الاکبر - 18.عبدالجبار غزنوی: مولوی.179-222-393.عبد الحق: پادری - 98 عبدالحق : چوہدری.149.عبد الحق رامہ - 217 - عبد الحق غزنوی.393.عبد الحق : مولوی..395.394.393.365 عبد الحق و دیار تھی.30.عبد الحکیم : چوہدری.170 - 171 - ظفر احمد : منشی -289_298-300-301-303 عبد الحکیم خان.(مولوی عبدالواحد خان صاحب کے بیٹے ) 212 - 336.333.331.318.315.311.309.308.305 آپ کی اولاد.213..349.348.347.345.344.343.342.341.340 عبد الحکیم مرتد - 437.32-369.368.366.365.358.356.354.352.350.

Page 539

8 عبدالحمید : خان-62 عبدالحمید : شیخ - 261 - عبد الخالق - 217 - عبد الدائم : شیخ - 306 - عبدالرحمن - 65 عبدالرحمن - 88 قرض معاف کرنے کا صلہ.45.بحالت ہند و نماز پڑھنا.49.ملازمت میں ترقی.50.بیعت کے لئے قادیان جانا.51.ہندوؤں کے ساتھ بحث مباحثہ - 55.گنگا اشنان کے لئے ہر دوار جانا.56.عبدالرحمن ( چوہدری مولا بخش صاحب کے بیٹے ) - 160 161 - اسلام کا اعلانیہ اظہار - 61 - عبد الرحمن.( حاجی غلام احمد صاحب کے بھائی ) -75-76.قادیان ملازمت کے متعلق رویا.64.عبدالرحمن انور پرائیویٹ سیکرٹری.174 - 179-181-182 عبدالرحیم : حافظ.438.عبد الرحمن جٹ.(امیر جماعت احمدیہ قادیان ).21 - 198 - 200 عبدالرحیم درد - 414.- عبدالرحیم قادیانی : بھائی.11-251-408.عبدالرحمن.408.عبدالرحمن خان.144-145.عبد الرحمن : -191-190-4- عبدالرحیم شاہ.410.عبدالرحیم نیر 491.490.487.407.406.110.5.4 سید عبدالرحمن: شیخ 356.354.340.328.291.40.23 عبدالرحیم مدہوش.486..406.405.400.388.386.384.369.368.359 عبدالرحیم میرٹھی.407..492.483.448.440.436.427.415.414.411 عبدالرشید (چوہدری رشید احمد صاحب کے بیٹے ) - 38.200.498.عبد الرحمن صدیقی - 218.عبدالرشید شر ما-68.عبدالرشید : شیخ - 214 عبدالرحمن " قادیانی : بھائی 482.100.51.40.11.3.2 عبد السلام : ڈاکٹر - 265.عبد الرحمن : سیٹھ.407.438 عبدالرحمن : ماسٹر - 406 - عبد السلام کا ٹھ گڑھی.97-99-132-199 - عبدالسمیع کپور تھلوی : منشی - 418-457 - عبدالرحمن محی الدین.178 - عبدالرحمن مصری..492.493 عبد العزيز - 32 - عبد العزیز - 169.عبدالرحمن : منشی.374.343.341.338.312.302 | عبدالعزیز اوجلوی_408..457.419.417.403.383.381 عبدالعزیز : حافظ -262.عبد الرحمن مولوی فاضل.(مولوی غلام رسول صاحب کے فرزند ) - 178 - عبدالعزیز : شاہ.369.عبد الرحمن شرما: شیخ -41-52-60-62-63-67-74.عبدالعزیز لدھیانوی.78.عبدالعزیز : مولوی-360- بتوں سے نفرت.44.

Page 540

9 عبد الغفور.اسلام سے ارتداد - 433.عبدالمجید سالک.30.عبدالغنی : چوہدری.106-107 - 108-114-129.عبد المنان ( مولوی غلام رسول صاحب کے فرزند ).178.-173-143-141-140 عبدالغنی : مولوی.359-363.عبد القادر - ( یکے از ۳۱۳ ) - 221 - عبد القادر - 339.عبد القادر : مولوی.327-410.عبد القيوم - 14- عبدالکریم حیدر آبادی.249.عبدالمنان : حافظ.178.عبدالواحد او ورسیئر - 185.عبد الواحد خاں صاحب.210-212-215-244-261 -271-270-268- حضرت اقدس کی معیت میں سفر جہلم.211.قبولیت دعا.216.عبدالوہاب - 47-48-49 - 50-51-53-54-55-56.-74-72-71-58 عبد الکریم سیالکوٹی : مولوی..86.80.71.53.52.51.2 عبید اللہ : ڈاکٹر -2-217.188.186.49.247.246.238.223.211.210 عدالت خان : چوہدری.123..400.399.391.370.358.338.268.267.254 عزیز الدین : پادری-16-17.487.431.430.403.عبد الکریم شرما - 68 - عزیز احمد : صاحبزادہ مرزا.21-23.عزیز الرحمن :سید - 190 - عبد اللطیف شہید : صاحبزادہ سید.80_188-263_265.عزیز الرحمن بنشی.474.عبداللطيف : شیخ.184 - عبدالله - 408.عزیز بخش : میاں.311-417.عصمت اللہ وکیل - 232.عبداللہ.( چوہدری مولا بخش صاحب کے بیٹے ).161.عطاء اللہ خاں (امیر جماعت راولپنڈی).103.106-121.عبداللہ خان بہلول پوری.232.-124 عبداللہ جان.(انجمن احمد یہ اشاعت اسلام کے سیکرٹری ) 32 عطاء اللہ صابر - 168.عبد اللہ درزی.408.عطا محمد - 148-246.عبداللہ : ڈاکٹر - 409 عبد اللہ کشمیری.34.عطا محمد خان پشاوری.270-271.عطا محمد : مرزا ( حضرت اقدس کے دادا ).296.عبداللہ لدھیانوی - 327.عطر الدین : ڈاکٹر -1-2-3-9-10-12-244.عبد اللہ : مولوی - 360.آپ کی غیرت ایمانی.4.عبدالمجید - 388.حضرت خلیفہ ثانی سے دوڑ کا مقابلہ.7.عبدالمجید : چوھدری (امیر ضلع جالندھر ).143.علی گوہر: چوہدری.160.161 -162.عبدالمجید خان..447.438.409 عمر بخش - 153 -

Page 541

10 عمر بخش نمبردار.145 عمر دین.164.عمر فاروق - 258.آپ کی مہمان نوازی.357.مولوی سید نذیر حسین سے مباحثہ.365.مولوی محمد بشیر بھوپالوی سے مباحثہ - 318.عنایت بیگم (چوہدری نذیر احمد صاحب کی اہلیہ ثانی).138 - نماز قصر کی مسافت کے متعلق آپ کا ارشاد.337.عیدا.196 - اطلاع اولین جلسه 1891 - 369 عیسی علیہ السلام.467.412.396.378.362.361.257.256.206 سفر میں روزہ.374-375.غفور النساء بیگم.(مولوی عبد الواحد خاں صاحب کی اہلیہ ).211 212 منشی حبیب الرحمن صاحب کے نام آپ کے مکتوب.468.439.377 غلام احمد : مرزا ( حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ) -5-26.آپ کے متعلق حضرت سید نا صرنواب صاحب کی تحریر.380.104-40 - 128 - 192 -211-208-206-193 | با وجود بخار کے روزہ رکھنا.397.440-337-306-277-276-275-274-257.اپنا حق چھوڑ دینا گناہ ہے.383-418.-361-360-358-355-353-352-351-447 کپتان ڈگلس کے لئے آپ کا اظہار خوشنودی.389.424-423-414-413-380-364-363 - 427.| آتھم سے مباحثہ.391.-466-460-444 شیخ عبدالوہاب صاحب کے نام آپ کا خط - 73.غیر از جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھو.84.آپ کو جزامی کہنے والے کا انجام.86.نابلی والے مولوی کا آپ کو گالیاں دینا.183.آپ کی صاف گوئی اور صداقت پسندی.185.ملنے والے کو پہلے سلام کرنا.147.نماز پڑھنے کا طریق.259.نتیجہ مباحثہ و مباہلہ کے متعلق آپ کا ارشاد.394.حقہ نوشوں سے آپ کا اظہار ناراضنگی.397.نسخہ سرمہ مقوی بصر.398.آپ کی غذا.399.خطبہ الہامیہ.400.طاعون سے حفاظت.402.کپورتھلہ ، قادیان کا ایک محلہ - 403.آپ کی ایک رؤیا.407.حدیث کے متعلق حدیث والے سے پوچھنا.262.آپ کی دہلی آمد اور بزرگان کی قبور پر دعا.410.مجھ کو چھپا کر کونسا اسلام دنیا کے سامنے پیش کریں گے.273.چودہ برس بعد لدھیانہ میں آمد - 411.آپ کی وفات - 278.احباب کپورتھلہ کے بارہ میں آپ کی تحریر.305.براهین احمدیہ کی تحریر کے متعلق اشتہار 311.کپورتھلہ سیمسجد کا ملنا.416.417.دیلی سے قادیان مراجعت - 419.آپ کا تصنیف میں استغراق.429.کپور تھلہ میں آپ کا پہلا اعلان 312.یہ پان ہے یا ہاتھی کا کان.430.حاجی الی اللہ صاحب کے نام آپ کے مکتوب 315 - 318-320 قرآن شریف سنتے ہوئے آپ کے آنسو بھر آنا.431.کپورتھلہ میں آمد.336.اسلام کوڑا کرکٹ سے پاک ہونا چاہئے.433.

Page 542

11 مجھ کو چھوڑ کر کیا مردہ اسلام پیش کرو گے.435.غلام جیلانی: چوہدری.111.145-148-172 آپ کی ہتک کرنے والے کا انجام.437.غلام حسن : بابو.180.اسلام کو یورپ اور امریکہ میں پھیلانے کی احسن تجویز.463.غلام حسن خان مولانا.17-20-28-32-38.آپ کی کپورتھلہ میں آمد.484.-151-145-144 غلام احمد ( غیر احمدی ) - 149 - غلام حسین: چوہدری.180.غلام احمد خان.172.غلام حسین : سید -432.غلام احمد : شیخ ( نومسلم ).40780.دوکان پر سیلف سروس.81.غلام حیدر : مولوی - 177 - 178.غلام احمد واعظ : شیخ.231.غلام احمد.182.غلام حسین قریشی.( امام الصلوۃ).226.غلام رسول.164.غلام احمد : حاجی 75-77-79-89-90-93-95-100 غلام رسول راجیکی.110-243-483 - 136 135-132-130-128-111-110-102 165_157-149-144-141-140-138-137 -169-168- غلام رسول حافظ - 225-243-254.غلام رسول وزیر آبادی: حافظ - 238.غلام رسول : مولوی (مولوی غلام حید ر صاحب کے بیٹے ) 177 - 178 - 179 خواب میں آنحضرت ﷺ کی زیارت-76-87.غلام رسول مہر - 30 خواب میں مسیح موعود “ لکھا ہوا دیکھنا.78.آپ کی بیعت.81.غلام علی.180.غلام فرید چاچڑاں شریف: پیر.177.احمدی ہونے کے بعد ایک شخص کی عادات میں تبدیلی.85.غلام قادر: مولوی -222 علاقہ مکیریاں میں تبلیغی وفد کے امیر.98.غلام محمد - 168.اشتہار نکاح بیوگان“ کی اشاعت - 99.غلام محمد امرتسری: حکیم.10.190.فصلانہ کی وصولی کے لئے بطور انسپکٹر تقرر.101.غلام محمد کشمیری.26.آپ کی وصیت.104.غلام محمد : ماسٹر.409.آپ کی وفات.106.غلام محمد : مولوی.( مبلغ ماریش )-20-337..صداقت حضرت اقدس علیہ السلام کے لئے مباہلہ - 107 - غلام محی الدین - 62 حضرت خلیفہ ثانی کی خدمت میں نذرانہ پیش کرنا.109.غلام محی الدین خلیفہ - 313-330 آپ کا تو کل.115.غلام محی الدین بنشی.342.آپ کے جسم سے دھواں نکلنا.119.غلام مرتضی ( حضرت مسیح موعود کے والد صاحب ) - 297-317 - جمعۃ المبارک کے لئے غسل.123 - غلام مرتضی : چوہدری - 118.چوہدری.118.بیعت کے بعد کیا حاصل ہوا.125.غلام مصطفی - 180 -

Page 543

12 غلام مصطفی: سید - 30 - غلام نبی.182.غلام نبی خان.87.فضل واحد : حاجی.208.فقیر اللہ ماسٹر -13-18-20-22-23-24-26-28.-266-244-40-39-38-32 غلام نبی خوشابی : مولوی.360-361-362-363.حضرت اقدس کے نام بیعت کا خط.17.آپ کا حضرت اقدس کی بیعت کرنا.359 آپ کا شجرہ نسب.25.ف فاطمه ( مولوی غلام حیدر صاحب کی بیٹی ).177.فاطمہ (میاں رمضان علی صاحب کی اہلیہ اول) 175.فاطمہ ( میاں غلام رسول صاحب کی اہلیہ دوم ) -175.فاطمه ( مولوی غلام رسول صاحب کی بیٹی ) - 178.فتح سنگھ اہلوالیہ - 296.فتح محمد سیال: چوہدری.9.مولانا محمدابراہیم بقا پوری کے متعلق آپ کی تحریر.236.خلافت ثانیہ کے متعلق آپ کا خواب.27.مسلم ٹاؤن میں رہائش.30.مولوی محمد علی صاحب کی آپ سے ناراضگی.33.مشن ہائے بیرون ہند کے بجٹ تیار کرنا.37.فقیر محمد -47-49-54.فیاض علی : منشی.416.383.381.342.341.309 419.418.417.فیروز الدین.21.فضل احمد : شیخ (بزاز ) -193.فضل احمد.182.فضل احمد چوہدری.232.: فضل الدین وکیل : مولوی 228 فیروز خان.97.فیض الرحمن : شیخ - 201 - فیض علی صابر - 38.فضل قادر : ڈاکٹر.408.فضل الرحمن : حافظ (منشی حبیب الرحمن صاحب کے بڑے بھائی ).431 432 فیض محمد خاں.214 - فضل البہی (ماسٹرفقیر اللہ صاحب کا بھائی).14.فضل الہی بھیروی مولوی.231.فضل الرحمن : حکیم - 265.ق قابوخان.170.قادر بخش - 195.فضل النساء.( ڈاکٹر عطر الدین صاحب کی اہلیہ اول).4.قادر بخش : ماسٹر ( مولانا عبدالرحیم صاحب درد کے والد ).77.414 فضل بی بی ( شیخ رحمت اللہ صاحب کی اہلیہ ).193 - قدسیہ بیگم - 241 - فضل حق.31.قطب شاہ.208-209.فضل حسین: سر 14 - قیام خان.170.فضل حسین بنفشی _342.ک.گ فضل دین بھیروی: مولوی.436.کا کو نمائی.1.فضل محمد: چوھدری 408 کالے خان : چوہدری.158.

Page 544

13 کچھوا جی.170.کر پال سنگھ.55.کرم الدین : میاں.183-197.کرم الہی میاں - 196-199-200.کرم بخش - 152 گلاب دین.197.گل محمد.145 - 153.ل - الطف المنان : شیخ - 491-495-499.کرم داد خان.( عبد الرحیم صاحب شرما کے سر ) - 65-67.مادے خاں - 167 - کےسر کرم دین بھیں 262.249.246.211.137.83.52.ماہی - 196 - 435.264 کریم الدین : چوہدری.214.کریم بخش : حافظ.77.کریم بی بی - 140 -.مبارک احمد : مولانا.241.مبارک احمد : شیخ - 175 - مبارک احمد : صاحبزادہ مرزا.249.مبارک علی : ابویوسف مولوی.210-211 - 233.271 - 272.تنظیم الرحمن بنشی.323.320.314.309.308.291 مبارکہ بیگم - 168 -.405.377.368.354.351.350.349.345.343 | مجددالف ثانی.315-317..484.448.447.444.442.441.440.439.415 مجید احمد : صاحبزادہ مرزا.241.499.498.489.488.487.485.کلثوم بی بی.483-485.کمال الدین خواجہ -.274.273.266.233.223.1 مجید و بیگم - 226 محب الرحمن : مولوی.392.357.342.310.307.292 497.496.484.431.405..455.448.436.434.433.399.356.276.275 محبوب الرحمن : حافظ.431-432.کنور بکر مان سنگھ - 341.کوڑے خاں: حکیم.77.کنہیالال.249.محبوب عالم - 350-351.محبت خان نواب.205-208-209.محفوظ الحق علمی - 34.کیپٹن پین ( منشی حبیب الرحمن صاحب کے انگریز استاد ) - 310 - محمد 87-192 - گاماں پہلوان.114.محمد : حافظ - 178 - کامن خان ( حاجی غلام احمد صاحب کے والد ) - 75 - محمد : میاں.15-16.گا ہے خان: چوہدری.153.158.گوہر علی : منشی-1-338.گلاب ترکھان.196.گلاب خان.141-160.محمد مولوی.214.313-360.محمد ابراہیم بقا پوری-220-222-228-230-234-239.-278-266-252-244-243-242-240 آپ کے اہل خانہ کی بیعت.224.

Page 545

14 ایک غیر از جماعت مولوی کے ساتھ مباہلہ - 225.محمد بخش ( چوہدری نجابت علی صاحب کے والد ) - 164 - بطور واعظ ملا زمت.231.محمد بخش.154 - آپ کے متعلق مفتی محمد صادق صاحب کی تحریر.232.محمد بخش چوہدری.158.حضرت اقدس کا آپ کے سوالات کا جواب دینا.238.محمد بشیر بھوپالوی : مولوی حضرت اقدس سے مباحثہ.368.حضرت خلیفہ ثانی کا آپ کو جن نکالنے کے لئے بھیجنا.241.محمد بہرام خان.207.آپ کی روایات.254.محمد ابراہیم ؛ حافظ.234-407.محمد بی بی.180 - محمد پریل.235.محمد ابراہیم سیالکوٹی: مولوی 176 -233-238- 263 محمد تیمور: شیخ 9 مد ابوالقاسم بنشی.(حبیب الرحمن صاحب کپور تھلوی کے والد ).307.306 محمد جان - 88-89-90_92_148-149 - 157 - محمد احسن امروہی : سید - 192-206-256-270-378.حمد چراغ بنشی.185-186-311.-457-456-454-452-407 محمد حسن: مولوی.360.374.محمد احمد مظہر: شیخ - 405-417-457-485-501- محمد حسین بٹالوی: مولوی - 366.365.364.277.177.- محمد اروڑا بنشی.342.341.337.336.312.302.300 392.380.376.374.371.367 381.374.66.358.356.354.350.344.343.-502.501.447.408.388.382.مباہلہ سے فرار.393.محمد حسین : چوہدری.218.محمد اسحاق: کیپٹین ڈاکٹر.(مولانامحمد ابراہیم صاحب لاہوری کے بیٹے ) - 239 - محمد حسین: حکیم ( مرہم عیسی ) - 39 - 257-409 - محمد اسحاق.177.محمد حسین : خلیفہ.474.محمد اسحاق: میر - 109 - 110-188-234-251-483- محمد حسین : سید 31-78.454-541.محمد اسماعیل (مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کے بھائی.41.226.222 مسلم ٹاؤن لاہور کا پہلا نام احمد یہ بستی.29.محمد حسین کپورتھلوی: مولوی.374-383.محمد اسماعیل شہید - 381.محمد اسماعیل : ڈاکٹر میر - 38 -226-305-392-399.محمد خان کپور تھلوی منشی 341.339.337.312.302.6 -502-410-406 محمد اسماعیل حلالپوری.64.محمد اسماعیل کا ٹھ گڑھی.105.محمد اشرف : سید.3.محمد اشرف بنشی.384.محمد اکبر - 473 - محمد انور - 138 - 383.381.374.366.354.350.344.343.342.503.484.446.388.| محمد دین حکیم (امام الصلوۃ ) -225 محمد رفیق.177.محمد رمضان (مولوی عبد الواحد خان صاحب کے والد ) - 210 محمد زمان : مرزا.198.محمد سرور.138.

Page 546

15 محمد سرور شاہ : سید - 5-106-221-234-452.محمد علی خان نواب - 449.408.272.231.229.95- محمد سعید - 220-374-386.محمد سلیم - 176 - محمد شفیع : مرزا - 226 - -473-457-456 محمد عمر : بابو.121.محمد عیسی : شیخ 20 محمد صادق: مفتی -22-40-65-80-192-232-287 محمد فیض الدین : مولوی.277..438.431.413.407.338.330.301.296.295 محمد لشکر خان (ملک محمود خانصاحب کے والد ).205.487.483.476.460.458.457.محمد صادق خان بہادر -34-35-36-37.محمد صالح - 369- محمد ظفر اللہ خان : چوہدری سر-240.محمد عباس ؛ مرزا.207.محمد عبدالله شسنوری بنشی.340-341-343.محمد عبد الله: قاضی -4-5-6-7- محمد عبد اللہ : مولوی -132.محمد عبداللہ خان: نواب.241.محمد عظیم اللہ خان: خانزادہ.207.محمد علی بابو.487.محمد نذیر حسین دہلوی : سید - 364_365_366-370-371 -376-375-373 محمد نصیب: شیخ - 20 - محمد نواز - 148 - محمد ولی اللہ : حاجی.314.311.310.308.307.302 334.333.331.330.329.321.320.318.317.425.424.423.418.365.354.352.346.341.آپ کا شجرہ.485.محمد یار عارف ( مبلغ انگلستان ) - 180 - محمد سکی.(مجاہد انگلستان )-4-5-6.محمد یعقوب : ڈاکٹر.103.محمد علی ( حاجی غلام احمد صاحب کے بہنوئی ).88-89-114.محمد یوسف: پیر.51.محمد علی بو پڑی: مولوی 312.محمد یوسف ( حکیم محمدحسین صاحب کے بیٹے ).409.محمد علی : چوہدری ( چوہدری برکت علی صاحب کے بیٹے ).154 - 156 - محمد یوسف: سید.265.محمد علی : حافظ.374.محمد علی خاں شاہجہانپوری.210-214.محمد یوسف قاضی - 18 - 29-205-207-209-271 محمد یوسف: میاں.206-207.محمد علی : مولوی -9-19-23-27-28-29-30-31.محمد یوسف علی خان - 165 - 228-213-192-103-40-37-35-34-32.مخدوم بخش ٹیلر - 214.230-229_233_448-435-434-433-273 - محمود احمد عرفانی: شیخ.117 - -455-454-452-451- ماسٹر فقیر اللہ صاحب سے آپ کی ناراضگی.33.محمد علی خان کرنل - 311-337.محمود احمد مرزا ( حضرت خلیفہ مسیح الثانی)-36-38-39.-118_109_108_107_97_95-92-90-63 230-229-228-226-213-209-206-197-139

Page 547

16 -432-415-410-306-305-277-243-240 | مسعود الرحمن -200-414.-479-476-462-457-453-449-448- مصری شاہ (مجذوب ) جس نے ولی بننا ہے قادیان جائے.2.ڈاکٹر عطر الدین صاحب کا خطبہ نکاح -4- مظفر احمد : صاحبزادہ مرزا.240.مسجد برلن کے لئے چندہ کی تحریک.7.آپ کی خلافت کے متعلق خواب.27.مظہر حق : میاں.408.مظہر شاہ.112.رسوم و رواج کی چھتوں اور مکانوں کے گرنے کی دعا.91.معراج الدین : میاں.183.فصل کے موقع پر با شرح فصلانہ کی وصولی کے لئے انسپکٹر ان کا ملک خان - 207-208- تقرر - 101 - احباب کپورتھلہ کے متعلق آپ کی تحریر.297.منشی خاں: چوہدری.158 -159-167 - 168.منظور بیگم.182.منشی ظفر احمد صاحب کے انتقال پر آپ کا خطبہ 298.منظور محمد.481.آپ کی آمین.427.آپ کی شادی.428.انجمن تفخیذ الاذہان کا اجراء.438.سفر یورپ سے مراجعت پر سپاسنامہ.459.ویمبلے مذاہب کا نفرنس میں شرکت.472.منور احمد ملک.265.موسیٰ خان - 206 مولا بخش - 145 - مولا بخش بوٹ فروش-275.مولا بخش نمبردار.232.مسجد لندن کے لئے مستورات میں چندہ کی تحریک.477.مولا بخش چوہدری.140 - 141 - 144 - 145-167 - محمود الحق: حافظ - 338 محمود خان ملک.205-209.مخالف احمدیت کی پٹائی.208.مختار احمد شاہجہانپوری : حافظ.487.مختار احمد ہاشمی.290 مرلیدھر : ماسٹر -440.مریم علیہ اسلام -342-363-366.مدثر شاہ: میر.13.17.مراد بخش - 129 - 135 -137 - مرتضی حسن در بھنگی.214 مرید احمد خان تالپور: میر - 235.مسعود احمد.414.مولا بخش ولد گلاب خاں.141 - 160.162.مولا بخش: ملک.2.مولی.87.مہرالدین: میاں.21.مہتاب - 300.مہتاب دین.197.مہر النساء بیگم (چوہدری مراد بخش صاحب کی بیٹی ).136 - 137.مہر النساء بیگم ( چوہدری بشارت علی خان صاحب کی اہلیہ ( 170 - 171 مہر حسین بریلوی.190.مهر خان.78-102-105-115 - 129-135 - 136 - -144-141-140-139-137 مهرخان : چوہدری.171-173.

Page 548

17 مہر دین آتشباز - 190.میر سنگھ - 406.مہرو - 163 - مہندی.169.میراں بخش.428.میر درد : خواجہ-410.سیم اختر - 138 - نصر اللہ خان چوہدری 228_275-276_277.نصرت بانو: سیدہ ( ڈاکٹر عطر الدین صاحب کی دوسری اہلیہ ).4.مسجد برلن کے لئے چندہ دینا.7.منارۃ اُسیح کے لئے چندہ دینا.12.نصرت جہاں بیگم : سیدہ (حضرت ام المومنین ) -212-269.میرو.(چوہدری اکبر خاں صاحب کی اہلیہ ) - 167 - مولوی عبد الواحد خان صاحب کو حضرت اقدس کی واسکٹ دینا.211.میور.-435.نظام الدین : اولیاء.410.نظام الدین : شیخ - 193.نا صراحمہ: حضرت مرزا خلیفہ مسح الثالث - 110-241 - نظام الدین: مرزا 189 - 427.ناصر ارتضی علی : سید - 486.نظام الدین: مستری-26-262.ناصر نواب : میر - 10-20-22-28-40-229 - 250 - نظام الدین : میاں.(عرف جامو ).196.200.-494-436-410-380-356 آپ کی قادیان آمد - 430.دورہ برائے وصولی چندہ.475.ناصرہ.432.نبی بخش: حافظ.205-269.نبی بخش.87.نبی بخش: چوہدری.163.نتھوخان.145-148.تھے خان چوہدری ( نواں شہر ) - 164 - تجھے خان چوہدری ( سیالکوٹ.سرگودھا) - 179.نعمت اللہ.28.نعمت اللہ.شہید.461-472.نعمت خان.87-90-102-147-149.نکی.شیخ عبدالوہاب صاحب کی والدہ).70-73.نند کشور - 47.نواب - 219.نواب.168.نواب بیگم.148.159.نواب محمد ولی.173.نور احمد چوہدری.109 -129.143.نجابت علی خاں ( کرسی نشین ) - 77-78-79-146-164 نورالحق : مولوی - 290.-166-165 نجم الدین (رئیس میرٹھ ).215.نور احمد حافظ - 346-347.نوراحمد : شیخ.391.نذیر احمد: چوہدری ( چوہدری مراد بخش صاحب کے بیٹے ) - 135 - نورالدین حکیم مولوی ( حضرت خلیفتہ امسیح الاول )295-339 138-136 نذیر حسین دہلوی: مولوی - 177 - 392.382.378.377.351.449.438.433.400.450.453.468.

Page 549

18 ساری خوبیاں وحدت میں ہیں.455.اعانت سکول کے لئے.چندہ.473.نورالدین : بابو.407.نور النساء- 13 - نور محمد.260.نور محمد : چوہدری.132.نور محمد : شیخ 195.ہادی حسن.164.ہاشم علی.476.0 مڈلٹسن : میجر جنرل-210-213-269- پر کیشن داس.کپورتھلہ کی مسجد کی مسجد کا فیصلہ.421.نقل فیصلہ مسجد کپور تھلہ - 422.ہلو خاں.168.نیاز بیگ مرزا - 22 - ہنری مارٹن کلارک: ڈاکٹر.388-390-391-412.نیاز محمد شیخ - 240 نیاز محمد ملک.414.نیوی.چوہدری مولا بخش صاحب کی المیہ ) 160 - وحید - 217.و ہمایوں بخت : قاضی.204.ی یعقوب بیگ : ڈاکٹر مرزا.21-22-228-255-256.-454-407-268 یعقوب علی عرفانی: شیخ _20_40_109 - 110-191.وزیر محمد.167 -481.ولی اللہ شاہ - 326-330-410- ولی اللہ شاہ ( ناظر امور عامه )-442.ولی محمد.153 - ولی محمد خاں.168.314.310.303.301.299.290.251.241.221 407.384.358.338.336.334.332.323.317.502.495.488.487.474.446.443.438.435.یعقوب علی قاضی.( قاضی اشرف علی صاحب کے والد ) - 201.یوسف بیگ : خواجہ - 393-394

Page 550

19 مقامات آگرہ.202-210-486.بازید خیل.207.باغبانپورہ.122.اٹاری.196.اٹا وہ.204 اٹک.13.15.احمد نگر.150.ار مٹر مانڈہ.13.اسلام آباد.486.افغانستان-80.افریقہ - 68-175-290-357-481- امرتسر -1-2-4-103-105 - 106-108-114.388.380.363.362.354.328.249.185..478.436.409.408.395.393.392.390..502.484.479 امروہہ.270.امریکہ.458.457.434.378.375.290.80.4.476.467.464.463.462.460.459.انبالہ 41-57.اندور.214.انڈیمان - 412.انگلستان-4-80-180-472-476-477-490.اودھ.306-280-431-494.اوڑ.103.اوکاڑہ.129.بہو گام.204.بٹالہ -1-9-14-20-28-40-79-83-204.-376-356-278-251-250-249-241-223 -409-408_407-390-388 برلن.7.-486-210-10- بریلی.486.بسراواں.80.247.بصرہ.4.10.بغداد -4-10-201.بقا پور.220-221-224.بکٹ گنج.207.بکھلور.97.بلوچستان.174-365.بمبئی -7-11-210-380-400-459-460.بنارس.210.بن باجوہ.179.-415-409-133-120-116-107-97- -496-494 بنوڑ.41-42-63-65-70-72- بوڑھانہ.306-307.بھارت -289-499.

Page 551

20 20 بہاولپور.177.بہلولہ - 180.بھڑ یار.6.بہرانچی - 431-432- بہرام - 481.بھلوال - 180-182-432.بھوانی.155.بھوپال.307-308.بھو گام.201.بھیرہ - 10-363.بھیں.52-83-137.بیرسیال - 246.بیرم پور.120 - بیگم پور.120-234.بیگووال-296-339-408.پورٹ بلیئر.486.ہونا.10.پوہلہ مہاراں.183.پھالیہ.89.پھلواڑہ.408.403.374.357.354.314.292.109.پاکستان -1-92-115-153-199-200-485.پائی خیل: موضع - 23.پٹھان کوٹ - 35.488.481.475.458.445.435.515.414.409.499.496.494.490.489.پھلور.408.415.494.پھیر و پیچی.198.ترکستان.455.تلونڈی داباں والی.1.ٹھیکر یوالہ - 272.ج - چ جالندھر-2-75-85-86-95-97_103 - 118-120 - |-144-142-136-135-129-128-127-125 170-169-168-163-160-158_153-151 -338-317-246-245-234-233-171 408.403.397.387.386.385.354.341.340.494.481.462.459.415.414.پٹیالہ -41-43-50-57-62-70-72-175-232 | جاؤ لہ.160.-474-403-365-233 پٹیالہ ساہیاں.182.پرگنہ.350.جرمن - 458.جڑانوالہ - 138-143 - 149 - جگت پوره - 1 - پشاور.9-13-14-16-17-18-19-20-205.جموں.356-380-400-403.-380-209-208-207 پنام -97-120-172 - جنڈیالہ.390.جوالا پور 58.پنجاب.101-103 - 174-206-372-380-395 | جوہی.121.-469 جھانسی.210-211-214_216.

Page 552

21 -486-263-262-211-188-185-22-21- جھنگ.174-176.جھنگی - 259.جیکب آباد.486.چارسدہ-209.چاہ دو ہر ٹہ.164.چک چٹھہ - 220 چکوال.408.چنگا بنگیاں - 233 چورہ شریف: موضع - 15 - چوہدری والہ.241.چھمال.1.ح - خ حاجی پور.369.358.357.354.314.308.292 در گئی.206 د.ڈ مشق -462-469-470 - دوالمیال-232.دوسوہہ.120-121.-369-368-365-339-176-175-23-s 419.416.411.410.409.407.406.375.371..486.دیوبند.327.ڈلہ موضع.264.ڈلہوزی.35-106.ڑھئی.193.ڈھینگ.65.217.208.124.121.103.19.18.10.404.403.396.389.386.385.382.375.374..300.229 445.437.435.432.431.515.414.409.405.140_90488.485.481.476.474.472.471.462.459.را ہوں.2-75-87-103-120-131-133 -.499.497.496.494.491.490.حافظ آباد.220.حسن پور کلاں - 132 - حصار 24.حضرو.13.حمید پور.221-225.حیدر آباد - 309 خوشاب - 177-363-364.خان پور.232.-496-170-143 -166_150_93-74_47_40_39-28-21-0% -265-244-235-209-195-175-174-171- -495-486-413-409-377 رسالپور.108.رنگون - 210 ریواڑی.173.روہڑی.236.

Page 553

22 22 س.ش سراوه-306-307-318-328-350.سرحد - 174-207-209.سرگودھا.113 - 168 - 174 - 177-179 -182 -183 - -432-240-233-231-230-228-225- سرہند شریف.233-403.شیخوپورہ - 196 - شیرانوالی.300.صاحبہ - 120 - صغیر وال.159.ص - ط - ع طغل والہ.184-187 - 195.طور - 205-207-208- عرب.373-493.علی پور کھیڑ ا.201-202.204.علی گڑھ -23-342.-129-123-120-109-99-97-89-88-9 -172-171-170-169-167-163-143-140 سکرنڈ.233.سکندر.211.سلطان پور.210.سلوہ 126.-233-232-231-218-174-121-68-in -499-240-236-235-234 سوڈان.210-213.سہارن پور.175-306-351-352.ف - ق فتح گڑھ.196-222.فیروز پور.1.فیصل آباد.485.سیالکوٹ.1.179 - 180 - 181-182-183 - 210 - قادیان 2 - 3-4-5-7-9-11-13-14-16.32-29-28-24-23-22-21-20-19-17- -68_65_64-60-53-52-51-38-37-36- 88-87-84-83-82-81-79-72-71-70-69- -104-103-102-99-98-97-96-92-89 |-126-125-122-117-111-110_107-106- |-141-140-139-138-137-135-132-129- |-171-164-163-160_156_155_154-142- -188-187-186-185-184_182-180-172- -200-199-198-197-196-195-193-189_ |-221-216-214-211-207-206-204-201 -365-338-277-271-262-260-212-211- -502-416-403-300-387-380 سیکھواں : موضع.408.شامت پور.208.شا سکی.196.شاہ پور.364.شاہجہاں آباد.170.شاہدرہ - 196 - 197 - شکر گڑھ.1.شکوہ آباد - 204.

Page 554

23 23 247-24-244-231-230-228-223-222 - کپورتھلہ قادیان کا ایک محلہ.502/403.268-266-262-259-251-249-248 269 - نقل فیصلہ عدالت بابت مسجد کپورتھلہ - 422.-2-343.342.337.297.296.290.289.278.270.-221-374.369.359.358.357.356.355.354.344.کراچی.11.217-440-486.کرتار پور.131 - 171-173-354-409.406.403.400.399.397.387.380.378.375.429.428.427.425.423.419.415.408.407.-95-93-91-90-89-88-87-84-82-75-456.455.444.440.438.436.432.431.430.-111-110-107-105-104-102-101-100- 486.484.480.478.476.475.469.459.457.-164-163-160-159-158-156-155-112- -245-179-170-169_168-167- 502.501.496.490.قلعہ راجکو رو.180.حضرت اقدس کو جذامی کہنے والے کا انجام.86.احمد یہ سکول کر یام کا اجراء.96.ایک امریکن پادری سے مباحثہ.98.کریم پور.197 - 129 - کر کریہ.102-120-156.لگیری.97.کشمیر.365-380.کلکتہ.234-413.کابل.394-461.-132-120-109_99_97_906 -170_167-149_148 کالوخورد.13.کپورتھلہ -5-70-287-296-297-299-300- کماں کھرالہ.162..313.312.311.309.308.307.305.302.301 کنجڑوڑ دتاں.1.-118-6 336.332.331.330.329.328.318.317.314 2352.350.349.342.341.340.339.338.337.-407-380.379.374.373.367.365.359.358.354.-272-271-270-269-213-210-400.398.396.395.387.385.383.382.381.10- 424.423.421.419.418.416.409.408.405.-328-462.459.447.446.445.438.431.426.425.-245-497.489.486.485.484.475.474.471.466.کھرل خورد - 123 -.501.

Page 555

24 459.444.419.417.415.413.411.410.409.| -494.کیتھاں.120.کیٹری موضع.65.کیمبل پور.13.گجرات.10-65-89-115-156-182-262- گڑھ شنکر 79-97_118-120-170 - گنا چور.120.گوجرانوالہ - 180-220-221-225.گورداسپور -1-21-83-182-246-249-259.-479-436-407-406-403-388-365 گوگیرہ.138.گوکھووال.232.لکسر.56.لکھنو.400.لکھن وال.182.لکھو گے.174-178-394.لندن 181-193 -390265-458-462_476-477 - -479 لنگڑوعہ.97-136-138-170- لونڈ خور.209.لو ہارو.173.الویر یوالہ - 180 - لاڑکانہ.121-235.لالہ موسیٰ.262.مالا کنڈ 13-206- مالیر کوٹلہ.493.لائل پور.( فیصل آباد ) - 111 - 130-138-143 - 144 - مانسہرہ.234.132-193-189-184-172-163-161-159-148 -403-232 مجوکہ.177-179 - لاہور - 3-4-6-9-11-22-28-29-31-32.مدراس - 486.مد و گول - 1 - مدینہ منورہ - 394.-120-74-71-47-40-39-37-36-35 -230-221-197-196-183-178-170 مرالی والہ.221-224.-372-371-362-261-251-249-244 -209-208-207-206-205-0-455-409-408-406-400-394-380-375 مسقط - 486.-486-479-478 لدھیانہ.41-47-56-57-74-77-159-162.مصر 462.-306 336-312-300-249-245-241-221-175_ -209-208-207-205-1363.359.353.352.351.348.346.343.341.-440-394-380-343-197-197-216408.401.399.386.384.380.374.365.364.

Page 556

مکند پور.97.ملیریاں.98-133.مگرا.25 |-149-138-136-133-131-126-125-124- -496-245-172-171-164-160_ نند پور.65.0 - 9 ملتان -23-143 - 164-166-196-211-486 - نور حل.149.ملکانہ.114-132-156-183-192-201-472.نوشہرہ.16-206- ملکے والا.183.واہ فیکٹری.15.وزیر آباد - 225-262.وہاڑی.66.ہر چووال.132-188.مندرا.221.مہو.213-216.میر پور.407.میانوالی.10-24.میر پور خاص.218.ہر دوار -56-57-58- میرٹھ.214-215-306-307-318-328-440.ہشت نگر.209.میسور 365.مین پوری.201.ہندوستان - 210-211-231-326-327-333.-502-469-395 ہشیار پور.76-90-91-103-118-120-123 - نارووال.172.نرائن گڑھ.143.نواب شاہ.233.|-223-170-169-167-154-140-128-.127 ی یو - في - 306 یورپ - 375-378-434-457-460-462-463- -493-490-484-467-464| -123-121-118_111_109_102_97-

Page 556