Language: UR
حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1949ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ میں فرمایا : ‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : <span class="quranic">اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ</span>۔ عام طور پر اس کے یہ معنی کئے جاتے ہیں کہ مُردوں کی برائی بیان نہیں کرنی چاہئے وہ فوت ہوگئے ہیں اور ان کامعاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے۔ یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن درحقیقت اس میں قومی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے<span class="quranic"> اُذْکُرُوْا مَوْتیٰ بِالْخَیْرِ</span> نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے<span class="quranic"> مَوْتَاکُمْ</span> کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی اپنے مُردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو۔ جس کے معنی ہیں کہ آپؐ نے یہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔‘‘ اس ارشاد کی روشنی میں محترم ملک صلاح الدین صاحب نے ’’اصحاب احمدؑ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کیا جس میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے مختصر حالات شائع کئے جاتے تھے۔ رسالہ کانام حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے نے تجویز فرمایا تھا۔ بعد ازاں بزرگانِ سلسلہ کی تجویز پر ان سوانح کو مفصل اور کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1955ء کے جلسہ سالانہ میں آپ کی اس خدمت کاذکر کرتے ہوئے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور بعض ضروری نصائح فرماکر احباب جماعت کوصحابہ کرام کے حالات زندگی اور تاریخ کے متعلق ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ درجنوں صحابہ کے ابتدائی تعارف پر مشتمل زیر نظر یہ مجموعہ 12 جلدوں پر محیط ہے جو دیدہ زیب ٹائپ شدہ ہیں اور قریبا اڑھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مفید سلسلہ کتب میں معزز مرحومین کی تصاویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بعض جگہ ضروری نقشے اور وضاحتی خاکے بھی بناکر شامل کئے گئے ہیں۔ صحابہ کی خود نوشت تحریرات یا مطبوعہ مواد پر مصنف کتاب کے شامل کردہ حوالہ جات اور ضروری وضاحتی حواشی نے کتاب کی افادیت کو اور بڑھا دیا ہے اور بلاشبہ یہ صرف صحابہ کے حالات زندگی ہی نہیں بلکہ جماعت احمد یہ کی تاریخ کا اہم ذخیر ہ ہے اور مصنف کی طرف سے جماعت کی ابتدائی تاریخ کا قیمتی خزانہ محفوظ کرنے کی ایک نہایت ہی قابل قدر سعی ہے۔
وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمعة) وَمُبَشِّر ابرَسُولٍ يَّأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ (الصَّف) مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی ئے ان کو ساقی نے پلادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أُخْرَى الْآعَادِي اصحاب احمد جلداول تصنیف ملک صلاح الدین ایم.اے ( حضرت مسیح موعود ) ناظر تعلیم وتربیت و سیکرٹری بہشتی مقبره صدرانجمن احمد یہ قادیان باہتمام شیخ محمد اسماعیل پانی پتی در مطبع گیلانی لا ہور طبع شد ۱۹۵۱ء
1 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمُدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ عرض حال احباب کرام! حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ روحی وابی واقی ) کے صحابہ کرام کو جو مقام حاصل ہے.کسی سے مخفی نہیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کی ابدی خوشنودی کی سند عطا فرمائی.نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَ يُتُمُ یعنی میرے اصحاب کی مثال ستاروں کی سی ہے.کہ ان میں سے جس کی بھی پیروی کی جائے ہدایت کا موجب بنے گی.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس پاک گروہ کے ایک حصہ کے آخری زمانہ میں پیدا ہونے کا ذکر فرمایا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں : ”ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبعث ہیں.اور اس پر نص قطعی آیت کریمہ وَآخَرِينَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ہے.تمام اکابر مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس اُمت کا آخری گروہ یعنی مسیح موعود کی جماعت صحابہ کے رنگ میں ہوں گے.اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح بغیر کسی فرق کے آنحضرت صلعم سے فیض اور ہدایت پائیں گے.پس جب کہ یہ امر نص صریح قرآن شریف سے ثابت ہوا.کہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض صحابہ پر جاری ہوا.ایسا ہی بغیر کسی امتیاز اور تفریق کے مسیح موعود کی جماعت پر فیض ہوگا.تو اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور بعث ماننا پڑا.جو آخری زمانہ میں مسیح موعود کے وقت میں ہزار ششم میں ہوگا.‘لے دراصل بعض مجبوریوں اور موانع کی وجہ سے ہم صحابہ حضرت مسیح موعود رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حقیقی قدر کے مناسب رنگ میں اظہار سے قاصر رہے.بعض اوقات ہم عصر ہونا بھی حقیقی قدر کے پہچاننے میں ایک بڑی روک بن جاتا ہے.نیز صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات منضبط اور مدون ہو کر ہمارے سامنے موجود ہیں.لیکن صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ابھی یہ صورت نہیں.اور دراصل فقدانِ نعمت سے ہی نعمت کی قدر زیادہ نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ جو صحابہ اب وفات پاچکے ہیں.ان کی خوبیاں
2 زیادہ روشن معلوم ہوتی ہیں.یہ نسبت زندہ صحابہ کے.صحابہ حضرت رسول کریم صلم کو مشیت الہی سے کثرت کے ساتھ ایسے ظاہری ونمایاں مواقع جانی قربانی کے میسر آئے جن سے ان کی شاندار ایمانی حالت کا اظہار ہوا.لیکن موجودہ زمانہ کے حالات مختلف ہونے کی وجہ سے نہ جانی قربانی کے مواقع صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کثرت سے پیش آئے اور نہ ہی ان کے ایمانوں کا اس رنگ میں اظہار ہوا.ہاں شاذ کے طور پر جو واقعات پیش آئے ان میں خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ نے بھی کم شاندار نمونہ نہیں دکھایا.بلکہ پورے زور سے کہا جا سکتا ہے کہ آخَرِينَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کی عملی تصویر دنیا کے سامنے آ گئی.حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب شہید اور حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب شہید رضی اللہ عنہما کا ذکر اس امر کے ثبوت کے لئے کافی ہوگا.موجودہ وقت میں جبکہ ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت سے صحابہ بقید حیات ہیں.صحابہ اور غیر صحابہ کا جماعت میں امتیاز نہیں.اس لئے ان کی خصوصیات نمایاں نہیں.لوگوں کے ذہن پر یہ اثر ہے کہ صحابہ آنحضرت صلعم کی تعریف تو اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے اور صحابہ حضرت مسیح موعود کی نہیں.اس لئے ان دونوں گروہوں کی مماثلت نہ ہوئی.لیکن عدم مماثلت کا یہ خیال درست نہیں.۲ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے صحابہ کی تعریف کرتے ہوئے اور ان کی مماثلت صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہوئے بروز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتے ہیں: وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ہوگا.اس لئے اُس کے اصحاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کہلائیں گے.اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں.وہ اپنے رنگ میں ادا کریں گے.“ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کے ہر دو گروہوں کو ایک دوسرے سے شدید مشابہ اور مماثل قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ ان میں سے پہلی جماعت بہتر ہے یا دوسری.اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر بیالیس سال کا لمبا عرصہ گذر چکا ہے.صحابہ کرام کا دور بڑی تیزی سے گذر رہا ہے.ہمیں جو تا بعین کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں.ان پاک نفس وجودوں سے ابھی ایمان و عرفان اور عشق و وفا کے بہت سے سبق لینے ہیں.اور ہم پر اس تعلق میں گوناں گوں فرائض عائد ہوتے ہیں: اوّل یہ کہ ان پاک وجودوں کی درازی عمر کے لئے دعائیں کرتے رہیں.تا یہ مبارک دور بہت لمبا ہو جائے.د وسرے یہ کہ عشق و محبت کے جو جذبات صحابہ کرام کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے
3 براہ راست فیضان سے متموج ہوئے وہی احساسات و جذبات ہمارے قلوب میں بھی موجود ہونے چاہئیں اور ہمیں اس سنت اللہ سے ہمیشہ خائف رہنا چاہئے کہ اگر ہم صحابہ کے اچھے جانشین نہ بنے تو اللہ تعالیٰ کسی اور قوم کو ان کا قائمقام کھڑا کر سکتا ہے.پس بہت ہی مقام خوف ہے.کیا اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ کم احسان ہے کہ اس نے ہمارے ملک میں روحانیت کا چشمہ جاری کیا اور ہمارے ملک کو مرکز بننے کی سعادت کے لئے منتخب کر لیا.سواس نعمت کی قدر کرنی چاہئے تا کوئی اور قوم اس مقام ارفع کو اپنی زیادہ کوشش اور ہمت سے حاصل نہ کرلے اور ہم دون ہمتی اور غفلت سے اس انعام سے محروم نہ ہو جائیں.تیسرے ہم ان بزرگوں کے سوانح حیات محفوظ کرنے میں قاصر رہے ہیں اور بہت سا قیمتی حصہ ضائع ہو چکا ہے.اب ہمیں حتی الامکان اس کی تلافی کرنی چاہئے اس وقت جو کچھ شائع ہوگا.اگر اُس میں کوئی غلطی ہوگی تو موجودہ صحابہ سے اس کی تصحیح کی امید ہوسکتی ہے.لیکن یہ فائدہ بعد میں حاصل نہ ہو سکے گا.اس میں تو کوئی شک نہیں کہ صحابہ مسیح موعود کے حالات حیطہ تحریر میں لانے میں بہت بڑی کمی رہ گئی ہے.بطور مثال عرض کرتا ہوں کہ مولوی رحیم اللہ صاحب رضی اللہ عنہ ایسے بزرگوں میں سے تھے.جو جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شریک ہوئے.پھر وہ تین سو تیرہ صحابہ میں سے تھے.لیکن اُن کے سوانح لکھنے کے لئے جہاں تک میرے ذرائع اور کوشش کا تعلق ہے.مجھے بہت ہی کم معلومات حاصل ہوسکیں.ہمارے پرانے بزرگوں میں سے جو اس وقت تک زندہ ہیں.مکرم بھائی عبد الرحیم صاحب قادیانی درویش اور مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی درویش نے باوجود خود ۳۱۳۰ میں سے ہونے کے فرمایا کہ ہمیں مولوی صاحب موصوف کا علم تک نہیں.مکرم مفتی محمد صادق صاحب مقیم ربوہ نے تحریر فرمایا کہ مجھے مولوی صاحب کے متعلق کچھ بھی علم نہیں.اسی طرح ۳۱۳ صحابہ میں سے کئی ایک کا حال ہے.ایک صحابی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہی فوت ہوکر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.اُن کے حالات کا مجھے بسیار جستجو کے باوجود کچھ پتہ نہ لگ سکا.انہی کے گاؤں کے ایک بزرگ سے میں نے دریافت کیا.فرمانے لگے کہ میں اس دوست کو جانتا تک نہیں.میں نے عرض کی کہ مرحوم کی وصیت پر آپ کی شہادت درج ہے.فرمانے لگے مجھے اس نام کا اپنے گاؤں کا کوئی احمدی یاد نہیں پڑتا.احباب غور فرمائیں کہ جو بزرگ قدیم ترین صحابہ میں سے تھے اور بعثت سے قبل کے حضور کے پاس آنے والوں میں سے تھے اور جس شخص کے حالات میں نے اُن سے پوچھے وہ انہی کے گاؤں کا باشندہ تھا اور اس کی وصیت پر ان کی گواہی موجود ہے.جب ان کو اس شخص کا بھی کچھ علم نہیں تو اور کس سے حالات معلوم ہو سکتے ہیں.یہ تو ایسے صحابہ کا حال ہے جو بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں اور جن کے نیک سوانح کا ان کے کتبوں پر لکھنے کا ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
4 نے فرمایا تھا.یا جو ممتاز گروہ صحابہ " یعنی ۳۱۳ میں شمار ہوتے تھے.ایسے صحابہ جن کے حالات ہمیشہ کے لئے مستوررہ گئے ہیں.سینکڑوں کی تعداد میں ہیں.گو تقسیم ملک کے بعد کے حالات بہت مختلف ہو گئے اور بہت سے بزرگ صحابہؓ مثلاً سیّد عبداللطیف صاحب شہید.مولوی عبد الکریم صاحب.نواب محمد علی خاں صاحب.شہزادہ عبدالمجید صاحب مجاہد ایران.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مولوی شیر علی صاحب.پیر منظور محمد صاحب وغیر ہم رضی اللہ عنہم جن کے کافی حد تک مکمل حالات میں نے سالہا سال کی محنت سے اُن سے یا اُن کے اقارب اور دوسرے صحابہ سے جمع کئے تھے.بفضلہ تعالیٰ فسادات کی نذر ہونے سے بچ گئے لیکن چونکہ وہ حالات بروقت قادیان میں نہیں پہنچ سکے.اس لئے ان میں سے کئی ایک کے حالات بھی جلد اول میں شائع نہیں کر اسکا.میں کچھ عرصہ اور انتظار کرتا لیکن دو امور میرے لئے اس تحریک کا باعث ہوئے کہ امسال ہی کتاب کی پہلی جلد شائع کر دوں.ایک تو یہ کہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ نے مجھے فرمایا تھا کہ جو کچھ میسر ہو اُسے جلدی سے شائع کردو.کامل ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس خیال میں نہ رہو کہ مکمل ہوں گے تب شائع کروں گا.آپ کا مطلب یہ تھا کہ جو کچھ معلومات حاصل ہوں شائع کر کے محفوظ کر دی جائیں.دوسری تحریک اس وجہ سے ہوئی کہ مجھے تجربہ ہوا ہے کہ صحابہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے مجھے بارہا عام اور رجسٹری خطوط بھیجنے پڑے.لیکن مجھے بہت سے احباب کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوئے.الفضل میں اعلان کروائے لیکن شاید ان میں جاذبیت نہ تھی.صرف دو دوستوں نے بعض بزرگوں کے حالات تحریر کر کے بھیجے.سو میں نے ارادہ کیا کہ بعونہ و توفیقہ اس جلسہ سالانہ پر جلد اول شائع کر دوں تا دوستوں کو تحریک ہو کہ اپنے بزرگوں کے حالات قلمبند کریں اور اس طرح ایک قیمتی خزانہ محفوظ ہو جائے.حضرت مسیح موعود کے متعدد صحابہ کا تذکرہ الحکم اور بدر کے فائلوں میں محفوظ ہے.اور بلا شبہ وہ حالات نہایت قابل قدر ہیں اور میں نے اُن سے پورا فائدہ اٹھایا ہے.لیکن اس سلسلہ میں مستقل کتابوں کی تعداد حیرت انگیز طور پر کم ہے.اس موضوع پر میرے علم میں تذکرۃ الشہادتین کے علاوہ صرف ذیل کی کتب شائع ہوئی ہیں.اس فہرست سے ہی اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہم نے اس اہم کام کی طرف کتنی توجہ دی ہے :.ا.واقعہ ناگزیر (سائز ۲۶×۲۰ صفحات (۳۶) مطبوعہ نومبر ۱۸۹۸ء مطبع انوار احمد یہ قادیان با اهتمام شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی (مالک مطبع) یہ ایک مختصر سی کتاب سید فصیلت علی شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے حالات میں سید حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے شائع کی.سید فصیلت علی شاہ صاحب کی وفات ۵ ستمبر ۱۸۹۸ء کو واقع ہوئی.آپ اپنے مولد موضع مالو مجھے علاقہ پسرور ضلع سیالکوٹ میں اپنے بزرگان کی درگاہ میں مدفون ہوئے.آپ
5 کو ان معدودے چند بزرگوں کی طرح یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ آپ جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہوئے اور پھر ۳۱۳ صحابہ میں بھی شمار ہوئے.اس کتاب کو اس موضوع کی کتابوں کے سلسلہ میں اولیت کا درجہ حاصل ہے.اور اسے یہ بھی خصوصیت حاصل ہے کہ یہ عہد مبارک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں طبع ہوئی.۲- تحدیث نعمت بزبان ناصر: (نوشته ۲۲ جون ۱۹۱۲ء) یہ بہت ہی مختصر رسالہ ہے جو افسوس ہے مجھے دستیاب نہیں ہو سکا.یہ حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کے خسر حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی رضی اللہ عنہ کا خود نوشتہ تذکرہ ہے.حضرت میر صاحب ۳۱۳ صحابہ میں سے ہیں اور سب سے بڑی فضیلت آپ کو یہ حاصل ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی يَتَزَوْجُ وَ يُولَدُ لَهُ کے پورا کرنے کا ذریعہ آپ کی مبارک صاحبزادی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ام المومنین (متعنا الله بطول حياتها ) ہوئیں.جنہیں اللہ تعالیٰ نے خدیجہ قرار دیا ہے اور جن کے مشکوئے معلی سے اللہ تعالیٰ نے مبشر اولا دعطا کی جو بے شمار پیشگوئیوں کی حامل ہے.اور جن کے ذریعہ سے ابناء فارس کے متعلق پیشگوئی کے ظہور کو استقلال حاصل ہوا.حضرت میر صاحب ۱۹ دسمبر ۱۹۲۴ ء کو فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں آرام فرماتے ہیں.اسے پہلا خود نوشت تذکرہ ہونے کی اولیت حاصل ہے..مرقاة اليقين في حيرة نور الدين": ( سائز ۳۲ ۲۰ صفحات ۲۷۲ مطبوعه میگزین پریس قادیان ۱۳۳۱ھ ) مؤلفه ومرتبہ اکبر شاہ صاحب نجیب آبادی.اس میں حضرت خلیفہ مسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے خود لکھے ہوئے حالات ہیں.لیکن یہ سیرت نہیں کیونکہ اپنی سیرت کوئی شخص خود نہیں لکھوا سکتا.دوسرے ہی لکھ سکتے ہیں.اس کتاب کا دوسرا اڈیشن احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے حال میں شائع کیا ہے.اس کی تقطیع بھی وہی ہے جو پہلی کتاب کی تھی اور صفحات کی تعداد بھی ۲۷۲ ہے.۴.حیات ناصر : (سائز ۲۰۲۲ صفحات (۹۶) مطبوعہ دسمبر ۱۹۲۷ء در انقلاب سٹیم پریس لاہور، مشتمل Λ برسوانح حیات حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی رضی اللہ عنہ.اس کتاب کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس موضوع پر یہ سب سے پہلی کتاب ہے کہ جس میں کسی صاحب تذکرہ کی تصویر درج کی گئی ہے.یہ تصنیف سلسلہ عالیہ احمدیہ کے پرانے خادم اور مصنف مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے رشحات قلم کا نتیجہ ہے.اس میں شیخ صاحب موصوف نے حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کے مختصر رسالہ تحدیث نعمت بزبانِ ناصر“ کو بھی جس کا ذکر ہو چکا ہے.شامل کر دیا ہے.
6 ۵.افضال ذوالجلال بر خاندان مظہر جمال : یہ مکرم حکیم مولوی محمد عبید اللہ صاحب بہل کی خود نوشت سوانح عمری ہے جو حضرت مرحوم کے فرزند مظہر اللہ صاحب نے ان کی زندگی میں شائع کی تھی.مجھے نہیں مل سکی.آپ ۲۹/۹/۳۸ کو فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.سوانح حیات مولوی فضل الدین صاحب : ( تقطیع ۲۲۸۱۸ صفحات ۳۳) آپ حیدر آباد دکن میں Λ مبلغ ہیں.یہ کتاب علی محمد الہ دین صاحب ایم اے ( ایڈنبرا) نے تاج پر لیس چھتہ بازار حیدر آباد دکن ۲۲ فروری ۱۹۵۰ء کو شائع کی.ے.میری والدہ سائز ۳۰۲۲۰ صفحات ۱۲۸ مطبوعہ اللہ بخش سٹیم پر لیس قادیان دسمبر ۱۹۳۸ء ) اس کتاب میں 17 آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب بالقابہ نے اپنی والدہ ماجدہ حسین بی بی صاحبہ بنت چوہدری الہی بخش صاحب با جوه سکنه دا تازید کا ضلع سیالکوٹ (وفات ۶ امئی ۱۹۳۸ء مدفونہ قطعہ خاص بہشتی مقبرہ ) کے سوانح حیات بالتفصیل رقم فرمائے ہیں.فصل محمر یہ کتاب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی حیات طیبہ کے متعلق غائبا ۱۹۳۹ء میں مکرم صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی اے نے بزبان انگریزی شائع کی ہے.جو بہت مفید ہے.مجھے دستیاب نہیں ہوسکی.۹.سیرت حضرت ام المومنین : ( سائز ۲۲۰ ۳۰ جلد اول صفحات ۴۶۴- مطبوعه یکم دسمبر ۱۹۳۳ء در انتظامی پریس حیدر آباد دکن.جلد دوم صفحات ۴۳۲ مطبوعه ۲۵ جولائی ۱۹۴۵ء در انتظامی پریس حیدر آباد دکن ) یہ کتاب سیرت حضرت اُم المومنین اطال اللہ بقاء ھا پر مشتمل ہے اور بہت مفصل ہے.حصہ اول شیخ محمود احمد صاحب عرفانی من مرحوم نے تالیف کیا تھا اور دوسرے حصہ کو ان کی وفات کے بعد ان کے والد ماجد نے مرحوم کی یادداشتوں اور نوٹوں سے مرتب کیا.۱۰.حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد (صفحات ۵۸ سائز ۲۲۰ ۳۰ مطبوعہ گیلانی الیکٹرک پریس لاہور دسمبر ۱۹۴۴ء) حضرت خلیفۃ السیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سوانح حیات کے متعلق یہ مختصر لیکن بہت ہی اہم کتاب این.بی سین مینیجنگ ڈائریکٹر نیو ٹک سوسائٹی لاہور کی درخواست پر آنریبل چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خاں صاحب نے پہلے انگریزی میں تحریر کی تھی.پھر نیوٹک سوسائٹی لاہور نے اسے اردو میں بھی شائع کرنا مناسب سمجھا.فاضل مصنف نے اُردو میں ترجمہ کرتے ہوئے بعض مقامات کی مزید تشریح کر دی ہے.اور آخر پر پبلشر نے بطور ۱۶
7 تتمہ حضور کی تقریروں کے اقتباسات تمھیں صفحات میں درج کر دیئے ہیں.ا.حیات صادق کبیر : ( تقطیع ۲۳۰ ۳۰ صفحات ۱۶ مطبوعہ ابراہیم پریس لکھنؤ ) یہ کتاب حضرت مفتی محمد صادق ۱۶ صاحب کی سوانح عمری ہے جو کہ مرزا کبیر الدین احمد صاحب نے لکھنؤ سے ۱۹۴۲ء میں شائع کی تھی.۱۲.صادق بیتی ( تقطیع ۲۰×۳۰ صفحات ۲۸ مطبوع کو اپر یو کیپیٹل پرنٹنگ پریس لاہور ) حضرت مفتی محمد صادق 17 ۱۶ صاحب کے حالات میں یہ مختصر رسالہ مشتاق انگر صاحب لکھنوی نے ۱۹۴۶ ء میں شائع کیا تھا.۱۳ لطائف صادق ( تقطیع ۳۰۲۳۰ صفحات ۱۴۴ مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان) یہ کتاب حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی تبلیغی سوانح عمری ہے جسے مکرم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی نے مرتب کر کے ۱۹۴۶ء میں شائع کیا تھا.اس میں وہ تبلیغی مباحث درج ہیں جو حضرت مفتی صاحب کو ہندوستان، یورپ اور امریکہ میں ہندوؤں، یہودیوں، عیسائیوں اور دہریوں سے وقتا فوقتا پیش آئے.بہت ہی پُر لطف اور دلچسپ کتاب ہے.اب تک ان چند کتابوں کے شائع ہو سکنے سے سیر صحابہ کے متعلق لٹریچر کی شدید قلت ظاہر ہے.لہذا ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم ان بزرگوں کی قدر پہچانتے ہوئے ان کے حالات محفوظ کرنے کی طرف توجہ دیں.یہ عہد جس میں دجال جیسا عظیم فتنہ ظاہر ہوا.جس سے تمام انبیاء اپنی اپنی جماعتوں کو ڈراتے رہے.ایک نہایت اہم زمانہ ہے.اس زمانہ میں جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کیا ان کے ایمان و اخلاص کی عظمت کا اظہار مستقل طور پر ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: رض مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی کے ان کو ساقی نے پلا دی فسبحان الذي اخزى الاعادي اسی طرح حضور علیہ السلام ڈاکٹر عبد الحکیم کے جواب میں فرماتے ہیں: ”آپ کہتے ہیں کہ صرف ایک حکیم مولوی نور الدین صاحب اس جماعت میں عملی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں.دوسرے ایسے ہیں اور ایسے ہیں.میں نہیں جانتا کہ آپ اس افترا کا کیا خدا تعالیٰ کو جواب دیں گے.میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ بچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں.میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیروان سے جو
8 ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزار ہا درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہرہ پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں.ہاں شاذ و نادر کے طور پر اگر کوئی اپنی فطرتی نقص کی وجہ سے صلاحیت میں کم رہا ہو تو وہ شاذ و نادر میں داخل ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے.یہ بھی ایک معجزہ ہے.ہزارہا آدمی دل سے فدا ہیں.اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دستبردار ہو جاؤ تو وہ دستبردار ہو جانے کے لئے مستعد ہیں.پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں.اوران کی نیکیاں ان کونہیں بناتا.مگر دل میں خوش ہوں.“ سے اس بارہ میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: لوگوں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کے ابتدائی ایام میں آپ پر ایمان لائے، آپ سے تعلق پیدا کیا اور ہر قسم کی قربانیاں کرتے ہوئے اس راہ میں انہوں نے ہزاروں مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں.ان کی وفات جماعت کے لئے کوئی معمولی صدمہ نہیں ہوتا.میرے نزدیک ایک مومن کو اپنی بیوی اپنے بچوں اپنے باپ اپنی ماں اور اپنے بھائیوں کی وفات سے ان لوگوں کی وفات کا بہت زیادہ صدمہ ہونا چاہئے.پس ایسے لوگوں کی وفات ایک بہت بڑا اور اہم مسئلہ ہوتا ہے اور ان لوگوں کے لئے دعا کرنا ان پر احسان کرنا نہیں ہوتا.بلکہ اپنے اوپر احسان ہوتا ہے.کیونکہ جو شخص ان لوگوں کے لئے دعا کرتا ہے.خدا تعالیٰ اس کا بدلہ دینے کے لئے اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس دعا کرنے والے کے لئے دعا کریں اور یہ بات تو ظاہر ہی ہے کہ تمہاری دعا سے خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی دعا زیادہ سنی جائے گی.حدیثوں میں آتا ہے کہ جب کوئی مومن نماز میں اپنے بھائی کیلئے دعا کرتا ہے تو اس وقت وہ اپنے لئے دعا سے محروم نہیں ہوتا.بلکہ اس وقت فرشتے اس کی طرف سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جو کچھ خدا تعالیٰ سے وہ اپنے بھائی کے لئے مانگتا ہے اور کہتا ہے کہ خدایا اسے فلاں چیز دے وہی دعا فرشتے اس کے لئے مانگتے ہیں اور کہتے ہیں یا اللہ ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ تو اس دعا کو مانگنے والے کو بھی وہ چیز دے جو یہ اپنے بھائی کے لئے مانگ رہا ہے.
9 میں آج کا خطبہ بھی اسی مضمون کے متعلق پڑھنا چاہتا ہوں اور جماعت کے دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ابتدائی زمانہ میں خدمات کی ہیں ایسی ہستیاں ہیں جو دنیا کے لئے ایک تعویذ اور حفاظت کا ذریعہ ہیں.چونکہ یہ مغربیت کے زور کا زمانہ ہے اس لئے لوگ اس کی قدر نہیں جانتے اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ کا کس طرح یہ قانون ہے کہ پاس کی چیز بھی کچھ حصہ ان برکات کا لے لیتی ہے.جو حصہ برکات کا اصل چیز کو حاصل ہوتا ہے.قرآن کریم نے اس مسئلہ کو نہایت ہی لطیف پیرایہ میں بیان فرمایا اور لوگوں کو سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں.یہ بات تو ظاہر ہی ہے کہ نبی کی بیویاں نبی نہیں ہوتیں پھر ان کو مومنوں کی مائیں کیوں قرار دیا گیا ہے.اسی لئے کہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر برکات لے کر آتے ہیں ان کے ساتھ گہرا تعلق رکھنے والا انسان بھی کچھ حصہ ان برکات سے پاتا ہے جو اُ سے حاصل ہوتی ہیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب کبھی بارش نہیں ہوتی تھی اور نماز استسقاء ادا کرنی پڑتی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طرح دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے خدا پہلے جب کبھی بارش نہیں ہوتی تھی اور ہماری تکلیف بڑھ جاتی تھی تو ہم تیرے نبی کی برکت سے دعا مانگا کرتے تھے اور تو اپنے فضل سے بارش برسا دیا کرتا تھا.مگر اب تیرا نبی مہم میں موجود نہیں.اب ہم اس کے چچا حضرت عباس کی برکت سے تجھ سے دعا مانگتے ہیں.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی تو ابھی آپ نے اپنے ہاتھ نیچے نہیں کئے تھے کہ بارش برسنی شروع ہو گئی.اب حضرت عباس خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی عہدے پر قائم نہیں کئے گئے تھے.ان کا تعلق صرف یہ تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے اور جس طرح بارش جب برستی ہے تو اس کے چھینٹے ارد گرد بھی پڑ جاتے ہیں.بارش صحن میں ہو رہی ہوتی ہے تو برآمدہ وغیرہ بھی گیلا ہو جاتا ہے.اسی طرح خدا کا نبی ہی اس کا نبی تھا.مگر اس سے تعلق رکھنے والے اس کی بیویاں اس کے بچے اس کی لڑکیاں اس کے دوست اور اس کے رشتہ دارسب ان برکات سے کچھ نہ کچھ حصہ لے گئے جو اس پر نازل ہوئی تھیں.کیونکہ یہ خدا کی سنت اور
10 اس کا طریق ہے کہ جس طرح بیویاں بچے اور رشتہ دار برکات سے حصہ لیتے ہیں.اسی طرح وہ گہرے دوست بھی برکات سے حصہ لیتے ہیں جو نبی کے ساتھ اپنے آپ کو پیوست کر دیتے ہیں.یہ لوگ خدا کی طرف سے ایک حصن حصین ہوتے ہیں اور دنیا ان کی وجہ سے بہت سی بلاؤں اور آفات سے محفوظ رہتی ہے.مجھے جو شعر بے انتہاء پسند ہیں ان میں سے چند شعر وہ بھی ہیں جو حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے وقت ایک مجذوب نے کہے.تاریخوں میں آتا ہے کہ حضرت جنید بغدادی جب وفات پاگئے.تو ان کے جنازہ کے ساتھ بہت بڑا ہجوم تھا اور لاکھوں لوگ اس میں شریک ہوئے.اس وقت بغداد کے قریب ہی ایک مجذوب رہتا تھا.بعض لوگ اُسے پاگل کہتے اور بعض ولی اللہ سمجھتے.وہ بغداد کے پاس ہی ایک کھنڈر میں رہتا تھا.کسی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا.اور نہ لوگوں سے بات چیت کرتا.مگر لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جب جنازہ اٹھایا گیا تو وہ بھی ساتھ ساتھ تھا.راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا وہ نماز جنازہ میں شریک ہوا.قبر تک ساتھ گیا اور جب حضرت جنید بغدادی کو لوگ دفن کرنے لگے تو اس وقت بھی وہ اسی جگہ تھا.جب لوگ حضرت جنید بغدادی کو دفن کر چکے تو اس نے آپ کی قبر پر کھڑے ہو کر یہ چار شعر کہے.وا اسفا على فراق قوم ہم المصابيح والـحـصـــون والمدن و المزن و الرواسي والخير والامن و السكون لم تتغير لنا الليالي توفهم المنون فكل جمرلنا قلوب وكل ماء عيون اس کے معنے یہ ہیں کہ : ہائے افسوس ان لوگوں کی جدائی پر جو دنیا کے لئے سورج کا کام دے رہے تھے اور جو دنیا
11 کے لئے قلعوں کا رنگ رکھتے تھے لوگ ان سے نور حاصل کرتے تھے اور انہی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے عذابوں اور مصیبتوں سے دنیا کو نجات ملتی تھی.وہ شہر تھے جن سے تمام دنیا آباد تھی وہ بادل تھے جو سوکھی ہوئی کھیتیوں کو ہرا کر دیتے تھے.وہ پہاڑ تھے.جن سے دُنیا کا استحکام تھا.اسی طرح وہ تمام بھلائیوں کے جامع تھے اور دنیا اُن سے امن اور سکون حاصل کر رہی تھی.ہمارے لئے زمانہ تبدیل نہیں ہوا.مشکلات کے باوجود ہمیں چین ملا آرام حاصل ہوا اور دنیا کے دکھوں اور تکلیفوں نے ہمیں گھبراہٹ میں نہ ڈالا مگر جب وہ فوت ہو گئے تو ہمارے سکھ بھی تکلیفیں بن گئے اور ہمارے آرام بھی دُکھ بن گئے.پس اب ہمیں کسی آگ کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے دل خود انگارا بنے ہوئے ہیں اور ہمیں کسی اور پانی کی ضرورت نہیں.کیونکہ ہماری آنکھیں خود بارش برسا رہی ہیں.یہ ایک نہایت ہی عجیب نقشہ ایک صالح بزرگ کی وفات کا ہے.اور کہنے والا کہتا ہے یہ اشعار اس مجذوب نے کہے اور پھر وہ وہاں سے چلا گیا.جب دوسرے دن اس کھنڈر کو دیکھا گیا تو وہ خالی تھا.اور مجذوب اس ملک کو ہی چھوڑ کر چلا گیا تھا.تو یہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ کے انبیاء کی صحبت حاصل ہوتی ہے.یہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے انبیاء کا قرب رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ کے نبیوں اور اس کے قائم کردہ خلفاء کے بعد دوسرے درجہ پر دنیا کے امن اور سکون کا باعث ہوتے ہیں.یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ بڑے لیکچرار ہوں.یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ خطیب ہوں.یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ پھر پھر کر لوگوں کو تبلیغ کرنے والے ہوں.ان کا وجود ہی لوگوں کے لئے برکتوں اور رحمتوں کا موجب ہوتا ہے اور جب کبھی خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی نافرمانی کی وجہ سے کوئی عذاب نازل ہونے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس عذاب کو روک دیتا ہے اور کہتا ہے ابھی اس قوم پر مت نازل ہو کیونکہ اس میں ہمارا ایسا بندہ موجود ہے جسے اس عذاب کی وجہ سے تکلیف ہوگی.پس اس کی خاطر دنیا میں امن اور سکون ہوتا ہے.مگر یہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائے یہ تو اس عام درجہ سے بھی بالا تھے ان کو خدا نے آخری زمانہ کے مامور اور مرسل کا صحابی اور پھر ابتدائی صحابہ بننے کی توفیق عطا فرمائی اور ان کی والہانہ محبت کے نظارے ایسے ہیں کہ دنیا ایسے نظارے
12 صدیوں میں بھی دکھانے سے قاصر رہے گی.پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے نقش قدم پر جماعت کے دوستوں کو چلنے کی کوشش کرنی چاہئے.کہنے والے کہیں گے کہ یہ شرک کی تعلیم دی جاتی ہے.یہ جنون کی تعلیم دی جاتی ہے.یہ پاگل پن کی تعلیم دی جاتی ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ پاگل وہی ہیں جنہوں نے اس رستہ کو نہیں پایا اور اس شخص سے زیادہ عقلمند کوئی نہیں جس نے عشق کے ذریعہ خدا اور اس کے رسول کو پالیا.اور جس نے محبت میں محو ہو کر اپنے آپ کو ان کے ساتھ وابستہ کر دیا اب اُسے خدا سے اور خدا کو اس سے کوئی چیز جدا نہیں کر سکتی.کیونکہ عشق کی گرمی ان دونوں کو آپس میں اس طرح ملا دیتی ہے جس طرح ویلڈنگ کیا جاتا اور دو چیزوں کو جوڑ کر آپس میں بالکل پیوست کر دیا جاتا ہے.مگر وہ جسے محض فلسفیانہ ایمان حاصل ہوتا ہے.اس کا خدا سے ایسا ہی جوڑ ہوتا ہے جیسے قلعی کا نا نکا ہوتا ہے کہ ذرہ گرمی لگے تو ٹوٹ جاتا ہے.مگر جب ویلڈنگ ہو جاتا ہے تو وہ ایسا ہی ہو جاتا ہے جیسے کسی چیز کا جزو ہو.پس اپنے اندر عشق پیدا کرو اور وہ راہ اختیار کر و جوان لوگوں نے اختیار کی.پیشتر اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو صحابی باقی ہیں وہ بھی ختم ہوجائیں.....یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ہزاروں نشانوں کا چلتا پھرتا ریکارڈ تھے.نہ معلوم لوگوں نے کس حد تک ان ریکارڈوں کو محفوظ کیا ہے.مگر بہر حال خدا تعالیٰ کے ہزاروں نشانات کے وہ چشم دید گواہ تھے.ان ہزاروں نشانات کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ اور آپ کی زبان اور آپ کے کان اور آپ کے پاؤں وغیرہ کے ذریعہ ظاہر ہوئے.تم صرف وہ نشانات پڑھتے ہو جو الہامات پورے ہو کر نشان قرار پائے.مگران نشانوں سے ہزاروں گنے زیادہ وہ نشانات ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی زبان، ناک کان ہاتھ اور پاؤں پر جاری کرتا ہے اور ساتھ رہنے والے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ خدا کے نشانات ظاہر ہورہے ہیں.وہ انہیں اتفاق قرار نہیں دیتے.کیونکہ وہ نشانات ایسے حالات میں ظاہر ہوتے ہیں جو بالکل مخالف ہوتے ہیں اور جن میں ان باتوں کا پورا ہونا بہت بڑا نشان ہوتا ہے.پس ایک ایک صحابی جو فوت ہوتا ہے وہ ہمارے ریکارڈ کا ایک رجسٹر ہوتا ہے.جسے ہم زمین میں دفن کر دیتے ہیں.اگر ہم نے ان رجسٹروں کی نقلیں کرلی
13 ہیں تو یہ ہمارے لئے خوشی کا مقام ہے اور اگر ہم نے ان کی نقلیں نہیں کیں تو یہ ہماری بدقسمتی کی علامت ہے.بہر حال ان لوگوں کی قدر کرو.ان کے نقش قدم پر چلو اور اس بات کو اچھی طرح یاد رکھو کہ فلسفیانہ ایمان انسان کے کسی کام نہیں آتا.وہی ایمان کام آ سکتا ہے جو مشاہدہ پر مبنی ہو.اور مشاہدہ کے بغیر عشق نہیں ہوسکتا.جو شخص کہتا ہے کہ بغیر مشاہدہ کے اسے محبت کامل حاصل ہوگئی ہے وہ جھوٹا ہے مشاہدہ ہی ہے جو انسان کو عشق کے رنگ میں رنگین کرتا ہے اور اگر کسی کو یہ بات حاصل نہیں تو وہ سمجھ لے کہ فلسفہ انسان کو محبت کے رنگ میں نگین نہیں کر سکتا.فلسفہ صرف دوئی پیدا کرتا ہے“.۵ احباب سے گذارش ہے کہ کسی صحابی کے متعلق خواہ انہیں ایک آدھ بات ہی معلوم ہو اس سے اطلاع بخشیں.ایک ایک دو دو باتیں جمع ہو کر معلومات کا مفید مجموعہ تیار ہو جاتا ہے.اس زمانہ کے گذر جانے پر ایک آدھ بات بھی دستیاب ہونی محال ہوگی نیز دوست اپنے اقارب صحابہ کے حالات سے بھی اطلاع دیں.بالخصوص ۳۱۳ صحابہ کے اقارب سے خاص طور پر التجا ہے اور اگر کسی دوست کو معلوم ہو کہ فلاں شخص سے ان کے حالات معلوم ہو سکتے ہیں یا (سوائے معروف اصحاب کے ) ۳۱۳ میں سے فلاں فلاں کی اولاد فلاں جگہ موجود ہے اور ان کا ایڈریس یہ ہے.تو یہ بھی بہت بڑی امداد ہوگی.نیز اگر پرانے بزرگ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے حالات قلمبند کر کے ارسال فرما ئیں تو آپ کی سیرت کے طبع نہ ہونے کی کمی کسی بزرگ کی معاونت حاصل کر کے خاکسار پوری کرانے کی کوشش کرے گا.انشاء اللہ.گو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کے زمانے نہیں پائے پھر بھی میں نے کتب حوالہ جات نہ ملنے اور دیگر سہولتیں حاصل نہ ہونے کے باوجود بعض صحابہ کرام کے حالات شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے.احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ چونکہ میں کوئی مصنف نہیں بلکہ یہ میری پہلی کوشش ہے اس لئے جس قسم کی کمی اس تصنیف میں پائیں.اس کے متعلق مجھے اپنے نیک اور مفید مشورے سے محروم نہ رکھیں.میری خوش قسمتی ہے کہ اس کتاب کے تعلق میں مجھے بہت سے احباب نے اپنے اپنے رنگ میں بہت مدد دی ہے.مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی چند ماہ سے اب دالان حضرت ام المومنین اطال الله بقاءها میں رہتے ہیں.جہاں میں ۱۶ نومبر ۱۹۴۷ء سے مقیم ہوں.محترم بھائی جی نے میری درخواست پر کمال مہربانی سے سارا مسودہ سنا اور بہت مفید اصلاحات کیں اور مشورے دئیے.قریب ہونے کی وجہ سے میں روزانہ جب ضرورت ہوتی آپ سے استفادہ کر لیتا.اسی طرح اخویم مکرم مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی.اے ناظر امور عامہ و کے
14 خارجہ قادیان نے مہربانی کر کے تمام مسودہ پر نظر ثانی کر کے مفید مشورے دیئے.علاوہ ازیں اخویم مکرم چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی نے بھی مسودات کی نقول میں پوری پوری معاونت کی.جس سے میرا بہت سا وقت حوالجات کے نکالنے کے لئے بچ گیا.اسی طرح اخویم مکرم مولوی محمدعبداللہ صاحب افسر لنگر خانہ اور اخویم مکرم مرزا محمد زمان صاحب دار ونه لنگر خانہ اور اخویم مکرم میر غلام رسول صاحب ہزاروی نے بھی بعض مسودات کی نقول اور کا تب کی کا پیاں پڑھنے اور نقول کا مقابلہ کرنے میں قابل قدر امداد دی.اسی طرح اخویم مکرم دفعدار مرزا محمد عبداللہ صاحب گجراتی در ویش لائبریرین نے حوالجات کی کتابیں اور فائل مہیا کرنے میں بہت معاونت کی.نہ دن اور رات کا خیال کیا نہ ہی تعطیلات کاغذر کیا.اسی طرح ان کے معاون اخویم مکرم ملک ضیاء الحق صاحب دوالمیالی بھی معاونت کرتے رہے.اس کتاب کی طباعت میں میرے لئے بہت دقتیں تھیں.اخویم مکرم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی مقیم لاہور نے از خود ہی دست معاونت دراز کیا اور تصاویر کا بلاک بنوانے اور کتاب کے چھپوانے پروف پڑھنے وغیرہ کا تمام کام کلیتہ خود کیا.اور اس قدر اعانت کی کہ بیان سے باہر ہے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء في الدنيا والآخره آخر پر میں ذیل کے احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مالی طور پر میری اعانت کی.مکرم سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب (سکندر آباد دکن) نے ۱۹۴۷ء سے قبل غالباً ایک صد رو پی دیا تھا اور اب بھی ایک صدر و پسیہ کی امداد فرمائی ہے..ے.۱۹۴۷ء سے قبل مکرم نواب اکبر یار جنگ صاحب بالقا به حیدر آباد دکن نے غالباً ایک صد روپیہ عنایت کیا تھا.بوقت طباعت کتاب ہذا مکرم سیٹھ عبدالحئی صاحب یاد گیر اور مکرم سیٹھ معین الدین صاحب چنتہ کنٹہ نے اخویم مولوی محمد اسمعیل صاحب وکیل یاد گیر کی تحریک سے تین صد روپیہ بطور امداد اور تین صد روپیه بطور قرض عنایت کیا....مکرم مولوی محمد عبد اللہ صاحب درویش افسر لنگر خانه قادیان ( سابق متوطن دنیا پور ضلع ملتان ) نے نوے روپے بطور قرض عنایت کئے ہیں.مکرم شیخ محبوب الہی صاحب بی.اے ایل ایل بی لاہور ( سابق متوطن کشمیر ) نے ایک صد روپیہ بطور قرض دیا.میرے تا یا مکرم حکیم دین محمد صاحب نے تین صد روپیہ قرض دیا ہے.اسی طرح صدر انجمن احمد یہ قادیان کا بھی ممنون ہوں کہ جنہوں نے اس کتاب کے لئے استثنائی طور پر مجھے اڑھائی صدر و پتہ نخواہ پیشگی عنایت کی.فجزاهم الله احسن الجزاء
15 اس کتاب کو چند اولیات حاصل ہیں.ایک یہ کہ متعدد وفات یافتہ اصحابہ کے سوانح حیات پر مشتمل ہے.دوسرے جن کی تصاویر صفحہ ہستی پر موجود ہیں وہ بھی درج کر دی ہیں.تیسرے ضلع گورداسپور کے جن دیہات کا ذکر حالات میں آگیا ہے ان کا نقشہ دے دیا گیا ہے.سوائے موضع حکیم پور کے کہ مخصوص حالات کی وجہ سے سرکاری نقش نہیں مل سکا اور دیگر نقشوں میں موضع مذکور درج نہیں.چوتھے دراتح وغیرہ شعائر اللہ جن کا ذکران حالات میں آتا ہے ان میں سے بعض کا نقشہ دے دیا گیا ہے اور دار اسیح وغیرہ کے نقشے بنانے کی سعادت مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے داماد مکرم مرزا برکت علی صاحب آف آبادان (سابق امیر جماعت ہائے احمد یہ بغداد عراق و ایران اسسٹنٹ انجینئر اینگلوایرانین کمپنی، مسجد سلیمان ایران ) کو حاصل ہوئی.اتفاق سے آپ چند ماہ کی رخصت پر قادیان آئے اور یہ کام اس رخصت میں آپ نے سرانجام دیا یہ نقشے تیار کرنے کا خیال تو عرصہ سے مجھے بھی تھا.لیکن اس کے لئے کوئی سامان حاصل نہ تھا.۱۹۴۷ء میں میری تحریک پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب.حضرت مولوی شیر علی صاحب اور بعض دوسرے صحابہ بڑے باغ میں تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ۱۹۰۵ء میں باغ میں خیمہ زن ہونے کے متعلق بہت سے امور بتائے کہ حضور کا خیمہ کہاں تھا.فلاں فلاں بزرگ کے خیمے کہاں کہاں تھے.مدرسہ تعلیم الاسلام کس جگہ لگتا تھا.ریویو کا دفتر کس جگہ ہوتا تھا.مولانا ابوالکلام آزاد ( وزیر تعلیم بھارت) کے بھائی ابوالاثر آہ نے کس جگہ حضور سے ملاقات کی تھی.ان ایام میں نمازیں کہاں ہوتی تھیں.چور کہاں پکڑا گیا تھا وغیرہ.چنانچہ اس کے مطابق مکرم مولوی فضل دین صاحب اوور سیر نے میری درخواست پر نقشہ تیار کیا جو فسادات کی نذر ہو گیا.مجھے اس کا از حد قلق ہے اور اس امر کا بھی کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے از خود فر مایا تھا کہ میں جب پہلی بار قادیان آیا تو دار مسیح کے ارد گرد کا جو اس وقت کا نقشہ تھا تیار کرا دوں گا.لیکن اب تو حضرت مولوی صاحب ۱۹۴۷ء میں ہجرت کے معا بعد وفات بھی پاچکے ہیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.مرزا صاحب موصوف کی آمد سے قبل میں نے کوشش کی کہ دار مسیح کا نقشہ تیار کراؤں.لیکن درویشوں میں سے اس کام کا ماہر کوئی نہ ملا.یہ کمی مرزا صاحب کے آنے سے پوری ہوگئی.انہوں نے مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی تحریک پر ان کی زیر نگرانی اور پھر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم سے ہدایات لیکر یہ نقشے تیار کئے تھے.بڑے باغ کے ملحقہ مکان جس میں حضور کا جسد مبارک اٹھایا گیا تھا اور خیمہ گاہ اور جنازہ گاہ جہاں حضور کا جنازہ پڑھا گیا تھا اور اس سے قبل خلافتِ اولیٰ کی بیعت ہوئی تھی.کے متعلق نقشہ ۱۰/۵۰/ ۷ کو مکرم امیر صاحب مقامی مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی، مکرم ڈاکٹر عطر الدین صاحب اور مکرم میاں عبداللہ خاں صاح
16 افغان کے موقعہ پر جا کر نشان دہی کرنے کے مطابق تیار ہوا ہے.اس خاطر کہ دوستوں تک پہنچ جائے اور محفوظ ہو جائے.بعض نقشے مکرم بھائی جی اور مرزا صاحب محترم کی اجازت سے اس کتاب میں درج کئے جار ہے ہیں.فجزاهم الله الحسن الجزاء اس کتاب کی تالیف کے دوران میں خاکسار حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم کے مشوروں سے بہت مستفیض ہوا ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء.آپ ہی کی تجویز کے مطابق اس کتاب کا نام اصحاب احمد رکھا گیا ہے.احباب سے درخواست ہے کہ دعا فرماویں کہ جس مقصد کے پیش نظر یہ کتاب تالیف کی گئی ہے.وہ باحسن وجوہ پایہ تکمیل کو پہنچے اور یہ کتاب بابرکت ہو اور اللہ تعالیٰ اسے سعی مشکور بنائے اور آئندہ بھی اس سلسلہ میں مجھے بیش از بیش کام کرنے کی توفیق عطا کرے.میرا ارادہ ہے کہ اگر طباعت وغیرہ کے اخراجات کا انتظام ہو جائے تو دو اور حصے.اهداء پر شائع کروں.وبالله التوفيق ولا حول ولا قوة الا بالله العلى العظيم طالب دعا جلسه سالانه ملک صلاح الدین درویش بیت الفکر ( دارا مسیح ) قادیان مشرقی پنجاب ۲۲/۱۲/۵۰
17 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمُدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حالات صحابہ حضرت مسیح موعود عليه الصلاة والسلام مجھے یہ معلوم کر کے از بس مسرت ہوئی کہ عزیز مکرم ملک صلاح الدین ایم.اے مولوی فاضل نے حالات صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اشاعت کا آغاز کیا ہے.جزاہ اللہ احسن الجزاء.میری یہ ہمیشہ سے خواہش رہی کہ حالات صحابہ قلمبند ہوں.میں اس کی تحریک ۱۸۹۸ء سے کرتا آیا اور یہ اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ چاہتے تھے اور میں جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات کو پڑھتا اور ان کے محفوظ رکھنے میں ہمارے اسلاف نے جو کوشش کی ہے اس کو دیکھتا ہوں تو میں شرمندہ ہوتا کہ اُس زمانہ میں جبکہ پریس اور اشاعت کی سہولتیں نہ تھیں.انہوں نے کس محنت اور کوشش سے حالات کو جمع کیا اور محفوظ کر دیا.اس زمانہ میں جبکہ ہرقسم کی سہولتیں میسر ہیں ہم اس کام کو نہ کر سکے.اگر چہ میں اپنے قلب میں گونہ مسرت واطمینان پاتا ہوں کہ الحکم کے ذریعہ اور الفضل میں بھی میرے قلم سے جلیل القدرصحابہ کے حالات شائع ہوئے ہیں.اگر چہ وہ بطور مواد کے ہیں اور میں چاہتا تھا اور چاہتا ہوں کہ بعض اکابر صحابہ کے تفصیلی حالات لکھوں.اس لئے میں ہر اس کوشش کا احترام کرتا ہوں جو اس راہ میں کی جاوے.میں عزیز مکرم ملک صلاح الدین صاحب میں اس کی اہلیت محسوس کرتا ہوں اور ان میں اس جذبہ اور جوش کو پاتا ہوں.علاوہ بریں وہ نو جوان ہیں.فاضل اجل ہیں.ریسرچ کا شوق ہے.وہ اس کام کو خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکتے ہیں.میں پسند کرتا کہ اس مجموعہ کو طباعت سے پہلے مجھے بھی دکھا دیتے.لیکن با ایں مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اپنی انتہائی محنت سے حالات کو جمع کیا ہوگا اور مجھے یہ خوشی ہے کہ انہیں الحکم سے بھی استفادہ کرنے کا موقعہ ملا.اس کو مبارک سمجھتا ہوں کہ میں اس ثواب میں انشاء اللہ شریک رہوں گا.میں اللہ تعالیٰ سے ان کی صحت وتوانائی اور اس کام کے لئے تو فیق اور کامیابی کی دعا کرتا ہوں اور احباب جماعت سے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ میرا بھی کوئی حق ان کو کہنے کا ہے اور شکر گذار جماعت اس کو بجھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے لئے وہ نعمت مہیا کرنے کا شرف دیا جو ایک بے نظیر روحانی دولت ہے تو میں ان سے اور صرف اُن سے جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہتا ہوں کہ اس نوجوان کی ہمت افزائی کریں اور اس سلسلہ حالات صحابہ کی اشاعت میں اس کے معاون ہوں.یہ سلسلہ کا کام ہے اور علمی کام ہے اور میں ایک بصیرت کے ساتھ سمجھتا ہوں کہ صلاح الدین اس کا اہل ہے.اللہ کرے کہ میری آواز بیدار دلوں تک پہنچے اور ان
18 میں قوت عمل پیدا ہو.صلاح الدین صاحب اپنی ہمت بلند کریں اور اس کام کو اس نیت سے کریں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک خواہش کا پورا کرنا ہے.میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس خلوص میں میرا دماغی فکر ملک صلاح الدین صاحب نے کم کر دیا.جزاه الله احسن الجزاء في الدنيا والآخره.سلسلہ عالیہ احمدیہ کا خادم قدیم یعقوب علی موسس الحام ( عرفانی الكبير ) تحفہ گولڑویہ صفحه ۱۵۲ حوالہ جات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احد صاحب دام فیضہم نے سیرت المہدی حصہ اول روایت نمبر ۱۵۷ میں بالتفصیل سوانح درج فرمائے ہیں.حقیقتہ الوحی تتمہ صفحہ ۶۷ بحوالہ سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه ۱۶۵ الفضل ۲۸ راگست ۱۹۴۱ء جلد ۲۹ شماره ۱۹۶
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 19 نَحْمُدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هوالن اصر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نین له تعالی عنہ اعلام الہی کے بموجب ولادت: مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی ولادت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے مطابق ہوئی.آپ ۱۴ جون ۱۸۹۹ء کو پیدا ہوئے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: * ” میرے چوتھے لڑکے کے متعلق ایک اور پیشگوئی کا نشان ہے جو انشاء اللہ ناظرین کے لئے موجب زیادت علم و ایمان و یقین ہوگا.اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ الہام جس کو میں نے انجام آتھم کے صفحہ ۱۸۲ و ۱۸۳ اور ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۵۸ میں لکھا ہے، جس میں چوتھا لڑکا پیدا ہونے کے بارے میں پیشگوئی ہے جو جنوری ۱۸۹۷ء میں بذریعہ کتاب مذکور یعنی انجام آتھم اور ضمیمہ انجام آتھم کے لاکھوں انسانوں میں شائع کی گئی، جس کو آج کی تاریخ تک جو ۲۰ اگست ۰۹۹ ء ہے پونے تین برس سے کچھ زیادہ دن گذر گئے ہیں.اس تھوڑی سی مدت کو مخالفوں نے ایک زمانہ دراز خیال کر کے یہ نکتہ چینی شروع کر دی کہ وہ الہام کہاں صاحبزادہ صاحب کے حالات میشن و تبرک کے طور پر ابتداء میں درج کر دیئے گئے ہیں.مجھے مکرم صاحبزادہ مرزا اویم احمد صاحب در ولیش سے معلوم ہوا تھا کہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی صرف ایک ہی تصویر ہے جو دارا مسیح میں ہے چنانچہ اس سے بلاک بنوا کر اس کتاب میں دیا جارہا ہے.میں نے ایک تصویر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام میضھم کی خدمت میں ارسال کی تھی.چنانچہ آپ کے ذریعہ وہ رسالہ اصلح کراچی جلد نمبر صفحہ ابابت ۱۵ دسمبر ۱۹۵۰ء میں شائع ہو کر محفوظ ہو چکی ہے.(مؤلف)
20 گیا جو انجام آتھم کے صفحہ ۱۸۲ اور ۱۸۳ اور اس کے ضمیمہ کے صفحہ ۵۸ میں درج کر کے شائع کیا گیا تھا اور لڑکا اب تک پیدا نہیں ہوا.اس لئے پھر میرے دل میں دعا کی خواہش پیدا ہوئی.گومیں جانتا ہوں کہ نا منصف دشمن کسی طرح راضی نہیں ہوتے.اگر مثلاً کوئی لڑکا الہام کے بعد دو تین مہینے میں ہی پیدا ہو جائے تو یہ شور مچاتے ہیں کہ پیشگوئی کرنے والا علم طبابت میں بھی دسترس کامل رکھتا ہے.لہذا اس نے طبیبوں کی قرار داده علامتوں کے ذریعہ سے معلوم کر لیا ہوگا کہ لڑکا ہی پیدا ہو گا.کیونکہ حمل کے دن تھے.اور اگر مثلاً کسی پسر کے پیدا ہونے کی پیشگوئی تین چار برس پہلے اس کی پیدائش سے کی جائے تو پھر کہتے ہیں کہ اس دور دراز مدت تک خواہ نخواہ کوئی لڑکا ہونا ہی تھا.تھوڑی مدت کیوں نہیں رکھی.حالانکہ یہ خیال بھی سراسر جھوٹ ہے.لڑکا خدا کی عطا ہے.اپنا دخل اور اختیار نہیں اور اس جگہ ایک بادشاہ کو بھی دعوی نہیں پہنچتا کہ اتنی مدت تک ضرور لڑکا ہی پیدا ہو جائے گا.بلکہ اس قدر بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت تک آپ ہی زندہ رہے گا اور یا یہ کہ بیوی زندہ رہے گی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان دنوں کی ہمیشہ کی وباؤں نے جو طاعون اور ہیضہ ہے لوگوں کی ایسی کمر توڑ دی ہے کہ کوئی ایک دن کے لئے بھی اپنی زندگی پر بھروسہ نہیں کرسکتا.علاوہ اس کے جو شخص تحدی کے طور پر ایسی پیشگوئی اپنے دعوی کی تائید میں شائع کرتا ہے اگر وہ جھوٹا ہے تو خدا کی غیرت کا ضرور یہ تقاضا ہونا چاہئے کہ ابدا ایسی مرادوں سے اس کو محروم رکھے.کیونکہ اس کا ابتر اور بے فرزند مرنا اس سے بہتر ہے کہ لوگ اس کی ایسی مکاریوں سے دھو کہ کھائیں اور گمراہ ہوں اور یہی عادت اللہ ہے جس کو ہمارے اہل سنت علماء نے بھی اپنے عقیدہ میں داخل کر لیا ہے.الغرض میں نے بار باران نکتہ چینیوں کوسُن کر کہ چوتھا لڑ کا پیدا ہونے میں دیر ہوگئی ہے جناب الہی میں تضرع کے ہاتھ اُٹھائے اور مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے.میری دُعا اور میری متواتر توجہ کی وجہ سے ۱۳ / اپریل ۱۸۹۹ء کو یہ الہام ہوا.اصْبِرُ مَلِيًّا سَا هَبُ لَكَ غُلَا مَا زَكِيًّا.یعنی کچھ تھوڑا عرصہ صبر کر میں تجھے ایک پاک لڑکا عنقریب عطا کروں گا اور یہ پنجشنبہ کا دن تھا اور ذی الحجم ۱۳۱۶ھ کی دوسری تاریخ تھی جبکہ یہ الہام ہوا.اور اس الہام کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا.
21 * رَبِّ أَصِحٌ زَوْجَتِي هَذِهِ یعنی اے میرے خدا! میری بیوی کو بیمار ہونے سے بچا اور بیماری سے تندرست کر.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس بچہ کے پیدا ہونے کے وقت کسی بیماری کا اندیشہ ہے.سواس الہام کو میں نے اس تمام جماعت کو سُنا دیا جو میرے پاس قادیان میں موجود تھی.اور اخویم مولوی عبدالکریم صاحب نے بہت سے خط لکھ کر اپنے تمام معزز دوستوں کو اس الہام سے خبر کر دی.اور پھر جب ۱۳ جون ۱۸۹۹ ء کا دن چڑھا جس پر الہام مذکورہ کی تاریخ کو جو ۱۳ اپریل ۱۸۹۹ء کو ہوا تھا، پورے دو مہینے ہوتے تھے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسی لڑکے کی مجھ میں رُوح بولی اور الہام کے طور پر یہ کلام اس کا میں نے سُنا.إِنِّی أَسْقُطُ مِنَ اللَّهِ وَأُصِيبُهُ یعنی اب میرا وقت آ گیا اور میں آب خدا کی طرف سے اور خدا کے ہاتھوں سے زمین پر گروں گا اور پھر اُسی کی طرف جاؤں گا....اور پھر بعد اس کے ۱۴ جون ۱۸۹۹ء کو وہ پیدا ہوا." مجھے خدا تعالیٰ نے خبر دی کہ میں تجھے ایک اور لڑکا دوں گا.اور یہ وہی چوتھا لڑکا ہے جواب پیدا ہوا جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا.اور اس کے پیدا ہونے کی خبر قریباً دو برس پہلے مجھے دی گئی اور پھر اس وقت دی گئی کہ جب اس کے پیدا ہونے میں قریباً دو مہینے باقی رہتے تھے اور پھر جب یہ پیدا ہونے کو تھا یہ الہام ہوا.إِنِّي أَسْقُطُ مِنَ اللَّهِ وَأُصِيبُهُ یعنی میں خدا کے ہاتھ سے زمین پر گرتا ہوں.اور خدا ہی کی طرف جاؤں گا.میں نے اپنے اجتہاد سے اس کی یہ تاویل کی کہ یہ لڑکا نیک ہوگا اور رُو بخدا ہوگا اور خدا کی طرف اس کی حرکت ہوگی.اور یا یہ کہ جلد فوت ہو جائے گا.اس بات کا علم خدا تعالیٰ کو ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے کونسی بات اس کے ارادہ کے موافق ہے.“ ہے حضرت ام المؤمنین اطال اللہ بقاء ھا فرماتی ہیں کہ ”مبارک بُدھ کے دن سہہ پہر کے وقت پیدا ہوا تھا.‘ سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۳۶۰ (مؤلف)
22 قبولیت دعا اور صاحبزادہ صاحب کی ولادت: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: ”میرے گھر میں جو ایام اُمید تھے ۱۴ جون کو اول در دزہ کے وقت ہولناک حالت پیدا ہوگئی یعنی بدن تمام سرد ہو گیا اور ضعف کمال کو پہنچا اور غشی کے آثار ظاہر ہونے لگے.اس وقت میں نے خیال کیا کہ شاید اب اس وقت یہ عاجزہ اس فانی دنیا کو الوداع کہتی ہے.بچوں کی سخت دردناک حالت تھی اور دوسرے گھر میں رہنے والی عورتیں اور ان کی والدہ تمام مُردہ کی طرح اور نیم جان تھے.کیونکہ رڈی علامتیں یک دفعہ پیدا ہوگئی تھیں.اس حالت میں اُن کا آخری دم خیال کر کے اور پھر خدا کی قدرت کو بھی مظہر العجائب یقین کر کے ان کی صحت کے لئے میں نے دُعا کی یکدفعہ حالت بدل گئی اور الہام ہوا.تحويل الموت یعنی ہم نے موت کو ٹال دیا اور دوسرے وقت پر ڈال دیا.اور بدن پھر گرم ہو گیا اور حواس قائم ہو گئے اور لڑکا پیدا ہوا جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا.اس تنگی اور گھبراہٹ کی حالت میں میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کے لئے بھی ساتھ دعا کروں.چنا نچہ کئی دفعہ دعا کی گئی.“ ولادت کا ذکر الحکم میں : آپ کی ولادت پر سلسلہ کے اس وقت کے واحد ترجمان نے جو کچھ تحریر کیا ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ خاص پر چه اخبار الحکم قادیان دارالامن والایمان مورخه ۱۵/جون ۱۸۹۹ء امور منزلية الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ والصلوة والسلام على رسوله محمد وآله و اصحابه اجمعين ہم خدا تعالیٰ کی حمد وشکر کرتے ہوئے نہایت مسرت سے ظاہر کرتے ہیں کہ کل ۱۴ جون ۱۸۹۹ء بروز بدھ مطابق ۴ صفر ۳۱۷ا المقدس بعد دو پہر ۳ بجے جناب اما منا حضرت اقدس
23 مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود مہدی معہود ادام اللہ برکاتہم کے مشکوئے معلی میں مبارک بیٹا پیدا ہوا اور اس طرح پر خدا کے فضل سے الہام ۱۳ را پریل ۱۸۹۹ء پورا ہوا.اور وہ یہ ہے: إصْبَرُ مَلِيًّا سَا هَبُ لَكَ غُلَا مَا زَكِيًّا یعنی تھوڑی دیر ٹھہر.میں تجھے پاکیزہ لڑکا دوں گا.والحمد للہ علی ذالک.اس مبارک پسر کی ولادت پر انہی ایام کا حضرت اقدس کا ایک اور الہام بھی جو اسی ولادت سعیدہ کے متعلق تھا پورا ہوا اور وہ یہ ہے.رَبِّ أَصِحٌ زَوْجَتِي هَذِهِ یعنی اے میرے پروردگار میری اس بیوی کی صحت بحال رکھ.چنانچہ ام المومنین سخت تکلیف کی وجہ سے خطرناک حالت کو پہنچ گئی تھیں.یہاں تک کہ سارا بدن یخ ہو گیا تھا اور ایسی نازک حالت میں اطباء کے نزدیک جب بدن سرد پڑ جائے جان بری مشکل ہوتی ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس وقت کی دُعا سے جو مریضہ کی حالت پر ترتم کر کے یہ تضرع کر رہے تھے ام المومنین کو دوبارہ زندہ کیا اور اس طرح پر مندرجہ بالا الہام بھی پورا ہوا فالحمد للہ علی ذالک.یہ الہامات ۱۴ جون سے پیشتر مولانا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کا تب خطوط حضرت اقدس کی معرفت صد ہا لوگوں میں شائع ہو چکے ہیں.بہر حال خدائے تعالیٰ کا فضل واحسان کہ اس نے ہم کو بھی ان لوگوں میں جگہ دی جنہوں نے ان مبارک کلمات کو اپنے کان سے براہ راست حضرت امام کے مُنہ سے سُنا اور اپنی آنکھوں پورا ہوتے دیکھا.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ اذْهَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ.ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ اس مولود مسعود کی عمر میں برکت دے اور اپنے دین کا سچا خادم بناوے.آمین ثم آمین.۱۵ جون ۱۸۹۹ء کی صبح کو ختنہ کیا گیا احقر الناس شیخ یعقوب علی تراب.ایڈیٹر اخبار الحکم قادیان.۱۵ جون ۱۸۹۹ء
24 پھر موصوف تحریر فرماتے ہیں: بشارت ہم نہایت خوشی سے ظاہر کرتے ہیں کہ ۴ صفر ۱۳۱۷ھ المقدس مطابق ۱۴ جون ۱۸۹۹ء بروز بدھ بوقت ۳ بجے بعد دو پہر حضرت اقدس جناب امامنا مسیح موعود ادام اللہ فیوضہم کے مشکوے معلی میں چوتھا مبارک بیٹا پیدا ہوا اس تقریب سعید پر مدرسہ تعلیم الاسلام میں ایک دن کی تعطیل رہی.اخبار الحکم نے اپنا خاص پر چہ شائع کیا جو آج کے نمبر کے ہمراہ بطور ضمیمہ تقسیم ہوتا ہے.مولود مسعود کا نام حضرت امام صاحب نے مبارک احمد رکھا.ہماری دلی دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اس مولود مسعود کو اپنی برکتوں اور رحمتوں کا مورد بناوے اور خاندان، قوم ملک بلکہ دنیا کے لئے اسے مبارک کرے.آمین.۱۵ جون کو ختنہ کیا گیا “ ہے شکل وصورت : صاحبزادہ صاحب کی شکل وصورت کے متعلق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم کی روایت درج کی جاتی ہے.آپ فرماتے ہیں: ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ شکل کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کے دو ٹائپ ہیں.ایک سلطانی اور دوسرا فضلی.یعنی ایک وہ جو مرزا سلطان احمد صاحب سے مشابہ ہیں.اور دوسرے وہ جو مرزافضل احمد صاحب سے مشابہت رکھتے ہیں.سلطانی ٹائپ میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب مبارک احمد صاحب مرحوم امتہ النصیر مرحومہ اور امتہ الحفیظ بیگم شامل ہیں اور فضلی ٹائپ میں عصمت مرحومہ شوکت مرحومہ صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب (یعنی خاکسار مولف ) اور مبارکہ بیگم شامل ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب مکرم کی خود ساختہ اصطلاح کی رُو سے سلطانی ٹائپ سے لمبا کتابی چہرہ مراد ہے.اور فضلی ٹائپ سے گول چہرہ مراد ہے...مبارک احمد مرحوم کے متعلق مجھے شبہ ہے کہ وہ بقول میر صاحب سلطانی ٹائپ میں شامل نہیں تھا بلکہ فضلی ٹائپ
25 میں شامل تھا یا شاید بین بین ہوگا.واللہ علم.۵.اعلان عقیقہ : عقیقہ کے متعلق ذیل کا اعلان کیا گیا: عقیقہ جناب حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا عقیقہ اس آئندہ اتوار یعنی ۲۶ جون ۱۸۹۹ء کو ہوگا.صاحبزادہ موصوف کے عقیقہ کے متعلق اخبار مذکور رقمطراز ہے:.:عقیقه : ”حضرت صاحبزادہ مبارک احمد صاحب سلمہ ربڑ کا عقیقہ ۲۶ جون ۹۹ہ ء کو ہوا.ہم نے عقیقہ کی خبر لکھتے وقت یہ لکھ دیا تھا کہ آئندہ اتوار یعنی ۲۶ جون ۱۸۹۹ء کو ہوگا.اتوار کا دن تو ہم نے ٹھیک لکھا تھا.لیکن حساب لگانے میں غلطی سے ۲۵ جون کی جگہ ۲۶ لکھا گیا.حالانکہ اتوار کے دن ۲۵ جون تھی.لیکن باد و باران اور دیگر وجوہات کے باعث جو پہلے سے مشیت ایزدی میں مقدر تھیں.آخر ۲۶ جون ہی کو عقیقہ ہوا.حضرت اقدس نے اس موقعہ پر فرمایا کہ بارہ برس ہوئے جبکہ ایک لڑکے کے عقیقہ کی پیر کے دن ہونے کی خبر اللہ تعالی نے دی تھی.الحمد للہ بارہ برس پہلے کی بات آج ہم نے دیکھی.“ ہے.حضوڑا ایسے مواقع پر احباب کو قادیان آنے کی دعوت دیتے تھے.جس سے غرض نمود و نمائش نہیں بلکہ محض یہ ہوتی تھی کہ احباب روحانی فوائد سے مستفیض ہو سکیں.حضرت چوہدری رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر اس موقعہ پر حاضر نہ ہو سکے تو حضور نے انہیں تحریر فرمایا: افسوس کہ آپ کو عقیقہ پر رخصت نہ مل سکی.عقیقہ ایک نشان الہی: یہ عقیقہ ایک نشان الہی تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب کو ۲۷ جون ۱۸۹۹ء کو تحریر فرماتے ہیں : ”میرے گھر میں پیدائش لڑکے کے وقت بہت طبیعت بگڑ گئی تھی.مگر الحمد للہ اب ہر طرح
26 سے خیریت ہے.عجیب بات ہے کہ قریباً چودہ برس کا عرصہ گذرا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میری اس بیوی کو چوتھا لڑ کا پیدا ہوا ہے اور تین پہلے موجود ہیں اور یہ بھی خواب میں نے دیکھا تھا کہ اس پسر چہارم کا عقیقہ بروز دوشنبہ یعنی پیر ہوا ہے.اور جس وقت یہ خواب دیکھی تھی اس وقت ایک بھی لڑکا نہ تھا یعنی کوئی بھی نہیں تھا اور خواب میں دیکھا تھا کہ اس بیوی سے میرے چارلڑ کے ہیں اور چاروں میری نظر کے سامنے موجود ہیں اور چھوٹے لڑکے کا عقیقہ پیر کو ہوا ہے.اب جبکہ یہ لڑ کا یعنی مبارک احمد پیدا ہوا تو وہ خواب بھول گئے.اور عقیقہ اتوار کے دن مقرر ہوا.لیکن خدا کی قدرت ہے کہ اس قدر بارش ہوئی کہ اتوار میں عقیقہ کا سامان نہ ہو سکا اور ہر طرف سے حارج پیش آئی، ناچار پیر کے دن عقیقہ قرار پایا.پھر ساتھ یاد آیا کہ قریباً چودہ برس گزر گئے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ ایک چوتھا لڑکا پیدا ہو گا اور اس کا عقیقہ پیر کے دن ہو گا.تب وہ اضطراب ایک خوشی کے ساتھ مبدل ہو گیا کہ کیونکر خدا تعالیٰ نے اپنی بات کو پورا کیا.اور ہم سب زور لگا رہے تھے کہ عقیقہ اتوار کے دن ہو.مگر کچھ بھی پیش نہ گئی اور عقیقہ پیر کو ہوا.یہ پیشگوئی بڑی بھاری تھی کہ اس چودہ برس کے عرصہ میں یہ پیشگوئی کہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور پھر چہارم کا عقیقہ پیر کے دن ہوگا.انسان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس مدت تک کہ چارلڑ کے پیدا ہوسکیں زندہ بھی رہیں یہ خدا کے کام ہیں مگر افسوس کہ ہماری قوم دیکھتی ہے پھر آنکھ بند کر لیتی ہے.9 عقیقہ کے بروقت نہ ہو نیکی وجہ اور نشان الہی کا ظہور : عقیقہ کے بارے میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب تحریر فرماتے ہیں: بھائیو! میں صدق دل سے تمہیں مبارکباد دیتا ہوں کہ بہتیرے تم میں ایسے ہیں جنہوں نے آنکھیں کھولتے ہی اس پاک اور دلر با منظر کو دیکھا اور اس دغا باز جال میں پھنس کر پھر پھڑ پھڑا کر نکلنے کی تکلیف اُٹھانی نہ پڑی.اس نعمت کی قدر کرو اور قدر یہی ہے کہ عملاً ممتاز نمونے دکھاؤ.دیکھو بعضے جلد باز تمہاری نسبت حکم لگا چکے ہیں کہ تمہاری کمریں ڈھیلی ہو جائیں گی اور تمہارے چراغ بجھ جائیں گے.خدا سے دُعائیں مانگو استغفار کرو اور اس سے اور بھی ترقی تقوی وطہارت میں کرو تا کہ خدا ایسے حاسدوں کے گمانوں کو باطل کرے.بعض بد بخت ایسے بھی ہیں جن کی نسبت خدا کی کتاب میں آیا ہے.وَلَقَدْ صَدَّق عَلَيْهِمُ
27 إبْلِيسُ ظَنه رو رو کر دعائیں مانگو کہ مستزئین کے گمان تمہارے حق میں صادق نہ ہو جائیں.خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کے تصرف کا نیا نمونہ اور معا ہمارے آقا و ہادی مسیح موعود علیہ السلام کے منجانب اللہ ہونے کا نیا ثبوت سُن لو.مقرر تھا کہ اتوار کے دن ۲۵ جون کو حضرت مبارک احمد صاحب کا عقیقہ ہو.اس کے لئے حضرت کی طرف سے بڑی تاکید تھی.اس کام کے مہتمم ہمارے عزیز و معزز دوست منشی نبی بخش * صاحب تھے.سب نے بڑے جوش ونشاط سے تسلیم کیا اور عرض کیا کہ اتوار کے دن یقیناًسب سامان ہو جائیگا.اللہ تعالیٰ کا تصرف اور اس کی حکمت و قدرت دیکھو.اتوار کو صبح صادق سے پہلے بارش شروع ہو گئی.صبح کی نماز بھی ہم نے معمول سے سویرے پڑھی چونکہ بارش تھی اور ہوا خوب سرد چل رہی تھی اور بادل کی وجہ سے تاریکی بھی تھی.یہ سب سامان ہم لوگوں کے لئے افسانہء خواب ہو گیا.حضرت بھی سو گئے اور مہتمم صاحب بھی اپنے بسیرے میں جالیے.دن خوب چڑھ گیا.حضرت اُٹھے اور دریافت کیا کہ عقیقہ کا کوئی سامان نظر نہیں آتا.گاؤں کے لوگوں کو دعوت کی گئی تھی اور باہر سے بھی کچھ احباب تشریف لائے تھے.حضرت کو فکر ہوئی کہ مہمانوں کو ناحق تکلیف ہوئی.ادھر ہمارے دوست نبی بخش صاحب بڑے مضطرب اور نادم تھے کہ حضور پاک میں کیا عذر کروں.منشی صاحب حاضر ہوئے اور معذرت کا دامن پھیلایا.خیر کریم انسان اور رحیم ہادی.اس کی ذات میں درشتی اور سخت نکتہ چینی تو ہے ہی نہیں.فرما یا فعل ما قدر مگر ہمارے ذکی الحواس دوست منشی صاحب کو صبر کہاں؟ یہ دل ہی دل میں گڑھیں اور پشیمان ہوں اور پھر دوڑے جائیں حضرت کی خدمت میں معذرت کیلئے.ان کے اس حال کو دیکھ کر حضرت اقدس کو یاد آگئی اپنی ایک رؤیا و چودہ سال ہوئے دیکھی تھی.جس کا مضمون یہ ہے کہ ایک چوتھا بیٹا ہوگا اور اس کا عقیقہ سوموار کو ہوگا.خدا تعالیٰ کی بات کے پورا ہونے اور اللہ تعالیٰ کے اس عجیب تصرف سے حضرت اقدس کو جو خوشی ہوئی اس نے ساری ملامت اور عدم سامان کی کوفت کو دُور کر دیا اور دوسرے دن سوموار کو جب ہم سب خدام صحن اندرون خانہ میں بیٹھے تھے اور حضرت مبارک احمد صاحب کا سر مونڈا جا رہا تھا.حضرت اقدس نے کس جوش سے یہ رویا * مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی درویش فرماتے ہیں کہ منشی نبی بخش صاحب نمبر دار بٹالہ مراد ہیں.(مؤلف)
28 سنائی کہ اس خوشی اور پاک خوشی کا اندازہ کچھ دیکھنے والے ہی کر سکتے ہیں ہمارا ایمان اس وقت خدا تعالیٰ کے کامل علم اس کے مد بر بالا رادہ ہونے اور متصرف اور مقتدر ہونے اور معاً حضرت اقدس کے مہبط انوار البہی ہونے.مکلم اللہ ہونے.محدث اللہ ہونے.خلیفہ اللہ ہونے اور بالآ خر خدا کی مرضی کی راہوں کے ایک ہی راہنما ہونے پر ایسا پختہ ہوا اور اس میں ایسی ترقی محسوس ہوئی جیسے برسات کے بادل سے نباتات کونشو ونما حاصل ہوتا ہے.عین اس خوشی کے وقت مجھے جو بات مکدر کرتی تھی وہ افسوس سے اس خیال کا دل میں آنا تھا کہ کاش! اس وقت میرے عزیز احباب بہت سے یہاں موجود ہوتے.اب میں کیونکر سچا نقشہ اس پاک جلسہ کا انہیں کھینچ کر دکھا سکوں گا.بہر حال غور کا مقام ہے ایک دہریہ اور میٹیریلسٹ بھی تو اس سے خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کے علم اور تصرف الاشیاء ہونے کا یقین کر سکتا ہے.چودہ سال اس سے قبل ایک بھی بچہ تو نہ تھا.اس حوادث وفتن کی سدا ہدف رہنے والی زندگی کا کون دعوئی اور تحدی سے ٹھیکہ دار ہو سکتا ہے.ذرات کا ئنات پر متصرف اور عالم بالجزئیات و الکلیات خدا ہی جان سکتا اور کہہ سکتا تھا کہ اتنے عرصہ دراز تک حضرت اقدس زندہ بھی رہیں گے اور پھر تین کو چار کرنے والا بیٹا بھی ہوگا.پاک ہے تیری شان اے میرے یگانہ خدا تو نہیں پہچانا جاسکتا مگر ان ہی راہوں سے جو تیرے برگزیدہ اہم اور محدث تیار کرتے ہیں.” میرے دوستو! آج دنیا میں کوئی اور راہ بھی ہے جس پر چلنے سے وہ خدامل سکتا ہے جو آدم سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمکلام ہوتا اور اپنے عجائبات قدرت دکھاتا رہا ؟ وہی خدا جو دعاؤں کو سنتا اور حزن کی گھڑیوں میں اپنے صریح کلام سے شکستہ دلوں کو تسلی دیتا اور اب بھی اپنے راستباز بندوں سے وہی معاملہ کر دکھاتا ہے جس کے نمونے اس نے آدم و نوح و ابراہیم و داؤ د و سلیمان و یوسف و موسی" ویسے" واحمد مجتبی علی نبینا وعلیہم الصلوۃ والسلام کی رفتار زندگی میں دکھائے.”اے میرے مرشد میرے آقا مسیح موعود اللہ تعالیٰ کا سلام تجھ پر ہو.تیرے درودیوار پر تیری چھتوں پر تیری چوکھٹوں پر تیرے چاروں طرف تیرے مخلص دوستوں پر خدا تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوں.تجھے خدا کی طرف سے وہ نصرت اور تائید پہنچے جو آخر زمانہ میں خدا تعالیٰ کے
29 کامل نبی محمد مصطفے ( علیہ الصلوۃ والسلام ) کو ملی.تیرے طفیل سے ہم نے خدا کو قرآن کو اور حامل قرآن کو ( علیہ افضل الصلوۃ والتسلیمات ) پایا.ہاں تیرے ہی ذریعہ سے ہم خدا تعالیٰ کی سنتوں اور ایام سے واقف ہوئے.تیرے ذریعہ سے ہم نے تقویٰ وطہارت کی راہوں کے دقائق کو معلوم کیا.اگر تو نہ آتا تو ہم عام مشر کا نہ خیالات و عقائد کے لوگ ہوتے یا ایک گونگے لیے بے زور بے قدرت بے زبان اور ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے اور عالم اور اس کے تصرف سے دست بردار اور دوست و دشمن میں امتیاز نہ کر سکنے والے اور پُر جوش گداختہ دل مخلص کی دعا اور لغو فقرات میں فرق نہ کر سکنے والے اور پھر اس پر کچھ بھی مترتب نہ کر سکنے والے خدا کے نیچریوں کی طرح ماننے والے ہوتے.اے احمد! اے مسیح ! اے مہدی ! اے آدم! اے نوح ! اے ابراہیم! اے یوسف ! اے موسے اے عیسے ! اے علی ! اے فاروق ! خدا کی رحمت تجھ پر ہو.دعا کر کہ ہمارا جینا تیرے ساتھ ہو.ہمارا مرنا تیرے ساتھ ہو اور ہمارا جی اُٹھنا تیرے ساتھ اور تیرے لوا کے نیچے ہو.” خدا تعالیٰ نے حضرت مبارک احمد کی ولادت سے ایک روز قبل اور ولادت کے ایک روز بعد حضرت اقدس کو اس پاک مولود کی زبان سے الہام کیا کہ وہ فرماتا ہے.إِنِّي أَسْقُطُ مِنَ اللَّهِ وَأُصِيبُهُ یعنی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہوں اور اسی کی طرف جاتا ہوں.پھر اس کے بعد الہام ہوا.كَفَىٰ هَذَا مجھے خوب یاد ہے تین سال سے زیادہ عرصہ ہوا.حضرت اقدس نے فرمایا تھا.آج میری پشت میں چوتھے لڑکے کی روح حرکت میں آئی اور اپنے بھائیوں کو آواز دی کہ مجھ میں اور تم میں ایک دن کا فاصلہ ہے.دیکھو انجام آتھم صفحہ ۱۸۲ ۱۸۳.اور صفحہ ۱۸۳ کے شروع میں جلی قلم سے لکھا ہے کہ فتحرك في صُلبى رُوحُ الرابع بعالم المكاشفة فنادا اخوانه وقال بینی و بینکم ميعاد يوم من الحضرة.
30 اور صفحہ ۱۸۲ میں لکھا ہے کہ و بشرني ربّى برابع رحمة.وقال انه يجعل الثلثة اربعة.فهل لكم ان تقوموا مزاحمة وتمنعوا من الارباع المربعين فكيد و اكيداً ان كنتم صادقين.ولادت سے پیشگوئیوں کا پورا ہونا : صاحبزادہ صاحب کی ولادت سے متعدد پیشگوئیاں پوری ہوئیں.چنانچہ حضور تحریر فرماتے ہیں : ۳۸ اٹھتیسواں نشان یہ ہے کہ لڑکی کے بعد مجھے ایک اور پسر کی بشارت دی گئی.چنانچہ وہ بشارت قدیم دستور کے موافق شائع کی گئی اور پھر لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام مبارک احمد رکھا گیا." ۴۱.اکتالیسواں نشان یہ ہے کہ عرصہ ہیں ۲۰ یا اکیس ۲۱ برس کا گذر گیا ہے کہ میں نے ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں چارٹر کے دوں گا جو عمر پاویں گے.اسی پیشگوئی کی طرف مواهب الرحمن صفحہ ۱۳۹ میں اشارہ ہے یعنی اس عبارت میں الحمد لله الذى وهب لى على الكبر اربعة من البنين وانجز وعده من الاحسان یعنی اللہ تعالیٰ کو حمد وثنا ہے جس نے پیرانہ سالی میں چارلڑ کے مجھے دئے اور اپنا وعدہ پورا کیا ( جو میں چارلٹر کے دوں گا ) چنانچہ وہ چارلڑ کے یہ ہیں محمود احمدا.بشیر احمد ۲.شریف احمد ۳.مبارک احمد ۴ جو زندہ موجود ہیں ! عبد الحق غزنوی سے مباھلہ کی وجہ سے حضور پر برکات کا نزول: نیز فرماتے ہیں:.66 ’’۱۵۹.نشان میری کتاب انجام آتھم کے صفحہ اٹھاون میں ایک یہ پیشگوئی تھی، جو مولوی عبد الحق غزنوی کے مقابل پر لکھی گئی تھی جس کی عبارت یہ ہے کہ عبدالحق کے مباہلہ کے بعد ہر ایک قسم سے خدا تعالیٰ نے مجھے ترقی دی.ہماری جماعت کو ہزار ہا تک پہنچا دیا.ہماری علمیت کا لاکھوں کو قائل کر دیا.اور الہام کے مطابق مباہلہ کے بعد ایک اور لڑکا ہمیں عطا کیا جس کے پیدا ہونے سے تین لڑکے ہو گئے اور پھر ایک چوتھے لڑکے کے لئے مجھے متواتر الہام کیا.ہم عبدالحق کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ نہیں مرے گا جب تک کہ اس الہام کو پورا ہوتا
31 نہ سُن لے.اب اس کو چاہئے کہ اگر وہ کچھ چیز ہے تو دُعا سے اس پیشگوئی کو ٹال دے.دیکھو میری کتاب انجام آتھم صفحہ ۵۸.یہ پیشگوئی ہے جو چو تھے لڑکے کے بارے میں کی گئی تھی.پھر اس پیشگوئی سے اڑھائی برس بعد چوتھا لڑ کا عبدالحق کی زندگی میں ہی پیدا ہوگیا.جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا.جواب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ موجود ہے.اگر مولوی عبدالحق نے اس لڑکے کا پیدا ہونا اب تک نہیں سنا تو اب ہم سنائے دیتے ہیں.یہ کس قدر عظیم الشان نشان ہے کہ دونوں پہلوؤں سے سچا نکلا.عبدالحق بھی لڑکے کے تولد تک زندہ رہا اور لڑکا بھی پیدا ہو گیا.اور پھر یہ کہ اس بارے میں عبدالحق کی کوئی بد دعا منظور نہ ہوئی اور وہ اپنی بددعا سے میرے اس موعود دلٹر کے کا پیدا ہونا روک نہ سکا.بلکہ بجائے ایک لڑکے کے تین لڑکے پیدا ہوئے اور دوسری طرف عبدالحق کا یہ حال ہوا کہ مباہلہ کے بعد عبدالحق کے گھر میں آج تک با وجود بارہ (۱۲) برس گذرنے کے ایک بچہ بھی پیدا نہ ہوا.اور ظاہر ہے کہ مباہلہ کے بعد قطع نسل ہو جانا اور باوجود بارہ (۱۲) برس گذرنے کے ایک بچہ بھی پیدا نہ ہونا اور بالکل ابتر رہنا یہ بھی قہر الہی ہے اور موت کے برابر ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ شانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُط یادر ہے کہ اسی بد گوئی کے ساتھ ہی عبدالحق کے گھر میں کوئی لڑکا پیدا نہ ہوا بلکہ لا ولد اور ابتر اور اس برکت سے بالکل بے نصیب رہا اور بھائی مرگیا اور مباہلہ کے بعد بجائے لڑکا ہونے کے عزیز بھائی بھی دارالفنا میں پہنچ گیا.اس جگہ منصفین خیال کریں اور خدا تعالیٰ سے خوف کر کے سوچیں کہ کیا یہ علم غیب کسی انسان کی طاقت میں داخل ہے کہ خود افترا کر کے کہے کہ ضرور میرے گھر میں چوتھالڑ کا پیدا ہوگا اور ضرور ہے کہ فلاں شخص اس وقت تک جیتا رہے گا.اور پھر ایسا ہی ظہور میں آوے.کیا دنیا میں اس کی کوئی نظیر موجود ہے کہ خدا نے کسی مفتری کی ایسی تائید کی کہ دونوں پہلوؤں سے اس کو سچا کر کے دکھلا دیا.یعنی چوتھا لڑکا بھی دے دیا.اور اس وقت تک اس کے دشمن کو پیشگوئی کے مطابق زندہ رہنے دیا.اور یادر ہے کہ یہ مباہلہ کی صد ہا برکات میں سے ایک یہ برکت ہے جو مجھے دی گئی کہ خدا نے مباہلہ کے بعد تین لڑکے مجھے عطا فرمائے، یعنی شریف احمد.مبارک احمد نصیر احمد.اب ہم اگر عبد الحق کے ابتر ہونے کی بابت غلطی کرتے ہیں تو وہ بتلا دے کہ مباہلہ کے بعد اس کے گھر میں کتنے لڑکے پیدا ہوئے اور وہ کہاں ہیں.ورنہ
32 کوئی پہلا لڑکا ہی ہمیں دکھلاوے.اگر یہ لعنت کا اثر نہیں تو اور کیا ہے؟ اور میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ جیسا کہ عبدالحق مباہلہ کے بعد ہر ایک برکت سے محروم رہا، اسی طرح اس کے مقابل پر میرے پر خدا کا وہ فضل ہوا کہ کوئی دنیا اور دین کی برکت نہیں جو مجھے نہیں ملی.اولاد میں برکت ہوئی کہ بجائے دو کے پانچ ہو گئے.مال میں برکت ہوئی کہ کئی لاکھ روپیہ آیا' عزت میں برکت ہوئی کہ کئی لاکھ انسان نے میری بیعت کی خدا کی تائید میں برکت ہوئی کہ صدہا نشان میرے لئے ظاہر ہوئے.۱۲ صاحبزادہ صاحب کے وجود میں مزید آیات اللہ کا ظہور : صاحبزادہ صاحب کے وجود میں متعدد نشانات ظاہر ہوئے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.۱۸۵ نشان.بعض نشان اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان کے وقوع میں ایک منٹ کی تاخیر بھی نہیں ہوتی کہ فی الفور واقع ہو جاتے ہیں اور ان میں گواہ کا پیدا ہونا کم میسر آتا ہے.اسی قسم کا یہ ایک نشان ہے کہ ایک دن بعد نماز صبح میرے پر کشفی حالت طاری ہوئی.اور میں نے اس وقت اس کشفی حالت میں دیکھا کہ میرالڑ کا مبارک احمد باہر سے آیا ہے اور میرے قریب جو ایک چٹائی پڑی ہوئی تھی اس کے ساتھ پیر پھسل کر گر پڑا ہے اور اس کو بہت چوٹ لگی ہے اور تمام گر نہ خون سے بھر گیا ہے میں نے اس وقت مبارک احمد کی والدہ کے پاس جو اس وقت میرے پاس کھڑی تھیں، یہ کشف بیان کیا، تو ابھی میں بیان ہی کر چکا تھا کہ مبارک احمد ایک طرف سے دوڑا آیا.جب چٹائی کے پاس پہنچا تو چٹائی سے پیر پھسل کر گر پڑا اور سخت چوٹ آئی اور تمام گر نہ خون سے بھر گیا اور ایک منٹ کے اندر ہی یہ پیشگوئی پوری ہوگئی.ایک نادان کہے گا کہ اپنی بیوی کی گواہی کا کیا اعتبار ہے.اور نہیں جانتا کہ ہر ایک شخص طبعاً اپنے ایمان کی حفاظت کرتا ہے.اور نہیں چاہتا کہ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر پھر جھوٹ بولے.سوا اس کے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اکثر معجزات کے گواہ آنجناب کے دوست اور آنجناب کی بیویاں تھیں.اس صورت میں وہ معجزات بھی باطل ہوتے ہیں اور اکثر نشانوں کے دیکھنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں، کیونکہ ہر وقت ساتھ رہنے کا انہیں کو اتفاق ہوتا ہے.دشمنوں کو کہاں نصیب ہوسکتا ہے کہ وہ ان نشانوں کو دیکھ سکیں کہ جو ایک طرف بذریعہ پیشگوئی بتلائے جاتے اور دوسری طرف معا پورے
33 ہو جاتے ہیں دشمن کا تو دل بھی دُور ہوتا ہے اور جسم بھی دور “.ایک اور نشان: ایک بار کا ذکر حضور ان الفاظ میں فرماتے ہیں : ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مبارک احمد میرا چوتھا لڑ کا فوت ہو گیا ہے.اس سے چند دنوں کے بعد مبارک احمد کو سخت تپ ہوا اور آٹھ دفعہ فش ہو کر آخری عش میں ایسا معلوم ہوا کہ جان نکل گئی ہے.آخر دُعا شروع کی اور ابھی میں دُعا میں تھا کہ سب نے کہا کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے.تب میں نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو نہ دم تھانہ نبض تھی، آنکھیں میت کی طرح پتھر گئی تھیں، لیکن دُعانے ایک خارق عادت اثر دکھلایا اور میرے ہاتھ رکھنے سے ہی جان محسوس ہونے لگی یہاں تک کہ لڑکا زندہ ہو گیا اور زندگی کے علامات پیدا ہو گئے.تب میں نے بلند آواز سے حاضرین کو کہا کہ اگر عیسی بن مریم نے کوئی مُردہ زندہ کیا ہے تو اس سے زیادہ ہر گز نہیں، یعنی اسی طرح کا مُردہ زندہ ہوا ہوگا.نہ کہ وہ جس کی جان آسمان پر پہنچ چکی ہو اور ملک الموت نے اس کی رُوح کو قرار گاہ تک پہنچادیا ہو“ * ۱۴ تا پانی والانشان: ایک اور نشان کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں یوں ہے کہ ۱۸۶ نشان.ایسا ہی عرصہ قریباً تین سال کا ہوا ہے کہ صبح کے وقت کشفی طور پر مجھے دکھایا گیا کہ مبارک احمد سخت مبہوت اور بدحواس ہو کر میرے پاس دوڑ آیا ہے اور نہایت بے قرار ہے اور حواس اُڑے ہوئے ہیں اور کہتا ہے کہ ابا پانی.یعنی مجھے پانی دو.یہ کشف نہ صرف میں نے گھر کے لوگوں کو بلکہ بہتوں کو سنا دیا تھا کیونکہ اس کے وقوع میں ابھی قریباً دو گھنٹے باقی تھے.اس کے بعد اسی وقت ہم باغ میں گئے اور قریباً ۸ بجے صبح کا وقت تھا اور مبارک احمد بھی ساتھ تھا اور مبارک احمد کئی دوسرے چھوٹے بچوں کے ساتھ باغ کے ایک گوشہ میں کھیلتا * نزول اسی صفحہ ۲۰.کچھ اختصار کے ساتھ حضور نے اس نشان کا ذکر حقیقۃ الوی صفحہ ۲۵ پربھی فرمایا ہے.نیز حضور نے نزول المسیح صفحه ۲۳۵ - ۳۶ پر تحریر فرمایا ہے کہ آج کے الہام رب ارنسی كيف تـحـى الـمـوتـيـ ربّ اغفر و ارحم من السماء“ کے پورا کرنے کا ذریعہ بنا.
34 تھا اور عمر قریباً چار برس کی تھی.اس وقت میں ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا.میں نے دیکھا کہ مبارک احمد زور سے میری طرف دوڑتا چلا آتا ہے اور سخت بدحواس ہو رہا ہے.میرے سامنے آ کر اتنا اس کے منہ سے نکلا کہ اپنا پانی بعد اس کے نیم بے ہوش کی طرح ہو گیا اور وہاں سے کنواں قریباً پچاس قدم کے فاصلہ پر تھا میں نے اس کو گود میں اٹھا لیا اور جہاں تک مجھ سے ہوسکا میں تیز قدم اُٹھا کر اور دوڑ کر کنوئیں تک پہنچا اور اس کے منہ میں پانی ڈالا.جب اس کو ہوش آئی اور کچھ آرام آیا تو میں نے اس سے اس حادثہ کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا کہ بعض بچوں کے کہنے سے بہت سالپسا ہوا نمک پھانک لیا اور دماغ پر بخار چڑھ گئے اور سانس رک گیا اور گل گھونٹا گیا.پس اس طرح پر خدا نے اس کو شفادی اور کشفی پیشگوئی پوری کی.‘‘ ۱۵.فضل الہی سے خسرہ سے شفایابی: ایک دفعہ صاحبزادہ صاحب خسرہ سے بیمار ہو گئے اور سخت تکلیف اُٹھائی.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائنی اور صاحبزادہ صاحب کو شفا عطا فرمائی.چنانچہ مرقوم ہے.ایک صاحب گھر میں آئے طب کا ذکر شروع ہوا.فرمایا کہ طبیب میں علاوہ علم کے جو اس کے پیشہ کے متعلق ہے ایک صفت نیکی اور تقویٰ بھی ہونی چاہئے ورنہ اس کے بغیر کچھ کام نہیں چلتا.ہمارے پچھلے لوگوں میں اس کا خیال تھا اور لکھتے ہیں کہ جب نبض پر ہاتھ رکھے تو یہ بھی کہے لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنا یعنی اے خداوند بزرگ ہمیں کچھ علم نہیں مگر وہ جوٹو نے سکھایا.فرمایا کہ دیکھو پچھلے دنوں میں مبارک احمد کو خسرہ نکلا تھا.اس کو اس قدر کھجلی ہوتی تھی کہ وہ پلنگ پر کھڑا ہو جاتا تھا، اور بدن کی بوٹیاں تو ڑتا تھا.جب کسی بات سے فائدہ نہ ہوا تو میں نے سوچا کہ اب دعا کرنی چاہئے.میں نے دعا کی اور دُعا سے ابھی فارغ ہی ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کچھ چھوٹے چھوٹے چو ہوں جیسے جانور مبارک احمد کو کاٹ رہے ہیں.ایک شخص نے کہا کہ ان کو چادر میں باندھ کر باہر پھینک دو.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.جب میں نے بیداری میں دیکھا تو مُبارک احمد کو بالکل آرام ہو گیا تھا.اسی طرح دست شفا جو مشہور ہوتے ہیں اس میں کیا ہوتا ہے.وہی خدا کا فضل اور کچھ نہیں.۱۶
35 صاحبزادہ صاحب کی تربیت کے متعلق ایک واقعہ : عام طور پر والدین بچوں کی تربیت کرتے ہوئے صحیح طریق اختیار نہیں کرتے.یا تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر گرفت کرتے ہیں اور اس طرح بچوں کے طبعی اور آزدانہ قومی واطوار کی صحیح ترقی میں روک بنتے ہیں.یا پھر بعض اہم امور دینی میں بھی بے پرواہی اور درگذر سے کام لیتے ہیں اور اس طرح اولا د کو خو دسر اور بے دین بنا دیتے ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا طریق بالکل طبعی تھا.آپ جہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اولاد سے چشم پوشی فرماتے تھے وہاں اہم دینی امور میں گرفت اور سرزنش بھی فرماتے تھے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام میضہم فرماتے ہیں کہ حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ تمہارے بھائی مبارک احمد مرحوم سے بچپن کی بے پروائی میں قرآن شریف کی کوئی بے حرمتی ہوگئی.اس پر حضرت مسیح موعود کو اتنا غصہ آیا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے بڑے غصہ میں مبارک احمد کے شانہ پر ایک طمانچہ مارا جس سے اس کے نازک بدن پر آپ کی انگلیوں کا نشان اُٹھ آیا.اور آپ نے اس غصہ کی حالت میں فرمایا کہ اس کو اس وقت میرے سامنے سے لے جاؤ.خاکسار عرض کرتا ہے کہ........حضرت صاحب کو اس سے بہت محبت تھی.چنانچہ اس کی وفات پر جو شعر آپ نے کتبہ پر لکھے جانے کے لئے کہے اس کا ایک شعر یہ ہے.جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خُو تھا وہ آج ہم سے جُدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر مبارک احمد بہت نیک سیرت بچہ تھا اور وفات کے وقت اس کی عمر صرف کچھ اوپر آٹھ سال کی تھی.لیکن حضرت صاحب نے قرآن شریف کی بے حرمتی دیکھ کر اس کی تادیب ضروری سمجھی.کا خدمت گذاری پر حضور کی قدردانی : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے خدام کی خدمت گذاری پر قدردانی فرماتے تھے.اور آپ من لم يشكر الناس لم یشکر اللہ کی حدیث پر پورے طور پر عامل تھے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام میضہم فرماتے ہیں:
36 ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھ سے میری لڑکی زینب بیگم نے بیان کیا کہ جب مبارک احمد صاحب بیمار ہوئے تو مجھ کو ان کی بیمار.خدمت کے لئے بھی اسی طرح کئی راتیں گذرانی پڑیں.تو حضور نے فرمایا کہ زینب اس قدر خدمت کرتی ہے کہ ہمیں اس سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے.اور آپ کئی دفعہ اپنا تبرک مجھے دیا کرتے تھے.۱۸ صاحبزادہ صاحب کی شادی: صاحبزادہ صاحب کی بیماری کے ایام میں کسی شخص نے خواب دیکھا کہ آپ کی شادی ہو رہی ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ معتبرین نے لکھا ہے کہ اس کی تعبیر تو موت ہے.مگر اسے ظاہری رنگ میں پورا کر دینے کی صورت میں بعض دفعہ یہ تعبیر مل جاتی ہے.چنانچہ صاحبزادہ صاحب کا نکاح ۳۰ اگست ۱۹۷ء کو بعد نماز عصر حضرت مولوی نور الدین صاحب (خلیفۃ أیح اول ) رضی اللہ عنہ نے پڑھا.چنانچہ اس تقریب کے متعلق معزز اخبار بدر رقمطراز ہے: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مبارک کی مبارک نَحْمُدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عبد الحئی کی مبارک خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بزرگ نشان معہ تقریب شادی سب حمد وثنا اس قادر توانا کے لئے ہے جو غیب کی خبریں صرف اپنے رسولوں پر ظاہر کرتا ہے.اور صلوٰۃ اور سلام ان رسولوں کے سردار حضرت محمد مصطفے پر ہوں جس کے معجزات اور کرامات نے آج مسیح موعود اور اس کے کاموں میں نمودار ہو کر دنیا پر خدا کی ہستی کو پھر ظاہر کر دیا ہے.کیا ہی مبارک ہے اس مبارک (حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد فرزند مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) کا وجود جو بہت سے نشانات سماوی کا مظہر ہوکر خود آیت اللہ ہے.اس کے متعلق تازہ نشان کی تفصیل یہ ہے کہ صاحبزادہ تپ شدید سے سخت بیمار ہوگیا تھا، یہاں تک کہ بار ہاغشی تک نوبت پہنچ گئی اور اکثر تیپ ۱۰۴ سے بھی زیادہ ۱۰۵ درجہ تک پہنچ جاتا تھا اور سر مارنے کی حالت ایسی تھی جو سر سام کا خوف دلاتی تھی.رات کے وقت اس نا امیدی کی حالت میں حضرت مسیح موعود نے دعا کی تو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا
37 قبول ہوگئی.نو دن کا بخار ٹوٹ گیا.یہ دُعا قبول ہو گئی اور تپ جو لازم حال ہورہا ہے وہ نو دن پورے کر کے دسویں دن ٹوٹ جاوے گا (یہ الہامات اخبار بدر مورخه ۲۹/ اگست ۱۹۰۷ء میں شائع ہو گئے تھے ) چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا.اور خدا تعالیٰ نے دسویں دن بخار توڑ دیا یہاں تک کہ لڑکا تندرست ہو کر باغ سیر کرنے کے لئے چلا گیا.یہ خدا کا بڑا نشان تھا جو ظہور میں آیا کیونکہ اس میں ایک دعا کے قبول ہونے کی بشارت ہے اور دوسرے تاریخ صحت مقرر کر دی گئی ہے.جس کی تمام جماعت گواہ ہے.اور اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ يعنى خدا تعالیٰ کھلے کھلے غیب پر اسی کو اطلاع دیتا ہے جو اس کا پسندیدہ رسول ہو اور اس الہام کے ساتھ یہ بھی الہام تھا انّي مَعَكَ یا ابْرَاهِيمُ لَا تَخَفْ صَدَّقُتُ قَوْلِى یعنی اے ابراہیم میں تیرے ساتھ ہوں، کچھ خوف نہ کر میں اپنی بات کو کچی کردوں گا.چنانچہ فرمودہ خدا تعالیٰ سچا ہو گیا اور اس خوشی کے ساتھ یہ مبارک تقریب بھی پیش آئی کہ مبارک احمد کا نکاح ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم کے ساتھ اسی مبارک دن (۳۰؎ اگست ۱۹۰۷ء) میں ہو گیا.خدا اس نکاح کو مبارک کرے.اور اسی روز اسی وقت حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب کے لڑکے عزیز عبد الحئی کا نکاح پیر منظور محمد صاحب کی لڑکی حامدہ کے ساتھ ہو گیا.خدا تعالیٰ دونوں نکاح مبارک کرے اور دونوں کو مع بیویوں کے عمر دراز کرے.آمین.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے بعد از نماز عصر خطبہ نکاح پڑھا اس مبارک تقریب پر ہم مبارکباد کہتے ہیں.حضرت امام علیہ السلام کی خدمت میں اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں اور حضرت ام المومنین اور والدہ صاحبہ عزیز عبدالحئی کی خدمت میں اور حضرت میر صاحب اور والدہ صاحبہ محمد اسحاق کی خدمت میں اور ان کے تمام لواحقین اور اہل بیت کی خدمت میں اور جناب ڈاکٹر میر عبدالستار شاہ صاحب اور پیر منظور محمد اور ان کے لواحقین کی خدمت میں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان تعلقات میں اپنے فضل و کرم سے برکات عظیم ڈالے.آمین ثم آمین.19
38 صاحبزادہ صاحب کی وفات : صاحبزادہ صاحب کی وفات کے متعلق تقدیر مبرم تھی.چنانچہ آپ ۱۶ستمبر ۱۹۰۷ء کو شادی کے چند دن بعد داغ مفارقت دے گئے.اس موقعہ پر سلسلہ کے اخبارات نے لکھا: ” إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ“ * خُدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں پوری ہوئیں." کیا ہی مبارک تھا وہ وجود جس کی پیدائش بھی خدا تعالیٰ کا ایک عظیم الشان نشان تھا اور اس کی وفات بھی ایک شاندار نشان ہوا.مبارک احمد کی مبارک رُوح اسی لئے دنیا میں آئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کے رسول کی صداقت کے واسطے نشانات قائم کر کے جلد اپنے خدا کے ساتھ جاملے.اگست گذشتہ میں میاں مبارک احمد تپ شدید سے سخت بیمار ہو گیا تھا یہاں تک کہ بار بار غشی تک نوبت پہنچتی تھی اور تپ ایک سو پانچ درجہ تک پہنچ گیا سر مارنے کی ایسی حالت تھی کہ سرسام کا خوف ہو کر نومیدی کی حالت ہو چکی تھی ایسی حالت میں الہام ہوا کہ نو دن کا بخار ٹوٹ گیا اور مبارک احمد تندرست ہو کر باغ سیر کرنے کے لئے چلا گیا اور پھر چند روز بخار ره کر۴ استمبر ۱۹۰۷ء کو ٹوٹ گیا یہ الہام اخبار بدر مورخه ۲۹ اگست ۱۹۰۶ء میں قبل از وقت چھپ گیا تھا.چنانچہ اس کے مطابق ۳۰ اگست ۱۹۰۶ء کو بخار بالکل ٹوٹ گیا تھا اور لڑکا بالکل صحت یاب ہو گیا' اور لڑکے نے خود کہا کہ میں بالکل تندرست ہوں اور کھیلنا شروع کیا.اس بیماری سے تو شفاء ہوئی لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کا ایک پرانا فرمودہ پورا ہونا تھا اس واسطے ایک دوسرے مرض سے مبارک احمد پھر بیمار ہوا کیونکہ ضرور تھا کہ خدا کے منہ کی باتیں ساری پوری ہو جائیں.”مبارک احمد ۶ استمبر یا روز دوشنبہ کی صبح کو اپنے خدا سے جا ملا.اور مقبرہ بہشتی میں دفن کیا گیا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون یہ ایک خوردسال بچہ تھا جو چھوٹی عمر میں فوت خاکسار کے استفسار پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام میضہم نے مجھے تحریر فرمایا کہ ” جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مبارک احمد مرحوم کی شادی حضرت مسیح موعود کے مکان کے اندر اس صحن میں ہوئی تھی جو اس وقت ام ناصر احمد صاحب کا صحن کہلاتا ہے اور چند دن بعد اس صحن میں مبارک احمد کی وفات ہوئی.یہ مین حضرت اماں جان والے صحن کے شمال مغربی کونے میں دو تین سیڑھیاں اونچا ہو کر واقع ہے“.(مؤلف)
39 ہو گیا.اگر چہ اور بھی کئی خورد سال بچے حضرت مسیح موعود کے خوردسالی میں فوت ہو چکے ہیں مگر اس بچے کی عجیب سوانح قابل تذکرہ ہیں کیونکہ وہ طرح طرح کے نشانوں کا مجموعہ تھا.اس کی پیدائش کی بھی خدا نے خبر دی اور پھر یہ بھی خبر دی کہ وہ خوردسالی میں وفات پا جائے گا.اور پھر یہ بھی خبر دی کہ اس کی پیدائش موجب ترقی ، اقبال ہوگی.چنانچہ اس کے پیدا ہونے کے بعد ہی ترقی شروع ہوئی اور کئی لاکھ انسان اس سلسلہ میں داخل ہو گیا اور خدا نے ہر ایک پہلو سے نصرت اور تائید کی.اگر چہ ہر ایک انسان کسی بچہ کے فوت ہونے سے خواہ کیسا ہی چھوٹا ہو نگین ہوتا ہے.مگر یہ خدا کی رحمت اور اس کا فضل ہے کہ مبارک احمد کی وفات سے حضرت مسیح موعود کو ایک پہلو سے خوشی ہوئی.کیونکہ جیسی کہ پیشگوئی تھی کہ وہ چھوٹی عمر میں فوت ہو جائے گا وہ نشان ظاہر ہو گیا.پس اس کی خوردسالی کی موت بھی اسلام کی نصرت اور تائید کا موجب ہوئی اور یہی وہ امر ہے جو حضرت مسیح موعود کے لئے خوشی کا موجب ہوا.......اور موت کے قریب اس نے حضرت مسیح موعود کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں بڑی محبت سے لیا اور ہاتھ سے ہاتھ ملایا.گویا آخری ملاقات کی.اور علاج کرنے والوں کو علاج سے منع کر کے کہا کہ اب مجھے نیند آ گئی ہے اور جب دیکھا تو وفات پاچکا تھا.غرض کہ یہ لڑ کا کیا بوجہ پیدائش کے اور کیا بوجہ اپنی موت کے اور کیا بوجہ ترقیات سلسلہ کے خدا کا ایک نشان تھا اور اس کی پیدائش سے کچھ دن پہلے حضرت مسیح موعود کو بطور اس کے قول کے یہ الہام ہوا کہ میں خدا کی طرف سے گرتا ہوں اور خدا کے ہاتھ سے پیدا ہوتا ہوں.یعنے میں ناپاک جذبات سے مطہر اور فرشتوں کی طرح ہوں.پس چونکہ وہ مبارک تھا اس لئے اس کا نام مبارک رکھا گیا تھا.اور دنیا میں وہ محض نشان دکھلانے کے لئے آیا تھا اور جب وہ پیٹ میں تھا تو کسی نے خواب میں اس کی والدہ کو کہا کہ یہ لڑ کا مبارک ہے.اس کا نام دولت احمد رکھو.۲۰ مگر دوسرے الہام کے مطابق اس کا نام مبارک احمد ہی رکھا گیا اور وہی نام زیادہ مشہور ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اس میں شک نہیں کہ بعض نادان دشمن اس پر خوشیاں منائیں گے.لیکن اُن کی خوشیاں منانا بھی مومنین کے واسطے ایک نشان ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے آج سے پندرہ ماہ قبل اس
40 امر کی خبر کر دی تھی کہ اس لڑکے کے فوت ہونے پر دشمنوں کو خوشی سے اچھلنے کا موقعہ ملے گا.مگر جس قدر وہ خوشی کریں گے اسی قدر اپنے ہاتھوں سے اس پیشگوئی کو پورا کریں گے.اور اس بارہ میں چند سطور بطور شہادت اخبار بدر سے ذیل میں درج کی جاتی ہیں.ایک وہ الہام ہے جو مخالفوں کی خوشی کو ظاہر کرتا ہے اور وہ یہ ہے الہام الہی.دشمن کا بھی ایک وار نکلا.وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِ لُهَا بَيْنَ النَّاسِ.“ دیکھو بدر مورخہ ۳ مئی ۱۹۰۶ء.یعنی کوئی ایسا امر رنجدہ خدا کی طرف سے ہماری نسبت یا ہماری جماعت کے کسی فرد کی نسبت صادر ہوگا جس سے دشمن خوش ہو جائے گا.اور وہ امر نجدہ خدا کی طرف سے ہوگا یا دشمن کا اس میں کچھ دخل ہوگا.اور پھر خدا فرماتا ہے کہ یہ دن خوشی اور غم یا فتح اور شکست کے ہم نوبت به نوبت لوگوں میں پھیرا کرتے ہیں.بعض وقت خوشی اور فتح خدا کی جماعت کو ملتی ہے اور دشمن ذلیل اور شرمسار ہو جاتے ہیں.جیسا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بدر کی لڑائی میں و پھر دوسری مرتبہ جنگ اُحد میں کفار کی خوشی کی نوبت آئی، یعنی جنگ اُحد کی لڑائی میں دردناک شہادتیں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نصیب ہوئیں، اور خود آنحضرت زخمی ہوئے اور ایک تہلکہ برپا ہوا اور اس وقت بعض ان لوگوں کے دلوں میں جو عادت اللہ سے ناواقف تھے.یہ خیال بھی آیا کہ جس حالت میں ہم حق پر ہیں اور ہمارے مخالف باطل پر ہیں تو یہ مصیبت ہم پر کیوں آئی.تب ان کا جواب اللہ تعالیٰ نے وہ دیا جو قرآن شریف میں مذکور ہے اور وہ یہ ہے کہ ان يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ - یعنی اگر تم کو اُحد کی لڑائی میں دُکھ اور تکلیف پہنچی ہے تو بدر کی لڑائی میں بھی تو تمہارے مخالفوں کو ایسی ہی تکلیف پہنچی تھی.اور ایسا ہی دُکھ اور نقصان اُٹھانا پڑا تھا...........اس دن سے جو خدا نے دنیا پیدا کی یہ قانون چلا آیا ہے کہ کبھی کوئی ایسی تائید اور نصرت ظاہر ہوتی ہے جس سے مومن خوش ہو جاتے ہیں اور کبھی کوئی ایسا ابتلاء مومنوں کے لئے پیش آ جاتا ہے جو کا فر مارے خوشی کے اچھلتے پھرتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ اس وحی مقدس میں بھی جو آج اس عاجز پر نازل ہوئی فرماتا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ کچھ عرصہ سے متواتر خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید رحمت کے نشانوں کے رنگ میں اس عاجز کی نسبت ظاہر ہو رہی
41 ہے جس سے مخالف لوگ ایک مسلسل غم دیکھ رہے ہیں.اب ضروری ہے کہ بموجب قانون وَتِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ ان کو بھی کچھ خوشی پہنچائی جائے.سواس الہام کی بناء پر کوئی امر ہمارے لئے ناگوار اور ان کے لئے موجب خوشی کا ظاہر ہو جائے گا...مذکورہ بالا الہام میں خدا تعالیٰ پیشگوئی کے طور پر فرماتا ہے کہ ایک ناگوار امر ظاہر ہو گا.جو کسی قدر دشمنوں کی خوشی کا باعث ہو جائے گا.....مرزا غلام احمد مسیح موعود ۲۹ اپریل ۶۱۹۰۶ ۱۹ مارچ ۱۹۰۷ ء کو ایک رویا حضرت مسیح موعود کو ہوا تھا.جو مفصلہ ذیل الفاظ میں ۲۱ مارچ کے اخبار میں شائع ہوا تھا.خواب میں میں نے دیکھا کہ میری بیوی مجھے کہتی ہے کہ میں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے اس پر میں نے ان کو جواب میں یہ کہا کہ اسی سے تو تم پر کسن چڑھا ہے.یہ الہام بھی اب پورا ہوا ہے کیونکہ اپنے نو سالہ جوان پیارے لڑکے کے مرنے پر حضرت ام المومنین نے عام عورتوں کی طرح کوئی جزع فزع نہیں کی نہ کوئی چیخنا چلانا ہوا.بلکہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کہہ کر خدا کی تقدیر پر بالکل صبر کیا اور نہایت حوصلہ کے ساتھ اس مصیبت کو خدا کی رضا کے لئے برداشت کیا.“ م اپریل ۱۹۰۷ء کو تین الہامات حضرت مسیح کو ہوئے تھے.(۱) ”لائف آف پین“ یعنی تلخ زندگی (۲) یا اللہ رحم کر (۳) انّی مَعَ اللَّهِ فِي كُلِّ حَالِ پینے میں ہر ایک حال میں خدا کے ساتھ ہوں اس میں اس صبر اور شکر کی طرف اشارہ ہے جو بعد وفات مبارک احمد آپ کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہورہا ہے.“ ۱۴ ستمبر ۱۹۰۷ء کو دوسرے مرض کے وقت حضرت" کو الہام ہوا تھا.66 لا عِلاج ولا يُحفظ “ جو دو دن بعد پورا ہو گیا.مبارک احمد کی وفات سے چند روز پہلے حضرت مسیح موعود نے خواب میں دیکھا کہ ایک پانی کا گڑھا ہے میاں مبارک احمد اس میں داخل ہوا اور غرق ہو گیا.بہت تلاش کیا گیا مگر کچھ پتہ نہیں ملا.پھر آگے چلے گئے تو اس کی بجائے ایک اور لڑکا بیٹھا ہوا ہے.“ مبارک احمد کی وفات سے پہلے صبح حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا تھایـــوم تـــاتـــی السماء بدخان مبین.آپ نے اس وقت سمجھ لیا تھا کہ کوئی ایسا امر ظاہر ہونے والا
42 ہے جو جماعت کے لئے موجب پریشانی ہوگا.“ ”باغ جانے کی بہت خواہش رکھتا تھا سو خدا نے جلد باغ میں پہنچا دیا.آخر تک ہوش قائم رہا جس صبح کو وفات ہوئی اس سے پہلے رات کو کئی بار حضرت کو بلایا اور آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیکر مصافحہ کیا گویا آخری ملاقات کی.اللہ تعالیٰ جنت نصیب کرے.حضرت نے خود جنازہ پڑھایا.66 تخمینا اگست میں حضرت نے خواب میں دیکھا تھا کہ آپ مقبرہ بہشتی میں ہیں، قبر کھد واتے ہیں، سو ایسا ہی ظہور میں آیا.“ صاحبزادہ صاحب کے مبارک اخلاق: صاحبزادہ صاحب کے مبارک اخلاق کے متعلق مکرم مدیر صاحب بدر لکھتے ہیں : مبارک احمد نہایت حلیم طبع بچہ تھا.کوئی شوخی اس کی طبیعت میں نہ تھی.ایام بیماری میں ہر ایک تلخ سے تلخ دوا کو اس نے بخوشی خود ہی پی لیا تھا.اور اردو پڑھنا لکھنا بھی سیکھ گیا تھا قرآن شریف پڑھ لیا تھا.ایام بیماری میں بھی ذرا طبیعت اچھی ہوتی تو کتاب لے بیٹھتا.ا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: قرآن شریف پڑھ لیا تھا، کچھ کچھ اردو بھی پڑھ لیتا تھا.اور جس دن بیماری سے افاقہ ہوا میرا سارا اشتہار پڑھا.اور یا کبھی کبھی پرندوں کے ساتھ کھیلنے میں مشغول ہو جاتا تھا.**۲۲ مکرم مدیر صاحب بدر تحریر کرتے ہیں.اس بچہ سے بچپن کی حالت میں بعض خوارق بھی ظاہر ہوئے تھے.چنانچہ ۴ اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ سے پہلے وہ بار بار کہا کرتا تھا کہ زمین ہل گئی ، زمین ہل گئی.آخر وہ زلزلہ آیا جس کی اس ملک میں نظیر نہیں پائی جاتی تھی.۲۳ * یہ تمام اقتباسات الحکم جلدا انمبر ۳۳ بابت ۷ ار ستمبر ۱۹۰۷ ء و بدر جلد ۶ نمبر ۳۸ بابت ۱۹ ستمبر ۱۹۰۷ء سے لئے گئے ہیں.ہر دو میں ایک ہی مضمون شائع ہوا تھا.(مؤلف) ** صاحبزادہ صاحب کو مدرسہ تعلیم الاسلام میں داخل کیا گیا تھا.چنانچہ ان کے داخلہ کے متعلق ذیل کا اندراج ملتا ہے.تاریخ داخله نام طالب علم ولدیت سکونت ۲۱ نومبر ۱۹۰۶ء میاں مبارک احمد ولد حضرت اقدس مرزا غلام احمد مسیح موعود قادیان نام جماعت دوم پرائمری اکتوبر میں پرائمری سکول میں ایک سو انیس طالب علم تھے.رسالہ تعلیم الاسلام جلد اول نمبر ۵ بابت ماہ نومبر ۶، ص۲۰۱۱۹۷ (مؤلف)
43 پھر لکھتے ہیں: ” خلیفہ ڈاکٹر رشید الدین صاحب نے (حضور کی خدمت ) میں عرض کیا کہ مبارک احمد کو لوگ اکثر و گی.ولی کر کے پکارا کرتے تھے.۲۴ مکرم ڈاکٹر عطر الدین صاحب درویش نے صاحبزادہ صاحب کی سعید فطرت کے متعلق مجھ سے بیان کیا کہ میں آپ کو دُعا کے لئے کہا کرتا تھا، جس وقت کہتا اُسی وقت ہاتھ اُٹھا کر دُعا کرنے لگ جاتے.کتبہ کی عبارت: * حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے کتبہ کی عبارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نوشتہ ہے.۲۵ کتبہ کی عبارت ذیل میں درج کی جاتی ہے: جگر کا ٹکڑہ مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک جو تھا وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر کہا کہ آئی ہے نیند مجھ کو یہی تھا آخر کا قول لیکن کچھ ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے تھکے بھی ہم پھر جگا جگا کر ! برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اُسے بلایا بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پر اے دل تو جاں فدا کر ! میں جو غلام احمد نام خدا کا مسیح موعود ہوں، مبارک احمد جس کا اوپر ذکر ہے میرا لڑکا تھا.وہ بتاریخ ۷ شعبان ۱۳۲۵ھ مطابق ۶ استمبر۱۹۰۷ء بروز دوشنبه بوقت نماز صبح وفات پا کر الهامی پیشگوئی کے موافق اپنے خدا کو جاملا.کیونکہ خدا نے میری زبان پر اس کی نسبت فرمایا تھا کہ وہ خدا کے ہاتھ سے دنیا میں آیا ہے اور چھوٹی عمر میں ہی خدا کی طرف واپس جائے گا.* اس کتبہ کی اصل عبارت کا باوجود بسیار تلاش کے کسی اخبار میں حوالہ نہیں مل سکا.متعدد بار کی مطبوعہ درنشین دیکھی ہیں باوجود ایک ہی شخص کے کئی بار چھاپنے کے کئی دفعہ بعض الفاظ میں اختلاف ہے مثلاً محمد یا مین صاحب تاجر کتب کی طرف سے بعض دفعہ سن وفات ۱۳۳۵ھ درج ہوا ہے اور بعض دفعہ ۱۳۳۵ھ.بعد کے ایڈیشن پہلوں کی نقول ہونے کی وجہ سے قابل استناد نہیں.میں نے تاجر صاحب مذکور کی درمین شائع کردہ بار پنجم (سن نامعلوم ) اور طبع ۱۹۲۳ء ۱۹۲۵ء (با طبع نا معلوم ) سے کتبہ کی عبارت یہاں نقل کی ہے.پہلا کتبہ تبدیل ہو چکا ہے کیونکہ موجودہ کتبہ میں بہت سا اختلاف ہے یعنی موجودہ کتبہ میں (۱) شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم ط درج ہے.(۲) اشعار کے بعد لکھا ہے کہ تاریخ وفات اس مصرعہ سے بھی نکلتی ہے، جا مبارک تجھے فردوس مبارک ہو دے (۳) تاریخ وفات ۶ ستمبر کی بجائے ۲۶ اگست درج ہے (۴) موافق کی بجائے مطابق لکھا ہے (۵) ''واپس جائیگا' کی جگہ واپس آ جائے گا“ لکھا ہے (مؤلف)
44 صاحبزادہ صاحب کی وفات پر حضور کا صبر کا نمونہ : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو صاحبزادہ صاحب مرحوم سے بہت محبت تھی.باوجود اس کے حضور نے آپ کی وفات پر جو کامل صبر کا نمونہ دکھایا وہ ہمارے لئے بہترین اسوہ ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام میفہم فرماتے ہیں: ” جب ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام دن رات اس کی تیمار داری میں مصروف رہتے تھے اور بڑے فکر اور توجہ کے ساتھ اس کے علاج میں مشغول رہتے تھے.اور چونکہ حضرت صاحب کو اس سے بہت محبت تھی، اس لئے لوگوں کا خیال تھا کہ اگر خدانخواستہ وہ فوت ہو گیا تو حضرت صاحب کو بڑا صدمہ گذرے گا.لیکن جب وہ صبح کے وقت فوت ہوا.تو فوراً حضرت صاحب بڑے اطمینان کے ساتھ بیرونی احباب کو خطوط لکھنے بیٹھ گئے کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے اور ہم کو اللہ کی رضاء پر راضی ہونا چاہئے اور مجھے بعض الہاموں میں بھی بتایا گیا تھا کہ یا یہ لڑکا بہت خدا رسیدہ ہوگا اور یا بچپن میں فوت ہو جائے گا.سو ہم کو اس لحاظ سے خوش ہونا چاہئے کہ خدا کا کلام پورا ہوا.اور حضرت خلیفہ ثانی بیان کرتے ہیں کہ جس وقت مبارک احمد فوت ہونے لگا تو وہ سویا ہوا تھا.حضرت خلیفہ اول نے اس کی نبض دیکھی تو غیر معمولی کمزوری محسوس کی، جس پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور نبض میں بہت ہی کمزوری ہے، کچھ کستوری دیں.حضرت صاحب جلدی سے صندوق میں سے کستوری نکالنے لگے.مگر مولوی صاحب نے پھر کہا کہ حضور نبض بہت کمزور ہوگئی ہے.حضرت صاحب نے کستوری نکالنے میں اور جلدی کی.مگر پھر مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور نبض نہایت ہی کمزور ہے.حضرت خلیفہ ثانی بیان کرتے تھے کہ اس وقت دراصل مبارک احمد فوت ہو چکا تھا مگر حضرت مولوی صاحب حضرت مسیح موعود کی تکلیف کا خیال کر کے یہ کلمہ زبان پر نہ لا سکتے تھے.مگر حضرت صاحب سمجھ گئے اور خود آ کر نبض پر ہاتھ رکھا تو دیکھا کہ مبارک احمد فوت ہو چکا ہے.اس پر حضرت صاحب نے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کہا اور بڑے اطمینان کے ساتھ بستہ کھولا اور مبارک احمد کی وفات کے متعلق دوستوں کو خط لکھنے بیٹھ گئے.* اور مجھ سے حافظ * حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذیل کا مکتوب حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کو تسلی کیلئے تحریر کیا : (باقی اگلے صفحہ پر )
45 روشن علی صاحب نے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب مبارک احمد کو دفن کرنے کے لئے گئے تو ابھی قبر کی تیاری میں کچھ دیر تھی.اس لئے حضرت صاحب قبر سے کچھ فاصلہ پر باغ میں بیٹھ گئے.اصحاب بھی اردگرد بیٹھ گئے.تھوڑی دیر خاموشی کے بعد حضرت صاحب نے مولوی صاحب خلیفہ اول کو مخاطب کر کے فرمایا.مولوی صاحب ایسے خوشی کے دن بھی انسان کو بہت کم میسر آتے ہیں..........پھر فرماتے ہیں: " حضرت مسیح موعود کو اپنے بچوں کے ساتھ بہت محبت تھی.اور مبارک احمد سب سے چھوٹا بچہ ہونے کی وجہ سے دوسروں کی نسبت طبعا محبت و شفقت کا زیادہ حصہ پاتا تھا، اس لئے اس کی وفات پر آپ کو بہت صدمہ ہوا.مگر چونکہ آپ کا اصل تعلق خدا سے تھا اس لئے آپ نے اس صدمہ میں صبر اور رضا کا کامل نمونہ دکھایا.اور دوسروں کو بھی صبر و رضاء کی نصیحت فرمائی، حتی کہ جو لوگ اس موقعہ پر افسوس اور ہمدردی کے اظہار کے لئے آئے تھے ان کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود ہمارے ساتھ اس رنگ میں گفتگو فرماتے تھے کہ گویا صدمہ ہمیں پہنچا ہے اور آپ تسلی دینے والے ہیں.اس موقعہ پر آپ نے مبارک احمد کی قبر محمد : نصلی علی رسولہ الکریم بقيه حاشيه بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ عزیز مبارک احمد ۶ استمبر عاء بقضاء الہی فوت ہو گیا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون ہم اپنے رب کریم کی قضاء وقدر پر صبر کرتے ہیں تم بھی صبر کرو.ہم سب ان ہی کی امانتیں ہیں اور ہر ایک کام اس کا حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے.والسلام مرزا غلام احمد نیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کو ایک مکتوب میں تحریر فرمایا: دو تین ماہ کی مدت ہوئی کہ میرالڑ کا مبارک احمد جو اس کی والدہ کو بہت ہی پیارا تھا، تپ سے فوت ہوا ہے.اس کے انتقال کے قریب وقت میں میں نے ان کو کہہ دیا کہ دیکھو اب یہ لڑکا مرنے والا ہے.اور ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ جو مارنے والا ہے وہ مرنے والے سے ہمیں زیادہ پیارا ہے.اور یہی طریق ایمان کامل کا ہے کہ صرف یہ كون إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون خدا کی امانت تھی خدا نے لے لی.سوانہوں نے لڑکے کی موت کے وقت ایسا ہی کہا.یہ تو ظاہر ہے کہ اگر کوئی مر جائے تو یہ غیر معمولی بات نہیں.ہم بھی تو ہمیشہ کے لئے اس دنیا میں نہیں رہیں گے.خدا کے نزدیک انہیں کو مراتب ملتے ہیں، جو اس چند روزہ زندگی میں تلخی دیکھتے ہیں.اور خدا تعالیٰ اگر خوش ہوتا ہے تو بدل عطا کرتا ہے.ہرگز ہرگز طریق عوام نہیں اختیار کرنا چاہئے.خدا جس سے پیار کرتا ہے اس کو کوئی مصیبت بھی بھیجتا ہے.سونہایت استقلال سے خدا تعالی پر توکل کرو اور اس سے نومیدمت ہو.۲۶ نقل مطابق اصل
46 کے کتبہ کے لئے چند شعر بھی تحریر فرمائے جو آپ کے جذبات قلب کی عمدہ تصویر ہیں.۲۸ صاحبزادہ صاحب کی وفات پر حضور کا اُسوہ حسنہ : صاحبزادہ صاحب کی وفات کے ذکر پر مکرم منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی مرحوم نے مجھ سے تحریر أبیان کیا: مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات کے وقت میں قادیان میں تھا.صرف میں اور مولوی محمد علی صاحب مسجد مبارک کی چھت پر تھے کہ ہمیں آپ کی وفات کا علم ہوا.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ کام خراب ہو گیا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بچہ کے متعلق بہت سی پیشگوئیاں کی تھیں، اب لوگوں نے آپ سے تو کچھ پوچھنا نہیں اور ہماری شامت آ جائے گی.یہ بات مولوی صاحب نے اتنی بلند آواز سے نہیں کی تھی کہ نیچے تک سنی جاتی لیکن بڑے زور سے نیچے سے آواز آئی، معلوم نہیں کہنے والا کون تھا کہ کتاب تریاق القلوب کا فلاں صفحہ دیکھو.مولوی صاحب کتاب لائے دیکھا کہ حضور نے الہام کی یہ تشریح لکھی تھی کہ مبارک احمد یا تو بہت نیک ہوگا یا جلد فوت ہو جائے گا.یہ پڑھ کر مولوی صاحب نے کہا کہ اب بات بن گئی ہے.میں مرحوم کے جنازہ میں شامل ہوا.جس وقت قبر تیار ہورہی تھی تو حضور ورلی طرف درختوں کے سایہ میں تشریف رکھتے تھے اور ایسی طرز پر لوگوں کو صبر کی تلقین کر رہے تھے گویا کہ حضور کا اپنا بچہ فوت نہیں ہوا بلکہ دوسروں کا بچہ فوت ہوا ہے اور حضور تعزیت کے لئے آئے ہیں اور انہیں تسلی دے رہے ہیں.“ اس سلسلہ میں مکرم ملک مولا بخش صاحب مرحوم سابق ناظم جائیداد صدر انجمن احمد یہ وصدر بلد یہ قادیان نے مجھ سے تحریراً بیان کیا: ” جب صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی وفات ہوئی تو ڈاکٹر عباداللہ صاحب سردار فضل حق صاحب اور خاکسار اپنے خیالات اور جذبات کے ماتحت افسوس کرنے کے لئے قادیان گئے.امرتسر سے روانہ ہوتے وقت ایک دوست نے کہا کہ میراسلام علیکم حضور کی خدمت میں عرض کر دیں، تو سردار فضل حق صاحب نے جواب دیا ہم تو محض افسوس کرنے جار ہے ہیں، کسی کا سلام پہنچانے کا موقعہ نہیں.حضور نے جس قدر کوشش صاحبزادہ صاحب مرحوم کی تیمارداری پر کی تھی اس سے عام دنیا دار انسان یہی اندازہ لگا سکتا تھا کہ حضور بڑے رنج
47 اور افسوس کی حالت میں ہوں گے.لیکن جب ہم مسجد مبارک میں حضور سے ملے تو وہاں رنگ ہی اور تھا.نہ غم نہ افسوس سب کام حسب معمول ہورہے تھے مجلس کا وہی رنگ تھا اور جب صاحبزادہ صاحب مرحوم کا ذکر حضرت اقدس نے کیا، تو یہی فرمایا کہ میرے مولیٰ نے مجھے پہلے ہی خبر دے دی تھی کہ یہ لڑکا یا تو بہت با خدا ہوگا یا جلدی فوت ہو جاوے گا چنانچہ یہ معنی پہلے شائع بھی ہو چکے تھے ) ہم کو تو خوشی ہے کہ ہمارے مولیٰ کی بات پوری ہوئی.ایک بیٹا کیا اگر ہزار بیٹا ہو اور وہ مرجاوے لیکن میرے مولیٰ کی بات پوری ہو کہا یا یہ کہا کہ میرا مولیٰ راضی ہو جاوے تو ہم کو ہزار خوشی ہے یہ حالت دیکھ کر ہم میں سے کسی کو جرات نہ ہوئی کہ افسوس کا لفظ منہ پر لاوے.اور میں تو اپنے دل میں بہت شرمندہ تھا کہ حضرت اقدس کا بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے اور ہم بھی اس کے دعویدار ہیں.ہیں تفاوت را ه از کجاست تا بگجا !! اس واقعہ کا اثر عمر بھر میرے دل پر رہا.اور جب بعد میں میرے کئی بچے فوت ہوئے تو حضور کا یہ اسوۂ حسنہ بہت حد تک میری رہبری کا موجب ہوا.“ حضور کا صبر کا نمونہ : دارالامان میں آج کل کے زیر عنوان محترم مدیر الحکم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صبر ورضاء بالقضاء کے متعلق تحریر کیا: دار الامان خدا تعالیٰ کے فیوضات و برکات کا مبط ہے اور كل يوم هو في شان پر نیا دن نئی برکات لے کر آتا ہے.خدا کا برگزیدہ بندہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کی عجیب و غریب تجلیات کا مظہر بنا ہوا ہے.صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کے انتقال نے آپ کی سچائی خدا تعالیٰ کی ہستی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کونئی زندگی عطا فرمائی ہے اور یہ نکتہ حل ہو گیا کہ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ چاہتا ہے.صاحبزادہ صاحب کے انتقال کے متعلق خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے پر الحکم کی پچھلی اشاعت میں لکھا جاچکا ہے اس کے اعادہ کی حاجت نہیں.مگر یہاں مجھے ایک خاص بات کا ذکر کرنا ہے جو خصوصیت سے ایمان کو زندہ کرنے والی بات ہے اور جس کی نظیر دنیا میں بجز انبیاء علیہم السلام کے گروہ کے نہیں مل سکتی.وہ کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود کے رضاء بالقضاء کا نمونہ دنیا میں
48 صبر اور استقلال کی تعلیم دینے والے اور رضاء بالقضاء اور قیام فی ما اقام اللہ کے لمبے لمبے وعظ کہنے والے اور درس دینے والے دیکھے ہیں.لیکن جب وہ خدا تعالیٰ کے کسی ابتلاء اور امتحان کے نیچے آئے ہیں تو انہوں نے وہ بُزدلی اور کم ہمتی دکھائی ہے.جس کی حد نہیں.فی الحقیقت کامل ایمان اور خدا پرستی کے کمال کا ایک ہی امتحان ہے کہ انسان مصائب اور مسر میں قدم پیچھے نہ ہٹائے بلکہ آگے بڑھائے.اب یہ چشم دید واقعہ ہے اس کا ایک یا دو گواہ نہیں بلکہ صدہا لوگ ہیں جو آج کل اس واقعہ ناگزیر کی تقریب کی وجہ سے اور حسب معمول یہاں آرہے ہیں.وہ دیکھتے ہیں کہ خدا کا معطر کیا ہو ا مسیح موعود کس جلال اور شوکت کے ساتھ اس واقعہ صاحبزادہ صاحب کو بیان کرتا ہے.عام طور پر اگر غور کیا جاوے تو وہ انسان جوستر برس کے قریب ہو اور جس کا ہونہار نیک سعادتمند بچہ فوت ہو جاوے اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے.مگر یہاں معاملہ ہی الگ ہے.حضرت مسیح موعود اس واقعہ کو ایسے جوش اور مزے سے بیان کرتے ہیں کہ الفاظ نہیں ملتے جو اس کیفیت کو ظاہر کیا جاوے.حضرت مسیح موعود خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں پوری ہو گئیں.حضرت مسیح موعود خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ کے امتحان میں پورے اترے.سب سے بڑھ کر جوامر مسرت کا موجب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشی کا اظہار فرمایا.چنانچہ حضرت مسیح موعود پر یہ وحی ہوئی ہے کہ خُدا خوش ہو گیا ”انسانی زندگی کی اگر کوئی غرض اور غایت ہو سکتی ہے تو وہ یہی ہے کہ خدا اس سے خوش ہو جاوے اور وہ خدا سے راضی ہو جاوے.اور اس طرح پر رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ کا نمونہ کامل بن جاوے.پس یہ کس قدرخوشی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندے سے خوش ہو جانے کا اظہار کر دیا.یہ چھوٹی سی بات نہیں، یہی وہ بات ہے جس کیلئے نبیوں کی بعثت ہوتی ہے.اور یہی وہ مقام ہے جو سلوک کی تمام منزلوں کا انتہائی مقام کہنا چاہئے.پس آج کل دار الامان میں خدا تعالیٰ کا نزول ہورہا ہے.ایک نئی شان میں جن لوگوں کو آج کل حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ ملا ہے.وہ بڑے ہی خوش قسمت ہیں.کیونکہ وہ ایک ایسا عملی سبق پڑھ رہے ہیں.جس کو تقریر یا تحریر کی صورت میں ادا کرنا مشکل ہے.۲۹‘
49 ۶ استمبر بروز دوشنبہ کو صاحبزادہ کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذیل کی تقریر فرمائی.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات پر حضرت اقدس کی تقریر باغ میں : فرمایا! قضاء وقدر کی بات ہے اصل مرض سے (مبارک احمد نے ) بالکل مخلصی پالی تھی بالکل اچھا ہو گیا تھا، بخار کا نام نشان بھی نہ رہا تھا.یہی کہتا رہا کہ مجھے باغ میں لے چلو.باغ کی خواہش بہت کرتا تھا سو آ گیا.اللہ تعالیٰ نے اس کی پیدائش کے ساتھ ہی موت کی خبر دے رکھی تھی.تریاق القلوب میں لکھا ہے انی اسقط من الله و اصيبه، مگر قبل از وقت ذہول رہتا ہے اور ذہن منتقل نہیں ہوا کرتا.پھر ایک جگہ پیشگوئی ہے ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر پھر کئی دفعہ یہ الہام بھی ہوا ہے.اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهَبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمُ تَطْهِیراً.اور پھر اہل بیت کو مخاطب کر کے فرمایا ہے یا يُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِ اللَّه خَلَقَكُم اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لئے یہ بڑا تظہیر کا موقعہ ہے ان کو بڑے بڑے تعلقات ہوتے ہیں اور ان کے ٹوٹنے سے رنج بہت ہوتا ہے.میں تو اس سے بڑا خوش ہوں کہ خدا کی بات پوری ہوئی.گھر کے آدمی اس کی بیماری میں بعض اوقات بہت گھبرا جاتے تھے.میں نے ان کو جواب دیا تھا کہ آخر نتیجہ موت ہی ہونا ہے یا کچھ اور ہے.دیکھو ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ادعونی استجب لکم یعنی اگر تم مجھ سے مانگو تو قبول کروں گا.اور دوسری جگہ فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخُوْفِ.......أُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ.اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے بھی امتحان آیا کرتے ہیں مجھے بڑی خوشی اس بات کی بھی ہے کہ میری بیوی کے منہ سے سب سے پہلا کلمہ جو نکلا ہے وہ یہی تھا کہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کوئی نعرہ نہیں مارا کوئی چینیں نہیں ماریں.اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں انسان اسی واسطے آتا ہے کہ آزمایا جاوے.اگر وہ اپنی منشا کے موافق خوشیاں مناتا رہے اور جس بات پر اس کا دل چاہے وہی ہوتا رہے تو پھر ہم اس کو خدا کا بندہ نہیں کہہ سکتے.اس واسطے ہماری جماعت کو اچھی طرح سے یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ * نقل مطابق اصل (مؤلف)
50 نے دو طرح کی تقسیم کی ہوئی ہے اس لئے اس تقسیم کے ماتحت چلنے کی کوشش کی جاوے.ایک حصہ تو اس کا یہ ہے کہ وہ تمہاری باتوں کو مانتا ہے.اور دوسرا حصہ یہ ہے کہ وہ اپنی منواتا ہے.جو شخص ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ خدا ہمیشہ اسی کی مرضی کے مطابق کرتا ر ہے اندیشہ ہے کہ شاید وہ کسی وقت مرتد ہو جاوے.کوئی یہ نہ کہے کہ میرے پر ہی تکلیف اور ابتلاء کا زمانہ آیا ہے بلکہ ابتداء سے سب بیوں پر آتا رہا ہے.حضرت آدم علیہ السلام کا بیٹا جب فوت ہوا تھا تو کیا انہیں غم نہیں ہوا تھا ؟ ایک روایت میں لکھا ہے کہ ہمارے نبی کریم صلعم کے گیارہ بیٹے فوت ہوئے تھے.آخر بشریت ہوتی ہے غم کا پیدا ہونا ضروری ہے مگر ہاں صبر کرنے والوں کو پھرڑے بڑے اجر ملا کرتے ہیں.خدا تعالی کی ساری کتابوں کا منشاء یہی ہے کہ انسان رضاء بالقضاء سیکھے.جو شخص اپنے ہاتھ سے آپ تکلیف میں پڑتا ہے اور خدا کے لئے ریاضات اور مجاہدات کرتا ہے وہ اپنے رگ پٹھے کی صحت کا خیال بھی رکھ لیتا ہے.اور اکثر اپنی خواہش کے موافق ان اعمال کو بجالاتا ہے اور حتی الوسع اپنے آرام کو مدنظر رکھتا ہے، مگر جب خدا کی طرف سے کوئی امتحان پڑتا ہے اور کوئی ابتلاء آتا ہے تو وہ رگ اور پٹھے کا لحاظ رکھ کر نہیں آتا.خدا کو اس کے آرام اور رگ پھٹے کا خیال مدنظر نہیں ہوتا.انسان جب کوئی مجاہدہ کرتا ہے تو وہ اپنا تصرف رکھتا ہے مگر جب خدا کی طرف سے کوئی امتحان آتا ہے تو اس میں انسان کے تصرف کا دخل نہیں ہوتا.انسان خدا کے امتحان میں بہت جلد ترقی کر لیتا ہے اور وہ مدارج حاصل کر لیتا ہے جو اپنی محنت اور کوشش سے کبھی حاصل نہیں کر سکتا.اسی واسطے ادعوني استجب لكم میں اللہ تعالیٰ نے کوئی بشارت نہیں دی، مگر وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ.......الآيه.میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں اور فرمایا ہے کہ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی بڑی برکتیں اور رحمتیں ہوں گی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں.غرض یہی طریق ہے جس سے انسان خدا کو راضی کر سکتا ہے.نہیں تو اگر خدا کے ساتھ شریک بن جاوے اور اپنی مرضی کے مطابق اسے چلانا چاہے تو یہ ایک خطرناک راستہ ہوگا، جس کا انجام ہلاکت ہے.ہماری جماعت کو منتظر رہنا چاہئے کہ اگر کوئی ترقی کا ایسا موقعہ آ جاوے تو اس کو خوشی سے قبول کیا جاوے.
51 آج رات کو ( مبارک احمد نے مجھے بلایا اور اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا اور مصافحہ یا جیسے اب کہیں رخصت ہوتا ہے اور آخری ملاقات کرتا ہے.جب یہ الہام اني اسقط من الله و اصيبه ہوا تھا تو میرے دل میں کھٹکا ہی تھا، اسی واسطے میں نے لکھ دیا تھا کہ یا یہ لڑکا نیک ہوگا رو بخدا ہوگا اور یا یہ کہ جلد فوت ہو جائے گا.قرآن شریف پڑھ لیا تھا، کچھ کچھ اردو بھی پڑھ لیتا تھا.اور جس دن بیماری سے افاقہ ہوا میرا سارا اشتہار پڑھا.اور یا کبھی کبھی پرندوں کے ساتھ کھیلنے میں مشغول ہو جا تا تھا.فرمایا.بڑا ہی بد قسمت وہ انسان ہے جو خدا تعالیٰ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتا ہے.خدا کے ساتھ تو دوست والا معاملہ چاہئے، کبھی اس کی مان لی اور کبھی اپنی منوالی ریخت خویش برخوردار باشی بشرط آں کہ با من یار باشی ”ہمارے گاؤں میں ایک شخص تھا.اس کی گائے بیمار ہوگئی.صحت کے لئے دعائیں مانگتا رہا ہوگا، مگر جب گائے مر گئی تو وہ دہر یہ ہو گیا.” خدا نے اپنی قضاء و قدر کے راز مخفی رکھے ہیں اور اس میں ہزاروں مصالح ہوتے ہیں.میرا تجربہ ہے کہ کوئی انسان بھی اپنے معمولی مجاہدات اور ریاضات سے وہ قرب نہیں پاسکتا جو خدا کی طرف سے ابتلاء آنے پر پاسکتا ہے.زور کا تازیانہ اپنے بدن پر کون مارتا ہے؟ خدا بڑا رحیم و کریم ہے.ہم نے تو آزمایا ہے ایک تھوڑا سا دُکھ دے کر بڑے بڑے انعام و اکرام عنایت فرماتا ہے.وہ جہان ابدی ہے.جو لوگ ہم سے جدا ہوتے ہیں وہ تو واپس نہیں آ سکتے.ہاں ہم جلدی ان کے پاس چلے جاویں گے.اس جہان کی دیوار کچی ہے اور وہ بھی گرتی جاتی ہے.سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہاں سے انسان نے لے ہی کیا جانا ہے اور پھر انسان کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کب جانا ہے.جب جائے گا بھی تو بے وقت جائے گا اور پھر خالی ہاتھ جائے گا.ہاں اگر کسی کے پاس اعمال صالحہ ہوں تو وہ ساتھ ہی جائیں گے.بعض آدمی کرنے لگتے ہیں تو کہتے ہیں میرا اسباب دکھا دو.اور ایسے وقت میں مال و دولت کی فکر پڑ جاتی ہے.” ہماری جماعت کے لوگ بھی اس طرح کے ابھی بہت ہیں جو شرطی طور پر خدا کی عبادت
52 کرتے ہیں.بعض لوگ خطوں میں لکھتے ہیں کہ اگر ہمیں اتنا رو پیل جاوے یا ہمارا یہ کام ہو جاوے تو ہم بیعت کر لیں گے.بیوقوف اتنا نہیں سمجھتے کہ خدا کو تمہاری بیعت کی ضرورت کیا ہے.ہماری جماعت کا ایمان تو صحابہ والا چاہئے جنہوں نے اپنے سر خدا کی راہ میں کٹوا دیئے تھے.اگر آج ہماری جماعت کو یورپ اور امریکہ میں اشاعت اسلام کے لئے جانے کو کہا جاوے تو اکثر یہی کہہ دینگے جی ہمارے بال بچوں کو تکلیف ہوگی ہمارے گھروں کا ایسا حال ہے یہ ہے وہ ہے إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ.اور ہم نے یہ تو نہیں کہنا کہ جا کر سر کٹوا ئیں، بلکہ یہی ہے کہ دین کے لئے سفر کی تکالیف اور صدمے اُٹھا دیں.مگر اکثر یہی کہہ دینگے جی گرمی بہت ہے زیادہ تکلیف کا اندیشہ ہے.مگر خدا کہتا ہے کہ جہنم کی گرمی اس سے بھی زیادہ ہوگی، نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا - صحابہؓ کا نمونہ مسلمان بننے کے لئے پکا نمونہ ہے.ابھی تو جماعت پر مجھے یہ بھی اطمینان نہیں کہ اس کا نام میں جماعت رکھوں.ابھی تو یہ حشو ہے.ایسا انسان تو ہمیں نہیں چاہئے جو صرف خوشی میں ہی خدا کو پکارے.ایسے شخص پر تو ذرا خدا کا امتحان آیا اور طرح طرح کی مایوسئیں اور بے امید میں ظاہر کرنی شروع کر دیں.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا امَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف اتنا کہہ دینے سے ہی کہ ہم ایمان لائے چھوٹ جائیں گے اور ان کا امتحان نہ لیا جاوے گا.امتحان کا ہونا تو ضروری ہے اور امتحان بڑی چیز ہے سب پیغمبروں نے امتحان سے ہی درجے پائے ہیں.یہ زندگی دنیا کی بھروسہ والی زندگی نہیں ہے.کچھ ہی کیوں نہ ہو آخر چھوڑنی پڑتی ہے.مصائب کا آنا ضروری ہے.دیکھو ایوب کی کہانی میں لکھا ہے کہ طرح طرح کی تکالیف اسے پہنچیں اور بڑے بڑے مصائب نازل ہوئے اور اس نے صبر کئے رکھا.ہمیں یہ بہت خیال رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ہماری جماعت صرف خشک استخوان کی طرح ہو.بعض آدمی خط لکھتے ہیں تو اُن سے مجھے بُو آجاتی ہے.شروع خط میں تو وہ بڑی لمبی چوڑی باتیں لکھتے ہیں کہ ہمارے لئے دعا کرو کہ ہم اولیاء اللہ بن جاویں اور ایسے اور ویسے ہو جاویں اور آخیر پر جا کر لکھ دیتے ہیں کہ فلاں ایک مقدمہ ہے اس کے لئے ضرور دعا کریں کہ فتح نصیب ہو.اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے
53 کہ اصل میں یہ ایک مقدمہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے خط لکھا گیا تھا، خدا کی رضامندی مد نظر نہ تھی.اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے دو طرح کی تقسیم کی ہوئی ہے.کبھی تو وہ اپنی منوانا چاہتا ہے اور کبھی انسان کی مان لیتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ ہمیشہ انسان کی مرضی کے مطابق ہی کام ہوا کریں.اگر ایسا سمجھا جائے کہ خدا کی مرضی ہمیشہ انسان کے ارادوں کے موافق ہو تو پھر امتحان کوئی نہ رہا.کون چاہتا ہے کہ آرام عیش و عشرت اور ہر طرح کے سکھ سے دُکھ میں مبتلاء ہوں.جس کے تین چار بیٹے ہوں وہ کب چاہتا ہے کہ یہ مر جائیں.اور کون چاہتا ہے کہ میری تمام خوشیاں دُکھوں اور مصیبتوں سے تبدیل ہو جاویں.غرض خدا نے امتحان کو انسان کی ترقی کے لئے اور یا اس کی بد گوہری ظاہر کرنے کے لئے مقرر کیا ہے.بہت لوگ امتحان کے وقت طرح طرح کی باتیں بنانے لگ جاتے ہیں اور طرح طرح کے باطل تو ہمات اور وساوس انہیں اُٹھا کرتے ہیں.مگر اصلی بات یہ ہے کہ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَ هُمُ اللَّهُ مَرَضًاحِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ.یادرکھو خدا کا ساتھ بڑی چیز ہے.اگر فرض بھی کر لیں کہ نہ کوئی بیٹا ر ہے نہ کوئی مال و دولت رہے پھر بھی خدا بڑی دولت ہے.اس نے یہ کبھی نہیں کیا کہ جو اس کے ہو کر رہتے ہیں ان کو بھی تباہ کر دیا ہو.اس کے امتحان میں استقلال اور ہمت سے کام لینا چاہئے.یاد رکھو کہ امتحان ہی وہ چیز ہے جس سے انسان بڑے بڑے مدارج حاصل کر سکتا ہے.نریاں نمازاں اور دنیا کے لئے ٹکراں کچھ چیز نہیں.مومن کو چاہئے کہ خدا کے قضاء و قدر کے ساتھ شکوہ نہ کرے اور رضاء بالقضاء پر عمل کرنا سیکھے.اور جو ایسا کرتا ہے میرے نزدیک وہی صدیقوں، شہیدوں اور صالحوں میں سے ہے.جان سے بڑھ کر اور تو کوئی چیز نہیں، اس کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے.اور یہی وہ بات ہے جو ہم چاہتے ہیں.فرمایا ” ہمیشہ ایسا ہوتا رہتا ہے کہ انسان جہاں چاہتا ہے کہ بیمار بچ جاوے.وہاں غلطیاں ہو جاتی ہیں.اس پر ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے عرض کی کہ چند دن ہوئے حضور نے فرمایا تھا کہ خواب میں دیکھا ہے کہ اس مکان میں موت ہونے والی ہے اور بکری ذبیح کی گئی اور ان دنوں میں مولوی نور الدین صاحب چونکہ بیمار تھے.اس لئے ان کی نسبت
54 خطرہ پڑ گیا تھا.اور نواب محمد علی خاں صاحب اور ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب اور میں.ہم تینوں اس بات کے گواہ ہیں.فرمایا تقدیر دو طرح کی ہوتی ہے.ایک کو تقدیر معلق کہتے ہیں اور دوسری کو تقدیر مبرم کہتے ہیں.ارادہ الہی جب ہو چکتا ہے تو پھر اس کا تو کچھ علاج نہیں ہوتا.اگر اس کا بھی کچھ علاج ہوتا تو سب دنیا بچ جاتی.مبرم کے علامات ہی ایسے ہوتے ہیں کہ دن بدن بیماری ترقی کرتی جاتی ہے اور حالت بگڑتی چلی جاتی ہے.دیکھو 9 دن کا تپ ٹوٹ گیا تھا بالکل نام و نشان باقی نہ رہا تھا، مگر پھر دوبارہ چڑھ گیا.یہ تو خدا نے نہیں کہا تھا کہ بخار ٹوٹنے کے بعد زندہ بھی رہے گا.خدا کی دونوں پیشگوئیاں پوری ہوئی تھیں، بخار بھی ٹوٹ گیا اور خوردسالی میں فوت بھی ہو گیا.کچھ مدت گزری کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک جگہ پانی بہہ رہا ہے اور مبارک اس میں گر گیا ہے.بہتیرا دیکھا اور غوطے بھی لگائے مگر تلاش کرنے پر نہ ملا.یہ خواب ہمیشہ میرے مدنظر رہا ہے.”سید میر حامد شاہ صاحب نے عرض کی کہ حضور میری والدہ نے آج صبح کو خواب میں دیکھا تھا کہ حضور کے چار روشن ستارے ہیں ایک ان میں سے ٹوٹ کر زمین کے اندر چلا گیا ہے.پھر خلیفہ ڈاکٹر رشید الدین صاحب نے عرض کیا کہ مبارک احمد کولوگ اکثر ”ولی ولی“ کر کے پکارا کرتے تھے.فرمایا ہاں ولی وہی ہوتا ہے جو بہشتی ہو.”میاں مبارک احمد کی قبر دوسری قبروں سے کسی قدر فاصلہ پر ہے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا، بعض اوقات اگر باپ خواب دیکھے تو اس سے مراد بیٹا ہوتا ہے.اور اگر بیٹا خواب دیکھے تو اس سے باپ مراد ہوتا ہے.ایک دفعہ میں خواب میں یہاں (بہشتی مقبرہ ) آیا اور قبر کھودنے والوں کو کہا کہ میری قبر دوسروں سے جدا چاہئے.دیکھو جو میری نسبت تھا وہ میرے بیٹے کی نسبت پورا ہو گیا ۳۰ ۲۰ ستمبر کو بوقت سیر حضور نے فرمایا : ”ہمارے نبی کریم کے زمانہ میں ایک لڑکے کا باپ جنگ میں شہید ہو گیا.جب لڑائی سے واپس آئے تو اس لڑکے نے آنحضرت صلعم سے پوچھا میرا باپ کہاں ہے.تو آنحضرت صلعم نے اس لڑکے کو گود میں اٹھا لیا اور کہا کہ میں تیرا باپ ہوں.ایک عورت کا حال بیان
55 کرتے ہیں کہ اس کا خاوند اور بیٹا اور بھائی جنگ میں شہید ہو گئے.جب لوگ جنگ سے واپس ( ہوئے ) تو انہوں نے اس عورت کو کہا کہ تیرا خاوند بیٹا اور بھائی تو لڑائی میں مارے گئے.تو اس عورت نے جواب دیا کہ مجھے صرف اتنا بتادو کہ پیغمبر خدا صلعم تو صحیح سلامت زندہ بچ کر آگئے یا نہیں.تعجب ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی عورتوں کا بھی کتنا بڑا ایمان تھا.فرمایا کل والا الہام کہ خدا خوش ہو گیا ہم نے اپنی بیوی کو سُنایا تو اس نے سُن کر کہا کہ مجھے اس الہام سے اتنی خوشی ہوئی ہے کہ اگر دو ہزار مبارک احمد بھی مر جاتا تو میں پرواہ نہ کرتی.فرمایا یہ اس الہام کی بناء پر ہے کہ میں خدا کی تقدیر پر راضی ہوں اور پھر چار دفعہ یہ الہام بھی ہوا تھا.اِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهَبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیراً.اور پھر ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر.اور پھر ”لائف آف پین، یعنی تلخ زندگی.یکجائی طور پر نظر کرنے سے ایک دشمن بھی مان جائے گا کہ یہ جو کچھ ہوا ہے خدائی وعدوں کے مطابق ہوا ہے.اور پھر یہ الہام بھی ہوا تھا.اإِنِّي مَعَ اللَّهِ فِي كُلِّ حَالٍ “اب جتلاؤ ایسی صاف بات سے انکار کس طرح ہو سکتا ہے؟ اصل میں ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے.اگر انسان عمدہ عمدہ کھانے، گوشت پلا ؤ اور طرح طرح کے آرام اور راحت میں زندگی بسر کر کے خدا کو ملنے کی خواہش کرے تو یہ محال ہے.بڑے بڑے زخموں اور سخت سے سخت ابتلاؤں کے بغیر انسان خدا کو مل ہی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.غرض بغیر امتحان کے تو بات بنتی ہی نہیں اور پھر امتحان بھی ایسا جو کہ کمر توڑنے والا ہو.ہمارے نبی کریم صلعم کا سب سے بڑھ کر مشکل امتحان ہوا تھا.جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزُرَكَ الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ - جب سخت ابتلاء آ ئیں اور انسان خدا کے لئے صبر کرئے تو پھر وہ ابتلاء فرشتوں سے جا ملاتے ہیں.انبیاء اسی واسطے زیادہ محبوب ہوتے ہیں کہ ان پر بڑے بڑے سخت ابتلاء آتے ہیں اور وہ خود ہی ان کو خدا سے جاملاتے ہیں.امام حسین پر بھی ابتلاء آئے اور سب صحابہ کے ساتھ یہی معاملہ ہوا کہ وہ سخت سے سخت امتحان میں ڈالے گئے.گوشت اور پلاؤ کھانے سے اور آرام سے بیٹھ کر تسبیح پھیرتے رہنے سے خدا کا ملنا محال ہے.صحابہ کی تسبیح تو تلوار تھی.اگر آج کل کے لوگوں کو کسی جگہ اشاعت اسلام کے واسطے
56 باہر بھیجا جاوے تو دس دن کے بعد تو ضرور کہہ دینگے کہ ہمارا گھر خالی پڑا ہے.صحابہ کے زمانہ پر اگر غور کیا جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ابتدا سے فیصلہ کر لیا ہو ا تھا کہ اگر خدا کی راہ میں جان دینی پڑ جائے تو پھر دے دیں گے.انہوں نے تو خدا کی راہ میں مرنے کو قبول کیا ہوا تھا.جتنے صحابہ جنگوں میں جاتے تھے کچھ تو شہید ہو جاتے تھے اور کچھ واپس آ جاتے تھے.اور جو شہید ہو جاتے تھے ان کے اقربا پھر ان سے خوش ہوتے تھے کہ انہوں نے خدا کی راہ میں جان دی.اور جو بچے آتے تھے وہ اس انتظار میں رہتے تھے اور شاکی رہتے کہ شاید ہم میں کوئی کمی رہ گئی، جو ہم جنگ میں شہید نہیں ہوئے.اور وہ اپنے ارادوں کو مضبوط رکھتے تھے اور خدا کے لئے جان دینے کو تیار رہتے تھے جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ ن مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مِّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يُنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِ يُلاه زبانی دعوے تو خواہ آسمان تک پہنچ جاویں، جب تک عملی طور پر کر کے نہ دکھاؤ گے کچھ نہیں بنے گا.مومن آدمی کا سب ہم و غم خدا کے واسطے ہوتا ہے دنیا کے لئے نہیں ہوتا.اور وہ دنیاوی کاموں کو کچھ خوشی سے نہیں کرتا بلکہ اداس سا رہتا ہے اور یہی نجات حیات کا طریق ہے.اور وہ جو دنیا کے پھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے ہم وغم سب دنیا کے ہی لئے ہوتے ہیں ان کی نسبت تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ زنا.ہم قیامت کو ان کا ذرہ بھر بھی قدر نہیں کریں گے.66 فرمایا.” مبارک احمد کی وفات پر میری بیوی نے یہ بھی کہا ہے کہ خدا کی مرضی کو میں نے اپنے ارادوں پر قبول کر لیا ہے.اور یہ اس الہام کے مطابق ہے کہ میں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے.فرمایا.پچیس برس شادی کو ہوئے.اس عرصہ میں انہوں نے کوئی واقعہ ایسا نہیں دیکھا جیسا اب دیکھا.میں نے انہیں کہا تھا کہ ایسے محسن اور آقا نے جو ہمیں آرام پر آرام دیتا رہا، اگر ایک اپنی مرضی بھی کی تو بڑی خوشی کی بات ہے.فرمایا ہم نے تو اپنی اولا دو غیرہ کا پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ یہ سب خدا کا مال ہے اور ہمارا اس میں کچھ تعلق نہیں اور ہم بھی خدا کا مال ہیں.جنہوں نے پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہوتا ہے ان کو غم نہیں ہو ا کرتا.اس
57 رسالہ تشخیذ الاذہان اس بارہ میں رقمطراز ہے: برادرم مبارک احمد کی وفات پر فرمایا کہ خدا تعالیٰ اتنی مدت سے ہم پر رحم کرتا آیا ہے.ہر طرح سے ہماری خواہش کے مطابق کام کرتا آیا ہے.اور اس نے اٹھارہ برس کے عرصہ میں ہم کو طرح طرح کی خوشیاں پہنچائیں اور انعام و اکرام کئے گویا اپنی رضاء پر ہماری رضاء کو مقدم کر لیا.پھر اگر ایک دفعہ اس نے اپنی مرضی ہم کو منوانی چاہی تو کونسی بڑی بات ہے.اگر ہم باوجود اس کے اس قدر احسانات کے پھر بھی جزع فزع اور واویلا کریں تو ہمارے جیسا احسان فراموش کوئی نہ ہوگا.اور پھر اس نے تو پہلے ہی اطلاع دیدی تھی کہ یہ جلد فوت 600 ہو جائے گا جیسا کہ تریاق القلوب میں لکھا ہے.اور دوسرے یہ کہ دوستی تو اسی کو کہتے ہیں کہ کچھ دوست کی باتیں مانی جاویں اور کچھ اس کو منوائی جاویں.یہ تو دوستی نہیں کہ اپنی ہی اپنی منواتے جانا اور جب دوست کی بات ماننے کا وقت آئے تو بُرا منانا.پس جبکہ ہم نے خدا تعالیٰ سے تعلق کیا ہے تو چاہئے کہ کچھ اس کی مانیں اور کچھ اس سے منوائیں.۳۲ صاحبزادہ صاحب مرحوم کی بیوہ کے متعلق حضور کی خواہش: صاحبزادہ صاحب مرحوم کی بیوہ سے ۱۹۲۱ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا نکاح ہوا.خطبہ نکاح حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے پڑھا، اس میں آپ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود نے یہی رشتہ جو ہمارے مکرم معظم ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی چھوٹی صاحبزادی کا ہے.اپنے چھوٹے صاحبزادہ مبارک احمد سے کیا تھا.وہ فوت ہو گیا جیسا کہ اس کے متعلق الہام تھا.اس کے بعد حضرت مسیح موعود نے یہ خواہش ظاہر کی اور طبعی طور پر ہونی چاہئے تھی.کیونکہ خدا تعالیٰ نے انبیاء کی طبیعت نہایت ہی شکر گذار بنائی ہوتی ہے.میں نے خود بلا کسی واسطہ کے حضرت مسیح موعود سے سنا.آپ نے فرمایا.مجھے یاد نہیں کسی نے ایک پیسہ بھی مجھے دیا ہوا اور میں نے اس کے لئے دعا نہ کی ہو.کیا ہی شان ہے وہ جس کے متعلق خدا کہتا ہے کہ اَنتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِی.اس کو کوئی ایک پیسہ بھی دیتا ہے تو وہ شکر گذاری کے طور پر اس کے لئے دعا کرتا ہے.بات اصل میں یہ ہے کہ نبی کبھی اپنے اوپر کسی کا احسان نہیں رہنے دیتے، بلکہ دوسروں پر اپنا احسان رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی اس بات کو
58 نہایت احسان کی نظر سے دیکھا تھا، اور چونکہ یہ لوگ کبھی پسند نہیں کرتے کہ ان کے ساتھ کوئی احسان کا فعل کرئے اور وہ اس کو بدلہ نہ دیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ خیال کر کے کہ لڑکے کا فوت ہو جانا ڈاکٹر صاحب کے خاندان کو نا گوار گزرا ہو گا.پھر جولڑ کی اس طرح رہ جائے اس کے متعلق بُرے خیالات ظاہر کئے جاتے ہیں.پھر غیرت کا بھی تقاضا ہوتا ہے کہ جن کا رشتہ ہوتا ہے وہ یہی خیال کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں ہی ہو.ان باتوں کو مد نظر رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گھر میں ذکر کیا کہ اس لڑکی کا رشتہ ہمارے ہی گھر میں ہو تو اچھا ہے.چنانچہ یہ بات روایت یہاں مشہور ہے کوئی اب نہیں بنائی گئی.۳۳ حضرت مولوی صاحب کے بیان کی تائید حضرت ام المومنین اطال اللہ بقاء ہا کی روایت سے بھی ہوتی ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام ھم فرماتے ہیں: حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب مبارک احمد فوت ہو گیا، اور مریم بیگم جس کے ساتھ اس کی شادی ہوئی تھی بیوہ رہ گئی تو حضرت صاحب نے گھر میں ایک دفعہ یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ یہ لڑکی ہمارے گھر میں ہی آجاوے تو اچھا ہے.یعنی ہمارے بچوں میں سے ہی کوئی اس کے ساتھ شادی کرلے تو بہتر ہے.چنانچہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ زیادہ تراسی بناء پر حضرت خلیفہ آسیح الثانی نے مریم بیگم سے شادی کی ہے.۳۴ حضرت خلیفہ ایسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : چھتیں سال کے قریب ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم بیگم کا نکاح ہمارے مرحوم بھائی مبارک احمد سے پڑھوایا.اس نکاح کے پڑھوانے کا موجب غالباً بعض خواہیں تھیں جن کو ظاہری شکل میں پورا کرنے سے ان کے انداری پہلو کو بدلنا مقصود تھا.مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوئی اور مبارک احمد مرحوم اللہ تعالیٰ سے جاملا اور وہ لڑکی جو ابھی شادی اور بیاہ کی حقیقت سے ناواقف تھی بیوہ کہلانے لگی.اُس وقت مریم کی عمر دو اڑھائی سال کی تھی اور وہ اور ان کی ہمشیرہ زادی عزیزہ نصیرہ اکٹھی گول کمرہ سے جس میں اس وقت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم ٹھہرے ہوئے تھے کھیلنے کے لئے اوپر آ جایا کرتی تھیں.۳۵
59 اہلیبیت ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب کا اخلاص اور سیدہ ام طاہر پر انعام الہی اللہ تعالیٰ کسی اخلاص کو ضائع نہیں کرتا بلکہ اس سے بڑھ کر کون قدردان ہو سکتا ہے.سو جس اخلاص کے ساتھ حضور علیہ السلام کے فرمانے پر صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کے ساتھ شادی کے لئے بچی پیش کی گئی تھی.اسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور نواز چنا نچہ سیدہ بشری بیگم صاحبہ کے ساتھ اپنے نکاح کا اعلان فرماتے ہوئے حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ” دنیا میں بعض اعمال بظاہر متفرق کڑیاں معلوم ہوتے ہیں اور بعض اعمال ایک زنجیر کی طرح چلتے ہیں.آج جس واقعہ کا میں ذکر کرتا ہوں وہ بھی اسی زنجیر کی قسم کے واقعات میں سے ہے.آج سے ۳۸ سال قبل ایک واقعہ یہاں ہوا تھا.ہمارا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کا نام مبارک احمد تھا، اس کی قبر بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے مشرق کی طرف موجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ بہت ہی پیارا تھا.مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے ہوتے تھے ہمیں مرغیاں پالنے کا شوق پیدا ہوا.کچھ مرغیاں میں نے رکھیں، کچھ میر محمد الحق صاحب مرحوم نے رکھیں اور کچھ میاں بشیر احمد صاحب نے رکھیں.اور بچپن کے شوق کے مطابق مقابلہ ہم ان کے انڈے جمع کرتے، پھر ان سے بچے نکالتے، یہاں تک کہ سو کے قریب مرغیاں ہوگئیں.بچپن کے شوق کے مطابق صبح ہی صبح ہم جاتے مرغیوں کے دڑبے کھولتے انڈے گنتے اور پھر فخر کے طور پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے کہ میری مرغی نے اتنے انڈے دیئے ہیں، اور میری نے اتنے.ہمارے اس شوق میں مبارک احمد مرحوم بھی جا کر شامل ہو جاتا.اتفاقاً ایک دفعہ وہ بیمار ہو گیا.اس کی خبر گیری سیالکوٹ کی ایک خاتون کرتی تھیں جن کا عرف دادی پڑا ہو اتھا.ہم بھی اسے دادی ہی کہتے اور دوسرے سب لوگ بھی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اسے دادی کہنے پر بہت چڑا کرتے تھے.مگر اس لفظ کے سوا شناخت کا کوئی اور ذریعہ بھی نہ تھا اس لئے آپ بجائے دادی کے انہیں جگ دادی کہا کرتے تھے.جب مبارک احمد مرحوم بیمار ہو ا تو دادی نے کہدیا کہ یہ بیمار اس لئے ہوا ہے کہ مرغیوں کے پیچھے جاتا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات سنی تو فوراً حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ مرغیاں گنوا کر ان بچوں کو قیمت دیدی
60 جائے.اور مرغیاں ذبح کر کے کھالی جائیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبارک احمد بہت پیارا تھا.ح19ء میں وہ بیمار ہو گیا اور اس کو شدید قسم کے ٹائیفائیڈ کا حملہ ہوا.اس وقت دو ڈاکٹر قادیان میں موجود تھے.ایک ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور تھے.ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ ہمیں باہر نوکری کرنے کے بجائے قادیان میں رہ کر خدمت کرنی چاہئے اور اس رنگ میں شاید وہ پہلے احمدی تھے جو ملا زمت چھوڑ کر یہاں آگئے تھے.ایک تو وہ تھے اور دوسرے ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب تھے جو رُخصت پر یہاں آئے ہوئے تھے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ مل کر مبارک احمد مرحوم کا علاج کیا کرتے تھے.اس کی بیماری کے ایام میں کسی شخص نے خواب دیکھا کہ مبارک احمد کی شادی ہو رہی ہے.اور معتبرین نے لکھا ہے کہ اگر شادی غیر معلوم عورت سے ہو تو اس کی تعبیر موت ہوتی ہے، مگر بعض معتبرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ایسے خواب کو ظاہری صورت میں پورا کر دیا جائے تو بعض دفعہ یہ تعبیر ٹل جاتی ہے.پس جب خواب دیکھنے والے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنا یہ خواب سنایا، تو آپ نے فرمایا کہ معبرین نے لکھا ہے کہ اس کی تعبیر تو موت ہے مگر اسے ظاہری رنگ میں پورا کر دینے کی صورت میں بعض دفعہ یہ تعبیر ٹل جاتی ہے.اس لئے آؤ مبارک احمد کی شادی کر دیں.گویا وہ بچہ جسے شادی بیاہ کا کچھ بھی علم نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کی شادی کا فکر ہوا.جس وقت حضور علیہ السلام یہ باتیں کر رہے تھے تو اتفاقا ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب کے گھر سے جو یہاں بطور مہمان آئے ہوئے تھے صحن میں نظر آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو بلایا اور فرمایا ہمارا منشاء ہے کہ مبارک احمد کی شادی کر دیں.آپ کی لڑکی مریم ہے آپ اگر پسند کریں تو اس سے مبارک احمد کی شادی کر دی جائے.انہوں نے کہا کہ حضور مجھے کوئی عذر نہیں لیکن اگر حضور کچھ مہلت دیں تو ڈاکٹر صاحب سے بھی پوچھ لوں.ان دنوں ڈاکٹر صاحب مرحوم اور ان کے اہل و عیال گول کمرہ میں رہتے تھے.وہ نیچے گئیں اور جیسا کہ بعد کے واقعات معلوم ہوئے، وہ یہ ہیں کہ ڈاکٹر صاحب شاید وہاں نہ تھے کہیں باہر گئے ہوئے تھے.انہوں نے کچھ دیر انتظار کیا تو وہ آگئے.جب وہ آئے تو انہوں نے اس رنگ میں ان سے بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں جب کوئی داخل ہوتا ہے تو بعض دفعہ اس کے ایمان کی آزمائش بھی ہوتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان کی آزمائش کرے تو کیا آپ
61 پکے رہیں گے؟ ان کو اس وقت دو خیال تھے کہ شاید ان کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو یہ رشتہ کرنے میں تامل ہو.ایک تو یہ کہ اس سے قبل ان کے خاندان کی کوئی لڑکی کسی غیر سید کے ساتھ نہ بیاہی گئی تھی.اور دوسرے یہ کہ مبارک احمد ایک مہلک بیماری میں مبتلا ء تھا اور ڈاکٹر صاحب مرحوم خود اس کا علاج کرتے تھے اور گھر میں جاکر ذکر کیا کرتے تھے کہ اس کی حالت نازک ہے اور اس وجہ سے وہ خیال کریں گے کہ یہ شادی نناوے فیصدی خطرہ سے پر ہے اور اس سے لڑکی کے ماتھے پر جلد ہی بیوگی کا ٹیکہ لگنے کا خوف ہے.اور ان باتوں کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کے گھر والوں کو یہ خیال تھا کہ ایسا نہ ہوڈاکٹر صاحب کمزوری دکھائیں اور ان کا ایمان ضائع ہو جائے اس لئے انہوں نے پوچھا کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان کی آزمائش کرے تو کیا آپ پکے رہیں گے.ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ استقامت عطا کرے گا.اس پر والدہ مریم بیگم مرحومہ نے ان کو بات سنائی اور بتایا کہ اس طرح میں اور پر گئی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مریم کی شادی مبارک احمد سے کر دیں.یہ بات سُن کر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ اچھی بات ہے اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ پسند ہے تو ہمیں اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے.ان کا یہ جواب سن کر مریم بیگم مرحومہ کی والدہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے رو پڑیں اور بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسورواں ہو گئے.اس پر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا ؟ کیا تم کو یہ تعلق پسند نہیں؟ انہوں نے کہا مجھے پسند ہے.بات یہ ہے کہ جب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نکاح کا ارشاد فرمایا تھا میرا دل دھڑک رہا تھا اور میں ڈرتی تھی کہ کہیں آپ کا ایمان ضائع نہ ہو جائے.اور اب آپ کا یہ جواب سُن کر میں خوشی سے اپنے آنسو روک نہیں سکی.چنانچہ یہ شادی ہوگئی اور کچھ دنوں کے بعد وہ لڑکی بیوہ بھی ہوگئی.اللہ تعالیٰ کسی کے اخلاص کو ضائع نہیں کرتا آخر وہی لڑکی پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں آئی اور خلیفہ وقت سے بیاہی گئی اور باوجود شدید بیمار رہنے کے اللہ تعالیٰ نے اسے اس وقت تک مرنے نہیں دیا جب تک کہ اس نے اپنی مشیت کے ماتحت اس پیشگوئی کے میرے وجود پر پورا ہونے کا انکشاف نہ فرما دیا جو اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی اور اسے ان خواتین مبارکہ میں شامل نہ کر لیا
62 جو ازل سے مصلح موعودؓ سے منسوب ہو کر حضرت مسیح موعود کا جزو کہلانے والی تھیں.میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ایمان کی جزا تھی جو مریم بیگم مرحومہ کی والدہ نے اس وقت ظاہر کیا تھا.“۳۶ ہمارے لئے سبق : صاحبزادہ صاحب مرحوم کا عرصہ حیات اگر چہ بہت مختصر تھا اور اس میں بہت تھوڑے واقعات ملتے ہیں، لیکن آپ کی زندگی اور وفات میں ہمیں بہت سے دینی اور روحانی سبق حاصل ہوتے ہیں، بالخصوص آپ کی ولادت دوران حیات اور وفات کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اسوۂ کاملہ کے بہت سے پہلو روشن اور اُجاگر ہوتے ہیں.اوپر جو حالات صاحبزادہ صاحب مرحوم کے ذکر میں درج ہوئے ہیں اُن سے مندرجہ ذیل سبق نمایاں طور پر حاصل ہوتے ہیں.(1) مومن کو کسی حالت میں بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ مصیبت وابتلاء کے موقعہ پر آستانہ الہی پر چھکنا چاہئے.(۲) مومن کو چاہئے کہ اگر منشاء الہی سے کوئی مصیبت لاحق ہو تو دیگر احسانات الہی یاد کر کے اس تکلیف پر کامل صبر اور رضاء بالقضاء کا نمونہ دکھائے.اولاد میں سے کوئی فوت ہو تو سمجھے کہ خدا کا مال تھا اس نے جس طرح چاہا اپنے مال میں تصرف کیا.(۳) مصیبت میں مبتلا شخص اگر خود صبر و رضا کا نمونہ دکھانے کے علاوہ دوسروں کو عین اپنے صدمہ کے وقت اس کی تلقین کرے تو یہ طریق نتیجہ کے لحاظ سے بہت مفید ثابت ہوتا ہے.(۴) مومن اپنی تکلیف و مصیبت کے وقت اپنی دعاؤں میں دوسروں کو بھی شامل کرے کیونکہ درد اور اضطراب کے موقعہ پر ہی قبولیت زیادہ ہوتی ہے.(۵) عقیقہ کی خوشی میں عزیز واقارب اور رشتہ داروں کے علاوہ دوستوں کو بھی شامل کیا جائے.اللہ تعالیٰ کی رضاء اسی میں ہے کہ جب اس کی طرف سے کوئی خوشی کا موقعہ پیدا ہو تو اس کی تحدیث معروف رنگ میں ضرور کرے.(1) اولاد کی تربیت کی طرف پوری توجہ دینی چاہئے.یہ خیال کر کے بے توجہی سے کام نہ لیا جائے کہ یہ ابھی بچہ ہے بڑا ہو کر خود ہی سمجھ جائے گا یا یہ کہ اس کے متعلق خدائی وعدے ہیں، اس لئے چونکہ یہ بہر حال صالح ہونا ہے اس لئے تربیت کی کوئی ذمہ داری نہیں.(۷) ادنی ادنی احسان کرنے والوں کے احسان کا بھی بدلہ دینا چاہئے.(۸) طبیب میں علاوہ علم کے نیکی اور تقویٰ کا ہونا ضروری ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو.
63 (۹) تو کل کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ ظاہری اسباب حتی المقدور پورے طور پر اختیار کئے جائیں اور ساتھ ہی دعا بھی کی جائے.(۱۰) حقیقی اخلاص کو اللہ تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا بلکہ اس میں برکت پر برکت دیتا ہے.تریاق القلوب طبع اول صفحه اسم تریاق القلوب طبع اوّل صفحه ۴۰ حوالہ جات تشخیز الا ذبان جلد ۳ نمبر ۲ و ۳ صفحه ۱۱۶) بابت فروری و مارچ ۱۹۰۸ء.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ اول مکتوب نمبر ۶۷.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۱ بابت ۱۶/ جون ۱۸۹۹ء.سیرۃ المہدی حصہ سوم.روایت نمبر ۶۲۸.ے._^ و.ا.ا.۱۲.۱۳.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۱ بابت ۱۶/ جون ۱۸۹۹ء.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۳ بابت ۳۰/ جون ۱۸۹۹ء.مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۳ مکتوب نمبر ۲۶۹ مورخه ۳۰/ جون ۱۸۹۹ء.تفخیذ الاذہان جلد ۳ نمبرم (صفحه ۱۶۱) بابت اپریل ۱۹۹۸ء، مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ اول مکتوب نمبر ۶۸.زیر عنوان ” جناب مولوی عبدالکریم صاحب کا خط دوستوں کے نام.“ حکم جلد ۳ نمبر۲۳ بابت ۳۰ جون ۱۸۹۹ء.حقیقته الوحی صفحہ ۲۱۸.ینه اولی محیا ۳۵ غایت صفر ۲۵۳ اختصارا اس کا ذکر زول مسیح پیشگوئی نبرد) میں بھی ہواہے.حقیقتہ الوحی صفحہ ۳۸۵.تغیر الفاظ حضور نے نزول اسیح صفحہ ۲۱۹ صفحہ ۲۲۰ پر اس نشان کا ذکر کر کے اس کی تاریخ تحریر فرمائی ہے.۱۴.نزول امسیح صفحه ۲۲۰.ܬܙ܂ حقیقة الوحی صفحه ۳۸۵ ا.تفخیذ الا ذبان جلد ۲ صفحه ۲ ۳ صفحه ۱۵ بابت مارچ ۱۹۰۷ء.احکام جلد نمبر ۲۴ بابت ۱۰ جولائی ۱۹۰۶ ء اور بدر جلد نمبر ۲۸۶۲۷۶۲۶ بابت ۱۳/ جولائی ۱۹۰۶ء میں اس کی تاریخ شب ما قبل ۸/ جون ۱۹۰۶ لکھی ہے اور بتغیر الفاظ حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ ۸۷ و ۸۸ پر بھی اس شان کا ذکر ہے.
64 -12 ۱۸.وا.۲۱.سیرۃ المہدی حصہ دوم روایت نمبر ۳۲۴.روایت نمبر ۹۱۰.سیرۃ المہدی حصّہ سوم.بدر جلد ۶ نمبر ۳۶ بابت ۵ ستمبر ۱۹۵۷ء والحکم جلد نمبر ۳۱ بابت ۳۱/ اگست ۱۹۰۷ء یہاں مضمون بدر سے نقل کیا گیا ہے.جس میں چند فقرات زیادہ ہیں.باقی مضمون دونوں کا قریباً ایک ہی ہے.الحکم جلد نمبر ۱۱ بابت ۲۴ / مارچ ۱۹۰۰ء میں شائع ہوا تھا کہ ”حضرت صاحبزادہ دولت احمد سلمہ اللہ تعالیٰ.حضرت اقدس کے چوتھے مبارک فرزند حضرت مرزا مبارک احمد صاحب کا دوسرا نام صاحبزادہ دولت احمد رکھا گیا.اللهم اجعله مباركاً في الدنيا والدين؛ بدر جلد ۶ نمبر ۳۸ بابت ۱۹/ستمبر ۱۹۰۷ء.۲۲ - الحکم جلد نمبر ۳۴ بابت ۲۴/ستمبر ۱۹۵۷ء.۲۳.بدر جلد ۶ نمبر ۳۸ بابت ۱۹ ستمبر.۲۲ - الحکم جلد نمبر ۳۴ بابت ۲۴ / ستمبر.سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۵۲۸.۲۶.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ پنجم مکتوب نمبر ۱۵۰.۲۵.۲۷.سیرۃ المہدی حصہ اول روایت نمبر ۱۵۸.سلسلہ احمدیہ صفحہ ۹۲.۲۹ الحکم جلد نمبر ۳۴ بابت ۲۴/ستمبر ۱۹۵۷ء.الحکم جلد نمبر ۳۴ بابت ۲۴/ستمبر ۱۹۰۷ء.الحکم جلدا انمبر ۳۴ بابت ۲۴ / ستمبر ۱۹۵۷ء.تفخیذ الاذہان جلد ۲ نمبر ۹ صفحه۲۵ بابت اکتوبر ۱۹۰۷ ء و بدرجلد ۶ نمبر ۴.بابت ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ء.۳۳ الفضل جلد ۸ نمبر ۶۱ بابت ۱۴ / فروری ۱۹۲۱ء.۳۴ سیرۃ المہدی حصہ دوم روایت ۳۸۱.۳۵ الفضل جلد نمبر ۳۲ نمبر ۱۶۱ ابابت ۱۲/ جولائی ۱۹۴۴ء.۳۶.الفضل جلد ۳۲ نمبر ۱۷۸ بابت یکم اگست ۱۹۴۴ء.
78 نقشه ضلع گوردا پور السلسله حالات مرز ایوب سنگ صاحت و نشی امام الدین صاحت ) کچھی بیٹرک کچی سڑک ریل کی سڑک نہر دریا پیمانہ ایک انچ = ، اصیل دریائے بیاس انی گوند د پوره شمال مشرق - جنوب دریائے راوی دها ریوال كلاور
65 مولوی رحیم اللہ صاحب لاہوری رضی اللہ عنہ احمدیت سے قبل کے حالات: آپ اعلی درجہ کے موحد تھے.آپ کو اکثر فقرا اور سجادہ نشینوں کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا.مگر سب کو شرک کے کسی نہ کسی رنگ میں ملوث پایا اور آپ کا دل کسی کی بیعت کے لئے آمادہ نہ ہو ا حتی کہ اخوند صاحب سوات نہیز کا شہرہ سُن کر اتنا لمبا سفر طے کر کے وہاں پہنچے اور بیعت کے لئے عرض کی.اخوند صاحب نے مولوی صاحب کو اپنی صورت کا تصور دل میں رکھنے کی تلقین کی.اس پر آپ چشم پر آب ہو گئے اور کہا افسوس ! میرا اتنا دور دراز کا سفر اختیار کرنا رائیگاں گیا.اخوند صاحب بھی شرک کی ہی تلقین کرتے ہیں.اور پھر بغیر بیعت کئے واپس لوٹے.بیعت حضرت مسیح موعود : مولوی صاحب صوفی منش، سادہ طبیعت، منکسر المزاج کم گو خلوت پسند عاشق قرآن وحدیث اور باخدا بزرگ تھے.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک خاص مناسبت اور عشق تھا.آپ مکرم میاں معراج الدین صاحب عمر ( مدفون بہشتی مقبرہ قطعہ خاص) کے سکونتی مکان متصل واٹر ورکس لاہور کے سامنے کی مسجد میں امامت کراتے تھے.اس جگہ کئی بار نماز پڑھاتے ہوئے عالم بیداری میں آپ پر کشفی حالت طاری ہوئی.نیز آپ کو حضرت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کئی اور انبیاء وصلحاء کی زیارت بار ہا رویا اور کشوف میں ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت آپ پر نہایت عجیب اور بین الہام رویا اور کشف سے واضح ہوئی تھی.چنانچہ فرماتے تھے کہ میں نے حضرت کے دعاوی کے متعلق استخارہ کیا تو جواب میں ایک ڈولا ( پالکی ) کو آسمان سے اترتے دیکھا اور میرے دل میں القاء ہوا کہ حضرت مسیح آسمان سے اتر آئے ہیں.جب پالکی کا پردہ * یہ حالات مکرم ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے اپنے بھائی مرزا ایوب بیگ صاحب رضی اللہ عنہ کے حالات کے ضمن میں تحریر کئے تھے.مزید حالات جن سے مولوی صاحب کی خانگی زندگی اولا ڈوفات وغیرہ پر روشنی پڑے تا حال معلوم نہیں ہو سکے.البتہ آپ ۲۲ جنوری ۱۸۹۷ء تک فوت ہو چکے تھے کیونکہ ضمیمہ انجام آتھم میں مندرجہ فہرست میں آپ کے نام کے ساتھ "مرحوم" تحریر ہے اور ضمیمہ کے آخر پر تاریخ تصنیف ۲۲ جنوری ۱۸۹۷ ء درج ہے.اس وقت پرانے زندہ صحابہ میں سے مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی درویش اور مکرم بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی درویش بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نہ مولوی صاحب کو دیکھا ہے نہ ہی اُن کے متعلق ہمیں کسی قسم کا علم ہے.(مؤلف)
66 اُٹھا کر دیکھا تو اس کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پایا.تب میں نے بیعت کر لی.آپ نے اس وقت ایمان لانے میں سبقت کی جب کہ دیگر علما ء اپنے سینوں میں کفر کے فتاوے کی آگ مشتعل کر رہے تھے.ابتدائی رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت کا اندراج ملتا ہے.جہاں زیر نمبر ۱۵ مرقوم ہے: مولوی رحیم اللہ ولد حبیب اللہ قوم راجپوت ساکن لاہور محلہ لنگے منڈی پیشہ وعظ اور تاریخ بیعت ۳۰ اگست ۱۸۹۱ ء ہے.۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں شرکت : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ پر علماء کہلانے والوں نے جو شور وشر بر پا کیا اور عوام کو حضور کے خلاف برانگیختہ کرنے کے لئے کذب بیانی اور دروغ گوئی جیسے گندے ہتھیار استعمال کرنے شروع کئے یہ امر کسی پر مخفی نہیں.حتی کہ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اور تو اور ایک معین تاریخ پر جلسہ کے انعقاد کو بھی بدعت قرار دیا گیا.چنانچہ حضور نے ۱۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کو اس فتویٰ کی تردید میں ایک اشتہار بعنوان ” قیامت کی نشانی شائع کیا.اس زمانہ کے حالات کو سامنے لانے کے لئے اس اشتہار کا ایک بہت ہی مختصرا اقتباس درج ذیل کیا جاتا ہے.حضور فرماتے ہیں: سال گذشتہ میں بمشورہ اکثر احباب یہ بات قرار پائی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگ کم سے کم ایک مرتبہ سال میں بہ نیت استفادہ ضروریات دین ومشوره اعلاء کلمه ء اسلام و شرع متین اس عاجز سے ملاقات کریں اور اس مشورہ کے وقت یہ بھی قرین مصلحت سمجھ کر مقرر کیا گیا تھا کہ ۲۷ دسمبر کو اس غرض سے قادیان میں آنا انسب اور اولیٰ ہے کیونکہ یہ تعطیل کے دن ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ ان دنوں میں فرصت اور فراغت رکھتے ہیں اور بباعث ایام سرمایہ دن سفر کے مناسب حال بھی ہیں.چنانچہ احباب اور مخلصین نے اس مشورہ پر اتفاق کر کے خوشی ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ یہ بہتر ہے.اب ۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کو اسی بناء پر اس عاجز نے ایک خط بطور اشتہار کے تمام مخلصوں کی خدمت میں بھیجا، جو ریاض ہند پر لیس قادیان * بروایت نمبر ۴۷۴ مندرجہ سیرۃ المہدی حصہ سوم ابتدائی رجسٹر بیعت جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سلسلہ بیعت شروع ہونے پر بیعت کرنے والوں کے اسماء درج فرمایا کرتے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضھم کے پاس ہے.آپ کو حضرت میر محمد الحق صاحب سے ملا تھا.(مؤلف)
67 میں چھپا تھا، جس کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض یہ بھی ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقعہ ملے.اور ان کے معلومات دینی وسیع ہوں، اور معرفت ترقی پذیر ہو.اب سنا گیا ہے کہ اس کارروائی کو بدعت بلکہ معصیت ثابت کرنے کے لئے ایک بزرگ نے ہمت کر کے ایک مولوی صاحب کی خدمت میں جو رحیم بخش نام رکھتے ہیں، اور لاہور میں چینیاں والی مسجد کے امام ہیں ایک استفتا پیش کیا جس کا یہ مطلب تھا کہ ایسے جلسہ پر روز معین پر ڈور سے سفر کر کے جانے میں کیا حکم ہے اور ایسے جلسہ کے لئے اگر کوئی مکان بطور خانقاہ کے تعمیر کیا جائے تو ایسے مدد دینے والے کی نسبت کیا حکم ہے استفتاء میں یہ آخری خبر اس لئے بڑھائی گئی جو مستفتی صاحب نے کسی سے سنا ہوگا، جو جبی فی اللہ اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب نے اس مجمع مسلمانوں کے لئے اپنے صرف سے جو غالباً سات سو روپیہ یا کچھ اس سے زیادہ ہوگا قادیان میں ایک مکان بنوایا، جس کی امداد خرچ میں اخویم حکیم فضل دین صاحب بھیروی نے بھی تین چار سو روپیہ دیا ہے.اس استفتاء کے جواب میں میاں رحیم بخش صاحب نے ایک طول طویل عبارت ایک غیر متعلق حدیث شد رحال کے حوالہ سے لکھی ہے جس کے مختصر الفاظ یہ ہیں کہ ایسے جلسہ پر جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور ایسے جلسوں کا تجویز کرنا محدثات میں سے ہے، جس کے لئے کتاب اور سنت میں کوئی شہادت نہیں، اور جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے اے.حضور اس اشتہار میں شرح وبسط کے ساتھ اس فتوی کی تردید میں لکھتے ہیں کہ احادیث طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَة عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَةٍ اور اُطلُبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ كَانَ بِالصِّينِ کی روسے حصول علم دین کے لئے بھی سفر فرض قرار دیا گیا ہے اور حضرت امام بخاری کے سفر طلب علم حدیث کے لئے مشہور ہیں.زیارت صالحین کے لئے بھی سفر کیا جاتا ہے.جیسے حضرت عمرؓ نے حضرت اویس قرنی کی ملاقات کے لئے سفر کیا.اور اپنے مرشدوں سے ملنے کے لئے اولیائے کبار مثلاً حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ، حضرت بایزید بسطامی حضرت معین الدین چشتی اور حضرت مجدد الف ثانی نے سفر کئے.اسی طرح اقارب کی ملاقات، تلاش معاش شادی پیغام رسانی، جہاد مباحثہ مباہلہ قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ کے مطابق عجائبات دنیا کے دیکھنے عیادت علاج کرانے مقدمہ اور تجارت کے لئے بھی سفر کئے جاتے ہیں.وغیرہ.
68 حضور کی مشرح اور مدلل تردید ہی اس امر پر شاہد ناطق ہے کہ اس زمانہ میں کس قسم کی مخالفت ہو رہی تھی.اور وہ احباب جو باوجود ان حالات کے جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شرکت کے لئے قادیان آئے یقیناً مخالفت کے اس طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے جلسہ کے لئے آئے.اور بعد ازاں بھی جو ایمان اور اخلاص پر قائم رہے ان کا مقام بہت ہی بلند ہے.ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ تحریر فرمایا تین سو تیرہ صحابہ کے ذکر میں آگے آجائے گا.ان مخلصین میں ۲۵۲ نمبر پر آپ کا نام یوں درج ہے.”میاں رحیم اللہ صاحب لاہور لنگے منڈی“ ہے آپ تین سو تیرہ صحابہ میں سے تھے مولوی صاحب تین سو تیرہ صحابہ میں سے تھے.اس قابل فخر گروہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وو ایک اور پیشگوئی کا پورا ہونا چونکہ حدیث صحیح میں آچکا ہے کہ مہدی موعود کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہوگی جس میں اس کے تین سو تیرہ اصحاب کا نام درج ہوگا، اس لئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ پیشگوئی آج پوری ہو گئی.یہ تو ظاہر ہے کہ پہلے اس سے اس امت مرحومہ میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا کہ جو مہدویت کا مدعی ہوتا اور اس کے وقت میں چھاپہ خانہ بھی ہوتا اور اس کے پاس ایک کتاب بھی ہوتی جس میں تین سو تیرہ نام لکھے ہوئے ہوتے.اور ظاہر ہے کہ اگر یہ کام انسان کے اختیار میں ہوتا تو اس سے پہلے کئی جھوٹے اپنے تئیں اس کا مصداق بنا سکتے.مگر اصل بات یہ ہے کہ خدا کی پیشگوئیوں میں ایسی فوق العادت شرطیں ہوتی ہیں کہ کوئی جھوٹا ان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا اور اس کو وہ سامان اور اسباب عطا نہیں کئے جاتے جو سچے کو عطا کئے جاتے ہیں.شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی اپنی کتاب جواہرالاسرار میں جو ۸۴۰ء میں تالیف ہوئی تھی مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ ذیل عبارت لکھتے ہیں : در اربعین آمده است که خروج مهدی از قریه کدعه باشد ـ قال النبي صلى الله عليه وسلم يخرج المهدى من قرية يقال لها كد عه و يصدق
69 الله تعالى ويجمع اصحابه من اقصى البلاد على عدة اهل بدر بثلاث مائة و ثلاثة عشر رجلاً و معه صحيفة مختومة اى مطبوعة فيها عدد اصحابه باسمائهم وبلادهم و خلالهم یعنی مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے ( یہ نام دراصل قادیان کے نام کو مغرب کیا ہوا ہے ) اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا اور دُور دُور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہل بدر کے شمار سے برابر ہوگا.یعنی تین سو تیرہ ہوں گے.اور ان کے نام بقید مسکن و خصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے.اب ظاہر ہے کہ کسی شخص کو پہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ وہ مہدی موعود ہونے کا دعوی کرے اور اس کے پاس چھپی ہوئی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں.لیکن میں پہلے اس سے بھی آئینہ کمالات اسلام میں تین سو تیرہ ۳۱۳ نام درج کر چکا ہوں اور اب دوبارہ اتمام حجت کے لئے تین سو تیرہ نام ذیل میں درج کرتا ہوں تا ہر ایک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی اور بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کر دینا پہلے سے ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلت صدق و صفا ر کھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی رضاء کی راہوں میں ثابت قدم کرے.“ سے یہ امر قابل ذکر ہے کہ تین سو تیرہ کی فہرست میں سترہ ایسے بزرگ شامل کئے گئے ہیں کہ باوجود وفات یافتہ ہونے کے ان کے اسماء اس پاک گروہ میں درج کئے گئے ہیں.مزید یہ کہ مولوی صاحب کی طرح ایسے احباب معدودے چند ہی ہیں کہ جن کے نام دونوں فہرستوں میں مرقوم ہیں.آپ کے متعلق لکھا ہے: اہلی زندگی: ۱۳۲.مولوی رحیم اللہ صاحب مرحوم لاہور مکرم قاضی محبوب عالم صاحب مالک راجپوت سائیکل ورکس، نیلہ گنبد لا ہور صحابی ہیں اور اسی زمانہ سے لاہور میں اقامت رکھتے ہیں.آپ سے راقم نے مولوی صاحب کی اہلی زندگی، سن وفات وغیرہ کے متعلق استفسار کیا تھا.آپ تحریر فرماتے ہیں کہ مولوی رحیم اللہ صاحب کے متعلق مجھے اسی قدرشنید ہے کہ وہ چار بیویاں رکھتے تھے.یہ بھی معلوم نہیں کہ آپ کی اولاد تھی یا نہیں.مسجد کے حجرہ میں رہا کرتے تھے جو میاں معراج الدین
70 صاحب کے مکان کے سامنے تھی.زیادہ معلوم نہیں.مکرم حکیم محمد حسین صاحب المعروف مرہم عیسے لاہور سے تحریر فرماتے ہیں کہ مولوی رحیم اللہ صاحب جو ہمارے مکان کے قریب کی مسجد میں امام تھے.ان کی کوئی اولاد نہ تھی.وہ ایک نہایت نیک اور صالح بزرگ تھے.ان کی خاص صفت یہ تھی کہ اگر اُن پر فاقے بھی آجاتے تو پھر بھی وہ کسی سے سوال نہیں کرتے تھے اور نہ کسی کو اپنی حالت بتاتے تھے.بڑے قانع اور صابر بزرگ تھے.حوالہ جات ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام صفحہ الف وب.ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۱۴.ضمیمہ انجام آنقم صفحه ۴۰ و ۴.
71 * میاں اللہ بخش صاحب امرتسری رضی اللہ عنہ ولدیت، قومیت اور پیشہ : مکرم میاں اللہ بخش صاحب امرتسری راجپوت قوم سے تعلق رکھتے تھے.آپ کے والد میاں محمد بخش صاحب علاقہ بندی یا پٹولی کا کام کرتے تھے.اور مہاراجہ کپورتھلہ کے ہاں ہاتھیوں کے جھول وغیرہ اور فوج کے کمر بند وغیرہ تیار کرتے تھے.میاں اللہ بخش صاحب علاقہ بندی کا کام پہلے (حکیم محمد حسین صاحب قریشی رضی اللہ عنہ لاہور کے دادا) بابا محمد چٹو صاحب کے شاگرد کے طور پر کرتے تھے.زیورات میں دھاگہ ڈالنا اور اس سے متعلقات جالیاں یا جھالریں بنانا ہاتھی کی جھول بنانا وغیرہ یہ کام آپ بعد میں امرتسر میں آخر عمر تک کرتے رہے زیورات میں دھاگہ ڈالنے کے کام میں آپ کو بہت دسترس تھی اور کام بہت خوبصورت اور صاف کرتے تھے.اخبار احکام میں غلام محمد اللہ بخش علاقہ بند.مالکان احمد یہ ایجنسی کٹڑ رہا گھ سنگھ.ہاتھی دروازہ امرتسر کی طرف سے کچھ عرصہ تک اشتہار چھپتا رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ زیورات بلکہ ہر ایک چیز ساختہ امرتسر کے لئے ایجنٹ کے طور پر بھی کام کرتے تھے لے بیعت اور آپ کی ۳۱۳ صحابہ میں شمولیت : میاں صاحب جب بابا محمد چٹو صاحب کے ہاں لاہور میں کام کرتے تھے.تو ان کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر بھی ہوتا رہتا تھا.بابا صاحب نے حضور سے بھی کچھ ارادت کا اظہار کیا، مگر خود ان کا انجام مذہب اہل قرآن پر ہوا.گو بعد میں اس کے بانی مولوی عبداللہ چکڑالوی سے بھی ان کا بگاڑ ہو گیا تھا.مگر بابا صاحب کی اولاد اور میاں اللہ بخش صاحب احمدیت کی آغوش میں آگئے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.لیکن معین طور پر تاریخ اور سن معلوم نہیں ہو سکا.البتہ یہ امر یقینی ہے کہ مباحثہ آتھم کے وقت جو مئی اور جون ۱۸۹۳ء میں بمقام امرتسر ہو ا آپ احمدی تھے.اور اس مباحثہ کے سننے والوں میں شامل تھے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ فخر بھی بخشا کہ ۳۱۳ مخلص صحابہ کے زمرہ میں شمار ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کے پورا یہ حالات راقم نے ملک مولا بخش صاحب رضی اللہ عنہ سابق ناظم جائیداد قادیان سے ۱۹۴۵ء میں حاصل کئے تھے اور آپ کے قلم سے نوشتہ میرے پاس موجود ہیں.میاں صاحب کی بیعت کی تاریخ اور سنہ آپ کو بھی معلوم نہ تھا.ملک * صاحب نے محتر مہ اہلیہ میاں اللہ بخش صاحب کے حالات خود انہی سے دریافت کر کے تحریر کئے تھے.(مؤلف)
72 کرنے کا موجب بنے.آپ کا نام اس فہرست میں یوں درج ہے: ۱۹۸.میاں اللہ بخش صاحب علاقہ بندا مرتسر ہے غالباً آپ کے والد صاحب تو آپ کے قبول احمدیت کے وقت زندہ نہیں تھے لیکن آپ کی والدہ مسماۃ اللہ جوائی زندہ تھیں.لیکن افسوس کہ وہ احمدیت کی نعمت سے محروم رہیں.آتھم کی پیشگوئی اور آپ کی استقامت : آتھم اور اس کے ساتھیوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ : آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جب کہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں.تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے.تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمد ا جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور نیچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنارہا ہے.وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا.اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی.بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.اور جو شخص سچ پر ہے اور بچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب یہ پیشگوئی ظہور میں آوے گی بعض اندھے سو جاکھے کئے جاویں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے.اور بعض بہرے سنے لگیں گے...میں اس وقت یہ اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی، یعنی وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہادیہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں.مجھ کو ذلیل کیا جاوے رُوسیاہ کیا جاوے.میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاوے مجھ کو پھانسی دیا جاوے ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں.اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا.ضرور کرے گا.ضرور کرے گا.زمین و آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ملیں گی.“ سے آتھم حق کی طرف رجوع کرنے کی شرط پورا کر کے موت سے وقتی طور پر بچ گیا.اس پر مخالفین نے شور و شر کیا.بلکہ جماعت کے بعض افراد کے قدم بھی اس زلزلہ عظیم کے وقت ڈگمگائے.مکرم منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ :
73 * وو ” جب آتھم کی معیاد کا آخری دن تھا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد مبارک کی چھت پر تشریف لائے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو بلایا اور فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے.اطَّلَعَ اللهُ عَلى هَمّهِ وَغَيّہ اور اس کی تفہیم یہ ہوئی ہے کہ کی ضمیر آتھم کی طرف جاتی ہے.اس لئے معلوم ہوا کہ وہ اس میعاد کے اندر نہیں مرے گا.* مولوی صاحب نے قادیان میں آمدہ احباب کو اس بات کی اطلاع دے دی.خلیفہ رجب الدین صاحب ( خواجہ کمال الدین صاحب کے خسر ) سے (جو بعد میں خلافت ثانیہ میں جماعت سے الگ رہے) خود میں نے سنا کہتے تھے کہ اب ہم ان چالوں میں نہیں آ سکتے.اس بات کی اطلاع مولوی صاحب نے حضور علیہ السلام کو دیدی.حضور اسی وقت باہر تشریف لے آئے اور فصیل والے پلیٹ فارم پر موجودہ درزی خانہ سے لے کر ڈاکٹر غلام غوث صاحب کے مکان تک ہوتا تھا ٹہلنے لگے اور فرمایا کہ باوجود یکہ حضرت یونس کی پیشگوئی میں کوئی شرط نہ تھی.قوم کی عاجزی اور تضرع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کا عذاب ٹال دیا اور چونکہ آتھم نے بھی اس میعاد کے اندر بہت عاجزی اور تضرع کا اظہار کیا.بلکہ جس وقت مباحثہ کے آخر پر میں نے کہا تھا کہ ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں کی ہیں.اُسے پندرہ ماہ کے عرصہ میں ہاویہ میں گرایا جائے گا.تو اس نے اسی وقت کان کو ہاتھ لگا کر کہا تھا کہ نہیں میں نے اُن کی کوئی بے ادبی نہیں کی.وہ اس میعاد میں ہر وقت ڈرتا رہا.اس طرح اس نے رجوع کر لیا اور شرط رجوع پوری ہوگئی.اس لئے اس پر سے عذاب ٹل گیا.انداز دو گھنٹے تک حضور نے تقریر فرمائی اور لوگوں کو تسلی ہو گئی.tek پندرہ ماہی میعاد کی آخری تاریخ ۵ ستمبر ۱۸۹۴ تھی.۴ ایک غیر احمدی کورٹ انسپکٹر جن کے سپرد آخری ایام میں آتھم کی کوٹھی کے پہرہ کا انتظام تھا.میعاد گذرنے پر جو کچھ ہوا اس کا حال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ** یہ الہام اور اس کی تشریح انوار الاسلام ( محرره ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء) میں ملاحظہ فرمائیں.(مؤلف) یہ روایت املا کے طور پر منشی صاحب نے مجھے لکھوائی تھی اور پھر میرے کہنے پر انہوں نے لکھی ہوئی خود بھی پڑھ لی تھی.(مؤلف)
74 صبح ہوئی تو ان (یعنی آتھم.ناقل ) کے دوستوں نے ان کے گلے میں ہار پہنا کر اور ان کو گاڑی میں بٹھا کر سارے شہر میں خوشی کا جلوس پھرایا.اور اس دن لوگوں میں شور تھا کہ مرزے کی پیشگوئی جھوٹی گئی.۵.“ ان حالات میں جس شخص کا ایمان متزلزل نہ ہوا.اس کی استقامت کے متعلق کسے شبہ ہوسکتا ہے.ملک مولا بخش صاحب رضی اللہ عنہ نے اُن کے متعلق مجھ سے تحریر بیان کیا کہ : مباحثہ آتھم میں وہ شریک تھے.اور پیشگوئی کی صداقت پر انہوں نے شرط مقرر کی تھی.لوگوں کا اس وقت خیال تھا کہ آتھم یا تو علانیہ مسلمان ہو جائے گا یا فوت ہو جائے گا.رجوع والی شرط لوگوں کے ذہن میں نہ تھی.جب میعاد مقررہ کے اندر نہ آ قم علانیہ مسلمان ہوا.نہ فوت ہوا.تو ان کو لوگوں نے آکر تنگ کیا.وہ اپنے مکان میں دروازہ بند کر کے بیٹھ رہے.اور ان کو کہا کہ جس نے پیشگوئی کی ہے اس کا جواب آلینے دو.چنانچہ جب حضرت صاحب کا اشتہار آیا کہ آتھم نے رجوع سے فائدہ اٹھایا ہے.اور اس کے علاوہ حضور نے قسم کھانے پر آمادہ کرنے کے لئے اشتہار پر اشتہار انعامی دیا.تو پھر یہ بھی خوب زور سے لوگوں کو کہتے کہ اب اس کو لا و قسم کھائے اور قدرت حق کا تماشہ دیکھے.“ * اخلاق حسنه آپ دینی کاموں میں پیش پیش رہنے والے اور غیرت دکھانے والے تھے.اور دین کی خاطر ہر مشقت خوشی سے اپنے ذمہ لیتے تھے.تہجد ہمیشہ باقاعدگی سے ادا کرتے تھے.اور دعاؤں میں بہت شغف رکھتے تھے.بلکہ دوسروں کے لئے بھی بہت دعا ئیں کیا کرتے تھے.اگر چہ آپ زیادہ صاحب علم نہ تھے.مگر آپ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا.اور اکثر تبلیغ کیا کرتے تھے.اور اکثر اس غرض سے رشتہ داروں اور دوستوں کو دعوت طعام دیا کرتے تھے.اور اس کے لئے اگر ان کے پاس روپیہ نہ ہوتا تو قرض بھی لے لیا کرتے تھے.آپ کے اندر ایک نمایاں وصف یہ بھی تھا کہ جب آپ کے پاس پیسے ہوتے.تو آپ ایسے قرضے بھی ادا کر دیتے جوزائد المیعاد ہوتے اور جن کو کوئی عدالت بھی نہیں دلا سکتی تھی.اور کبھی یہ خیال نہ کرتے تھے کہ اب یہ قرض زائد المیعاد ہے.قانونا بھی مجھے سے وصول نہیں ہوسکتا.اس لئے ادائیگی کی کیا ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ریویو آف ریلینجز کا خریدار بنا بھی ایک قومی اعانت تصور ہوتا تھا.حضور کی خواہش بھی تھی کہ ریویو کی اشاعت اس روایت میں خطوط وحدانی کے اندر کے الفاظ خاکسار کی طرف سے ہیں.(مؤلف)
75 زیادہ بڑھ جائے چنانچہ مرقوم ہے: ” یہ امراب چنداں وضاحت طلب نہیں رہا کہ ہمارے پیارے امام حضرت اقدس امام صادق علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کی تعمیل میں جماعت احمدیہ کے ہر طبقہ کے احباب نے حسب استطاعت خود مالی و جانی خدمت کی بجا آوری میں سر مو دریغ نہیں رکھا ہر طرح سے کوشش کر کے اپنی اخلاص مندی و سرگرمی و ہمدردی کا ایک قابل قدرنمونہ دکھلایا ہے اور اب بھی دکھلا رہے ہیں.اپنی طاقت و توفیق کے موافق بعض خود خریدار رسالہ بنے.بعض نے خود خریدار بننے کے علاوہ اور خریدار پیدا کئے.بعضوں نے اپنے خرچ سے اوروں کے نام رسالے مفت جاری کرائے یا بغرض اشاعت ممالک غیر میں مفت بھجوائے.غرضیکہ اپنی جانب سے ہر طرح کی سعی کی جو علی قدر مراتب سب شکریہ کے مستحق ہیں.چنانچہ اس عبارت کے بعد بہت سے احباب کے نام اور چندے درج ہیں.ان میں ۴۶۳.اللہ بخش صاحب علاقہ بند عا مرقوم ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ریویواردو کے ابتدائی خریداروں میں سے تھے.کے مرض الموت اور وفات: آپ جگر ماؤف ہونے سے امرتسر میں بیمار ہوئے.ملک مولا بخش صاحب آپ کو اپنے پاس گورداسپور لے گئے اور خود ہومیو پیتھک علاج کیا.جس سے اس قدر صحت یاب ہو گئے کہ سودا سلف بازار سے لے آتے تھے.لیکن یہ خیال کر کے کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ علاج کی طرف توجہ نہیں دی گئی.اور اپنے علاج پر ہی اکتفا کیا گیا ہے.میاں صاحب کی خواہش کے مطابق ایک حکیم کو بلایا گیا.اس کی دی ہوئی دوائی کی گولی کھانے لگے تو نہ معلوم آپ کو کیسے احساس ہو گیا.کہنے لگے کہ یہ موت کی گولی ہے اس گولی میں ایلوا تھا.اس سے خونی پیچش شروع ہوگئی.جب زیادہ کمزور ہو گئے تو ملک صاحب کو بلا کر مصافحہ کیا اور کہا کہ آپ میرے ساتھ عہد کریں کہ میرے لئے دعا کرتے رہیں گے.ہم انشاء اللہ آپ کے لئے دعائیں کریں گے.آپ چھیاسٹھ سال کی عمر میں آکر ۱۹۲۰ء میں فوت ہوئے.ملک صاحب نے جنازہ پڑھایا اور آپ کی خواہش کے مطابق گورداسپور کے قبرستان میں جہاں ملک صاحب کے بعض بچوں کی قبریں تھیں دفن کیا گیا.انا للہ وانا الیہ راجعون.قبراب معروف نہیں.آپ کی اہلی زندگی : بابا محمد چٹو صاحب نے آپ کی شادی اپنی بیوہ بہو محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ بنت غلام رسول صاحب بٹ کشمیری رفوگر ساکن کڑہ باگھ سنگھ امرتسر سے کر دی تھی.
76 غلام فاطمہ صاحبہ کی بیعت: محتر مہ غلام فاطمہ صاحبہ پرانی صحابیہ تھیں.لیکن آپ بتاتی تھیں کہ مجھے سن بیعت یاد نہیں.بڑھاپے کی وجہ سے آپ کا حافظہ کام نہیں کرتا تھا.آپ کے والد تو آپ کی چھ سال کی عمر میں ہی فوت ہو چکے تھے.لیکن والدہ بیگم جان صاحبہ زندہ تھیں.لیکن افسوس کہ وہ احمدیت سے وابستہ نہ ہوئیں.آپ بیان کرتی تھیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت اپنے خاوند کی بیعت کے جلد بعد کی.اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احم صاحب ( خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ کی عمر پانچ چھ سال کی ہوگی." آپ کو حضرت اقدس کی زندگی میں کئی باردار امیج میں ٹھہرنے کا موقعہ ملا.لیکن زیادہ تر آپ حضرت مولوی نور الدین صاحب (خلیفہ المسیح الاوّل) رضی اللہ عنہ کے ہاں قیام کیا کرتی تھیں.دورانِ قیام میں حضرت اماں ( حرم حضرت خلیفہ اسیح الاول) کا کھانا وغیرہ تیار کرنے میں مدد کیا کرتی تھیں.آپ کھانا پکانے میں مہارت رکھتی تھیں.اور حضرت مولوی صاحب آپ کا پکا ہوا کھانا تناول فرما کر آپ کے لئے اور آپ کی اولاد کیلئے دعا فرمایا کرتے تھے.* * خصائل: ** آپ اپنے خاوند کی وفات کے بعد امرتسر میں ہی مقیم رہیں اور اپنے داماد ملک مولا بخش صاحب کے پنشن پا کر ۱۹۳۳ء میں قادیان آنے تک محلہ کے بچوں کو قرآن مجید پڑھاتی تھیں.آپ کو دعا میں بہت شغف تھا اور سلسلہ احمدیہ اور حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی اور سب احمدیوں کے لئے ہمیشہ دعا کیا کرتی تھیں.مرض الموت اور وفات: آپ کسی خاص بیماری سے بیمار نہیں ہوئیں بلکہ بڑھاپے کی وجہ سے ضعف اور نقاہت تھی.دل کمزور ہوا اور باتیں کرتے کرتے مئی ۱۹۵۰ء کو بروز ہفتہ بوقت سو اسات بجے شام وفات پا گئیں.آخری بات جو آپ نے کی وہ دعاء.دعا کے الفاظ تھے.انا لله وانا اليه راجعون - * حضور کی ولادت ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کی ہے.(مؤلف) * * ملک مولا بخش صاحب بیان کرتے تھے کہ موصوفہ کے اکثر وہاں قیام کر نیکی وجہ یہ تھی کہ حضرت مولوی صاحب کے شاگر د حکیم مولوی غلام محمد صاحب امرتسری پسر عبداللہ صاحب بٹ موصوفہ کے ماموں زاد بھائی تھے.بلکہ رضاعی بھائی تھے.حکیم صاحب تین دن کے تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور غلام فاطمہ صاحبہ کی والدہ صاحبہ نے حکیم صاحب کو محبت سے اپنی سپردگی میں لے لیا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ کہ گو وہ حالت رضاعت میں نہ تھیں لیکن ان کی چھاتیوں میں خود بخود دودھ اتر آیا.جس سے انہوں نے حکیم صاحب کی پرورش کی.(مؤلف)
77 آپ ۱۹۴۷ء میں قادیان سے ہجرت کر کے ملک صاحب کے ہمراہ سیالکوٹ مقیم رہیں.ملک صاحب کی وفات کے بعد فروری ۱۹۵۰ء میں اپنے نواسے ملک بشارت احمد صاحب واقف زندگی کے پاس میر پور خاص آگئی تھیں.آپ موصیہ تھیں.میر پور خاص میں ہی مدفون ہوئیں.اور اس وقت نومبر ۱۹۵۰ء تک آپ کی قبر معروف ہے.اولاد میاں اللہ بخش صاحب کی زوجیت میں آنے پر آپ صاحب اولاد ہوئیں.اور قادر بخش صاحب نام ایک بیٹا اور کرم النساء بیگم صاحبہ ایک بیٹی پیدا ہوئی.بیٹا اٹھارہ بیس سال کی عمر پا کر لا ولد فوت ہوا.بیٹی ملک مولابخش صاحب کے ساتھ بیاہی گئیں اور بفضلہ تعالیٰ اب تک حین حیات ہیں.خدا تعالیٰ ان سب بزرگوں کو اپنی رضاء میں جگہ دے.آمین.حوالہ جات 66 الحکم جلد نمبر ۶ ۷ ۸ ۹ بابت ۸۹۹اء غلام محمد “ سے حکیم غلام محمد صاحب امرتسری ( شاگر دحضرت خلیفہ اسیر اول مراد ہیں).ضمیمہ انجام آنقم صفہ ۴۳.جنگ مقدس صفحه ۲۱۱٬۲۱۰٬۲۰۹.انوار الاسلام صفحہا.سیرۃ المہدی حصہ اول روایت نمبر ۱۷۵.دونوں حوالوں کے لئے دیکھئے ریویوار دو جلد ۳ نمبر ۱۱/۱۲ بابت نومبر و دسمبر ۱۹۰۳ء آخری اوراق.دونوں حوالوں کے لئے دیکھئے ریویوار دو جلد نمبر ۱/۱۲ بابت نومبر و دسمبر ۱۹۰۳ء آخری اوراق.
نقشه ضلع گورداسپور السلسله حالات مرزدا ایوب بیگ صاحت و منشی امام الدین صاحب ) مشرق - کچھی سٹرک پنکچی سڑک عدیل کی سرک نہر بیٹھانا شمال دریا پیمانہ ایک انچ = ، امیل دونیا نگیر دریائے بیاس ه نمی خونه پور جنوب دریائے راوی دها ریوال دیره با با تانک
79 مرزا ایوب بیگ صاحب رضی اللہ عنہ * خاندانی حالات: مرزا ایوب بیگ صاحب کا خاندان مغل بر لاس قوم سے تعلق رکھتا ہے.اس کے ہندوستان میں مورث اعلیٰ مرزا عبدالحکیم بیگ تھے.جن کا بنا کر وہ گاؤں موضع حکیم پور ہے.جو کلانور سے تین میل کے فاصلہ پر ہے.۱۹۴۷ء تک اسی خاندان کے قبضہ میں تھا.آپ اس فوج کے سرداروں میں سے تھے.جو شاہ طہماسپ صفوی نے ہمایوں بادشاہ کے ساتھ ۱۵۵۵ء میں ایران سے روانگی کے وقت امداد کے لئے بھیجی تھی.جب ۱۵۵۶ء میں شہنشاہ اکبر بمقام کلانور تخت نشین ہوا.تو اس نے اس جگہ اپنی تاجپوشی کی یاد گار قائم کرنا چاہی.اس لئے اس نے مرزا عبدالحکیم بیگ کو مع اور بہت سے ساتھیوں کے کلانور میں آباد کیا.مرزا صاحب موصوف ان سب نئے آبادکاروں کے سردار تھے اور کلانور کے محاصل میں سے ایک چوتھائی ان کو ملتا تھا.آپ کی نسل میں سے بہت سے ذی جاہ افراد اور کئی عالم و فاضل اور اہل تقویٰ لوگ ہو گزرے ہیں.مرزا عبدالرحیم بیگ: مرزا ایوب بیگ صاحب کے پڑدادا مرزا عبدالرحیم بیگ جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مصاحبوں میں سے تھے اور سکھ حکومت سے قبل ریاست ٹونک میں وزیر اعظم رہ چکے تھے.اپنے زمانہ میں بڑے متقی اور پر ہیز گار مشہور تھے.آپ کے بیٹے مرزا احمد بیگ رسالدار بہادر اپنی سخاوت، جوانمردی، مہمان نوازی اور یتامی اور غرباء پروری میں مشہور تھے.انہوں نے سیکنڈ رجمنٹ ہڈسن ہارس کی فوجی ملازمت میں قابل تعریف خدمات سرانجام دیں.چنانچہ آپ کے کمانڈنگ افسران نے کئی مراسلات اور اسناد میں آپ کی جوانمردی کے واقعات کا ذکر کیا * یہ حالات ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے غالباً 1911ء میں قلمبند کئے تھے.اور بعد ازاں ڈلہوزی میں ۱۹۳۵ء میں انہوں نے اس مسودہ پر نظر ثانی کی.مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی فرماتے ہیں کہ ”مرزا یعقوب بیگ صاحب ان کی سیرت لکھنا چاہتے تھے.اور کچھ حصہ میرے اہتمام میں طبع ہوا تھا.پھر وہ رہ گیا.اور اختلاف کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب نے الحکم میں ان کے متعلق لکھا کے راقم کو یہ حالات بلکہ خاندان کے متعلق حالات کا اکثر حصہ اور تصاویر اور سندات اور سرکاری چھٹیوں کی مطبوعہ نقول آپ کے برادر زادہ مرزا مسعود بیگ صاحب ایم.اے بی.ٹی ہیڈ ماسٹر مسلم ہائی سکول لاہور کے ذریعہ دستیاب ہوئی ہیں البتہ اقتباسات اور حوالے میری طرف سے درج ہوئے ہیں.ان حالات کا کچھ حصہ میں نے رسالہ ریویو آف ریلینجز (اردو) میں ماہ فروری و مارچ ۱۹۴۷ ء میں بھی شائع کرایا تھا.اب قدرے تغیر اور کافی ایزادی کے ساتھ یہاں درج کیا گیا ہے.(مؤلف)
80 ہے.مثلاً ۱۸۵۸ء میں آپ نے دریائے گھاگرا کے کنارے پر باغیوں کا مقابلہ کیا.اور اُن سے ایک توپ چھین لی.اور دشمن کو بھگا دیا.لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کی طرف سے، ۱۸۷ء میں عطا کردہ سند سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب تعلیم کی ترویج کا بھی شوق رکھتے تھے.ان کے اہل بیت نے ۱۹۰۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی تھی.ان کے متعلق مزید حالات معلوم نہیں ہو سکے ہے مرز انیاز بیگ صاحب رئیس کلانور : مرزا احمد بیگ کے بیٹے مرزا نیاز بیگ صاحب ضلعد ار نہر پراونشل درباری تھے.۳ آپ کے قدیم معزز خاندان کا ذکر ضلع گورداسپور کے سرکاری گزیٹر (GAZETEER) میں جو بحکم سر کا ر۹۲ - ۱۸۹ء میں طبع ہو اپایا جاتا ہے.آپ اور آپ کے تین صاحبزادگان (جن میں سے ایک مع اہلبیت ) تین سو تیرہ صحابہ میں سے تھے.اور ایک خاندان کے اتنے افراد کا اس قابل عزت گروہ میں سے ہونے کا شرف معدودے چند خاندانوں کو ہی حاصل ہوا.لیکن افسوس کہ ان کے بیٹے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب خلافت ثانیہ سے وابستہ نہ ہوئے.اور نہ صرف یہ که خود حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کی وابستگی کی برکات سے محروم ہوئے بلکہ اپنے والدین اور دو بہنوں اور اپنے چھوٹے بھائی مرزا سکندر بیگ صاحب کو محروم رکھنے کا باعث بھی بنے.شجرہ نسب اگلے صفحہ پر ملاحظہ کریں
81 شجرہ نسب مرزا عبدالحکیم بیگ مورث اعلیٰ مرز ا عبد اللہ بیگ مرزامح الله یک مرزا عبدالوہاب مرز امحمد امین بیگ مرز امحمد حسین مرزا محمد سلیمان مرزا محمد اشرف مرزا عنایت اللہ بیگ مرزا بخش اللہ بیگ مرزا جعفر بیگی بیگ مرزا قاسم بیگ مرزا بهادر بیگ مرزا عبدالرحیم بیگ + مرزا اسمعیل بیگ I مرزا امیر بیگ (ان کی ساری اولاد غیر احمدی ہے ) مرز امحمد بیگ (ان کی ساری اولا د غیر احمدی ہے ) نہ مرز ا نیاز بیگ منجھلی بیگم (وفات ۱۹۰۸ء) مرزا احمد بیگ مرزا امانت اللہ بیگ مرزا کرامت اللہ بیگ ( وفات کے مارچ ۱۹۱۷ء ) (زوجہ مرزا خلیل بیگ کلانور ) مرز ا نعمت اللہ بیگ (ز) مرزا عظمت اللہ بیگ (ز) مرزا خلیل بیگ مرزا عزیز بیگ مرزا جمیل بیگ مرزا عبداللہ بیگ مرز امحمد اکرام بیگ ( ز ) مرزا عبداللہ بیگ (ز) جن کے نام کے ساتھ (ز) لکھا ہے وہ زندہ ہیں د: مرزا نیاز بیگ کا شجرہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو)
82 مرز نیاز بیگ مرزا رسول بیگ مرزا اکبر بیگ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ مرزا ایوب بیگ ( وفات ستمبر ۱۹۱۷ء ( وفات ۱۲ جولائی ۱۹۴۷ء ) ولادت ۱۸۷۲ء وفات فروری ۱۹۳۶ء) ولادت ۷۵ ۱۸ ء وفات ۱۸ اپریل ۱۹۰۰ ء ) ڈاکٹر مرزا داؤ د بیگ مرزا عبدالرحمن بیگ مرزا مبارک بیگ I مرزا عبد السلام مرز اسکندر بیگ ( وفات اگست یا ستمبر ۱۹۴۷ء) حبیبہ بیگم صاحبہ بیگم؟ مرزا عظیم بیگ مرزا محمد مسعود بیگ ایم.اے.بی.ٹی مرزا مقبول احمد بیگ مرزا منظور احمد بیگ بی.اے زوجه مرز اعنایت بیگ اپکر پولیس) مرز اداؤ د بیگ (ٹھیکیدار ریلوے سندھ) مبارکہ بیگم مرزا محمد افضل مرزا محمد اقبال مرزا ناصراحمد مرزا نعیم احمد نصرت جہاں مسرت (زوجہ سید عبداللہ شاہ ) حال ( قادیان) مرزا مبارک احمد طاہر سید حمید احمد سید شمیم احمد سید فہیم احمد سیده را شده پروین (1) جن کے اسماء کے نیچے خط کشیدہ ہے وہ بقید حیات ہیں.(۲) مرزا نیاز بیگ صاحب کی تین بیٹیاں تھیں جن کی ترتیب معلوم نہ ہو نیکی وجہ سے ان کے نام اوپر درج نہیں کئے گئے.(الف) عزیز بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا عبد الغفور بیگ صاحب ساکن کلانور زندہ ہیں.(ب) صدیقہ بیگم صاحبہ (اہلیہ سید ناصر شاہ صاحب مدفون قطعه خاص بہشتی مقبرہ) ان کی اولا د ذیل کے شجرہ میں درج کی گئی ہے.جوسب زندہ ہیں.اور خود بھی زندہ ہیں.صدیقہ بیگم صاحبہ (زوجہ سید ناصر شاہ صاحب) حمیدہ بیگم سعیده بیگم سید مبارک احمد شاہ زوجہ مرزا اعظم بیگ (بیوه سید فرزند علی شاه) سید ناصر احمد شاہ سید نعمت اللہ شاہ الله سید منصور احمد مذکورہ بالا صالحہ منورہ بیگم ناصرہ بیگم نصرت بیگم (ج) نیاز بیگم صاحبہ مرحومہ (اہلیہ مرزا فضل الہی بیگ صاحب ولد مرزا محمود بیگ صاحب رئیس پٹی (لاہور)
83 مرزا رسول بیگ صاحب *: مرزا نیاز بیگ صاحب کی پہلی شادی محترمہ آمنہ صاحبہ بنت مرزاحسین بیگ صاحب صوبیدار کنه کلانور سے ہوئی تھی.ان کے بطن سے مرزا رسول بیگ صاحب اور مرزا اکبر بیگ صاحب پیدا ہوئے.اس خاندان میں موصوفہ کے لمبے عرصہ کے روزے مشہور ہیں.اور یہ امر بھی کہ وہ اتنی حیادار تھیں کہ کسی عورت نے کبھی انہیں اپنے بچے کو دودھ پلاتے نہیں دیکھا.بہت عبادت گزار تھیں.غالباً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی سے پہلے وفات پاگئی تھیں اور کلانور میں مدفون ہوئیں.آپ کے بیٹے مرزا رسول بیگ صاحب جو ضلعدار نہر رہے ہیں.وجیہہ اور بارعب شخص تھے.ان کے متعلق آپ کے والد صاحب فرماتے تھے کہ یہ میرا نہایت تابعدار اور فرمانبردار بچہ ہے.کبھی حکم عدولی نہیں کرتا.لیکن اگر میری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی کسی امر کے متعلق ”نہیں“ کہہ دے تو مجھے حوصلہ نہیں پڑتا کہ اس کی بات کا انکار کر دوں.آپ کے والد صاحب نے جب ۱۸۹۳ء میں بیعت کی تو اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہی آپ نے بیعت کر لی تھی.صحیح تاریخ بیعت معلوم نہیں ہوسکی.قریب ترین تاریخ کا حوالہ جس میں آپ کا ذکر سلسلہ کے لٹریچر میں معلوم ہو سکا ہے درج ذیل ہے: ۲۵ اگست ۱۸۹۸ء کی فجر کی نماز کے بعد حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام بیٹھ گئے.مجلس میں باہر سے آنے والے احباب میں سے مرزا نیاز بیگ صاحب اور ان کے بیٹے مرزا رسول بیگ صاحب اور مرزا ایوب بیگ صاحب ٹیچر چیفس کالج بھی تھے.ہے خلافت ثانیہ سے وابستگی : جب سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات پر جماعت میں اختلاف ہو ا تو مرزا رسول بیگ صاحب بمقام منچن آباد (ریاست بہاولپور ) میں تھے.ایک طرف مولوی علی احمد صاحب حقانی کے راولپنڈی سے خلافت کی تائید میں اور دوسری طرف آپ کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے خلافتِ ثانیہ کے خلاف خطوط آنے شروع ہوئے.آپ نے ایک رات استخارہ کیا اور صبح کی اذان سے کچھ وقت قبل اپنے اہل خانہ سے کہا کہ لو جی! ہمارا فیصلہ ہو گیا.میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آسمان سے ایک رسہ لٹک رہا ہے.میں نے اُسے پکڑا یہ دیکھنے کے لئے کہ مضبوط ہے یا کہ نہیں دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس پر اپنا بوجھ ڈالا.جونہی میں نے بوجھ ڈالا اور دیکھا کہ رسہ مضبوط ہے غیب سے آواز آئی اسے مضبوطی سے پکڑو یہ میاں محمود کا رسہ ہے.“ یہ خواب سُن کر آپ کے اہلبیت نے آپ کو مبارک باد کہی اور دن چڑھنے پر آپ نے اپنی بیعت کا خط * یہ سوانح آپ کے بیٹے مرزا اعظم بیگ صاحب سے دستیاب ہوئے ہیں.(مؤلف)
84 حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھ دیا.دین کے لئے غیرت: اس کے بعد پہلے ہی جلسہ سالانہ پر آپ اپنے بیٹے کو لے کر قادیان آئے.وہ سُناتے ہیں کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے مکان کے قریب گلی میں ایک صاحب ملے اور کہا کہ مرزا صاحب آپ کہاں؟ آپ نے جواب دیا قادیان اور کہاں ! اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ( ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب) تو لاہور کی طرف ہیں.آپ نے کہا کہ کیا میں ان کا ذمہ دار ہوں؟ میں نے دیکھا کہ اس گفتگو سے آپ کا چہرہ متغیر ہو گیا.چند قدم کے فاصلہ پر ایک اور دوست نے بھی السلام علیکم کے بعد سوال کیا کہ مرزا صاحب آپ کہاں؟ یہ صاحب آپ کے بے تکلف دوست تھے.آپ نے جواب دیا کہ قادیان اور کہاں؟ اس پر اس دوست نے کہا ڈاکٹر صاحب ( ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ) تو لاہور کی طرف ہیں.اس دوسری دفعہ کے واقعہ سے آپ کی طبیعت قابو سے باہر ہو چکی تھی.آپ نے نہایت غصہ سے کڑک کر جواب دیا کہ کیا میں ایمان فروش ہوں؟ مجھے اس سے کیا کہ ڈاکٹر صاحب کہاں ہیں؟ اس پر یہ بے تکلف دوست بے ساختہ آپ سے ہنستے ہوئے لپٹ گئے.جیسے کوئی اپنے قصور کی معافی چاہتا ہے.مگر آپ کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ آپ کے چہرے پر بشاشت نہ آئی.جس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ آپ نے ان سوالات سے اپنی سخت ہتک محسوس کی ہے.خلافت سے وابستگی کی وجہ سے آپ اپنی چھوٹی ہمشیرہ محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت سید ناصر شاہ صاحب کو جو کہ مبائعہ ہیں بڑی محبت سے فرمایا کرتے تھے کہ یہ میری دین کی بہن ہے.کیونکہ دوسری دونوں بہنیں خلافت سے وابستہ نہ تھیں.سادگی اور دینی امور سے محبت : آپ کی طبیعت میں سادگی بہت تھی.اور درویشانہ زندگی کو پسند کرتے تھے.آپ کے بیٹے نے چودہ پندرہ سال کی عمر میں بُوٹ خریدنے کا مطالبہ کیا.فرمانے لگے بیٹا! بوٹ کی ایڑی کتنی اونچی ہوتی ہے؟ بچے نے بتایا کہ ایک انچ کے قریب.فرمانے لگے کہ اس سے انسان کا دماغ اتنا ہی اونچا ہو جاتا ہے.پھر بچے نے کہا کہ کلاہ ہی لے دیں.جواباً فرمایا کہ بیٹا! اس کا بھی یہی حال ہے.ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے ایام میں احمد یہ چوک میں آپ نے اپنے بیٹے کو حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ سے مصافحہ کرایا.حضور نے انتہائی شفقت سے اپنے دائیں ہاتھ سے بچے کی ٹھوڑی کو پکڑ کر ہلایا اور پوچھا کہ تم نے ہمیں پہچان لیا ہے؟ مرزا صاحب کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا آئیں.اور رقت بھری آواز سے بولے کہ بیٹا! کہو کہ آپ کو ساری دنیا نے پہچان لیا ہے.تو میں نے نہیں پہچانا تھا ؟ اس سادگی اور درویشانہ کیفیت
85 کے باوجود آپ خشک طبع نہ تھے بلکہ با مذاق طبیعت بھی رکھتے تھے.آپ کی عبادت گذاری: آپ تہجد گزار تھے.کئی بار دیکھا گیا کہ تہجد کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فارسی کی نظمیں عجب نوریست در جان محمد اور در دلم جوشد ثنائے سرورے وغیرہ نماز میں خوش الحانی سے پڑھتے تھے.آپ کو قرآن مجید سے بہت محبت تھی.آپ کی غرباء پروری : با وجود بارعب اور جری ہونے کے غرباء ومساکین اور خصوصاً بیوگان کے لئے آپ کے دل میں بے حد درد تھا.اور اُن کی خبر گیری بہت ہمدردی اور توجہ سے کرتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ سائل کو خالی واپس نہیں کرنا چاہئے.اگر پاس کچھ نہ ہو تو لطیفہ یا دلجوئی کی بات سنا کر ہی اسے خوش کر دینا چاہئے.خاندان کی مملوکہ اراضی کے گاؤں کی متعدد بیوہ مستورات نے آپ کی وفات پر بے حد صدمہ محسوس کرتے ہوئے اظہار کیا کہ پہلے تو ہم مفلوک الحال محسوس نہیں کرتی تھیں.لیکن در حقیقت اب ہم مفلوک الحال ہوئی ہیں.تبلیغ کا شوق: آپ تبلیغ کا شوق رکھتے تھے.آپ کی بڑی خواہش یہ ہوتی تھی کہ مجالس میں اللہ تعالیٰ کا نام بلند کیا جائے.چنانچہ اپنے بیٹے کو جب کہ وہ دس گیارہ سال کا بچہ تھا.مختلف مجالس میں لے جا کر اس سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعتیں اور قومی ترانے پڑھوایا کرتے تھے.وفات: آخر عمر تک آپ جسمانی لحاظ سے تو انا اور مضبوط تھے.اور بعض اوقات ستر بہتر میل گھوڑے کی سواری کر لیا کرتے تھے.آپ کی وفات قریباً ۵۳ سال کی عمر میں ضربتہ الشمس سے منچن آباد میں ہوئی.آپ کے بیٹے کی عمر اس وقت پندرہ سال کی تھی اور وہاں کوئی احمدی نہ تھا.اور نہ کوئی عزیز رشتہ دار.اس لئے آپ کو وہیں دفن کر دیا گیا.* * اس خاندان کے صحابہ کی قبریں ان کے خاندان کے نزدیک معروف ہیں.(مؤلف)
86 مرزا اکبر بیگ صاحب : مرزا اکبر بیگ صاحب ۳۱۳ صحابہ کے قابل فخر گروہ میں سے تھے.چنانچہ اس فہرست میں ان کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے.۲۲۱.مرزا اکبر بیگ صاحب کلانور آپ بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح خلاف ثانیہ سے وابستہ رہے.آپ کے اکلوتے بیٹے مرزا مبارک بیگ صاحب صحابی ہیں.اور خلافت ثانیہ سے وابستہ ہیں.مرزا اکبر بیگ صاحب محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر تھے.رسیدات آمدنی مدرسہ تعلیم الاسلام ) کے عنوان کے تحت مرزا اکبر بیگ صاحب کمر مسانی ضلع میانوالی عہد آپ کے متعلق ایک اندراج ہمیں ملتا ہے.کہ آپ نے ۱۲ جولائی ۱۹۲۷ء کو کلانور میں وفات پائی اور و ہیں مدفون ہیں.افسوس کہ مزید سواخ ابھی تک دستیاب نہیں ہو سکے.مرزا ایوب بیگ صاحب کی ولادت اور تعلیم وغیرہ: مکرم مرزا ایوب بیگ صاحب ماہ اگست ۱۸۷۵ء میں بمقام کلانور (ضلع گورداسپور ) پیدا ہوئے.ان ایام میں پنجاب میں عام طور پر کثرت سے بارشیں ہو رہی تھیں.بلکہ کئی جگہ سیلاب بھی آئے تھے.آپ کے والدین اس خیال سے کہ کہیں سکونتی مکان گر نہ جائے.دیوان خانہ میں آگئے تھے.اور وہیں مرزا صاحب کی ولادت ہوئی.قبول احمدیت سے قبل آپ کو نمازوں کی باقاعدہ ادائیگی کی طرف توجہ نہ تھی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی امور سے لگاؤ نہ تھا.آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم پاتے رہے اور بی.اے تک تعلیم پائی اور بعد ازاں چیفس کالج لاہور میں بطور سائنس ماسٹر کام کرتے رہے.قبول احمدیت : مباحثہ دہلی کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لاہور میں کئی روز تک قیام رکھا.ان ایام * معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو غلط فہمی ہوئی تھی.حضرت اقدس کا مباحثہ دہلی میں مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی سے آخر اکتوبر ۱۸۹۱ء میں ہوا ( بحوالہ الحق دھلی اور بیعت کا واقعہ فروری ۱۸۹۲ء کا ہے.اور مباحثہ دہلی کے بعد حضور لا ہور تشریف نہیں لے گئے.بلکہ دہلی سے پٹیالہ اور وہاں سے قادیان تشریف لے آئے.(دیکھئے روایت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم مندرجہ سیرۃ المہدی حصہ دوم نمبر ۴۱۷ و مجد داعظم حصہ اول صفحه ۳۲۴ صفحه ۳۲۵ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۴ میں مندرج مکتوب مورخہ 9 جنوری ۱۸۹۲ ء جو حضور نے قادیان سے تحریر فرمایا) شائید سہو قلم ڈاکٹر صاحب محترم مباحثہ لا ہور کی بجائے مباحثہ دہلی کا ذکر کر گئے کیونکہ حضور جنوری ۱۸۹۲ء میں لاہور تشریف لے گئے اور ”محبوب رایوں“ کے مکان واقعہ ہیرا منڈی میں مقیم ہوئے.( بحوالہ مجد داعظم حصہ اول صفحہ ۳۲۹) اور لاہور میں مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے ۳ فروری ۱۸۹۲ء کو حضورڑ کا مباحثہ ختم ہوا.( بحوالہ اشتہار حضور ۳ / فروری ۱۸۹۲ء مندرجه تبلیغ رسالت حصہ دوم صفحه ۹۶).(مؤلف).
87 میں لاہور میں مخالفت کا زور تھا.بیہودہ لوگ گلی کوچوں میں گندہ دہانی کرتے اور جھوٹے لغو اور بے ہودہ قصے حضرت اقدس کے خلاف مشہور کیا کرتے تھے.اکثر لوگوں کا ہجوم حضور کے مکان کے گر درہتا تھا.اور اندیشہ تھا کہ بدقماش لوگ مکان میں گھس کر حملہ نہ کر دیں.بیعت کرنے والوں کو مخالفین تنگ کرنے کی کوشش کرتے تھے اس وجہ سے بیعت کا کئی دفعہ اظہار بھی نہیں کیا جاتا تھا.چنانچہ مرزا ایوب بیگ صاحب اور آپ کے حقیقی بھائی مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ایک دوسرے سے خفیہ بیعت کی.مرزا ایوب بیگ صاحب بیان کرتے تھے کہ میں دو تین روز تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوتا اور لوگوں کے ساتھ حضور کی گفتگو سنتا رہا.۵ فروری ۱۸۹۲ء کو اسلامیہ ہائی سکول سے کہ جہاں میں پڑھتا تھا، چار بجے بعد دو پہر واپس آیا.تو حضرت کی قیام گاہ پر پہنچا.وہاں دو رکعت نماز پڑھی.جس میں ایسا خشوع و خضوع اور حضور قلب میسر آیا کہ پہلے کبھی نہ آیا تھا.طبیعت میں بے حد رقت تھی اور آنکھوں میں آنسو.حضرت اقدس بالا خانہ میں تشریف لے جاچکے تھے.میرا دل تڑپتا تھا کہ صادق و مرسل من اللہ کی فوراً بیعت کرلوں.مجھے معلوم نہ تھا کہ کس طرح حضور کی خدمت میں پہنچوں.دل قابو میں نہ تھا.یہاں تک کہ میری بلند آواز سے رونے تک نوبت پہنچی اور ہچکی بندھ گئی.ایک ہم جماعت بھی میرے ساتھ تھا.دروازہ کھٹکھٹانے پر مرزا محمد اسماعیل صاحب نیچے اُترے.* تو اُن سے کہا کہ ہم دونوں طالب علم اس وقت حضور سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں.حضور نے نہایت مہربانی و شفقت سے دونوں کو اپنے پاس بالا خانہ میں بلا لیا.میں نے عرض کی کہ ہم دونوں بیعت کرنا چاہتے ہیں.حضور نے ہماری درخواست منظور فرمالی.پہلے میرے ہم جماعت کو بیعت کے لئے اندر بلا یا ان دنوں حضور ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ بیعت لیا کرتے تھے.اور دس شرائط بیعت میں سے ہر ایک کی نسبت تفصیل وار بیان کر کے اس پر کار بند رہنے کے لئے اقرار لیتے تھے جس وقت میرا ہم جماعت اندر بیعت کر رہا تھا.میرے دل میں تضرع اور خشیت اللہ نے اور بھی زور کیا.اس وقت تین چار دفعہ میری آنکھوں کے سامنے بجلی کی طرح ایک نور کی چمک نظر آئی.پھر حضور نے مجھے بیعت کے لئے اپنے پاس بلا لیا.اور پھر جب مجھے حضور نے دیکھا تو فرمایا کہ آپ کے چہرہ سے رشد اور سعادت ٹپکتی ہے.پھر پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں.اور مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بیان کرتے ہیں کہ مرزا محمد اسمعیل صاحب خادم حضرت اقدس جو بعد میں پریس مین کے طور پر کام کرتے رہے ہیں.ان لوگوں کی اولاد میں سے ہیں جو حضوڑ کے آباؤ اجداد کے ہمراہ سمرقند سے وارد ہندوستان ہو کر قادیان میں آباد ہوئے.آپ کو حضور کی خدمت کا بہت موقعہ ملا.آپ فسادات ۱۹۴۷ء میں قادیان میں فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.(مؤلف)
88 آپ کے والد کا کیا نام ہے.جواب پر (چونکہ حضور والد صاحب اور خاندان کو جانتے تھے ) فرمایا کہ آپ تو ہمارے قریبی ہیں.* پھر بیعت لی.بیعت کرنے سے مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے ٹو راندر بھر جاتا ہے.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب بیان کرتے تھے کہ میں ایک روز قبل بیعت کر چکا تھا.حضور کی صداقت پر ایک ہندو کی شہادت: بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قیام چند روز لاہور میں رہا.دونوں بھائی قریباً ہر روز سکول کی پڑھائی کے بعد حضور کی صحبت میں جا کر بیٹھتے اور اکثر حضور کی گفتگو جو مجلس میں مخالفین سے ہوتی سُنتے تھے.انہی دنوں ایک شخص آیا اور اس نے نہایت ناپاک اور گندے الفاظ سے حضور کو مخاطب کیا اور بہت گالیاں دیں.حضور خاموش ہوکر سنتے رہے.احباب چاہتے تھے کہ اُسے بند کر دیں اور باہر نکال دیں.مگر حضور نے ایسا کرنے سے منع فرمایا.سوکسی نے اُسے نہ روکا.حتی کہ وہ بکواس کرتے کرتے خود ہی خاموش ہو گیا.اس کے خاموش ہو جانے پر حضرت نے اُسے مخاطب کر کے فرمایا کہ ”بھائی کچھ اور بھی کہہ لے.چہرہ مبارک پر آثار ملال نظر نہ آتے تھے.یہ الفاظ سُن کر اس پر سخت رقت طاری ہوئی اور گڑ گڑا کر حضوڑ کے پاؤں پر گر پڑا.اور معافی کا خواستگار ہوا.اور کہنے لگا کہ مجھ سے سخت نادانی ہوئی.میں حضور کے مرتبہ کو پہچانتا نہیں تھا.میری تو بہ.اس وقت ایک معزز ہندو بھی مجلس میں تھا.اس نے مولوی رحیم اللہ صاحب لاہوری رضی اللہ عنہ کو حضور کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ شخص مجھے ناکام رہنے والا معلوم نہیں ہوتا.یہ دنیا کو جیت جائے گا.اور یہ بھی کہا کہ مسیح کے تحمل اور بردباری کا حال میں نے کتابوں میں پڑھا تھا.مگر مرزا صاحب کا نمونہ اس سے کچھ کم نہیں.انہی ایام میں ایک شخص دیوانہ وار گلی کوچوں میں پھرا کرتا تھا.اور اپنے تئیں مہدی کہتا تھا.حضرت مسجد سے نماز پڑھ کر تشریف لا رہے تھے جب مکان کے قریب پہنچے تو اس دیوانہ نے حملہ کر دیا.اور حضور کی دستار مبارک سر پر سے گر پڑی.سید فصیلت علی شاہ صاحب اور ان کے بھائی سیدامیرعلی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس اور کئی دوستوں نے جو ساتھ تھے اُسے پکڑ لیا.تا اُسے اس حرکت کی سزا دیں.مگر حضرت نے منع کیا اور فرمایا کہ اسے چھوڑ دو یہ عاجز ہے.atok* ** * مراد یہ ہے کہ وطن کے لحاظ سے قریب کے ہیں.ورنہ قرابت اور رشتہ داری نہ تھی اور نہ ہی مراد ہے.(مؤلف) مولوی صاحب کے سوانح کتاب ہذا میں درج ہیں.(مؤلف) ** *** (0) مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی درویش فرماتے ہیں کہ پاگل آدمی کے حضرت پر حملہ (باقی اگلے صفحہ پر )
89 بیعت کے بعد انقلاب روحانی: ان ایام میں مرزا ایوب بیگ صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پاک تعلیم اعلیٰ اخلاق تحمل اور بردباری کا نمونہ دیکھنے کا اتفاق ہوا.اور اخلاق فاضلہ کو اپنے اندر پیدا کرنے کا غایت درجہ شوق اور کلام الہی سننے اور پڑھنے سے ایک خاص قسم کا دلی لگاؤ اور عشق پیدا ہو گیا.مدارس کی ایک پر غفلت زندگی اور مروجہ تعلیم انگریزی وغیرہ میں ہمہ تن مصروفیت کے سبب بچپن کا پڑھا ہوا قرآن مجید ناظرہ بھول چکا تھا.اب مولوی رحیم اللہ صاحب لاہوری سے دوبارہ شروع کر کے ایک سال میں باترجمہ پڑھ لیا.حضرت خلیفہ ایسیح الاوّل سے محبت : حضرت مولوی نور الدین صاحب (خلیفہ مسیح الاول ) رضی اللہ عنہ جموں میں ملازم تھے.اور آپ کو اکثر لا ہور آنے کا موقعہ ملتا تھا.آپ کا قرآن مجید سے سچا اخلاص اور محبت و عشق اور اعلی درجہ کا روحانی اور اخلاقی بقيه حاشیه : کا واقعہ گومیری بیعت (۱۸۹۵ء) سے پہلے کا ہے لیکن میں نے صحابہ سے سنا ہوا ہے اور درست ہے اور مسجد سے غالباً چینیاں والی مسجد مراد ہے.(ب) واقعہ بیعت کی تفصیل مجد داعظم حصہ اول میں یوں تحریر ہے ”حضرت اقدس ابھی لاہور میں مقیم تھے جو ایک روز مرزا یعقوب بیگ صاحب زیارت کے لئے حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے.مرزا یعقوب بیگ صاحب ان دنوں میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے.اب آگے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کی قلم سے سُنو.لکھتے ہیں : ہم بیٹھک میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے.تو وہاں ایک عجیب واقعہ دیکھا کہ حضرت صاحب کچھ لوگوں سے محو کلام تھے.اتنے میں ایک آدمی نے آ کر آپ کو گالیاں دینی شروع کر دیں.آپ خاموش سر جھکا کر سنتے رہے اور وہ بکتا رہا جب وہ خاموش ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ بھائی اور بھی کچھ کہنا ہے تو کہہ ڈالو.اس پر وہ بہت نادم ہو کر معافی کا خواستگار ہوا.حاضرین میں سے ایک تعلیم یافتہ ہندو کہنے لگا کہ حضرت مسیح کے حمل کے متعلق بائیبل میں پڑھا ہوا تھا.مگر ایسا نمونہ آج دیکھنے میں آیا ہے.اس نے یہ بھی کہا کہ یہ شخص کامیاب ہو جائے گا.ان واقعات نے میرے دل پر کچھ ایسا اثر کیا کہ میں نے بیعت کر لی.اس سے دوسرے روز میرے بھائی مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم بھی داخل بیعت ہو گئے.مخالفت کی شدت کی وجہ سے اس بات کو اتنا مخفی رکھا گیا کہ اس وقت خود ہم دونوں بھائی بھی ایک دوسرے کے متعلق نہیں جانتے تھے کہ ہم میں سے ہر ایک نے بیعت کر لی ہے.بعد میں پتہ لگا.“ A اس بارہ میں مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی فرماتے ہیں کہ ”میری تحقیقات میں وہ ( یعنی مرزا ایوب بیگ صاحب) اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے.گو ان کے برادر بزرگ مخدومی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم و مغفور کہتے تھے کہ میں نے پہلے بیعت کی ہے.لیکن چونکہ ایک دوسرے کو پتہ نہ تھا اس لئے تقدیم تاخیر کی بحث ہوسکتی ہے.“ 1 مجد داعظم کی روایت ڈاکٹر صاحب کو میڈیکل کالج کا طالب علم بتاتی ہے اور مرزا مسعود بیگ صاحب بھی تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی یادداشتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بوقت بیعت وہ میڈیکل کالج میں تعلیم پاتے تھے (بقیہ اگلے صفحہ پر )
90 نمونہ دیکھ کر مرزا ایوب بیگ صاحب کو آپ سے غایت درجہ کی محبت ہو گئی.اکثر آپ کے لیکچر سنے کا اتفاق ہوتا.آپ کے پاس تمام دن اور رات کے دس گیارہ بجے تک لوگوں کا ہجوم رہتا.اور تمام دن وعظ و نصیحت کرنے اور سوالات حل کرنے اور قرآن مجید کے معارف سمجھانے میں صرف ہوتا تھا.مرحوم پڑھائی سے فارغ ہوکر اکثر اوقات آپ کی خدمت میں گزارتے.رات کو وعظ قرآن مجید سن کر اپنے مکان پر چلے جاتے.اور نماز فجر سے بہت پہلے آپ کی قیام گاہ پر پہنچتے اور آپ کے ساتھ ہی صبح کی نماز ادا کرتے.سورہ فاتحہ نماز میں کس طرح پڑھنی چاہئے اور کس طرح اسے اپنے روحانی و دنیوی مطالب و مشکلات کے حل کے لئے ذریعہ بنانا چاہئے.پہلے پہل بقيه حاشیه: لیکن رجسٹر بیعت جو اس وقت کا لکھا ہوا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد دام میہم کے پاس موجود ہے.اس کی نقل جو میرے پاس ہے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یکم فروری ۱۸۹۲ء میں زیر نمبر ۲۱۷ یوں درج ہے.ایوب بیگ ولد مرزا نیاز بیگ بعمر پانزده سالہ سکنہ کلانور ضلع گورداسپور لا ہور.طالب علم جماعت چہارم انٹرنس مدرستہ العلوم لا ہوں“.اور پانچ فروری ۱۸۹۲ ء زیر نمبر الف نمبر ۲۲۰ مرقوم ہے.یعقوب بیگ ولد مرزا نیاز بیگ طالب علم مدرستہ العلوم لاہور.برا در کلاں ایوب بیگ.یہ ظاہر ہے کہ انہیں میں سال بعد تحریر کردہ غیر مطبوعہ روایت سے بیعت کے وقت کا اندراج تاریخ کے لحاظ سے یقیناً زیادہ صحیح ہوگا.( مجدد اعظم والی روایت کا سن معلوم نہیں رجسٹر کا اندراج ظاہر کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو غلطی لگی.ایک تو مرزا ایوب بیگ صاحب کی بیعت مباحثہ سے پہلے کی ہے نہ کہ بعد کی.دوسرے یہ مباحثہ دیلی نہیں بلکہ مباحثہ لا ہور تھا.تیسرے ڈاکٹر صاحب کی بیعت مرزا ایوب بیگ کی بیعت سے ایک دن قبل کی نہیں، بلکہ چار دن بعد کی ہے.اور اس کے بعد میں ہونے کا ایک وزنی ثبوت یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا تعارف رجسٹر میں بطور ” برادر کلاں ایوب بیگ“ کرایا گیا ہے.گویا کہ مرزا ایوب بیگ صاحب زیادہ معروف ہو چکے تھے.جس کی وجہ چند روز قبل بیعت کر لینے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی تھی.رجسٹر بیعت ڈاکٹر صاحب موصوف کو بوقت بیعت مدرستہ العلوم کا طالب علم بتاتا ہے لیکن مجدد اعظم میں میڈیکل کالج کا طالب علم.رجسٹر بیعت کا اندراج زیادہ قرین قیاس ہے.کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹری کا امتحان جولائی ۱۸۵۷ء میں پاس کیا.(بحوالہ نزول مسیح صفحہ ۲۳) اس کا نصاب پانچ سالہ تھا.گویا کہ آپ ۱۸۹ء میں میڈیکل سکول میں داخل ہوئے.۵ فروری کو میڈیکل سکول میں داخل ہو چکا ہونا واقعاتی لحاظ سے یوں غلط ہے کہ ابتدائے فروری میں میڈیکل سکول کے داخلہ کا مطلب یہ ہے کہ انٹرنس کا امتحان دسمبر میں ہو اور جنوری میں نتیجہ نکل آئے.لیکن اس طرح کبھی نہیں ہوا.سولا ز ما ڈاکٹر صاحب بوقت بیعت ابھی مدرستہ العلوم کے ہی طالب علم ہو نگے.گو یہ درست ہوگا کہ بعد میں اسی سال انٹرنس پاس کر کے میڈیکل کالج میں داخل ہوئے ہونگے.ڈاکٹر صاحب کے غیر مطبوعہ مسودہ میں ذکر ہے کہ دیوانہ کو جس نے حضرت پر حملہ کر دیا تھا.سید فصیلت علی شاہ صاحب اور سیدامیر علی شاہ صاحب وغیرہ کئی دوستوں نے پکڑ لیا.لیکن روایت مجد داعظم میں صرف (بقیہ اگلے صفحہ پر )
91 رض ہی نے سکھایا تھا.مرحوم محبت سے بعض اوقات حضرت مولوی صاحب سے چمٹ جاتے اور آپ بھی مرحوم کو سینے سے لگا لیتے اور بہت رقت اور محبت سے دعائیں کرتے اور انہیں ہمیشہ اپنا بچہ کہا کرتے تھے.آپ نے مرحوم کی وفات کو بہت محسوس کیا.پہلی بار زیارت قادیان : بیعت کے قریباً ایک سال بعد مارچ ۱۸۹۳ء میں پہلی بار آپ اور آپ کے بھائی مرزا یعقوب بیگ صاحب قادیان آئے.ان دنوں مہمان خانہ اور مدرسہ وغیرہ کی عمارات نہیں بنی تھیں.پریس کے لئے صرف ایک کمرہ تھا.حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفتہ امسیح الاول ) رضی اللہ عنہ قادیان میں تشریف رکھتے تھے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ بھی کچھ عرصہ کے لئے آئے ہوئے تھے.ان دونوں بھائیوں اور مولوی صاحب کے سوا اور کوئی مہمان نہ تھا.حضرت کے سکونتی مکان کی شرقی جانب آئینہ کمالات اسلام، طبع ہورہی تھی.حضرت اکثر حصہ وقت کا مہمانوں کے پاس ہی ڈیوڑھی سے اوپر والے مکان میں گذارتے تھے.جس میں پھر حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رہنے لگے تھے.کھانا بھی اکثر حضرت خود ہی اندر سے لایا کرتے تھے.یہ دو تین دن کی صحبت مرحوم کے لئے تقویت ایمان کا باعث بنی.اور اس سے پہلے مخالفت کے خوف سے جو بیعت اپنے والد صاحب سے مخفی رکھی گئی تھی.اس کا اظہار واپس جا کر ان پر کر دیا.مرزا ایوب بیگ صاحب کے والد صاحب کا بیعت ہونا : ایک دفعہ مرزا صاحب موصوف کے والد صاحب نے ایک دوست سے ذکر کیا کہ میں گھنٹوں سوچ میں پڑا رہتا تھا کہ میں نے بچوں پر انتار و پیہ صرف کیا اور تعلیم دلائی.لیکن ان کی دینی حالت مایوس کن ہے.قرآن مجید سے رغبت نہیں، کبھی ایک آدھ نماز میری دیکھا دیکھی پڑھ لی تو پڑھ لئی ورنہ نماز سے دلی لگاؤ کوئی نہیں.لیکن جب ۱۸۹۲ء اور ۱۸۹۳ء کی تعطیلات میں میرے بچے گھر آئے تو ان میں عجیب تغیر دیکھا کہ نماز سوز و گداز سے پڑھتے ہیں.معلوم ہوا کہ یہ تبدیلی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بیعت ہونے کی وجہ سے ہے.چنانچہ ڈاکٹر بقيه حاشيه : شیخ رحمت اللہ صاحب (غیر مبائع) کا ذکر ہے.( اور اس کی تصدیق حضرت مفتی محمد صادق کی روایت سے بھی ہوتی ہے.دیکھئے ذکر حبیب صفحہ ۱۹ و ۲۰) مجد داعظم میں مرقوم ہے: لا ہور کے ایک بازار میں ایک دفعہ ایک شخص جو خود مہدی ہونے کا مدعی بنا پھرتا تھا آپ سے لپٹ گیا اور بُری طرح آپ کو پکڑ کر گھسیٹا اور کہنے لگا.تو کہاں سے مہدی بن گیا، مہدی تو میں ہوں.شیخ رحمت اللہ صاحب نے اُسے مارنا چاہا.مگر حضرت مرزا صاحب نے روک دیا اور اُسے کچھ نہ کہا.مولانا نورالدین علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ وہ شخص بعد میں جلد ہی ہلاک ہو گیا.“ ( حصہ اول صفحه ۳۲۹) (مؤلف)
92 مرزا یعقوب بیگ صاحب واقعہ بیعت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : بیعت کا اثر اس قدر ہوا کہ تمام دینی بے رغبتی کا فور ہو گئی.نماز پنجگانہ کے علاوہ تہجد کا سلسلہ بھی جاری ہو گیا.ان دنوں میں میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا.دوسرے طلباء کا جو وقت کھیل کود میں صرف ہوتا تھا وہ ہم نماز اور قرآن خوانی میں صرف کرتے تھے.اس تبدیلی کو ہمارے والد مرحوم نے جو ہماری بے دینی کے سخت شا کی تھے.نہایت تعجب سے محسوس کیا اور جب اصل حالات اُن پر گھلے اور حضرت صاحب کی زیارت سے مشرف ہوئے تو وہ بھی بیعت میں داخل ہو گئے.“ حضرت اقدس سے انتہائی محبت اور قادیان میں مصروفیات: مرزا ایوب بیگ صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہونے کی اتنی تڑپ تھی کہ کوئی مہینہ نہ گذرتا تھا جس میں ایک دو مرتبہ حضور کی زیارت سے مشرف نہ ہو آتے تھے.جب دو چار روز کی رخصت ہوتی قادیان جا گزارتے.اسی طرح موسم گرما کی دو اڑھائی ماہ کی تعطیلات کا اکثر حصہ بھی.بسا اوقات مرحوم صرف اتوار کے دن کے لئے قادیان چلے آتے.ہفتہ کی رات کے دس گیارہ بجے بٹالہ اتر کر اسی وقت قادیان کے لئے پیدل روانہ ہو جاتے.اور سارا دن قادیان رہ کر شام کو پیدل واپس چلے جاتے.بارش کے طوفان، آندھی جھکڑ کی کبھی پروانہ کرتے اور کئی بار بارش میں بھیگتے ہوئے پہنچے.چونکہ بارش کے ایام میں قادیان جزیرہ بنا ہوا ہوتا تھا.اس لئے کمر تک پانی میں سے گذر کر قصبہ میں آنا پڑتا.کئی دفعہ لا ہور سے ایک قافلہ کی صورت میں احباب قادیان کے لئے روانہ ہوتے تو بٹالہ سے آگے جہاں سے پیدل چلنا ہوتا تھا مرحوم کمزور اور ضعیف العمر احباب کا سامان خود اٹھا لیتے.یکہ کرایہ پر لیتے اور دیکھتے کہ کوئی بھائی مفلس یا کمزور ہے تو اُسے سوار کر کے خود پیدل چل پڑتے.آپ مضبوط جسم کے تھے.یہ بھی سنا گیا ہے کہ بعض اوقات تھکے ہوئے ضعیف العمر احباب کو راستہ میں اپنی کمر پر بھی اُٹھا لیتے.قادیان جاتے ہوئے نیز واپسی پر راستہ میں درود و استغفار پڑھتے اور قادیان نظر پڑنے پر مسنون دعا پڑھتے تھے.چنانچہ الحکم میں آپ کی ایک بار قادیان میں آمد کا ذکر ہم ذیل کے الفاظ میں مرقوم پاتے ہیں:.”ہفتہ زیر اشاعت میں مندرجہ ذیل احباب تشریف لائے.جناب مرزا نیاز بیگ صاحب پنشنر ضلعدار کلانور سے.جناب مرزا ایوب بیگ صاحب سائنس ماسٹر چیفس کالج لاہور.پیشگوئی کے مطابق سورج گرہن: رمضان کے مہینے میں چاند اور سورج کو گرہن لگنے کی پیشگوئی دار قطنی وغیرہ احادیث میں بطور علامت
93 مہدی بیان ہوئی ہے.مارچ ۱۸۹۴ء میں پہلے چاند ماہ رمضان میں گہنایا.جب اسی رمضان میں سورج کو گرہن لگنے کے دن قریب آئے تو دونوں بھائی اس ارادہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ یہ نشان دیکھیں اور کسوف کی نماز ادا کریں.ہفتہ کی شام کو لاہور سے روانہ ہو کر قریبا گیارہ بجے رات بٹالہ پہنچے.اگلے دن علی اصبح 4 اپریل ۱۸۹۴ء کو ۱۲ ) گرہن لگنا تھا.آندھی چل رہی تھی.بادل گر جتے اور بجلی چمکتی تھی.ہوا مخالف تھی اور مٹی آنکھوں میں پڑتی تھی.قدم اچھی طرح نہیں اُٹھتے تھے.اور راستہ صرف بجلی کے چمکنے سے نظر آتا تھا.ساتھ آپ کے اہل وطن دوست مولوی عبدالعلی صاحب بھی تھے." سب نے ارادہ کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو راتوں رات قادیان پہنچنا ہے.چنانچہ تینوں نے راستہ میں کھڑے ہو کر نہایت تضرع سے دعا کی کہ اے اللہ جو زمین و آسمان کا قادر مطلق خدا ہے! ہم تیرے عاجز بندے ہیں، تیرے مسیح کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور ہم پیدل سفر کر رہے ہیں، سردی ہے تو ہی ہم پر رحم فرما ہمارے لئے راستہ آسان کر دئے اور اس باد مخالف کو دور کر ! ابھی آخری لفظ دعا کا منہ میں ہی تھا کہ ہوانے رُخ بدلا اور بجائے سامنے کے پشت کی طرف چلنے لگی اور مد سفر بن گئی.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہوا میں اڑے جا رہے ہیں.تھوڑی ہی دیر میں نہر پر پہنچ گئے.اس جگہ کچھ بوندا باندی شروع ہوئی.نہر کے پاس ایک کوٹھا تھا اس میں داخل ہو گئے.ان ایام میں گورداسپور کے ضلع کی اکثر سڑکوں پر ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی تھیں.دیا سلائی جلا کر دیکھا تو کوٹھا خالی تھا اور اس میں دوا پہلے اور ایک موٹی اینٹ پڑی تھی.ہر ایک نے ایک ایک سرہانے رکھی اور زمین پر سو گئے.کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو ستارے نکلے ہوئے تھے اور آسمان صاف تھا اور بادل اور آندھی کا نام ونشان نہ تھا.چنانچہ پھر روانہ ہوئے اور سحری حضرت کے دستر خوان پر کھائی.نماز کسوف صبح حضرت اقدس کے ساتھ کسوف کی نماز پڑھی، جو کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے مسجد مبارک کی چھت پر پڑھائی.قریباً تین گھنٹہ یہ نماز وغیرہ جاری رہی.کئی دوستوں نے شیشے پر سیاہی لگائی ہوئی تھی.جس میں سے وہ گرہن دیکھنے میں مشغول تھے.ابھی خفیف کی سیاہی شیشے پر شروع ہوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوکسی نے کہا کہ سورج کو گرہن لگ گیا ہے.آپ نے اس شیشہ میں سے دیکھا تو نہایت ہی خفیف سی سیاہی معلوم ہوئی.حضور نے اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ اس گرہن کو ہم نے تو دیکھ لیا، مگر یہ ایسا خفیف ہے کہ عوام کی نظر سے اوجھل رہ جائے گا.اور اس طرح ایک عظیم الشان پیشگوئی کا نشان مشتبہ ہو جائے گا.حضور * مرزا مسعود بیگ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مولوی عبدالعلی صاحب مرحوم مرزا ایوب بیگ صاحب کے ہم جماعت اور کلانور میں آپ کے محلہ دار تھے.(مؤلف)
94 نے کئی بار اس کا ذکر کیا.تھوڑی دیر بعد سیاہی بڑھنی شروع ہوئی حتی کہ آفتاب کا زیادہ حصہ تاریک ہو گیا.تب حضور نے فرمایا کہ ہم نے آج خواب میں پیاز دیکھا تھا اس کی تعبیر غم ہوتی ہے.سوشروع میں سیاہی کے خفیف رہنے سے * ظہور میں آیا.آپ تین سو تیرہ صحابہ میں سے تھے: مرزا ایوب بیگ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے یہ فخر بھی بخشا کہ آپ تین سو تیرہ صحابہ میں سے تھے.چنانچہ آپ کے متعلق فہرست ۳۱۳ اصحاب میں اس طرح اندراج ہے: ۴۱.مرزا ایوب بیگ صاحب معہ اہلبیت (یعنی کلانوری) ایک الہی نشان کے گواہ: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مقدمہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کی خطرناک صورت کے متعلق الہام ہوا.مخالفوں میں پھوٹ.اور ایک شخص متنافس کی ذلت اور اہانت.چنانچہ ۱۰ اگست ۱۸۹۷ء کو بٹالہ میں ایک پیشی ہوئی.اس وقت فریق مخالف کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بطور گواہ پیش ہوئے اور عدالت میں کرسی مانگنے پر ان کی ذلت ہوئی.بلکہ باہر نکلے تو وہاں بھی کئی بار ذلیل ہوئے اس پیشی کی تفصیل میں مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی درویش تحریر فرماتے ہیں کہ اس موقعہ پر فرشتہ سیرت صالح نوجوان مرزا ایوب بیگ بھی پہنچے.صاحب مغفور..راقم کو اس مقدمہ کے تعلق میں حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ نے ایک روایت لکھوائی تھی چونکہ وہ مطبوعہ مل گئی ہے اس لئے اسے یہاں درج کر دیتا ہوں.حضرت مفتی محمد صادق فرماتے ہیں: ایک پرانی بات مجھے یاد آئی جس کے شاہد حضرت مولانا شیر علی صاحب تھے اس واسطے میں نے اس کا ذکر حضرت مولانا صاحب سے کر کے ان سے درخواست کی کہ وہ اس واقعہ کو اپنی قلم مبارک سے لکھ کر دیں.چنانچہ جو کچھ انہوں نے لکھ دیا وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.محمد صادق ” جن دنوں مارٹن کلارک والا مقدمہ تھا.ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مضمون بطور جواب دعوی خود تحریر فرمایا.اس کو خوشخط لکھوا کر حضور کی خدمت مکرم مفتی محمد صادق صاحب نے میرے دریافت کرنے پر جو اب تحریر فرمایا.میں اس نماز میں شامل تھا.مولوی محمد احسن صاحب نے نماز پڑھائی تھی.دوستوں نے سیاہ شیشے میں گرہن دیکھا.باقی باتیں مجھے یاد نہیں.“ ( مکرم مفتی صاحب کی ذکر حبیب صفحہ ۲۰ پر مطبوعہ روایت سے بھی تصدیق ہوتی ہے.(مؤلف) *
95 میں جب کہ حضوڑا مسجد مبارک میں نماز کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے.پیش کیا گیا تا حضور اس کو ملاحظہ فرمالیں.وہ مضمون کپتان ڈگلس کی عدالت میں پیش ہونا تھا.اس مضمون میں ایک جگہ ل لکھنے سے رہ گیا.حضرت اقدس علیہ السلام خود اپنے قلم سے ل اس جگہ لکھنے لگے.اس وقت مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم جلدی سے بولے کہ حضور ٹھہر جائیں، اس کو خوشخط لکھوالیا جائے.چونکہ حضرت اقدس علیہ السلام کی تحریر شکستہ ہوتی تھی ایوب بیگ مرحوم نے خیال کیا کہ حضور ل کو بھی شکستہ ہی لکھ دیں گے.مگر چونکہ وہ تحریر عدالت میں پیش ہوئی تھی.اس لئے مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم نے چاہا کہ یہ ل باقی تحریر کی طرح خوشخط لکھا جائے مگر حضوڑ نہ رُکے اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میں بھی خوشخط لکھ سکتا ہوں.اور حضور نے ل لکھا.وہ بطرز نستعلیق نہایت خوبصورت تھا.خاکسار شیر علی عفی عنہ.۱۴۴ تعلیم الاسلام مڈل ہائی سکول کی ہیڈ ماسٹری: 66 مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب موصوف تحریر فرماتے ہیں کہ : آریہ مڈل سکول کے مدرسوں کے تعصب اور تنگ نظری سے تنگ آ کر جب ہمارے بچوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ ہر وقت گندے اعتراضات دلآزار حرکات اور توہین آمیز سلوک نه برداشت کر سکے تو حضرت اقدس کے حضور شکایت پہنچی.حضور نے تو کلاً علی اللہ دعا واستخارہ اور مشورہ کے بعد اپنا سکول کھولے جانے کا فیصلہ فرما دیا اور اس کے واسطے ایک اعلان بھی شائع فرمایا...سکول کے باقاعدہ کھلنے سے قبل ہی میں نے ادھر ادھر سے چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھیر سنبھال کر بٹھانا اور پڑھانا شروع کر دیا تھا.اور جو جس لائق ہوتا اس کی لیاقت کے مطابق ہی ( دوسری یا تیسری جماعت ) اس کو پڑھانا شروع کر دیتا اور اس طرح گویا اپنے سکول کا سب سے پہلا استاد یا ماسٹر میں بنا.سکول نے باقاعدگی اختیار کئی بڑے لڑکے بھی پڑھنے لگے تو بڑے بڑے ماسٹر بھی آگئے.اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے سکول ترقی کے مدارج طے کرنے لگا اور بڑھتا گیا.‘۱۵ قادیان میں اپنے مدرسہ کے قیام کے اول محرک حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اسی الاول) المسیح رضی اللہ عنہ ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس قیام کو سلسلہ کے واسطے ضروری دیکھ کر ۵ ستمبر
96 ۱۸۹۷ء کو ایک اشتہار بعنوان ” ایک ضروری فرض کی تبلیغ “ شائع فرمایا.اس کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں کہ : سو جس کو علم اور معرفت عطا کی گئی ہے.اس کا فرض ہے جو ان تمام اہل مذاہب کو قابلِ رحم تصور کر کے سچائی کے دلائل ان کے سامنے رکھے اور ضلالت کے گڑھے سے ان کو نکالئے اور خدا سے بھی دعاء کرے کہ یہ لوگ ان مہلک بیماریوں سے شفا پاویں.اس لئے میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بچوں کی تعلیم کے ذریعہ سے اسلامی روشنی کو ملک میں پھیلاؤں.ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اس طوفان ضلالت میں اسلامی ذریت کو غیر مذاہب کے وساوس سے بچانے کے لئے اس ارادہ میں میری مدد کرے.سو میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بالفعل قادیان میں اس کا مڈل سکول قائم کیا جائے.جنوری ۱۸۹۸ء کو پرائمری مدرسہ کا اجراء ہوا اور اسی سال مڈل کی جماعتیں کھولی گئیں.اس سلسلہ میں مکرم مفتی محمد صادق صاحب بیان فرماتے ہیں کہ : ”سب سے پہلے جب کہ مدرسہ کی بنیاد باندھی گئی اور پرائمری تک مدرسہ کھولا گیا' اس وقت شیخ یعقوب علی صاحب ہیڈ ماسٹر مقرر کئے گئے تھے.مگر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد مدرسہ مڈل تک ہو گیا.تو شیخ یعقوب علی صاحب ناظم پرائمری مقرر ہوئے.اور مڈل کے ہیڈ ماسٹر عارضی طور پر ہمارے مخلص دوست مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم و مغفور مقرر ہوئے تھے.جنہوں نے آنریری طور پر مدرسہ میں قریب دوماہ کے کام کیا تھا.ان ایام میں یہ مرحوم بھائی بی.اے کلاس گورنمنٹ کالج میں پڑھتے تھے اور رخصت گرما کی تقریب پر قادیان آئے ہوئے تھے.مرزا صاحب مرحوم کا حضرت اقدس مسیح موعود سے عاشقانہ تعلق تھا.ان کا سینہ اخلاص اور محبت سے پُر تھا اور ان کے اخلاق حسنہ دوسروں کے واسطے راہ ہدایت کا موجب ہوا کرتے تھے.وہ چھوٹی ہی عمر میں اس جہان فانی کو چھوڑ کر اپنے خدا سے جاملے.اللہ تعالیٰ اُن کو غریق رحمت کرے.“ مدرسہ تعلیم الاسلام میں لڑکوں کو تحصیل علم کا شوق دلانے کے لئے ایک دفعہ میں روپے بطور انعام تقسیم کئے گئے اور اگلے سال ۱۸۹۸ء میں اس کے لئے فنڈ قائم کیا گیا.جس میں مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم نے بھی دور و پے چندہ دیا.۱۸.اس وقت کی اتنی قلیل رقم کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس فنڈ میں کل تینتیس
97 روپے جمع ہوئے، جس کا بڑی خوشی سے اعلان کیا گیا، اور جن کے نام درج ہیں انہوں نے ایک روپیہ سے پانچ روپیہ تک چندہ دیا.اور اسی جگہ تعمیر بورڈنگ کے فنڈ میں تر اسی روپے دینے والوں کے اسماء درج کئے گئے ہیں.مرزا ایوب بیگ صاحب کی قادیان میں مصروفیات : قادیان میں مرزا صاحب مرحوم حضرت مولوی نور الدین صاحب (خلیفہ المسیح الاول) رضی اللہ عنہ کے درس قرآن میں شامل ہوتے تھے.اس طرح آپ نے قریباً سارے قرآن مجید کی تفسیر پر عبور حاصل کر لیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام موسم گرما میں جب ڈیوڑھی کے باہر مسقف کو چہ میں آرام کرتے تو آپ پاؤں اور بدن دا ہتے اور کبھی نیند آجاتی تو چار پائی پر حضوڑ کے ساتھ ہی سو جاتے.بار ہا آپ نے حضور کی کمر کو بوسہ دیا اور اُن کی عادت تھی کہ بوسہ دیتے اور جسم دا بتے وقت تفرع کے ساتھ اپنے لئے دعا بھی کرتے تھے.آپ حضور کے پرانے کپڑے اور بال تبر کا اپنے پاس رکھتے اور حضور کے لئے نئی رومی ٹوپی لاتے اور پرانی خود لے لیتے.مجلس میں حضور کے بہت زیادہ قریب بیٹھتے اور ٹکٹکی لگا کر چہرہ مبارک کو دیکھتے اور پاؤں یا باز و یا کمر وغیرہ دباتے اور درود واستغفار پڑھتے رہتے.حضور کوئی تقریر تقویٰ و طہارت کے متعلق فرماتے تو آپ کا پیراہن آنسوؤں سے تر ہو جا تا تھا.بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ جسم دباتے دباتے مرزا صاحب موصوف حضور کے شانہ پر سر رکھ کر روتے رہتے، لیکن حضور اس وجہ سے کبھی کشیدہ خاطر نہ ہوتے اور دبانے سے منع نہ فرماتے.دار اسی کی پاسبانی: مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی درویش بیان کرتے ہیں کہ دار اسی " کا با قاعدہ پہرہ پڑت لیکھرام کے قتل (۲ مارچ ۱۸۷ء) کے جلد بعد شروع ہوگیا تھا اور مرزا ایوب بیگ صاحب جب قادیان آتے تو دار مسیح" کا پہرہ دیا کرتے.ہم پہرہ کے وقت مسجد مبارک سے قصر خلافت کو جانے والی گلی سے گذر کر حد یہ چوک تک جاتے اور وہاں سے بیت حضرت مولوی صاحب (خلیفۃ اسح الاول ) رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوتے ہوئے پھر مسجد مبارک تک آتے.مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی درویش بھی مرزا ایوب بیگ صاحب موصوف کے ہمراہ دارامسیح کا پہرہ دینے کا ذکر کرتے ہیں.* * پہرہ کی ابتداء کے متعلق مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب موصوف کا جامع مضمون الحکم جلد ۴۲ نمبر ۱۵ تا مبر۱۸ بہت اہم ہے اور مطالعہ کے لائق ہے.(مؤلف)
98 مرزا صاحب کے خصائل حمیدہ: مرزا ایوب بیگ صاحب رقت سے قرآن مجید پڑھتے، مومنین کے ذکر پر عجز سے دعا کرتے کہ ان جیسے اعمال کی توفیق ملے اور کفار و منافقین کے ذکر پر عجز سے دعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے نہ بنائے.سجدہ میں آدھ آدھ گھنٹہ دعا کرتے.قرآن مجید کے احکام پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قرآن مجید سے نشان لگائے ہوئے تھے کہ جنہیں تلاوت کے وقت بالخصوص مدنظر رکھنا چاہئے.بعض دفعہ کوئی آیت لکھ کر اپنے رہنے کی جگہ پر لٹکا دیتے تا وہ ہمیشہ پیش نظر رہے.رمضان مبارک میں ایک بار قرآن مجید ضرورختم کرتے اور آخری مرض میں حفظ کرنا بھی شروع کیا تھا اور کچھ حصہ حفظ بھی کر لیا تھا.اسی طرح حدیث کے مطالعہ کا شوق تھا.اور کوشش کرتے تھے کہ ہر ایک سنت پر عمل کریں حتی کہ اکل و شرب میں بھی ان چیزوں کو رغبت سے کھاتے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مرغوب تھیں، چنانچہ شہد اور سر کہ اکثر کھانے کے ساتھ کھاتے.نماز اول وقت خشوع و خضوع سے پڑھتے اور تہجد مداومت سے ادا کرتے اور بعض اوقات گریہ وزاری کی آواز سے پاس کے سوئے ہوئے جاگ پڑتے اور دیکھتے کہ آپ سجدہ میں پڑے ہیں.مرحوم حدیث کے مطابق اپنے بھائی کے لئے وہی بات پسند کرتے جو اپنے لئے پسند کرتے.ہمیشہ جستجو میں رہتے کہ دوسروں کی خدمت کا موقعہ میسر آئے اور دعا لے سکیں.آپ جن دنوں چیفس کالج لاہور میں پڑھاتے تھے قریباً ہر شام کو یا جس دن قانون کی جماعت کا لیکچر ہوتا لا ہور آتے اور قریباً ہر ایک دوست کے گھر پر ملاقات کر کے واپس جاتے.اور بالالتزام جلسہ احمدیہ میں شامل ہوتے.اگر کوئی دوست بیمار ہوتا تو کثرت سے بیمار پرسی کے لئے جاتے.ایک دفعہ مکرم مفتی محمد صادق صاحب سخت بیمار ہوئے ان کی خدمت کے لئے کئی روز تک ان کے پاس رہ کر دن رات خدمت کی اور بول و براز تک اٹھانے سے دریغ نہ کیا.آپ اپنے ہم جماعتوں سے بلالحاظ مذہب نیک سلوک کرتے دعائیں کرتے مذہبی بحث کرتے اور یہ لوگ آپ کے مذہبی جوش کی وجہ سے آپ کو مجاہد کہتے تھے.مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ ۱۸۹۶ء کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے مجھے کسی کام کیلئے لاہور بھیجا گیا.ان دنوں شاید مرزا ایوب بیگ صاحب کا کوئی رشتہ دار پولیس میں ملازم تھا جس کے پاس آپ رہتے تھے.مجھے مرزا صاحب اتفاق سے مل گئے.پہلے کوئی * میرے دریافت کرنے پر مکرم مفتی صاحب نے فرمایا کہ مجھے یاد نہیں، لیکن مرزا صاحب جس طبیعت کے آدمی تھے اس کے پیش نظر ان سے یہ امر بعید نہیں.(مؤلف)
99 تعارف نہ تھا.موچی دروازہ سے باہر نکلتے ہوئے مغربی طرف کی پولیس لائن میں آپ رہتے تھے.مجھے اپنے ہاں لے گئے.رات میں آپ کا مہمان رہا.آپ کا نیک سلوک اور محبت سے پیش آنا مجھے اب تک نہیں بھولا اور اس کا میرے دل پر اثر ہے.پھر وہ اسی سال شاید موسمی تعطیلات میں قادیان آئے.جتنا عرصہ قادیان میں قیام رہا.میرے ساتھ شفقت کا سلوک کرتے رہے اور تربیتی پہلو مد نظر رکھتے تھے.جب تک وہ زندہ رہے جب بھی قادیان آئے تو وہ ہمیشہ اپنے حسن اخلاق اور میل ملاپ میں یہ امر مد نظر رکھتے تھے کہ میں دینداری کے رنگ میں رنگین ہو جاؤں.آپ بہت دیندار اور مخلص تھے.آپ کا طریق یہ تھا کہ کثرت سے قادیان آتے اور بٹالہ پہنچ کر آپ کا دل اس بات کو نہ مانتا کہ رات بٹالہ گزاریں، بلکہ دیوانہ وار راتوں رات قادیان آ پہنچتے سلسلہ کے لئے فدایت کا رنگ رکھتے تھے.اہلی زندگی آپ کی شادی محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ بنت مرزا شمشیر بیگ صاحب سے ۱۸۹۳ء میں ہوئی تھی.موصوفہ صحابیہ تھیں.کئی بار قادیان کی زیارت کے لئے آئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ سے اپنی بیٹیوں کی طرح شفقت اور محبت کا سلوک کرتے تھے.آپ (۱۸۷ء میں پیدا ہوئی تھیں اور ۲۱ اپریل ۱۹۰۴ء میں اٹھائیس سال کی عمر میں بمقام کلانور فوت ہوئیں.مرزا صاحب کی یادگار ایک بچی بنام عصمت نشان تھی جو پانچ برس کی عمر میں ۱۲۸ اکتوبر ۱۹۰۰ ء کو فوت ہوئی.مرض الموت کے حالات ڈاکٹر صاحب محترم کے قلم سے: برادران - السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج میرے لئے نہایت حسرت اور افسوس کا دن ہے کہ مجھے اپنے اس عزیز اور نہایت ہی پیارے بھائی کی وفات کا تذکرہ آپ کے سامنے کرتا ہوں.جو کہ اپنی جوانی اور عین شباب کے ایام میں جبکہ وہ نو نہال ابھی برگ و بر لانے کے قابل ہوا تھا.یک لخت کاٹا گیا.اور ہم سے اس دنیا میں ہمیشہ کیلئے دور ہو گیا، اور پسماندگان کے لئے داغ مفارقت چھوڑ گیا اور اپنی صرف ۲۵ سالہ عمر میں ہم سب سے پہلے دوسرے جہان میں بلایا گیا.بھائی بھائی تو دنیا میں بہت ہوتے ہیں اور ایک بھائی کی وفات دوسرے کیلئے ایک بڑا بھاری صدمہ ہوتی ہے.مگر اس بھائی مرحوم میں اور مجھ میں جو تعلق محبت اور مودت کا تھا میں دنیا کے برادرانہ رشتوں میں اس کی نظیر نہیں دیکھتا.یہ کہنا کچھ مبالغہ نہ ہوگا کہ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کا عاشق و شیدا تھا اور اس قدر دلی لگاؤ کی صرف
100 ایک ہی وجہ تھی.یعنی آج سے آٹھ نو سال پیشتر جبکہ مجھے داڑھی کا آغا ز شروع ہی ہوا تھا اور مرحوم ایوب بیگ مجھ سے بھی خورد سال تھا.خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور مہربانی سے اور ہمارے والدین کے خوش طالع سے آخری وقت کے امام کے قدموں تک ہماری رسائی ہوئی.اس برگزیدہ الہی نے غایت کرم اور کمال مہربانی سے ہم دونوں کو اپنے بچوں کی طرح اپنے کنار عاطفت میں لیا.نہایت لطف کے ساتھ اس نور سے بہرہ ور کیا جو اس کے اپنے سینہ میں روشن تھا.اور ہمیں اپنے زمرہ خدام میں شمولیت کا فخر بخشا.اس مبارک پیوند کا یہ نتیجہ ہوا کہ صدق اور راستی سے محبت ہوگئی اور ہر ایک قسم کے جہل اور تاریکی سے نفرت ہوگئی اور دل جو ابھی کسی قسم کے بداثر سے متاثر نہ ہوئے تھے.اس نیک صحبت سے فیض یاب ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کہ افضل البشر وختم الرسل ہیں اور ہر ایک خیر و خوبی کی جڑ ہیں، غایت درجہ کا اُنس ہو گیا اور کتاب اللہ سے خاص لگاؤ اور محبت ہوگئی اور حضرت مسیح موعود کی دعا سے خدا تعالیٰ کے خوف و خشیت نے دل میں جگہ لی.ہمارا جسمانی باپ تو ایک تھا ہی، روحانی طور پر بھی ہم ایک ہی باپ کے فرزند ہو گئے.اور ماسوا اس محبت کے تعلق کے قلوب کو ایک دوسرے سے کچھ ایسا لگاؤ تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم دونوں بھائی ایک دوسرے کیلئے یک جان دو قالب تھے جبکہ میرے اور اس عزیز کے ایسے تعلقات تھے تو ایسے آرام قلب اور راحت جان شفیق کے گذر جانے سے ممکن تھا کہ عام دنیا داروں کی طرح میں بھی اندوہ و غم و کرب میں مبتلا ہو کر فراق میں ہلاک ہو جاتا.مگر تسلی دینے والی ایک ہی بات تھی اور وہ یہ کہ اس عزیز کا خاتمہ بالخیر ہوا.جو کہ اس امام زمان کے ایک خواب سے قریب چھ ماہ پیشتر معلوم ہو چکا تھا.یہ سعید نوجوان اپنے رُشد اور نیک بختی اور طہارت میں اسلام کے اس برگزیدہ سلسلہ میں ایک نمونہ تھا اور جو صبر اور استقلال اس نے اپنے اس ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ کی بیماری میں دکھایا.اس کی اس زمانہ میں بہت ہی کم نظیر ملتی ہے.یعنی اس تمام عرصہ میں ایک لحظہ بھر کیلئے بھی اس کے ایمان اور استقلال کو جنبش نہیں آئی اور وہ اخیر وقت تک اس بیماری میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا پر ایسا شا کر تھا.جیسے کہ کوئی دنیا دار کسی دنیاوی نعمت پانے پر خوشی اور انبساط سے شکر کا لفظ منہ پر لاتا ہے.تمام بیماری میں اس اسم بامسمی ایوب نے اُف تک نہ
101 کی اور آخری سانس تک بیماری کے دُکھ سے اس کی آنکھ میں آنسو نہ آیا.اور ایسی سخت بیماری کے اس ڈیڑھ سال کے عرصہ میں اس کی نیند کا بہت سا حصہ جاگنے میں گذرتا تھا اور کئی راتیں اس نے اپنی آنکھوں میں گزاری تھیں.اس نے کبھی ناشکری نہ کی اور نہ کبھی کوئی لفظ مایوسی کا منہ سے نکالا.میں بار ہا ساری ساری رات کھانسی اور بے آرامی میں دیکھتا تھا مگر جب کبھی میں اس کو پوچھتا تھا کہ بھائی کیا حالت ہے تو جواب دیتا تھا کہ الحمد للہ میں بہت اچھا ہوں.اس بیماری کی حالت میں بھی اس نے کوئی نماز قضا نہ کی.میں طبیب ہوں.میں نے ہزار ہا بیمار دیکھے ہیں.بیماری سے اکثر انسان ہراساں ہو جاتا ہے اور متعلقین تیمارداروں کو بیما کو تسلی و تشفی دینی پڑتی ہے.مگر میں نے اُسے ایسا تسلی یافتہ بیمار پایا کہ ہمیشہ اپنے لواحقین و متعلقین کو تسلی دیتا.اور اسکی نازک حالت کو دیکھ کر اگر کوئی رشتہ دار اپنی آنکھ سے آنسو بہاتا تو وہ بڑے مضبوط دل اور واثق یقین سے اس کو تسلی دیتا اور کہتا کہ خدا کے فضل سے مایوس نہ ہو میں تو اس کی رحمت سے نا امید نہیں ہوں.تم کیوں پریشان ہوتے ہو.وہ اعلیٰ درجہ کے اخلاص اور ایمان کا نمونہ تھا.حضرت مسیح موعود کو جس سے اس کو یہ دولت ملی تھی آخر وقت تک ہمیشہ یاد کرتا رہا.اور اس کی اخیر ایام میں بڑی بھاری یہی آرزو تھی کہ حضرت مسیح موعود کی آخری قدم بوسی سے مشرف ہو اور مرنے کے وقت کلمہء شہادت اور کل لوازمات ایمان کا اپنی زبان سے اقرار کرنے کے بعد اس نے کہا کہ میرا حضرت مسیح موعود امام آخر الزمان پر ایمان ہے.بس یہی اس کے آخری کلمات تھے اس کے بعد زبان بند ہوگئی.اور حضرت مسیح موعود کا خط جن سے وہ کامل درجہ کا عشق رکھتا تھا اس کی عین نزع کی حالت میں پہنچا.وہ خط اس وقت اس عزیز کو جو خدا تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے بالکل تیار بیٹھا تھا، سنایا گیا.اور وہ اس پیارے امام کے مبارک ہاتھوں کی تحریر جس کو کہ چومنے اور آنکھوں سے لگانے کی نہایت آرزو رکھتا تھا اس کے منہ اور آنکھوں سے لگا کر اس کے سینہ پر رکھ دیئے گئے.اس کے بعد معا وہ پاک روح ہمارے پاس سے پرواز ہوگئی.گویا کہ اس کو صرف اس خط کی انتظار تھی.یہ ایک شخص تھا جو اولیاء اللہ کی صفات اپنے اندر رکھتا تھا اور اس کی زندگی انبیاء کے طریق پر تھی.مروجہ علوم میں اُس نے بی.اے تک تعلیم پائی تھی.مگر دین اور خداشناسی میں وہ اس ۲۵ سالہ عمر میں اس مرتبہ کو
102 پہنچ گیا تھا کہ کروڑ ہا مخلوقات کو وہ معرفت پیری میں بھی نصیب نہیں ہوتی.اور اس جہان میں ہی اس کا تعلق اُس جہان سے نزدیک تر ہو گیا تھا.اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے ایسا پر تھا کہ گویا وہ سارا ہی اس کا ہو گیا تھا، اس لئے اس رَبُّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ نے اس کو اپنے ہی پاس بلا لیا.اور یہ سب فضل اور برکت اور حسن خاتمہ اس امام مسیح موعود کے انفاس طیبات اور محبت اور دعا کا نتیجہ تھا.میں دعا کرتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک فرد اس مسیح موعود کا ایسا ہی سچا خادم اور جاں نثار ثابت ہو جیسا کہ ہمارا بھائی مغفور و مرحوم ایوب بیگ تھا.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک کا ایسا ہی اچھا خاتمہ ہو.جیسا کہ اس عزیز کا ہو ا.آمین.اس عزیز نوجوان کی صلاحیت اور تقویٰ کی وجہ سے حضرت اقدس کو بھی اس سے غایت درجہ کی محبت تھی، جو کہ حضرت مسیح موعود کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے دوگرامی ناموں سے ظاہر ہوگا.جو ذیل میں درج ہیں.اول خط وہ ہے جس کا پہلے ذکر کر آیا ہوں کہ وہ آں عزیز کے دم واپسی کے وقت ملا.اور دوسرا اس مخبر صادق کی طرف سے تعزیت نامہ ہے.حضرت اقدس کا تسلی دلانے والا مکتوب: ووو ” بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی مرزا ایوب بیگ صاحب و مجبی عزیزی مرز ا یعقوب بیگ صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس وقت جو میں در دسر اور موسمی تپ سے یک دفعہ بیمار ہو گیا ہوں، مجھ کو تار ملا جس قدر میں عزیزی مرزا ایوب بیگ کیلئے دعا میں مشغول ہوں اس کا علم تو خدا تعالیٰ کو ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہرگز نا امید نہیں ہونا چاہئے.میں تو سخت بیماری میں بھی آنے سے فرق نہ کرتا لیکن میں تکلیف کی حالت میں ایسے عزیز کو دیکھ نہیں سکتا، میرا دل جلد صدمہ قبول کرتا ہے.یہی چاہتا ہوں کہ تندرستی اور صحت میں دیکھوں.جہاں تک انسانی طاقت ہے اب میں اس سے زیادہ کوشش کروں گا.مجھے پاس اور نزدیک سمجھیں نہ دُور.میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن سے میں اس درد دل کو بیان کروں.خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہرگز نا امید مت ہو.خدا بڑے کرم اور فضل کا مالک ہے.اس کی قدرت اور فضل اور رحمت سے کیا دُور ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کو تندرستی میں جلد تر دیکھوں.اس علالت کے وقت جو تار مجھ کو ملا میں
103 ایسا سراسیمہ ہوں کہ قلم ہاتھ سے نکلی جاتی ہے.میرے گھر میں بھی ایوب بیگ کیلئے سخت بے قرار ہیں.اس وقت میں ان کو بھی اس تار کی خبر نہیں دے سکتا، کیونکہ کل سے وہ بھی تپ میں مبتلاء ہیں.اور ایک عارضہ حلق میں ہو گیا ہے.مشکل سے کچھ اندر جاتا ہے اس کے جوش سے تپ بھی ہو گیا ہے.وہ نیچے پڑی ہیں اور میں اوپر کے دالان میں ہوں.میری حالت تحریر کے قابل نہ تھی.لیکن تار کے دردانگیز اثر نے مجھے اُٹھا کر بٹھا دیا.آپ کا اس میں کیا حرج ہے کہ اس کی ہر روز مجھ کو اطلاع دیں.معلوم نہیں کہ جو میں نے ابھی ایک بوتل میں دوار وانہ کی تھی وہ پہنچی یا نہیں.ریل کی معرفت روانہ کی گئی تھی.اور معلوم نہیں کہ مالش ہر روز ہوتی ہے یا نہیں.آپ ذرہ ذرہ حال سے مجھے اطلاع دیں.اور خدا بہت قادر ہے تسلی دیتے رہیں.چوزہ کا شور با یعنی بچہ خورد کا ہر روز دیا کریں.معلوم ہوتا ہے کہ دستوں کی وجہ سے کمزوری نہایت درجہ تک پہنچ گئی ہے.والسلام حضرت اقدس کا تعزیت نامہ : 999 ۲۵ / اپریل ۱۹۰۰ء بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی مرزا یعقوب بیگ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا وہ تار جس کا چند روز سے ہر وقت اندیشہ تھا آخر کل عصر کے بعد پہنچا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - عزیزی مرزا ایوب بیگ جیسا سعید لڑ کا جوسراسر نیک بختی اور محبت اور اخلاص سے پُر تھا، اس کی جُدائی سے ہمیں بہت صدمہ اور درد پہنچا.اللہ تمہیں اور اس کے سب عزیزوں کو صبر عطا کرے اور اس مصیبت کا اجر بخشے.آمین ثم آمین.اس مرحوم کے والد ضعیف کمزور کا کیا حال ہوگا اور اس کی بیوہ عاجزہ پر کیا گذرا ہوگا؟ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ سب کو اس صدمہ کے بعد صبر عطا فرمائے.ایک نوجوان صالح، نیک بخت جو اولیاء اللہ کی صفات اپنے اندر رکھتا تھا اور ایک پودہ نشو ونما یافتہ جو امید کے وقت پر پہنچ گیا تھا.یک دفعہ اس کا کانا جانا اور دنیا سے نا پدید ہو جانا، سخت صدمہ ہے.اللہ جل شانہ سوختہ دلوں پر رحمت کی بارش کرے.اس خط کے لکھنے کے وقت میں جو ایوب بیگ مرحوم کی طرف توجہ تھی کہ وہ کیونکر جلد ہماری آنکھوں سے ناپدید ہو گیا.اور تمام تعلقات کو خواب و خیال
104 کر گیا کہ یکدفعہ الہام ہو ا مبارک وہ آدمی جو اس دروازہ کے راہ سے داخل ہو.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کی موت نہایت نیک طور پر ہوئی ہے اور خوش نصیب وہ ہے جس کی ایسی موت ہو.ایک دفعہ عزیز مرحوم کی زندگی میں بکثرت اس کی شفاء کے لئے دعا کی تب خواب میں دیکھا کہ ایک سڑک ہے گویا وہ چاند کے ٹکڑے اکٹھے کر کے بنائی گئی ہے اور ایک شخص ایوب بیگ کو اس سڑک پر سے لے جارہا ہے اور وہ سڑک آسمان کی طرف جاتی ہے اور نہایت خوش اور چمکیلی ہے گویا زمین پر چاند بچھایا گیا ہے.میں نے یہ خواب اپنی جماعت میں بیان کی اور تکلف کے طور پر یہ سمجھا کہ یہ صحت کی طرف اشارہ ہے.لیکن دل نہیں مانتا تھا کہ اس خواب کی تعبیر صحت ہو.سواب اس خواب کی تعبیر ظہور میں آئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ میری طرف سے اپنے والد صاحب کو بھی تعزیت کا پیغام پہنچادیں.خدا نے جو چاہا ہو گیا، اب صبر رضا در کار ہے.رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمُ وَأَنتَ خَيْرُ دو الرَّاحِمِين - والسلام وہ عزیز اس تمام جماعت کا پیارا تھا اور ہر ایک کی محبت اس کے دل میں تھی.اس مرحوم متقی نوجوان کا آپ سب صاحبوں کو آخری سلام پہنچے.اس عزیز نے عمر تھوڑی پائی مگر اس کی صلاحیت اور تقویٰ کا لمبا قصہ ہے.اور میں چاہتا ہوں کہ اس کو ایک کتاب کی صورت میں آپ صاحبان کی خدمت میں پیش کروں.اس کی زندگی اور موت تو نمونہ تھی ہی.اس کی وفات کے بعد کے حالات بھی عجیب ہیں، جو کہ کئی متقی اور صالح لوگوں نے کثرت سے اس کو اولیاء اللہ و انبیاء کی مجلس میں اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت میں جنت کے نعماء کھاتے اور خوش و خرم پھرتے عالم رویا میں دیکھا ہے.شاید کہ اس نوجوان کی پاک مثال سے کوئی دل متاثر ہو جاوے.اور اس نور کے چشمہ کی طرف ہمہ تن رجوع کرے جو اس آخری زمانہ میں رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے حوض کوثر سے نکلا ہے تا کہ اس کا ایک گھونٹ اندر کے خفیہ درخفیہ معاصی کی آگ بجھانے کا کام دئے اور ایمان کا پودہ اس سے نشو و نما پا جاوے اور یہ اس کی نجات کا موجب ہو جاوے..فقط والسلام خاکسار مرزا یعقوب بیگ بی.اے.ایل.ایم.ایس اسسٹنٹ
105 سرجن از فاضل کا ضلع فیروز پور ۵ امئی ۱۹۰۰ء ۱۹ حضرت اقدس کے تعریفی کلمات : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ : ”ہمارے دوست مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم ایک مدت سے بیمار چلے آتے تھے.آخر ۱۹۰۰ء میں ان کی حالت بہت بگڑ گئی اور وہ فاضل کا میں اپنے بھائی مرزا یعقوب بیگ صاحب اسٹنٹ سرجن کے پاس چلے گئے.کچھ دنوں بعد دعا کے لئے ان کا خط آیا ہم نے دعا کی تو خواب میں دیکھا کہ ایک سڑک ایسی کہ گویا چاند کے ٹکڑے اکٹھے کر کے بنائی گئی ہے.اور ایک شخص نہایت خوش شکل عزیز مرحوم کو اس سڑک پر لئے جارہا ہے اور وہ سڑک آسمان کی طرف جاتی ہے.اس خواب کی تعبیر یہی تھی کہ ان کا خاتمہ بخیر ہوگا، اور وہ بہشتی ہے.اور نورانی چہرہ والا شخص ایک فرشتہ تھا جو اس عزیز کو بہشت کی طرف لے جارہا تھا.ہم نے یہ خواب مرزا یعقوب بیگ صاحب کو لکھ دیا اور اپنی جماعت میں بھی شائع کر دیا.چنانچہ ۶ ماہ کے بعد اس عزیز نے وفات پائی.اور جب ہمارے پاس تار پہنچا اور ہم نے تعزیت کا خط لکھنا شروع کیا اور ہماری توجہ اس عزیز کی طرف تھی کہ کس طرح وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ناپدید ہو گیا تو اس حالت میں الہام ہوا.مبارک وہ آدمی جو اس دروازہ کی راہ سے داخل ہوں یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ عزیزم مرحوم کی موت نہایت نیک طور پر ہوئی.مرحوم مذکور نیک بخت، جوان، صالح اور اولیا ء اللہ کی صفات اپنے اندر رکھتا تھا.اس کے گواہ مرزا یعقوب بیگ صاحب اسٹنٹ سرجن، مولوی حکیم نور الدین صاحب مولوی عبد الکریم صاحب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے مفتی محمد صادق صاحب مولوی شیر علی صاحب حکیم فضل دین صاحب میر ناصر نواب صاحب، شیخ عبدالرحمن قادیانی صاحب، شیخ عبدالرحیم صاحب اور کثیر جماعت لاہور کپورتھلہ سیالکوٹ وغیرہ.۲۰ “ مرحوم کی قابل رشک سعادت: کیا ایسے شخص کی سعادت میں کسی کو شبہ ہوسکتا ہے کہ جو بہشتی مقبرہ کے قیام سے قریباً پونے پانچ سال قبل ۲۸ اپریل ۱۹۰۰ء مطابق ۲۷ ذوالحجہ ۱۳۱۸ھ کو بمقام فاضل کا فوت ہوکر دفن
106 ہوئے اور پھر ان کی سعادت انہیں گیارہ سال بعد بہشتی مقبرہ میں کھینچ لائی ؟ مرحوم مسجد مبارک میں بہت سا وقت فرائض و نوافل کے ادا کرنے اور لمبی لمبی دعائیں کرنے میں صرف کرتے تھے.اس وقت آپ معمر کے لحاظ سے بالکل نوجوان تھے.اس عمر میں بالعموم نوجوان کھیل کود کے مشتاق ہوتے ہیں اور نمازوں میں ایسا سوز و گداز اور توجہ الی اللہ نہیں ہوتی لیکن اس اُنیس سالہ نوجوان کے تقویٰ کا کیا کہنا کہ جسے مسجد مبارک میں وفات سے چھ سال قبل نیم خوابی کی حالت میں پہلا الہام اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ منَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ * ہوا.کسی صفائی سے آپ کا یہ الہام آپ کی عاقبت بالخیر ہونے اور پھر بہشتی مقبرہ میں دفن ہو جانے سے پورا ہو ا.مکرم مفتی محمد صادق صاحب تحریر فرماتے ہیں: ایک پیارے دوست کا جنازہ: آہ! یہ کسی دوست کا ذکر ہے؟ ایوب صادق کا.ہمارے اکثر احباب حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم و مغفور برادر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے نام نامی سے واقف ہیں.یہ نو جوان چھوٹی عمر میں فوت ہو گئے تھے.فاضل کا ضلع فیروز پور میں دفن کئے گئے تھے.اس بات کو گیارہ سال گزرے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بھی اجازت حاصل کی گئی تھی اور اب حضرت خلیفہ اسی کی اجازت سے اس مرحوم بھائی کا جسم مبارک صندوق میں بند یہاں لایا گیا.حضرت نے بمعہ جماعت جنازہ پڑھایا اور مقبرہ بہشتی میں دفن کیا گیا.ہمارے دوست ڈاکٹر مرزا صاحب عزیز مرحوم کے سواغ چھپوار ہے ہیں، اس واسطے مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں، البتہ اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ اس عزیز کو محبت کا ایسا گہرا تعلق تھا کہ آج تک جس قدر جنازوں کی میں نے نمازیں پڑھی ہیں، مجھے یاد نہیں کہ کسی میں بھی اس عزیز دوست کے واسطے دعا کرنا مجھے بھولا ہو.اَللَّهُم اغْفِرُ لَهُ وَارحَمُهُ - اللَّ * ترجمہ اللہ دوست ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے.وہ نکالتا ہے ان کو اندھیروں سے نور کی طرف.(مؤلف)
107 مکرم مولوی غلام رسول صاحب را جیکی فرماتے ہیں : حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسی لاش کو جسے امانتاً صندوق میں دفن نہ کیا گیا ہو دوسری جگہ دفن کرنا پسند نہیں فرماتے تھے.چنانچہ ڈاکٹر مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم جو بنگلہ فاضل کا میں فوت ہوئے اور بغیر صندوق دفن کئے گئے ان کے بھائی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے بروایت حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب ان کی لاش کو وہاں سے نکال کر بہشتی مقبرہ میں دفن کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور درخواست کی اور کئی بار کی.لیکن حضور نے بار بار یہی فرمایا کہ انہیں وہاں ہی مدفون رہنے دیا جائے چونکہ مرزا ایوب بیگ صاحب کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کی مغفرت کی الہامی طور پر بشارت مل چکی تھی.اس لئے اس کی بناء پر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے پھر درخواست کی جس کی بناء پر حضور نے اجازت دے دی.۲۲ مولوی عبد الکریم صاحب کا تعزیتی مکتوب: مرزا صاحب کی وفات پر تعزیت کے طور پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے ذیل کا مکتوب ڈاکٹر صاحب کو تحریر کیا: قادیان ۳۰ اپریل برادرم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته ایوب بیگ رحمہ اللہ حمۃ واسعۃ وادخلہ فی بحبوبة الجنان کی وفات کا صدمہ ایسا خفیف نہیں کہ اس کے بعد کوئی اس مرحوم کے وارثوں کو صبر کی ہدایت کرنے کی جرات کر سکے.اگر چہ یہ بات مرحوم کے متعلقین اور احباب کو پوری تسلی دیتی ہے اور معا خوش کر دیتی ہے کہ وہ سیدھا بہشت میں چلا گیا.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس مسلمان کی نسبت چالیس آدمی گواہی دیں کہ وہ بہشتی ہے اس کے لئے بہشت واجب ہو جاتی ہے.ایوب بیگ کے لئے ہمارا سارا سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گواہی دیتا ہے کہ وہ بہشت میں داخل ہو گیا.چھ ماہ اس سے قبل جو خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تھا کہ ایک سڑک ہے جس پر چاند کے ٹکڑوں کا فرش ہے اور ایک بڑا ہی جمیل و وجیہ رحیم، کریم شخص ایوب بیگ کا ہاتھ پکڑے اس سڑک پر سے آگے کو لے جا رہا ہے.اس خواب سے سب
108 کے سب یقیناً سمجھ گئے تھے کہ ایوب بیگ جنتی ہے اور وہ سڑک جنت کی ہے.اور حضرت نے اُسی روز فر مایا تھا کہ جو کچھ مقدر ہو مگر اس میں شک نہیں کہ ایوب بیگ کا خاتمہ بہت اچھا ہے.ย میں اس وقت حلفاً کہتا ہوں کہ ایوب بیگ کے متعلقوں میں کوئی ایسا متنفس نہیں جس کی زندگی کی کسی شان کی نسبت مجھے غبطہ اور شک ہومگر ایک ایوب بیگ مرحوم ہے جس کے حسن خاتمت نے مجھے بہت بڑا رشک دلایا ہے.وہ اس پاک ایمان پر مرا.اس نے زمانہ میں امام زمان کو شناخت کیا اور اخیر دم تک اس ایمان پر ثابت قدم رہا.اور آخری گھڑی تک خدا تعالیٰ کے مسیح کو یاد کرتا رہا.اور ہم ہیں کہ ابھی ہمارے اعمال جاری ہیں، اور ہماری حالت امید و بیم میں معلق ہے اور سخت اضطراب میں ہیں کہ خاتمہ کیسا ہو.ہر مومن کو جو اندیشہ لگ رہا ہے وہ سوء خاتمت کا اندیشہ ہے.مگر ایوب بیگ یقینا نیک خاتمہ کے ساتھ اس جہان سے اُٹھا.پس کس قدر مبار کی اور فخر اس کے اہل کو ہے جن میں ایک فرد ایسا گذرا ہے کہ اہل اللہ اور راستباز اس کی موت پر رشک کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی قسم میں بڑا ہی نااہل ہوں گا اگر میں مکرم مرزا نیاز بیگ کو دردمندی سے بھرا ہوا اور رُلا دینے والا خط لکھوں.حق یہ ہے کہ میں ان کو تہہ دل سے مبارکباد دوں کہ انہوں نے اپنی پیٹھ سے ایک نمونہ ہم لوگوں کو دیا جس کی زندگی اور موت دونوں حالتیں برگزیدہ سلسلہ کے خدام کے لئے نمونہ تھیں.مرزا نیاز بیگ صاحب کی طرف سے اس پاک جہان میں ایک نیک فرط چلا گیا جوان کے لئے راہ صاف کرے گا.یہ جہان تو لا بد گذاشتنی ہے مگر کیا ہی مبارک وہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں گذرے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس وقت تک رہ رہ کر دل بھر بھر آتا ہے اور وہ سعادت اور فرخی کی مورت آنکھوں کے سامنے پھر پھر جاتی ہے وہ حیاء سے آنکھیں نیچی کر لینا اور ہر امر کے آگے پورے انقیاد سے سر رکھ دینا اور ہمہ محبت چہرہ بار بار یاد آتا ہے اور یہ ساری باتیں ان میں سے ایک ہی نا مندمل زخم کرنے کے لئے کافی ہوتیں.مگر ایک ہی اور صرف ایک ہی یقین تسلی دیتا اور تلافی کر دیتا ہے کہ جانا تو ضرور تھا مگر جانے والا گیا خوب ہے.حضرت رحیم کریم علیہ السلام کو بھی بڑا صدمہ پہنچا اور فرمایا ہمارا ایک بیٹا مر گیا ہے.مگر یہی ایمان اور یقین آپ کی تسلی کا موجب بھی ہے کہ مرحوم کا انجام خوب ہوا.غفر اللہ لہ.
109 ” میرا یہ نیاز نامہ اپنے والد صاحب اور اپنی والدہ مسکینہ کو سنائیں، شاید خدا تعالیٰ اس سے ان کے زخمی دل کو کوئی فائدہ پہنچائے.اگر مجھے ان کی معرفت کی نسبت یہ یقین ہوتا کہ وہ میری باتوں سے راحت پائیں گے تو میں ان باتوں کو بہت طول دیتا اور درحقیقت اپنی ارادت ہی بیان کرتا.مگر میں جانتا ہوں کہ ایک دنیا دار کے حق میں یہ ایک نا قابل برداشت صدمہ ہے خدا تعالیٰ مرزا نیاز بیگ اور والدہ ضعیفہ اور بھائیوں کو صبر اور اجر بخشے.میں چاہتا ہوں کہ برادر یعقوب مفصل خط لکھیں کہ مرحوم نے آخری وقت میں کیا گفتگو کی.ایک غیر از جماعت ہم سبق کا مراسلہ : ہم والسلام عاجز عبدالکریم طلوع آفتاب کے وقت ”ہمارے بعض مرحوم ہم جماعتوں کا نوحہ ایک ہم جماعت نے لکھا ہے اس میں مرحوم مغفور ایوب صادق کا بھی ذکر ہے جس کو پڑھ کر مرحوم یاد آ گیا.چونکہ اس ذکر میں مرحوم کی پاک سیرت کا تذکرہ ایک ایسے قلم سے ہوا ہے جس کو اس سلسلہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اس لئے وہ یہ ہے: وہ زیادہ وزن دار اور گرانقدر ہے.نہیں بھولے تہجد خوانیاں ایوب کی اسپ طبعی کا بھی سچ سچ تھا وہ شیدائے زمن اس قدر صبر اور استقلال وہ زہد و ورع تھا جوانوں کے لئے ضرب المثل اس کا چلن ۲۳
110 _^ و.ا.-11 ۱۲.الله ۱۴.ا.ا.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم صفحہ ۲۹۰.حوالہ جات " ان کی بیعت کا ذکر فرستہائے مندرج الحکم جلد نمبر ۶ بابت ، امئی ۱۹۰۲ء میں ہے.فہرست مندرجہ کتاب رؤسائے پنجاب مرتبہ سرلیپل گریفن مطبوعہ ۱۸۹۰ء.الحکم جلد ۲ نمبر ۲۴ و ۲۵ صفحه ۹ کالم۳) مورخه ۲۰/۲۷ اگست ۱۸۹۸ء.ضمیمہ انجام آتھم.بدر جلد ۲ نمبر ۸ صفحه ا کالم نمبر ۳ بابت ۲۳ فروری ۱۹۰۶ء الحکم جلد ۹ نمبر ۴۵ صفحه ۱۰ کالم۲) بابت ۲۴ دسمبر ۱۹۰۵ء.مجد داعظم حصہ اول صفحہ ۳۳۰.مکتوبات احمد یہ جلد نمبر پنجم صفحہ ۲۹۰.مجددا عظم حصہ اوّل صفحہ ۳۳۱.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۰ صفحه ۸ کالم ابابت ۹ جون ۱۸۹۹ روز بر عنوان آمد و رفت مہمانان.بحوالہ نور الحق حصہ دوم صفحه ۲۳.الحکم جلد ۲۲ نمبر ۲۸ / ۲۷ بابت ۲۱/۲۸ نومبر ۱۹۳۹ء، نیز اس نشان کے متعلق احباب پیشگوئی نمبر ۴۶ نمبر ۶۲ مندرجہ نزول مسیح و پیشگوئی نمبر ۶۲ مندرجہ حقیقتہ الوحی ملاحظہ فرمائیں.الفضل جلد ۲۸ نمبر ۲۴۳ بابت ۱۲۵ کتوبر ۱۹۴۰ء - الحکم جلد ام نمبر ۱۹/ ۱۸ صفحہ ۷ کالم ۲ مورخہ ۱۴ / ۷ جون ۱۹۳۸ء.تبلیغ رسالت جلد ششم.رسال تعلیم الاسلام جلد نمبر ۶ بابت ماہ دسمبر ۱۹۰۶ء.۱۸.الحکم جلد ۳ نمبر ۱۸ صفحہ ۶ کالم ۲._19 ۲۰.۲۱.۲۲.الحکم جلدم نمبر ۱۸ مورخہ ۷ امئی ۱۹۰۰ء.نزول اسیح پیشگوئی نمبر ۹۸ صفحه ۲۲۲.البدر جلد۱۰ نمبر ۹ بابت ۵ جنوری ۱۹۱۱ء.الفضل جلد ۲۸ نمبر ۲۳۸ بابت ۱۹ اکتوبر ۱۹۴۰ء.الحکم جلد ۸ نمبر ۷ صفحه ۳ کالم ۲ بابت ۲۴ فروری ۱۹۰۴ء.
111 منشی امام الدین صاحب پٹواری* رضی اللہ عنہ ولادت، تعلیم اور ملا زمت : مکرم منشی امام الدین صاحب ۱۸۷۳ء میں میاں حکم دین صاحب قوم آرائیں کے ہاں اپنے آبائی گاؤں قلعہ درشن سنگہ میں پیدا ہوئے.یہ گاؤں بٹالہ سے قریباً چار میل اور گورداسپور جانے والی سڑک پر واقع ہے.آپ نے ابتدائی تعلیم موضع دیال گڑھ ضلع گورداسپور میں پائی اور پرائمری کا امتحان پاس کر کے مزید تعلیم کے لئے گورداسپور بھجوائے گئے اور کچھ عرصہ وہاں تعلیم حاصل کی.بعد ازاں محکمانہ امتحان پاس کر کے بطور پٹواری ملازم ہو گئے اور قریباً ۳۵ سال تک بہت نیک نامی کے ساتھ یہ ملازمت کرنے کے بعد سبکدوش ہوئے.قبول احمدیت : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی کے وقت آپ موضع لوہ چپ ضلع گورداسپور میں متعین تھے.۱۸۹۱ء میں آپ کے برادر نسبتی منشی عبدالعزیز صاحب او جلوی رضی اللہ عنہ مدفون بہشتی مقبرہ ) موضع سیکھواں میں بطور پٹواری تبدیل ہو کر آئے.ان ہی دنوں سیکھوانی برادران احمدیت قبول کر چکے تھے.وہاں تھوڑا عرصہ قیام کرنے کے بعد منشی عبد العزیز صاحب احمدیت میں داخل ہو گئے اور انہوں نے منشی امام الدین صاحب کو تبلیغ شروع کر دی.منشی عبد العزیز صاحب بیان فرماتے تھے کہ مجھے بہت فکر رہتا تھا، اور خواہش تھی کہ میرے بہنوئی بیعت کر کے جلد سلسلہ میں داخل ہو جائیں تا کہ اس طرح میری بہن بھی سلسلہ میں داخل ہو سکے لیکن اس وجہ سے کہ بہنوئی کی طبیعت جو شیلی تھی، ہم ان پر زور بھی نہیں دینا چاہتے تھے کہ مبادا ایک دفعہ انکار کر کے پھر اس پراڑے رہیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ۱۸۹۴ء کے اوائل میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہو گئے.* منشی صاحب اور آپ کی اہلیہ محترمہ کے حالات آپ کے بیٹے چوہدری ظہور احمد صاحب معاون ناظر امور عامه (ربوہ) کی طرف سے الفضل جلد ۲۷ نمبر ۲۶۴ بابت ۱۷ نومبر ۱۹۳۹ ء اور الرحمت جلد ۲ نمبر ۹ بابت ۳/ اپریل ۱۹۵۰ء میں شائع ہو چکے ہیں.چوہدری صاحب نے اپنی والدہ محترمہ کے حالات میری تحریک پر کتاب ہذا کیلئے قلمبند کئے تھے.گو انہوں نے اخبار میں بھی شائع کرادیئے.میں نے چوہدری صاحب سے خط و کتابت کر کے مزید معلومات حاصل کیں.سو یہاں ہر دو کے حالات ایزادی حوالجات، روایات، شجرہ نسب وغیرہ کے ساتھ درج کر رہا ہوں.(مؤلف)
112 * بیعت کے وقت کا نظارہ: اپنی بیعت کے وقت کا جو نظارہ منشی امام الدین صاحب نے اپنی روایات لکھواتے ہوئے بیان کیا وہ آپ کے اپنے الفاظ میں یہ ہے: میں نے ۱۸۹۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کی.شام کی نماز کے وقت تک اخویم منشی عبدالعزیز صاحب اور بھائی جمال الدین صاحب سیکھوانی میرے ساتھ تھے.نماز سے فارغ ہونے کے بعد منشی صاحب موصوف نے میری طرف اشارہ کر کے (حضرت اقدس کی خدمت میں ) عرض کیا.حضور ان کی بیعت لے لیں حضور نے فرمایا اندر آجائیں.جب میں اکیلا بیت الفکر میں گیا تو حضور ایک چارپائی کی پائنتی کی طرف بیٹھ گئے اور مجھے چارپائی کے سرہانے بیٹھنے کا ارشاد فرمایا.میں پہلے تو جھجکا مگر حضور کے دوبارہ ارشاد فرمانے پر بیٹھ گیا.اور حضور نے بیعت لی.حضور کا یہ برتاؤ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ کہاں وہ پیر جن کے برابر کوئی بیٹھ نہیں سکتا.اور کہاں اللہ تعالیٰ کا مسیح موعود جو ایک ناچیز خادم کو چار پائی کے سرہانے بٹھاتا ہے.اخویم منشی عبدالعزیز صاحب کو کمرے کے اندر داخل نہیں ہوئے تھے لیکن باہر سے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے.“ رض تبلیغ میں سرگرمی: آپ نے خود بیعت کرنے کے بعد اپنے اہلبیت کو بھی کچھ عرصہ کی تبلیغ کے بعد اسی سال بیعت کروائی اور پھر دوسروں کو تبلیغ کرنے میں مشغول ہو گئے.آپ کی تبلیغ اور کوشش سے خدا تعالیٰ کے فضل سے تین جگہ جماعتیں قائم ہوئیں، جن میں سے تلونڈی جھنگلاں کی جماعت ضلع گورداسپور کی بڑی جماعتوں میں سے تھی.اس جماعت کی ترقی میں مولوی رحیم بخش صاحب رضی اللہ عنہ کی کوششوں کا بھی دخل تھا، لیکن ابتدا منشی صاحب کی کوشش سے ہوئی.آپ کے گھر سے ایک دفعہ بیمار ہوگئیں.اُن کے علاج کے لئے موضع بہادر حسین سے مولوی صاحب کو بلوایا گیا.اور پھر منشی صاحب نے آپ کو تلونڈی جھنگلاں میں مستقل رہائش اختیار کرنے پر آمادہ کر لیا تا کہ وہاں ٹھیر کر جماعت کی تربیت کرسکیں.اوہ چپ اور قلعہ گلانوالی کی جماعتیں بھی آپ کی تبلیغ اور کوششوں سے قائم ہوئیں.تقسیم ملک سے قبل اندازاً تلونڈی میں ساڑھے نو سو لوہ چپ میں چالیس اور قلعہ گلانوالی میں ڈیڑھ صد احمدی نفری تھی.* خطوط وحدانی کے الفاظ خاکسار کے ہیں.(مؤلف) ** ان دیہات کے لئے دیکھئے نقشہ ضلع گورداسپور **
113 تبلیغ کیلئے وقف ایام: ہجرت کر کے قادیان آجانے کے بعد آپ تبلیغ میں مصروف رہے اور پندرہ پندرہ دن کے لئے تبلیغ کی غرض سے باہر چلے جاتے.ایک دفعہ پھیر و پیچی کے قریب کسی گاؤں میں تبلیغ کے لئے گئے.وہاں کے لوگوں نے سخت مخالفت کی اور دھکے دیکر مسجد سے باہر نکال دیا.آکر بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ ملازمت کے دنوں میں تو لوگ سختی نہ کر سکتے تھے لیکن اب اللہ تعالیٰ نے یہ موقع بھی نصیب کر دیا اور خدا کی راہ میں تکلیف اُٹھانے کی لذت حاصل ہوئی.تحریک جدید کے ماتحت ایک ماہ کے لئے آپ کو بغرض تبلیغ مکیریاں بھجوایا گیا.وہاں روزانہ مخالفین کی طرف سے اس مکان پر جہاں آپ کا قیام تھا سنگباری ہوتی.سخت گرمیوں کے دنوں میں اندر کواڑ بند کر کے پناہ لیتے.جلسہ سالانہ ۱۹۳۸ء سے چند روز پہلے بیمار ہو گئے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ میں یہ تحریک فرمائی کہ ہر احمدی کو سال میں کم از کم ایک احمدی ضرور بنانا چاہئے.چوہدری ظہور احمد صاحب نے آکر اس کا ذکر کیا اور بعد میں محلہ والے بھی وعدہ لینے کے لئے آئے.فرمانے لگے بیمار ہوں زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.لیکن بتوفیقہ تعالیٰ انشاء اللہ ایک احمدی ضرور بناؤں گا.بعض غیر احمدی تین سال سے آپ کے زیر تبلیغ تھے.وہ بیماری کے ایام میں عیادت کے لئے آتے تھے.اس وعدہ کے بعد ان کو آپ نے زیادہ زور سے تبلیغ شروع کر دی.اللہ تعالیٰ نے اس میں اثر پیدا کیا اور دو اشخاص نے بیعت کر لی.اس طرح زندگی کے آخری ایام میں بھی آپ کو با وجود بیماری اور کمزوری کے اپنے وعدہ کو پورا کرنے کی توفیق مل گئی.انجمن اشاعت اسلام کا قیام: انگریزی میں سلسلہ کا لٹریچر شائع کرنے اور رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے اجراء کے لئے تجارتی رنگ پر مستقل سرمایہ کی ضرورت کو تسلیم کر کے سلسلہ کی طرف سے ایک مستقل فنڈ کی بنیاد رکھی گئی.ایک انجمن موسوم بہ انجمن اشاعت اسلام قائم ہوئی.اس کے افتتاحی اجلاس میں اس مارچ ۱۹۰۱ ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک لمبی تقریر فرمائی جو اخبار میں نو کالموں میں درج ہے.اس میں حضور نے دجالی فتنہ کا ذکر کر کے بتایا کہ کس طرح بیس لاکھ مسلمان مرتد ہو چکے ہیں اور کثیر لٹریچر اسلام کے خلاف شائع ہوا ہے.مومن کے دل میں غیرت ہونی چاہئے.بے غیرت دیوث ہوتا ہے.اگر اسلام کی عزت کے لئے دل میں محبت نہیں، تو عبادت بھی بے سود ہے کیونکہ عبادت محبت ہی کا نام ہے.نیز حضور نے اس تقریر میں فرمایا : اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم کو اس قدر خزانے دے دیتا کہ ہم کو پروا بھی نہ رہتی.مگر خدا ثواب
114 میں داخل کرتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے.یہ سب جو بیٹھے ہیں یہ قبریں ہی سمجھو.کیونکہ آخر مرنا ہے.پس ثواب حاصل کرنے کا وقت ہے.میں ان باتوں کو جو خدا نے میرے دل پر ڈالی ہیں سادہ اور صاف الفاظ میں ڈالنا چاہتا ہوں.اس وقت ثواب کے لئے مستعد ہو جاؤ اور یہ بھی مت سمجھو کہ اگر اس راہ میں خرچ کرینگے تو کچھ کم ہو جاوے گا.خدا تعالیٰ کی بارش کی طرح سب کمیاں پُر ہو جائیں گی.مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرٌيَّرَه - یاد رکھو خدا کی توفیق کے بغیر دین کی خدمت نہیں ہو سکتی.جو شخص دین کی خدمت کے واسطے شرح صدر سے اُٹھتا ہے.خدا اس کو ضائع نہیں کرتا.اس انجمن کی مجلس عامہ کے ممبر تمام خریداران حصص تھے.اس کے سر پرست اعلیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پریذیڈنٹ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور وائس پریذیڈنٹ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مقرر ہوئے.ایک ہزار حصص مطلوب تھے.اس پر چہ اخبار میں ایک سو اکتالیس ۱۴۱ احباب کی طرف سے پونے آٹھ سو حصص کی خریداری کے اسماء درج ہیں.ان میں سے باون نے ایک ایک حصہ خریدا چنانچہ وہاں آپ کا نام امام الدین صاحب پٹواری لوہ چپ گورداسپور مرقوم ہے.ہے انبیاء عالم الغیب نہیں ہوتے.لیکن لوگوں کی اصلاح کی خاطر یا تو دوسروں کے خیالات کا انہیں علم دیا جاتا ہے یا بغیر علم دیئے جانے کے ان کی زبان پر ایسا کلام جاری کر دیا جاتا ہے جس سے ان خیالات کی اصلاح ہو سکے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام تھم فرماتے ہیں: و بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی امام الدین صاحب سابق پٹواری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ فجر کی نماز کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے اور بعض اصحاب بھی حلقہ نشین تھے.تو اس وقت میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ حضرت اقدس کا دعویٰ تو مسیح موعود ہونے کا ہے مگر مہدی جو اس زمانہ میں آنا تھا.کیا وہ کوئی علیحدہ شخص ہوگا.اسی وقت حضور علیہ السلام نے تقریر شروع فرما دی اور بیان فرمایا کہ میں مسلمانوں کے لئے مہدی یعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا بروز ہوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود یعنی حضرت مسیح ناصری کا مثیل بن کر آیا ہوں.حضور نے لمبی تقریر فرمائی جس سے میری پوری تسلی ہوگئی.اسی طرح اکثر دیکھا ہے کہ اگر کسی کوکوئی اعتراض پیدا ہوتا تو حضور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا علم دیا جا تا تھا اور حضور علیہ السلام اسے بذریعہ تقریر رد فرما دیا کرتے تھے.
115 خاکسار عرض کرتا ہے کہ انبیاء کو علم غیب نہیں ہوتا.پس ایسی روایتوں کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مامورین سے اصلاح کا کام لینا ہوتا ہے اس لئے انہیں بسا اوقات دوسروں کے خیالات کا علم دیا جاتا ہے یا بغیر علم دینے کے ویسے ہی ان کی زبان کو ایسے رستہ پر چلا دیا جاتا ہے جو سامعین کے شکوک کے ازالہ کا باعث ہوتا ہے.“ ایک نشان کا گواہ ہونا : آپ ایک نشان کے گواہ ہیں.چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف فرماتے ہیں: و بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی امام الدین صاحب سابق پٹواری نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی والے مقدمہ زیر دفعہ ۱۰۷ کی پیشی دھار یوال میں مقرر ہوئی تھی.اس موقعہ پر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور ! محمد بخش تھانیدار کہتا ہے کہ آگے تو مرزا مقدمات سے بچ کر نکل جاتا رہا ہے اب میرا ہاتھ دیکھے گا.حضرت صاحب نے فرمایا.میاں امام الدین ! اس کا ہاتھ کا ٹا جائے گا.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کی ہتھیلی میں سخت درد شروع ہوگئی اور وہ اس درد سے تڑپتا تھا اور آخر اسی نامعلوم بیماری میں وہ دُنیا سے گذر گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ لیفٹینٹ ڈاکٹر غلام احمد صاحب آئی.ایم.ایس نے جو کہ محمد بخش صاحب تھانیدار کے پوتے ہیں، مجھ سے بیان کیا کہ ان کے دادا کی وفات ہاتھ کے کار بنکل سے ہوئی تھی * “ ہے جلسہ سالانہ ۱۹۰۸ء پر سلسلہ کی خدمت: جب کبھی سلسلہ کومنشی صاحب کی خدمات کی ضرورت ہوتی ، آپ کو ہمیشہ مستعد پایا جاتا اور جو کام بھی آپ کے سپر د ہوتا اُسے پوری ہمت و کوشش سے سرانجام دیتے.ایک دفعہ جلسہ سالانہ ۱۹۰۸ء سے چار پانچ روز پہلے حافظ حامد علی صاحب رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے حضرت میاں صاحب (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف خاص طور پر یہ پیغام دیکر بھیجا ہے کہ آپ نے جلسہ سالانہ کے لئے لکڑی کا انتظام کرنا ہے.گو صرف چند روز رہ گئے ہیں.لیکن لکڑی جلسہ پہلے پہنچ جائے.حافظ صاحب نے یہ بھی بتایا کہ اس دفعہ مولوی محمد علی صاحب اور دوسرے اراکین انجمن نے * ان روایات کے علاوہ منشی صاحب کی روایات الفضل میں بھی شائع ہو چکی ہیں.(مؤلف)
116 جلسہ سے صرف چند روز پہلے یہ کام حضرت میاں صاحب کے سپر داس لئے کیا ہے کہ انتظام میں نقص واقع ہو اور حضرت خلیفہ مسیح الاوّل پر یہ اثر ہو کہ میاں صاحب میں انتظامی قابلیت نہیں.منشی صاحب کی طبیعت بہت جوشیلی تھی.فوراً لکڑی کے انتظام میں مشغول ہو گئے اور تین چار دن میں حسب ضرورت لکڑی بھجوا دی.سارا سارا دن خود کھڑے رہ کر لکڑی کٹواتے اور گڑوں پر لد وا کر قادیان بھیجتے.خود بڑھئیوں کے ساتھ لکڑی کٹوانے میں مدد دے رہے تھے کہ دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کٹ گئی.اپنی اولاد کو یہ ساراواقعہ سُنا کر بہت خوش ہوا کرتے تھے.بعد ازاں مستقل طور پر قادیان میں رہائش اختیار کرنے کے بعد کئی سال تک جلسہ سالانہ کے موقعہ پر آپ بطور افسر دیگ بیرون قصبہ خدمات سرانجام دیتے رہے.خلافت ثانیہ سے وابستگی : حضرت خلیفہ مسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت باوجود اس کے کہ منشی صاحب کے تعلقات ان لوگوں سے جو مرکز کو چھوڑ کر لاہور چلے گئے دوستانہ تھے آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ثابت قدم رہے.آپ قادیان جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے آئے ہوئے تھے کہ حضور کی وفات کا علم ہوا.اس روز گاؤں واپس چلے گئے اور دوسرے روز بال بچوں سمیت قادیان آ کر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کی.ایک عرصہ تک غیر مبائعین آپ کو پیغام صلح، اور اپنا دوسر لٹریچر بھجواتے رہے.لیکن آپ کی وابستگی خلافت کے ساتھ بڑھتی ہی گئی.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ آپ کو بے حد عشق تھا اور اپنی اولاد کو بھی اس بات کی تلقین فرمایا کرتے تھے کہ جب تک تمہاری وابستگی اس خاندان کے ساتھ رہے گی تم ترقی کرتے رہو گے.ادا ئیگی جمعہ کے لئے قادیان آتے رہنا، تہجد گذاری با جماعت نمازوں کی ادائیگی وغیرہ : میاں بیوی دونوں کا بعض دوسرے دیہات میں رہنے والے پرانے احمدی مخلصین کی طرح یہ طریق تھا کہ جمعہ کی نماز کی خاطر بلا ناغہ قادیان پہنچتے.جمعہ کے روز صبح اپنے گاؤں سے پیدل چل کر قادیان آتے اور نماز جمعہ کے بعد واپس پیدل ہی گاؤں کو چلے جاتے.سخت سردی یا سخت گرمی کی پرواہ نہ کرتے اور برسات میں بارش سے بچنے کا سامان کر لیتے.سردیوں میں ذرا دن چڑھے گاؤں سے چلتے اور جمعہ کے معا بعد واپس چلے جاتے.اور گرمیوں میں صبح سویرے چل پڑتے اور شام کے قریب دن ڈھلے واپس ہوتے.قادیان ہجرت کر کے آنے تک دونوں میاں بیوی اس طریق پر کار بند ر ہے.قادیان میں آپ کو دیکھا گیا کہ سوائے سخت مجبوری کے ہمیشہ نماز باجماعت ادا کرتے.پہلی صف میں امام کے قریب بیٹھا کرتے اور اس قدر با قاعدگی کے ساتھ نماز باجماعت ادا
117 کرتے کہ اگر کسی نماز میں بوجہ مجبوری نہ آ سکتے تو تمام دوست پوچھنے لگتے کہ آج منشی صاحب نہیں آئے.کیا وجہ ہے؟ گوقرآن مجید کی تلاوت ہمیشہ باقاعدگی کے ساتھ کرتے تھے مگر قادیان میں مقیم ہو جانے کے بعد کثرت تلاوت کی وجہ سے بسا اوقات چھٹے ساتویں روز قرآن کریم کا ایک دور ختم کر لیتے تھے.قرآن مجید سے آپ کی محبت اس امر سے ظاہر ہے کہ آخری بیماری میں جب آپ خود تلاوت نہ کر سکتے تھے اور بالکل کمزور ہو گئے تھے تو اپنے نواسے حافظ ڈاکٹر مسعود احمد صاحب سے قرآن مجید سنا کرتے تھے.قادیان کے ریلوے اسٹیشن کے تعلق میں خدمت سلسلہ : ۱۹۲۸ء میں جب قادیان میں ریلوے لائن آ رہی تھی، سلسلہ کے مفاد اور قادیان کی ترقی کوملحوظ رکھتے ہوئے ضروری تھا کہ لائن قادیان سے شمال کی طرف سے گذرے.اس موقعہ پر معاندین سلسلہ نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر اس کی مخالفت شروع کر دی اور یہ کوشش کی کہ لائن قادیان کے جنوب سے گذرے.اگر ان کی یہ خواہش پوری ہو جاتی تو قادیان کے لوگوں بالخصوص احمدی آبادی کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا.چونکہ مخالفین کی طرف سے پوری سرگرمی کے ساتھ کوشش جاری تھی اس لئے جماعت کی طرف سے بھی افسران کو ہر وقت صحیح حالات سے آگاہ کرنا ضروری تھا.یہ کام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام مینھم کی نگرانی میں شروع ہوا اور مکرم مولوی عبد المغنی خان صاحب سابق ناظر دعوۃ و تبلیغ کو اس کام پر مقرر کیا گیا.منشی صاحب کو حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان کا نائب مقر فر مایا.کئی ماہ تک منشی صاحب سارا سارا دن پیدل سفر کر کے تندہی سے کام کرتے رہے.آخر اللہ تعالیٰ نے اس میں جماعت کو کامیابی نصیب کی.ایک اور خدمت سلسلہ : جس وقت قادیان کے قریب سکھوں نے مذبح گرایا ہے، بعض سکھوں کی طرف سے عام دیہات میں شورش پیدا کی جارہی تھی.مرکز کی طرف سے آپ کو ایک رات جب کہ اُن کی طرف سے زیادہ شرارت ہو رہی تھی بھجوایا گیا تا کہ علاقہ کے مسلمانوں کو سکھوں کی حرکات سے راتوں رات آگاہ کر دیا جائے.چنانچہ آپ نے دیگر مددگاروں کے ساتھ راتوں رات کئی دیہات کا دورہ کیا اور اس کام کو باحسن طریق سرانجام دیا.سلسلہ کے لئے غیرت: آپ سلسلہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور بزرگان سلسلہ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی ہر گز برداشت نہ کر سکتے تھے.ایک دفعہ آپ کے ایک افسر کے منہ سے سلسلہ کے خلاف نازیبا الفاظ نکل گئے.آپ
118 نے تمام لوگوں کے سامنے اسی وقت سختی سے اس بات کی تردید کی اور کہا کہ میں ہرگز اس کی پروانہ کروں گا کہ آپ میرے افسر ہیں، اور کوئی ایسی گستاخی برداشت نہیں کروں گا.آپ کی اس جرات کا یہ اثر ہو ا کہ اس افسر نے علی الاعلان ندامت کا اظہار کیا.اور پھر کبھی سلسلہ کے خلاف ایسے نازیبا الفاظ نہ کہے.یہ افسر اپنی آخری عمر تک احمدیت میں تو داخل نہ ہوئے، لیکن کبھی ان کے متعلق یہ شکایت پیدا نہ ہوئی کہ انہوں نے سلسلہ کے خلاف کوئی نازیبا الفاظ استعمال کئے ہوں.بلا خوف لومة لائم حق بات کہہ دینا: دینی اور دنیا وی تمام معاملات میں جس بات کو آپ سچ خیال کرتے اسے بلا خوف و خطر پیش کر دیتے.ایک دفعہ سر ہنری کر یک سابق گورنر پنجاب (متحدہ) جو اس وقت ضلع گورداسپور میں مہتم بندو بست تھے پڑتال اور معائنہ کے لئے آئے.ایک زمین کے متعلق جو آپ کے حلقہ میں تھی کا غذات میں غلط اندراج چلا آرہا تھا.مہتم صاحب نے پہلے اندراج کو قائم رکھا.اس پر آپ نے انہیں بتایا کہ اس زمین کا اندراج درست نہیں، اس کی قسم غلط لکھی گئی ہے.تحصیلدار اور دوسرے افسران اشاروں سے آپ کو منع کرنے لگے کہ کہیں مہتمم صاحب ناراض نہ ہو جا ئیں.لیکن آپ نے جس بات کو حق سمجھا اس کا اظہار کر دیا.مہتمم صاحب نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.اس پر آپ نے تیسری بار پورے زور سے اپنی رائے کا اظہار کیا.چنانچہ اس دفعہ مہتمم صاحب نے آپ کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے ریکارڈ میں یہ نوٹ کر دیا کہ میں بڑی مشکل سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس زمین کی فلاں قسم ہے.اس جرات کا ان پر بہت اچھا اثر ہوا.اور اس ضلع سے جاتے وقت انہوں نے بغیر کسی درخواست کے منشی صاحب کوخوشنودی کا سرٹیفیکیٹ دیا.آپ کے عزم و استقلال کی ایک مثال : آپ کے عزم اور استقلال کا اس امر سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو حقہ پینے کی بہت عادت تھی.ایک دن قادیان آئے ہوئے تھے.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خلافت کا ابتدائی زمانہ تھا.حضور نے حلقہ کی مذمت بیان کی اس وقت سے عزم کرلیا کہ حقہ کبھی نہ پیوں گا.اس کے بعد بھی حقہ کو ہاتھ نہ لگایا.شروع میں بیار بھی ہو گئے کئی لوگوں نے مشورہ دیا کہ حقہ آہستہ آہستہ چھوڑیں.لیکن آپ نے کہا کہ اب کبھی استعمال نہیں کروں گا.اور پھر اس کے بعد کبھی استعمال نہ کیا بلکہ کئی لوگوں سے یہ عادت چھڑوائی.
119 چندوں میں با قاعدگی : منشی صاحب حسب توفیق مالی لحاظ سے بھی سلسلہ کی خدمت کرتے رہتے تھے بلکہ ہر قسم کی تحریکات میں اپنی طاقت سے بڑھ کر حصہ لیتے تھے.دورانِ ملازمت میں بھی اور اس کے بعد بھی.چنانچہ تحریک جدید میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بعض چندوں کی ادائیگی کا ذکر بھی اخباروں میں پایا جاتا ہے.رسید زر کے عنوان کے تحت مرقوم ہے: منشی امام الدین صاحب پٹواری لوه چپ متصل قادیان دارالامان اسی طرح کالج فنڈ کی رسید زر کے تحت لکھا ہے: 66 د منشی امام الدین صاحب پٹواری لوه چپ صر ۵ ۶۰ اس فہرست میں تین احباب کے دود و آنہ کے چندہ کا اور زیادہ سے زیادہ ۱۲ آنے کے چندہ کا اعلان ہوا ہے.مرض الموت وفات اور قطعہ خاص میں تدفین : آپ جسمانی لحاظ سے خوب توانا اور مضبوط تھے.تمام دانت محفوظ تھے.عینک صرف پڑھتے وقت استعمال کرتے تھے.کئی کئی میل تک پیدل سفر کر لیتے تھے.آخر وقت تک با وجود بڑھاپے کے رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی رکھتے رہے چنانچہ آپ نے اپنی زندگی کے آخری رمضان مبارک کے روزے بھی رکھے.وفات سے تین سال قبل آپ کو پیٹھ پر بڑا خطرناک کار بنکل ہوا.آپریشن ہونا تھا.آپ نے اس امر کو پسند کیا کہ بغیر کلوروفارم کے آپریشن کر دیا جائے.چنانچہ بڑی ہمت سے بغیر کلوروفارم کے آپریشن کرایا اور بیماری کا اچھی طرح سے مقابلہ کیا.آپ اس بیماری سے تو صحت یاب ہو گئے لیکن اس کے بعد عام صحت اچھی نہ رہی.مرض الموت میں آپ کے متعلق زیر عنوان مدینۃ المسیح بابت ۲۵ جولائی ) ذیل کا نوٹ شائع ہوا.دو غشی امام الدین صاحب مہاجر متوطن او جلہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی ہیں، سخت بیمار ہیں.دعائے صحت کی جائے.“ ہے.وفات سے قبل اکثر لوگ عیادت کے لئے آتے.ہر ایک سے یہی کہتے کہ اب کوئی خواہش نہیں.اللہ تعالیٰ نے تمام خوشیاں دکھا ئیں.دعا کریں کہ اللہ تعالی خاتمہ بالخیر کرے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے انجام بخیر کیا.پہلے عام قطعہ صحابہ میں دفن کرنے کی تجویز تھی.قبر تیار تھی اور میت کو قبر میں اتارا جار ہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے
120 ایک پرانے صحابی مکرم بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی ( درویش) کے دل میں تحریک پیدا کی کہ چونکہ منشی صاحب قدیم صحابہ میں سے ہیں، اس لئے قطعہ خاص میں جگہ ملنی چاہئے.چنانچہ بھائی جی کے ذکر کرنے پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم نے بعض اور پرانے صحابہ سے بھی شہادتیں لے کر پوری تحقیق کرنے کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دھر مسالہ تار دلوایا اور منظوری آنے پر قطعہ خاص صحابہ میں دفن کئے گئے.* جنازہ میں تقریباً تمام بزرگان سلسلہ جو قادیان میں موجود تھے شامل ہوئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے میت کو کندھا دیا اور دفن کرنے کے بعد دعا بھی کرائی.آپ کی وفات پر ذیل کا نوٹ زیر عنوان مدینہ امسیح (بابت ۲۶ جولائی ) شائع ہوا.افسوس منشی امام الدین صاحب مہاجر وفات پاگئے.انا للہ وانا اليه راجعون - حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور مرحوم مقبرہ بہشتی کے قطعہ صحابہ میں دفن کئے گئے.احباب بلندی درجات کے لئے دعا کریں.A آپ کی اہلی زندگی: آپ کی شادی محترمہ کریم بی بی صاحبہ بنت میاں امام الدین صاحب قوم ارائیں سکنہ اوجلہ (ضلع گورداسپور ) سے ہوئی تھی.جنہوں نے اپنے خاوند کی تبلیغ سے ان کے چھ سات ماہ بعد ۱۸۹۴ء میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی تھی.اولاد شجرہ نسب میں دکھائی گئی ہے.ان میں سے ایک کا نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھا تھا.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم فرماتے ہیں: و بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی امام الدین صاحب سابق پٹواری حال محله دارالرحمت قادیان نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فراست دی گئی تھی کہ حضور علیہ السلام کو بعض دفعہ دوسرے شخص کی دل کی بات کا علم ہو جایا کرتا تھا.جس وقت میرا لڑکا ظہور احمد پیدا ہوا تو میں قادیان آیا.مسجد مبارک میں چند دوست بیٹھے تھے.میں نے ان سے ذکر کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے لڑکے کا نام حضور میرے بڑے لڑکے نثار احمد کے نام پر رکھیں.لیکن میرا بھی یہی خیال تھا اور دوسرے احباب * راقم ان دنوں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ بطور پرائیویٹ سیکرٹری متعین تھا.مجھے خوب یاد ہے کہ حضور نے اس معاملہ میں تار آنے پرمنشی صاحب کو قطعہ ، خاص میں دفن کرنے کی اجازت دی تھی.(مؤلف)
121 نے بھی کہا کہ حضور عمو ماً والد کے نام پر بچہ کا نام رکھتے ہیں اس لئے غالباً اب بھی حضور ایسا ہی کریں گے.حافظ حامد علی صاحب نے حضور کو میرے آنے کی اطلاع دی.اور بچہ کی پیدائش کا بھی ذکر کیا.حضور مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور مجھے مبارکباد دی اور فرمایا کہ اس کا نام ظہوراحمد رکھیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں امام الدین صاحب نے جو یہ کہا ہے کہ حضور کو دل کی بات کا علم ہو جاتا تھا، اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ حضرت صاحب عالم الغیب تھے.کیونکہ غیب کا علم صرف خدا کو حاصل ہے.البتہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے تربیت کا کام لینا ہوتا ہے.اس لئے بعض اوقات اللہ تعالیٰ ایسا تصرف فرماتا ہے کہ لوگوں کے دل میں جو خیالات کی روچل رہی ہوتی ہے.اس سے انہیں اطلاع دے دی جاتی ہے.“ 9 شہر وذنب اگلے صفحے پر ہے
122 عبد الله دین عید محمد نظام دین نور محمد حاکم دین منشی امام الدین جنت حشمت زینب اہلیہ محمد اسمعیل (فوت) البیه فیروز الدین (فوت) (اہلیہ بھائی محمود احمد (صحابی) سابق مالک احمد یہ میڈیکل ہال دار الفتوح آمنه (المیہ ڈاکٹر محمد الدین) قادیان حال ما لک و دود میڈیکل سٹور سرگودھا) صادقہ خاتون حفیظ احمد لطیف احمد رشیده خاتون رضیہ خاتون منیراحمد تار احمد بشارت احمد آنسه خاتون سعادت احمد آصفہ خاتون نفاست احمد نعیمه خاتون ظہور احمد ( معاون ناظر امور عامه ربوہ ) مبارک احمد مبارکہ خاتون منور احمد رفیق احمد لئیق احمد انیس احمد آمنه خاتون فاطمه خاتون صالحہ خاتون ڈاکٹر حافظ مسعود احمد سلیمه خاتون سیدہ خاتون بشری خاتون صفیه خاتون رشیده خاتون الیہ مولوی نذیر احمد مبشر (الی محمد افضل) (اہلیہ رحمت علی) اہلیہ محمد حسین) (اہلیہ عبدالحمید) (المیہ ماسٹر محمد الدین مجاہد مغربی افریقہ) مقصود احمد نصیر احمد ملیحہ خاتون وسیمه خاتون سلمہ خاتون صبیحہ خاتون طیبہ خاتون فریده خاتون ٹی اے) واوراحمد
123 آپ کے اوصاف حمیدہ: والدہ چوہدری ظہور احمد صاحب کی زندگی کا بڑا حصہ دیہات میں ہی گذرا اس وجہ سے آپ نے بہت سادہ طبیعت پائی تھی.لیکن دو خو بیاں بہت نمایاں تھیں.ایک صفائی کا خیال اور دوسرے مہمان نوازی.آپ گھر بار کی صفائی کا بہت خیال رکھتیں.گاؤں کی مستورات بوجہ احترام روزانہ گھر کا کام کاج کر جاتیں.لیکن اس کے باوجود آپ گھر کی صفائی بسا اوقات اپنے ہاتھ سے بھی کرتیں.گھر کی تمام چیزیں ایک قرینہ سے رکھی ہو تیں.برتن خوب صاف کر کے اور چمکا کر لائینوں میں قرینہ سے رکھے جاتے اور دوسرا سامان بھی مقررہ جگہوں پر ہوتا.مہمان بڑی کثرت سے آتے رہتے تھے اور ان کے شایان شان خاطر و مدارات کرتیں.عموماً گھر میں بھینس رکھی ہوتی تھی.دودھ اور گھی ہر وقت موجودرہتا تھا.گھر میں مرغیاں بھی پالی جاتیں، اس طرح انڈے اور مرغ بھی موجود ہوتے.اور آنے والے مہمانوں کی حسب حیثیت انہی چیزوں سے خاطر مدارات کی جاتی.اور مہمانوں کے وقت بے وقت آنے سے نہ کبھی گھبراہٹ ہوتی اور نہ غیر معمولی خرچ کرنا پڑتا.دیہات میں یہ طریق رائج ہے کہ مہمان اپنا بستر ساتھ نہیں لے جاتے.صاحب خانہ کا فرض ہوتا ہے کہ تمام مہمانوں کے لئے حسب حیثیت بستر مہیا کرے.اس لئے تمام دیہاتی شرفاء اس کا اہتمام رکھتے ہیں.آپ کے ہاں بھی بڑی تعداد میں زائد بستر موجود رہتے تھے.جن میں اضافہ ہوتا رہتا.سارا سال آپ اور دیگر گھر میں آنے والی دیہاتی مستورات گھر میں چرنے پر سوت کات کر تیار کر کے ان سے لحاف اور تو شک کا کپڑا دو تہیاں اور کھیں تیار کراتی رہتیں اور اس طرح بغیر کسی زیادہ خرچ کے نئے بستر تیار ہوتے رہتے اور شادیوں وغیرہ کے مواقع پر یہی چیزیں تحائف کے طور پر بھی استعمال میں لائی جاتیں.میاں بیوی دونوں کا اخلاص: منشی صاحب اور آپ کے اہلیت دونوں کو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بہت محبت اور اخلاص تھا.اور اس خاندان کی طرف سے بھی ان پر نوازشات ہوتی تھیں.چنانچہ اوہ چپ جهان دوران ملازمت میں آپ کا قیام رہا ایک معمولی گمنام گاؤں ہے.خوش قسمتی دیکھئے کہ ان کو یہ شرف حاصل ہوا کہ محض انہیں ملنے کے لئے مختلف اوقات میں حضرت ام المومنین اطال اللہ بقاءها خلافت سے قبل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی) حضرت اماں جی حرم حضرت خلیفہ مسیح الاوّل حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض دیگر افراد اور بزرگان سلسلہ ان کے گھر تشریف لائے.حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں نذرانہ پیش کرنے کی سعادت: منشی صاحب اور مولوی رحیم بخش صاحب رضی اللہ عہنما کی کوششوں سے تلونڈی جھنگلاں میں ایک احمد یہ پرائمری سکول جاری ہوا.منشی صاحب اس وقت سکول کے مینیجر تھے.خلافت اولی کے زمانہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ) سکول کے معائنہ کے
124 لئے تلونڈی جھنگلاں تشریف لے گئے.واپسی پر حضور نے یہ پسند نہ فرمایا کہ راستہ میں ان کا ایک خادم رہتا ہو اور حضور اُسے اپنی تشریف آوری سے نہ نواز ہیں.چنانچہ حضور موضع لوہ چپ میں منشی صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے.منشی صاحب کے اہل بیت بیان کرتے تھے کہ حضور کی تشریف آوری کا علم نہ تھا.منشی صاحب گھر پر موجود نہ تھے.میں نے حضور کو کچھ نذرانہ پیش کرنا چاہا لیکن اتفاقاً گھر میں کوئی نقدی موجود نہ تھی.میں نے گوارا نہ کیا کہ حضور اپنے خادم کے گھر تشریف لائیں اور وہ اپنی محبت اور اخلاص کا ثبوت نہ دے.ہمارے گھر میں چاندی کے زیور اور چیزیں موجود تھیں میں نے اُن میں سے ایک چیز چاندی کی حضور کے پیش کر دی اور حضور نے اُسے قبول فرمالیا.حضرت ام المومنین اطال اللہ بقاء ہا والدہ چوہدری ظہور احمد صاحب کو جلدی جلدی قادیان آنے کی تاکید فرماتیں.چنانچہ آپ اس کی تعمیل کرتیں.جب قادیان جاتیں حضرت ام المومنین اطال اللہ بقاء ھابڑی محبت اور شفقت سے گلے لگا کر ملتیں.ان کے قیام و طعام کا انتظام بھی الدار میں ہی ہوتا.آپ بیان کرتی تھیں کہ ایک دفعہ میں قادیان گئی ہوئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صحن میں ایک چار پائی پر بیٹھے تصنیف میں مصروف تھے.میرا بیٹا نثار احمد اس وقت بالکل چھوٹا تھا اور پاس ہی فرش پر کھیل رہا تھا.اسی اثناء میں حضور کے لئے وہیں کھانا لایا گیا.حضور نے نہایت شفقت سے اُسے بلا کر اپنے پاس بٹھالیا اور اپنے ہاتھ سے اپنے کھانے میں سے اُسے بھی کھانا دیا.آپ کا یہ طریق تھا کہ کچھ گھی صاف تیار کر کے اُسے مٹی کے برتن میں ڈال کر حضرت اقدس کے لئے بطور تحفہ لے جاتیں اور حضرت ام المومنین کے حضور پیش کر دیتیں.اسی طرح کبھی مرغیاں اور بادام پستہ وغیرہ ڈالا ہوا گر بھی لے جاتیں.حضور اُسے بڑی خوشی سے قبول فرماتے.قیمت کے لحاظ سے یہ چیزیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں، لیکن جس اخلاص اور محبت سے ان کا اہتمام کیا جاتا اس کا اندازہ ہر شخص نہیں کر سکتا.حضرت اماں جان کی طرف سے شادی میں شرکت کیلئے دعوت : حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ سلمھا اللہ تعالیٰ کی شادی کے موقعہ پر حضرت ام المومنین اطال اللہ بقاءھانے حجام کو (جیسا کہ پہلے شادیوں کے مواقع پر دستور ہوتا تھا.) دعوت نامہ دیگر والدہ چوہدری ظہور احمد صاحب کے پاس بھجوایا کہ بچوں سمیت شادی میں شریک ہوں.چنانچہ آپ کو اس شادی میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا.خدمت خلق کا جذ بہ : آپ کے اندر خدمت خلق کا جذ بہ بھی بہت نمایاں تھا.دیہات کی محتاج عورتوں اور غریب بچوں کی ہمیشہ امداد کرتی تھیں.گھر میں ایک چھوٹا سا ہسپتال کھول رکھا تھا جس کی کل کائنات صرف چند دوائیں تھیں.انہیں
125 سے عورتوں اور بچوں کے امراض کا علاج کرتیں.آنکھوں میں ڈالنے کا لوشن، ٹنکچر آیوڈین امرت دھارا کی قسم کی ایک دوائی سرکہ اجوائن.کونین کی گولیاں اور میگ سلفاس اور ایک آدھ دوائی ممکن ہے اور بھی ہوتی ہو.صبح سویرے ہی دیہات کی عورتیں اپنے بچوں وغیرہ کو لے کر آنا شروع ہو جاتیں.اور یہ شغل ایک دو گھنٹے جاری رہتا.عام عورتیں تو جانتی ہی تھیں کہ وہ یہ سب کچھ خدمت خلق کے جذبہ کے ماتحت کرتی ہیں، لیکن اگر کوئی نا واقف عورت کبھی دوائی کی قیمت پیش کرتی تو آپ اُسے بہت ناپسند کرتیں.تعلیم قرآن مجید کا انتظام: گھر میں چھوٹا سا مدرسہ بھی جاری تھا.گاؤں کے چھوٹے بچے اور بعض مستورات بھی قرآن مجید پڑھنے کے لئے آتیں.پہلے انہیں قاعدہ اور پھر قرآن مجید پڑھایا جاتا.یہ قاعدے اور قرآن مجید منشی صاحب کی طرف سے بلا قیمت مہیا کئے جاتے.لیکن جب کوئی قرآن مجید ختم کرتا تو اُسے تاکید کی جاتی کہ قادیان سے قیمتا قرآن مجید منگوا کر گھر میں رکھو اور پڑھتے رہو.چندہ میں مداومت: آپ روزانہ استعمال کے لئے کچھ نقدی کسی رو مال میں باندھ کر اپنے پاس ہر وقت رکھتی تھیں.جب جمعہ کی نماز کے لئے گھر سے جانے لگتیں تو اس میں سے دو پیسے نکال کر اس رومال کے ایک کونے میں باندھ لیتیں.اور مسجد میں جا کر صندوقچی میں جو مسجد کی ضروریات کے لئے چندہ کی غرض سے مسجد میں رکھی ہوتی ہے یہ دو پیسے ڈال دیتیں.اور اس میں اس قدر با قاعدہ تھیں کہ درمیان میں کچھ عرصہ صندوقچی کا انتظام بند بھی ہوگیا پھر بھی وہ اپنے دو پیسے کارکنات لجنہ اماءاللہ کو ادا کر آتیں.مسجد لنڈن کے لئے چندہ: جس وقت حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد لنڈن کے لئے مستورات میں چندہ کی تحریک فرمائی تو آپ کے پاس کافی زیور موجود تھے.آپ نے غالباًا صرف ایک زیور اپنی والدہ مرحومہ کی نشانی کے طور پر رکھ کر بقیہ سارا زیور اپنی خوشی سے پیش کر دیا.جس وقت آپ گھر سے زیور بھجوانے لگیں تو چاندی کا زیور ترازو میں سیروں کے حساب تو لا تھا.اور تو لنے کے بعد بہت خوش ہوئیں کہ اس کا اتنا وزن ہوا ہے اور بہت ہی خوشی سے اُسے پیش کیا.
126 وصیت کی دوہری ادائیگی: آپ موصیہ تھیں اور وصیت کے تمام چندوں کا حساب بہت اہتمام سے کر کے اپنی زندگی میں ہی ادا کر دیا تھا.حصہ جائیداد کی رقم ایک دفعہ ادا کی لیکن دفتر کی غلطی سے ساری رقم کسی اور مذ میں داخل ہوگئی.ایک عرصہ کے بعد اس غلطی کا پتہ چلا.اس کا ازالہ کا غذات میں درستی کے ذریعہ بآسانی ہو سکتا تھا لیکن آپ نے اُسے پسند نہ کیا کہ اگر غلطی سے بھی دوسرے چندہ میں رقم داخل ہو گئی ہو تو اُسے وہاں سے دوسری مد میں تبدیل کیا جائے.چنانچہ پھر دوبارہ وصیت کا چندہ داخل کر دیا.قادیان سے ہجرت کے بعد ربوہ میں اقامت پر اصرار : دیگر صحابہ اور صحابیات کی طرح آپ کو بھی قادیان سے ہجرت کا بہت صدمہ تھا.اور باوجود یکہ آپ کی ساری اولا د کوشاں تھی کہ آپ کو ہر طرح سے آرام پہنچے.آپ کی صحت دن بدن گرتی گئی.حالانکہ آپ کے دو داماد اور ایک نواسہ ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے آپ کو ساری طبی سہولتیں میسر تھیں.لیکن ہجرت کے صدمہ کی وجہ سے آپ کی کمزوری بڑھتی ہی گئی.جب ربوہ کا مرکز ۱۹۳۸ء میں قائم ہو اتو آپ کو یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ آپ کے بیٹے چو ہدری ظہور احمد صاحب کو بوجہ کارکن صدر انجمن احمد یہ ہونے کے وہاں رہائش رکھنے کا موقعہ ملا ہے.اور جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ موصیوں کے لئے ایک خاص قبرستان بنایا جا رہا ہے تو آپ ۱۹۴۸ء میں ہی اصرار کر کے ربوہ چلی گئیں، حالانکہ وہاں آپ کو وہ سہولتیں میسر ہونے کا امکان نہ تھا جو دوسری جگہ حاصل تھیں.وفات: آپ سے نومبر کو صبح ایک بجے کے قریب اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں.انا للہ و انا اليه راجعون.آپ کی تاریخ ولادت محفوظ نہیں ہے.انداز اآپ کی عمر بوقت وفات اسی (۸۰) سال تھی.آپ کی خواہش تھی کہ آپ کا جنازہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پڑھائیں.آپ کی اس خواہش کو بھی اللہ تعالیٰ نے عجیب رنگ میں پورا کیا.۵ نومبر کو آپ کی طبیعت یکدم سخت خراب ہوگئی.اقارب کو جو چند روز پہلے ہی اس وجہ سے واپس چلے گئے تھے کہ آپ کی طبیعت رو بصحت معلوم ہوتی تھی، تار دیے گئے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس وقت لاہور میں قیام فرما تھے.4 نومبر کی شام کوطبیعت پھر سنبھل گئی.اور ے نومبر کی رات کو طبیعت اچھی تھی.وفات سے پانچ منٹ قبل تک آپ اپنی بہو اہلیہ چوہدری ظہور احمد صاحب سے باتیں کرتی رہیں.نومبر کو خدا تعالیٰ کی رحمت کا خاص تصرف ہوا اور عین اس وقت جب کہ آپ کا جنازہ قبرستان کے قریب پہنچا تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ربوہ تشریف لے آئے.گویا آپ کی وفات کو اللہ تعالیٰ
127 نے اس وقت تک روکے رکھا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ربوہ پہنچتے ہی قبرستان تشریف لے گئے اور نماز جنازہ پڑھائی.چوہدری ظہور احمد صاحب کو سب سے پہلا تعزیتی خط حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام میفهم کی طرف سے موصول ہو ا.اور ربوہ میں سب سے پہلے آپ کے مکان پر تعزیت کے لئے جو بزرگ تشریف لائے وہ بھی خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک فرد تھے.* اسی طرح اس خاندان کے دیگر افراد نے بھی ہمدردی کا اظہار فر مایا.۲..۴..__ _^ و.حوالہ جات الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ بابت ۱۷/ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۸-۷.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ بابت ۱۷/ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۰.سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۵۵۴- (مؤلف) سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۵۶۰ - الحکم جلد ۹ نمبر ، صفحہ ۱۳ بابت ۱۷/ مئی ۱۹۰۵ء.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۱ صفحه ۱۲ بابت ۳۱ / اگست ۱۹۰۵ء.الفضل جلد نمبر ۲۷ نمبر ۷۰ ابابت ۲۷ جولائی ۱۹۳۹ء.الفضل جلد ۲۷ نمبر اے ابابت ۲۸ جولائی ۱۹۳۹ء.سيرة المهدی حصہ سوم روایت نمبر ۵۰۶ مراد مکرم صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ ربوہ ہیں.(مؤلف)
129 ملک مولا بخش صاحب * رضی اللہ عنہ خاندانی حالات ولادت اور تعلیم : آپ کے آباء واجداد ریاست کشمیر کے رہنے والے تھے اور آپ کی قوم ملک کشمیری تھی.آپ کا خاندان چار پانچ پشت سے کشمیر سے آکر امرتسر میں بُود و باش اختیار کر چکا تھا.آپ کے والد بزرگوار ملک سلطان بخش صاحب سوداگر پشمینہ تھے.اور کڑہ اہلو والیاں میں سکونت رکھتے تھے.ان کی تعلیم بالکل معمولی تھی صرف کاروباری حساب کتاب ہندی زبان میں رکھ سکتے تھے.مدرسہ کے رجسٹر میں اندراج سے ملک مولا بخش صاحب کا سن پیدائش انداز او۱۸۷ء معلوم ہوتا ہے.آپ پہلے شخص تھے کہ جنہوں نے اپنے خاندانی پیشہ تجارت کی بجائے ملازمت اختیار کی.آپ انٹرنس پاس کر کے سیشن کورٹ امرتسر میں بطور کلرک ملازم ہو گئے اور مختلف وقتوں میں پنجاب کے ضلع ہائے ڈیرہ غازی خاں ملتان، ہوشیار پور اور گورداسپور میں متعین ہوتے رہے اور ۱۶ اپریل ۱۹۳۴ء کو کلرک آف کورٹ کے عہدہ سے پنشن حاصل کی.آپ کے والد کی مذہب سے بے تعلقی آپ کے دیندار بننے کے متعلق ایک شخص کا رویا : آپ کے والد کو عقیدہ حنفی المشرب تھے.لیکن عملی زندگی میں ان کو مذہب سے زیادہ دلچسپی نہ تھی سوائے اس کے کہ عام متعارف اخلاق ان میں پائے جاتے تھے.مثلاً غریب پروری، صدقہ خیرات کرنا اور دوسروں کی ضرورت کے وقت کام آنا.ماحول مذہبی نہ تھا.اور ملک مولا بخش صاحب اس ماحول میں قرآن مجید * ملک مولا بخش صاحب نے میرے اصرار پر ۱۹۳۵ء میں اپنی سوانح تحریر کر کے مجھے دیئے تھے.چونکہ یہ خود نوشت تذکرہ کے رنگ میں تھے اس لئے میں نے اپنی طرف سے انہیں دوبارہ تحریر کر کے آپ کو دکھا دیا تھا.اور آپ نے خفیف اصلاحات بھی کر دی تھیں.آپ کا قلمی مسودہ اور یہ اصلاح شدہ مسودہ ہر دو میرے پاس محفوظ ہیں.یہاں جن حالات میں ماخذ کا ذکر نہیں وہ انہی دومسودات سے درج کئے گئے ہیں.آپ کے کچھ حالات آپ کے فرزند صو بیدار ملک سعید احمد صاحب بی.اے راولپنڈی کی طرف سے الفضل بابت ۲۰ نومبر ۱۹۴۹ء میں اور آپ کی صاحبزادی آمنہ بیگم صاحبہ کی طرف سے الرحمت جلد نمبر ۲ بابت ۲۸ نومبر ۱۹۴۹ء میں شائع ہوئے تھے.شجرہ آپ کے بیٹے ملک سعادت احمد صاحب جلد پشاور سے حاصل کیا گیا ہے.(مؤلف)
130 ناظرہ بھی نہ پڑھ سکے اور مذہب اور اخلاق کا خلاصہ صرف سچ بولنے مخلوق خدا کو تکلیف نہ دینے بلکہ آرام پہنچانے اور کسی کی حق تلفی نہ کرنے میں محدود خیال کرتے تھے.اور دیگر فرائض شرعیہ کی بجا آوری سے اپنے تئیں بری سمجھتے تھے.بظاہر ان حالات میں آپ کا مذہب کی طرف رجوع کرنا امر محال معلوم ہوتا تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی عجیب و غریب حکمت سے غیر معمولی حالات میں ملک صاحب کو مذہب اور اس کی روح کی طرف کشاں کشاں کھینچا.جب آپ پندرہ سال کی عمر کو پہنچے تو ایک رشتہ دار نے خواب میں آپ کو سبز لباس میں ملبوس ایک بلند مقام پر کھڑے دیکھا.مولوی ثناء اللہ امرتسری کے اُستاد مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری اہلحدیث نے اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ یہ لڑکا دیندار ہوگا.اس وقت تو یہ بات آئی گئی ہو گئی.لیکن جب آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں آنے اور آپ کی غلامی اختیار کرنے کا شرف حاصل ہوا تو آپ نے اس رشتہ دار کو اس کی مذکورہ خواب یاد دلائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کے لئے کہا.افسوس کہ وہ اس سعادت سے محروم رہا.بیعت سے پہلے بطور ارهاص خواب : غالبا ۱۸۹۸ء میں آپ نے ایک رویاء دیکھا جو آپ کی آئندہ حاصل ہو نیوالی سعادت و تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا تھا.آپ نے دیکھا کہ آپ امرتسر کے بڑے تالاب سنتوکھ سرنامی میں گر گئے ہیں.آپ تیرنا نہیں جانتے تھے.لیکن جان بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کئے اور تیرنے لگ پڑے.اور تیرتے ہوئے تالاب کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے.وہاں ایک شخص لوگوں کی آنکھوں میں سرمہ لگا رہا تھا.ملک صاحب نے اس سے لے کر اپنی آنکھوں میں سرمہ لگایا اور پھر تالاب میں پڑ کر ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے واپس اُسی کنارہ پر آگئے.آپ نے اس خواب کا ذکر صوفی غلام محمد صاحب امرتسری سے کیا اور ان کے کہنے پر اس کو حضرت مولوی نور الدین صاحب ( خلیفہ اصبح الاول ( رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تحریر کیا.حضرت مولوی صاحب کی طرف سے جواب آیا کہ آپ نماز کے بعد درود شریف استغفار اور لاحول پڑھا کریں.اور صوفی غلام محمد صاحب نے یہ اور ا د آپ کو لکھ کر بھی دیدئیے.لیکن ملک صاحب جن کو نماز کی ادائیگی سے ہی کوئی سروکار نہ تھا وہ اس وظیفہ کی طرف کیسے توجہ دیتے.آخر مرض سل میں مبتلاء ہو کر جس کا ذکر آگے آئے گا لوگوں کی گفتگو سے جو عموماً مذ ہی باتوں اور دعا صدقہ کے متعلق ہوتی تھی.آپ کو مذہبی امور سے کچھ دلچپسی ہوئی.اور آپ نے وعدہ کیا کہ صحت مند ہونے پر آپ نماز شروع کر دیں گے.جب اس موذی مرض سے شفایاب ہوئے تو آپ نے نماز سیکھ لی اور التزام کے ساتھ ادا کرنی شروع کر دی اس خواب میں جہاں بلغم یا پھیپھڑے کی بیماری کے لاحق
131 ہونے کی طرف اشارہ تھا وہاں یہ خواب اس کے نتیجہ میں نور ہدایت پانے کی طرف رہنمائی کرتی تھی.بیماری موجب ہدایت ہوئی: اگست ۱۸۹۹ء میں آپ مرض سل سے سخت بیمار ہوئے دایاں پھیپھڑا ماؤف ہونے سے کئی ماہ تک لازمی تپ لاحق رہا.لیکن باوجود ہر قسم کا علاج اور سہولت میسر آنے کے بیماری بڑھتی گئی اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا.کسی کے بتلانے پر آپ نے ڈاکٹر عباداللہ صاحب امرتسری * رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف رجوع کیا.چنانچہ بفضلہ تعالیٰ آپ کو بیماری سے شفاء ہوئی.لیکن کسی قدر کھانسی اور زکام لگارہتا تھا.جس ڈاکٹر کو دکھاتے وہ پھیپھڑوں کی تقویت کے لئے کا ڈلور آئل (Cod Liver Oil) یا اس قسم کی ادویہ دیتے.آپ کو اندیشہ رہتا تھا کہ اصل مرض سل تو نہ کبھی دور ہوتی ہے نہ ہوئی ہے.اسی اثناء میں ایک دفعہ آپ مولوی نور الدین صاحب (خلیفہ مسیح الاول ) رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بیماری کا حال سنایا اور یہ بھی کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ سل کا مرض لاعلاج ہے.اس پر حضور نے بڑے جوش سے فرمایا: بکواس کرتے ہیں.حکیموں کے بادشاہ نے فرمایا ہے کہ لِكُلِّ دَاءِ دَوَاء.آپ کو سوائے Dyspepsia ( یعنی بد ہضمی ) کے اور کوئی مرض نہیں.اور Ostrich Pepsin اور Pancreatic Emulsion استعمال کرنے کو کہا.ڈاکٹر عباداللہ صاحب نے پوچھا کہ اگر شتر مرغ کی پیپسین نہ ملے تو پھر؟ فرمایا پھر بھیڑ کی استعمال کر لیں.لاہور کے مشہور دوا فروش پلومر نے اطلاع دی کہ ہم نے اس دوائی کا نام کبھی کبھی نہیں سنا.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں نے تو مصر سے منگوا کر کئی دفعہ استعمال کی ہے.چنانچہ ملک صاحب نے بھیڑ کی پپسین اور دوسری دوائی استعمال کی جس سے کوئی دو ہفتہ میں جملہ شکایات رفع ہوگئیں.یہ بیماری بالآخر بمصداقے ہر بلا کیں قوم را حق داده اند زیر آن گنج کرم بنهاده اند روحانی زندگی کا موجب بن گئی.یوں کہ ڈاکٹر صاحب سے تعلق ہو جانے کی وجہ سے آپ نے اُن کے محلہ میں اپنی رہائش اختیار کر لی اور یہ علق بڑھ کر محبت واخوت کا رنگ اختیار کر گیا.اب آپ مرض سے شفایاب ہو چکے تھے.لیکن رخصت ابھی ۱۵ جون ۱۹۰۰ ء تک باقی تھی کہ ایک غیر احمدی نے آپ کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کی تحریک کی.جس پر آپ نے اپنی بڑی بھا وجہ سے قران مجید ناظرہ پڑھنا شروع کیا.اور پھر حافظ نذیر احمد صاحب دہلوی کا با محاورہ ترجمہ خود ہی پڑھ کر یاد کرنے لگے.اس کے لئے یہ * ڈاکٹر صاحب افریقہ میں فوت ہوئے تھے.آپ کا کتبہ بہشتی مقبرہ میں لگا ہوا ہے.(مؤلف)
132 طریق اختیار کیا کہ پہلے آپ اردو ترجمہ پڑھ لیتے پھر عربی.بہت سے الفاظ ایسے ہوتے جو اردو میں بھی ہوتے باقی الفاظ کا ترجمہ آپ یاد کر لیتے.اسی غیر احمدی کی تحریک پر کہ مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی قرآن مجید کا بہت عجیب درس دیتے ہیں آپ مسجد غزنویاں میں پہنچے.اس دن سورہ الکھف میں ذوالقرنین والے رکوع کا درس تھا.مولوی صاحب نے ایک حدیث بیان کی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہ فوج سے الگ ہوکر جنگل میں بھٹک گئے اور جب واپس آئے تو کہنے لگے کہ ہم نے سد سکندری دیکھی ہے.سیاہ رنگ کی تھی اور پٹکے کی طرح اس میں دھاریاں تھیں.اس پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا ہے.اس کے بعد مولوی صاحب نے کہا کہ یہ ( نعوذ باللہ ) مرزا کا فرکہتا ہے کہ یہ دیوار ملک چین میں ہے.کبھی کسی اور جگہ بتاتا ہے.اور اس نے چند نا واجب الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں کہے.جس سے ملک صاحب کو محض اس لئے نفرت پیدا ہو گئی کہ ان باتوں کا درس قرآن سے کوئی تعلق نہ تھا اور ایک غائب شخص کو خواہ مخواہ گالیاں دی جا رہی تھیں.اس درس میں شمولیت کا پہلا دن ہی آخری دن ثابت ہوا.اور آپ اس کے بعد کبھی اس درس میں شامل نہ ہوئے.چند دن کے بعد احمدیوں کی مسجد میں حافظ احمد اللہ صاحب نے قرآن مجید کا درس دینا شروع کیا جس میں شامل ہوتے رہے.اس کا آپ کی طبیعت پر اثر ہوا کہ احمدی قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر زیادہ معقولیت کے رنگ میں پیش کرتے ہیں.مطالعہ کتب سلسلہ پہلی بار زیارت قادیان: پھر آپ ڈاکٹر عباداللہ صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض کتب حاصل کر کے مطالعہ کرتے رہے.اس اثناء میں ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے احمدیوں کی مسجد میں خطبہ جمعہ پڑھا اور اس میں حضرت اقدس کی صداقت پر آیت استخلاف سے استدلال کیا جس سے ملک صاحب احمدیت کے اور قریب ہو گئے.چند روز بعد آپ نے کتاب شہادۃ القرآن پڑھی.جس میں حضور نے انہی آیات سے نہایت عمدہ طریق پر اپنی صداقت کا استدلال فرمایا ہے.آپ نے ایک رات میں دو دفعہ اس کتاب کو پڑھا اور اس کے مطالعہ سے آپ کے قلب صافی پر صداقت کا نور نازل ہو گیا اور آپ دل سے احمدیت کی سچائی کے قائل ہو گئے.دسمبر ۱۹۰۰ء کے جلسہ سالانہ پر ڈاکٹر صاحب نے آپ کو قادیان چلنے کی دعوت دی.لیکن ملک صاحب نے آمادگی کا اظہار نہ کیا.ڈاکٹر صاحب نے اگلے دن روانہ ہونا تھا کہ ملک صاحب نے بوقت صبح خواب دیکھا کہ پنڈت بیج ناتھ جو بیج ناتھ سکول امرتسر کے بانی اور آپ کے دوست تھے آپ سے پوچھتے ہیں کہ (حضرت ) مرزا صاحب کو کیا سمجھتے ہو.آپ نے جواب دیا کہ میں ان کو مسیح موعود اور مہدی معہود خیال کرتا ہوں.پھر خواب میں ہی
133 آپ گھر آئے اور والد صاحب سے کہا کہ میں تو قادیان کے جلسہ پر جاتا ہوں آپ بھی چلیں.انہوں نے کہا نسی جاؤ اسی تے بہن قبر وچ ہی جاواں گے.یعنی آپ جائیں ہم تو اب قبر میں ہی جائیں گے.یہ نظارہ دیکھنے کے بعد آپ نیند سے بیدار ہوئے.والد صاحب پاس کی چار پائی پر لیٹے تھے.انہوں نے حسب معمول پوچھا خیریت ہے؟ آپ نے فوراً کہا کہ میں تو جلسہ پر قادیان جاتا ہوں آپ بھی چلیں.انہوں نے کہا ”تسی جاؤ اسی نہیں جاندے، یعنی آپ جائیں ہم نہیں جاتے.گوانہوں نے قبر والی بات منہ سے تو نہ کہی مگر عملاً ایسا ہی ہو ا.اس کے بعد باوجود نو سال زندہ رہنے کے نہ قادیان جا سکے اور نہ ہی احمدیت کی طرف ان کا رجوع ہوا.پہلی اور دوسری بار زیارت حضرت مسیح موعود اور توفیق بیعت : ملک صاحب بیان کرتے ہیں کہ : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو میں نے پہلی بار اس وقت دیکھا جب حضور آتھم کے ( ساتھ ) مباحثہ کے لئے (۱۸۹۳ء میں) امرتسر تشریف لے گئے تھے.ان دنوں میاں نبی بخش صاحب رفوگر امرتسری مرحوم نے جو ہمارے ہمسایہ تھے (اور ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے ) حضور اور حضور کے خدام کی دعوت کی.چونکہ ہمارا گھر زیادہ وسیع تھا، اس لئے اس کے صحن میں حضور کو بٹھایا.یہ مکان جو ہم نے کرایہ پر لیا ہوا تھا کٹڑہ اہلو والیہ کو چہ شیخ کمال الدین کے اندر تھا اور ریاست کپورتھلہ کی ملکیت تھا.اس وقت میں نے اپنے کو ٹھے پر سے حضور کو دیکھا.گومیری عمر اس وقت چھوٹی تھی (اس لئے ) مجھے بہت خفیف سا یاد ہے.اس کے بعد دوسری دفعہ حضور کی زیارت اس وقت ہوئی جب میں دسمبر 1900ء میں قادیان آیا اور بیعت کی.بیعت کی توفیق پانا دسمبر ۱۹۰۰ء: جلسہ سالانہ ۱۹۰ء پر آپ قادیان آئے.آپ کے لئے یہ قادیان کی زیارت کا پہلا موقعہ تھا.آپ بیان فرماتے ہیں: ” میں ڈاکٹر عباداللہ صاحب کے ہمراہ قادیان چلا گیا.بیعت کرنے کا ابھی کوئی خاص ارادہ نہ تھا.جب لوگ بیعت کرنے لگے تو جس طرح کوئی پکڑ کر لے جاتا ہے میں بھیج کر چلا گیا اور بیعت کر لی.الحمد للہ علی ذالک.دسمبر ۱۹۰۰ ء کی غالباً ۲۷ یا ۲۸ تاریخ تھی.اس کا اعلان جنوری ۱۹۰۱ ء کے الحکم میں ہے.“ آپ کا نام فہرست بیعت کنندگان میں یوں مرقوم ہے: * * خطوط وحدانی کے الفاظ میری طرف سے ہیں.ملک صاحب نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ کسی وقت امرتسر والا مکان مذکور دکھاؤں گا.لیکن افسوس کہ تقسیم ملک اور بعد ازاں اُن کی وفات کی وجہ سے موقعہ ہاتھ سے نکل چکا ہے.(مؤلف)
134 " ۸ مولی بخش صاحب ( یعنی امرتسر کٹر جمیل سنگھ ) * بعض رشتہ داروں نے بیعت کرنے پر آپ کے متعلق افسوس کا اظہار کیا اور آپ کے والد صاحب سے علیحدگی میں آپ کے لامذہب ہو جانے پر اظہار ہمدردی کیا.مگر انہوں نے جواب میں کہا کہ میں اپنے بیٹے میں کوئی برائی نہیں دیکھتا.وہ پہلے سے اچھا ہے بلکہ مجھ سے بہتر مسلمان معلوم ہوتا ہے.ایسی ملازمت ہونے کی وجہ سے جہاں اکثر لوگوں کو کام پڑتا ہے آپ کو عوام سے بھی کوئی قابل ذکر تکلیف نہیں پہنچی.آپ کے نزدیک حضور کا مقام: حضور کے مقام کے متعلق آپ بیان کرتے تھے کہ : ” جب ( میں نے ) بیعت کی تو حضرت اقدس کو ایک صادق انسان سمجھ کر بیعت کی اور اس ایمان سے کی کہ جو کچھ حضوڑا اپنی حیثیت اور تعلق باللہ اور دعاوی کے متعلق فرماتے ہیں وہ سچ ہے.چند ہی ماہ بعد میرے اور میرے دوست میاں عزیز اللہ صاحب وکیل کے درمیان اس بارہ میں گفتگو شروع ہوگئی کہ حضرت اقدس کا مقام کیا ہے.اس وقت میرا استدلال یہ تھا کہ حضوڑ کا اور حضور کی جماعت کا مقام بمقابلہ مسلمانوں کے وہی ہے جو قوم یہود میں حضرت عیسی علیہ السلام نبی ناصری اور آپ کی جماعت کا تھا.بلکہ میں نے اس وقت ہی یہی کہا تھا کہ اس مماثلت سے معلوم ہوتا ہے کہ خواہ کسی طرح ہو ہمیں دیگر مسلمانوں سے بالکل ایک الگ جماعت بننا پڑے گا.اور ہمارے تعلقات ان سے وہی ہوں گے جو نصاری کے یہود سے ہوئے.میاں عزیز اللہ صاحب نے اب جماعت احمدیہ سے تعلق قطع کر رکھا ہے.لیکن چند سال ہوئے جب میں نے ان کو یہ بات یاد دلائی تو انہوں نے اس کی تصدیق کی.اس لئے جب اشتہار ایک غلطی کا ازالہ * ” نکلا تو مجھے اس پر کوئی تر در نہیں ہوا دو *** 66 نہ یہ کوئی غیر معمولی بات معلوم ہوئی.بلکہ میں نے اسے اپنے خیال کی واضح تائید سمجھا “ * الحکم جلد نمبرا ( صفحه ۱۶ کالم ۳) بابت ۱۰ جنوری ۱۹۰۱ء.لیکن صفحه ۱۵ مولا بخش صاحب امرتسر“ کی بیعت (الحکم جلد ۴ نمبر ۴۳ ( صفحه ۶ کالم ۳) بابت ۳۰ نومبر ۹۰اء والا اندراج ملک صاحب کی بیعت کا نہیں بلکہ کسی اور صاحب کا ہے.کیونکہ ملک صاحب کی بیعت ۷ یا ۲۸ دسمبر ۱۹۰۰ ء کی ہے.اور اس کا اندراج جنوری ۱۹۰۱ء کے پرچہ میں ہی ہونا ممکن تھا.(مؤلف) مصنفه ۵ نومبر ۱۹۰۱ء.(مؤلف) خطوط وحدانی کے الفاظ میری طرف سے زائد ہیں.(مؤلف) ***
135 آپ اس امر پر بہت اظہار تاسف کرتے تھے کہ باوجود یکہ امرتسر قادیان سے بالکل قریب تھا آپ بکثرت قادیان آ کر حضرت اقدس کی صحبت بابرکت سے مستفیض نہ ہو سکے.نو خیزی عمر بھی شاید اس کا باعث تھی.آپ قادیان چار پانچ دن کے لئے ایک بار عدالتوں میں ماہ تمبر میں تعطیلات ہونے پر اور دوسری بار جلسہ سالانہ پر آیا کرتے تھے.قادیان کے متعلق ملک صاحب کا رد کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تعبیر : ملک صاحب بیان کرتے تھے کہ جب ۱۹۰۰ء میں میں نے بیعت کی تو اس سے تھوڑا عرصہ بعد میں نے ایک عجیب رویا دیکھا کہ میں قادیان میں دوسری بار گیا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ قادیان اس وقت کے مطابق ایک چھوٹا سا قصبہ نہیں بلکہ ایک بڑا شہر بنا ہوا ہے اور مسجد اقصیٰ کے پاس جو ہندوؤں کا کنواں ہے وہ نہیں ہے.وہاں بڑا کھلا چوک ہے اور لوگوں کا ایک اجتماع ہے.میں نے دریافت کیا کہ یہاں کیا ہورہا ہے.تو ایک شخص نے کہا کہ ایک غیر احمدی نے حضرت صاحب کو چیلنج دیا تھا کہ اگر آپ سچے ہیں تو میرے مقابلہ میں لٹو گھمائیں.اگر آپ جیت گئے تو میں آپ کو سچا تسلیم کرلوں گا.اس نے یہ بھی کہا کہ (حضرت) مرزا صاحب نے اس کے مقابل پر لٹ گھمایا اور آپ لٹو گھمانے میں اس سے جیت گئے.مجھے تعجب ہوا کہ گجا دعویٰ مسیح موعود اور گجا لٹو گھمانا.چنانچہ میں بھی بھیٹر کو چیرتا ہوا آگے بڑھا تا کہ دیکھوں کہ کیا واقعی حضرت صاحب لٹو گھماتے ہیں.میرے اس اجتماع میں داخل ہوتے ہی ایک شخص مجمع میں سے یہ کہتے ہوئے حلقہ کے اندر گیا کہ اودے والا لاٹو جت لیا سی.آکھاں میرے نال چھڑے.یعنی اس کا لٹو ہی تم نے جیت لیا تھا آ میرے مقابلہ میں لٹ گھما کر دیکھ.اس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ بھی آجائیں.چنانچہ اس شخص نے تو اپنے لٹو پر الٹی جالی لپیٹی اور حضرت صاحب نے سیدھی (اس طرح اس کھیل میں مبتدی کرتے ہیں ) اور ہر دو نے لٹو چھوڑ دیئے.اس نے تو راؤنڈ بال (Round Ball) کی طرح زور سے لٹو چھوڑا.اور حضرت صاحب نے انڈر بال Under Ball) کی طرح بالکل آہستہ سے اپنا لٹو چھوڑا.اس کا لٹو بہت زور سے گھوم رہا تھا اور حضرت صاحب والے کی رفتار بالکل ست تھی.بظاہر کوئی مقابلہ نہ تھا.چنانچہ میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کا لٹولڑ کھڑا کر گرنے کے قریب ہوا اور دوسراز ور پر تھا.اتنے میں حضرت صاحب اس کے لٹو پر جھکے اور اس کو تین پھونکیں ماریں جن سے وہ لٹ ہلکا ہو کر بالکل گر گیا.اور حضور کا چلتا رہا.حضور نے اس پر دونوں لٹو اُٹھا کر اپنی جیبوں میں ڈال لئے.مجھے یہ خواب دیکھ کر شرم سی آئی کہ یہ تو بچوں کی سی باتیں ہیں، حضور سے ان کو کیا نسبت؟ یہ میرے ہی خیال ہیں.میں نے اس کا ذکر اپنے دوست صوفی غلام محمد صاحب ( والد صوفی عبدالرحمن صاحب.صوفی عبدالرحیم صاحب ملازم ریلوے وصوفی غلام اللہ صاحب) سے کیا تو انہوں نے
136 مجھے مشورہ دیا کہ یہ رویا حضرت اقدس کی خدمت میں لکھ دوں.مجھے شرم تو محسوس ہوتی تھی لیکن لکھ دیا.حضور کا جواب آیا کہ آپ کی خواب رویا صالحہ ہے.لٹو سے مراد دنیا کے دور ہیں.اس سے مراد یہ ہے کہ ابتداء میں مخالفوں کے دور زوروں پر ہونگے مگر انجام کار اللہ تعالیٰ ہم کو فتح دے گا.ملک صاحب بیان کرتے تھے کہ یہ خواب جس طرح پوری ہوئی، جس طرح قادیان کا قصبہ بڑھا.یہ سب کو معلوم ہے اور لطف یہ ہے کہ مجھے اب بحیثیت پریذیڈنٹ ٹاؤن کمیٹی قادیان اس کام سے خاص تعلق ہے.شاید یہ خواب اسی لئے مجھے دکھائی گئی.اور حدیث شریف میں ذکر آتا ہے کہ مسیح موعود کی پھونکوں سے کفار مریں گے اس سے مراد آپ کی دعائیں ہی تھیں.اور خواب میں پھونک سے مراد بھی دعا ہی ہوتی ہے.اور آخری سالوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مباحثات کا طریق بالکل بند کر دیا تھا.اور فرمایا تھا کہ اب ہم دعا سے کام لیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال: * ملک صاحب بیان کرتے تھے کہ : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے ( رنجدہ سانحہ ) کی خبر میرے ایک چچا صاحب نے مجھے اس وقت دی جب میں عدالت مطالبہ خفیفہ امرتسر میں ایک عرضی دعوی کا انگریزی ترجمہ کر رہا تھا.اس وقت ( اس المناک خبر کے سنتے ہی مجھے اس قدر شدید صدمہ ہوا کہ ) گو چندلمحوں کے لئے ہی ایسا ہوا مگر میری نظر بالکل جاتی رہی اور سامنے پڑے ہوئے کاغذ کے حروف نظر نہ آتے تھے.دوسرے روز ہم بمعہ ڈاکٹر عباداللہ صاحب اور وسرے دوستوں کے صبح کی گاڑی سے بٹالہ اور وہاں سے یکہ پر قادیان گئے.وہاں حضور کے چہرہ کو جو اس وقت بھی نورانی تھا دیکھا.انتخاب خلافتِ اولی ہو ا.اور پہلے جن لوگوں نے بیعت کی ان میں میں نے بھی خلافت اولیٰ کی بیعت کا شرف حاصل کیا.اس سے اگلے جمعہ کو مجھے یہ توفیق ملی کہ میں نے پہلی دفعہ تقریر کی.اور جماعت کو سمجھایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو کہتے تھے (کہ) رسول اللہ (صلعم) فوت نہیں ہوئے اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ انہیں مرنے والا نہ سمجھتے تھے بلکہ بعض پیشگوئیاں تھیں.جو حسب خیال پوری نہ ہوئی تھیں.یہاں بھی یہی حال ہے.اور اُسی طرح پوری ہوں گی.خطوط وحدانی والے الفاظ میری طرف سے ہیں.(مؤلف) *56
137 بیعت خلافت ثانیه : خلافت اولیٰ کے آخری ایام میں سلسلہ خلافت کو آئندہ کے لئے ایک قلم موقوف کرنے کے لئے ایک طبقہ سر توڑ کوشش کر رہا تھا ان دنوں حضرت خلیفہ مسیح الاول اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بے بنیاد الزامات کی تشہیر کی گئی.احباب اس وقت کے حالات کا کچھ اندازہ اس وقت کے اخبارات اور رسائل خلافت احمدیہ ضمیمہ خلافت احمدیہ اور اظہار حقیقت کے مطالعہ سے لگا سکتے ہیں کہ جماعت میں کس قدر زلزلہ عظیمہ برپا کیا گیا تھا.جس کے نتیجہ میں جماعت کا ایک حصہ ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گیا.خلافتِ اولی کے قیام اور اپنی بیعت کے ذکر کے بعد ملک صاحب قیام خلافت ثانیہ پر اپنی بیعت کا واقعہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ بیعت خلافت ثانیہ کا معاملہ البتہ مختلف ہے.حضرت خلیفہ اول کی وفات سے ایک روز پہلے میں قادیان گیا اور حضرت خلیفہ اول کو بے ہوشی کی حالت میں دیکھا اور وہاں سے امرتسر چلا گیا.دوسرے دن جب میں گورداسپور جار ہا تھا.کیونکہ ان دنوں میں وہاں سیشن کورٹ میں کلرک آف کورٹ تھا تو بٹالہ ریلوے سٹیشن پر ایک ہندو یکہ بان نے مجھے اطلاع دی کہ مولوی صاحب فوت ہو گئے.اگر چہ تجہیز و تکفین ابھی نہ ہوئی تھی.مگر مجھے ( یہ ) خیال تھا کہ خلافت پر کچھ جھگڑا ہوگا.اس لئے میں اس خیال سے اس وقت قادیان نہ گیا کہ معلوم نہیں وہاں کیا فیصلہ ہو.ایسا نہ ہو (کہ) میں کسی وقتی رو میں بہہ جاؤں اور پھر مشکل ہو.خیال یہ کیا کہ بعد میں غور کر کے جو پہلو مناسب ہوگا اختیار کر لیا جاوے گا.گورداسپور پہنچا تو مولوی محمد علی صاحب کا وہ ٹریکٹ جو انہوں نے خلافت کے خلاف لکھا تھا بذریعہ ڈاک آیا ہو ا تھا.معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے سے تیار تھا اور جو نہی حضرت خلیفہ اول کی وفات کی تار (لا ہور ) پہنچی اسے سُپر د ڈاک کر دیا گیا.اس کے بعد الفضل اور پیغام صلح میں خلافت کے متعلق بحث شروع رہی.اور میں قریباً دو ماہ تک ہر دو پرچوں کو دیکھتا رہا مگر کوئی فیصلہ نہ کر سکا.لیکن جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو خود ہی سامان پیدا کر دیتا ہے.امرتسر میں انجمن ترقی تعلیم کا جلسہ ہو ا.اس میں مولوی محمد علی صاحب بھی......آئے میں ان کو شیخ محمد عمر صاحب بیرسٹر ایٹ لاء کے مکان پر جا کر ملا.وہ میرے پہلے ( سے ) اچھے واقف تھے ان سے ذیل کی گفتگو ہوئی.
138 مولوی صاحب آپ نے بیعت خلافت کر لی؟ ملک صاحب: ابھی نہیں.مولوی صاحب آپ کے دوستوں ( ڈاکٹر عباد اللہ صاحب.سردار فضل حق صاحب وغیرہ) نے تو کر لی ہے.ملک صاحب: میں نے ابھی نہیں کی.مولوی صاحب پھر ہماری طرف آجاؤ.ملک صاحب: ابھی یہ بھی فیصلہ نہیں کیا.مولوی صاحب آپ چندہ کہاں دیتے ہیں؟ ملک صاحب جہاں پہلے دیتا تھا ( قادیان ) مولوی صاحب پھر ہمیں بھی دیا کرو.ملک صاحب: بہت اچھا.ملک صاحب سناتے تھے کہ اتفاق ایسا ہوا کہ جلسہ کے بعد مولوی محمد علی صاحب بٹالہ جارہے تھے اور میں گورداسپور.اور ہم گاڑی میں ایک ہی ڈبہ میں سوار ہوئے.وہاں بھی اسبارہ میں گفتگو ہوئی جو درج ذیل ہے.ملک صاحب: آپ بھی چاہتے ہیں نا کہ صدر انجمن کا فیصلہ جماعت کے امور میں واجب الاتباع ہو؟ مولوی صاحب ہاں.ملک صاحب: صدر انجمن کے ممبران کی کثرت نے تو ( حضرت ) میاں صاحب کی بیعت کر کے اپنے فیصلہ کا عملاً اعلان کر دیا اب آپ کو کیا عذر ہے؟ مولوی صاحب یہ معاملہ با قاعدہ صدرانجمن میں پیش نہیں ہوا.ملک صاحب اس کا تو یہ ( سہل ) علاج ہے کہ آپ دوبارہ پیش کرالیں.مگر کیا آپ توقع رکھتے ہیں کہ اب مبائع ممبر کچھ اور رائے دیں گے.؟ مولوی صاحب نہیں.ملک صاحب: پھر آپ کے ہاتھ میں کیا رہا؟ مولوی صاحب اب وہ انجمن انجمن نہیں رہی.
139 ملک صاحب: کیوں؟ مولوی صاحب صدر انجمن ایک خود مختار ہستی رکھنے والا ادارہ تھا مگر اس انجمن نے یہ ریزولیوشن پاس کر دیا ہے کہ خلیفہ صاحب ان کے فیصلہ کوتوڑ سکتے ہیں.ملک صاحب: حضرت مسیح موعود کیا تو ڑ سکتے تھے یا نہیں؟ مولوی صاحب وہ تو سلسلہ کے مالک تھے جو چاہتے کر سکتے تھے.ملک صاحب: کیا حضرت خلیفہ اوّل توڑ سکتے تھے؟ مولوی صاحب نہیں.ملک صاحب: کیا انہوں نے عملاً کبھی ایسا کیا ؟ مولوی صاحب دو تین دفعہ ملک صاحب: پھر آپ نے کیا کیا ؟ مولوی صاحب ہم خاموش رہے اور وہ بات برداشت کر لی.ملک صاحب: کیوں؟ مولوی صاحب ( حضرت ) مولوی صاحب ( خلیفہ اول) کی شخصیت کو رُعب غالب تھا.ملک صاحب یہ دین کا معاملہ تھا.سب کام تو آپ نے خود ایسے طریق پر کئے جس سے آپ کے خلاف نتیجہ نکلتا ہے.اس اختلاف کو مٹانے کی بھی کوئی صورت ہے؟ مولوی صاحب نہیں.ایسے مواقعہ پر سوائے Split ( جماعت کے دو ٹکڑے ہو جانے) کے کوئی چارہ نہیں.ملک صاحب: یہ بات بہت مایوس کن ہے..اور بھی بہت سی باتیں ہوئیں جو سلسلہ کے کسی اخبار میں شائع ہو چکی ہیں الغرض اس ملاقات کا اثر یہ ہوا کہ لاہور کی جماعت میں شامل ہونے کا خیال آپ کے دل سے نکل گیا.اب صرف ایک ذراسی تحریک کی کسر باقی تھی جو آپ کو قادیان پہنچا دے.چنانچہ آپ بیان کرتے تھے کہ : (انہی دنوں) میں نے حضرت خلیفہ اول کو خواب میں دیکھا کہ وہ ایک سبز گھاس کے میدان میں ایک باغ میں تکیہ لگائے بیٹھے ہیں اور بیمار سے معلوم ہوتے ہیں.(آپ نے ) مجھے مخاطب کر کے ایک (ایسی ) عجیب عبارت بولی جیسی...میں نے نہ کبھی بولی نہ
140 لکھی نہ سنی تھی.فرمایا ”انا نے سانپ کو بڑھاپے نے جوانی کو مار ڈالا.تم بھی ایک میں اپنے اختلافات کو مار ڈالو.* بیدار ہوا تو مجھے یقین تھا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ بیعت خلافت کرلو.چنانچہ میں نے پہلے جلدی ہی ( بیعت کا ) خط لکھ دیا اور پھر بعد میں دستی بیعت بھی کی.لاہور کے جلسہ (سالانہ) کی تاریخ ابتدا ء ایک دن پہلے تھی.اس لئے پہلے دن میں نے لاہور کا جلسہ دیکھا اور پھر قادیان چلا گیا.خواجہ کمال الدین صاحب نے جو بوقت وفات حضرت خلیفہ اول ولایت میں تھے واپس آچکے تھے.انہوں نے مجھے سٹیج پر بلا کر معانقہ کیا اور کہا کہ یہ کیا ہورہا ہے.میں نے کہا (کہ) یہ تو آپ بڑے لوگ ہی جانیں.چونکہ وہ ( بھی ) کشمیری تھے اور میں بھی کشمیری.......(اسے مدنظر رکھ کر) انہوں نے کہا اچھا خیر ہے چاول رگڑ رگڑ کر ہی سفید نکلتے ہیں.“ ملک صاحب سے میاں اللہ بخش صاحب احمدی کلاه فروش امر تسر نے بعد میں دریافت کیا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ نے لاہور اور قادیان دونوں جلسے دیکھتے ہیں.آپ نے کہا کہ لاہور میں محض منطق اور دلائل بلا روحانیت ہیں اور قادیان میں روحانیت بھی ہے.انہوں نے اس کا ذکر مولوی یار محمد صاحب مختار سکنه نور پور مدعی خلافت سے کیا تو انہوں نے جھٹ مجھے اپنے الہامات اور دلائل پر مشتمل اک پلندہ بھیج دیا اور مطالبہ کیا کہ قادیان میں جو روحانیت دیکھی ہے.انہیں بتلاؤں چونکہ ان کے دماغ میں نقص تھا اس لئے میں نے جواب نہ دیا.ماسٹر عبدالحق صاحب عیسائی کی بیعت : ملک صاحب بیان کرتے تھے کہ : غالبا ۱۹۰۲ء کی بات ہے کہ ایک عیسائی گریجوایٹ ماسٹر عبدالحق نام قادیان تشریف لائے.وہ کئی سوالات لکھ کر لائے ہوئے تھے.ابھی اُنہوں نے غالباً تثلیث کے متعلق ہی سوال کیا اور کہا تھا مناظر قدرت مثلاً درخت اور اس کی ٹہنیاں انسان کا بدن اور پھیلائے ہوئے ہاتھ اس پر گواہ ہیں.اس پر سیر میں حضور نے تقریر فرمائی جو غالباً تین دن جاری رہی.یہ تقریر اخبار الحکم میں چھپ چکی ہے.مگر جو بات میں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں.وہ یہ ہے کہ جب ہم نے ماسٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ کا تقریر کے متعلق کیا خیال ہے.تو * ملک صاحب فرماتے تھے کہ اپنے اختلافات کو“ کے الفاظ مفہوم ہیں باقی کے حضور کے فرمودہ الفاظ ہی ہیں میں سارے بیان میں سوائے خط کشیدہ کے باقی خطوط وحدانی کے الفاظ مؤلف کی طرف سے ہیں.(مؤلف)
141 انہوں نے کہا کہ مجھے بتلایا گیا تھا کہ اگر کوئی (حضرت ) مرزا صاحب سے کچھ باتیں دریافت کرنے کے ارادہ سے ان کے پاس جاوے تو گفتگو کے شروع ہوتے ہی ( حضرت ) مرزا صاحب ایسی تقریر کرتے ہیں کہ اس کے تمام مجوزہ اعتراضات کا جواب اس میں آجاتا ہے.میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا.میں نے کئی اعتراضات لکھے ہوئے تھے.مگر میں نے ابھی ایک ہی سوال کیا تھا کہ حضرت مرزا صاحب نے سب کا جواب دے دیا.اس کے بعد وہ مسلمان ہو گئے اور بہت دیر مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں بطور ٹیچر رہے.انہوں نے جب بیعت کرنا چاہی تو یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ حضور ایک عیسائی کی کس طرح بیعت لیں گے.چنانچہ حضور نے اُسے پہلے صرف کلمہ شہادت پڑھایا اور مسلمان کرنے کے بعد بیعت لی* اقتراحی معجزہ سنت انبیاء کے خلاف ہے: ملک صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک صاحب عبدالحی عرب قادیان میں بہر بہت دیر رہے تھے.انہوں نے ایک دن مجھے امرتسر میں بتایا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عربی تصنیف غالباً التبلیغ جو آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ چھپی ہوئی ہے.پڑھی * (۱) خطوط وحدانی میں الفاظ میری طرف سے ہیں.(ب) مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی درویش اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ میرے سامنے کا واقعہ ہے.(ج) اس کی تصدیق روایت نمبر ۷۳۵ مندرجہ سیرۃ المہدی حصہ سوم نیز فنی عبدالحق صاحب طالب علم بی.اے مشن کالج لاہور کے اپنے مخط سے ہوتی ہے جس کا اقتباس درج ذیل ہے: اسی اثناء میں قادیان سے میرے خط کا جواب جو خاص حضرت اقدس مرزا صاحب کے دست مبارک سے لکھا ہوا تھا مجھے پہنچا.میں نے لاہور چھوڑنے سے پہلے دل میں وعدہ کیا تھا کہ میں صرف دلائل ہی نہیں، بلکہ کوئی آسمانی نشان دیکھ کر اپنے موجودہ مذہب کو ترک کرونگا.میں بخیر و عافیت بتاریخ ۲۳ دسمبر ۱۹۰۱ء بوقت ظہر منزل مقصود پر پہنچ گیا...ایک دن میں نے آزمائش کے طور پر پانچ سوالات لکھے اور دل میں سوچا کہ اگر مرزا صاحب میرے پوچھنے سے پہلے ان کے جوابات دیدیں تو ضرور خیال کرونگا کہ وہ مامور من اللہ ہیں.چنانچہ دوسرے دن مرز اصاحب نے پیشتر اس کے کہ میں کچھ کہوں پانچوں سوالات کے جوابات پورے طور پر اثنائے تقریر میں ادا کر دئیے.بس میں نے سمجھ لیا بلکہ یقین کر لیا کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں.چنانچہ میں نے بروز جمعہ ۲۷ دسمبر ۹۰ ایران کے دست مبارک پر بیعت کی.“ الحکم جلد ۶ نمبر صفحہ کے بابت ۱۰ جنوری ۱۹۰۲ء) (1) تفصیلی گفتگو دیکھنے کے لئے احباب الحکم کے ذیل کے پرچوں کی طرف رجوع فرما ئیں.جلد نمبر۲ صفحہ۲تا۶ نمبر۳ صفی ۴۳ نمبر صفحہ ۳ تا ۵ نمبر ۶ صفحه ۳ تا ۵ نمبر۷ صفحه ۳ تا ۵ - (مؤلف)
142 تو وہ عربی پڑھ کر میں نے کہا کہ ایسی فصیح عربی تو (ایک) عرب بھی نہیں لکھ سکتا.چہ جائیکہ ایک مجھی لکھے.اگر یہ عربی حضرت مرزا صاحب کی ہی لکھی ہوئی ہے تو وہ ضرور مامور من اللہ ہیں (اور ) کہا کہ ) میں اس امر کی تحقیق کیلئے قادیان آیا اور حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ کیا یہ آپ کی لکھی ہوئی کتاب ہے؟ فرمایا ہاں.اللہ کے فضل سے میں نے ہی لکھی ہے.میں نے کہا کہ اگر آپ ایسی عربی مجھے لکھ کر دکھلا دیں تو میں آپ کو صادق مامورمن اللہ تسلیم کر لیتا ہوں.اللہ ! اللہ ! حضور نے کیا پاک جواب دیا.اگر کوئی غیر مامور ہوتا تو جھٹ لکھنے بیٹھ جاتا.حضور نے جواب دیا ( کہ یہ جو آپ طلب کرتے ہیں یہ ایک اقتراحی معجزہ ہے.جو سنت انبیاء کے خلاف ہے.میں ایسا نہیں کر سکتا.میں تو تب ہی لکھتا ہوں جب میرا خدا مجھ سے لکھواتا ہے.پھر عرب صاحب نے مہمان خانہ میں بیٹھ کر ایک عربی خط لکھ کر حضور سے چند باتیں پوچھیں حضور نے عربی میں جواب دیا تو عرب صاحب کی تسلی ہوگئی اور بیعت کر لی.حضور کی شعر گوئی اور تذکرۃ الشھادتین کی فارسی نظم : ملک صاحب بیان کرتے تھے.اسی قسم کی ایک اور مثال مجھے یاد ہے.اور وہ یہ کہ جب صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے کابل میں سنگسار ہونے کے فوراً بعد ہم قادیان گئے تو بعد مغرب کی مجلس میں اس کا تذکرہ تھا.غالباً ( مکرم سید ) احمد نور صاحب کابلی (افغانستان سے) آئے تھے اور اُنہوں نے حالات سنائے تھے.حضور کو سخت صدمہ تھا.حضور نے ارادہ ظاہر فرمایا کہ ہم اس کے متعلق ایک کتاب لکھیں گے.مجھے چونکہ حضور کے فارسی اشعار سے بہت محبت ہے، میں نے عرض کیا حضور ! کچھ فارسی اشعار بھی ہوں.حضور نے جھٹ فرمایا ”نہیں ہمارا مضمون سادہ ہوگا.لیکن جب کتاب تذکرۃ الشہادتین شائع ہوئی تو اس میں ایک لمبی پُر درد فارسی نظم تھی.مجھے اس وقت خیال آیا کہ ( یہ ) کیسے پاک لوگ ہیں اپنے ارادہ سے نہیں بلکہ مسیح ربانی تحریک کے ماتحت کام کرتے ہیں.ورنہ ان * کو شعر گوئی سے کوئی نسبت نہیں“.خطوط وحدانی والے الفاظ میری طرف سے ہیں.(مؤلف) (الف) خطوط وحدانی کے الفاظ میری طرف سے ہیں.(باقی اگلے صفحہ پر )
143 حضور کا لوگوں کی طول طویل باتیں بغیر ملال کے سُننا: ملک صاحب بیان کرتے تھے.ایک صاحب میاں جان محمد نام ہمارے گھر کے سامنے امرتسر میں رہتے تھے وہ بہت باتونی تھے.حضرت اقدس کی کتاب سُرمہ چشم آریہ کے عملاً حافظ تھے اور باوجود ان پڑھ ہونے کے آریوں سے خوب بحث کیا کرتے تھے.ان کو مراق کی مرض ہو گئی.جو بھی ملتا اس کو اپنی مرض کے لمبے ( چوڑے ) حالات سُناتے تھے.لوگ تنگ آجاتے اور ان کی باتیں سننے سے گریز کرتے ان کو کسی نے کہا تم قادیان جاؤ اور ( حضرت ) مولوی حکیم نور الدین صاحب سے علاج کرواؤ.انہوں نے کہا کہ وہ بڑے آدمی ہیں میری داستان کب سُنیں گے؟ اس شخص نے کہا نہیں وہ بڑے با اخلاق انسان ہیں ضرور تمہاری باتیں سنیں گے.چنانچہ وہ صاحب قادیان آگئے.اتفاق ایسا ہوا کہ جب وہ یکے سے جا کر اُترے (تو) اسی وقت حضرت اقدس بمعہ خدام سیر سے واپس تشریف لا رہے تھے.یکہ والے نے کہا وہ (حضرت ) مرزا صاحب آ رہے ہیں پھر کیا تھا وہ صاحب یکہ سے اُترے اور سیدھے جا کر مصافحہ کیا اور اپنی بیماری کا حال اپنی مراقی حالت میں سنانا شروع کیا.داستان اس قدرلمبی ہوگئی کہ سب لوگ تنگ آگئے مگر حضرت اقدس آرام سے کھڑے ان کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے سب کچھ سنتے رہے.آخر کار میاں جان محمد صاحب نے خود ہی کہا کہ اب میرا منہ خشک ہو گیا ہے.اس پر حضور نے فرمایا بہت اچھا آپ مہمان خانہ میں جاویں اور کچھ کھاویں پئیں.اور پھر مولوی صاحب ( مراد حضرت حکیم نور الدین صاحب کو حالات سُنا کر ان سے دوائی لیں.چنانچہ یہ صاحب تازہ دم ہوکر ( حضرت ) مولوی ( نور الدین صاحب) کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور وہی داستان طویل شروع کر دی ( حضرت ) مولوی صاحب نے جھٹ نسخہ لکھ کر دے دیا اور کہا مجھے آپ کی مرض معلوم ہے اور اس کی داستان نہ سنی.انہوں نے نسخہ تو لے لیا مگر کہا کہ کہتے تو تھے کہ مولوی نور الدین صاحب بڑے با اخلاق ہیں مگر حضرت مرزا صاحب کے اخلاق سے ان کو کیا نسبت؟ اس کا ان پر اس قدر اثر ہوا کہ انہوں نے بیعت کر لی.یہ واقعہ ان کی موجودگی میں ڈاکٹر عباداللہ بقیه حاشیه : (ب) معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکرم سید احمد نور صاحب کے قادیان میں آمد سے پہلے کا ہے کیونکہ ملک صاحب بیان کرتے ہیں کہ شہادت کے فوراً بعد آپ قادیان گئے اور فوراً بعد سید صاحب قادیان نہیں آئے بلکہ خوست سے ۸ نومبر ۱۹۰۳ء کو پہنچے ( تذکرۃ الشہادتین صفحہ ۱۸) اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ چاہتے تھے یہ کتاب گورداسپور مقدمہ پر ۱۶ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو جانے تک مکمل ہو جائے (صفحہ ۷۳۷۲) چنانچہ صفحہ ۷۸ کے آخر پر یہی تاریخ تصنیف درج ہے اور یہ فارسی نظم صفحہ ۵۸ تا ۶۰ پر درج ہے.اس لئے لازماً سید صاحب کی آمد سے قبل ملک صاحب قادیان گئے ہونگے.(مؤلف)
**6 144 صاحب مرحوم نے مجھے سنایا تھا اور انہوں نے تصدیق کیا تھا.* فیصلہ اپیل بمقدمه کرم دین : ملک صاحب فرماتے تھے: * ** جب کرم دین تھیں والے نے حضور پر گورداسپور میں کتاب مواهب الرحمن کی تحریر کی بناء پر دعوی ہتک عزت کیا ہو اتھا.تو حضور نے ایک الہام شائع کیا تھا ” والعاقبة للمتقين.اور تشریح یہ فرمائی تھی کہ یہ گورداسپور کے مقدمات کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انجام کار ہم کو فتح دے گا.لیکن اس مقدمہ میں ہندو مجسٹریٹ نے حضور کو پانصد روپیہ جرمانہ کی سزا دے دی.وہ جرمانہ تو خیر اسی وقت ادا ہو گیا.مگر اس کے جلد ہی بعد حضور کو ایک اور فوجداری مقدمہ میں جو جہلم میں حضور کے خلاف دائر تھا جہلم جانا پڑا.امرتسر کے سٹیشن پر ہم حضور کو ملنے گئے.میاں عزیز اللہ صاحب وکیل نے حضورڑ کو کہا کہ لوگ ہمیں بہت تنگ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ( کہ ) مقدمہ میں بربیت نہ ہوئی سزا ہوگئی الہام غلط ہو گئے.اس پر حضور نے نہایت بے تکلفی سے مگر ایک ایسی معصوم آواز سے جو اس وقت سے اس وقت تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے اور وہ انداز ایک وجد کی کیفیت پیدا کرتا ہے اس قدر فرمایا.یہ شتابکار لوگ ہیں ان کو انجام دیکھنا چاہئے.کہنے کو یہ چند لفظ تھے مگر مجھ پر جو ان کا اثر ہے وہ بس میرا دل ہی جانتا ہے.اس کیفیت کو بیان کرنے کو الفاظ کافی نہیں ہو سکتے.مقدمہ مندرجہ بالا کا جب اپیل سیشن کورٹ امرتسر میں ہوا اس وقت مسٹر اے.ای ہری صاحب..A.E.Hurry) امرتسر کے سیشن جج تھے.انہوں نے تاریخ پیشی سے پہلے مسل کو سُنا اور اس میں سے کتاب مواہب الرحمن کے متنازعہ حصہ اور حضرت اقدس اور مولوی کرم دین صاحب کے بیانات کا ترجمہ کرنے کا حکم دیا.اور یہ بھی خاص طور پر حکم دیا کہ اس اپیل میں مولوی کرم دین مستغیث کو بھی نوٹس حاضری دیا جاوے.خطوط وحدانی والے الفاظ میری طرف سے ہیں.(مؤلف) ** 6 مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ ( سابق امیر جماعت ہائے گورداسپور حال پبلک پراسیکیوٹر سرگودھا) بیان فرماتے ہیں کہ ملک مولا بخش صاحب کرم دین بھیں والے کی اپیل کا واقعہ ہمیشہ بڑا مزہ لے کر سنایا کرتے تھے.اس وقت وہ سیشن جج امرتسر ( جوان دنوں ڈویژنل جج امرتسر کہلاتا تھا اور گورداسپور اس کے اختیار سماعت میں تھا) کے ریڈر تھے.(مؤلف)
145 ”یہ ترجمہ کرنے کی خدمت میرے سپرد ہوئی کیونکہ وہاں اُن دنوں نائب مترجم تھا.حضرت اقدس کے بیانات میں ایک ایمان افزا ایمانی رنگ پایا جاتا تھا.مگر خاص لطف مجھ کو کتاب مواہب الرحمن کے حصہ متنازعہ کا ترجمہ کرنے میں آیا.اس میں حضور نے اپنی ایک رویا کا ذکر کیا تھا کہ میں نے دیکھا کہ مجھے ماخوذین یعنی ملزموں کی طرح ایک عدالت میں حاضر کیا گیا ہے.اور میرا انجام کا رنجات ہے اگر چہ ایک وقت کے بعد.چنانچہ لفظ یہ تھے و ان آخرأ مرى نجاة ولو بعد حين اب اس میں بعد حین کا لفظ عجیب تھا.حین کے معنی وقت اور موقعہ دونوں ہو سکتے ہیں.مگر ایسا تو کوئی مقدمہ نہیں ہوتا جس پر وقت صرف نہ ہوتا ہو.مطلب صاف تھا کہ پہلے موقعہ پر نہیں.یعنی پہلی عدالت سے نجات نہیں ہوگی.بلکہ اس موقعہ کے بعد اپیل میں نجات ہوگی.جب میں نے یہ ترجمہ کیا تو میری توجہ ان معنوں کی طرف مبذول ہوئی.اور میں نے تو یقین کر لیا کہ اپیل منظور ہو جاوے گی.جب اپیل کا دن آیا تو حضور کی طرف سے ایک انگریز وکیل لاہور سے آیا ہو اتھا.خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب بھی بحیثیت وکلاء حاضر تھے.مولوی کرم دین صاحب بھی حاضر تھے اور غالباً سرکاری وکیل اور ان کا وکیل بھی تھا.مگر وہاں کسی بحث کا سوال ہی پیدا نہ ہوا.جج صاحب نے چھٹتے ہی مولوی کرم دین صاحب سے پوچھا کہ آپ کو یہ شکایت ہے کہ مرزا صاحب نے آپ کو جھوٹا کہا (ہے) انہوں نے کہا ہاں.پھر ان کا بیان سُنا کر کہا کہ یہ سچ تھا اور جھوٹ نہیں تھا اب وہ بیان تو مستلماً جھوٹا تھا اس لئے مولوی صاحب یہ تو نہ کہہ سکے کہ سچ تھا.مگر یہ کہا.نہیں حضور ! یہ جھوٹ نہیں اس کو پالیسی کہتے ہیں.اس طرح جھوٹوں اور چوروں کو پکڑنے کو کیا جاتا ہے.جج صاحب نے کہا میں تو یہ پوچھتا ہوں کیا یہ سچ تھا ؟ مولوی صاحب نے پھر کہا کہ نہ حضور ! یہ جھوٹ نہیں ایسا جھوٹ گورنمنٹ بھی بولتی ہے پولوس نے بھی بولا مسیح نے بھی بولا.جج صاحب نے کہا میں ( یہ ) نہیں پوچھتا کہ کس کس نے بولا.سوال یہ ہے کہ خدا کے نزدیک یہ جھوٹ تھا یا سچ تھا؟ مولوی صاحب سٹ پٹائے اور جواب دینے سے پہلو بچانا چاہا.مگر جج صاحب نے کہا آپ گواہ کے کٹہرے Witness Box) میں آ جاویں.آپ کا حلفیہ بیان لیا جاوے گا.مولوی صاحب گواہ کے کٹہرے Witness Box) میں جانا نہیں چاہتے تھے.مگر حج
146 * صاحب نے ڈانٹ کر کہا ادھر آنا ہے حلفی بیان ہوگا.کوئی قید کا معاملہ نہیں ہے.الغرض کرہاً مولوی صاحب کٹہرہ میں گئے اور ان کو حلف دیا گیا.اور وہاں انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کا بیان جھوٹا تھا.مگر کہا کہ جھوٹے کو تو عربی میں کاذب کہتے ہیں.مرزا صاحب نے مجھے کذاب کہا جس کے معنی ہیں بہت جھوٹا.اس پر جج نے کہا اچھا اگر آپ کو صرف جھوٹا کہا جاتا تو آپ ناراض نہ ہوتے ؟ چھوٹے اُلو اور بڑے اُلو میں کیا فرق ہے؟ اس پر مقدمہ ختم ہوا اور جج صاحب نے کہا باہر ٹھہرو میں فیصلہ لکھ کر سناتا ہوں جب یہ مقدمہ عدالت ماتحت میں تھا تو بعض معزز مسلمانوں نے صلح کرانے کی کوشش کی تھی.حضرت اقدس نے جواب دیا تھا کہ ہم کو تو مقدمہ سے کوئی سروکار نہیں، مجھ پر انہوں نے دعوی کیا ہے.میری جماعت کے بعض آدمیوں نے ان پر استغاثہ کر رکھا ہے.اگر مولوی صاحب حلفاً کہہ دیں کہ انہوں نے جھوٹ نہیں بولا اور جو لکھا سچ تھا، اور میں نے ان کو خواہ مخواہ کذاب کہا ہے تو ابھی سب مقدمات فیصلہ ہو جاتے ہیں مگر وہاں مولوی کرم دین صاحب نے حلف لینا منظور نہ کیا، جس کے لئے بعد میں اُن کو مجبور ہونا پڑا.اور حلفاً اپنے جھوٹ کا اقرار کرنا پڑا.الغرض حج صاحب نے فیصلہ سنایا تو حضرت صاحب اور ہمارے ایک یا دو دوسرے آدمیوں کو جن میں سے ایک مولوی فضل دین صاحب بھیروی تھے اور دوسرے غالباً شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر (اخبار) الحکم تھے یا کوئی اور کہ ان کو بھی جرمانہ ہوا تھا بری کر دیا (اور ) جرمانہ کی واپسی کا حکم دیا اور مولوی کرم دین صاحب کو جو جرمانہ ہو ا تھاوہ قائم رہا.جج صاحب نے یہ بھی لکھا تھا کہ اپنی لیڈری کی حیثیت کی حفاظت کیلئے مرزا صاحب کا حق تھا کہ وہ مولوی ( کرم دین) صاحب کا جھوٹ ظاہر کرتے اور ان کو ایسا کہتے.حضور کی مجلس کی سادگی : حضورڑ کی مجلس کی سادگی کے متعلق ملک صاحب بیان کرتے تھے : ”حضور کی مجلس میں مسجد میں جو کوئی پہلے آتا وہ آگے بیٹھ جاتا.بعد میں آنے والے پیچھے بیٹھا کرتے تھے.حضرت (الف) خط وحدانی کے الفاظ میری طرف سے ہیں.(ب) احباب اس پیشگوئی کے متعلق حقیقتہ الوحی صفحہ ۱۲۱ ۲۱۴۴۱۲۲ ۲۱۵ اور اس مقدمہ کی تفصیل کے لئے جو کہ ابتداء ۱۹۰۳ء سے ۶ جنوری ۱۹۰۵ء تک جاری رہا الحکم کے فائل مطالعہ فرمائیں اپیل کی منظوری پر حضرت مولوی ( باقی اگلے صفحے پر )
147 مولوی نورالدین صاحب تو عموماً پیچھے ہی بیٹھتے تھے اور کبھی آگے نہ آتے جب تک حضرت اقدس خود نہ بُلاتے.حضرت اقدس عموماً ان کو بلا لیا کرتے تھے.مگر جب آگے آتے تو ان کے چہرے پر خوف اور رعب کے آثار ہوتے.خود کبھی بات نہ کرتے.اگر حضوڑ کچھ پوچھتے تو نہایت ادب سے جواب دیتے.حالانکہ دوسرے لوگ بے تکلفی سے باتیں کرتے تھے.ہر که عارف تراست ترساں تر حضرت قبلہ نواب محمد علی خاں صاحب مرحوم گورئیس اور نواب تھے مگر جہاں جگہ ملتی و ہیں نماز پڑھتے آگے جانے کی کبھی کوشش نہ کرتے.میں نے خود بار ہا ان کو جوتوں والی جگہ پر اور جوتوں کے اوپر نماز پڑھتے دیکھا ہے.ایک دفعہ میں قادیان گیا ہوا تھا.حضور کی مجلس قائم تھی.گو کئی دفعہ حضور کے پاس شانہ بہ شانہ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے اور بیٹھنے اور ٹانگیں دبانے کا موقعہ میسر آجاتا تھا، مگر اس روز میں چونکہ مسجد میں دیر سے حاضر ہوا میں پیچھے تھا اور خدام حضرت اقدس کے گرد حلقہ کئے ہوئے تھے.اتنے میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی مرحوم و مغفور حلقہ سے نکل کر باہر آئے اور مجھے منتظر کھڑا دیکھ کر پوچھا.میاں! حضرت صاحب سے مصافحہ کیا ہے؟ میں نے کہا بھیڑ ہے موقعہ کا منتظر ہوں.انہوں نے اپنی جلالی آواز میں کہا میاں ! آگے بڑھو مصافحہ کرو یہاں کون سے حاجب و دربان بیٹھے ہیں؟ اور مجمع کو آواز دی (کہ) ان کو راستہ دے دو مصافحہ کر لیں.چنانچہ میں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کر لیا اور پھر مجھے وہیں بیٹھنے اور حضور کی باتیں سننے کا موقعہ بھی مل گیا.“ * حضور کا امرتسر میں ورود مستورات کے آرام کا خیال رکھنا: حضرت مسیح موعود سفر دہلی سے واپسی پرے نومبر ۱۹۰۵ء کو امرتسر کی جماعت کی درخواست پر وہاں اُترے.جنگ مقدس کے وقت جو مکان حضور کا قیام گاہ تھا وہیں حضور اور خدام کے ٹھہرانے کا انتظام کیا گیا.حضوره انومبر کو مراجعت فرمائے قادیان ہوئے لے اس بارہ میں ملک صاحب بیان کرتے تھے : * بقیه حاشیه : پر حضرت مولوی عبدالکریم کا مرقومہ مضمون (الحکم جلد ۹ نمبر ۲ صفحہ۴) اور ایک مبارکباد کا خط مرقومہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب ( نمبر ۳ صفحه ۴ ) اور مکرم نواب خاں صاحب ثاقب مالیر کوٹلوی کی نظم (نمبر ۴ صفحه ۳) اور اداریہ (صفحہ ۱) اور فیصلہ عدالت (نمبر۳) اور مقدمہ کے متعلق مختصر بیان سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱۳۶ تا۱۳۹ مطالعہ کے قابل ہیں.(مؤلف) (الف) خط وحدانی کے الفاظ میری طرف سے ہیں.
148 ایک دفعہ حضور امرتسر بمعہ اہل و عیال تشریف لے گئے.حضرت مولوی نورالدین صاحب اور دیگر خدام بھی ساتھ تھے.جماعت احمدیہ نے ایک بڑے مکان کا انتظام کیا.مگر اس کا جو خاص بڑا کمرہ اور اچھا حصہ تھا وہ مردانہ کیلئے اس خیال سے رکھ لیا کہ اکثر لوگ حضور کی زیارت کیلئے تشریف لاویں گے.اور زنانہ کیلئے دو معمولی کمروں کا انتظام کیا.دری دونوں جگہ بچھا دی تھی.حضرت اقدس نے جب یہ انتظام دیکھا تو اس کو نا پسند فرمایا اور کہا کیا ہمارے لئے یہ حصہ ہے ( یعنی زنانہ حصہ ) اور اسی وقت مردانہ حصہ میں مستورات کو رکھ دیا اور دوسرے کمرے مردوں کیلئے رہنے دیئے.وہاں حضرت مولوی نورالدین صاحب قریباً سارا دن بیٹھ کر لوگوں کی روحانی اور جسمانی امراض کا علاج کیا کرتے.ہر شخص کو قریب بیٹھنے کا شوق ہوتا.ایک وقت میں جو دیر سے آیا تو پیچھے رہ گیا.جہاں آواز نہ پہنچتی تھی.حضرت مولوی صاحب فرش پر سب لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے اور حضور کے پیچھے ایک چار پائی پڑی تھی.میں قریب ہونے کی غرض سے دیوار کے ساتھ ساتھ جا کر اس چار پائی پر مولوی صاحب سے اونچا بیٹھ گیا.مگر میرے دل میں خیال آیا کہ یہ بے ادبی نہ ہو.میں نے عرض کیا (کہ) آپ اسے بے ادبی نہ خیال فرما دیں، میں باتیں سننے کی غرض سے قریب ہونے کو یہاں آکر بیٹھ گیا ہوں.مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں تو اس کی پروا نہیں کرتا.لیکن اگر تمہارے دل میں آتا ہے کہ یہ بے ادبی ہے تو ایسا مت کرو.میں نے کہا تو سہی کہ میرا ایسا خیال نہیں مگر او پر بیٹھنے کو میرا دل نہ چاہا اور میں نیچے ہو کر بیٹھ گیا.امرتسر میں تقریر اور ماہ رمضان میں چائے پینے پر شور و غوغا : ” غالباً اسی موقعہ کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود کا لیکچر بندے ماترم ہال میں ہو ا.حضور نے یہودیت عیسائیت اور اسلام کی تعلیم کا مقابلہ کیا.اور فرمایا کہ یہودیت انتظام پر زور دیتی ہے.عیسائیت بالکل عفو پر.مگر اسلام کی تعلیم درمیانی ہے.انتقام کے موقعہ پر انتقام اور عفو کے موقعہ پر عضو کا حکم دیتا ہے.گو یہ رمضان شریف کا مہینہ تھا.مگر بوجہ سفر حضرت اقدس نے روز نہیں رکھا ہوا تھا.حضور جب تقریر فرمارہے تھے اور لوگ اطمینان سے سُن رہے تھے کہ مفتی فضل الرحمن صاحب حکیم نے چائے کا پیالہ حضوڑ کے پیش کر دیا.حضور نے دو دفعہ توجہ نہ دی.مگر جب انہوں نے بالکل منہ کے قریب ہی کر دیا تو حضور نے چائے لیکر پی لی.پھر
149 کیا تھا چاروں طرف سے وہ شور اور گالی گلوچ شروع ہو گیا کہ رمضان شریف کی بے حرمتی کی روزے نہیں رکھتے.اور کیا کیا آواز میں آئیں اور لوگ آمادہ فساد ہو گئے.پولیس کے کہنے سے حضور پر دے کے پیچھے چلے گئے مگر شور جاری رہا.پھر پشت کے دروازہ کی طرف گاڑی (لینڈ و) لائی گئی اور حضور اس میں سوار ہو کر چل پڑے.لوگوں کے اثر دحام میں سے کسی نے اینٹ کسی نے پتھر، کسی نے مٹی کسی نے جوتا پھینکا گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا لیکن حضور بے گزند اپنی آرام گاہ پر پہنچ گئے.اس وقت ایک مولوی یہ واویلا کرتا تھا ہائے ہائے مرزا ہائے ہائے مرزا مگر ایک اور مولوی صاحب یہ کہہ رہے تھے ہائے آج لوگوں نے پتھر مار کر مرزے کو نبی بنا دیا.الغرض یہ دو طرح کا واویلا لوگ کر رہے تھے.اور انہوں نے عجیب بربریت کا ثبوت دیا تھا.جب ہم نے دیکھ لیا کہ حضور جاچکے (ہیں) تو ہم حضرت مولوی نور الدین صاحب کے ہمراہ اسی دروازہ سے باہر بازار میں نکلنے لگے.کسی شخص نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ٹھہر جاویں لوگ پتھر ماررہے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے ایک درد بھرے دل سے کہا وہ گیا جس کو مارتے تھے.مجھ کو کون مارتا ہے.یہ (بات) ہر کسی کو نصیب نہیں.چنانچہ ہم سب ان کے ہمراہ نکل آئے اور بازار میں سے ہوتے ہوئے آرام گاہ کو چلے گئے.اگر چہ وہ پتھر مارنیوالے موجود تھے مگر کسی نے ہم کو کوئی پتھر نہیں مارا.تمام احمد یوں کو نہایت افسوس تھا کہ حضرت اقدس کا لیکچر کیوں رُک گیا.ہر شخص مفتی فضل الرحمن صاحب پر ناراض تھا کہ جب حضور نے مانگی نہیں تھی تو انہوں نے زبر دستی چائے کیوں پیش کی اور اس طرح فتنہ کا موجب ہوئے.ہمارے بھی چونکہ مفتی صاحب دوست تھے.ہم نے اور بالخصوص سردار فضل حق صاحب نے مفتی صاحب کو کہا.مفتی صاحب سب کام تم نے خواہ مخواہ خراب کیا.قریباً ہر شخص مفتی صاحب کو ملامت کرتا تھا اور مفتی صاحب شرمندہ ہو کر رہ جاتے تھے ( اور خفت مٹانے کے لئے) کچھ یونہی سا جواب دیتے تھے.اسی اثناء میں کسی نے حضرت اقدس کے حضور بھی عرض کر دیا کہ حضور لیکچر تو خوب ہورہا تھا لوگ سُن بھی رہے تھے مفتی صاحب نے خواہ مخواہ غلطی کی اور شور کروادیا.حضرت صاحب نے فرمایا نہیں.مفتی صاحب نے کوئی برا کام نہیں کیا.رسول کی سنت کے مطابق سفر میں
150 * روزہ نہیں چاہئے.اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے ہمارے عمل سے اس سنت رسول اللہ کا اعلان کروا دیا.پھر تو سب لوگ خاموش ہو گئے اور مفتی صاحب کی خوب بن آئی اور وہ ہر ایک کے سر چڑھے کیوں سُنا ؟ حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ میں نے بہت اچھا کیا.تم خواہ مخواہ گرم ہوئے تھے.وغیرہ.امرتسر کے لوگوں نے حضرت کو اس لئے پتھر مارے کہ حضور نے سفر میں روزہ نہیں رکھا تھا.آئندہ (سال) رمضان شریف میں امرتسر میں وہ ملیر یا پڑا کہ غالبا پانچ فیصدی کے سوا سب بیمار تھے اور ان کو اس آیت کی عملی تصدیق ہوگئی کہ مسافر اور بیمار کو روزہ نہیں رکھنا چاہئے.* صوفی غلام محمد صاحب امرتسری کا حضور کی امامت میں نماز ادا کرنا : ” میرے دوست صوفی غلام محمد صاحب مرحوم سکنہ امرتسر ( والد صوفی عبدالرحیم صاحب ملازم ریلوے دہلی ) پرانے احمدی تھے.انہوں نے مجھے بتلایا کہ ایک دفعہ وہ اپنے طالب علمی کے زمانہ میں جب بیعت نہ تھی ( یعنی اعلان بیعت سے قبل ) حضرت مسیح موعود کو قادیان آکر ملے اور مسجد میں نماز پڑھی.صرف حضرت مسیح موعود امام تھے اور وہ مقتدی کوئی تیسرا آدمی نہ تھا.“ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کے ساتھ کشتی کی سیر : آپ بیان کرتے تھے کہ خلافت اولی میں غالبا 1909ء کی بات ہے میری عمر میں سال کی تھی اور میرے ساتھ کو چہ وکیلاں امرتسر کے رہنے والے ایک احمدی دوست شیخ غلام جیلانی صاحب تھے.ان کی عمر اس وقت ہیں خطوط وحدانی کے الفاظ میری طرف سے ہیں.حضرت اقدس سفر دہلی ولدھیانہ سے واپسی پر جماعت امرتسر کی درخواست پرے نومبر ۱۹۰۵ء کو امرتسر میں اُترے.حضور اور خدام کو جماعت نے اس مکان میں ٹھہرایا جوس ۱۸۹ء میں بوقت مباحثہ آتھم حضور کا قیام گاہ تھا اور ۱۰ نومبر کو حضور قادیان تشریف لے آئے تھے (الحکم جلد 4 نمبر ۳۹ صفحہ کالم ۳ بابت، انومبر ۱۹۰۵ء دنمبر ۴۰ صفحه ۱ کالم ۲ بابت ۷ انومبر ۱۹۰۵ء) بدر میں حضور کے لدھیانہ سے امرتسر نومبر کو پہنچنے کا ذکر ہے (غیر معمولی پر چہ سفر د بلی صفحہیہ کالم۲) بدر کا پورا فائل دستیاب نہیں ہوسکا کہ صحیح تاریخ نکالی جا سکے.ملک صاحب کی یہ روایت THE PROMISED MESSIAH IN AMRITSAR کے زیر عنوان ریویو آف ریلیچنز (انگریزی) بابت ماہ مئی ۱۹۴۲ء میں شائع ہو چکی ہے.البتہ وہاں اتنی بات آپ نے زائد لکھی ہے کہ لوگوں کے ایک طبقہ پر حکم الہی کے حقیقی معنی خدا تعالیٰ کے رحم پر یقین کے ذریعہ ظاہر ہوئے.تو دوسرے طبقہ پر خدا تعالیٰ کے غضب کے ظہور کے ساتھ.حضور نے حکم خداوندی کی تعمیل خوشی سے کر لی اور معترضین اس کی تعمیل پر مجبور کئے گئے.ملک صاحب نے سہو سے اس ۱۹۰۵ء کے واقعہ کور یو یو میں ۱۹۰۰ء میں ہونا تحریر کیا ہے.(مؤلف)
151 سال کی تھی.بعد میں پورٹ بلیئر گورنمنٹ سکول کے ہیڈ ماسٹر ہے ہیں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) قادیان کی ڈھاب میں کشتی چلا رہے تھے.مکرم خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے مکان نزد بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے پاس کھڑے ہو کر ہم نے کہا میاں صاحب سانوں وی سیر کراؤ.یعنی میاں صاحب ہمیں بھی سیر کرائیں.آپ چُپ چاپ کشتی ہمارے پاس لے آئے، ہم دونوں اس میں بیٹھ گئے اور آپ پنڈورہ * کے قریب تک گئے اور پھر واپس آکر دارالا نوار کے راستہ پر جو پل ہے اس کے نیچے سے گذرے اور جہاں اب میونسپل کمیٹی کا دفتر بن چکا ہے اس کے قریب تک ہمیں لے گئے.اور واپس لا کر اسی جگہ کشتی کھڑی کر دی جہاں سے شروع میں روانہ ہوئے تھے.اس سارے وقت میں آپ نے کوئی بات نہ کی.بلکہ جب پل کے نیچے سے گذرنے لگے اس وقت بھی منہ سے ہم کو نہیں کہا کہ سر جھکا لوتا ٹکر نہ لگے بلکہ خود اپناسر جھکا لیا اور ہم نے بھی آپ کو دیکھ کر آتے اور جاتے ایسا ہی کیا.کوئی بات نہیں ہوئی.بجز اس کے کہ داخلہ اور رخصت کے وقت ہم نے السلام علیکم کہا اور آپ نے جواب دیا.وصیت کا واقعہ : آپ کی زندگی کا ایک قابلِ ذکر واقعہ آپ کا وصیت کرنا ہے.اگر چہ الوصیت آپ کے سامنے شائع ہوئی.دوستوں نے وصیتیں بھی کیں اور آپ کو بھی بعض دوستوں نے تحریک کی.مگر آپ کی طبیعت ادھر آتی نہیں تھی.عادت پڑی ہوئی تھی کہ ہر چیز کے عقلی دلائل ہوں اور وہ اس بارہ میں اپنے مقررہ معیار کے مطابق سمجھ میں نہ آتے تھے.لیکن اس بارہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے رہنمائی فرمائی.واقعہ یوں ہے کہ جب قادیان سے قرآن مجید کا پہلا پارہ انگریزی میں شائع ہوا تو جماعت کی طرف سے آپ نے اس کی ایک کاپی ڈاکٹر سیف الدین صاحب کچلو کانگرس لیڈر کے پاس فروخت کی.یہ صاحب کچھ عرصہ احمدی بھی رہے تھے.اور خوب نمازیں پڑھا کرتے تھے.اور کانگرس لیڈر بن کر انہوں نے نماز ترک کر دی اور کہتے تھے کہ یہ پروپیگنڈے کا کام جو ہم قوم کی خاطر کرتے ہیں نماز سے مقدم ہے.اس روز آپ نے ڈاکٹر صاحب کو پھر نماز کی تلقین کی تو انہوں نے وہی جواب دیا.ملک صاحب نے پوچھا کہ آپ مسلمان ہیں.کیا قرآن مجید کو الہامی مانتے ہیں؟ انہوں نے کہا مانتا ہوں.ملک صاحب نے کہا پھر اگر قرآن مجید نماز پڑھنے کو کہے تو کیوں نہ پڑھو؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کسی یعنی خاکروبوں کا محلہ.بعد میں حضرت خلیفہ اصبح الان ایدہ اللہ تعالی کی طرف سے اسے دارالصحت کے نام سے موسوم کیا گیا تھا.لیکن اب تقسیم ملک کے بعد میونسپل کمیٹی نے اسے ہریجن پورہ کا نام دیا ہے.(مؤلف)
152 کتاب کو الہامی ماننے کے یہ معنے نہیں کہ اس کی ہر بات مان لی جائے.وہی بات مانی جائے گی جو عقل کے مطابق ہوگی.آپ کو یہ بات بُری معلوم ہوئی.اور آپ نے چند دوستوں کے پاس شکایت بھی کی کہ یہ بھی عجیب مسلمان ہیں.آپ چاہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو قرآن مجید کے کسی حکم کو ماننے سے عقل کی بناء پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے.اس بات پر خود آپ پر رد عمل ہوا.اور آپ نے اپنے تئیں مخاطب کر کے کہا کہ تم ڈاکٹر کچلو کو تو الزام دیتے ہو مگر خود تمہارا کیا حال ہے؟ حضرت اقدس کو صادق مانتے ہو مگر آپ کے فرمودہ وصیت کے نظام میں شامل ہونے کو تیار نہیں.اسی ضمن میں دوسری بات یہ ہوئی کہ آپ ہوشیار پور میں تھے.ایک سب جج صاحب آپ کے مکان پر آئے.ان کے دریافت کرنے پر آپ نے اپنے لڑ کے ملک سعید احمد صاحب کے متعلق بتایا کہ انہوں نے بی.اے کا امتحان دیا ہے اور اب ان کا خاص شغل تبلیغ احمدیت ہے.انہوں نے اس بات کا ثبوت طلب کیا کہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والا بہشتی ہی ہوتا ہے.ملک سعید احمد صاحب نے کچھ جواب دیا مگر وہ اعتراض کرتے رہے.اس وقت باپ بیٹا دونوں کو ایسا کوئی جواب نہ آتا تھا جس سے معترض کو خاموش کراسکتے.فوراً ایک بات اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ڈالی.آپ نے سب جج صاحب سے پوچھا آپ مسلمان ہیں.بھلا یہ تو بتلائیں کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ بہشت ہے بھی؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک ڈھکوسلہ ہے.یہ سن کر وہ سٹھیا گئے کہ یہ کیا لینے کے دینے پڑ گئے.آپ نے ان کی مدد کی اور کہا کہ ثبوت یہی ہے نا کہ محمد رسول اللہ صلعم جیسے انسان نے جسے ہم صادق سمجھتے ہیں ایسا کہا ہے.انہیں یہ دلیل معقول نظر آئی اور جھٹ کہا ہاں.ملک صاحب نے کہا پھر بہشتی مقبرہ والی بات کی بھی یہی دلیل ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے جنہیں ہم صادق سمجھتے ہیں.ایسا کہا ہے.پس ہم سے بحث اس امر پر کرو کہ حضرت مرزا صاحب صادق ہیں یا نہیں.اگر حضور صادق ثابت ہوں.تو آپ کا یہ فرمان بھی جس کا تعلق حیات ما بعد الموت سے ہے سچ ماننا پڑے گا.سب جج صاحب کو اس کا کوئی جواب نہ آیا اور خاموش ہو گئے.اس بحث نے ملک صاحب کے لئے تربیت کی ایک بڑی منزل طے کر دی اور آپ کو وصیت کے ضروری ہونے پر دلیل مل گئی.اور آپ نے دل میں کہا کہ اگر میری اس دلیل سے غیر احمدی کا منہ بند ہوسکتا ہے تو مجھے اور کیا دلیل درکار ہے.الغرض آپ کو بالکل تسلی ہو گئی اور آپ نے پورے انشراح صدر سے وصیت کر دی.قادیان میں خرید زمین : آپ کو کئی دفعہ خیال آتا تھا کہ قادیان میں ایک کنال زمین خرید لیں.گو تنخواہ اور الاؤنس ملا کر آپ کا مشاہرہ قریباً پونے تین صد روپیہ تھا لیکن آپ کچھ بھی پس انداز نہیں کر سکتے تھے.آپ کے عرض کرنے پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام میضہم نے ایک کنال زمین کی قیمت کی ادائیگی پچیس روپے ماہوار کے
153 حساب سے منظور فرمالی.لیکن آپ یہ ادائیگی بھی نہ کر سکے.ایک دن قادیان کے لالہ بڈھا مل آپ کے پاس گورداسپور گئے اور کہا کہ مرزا اکرم بیگ صاحب والی زمین بک رہی ہے.آپ بھی کیوں حصہ نہیں لے لیتے ؟ ملک صاحب کے کہنے پر کہ میرے پاس تو کوئی روپیہ ہی نہیں لالہ صاحب نے کہا کہ زمین بڑی اچھی چیز ہوتی ہے ایسے موقعہ پر قرض وغیرہ لیکر بھی خرید لیں.آپ نے کہا کہ میں صاحب جائیداد بننے کے لئے قرض لینا پسند نہیں کرتا.آخر لالہ صاحب نے کہا کہ اگر میں آپ کو ایک ہزار روپیہ بلا سود قرض دے دوں جو آپ چھپیں روپے ماہوار کی قسط سے ادا کر دیں تو آپ کا کیا نقصان ہے؟ لیکن ملک صاحب نے پھر بھی انکار کیا.اس کے بعد منشی عبدالعزیز صاحب او جلوی پٹواری رضی اللہ عنہ سے اس بات کا ذکر ہوا.تو انہوں نے مشورہ دیا کہ یہ آپ کو خدا تعالیٰ دیتا ہے لے لیں ان کا کوئی مقدمہ نہیں یہ کوئی رشوت نہیں.آپ خدا کی دین سے کیوں انکار کرتے ہیں؟ چنانچہ آپ کے لکھنے پر لالہ صاحب نے رقم ادا کر دی.اس طرح آپ کو سترہ کنال با موقعہ زمین مل گئی جس میں سے قریباً سات کنال پر آپ نے مکان کا احاطہ بنالیا اور باقی زمین نے اندوختہ کا کام دیا.قیام گورداسپور اور تبدیلی : آپ قریباً گیارہ سال تک گورداسپور میں متعین رہے.ان ایام میں آپ کو قادیان آنے کا اکثر اتفاق ہوتا اور اکثر بزرگان سلسلہ بھی جب کسی کام کے لئے گورداسپور جاتے تو آپ کے ہاں قیام کرتے.حضرت ام المومنین اطال اللہ بقاء ہا وہاں کی دفعہ تشریف لے گئیں اور آپ کو وہ جگہ بہت پسند تھی اور ملک صاحب کے ہاں ہی قیام فرمایا تھا.دو تین دفعہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کے ہاں معہ اہلبیت قیام فرمایا.آپ کی تبدیلی کا کوئی سوال نہ تھا کہ آپ نے خواب دیکھا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی گورداسپور میں تشریف لائے ہیں اور بازار سے کھانا کھایا ہے.چونکہ چند بار حضور آپ کے ہاں قیام کر چکے تھے.اس لئے ملک صاحب کو خواب میں بہت فکر اور شرم محسوس ہوئی کہ حضور بازار سے کھانا کھا ئیں.چند دن بعد آپ کا تبادلہ حصار ہوا.اور پھر وہاں سے ڈیرہ غازیخاں، پھر ملتان.بعدہ دوبارہ ڈیرہ غازیخاں.اس کے بعد ہوشیار پور جہاں سے آپ ملازمت سے سبکدوش ہوئے.ملک سعید احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ قیام گورداسپور میں احمدیت اور مرکز سے آپ کی وابستگی بہت گہری ہوگئی تھی.وہاں سے تبادلہ کو آپ نے بہت محسوس کیا.ایک دفعہ کسی مجبوری سے جلسہ سالانہ پر نہ آ سکے.جس کا آپ کو بہت غم ہوا.بار بار ذکر کرتے تھے کہ قبول احمدیت سے اس وقت تک یہ پہلا موقعہ ہے کہ جلسہ میں شرکت سے محروم ہورہا ہوں.چنانچہ ایک نظم تحریر کی جو الفضل میں شائع ہوئی اس کا ایک شعر یہ ہے
154 باندھ کر پر کر دیا ہے مجھ کو محصور حصار شوق کہتا ہے کہ اُڑ چل کھا ہوائے قادیاں ہے.مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بیان فرماتے ہیں کہ ملک صاحب کے گورداسپور کے قیام کے دوران میں جب بھی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے وہاں جانے کا اتفاق ہوا.حضور ہمیشہ آپ ہی کے ہاں قیام فرماتے اور یہ کہ آپ کو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بہت محبت تھی.بر وقت نصرت الہی کا ایک واقعہ : ڈیرہ غازی خاں سے پندرہ میل کے فاصلہ پر بستی رنداں نامی ایک گاؤں قریباً سارا احمدی ہے.ان میں اختلافات تھے.جماعت کی طرف سے مکرم مولوی محمد عثمان صاحب.مکرم حکیم عبد الخالق صاحب اور آپ کو رفع اختلافات کے لئے بھیجا گیا.یہ وفد کوٹ چھٹہ تک تو لاری پر گیا اور بقیہ چھ میل طے کرنے کو ایک ٹم ٹم کرایہ پر لی.گرمی کا وقت تھا.گھوڑا تھک کر گر گیا اور بہتیری کوشش کی گئی لیکن نہ اُٹھا.ملک صاحب پیدل روانہ ہو گئے.دوسرے دوست ابھی اس کے اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے اتنے میں دور سے ایک شخص سفید گھوڑا سرپٹ دوڑائے نظر آیا.آپ نے خیال کیا کہ اگر یہ شخص واقف ہوا اور اس کا گھوڑا ٹانگے کولگ سکا تو ہم اسے جوت لیں گے اور سوار ٹانگے والے گھوڑے پر سوار ہو سکے گا.لیکن جب سوار نے مقامی دوستوں سے سلام کلام نہ کیا تو آپ سمجھے کہ یہ کوئی اجنبی شخص ہے.سوار اسی طرح گھوڑا سرپٹ دوڑائے چلا آیا اور بالکل آپ کے پاس آ کر گھوڑے سے اتر کر کہنے لگا.” ملک صاحب اس پر چڑھ جائیں.یہ شخص آپ کا واقف قادر بخش گر داور قانونگو تھا.ملک صاحب نے غذر کیا اور کہا کہ آپ چلیں میں پیدل آ جاتا ہوں.لیکن اس نے کہا کہ کوئی بات نہ کریں اس پر بیٹھ جائیں.یہ ایک عجیب واقعہ ہے.چنانچہ دریافت کرنے پر اُس نے کہا کہ چند سال سے میں روزانہ اس گھوڑی پر بستی رنداں سے اپنے حلقہ کو جاتا ہوں.اور کبھی اس نے کان تک نہیں ہلایا اور میرے اشارہ پر چلتی تھی.مگر آج نہ معلوم کیا ہوا کہ جب گاؤں سے میں نکلا تو یہ واپس مڑ گئی اور بھا گنا شروع کیا.ہر چندا سے روکنے کی کوشش کی لیکن نہ رکی.یہ دیکھئے میرے ہاتھ بھی باگیں کھینچ کھینچ کر سُرخ ہو گئے ہیں.لیکن آپ کے پاس پہنچ کر خود بخود ٹھہر گئی ہے.بس آپ سوار ہو جائیں.چنانچہ اس نے ملک صاحب کو بآرام بہستی رنداں پہنچایا اور اگلے روز بھی بآرام اور دوسروں سے پہلے واپس کوٹ چھٹہ پہنچا دیا.عین وقت پر غیب سے نصرت الہی کے پہنچنے کی وجہ ملک صاحب یہ سمجھتے تھے کہ یہ وفد چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سلسلہ کا ایک کام کرنے گیا تھا اور ملک صاحب موصوف پیدل چلنے کے عادی نہ تھے.بالخصوص موسم گرما میں.اس لئے خدا تعالیٰ نے غیب سے یہ انتظام وسہولت پہنچادی.فالحمد لله على ذالک.
155 آپ کی اہلی زندگی : ย آپ کی پہلی بیوی غیر احمدی رشتہ داروں میں سے تھیں.مذہب سے بیگانہ.دونوں میاں بیوی کی طبیعتوں میں شدید اختلاف تھا.نباہ نہ ہو سکا اور مجبور آپ کو طلاق دینی پڑی.آپ نے مہر وغیرہ سب کچھ ادا کر دیا.اس سے آپ کی کوئی اولا دزندہ نہیں رہی.بعد ازاں آپ کی دوسری شادی میاں اللہ بخش صاحب امرتسری رضی اللہ عنہ جو ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے اور ان کے حالات پہلے درج ہو چکے ہیں کی دختر محترمہ کرم النساء صاحبہ سے ۱۹۰۶ء میں ہوئی.موصوفہ پیدائشی احمدی ہیں.اور گوان پڑھ ہیں لیکن نماز روزہ کی پابند اور احمدیت سے محبت رکھنے والی ہیں.ملک سعادت احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ آپ کی آٹھ نو برس کی عمر تھی تو اپنی والدہ کے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاں آیا کرتی تھیں ان کی والدہ غلام فاطمہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ یہ حضور کے بستر پر کھیلا کرتی تھیں تو میں منع کرتی تھی.تو حضور فرماتے تھے کہ کوئی حرج نہیں بچے ہیں کھیلنے دیں.ان کے بطن سے جوا اولا د ہوئی اور ان کی اولا در اولاد کا ذکر ذیل کے شجرہ میں جو دسمبر ۱۹۵۰ ء تک مکمل ہے کر دیا گیا ہے.شجر ہ ا گلے صفحہ پر ملاحظہ کریں
شجرہ نسب ملک سلطان بخش ملک مولا بخش 156 آمنہ بیگم زوجہ چوہدری محمد کرامت اللہ صاحب ایم.ایس سی ابن بابوا کبر علی صاحب ) اور سعی این قریشی ابد ریڈیز الیکٹرک ہاؤس پشاور) (زوجہ قریشی انور سعید تحصیلدار ابن قریشی ابوسعید صاحب) صوبیدار ملک سعید احمد بی.اے راولپنڈی ملک بشارت احمد واقف زندگی یونیورسل ٹریڈنگ کمپنی.میر پور خاص سندھ ) ملک سعادت احمد صدیقہ بیگم مبار که بیگم انور احمد نیلوفرانجم ناہید رشید احمد نعیمہ بیگم حمیدہ احمد نصیرہ بیگم مجید احمد منصور احمد مسعود احمد حمید احمد طاہر احمد امتہ الحی ظفر احمد قیصرہ بیگم ناصر احمد منیر احمد بشیر احمد مبارک احمد منصورہ بیگم
157 قادیان سے جبری ہجرت اور واپسی کی خواہش : ملک صاحب کو دیگر احباب کی طرح کر ہا قادیان سے ۱۹۴۷ء میں ہجرت کرنی پڑی.آپ نے اپنی پاکستان کی زندگی کے متعلق راقم کو مورخہ ۱۴/۷/۴۹ کو سیالکوٹ سے تحریر فرمایا: چونکہ صحت بھی اچھی نہیں اس لئے باوجود خواہش کے خط نہیں لکھ سکا.قادیان سے نکل کر بہت دکھ پایا.آپ لوگوں کو بھی گو تکالیف ہیں.مگر آپ چونکہ اللہ تعالیٰ کے لئے تکلیف اٹھا رہے ہیں اس لئے وہ تکالیف ثواب آخرت کے علاوہ اپنا صلہ ساتھ ساتھ بنتی رہتی ہیں.میں تو حالات کی مجبوری سے یہاں ایک گاؤں میں محصور ہوں، جہاں ڈاک بھی آٹھ دن کے بعد آتی ہے مگر ہے شہر سے نزدیک.اس لئے دوسرے تیسرے جا کر خطوط اور اخبار الفضل لے آتا ہوں...آج کل رمضان شریف ہے.میں تو روزے تراویح درس سب سے محروم ہوں.آپ سے دعا ہے کہ آپ حضرت صاحب کی صحت کے لئے دعا فرما دیں اور میرے لئے میرے اہل خانہ کے لئے بھی جو آپ کو کئی دفعہ یاد کرتے ہیں.“ پھر ۱۳/۸/۴۹ کو تحریر فرماتے ہیں: میں جب تک لاہور میں تھا تو کوئی نہ کوئی دوست مل جایا کرتا تھا.مگر میری ایک تو صحت خراب ہوگئی دوسرے میرے لئے وہاں کوئی مکان نہیں ملا تھا.یہاں بھی شہر میں تو کوئی مکان نہ ملا ( سدھی) نے ایک گاؤں میں جو شہر سے کوئی دو تین میل دور ہے انتظام کر دیا.جہاں ڈاک ہفتہ میں دو دفعہ جاتی ہے.اس لئے میں ڈاک دوسرے پستہ پر شہر میں منگواتا ہوں اور وہاں جا کر یا تو خود لے آتا ہوں یا منگوالیتا ہوں.نیز اہلیہ اور اس کی سو سال سے اوپر کی بوڑھی اور نابینا والدہ ہمارے ساتھ ہے.میری بیوی اپنی والدہ سے اور میں اس سے بندھا پڑا ہوں اور ہماری نقل وحرکت پر اس طرح ایک سخت پابندی عائد ہے.نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے ازدواج دین کو مدنظر رکھ کر کرو.اگر غسر بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو ئیسر میں بدل دیتا ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ عسر مال سے دُور نہیں ہوتا.تمام راحت کا تعلق دراصل دل سے ہے.آپ لوگ بظاہر ٹھسر کی حالت میں ہیں لیکن جہاں دلوں میں اطمینان ہو وہ ہزار کیسر پیدا کر دیتا ہے جو بڑے بڑے صاحب املاک لوگوں کو حاصل نہیں.اللہ تعالیٰ آپ سب لوگوں کو ہمیشہ بے شمار اجڑ اور رحمت سے نوازے.وہاں کے حالات سے تفصیل اطلاع دیتے رہیں.کئی دفعہ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ دیار محبوب میں جاؤں.مگر ابھی تک روک ہی ہے.اگر
158 اللہ تعالیٰ چاہے گا تو آنا ہو جائے گا.یہاں کی ذمہ داریاں اور ذاتی کمزوری مستقل ہجرت کے لئے انشراح نہیں دیتیں.جسمانی کیفیت آرام کو چاہتی ہے.مگر اس غرض سے قادیان جانا میں جائز نہیں سمجھتا.وہاں تو قربانی اور نفس کشی کا مقام ہے جس کے لئے بوجہ کمزوری ایمان میں انشراح نہیں پاتا.یہ ہو یا نہ ہو میرے ایمان کی ترقی اور عاقبت بخیر کے لئے ضرور دعائیں کریں.دلم دلدار می جوید تنم آرام مے خواہد عجائب کش مکش دارم ازیں غم جان من کاہد“ اللہ تعالیٰ کے وعدے ضرور پورے ہو کر رہیں گے اور حکومتوں کے بعد حکومتیں احمدیت کی غلامی کا طوق اپنے گلوں میں ڈال لیں گی.اور بعد میں آنیوالوں کے لئے دنیوی مصائب کا خاتمہ ہو جائے گا.لیکن ہجرت کی وجہ سے صحابہ کرام پر جو گزری وہ نسلوں تک کے لئے خون کے آنسور لانے کے لئے کافی ہو گا.حضرت مولوی شیر علی صاحب جن کی ساری زندگی آستانہ الہی پر گذری اور قادیان کا گوشہ گوشہ ان کی دعاؤں شعائر اللہ سے محبت و عشق اور فدائیت کا ضامن ہے.اللہ تعالیٰ کے غناء کے آگے کسی کو دم مارنے کی جرات نہیں.نہ ہی کوئی شکوہ ہے اور اس کے سر بستہ راز اسی کو ہی معلوم ہیں.یہ بزرگ پچاس سال قادیان میں گزار کر ہجرت کے بہت ہی قلیل عرصہ کے بعد لاہور جا کر فوت ہوئے.اسی طرح مسیح کے بے شمار پروانے کوئی کسی جگہ اور کوئی کسی جگہ جا کر فوت ہو گیا.رضی اللہ عنہم اجمعین.ہجرت کے بعد جذ بہ خدمت : ملک سعید احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ تقسیم ملک کے بعد ملک صاحب پاکستان میں بطور ناظم جائیداد کام کرتے رہے.قادیان سے ہجرت کا بوجھ آپ پر بہت زیادہ تھا اور قادیان والا سکون میسر نہ تھا.بیمار ہوئے اچھے ہو گئے اور اسی طرح کام کرنے لگے.پھر بہت زیادہ بیمار ہوئے، کافی لمبی رخصت لی.ابھی پہلی بیماری کا اثر باقی تھا کہ بیماری پھر عود کر آئی.صحت ہوگئی لیکن قوت سماعت پر کافی اثر تھا.دوسری طرف یہ خیال تھا کہ کہیں بعض کارکنان کی طرح جو رخصت لیتے ہیں پھر کام پر حاضر نہیں ہوتے، مجھے بھی بہانہ بنانے والا نہ سمجھا جائے.لیکن آپ کے لکھنے پر کہ میں اختتام رخصت پر کام پر حاضر ہو جاؤں گا جناب ناظر صاحب اعلیٰ ربوہ کا جواب آیا کہ فی الحال آپ کے لئے ربوہ میں کوئی مکان نہیں.جب تک مکان نہ بن جائیں آپ رخصت پر ہی رہیں.محترمہ آمنہ
159 بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ اس جواب کے آنے پر مجھے لکھا کہ اللہ تعالیٰ کو اس طرح منظور تھا کہ میں مرکز سے دور رہوں.جیسا کہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میں تو چاہتا ہوں کہ مرکز میں رہوں یا مرکز کے قریب رہوں.مگر اللہ تعالیٰ کو جہاں منظور ہوتا ہے.وہاں رکھتا ہے بندے کو اس کی رضا پر راضی رہنا چاہئے.مجھے ملک صاحب نے تحریر فرمایا: زیادہ میلان سر دست یہی ہے کہ ربوہ میں جا کر رہیں.وہاں مکان کا سوال ہے.میں تو کوئی زمین وہاں خرید نہیں سکا.ہاں سعادت احمد نے ایک کنال اور کرامت نے دو کنال زمین خریدی ہے.مگر اس پر مکان ابھی نہیں بنا.سعادت کے پاس یا میرے پاس تو ابھی وسائل بھی نہیں.اس بارہ میں بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ایسی جگہ لے جائے جو ہمارے دین و دنیا کے لئے بہتر ہو.“ ہے آپ کی سواد وسور و پیہ ماہوار پنشن ہوئی تھی.آپ نے پنشن Commute کرا کے قریباً آٹھ ہزار روپیہ نقد لے کر قادیان میں مکان بنایا.اس وجہ سے پنشن ۷۵ روپے ماہوار ملتی تھی اس کمی کی وجہ سے ہجرت کے بعد آپ ربوہ میں مکان بنانے کے لئے کوئی رقم جمع نہ کر سکے تھے.وفات سے ایک روز پہلے کا مکتوب: آپ نے اپنے بیٹے ملک بشارت احمد صاحب کو وفات سے ایک روز قبل ۲۶/۱۰/۵۰ کو جومکتوب تحریر کیا اس کا اقتباس درج ذیل ہے.اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو سلسلہ سے کس قدر محبت تھی.فرماتے ہیں:.۲۴ ۲۵ اکتو برسنیچر اور اتوار کے روز جماعت احمد یہ سیالکوٹ کا سالانہ جلسہ تھا.خوب رونق رہی.مرکز سے میاں ناصر احمد صاحب اور شمس صاحب اور.........دوسرے دوست تشریف لائے تھے.راولپنڈی سے میاں عطاء اللہ صاحب.اور جگہ کے دوست بھی آئے ہوئے تھے.سید ولی اللہ شاہ صاحب بھی آئے تھے.لیکچر بفضل خدا بہت اچھے ہوئے.اور لوگوں نے امن سے سُنا.بہت سے غیر احمدی دوست بھی شریک جلسه ہوئے.اور مرزا ناصر احمد صاحب نے جب کمیونزم پر لیکچر دیا تو اس وقت سردار عبدالصمد صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ بھی موجود تھے.انہوں نے بھی لیکچر کو بہت پسند کیا.الغرض جلسه بفضل خدا کامیاب رہا.تبلیغ اچھی ہوئی.میں بھی دو دن مصروف رہا اور دن خوب گذرے.سید ولی اللہ شاہ صاحب اور دوسرے دوستوں سے ربوہ آنے کے متعلق بات
160 چیت ہوئی.انہوں نے کہا کہ مکان انشاء اللہ جلدی بن جائے گا اور پھر آپ آ سکیں گے.“ عمر کے متعلق رویائے صادقہ : اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ آپ مرض سل میں گرفتار ہوئے.پھر کس طرح شفایاب ہوئے اور کس طرح اس کا بقایا کھانسی اور زکام رفع ہوئے.آپ بیان کرتے تھے کہ ان دنوں غالباً جنوری ۱۹۰۱ ء میں میں نے خواب میں دیکھا کہ امرتسر کو چہ وکیلاں کی احمد یہ مسجد میں جہاں میں اکثر نماز پڑھنے جایا کرتا تھا گیا ہوں.وہاں مکرم مولوی محمد اسماعیل امرتسری رضی اللہ عنہ نے جو بڑے نیک آدمی تھے اور ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے نماز پڑھائی ہے.اور بعد میں پوچھا کہ کسی نے کوئی خواب دیکھی ہو تو سناؤ ( ایسا پوچھنا ان کی عادت میں داخل تھا وہ کہتے تھے کہ حضرت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی پوچھا کرتے تھے ) چنانچہ میں نے اُن کو کوئی خواب سنایا جو مجھے بالکل یاد نہیں کیا تھا.مگر یہ یاد ہے کہ انہوں نے تعبیر یہ بتلائی کہ اب تمہاری عمر دو سال باقی رہ گئی ہے.مجھے تکلیف تو رہتی تھی.یہ یقین میرے دل میں گڑ گیا.چونکہ میری بیماری میں میرے والد صاحب اور میری سوتیلی والدہ صاحبہ نے میری بڑی خدمت کی تھی، مجھے تمنا تھی کہ میں بھی ان کی خدمت کر کے احسان کا بدلہ احسان سے دوں.مگر یہاں تو عمر کے خاتمہ کا ہی اعلان تھا اس لئے میں نے بہت دعائیں کیں کہ یا اللہ مجھے عمر اور توفیق دے کہ میں بھی ان کی خدمت کرسکوں.پہلے آپ نے خواب دیکھا کہ آپ کو نماز پڑھتے ہوئے عزرائیل جو انسان کی صورت میں تھے پکڑ کر ایک طرف لے گئے پھر چھوڑ دیا.حضرت مولوی صاحب موصوف نے تعبیر فرمائی کہ عمر بڑھ جائے گی.لیکن ملک صاحب محترم دعاؤں میں مصروف رہے.پورے ایک سال بعد جنوری ۱۹۰۲ ء میں آپ کو ایک پر جلال آواز آئی ” تمہاری عمر بیس سال بڑھا دی گئی ہے.بہت حد تک آپ کو تسکین تو ہوگئی لیکن جنوری ۱۹۰۳ء تک جب تک پہلے دو سال نہیں گذر گئے آپ کو خدشہ رہا.اس کے بعد یقین ہو گیا کہ آپ کی عمر واقعی بڑھا دی گئی ہے.غالبا ۱۹۰۵ء میں آپ کو سخت درد قولنج ہوا آپ کے والد صاحب نے سب لوگوں کو بلا لیا کہ اب یہ قریب مرگ ہیں.لیکن آپ نے کہا کہ فکر نہ کریں ابھی میری موت کا وقت نہیں آیا.اس کے بعد آپ نے اپنی درازی عمر کے لئے کبھی پھر دعا نہیں کی.اور نہ ہی آپ کو تحریک ہوئی.۱۹۱۸ء کے قریب آپ کو انفلوئنزا ہوا اور آپ سخت بیمار ہو گئے اور زیست کی کوئی امید نہ رہی.آپ کے اہل بیت نے بہت غم کیا اور بہت دعا کی.انہیں کسی نے کہا کہ تم دونوں کو میں تمہیں سال کی عمر اور دی گئی ہے.یہ بات صحیح نکلی.راقم سے ملک صاحب نے غالباً ۱۹۴۷ء کے ابتداء میں ذکر کیا تھا کہ اب میری زندگی بہت تھوڑی باقی ہے معلوم نہیں کہ اب اس میں توسیع ہوگی یا نہ ہوگی.محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ جلسہ سالانہ
161 سیالکوٹ سے ( جو ۲۴.۲۵ اکتو بر ۱۹۵۰ء کو ہوا ) فارغ ہو کر اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ زندگی کے آخری دن ہیں.میں چاہتا ہوں کہ اپنے بڑے لڑکے سعید احمد کے پاس راولپنڈی چلا جاؤں تا کہ بیماری کے وقت وہ قریب ہوں.کیا معلوم تھا کہ دو ایک روز میں ہی کوس رحلت بجنے والا ہے اور بچوں میں سے سوائے چھوٹی بچی کے اور کوئی پاس نہ ہوگا.مرض الموت.وفات اور تدفین : ملک سعید احمد صاحب بیان کرتے ہیں : ۱۲۷ اکتوبر ۱۹۵۰ء کی صبح کو 9 بجے کے قریب والدہ صاحبہ سے چائے مانگی وہ گرم کرنے لگیں تو کہنے لگے کہ آپ چائے گرم کریں میں ابھی کبوتروں کا شکار کر کے واپس آتا ہوں.اس سے قبل بھی وہ شکار سے واپس آئے تھے اور راستہ میں کبوتر دیکھے تھے اباجی کے ( گھر سے ہو کر واپس پہنچنے تک کبوتر اڑ چکے تھے.اس لئے بغیر شکار کئے واپس آگئے.آتے ہی اندر بندوق رکھی اور چار پائی پر بیٹھتے ہوئے والدہ کو کہا کہ میرا سر پھٹ رہا ہے جلدی سے چائے دو.والدہ چائے لینے گئیں.چند سیکنڈ بعد کسی کام کو پھر والد صاحب کی طرف آئیں تو دیکھا چار پائی پر بیٹھے جھک گئے ہیں.انہوں نے آوازیں دیں لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا.والدہ صاحبہ قریب آئیں تو دیکھا بے ہوش ہیں.آپ نے چار پائی پر لٹا دیا.ڈاکٹر بلایا گیا.اس نے ٹیکہ لگایا.حکیم پیراحمد صاحب ہوشیار پوری نے انہیمہ وغیرہ کیا لیکن ابا جان کوئی بات نہیں کر سکے.سوائے اس کے کہ جب والدہ نے چار پائی پر ان کو لٹایا تو دو تین مرتبہ اللہ اللہ کہا.آنکھیں پتھرا گئیں اور دائیں جانب فالج کا حملہ ہوا.کسی بات کا جواب نہیں دیا شاید سُن بھی نہ رہے تھے.چھوٹی ہمشیرہ بھی پہنچ گئیں لیکن اس کے آنے پر بھی کسی طور سے اس بات کا اظہار نہیں ہوا کہ وہ ہوش میں ہیں.اسی بے ہوشی کی حالت میں رات کے گیارہ بجے ۲۷ اور ۱۲۸ کتوبر 66 کی درمیانی شب اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.انا للہ و انا اليه راجعون.“ آپ کا جنازہ مکرم قاضی علی محمد صاحب خطیب جامع مسجد سیالکوٹ نے ۱۲۸ اکتوبر بروز جمعہ بر وقت ۶:۲ بجے شام قبرستان سائیں مونگاولی میں پڑھا اور آپ کو اسی قبرستان میں بطور امانت دفن کیا گیا.* ۱۹۵۰ء تک آپ کی قبر معروف ہے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ربوہ میں جنازہ غائب پڑھایا.* بیان حکیم سید پیراحمد صاحب سیالکوٹ.(مؤلف) * * بیان ملک سعادت احمد صاحب.(مؤلف) **
162 ماتحتوں سے حسن سلوک جرات اور موقعہ شناسی : اخویم خواجہ عبدالکریم خالد صدر درویشان مقامی حلقہ مسجد مبارک نے نظامت جائیداد کے دفتر میں ملک صاحب کے ماتحت کئی سال کام کیا.وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ خندہ رُو تھے.اپنے ماتحتوں کے ساتھ ماتحتوں والا نہیں بلکہ عزیزوں اور بھائیوں والا سلوک کرتے تھے اور افسری ماتحتی کا کبھی احساس نہیں ہونے دیتے تھے.دوسرے فسادات ۱۹۴۷ء میں بعض اوقات دوسرے لائسنسدار اسلحہ رکھنے والے لوگ پہرہ کے لئے اپنا اسلحہ دینے سے احتراز کرتے تھے.مبادا کوئی گرفت ہو کہ دوسرے کو کیوں دیا گیا ہے.لیکن ملک صاحب انکار نہیں کرتے تھے کیونکہ خطرہ بہت بڑھ گیا تھا اور نہ کو ئی حکومت اور نہ ہی کوئی اخلاقی قانون یہ پابندی لگا سکتا ہے کہ جب کہیں ڈاکو حملہ کر دیں تو حفاظت کرنے والے اگر اس امر کوملحوظ نہ رکھیں گے کہ ہر ایک اپنا اسلحہ استعمال کرے تو حملہ آور مظلوم اور مدافعت کرنے والے ظالم قرار پائیں گے.نکتہ رس ہونا قرآن مجید میں تدبر : ملک صاحب کے متعلق مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈوکیٹ سرگودھا (مغربی پنجاب) سابق امیر جماعتہائے گورداسپور تحریر فرماتے ہیں کہ : چونکہ وہ ماشاء اللہ بہت ذہین اور عدالتی معاملات میں تجربہ کار تھے اور بعض سیشن ججوں کے ریڈر اور پھر کلرک آف کورٹ رہ چکے تھے اور قانونی باتوں کا خلاصہ نکالنا خوب جانتے تھے.اس لئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حضور اپیلیں پیش کرنے کا کام سپر دفرمایا.بعض اچھے اچھے غیر احمدی اور ہند و وکیل ملک صاحب مرحوم کی بہت تعریف کیا کرتے تھے.ملک صاحب مرحوم نکتہ رس بہت تھے اور حاضر جواب.بہت دفعہ قرآن کریم میں سے بڑے بڑے عمدہ نکات بیان فرمایا کرتے.“ آپ کو قرآن کریم سے خاص عشق تھا اور قرآنی معارف و حقائق سننے کے لئے باوجود بیماری وکمزوری کے تعہد کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ کئی ماہ تک موسم سرما میں صبح کی نماز محلہ دارالفضل سے آکر دارالرحمت میں اس لئے ادا کرتے رہے تاکہ مکرم مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے درس میں شریک ہو کر ان کے حقائق و معارف سے مستفیض ہوں.رمضان المبارک میں جو درس مسجد اقصے میں ہوتا اس میں بھی التزام کے ساتھ شریک ہوتے.آپ کی صاحبزادی آمنہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ملک صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ بعض اعتراضات کے جواب فوری طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں ڈالے جاتے ہیں جن کا معترض پر بڑا اچھا اثر ہوتا ہے.
163 قرآن کریم کثرت سے پڑھتے اور غور سے پڑھتے جہاں خود فائدہ اُٹھاتے وہاں دوسروں کو بھی شامل کرتے.عمر کے آخری حصہ میں دن میں کئی کئی بار جب بھی دیکھو قرآن شریف پڑھ رہے ہوتے.اور کاپی اور قلم پاس رکھتے جب کسی آیت کی لطیف تفسیر سمجھ میں آتی اس کو نوٹ کرتے اور بعد میں اپنے اہل وعیال کو سناتے اور نصیحت فرماتے کہ قرآن شریف کو ہمیشہ غور اور تدبر سے پڑھو اور بار بار پڑھو اور سوچو تو معلوم ہوگا کہ واقعی قرآن کریم ہدایت کی مفصل اور مکمل کتاب ہے.اس وقت ان کے چہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی دلی خواہش ہے کہ آپ کی اولا د قرآن کریم کی عاشق ہو.خواجہ محمد اسماعیل صاحب امرتسری درویش ( صحابی ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے بعض غیر احمدیوں سے سنا کہ ملک صاحب رشوت نہیں لیتے تھے اور کام محنت اور دیانتداری سے کرتے تھے.آپ کو قرآن مجید سے بہت محبت تھی.ایک حمائل شریف ہر وقت جیب میں رکھتے تھے.جب آپ امرتسر آتے تو جمعہ پڑھانے کے لئے امیر صاحب آپ ہی کو کہا کرتے تھے.آپ ہمیشہ قرآن مجید کھول کر آیات تلاوت کر کے ان کی تفسیر بیان کیا کرتے تھے.ملنسار تھے.احمدیت کے متعلق بہت غیرت رکھتے تھے.نماز باجماعت کا بہت خیال رکھتے تھے اور ہمد رد خلائق تھے.خدمات سلسلہ : جب تک آپ سرکاری ملازمت میں رہے سلسلہ کا جو کام بھی آپ کو کہا گیا خواہ کسی نے کہا ہو آپ نے حتی الامکان کیا.۱۹۱۲ء میں آپ جماعت امرتسر کے امین تھے اور جماعت کے چندے آپ کے پاس جمع ہوتے تھے.* آخر ۱۹۳۳ء میں آپ نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تحریر کیا کہ اب میں پنشن پر آنے والا ہوں اور حضور کے قدموں میں باقی وقت بسر کرنا چاہتا ہوں.ابھی آپ رخصت پر امرتسر آئے ہی تھے کہ آپ کو حکم ملا کہ قادیان حاضر ہو کر بطور معاون ناظر بیت المال کام شروع کر دیں.چنانچہ دسمبر ۱۹۳۳ء میں آپ نے اس عہدہ پر کام شروع کر دیا، پھر آپ نے مقبرہ بہشتی میں کام کیا اور پھر آپ کو اراضیات سندھ کے انتظامات کے سلسلہ میں جانے کا حکم ہوا.وہاں آپ شدید تپ محرقہ میں مبتلا ہوئے.صحت یاب ہونے پر آپ چار ماہ کے قیام کے بعد قادیان آئے.اب آپ کو معاون ناظر تعلیم وتربیت کے کام پر لگایا گیا.اور وہاں سے ناظم جائیداد اور افسر پراویڈنٹ فنڈ کے عہدہ پر کام کرنے کا حکم ملا.۱۹۳۷ء کے شروع سے حضرت امیر المومنین * قادیان کے مدرسہ کی تعمیر کے لئے اپریل ۱۹۱۲ ء میں ایک لاکھ روپیہ چندہ کی تحریک کی گئی تھی.جون میں فہرست وصولی شائع ہوئی.اس میں ” معرفت منشی مولا بخش صاحب امین مترجم ڈویژنل کورٹ امرتسر ماللہ درج ہے ۳ (مؤلف)
164 ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے آپ کو مقامی ٹاؤن کمیٹی کا صدر بنا دیا گیا.چنانچہ فسادات ۱۹۴۷ء تک آپ مؤخر الذکر تینوں عہدوں پر متعین رہے.بڑھاپے کی عمر میں ان تینوں ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا کوئی سہل کام نہ تھا.جس کے ساتھ محلہ دارالفضل کی صدارت کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد ہو چکی تھی.اور پھر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں مرافعہ کی اپیلوں کے پیش کرنے کا کام بھی آپ کے ذمہ تھا.صدرمحلہ کا عہدہ چونکہ کافی وقت چاہتا تھا.اس لئے کچھ عرصہ بعد آپ نے باجازت ترک کر دیا.اور باقی تمام اہم کام آپ فسادات ۱۹۴۷ء تک ایسی جواں ہمتی سے نباہتے رہے کہ بہت سے جوانوں کو بھی مات کرتے تھے.آپ کے عہد صدارت میں ٹاؤن کمیٹی ترقی کر کے میونسپل کمیٹی بنائی گئی بہت سی اصلاحات ہوئیں، چونگی کا قیام ہوا.کافی مقدار میں روپیہ جمع کیا تھا تا کہ سٹیشن سے شہر تک سڑک پکی بنائی جاسکے.پہلے تو جنگ میں خام سامان ملنے میں دقت تھی.بعد میں سڑک پختہ بنائی جا رہی تھی کہ ۱۹۴۷ء کے فسادات شروع ہو گئے ان تمام عہدوں میں سے سندھ والا اور ناظم جائیداد کا عہدہ کچھ خفیف الاؤنس بھی ساتھ رکھتے تھے.باقی سب آنریری تھے.آپ قانونی جائیدادوں کے متعلق دستاویزات تیار کرنے میں بہت مہارت رکھتے تھے.چنانچہ بوقت ضرورت حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بھی ایسے ڈرافٹ آپ سے بنواتے تھے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بحیثیت جماعت احمدیہ کے آخری قاضی کے جو قضائی مقدمات کی سماعت کرتے تھے.ان کو بطور پیشکار پیش کرنے کی خدمت بھی آپ کے سپر د تھی.چونکہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی مصروفیات گونا گوں اور بہت ہی زیادہ ہونے کی وجہ سے حضورا پہیلوں کی سماعت کیلئے بہت کم وقت دے سکتے تھے اس لئے آپ نے حضور کو مشورہ دیا کہ حضور اپنی قائم مقامی میں اپیلوں کی سماعت کے لئے ایک بورڈ مقررفرما دیں کہ معمولاً تمام مقدمات کی وہی سماعت کرے اور بعض شرطوں پر پورا اترنے والے صرف چند ایک مقدمات کی اپیل ہائے حضور کے پاس آئیں.چنانچہ حضور نے اس تجویز کو پسند فرما کر ایک بورڈ مقرر فرمایا.اور فسادات سے کئی سال قبل اس طریق پر عمل ہوتارہا.اور اس طرح حضور کا بار ایک حد تک ہلکا ہوگیا اور مقدمات والوں کو بھی فائدہ پہنچا.تبلیغ میں سرگرمی : آپ کی غیروں کے ساتھ ہر ایک مجلس ایک تبلیغی مہم تھی.اس کے سوا ملاقاتوں کی اور کوئی غرض پیش نظر نہ ہوتی تھی.گو ایسا موقعہ کبھی نہیں ملا کہ تمام کام چھوڑ کر محض تبلیغ کے لئے ایک معین مدت تک نکل کھڑے ہوئے ہوں.لیکن سب غیر احمدی اور غیر مسلم دوستوں سے یہی بات چیت رہتی یہاں تک کہ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ مذہبی دیوانے ہیں اور اس کے سوا انہیں اور کوئی کام نہیں.دوران ملازمت میں وکیلوں، جوں، ڈپٹیوں اور دوسرے لوگوں سے عموماً یہی گفتگو ہوتی رہتی.گو پیچھے پڑ کر اور راہ جاتے کو تبلیغ کرنا آپ کو نہیں آتا تھا.مذہبی گفتگو میں بفضل خدا قریبا ہر ایک کا منہ دلائل سے
165 بند کر دیتے تھے.اور مختلف شہروں میں متعدد آدمیوں نے آپ کی تبلیغ سے احمدیت قبول کی.ڈیرہ غازی خاں کے علاقہ میں رسم ہے کہ وہاں کے باشندے حال دیتے اور لیتے ہیں پھر جو کوئی حال سنائے دوسرے کو سننا پڑتا ہے.آپ عموماً پہلے حال لیتے اور بعد میں حال دینے میں یہ کہہ کر کہ میری زندگی کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ میں احمدی ہو گیا اور اس کے دلائل یہ ہیں احمدیت کے متعلق ہر بات انہیں سنا دیتے.وہ اپنے ملکی دستور کے مطابق سنے پر مجبور ہوتے.آپ کو اس بات کا بار ہا تجر بہ ہوا کہ خواہ کسی معاند کے اسلام یا احمدیت پر اعتراض کا جواب آپ کو نہ آتا ہو وقت پر اللہ تعالیٰ ایسا جواب دل میں ڈالتا جو مسکت خصم ثابت ہوتا.آپ اپنے عز و وقار اور منصب سے فائدہ اٹھا کر تبلیغ کے مواقع پیدا کرتے تھے اور کلمہ حق پہنچانے میں نڈر تھے.چنانچہ ہم اخبار میں مرقوم پاتے ہیں: اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ملک مولا بخش صاحب احمدی کلرک آف دی کورٹ کو کہ انہوں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے سفر لنڈن کی تقریب پر مفتی صاحب کو ایک دعوت دی.جس میں معززین شہر گورداسپور کو جمع کر کے بعد کھانے کے مفتی صاحب موصوف نے ایک مدتل موثر مختصر تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعوئی اور اس زمانہ میں آپ کی آمد کی ضرورت آپ کے دعوی کے دلائل بیان کئے.سامعین پر بہت اچھا اثر ہوا اور بعض اصحاب نے زبانی بھی بہت سی باتیں حضرت مفتی صاحب سے دریافت کیں اور اطمینان بخش جواب پائے.ملک صاحب کو خدا تعالیٰ نے دینی خدمت کا خاص جوش عطا کیا (ہے) اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں میں برکات نازل کرے.آمین ہے سلسلہ کی مالی خدمات : ملک صاحب شروع سے ہی سلسلہ کی مالی رنگ میں بہت خدمت کرتے رہے ہیں جیسا کہ سابقہ اوراق میں ذکر ہوا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں ریویو آف ریلیجنز کا خریدار بنا اس کے لئے خریدار بنانا اعلیٰ درجہ کی نیکیوں میں شمار تھا.چنانچہ آپ کے متعلق ہر دونوں طرح اعانت کرنے کا اندراج ملتا ہے.علاوہ ازیں آپ موصی تھے اور تحریک جدید کے دور اول کے جہاد کبیر میں تا زندگی شریک رہے.اقارب اور اولاد سے حسن سلوک اور غناء نفس : آپ نے اپنے اقارب سے محبت کا سلوک کیا اور ہر ایک کو تبلیغ بھی کی.مگر ان میں سے اکثر سہل انگار پرانے طریقوں کے دلدادہ اور مفت میں بہشت چاہنے والے تھے اس لئے ان میں سے کوئی بھی احمدیت کو قبول
166 کر کے شدت اور تکلیف کی زندگی برداشت کرنے اور قربانی کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوا.ملک سعید احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ملک صاحب اپنے بچوں کے مطالبات پورا کرنے بلکہ کھانے پینے اور پہننے میں بہت زیادہ خیال رکھتے تھے اور اپنے سے اچھا پہناتے اور کھلاتے تھے.اکــر مــوا اولادکم کے مطابق نہایت عزت سے ہمارے ساتھ گفتگو کرتے اور ہمیشہ ہمارے لئے آپ کا لفظ استعمال کرتے اور اس میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے.دوسری طرف غناء کا یہ حال تھا کہ ہم سے کچھ مطالبہ کرنے کو نا مناسب سمجھتے تھے.آپ کی صاحبزادی آمنہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپ ہم سب کو اپنی اولاد کے لئے دعا کرنے کے لئے کہتے اور ساتھ ہی فرماتے کہ مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ بعض دوست خود تو بڑے دیندار تھے، مگر بعد میں ان کی اولادیں ویسی نہ نکلیں.اس لئے ہمیشہ اپنی اولاد کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے.آپ کی رواداری اور قانونی مہارت : مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمد یہ وناظر اعلی قادیان فرماتے ہیں کہ : ملک مولا بخش صاحب نے اپنے عرصہ ملازمت میں ہر مذہب وملت کے لوگوں کے ساتھ ایسے تعلقات رکھے ہوئے تھے کہ تمام فرقوں کے لوگ آپ کے حسن سلوک کے مداح تھے.چنانچہ مجھے امرتسر اور گورداسپور کے اضلاع میں جانے کا اتفاق ہوا ہے.میں نے جملہ اہلکاراں اور وکلاء کے طبقہ میں آپ کی امانت اور دیانت کے متعلق ذکر بہترین الفاظ میں سُنا.آپ کی ڈیوٹی یہ تھی کہ امسلہ کا خلاصہ نکال کر سیشن جج صاحب کے سامنے پیش کیا کرتے تھے.اور جیسا کہ خود آپ نے مجھ سے بیان کیا تھاوہ خلاصہ کے ساتھ اپنی رائے بھی لکھ دیتے تھے.اس لئے مقدمہ کے مخالف اور موافق وکلاء ہمیشہ مسل پیش ہونے کے قبل آپ سے دریافت کیا کرتے تھے کہ ہمارے مقدمہ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ کی رائے ہر معاملہ میں صائب ہوتی ہے.وکلاء آپ کے خلاصہ سے فائدہ بھی اٹھایا کرتے تھے.آپ جہاں اپنے تمام عرصہ ملازمت میں پوری تندہی اور دیانت وامانت کے ساتھ اپنے مفوضہ کام کو سرانجام دیتے رہے وہاں پبلک کے ساتھ بھی ہمدردی سے پیش آتے تھے.اور اگر کوئی فریق مقدمہ آپ سے مشورہ طلب کرتا تو اُسے دیانتدارانہ مشورہ دیا کرتے.اور اگر آپ یہ سمجھتے کہ اس کا کیس کمزور ہے تو اُسے صاف کہہ دیتے تھے کہ مقدمہ میں وکلاء وغیرہ کے اخراجات پر روپیہ ضائع نہ کرو.یہاں
167 تک رواداری سے کام کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص امداد کا محتاج ہوتا تو اس کی ہر ممکن امداد کرتے تھے.چنانچہ آپ کے اس حسن سلوک کا غیر احمدیوں پر بھی اچھا اثر تھا.اور جب غیر احمدی آپ کا مقابلہ غیروں سے کرتے تھے تو ان کے لئے کوئی چارہ سوائے قبول احمدیت کے نہ رہتا تھا“.آپ کا نیک نمونہ احمدی بنانے کا موجب ہوتا: چنانچہ بعض لوگ آپ کے اس نیک نمونہ کو دیکھ کر ہی داخل سلسلہ ہوئے تھے.چوہدری فتح محمد صاحب سکنہ ماڑی بوچیاں ( ضلع گورداسپور ) اپنے گاؤں میں اچھے ذی عزت زمیندار تھے.اور عہدہ کے لحاظ سے وہ سفید پوش یا ذیلدار تھے.وہ محض ملک صاحب کے حسن سلوک اور رواداری کی وجہ سے داخل سلسلہ ہوئے تھے اور داخل سلسلہ ہونے کے بعد بھی چوہدری صاحب کے ملک صاحب اور اُن کے خاندان کے ساتھ ایسے تعلقات تھے جیسے دو حقیقی بھائیوں کے خاندانوں کے ہوتے ہیں.ان کی ہر غمی اور خوشی میں شریک ہوتے تھے.اعلیٰ ڈرافٹ تیار کرنے کی قابلیت : پنشن کے بعد آپ نے یہاں اپنا مکان تعمیر کرایا ۳۶۳۷ء میں آپ میونسپل کمیٹی کے پریذیڈنٹ منتخب ہوئے.میں نے مرحوم کے ساتھ ۳۷ ء سے لے کر ۴۷ ی تک متواتر دس سال تک کام کیا.میں کمیٹی میں ممبر تھا.میں نے اس تمام عرصہ میں ہمیشہ یہ دیکھا کہ مرحوم کیا ڈرافٹ تیار کرنے میں اور کیا قانون دانی میں ایسا مضمون اور عبارت لکھواتے تھے جو جامع مانع ہوتی تھی اور بالا افسران سرکاری اس میں کوئی غلطی یا ستم نہ نکال سکتے تھے.اب بھی جبکہ آپ قادیان سے جا کر اس جہان فانی سے رحلت فرما چکے ہیں.میونسپل کمیٹی کے موجودہ کارکنان آپ کی تقلید میں آپ کے پرانے جامع فقرات کو گذشتہ سالوں کے رجسٹرات روئداد سے نقل کر کے اپنے فیصلہ جات میں استعمال کرتے ہیں.غیر مسلموں کے احساسات کا خیال رکھنا : صدارت بلدیہ کے عرصہ میں آپ کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ سکھ اور ہند وممبروں کو ساتھ رکھا جائے اور کوئی ایسا ریزولیوشن پاس نہ ہو جس میں اتفاق رائے نہ ہو.آپ رواداری اور غیروں کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے اپنی ڈیوٹی کو سرانجام دیتے رہے.اگر کبھی کوئی معاملہ ایسا پیش آجاتا جس میں مذہب کا ذرا بھی دخل ہوتا تو آپ ہندو سکھ
168 ممبران سے کہہ دیتے کہ آپ لوگ چلے جائیں کیونکہ ہم نے گائے یا بوچڑ خانہ وغیرہ کے متعلق کوئی ریزولیوشن پاس کرنا ہے.گویا غیر مسلموں کے احساسات کا احترام کرتے تھے.تحمل اور بُردباری: ” میرے مشاہدہ میں اکثر یہ بات بھی آئی کہ آپ کا اگر اپنے کسی ساتھی کے ساتھ اختلاف رائے ہوتا تو تحمل اور بردباری سے برداشت کرتے.اور اگر کسی ممبر کے ساتھ وقتی طور پر ناراض بھی ہو جاتے تو تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کے ساتھ بولنے اور اُسے خوش کرنے کی کوشش کرتے تھے.میونسپل کمیٹی کا کام باقاعدہ دفتر میں بیٹھ کر سرانجام دیتے تھے.اور اس وقت تک دفتر میں موجود رہتے جب تک سارا کام ختم نہ ہو جاتا.ملک صاحب کو کلرک آف کورٹ رہ چکنے کی وجہ سے دیوانی اور فوجداری قوانین سے اس قدر واقفیت تھی کہ میں بحیثیت قاضی یا ناظم قضاء یا میرے بعض قاضی ساتھی قضاء کے معاملہ میں قانونی مشورہ لیتے تھے.اور میں نے ہمیشہ ان کی رائے کو صائب پایا.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی شاید انہی وجوہ کی بناء پر آپ کو قضائی مقدمات کے لئے اپنا ریڈر مقرر فرمایا تھا.آپ مسل کا خلاصہ اس طرح کر کے حضور کی خدمت میں پیش کرتے کہ حضور کو فیصلہ میں آسانی رہتی تھی.ملک صاحب مرحوم نے بہت سے قضائی اسقام کی درستی کے لئے حضور کی خدمت میں مشورہ عرض کر کے حضور کی ہدایات حاصل کیں.اور انہیں قواعد میں شامل کروایا.اس لحاظ سے محکمہ قضاء میں بعض امور ہمیشہ مرحوم کی یادتازہ رکھیں گے.عربی سیکھنے کا شوق : ملک صاحب مرحوم علم دوست آدمی تھے.پنشن کے بعد ان کو عربی تعلیم کے ساتھ خاص دلچسپی پیدا ہو گئی تھی.چنانچہ آپ " تحصیل عربی کے لئے با قاعدہ بعض درسی کتب سبقاً سبقاً پڑھا کرتے تھے.جس کا فائدہ یہ ہوا کہ آپ کو عربی میں خاص واقفیت حاصل ہو گئی تھی.اور اکثر اوقات بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں پڑھ کر خصوصاً میونسپل کمیٹی میں اجلاس کے دن مجھے مسجد اقصیٰ سے اپنے ساتھ لے لیتے اور عربی میں گفتگو کرتے جاتے تھے.چنانچہ
169 باوجود یکہ آپ نے با قاعدہ مدرسہ میں تحصیل علم عربی نہ کی تھی.آپ کو عربی بول چال میں کافی محاورہ ہو گیا تھا.آپ کو اس بات سے قطعا بچکچاہٹ نہ تھی کہ میں کس کو استاد بناؤں.وہ جسے بھی دیکھتے تھے اس سے سبق پڑھ لیتے تھے.چنانچہ میں نے انہیں مولوی جلال الدین صاحب قمر مجاہد افریقہ ولد میاں علم الدین صاحب شہید (حلقہ مسجد فضل قادیان ) سے بھی جوان ایام میں مدرسہ احمدیہ کے طالب علم تھے سبق پڑھتے ہوئے دیکھا.آپ کے شوق کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگر میں نے موسمی تعطیلات میں کہیں باہر جا کر آپ کو خط لکھا تو آپ نے مجھے ہمیشہ عربی میں جواب دیا تا کہ میں دوسرا خط عربی میں لکھوں.* مطالعہ کتب کا شوق: رض ناظم جائیداد بھی تھے.اس دفتر کے فارغ اوقات میں اور اُن کے گھر میں بھی جب کبھی میں اُن سے ملا ہمیشہ مطالعہ میں مصروف پایا.الا ماشاءاللہ.اُن کے اندر تذبر اور تفکر اتنا تھا کہ نئے نئے معانی کا استنباط اور استدلال کرنے میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا.چنانچہ الفضل وغیرہ اخبارات میں جو مضامین اُن کے شائع ہوتے رہے وہ اس پر دال ہیں.جہاں وہ اعلیٰ نامہ نگار اور اچھے مضمون نویس تھے.وہاں وہ عمدہ شاعر بھی تھے اور ہماری درخواست پر لوکل جلسوں میں اپنی تقاریر سے لوگوں کو محظوظ فرمایا کرتے تھے بالخصوص جلسہ سيرة النبیؐ میں وہ نظم بھی سنایا کرتے اور تقریر بھی فرماتے تھے.علاوہ ازیں میں نے انہیں اخبار بینی کی مداومت کرتے ہوئے بھی دیکھا اور انہیں ملک کی فضا سے خوب باخبر پایا** - مرحوم پبلک کے عام مفاد کا بھی خیال رکھتے تھے.دیہات سُدھار کے متعلق انہوں نے ایک منظوم رسالہ بھی شائع کرایا تھا.“ * خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ اگر میں کسی وقت آپ کے پاس دفتر میں آجاتا تو بعض اوقات مجھ سے بھی عربی کا سبق پڑھ لیتے تھے.آپ نے اپنی وفات سے ڈھائی ماہ قبل مکتوب مورخہ ۵۰-۱۳۸ میں مجھے تحریر کیا کہ کیا وہاں سے مولوی غلام محمد والی لغت تسہیل العربیل سکتی ہے.میرے پاس الحمد اللہ مند ہے جو میں لے آیا تھاوہ (تسہیل العربیہ ) وہیں رہی.“ ** (الف) مقامی جلسوں میں ملک صاحب کی تقریروں کا ذکر الفضل میں موجود ہے.چنانچہ (۱) ۱۳/ اگست ۱۹۳۹ء کو قادیان میں تحریک جدید کے جلسہ میں ملک صاحب کی بھی تقریر ہوئی جو وقف رُخصت اور پنشنر احباب خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں“ کے موضوع پر تھی.اس میں آپ نے فرمایا ” سورہ انشراح میں خدا تعالیٰ نے (حاشیہ اگلے صفحہ پر )
شمال 叫 چار دیواری حضرت مسیح موعود تابیان دارالامان جنت نشاں پیمانه ۳۳ فٹ تر از اونی قطعه نمبر ۳ قطعہ نمبر ے ALYANTY 111 1 حصہ 170 در مجالات برتر ا مبارک احمد صاحب میرزا ابوب بیگ صاحب منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی ) مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام ف مزار حضرت الحليفته المسبح اول مزار صاحبزادہ مرزا مبارک محمد ه اند ه مزار مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ہے مزار ژنیب صاحب الیہ مولوی عبد الر بر نا یا کوئی مزار ابته الحمید صاله هزار رانی صاحبہ اپنی منشی محمد جمیل صاحب سیالکوٹی هزار مورنا ایوب بیگ صاحبت کی انوری بقیه حاشیه : به قانون بیان فرمایا ہے کہ فَإِذَا فرغت فانصب والی ربک فارغب یعنی جب ملازمت سے فارغ ہو جاؤ اور چھوٹی سرکار سے پنشن لے لوتو الی ربک فارغب.بڑی سرکار کا بلا معاوضہ (باقی اگلے صفحہ پر )
صحت جسمانی اور حلیہ : 171 مرحوم با وجود پنشن یافتہ ہونے کے اور کافی معمر ہونے کے اچھی صحت کے مالک تھے.اور اپنی صحت کی بحالی کے لئے روزانہ صبح کے وقت سیر کے لئے باہر نکل جایا کرتے اور دو اڑھائی میل کا چکر لگا کر واپس آیا کرتے.“ راقم عرض کرتا ہے کہ ملک صاحب کو تقسیم ملک سے چند سال قبل سے مجھے قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا.آپ بہت سی اوصاف حمیدہ کے مالک تھے.بحیثیت عہدہ کے آپ کے جو کام سپر د ہوتا اسے خوب دیانتداری سے سرانجام دیتے اور کسی دوستی اور تعلق کو اس پر اثر انداز نہ ہونے دیتے.میونسپل کمیٹی کی طرف سے بعض اوقات بقیه حاشیه : کام کرو.اور خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دو.“ (الفضل جلد ۷ نمبر ۱۸۵ بابت ۱۵/ اگست ۱۹۳۹ء) (۲) مدنیہ اسیح “ کے تحت مرقوم ہے کہ جنگ کے لئے ٹیریٹوریل کی بھرتی کے لئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سندھ سے پیغام بھجوایا جو قادیان میں حضرت میر محمد الحق نے سنایا محلوں میں بھرتی کے لئے تحریک کی گئی.چنانچہ محلہ دارا الفضل میں تحریک کرنے والوں میں ملک صاحب کا نام بھی لکھا ہے.(الفضل جلد۲۷نمبر ۲۸ بابت ۵ اکتوبر ۱۹۳۹ء) (۳) اسی طرح مدینہ اسی “ کے تحت اعلان کیا گیا کہ خدام الاحمدیہ کے ماہوار جلسہ میں بعض احباب تقریر کرینگے ان میں ملک صاحب کا نام بھی مرقوم ہے (الفضل جلد ۲۹ نمبر ۲۰۹ بابت ۲ ستمبر ۱۹۴۱ء) (ب) آپ کے بعض مضامین کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے: (۱) آپ نے دیہاتیوں کی اصلاح کیلئے ایک لمبی نظم دیہاتی کی سرگذشت لکھی اور کتابی صورت میں شائع کی تھی.(۲) ایک بہت عمدہ مضمون دیوان حافظ کی غزل.بیا که رایت منصور بادشاه رسید سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کا ثبوت کہ شیعہ کتب میں مہدی کا ایک نام منصور بھی ہے (الفضل) (۳) مضمون زیر عنوان Nation Building ریویو آف ریچز انگریزی جلد ۳۵ نمبر۲ بابت ماه فروری ۱۹۳۶ء) (۴) نوصفحات پر پر مشتمل مضمون زیر عنوان THE THEORY OF THE CREATION OF MAN ریویو آف ریلیجنز انگریزی جلد ۳۵ نمبرا ا بابت ماہ نومبر ۱۹۳۶ء نیز یہ مضمون الفضل میں بھی شائع ہوا) (۵) مضمون زیر عنوان ” پنشن یافتہ احمدی اصحاب اور خدمت دین (الفضل جلد ۲۸ نمبر ۲۱۷ بابت ۲۴ ستمبر ۱۹۴۰ء) (۶) مضمون زیر عنوان ” حضرت عیسی علیہ السلام کیسے پرندے بناتے تھے ( الفضل جلد۳۱ نمبر ۲۷۶ بابت ۲۴ نومبر ۱۹۴۳ء) (۷) مضمون زیر عنوان ”حیات بعد الممات کا ثبوت ڈاکٹر فرائڈ کے نظریہ کی رُو سے“ الفضل جلد ۳۱ نمبر ۳۰۲ بابت ۲۵/ دسمبر ۱۹۴۳ء) (مؤلف) بقیه حاشیه : یہ قانون بیان فرمایا ہے کہ فَإِذَا فرغت فانصب والی ربک فارغب یعنی جب ملا زمت سے فارغ ہو جاؤ اور چھوٹی سرکار سے پنشن لے لو تو الی ربک فارغب.بڑی سرکار کا بلامعاوضہ (باقی اگلے صفحہ پر)
172 بعض قوانین کی خلاف ورزی ہو جانے پر آپ اپنے نہایت ہی عزیز دوستوں کو بھی جرمانہ کرتے اور کہتے کہ قانون کا اقتضاء یہی ہے ورنہ دوسرے لوگ بھی قانون شکنی پر اتر آئیں گے.اگر اس فعل کی وجہ سے ذاتی تعلقات پر کوئی اثر پڑتا تو اپنے دوستوں کی طرف سے ہر جانے یا جرمانے اپنی جیب سے بخوشی ادا کرنے کو تیار رہتے.آپ درمیانہ قد فربہ جسم گندم گوں تھے متانت آپ کے چہرہ سے ظاہر تھی.میں بسا اوقات آپ سے ملاقات روحانی اطمینان کے حصول کے لئے کرتا تھا.اور مجھے آپ کی ایمان افزا باتوں سے ہمیشہ ہی تسکین ہوتی تھی.آپ کے اخلاق حسنہ خندہ پیشانی وغیرہ مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے سابق مبلغ جرمنی و انگلستان حال مقیم لاہور فرماتے ہیں: ملک مولا بخش صاحب نے مجھے بتلایا تھا کہ انہوں نے ۱۹۰۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی اس طرح گویا پوری نصف صدی انہوں نے احمدیت میں گذاری.گذشتہ ۱۳ ۱۴ سال سے جب وہ ہجرت کر کے قادیان میں آ کر محلہ دارالفضل میں اپنا مکان بنا کر آباد ہو گئے تھے میرے ان کے ساتھ گہرے تعلقات تھے مجھے وہ اپنا حقیقی چھوٹا بھائی سمجھتے تھے اور خواہ کتنی بار دن میں میں اُن سے ملوں وہ نہایت محبت اور خوشی سے ملتے تھے.میرے ساتھ تو اُن کے خاص محبت کے تعلقات تھے ہی لیکن عام طور پر بھی ملک صاحب ہر ملنے والے سے نہایت خندہ پیشانی سے ملتے تھے.یوں بھی وہ ہر وقت خوش رہتے تھے.میں نے ان کو بہت کم غمگین دیکھا ہے.وہ لا خوف عـلـيـهـم ولا هم يحزنون کی زنده تصویر تھے چونکہ ان کو اللہ تعالیٰ پر کامل یقین تھا اور بندوں سے ڈرتے نہیں تھے اس لئے خوف و ہراس اُن کے پاس تک نہ پھٹکتا تھا.عدم تعصب.اسلام دوستی کی وجہ سے دنیوی نقصان : ملک صاحب نے اپنی زندگی جوڈیشل محکمہ میں ملازمت سے شروع کی اور اسی محکمہ میں کلرک آف دی کورٹ کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے انہوں نے مجھے بتلایا کہ کئی لوگ جوان سے جونیئر تھے سب حج ہو کر ریٹائر ہوئے.لیکن ان کی ترقی سر شادی لال چیف جج پنجاب ہائی کورٹ کے قومی تعصب کی قربان گاہ کے بھینٹ چڑھ گئی.سرشادی لال ایک نہایت متعصب ہندو تھا وہ مسلمانوں کا سخت مخالف تھا.اس کو خیال تھا کہ ملک مولا بخش صاحب ایک لائق اور متعصب مسلمان ہیں.اگر یہ بڑے عہدے پر پہنچ گئے اور ج ہو گئے تو اس سے
173 مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گا اور ہندوؤں کو ان کے ہاتھوں نقصان اٹھا نا پڑیگا.سر شادی لال کا ملک صاحب کے متعلق یہ خیال بے بنیاد تھا.ملک صاحب بے شک ایک غیرت مند مسلمان ضرور تھے کیونکہ ہر سچا احمدی غیرت مند مسلمان ہوتا ہے اور احمدیت ہمیں یہی سکھلاتی ہے لیکن وہ متعصب نہ تھے ان کا معیار عدل وانصاف اتنا بلند تھا کہ جانتے ہوئے انہوں نے کبھی کسی انسان سے بے انصافی نہ کی.ملک صاحب اپنی قوم سے محبت اور ہندو قوم سے تعصب کے فرق کو خوب جانتے تھے.یہ درست ہے کہ جہاں انہوں نے کبھی کسی ہندو یا سکھ کے ساتھ بوجہ اس کے ہندو یا سکھ ہونے کے بے انصافی نہ کی وہاں انہوں نے کسی مسلمان کے جائز حق کو بھی جہاں تک اُن کا بس چلا اس وجہ سے ضائع نہ ہونے دیا کہ ان کا اپنا اعلیٰ افسر غیر مسلم تھا اور ایک مسلمان کے حق کی حفاظت کرتے وقت وہ ان سے ناراض ہو جائے گا.سر شادی لال کمزور مسلمان افسروں کے ہاتھوں مسلمانوں کے حقوق کا خون کرواتا تھا.ملک صاحب مرحوم اس قسم کے مسلمان نہ تھے.اس لئے وہ ہمیشہ ملک صاحب کے مخالف رہا اور جب کبھی جی کے لئے ان کی سفارش ہوتی تو وہ اس کو رد کر دیتا لیکن جہاں شادی لال صاحب کا یہ رویہ تھا ایک دوسرا ہائی کورٹ کا انگریز جج مسٹر سکیمپ ملک صاحب کی جرات کی وجہ سے اُن کا بے حد مداح تھا.ایک دفعہ مسٹرسکیمپ کو جب وہ گورداسپور میں سیشن جج تھا ملک صاحب نے ایک غلط فیصلہ کرتے ہوئے روکا تھا جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ ملک صاحب کا مداح رہا.خوشامد سے دلی نفرت اور حق کہنے میں جرات : ملک صاحب کی دوسری خوبی جو وہ بھی ان کی ترقی کے راستہ میں روکاوٹ بنی رہی ان کی خوشامد سے دلی نفرت تھی.اپنے افسروں کی خوشامد کرنا تو درکنار وہ کبھی ان کے سامنے سچی بات کہنے سے بھی نہ رکھتے تھے.خوشامد سے نفرت اور حق بات کہنے میں بے باکی ملک صاحب کے کیرکٹر کی امتیازی خصوصیت تھی.ملک صاحب بڑے ذہین اور علم دوست انسان ت كلمة الحق ضالة المومن اخذ بها حيث وجد ہا پر ان کا پورا عمل تھا چھوٹے بچوں سے بھی وہ اچھی بات سُن کر اس پر عمل کرتے تھے.اگر کسی دوست سے کوئی علمی نکتہ سُن لیتے تھے تو بار بار خوشی کے ساتھ اس کا ذکر کرتے اور اُس دوست کی تعریف
174 کرتے.دوسروں کی تعریف کرنے میں وہ بہت کشادہ دل تھے.لیکن کسی کی جھوٹی تعریف نہ یہ کہ وہ خود نہیں کر سکتے تھے بلکہ سُن بھی نہیں سکتے تھے.حضرت میر محمد الحق صاحب رضی اللہ عنہ کے بخاری کے درس میں باقاعدہ حاضر ہوتے تھے اور اس طرح استفادہ کرتے تھے جس طرح ایک بچہ اپنے استاد سے سیکھتا ہے.حضرت میر صاحب سے ان کو ان کے علمی تبحر کی وجہ سے بے حد محبت تھی.شوق مطالعہ : ان کو ہر قسم کے مطالعہ کا شوق تھا ان کی عمر ۷۰ سال کے قریب ہو چکی تھی لیکن پھر بھی وہ روزانہ کئی گھنٹہ مطالعہ کرتے تھے اور کبھی کبھی الفضل میں مضامین بھی لکھتے رہتے تھے.قرآن کریم با قاعدہ پڑھتے تھے اور اس کے مطالب پر تدبر کرتے تھے.جہاں ان کی طبیعت کا یہ حال تھا کہ ہر جگہ سے علمی باتیں جمع کرتے رہتے تھے اور کشادہ دلی سے اقرار کرتے تھے کہ فلاں نکتہ میں نے فلاں صاحب سے سنا وہاں دوسری طرف وہ سخت غیر مقلد بھی تھے محض کسی بات کو اس لئے قبول نہیں کرتے تھے کہ کسی بڑے آدمی نے وہ بات کہی ہوئی ہوتی تھی.خدمت خلق : ملک صاحب کو ہومیو پیتھک طریقہ علاج کا بہت شوق تھا اس کے متعلق ہمیشہ کتابیں منگواتے رہتے اور مطالعہ کرتے تھے اور خود علاج بھی کر لیتے تھے.* کل کا فکر نہ کرنا : طبیعت کی بے پروائی سمجھئیے یا تو کل علی اللہ ملک صاحب کو کل کا کبھی فکر دامنگیر نہ ہوا.وہ اپنی ساری تنخواہ ماہ بماہ خرچ کر دیتے تھے اور حالات بھی کچھ ایسے ہی * ملک سعید احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ گورداسپور کی ملازمت میں الیکٹرو ہومیو پیتھک ادویہ سے بہت متاثر ہوئے.چنانچہ آپ یہ ادویہ لوگوں کو مفت دیتے تھے.اور اگر کوئی ان کے عوض کچھ دیتا بھی تو نہ لیتے بلکہ صاف کہہ دیتے کہ میرا ان پر خرچ نہ ہونے کے برابر ہے اور ان کا اثر میرے خرچ سے کئی گنا خوشکن ہے.اس لئے میرے لئے یہ امر باعث مسرت ہے کہ غرباء صحت یاب ہو کر میرے لئے دعا کریں.بعد میں آپ نے یونانی ویدک اور ایلو پیتھی کی چند دواؤں سے متاثر ہو کر بعض نسخے بنوائے تھے اور چونکہ تقسیم ملک کے بعد آمدنی کا وہ پہلا سلسلہ نہ تھا اس لئے آخری چند ماہ میں آپ کسی کسی خاص دوائی کی قیمت لاگت لے لیتے تھے.(مؤلف)
175 ہوتے رہے کہ ملک صاحب خرچ کی وجہ سے کبھی تنگ دست نہ ہوئے اور گو پنشن ملنے کے بعد پہلی سی کشائش رزق میں نہیں رہی تھی لیکن جو کچھ ان کو ملتا تھا وہ اس پر ہی قانع تھے.میں نے کبھی ان کی زبان سے حالات کی تنگی کی شکایت نہیں سنی.وہ خدا تعالیٰ کی قضاء پر ہمیشہ راضی رہتے تھے.ملک صاحب کی صحت عموماً بہت اچھی تھی.کچھ اس وجہ سے اور زیادہ اس وجہ سے کہ وہ صحابی تھے.ملک صاحب پانچ وقتہ نمازوں میں بہت با قاعدہ تھے.محلہ دارالفضل کی رونق زیادہ تر ملک صاحب موصوف.مولوی غلام حسین صاحب ، مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری اور حافظ محمد ابراہیم صاحب سے تھی.خدا کی بے شمار رحمتیں ہوں ان بزرگوں پر.ان میں سے صرف مولوی بقا پوری صاحب زندہ ہیں.اور وہ بھی چراغ سحری ہیں.آہ! ے آں قدح بشکست و آں ساقی نماند یہی بزرگ ہمارے محلہ کی مسجد کی بھی رونق تھے.آپ کی سادگی ملک صاحب تصنع سے بے زار اور نہایت بے تکلف انسان تھے یہاں تک کہ اپنی اولاد سے بھی بے تکلف تھے.وہ اولاد کے معاملہ میں بالکل سخت گیر نہ تھے.میں نے دیکھا کہ بعض اوقات ان کے لڑکے ان سے معصوم مذاق بھی کر لیتے تھے.اور ملک صاحب ایسے معصوم مزاح سے خوش ہوتے تھے.بابوا کبر علی صاحب رضی اللہ عنہ ان کے سمدھی تھے لیکن ان دونوں بزرگوں میں بے حد محبت تھی.* صاحب رؤیا و کشف ہونا : ملک صاحب صاحب رؤیا و کشوف بھی تھے ان کا ایک الہام تو ابھی تک مجھے یاد ہے جب چوہدری کرامت اللہ صاحب ابن بابوا کبر علی صاحب مرحوم و مغفور کی شادی کی تجویز ملک صاحب مرحوم کی بڑی لڑکی سے ہوئی تو چونکہ ملک صاحب اور بابو صاحب رضی اللہ عنہ میں سوائے احمدیت کے تعلق کے اور کوئی پہلی واقفیت نہ تھی.اس لئے قدرتا ملک صاحب کچھ * بابو صاحب کے ساتھ جو اعلیٰ درجہ کا محبت کا تعلق تھا اس کا ذکر ملک صاحب نے اپنے مضمون 'بابوا کبر علی صاحب مرحوم کی بعض خوبیوں کا ذکر میں کیا ہے.الفضل جلد ۳۱ نمبر ۲۳۱ بابت یکم اکتوبر ۱۹۴۳ء) (مؤلف)
176 فکرمند تھے.انہوں نے دعا اور استخارہ کیا تو الہام ہوا ” داماد مبارک“ ملک صاحب کا داماد جیسا ان کی لڑکی کے لئے مبارک ثابت ہوا اور اس کی مثال بھی بہت کم ملتی ہے.“.وفات سے چند ماہ قبل انہوں نے جماعت کے مستقبل کے متعلق ایک عجیب رویا دیکھا جس کا اظہار اس وقت مناسب نہیں.غرضیکہ ملک صاحب مرحوم و مغفور ایک صاف دل صاف گور است باز بے تکلف حد درجہ متوکل علم دوست اور پابند صوم وصلوٰۃ بزرگ تھے.“ حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب دام میضہم نے ملک صاحب کے متعلق جو مکتوب ارسال فرمایا ذیل میں درج ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبده السيح الموعود رتن باغ لاہور ٣/١٢/٥٠ مکرمی محترمی ملک صلاح الدین صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکانه آپ کا خط موصول ہوا.جو کچھ مجھے یاد ہے لکھے دیتا ہوں: (1).ملک مولا بخش صاحب مرحوم غالباً ایجنٹ کے عہدہ پر مقرر ہو کر گئے تھے یعنی وہ سندھ کی اراضیات کی نگرانی کے لئے مالکوں کا قائم مقام تھے.ان کے ماتحت مقامی حلقوں کے کام کے لئے مینیجر صاحبان تھے.(2).مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ حضرت صاحب نے مجھے اور ملک صاحب مرحوم کو اپنی قائم مقامی سے اپیلوں کی سماعت کے لئے باقاعدہ مقرر کیا ہو لیکن یہ درست ہے کہ ملک صاحب موصوف بعض اپیلوں کو لیکر میرے پاس آتے تھے اور پھر ہم دونوں مل کر فیصلہ کرتے تھے.یہ معلوم نہیں کہ ان خاص اپیلوں کے متعلق حضرت صاحب کا ارشاد تھا یا کہ عام تھا.غالباً * ملک صاحب مرحوم نے مجھے داماد مبارک الہام کے متعلق لمبی تفصیل بھی تحریر کر کے دی تھی جس میں یہ بھی ذکر ہے کہ آپ کی اس بیٹی نے بھی خواب دیکھا تھا کہ اس کی جھولی میں چاند آ پڑا ہے.چنانچہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم کی تحریک پر آپ نے یہ رشتہ منظور کیا تھا.(مؤلف) احمد
177 ایک عرصہ کے لئے عام حکم ہی تھا جن دنوں میں کہ حضرت صاحب زیادہ مصروف تھے مگر مجھے پختہ علم نہیں ہے.(3).ملک صاحب مرحوم ساری عمر عدالتوں کے فیصلہ پر کام کرتے رہے.اس لئے وہ مروّجہ قانون سے کافی واقف تھے اور صحابی اور دیندار ہونے کی وجہ سے خاص مطالعہ کے بغیر ہی کسی حد تک شریعت کے اصولوں سے واقف تھے نیکی کا مادہ بھی رکھتے تھے.ان کے بعض مضمونوں میں نئے نکتوں کی جھلک نظر آتی ہے.(5).ملک صاحب مرحوم کو عربی بولنے کا بھی شوق تھا.جو بھی عربی دان ملتا اس سے عربی میں گفتگو شروع کر دیتے تھے.اس کے نتیجہ میں انہیں روز مرہ کے فقرات کی مشق ہوگئی تھی.حالانکہ ویسے عربی کا کوئی خاص مطالعہ نہیں تھا.(6).ملک صاحب بہت اچھے دوست تھے اور دوستوں کے لئے قربانی کا مادہ رکھتے تھے اور ان کی رائے بھی عموماً صائب ہوتی تھی.لیکن غالباً ان کا سب سے زیادہ اثر طریق کار اور ضابطہ اور method کے میدان میں پڑا ہوگا.واللہ اعلم.(7) - ملک صاحب مرحوم بہت مخلص اور خدا....کے لوگوں میں سے تھے اور.کچھ....غالباً بلڈ پر یشر کی زیادتی کی وجہ سے کبھی کبھی مزاج برہم ہو جاتا تھا مگر اس کے بعد جلد ہی صاف ہو جاتے تھے اور ان کے دل میں غل کا کوئی اثر نہ رہتا تھا جو قرآن شریف نے متقیوں کی نشانی بیان کی ہے.اپنے ماتحتوں کے ساتھ بھی ان کا سلوک بہت اچھا تھا.بہت زندہ دل خوش مزاج بزرگ تھے.(8).وہ کافی عرصہ تک میرے ماتحت نائب ناظر تعلیم و تربیت رہے اور مجھے ان کی امداد کی بہت قدر تھی.مسلوں کا بغور مطالعہ کرتے اور بہت عمدہ خلاصہ نکال کر پیش کرتے تھے اور اس کے ساتھ رائے بھی اچھی دیتے تھے.اگر میں ان کی رائے سے اختلاف کرتا تو وہ کبھی کبھی ادب کے ساتھ اپنی رائے پر اصرار بھی کرتے تھے اور لیکن جب میں قطعی طور پر کہہ دیتا کہ ایسا ہونا چاہئے تو پھر شرح صدر کے ساتھ مان لیتے تھے اور بعض اوقات میں انکی مان لیتا تھا.(9).وفات سے چندہ ماہ قبل انہوں نے مجھے اپنی ایک خواب لکھ کر بھیجی کہ میں نے (یعنی خاکسار مرزا بشیر احمد نے چیتے کی کھال کا لباس پہنا ہوا ہے کئی کہ ٹوپی اور جوتی بھی چیتے کی
178 کھال کی ہے اور سارا لباس چیتے کی کھال کا ہے.غالبا اس سے دشمنوں پر غلبہ پانا مراد ہوتا ہے.واللہ اعلم بالصواب.والسلام حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا آپ کے متعلق خیال: خاکسار مرزا بشیر احمد حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۹ جون ۱۹۳۴ء کو ملک صاحب کے بیٹے اخویم ملک سعید احمد صاحب کا نکاح مکرم سید غلام حسین شاہ صاحب کی صاحبزادی سے پڑھا.اور خطبہ میں فرمایا : سید غلام حسین صاحب جن کی لڑکی کا نکاح ہے.قاضی سیدامیرحسین صاحب کے بھائی ہیں اور پرانے احمدی ہیں.ملک مولا بخش صاحب بھی میرے بہت دیر سے ملنے والے ہیں اور مخلص ہیں.جہاں تک میرا خیال ہے وہ اخلاص میں ترقی کرتے رہے ہیں.ان کا بیٹا جس کا نام بھی سعید ہے اور ویسے بھی سعید ہے..آپ کے جنتی ہونے کے متعلق رویا: 66 ملک صاحب بیان کرتے تھے کہ خوابوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کئی دفعہ اپنے فضل سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی برکت سے بعض علوم و مسائل لطیفہ سے اطلاع دی اور مہمات الامور میں میری رہبری فرمائی.ایک دفعہ میں نے بہشت کو دیکھا اور میں حلفاً شہادت دے سکتا ہوں کہ محض اس کو دیکھنے سے جو سرور حاصل ہوتا ہے وہ لذت وسرور دنیا کی کسی چیز میں نہیں پایا جا تا.ملک صاحب نے اپنی سوانح میں.فرمایا: ” سب سے آخری بات جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ ایک خواب ہے جو فروری ۳۹ء میں میں نے قادیان میں دیکھا.اس خواب کا میرے روئیں روئیں پر اس وقت تک اثر ہے.میں نے دیکھا کہ چند اشخاص اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے گئے.ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے اور یہ خاکسار بھی اللہ تعالیٰ ایک سفید روسفید ریش انسان کی شکل میں ایک کرسی پر جلوہ افروز تھا...ایک میز بھی تھی مگر معمولی.اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کو دوگروہوں میں تقسیم کر دو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس گروہ
179 میں تھے میں اس میں نہیں تھا.پھر فرمایا ان دونوں گروہوں کو بہشت کے مختلف مقامات میں لے جاؤ.میں اس وقت کہتا ہوں کہ جو مقام مجھ کو عطاء ہوا ہے میں تو اس کے قابل بھی نہیں.ہر طرح موجب تشکر ہے.میں اس پر خوش بھی ہوں.مگر ایک بات میری جان کو کھاتی ہے کہ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اب علیحدگی ہوگی میں نے اس خیال سے زار و قطار رونا شروع کر دیا.اللہ تعالیٰ نے میری زاری دیکھ کر فرمایا تم تو بہت روتے ہو.اچھا سب کو ایک ہی جگہ لے جاؤ......! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی لے جاؤ.اس پر مجھے تسکین ہوئی اور میں جاگ پڑا.اے اللہ ! یہ میرے نفس کی بناوٹ نہ ہو میں واقعی اس قابل نہیں مگر تو سچے وعدوں والا ہے.میں کمزور ہوں.میں نے دیکھا ہے کہ میں اپنی طاقت سے بدی سے نہیں بچ سکا.ہر وقت کمزوری محسوس کی کہ اب گرا کہ گرا.مگر تو نے بر وقت مجھ کو سنبھالا اور میری مدد کی.اے پیارے مولا تیرے سایہ میں میری عمر کا بہت بڑا حصہ گذر گیا اب کوئی دم کی بات ہے.اب بھی مجھے اپنی حفاظت اور عنایت سے محروم نہ رکھنا.میں تو اب بھی گر سکتا ہوں.ہاں پیارے تو ہی بچا کے رکھ اور میری جماعت میرے دوستوں اور میرے اہل وعیال اور بچوں پر اپنا فضل رکھ ان کے نیک اور اپنے دین کے خادم بنا.حضرت مسیح موعود کے شعر کو ذرا سے تصرف سے بطور دعا کے عرض کرتا ہوں لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں ہوں نالائق مجھے تو بخش دے درگاہ میں بار والسلام دوستوں کو سلام.بزرگان سلسلہ کو آل مسیح موعود کو خلیفہ وقت کو سلام اور درخواست دعا.خاکسار مولا بخش پنشنر حال پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی قادیان 11-07-46
180 اہلیہ ملک صاحب: ملک صاحب کے برادر نسبتی قادر بخش صاحب ( پسر میاں الہ بخش صاحب امرتسری ) بھی علاقہ بندی کا کام ہی کرتے تھے.پہلوانی بھی کرتے تھے.اپنے والد صاحب کی بیعت کی وجہ سے احمدی تھے.یقینی طور پر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ انہوں نے حضور کی زیارت کی تھی یا نہیں.بعارضہ ہیضہ ۱۹۰۹ء میں اٹھارہ سال کی عمر میں وفات پائی.محترمہ اہلیہ ملک صاحب کو حضور کے زمانہ میں قادیان آنا یاد نہیں.البتہ بیان کرتی ہیں کہ یہ اچھی طرح یاد ہے کہ حضور جب کہ ایک بارمیاں معراج الدین صاحب عمر کے ہاں لاہور میں مقیم تھے تو میں اور صاحبزادی نواب مبار که بیگم صاحبہ جو دونوں بچہ ہی تھیں اس مکان میں لکڑی کی سیڑھی پر چڑھتی اترتی تھیں.حضور نے فرمایا کہ گر نہ جانا میں نے کہا کہ ”نہیں“ ہم نہیں گرتے اس وقت حضور نے ٹو کا پاجامہ اور دیسی جوتی پہنی ہوئی تھی اور ٹہلتے ٹہلتے کچھ لکھ رہے تھے.کھیلتے کھیلتے ہم دونوں ننگے پاؤں حضور کے بستر پر چڑھ گئیں.حضور نے ایک امرود چیر کر ہم دونوں کو دیا اور پانچ دانے انگور بھی دیئے جو کھالئے نیز یہ بھی بیان کرتی ہیں کہ حضور کے فرمانے پر میری والدہ نے حضور کو ڈاک سنائی اور حضور نے جو جواب لکھوائے وہ لکھے.ایک خادمہ دودھ کا پیالہ لائی تو حضور نے دریافت فرمایا آیا والدہ دودھ پیئیں گی تو والدہ نے عرض کی حضور تہاڈا دودھ کتھے“ کہ حضور کا عطا کردہ دودھ کہاں نصیب مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میں نے والد صاحب سے آ کر کہا کہ سی تے کہندے ہی کہ ساڈے مرزا صاحب ہن.ایہناں دیاں تے اکھیاں ہی ہن نہیں.اونہاں نوں تو دسدا ای نہیں.یعنی آپ تو کہتے تھے کہ ہمارے مرزا صاحب ہیں.ان کی تو آنکھیں ہی نہیں.ان کو تو نظر نہیں آتا.اس پر والد صاحب مجھے ناراض ہوئے کہ یہ کیا کہہ رہی ہوحضوڑ کی تو آنکھیں موجود ہیں اور درست ہیں.گویا کہ حضور کی خوابیدہ نگاہی کا بچوں کو بھی احساس تھا.(۱۹۰۶ء میں ) شادی کے وقت میری عمر چودہ سال کی تھی.* * یہ سارا بیان زیر عنوان اہلیہ ملک صاحب اخویم ملک سعادت احمد نے اپنی والدہ صاحبہ سے دریافت کر کے لکھا ہے.(مؤلف)
181 حوالہ جات ۲.۴.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۹ صفحه ۴۰ بابت ۱۰ و۷ انومبر ۱۹۰۵ء.مکتوب مورخه ۴۹/ ۱۳/۸.ریویو آف ریلیجنز ، اردو جلدا انمبر ۶ ص ۳۰۰ الفضل جلد نمبر ۴۴ بابت ۲۰ فروری ۱۹۱۷ء.(۱) ریویو آف ریچنز (اردو) نومبر و دسمبر ۱۹۰۳ء (آخری اوراق) سے آپ کا خریداری نمبر ۱۵۰۴ معلوم ہوتا ہے.(۲) ” فہرست چندہ اعانت دہندگان مارچ ۱۹۰۶ ء میں ۴۹ احباب کے نام درج ہیں جنہوں نے ساڑھے چھ آنے سے لے کر چھپیں روپے تک رسالہ ریویو کی اعانت کی.ان میں ”میاں مولا بخش صاحب امرتسر عدہ کی اعانت مرقوم ہے.ریویو آف اردو جلد ۵ نمبر ۴ آخری سرورق ) (۳) اسی طرح ” فہرست خریدار دہندگان اردو بابت ماہ مئی ۱۹۰۶ ء میں بھی آپ مولا بخش صاحب احمدی ڈویژنل کورٹ امرتسر ( یعنی ایک خرید ار دیا ) ان تئیں احباب کی فہرست میں سے اٹھارہ نے ایک ایک اور پانچ نے دو دو خریدار دیئے تھے ریویوار دوجلد نمبرے.الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۳۴ء.
183 منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ * خاندانی حالات: منشی محمد اسماعیل صاحب کے جد امجد عطر سنگھ سکنہ چوہڑ کا نہ ضلع شیخو پورہ جو راجپوت ورک تھے کشمیر چلے گئے.اور ایک مسلمان نواب کے رسالہ میں ملازم ہو گئے.اور پھر مسلمان ہو گئے.مسلمان ہونے پر آپ کا نام عطر باب ہو گیا.نیک ہونے کی وجہ سے لوگوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.منشی صاحب کے پڑدادا محمد حیات صاحب کی ہمشیرہ سے اس نواب نے شادی کرنا چاہی اور وہ اسے ناپسند کرتے تھے.اس لئے کشمیر سے بھاگ کر سیالکوٹ آ گئے اور بعد ازاں ہمشیرہ کی شادی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کے والد کے نانا سے ہوئی.منشی صاحب کے والد حنفی طریق کے نیک لوگوں میں سے تھے.اور دعا گو تھے.منشی صاحب جب چھ سات سال کی عمر کے تھے ان کی ایک نصیحت کی وجہ سے عیسائیوں کے پھندے سے بچ گئے تھے.پہلے کوئٹہ میں ملازمت کرتے رہے.پھر تجارت کرنے لگے.اسی سلسلہ میں کوئٹہ کے علاقہ کی طرف گئے ہوئے تھے کہ ۸ اگست ۱۸۸۵ء کو وفات پاگئے.منشی صاحب کی والدہ مسمات عمراں بنت عبدالرحیم قوم بھٹی راجپوت سکنہ سیالکوٹ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی پھوپھی تھیں.۱۰ فروری ۱۹۳۳ء کو فالج سے فوت ہوئیں اور اب بہشتی مقبرہ میں آرام فرماتی ہیں.ابتدائی وصیت کرنے والوں میں تھیں.چنانچہ ان کا نمبر وصیت ۹۱۲ ہے.اپنے بیٹے غلام قادر صاحب کے ہمراہ قادیان آ کر اپنے بھتیجے مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کے پاس ٹھہریں اور غالباً اسی عرصہ میں بیعت سے مشرف ہوئیں.قبول احمدیت کے بعد نمازوں میں با قاعدہ * بائیس سال قبل کی بات ہے کہ زمانہ طالب علمی میں مجھے یہ شوق ہوا کہ جن صحابہ کو دیکھنے کا موقعہ ملا ہے ان کی فہرست بناؤں.بعد ازاں یہ شوق بڑھا اور ان سے جو گفتگو کرتا وہ بھی تحریر میں لے آتا.۱۹۷۵ ء میں مجھے خیال آیا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے سوانح قلمبند کروں چنانچہ منشی صاحب سے جو حضرت مولوی صاحب کے برادر نسبتی تھے ذکر کیا.آپ نے بہت انشراح سے یہ تجویز منظور کی.چنانچہ مسجد مبارک میں عصر کے بعد آپ حالات لکھواتے.بعد ازاں یہ تعلق محبت میں تبدیل ہو گیا.انہی دنوں میں نے آپ کے سوال بھی قلمبند کئے اور پھر اپنے الفاظ میں تحریر کئے.اور آپ نے ان پر نظر ثانی کر کے معمولی اصلاح بھی کر دی.ہر دو مسودات پر آپ کے دستخط ثبت ہیں اور میرے پاس محفوظ ہیں.آپ کے اور آپ کی اہلیہ اور بھائی کے حالات میں جہاں ماخذ کا ذکر نہیں وہ انہیں مسودات میں سے لئے گئے ہیں.آپ کے متعلق جو باتیں دوسروں کی طرف سے بیان کردہ درج ہیں.ان میں اکثر میں نے خود آپ سے سنی یا آپ میں دیکھی تھیں.(مؤلف)
184 ہو گئیں.بہت ملنسار اور محبت کر نیوالی تھیں.باوجو د سخت بوڑھی ہو جانے کے سوال کر کے کام کرانے کو نا پسند کرتی تھیں اور خود اُٹھ کر کام کرتی تھیں.ان کے تینوں بھائی چوہدری سلطان محمد صاحب والد مولوی عبدالکریم صاحب.جان محمد صاحب.محمد بخش صاحب احمدی تھے.ولادت، تعلیم اور حلیہ : منشی صاحب شہر سیالکوٹ میں ۱۲۸۳ھ میں پیدا ہوئے.ناظرہ قرآن مجید پڑھ کر مشن سکول میں داخل ہوئے.چوتھی جماعت میں ایک پادری انجیل پڑھاتا تھا.آپ اس پر اعتراض کرتے.جب وہ سوالات سے تنگ آجاتا تو منشی صاحب کو مارتا.پھر ایک روز تنگ آ کر اس نے کہا کہ اگر خدا مسلمانوں کو بخش دے گا تو وہ عدالت کے تخت سے گر کر کیچڑ میں بھر جائے گا.پھر آپ امریکن مشن سکول میں داخل ہو گئے.وہاں چھٹی جماعت میں ایک ہی استاد آدھ گھنٹہ بائیل اور دو گھنٹہ انگریزی پڑھاتا تھا.آپ بائیل پر اعتراض کرتے جس سے انگریزی کا وقت بھی گذر جاتا.آخر پر اُستاد آپ کو پیٹتا اور کہتا کہ جب تک تم سکول میں ہو کوئی عیسائی نہیں ہوگا.اور جب تک تمہیں سکول سے نکلوانہ دونگا مجھے چین نہ آئے گا.ایک روز اس نے ایسا مارا کہ آپ کے ہاتھ کا انگوٹھا سوج گیا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو علم ہوا تو آپ نے سکول جانے سے منع کر دیا اور خود گھر پر فارسی پڑھانے لگے.آپ کا کلیہ یہ تھا.گورا رنگ، خوبصورت شکل، درمیانہ قد، تقسیم ملک تک آپ کے جسم میں کبڑا پن ظاہر نہیں ہوا تھا.عینک لگاتے تھے، چہرہ سے متانت اور بے خوفی اور خود اعتمادی ظاہر تھی.تجارت اور مذہبی حالت : چند سال منشی صاحب نے کوئٹہ حیدر آباد دکن اور بمبئی وغیرہ میں کپڑے کی تجارت کی.بعد ازاں ۱۸۹۵ ء میں مشن سکول سیالکوٹ میں بطور استاد ملازم ہو گئے.احمدیت قبول کرنے سے قبل ایک شخص کے کہنے پر کہ نماز میں کوئی مادی فائدہ نہیں نماز ترک کر دی تھی.طبیعت میں شروع سے آزادی اور بے پروائی تھی.تاش کے کھیل میں بہت طاق تھے اور اس شہرت کی وجہ سے سیالکوٹ کے ایک ریڈر نے بلایا اور تاش کھیلنے کے بعد آپ کے کمال کی بہت تعریف کی.اور ملازمت دلانے کا وعدہ کیا.لیکن آپ نے پسند نہ کیا.پہلے آپ حنفی تھے.پھر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وجہ سے وہابی بنے اور پھر انہی کی وجہ سے نیچری ہوئے.پھر ان امور سے بیزار ہوئے اور قادری طریق کے فقیر بنے انہوں نے بھی یہی کہا کہ ظاہری نماز کوئی چیز نہیں.
185 قادیان کی پہلی بار زیارت آمد ورفت اور بیعت : * جب عبد اللہ آتھم کی میعاد کے آخری دس پندرہ دن رہتے تھے تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے جومنشی صاحب کے بہنوئی تھے لکھا کہ اپنی ہمشیرہ کو لے آئیں.چنانچہ منشی صاحب ہمشیرہ کو لے کر آئے اور اس طرح پہلی بار قادیان دیکھنے کا موقعہ ملا.آپ غالباً سوا ماہ تک قادیان میں رہے.ان دنوں نواب بہاولپور نے شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش ویئر ہاؤس لاہور کی معرفت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں درخواست کی تھی کہ حضور حضرت مولوی صاحب کو علاج کرنے کے لئے بہاولپور جانے کی اجازت دیں چنانچہ حضور نے پندرہ دن کی اجازت دی تھی اور حضرت مولوی صاحب گئے ہوئے تھے.قادیان میں نہ تھے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے منشی صاحب کا تعارف حضرت اقدس سے کرا دیا تھا.اور حضور آپ کو اچھی طرح جاننے لگ گئے تھے.اور آپ نے بعض نمازیں بھی مسجد مبارک میں باجماعت ادا کی تھیں.انہی ایام میں منشی صاحب ایک دفعہ بیعت پر آمادہ ہوئے تھے.اس بارہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام میض ہم فرماتے ہیں: " بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی میرے ماموں زاد بھائی تھے اور میرے بہنوئی بھی تھے.عمر میں مجھ سے قریباً آٹھ سال بڑے تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت مجھ سے پہلے کی تھی.اور اس کے بعد وہ ہمیشہ تحریک کرتے رہتے تھے کہ میں بھی بیعت کرلوں.غالبا ۱۸۹۳ء میں ایک خواب کی بناء پر میں بھی بیعت کے لئے تیار ہو گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کی غرض سے حاضر ہوا.( غالباً جمعہ کا دن اور مسجد اقصیٰ مقام تھا ) اس وقت اتفاق سے میرے سامنے ایک شخص حضرت صاحب کی بیعت کر رہا تھا.میں نے جب بیعت کے یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے سنے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھونگا تو میرا دل بہت ڈر گیا کہ یہ بہت بھاری ذمہ داری ہے جسے میں نہیں اُٹھا سکوں گا.اور میں بغیر بیعت کئے واپس لوٹ گیا.اس کے بعد میں ہر سال تعطیلات موسم گرما جو ڈیڑھ پونے دو ماہ کی ہوتی تھیں قادیان آ کر گزارتا.اور کبھی جلسہ سالانہ پر بھی آجاتا.تمبر ۱۹۰۰ ء میں مولوی صاحب نے لکھا کہ افسوس ہے کہ اس دفعہ تمام تعطیلات * ان ہی ایام میں حضور نے آتھم کے رجوع کے متعلق جو تقریر فرمائی تھی اس بارہ میں منشی صاحب کی روایت اس کتاب میں میاں اللہ بخش صاحب امرتسری کے حالات میں درج ہو چکی ہے.(مؤلف)
186 * آپ نے وہیں گزار دیں اور قادیان نہیں آئے.کوئی آٹھ دن باقی تھے میں قادیان آگیا.ایک دفعہ مولوی صاحب مرحوم نے میری ہمشیرہ سے کہا کہ محمد اسماعیل ( کا عجیب حال ہے ) لوگوں کو تو تبلیغ کرتا رہتا ہے ( اور احمدیت کی تائید میں جھگڑتا تھا ) اور خود بیعت نہیں کرتا یہ بات سمجھ نہیں آتی.میری ہمشیرہ نے مجھے جب یہ بات سنائی تو میں نے خود مولوی صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ نے ایسا کہا ہے؟ مولوی صاحب نے فرمایا ہاں.تو میں نے مولوی صاحب کو کہا کہ میں علیحدگی میں بیعت کروں گا اور میرے دل میں یہ خیال تھا کہ میں حضرت صاحب سے عرض کرونگا کہ ہر بات میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا اقرار مجھ سے نہ لیں.یعنی اس عہد سے مجھے معاف کر دیں.مولوی صاحب نے فرمایا کہ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا ( میں نے کہا کہ پھر بیعت بھی کبھی نہیں ہوسکتی ) پھر اس کے کچھ عرصہ بعد ( کہ انہی تعطیلات کا آخری دن تھا) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا.اور دل میں ارادہ تھا کہ حضرت صاحب پر اپنا خیال ظاہر کر دونگا.لیکن جب حضرت صاحب مسجد میں تشریف لائے اور مغرب کی نماز کے بعد تشریف فرما ہوئے تو کسی شخص نے عرض کی کہ حضور کچھ آدمی بیعت کرنا چاہتے ہیں.آپ نے فرمایا ”آجائیں اس آ جائیں“ کے الفاظ نے میرے دل پر ایسا گہرا اثر کیا کہ مجھے ( کچھ ہوش نہ رہا) وہ تمام خیالات بھول گئے اور میں بلا چون و چرا آگے بڑھ گیا.(حضور نے میرا ہاتھ پکڑ لیا) اور ( میں نے ) بیعت کر لی.بیعت کے بعد جب حضرت صاحب کو میرے ان خیالات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری بیعت کی تو غرض ہی یہی ہے کہ ہم دینداری پیدا کریں.اگر ہم دین کو مقدم کرنے کا اقرار نہ لیں تو کیا پھر یہ اقرار لیں کہ میں دنیا کے کاموں کو مقدم کیا کروں گا.اس صورت میں بیعت کی غرض وغایت اور حقیقت ہی باطل ہو جاتی ہے.“ * روایت نمبر ۸۵۷ مندرجہ سیرۃ المہدی حصہ سوم.بیعت کے متعلق میں نے مطبوعہ روایت درج کر دی ہے.منشی صاحب نے مجھے بیعت کا واقعہ لکھوا دیا تھا.اس میں بعض باتیں زائد ہیں جو اسی روایت میں خطوط وحدانی میں زائد کر دی ہیں.مطبوعہ روایت میں قادیان آنے کا سال غالبا ۳ ۱۸۹ ء درج ہوتا ہے.مجھے منشی صاحب نے لکھوایا تھا کہ ۱۸۹۳ء یا ۱۸۹۴ء کا یہ واقعہ ہے اور اس وقت آپ پہلی بار قادیان آئے تھے اور یہ بیعت کا واقعہ پہلی بار کی زیارت کے ایام کا ہی آپ بتلاتے تھے چونکہ منشی صاحب کی روایت کی رُو سے آتھم کی میعاد کے اختتام کے نزدیک آپ کا پہلی بار قادیان آنا یقینی.یہ ۱۸۹۴ء کی بات ہے.اس لئے کہ آتھم کی معیاد کی آخری تاریخ ۵ ستمبر ۱۸۹۴ تھی ( بحوالہ انوارالاسلام صفحہ )
187 بیعت کے بعد منشی صاحب نے عرض کیا کہ صبح واپسی کا ارادہ ہے.ان دنوں سیالکوٹ میں سخت ہیضہ شروع تھا.حضور نے فرمایا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس جگہ وبا پھیلی ہوئی ہو وہاں نہیں جانا چاہئے.منشی صاحب نے کہا کہ تعطیلات ختم ہو رہی ہیں.تو حضور نے فرمایا کہ یہ مجبوری ہے.چنانچہ منشی صاحب بیعت کے اگلے روز سیالکوٹ چلے گئے.جب مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھتے ہوئے ایک پلید نے حضوڑ اور خدام کو گالیاں دی تھیں اس واقعہ کے ضمن میں منشی صاحب بیان کرتے تھے کہ اس وقت میں بالکل حضور کے ساتھ بائیں طرف تھالے نیز صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات کے وقت بھی (جو ۶ استمبر ۱۹۰۷ء کو ہوئی ) منشی صاحب قادیان میں تھے.چنانچہ آپ کی روایت اسی کتاب میں صاحبزادہ صاحب کے حالات میں درج ہو چکی ہے.بیعت کے بعد انقلاب: پہلے دل میں ہر وقت ایک بے کلی سی رہتی تھی.بیعت کے بعد جاتی رہی.اب جو تبد یلی ہوئی وہ اس امر سے ظاہر ہے کہ بیعت کرنے سے پہلے ایک دفعہ آپ نے اپنے بڑے بھائی سے کہا کہ بھائی غلام قادر !نماز پڑھا کرو.انہوں نے جواب دیا کہ آپ کو نماز پڑھ پڑھ کر کیا مل گیا جو مجھے تلقین کرتے ہو.آپ نے بھی دل میں خیال کیا کہ بھائی سچ کہتا ہے مجھے بھی کچھ نہیں ملا.اس لئے آپ چپ ہور ہے.بلکہ بعد میں نماز بھی ترک کر دی.جب آپ نے بیعت کر لی تو کچھ عرصہ کے بعد پھر کہا بھائی غلام قادر ! نماز پڑھا کرو.انہوں نے جواب دیا اب پڑھا کروں گا کیونکہ میں اب محسوس کرتا ہوں کہ آپ کو کچھ مل گیا ہے.یعنی بیعت سے پہلی اور بعد کی حالت میں تبدیلی محسوس کرتا ہوں.آپ ذکر کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ بیعت کے بعد آوارہ مزاجی یکلخت کا فور ہو گئی.* حضور کا سیالکوٹ میں ورود ۲۷/ اکتوبر ۱۹۰۴ء: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ۲۰ اگست ۱۹۰۴ء کو لاہور تشریف لے گئے سے منشی صاحب بیان کرتے تھے کہ جب ( ۳تمبر ۱۹۰۴ء کو ) حضور کا لیکچر لاہور میں منڈوے میں پڑھا گیا.* حضور کی خدمت میں ** بیان ڈاکٹر محمد عبدالرشید صاحب.(مؤلف) مضمون بعنوان ”اسلام اور اس ملک کے دوسرے مذاہب، طبع کروایا گیا تھا.(الحکم جلد ۸ نمبر ۲۹/۳۰ بابت ۳۰ اگست ۱۰ ستمبر ۱۹۰۴ء میں چھپ چکا ہے.) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھ کر سنایا تھا.حضور نے جو زبانی تقریر فرمائی تھی.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ ۷ استمبر ۱۹۰۴ء میں درج ہے.(مؤلف)
188 یہ درخواست کی گئی کہ کچھ زبانی بھی تقریر کریں.اس پر حضور کھڑے ہوئے لیکن چونکہ حضور کی آواز ابتداء میں دھیمی ہوتی تھی.اس لئے کچھ شور ہو اتو مولوی عبدالکریم صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں خاموش کرا دوں.حضور نے ہنستے ہوئے فرمایا ! ہاں.اس پر مولوی صاحب نے قرآن مجید کی تلاوت کی اور لوگ خاموش ہو گئے.میں بالکل قریب سامنے بیٹھا تھا.قیام گاہ پر واپس آنے پر جماعت سیالکوٹ نے عرض کی کہ حضور سیالکوٹ تشریف لائیں وہاں تقریر کا انتظام کیا جائے گا.نیز حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو سیالکوٹ سے آئے کافی عرصہ ہو چکا تھا اس لئے عرض کی کہ حضور انہیں سیالکوٹ جانے کی اجازت عنایت فرمائیں.حضور نے فرمایا میری ایک پیشی گورداسپور میں ہے اس کے بعد آؤں گا اور مولوی صاحب کو جانے کی اجازت دے دی.چنانچہ حضور بمعہ اہلبیت (۲۷ اکتوبر 19ء کو وہاں تشریف لے گئے.فٹن کا انتظام کیا گیا تھا.سیشن سے حضور اس پر سوار ہوئے.فٹن کے پیچھے بھی ایک شخص کھڑا ہوا اور آگے کو چوان کی جگہ پر ایک انسپکٹر پولیس اور ایک سارجنٹ درجہ اول سوار ہوئے اور آگے آگے گھوڑے پر سوار آنریری مجسٹریٹ باقر خاں ہاتھ میں ہنٹر لئے راستہ بنواتا جاتا تھا.حضور کی زیارت کے لئے پبلک دور و یہ کھڑی تھی.منشی صاحب کا بیان ہے کہ جب حضور سیالکوٹ سے واپس جانے کے لئے ایک بجے بعد دو پہر بند گاڑی میں سٹیشن پر جانے کے لئے سوار ہوئے تو ایک بمب (بانس) خود میں نے اور دوسری طرف کا منشی کریم الدین صاحب ( مالک حارث ہاؤس دار الرحمت قادیان) نے پکڑ لیا اور ساتھ ساتھ چلتے گئے.ایک حافظ سلطان نامی نے بدمعاشوں کے مشورہ سے اپنے شاگردوں کو جنہیں وہ قرآن مجید پڑھاتا تھا راکھ اور اینٹیں جھولیوں میں بھرنے کو کہا اور دوکانوں کی چھتوں پر کھڑا کر دیا.اس نے یہ سمجھا کہ جس گاڑی کو ہم دونوں نے پکڑا ہوا ہے اور آگے ہے مستورات کی ہے.اور ہمیں دھوکہ دینے کے لئے ایسا کیا ہوا ہے.چنانچہ جب حضور کی گاڑی گذرگئی اور اس کے بعد خادمات والی بند گاڑی گزر رہی تھی اس پر ان شریروں نے راکھ اور اینٹیں وغیرہ پھینکیں.حضور ریل گاڑی میں سوار ہوئے تو اس پر بھی خشت باری کی.چنانچہ گاڑی کا ایک شیشہ بھی ٹوٹ گیا.گاڑی روانہ ہونے کے بعد میں اور منشی کریم الدین صاحب واپس جارہے تھے دیکھا کہ دو بازاری عورتیں پلیٹ فارم پر بیٹھی ہیں اور ایک کہہ رہی ہے ہائے مرزا مجھے بھی ساتھ لے چلو.پھر کہنے لگی اگر ساتھ لے جائے تو جاتے ہی زہر دے دوں.ہم دونوں کسی اور راستہ سے واپس گئے اس لئے بچے رہے.ورنہ دوسرے لوگ اسی راستہ سے واپس گئے ان پر خشت باری ہوئی.حتی کہ مولوی برہان الدین صاحب جہلمی جو بوڑھے آدمی تھے ان پر بھی ہوئی.مولوی صاحب بھاگے اور شیخ مولا بخش صاحب کی دکان میں پناہ لی.لیکن وہاں بھی خشت باری ہوتی رہی، یہاں تک کہ پولیس پہنچی اور اس نے ان لوگوں کو منتشر کیا.چند ایک دن کے بعد صبح کے وقت اسی حافظ سلطان کا بھائی نبی بخش
189 حکیم میر حسام الدین صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ سلطان اس طرح بیمار ہے، آپ چل کر دیکھیں.حکیم صاحب نے کہا کہ اسے سخت قسم کی طاعون ہے.کوئی اس کے سامنے کھڑا ہو کر بات نہ کرے.ورنہ وہ بھی مر جائے گا.اور آپ نے جا کر اُسے دیکھا.نمونیہ والی طاعون سے بیمار تھا.وہ بھی مر گیا، اس کے نہلانے والا بھی مر گیا اور ان دونوں کے علاوہ طاعون ہی سے چند دن کے اندر سلطان کے کنبہ کے اٹھائیس (۲۸) یا تمہیں (۳۰) آدمی اور ہلاک ہو گئے.* اس بارہ میں حضور حقیقتہ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں: سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ حافظ سلطان سیالکوٹی حضور کا سخت مخالف تھا.یہ وہی شخص تھا جس نے ارادہ کیا تھا کہ سیالکوٹ میں آپ کی سواری گذرنے پر آپ پر راکھ ڈالے.آخر وہ سخت طاعون سے اسی ۱۹۰۴ ء میں ہلاک ہوا اور اس کے گھر کے نو یا دس آدمی بھی طاعون سے ہلاک ہوئے.‘سے حافظ محمد شفیع صاحب سیالکوٹی بیان کرتے ہیں کہ : اس محلہ کے مولوی حافظ سلطان نے جو میرے استاد تھےلڑکوں کو جھولیوں میں راکھ ڈلوا کر انہیں چھتوں پر چڑھا دیا.اور انہیں سکھایا کہ جب مرزا صاحب گذریں تو یہ راکھ ان پر ڈالنا.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.(حافظ محمد شفیع صاحب کی.ناقل ) مائی صاحبہ اور حافظ صاحب دونوں نے بتلایا کہ حافظ سلطان کا مکان ہمارے سامنے ہے.یہ گھر بڑا آباد تھا تھیں چالیس آدمی تھے.مگر اس واقعہ کے بعد سیالکوٹ میں طاعون پڑی.اور سب سے پہلے اس محلہ میں طاعون سے حافظ سلطان اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے ان کے گھر کے * حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام میضہم تحریر فرماتے ہیں کہ ” جب کہ ماتحت عدالت نے مولوی کرم دین والے مقدمہ کا فیصلہ سنا دیا آپ سیالکوٹ تشریف لے گئے.اس سفر کی وجہ یہ تھی کہ سیالکوٹ کی جماعت نے آپ سے یہ درخواست کی تھی کہ آپ اپنی ابتدائی عمر میں کئی سال تک سیالکوٹ میں رہے ہیں.پس اب بھی جب کہ خدا نے آپ کو ایسی عظیم الشان کامیابی عطا فرمائی ہے.آپ ایک دفعہ پھر چند دن کیلئے سیالکوٹ تشریف لے چلیں.اور اس شہر کو اپنے مبارک قدموں سے برکت دیں.“ (سلسله احمدیه صفحه ۱۴۴ و صفحه ۱۴۵) حضور ۲۷ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے اور ۴ نومبر ۱۹۰۴ء کو واپس تشریف لائے والحکم جلد ۸ - ۳۸/ ۳۹ بابت ۱۰/ ۱۷ نومبر ۱۹۰۴ء.سفر سیالکوٹ کے مفصل حالات کے لئے احباب پر چہ مذکورہ والبدر جلد۳ نمبر ۴۲/۴۱ ۴۴ ۴۵ کی طرف رجوع کریں.(مؤلف)
190 لوگ جو انتیس کے قریب تھے طاعون سے مر گئے اور چھوٹے چھوٹے بچے رہ گئے اور جن لوگوں نے انہیں غسل دیا وہ بھی مر گئے.اور جو شخص عیادت کرنے کے لئے آیا وہ بھی مر گیا.خلافت اولی وخلافت ثانیہ کے قیام کے وقت : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے وقت منشی صاحب سیالکوٹ میں تھے.وہاں اس المناک سانحہ کی خبر لاہور سے کسی کے نام تار کے ذریعہ پہنچی.اور تمام جماعت نے حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی.خلافت اولیٰ کے ابتدائی ایام میں تین دفعہ مختلف اوقات میں منشی صاحب نے خواجہ کمال الدین صاحب سے کہا کہ ایک بار تو آپ نے خلافت کو قبول کر لیا.لیکن آئندہ موقعہ پر آپ سمجھ کر بیعت کریں گے یعنی نہیں کریں گے.لیکن خواجہ صاحب اس بات کا انکار کرتے اور کہتے کہ آپ کو کیا ہو گیا ہے.آپ ایسی بات کہتے ہیں.میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو میاں صاحب کی بیعت کریگا.حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی مرض الموت کے آخری ایام میں مولوی صدر الدین صاحب نے منشی صاحب سے کہا کہ حضور اب چند دن کے مہمان معلوم ہوتے ہیں.آپ کا کیا خیال ہے؟ منشی صاحب نے کہا کہ خلافت ہونی چاہئے کہنے لگے کہ پھر ہمیں تو بیعت نہیں کرنی چاہئے.ہم تو دو کی بیعت کر چکے ہیں.منشی صاحب نے کہا کہ آپ نے ایک دفعہ جو خلافت کا راستہ اختیار کیا اُس پر اب بھی چلنا چاہئے.کہنے لگے واہ! ایک ہی چرخہ چلاتے رہو پھر ہم تو بیعت نہیں کریں گے.منشی صاحب نے کہا کہ یہ طریق شرارت آمیز ہے.خلیفہ کی جو بات چاہی مان لی اور جو نہ چاہی انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ ہم نے بیعت تھوڑی کی ہے.حضرت خلیفہ اسی الاول کی وفات کے روز رات کو جو لوگ مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی میں جمع ہوئے تھے.ان میں منشی صاحب بھی تھے لیکن آپ نے ان سے کہا تھا کہ مولوی صاحب ! آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں خلیفہ بنتا ہوں.یہ نہیں کہہ سکتے کہ خلیفہ سرے سے ہی کوئی نہ ہو.جب حضرت خلیفتہ اسیح الاول نے وفات سے قبل اپنے جانشین کے متعلق وصیت مولوی محمد علی سے لکھوائی تھی، تو منشی صاحب اس مجلس میں موجود تھے.جب مسجد نور میں بیعت خلافت ثانیہ ہوئی تو اس میں آپ شامل نہ ہو سکے.جس کی وجہ یہ تھی کہ چوہدری غلام محمد صاحب بی.اے ( حال پینشنز ہیڈ ماسٹر نصرت گرلز ہائی سکول) کا لڑکا اسی دن فوت ہو گیا تھا.اس کی تدفین کے لئے اور لوگ موجود نہیں تھے.اس لئے منشی صاحب نے اور چندلوگوں نے تدفین کی اور اس اثناء میں بیعت ہوگئی.گو آپ بیان کرتے تھے کہ اگر اس بچہ کی تدفین کا معاملہ نہ ہوتا تو میں اپنے دل کی کیفیت نہیں بتا سکتا کہ فورا بیعت کرتایا نہ کرتا.
191 خلافت ثانیہ کی تصدیق میں رویا : منشی صاحب نے دعا کرنی شروع کی.پہلے دن دیکھا کہ بارش ہورہی ہے اور آپ دو چھتریاں سر پر لگائے ایک سڑک پر جارہے ہیں اور ان کے سایہ تلے آپ کے پاس دائیں طرف دومستورات ہیں.اچانک ان چھتریوں کے ٹانکے ٹوٹ گئے اور کپڑا اکٹھا ہو گیا.مستورات آپ کے پاس سے جانے لگیں تو آپ نے کہا ٹھہرو میں ابھی ٹانکے لگاتا ہوں.آپ ایک طرف سے کپڑا کھینچتے تو دوسری طرف اکٹھا ہو جاتا.دوسری طرف کھینچتے تو پہلی طرف اکٹھا ہو جاتا.یہ خواب آپ نے اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی (ٹیوٹر بورڈ نگ ) کو سنائی اور کہا کہ حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اسیح الاول دو سائے تھے جو جاتے رہے.اب ٹانکے یعنی خلافت سے وابستگی ہی فائدہ دے گی.اس پر خان صاحب نے سوال کیا وہ عورتیں کون تھیں؟ گھر گئے وہاں آپ کی لڑکی اور ہمشیرہ (بیوہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب) آئی ہوئی تھیں، کہنے لگیں ہم تو بیعت کر آئی ہیں.اگر آپ نہ کریں گے تو ہمارا آپ سے کوئی تعلق نہ ہوگا.پھر آپ نے اکبر شاہ خان صاحب کو سنایا کہ عورتوں والا حصہ بھی پورا ہوگیا.جس کے متعلق آپ دریافت کرتے تھے انہوں نے کہا اب تو بات صاف ہو گئی.اس طرح منشی صاحب نے بیعت سے قبل دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب کا معاملہ منشی صاحب سے قَلْبُو لَكَ الْامُوْرَ وَضَرَبُوا لَكَ الامثال کا ہے.یعنی ہیرا پھیری کی باتیں کرتے ہیں.اسی طرح منشی صاحب نے بعض اور خواہیں بھی دیکھیں.چنانچہ پانچ چھ دن کے بعد چوہدری غلام محمد صاحب اکبر شاہ خاں صاحب، منشی صاحب اور آپ کے بڑے بھائی غلام قادر صاحب نے صبح کے وقت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام میفہم کے چوبارہ میں، جہاں ان دنوں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیٹھا کرتے تھے بیعت کر لی.* تحریک بیعت خلافت ثانیہ کے لئے سیالکوٹ جانا : منشی صاحب بیان کرتے تھے کہ سیالکوٹ کی جماعت میں سے میر حامد شاہ صاحب اور چوہدری نصر اللہ خاں صاحب وکیل نے ابتداء میں خلافت ثانیہ کی بیعت نہیں کی جس کی وجہ سے سوائے شاذ استثناء کے باقی تمام جماعت بھی بیعت سے رکی رہی.قادیان سے حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ اور مولوی محمد الدین صاحب حال ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ) وہاں بھیجے گئے.واپس آنے پر معلوم ہوا کہ ان سے بہت بُرا * اکبر شاہ خاں صاحب کے بیعت کرنے کا ذکر الفضل جلد نمبر ۴۲ ج (صفحہ اکالم ۳) بابت یکم اپریل ۱۹۱۴ء میں درج ہے.مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی و مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ امیر مقامی قادیان بیان کرتے ہیں کہ چوبارہ مذکور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کا حصہ نہیں بلکہ خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے مکان کا حصہ ہے.
192 سلوک ہوا.مولوی محمد الدین صاحب نے منشی صاحب سے کہا کہ ہماری اور بات تھی اور آپ کی اور ہے.کیونکہ منشی صاحب سیالکوٹ کے باشندے تھے ) اس لئے آپ ضرور وہاں جائیں اور ان لوگوں کو سمجھائیں.مئی یا جون ۱۹۱۴ء کی بات ہوگی.منشی صاحب رات کو سیالکوٹ پہنچے تو کسی نے بتایا کہ آج جماعت کا اجلاس ہوا تھا.تمام سے دستخط کرا کے بیعت نہ کرنے کا اقرار لیا گیا ہے.لیکن چوہدری نصر اللہ خاں صاحب نے دستخط نہیں کئے.میر حامد شاہ صاحب اور منشی صاحب کے مکان آمنے سامنے تھے.اور اُن کے آپس میں بہت گہرے تعلقات تھے.اگلے دن صبح منشی صاحب مسجد میں پہنچے.میر صاحب سے ملے تو میر صاحب کہنے لگے کیا آپ نے مجھ سے کوئی بات کرنی ہے؟ آپ نے ایجاب میں جواب دیا.تو کہنے لگے مجھے بالکل فرصت نہیں.پھر دیگر احباب سے بھی جن سے اچھے تعلقات تھے ملاقات ہوئی.منشی صاحب نے اپنی بیعت اور استخارہ کا ذکر کیا.مستری فضل الدین صاحب نے (جواب مولوی محمد علی صاحب کے پیرو ہیں ) کہا کہ آپ نے خوابیں بنالیں ہم کیا کریں.گفتگو سے منشی صاحب نے بھانپ لیا کہ بعض لوگ مخالفت میں اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ حضرت خلیفۃ الثانی ایدہ اللہ کو گالیاں دیتے ہیں.اس لئے آپ نے سمجھا کہ اب ان کو وعظ ونصیحت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.اور دو تین دن چکر لگا کر ہر ایک سے ملے اور صرف ایک نصیحت کی کہ (اگر تسلی نہیں تو ) بیعت ہرگز نہ کریں.لیکن حضرت میاں صاحب کو گالیاں نہ نکالیں.اس کے متعلق احتیاط برتیں کیونکہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صاحبزادہ ہیں.منشی صاحب نے یہ راہ اس لئے اختیار کی کہ آپ نے سمجھا کہ جو گالیوں تک نوبت پہنچائے گا اس کی واپسی کی کوئی امید نہیں اور جو اس سے بچارہا اس کے متعلق امید ہوسکتی ہے کہ کسی وقت بیعت کر لے.پہلے دن آپ چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کے پاس بھی گئے تھے اور ان سے ذکر کیا تھا کہ میں یہ سمجھ کر آیا تھا کہ میں جسے کہوں گا بیعت کر لے گا.لیکن میں نے یہاں آکر طور طریقہ بدلا ہوا پایا ہے.چوہدری صاحب نے کہا کہ میں رات بیعت کا خط لکھ چکا ہوں، ورنہ آپ کے کہنے پر ضرور بیعت کر لیتا.تین دن کے بعد مسجد میں پھر میر حامد شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی.کہنے لگے آپ نے کوئی بات کرنی تھی کیا تھی ؟ منشی صاحب نے کہا میں صرف یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جولوگ بیعت خلافت سے علیحدہ رہے ہیں ان کا کیا خیال ہے؟ میر صاحب نے فرمایا کہ آپ کے خیال میں کیا ہے؟ منشی صاحب نے کہا کہ میرے خیال میں ان کے دل میں تکبر پیدا ہو گیا اور وہ اس خیال میں ہیں کہ ہمارے بغیر سلسلہ کا چلنا مشکل ہے.میر صاحب کہنے لگے میرا بھی یہی خیال ہے.آپ نے دریافت کیا کہ پھر آپ نے بیعت کیوں نہیں کی؟ کہنے لگے کہ اگر میں نے بیعت کر لی تو یہ لوگ محروم رہ جائیں گے اور انہیں کہنے والا کوئی نہیں رہے گا.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ان کا
193 ساتھی بن کر انہیں سمجھاؤں، شاید مان جائیں اور پرسوں لاہور میں جلسہ ہے.میں وہاں جارہا ہوں اور انہیں سمجھاؤں گا.منشی صاحب بھی ساتھ لاہور پہنچے.اس جلسہ میں میر صاحب کو پیغامیوں نے جماعت سیالکوٹ کا امیر بنایا.لیکن پھر میر صاحب کو ملنے کا موقعہ نہ ملا اور منشی صاحب قادیان آگئے اور میر صاحب سے اس موضوع پر خط و کتابت کرتے رہے.آپ کے ایک خط کے جواب میں میر صاحب نے ایک خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ میں نے حضرت میاں صاحب (خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہتعالیٰ ) کو ایک خط لکھا ہے.جس کا جواب آنے پر میں بتاؤں گا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے.ان ایام میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی مذکورہ چوبارہ میں ہر روز بیٹھا کرتے تھے اور احباب حضور کے پاس آکر بیٹھتے.منشی صاحب بھی ہر روز حضور کے پاس آتے.منشی صاحب کو یہ خط وہیں بیٹھے ہوئے تھے کہ چٹھی رساں نے دیا.اس خط کے آخر پر میر صاحب نے دستخط کر کے نیچے باریک قلم سے لکھا ہوا تھا کہ میں نے بیعت کا خط لکھ دیا ہے.گویا خط لکھتے وقت بیعت کا خیال نہ تھا لیکن خط ختم کر کے دستخط کر کے لکھا کہ میں نے بیعت کا خط لکھ دیا ہے.اسی ڈاک میں حضور کو بھی میر صاحب کا خط آیا.اور حضور پڑھتے ہی اُٹھ کر اندرون خانہ تشریف لے گئے اور واپس آکر فرمایا میر صاحب کا بیعت کا خط آیا ہے.منشی صاحب نے بھی اپنا خط دکھایا.حضور بہت خوش تھے اور منشی صاحب کا خیال ہے کہ حضور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے تشریف لے گئے تھے.اس کے بعد جماعت سیالکوٹ کے ایک حصہ نے میر صاحب کی بیعت کی وجہ سے بیعت کر لی.خاکسار (مؤلف) نے منشی صاحب کی زندگی میں مکرم ملک غلام فرید احمد صاحب ایم.اے سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ میں بھی اس مجلس میں موجود تھا.حضور ڈاک دیکھتے دیکھتے اندر تشریف لے گئے پندرہ منٹ کے بعد تشریف لائے.بہت خوش تھے فرمایا کہ میر حامد شاہ صاحب کا خط آ گیا ہے اور میں سجدہ شکر کرنے کیلئے گیا تھا.مجھے بہت خیال تھا کہ میر صاحب بہت مخلص ہیں.یہ کہاں پھنس گئے ہیں اور خواہش تھی کہ انہیں قبول حق کی توفیق مل جائے.نیز ملک صاحب نے بتایا کہ میں نے منشی محمد اسماعیل صاحب والا خط بھی دیکھا تھا.جیسا منشی صاحب بیان کرتے ہیں اسی طرح میر صاحب کا خط تھا یعنی خط کے آخر پر دستخط تھے اور اس کے بعد پس نوشتہ کے طور پر بیعت کا خط لکھ دینے کا ذکر مرقوم تھا.* منشی صاحب مئی یا جون ۱۹۱۴ ء میں سیالکوٹ جانے کا ذکر کرتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ عرصہ دراز گزرنے کی وجہ سے مہینہ کے متعلق آپ کو سہو ہو گیا.کیونکہ چوہدری نصر اللہ صاحب کی بیعت ۲۸ مارچ سے قبل کی ہے چنانچہ الحکم جلد ۱۸ نمبر ۵ ( صفحه ۶/۷ کالم ۳) بابت ۲۸ مارچ ۱۹۱۸ء میں مرقوم ہے.سیالکوٹ شہر سے بھی بیعت کے خطوط آنے شروع ہو گئے.”چوہدری نصر اللہ خاں صاحب پلیڈر نے بیعت کر لی.اور میر حامد شاہ صاحب کی بیعت کا خط بھی الفضل جلدا نمبر ۴۳ ج بابت ۱۸اپریل ۱۹۱۴ء میں درج ہے.نیز لاہور کا شوری جس کا ذکر منشی صاحب نے کیا ہے (باقی اگلے صفحہ پر ) ย
194 ضلع سیالکوٹ کی احمدی آبادی کی مردم شماری: 19ء میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے مشورہ سے محاسب صدر انجمن احمد یہ قادیان مکرم مولوی عبدالغنی خاں صاحب نے منشی صاحب کو ضلع سیالکوٹ کے احمدیوں کی مردم شماری کیلئے کہا.آپ نے سفر خرچ کا اندازہ دس روپے بتایا تھا لیکن سیکرٹری صدرانجمن احمد یہ نواب محمدعلی خان صاحب رضی اللہ نے کہا کہ دوسو روپیہ دیا جائے، منشی صاحب نے سفر نہیں کئے اس لئے انہیں اندازہ نہیں.مولوی صاحب نے اصرار کیا اور بالآخر پچاس روپے لے جانے کو کہا.آپ نے تمیں روپے لئے.اڑھائی ماہ میں سارے ضلع کی مردم شماری کی اور صرف نو روپے پونے تین آنے صرف کئے اور باقی رقم واپس کر دی.آپ نے یہ اصول بنالیا تھا کہ آپ کھانا تیار نہ کراتے تھے اور جو کچھ تیار موجود ہوتا کھا لیتے جس گاؤں میں موجود نہ ہوتا وہاں نہ کھاتے اس سفر میں آپ کے ذریعہ کئی لوگوں نے احمدیت قبول کی.علاقہ ملکانہ میں تبلیغ: ارتداد ملکانہ کے وقت ۱۹۲۳ء میں آپ کو علاقہ اجمیر میں بھیجا گیا.موضع دوکھیڑہ تحصیل بیاور میں متعین ہوئے.مکرم ماسٹر نور الہی صاحب ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے یہ معلوم کر کے کہ وہاں ہندومسلمان ایک دوسرے کولڑ کیاں نکاح میں دیتے ہیں بعض لوگوں کو اس سے منع کیا.ماسٹر صاحب کسی اور جگہ متعین ہو کر چلے گئے اور لوگ منشی صاحب کے مخالف ہو گئے وہاں یہ طریق تھا کہ ہندو اپنی مسلمان بہو کو جلاتے اور مسلمان اپنی ہندو بہوکو دفناتے اگر مسلمان کی بہو اپنے میکے آ کر فوت ہوتی تب بھی دفنائی جاتی اور اگر ہندو کی مسلمان بہو اپنے میکے میں وفات پاتی تب بھی جلائی جاتی.پہلے تو آپ کا کھانا پکانے پر کوئی راضی نہ ہوا لیکن پھر ایک مسلمان بڑھئی نے خود بخود ہی منظور کر لیا.پہلے دو تین دن آپ کو پتھریلی زمین پر سونا پڑا لیکن پھر کوئی شخص خود ہی چار پائی دے گیا.ایک مجلس میں آپ باتیں سنا رہے تھے تو ایک ہندو نے کہا کہ یہ پٹیل ( نمبر دار ) میرا بھائی ہے.یہ گائے کا گوشت کھاتا ہے اور میں سو رکھا تا ہوں اور ہم ایک ہی برتن میں کھانا کھاتے ہیں.میں اسے لڑکی دیتا ہوں اور یہ مجھے لڑکی دیتا ہے.میاں صاحب! آپ کیا کرتے ہیں، یہاں آپ کی بات کوئی نہیں سنے گا.لوگ ایک دوسرے کو کہتے کہ یہ ہمیں بڑوں کی ریت سے پھیر نے آیا ہے.ایک شخص کی ایک آنکھ دکھتی تھی آپ نے اس کا علاج کیا اسے آرام بقیه حاشیه : ۲۴ مارچ ۱۹۱۷ء کو ہوا تھا.اس میں میر صاحب کو بھی ایک خلیفہ مقرر کیا گیا تھا.( بحوالہ الفضل جلد انمبر۴۳ صفحہ ۲ کالم ۳ صفحه ۳ کالم ۳ بابت ۲۸ مارچ ۱۹۱۴ء - سونشی صاحب لاز ما ۲۴ مارچ سے قبل سیالکوٹ گئے ہوں گے.(مؤلف)
195 رض آ گیا.جس کی وجہ سے شہرت ہو گئی اور آنکھوں کے مریض آپ کے پاس کثرت سے آنے شروع ہو گئے.ان لوگوں کی حالت کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ ایک گاؤں میں آپ گئے تو السلام علیکم کہا.ایک شخص نے کسی ہاتھ میں پکڑ کر کہا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ تیرا سر اتار دوں.آپ اس کے قریب ہو گئے اور کہا کہ بے شک آپ ایسا ہی کر لیں جس سے متحیر ہو کر پیچھے ہو گیا.آپ کے علاج سے اس کے لڑکے کی آنکھیں شفایاب ہوگئیں.وہ بہت معتقد ہو گیا اور اس نے معافی مانگ لی.اسی طرح بڑھئی جو آپ کا کھانا تیار کرتا تھا اس کے یا اس کی لڑکی کے ہاں بچی پیدا ہوئی.منشی صاحب نے بہتیرا کہا کہ بچی کو لاؤ تا کہ کان میں اذان کہوں لیکن وہ کترا تارہا.پھر آپ اس کے گھر گئے اور پھر اصرار کیا.اس نے اندر جا کر والدہ سے ذکر کیا جو معلوم ہوتا ہے اس سے زیادہ عقلمند تھی اور دین سے بھی کچھ واقفیت رکھتی تھی وہ بچی کو لے آئی اور آپ نے اذان کہی اور پھر اس کی درخواست پر آپ نے اس کا نام زینب رکھا.اس علاقہ کے چند روساء کا اس گاؤں سے گذر ہوا اور رات منشی صاحب کی اجازت سے آپ کے کمرہ میں ٹھہرے.ان کے مولوی نے وعظ کیا اور اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُو بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ پڑھ کر اس کی تشریح میں کہا کہ فرشتے موت کے وقت کان میں یہ بات کہتے ہیں.وعظ کے بعد ان کے کہنے پر منشی صاحب نے بھی یہی آیت پڑھ کر بیان کیا کہ ایسے نیک لوگوں پر اس دنیا میں فرشتے اترتے ہیں اور بشارتیں دیتے ہیں.اس پر ایک رئیس چونک پڑا اور کہنے لگا اسی دنیا میں؟ آپ نے کہا ہاں.اسی دنیا میں اور اس کے سوال پر آپ نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ آپ کا لڑکا عبد اللطیف جو آپ کو بہت ہی پیارا تھا، بچپن میں اتنا شدید بیمار ہوا کہ ڈاکٹر اس کی زندگی سے مایوس ہو گئے.آپ سکول گئے کرسی پر بیٹھے تھے کہ ایک گورا سنہری بالوں والالر کا کرسی کے برابر قد کا پاس سے ہی نمودار ہوا اور اس نے پوچھا کیا لوگ آپ کے پاس امانت رکھتے ہیں؟ آپ نے کہا رکھ جاتے ہیں.پھر اس نے پوچھا پھر لے بھی جاتے ہیں؟ آپ نے کہاں ہاں لے بھی جاتے ہیں.اس نے کہا کیا آپ امانت واپس کرتے ہوئے رو پڑا کرتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں.تو اس نے کہا کہ عبداللطیف بھی تو کسی کی امانت ہے.یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا.اس سے آپ کی طبیعت میں سرور پیدا ہوا اور آپ نے جماعت کو جسے کہا گیا تھا کہ میری طبیعت خراب ہے آج نہیں پڑھاؤ نگا پڑھانا شروع کر دیا.گھر آئے تو بچہ تندرست تھا.پھر مہمانوں میں سے ایک ہندو کے دریافت کرنے پر آپ نے شیطان دیکھنے کا واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ سیالکوٹ میں آپ مسجد سے نکلے اور بازار کا رخ کیا.مسجد ایسے موقعہ پر ہے کہ وہاں سے گلی کے آخری سرے پر نظر پہنچتی ہے.آخری
196 سرے پر ایک نہایت خوبصورت عورت اعلیٰ درجہ کی پوشاک میں ملبوس آرہی تھی.اور آپ تک اس کے زیوروں کی جھنکار پہنچتی تھی.آپ کو تحریک ہوئی کہ اسے دیکھیں.لیکن آپ نے کہا کہ میں کیوں دیکھوں محرک نے کہا کہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ خوبصورت چیزوں کو دیکھنا منع نہیں، صرف بدنظری سے دیکھنا منع ہے.آپ نے انکار کیا کہ مجھے حاجت نہیں جب عورت آپ کے پاس سے گذری تو تحریک کر نیوالے نے کہا کہ اچھا اب اتنا تو دیکھ لوکون عورت ہے کس کی لڑکی یا بہن ہے.آپ نے کہا میں کیوں دیکھوں.میں اس امر کی ضرورت نہیں سمجھتا.اب تک محرک سامنے نہیں آیا تھا لیکن جب وہ (شیطان) آپ کے سامنے آیا اس کا قد لمبا تھا سر پر رنگین پگڑی تھی اس نے اپنی ایک انگلی کی پشت آنکھ پر رکھ کر کہ جس طرح بچہ روتے ہوئے کرتا ہے سکی لیکر کہا کہ ہم تو پھر جیتے جی ہی مر گئے.آپ نے کہا مر گئے تو کھاؤ خصموں کو.اس پر وہ غائب ہو گیا.جب یہ لوگ آپکی باتوں سے متاثر ہوئے تو آپ نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں کو کوئی غیرت نہیں کہ اپنی لڑکیاں ہندوؤں کو دیتے ہیں کہ جب مریں تو وہ انہیں جلادیں.انہوں نے وعدہ کیا کہ دورہ کر کے اس کی روک تھام کریں گے چنانچہ بعد میں ایک صو بیدار پنشنر اسی گاؤں میں آیا اور اس نے بتایا کہ وہ اردگرد کے دیہات میں بڑے لوگوں کو تحریک کر رہا ہے کہ لڑکیاں ہندوؤں کو نہ دیا کریں اور فلاں دن ہمارا اجتماع ہوگا.جس میں ہم بھی فیصلہ کریں گے.گذشتہ سال ایک شخص قادیان آیا جس نے بتایا کہ اب یہ قباحت رک گئی ہے.واپسی پر اپنے امیر ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین احمد صاحب ( پسر ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب رضی اللہ عنہ ) کے حکم پر آپ بیاوڑ گئے.ایک اخباری نمائندہ نے ڈاکٹر صاحب سے وقت لیا تھا لیکن وقت پر نہ پہنچ سکا.جب بعد میں آیا تو ڈاکٹر صاحب کسی ضرورت کی بناء پر باہر جاچکے تھے.منشی صاحب مکان پر اس خیال سے ٹھہرے رہے کہ شاید بعد میں آ جائے.اس نے پوچھا کہ آپ اہل سنت کی امامت میں نماز کیوں نہیں پڑھتے.منشی صاحب نے پوچھا کیا آپ ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں ؟ اس نے کہا خوب جانتا ہوں.منشی صاحب نے کہا کہ کیا ہمارے اندر آپ کوئی بات خلاف سنت دیکھتے ہیں.اس نے کہا.نہیں.منشی صاحب نے کہا کہ پھر اہل سنت ہم ہوئے.ہم کسی کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ؟ اُس نے کہا کہ آپ کی بات تو معقول ہے لیکن آپ دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے.منشی صاحب نے کہا کہ آپ مان چکے ہیں کہ ہم اہل سنت ہیں.اگر کوئی اہل سنت کو کافر کہے تو ؟ اس نے بڑے جوش سے کہا کہ وہ خود بے ایمان اور کافر ہے.منشی صاحب نے کہا کہ لوگ تو ہمارے پیر کو بھی گالیاں دیتے ہیں.آپ نے اُسے حضرت اقدس کے کچھ الہامات سنائے.چنانچہ اس شخص ( یعنی با بوعبد الغفور صاحب سالٹ انسپکٹر سانبھر کے گھر ) نے منشی صاحب کی تبلیغ سے اسی وقت بیعت کر لی.دوسری دفعہ آپ ۱۹۲۴ء میں تقریباً
197 ایک ماہ کیلئے تحریک ملکانہ کے سلسلہ میں آگرہ گئے.اس وقت امیر صوفی محمد ابراہیم صاحب بی.ایس سی ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان حال ربوہ تھے.ایک جماعت کے افراد سے چندہ نہیں مانگا جاتا تھا مبادا بگڑ جائیں.منشی صاحب کو یہ بات ناگوار گذری آپ نے وعظ کیا جس کے نتیجہ میں بہت سا چندہ نقد جمع ہو گیا.بعض نے چھ چھ ماہ کا بقایا اور بعض نے ایک ایک سال کا چندہ ادا کر دیا.تبلیغی شغف: ۱۹۳۹ء میں آپ نے چار ماہ تک مکیریاں ضلع ہوشیار پور اور مہت پور میں تبلیغ کی.ایک ہندو اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر قادیان کو سارا قرآن مجید با ترجمہ اور کچھ اردو کی بخاری اور دیگر کتب پڑھا ئیں.وہ کہتا تھا کہ اقارب کی روک کی وجہ سے میں مسلمان نہیں ہوا.یہ صاحب مجھے مؤلف کو بھی تقسیم ملک کے بعد ایک سٹیشن پر ملے تھے اور اب تک منشی صاحب کو یاد کرتے تھے.ایک اور ہندو اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر قادیان جو سخت معاند تھا آپ کی تبلیغ سے بہت متاثر ہوا.اور ایک ہندو تھانیدار متعین قادیان کو قاعدہ اور پہلا پارہ قرآن مجید پڑھایا آپ ہمیشہ ہی ہندوؤں اور غیر احمد یوں میں تبلیغ کرتے رہتے تھے بالخصوص قادیان کے تھانیداروں اور عملہ ریلوے سٹیشن کو.میں نے دیکھا ہے کہ در مشین اردو کے چھوٹے سائز کے نسخے ہمیشہ اپنے پاس رکھتے اور تبلیغ کیلئے تقسیم کرتے رہتے تھے.آپ کو جو تبلیغ کی دُھن تھی اس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ آپ چند سال قبل مرض سرطان جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوئے.جس کے علاج کے لئے میوہسپتال لاہور میں داخل ہوئے.اعلی پایہ کا ڈاکٹر آپ کو دیکھنے آتا.آپ اسے داڑھی منڈا دیکھ کر گڑ ھتے کہ کیسے سمجھا ئیں.ایک روز اُسے کہنے لگے ڈاکٹر صاحب کیا اس عید پر قربانی کریں گے؟ ڈاکٹر نے یہ سمجھ کر کہ یہ غریب آدمی معلوم ہوتے ہیں گوشت کھانا چاہتے ہیں.کہا کہ کیا آپ کو گوشت درکار ہے.؟ فرمانے لگے میں نے اس لئے پوچھا ہے کہ شریعت کا حکم ہے کہ اگر عید الاضحی پر قربانی کرنی ہو تو اتنے روز تک حجامت سے احتراز کیا جائے لیکن آپ روزانہ حجامت کرواتے ہیں.آپ موصی تھے دفتر اول تحریک جدید میں ابتداء سے حصہ لیتے رہے.اس طرح آپ تاحیات السابقون الاولون میں شامل ہوئے.آپ نے چندہ تراجم القرآن چندہ مسجد لندن ادا کیا.آپ کی اصلی زندگی : منشی صاحب کی شادی محترمہ رانی صاحب دختر شمس الدین صاحب قوم شیخ سکنہ سیالکوٹ شہر سے اندازاً ۱۸۸۷ء میں ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب ۱۹۰۴ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تو موصوفہ کو حضور کی زیارت کا موقعہ ملا.جب منشی صاحب ستمبر 1900ء میں قادیان سے بیعت کر کے واپس سیالکوٹ پہنچے
198 تھے تو اسی وقت ان کی بیعت کا بھی خط لکھوا دیا تھا.آپ خاوند کی بہت فرمانبردار تھیں بلکہ بوقت وفات انہوں نے بچوں کو بھی وصیت کی کہ اپنے والد کا خاص خیال رکھنا اور اس نعمت کی قدر کرنا کیونکہ تم نہیں جانتے کہ وہ کیا ہیں لیکن میں ان کی قدر پہچانتی ہوں.فالج سے چھ ماہ بہا رہ کر فوت ہوئیں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے جنازہ پڑھایا اور ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ جنازہ کو کندھا بھی دیا.آپ کی وصیت کا نمبر ۱۰۰۹ تھا.مدینہ مسیح کے زیر عنوان مرقوم ہے.نہایت افسوس کے ساتھ لکھا جاتاہے کہ منی محمداسماعیل صاحب سیالکوٹی کی اہلیہ محترمہ کا ایک بی علالت کے بعد ۷ دسمبر ۱۹۳۱ء انتقال ہو گیا.۱۸ دسمبر جمعہ کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنازہ پڑھایا.مرحومہ بہشتی مقبرہ میں دفن کی گئیں.۵ مرحومہ کے ایک ہی بھائی غلام حیدر صاحب وکیل تھے جو جوانی میں ہی قبول احمدیت سے قبل فوت ہو گئے تھے.آپ کے خاندان میں سے اور کوئی احمدی نہیں ہوا.اولاد آپ کی اولاد کے سن ولادت درج ذیل ہیں: * (۱) مکرم محمد عبد اللہ صاحب ( ولادت ۱۸۹۰ء.وفات ۱۹۴۳ء) صحابی ہونے کا علم نہیں.(۲) محترمہ حاکم بی بی صاحبہ (ولادت تقریبا ۱۸۹۳ء) انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ہمراہ سیر کو جانا اور اچھی طرح باتیں کرنا یاد ہے انہیں دار اسیح میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے ہاں رہنے کا موقعہ ملا ہے (۳) محترمہ احد بی بی صاحبہ (ولادت ۱۸۹۶ء) انہیں دارا مسیح میں حضرت مولوی صاحب موصوف کے ہاں رہنے کا موقعہ ملا ہے اور انہوں نے حضور کو اچھی طرح دیکھا ہوا ہے.(۴) مکرم ڈاکٹرمحمد عبد الرشید صاحب (ولادت سے جنوری ۱۸۹۹ء) سیالکوٹ اور لاہور میں حضور کی زیارت کی اور باتیں بھی کیں.(۵) مکرم بابو عبد اللطیف صاحب (ولادت ۱۹۰۴ء) حضور نے نام رکھا.حضور کو دیکھنا با بوصاحب کو یاد نہیں.(1) مکرم محمد اسحاق صاحب نام حضور نے رکھا.ہجرت اس کا صدمہ اور مرض الموت: منشی صاحب آخری عمر میں ضعیف ہو جانے کی وجہ مسجد میں آنے سے معذور ہو گئے تھے.لیکن پھر بھی راستہ میں کئی جگہ سانس لے کر عصر کی نماز حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی اقتداء میں ادا کرنے کے لئے مسجد مبارک میں آ پہنچتے.نماز کے بعد مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب درویش (ابن حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی) * یہ ساری تفصیل مکرم محمد الحق صاحب سے حاصل ہوئی ہے.(مؤلف)
199 اور بعض اور دوست آپ کی پاک صحبت سے مستفید ہوتے اور ذکر اللہ اور ذکر رسول سنتے.۱۹۴۷ء میں دیگر پاک نفس صحابہ کی طرح آپ بھی قادیان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے.لیکن اس کا صدمہ ان کے خطوط کے ایک ایک فقرہ سے پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہوتا تھا.جو آپ ہم دونوں کو تحریر کیا کرتے تھے.قادیان سے جدائی قلق و اضطراب کا اندازہ لگانے سے ہم قاصر ہیں.جب تک طاقت رہی اپنے قلمی خطوط بھیجتے رہے.لیکن جب ضعف غالب آ گیا تو اپنے بیٹے اخویم محمد اسحاق صاحب سے جواب لکھوانے لگے.موصوف نے جولائی ۱۹۴۹ء میں مجھے تحریر کیا کہ : والد صاحب فرماتے ہیں کہ میں جب سے قادیان سے آیا ہوں قادیان اور ان میں اپنے احباب بسنے والوں کے لئے ایک دن تو دن رہا شاید ہی کوئی دعا کی جگہ ہوگی اور میں نے ان کے لئے دعانہ کی ہو.وہ تو قادیان کا نام لیتے ہی بس ہو جاتے ہیں.اب کمز ور زیادہ ہو گئے ہیں.اکثر بہشتی مقبرہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں.اور قادیان کے دوسرے مقامات یا د کرتے رہتے ہیں.آخری دنوں میں بھی آپ ہمیشہ پاکیزگی کا خیال رکھتے تھے.تبلیغ جب تک بولنے کی طاقت رہی کرتے رہتے تھے اور ہمیں وقت پر نماز با جماعت ادا کرنے کی تلقین فرماتے رہتے.آپ کا آخری فقرہ جو تقریبا غشی کی حالت میں تھا وہ یہ تھا کہ خدا کے حکم کی پیروی کرو اگر کامیابی چاہتے ہو.نماز آخری وقت تک ادا کرتے رہے اور جب حافظہ میں طاقت نہ رہی تو پھر میری گود میں بیٹھ جاتے اور میں اونچی آواز سے نماز پڑھتا جاتا حتی که ختم کر دیتا.ایک دن میں نے نماز ذرا جلدی ادا کی اور بعض دعا ئیں بھی چھوڑ گیا.تو آپ نے نماز کے بعد فرمایا اسحق ! تمہیں تو ابھی تک نماز پڑھنی بھی نہیں آتی جو بھی کوئی آپ کی خدمت کرتا جزاکم اللہ کہتے اور اس کو دعائیں دیتے اور فرماتے کہ یہ احسان ہی ہے اس کا شکر ضروری ہے“.* وفات: ۱۰ جنوری ۱۹۵۰ء کو قریباً چھ بجے شام منشی صاحب نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی.انالله و انا اليه راجعون - جنازہ مکرم قاضی علی محمد صاحب امام و خطیب مسجد سیالکوٹ نے پڑھا اور آپ کو مقبرہ متصل امام صاحب سیالکوٹ میں امانتا دفن کیا گیا.آپ کی خواہش تھی کہ موقعہ ملنے پر آپ کی نعش بہشتی مقبرہ میں تدفین کے لئے قادیان لائی جائے.چند ماہ قبل آپ نے اپنی عمر چھیاسی سال بتائی تھی.* ** بیان مکرم میاں محمد اسحاق صاحب.(مؤلف) ** بیان مکرم میاں محمد اسحاق صاحب.(مؤلف) *
200 مره نسب عبد الله محمد کاظم ان کی اولاد میں سے سلطان محمد صاحب و حسن محمد صاحب دو بھائی سکنہ سیالکوٹ بھی صحابی ہیں) عبدالوہاب عبد الكريم محمد حیات (لاولد ) (لاولد ) عمر بخش امام بخش فخر الدین بدرالدین نورالدین غلام قادر (صحابی) زندہ ہیں ( لا ولد ) منشی محمد اسماعیل الله وتة ( معلوم نہیں احمدی تھے یا نہیں) زینب صاحبہ (لاولد ) اہلیہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب) محمد عبد اللہ مرحوم حاکم بی بی احمدی بی بی ڈاکٹر محمد عبدالرشید باد محمد عبد اللطیف محمد اسحاق (لاولد ) وجه با بومحمد دین پوشماسٹر ) (زوجہ مولانا محمد جی ہزاروی فاضل ( صحابی) پریکٹیشنر کوئٹہ ہیڈ ٹرین اگر یمنرسمہ سے پنشنز مدرس نصرت گرلز سکول قادیان) عبد السلام امتہ السلام عبدالمنان مسرت نسیم اختر منور احمد محمودہ بیگم رشیدہ بیگم منیر احمد شریف احمد لئیق احمد نصیر احمد زوجه میجر عبد الحق ملک (آجکل تعلیم کیلئے انگلستان میں ہیں) محمد مسعود احمد خالده خانم محمد عاصم بی ایس سی محمد ارشا د احمد انچارج فارم راولپنڈی بی.اے.ایس سی سٹیشن ماسٹر مرحوم (لاولد ) سلیمان عثمان خالد حامد شاہد زاہد زاہدہ عبد القدیر ( فلائٹ سارجنٹ پشاور ) امتہ الہادی وغیرہ ان کے بہن بھائی ہیں) امتہ الہادی محمد عبدالسمیع عبد الکریم عين النعیم رشیده سعیده فرخنده سعیده فیاضه سلیم محمود
201 تہجد وغیرہ عبادت کا التزام: آپ نماز تہجد بڑے التزام سے ادا فرماتے.آدھی رات کے قریب اُٹھتے ہر وضو کے ساتھ مسواک کرتے.لمبے عرصہ تک دعا کرتے.بعض دفعہ اونچی آواز سے بھی دعا کرتے.سجدہ بھی لمبا کیا کرتے تھے اور روتے رہتے.بچوں کو فرماتے معلوم نہیں تم اتنی جلدی کس طرح نماز پڑھ لیتے ہو.مگر جب خود امام ہوتے تو جیسا کہ ارشاد نبوی ہے مقتدیوں کا خیال رکھتے ہوئے نماز جلدی پڑھا دیا کرتے تھے.نماز با جماعت کا خاص التزام کیا کرتے.فرمایا کرتے مجھے صرف ایک نماز یاد ہے جو میں باجماعت نہیں پڑھ سکا (سوائے مجبوری کے ) وہ بھی مسجد سے ضروری حاجت کے لئے واپس آنا پڑا تھا.* آپ صاحب الہام تھے : آپ دعائیں کثرت سے کیا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی دعا کی طرف توجہ دلاتے رہتے، گھر میں اپنی خوا ہیں اور الہام سنایا کرتے تھے.جب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم اور مکرم قاضی محمدعبداللہ صاحب ( سابق مبلغ امریکہ حال ناظر ضیافت ربوہ) نے (۱۹۱۴ء میں ) بی.اے کا امتحان دیا تو آپ کو بھی دعا کے لئے کہا.دعا کی تو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص سامنے آیا اور ہاتھ میں ایک گول شیشہ جیسے گھڑی کا ہوتا ہے پکڑا ہوا ہے اور اس کے درمیان میں ایک چھوٹا سا سوراخ ہے.وہ شیشہ دکھا کر کہتا ہے کہ میاں کا پاس ہونا تو اتنا مشکل ہے جتنا اس سوراخ سے گذرنا.مگر ہم میاں کو پاس کر دینگے.اور قاضی صاحب کے متعلق پھر دیکھا جائے گا.دوسرے دن جب حضرت صاحبزادہ صاحب کو یہ خواب سنائی تو آپ نے فرمایا کہ میرا ایک پرچہ اتنا خراب ہو گیا ہے کہ کوئی عقلمند مجھے اس میں پاس نہیں کر سکتا.جب نتیجہ نکلا تو صاحبزادہ صاحب پاس اور قاضی صاحب کمپارٹمنٹ میں آگئے.** ایک دفعہ آپ کے ماموں چوہدری محمد بخش صاحب پر گورنمنٹ نے ایک مقدمہ دائر کر دیا.اس میں اُن کے ساتھ ایک ہند وسیٹھ بھی شریک تھا.مقدمہ بڑا سنگین تھا، ڈپٹی کمشنر خلاف تھا اور سزا دلوانا چاہتا تھا.ان کے لئے دعا کی.آواز آئی کہ ہم اس کو اپنی رحمت میں لے لینگے.ان کے گھر منشی صاحب نے کہلا بھیجا کہ مجھے خدا نے کہا ہے کہ آپ بری ہو جائیں گے اور دوسرے کئی لوگوں کو بھی اپنا الہام سنایا.جب فیصلہ سنایا گیا تو ہند وسیٹھ کو چھ ہزار روپیہ جرمانہ اور چھ سال کی قید اور چوہدری صاحب کو چھ ماہ قید اور چھ سوروپیہ جرمانہ کی سزا ہوگئی.جب منشی صاحب مکرم ملک غلام فرید صاحب کے بیان تک سب بیان مکرم ڈاکٹر محمد عبد الرشید صاحب کی طرف سے ہے.(مؤلف) ** حضرت صاحبزادہ صاحب کا اس بارہ میں مکتوب آخر میں درج ہے.(مؤلف) *
202 نے یہ خبرسنی تو اس وقت سجدہ میں گر گئے اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر عرض کیا کہ مولا ! کیا تو نے مجھے خود نہیں کہا تھا کہ ہم اس کو اپنی رحمت میں لے لیں گے؟ تو جانتا ہے کہ میں نے یہ بات اپنی طرف سے نہیں بنائی تھی.وہ تو قید ہو گئے کیا رحمت میں لینا قید ہوتی ہے؟ میں نے تو اُن کے گھر بھی اطلاع دی ہوئی ہے کہ بری ہو جائیں گے.فرماتے تھے کہ میں ابھی سجدہ میں تھا کہ آواز آئی کہ چوہدری صاحب کی ضمانت ہوگئی.بات یوں ہوئی کہ جب فیصلہ کے بعد پولیس ہتھکڑی لگانے لگی تو اس انگریز حاکم نے جو اس مقدمہ کے لئے خاص طور پر بلوایا گیا تھا کہا کہ پیچھے ہٹ جاؤ ہم چوہدری صاحب کو ہتھکڑی نہیں لگنے دیں گے.چوہدری صاحب آپ ضمانت دے دیں.اس طرح ضمانت ہوگئی.پھر اپیل میں بری ہو گئے.اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ چوہدری صاحب کو سزا اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کے ایماء پر دی گئی تھی کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ ان کو سزا دلوا کر شہر میں ان کے اثر و رسوخ کو کم کیا جائے.جب اس نے سنا کہ حاکم نے خود ہی ضمانت لے لی ہے تو حضرت میر حامد شاہ صاحب کے بیان کے مطابق جو اس وقت دفتر میں موجود تھے ڈپٹی کمشنر کی یہ حالت ہوئی کہ وہ دونوں کہنیاں میز پر رکھ کر اور دونوں ہاتھوں سے ما تھا تھام کر کہتا تھا کہ ہائے صاحب بہادر نے کیا کیا! اُسے تو ضمانت لینے کا اختیار نہیں تھا.منشی صاحب سیالکوٹ میں ایک دفعہ بیمار ہوئے.فرمایا میں مسجد میں لیٹا ہوا تھا کہ ایک لڑکا میرے سامنے آیا اور کہنے لگا کمزوری بہت ہوگئی ہے.ورنہ مادہ حیات تو ابھی بہت باقی ہے.یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا.آپ نے واقعہ دوستوں کو سنا دیا.دس سال بعد قادیان میں بورڈنگ ہائی سکول سے آپ گر پڑے اور سخت چوٹیں آئیں.چونکہ کمز ور زیادہ ہو گئے تھے اور چوٹیں بھی سخت آئیں، خیال تھا کہ چولے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اس لئے اکثر دوست سمجھتے تھے کہ آپ جانبر نہ ہو سکیں گے.یہ خبر جب سیالکوٹ پہنچی تو ایک شخص جس نے وہ الہام سنا ہوا تھا کہنے لگا کہ وہ ابھی نہیں مرتا، ابھی تو صرف دس سال گزرے ہیں.اس کو الہام ہوا تھا کہ مادہ حیات بہت باقی ہے خدا کا مادہ حیات اتنی جلدی ختم نہیں ہو جاتا.اس واقعہ کے بعد آپ ۳۰ سال سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہے.جب ڈاکٹر صاحب نے میٹرک کا امتحان دیا تو ایک دن انہیں فرمانے لگے کہ میں نے رات تمہارا نتیجہ دیکھا ہے.تم پاس ہو اور تین سو سے اوپر نمبر ہیں.اوپر کے یاد نہیں رہے.ان کے نمبر ۳۱۹ تھے.اسی طرح جب انہوں نے ڈاکٹری کے آخری سال کا امتحان دیا تو ایک دن فرمایا کہ آج رات میں نے دیکھا ہے کہ تمہاری جماعت کا نتیجہ ایک بورڈ پر لگا ہوا ہے.تین فہرستیں علیحدہ علیحدہ لگی ہوئی ہیں.ایک کے اوپر لکھا ہوا ہے پاس.اس میں تمہارا نام ہے مگر کاٹ دیا ہوا ہے.دوسری پر فیل لکھا ہوا ہے.اس میں تمہارا نام نہیں.تیسری فہرست میں تمہارا نام لکھا ہوا ہے.مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیا بات ہے.جب نتیجہ نکلا تو وہ آئی سرجری (Eye Surgery) میں
203 کمپارٹمنٹ میں نکلے.یعنی نہ پاس نہ فیل.ایک دفعہ سیالکوٹ میں اپنے سکول کے مینیجر سے جو پادری تھا تبلیغ کرتے جھگڑا ہوگیا.مینیجر نے کہا کہ خدا کس سے باتیں کرتا ہے؟ فرمایا کہ میں نے خیال کیا کہ اگر میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تو یہ کوئی اور اعتراض کر دے گا.میں نے کہا مجھ سے کرتا ہے اور اپنے چند واقعات بتائے.چند دنوں کے بعد وہ پادری کسی لڑکی کو عیسائی بنا کر لے گیا.اس کے رشتہ دار اس کی کوٹھی پر گئے اور اس کو مارا.میں نے دو پہر کو سوئے ہوئے دیکھا کہ پادری کو مار پڑی ہے اور وہ کہتا ہے کہ دائیں طرف زیادہ چوٹیں آئی ہیں.اسی وقت اُٹھا اور اس کی کوٹھی پر گیا.اس نے پوچھا کہ آپ کیسے آئے؟ کہا کہ خدا نے مجھے ابھی ابھی ایک بات کہی ہے.وہ آپ کو بتانے آیا ہوں اور وہ یہ کہ آپ کو مار پڑی ہے اور دائیں طرف زیادہ چوٹیں آئی ہیں.اس نے اس کی تصدیق کی.اس نے ناراض ہو کر منشی صاحب کی ترقی روک رکھی تھی.دوسرے دن سکول میں میرے کمرے میں آیا اور کہنے لگا ہم اس ماہ آپ کو ترقی دیں گے.میں نے کہا ہم نہیں لیتے.وہ یہ کہہ کر کہ ہم دیں گے چلا گیا اور ترقی دے دی اور دوسرے ماہ مزید ترقی دے دی.ایک دن سیالکوٹ کی مسجد میں ایک شخص آیا.میر حامد شاہ صاحب کے متعلق دریافت کیا اور بتایا کہ میں حج کرنے گیا تھا.وہاں سے کچھ کھجوریں اور تسبیح وغیرہ شاہ صاحب کے لئے لایا ہوں.منشی صاحب نے کہا کہ میں آپ سے حج کے متعلق چند باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور پوچھا کہ میں فلاں فلاں دروازے سے گذرنے لگا تو کیوں نہ گذرنے دیا گیا؟ حاجی صاحب نے جواب دیا کہ وہ دروازہ بند رہتا ہے.وہاں سے کسی کو نہیں گذر نے دیتے.پھر منشی صاحب نے کہا کہ وہ جو بہت سے لوگ ٹوپیاں پہنے ستونوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے وہ کون تھے؟ حاجی نے جواب دیا کہ اس دفعہ بخارا کے بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے اور یہ وہ لوگ تھے.اسی طرح سے منشی صاحب نے مختلف سوالات کئے جن کا وہ حاجی جواب دیتا رہا.گویا کہ جو نقشہ حج کا منشی صاحب نے خواب میں دیکھا تھا.وہ اصل کے مطابق تھا.قادیان ہجرت کر کے آنا : مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے آپ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: حضرت منشی صاحب ! ۱۹۱۳ء میں مستقل طور پر قادیان آگئے تھے اور انہوں نے تعی الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ ہاؤس میں بطور ٹیوٹر کام کرنا شروع کر دیا تھا.۱۹۱۴ء میں جب میں دسویں جماعت میں پڑھتا تھا.میری ان سے واقفیت ہوئی اور واقفیت آہستہ
204 آہستہ ایسی محبت میں تبدیل ہوئی کہ وہ مجھے اپنا ایک بیٹا تصور کرتے تھے.منشی صاحب نے مجھے بتلایا تھا کہ گو انہوں نے ۱۹۰۰ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باقاعدہ بیعت کی.لیکن وہ اس سے بہت پہلے کئی سال تک سیالکوٹ سے آ کر موسم گرما کی رخصتیں قادیان میں گذارا کرتے تھے.عہد بیعت کا نبھانا: منشی صاحب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے پھوپھی زاد بھائی اور ان کے برادر نسبتی تھے.ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب نے منشی صاحب سے فرمایا کہ میاں ! تم ہر سال قادیان آتے ہو اور واپس سیالکوٹ جا کر غیر احمدیوں سے حضرت مسیح موعود کے دعاوی کی سچائی کے متعلق بحث بھی کرتے ہو لیکن خود بیعت نہیں کرتے ؟ منشی صاحب نے کہا کہ میری عادت ہے کہ جس بات کا اقرار کر لوں اس کو میں آخری دم تک نبھاتا ہوں، خواہ میری جان چلی جائے.یہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد جو حضرت صاحب بیعت کے وقت لیتے ہیں میں اس کو نباہ نہیں سکوں گا اور جس عہد کو میں نباہ نہ سکوں وہ عہد میں کرنا نہیں چاہتا، خصوصاً اس شخص کے ہاتھ پر جو خدا کا مسیح اور مہدی ہے لیکن آخر 1900ء میں منشی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی.پھر جس طرح انہوں نے اپنی انتہائی کوشش سے بیعت کے اس عہد کو کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا نباہا اس کو وہ لوگ ہی جانتے ہیں جومنشی صاحب کے حالات زندگی سے اچھی طرح واقف تھے اور ان میں سے ایک میں بھی ہوں.منشی صاحب فرماتے تھے کہ جب میں بیعت کر کے واپس سیالکوٹ گیا تو یکدم میں نے اپنی ساری لغو عادات چھوڑ دیں.یعنی تاش کھیلنا، بازار میں بیٹھ کر گئیں ہانکنا اور نماز اور تہجد با قاعدہ شروع کر دی.میرے حالات میں اس غیر معمولی تغیر کو دفعتہ دیکھ کر سیالکوٹ کے لوگ بہت حیران ہوئے.بے مثال تہجد گذاری: حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیعت کرنے والے سے یہ اقرار بھی لیتے تھے کہ وہ با قاعدہ پانچ وقتہ نماز اور حتی الوسع نماز تہجد بھی ادا کرے گا.میں اپنے کئی سالوں کے مشاہدہ کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ حضرت منشی صاحب تہجد کی نماز ایسی ہی باقاعدگی سے ادا کرتے تھے جیسی
205 دوسری پانچ نمازیں.موسم کی کوئی حالت ان کی بیماری کوئی چیز ان کی تہجد کی نماز میں روکاوٹ پیدا نہیں کر سکتی تھی.ایسے بہت ہی کم لوگ ہوں گے.جنہوں نے سالہا سال تک بغیر کسی ناغہ کے تہجد کی نماز پڑھی ہو.منشی صاحب ان چند لوگوں میں سے تھے.ایسے ہی میرے والد ملک نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ بھی تھے.میں نے اپنی ساری عمر میں ایک دفعہ بھی اپنے والد مرحوم و مغفور کی تہجد کی نماز ضائع ہوتے نہیں دیکھی.سوائے اس کے کہ وہ ایسے سخت بیمار ہوں کہ ان کے ہوش قائم نہ رہے ہوں.حضرت منشی صاحب کی طرح میرے والد صاحب نماز با جماعت کے بھی سخت پابند تھے میں نے خود تو کبھی بھی یہ نہیں دیکھا کہ میرے والد صاحب نے کسی نماز کے فرض گھر پر پڑھے ہوں.لیکن میری والدہ صاحبہ کہتی تھیں کہ جس دن عصر کے وقت دل کی حرکت بند ہو جانے سے میرے والد صاحب کی وفات ہوئی.صرف اس دن کی ظہر کی نماز والدہ صاحبہ کے اصرار پر انہوں نے گھر پر پڑھی.صاحب کشف والہام ہونا : غرضیکہ حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب ایک نہایت ہی متقی باعمل اور غیرت مند احمدی تھے.وہ صاحب کشوف والہام بھی تھے.میں نے خودان کے الہامات کو پورا ہوتے دیکھا.انہوں نے مجھے بتلایا کہ جوانی میں ایک دفعہ ان کوسل ہوگئی وہ قادیان برائے علاج آئے سید نا حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا اور افسوس سے فرمایا یہ بات حد سے گذرگئی ہے لیکن ہم دعا بھی کرینگے اور علاج بھی کریں گے.منشی صاحب فرماتے تھے کہ مجھے بھی بہت غم ہوا.میں نے بھی دعا شروع کی تو مجھے الہام ہوا ابھی مادہ حیات بہت باقی ہے.یہ الہام کس شان سے پورا ہوا.اسی بات سے ظاہر ہے کہ منشی صاحب کی عمر وفات کے وقت ۸۵ سال کے لگ بھگ تھی.آنحضرت صلعم سے محبت ہونا : حضرت منشی صاحب کے کیریکٹر کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی.بے حد ہی محبت تھی.میں برسوں ان کے پاس بیٹھا میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ان کے سامنے کسی نے کیا ہو.یا انہوں نے خود کیا کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا نہ آئی ہوں.مجھے اپنے متعلق بھی بعض
206 دفعہ یہ خیال آتا ہے کہ مجھے بھی حضور صلے اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت ہے لیکن حضرت منشی صاحب کی اس بارہ میں جو حالت تھی میں اس کو دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا“ خاکسار مؤلف کو بھی اس کا تجربہ ہے.مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ( در ولیش ) نے منشی صاحب کی وفات کی خبر سن کر مجھ مؤلف کو یہی بات سنائی بلکہ یہ بھی بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر پر بھی آپ کی ایسی ہی حالت ہو جاتی تھی.آپ کا امین ہونا : مکرم ملک غلام فرید صاحب مزید تحریر فرماتے ہیں: منشی صاحب کے کیریکٹر کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ صادق اور امین تھے.جب وہ سیالکوٹ میں تھے وہاں بھی اور قادیان میں بھی میں نے خود دیکھا ہے کہ ہزاروں روپے کی امانتیں لوگوں کی ان کے پاس جمع رہتی تھیں اور کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی صاحب نے اپنا روپیہ آپ سے مانگا ہو اور انہوں نے اس کی امانت کے ادا کرنے میں ایک منٹ کی دیر بھی کی ہو.منشی صاحب کی اپنی آمد نہایت قلیل تھی.میں سیالکوٹ کے متعلق تو نہیں جانتالیکن قادیان میں ان کا گزارہ بظاہر اس تنخواہ پر تھا جو ان کو بحیثیت ٹیوٹر کے ملتی تھی اور وہ ہیں روپے ماہوار سے بھی کم تھی.لیکن حضرت منشی صاحب کا کافی کنبہ تھا.چارلڑ کے تھے.ایک امرتسر میں میڈیکل سکول میں پڑھتا تھا.دو ہائی سکول میں پڑھتے تھے.لوگ بھی حیران تھے اور میں خود بھی تعجب کیا کرتا تھا کہ منشی صاحب گذارہ کس طرح کرتے ہیں.وہ اور اُن کے بچے خوش پوش بھی تھے.کھانا بھی درمیانہ قسم کا کھاتے تھے.وہ کس طرح اپنی ضروریات کو نہیں روپے سے بھی کم تنخواہ میں پورا کرتے تھے.یہ بھید اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے.اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کے ساتھ بھید ہوتے ہیں جن کو اس مردود دنیا کے فرزند نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے ! میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ قادیان میں ان کا گزارہ سوائے اپنی تنخواہ کے کسی اور چیز پر نہ تھا.اور باوجود ایسے عسیر المعاش ہونے کے انہوں نے کسی امانت کی ادائیگی میں کبھی ایک لمحہ کا توقف بھی نہیں کیا.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ان کی امانت سے.۲۰۰ روپے چوری ہو گئے اس پر وہ بہت گھبرائے.گھبراہٹ کی کچھ وجہ تو ی تھی کہ وہ ایک غریب آدمی تھے ان کو خیال تھا کہ میں اتنا نقصان کس طرح پورا کر سکوں گا.لیکن
207 زیادہ فکر ان کو اس بات کا تھا کہ لوگ کہیں گے کہ غریب آدمی تھا خرچ کر دیا اور مشہور کر دیا کہ روپیہ چوری ہو گیا.بار بار وہ اس بات کو دہراتے تھے لیکن خدا تعالیٰ کا فضل ہوا کہ اسی دن تھوڑے ہی وقت میں میرے سامنے لڑکوں کی تلاشی لیتے ہوئے ایک لڑکے سے./ ۲۰۰ روپیہ کی رقم مل گئی.حق کہنے میں نڈر ہونا : ایک اور بات ان کے کیریکٹر میں نہایت قابل تعریف یہ تھی کہ وہ بات کرنے میں نہایت بے خوف تھے اور سچی بات نہایت بے خوفی اور سختی سے کہتے تھے اور اس بارہ میں کسی کا کوئی لحاظ نہیں کرتے تھے.ان کی اس سخت صاف گوئی کی وجہ سے بعض لوگ ان کو بد مزاج سمجھ لیتے تھے.لیکن اَلْحَقُّ مُر کا مقولہ جس طرح ان کے متعلق پورا ہوتے دیکھا گیا بہت کم لوگوں کے متعلق دیکھا گیا ہوگا.منشی صاحب بڑے ہی راست باز تھے“ خاکسار مؤ لف عرض کرتا ہے کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ منشی صاحب نے کسی کو خلاف شریعت یا اخلاق کوئی فعل کرتے دیکھا ہو اور اسے سمجھایا نہ ہو.خواہ وہ کسی اعلیٰ سے اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا ہو.ہر وقت چوکس رہتے تھے اور اس امر کی خاص نگرانی رکھتے تھے کہ کہیں بھی کوئی امر خلاف اخلاق یا خلاف سنت وخلاف شرع نہ ہو.ایک دفعہ آپ کے ایک دوست کی کم سن بچی ایک دکان پر آئی اس کی اوڑھنی کی طرف اشارہ کر کے جو بجائے سر کے اوپر اوڑھی ہوئی ہونے کے گلے میں پڑی تھی پوچھا یہ کیا ہے.کہنے لگی یہ اوڑھنی ہے.پوچھا یہ کس لئے ہوتی ہے.کہنے لگی کہ سر پر اوڑھنے کے لئے.تو فرمایا پھر اوڑھی ہوئی کیوں نہیں.بچی کو اپنی غلطی سمجھ آ گئی اور فورا اوڑھنی سر کے اوپر اوڑھ لی.آپ کا معاملہ فہم ہونا اوردیگر اوصاف حمیدہ: ملک غلام فرید صاحب مزید لکھتے ہیں :- یہ عبادت گزار.راست باز.امین اور اپنے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے حد درجہ محبت کرنے والا انسان ایک لحاظ سے بہت بڑا دنیا دار بھی تھا.دنیا دار“ کا لفظ میں بُرے معنوں میں استعمال نہیں کر رہا.میرا مطلب یہ ہے کہ منشی صاحب مرحوم و مغفور نہایت معاملہ فہم اور سمجھدار انسان تھے.ان کے جتنے احباب تھے ان میں سے جب کسی کو کوئی سونے کا زیور بنوانا ہوتا یا بڑی رقم کی کوئی جنس خریدنی ہوتی تو وہ منشی صاحب کی معرفت ہی اپنا سودا
208 کیا کرتا تھا.منشی صاحب کے احباب کو یقین تھا کہ منشی صاحب کو دھوکہ دینا آسان کام نہیں.وہ چوکس اور بیدار مومن تھے.حضرت منشی صاحب میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ جہاں اپنے احباب کی دنیوی ضروریات کو پورا کرنے میں ان کی مدد کرتے تھے وہاں ان کی بیماری میں با قاعدگی سے تیمارداری بھی کرتے تھے.بیما راحباب کی تیمارداری کرنا ان کا ایک نمایاں خلق تھا.حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد سے لے کر جب تک وہ مسجد میں آ کر نماز پڑھنے سے معذور نہیں ہو گئے وہ مسجد نور میں امام الصلوۃ تھے.اور برسوں کی اس امامت میں شاید ہی کوئی نماز ان کی صحت کی حالت میں ایسی گذری ہو جس کی امامت کے لئے وہ مسجد میں نہ آئے ہوں.وہ صحیح معنوں میں قائم الصلوۃ انسان تھے.منشی صاحب بہت غیرت مند مومن تھے.مجھے انہوں نے بتایا کہ جب سیالکوٹ میں وہ امریکن مشن سکول میں پرائمری کے استاد تھے تو ایک دن تمام اساتذہ کے سامنے سکول کے عیسائی ہیڈ ماسٹریا مینجر نے اپنے انجیل کے وعظ میں اسلام یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی اعتراض نازیبا رنگ میں کیا.حالانکہ اس وقت اور کئی زیادہ سینئر مسلمان اساتذہ اس وعظ میں موجود تھے لیکن منشی صاحب جو کہ پرائمری کے استاد تھے وہ غیرت سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور نہایت سختی سے اس کو جواب دیا جس سے وہ سخت حیران ہوا.یہ تھے وہ لوگ جنہوں نے مکتب مسیح" میں تربیت پائی تھی.درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.خود چھوٹے ہیں وہ لوگ جو ایسی زبردست شہادت کے ہوتے ہوئے خدا کے مسیح کو جھوٹا کہتے ہیں.اگر مسیح قادیانی راستباز نہ تھا تو اس دنیا میں آج تک کوئی بھی راست باز نہیں گذرا.“ آپ کے بھائی غلام قادر صاحب: منشی صاحب کے بڑے بھائی غلام قادر صاحب ۱۲۸۰ھ میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے.ان پڑھ ہیں شاید اس کی وجہ پیدائشی آنکھوں کا نقص تھا.جوانی میں آدھی آدھی رات تھیٹر تک دیکھنا، نماز نہ پڑھنا آپ کا کام تھا.منشی صاحب کے احمدی ہونے پر ان کے نمونہ سے متاثر ہو کر نماز پڑھنے لگے اور ان کے کہنے سے بیعت کر لی اور تہجد پڑھنے لگے.بیعت انہوں نے جہلم جا کر کی تھی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہاں بسلسلہ مقدمہ کرم دین جنوری ۱۹۰۳ء میں تشریف لے گئے تھے.اکتوبر ۱۹۰۵ء میں قادیان چلے آئے اور اس وقت سے
209 تعلیم الاسلام ہائی سکول میں بطور مددگار کارکن کام کرنے لگے جہاں سے اب پنشن پر ہیں.بیعت خلافت ثانیہ کرنے کے متعلق منشی صاحب کے حالات میں ان کا ذکر ہو چکا ہے.آپ نے شادی کی تھی.لیکن بیوی کی حالت مشکوک ظاہر ہونے کی وجہ سے اسے طلاق دے دی کوئی اولا دزندہ نہیں.آپ موصی ہیں، تحریک جدید میں شروع سے حصہ لے رہے ہیں.باوجود با وجود کہ پشن سات روپے کے قریب ہے منارہ مسیح ہال میں آپ نے ایک سورہ پیہ چندہ دیا.پھر ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ نے خطبہ میں چندہ کی تحریک کی تو آپ نے ایک سورو پیہ دیا.حضور نے نام لئے بغیر خطبہ میں فرمایا کہ ایک ایسے شخص نے کہ جسے میں خوب جانتا ہوں کہ اتنی حیثیت کا نہیں ایک سوروپیہ چندہ دیا ہے.اس خاندان میں مندرجہ ذیل صحابی ہیں : (۱) منشی صاحب (۲) ان کی اہلیہ محترمہ (۳) مکرم غلام قادر صاحب برا در منشی صاحب (۴) منشی صاحب کی ہمشیرہ محترمہ زینب صاحبه زوجہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب (۶۵) اس خاندان کی ایک شاخ میں جو محمد کاظم صاحب کی اولاد ہے دو بھائی سلطان محمد صاحب وحسن محمد صاحب.(۷ تا ۹) منشی صاحب کے تین بچے (۱۰) منشی صاحب کی والدہ صاحبہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کسی تعریف کے محتاج نہیں بہشتی مقبرہ کے سب سے پہلے مدفون ر آپ ہی تھے.مولوی صاحب کی قبر کو چاردیواری مزار حضرت اقدس کی توسیع کر کے اندر لانے کا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اس طرح بعض اور قبریں بھی چار دیواری میں آگئیں جن میں مولوی صاحب کی اہلیہ زینب صاحبہ کی بھی ہے.یہ کوئی کم فخر نہیں.نقشہ میں مولوی صاحب ان کی اہلیہ محترمہ اور محترمہ اہلیہ منشی صاحب کی قبور ظاہر کی گئی ہیں.منشی صاحب کے بارہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم کا مکتوب جو آپ نے خاکسار کے استفسار پر تحریر فرمایا درج کیا جاتا ہے.
210 بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبده امسیح الموعود رتن باغ ۱۸/۱۲/۵۰ مکرمی محترمی ملک صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ آپ کا خط مورخہ ۱۲/۵۰ موصول ہوا.جوابی کارڈ تو شاید یہاں کام نہیں آتا...مولوی (منشی) محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی میرے بہت مہربان بزرگ اور دوست تھے اور میرے ساتھ بہت محبت رکھتے تھے.یہ درست ہے کہ میں اُنہیں اکثر دعا کے لئے کہتا رہتا تھا.لیکن بی اے کے امتحان کا واقعہ مجھے خاص طور پر یاد نہیں ہے گواس کے خلاف بھی کچھ یاد نہیں.لیکن قاضی صاحب نے تو غالباً میرے ساتھ بی اے کا امتحان نہیں دیا تھا.وہ بھی.....تھے اور گوانٹرنس پاس کر کے ٹیچر ہو گئے تھے اور بی اے بعد میں کیا لیکن بی اے بھی اغلبا مجھ سے پہلے کر چکے تھے.علاوہ ازیں میرے ایک پر چہ کا خاص طور پر کمزور ہونا جہاں تک مجھے یاد ہے ایم اے کے امتحان کا واقعہ ہے نہ کہ بی اے کا لیکن منشی صاحب مرحوم کی جو خواب آپ نے لکھی ہے وہ مجھے یاد پڑتی ہے کہ منشی صاحب نے کسی موقع پر ضرور دیکھی تھی مگر یہ معلوم نہیں کہ وہ کون سا موقعہ تھا.میں خدا کے فضل سے ( محض اُس کے فضل سے ) انٹرنس سے ایم تک کسی امتحان میں فیل نہیں ہوا.کیا آپ کو میرا خط متعلق ملک مولا بخش صاحب مرحوم مل گیا تھا.منشی صاحب بہت نیک اور محبت کرنے والے بزرگ تھے.۲.۴..حوالہ جات یہ واقعہ جلسہ سالانہ ۱۹۰۶ ء کا ہے.قادیان کے آریہ اور ہم.الحکم ۲۴/۱۷ اگست ۱۹۰۴ء صفحه ۶ - حقیقته الوحی صفحہ ۲۲۷.سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۶۲۵.الفضل جلد ۱۹ نمبر ۷۵ بابت ۲۲ دسمبر ۱۹۳۱ء.
211 سیٹھ شیخ حسن صاحب رضی اللہ عنہ * ولا دت اور خلیہ : مکرم سیٹھ شیخ حسن صاحب ایک تجارت پیشہ خاندان میں شیخ عبداللطیف صاحب کے ہاں محترمہ با نو بی صاحبہ کے بطن سے بمقام یاد گیر ضلع گلبرگہ ریاست حیدر آباد دکن ) میں ۱۲۵۸ھ کے قریب پیدا ہوئے.آپ کا حلیہ یہ تھا.سیاہ فام قوی الجثہ.بڑی بڑی آنکھیں.موٹی اور خوبصورت ناک.گول کتابی چہرہ صاحب ریش.چال باوقار سبک رفتار منکسر المزاج.خاموش طبع.سادہ لباس کے عادی.ڈھیلا کر تہ.موٹا پاجامہ کرتہ پر سادہ جالی.پاؤں میں چپل.ہاتھ میں معمولی ڈنڈا.خاندانی حالات اور تعلیم : خاندانی روایات اور دوسرے حالات سے ظاہر ہوتا ہے (کہ) کسی دُور کے زمانہ میں ان کے بزرگ عرب سے ہی آئے تھے.اور اقوام کے عروج وزوال کے مختلف دوروں سے گذرتے ہوئے ایک تاجر خاندان کی حیثیت سے ریاست حیدر آباد میں مقیم ہو گئے.آپ کے دادا اور دادی کے متعلق صرف اس قدر معلوم ہوا ہے کہ وہ معمولی مذہبی خیال کے لوگ تھے اور ایسے دیگر لوگوں کی طرح پیر پرستی اجمیر شریف اور دیگر درگاہوں کی زیارت اور رسم ورواج کے عادی تھے.دادا اور دادی اور والدین پھیری کے ذریعہ کپڑے کی تجارت کا کام کرتے تھے.والدہ بہت نیک خاتون تھیں.سیٹھ صاحب کی طفولیت کا کچھ حصہ شولا پور انگریزی (صوبہ بمبئی) میں گذرا جبکہ والدین بہت ہی تنگدستی کی حالت میں تھے اور جب تک والدہ محنت نہ کرتیں گذر اوقات نہ ہو سکتی تھی.غالبا یہی وجہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں کہ جنہوں نے اَلْفَقْرُ فَخْرِی فرمایا تھا سیٹھ صاحب کو عمر بھر غرباء کا احساس رہا.اور آپ نے سیٹھ صاحب کے حالات میں جہاں ماخذ کا ذکر نہیں وہ مجھے آپ کے داماد اخویم مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل وکیل یاد گیر سے دستیاب ہوئے ہیں.مولوی صاحب نے سیٹھ صاحب کے بہت ہی مختصر حالات کے متعلق ایک چار ورقہ نیز ایک سولہ ورقہ ٹریکٹ بنام’ نیک نمونہ بھی شائع کیا.موخر الذکر صرف اس جلسہ کی روئداد پر مشتمل ہے.جو سیٹھ صاحب کی وفات پر یاد گیر میں ۱۳ ربیع الثانی ۱۳۶۵ھ کو منعقد ہوا تھا.اس جلسہ میں مسلم و غیر مسلم پبلک نے مرحوم کی بہت سی خوبیوں کا ذکر اپنی تقریروں میں کیا.نیز اخویم موصوف کی طرف سے مختصر حالات الفضل جلد ۵/ ۳۹ نمبر اے بابت ۲۰ جنوری ۱۹۵۱ء میں بھی شائع ہوئے ہیں.یہاں سوانح بالاستیعاب درج کئے گئے ہیں.اخویم سیٹھ محمد اعظم صاحب سیکرٹری مال حیدر آباد دکن نے بھی میرا مسودہ دیکھ لیا ہے اور اس کی تصدیق کرتے ہیں.(مؤلف) *
212 حتی المقدور اس طبقہ کی مالی، علمی مذہبی غرضیکہ ہر طرح خدمت کی.آپ کی تعلیم گو کچھ نہ تھی لیکن بعد میں آپ نے اتنی ترقی کر لی تھی کہ اپنا نام شیخ حسن احمدی، تحریر کر لیتے تھے.اور قرآن مجید سادہ اور اس کے نیچے لکھا ہوا تر جمہ پڑھ لیتے تھے.الفضل میں سے خطبہ کا مضمون پڑھ لیتے تھے.گو اس کا ایک صفحہ پڑھنے پر بھی کافی وقت صرف کرنا پڑتا تھا.آپ کی اہلی زندگی : آپ کی اہلی زندگی بہت ہی پُر سکون تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو پوتے اور پڑنوا سے تک اولاد دیکھنے کا موقعہ نصیب کیا.آپ کا سلوک اپنے اہلبیت سے قابل تحسین تھا.ان کا ہر طرح خیال رکھتے حتی کہ اگر رات کو گھر میں کبھی دیر سے آنا ہوتا تو انہیں بیدار کر کے کسی کام کی تکلیف نہ دیتے.آپ کی پہلی شادی محترمہ پیر ساں بی صاحبہ سے ہوئی تھی.جن کے بطن سے زہرہ بی احمد بی عبدالئی اور امتہ ابھی بیگم پیدا ہوئے.موصوفہ نے سیٹھ صاحب کی بیعت کے قریب کے زمانہ میں ہی بیعت کر لی تھی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت نہیں کر سکیں.میر محمدسعید صاحب کی معیت میں خلافت اولی کے قیام کے ایک دو ماہ بعد قادیان آئیں اور چند ماہ قیام کر کے خود اندرون خانہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کے درس میں شامل ہوتی رہیں.اور آپ کے بچے زہرہ بی احمد بی اور عبدالحئی بھی دینی تعلیم پاتے رہے.سیٹھ صاحب کے غربت کے زمانہ میں اپنے ہاتھ سے محنت کر کے روزی کمانے میں مدددیا کرتی تھیں.قرآن مجید کی تلاوت کرنے والی تمول کے باوجو د سادہ طبیعت ساده پوش، سادہ خورا اور غرباء پر ور تھیں.غرباء کا حال معلوم کر کے ان کی امداد کرتیں.یہ لوگ جھگڑے آپ کے پاس لاتے.جنہیں آپ نپٹا تیں.موت کی آخری گھڑیوں میں اپنے بیٹے اور سوت سے کہا کہ میرا گر تہ ابھی اُتار کے صدقہ کردو.بعد وفات پھاڑ کر اتارنے سے بہتر ہے.بڑی سیٹھانی ماں کے نام سے مشہور تھیں.عبدالکریم صاحب ( باؤلے کتنے کے نشان والے) کی خالہ تھیں.۱۴ ربیع الثانی ۱۳۴۷ھ کو قریباً پینتیس سالہ اہلی زندگی گزار کر آپ نے وفات پائی اور موصیبہ تھیں لیکن احمد یہ مقبرہ یاد گیر سے قادیان نعش نہ لائی جاسکی.اس لئے بہشتی مقبرہ میں ان کا کتبہ نصب کیا گیا ہے.* *حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعزیتی مکتوب جس پر حضور کے دستخط ثبت ہیں.ذیل میں درج کیا جاتا ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم 2/10/TA قادیان مکر می سیٹھ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ والدہ عزیز عبدالحی کی وفات کی اطلاع آپکے ملفوف مؤرخہ ۲۹ ستمبر ۱۹۲۸ء سے ہوئی.معلوم کر کے افسوس ہو ا.انا للہ و انا الیہ راجعون.اللہ تعالیٰ مرحومہ کو غریق رحمت کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرما دے.والسلام (دستخط) خاکسارمرزا محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی
213 آپ کی دوسری شادی محترمہ رسول بی صاحبہ بنت محی الدین صاحب سکنہ چنت کنٹہ ضلع محبوب نگر ریاست حیدر آباد دکن سے ۱۹۱۰ء کے قریب ہوئی.موصوفہ زندہ ہیں.صاحب اولاد نہیں.* آپ کی تیسری اہلیہ محترمہ خواجہ بی صاحبہ زندہ ہیں.اُن کے بطن سے امتہ الحفیظ امتہ المنیر اور محمد الیاس تین بچے ہیں.ان سے اغلبا ۱۹۲۵ء میں شادی ہوئی تھی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ آپ کی اولا د احمدیت سے اخلاص رکھتی ہے اور آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تمام نیک کاموں کو جاری رکھے ہوئے ہے.شجرہ نسب حالات کے آخر پر درج کیا گیا ہے.قبول احمدیت : سیٹھ صاحب کو احمدیت کی نعمت حضرت مولانا میر محمد سعید صاحب حیدر آبادی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حاصل ہوئی.آپ میر صاحب کے ہمراہ قادیان آئے اور دستی بیعت کی.فرماتے تھے: ان کا شجرہ درج ذیل ہے: رسول بی زوجہ سیٹھ شیخ حسن (لاولد ) محی الدین چنت کنٹہ حلیمه بیگم مدفونه بهشتی مقبره زوجہ سیٹھ محمد غوث محمد حسین معین الدین محمد اسماعیل محمد اعظم محمود احمد رشید احمد نصیرہ بیگم ساره بیگم بشری کی سلیمہ بیگم ناصر احمد محمد بشیر الدین منصورہ بیگم محمودہ بیگم مبار که بیگم منیر الدین (مؤلف)
214 میں حضور کی زندگی میں تین مرتبہ قادیان گیا ہوں.پہلی مرتبہ جانے کا سن صحیح طور پر یاد نہیں.۱۹۰۰ء سے ایک سال پہلے یا ایک سال بعد ہوگا.میں مولوی میر محمد سعید صاحب مرحوم حیدر آبادی کے ساتھ قادیان گیا تھا.اس وقت حضور ایک حجرہ میں تشریف فرما رہتے تھے.جو مسجد مبارک کے ساتھ ملا ہوا تھا.بہت تھوڑے آدمی اس میں بیٹھ سکتے تھے.جس مقام پر بالعموم حضور بیٹھا کرتے تھے وہاں جا کر میں بیٹھ گیا لوگوں نے مجھے نہیں اٹھایا.مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ حضوڑ کے بیٹھنے کی جگہ ہے.پھر جب حضور تشریف لائے اور لوگوں نے مصافحہ شروع کیا تو میں بھی اُٹھا.حضور نے اپنے ہاتھوں کے اشارے سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ.پھر حضور مجلس میں تشریف فرما ہوئے.اس طرح کہ حضور والا کی مانڈی (ران) میری مانڈی پر تھی.میں ہٹنے کی کوشش کیا.حضور نے ران پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ یہیں بیٹھے رہیئے.مجلس میں تمہیں آدمی ہوں گے.یہ موسم بہار کے دن تھے ظہر کی نماز کی بات ہے.تین روز وہاں قیام رہا.حضور کے ساتھ دوسرے روز سیر کو گئے.مغرب سے پہلے ہم مردان علی صاحب حیدر آبادی.حضرت میر محمد سعید صاحب حیدر آبادی) اور دوسرے لوگ دس میں آدمی تھے.حضرت صاحب کے مکان میں ہی سے کھانا کھاتے.ہم حیدر آبادیوں کے متعلق حضوڑ اندر سے کہلوا بھیجے کہ حیدر آبادیوں کو ابھی کھانا نہ کھلوایا جائے.اس کے بعد بعد مغرب حضور خود تشریف لائے اور دستر خوان بچھوایا گیا.مولوی میر محمد سعید صاحب کے سوال پر حضوڑ نے فرمایا کہ آپ کو میں نے اس لئے روک لیا تھا کہ آپ لوگ حیدر آبادی ہیں جو چاول کھانے کے عادی ہیں.اس لئے میں نے چاولوں کے پکوانے کا بندوبست کیا.“ الحکم سے ہمیں ذیل کا اقتباس ملتا ہے : حیدر آباد دکن سے پانچ آدمی اس وقت دار الامان میں حضرت اقدس کی پاک صحبت سے فیض اٹھا رہے ہیں.جن میں سے حضرت مولانا سید محمد سعید صاحب اور مولانا سید محمد رضوی صاحب دو بڑے سرگرم اور پُر جوش اور غیور ارادتمند ہیں.جن کی سعی اور کوشش سے حیدر وو آباد دکن میں ایک مستقل جماعت حضرت اقدس کی بفضلہ تعالیٰ قائم ہوگئی ہے“.* * الحکم جلد نمبر ۱۸ ( صفحه ۱۵ کالم ۳) بابت ۷ امئی ۱۹۰۰ء.الحکم میں پانچ افراد کا ذکر ہے اور سیٹھ صاحب کی روایت میں دس ہیں کا.ممکن ہے کہ قافلہ کا ایک حصہ جاچکا ہو.جیسا کہ بعد میں چھ ماہ تک مولوی میر محمد سعید صاحب کا قیام رہا (باقی اگلے صفحہ پر )
215 حضرت مولانا میرمحمد سعید صاحب کا چھ ماہ تک قادیان میں قیام رہا.آپ کی واپسی کے ذکر میں آپ کے رفقاء کا ذکر نہیں.معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے واپس جاچکے ہوں گے.سے مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی درویش ذکر کرتے ہیں کہ مجھے ان دوستوں کی قادیان میں آمد بوجہ ایک جیسا رنگ کے ہونے کے اور دور سے آنے کے اچھی طرح یاد ہے.سیٹھ صاحب بھی ان میں شامل تھے.قادیان میں تھوڑ اعرصہ ہی قیام رہا تھا.آپ بہت ہی منکسر المزاج اور خاموش طبع تھے.حضور کی مجلس میں خاموش ہی رہتے تھے.دوبار پھر زیارت قادیان: حضور کے عہد مبارک میں آپ کو دوبار پھر قادیان آنے کا موقعہ ملا.فرماتے تھے : اس کے بعد دوسری مرتبہ میں قادیان پھر دو سال بعد گیا ہوں گا.سن یاد نہیں.تین چار روز ٹھہرے.ادب کی وجہ سے کوئی گفتگو نہیں کرنا.صرف حضور کا چہرہ دیکھ لینا اور حضور کی باتیں سننا.اس کے بعد تیسری مرتبہ میں قادیان گیا تو اس وقت بھی یہی کیا.مصافحہ کرنا اور حضور کی صورت دیکھ لینا اور حضور کی باتیں سننا.ہر مرتبہ جب ہم واپس ہوتے تو باوجود ٹانگوں کی موجودگی کے اپنے خدام کو چھوڑنے کے لئے حضوڑ نہر تک پیدل تشریف لاتے.باوجود اصرار کے بھی ٹانگوں پر نہ بیٹھتے.رخصت کرتے وقت دعا کے بعد ہمیشہ فرماتے.مجھ سے ہمیشہ ملا کرو اور بار بار قادیان آیا کرو.ہم کو اس قدر تڑپ ہوتی تھی کہ کسی طرح اس مبارک چہرہ کو دیکھیں اور حضور کی باتیں سنیں.حضور اس نا چیز خادم کو سیٹھ صاحب“ کے لقب سے یاد فرماتے چنانچہ حضور کی دعاؤں کے طفیل خدا نے عاجز کو فی الواقع مالا مال کر دیا اورسیٹھ بنادیا.* بقیه حاشیه : اور سیٹھ صاحب اپنے بیان کے مطابق صرف تین دن مقیم رہے.الحکم جلدم نمبر ا ( صفحہ ۷ ) بابت ۱۷ نومبر ۱۹۰۰ ء میں حیدر آباد دکن کے اتنی احباب کی بیعت شائع ہوئی ہے.ان میں سید محمد سعید صاحب اور سید محمد رضوی صاحب کے اسماء بھی شامل ہیں.اس فہرست میں کوئی سہو ہوا ہے کیونکہ اس سے سوا سال قبل ان دونوں کی حیدرآباد میں قائم کردہ انجمن کی روئیداد شائع ہوئی.وہاں مکرم ایڈیٹر صاحب نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ سید محمد سعید صاحب کے ذریعہ ڈیڑھ صد کے قریب لوگ احمدیت قبول کر چکے ہیں.(الحکم جلد ۳ نمبر ۲۰ (صفحہ اکالم ۱) بابت ۳۱ جولائی ۱۸۸۹ء.شاید فہرست بھیجنے کی وجہ سے بھیجنے والوں کا نام سہو سے شائع ہو گیا ہو.یا یہ فہرست بہت پہلے کی ہوگی اور لمبے عرصے کے بعد شائع ہوئی.واللہ اعلم.(مؤلف) (الف) سیٹھ صاحب نے زیارت قادیان کے متعلق یہ دونوں روایتیں بتاریخ ۵ استمبر ۱۹۴۱ء یادگیر میں لکھوائی تھیں.آپ کی زندگی میں ہی مرکز کو اخویم مولوی محمد اسماعیل صاحب نے بھجوادی تھیں.(ب) مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ حضور آپ کو سیٹھ صاحب“ کے الفاظ سے مخاطب فرماتے تھے.(مؤلف) *
216 قبول احمدیت سے انقلاب : سیٹھ صاحب نے قبول احمدیت کے بعد مولانا میر محمد سعید صاحب سے دریافت کیا کہ اب ہم کیا کریں.میر صاحب نے فرمایا کہ پانچ وقت نماز با جماعت ادا کریں.قرآن مجید پڑھیں اور تہجد ادا کیا کریں.اور خدا تعالیٰ کی مخلوق سے بھلائی کریں.سیٹھ صاحب بیان کرتے تھے کہ پہلے مجھے نماز کی عادت نہ تھی اور نہ ہی تہجد اور قرآن مجید سے شناسا تھا.کوشش سے تہجد میں باقاعدگی ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز میں ایک ذوق اور شوق حاصل ہوا.کئی دن بعد ایک روز تہجد سے فارغ ہوا تو میری زبان پر بار بار وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کے الفاظ جاری ہوئے.اور زبان انہیں بار بار دہرانے لگی.اور خود بخود ہی گریہ و بکا شروع ہو گیا.میری اہلیہ پیرساں بی نے رونے کا سبب دریافت کیا.میں نے یہ بات کہ سنائی.لیکن عربی نہ انہیں آتی تھی نہ مجھے.ایک بار آپ کو سَلَام قَوْلاً مِن رَّبِّ رَّحِیم الہام ہوا.بعد میں سیٹھ صاحب پر مصائب کی تیز آندھیاں چلیں.اور مخالفین مخالفت میں سرگرم رہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام شرور و آفات سے اپنی حفظ وامان میں رکھا.اور آپ کو الہامات و کشوف سے نوازا.ایک دفعہ رویا میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت دودھ پلایا.جس کا مزہ منہ میں بیدار ہونے پر بھی موجود تھا.سو اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایمان و عرفان سے بہرہ وافر عطا ہوا.بیعت کے بعد آپ کی زندگی میں جو انقلاب رونما ہوا اس کے متعلق مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سیٹھ محمد غوث صاحب رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں فرماتے ہیں کہ وہ: اپنے بھائی سیٹھ حسن احمدی کو دیکھتے تھے.اُن کی زندگی میں ایک صادق مسلم اور غیور مومن کے آثار نمایاں پاتے تھے.ان کے تقویٰ وطہارت نفس کو علی وجہ البصیرۃ جانتے تھے.اور دیکھتے تھے کہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو کر اُن کی خوبیاں اور نیکیاں ایک جلا حاصل کر رہی ہیں اور حسنات اور رفاہ عام کی قوتوں میں نشو ونما ہو رہا ہے“ سے قبول احمدیت کے بعد مال میں برکت : سیٹھ صاحب کے والدین سخت غریب تھے جب تک والدہ بھی محنت نہ کرتیں گذر اوقات محال تھی.ابتداء میں آپ شولا پور میں کام کرتے تھے.پھر حیدر آباد دکن چلے آئے.یہاں آپ تیل کا پہیہ کندھوں پر اٹھائے یا بنڈی ( چھکڑے ) پر لئے پھرتے اور فروخت کرتے.پھر چند بچے ملازم رکھ کر بیٹری بنانے کی دکان کھول لی جس سے قدرے مالی فراخی ہوئی.کچھ عرصہ بعد آپ نے بمقام یاد گیر کسی کی شراکت سے اور بعد میں بلا شرکت غیرے بیڑی کی فیکٹری کھول لی.ابتداء میں آپ کی اہلیہ محترمہ پیر ساں بی صاحبہ بھی اپنے ہاتھ سے کام کر کے
217 روزی کمانے میں مدد دیتی تھیں.قبول احمدیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے کام میں ایسی برکت ڈالی کہ روز مرہ کی آمدنی کا گننا مشکل ہوگیا.چنانچہ ترازو سے روپیہ تکنے لگا.چار ہزار کا ریگر آپ کے کام سے روزی کمانے لگے اور تجارت یہاں تک چمکی کہ کاروبار میں بائیس لاکھ تک جا پہنچا.مدر اس.بنگال بمبئی اور دکن کے علاقوں میں چالیس کے قریب ایسی دکانیں تھیں جہاں ذاتی نگرانی میں براہ راست آپ کا مال فروخت ہوتا تھا.اور مختلف مقامات پر کثیر تعداد میں جوایجنسی والی دکانات تھیں وہ ان کے علاوہ تھیں.نو دس مقامات پر آپ کی آئے، تیل نکالنے اور کپاس بلینے کی ملیں (MILLS) بھی ہو گئیں.کاروبار میں زوال : اللہ تعالٰی مومنوں کو بتلاؤں کی بھٹی میں سے گزار کر کندن بناتا ہے چنانچہ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالا نُفْسِ وَالثَّمَرَاتِ.میں مذکورہ سنت الہیہ کے مطابق مصلحت الہی نے سیٹھ صاحب کی تربیت اور روحانی ترقی کے لئے آپ کو مالی ابتلاؤں کے ایک لمبے دور سے گذار نا مناسب سمجھا.آپ بیڑی کے کاروبار کے لئے رنگون گئے.وہاں کے لئے جو سٹاک تیار کر کے لے گئے تھے وہ اس علاقہ کے مناسب حال نہ تھا.اس لئے سارے کا سارا ضائع چلا گیا.یکدم نقصان عظیم ہونے سے مشہور ہو گیا کہ آپ کی مالی حالت اچھی نہیں رہی.اور ساکھ جاتی رہی.اور وہی لوگ جو آپ سے لاکھوں روپیہ کما چکے تھے.مطالبات کرنے لگے.چنانچہ میں کے قریب مقدمات آپ کے خلاف دائر ہو گئے.آپ کو اپنے کارندوں پر بہت بھروسہ تھا.اس لئے حساب کتاب کے معاملہ میں ہمیشہ یہی فرمایا کرتے کہ ہم نے حساب کیا لینا ہے.ہر شخص کو خدا تعالیٰ کا خوف رکھنا چاہئے.ایمانداری سے کام کرنا چاہئے.لیکن جب مقدمات دائر ہو گئے تو وہ لوگ جو ایماندار نہ تھے.جو سرمایہ ان کے ہاتھوں میں تھا اسے خرد برد کر گئے.چونکہ آپ سائلوں کو رد کرنے کی بجائے اپنے نام پر انہیں قرض دلاتے رہے.اس لئے آپ زیادہ ہی زیادہ زیر بار ہوتے گئے.غیر معمولی صبر و استقلال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَا بَتْهُمُ مُّصِيبَةٌ قَالُوانَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ که مرد مومن کی علامت یہ ہے کہ ابتلاؤں کے دور میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کی استقامت کا ثمرہ اسے اللہ تعالیٰ کی برکات اور رحمت کے رنگ میں حاصل ہوتا ہے.اخویم خواجہ محمد اسماعیل
218 صاحب درویش کا بیان ہے کہ سیٹھ صاحب کو کاروبار میں اتنا شدید نقصان پہنچا تھا کہ بالعموم ایسے صدمہ کی برداشت نہ لا کر تا جر خود کشی کر لیا کرتے ہیں.یا حرکت قلب بند ہو کر موت واقع ہو جاتی ہے.لیکن میں نے آپ کو ان ایام میں دیکھا کہ آپ پر اس نقصان عظیم کا کوئی خاص اثر معلوم نہ ہوتا تھا.سیٹھ صاحب نے ثابت قدمی کا شیوہ اختیار کئے رکھا.اور ہمیشہ فرماتے تھے کہ ہماری کچھ غلطیاں ہمارے نامہ اعمال میں ہونگی.اس لئے یہ آزمائش پیش آئی.آپ آستانہ الہی پر جھکے رہے اور بمطابق وعدہ اِنَّ الَّذِينَ قَالُو رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزِّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلْئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا.آپ پر ملائکہ کا نزول ہوا.بشارات ملیں اور آپ کی طبیعت میں ایک سکون اور اطمینان ودیعت ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو صبر واستقامت کی وہ طاقت عطا ہوئی کہ جس کے سامنے مصائب کے پہاڑ ٹل جائیں.فرماتے تھے کہ جب آپ رنگون تجارت کے لئے چلے گئے اور یکدم تجارت میں لاکھوں روپے کا خسارہ ہوا.گھر کے لوگ اور ملازمین سارے پریشان تھے.ان دنوں ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی مالیت کے بارہ دیوانی مقدمات آپ پر دائر ہو چکے تھے گھر سے فوری واپسی کے لئے تار آیا.آپ دعائیں کرتے ہوئے واپس لوٹے.جب جہاز مدراس کی گودی میں لنگر ڈال رہا تھا.تو آپ کی زبان پر بار بار لا غُلِبَنَّ لَا مُرِى يَا لَا غُلِبَنَّ عَلَىٰ امری کے الفاظ جاری ہوئے.چنانچہ آپ کو کامل اطمینان ہو گیا.اور جب آپ کے بیٹے شیخ عبد الحئی صاحب نے پریشان کن حالات سنائے تو آپ نے اپنا الہام سنا کر تسلی دی.مخالفین سلسلہ نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ چونکہ سیٹھ صاحب نے جھوٹے سلسلہ کی خاطر مال و دولت خرچ کی.اس لئے ان کا گھر برباد ہو گیا.شیخ حسن اب ختم ہوا.اب اس کا زندہ رہنا مشکل ہے.چنانچہ ایک دفعہ جمعہ کے بعد آپ نے مسجد احمد یہ یاد گیر میں کہا کہ میں دوستوں کو کچھ سنانا چاہتا ہوں.لوگ میرے خسارہ کو دیکھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں.میں مسجد میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بار بار بتایا ہے کہ میں اس وقت تک نہیں مروں گا.جب تک کہ تجارت کی حالت پہلے جیسی نہ ہو جائے.آپ کو اللہ تعالیٰ پر حد درجہ یقین تھا.فرماتے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ضائع نہیں کرے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کیا ہی عمدہ ہے کہ الدُّنْيا جِيفَةٌ وَطَالِبُهَا كِلاب کہ دنیا مردار ہے اور اس کے طالب کہتے ہیں.دنیا دار مال و منال اور حشمت و جاہ کے طالب ان کے حصول کے لئے جائز و ناجائز کی تمیز روا نہیں رکھتے اور اس وجہ سے کتے سے مشابہت رکھتے ہیں.معمولی فائدہ کی خاطر جھوٹ بول لینے اور معاہدہ تو ڑ دینے کو شیر مادر کی طرح حلال سمجھتے ہیں.اس ابتلاء میں آپ کے یہ اوصاف بھی اُجاگر ہوئے کہ باوجود وکلاء کی تلقین کے آپ نے جھوٹ بولنے سے انکار
219 کیا اور راستبازی اور راست گفتاری کا دامن نہ چھوڑا.جن صبر آزما حالات میں سے آپ کو گزرنا پڑا اس میں صداقت شعاری اور ایمان کی حفاظت بہت ہی مشکل امر تھا.آپ کے وصیت کے ریکارڈ میں مکرم سید بشارت احمد صاحب امیر جماعت ہائے حیدر آباد کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۳۰ء میں سیٹھ صاحب نے خسارہ کی وجہ سے دو لاکھ روپیہ قرض حاصل کرنے کی کوشش کی.۱۹۳۴ء میں سیٹھ صاحب نے تحریر کیا کہ گذشتہ تین سال میں میرا تین لاکھ روپیہ کا نقصان ہوا ہے.ایک لاکھ روپیہ کاروبار میں لگا ہوا ہے.اور اتنا ہی میرے ذمہ قرض ہے.اور ۱۹۳۶ء میں تحریر کیا کہ اب آمد دوصد روپیہ ماہوار بھی نہیں رہی.۱۹۴۰ء میں آپ پر نوے ہزار روپے کے مقدمات دائر تھے.وکلاء کا خرچ علیحدہ صرف ساٹھ روپے آپ گھر کے اخراجات کے لئے لیتے تھے.کیونکہ گذشتہ سال کے کاروبار میں صرف دس ہزار روپیہ کی بچت ہوئی تھی جو قوم مقدمات وغیرہ کے بالمقابل کچھ حیثیت نہ رکھتا تھا.ایک شخص نے آپ سے ایک تیل نکالنے کی مشین (Oil Mill) کا اکیس ہزار میں سودا کر لیا.مشین پون لاکھ کی مالیت کی تھی.سودے کا علم پا کر آپ کے بہی خواہوں کو بہت تکلیف ہوئی.ہزار سر پیٹنے.سودا فسخ کرنے کی متعدد اور قانو ناجائز را ہیں بتلائیں.اور گو اس تباہ حالی میں چون ہزار روپے کا نقصان مزید آپ کو بربادی کے اتھاہ گڑھے میں گرادینے اور آپ کو زندہ درگور کرنے کے مترادف تھا.لیکن آپ نے پورے سکون و انشراح سے کہا کہ میں زبان کر چکا ہوں.سودا ہو چکا.اللہ تعالیٰ کو جس کی مافی الصدور پر نظر ہوتی ہے.یہ ادا ایسی بھائی کہ اس نے اس قلیل رقم کو ہی بابرکت بنا دیا.آپ یہی قلیل رقم لے کر بہت سے مقامات پر مقدمات کرنے والوں کے پاس گئے.اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب پر ایسا تصرف کیا کہ انہوں نے رقومات متدعویہ سے کم رقوم لے کر مقدمات ختم کر دئیے.اس طرح اس قلیل رقم سے بارہ مقدمات نپٹ گئے.آپ کا بارہ سالہ صبر واستقلال بے شمر نہ رہا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے عمر دراز عطا کی اور وفات کا حادثہ اس وقت پیش آیا جبکہ نہ صرف مقدمات ختم اور قرضے بے باق ہو چکے تھے.بلکہ اپنے ورثا کے لئے بھی پریشانی کا کوئی سامان باقی نہ رہا تھا.کاروبار کی حالت اچھی ہوگئی تھی.علاوہ ازیں آپ نے اُن کے لئے کافی جائیدا دتر کہ میں چھوڑی.قرآن مجید سے محبت اور اس کی اشاعت : سیٹھ صاحب نے خواب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں اسے پڑھا کرو.نیز بیان کرتے تھے کہ ابتدائے قبول احمدیت میں میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد احمد یہ یاد گیر کے چبوترے پر بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت فرماتے دیکھا.میں ادب سے کھڑا تلاوت سنا کیا.حضور کے تلاوت کے بعد میں نے جھک کر السلام علیکم کہا.حضور نے وعلیکم السلام فرمایا.اور ایک
220 درخت کی طرف اشارہ کیا دیکھا کہ ہزاروں قرآن مجید مجو دانوں میں پڑے درخت پر جا بجالٹک رہے ہیں.میر محمد سعید صاحب نے تعبیر میں فرمایا کہ آپ کو قرآن مجید کی بار بار تلاوت اور اس کی اشاعت کی ہدایت ہوئی ہے.چنانچہ سیٹھ صاحب نے خود قرآن مجید پڑھا.یاد گیر میں مدرسہ احمدیہ کے ساتھ اک مدرسہ حفاظ قرآن جاری کیا.قرآن مجید حفظ کرنے والے بچوں کے لئے انعام و اکرام اور لباس و طعام کا آپ کی طرف سے انتظام تھا.دوسرے لوگوں کی ترغیب کے لئے آپ سارا قرآن ختم کرنے والے کو ایک سو روپیہ.نصف ختم کر نیوالے کو ساڑھے پچاس روپے اور چوتھائی ختم کر نیو الے کو سوا چھپیں روپے انعام دیتے تھے.اس طرح قرآن مجید پڑھنا سیکھ لینے کے علاوہ لوگ وقتی امداد سے بھی فائدہ اٹھا لیتے تھے.آپ نے ہزاروں روپے کے قرآن مجید بھی مفت تقسیم کئے.جذبہ تبلیغ احمدیت جیسی نعمت عظمیٰ کا دوسروں کو گرویدہ بنانے کے لئے آپ حد درجہ کوشاں رہتے.علماء سلسلہ کو ٹلاتے.لٹریچر تقسیم کرتے اور مختلف طریقوں سے تبلیغ حق اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے سر توڑ کوشش کرتے.اسی جذبہ کے ماتحت آپ نے اپنے نام اور بہت سے تجارتی کاموں کے ساتھ احمدی اور احمدیہ کے الفاظ لگا رکھے تھے.اخویم سیٹھ محمد اعظم صاحب بیان کرتے ہیں کہ سیٹھ صاحب نے مختلف مقامات پر اپنے کارخانے کھولے.جہاں کا رخانہ کھولتے بریکا رلوگ کام پر لگ جاتے.آپ انہیں تبلیغ کرتے.نمازیں پڑھاتے.اس طرح بہت سے لوگ احمدیت کی طرف رجوع کرتے اور بالآ خر احمدی ہو جاتے.آپ تبلیغ کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے.اگر سفر میں ہوتے تو مثلا سیشن پر پہنچے ہیں.خواہ پندرہ منٹ ٹرین کی روانگی میں باقی ہیں تبلیغی گفتگو شروع کر دیتے.بالعموم اپنے ساتھی سے مخاطب ہوتے اور پوچھتے کہ بھئی! دنیا میں مصائب آ رہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے.جب وہ کہتا کہ مجھے علم نہیں تو آپ اُسے مخاطب کر کے اس کی وجہ بتا کر بیان کرتے کہ ایسے اوقات میں انبیاء مبعوث ہوتے ہیں.اور اب بھی ایک نبی مبعوث ہوئے ہیں.آپ کا طریق بیان اس قدر موثر اور دلنشیں ہوتا تھا کہ پاس بیٹھے مسافر با تیں سنے کیلئے خود ہی آپ کے گرد جمع ہو جاتے.کبھی آپ اپنے ساتھی کو سلسلہ کا اخبار دے کر سنانے کو کہتے.اس طرح تبلیغ ہوتی.آپ ہزاروں روپے کے اخراجات برداشت کر کے کثرت سے لوگوں کو قادیان لے جاتے تھے.جن میں غیر احمدیوں کی بھی کافی تعداد ہوا کرتی تھی.چونکہ دکن میں دیہاتی طبقہ کو بالعموم تاڑی کے نشہ کی عادت ہے.اس لئے جب وہ لوگ قادیان کے دس پندرہ دن کے سفر کے بعد دکن پہنچتے تو نشہ کی عادت کی وجہ سے ان میں سے بعض سیدھے تاڑی کی دکان پر چلے جاتے.کئی دوست سیٹھ صاحب کو توجہ دلاتے کہ
221 ان لوگوں کا یہ حال ہے.آپ ان کے لے جانے پر کیوں خواہ مخواہ روپیہ ضائع کرتے ہیں.آپ ہر بات کا روشن پہلو لیتے تھے.مجھے خوب یاد ہے آپ فرماتے دیکھو یہ پہلے علانیہ نشہ کرتے تھے لیکن زیارت قادیان کے بعد پوشیدہ پینے لگے ہیں اور یہ بات صحیح بھی تھی.چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ ان لوگوں کی اصلاح ہوتی رہی.اور ان کی اولاد میں زیادہ اصلاح یافتہ ہو گئی ہیں اور ان میں سے کئی ایک نے احمدیت قبول کر لی ہے.ان مساعی حسنہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک کثیر تعداد میں مسلم و غیر مسلم حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.آپ کی تبلیغ سے آپ کا سارا خاندان بھی احمدیت سے وابستہ ہوا.مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی فرماتے ہیں: سیٹھ محمد غوث صاحب حضرت سیٹھ حسن صاحب احمدی رضی اللہ عنہ کے چچازاد بھائی تھے.حضرت سیٹھ حسن احمدی اس خاندان کے سلسلہ احمدیہ کے آدم تھے.“ ہے آپ کے ذریعہ اقارب میں سے ذیل کے خاندان احمدی ہوئے.سیٹھ محمد غوث صاحب.سگے بھائی سیٹھ محمد خواجہ صاحب * سیٹھ مومن حسین صاحب.آپ کے برادر نسبتی سیٹھ محمد حسین صاحب چنت کنٹہ.اسی طرح سیٹھ شیخ حسن صاحب کے ذریعہ یاد گیر.چنت کننہ (ضلع محبوب نگر.دکن ) اوکلور ( ضلع محبوب نگر ) کرنول (صوبہ مدراس) کی تمام جماعتیں آپ ہی کے ذریعہ احمدی ہو کر قائم ہوئیں.ان کی نفری علی الترتیب پانصد.اتی ہیں اور بارہ افراد پرمشتمل ہے.۱۹۲۸ء میں مکرم سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب امیر جماعت سکندر آباد (دکن) نے سیٹھ صاحب مرحوم کے تصدیقی فارم پر تحریر فرمایا کہ آپ اچھوت اقوام میں خاص طور پر تبلیغ کرتے ہیں.“ اور ۱۹۳۴ ء میں مکرم سید بشارت احمد صاحب امیر جماعت ہائے دکن نے مرحوم کی وصیت کے تعلق میں تحریر فرمایا کہ اپنے اثر اور نمونہ کے لحاظ سے حیدر آباد دکن کے مختلف مواضعات اور اضلاع میں کم از کم ایک سو اشخاص کو موصی نے احمدی کر لیا.“ سیٹھ محمد غوث صاحب کو احمدی بنالینا ہی ایک ایسا بڑا کارنامہ ہے.جو سیٹھ شیخ حسن صاحب کو زندہ جاوید رکھنے کیلئے کافی ہے.سیٹھ محمد غوث صاحب سلیم فطرت بلند ہمت، جفاکش، مستقل مزاج اور خود دار تھے.آپ صحابہ کی خوش قسمتی پر انتہائی رشک اور اپنی محرومی کا غیر محدود احساس رکھتے تھے.اہل بیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام * بیعت سیٹھ محمد غوث صاحب ۱۹۱۲ ء وفات ۲۸ / فروری ۱۹۴۷ء.بیعت سیٹھ محمد خواجہ صاحب ۱۹۱۲ ء وفات ۱۹۳۶ء مؤخر الذکر کے قادیان کی زیارت کیلئے آنے کا ذکر الفضل جلد نمبرے (صفحہ ا کالم ۳) بابت ۳۰ جولائی ۱۹۱۳ء میں پایا جاتا ہے.آپ کی وفات پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سیٹھ شفیع حسن صاحب کو جو تعزیتی مکتوب ارسال کیا.دوسری جگہ درج کیا گیا ہے.(مؤلف)
222 سے محبت کا جذبہ بے پایاں رکھنے والے بزرگ تھے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ آپ کے متعلق فرماتے ہیں: اس وقت میں جن کی لڑکی کے نکاح کا اعلان کرنے والا ہوں.وہ حیدر آباد کے رہنے والے سیٹھ محمد غوث ہیں.وہ بھی ان مخلصین سے ہیں جن کا دل خدمت سلسلہ کے لئے گداز ہے اور اس کا بہت ہی احساس رکھتے ہیں.تھے تو وہ پہلے سے احمدی مگر میرے ساتھ ان کی واقفیت جو ہوئی تو وہ حج کو جاتے ہوئے ۱۹۱۲ ء میں ہوئی تھی.( یہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ان ایام میں احد من الناس تھے.گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے لخت جگر ہونے کی وجہ سے ان کا مقام الگ تھا.لیکن سیٹھ صاحب کا ان ایام میں تعلقات کا بڑھانا اسی جذ بہ کا نتیجہ تھا جو حب اہل بیت کا تھا.عرفانی کبیر ) شاید ان کو علم ہو کہ میں جار ہا ہوں یا شاید وہ تجارت کے سلسلہ میں وہاں آئے ہوئے تھے.بہر حال ان سے میری پہلی ملاقات وہاں ہوئی.اور پھر ایسے تعلقات قائم ہو گئے کہ گویا واحد گھر کی صورت پیدا ہوگئی.مستورات کے بھی آپس میں تعلقات ہو گئے.حج کے موقعہ پر عبدالئی عرب بھی میرے ساتھ تھے.وہاں سے روانگی کے وقت سیٹھ صاحب نے ان کو بعض چیزیں دیں.جن میں ایک گلاس بھی تھا.وہ انہوں نے عبدالحی صاحب کو یہ کہ کر دیا تھا کہ جب آپ اس میں پانی پئیں گے تو میں یاد آ جاؤں گا اور اس طرح آپ میرے لئے دعا کی تحریک کر سکیں گے.غرض سیٹھ صاحب حیدر آباد کے نہایت مخلص لوگوں میں سے ہیں.چندہ کی فراہمی کے لحاظ سے جماعت میں اتفاق و اتحاد قائم رکھنے کے لحاظ سے انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے.اور بغیر اس کے کہ کوئی وقفہ پڑا ہو.کیا ہے.اور ان کے اخلاص کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کے بڑے لڑکے محمد اعظم صاحب میں ایسا اخلاص ہے جو کم نوجوانوں میں ہوتا ہے.تبلیغ اور تربیت کی طرف انہیں خاص توجہ ہے.میں نے دیکھا ہے ریاستوں میں تبلیغ کرنے سے لوگ عام طور پر ڈرتے ہیں اور کوئی بات ہو بھی تو کوشش کرتے ہیں کہ بڑے بڑے لوگوں کو اس کی اطلاع نہ ہو سکے.مگر میں نے دیکھا ہے محمد اعظم صاحب کو شوق ہے کہ ریاست میں کھلی تبلیغ اور اشاعت کی جائے اور اس کے متعلق وہ مجھ سے بھی مشورے لیتے رہتے ہیں.
223 وو دوسرے لڑکے معین الدین ہیں وہ بھی بہت اخلاص سے سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں اور خدام الاحمدیہ کی تحریک میں بہت جدو جہد کرتے ہیں.ہاتھ سے کام کرنے کی تحریک کو مقبول بنانے کا بھی انہیں شوق ہے.لڑکیوں میں سے ان کی بڑی لڑکیوں کے تعلقات امتہ الحی مرحومہ کے ساتھ تھے.پھر ان کی چھوٹی لڑکی خلیل " کے ساتھ بیاہی گئی جو تحریک جدید کا مجاہد ہے.اس لڑکی کے امتہ القیوم کے ساتھ بہنوں جیسے تعلقات ہیں.اور شروع سے اب تک اس خاندان نے ایسے اخلاص کے ساتھ تعلق قائم رکھا اور اسے نباھا ہے.سیٹھ صاحب کا خاندان ایک مخلص خاندان ہے.ان کی مستورات کے ہمارے خاندان کی مستورات سے ان کی لڑکیوں کے میری لڑکیوں سے اور ان کے اور ان کے لڑکوں کے میرے ساتھ ایسے مخلصانہ تعلقات ہیں کہ گویا خانہ واحد کا معاملہ ہے.ہم ان سے اور وہ ہم سے بے تکلف ہیں اور ایک دوسرے کی شادی و غمی کو اسی طرح محسوس کرتے ہیں جیسے اپنے خاندان کی شادی و نمی کو ۵ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدہ ام طاہر رضی اللہ عنہا کے حالات ” میری مریم کے زیر عنوان شائع ہوئے تھے.سیدہ ممدوحہ کی لمبی بیماری میں تیمارداری کر نیوالوں کا ذکر اور ان کے لئے دعا کرتے ہوئے حضور رقم فرماتے ہیں: سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آبادی کے خاندان نے اخلاص کا ایسا بے نظیر نمونہ دکھایا کہ حقیقی بھائیوں میں بھی اس کی مثال کم ملتی ہے.حیدر آباد جیسے دور دراز مقام سے پہلے ان کی بہو اور بیٹیاں دیر تک قادیان رہیں اور بار بار لاہور جا کر خبر پوچھتی رہیں.آخر جب وہ وطن واپس گئیں تو عزیزم سیٹھ محمد اعظم اپنا کاروبار چھوڑ کر حیدر آباد سے لاہور آ بیٹھے اور مرحومہ کی وفات کے عرصہ بعد واپس گئے.“ گوسیٹھ محمد غوث صاحب صحابی نہ تھے لیکن ان کے اخلاص کی وجہ سے حضور نے انہیں قطعہ صحابہ میں دفن کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جس پر انہیں اس قطعہ میں جلسہ سالانہ کے ایام میں ۱۲/۵۰/ ۲۹ کو دفن کیا گیا.سوسیٹھ محمد غوث صاحب جس درجہ کے احمدیت کے فدائی تھے.اس کے اظہار سے یہ مقصود ہے کہ آپ بھی سیٹھ شیخ حسن صاحب کے ذریعہ نور احمدیت سے منور ہوئے تھے اور یہ امرمؤخر الذکر کیلئے کم فخر کا موجب نہیں.خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ امریکہ مراد ہیں.
224 غرباء پروری: اللہ تعالیٰ نے آپ کو امارت و تمول بخشنے کے ساتھ ہی حد درجہ فیاض دل عطا کیا تھا.آپ اپنے اسلامی نمونہ سے امیر وغریب کے امتیاز کو مٹاتے تھے.غرباء یتامی اور بیوگان کی اپنے گھر میں عزیزوں کی طرح پرورش کرتے اور انہیں کبھی خادم خیال نہ کرتے.صدقہ و خیرات بلا تمیز مذہب وملت کرتے.کسی کے سوال کو ر ڈ کرنا جانتے ہی نہ تھے.آپ نے جذامیوں (کوڑھیوں) کے ایک پورے خاندان کی ان سب کی وفات تک پرورش کی.آپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ غرباء ترقی کریں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں.آپ نے کئی خاندانوں کو اپنی طرف سے روپیہ دیدیا تا کہ مال بنائیں اور منڈی میں بھیجیں اور آہستہ آہستہ رقم ادا کرتے اور ترقی کرتے جائیں.چنانچہ اس طرح آپ نے کئی سو خاندانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا.جن میں سے کئی ایک کا کام آپ کے برابر ہے.اگر آپ کے کارخانہ کے منتظم کسی وجہ سے کسی شخص کو کام سے الگ کر دیتے اور وہ آپ کے پاس شکایت لاتا اور آپ اس معاملہ میں دخل نہ دینا چاہتے تو اس کی بے روزگاری دور کرنے کے لئے کوئی اور راہ سوچتے.یا اس کے لئے روز گار مہیا ہونے کے لئے دعا کرتے.ایک دفعہ آپ نے یاد گیر کے تمام جولا ہوں کو جمع کر کے نصیحت کی کہ آئندہ تمہارا یہ کام نہ چل سکے گا.اس لئے ابھی سے یہ کام ترک کر کے کوئی اور کام شروع کر دو.چنانچہ خدا کا کرنا کیا ہو اکہ اس کے بعد ان کا کام بند ہو گیا.جنہوں نے آپ کی نصیحت پر عمل کر کے کوئی اور کام شروع کر دیا تھا بہت فائدہ میں رہے.اور دوسروں کو تکلیف اٹھانا پڑی.آپ نے سینکڑوں مسلم اور غیر مسلم لوگوں کی اپنے خرچ پر شادیاں کرائیں.سینکڑوں مقروضوں نے آپ کو روپیہ واپس نہیں کیا.کبھی کسی سے قرض کی واپسی کا مطالبہ نہ کرتے.بلکہ ذکر تک نہ کرتے.اور جب آپ کو توجہ دلائی جاتی تو فرماتے کہ اگر ان غرباء کے پاس روپیہ ہوتا تو خود ہی لا کر دے دیتے.مطالبہ کی ضرورت نہیں.ان کی قرض کی دستاویزات جلا دی جائیں.ایسے کاموں پر آپ نے دو لاکھ کے قریب روپیہ خرچ کیا.آپ ہمیشہ ٹانگہ وغیرہ والوں کو حق سے زیادہ رقم دیتے.اگر اس کا بچہ ساتھ ہوتا تو اسے بھی کچھ رقم دے دیتے.جنہوں نے کاروبار کے سلسلہ میں آپ کو رو پیدا دا کرنا ہوتا اگر انہیں مہلت درکار ہوتی تو مہلت دے دیتے.ایک غیر مسلم پٹواری سے آپ نے باغیچہ بیچ لے کر رجسٹری کرالیا.کچھ عرصہ بعد وہ فوت ہو گیا.اس کی بیوہ اور بچوں اور بھائی کے کہنے پر آپ نے باغیچہ مفت میں واپس کر دیا.چونکہ آپ نرم طبع تھے اس لئے جو کوئی سوال کرتا امداد حاصل کر لیتا.ایک شخص جواب تحصیلدار ہے.ایک روز کہنے لگا سیٹھ صاحب لوگ آپ کو دھوکہ دے کر روپیہ لے جاتے ہیں.ہنس کر فرمانے لگے کہ شکر ہے میں کسی کو دھوکہ نہیں دیتا.اسی شخص نے شدید ضرورت
225 بتا کر ایک ہزار روپیہ آپ سے قرض لیا جو سترہ سال گذرنے پر اب تک ادا نہیں کیا.آپ اپنے کاریگروں کو قرض دے دیتے تھے.جو طریق قرض دینے کا تھا وہ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ ایک دفعہ ایک کاریگر کے گھر گئے.مکان تنگ پایا.اسے کہا کہ مجھ سے قرض لے کر مکان کو وسیع کر لو.کہنے لگا کہ قرض کی ادائیگی مشکل امر ہے.فرمایا کہ ایسے وقت ہمیشہ نہیں آتے تم قرض تو لے لو ادا ئیگی کا قصہ بعد میں دیکھا جائیگا.آپ سینکڑوں روپے ماہوار خفیہ خیرات کرتے تھے.اور ماہ رمضان المبارک میں خصوصاً زیادہ خیرات کرتے تھے.اس خفیہ خیرات کا کسی کو بھی علم نہ ہوتا تھا.آپ کی وفات کے بعد ان لوگوں کے وظائف رکے اور انہوں نے مطالبہ کیا تب اس بات کا علم ہوا کہ شولا پور تک کے مسلم و غیر مسلم آپ سے وظائف پاتے تھے.چنانچہ سیٹھ عبدالحئی صاحب نے بھی یہ وظائف جاری کر دیئے.اخویم سیٹھ محمد اعظم صاحب بیان کرتے ہیں کہ سیٹھ صاحب ہمیشہ پوشیدہ طور پر امداد دیتے تھے.آپ کا طریق یہ تھا کہ مثلاً کوئی محتاج آیا اس نے کہا کہ میری لڑکی کی شادی ہونے والی ہے.روپیہ نہیں.تو آپ کوئی جواب نہ دیتے اور جب وہ واپس جانے لگتا تو کہتے کہ کل صبح کو سیر کو جاؤں گا میرے ساتھ چلنا.رات کو نوکر کے ذریعہ کچھ روپیہ منگوا کر جیب میں رکھ لیا کرتے.اور معمول کے طور پر جب صبح اپنے باغ تک جاتے جو ایک میل کے فاصلہ پر واقعہ ہے تو اس شخص کو ساتھ لیتے اور بالکل علیحدگی میں اسے رقم دے دیتے.لوگوں کی امداد کرنے کے لئے اس حد تک طبیعت میں فیاضی تھی کہ کبھی کسی کو خالی واپس نہ کرتے.فیاضی کا اس امر سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ میرے ملا زم کو جو موٹر صاف کیا کرتا تھا.اور جس کی تنخواہ صرف پچیس روپیہ ماہوار تھی یعنی تین صدر و پیہ سالانہ.اس کو میرے ہاں ملازم ہونے سے پہلے سیٹھ صاحب نے دو ہزار روپیہ قرضہ دیا تھا جو اس کی قریباً چار سال کی تنخواہ کے برابر تھا.بھلا ایسے شخص سے وصولی کی توقع کیونکر ہوسکتی تھی.جب کاروبار میں نقصان ہوا تو بہت زیادہ زیر بار ہو جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ سائل بدستور آتے.آپ کہتے کہ اب تو میرے پاس روپیہ نہیں تو وہ اپنی ضروریات بیان کر کے کہتے کہ آپ فلاں شخص کے نام چٹھی لکھ دیں ہم اس سے رقم حاصل کر لیں گے.چنانچہ آپ بعض متمول آدمیوں کے نام لکھ دیتے کہ آپ کے حساب میں انہیں قرض دے دیں.سو کا روباری حالت میں ضعف آنے کے ساتھ ساتھ ایسا قرض بھی بڑھتا گیا.لیکن آپ کی طبیعت ایسی واقع ہوئی تھی کہ گھبراہٹ نام تک کو نہ ہوتی.چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے سو برس کی لمبی عمر عطا کی اور اس وقت تک وفات نہ دی جب تک کہ قرضوں کی ایک ایک پائی سے سبکدوش نہ ہو گئے.آپ کی حد درجہ کی فیاضی کی وجہ سے مشہور تھا کہ لوگوں کو پیسے دے کر احمدی بناتے ہیں.لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے لوگ یہ طریق اختیار کرتے تھے
226 کہ آپ کے پاس آئے دو ایک روز آپ کے ہمراہ نمازیں پڑھیں.پھر اپنی حاجت پیش کر دی اور پانچ سو چارسو روپیہ لے لیا.بعض لوگ آپ سے کہتے بھی کہ یہ دکھاوے کیلئے نمازیں پڑھنے آئے ہیں.لیکن آپ کہتے کہ ہمیں کیا علم کہ اُن کی کیا نیت ہے.رفاہ عامہ کا کام: آپ کو جس رفاہ عام کے کام کا موقع ملا اس سے دریغ نہیں کیا.آپ کے کارخانے مہمان خانہ کا کام بھی دیتے تھے.آپ نے مسجد احمد یہ یاد گیر کے قریب احمدیہ مہمان خانہ بھی تعمیر کیا.آپ کا دستر خوان بہت وسیع ہوتا تھا.تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہی جاتی تھی.یاد گیر میں آپ نے عرصہ تک ایک احمد یہ دواخانہ انگریزی اور ایک احمد یہ دواخانہ یونانی قائم کر رکھے تھے.گھروں پر بیماری کو دیکھنا ادویہ علاج سب کچھ بلالحاظ مذہب وملت مفت ہوتا تھا.بسا اوقات سرکاری ہسپتال والے بھی احمد یہ دواخانہ انگریزی سے جن ادویہ کی ضروت پڑتی مفت منگوا لیتے تھے.ڈاکٹروں، اطباء عملہ اور ادویہ وغیرہ کے جملہ اخراجات سیٹھ صاحب برداشت کرتے تھے.مولوی عبد القادر صاحب فرائضی احمدی سے بہت سی کتب طب عربی صرف و نخود بینیات اور عقائد پر تصنیف کراکے سیٹھ صاحب نے اپنے خرچ پر شائع کیں.ایک دفعہ قحط کی وجہ سے عوام کو بہت تکلیف تھی.آپ نے پانی کی قلت کے دور کرنے کیلئے اپنے باغ کا انجن اکھڑوا کر بستی کے باہر تالاب کے پاس لگوا دیا اور تین ماہ تک اپنے خرچ پر اُسے چلایا.بلکہ چلانیوالے کے اخراجات بھی خود ادا کئے.اس طرح عوام کی پانی کی تکلیف دور ہوئی.اور انہیں بروقت پانی میسر آتا رہا.کئی جگہ آپ نے باؤلیاں بنوائیں.سرکاری مدرسہ یاد گیر کو ایک بیش بہا زمین عطیہ دی جواب کھیل کے میدان کے طور پر استعمال ہوتی ہے.سادگی اور انکساری: آپ کو اللہ تعالیٰ نے فطرتاً ایسی انکساری بخشی تھی کہ کبھی بھی آپ کے اعمال وافعال اور حرکات وسکنات سے نہ اہلی اور نہ غیر اہلی زندگی میں کوئی شخص یہ سمجھ سکتا تھا کہ آپ لکھ پتی سیٹھ ہیں.راقم کو بھی ہیں بائیس برس قبل ایک بار قادیان میں آپ کو دیکھنے کا موقعہ ملا.میں نے آپ کو ایسا ہی سادہ پایا.آپ تمول سے پیدا ہونے والی عادات واطوار سے فطرتا کوسوں دور تھے تصنع، تکلف ، نعیش اور نخوت و غرور آپ کے قریب تک پھٹکنے نہ پائے تھے اور آپ اپنے خاندان کو بھی ان سے احتراز کی تلقین فرماتے تھے.لباس بود و باش اور اطوار حد درجہ سادہ خادم بیمار ہو ایا موجود نہ ہو اتو بازار سے سودا سلف خود خرید لائے.یاد گیرے میں چھپیں میل تک کا سفر بنڈی ( چھکڑے ) پر کرتے جس کا اُن علاقوں میں رواج ہے.غذا بھی سادہ.دو وقت روٹی کھاتے وبس.زبان نہایت شیر ہیں.طرز
227 تکلم دلفریب.متین سنجیدہ غریبوں کے شیدائی.ہر خورد و کلاں اور ادنی واعلیٰ ہر لمحہ آپ سے بات چیت کرنے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں آپ کی بے غرضانہ محبت کو جگہ دینے کے لئے آمادہ ہو جاتا اور آپ بھی عملاً ہر ایک سے ایسا ہی سلوک کرتے گویا کہ آپ کا سگا بھائی ہے.اخویم خواجہ محمد اسماعیل صاحب درویش بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۲۶ء میں مجھے یاد گیر جانے کا موقعہ ملا.سیٹھ صاحب کو از حد سادہ.متواضع، ملنسار اور خلیق پایا.آپ کی ملاقات مہمان نوازی اور پر تپاک حسن سلوک سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میری آپ سے برسوں کی ملاقات اور پرانی واقفیت ہے.اور میں غیر جگہ نہیں بلکہ اپنے ہی گھر میں ہوں.اخویم سیٹھ محمد اعظم صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ نام و نمود سے کوسوں دور بھاگتے تھے.آپ کی طبیعت کی ایسی افتاد کا اظہار اس واقعہ سے ہوگا کہ میری ہمشیرہ کی شادی تھی آپ کی اہلیہ محترمہ رسول بی صاحبہ جو ہماری تائی بھی ہیں اور خالہ بھی.شادی پر آنے لگیں تو سیٹھ صاحب سے ہدیہ دینے کے لئے رقم لینا چاہی.لیکن آپ نے نہ دی.خالہ جان دل گرفتہ ہوئیں کہ لوگ کیا خیال کریں گے کہ اتنے بڑے سیٹھ کی بیوی اپنی بھانجی کی شادی پر خالی ہاتھ آئی ہیں.غرض شادی ہو چکی اور شادی پر آنے والے واپس جاچکے تو دو تین روز بعد آپ ہمارے ہاں آئے اور پندرہ تولے سونا بطور تحفہ دے گئے.طبیعت میں نرمی : آپ نرم طبع آقا تھے.ایک دفعہ ایک خادمہ نے چاول پر الئے کہنے لگے اسے اور دے دو.ایک دفعہ آپ نے خواب دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں لفافہ دیا گیا لیکن وہ خالی نکلا اس میں رقم نہیں.چنانچہ یاد گیر سے چنت کننہ پانصد کا بیمہ پہنچا جو خالی نکلا اس میں رقم موجود نہ تھی.سرکاری طور پر تحقیقات شروع ہوئی.سیٹھ صاحب نے اپنی طبعی حسن ظنی کی بناء پر کہا کہ میرے کارندے دیانتدار ہیں.سرکاری تحقیقات میں انہی کارندوں کی شرارت بپا سید ثبوت پہنچی.سیٹھ صاحب کے ایک تیس سالہ ملازم امیر علی نے تلبیس نشان تجارت کی جھوٹی کا رروائی عدالت میں کی.عدالت نے آپ کو بری کر دیا.ہائی کورٹ نے آپ کو ہرجانہ کا مستحق قرار دیا.لیکن آپ نے معاملہ خدا پر چھوڑ دیا اور ہر جانہ وصول کرنا پسند نہ کیا.آپ کا نہ صرف انسانوں سے مشفقانہ سلوک تھا بلکہ حیوانوں سے بھی ایسا ہی سلوک تھا.ان کے متعلق یہ خیال رکھنے کی تاکید کرتے کہ ٹھو کے نہ رہیں ورنہ ہم قیامت کو قابل مواخذہ ہونگے.طبیعت میں دلیری اور غیوری: باوجود طبیعت میں حد درجہ کے انکسار اور نرمی کے اور اسلامی سادگی رکھنے کے آپ نڈر دلیر طبع اور غیور بزرگ تھے.اخویم سیٹھ محمد اعظم صاحب ذکر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ اعلیٰ حضرت نظام دکن گلبرگہ آنے والے تھے
228 اور ریاست کا قدیمی طریق تھا کہ جہاں وہ جائیں اُمراء نذرانہ پیش کریں.کلکٹر کے کہنے پر سیٹھ صاحب بھی پہنچے.پہلے تو کلکٹر اس بات پر حیران ہوا کہ آپ بالکل ہی سادہ لباس میں جس کے آپ عادی تھے چلے آئے ہیں اور یہ لباس دربار کے شایان شان نہ تھا.وقت تنگ تھا اس لئے وہ کچھ کہہ نہ سکا.البتہ کورنش ( فرشی سلام) بجالانے کے آداب بتا تا رہا.آپ خاموش سنا کئے.کلکٹر نے اپنے پاس سے رومال بھی دیا اور بتایا کہ یوں رومال پر نذرانہ رکھ کر پیش کریں.ہوا یہ کہ جب نذرانہ گزارنے کی آپ کی باری آئی تو آپ نے اسلامی طریق پر السلام علیکم کہا اور پوچھا کہ آپ کا مزاج کیسا ہے.سفر کیسے طے ہوا؟ یہ دیکھ کر کلکٹر کا برا حال ہوا.کاٹو تو بدن میں لہو نہیں.کورنش بجالانا تو درکنار یہ کیا غضب ڈھایا کہ السلام علیکم کہہ دیا اور مزاج پوچھ لیا.جس کی جرات ریاست کا بڑے سے بڑا آدمی بھی نہیں کر سکتا تھا.خیر نظام نے جواب دیا.سیٹھ صاحب نے بطور نذرانہ چالیس اشرفیاں پیش کیں.جو انہوں نے لے لیں.آپ نے نظام کے دریافت کرنے پر بتایا کہ میرا بیٹریوں کا کارخانہ ہے.نظام آپ سے گفتگو کرتے رہے.بہت خوش ہوئے اور کہا کہ کسی وقت حیدر آباد شہر آ کر ملاقات کریں.جب سیٹھ صاحب کی مالی حالت سخت ابتر ہوگئی تو لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپ نظام سے ملاقات کریں اور اپنی مالی تنگی کا ذکر کریں تو ممکن ہے سرکاری خزانہ سے امدا دمل جائے.لیکن آپ کی غیور طبیعت نے اسے پسند نہ کیا اور فرمایا کہ میری مالی حالت اچھی ہوتی تو ملاقات میں حرج نہ تھا لیکن اس حالت میں مجھے ملاقات پسند نہیں.ایک غریب کو داماد بنالینا : امیر لوگ شادی بیاہوں میں کیا ناز نخرے نہیں کرتے.اول تو اپنی لڑکی کے رشتہ کے لئے اپنے سے زیادہ مالدار گھرانہ تلاش کرتے ہیں.اور اگر امیر رشتہ نہ ملے تو لمبے عرصہ تک لڑکی کو بٹھائے رکھ کر اس کی عمر اور اپنا ایمان ضائع کرتے ہیں.آپ نے اپنی ایک بیٹی کی شادی اخویم مولوی محمد اسماعیل صاحب سے کی جو کہ ایک غریب گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے.اور جن کے والد آپ کے پاس ابتداء میں دور و پیہ پر ملازم ہوئے تھے.وہ بھلا کب توفیق رکھتے تھے کہ اپنے بیٹے کو تعلیم دلائیں.سیٹھ صاحب نے انہیں اعلی تعلیم دلائی اور پھر انہیں شرف دامادی بخشا اور ایک اعلیٰ مثال قائم کر دی.عبادت گذاری اور خموشی طبع : آپ قُل إِن صَلوتي وَنُسُكِي الخ کثرت سے پڑھا کرتے تھے.جس میں حیات انسانی کا مقصد رب العلمین کی خوشنودی اور اس کا وصال بتایا گیا ہے آپ کثرت سے درود شریف پڑھتے تھے اور بیان کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے کہ درود اور استغفار پڑھنے میں بہت برکت ہے.
229 آپ کثرت سے درود اور استغفار پڑھا کریں.آپ رات کو جلد سو جاتے اور تین ساڑھے تین بجے صبح اٹھ کر تہجد ادا کرتے پھر صبح تک نہ سوتے.آپ کم گو لیکن نغز گو تھے.بعض دفعہ کئی کئی ماہ تک مطلقا خاموش رہتے.متواتر کئی دنوں تک خاموش رہنے کا طریق آپ متعدد بار اختیار کرتے تھے.آپ کی تقریر بھی صرف چند جملوں پر مشتمل ہوتی تھی.بزرگوں کی تکریم.اقارب سے حسن سلوک: نیک لوگ تمول کے باوجود منکسر المزاج رہتے ہیں اور بمطابق ہر کہ عارف تر است ترساں تر اور زیادہ انکسار دکھاتے ہیں.جیسے پھلدار شاخ جتنی زیادہ پھل سے لاتی ہے اتنی زیادہ جھکتی ہے.سیٹھ صاحب بزرگوں کی تکریم کرتے اور اقارب سے حسن سلوک کرتے تھے.بزرگان سلسلہ میں سے مولوی شیر علی صاحب ، مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مفتی محمد صادق صاحب، شیخ یعقوب علی صاحب میر محمد سعید صاحب سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سیٹھ محمد غوث صاحب اور نواب اکبر یار جنگ صاحب کو کثرت سے یاد کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہماری زندگیاں گزارنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا.ان بزرگوں کی زندگیوں کے مطابق زندگی ڈھالنا سعادتمندی ہے.چونکہ میر محمد سعید صاحب کے ذریعہ آپ کو احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی تھی.اس لئے ان کی بہت قدر کرتے.اور ان کی باتوں پر عمل پیرا ہوتے تھے.دولت کے نشہ میں لوگ صلہ رحمی کی بجائے قطع رحمی کرتے ہیں.آپ دل و جان سے اقارب سے محبت کرتے.ان کی شادی غمی اور ہر طرح کے کام کاج میں ان سے بڑھ کر حصہ لیتے جس مقام پر آپ کے اقارب سکونت پذیر ہوتے جب بھی وہاں جاتے اس وقت تک اس مقام سے واپس نہ ہوتے.جب تک کہ اپنے تمام غریب اعزہ سے ملاقات نہ کریں.ان کی خیریت پوچھتے اور دامے درمے سخنے مدد کرتے.زیادہ تر دینی اور تربیتی باتیں کرتے اور خدمت دین زیادہ کرنے اور زندگیوں کو سادہ بنانے کی تاکید کرتے.اخویم سیٹھ محمد اعظم صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ دورہ کرتے کرتے ہر پندرہ ہمیں روز کے بعد حیدر آباد شہر پہنچتے اور ہمیشہ ہمارے ہاں ہی قیام فرماتے تھے.آپ تمام بچوں کو جمع کرتے.قرآن مجید کی تلاوت اور نمازوں بالخصوص تہجد کی ادائیگی کی تلقین فرماتے اور دوسری مرتبہ جب آتے تو دریافت کرتے کہ اس پر کہاں تک عمل کیا گیا ہے.گوشہر میں دوسرے رشتہ دار کافی دور دور رہتے تھے.لیکن ان سے ملے بغیر واپس نہ جاتے تھے.خدمات سلسلہ : اللہ تعالیٰ نے جس کثرت سے رزق دیا اُسی کثرت سے آپ نے اُسے بے دریغ اس کی راہ میں خرچ کیا.آپ نے بہت سے بچے تعلیم کی خاطر قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک سے
230 خلافت ثانیہ تک بھجوائے.جس پر آپ نے نصف لاکھ کے قریب روپیہ خرچ کیا.چنانچہ اس امر کا ذکر کہ آپ ہزار ہاروپیہ ذاتی طور پر خرچ کر کے نادار طلبہ اور عزیز و اقارب کے بچوں کو قادیان میں تعلیم دلاتے ہیں اور یاد گیر کی صد ہا احمدی افراد کی جماعت کے ساتھ دامے درمے سخنے کام آتے ہیں مکرم سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نے مرحوم کی وصیت کی تصدیق میں تحریر کیا ہے.عبدالکریم صاحب کو جن کے متعلق سگِ دیوانہ والا نشان ظاہر ہوا آپ ہی نے حضرت اقدس کے زمانہ میں تعلیم کے لئے اپنے خرچ پر قادیان بھیجا تھا.وہ آپ کی نسبتی بہن کے بیٹے تھے.اسی طرح آپ نے یاد گیر میں ایک مدرسہ احمدیہ قائم کیا تھا جس کے جملہ اخراجات قریباً بارہ ہزار روپے سالانہ آپ برداشت کرتے تھے.اس مدرسہ میں غریب طالب علم بکثرت داخل تھے.فیس کسی طالب علم سے نہیں لی جاتی تھی.بلکہ ان کے جملہ اخراجات تعلیم اور ناداروں کے لباس کے اخراجات بھی آپ کے ذمہ تھے.اس طرح یہ غریب لوگ جو کسی صورت میں بھی اپنی غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلا سکتے تھے.تعلیم پاتے تھے.وہاں سرکاری نصاب کے علاوہ دینی تعلیم قرآن مجید حدیث شریف 'فقہ اور کتب سلسلہ احمدیہ بھی نصاب میں شامل تھیں.بچوں کے اخلاق کی کڑی نگرانی ہوتی تھی اور اسلامی ماحول میں ان کی پرورش ہوتی تھی.اس مدرسہ کی نفری ایک وقت سات صد طالب علموں اور آٹھ اساتذہ تک پہنچ گئی تھی لیکن پھر مالی خسارہ کے باعث پندرہ سال کے بعد بند کرنا پڑا تھا.اب آپ کے ورثاء اسے از سر نو جاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.اخویم سیٹھ محمد اعظم صاحب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے مکرم مفتی محمد صادق صاحب سے سنا ہے کہ مسٹر المالطیفی (ریٹائرڈ ریونیوکمشنر پنجاب) نے جو کسی زمانہ میں ریاست حیدر آباد کے ناظم تعلیمات تھے.مفتی صاحب سے کہا کہ میں بسلسلہ دورہ یاد گیر گیا ہوا تھا.وہاں میں نے ایک جگہ بچوں کا جم غفیر دیکھا.حیرانی سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ سیٹھ شیخ حسن صاحب کا قائم کردہ مدرسہ ہے.میں نے اس کا معائنہ کیا جس سے معلوم ہوا کہ اس میں سرکاری طور پر قائم کردہ مدرسہ سے زیادہ طالب علم تعلیم پاتے تھے.اور ان کا معیار تعلیم بھی سرکاری مدرسہ کے طالب علموں سے اعلیٰ تھا.طلبہ سے فیس نہیں لی جاتی تھی بلکہ کتب وغیرہ ضروریات بھی سیٹھ صاحب کی طرف سے پوری کی جاتی تھیں.جس جذبہ کے ماتحت سیٹھ صاحب نے مدرسہ قائم کیا تھا اور مفت تعلیم کا انتظام کیا تھا.اس کی مسٹر المالطیفی بڑی تعریف کرتے تھے.اور کہتے تھے کہ اس مدرسہ کے معائنہ کے بعد سے میرے دل میں جماعت احمدیہ کی تنظیم کی بڑی قدر و منزلت ہے.سیٹھ صاحب نے بچیوں کی تعلیم کے لئے ایک مدرسہ احمدیہ اناث بھی جاری کیا تھا.اس میں ابتداء میں آپ کی صاحبزادی محترمہ زہرہ بی صاحبہ تعلیم دیتی رہیں.پھر اور استانیاں بھی رکھ لی گئی تھیں.ایک وقت طالبات کی تعدا دستر تک پہنچ گئی تھی.مدرسہ کے دیگر جملہ اخراجات اور تمام طالبات کے تعلیمی اخراجات کے علاوہ ان میں
231 سے پچاس نادار بچیوں کے جملہ اخراجات آپ کے ذمہ تھے دنیوی تعلیم کیساتھ دینی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور بچیوں کی نمازوں اور اخلاق کی سخت نگرانی کی جاتی تھی.یہ مدرسہ جو بعد میں سرکاری طور پر منظور ہو گیا تھا.دس سال تک جاری رہا.سیٹھ صاحب نے یاد گیر میں ایک احمد یہ لائبریری بھی قائم کی تھی.جس میں مختلف علوم حدیث.فقہ سیرۃ وسوانخ.تاریخ.سلسلہ احمدیہ.مناظرہ.مذاہب مختلفہ وغیرہ کی چار ہزار کتا میں رکھی گئی تھیں اور سلسلہ کے اخبارات کے علاوہ جاذبیت پیدا کرنے کے لئے دہلی حیدر آباد وغیرہ کے اور اخبارات بھی منگوائے جاتے تھے.ممبران میں سے جو چاہتے ان کے مکانوں پر بھی کتب پہنچانے کا انتظام تھا.تعلقہ یاد گیر میں یہ نرالی قسم کی لائبریری ہے.سیٹھ صاحب اس پر تین ہزار روپیہ سالانہ صرف کرتے تھے اور اب بھی آپ کے ورثاء اس کے اخراجات کے ذمہ دار ہیں.دس گھنٹے روزانہ کھلتی ہے اور دن بدن ترقی پر ہے.سالانہ سات ہزار اشخاص اس سے مستفید ہوتے ہیں.غیر مسلموں کو وہاں مذہبی تحقیقات کا بھی موقع ملتا ہے.اس لائبریری کے قیام میں مکرم سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نے بھی کافی مدد دی تھی.کے سیٹھ صاحب نے پانچ ہزار روپے کے قرآن مجید تقسیم کئے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی تحریک تراجم القرآن میں پانچ ہزار روپیہ دیا.میر مجد احد یہ بادگیر پردس ہزار خرچ کیا.سلسلہ کی کتب چھپوانے مصنفین اور کتب فروشان سلسلہ کی امداد - منارة امسیح تعمیر مسجد چنت کنہ.غیر احمدیوں کو زیارت قادیان کے لئے لانے وغیرہ پر آپ نے قریباً نصف لاکھ روپیہ خرچ کیا.فرماتے تھے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ احمدیوں کی تدفین کے متعلق رکاوٹ پیدا ہوگی.اس لئے آپ نے اپنی اراضی میں سے کئی گھماؤں کے ایک قطعہ میں احمدیہ قبرستان قائم کر دیا.آپ نے یاد گیر میں احمدیہ لیکچر ہال تعمیر کیا.اور وہاں جلسوں کا طریق رائج کیا.اس لئے یاد گیر میں عورتوں اور مردوں کے ہفتہ وار اور ماہوار جلسے ہوتے ہیں اور چھیالیس سال سے سالانہ جلسے بھی ہور ہے ہیں.آپ علماء کو بھی بلاتے رہتے تھے.چنانچہ بزرگان سلسلہ میں سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب، مفتی محمد صادق صاحب، مولانا غلام رسول صاحب را جیکی حافظ روشن علی صاحب مولانا میر محمد سعید صاحب حیدر آبادی، شیخ یعقوب علی صاحب عرفاتی ، مولوی عبدالرحیم صاحب کنکی.سید بشارت احمد صاحب اور مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کی آمد سے یاد گیر مشرف ہو چکا ہے.ایسے مواقع پر آپ تواضع وغیرہ کا انتظام خود بہت اہتمام سے کرتے تھے.آپ نے اپنی اولاد کو بھی تاکید کی تھی کہ وہ ہمیشہ علماء کو بلاتے رہیں.
232 چندہ کے متعلق رویا حضرت نانا جان کی طرف سے ذکر خیر : ایک دفعہ آپ نے رویا دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے اور فرمایا ' سیٹھ صاحب چندہ چنا نچہ صبح ہی آپ نے مرکز کو چندہ روانہ کر دیا.ایک دفعہ چندہ کی فراہمی کے سلسلہ میں حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ یاد گیر تشریف لے گئے.آپ نے اپنے منظوم سفر نامہ میں اس کا ذکر ذیل کے اشعار میں کیا ہے: حیدر آباد وو رو چلی گاڑی بجے یاد گیر میں پہنچے سیٹھ صاحب وہاں نہ تھے حاضر ان کو لے کر گیا میں تیمار پور واڑی دو پہر آگئی سیٹھ صاحب کے گھر میں جا اُترے ایک دن بعد آگئے آخر راہ میں ہم رہے بہت مسرور سیٹھ صاحب نے کی مری امداد مل گیا مجھ کو چندہ حسب مراد پانچویں روز ہم وہاں سے سیٹھ صاحب نے کی مری نصرت اللہ کی عنایت چلے یاد گیر میں اکثروں شام کو پہنچے لے گئے سبقت پر ان : مولا کی میرے رحمت ہو A ہو وہ آپ کے اخلاص کا ذکر سلسلہ کے آرگن الفضل میں: آپ کے متعلق الفضل زیر عنوان ڈائری بابت سفر ڈلہوزی رقمطراز ہے: یاد گیر کے سیٹھ صاحب: جناب سیٹھ حسن صاحب یاد گیر (حیدر آباد ) سے اپنی وصیت کے متعلق حضور سے مشورہ لینے کے لئے اور مولانا مولوی سید سرور شاہ صاحب بحیثیت سیکرٹری مجلس کار پردازان مقبره بهشتی قادیان سے تشریف لائے.جناب سیٹھ صاحب نہایت مخلص اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابیوں میں سے ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں اخلاص کی نعمت کے ساتھ مالی وسعت بھی بخشی ہوئی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں بہت کچھ خرچ بھی کرتے رہتے ہیں.پہاڑی سفر کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے اگر چہ انہیں کسی حد تک تکلیف ہوئی.مگر حضرت اقدس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا.خدا کا شکر ہے.حضور کے
233 صدقے یہ مقام دیکھ لیا.ایک صاحب سید احمد صاحب کو اپنے ساتھ لا کر جناب سیٹھ صاحب موصوف نے حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کرائی.جناب سیٹھ صاحب ایک سادگی پسند انسان ہیں اور بہت سادہ حالت میں رہتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسا اعلیٰ دماغ دیا ہے کہ اپنے تجارتی کام میں نہایت کامیاب انسان ہیں اور ہماری جماعت میں غالباً سب سے بڑے تاجر ہیں.ان کے خرچ پر تمیں طالب علم مدرسہ احمد یہ میں تعلیم پارہے ہیں.جن میں سے ایک نے جن کا نام فضل الرحمن ہے اس سال مولوی فاضل کا امتحان دیا ہے.‘ 2 حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ سے انتہائی محبت : سیٹھ صاحب ہمیشہ فرماتے تھے کہ مجھے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعائیں لگی ہیں.اور سب سے پہلے اور میں سب سے زیادہ حضور کی صحت اور روحانی ترقی کے لئے دعا کرتا ہوں.حضور کی خدمت میں دعا کے لئے لکھتے رہتے اور دوسروں کو بھی تاکید کرتے رہتے تھے.آپ کی عادت تھی کہ جب قادیان سے اخبار آتا یا پنجاب سے کوئی احمدی آتا تو حضور کی خیریت دریافت کرتے.حضور کو کثرت سے یاد کرتے.بوقت ملاقات زیادہ گفتگو نہ کرتے بلکہ خیریت پوچھ کر دعا کے لئے عرض کر کے خاموش ہو جاتے.حضور بھی خاص محبین کی طرح آپ کو سلسلہ کی خدمات کے لئے خاص مواقع پر تحریک فرماتے.حضور نے ۱۹۲۴ء میں جماعت کی تحریک اور مشورہ پر سفر یورپ اختیار فرمایا لیکن اس کا خرچ خود برداشت کیا.اس بارہ میں حضور نے ایک مکتوب سیٹھ صاحب کے نام تحریر فرمایا.جو سیٹھ صاحب کو ۲ از یعقد ۱۳۴۲۰ھ کو موصول ہوا.درج ذیل ہے: مکرمی سیٹھ صاحب السلام علیکم.آپ کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ ولایت میں ایک مذہبی کا نفرنس ہو نیوالی ہے اس موقع پر مجھے بھی انہوں نے دعوت دی ہے.میں نے فیصلہ سے پیشتر تمام احمدی جماعتوں سے مشورہ لیا تھا اور سب جماعتوں نے بہ شمولیت حیدر آباد مجھے جانے کا مشورہ دیا ہے.سوائے گیارہ جماعتوں کے جو مخالف ہیں.میں نے بھی مذہبی کانفرنس کی خاطر نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ مغربی ممالک کی تبلیغ کا تمام انتظام بغیر خود جا کر وہاں مشورہ کرنے کے نہیں ہوگا یہ فیصلہ کیا ہے کہ خود وہاں جا کر حالات کا مطالعہ کروں اور تین چار ماہ کے دورے سے آئندہ کی تبلیغ کے متعلق پورے مشورے سے ایک مکمل سکیم تجویز کروں.میں نے اپنی پہلی عادت
234 کے مطابق یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ گو جماعت ہائے احمدیہ کے مشورے اور انکی تحریک پر ہی جاتا ہوں اور تبلیغ کا یہ کام ہے مگر میں اپنی ذات کا بوجھ جماعت پر نہ ڈالوں اور اس کے لئے میں نے اپنی ایک جائیداد کو فروخت کرنے کے لئے کہا ہے مگر چونکہ اس کے فروخت ہونے میں کچھ دیر لگے گی.میں نے یہ تجویز سوچی ہے کہ چھ سات دوستوں سے کچھ رقم بطور قرض لے لوں اور پھر اس کو ادا کر دوں.آپ کو بھی اس خط کے ذریعہ سے تحریک کرتا ہوں کہ اگر آپ بھی ایک حصہ رقم کا بطور قرض دے سکیں تو ایک سال کے لئے جس قدر رقم بطور قرض دے سکیں مجھے بھیج دیں.انشاء اللہ ایک سال تک واپس ادا کر دونگا.کل خرچ کا اندازہ پانچ ہزار روپیہ کا ہے.بعض اور دوستوں سے بھی میں نے تحریک کی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ قرض بھی آپ کے لئے موجب ثواب ہوگا.خاکسار مرزا محمود احمد حضور کے ذیل کے مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ سیٹھ صاحب نے یہ رقم حضور کی خدمت میں پیش کر دی تھی : مکرمی سیٹھ صاحب السلام علیکم ! آپ کی طرف سے ایک ہزار روپیہ بطور قرض وصول ہوا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.میں انشاء اللہ تعالیٰ قادیان سے بارہ کو روانہ ہونگا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے چودہ کی شام کو بمبئی پہنچونگا.وہاں صرف چند گھنٹے ٹھہرنے کے ملیں گے.اس رقم کے متعلق حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ایک اور مکتوب درج ذیل ہے: خاکسار مرز امحمود احمد قادیان ۴ امتی ۱۹۲۴ء مکرمی سیٹھ صاحب السلام علیکم ! پچھلے سال میں نے آپ سے ایک ہزار روپیہ قرض.لیا تھا.اس سال بوجہ میری دوسری بیوی کے فوت ہو جانے کے جن کی وصیت اور دوسرے حقوق ادا کرنے پڑے اور بوجہ اس کے کہ مجھے سلسلہ کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اور شادی
235 کرنی پڑی.اخراجات زیادہ ہو گئے ہیں.اس لئے مجھے یہ خط آپ کو تحریر کرنا پڑا ہے کہ ستمبر کے آخر تک معیاد ختم ہونی ہے اگر آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو تو آپ اس معیاد کو فروری ۱۹۲۶ ء تک بڑھا دیں اس طرح مجھے ادا ئیگی میں سہولت ہو جائیگی.لیکن اگر آپ کو ضرورت ہو تو بے شک بے تکلفی سے اطلاع دے دیں.میں انشاء اللہ کسی نہ کسی طرح روپیہ کا انتظام کر کے آپ کو روانہ کر دونگا.خاکسار مرزا محمود احمد نوٹ: (الف) اس مکتوب پر سہواً ۱۹۲۴ء کی تاریخ درج ہوئی ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی حرم محترم سیدہ امتہ الحی بیگم صاحبہ ۱۹۲۴ء میں فوت ہوئیں اور حضور نے ۱۹۲۵ء میں سیدہ سارہ بیگم صاحبہ سے شادی کی.سو یہ مکتوب ۱۹۲۵ء کا ہے.(ب) انبیاء اور خلفاء امت کے لئے اسوہ حسنہ ہوتے ہیں اور ان مکتوبات سے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی سیرۃ کے کئی اعلیٰ پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے.اس لئے درج کر کے محفوظ کر دیئے گئے ہیں.حضور کی سیرت لکھنے والے دوست فائدہ اٹھا سکیں گے.انشاء الله (مؤلف) اس رقم کی ادائیگی کے بارہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دو مکتوب درج ذیل ہیں: مکتوب نمبرا قادیان ۲۱ فروری ۱۹۲۶ء مکرمی سیٹھ صاحب السلام و علیکم ! روپیہ کی ادائیگی کا وقت آچکا ہے.اور روپیہ کا انتظام اللہ تعالیٰ نے کر دیا ہے.اب آپ جس طرح کہیں روپیہ بھیج دیا جائے یا قادیان میں آپ کسی کو دلوانا چاہتے ہوں تو وہاں دے دیا جائے.حیدر آباد میں طاعون سے نہ معلوم یاد گیر کا کیا حال ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام احمد یوں کا حافظ و ناصر ہو.والسلام خاکسار مکتوب 2 مکرمی سیٹھ صاحب مرزا محمود احمد
236 السلام و علیکم ! ہزار روپیہ آپ کی طرف سے مدرسہ احمدیہ میں جو طالب علم پڑھتے ہیں ان کے نام درج کرادیا گیا ہے میں یہی آپ کا مطلب سمجھا تھا.آپ کے بھائی صاحب محمد خواجہ صاحب کی وفات کی اطلاع ہوئی اور بہت افسوس ہوا.افسوس کے صرف دو تین دن پہلے مجھے بیماری کی اطلاع ہوئی اس لئے دعا بھی اچھی طرح نہ ہو سکی.اللہ تعالیٰ آپ کو اور دوسرے متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے ورثاء کو اپنی حفاظت میں رکھے.اور مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے.خاکسار مرزا محمود احمد اسی طرح حضور ایدہ اللہ نے ایک نوجوان کی قرض سے امداد کرنیکے لئے سیٹھ صاحب کو ذیل کے مکتوب کے ذریعہ تحریک فرمائی: قادیان ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۶ء مکرمی سیٹھ صاحب السلام علیکم ! ایک احمدی نوجوان جن کو ایک اہم کام کے لئے جس میں جماعت کا بھی فائدہ ہے کچھ روپیہ کی ضرورت ہے.اس وقت خزانہ کی حالت ایسی ہے کہ وہاں سے بھی روپیہ نہیں دیا جاسکتا.میری اپنی حالت بھی ایسی نہیں کہ اس وقت میں روپیہ دے سکوں....انہوں نے میری ہدایت کے ماتحت ایک جگہ وکالت کا کام شروع کیا ہے جہاں اگر وہ کامیاب ہوئیں تو سلسلہ کو بہت تقویت ہو سکتی ہے.اپنے درمیانی عرصہ میں گزارہ کے لئے انہیں روپیہ کی ضرورت ہوگی.اگر آپ پانچ سو روپیہ اس شرط پر دے سکیں کہ ایک سال کے بعد 50 روپیہ ماہوار کر کے آپ کو واپس کر دیا جائے تو روپیہ مہربانی کر کے میرے نام ارسال کر دیں.کیونکہ وہ نوجوان نہایت ہی شرمیلا ہے اور میرے سوا کسی سے معاملہ نہیں کرنا چاہتا اس صورت میں آپ کا مقروض گویا میں ہی ہونگا.اگر پورا روپیہ نہ دے سکیں تو جس قد روپیہ بھیج سکیں بھیج دیں.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دیگا.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد
237 ایڈریس.مکر می سیٹھ حسن صاحب احمدی سوداگر بیڑی یاد گیر ریاست حیدر آباد دکن حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کو سیٹھ صاحب سے جو تعلق تھا.وہ مولوی عبدالرحیم صاحب غیر کے ذیل کے مکتوب سے ظاہر ہے : قادیان ٨/٩/٢٦ اخویم مکرم سلکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته دھرم سالہ پہاڑ پر ایک دن گفتگو میں مجھ سے ایسا ذہول ہوا کہ میں سمجھا کہ آپ انتقال فرما چکے ہیں.اب عبدالحی کام کرتے ہیں.میں نے آپ کے ساتھ مرحوم“ کا لفظ بولا.اس پر حضور نے تعجب کا اظہار فرمایا.اور ایک صدمہ محسوس کیا.اس کے بعد آپ کا منسلکہ کارڈ * آگیا جس پر فرمایا اور لکھ کر بھیجا دیکھئے مردے کس طرح زندہ ہوتے ہیں.میں نے اس پر لکھ کر بھیجا الحمد اللہ مسیحا نفس اسے کہتے ہیں.حضرت نے آپ کی صحت اور مشکلات کے حل کے لئے دعا فرمائی.آپ کے مجوزہ ہوائی جہاز کا وقت آ گیا ہے.مومن کی تحریک ضائع نہیں ہوتی.حضرت اب چاہتے ہیں کہ ہوائی جہاز احمدی خرید ہیں.اللہ تعالیٰ سامان مہیا کریں گے.* * اصل کارڈ * نقل کارڈ : بسم اللہ الرحمن الرحيم - اليس الله بکاف عبده ۱۴ اگست ۲۶ بخدمت عالی جناب سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ** السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ.چہار شنبہ کے روز میری لڑکی کی زچگی ہوئی.بچہ فوت شدہ تھا.حضور دعا فرماویں ۱۵/ اگست کو ایک مقدمہ میں بحث ہے حضور کامیابی کے لئے دعا فرمائیں.میری مالی حالت کمزور ہورہی ہے.تجارت تنزل میں ہے.اسباب دنیوی کا فور ہو گئے ہیں.تدبیر میں بیکار ہورہی ہیں.صرف آقا کی دعا پر نظر ہے.مولا کریم اپنا خاص فضل فرمائے.طالب دعا شیخ حسن احمدی یاد گیر اخویم سیٹھ محمد اعظم صاحب ذکر کرتے ہیں کہ سیٹھ صاحب مرحوم کی تجویز تھی کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے سفروں کے لئے ہوائی جہاز خریدا جائے.چنانچہ ۱۹۲۶ء کے قریب انہوں نے حضور سے اس کا ذکر بھی کیا تھا.(مؤلف)
مرسل خدمت ہے.238 آپ کا مخلص عبدالرحیم نیر تقریب افتتاح مسجد لندن کی کارروائی کی اشاعت وغیرہ کیلئے چندہ کی تحریک: ذیل میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے دو مکتوب سیٹھ صاحب کے نام درج کئے جاتے ہیں جن پر حضور کے دستخط ثبت ہیں.یہ سلسلہ کی تاریخ کے لحاظ سے اہمیت رکھتے ہیں اور نفس مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے احباب اور جماعتوں کو حضور کے دستخط سے بھجوائے گئے ہونگے.مکتوب نمبر 1 بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم پورٹ لینڈ ہال.ڈلہوزی بنام مگر می محترمی سیٹھ حسن صاحب یاد گیر مکرمی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ.آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ مسجد احمد یہ لندن کا افتتاح نہایت شاندار طور پر ہوا ہے.گو امیر فیصل اس افتتاح پر بوجہ متعصب مسلمانوں اور دو کنگ والوں کے ورغلانے کے نہیں آئے.مگر پھر بھی چھ لارڈ.بارہ ممبر پارلیمنٹ اور گیارہ حکومتوں کے نمائندے اور مہاراجہ بردوان اور ایک ہزار کے قریب آدمی انگلستان کے چاروں طرف سے اس کام میں حصہ لینے کے لئے آئے ہیں.اور چار انگریزوں نے اسلام قبول کیا.اور اسلام کی اشاعت کا ایک زبر دست سامان پیدا ہو گیا ہے.چنانچہ اس وقت بھی اخبارات سلسلہ کے متعلق مضمون لکھ رہے ہیں.چونکہ اس تقریب پر ایک خاص مضمون بذریعہ تار میری طرف سے جانا ضروری تھا اور یہ بھی ارادہ ہے کہ ایک رسالہ جس میں مسجد اور انگلستان میں ہماری تبلیغی مساعی کی تاریخ ہو اور اس کے ساتھ مسجد لندن کے بنیادی پتھر رکھنے کے موقعہ کی تصاویر ہوں اور اب افتتاح کے موقعہ کی تصاویر ہوں اور ان بڑے بڑے لوگوں کی تصاویر ہوں جنہوں نے اس موقعہ پر حصہ لیا ہے.شائع کیا جائے تا اس موقعہ پر جو توجہ لوگوں کو ہے اس سے فائدہ اٹھا کر تبلیغ کا راستہ کھل جائے.اس لئے ان دونوں قسم کے اخراجات کے لئے جو ڈیڑھ ہزار کے قریب ہونگے میرا منشاء ہے کہ الگ چندہ کرلیا جاوے.یہاں ڈلہوزی میں ہمارے گھر کے لوگوں کا اور دوسرے دوستوں کا ایک سو پچاس
239 کے قریب ہو گیا ہے.میں آپ کے ذمہ تمیں روپے کی رقم لگاتا ہوں.آپ یہ رقم جلد محاسب صدرانجمن احمد یہ قادیان کے نام بھجواد میں اور کو پن پر لکھ دیں کہ مسجد لندن کے متعلق ہے تا ایسا نہ ہو کہ خزانہ کی کسی اور مد میں داخل ہو جائے اور ساتھ ہی مجھے بھی اطلاع دے دیں کہ یہ رقم بھجوادی گئی ہے.والسلام مکتوب نمبر 2 بسم اللہ الرحمن الرحیم مرزا محمود احمد محمد ، فصلی علی رسولہ الکریم برادر مکرم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس سال شوری کے موقعہ پر فیصلہ ہوا تھا کہ لڑکیوں کے سکول اور بورڈنگ کی طرف جلد توجہ کی جائے اور اس کے لئے عورتوں سے چندہ لیا جائے اور میں نے اس موقعہ پر تجویز کو منظور کرتے ہوئے فیصلہ کیا تھا کہ روپیہ عورتوں سے نہ لیا جائے.بلکہ مردوں سے چندہ خاص لیا جائے.تا عورتوں میں یہ احساس نہ ہو کہ ہماری تعلیم پر بھی مردخرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.میرا اندازہ ہے کہ سکول اور بورڈنگ کے لئے ( کیونکہ ہائی سکول مدنظر رکھنا پڑے گا) انداز اساٹھ ہزار روپیہ خرچ ہوگا جہاں تک میں سمجھتا ہوں تمہیں ہزار کے قریب گورنمنٹ کی امداد ہوگی.پس ہماری جماعت کو اس غرض کے لئے تیس ہزار روپیہ جمع کرنا ہوگا.چونکہ جماعت کی ضروریات کے لئے ہمیں ہر سال چندہ خاص کرنا پڑتا ہے.اس وجہ سے میں یہ مناسب نہیں سمجھتا کہ اس چندہ کی تحریک کروں اور سب کے لئے اس چندہ میں شامل ہونا ضروری قرار دوں.بلکہ میں پسند کرتا ہوں کہ اپنے دستخطی خطوں کے ذریعہ سے صرف چند ا حباب کو تحریک کروں اور وہ بھی اس طرح پر نہیں کہ جن دوستوں کو مخاطب کیا جائے ان پر چندہ واجب کر دیا جائے.بلکہ ان کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے کہ اگر وہ تحریک میں شامل ہونا چاہیں یا شامل ہو سکیں تو شامل ہوں ورنہ نہیں.اس طرح بو جھ انہی لوگوں پر پڑے گا جو خوشی سے اس بوجھ کو برداشت کرنا پسند کریں گے اور جو بوجھ اٹھا سکنے کی قابلیت رکھتے ہونگے.اور دوسرے چندوں پر اور عام جماعت پر اس کا اثر نہ پڑے گا.
240 میں نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ اس سال قحط کے آثار ہیں اور زیادہ دوست خصوصاً زمیندار احباب حصہ کم لے سکیں گے.اس لئے ایک سال یہ بوجھ نہ اٹھایا جائے.بلکہ اس سال صرف زمین خریدنے پر بس کی جائے.اور عمارت کے لئے آئندہ سال تحریک کی جائے جبکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے زیادہ مقدار میں دوست اس تحریک میں حصہ لے سکیں.اوپر کی ضرورت کے علاوہ میں دو اور ضرورتوں کو بھی شامل کرنا چاہتا ہوں.اول تو یہ کہ چند ماہ سے ٹریکٹوں اور پریس کے ذریعہ سے پیغامیوں نے نہایت سخت پرو پیگنڈہ سلسلہ کے خلاف شروع کر رکھا ہے اور اس کا خطرناک اثر پیدا ہورہا ہے.بہت سی جماعتوں کی چٹھیاں آ رہی ہیں کہ اس پرو پیگنڈہ کی وجہ سے غیر احمدیوں میں تبلیغ رک گئی ہے اور اس امر کی اس قدر رپورٹیں آئی ہیں کہ ضروری ہے کہ اس پروپیگنڈہ کا مقابلہ کیا جائے.پریس کے ذریعہ سے بھی اور ٹریکٹوں کے ذریعہ سے بھی.تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کیا مذ ہب تھا.اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ یہ لوگ غیر احمد یوں کو دھوکہ دے رہے ہیں یہ خود بھی ان کو جو کچھ سمجھتے ہیں ایسا خوشکن نہیں اور ان کا عمل اور ان کا قول مخالف ہے.دوسری ضرورت یہ ہے کہ اس سال زکوۃ کے فنڈ پر بہت بوجھ پڑ جانے کے سبب سے یہ فنڈ بالکل کمزور ہو گیا ہے.اور اس بجٹ سے غرباء کی اس سال کی ضرورت پوری نہ ہو سکے گی.اس کے لئے بھی پانچ سات سو روپیہ کی ضرورت ہوگی تا غرباء کو تکلیف نہ ہو.چونکہ غرباء کی امداد بھی مذہبی اصول سے خاص اور اہم ضرورت ہے اور اول درجہ کے فرائض میں سے ہے.اس لئے اوپر کی دونوں ضرورتوں اور زمین کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر کچھ رقم اس چندہ میں سے ان دوضرورتوں کے لئے منتقل کر دی جائے گی اور باقی زمین خریدنے پر خرچ کر دی جائے گی.میں نے ان دوستوں کے لئے جو اس چندہ میں حصہ لینا چاہیں چار درجے مقرر کئے ہیں.ایک پچاس روپے کا.دوسراسو کا.تیسرا دوسو کا اور چوتھا تین سو کا.تا کہ جو دوست اپنی خوشی سے حصہ لینا چاہیں وہ اپنی طاقت کے مطابق اس میں حصہ لے سکیں.میں امید کرتا ہوں کہ اگر آپ تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں تو ضرور حصہ لے کر ثواب حاصل کریں گے.لیکن میں ایک امر ایک دفعہ پھر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ چندہ لازمی نہیں ہے.اور ضروری نہیں کہ آپ اس میں ضرور حصہ لیں.لیکن یہ ضروری ہے کہ اس خط کے پہنچنے پر اگر آپ نہ
241 بھی حصہ لے سکتے ہوں تو بھی مجھے اطلاع دے دیں تا کہ دفتر میں اندازہ رہے کہ کس قدر رقم کی دوستوں سے امید کی جاسکتی ہے اور کام فوراً شروع کیا جا سکے اس طرح جو صاحب حصہ لینا چاہیں انہیں بھی چاہئے کہ فوراً اطلاع دیں کہ کس قدر رقم وہ اس تحریک پر شامل کر سکیں گے.ہاں یہ یادر ہے کہ اگر وہ وعدہ کریں تو اس کا دو ماہ میں پورا کرنا ضروری ہوگا.میں سب سے پہلے ثواب میں شامل ہونے کیلئے ایک سو روپیہ کا وعدہ اپنی طرف سے کرتا ہوں.والسلام خاکسار مرز محمود احمد نوٹ: سیٹھ صاحب نے ہر دو تحریکات بالا میں حصہ لیا.۲/۱۰/۲۸ خلیفہ اسیح الثانی حج بیت الله : اخویم مولوی محمد اسماعیل صاحب وکیل و اخویم سیٹھ عبدالحئی صاحب نے سیٹھ صاحب سے ذکر کیا کہ اب جنگ ختم ہونے کے بعد حالات اچھے ہو گئے ہیں.کیا آپ حج کے لئے جائینگے.آپ نے عزم کر لیا اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تار دیا کہ حج کو جانے کا ارادہ ہے.حضور مشورہ اور اجازت عنایت فرمائیں.حضور کی طرف سے تار آیا کہ حج پر جانے کی اجازت ہے.خط بھیجا جارہا ہے.چنانچہ یہ خط درج ذیل ہے.یہ سیٹھ صاحب کے نام حضور کا آخری مکتوب ہے: مکرمی سیٹھ حسن صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.آپ کا خط ملا اور ہیضہ اور طاعون کا علم ہوا.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو اس بلا سے محفوظ رکھے.عزیز.....کیلئے دعا کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت بخشے آپ کے حج پر جانے کا بھی علم ہوا اللہ....مبارک فرمائے.کم سے کم دو ہزار فی کس رقم ساتھ رکھ لینی چاہئے کچھ ہنڈی کی صورت میں اور کچھ نقد اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور سچا......عطا فرمائے.سور و پیل گیا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.ایڈریس.سیٹھ حسن صاحب.یاد گیر حیدر آباد دکن والسلام خاکسار مرزا محمود احمد
242 اس وقت حج کے لئے نام درج کرانے اور ٹکٹ خریدنے کے لئے ریاست حیدر آباد والوں کے لئے مقررہ معیاد میں سے صرف ایک دن باقی تھا.تاروں کے ذریعہ انتظام مکمل ہوا.قلت وقت کے باعث حضور کی ملاقات کے لئے نہ آسکے جس کا سارے سفر میں افسوس کے ساتھ ذکر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ واپسی پر پہلے قادیان جانا ہے پھر وطن جائینگے.آپ ۱۹ / اکتوبر ۱۹۳۵ء کو اپنی اہلیہ محترمہ رسول بی بی صاحبہ اور اپنے داما دا خویم مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل وکیل کے ہمراہ روانہ ہوئے اس سارے سفر کے حالات وفات تک اخویم موصوف کی زبانی درج کئے جاتے ہیں: ورودیکه : مکہ مکرمہ میں ہم رباط حسین بی میں ٹھہرے جو خانہ کعبہ سے بالکل قریب ہے.یہ رباط یعنی سرائے حیدر آباد دکن کی ایک معز ز عورت مسماۃ حسین بی نے بنائی ہے.سیٹھ صاحب مکہ مکرمہ میں تشریف لے جانے کے بعد زائد از ایک مہینہ بہت اچھی صحت کی حالت میں وہاں ٹھہرے رہے.لیکن چونکہ آپ دومنزلہ بنگلہ پر رہتے تھے جہاں سے بوجہ بڑھاپے کے چڑھنا اُترنا دشوار تھا اور زیادہ پیدل چلنا بھی مشکل تھا.اس لئے مکہ مکرمہ کی اصطلاح شہری (یعنی چار پائی پر بیٹھ کر خانہ کعبہ کو جایا کرتے تھے.جہاں چار عرب بدوی آپ کو اُٹھا کر لے جاتے تھے.مکہ مکرمہ میں کمزوروں کے لئے اس قسم کی سواری عام طور پر رائج ہے.ویسے عربی ، یعنی ٹانگے بھی ہیں.لیکن کم.پھر ٹانگے مسجد حرام تک پہنچا سکتے ہیں مگر اندر نہیں جاسکتے.اندر جانے کے بعد چونکہ طواف کرنا بوڑھوں کے لئے پیدل چل کر مشکل ہوتا ہے.اس لئے شہری پر ہی ضعیف اور بوڑھے طواف کرتے ہیں.سیٹھ صاحب نے بھی ہمیشہ ایسا ہی کیا.البتہ سب سے پہلا طواف پیدل چلتے ہوئے کیا اور کامل اطمینان کی حالت میں حجر اسود کو بوسہ دیا.اس وقت طواف کی جگہ زیادہ اثر دحام نہ تھا.پھر آپ نے مقام ابراہیم اور مطاف کے دوسروں حصوں پر نفل پڑھے.ملتزم سے چمٹ کر دعا کی خانہ کعبہ کے دروازے کے ساتھ ایک جگہ نماز کے لئے نشیبی حصہ میں بنائی گئی ہے وہاں بھی نماز پڑھی اور آب زمزم کئی مرتبہ پیتے رہے.” صفا و مروہ میں شہری ہی پر آپ دوڑتے رہے.بقیہ طواف جو آپ نے مکہ مکرمہ کے قیام کے دوران میں مختلف اوقات میں کئے وہ شہری ہی پر بیٹھ کر کئے.بدوی عرب خود
243 شہری کو لے کر دوڑتے اور آہستہ چلتے دعائیں کرتے جاتے ہیں اور سیٹھ صاحب بھی دعائیں کرتے جاتے تھے.اس طرح دوسرے تیسرے دن کبھی ایک روز بعد کبھی ہر روز آپ خانہ کعبہ جاتے.کبھی ظہر سے پہلے آ جاتے.کبھی عصر کے بعد جاتے شام کے پہلے آ جاتے اس طرح کامل اطمینان کے ساتھ نفل پڑھتے، کبھی بآواز بلند ہمیں ساتھ لے کر دعائیں کرتے کبھی چپ چاپ دعائیں کرتے.اکثر مرتبہ دیکھا گیا کہ آپ دیر تک خانہ کعبہ کو دیکھتے رہتے.اس طرح ہمیں بلا کسی جدو جہد کے اپنی نمازیں کامل اطمینان کے ساتھ علیحدہ مسجد حرام میں پڑھنے کی توفیق ملتی رہی.مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ میں کوئی شخص یہ نہیں پوچھتا کہ آپ کیوں جماعت سے علیحدہ نماز پڑھتے ہیں.کیونکہ وہاں کسی کو اس بات کی فکر ہی نہیں ہے کہ آپ کون ہیں اور کس رنگ میں ہیں.اس طرح ایک مہینہ سے زائد مکہ مکرمہ میں رہے.اچھی صحت کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے سیٹھ صاحب کو منی.مزدلفہ.عرفات میں حاضری اور کامل حج کا موقعہ عطا فرمایا.قیام مکہ مکرمہ میں آپ سارا ہی دن علاوہ نماز اور دعا کے دین کی باتیں کرتے.فرمایا کرتے تھے کہ میراج تو یہی ہے کہ خدا نے مجھے اس مقدس زمین میں پہنچا دیا.یہ جگہ رباط حسین بی جہاں ہم ٹھہرے ہیں یہاں بھی حضرت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھتے رہے ہیں.اس لئے آپ کسی گھڑی کو بھی ضائع نہ کرتے.اکثر دفعہ مجھ سے اور اپنی اہلیہ سے فرماتے کہ آپ ان لوگوں کو جو ہمارے ساتھ حج کے سفر میں ہیں یا راستہ میں ملتے رہتے ہیں تبلیغ احمدیت کیا کریں.اور ہمارے سلسلہ کی کتابوں کے پڑھنے کے متعلق تحریک کریں.بعض دفعہ جب سیٹھ صاحب سے کہا جاتا کہ یہاں اور مدینہ منورہ میں سلسلہ کی علانیہ تبلیغ کی حکومت کی طرف سے اجازت نہیں ہے تو فرماتے اللہ تعالیٰ جلد وہ وقت لائے گا جب ہمارے لئے یہ سب مشکلات دور ہو جائیں گی.خود آپ کا عمل پورے سفر میں ریل گاڑی جہاز موٹر یہی رہا کہ آپ کو جو شخص بھی ملتا اس کو آپ اپنی طرز پر کسی نہ کسی طرح کوئی نہ کوئی سلسلہ کی بات تبلیغ کے رنگ میں ارشاد فرماتے.مقدس سرزمین سے محبت : ایک دن فرمانے لگے کہ اس مقام کے آدمی تو آدمی ہمیں جانور بھی پیارے لگتے
244 ہیں.کیونکہ یہ ہمارے رسول کی تخت گاہ میں بسنے والے جانور ہیں.اگر ہو سکے تو ہمیں یہاں کے چھوٹے بڑے جانور ایک ایک ہندوستان لے جانے چاہئیں.میں جب کبھی طائف کے انار موسمبی، میٹھے، لیمو چھوٹے چھوٹے کیلئے لے جاتا اور کہتا کہ یہ میوے اس مقدس زمین کے ہیں تو اس کو بطور نعمت الہی کے خیال فرماتے اور شکریہ ادا کرتے.ایک دن فرمانے لگے آپ کوشش کریں کہ عبد الحئی اور اُس کی چھوٹی والدہ بھی حج کو آئیں اسی طرح میری اولاد کو بھی حج کی توفیق ملے.وہاں آپ کے اہلبیت نے اس امر کا اظہار کیا کہ میرا ارادہ یہ ہے کہ میں یہاں ٹھہروں تو آپ نے ہنس کے فرمایا کہ میں بھی آپ کے ساتھ یہیں رہوں گا.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بیوی تو ہندوستان واپس آگئیں اور سیٹھ صاحب ہمیشہ کے لئے مدینہ منورہ میں رہ پڑے.مکہ مکرمہ میں اور سفر کی دوسری جگہوں میں آپ کثرت سے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی کو یاد کرتے وہاں سے دعا کا خط لکھواتے خود کثرت سے تہجد نوافل اور دیگر نمازوں میں اسلام کی ترقی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت و درازی عمر اور جماعت یاد گیر اور دوسری جماعتوں اور دوستوں کے لئے خاص طور پر دعائیں کرتے، کبھی خود بآواز بلند ہم کو انہی دعاؤں میں شامل کر لیتے کبھی مجھے کہتے کہ آپ بآواز بلند دعا کریں.دن اور رات میں اکثر قرآن پڑھتے درود اور دیگر دعاؤں کا التزام فرماتے.مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مختلف جگہ کا پانی تبرکات کے رنگ میں سیٹھ صاحب کو ہم پلاتے رہے.ایک دفعہ جب میں بیئر بھر انہ کا پانی لایا تو فرمانے لگے کہ آپ آب زمزم کے علاوہ اس پانی کو بھی ہندوستان لے جائیں اور بچوں کو پلائیں.جو چیز آپ کو میں لا کر دیتا اُس کو بڑی خوشی سے استعمال کرتے اور عاجز کو دعا دیتے.دشمن کی طرف سے مخالفت : دورانِ سفر جہاز میں ہماری زیادہ مخالفت ہوئی.ابتداء اس قسم کے فتنہ کھڑے کرنے کی ہمارے بعض ساتھی غیر احمدیوں کی طرف سے ہوئی جس میں ہمارے قافلہ کے صدر نے جو ہمارے سلسلہ کا شدید دشمن تھا زیادہ حصہ لیا اور ان لوگوں کو مختلف جھوٹی باتیں بتا کر اور اشتعال دلا کر ہمارے خلاف اندرونی طور پر ورغلاتا رہا.چنانچہ جدہ میں ہم سے پانچ ہزار روپیہ نقد لینے یا گرفتار کرائے جانے کی دھمکی کا منصو بہ باندھ کر ہمارے سفر کے ایک ساتھی
245 حبیب صاحب معلم کو اپنا ہمنوا کرنا چاہا.لیکن یہ معلم باوجود ہم سے اختلاف رکھنے کے نہایت ہی شریف اور ہمدرد انسان نکلا.جس نے ہماری بہت مدد کی اور اس کا منصوبہ خاک میں ملا دیا اور ہمیں اس سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی.بعض دفعہ ان منصوبوں اور مخالفانہ حالات کو دیکھ کر میں سیٹھ صاحب رضی اللہ عنہ سے کہتا کہ آپ دعا فرما ئیں کہ کوئی فتنہ پیش نہ آئے اور ہمارا حج نہ رُک جائے.بعض لوگ اس قسم کی ریشہ دوانیاں کر کے ہمارے متعلق مذہبی اعتقاد کے اختلاف کی بناء پر کچھ ایسی صورتیں پیدا کرنا چاہتے ہیں جس سے حکومت پر یہ واضح کریں گویا قادیانی وہاں حج کو نہیں آتے بلکہ ان کے کچھ اور مقاصد ہیں وغیرہ.تو آپ فرماتے کہ آپ چلتے چلے جائیں کوئی حج سے نہیں روکتا.بعض احمقوں نے مکہ مکرمہ جیسی مقدس بستی میں بیٹھ کر ہمارے متعلق یہاں تک بکو اس کی کہ گویا قادیانی نعوذ با اللہ حجر اسود چرانے آتے ہیں.اس موقعہ پر مجھے بہت ہنسی آئی اس مجلس میں میں ہنسی کو روک نہ سکا اور مجلس سے باہر چلا گیا.پھر مجلس ختم ہونے کے بعد میں نے مکہ کے مقامی چیدہ چیدہ لوگوں کو سمجھایا کہ یہ خرافات ہیں میں بھی کٹر قادیانی ہوں.آپ ہمارے عمل کو دیکھئے ہم کیا کرتے ہیں.چنانچہ پھر ایک شخص نے ہماری مکہ مکرمہ سے واپسی پر کہا کہ واللہ آپ جیسی نمازیں آپ جیسی دعا ئیں اور کار خیر کرتے میں نے بہت کم لوگوں کو دیکھا ہے.اُس نے ساتھ ساتھ یہ بھی بات کہی کہ یہ سب فتنہ ہندوستان سے آنے والے لوگ اٹھاتے ہیں.ہم کو کیا معلوم تھا کہ آپ لوگ ایسے ہیں وہ ایک شریف آدمی تھا اُس نے اس کے بعد اس قسم کا ذکر ہی ترک کر دیا تھا.نماز جمعہ بھی ہم تینوں اپنی قیام گاہ پر ہی ادا کرتے.سیٹھ صاحب نے دوران سفر میں مدرسه صنعت و حرفت مدینہ منورہ وغیرہ پر ایک ہزار ریال سے زیادہ رقم تقسیم کی.حج میں ہمارے ایک ہم سفر نواب چھتاری سابق وزیر اعظم حیدر آباد کے مرشد تاجی شاہ صاحب تھے جو ہمارے سلسلہ اور جماعت کے کاموں سے خوب واقف تھے.انہوں نے ہماری بڑی عزت کی اور کئی جگہ سیٹھ صاحب کی خدمت کی کوئی شخص ہماری بلا وجہ مخالفت کرتا تو اس کو روکتے.ساری مخالفت ہماری اس بات پر ہوتی کہ ہم علیحدہ نمازیں کیوں پڑھتے ہیں.اس پر بحث کا سلسلہ چل پڑتا.تاجی شاہ صاحب فرماتے تھے کہ میرے مرید کثرت سے ساندھن
246 و آگرہ ضلع میں ہیں.میں نے فتنہ ملکانہ کے وقت دیکھا کہ قادیانی حضرات نے بھوکے فاقے رہ رہ کر تبلیغ کر کے ارتداد سے لوگوں کو بچایا، چنے کھا کھا کر گزارہ کیا.اُس وقت کوئی بھی مولوی ہمت نہ کر سکا بلکہ بعض تو آگرہ بیٹھے ہوئے پلاؤ زردہ اُڑاتے رہے.وہ سارے ساتھیوں کو بتاتے کہ اختلاف عقیدہ علیحدہ چیز ہے.ساتھ نماز پڑھنا نہ پڑھنا اُن کی مرضی ہے.جب اُن کا مذہبی عقیدہ ہے تو وہ اپنے اعتقاد پر عمل کریں گے.ہر شخص کو اختیار ہے کہ وہ اپنے عقیدہ کے مطابق عمل کرے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے بہت سے اعوان و انصار بھی ان مخالفین کے زمرہ میں پیدا کئے.جس سے ہماری ہر طرح نصرت غیبی ہوتی رہی.اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد اس طرح بھی کی.کہ ہمارے جہاز ایس.ایس انگلستان میں اہلسنت اور اہلحدیث علیحدہ اذان دیتے اور علیحدہ باجماعت نماز اور جمعہ پڑھتے.بعض دفعہ دلچسپ واقعات ہوتے.حنفی کہتے ہمارا امام ہونا چاہئے.اہل حدیث کہتے ہمارا امام ہونا چاہئے.کبھی ایسا ہوتا کہ دونوں میں سے کوئی ایک مقدم ہو جا تا تو لڑائی ہوتی.میں ساتھیوں کے سامنے اس مسئلہ کے لئے ان کا عمل دلیل کے طور پیش کرتا.پھر جہاز میں ایسا بھی ہوا کہ سُنیوں کا جلسہ ہوا.سنی مولوی کچھ بولا.اہلحدیث لوگوں کی طرف سے اُس کی تقریر کو روکا گیا.جھگڑا ہوا اور ہم سب کو مل کر جھگڑا نپٹانا پڑا.حاجی عزیز صاحب حیدر آباد والوں نے بھی بہت خدمت کی اور مدینہ منورہ میں سیٹھ صاحب کی عیادت کے لئے بار بار آئے.مرکز فلسطین کی تبلیغ احمدیت : جگہ بہ جگہ معلوم ہوا کہ حیفا ( فلسطین) سے احمدیت کے متعلق عربی رسائل وہاں پہنچتے رہتے ہیں.بعض لوگ ڈر کر نہیں پڑھتے بعض پڑھ لیتے ہیں.مخالفت ہندوستان ( متحدہ ) کے مولویوں کی پیداوار ہے.احمدیوں کو حج سے روکنے والے نچلے طبقہ ہی کے لوگ نہیں ہیں بلکہ اعلیٰ طبقہ کے لوگ بھی ہیں.اس کی وجہ سے عمومی مخالفت کا رنگ ہے.باقی وہاں کے ساکنین کو ایسی دلچسپی نہیں کہ وہ حاجیوں سے پوچھتے رہیں کہ آپ کس عقیدہ کے ہیں کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں.مرض الموت : حج کو جانے سے پہلے صحت کی خرابی کے باعث اور جلدی حج کو جانا طے ہونے کے باعث
247 قادیان حج سے قبل نہ جا سکے تو راستہ بھر حضور کو یاد کرتے رہے کہ قادیان جانا تھا.حج ختم ہوتے ہی فرمانے لگے.سیدھا یہاں سے پہلے حضرت صاحب کے پاس جانا ہے اس کے بعد گھر جائیں گے.لیکن مکہ مکرمہ میں دو تین روز بخار رہا.ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب ہندی کا علاج شروع ہوا.موٹروں کی باری دیر سے آنے کے باعث دیر ہوگئی تو فرمانے لگے اگر معلوم ہوتا کہ اتنی دیر لگے گی اور موٹروں کی اتنی تنگی ہے تو ہم بمبئی سے موٹر لے آتے.مکہ مدینہ کا سفر کر کے واپسی پر موٹر بمبئی چھوڑ کر ہندوستان چلے جاتے.بار بار کہتے کہ حضور کی خدمت میں دعا کے لئے خط لکھو.اسی بیماری کی حالت میں ساتھیوں کی وجہ سے مجبوراً ہمیں مدینہ منورہ کا جلد سفر کرنا پڑا.آپ کو موٹر میں لٹا کر لے گئے.اور ۳۰۰ میل لمبا سفر تیسرے دن تک دن رات کرنا پڑا.جس سے کافی نقاہت ہو گئی.راستہ میں دودھ اور مختلف یا قوتی اور یونانی ادویات کا استعمال کرایا گیا جو ساتھ تھیں.مدینہ منورہ میں ورود : بالآخر جب اس انتہائی کمزوری کی حالت میں آپ مدینہ منورہ کے قریب پہنچے جہاں سے رسول اللہ صلعم کا روضہ نظر آتا ہے.آپ فریش اور موٹر میں لیٹے ہوئے تھے اُٹھنے کی طاقت ہ تھی.خود اُٹھ کر بیٹھ بھی نہ سکتے تھے کہ سارے موٹر والوں نے رسول اللہ صلعم کا روضہ دیکھ کر درود پڑھنا اور یا رسول اللہ یا رسول اللہ ! کہنا شروع کر دیا.اور سب کے سب رونے لگے تو آپ بھی زار و قطار رونے لگے وہ ایک اونچا حصہ ہے جہاں سے مدینہ منورہ نشیب میں نظر آتا ہے.اس کے تھوڑے ہی دُور بعد مدینہ منورہ کا باب عنبری واقع ہے جو باب الداخلہ ہے چنانچہ جب موٹر مدینہ منورہ پہنچی وہ جمعہ کا روز اور وقت ۱۲ بجے کا تھا کہ سیٹھ صاحب کو شدید سردی شروع ہوئی.آپ بہت کا مینے لگ گئے نقاہت بھی بہت تھی سارے لوگ مدینہ منورہ میں چلے گئے ایک گھنٹہ تک انتظار کرنا پڑا.اتنے میں شہری چار پائی منگوائی گئی اور اُس کو اٹھانے والے عروب آئے.شہری پر آپ کو مدینہ منورہ کے اندر داخل کیا گیا.آپ کھلی آنکھوں روضہ مبارک کو دیکھتے اسی حالت میں درود پڑھتے سلام کرتے، غرض عجیب کرب و اضطراب اور عجیب خوشی کے عالم میں داخل ہوئے.آپ کو سیدھا باب عنبری سے حسین بی کے رباط ( یعنی سرائے ) میں جو حیدر آبادیوں کے لئے مخصوص ہے اُتارا گیا
248 اور وہاں آپ ۳ - ۴ گھنٹہ تک رہے.وہاں سے ڈاکٹر غلام احمد صاحب کے علاج کی سہولت کی خاطر رباط افضل الدولہ میں منتقل ہوئے.دونوں رباطیں مسجد نبوی کے بالکل قریب ہیں.جب رباط افضل الدولہ کو جارہے تھے.سیٹھ صاحب چار پائی پر لیٹے لیٹے روضہ مکرمہ کو سلام کرتے دعا پڑھتے درود پڑھتے جاتے.مدینہ منورہ کے ساکنین مرد عورتیں اللہ شافی اللہ شافی کہتے کوئی کہتا ہندی حاجی ہندی حاجی.اللہ شافی مولا شافی، غرض عجیب نظارہ تھا.سیٹھ صاحب کا علاج علاوہ ڈاکٹر غلام احمد صاحب ساکن مدینہ منورہ ایک حکیم صاحب ساکن اجمیر شریف نے بھی جن کا نام شفاء الملک تھا آخری تین دن جمعہ.ہفتہ.اتوار کیا.سیٹھ صاحب کو جگر کی خرابی کا مرض تھا.اُس کے علاوہ بخار کا سلسلہ تھا.آخری تین دن تو آپ نے بالکل سکوت میں گزارے.جمعرات کو اچھے ہو گئے تھے.کپڑے تبدیل کئے نئے کپڑے پہنائے.اچھی باتیں کرتے رہے.لیکن جمعہ سے بالکل فریش ہو گئے.حکیم خسر و شاه نظامی صاحب ابن حکیم نابینا صاحب حیدر آباد نے بھی جو سلسلہ احمدیہ کے مخالف ہیں.جمعہ کے روز چار بجے سیٹھ صاحب کو دیکھ کر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ زیادہ سے زیادہ پیر تک زندہ رہ سکیں گے.کیونکہ ایک ہاتھ کی نبض پوری طرح کام نہیں کرتی.انہوں نے علاج نہ کیا.اسی طرح سلسلہ کے شدید مخالف ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب مونگھیری ساکن مدینہ منورہ نے بھی دیکھا لیکن انہوں نے بھی علاج نہ کیا.جب مدینہ منورہ میں شدید بیمار ہوئے.آخری گھڑیوں اور آخری ایام کا سلسلہ چل رہا تھا.میں...ذکر کیا کہ آپ کی بیماری سخت ہوگئی ہے بچوں کو تار دوں فرمانے لگے کہ مت دو بچے گھبرا جائیں گے.البتہ حضور کو دعا کا تار دو.چنانچہ میں نے مدینہ منورہ سے حضور کی خدمت میں سیٹھ صاحب کی شدید علالت کا ذکر کر کے دعا کا تار دیا.نے آپ بیماری کی حالت میں فرمایا کرتے تھے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیر یا جمعہ کو جاؤں گا.چنانچہ جمعہ کو ہی آپ کی زیادہ سخت حالت بیماری کی تھی.ڈاکٹر نے مغرب کے وقت کہا کہ اب انہیں بلغم کی رکاوٹ کافی ہو رہی ہے.اس لئے شاید رات یہ زندہ نہ رہ سکیں.لیکن حکیم شفاء الملک اجمیری نے بعض دوائیں پلائیں اور روغن سینہ کی مالش کے لئے دیا.اس سے آپ کو نیند آ گئی.ایک رات قبل ہی سے ڈاکٹر غلام احمد
249 صاحب نے کہہ دیا تھا کہ اب آپ کی آخری گھڑیاں شروع ہیں.آپ تیاری کریں.ان کے ایسا بار بار کہنے کے باعث میں سیٹھ صاحب کو کثرت سے دعا ئیں.سورۃ یاسین.قرآن شریف پڑھ کر سناتا.کبھی چار پائی پر بیٹھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں عربی اردو پڑھتارہتا.کبھی مسجد نبوی میں جا کر دعا کرتا.کاش! آپ کو صحت ہو جائے اور ایک نظر آپ کے ورثاء ہندوستان میں آپ کو با صحت دیکھ لیں.کبھی کہتا یا اللہ سیٹھ صاحب کی تمنا تھی کہ حضور سے ملیں گے.حضرت امیر المومنین سے ایک مرتبہ ملا دے.تو ان کی موت میں التواء ڈال.غرض عجیب عجیب اضطرابی کیفیت میں آپ کو تنہا پا کر دعائیں کرتا.وفات وتدفين : آخر مدینہ منورہ میں پہنچنے کے تیرھویں روز وقت وصال آپہنچا اور آپ نے بوقت مغرب جبکہ مؤذن مسجد نبوی میں اذان دے رہا تھا.مسجد نبوی کے قریب ہمکان رباط افضل الدولہ بروز پیر بتاریخ ۱۲ محرم ۱۳۶۵ھ بمطابق ۷ دسمبر ۱۹۴۵ء بعمر قریباً سو (۱۰۰) سال اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی.انا لله و انا اليه راجعون.مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ہمارے قافلے والوں کی طرف سے ہماری کافی مخالفت مذہبی ہوئی.مدینہ منورہ میں بھی اندرونی بیسیوں چیزیں مخالفت کی پیدا کیں.بعض دفعہ اس قسم کی اطلاعات بھی سیٹھ صاحب کے انتقال سے پہلے ملتی رہیں گویا کہ وہ نعوذ باللہ سیٹھ صاحب کے انتقال کے ساتھ احمدیوں کی تذلیل و تضحیک چاہتے تھے.خصوصاً اس رنگ میں کہ آپ جنت البقیع میں دفن نہیں ہو سکیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ان کے سارے منصوبے خاک میں ملا دیئے.ہمیں دعاؤں کا زیادہ سے زیادہ موقعہ ملا.ادھر اللہ تعالیٰ نے ہر رنگ میں حفاظت فرمائی.اور آپ کو باوجود اندرونی کینوں اور مخالفتوں کے در بار رسول صلعم میں نہایت ہی عزت و احترام کے ساتھ داخل فرمایا.اور یہ کام انہیں کے ذریعہ جو اس قسم کی ریشہ دوانیوں میں لگے رہتے تھے سرانجام پایا.ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کے شکر کے طور پر آپ کی وفات کے روز اور اگلے روز کافی رقم و پار چات صدقہ کے طور پر تقسیم کئے.شر سورہ شریف جہاں وہ مقدس کنواں مسجد نبوی کا ہے جس سے غسل کا انتظام کیا جاتا ہے.
250 آپ کو غسل دیا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مبارک کے سامنے مسجد نبوی کے اندر جالی مبارک سے ذرا فاصلہ پر مصلی امام پر بعد عشاء جنازہ ہوا.مسجد نبوی میں نعش باب الرحمتہ سے داخل ہوئی اور بعد جنازہ باب جبرئیل سے جنت البقیع کو لے جائی گئی.چونکہ میں تنہا تھا اس لئے نماز جنازہ ایک اور شخص حیدر آبادی نے پڑھائی.نماز جنازہ میں مؤذن صاحب مسجد نبوی اور مسجد نبوی کے حفاظت کرنے والے خواجہ سراء اور خدام لوگ تھے جن کی تعداد ۲۵٬۲۰ کے قریب تھی.مجھے اکیلے کو دعا کے رنگ میں جنت البقیع میں قبر پر جنازہ کی ادا ئیگی کا موقعہ ملا.مقام تدفین جنت البقيع : اہلبیت اطہار کے پیچھے اور حضرت عثمان کے مزار کے پچھلے حصہ میں اس طرح گویا دونوں کے درمیان والی جگہ جنت البقیع میں تدفین عمل میں لائی گئی.قبر پہلے ہی سے تیار رہتی ہے کچھ اصلاح کرنی ہوتی ہے.زمین جنت البقیع کی بہت نرم ہے.چونکہ نعش کو تیزی کے ساتھ قبرستان میں لے جانے اور نہلانے اور تدفین کا کام کرنے کی عادت مدینہ کے ساکنین کو ہے اس لئے مغرب کے وقت انتقال کے معا بعد تین گھنٹہ کے اندر سب کچھ مکمل ہو گیا.بعد میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غائبانہ جنازہ قادیان میں پڑھایا.“ آپ کی وفات کے متعلق الفضل میں ذیل کے نوٹ شائع ہوئے : ” جناب سیٹھ شیخ حسن صاحب یاد گیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اور جماعت حیدر آباد کے اولین احمدیوں میں سے تھے.آپ جماعت حیدر آباد کے اخلاص و قربانی کا ایک نہایت عمدہ نمونہ تھے.بہت ہی متوکل اور خوبیوں والے بزرگ جماعت حیدر آباد کے لئے مرحوم کی وفات ایک نقصان عظیم ہے.* وو تھے..* الفضل جلد ۳۳ نمبر ۲ ۳۰ بابت ۲۶ دسمبر ۱۹۴۵ء.یہ نوٹ سیٹھ محمد غوث صاحب کے صاحبزادہ اخویم سیٹھ معین الدین صاحب قائد خدام الاحمدیہ حیدر آباد دکن کی طرف سے شائع ہوا ہے.اس میں سیٹھ صاحب کے (باقی اگلے صفحہ پر )
251 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں : حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب احمدی یاد گیر جو اسی سال حج کے لئے تشریف لے گئے تھے ۱۲ محرم ۱۳۲۵ ہجری بروز پیر مدینہ منورہ میں فوت ہوئے.جنت البقیع میں حضرت عثمان کی قبر کے قریب دفن ہوئے.منی کے میدان میں • ارذی الحجہ کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت و درازی عمر کے لئے ایک دنبہ صدقہ دیا اور مقام ابراہیم ، مقام رکن حجر اسود ملتزم، حطیم، غار حرا مسجد غره عرفات مسجد مزولفہ مقام شق صدر مسجد خیف.جبل عرفات مساجد سیدنا ابوبکر و عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین، مسجد جن اور مدینہ منورہ میں مساجد خمسہ مسجد فتح، مسجد سلمان فارسی، مسجد قبلتین، مسجد عمر ، مسجد ابوبکر ، مزارسید الشہداء حضرت حمزہ.مقام شہادت دندان مبارک - مسجد قبا.مسجد نبوی.روضہ مبارک صلے اللہ علیہ وسلم.جنت البقیع.مسجد غمامہ اور دیگر مقامات مقدسہ و شعائر اللہ میں ہم نے حضور کی درازی عمر وفتوحات اسلامی کے حضور کی زندگی میں ہونے اور جماعت کی ترقی اور مبلغین کے لئے دعائیں کیں اور نوافل پڑھے“.وفات کے متعلق رویا: آپ نے وفات سے ۱/۲ اسال قبل خواب سنایا جو کہ پورا ہو.فرماتے تھے کہ خواب میں ایک فرشتہ آیا او مجھ سے کہا کہ آپ کو خدا نے بلایا ہے.آپ تیار ہیں یا مہلت چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ میں تیار بیٹھا ہوں.اس پر فرشتہ نے مجھے ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ تمہاری قبر کی جگہ ہے کیا تم کو پسند ہے؟ میں نے کہا کہ میرے خدا کو جو پسند ہو وہی مجھے پسند ہے.اور فرمایا کہ خواب میں اس جگہ کی مٹی عجیب رنگ کی دیکھی.وہ مٹی یہاں دیکھنے میں نہیں آئی.اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں کی ہوگی.اور بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت کی نعماء دکھائی اور چکھائی ہیں.ان کی حقیقت میں بتا نہیں سکتا.ایسے نظارے اور ایسے مزے میں نے نہ دنیا میں کبھی دیکھے نہ چکھے.نیز بیان کیا کہ رویا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین چار منورحسین چہروں والوں کی معیت میں دیکھا.حضور کے دریافت کرنے پر عرض کیا کہ میں انہیں نہیں جانتا تو حضور نے فرمایا آپ ان سے ملئے یہ ابراہیم.موسیٰ عیسی (علیہم السلام) ہیں اور رخصت ہونے لگا تو فرمایا دو باتیں یا درکھیں ایک تو یہ کہ جو کام آپ کرتے بقیه حاشیه : جدہ میں بیمار ہونے اور وہاں سے علاج کے لئے مدینہ منورہ لے جانے کا ذکر ہے.جو سیٹھ صاحب کے ہمسفر کے مذکورہ بالا بیان کی رُو سے سہو ہے.(مؤلف)
252 ہیں وہ جاری رکھیں (یعنی اشاعت دین کا کام) دوسرے یہ کہ آپ کا حشر ہمارے ساتھ ہوگا.سیٹھ صاحب نے ان ایام میں وصیت تحریر کرائی اور ایسا انتظام کیا کہ بعد میں ورثاء میں کسی قسم کا اختلاف ترکہ کے متعلق پیدا نہ ہو اور نہ کسی کا حق تلف ہو.اور جماعت یاد گیر کو عملی اصلاح کی طرف توجہ دلائی تا کہ جماعت ترقی کرے اور فرمایا کہ یاد گیر میں احمدیت کے ترقی کر جانے کی اللہ تعالیٰ نے مجھے کئی بار اطلاع دی ہے حتی کہ سوائے چند ایک ضدی لوگوں کے کوئی بھی احمدیت سے باہر نہ رہے گا.جسمانی طور پر آپ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرب میں دفن ہوئے اور موصی ہونے کی وجہ سے کتبہ لگایا گیا اس لئے آپ حضور کے بروز اور یدفن معی فی قبری کے مصداق علیہ الصلوۃ والسلام کے قرب میں مدفون شمار ہوتے ہیں.صحابہ حضرت احمد میں سے صرف اور صرف آپ ہی کو یہ دونوں سعادتیں نصیب ہوئی ہیں.وذالک فضل الله يؤتيه من يشاء.آپ کا شجرہ ساتھ کے صفحہ پر درج کیا گیا ہے
253 عبدالمجید گلبرگی عبدالنبی گلبرگی عبدالمجيد عبد اللطيف محمد اعظم (ان کا شجرہ علیحدہ درج ہے ) حسن بی ( لا ولد ) خدیجه بی بی (لا ولد ) مخدوم صاحب قاسم بی داول بی سیٹھ شیخ حسن احمدی امام بی احمدی مرحومه محمد خواجہ احمدی مرحوم قادراں بی پیر ساں بی والدہ چندن مان ( اولاد.فاطمہ بی.مریم بی.پیرساں بی.محمد اسماعیل) محمد الیاس.زہرہ بی مرحومه ن و جه عبد الکریم مرحوم نشان باؤلے کتے والے ( اولاد کیلئے دیکھئے حالات عبد الکریم صاحب) احمدی بی ( زوجہ محمد اسماعیل فوری) اولاد: احمد غوری ابراہیم غوری، افضل النساء عبد السلام محمودہ بیگم نعمت الله رحمت الله رشیدہ بیگم رفعت الا امتہ الحی (زوجہ مولوی محمد اسماعیل فاضل وکیل ) اولاد :.ہاجرہ بیگم محمدابراہیم محمد اور میں عائشہ صدیقہ ذکریا الیاس مبارکہ بیگم بیچی عبدالحی.اولاد: امته العزيز عبد السلام امته النصير امته البشير امته السليم عبداللطيف نثار احمد عبد الصمد عبدالبصیر.امتہ الحفيظ (زوجہ محمد اسمعیل چنته کیر ) اولاد: رضیہ بشری بی امتہ منیر (زوجہ رشید احمد چنت کنه ) زینب بی عبد اللطیف صغری بی (زوجہ اکبر حسین) رقیه بی مرحومه کبری بی مرحومه غلام احمد ( اولا د ایک لڑکا ایک لڑکی ) حمید احمد پروفیسر محمود احمد خلیل احمد قاسم بی مرحومه ایم.ایس سی (زوجہ خواجہ حسین) (زوجہ محمد حسین) (مالک احمدیہ کیپ مارٹ ( تا جر ٹوپی حیدر آباد) (مالک ٹی سنڈیکیٹ (زوجہ بشیر احمد ) حیدر آباد) اولا د دوار کے دولڑکیاں) حیدرآباد) (اولا دشمن ہے) مسعود طاہر مبار که بیگم (زوجہ محمد اسماعیل مقدم ) امته المنير انجاز امتیاز حسین حمیدہ بیگم بلقیس بیگم حسين منیر احمد سراج احمد مبشر احمد انیس احمد انیسہ ناصره رفیق احمد ذاکرہ
والدہ پیر محمد خندد وکیل مرحومه سلیمہ بیگم سیده میگم مرحومه (زوجہ میر احمد علی) محمد اعظم سیٹھ محمد غوث مرحوم معین الدین محمد اعظم ( زوجه محبوب علی) سیکرٹری مال حیدر آباد ( داماد مولوی ذوالفقار علی خاں ) داماد حکیم محمد حسین قریشی لاہور ) ( سابق ناظر اعلیٰ قادیان) | حسن بی مرحومه غلام محمود امته الحفیظ بیگم (زوه خلیل احمد ناصر مجاہد امریکہ ) امتہ الحی بیگم (زوجہ ڈاکٹر محمد یونس ) ناصره خلت محی الدین محمد ادریس محمد سلیمان امته الباسط امته النصير محمد اکرم عطیہ بیگم امته الحلیم صبیحہ بیگم امینہ بیگم امینہ بیگم انیسہ بیگم محمد انور (زوجہ سید شریف احمد منصوری) سید نصیر احمد منصورہ بیگم ضیاءالدین مرحوم امته الرشيد مبارکہ بیگم بشیرہ بیگم منور احمد منیر احمد زبیدہ بیگم رضیہ بیگم زوجہ لطیف احمد طاہر ) (زوجہ عزیز حسین) برادر برادر خلیل احمد ناصر عبد المالک ات العزیز بیگم و جه میل اما بر برادر علی احمد ناصر) میر افتخار احمد امته الباسط میرذوالفقار احمد ناصرہ بیگم محمودہ بیگم میر مبارک احمد 254
255.ے._^ حوالہ جات بیان مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مندرجہ الفضل جلد ۳۵ نمبر ۸۵ بابت ۱۰ اپریل ۱۹۴۷ء - صفحه ۵ الحکم جلد نمبر ۴۵ ( صفحه ۶ کالم ۳) بابت ۷ دسمبر ۱۹۰۰ء.الفضل جلد ۳۵ نمبر ۸۶ بابت ۱۱ اپریل ۱۹۴۷ء الفضل جلد ۳۵ نمبر ۸۵ بابت ۱۰ اپریل ۱۹۴۷ء الفضل جلد ۲۹ نمبر ۲۵۱ بابت ۵/ نومبر ۱۹۳۱ء بحواله الفضل جلد ۳۵ نمبر ۱۶۱.سیٹھ محمد غوث صاحب رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات کے لئے احباب الفضل جلد ۳۵ نمبر ۸۵ و ۸۶ و ۸۹ و ۱۵۸ و ۱۶۱ بابت ۱۹۴۷ء ( مضامین از قلم مکرم عرفانی صاحب) کی طرف رجوع فرمائیے.الفضل جلد ۳۲ نمبر ۱۶۱ ابابت ۱۲/ جولائی ۱۹۴۴ء صفحہ ۷ لائبریری کے افتتاح کا ذکر الفضل جلد۳۱ نمبر ۲۰۲ بابت ۱۲۸ اگست ۱۹۴۳ء میں مندرج ہے.سفر نامه ناصر مطبوع ۱۹۱۹ء.ڈائری بابت سفر ڈلہوزی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ مندرجہ الفضل جلد ۶ نمبر ۳ بابت ۱۰ جولائی ۱۹۲۸ء صفحه ۵
257 عبد الکریم صاحب حیدر آبادی رضی اللہ عنہ * خاندانی حالات اور ولادت: یاد گیر (ریاست حیدر آباد دکن) میں جس کی موجودہ آبادی چپیس ۲۵ ہزار ہے.خاندانوں میں امتیاز و تعارف کے لئے مختلف نام رائج ہیں.ایک خاندان شخنہ کے نام سے معروف ہے.اس میں ۱۸۹ء کے قریب محلہ آثار شریف میں عبدالرحمن صاحب کے ہاں عبدالکریم صاحب پیدا ہوئے.آپ کے دادا تاجر تھے.اونٹوں اور گھوڑوں پر مختلف مقامات پر مال لے جاتے تھے.کافی آسودہ حال تھے.آپ کے والد کپڑے کی تجارت کرتے تھے.لیکن احمدیت کی اطلاع پانے سے قبل فوت ہو گئے تھے.ان کی دو بیویوں میں سے زریم بی صاحبہ لا ولد ر ہیں اور پیر ساں بی صاحبہ زوجہ سیٹھ شیخ حسن صاحب کی ہمشیرہ امام بی صاحبہ صاحب اولاد ہوئیں.جیسا کہ گذشتہ اوراق میں ذکر ہو چکا ہے.سیٹھ شیخ حسن صاحب رضی اللہ عنہ نے نصف لاکھ روپیہ کے ذاتی صرفہ سے بہت سے طالب علموں کو قادیان میں تعلیم دلانے کیلئے بھجوایا چنانچہ سب سے اول عبد الکریم صاحب کو بھجوایا اور اس دور افتادہ علاقہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب نشان ظاہر فرمایا.عبدالکریم صاحب ۱۹۰۶ء میں قادیان آئے تھے.چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رسالہ تعلیم الاسلام جلد نمبر ۶ صفحه ۲۲۸ بابت دسمبر ۱۹۰۶ء میں فرماتے ہیں کہ تعلیم کیلئے ایک حیدری آبادی طالب علم آیا ہوا ہے، وہ طالب علم یہی عبدالکریم تھے.سگ گزیدگی اور آثار جنون کا ظہور : خواجہ عبد الرحمن صاحب نے اس سلسلے میں تحریر فرمایا جوخلاصتاً درج کیا جاتا ہے: ایک روز جبکہ ہم طبا تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اس وقت کے بورڈنگ کے صحن میں کھیل رہے تھے کہ اچا نک بورڈنگ کے غربی پھاٹک سے جو کہ میاں شیر محمد صاحب دکاندار کی دکان کے پاس ہے.ایک باؤلا کتا صحن میں ٹھس آیا.پھاٹک سے ایک جریب بجانب شرق خاکسار راقم کھڑا تھا جب میں نے کتے کو دیکھا تو چاہا کہ آگے بڑھ کر اُسے ماروں لیکن کسی وجہ سے میں رُک گیا.اس سے آگے نصف جریب کے فاصلہ پر میرے کلاس فیلو اخویم مکرم ڈاکٹر گو ہر الدین صاحب کھڑے تھے.انہوں نے پیچھے ہٹ کر اپنے آپ کو بچالیا.کتا سیدھا آگے بڑھتا گیا یہاں تک کہ اس جگہ جا پہنچا جہاں اب مدرسہ احمدیہ و بورڈ نگ کا کنواں ہے.وہاں بہت سے لڑکے کھیل * ماخذ کے ذکر کے بغیر جو حالات درج ہیں وہ آپ کے ہم زلف اخویم مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل وکیل یاد گیر سے حاصل ہوئے ہیں.(مؤلف)
258 رہے تھے.ان میں سے کتے نے عبدالکریم صاحب مرحوم پر حملہ کر کے زخمی کر دیا.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فداہ امی وابی کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو حضور نے منتظمین کے ذریعہ علاج کے لئے عبدالکریم صاحب کو سولی بھجوا دیا.ان کو سگ دیوانہ سے معمولی خراش آئی تھی.اس لئے جب دوسروں کو علاج کے لئے کسولی روانہ کیا گیا تو ان کے متعلق افسران متعلقہ میں اختلاف ہوا.بعض کہتے تھے کہ کتے نے کاٹا نہیں نامعلوم خراش آئی ہے اس لئے بھیجنے کی ضرورت نہیں.لیکن انہیں احتیاطاً بھیج دیا گیا.علاج ہو جانے کے بعد عبدالکریم صاحب کامل صحت یاب ہونے پر قادیان واپس آگئے اور ہمارے ساتھ بورڈنگ میں مثل سابق رہنے لگے.مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان فرماتے ہیں کہ ایک روز ظہر یا عصر کے لئے میں، عبدالکریم صاحب اور دیگر بورڈران واٹر ہاؤس میں وضو کر رہے تھے تو عبدالکریم اچانک پانی سے ڈر کر چونک پڑے اور کہنے لگے کہ مجھے پانی سے ڈر لگتا ہے.اس کی اطلاع سپرنٹنڈنٹ صاحب بورڈنگ کی وساطت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پہنچائی گئی تو حضور نے ہیڈ ماسٹر حضرت مولوی شیر علی صاحب کو فرمایا کہ وہ تار دے کر کسولی کے ڈاکٹروں سے دریافت کریں اور عبدالکریم صاحب کو دوسروں سے علیحدہ رکھنے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ انہیں سید محمد علی شاہ صاحب مرحوم کے چوبارہ پر خاکسار کے ماموں برکت علی صاحب ( برادر حافظ حامد علی صاحب رضی اللہ عنہ) کی زیر نگرانی رکھا گیا.وہ ان دنوں بورڈنگ میں بطور خادم کام کرتے تھے.ہم مرض کی وحشت اور خوف کی وجہ سے عبدالکریم کو دور سے ہی دیکھتے تھے اور قریب نہیں جاتے تھے.کسولی سے مایوس کن جواب آیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کوئی دوا تجویز فرمائی جس سے انہیں کثرت سے پاخانے آئے جس سے وہ نڈھال ہو کر بے ہوشی کی سی حالت میں رہتے تھے.دو تین روز بعد جب جسم میں کچھ توانائی آئی تو معلوم ہوا کہ ان کی مرض کافور ہو چکی ہے.و خواجہ عبدالرحمن صاحب فرماتے ہیں: مکرم معظم ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی.اے ( سابق سردار مہر سنگھ ) نے ہمیں عبدالکریم کے پاس جانے سے منع فرمایا.مبادا کہ کسی کو ان سے نقصان پہنچے.جب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں اس بات کی اطلاع کی گئی تو سب سے پہلے حضور نے معالجین کو حکم دیا کہ کوئی مہلک دوائی نہ دی جائے.کیونکہ جب ہلکاؤ کی بیماری ہو جاتی ہے تو چونکہ یہ مرض لا علاج ہے لوگوں کو نیز مریض کو تکلیف اور دُکھ سے بچانے کے لئے ڈاکٹر ایسا کرتے ہیں.پھر عبدالکریم صاحب کو علیحدہ رکھنے کے لئے تجویز کی گئی.مکرم
259 سید محمد علی شاہ صاحب مرحوم ساکن قادیان کے مکان کے بالائی حصہ میں جہاں پہلے الحکم کا دفتر ہوتا تھا عبدالکریم صاحب مغفور کی رہائش کے لئے تجویز ہو ا.اور ان کو وہاں منتقل کر دیا گیا.اخویم مکرم سید ولی اللہ شاہ صاحب ( حال ناظر دعوت و تبلیغ ) اور خاکسار کو کہ ہم دونوں نے برضاء خود خدمات پیش کی تھیں.پہرہ پر لگایا گیا.” جب ان کو باؤلے کتے نے کاٹا ان کی عمر ۱۷.۱۸ سال کی ہوگی.جب مرحوم کو ہلکا وہو ا تو ذراسی آہٹ سے چونک پڑتے.سانس مشکل سے آتا تھا.اور پانی سے ڈرتے تھے اور ذرا سے شور سے سخت مضطرب ہو جاتے تھے.* محترم بھائی محمود احمد صاحب موصوف ( سابق ما لک احمد یہ میڈیکل ہال قادیان ) سرگودھا سے تحریر کرتے ہیں کہ عبدالکریم (صاحب) کا بوقت دور و دیوانگی میں بھی تیماردار ہا ہوں.“ حضرت مسیح موعود کی شفقت : اس دور افتادہ علاقہ کے طالب علم کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفتہ اسی الاول) بلکہ تمام احمدیوں کے قلوب میں جو اضطراب اور درد کی کیفیت پیدا ہوئی وہ كل مومن اخوة کا ایک ایمان افز انظارہ تھا.اور یہ حقیقت ہے کہ ایسے نظارے سوائے مومنوں کی اس جماعت کے آپ کو اس زمانہ میں اور کہیں نہیں ملیں گے.موقر اخبار الحکم رقمطراز ہے: ۲ فروری.آج نماز ظہر کے بعد مدرسہ تعلیم الاسلام کے ایک طالب علم کے متعلق جس کو کچھ عرصہ سے سگ دیوانہ یعنی ہلکے کتے نے کاٹا تھا معلوم ہو ا کہ اُس میں اس بیماری کے آثار ظاہر ہو گئے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو خبر کی گئی تو آپ بڑے اضطراب سے دعا و دوا کرنے لگے اور بار بار اس کی خبر گیری فرماتے تھے.* نماز عصر کے بعد حضرت حکیم الامتہ جبکہ بڑی مسجد میں قرآن کریم کا درس فرما رہے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کو دوائی اُس طالب علم کے لئے بھیجی کہ یہ دوائی اُس کو کھلاؤ.حضرت حکیم الامتہ نے حاضرین کو فرمایا کہ دیکھو خدا کے مامور میں کس قدر خلقت اللہ پر شفقت ہے.الغرض ہر ایک احمدی فرد میں اُس طالب علم کے لئے ایک درد تھا خواجہ صاحب کے تمام اقتباسات آپ کے مضمون بعنوان ” عبدالکریم صاحب مرحوم آف یاد گیر کا ذکر مندرجہ الفضل جلد ۲۱ نمبر ۰۳ ابابت ۲۷ فروری ۱۹۳۴ء سے ماخوذ ہیں.خواجہ صاحب ان دنوں بمقام کرناہ ( کشمیر ) میں رینج آفیسر تھے تقسیم کے بعد کشمیر کے پراونشل امیر رہے.افسوس کہ بتاریخ ۸ دسمبر ۱۹۵۰ء کو وفات پاچکے ہیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.(مؤلف)
260 اور دعا کرتے تھے.حضرت حکیم الامۃ کے اُس طالب علم کے متعلق یہ لفظ ہیں اُس بچے کے لئے مجھے سخت اضطراب ہے.مجھے ایسا دل میں اس کے لئے درد ہے کہ میں تم کو سبق نہیں پڑھا سکتا.حضرت اقدس نے فوراً مجھے اندر سے کہلا بھیجا ہے کہ یہ دوا اس کو پلاؤ.پھر اب اور دوائی اس کے لئے بھیجی ہے.دیکھو آپ کس قدر مخلوق اللہ پر شفقت رکھتے ہیں.اختتام درس کے بعد مولوی صاحب نے اس کے لئے فرمایا کہ سب اس کی صحت کے لئے دعا کرو.حاضرین نے دردِ دل سے دعا کی.خورد بزرگ کی دعا بھی ایسی تھی جیسا کہ ایک انسان کے کسی عضو کو زخم ہو تو سارے جسم میں بے قراری و بے آرامی ہو جاتی ہے.ایسا ہی ایک طالب علم کی وجہ سے سب میں ایک درد پیدا ہو گیا.گویا ایسا معلوم ہوا کہ سب میں ایک روح اور جدا جدا جسم ہیں.پھر دارالامان کا ہفتہ کے زیر عنوان مرقوم ہے کہ مدرسہ تعلیم الاسلام کے حیدرآبادی طالب علم جو بعارضہ Hydro Phobia بیمار ہو گیا تھا کی حالت اب اچھی ہے.۲ نشان الہی کے متعلق حضور کا بیان : عبدالکریم صاحب کی بیماری اور اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا سے شفاء یابی ایک عظیم الشان نشانِ الہی تھا اور احیاء موتی کا رنگ رکھتا تھا چنانچہ حضور تحریر فرماتے ہیں:.(۵) پانچواں نشان جو ان دنوں میں ظاہر ہوا وہ ایک دعا کا قبول ہونا ہے.جو درحقیقت احیائے موتی میں داخل ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ عبدالکریم نام ولد عبدالرحمن ساکن حیدر آباد دکن ہمارے مدرسہ میں ایک لڑکا طالب العلم ہے.قضاء قدر سے اس کو سگِ دیوانہ کاٹ گیا.ہم نے اس کو معالجہ کے لئے کسولی بھیج دیا.چند روز تک اس کا کسولی میں علاج ہوتا رہا.پھر وہ قادیان میں واپس آیا.تھوڑے دن گذرنے کے بعد اس میں وہ آثار دیوانگی کے ظاہر ہوئے جو دیوانہ کتے کے کاٹنے کے بعد ظاہر ہوا کرتے ہیں اور پانی سے ڈرنے لگا.اور خوفناک حالت پیدا ہو گئی.تب اس غریب الوطن عاجز کے لئے میرا دل سخت بے قرار ہوا اور دعا کے لئے ایک خاص توجہ پیدا ہوگئی.ہر ایک شخص سمجھتا تھا کہ وہ غریب چند گھنٹہ کے بعد مر جائے گا نا چار اس کو بورڈنگ سے باہر نکال کر ایک الگ مکان میں دوسروں سے علیحدہ ہر ایک احتیاط سے رکھا گیا اور کسولی کے انگریز ڈاکٹروں کی طرف تار بھیج دی اور پوچھا گیا کہ اس حالت میں اس کا کوئی علاج بھی ہے.اس طرف سے
261 بذریعہ تار جواب آیا کہ اب اس کا کوئی علاج نہیں.مگر اس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پیدا ہوگئی اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دعا کرنے کے لئے بہت ہی اصرار کیا.کیونکہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابل رحم تھا.اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مر گیا تو ایک برے رنگ میں اس کی موت شماتت اعدا کا موجب ہوگی.تب میرا دل اس کے لئے سخت درد اور بے قراری میں مبتلا ہو ا.اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی جو اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتی ہے اور اگر پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے اذن سے وہ اثر دکھاتی ہے کہ قریب ہے کہ اس سے مردہ زندہ ہو جائے.غرض اس کے لئے اقبال علے اللہ کی حالت میسر آ گئی.اور جب وہ توجہ انتہا تک پہنچ گئی اور درد نے اپنا پورا تسلط میرے دل پر کرلیا تب اس بیمار پر جو در حقیقت مردہ تھا اُس توجہ کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے اور یا تو وہ پانی سے ڈرتا اور روشنی سے بھاگتا تھا اور یا یکدفعہ طبیعت نے صحت کی طرف رخ کیا اور اس نے کہا کہ اب مجھے پانی سے ڈر نہیں آتا.تب اس کو پانی دیا گیا تو اس نے بغیر کسی خوف کے پی لیا بلکہ پانی سے وضو کر کے نماز بھی پڑھ لی اور تمام رات سوتا رہا اور خوفناک اور وحشیانہ حالت جاتی رہی یہاں تک کہ چند روز تک بکلی صحت یاب ہو گیا.میرے دل میں فی الفور ڈالا گیا کہ یہ دیوانگی کی حالت جو اس میں پیدا ہو گئی تھی یہ اس لئے نہیں تھی کہ وہ دیوانگی اس کو ہلاک کرے بلکہ اس لئے تھی کہ تا خدا کا نشان ظاہر ہو.اور تجربہ کار لوگ کہتے ہیں کہ کبھی دنیا میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ ایسی حالت میں کہ جب کسی کو دیوانہ کتے نے کاٹا ہو اور دیوانگی کے آثار ظاہر ہو گئے ہوں پھر کوئی شخص اس حالت سے جانبر ہو سکے اور اس سے زیادہ اس بات کا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ جو ماہر اس فن کے کسولی میں گورنمنٹ کی طرف سے سگ گزیدہ کے علاج کے لئے ڈاکٹر مقرر ہیں انہوں نے ہمارے تار کے جواب میں صاف لکھ دیا ہے کہ اب کوئی علاج نہیں ہوسکتا.اس جگہ اس قدر لکھنا رہ گیا کہ جب میں نے اس لڑکے کے لئے دعا کی تو خدا نے میرے دل میں القا کیا کہ فلاں دوا دینی چاہئے.چنانچہ میں نے چند دفعہ وہ دوا بیمار کو دی.آخر بیمارا چھا ہو گیا یا یوں کہو کہ مردہ زندہ ہو گیا اور جو کسولی کے ڈاکٹروں کی طرف سے ہماری تار کا جواب آیا تھا ہم ذیل میں وہ جواب جو انگریزی میں ہے معہ ترجمہ کے لکھ دیتے ہیں اور وہ یہ ہے :
FROM STATION KASAULI FROM PERSON PASTEUR 262 TO STATION BATALA TO PERSON SHER ALI KADIAN SORRY NOTHING CAN BE DONE FOR ABDUL KARIM (انگریزی الفاظ اردو میں ) ٹوٹیشن بٹالہ فرام ٹیشن کسولی ٹو پر سن شیر علی قادیان فرام پرسن پیسٹور ساری نہ تھنگ کین بی ڈن فارعبدالکریم ترجمه مقام بٹالہ از مقام کسولی از جناب پیسٹور بنام شیر علی قادیان افسوس ہے کہ عبد الکریم کے واسطے کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا.اور دفتر علاج سگ گزیدگان سے ایک مسلمان نے متعجب ہو کر کسولی سے ایک کارڈ بھیجا ہے جس میں لکھا ہے کہ "سخت افسوس تھا کہ عبدالکریم جس کو دیوانہ کتے نے کاٹا تھا اس کے اثر میں مبتلا ہو گیا.مگر اس بات کے سننے سے بڑی خوشی ہوئی کہ وہ دعا کے ذریعہ سے صحت یاب ہو گیا.ایسا موقعہ جانبر ہونے کا کبھی نہیں سنا.یہ خدا کا فضل اور بزرگوں کی دعا کا اثر ہے.الحمد للہ.راقم عاجز عبداللہ از کسوئی سے ایک اور نشان الہی کے گواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں: ( ۷ ) ساتواں نشان - ۲۸ فروری ۱۹۰۷ء کو صبح کو یہ الہام ہوا.سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی.خوش آمدی نیک آمدی.چنانچہ یہ پیشگوئی صبح کو ہی قبل از وقوع تمام جماعت کو سنائی گئی اور جب یہ پیشگوئی سنائی گئی بارش کا نام ونشان نہ تھا.اور آسمان پر ایک ناخن کے برابر بھی بادل نہ تھا اور آفتاب اپنی تیزی دکھلا رہا تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ آج بارش بھی ہوگی اور پھر بارش کے بعد زلزلہ کی خبر دی گئی تھی.پھر ظہر کی نماز کے بعد یکدفعہ بادل آیا اور بارش ہوئی اور رات کو بھی کچھ برسا اور اُس کی رات کو جس کی صبح میں ۳/ مارچ ۱۹۰۷ء کی تاریخ تھی زلزلہ آیا جس کی خبر میں عام طور پر مجھے پہنچ گئیں.پس اس پیشگوئی کے دونوں پہلو
263 تین دن میں پورے ہو گئے.‘م * حضور نے قبل از وقت پیشگوئی سننے والے واحد کے قریب احباب کے اسماء درج فرمائے ہیں.اس زمرہ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب (خلیفہ اسیح الاول) حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب.حضرت مولوی شیر علی صاحب.حضرت مولوی سرور شاہ صاحب اور حضرت قاضی امیر حسین صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہم اجمعین کے اسماء بھی ہیں.قبل از وقوع اس الہام کے سننے کی شہادت کے طور پر احباب سے دستخط لئے گئے تھے.چنانچہ اُن میں عبدالکریم کا نام بھی شامل ہے.کیا ہی مبارک ہیں وہ اصحاب الصفہ جو حضرت بروز محمد اور مصداق یدفن معی فی قبری اللهم صل علیہما و بارک وسلم کی زبان مبارک ہاں تیرہ صدیوں کے بعد نازل ہونے والے موعود اور موعود بھی موعود اقوام عالم کے منہ سے صبح و شام تازہ بتازہ کلام الہی سنتے تھے جو ان کے سامنے پورا ہوکر ان کے از دیا دایمان کا باعث بنتا تھا.یہ پیارا مسیح دوسرے جہان کو سد ہار چکا اب اُس کے فیض یافتہ حواری.اس کے شیدائی اور اس کے پروانے جلد جلد ہمیں داغ مفارقت دے رہے ہیں.قدیم ترین صحابہ میں سے تو صرف چند ایک ہیں اور وہ بھی چراغ سحری.اے صاحب قدرت اللہ ! تو صحابہ کے مبارک دور کو لمبا کر دے اور ہمیں اُن کے فیوض سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرما.آمین.اب ہمارے لئے یہ امر باعث تسکین ہے * یہ نشان ایک ہی عبارت میں بدر جلد 4 نمبر ۱۰ (صفحہ ۱) بابت ۷ مارچ ۱۹۰۷ ء - الحکم جلدا انمبر ۸ ( صفحه ۱) بابت ۱۰/ مارچ ۹۷اء اور حقیقتہ الوحی (صفحہ ۶ ۵ تا ۵۸ ) میں درج ہے.اخبارات مذکورہ میں بوجہ عدم گنجائش گواہوں کے اسماء کا ایک حصہ درج نہیں ہوا.چونکہ حقیقتہ الوحی میں چالیس کے قریب طالبعلموں کے نام ایک ہی جگہ درج ہیں اور یہ الہام ۲۸ / فروری ۱۹۰۷ء کو ہوا اور ۳/ مارچ ۱۹۰۷ء کی رات کو پورا ہوا.جس کے پورا ہونے پر الہام قبل از وقوع سنے والوں کے دستخط لئے گئے.اور اس ماہ فروری میں سگِ دیوانہ والا نشان ظاہر ہو ا تھا.اس لئے مجھے خیال آیا کہ گواہوں میں عبدالکریم سے شاید یہی عبدالکریم مُراد ہوں.ان کے نام سے ملحق قبل ممتاز علی نام درج ہے.چنانچہ مکرم حاجی ممتاز علی صاحب در ولیش پسر مکرم مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب سابق نا ظر اعلی صدر انجمن احمد یہ قادیان وسابق ناظم تحریک جدید قادیان کو فہرست دکھائی.انہوں نے بتایا کہ عبدالکریم صاحب حیدر آبادی ان کے ہم مکتب تھے.اور اس نشان کے گواہوں میں انہی کا نام درج ہے نہ کہ کسی اور عبدالکریم کا.پھر راقم کے استفسار پر کہ آیا اس سے مُراد عبدالکریم صاحب حیدر آبادی ہیں.نیز کیا اس وقت کوئی اور طالب علم عبدالکریم نامی بھی تھا اور دین محمد“ اور ”عبدالغنی وغیرہ گواہوں سے کون مُراد ہیں.دو گواہوں گو ہر دین“ اور محمود کے بیانات درج کرتا ہوں.مکرم ڈاکٹر گوہر دین صاحب میڈیکل آفیسر بمقام من ضلع اٹک ( سابق ملازم بر ما و برادر مکرم حافظ محمد امین صاحب رضی اللہ عنہ ) اپنے مکتوب مورخہ ۱/۵۱/ ۲۵ میں تحریر فرماتے ہیں:.(بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)
264 کہ ہم خلافت راشدہ سے مستفید ہو رہے ہیں.اور خلافت راشدہ نور نبوت کے انتشار اور زمانہ برکات نبوت کے امتداد کا موجب ہوتی ہے اور اب تو مثیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام یعنی حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کا عہد مبارک ہے کہ جن کی زبان پر اللہ تعالیٰ نے انا امسیح الموعود مثیل، وخلیفتہ کے الفاظ جاری کئے.کاش ہم کما حقہ قدر کریں.اے اللہ تعالیٰ ! تو ہمیں تو فیق عطا فرما.آمین.اہلی زندگی: پہلے آپ کی شادی اپنے خالو سیٹھ شیخ حسن صاحب یادگیری رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی محترمہ زہرہ بی صاحبہ سے ہوئی.موصوفہ حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں مولانا میر محمد سعید صاحب رضی اللہ عنہ اور والدہ کی معیت میں قادیان آئی تھیں اور کچھ مہینے قیام کر کے دینی تعلیم پائی تھی.سیٹھ صاحب نے بقيه حاشيه : عبدالکریم حیدرآبادی کے علاوہ اور بھی عبدالکریم تھے جو مجھ سے اوپر کے درجہ میں تعلیم پاتے تھے اور بورڈنگ میں مکین تھے.یہ صاحب اُس وقت تک سکول چھوڑ چکے تھے اور الہام کے پورا ہونیکے گواہوں میں جو نام درج ہے اُس سے غالباً عبدالکریم حیدر آبادی ہی مراد ہیں.دین محمد سے مراد تائید دین محمد عرف میاں بگا کشمیری مراد تھے.عبدالغنی صاحب میرے ایک ہم جماعت تھے.اُن کا تعلق مولوی فضل الدین وکیل سے بہت تھا.تفصیلی حالات اُن سے معلوم ہوسکیں گے.دوسرے عبدالغنی کے متعلق مجھے علم نہیں.“ مکرم بھائی محمود احمد صاحب مالک و دود میڈیکل ہال سرگودھا سابق مالک احمد یہ میڈیکل ہال دار الفتوح قادیان اپنے مکتوب مورخہ ۲۲/۱/۵۱ میں تحریر فرماتے ہیں: ”حقیقتہ الوحی صفحہ ۶ ۵ تا ۵۸ کے گواہوں میں یقیناً وہی عبد الکریم حیدر آبادی جس کو دیوانہ گنتے نے کاٹا تھا اُسی کا نام ہے.جماعت پنجم میں میرا ہم کلاس تھا.چھٹی جماعت میں رخصتوں پر واپس جا کر پھر نہیں آیا تھا.دین محمد سے مراد مستری دین محمد ہے جو کہ آج کل جہلم میں رہتے ہیں.عبد الغنی طالب علم کلانور کا تھا.یہ دو بھائی تھے.ممکن ہے دوسرے بھائی کا نام غلطی سے عبد الغنی دوبارہ لکھا گیا ہو..یہ وہی یقینا عبدالکریم ہے.عبدالغنی کا ماموں قادیان میں چٹھی رساں بھی تھا.مزید آنکہ ایک اور طالب علم عبدالغنی جموں کا رہنے والا تھا.مگر وہ گواہوں کی فہرست میں نہیں تھا کیونکہ وہ بعد میں آیا تھا.میں نے نام صرف محمود“ لکھا تھا اور خلیفتہ اسیح الثانی کا نام محمود احمد درج ہے".نیز اپنے مکتوب مورخہ ۳/۳/۵۱ میں تحریر ” فرماتے ہیں: عبدالکریم مرحوم چوتھی جماعت میں داخل ہوا.چھٹی جماعت ۱۹۹۸ء کی موسمی تعطیلوں پر گھر واپس جا کر پھر نہیں آیا.جماعت پنجم میں میرا ہم جماعت تھا.بہر حال سگِ ( دیوانہ والی ) دیوانگی کے اچھا ہونے کے بعد قادیان میں تھا.اسی واسطے اس کا نام گواہوں میں درج ہے.(مؤلف)
265 جب یاد گیر میں بچیوں کے لئے ایک مدرسہ قائم کیا تو ابتداء میں محترمہ زہرہ بی صاحبہ ہی تعلیم دیتی تھیں.بعد میں اور بہت سی استانیاں رکھ لی گئیں اور مدرسہ سرکاری طور پر بھی منظور ہو گیا تھا.آپ کی ۱۳۳۵ ہجری میں وفات کے بعد عبدالکریم صاحب نے محترمہ زہرہ بی صاحبہ دختر مکرم عبد الرحمن صاحب غوری سے شادی کی.موصوفہ بقید حیات ہیں.شجرہ درج ذیل ہے.عبد الرحمن عبدالکریم رسول بی اہلیہ مولوی مومن حسین) از بطن زهر ونی بہت سیٹھ شیخ حسن از بطن زہرہ بی بنت عبد الرحمن غوری (وفات ۱۹۲۹ء) محمد احسن (۱) محمد محسن (۲) فیض احمد (۳) نور الدین (۴) فیض النساء (۱) عزیز النساء (۲) (اہلیہ عنایت اللہ ) اہلیہ بشیر احمد ) عبدالکریم میتر بشارت احمد حظمت اللہ فرحت اللہ سمیع اللہ طاہر احمد ذاکر احمد ناصر احمد مبارک احمد انیس احمد کریمه افضل النساء احمد حسین بشیر احمد امته العزيز امتہ الباری کمال حسین اہلیہ موسیٰ خاں) (اہلیہ سیٹھ عبداللطیف) (سیٹھ شیخ حسن کے شجرہ میں تفصیل درج ہے) اکبر حسین عزیز حسین بقیہ زندگی کے حالات: - آپ ۱۹۱۹ء سے ۱۹۲۳ ء تک چار سال بمبئی میں تجارت کرتے رہے.پھر بقیہ ساری عمر یاد گیر میں ہی کاروبار کرتے رہے.آپ صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے.خود داری کا مادہ غالب تھا گوشہ تنہائی کو پسند کرتے تھے.جماعت میں کچھ عرصہ خطیب بھی رہے بزرگان سلسلہ اور اپنی قادیان کی طالب علمی کی زندگی کو بہت یاد کرتے تھے.آپ بتاریخ ۹ رمضان ۱۳۵۸ ہجری بمعمر قریباً پچاس سال فوت ہو کر احمد یہ قبرستان یاد گیر میں دفن ہوئے.آپ کی
266 قبر کے کتبہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشان کا ذکر کیا گیا ہے.خواجہ عبدالرحمن صاحب موصوف آپ کے متعلق فرماتے ہیں: مرحوم مغفور خاکسار راقم کے دوست تھے.بہت منکسر المزاج.سادہ طبع انسان تھے.زمانہ طالب علمی میں وہ اکثر قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہتے.رنگ ان کا کالا تھا....اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه واكرم نزله و أدخله الجنة.آمين اللهم آمين.٥ حضرت نانا جان کی طرف سے ذکر خیر : سیٹھ شیخ حسن صاحب رضی اللہ عنہ کے حالات میں ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ 1919ء میں چندہ کی فراہمی کے لئے دورہ پر دکن تشریف لے گئے تھے.ان حالات کا اپنے منظوم کلام میں ذکر کرتے ہوئے آپ نے عبد الکریم صاحب کا بھی ذکر کیا ہے.فرماتے ہیں: دو دسیٹھ صاحب نے کی میری نصرت اکثروں پر وہ لے گئے سبقت أن اللہ کی عنایت ہو ان شاد مولا کی میرے رحمت ہو رہیں ہر طرح سے وہ با مرادر ہیں ، صفحہ 4 66 ۶ میاں عبدالکریم جب عبد الکریم صاحب کی وفات کی خبر قادیان پہنچی تو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۵ جنوری ۱۹۴۴ء کو خطبہ جمعہ کے بعد فرمایا: ”نماز کے بعد میں چند ایک جنازے پڑھاؤں گا..دوسرا جنازہ عبدالکریم صاحب کا ہے.عام قانون کے ماتحت میں ان ہی کا جنازہ پڑھتا ہوں.جو یا تو جماعت کے خاص رکن ہوں یا پرانے احمدی ہوں اور حضرت مسیح موعود کے وقت میں خدمات کر چکے ہوں.یا جن کا جنازہ پڑھنے والا کوئی احمدی نہ ہو.لیکن ان صاحب کا اس لئے پڑھ رہا ہوں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زندہ معجزہ تھے.یہ وہی صاحب ہیں جن کو باؤلے کتے نے کاٹا اور کسولی سے علاج کرانے کے بعد حملہ ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے شفایاب ہوئے.اب وہ فوت ہو گئے ہیں.‘ے الراقم ۱۲/۳/۵۱ ملک صلاح الدین در ویش ( بیت الفکر ) ۳۰ هش ( دارایح) قادیان
267 ۵..حوالہ جات الحکم جلدا انمبر ۵ صفحه ابابت ۱۰ / فروری ۱۹۰۷ء.الحکم جلدا انمبر ۵ ( صفحه اکالم ) بابت ۱۰ / فروری ۱۹۰۷ء.نیز نمبر ۶ (صفحہ ۱ کالم۲) بابت ۱۷/ فروری ۱۹۰۷ء میں بھی ان کی شفایابی کا عنوان مذکورہ بالا کے ماتحت ذکر ہے.تمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۴۶ تا ۴۸.تمته حقیقة الوحی صفحه ۵۵ - الفضل جلد ۲۱ نمبر ۱۰۳ بابت ۲۷ / فروری ۱۹۳۴ء.سفر نامہ ناصر نمبر۲.باراول مطبع انوار احمد یہ قادیان ۱۹۱۱ء.الفضل ۹/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحه ۲ کالم ۱
269 ضمیمہ اصحاب احمد جلد اوّل حصه نقشه نمبر ۲ و ۲ الف مقامات مقدسہ قادیان پیمانه ۳۲ فٹ = ۱ اینچ شمال کتب خانہ کوٹھڑی 5 مطلب حضرت خلیفہ اول مطبع ضیاء الاسلام مکان حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحب کی اقامت بھی ابتداء میں رہی تھی در ۱۹۰۰ ء تک تھا دالان ولادت حضرت خلیفہ ثانی کوچه زیر مسجد مبارک قدیم احسن گول کمرہ درخت بڑ جو ۱۹۰۰ ء تک تھا تو دیوار خام دیوار مرزا امام الدین و مرز انظام الدین صاحبان زنان خانه مرزا امام الدین و کمال الدین صاحبان دیوار خام کوچ مقام جلسه سالانه ۱۸۹۱ء ۱۸۹۲ء چبو قصبـ تفصيـ ا گول کمرہ -۲- دیوار معروف به مقدمہ دیوار - اس کی وجہ سے مسجد کا راستہ رکنے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گول کمرہ کے مشرقی جناب کا دروازہ ( نشان / الف ) کھول دیا تھا جس میں سے گول کمرہ میں داخل ہو کر احباب دروازہ (نشان -p ب) کے ذریعہ مسجد مبارک میں آتے تھے.خر اس افتاده مملو کہ مرزا امام الدین و نظام الدین صاحبان ۴.پہلے مہمانوں کے طعام کا انتظام دار اسیح کے اندر ہوتا تھا پھر اس جگہ لنگر خانہ قائم ہوا.-0 اس جگہ موسم برسات میں بھی کبھار ڈھاب کے پانی سے حضرت مولوی نورالدین صاحب ( خلیفہ اوّل ) وضو کیا کرتے تھے.چبوترہ فصیل جہاں ابتدائی سالانہ جلسه (۱۸۹۱ء و ۱۸۹۳ء) منعقد ہوئے اور بعد میں وہاں مدرسہ کی عمارت تعمیر ہوئی.35712/3/1951
270 تفصیل بابت حصہ نقشہ نمبر ۲ ( حصہ الدار ) (1) کمرہ ولادت حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہتعالی (ولادت ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء) (۲) ایک کمرہ زیر سقف بیت الفکر نمبرا.(۳) گوچہ جس پر مسجد مبارک تعمیر شدہ ہے.(۴) گول کمرہ.(۵) دیوار جو مرزا امام الدین و مرز انظام الدین صاحبان نے بنائی اور اس سے مسجد مبارک میں آمد و رفت رُک گئی اور عدالت کے حکم سے گرائی گئی.(دیکھئے حقیقته الوحی صفحه ۲۶۶ و صفحه ۲۷۱) (۶) یہاں مرزا امام الدین و مرزا نظام الدین صاحبان کا افتاده خراس ہوتا تھا.جو ۱۹۰۷ ء میں اُن سے خرید کر دفتر تعمیر ہوا اور اوپر 19.مسجد مُبارک کی توسیع اول کی گئی.
یه نقشه نمبر ۲ رجعه على الدار) ا (حصه محی مقامات مقد قادیان پیمانه ۸ فٹ = 1 اینچ 14/3/51 2 13'4"x9'10" 1 19'10"x9'10" کوچه بطرف مسجد اقطه 6 \\ / IVI 11 3 خراس I\ / 5 8' 4 271
272 4'5' بیت الفکر نمبر ۲ مشرق شمال + 4'7" 3 7' 11" 9' 11" 13' 6" 27' 6 3/4" 10'1" 4 1 2 5 8 7' 6.7" 6' 6" K 6 حصہ نقشہ نمبر ۳ (حصہ منزل اول الدار ) مقامات مقد قادیان سم پیمانہ ۸ فٹ =۱ اینچ من 51 10'.10" 612.5 7 چھت گول کمرہ
273 دریچہ نچلے کے لئے دالان سیده حضرت ام المومنین بیت الفکر نمبر ۲ 23'-2 1/2" x 12'-5" بيت الدعاء بيت الدعاء اور حجرہ کے 4'-10" x 6'-5" مقامات قادیان پیمانہ فٹ = ایچ مشرق شمال درمیان کا راستہ حجرہ جس میں حقیقۃ الوحی اور چشمہ معرفت کی تصنیف ہوئی 11'-10" x 14"-4" بیت الفکر نمبرا کوچه بطرف مسجد اقصے 9'-11" x 13'-6"
274 حصہ نقشه نمبر ۳ مقامات مقدسه قادیان پیانه ۸ فٹ = انی مکانات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب شمال مغرب اس حجرہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ عرصہ قیام فرمایا سفید زمین مملوکہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رحمہ اللہ تعالی کمره 11'-2" x 10'-11" راسته 11'-2" x 11'-9" 11'-3" x 18"-2" 9' x 8' 8"-11" x 12'-2" بر آمده W 23'-7" x 9'-7" برار علی 5/12/3/1957 مشرق
کوچه بطرف مسجد اقصٰی مسقف کوچه 15'-10" x 5' 3' x 5' 60'-8" x 4' 275 حصہ نقشہ نمبر ۳ سطحی الدار ) مقامات مقدسہ قادیان شمال جنوب :::::: 60'-8" x 8'-6" 15'-10" x 12'-11" 15'-10" x 22"-10" 15'-10" x 12'-10" کمره مردانه 14' x 12' کمره 4'-7.4" x 7'-10" 9' x 6' 6' x 6' B' x 6' پر آمادہ 16'-6" x 9'-6" 22' x 32' 14' x 18' 9' x 7'-6" دالان محن سٹور 39'-6" x 33'-6" مكلفات قمر الانبياء ڈیوڑھی 16-6 x 7 9-5 x 10'-6" احمد صاحب زنانه مكن کوان 11'-9" x 8' بر آمده 39'-6" x 9' باورچی خانہ 39'-6" x 33'-6" 8'-6" x 10'-6" ڈیوڑھی 11'-6" x 10'-6" 9'-6" x 6' اس نقشہ میں سے صرف اس قدر حصہ حضرت کی موجود کے زمانت میں خیر ہوا تھا 16' x 8'-6" 16' x 22' 16' x 8' 12'-6" x 13'-6" 16'-6" x 10'-6" باور کی خانہ ڈیوڑھی 17' x 6' 14'-6" x 10'-3"
276 تفصیل بابت حصہ نقشہ نمبر ۳ کھلتا بيت الفكر وبيت الذكر - ومن دخله كان منا..جو شخص بیت الذکر میں با خلاص و قصد تعبد وصحت نیت وحسن ایمان داخل ہوگا وہ سوء خاتمہ سے امن میں آجائیگا.اسبارہ میں دیگر الہامات کیلئے احباب براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه۵۹٫۵۵۷ مکتوبات احمد یہ جلد اول ص ۵۵ کی طرف رجوع فرما ئیں.(مؤلف) (۱) بیت الفکر (۲) چوبی زینہ میں جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دارا مسیح سے مسجد مبارک کی چھت پر آتے جاتے تھے.(۳) بیت الذکر (مسجد مبارک) کا جرہ.مغرب اور شمال کی طرف دو در بیچے تھے جو آج تک اصلی حالت میں موجود ہیں (۴) بیت الذکر کا پہلا کمرہ جسے حجرہ کیساتھ ایک کمرہ ملاتا تھا.پہلے اور دوسرے کمرہ کے درمیان درمیانہ سائز کا ایک دروازہ تھا بیت الفکر میں سے ایک دریچہ ( جو آج تک اصلی حالت میں ہے ) بیت الذکر کے پہلے کمرہ میں کھلتا تھا.اس کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مسجد مبارک میں آمد و رفت ہوتی تھی.جنوبی در بچه خراس افتاده مملوکہ مرزا امام الدین و مرزا نظام الدین صاحبان کی طرف کنی تھا.(۵) بیت الذکر کا دوسرا کمرہ.اس میں جنوبی جانب ایک دریچہ تھا جو خر اس مذکور کی طرف کھلتا تھا.(۵) (الف).سیٹرھیاں جو بیت الذکر کے دوسرے کمرہ سے نیچے کو چہ تک جاتی تھیں.آج تک بعینہ اصلی حالت میں ہیں.(۵) (ب).اس دروازہ سے بالعموم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیر وغیرہ کیلئے آمد ورفت ہوتی تھی.یہ دروازہ (۵) (الف) میں مذکورہ سیڑھیوں سے دارا مسیح میں کھلتا تھا.حضور کے عہد مبارک کے بعد یہ دروازہ بند کر دیا گیا تھا.اور اس وقت تک اس کی چوکھٹ دیوار میں نظر آتی ہے.(1) کمرہ سُرخی کی چھینٹوں کے نشان والا.یہ پہلے غسل خانہ تھا.اس کا دروازہ بیت الذکر کے دوسرے کمرہ میں گھلتا تھا.دروازہ آج تک موجود ہے.اس کا چوکھٹ پرانا ہی ہے لیکن کوار تبدیل ہو چکے ہیں.جنوبی جانب در بچہ ہوتا تھاجو تھوڑی تبدیلی کے ساتھ آج تک اسی مقام پر موجود ہے.کمرہ کے شرقی جانب ایک درمیانہ سائز کا دروازہ گول کمرہ کی چھت پر کھلتا ہے.یہ دروازہ پہلے چھوٹا تھا لیکن حضور کے عہد مبارک میں ہی جب اس کمرہ کی چھت اونچی کی گئی تو یہ دروازہ بدل کر بڑالگا دیا گیا.جواب تک موجود ہے.(۷) یہاں پانچ سیڑھیوں والا چوبی زینہ تھا جو سرخی کے چھینٹوں والے نشان کے کمرہ سے گول کمرہ کی چھت پر پہنچنے کے لئے استعمال ہوتا تھا.(۸) بیت الذکر کے دوسرے کمرہ سے سُرخی کے چھینٹوں والے نشان کے کمرہ سے گول کمرہ میں جو کہ قدرے نیچے تھا جانے کے لئے یہاں دو (۲) سیٹرھیوں والا چوبی زینہ ہوتا تھا.
حصہ نقشہ نمبرم (حصہ منزل دوم الدار ) مقامات مقدسه قادیان پیمانہ فٹ =۱ اینچ شمال مغرب 4 5 13'-11" x 10'-6" 6 7 9'-7" x 19'-6" 9 سقف سُرخی کے چھینٹوں کے گول کمره نشان والا کمرہ ن سقف مسجد مبارک اه نشيـ 10 277
278 تفصیل حصہ نقشه نمبر ۴ ( منزل دوم ) ا تا ۳.مغربی شاه نشین جہاں بالعموم سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعد نماز مغرب مجلس میں (نشان اپر ) تشریف فرما ہوتے تھے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب عام طور پر نشان ۲ پر اور حضرت مولوی نور الدین صاحب نشان ۲ / اپر اور دوسرے خاص احباب نشان ۳ پر یعنی حضور کے بائیں جانب اور باقی احباب جنوبی اور مشرقی شاہ نشین پر اور نیچے بیٹھتے تھے.۴.یہ دو (۲) مینار تھے جن کا نقشہ آگے ایک صفحہ پر درج کیا گیا ہے.شمال مغربی مینا راب تک بعینہ دیوار میں موجود ہے لیکن جنوب مغربی مینار توسیع مسجد مبارک کے وقت اُٹھا دیا گیا.-۵- کمرہ رہائش حضرت مولوی عبدالکریم صاحب.اس کے شمالی جانب کا صحن حضرت مولوی صاحب کے استعمال میں آتا تھا.کمرہ اور محن اب تک بعینہ موجود ہیں.یہاں عارضی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی رہائش بھی رہی ہے.چوبی زینہ میں جس کی تفصیل حصہ نقشہ نمبر ۳ میں زیر نمبر درج ہے.کمرہ جس میں مولوی محمد علی صاحب رہتے تھے.انى أحافظ كُلِّ مَنْ فِي الدّار کے الہام کے متعلق ایک نشان کا جو ذکر حقیقتہ الوحی نشان نمبر ۱۰۳ میں آتا ہے.وہ اسی کمرہ میں ظہور پذیر ہوا تھا.اس کمرہ کے غربی جانب پہلے کوئی دروازہ نہ ہوا کرتا تھا..یہ دو مینار تھے جن کا نقشہ آگے ایک صفحہ پر درج کیا گیا ہے.دونوں آج تک بعینہ موجود ہیں.جنوب مشرقی الگ بعینہ قائم ہے اور شمال مشرقی دیوار کے اندر ہے.۹.یہاں دوسیٹرھیوں والا چوبی زینہ ہوتا تھا جو سُرخی کے نشان والے کمرہ کی چھت سے مسجد مبارک کی چھت پر جانے کیلئے استعمال ہوتا تھا.۱۰.یہاں پانچ سیڑھیوں والا چوبی زینہ ہوتا تھا جو گول کمرہ کی چھت سے سُرخی کے چھینٹوں والے کمرہ کی چھت پر جانے کیلئے استعمال ہوتا تھا.نوٹ : حصہ نقشہ نمبر ۳ ٹیٹم نمبر ۷ و ۸ و نقشہ ہذا آئیٹم نمبر ۹ و ۰ میں مذکورہ زمینوں کے ذریعہ مسجد مبارک کے اندرونی حصہ سے مسجد کی چھت تک آمد و رفت ہو ا کرتی تھی.
شمال 3 مشرق N 280 3 3 مقامات مقدسہ (حصہ باغ شمالی) قادیان پیمانہ ۳۲ فٹ = ۱ اینچ 4 5 6 1 2 3 (1) حصہ باغ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جسد اطہر (درختان آم ۱ تا ۶ کے درمیان ) مورخہ ۲۷ رمئی ۱۹۰۸ء کو صبح سے عصر تک رکھا رہا.(۲) حصہ باغ جہاں حضور کا جنازہ پڑھا گیا.(۳) دائرہ یہ ظاہر کرنے کے لئے بنایا گیا ہے کہ اس کے ایک حصہ میں بیعت خلافت اولی ہوئی اور دوسرے حصے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نماز جنازہ ادا کی گئی.
281 شمال نقشہ نمبرے مقامات مقدسه قادیان پیمانه ۴۰ فٹ =۱ اینچ سفید زمین ومكان مکرم بھائی عبد الرحمن ب قادیانی سفید زمین حدود جلسه گاه حدود جلسه گاه یہاں آموں کے درخت تھے مکان متعلقہ جلسه زنانه جلسه گاه بطرف دار انوار متفرق مكانات مکانات متعلقہ جلسه گاه حدود جلسه گاه مکان جس میں حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب رہائش رکھتے تھے.سفید زمین س سفید زمین بل قدیم بطرف قصر خلافت ا بریلہ حسینا متفرق مکانات.اس مقام پر بعید مبارک سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عید و نماز جنازہ ادا ہوتی رہی.۳- مسجد مبارک سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مقام پر حضرت خلیفہ المسیح اول نے نماز استقاء پڑھائی
نقشہ نمبر 11 مقامات مقد قادیان پیمانه ۹۶ فٹ =۱ اینچ حدد بطرف تیار ا مزار شاہ عبداللہ غازی ۲ - مزار فرزند شاه صاحب موصوف ) ۳- مزار حضرت مرزا گل محمد صاحب پڑدادا حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام مزار حضرت مرزا عطا محمد صاحب دادا حضرت صاحب ۵- مزار مائی لاڈلی بیگم صاحبہ دادی حضرت صاحب مزار پر وار کی صاحب حضرت صاحب ہے.مزار مرزا غلام حیدر صاحب چچا حضرت صاحب مزار جنت بی بی صاحبہ ہمشیرہ حضرت صاحب ) مزار مراد بی بی صاحبہ ہمشیرہ حضرت صاحب ۱۰ هزار مرزا غلام محی الدین صاحب چا حضرت صاحب 11- مزار مائی صاحب جان صاحبہ اہلیہ مرزا غلام حیدر صاحب یعنی چی حضرت صاحب قبرستان قدیم و عیدگاه) براستہ ڈسٹرکٹ پورٹی حدود عیدگاه قبرستان قدیم خاندان سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام قبرستان قدیم کنواں m احاطه مزار شاہ عبداللہ غازی (15) عیدگاه بطرف رسول پور ( رام پور) (14) عیدگاه مشرق حدود عیدگاه (16) مندر شمال مغرب ۱۲ هزار مر ز اغلام قادر صاحب برادر کلاں حضرت صاحب ۱۳ مزار حضرت مائی چراغ بی بی صاحبہ والدہ حضرت صاحب ۱۴- محراب عید گاہ جہاں حضرت صاحب کے زمانہ سے عید کی نماز پڑھی جاتی ہے.۱۵ نشیبی حصہ زمین جہاں حضور کے زمانہ سے برسات میں پانی کھڑا ہو جاتا ہے.۱۶ - درخت بڑ جو عید گاہ کی شمال مغربی سرحد ظاہر کرتا ہے.282
283 بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد ه فصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبده المسيح الموعود رتن باغ ۳۰/۳/۵۰ مکرمی محترمی بھائی صاحب قادیانی السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ عزیزم مکرم مرزا برکت علی صاحب کا تیار کردہ نقشہ ربوہ چلا گیا تھا اور اب میرے پاس پہنچا ہے.خُدا مرزا صاحب کو جزائے خیر دے.میرا مشورہ حسب ذیل ہے.1 ).بیت الدعا کے ساتھ والا شرقی دالان بھی بہت تاریخی اور مقدس ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عمر کا آخری زمانہ گزارا اور حضرت اماں جان بعد میں یہیں رہیں یہاں بہت سے الہامات ہوئے.بلکہ اماں جان تو اسے بیت الفکر میں شامل کیا کرتی ہیں اور فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود بھی اسے بیت الفکر کا حصہ شمار فرماتے تھے.2).بیت الدعا سے غربی جانب کا حجرہ بھی تاریخی ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقتہ الوحی اور چشمہ معرفت لکھی اور کچھ عرصہ رہائش بھی رکھی.نیچے کے دالان سے آنے والوں کی ملاقات بھی آخری ایام میں یہیں ہوتی تھی.3).گول کمرہ بھی یادگاری چیز ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوائل میں دوستوں کے ساتھ ملاقاتیں کرتے اور کھانا کھاتے تھے.4).گول کمرہ کے ساتھ والی کوٹھڑی کا غربی جانب کا دالان جس کا نشان نقشہ میں نہیں لگایا گیا اس میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی پیدائش ہوئی اور بعض دوسرے بچوں کی بھی ( مگر یہ قابل تحقیق ہے سیرت الہدی سے حضرت اماں جان کی روایت دیکھ لی جائے.) 5) جب کنواں مسجد اقطے پر نمبر لگایا ہے تو کنواں دار اسی پر بھی نمبر لگنا چاہئے یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بنوایا تھا.6.حضرت اماں جان کے کنویں والے صحن کی جانب غرب اونچے دالان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام گرمیوں کا موسم گذارتے رہے ہیں.“ 7).اسی طرح میرے مکان کے بڑے دالان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فروری
284 رتن باغ ٣/٩/٥٠ * والے زلزلہ کے بعد چند ماہ قیام کیا اور مسجد کی مرمت کے زمانہ میں اس میں جمعہ بھی ہوتا رہا ہے.اس کے اندر سے حضرت مسیح موعود کے حجرہ کو لکڑی کی سیڑھی جاتی تھی.8).سیدہ ام ناصر صاحبہ والے برآمدہ کے ساتھ والے جنوبی دالان میں اور پھر اس کے ساتھ والی جنوبی کوٹھری (متصل سیڑھی ) میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رہائش رہی ہے.9).اسی طرح سیدہ ام طاہر مرحومہ کے برآمدہ کے ساتھ جانب جنوب والی * چھوٹی کوٹھری میں بھی رہائش رہی ہے بلکہ اس کے لئے حضرت صاحب نے ایک دفعہ امرتسر سے ایک قالین بھی اس کے ناپ کا بنوایا تھا.10 ).اگر حضرت مسیح موعود کے مطبع اور مہمان خانے اور باہر کے کنوئیں اور کتب خانہ بک ڈپو ) جس میں اب غالبا امیر صاحب رہتے ہیں وغیرہ کو بھی اس نقشہ میں شامل کر لیا جاتا تو مناسب تھا تا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذاتی یادگار میں ایک جگہ جمع ہو جائے.11 ).مقبرہ بہشتی کا نقشہ مع مکان ملحقہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جنازہ رکھا گیا وہ علیحدہ جانا چاہئے کیونکہ شاید اس کے ساتھ شامل ہونے کی گنجائش نہ ہو.مرزا صاحب کو سلام اور شکر یہ پہنچا دیں.جزاکم اللہ خیراً خاکسار مرزا بشیر احمد بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد ه فصلی علی رسولہ الکریم على عبده السيح الموعود مکرمی محترمی مرزا برکت علی صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ برکاتہ آپ کا خط موصول ہوا اور نقشے بھی.میں انشاء اللہ بہت جلد نقشے پر نظر ڈال کر آپ کی خدمت میں اپنی رائے لکھ کر بھجوا دونگا اور اس کے ساتھ نقشے بھی.پھر آپ اسے...کروا کے مجھے بھی اس کی تین کا پیاں بھجوائیں.پیمائش بھی درج کر دی جائے اور اگر عام طریق مکرم بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی فرماتے ہیں کہ سبقت قلم سے حضرت صاحبزادہ صاحب کی طرف سے جانب جنوب والی کو ٹھڑی تحریر ہو گیا ہے.جانب شمال والی کوٹھڑی مراد ہے.(مؤلف)
285 کے مطابق نقشہ کو شمالی رخ رکھا جائے تو مناسب ہو گا.اس طرح سمجھنے میں سہولت رہے گی.اگر عام دستور سے رُخ بدلنا ہوتو پھر شرقی رخ مناسب ہوگا.بہشتی مقبرہ کا نقشہ بھی مناسب ہوگا.چاردیواری کا نقشہ کافی نہیں بلکہ تفصیل ہونی چاہئے.بشر طیکہ یہ ممکن ہو.یہ بات مد نظر رہے کہ اگر کسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کا ظاہری نشان موقع پر نہ بھی رہے تو پھر بھی اسے نقشے کی مدد سے قائم کیا جاسکے.عید گاہ کا نقشہ تیار کرنے میں اگر کوئی پیچیدگی کا اندیشہ نہ ہو تو بے شک تیار کر لیں ورنہ ضرورت نہیں.خواه نخواه خطرہ نہ مول لیا جائے.البتہ اگر عید گاہ کے قریب ہمارے خاندان کی پرانی قبروں کا نقشہ بن سکے تو اس کی کوشش کریں.غالباً اس کا ایک سرسری خاکہ میں نے سیرت المہدی میں بھی دیا تھا اسے بھی دیکھ لیا جائے.جزاکم اللہ خیراً.بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلى عديد والسيح الموعود خاکسار مرزا بشیر احمد 7/9/00 مکرمی محترمی بھائی صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.مرزا برکت علی صاحب کا ارسال کردہ نقشہ پہنچ گیا ہے.جزاہ اللہ خیراً.مگر یہ نقشہ اتنا بڑا اور وسیع ہے کہ اسے ایک عام آدمی کے لئے سمجھنا مشکل ہے.بہتر ہوتا کہ ٹکڑے کر دیئے جاتے.مثلا" ایک ٹکڑے میں دارا مسیح ، قصر خلافت اور مسجد مبارک.دوسرے میں مسجد اقصے اور دفاتر صدر انجمن احمدیہ.تیسرے میں مدرسہ احمد یہ اور لنگر خانہ اور مہمان خانہ.چوتھے میں حضرت مسیح موعود کا مطبع اور حضرت خلیفہ اول کا مکان.پانچویں میں زنانہ جلسہ گاہ اور ملحقات اور چھٹے میں مقبرہ بہشتی اور باغ.علاوہ ازیں مرزا صاحب نے اصطلاحیں بھی نئی کر دی ہے.جو معروف نہیں اور ان کا سمجھنا مشکل ہو جائیگا.معروف نام استعمال کرنے چاہئے مثلا" دفاتر صدرانجمن احمدیہ کو مستورات کے نماز پڑھنے کی جگہ لکھا گیا ہے.مکانات
286 مرز ا نظام دین صاحب وغیرہ کو وامتاز و اليوم ايهالمجرمون لکھا ہے.بے شک اگر تبلیغ کی کتاب بنانی ہو تو ایسے الفاظ لکھے جاسکتے ہیں.گو وہ بھی تشریح کے طور پر نہ کہ نام کے طور پر.مگر جہاں تاریخی ریکارڈ محفوظ کرنا ہو وہاں معروف لکھنا چاہئے.اسی طرح کمرہ تصنیف حقیقۃ الوحی معروف نہیں.اس کی جگہ حجرہ ہونا چاہئے.جس کے آگے بریکٹ میں بے شک کمرہ تصنیف حقیقۃ الوحی اور چشمہ معرفت لکھ دیا جائے.بیت المجاہدہ کی جگہ بیت الریاضہ بہتر ہوگا یا صرف کمرہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شش ماہی روزے رکھے.(کتاب البریہ میں دیکھ لیا جائے کہ روزوں کا زمانہ کتنا ہے) اسی طرح بعض غلطیاں بھی ہیں مثلا سیدہ ام طاہر مرحومہ کے مکان کی جنوبی کوٹھڑی کو قیام گاہ حضرت مسیح موعود لکھا ہے حالانکہ اس میں حضرت صاحب نہیں رہے.بلکہ اس کوٹھڑی میں کچھ رہے ہیں یا کام کیا ہے جو گلی کے اوپر جانب شامل ہے.صحن دار حضرت مسیح موعود (نمبر 5) میرے خیال میں غلط معلوم ہوتا ہے.اسی طرح ہمارے دادا صاحب کی قبر کو پرانے پختہ فرش کے اندر دکھایا ہے حالانکہ وہ باہر تھی اور اب توسیع میں اندر آئی ہے.اطاق پیدائش حضرت مسیح موعود میں اطاق کا لفظ غیر مانوس ہے وغیرہ وغیرہ.غالبا" اس نقشے کو آپ نے غور سے نہیں دیکھا اب ضرور غور سے دیکھ لیں.تاہم مرزا برکت علی صاحب موصوف نے محنت بہت اٹھائی ہے.جزاھم اللہ خیرا.میری طرف سے ان کا شکریہ ادا کر دیں اور.....کہ اوپر کے اصولی مشورہ کے ماتحت درست کر لیں.اس کے بعد آپ بھائی عبدالرحیم صاحب اور مولوی عبدالرحمن صاحب اور بعض دوسرے پرانے دوست دیکھ لیں.نقشے کی وسعت کی وجہ سے میں سارے حصوں کو غور سے نہیں دیکھ سکا.فقط والسلام مرزا بشیر احمد
287 راقم نے کتاب ہذا کے عرض حال“ میں مقامات مقدسہ کے نقشوں کے تیار کئے جانے کا ذکر کیا ہے چونکہ کتاب کی طباعت کا انتظام بعض سہولتوں کے مدنظر لاہور میں کیا گیا تھا اس لئے ان نقشوں کے بلاک بنوانے کا انتظام بھی وہاں کرنے کے لئے کافی لمبی خط و کتابت ہوئی لیکن اس میں اتنی مشکلات سد راہ بنیں کہ جن کا حل میری طاقت سے باہر تھا.صرف دو نقشوں کے بلاک بنوانے اور طباعت اور کاغذ کے اخراجات کا تخمینہ سات صد روپیہ موصول ہو ا.مقامات مقدسہ کے نقشوں کی تیاری مکرم مرزا برکت علی صاحب کی دس ماہ کی دن رات کی ان تھک کاوش اور محنت کی مرہون منت ہے.اور یہ نقشے علیحدہ تیار ہو چکے ہیں.کتاب کے لئے انتظام نہ ہوتا دیکھ کر انہوں نے مہربانی کر کے متعد دنقشہ جات از سر نو کتاب کے مناسب حال پیمانہ کے مطابق تیار کر دیے ہیں.جو سابقہ صفحات میں درج کئے گئے ہیں.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.بفضلہ تعالیٰ امید واثق ہے کہ جلد دوم میں بقیہ نقشے بھی درج ہو سکیں گے.ولا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم.ان نقشوں اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم کے مکتوبات ( مشتمل بر ہدایات و روایات) کے اندراج سے یہ مقصود ہے کہ یہ محفوظ ہوجائیں.(مؤلف)
127 ۲۶۳ ۲۲۷ ۹۰،۸۸ ۶۸ 289 اشاریہ اصحاب احمد جلد اوّل مرتبہ- عبدالمالک بارہ میں خواب اسماء ۱۰۷ ،۱۰۵ امیر حسین شاہ صاحب ، سید امیرحسین ، قاضی سامنے موجود شخص کے دل میں چھپے سوال کا جواب دینا ۱۱۴۰ امیر علی امیر علی شاہ صاحب اویس قرنی ایوب بیگ صاحب ، مرزا ۸۳،۷۹،۶۶، ،۹۳ ۹۲ ۹۱ ،۹۰،۸۹ ،۸۸ ،۸۷ ، ۱۰۸ ، ۱۰۷ ، ۱۰۲،۱۰۰ ، ۹۸ ،۹۶ ،۱۵ ،۹۴ 1.94.90.gr ۹۷ ۹۹ ۱۰۵ ۱۰۶ ۱۸۸ ۲۰۶ ۶۷ ۱۵۳ دارا یح کا پہرہ مرض الموت کا حالات خاتمہ بالخیر کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کا خواب مغفرت کی الہامی بشارت باقرخان ( مجسٹریٹ ) با نوبی صاحبہ بایزید بسطامی بڑھائل ، لالہ 121 ۱۸۶ ۲۱۲ ۸۰۷۹ ۱۳۰ ۱۳۲ ۱۴۳،۱۴۲ ۸۳ ۸۶،۸۳ ۱۹۰ و ۱۷۵ ۲۲۹ ۱۵۳ ۲۳۰ مہدی کا ایک نام منصور دین کو دنیا پر مقدم کرنا احمد بی صاحبہ احمد بیگ مرزا احمد الله (0) ۱۸۵،۱۳۳،۷۳ ۷۲ ۷۱ ۵۹ ۱۲۳،۳۸ ۸۳ ۱۶۶،۱۶۰،۱۵۸ ،۱۲۹ تقم (پادری عبداللہ تھم ) آدم (علیہ السلام ) ام طاہر صاحبہ ، سیدہ أم ناصر صاحبة آمنہ صاحبہ آمنہ بیگم احمد ( حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود ) احمد اللہ صاحب ، حافظ ،۳۲،۳۱،۳۰،۲۹ ، ۲۵ ،۲۴ ، ۲۳ ،۲۱،۲۰،۱۹ ۴۶۰۴۵ ، ۴۴ ۴۳ ۴۲،۳۶،۳۵ ،۳۴ ،۳۳ ۷۶،۷۵ ، ۷۴ ۷۳ ۷۲ ۷۱ ، ۶۸ ،۶۱۰۵۵ ۹۵ ،۹۴ ،۹۲،۹۱،۸۹ ،۸۸ ،۸۷ ،۸۶،۸۳ ،۱۳۲،۱۳۱،۱۱۲،۱۱۱ ، ۱۰۱ ، ۱۰۰ ، ۹۸ ،۹۷ ،۱۴۳،۱۴۲،۱۴۱ ،۱۳۶،۱۳۵ ، ۱۳۴،۳۳۱ ۱۸۹،۱۸۸،۱۸۰ ، ۱۴۸ ، ۱۴۶ ، ۱۴۵ ،۱۴۴ ۲۶۱،۲۶۰،۲۵۹ ،۲۵۸ ،۲۱۴ ،۲۱۲،۲۰۴،۱۹۱ ۲۶۲ احمد نور کا بلی اخوند صاحب، پیر اعظم بیگ صاحب، مرزا اکبر بیگ صاحب ، مرزا اکبر شاہ خان نجیب آبادی اکبر شهنشاه اکبر علی با بوصاحب اکبر یار جنگ صاحب اکرم بیگ، مرزا الماضيفي صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات اللہ بخش صاحب امرتسری ، میاں ۷۲،۷۱، برکت علی صاحب کے متعلق الہامات آپ کے صبر کے متعلق "الحکم کی تحریر ۴۱ ۴۷ امام بخاری امام بی صاحبہ امام حسین ۱۷۹،۱۵۵ ،۱۴۰۰ ۷۵ برہان الدین صاحب جہلمی بشارت احمد صاحب ، سید صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات پر آپ کی تقریر ۵۹ ۶۷ ۲۵۷ ۵۵ جلسہ کے بارہ میں مخالف علماء کا فتویٰ اور آپ امام الدین صاحب پٹواری منشی ۱۱۲،۱۱۱، کا جوانی اشتہار تین سو تیر ہ صحابہ کے قابل فخر گروہ کے بارہ میں آپ کا ارشاد آپ کی صداقت کیلئے نشان کسوف قادیان میں مدرسہ احمدیہ کا قیام مرزا ایوب بیگ صاحب کے خاتمہ بالخیر کے YY ۶۸ ۹۳ ۹۶ ،۱۱۸،۱۱۷ ، ۱۱۶ ۱۱۵ ۱۱۴ ۱۱۳ امام الدین ، میاں امة الحفيظ امة المنير امۃ النصیر صاحبہ ،۱۲۵ ،۱۲۳،۱۱۹ ۱۲۰ ۲۱۳،۱۲۰ ۲۱۳ ۲۴ بشارت احمد ، ملک بشیر احمد صاحب ، مرزا ۲۵۸ ۱۸۸ ۲۳۱،۲۲۱،۲۱۹ ۱۵۹ ،۷۷ ،۳۵،۳۰،۲۴،۱۹ ،۱۱۷ ، ۱۱۵ ،۱۱۴،۸۶ ، ۶۶ ،۵۸ ،۴۴ ،۱۸۵،۱۷۸ ،۱۷ ،۱۶ ،۱۲ ، ۱۲۰ ۲۰۹ ،۲۰۱ ،۱۹۱ ،۱۹۰،۱۸۹ بشری بیگم صاحبہ ، سیده بیج ناتھ ، پنڈت بیگم جان صاحبہ ۵۹ ۱۳۲ 24
پٹیل پلومر پیر ساں بی صاحبہ تا جی شاہ تقی الدین احمد ، خلیفہ ثناء اللہ امرتسری ،مولوی جان محمد ، میاں جلال الدین صاحب قمر ۱۹۴ ۱۳۱ ۲۵۷ ،۲۱۶،۲۱۱ ۲۴۶،۲۴۵ ۱۹۶ ۱۳۰ で ۱۴۳ ۱۶۹ ۱۱۲ جمال الدین صاحب سیکھوانی حامد علی صاحب، حافظ حامد شاہ صاحب ، میر ۱۲۱ ۲۰۳،۲۰۱،۱۹۳۱،۱۹۲ صاحبزادہ مرز امبارک احمد صاحب کی وفات کے متعلق خواب حسام الدین ،حکیم حسن صاحب ، سیلی شیخ ۵۴ ۱۸۹ ،۲۲۹،۲۲۳،۲۱۱ 290 و دولت احمد ، صاحبزادہ مرزا گلس ، کپتان رانی صاحبہ محترمہ رجب الدین ، خلیفہ رحمت اللہ ، شیخ } ۳۹ ۹۵ ۱۹۸ ،۱۹۷ ۷۳ ۹۱ شادی لال ، جسٹس شریف احمد صاحب ، مرزا شفاءالملک اجمیری ،حکیم شمشیر بیگ، مرزا شوکت مرحومہ، صاحبزادی ۱۷۳ ۳۰ ۲۴۸ ٧٩، ٩٩ ۲۴ شیر علی صاحب، مولوی ۹۵،۹۴، ۱۵۸،۱۰۵، ۲۶۳،۲۶۲،۲۵۸ ،۲۲۹ شیر محمد صاحب ، میاں ۲۵۷ رحیم اللہ صاحب ، مولوی ۶۵، ۶۷، ۶۸، ۷۰،۶۹، ۸۸، ۸۹ صدرالدین ،مولوی رحیم بخش صاحب ، مولوی رحیم بخش ، مولوی رستم علی صاحب، چوہدری رسول بی صاحبہ ۱۲۳،۱۱۲ ۶۸ ۲۵ ۲۲۷ ،۲۱۳ رسول بیگ صاحب، مرزا - خلافت ثانیہ کے بارہ میں آپ کا کشف ۸۳ آپ کی عبادت گزاری، نفر با پروری اور تبلیغ کا شوق ۸۵ رشید الدین صاحب، خلیفه ۱۹۶،۶۰،۵۴،۵۳،۴۳ روشن علی صاحب ، حافظ رنجیت سنگھ ، مہا راجہ زریم بی ۲۳۱ ،۱۹۱،۴۵ و ۲۵۷ 19 - ۸۴ صدیقہ بیگم صلاح الدین ، ملک طہماسپ صفوی و ظ ظہور احمد صاحب ،۱۲۱،۱۲۰،۱۱۳،۱۱۱ ۱۲۷ ،۱۲۶،۱۲۴،۱۲۲ ع عباداللہ امرتسری، ڈاکٹر ۱۳۲،۱۳۱،۴۶ ،۱۳۳، ۱۳۸ عبدالجبار غزنوی ، مولوی عبدالحق ، ماسٹر ۱۳۲،۳۱،۳۰ ۱۴۰ ۱۵۲،۱۴۴ ۱۴۱ ،۲۳۶،۲۳۴،۲۳۳،۲۳۲،۲۳۰ ۲۶۴،۲۵۲،۲۵۰،۲۴۱ ،۲۳۷ حضور کا آپ کو سیٹھ کے لقب سے یاد فرمانا ۲۱۵ زینب بیگم خواب میں آنحضرت ﷺ کی زیارت ۲۱۹ آپ کے ذریعہ احمدی ہونے والے آپ کے اقارب ۲۲۱ سادگی یاد گیر میں احمد یہ لائبریری کا قیام سفر حج وفات ۲۲۶ ۲۳۱ ۲۴۲ ۲۴۹ زہرہ بی صاحبہ ساره بیگم صاحبه، سیده سرور شاہ صاحب ، سید سعادت احمد ، ملک ۳۶ ۲۶۴،۲۳۰،۲۱۲ ۲۳۵ ۵۷ ۱۶۱،۱۵۹ ،۱۲۹ عبدالحق ، مرزا عبد الحق صاحب منشی عبد الحکیم بیگ صاحب ، مرزا ۸۶،۸۱،۷۹ عبدالحی عبدالتی صاحب بیٹھ عبدائی صاحب، عرب عبد الخالق صاحب ، حکیم سعید احمد ، ملک ۱۷۸،۱۷۴،۱۶۶،۱۶۱،۱۵۸،۱۵۲ عبدالرحمن بی-اے اپنی وفات اور مقام تدفین کے بارہ میں رویا ۲۵۱ سکندر بیگ صاحب ، مرزا حسین بی حسین بیگ مرزا حکم دین ، میاں خ خسروشاه، حکیم ۲۳۷ ۸۳ 111 سکیمپ سلطان احمد صاحب ، مرزا سلطان بخش ، ملک سلطان، حافظ ۲۴۸ خصیلت علی شاہ صاحب ، سید ۸۷، ۹۰،۸۸ خلیل احمد ناصر خواجه بی ۲۲۳ ۲۱۳ سلطان محمد سید احمد سیف الدین کچلو ۸۰ ۱۷۳ ۲۴ ۱۲۹ ۱۸۹،۱۸۸ ۱۸۴ ۲۳۳ ۱۵۱ * ۳۷ ۲۴۴ ۲۴۱۲۲۵ ،۲۱۲ ۲۱۷ ،۱۴۱ ۱۵۴ ۲۵۸ ۱۸۰۸۷ ،۶۵،۲۷ ،۸۸ ،۸۷ ،۱۲۰،۱۰۵ ،۹۸ ،۹۷ ،۹۵ ،۹۴ ۲۱۵ ،۲۱۰،۱۹۱،۱۵۴،۱۴۱ عبد الرحمن صاحب بھائی ۲۷ ، عبد الرحمن صاحب جٹ عبد الرحمن صاحب ، سیٹھ ۱۹۱ ۲۵ ،۲۲ عبدالرحمن ، خواجه ۲۵۷، ۲۶۶،۲۵۹،۲۵۸ عبد الرحمن صاحب فاضل عبدالرحمن ،صوفی عبد الرحمن مونگھیر ی ڈاکٹر ۱۶۶ ۱۵۰،۱۳۵ ۲۴۸
،۱۴۰ ،۷۴ ۲۵۷ ۹۷ کمال الدین خواجہ ۱۹۰،۱۴۶،۱۴۵ گ ل کو ہرالدین ، ڈاکٹر لیکھرام ، پنڈت ۱۸۳ ۳۳ ۲۴۸ ،۱۱۵ ۱۵۰ ۱۷۵ ۹۴ 물을 ۹۴ مارٹن کلارک ، ڈاکٹر مبارک احمد صاحب مبارک احمد صاحب، مرزا ۲۳،۲۲،۲۱،۱۹، ،۳۲،۳۰،۲۹ ،۲۷ ،۲۶ ۲۵ ۲۴ ،۳۸،۳۷،۳۶ ۳۵ ۳۴ ۳۳ ، ۴۶،۴۵ ، ۴۴ ۴۳ ۴۲،۴۱ ،۳۹ ،۵۷،۵۶،۵۵۰۵۴،۵۱،۴۹ ،۴۷ ۱۸۷ ،۶۱،۶۰،۵۹ ،۵۸ ۸۶ ۱۸۰،۱۲۴ ۶۹ ،۶۶،۵۴،۵۰ ۱۵۲،۱۳۶،۱۳۲ مبارک بیگ صاحب، مرزا مبارکہ بیگم صاحبہ، نواب محبوب عالم صاحب ، قاضی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) 12A ۱۹۸ ۷۵ ۱۶۲،۱۰۷ ،۱۶ ۷۳ ۱۵۵ ،۷۶،۷۵ ،۱۹۳،۱۷۲ ۲۰۷ ،۲۰۶،۲۰۳ ۲۰۸ ،۱۹۰،۱۸۷ ۱۵۸ ،۱۳۷،۷۸ ۱۸۶ IAZ ۱۳۵ ۱۷۵ ۱۹۷ ۱۳۲،۹۴ ،۹۳ ۶۷ ١٦٣،١٦٠ ۲۲۷ AL محمد ابراہیم صاحب بقا پوری محمد ابراہیم صاحب ،صوفی محمد احسن امروہی ، محمد اسحاق صاحب ، میر محمد اسماعیل امرتسری محمد اسماعیل صاحب، خواجہ محمد اسماعیل صاحب، مرزا محمد اسماعیل مولوی ۲۴۲،۲۴۱،۲۲۸ ، ۲۵۷ محمد اسماعیل صاحب منشی ۱۸۳،۷۲،۴۶، ،۱۹۳،۱۹۰،۱۸۸ ،۱۸۶،۱۸۵،۱۸۴ ۲۰۷ ، ۲۰۵ ،۲۰۱ ،۱۹۹ ،۱۹۷ خلافت ثانیہ کی تصدیق میں آپ کی رؤیا ۱۹۱ شیطان کو دیکھنے کا واقعہ بیان کرنا آپ کی اولاد آپ کا شجرہ نسب عہد بیعت کا نبھانا آپ کے خاندان کے صحابہ ۱۹۵ ۱۹۸ ۲۰۰ ۲۰۴ ۲۰۹ ٩٩ ۱۶۷ ۱۵۱ ۲۴ ۱۴۹،۴۶ ۱۴۶۰۶۷ ۱۰۵ ۲۳۳ ۱۴۹،۱۴۸ 129.22 ۱۵۴ 291 عبدالرحمن ہندی ، ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب بیگ مرزا ۲۴۷ عمران صاحبہ و عیسی ( حضرت عیسی ) عبدالرحیم صاحب نیر عبد الرحیم بھٹی عبد الرحیم صاحب شیخ عبدالرحیم صاحب صوفی ۲۳۱،۲۳۷ ۱۸۳ ۱۰۵ ۱۵۰،۱۳۵ غ غلام احمد ، ڈاکٹر غلام جیلانی ، شیخ غلام حسین صاحب عبد الستار شاہ صاحب سید ۳۶ ، ۵۴،۳۷، غلام حسین شاہ ،سید ۶۰،۵۹،۵۸،۵۷ ۱۵۹ غلام حید رصا حب غلام رسول صاحب بٹ غلام رسول صاحب را جیکی غلام غوث صاحب ، ڈاکٹر غلام فاطمه غلام فرید صاحب ایم.اے ۱۸۹،۱۴۵ ،۱۴۴ ۱۵۵ ،۷۷ ۱۳۱،۱۲۴،۱۲۲،۱۲۰ غلام قادر صاحب غلام محمد امرتسری ، صوفی غلام محمد صاحب بی.اے ۱۹۵ ۱۴۲ ۲۱۱ ۱۵۳،۱۱۲،۱۱۱ ۹۳ ۲۶۴ ۶۷ ۱۹۶ عبد الصمد اللطيف را للطیف صاحب عبداللطیف ، شیخ عبد العزیز صاحب، اوجلوی عبدالعلی صاحب ، مولوی عبد الغنی صاحب ، مولوی عبدالقادر جیلانی ، شیخ عبدالغفور صاحب عبد الکریم صاحب حید را آبادی ۲۳۰،۲۱۲ غلام محمد صاحب، چوہدری غلام محمد صاحب،صوفی فاطمه بی بی فتح محمد صاحب، چوہدری ۲۶۶،۲۶۴۲۶۲۲۵۹ ، ۲۵۷ ۲۵۸ ۲۶۱ آپ کو باؤلے کتے کا کاٹنا آپ کی شفایابی ۱۶۲ ،۲۳،۲۱ عبد الکریم خالد عبد الکریم صاحب ، مولوی ۱۱۴،۱۰۹ ، ۱۰۷ ، ۱۰۵ ، ۹۱ ،۷۳،۲۶ ،۱۸۸،۱۸۷ ،۱۸۵،۱۸۴،۱۸۳،۱۴۷ ۲۰۹ ،۲۰۴،۱۹۰ ۲۳۰،۲۲۹ اے فرزند علی ، خان صاحب فضل احمد صاحب ،مرزا فضل حق صاحب ،سردار فضل دین صاحب بھیروی فضل دین صاحب ، حکیم فضل الرحمن فضل الرحمن صاحب مفتی ق قا در بخش قا در بخش قانونگو کرم دین کرم النساء کریم بی بی صاحبہ مسجد لنڈن کے لیے چندہ میں زیور دینا ۱۲۵ محمد اسماعیل صاحب، میر ۴۴،۴۳،۲۴، ۱۵۹ ۲۲۲،۲۲۰،۲۱۷ محمداعظم صاحب ،سیٹھ ۱۲۶ وصیت کی وہری ادائیگی ۱۴۴ ، ۱۳۴ ۲۴ ۹۹ ۱۵۹ ۴۳ ۱۸۳ ۸۳ ۱۹۹،۱۶۱ ۱۳۶،۶۸ عبد اللہ الہ دین صاحب عبد اللہ بٹ صاحب عبداللہ چکڑالوی عزیز اللہ ، میاں عصمت صاحبہ، صاحبزادی عصمت نشان عطاء اللہ ، میاں عطر الدین ،ڈاکٹر عطر یاب ( عطر سنگھ ) علی احمد حقانی علی محمد قاضی عمر ( حضرت عمر فاروق )
۱۲۵ ۱۳۱ شار احمد " نذیر احمد دہلوی ، حافظ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ( حضرت ام المومنین ) ۱۵۳،۱۲۴،۵۹ ،۵۵ ، ۴۱ ، ۳۹ ، ۳۷ ،۲۱ ۱۹۳ نصر اللہ صاحب ، چوہدری نورالدین صاحب، حکیم ( حضرت خلیفہ امسح الاول) ،۶۰،۵۹،۵۳،۴۴،۳۷ ،۳۶ ،۹۱،۸۹،۸۴،۸۳،۷۷ ،۶۷ ،۱۳۱،۱۳۰،۱۱۴،۱۰۵ ،۹۷ ،۹۵ ،۱۴۳،۱۴۲،۱۳۷ ، ۱۳۴،۱۳۳،۱۳۲ ،۱۹۰،۱۸۹،۱۴۹ ، ۱۴۸ ،۱۴۷ ۲۶۲،۲۵۹،۲۱۲،۱۹۱ ۲۰۰ ۹۲،۸۳٬۸۲،۸۰ نورالدین صاحب ، ملک نیاز بیگ صاحب ، مرزا و وسیم احمد صاحب ، مرزا ۱۹، ۱۹۸، ۲۰۶،۲۰۱ ولی اللہ شاہ صاحب 0 ہری ، اے.ای (A.E.Hurry) ہمایوں ( مغل شہنشاہ ) ہنری کریک ۲۵۹ ،۱۵۹ ۱۴۴ ۷۹ ۱۱۶ ۱۴۰ ی یار محمد ، مولوی یقوب علی صاحب، عرفانی ۲۴،۲۳، ۹۶،۸۹، ۲۳۱،۲۲۹،۲۲۱ ،۱۴۶ ،۸۰ ،۷۹،۶۵ یقوب بیگ صاحب، مرزا ،۹۰،۸۹،۸۸ ،۸۷ ،۸۶،۸۴،۸۳ ،۱۰۴،۱۰۳،۱۰۲،۹۹ ،۹۲،۹۱ ۱۰۷ ،۱۰۶،۱۰۵ 292 ۲۲۷ ،۲۲۵ ۲۶۴،۲۵۹ محمود احمد ۲۱۳ محموداحمد صاحب، مرزا ( حضرت خلیفہ امسیح الثانی) ۱۸۴ ،۸۳،۷۶،۵۹،۵۷ ، ۴۴ ،۳۰،۲۴ ۲۰۱ ،۱۱۵ ،۱۱۱،۱۰۵ ،۱۰۴ ،۹۶،۸۹ ،۸۸ ۱۱۵ ،۱۵۰،۱۳۸ ،۱۲۴،۱۲۳،۱۱۸ ،۱۱۶ ،۱۹۱،۱۷۸،۱۶۸،۱۶۴،۱۵۳،۱۵۱ اے محمد الیاس محمد بخش محمد بخش صاحب، چوہدری محمد بخش تھانیدار محمد بخش ، میاں محمد بشیر بھوپالی محمد چٹو ، بابا محمد حسین بٹالوی محمد حسین صاحب ، حکیم محمد حیات محمد خواجہ صاحب محمد الدین صاحب ، مولوی محمد رضوی صاحب محمد سرور شاہ صاحب ΛΥ ،۲۳۳،۲۲۲،۲۱۲،۱۹۸ ، ۱۹۲،۱۹۲ ۷۵ ،۷۱ ۱۱۵،۹۴ 4.۱۸۳ ۲۳۶ ۱۹۱ ۲۱۴ ۲۶۳،۲۳۱،۱۰۷ محمد سعید صاحب، میر ۲۱۴،۲۱۳،۲۱۲، ۲۱۵، ،۲۳۹،۲۳۸،۲۳۶،۲۳۵ ،۲۳۴ محی الدین مریم بیگم مسعوداحمد ، ڈاکٹر مسعود بیگ، مرزا ۲۶۴۲۶۳۲۴۱ ۲۱۳ ۶۲۶۱۶۰،۵۷،۳۷ ۱۱۵ ۹۳٬۸۹ معراج الدین صاحب عمر معین الدین ۲۲۳ ۳۷ ،۷۴،۷۱ ،۴۶ منظور محمد صاحب، پیر مولا بخش صاحب ، ملک ،۱۳۱،۱۳۰،۱۲۹،۷۷ ،۷۶،۷۵ ،۱۳۸ ،۱۳۷ ،۱۳۶،۱۳۵ ،۱۳۴۰ ،۱۵۱،۱۵۰،۱۴۷ ، ۱۴۶ ،۱۴۵ ،۱۳۹ ،١٦٣،١٦٢،١٦۰ ، ۱۵۷ ، ۱۵۴ ۱۵۲ ، ۱۷۴ ، ۱۷ ۲۰۱۷۱ ، ۱۶۸،۱۶۶،۱۶۵ ۱۸۹ ،۱۷۸،۱۷۶،۱۷۵ ۲۶۴،۲۳۱،۲۲۹ ،۲۲۰،۲۱۶ ۱۸۹ ،۹۸ ،۹۶ ،۹۴ ،۹۱،۸۴ محمد شفیع سیالکوٹی ، حافظ محمد صادق ، مفتی ۲۶۳،۲۳۱،۱۶۵،۱۰۶،۱۰۵ ۲۲۹،۱۸۷ ۴۵ ۱۵۴ محمد عبدالرشید ، ڈاکٹر محمد عبد الله سنوری محمد عثمان محمد علی صاحب ، مولوی ۴۶، ۱۰۵، ۱۱۵، ۱۳۷، ۱۹۰،۱۴۵ ،۱۳۸ ۱۸۹ محمد علی خان صاحب محمد علی خان صاحب، نواب ۹۱،۵۴، ۱۹۴،۱۴۷ ناصر شاہ ،سید ناصر احمد صاحب، مرزا ( حضرت خلیفہ امسح الثالث) ۱۵۹ ناصر نواب صاحب ، میر ۸۴ ،۲۳۲،۱۰۵ ۲۶۶،۲۶۳ نبی بخش نبی بخش صاحب رفو گر ینی بخش بنشی ۱۸۳ ۱۳۳ ۲۷ ۲۵۳ ۲۰۱ ۱۳۷ ۲۲۳۲۲۲۲۲۱ ۴۳ محمد علی شاہ صاحب محمد عبد اللہ صاحب قاضی محمد عمر صاحب ، شیخ محمد غوث محمد یا مین صاحب
۱۸۳ ۲۱۱ = شیخو پوره فاضل کا فلسطین ۱۰۶،۱۰۵ فیروز پور ۱۰۶ ،۱۰۵ ق قادیان ،۶۸،۶۷ ،۴۶،۴۲،۲۵،۲۳ ۲۲ ۲۱ ،۹۲،۹۱،۸۷ ،۸۶،۸۴ ،۷۶ ،۷۴،۶۹ ،۱۲۶،۱۲۰،۱۱۷ ،۱۱۶،۱۱۳، ۱۰۷ ،۹۹۹۷ الدا الله الله الله الله الله الله الله له ،۱۵۳ ۱۵۲ ۱۵۱ ۱۵۰ ، ۱۴۷ ، ۱۴۳،۱۴۲ ،۱۷۸،۱۶۹،۱۶۶،۱۶۳،۱۵۸ ،۱۵۷ ،۲۰۶،۱۹۹ ،۱۹۴ ،۱۸۷ ، ۱۸۵،۱۸۳ ،۱۷۹ ،۲۲۸،۲۲۳،۲۲۱ ۲۲۰ ۲۱۵ ،۲۱۴،۲۰۸ ،۲۵۸ ،۲۵۷ ،۲۳۶،۲۳۴،۲۳۳ ۲۳۰ ۲۶۶،۲۶۴۲۶۲،۲۶۰،۲۵۹ == ۱۱۲ الده الله الله 17001 ۱۲۹ ۷۵ ۱۹ ۲۵۹ ۲۲۱ ۲۶۲،۲۶۱،۲۶۰،۲۵۸ ۲۵۹،۱۸۳،۱۲۹ ۹۹،۸۶،۸۳،۷۹ ۱۵۴ ۲۲۷ ،۲۱۱ ، ۱۱۴ ۱۱۱ ،۹۳ ،۹۰،۸۰ ،۷۵ ،۱۵۴،۱۵۳،۱۴۴ ، ۱۳۸ ،۱۳۷ ، ۱۲۹ ۱۷۴،۱۶۷ ،۱۶۶۴۱۶۲ قلعہ درشن سنگھ قلعه گلانوالی کابل کپورتھلہ کڑہ اہلو والیاں کٹرہ بھاگ سنگھ کراچی کرناہ کرنول کسولی کشمیر کلانور کوٹ چھٹہ گلبرگه گورداسپور ۲۲۱،۲۱۳ ۱۳۲ ۱۸۳ 67 293 مات ،۲۱۹،۲۱۶،۲۱۴،۲۱۱ ،۱۸۴ ،۲۴۸،۲۴۲،۲۴۱ ،۲۳۳۲۲۴ ۲۲۲ ۲۵۷ ،۲۵۰ ۲۲۷ ،۲۲۰ , چنت کنه چین چوہڑ کا نہ حکیم پور موضع حیدر آباد دکن دکن دھار یوال دھر مساله دہلی ۱۲۰ ۱۵۰،۱۴۷ ،۸۶ دیال گڑھ دیو کھیڑہ ۱۹۴ ڈلہوزی ڈیرہ غازی خان ۲۳۸ ،۲۳۲۷۹ ۱۵۴،۱۵۳،۱۲۹ راولپنڈی ۱۶۱ ،۱۵۹ ،۱۲۹ ،۸۳ ربوه ۱۱۱ ۱۲۶ ۱۲۷ ۱۵۸ ۱۵۹ ، ۱۶۱، ۲۰۱،۱۹۷ رنگون ۲۱۷ ساندھن سرگودها ۲۴۵ ۲۶۴،۲۵۸،۱۶۲۱۴۴ سکندرآباد ۲۲۱ سمرقند 7V ۸۲ ،۱۸۳،۱۶۱،۱۵۹،۱۵۷ ، ۱۰۵ ،۷۷ ،۱۹۱ ،۱۹۰،۱۸۹ ،۱۸۸ ،۱۸۷ ، ۱۸۴ ،۱۹۹ ،۱۹۷ ، ۱۹۵ ،۱۹۴ ،۱۹۲ ۲۰۸،۲۰۴،۲۰۳،۲۰۲ ۲۱۶،۲۱۱ سوات سیالکوٹ سیکھواں موضع شولا پور ۲۳۷ ،۱۹۷ احاله ۲۶۳ ۱۴۲ ، الله الله 17470776 الده الله الله الله الله له الله الله ۲۰۶،۱۶۶،۱۶۳۱۵۶،۱۵۰،۱۴۴ ۱۴۱ ۲۲۳،۲۰۱،۵۲ ۲۳۸ ،۱۷۲ 67 ۲۲۱ ۱۲۰ ۱۳۸ ،۱۱۱ ،۹۹ ،۹۳۹۲،۲۷ ،۱۶ ،۱۵ ۱۹۸ ۲۶۵ ،۲۴۷ ،۲۳۴،۲۱۱،۱۸۴ ۱۱۲ ۱۸۵،۸۳ احاله ۱۵۸ ΛΥ ۱۲۹ الله الله 6 الله له الله الله الله 67 ۲۶۳ ۸۹ 금주 ۱۷۲ ۲۶۴،۲۰۸،۱۴۴ آگرہ اجمیر اٹک افغانستان امرتسر امریکہ انگلستان ایران اوشکور او جله بٹالہ بخارا بمبئی بها در حسین موضع بہاولپور بیاور پاکستان پیالہ تلونڈی تھنگلاں ٹونک شن جرمنی جموں جہلم
۲۴۷ ،۲۴۴،۸۷ ،۹ ۱۹۷ ،۱۵۳،۱۵۲،۱۲۹ ،۲۲۱،۲۲۰،۲۱۸،۲۱۲،۲۱۱ ،۲۳۱،۲۳۰،۲۲۷ ،۲۲۶،۲۲۴ ،۲۵۰،۲۴۴ ،۲۴۱،۲۳۷ ،۲۳۲ ۲۶۵ ،۲۵۹،۲۵۷ ،۲۵۲ ۲۳۳،۵۲ ہندوستان ہوشیار پور یادگیر یورپ ۱۳۱ 294 ۲۴۷ ،۲۴۵ ،۲۴۴ ،۲۴۲ 761 االله ۱۵۳،۱۲۹ له له 1761 حاله ۸۵،۸۳ 761 ΛΥ 77 الده مکه مکرمه مکیریاں مانتان ملکانه منچن آباد مہت پور میانوالی میر پورخاص نور پور ل L'L'7'VL'6'7'17 ،۹۲۹۱ ،۹۰،۸۹٬۸۸ ،۸۷ ،۸۶ ،۸۴ ،۷۹ ،۱۴۱ ،۱۴۰،۱۳۷ ،۱۳۱ ، ۱۱۶ ، ۱۰۵ ، ۹۸ ،۹۳ ۱۹۷ ، ۱۹۰،۱۸۷ ،۱۷۹،۱۵۷ ، ۱۴۵ ۲۳۸ ،۱۹۷ ،۱۶۵ ،۱۲۵ ۱۲۴،۱۱۹، ۱۱۴ ۱۱۲ ۱۱۱ ۲۲۱،۲۱۳ ۲۲۱،۲۱۸ ، ۲۴۷ ،۲۴۶،۲۴۵ ،۲۴۴ ۲۵۱،۲۴۹ ،۲۴۸ لاہور لندن لوہ چپ موضع محبوب نگر مدراس مدینہ منورہ