Language: UR
ارض بلال میری یادیں منوّر احمد خورشید (واقف زندگی ) لندن
منور احمد خورشید پیدائش 1950ء میں ہوئی.ابتدائی تعلیم مڈل سکول فتحپور ضلع گجرات اور میٹرک مسلم ہائی سکول گجرات پاس کی.اس کے بعد 1975ء میں جامعہ احمد یہ ربوہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کی.پاکستان میں جن مقامات پر بطور مربی سلسلہ خدمت کی توفیق ملی ان میں قلعہ کالر والا ضلع سیالکوٹ ، کھاریاں ضلع گجرات اور میانوالی شہر شامل ہیں.1983 میں گیمبیا بطور مبلغ آمد ہوئی اور مختلف مقامات پر بطور مشنری حسب توفیق کام کیا.دوسال کے لئے بطور ٹیچر ناصر احمد یہ سینئر سیکنڈری ہائی سکول میں خدمت کی توفیق پائی.1985ء میں سینیگال مشن کا نگران بنایا گیا.1994ء میں گیمبیا، سینیگال، گنی بساو موریتانیہ اور کیپ ورڈ کا امیر مقرر کیا گیا.1997ء میں یہ امارت تین امارتوں میں تقسیم ہوگئی.خاکسار کوسینیگال، کیپ ورڈ اور موریتانیہ کی قیادت سونپی گئی.2005 میں بیماری کے باعث حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر لندن آ گیا اور لندن میں رہ کر سینیگال کے لئے خدمت کی توفیق پائی.یہ سلسلہ 2012 تک چلتا رہا.2008-2012 تک جامعہ احمدیہ انگلستان میں بطور استاذ خدمت کی سعادت ملی.الحمد للہ Arz-e-Bilal - My Memories - Munawwar Ahmad Khursheed - U.K
ارض بلال میری یادیں مرتبہ منور احمد خورشید ( واقف زندگی) لندن
مصنف سن اشاعت تعداد : : ارض بلال.میری یادیں منور احمد خورشید ( واقف زندگی) : 37 Heyford Road, CR4 3EW Mitcham London U K.$2015 : 1000 :
اظہار تشکر اے خدا اے کارساز و عیب پوش و کردگار اے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار کس طرح تیرا کروں اے ذوالمن شکر و سپاس وہ زبان لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار در ثمین
فرمودات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اتمام حجت خداوند تعالیٰ نے اس احقر العباد کو اس زمانہ میں پیدا کر کے اور صد ہا نشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صد با دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تعلیمات حقہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرمادے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے اور ہر یک مخالف اپنے مغلوب اور لا جواب ہونے کا گواہ بن جائے.(براہین احمدیہ - روحانی خزائن جلد ا.صفحہ 596) تائید الہی میں بڑے دعوئی اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اور جہاں تک میں دور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 403)
انتاب ارض بلال کے ان سادہ دل اور پاک فطرت احمدی بھائیوں اور بہنوں کے نام جو حضرت امام الزمان علیہ السلام کی ذات بابرکات پر بن دیکھے ایمان لے آئے اور پھر سو جان سے ان کی ذات اقدس اور آپ علیہ السلام کے روحانی وارث خلفاء عظام کے عاشق اور فریفتہ ہو گئے.جنہوں نے اپنی کم مائیگی اور محدود وسائل کے باوجود مبلغین کرام کی پردیس میں میزبانی کی اور ان کے لئے اپنے گھر اور دل کے دروازے کھول دیئے.مبلغین کرام کے اشاعت دین کے فریضہ میں شب ر در روز نشیب و فراز ہمسر و ئیسر کی ہر گھڑی میں کمال پیار محبت اور اخلاص کے ساتھ مد و معاون اور مونس و غم خوار رہ کرے جان و مال و آبر و حاضر میں تیری راہ میں کی عملی تصویر بن گئے.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے احمدیت کا قافلہ غلبہ دین حق کے مبارک سفر میں دن دوگنی رات چوگنی ترقیات کی اعلیٰ منازل کی جانب گامزن ہے اور ہمیشہ رہے گا.ان عدیم المثال کامیابیوں اور نا قابل یقین کامرانیوں میں ان پاک روحوں کا بھی ایک نمایاں حصہ ہے.اے میرے مولیٰ کریم ان سب کو جزائے خیر عطا فرما اور ان سب کو رضی اللہ نظم ورضوا عنہ کی اعلیٰ ترین سند امتیاز سے نواز اور انکے جسمانی ورثاء کو ان کے روحانی ورثہ کی کماحقہ حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرما.آمین.بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را
پیش لفظ از قلم : مکرم محترم منیر الدین صاحب شمس ایڈیشنل وکیل التصنیف لندن ) کتاب.میری یادیں جو برادرم مکرم منور احمد خورشید صاحب مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اپنی یادوں کو سمیٹ کر تیار کی ہے، کا مجھے پڑھنے کا موقعہ ملا.ماشاء اللہ کتاب میں بہت ایمان افروز واقعات درج کئے گئے ہیں اور مجھے امید ہے قارئین ان کو پڑھ کر خوب لطف اندوز ہوں گے اور یہ واقعات از دیا ایمان کاعث ہوں گے.خاکسار جب حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر بحیثیت ایڈیشنل وکیل التبشیر گیمبیا، سینیگال، گنی بساؤ اور سیرالیون کی جماعتوں کے دورہ پر گیا تھا تو اس وقت گیمبیا وغیرہ کے علاقہ جات میں برادرم مکرم منور احمد خورشید صاحب ہی امیر اور مبلغ انچارج کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے.خاکسار کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ انہوں نے گیمبیا اور سینیگال وغیرہ میں اچھا اثر ورسوخ رکھا ہوا تھا اور سب سے بڑی خوبی کی یہ بات تھی کہ بڑے سے بڑے عہد یدار کو ملنے کے وقت نہ جھجکتے تھے اور نہ ہی کسی قسم کا خوف رکھتے تھے.احباب جماعت کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ اور گھل مل کر رہتے تھے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر ان ہی کے کھانوں میں شریک ہوتے تھے جس سے مقامی احباب ان کی قدر بھی کرتے تھے اور بات بھی سنتے تھے.خاکسار نے ان کے ہمراہ سینیگال اور گنی بساؤو وغیرہ کے سفر بھی کئے اور ہر جگہ ہی ان کی یہ خوبیاں نمایاں ہو کر ابھرتی رہیں.مختلف مقامی زبانوں میں اگر چہ یہ ماہر تو نہیں لیکن بلا جھجک ان زبانوں کا استعمال کیا کرتے تھے جس سے مقامی احباب کے دل جیت لیتے تھے.دورہ کے دوران خاکسار کو دیگر مبلغین کرام سے بھی ملاقات اور میٹنگز کے مواقع ملتے رہے اور اس طرح ذاتی تجربہ سے پتہ چلا کہ کس طرح ہمارے مبلغین کن مشکل حالات میں بھی پیغام حق کو پہنچانے کی سعی کرتے چلے جارہے ہیں.
خاکسار کے سینیگال کے دورہ کے موقعہ پر ڈاکار میں پارلیمنٹ ہاؤس میں متعد د احمدی ممبران پارلیمنٹ سے خاکسار کو خطاب کرنے اور وہاں نماز ظہر و عصر باجماعت پڑھانے کا جو موقعہ م میسر آیا وہ بھی ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا.جب میں نے ان کی کتاب کا مسودہ چیک کرنے کی غرض سے پڑھنا شروع کیا تو حیرانگی میں اضافہ ہوتا گیا کہ کیسے انہوں اپنے زمانہ امارت و تبلیغ کے واقعات کو یا درکھا ہوا ہے.بہر حال یہ ایک احسن قدم ہے جو انہوں اُٹھایا کہ ہمت کر کے واقعات کو اکٹھا کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے اور جولگن انہیں تبلیغ کی تھی ، وہ بہتوں کو عطا ہو اور سب کو مقبول خدمات کی تو فیق ملتی رہے.آمین.10 جولائی 2015 خاکسار منیر الدین شمس (ایڈیشنل وکیل التصنيف-لندن)
تبصره از قلم : مكرم ومحترم عطاء الجيب صاحب راشد - امام مسجد فضل لندن ) ارض بلال.یہ عنوان ہی ایسا دلکش ہے کہ دونوں ہاتھ اس کتاب کی طرف بڑھ جاتے ہیں.یہ کتاب برادرم مکرم ومحترم منور احمد خورشید صاحب مبلغ سلسلہ کی میدان عمل کی حسین یادوں کا ایک پرلطف مجموعہ ہے جو اپنے سادہ مگر رواں طرز بیان کی وجہ سے بہت پرکشش ہے.حیرت ہوتی ہے کہ مصنف نے لمبے عرصہ پر محیط ان تبلیغی اور تربیتی واقعات کو کس طرح اپنی یاداشت میں محفوظ رکھا اور پھر معین تفاصیل کے ساتھ صفحہ قرطاس پر منتقل کر دیا.آپ نے یہ ضرور لکھا ہے کہ میرا انداز بیان شوخ نہیں لیکن میں ضرور کہوں گا کہ اس میں ایک خاص روانی اور دلکشی ہے جو پڑھنے والے کو آگے سے آگے لیجاتی ہے اور بسا اوقات تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ گو یا پڑھنے والا بھی آپ کے ہمرکاب ہے.ایک مبلغ سلسلہ کی میدان عمل کی حسین یادیں ایمان افروز ہونے کے علاوہ بے شمار معلومات کا ذخیرہ بھی ہیں.مجھے مصنف کا یہ انداز بہت ہی اچھا لگ کہ آپ نے ارض بلال کے مخلص فدائی احمدیوں کی قربانیوں اور نیک مساعی کا خاص طور پر تفصیل سے ذکر کیا ہے.اس کتاب نے ان گمنام فدائیان اسلام کی قربانیوں اور بے لوث خدمات کو تاریخ میں محفوظ کر دیا ہے.کتاب سے ان مشکلات کا بھی خوب اندازہ ہوتا ہے جو احمدی مبلغین سلسلہ کو میدان تبلیغ میں پیش آتی ہیں اور پھر ان سب مشکلات اور روکوں کے باوجود مبلغین سلسلہ کا ثبات قدم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے زیر سایہ آگے سے آگے بڑھتے جانے کا بھی خوب اندازہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت اور حفاظت کے نظارے ہر قاری کے دل میں زندہ خدا پر زندہ ایمان پیدا کرتے ہیں.
الغرض ارض بلال.میری یادیں ایک بہت ہی ایمان افروز کتاب ہے.میں مکرم منور احمد خورشید صاحب کو دلی مبارکباد دینے کے ساتھ ان کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ان یادوں کو مرتب کر کے جماعتی لٹریچر میں ایک بیش قیمت اضافہ کیا ہے اور تاریخ کی نظروں سے اوجھل واقعات کو محفوظ کر کے ایک عظیم خدمت سر انجام دی ہے.فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی صحت اور عمر میں برکت دے اور آئندہ بھی خدمات سلسلہ بجا لاتے رہنے کی توفیق دے.آمین.خاکسار عطاء المجیب راشد لندن 23 مارچ 2014 ء امام مسجد فضل لندن
تبصرہ از قلم : مکرم و محترم عبد الماجد طاہر صاحب.ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن ) میدان عمل میں مبلغین کی قربانیاں تاریخ احمدیت کا ایک روشن اور درخشاں باب ہے.ان قربانیوں کا ذکر خلفاء کرام کے خطابات میں بھی ملتا ہے اور بعض مبلغین کی تحریرات کے علاوہ تاریخ احمدیت کے اوراق بھی ان حقائق کو آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ کئے ہوئے ہیں.ارض بلال بھی ایک مبلغ کی کاوشوں مخلصین کی قربانیوں اور ایمان افروز واقعات کا تذکرہ ہے.کچھ دہائیاں قبل تک جماعت کے وسائل بھی محدود تھے اور مبلغین کی تعداد بھی بہت کم تھی.ارض بلال بھی ان حالات میں پیش آمدہ مشکلات ، تائیدات الہیہ، تاثیرات دعا اور بے مثال کامیابیوں کا مجموعہ ہے.جس کا مطالعہ یقیناً ایمان افروز اور روح پرور ہے.مصنف نے یہ تاریخی یا دیں یکجا صورت میں جمع کر کے جماعتی لٹریچر میں میں نہایت خوبصورت اضافہ کیا ہے.اس کتاب کا مطالعہ جہاں مشکل حالات میں سابقہ مبلغین کی قربانیوں اور کاوشوں کی ایک جھلک پیش کرتا ہے وہاں نئے مبلغین کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہوئے خلافت کے زیر سایہ ہر قسم کے نامساعد حالات میں آگے ہی آگے قدم بڑھانے کا حوصلہ بھی عطا کرتا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف کو اس کارخیر کی اعلیٰ جزاء عطا فرمائے اور قارئین کرام کو اس سے استفادہ کی توفیق بخشے.آمین.عبدالماجد طاہر (ایڈیشنل وکیل التبشیر - لندن)
عرض حال جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا اللہ تعالی کے فضل سے میں اپنی زندگی کی تلخ و شیریں اور گرم وسر دساٹھ سے زائد بہاریں دیکھ چکا ہوں.کہیں تو خوشیوں اور مسرتوں کے شادیانے ہیں اور کہیں غموں اور دکھوں کے لامتناہی سلسلے.ایک افریقن دوست سے ایک بار میں نے پوچھا: آپ کی عمر کتنی ہے کہنے لگے: ”آج کل بونس پر جارہا ہوں.“ میں نے کہا: بھئی بونس سے کیا مراد ہے؟“ کہنے لگے: ”دیکھو! اللہ تعالی نے سرور کائنات فخر موجودات، خیر البشر حضرت محمد صلی ایم کو تو تریسٹھ سال کی زندگی عطا فرمائی تھی اس لئے انسان کی اصل عمر تو یہی ہے اگر کسی کو چند سال او پرمل گئے ہیں تو وہ بونس ہی ہے.“ ہرانسان کے ساتھ اپنی روز مرہ زندگی میں روزانہ ہی اچھے برے واقعات پیش آتے ہیں اگر انسان ان سب واقعات کو قلمبند کرناشروع کر دے تو سینکڑوں جلدیں تیار ہو جائیں.ایک مصنف کی کتاب میری نظر سے گزری.وہ لکھتا ہے کہ دنیا کا ہر انسان اپنے اپنے دائرہ میں ایک ہیرو ہی ہوتا ہے خواہ وہ ایک ادنی سا ملازم ہی ہو اور اس کی اپنی زندگی کے واقعات اس کے نزدیک اتنے ہی دلچسپ اور اہم ہوتے ہیں جس طرح کوئی ایک بہت بڑا سرکاری افسر ، تاجر ، قومی کھلاڑی ہو یا کسی بھی شعبہ حیات میں ترقیات کے اعلی ترین مقام پر فائز ہو.مصنف لکھتا ہے: ایک آدمی جو خرگوشوں کی دیکھ بھال پر مامور تھا وہ روزانہ اپنے اہل خانہ اور احباب رفاقت کو آکر اپنی عقلمندی ، بہادری ، ہوشیاری اور قابلیت کے یہی واقعات سناتا تھا کہ جو سفید خرگوش ہے وہ بڑا
شرارتی ہے ، چھوٹے خرگوش کو مارتا ہے.میں نے اسے آج ایسا سبق سکھایا ہے کہ پھر سارا دن دم دبائے ایک طرف بیٹھا رہا.یعنی اس کی ساری کائنات ہی ان خرگوشوں کے واقعات سے وابستہ ہے.اسی طرح میں نے بھی اپنے میدان عمل کے زمانہ سے اپنی دید و شنید اور مشاہدہ سے چند واقعات اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں صفحہ قرطاس پر بکھیر نے کی ایک ادنی سی کوشش کی ہے.ایک دفعہ میں نے گیمبیا جماعت کے ایک بہت ہی قابل قدر بزرگ مکرم الحاج ابراہیم عبد القادر جکنی صاحب مرحوم کے بارے میں ایک مضمون لکھا جو جماعت کے مؤقر جریدہ الفضل میں شائع ہوا.کچھ عرصہ بعد مجھے ایک دوست نے کہا: جزاکم اللہ.آپ نے مضمون لکھ کر حاجی صاحب کو زندہ کر دیا ہے.“ نیز اس خواہش کا اظہار کیا: کیا ہی اچھا ہو اگر آپ میدان عمل سے کچھ دلچسپ اور ایمان افروز یاداشتیں احاطہ تحریر میں لے آئیں.“ اس مہربان دوست کو اللہ تعالی جزائے خیر دے.ان کی تحریک سے میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جو واقعات مجھے یاد ہیں انہیں قلمبند کر دینا چاہیے.اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں کوئی حکمت ہوتی ہے.فعل الحكيم لا يخلو عن الحكمة - خاکسار کئی سالوں سے عارضہ قلب، ذیا بیطس اور بلڈ پریشر کا مریض ہے.تین دفعہ اینجیو گرام کے علاوہ اوپن ہارٹ سرجری بھی ہو چکی ہے.اب گر دے بھی جواب دے چکے ہیں.اس لئے ڈیالیسز کے لئے ہر ہفتہ میں تین بار اسپتال میں جانا پڑتا ہے اور ہر سیشن پر نصف دن سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے.فارغ اوقات میں گھر پر ہی ہوتا ہوں.میں نے اس وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کام کی تکمیل کا بیڑا اٹھا لیا.بظاہر یہ کام خاصا مشکل تھا کیونکہ یا د ماضی کو کھنگال کر اس میں سے بھولی بسری یادوں کو یکجا کرنا پھر انہیں ضبط تحریر میں لاکر ایک کتابی صورت میں پیش کرنا.
بہر حال ہمت مرداں مدد خدا اللہ تعالیٰ نے ہمت عطا فرمائی اور یہ سب کچھ بفضلہ تعالی ممکن ہو گیا.الحمد للہ علی ذالک.یہ چند کلمات دراصل درخواست دعا ہیں کہ مولی کریم بقیہ ایام زندگی کو بھی مقبول خدمت دین میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور انجام بخیر فرمائے.آمین.انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات والسلام خاکسار منور احمد خورشید (واقف زندگی)
بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبد المسيح الموعود فہرست مضامین ارض بلال.میری یادیں I اظہار تشکر صفحہ نمبر مضمون فرمودات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام انتساب پیش لفظ : از قلم محترم منیر الدین شمس صاحب ایڈیشنل وکیل التصنيف لندن تبصرہ کتاب: از قلم محترم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن تبصرہ کتاب : از قلم محترم عبد الماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن عرض حال 1 تعارف گیمبیا باب اول : گیمبیا 2 گیمبیا کے لوگ 3 حدود واربعه 4 مذہب 5 دریائے گیمبیا 6 فیری کا سفر 7 زراعت مچھلی کی نعمت
و سیاحت 10 آب و ہوا 11 12 دینی روایتی مدارس 13 زبانیں 14 گیمبیا میں احمدیت 15 پہلے مرکزی مبلغ 16 پہلا مرکز جماعت 17 جماعت کی ابتدائی مخالفت 18 مولانا محمد شریف صاحب کا یقین محکم 19 وہ خوش نصیب جنہیں گیمبیا میں خدمت کی سعادت نصیب ہوئی 20 بطور امیر اور مشنری انچار ج 1961 سے 1997 21 مرکزی مبلغین کرام 22 نصرت ہائی سکول با نجول گیمبیا1997-1971 پرنسپل صاحبان 23 اساتذہ کرام نصرت ہائی سکول 24 ناصر احمد یہ مسلم ہائی سکول بھے (1984 - 1997) 25 اساتذہ کرام ناصر احمد یہ ہائی سکول 26 طاہر احمد یہ مسلم ہائی سکول ما نسا کونکو 1988-1997 27 اساتذہ کرام طاہر احمد یہ مسلم ہائی سکول 28 ڈاکٹر صاحبان جنہوں نے خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہا 1977-1997 29 وینٹسٹ ڈاکٹر صاحبان 1997-1970 30 متفرق شعبہ جات
باب دوم: سینیگال 1 چند مفید معلومات 2 سینیگال میں احمدیت اور پہلی بیعت 3 سینیگال کے ابتدائی مخلصین جماعت 4 خاکسار کا پہلا سفر سینیگال 5 سینیگال میں پہلی تبلیغی میٹنگ نیچ میں آمد 7 ڈاکار میں آمد 9 8 سینیگال میں بطور پہلے مرکزی مبلغ احمدیت سینیگال میں پہلامشن ہاؤس 10 ویزا کی مشکل آسان ہو گئی 11 کام میں برکت خداوندی 1 کیپ ورڈ میں احمدیت کا نفوذ باب.ورڈ 2 کیپ ورڈ کا پہلا سفر اور تائید الہی کے نظارے 3 آغاز سفر 4 پرا یا ایر پورٹ پر دوفرشتے 5 تبلیغی کاوشیں مکرم حمید اللہ ظفر صاحب کا دورہ کیپ ورڈ 1 گنی بساؤ کا تعارف 2 گنی بساؤ میں احمدیت باب چہارم: گنی بـــاؤ II Ш IV
گنی بساؤ کے صدر مملکت Nino کا دورہ گیمبیا 4 خاکسار کا دورہ گنی بساؤ 5 گنی بساؤ میں پہلے مبلغ احمدیت 6 شدید مخالفت اور نو مین لینڈ میں مرکزی کارکنان ملک بدر 7 موریطانیہ 2 8 خاکسار کا پروگرام دوره موریطانیہ باب پنجم مخالفت 1 دشمنان احمدیت کے مقابل پر الہی نصرت کے چند واقعات مکرم علی با یو صاحب کے دشمن تباہ ہو گئے 3 محمد دیبا صاحب شکرانے کے آنسو اور ان کی ایک عجیب حسرت 4 مباہلہ کے چیلنج میں ہلاک 5 احمدیت قبول کرنے پر اہل خانہ نے مسجد سے نکال دیا 6 تیجانی پیر صاحبان کی مخالفت باب ششم : قبولیت احمدیت کے چند دلچسپ اور ایمان افروز واقعات الحاج ابراہیم عبد القادر پر حملہ کا پروگرام 2 خاکسار کے ذریعہ گیمبیا میں پہلا پھل: محترم گورنر محمد جوب صاحب 3 ہماری کشتی میں آجاؤ، یہ محفوظ ہے 4 آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے 5 ایک قدیم بیعت فارم 6 فاووراجالو نے ایک بجے رات بیعت کر لی 7 کمپانٹو کے علاقہ میں پیغام احمدیت کو سانار کے علاقہ میں احمدیت کا تعارف V VI
VII VIII IX X 9 و رشائول کے علاقہ میں ورود احمدیت 10 مایوسی خوشی میں بدل گئی 11 کمبل گاؤں میں احمدیت کا پودا لگ گیا 12 سینیگال میں پہلے احمدی نمبر دار کا اعزاز 1 شرک سے تائب 2 وجو د خلافت کے لئے فدائیت باب ہفتم : روحانی انقلاب 3 بیعت کے بعد اپنے گھر میں اذان بلند 4 احمدیت کی برکت سے باعمل مسلمان بن گئے ایک نو مبایع کا صداقت حضرت مسیح موعود پر ایمان باب ہشتم: انفاق فی سبیل اللہ 1 مالی قربانی کے چند ایمان افروز واقعات 2 چندہ کی برکت سے گمشدہ سامان مل گیا مسیح کی جماعت کو پیدل نہیں چلنا چاہیے باب نہم : احمد بیت کا ایمان افروز سفر 1 ڈاکٹر سامبو جان باہ صاحب کی ایمان افروز داستان 2 محمد جو نجی دیبا صاحب ( سابق صدر فرافینی ) کے سفر احمدیت کی داستان داستان مکرم عثمان دابوصاحب اخلاص و وفا کا پتلا 4 خدائی وعدہ کے ثمرات کا آغاز باب دہم : چند دلچسپ خوا ہیں 1 حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی سینیگال کے بارے میں ایک رؤیا مبارکہ 2 ایک عجیب خواب جو بڑی شان سے پوری ہوئی
4 نیشنل اسمبلی سینیگال کے ہال میں خطاب اور امامت ایک غیر مسلم کی خواب سچ ہوگئی باب یازده: قبولیت دعا کے چند ایمان افروز واقعات 1 حضور انور کی دعا سے گورنر بن گئے 2 نگاه مردمومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں 3 نصرت خداوندی سے اتوار کی رات ویزے لگ گئے 4 خدا تعالیٰ نے چار دن کی مزید زندگی عطا فرما دی 5 معجزانہ حیات نو باب دوازده: گیمبیا کے چند مخلص دوستوں کا ذکر خیر 1 الحاج سر فرمان سنگھائے صاحب 2 الحاج ابراہیم عبدالقادر جکنی مکرم استاذ یوبی باه 4 امام علی با یو صاحب 5 مکرم ابوبکر طور صاحب شہید 6 مکرم اسمعیل ترارولے صاحب شہید 7 مکرم شنا جام شہید صاحب 8 ڈاکٹر خلیل سینگاڈو ( مرحوم ) آف گیمبیا و مکرم علی یو باه صاحب 10 مکرم بابا الیف تر اول صاحب 11 مکرم باشیخو د بیا صاحب 12 پا محمد جان 13 صالفوكينا XI XII
XIII XIV 14 امام اسماعیل طور 15 امام عرفان تراول 16 مکرم شیخ عمر د با صاحب 17 سیڈی مختار حیدرا 18 ابوبکر فاطی 19 مکرم الحاج الامن جوارا صاحب 20 الحاج ابراہیم مبوصاحب باب سیزدہ: سینیگال کے چند مخلصین کا تذکرہ 1 مکرم حمد باہ صاحب ایک نڈر داعی الی اللہ 2 پہلے سینیگالی معلم 3 استاذ احمد لی صاحب 4 گورنر عمر لامین باجی شہید 5 قصہ شہادت مکرم چوہدری داؤ د احمد حنیف صاحب 7 مکرمہ بشری حنیف صاحبه 9 ایک قابل قدر نوجوان فضل احمد مجو کہ صاحب مکرم صالی جابی صاحب کا ذکر خیر 10 مکرم حسن جالوصاحب مرحوم 11 ایک مخلص داعی الی اللہ مکرم عبد القادر بھٹی صاحب مرحوم باب چہاردہ: میدان عمل سے چند دلچسپ تبلیغی واقعات 1 نڈ وفان میں استاذ یوسف کے ساتھ مباحثہ 2 کولڈا کے علاقہ میں نفوذ جماعت
ولنگارا کے علاقہ میں احمدت کا نفوذ 4 امام نے کہا میں تو پہلے ہی احمدی ہوں 5 استاذ سعودی عرب سے قادیانیت کی خاص ڈگری لے کر آیا 6 اللہ تعالی نے دشمن کا دل موم کر دیا 8 داؤ د باہ کا دیوار پر اعلان احمدیت خدمت خلق 9 ایک پیر صاحب کی مہمان نوازی 10 موریطانین نوجوان کی حق گوئی 11 ایک پیر صاحب کا اعتراف حق باب پانژده: حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کی چند خوبصورت یادیں 1 مبارک چهره 2 آپ کے چہرے پر نور نبوت 3 شفقت و محبت کا بحر بیکراں 4 کیڑی کے گھر نارائن 5 ایک یادگار انعام 6 وصال حضرت خلیفۃ المسیح الرابع الہی تائید و نصرت کا ایک عجیب واقعہ باب شش ده: میدان عمل کے مختلف واقعات 1 سینیگال میں امام مہدی.لائن فرقہ 2 جماعت احمدیہ کی کتاب اپنی صداقت میں سینیگال کے اخبار میں شائع کرادی 3 امام لاء کی قبر پر السلام علیکم یا نبی اللہ 4 ایک غیر از جماعت پاکستانی دوست اور عثمان دا بو صاحب کی نماز تہجد XV XVI
XVII 5 خلیفہ خدا بناتا ہے 6 آنرا یبل سفیر سیرالیون کی حق گوئی 7 جب پیر صاحب شیر کا روپ دھارتے ہیں 9 8 سارے تعویذ چولہے میں پھینک دیئے و ابتدائی دور کی چند یادیں 10 دیار غیر میں پہلی نماز عید 11 ناصراحمد یہ مسلم ہائی سکول بصے گیمبیا 12 آمین سرمنی کی تقریبات 13 امیر پیٹرول پر اور گاڑی دعاؤں سے چلتی ہے 14 انمول ہیرا.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب 15 آسمانی ضیافت 16 ایک احمدی معمار کی خدمت دین باب ہفت دہ : خدا تعالی کی تائید و نصرت کے چند دلچسپ واقعات 1 پوٹو میں مدوجزر اور نصرت خداوندی 2 پھر خدا تعالیٰ نے ان کی خواہش کو پورا کر دیا 3 مرکز سے گرانٹ کی آمد سے قبل مرکز کے اکاؤنٹ میں رقم 4 چند روزه خدمت دین کا اجر 5 معجزانہ شفا عطا فرما دی 6 سفر ہے شرط مہمان نواز بہتیرے حفاظت خداوندی-طیارہ بخیریت مطار پر پہنچ گیا پولیس کی طرف سے وارنٹ اور نصرت الہی 9 عمر جوب ( پولیس انسپکٹر ) ایک فرشتہ کے روپ میں
باب ہشت رہ: مصنف کی ذاتی زندگی سے چند واقعات 1 خاکسار اور وقف زندگی 2 مسبب الاسباب نے اپنے حضور سے شفا کے سامان پیدا فرما دیئے آپ نے خدا کے ساتھ اپنا کیا ہوا عہد پورا کر دیا 4 وقف کی برکت سے تنگدستی کشائش میں بدل گئی 5 خدا تعالی کی طرف سے دلجوئی 6 ”اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما - دوفرشتہ سیرت بزرگ والدہ محترمہ کی وفات کا دلخراش حادثہ اختتامیه ہجوم مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا طریق دردمندانہ التجا XVIII
ارض بلال.میری یادیں باب اوّل......] يمبا Atlantic Ocean SENEGAL AFRIKA 0 Bakau (cape point) Fajara Kotu Beach Kololi Beach Kerr Sering Apartments Serekunda BANJUL Gambia River GAMBIA + Banjul Airport تعارف گیمبیا دُنیا میں چھ براعظم ہیں جن میں سے سب سے بڑا براعظم ایشیا کہلاتا ہے.اس کے بعد براعظم افریقہ کا نمبر آتا ہے.براعظم افریقہ کو علاقائی تقسیم کے اعتبار سے پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کے نام مغربی افریقہ مشرقی افریقہ، وسطی افریقہ شمالی اور جنوبی افریقہ ہیں.اس براعظم میں کل ممالک کی تعداد پچپن ہے.افریقہ میں عام طور پر آبادی تو سیاہ فام بھائیوں کی ہے لیکن شمالی افریقہ میں چند عرب ممالک بھی اس میں شامل ہیں جیسے مصر، سوڈان، تیونس، الجزائر ، مراکش، موریطانیہ اور ویسٹرن صحارا اوغیرہ.مغربی افریقہ میں ممالک کی کل تعدا د سولہ ہے.گیمبیا مغربی افریقہ کے ممالک میں سے آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے سب سے چھوٹا ملک ہے.اس کی کل آبادی 1.7 ملین ہے.24
ارض بلال.میری یادیں جید اس کا رقبہ 11295 مربع میل ہے یہ ملک دریائے گیمبیا کی دونوں اطراف میں ہے.اس کا دارالحکومت با نجول Banjul ہے جو ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے.یوم آزادی 18 فروری 1965ء.اس میں نظام حکومت پارلیمانی ہے.کرنسی کا نام ڈلاسی Dalasi ہے.بڑی آبادی Greater Banjul کہلاتی ہے.جماعت کا مرکزی مشن ہاؤس، نصرت ہائی سکول اور احمد یہ ہسپتال بھی اسی علاقہ میں ہیں.معروف شہر اور قصبے درج ذیل ہیں: Bansang, Janjanbury, Soma Farafenni, Brikama, Serekunda, Banjul, Basse, Fatoto, Kuantaour, Kaur, Kerewan & Bara.گیمبیا کے لوگ ہیں.☆ یہاں کے لوگ بہت مہمان نواز ، شریف الطبع اور ملنسار ہیں.گیمین لوگ فطرتا نرم خو ہیں.زبانی لڑائی جھگڑا کرتے ہیں مگر ہاتھا پائی سے احتراز کرتے یہ قوم بڑی ہی صابر و شاکر ہے.جو خدا نے دے دیا اسی پر خوش ہیں.ہی قتل و غارت اور اغوا جیسی لعنت سے بہت حد تک پاک ہیں.مرکزی شہر کے علاوہ ملک بھر میں جرائم کی شرح بہت کم ہے.حدوداربعہ گیمبیا کے مشرق ، جنوب اور شمال میں سینیگال ہے جبکہ مغرب کے تھوڑے سے حصہ میں بحر اوقیانوس ہے.یہاں پر ایک مثل مشہور ہے.کیمبین لوگ کہتے ہیں کہ گیمبیاسینیگال کے پیٹ میں ایک خنجر ہے جبکہ سینیگالی کہتے ہیں کہ سینیگال ایک مگر مچھ ہے اور گیمبیا اس کے مونہہ میں ایک زبان 25
ارض بلال- میری یادیں ) کی طرح ہے.سینیگال جب چاہے مگر مچھ کی طرح منہ بند کرلے اور زبان کو غائب کر دے.در حقیقت گیمبیا کاسینی گال اور سمندر کے علاوہ کوئی بھی ہمسایہ نہیں ہے.سینیگال کے ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں جانے کے لئے گیمبیا میں سے گزرنا پڑتا ہے.مذہب ہے.تلی تھی.آبا دی چورانوے فیصد ( %94) مسلمان ہے.باقی تعداد عیسائیوں اور دیگر مذاہب کی احمدیت سے قبل ان اقوام پر عیسائیت کا بہت زیادہ اثر تھا کیونکہ یہ قوم انگریزوں کے زیر اکثر تعلیمی ادارے عیسائیوں کے تھے.اس لئے اکثر طالب علموں کے دو نام ہوتے تھے.ہر طالب علم کا ایک پیدائشی اسلامی نام ہوتا تھا دوسرا عیسائی نام جو سکول میں داخلہ کے وقت انتظامیہ اسے دیتی تھی.مسلمان ملک ہونے کی برکت سے کئی دیگر ممالک کی نسبت یہاں بہت سی قباحتیں کم ہیں.جملہ اس ملک کے معروف اسلامی فرقے تیجانی ، مرید ، قادریہ ہیں.چند ایک عرب ممالک کی پروردہ تنظیمیں بھی ہیں.یہ سینیگال میں موجود معروف پیروں کی گدیاں، درباروں اور مسلم تنظیموں سے وابستہ ہیں.آجکل سعودی بلاک کے مقابل پر ایران نے بھی اپنے مدارس و مساجد کا پروگرام شروع کر رکھا ہے.در پائے گیمبیا.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ چھوٹا سا غیر معروف خطہ ارض کیوں ان بڑی بڑی اقوام کے لئے غیر معمولی توجہ کا مرکز بنارہا ہے؟ دراصل یہ سب کچھ دریائے گیمبیا کی غیر معمولی حیثیت کی وجہ سے تھا.26
ارض بلال.میری یادیں اس دریا کی لمبائی گیارہ سو تیس کلومیٹر ( سات سو میل) ہے.میہ دریا ایک قریبی ملک گنی کوناکری کے بالائی حصہ کے پہاڑوں فوٹا جالونگ سے ایک نالے کی طرح اپنا سفر شروع کرتا ہے.پھر سینیگال میں سے گزرتا ہوا تانبا کنڈا کے قریب گیمبیا میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر پورے گیمبیا کے درمیان سے بہتا ہوا تقریبا پانچ سوکلومیٹر کا طویل اور کٹھن سفر طے کر کے بانجول کے قریب بحر اوقیانوس میں جا گرتا ہے.با نجول سے Kaur تک اس دریا کا پانی نمکین ہے اور زراعت کے قابل نہیں ہے.بانجول سے کا عور تک دریا کا پانی کبھی سمندر کی طرف کومحو سفر ہوتا ہے اور کبھی چاندنی راتوں میں سمندر سے دریا کے بالائی حصہ کی طرف چل رہا ہوتا ہے.دراصل یہ سب سمندر میں مدوجزر کے نتیجہ میں ہوتا ہے.فیری کا سفر جب میں گیمبیا پہنچا ان دنوں بانجول سے بصے تک ایک فیری لیڈی رائٹ چلتی تھی جس میں لوگ اپنے مال ومتاع کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے.ان دنوں سڑکیں نہ ہونے کے برابر تھیں اگر تھیں تو اسقدر ٹوٹی پھوٹی تھیں کہ ان پر سفر کرنا محال تھا.پہلے مبلغ جماعت مکرم مولانا محمد شریف صاحب نے بھی اسی فیری کے ذریعہ ملک کی بعض جماعتوں کا دورہ کیا تھا.Basse پہنچ کر آپ نے فیری میں چند دن قیام کیا تھا.میں نے بھی ایک دفعہ بصے سے Goerge Town تک اس میں ایک سفر کیا تھا.غالباً اسی سال فیری فرافینی کے قریب دریا میں ڈوب گئی.اس زمانہ میں ہمارے خطوط بھی فیری کے ذریعہ ہی آتے جاتے تھے.اس لیے فیری میں ہماری بہت سی ڈاک بھی ڈوب گئی.اس کے بعد اندرون ملک گیمبیا میں فیری کا نظام ختم ہو گیا.27
ارض بلال.میری یادیں.م دریائے گیمبیا اور انسانی خرید وفروخت اس دریا کا سینہ تو زیادہ چوڑا نہیں لیکن اس کا پیٹ کافی گہرا ہے جس کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے بحری جہاز چند سوکلومیٹر کا سفر اندرون ملک بآسانی کر سکتے ہیں.دریائے گیمبیا غلاموں کی تجارت کا ایک بہت اہم ذریعہ تھا.گیمبیا کے بعض جزائر میں غلاموں کی قید و بند کے لئے بہت سے قید خانے بنے ہوئے ہیں.ان میں جارج ٹاؤن جیمز آئی لینڈ وغیرہ معروف ہیں.ہمیں اس دریا کے راستے پندرہویں سے سترہویں صدی تک تقریباً تین ملین معصوم انسانوں کو جانوروں کی طرح جہازوں میں لاد کر دنیا بھر میں انسانوں کی خرید وفروخت کی منڈیوں میں لے جا کر ان کی قسمت کے مالکان کے حوالے کر دیا جاتا رہا.زراعت یہاں کی زمین بہت زرخیز ہے مگر وسائل کی کمی کے باعث پانی کی دستیابی مشکل ہے.اہل گیمبیا کی اہم زراعت مونگ پھلی ، باجرہ ہکئی اور چاول کی فصلیں ہیں.موسم برسات موسم برسات جولائی سے اکتوبر تک رہتا ہے.اہل گیمبیا کی زراعت کا انحصار اسی موسم پر ہے.اس میں اپنی فصل کاشت کرتے ہیں.چند ماہ کے بعد اسے کاٹ لیتے ہیں جس سے ان کے لئے سال بھر کے دانے آجاتے ہیں.گیمبین لوگوں کے دلوں کی طرح ان کی زمین بھی جو عام حالت میں بہت سخت ہوتی ہے، جو نبی ہلکی سی بارش ہو جائے ، بالکل نرم ہو جاتی ہے.کسان ایک گدھے، گھوڑے یا بیل سے ہی ہل چلا لیتے ہیں.اس کا تصور پاکستان کا زمیندار نہیں کر سکتا کیونکہ ہمارے ہاں تو زمین میں بار بار ہل چلانا پڑتا ہے.لیکن یہ لوگ صرف ایک 28
ارض بلال- میری یادیں بار سے ہی کام چلا لیتے ہیں.مونگ پھلی اس قوم کے لئے مونگ پھلی خدا تعالی کی ایک بڑی نعمت ہے جو یہاں کی عام پیداوار ہے.اس کو لوگ مختلف طریقوں سے کھاتے ہیں.کبھی چھلکے سمیت بھون کر یا ابال کر یا پھر بغیر چھلکے کے بھون کر اور اُبال کر کھا لیتے ہیں.پھر اس مونگ پہلی کو چھیل کر اس کے دانوں کو پیس کر اس کا پیسٹ (Paste) بنا لیتے ہیں جس کو کھانا پکانے کے لئے گھی یا تیل کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہیں.یہاں لوگ ہر طرح سے مونگ پھلی کھاتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے ان کا گلا خراب نہیں ہوتا.مچھلی کی نعمت دریا اور سمندر تازہ بتازہ مچھلی (لَحْمًا طَرِيًّا ) مہیا کرتے ہیں.یہ خدائی من وسلوی حسب تو فیق خود بھی خوب کھاتے ہیں.اس کے بعد اپنے قریبی افریقن ممالک تو کیا یورپ تک اس پانی کی لذیذ مچھلی کولوگوں کے دستر خوانوں کی زینت بناتے ہیں.اس طرح یہ مچھلی اہل گیمبیا کے لئے نام ودام کا ذریعہ بنتی ہے.سياحه گیمبیا کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہی خوبصورت اور شفاف ساحلوں سے نواز ہے.اس لئے بہت سے یورپین انویسٹرز نے ہوٹلنگ میں سرمایہ کاری کی ہے جس کے باعث بہت سے سیاح سال بھر سیر کے لئے ادھر آتے رہتے ہیں اور یہ اس ملک کی آمد کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.29
.میری یادیں آب و ہوا اس ملک کے دار الحکومت اور اس کے ماحول میں ساحلی علاقوں کا موسم بہت اچھا ہے.یہاں موسم سرما میں بھی آپ کو گرم کپڑے پہنے کی ضرورت بہت کم محسوس ہوتی ہے.گرمیوں میں بھی پاکستان کی نسبت موسم بہت خوشگوار ہے.اگر آپ پنکھ لگا لیں آپ کو ٹھنڈی ہو ملتی ہے.مگر جیسے جیسے آپ ملک کے بالائی حصہ کی طرف سفر کرتے ہیں تو اسی نسبت سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے.بصے (Basse ) آخری شہر ہے.یہاں پر بھی دیگر شہروں کی طرح بعض اوقات سال بھر بجلی غائب رہتی ہے.اس علاقہ میں مئی جون کے مہینوں میں درجہ حرارت 52-45 کے قریب ہوتا ہے.ایک دفعہ رمضان کے دنوں میں، میں نے بانجول میں مکرم مولانا امیر داؤ د احمد حنیف صاحب کو فون کرنا تھا.اس زمانہ میں گھروں میں فون کی سہولت نہیں ہوا کرتی تھی.اس لئے فون کی غرض سے ٹیلیفون ایکسچینج میں جانا پڑتا تھا.وہاں گیا تو دیکھا کہ آپریٹر کھانا کھا رہا تھا.میں نے اس سے کہا، میاں! تم نے روزہ کیوں نہیں رکھا؟ ہنس کر کہنے لگا، استاذ میں بانجول کا رہنے والا ہوں میرے لئے بصے کے علاقہ کا ایک روزہ بانجول کے چار روزوں کے برابر ہے.اس لئے میں ہر چار دن کے بعد ایک روزہ رکھ لیتا ہوں امید ہے معزز قاری کو اس واقعہ سے بانجول اور بصے کے موسم کا فرق معلوم ہو جائے گا.1938 ء تک گیمبیا میں صرف چند ہائی سکول تھے جو عیسائی تھے: آر میج ہائی سکول ( جارج ٹاؤن ) ی گیمبیا ہائی سکول ( بانجول) سینٹ انفسطن ہائی سکول ( بانجول) 30
ارض بلال.میری یادیں حمد سینٹ جوزف ہائی سکول ( بانجول) ی سینٹ پیٹر ہائی سکول ( لامن ) آجکل خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے چار ہائی سکول تعلیمی میدان میں قوم وملت کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں : نصرت ہائی سکول ( سرے گنڈا) ناصر احمد یہ مسلم ہائی سکول ( بصے ) طاہر احمد یہ مسلم ہائی سکول ( مانسا کونکو ) اد مسرور احمد یہ مسلم ہائی سکول (لامین) تعلیم کے میدان میں ابھی کام کی بہت ضرورت ہے.اگر چہ حالیہ سالوں میں کافی نئے تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں.اب تو بریکامہ نامی شہر میں ایک چھوٹی سی یو نیورسٹی بھی کھل گئی ہے جس میں دیگر اہم مضامین کے علاوہ میڈیسن کے مضامن کا بھی اضافہ ہو گیا ہے.دینی روایتی مدارس مختلف مکتب فکر کے عربی مدارس اب بہت زیادہ ہو گئے ہیں جن کا انداز تعلیم و تدریس اور نتائج باقی اسلامی دنیا کے دینی مدارس کی طرح ہی ہیں اور ان مدارس کے مابین رقابت اور حسد کی بیماری بھی پائی جاتی ہے.دینی مدارس کے طلبہ کو روزانہ گھر گھر جا کر اللہ کے نام پر مانگنا پڑتا ہے جس سے طلبہ کا پیٹ بھرتا ہے اور مدرس کا چولہا بھی جلتا ہے.زبانیں سرکاری زبان انگریزی ہے.دیگر معروف زبانیں ہیں : Mindinga, Foula, Wolf, Jola, Serer, Jahanky & Bambra.31
گیمبیا میں احمدیت.میری یادیں ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار یہ کرم مجھ پر ہے کیوں کوئی تو اس میں بات ہے بے سبب ہرگز نہیں یہ کاروبار کردگار مجھ کو خود اس نے دیا ہے چشمہ توحید پاک تا لگا دے از سر نو باغ دیں میں لالہ زار دوش پر میرے وہ چادر ہے کہ دی اس یا رنے پھر اگر قدرت ہے اے منکر تو یہ چادر اُتار صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا ان کا جو کام ہے وہ ارباب سیاست جانیں.اپنا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے! دنیا کے نقشہ پر براعظم افریقہ پر نگاہ ڈالیں پھر اس میں مغربی افریقہ کے ایک بہت چھوٹے اور غیر معروف سے ملک گیمبیا کے بارے میں سوچیں جسے دنیا کے نقشے میں بھی تلاش کرنا مشکل امر ہے.اب ذرا تصور کریں کہ آج سے پچاس سال پہلے وہ کون سے ذرائع مواصلات تھے جن کے ذریعہ ہندوستان کے ایک چھوٹے سے غیر معروف گاؤں قادیان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام اس دورافتادہ خطہ ارضی پر پہنچتا ہے اور پھر اس خطہ کے باسی نہ صرف اس کے پیغام پر ایمان لے آتے ہیں بلکہ اس پیغامبر پر بھی سو جان سے عاشق اور فریفتہ ہو جاتے ہیں.نظمند را اشارہ کافی است کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت یہ ہے کہ یہ پیغام خداوندی، تقدیر الہبی کے تحت ، خدا تعالیٰ کی 32
ارض بلال.میری یادیں ) منشاء کے عین مطابق ، فرشتوں کے پروں پر ہی سوار ہو کر ادھر آ سکتا ہے.اب جماعت احمدیہ کی گیمبیا میں ورود مسعود کی داستان پیش خدمت ہے.فیصلہ منصف مزاج قاری از خود کر سکتا ہے.احمدیت کا پیغام گیمبیا کی ایک لڑکی اعلی تعلیم کے لیے سیرالیون گئی.وہاں اسے کسی دکان پر اسلامی نماز کی ایک کتاب ملی جس میں عربی زبان کے ساتھ انگریزی میں ترجمہ اور ٹرانسلٹریشن بھی تھی.اس لڑکی نے اپنے ملک میں کبھی ایسی کتاب نہ دیکھی تھی.اس نے وہ کتاب خرید لی اور گیمبیا میں اپنے ایک عزیز کو بجھوادی.یہ کتاب صدر انجمن احمد یہ قادیان کی شائع شدہ تھی.ایک نوجوان مسٹر بارہ انجائے ( Bara Injoy) نے قادیان جماعت سے رابطہ کیا اور مزید دینی کتب کیلئے درخواست کی.اسے جماعت نے مزید کتب ارسال کیں اور بتایا کہ آپ کے علاقہ نائیجیریا میں ہمارا مشن ہے.وہاں رابطہ کر کے مزید لٹریچر اور معلومات حاصل کر سکتے ہیں.اس زمانہ میں مکرم نور محمد نسیم سیفی صاحب نائیجیریا کے مشنری انچارج تھے.سب سے پہلے نائیجیریا سے ایک معلم مکرم حمزہ سنی الوصاحب گیمبیا تشریف لائے اور تقریباً ایک سال تک بانجول میں تبلیغ کرتے رہے.ان کے بعد گھانا جماعت کی طرف سے ایک لوکل معلم مکرم سعید جبریل صاحب ( والد محترم مرحوم احمد جبریل سعید نائب امیر جماعت احمد یہ گھانا ) چند ماہ کے لیے تشریف لائے.اس زمانہ میں چونکہ گیمبیا میں باقاعدگی سے جماعت قائم نہ ہوئی تھی اس لئے مکرم سعید صاحب اپنی گلے میں ایک بیگ ڈالے رکھتے تھے جس پر احمدیت لکھا ہوا تھا اور اس طرح گھوم پھر کر لوگوں کو مختلف طریقوں سے اپنی طرف متوجہ کر کے احمدیت کا پیغام پہنچاتے رہتے.اس طرح کافی لوگ بانجول اور اس کے مضافات میں جماعت کے نام سے شناسا ہو گئے اور کچھ لوگ جماعت کے کافی قریب بھی آگئے.اور پڑھے لکھے نو جوانوں کا مرکز احمدیت قادیان کے ساتھ بذریعہ خط و کتابت اچھا خاصہ رابطہ قائم ہو گیا اور وہاں سے اخبارات ورسائل بھی با قاعدگی 33
ارض بلال- میری یادیں کے ساتھ آنے شروع ہو گئے.پہلے مرکزی مبلغ ان کے بعد 1961ء میں مکرم چوہدری محمد شریف صاحب پاکستان سے بطور مبلغ اور مشنری انچارج گیمبیا تشریف لائے.تین سال کا عرصہ گزارنے کے بعد واپس پاکستان تشریف لے گئے.ان کے بعد مکرم غلام احمد صاحب بدوملہی بطور امیر گیمبیا تشرف لائے.پہلا مرکز جماعت ان دنوں مولا نا محمد شریف صاحب کا قیام مسٹر بار ہانجائی کے مکان پر تھا.یہ مکان رانکلین سٹریٹ بانجول میں تھا.اس لحاظ سے ہم اس گھر کو جماعت احمدیہ کا پہلا احمد یہ مشن ہاؤس کہہ سکتے ہیں.جماعت کی ابتدائی مخالفت مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کی آمد پر با قاعدہ مخالفت شروع ہوگئی.اس وقت بانجول شہر کے مرکزی امام الحاج محمد لامن باہ تھے جنہوں نے شہر کے چیدہ چیدہ لوگوں کو ساتھ ملا کر جماعت کے خلاف گورنر کے پاس جاکر جماعت کی مخالفت شروع کی کہ ایک نیا دین ہمارے شہر آگیا ہے جو ہم سب کیلئے بہت خطرناک ہے اس لیے آپ ان کے مبلغ کو ملک بدر کر دیں.گورنر ایک انگریز تھا اور عیسائی تھا.اس نے کہا کہ میں کس طرح اس مبلغ کو اس شہر سے نکال سکتا ہوں.اس پر اس نے بانجول شہر کے مسلم سر کردہ ارباب اختیار اور معززین کی ایک میٹنگ بلائی اور سب سے اس مسئلہ پر بات چیت کی.وہاں پر سب زعماء شہر نے اپنی اپنی رائے دی.مولا نا محمد شریف صاحب کا یقین محکم مولانا محمد شریف صاحب بھی اس میٹنگ میں موجود تھے.گورنر کے دفتر میں مخالفین جماعت نے بڑی تقریریں کیں اور ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے اور دھمکیاں دیں.اس پر چوہدری 34
ارض بلال.میری یادیں محمد شریف صاحب نے بڑے اعتماد سے یہ کہا کہ ہم بفضلہ تعالی صحیح اور پکے مسلمان ہیں.انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ ہم سچے ہیں اور بہت جلد ملک بھر میں ہماری جماعتیں قائم ہوں گئیں اور اگر نعوذ باللہ ہماری جماعت جھوٹی ہے تو از خود ختم ہو جائے گی.گورنر نے کہا، اس بات کی ضرورت نہیں ، فی الحال تین دن کے اندر اندر مجھے ان لوگوں کے نام ان کے دستخطوں کے ہمراہ لادیں جو آپ کے ساتھ ہیں تو اس کے بعد میں فیصلہ کروں گا.خدا تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ شہر کے پڑھے لکھے بہت سے نوجوان اور بعض امام کے سیاسی مخالفین بھی احمدی احباب کے ساتھ مل گئے.اس طرح تین دن کے اندر ان لوگوں نے تقریباً ایک ہزار افراد کے دستخط شدہ پیپرز گورنر کے دفتر میں جمع کرادیئے جس پر گورنر نے کہا کہ میں اس جماعت کو اپنے ملک سے کیسے نکال سکتا ہوں جس کے ماننے والے صرف بانجول میں اتنی بڑی تعداد میں ہیں.اس پر امام اور اسکے چیلوں نے بہت شور مچایا مگر بے سود! اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے معجزانہ طور پر جماعت احمدیہ کا قیام گیمبیا میں عمل میں آیا.در اصل گورنر نے جماعت کی بابت انگریز حکومت کے مرکز انگلستان سے رپورٹ منگوائی جس میں جماعت کے حکومت سے تعاون اور اس کے قابل اعتماد اور اعلی اخلاق کا ذکر تھا.مکرم مرزا عبد الحق صاحب نے اس خط کی فوٹو کاپی جماعت احمد یہ گیمبیا کے مرکزی دفتر میں سن انی کی دہائی میں دیکھی تھی.بیان مرزا عبد الحق صاحب استاذ نصرت بہائی سکول گیمبیا - حال جرمنی ) پھر اس تصرف الہی کے بعد کبھی یأتوك رجال نوحی الیھم من السماء کے خدائی وعدہ کے مطابق اور کبھی قبولیت دعا اور کبھی استخارہ کے اعجاز سے یا عقلی ونقلی اتمام حجت کے نتیجہ میں سخت سے سخت دل بھی موم ہوتے چلے گئے.چراغ سے چراغ جلتے گئے جس کے نتیجہ میں گیمبیا بھر میں مسیح پاک کے دیوانے پیدا ہو گئے.پھر خدا کے فرشتوں نے اس نور صداقت کو ہمسایہ ممالک 35
سینیگال، گنی بسادو وغیرہ میں پہنچادیا.ارض بلال.میری یادیں وہ خوش نصیب جنہیں گیمبیا میں خدمت کی سعادت نصیب ہوئی خدا تعالیٰ کے فضل سے خلفا ء عظام کے ارشادات کی تعمیل میں بہت سے بھائیوں کو گیمبیا میں مختلف میدانوں میں بطور واقف زندگی یا عارضی وقف کے طور پر خدمت دین کی توفیق ملی.ہر کسی نے کمال اخلاص اور وفا سے اس کا حق ادا کیا.ان میں جوان بھی تھے اور بوڑھے بھی تھے لیکن جذ بہ ہر ایک کا جوان تھا.ایک بزرگ ڈاکٹر صاحب کا جذبہ خدمت دین ایک بزرگ ڈاکٹر صاحب پاکستان سے خدمت دین کے جذبہ سے سرشار گیمبیا تشریف لائے.ان کا اسم گرامی مکرم ڈاکٹر سید ضیاء الحسن صاحب تھا.وہ پاکستان آرمی میں برگیڈ میٹر کے اعلیٰ عہدہ پر فائز رہ چکے تھے.ایک برگیڈیئر کے وسائل ، طرز زندگی اور سہولیات کا اندازہ تو ہم سب کر سکتے ہیں.خلیفہ وقت کی ایک آواز پر، بڑھاپے کے ایام میں ان سب سہولیات کو خیر باد کہہ کر اکیلے ہی اس میدانِ جہاد میں کود پڑے.مکرم مولانا امیر داؤ دحنیف صاحب نے انہیں بصے نامی قصبہ میں بھجوا دیا.بصے کے گرم موسم اور ملک کے آخری کنارے پر ہونے کے بارے میں قبل از میں ذکر کیا جاچکا ہے.ڈاکٹر صاحب موصوف کا کلینک اور رہائش ایک ہی مکان میں تھے.یہ مکان کرایہ پر لیا گیا تھا.اس کے ہمسایہ میں ایک نائٹ کلب تھا جو سر شام اپنے پروگرام شروع کرتا اور صبح تک اس کا شور وغل جاری وساری رہتا.میوزک اور گانوں کی آواز میں پورے ماحول میں گونجتی رہتیں.عام حالات میں اس مکان میں سونا ناممکن تھا.ایک دفعہ کسی دوست نے مکرم ڈاکٹر صاحب سے پوچھا، کیا آپ کو یہ شور وغل پریشان نہیں کرتا؟ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے ، اب تو اس قدر عادی ہو گیا ہوں کہ اگر یہ شور وغل نہ ہو تو نیند نہیں آتی.36
- میری یادیں ) کہتے ہیں ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ محترمہ نے پاکستان سے انہیں خط لکھا.ظاہر ہے، بیوی بچے پاکستان میں تھے اور ڈاکٹر صاحب اس بڑھاپے کے دنوں میں پردیس میں اکیلے تھے.اس لئے اہل خانہ کو فکر دامن گیر تھی اور پوچھا کہ آپ کے ساتھ کون کون ہوتا ہے؟ کھانا وغیرہ کون پکاتا ہے؟ اس پر ڈاکٹر صاحب نے انہیں جواب میں لکھا، میرا ایک نوکر ہے.صبح سویرے مجھے جگاتا ہے.نماز کے بعد وہ میرے لئے ناشتہ تیار کرتا ہے اس کے بعد کلینک کھولتا ہے.جب تھک کر گھر آتا ہوں.تو وہ میرے لئے چائے بناتا ہے.پھر دو پہر کا کھانا بناتا ہے.اسی طرح گھر کی صفائی وغیرہ کرتا ہے.پھر شام کا کھانا تیار کرتا ہے.اور مجھے پیش کرتا ہے.وہ نوکر میرا بہت خیال رکھتا ہے ، آپ بالکل فکر نہ کریں اور اس نوکر کا نام ضیاءالحسن ہے.اسماء گرامی گیمبیا میں مختلف شعبہ حیات میں خدمت کی توفیق پانے والے احباب کے اسماء گرامی پیش خدمت ہیں.اگر کسی صاحب کا نام غلطی سے رہ جائے تو اس کے لئے پیشگی معذرت.بطور امیر اور مشنری انچار ج 1961 ء سے 1997ء 6.1 مولانا محمد شریف صاحب مولانا غلام احمد بد و سلبی صاحب مولانا حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب مولانا عبدالشکور صاحب مولانا فضل الہبی انوری صاحب مولانا داؤ د احمد حنیف صاحب خاکسار منور احمد خورشید مولانا عنایت اللہ زاہد صاحب.37
ارض بلال.میری یادیں مرکزی مبلغین کرام 2.4.7.8.1 مولانا محمد شریف صاحب مکرم غلام احمد بدوملہی صاحب مکرم داؤ د احمد حنیف صاحب مکرم ملک محمد اکرم صاحب مکرم محمد اقبال غضنفر صاحب 6 مکرم مرز امحمد اقبال صاحب مکرم رفیق احمد جاوید صاحب مکرم نصیر احمد چیمہ صاحب و خاکسار منور احمد خورشید 10 مکرم عمر علی طاہر صاحب 11 مکرم حفیظ احمد شاہد صاحب 15.12 مکرم محمد سلیمان احمد صاحب 13 مکرم عنائت اللہ زاہد صاحب 14 مکرم طارق محمود جاوید صاحب مکرم محمد احمد شمس صاحب 16 مکرم طاہر مہدی امتیاز احمد صاحب مکرم منصور احمد مبشر صاحب 18 مکرم رانا مشہود احمد صاحب 19 مکرم عبدالحمید صاحب 17.38
20 مکرم فضل احمد مجو کہ صاحب 21 مکرم محمد طفیل گھمن صاحب ارض بلال.میری یادیں 22 مکرم نوید احمد عادل صاحب 23 مکرم محمد امین چیمہ صاحب مکرم میر عبدالمجید صاحب نصرت ہائی سکول با نجول گیمبیا1997-1971ء پرنسپل صاحبان مکرم نیم احمد صاحب، ان کو پہلے پر نپل بنے کا اعزاز حاصل ہوا.2.3.مکرم انیس احمد عقیل صاحب مکرم محمد محمود اقبال صاحب اساتذہ کرام نصرت ہائی سکول (1) محترمه مسز نگہت نسیم صاحبہ (2) مکرم محمدمحمود اقبال صاحب (3) چوہدری منیر احمد صاحب 4) مکرم مرزا عبدالحق صاحب (5) مکرم عبدالرشید منگلا صاحب 6) مکرم سید عبدالمؤمن صاحب 7) مکرم بشارت الرحمن صاحب مکرم اعجاز احمد صاحب 9) کرم نذیر احمد بھگا لو صاحب 10) مکرم حمید اللہ ظفر صاحب 39
11) مکرم سید ظفر الدین صاحب ارض بلال.میری یادیں (12) مکرمہ مسز سید ظفر الدین صاحبہ (13) مکرم مظفر احمد خالد صاحب 14) مکرم محمد طفیل گھمن صاحب 15) مکرم مبشر احمد صاحب (16) مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب 17) محترمہ بشری بشیر صاحبه 18 مکرم حیدر علی اوپل صاحب 19) مکرم محمد انور صاحب ناصر احمد یہ مسلم ہائی سکول بصے (1984-1997 ء ) 1) مکرم سعید احمد چھٹہ صاحب.(پہلے پرنسپل بننے کا اعزاز ان کو حاصل ہوا) 2) مکرم محمود احمد صاحب.بی ٹی (3) ملک خالد احمد صاحب ذفر (4) مکرم را نا ندیم احمد صاحب خالد 5) مکرم عبدالقادر بھٹی صاحب اساتذہ کرام ناصر احمد یہ ہائی سکول 1) خاکسار منور احمد خورشید (2) مکرم نذیر احمد بھگا لو صاحب (3) مکرم ممتاز احمد ورک صاحب 4) مکرم را نا ندیم احمد صاحب 40
ارض بلال.میری یادیں 5) مکرم توصیف احمد ساجد صاحب 6) مکرم عبدالواحد صاحب (7) مکرم نعیم احمد صاحب طاہر احمد یہ مسلم ہائی سکول مانسا کونکو 1988-1997ء 1 مکرم سید جلید احمد.( پہلے پرنسپل بنے کا اعزاز ان کو حاصل ہوا.) مکرم فرحت جلید صاحب مکرم طاہر مہدی امتیاز صاحب مکرم طارق محمود جاوید صاحب اساتذہ کرام طاہر احمد یہ مسلم ہائی سکول ۱۰ مکرم بشارت احمد صاحب وائس پرنسپل 1.3.2 محترمه مسز بشارت احمد صاحبہ مکرم محمد انور ندیم صاحب مکرم را نا عرفان احمد صاحب ڈاکٹر صاحبان جنہوں نے خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہا 1977-1997ء (1) مکرم ڈاکٹر سعید احمد صاحب کا عور.فرافینی 2) مکرم ڈاکٹر احتشام الحق صاحب بانجول 3 مکرم ڈاکٹر منور احمد صاحب.(حال آکسفورڈ انگلستان) 4) مکرم ڈاکٹر حفیظ خان صاحب.انجوارا 5 مکرم ڈاکٹر طاہر احمد (بریکامہ، سوما ، بصے ) 6 ڈاکٹر محمد اشرف صاحب ( بریکامه ) 41
ارض بلال- میری یادیں) (7 مکرم ڈاکٹر لئیق احمد انصاری صاحب (بصے، بانجول) 8 مکرم ڈاکٹر عمر دین سدھو صاحب ( بانجول) و مکرم ڈاکٹر برگیڈیئر سید ضیاء الحسن صاحب (بصے ) 10 مکرم ڈاکٹر کیپٹن (ر) الحاج محمد خان صاحب عدنی ( بریکامه ) (11) مکرم ڈاکٹر محمود احمد صاحب (کشمیر انڈیا) 12 مکرم ڈاکٹر منور احمد صاحب (انجوارا، بانجول) 13 مکرم ڈاکٹر لئیق احمد فرخ صاحب ( انجوا را ، بصے ) (14) مکرم ڈاکٹر حفیظ احمد صاحب ( بانجول) (15) مکرمہ ڈاکٹر امۃ الشکور صاحبہ (بانجول) 16 مکرم ڈاکٹر محمد اشرف صاحب ( کا عور، فرافینی ) 17) مکرم ڈاکٹر نصیر الدین صاحب (بصے ) 18 مکرم ڈاکٹر نعیم اللہ صاحب ( کاعور.فرافینی ) (19 مکرم ڈاکٹر سمیع اللہ طاہر صاحب ( کا عور ، فرافینی ) 20 مکرم ڈاکٹر عبد المؤمن جدران صاحب (بصے ) ڈینٹل سرجن صاحبان 1997-1970ء 1) مکرم ڈاکٹر محمد اجمل صاحب (2) مکرم ڈاکٹر داؤ داحمد طاہر صاحب 3) مکرم ڈاکٹر فرید احمد صاحب (4) مکرم ڈاکٹر سلطان غوث صاحب آف موریشس 5 مکرم ڈاکٹر حمید اللہ نصرت اللہ پاشا صاحب 42
ارض بلال.میری یادیں 6 مکرم ڈاکٹر حمید اللہ صاحب ( شہید کراچی) متفرق شعبہ جات 2.مکرم صو بیدار عبدالغفار صاحب ایڈمنسٹریٹر 2 مکرم ملک محبوب احمد صاحب ایڈمنسٹریٹر محمود انجم صاحب ڈسپنسر 3.4.5.6.مکرم چوہدری عبدالعزیز ڈوگر صاحب شعبہ تعمیرات مکرم عبدالحمید چھینہ صاحب شعبہ تعمیرات مکرم مختار احمد صاحب شعبہ تعمیرات مکرم محمد امین چھینہ صاحب شعبہ تعمیرات ☑☑ 43
ارض بلال.میری یادیں....باب دوم.....) سینیگال North Atlantic Ocean worldatlas EUROPE Mediterranean Sea 23°5'N SENEGAL AFRICA South Atlantic Occan 23°5'5 MIDDLE EAST TROPIC OF GANGER Arabian Sea EQUATOR - 0 WE Lake Victoria MERIDIAN GraphicMaps.com PRIME Indian Ocean TROPIC OF CAPRICORN 1000 mi 1000 km تعارف سینیگال نام ملک : سینیگال SENEGAL.آبادی چودہ ملین کے قریب ہے.دار الحکومت : ڈاکار DAKAR بڑا شہر: ڈاکار ہے.اس کی آبادی چار ملین سے زائد ہے.دوسرا بڑا شہر : طوبیٰ ہے جو مرید فرقہ کا مرکز ہے.اس کی آبادی پانچ لاکھ سے زیادہ ہے.سابق حکمران: فرانس د یوم آزادی: 23/06/1960 سرکاری زبان : فرانسیسی دیگر زبانیں : و ولف ، فولانی ، سیریر ، منڈنگا، جولا وغیرہ 44
نظام حکومت : پارلیمانی ارض بلال.میری یادیں رقبہ: مربع میل 196,723 کرنسی : سیفا فرانک.آجکل 6.56 یورو برابر ہے ایک ہزار سیفا کے.ہمسایہ ممالک: گیمبیا، موریتانیہ، گنی بساؤ ، گنی کو نا کری ، مالی موسم : ڈاکار اور اس کے مضافات میں بوجہ ساحل سمندر ہونے کے موسم بہت اچھا ہے.ملک کے باقی ماندہ حصے خاصے گرم ہیں.ہے.ذرائع آمد بھیتی باڑی ، ماہی گیری، سیاحت سیاحت کا مرکز : MBOUR نامی شہر موسم کے لحاظ سے بہت خوب ہے.یہ ہوٹلوں کا شہر ی اکثریت : آبادی مسلمان ہے.معروف فرقے تیجانیہ،مرید ، قادریہ، لائن ہیں.چند مفید معلومات یہ معلومات میرے سینیگال میں پچیس سالہ قیام کا خلاصہ ہیں : حمد یہ ملک ترنگا ( مہمان نواز ) کہلاتا ہے.مہمان کا بہت احترام کرتے ہیں.اس قوم میں انسانی ہمدردی بہت پائی جاتی ہے.بہت خوش اخلاق اور ملنسار لوگ ہیں.لوگ فطرتی طور پر مذہب پسند ہیں.یہاں ہر قسم کا اچھا اور حلال کھانامل سکتا ہے جو باقی کئی افریقن ممالک میں ممکن نہیں ہے.ڈاکار ایک خوبصورت شہر ہے جسے فرانس نے اپنے دور اقتدار میں بڑی دلچسپی سے بنایا یہ شہر لمبائی میں تقریباً چالیس اور چوڑائی میں چند کلومیٹر ہے جو سڑک کی مانند سمندر کے اندر 45
ہے.ارض بلال.میری یادیں سنیگال پر ویسٹرن صحرا کا بہت اثر ہے.اس لئے سینیگال میں موریطانیہ کی جانب درخت بہت کم ہیں.ی کھانے کے وقت ہر کسی کو خواہ واقف ہو یا مسافرسب کو دعوت عام دیتے ہیں.سینیگال سیاسی اعتبار سے اپنے تمام ہمسایہ ممالک میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.اس ملک میں اندرون خانہ پیروں فقیروں کی حکومت ہے.ملک کی 94 فیصد آبادی مسلمان ہے.اس کے باوجود پہلے صدر مملکت عیسائی تھے.یہ افریقہ کا واحد ملک ہے جہاں پر فوج نے آج تک حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کی.یہ قوم لڑائی جھگڑے قتل و غارت اور اغوا جیسی لعنتوں سے پاک ہے.یر میں نے پچیس سال سینی گال میں دن رات سفر کیے ہیں، کبھی بھی کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش نہیں آیا.ہر کسی کو مذہبی آزادی ہے.ایک ہی گھر میں مسلم، عیسائی پر امن زندگی بسر کر رہے ہیں.ہ تجارت لبنانی قوم کے افراد کے پاس ہے جو کئی نسلوں سے یہاں آباد ہیں.ملک کی آبادی کا ایک فیصد لبنانی اور یورپین لوگ ہیں.جاتا ہے.ہوتا.بازار میں پھیری کا سامان بیچنے والے گاہک سے بیس گنا زائد پیسے مانگتے ہیں ،نو وار د پھنس عالیشان تعمیرات اور قیمتی رقبے پیروں اور انکی اولاد کے قبضہ میں ہیں جن کا کوئی محاسبہ نہیں اسلام میں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں.افریقن ممالک میں سب سے کم ایڈز کی بیماری اس خطہ میں ہے.46
ہے.ارض بلال- میری یادیں) کبھی حکومت کو اقتدار سے نہیں اُتارا گیا.با قاعدہ جمہوری طریق پر انتقال حکومت عمل میں آیا اب تک اس ملک کے سابقہ صدور کا ملک بھر میں احترام کیا جاتا ہے.معروف زمانہ گاڑیوں کی ریس ” پیرس ڈاکار ریلی ڈاکار میں آکر اختتام پذیر ہوتی ہے.روایات شادی کے موقع پر باپ نے بیٹی کو نصیحت کی بیٹی سوئی بنا، بکری نہ بننا.اس سے مراد یہ ہے کہ بکری کی طرح ذراسی بات پر چلا نا شروع نہ کر دینا بلکہ جس طرح سوئی دو الگ کپڑوں کو جوڑ کر ایک کر دیتی ہے اسی طرح تم نے دوخاندانوں کو ایک بنادینا ہے..طنز و مزاح اس قوم میں مزاح کا مادہ بہت پایا جاتا ہے اور ہر قبیلہ کا کسی دوسرے قبیلہ کے ساتھ مذاق کا رشتہ ہوتا ہے.کسی بھی جگہ سفر و حضر میں اگر کوئی نو وارد ملے تو اس سے اس کا نام پوچھتے ہیں.جب دوسرا آدمی اپنا نام اور قبیلے کا نام بتاتا ہے، اگر تو اسی کے قبیلہ سے ہوتو اس پر خوش ہو کر بات چیت بڑھا لیتے ہیں.اگر ان کے مقابل کا قبیلہ ہو تو از راہ مذاق کہتے ہیں، تمہارا نام تو اچھا ہے مگر قبیلہ درست نہیں ہے.بہتر ہے اسے تبدیل کر لو.یا کہیں گے یہ قبیلہ تو ہمارا غلام ہے یا ان کے بارے میں کوئی اور منفی بات کریں گے.اس طرح دونوں مسافر ہنس پڑیں گے اور ایک دوسرے سے مذاق کرنے لگ جائیں گے.جیسے وہ ایک دوسرے کو لمبے عرصہ سے جانتے ہیں.اس لئے جب بھی آپ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کریں تو آپ دیکھیں گے ہر کوئی بات کر رہا ہوتا ہے.یورپ میں اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے.47
ارض بلال.میری یادیں سینیگال میں احمدیت اور پہلی بیعت ابتدائی بیعتوں کا ایک پرانا رجسٹر گیمبیا مشن ہاؤس میں موجود تھا.اس کے مطابق ڈاکار شہر کے مکرم عبداللہ گئی صاحب نے سینیگال میں سب سے پہلے بیعت کی تھی.یہ تقریباً 1965ء کی بات ہے.جب میں سینیگال گیا، میں نے انہیں تلاش کرنے کی کافی کوشش کی مگر ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا.بعد میں بعض ذرائع سے علم ہوا کہ اب وہ سینیگال میں نہیں ہیں.سینیگال کے ابتدائی مخلصین جماعت 1985 ء میں جب خاکسار پہلی بار سینیگال کے دورہ پر گیا اس وقت ملک بھر میں چار مقامات پر چند احمدی خاندان تھے.ان مقامات کے نام اور ان تاریخی مخلص احباب جماعت کے اسماء گرامی ذیل میں رقم ہیں ممکن ہے کسی بھائی کا نام اپنے کمزور حافظہ کی وجہ سے نہ لکھ پاؤں تو اس کے لئے پیشگی معذرت ہے.اگر ان کا نام میری تحریر میں نہ آسکا تو کوئی بات نہیں کیونکہ ان کے نام اللہ تعالیٰ کے رجسٹر میں تو محفوظ و مامون ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو سند قبولیت سے نوازے اور ان کی اولاد کو بھی ان کے روحانی ورثہ کا امین اور محافظ بنائے.آمین.KAOLACK عمر آؤ صاحب اور ان کے چار بیٹے محمد آؤ، احمد آؤ، ابراہیم آؤ، عبداللہ آؤ، موسیٰ جاکو صاحب ،ماری باہ صاحب کا بو انجاء صاحب،احمد بجوف صاحب، ابراہیم جوف.NGUCH عکیوئوہ صاحب، بیر وم باہ صاحب، صالی جَابِی صاحب 48 KAMPAMANT حمد صاحب
SARIBUNGARI عمر باہ، بچی سوہ، محمد باہ ، موسیٰ باہ خاکسار کا پہلا سفر سینیگال ارض بلال- میری یادیں اگست 1984ء کا ذکر ہے،ان دنوں خاکسار گیمبیا کے ایک قصبہ بصے میں بطور مربی سلسلہ مقیم تھا.علاوہ ازیں مکرم امیر صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں جماعت احمدیہ کے تعلیمی ادارہ ناصر احمد یہ مسلم ہائی سکول میں انتظامی اور تدریسی خدمات بھی حسب توفیق سرانجام دے رہا تھا.مکرم امیر صاحب نے سینیگال سے ایک نوجوان معلم مکرم احمد لی صاحب کو میرے پاس بھجوادیا جو چند مہینے میرے ساتھ بصے کے علاقہ میں رہے.اس دوران انہوں نے سینیگال کے متعلق بہت سی باتیں بتائیں جس کے نتیجہ میں مجھے بھی سینی گال کے بارے میں خاصی دلچسپی پیدا ہوگئی اور پھر دل میں یہ خواہش بھی پیدا ہوئی کہ اگر ممکن ہو تو سینیگال جا کر دیکھنا چاہیئے.اتفاق سے کچھ عرصہ کے بعد گیمبیا کے تعلیمی اداروں میں موسم گرما کی تعطیلات کا وقت آگیا.میں نے مکرم امیر صاحب سے سینیگال جانے کی اجازت طلب کی جو انہوں نے بخوشی مرحمت فرما دی.اس پر میں اور احمد لی صاحب سینیگال کو روانہ ہو گئے.یہ ایک لمبا سفر تھا.برسات کا موسم تھا.رستوں کا برا حال تھا.بصے سے بذریعہ وین سینیگال کے قریبی شہر و لنگارا گئے.وہاں سے ایک اور دین لی اور تانبا گنڈا پہنچ گئے.اس کے بعد کولخ کو روانہ ہو گئے.یہی علاقہ ہماری پہلی منزل تھی کیونکہ صرف اسی علاقہ میں کچھ مقامات پر گنتی کے چند احمدی احباب تھے.پہلی رات ہم دونوں کو لخ کی مضافاتی آبادی سار بجگاری میں پہنچے.وہاں جماعت کی ایک چھوٹی سی کچی مسجد تھی.ہم نے یہ رات اسی مسجد میں بسر کی.یہ نہایت ہی غریب آبادی تھی.اس میں ہر طرف برساتی پانی کھڑا تھا جس کی وجہ سے پورے علاقہ میں مچھروں کی خاصی بہتات تھی.بہر حال وہ رات بہت لمبی تھی.صبح ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی.خیر اللہ کے فضل سے رات 49
ارض بلال.میری یادیں ) بخیر گزرگئی اور پھر اگلی صبح چند احباب جماعت سے ملاقات ہوئی..اس کے بعد ہم دونوں ایک لوکل ٹرانسپورٹ پر کمپاماں گاؤں چلے گئے.وہاں پر صرف ایک ہی احمدی دوست تھے.ان کا مکان ایک ہی کچا سا کمرہ تھا جو مکئی کے کھیت کے عین درمیان میں تھا.وہیں پر دو پہر اور شام کا کھانا کھایا.دونوں اوقات میں دودھ اور ابلا ہوا باجرہ کھانے کو دیا گیا جو ہم نے بخوشی کھالیا.باجرہ اور دہی یہ لوگ باجرہ کو بھگو کر پیس لیتے ہیں بلکہ کوٹ لیتے ہیں.ایک بڑے سے برتن میں پانی بھر کر اسے چولہے نما جگہ پر رکھ دیتے ہیں.پھر اس باجرہ کے آٹے کو ایک چھانی نما برتن میں ڈال کر پانی والے بڑے برتن کے اوپر رکھ دیتے ہیں.پھر چولہے میں آگ جلاتے ہیں.اس سے پانی کی بھاپ سے یہ باجرے کا آٹا پک جاتا ہے.پھر اس پر سالن ، دودھ اور دہی جو بھی میسر ہو، ڈال کر کھا لیتے ہیں.اب دہی بنانے کا آسان طریق ان کے ہاں یہ ہے کہ گائے کا دودھ نکالا اور ایک بڑے اور چوڑے برتن میں ڈال دیا.چند دن کے بعد یہ دودھ خود بخود رہی بن جائے گا.ابتدا میں اسے دیکھنے اور کھانے میں مشکل پیش آتی ہے.لیکن جب بھوک ستا رہی ہو اور یہ بھی یقین ہو کہ اس پورے دن میں اور اس پورے علاقہ میں اس کے سوا کچھ کھانے کو نہیں ملے گا، تو پھر اس کا اپنا ہی مزہ ہے.سینیگال میں پہلی تبلیغی میٹنگ اسی شام مکرم حمد باہ صاحب نے اپنے گاؤں میں ایک تبلیغی میٹنگ کا اہتمام کیا.گاؤں کے کافی لوگ تشریف لائے.حسب توفیق ان تک پیغام صداقت پہنچایا.رات گئے تک سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ چلتا رہا.حاضرین مجلس نے کافی دلچسپی کے ساتھ پروگرام سنا اور سراہا.میٹنگ کے بعد واپس اپنے مکئی کے کھیت میں شب بسری کے لئے آگئے.اپنے کمرے میں پہنچے.میزبان نے 50
ارض بلال.میری یادیں پلاسٹک کی ایک چٹائی ہمارے احترام میں زمین پر بچھا دی اور ہم لوگ اس پر لیٹ گئے.جانوروں کی آوزیں ، کھیت کا حبس، مچھروں نے بھی اپنے اپنے خیالات موسیقی بجا کر سنائے.ان سے محظوظ ہوتے ہوتے سوتے جاگتے رات گزرگئی.شب تنور گذشت شب سمور گذشت.ریڑھے کا دلچسپ سفر اس کے بعد اگلی صبح ایک اور گاؤں میں جانا تھا.اس گاؤں کا نام سارِ بُنگاری تھا.ہمارے میزبان نے وہاں جانے کے لئے ریڑھے کا انتظام کیا.پھر ہم دونوں اپنے میزبان کے ہمراہ سار بنگاری پہنچے.یہ کچھ چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں پر مشتمل ایک مختصر سا گاؤں ہے.ادھر مکرم بیجی سوہ صاحب کے گھر پہنچے.اس گاؤں میں صرف تین ہی احمدی دوست تھے.اس گاؤں میں چند دن ہم لوگوں نے گزارے.کئی بار لوگوں سے تبلیغی بات چیت ہوئی.سب گاؤں والوں نے ہمارا بہت احترام کیا.ہماری باتوں کو دلچسپی سے سنا.ہر وقت کوئی نہ کوئی دیہاتی میرے پاس رہتا.انکی ساری زندگی میں شاید ، میں پہلا غیر ملکی تھا جس نے ان سے بات چیت کی ہوگی یا ان کے ساتھ کھانا کھایا ہوگا.وہاں ہر کھانے میں خواہ ناشتہ ، دو پہر یا شام کا کھانا ہو، ایک ہی ڈش تھی.یعنی باجرے اور دودھ کے ساتھ ہی وہ ہماری خاطر مدارت کرتے.بہر حال جو ان کے پاس میسر تھا، بخوشی پیش کر رہے تھے.پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ گاؤں میرا پسندیدہ گاؤں بن گیا.زندگی میں بہت دفعہ وہاں راتیں بسر کیں.اب تقریباً سارا گاؤں احمدی ہے.ایک معلم صاحب ادھر رہتے ہیں اور ایک مسجد بھی ہے.نیچے میں آمد اس کے بعد ہماری اگلی منزل نیچے تھی.یہ گاؤں ملک کی ایک شاہراہ پر واقع ہے.اس جگہ پر ایک عربی استاذ مکرم سالی جابی صاحب رہتے تھے.ان کے علاوہ مکرم علیو سوہ صاحب فوٹوگرافر اور ایک دوست بیروم باه صاحب بھی رہتے تھے.ان سب سے ملاقات ہوئی.حسب توفیق ان کو جماعت 51
ارض بلال- میری یادیں ) کے بارے میں بتایا.ادھر بھی چند دن گزارے اور پھر اگلی منزل کو روانہ ہو گئے.اب خدا تعالی کے فضل سے اس گاؤں میں ایک بڑی مخلص جماعت ہے جس کی اپنی ایک بڑی ہی خوبصورت مسجد ہے.اس گاؤں میں احمدیت کا کمزور سا پودا بفضل الہی ایک تناور شجر بن چکا ہے.مبور MBOUR میں آمد حسب پروگرام اب ہماری نئی منزل مبور شہر تھا.اس کے لئے ہم نے ایک لوکل ٹرانسپورٹ لی جس کی مدد سے کولخ آگئے.اس کے بعد سینیگال کے مشہور شہر مبور میں پہنچے.یہ شہر سمندر کے ساحل پر واقع ہے.اس لئے اس کی آب و ہوا بہت ہی خوبصورت ہے.یہاں آکر لگتا ہے کہ اب ہم افریقہ میں نہیں ہیں بلکہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئے ہیں.یہ ہوٹلوں کا شہر ہے.اس میں بہت ہی اعلی قسم کے بڑے بڑے عالیشان ہوٹل ہیں.ان ہوٹلوں کے مالکان تو یورپین لوگ ہیں لیکن کارندے افریقن ہیں.ہر طرف یورپین سیاح آپ کو آتے جاتے نظر آتے ہیں.اس شہر میں مکرم حمد باہ کے برادر اصغر موسیٰ باہ صاحب بھی رہتے ہیں جو ابھی تک محکمہ زراعت میں بطور ڈرائیور ملازم ہیں.ہم لوگ ان کے گھر پہنچے درمیانہ سامکان تھا.کمرے میں شہری مکانوں کی طرح کرسیاں میز وغیرہ بھی تھے.جونہی ہم لوگ ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو سامنے دیوار پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی فریم شدہ تصویر آویزاں تھی.اس تصویر کو دیکھ کر دل کو اتنی مسرت ہوئی کہ ساری تھکاوٹ دور ہو گئی.یہاں مکرم موسی باہ صاحب نے ہماری خوب خاطر مدارت کی ، ہمارا بہت خیال رکھا، حسب توفیق اچھا کھانا پیش کیا.اس دورہ کے دوران یہاں پہلی بار باجرے اور دودھ کے علاوہ کچھ اور کھانے کو ملا.نہانے کے لئے پانی بھی وافر ملا.اس لئے خوب نہائے ، کپڑے دھوئے.ساحل سمندر پر ہونے کی وجہ سے ان کا صحن بھی ریتلا تھا.یہاں پر نہ گرمی تھی.اور نہ ہی مچھر مکھی صحن میں ہم لوگ گدا ڈال کر لیٹ گئے.بہت پر لطف نیند آئی.52
.میری یادیں ڈاکار میں آمد اس کے بعد ہم ڈاکار پہنچے.ڈاکار میں سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا تھا.احمد لی صاحب کے ایک دور کے عزیز کسی محکمہ میں چوکیدار تھے.ہم ان کے پاس چلے گئے.وہ ہمیں بڑے تپاک سے ملے اور ہمیں خوش آمدید کہا.ان کی اپنی رہائش ایک بڑے سے گیراج نما کمرہ میں تھی جس کے باہر ایک برآمدہ سا تھا.وہ انہوں نے بڑی فراخ دلی کے ساتھ ہمیں پیش کر دیا.یہ برآمدہ ہمارے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا.اس برآمدہ میں قالین نما گدے سے پڑے ہوئے تھے.ہم اس پر ایک طرف دراز ہو گئے.یہ فیملی بڑی ہی مہمان نواز تھی.انہوں نے باوجود اپنی غربت و افلاس کے ہمارا بہت خیال رکھا.میاں بیوی دونوں ہی فرشتہ سیرت بزرگ تھے.ہم نے انہیں حسب توفیق جماعت کا تعارف کرایا جو انہوں نے بڑے غور سے سنا لیکن بیعت نہیں کی.پتھر سے تیم یہ صاحب بڑی عمر کے تھے.بہت دیندار قسم کے آدمی تھے.ظہر کے وقت کافی لوگ ان کے ہاں آگئے اور انہوں نے اسی برآمدہ میں نماز ادا کرنی شروع کر دی.میں نے دیکھا کہ جب بھی کوئی آدمی باہر سے آتا ہے وہ ایک جانب پڑے ہوئے پتھر کو اٹھا کر اس پر ہاتھ ملتا ہے.پھر اسے واپس وہیں رکھ دیتا ہے.میں نے احمد لی سے پوچھا، یہ لوگ کیا کرتے ہیں؟ اس نے بتایا کہ اس پتھر پر تیم کرتے ہیں.دراصل یہ لوگ موریطانیہ کی سرحد کے قریب کی بستیوں سے ہیں.اس لئے ان کی عادات بھی موریطانین کی طرح ہیں.موریطانین صحرائی لوگ ہیں، وہاں پانی کی بہت کمی ہے.اس لئے پانی بڑی ہی احتیاط سے استعمال کرتے ہیں.اب تو ان کی ایسی عادت بن چکی ہے کہ اگر یہ لوگ دریا کے کنارے پر بھی ہوں تو پھر بھی تیم ہی کرتے ہیں.ڈاکار کی.ڈاکار ایک بہت ہی خوبصورت شہر ہے.اس کے موسم کا کیا کہنا! سارا سال نہ گرمی ہے نہ اک اک کام کا سارا سال تہ گری ہے نہ 53
ارض بلال- میری یادیں ) سردی.میری ایک پاکستانی سفیر صاحب سے علیک سلیک تھی.ایک روز کہنے لگے میں نے دنیا کی بہت سیر کی ہے لیکن ڈاکار جیسا موسم کہیں نہیں دیکھا.یہاں کی تجارت پر لبنانی حضرات کا قبضہ ہے.کہتے ہیں دنیا میں لبنانی صرف کھانے پینے اور عیش و عشرت کے لئے ہی آئے ہیں.میرے ایک دوست لبنانی تھے، ایک دن مجھے کہنے لگے استاذ ! دنیا میں تم جہاں بھی جاؤ گے، آپ کو لبنانی ضرور ملیں گے لیکن ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر آپ کو کوئی لبنانی نہیں ملے گا.میں نے حیرانگی کے ساتھ اُسے پوچھا، وہ کونسی جگہ ہے؟ کہنے لگا جنت میں.چونکہ اس شہر میں لبنانی حضرات کی ایک خاصی تعداد ہے جو کئی نسلوں سے یہاں پر رہ رہی ہے.اس لئے اس شہر میں آپ کو دنیا بھر کی نعمتیں بآسانی مل جاتی ہیں بشرطیکہ جیب اجازت دیتی ہو.چند دن اس بزرگ مہربان چوکیدار کے گھر سے کھانا کھایا ، اس کے برآمدے میں بڑے مزے سے سوئے اور پھر بادل نخواستہ ، وہاں سے روانہ ہو کر تانبا کنڈا شہر پہنچے.رات بس کے اڈے پر گزاری اور پھر اگلے روز واپس اپنے شہر بھتے پہنچ گئے.دورہ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ 1985 ء میں مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلی ، مغربی افریقہ کے چند ممالک کے جماعتی دورہ پر تشریف لائے.آپ اس دورہ کے دوران گیمبیا میں بھی تشریف لائے.ملک بھر کی جماعتوں کا ایک تربیتی دورہ کیا.اس کے بعد جماعت کے مختلف ادارہ جات کے افسران سے ضروری میٹنگز کیں.ان میں سے ایک میٹنگ آپ نے مبلغین و متعلمین کے ساتھ بھی کی جس میں آپ نے سب مبلغین و همین.معلمین کے کام کا جائزہ لیا.سینیگال میں بطور پہلے مرکزی مبلغ احمدیت مبلغین سے ایک میٹنگ کے دوران آپ نے مکرم امیر صاحب کو ارشاد فرمایا کہ خاکسار کو سینیگال میں بطور مبلغ بھیج دیں.اس ارشاد کی تعمیل میں مجھے امیر صاحب نے سینیگال جانے کے 54
- میری یادیں - لئے ارشاد فرمایا.میں نے حسب توفیق تیاری کی اور سینیگال کو روانہ ہو گیا.مکرم امیر صاحب کی ہدایت کے مطابق میں نے سینیگال کے شہر کولخ میں جانا تھا کیونکہ ان دنوں سینیگال بھر میں صرف کو لخ کے علاقہ میں ہی ایک مختصر سی جماعت تھی.اس کے علاوہ کو لخ کے مضافات میں چند مقامات پر ا گاڈ کا احمدی دوست موجود تھے.کول میں آمد ان دنوں کو لخ شہر سینیگال میں آبادی کے اعتبار سے دوسرابڑا شہر شمار ہوتا تھا.یہاں پر احمدی بھائی سب ہی مزدور پیشہ تھے.دو احمدیوں کے سارِ نگاری کی کچی آبادی میں چھوٹے چھوٹے مکان تھے.یہ مکان بھی کرنگٹن کے تھے.یعنی عارضی طور پر تعمیر کیے گئے تھے کیونکہ اس علاقہ کی زمین با قاعدہ الاٹ نہیں ہوئی تھی.ان میں سے ایک فیملی مکرم عمر آؤ صاحب کی تھی اور دوسری مکرم موسیٰ جالو صاحب کی تھی.موسیٰ جالو صاحب کے صحن میں ایک چھوٹی سی کرنگٹن کی مسجد بنی ہوئی تھی.ان کے علاوہ غالباً کسی بھی احمدی کا اپنا ذاتی مکان نہیں تھا.یہ سب بھائی مختلف محلوں میں کرائے کے مکانوں میں رہتے تھے.سینیگال میں پہلا مشن ہاؤس جب میں کولخ آیا ان دنوں کسی بھی احمدی بھائی کے گھر پر مہمان ٹھہرانے کی گنجائش نہیں تھی.اس لئے فوری طور پر ایک مناسب کمرہ کی تلاش شروع کر دی.سارا دن مختلف محلوں میں کمرہ کی تلاش میں پھرتا رہا لیکن بے سود ! شدید گرمی اور لمبے سفر اور تھکاوٹ کی وجہ سے مجھے بخار بھی ہو گیا.میں ایک احمدی کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا.سوچ رہا تھا کہ رات کہاں گزارنی ہے.ایک احمدی نوجوان ایک قریبی ریستوراں میں کھانا کھانے کے لئے گیا تو اس نے اس ریستوراں کی مالکہ سے کمرہ کے بارے میں پوچھا.اس پر اس خاتون نے بتایا کہ میں نے سنا ہے کہ آج میرے گھر میں ایک کمرہ خالی ہو رہا ہے.مجھے اس نوجوان نے بتایا.ہم دونوں اس مکان پر پہنچے اور مالک مکان کو 55
ارض بلال.میری یادیں ) فوری طور پر ایڈوانس دیا اور کمرہ کی چابی لے لی.اس طرح اچانک مجھے یہ کمرہ مل گیا.دراصل اسی روز ایک مزدور وہ کمرہ چھوڑ کر کہیں اور جارہا تھا.اس کمرہ میں کوئی چار پائی وغیرہ نہ تھی.کمرہ کچا تھا.فرش اکھڑے ہوئے تھے.اس میں ایک پرانا سا فوم کا گدا موجود تھا.میں چونکہ سفر کی تھکاوٹ اور بخار کی وجہ سے بہت کمزوری محسوس کر رہا تھا اس لئے فوراً کمرہ کھولا اور گدے پر لیٹ گیا اور پھر ساری رات بغیر کھائے پئے گزار دی.اللہ نے فضل کیا صبح تک طبیعت سنبھل چکی تھی.قریبی ریستوران میں جا کر ناشتہ وغیرہ کیا.اس مکان میں دس کمرے تھے اور ہر کمرے میں مختلف لوگ کرائے پر رہ رہے تھے.اس سارے گھر میں ایک ہی مشتر کہ غسل خانہ اور بیت الخلاء تھا جسے استعمال کرنا بہت صبر آزما کام تھا.یہ کمرہ گیراج ڈاکار ( جہاں سے ڈاکار کے لئے گاڑیاں ملتی تھیں) کے قریب تھا جو کولخ سے ڈاکار جانے والی ایک مصروف سڑک کے دائیں طرف برلب سڑک تھا.کمرہ کی کھڑکی سڑک کی طرف کھلتی تھی جس کی وجہ سے زندگی کافی متحرک نظر آتی تھی لیکن سڑک پر دوڑتی ہوئی گاڑیوں کی چیخ و پکار ساری رات بیدار رکھنے میں مدد کرتی.لیکن کچھ عرصہ کے بعد ( میں آئی تے بو مکائی والی بات ہوگئی ) شور وغل اور چیخ و پکار کا احساس ہی ختم ہو گیا.اس مکان سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ایک سونا ڈلیس کا سٹور تھا ( گورنمنٹ کی اشیائے خوردونوش کی دکان ) اس دکان کے نگران ایک بہت ہی نیک فطرت دوست مسٹر فال تھے.ان کی دکان پر خرید و فروخت کے لئے چند بار گیا، مختلف موضوعات پر بات چیت ہوتی رہی جس کی وجہ سے ان سے میری اچھی خاصی دوستی ہوگئی.ان کا سر کاری مکان تھا جو کافی بڑا تھا اور اس میں قدرے بہت بہتر سہولتیں تھیں.مسٹر فال نے مجھے کہا کہ اگر آپ نے غسل خانہ وغیرہ استعمال کرنا ہو تو میرے گھر آجایا کریں.اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ مشکل بھی حل کردی.ان کا میرے ساتھ حسن سلوک اور تعاون مثالی تھا.اللہ تعالی انہیں اجر عظیم عطا فرمائے.اکثر اوقات میں کھانا بھی انہی کے پاس کھا لیا کرتا تھا اور حسب توفیق انکی خدمت کر دیا کرتا تھا.56
ارض بلال.میری یادیں اس مکان کے مالک نے اسے گرا کر اس جگہ پر ایک بڑا خوبصورت مکان بنادیا ہے لیکن میرے دل ودماغ میں ابھی تک وہ کمرہ موجود ہے جسے گرانا کسی کے بس کا روگ نہیں ہے.موریطانین کے فرج کے لئے بجلی کا بل کمرہ ملنے پر رہائش کا مسئلہ تو کسی حد تک حل ہو گیا.پانی پینے کے لئے میں نے ایک مٹی کا گھڑا خرید لیا جس سے یہ مشکل بھی ختم ہوگئی.اب رہا کھانے کا مسئلہ،اس کے لئے میں نے ایک چھوٹا سا گیس کا سلنڈر اور کچھ ضروری برتن خرید لئے اور اپنے اس کمرہ میں ہی خود کھانا پکانا شروع کر دیا.روٹی بازار سے لے لیتا اور سالن خود تیار کر لیتا.ایک آدمی کے لئے روزانہ سالن تیار کرنا خاصہ مشکل کام ہے کیونکہ بہت سا وقت اسی پر لگ جاتا ہے.اگر ایک ہی دفعہ زیادہ کھانا تیار کر لیتا تو سخت گرمی کی وجہ سے اگلے دن تک سالن خراب ہو جا تا تھا جس کی وجہ سے خاصی پریشانی تھی.میرے مکان کے ایک کونے میں ایک موریطانین کی دکان تھی جس نے دکان میں ایک بڑا فریز ربھی رکھا ہوا تھا.ایک روز میں نے اسے کہا اگر تم مہربانی کر کے میرے کھانے کا برتن اپنے فریزر میں رکھ لو اور میں روزانہ اس میں سے حسب ضرورت کچھ نکال لیا کروں گا.تو آپ کی بہت مہربانی ہوگی.کہنے لگا، بھائی صاحب ! یہ بہت مشکل کام ہے.میرا بجلی کا بل پہلے ہی بہت زیادہ آ رہا ہے.آپ کے برتن کی وجہ سے اور زیادہ ہو جائے گا.اس لئے میں یہ کام نہیں کر سکتا.ویزا کی مشکل آسان ہوگئی اب میں کو لخ آتو گیا تھا لیکن میرے پاس یہاں لمبا عرصہ رہنے کا کوئی معقول جواز نہیں تھا.کسی وقت بھی کوئی سرکاری اہلکار مجھے پکڑ کر پس زنداں کر سکتا تھا.احمدی احباب میرے اس کمرہ سے خاصے دور دور رہائش پذیر تھے.سارا دن اپنی اپنی مزدوری کرتے ،صرف جمعہ کے روز نماز جمعہ پر ان میں سے چند ایک کے ساتھ ملاقات ہو جاتی.سینیگال میں لوگ انگلش نہیں بولتے اور مجھے فرنچ نہیں آتی تھی.میں فرنچ سے ملتی جلتی کوئی 57
ارض بلال- میری یادیں زبان بولنے کی کوشش کرتا تھا جسے اکثر اوقات لوگ میری بات سنے کی بجائے میرے چہرے کو دیکھنا شروع کر دیتے تھے جس کی وجہ سے رابطہ میں کافی دشواری تھی.اس لئے میں روزانہ اپنے مکان کے باہر ایک بینچ پر بیٹھ کر آتی جاتی گاڑیاں گنتا رہتا.ایک دن میں نے دیکھا کہ سڑک کی دوسری جانب بہت سی بچیاں اور بچے یونیفارم پہنے گزررہے ہیں.میں نے سوچا کہ اس علاقہ میں قریب ہی کوئی پرائمری سکول ہے.میں اٹھا اور اسی جانب چل پڑا.تھوڑی دیر کے بعد میں ایک پرائمری سکول کے دروازہ پر پہنچ گیا.سکول کا بیرونی گیٹ کھلا ہوا تھا، میں اندر چلا گیا.سامنے سکول کی عمارت تھی جس میں ایک کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا.میں اس کمرے کے پاس پہنچا، دیکھا کہ یہ پرنسپل کا دفتر ہے.میں سلام کر کے اندر چلا گیا.پرنسپل صاحب سے علیک سلیک ہوئی.انہیں میں نے اپنا نام بتایا.پرنسپل صاحب نے اپنا نام عبدالسلام باری بتایا.پرنسپل صاحب اچھی انگریزی بولتے تھے.اس لئے بات چیت کرنا آسان ہو گیا.میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ میں پاکستانی ہوں.آج کل گیمبیا میں بصے کے مقام پر ایک ہائی سکول میں پڑھاتا ہوں.میں یہاں سینیگال میں فرنچ سیکھنے کے لئے آیا ہوں.کہنے لگے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ میں نے بتایا کہ میں آپ کے سکول میں فرنیچ پڑھنا چاہتا ہوں.کہنے لگے یہ تو پرائمری سکول ہے.میں نے کہا کوئی بات نہیں ہے.میں چونکہ بہت ابتدائی فرنچ پڑھنا چاہتا ہوں اس لئے میرے خیال میں مجھے پرائمری تو کیا نرسری میں بیٹھنا چاہیئے.وہ بڑے حیران ہوئے.کہنے لگے، دیکھو آپ غیر ملکی ہیں ، میں آپ کو اپنے سکول میں محکمہ تعلیم کی اجازت کے بغیر نہیں رکھ سکتا.میں نے کہا چلو وہاں جا کر منظوری لے لیتے ہیں.خیر اللہ نے ان کا دل نرم کر دیا اور وہ میرے ساتھ قریب ہی محکم تعلیم کے دفتر کو چل دیے.انہوں نے وہاں جا کر ایک متعلقہ آفیسر سے بات کی کہ یہ ایک پاکستانی ٹیچر ہے، گیمبیا سے آیا ہے.یہاں کچھ عرصہ کے لئے فرانسیسی پڑھنا چاہتا ہے.اسے آپ کی طرف سے اجازت نامہ چاہیے.وہ آدمی کچھ حیران سا ہوا.تھوڑی دیر بعد کہنے لگا آپ درخواست لکھ دیں، میں آپ کو اجازت نامہ دے دیتا ہوں.میں 58
ارض بلال- میری یادیں ) نے اسے بتایا کہ اگر مجھے فرانسیسی میں لکھنا آتا تو میں آپ کے پاس کیوں آتا.اس پر اس نے مسٹر باری کو کہا کہ آپ اس کے لئے درخواست لکھ دیں.مسٹر باری نے میری طرف سے درخواست لکھ دی.متعلقہ آفیسر نے محکمہ تعلیم کے پیڈ پر ایک اجازت نامہ ٹائپ کر کے اس پر اپنی مہر لگا کر مجھے وہ خط دے دیا.اس خط کی وجہ سے میرا سینیگال میں بلا روک ٹوک سفر کرنا آسان ہو گیا.سینیگال سے گیمبیا آنا جانا بھی ممکن ہو گیا.حصول تعلیم کے لئے نرسری کلاس میں اگلے روز میں سکول پہنچ گیا.پرنسپل صاحب کو میں نے بتایا کہ مجھے نرسری میں بٹھا دیں.پرنسپل صاحب نے مجھے اس کلاس میں بٹھا دیا اور ساری کلاس کو میرا تعارف بھی کرایا.اب معصوم ، چھوٹے چھوٹے افریقن بچے بڑی حیرانگی اور غور سے مجھے دیکھ رہے تھے.تھوڑی دیر بعد آدھی چھٹی ہوئی تو بچے پہلے تو مجھ سے خائف سے تھے پھر آہستہ آہستہ میرے قریب آنے شروع ہو گئے اور پھر مجھے ہاتھ لگا لگا کر دیکھنے لگے.خاص طور پر میرے سر کے بالوں کو چھورہے تھے.میں بھی ان کی خوشی میں خوش ہور ہا تھا.اس سے اگلے روز میں اگلی کلاس میں چلا گیا.اس طرح دو ہفتوں کے اندر میں نے تین کلاسز میں شرکت کر لی.اس کا بڑا فائدہ ہوا.تھوڑی بہت زبان بھی چل پڑی اور سکول کے سب بچوں نے مجھے سلام کرنا شروع کر دیا اور اساتذہ سے بھی اچھا تعارف ہو گیا.اس کے بعد میں نے سکول کو خیر باد کہہ دیا.لیکن سکول کے ساتھ رشتہ بہت مستحکم ہو گیا.پہلے تو میں خود چند ہفتوں کے لئے وہاں پڑھتا رہا.تفریح کے اوقات میں سٹاف روم میں جا کر اساتذہ کے پاس بیٹھ جاتا.اس بہانے اساتذہ کے ساتھ شناسائی ہو گئی.اس کے بعد نظام بدل گیا.میں نے پرنسپل سمیت سارے اساتذہ کو جماعت کے بارے میں تبلیغ شروع کر دی جس کو وہ بڑی دلچسپی سے سنتے رہے اور پھر ان میں سے چند اساتذہ نے مختلف میدانوں میں میری معاونت شروع کر دی.فجزاهم الله 59
ارض بلال.میری یادیں کام میں برکت خداوندی ان مشکل اور نامساعد حالات میں کام کا آغاز ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور خلیفہ وقت کی دُعاؤں اور رہنمائی اور معلمین اور داعین الی اللہ کے تعاون اور شب وروز محنت سے کام میں برکت پڑی اور اس کے شیریں ثمرات ملنے شروع ہو گئے.یہاں تک کہ ملک بھر میں جماعتیں قائم ہونا شروع ہو گئیں.اب بفضلہ تعالیٰ ملک بھر میں سینکڑوں جماعتیں قائم ہوچکی ہیں اور 2013 ء کے سال تک اتنی سے زائد مساجد بن چکی ہیں.الحمد للہ.60 60
ارض بلال.میری یادیں - \.....] North Atlantic Ocean worldatlas EUROPE 23'5'N Mediterranean Sea CAPE VERDE AFRICA South Atlantic Ocean 23'55 PRIME MERIDIAN GraphicMaps.com 0 MIDDLE EAST TROPIC OF CANCER Argblan Sea Lake Victoria EQUATOR Indian Ocean TROPIC OF CAPRICORN 1000 mi 1000 kam کیپ ورڈ ہے.جہ ملک کا نام کیپ ورڈ ہے.(CAPVERDE) یوم آزادی : 5 جولائی 1975 ء یہ ملک سینیگال سے 560 کلومیٹر کے فاصلہ پر بحر اوقیانوس Atlantic Ocean میں واقع اس کا کسی بھی دوسرے ملک سے بڑی رشتہ نہیں ہے.یہ ملک دس جزائر پر مشتمل ہے.جیسا کہ نقشہ سے واضح - ہے.اس ملک کے ایک جزیرہ سے دوسرے جزیرہ میں جانے کے لئے بحری یا فضائی رستہ استعمال ہوتا ہے.دار الحکومت کا نام پرایا ہے اور یہی بڑا شہر ہے.اس قوم کے باپ پرتگالی تھے اور مائیں افریقہ سے لائی گئیں تھیں.موجودہ نسل گندمی رنگ کی ہے.61
ارض بلال- میری یادیں سابق حکمران پرتگالی تھے.یوم آزادی 85-7-5 سرکاری زبان پرتگیزی ہے.دوسری زبان کر یول ہے جو پرتگیزی زبان تو ڑ موڑ کر بنی ہوئی ہے.نظام حکومت پارلیمانی ہے.رقبہ مربع میل 1557 ہے.آبادی 523560 ہے.کرنسی کا نام اسکوڈو ہے.مذہب : عیسائیت.رومن کیتھولک ہمسایہ: ہر طرف سمندر ہے.موسم گرم رہتا ہے.ذرائع آمد سیاحت اور ماہی گیری ہیں.ید سیاحت کا مرکز پرا یا شہر ہے.مالی کیفیت باقی ہمسایہ ممالک سے بہت بہتر ہے.معروف جزائر : پرایا، سال.وسٹا.بوا.مایو.سانٹیا گو.فوگو ہیں.شرح تعلیم 85 فیصد ہے.ہ لوگ مہذب اور سلجھے ہوئے ہیں.جرائم کی شرح بہت کم ہے کیونکہ آبادی کم ہے.مجرم کے لئے راہ فرار نہیں ہے.پندرھویں صدی سے پہلے یہ جزائر غیر آباد تھے.ان جزائر پر پرتگیزی افواج نے قبضہ کیا تو یہ جزائر غلاموں کی تجارت کا اہم مرکز بن گئے.62
ہیں.ارض بلال.میری یادیں مد انیسویں صدی میں جب غلامی کا خاتمہ ہوا تو اس کا زوال شروع ہو گیا.مقامی آبادی نے آزادی کی تحریک شروع کی.قتل و غارت ہوئی اس کے بعد انہیں آزادی مل گئی.ہ اب کچھ لوگ ہمسایہ ممالک سے تجارت کی غرض سے وہاں آگئے ہیں.چند چھوٹی چھوٹی مساجد بھی بن گئی ہیں جو سینیگال اور گنی کوناکری کے باشندوں نے بنائی ہ کسی زمانہ میں دنیا بھر میں پرتگیزی قوم کا طوطی بولتا تھا.اب تو صرف پانچ ممالک ہیں جہاں پر یہ زبان بولی جاتی ہے اور وہ پرتگال، برازیل، گنی بساؤ، کیپ ورڈ، اور کونگو ہیں اور یہ سارے ملک ہی اب دنیا بھر میں غریب ممالک کے طور پر شمار ہوتے ہیں.کیپ ورڈ میں احمدیت کا نفوذ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ یہ وعدہ فرمایا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اس عہد خداوندی کی تکمیل اور حضرت مسیح پاکٹ کے روح پرور اور جاودانی کلمہ حق اور جانفزا پیغام کو اقوام عالم کی روحانی تشنگی فروکرنے کی خاطر مرکز نے مختلف مشنوں کے ذمہ ان کے کچھ قریبی ہمسایہ ممالک لگا رکھے ہیں.اس سلسلہ میں گیمبیا جماعت کے پاس سینیگال، گنی بساؤ ، موریطانیہ، ویسٹرن صحارا اور کیپ ورڈ کے ممالک تھے.ان ممالک میں سے گنی بساؤ اور سینیگال کے ساتھ چونکہ گیمبیا کے ساتھ سرحدی رشتہ ہے جس کے ناطے خدا تعالیٰ نے ان ممالک میں نفوذ احمدیت کے اسباب بآسانی پیدا فرما دیئے.جس کے نتیجہ میں وہاں پر کام شروع ہو گیا اور پھر مبلغین کرام اور معلمین کی شب و روز کی محنت اور انتھک کوششوں اور دعاؤں کے نتیجہ میں اس کے شیریں ثمرات بھی بہت جلد ملنے شروع ہو گئے اور بفضلہ تعالیٰ ان دونوں ممالک میں مخلص اورمستحکم جماعتیں بھی قائم ہوگئیں.63
ارض بلال.میری یادیں حضرت خلیفہ المسیح الرابع " کا ارشاد جن دنوں میں گیمبیا کے شہر فرافینی میں بطور مربی سلسلہ خدمت دین پر متعین تھا ان دنوں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے از راہ شفقت خاکسار کو 1989 ء میں کیپ ورڈ جانے کے لئے ارشاد فرمایا.قرآنی ارشاد سمعنا واطعنا کے مطابق اس سفر کی تیاری شروع کر دی.کیپ ورڈ کا پہلا سفر اور تائید الہی کے نظارے یہ ایک بہت ہی غیر معروف ملک ہے.اس ملک کو دنیا کے نقشے میں تلاش کرنا بھی خاصا دشوار ہے.اسی وجہ سے اس ملک کے بارے میں بنیادی معلومات کا حصول بھی قدرے مشکل تھا.آجکل تو انٹرنیٹ نے ایسے بہت سے مشکل مراحل کو بہت ہی آسان کر دیا ہے.اس ملک کی مذہبی ،سیاسی اور معاشی صورت حال اور کیفیت سے میں بالکل لاعلم تھا.میں اس کے شہروں، قصبوں، گلیوں کوچوں اور اس کے باسیوں کے متعلق اپنی سوچ وفکر کے مطابق اپنے ذہن میں خاکے بنا تا اور مٹا تا رہا.اسی ادھیڑ بن میں کافی وقت گزر گیا.اس ملک کے بارے میں میں نے کبھی سنا تک نہ تھا اس لئے وہاں پر کسی شخص کے ساتھ شناسائی کیسے ہو پاتی.ملک بھر میں کوئی ایک احمدی بھائی بھی نہ تھا.اس لئے نہ کوئی جماعتی رشتہ اور نہ ذاتی تعارف تھا.اب سوال یہ تھا کہ کیپ ورڈ میں کہاں جاؤں، کس کے پاس جاؤں؟ کیسے جاؤں؟ گیمبیا میں تو اس ملک کا سفارت خانہ بھی نہ تھا ورنہ ایمبیسی سے ہی کچھ معلومات حاصل کر لیتا.اس ملک کی ایمبیسی سینیگال میں تھی.اس لئے ویزا بھی سینیگال سے ہی لینا تھا.اس مقصد کے پیش نظر سینیگال گیا.ایمبیسی میں جا کر کیپ ورڈ کا ویزہ حاصل کیا.ایمبیسی سے اپنی نادیدہ منزل کے بارے میں کچھ معلوماتی پمفلٹ لئے.اگر چہ یہ زیادہ تر پرتگیزی زبان میں تھے.پرتگیزی سے میں نابلد تھا.چند ایک کتابچے فرانسیسی میں تھے جنہوں نے کسی حد تک میری دستگیری کی اور ملک کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات فراہم کیں.64
ارض بلال.میری یادیں زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم دوسری مشکل یہ تھی کہ اس ملک کی زبان پر تگیزی تھی جس سے میں بالکل نابلد تھا.خاکسارا گر چہ اللہ تعالی کے فضل سے نو زبانوں میں بات چیت کر سکتا ہے.لیکن پرتگیزی زبان ان میں شامل نہ تھی ، اس لئے فکر پیدا ہوئی کہ اہل کیپ ورڈ سے رابطہ کیسے ممکن ہوگا.کیونکہ کیپ ورڈ میں عام لوگ پرتگیزی زبان بولتے ہیں جو اس ملک کی سرکاری اور مادری زبان ہے.پھر کر یول زبان بولتے ہیں.یہ زبان بھی دراصل پرتگیزی زبان ہی کی بگڑی ہوئی شکل ہے.دوسری زبانوں کے بولنے والے اس خطہ ارضی پر نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ ہر انسان کسی بھی چیز کو اس کی افادیت اور اہمیت کی بنا پر ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.اسی طرح لوگ کسی بھی زبان کو اس کی مذھبی ، معاشی یا سیاسی دلچسپی اور ضرورت کے تحت ہی سیکھتے ہیں.یہ ایک بہت ہی چھوٹا سا ملک ہے.پھر بہت سے جزائر پر مشتمل ہے.ان جزائر پر بسنے والوں کا آپس میں بھی رابطہ خاصا مشکل ہے.یہ لوگ آپس میں بحری یا فضائی راستوں سے ہی مل سکتے ہیں.دوسری عام دنیا کی طرح آمد ورفت کے لئے خشکی کے راستے بالکل نا پید ہیں.بحری اور فضائی ذرائع سے ادھر آنا مالی اعتبار سے ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے.اس زبان کے علاوہ شاذ ہی کوئی دوسری زبان بولتا ہوگا.اس لئے زبان کے بارے میں خاصی فکر لاحق تھی.ایک مبلغ سلسلہ کا دلچسپ لطیفہ مکرم حاجی ایا زحمد خان صاحب کو ہنگری میں بطور مبلغ بھیجا گیا.اس وقت انہیں اس ملک کی زبان بالکل نہیں آتی تھی.آپ بازار تشریف لے گئے.ایک ریستوراں میں پہنچے.آپ نے سوچا سردی بہت ہے، انڈا بہتر رہے گا.اس دوران ایک بیرا حاضر ہوا اور آرڈر کے لئے پوچھا.حاجی صاحب کو لوکل زبان میں انڈے کے نام کا علم نہ تھا.آپ نے اپنے ہاتھ سے گول گول اشارے کر کے دکھائے.بیرا گیا اور جلدی سے ابلے ہوئے آلو لے آیا.حاجی صاحب نے منفی 65
ارض بلال.میری یادیں انداز میں سر ہلا کر بتایا کہ آلو نہیں چاہیے.پھر آپ نے ٹیبل کور جو سفید رنگ کا تھا.اس کی طرف اشارہ کیا.پھر ہاتھ سے اس کی شکل بنا کر اسے سمجھایا.بیرا سر ہلاتا ہوا چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد کوئی اور سفید رنگ کی مٹھائی لے آیا.حاجی صاحب نے پھر اشارہ سے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے.آخر انہیں ایک ترکیب سوجھی.انہوں نے اونچی آواز سے مرغ کی اذان کی آواز نکالنی شروع کی اس پر بیرہ فوری طور پر سمجھ گیا.دوڑتا ہوا کچن میں گیا اور گرم گرم انڈے لاکر پیش آغاز سفر خیر سیٹ بک کرائی.حسب پروگرام چند ا حباب جماعت کے ساتھ گیمبیا کے بانجول ایئر پورٹ پر پہنچے.پھر ان دوستوں کی دعاؤں کے ساتھ اپنی منزل کو روانہ ہوا.یہ گیمبیا ایئر ویز کا ایک چھوٹا سا جہاز تھا.اتفاق سے میری ساتھ والی سیٹ پر ایک لیمبین نو جوان بیٹھا ہوا تھا.علیک سلیک کے بعد اس سے تعارف ہوا تو اس نے بتایا کہ وہ کیپ ورڈ کے دارالحکومت پر ایا میں کوئی کام کرتا ہے.میں نے اس سے مختلف معلومات حاصل کرنا شروع کر دیں.وہ شریف آدمی حسب توفیق مجھے کیپ ورڈ کے بارے میں بتا تا رہا.اس نوجوان کو دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی اور ساتھ ایک سہارے کا احساس سا ہو گیا کہ چلو یہ کیمین دوست میرے کام میں وسیلہ بن سکتا ہے.میں نے اپنی ڈائری نکالی اور اردو زبان میں پچاس کے قریب مختلف جملے لکھے اور اس نوجوان سے ان کا پرتگیزی زبان میں ترجمہ پوچھ کر لکھ لیا.پھر ایک سے سوتک کی گنتی بھی لکھی اور اپنے اس سبق کور ٹنا شروع کر دیا.تقریباً دو گھنٹے کا سفر تھا.اس بہانے یہ وقت بخوبی گزر گیا.جہاز PRAIA ایئر پورٹ پر اترا.مسافر امیگریشن والوں کے پاس پہنچے.کیمبین دوست تو چونکہ اس ملک اور ماحول کا عادی تھا، جلد ہی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور مجھے ایک بار پھر ایک نئی فکر میں ڈال گیا.اتفاق سے ان دنوں پر ایا میں کسی افریقن تنظیم کی کوئی اہم میٹنگ ہورہی تھی ، میں بھی ان مہمانوں کی لائن میں کھڑا تھا.اس لئے امیگریشن 66
- میری یادیں ) والوں نے مجھے بھی اس گروپ کا حصہ سمجھ لیا اور بغیر کسی سوال و جواب کے ہی اس پل صراط سے پار کردیا.کہاں جاؤں اور کیسے جاؤں اب مختصر سے ایئر پورٹ سے باہر نکلا.اپنے حواس پر قابو پانے کی کوشش کی اور سوچا اب کیا کریں؟ میں نے کہاں جانا ہے؟ اتنی دیر میں ایک ٹیکسی میرے قریب آکر رکی اور ڈرائیور نے اپنی زبان میں مجھ سے پوچھا کہاں جانا ہے؟ میں نے پر ایا شہر کا نام لیا کیونکہ مجھے بس یہی نام یاد تھا.میں نے اپنی جہاز والی ڈائری نکالی اور اسے پڑھ کر کرائے کے بارے میں پوچھا.اس نے بتایا کہ سنک سکوڈو ( پانچ سکوڈ و.کیپ ورڈ کی کرنسی) و( میرے پاس سینیگال کی کرنسی (سیفا ) موجود تھی.سینیگال کی کرنسی سینیگال کے سب قریبی ممالک میں استعمال ہوتی ہے.اس لئے میں نے سوچا تھا کہ یہ کرنسی کیپ ورڈ میں بھی استعمال ہو جائیگی.ٹیکسی ڈرائیور نے میرے ہاتھوں میں سیفا دیکھا اور بغیر کچھ کہے چلا گیا.جس سے پریشانی میں اضافہ ہو گیا.اس کے بعد دس، بارہ کے قریب ٹیکسیاں میرے پاس آکر رکیں اور وہی سوال جواب کرنے کے بعد تیزی سے مجھ پر خاک ڈالتی ہو ئیں اپنی راہ چل پڑیں.اب ایئر پورٹ سے تقریباً سب ٹیکسیاں چلی گئیں.اس ایئر پورٹ پر شاذ و نادر ہی جہاز آتے ہیں اس لئے اب ایئر پورٹ سٹاف بھی جاچکا تھا اور میں اکیلا دھوپ میں اپنے دو بیگ تھامے بڑی بے بسی کے ساتھ دائیں بائیں دیکھ رہا تھا.اپنی اس بے بسی اور غریب الوطنیکا نقشہ کھینچنا اب میرے بس کی بات نہیں.پرایا ایئر پورٹ پر دوفرشتے اتنی دیر میں ایک ٹیکسی شہر کی جانب سے ایئر پورٹ کی طرف آئی اور میرے قریب آکر رک گئی اور اس میں سے چند سواریاں اتر گئیں.اس دوران دو مسافر نامعلوم کدھر سے نمودار ہوئے اور ٹیکسی 67
ارض بلال- میری یادیں ) والے سے بات چیت کرنے لگے اور ساتھ ہی ٹیکسی میں بیٹھ گئے.میں نے اُن سے انگریزی میں ان کا حال پوچھا تو انہوں نے انگلش میں مجھے جواب دیا.مجھے کچھ ہمت ہوئی اور میں نے اپنی بپتا ان کے سامنے کہہ سنائی.ان کو میری حالت زار پر رحم آیا اور ان میں سے ایک صاحب نے پانچ سکوڈ ونکال کر میرے ہاتھ میں تھما دیئے.میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا یہ سکوڈ وتو میرے صرف ایک مسئلہ کا حل ہے.کہنے لگے اب کیا ہوا؟ میں نے بتایا میں اس شہر میں نو وارد ہوں.مجھے کسی ایسی جگہ کا پتہ بتا ئیں جہاں میں شب بسری کرسکوں.وہ نو جوان مجھ پر بڑے ہی مہربان تھے.انہوں نے مجھے اپنے ساتھ اسی ٹیکسی میں بٹھا لیا اور پر ایا شہر کوروانہ ہو گئے اور شہر میں پہنچ کر مجھے ایک متوسط درجہ کے ہوٹل کے گیٹ پر اتار دیا.میں نے خدا تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ کم از کم کوئی چھت تو ملی ہے.ہوٹل میں ریسیپشن پر جا کر کمرہ کے بارے میں معلومات لیں.کمرہ کا کرایہ میری استطاعت سے بالا تھا.مرتا کیا نہ کرتا ! کمرہ کی چابی لی اور سامان کمرہ میں رکھا.کپڑے بدلے اور بازار کونکل گیا.یہ ہوٹل بازار کے بالکل قریب تھا، اب بھوک بھی ستا رہی تھی.اس ہوٹل میں کھانا کھانا تو میرے بس کی بات نہ تھی.میرا بجٹ تو مجھے صرف چھوٹے ریستوران میں پیٹ بھرنے کی اجازت دے سکتا تھا.اب بازار میں نکل تو گیا مگر نہ تو زبان آتی ہے نہ کھانوں کے نام آتے ہیں.کافی دیر تک بازار میں گھومتا رہا.قیام و طعام کا انتظام میں جب بازار کی طرف نکلا تو رستہ میں کئی چھوٹی بڑی گلیاں آئیں.یہاں کے مکانوں کا انداز تعمیر ہم لوگوں سے کافی مختلف ہے.ان کے ہاں جگہ کی قلت کے پیش نظر صحن کا کوئی خاص رواج نہیں اس لئے عموما کمروں کے دروازے گلیوں میں ہی کھول لیتے ہیں.میں ان گلیوں میں سے گزر رہا تھا تو میں ایک مکان کے سامنے سے گزرا.ایک بڑی عمر کی خاتون کھانا پکارہی تھی اور اس 68
- میری یادیں - کے قریب چند کرسیاں پڑی ہوئی تھیں.میں نے سوچا کوئی ریستوراں ہے.میں اندر چلا گیا.اس خاتون کو انگریزی میں سلام کیا.اس نے اپنی زبان میں کچھ بات کی جسے میں نہ سمجھ سکا.اسے میں نے اشارہ سے بتایا کہ میں نے کھانا کھانا ہے.اس نے زور سے کسی کو آواز دی جس پر کمرے سے ایک نوجوان باہر آ گیا.وہ میرے پاس آیا اور مجھے اپنی زبان میں کہنے لگا کیا بات ہے؟ میں نے انگریزی میں اسے بتایا کہ میں پرتگیزی زبان نہیں بول سکتا.اس پر اس نے انگریزی میں بات چیت شروع کر دی.مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی.اس نے مجھے بتایا کہ یہ ریستوراں نہیں ہے بلکہ ہمارا گھر ہے.میں نے اسے کہا میں شہر میں نو وارد ہوں.کیا وہ میری کسی ریستوراں کی طرف راہنمائی کر سکتا ہے.اللہ اس کا بھلا کرے.میرے ساتھ چل پڑا.راستہ میں میں نے اسے بتایا کہ میں مسلمان ہوں اس لئے میں نے ایسا کھانا کھانا ہے جس میں کوئی حرام چیز نہ ہو.مجھے وہ ایک متوسط درجہ کے ریستوراں میں لے گیا.میں نے آملیٹ کے لئے کہا.وہ نوجوان بھی میرے ساتھ ہی بیٹھ گیا.میں نے اس نوجوان کو بھی کھانے کے لئے دعوت دی مگر اس نے انکار کر دیا.میں نے کافی اصرار کیا مگر نہ مانا لیکن میرے پاس بیٹھا رہا.میں نے اسے اپنے بارے میں بتایا کہ میرے دو مسائل ہیں.ایک تو میں نے ہوٹل میں نہیں رہنا.کسی ستے کمرے میں رہنا ہے.دوسرے میں مسلمان ہوں.اگر مجھے کوئی اپنے گھر میں میری پسند کا کھانا بنادے تو میں اس کی ادائیگی کر دوں گا.کہنے لگا کھانے کے بعد ہمارے گھر چل کر میری ماں سے بات کرتے ہیں.امید ہے وہ آپ کو کھانا پکا دیا کرے گی اور مکان کا مسئلہ بھی میں آپ کا حل کر دوں گا.اس کے بعد میں اس نوجوان کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا.اس کی والدہ میرا کھانا پکانے پر راضی ہو گئی اور پھر مجھے ایک سرائے میں کمرہ بھی مل گیا اور سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ مجھے اس نوجوان کی صورت میں ایک ترجمان بھی مل گیا.جتنا عرصہ میں اس ملک میں رہا یہ نو جوان میرے ساتھ ساتھ رہا.مجھے اب صحیح یاد نہیں ہے.مجھے لگتا ہے کہ اس قیام کے دوران چودہ بیعتیں ہوئی تھیں.69
ارض بلال- میری یادیں تبلیغی کاوشیں اللہ تعالیٰ نے نیلینٹو کی صورت میں ایک ترجمان، معاون اور ہمدرد دوست عطا فرما دیا تھا جو ہر روز صبح میرے پاس آجاتا اور سارا دن میرے ساتھ ساتھ رہتا.اس دوران ہم بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں گئے ، مدارس میں گئے اور تین سفارت خانوں میں بھی پہنچے.سب جگہوں پر احمدیت کا تعارف کرایا.بعض محلوں میں جا کر کئی میٹنگز بھی کیں جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے چند بیعتیں بھی ہوئیں.بیعتیں ان انفرادی اور اجتماعی کوششوں کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے چودہ افراد کو بیعت کی سعادت ملی.ان کے نام اور پتے میں نے گیمبیا مشن میں مکرم امیر صاحب کو مع تفصیلی رپورٹ پیش کر دیئے تھے.اختتام سفر کیپ ورڈ میرے سفر کے دوران وہ نوجوان جس کا کا نام نیلینٹو تھا اس نے میرے ساتھ غیر معمولی تعاون کیا.میرے کھانے پینے ، رہائش اور تبلیغ کے میدان میں ترجمانی اور سفروں میں ہمسفر کے روپ میں اس نے بہت خدمت کی.اللہ کریم اسے اجر عظیم سے نوازے آمین.جب میں اپنے مشن کی تکمیل کے بعد گیمبیا کے لئے روانہ ہوا تو کافی سارے دوست مجھے ایئر پورٹ پر الوداع کرنے کے لئے آئے تھے.اللہ ان سب کو خوش رکھے.اس کے بعد میرا ان سے رابطہ نہیں ہو سکا کیونکہ مجھے کچھ دوسری ذمہ داریاں سونپ دی گئی تھیں.مکرم حمید اللہ ظفر صاحب کا دورہ کیپ ورڈ 1997ء میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے گیمبیا کے سپرد ممالک کو تین امارتوں کے تحت فرما دیا جس کے نتیجہ میں گنی بساؤ اور کیپ ورڈ، گنی بساؤ کی امارت کے تحت آگئے اور مکرم حمید اللہ ظفر صاحب اس کے امیر مقرر ہوئے.70
ارض بلال.میری یادیں - مکرم حمید اللہ صاحب گنی بساؤ کے غالباً دو ہفتہ کے دورہ پر تشریف لے گئے اور حسب توفیق کافی تگ و دو کی.اس کے بعد ان کا دوبارہ اس ملک میں جانے کا پروگرام تھا.لیکن بدقسمتی سے چند سال بعد گنی بساؤ میں جماعت کے حالات بڑے مخدوش ہو گئے جس کے نتیجہ میں بے بسی کی حالت میں انہیں ملک بدر کر دیا گیا.کیپ ورڈسینیگال امارت کے تحت مکرم حمید اللہ صاحب کے بعد خاکسار کو دوبارہ کیپ ورڈ کی ذمہ داری سونپی گئی.اس دوران خاکسار نے ایک سینیگالی معلم جو گھانا کے جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل تھے، انہیں کیپ ورڈ میں بھجوا دیا اور وہاں پرایا کے مقام پر ایک مکان کرایہ پر لے کر باقاعدہ مشن کا آغاز کیا.ان کے ذریعہ سے پر ایا اور اس کے مضافات میں چالیس کے قریب بیعتیں ہوئی تھیں.اس کے بعد بعض مشکلات کی بنا پر انہیں واپس آنا پڑا اور مکرم با ساھو صاحب جو ایک گیمبین احمدی دوست ہیں وہ اپنی ملازمت کے سلسلہ میں ادھر متعین تھے ، جماعت کی دیکھ بھال کرتے رہے.خاکسار کا دورہ کیپ ورڈ خاکسار 2011 ء میں لندن سے سینیگال کے دورہ پر گیا.سینیگال کے بعد کیپ ورڈ بھی جانے کا اتفاق ہوا.شہر میں احمدی اور غیر احمدی احباب کے ساتھ تبلیغی وتربیتی میٹنگیں کیں.اس کے علاوہ پہلی بار مضافات میں بھی لٹریچر تقسیم کیا گیا اور نئے روابط قائم کئے گئے.یہ رمضان کے آخری ایام تھے.اس نسبت سے مستحقین میں تحفے تحائف بھی تقسیم کئے گئے.کیپ ورڈ کے لئے معلم کا پروگرام مکرم علی فائی صاحب نے کیپ ورڈ سے ایک نوجوان تیار کیا ہے جس کو اب جامعہ احمد یہ گھانا میں دینی تعلیم کے حصول کے لئے بوفا بھجوانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ اس پروگرام میں برکت دے.71
ارض بلال.میری یادیں باب چهارم...] GAMBIA SENEGAL North Atlantic Ocean Cacheul Cachee Farm Bafatá GUINEA-BISSAU Fulacunda Bolama Catio Rijagnsle Kolita GUINEA گنی بساؤ کا تعارف یہ ملک براعظم افریقہ میں واقع ہے.اس کا دارالحکومت بساؤ ہے.یہ 1974 تک پرتگال کے زیر تسلط رہا ہے اس لئے اس کی قومی زبان پرتگالی ہے.رقبہ کے لحاظ سے ایک چھوٹا ملک ہے.آبادی سترہ لاکھ کے قریب ہے.آج کل حکومتی نظام پارلیمانی ہے.ر مسلمان اور عیسائی چالیس چالیس فیصد ہیں.باقی لامذہب ہیں.جو اس کے ہمسائے مالی ، گنی کا کری اور سینیگال ہیں.ہی اس کی اہم فصلیں مونگ پھلی اور باجرہ ہیں.اس ملک میں کیشو کے بہت باغات ہیں.اس کی کرنسی سیفا فرانک ہے.ایک ہزارسیفا ساڑھے چھ یورو کے برابر ہے.دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے.اہم قبائل بالانٹا، فولانی ، منڈنگا منجا کو اور پیپل ہیں.72
ر ارض بلال.میری یادیں یہ ملک کمیونسٹ بلاک کے زیر انتظام رہا ہے اس لئے ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اس کے لوگ پرتگیز قوم کے زیر اثر رہ کر جنگجو بن چکے ہیں.اس قوم نے اپنے سابقہ حکمرانوں سے باقاعدہ لڑ کر آزادی حاصل کی ہے.ہمسایہ ممالک میں اگر کوئی رشوت مانگتا ہے تو چائے پانی کا نام لیتا ہے لیکن گنی بساؤ میں رشوت طلب کرنے والا شراب کے لئے مانگتا ہے.شراب نوشی نے ان کے چہروں سے چمک اور روشنی چھین لی ہے.اس ملک کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی کثرت ہے ان کے چہرے روشن ہیں.بساؤ شہر میں مسلمان مسافر کو حلال کھانے پینے کی سخت مشکلات پیش آتی ہیں.بساؤ میں شراب کی کثرت کی بنا پر فضا میں بُو ہوتی ہے.یہ ملک عرصہ دراز سے خانہ جنگی کا شکار ہے اور ہر لحاظ سے تباہی کے کنارے پر کھڑا ہے.مالی، اخلاقی ، سیاسی تعلیمی ، مذہبی اعتبار سے انحطاط کا شکار ہے.گنی بساؤ میں احمدیت ایک دفعہ ایک مریض گنی بساؤ سے گیمبیا میں ایک احمدی ڈاکٹر محمد اشرف صاحب کے پاس علاج کی غرض سے آیا.علاج کے سلسلہ میں اسے چند دن یہاں ہی قیام کرنا تھا.اس دوران مکرم ڈاکٹر صاحب اور دیگر کارکنان کے ساتھ اس کا احمدیت کے بارے میں بات چیت کا سلسلہ چلتا رہا.اس آدمی کا نام مسٹر فاطی تھا.اسے جماعت کی تعلیم اور عقائد بہت اچھے لگے اور اس نے بیعت کر لی.اس طرح میرے علم کے مطابق یہ گنی بساؤ کے پہلے احمدی ہیں.1985 ء میں ایک وفد گنی بساؤ سے مکرم شناچام مرحوم کی زیر قیادت جلسہ سالانہ گیمبیا میں شرکت کے لیے آیا تھا.اس وفد میں وہ نوجوان بھی شامل تھا.73
ارض بلال.میری یادیں شنا جام صاحب مرحوم گیمبیا کے ایک بہت ہی مخلص دوست مکرم ثنا چام صاحب تھے.ان کے کچھ عزیز عرصہ دراز سے گنی بساؤ میں آباد تھے.مکرم شنا صاحب انہیں ملنے کے لئے بساؤ آیا جایا کرتے تھے.انہوں نے گئی میں اپنے عزیز واقارب کو دعوت حق دینی شروع کی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی سعید روحوں نے انکی آواز پر لبیک کہا اور احمدیت کے قافلہ میں شریک ہو گئے.گنی بساؤ کے صدر مملکت Joao Bernardo " Nino" Vieira کا دورہ گیمبیا ایک دفعہ گنی بساؤ کے صدر مملکت گیمبیا کے سرکاری دورہ پر تشریف لائے.ایئر پورٹ سے صدر مملکت گیمبیا سر داودا جوارا انہیں ساتھ لے کر سٹیٹ ہاؤس کو جارہے تھے.راستہ میں انکی گاڑی احمد یہ اسپتال کی شاندار عمارت کے سامنے سے گزری.صدر نینو نے صدر جوارا سے پوچھا یہ ہسپتال کس تنظیم نے تعمیر کیا ہے؟ اس پر صدر داؤد جوار انے بتایا کہ یہ جماعت احمدیہ نے بنایا ہے.اس پر گنی بساؤ کے صدر نے کہا، میں چاہتا ہوں کہ وہ میرے ملک میں بھی اس طرح کا ہسپتال بنا دیں.اس پر صدر صاحب گنی بساؤ کے کارندوں نے احمد یہ مشن گیمبیا سے رابطہ قائم کیا اور انہیں گنی بساؤ میں آنے کی دعوت دی جس پر گیمبیا سے مکرم امیر جماعت دا ؤ داحمد حنیف صاحب کی زیر قیادت ایک وفد گنی بساؤ پہنچا.صدر مملکت سے ملاقات کی اور چند متعلقہ وزرا سے بھی ملاقاتیں ہوئیں.اس کے نتیجہ میں گئی بساؤ میں تبلیغ کے کام کو زیادہ منظم طور پر کرنے کے پروگرام ترتیب و طے پائے.مکرم حمید اللہ ظفر صاحب مکرم حمید اللہ ظفر صاحب کی تقرری بطور ٹیچر گیمبیا میں جماعت کے تعلیمی ادارہ نصرت ہائی سکول میں ہوئی.مکرم حمید اللہ صاحب کو مکرم امیر صاحب نے کچھ عرصہ کے لئے گنی بساؤ میں تبلیغی مہم پر بھجوایا.انہوں نے وہاں جا کر بہت محنت سے خدمت کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے شیریں ثمرات بھی حاصل کئے.74
خاکسار کا دورہ گنی بساؤ.میری یادیں اس کے بعد خاکسار اور مکرم عمر علی طاہر صاحب اور مکرم اسماعیل تر اول صاحب مرحوم گنی بساؤ کے دورہ پر گئے اور چند مقامات پر تبلیغی جلسے کئے علاوہ ازیں پرانے احمدی دوستوں کی تعلیم وتربیت کے لئے حسب توفیق کوشش کی.گنی بساؤ میں پہلے مبلغ احمدیت اس کے بعد مرکز کی طرف سے مکرم حمید اللہ صاحب کی بطور مرکزی مبلغ گنی بساؤ میں تقرری کر دی گئی.اس دوران انکی فیملی گیمبیا میں ہی رہی اور مکرم حمید اللہ صاحب گنی بساؤ میں کام کرتے رہے.خاکسار کے دور امارت میں 1994ء سے 1997ء میں خاکسار کو ان ممالک کی خدمت سونپی گی.اس دوران مکرم حمید اللہ صاحب کے ساتھ بساؤ میں جا کر باقاعدہ مشن ہاؤس کے لئے مکان کرایہ پر لیا گیا اور اس کے بعد ان کی فیملی کو بھی ان کے ہمراہ گئی بھجوایا گیا.علاوہ ازیں گنی بساؤ کی نیشنل اسمبلی کے قریب ایک بہت اچھا قیمتی پلاٹ جماعت کے لئے خریدا گیا.لیکن بد قسمتی سے حکومت کے ادارے غاصبانہ طور پر اس پر قابض ہو گئے.ملک بھر کے کئی دفعہ تبلیغی اور تربیتی دورے کئے.خاکسار نے گنی بساؤ کے سالانہ جلسوں میں شرکت کی.دس سے زائد ممبران اسمبلی نے خاکسار کے ہمراہ ایک جلسہ میں شرکت کی.مکرم منیر الدین شمس صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر لنڈن کے ساتھ بھی گنی بساؤ کا دورہ کیا.مکرم حمید اللہ صاحب کی امارت حضرت خلیفۃ امسیح الرابع ” نے 1997ء میں گیمبیا کے تحت ممالک کو تین امارتوں میں تقسیم فرما دیا.گیمبیا کے امیر مکرم عنایت اللہ صاحب زاہد، سینیگال کا خاکسار منوراحمد خورشید اور گنی بساؤ کے مکرم حمید اللہ صاحب ظفر امیر مقرر کئے گئے.مکرم حمید اللہ صاحب نے بہت محنت سے کام 75
- میری یادیں - کیا.ملک بھر میں جماعتیں قائم ہوگئیں.پاکستان سے تین ڈاکٹر صاحبان ، تین مبلغین کرام اور دو دوست تعمیراتی کاموں کے لئے بھی تشریف لے آئے لیکن یہ چند سال مکرم حمید اللہ صاحب کے لئے بڑی مشکلات کے سال ثابت ہوئے کیونکہ یہ ملک انار کی کا شکار تھا.آئے دن فوجی انقلاب آرہے تھے جس کے نتیجہ میں ان لوگوں کو کہیں نہ کہیں پناہ لینی پڑتی تھی.ایک بار تو سینیگال کے علاقہ کولڈا میں آکر کئی مہینہ تک ان لوگوں نے قیام کیا.پھر حالات بہتر ہونے پر واپس بساؤ گئے تھے.شدید مخالفت اور نو مین لینڈ میں مرکزی کارکنان ملک بدر گنی میں جماعت کی ترقیات سے مخالفین حق اپنے خواب خرگوش سے بیدار ہو گئے اور پھر کیا تھا ! ساری مذہبی اور سیاسی طاقتیں جماعت کے خلاف کمر بستہ ہوگئیں.پھر ایک روز اچانک مسلح فوجیوں کی گاڑیاں مشن ہاؤس میں پہنچ گئیں اور سب پاکستانی احمدیوں کو گن پوائنٹ پر گاڑیوں میں لاد کر گنی بساؤ اور سینیگال کے سرحدی علاقہ میں نو مین لینڈ (آزاد علاقہ ) پر چھوڑ آئے.جن دنوں یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا ان دنوں خاکسار جرمنی کے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے جرمنی گیا ہوا تھا، وہیں اس کی خبر ملی.وہاں سے سینیگال میں پاکستانی سفارت خانہ کے ایک آفیسر مکرم چوہدری منظور احمد صاحب سے رابطہ قائم کیا گیا.انہوں نے کمال مہربانی سے گورنمنٹ سینیگال سے عارضی ویزے لے دیئے جس سے یہ مہاجرین میرے پاس ڈا کار میں آگئے.چند ماہ قیام کے بعد حسب ارشا د مرکز گھانا چلے گئے.ارض گنی بساؤ میں دو معلمین کی جانی قربانی ہر کامیابی کے حصول سے پہلے اس کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے.گنی بساؤ کی سرزمین پر بھی ہمارے دو بہت ہی پیارے پیمبین معلمین بھائیوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا.مکرم اسماعیل تراول صاحب ایک آگ کے حادثہ میں اور مکرم یوبی باہ صاحب تبلیغ کے میدان میں اچانک بیماری کے نتیجہ میں مالک حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.76
ارض بلال.میری یادیں.گیمبیا مشن کے زیر انتظام اس افسوسناک حادثہ کے بعد مرکز نے گنی بساؤ جماعت کی باگ ڈور گیمبیا جماعت کے سپرد کر دی جس پر مکرم امیر جماعت گیمبیا بابا ایف تر اول صاحب نے مکرم محمد سنیا گو صاحب کو گنی بساؤ جماعت کا مشنری انچارج بناد یا جو تا حال حسب توفیق خدمت کر رہے ہیں.77
ارض بلال.میری یادیں موريط MAURITANIA Laayoune ⚫ 400 km 250 miles Dakhla o tern Salta ( To Marrakesh; Rabat Morocco Ain Ben Tili Bir Moghrein Nouadhibou o Parc National.du Bane d'Arguin Nouȧmghär ATLANTIC ° Atar a Nouakchott Zouérat Kediet Ijill (915m) Adrar, Ouadâne Tagant Tichit ō OCEAN Rosso Passe de Djouk Aoukar Depression • Kiffa Tintâne.Qualita • Néma • Koumbi Saleh Senegal River SENEGAL / To Dakar (260krn) ALGERIA MALI موریطانیہ MAURITANIA اس کی آبادی ۳ ملین اور چار لاکھ کے قریب ہے.حمد اس کا رقبہ 397 ہزار اور 954 مربع میل ہے.یوم آزادی : 26 نومبر 1960 ء ہے.یہ ملک افریقہ میں ہے.مگر اکثر آبادی عربی النسل ہے.سینیگال کا ہمسایہ ملک ہے.ان دونوں ملکوں کے درمیان دنیا کی سب سے لمبی دریائی سرحد ہے.ان کی بود و باش آج بھی عربوں کے ابتدائی ادوار کی عکاسی کرتی ہے.سارا ملک صحرائی ریگستان ہے، اکثر آندھیاں چلتی رہتی ہیں.مرد حضرات بھی ان آندھیوں کی وجہ سے پردہ کے بہت پابند ہیں.اکثر لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ پالتے ہیں.تجارت پیشہ لوگ گروپوں کی شکل میں اپنے ہمسایہ ممالک میں آکر تجارت کرتے ہیں پھر 78
ارض بلال- میری یادیں ) باری باری اپنے گھر آتے جاتے رہتے ہیں.ان کو لوگ نار کہتے ہیں.شاید رنگ کے باعث.رمضان میں روزے نہیں رکھتے ، کہتے ہیں ہم مسافر ہیں.اکثر اوقات غنسل سے احتراز کرتے ہیں.برلب در یا بیٹھ کر بھی تیم کر لیتے ہیں.لباس خریدنے میں فراخ دلی سے کام لیتے ہیں.قہوہ بہت پیتے ہیں.اس قہوہ کی تیاری میں کئی گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں.مذہبی طور پر شدت پسند اور جذباتی ہیں.تعلیمی معیار کافی پست ہے.مہمان نوازی کا وصف عربوں کے لئے بہت مشہور ہے.یہ خوبی اس قوم میں بھی پائی جاتی ہے.موریطانیہ میں اسیری 1984ء میں مکرم داؤ د احمد حنیف صاحب، ایک سینیگالی معلم مکرم حامد مبائی صاحب اور ایک سینیگالی احمدی بھائی مکرم محمد آؤ صاحب کے ہمراہ موریطانیہ میں تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے.چند دن تک تو یہ لوگ بڑے اچھے طریق پر موریطانیہ کے دارالحکومت نواکشاط میں تبلیغ کرتے رہے.شہر بھر میں انہوں نے کئی تبلیغی پروگرام کئے بعض بیعتیں بھی ہو ئیں لیکن اس دوران بعض مولویوں نے جا کر پولیس کے ہاں ان کی شکایت کر دی.جس پر پولیس نے آکر ان تینوں کو گرفتار کر لیا اور حوالات میں بند کر دیا.کافی سوال وجواب اور تحقیق کے بعد پولیس نے مکرم داؤ داحمد حنیف صاحب کو تو چند سو کلومیٹر ز دور سینیگال کے بارڈرز پر لا کر چھوڑ دیا اور بقیہ دونوں دوستوں کو ملکی قوانین کے تحت نہ نکال سکے جو بعد میں بخیریت واپس آگئے.الحمد للہ.مکرم حمید اللہ ظفر صاحب نصرت ہائی سکول میں بطور ٹیچر خدمت کر رہے تھے.دومرتبہ سکول کی تعطیلات میں موریطانیہ کے دورہ پر گئے.دوسری بار انہیں سرحد سے ہی واپس کر دیا گیا.ایک بنین کے احمدی دوست موریطانیہ میں ملازم تھے.ان کی شکایت ہوئی.جماعت کی چند کتب انہیں ملیں جس پر انہیں کافی 79
مارا پیٹا گیا.ارض بلال- میری یادیں خاکسار کا پروگرام دوره موریطانیہ 1995 ء میں گیمبیا سے خاکسار دو معلمین مکرم علیو فائی اور مکرم موڈ و سار صاحب موریطانیہ کے ساتھ دورہ پر روانہ ہوا.مکرم عثمان دابو صاحب بطور ڈرائیور ہمارے ساتھ تھے لیکن موریطانین امیگریشن والوں نے ہمیں واپس سینیگال بجھوا دیا.مکرم احمد گئی صاحب اور مکرم علی فائی صاحب بطور معلم سینیگال سے ایک معلم مکرم احمد گئی صاحب کو موریطانیہ بجھوایا گیا.انہوں نے کئی ماہ ادھر قیام کیا اور بڑی حکمت عملی کے ساتھ پیغام حق پہنچایا.چند دوستوں کو ڈاکار میں منعقد ہونے والی تربیتی کلاس میں لے کر آئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے چند مقامات پر بیعتیں حاصل ہوئیں.بعد ازاں سینیگال سے مکرم علیو فائی صاحب کو بھی چند ماہ کے لئے موریطانیہ میں تبلیغ وتربیت کی سعادت ملی.80 60
مخالفت و عداوت ارض بلال.میری یادیں.....باب پنجم.....] یارو خودی سے باز بھی آؤگے یا نہیں کو اپنی پاک صاف بناؤ گے یا نہیں کب تک رہو گے ضد و تعصب میں ڈوبتے آخر قدم بصدق اُٹھاؤ گے یا نہیں دشمنان احمدیت کے مقابل پر الہی نصرت کے چند واقعات وَمَا يَأْتِيهِم مِّنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ (الحجر: ۱۲) ترجمہ: اور کوئی رسول ان کے پاس نہیں آتا تھا مگر وہ اس سے تمسخر کیا کرتے تھے.يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ (الصف:۹) ترجمہ: وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں حالانکہ اللہ ہر حال میں اپنا نور پورا کرنے والا ہے خواہ کا فرنا پسند کریں.مکرم علیو با یو صاحب کے دشمن تباہ ہو گئے جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار و نزار مکرم علی و با یو صاحب بصے کے قریب ڈانفا کنڈا نامی گاؤں میں رہتے تھے.اس گاؤں کے بیشتر لوگ جہانکے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ لوگ اکثر مذہبی ہیں.آبادی کے اعتبار سے یہ گاؤں، گیمبیا بھر کے بڑے دیہاتوں میں شمار ہوتا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے مکرم علی و با یو صاحب 81
ارض بلال- میری یادیں ) کو حلقہ بگوش احمدیت ہونے کی سعادت عظمی سے نوازا تو گاؤں والوں نے علمی تکبر ونخوت اور ذاتی اختلافات کی وجہ سے آپ کی سخت مخالفت شروع کر دی.لیکن دشمنان احمدیت اور مخالفین حق کی سب کوششیں لا حاصل اور ریت کے گھروندے ثابت ہوئیں اور ان لوگوں کا کوئی بھی ظالمانہ حربہ آپ کے پائے استقلال کو ذرہ بھر جنبش نہ دے سکا.علمی بحثوں اور دیگر جملہ انواع کے ہتھکنڈوں میں ناکامی دیکھ کر مخالفین نے ایک نیا حربہ آزمانے کی ترکیب سوچی اور وہ کچھ یوں تھی: ایک دفعہ، ایک مرابو ( پیر صاحب ) نے اپنے خیال کے مطابق ایک بکری کے سینگ کا ایک خطر ناک قسم کا تعویز تیار کیا اور ایک میٹنگ میں بایو صاحب کو بات چیت کے لئے دعوت دی.بایو صاحب کی آمد پر بحث تحیت شروع ہوئی لیکن جلد ہی حزب مخالف کے علما حسب عادت گالی گلوچ پر اتر آئے.آپ بڑے صبر وشکر اور حکمت عملی سے ان کے ساتھ بات چیت کرتے رہے.آخر میں اس پیر صاحب نے اپنا بکری کے سینگ سے تیار کردہ خطرناک قسم کا تعویذ لے کر ان کی طرف اشارہ کیا اور اعلان کیا.اب میرا یہ تعویذ تمھارا کام ختم کردے گا.آپ نے وہی تعویز لے کر اس پیر کی طرف کرد یا اور کہا، یہ تعویذ انشاء اللہ میرا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتا.لیکن اب تمہیں ضرور ہلاک کر دے گا.پھر سب گاؤں والوں نے دیکھا کہ اور قول رسول رب اشعث اغبر لو قسم علی اللہ کے مطابق کس طرح اللہ تعالی نے اس پیر صاحب کے خاندان کو پورے گاؤں کے لئے نشان عبرت بنا دیا.پیر صاحب اس واقعہ کے بعد جلد ہی معمولی سے بیمار ہوئے اور اس دنیا سے سدھار گئے اور اسی طرح تھوڑے دنوں بعد ہی ان کا ایک جواں سال بیٹا بھی لقمہ اجل بن گیا اور اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے مکرم با یو صاحب کے مال ونفوس میں غیر معمولی برکت عطا فرمائی.ولكن اكثر النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ محمد دیبا صاحب شکرانے کے آنسو اور ان کی ایک عجیب حسرت 1989ء میں فرافینی کے مقام پر جماعت نے ایک نئی ڈینٹل سرجری کا افتتاح کیا.یہ سرجری 82
ارض بلال- میری یادیں - فرافینی میں ایک کرایہ پر لی گئی عمارت میں تھی.مرکز کے ارشاد پر ایک ڈاکٹر مکرم حمید اللہ صاحب شہید اس ادارہ کو چلانے کے لئے تشریف لائے.( ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے ظالم دشمنان احمدیت کے ہاتھوں کراچی میں جام شہادت نوش کیا ) ڈینٹل سرجری کے افتتاح کے موقع پر علاقہ بھر کے معززین تشریف فرما تھے.کیروان سے ریجنل کمشنر مکرم آکی بایو صاحب بھی آئے ہوئے تھے.افتتاحی تقریب ہوئی.اس میں مختلف مقررین نے اپنی تقاریر میں جماعت احمدیہ کی گیمبیا میں غیر معمولی علمی اور طبی خدمات کی دل کھول کر تعریف کی اور جماعت احمدیہ کے ملک وملت کی تعمیر و ترقی کے منصوبوں کو بہت سراہا.جب یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا اور مہمانان کرام واپس تشریف لے گئے اور تقریب کے اختتام پر ممبران جماعت سامان وغیرہ سمیٹ رہے تھے تو مجھے ایک طرف سے سسکیوں کی آواز آئی.میں اس طرف گیا تا کہ دیکھوں کہ کون رورہا ہے؟ جب ادھر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مکرم محمد جونجی دیبا صاحب بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رورہے ہیں.میں ایکدم پریشان ہو گیا اور پوچھا، خیر تو ہے.کیا کوئی بری خبر ہے؟ کافی دیر کے بعد انہوں نے اپنے حواس پر ضبط کیا اور بولے؛ آج ہماری اس میٹنگ میں بہت سے لوگوں نے جماعت احمدیہ کے حق میں بڑی لمبی لمبی تقریریں کی ہیں جس میں جماعت احمدیہ کی تعریف و توصیف کے پل باندھ دیئے ہیں اور مجھے اپنا وہ پرانا زمانہ یاد آ گیا جب یہی شہر والے ہم پر پتھر برساتے تھے ہمیں بندر اور خنزیر جیسے ناپاک الفاظ سے یاد کرتے تھے.لیکن آج اللہ کے فضل سے وہی لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے لئے رطب اللسان ہیں اور یہ آنسو خدا تعالیٰ کے حضور شکرانے کے آنسو ہیں.لیکن آج اس تقریب سعید کے دوران ایک حسرت بڑی شدت سے میرے دل میں پیدا ہورہی تھی کہ اے کاش! جماعت احمدیہ فرافینی کے ہمارے ابتدائی جانثار بزرگ امام لامن جینگ وغیرہ آج زندہ ہوتے تو یہ نظارہ دیکھ کر کس قدر خوش ہوتے.احمدیت کے ان متوالوں کو مخالفین و 83
- میری یادیں ) معاندین صداقت اسی شہر میں گالی گلوچ کرتے تھے اور زدوکوب کیا کرتے تھے.کاش وہ ہمارے مرحوم ، مظلوم بھائی اور ہمارے بزرگ، غلبہ احمدیت کے یہ دن بھی دیکھتے تو ان کو کس قدر خوشی ومسرت ہوتی.اے اللہ ! ان مظلومین کی دُعائیں ہمارے حق میں اور ہماری دعائیں ان کے حق میں قبول فرمائے.آمین.انى مهين من اراد اهانتك یران دنوں کی بات ہے جب میں گیمبیا کے قصبہ فرافینی میں بطور مشنری متعین تھا.وہاں میرے ہمسایہ میں ایک کیمبین کرایہ دار رہتے تھے.وہ کسٹم کے محکمہ میں آفیسر تھے.ان کا نام احمد و تھا.روزانہ ہی آتے جاتے ان سے ملاقات ہو جاتی تھی.بظاہر بڑے سلجھے ہوئے آدمی لگتے تھے بطور ہمسایہ ان کے ساتھ اچھے مراسم تھے.جب کبھی ملاقات ہوتی بڑے تپاک سے ملتے.ایک روز میں کسی کام کی غرض سے ان کے پاس گیا.مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں.اس دوران ان کے ایک مہمان نے مجھ سے جماعت کے بارے میں کچھ سوالات کیے.اس پر جب میں نے اس سائل کے جوابات دینے شروع کیے تو میں نے محسوس کیا کہ احمد و کے چہرے پر ناخوشگواری کے آثار مترشح ہیں.تھوڑی دیر کے بعد اس احمد و نے اپنی لوکل زبان وولف میں سوال کرنے والے دوست سے بات کرنی شروع کر دی اور اسے بتایا کہ ان لوگوں سے ان مسائل پر کبھی بھی بات نہیں کرنی چاہیئے.یہ لوگ بڑے شاطر ہیں.آپ کو بڑے آرام سے اپنی غلط بات بھی منوالیں گے.پھر اس نے اپنے ساتھی کو جماعت سے مزید متنفر کرنے کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات اقدس کے خلاف پاکستانی مولویوں کی خود ساختہ ایک جھوٹی اور گندی سی بات بتانی شروع کی.مجھے اس شخص کے معاندانہ رویہ اور منافقانہ انداز سے سخت تکلیف ہوئی.میں وہاں سے واپس اپنے گھر آ گیا.لیکن اس افسوسناک واقعہ کا میرے دل و دماغ پر بہت زیادہ گہرا اثر ہوا.اس واقعہ 84
ارض بلال- میری یادیں ) کے چند دن بعد وہ فرافینی سے اپنی فیملی کے پاس بانجول چلا گیا.اس کا طریق تھا کہ ہر مہینہ اپنی فیملی کو ملنے جایا کرتا تھا.اس دفعہ جب بانجول گیا تو کافی عرصہ کے بعد تک وہ واپس نہ آیا.اس دوران اس کے باقی رفقاء کار سے ملاقات ہوتی رہی.تقریباً دوماہ کے بعد وہ واپس فرافینی آیا.میں نے دیکھا کہ وہ تو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہے.میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ گزشتہ دنوں اپنی فیملی کو ملنے بانجول گیا ہوا تھا.وہاں پر مجھے بخار ہو گیا.ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر نے یہ بتایا ہے کہ مجھے ایڈز کی مہلک بیماری لگ گئی ہے جس کی وجہ سے میں بہت پریشان تھا.اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد وہ واپس بانجول چلا گیا.اس کے بعد کبھی واپس فرافینی نہیں آسکا اور چند ماہ کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گیا.مباہلہ کے چیلنج کے نتیجہ میں ہلاکت گیمبیا میں جماعت کے ایک بزرگ اور جید عالم مکرم الحاج ابراہیم بکنی صاحب تھے.یہ دوست احمدیوں کے علاوہ غیر احمدیوں میں بھی ایک واجب الاحترام شخصیت تھے.غالباً 1996ء کی بات ہے، گیمبیا میں ایک معاند احمدیت نے ریڈیو گیمبیا پر جماعت کے خلاف پروگرام کرنے شروع کئے.چکنی صاحب نے بھی ان کے جوابات دیئے.مخالفین حق کا کوا تو سفید ہی ہوتا ہے.انہیں مختلف طریقوں سے سمجھانے کی کوشش کی گئی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی.اس پر مکرم ابراہیم صاحب نے اس مولوی کو مباہلہ کا چیلنج دے دیا.اللہ تعالیٰ کی شان کہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ مولوی سخت بیمار ہو گیا.اس کی بیماری کی کیفیت بھی عجیب تھی کہ کسی کو اس کی سمجھ نہیں آتی تھی.مختلف مقامات پر علاج کے لئے اسے لے کر گئے.جسمانی بیماری سے زیادہ کوئی نفسیاتی بیماری ہوگئی تھی اور پھر چند ماہ بعد وہ فوت ہو گیا.ایک دن میں دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ابراہیم جلکنی صاحب تشریف لے آئے.ان کی رہائش ایک گاؤں میں تھی جو بانجول سے دوصد میل سے زائد فاصلہ پر تھا.بڑے اچھے لباس میں 85
ارض بلال- میری یادیں ) ملبوس ، عموما سر پر افریقن ٹوپی پہنتے تھے لیکن اس دن سر پر پگڑی باندھی ہوئی تھی (غالباً یہ پگڑی عموماًسمر حضرت خلیفۃ امسیح الرابع " نے انہیں تحفہ دی تھی ) بڑی شان بان کے ساتھ آئے تھے.میں ان کے اس روپ کو دیکھ کر بڑا حیران ہوا اور پوچھا حاجی صاحب کیا بات ہے! کہنے لگے آج میں بہت خوش ہوں کیونکہ میرے خدا نے میرے حق میں فیصلہ کر دیا ہے پھر مجھے بتایا کہ میں نے اسے مباہلہ کا چیلنج دے رکھا تھا اور مکرم جکنی صاحب نے مجھے وہ ساری تفصیل بتائی.میں نے پوچھا اب کیا پروگرام ہے؟ کہنے لگے میں بریکامہ (مرنے والے کا شہر ) جار رہا ہوں اور فوتگی پر آنے والوں کو اس خدائی نشان کے بارے میں بتاؤں گا.میں نے کہا یہ مناسب نہیں ہے.اس مولوی کے بہت سے شاگرد ہیں وہ آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں.لیکن ابراہیم صاحب مصر تھے کہ وہ ضرور جائیں گے.اس پر بعض دیگر حاضرین نے بھی انہیں درخواست کی کہ آج نہ جائیں بعد میں چلے جانا لیکن وہ تو اس نیت اور ارادہ سے ایک لمبا سفر طے کر کے ادھر پہنچے تھے.اس لئے انکی خواہش تھی کہ ضرور وہاں جائیں گے.اس پر میں نے انہیں کہا کہ میں آپ کو بطور امیرحکم دیتا ہوں کہ آپ نے اس موقع پر وہاں نہیں جانا ہے.اس پر خاموش ہو گئے اور پھر کہنے لگے اطاعت امیر سب سے مقدم ہے اور پھر وہاں نہیں گئے.فجزاہ اللہ تعالی احسن الجزاء ہے کوئی کاذب جہاں میں، لاؤ لوگو کچھ نظیر میری جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار احمدیت قبول کرنے پر اہل خانہ نے مسجد سے نکال دیا کمبل گاؤں میں جب بفضل ایزدی کافی نوجوانوں نے بیعتیں کر لیں تو اس پر ان کے بزرگ جو عرصہ دراز سے پیروں فقیروں کی اندھی پیروی اور ظلم وستم کے اسیر تھے، ان کو اس سے رہائی کے لئے کوشش ناگوار گزری.ان احمدی نوجوانوں کے بزرگوں نے اپنے پیروں کے مسموم پراپیگنڈہ اور خوف سے جماعت کی مخالفت شروع کر دی بلکہ اپنے ہی بیٹوں کی مخالفت شروع کر دی.یہاں 86
ارض بلال.میری یادیں تک کہ عمر جالوصاحب کو ان کے اپنے والد نے اپنی مسجد سے باہر نکال دیا اور سخت مخالفت کی اور پھر چند بوڑھے تا حیات اپنے پرانے خیالات پر ڈٹے رہے.کیڑا جو دب رہا ہے گوبر کی تہہ کے نیچے اس کے گماں میں اس کا ارض وسما یہی ہے لیکن اللہ کے فضل سے یہ سب نوجوان اپنے عہد وفا پر قائم رہے اور انہوں نے دنیاوی خاندانی اور خونی رشتوں کو روحانی رشتوں کے مقابل پر بالکل قابل اعتنا نہ گردانا اور پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور جماعت کو تو فیق عطا فرمائی اور ہم نے ایک بڑی مسجد اس جماعت میں تعمیر کر دی.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں پر نماز جمعہ بھی ہو رہی ہے.بوڑھوں نے اپنی مخالفت جاری رکھی.ان کے بیٹے بھی جان گئے تھے کہ ہمارے ان بزرگوں کے دلوں پر ہمارے معاشرہ کے ناسور جعلی پیروں فقیروں اور فریبی مرابوں کے مکروں سے مہر لگ چکی ہے اور انکی آنکھوں پر دبیز پردے پڑ چکے ہیں.کہتے ہیں، ایک دانشمند اور ہمدرد نو جوان صاحب دل بازار سے گزر رہا تھا.اس نے دیکھا کہ ایک اونچی سی جگہ پر ایک پنجرہ پڑا ہوا ہے جس میں بہت سے کبوتر بے بسی اور لاچاری سے پھڑ پھڑا رہے ہیں.اس نوجوان کو ان اسیر پرندوں کی بے بسی پر بہت ترس آیا اور اس نے سوچا کہ ان بے چاروں کی آزادی کے لئے کوشش کرنی چاہیئے تا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی پیدا کر دہ کھلی فضا میں آزادی کا سانس لیں.وہ پرندوں کے تاجر کے پاس گیا اور اس نے ان پرندوں کی قیمت دریافت کی.جب تاجر نے ان کی قیمت بتائی تو اس نوجوان کو علم ہوا کہ وہ ان سب کی قیمت تو ادا نہیں کر سکتا.پھر اس نے سوچا چلو اپنی جیب کے مطابق چند ایک پرندے تو آزاد کر سکتا ہوں.اس نے چند پرندوں کی قیمت اس تاجر کے ہاتھ پر رکھ دی جس کے عوض تاجر نے بھی چند کبوتر اس نوجوان کے حوالے کر دیئے.نوجوان نے بڑی خوشی سے کبوتروں کو فضا میں اچھال دیا.کبوتر بڑی تیزی سے 87
ارض بلال- میری یادیں ) اڑے تھوڑی دیر تک دائیں بائیں اوپر نیچے کھلی فضا میں قلابازیاں لگاتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو گئے.نوجوان دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ مجھے چند اسیر جانوں کو آزادی کی نعمت دلانے کی توفیق اور سعادت مل گئی ہے اور وہ اپنی کامیابی پر خوش ہو رہا تھا.ابھی ادھر ہی کھڑا تھا.جانے سے قبل اس نے آسمان کی طرف نگاہ بلند کی تاکہ آخری باران آزاد پنچھیوں کو دیکھ سکے تو کیا دیکھتا ہے کہ پرندے تو واپس آرہے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ اپنی پرانی چھت پر آ کر بیٹھ گئے اور پھر چند ثانیے بعد اپنے اپنے ڈربے میں داخل ہو گئے اور انہوں نے اپنے قدموں میں غلامی کی زنجیریں پہن لیں.بے چارے نو جو ان کو اس بات کا بڑا دکھ اور صدمہ ہوا کہ کیوں یہ پرندے آزاد فضاؤں سے منہ موڑ کر واپس پابہ زنجیر ہو گئے.قدرے غور وفکر کے بعد اس کا یہ عقدہ بھی حل ہو گیا کہ اسیری اور غلامی سے اسقدر مانوس ہو گئے ہیں کہ آزادی سے انہیں خوف آتا ہے.غلامی نے ان کے اندر آزادی کی حس مٹادی ہے اور وہ سمجھتے تھے کہ ؎ تیجانی پیر صاحبان کی مخالفت اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے حضرت خلیفہ اصیح الرابع رحمہ اللہ 1988ء میں گیمبیا کے دورہ پر تشریف لائے.اس ورود مسعود سے فرافینی اور اس علاقہ کے احمدی احباب کے علاوہ سینیگال سے بھی بہت سے شمع خلافت کے پروانوں نے اپنی دید کی پیاس بجھائی.فرافینی کے کمیونٹی ہال میں بہت بڑا اجتماع ہوا جس میں حضور نے خطاب فرمایا.اس جلسہ میں گیمبیا کے علاوہ بہت سے شرکاء سینیگال کے علاقہ کو لخ سے بھی تشریف لائے تھے.ان کی سینیگال سے آمد، پھر واپس سینیگال جا کر حضور کی گیمبیا میں تشریف آوری اور اس کے نیک تاثرات کے بارے میں جماعت کی بہت زیادہ مشہوری ہوئی.88
ارض بلال.میری یادیں ان دنوں میں گیمبیا اور سینیگال کے بارڈر پر مکرم محمد جوب صاحب سینی گال پولیس کے انچارج تھے.میرے ان کے ساتھ بہت اچھے مراسم تھے.وہ حضور انور کی فرافینی آمد پر منعقد ہونے والے جلسہ میں بھی شریک ہوئے اور حضور انور کے قریب ہی بیٹھے ہوئے تھے.وہ حضور انور کے خطاب اور شخصیت سے کافی متاثر تھے.غور ” جب گیمبیا سے تشریف لے گئے.اس کے بعد ایک روز میں نے سینیگال جانے کا پروگرام بنایا.یادر ہے میرے پاس سینیگال کا ویزہ نہیں تھا اور نہ ہی سینیگال گورنمنٹ آرام سے پاکستانیوں کو ویزہ دیا کرتی تھی.اس لئے بارڈر پر موجود پولیس افسران کی مہربانی اور دوستانہ تعلقات کی بنا پر میں سینیگال چلا جایا کرتا تھا.اور لگا تار دو دو ہفتے ادھر ہی رہتا تھا تا کہ بار بار پولیس کا سامنا نہ ہو.اکثر یہ سفر موٹرسائیکل پر ہی ہوتا تھا اور رات شہروں کی بجائے دیہاتوں میں ہی گزارتا تھا.جب میں بارڈر پر پہنچا اور میں ڈیوٹی پر پولیس افسران سے بات چیت کر رہا تھا، مسٹر جوب اس وقت اپنے کمرے میں تھے.اس نے اپنے اہل کار کو اشارہ کیا کہ مجھے اس کے پاس دفتر میں بھیج دو.پولیس مین کے کہنے پر میں جوب صاحب کے کمرے میں چلا گیا.علیک سلیک کے بعد مجھے کہنے لگا ، استاذ ، مجھے افسوس ہے کہ آپ سینیگال نہیں جاسکتے اور ساتھ ہی اس نے مجھے بتایا کہ وزارت داخلہ کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ فرافینی سے جو احمدی مبلغ سینیگال آتا ہے اس کو سینیگال میں داخل ہونے سے روک دیا جائے.میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا.(پھر چند سال بعد اس نے مجھے بتایا کہ کولخ کے تیجانی فرقہ کے خلیفہ صاحب نے وزارت داخلہ میں شکایت کی تھی جس پر یہ حکم نامہ جاری ہوا تھا).مسٹر جوب نے ساتھ ہی مجھے یہ بھی کہا، دیکھو تم میرے دوست ہو.تم اگر سینیگال جانا چاہتے ہوتو زیادہ دور نہ جانا کیونکہ اس علاقہ میں تو میری نگرانی ہے.اگر آگے چلے گئے تو پھر ادھر کوئی اور 89
ارض بلال.میری یادیں ) پولیس کا آفیسر ہو گا جو تمہارے لئے مشکل پیدا کر سکتا ہے.میں نے اسے کہا کہ میں تمہارے لئے کوئی مشکل پیدا نہیں کرنا چاہتا اس لئے واپس چلا جاتا ہوں.اس پر میں بارڈر سے واپس آ گیا.چند ماہ کے بعد ایک روز مسٹر جوب فرافینی میں مجھے ملے اور کہنے لگے.میرا خیال ہے اب کام ٹھنڈا پڑ چکا ہے.اب ارباب اختیار اسے بھول چکے ہونگے.اب تم حکمت عملی سے آیا جایا کرو.اس طرح میرے مشکل کشا اللہ تعالی نے مشکلات دور کر دیں اور راستے پھر ہموار کر دیے اور تبلیغ کا سلسلہ چل نکلا.کشتی غرق ہوتے ہوتے بچ گئی مکرم فضل احمد مجو کہ صاحب سینیگال کے علاقہ سیچو میں جماعتی دورہ پر تھے.انہوں نے سیجو سے گنی بساؤ کی جانب ایک جماعت میں جانا تھا.ان دو مقامات کے درمیان ایک دریا ہے، جسے کشتی کے ذریعہ عبور کرتے ہیں.جس کشتی میں مجو کہ صاحب سوار ہوئے اس میں کشتی بان نے ضرورت سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو ٹھونس رکھا تھا.سواریوں کے علاوہ اس میں موٹر سائیکلیں اور چھوٹا موٹا سامان بھی تھا.جب کشتی دریا کے درمیان میں پہنچی.اچانک کشتی میں ایک جگہ سے پانی اندر آنا شروع ہو گیا.دراصل کشتی میں پہلے ہی ایک بڑا سوراخ تھا جوکشتی کے مالک نے کسی طرح مرمت کیا ہوا تھا.ملاح نے پانی باہر نکالنے کی کوشش کی مگر پانی اس رفتار سے اندر آرہا تھا کہ یہ ایک آدمی کے بس کا روگ نہ تھا.اب دوسری سواریوں نے بھی مختلف ذرائع سے پانی کشتی سے باہر پھینکنا شروع کردیا لیکن مناسب برتن نہ ہونے کے باعث پانی بڑھتا ہی گیا.اس طرح نصف سے زائد کشتی میں پانی بھر گیا.کشتی میں مرد حضرات کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی تھے.اس صورت حال میں ہر جانب خوف وہراس پھیل گیا.ہر کسی کو اپنی آنکھوں کے سامنے موت رقصاں نظر آنے لگی.عورتوں اور بچوں نے تو چیخنا چلانا شروع کر دیا.لوگ مختلف طریقوں پر تو بہ استغفار میں لگ گئے.دوسری جانب باوجود اجتماعی کوشش کے پانی کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا.کشتی دریا کے درمیان میں 90
ارض بلال- میری یادیں ) تھی.ملاح پانی نکالنے کے ساتھ کشتی کو سنبھالنے کے علاوہ اسے چلانے کی بھی کوشش کر رہا تھا.مجوکہ صاحب نے بھی حسب توفیق پانی نکالنے کی کوشش کی لیکن ہر کوشش بے سود ثابت ہورہی تھے.اب تو ہر مسافر کے لئے ایک ایک منٹ بھی بڑا کٹھن اور طویل لگ رہا تھا.اس مایوس کن اور پر خطر صورت حال میں مولوی صاحب نے اللہ تعالی کے حضور بڑی گڑ گڑا کر عرض کی ، اے باری تعالیٰ تیرے مسیح کا پیغام لے کر جارہا ہوں.اسی کا واسطہ دیتا ہوں.اس کشتی کو کسی طرح کنارے پر لگا دے.مولوی صاحب کہتے ہیں، اللہ تعالی کا کرنا ایسا ہوا کہ کسی طرح سے پانی کا زور کم ہونا شروع ہو گیا اور پھر جلد ہی کشتی کنارہ پر آپہنچی.سب لوگ اللہ تعالی کی اس معجزانہ نصرت پر خوش بھی تھے اور حیران بھی تھے اور میں اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہو گیا.91
ارض بلال.میری یادیں.....بار قبولیت احمدیت کے چند دلچسپ اور ایمان افروز واقعات الحاج ابراہیم عبد القادر حکمی کا قبول حق یہ گیمبیا میں احمدیت کے آغاز کا زمانہ تھا.احمدیت کی مخالفت اپنے عروج پر تھی.ہر طرف سے جماعت پر حملے کیے جا رہے تھے.اس سلسلہ میں علمانے ایک میٹنگ کی جس میں احمدیت کا منظم طور پر مقابلہ کرنے کا پروگرام ترتیب دیا گیا جس کے نتیجہ میں الحاج جکنی صاحب اور ایک دوسرے عالم دین الحاج فڈیرا کو احمد یہ مشن میں بجھوایا گیا.جگنی صاحب نے ایسے چالیس سوالات تیار کیے اور سوچا کہ ان سوالات کے جوابات احمدیوں کے لیے ممکن نہ ہونگے.اس شکست سے احباب جماعت کی ملک بھر میں رسوائی ہوگی.مکرم مولانا محمد شریف صاحب جو اس زمانہ میں امیر جماعت گیمبیا تھے، یہ وفدان کے پاس پہنچا.مہمانوں کو مشروب پیش کیا گیا مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے اعتراضات بیان کرنے شروع کیے.مولانامحمد شریف صاحب نے بڑے سکون اور تحمل کے ساتھ قرآن وحدیث کی روشنی میں ان کے سوالات کے جوابات دینے شروع کیے.ابھی چندسوالات کے جوابات ہی مکمل ہوئے تھے کہ جگنی صاحب کی صحیح تسلی بخش ، مسکت و مدلل جوابات پاکر ان کے دل کی گرہ کھل گئی.نیک فطرت اور سعید روح والے تھے.اللهم اغفر له صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں دل کی گرہ کھل گئی اور بصدق دل بیعت کر کے داخل سلسلہ ہو گئے.یہ خبر سب علماء کے لیے بجلی سے کم نہ تھی.خاص طور پر ان کے اہل خانہ کے لیے کیونکہ الحاج صاحب تو اپنے پورے قبیلہ 92
ارض بلال.میری یادیں کے وکنت مرجوا فینا کے مصداق تھے.اب ان کی راہ حق سے واپسی کے لئے ، اہل خانہ نے بہت جتن کیے.سب بہن بھائی ، عزیز واقارب ،معروف علماء وشیوخ نے مل کر ہر ممکن حربہ استعمال کر لیا مگر کوئی محبت ، لالچ ، ڈر اور خوف آپ کے ثبات قدم کو نہ ہلا سکا.پھر کیا تھا! دیکھتے دیکھتے سب دنیا ہی بدل گئی.محبتیں نفرتوں میں بدل گئیں ، دوست دشمن ہو گئے اور اپنے غیر ہو گئے.جان قربان کرنے والے عزیز واقارب بہن بھائی ، اب جان کے دشمن بن گئے.اہل خانہ کے نزدیک اس کے صرف دو ہی علاج تھے.جماعت سے رجوع یا موت.اوّل الذکر کے بارے میں تو انہوں نے پورا زور لگا لیا آخر مایوس ہو گئے تو پھر ان کے قتل کے پروگرام بنانے لگے.الحاج صاحب نے جب حق کو پہچان لیا تو پھر اس کے ساتھ ہی انہوں نے دعوت الی اللہ کا کام شروع کر دیا.پھر سوچا کہ صرف اسی قدر خدمت دین تو کافی نہیں ہے.اپنے آپ کو وقف کر دیا اور پھر ساری عمر، بڑے اخلاص اور تقوی سے اشاعت دین متین میں گزار دی.خاکسار کے ذریعہ گیمبیا میں پہلا پھل: محترم گورنر محمد جوب صاحب 1983ء میں جب پہلی بار میں گیمبیا پہنچا.مکرم امیر صاحب نے خاکسار کو جارج ٹاؤن نامی جماعت میں جانے کے لئے ارشاد فرمایا.یہ شہر ایک جزیرہ میں واقع ہے.اس میں پہنچنے کے لئے ایک فیری تو شمال کی جانب میں ہے جو آبادی سے چند کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے.جبکہ جنوبی طرف والی فیری قصبہ سے ہی مل جاتی ہے.ایک روز میں کسی کام کی غرض سے جارج ٹاؤن سے باہر گیا ہوا تھا.واپسی پر جب میں نے فیری کے ذریعہ دریا عبور کیا، بہت سے اور بھی مسافر میرے ساتھ تھے.دریا کی دوسری جانب مسافر، ٹیکسیوں کے ذریعہ جارج ٹاؤن کو روانہ ہو گئے.کچھ لوگ گاڑی نہ ملنے کے باعث ادھر ہی محوانتظار تھے، میں موٹر سائیکل پر سوار تھا.میں نے ایک نوجوان کو دیکھا جو ہاتھ میں بیگ تھامے ہوئے سڑک 93
ارض بلال- میری یادیں ) کے کنارے کسی سواری کے انتظار میں کھڑا تھا.میں نے اس کے پاس جا کر موٹر سائیکل روکی اور اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا.میں نے اسے بتایا کہ میں جماعت احمدیہ کا مبلغ ہوں اور جارج ٹاؤن میں انہی دنوں آیا ہوں.اس نوجوان نے بتایا کہ اسکا نام محمد جوب ہے اور اس نے نصرت ہائی سکول سے اولیول کیا ہے اور آجکل وٹرنری کے شعبہ میں کنتا عور کے مقام پر ملازمت کر رہا ہے.میں اس کے ہمراہ سیدھا اپنے مشن ہاؤس میں آ گیا، حسب توفیق خاطر مدارات کی.نوجوان میرے اس حسن سلوک سے بہت خوش ہوا.اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور اپنی منزل کو روانہ ہو گیا.اس نے مجھے بھی کنٹا عور آنے کی دعوت دی.اس کے بعد میں بھی چند دفعہ اس کے پاس گیا.اس نوجوان کے ذریعہ بہت سے لوگوں کے ساتھ میرے دوستانہ تعلقات اور شناسائی ہو گئی جو تبلیغ کے لئے بہت سودمند ثابت ہوئی.چونکہ وہ احمد یہ سکول میں پڑھا ہوا تھا اس لئے احمدیت سے کسی حد تک پہلے سے ہی متعارف تھا.میں نے بھی حسب علم و توفیق اسے جماعت کے بارے میں بتایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور آپ علیہ السلام پر ایمان لانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی.اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شمع روشن کر دی اور وہ احمدیت کی آغوش میں آگیا.الحمد للہ.اس کے بعد ان کی تقرری فاٹوٹو کے علاقہ میں ہو گئی.وہاں بھی ان سے رابطہ رہا اور اس علاقہ میں بھی ان کے ذریعہ تبلیغ کا کام ہوتا رہا.بہت دفعہ ان کے گھر میں تبلیغی اجلاس ہوئے.ان کی رہائش فاٹوٹو کے چیف محمد سابینگ کے گھر میں تھی.اس کے بعد چیف صاحب نے بھی بیعت کر لی تھی.چیف صاحب کی ایک بیوی گیمبیا میں سب سے پہلے بیعت کرنے والے دوست مکرم بارہ انجاء صاحب کی بیوہ تھیں.بڑی مہمان نواز خاتون تھیں اور جماعت سے بہت زیادہ دلی لگاؤ رکھتی احب کی یو تھیں.بڑی مہ تھیں.2009ء میں خاکسار گیمبیا گیا تو مجھے محمد جوب صاحب کے بارے میں بتایا گیا.موصوف موجودہ 94
ارض بلال- میری یادیں - گورنمنٹ میں مانسا کونکو کے مقام پر گورنر کے عہدہ پر متعین ہیں.میری ان کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی ، بڑے خوش ہوئے لیکن میں اپنی دیگر مصروفیات کے باعث ان سے نہ مل سکا.ہماری کشتی میں آجاؤ، یہ محفوظ ہے Farafenni کے قریب ایک دیہات یائل با میں ایک عربی استاذ مکرم یوبی باہ صاحب رہتے تھے.یہاں پر ایک سینیگالی معلم مکرم حامد مبائی صاحب کی تقرری ہوئی.یہ دوست بھی فولانی تھے.اس طرح ان کی آپس میں علیک سلیک ہوگئی اور تبلیغ کا سلسلہ چل نکلا.حامد مبائی صاحب تبلیغ کرتے کرتے دور تک ان کے گاؤں کی طرف آجاتے.پھر واپسی سے قبل کہتے ، استاذ آپ کو خدا تعالیٰ سے دُعا کرنی چاہیئے.اس پر یو بی صاحب کافی مشکل میں تھے ایک طرف پورے قصبہ فرافینی کے لوگ احمدیوں کو کافر کافر کہہ رہے تھے.ادھر احمدیوں کا مبلغ ہر باران کے ساتھ پیار سے پیش آتا اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا اور اس کے علاوہ ہر بار انہیں استخارہ کرنے کی تحریک کرتا.اس پر بڑے پریشان ہو کر کہتے یا اللہ یہ ماجرا کیا ہے.پھر اسی کشمکش میں ایک روز گھر آئے اور سو گئے اور آپ نے خواب میں دیکھا کہ وہ فرافینی کے قریب دریائے گیمبیا میں ایک کشتی پر سوار ہیں اور کشتی شدید لہروں کی وجہ سے سخت ہچکولے کھارہی ہے آپ اس کیفیت میں سخت پریشان ہیں.آپ نے اس دوران ایک اور کشتی اپنی طرف بڑھتی ہوئی دیکھی.اس میں آپ نے دیکھا کہ الحاج ابراہیم جگنی صاحب (ایک معروف احمدی مبلغ ) اس کشتی میں سوار ہیں اور مجھے اشارہ کر رہے ہیں اور بآواز بلند کہ رہے ہیں کہ یہ کشتی محفوظ ہے اس میں آجاؤ.پھر انہوں نے اپنا ہاتھ میری جانب بڑھا کر مجھے بھی اپنی کشتی میں سوار کر لیا.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.خواب کا سارا نقشہ میرے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا.اس خواب کے بعد میں نے سوچا کہ یہ خواب میری دعا اور استخارہ کا ہی نتیجہ ہے اور محفوظ کشتی جس میں حاجی صاحب سوار ہیں، یہ احمدیت ہے.یہی عصر حاضر کا سفینہ نوح ہے.اگلے روز علی الصبح فرافینی مشن ہاؤس میں 95
ارض بلال.میری یادیں ) تشریف لائے ، بیعت فارم پر کیا اور داخل سلسلہ عالیہ احمد یہ ہو گئے.آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کے علاوہ ہر چیز جل گئی ، تصویر بچ گئی سینیگال کے علاقہ کا سانس میں بنجونہ کے قریب ہماری ایک مخلص جماعت جا بنگ ہے.وہاں پر استاذ داؤد تا مبا صاحب بطور معلم تعلیم و تدریس کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں.مسجد کے قریب ہی معلم صاحب کی رہائش کے لئے احباب جماعت نے دو مختصر سے کمرے بنائے ہوئے ہیں.ایک شب مکرم معلم صاحب کسی کام کی غرض سے کمرے سے باہر گئے.اس وقت ان کے کمرہ میں موم بتی جل رہی تھی.اس دوران موم بتی کسی وجہ سے زمین پر گر گئی اور زمین پر پڑے ہوئے اوراق میں آگ لگ گئی.( یادر ہے افریقہ کے اکثر ممالک میں بہت سے لوگ رات کو اپنے کمروں میں روشنی کے لئے موم بتیاں جلاتے ہیں ) زمین پر گری ہوئی موم بتی سے آگ ہر طرف پھیلنی شروع ہوگئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر چیز جل کر راکھ ہو گئی.معلم صاحب اور باقی احباب جماعت نے جب آگ دیکھی تو کمرے کی طرف لپکے.معلم صاحب کے ساتھ ایک غیر از جماعت عربی کے سینیگالی استاذ بھی تھے.جب کمرے میں پہنچے تو وہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ کمرہ میں موجود ہر چیز جل کر راکھ ہو چکی تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیوار پر آویزاں تصویر بالکل صحیح و سالم تھی جبکہ اس کی اطراف میں باقی سب کا غذات وغیرہ جل کر خاکستر ہو چکے تھے.لیکن آگ اس تصویر کے قریب پہنچ کر خود بخود بجھ گئی تھی.اس واقعہ نے سب دیکھنے والوں کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو روز روشن کی طرح اُجا گر کر دیا اور آپ علیہ السلام کے مبارک کلمات : آگ سے ہمیں مت ڈرا.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.“ البدر جلد نمبر ۶،۵،۱ - ۲۸ نومبر ، ۵ دسمبر ۱۹۰۲ ص ۳۴) 96
- میری یادیں ) اس عظیم الشان پیشگوئی کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی.سبحان اللہ.اس محیر العقول معجزہ کو دیکھ کر استاذ داؤد تا مبا صاحب کے غیر از جماعت دوست پر بہت گہرا اثر ہوا اور اس نے اسی معجزہ کے مشاہدہ پر اپنے احمدی ہونے کا اعلان کر دیا اور اللہ کے فضل سے مخلص احمدی ہیں.ایک قدیم بیعت فارم یہ 1998ء کی بات ہے سینیگال کے علاقہ Kolda میں خاکسار دورہ پر تھا.Sere Yoro نامی گاؤں میں پہنچا.وہاں بفضلہ تعالیٰ اچھی بڑی جماعت ہے.مکرم Demba Mballo صاحب وہاں کے امام ہیں بہت دلیر اور نڈر قسم کے داعی الی اللہ ہیں.انہوں نے بتایا کہ یہاں ایک قریبی گاؤں ہے وہاں پر ایک بزرگ احمد سیڈی صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں.میرے پاس پروگرام کے مطابق وقت کی کمی تھی.میں نے کہا پھر اگلے دورہ پر ان سے مل لیں گے.مگر ڈمبا امبالو صاحب نے اصرار کیا کہ آج ضرور مل لیں.خیر ہم لوگ تیار ہو گئے اور مکرم احمد سیڈی صاحب کے گاؤں پہنچے.مکرم احمد سیڈی صاحب کی عمر 77 سال کے لگ بھگ ہوگی.عربی زبان کے عالم اور اپنے علاقہ کے امام ہیں.عليك سليك ہوئی مل کر بہت خوش ہوئے.ان کا چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے اپنی ایک قمیض کی جیب سے کچھ کاغذات نکالے.پھر ان میں سے ایک بہت پرانا اور بوسیدہ کاغذ جو اپنی طوالت عمر کے باعث بہت سے ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا تھا.اس کو الگ کیا اور کھول کر مجھے دکھایا، یہ جماعت احمدیہ کا بیعت فارم تھا جو انہوں نے غالباً عرصہ تیس سال سے جیب میں ڈال رکھا تھا اور انہوں نے بتایا جس سال اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑے بیٹے سے نوازا تھا یہ اس سال میں مجھے ملا تھا.میں نے پوچھا یہ بیعت فارم آپ کو کیسے ملا؟ انہوں نے بتایا کہ میرے ایک کزن اس زمانہ میں 97
ارض بلال.میری یادیں ) بیت اللہ شریف بغرض حج گئے تھے.وہاں پر ان سے بعض احمدی احباب کی ملاقات ہوئی تھی ان کی تبلیغ پر میرے بھائی احمدی ہو گئے تھے وہ گنی بساؤ کے رہنے والے تھے جواب فوت ہو چکے ہیں.انہوں نے یہ بیعت فارم مجھے دیا اور کہا تھا کہ دنیا میں اگر صحیح مذہب ہے تو جماعت احمدیہ ہی ہے اس لئے اس وقت سے یہ بیعت فارم بھر کر میں نے اپنی جیب میں ڈالا ہوا ہے.مگر آج تک کسی مرکز سے آنے والے احمدی سے ملاقات نہیں ہوسکی اور میری شدید خواہش تھی کہ جماعت کے کسی مبلغ سے ملاقات ہو جائے.آپ پہلے آدمی ہیں جن سے میری ملاقات ہوئی ہے اس لئے میں بہت خوش ہوں.اللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کر دی ہے.اب وہ ماشاء اللہ بہت ہی مخلص اور فدائی احمدی ہیں.فاوورا جالو نے ایک بجے رات بیعت کر لی سینیگال کے علاقہ کو لخ میں ایک گاؤں کمبل کے ایک نوجوان امام مکرم عمر جالو صاحب کو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.ایک دن کہنے لگے میری خواہش ہے کہ میرے سب عزیز رشتہ دار بھی خدا تعالیٰ کی اس سچی جماعت میں شامل ہو جا ئیں.اس لئے میں آپ کے ساتھ عزیز رشتہ داروں کے پاس جانا چاہتا ہوں.میں نے کہا ٹھیک ہے پروگرام بنالیں.میں آپ کے ساتھ ہوں.کہنے لگے سب سے پہلے پھر میں اپنے ماموں کے پاس جاؤں گا.ان کے ماموں کا نام FA Woora Jallo ہے اور یہ بزرگ Palado نامی گاؤں میں رہتے ہیں.ہمارا وفد چار افراد پر مشتمل تھا جس میں خاکسار کے علاوہ مکرم عمر جالو صاحب، احمد لی صاحب اور ڈاکٹر نعیم اللہ صاحب تھے.ہم لوگ نماز عشاء کے بعد ان کے گاؤں پہنچے.مکرم Fawooraصاحب کے گھر گئے.علیک سلیک کے بعد انہیں اپنی آمد کی غرض بتائی.کہنے لگے بسم اللہ بہت اچھی بات ہے! آؤ، باتیں کرتے ہیں.ہم لوگ تقریبا رات بارہ بجے تک دعوت حق میں مشغول رہے جس میں جماعت کا 98
ارض بلال.میری یادیں تعارف کرایا گیا اور ان کے سوالات کے جوابات دیئے گئے.اب مکرم Fawoora صاحب کہنے لگے ، دیکھیں میں تو اب بہت بوڑھا ہو چکا ہوں اس لئے احمدی نہیں ہوسکتا.ہاں میری اولاد میں اگر کوئی بیعت کرنا چاہے تو بخوشی احمدی ہو سکتا ہے.اس پر ان کے بڑے بیٹے نے ( جو شادی شدہ اور صاحب اولاد تھا ) بیعت کر لی.اس کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ چلتا رہا.رات تقریباً ایک بجے میں نے کہا اب آپ لوگوں سے ہم اجازت چاہتے ہیں اس لئے آؤ دعا کر لیں.اس پر Fawoora صاحب کہنے لگے.میں بھی بیعت کرنا چاہتا ہوں.میں ان کے جواب پر بہت حیران ہوا اور پوچھا ابھی کچھ دیر پہلے تو آپ نے انکار کر دیا تھا ایک دم یہ کیسا انقلاب آ گیا ہے.فرمانے لگے، دیکھیں میں نے اس دنیا میں اپنی عمر کی 75 بہاریں دیکھی ہیں.میرے اس غریب گھر میں جو شہر سے بہت دور ہے اور پھر سڑک سے بھی کافی ہٹ کر ایک غیر معروف جگہ پر ہے، اس گھر میں میری زندگی میں بہت سے لوگ آئے ہیں، لیکن ہر آدمی کسی لالچ اور مطلب کے تحت آتا رہا ہے.اب میں نے سوچا ہے کہ آپ لوگ میری زندگی میں وہ پہلے مہمان ہیں جو میرے گھر میں محض اللہ تعالیٰ کی خاطر آئے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ آپ کی جماعت ایک الہی جماعت ہے اس لئے میں اس میں شامل ہوتا ہوں.دوسری بات یہ ہے کہ میں اپنی عمر کے لحاظ سے خاندان کے بزرگوں میں شمار ہوتا ہوں اس لئے میرا فرض بنتا ہے کہ میں اب یہ پیغام حق اپنے قبیلہ کے سب افراد تک پہنچاؤں.خاکسار ان کے جواب پر بہت خوش ہوا.پھر ان کے ساتھ مل کر ان کے عزیز رشتہ داروں کو ملنے کا پروگرام ترتیب دیا گیا جس کے نتیجہ میں بہت سی سعید روحوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.الحمد للہ.فسل کے علاقہ میں بیعتوں کا سلسلہ ایک دفعہ میں نے جماعت کے دو معلمین استاذ علی وفائی اور موڈ وسار صاحب کو ایک تبلیغی مشن پر فاٹک کے علاقہ میں بھجوایا.ان کے پاس ایک موٹر سائیکل تھی.جب یہ دونوں فسل کے علاقہ سے 99
ارض بلال- میری یادیں ) گزر رہے تھے، اچانک ان کی موٹر سائیکل خراب ہو گئی.ان دونوں نے اس کو ٹھیک کرنے کی کافی کوشش کی مگر موٹر سائیکل چلانے میں کامیاب نہ ہو سکے.آخر وہ مایوس ہو کر موٹر سائیکل کو کسی طرح ایک قریبی گاؤں تک لانے میں کامیاب ہو گئے.اتفاق سے یہ ایک چیف صاحب کا گھر تھا.معلمین نے ان کے گھر پہنچ کر اپنا تعارف کرایا اور موٹر سائیکل کے خراب ہونے کی داستان بھی بیان کی.اس پر چیف صاحب کو ان کی حالت پر بڑا رحم آیا.انہوں نے ان مہمانوں کا بڑا احترام کیا.ان کے اہل خانہ نے بھی حسب توفیق ان مہمانوں کی خوب آؤ بھگت کی.چیف صاحب نے اپنے ایک کارندے کو قریبی قصبہ میں بھجوایا تا کہ وہاں سے کسی مکینک کو لے آئے جو موٹر سائیکل کی مرمت کر دے.کافی دیر کے بعد مکینک آیا اور اس نے کئی گھنٹے صرف کر کے موٹر سائیکل کو درست کر دیا.اس ساری کاروائی کے دوران دونوں معلمین کو چیف صاحب کے گھر کئی گھنٹے قیام کرنا پڑا.چیف صاحب نے معلمین سے پوچھا.آپ لوگ کون ہیں اور کہاں جارہے ہیں؟ معلمین نے بتایا ، ہم لوگ احمدی ہیں اور فاٹک کے علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ کے لئے جارہے ہیں.چیف صاحب نے پوچھا، یہ احمدیت کیا ہے؟ اس پر انہوں نے حسب علم چیف صاحب کو جماعت کے بارے میں بتایا.اس طرح یہ سلسلہ کئی گھنٹے چلتا رہا.ان معلمین کو کئی گھنٹے وہاں رہ کر چیف اور اس کے اہل خانہ اور دیگر حاضرین کو بڑے احسن رنگ میں دعوت حق پہنچانے کی توفیق ملی اور اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ چیف نے اپنے احمدی ہونے کا اعلان کر دیا اور جتنے گاؤں اس کے زیر انتظام تھے، ان دیہاتوں کے نمبرداروں کے نام معلمین کو خط بھی لکھ کر دیئے اور معلمین سے کہا کہ آپ ان سب دیہاتوں میں جا کر میرا پیغام سب نمبر داروں کو پہنچادیں جس میں لکھا تھا.میں تو اللہ کے فضل سے احمدی ہو گیا ہوں.آپ لوگ بھی احمدیت کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لیں.معلمین یہ خط لے کر بہت سے قریبی دیہاتوں میں گئے.100
- میری یادیں ) موٹر سائیکل کے خراب ہونے کے نتیجہ میں فسل کے علاقہ میں اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کے بہت سے راستے کھول دیئے اور آج اس علاقہ میں چالیس کے قریب مقامات پر احمدیت کا جھنڈا لہرا رہا ہے.اللہ تعالی ان معلمین کو اجر عظیم عطا فرمائے.ان میں سے ایک معلم موڈ وسار صاحب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے.ان کے ذریعہ اس علاقہ میں احمدیت کا جو پودا لگا تھا اس کا ثواب ان کے لئے صدقہ جاریہ بن جائے.آمین.کمپانٹو کے علاقہ میں پیغام احمدیت ایک روز ایک اجنبی مہمان میرے گھر فرافینی میں آئے جن کو میں نہیں جانتا تھا.انہوں نے اپنا نام جبریل جالو بتایا اور یہ بھی بتایا کہ وہ سینیگال کے علاقہ کمپانٹو سے آئے ہیں.کمپانٹو کا علاقہ فرافینی سے کافی دور ہے.وہاں سے فرافینی تک بذریعہ گاڑی آنے کے لئے پورا دن لگ جاتا ہے.یہ دوست فولانی تھے اور کسی حد تک عربی زبان میں بھی بات چیت کر لیتے تھے.میں نے ان.سے اپنے پاس آنے کا مقصد پوچھا.کہنے لگے میں نے احمدیت کے بارے میں ایک آدمی سے سنا تھا اور اس نے بتایا تھا کہ اگر احمدیت کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہو تو آپ گیمبیا جا ئیں اور پھر فرافینی میں جا کر آپ سے ملیں.اس لئے میں ایک لمبا اور کٹھن سفر طے کر کے یہاں پر پہنچا ہوں.میں اس شخص کی داستان سن کر بہت حیران ہوا کہ کس طرح دور دراز علاقہ سے ایک طویل اور کٹھن سفر طے کر کے، اپنی جیب سے کرایہ دے کر میرے پاس محض خدا کی خاطر آیا ہے.یہ نوجوان چند دن میرے پاس رہا.کئی روز اس کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رہا.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.اس کو شرح صدر نصیب ہوگئی اور اس نے اطمینان قلب کے ساتھ بیعت کر لی.واپسی پر اس نے اپنے علاقہ میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کر دیا.اب اللہ کے فضل سے اس کے علاقہ میں بھی کافی جماعتیں قائم ہیں.اس علاقہ میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کا سہرا جبریل جالو صاحب کے 101
ارض بلال.میری یادیں سر ہے.ان کا اپنا گاؤں کمپانٹو سے بھی ہیں میل اندر جنگل میں ہے جہاں آنے جانے کا کوئی مناسب رستہ نہیں ہے.یہ لوگ رستہ ریڑھوں پر طے کرتے ہیں.میں خود بھی کئی دفعہ ان کے گاؤں گیا ہوں.تصور کریں کہ کس طرح ایک دوسرے ملک کے دور دراز شہر اور پھر اس کے بعد بیسیوں میل دور دیہات سے وہ روح احمدیت کے لئے فرافینی آئی.احمدیت کا پیغام لے کر اپنے علاقہ میں پہنچے اور پھر اس پیغام کو ہر سو پھیلانے میں شب وروز محو ہو گئے.کیا یہ انسانی فعل ہے؟ ہر گز نہیں ! یہ خالص اللہ تعالی کا ارادہ اور فعل ہے.سبحان اللہ.کوسانار کے علاقہ میں احمدیت کا تعارف جن دنوں میں گیمبیا کے قصبہ فرافینی میں مقیم تھا وہاں سے سینیگال بھر میں رابطے کرنا بظاہر ناممکنات میں سے تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اس لئے اللہ تعالیٰ خود ہی غیب سے تبلیغ حق کے لئے سامان پیدا فرما دیتا ہے.ایک دن فرافینی میں لومو (اتوار مارکیٹ) لگی ہوئی تھی.یہ مارکیٹ جماعت احمدیہ کے کلینک کے قریب تھی اور شہر سے قدرے باہر تھی.میں ایک معلم صاحب کے ساتھ مارکیٹ میں گیا.رستہ میں میرے ایک واقف کار دوست کو میں نے سلام کیا.اس آدمی کے ساتھ اس کا ایک مہمان بھی تھا.اس مہمان نے اس آدمی سے میرے بارے میں پوچھا، یہ کون ہے؟ اس پر اس نے بتایا کہ یہ احمد یہ جماعت کا استاذ ہے.اس پر مہمان نے کہا، کیا میں اس سے مل سکتا ہوں؟ اس نے کہا ،ضرورمل سکتے ہیں.ابھی اس کے گھر جاتے ہیں اور جا کر اس سے ملتے ہیں.وہ دونوں سیدھے میرے گھر آگئے.اس وقت میرے ہاں سینیگال سے چند معلمین بھی آئے ہوئے تھے.ان سے بھی ان کی ملاقات ہوئی.اس دوران کھانے کا وقت ہو گیا.ہم سب نے سینیگالی روایت کے مطابق اکٹھے مل کر ایک ہی برتن میں کھانا کھایا.اس پر وہ بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا، یہ میں نے اپنے مذہبی لیڈروں میں کبھی نہیں دیکھا کہ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر کھانا کھائیں.اس کے بعد عصر تک وہ 102
ارض بلال- میری یادیں ) ہمارے پاس رہے.جماعت کی باتیں ہوتی رہیں.نمازیں انہوں نے ہمارے ساتھ ادا کیں اور بفضلہ تعالیٰ بیعت کر لی.ان کا نام بامبوجوب صاحب تھا.اس طرح فرافینی سے تقریباً چھ صد میل دور اللہ تعالی نے احمدیت کا پودا لگا دیا جہاں پر عام حالات میں میرے لئے جانا نا ممکنات میں سے تھا.پھر ان کا گھر اس علاقہ میں جماعت کا ایک مرکز بن گیا.اس کے بعد میں نے ایک معلم مکرم صالی جابی صاحب کو ان کے علاقہ میں بجھواد یا جو ان کے گھر میں لمبا عرصہ رہے اور اس علاقہ میں ان کے ذریعہ بہت سے مقامات پر احمدیت کا پودا لگا.رشائول کے علاقہ میں ورودِ احمدیت $ 1997 11 ء سے قبل گیمبیا مشن کے زیر انتظام چند دیگر ہمسایہ ممالک بھی ہوا کرتے تھے.یہ ممالک سینیگال، گنی بساؤ، کیپ ورڈ اور موریطانیہ تھے.بعد ازاں جب اللہ کے فضل اور خلافت کی برکت سے اشاعت احمدیت کے میدانوں میں وسعت پیدا ہوئی جس کے نتیجہ میں تبلیغی اور تربیتی کام میں بھی قابل قدر اضافہ ہوا.تو حضرت خلیفہ اسیح الرابع ” نے از راہ شفقت اس علاقہ کو تین امارتوں گیمبیا،سینیگال اور گنی بساؤ میں تقسیم فرما دیا.ایک دفعہ ہم نے گیمبیا سے موریطانیہ کے بعض علاقوں میں تبلیغ کا پروگرام ترتیب دیا.اس تبلیغی پروگرام کے لئے میرے ہمراہ مکرم عثمان دابوصاحب ڈرائیور اور دو معلمین موڈ وسار صاحب اور مکرم علیوفائی صاحب تھے.صبح سویرے ہم لوگ گیمبیا سے اپنی کار میں روانہ ہوئے اور ایک لمبا سفر طے کر کے شام کے قریب سینی گال اور موریطانیہ کے بارڈر پر پہنچے.جونہی بارڈر پر پہنچے تو جلد ہی ہمیں فیری مل گئی.جس کے ذریعہ ہم لوگ دریا کی دوسری جانب موریطانیہ میں چلے گئے.وہاں پہنچ کر ضروری کاروائی کے لیے متعلقہ دفاتر میں گئے.انہوں نے ہمارے پاسپورٹ وغیرہ چیک کیے اور آگے جانے کی اجازت دے دی.اس کے بعد انہوں نے ہماری کار کے کاغذات دیکھے.ان کا غذات پر لکھا ہوا تھا’ احمد یہ مسلم مشن گیمبیا‘ اس پر ڈیوٹی پر 103
ارض بلال.میری یادیں موجود اہلکار نے جا کر اپنے انچارج کو بتایا کہ یہ تو احمد یہ جماعت کی گاڑی ہے.اس پر اس انچارج نے حکم دیا کہ ان کو فوراً واپس بجھوادیں.ہم لوگوں نے وجہ دریافت کی مگر انہوں نے بڑی بدتمیزی کے ساتھ ہمیں باقاعدہ دھکے دے کر فیری میں ڈال دیا اور فیری ہمیں واپس سینیگال کی طرف لے آئی.یہ سارا حادثہ اتنی تیزی کے ساتھ ہوا کہ انہوں نے ہمیں کچھ سمجھنے کا موقعہ ہی نہ دیا.خیر ہم سینیگال کی طرف واپس پہنچے.سخت پریشانی اور دُکھ کی کیفیت تھی.اب شام بھی گہری ہورہی تھی.حیران و پریشان دریا کے کنارے پر کھڑے تھے.اتنے میں مکرم موڈ وسار صاحب کہنے لگے کہ میرا شناختی کارڈ تو موریطانین امیگریشن کے دفتر میں ہی رہ گیا ہے.انہیں فوری طور پر ایک کشتی کے ذریعہ سے دوسری جانب بجھوادیا گیا.اب ہم لوگ ان کی واپس آمد کے انتظار میں ایک طرف کھڑے ہو گئے.کافی دیر کھڑے رہے لیکن موڈ وسار صاحب واپس نہ آئے.اندھیرا بھی کافی ہو چکا تھا.اب رات گزارنے کا مرحلہ تھا.اس پورے علاقہ میں ہماری کوئی شناسائی نہ تھی.وہاں سے کچھ فاصلہ پر ایک چھوٹا سا قصبہ رشائول ہے جہاں پر سینیگال کی اکلوتی شوگرمل ہے اور چند ہوٹل اور ریستوران بھی ہیں.ہم لوگوں نے سوچا شائول چلتے ہیں اور رات وہاں بسر کریں گے اور پھر صبح واپس آکر موڈ وسار صاحب کومل لیں گے اور اس کے بعد اگلا پروگرام بنالیں گے.مکرم عثمان صاحب نے گاڑی چلانی شروع کر دی.چند کلومیٹر کے فاصلہ پر ہم نے بائیں طرف مڑنا تھا.جونہی گاڑی بائیں جانب مڑی میں نے دیکھا کہ ایک آدمی سڑک کی ایک جانب کھڑا ہے اور ہم لوگوں سے کار میں بیٹھنے کے لئے لفٹ مانگ رہا ہے.میں نے عثمان کو کہا کہ گاڑی روک کر اس مسافر کو گاڑی میں بٹھا لو.اس پر عثمان نے گاڑی روکی اور مسافر کو کار میں بٹھالیا.اس مسافر نے بتایا کہ میرا نام بگے سوہ ہے اور میں قریبی گاؤں کر اسماں کا رہنے والا ہوں اور ایک ضروری کام کے لئے رشائول جانا چاہتا ہوں.تھوڑی دیر کے لئے ہم نے مختلف موضوعات پر بات چیت کی.اس کے پوچھنے پر ہم نے بتایا 104
ارض بلال- میری یادیں) کہ ہم احمدی ہیں.اس کے بعد اختصار کے ساتھ جماعت کے بارے میں چند باتیں ہوئیں.اس کے بعد ہم نے اسے پوچھا کہ کیا وہ ہمارے لئے کہیں پر رات گزارنے کا انتظام کر سکتا ہے.وہ سمجھا کہ ہم اس سے مذاق کر رہے ہیں.ہم نے بتایا کہ ہم سنجیدگی سے بات کر رہے ہیں، ہم پہلی بار اس علاقہ میں آئے ہیں.ہمارا یہاں پر کوئی بھی واقف کار نہیں ہے.اس پر وہ کہنے لگا شائول میں میرے ایک دوست کا مکان ہے جہاں میں آپ کے رہنے کا انتظام کر سکتا ہوں.ہم اس کے ساتھ اس کے دوست کے گھر پہنچ گئے.یہ ایک کچا سا مکان تھا جس میں اس نے ایک چھپر نما کمرہ ہمیں دے دیا.زمین پر صفیں ڈال دیں.ہم لوگوں نے تھوڑی دیر کے لیے وہاں آرام کیا.صاحب خانہ نے کچھ ہمیں کھانا پیش کیا جو باجرہ اور سالن تھا.یہ ایک بڑے سے برتن میں تھا جسے ہم سب نے اکٹھے بیٹھ کر ایک ہی برتن میں مل کر کھا لیا اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا.اس کے بعد صاحب خانہ کا بھی شکریہ ادا کیا.یہ ساری باتیں وہ ہمارا ساتھی بڑے غور سے دیکھ رہا تھا لیکن مجھے اندر ہی اندر ایک طرح کی بے چینی ہورہی تھی اور سوچ رہا تھا کہ موڈوسار صاحب جو موریطانیہ کی طرف گئے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ موریطانین پولیس نے کیا سلوک کیا ہوگا.ممکن ہے وہ رات گئے کسی کشتی کے ذریعہ سینیگال کی جانب آجائیں.رات کہاں گزاریں گے.کھانا کہاں سے کھائیں گے.یہ سوچ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ چلو واپس دریا پر چلتے ہیں، شاید موڈ وسار صاحب واپس آجائیں.ہمارا میزبان کہنے لگا، میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ اپنے گاؤں تک واپس جانا چاہتا ہوں.رستہ میں پھر سلسلہ کلام شروع ہو گیا.معلمین نے اسے بتایا کہ یہ ہمارا امیر ہے.اس پر وہ کہنے لگا کہ میں نے سینیگال میں ایسی کوئی مسلمان جماعت نہیں دیکھی جن میں اس قدر مساوات اور انسانی ہمدردی پائی جاتی ہو.اس لئے میری آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ آپ میرے گاؤں میں تشریف لائیں اور ہم سب گاؤں والوں کو جماعت احمدیہ کے بارے میں تفصیل سے بتائیں.میں نے اس سے وعدہ کیا کہ کل انشاء اللہ تعالیٰ ہم لوگ آپ کے ساتھ آئیں گے اور آپ کو جماعت کے بارے 105
ارض بلال.میری یادیں میں تفصیل سے بتائیں.اس کے بعد ہم لوگ دریا پر پہنچ گئے.کافی انتظار کیا مگر موڈ و صاحب نہ آئے.اب رات گزارنے کا مسئلہ تھا.ہم قریبی آبادی کے امام کے پاس چلے گئے اور اسے بتایا کہ ہم مسافر ہیں، رات بسر کرنی ہے.کہنے لگا میرے پاس تو کمرہ نہیں ہے.ہم نے کہا.ہم لوگ کہیں بھی لیٹ جائیں گے.ہمیں صرف اندر آنے کی اجازت دیدیں.اللہ اس کا بھلا کرے، وہ مان گیا.اس نے ہمیں ایک برآمدہ دکھا دیا اور کہا اگر اس میں سو سکتے ہیں تو سو جائیں.خیر ہمارے لئے یہ بھی بڑی غنیمت تھی.تھکاوٹ سے برا حال ہو چکا تھا اس لئے جلد سو گئے.کہتے ہیں نیند آئی ہو تو پھر آپ جہاں بھی ہوں جیسے بھی ہوں آنکھ لگ ہی جاتی ہے.صبح اٹھے دوبارہ دریا کے کنارے پر چلے گئے.ادھر موڈ وسار صاحب سے ملاقات ہو گئی.رات کو کشتی نہ ملنے کے باعث نہ آسکے تھے.اللہ کا شکر ادا کیا.مایوسی خوشی میں بدل گئی اس کے بعد ہم لوگ بیگے سوہ کے گاؤں کر اسماں میں چلے گئے.یہ بہت چھوٹا سا گاؤں تھا ، بہت تھوڑی آبادی تھی.بیگے سوہ صاحب نے ہمارا اپنے گاؤں کے لوگوں سے تعارف کرایا اور اسکے بعد گزشتہ رات کا سارا واقعہ بیان کیا.بعد ازاں تبلیغی میٹنگ ہوئی.گاؤں کے تقریباً سبھی لوگ آگئے.پھر خاکسار اور معلمین نے جماعت احمدیہ اور اس کی تعلیم کے بارے میں مختصر تقاریر کیں، کچھ سوال وجواب ہوئے.خدا تعالیٰ نے پروگرام میں بہت برکت ڈالی اور اس کے نتیجہ میں سارا گاؤں احمدی ہو گیا.میں نے دونوں معلمین کو اسی جگہ پر کچھ عرصہ کے لئے چھوڑ دیا جنہوں نے مزید تعلیم وتربیت کے کام کا آغاز کیا.پھر بفضلہ تعالیٰ یہ گاؤں ہماری جماعت کا اس علاقہ میں مرکز بن گیا.پھر وہاں سے علاقہ بھر میں تبلیغ کا آغاز ہو گیا اور ایک سال کے اندر اس علاقہ میں اٹھارہ جماعتیں قائم ہو گئیں اور پھر اس گاؤں کے ذریعہ سے ہی موریطانیہ میں بھی بیعتیں ہوئیں کیونکہ ان 106
ارض بلال.میری یادیں لوگوں کے بہت سے عزیز موریطانیہ میں بھی رہتے تھے.وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے عرفت مربی بفسخ العزائم فرافینی میں ایک غیر احمدی عربی استاذ مکرم عمرفان صاحب بعض اوقات ہماری مسجد میں آکر نماز پڑھتے تھے.ان کو ایک دفعہ میں نے جماعت کے عربی رسالہ التقویٰ کا صد سالہ جو بلی نمبر دیا.وہ رسالہ کو اپنے ساتھ اپنے گاؤں چا کو لے گئے.وہاں پر بعض اماموں اور اساتذہ کو وہ رسالہ دکھایا.ایک دفعہ اس علاقہ میں خاکسار دورہ پر گیا ہوا تھا.وہاں کے ایک عربی استاذ سے ملاقات ہوئی.ان کا جماعت سے تعارف رسالہ التقویٰ کے ذریعہ سے پہلے ہو چکا تھا.ان سے کافی باتیں ہوئیں.اس طرح اللہ تعالی نے ان پر فضل کیا اور انہوں نے بیعت کر لی اور کہنے لگے میرے ایک دوست مکرم گوک جارا صاحب ہیں جو کر کی با مبرا نامی گاؤں میں رہتے ہیں اور وہاں پر عربی مدرسہ میں پڑھاتے ہیں.اگر ہم ان کے پاس جائیں اور انہیں جماعت کا تعارف کرائیں تو امید ہے کہ وہ بھی انشاء اللہ احمدی ہو جائیں گے.پھر ان کے علاقہ میں بھی احمدیت کا نور پھیل جائے گا.چونکہ ہم لوگ گیمبیا سے آئے ہوئے تھے اور کافی دنوں سے مسلسل سفر پر تھے.تھکاوٹ سے برا حال تھا لیکن یہ خواہش غالب آئی کہ شاید اللہ تعالیٰ اس نئے علاقہ میں بھی جماعت کا پودا لگا دے.اس لئے اس گاؤں کے لئے روانہ ہو گئے اور لمبا سفر طے کر کے اس گاؤں میں پہنچے.جب اپنے میزبان کے گھر آئے تو معلوم ہوا کہ وہ تو سفر پر گئے ہوئے ہیں.اس سے بہت ذہنی کوفت ہوئی.تھکاوٹ سے بدن پہلے ہی چور ہو چکے تھے.بہر حال ان کے صحن میں صف بچھائی اور اس پر بیٹھ گئے.چونکہ شام بھی ہونے والی تھی.سفر کی تھکاوٹ سے برا حال تھا.پھر استاذ صاحب سے بھی ملاقات نہ ہوئی.اس لئے سوچ رہے تھے کہ جلدی کسی اور جگہ جا کر آرام کریں کیونکہ مناسب جگہ نہ ملنے کی وجہ سے رات بسر کرنا بہت مشکل کام ہوتا تھا.پھر ہمارے لئے تو یہ بالکل ایک نیا علاقہ تھا.107
ارض بلال.میری یادیں اس دوران جب لوگوں نے ہماری گاڑی دیکھی تو وہاں آنا شروع ہو گئے.گاؤں کے امام مکرم غوثو جالو صاحب بھی آگئے.انہوں نے اپنا تعارف کرایا کہ میں اس گاؤں کا امام ہوں.پھر جوا با ہم نے بھی اپنا تعارف کرایا کہ ہم لوگ احمدی ہیں اور ادھر مکرم استاذ صاحب کو ملنے کیلئے آئے ہیں.لیکن اتفاق سے استاذ صاحب گھر پر نہیں ملے.امام صاحب کے آنے سے قدرے پریشانی ہوئی کیونکہ عام طور پر امام حضرات جماعت کی زیادہ مخالفت کرتے ہیں بلکہ تبلیغ کے راستہ میں روک بن جاتے ہیں.دراصل بات یہ ہے کہ امام حضرات یعنی مولوی صاحبان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم احمدی ہو گئے تو عوام الناس ہمیں اس امامت سے ہٹا دیں گے.اس طرح ذریعہ آمد بھی جاتا رہے گا اور ظاہری عزت وقار بھی.دوسری طرف عوام الناس کو تبلیغ کی جائے تو وہ کہتے ہیں ہم چونکہ دینی علوم سے نابلد ہیں اس لئے ہمارے مولوی صاحب جو فیصلہ کریں گے وہی ہمارا فیصلہ ہو گا.اس طرح بسا اوقات دونوں فریق ایک دوسرے کے خوف سے حق کی شناخت سے محروم رہ جاتے ہیں.اگر جلسہ ،میٹنگ وغیرہ میں مولوی صاحب موجود ہوں تو پھر مولوی صاحبان فوراً دفاع پر اتر آتے ہیں اور دوسرے کی بات ماننا اپنی بے عزتی اور ہتک سمجھتے ہیں کہ اگر فور أمان لیا تو لوگ کیا کہیں گے.اس لئے کج بحثی پر اتر آتے ہیں اور پھر جھوٹ کا سہارا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے.اس لئے یہاں امام صاحب کی آمد سے یہ خوف پیدا ہوا کہ امام صاحب گاؤں والوں کو بھی ہماری بات سنے نہیں دیں گے.اتنی دیر میں تقریباً 40 کے قریب لوگ اکٹھے ہو چکے تھے.امام صاحب کہنے لگے، آپ ہمارے مہمان ہیں اور آپ نے بتایا ہے کہ آپ احمدیت کا پیغام لے کر ہمارے پاس آئے ہیں اس لئے آپ ہمیں وہ پیغام بتا ئیں.میں نے اپنے ایک عربی بولنے والے معلم مکرم sali Jabi صاحب سے عرض کی کہ ان کے سامنے شرائط بیعت پڑھ کر سنا ئیں.مکرم سالی صاحب نے عربی زبان میں بیعت فارم پڑھا اور بعض باتوں کی تشریح کی.بعد ازاں کچھ دیر سوال وجواب کا 108
ارض بلال- میری یادیں ) سلسلہ چلتا رہا.اس کے بعد مکرم امام صاحب کھڑے ہوئے اور کہنے لگے، میں ساری عمر حق کی تلاش میں پھرتا رہا ہوں.میں نے بہت سی مذہبی جماعتوں اور فرقوں کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا ہے لیکن آج تک کسی جماعت سے مطمئن نہیں ہوا.آج پہلی بار میں نے آپ کی جماعت کے عقائد سنے ہیں اور میرے دل نے کہا ہے کہ یہ وہی جماعت ہے جس کو میں ساری عمر تلاش کرتا رہا ہوں.اس پر انہوں نے اپنے احمدی ہونے کا اعلان کر دیا اور ان کے ساتھ گاؤں کے بہت سے دوستوں نے بھی بیعت کی توفیق پائی.یہ عجیب نظارہ تھا کہ میں کیا سوچ رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کے ارادے کیا تھے.اپنی سوچ پر استغفار کیا اور اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا شکر ادا کیا.نعم البدل عبد السلام جالو 1985ء کی بات ہے، مجھے مکرم امیر صاحب نے مرکز کے ارشاد پر سینیگال کے شہر کولخ میں جانے کا ارشاد فرمایا.حسب توفیق تیاری کی اور بذریعہ لوکل ٹرانسپورٹ کو نخ پہنچ گیا.میرے گھر کے قریب گورنمنٹ کا ایک پرائمری سکول تھا.ایک دن میں وہاں چلا گیا.ہیڈ ماسٹر صاحب کے دفتر میں گیا.ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملاقات ہوئی، انہیں میں نے اپنا مختصر سا تعارف کرایا.انہوں نے بھی بتا یا کہ وہ اس سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں.مزید بتایا کہ ان کا نام عبدالسلام باری ہے.باری فولانی قبیلہ کے لوگ ہوتے ہیں اور بیشتر کا تعلق گنی کو نا کری کے علاقہ لابے سے ہوتا ہے.باری صاحب ایک اچھے اور سمجھے مزاج کے دوست تھے.سینیگال کی قومی زبان فرانسیسی کے علاوہ انگریزی زبان سے بھی خاصی شد بد رکھتے تھے.سینیگال کے لوگ بہت کم انگریزی بولتے ہیں.باری صاحب کے انگریزی زبان بولنے کی وجہ سے ان کے ساتھ سلسلہ کلام میں کوئی دشواری نہ ہوئی جو سینیگال میں ایک بڑی غنیمت تھی.چونکہ یہ سکول میرے گھر سے صرف پانچ منٹ کی مسافت پر تھا اس لئے جب بھی فرصت ملتی، میں باری صاحب کے پاس چلا جاتا اور تادیر مختلف موضوعات پر بات چیت کا سلسلہ جاری رہتا.109
ارض بلال- میری یادیں) اس دوران میں نے انہیں جماعت احمدیہ کا بڑی حکمت کے ساتھ تعارف کرانا شروع کر دیا.شروع میں تو وہ کافی بحث کرتے بلکہ بسا اوقات کج بحثی بھی کرتے مگر بعد میں آہستہ آہستہ رام ہوتے گئے اور جماعت کے عقائد اور جماعت احمدیہ کی عالمی خدمات سے بھی کافی متاثر ہو گئے.اس کے بعد میں نے انہیں فرانسیسی زبان میں جماعتی کتب دینا شروع کر دیں.جن میں دعوت الامیر، دیباچہ تفسیر القرآن اور چند دیگر کتب بھی تھیں چونکہ پڑھے لکھے تھے اور تعصب کی لعنت سے پاک تھے اس لئے جب انہوں نے کتابیں پڑھ لیں تو اس کے بعد میں نے انہیں بیعت کرنے کی مناسب رنگ میں تحریک کی اور ایک بیعت فارم بھی انہیں دے دیا.انہوں نے بیعت فارم لے لیا، اسے پڑھ کر اپنے پاس رکھ لیا اور وعدہ کیا کہ وہ جلد بیعت فارم مکمل کر کے مجھے دے دیں گے.اس کے بعد چند بار میں نے ان سے بیعت فارم کے حوالے سے بات کی مگر وہ خاموش رہے.میں بھی اس مسئلہ میں جلد بازی نہیں کرنا چاہتا تھا.اس سلسلہ کو کئی ماہ گزر گئے لیکن انہوں نے بیعت فارم پر دستخط نہیں کیے.پھر میں نے محسوس کیا کہ اب وہ جماعت کے بارے میں بات چیت کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں.بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ دراصل ان کی اہلیہ سینیگال کے ایک بڑے معروف پیر خاندان کی بیٹی تھیں.مجھے ایسے لگتا ہے کہ انہیں ان کے سسرال والوں نے ڈرایا دھمکایا ہوگا جس پر میں نے بھی اس مسئلہ میں خاموشی اختیار کر لی لیکن مجھے اس بات کی خاصی تکلیف تھی کہ اس شخص پر میں نے کافی محنت کی ہے اور یہ شخص پڑھا لکھا بھی ہے.مجھے اس کے بارے میں خاصی خوش فہمی ہو چکی تھی کہ اگر اس نے بیعت کر لی تو امید ہے انشا اللہ جماعت کے تعارف اور ترقی کے بہت سے دروازے کھل جائیں گے.اب ان کے اس منفی طرز عمل سے مجھے خاصا دھچکا لگا.خیر اس کے بعد بھی میرا ان سے ہمیشہ ہی بہت اچھا تعلق رہا.اگر مجھے کسی بھی علمی کام میں ان کی ضرورت پڑتی تو بڑی فراخدلی سے سرانجام دیتے.110
ارض بلال- میری یادیں عبدالسلام کے بدلے بہتر عبد السلام مجھے عبدالسلام باری صاحب کے احمدی نہ ہونے کا بہت قلق تھا.دراصل اللہ تعالیٰ نے میری خواہش اور تمنا کسی اور رنگ میں پوری کرنی تھی اور پھر کیا ہوا.اسی نام ، اسی قبیلہ اور انہی خوبیوں اور اوصاف کے حامل بلکہ اس سے بہت بہتر نو جو ان کو احمدی بنا کر میری خواہش پوری فرما دی.قصہ کچھ یوں ہے کہ انہی دنوں کو لخ کے قریب ایک گاؤں میں خاکسار اور مکرم استاذ احمد لی صاحب نے ایک دوست کی وساطت سے ایک تبلیغی پروگرام ترتیب دیا، تقاریر ہوئیں.اس کے بعد حسب پروگرام سوال و جواب ہوئے.اس میٹنگ کے پروگرام میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت ڈالی اور اس کے نتیجہ میں کئی دوستوں نے بیعت کر لی.ان بیعت کرنے والے احباب میں ایک دوست کا نام عبد السلام جالو تھا.ان کا تعلق بھی فولانی قبیلہ سے تھا اور یہ ایک پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور انگریزی زبان میں بھی کافی مہارت رکھتے تھے اور بفضلہ تعالیٰ پہلے روز سے ہی جماعت کے ایک مخلص ، وفادار اور جماعتی پروگراموں میں ممد و معاون وجود ثابت ہوئے.آجکل سینیگال کی نیشنل مجلس عاملہ کے ایک فعال رکن ہیں.جلسہ سالانہ انگلستان میں بھی شرکت کی سعادت پاچکے ہیں.کونسا عبد الشكور اسی قسم کا ایک دلچسپ واقعہ میرے ساتھ پاکستان کے شہر میا نوالی میں بھی پیش آیا تھا.وہ بھی قارئین کرام کے ازدیاد ایمان کے لئے پیش خدمت ہے.میانوالی شہر میں ، میں نے تعمیر مسجد کا کام شروع کیا.اس علاقہ میں جس قدر احباب جماعت تھے ، ہر ایک سے رابطہ قائم کیا گیا اور ان کو اس کارخیر میں حصہ لینے کی تحریک کی گئی جس پر سب دوستوں نے نقد یا وعدوں کی صورت میں بھر پور تعاون فرمایا.111
ارض بلال- میری یادیں ) ان دنوں اس علاقہ میں ایک عبد الشکور نامی ٹھیکیدار رہتے تھے جنہوں نے مختلف مقامات پر تعمیراتی ٹھیکے لے رکھے تھے لیکن مسجد سے ان کا رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا.دراصل وہ کسی اور جگہ کے رہنے والے تھے لیکن ان کا کاروبار میانوالی کے علاقہ میں تھا.اس لئے صرف کام کے لئے میانوالی آتے تھے اور اس کے بعد اپنے شہر میں ہی چلے جاتے.مجھے چند دوستوں نے کہا کہ مکرم عبد الشکور صاحب بہت امیر آدمی ہیں.اگر ان سے رابطہ قائم کیا جائے تو امید ہے وہ ہمیں پانچ ہزار روپے کے قریب رقم دے دیں گے جس سے ہمارے کام میں خاصی معاونت ہو جائے گی.اس پر کافی عرصہ تک ہم لوگ ان کے ساتھ رابطہ کی کوشش کرتے رہے مگر ملاقات نہ ہوسکی کیونکہ وہ اکثر و بیشتر اپنے کاموں کے سلسلہ میں باہر ہی رہتے تھے.ایک روز خاکسار ایک مخلص خادم مکرم چوہدری منیر الرحمن صاحب کے ساتھ کچہری میں گیا ہوا تھا.وہاں پر مکرم عبدالشکور صاحب سے ملاقات ہو گئی.ان سے تعارف کے بعد ہم نے مسجد کے پراجیکٹ کے بارے میں انہیں تحریک کی ، انہوں نے پچاس روپے دینے کا وعدہ کیا.ہم لوگ تو پانچ ہزار روپے کا تخمینہ ان کے ذمہ ذہنی طور پر لگائے بیٹھے تھے.ان کے اس جواب سے ہماری خاصی دل شکنی ہوئی اور مایوس بھی کیونکہ ہم نے اس شخص سے بہت امید وابستہ کر رکھی تھی لیکن اس نے تو صاف جواب دے دیا ہے.بہر حال قدرے مایوسی ہوئی.اسی روز شام کے وقت مکرم بشیر احمد صاحب صدر جماعت میانوالی کے ہمراہ کسی کام کی غرض سے ائیر فورس کالونی میں گئے.وہاں پر ایک بہت ہی مخلص احمدی دوست مکرم ملک عبد الشکور صاحب گروپ کیپٹن رہتے تھے.خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھیں! ملک صاحب نے ملتے ہی بتایا مربی صاحب مبارک ہو! میرے ایک دوست مکرم ڈاکٹر عبدالشکور آف سرگودھا نے پانچ ہزار روپیہ مسجد احمد یہ میانوالی کیلئے بھجوایا ہے.ہم سب لوگ اس واقعہ سے حیران رہ گئے.لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمارکھا تھا کہ آپ کو پانچ 112
ارض بلال- میری یادیں ) ہزار ہی ملیں گے اور ملیں گے بھی عبدالشکور سے لیکن وہ عبدالشکور یہ نہیں بلکہ اور عبدالشکور ہوگا.خدا تعالیٰ نے اس طرح ہمیں یہ سبق دیا.یہ کام اس کا اپنا ہے اور انتظام بھی از خود کرتا ہے.آپ غور فرمائیں جو پانچ ہزار روپے مذکورہ بالا عبد شکور صاحب سے متوقع تھے وہ پانچ ہزار کسی اور عبدالشکور سے دلوا دیئے.ٹمبل گاؤں میں احمدیت کا پودا لگ گیا 1985ء میں جب خاکسار پہلی بار بطور مبلغ سینیگال پہنچا، ان دنوں پورے ملک میں صرف چند ایک احمدی فیملیز تھیں.جماعت کی کوئی مسجد اور مشن ہاؤس نہیں تھا.اسلئے ابتدائی طور پر سینیگال کے ایک شہر کو لخ میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا.پھر یہیں سے تبلیغ کے کام کا آغاز ہوا.الحمد للہ اس آغاز کے نتیجہ میں بفضلہ تعالیٰ آج ملک کے کونے کونے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق اور نام لیوا موجود ہیں.ایک روز چند احمدی دوست کو لخ شہر کے ایک کچے کمرے کے کچے فرش پر بیٹھے مضافات کو لخ میں دعوت الی اللہ کا پروگرام بنا رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ ہم کس طرح ان لوگوں تک پیغام حق پہنچا سکتے ہیں.ایک دوست نے تجویز دی کہ گیمبیا کا جلسہ سالانہ عنقریب بانجول میں منعقد ہونے والا ہے.اگر ہم میں سے ہر کوئی اپنے اپنے حالات کے مطابق چند ایک مخلص ، شریف النفس اور بااثر دوستوں کو اس جلسہ میں شرکت کی دعوت دے اور اگر وہ لوگ اس روح پرور دعوت کو قبول کر لیں تو مجھے امید واثق ہے کہ ہر ایک نیک فطرت اور سعید روح شخص پر جلسہ کے روحانی ماحول اور حق و صداقت پر مبنی خطابات کا بہت گہرا اثر ہو گا.سب دوستوں نے ان کی اس کارآمد تجویز کو بہت سراہا اور ہر ایک نے عہد کیا کہ وہ انشاء اللہ تعالیٰ اس کارخیر میں حسب توفیق بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا.ایک دوست جن کا نام مکرم الو جالو صاحب تھا.یہ کو تال نامی قصبہ کے رہنے والے تھے، کہنے لگے، کولخ کے قریب ایک گاؤں جس کا نام مکمل ہے، وہاں پر میرا ایک بہت ہی گہرا دوست ہے.جو 113
ارض بلال- میری یادیں ) میرا منہ بولا بھائی بنا ہوا ہے.یہاں تک کہ اس دوست نے اپنے ایک بیٹے کا نام بھی میرے نام پر رکھا ہوا ہے.اگر میں اسے گیمبیا کے جلسہ میں شرکت کی دعوت دوں گا، تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ ضرور میرے ساتھ اس جلسہ پر جانے کے لئے تیار ہو جائے گا.میں نے مکرم احمد لی صاحب اور مکرم الو جالوصاحب کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ دونوں کمبل تشریف لے جائیں اور مکرم سامبا جالو صاحب کو جلسہ میں شرکت کی دعوت دیں.دونوں دوست حسب پروگرام اس گاؤں میں پہنچے.گاؤں کے کافی سارے نوجوان اور بزرگ ایک درخت کے نیچے بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے.مہمانوں نے جا کر حسب روایت حاضرین مجلس کو علیک سلیک کیا.اس کے بعد ان سے مکرم سامبا جالو کے بارے میں استفسار کیا.اس پرلوگوں نے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں تو دوسامبا جالو ہیں آپ نے ان میں سے کس سامبا سے ملنا ہے.اس پر الوصاحب نے اپنے دوست کی جب وضاحت کی تو اس پر لوگوں نے بتایا کہ وہ تو کافی دنوں سے سفر پر ہیں.اس دوران حاضرین میں سے ایک شخص کہنے لگا آپ کو سامبا سے اگر کوئی بہت ہی ضروری کام تھا تو ہمیں بتادیں، ہم کسی نہ کسی طرح ان تک آپ کا پیغام پہنچادیں گے.اس پر احمد لی صاحب نے بتا یا ہم لوگ احمدی ہیں اور ہم نے مکرم سامبا صاحب کو جماعت احمد یہ گیمبیا کے جلسہ سالانہ میں شرکت کی دعوت دینی تھی.حاضرین میں سے کسی نے مہمانوں سے پوچھا کہ بھئی یہ احمدی کون ہوتے ہیں؟ مکرم احمد لی صاحب نے حسب توفیق انہیں جماعت کا تعارف کرایا.انکی بات چیت کوسب لوگوں نے بڑی لچسپی سے سنا.حاضرین میں دو عربی استاذ بھی موجود تھے جن کا تعلق اسی گاؤں سے تھا.ان میں سے ایک کا نام استاذ عمر جالو صاحب تھا اور دوسرے کا نام استاذ سامبا جالو صاحب تھا ( یہ پہلے سامبا سے مختلف 114
ارض بلال.میری یادیں دوست ہیں ).ایک استاذ صاحب کہنے لگے، کیا آپ صرف سامبا جالو صاحب کو ہی اس جلسہ کے لئے دعوت دینا چاہتے ہیں یا کوئی اور بھی اس جلسہ میں شرکت کر سکتا ہے؟ احمد لی صاحب نے بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے.اگر آپ لوگوں میں سے کوئی بھی بھائی اس پروگرام میں شامل ہونا چاہتے ہیں، ہم انہیں دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہیں گے.اس پر گاؤں کے سرکردہ احباب نے باہمی مشاورت کے بعد اپنے دونوں اماموں مکرم عمر جالو صاحب اور مکرم سامبا جالو صاحب کو اپنے نمائندہ کے طور پر اس جلسہ میں شرکت کے لئے تیار کر دیا تا که از خود جا کر احمدیت کے بارے میں تحقیق کریں اور واپس آکر ہم سب کو حقیقت سے آگاہ کریں.قصہ مختصر دونوں امام صاحبان حسب پروگرام جلسہ میں شریک ہوئے.تین دن تک انہوں نے جماعتی نظام نظم وضبط علمی تقاریر ، احباب جماعت کا باہم اخلاص ، وفا ، پیار اور ہمدردی کے انمول رشتے کو اپنی جیتی جاگتی آنکھوں کے ساتھ مشاہدہ کیا.ان کی نیک فطرت اور سعید روحوں نے بہت جلد حق کو شناخت کر لیا اور دونوں امام صاحبان نے جلسہ کے اختتام پر اپنے احمدی ہونے کا اعلان کر دیا.پھر جب واپس سینی گال میں اپنے گاؤں پہنچے تو واپس آکر انہوں نے سب اہل قریہ کو بتایا کہ وہ جو کچھ جماعت کے بارے میں احمدیت کے معاندین اور مخالفین سے سنتے تھے ، سب کذب، جھوٹ اور افتراء ہے.انہوں نے اپنا مشاہدہ اور تجر بہ بیان کیا اور بتایا کہ ہم دونوں اللہ کے فضل سے حق وصداقت کی دولت پاچکے ہیں اور بصدق دل و جان احمدیت میں شامل ہو چکے ہیں.ان کے اس انکشاف کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے گاؤں کے کافی دوستوں نے بیعتیں کرلیں اور الحمد للہ اب وہاں پر ایک بہت مخلص جماعت قائم ہے.جماعت کی مسجد بھی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ وہ سامبا جالو جس کو آغاز میں ہمارا احمدی وفد ملنے کے لئے گیا تھا اور ہمیں امید تھی 115
ارض بلال.میری یادیں کہ وہ فوری طور پر بیعت کرلے گا اور پھر جماعت کا ممد و معاون ہوگا ، وہ آدمی اگر چہ بہت اچھا تھا مگر بیعت نہ کر سکا اور احمدیت کی نعمت سے محروم رہا.لیکن اس کے باوجود غیر احمدیوں کو جماعت کی بہت تبلیغ کیا کرتا تھا اور کئی لوگ اس کی وجہ سے احمدیت کی آغوش میں آگئے.خود بیعت نہ کر سکنے کی وجہ ی تھی کہ وہ سوکن نامی قصبہ کے ایک پیر صاحب کے بہت زیادہ زیر اثر تھا یہاں تک کہ اس نے اپنے ایک بیٹے کا نام بھی اس پیر صاحب کے نام پر رکھا ہوا تھا.گونگا داعی الی اللہ کولح شہر میں ایک احمدی دوست تھے ، جو گونگے تھے اور درزی کا کام کرتے تھے.انہوں نے اپنے ایک دوسرے گونگے دوست کو اپنے مخصوص انداز میں تبلیغ کرنی شروع کی.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کی تصاویر اور دوسری جماعتی تصاویر اور دیگر ذرائع سے جماعت کے بارے میں تبلیغ کی جس کے نتیجہمیں اللہ کے فضل سے دوسرے گونگے نوجوان نے بھی بیعت کرلی.میں نے اس گونگے دوست کی بیعت کا واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع" کی خدمت اقدس میں تحریر کیا، جس پر حضور بہت خوش ہوئے اور ان کے لئے دعا کی.پھر جب 1988 ء میں حضور انور گیمبیا کے دورہ پر تشریف لائے تو یہ دونوں گونگے دوست فرافینی کے مقام پر حضور انور کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے.انہوں نے حضور کی آمد پر حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.حضور انور نے بھی ان کے ساتھ اشاروں میں چند باتیں کیں.حضور انور نے جلسہ سالانہ انگلستان کے موقع پر ایک تقریر میں بھی اس واقعہ کا ذکر فرمایا تھا.116
ارض بلال.میری یادیں ہمارے علاقہ میں ایک پاگل ہے.ایک داعی الی اللہ کی کہانی 1985ء میں خاکسار مرکز کے ارشاد پر سینیگال کے شہر کولے میں آ گیا.ان ایام میں سینی گال بھر میں صرف گنتی کے احباب جماعت تھے جو اکثر مزدور پیشہ تھے.چند دیہاتی احمدیوں کا شغل کھیتی باڑی تھا.میرے پاس مالی وسائل اور اسباب سفر نہ ہونے کے برابر تھے.اس لئے ہر آن یہی فکر دامن گیر تھی کہ تبلیغی کام کا آغاز کہاں سے کیا جائے اور کیسے شروع کیا جائے؟ میرے گھر کے قریب ایک احمدی دوست عبد اللہ آؤ صاحب کی بیٹری مرمت کرنے کی چھوٹی سی ورکشاپ تھی.میں اپنے فارغ اوقات میں ان کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور ان کے ساتھ جماعت کے بارے میں مختلف موضوعات پر بات چیت ہوتی رہتی.پھر ان کے پاس آنے جانے والوں سے بھی تعارف ہو جاتا اور حسب موقع انہیں جماعت کا پیغام بھی پہنچانے کا موقع مل جاتا.ایک روز میں عبداللہ صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک مولوی قسم کا آدمی ان کے پاس کسی کام کے لئے آیا.عبداللہ صاحب نے اپنے اس گا ہک سے میرا تعارف کرایا اور اسے بتایا کہ یہ میرے دوست گیمبیا سے آئے ہیں اور ہماری جماعت کے مبلغ ہیں.اس کے بعد میں نے موقع محل دیکھ کر جماعت کے بارے میں بات چیت شروع کر دی.اس پر وہ مولوی صاحب کہنے لگے، میں جماعت کے بارے میں جانتا ہوں.میں نے پوچھا، آپ جماعت کے بارے میں کیسے جانتے ہیں؟ مولوی صاحب کہنے لگے، ہمارے علاقہ میں ایک پاگل ہے جو ہر وقت لوگوں کو جماعت احمد یہ کی تبلیغ کرتا رہتا ہے.میرے لئے یہ بات بہت دلچسپ تھی کہ وہ کونسا احمدی ہے جو اپنے علاقہ میں اتنی تبلیغ کرتا ہے کہ لوگوں نے اسے پاگل کہنا شروع کر دیا ہے.میں نے اس مولوی صاحب سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا کہ وہ کون ہے، کہاں رہتا ہے کیونکہ اس زمانہ میں سینیگال بھر میں صرف معدودے چند احمدی بھائی تھے اور میں ان سب کو اچھی طرح جانتا تھا.میرے اس سوال پر مولوی صاحب نے جواب نہ دیا بلکہ بات ٹالنے کی کوشش کی کیونکہ میرے لئے یہ بہت بڑی خبر تھی 117
.میری یادیں اس لیے میرے اصرار پر اس نے بتایا کہ اس کا نام احمد فائو باہ ہے اور وہ نڈ وفان کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں چنڈیری میں رہتا ہے.میرے لئے یہ خبر ایک بہت بڑی خوشخبری تھی کہ کسی اور علاقہ میں ایک احمدی ہے.پھر وہ بہت معروف داعی الی اللہ ہے.میں نے اپنے ساتھی معلم احمد لی صاحب کو یہ خوشخبری سنائی اور ان کیسا تھ اس گاؤں جانے کا پروگرام بنایا.اس کے چند دن بعد خاکسار مکرم احمد لی صاحب اور مکرم الو جالوصاحب مرحوم کو لخ سے نڈ وفان گئے.وہاں سے ایک ٹانگہ نما سواری پر سوار ہو کر اس گاؤں پہنچ گئے.گاؤں میں صرف چند ہی گھرانے تھے.ہم احمد باہ صاحب کے گھر پہنچے، انہیں اپنا تعارف کرایا.احمد باہ صاحب ہمیں دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی کیونکہ ان کے ہاں ان کی ساری زندگی میں پہلی بار کوئی احمدی بھائی آئے تھے اور ہماری اپنی خوشی اور مسرت نا قابل بیان تھی کہ ہمیں بھی ہمارا گمشدہ بھائی مل گیا ہے.اس طرح احمد باہ سے مستقل اور مضبوط رشتہ قائم ہوگیا.پھر ان کی وساطت سے ان کے علاقہ میں تبلیغ کے کام میں کافی وسعت پیدا ہوگئی اور اللہ کے فضل سے بہت ساری بیعتیں ہوئیں اور کئی نئی جماعتیں وجود میں آگئیں.اب ان کے علاقہ میں جماعت کی تین مساجد بھی ہیں.انسانی عقل حیران ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے جانفزا پیغام کو ہر سو پھیلانے کے لئے کیسے کیسے اسباب پیدا فرما دیتا ہے.کیسی کیسی ہوائیں چلاتا ہے جس کے نتیجہ میں یہ پیغام ہواؤں کے دوش پر دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے.سینیگال میں پہلے احمدی نمبر دار کا اعزاز سینیگال کے علاقہ نیورو میں ایک چھوٹا سا گاؤں سار ماری ہے.وہاں جماعت کے ایک معلم حسن جالوصاحب رہتے تھے.نہایت شریف النفس اور خاموش طبع انسان تھے.جوانی میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے.آمین.مکرم حسن جا لو صاحب کی وساطت سے ان کے گاؤں کے نمبر دار مکرم گا با جاکو صاحب سے 118
ارض بلال- میری یادیں ) ملاقات تھی.انہیں بار ہا پیغام حق پہنچا یا مگر وہ بات ٹال دیتے.اس کے بعد میں چند ماہ کے لئے بانجول چلا گیا.ایک دن میں بازار سے اپنے گھر آیا تو دیکھا ایک کمزور اور نحیف سا آدمی میرے دروازہ کے قریب بیٹھا ہوا ہے.میں اس کے پاس گیا تو معلوم ہوا یہ تو کا با جالو ہے.اس نے بتایا کہ میں بیمار ہوں اور علاج کے لئے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں.میں نے ایک کیمبین دوست کے گھر میں ان کی رہائش کا انتظام کر دیا اور مکرم ڈاکٹر لئیق احمد انصاری صاحب سے ان کے علاج کے لئے درخواست کی.شافی مطلق نے انہیں شفا دیدی.الحمد للہ.کچھ عرصہ کے بعد میں ان کے گاؤں دورہ پر گیا وہ مجھے اپنے گھر لے گئے.رات میں نے انہی کے پاس بسر کی.صبح کی نماز انہوں نے ہمارے ساتھ ہی ادا کی.نماز کے بعد کہنے لگے، استاذ میری بیعت لے لیں.میں نے صداقت دیکھ لی ہے اور میں بفضلہ تعالیٰ اب احمدی ہوں اور بیعت کر لی.اس طرح ان کو سینیگال میں پہلے احمدی نمبر دار ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا.اب یہ اس دنیا میں نہیں ہیں، ان کا بیٹا نمبر دار ہے.اللہ تعالیٰ ان کو ثبات قدم عطا فرمائے.آمین 119
ہے.ارض بلال.میری یادیں ہفتم روحانی انقلاب چو دور خروی آغاز کردند مسلمان را مسلمان باز کردند ط إِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد:۱۲) یقیناً اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اُسے تبدیل نہ کریں جو ان کے نفوس میں احمدیت کی برکت سے پیدا ہونے والے روحانی انقلاب کے چند واقعات شرک سے تائب افریقن بھائی تعویذ گنڈے پر اندھا دھند اعتقاد رکھتے ہیں.تعویذوں کے حصول کے لئے دور دور تک سفر کرتے ہیں.جماعت کے ایک معروف بزرگ الحاج ابراہیم جکنی صاحب کے آبا واجداد کئی نسلوں سے دینی تعلیم و تدریس کے علاوہ اس کام میں بھی ماہر سمجھے جاتے تھے.پھر الحاج جکنی صاحب نے بھی اپنے بزرگوں سے یہ ہنر سیکھ لیا جس کے لئے ان کی خاصی شہرت تھی.گیمبیا کے قصبہ فرافینی کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں یالل باہ ہے.اس گاؤں میں ہماری ایک مخلص جماعت ہے.یہاں گاؤں کا نمبر دار ایک غیر احمدی تھا.اس نے ایک بار مجھے بتایا کہ سینیگال میں اس کے ایک دوست ممبر آف پارلیمنٹ تھے.انہیں کسی کام کے لئے ایک تعویذ کی ضرورت تھی.انہیں کسی نے بتایا کہ گیمبیا میں ایک بڑا ماہر تعویذ بنانے والا ہے.اگر اس سے تعویذ لیں تو آپ کا کام ہو جائے گا.اس پر وہ سینیگالی اسمبلی کامبر گیمبیا میں اس نمبر دار کے پاس آیا اور اس نے 120
ارض بلال- میری یادیں ) ساری بات اسے بتائی اور کہا مجھے جبکنی صاحب سے مل کر یہ تعویذ حاصل کرنا ہے.نمبر دار صاحب نے اسے بتایا کہ وہ اب احمدی ہو گیا ہے اور اس نے یہ کام چھوڑ دیا ہے.لیکن اس آدمی نے بڑا اصرار کیا.اس پر وہ نمبر دار مجبور ہو کر ایک خاصی بڑی رقم لے کر جبکنی صاحب کے پاس چلا گیا اور انہیں ساری بات بتائی.جبکنی صاحب نے بتایا کہ میں آپ کا بڑا احترام کرتا ہوں لیکن یہ کام میں نہیں کرسکتا کیونکہ اب میں احمدی ہو چکا ہوں.اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی برکت سے میرے پر حق واضح کر دیا ہے اس لئے میں اس کام کو گناہ سمجھتا ہوں.آپ جسقد ربھی بڑی رقم مجھے پیش کریں، میں یہ غلط کام نہیں کروں گا اس پر وہ اسمبلی کا ممبر مایوس ہو کر واپس چلا گیا.فدایان خلافت ی عشق و وفاکے کھیت بھی خوں پہنچے بغیر پہنچیں گے 1988 ء کی بات ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع " ایک بہت ہی اہم اور تاریخی دورہ پر گیمبیا تشریف لائے.آپ کے ورود سعود پر ملک بھر میں بہت سے تبلیغی اور تربیتی پروگرام ترتیب دیئے گئے.ان میں سے ایک پروگرام کے مطابق آپ نے میرے مستقر فرافینی میں بھی تشریف لانا تھا اور یہاں کے کمیونٹی ہال میں آپ نے احباب جماعت سے خطاب فرمانا تھا.یہ قصبہ سینیگال اور گیمبیا کے بارڈر پر واقع ہے.اس لئے جلسہ میں شرکت کرنے والے سینیگالی احمدی مردوزن کی ایک بھاری تعداد بھی یہاں حاضر ہورہی تھی.اس وجہ سے گیمبیا میں حضور انور کے دورہ کے دوران سب سے بڑا اجتماع فرافینی میں ہی متوقع تھا.اس سلسلہ میں احباب جماعت فرافینی کو متفرق فرائض تفویض کئے گئے.ڈاکٹر خلیل ینگاڈو صاحب جو ایک بہت ہی مخلص اور فدائی احمدی تھے اور اپنے خاندان میں اکیلے ہی احمدی تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالی اعتبار سے فرافینی جماعت میں سب سے زیادہ کشائش عطا کی ہوئی تھی.علاوہ ازیں ان کا مکان بھی بہت وسیع اور کشادہ تھا جس میں سینکڑوں لوگ بیک وقت سما سکتے تھے اس لئے 121
ارض بلال- میری یادیں - یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سب احمدی بھائی ڈاکٹر صاحب کے وسیع وعریض صحن میں ہی اکٹھے ہوں گے اور وہیں پر حضور انور کی آمد کا انتظار کریں گے.اس لیے حضور انور نے فرافینی آمد پر سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب کے گھر پر ہی تشریف لانا تھا.ڈاکٹر صاحب کے فرائض میں یہ بات بھی شامل تھی کہ انہوں نے حضور انور کی آمد پر معزز مہمانوں کا شایان شان استقبال کرنا تھا علاوہ ازیں ایسے مواقع پر ایک اہم شعبہ ضیافت کا ہوتا ہے، وہ بھی ان کے ہی سپر دتھا.مزید برآں انہی کے ہاں کھانا تیار ہونا تھا اور وہیں مہمانوں کو کھلا یا جانا تھا.لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ اسی روز صبح سویرے ڈاکٹر صاحب میرے گھر تشریف لائے اور مجھے بتایا کہ میرے بڑے بھائی فوت ہو گئے ہیں.( ان کے بھائی صاحب ان کے آبائی گاؤں میں رہتے تھے جو فرافینی سے تقریباً 40 کلومیٹر کی مسافت پر تھا مگر رستہ بہت ہی خراب تھا ) اس پر میں بہت فکر مند ہوا.میری پریشانی دیکھ کر کہنے لگے فکر نہ کریں.میں ابھی ادھر ہی جارہا ہوں اور انشاء اللہ ایک گھنٹہ تک واپس آجاؤں گا.اس کے بعد آپ اپنے گاؤں تشریف لے گئے اور اپنے عزیزوں سے ملے اور افسوس کیا.بھائی کی تجہیز و تکفین اور دیگر ضروری اخراجات اپنے ایک عزیز کو ادا کئے بفضلہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی مالی حالت بہت بہتر تھی اس لئے اپنے سارے خاندان کی مالی معاونت کرتے رہتے تھے ) اور واپس فرافینی تشریف لے آئے.اس کے بعد حسب معمول اپنے مفوضہ فرائض میں تن دہی کے ساتھ مشغول ہو گئے.اس طرح اتنے بڑے اجتماع میں کسی کو احساس تک نہ ہونے دیا کہ ان کے ہاں اتنا بڑا سانحہ پیش آچکا ہے.122
ارض بلال.میری یادیں حضور انور کی احباب جماعت کے ساتھ شفق حضور انور فرافینی میں نہایت کامیاب پروگرام کے انعقاد کے بعد آگے انجوار ا نامی قصبہ میں تشریف لے گئے.ان دنوں اس جگہ پر جماعت احمدیہ کا ایک کلینک تھا جو مکرم ڈاکٹر منور احمد صاحب کے زیر نگرانی علاقہ بھر میں بنی نوع انسان کی خدمت کر رہا تھا.حسب پروگرام اس مقام پرح حضور انور نے ایک رات کے لئے قیام فرمانا تھا اور مرکزی عاملہ کے ساتھ ایک تفصیلی میٹنگ بھی کرنی تھی.اس قیام کے دوران خاکسار نے مکرم داؤ د احمد حنیف صاحب امیر جماعت سے اس واقعہ کا ذکر کیا کہ کس طرح مکرم ڈاکٹر خلیل ینگا ڈ و صاحب نے اپنے بڑے بھائی صاحب جو ان کے موجودہ خاندان کے سربراہ تھے، کی وفات پر اخلاص اور عشق کے ساتھ سب دنیاوی رشتوں کو اپنے پیارے آقا حضرت خلیفتہ المسیح " کی خاطر قربان کر دیا ہے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا ایک بہت خوبصورت اور عملی نمونہ پیش کیا ہے.ڈاکٹر صاحب نے خاندانی روایات، اہل خانہ کی باتیں ،ان کے گلے شکوے اور شکایتوں کی قطعی پر واہ نہیں کی اور اپنے بھائی صاحب کی وفات سے متعلقہ کسی بھی تقریب یا پروگرام میں شریک نہیں ہوئے.مکرم امیر صاحب نے حضور انور کی خدمت میں یہ واقعہ بغرض دعا ذ کر کیا.اس پر حضور نے فرمایا: ' آپ نے مجھے وہاں کیوں نہیں بتایا.اب واپسی پرسید ھے ان کے ہاں جائیں گے.“ چنانچہ حضور انور واپسی پر ان کی رہائش گاہ پر تشریف لائے اور اہل خانہ سے دلی تعزیت کی.یہ واقعہ خلافت سے محبت اور وفا کا عجیب نظارہ پیش کرتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو ایمان کے نور سے منور کر رکھا ہے اور ان کے دلوں میں خلافت کی خاطر ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کا جذبہ پیدا کر دیا ہے.123
ارض بلال.میری یادیں.بیعت کے بعد اپنے گھر میں اذان بلند Farfenni قصبہ کے قریب ایک گاؤں Douta boulo ہے.وہاں پر ایک بہت ہی فدائی اور مخلص احمدی مکرم Berom Bah صاحب رہتے ہیں.نہایت سادہ اور نیک فطرت بزرگ ہیں.انہوں نے مجھے اپنے احمدی ہونے کا واقعہ سنایا.انہوں نے بتایا کہ چونکہ ان کا گاؤں فرافینی کے قریب تھا.اس لئے اکثر اپنے فارغ اوقات میں فرافینی کے بازار میں چلے جایا کرتے تھے.ان کا تعلق فولانی قبیلہ سے تھا.ایک دن بازار میں گئے تو ان کے ایک جاننے والے نے انہیں مذاق کے رنگ میں کہا دیکھو فلاں جگہ پر ایک سینیگالی آدمی تمہارے قبیلہ سے ہے اور ایک نئے دین کی تبلیغ کر رہا ہے ، جا کر اس کی بات سنو.دراصل ان دنوں سینیگال کے ایک معلم مکرم حامد امبائی صاحب کو مکرم امیر صاحب نے فرافینی جماعت میں بھیجا ہوا تھا اور وہ بازار میں لوگوں کو تبلیغ کیا کرتے تھے.اتفاق سے بیروم صاحب کی ملاقات معلم صاحب سے ہوگئی.ابتدائی تعارف ہوا.چونکہ دونوں ایک ہی زبان بولتے تھے اس لئے ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا.ہر بار معلم صاحب انہیں جماعت کے بارے میں بتاتے.مکرم بیروم صاحب نیک فطرت اور سعید روح رکھتے تھے ایک دن بیعت کرنے کا فیصلہ کیا اور احمدی ہو گئے.اس کے بعد اپنے گاؤں گئے.یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے.ان کے گھر کے قریب ہی ایک چھوٹی سی مسجد تھی.جب شام ہوئی تو مکرم بیر وم صاحب نے اپنے صحن میں کھڑے ہو کر بآواز بلند اذان دینی شروع کر دی.اس پر گاؤں کے سب مردوزن بڑے حیران ہوئے کہ بیروم کو کیا ہو گیا ہے.نماز کے بعد لوگ آپکے پاس آئے اور پوچھا، آپ نے آج اپنے گھر میں اذان دی اور نماز بھی گھر میں ہی ادا کی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر بیروم صاحب نے انہیں بتایا کہ اب میں احمدی ہو گیا ہوں، اس لئے میں کسی غیر احمدی امام کی اقتدا میں نماز ادا نہیں کرسکتا.یہ بات سارے گاؤں میں مشہور ہوگئی.آپ بڑے بے خوف اور بہادر آدمی تھے.اس لئے کسی کی پرواہ نہیں کی.اگلی نماز کے وقت پھر آپ نے اذان دی تو گاؤں کے نمبردار کے بیٹے جن کا نام محمد کمبا باہ صاحب ہے وہ ان کے 124
ارض بلال.میری یادیں گھر آئے اور بتایا کہ میں بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے آیا ہوں کیونکہ میں نے بھی احمدی ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے.اس کے ساتھ ہی ان کے اپنے تین حقیقی بھائی بھی اس جماعت میں شامل ہو گئے.کافی عرصہ تک یہ لوگ اپنے گھر میں نماز ادا کرتے رہے.پھر وقت کے ساتھ ان کی تبلیغ سے گاؤں کے دوسرے لوگ بھی احمدیت کے نور سے منور ہوتے چلے گئے.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اس گاؤں میں بڑی ہی مخلص اور فعال جماعت ہے.جماعت کی اپنی مسجد اور مشن ہاؤس بھی ہے.جہاں ایک معلم صاحب شب و روز خدمت دین میں مصروف ہیں.محمد کمبا باہ کی اپنے آبائی پیر سے نجات گیمبیا میں فرافینی کے قریب ایک گاؤں ڈوٹا بولو ہے.اس گاؤں کے نمبر دار مکرم محمد گمبا باہ صاحب ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی مخلص احمدی ہیں.انہوں نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ ہمارے خاندان کا تعلق قادریہ فرقہ سے تھا اور ہمارے پیر صاحب موریتانیہ کے ایک شریف تھے.وہ پیر صاحب ہر سال دورہ پر نکلتے اور گیمبیا ، سینیگال وغیرہ میں اپنے مریدوں کے پاس جاتے.پیر صاحب اپنے مریدوں کے لئے دعا کرتے اور وہ ان سے تحفے تحائف اور ہدایات لے کر اپنے گھر واپس چلے جاتے.پیر صاحب جب بھی ہمارے ہاں آتے میرے والد صاحب انکی غیر معمولی خاطر مدارت کرتے.پیر صاحب کے لئے بھیڑ بکری وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا اور ان کے چیلے چانٹوں اور دیگر زائرین کے لئے ہر بار ایک گائے ذبح کرتے اور یہ سلسلہ قدیم سے ہمارے خاندان میں رائج تھا.پھر اللہ تعالی نے مجھ پر فضل فرمایا اور میں احمدی ہو گیا.اس کے بعد جب میرے والد صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے.تو کچھ عرصہ بعد پیر صاحب میرے گھر تشریف لائے.میں نے پیر صاحب کو حسب توفیق خوش آمدید کہا اور جو کچھ ہم لوگ عموماً گھر میں کھانے پکاتے ہیں، ان کی خدمت میں پیش کر دیا اور انہیں یہ بھی بتا دیا کہ ہم لوگ اللہ کے فضل سے احمدی ہو چکے ہیں.آپ ہمارے مہمان ہیں.اکرام ضیف ہمارا فرض ہے لیکن اس سے بڑھ کر ہم کچھ نہیں کر سکتے.اس پر پیر صاحب نے 125
ارض بلال- میری یادیں ) بمشکل ہمارے ہاں رات گزاری اور علی اصبح تشریف لے گئے.اس واقعہ کو کئی سال بیت گئے ہیں پیر صاحب نے ہمارے گھر کا رخ نہیں کیا اور احمدیت کی برکت سے ہماری بہت سی گائیں بچ گئی ہیں.مصائب و آلام سے بچنے کا ایک آزمودہ نسخہ گیمبیا میں ایک نوجوان مکرم سیڈ وسینگھائے بازار میں کپڑے کا معمولی سا کاروبار کرتے تھے.ایک روز میں ان کے پاس کسی کام کے لئے گیا.حال احوال کے بعد ان کے کاروبار کے بارے میں پوچھا.کہنے لگے استاذ ! مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے.میں ان کے جواب پر بڑا حیران ہوا اور پوچھا یہ کیسے ممکن ہے؟ کہنے لگے، مجھے جب بھی کوئی پریشانی آتی ہے، میں اسی وقت مشن ہاؤس جا کر صدقہ ادا کر دیتا ہوں اور ساتھ ہی حضور کی خدمت میں دُعا کے لئے خط لکھ دیتا ہوں اور میرا مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور کہنے لگے کہ میرا تجربہ ہے کہ جیسے ہی میں خط پوسٹ کرتا ہوں پھر وہ خط حضور تک پہنچے یا کسی وجہ سے نہ پہنچ پائے ، میری مشکل حل ہو جاتی ہے.اس نوجوان کے مقام خلافت کے عرفان اور ایمان اور اعتقاد کو دیکھ کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی.اس واقعہ کے جلد بعد امریکہ کے لئے اس کا ویزہ نکل آیا اور وہ امریکہ چلا گیا اور بفضلہ تعالیٰ امریکہ میں بھی جماعت کا ایک بہت مخلص کارکن ہے.احمدیت کی برکت سے باعمل مسلمان بن گئے سینیگال میں ایک قصبہ نڈوفان ہے.اس کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں چنڈیری ہے.وہاں پر ایک پرانے احمدی دوست مکرم محمد فائو باہ صاحب رہتے ہیں.جب میراسینیگال سے رابطہ ہوا ان دنوں یہ اپنے علاقہ میں اکیلے ہی احمدی تھے.شروع سے ہی ان کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا.ان دنوں میری رہائش گیمبیا میں فرافینی کے مقام پر تھی.اکثر اوقات یہ اپنے غیر از جماعت دوستوں کو تبلیغ کی غرض سے میرے پاس لے آتے.بعض اوقات یہ لوگ میرے پاس رات بھی گزارتے اور 126
ارض بلال.میری یادیں ہم لوگ تفصیل سے بات چیت کرتے رہتے.ایک دفعہ ان کے ایک دوست مکرم عثمان چام صاحب ان کے ہمراہ میرے پاس آئے.دو دن میرے پاس رہے.اس دوران ان سے مختلف موضوعات پر بات چیت ہوتی رہی.جس پر اللہ تعالی نے ان پر حق کھول دیا اور انہوں نے بیعت کر لی.اس کے بعد اپنے گاؤں کو چلے گئے.ان کے بڑے بھائی گاؤں کے نمبر دار تھے.انہوں نے دیکھا کہ اب عثمان اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے.پہلے تو نماز بھی نہیں پڑھتا تھا.ایک دن بڑے بھائی نے پوچھا کہ تم گھر پر نماز کیوں پڑھتے ہو؟ اس نے بتایا کہ میں اب احمدی ہوں.اس کے بھائی کو جماعت کے بارے میں کوئی زیادہ علم نہیں تھا.مخالفین جماعت سے یہی سن رکھا تھا کہ یہ لوگ کافر ہیں ، بڑے خطرناک لوگ ہیں.بڑے بھائی نے از راہ ہمدردی عثمان کو کہا کہ بے شک تم کوئی اور مذہب اختیار کر لومگر احمدی نہ بنو، یہ جماعت ٹھیک نہیں ہے.عثمان نے بتایا کہ بھائی صاحب دیکھیں میں پہلے نماز روزہ نہیں کرتا تھا.اب میں با قاعدہ نمازیں پڑھتا ہوں، دیگر اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں.یہ سب احمدیت نے ہی تو مجھے سکھایا ہے.خیر بھائی نے نرمی اور سختی سب حربے آزمائے مگر بیسود! اس خاندان کا تعلق تیجانی فرقہ سے تھا.ان کے بھائی صاحب اپنے علما کے پاس گئے اور بتایا کہ میرا بھائی کا فر ہو گیا ہے.اسے آکر آپ لوگ سمجھا ئیں.اس فرقہ کے مرابو ( مولوی ) عثمان کے گھر آئے اور اس سے بات چیت شروع کی اور کہا ، سنا ہے تم نے اپنا مذہب بدل لیا ہے ! عثمان نے بتایا کہ میں اب احمدی ہو گیا ہوں.انہوں نے کہا آپ کے عقائد کیا ہیں.عثمان نے کلمہ طیبہ پڑھا اور اپنے عقائد اختصار سے بیان کیے.وہ کہنے لگے کہ ہمارے بھی تو یہی عقائد ہیں.آخر فرق کیا ہے؟ اس نے بتایا میں امام مہدی علیہ السلام کو مانتا ہوں.اس پر وہ کہنے لگے.اچھا تم یہ بتاؤ، کیا قرآن شریف میں کہیں لکھا ہوا ہے کہ امام مہدی آئیں گے؟ عثمان کہنے لگا ہاں لکھا ہوا ہے.مرابو کہنے لگا، ذرا ہمیں دکھاؤ کہاں لکھا ہوا ہے؟ عثمان کہنے لگا، جس آیت میں لکھا ہے کہ شیخ تیجان آئیں 127
ارض بلال.میری یادیں ) گے، اس سے اگلی آیت میں لکھا ہے امام مہدی آئیں گے.آپ مجھے شیخ تیجان کے بارے میں آیت دکھا دیں، میں آپ کو امام مہدی کے بارے میں آیت دکھا دوں گا.اس پر مرابو بڑے پریشان ہو گئے اور انہوں نے عثمان کے بھائی سے کہا کہ یہ اب پاگل ہو چکا ہے، اب اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو، اس کا کوئی علاج نہیں ہے.میں اب مسلمان ہو گیا ہوں سینگال کے کولخ ریجن میں ایک چھوٹا سا گاؤں پلاڈو ہے.وہاں سے ایک بڑی عمر کے دوست مکرم گا تم جالو صاحب نے بیعت کی.گا تم جالو صاحب کا تعلق فولانی قبیلہ سے ہے اور یہ زمینداری کے علاوہ جانوروں کا دیسی علاج معالجہ کرتے تھے.اس کے علاوہ تعویز وغیرہ بھی بناتے تھے لیکن جب احمدی ہوئے تو ان سب باتوں سے جو غیر اسلامی تھیں ، تو بہ کر لی.ایک دفعہ ایک وٹرنری ڈاکٹر کولخ سے ان کے پاس آیا اور انہیں کہا کہ آجکل جانوروں میں ایک بیماری پھیل رہی ہے.اس لئے میرے جانوروں کے لئے کوئی تعویذ بنادیں.گا تم صاحب نے کہا.اب میں یہ تعویز بنا کر آپ کو نہیں دے سکتا.اس پر وہ ان کا دوست بڑا حیران ہوا اور پوچھا، آپ کیوں نہیں بنا سکتے ؟ اس پر گا تم صاحب نے کہا، اب میں مسلمان ہو چکا ہوں.ڈاکٹر نے کہا، بھئی تم تو پیدائشی مسلمان ہو.اس پر گا تم نے بتایا کہ میں اب خدا کے فضل سے احمدی مسلمان ہو گیا ہوں اور میں اب اس کام کو قرآن وحدیث کی روسے ناجائز سمجھتا ہوں.میں ابھی تمہارا مکان جلا کر خاکستر کرتا ہوں سینیگال میں پیروں فقیروں نے مذہب کے نام پر فریب کا ایسا لبادہ اوڑھ رکھا ہے کہ انسان دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے.یہ لوگ اس طرح کے فریبوں اور دھوکوں کے ساتھ وہاں کی سادہ اور غریب عوام کا خون بہت ہی ظالمانہ طور پر بڑی بیدردی سے چوس رہے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے یہی لوگ جب احمدیت میں داخل ہوتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں روشنی پیدا ہو جاتی ہے.ان کے دل و دماغ میں اچھے برے کی تمیز پیدا ہو جاتی ہے.کونگل کے علاقہ میں ایک فولانی 128
ارض بلال.میری یادیں زمیندار احمدی ہو گیا.احمدیت سے پہلے اس کا ایک پیر تھا جو موریطانیہ سے تھا اور ہر سال سینیگال میں آکر اپنے مریدوں سے ہدیہ وصول کر لیتا تھا.اس دوست کے احمدی ہونے کے بعد ایک دن یہ پیر صاحب حسب روایت ان کے گھر آگئے ( پیر کو ان کی زبان میں شریف یا حیدرا کہتے ہیں ) اس احمدی دوست نے حسب توفیق اس کی خاطر مدارت کی.فولانی لوگوں کا کام گائے پالنا ہے.ان میں سے گھر کے ہر فرد کے پاس اپنی اپنی گائیں ہوتی ہیں.یہی ان کی جائداد ہوتی ہے.پیر صاحب اس آدمی کے ساتھ اس کے جانور دیکھنے گئے.جانوروں کو دیکھ کر جوسب سے اچھی گائے تھی ، کہنے لگے میں نے یہ گائے لینی ہے.وہ آدمی کہنے لگا، پیر صاحب یہ ممکن نہیں ہے.میں آپ کو یہ گائے نہیں دے سکتا.پیر صاحب نے اس کے لئے کافی اصرار کیا مگر وہ آدمی نہ مانا.اس پر پیر صاحب جلال میں آگئے اور کہا ٹھیک ہے.میں آج ہی تمہارے گھر کو جلا کر خاکستر کر دوں گا.اب چونکہ یہ آدمی احمدی ہو چکا تھا اور اسے یہ یقین ہو چکا تھا کہ یہ پیر میرا کوئی نقصان نہیں کرسکتا یہ صرف جعلی دعوے کرتا ہے، یہ کچھ بھی نہیں کرسکتا.یہ فولانی لوگ چونکہ ہر وقت اپنے جانوروں کے ساتھ جنگلوں وغیرہ میں رہتے ہیں اس لئے اپنی حفاظت کے لئے ہر وقت اپنے پاس ایک لمبا سا چاقو ر کھتے ہیں.اس احمدی دوست نے فوراً اپنا خنجر نکالا اور کہا اس سے پیشتر کہ تو میرا گھر جلائے میں اس خنجر کے ساتھ تمہارا کام تمام کرتا ہوں.اس پر پیر صاحب سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلے اور پھر کبھی اپنے اس مرید کے علاقہ میں بھی نہیں پھینکے.اس واقعہ سے باقی پیر پرست لوگوں کو بھی پیروں کی حقیقت اور انکی جعلی قوت کا علم ہو گیا.ایک نومبایع کا صداقت حضرت مسیح موعود پر ایمان سینیگال کے ایک قصبہ جابانگ میں جماعت احمدیہ کا جلسہ ہوا.جلسہ کے اختتام پر احباب اپنے گھروں کولوٹے.ان میں سے ایک وفد بنجونہ کے علاقہ سے بھی آیا ہوا تھا.اس وفد کے لوگ سڑک کے کنارے کسی ٹرانسپورٹ کے انتظار میں کھڑے ہو گئے.کافی دیر کے بعد ایک گاڑی آئی.ان 129
ارض بلال.میری یادیں - لوگوں نے گاڑی رکھنے کیلئے اشارہ کیا.گاڑی رک گئی.اتفاق سے کئی دوسرے مسافر جلدی سے گاڑی میں سوار ہو گئے مگر احمدیوں میں سے صرف ایک بزرگ مکرم باجی صاحب بڑی مشکل سے سوار ہو پائے.اتنے میں گاڑی چل پڑی اور باقی احمدی دوست پیچھے رہ گئے.اس وفد کا کرایہ جس دوست نے ادا کرنا تھا، وہ بھی اس دھکم پیل میں پیچھے رہ گیا.تھوڑی دیر بعد کرایہ وصول کرنے والا کارندہ اس بزرگ کے پاس آیا اور ان سے کرایہ کا مطالبہ کیا.اس پر انہوں نے بتایا کہ جس دوست نے میرا کرایہ ادا کرنا تھا، وہ تو گاڑی پر سوار نہیں ہوسکا، میں تمہیں بنونہ پہنچ کر کرایہ ادا کر دوں گا لیکن اس کارندہ کو ان کی بات کا یقین نہیں آیا اور اس نے پیسوں کے لئے اصرار کیا.بابا جی نے بتایا کہ میں احمدی ہوں اور جابانگ میں ایک جلسہ میں شرکت کے لئے آیا ہوں.ہم احمدی لوگ جھوٹ نہیں بولتے.میں انشاء اللہ بنجو نہ پہنچ کر آپ کا کرایہ ادا کر دوں گا.اس کے باوجود وہ آدمی کرایہ کے لئے مصر رہا.اس پر بابا جی نے کہا، میں نے امام مہدی کو مانا ہے، انشاء اللہ اس کی برکت سے مجھے بنجو نہ پہنچتے ہی کرایہ مل جائیگا.اس پر باقی سواریوں نے بھی اس آدمی سے استدعا کی کہ اس بزرگ کو بنجو نہ تک پہنچنے دو.پھر دیکھ لیں گے یہ سچ بولتا ہے یا جھوٹ.گاڑی جب بنجونہ کے لاری اڈہ پر پہنچی تو ابھی بابا جی اترے ہی تھے کہ کنڈکٹر نے کرایہ کا مطالبہ شروع کر دیا.اسی دوران ایک نوجوان تیزی سے باباجی کی طرف آیا اور ان کا حال احوال دریافت کیا.اس دوران کنڈکٹر نے پھر کرایہ کا مطالبہ کیا.اس نوجوان نے جب ساری بات سنی تو اس نے فور رقم نکال کر کنڈکٹر کے ہاتھ پر رکھ دی.اس پر بابا جی نے اسے کہا میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کو ماننے والا ہوں ان کی برکت سے میرے کرایہ کا انتظام ہو جائے گا اور یہ ان کی سچائی کا ثبوت ہے.سب دیکھنے والے حیران ہو گئے کہ کس طرح اللہ تعالی نے اس کی بات کو پورا کر دیا.130
علامات المقربين..)] ارض بلال.میری یادیں.باب هشتم ] انفاق فی سبیل اللہ از حضرت سید نا امام مہدی علیہ السلام خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جوسب کچھ ہی کرتے ہیں اس پر نثار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب که کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک سے وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے اُسے دے چکے مال و جاں بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار مالی قربانی کے چند ایمان افروز واقعات اسے صرف دوگز زمین در کارتھی کہتے ہیں ایک دفعہ ایک بادشاہ سلامت اپنے کسی خادم کی بات پر بڑے خوش ہوئے اور کہا ہماری جاگیر کے فلاں علاقہ میں جاؤ صبح سے غروب آفتاب تک جس قدر زمین کے اردگرد چکر لگا لو وہ زمین تمہاری ملکیت ہو جائے گی.اس پر وہ خادم بہت خوش ہوا اور اس علاقہ میں چلا گیا اور ایک مخصوص جگہ سے اس نے ایک سمت 131
ارض بلال- میری یادیں ) کو چلنا شروع کر دیا.پھر اسے احساس ہوا کہ اس رفتار سے بہت کم زمین میری ہو سکے گی مجھے ذرا اور تیز چلنا چاہیے تاکہ زیادہ زمین میری ہو سکے.اس پر اس نے تیزی کے ساتھ چلنا شروع کر دیا یہاں تک کہ دو پہر ہو گئی.پھر اس نے سوچا مجھے دوڑنا چاہیئے تا کہ مزید رقبہ میرا ابن سکے.اس پر اس نے دوڑنا شروع کر دیا.اس طرح اس کا اس رقبہ کا احاطہ کافی وسیع ہوتا چلا گیا.عصر کے قریب اسے احساس ہوا کہ اس رفتار سے اگر میں دوڑ تا رہا تو میں واپس نقطہ آغاز سفر تک بر وقت نہ پہنچ سکوں گا.اس پر اس نے اور تیزی کے ساتھ دوڑ نا شروع کر دیا اور بڑی ہمت و جانفشانی کے ساتھ مقررہ وقت پر اپنی منزل پر پہنچ گیا.لیکن اس تگ و دو میں اسقدر تھک چکا تھا کہ وہاں پہنچتے ہی زمین پر گر گیا اور ساتھ ہی اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.مصنف لکھتا ہے: دراصل اس کو صرف دو میٹر زمین کی ہی ضرورت تھی قبر کے لئے اگر قسمت میں ہو تو “ ایک مخلص غریب احمدی کی مالی قربانی گیمبیا کے ایک شہر بصے نامی میں ایک بزرگ احمدی رہتے ہیں جن کا نام محمد تر اول صاحب ہے.نہایت ہی غریب مالی حالت بہت خراب، ذرائع آمد مفقود اور پھر افراد خانہ بھی خاصے تھے.ایک شام میں ان کے ہاں گیا.کھانے کا وقت تھا.کہنے لگے، استاذ ہم اب کھانا تو کھا رہے ہیں لیکن ہم آپ کو اس کی دعوت نہیں دے سکتے میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے سادہ چاول ابالے ہیں اور ساتھ نمک مرچ پانی میں گھول کر اس کا شور بہ بنایا ہے.اس کو چاولوں پر ڈال کر کھا رہے ہیں.بہر حال مذکورہ بالا واقعہ سے ان کی مالی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے.خاکسار نے ایک روز خطبہ جمعہ کے دوران بصے کے احباب جماعت کو ایک زرعی فارم بنانے کی تحریک کی چونکہ اکثر احباب تجارت پیشہ تھے اس لئے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا.نماز جمعہ کے بعد یہ بزرگ مجھے میرے کمرے میں آکر ملے اور کہنے لگے، کل آپ فلاں گاؤں 132
.میری یادیں میں جو میرا کھیت ہے ادھر پہنچ جائیں.میں نے پوچھا، خیریت ہے! کہنے لگے، بس آپ آجائیں پھر بتاؤں گا.میں اگلے روز اس جگہ پہنچ گیا.تر اول صاحب اپنے کھیت میں ہل چلا رہے تھے.مجھے دیکھ کر میرے پاس آئے اور مجھے ساتھ لے کر کھیت کے وسط میں چلے گئے اور کہنے لگے اس میں آدھا کھیت میرا اور آدھا جماعت کو دے دیا ہے کام میں کروں گا اور آمد جماعت کو جائے گی.ان کے اخلاص کا آج تک میرے ذہن پر بڑا گہرا اثر ہے کہ کس طرح ایک غریب احمدی نے اپنے آپ کو جماعتی خدمت کیلئے پیش کر دیا تا کہ جماعت کی آمد بڑھ سکے.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی مالی حالت بہت بہتر ہے.ڈاکٹرینگا ڈ وصاحب کا اخلاص گیمبیا میں فرافینی کے مقام پر ایک نہایت ہی بزرگ، تقومی شعار، دعا گو اور پانچ وقت نماز کے پابند ڈاکٹر صاحب رہتے تھے.ان کا نام خلیل ینگاڈ و صاحب تھا.چند سال پہلے ان کا وصال ہو گیا ہے.افریقہ کے جن ممالک تک میرا تعارف اور شناسائی ہے، میرے علم کے مطابق مالی قربانی میں ان کا کوئی مثیل نہیں تھا.لازمی چندہ جات کے علاوہ زکوۃ با قاعدہ نصاب کے مطابق دیتے تھے.علاوہ ازیں بینک سے جور قم بطور سود ملتی ، وہ بھی لے کر من وعن جماعت میں ادا کرتے تھے.فرافینی میں ہماری مسجد زیر تعمیر تھی.اس تعمیر میں مقامی کوشش زیادہ تھی کیونکہ اس وقت مرکزی امداد کم ملا کرتی تھی.مسجد کا ہال وغیرہ مکمل ہو گیا.نمازیں پڑھنی شروع کر دیں لیکن احاطہ کی چار دیواری فنڈز نہ ہونے کے باعث نہیں بن رہی تھی.ایک دن علی الصبح ڈاکٹر صاحب میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے، مسجد کے پلاٹ کی چار دیوری ہمیں جلدی بنوانی چاہئے کیونکہ جانور مسجد کے احاطہ میں داخل ہو جاتے ہیں جس سے مسجد کی بے حرمتی ہوتی ہے.میں نے فنڈ ز کے نہ ہونے کا بتایا.133
ارض بلال- میری یادیں ) کہنے لگے اس چار دیواری پر جتنا خرچہ آئے وہ میں ادا کروں گا.لیکن کسی کو اس کا علم نہیں ہونا چاہئے.یہ ایک خاصا بڑا پرا جیکٹ تھا.آپ نے اکیلے ہی اس کو مکمل کر دیا.یہ اخلاص ، محبت اور قربانی مسیح محمدی کی برکات کا فیض ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو جنت نعیم میں جگہ عطا فرمائے.مکرم فوڈے صابالی صاحب فرافینی ، جماعتی اعتبار سے گیمبیا کا ایک خاص قصبہ ہے.یہی وہ قصبہ ہے جہاں پر ڈاکٹر الحاج فرمان سنگھاٹے صاحب گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے سے قبل اپنا کاروبارحیات چلایا کرتے تھے.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں پر ایک بہت ہی مخلص جماعت ہے.ڈاکٹر سنگھاٹے صاحب کا مارکیٹ کے قریب برلب سڑک ایک خاصہ بڑا قطعہ زمین تھا جس میں ان کی ایک فارمیسی تھی.بقول راوی ایک بار مولانا غلام احمد بدوملہی صاحب امیر جماعت گیمبیا اس علاقہ میں دورہ پر تشریف لائے.ان دنوں جماعت کی کوئی اپنی مسجد نہ تھی.مکرم بدوملہی صاحب نے مکرم سنگھائے صاحب کو تحریک کی کہ آپ اپنے پلاٹ میں سے ایک چھوٹا حصہ جو برلب سڑک ہے وہ جماعت کے لئے وقف کر دیں، بلکہ خود ہی اپنی چھڑی کے ساتھ نشان لگا دیا کہ اس حصہ پر مسجد بنوا دیں.مکرم سنگھاٹے صاحب نے مکرم مولوی صاحب کی درخواست پر لبیک کہتے ہوئے وہ جگہ جماعت کو دیدی.بعد ازاں احباب جماعت نے وہاں پر خستہ بلاکس کے ساتھ ایک چھوٹی سی مستطیل کمرہ نما مسجد تعمیر کر دی.یہ وہ مسجد تھی جس میں بہت سے مخلصین جماعت نے اپنے مالک و خالق کے ساتھ راز و نیاز کی باتیں کی ہوں گی.غالبا 1990ء کی بات ہے ، خاکسار نے محسوس کیا کہ مرور زمانہ کے ساتھ خستہ عمارت اور خستہ ہو گئی اور بفضلہ تعالیٰ جماعت کی تعداد میں ترقی اور اضافہ کی وجہ سے اس مسجد کا دامن پناہ تنگ ہو چکا ہے.اس لئے ایک کشادہ جگہ کی ضرورت تھی جہاں پر مربی ہاؤس اور خانہ خدا تعمیر کئے 134
ارض بلال.میری یادیں ) جاسکیں.چنانچہ بفضلہ تعالیٰ اب وہاں پر ایک مسجد ، مشن ہاؤس اور ایک خوبصورت گیسٹ ہاوٹس تعمیر ہو چکا ہے.ان دنوں خاکسار فرافینی میں بطور مربی سلسلہ خدمت سرانجام دے رہا تھا.میں نے جماعت میں تحریک کی کہ خانہ خدا کی تعمیر کے لئے ہر کوئی اپنی حیثیت سے بڑھ کر حصہ لے.اس دور میں مرکز سے تعمیر مسجد کے لئے کوئی خاص مدد نہ ملتی تھی بلکہ احباب جماعت کی مالی قربانی سے یہ کام ہوتا تھا.میں نے سب احباب جماعت کو اجتماعی اور انفرادی طور پر اس کارخیر میں حصہ لینے کی درخواست کی.اسی شب ایک مخلص نوجوان مکرم فوڈے صابالی صاحب جو بازار میں درزی کا کام کرتے تھے اور دوران ہفتہ کپڑے سی کر ہر ہفتہ کو ایک قریبی قصبہ میں ہفتہ وار مارکیٹ میں لے جایا کرتے تھے.ذریعہ معاش بہت معمولی ساتھا وہ میرے گھر تشریف لائے اور کہنے لگے استاذ ( مبلغ ) میں مسجد کے لئے کچھ رقم پیش کرنا چاہتا ہوں.میرے خیال میں تھا کہ یہ نوجوان ممکن ہے پچاس یا سوڈلاسی ( گیمبین کرنسی ) کی رقم دے گا مگر میں نے دیکھا کہ اس نے پورے ایک ہزار ڈلاسی کی رقم میرے سامنے رکھ دی.میں نے وہ رقم سیکرٹری مال مکرم ڈکٹر خلیل ین گاڈ و صاحب کو دے دی.لیکن اس شخص کی گھر یلو اور مالی کیفیت دیکھ کر یقین نہ آتا تھا.میں نے خود حیرانگی سے اسے پوچھا یہ سوچتے ہوئے شاید اسے غلطی لگ رہی ہے کہ اس ساری کی رسید کاٹنی ہے؟ اس پر اس نے اثبات میں سر ہلا دیا اور ساتھ کہنے لگے کہ میں نے گھر میں ایک ہزار ڈلاسی کی رقم کسی غرض کے لئے سنبھال کر رکھی ہوئی تھی.آج آپ نے مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کی ہے.اس پر میں نے سوچا میں اللہ کا کام کرتا ہوں، اللہ خود میرا کام کر دے گا.اس واقعہ کے چند روز بعد مجھے شام کی نماز پر ملے، بڑے خوش تھے کہنے لگے، استاذ ! اللہ تعالیٰ 135
- میری یادیں - نے میرے سارے پیسے نفع کے ساتھ واپس کر دیئے ہیں.میں نے حیرانگی سے پوچھا بھئی وہ کیسے؟ کہنے لگے میرے پاس میرے تیار کردہ قابل فروخت کپڑے ایک بڑی تعداد میں کافی عرصہ سے پڑے ہوئے تھے.کئی بار بیچنے کے لئے ساتھ لے کر گیا لیکن کوئی گا ہک نہیں ملتا تھا.آج جب میں مارکیٹ گیا تو سب پرانے تیار شدہ کپڑے بھی ساتھ لے گیا تا کہ جیسے بھی ممکن ہو ان کوستے داموں نکال آؤں گا.کہنے لگے جب میں مارکیٹ میں پہنچا، ابھی سامان کو ترتیب دے رہا تھا کہ گا ہک آیا اور اس نے مجھ سے ان کپڑوں کے بارے میں پوچھا.میں نے حسب عادت ایک بڑی قیمت بتادی.اس پر وہ گا ہک بولا ٹھیک ہے.اس نے ان سب کپڑوں کی قیمت میرے ہاتھوں میں تھمائی سامان اٹھایا اور چلتا بنا.میں نے جب حساب کیا تو مجھے بفضلہ تعالیٰ بہت فائدہ ہوا تھا اور میری کئی ماہ کی محنت کا پھل صرف چندلمحوں میں مجھے مل گیا.اس سے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات میخ کی طرح گاڑ دی کہ یہ خدا تعالی کے ساتھ سودے کا نتیجہ ہے.چندہ کی برکت سے گمشدہ سامان مل گیا سینیگال کے ایک بہت معزز دوست جو لمبا عرصہ ممبر آف پارلیمنٹ رہ چکے ہیں، اس کے علاوہ بھی بہت سی قومی خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور دے رہے ہیں ، ان کا نام Diakite Kabine Kaba صاحب ہے.ایک دن میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے میں نے کافی عرصہ سے چندہ نہیں دیا ہے اس لئے میرا حساب بنا دیں تا کہ میں اپنا چندہ ادا کر سکوں.میں نے ان کا حساب تیار کیا اور انہوں نے رقم ادا کر دی.میں نے کہا جزاکم اللہ کہنے لگے جزاکم اللہ تو مجھے کہنا چاہئے کیونکہ اس کارخیر میں شامل ہونے کیلئے آپ نے ہی تو مجھے تحریک کی ہے.اس لئے مجھے آپ کا ممنون ہونا چاہئے.اس کے بعد وہ اپنے شہر چلے گئے (ان کا شہر ڈاکار سے تقریباً 475 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے) 136
ارض بلال- میری یادیں) اگلے روز ان کا مجھے فون آیا، کہنے لگے ، جزاکم اللہ ! میں نے کہا، جزاکم اللہ کس خوشی میں ! کہنے لگے کل جب میں ڈاکار سے تانبا کنڈا کے لئے روانہ ہوا ، شام کے وقت میں Gosas کے قریب پہنچا.وہاں جنگل میں برلب سڑک نماز مغرب ادا کی اور کچھ کھانا وغیرہ کھایا.اس کے بعد ہم لوگ اپنے سفر پر روانہ ہو گئے.تقریباً ایک گھنٹے کے سفر کے بعد میں نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ مجھے میرا بریف کیس دیں.ڈرائیور نے گاڑی میں بریف کیس تلاش کیا، مگر وہ تو ادھر نہ تھا.بڑے پریشان ہوئے.سوچا کہ جہاں نماز ادا کی تھی، وہاں بھول آئے ہیں گاڑی کا رُخ ادھر کیا.لمبے سفر کے بعد اس جگہ پہنچے تو وہاں اس کا نام ونشان نہ تھا.بہت زیادہ پریشانی ہوئی.خیر صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا.کہنے لگے، اگلے روز صبح مجھے کسی آدمی کا فون آیا اور کہنے لگا، آپ کا بنے کا با صاحب بول رہے ہیں؟ میں نے کہا ، جی میں کا بنے کا بابول رہا ہوں.اس نے کہا کہ آپ کا کوئی سامان گم ہو گیا ہے.میں نے کہا ، جی ایک بریف کیس گم گیا ہے اور اس میں سعودی عرب کا ایک ایئر ٹکٹ ہے اور اس کے علاوہ بعض ضروری کا غذات، پاسپورٹ اور ایک ملین سیفا ( پاکستانی ڈھائی لاکھ روپیہ ) ہے اس نے بتایا کہ میں ایک انجینئر ہوں اور آپ کے علاقہ میں دورہ پر آرہا تھا.رات کو سڑک کے قریب ایک جگہ پر مجھے بریف کیس نظر آیا تو مجھے احساس ہوا کہ کوئی مسافر بھول گیا ہے.میں نے گاڑی روکی اور کافی آوازیں دیں.مگر جواب ندارد.پھر اس کو میں نے اٹھا لیا.اس کو کھولا تو اس سے آپ کی بیان کردہ اشیا ملیں اور آپ کا ایڈریس اور فون نمبر بھی.اس طرح اب آپ سے رابطہ کر رہا ہوں آپ فکر نہ کریں.میں اس وقت آپ کے شہر کے فلاں ہوٹل میں ہوں.آکر اپنا سامان وصول کر لیں.کہنے لگے مجھے یقین نہیں آرہا تھا.مجھے یہ کوئی خواب لگ رہا تھا.یہاں تو لوگ گرے ہوئے مال کو اٹھا کے مال غنیمت سمجھ کر بے دریغ استعمال کر لیتے ہیں.یہ کونسا فرشتہ سیرت انسان ہے جس نے از خود رابطہ قائم کیا اور سامان پوری حفاظت کے ساتھ واپس کر دیا.پھر میں نے سوچا یہ چندے 137
- میری یادیں ) کی برکت ہے جو میں ڈاکار میں ادا کر آیا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس قدر پریشانی اور نقصان سے بچالیا ہے.مسیح کی جماعت کو پیدل نہیں چلنا چاہیے گیمبیا کے شہر بصے میں ایک ڈاکٹر صاحب نصرت جہاں کے تحت ایک کلینک چلا رہے تھے.ان کا نام ڈاکٹر لئیق احمد فرخ صاحب تھا.انہوں نے ایک روز مجھے یہ خوبصورت واقعہ سنایا جو آپ بھی سن لیں.کہتے ہیں گھانا کے جس شہر میں وہ بطور ڈاکٹر خدمت کر رہے تھے، وہاں پر ایک بزرگ احمدی تھے جن کو الحاج کہتے تھے ( یہ بزرگ مکرم ابراہیم بن یعقوب مبلغ سلسلہ کے والد بزرگوار ہیں ) وہ کافی دنوں سے مسجد میں پیدل چل کر نماز پڑھنے کے لئے آیا کرتے تھے.ایک دن میں نے انہیں پوچھا، الحاج ! کار پر کیوں نہیں آتے؟ کہنے لگے کا ر خراب ہو چکی ہے.ڈاکٹر صاحب کہنے لگے،اس کی مرمت کروالیں! حاجی صاحب، بولے پیسے نہیں ہیں.اس کے کچھ عرصہ کے بعد مسجد میں ایک جماعتی میٹنگ ہوئی.اس میں جماعت کا تبلیغی پروگرام زیر بحث تھا.بہت سی باتوں کے علاوہ ایک بنیادی بات یہ بتائی گئی کہ کافی عرصہ سے مشن کی گاڑی خراب ہے.اس لئے تبلیغ کے کام میں مشکلات پیدا ہورہی ہیں، میٹنگ ختم ہوگئی.اگلے روز حاجی صاحب نے ایک نئی گاڑی بازار سے خریدی اور لاکر مشن ہاؤس میں جماعت کو تبلیغ کے لئے تحفہ کے طور پر پیش کر دی.اس کے بعد حاجی صاحب نے پھر مسجد میں پیدل آنا شروع کر دیا.ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں میں نے پھر ایک دفعہ انہیں کہا کہ آپ گاڑی پر کیوں مسجد نہیں آتے؟ کہنے لگے، گاڑی خراب ہے.میں نے کہا ٹھیک کروالیں.کہنے لگے پیسے نہیں ہیں.میں نے کہا پہلے بھی آپ نے یہی بتایا تھا مگر بعد میں آپ نے جماعت کو ایک نئی گاڑی خرید کر دے دی تھی.138
ارض بلال.میری یادیں حاجی صاحب نے بتایا، ان دنوں میری مالی حالت درست نہ تھی.پھر اچانک میرا ایک باغ فروخت ہو گیا.میں نے سوچا، اب ان پیسوں سے گاڑی لے لوں گا.اتفاق سے انہی دنوں جماعت کی میٹنگ تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ جماعت میں گاڑی نہ ہونے کے باعث تبلیغی کام آہستہ آہستہ چل رہا ہے.میں نے سوچا کہ میرے پیدل چلنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر خدا کے مسیح کی جماعت کو پیدل نہیں چلنا چاہیئے.یہ بزرگ ایک سال جلسہ لندن میں تشریف لائے تھے.میں ان کو خاص طور پر جا کر ملا تھا.اللہ تعالی انکی جماعت سے محبت اور اخلاص کو اور بڑھائے اور اس کا اجر عظیم عطا فرمائے.آمین.139
.] ارض بلال.میری یادیں....باب نهم.....] احمدیت کا ایمان افروز سفر ڈاکٹر سامبوجان باہ صاحب کی ایمان افروز داستان نظام وصیت کی برکات گزشتہ دنوں الفضل اخبار پڑھ رہا تھا کہ اس میں نئے موصیان کے اعلانات نظر سے گزرے.ایک نام پر آکر میری نظر یکدم رک گئی کیونکہ یہ نام بڑا مانوس سا تھا.یہ نام گیمبیا کے ایک نوجوان مکرم سامبو جان صاحب کا تھا.ان کے نظام وصیت میں داخل ہونے کی بڑی خوشی ہوئی.اس کے بعد میں نے ان کی منقولہ اور غیر منقولہ جائداد کی تفاصیل پڑھیں جو ایک عام کیمبین کی حیثیت سے کافی زیادہ تھیں.جہاں ان کو پڑھ کر حیرانگی ہوئی وہاں خوشی اور مسرت بھی ہوئی کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے اس بھائی کو دین کی نعمت کے علاوہ دنیاوی نعمتوں سے بھی مالا مال کر رکھا ہے.تعارف سامبو جان کے سارے حالات ایک فلم کی طرح میری نظروں کے سامنے گزرنے لگے.سامبو جان کے والد صاحب فرافینی کے قریب YALLAL BA نامی گاؤں میں رہتے تھے.معمولی سے زمیندار تھے.انہوں نے پہلی شادی کی تو اس میں سے کوئی اولاد نہ ہوئی پھر انہوں نے دوسری شادی کی تو اللہ تعالی نے ایک بیٹے سے نوازا.اس کا نام انہوں نے سامبو جان رکھا.قبول دین متین سامبو جان صاحب نے جوانی میں قدم رکھا تو ان کا اٹھنا بیٹھنا چند احمدی دوستوں کے ساتھ ہو گیا.اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی گرہ کھول دی اور انہوں نے بڑی بشاشت قلبی کے ساتھ 140
ارض بلال.میری یادیں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے پیغام کو قبول کر لیا.مخالفت و عداوت جب آپ کے والد صاحب کو علم ہوا تو انہوں نے پیار اور محبت سے ان کو سمجھایا مگر اس نوجوان نے ان کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیا.پھر والد صاحب نے بعض اور طریقوں سے ان کو احمدیت سے دور کرنے کے لئے کوشش کی مگر بے سود ! اس پر انہوں نے سختی کی مگر اس میں بھی ناکامی ہوئی.پھر انہوں نے آخری حربہ استعمال کیا کہ احمدیت سے تائب ہو جا ؤ یا ہمارے گھر بار کو چھوڑ دو.توکل علی اللہ سامبوجان صاحب نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے بڑی جرات مندی سے دوسرے فیصلہ کو چنا اور دین متین کی خاطر اپنے ماں باپ اور گھر بار کو الوداع کہہ دیا.نو جوانی کے دن تھے، جیب خالی تھی.جب ماں باپ ہی جواب دے دیں تو اور کون ساتھ دے گا.اس لئے مالی حالت بہت زیادہ قابل رحم تھی.بہر حال آپ نے اپنا دست سوال کسی کے سامنے دراز نہیں کیا.گیمبیا میں کھیتی باڑی کا طریق گیمبیا میں یہ طریق ہے کہ غریب، مزدور پیشہ اور بے کا ر لوگ موسم برسات میں دوسرے علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور وہاں زمینوں کے مالکان سے دو چار ایکڑ زمین لے کر اس میں کھیتی باڑی شروع کرتے ہیں اور پھر اسی زمیندار کے ہاں ان کے قیام وطعام کا انتظام ہوتا ہے.پھر فصل کی کٹائی کے وقت اس کھیت کی آمد فریقین آپس میں حسب قواعد تقسیم کر لیتے ہیں.اسی طرح سامبو جان صاحب نے اپنا بوریا بستر اٹھایا اور ایک دور دراز کے علاقہ میں جاڈیرہ لگا یا اور کسی زمیندار سے کھیت کا ٹکٹر الیا اور فصل ( جو عام طور پر باجرہ یا مونگ پھلی ہوتی ہے ) کاشت کر لی.141
.میری یادیں والدین سے صلح اس دوران ان کی دونوں ماؤں نے جن کا یہ واحد بیٹا تھا، رورو کے اپنا برا حال کر لیا لیکن والد صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے.بعض عزیزوں نے والدہ کے کہنے پر ان کی تلاش بھی جاری رکھی.آخران کے والدین کو ان کے بارے میں علم ہو گیا اور ان سے درخواست کی کہ آپ واپس گھر آجائیں.اس پر انہوں نے کہا کہ میری یہ شرط ہے کہ کوئی شخص میرے مذہبی معاملات میں دخل نہیں دیگا.اس پر آپ اپنے گھر واپس آگئے.اسباب خداوندی کا ظہور ان دنوں فرافینی کے قریب ایک شہر کا عور میں جماعت احمدیہ کا ایک کلینک تھا.ہمارے ایک دوست مکرم عمر علی طاہر صاحب مبلغ سلسلہ نے ادھر متعینہ ڈاکٹر صاحب سے مل کر ان کو وہاں کام پر لگوا دیا.لیکن خدا تعالیٰ نے عقل و فہم کی نعمت دے رکھی تھی.اس لئے انگریزی بولنے والے دوست احباب کی میل ملاقات سے انگلش زبان سے کچھ شد بد حاصل کر لی تھی.ترقیات کے زینے اب ڈاکٹر صاحب کی صحبت میں آکر ان کو انگلش بولنے، پھر مریضوں کی دیکھ بھال سے ان کے تجربات ، معلومات اور تعارف کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا.اس دوران انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی راہنمائی میں انجکشن وغیرہ لگانا بھی سیکھ لیا.آدمی ذہین تھے، جلد ڈاکٹر صاحب کے ترجمان پھر کمپوڈر بن گئے.اب فرافینی شہر میں ڈاکٹر سامبو جان کے نام سے مشہور ہیں.گزشتہ سال میں سینیگال سے گیمبیا جارہا تھا تو راستہ میں ان کا ذاتی کلینک آتا ہے.میں ادھر چلا گیا تا کہ ان کو سلام کرلوں.میں نے مریضوں کی اچھی خاصی تعداد دیکھی جو ڈاکٹر صاحب کے انتظار میں باہر بیٹھی ہوئی تھی.میں نے کلینک کی طرف قدم بڑھائے تو ایک نوجوان نے مجھے فوراً روک دیا کہ ڈاکٹر صاحب بہت مصروف ہیں، آپ اندر نہیں جاسکتے.خیر مرتا کیا نہ کرتا باہر بیٹھ گیا.142
ارض بلال- میری یادیں) اتنے میں ڈاکٹر صاحب نے اتفاق سے مجھے دیکھ لیا، باہر آئے اور مجھے اندر لے گئے.شام کو مسجد میں ان سے ملاقات ہوئی.بات کرتے کرتے بے اختیار رو پڑتے اور خدا تعالیٰ کے افضال و برکات کو بیان کرتے تھے کہ یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے کا ثمرہ ہے.خدا تعالی نے دین بھی دے دیا عزت و احترام بھی دیا اور پھر دنیا وی نعمتوں سے بھی باقی اہل خاندان کے مقابل پر بہت زیادہ نوازا.انی معین من اراد اعانتك كا كیا خوب اظہار ہے.محمد جونجی دیبا صاحب ( سابق صدر جماعت فرافینی ) کے سفر احمدیت کی داستان فرامینی جماعت کے ایک بہت ہی مخلص اور فدائی احمدی مکرم محمد جو نجی دیبا صاحب میرے ایک بہت ہی پیارے دوست تھے.چند سال قبل راہی ملک عدم ہو چکے ہیں.فرافینی شہر میں احمدیوں اور غیر احمدیوں میں یکساں مقبول انسان تھے.اپنے قصبہ کے نمبردار اور علاقہ بھر میں ایک با اثر سیاسی اور سماجی وجود تھے.خدا تعالیٰ نے آپ کو ایک بارعب اور دلنواز شخصیت سے نواز رکھا تھا.قبول احمدیت جب اس علاقہ میں جماعت احمدیہ کا نفوذ ہوا تو ہر طرف جماعت کے خلاف باتیں ہونی شروع ہو گئیں.مخالفین نے جماعت کے خلاف ہر قسم کا زہریلا پراپیگینڈہ شروع کر دیا.لیکن چونکہ آپ ایک نیک فطرت نو جوان تھے.انہوں نے جذبات میں آنے کی بجائے بڑے تحمل و برد باری اور غور وفکر کے ساتھ جماعت کے بارے میں جماعت کے لوگوں سے باتیں سنیں اور جب آپ کا دل مطمئن ہو گیا تو آپ نے بلا خوف و خطر بڑے اطمینان قلب کے ساتھ بیعت کر لی.یہ آپ کے آغاز جوانی کا ابتدائی دور تھا.اس زمانہ کے حالات کے موافق کوئی قابل ذکر تعلیم تو حاصل نہ کی تھی مگر خدا تعالی نے اپنے فضل سے حکمت و فراست کی نعمت سے نواز ا ہوا تھا.ان کے والد گاؤں کے معززین میں شمار ہوتے تھے اور یہ قصبہ ان کے خاندان کی ہی ملکیت تھا.اس لئے انہی کا قبیلہ سیاسی اثر ورسوخ اور طاقت وقوت کے بل بوتے پر جماعت کی شدید مخالفت میں پیش پیش تھا.143
مخالفت و ایذارسانی ارض بلال.میری یادیں جب آپ کے والد کو ان کے احمدی ہونے کا علم ہوا تو وہ سخت پریشان ہو گئے کیونکہ ان کے نزدیک یہ خبر تو انکے پورے خاندان کے لئے باعث ندامت اور رسوائی تھی.اس پر ان کے والد صاحب نے ان کو بہت سمجھایا.اپنے خاندان کی عزت کا واسطہ دیا اور بتایا اس طرح ہماری دنیاوی اور سیاسی ساکھ واحترام پورے علاقہ میں متاثر ہوگی.مگر آپ اپنے فیصلہ پر قائم رہے.آپ کے والد صاحب نے سارے ممکنہ حربے آزما لئے مگر ان کی ساری کوششیں رائیگاں گئیں.اس پر ان کے والد صاحب نے ان کو جائداد سے محروم کر دیا.اس وقت تک ابھی آپ کی شادی بھی نہ ہوئی تھی ہمنگنی ہو چکی تھی.آپ کے والد صاحب نے لڑکی والوں سے کہہ کر وہ رشتہ بھی ختم کرادیا لیکن یہ سارے ظلم وستم اور بیجا سختیاں بجائے ان کے حوصلے پست کرنے کے ان کے ازدیاد ایمان کا باعث بنتے چلے گئے.اہل خانہ کے نارواسلوک اور پھر جائداد سے بے دخل کرنے پر آپ نے ایک کلہاڑا اٹھایا اور قریبی جنگل میں چلے گئے.اس زمانہ میں فرافینی کے مضافات ایک جنگل کی طرح تھے.آپ نے ایک طرف سے جنگل کو کاٹ کر اسے میدان بنانا شروع کر دیا.اس دور میں ملکی قوانین کے موافق ہر زمیندارا اپنی ضرورت کے مطابق اس جنگل کا کچھ حصہ حسب ضرورت صاف کر کے اسے کھیت بنالیتا اور پھر اسے زیر کاشت لے آتا اور وہ قطعہ اراضی اس شخص کی جائداد بن جاتا تھا.ملکی قوانین کے مطابق وہ شخص اس کھیت کو جب تک چاہے استعمال کرسکتا تھا مگر اسے آگے فروخت نہ کر سکتا تھا.آپ اس وقت عالم شباب میں تھے اور ویسے بھی ماشاء اللہ بڑے قد کاٹھ اور مضبوط جسم کے مالک تھے اور پھر عزم و ہمت نے بھی ساتھ دیا.اس طرح اپنی جہد مسلسل سے کچھ عرصہ بعد آپ نے اپنے لئے ایک بڑا قطعہ اراضی اپنی کھیتی باڑی کے لئے تیار کر لیا جس پر سارے گاؤں والے حیران و ششدر رہ گئے.144
اسلامی اخوت.میری یادیں پھر ایک روز آپ نے مسجد احمد یہ میں آکر اعلان کیا کہ اگر کسی احمدی بھائی کو زمین کی ضرورت ہو وہ میری تیار کردہ زمین سے حسب ضرورت حصہ لے سکتا ہے.عنایات الہیہ آپ نے پھرا کیلے ہی کھیتی باڑی شروع کر دی اور کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا یا.اس ساری صورت حال کو دیکھ کر آپ کے اہل خانہ کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے آپ کے ساتھ صلح کر لی مگر جماعت میں داخل نہ ہوئے.گاؤں میں اپنے خاندان کے سیاسی اثر ورسوخ اور آپ کی ذاتی شرافت اور اعلی اخلاق کے باعث پورے قصبہ میں آپ عزت واحترام کے ساتھ دیکھے جانے لگے.قصبہ میں مرکزی اصلاحی اور فلاح و بہبود کی کمیٹی کے ہمیشہ اہم ممبر رہے.ان کی شرافت اور دیانتداری کے باعث ہر کوئی ان کی بات کا احترام کرتا تھا.نمبرداری بھی مل گئی اپنی نیک نامی کی بنا پر بفضلہ تعالی گاؤں کے نمبردار بھی بن گئے مگر ساری عمر جماعت کے ساتھ اخلاص اور محبت کا لازوال رشتہ استوار رکھا.جماعت کی کوئی بھی خدمت ہوتی اس قدر عاجزی اور انکساری سے ادا کرتے کہ انسان حیران رہ جاتا تھا.صدر جماعت کا اعزاز آپ جماعت احمد یہ فرافینی کے صدر بھی تھے.بڑے اخلاص اور فدائیت کے ساتھ جماعتی خدمت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہوئے کمال جذبہ شکر و امتنان کے ساتھ اس فریضہ کو سرانجام دیتے رہے.آپ کے دو بیٹے آجکل امریکہ میں ہیں.دونوں بفضلہ تعالیٰ بڑے مخلص احمدی ہیں.145
ارض بلال.میری یادیں داستان مکرم عثمان دابوصاحب - اخلاص و وفا کا پتلا 1988ء میں حضرت امیر المؤمنین خلیفہ امسیح الرابع ” گیمبیا کے تاریخی دورہ پر تشریف لائے.انہی دنوں مرکز نے گیمبیا مشن کو تین کاریں جاپان مشن کی وساطت سے بھجوائیں.اب ان تین کاروں کے لئے ڈرائیوروں کی فوری ضرورت تھی.احمد یہ ہسپتال کے ڈرائیور Saini نے بتایا کہ اس کا ایک بھتیجا انہی دنوں گنی بساؤ سے آیا ہے.اس کا نام Ousman Darbo ہے.وہ ڈرائیونگ جانتا ہے.لیکن لا مذہب ہے.آپ اسے چیک کر لیں.مکرم امیر صاحب نے اسے بلا یا تو معلوم ہوا کہ وہ گنی بساؤ کی زبان کے علاوہ صرف منڈ نگا زبان بول سکتا ہے.اب حضور انور کے دورہ کے پیش نظر ڈرائیور فوری چاہیئے تھا.اس لئے اسے عارضی طور پر رکھ لیا اور اسے مکرم حفیظ احمد شاہد صاحب مربی سلسلہ جارج ٹاؤن کے پاس بھیج دیا.حضور انور کے دورہ کی تیاری کے سلسلہ میں اس نے حفیظ احمد صاحب کے ساتھ بہت سے مقامات کے دورے کئے.اس عرصہ میں دیکھا گیا کہ وہ نو جوان بہت نیک فطرت تابعدار اور ڈرائیونگ میں بھی خاصا ماہر ہے.اس کے بعد مکرم حفیظ احمد شاہد صاحب کی تحریک پر اس نے بیعت کرلی اور پھر وہ مستقل جماعت کے خدمت گزاروں میں شامل ہو گیا.پھر اس نے مکرم داؤد احمد حنیف صاحب کے ساتھ لمبا عرصہ کام کیا.ان کے بعد خاکسار کے ساتھ بھی بطور ڈرائیور بڑے اخلاص ، وفا اور ایمانداری کے ساتھ کام کیا.میں جب جہاں کہیں بھی دورہ پر جاتا ، جس قدر رقم میرے پاس ہوتی، میں سفر کے آغاز میں ہی اس کے سپر دکر دیتا.سارے اخراجات ، ادائیگیاں وغیرہ وہی کرتا اور واپس آکر پائی پائی کا حساب مجھے دے دیتا.مجھے کبھی بھی اس مسئلہ میں پریشانی نہیں ہوئی.وہ نوجوان جو لا مذہب تھا، احمدیت کے نور سے منور ہو گیا.بہت زیادہ محنتی تھا.ان پڑھ اور غیر ملکی تھا.اس نے یہاں آکر انگریزی زبان سیکھی اور اکاؤنٹس سیکھے.اب جماعت احمدیہ کی بہت ساری اہم ذمہ داریاں اس کے ہاتھ میں ہیں.اسے ہر فرد جماعت بہت زیادہ قابل اعتماد سمجھتا 146
ارض بلال- میری یادیں ) ہے.ماشاء اللہ نظام وصیت میں بھی شامل ہے.ان کے چچا ( جن کی سفارش پر یہ بطور ڈرائیور بھرتی ہوئے تھے ) ساری عمر جماعت احمدیہ کے ہسپتال میں بطور ڈرائیور کام کرتے رہے لیکن اس کے باوجود احمدیت کے نور سے محروم رہے اور ساری عمر دینی اور دنیا وی برکات سے محروم رہے.ان کی اولا دبھی کسی مقام پر نہ پہنچ سکی.اس کے مقابل پر خدا تعالیٰ نے جو مقام، عزت اور احترام مکرم عثمان صاحب کو دیا وہ واقعی ایک معجزہ اور احمدیت کی صداقت کا ایک درخشندہ ثبوت ہے.مکرم منصور احمد مبشر صاحب مبلغ سلسلہ کے پاس کام کرنے والی ایک عیسائی لڑکی تھی جس کا نام مریم تھا جو بہت نیک بچی تھی.اس نے مکرمہ باجی بشری حنیف صاحبہ اہلیہ مکرم مولانا داؤ داحمد حنیف صاحب کے ذریعہ بیعت کی سعادت پائی.فجزاها اللہ تعالی.بعد ازاں ان کی کاوش سے ہی مریم کی شادی مکرم عثمان دا بو صاحب کے ساتھ ہوگئی جو بفضل ایزدی بہت کامیاب بیوی ثابت ہوئی.اللہ تعالی نے انہیں بڑی اچھی اور نیک اولاد سے نوازا ہے.بچے اچھی تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں.اب جلد جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہواور ہمیشہ جادہ احمدیت پر قدم مارنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.مکرم برادرم ما لک گئی صاحب 2011ء میں خاکسار سینیگال کے دورہ پر گیا ہوا تھا تو میرے ایک نہایت ہی پیارے عزیز نے مجھے کہا کہ میں نے ڈاکار میں ایک نئے مکان کی تعمیر شروع کی ہے.اس کے لئے دعا کریں.یادر ہے کہ ڈاکار افریقہ کے مہنگے ترین شہروں میں سے ہے.وہاں پر ایک اچھے علاقہ میں مکان تعمیر کرنا ہر آدمی کے بس کی بات نہیں.بہر حال یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں قربانی کرنے والوں کی تائید و نصرت کا وعدہ کے پورا ہونے پر اور زیادہ خوشی ہوئی.تعارف سینیگال میں جماعت کے ایک لوکل معلم مکرم احمد گئی صاحب ہیں جو سینیگال کے ایک شہر کو لخ کے رہنے والے ہیں.1998ء کی بات ہے کہ انہوں نے اپنے ایک برادر اصغر مالک گئی صاحب کو 147
ارض بلال- میری یادیں ) میرے پاس ڈا کار میں بھجوایا تا کہ ان کے لئے کسی چھوٹی موٹی ملازمت کا انتظام کر دوں.اس وقت اس نوجوان کی عمر بیس سال کے لگ بھگ تھی.میں نے اسے مشن ہاؤس میں بطور خادم رکھ لیا.اس دوران میں نے محسوس کیا کہ یہ نوجوان نہایت ایمان دار اور بہت مخلص ہونے کے ساتھ بہت محنتی اور ذہین بھی ہے.سفر ہے شرط میں نے اسے ایک روز سمجھایا کہ دیکھو تم مشن میں خادم کا کام چھوڑ کر اپنی عمر اور تعلیم کے مطابق کام تلاش کرو تو تمہارے لئے بہت بہتر ہوگا.کیونکہ یہ کام تو کوئی معمولی پڑھا لکھ اور بوڑھا آدمی بھی کر سکتا ہے.اس لئے میں نہیں چاہتا کہ تم ساری عمر اس جگہ بیٹھ کر اپنی استعدادوں کو ضائع کرو.اس کو میں نے کافی سمجھایا لیکن اسے ایک خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں سے جا کر کہیں اور کام نہ ملے کیونکہ میرے پاس تو اسے کھانے کے ساتھ رہائش کی بھی سہولت میسر تھی جو بڑے شہروں میں بڑی نعمت ہوتی ہے.میں نے اسے کہا کہ تم جا کر کہیں بھی کام تلاش کرو.لیکن اس دوران تمہارے قیام وطعام کا انتظام میرے پاس رہے گا، تم اس کی فکر نہ کرو.خیر اس نوجوان نے کچھ چھوٹا موٹا سامان خریدا اور مختلف گلیوں اور بازاروں میں چکر لگا کر اسے بیچنا شروع کر دیا.اب اس نے محسوس کیا کہ میرا یہ کام پہلے کام سے تو بہت بہتر ہے.آزادی بھی ہے، مختلف لوگوں سے تعلقات اور دوستی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور پھر شہر کی گلیوں کو چوں سے بھی آشنائی شروع ہوگئی ہے.پھر کام سے فراغت کے بعد مشن ہاؤس میں آکر ہمارے ساتھ نمازیں ادا کرتا اور اگر کوئی جماعتی خدمت ہوتی تو وہ بھی بخوشی سرانجام دے دیتا.وصیت کی تحریک میں نے اسے ایک روز سمجھایا کہ برخوردار اگر تم اپنے مالی حالات میں کشائش چاہتے ہو تو پھر اللہ میاں کے ساتھ سودا کرو.کہنے لگا وہ کیسے؟ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر تم اس کے راستہ 148
ارض بلال.میری یادیں میں ایک دو گے وہ تمہیں دس سے نوازے گا اور اس کے لیے بہترین طریق یہ ہے کہ تم وصیت کر لو.اس نوجوان نے اسی روز وصیت کر لی اور پھر بڑی ایمان داری اور اخلاص کے ساتھ اپنی آمد کا دسواں حصہ جو کہ بظاہر بہت ہی معمولی رقم یعنی محض 500 فرانک تھی اس نے ادا کرنا شروع کر دیا.لیکن خدا تعالیٰ مال کی ظاہری قدر و قیمت تو نہیں دیکھتا وہ تو محض نیتوں کو دیکھتا ہے.خدائی وعدہ کے ثمرات کا آغاز چند ماہ کے بعد اس کا ایک دوست جو ایک پریس میں سیکورٹی کا کام کرتا تھا، اسے رخصت پر جانا پڑا.اس کی عدم موجودگی میں اس نوجوان کو عارضی ملازمت مل گئی.اب اس کی تنخواہ پہلے سے ڈبل ہوگئی.اسلئے اس نوجوان نے اسی حساب سے چندہ بھی ڈبل کر دیا.اس دوران اس پریس کے مالک نے اس نوجوان کے اعلیٰ اخلاق اور ایمانداری اور تعلیمی قابلیت سے متاثر ہوکر اپنے پاس پریس میں ایک اچھے کام پر رکھ لیا.اب اس کی تنخواہ مزید بڑھ گئی.اس لئے اس نے پہلے چندہ کے مقابل پر پانچ گنا زیادہ چندہ ادا کرنا شروع کر دیا.ان دنوں میرے ایک غیر احمدی دوست ایک بنک کے مدارالمہام تھے.ایک دن میں نے ان سے اس نوجوان کے بارے میں بات کی کہ اس کو اپنے بنک میں ملازمت دلوادیں.انہوں نے اگلے دن ہی اس کو اپنے بنک میں حاضر ہونے کے لئے کہا.جب یہ نو جوان حاضر ہوا.مختصر سے انٹرویو کے بعد اسے بنک میں ملازم رکھ لیا.وہاں اس نوجوان نے بڑی محنت اور اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیئے اور بنک کی مدد سے بنگ سے متعلقہ بعض کو رسز بھی کر لئے.آپ تصور کریں کہ اس نوجوان نے وصیت کے بعد 500 فرانک چندہ دینا شروع کیا تھا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ماہانہ 80000 فرانک چندہ وصیت ادا کرنے کی توفیق پارہا ہے.اللھم زد فزد.اور بہت سے اور بھائیوں کے لئے خدائی وعدوں پر ایمان لانے کا سبب بھی ہے.اور جماعت احمد یہ سینیگال میں مرکزی سیکرٹری مال کے طور پر خدمت کی توفیق بھی پارہا ہے.☑☑ 149
ارض بلال.میری یادیں.باب دہم..] ينصرك رجال نوحى اليهم من السماء چند دلچسپ خوا ہیں حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کی سینیگال کے بارے میں ایک رؤیا مبارکہ وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار سینیگال میں ہر دو سال بعد ایک عالمی تجارتی میلہ لگتا ہے جس میں دنیا بھر کے تاجر اپنے اپنے ملک کی مصنوعات کا تعارف کراتے ہیں.اس میلہ میں لاکھوں افراد مختلف قوموں رنگوں اور نسلوں کے شریک ہوتے ہیں.جماعت احمدیہ کو 1985 ء سے ان تجارتی میلوں میں شرکت کی سعادت نصیب ہو رہی ہے اور پورے میلہ میں صرف جماعت احمدیہ کا سٹال ہی اسلام کے نام پر ہوتا ہے.باقی کسی فرقہ یا جماعت کو اس سعادت سے حصہ نہیں مل سکا.1993ء کی بات ہے، مکرم امیر صاحب نے فرمایا کہ تجارتی میلہ میں شرکت کی تیاری کروں کیونکہ شروع سے آج تک خاکسار کو ہی ان نمائشوں میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ہے.الحمد للہ.ابھی تیاری کے ابتدائی مراحل میں تھے کہ حضور انور کی طرف سے ایک خط بذریعہ مکرم ہادی علی چوہدری صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن موصول ہوا جس میں حضور انور کے Dakar کے بارے میں رؤیا کا ذکر تھا.اس رویا میں حضور انور کی زبان مبارک پر ڈاکار، ڈاکار، ڈاکار کے الفاظ جاری ہوئے تھے.150
ارض بلال.میری یادیں ہم تجارتی میلہ میں شرکت کے لیے ڈاکار پہنچے.میرے ساتھ مکرم داؤد باہ صاحب اور ابراہیم درامی صاحب اور ایک ڈرائیور تھے جن کا نام بھول گیا ہوں.یہ سٹال دکان نما ہوتے ہیں اور ان کے سامنے اپنے اپنے اداروں کے ناموں کی پلیٹس لگ جاتی ہیں.ہم نے بھی احمد یہ مسلم مشن کی تختی لگا دی.بیرونی ممالک کےاحمدی زائرین ابھی ایک دن ہی گزرا تھا کہ ایک دوست جن کا نام سعید ہو درج تھا، وہاں تشریف لائے اور بتایا کہ میں احمدی ہوں اور سیرالیون کے تجارتی وفد کا سر براہ ہوں.میں ایک احمدی بھائی کو مل کر بہت خوش ہوا اور ان کو اندر آنے کی دعوت دی.وہ اندر تشریف لے آئے.کچھ دیر بعد فرمانے لگے کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضور انور نے ڈاکار کے بارے میں خواب دیکھا ہے.میں نے اثبات میں سر ہلایا مگر انہوں نے مزید بتایا کہ حضور انور نے اپنا خواب سیرالیون کے امیر صاحب کو بھی تحریر فرمایا ہے.سبحان اللہ حضور کو کس قدر اپنی خواب کے من جانب اللہ ہونے پر یقین تھا، کس قدر خدا تعالیٰ کے ساتھ آپ کا پیارا خلاص اور توکل کا رشتہ تھا جس کی مثال عام دنیا کا انسان سوچ بھی نہیں سکتا.بنین سے احمدی دوست کی آمد ایک اور دوست سٹال پر تشریف لائے اور بتایا کہ الحمد للہ میں بھی احمدی ہوں اور بینن سے آیا ہوں.ڈاکار یونیورسٹی میں بعض امتحانات کے سلسلہ میں ادھر ہوں.ان سے ملاقات بھی بہت خوشی کا باعث بنی.ایک اور و دست تشریف لائے اور بتایا میں مالی سے آیا ہوں اور ادھر کے مبلغ مکرم معاذ قر بالی صاحب میرے کزن ہیں اور میں بھی بفضلہ تعالیٰ احمدی ہوں.ہماری کتب کی فروخت بھی گزشتہ سالوں کی نسبت بہت زیادہ ہوئی اور ہزاروں لوگوں تک پیغام حق پہنچانے کی توفیق بھی ملی.یہ سارے اتفاقات عجیب تھے.پہلے اس طرح کی باتیں ظہور پذیر کبھی نہ ہوئی تھیں.یہ حضور انور کی خواب کے اثرات تھے جو ظاہر ہونے شروع ہو گئے تھے.151
احمدی سفیر کی آمد.میری یادیں اسی میلہ کے دوران میں پاکستانی ایمبسی میں گیا تو وہاں سے معلوم ہوا کہ اب اس مشن میں ایک احمدی سفیر تشریف لا رہے ہیں.کچھ عرصہ بعد وہ احمدی سفیر تشریف لے آئے.ماشاء اللہ بہت مخلص اور دعوت الی اللہ کا شوق رکھنے والے تھے.انہوں نے بتایا کہ ان کی تقرری ایک عرب ملک میں بطور سفیر ہوئی تھی مگر ایک سیاسی مولوی نے وزیر اعظم کو بتایا کہ یہ قادیانی ہیں اور مسلم ملک میں ان کا بطور سفیر جانا مناسب نہیں ہے اور ان کی جگہ اپنے ایک عزیز کا نام تجویز کر دیا جو منظور ہو گیا.اس طرح اس احمدی دوست کی تقرری سینیگال میں ہو گئی جس کے باعث آپ کی طبیعت میں انقباض پیدا ہوا کہ میرا حق مارا گیا ہے کیونکہ دوسرے ملک میں عام دنیاوی سہولتوں کے علاوہ مالی منفعت بھی زیادہ تھی.اس پر انہوں نے ساری بات حضور انور کی خدمت میں بغرض دعا وراہنمائی تحریر کی.اس پر حضور نے فرمایا آپ فوراً تشریف لے جائیں.یہ تو خدا تعالیٰ میری خواب پوری کر رہا ہے.حضور انور کی رؤیا مبارکہ کے نتیجہ میں ایک عظیم الشان انقلاب رونما ہوا ہے.مندرجہ بالا واقعات صرف ان کی ابتدائی کڑی ہیں.ایک عجیب خواب جو بڑے شان سے پورا ہوا سینیگال کی زمین لمبا عرصہ تک نہایت سنگلاخ رہی ہے.بہت سی تبلیغی مساعی کی گئیں مگر بے سود.کہیں کہیں کوئی پھل مل جاتا تھا.ایک دفعہ ایک گاؤں Sare Mari جو نیورو کے علاقہ میں تھا وہاں کے نمبر دار جن کا نام کا با جالو تھا، انہوں نے بیعت کر لی.یہ بات میرے لئے بہت خوشی کا باعث تھی اور میں نے بے شمار لوگوں کو بڑے فخر سے بتایا کہ اب سینی گال میں ایک نمبر دار بھی احمدی ہو گئے ہیں.اس واقعہ سے اس زمانہ میں تبلیغ اور اس کے نتائج کی تصویر نمایاں طور پر سامنے آجاتی ہے کہ کس طرح کم اور معمولی نتائج تھے.ایک روز سینگال جماعت کے ایک معلم مکرم احمد لی صاحب گیمبیا میں میری رہائش گاہ فرافینی میں تشریف لائے اور انہوں نے باتوں باتوں میں اپنا ایک خواب 152
بیان کیا.وہ خواب کچھ یوں ہے: ارض بلال.میری یادیں سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار میں سینیگال کی نیشنل اسمبلی کی عمارت ہے.اس عمارت کے اندر ایک اجلاس ہو رہا ہے.ہال معززین سے بھرا ہوا ہے.اجلاس کی صدارت کو لخ شہر کے ایک احمدی نوجوان جن کا نام عبداللہ صاحب ہے ، وہ کر رہے ہیں.“ میں نے ان کی خواب سنی کہا کہ احمد لی تم کیسی باتیں کر رہے ہو.ابھی تو جدھر بھی تبلیغ کے لئے جاتے ہیں کوئی عام آدمی بھی ہماری بات سننے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور تم ممبرز آف پارلیمنٹ کی بات کر رہے ہو.اب دیکھئے اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کی اس خواب کو پورا کیا.اس واقعہ کے چند سال بعد اللہ کے فضل سے سینیگال کی اسمبلی کے ممبران احمدیت قبول کرنے لگے اور تھوڑے ہی عرصہ میں چالیس سے زائد ممبران اسمبلی نے بیعت کر لی.1.حضور انور کے ارشاد کی تعمیل میں پانچ ممبران اسمبلی 1994ء کے جلسہ سالانہ انگلستان میں شرکت کے لیے گئے.2.اسی سال بارہ ممبران اسمبلی حضرت خلیفہ امسح الرابع " کے ارشاد پر جرمنی کے سالانہ جلسہ پر 2.اسی بھی تشریف لائے.3.خاکسار نے نیشنل اسمبلی کی بلڈنگ میں چودہ ممبران آف پارلیمنٹ کے ساتھ میٹنگ کی.4 پچیس ممبرزا آف پارلیمنٹ کا ایک وفد سینیگال سے گیمبیا آیا اور حضور انور نے اس موقعہ پر جلسہ سالانہ گیمبیا میں بذریعہ ایم ٹی اے برہ راست خطاب فرمایا.کمرہ سے کمرہ بدلنا آسان ہے مگر ایک گھر بدلنا مشکل ہے سینیگال اسمبلی میں ایک بہت معزز عیسائی خاتون تھیں جو ملک کی وزیر صحت بھی رہ چکی تھیں.ان کا جماعت کے ساتھ بہت قریبی تعلق تھا اور دل سے احمدی تھیں.ایک روز مجھے کہنے 153
ارض بلال.میری یادیں ) لگیں کہ ایک گھر میں ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں شفٹ ہونا آسان ہوتا ہے.لیکن ایک گھر سے دوسرے گھر میں ٹرانسفر ہونا خاصا مشکل کام ہوتا ہے.اس لئے ایک مسلمان کا احمدی ہونا آسان ہے لیکن عیسائیت سے اسلام میں جانا بہت زیادہ قربانی مانگتا ہے.اس کے لئے بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے.میں نے حضرت خلیفہ المسیح الرابع " خدمت میں یہ بات عرض کی.حضور بڑے محظوظ ہوئے اور ان کی جماعت سے محبت کے جذبہ کوسراہا اور انہیں فرمایا ، سوچ سمجھ کر قدم اٹھا ئیں.جب مولانا منیر الدین شمس صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر گیمبیا کے دورہ پر تشریف لائے تو حضور انور نے اس عیسائی خاتون کو اس کی احمدیت سے محبت کی بنا پر خصوصی سلام بجھوایا.اس ارشاد کی تعمیل میں گنی بساؤ سے واپس گیمبیا آتے ہوئے رستہ میں ان کے شہر ز گنٹور میں بھی گئے اور حضور انور کا سلام پہنچایا.حضور انور کی قدر دانی پر بہت خوش ہو ئیں اور حضور انور کے لئے اپنے نیک جذبات کا اظہار کیا.نیشنل اسمبلی سینیگال کے ہال میں خطاب اور امامت مکرم احمد لی صاحب نے ایک دفعہ خواب دیکھا تھا کہ عبداللہ صاحب نیشنل اسمبلی کے ہال میں ممبران اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں.ایک دفعہ مرکزی نمائندہ مکرم مولانا منیر الدین شمس صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر کا سینیگال آمد پر احمدی ممبران اسمبلی کے ساتھ انہوں نے اسمبلی ہال میں خطاب کیا اور نماز ظہر و عصر بھی پڑھائی.اس طرح استاذ احمد لی صاحب کا خواب حرف بحرف پورا ہو گیا.اس موقع پر نیشنل اسمبلی کی عمارت میں بائیس سے زائد احمدی ممبران اسمبلی ہال میں حاضر تھے.آنر ایبل مختار نڈاؤ کی خواب جو حرف بحرف پوری ہوئی اسمبلی سینیگال کے ایک ممتاز ممبر آنر ایبل احمد مختار نڈا و صاحب جو عرصہ 15 سال سے ممبر 154
ارض بلال- میری یادیں ) چلے آرہے ہیں.انہوں نے ایک خواب دیکھا تھا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے: جرمنی میں جماعت کے جلسہ سالانہ 1995ء میں شمولیت کے لئے ممبرز آف پارلیمنٹ کا ایک وفد تشکیل دیا گیا اس سلسلہ میں مکرم احمد مختار صاحب سے رابطہ قائم کیا گیا، وہ تیار ہو گئے.اسی دوران انہوں نے بتایا کہ گزشتہ رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے کہ میں ایک نہایت ہی نورانی چہرہ والے بزرگ وجود کے سامنے بیٹھا ہوا ہوں اور وہ میرے لئے دعا کر رہے ہیں اور وہ بزرگ افریقن نہیں ہیں اور نہ ہی زندگی میں کبھی ان سے ملاقات ہوئی ہے اور انہوں نے مجھ سے کوئی بات بھی کی ہے اور یہ خواب انہوں نے کونخ سے ڈا کار جاتے ہوئے دوران سفرا اپنی کار میں اپنے ڈرائیور اور اپنی بیٹی کو بھی سنائی.چنانچہ اسی روز ان کو جلسہ میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی.جب یہ وفد سینیگال سے جرمنی پہنچا.اس وقت حضور انور من ہائم میں جلسہ کی تیاری کا معائنہ کرنے کے سلسلہ میں تشریف لائے ہوئے تھے.ہمارا وفد سیدھا جلسہ گاہ میں لے جایا گیا.جب حضور انور کو وفد کی آمد کی اطلاع ملی تو حضور انور ادھر تشریف لائے اور جملہ ممبرز حضرات کو شرف مصافحہ بخشا.جب حضور انور نے مکرم احمد مختار نڈاؤ صاحب سے مصافحہ کیا تو ان کے منہ سے بے اختیار یہ جملہ نکلا کہ یہ تو وہی بزرگ ہیں جو میں نے خواب میں دیکھے تھے.ایک اور اتفاق دیکھئے.جب عالمی بیعت ہو رہی تھی تو مکرم احمد مختارنڈ ا ؤ صاحب کو بالکل حضور انور کے قدموں میں جگہ ملی.بعد از دعا حضور نے خاکسار سے دریافت فرمایا کہ یہ دوست کون ہیں.سوائے ان کے کسی اور ممبر کے بارے میں حضور نے اس وقت استفسار نہیں فرمایا.خواب کے ذریعہ عرفان صداقت خاکسار کی رہائش اب لندن میں ہے.اس لئے سینیگالی احباب جماعت سے کبھی کبھار رابطہ ہو جاتا ہے.گذشتہ دنوں مجھے ایک نوجوان کا سینیگال سے فون آیا.اس نے بتایا کہ میں واگان فائی بول رہا ہوں.اس پر انہوں نے میری بیمار پرسی کی.فجزاہ اللہ.نیز انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالی نے 155
ارض بلال.میری یادیں اس کو بیٹے سے نوازا ہے جس کا نام اس نے حضرت خلیفہ اول کے نام نامی پر نورالدین رکھا ہے.ان کے فون کی آمد سے ان کا ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا جو پیش خدمت ہے: سینیگال کے ایک گاؤں ڈوڈام کے اس نوجوان واگان فائی کو ایک احمدی معلم صاحب کے ذریعہ پیغام حق ملاجس پر انہوں نے بیعت کر لی.اور پھر جب کبھی یہ صاحب ڈا کار آتے تو مشن میں ضرور تشریف لاتے.پھر اچانک ان سے رابطہ منقطع ہو گیا اور کافی عرصہ تک ان سے ملاقات نہ ہوسکی.ایک بار ڈا کار میں نو مبائعین کی تربیتی کلاس ہو رہی تھی ، اس میں تشریف لائے.میں نے ان سے تاخیر کا سبب پوچھا.اس کے جواب میں انہوں نے سب حاضرین کو یہ واقعہ حلفاً بتایا کہ جب ایک احمدی معلم صاحب نے ہمیں بتایا کہ جس مہدی کی آمد کا ہم سب انتظار کر رہے ہیں وہ تو آچکے ہیں.اس پر کچھ بنیادی سوال و جواب کے بعد میں نے بیعت کر لی لیکن بعد میں میں نے سوچا کہ ڈا کار میں بھی تو ایک آدمی نے مہدی ہونے کا دعوی کیا ہوا ہے اور اس کے ماننے والی ایک جماعت بھی ہے.اب میرے پاس کیا ثبوت ہے کہ ان دونوں مدعیان میں سے اپنے دعوی میں کون صادق ہے.اس طرح میرے دل میں عجیب کشمکش جاری تھی.اس کیفیت میں کافی عرصہ گزر گیا.جس میں میں بہت پریشان رہا.کوئی بھی فیصلہ کسی ٹھوس اور بین ثبوت کے بغیر میرے لئے ممکن نہ تھا.اس دوران میں اللہ تعالی سے رہنمائی کا طالب رہا.پھر پچھلے دنوں میں نے ایک خواب دیکھا کہ جس میں بڑی وضاحت سے مجھے بتایا گیا کہ حضرت مرا غلام احمد علیہ السلام ہی مہدی صادق ہیں.اس لئے میں آج مشن میں حاضر ہوا ہوں.اب انشاء اللہ یہ تعلق کبھی بھی ختم نہ ہوگا.بسم اللہ کے مقام پر احمدیت کا پودا سینیگال کے علاقہ Fatic میں تبلیغی مہمات کا آغاز کیا گیا.اس علاقہ میں پہلے کوئی احمدی نہ تھے.آٹھ معلمین کو اس علاقہ میں ایک مقام بسم اللہ پر اتر کر دو دو کے وفود کی صورت میں مشرق ، مغرب، شمال اور جنوب کی طرف تبلیغ کی غرض سے جانے کو کہا گیا.میں ان دنوں کچھ علیل تھا اس لئے ان کے ساتھ نہ جاسکا.لیکن معلمین کو بتایا کہ چار روز بعد اسی بسم اللہ کے مقام پر ملاقات ہوگی 156
ارض بلال- میری یادیں ) اور پھر حالات کا جائزہ لے کر آئندہ کا پروگرام دیکھیں گے.اس زمانہ میں سینیگال میں جماعت کی گاڑی نہ تھی.میں بذریعہ بس مذکورہ سٹاپ پر اترا تو جملہ معلمین ایک اور دوست کے ہمراہ میری طرف آئے ، اور وہ نئے دوست مجھے بڑے احترام سے ملے اور مجھے اپنے گھر میں لے گئے.انہوں نے میری بڑی اچھی مہمان نوازی کی.میں نے جب ان سے بات چیت کی تو انہوں نے بتایا کہ ان کا نام ابراہیم ہے اور یہ بھی بتایا کہ کچھ روز قبل میں نے سفر کا پروگرام بنایا کہ کل صبح ڈاکار جاؤں گا.رات کو خواب میں دیکھتا ہوں کہ کچھ خاص مہمان میرے گھر آ رہے ہیں.صبح میں نے اپنی بیوی کو خواب سنایا اور سفر کا پروگرام ملتوی کر دیا.ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ معلمین بس سے اتر کر سید ھے اس کے گھر کی طرف آگئے کیونکہ اس کا گھر سڑک کے کنارے پر تھا اس طرح خدا کے فضل سے معلمین نے اپنا پیغام اس کو پہنچایا.وہ خود بھی احمدی ہو گیا اور پھر اس علاقہ میں احمدیت کو پھیلانے کا اس کے ذریعہ ایک نیا راستہ کھل گیا.صوبیم میں احمدیت کا پودا بسم اللہ کے علاقہ میں تبلیغی مہم کے دوران جماعت کے معلمین مکرم داؤد باہ اور عمر جالو ایک قریبی گاؤں Sobem میں علی الصبح تبلیغ کی غرض سے گئے.جو نہی گاؤں کے نمبر دار کے گھر میں داخل ہوئے اور اپنا تعارف کرایا کہ ہم احمدی مبلغ ہیں اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کا پیغام لے کر آپ کے پاس حاضر ہوئے ہیں.نمبر دار صاحب نے کہا، میں تو آپ کا ہی انتظار کر رہا تھا اور بتایا کہ آج صبح کی نماز کے بعد میں مسجد میں لیٹ گیا اور میں نے خواب دیکھا کہ دو آدمی خدا تعالیٰ کا پیغام لے کر میرے گھر آرہے ہیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور اب آپ آگئے ہیں.اس لئے یہ خواب سچا ہے اور آپ کا پیغام بھی سچا ہے اسی لئے میں احمدیت کا پیغام قبول کرتا ہوں.ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ بھی جماعت میں داخل ہو گئے.1988 ء میں اللہ تعالی کے فضل سے گیمبیا مشن کی طرف سے پہلی بار جلسہ سالانہ انگلستان میں مجھے بطورنمائندہ شرکت کی سعادت ملی.جلسہ کے بعد حضور انور کی اجازت سے پہلی بار اپنے والدین 157
ارض بلال.میری یادیں ) کو ملنے کے لئے پاکستان چلا گیا.میں 1983ء میں پہلی بار گیمبیا میں اکیلے آیا تھا.اس کے بعد فیملی 1987ء میں میرے پاس پہنچی تھی.پاکستان سے جب واپس لندن آیا تو میرے ایک پرانے دوست مکرم چوہدری رشید احمد صاحب ہیں جن سے بڑا پیار کا تعلق ہے پاکستان میں ان کا تعلق کھاریاں شہر سے ہے.اب انگلستان کی شہر بہائی ویکم میں رہتے ہیں.جب انہیں میری ادھر آمد کا علم ہوا تو میرے پاس مسجد فضل میں تشریف لائے اور مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے.پھر ادھر ہی میں نے رات بسر کی.ایک غیر مسلم کا خواب سچا ہو گیا سینیگال کے علاقہ کو سانار میں ایک دفعہ ہم نے ایک رات مکرم بامبوجوب صاحب کے گھر میں گزاری.انہوں نے مجھے بتایا کہ یہاں سے قریب ہی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے.وہاں پر میرے ماموں رہتے ہیں جن کا نام سامبا باہ ہے اور وہ گاؤں کے نمبر دار ہیں اور لا مذہب ہیں.اگر ہم ان کے پاس جائیں اور انہیں احمدیت کا تعارف کرائیں تو شاید وہ احمدی ہوجائیں.اس پر مکرم بامبو جوب صاحب، استاذ احمد علی صاحب اور خاکسار اس گاؤں میں چلے گئے.صبح کا وقت تھا، مکرم سامبا باہ صاحب کے گھر پہنچے.بامبو صاحب نے انہیں ہمارے بارے میں بتایا.پھر جماعت کے بارے میں حسب علم تعارف کرایا.اس کے بعد میں نے کچھ باتیں کیں.اس پر سامبانمبر دار کہنے لگا کہ میں تو آپ لوگوں کا بڑے عرصہ سے انتظار کر رہا تھا.ہم بڑے حیران ہوئے کہ یہ ہمیں جانتا تک نہیں تو پھر یہ ہمارا کیوں انتظار کر رہا ہے.اس پر اس نے بتایا کہ میرے پاس بہت سے لوگ آتے رہے ہیں اور مجھے کہتے رہے ہیں کہ میں مسلمان ہو جاؤں لیکن میں نے ایک بارخواب دیکھا تھا کہ میں ایک غیر افریقی کے ذریعہ مسلمان ہوں گا.اس پر اس نے بیعت کر لی اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا.158
قبولیت دعا ارض بلال.میری یادیں.....باب یازده.....قبولیت دعا کے چند ایمان افروز واقعات الدعاء مخ العبادة دُعا عبادت کا مغز ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ اللَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: 187) اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں.میں دُعا کرنے والے کی دُعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہیئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں.اللہ تعالیٰ کا اپنے عباد الصالحین سے وعدہ ہے کہ وہ ان کی عاجزانہ دعاؤں اور تضرعات کو شرف قبولیت بخشتا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کے گھروں میں آئے دن یہ معجزات جنم لیتے ہیں جو ان کے ایمان اور پائے ثبات میں استحکام کا باعث بنتے ہیں.اس سلسلہ میں چند ایمان افروز قبولیت دُعا کے واقعات پیش خدمت ہیں : حضور انور کی دُعا سے گورنر بن گئے سینیگال جماعت کے ایک مخلص دوست، سابقہ ممبر آف پارلیمنٹ اور آج کل بفضلہ تعالیٰ پوری ریجن Tamba Kunda کے پریذیڈنٹ ہیں.یہ عہدہ گورنر کے برابر ہوتا ہے.159
ارض بلال- میری یادیں ) 1999ء کی بات ہے، اس وقت یہ ممبر آف پارلیمنٹ تھے.اس دوران ان کی ایک وزیر سے کچھ چپقلش ہو گئی جس پر صدر مملکت نے ان کو اگلے انتخاب میں پارٹی کی طرف سے امیدوار کا ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا.انہوں نے بڑی کوشش کی ، ہر قسم کے تعلقات استعمال کیے مگر بے سود! اس طرح ہر طرف سے مایوس ہو گئے.انہی دنوں خاکسار نے ان کو جماعت میں مالی قربانی کی اہمیت کے بارے میں تفصیل سے بتا یا.اس پر کہنے لگے میں ہر ماہ 25 پونڈ چندہ ادا کیا کروں گا.میں نے کہا سوچ لیں یہ کوئی جذباتی تحریک نہیں بلکہ یہ رقم با قاعدگی سے ادا کرنا ہوگی.کہنے لگے، میں نے فیصلہ کر لیا ہے.انشاء اللہ با قاعدگی سے ادا ئیگی کروں گا.اگلے ماہ اپنے علاقہ سے ڈاکار تشریف لائے اور مجھے فون کیا اور مجھے کہنے لگے کہ میں انہیں ان کے ہوٹل میں جا کر ملوں کیونکہ ان کی گاڑی خراب ہے.میں ان کے پاس گیا.انہوں نے اپنا Briefcase کھولا اور پورے سال کے چندہ کی ساری رقم ادا کر دی.میں ان کی یہ قربانی اور اخلاص دیکھ کر بہت حیران ہوا اور بہت خوش بھی ہوا کیونکہ اس وقت تک کسی بھی سینی گالی احدی نے اسقدر مالی قربانی نہ کی تھی.اسی وقت میں نے بذریعہ Fax حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں حضور کو بتایا کہ یہ دوست آجکل اپنے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں.ان کی پارٹی ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی.ان حالات کے باوجود انہوں نے بہت بڑی مالی قربانی کی ہے.اگلے ہفتے حضور انور کا جواب ملا جس میں آپ نے فرمایا کہ میں نے ان کے لئے بہت دعا کی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو پہلے سے اعلیٰ مقام سے نوازے گا.تقریباً دو ہفتے بعد ان کا مجھے فون آیا اور بتانے لگے کہ مجھے صدر مملکت نے اپنا خصوصی مشیر مقرر کر لیا ہے جس میں ممبر آف پارلیمنٹ سے زیادہ مراعات اور زیادہ وقار بھی ہے.اس طرح خدا تعالیٰ نے حضور انور کی دعا لفظ بلفظ پوری فرمائی.160
ارض بلال.میری یادیں نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے میرے فلسفیو! زور دعا دیکھو تو پیارے آقا حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خداداد دور بین نگاہ ملاحظہ فرمائیں : 2008ء میں جلسہ سالانہ یوکے کے مبارک موقعہ پر سینیگال سے شرکت کی سعادت ملی.ان دنوں میرے والد محترم پاکستان میں بہت علیل تھے.میں نے جلسہ کے بعد حضور انور کی خدمت اقدس میں پاکستان جانے کے لئے اجازت کی درخواست کی.پیارے آقا نے از راہ شفقت خاکسار کی رخصت کی درخواست منظور فرمالی اور پاکستان جانے کی اجازت مل گئی.الحمد للہ علی ذالك.حسب پروگرام خاکسار پاکستان روانہ ہو گیا.پھر اپنی رخصت کے ایام گزار کر واپس لندن آگیا.اب میں نے حسب پروگرام اپنے مستقر سینیگال جانا تھا اور لندن سے میری روانگی 24 اکتوبر کو تھی.میں 22 اکتوبر کو اپنی فیملی کے ہمراہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار سے آئندہ کے پروگرام کے بارے میں استفسار فرمایا.عاجز نے عرض کیا کہ حضور پرسوں 24 اکتوبر کو انشاء اللہ سینیگال کے لئے روانگی کا پروگرام ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ابھی کچھ اور رک جائیں.میں نے عرض کی کہ حضور کافی مہینوں سے سینیگال نہیں جاسکا اس لئے اب جلد مشن میں واپس جانا چاہتا ہوں.اس پر آپ نے فرمایا: ” چلیں ٹھیک ہے.چلے جائیں مگر کام قدرے آرام سے کرنا.“ خیر حضور انور سے اجازت لی اور اُٹھا اور درازے کی جانب چل پڑا.ابھی دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آواز دی اور فرمایا: 161
ارض بلال.میری یادیں خورشید صاحب کیا میں نے آپ کو ” الیس اللہ “ کی انگوٹھی دی ہے؟ میں نے عرض کی حضور انور کے بندے پر بے حد احسانات اور عنایات ہیں لیکن ابھی تک انگوٹھی نہیں ملی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے واپس اپنے پاس بلایا اور اپنے میز کی دراز سے ایک انگوٹھی نکالی، اس پر دست مبارک پھیرا اور مجھے پہنا دی.اس کے بعد میری اہلیہ کو بھی فرمایا آپ بھی ادھر آئیں آپ بھی مربی کی بیوی ہیں اور پھر انہیں بھی ایک انگوٹھی عنایت فرمائی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس لطف و کرم کے بعد ہم شاداں و فرحاں اپنے گھر آگئے.اب ایک دن کے بعد میری فلائٹ تھی.میں نے زیادہ تر سفر کی تیاری کر رکھی تھی.سفر میں تو آخر دم تک تیاری ہوتی رہتی ہے.اب بقیہ تیاری میں لگ گئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے بعد تین دن بعد گھر سے سینیگال کے لیے روانگی کا پروگرام تھا.اتفاق سے عین اسی روز صبح نو بجے کے قریب میرے بائیں باز و اور بائیں کندھے کی پچھلی جانب نیچے کی طرف درد شروع ہو گیا جس میں ہر گھڑی اضافہ ہی ہوتا چلا گیا.میں نے لندن میں دفتر تبشیر میں فون کر کے اپنی اس صورت حال کے بارے میں بتایا.مکرم عبدالماجد صاحب طاہر صاحب نے کہا فوری طور پر ایمبولینس کو بلائیں اور اسپتال پہنچیں.اسی وقت میرے اہل خانہ نے ایمبولینس کو فون کیا.ابھی فون بند نہیں کیا تھا کہ ایمبولینس ہمارے دروازے پر موجود تھی.اللہ تعالیٰ اس گورنمنٹ کو جزائے خیر دے جس نے اپنے باشندوں کے لئے اسقدر فراخ دلی کے ساتھ ہر ممکن آسائش مہیا کر رکھی ہے.میرے گھر پر ہی اس ٹیم نے ابتدائی چیک اپ کیا.ابتدائی طبی امداد دی اور بعد ازاں قریبی اسپتال میں لے گئے.وہاں جا کر جب تفصیلی معائنہ کیا گیا، تو معلوم ہوا کہ یہ تو دل کا شدید حملہ تھا، تین نالیاں بند تھیں.آپ تصور کریں ! میں نے لندن سے پرتگال کے شہر لز بن جانا تھا اور ادھر چند گھنٹے قیام کے بعد سینیگال کے دارلحکومت ڈا کار تک کا سفر کرنا تھا.اگر میں سفر پر چلا جاتا اور دوران سفر تکلیف ہو جاتی تو پھر کیا ہونا تھا! یہ ایک ایسا نا قابل فراموش واقعہ ہے جس کے میرے دل و دماغ پر گہرے نقوش ہیں اور ہر سننے والا ہمارے پیارے آقا کے تعلق باللہ، الہی تائیدات اور خدائی راہنمائی کا گواہ بن جاتا 162
ارض بلال.میری یادیں ہے کیونکہ ایسے معلوم ہوتا جیسے حضرت اقدس امیر المؤمنین کو میرے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا بکلی ادراک ہو چکا تھا اور آپ بار بار مجھ نالائق کو اس حادثہ سے بچانے کے لئے اس سفر سے روک رہے تھے اور میں اپنی جہالت سے اس نکتہ کو سمجھ نہیں پارہا تھا.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ الیس الله بکاف عبدہ کی انگوٹھی کی حکمت بھی سمجھ آگئی.اللہ تعالیٰ ہمارے محسن اور شفیق آقا پر بے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے.آمین.معت ابله رسہ کشی دو سال قبل جامعہ احمدیہ انگلستان کی سالانہ کھیلیں حدیقہ المہدی میں منعقد ہوئیں.جامعہ احمدیہ کے طلبہ کے مابین مختلف مقابلے ہو رہے تھے.اساتذہ وطلبہ کی یہ خوش نصیبی تھی کہ ہمارے پیارے آقا بھی اس موقع پر بنفس نفیس تشریف فرما تھے اور سب پروگرامز کو بہت دلچسپی سے مشاہدہ فرما کر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی فرمارہے تھے.آخر میں رسہ کشی کا ایک دلچسپ مقابلہ اساتذہ اور جامعہ احمدیہ کے کارکنان کے مابین بھی ہونا تھا جس میں حضور انور کے ارشاد کے تحت جملہ اساتذہ نے شرکت کرنی تھی.میں چونکہ دل کا مریض ہوں.اس دن صبح سے کچھ بے چینی سی محسوس کر رہا تھا.جب رسہ کشی کے مقابلے کا وقت آیا تو دونوں ٹیمیں اپنی اپنی اطراف میں پہنچ گئیں.اس وقت میری عجیب کیفیت تھی.ایک طرف تو طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی.دوسری جانب حضور انور کا ارشاد تھا کہ سب اساتذہ حصہ لیں.اس ارشاد کی اطاعت میں رسہ کے قریب پہنچ گیا اور اپنے سامنے والے رسہ کے حصہ کو پکڑ لیا.اب مقابلہ شروع ہونے ہی والا تھا کہ اتنے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس خاکسار کے پاس تشریف لائے اور مجھے ارشاد فرمایا، آپ رسہ کشی میں حصہ نہ لیں اور باہر آجائیں.اب میرا خدا ہی جانتا ہے کہ آپ کو کس طرح میری قلبی کیفیت کا ادراک ہوا.ظاہر ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ہی عطا ہے.میں نے تعمیل ارشاد کی اور باہر آکر زائرین میں کھڑا ہو گیا.اس مقابلہ میں جامعہ کے کارکنان کو 163
ارض بلال.میری یادیں برتری حاصل ہوئی.اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار سے از راہ تفن فرمایا: " کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ ٹیم میں شامل ہوتے تو آپ کی ٹیم جیت جاتی !“ نصرت خداوندی سے اتوار کی رات ویزے لگ گئے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو ارشاد فرمایا کہ جلسہ سالانہ جرمنی 1995ء کے لئے سینیگال سے ممبرز آف پارلیمنٹ کا ایک وفد لے کر آئیں.یہ ارشاد آپ نے جولائی 1995ء میں جلسہ سالانہ انگلستان کے موقع پر فرمایا.اس وقت جرمنی جلسہ کے لئے صرف ایک ماہ باقی رہ گیا تھا.میں نے فوری تیاری کی اور گیمبیا روانہ ہو گیا.پھر وہاں سے سینیگال جا کر آنرایبل مجیک جینگ صاحب ( جو اس وقت نیشنل اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر تھے ) سے رابطہ قائم کیا.بفضلہ تعالیٰ نیشنل اسمبلی سینیگال کے بارہ ممبران کا ایک وفد تیار ہو گیا.چونکہ یہ سب لوگ قومی اسمبلی کے ممبران تھے.اور ان کے پاس Diplomatic پاسپورٹ تھے.فرانس جانے کے لئے انہیں Visa کی ضرورت نہ تھی.انہوں نے سوچا چونکہ یورپ کے اکثر ممالک کے لئے آج کل ایک ہی Visa کافی ہوتا ہے.اس لئے جرمنی کے ویزہ کی ہمیں ضرورت نہیں ہے.جس ایجنسی سے ایئر ٹکٹ خریدے گئے تھے انہوں نے بھی بتایا کہ ممبرز آف پارلیمنٹ کے پاس چونکہ Diplomatic پاسپورٹ ہیں اس لئے Visa کی چنداں ضرورت نہیں ہے.پروگرام کے مطابق ایئر ٹکٹ خریدے گئے اور ایئر پرتگال کے ذریعہ سے عازم سفر ہوئے.ڈاکار ایئر پورٹ پر دو مختلف اداروں نے پاسپورٹ اور ٹکٹ چیک کئے اور بلا روک ٹوک جہاز میں سوار ہونے کی اجازت مرحمت فرما دی.جب ہمارا طیارہ Lisbon پرتگال کے ایئر پورٹ پر اتر اتو وہاں سے ایک اور جہاز کا ٹکٹ فرینکفرٹ کے لئے لینا تھا.وہاں پر امیگریشن والوں نے روک لیا اور وجہ یہ بتائی کہ چونکہ آپ کے پاس پرتگال کا ویزہ نہیں ہے اس لئے آپ ایئر پورٹ سے باہر نہیں نکل سکتے.ان کو بڑا سمجھایا کہ یہ لوگ ڈپلومیٹ ہیں مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور یہ حکم 164
ارض بلال.میری یادیں سنایا کہ یہ لوگ فرینکفرٹ تو نہیں جا سکتے.بلکہ ان کو واپس Senegal بھجوا ر ہے ہیں.یہ رات کے قریباً 12 بجے کا وقت تھا.صرف چند ایک ایئر لائینز کے دفاتر کھلے ہوئے تھے.ایئر پرتگال والوں سے بات کی مگر وہ تو بات سننے کو تیار ہی نہ تھے اور ہمیں غلطی پر گردانتے رہے.بہر حال بہت کوشش کی گئی مگر بے سود ! رات دیر تک ان سے بحث ہوتی رہی مگر انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا.یہ لمحات بہت تکلیف دہ تھے.چونکہ اس سارے پروگرام کو میں نے ترتیب دیا تھا اور سارے انتظامات بھی میں نے کئے تھے اس لئے بہت زیادہ پریشانی ہوگئی.کیونکہ اگر یہ وفد جرمنی جلسہ پر نہ جا سکا تو جماعتی مالی نقصان کے علاوہ حضور انور کو سخت پریشانی ہوگی اور ظاہر ہے یہ ساری پریشانی میری غلطی کی وجہ سے ہوگی.اس صورت حال نے بہت زیادہ پریشان کر دیا.سب ہی فکرمند تھے لیکن میری اذیت کی حالت میں ہی جان سکتا تھا.اس صورت حال سے مایوس ہوکر میں ایک طرف چلا گیا اور علیحدگی میں جا کر اپنی بے بسی پر بے اختیار رونا شروع کر دیا اور ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر دعا کی کہ یا اللہ تو مشکل کشا ہے اس مصیبت سے نجات عطا فرما اس سے کچھ تسکین سی ہوگئی.اس کے بعد دوبارہ ایئر پر تگال کے دفتر میں گیا اور ان کو بتا یا کہ غلطی ہماری نہیں بلکہ آپ کے آفس والوں کی ہے کیونکہ جب ایئر ٹکٹ آپ کے ڈا کار آفس سے خریدے تھے تو ان سے اس سلسلہ میں استفسار کیا گیا تھا.آپ کے متعلقہ آفیسر نے بتایا کہ Visa کی ضرورت نہیں، آپ ڈاکار ایجنسی کے فلاں صاحب سے Confirm کرلیں.ایئر پورٹ پر آپ کے متعینہ آفیسر نے جہاز پر سوار ہونے سے قبل یہ پاسپورٹس چیک کئے.بعد ازاں جہاز پر سوار ہونے کی اجازت دی تھی اگر یہ پاسپورٹ درست نہ تھے تو ہمیں ادھر ہی روک لیتے.اس لئے آپ ہمیں غلط نہیں کہہ سکتے بلکہ غلطی آپ کے آفس والوں کی ہے اور اس ساری پریشانی کی ذمہ داری آپ کی ایئر لائن والوں کی ہے.اب اگر ہم واپس چلے گئے تو نتائج کے ذمہ 165
ارض بلال- میری یادیں ) دار آپ ہوں گے.یہ سب ممبرز آف پارلیمنٹ ہیں.ایک ضروری میٹنگ میں شریک ہونے کے لئے جارہے ہیں.اس میٹنگ پر نہ پہنچنے کے ذمہ دار آپ ہوں گے.میٹنگ کی ناکامی کا ہرجانہ آپ کو ادا کرنا ہو گا.جملہ اخراجات سفر آپ کے ذمہ ہوں گے.علاوہ ازیں سینیگال واپس جا کر اخبارات میں آپ کے بارے میں مضمون لکھیں گے اور عدالت میں آپ لوگوں کے خلاف دھوکہ دہی کاCase کریں گے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور وہ کچھ خائف ہو گئے.انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس مسئلہ کا کوئی حل نکالتے ہیں.ہماری فلائٹ اگلی صبح 9 بجے کے قریب تھی.نہ معلوم انہوں نے کس طرح انتظام کیا کہ اسی رات انتظامیہ سے مل کر ہمیں 24 گھنٹے کاVisa لے دیا اور اگلی صبح اسی ایئر لائن کا ایک خاص آدمی جرمنی تک ہمارے ساتھ رہا.ایئر پورٹ پر پہنچ کر نہ معلوم کس طرح بغیر امیگریشن والوں کو ملے کسی اور راستہ سے باہرسید ھے سامان کے پاس لے آیا.اس طرح الحمد للہ ہم لوگ بخیریت جرمنی پہنچ گئے اور بفضلہ تعالیٰ جلسہ کی رونق میں شریک ہوئے.اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفتہ امسیح کی خواہش کی لاج رکھ لی اور اپنے پیارے کے صدقے خاص فضل فرما دیا.الحمدللہ.خدا تعالیٰ نے چار دن کی مزید زندگی عطا فرما دی سلیقہ نہیں تجھ کو رونے کا ورت بڑے کام کا ہے یہ آنکھوں کا پانی سینیگال کے ایک علاقہ Passy میں ایک چھوٹا سا گاؤں Keur Wali Penda ہے وہاں کے ایک نوجوان عربی استاد جن کا نام عبداللہ جالو تھا، وہ سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار میں ایک تربیتی کلاس میں شمولیت کے لئے تشریف لائے.یہ دوست کچھ عرصہ قبل ہی احمدی ہوئے تھے.تربیتی کلاس حسب پروگرام اپنے اختتام کو پہنچی.دُعا کے بعد خاکسار نے ایک معلم محمود بلدی صاحب کو ہدایت کی کہ جملہ شرکا کی واپسی کا انتظام کردیں اور خود مشن ہاؤس میں آ گیا.دو پہر کے قریب 166
ارض بلال.میری یادیں میں شہر میں کسی کام کے سلسلہ میں گیا ہوا تھا کہ محمود صاحب کا فون آگیا کہ عبداللہ جالو واپس نہیں گئے کیونکہ وہ بیمار ہیں.میں نے محمد کو بتایا کہ مریض کو نزدیکی کلینک میں لے جائیں اور دوائی لے دیں.کچھ دیر بعد پھر فون آیا اور محمود صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ مریض کو گردن توڑ بخار کا حملہ ہوا ہے.اس کا علاج یہاں ممکن نہیں ہے.اسے Principal اسپتال میں لے جائیں.اسے فور وہاں بھجوا دیا گیا.ان دنوں یہ مرض بہت پھیلی ہوئی تھی اور بے شمار لوگ اس موذی مرض کا شکار ہو کر 24 گھنٹوں کے اندر اندر فوت ہو رہے تھے.اس صورت حال سے خاکسار کو بہت زیادہ فکر لاحق ہوئی اور درج ذیل امور نے بہت پریشان کر دیا.چونکہ میرے پاس سینیگال میں جماعت کی تبلیغ کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا.پولیس اسے ایک غیر قانونی فعل کا مرتکب گردان کر مجھے پس زنداں بھی ڈال سکتی تھی.میں نے تربیتی کلاسوں اور میٹنگز کے لئے ایک غیر معروف جگہ کرایہ پر لی ہوئی تھی.یہ مکان اگر چہ ڈا کار شہر میں تھا لیکن ہر قسم کی آبادی سے الگ تھلگ تھا.یہ ایک کھیت کے اندر تھا جہاں بجلی نہیں تھی.پانی کھیت کے کنویں سے مل جاتا تھا.اس لئے کسی کو علم نہ ہوتا تھا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے.اس صورت حال میں اس نوجوان کی وفات کی صورت میں ممکن ہے معاندین جماعت اس سے فائدہ اُٹھا ئیں.چونکہ عبداللہ صاحب نو مبائع ہیں اگر فوت ہو گئے تو اس علاقہ کے لوگ اپنی جاہلیت کے باعث بدشگونی لیں گے کہ یہ احمدی ہوا تھا اور تربیتی کلاس میں گیا اور ادھر ہی فوت ہو گیا.کمزور ایمان والے لوگ متاثر ہوں گے.پھر خدانخواستہ مکرم عبداللہ صاحب ڈاکار میں میرے ہاں فوت ہو گئے تو اس صورت میں میرے لیے بہت سے مسائل پیدا ہو جائیں گے.غیر قانونی تبلیغی پروگرام کی وجہ سے پولیس متحرک ہو جائے گی.ہماری تبلیغ پر پابندی لگا سکتی ہے، مجھے ملک بدر کر سکتی ہے.جنازہ ، ہسپتال سے سرٹیفکیٹ وغیرہ کے علاوہ اور بہت ساری مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں.میرے پاس گیمبیا کا پاسپورٹ تھالیکن میرے 167
ارض بلال- میری یادیں ) اہل خانہ کے قیام کے سلسلہ میں کچھ قانونی پیچیدگیاں تھیں.ان کے بارے میں کافی فکر تھی.اس وقت خاکسار گاڑی پر اپنے گھر کی طرف آرہا تھا.دل و دماغ بے شمار پریشان کن خیالات اور خوفناک صورت حال کا مسکن بنے ہوئے تھے.اسی دوران میں نے گاڑی سڑک کے ایک طرف رو کی اور بے اختیار خدا تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعا کی کہ اے مولیٰ کریم فضل فرما اور اگر اس کی موت ٹل سکتی ہے تو ٹال دے اور اگر اس کا وقت اٹل ہے تو کم از کم 4 دن تک اس کی زندگی میں اضافہ فرما دے تاکہ یہ اپنے گھر میں جا کر تیرے حضور حاضر ہو.لمبی دُعا کے بعد میں گھر کو روانہ ہوا.گھر پہنچنے پر کیا دیکھتا ہوں کہ عبداللہ صاحب میرے صحن میں بیٹھے ہوئے ہیں اور مسکرا رہے ہیں اور کہنے لگے کہ امیر صاحب میں اب ٹھیک ہوں.مجھے گھر بھجوا دیں میں نے ایک معلم کے ساتھ ان کو گھر بھجوا دیا.ان کا گاؤں تقریباًڈا کار سے 250 کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا.اس طرح وہ دوست اپنے گھر چلے گئے اور انہوں نے اپنے گاؤں میں جا کر سب دوستوں کو بتایا کہ جماعت احمد یہ واقعی اللہ تعالیٰ کی کچی جماعت ہے.جب میں وہاں بیمار ہوا تو امیر صاحب نے میری بڑی مدد کی.اس کے بعد کیا ہوا کہ چار دن بعد مجھے ایک معلم مکرم یوسف مارصاحب کا فون آیا اور انہوں نے بتایا کہ مکرم عبداللہ صاحب آج اچانک بیمار ہو گئے تھے ان کو کو لخ ہسپتال میں پہنچایا گیا.لیکن تھوڑی دیر بعد ان کا اسپتال میں انتقال ہو گیا ہے.انا للہ وانا اليهِ رَاجِعُون.یہ اللہ تعالیٰ کا عجیب احسان ہے کہ وہ اپنے کمز ورلوگوں کی دعاؤں کو بھی شرف قبولیت سے نوازتا ہے اور اس نے اپنے فضل سے بظاہر ناممک کو ممکن میں بدل دیا.چل رہی ہے نیم رحمت کی جو دعا کیجئے قبول ہے آج 168
.میری یادیں معجزانہ حیات نو سینیگال میں جماعت کے ایک قدیمی خادم مکرم احمد لی صاحب ہیں.ان کو 1938ء میں جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی سعادت ملی.پھر 1948ء میں انہوں نے خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا اور آج تک خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے خدمت کا عہد بڑے اخلاص و وفا کے ساتھ نبھا رہے ہیں.چند سال قبل کی بات ہے کہ ان کا ایک کمسن بچہ سخت بیمار ہو گیا.بیماری نے خاصی شدت اختیار کر لی.یہاں تک کہ ایک رات بچے کی حالت غیر ہو گئی.رات کے لمحات تھے ،شہر سے کافی دوران کی رہائش تھی.قریب کوئی معالج میسر نہ تھا.جیب میں اسقدر مالی استطاعت نہ تھی کہ ٹرانسپورٹ کا انتظام کر کے ہسپتال وغیرہ جا سکیں.سخت پریشانی کا عالم تھا اور ہر طرف مایوسی تھی.ان تکلیف دہ لمحات میں آپ نے ایک مصلی بچھایا اور اللہ تعالیٰ کے حضور ایک دکھی دل کے ساتھ آہ و بکا شروع کر دی.اس طرح روتے روتے سجدہ کی حالت میں آنکھ لگ گئی.خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ نے ایک کاغذ حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کیا ہے جس میں ان لوگوں کے نام درج ہیں جن کی وفات کا وقت آچکا ہے اور اس فہرست میں سر فہرست ان کے بیٹے کا نام ہے.حضور نے اس فہرست کو دیکھا پھر ایک قلم کے ساتھ ان کے بیٹے کے نام کو کاٹ دیا.اس پر ان کی آنکھ کھل گئی.وہ فوراً بچے کے پاس پہنچے اور دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بچہ پہلے سے بہت بہتر ہے اور پھر معجزانہ طور پر بہت جلد شفایاب ہو گیا.169
ارض بلال.میری یادیں باب دوازده.....] گیمبیا کے چند خلص دوستوں کا ذکر خیر گیمبیا میں سینکڑوں ایسے دوست احباب ہیں جن کے اخلاص ، پیار اور محبت کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے.کیونکہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے امام وقت کو پہچانے کی توفیق بخشی ہے وہ واقعی ایک قابل گوہر ہے.دل تو چاہتا ہے کہ ہر ایک کے بارے میں کچھ لکھوں لیکن کتاب کی ضخامت کے پیش نظر صرف بطور نمونہ چند ایک مخلصین کا ذکر خیر کر پاؤں گا.الحاج سرفرمان سنگھاٹے صاحب ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“ حضرت مسیح موعود کے دعوی مہدویت سے بہت پہلے 1868ء یا1869ء کی بات ہے پنجاب میں فرقہ اہل حدیث کی شدید مخالفت تھی.جس مسجد کے ملاں کو پتہ لگتا کہ اس کی مسجد میں کسی اہلحدیث (بقول ان کے کسی وہابی ) نے نماز پڑھی ہے تو وہ بعض اوقات تک اپنی مسجد کا فرش تک اُکھڑ وادیتا تھا یا پوری مسجد دھلوا دیتا تھا.ان ایام میں محمد حسین بٹالوی صاحب دہلی میں مولوی نذیر حسین دہلوی صاحب سے نئے نئے تحصیل علم کر کے واپس بٹالہ آئے تھے.عوام مسلمانوں میں ان کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے تھے.حضرت اقدس علیہ سلام جو کسی کام کے سلسلہ میں بٹالہ تشریف لے گئے تو ایک شخص اصرار کے ساتھ آپ کو تبادلہ خیالات کے لیے مولوی محمد حسین صاحب کے مکان پر لے گیا.وہاں پر ان کے والد صاحب بھی موجود تھے اور سامعین کا ایک ہجوم مباحثہ سننے کو بیتاب تھا.آپ مولوی صاحب موصوف کے سامنے بیٹھ گئے اور مولوی صاحب سے پوچھا کہ آپ کا دعوی کیا ہے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ میرا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن مجید سب سے مقدم ہے.اس کے بعد اقوال رسول کا درجہ ہے اور میرے نزدیک کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ کے مقابل کسی 170
ارض بلال.میری یادیں انسان کی بات قابل حجت نہیں ہے.حضور علی السلام نے یہ سن کر بے ساختہ فرمایا کہ آپ کا یہ اعتقاد معقول اور ناقابل اعتراض ہے لہذا میں آپ کے ساتھ بحث کی ضرورت نہیں سمجھتا.حضور عل السلام کا یہ فرمانا تھا کہ لوگوں نے دیوانہ وار شور مچادیا کہ ہار گئے.جو شخص آپ کو ساتھ لے گیا تھا وہ بھی سخت طیش سے بھر گیا اور کہنے لگا کہ آپ نے ہمیں ذلیل ورسوا کیا مگر آپ تھے کہ کوہ وقار بنے ہوئے تھے.آپ کو لوگوں کے شور وشر کی مطلقا پروانہ تھی.آپ نے چونکہ یہ ترک بحث خالصتا اللہ اختیار کی تھی اس لیے رات کو اللہ تعالیٰ نے اس پر خاص اظہار خوشنودی کرتے ہوئے الہاماً فرمایا: خدا تیرے فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ برامین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد اول صفحہ 622) اس کے بعد عالم کشف میں وہ بادشاہ بھی دکھائے گئے جو چھ سات سے کم نہ تھے اور گھوڑوں پر سوار تھے.سنت الہی اسی سنت قدیمہ کے مطابق جب آپ علیہ السلام نے دعوی ماموریت فرمایا تو ہر طرف سے کفر و تکفیر کے فتوے لگنے شروع ہو گئے.نعوذ باللہ اس وہم و گمان کے ساتھ کہ ہم بہت جلد اس انسانی ہاتھوں کے لگائے ہوئے پودے کو اکھاڑ کر دم لیں گے.اس وقت کی دردناک کیفیت کا اندازہ آپ علیہ السلام کی تحریرات سے بخوبی ہو جاتا ہے.لیکن ان مشکل ایام میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ یہ وعدہ فرمایا تھا کہ میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور پھر نہ صرف پیغام کے زمین کے کناروں تک پہنچنے کی خبر دی بلکہ ایک اور بظا ہر خبر یہ دی کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.171
ارض بلال- میری یادیں ) اب آپ اس زمانہ کے مشکل حالات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کم مائیگی اور بے نفسی کا جائزہ لیں اور اس کے ساتھ آپ کے اس خدائی وعدہ کے اعلان پر غور کریں تو ایک عام دنیا دار شخص تو اس اعلان کو محض ایک دیوانگی سے ہی تعبیر کر سکتا ہے.لیکن اہل اللہ جانتے ہیں کہ اگر اس الہام کے الفاظ پر غور فرمائیں تو اس میں لفظ میں، پر بہت زور ہے.یعنی اس میں خدا تعالیٰ نے از خود اس مشن کی تکمیل کا وعدہ فرمایا ہے اور بتایا کہ اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ دست غیب سے ایسے اسباب پیدا فرمائے گا انسانی فکر اور تدبیر سے بہت بالا ہوں گے.اور پھر اس کی ایک خوبصورت ، دلچسپ اور ایمان افروز داستان ارض گیمبیا میں ظہور پذیر ہوئی.الحاج فرمان سنگھاٹے صاحب پیشگوئی کے پہلے مصداق مجھے یہ بات مکرم داؤد احمد حنیف صاحب نے بتائی ہے کہ 1966 ء میں ان کی تقرری گیمبیا کے لئے ہوئی.گیمبیار وانگی سے قبل آپ عارضی طور پر دفتر تبشیر ربوہ میں کام کر رہے تھے، جب اہل گیمبیا کو برطانیہ نے آزادی دینے کا فیصلہ کیا اس وقت چار نام اس ملک کے گورنر جنرل کے طور پر زیر غور تھے.ان میں سے ایک نام الحاج فرمان سنگھائے صاحب کا بھی تھا.سنگھاٹے صاحب نے مرکز میں دعا کے لئے ایک خط لکھا اور اس میں بتایا کہ میرا نام بھی گورنر جنرل کے لئے زیرغور ہے اس کیلئے دعا کی درخواست ہے.اس پر مرکز میں ان کے لئے دعا کی گئی اور بقول مکرم داؤ داحمد حنیف صاحب کے ان کے قیام ربوہ کے دوران ہی ان کے گورنر جنرل بننے کی خوشخبری ربوہ میں ہی مل گئی اور حضرت مسیح الزمان علیہ السلام کی پیشگوئی بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے، بڑی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہوگئی.جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے 172
.میری یادیں ایک مبارک رؤیا ایک روایت کے مطابق ، جماعت احمدیہ کے لوکل معلم مکرم الحاج جکنی صاحب بہت بڑے عالم اور صاحب رؤیا وکشوف بزرگ تھے.مسجد احمدیہ فرافینی جو بازار کے بالکل قریب تھی جس کے دائیں جانب متصلہ صحن میں ایک درخت ہوتا تھا، اکثر فارغ الاوقات دوست نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد اس درخت کے نیچے استراحت فرماتے.پھر نماز عصر کی ادائیگی کے بعد اپنے گھروں کو تشریف لے جاتے.اب معلوم نہیں کہ وہ درخت موجود ہے یا حوادث زمانہ کی نظر ہو چکا ہے.حاجی صاحب نے بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اس جگہ کو کھودرہا ہوں اور مجھے وہاں سے دوسنہری رنگ کی پگڑیاں ملی ہیں جن میں سے ایک میں نے الحاج فرمان صاحب کو پہنادی اور دوسری خود پہن لی.اس خواب کے اگلے روز حسب معمول نمازی حضرات نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد اسی درخت کے نیچے بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور ساتھ ریڈیو بھی لگا ہوا تھا کہ خبروں کا وقت ہو گیا.نیوز ریڈر نے سب سے پہلی خبر یہی پڑھی کہ سر الحاج فرمان سنگھاٹے صاحب کو گیمبیا کا گورنر جنرل بنادیا گیا ہے.اس طرح اللہ تعالی نے بڑی شان کے ساتھ الحاج جکنی صاحب کی خواب کو پورا کر دیا.الحاج فرمان سنگھائے صاحب اکثر اوقات جکنی صاحب کو اپنے سرکاری دوروں پر ساتھ رکھتے.الحاج سر فرمان سنگھائے صاحب 10 نومبر 1921 ء کو گیمبیا کے ایک قصبہ جارج ٹاؤن میں پیدا ہوئے.جب گیمبیا کو تخت برطانیہ سے 1966ء میں آزادی ملی تو اس وقت الحاج فرمان سنگھاٹے صاحب کو گیمبیا کی آزادی کے بعد کے گیمبین شہری کے طور پر پہلے گورنر جنرل بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور 1970ء میں جب گیمبیا میں حکومت ریپبلک بن گئی تو یہ عہدہ ختم ہو گیا اور وزیر اعظم داؤد جوار ا صاحب صدر مملکت بن گئے.الحاج صاحب 9 مئی 1977ء میں بانجول میں فوت ہو گئے اور پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردخاک کیے گئے.173
ارض بلال.میری یادیں مکرم الحاج صاحب بفضلہ تعالی احمدی مسلمان تھے اور احمدیہ مسلم جماعت گیمبیا کے صدر بھی تھے.ان کے اعزاز میں حکومت نے گیمبیا کے دارلحکومت بانجول میں ایک گلی کا نام بھی ان کے نام نامی پر رکھا ہوا ہے.الحاج ابراہیم عبدالقادر جکنی جماعت احمد یہ گیمبیا میں ایک نہایت نیک اور فدائی بزرگ گزرے ہیں.ان کا نام الحاج عبد القادر چکنی تھا.خدا تعالی کے فضل سے بہت بڑے عالم دین تھے.آپ کا تعلق گیمبیا کے معروف مذہبی قبیلہ جہانکے سے تھا.آپکے آبا و اجداد کا موروثی پیشہ تعلیم و تدریس تھا.انکے بزرگوں کے قدیم سے ذاتی بڑے بڑے مدارس تھے.گیمبیا کے علاوہ ہمسایہ ممالک سے دینی تعلیم کے حصول کے لیے طالب علم ان کے ہاں آیا کرتے تھے.آپ نے اپنی مجوزہ اعلی دینی تعلیم مکمل کر کے نیا نیا میدان عمل میں قدم رکھا.اب ان کی خاندانی وجاہت و وقار کے علاوہ انکی اپنی ذاتی قابلیت بھی تھی جس نے ان کو ملک کے صف اول کے علما میں لاکھڑا کیا.قبول احمدیت اور مخالفت مکرم الحاج چکنی صاحب کے قبول احمدیت اور شدید مخالفت کا ذکر قبول احمدیت کے باب میں گزر چکا ہے.بڑے بھائی کی جانب سے قتل کا منصو ان کو گیمبیا کے ایک قصبہ BASSE میں بطور معلم بجھوایا گیا.ان کے خاندان والے سخت ناراضگی اور غصہ کے عالم میں تھے.ان کے بڑے بھائی نے ایک اپنے قریبی عزیز کو جو BASSE کے قریب ایک گاؤں میں رہتے تھے، خط لکھا اس زمانہ میں چونکہ انگریزی درس و تدریس کا بہت کم رواج تھا اس لیے عربی پڑھے لکھے لوگ ، عربی زبان میں ہی خط و کتابت کیا 174
ارض بلال.میری یادیں کرتے تھے.چنانچہ چکنی صاحب کے بڑے بھائی نے خط عربی زبان میں تحریر کیا تھا اور جس عزیز کے نام خط تھا وہ عربی سے نا آشنا تھے اور حسن اتفاق سے انکے پورے گاؤں میں کوئی بھی شخص استقدر عربی میں ماہر نہ تھا کہ وہ اس خط کو پڑھ سکتا.اب اس آدمی نے خط اٹھایا اور علی الصبح بضے روانہ ہو گیا.ابھی راستہ میں ہی تھا کہ اس کی ملاقات الحاج جبکنی صاحب سے ہو گئی.علیک سلیک کے بعد اس شخص نے ان سے درخواست کی کہ ایک خط ہے ذرا مجھے پڑھ کر سنا دیں اور خط الحاج صاحب کو دے دیا.جب خط پڑھا گیا تو معلوم ہوا کہ چکنی صاحب کے بڑے بھائی نے اس عزیز کو لکھا تھا کہ جیسا کہ آپ سب کو علم ہو چکا ہے کہ ہمارا بھائی الحاج چکنی قادیانی ہو گیا ہے اور اب وہ کافر ہے اور ہمارے سارے خاندان کے لیے باعث ننگ و عار ہے.آجکل آپ کے علاقے میں اس جماعت کے مبلغ کے طور پر کام کر رہا ہے.کسی طرح اس کو ادھر قتل کروا دیں.جب چکنی صاحب نے خط پڑھا اور پھر سارے کا سارا مضمون مین وگن اس عزیز کو سنا دیا اور کہا لو بھئی میں حاضر ہوں، مجھے قتل کر لو.اس پر اس شخص نے ان کے بڑے بھائی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اپنے خاص فضل وکرم سے ان کے دشمنوں کے ناپاک منصو بہ کو خاک میں ملا دیا.فرافینی میں منصو بقتل اور نصرت خداوندی ملک بھر میں مخالفت کے باوجود آپ شب وروز پیغام حق پہچانے میں مصروف رہتے.جب آپ فرافینی میں دعوت الی اللہ کے لئے تشریف لے گئے ہوئے تھے.مخالفین نے ایک میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ ہر قبیلہ سے ایک ایک آدمی لیا جائے اور پھر یہ سب مل کر الحاج کا کام تمام کر دیں اس طرح کسی ایک شخص کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکے گا.مخالفین نے آپس میں سارے منصوبے کی جزئیات بھی طے کر لیں.اللہ تعالی کا کرنا ایسا ہوا کہ ان میں سے ایک شخص ایک دکاندار پاجفنے کی دکان پر آیا.اس وقت تک پاجفن احمدی تو نہ ہوئے تھے مگر دل سے جماعت کی صداقت کے قائل ہو چکے تھے.باتوں باتوں میں جماعت اور الحاج جکنی صاحب کا ذکر بھی چل نکلا.اس شخص کے منہ 175
ارض بلال- میری یادیں ) سے بے اختیار یہ نکل گیا کہ الحاج کو ٹھکانے لگانے کا پروگرام بن گیا ہے اور فلاں دن کو ان کا کام تمام ہو جائے گا.اس پر پاجفنے نے فوری طور پر جماعت فرافینی کے صدر با شیخو د بیا کو بتا دیا.صدر صاحب نے پولیس میں رپورٹ درج کرادی.اس پر تھانے کے سر براہ نے جو کہ نہایت ایمان دار اور شریف النفس انسان تھے.پاجفنے کو فوری طور پر بلا کر ان کا بیان ریکارڈ کروایا.اس کے بعد اس شخص کو بلا کر بڑی سختی سے باز پرس کی جس سے یہ راز افشا ہوا تھا.نتیجہ اس شخص نے اس منصوبہ میں شامل جملہ افراد کے نام لکھوادیئے.اس پر تھانے دار صاحب نے سب افراد کو تھانے حاضر کروالیا اور انہوں نے وہاں اقبال جرم بھی کر لیا.اس پر تھانے دار صاحب نے انہیں سخت تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ سب کے نام لکھ لئے ہیں.اب اگر کسی بھی جگہ پر الحاج کو کچھ ہوا تو سب سے پہلے آپ مورد الزام ٹھہرائے جائیں گے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے الحاج کو ان کے خطرناک منصوبوں سے محفوظ رکھا اور جملہ دشمنوں کو نا کامی کا سامنا کرنا پڑا.انى مهين من اراد اهانتك اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کیلئے ایک خاص غیرت رکھتا ہے.ایک دفعہ الحاج جکنی صاحب بانسنگ کے علاقہ میں بعض احمدی احباب کے ہمراہ ایک گاؤں میں دعوت الی اللہ کے لیے تشریف لے گئے.جب گاؤں کے الکالی (نمبر دار ) کو علم ہوا تو وہ بہت غصے میں ان کے پاس آیا اور الحاج کو اپنے گاؤں سے فوری طور پر چلے جانے کو کہا اور ساتھ ہی کہا کہ آئندہ میں تمہیں اس علاقہ میں نہ دیکھوں.اس پر الحاج جکنی صاحب کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس قابل ہی نہ رہنے دے گا کہ تم ہمیں دیکھ سکو.اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد الکالی کی بینائی ضائع ہوگئی اور الحاج کے الفاظ اللہ تعالیٰ نے عجیب شان سے پورے کر دیئے.دعوت الی اللہ.غیرت دینی الحاج جکنی صاحب کو دعوت الی اللہ کا جنون کی حد تک شوق تھا.خدا تعالیٰ نے آپ کو علم الکلام 176
ارض بلال- میری یادیں ) میں خصوصی مہارت بخشی تھی.سوال و جواب کی مجالس پر چھا جاتے تھے.اپنے خطابات میں قرآنی آیات کے علاوہ احادیث کو زبانی اس طرح پیش کرتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ آپ قرآن مجید کے ساتھ حدیث کے بھی حافظ ہیں.جماعت کے لئے بہت غیرت رکھتے تھے.مجال ہے کہ کوئی آدمی جماعت پر کسی رنگ میں کوئی اعتراض کرے اور آپ اس کا جواب نہ دیں.کوئی بھی جماعتی جلسہ ہوتا تو آپ کا خطاب اس کا جزولاینفک ہوتا اور اس کے بغیر جلسہ کا تصور ہی نہ ہوتا تھا.گیمبیا کے علاوہ سینیگال اور گنی بساؤ کے جلسوں میں بھی جماعتی نمائندگی کرتے رہے اور لوگ آپ کی تقاریر سے بہت متاثر ہوتے.حقیقت ہے کہ گیمبیا میں جماعتوں کی تقویت اور استحکام کے لئے آپ کا نام تا ابد روشن رہے گا.الحاج چکنی صاحب بے شمار اوصاف حمیدہ کے مالک تھے.نہات متین طبع تھے.زندگی تکلفات سے عاری تھی.ہر ایک سے پیار محبت اور اخلاص سے پیش آنیوالے تھے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنوں اور غیروں میں ایک قابل احترام مقام عطا فرما یا تھا.مخالفین بھی آپ کے اوصاف حمیدہ کے معترف اور قائل تھے.وصال مکرم الحاج چکنی صاحب کی آخری بیماری رمضان المبارک میں شروع ہوئی اور آپ عید الفطر سے چند روز قبل اپنے مولیٰ حقیقی کے پاس حاضر ہو گئے اس طرح تادم واپسیں خدمت دین میں مصروف رہے.آپ کی وفات پر ملک کے کونے کونے سے احمدی اور غیر احمدی لوگ افسوس کے لئے حاضر ہوئے.سرکاری معززین میں سے گورنمنٹ کے بہت سے اہل کاروں کے علاوہ کمشنر علاقہ بھی تشریف لائے جنہوں نے بڑے اچھے رنگ میں مکرم چکنی صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا.مکرم استاذ یوبی باه ایک فرشتہ صفت دوست کا ذکر خیر ، جس کو حضرت مہدی دوراں علی سلام سے عشق تھا.ایک بھولا بھالا سادہ سا نو جوان، پاؤں میں سادہ سی چپل، بالوں نے شائد ہی کنگھی کا لمس محسوس کیا ہو.سادہ سا 177
ارض بلال- میری یادیں ) افریقی چولہ زیب تن کئے جو استری کے نام سے بھی آشنا نہیں لیکن اس شخص کے دل کے اندر حضرت امام مہدی علیہ السلام اور ان کے مقدس خلفاء کے ساتھ پیارو محبت کا ایسا گہرا رشتہ ہے کہ ہر وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب ہاتھوں میں لئے پھر رہا ہے.بس تلاوت قرآن کریم ہے یا کسی مسجد کے مصلی پر یا کسی کے ساتھ محو تبلیغ.جبکہ اس ہماری دنیا میں کروڑھا اُجلے اُجلے لباس اور اعلیٰ پوشاکیں پہنے والے بھی اس قلب صافی کی نعمت غیر مترقبہ اور رحمت بے بدل سے نا آشنا ہیں.استاذ یوبی باہ کا تعلق گیمبیا کے ایک معروف قبیلہ فولانی سے تھا.اپنے آبا ؤ اجداد کی طرح ان کا تعلق بھی گیمبیا، سینیگال کے ایک معروف مذہبی فرقہ تیجانیہ سے تھا.ابتدائی مذہبی تعلیم اسی فرقہ کے مدارس سے ہی حاصل کی جس کی وجہ سے عربی زبان بولنے میں خاصی مہارت رکھتے تھے.خدا تعالی نے آپ کو مختلف زبانیں بولنے کا ملکہ عطا کر رکھا تھا.اس لئے انگلش ، منڈ نکا، فولا اور وولف زبان بھی بول لیتے تھے جس کی وجہ سے آپ جلسہ سالانہ گیمبیا کے موقع پر تقاریر کی ترجمانی کے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے کیا کرتے تھے.تعارف تیجانی فرقہ تیجانی فرقہ افریقہ کے بہت سے ممالک میں پھیلا ہوا ہے.اس کے بانی حضرت شیخ احمد تیجان ہیں.الجزائر کے عین المادی نامی شہر میں 1737ء پیدا ہوئے اور انہوں نے اس فرقہ کی بنیاد رکھی.سینیگال اور گیمبیا کی اکثر آبادی کا تعلق اسی فرقہ سے ہے لیکن اس طریقہ کے لوگ بہت سے چھوٹے چھوٹے گروپس میں بٹ چکے ہیں.ان میں سے چند ایک معروف خلفا اور ان کے مراکز کو نخ شہر میں ہیں.ان کے خلیفہ ابراہیم نیاس تھے.ان کی وفات کے بعد اب یہ گروپ اس شہر میں دوشاخوں میں بٹ گیا ہے.ان میں سے ایک کا مرکز مدینہ مبائی نیاس اور دوسرے کا مرکز اسی شہر میں نے اسن کے نام سے جانا جاتا ہے.مدینہ مبائی نیاس زیادہ طاقتور ہے.اس کے علاوہ چناب، تیواؤن، نیورو مدینہ گناس وغیرہ دیگر تیجانی خلفا کے مراکز ہیں.اگر چہ 178
ارض بلال.میری یادیں تعداد کے لحاظ سے فرقہ ملک کی مضبوط ترین جماعتوں میں سے بن سکتا ہے لیکن باہمی اختلافات اور اندرونی خلفشار کے باعث ملک میں سیاسی طاقت حاصل نہیں کر پاتے.دینی مدارس میں طرز تعلیم والدین اپنے بچے عربی اساتذہ کے پاس چھوڑ آتے ہیں اور پھر وہ بچے لکڑیوں کے ایک ڈھیر کو آگ لگا کر ایک الاؤ روشن کر کے اس کے ارد گرد بیٹھ کر رات گئے تک اپنے اپنے اسباق یاد کرتے ہیں.ان کی کتاب لکڑی کی تختی نما پھٹی ہوتی ہے جس پر استاذ صاحب اپنے ہاتھوں سے قرآن پاک کی سورتیں لکھ دیتے ہیں جن کو طالب علم (الموڈ و یا طالبے) اونچی اونچی آواز میں ہل ہل کر حفظ کرتے رہتے ہیں.جس طرح کسی زمانہ میں ہم لوگ پرائمری سکول میں پہاڑے حفظ کیا کرتے تھے، جہاں پر حفظ کم اور ملتے زیادہ تھے.پھر جو نبی ہلکی ہلکی صبح کی روشنی پھوٹتی ہے ، سب طلبہ اپنا اپنا ڈبہ اٹھائے گروپس کی شکل میں علاقہ بھر میں پھیل جاتے ہیں اور ہر گھر کے دروازہ پر دستک دے کر گیری اللہ اللہ کے نام پر ) کی صدا بلند کرتے ہیں.پھر صاحب خانہ جو بھی ان کو دے دے، پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے پیر ومرشد کی نذر کرتے ہیں اور اگر کوئی طالب علم اپنی غفلت اور کوتاہی کے باعث استاذ صاحب کی جانب سے مقرر شدہ نقد و جنس لے کر حاضر خدمت نہیں ہوتا ، اس کو اس غلطی کے لئے جواب دہ ہونا پڑتا ہے.عربی اساتذہ طلبہ ایک لمبا عرصہ کما حقہ تعلیم تو حاصل نہیں کر پاتے.ہاں اپنے استاذ اور اس کے اہل خانہ کے لئے حصول معاش کا فریضہ احسن طور پر ادا کرتے ہیں.ہاں کسی بھی معلم یا استاذ کے پاس اگر اس کے طلبہ کی تعداد بڑی ہوگی اسی قدر اس کی مالی حالت بہتر ہوگی.اس لئے یہ اساتذہ انگریزی طرز تعلیم کو مذہب اسلام کے لئے زہر قاتل سمجھتے تھے اور ماں باپ کو اس کے زہریلے اثرات سے باخبر رکھنے کی پوری پوری کوشش کرتے تاکہ ان کے معصوم نو نہال کہیں دہریت یا نصرانیت کی خون آشام 179
ارض بلال- میری یادیں ) لپیٹ میں نہ آجائیں.لیکن اب بفضلہ تعالیٰ نے طرز تعلیم اور آگہی کے پیش نظر یہ انسانیت سوز طرز تعلیم آخری دم لے رہا ہے.لیکن عجیب بات ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ ان ممالک کے اساتذہ کسی انگریز کا نام سننے کے بھی روادار نہ تھے.لیکن نہ معلوم آج ان علما کو ان یورپین اقوام میں کیا خوبیاں نظر آئیں کہ ان پر جان و دل سے فدا ہو گئے اور اپنی آئندہ نسل کی اعلیٰ روحانی تربیت کے لئے ان کے مقدس ماحول میں لا بسانے کے لئے ہر حیلہ استعمال کر رہے ہیں.آج افریقن ممالک میں ان پیر صاحبان کی اولادیں اپنے مالی اور سیاسی تعلقات کے زینے طے کر کے یورپ کی سرزمین پر قدم جما چکی ہیں.قبول احمدیت قبل از میں ایک خواب کے ذریعہ استاذ یوبی باہ کے قبول احمدیت کا واقعہ خوابوں کے باب میں آچکا ہے.عبادت وریاضت آپ کو نماز با جماعت کے ساتھ عشق کی حد تک تعلق تھا.شروع زمانہ میں جب آپ اپنے گاؤں میں اکیلے احمدی تھے وہاں سے پیدل چل کر فرافینی آکر نماز باجماعت ادا کرتے اور پھر درس و تدریس کی خدمت بھی بڑی خوش دلی سے سرانجام دیتے.التزام نماز تہجد آپ با قاعدہ نماز تہجد ادا کرتے.ایک دفعہ میں نے ان کو سینیگال کے ایک شہر کو لخ میں دورہ پر بھجوایا.اس دوران انکی رہائش کا انتظام میں نے اپنے ایک غیر از جماعت دوست مسٹر فال کے ہاں کیا.کچھ عرصہ کے بعد میں سینیگال گیا.مسٹر فال سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگا.استاذ میں نے تمہاری جماعت کے بہت سے دوست دیکھے ہیں جن کی میزبانی کا مجھے موقع ملتارہا ہے لیکن یہ مہمان ان سب سے منفرد تھا.میں نے پوچھا کس طرح کہنے لگا میں نے دیکھا ہے کہ یہ آدمی جتنی بھی دیر 180
ارض بلال.میری یادیں سے رات کو سوتا ہے، نماز تہجد کے لئے ضرور اٹھ جاتا ہے.ترجمہ خطبات امام ایک دفعہ میں نے حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کے خطبات جمعہ کا لوکل زبان میں ترجمہ کرنے کا کام ان کے سپر دکیا.ایک بار میں نے دیکھا کہ صبح نو بجے کے قریب وہ وضو کر رہے ہیں.میں نے پوچھا اس وقت وضو کیوں کر رہے ہیں.کہنے لگے کہ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ بزرگوں کے کلام کا ترجمہ باوضو ہوکر کرنا چاہیئے اور ساتھ استغفار اور دعا بھی کرنی چاہیے کیوں کہ ترجمہ ایک نہایت ذمہ داری اور نازک فریضہ ہے ممکن ہے آپ ان کے فرمودات کا کماحقہ مفہوم ادا نہ کر سکیں.تعلیم القرآن آپ اپنے گاؤں میں اکیلے احمدی تھے.گاؤں کے بعض نوجوانوں کو قرآن کریم پڑھایا کرتے تھے.اس کے علاوہ قریبی جماعتوں Farafenni اور Douta Boulo میں بھی تعلیم و تربیت کا کام ایک لمبا عرصہ تک محض اللہ کرتے رہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل پر آپکے اعلی اخلاق اور نیک نمونے کا کافی گہرا اثر تھا.فجزاهم اللہ احسن الجزاء.یال با جماعت کا قیام آپ کی جہد مسلسل اور شبانہ روز دعاؤں نے اثر دکھایا کہ اللہ تعالی کے فضل واحسان سے آہستہ آہستہ وہ سب نوجوان حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے اور پھر ان کے گاؤں میں ایک مخلص جماعت بن گئی اور بعد میں ایک مسجد بھی تعمیر ہوگئی اور یہ حقیقت ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے بعد مکرم Yobi صاحب کی شب وروز کی کوششوں اور دعاؤں کا ثمرہ ہے.دعوت الی اللہ کا جنون مکرم Yobi Bah صاحب کو جماعت کے ساتھ فدائیت کی حد تک رشتہ تھا.اس لئے آپ نے اپنے ایک بیٹے کا نام حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کے نام نامی پر بشیر الدین رکھا ہوا تھا.آپ نہایت 181
ارض بلال- میری یادیں ) سادہ طبیعت کے مالک تھے.ہر کسی کے ساتھ خوش خلقی کے ساتھ پیش آتے اور ہر ایک کا احترام کرتے.اور ہر جگہ حسب موقع پیغام حق ضرور پہنچاتے.ایک لمبا عرصہ انہوں نے جماعت احمدیہ گیمبیا میں بڑے احسن طور پر اخلاص ووفا کے ساتھ تبلیغ و تربیت کا مقدس فریضہ نبھایا.اسی طرح قریبی سینیگال اور گنی وغیرہ میں بھی اس تبلیغی جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے.میں نے ایک لمبا عرصه فرافینی میں بطور مربی سلسلہ خدمت کی توفیق پائی.اس طرح تقریب روزانہ ہی ان سے ملاقات ہوتی.روزانہ میرے گھر آتے اور میرے سب اہل خانہ کے ساتھ ان کا رشتہ بڑا ہی پیار اور محبت کا تھا.وقف زندگی 1983ء میں جب خاکسار پہلی بار گیمبیا بطور مربی گیا تو اس وقت سے میں نے دیکھا کہ آپ کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ آپ ایک مربی کی طرح ہر لمحہ جماعت کی تبلیغ وتربیت اور تعلیم القرآن کی خدمت میں سرگرم عمل ہیں.پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو با قاعدہ اپنی زندگی وقف کرنے کی توفیق اور سعادت بخشی.غالباً 1987ء کی بات ہے کہ انہوں نے باقاعدہ اپنے آپ کو جماعت کی خدمت کے لئے پیش کر دیا اور پھر مکرم امیر صاحب کے ارشاد کے مطابق گیمبیا کے مختلف مقامات پر جماعتوں کی تعلیم و تربیت کی توفیق پائی.گنی بساؤ میں تبلیغ 1992ء میں مکرم امیر صاحب نے مکرم استاذ یوبی صاحب کو گیمبیا کے ایک قریبی ملک گنی بساؤ (جو ان دنوں گیمبیا مشن کے زیر انتظام تھا) میں بغرض تبلیغ بجھوایا.وہاں پر آپ نے بڑی محنت و جانفشانی کے ساتھ کام کیا.جس پر امیر صاحب نے خوش ہو کر یوبی صاحب کا نام جلسہ سالانہ انگلستان میں شرکت کے لئے حضور انور کی خدمت اقدس میں تجویز کیا.جس کی حضور انور نے از راہ شفقت منظوری عنایت فرما دی.182
.میری یادیں اندوہناک وصال امیر صاحب نے ان کو گنی بساؤ سے واپس بلا لیا اور ان کی جلسہ سالانہ انگلستان کے لئے تیاری شروع ہو گئی.ان دنوں میں اور مکرم امیر داؤ د احمد حنیف صاحب سینی گال کے دارلحکومت ڈاکار بعض ضروری امور کے سلسلہ میں گئے ہوئے تھے.ایک روز ہم نے ڈاکار سے بانجول مشن میں کسی غرض سے فون کیا تو علم ہوا کہ آج اچانک مکرم یوبی صاحب کی طبیعت خراب ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہی راہی ملک عدم ہو گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.غیروں کے تاثرات آپ کی وفات اس قدر اچانک اور غیر متوقع تھی کہ ایک لمبا عرصہ تک تو یقین ہی نہ آتا تھا کہ وہ یوں ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں.میں نے ایک لمبا عرصہ ان کے ساتھ گزارا.خدا شاہد ہے میں نے ان کو کبھی بھی کسی کے ساتھ لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا.ہر کسی کے ساتھ خواہ احمدی ہو یا غیر احمدی، محبت اور ہمدردی کے ساتھ پیش آتے.اگر کوئی غیر احمدی مذاق مذاق میں آپ کے ساتھ زیادتی بھی کر جاتا تو ہمیشہ مسکرا کر بات ڈال جاتے.یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پر ہم نے ہر دل حزیں اور ہر چہرہ پر ملال اور ہر آنکھ اشکبار دیکھی اور ہر ملنے والا ان کے اوصاف حسنہ میں رطب اللسان ملا.جب ان کی نماز جنازہ کا وقت آیا تو بیشتر غیر از جماعت دوستوں نے بھی ہمارے ساتھ اس فرشتہ سیرت انسان کی نماز جنازہ ادا کی.بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر شيا امام علی با یوصاحب یہ کہانی ایک ایسے درویش کی ہے جس کی قبولیت دعا اور تعلق باللہ کے نظاروں کا میں خود شاہد ہوں.1983ء کی بات ہے کہ خاکسار پہلی بار مکرم داؤد احمد حنیف صاحب کے ہمراہ BASSE( گیمبیا کے دارلحکومت بانجول سے تقریباً چارسوکلومیٹرز کے فاصلہ پر واقع شہر ہے ) پہنچا.183
ارض بلال- میری یادیں ) وہاں پر چند احباب جماعت سے ملاقات ہوئی.ان میں ایک درویش صفت بزرگ مکرم علی بایو صاحب سے بھی ملاقات ہوئی.یہ دوست بلالی رنگ و روپ ،طویل القامت ، قوی الجثہ ، پیشانی پر علامات اثر سجود، چہرے مہرے سے لگتا تھا کہ زندگی کی پچاس بہاریں دیکھ چکے ہیں کیونکہ بالوں میں کہیں کہیں سفیدی کی جھلک نمایاں تھی.آپ BASSE سے تقریبادوکلومٹر کے فاصلہ پر واقع ڈانفا کنڈا گاؤں کے باسی تھے.ان کا تعلق گیمبیا کے مشہور مذہبی قبیلہ جہانکے JAHANKI سے تھا.یادر ہے کہ ملک بھر میں مذہبی درس و تدریس اور پیری مریدی کے کاروبار پر اس قبیلہ کی اجارہ داری تھی.افریقن بے چارے تو کیا ، اگر کبھی آپ کو فرانس جانے کا اتفاق ہوتو وہاں بھی آپ کو بہت سے لمبے تگڑے افریقن جبه پوش، صاحب ریش ، سر پر ٹوپی سجائے تیزی اور پھرتی کے ساتھ تسبیح کے دانوں کے ساتھ شغل کرتے ملیں گے دراصل یہ اپنے تعویذ گنڈے کے کاروبار کے سلسلہ میں ادھر آئے ہوئے ہیں.گیمبیا میں انکے اچھے اچھے خوبصورت کئی منزلہ مکانات انکے کاروبار کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور لطف کی بات ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے فرانسیسی بھی ان کے دام فریب کا شکار ہو جاتے ہیں.ان پیروں فقیروں میں سے اکثر کا تعلق اسی قبیلہ سے ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے رنگ بھی عجیب ہیں يخرج الحى من المیت کے موافق قادر مطلق نے اس قبیلہ کی چند سعید فطرت اور فرشتہ سیرت روحوں کے سینوں میں ایمان و عرفان کی ایسی شمعیں فروزاں فرمائیں کہ جن کی روحانی لپک سے بے شمار مردہ قلوب بھی نور ہدایت سے جگمگا اٹھے.نگے پاؤں ایک آبلہ یادیوانہ ایک خاص بات میں نے دیکھی کہ وہ بزرگ ننگے پاؤں ادھر ادھر گھوم رہے تھے.میں نے بڑی حیرانگی کے ساتھ مکرم داؤد احمد حنیف صاحب سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ بزرگ جوتے استعمال نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کے پاؤں کی جلد اس قدر سخت ہو چکی تھی کہ 184
ارض بلال.میری یادیں ) سنگ و خار بھی ان کے عزم کے سامنے حائل ہونے سے گریزاں تھے.میں نے سوچا شاید غربت وافلاس جوتوں کی خرید میں حائل ہے لیکن بعد میں میں نے دیکھا کہ یہ بزرگ بفضلہ تعالیٰ مالی قربانی میں سب جماعت میں پیش پیش ہیں.علم وفضل جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، ان کا خاندان ملک بھر میں علمی قبیلہ تھا.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مکرم بایو صاحب کو علم القرآن والحدیث میں خاصی دسترس حاصل تھی.عربی زبان کو پڑھنے کے علاوہ عربی تحریر و تقریر میں بھی موصوف کو خاصہ ملکہ حاصل تھا.امام الصلوة خدا تعالیٰ کے فضل سے نماز روزہ میں بہت با قاعدہ تھے.گرمی ہو یا سردی ہو ، وہ اپنے گاؤں سے، جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ ان کا گاؤں BASSE شہر سے تقریبادوکلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور ان کے گاؤں میں صرف دو ہی احمدی دوست تھے اس لئے نماز جمعہ کے لیے باقاعدہ BASSE تشریف لاتے علمی شخصیت ہونے کے وجہ سے نماز جمعہ آپ ہی پڑھاتے.تائید الہی کا عجیب واقعہ اگست 1983 ء کی بات ہے کہ مکرم امام علی با یو صاحب کی درخواست پر جماعت احمد یہ BASSE نے ان کے گاؤں ڈانفا کنڈا میں ایک تبلیغی پروگرام ترتیب دیا.اس زمانہ میں تبلیغی میٹنگزا اکثر رات کو منعقد کی جاتی تھیں کیونکہ دن کے اوقات میں اکثر لوگ اپنی کھیتی باڑی کے کاموں میں مصروف ہوتے تھے اس لئے عموما نماز عشاء کے بعد رات گئے تک اس قسم کے اجلاس ہوتے رہتے تھے.ہم چند احباب جماعت جن میں ڈاکٹر نصیر الدین صاحب انچارج احمد یہ میڈیکل سنٹر BASSE، مکرم عمر سونکو صاحب اور بعض دیگر احباب جماعت ایک مختصر قافلہ کی شکل میں ان کے گاؤں میں پہنچے.پھر حسب پروگرام مکرم علی بایو صاحب کے محلہ میں ایک کھلی جگہ پر جلسہ شروع کیا.185
ارض بلال.میری یادیں مختلف موضوعات پر تقاریر کی گئیں.اس کے بعد سوال وجواب کا ایک دلچسپ سلسلہ شروع ہوا.لیکن اس دوران اسی گاؤں کا ایک نو جون جو غالباً جرمنی میں رہتا تھا اور ان دنوں ادھر آیا ہوا تھا.اس نے نہایت سوقیانہ طریق سے ہماری میٹنگ کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی اور اس دوران اس نے نہایت غیر مہذب اور ناشائستہ زبان استعمال کی جس سے جلسہ کا ماحول پراگندہ ہو گیا.اس دوران گاؤں کے بعض شرفا نے بات ختم کرا دی اور کہا اب کافی دیر ہو چکی ہے اس لئے آپ لوگ بھی میٹنگ ختم کر دیں.ہمیں اس صورت حال پر کافی رنج و ملال تھا.ہم نے جلسے کیلئے اختتامی دعا کا اعلان کیا اس پر اہل قریہ نے درخواست کی کہ کافی دنوں سے بارش نہیں ہوئی اس لئے زمیندار بھائی خاصے پریشان ہیں.از راہ کرم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں ابر رحمت سے نوازے.اس پر ہم لوگوں نے بڑی رقت کے ساتھ اجتماعی دعا شروع کی اور باقی حاضرین بھی شامل ہو گئے.وہ نوجوان اور اس کے چند ایک چیلے چانٹے غصہ کے عالم میں اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے.ہم لوگ دعا کے بعد واپس بصے کی طرف روانہ ہوئے.اللہ تعالیٰ نے قدرت کاملہ دکھائی اور اس نے اپنے فضل سے ہمارے دکھی دلوں کی پکار سنی.ابھی ہم اپنے گھر تک نہ پہنچے تھے کہ اس قدر تیز بارش ہوئی کے ہمارے لئے گھر پہنچنا دشوار ہو گیا.اس طرح اللہ تعالی کے وعدہ وَاِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَلَى فَإِنِّي قَرِيب کا وعدہ اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے ہوئے دیکھا.یوں اچانک ابر رحمت کی آمد ہم سب کے ازدیاد ایمان کا سبب بنی اور گاؤں والوں نے بھی جماعت احمدیہ کے ساتھ خدائی تائید ونصرت کا عجیب و غریب اور ایمان افروزہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا.خیر نصف رات کے بعد جب ہم ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچے، تو کافی تھک گئے تھے.ڈاکٹر صاحب کہنے لگے اب کافی دیر ہو گئی ہے اس لئے بہتر ہے کہ آپ ادھر ہی سوجائیں.خیر میں ادھر ہی سو گیا.صبح سویرے میں گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک نو جوان ایک چھوٹی بچی کے ساتھ کلینک 186
ارض بلال.میری یادیں کے باہر بیٹھا ہوا ہے.میں نے جب غور سے دیکھا تو یہ وہی نوجوان تھا جس نے رات کو جماعت کے جلسے میں بدزبانی کی تھی.میں نے اس سے علیک سلیک کے بعد اس کی اس طرح صبح سویرے آمد کا سبب دریافت کیا.اس دوران اس نے بھی مجھے پہچان لیا.اس لئے اب وہ سخت شرمندہ نظر آرہا تھا.اس نے جواب میں بتایا کہ رات کو میری بیٹی کی طبیعت سخت خراب ہو گئی تھی جس کی وجہ سے ہم سب اہل خانہ نے ساری رات بڑی تکلیف اور بے چینی میں گزاری ہے اس لئے علی الصبح میں اس کو علاج کے لئے آپ کے پاس لے کر آیا ہوں.میں نے اندر جاکر ڈاکٹر صاحب کو اسکے بارہ میں بتایا.ابھی کلینک کے کھلنے کا وقت نہ ہوا تھا.اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو جزائے خیر سے نوازے انہوں نے قبل از وقت کلینک کھولا اور بڑی خوش دلی کے ساتھ اس کی مریضہ بیٹی کو چیک کیا اور کسی طرح بھی اپنی بات چیت، کسی حرکت، اشاره و کنایہ یا انداز سے اس کو اسکی گزشتہ رات والی غلطی اور زیادتی کا احساس تک نہ ہونے دیا.مریضہ کو چیک کرنے کے بعد اسے دوائی دے دی.چونکہ وہ نوجوان جرمنی سے آیا تھا اور اس کی مالی حالت خاصی بہتر تھی اس نے دوائی کی قیمت ادا کرنے کی کوشش کی.مگر ڈاکٹر صاحب نے پیسے لینے سے انکار کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک جماعت کے اخلاق حسنہ اور جماعت کے ماٹو ” محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کی ایک پاکیزہ اور درخشاں مثال پیش کر دی.فجزاہ اللہ احسن الجزاء - ادھر اس نوجوان کی حالت قابل دید تھی اور وہ اپنے رات کے رویہ پر سخت نادم تھا اور کہنے لگا واقعی میں نے غلطی کی تھی جس کی خدا تعالیٰ نے مجھے سزا دی ہے.جس پر وہ بار بار معافی مانگ رہا تھا.اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے اور اس کی غلطی معاف فرمائے.آمین.اس طرح BASSE جماعت کے احمدی بھائیوں نے ایک ہی رات میں تائید الہی کے دو عجیب وغریب واقعات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کئے.187
تربیت اولاد.میری یادیں امام صاحب کا چھوٹا بیٹا جس کا نام ابراہیم بایو ہے.ابھی پرائمری سکول کی پانچویں کلاس میں طالب علم تھا.بچپن سے ہی نیک فطرت تھا.اپنے گاؤں سے اپنے والد صاحب کے ہمراہ با قاعدگی سے نماز جمعہ کے لئے حاضر ہوتا.ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات.آپ تصور کریں کہ اس چھوٹی سی عمر میں بھی اس سعید روح بچے نے بجائے کھلونے وغیرہ خریدنے کے قرآن پاک خریدنے کا فیصلہ ایک روز یہ بچہ ہمارے BASSE مشن ہاؤس میں آیا اور مجھے کہنے لگا استاذ میں نے انگریزی ترجمه والا قرآن شریف لینا ہے.میں نے اس کی عمر ، مالی حالت اور علمی حیثیت کے پیش نظر اسے کہا، بیٹے قرآن شریف تو پانچ ڈلاسی ( کیمبین کرنسی ) میں ملتا ہے، میں تمہیں کوئی اور کتاب مفت میں پڑھنے کو دے دیتا ہوں.کیونکہ اس زمانہ میں عام بچے کے لئے پانچ ڈلاسی بڑی بات ہوتی تھی.اس بچہ نے میری بات سن کر پانچ ڈلاس نکال کر میرے سامنے رکھ دئے.میں نے حیرانی سے اسے پوچھا تمہیں یہ پیسے کہاں سے ملے ہیں.کہنے لگا میں نے اپنے والد کے ساتھ کھیتوں میں کام کیا تھا اور اس نے مجھے بطور انعام دیئے ہیں.میں نے سوچا تھا کہ جب بھی مجھے پیسے ملیں گے تو میں اس رقم سے قرآن شریف خریدوں گا.اب جب مجھے رقم مل گئی ہے تو اس لئے سیدھا قرآن شریف لینے آگیا ہوں اس لئے میں نے قرآن شریف ہی لینا ہے.میں اس کے جذ بہ شوق کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا.پھر لمبا عرصہ تک میں جب بھی ان کے گھر جاتا تو اس قرآن پاک کو اس کے کمرے میں ایک میز کے اوپر پڑا ہوا دیکھتا.خدمت دین کا اعزاز پھر اللہ تعالیٰ کے فضل اور امام صاحب کی نیک صحبت ، تربیت اور دعاؤں نے اپنا رنگ دکھایا.جس کے نتیجہ میں آپ کی ساری اولاد بفضلہ تعالیٰ بڑی فدائی اور مخلص ہے.خصوصاً اس قرآن 188
ارض بلال- میری یادیں ) شریف لینے والے نیک فطرت بچے کو اللہ تعالیٰ نے ایک گوہر یکتا بنادیا اور وہی بچہ آج کل جماعت احمدیہ کے ایک معروف تعلیمی ادارہ مسرور احمد یہ سینئر سیکنڈری ہائی سکول کے پرنسپل کے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کر رہا ہے.کان اللہ معہ.وصال چند سال قبل یہ درویش صفت بزرگ اپنی اولاد کے لئے احمدیت کی برکات اور تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں اخلاص و وفا کا ایک بہترین ورثہ چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہو گے.اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے.آمین.مکرم ابوبکر طور صاحب شہید جب میں پہلی بار گیمبیا آیا تو ان دنوں مکرم ابوبکر طور صاحب مکرم امیر صاحب کے دفتر میں کام کرتے تھے.گیمبیا میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے گھانا تشریف لے گئے.وہاں پر تین سال تعلیم حاصل کی.واپس گیمبیا آکر مکرم امیر صاحب کے دست راست کے طور پر خدمت کی توفیق پائی.آپ کا تعلق گیمبیا کی بہت ہی مخلص اور فدائی جماعت saba سے تھا.آپ کے والد صاحب کے بڑے بھائی مکرم اسماعیل طورِ صاحب غالباً اپنے گاؤں میں سب سے پہلے احمدی ہیں اور اس خاندان کی اس علاقہ میں جماعت کے لئے بہت قربانیاں ہیں.ان کی پہلی شادی ہوئی.ان کی اہلیہ میرے شہر میں ہی رہتی تھیں.اکثر اسے ملنے آجایا کرتے تھے.ایک دن میرے پاس آئے.کچھ پریشان لگ رہے تھے.کہنے لگے، میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے.کہ میں اِن شانِئَكَ هُوَ الابتر پڑھ رہا ہوں.اس سے مجھے یہ فہیم ہوئی ہے کہ میرے ہاں اولاد نہ ہوگی.میں نے انہیں تسلی دی.پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ جلد ہی ان کی اس خاتون سے علیحدگی ہو گئی.پھر دوسری شادی ہوئی.اللہ تعالیٰ نے بیٹے سے نوازا.189
ارض بلال.میری یادیں ) بڑے مخلص ، محنتی ، حساب کتاب میں بڑے ماہر تھے.خطبات جمعہ اور جلسوں میں ترجمانی کے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرتے تھے.کچھ عرصہ گنی بساؤ میں بھی خدمت کی توفیق ملی.پھر عین جوانی میں کار کے ایک حادثہ میں اللہ کو پیارے ہو گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انکی نسلوں کا حامی و ناصر ونگہبان ہو.مکرم اسمعیل ترارولے صاحب شہید یہ ایک درویش صفت ، بہت ہی پیارے اور مخلص نوجوان تھے.ان کا تعلق گیمبیا کی معروف جماعت salikenni سے تھا.ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی اور پھر دینی تعلیم کے حصول کے لئے گھانا تشریف لے گئے.تین سال کے بعد گیمبیا واپس تشریف لائے.مختلف جماعتوں میں بطور معلم خدمت کی سعادت پائی.بڑے صابر و شاکر نو جوان تھے.بہت ملنسار اور ہر کس و ناکس کے ہمدرد اور غمخوار اور بہترین مبلغ تھے.ایک دفعہ انہیں علم ہوا کہ ایک معلم نے اپنی بعض ذاتی کمزوریوں کی بنا پر جماعتی نظام پر کچھ نکتہ چینی کی ہے.انہیں یہ بات سن کر تکلیف ہوئی آپ اس معلم کے پاس گئے.حالانکہ وہ معلم ان سے عمر میں بڑے تھے اور انہیں سمجھایا کہ آپ کو اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہئے.اس سے جماعت میں فتنہ پیدا ہوتا ہے اور اسے کہا تم تو خلیفہ اول کے بیٹوں کی طرح حرکت کر رہے ہو.ان کے انجام کو بھی دیکھ لو گنی بساؤ میں farim کے مقام پر بطور معلم متعین تھے.اپنا کام بڑے احسن رنگ میں بجالا رہے تھے.ایک دن علی الصبح تبلیغی دورہ پر جانے کے لئے تیاری کر رہے تھے.ان کے پاس ایک موٹر سائیکل تھی.کسی طرح موٹر سائیکل کو آگ لگ گئی.جس سے آپ کا سارا جسم جھلس گیا.چند دن موت وزیست کی حالت میں رہے.آخر زندگی کی جنگ ہار گئے.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمان) 190
ارض بلال- میری یادیں - اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں مقام نعیم سے نوازے.آمین.مکرم شنا جام شہید صاحب میں 1983ء میں پہلی بار گیمبیا میں بطور مربی پہنچا.ان دنوں بانجول کی ایک تنگ سی گلی میں ہمارا مشن ہوتا تھا.مکرم داؤد احمد حنیف صاحب امیر تھے.مختصر سا ان کا دفتر تھا جس میں امیر صاحب کی سادہ ہی کرسی کے علاوہ مشکل سے چار کرسیاں ساسکتیں تھیں.میں نے دیکھا کہ ایک کیمبین نو جوان مشن میں تشریف لائے.ان کا ایک ہی باز و تھا.ان سے تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ ان کا نام ثنا چام ہے.سو کٹا نامی قصبہ میں رہتے ہیں اور کسی مدرسہ میں ٹیچر ہیں.میں نے دیکھا کہ تقریباً روزانہ ہی مشن میں آجاتے ہیں اور رات گئے تک مختلف جماعتی کام کرتے رہتے.نمعلوم کب اور کس طرح اپنے گھر پہنچتے تھے کیونکہ ان دنوں ٹرانسپورٹ کی بہت مشکلات ہوا کرتی تھیں.ان کا اپنے گاؤں جانے کا سفر کم از کم دو گھنٹے کا ہو گا.لگتا تھا انہوں نے اپنے آپ کو جماعت کے لئے وقف کر رکھا ہے.انہیں مسلسل مجلس عاملہ کا نمبر رہنے کا اعزاز حاصل ہے.مجلس انصار اللہ کے لمبا عرصہ صدر رہے اور خوب خدمت کی توفیق پائی.انہوں نے کبھی کسی کو احساس تک نہیں ہونے دیا کہ وہ ایک بازو سے محروم ہیں.بڑے بہادر اور با ہمت دوست تھے.ہر قسم کی بھاگ دوڑ میں آگے ہوتے تھے.جماعت کا شعبہ مال انہی کے سپرد ہوتا تھا.بڑی دلجمعی سے سارا کام کرتے تھے.گنی بساؤ میں احمدیت کا سہرا مکرم ثنا صاحب گنی بساؤ جایا کرتے تھے.ان کے ہر طبقہ سے تعلقات تھے.سیاست سے گہری دلچسپی تھی.بہت سے وزراء کے ساتھ ذاتی مراسم تھے.انہیں تبلیغ کا بھی بہت شوق تھا.ان کے ذریعہ گنی بساؤ میں احمدیت کا پودا لگا.جو بعد میں تناور درخت بن گیا.191
ارض بلال.میری یادیں گنی بساؤ کے آرمی چیف ان کے ایک قریبی عزیز گنی بساؤ میں آرمی کے چیف آف سٹاف تھے.ان کا نام مسٹر مانے تھا.ایک بار مکرم امیر صاحب اور خاکسار ثنا صاحب کے ہمراہ ان کے ہاں گنی بساؤ گئے تھے.انہوں نے ہماری بڑی تکریم کی ہمیں ہمارے ہوٹل میں کھانا پہنچاتے رہے.بعد میں وہ ایک فوجی انقلاب میں مارے گئے تھے.جانکاہ اور جان لیوا حادثہ ثنا چام صاحب لمبا عرصہ ہیومینٹی فرسٹ کے چیئر مین رہے اور حسب توفیق خدمت کی.ایک روز ہیومینٹی فرسٹ کے کمپیوٹر کالج کے سامنے کھڑے تھے کہ ایک کار نے آکر ٹکر مار دی جس سے ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی.گیمبیا میں مناسب علاج نہ ہونے کے باعث سینیگال لایا گیا.اس دوران مجھے ان کی خدمت اور دیکھ بھال کی توفیق ملی.لیکن عمر نے وفانہ کی اور اس حادثہ کے نتیجہ میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئے.اس بیماری کے دوران میں نے انہیں ہمیشہ ہی مسکراتے دیکھا.عجب مرد تھا.اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے.آمین.حضرت خلیفہ اتبع الرابع" کی شفقت حضور انور جماعت کے مخلص کارکنان کا بلا امتیاز خیال فرماتے تھے.مکرم ثنا صاحب پر حضور انور کی خصوصی شفقت تھی.ان کے مصنوعی بازو کے لئے حضور انور نے لندن میں اپنی نگرانی میں انتظام فرمایا.ان کا ایک بیٹا جامعہ احمدیہ انگلستان میں زیر تعلیم ہے.اللہ تعالیٰ اس نوجوان کو اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.ڈاکٹر خلیل سینگا ڈو ( مرحوم ) آف گیمبیا گیمبیا میں فرافینی کے مقام پر ایک نہایت ہی بزرگ، تقوی شعار، دُعا گو اور پانچ وقت نمازوں 192
ارض بلال- میری یادیں ) کے پابند ڈاکٹر صاحب رہتے تھے.ان کا پورا نام خلیل ینگاڈ و صاحب تھا.چند سال پہلے ان کا وصال ہو گیا ہے.افریقہ کے جن ممالک تک میرا تعارف اور شناسائی ہے، میرے علم کے مطابق دین کے لئے غیر معمولی مالی قربانی کرنے والوں میں آپ صف اول کے مجاہدین میں سے تھے.لازمی چندہ جات کے علاوہ زکوۃ با قاعدہ نصاب کے مطابق ادا کرتے.علاوہ ازیں بینک سے جو رقم بطور سود ملتی وہ بھی من و عن اشاعت دین کی مدد میں جماعت میں پیش کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ خلیفہ وقت کو اخلاص کی دولت سے مالا مال باوفا خدام بکثرت عطا فرماتا رہے اور ہم خلافت کی برکات سے ہمیشہ زیادہ سے زیادہ فیض پاتے رہیں.آمین.مکرم علیو باہ صاحب جماعت کے ابتدائی ممبران میں سے تھے.دنیاوی لحاظ سے بفضلہ تعالیٰ اعلی تعلیم یافتہ تھے.گیمبیا میں کسٹم کے محکمہ کے اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز تھے.ان کی اعلیٰ ملکی خدمات کے اعتراف میں انہیں جسٹس آف پیس کے خطاب سے نوازا گیا تھا.مکرم باہ صاحب بہت ہی شریف النفس اور سادہ مزاج تھے.باوجود اتنے بڑے محکمہ کے سر براہ ہونے کے ذاتی زندگی بہت زیادہ سادہ تھی.ابتدا سے ہی جماعت کی خدمت مختلف حیثیتوں سے بجا لاتے رہے.سیکرٹری مال ہمبر مجلس عاملہ نیشنل صدر جماعت کے طور پر خوب خدمت کی توفیق پائی.ان کے گھر میں ایک چھوٹی سی مسجد بنی ہوئی تھی جس کا سنگ بنیاد مکرم میرمسعود احمد صاحب نے رکھا تھا.مکرم بابا الیف تر اول صاحب موجودہ امیر گیمبیا کا تعلق بھی سالیکنی جماعت سے ہے.مکرم امیر صاحب بہت ہی محنتی دوست ہیں.بچپن میں ہائی سکول کی تعلیم کے سلسلہ میں سالیکینی سے بانجول آگئے.یہاں پر جماعت سے رابطہ ہوا.نیک فطرت تھے.حق کو حق سمجھا اور بیعت کر لی.اپنے خاندان میں لمبا عرصہ تک اکیلے 193
- میری یادیں - ہی احمدی تھے.ابھی حال ہی میں ایک دوسرے بھائی نے بھی بیعت کی ہے.بعد ازاں اعلی تعلیم کے لئے آپ امریکہ چلے گئے.واپسی پر کسٹم کے محکمہ میں ملازمت شروع کی اور پھر اعلی ترین مقام تک پہنچے.جماعتی خدمات کے لحاظ سے صدر خدام الاحمدیہ، افسر جلسہ سالانہ ،سیکرٹری مال نیشنل پریذیڈنٹ اور اب بطور امیر خدمت کی توفیق مل رہی ہے.میرے ایک غیر احمدی واقف کار جن کا تعلق پاکستان سے ہے اور گیمبیا میں کاروبار کرتے ہیں ایک دن مجھے ملے.کہنے لگے، میں آپ کے امیر صاحب سے بہت متاثر ہوا ہوں.یہ تو بہت نیک آدمی ہیں.انہوں نے بتایا کہ ایک روز میں کسی کام کی غرض سے مکرم امیر صاحب کے سرکاری دفتر میں گیا.میں نے دیکھا کہ اس محکمہ میں ہر طرف کارکنان پیسے کے چکر میں ہوتے ہیں.لیکن اس کے برعکس میں جب امیر صاحب کے کمرے میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ مکرم امیر صاحب تلاوت قرآن پاک میں مصروف ہیں.میں نے امیر صاحب کو بتایا کہ آپ کی جماعت کے فلاں آدمی نے میری کچھ رقم ادا کرنی ہے، وہ حیل و حجت سے کام لے رہا ہے.اس سلسلہ میں میری مدد فرما دیں.امیر صاحب نے اسی وقت فون اٹھایا اور متعلقہ شخص کو فون کیا اور کہا کہ اس پاکستانی دوست کی رقم فوراً ادا کر کے مجھے فون پر ہی اطلاع کرو.وہ دوست بتاتے ہیں اسی روز اس آدمی نے میری رقم ادا کر دی.اللہ کے فضل سے جماعت ان کے زیر نگرانی خوب ترقیات کی منازل طے کر رہی ہے.گیمبیا کے علاوہ گنی بساؤ کی جماعت بھی ان کے زیر نگرانی ہے.مکرم باشیخو د بیبا صاحب فرافینی کے ایک معروف بزرگ تھے.ایک لمبا عرصہ جماعت کے صدر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی.نہایت ہی مخلص اور وفا دار دوست تھے.میں نے انہیں کبھی بھی کسی بھی نماز پر دیر سے مسجد میں آتے نہیں دیکھا.ہمیشہ اوّل وقت میں مسجد میں حاضر ہوتے.شہر کے زعما میں شمار ہوتے 194
ارض بلال- میری یادیں ) تھے.ان کی وفات پر ایک غیر احمدی دوست نے کہا کہ آج شہر کا ایک پایہ ٹوٹ گیا ہے.یا محمد جان یہ بزرگ بانجول کے قریب لامین کے رہنے والے تھے.ایک سکول میں ملازم تھے.نہایت ہی نیک فطرت اور پارسا بزرگ تھے.تنگدستی غالب تھی، پھر بھی اپنی حیثیت کے مطابق قربانی میں پیش پیش رہتے تھے.ان کی فطرت میں عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.جماعت کے لئے ہر آواز پر لبیک کہنا ان کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی.اللہ تعالی انہیں غریق رحمت فرمائے.آمین.صالفو کیٹا مکرم صالفو کیٹا صاحب بھی جماعت کے ایک بزرگ تھے.یہ ایک پڑھے لکھے دوست تھے.طبیعت میں عاجزی اور انکساری بہت زیادہ تھی.کسی پرائمری سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے.انکی رہائش احمد یہ مسجد سے بہت دور ایک اور شہر بریکامہ سے بھی آگے کسی گاؤں میں تھی.وہاں سے ہر جمعہ کو با قاعدہ نماز کے لئے تشریف لاتے تھے.امام اسماعیل طور گیمبیا کی صابا جماعت اپنے اخلاص میں بہت مشہور ہے.یہ وہی جگہ ہے جہاں حضرت خلیفۃ امسیح الرابع " نے نصرت جہاں کی دوسری اسکیم کا اعلان فرمایا تھا.صابا جماعت کے بانی ممبر مکرم اسمعیل طور صاحب تھے جو اپنے گاؤں میں تعلیم و تدریس کا کام کرتے تھے.جب آپ نے احمدیت قبول کی تو آپ کے سب شاگردوں نے بھی آپ کے نیک اُسوہ اور اثر کے تحت احمدیت قبول کر لی.اس جماعت پر بڑی مشکلات آئیں.یہ لوگ ثابت قدم رہے اور ان کی نسلیں بھی بڑے اخلاص کے ساتھ خلافت کے دامن سے وابستہ ہیں.195
.میری یادیں امام عرفان تراول سالیکینی کا گاؤں ملک بھر کے بڑے دیہات میں شمار ہوتا ہے.یہاں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت ہی مخلص جماعت قائم ہے.اس جماعت نے بہت زیادہ مخالفت کے ادوار دیکھے ہیں لیکن اللہ کے فضل سے یہاں سب احمدی نہایت ثابت قدمی سے اپنے ایمانوں پر قائم رہے.آج کل بانجول کی جماعت کے بہت سے دوست اسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں.اس جماعت کی روح رواں مکرم امام عرفان تر اول صاحب ہیں.عرفان منڈ نگا زبان میں عالم کو کہتے ہیں.سالیکینی جماعت کے قیام میں انکی خدمات بہت نمایاں ہیں.بہت ہی مخلص اور جماعت کے جاں نثار بزرگ ہیں.منڈنگا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے موضوع پر نظمیں لکھی ہوئی تھیں.ہر جلسہ سالانہ کے موقع پر انکی نظمیں پڑھی جاتی تھیں جسے حاضرین بڑے شوق و ذوق سے سنتے تھے.اس جماعت نے جماعت کے بہت سے خدام پیدا کئے ہیں.مکرم شیخ عمر دیبا صاحب سابق صدر مملکت داؤد جوارا صاحب کے نائب صدر سالیکینی گاؤں کے ایک شریف دیبا صاحب تھے جنہوں نے اپنے سیاسی اختلافات کی بنا پر داود جوار اصاحب کی حکومت سے الگ ہو کرا اپنی سیاسی پارٹی بنائی تھی.ان کے چھوٹے بھائی مکرم شیخو دیبا صاحب خدا کے فضل سے طالب علمی کے زمانہ میں ہی احمدی ہو گئے.سارا خاندان ہی جماعت کا مخالف تھا مگر یہ نوجوان اکیلا ہی راہ صداقت پر ڈٹا رہا.پھر خدا کے فضل سے انہیں جماعت کی مختلف حیثیتوں میں خدمت کرنے کی توفیق ملی.مجلس عاملہ کے ممبر کے طور پر، ایڈمنسٹریٹر احمد یہ ہسپتال کے علاوہ اور بھی بہت سے جماعتی عہدوں پر کام کرنے توفیق ملی.آج کل ان کا ایک بیٹا عبداللہ دیبا جامعہ احمدیہ انگلستان میں زیر تعلیم ہے.اللہ تعالیٰ اس خاندان کو جماعت کی نمایاں اور مقبول خدمت کی توفیق عطا فرمائے.آمین.196
سیڈی مختار حیدرا ارض بلال.میری یادیں جارج ٹاؤن میں مکرم سیڈی مختار حید را صاحب ایک زمانہ میں صدر جماعت تھے.ان کا تعلق موریطانیہ سے تھا.پرانے زمانہ میں گیمبیا میں آکر آباد ہو گئے تھے.یہ خاندان ملک بھر میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.ان کی اہلیہ سابق صدر مملکت داؤد جوارا صاحب کی بہن تھیں جن کا نام زینب جوارا تھا.بہت مخلص خاتون تھیں.سیڈی مختار صاحب جارج ٹاؤن کے بانی ممبران میں سے تھے.لوکل امام بھی تھے.منڈنگا، فولا، وولف، انگریزی کے علاوہ عربی زبان پر بھی عبور تھا.جلسوں اور اجتماعات پر ترجمانی کے فرائض بڑے احسن طور پر ادا کرتے تھے.ابوبکر فاطی کیروان کے مقام پر ایک احمدی دوست مکرم کیبا فاطی صاحب رہتے تھے.پورے گاؤں میں اکیلے ہی احمدی تھے.نزدیک ترین جماعت صاباتھی.ہر جمعہ کو وہاں نماز کے لئے جاتے.اپنے گھر میں ایک کمرہ جماعت کے مہمانوں کے لئے مخصوص کیا ہوا تھا.جب بھی اس علاقہ میں دورہ پر جاتے ادھر ہی قیام ہوتا.بہت ہی مخلص دوست تھے.اب اس دنیا سے جاچکے ہیں.اللہ کی رحمت کا سایہ سدا ان کے سر پر ہو.آمین.مکرم الحاج لامن جوار ا صاحب الحاج لامن جوار ا صاحب کا تعلق بریکامہ سے تھا.زمانہ طالب علمی میں ہی بیعت کی سعادت مل گئی.انگلستان سے اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کی.پھر گیمبیا گورنمنٹ کے ایک اہم ادارہ جی پی ایم بی کے ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز ہوئے.اس کے ساتھ جماعتی خدمات کی بھی بھر پور توفیق پائی.سیکرٹری مال ، جنرل سیکرٹری ، افسر جلسہ سالانہ کے علاوہ اور بہت سے عہدوں پر رہ کر جماعت کی خدمت کرتے رہے.گیمبیا بھر میں یہ پہلے خوش نصیب ہیں جنہیں قادیان جانے کی سعادت ملی اور پھر ایک سرکاری 197
.میری یادیں دورہ پر پاکستان بھی گئے لاہور جماعت کے مہمان بنے اور اور مرکز احمدیت ربوہ جا کر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی زیارت بھی کی.اس دور میں بہت کم لوگ حج کی توفیق پاتے تھے.آپ نے اس دور میں حج کی توفیق بھی حاصل کی.آپ کا خاندانی تعلق سابق صدر مملکت داؤ د جوار اصاحب کے ساتھ تھا.ملک میں فوجی انقلاب آنے پرنئی حکومت کے زیر عتاب آگئے.کافی مشکل دور سے گزرے.موقع ملنے پر کینیڈ اتشریف لے گئے.آجکل کینیڈا میں بھی جماعت کی خدمت میں مصروف عمل ہیں.الحاج ابراہیم مبوصاحب مکرم ابراہیم صاحب گیمبیا جماعت ایک مخلص دوست ہیں.بہت پڑھے لکھے ہیں.امریکہ سے اعلی تعلیم حاصل کی ہے.بطور پرنسپل تعلیمی میدان میں خدمت کرتے رہے ہیں.جماعتی لحاظ سے بھی انہیں ممبر مجلس عاملہ، نائب امیر گیمبیا کے علاوہ اور بھی بہت سی حیثیتوں میں خدمت کی توفیق ملی ہے.ایک دفعہ ان کے قبیلہ کا ایک آدمی جماعت سے علیحدہ ہو گیا.تو کچھ معروف لوگ اکٹھے ہوکر ان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ابراہیم دیکھو اب تو فلاں دوست نے جماعت چھوڑ دی ہے.بہتر ہے تم بھی جماعت چھوڑ کر واپس ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ.اس پر ابراہیم صاحب نے کہا کہ آپ کی ہمدردی کا شکریہ.لیکن یہ بات تو بالکل ناممکن ہے.جہاں تک اس دوست کا تعلق ہے جس نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی ہے ممکن ہے اس کی جماعت میں شمولیت کی وجہ کچھ اور ہولیکن میری شمولیت کی وجہ اور ہے.اس پر وہ لوگ ناکام و نامراد واپس چلے گئے.198
.....ارض بلال.میری یادیں باب سیزده.....] سینیگال کے چند مخلصین کا تذکرہ مکرم حمد باہ صاحب ایک نڈر داعی الی اللہ مکرم حمد باہ صاحب بفضلہ تعالیٰ بہت ہی نڈر اور بہادر احمدی ہیں.ساری عمر انہوں نے سفر میں گزار دی ہے.ہر ملنے والے کو علیک سلیک کے بعد جماعت کا پیغام دینا ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے.وہ ہمیشہ ہی اپنا افریقن چولا پہنتے ہیں اور اس کے نیچے ایک بندوق اور ایک لمبا چھرا جسے Cutlas کہتے ہیں ضرور رکھتے ہیں جو ابھی تک باوجود ضعیف العمری کے ان کے پاس موجود ہوتا ہے.ایک روز ہمارے ایک لوکل معلم مکرم حامد مبائی صاحب ان کے علاقہ میں ایک پیر صاحب کو تبلیغ کرنے گئے.پیر صاحب جوابات نہ دے سکے تو ان کے حواریوں نے ہمارے معلم صاحب کو پکڑ لیا اور ان کو مارنے کی کوشش کی.اس دوران مکرم حمد باہ صاحب کچھ دور چلے گئے اور اپنی بندوق کی نالی پیر صاحب کی طرف کر دی اور زور سے کہا: ہاں تم ہمارے معلم کو ہاتھ لگا ؤ تو دیکھو کس طرح میں تمہارے پیر صاحب کو 66 ابھی گولی سے اُڑاتا ہوں.“ اس پر سب لوگ ڈر گئے اور انہوں نے معلم صاحب کو چھوڑ دیا.ان کی تبلیغ کے ذریعہ سے سینیگال بھر میں بہت سے مقامات پر لوگوں کو احمدیت کی نعمت ملی.اب ضعیف العمری کے باعث ان کی صحت کافی کمزور ہو چکی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے صحت و سلامتی والی لمبی عمر عطا فرمائے.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ایک بہت ہی تاریخی وجود ہیں.یہ سینیگال میں احمدیت کے ایک ہیرو ہیں.199
پہلے سینیگالی معلم.میری یادیں پہلے سینیگالی معلم کا نام استاذ حامد امبائی صاحب ہے.ان کا وطن سینیگال ہے.آپ کا آبائی گاؤں سینیگال اور موریطانیہ کے بارڈر کے قریب واقع ہے.آپ کا تعلق سینیگال کے معروف فولانی قبیلہ ٹکلر (toukler) سے ہے.آپ نے اپنی دینی تعلیم اپنے علاقہ کے ابتدائی مدارس میں حاصل کی.اس کے بعد ڈا کارشہر میں بعض بڑے مدارس سے کسب علم کیا.عربی تحریر و تقریر میں کافی مہارت حاصل کر لی.صاحب علم دوست ہیں تحصیل علم کے بعد ڈا کار شہر کے ایک مدرسہ میں تعلیم و تدریس شروع کر دی.احمدیت کی آغوش میں انہی ایام میں کسی ذریعہ سے آپ کو احمدیت کے بارہ میں چند عربی کتب ملیں.آپ نے کتا بیں پڑھیں اور دل و دماغ نے فیصلہ دیا کہ یہی صدق کی راہ ہے.اس پر ایمان لے آئے.وقف زندگی اس کے بعد آپ مکرم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب امیر جماعت گیمبیا کے پاس بانجول تشریف لائے اور اپنے آپ کو جماعت کی خدمت کے لئے پیش کر دیا.آپ کی درخواست منظور ہوگئی.شروع میں سینیگال کی کو لخ ریجن میں بھجوایا گیا.زیادہ تر کولخ جماعت میں ہی رہے.حسب توفیق خدمت کرتے رہے.پھر 1985ء میں مکرم داؤ د احمد حنیف صاحب نے اپنے دور امارت میں بعض مصالح کے تحت انہیں سینیگال سے گیمبیا کی ایک جماعت مصر ا میں ٹرانسفر کر دیا.پھر ایک لمبا عرصہ تک اسی علاقہ میں بطور معلم خدمت دین کرتے رہے.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے ایک بیٹے محمد امبائی صاحب جامعہ احمدیہ انگلستان میں زیر تعلیم ہیں.دو بیٹے گیمبیا میں بطور معلم خدمت دین کی توفیق پارہے ہیں.200
.میری یادیں استاذ احمد لی صاحب 1984ء میں سینیگال کے ایک عربی استاذ مکرم احمد لی صاحب کو جماعت احمدیہ کے معلم مکرم حامد امبائی صاحب کے ذریعہ قبول احمدیت کی سعادت ملی.بیعت کے بعد انہوں نے جماعت میں بطور معلم کام کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا.مکرم امیر صاحب نے ان کی درخواست منظور فرمالی اور انہیں بطور معلم رکھ لیا.چونکہ ابھی نئے نئے نور احمدیت سے منور ہوئے تھے اس لئے انکی جماعتی تعلیم و تربیت کی خاطر محترم امیر صاحب نے انہیں چند ماہ کے لیے خاکسار کے پاس بصے کے علاقہ میں بھجوا دیا.ان سے میل ملاقات ہوئی.مکرم احمد لی صاحب کو میں نے بہت ہی نیک فطرت اور صالح نو جوان پایا.بتاتے ہیں کہ ان کا رشتہ سینیگال کی مشہور ومعروف مذہبی اور روحانی شخصیت مکرم شیخ عمر فوطی کے خانوادہ سے ہے.( شیخ فوطی کے بارے میں بعض جہلاء کا عقیدہ ہے کہ وہ فوت نہیں ہوئے بلکہ غائب ہو گئے ہیں ) احمد لی صاحب طویل قدوقامت کے نوجوان ،شرعی چہرہ ، پابند صوم وصلوٰۃ کے علاوہ شب بیداری کے زیور سے بھی آراستہ ہیں.لوکل زبان فولانی کے علاوہ وولف بھی خوب بولتے ہیں.پھر ان زبانوں کے علاوہ عربی بول چال میں بھی خاصی دسترس رکھتے ہیں.دراصل یہ نوجوان سینیگال کے ایک قصبہ پوڈور کے رہنے والے ہیں اور یہ قصبہ دریائے سینیگال کے کنارے پر واقع ہے.یادر ہے یہ دریا دو ملکوں کے درمیان دریائی سرحد ہے جسے دنیا کی طویل ترین دریائی سرحد ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے.اس دریا کے دوسری جانب موریطانیہ کی سرزمین ہے جو ایک عرب مملکت ہے اور وہاں کے لوگ عربی بولتے ہیں.آج کے متمدن دور میں بھی ان کا رہن سہن ، بود و باش ، عادات و خصائل اور طرز لباس پرانے وقتوں کی یاد تازہ کر دیتے ہیں.اس دریائی سرحد کے اطراف میں بسنے والے لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں کے ذریعہ سے دونوں ممالک میں آتے جاتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں سینیگال کے ان سرحدی علاقوں کے باسیوں کی طرز معاشرت، عام بول چال اور روز مرہ کی زندگانی پر ان کے ہمسایوں کے گہرے نقوش ہیں.ان 201
ارض بلال.میری یادیں ) کی زبان میں عربی زبان کے بہت سے الفاظ شامل ہو چکے ہیں بلکہ ایک حصہ بن چکے ہیں.میرے قیام سینیگال کے دوران میری تعلیمی تربیتی اور تبلیغی کاوشوں میں احمد لی صاحب نے بھر پور مدد کی ہے اور یہ سچ ہے کہ ان کوششوں کے نتیجہ میں ملنے والے شیر میں انمار میں ان کا بڑا عمل دخل ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اس کی بہت زیادہ جزائے خیر دے اور ان کے بچوں کا دین اور دنیا میں حامی و ناصر ہو اور انہیں ہر نوع کی کامیابیاں عطا فرمائے.آمین.گورنر عمر لامین باجی شہید آپ بنجونہ کے قریب سنجاں نامی گاؤں میں پیدا ہوئے.یہ گاؤں زگنشور ریجن کے ایک شہر بنجونہ کے قریب واقع ہے.آپ کا تعلق سینیگال کے ایک معروف قبیلہ جولا سے تھا.اس ریجن میں زیادہ تر لوگ اسی قبیلہ کے آباد ہیں.تعلیم اور عملی زندگی کا آغاز آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی حاصل کی اس کے بعد اپنے قریبی شہر بنجونہ کے تعلیمی اداروں سے کسب علم کیا.آپ نے اپنی عملی زندگی کے سفر کا آغاز شعبہ تدریس سے کیا اور کئی سال تک مختلف مدارس میں بطور ٹیچر خدمات سرانجام دیتے رہے.اس کے بعد ملکی سیاست میں دلچسپی لینی شروع کر دی جس کے بعد آپ سینیگال کی اپوزیشن جماعت میں بطور ممبر شامل ہو گئے.آپ کی اپنی جماعت کے لئے نمایاں خدمات حسن کارکردگی ، اور گہری دلچسپی کی وجہ سے بہت جلد آپ نے اپنی پارٹی میں ایک اہم مقام پیدا کر لیا.جس کے نتیجہ میں پارٹی مینجمنٹ نے انہیں نیشنل اسمبلی کے عام انتخابات میں بنجونہ کے حلقہ سے امید وار مبر نیشنل اسمبلی کی ٹکٹ دے دی.اب ایک طرف تو لامن باجی صاحب تھے جو پہلی بار ایک ناتجربہ کار شہ سوار کی مانند میدان سیاست میں اُترے ہیں اور وہ بھی حزب مخالف کے پلیٹ فارم پر.دوسری جانب ان 202
ارض بلال- میری یادیں ) کے مد مقابل حکومتی پارٹی کے ایک منجھے ہوئے اور صاحب اثر ورسوخ سیاستدان تھے.خیر انتخابات ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ناتجربہ کاری ، نامساعد حالات کے باوجود کامیابی نے مکرم لامن باجی صاحب کے قدم چومے.جس کے نتیجہ میں پہلی بار آپ اپنی قوم کے نمائندہ بن کر نیشنل اسمبلی میں پہنچ گئے.اس کے بعد آپ کو تاحیات اسمبلی کے ممبر بن کر اپنے علاقہ کی کامیاب نمائندگی کرنے کی توفیق ملی.گورنر کے عہدہ پر فائز 2007ء میں سینیگال کے عام انتخابات ہوئے جس میں اپوزیشن پارٹی اس بار بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو کر برسراقتدار آ گئی.نئے سر براہ مملکت عبد اللہ وڈ صاحب نے اپنی نئی حکومت میں مکرم عمر لامن باجی صاحب کو زیگنشور ریجن کا گورنر بنادیا.سینیگال میں پہلے احمدی ممبر آف پارلیمنٹ ہونے کا اعزاز مکرم لامن باجی صاحب کا آبائی گاؤں گیمبیا اور سینیگال کے سرحدی علاقہ میں واقع ہے.اس علاقہ کو فونی کہتے ہیں.یہاں کی زیادہ تر آبادی بھی جو لا قبیلہ سے ہے.1993ء کی بات ہے، ان دنوں مکرم عنایت اللہ زاہد صاحب فونی کے علاقہ میں بطور مبلغ متعین تھے.انہوں نے اپنے علاقہ کے نومبائعین اساتذہ اور اماموں کے لئے ایک تربیتی کلاس کا اہتمام کر رکھا تھا.ان شرکاء میں سے کچھ مہمان سینیگال کے سرحدی مقامات سے بھی شریک تھے.ان میں سے چند احمدی بھائی ان کے قریبی رشتہ دار بھی تھے اور وہ انہیں جماعت احمدیہ کا پیغام حسب علم و توفیق پہنچاتے رہتے تھے.ایک دن ان میں سے ایک سینیگالی احمدی دوست نے مکرم لامن باجی صاحب کو بھی اس کلاس میں تشریف لانے کی دعوت دی جو انہوں نے برضا ورغبت قبول کر لی اور پھر ایک دن حسب وعدہ اس کلاس میں تشریف لے آئے.مکرم عنایت اللہ صاحب نے وقت کی رعایت سے انہیں جماعت کا تعارف کرایا.نیک دل اور سعید فطرت رکھتے تھے.جلد ہی دل میں حق آشکار ہو گیا.اس پر آپ بلا 203
ارض بلال- میری یادیں ) حیل و حجت حلقہ احمدیت میں داخل ہو گئے.اس طرح آپ کو اللہ تعالیٰ نے سینیگال نیشنل اسمبلی کے پہلے احمدی ممبر بننے کے تاریخی اعزاز سے نوازا.ممبران نیشنل اسمبلی سینیگال میں بیعت کی لہر 1997ء سے سے پہلے ڈاکار شہر میں جماعت نہیں تھی.اس لئے اگر کبھی کسی غرض سے ڈاکار جاتے تھے تو رہائش کے لئے پرائیویٹ طور پر اپنے کسی جاننے والے کے پاس ہی انتظام کرنا پڑتا تھا جو ایک خاصا مشکل اور صبر آزما کام تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے اس مشکل کو حل فرما دیا.ہوا کچھ یوں کہ سینیگالی حکومت نے ڈاکار شہر میں اپنے اسمبلی ممبرز کے لئے ایک ہاسٹل بنا یا ہوا ہے جہاں پر ہر ممبر کو ایک ایک کمرہ الاٹ کر دیا جاتا ہے.چونکہ مکرم عمر باجی صاحب بھی اسمبلی کے ممبر تھے اس لئے ان کے پاس بھی ایک کمرہ تھا.اب جب کبھی ہمیں ڈاکار میں کمرہ کی ضرورت پیش آتی اور اتفاق سے اگر باجی صاحب ادھر نہ ہوتے تو اس صورت میں ہم لوگ ان کے کمرہ کو ان کی اجازت سے استعمال کر لیتے تھے.ایک دفعہ مکرم داؤ د احمد حنیف صاحب ( سابق امیر جماعت احمد یہ گیمبیا) اور خاکسار بعض جماعتی کاموں کے لئے سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار گئے.مکرم عمر صاحب سے ان کا کمرہ استعمال کرنے کی اجازت لے لی جو انہوں نے بخوشی مرحمت فرما دی.جب ہم ہاسٹل میں پہنچے تو انتظامیہ سے معلوم ہوا کہ کمرہ کی چابی تو ایک اور ممبر آف پارلیمنٹ نجیک جینگ صاحب لے گئے ہیں اور اس وقت وہ کمرہ میں استراحت فرمارہے ہیں.بہر حال ہم لوگ کمرہ میں پہنچے جا کر ان صاحب کو اپنی آمد کا مقصد بتایا اور ساتھ اپنا تعارف بھی کرایا.اس پر انہوں نے کمرہ خالی کر دیا اور خود کسی اور جگہ پر تشریف لے گئے.اس طرح نجیک جینگ صاحب سے بھی تعارف ہو گیا.موصوف ان دنوں سینیگال کی نیشنل اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کے عہدہ پر مامور تھے.اس قیام کے دوران کئی بار ان سے ملاقات ہوئی.انہیں حسب توفیق جماعت احمدیہ کا تعارف کرایا گیا.اللہ تعالی نے فضل فرما یا اور مکرم 204
ارض بلال.میری یادیں نجیک جینگ صاحب نے بیعت کر لی اور مکرم نجیک صاحب کے ذریعہ کئی دوسرے ممبرز آف پارلیمنٹ بھی جماعت میں داخل ہو گئے.جلسہ سالانہ انگلستان میں شرکت کی سعادت مکرم عمر باجی صاحب کو تین بار جلسہ سالانہ انگلستان میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی.جلسہ سالانہ کے موقع پر دو دفعہ حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی موجودگی میں حاضرین جلسہ سے خطاب کرنے کا موقع بھی ملا.خلافت سے عشق حضرت خلیفہ اسیح الرابع سے چند بار ملے تھے.اکثر ان خوش نصیب لمحات کا ذکر کیا کرتے تھے.آپ نے بنجو نہ میں جب نیا مکان بنایا تو اس کے مین ہال میں حضرت خلیفتہ المسیح الرابع کی ایک بڑی سی فریم شدہ تصویر لگائی ہوئی تھی.ہر آنے والے مہمان کو اس تصویر کے حوالے سے جماعت کا تعارف کرواتے اور ہر سطح کے آدمی تک احمدیت کا پیغام پہنچاتے تھے.سفر ہے شرط مہمان نواز بہتیرے اپنے گاؤں کے علاوہ آپ نے قریبی شہر بجو نہ میں بھی ایک مکان بنارکھا تھا.میں جب کبھی اس علاقہ میں دورہ پر جاتا تو ان کے اسی گھر میں قیام کرتا.سب اہل خانہ حسب توفیق بڑا خیال رکھتے.فجزاهم الله احسن الجزاء.آخری بار جب میں ان کے علاقہ میں دورہ پر گیا.ان دنوں آپ زگنشور ریجن کے گورنر کے اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے.میں نے انہیں ان کے علاقہ میں اپنے دورہ کے پروگرام کے بارے میں بتا یا.بہت خوش ہوئے.میرے لئے اپنے شہر کے ایک اچھے ہوٹل میں رہائش کا انتظام کیا.دن بھر تو جماعتی پروگرام ہوتے رہتے.رات کو میں ادھر آجاتا.یہاں پر چند دن تک میں نے قیام کیا.اس کے اخراجات بھی انہوں نے ہی ادا کئے.205
ارض بلال.میری یادیں - مکرم باجی صاحب نے اپنی بعض اہم سرکاری مصروفیات کی بنا پر میرے ساتھ دورہ پر جانے سے تو معذرت کی لیکن اس کی تلافی کچھ یوں کی کہ اپنے علاقہ کی پانچ اہم شخصیات کو اپنی سرکاری گاڑی دے کر میرے ساتھ روانہ کیا جو پورے دورہ کے دوران میرے ہمسفر اور رفیق کار رہے.اس علاقہ میں کافی عرصہ سے ایک علیحدگی پسند تحریک چل رہی ہے.جس نے ان کے علاقہ کا سامانس کا سکون برباد کر رکھا ہے.آئے دن یہ باغی گروپ جب کبھی انہیں موقع ملے ،کسی بھی قریبی آبادی پر یلغار بول دیتے ہیں اور پھر معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں اور پھر ان کا مال و متاع لے کر رفو چکر ہو جاتے ہیں.یہ باغی ٹولے قریبی جنگلات میں آسانی سے روپوش ہو جاتے ہیں.ان لوگوں کی ان ظالمانہ حرکات نے سارے علاقہ کے امن اور سکون کو تہ و بالا کر رکھا ہے.کہتے ہیں اگر باغی کامیاب ہو جائیں تو ان کے سروں پر تاج سجتا ہے.اگر پکڑے جائیں تو پھر پھانسی کا پھندا ان کے گلوں کا طوق بن جاتا ہے.قصه شهادت باقی اسلامی دنیا کی طرح سینیگال میں بھی عید الضحیٰ بڑے جوش وخروش سے منائی جاتی ہے.سب لوگ پوری کوشش کرتے ہیں کہ اپنے اپنے گھروں میں جا کر اپنے خاندانوں میں عید کی خوشیاں منائیں.مکرم لامن صاحب نے عید سے ایک روز پہلے اپنے رفقاء کار کو پیشگی عید مبارک دی اور اس کے بعد اپنے گاؤں کو روانہ ہو گئے.حکومت کی جانب سے دیئے گئے اپنی سکیورٹی پر مامور عملہ کو بھی اپنے اپنے گھروں میں اپنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کے لئے بھیجوا دیا.رات دیر گئے گھر پہنچے ، اپنے اہل خانہ سے ملے.عزیز رشتہ دار ، دوست احباب سبھی ملنے کے لیے آئے.عليك سليك ہوئی.رات گئے تک گپ شپ کا سلسلہ چلتا رہا اور اب کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ آئی ہوگی کہ یہ لامن باجی صاحب کی ان کے ساتھ آخری رات ہے.صبح ہوئی.سب چھوٹے بڑے عید کی نماز کی تیاری میں لگ گئے.لامن صاحب بھی تیار ہوکر 206
- میری یادیں - اپنے ہال کمرہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک باغیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا.ان میں سے چند ایک گھر میں داخل ہو گئے اور انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور دوسروں نے ایک خنجر کے ساتھ بڑی بے رحمی کے ساتھ آپکی شاہ رگ کاٹ دی.بس پھر کیا تھا، لامن صاحب چند ساعتوں میں ہی اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہ افسوسناک خبر بجلی کی طرح ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ سے ملک کے کونے کونے میں پہنچ گئی.صدر مملکت اور سارے وزراء ہیلی کاپٹرز کے ذریعہ ان کے گاؤں میں پہنچ گئے.سب نے ہی اس جانکاہ حادثہ پر دلی دکھ اور درد کا اظہار کیا.ملک بھر کے اخبارات نے اس ظالمانہ فعل اور شرمناک حرکت کی شدید الفاظ میں مذمت کی.آخر المقال جب یہ واقعہ پیش آیا ، میں ان دنوں لندن آپ کا تھا.جب مجھے اس کر بناک حادثہ کے بارہ میں علم ہوا تو اس سے بہت زیادہ دکھ ہوا.آج تک جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے، مجھے وہ میرا پیارا اور ہمدرد دوست بہت یادآتا ہے اور دل سے بے اختیار اس کے لئے دعا نکلتی ہے.مکرم چوہدری داؤ د احمد حنیف صاحب میری اس تحریری کاوش میں مکرم داؤ د احمد حنیف صاحب کا ذکر خیر بار بار آچکا ہے.کیونکہ ان کی زیر نگرانی اور زیر تربیت ایک لمبا عرصہ کام کرنے کی توفیق ملی.انہوں نے ایک ہمدرد دوست اور ایک خیر خواہ بزرگ کی مانند ہمیشہ ہی نیک مشورہ اور صائب رائے سے نوازا.اللہ کریم انہیں جزائے خیر سے نوازے.آمین.مکرم داؤد حنیف صاحب ۱۹۶۶ میں گیمبیا میں تشریف لائے.اللہ تعالیٰ نے انہیں گیمبیا میں ایک لمبا عرصہ جماعت کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی.ابتدا میں تو سالکینی اور جارج ٹاؤن میں خدمت کی توفیق پائی.بعد ازاں بطور امیر و مشنری انچارج عرصہ بائیس سال تک جماعت کی 207
ارض بلال.میری یادیں خدمت کی سعادت پائی.ایں سعادت بزور بازو نیست تا بخشد خدائے بخشنده محترم داؤ د حنیف صاحب کو اللہ تعالی نے بڑا جفا کش محنتی اور انتھک وجود بنایا ہے.ان کے دور امارت میں بفضلہ تعالیٰ بہت زیادہ کام ہوا.دو سینیئر سیکنڈری سکول اور اسپتال کی تعمیر انہی کے دوران قیام ہوئی.گیمبیا کے علاوہ سینی گال اور گنی بساؤ میں بھی جماعت کی جڑیں مضبوط ہوئیں.مجھے بہت دفعہ ان کے ہمراہ گیمبیا، سینیگال اور گنی بساؤ کے دورے کرنے کی توفیق ملی.ہم نے ہمیشہ ایک دوستانہ ماحول میں ان مسافتوں کو طے کیا.جس میں افسر اور ماتحت والا رشتہ نہ ہوتا بلکہ ایک چھوٹے اور بڑے بھائی کا سا تعلق ہوتا تھا.بسا اوقات یہ سفر بڑے مشکل ہوا کرتے تھے.کیونکہ ان دنوں ابھی ان سب مقامات پر مشن ہاؤس وغیرہ نہیں بنے تھے.اس لئے کھانے پینے اور شب باشی ایک نہایت گراں مرحلہ ہوتا تھا.بسا اوقات تو صرف باجرہ اور دہی پر ہی اکتفا کرنا پڑتا.مگر انہوں نے ہمیشہ برضاور غبت یہ سفر طے کئے.ان کے بارہ میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے.لیکن ما قل مادل کے پیش نظر اسی پر اکتفا کرتا ہوں.مکرمہ بشری حنیف صاحبه کہتے ہیں ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے.مکرم داؤد حنیف صاحب کی اہلیہ محترمہ بشری حنیف صاحبہ جنہیں ہم جملہ مرکزی کارکنان احترامابا جی کہتے تھے.محترمہ کو اللہ تعالی انے بے شمار اوصاف حمیدہ سے نوازا ہوا ہے.مکرم داؤ د حنیف صاحب کی بطور مبلغ اور پھر امیر دمشنری انچارچ کامیابیوں وکامرانیوں میں ان کی اہلیہ محترمہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے.208
ارض بلال.میری یادیں محترمہ بہت زیادہ مہمان نواز ہیں.گیمبیا میں ہر روز بلا ناغہ ان کے دستر خوان پر بہت سارے لوگ کھانا کھاتے تھے.جن میں پاکستانی جماعتی کارکنان کے علاوہ افریقن بہن بھائی بھی شامل ہوتے.ان کی رہائش بانجول میں احمدیہ مشن ہاؤس میں تھی.یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا جس کی نچلی منزل میں نماز ادا کرتے تھے اور ایک کمرہ مکرم امیر صاحب بطور دفتر استعمال کرتے تھے.اوپر والے حصہ میں ان کی رہائش تھی.اس حصہ میں صرف تین چھوٹے چھوٹے سے کمرے تھے اور ان کے سامنے ایک برآمدہ تھا.بسا اوقات تو ان تینوں کمروں میں باہر سے آئے ہوئے مبلغین کی فیملیاں ہوتیں اور انکی اپنی فیملی اس دوران برآمدہ میں پردے لٹکا کر منتقل ہو جاتی اور یہ سلسلہ سال بھر یونہی چلتا رہتا.کیونکہ ملک بھر میں خدمت دین کرنے والے ڈاکٹر صاحبان، مبلغین کرام اور اساتذہ کرام کو مختلف ضروریات کے پیش نظر با نجول میں ہی آنا پڑتا تھا.سب کارکنان کا اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح خیال رکھتیں.خصوصاً ہمارے بچوں سے بہت پیار اور شفقت سے پیش آتیں.آج تک ان کا ہمارے بچوں کے ساتھ ایک شفیق ماں کا رشتہ ہے.كان الله معهم.ایک قابل قدرنو جوان فضل احمد مجو کہ صاحب مکرم فضل احمد مجو کہ صاحب پاکستان سے بطور مربی 1997ء میں گیمبیا تشرف لائے.اسی سال گیمبیا میں اینٹی احمد یہ تحریک چلی جس کے نتیجہ میں جماعت کے پاکستانی کارکنان کو وہاں سے ہجرت کرنی پڑی.مکرم فضل احمد مجو کہ صاحب اور مکرم محمد طفیل گھمن صاحب کو گنی بساؤ بھجوادیا گیا.کچھ عرصہ کے بعد گنی بساؤ میں فوجی انقلاب آ گیا.جس کے نتیجہ میں ملک بھر میں قتل و غارت اور فتنہ فساد کا بازار گرم ہو گیا.ان حالات میں وہاں مشن کے کارکنان کا رہنا ممکن نہ تھا.اس لئے یہ لوگ گنی بساؤ سے سینیگال کے ملحقہ علاقہ کولڈا میں آگئے.209
ارض بلال- میری یادیں ) مکرم طفیل گھمن صاحب اور مکرم فضل احمد مجو کہ صاحب بطور جنگی مہاجرگنی بساؤ سے سینیگال میں آئے تھے.اس لئے سینیگال کی حکومت انہیں یہاں سے نکال نہیں سکتی.ہم لوگوں نے اس رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مکرم فضل احمد مجو کہ صاحب کو کولڈا کے علاقہ میں ایک گاؤں میں بھیج دیا.یہاں ایک غیر احمدی دوست کے گھر کا ایک کمرہ کرایہ پر لے لیا جس میں کوئی بھی بنیادی سہولت بتھی.مکرم فضل احمد مجو کہ صاحب کچھ عرصہ کے لئے سینیگال میں رہے.ان کے پاس کوئی ویزہ نہیں تھا نہ ہی انہیں یہاں کوئی کام کرنے کی اجازت تھی.اللہ تعالی انہیں جزائے خیر دے.انہوں نے بہت اخلاص اور محنت سے کام کیا.تعلیم و تربیت کے علاوہ کولڈا ریجن میں مساجد بھی تعمیر کرائیں.مکرم محمد طفیل گھمن صاحب کو سیجو کے علاقہ میں بھیجا گیا.انہوں نے بھی حسب توفیق خدمت کی.مکرم صالی جابی صاحب کا ذکر خیر جب میں پہلی بارسینی گال گیا تو ایک گاؤں بیچ میں بھی گیا تھا.وہاں تین احمدی دوست تھے.مکرم صالی جابی، بیروم باہ اور علیو سوہ فوٹو گرافر - صالی جابی صاحب کا گھر ایک بڑی معروف سڑک کے کنارے پر تھا.میں نے قریبا ہمیں سال تک اس گھر میں بہت دفعہ راتیں گزاریں ہیں.صالی صاحب عربی استاذ تھے.جب میں سینیگال میں بطور مبلغ گیا تو انہوں نے بطور معلم میرے ساتھ کا م شروع کیا.پھر تا حیات اس رشتہ کو بڑی وفا کے ساتھ نبھایا.زیادہ تر میرے پاس ڈاکار میں ہی رہتے تھے.میں اکثر سفر پر رہتا تھا.صالی صاحب اکثر میرے گھر میں میری فیملی کے پاس ہوتے.اس لئے مجھے کوئی فکر نہ ہوتی تھی.بہت ایماندار اور مخلص دوست تھے.میرے تبلیغی اور تربیتی کاموں میں بہت ہی ممد و معاون تھے اور بیشتر درس و تدریس میں ترجمانی کا فریضہ ادا کرتے.ایک بار جلسہ انگلستان میں بھی شرکت کی سعادت نصیب ہوئی.چند سال قبل اللہ کو پیارے ہو گئے 210
ارض بلال- میری یادیں.تھے.ان کی وفات پر حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی اور ان کا ذکر خیر بھی فرمایا.بہت مخلص اور نیک دوست تھے.وہ تو میرے گھر کے ایک فرد کی مانند تھے اور ایک لمبا عرصہ ایک مخلص اور پیارے اور ہمدرد بھائی کی طرح میرے گھر میں رہے.اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے.آمین.مکرم حسن جالو صاحب مرحوم جن دنوں میں فرافینی میں مقیم تھا، یادر ہے کہ فرافینی گیمبیا اور سینیگال کی سرحد پر واقع ہے.اس قصبہ کے قریب سینیگال میں چند کلومیٹر کے فاصلہ پر مدینہ صباخ نامی گاؤں ہے.وہاں ایک احمدی دوست مکرم استاذ علیوفائی صاحب رہتے تھے.اس گاؤں میں گورنمنٹ کا ایک پرائمری مدرسہ تھا.اس کے ٹیچر صاحبان ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے.میں اکثر اوقات استاذ علیو فائی کے ساتھ ان اساتذہ کے پاس چلا جاتا اور جماعت کے بارے میں بات چیت چلتی رہتی.جس کے نتیجہ میں پہلے ایک ٹیچر مکرم محمد کا ٹوٹے صاحب نے بیعت کر لی.آجکل یہ مالی کے بارڈر کے قریب اپنے علاقہ میں پرائمری سکول ہیڈ ماسٹر ہیں.ان کے بعد پھر ایک اور ٹیچر مکرم آنسو جالو صاحب نے بھی بیعت کر لی.اس طرح ان اساتذہ سے تعلق اور مضبوط ہو گیا.ایک دن مکرم آنسو جالو کے ہمراہ میں اور استاذ علیو فائی صاحب ان کے گاؤں سار ماری میں چلے گئے.وہاں پر ایک تبلیغی میٹنگ کی جس کے نتیجہ میں چند بیعتیں بھی ہو گئیں.ان نو مبایعین میں ایک سادہ سا نو جوان مکرم حسن جالو بھی تھا.نہایت شریف النفس اور تابعدار فطرت کا حامل تھا.بیعت کے بعد وہ اکثر میرے پاس گیمبیا میں میرے گھر آجایا کرتا تھا.پھر میں نے اسے اپنے ساتھ بطور معلم رکھ لیا.چونکہ اس کی طبیعت میں بہت زیادہ ہمدردی اور علیمی پائی جاتی تھی اور اس کی زبان میں بھی بڑی حلاوت پائی جاتی تھی.اس لئے دعوت الی اللہ میں یہ خوبی بہت کارگر رہی.پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے ذریعہ بہت سے مقامات پر جماعت کا پودا لگ 211
ارض بلال- میری یادیں) گیا.تقریباً دس سال تک اس نے میرے ساتھ کام کیا.اس کے بعد اچانک بیمار ہو گیا.سینیگال میں کافی علاج کیا مگر افاقہ نہ ہوا.پھر اسے میں نے بغرض علاج احمد یہ ہسپتال گیمبیا میں مکرم ڈاکٹر لئیق احمد انصاری صاحب کے پاس بھجوادیا.انہوں نے بھی کافی ہمدردی سے علاج کیا.مگر تقدیر کا فیصلہ ہو چکا تھا اور وہ اللہ کو پیارا ہو گیا.اللہ تعالیٰ میرے اس قابل قدر رفیق کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے.آمین.ایک مخلص داعی الی اللہ مکرم عبد القادر بھٹی صاحب مرحوم موت ایک یقینی امر اور اٹل حقیقت ہے.جس سے کسی ذی روح کو مفر نہیں ہے مگر بعض پیاروں کے بے وقت اس دنیا سے رخصت ہو جانے پر بہت سے دل غم زدہ ہو جاتے ہیں.مکرم بھٹی صاحب کا بھی اس عالم شباب میں یوں چلے جانا بہت سے دوستوں اور پیار کرنے والوں کو حزیں کر گیا ہے مگر راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو مکرم بھٹی صاحب سے پہلی بار تعارف دسمبر 1998 ء کے آخری ایام کی بات ہے.ایک روز حسب معمول میں نے سینیگال جانا تھا.ابھی تیاری کر رہا تھا کہ تین نوجوان میرے پاس تشریف لائے.ان میں سے ایک نو جوان ناصر احمد صاحب ابن مکرم محمود احمد صاحب بی ٹی پرنسپل ناصر احمد یہ ہائی سکول بضے سے تو تعارف تھا.مگر دیگر دونوں نو جوان چہرے بالکل نئے تھے.تعارف ہونے پر معلوم ہوا کہ ایک تو مکرم را نا ندیم خالد صاحب ہیں اور دوسرے مکرم عبد القادر صاحب بھٹی ہیں اور یہ دونوں نوجوان ناصر احمد یہ ہائی سکول کے لیے بطور ٹیچر تشریف لائے ہیں.ان کی اس طرح اچانک آمد پر قدرے پریشانی ہوئی، کیونکہ یہ دوست اتنی دور سے مجھے ملنے کے لئے تشریف لائے تھے اور ادھر میں سینیگال جانے والا تھا.بہر حال میں نے ان کو اپنے 212
ارض بلال.میری یادیں پروگرام کے بارے میں بتایا.اس پر وہ بہت خوش ہوئے اور پوچھنے لگے، کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ہم لوگوں کو بھی اپنے ساتھ سینیگال لے جائیں.میں نے ان کو بتایا کہ سینیگال کے جس علاقہ میں میں جار ہا ہوں اس علاقہ میں سفر کافی مشکل ہے، کیونکہ راستہ میں نہ تو مناسب خوراک کا انتظام ہے اور نہ ہی رہائش کا اس لئے آپ دوستوں کو بہت پریشانی ہوگی.بھٹی صاحب کہنے لگے کہ آپ ہماری طرف سے بے فکر رہیں، آپ کو اس سلسلہ میں کوئی پریشانی نہ ہوگی اور نہ ہی ہم کسی قسم کی شکایت کریں گے.اس سفر میں ہم لوگوں نے دور دراز علاقوں میں پندرہ سے زائد مقامات کا دورہ کیا.ہر مقام پر چھوٹے چھوٹے جلسے کیے جن میں ان معزز مہمانوں نے تقاریر کیں.اس طرح اس دورہ سے دوطرفہ فائدہ ہوا.سینیگال کے احمدی بھائی اپنے معزز مہمان بھائیوں سے مل کر خوش ہورہے تھے.جبکہ مکرم بھٹی صاحب اور رانا صاحب اس لئے خوش تھے کہ انہیں بھی سینیگال کے اس دور دراز علاقہ میں پیغام حق کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.اس چار پانچ دن کے دورہ میں ستر سے زائد بیعتیں بھی حاصل ہوئیں.اس سفر کے دوران مکرم بھٹی صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ان کے بہت سے اوصاف حمیدہ کا علم ہوا.آپ کو اس سفر میں جو ان کا اس علاقہ میں اس سخت نوعیت کا پہلا سفر تھا نہایت صبر اور ہر مشکل کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنے والا ، ہر قسم کی خدمت کو بخوشی قبول کرنے والا اور ہر امر میں اطاعت کرنے والا پایا.دعوت الی اللہ مکرم بھٹی صاحب کو دعوت الی اللہ کا بہت زیادہ شوق تھا.اس سلسلہ میں بے شمار واقعات لکھے جاسکتے ہیں مگر ایک واقعہ پر ہی اکتفا کرتا ہوں.یہ واقعہ ان کے دعوت الی اللہ کے جذ بہ اور شوق اور اطاعت خلافت کی ایک درخشندہ مثال ہے.1992ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ” نے الہی منشاء کے تحت عالمی بیعت کا اعلان فرمایا اور جملہ جماعتوں کو اس سلسلہ میں دعوت الی اللہ کی پر زور اور پر شوکت الفاظ میں تحریک فرمائی.جس کے نتیجہ میں ہر کس و ناکس حسب توفیق و استطاعت دعوت 213
ارض بلال- میری یادیں ) الی اللہ کے میدان میں ایک نئے جذبہ، شوق اور ولولہ سے کود پڑا.مکرم بھٹی صاحب ان دنوں بھتے نامی شہر میں جماعت کے ایک ہائی سکول میں بطور مدرس فریضہ خدمت سرانجام دے رہے تھے.گیمبیا میں خاصی گرمی پڑتی ہے اور یہ علاقہ گیمبیا بھر میں گرمی کے لحاظ سے بہت مشہور ہے.گرمی کے سخت ایام میں جب کہ آپ کے پاس کسی قسم کی ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی نہ تھی ، آپ نے قریبی دریا کے پار ایک دور افتادہ علاقہ کا انتخاب کیا ، جہاں پر کسی قسم کی سواری کی سہولت بھی میسر نہ تھی.مزید برآں آپ کو ہر بار بذریعہ کشتی یا فیری دریا عبور کرنا پڑتا تھا.آپ نے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس علاقہ میں گرمی کے سخت ایام میں پیدل ہی دعوت الی اللہ کا کام شروع کر دیا اور کئی کئی کلومیٹر پیدل سفر کر کے ان دور دراز دیہات میں پہنچے اور بفضل الہی آپ کی دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں کئی سعید روحوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی چشمہ سے سیراب ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.اللہ تعالیٰ مکرم بھٹی صاحب کی نیک مساعی کو قبول فرماتے ہوئے اجر عظیم.نوازے.اللہ تعالیٰ کے حضور دردمندانہ دعا ہے کہ اے مولیٰ کریم اپنے خاص فضل و کرم سے مرحوم کو غریق رحمت فرما، جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین میں ان کو جگہ دے.عزیز مرحوم کے جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرما، خصوصاً ان کی اہلیہ محترمہ اور دونوں معصوم بچیوں کا حامی و ناصر ہو اور ان کی ہر مشکل آسان فرما.آمین.☑☑ 214
.] ارض بلال.میری یادیں باب چهارده...میدان عمل سے چند دلچسپ تبلیغی واقعات نڈ وفان میں استاذ یوسف کے ساتھ مباحثہ جن دنوں میں فرافینی میں رہتا تھا، ایک دن سینیگال کے علاقہ نڈوفان سے ( یہ شہر فرافینی سے ساٹھ میل کے فاصلہ پر ہے ) ایک احمدی دوست نے مجھے بتایا کہ ایک نوجوان دینی تعلیم کے لیے سعودی عرب گیا ہوا تھا اور تحصیل علم کے بعد واپس آگیا ہے اور جماعت احمدیہ کے خلاف بہت زہریلا پراپیگنڈہ کر رہا ہے.میں نے اس احمدی بھائی سے وعدہ کیا کہ میں جلد ہی سینیگال آؤں گا اور اس عربی استاذ سے بات کروں گا.ایک دن خاکسارا اپنے موٹر سائیکل پر ایک احمدی معلم استاذ علیو فائی کے ہمراہ نڈوفان پہنچ گیا.یہ اتوار کا دن تھا.اتوار کو اس شہر میں ایک مشہور مارکیٹ لگتی ہے.علاقہ بھر سے لوگ اس میں خرید و فروخت کے لئے آتے ہیں.جب میں مارکیٹ میں پہنچا، ایک احمدی دوست جو ایک قریبی گاؤں کا رہنے والا تھا ( ان دنوں اس پورے علاقہ میں چند ایک احمدی بھائی تھے جو مختلف دیہات میں رہتے تھے ) وہ بھی یہاں آیا ہوا تھا.جب میں نے اسے بتایا کہ میں تو عربی استاذ سے بات چیت کے لئے آیا ہوں تو وہ سخت ڈر گیا.کہنے لگا یہاں مولوی گروپ بہت خطرناک ہے.مجھے بھی اور آپ کو بھی نقصان پہنچا ئیں گے.میں نے اسے بتایا آپ فکر نہ کریں اور نہ ہی آپ سامنے آئیں ، مجھے دور سے دکھا دیں.باقی کام میں کرلوں گا.خیر اس نے ایک دکان کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ وہ اس دکان میں بیٹھا ہوا ہے.میں اور استاذ علیو فائی اس دکان میں پہنچے.میں نے دکان میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کیا اور استاذ کے بارے میں پوچھا.استاذ نے مجھے بتایا کہ وہ ہی استاذ یوسف ہے.میں نے اسے بتایا کہ میرا نام منور احمد ہے اور گیمبیا سے آیا ہوں اور جماعت احمدیہ کا مبلغ ہوں.میں نے کہا کہ میں نے سنا ہے آپ کو جماعت کے بارہ 215
ارض بلال- میری یادیں ) میں کچھ شکوک وشبہات ہیں.اگر مناسب سمجھیں تو مجھ سے پوچھ لیں.کہنے لگا دوکان میں تو جگہ مناسب نہیں ہے.میں نے کہا جہاں آپ مناسب سمجھتے ہیں وہاں بیٹھ جاتے ہیں لیکن اس نے کترانا شروع کر دیا.پھر اس کے ساتھیوں نے اسے ابھارا تو غصہ سے کھڑا ہو گیا اور میرا بازو پکڑ کر بازار کی ایک طرف کھلے میدان میں لے گیا اور اونچی اونچی آواز میں بولنے لگ پڑا.چند منٹ میں سینکڑوں لوگ اکٹھے ہو گئے.خیر ہماری بات چیت عربی زبان میں شروع ہوگئی.اس کا انداز وہی تھا جو ایک پاکستانی مولوی کا ہوتا ہے.دراصل یہ وہ سعودیہ سے سیکھ کر آیا تھا.ایک گھنٹہ تک بات چیت ہوتی رہی، وہ غصہ سے بولتا.میں جواب دینے سے پہلے ہر بار درود شریف پڑھتا.اس کا لوگوں پر بہت اثر ہوتا.اس صورت حال میں اس کا غیض و غضب دیدنی تھا.اتنے میں چند لوگوں نے صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر بحث ختم کروادی اور وہ استاذ چلا گیا.میں ادھر ہی کھڑا رہا اور اس دوران مختلف لوگ میرے پاس آتے رہے.مجھ سے جماعت کے بارے میں سوالات پوچھتے رہے.ایک آدمی ایک طرف کھڑا باتیں سن رہا تھا.جب سب لوگ چلے گئے ، وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں احمدی ہونا چاہتا ہوں.کیونکہ میں نے آپ لوگوں کی بحث سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ آپ سچے ہیں.حالانکہ یہ بات چیت عربی زبان میں ہو رہی تھی اور یہ آدمی ایک سادہ سا زمیندار تھا جو اپنی ساری زندگی میں کبھی بھی سکول نہ گیا ہوگا.اس کا گاؤں نڈوفان سے قریب ہی تھا.پھر خدا تعالی کے فضل سے اس کے گاؤں میں کافی بیعتیں ہوگئیں.اس واقعہ کے چند ماہ بعد حضرت خلیفہ اسیح الرابع ” گیمبیا میں میرے علاقہ میں تشریف لائے.اس میں یہ دوست بھی حاضر ہوئے.کئی دن تک وقار عمل کرتے رہے اور خلافت حقہ کی نعمت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جس پر وہ ہمیشہ ہی فخر کیا کرتے تھے.مولانا سعدی نے اسی قسم کا ایک بہت خوبصورت واقعہ بیان فرمایا ہے.لکھتے ہیں : ایک شہر میں روزانہ ایک عدالت لگتی تھی جس میں فریقین اپنے اپنے دلائل 216
ارض بلال.میری یادیں پیش کرتے اور قاضی حسب فہم فیصلہ کر دیتا.ایک قصاب روزانہ اپنے کام سے فارغ ہو کر بڑی باقاعدگی کے ساتھ اس جگہ حاضر ہوتا اور ساری کاروائی بڑے غور سے سنتا اور اپنے دل و دماغ میں بچے اور جھوٹے کا فیصلہ کر لیتا.ایک دن اس کے دوست نے اسے پوچھا.تم ایک ان پڑھ آدمی ہو تم کس طرح فیصلہ کر سکتے ہو؟ اس نے کہا، بڑا آسان کام ہے.جس آدمی کی تقریر کرتے ہوئے گردن کی رگیں پھولی ہوتی ہیں، میں سمجھ جاتا ہوں کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے.“ کچھ اسی طرح اس دیہاتی نے ہماری بحث سن کر احمدیت کے حق میں فیصلہ کر لیا.استاذ احمد بیگے سوہ احمدی ہونا چاہتا ہے نڈوفان میں ایک عربی مدرس مکرم احمد بیگے سوہ صاحب تھے.ان کے ایک ماموں مکرم النبی جالو صاحب احمدی تھے.استاذ سے کئی دفعہ بات چیت ہوئی لیکن وہ احمدی نہ ہوئے.اس طرح کافی سال بیت گئے.ایک دفعہ انہوں نے ایک احمدی دوست کے ذریعہ مجھے پیغام بھجوایا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں.اتفاق سے ایک دفعہ میں ان کے علاقہ میں دورہ پر تھا.میں ایک دوست کے ہمراہ ان کے گھر گیا اور انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر شہر سے باہر لے آیا.ایک جگہ پر میں نے کارروک کر ان سے ملاقات کے مقصد کے بارے میں پوچھا.کہنے لگا، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ حق پر ہے اس لئے میں احمدی ہونا چاہتا ہوں.لیکن میری ایک شرط ہے.کیونکہ آپ جانتے ہیں میں ایک معروف عالمی مسلم تنظیم کے تحت کام کرتا ہوں.جیسے ہی ان کو علم ہوگا میں احمدی ہو گیا ہوں مجھے کام سے فارغ کر دیں گے اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ میرے پاس تدریس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے.اس لئے مجھے اپنے ساتھ بطور معلم رکھ لیں.میں نے ساری بات سن کر اسے بتایا کہ میرے خیال میں آپ احمدی نہیں ہو سکتے کیونکہ بیعت میں شرطیں تو نہیں ہوتیں.جماعت احمد یہ تو شرک کے خلاف جنگ کر رہی ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ تنظیم کا کام چھوڑ کر آپ 217
ارض بلال- میری یادیں ) بھوکے مر جائیں گے.کیا بچہ اپنی پیدائش سے قبل کوئی وعدہ لے کر آتا ہے کہ دنیا میں میرے کھانے پینے کا کیا انتظام ہوگا.ہمارا ایمان ہے کہ رازق تو خدا تعالیٰ کی ہستی ہے.اس پر وہ خاموش ہو گئے لیکن بیعت نہ کی.اس قسم کے بہت سے لوگ بیعت کی غرض سے آجایا کرتے تھے.کولڈا کے علاقہ میں نفوذ جماعت سینیگال کی کولڈ ریجن میں خدا تعالیٰ کے فضل سے چالیس سے زائد مقامات پر جماعتیں ہیں.1998ء میں ایک عربی استاذ گنی بساؤ گیا.وہاں اسے جماعت کے بارے میں تعارف حاصل ہوا.ایک دفعہ خاکسار ڈاکار سے گنی بساؤ کے علاقہ میں سفر پر گیا ہوا تھا.استاذ عمر سیڈی صاحب کا گاؤں گنی بساؤ جانے والی سڑک کے کنارے پر واقع ہے.انہیں کسی طرح میرے اس سفر کا علم ہو گیا اور یہ بھی علم ہوا کہ کس تاریخ کو واپس ڈا کار جاؤں گا.اس استاذ نے اپنے دیگر بہت سے دوستوں کے ہمراہ ایک جگہ پر میرا انتظار کرنا شروع کر دیا.جبکہ مجھے اس بات کا قطعی علم نہ تھا.جب میں واپس ڈاکار کی طرف جارہا تھا تو رستہ میں میں نے کسی ضرورت کے پیش نظر ایک جگہ پر اپنی گاڑی روکی.اتنے میں ایک نوجوان دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا آپ احمدی ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا.میں بڑا حیران تھا کہ اس کو کیسے علم ہوا ہے کہ میں احمدی ہوں.کیونکہ اس پورے علاقہ میں سینکڑوں میلوں تک کوئی احمدی نہ تھا.اس نوجوان نے بتایا کہ یہاں تو بہت سے لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں.خیر میں اس کے ساتھ بے یقینی میں چل پڑا.تھوڑی دیر کے بعد ایک گھر میں پہنچا تو دیکھا بیس کے قریب نوجوان بیٹھے ہوئے ہیں.میرے پہنچنے پر بڑے تپاک سے ملے.سوال جواب کا سلسلہ چل نکلا.خدا تعالیٰ کے فضل سے سب نے بیعت کر لی.پھر ان نوجوانوں کے ذریعہ خدا تعالی کے فضل سے ہر طرف جماعت پھیلنی شروع ہو گئی.اس علاقہ میں جماعت کی شدید مخالفت ہوئی.لیکن بفضل خدا جماعت کا قدم ہمیشہ آگے کو ہی اٹھتا رہا.اب اس علاقہ میں جماعت بہت مضبوط اور مستحکم ہے اور یہاں جماعت کی سات مساجد ہیں.218
ارض بلال.میری یادیں ولنگارا کے علاقہ میں احمدیت کا نفوذ ولنگار اسینیگال کے کولڈا ریجن میں ایک درمیانہ سا قصبہ ہے.یہ گیمبیا کے ایک شہر بصے سے ہیں کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے.سرحد پر پولیس اور کسٹم کی وجہ سے باوجود کم فاصلہ کے ان شہروں کا آپس میں رابطہ کم ہے.سڑک کچی اور پتھریلی ہے جس پر سفر کرنا بہت زیادہ مشکل ہے.ایک دفعہ ولنگارا کے ممبر اسمبلی آنر ایبل مکرم بئی بلد صاحب میری درخواست پر ایک بھاری وفد لے کر ناصر احمد یہ ہائی سکول بصے میں تشریف لائے.ادھر مہمانان کرام کے ساتھ ایک تفصیلی تبلیغی میٹنگ منعقد کی گئی جس کے نتیجہ میں چند معززین علاقہ نے بیعت کر لی.ان مہمانوں میں ایک عربی استاذ مکرم الحاج یورو بلد صاحب تھے جو سعودی عرب میں دینی تعلیم حاصل کر کے آئے تھے ، انہوں نے بھی بیعت کر لی اور پھر بڑی دلجمعی اور ذوق و شوق کے ساتھ تبلیغ کا فریضہ ادا کرتے رہے.ان کے اثر ورسوخ سے علاقہ بھر میں جماعتیں بنی شروع ہو گئیں.اب اللہ کے فضل سے اس علاقہ میں چند بڑی مساجد بھی ہیں اور معلمین بھی خدمت دین میں شب وروز کوشاں ہیں.جب اللہ تعالی نے یورو بلد صاحب کو پہلے بیٹے سے نوازا تو انہوں نے اس بیٹے کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام نامی پر غلام احمد رکھا.ابھی آپ جوان ہی تھے ، ایک دفعہ بیمار ہو گئے.بیماری بظاہر کوئی خطرناک نہ تھی لیکن موت کا تو کوئی بہانہ ہی بنتا ہے.یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوئی.بیماری کے چند دنوں بعد اللہ کو پیارے ہو گئے.اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے.آمین.امام نے کہا میں تو پہلے ہی احمدی ہوں دفعہ ایک ایک دفعہ لیٹ مینگے کے قریب سارے بنگاری میں ایک تربیتی کلاس کا اہتمام کیا گیا.جس میں علاقہ بھر سے بہت سے احباب نے شرکت کی.دن کے اوقات میں درس و تدریس ہوتی لیکن شام کے قریب ان شرکاء کو قریبی دیہات میں بھجوا دیا جاتا تا کہ ان دیہات میں جاکر تعلیم وتربیت اور دعوت حق کا کام کریں.ایک دن ایک وفد جب صبح کے وقت اپنے گاؤں سے واپس آیا انہوں نے 219
ارض بلال.میری یادیں ) بتایا کہ ایک عربی استاذ گزشتہ رات جماعت کے خلاف بڑی بدزبانی کرتا رہا ہے.میں نے اسی روز پروگرام بنایا اور دو دوستوں کے ہمراہ اس گاؤں کو روانہ ہو گیا تا کہ اس استاذ سے بات چیت کی جا سکے.ہم لوگ جب اس گاؤں میں پہنچے.تو معلوم ہوا وہ استاذ تو وہاں سے جا چکا ہے.ہم نے گاؤں کے لوگوں سے کچھ دیر کے لئے بات چیت کی اور انہیں پیغام حق پہنچایا.اس کے بعد ہم نے واپسی کا رستہ لیا.جب ہم لوگ ایک گاؤں میں سے گزررہے تھے تو مجھے گاڑی میں موجود ایک دوست نے بتایا کہ کل اس گاؤں میں اس کی ایک عزیز خاتون فوت ہوگئی ہے.اگر ممکن ہو تو تھوڑی دیر کے لئے تعزیت کر آئیں.اس پر ہم لوگ فوتگی والے گھر پہنچ گئے.میرے دوست نے اہل خانہ سے میرا تعارف کرایا.اس پر ہم نے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کی.کافی سارے احباب یہاں موجود تھے.اہل خانہ میں سے ایک آدمی نے ایک بزرگ آدمی کے بارے مجھے بتایا کہ یہ قریبی گاؤں کے امام ہیں.ان سے علیک سلیک ہوئی.اس کے بعد میں نے انہیں جماعت احمدیہ کے بارے میں بالاختصار بتایا تو انہوں نے بتایا میں تو کافی عرصہ سے احمدی ہوں.میں نے بڑی حیرانگی سے اسے پوچھا.وہ کیسے؟ کہنے لگے بہت عرصہ پہلے میں نے جماعت احمدیہ کی ایک کتاب القول الصریح پڑھی تھی جس کی وجہ سے میں جماعت احمدیہ کی صداقت کا قائل ہو چکا ہوں.لیکن میرا کسی بھی احمدی سے رابطہ نہ تھا اب آپ سے مل کر یہ کی بھی پوری ہوگئی ہے.الحمد للہ.اس صورت حال سے جو خوشی ہمیں ہوئی اس کا بیان کرنا ممکن نہیں ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے دین کی اشاعت کے اسباب پیدا فرماتا ہے.پھر ان امام صاحب سے ہمارا مضبوط رشتہ قائم ہو گیا.اس کے بعد ان کے گاؤں میں کئی دفعہ ہم نے اجتماعات اور جلسے بھی کئے.ان کے گاؤں کا نام ڈانگرے ہے.اور امام کا نام الحاج محمد سوار ہے.220
ارض بلال- میری یادیں عیسائیت سے متاثر نوجوانوں کا قبول احمدیت مکرم مولوی عمر علی طاہر صاحب کی پہلی تقرری گیمبیا کے ایک قصبہ فرافینی میں ہوئی.چونکہ یہ علاقہ منڈ نکا زبان بولنے والوں کا تھا.آپ نے یہاں منڈ نکا زبان سیکھ لی.فرافینی کے قریب ایک فولانی گاؤں ہے.جس کا نام ڈوٹا بگو ہے.اس گاؤں میں چند احمدی دوست تھے.گاؤں کے کافی ساری نوجوان عیسائیت کی طرف مائل تھے.مکرم عمر علی صاحب نے بڑی حکمت عملی سے اس گاؤں میں تبلیغی پروگرام شروع کئے.عیسائیت سے متاثرہ نوجوانوں سے انفرادی اور اجتماعی روابط پیدا کیے.اللہ تعالی نے ان کی مساعی جمیلہ میں برکت ڈالی.پھر آہستہ آہستہ تقریباً سارے نوجوان احمدیت کی آغوش میں آگئے.اسی طرح یا کل با نامی گاؤں میں چند مخلص نوجوان داخل احمدیت ہوئے.جن کے والدین احمدی نہ ہوئے بلکہ شدید مخالف تھے.لیکن ان نوجوانوں کی استقامت بہت ہی قابل تعریف ہے.تبلیغی آڈیو کیسٹس کے ذریعہ سے دعوت الی اللہ کے ثمرات سالکینی میں بفضلہ تعالیٰ ایک مخلص جماعت ہے.وہاں ایک نو جوان مکرم شریف کو لی صاحب تھے جو گیمبیا کے ایک ادارہ میں اعلیٰ عہدہ پر متعین تھے.آپ احمدیوں کے اعلیٰ اخلاق کے تو معترف تھے ،لیکن انہیں جماعت کے چند عقائد سے اختلاف تھا.کئی بار ان سے بات چیت ہوئی لیکن وہ مطمئن نہ ہوئے.اسی دوران ان کی پوسٹنگ بصے نامی قصبہ میں ہوگئی جہاں پر مکرم مولوی عمر علی صاحب طاہر مبلغ تھے.مکرم مولوی صاحب نے مکرم شریف صاحب کو گیمبیا جماعت کی تیار کردہ تبلیغی آڈیو کیسٹس دیں.اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کوششوں میں برکت ڈالی، جس کے نتیجہ میں اللہ تعالی نے مکرم شریف صاحب کو شرح صدر فرما دیا اور انہوں نے بفضلہ تعالی برضا و رغبت احمدیت قبول کر لی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کی دنیا ہی بدل گئی.جماعت کے ساتھ اخلاص وفا میں بہت ترقی کی.ہر جماعتی حکم پر لبیک کہتے ،نمازوں میں التزام پیدا ہو گیا.چندہ جات بڑی با قاعدگی اور شرح 221
ارض بلال.میری یادیں ) کے مطابق ادا کرتے.اللہ تعالیٰ نے فریضہ حج کی ادائیگی کی سعادت بھی عطا فرما دی.افسوس کہ جوانی میں ہی بیمار ہو گئے.بیماری نے شدت اختیار کر لی.انہیں ڈاکار ،سینیگال میں لایا گیا.ان دنوں چونکہ میں سینیگال میں ہی تھا.اس لئے مجھے بھی ان کی خدمت کی کچھ تو فیق ملی.لیکن عمر نے وفا نہ کیا ور ڈا کار میں ہی ان کا وصال ہو گیا.انا للہ وانا الیہ راجعون.استاذ سعودی عرب سے قادیانیت کی خاص ڈگری لے کر آیا ایک دفعہ ڈاکار میں ایک تربیتی کلاس تھی.اس میں ملک بھر سے نومبائعین شریک تھے.ان شرکاء میں ایک نوجوان عربی استاذ پہلی بار آئے تھے.مجھے استاذ احمد گئی صاحب نے بتایا کہ یہ استاذ سعودی عرب سے تعلیم حاصل کر کے آیا ہے اور وہاں پر یہ خصوصی طور پر قادیانیت کا مضمون پڑھ کر آیا ہے اور حال میں ہی یہ سعودیہ سے آیا ہے.اس کے علاقہ میں اس کے بعض دوست احمدی ہو گئے.جب اسے معلوم ہوا تو اسے بہت تکلیف ہوئی اور ان سے سخت ناراض ہوا.انہوں نے بتایا کہ ہم ایک تربیتی کلاس میں ڈا کار جا رہے ہیں.اگر تم اپنے سوالات کے جواب چاہتے ہو تو بہتر ہے ہمارے ساتھ چلو اور از خود اپنا اطمینان کر لو.اس پر وہ نوجوان استاذ بھی تربیتی کلاس میں ڈاکار آ گیا.میں نے محسوس کیا کہ اس کے دل میں کافی تعصب بھر اہوا تھا.جب بھی سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوتا تو وہ سب شرکاء کلاس کا لیڈر بن کر خوب سوال کرتا.ہم لوگ حسب علم اسے جواب دیتے رہے.اسی طرح چند دن گزر گئے.لیکن اس کی شدت میں کمی نہیں آرہی تھی.ہر روز اس کے اعتراضات میں تیزی پیدا ہورہی تھی کیونکہ وہ سمجھنے کی کوشش تو کرتا ہی نہیں تھا.اعتراض برائے اعتراض ہی کرتا تھا.حالانکہ ایسے لوگوں کے بارے میں میرا سابقہ یہی تجربہ تھا کہ تربیتی کلاس میں آنے والے غیر از جماعت احباب بھی چند دن کے بعد راہ راست پر آجاتے تھے لیکن یہ استاذ تو اپنے بغض وعناد میں اور بڑھ رہا تھا.ایک روز میں نے سوال جواب کا سلسلہ شروع کیا تو میں نے کہا کہ آپ لوگ روزانہ مجھ سے 222
ارض بلال.میری یادیں ) سوالات کرتے ہیں، آج میں آپ لوگوں سے چند ایک سوالات کروں گا.جو آدمی میرے سوال کا صحیح جواب دے گا میں اپنی کار اسے دے دوں گا.اس پر سب لوگ بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ ہاں سوال پوچھیں.میں نے اسی استاذ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ آپ جواب دیں.سوال یہ ہے کہ کیا حضرت محمد ملا لیا کہ ہم اللہ کے سچے نبی ہیں؟ اس پر سب لوگ بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے یہ عجیب سوال ہے.ہم سب مسلمان ہیں اور یہ ہمارا بنیادی عقیدہ ہے.میں نے کہا کہ وہ بات درست ہے.آپ بس جواب دیں اور کار لے لیں.استاذ صاحب نے قرآن پاک کی ایک آیت کریمہ محمد رسول اللہ اونچی آواز سے پڑھی اور کہا کہ دیکھو یہ آیت بتا رہی ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں.ہمارے ایک معلم صاحب کہنے لگے استاذ صاحب جو شخص آنحضرت سلام کی نبوت پر ایمان نہیں لاتا، کیا وہ قرآن پر ایمان لائے گا.کیا ایک غیر مسلم کے لئے قرآنی آیت قابل قبول ہے.اس پر استاذ صاحب بڑے پریشان ہو گئے.انہیں کوئی سمجھ ہی نہیں آرہا تھا.سب لوگ ان کی طرف دیکھ رہے تھے.ان کا سارا علم اور عربی زبان کا رعب ودبدبہ رفو ہو چکا تھا.اس کے بعد میں نے انہیں پوچھا یہ بتائیں کیا قرآن پاک اللہ تعالی کی کتاب ہے؟ کہنے لگے، بے شک اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے.پھر وہی بحث شروع ہوگئی کہ جو شخص آنحضور صلی اللہ تم پر ایمان نہیں لاتا، وہ کیسے آپ کی لائی ہوئی کتاب پر ایمان لاسکتا ہے.استاذ صاحب کی حالت قابل دید تھی.اس پر کہنے لگے کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ یہ بات میری سمجھ سے بالا ہے.آپ ہمیں بتا دیں.میں نے حضرت مصلح موعود کی کتاب دیباچہ تفسیر القرآن کی روشنی میں آنحضور صلی لا السلام کی صداقت پر روشنی ڈالی اور قرآن پاک کے منجانب اللہ ہونے پر بھی دلائل دیئے.اس کے بعد تو وہ استاذ ایک ہفتہ تک کلاس میں رہا.اب اس کی کیفیت ایک طفل مکتب کی طرح تھی.آخری روز کہنے لگا کہ خدا کی قسم میں نے سعودی عرب میں تو صرف عربی زبان ہی پڑھی ہے.دین کی الف باء تو اس کلاس میں ہی آکر پڑھی اور سنی ہے اور اس نے بیعت بھی کر لی.223
.میری یادیں مرید تو ہم ہیں کو لخ کے قریب ایک گاؤں میں ایک نوجوان احمدی ہو گیا.اس کے گاؤں میں اکثریت مرید فرقہ کی تھی.یہ لوگ بڑے شدت پسند ہوتے ہیں.کسی دوسرے کی بات سننا گوارا نہیں کرتے.اپنے پیر کے خلاف کسی قسم کی بات برداشت نہیں کر سکتے.حملہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے.ان کے عقائد یا ان کے بزرگوں کے معجزات سے آپ انکار کریں تو وہ آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں.ان کا ایک بہت معروف عقیدہ ہے کہ ان کے فرقہ کے بانی مکرم احمد و با مبا صاحب شیر پر سواری کرتے تھے.جب احمد و با مبا صاحب کو فرانسیسی فوجیوں نے بغاوت کے الزام میں قید کر کے بذریعہ بحری جہاز گبون بھجوایا اور راستہ میں بحری جہاز میں نماز پڑھنے کی اجازت نہ دی تو بامبا صاحب نے کھلے سمندر میں پانی پر مصلی بچھا کر نماز ادا کر لی تھی.اس نو مبایع بھائی کو میں نے ان کے گاؤں میں ایک تبلیغی میٹنگ کرنے کے لئے کہا.اس پر وہ قدرے خائف ہو گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے گاؤں والے مرید ہیں اور بڑے متشد دلوگ ہیں.میں نے اسے کہا، آپ فکر نہ کریں انشاء اللہ کچھ نہیں ہو گا.آپ مجھے وہاں نماز مغرب کے بعد مسجد کے قریبی میدان میں لے جائیں.خیر وہ مان گئے.نماز مغرب کے بعد ہم لوگ ادھر پہنچ گئے.احمدی نوجوان نے حاضرین سے میرا تعارف کرایا اور بتایا کہ میں جماعت احمدیہ کا مبلغ ہوں اور اختصار سے جماعت کا تعارف بھی کرایا.اس پر ان حاضرین میں سے چند ایک نے کہنا شروع کیا کہ ہمیں کسی کی ضرورت نہیں ہے ، ہم مرید ہیں.ہمارے لیے احمد و با مباہی کافی ہیں.(مرید فرقہ کے لوگ بہت محنتی ہیں، ہر قسم کا کام کر لیتے ہیں.مجموعی طور پر یہ غریب ہیں لیکن ان کے جو خلفاء ہیں اور پھر ان کی جو اولادیں ہیں وہ ملک کے امیر ترین طبقہ میں سے ہیں.حکومت بھی انہی کے اشاروں پر بنتی اور گرتی ہے ) میں نے حاضرین کو بتایا کہ دراصل میں بھی مرید ہوں، کیونکہ مرید تو وہی ہوگا جو احمد و بامبا کی 224
ارض بلال.میری یادیں تعلیم پر عمل کرنے والا ہوگا.اس پر سب لوگوں نے میری بات سنی شروع کردی.میں نے بتایا.احمد و بامبا کی صرف ایک ہی مشہور تصویر ہے جو ہر مرید اپنے گلے میں ڈالے پھرتا ہے یا اس کے گھر میں ہوتی ہے جس میں احمد و با مبانے ہاتھ میں قرآن پکڑا ہوا ہے.اسی لئے اسے لوگ خادم القرآن کہتے تھے اور یہی جماعت احمدیہ کا مشن ہے.ہم دنیا بھر میں قرآن کی اشاعت کر رہے ہیں.میں نے کہا، کہتے ہیں اگر احمد و بامبا کو لوگ پیسے دیتے تھے.کیا وہ اٹھالیتا تھا یا پھینک دیتا تھا ؟ سب حاضرین کہنے لگے وہ پھینک دیتا تھا.میں نے کہا، آجکل اس کے ورثا کیا پیسے لے لیتے ہیں یا پھینک دیتے ہیں؟ اس پر چندلوگوں نے کہا کہ یہ تو چھین لیتے ہیں.میں نے کہا کہ جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتی ہے.میں نے کہا احمد و بامبا کی خواتین پر دہ کیا کرتی تھیں اور آجکل ان کی خواتین بالکل بے پردہ ہو گئی ہیں جبکہ ہماری احمدی خواتین پردہ کرتی ہیں.احمد و بامبا نے تبلیغ اسلام کے لئے گھر بار چھوڑ کر جنگل اور ویرانے میں ڈیرہ لگا لیا تھا اور یہی کام جماعت احمد یہ کے مبلغین کر رہے ہیں.اس پر سب لوگوں نے بڑے غور سے ہماری باتیں سنیں اور کہا کہ واقعی یہ جماعت صحیح مسلمان جماعت ہے.اس کے بعد اس گاؤں والوں سے بہت اچھے تعلقات بن گئے.کمبل میں نماز جمعہ افریقن ممالک میں مسلمان فرقوں میں سے جو لوگ احمدیت قبول کرتے ہیں ان کے لئے شروع میں باقی مسلمانوں سے الگ نماز پڑھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے.خاص طور پر اگر اس علاقہ میں احمدیت نئی نئی پہنچی ہو.اسی طرح سینیگال کے ایک گاؤں کمبل میں پہلی بار بیعتیں ہوئیں لیکن نو مبائعین باقی گاؤں والوں کے ساتھ ہی نماز ادا کر لیا کرتے تھے.انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر ماحول کے خوف کی بنا پر وہ نہ کر پاتے.خاص طور پر نماز جمعہ میں ان کے لئے بہت ہی مشکل ہوتی ہے.کیونکہ ایک گاؤں میں چند ایک نئے احمدی ہیں ، وہ کیسے اپنے کمرے میں نماز جمعہ ادا کریں.ان کے نزدیک تو 225
ارض بلال.میری یادیں سوائے جامع مسجد کے جمعہ ہو ہی نہیں سکتا.میں نے بہت دفعہ اہل کمبل کو الگ نماز جمعہ ادا کرنے کی تحریک کی مگر ناکام رہا.آخر ایک دن جمعہ کے روز میں نے خود وہاں جانے کا فیصلہ کیا.گیمبیا سے دو معلمین کے ہمراہ وہاں پہنچا.مکرم عمر جالوصاحب ( جو اسی گاؤں کے رہنے والے تھے ) کو میں نے کہا کہ آج ہم نے آپ کے گاؤں میں نماز جمعہ ادا کرنی ہے.اس پر وہ سخت خائف ہو گئے.ممکن ہے گاؤں والے ہم پر حملہ کر دیں.میں نے اسے بتایا کہ اس گاؤں کے سب لوگ تمہارے قریبی عزیز ہیں اس لئے وہ تم پر تو حملہ نہیں کریں گے.ہاں میں غیر ملکی ہوں اور نماز بھی میں ہی پڑھاؤں گا، مجھ پر حملہ کر سکتے ہیں.اس لئے آپ فکر نہ کریں.میری گاڑی میں ایک بڑی سی پلاسٹک کی صف ہوتی تھی.میں نے اس کو نکالا اور ایک درخت کے نیچے بچھا دیا.میں نے ایک معلم صاحب سے اذان دینے کے لئے کہا.اذان ہوئی تو احمدی دوست ایک ایک کر کے نماز کے لئے آنا شروع ہو گئے.میں نے نماز جمعہ پڑھائی.گاؤں کے لوگوں نے بھی ہمیں نماز پڑھتے دیکھا لیکن کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہیں کیا.نماز کے بعد میں نے سب احمدی حاضرین سے حلفیہ اقرار لیا کہ وعدہ کریں کہ آج کے بعد اگر وہ اس گاؤں میں موجود ہوں گے تو ضرور احمدی امام کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کریں گے.سب نے وعدہ کیا پھر اس طرح کمبل میں نماز جمعہ کا آغاز ہو گیا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں ایک بڑی مسجد ہے اور نماز جمعہ بھی ہوتی ہے.دیباچہ تفسیر القرآن گیمبیا اور سینیگال کے بارڈر پر ایک قصبہ مدینہ صباح ہے.ہمارے ایک معلم مکرم علیو فائی صاحب اس قصبہ کے باسی ہیں.ایک دفعہ مکرم استاذ علیو فائی صاحب نے اپنے قصبہ کے ایک دوست ، جو کسی کالج میں پروفیسر تھے.حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیف منیف دیباچہ تفسیر القرآن پڑھنے کے لئے دی.کچھ عرصہ کے بعد جب انہوں نے کتاب واپس کی تو انہوں نے بتایا کہ میں 226
ارض بلال- میری یادیں - جب پرائمری سکول کا طالب علم تھا، میری کلاس میں کچھ عیسائی طالبعلم تھے اور کچھ مسلمان تھے.میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ مسلمان بچے ہیں یا عیسائی، کیونکہ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی دلیل نہیں تھی کہ میرے والدین، دوست اور محلے والے مسلمان ہیں.جب میں کالج میں گیا تو وہاں بھی یہ سوال میرے ذہن میں ہمیشہ سرگرداں رہا.اس کے بعد میں یونیورسٹی میں گیا.تو وہاں بھی کچھ عیسائی طالب علم ساتھی تھے.لیکن اس سوال کا جواب با وجود چاہنے کے بھی نہ مل سکا کیونکہ جب کبھی کسی امام سے اس کے بارے میں پوچھا.تو انہوں نے بس یہی کہا کہ اس قسم کے سوال نہیں کرتے ، اس سے انسان کافر ہو جاتا ہے.اب جب میں نے یہ کتاب مطالعہ کی ہے.اس کتاب نے مجھے اسلام کی صداقت کے بہت سے واضح اور مضبوط دلائل دیئے ہیں.جس کی وجہ سے میں اب علی وجہ البصیرت یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں ایک سچے مذہب کا پیروکار ہوں.حضرت مصلح موعودؓ کا اکناف عالم پر علمی میدان میں بھی بہت بڑا احسان ہے.اللہ تعالیٰ نے دشمن کا دل موم کر دیا ایک دفعہ ڈاکار میں ایک تربیتی کلاس کا اہتمام کیا گیا.اس میں طریق کار یہ تھا کہ بعض اساتذہ اپنے اپنے علاقہ سے غیر از جماعت دوستوں کو ساتھ لے کر آتے تھے جو ایک سے دو ہفتے تک ہمارے پاس قیام کرتے اور ان کے ساتھ سوال و جواب ہوتے اور تبلیغی اور تربیتی تقاریر کے علاوہ اور کئی پروگرام کئے جاتے جس کے نتیجہ میں اللہ کے فضل سے بہت اچھے نتائج ملتے تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک نوجوان موریطانیہ روسو کے علاقہ سے سینیگال کے قصبہ رشائول میں اپنے عزیزوں کو ملنے آیا.(سینیگال کے کچھ لوگ پرانے وقتوں سے موریطانیہ میں آکر آباد ہو چکے ہیں.اس لئے اب ان کی عادات و خصائل ، مذہبی رجحانات وغیرہ بھی عربوں کی طرح بن چکے ہیں.ان میں بھی خاصی شدت پائی جاتی ہے، کیونکہ یہ عرب بھی سخت متشد دلوگ ہیں.نیز موریطانین گورنمنٹ کی سختی کی بنا پر احمدی موریطانیہ میں نہیں جا سکتے.اس لئے ان لوگوں کا جماعت سے کوئی 227
ارض بلال.میری یادیں رابطہ نہیں ہے.اس وجہ سے ان کا جماعت کے بارے میں سارا علم نفرت ، تعصب اور کدورت کے علاوہ کچھ نہیں ہے ) اسے علم ہوا کہ اس کے عزیز تو احمدی ہو چکے ہیں، اسے اس بات کا بہت دکھ ہوا، اور اس نے ان عزیزوں کے ساتھ سخت اظہار ناراضگی گیا اور جماعت کو بہت برا بھلا کہا.اتفاق سے ان دنوں ڈاکار میں تربیتی کلاس شروع ہونے والی تھی.اس کے چند عزیزوں نے بھی اس کلاس میں شرکت کرنی تھی.انہوں نے اسے ڈا کار جا کر خود جماعت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے کہا، اس پر وہ راضی ہو گیا اور ان کے ساتھ ڈا کار آ گیا.اس نوجوان سے بھی ملاقات ہوئی.بڑا خاموش خاموش سا تھا.موریطانین لوگ اکثر اوقات اپنا منہ ڈھانپ کر رکھتے ہیں، اس لئے وہ بھی منہ ڈھانپ کر رکھتا تھا.چند دن کے بعد استاذ احمد گئی صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ موریطانین نوجوان ایک بڑے خطر ناک ارادہ سے اس کلاس میں آیا تھا.کیونکہ اسے یہ سن کر بہت صدمہ ہوا تھا کہ اس کے عزیز ہماری وجہ سے کفر و ضلالت کے سمندر میں غرق ہو رہے ہیں.اس لئے وہ ایک خنجر لے کر اس کلاس میں آیا تھا جس سے وہ حملہ کرنا چاہتا تھا کیونکہ اس نے علماء سے سنا تھا کہ احمدیوں کو قتل کرنا بہت ثواب کا کام ہے.اس نیت سے وہ ڈا کار آیا تھا.یہاں آکر اس نے دیکھا کہ ہم نے اپنے مرکز میں ہر طرف قرآن پاک کی سورتیں اور مختلف آیات کریمہ آویزاں کی ہوئی تھیں.پھر اس نے ہماری اذان ، طریق وضو اور نماز کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کے علاوہ بہت سے احمدی اساتذہ سے ملا اور تقاریر بھی سنیں تو وہ بہت حیران ہوا کہ میں جماعت کے بارے میں کیا سنتا تھا اور حقیقت تو اس کے برعکس ہے.اس پر اس کے دل سے نفرت کا زہر کا فور ہو گیا اور اس کے بجائے جماعت کی محبت اور صداقت نے جگہ بنالی.اس پر اس نے بیعت بھی کر لی اور یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ انشاء اللہ واپس جا کر پیغام حق کو اپنی قوم تک پہنچائے گا.228
ارض بلال.میری یادیں باجرے کے ٹانڈوں سے تیار شدہ احمدی بھائی کا گھر جن دنوں میں گیمبیا میں فرافینی کے مقام پر رہتا تھاسینیگال میں تبلیغ کا کام میرے سپرد تھا.سینیگال کی گورنمنٹ پاکستانیوں کو ویزہ نہ دیتی تھی اس لیئے میں سینیگال کی بارڈر پولیس کی مدد سے سینیگال میں داخل ہو جاتا تھا اور پھر دو دو ہفتے ادھر ہی گزارتا تھا، کیونکہ بار بارسرحد پار کرنا بہت مشکل کام تھا.پھر اکثر دیہات میں ہی راتیں گزارنی پڑتی تھیں.شہروں میں پولیس کا خطرہ رہتا تھا.چند دفعہ تو پولیس نے پکڑ لیا مگر خدا تعالیٰ نے ہر بار معجزانہ طور پر بچالیا.کو نخ ریجن میں ایک گاؤں چاکو ہے.اس کے قریب ایک غریب سا احمدی ڈمبا جالو رہتا تھا.اس نے گاؤں سے باہر گھاس پھونس اور باجرے کے ٹانڈے جوڑ کر اپنی رہائش کے لئے دو کمرے بنائے ہوئے تھے.میں جب بھی اس کے علاقہ میں دورہ پر جاتا تھا اس کے ایک کمرہ میں سوجا تا تھا.کیونکہ اس علاقہ میں پولیس کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا.وہ بے چارہ بہت غریب آدمی تھا.بہت ہی مخلص احمدی تھا.آج بھی اس کی مہمان نوازی بہت یاد ہے جو اکثر باجرہ اور دہی ہوتی تھی.میں بھی اس کی حسب توفیق خدمت کر دیتا تھا.اللہ تعالیٰ اس کو اجر عظیم عطا فرمائے.آمین.داؤد باہ کا دیوار پر اعلان احمدیت سینیگال کی کونخ ریجن میں ایک چھوٹا گاؤں سار گوری ہے.وہاں ایک عربی استاذ رہتے تھے.جن کا نام استاذ داؤد باہ صاحب ہے.ان کا تعلق قادریہ فرقہ سے تھا.ایک دفعہ ہمارے ایک معلم مكرم الحاج جان صاحب انہیں تبلیغ کی غرض سے ان کے ہاں گئے.مگر انہوں نے اپنے سنے سنائے علم کی بنا پر ان کی بات سننے سے انکار کر دیا.اس پر معلم صاحب نے انہیں جماعت کی ایک عربی کتاب القول الصریح پڑھنے کو دی.مکرم داؤد باہ صاحب نے کتاب لے لی اور پھر اس کا بنظر غور مطالعہ کیا.اللہ تعالی نے اسی کتاب کو ان کی ہدایت اور راہنمائی کا سبب بنا دیا.( یہ کتاب محترم مولانا حاجی نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ایک بہت ہی مفید کتاب ہے.جس میں 229
ارض بلال.میری یادیں جماعت کے خلاف مختلف قسم کے اعتراضات کا رد اور جواب ہے.سینیگال میں عربی اساتذہ نے اس کتاب سے بہت فائدہ حاصل کیا ہے ) ایک دفعہ میں ان کے علاقہ میں دورہ پر گیا.ان کے گاؤں میں صرف چند ایک گھرانے تھے، سب کچھ گھر تھے.یہ گاؤں ایک شہر کے رستہ پر واقع تھا.جہاں دن بھر بے شمار لوگ پیدل یا ریڑھوں وغیرہ پر سوار گزرتے تھے.ان کے والد صاحب گاؤں کے نمبردار تھے.جب میں ان کے علاقہ سے گزر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ان کے گھر کی بیرونی دیوار پر بڑے موٹے حروف میں عربی زبان میں لکھا ہوا تھا کہ یہ گھر استاذ داؤد باہ احمدی کا ہے.مجھے یہ دیکھ کر بہت زیادہ مسرت ہوئی.پھر ان کی دعوت الی اللہ سے ان کے علاقہ میں احمدیت کا پیغام بہت سے مقامات پر پہنچ گیا.اس گاؤں میں بہت دفعہ اجتماع اور جلسے بھی کئے.علاقہ بھر سے شرکاء تشریف لاتے تھے.اب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے گاؤں میں مسجد بھی بن گئی ہے اور جماعت کے زیرانتظام نماز جمعہ بھی ہوتا ہے.میں نے بہت دفعہ ان کے گھر پر راتیں گزاری ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑے قابل بچے عطا فرمائے ہیں.دو بیٹے ڈاکار یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں.ابتدا میں میرے گھر میں ہی رہتے تھے.جماعت کی خدمت میں بفضلہ تعالی پیش پیش ہیں.بیعت فارم درخت پر سینیگال کے ایک گاؤں سارگوری کے قریب ایک اور گاؤں تھا جس میں ایک نو جوان استاذ داؤد باہ صاحب کے زیر تبلیغ تھا.اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں حق و صداقت کی شمع روشن فرما دی اور اس نے مہدی علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا.جس پر اس کو کئی افراد خانہ اور دیگر احباب نے کافی سمجھایا مگر یہ نوجوان اپنے ایمان پر ثابت قدم رہا.اس کے بعد اس نے اپنا بیعت فارم حضور انور کی خدمت اقدس میں لندن ارسال کر دیا.کچھ عرصہ کے بعد حضور انور کی جانب سے اس کا جواب مل گیا.اس نوجوان نے حضور انور کے خط کو اپنے گھر کے قریب ایک کھلی جگہ میں ایک 230
- میری یادیں ) درخت کے تنے پر چسپاں کر دیا.اب جو کوئی بھی اسے ملنے آتا اُسے بتاتا کہ اس خط کو پڑھ لیں اور اگر اس میں کوئی غلط اور غیر اسلامی بات ہو تو مجھے اس کی نشان دہی کر دیں.اس نوجوان کی بہادری اور شجاعت اور اعلان احمدیت سے کئی سعید روحوں کو ہدایت نصیب ہوئی.آپ انبیاء کے گروپ میں ہیں یا ابلیس کے؟ ٹناف گنی بساؤ کی سرحد کے قریب ایک قصبہ ہے.ٹناف کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں ہے.وہاں پر ایک معروف حیدر فیملی رہتی ہے.ان کے مرید سینیگال، گیمبیا اور گنی بساؤ میں پھیلے ہوئے ہیں.اس خاندان کے سر براہ منتقی حیدرا صاحب کے ساتھ میرے اچھے دوستانہ مراسم تھے.یہ بزرگ ایک شریف النفس انسان تھے.جماعت کے بڑے مداح تھے.جب بھی ڈاکار آتے تو میرے پاس ضرور تشریف لاتے اور ہمارے ساتھ ہی نماز ادا کرتے اور کہتے میں جانتا ہوں کہ جماعت احمد یہ صداقت پر ہے.ایک دفعہ میں ان کے علاقہ میں دورہ پر گیا ہوا تھا.میرے ساتھ مکرم فضل احمد مجو کہ صاحب اور کولڈا شہر کے چند امام بھی تھے.مکرم حید ر ا صاحب نے ہمارا بڑا پر تپاک خیر مقدم کیا.ایک بڑے سے ہال نما کمرہ میں مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا حیدرا صاحب نے اپنے احباب کو میرے آنے کی اطلاع کی تھوڑی دیر میں ہال بھر گیا.حید را صاحب نے ہمارا حاضرین سے تعارف کرایا.اس کے بعد میں نے بھی ان حاضرین کے ساتھ جماعت احمدیہ کی تعلیم اور عقائد پر بات چیت کی.اتنے میں ایک نوجوان کمرے میں داخل ہوا ، جو شکل وصورت سے مولوی لگتا تھا.کچھ دیر کے لئے ایک جانب کھڑا رہا.پھر حیدرا صاحب کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ یہ کون ہیں ؟ حید را صاحب نے اسے بتایا.یہ جماعت احمدیہ کا وفد ہے اور ڈاکار سے مجھے ملنے کے لئے آیا ہے.اس پر وہ مولوی جو دراصل حید را صاحب کا کوئی عزیز تھا اور سعودی عرب میں تعلیم حاصل کر کے آیا تھا، کہنے لگا کہ آپ کو پتہ نہیں یہ لوگ کافر ہیں.ان کو تو پاکستان گورنمنٹ نے کافر قرار دے دیا ہے اور انہیں 231
ارض بلال.میری یادیں وہاں سے نکال دیا ہے، ان کا خلیفہ آجکل لندن میں ہے.ہمارے ہمسایہ ملک گیمبیا سے بھی ملک کے سر براہ نے انہیں گیمبیا سے نکال دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آپ جانتے ہیں گیمبیا کے سر براہ کے ساتھ ہمارے بہت دوستانہ تعلقات ہیں.اگر اسے ہمارے احمدیوں کے ساتھ تعلقات کا علم ہوگا تو اس کے نتیجہ میں ہمارے تعلقات پر منفی اثر پڑے گا.اس کے علاوہ اس نے بڑے غصہ اور جذبات میں اور بھی کافی باتیں کیں.ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اگر چہ وہ حیدرا صاحب کا بھتیجا وغیرہ تھا مگر ان کے ساتھ اس کی رنجش و غیر تھی.جب وہ کافی بول چکا تو میں نے اسے کہا آپ نے کافی باتیں کرلی ہیں.اب مجھے بھی تھوڑی سی بات کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں تو آپ کی مہربانی ہوگی.میں نے حاضرین کو مخاطب کر کے کہا آپ مجھے یہ بتائیں کیونکہ مجھے علم ہے آپ سب جانتے ہیں کہ جب حضرت آدم علیہ السلام تشریف لائے تھے تو ان کے مقابل پر ابلیس تھا.اس وقت کیا آدم نے ابلیس کو نکالا تھا یا ابلیس نے آدم کو نکالا تھا ؟ سب لوگوں نے کہا ابلیس نے آدم کو نکالا تھا.پھر میں نے کہا کہ کیا حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کو نکالا تھا یا فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام کو؟ سب لوگوں نے کہا فرعون نے.میں نے پھر کہا، یہ بتائیں کیا حضرت محمد یلی لا یہی تم نے ابو جہل وغیرہ کو مکہ سے نکالا تھا یا ابوجہل وغیرہ نے آپ کو مکہ سے نکالا تھا؟ سب نے بیک زبان کہا، ابو جہل وغیرہ نے.اس پر میں نے عرض کی ، آپ لوگ فیصلہ کر لیں کہ اگر آج جماعت احمدیہ کو پاکستان سے نکال دیا گیا ہے، جماعت احمدیہ کو گیمبیا سے نکال دیا گیا.تاریخ آپ کے سامنے ہے نکالنے والے گروہ کا نام کیا ہے.ابلیسی گروہ اور نکالے جانے والا گروہ تو انبیاء وصلحاء کا ہوتا ہے.سب حاضرین میری ہاں میں ہاں ملا رہے تھے.اس پر وہ نوجوان مولوی بہت شرمندہ ہوا اور خاموشی سے باہر چلا گیا.اس کے بعد کافی دیر تک ہمارا تبلیغی سلسلہ چلتارہا.لوگوں نے بڑی دلچسپی اور دلجمعی کے ساتھ ہماری باتیں سنیں.232
سجده شکر.میری یادیں مالی دا کم پانی دینا تے بھر بھر مشکاں پاوے مالک دا کم لانا لاوے یا نہ لاوے ایک دفعہ فرافینی میں سینیگال کے ایک دوست حمد باہ صاحب مجھے ملنے کے لئے تشریف لائے.انہوں نے مجھے بتایا کہ سینیگال میں کو لخ سے کافی آگے ایک قصبہ گنگنیا ؤ ہے.اس سے چند میل آگے چند گھرانوں پر مشتمل ایک فولانی گاؤں ہے.وہاں پر ایک ان کا عزیز ہے جو جماعت کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے.میں نے اس سے وعدہ کیا.انشاء اللہ ضرور اس کے پاس جائیں گے اور اس تک پیغام حق پہنچائیں گے.اس پر ایک روز میں اور مکرم احمد لی صاحب فرافینی سے ایک گاڑی پر بیٹھے اور کون پہنچے.وہاں سے ایک اور پرانی سی گاڑی پر بیٹھے اور گنگنیا ؤ کو روانہ ہو گئے.اب نصف رستہ طے کیا ہوگا کہ گاڑی خراب ہوگئی.کافی دیر تک وہاں انتظار کیا لیکن گاڑی صحیح نہ ہوسکی.اس کے بعد ہم دونوں نے اپنے بیگ اٹھائے اور پیدل چل کر سخت گرمی کے موسم میں گنگنیا ؤ پہنچے.وہاں سے ایک ریڑھے پر بیٹھ کر ہم اس گاؤں میں پہنچے.اس آدمی کے پاس گئے.اس کا نام غالباً ماری باہ تھا.اس سے ملاقات ہوئی وہ تھوڑی سی عربی بھی بول سکتا تھا.اس نے حسب حالات ہمیں خوش آمدید کہا پھر جماعت کی باتیں شروع ہو گئیں.رات گئے تک ہم باتیں کرتے رہے.صبح پھر یہی سلسلہ چلتا رہا.اب ہم نے واپس بھی آنا تھا.ماری باہ کہنے لگا آپ کی باتیں اچھی ہیں لیکن میں احمدی نہیں ہوسکتا.اس پر ہم قدرے مایوس ہو کر واپس آگئے.پہلے پیدل چل کر گنگناؤ تک آئے.پھر مختلف گاڑیاں بدلتے واپس فرافینی آگئے.سارے سفر میں کھانے پینے کی سخت مشکل رہی.گرمی کا موسم تھا، سواری کا انتظام نہ ہونے کے باعث کافی پریشانی رہی اور پھر ایک آدمی کے لئے اتنی محنت کی تھی اور وہ بھی احمدی نہ ہوا.ایسی باتیں تو روز کا معمول تھیں.پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.تقریباً بیس سال کے بعد اس علاقہ میں بیعتوں کا سلسلہ چل نکلا.بہت 233
ارض بلال.میری یادیں ) سے مقامات پر بیعتیں ہو گئیں.اس علاقہ کے دوممبر پارلیمنٹ بھی احمدی ہو گئے.اس پر مجھے بار بار ان لوگوں نے ان کے ہاں آنے کی دعوت دی.اس پر ایک دفعہ میں اس علاقہ میں دورہ پر گیا.میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ، سب سے پہلے ہم نے سار ماری میں جانا ہے.خیر ہم وہاں پہنچے.صرف چند ٹوٹے پھوٹے گھرانے تھے.وہاں ایک درخت کے نیچے ہم نے اپنے مصلے بچھا لیے.اس دوران گاؤں کے کچھ مردوزن بھی آگئے.میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ آج سے بیس سال پہلے میں اور احمد کی صاحب اس گاؤں میں احمدیت کا پیغام لے کر بڑی مشکلات سے آئے تھے اور کسی بھی آدمی نے صدائے حق پر لبیک نہیں کہا تھا.لیکن ہم مایوس نہیں ہوئے تھے اور آج اس خالق و مالک نے اس علاقے کے دل ہمارے لئے کھول دیئے ہیں.اس لئے ہم اس کے حضور اسی گاؤں میں اسی مقام پر سجدہ شکر بجالانا چاہتے ہیں.جہاں ہم میں سال پہلے آئے تھے اس پر سب حاضرین اور شرکاء پر بہت نیک اثر ہوا.خدمت خلق ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مکرم داؤد احمد حنیف صاحب اور خاکسار ایک تبلیغی اور تربیتی پروگرام کے تحت سینیگال کے علاقہ کو لخ کی جماعتوں کا دورہ کر رہے تھے.ان دنوں اس علاقہ میں دورہ جات کے دوران دن گزارنا تو اس قدر مشکل نہ ہوتا تھا کیونکہ انسان دن میں تو مصروف رہتا ہے.سفر وحضر، لوگوں سے میل ملاقات، اور پھر متفرق پروگرام چلتے رہتے ہیں.جس کے باعث دن کے گزرنے کا احساس نہیں ہوتا.لیکن اس کے برعکس رات گزارنا ایک بہت ہی مشکل امر ہوتا تھا.ان دنوں سینیگال میں جماعتیں نہ ہونے کے برابر تھیں.پھر ان احمدی بھائیوں میں سے اکثریت دیہات میں تھی جو اکثر فولانی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، جن کا پیشہ جانور پالنا ہے اور پھر تھوڑی بہت زمینداری بھی کر لیتے ہیں.ان کے گھر کچی اینٹوں کے بھی نہیں ہوتے بلکہ گھاس پھونس کے ہوتے ہیں اور صرف اس قدر ہوتے ہیں کہ بمشکل ان کی اپنی فیملی کے ممبرز ہی اس میں سرسما سکتے ہیں.234
ارض بلال- میری یادیں ) چار پائی کا ان جگہوں پر تصور ہی نہیں ہے.لکڑیاں جوڑ کر اس کا بیڈ بنا لیتے ہیں اور پھر بوری نما کپڑا لے کر اس میں گھاس ڈال کر گدا بنا لیتے ہیں.شروع میں مربیان بھی یہی گدا استعمال کرتے تھے.ہم لوگ کئی دن تک لگا تار سفر کرتے رہے.رات کبھی کسی کے صحن میں صف ڈال کر سو جاتے کبھی کار میں ہی رات بسر کر لی.ایک رات کو لخ کے قریب ایک گاؤں پلاڈو میں بعد از عشاء میٹنگ کی.رات بارہ بجے کے بعد میٹنگ ختم ہوئی.اس گاؤں کے قریب برلب سڑک ایک احمدی نوجوان رہتا تھا.یہ نوجوان سیر پر قبیلہ میں سے تھا.ان لوگوں کے گھر قدرے بہتر ہوتے ہیں.ہم نے اسے کہا کہ اگر ممکن ہو تو ہم لوگ آپ کے گھر میں رات بسر کر لیں.اس نے بخوشی اجازت دے دی.خیر ہم اپنے کمرے میں آئے اور اپنے اپنے بستروں میں گھس گئے.کافی دنوں کے تھکے ہوئے تھے.پہلی بار قدرے پر سکون اور آرام دہ جگہ سونے کے لئے ملی تھی.اس لئے جلد ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے.ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ وہی نوجوان ہمارے پاس آیا.اور خاصا پریشان لگ رہا تھا.میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کی ایک بہن حالت زچگی میں ہے اور بہت تکلیف میں ہے.موت وزیست کی حالت میں ہے.اس لئے آپ لوگ اس کے لئے کوئی دوا دار و کریں یا کوئی وظیفہ اور دعا وغیرہ کریں کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت زدہ کی مشکل آسان فرما دے.اب رات کے اس پہر کسی ٹرانسپورٹ کا حصول تو ان کے لئے بالکل ناممکن تھا.پھر اگر کہیں سے کوئی گاڑی مل بھی جائے تو پھر یہ غریب لوگ اس کا خرچ کہاں ادا کر سکتے تھے.اس طرف ہم لوگ بھی کئی دنوں سے لگا تار عالم سفر میں تھے جس کی وجہ سے تھکاوٹ اور نیند کا بھاری غلبہ تھا.کیونکہ کافی دنوں کے بعد قدرے مناسب اور آرام دہ کمرہ سونے کے لئے ملا تھا.میں نے مکرم داؤد احمد حنیف صاحب کو ساری صورت حال بتائی اور اہل خانہ کی مدد کے لئے درخواست کی اس پر وہ فورا تیار ہو گئے.ہم لوگ رات کو تقریباً تین بجے اس عورت کو لے کر کو نخ پہنچے، اسپتال میں اسے داخل کرایا.کچھ مالی مددبھی کی اور 235
ارض بلال.میری یادیں پھر چند گھنٹے بعد اللہ تعالیٰ نے اس خاتون کو بیٹے سے نوازا.اس طرح ہماری رات اسی تگ و دو میں گزرگئی.اب تو وہ لڑ کا خاصا بڑا ہو چکا ہے اور آج تک گاؤں والوں کو وہ واقعہ یاد ہے اور اکثر اس کا ذکر بڑے اچھے الفاظ میں کرتے ہیں.مارگزیدہ کی بے بسی ایک دفعہ خاکسار اور استاذ احمد لی صاحب سینیگال کے ایک علاقہ کرما جبل میں دورہ پر تھے.دن بھر تو مختلف جماعتوں میں تبلیغی و تربیتی پروگرامز کرتے رہے.شب بسری حسب معمول مشکل امر تھا.احمد لی صاحب نے کہا کرما جبل سے سات آٹھ میل دور ایک گاؤں ہے وہاں پر چند احمدی گھرانے ہیں ، وہاں رات گزار لیں گے.ان دنوں برسات کا موسم تھا ہر طرف باجرے کی فصلیں تھیں.راستے کچے اور جا بجا برساتی پانی کے باعث پانی کھڑا تھا.کئی بار گاڑی کیچڑ میں پھنستی پھنستی بچی.رات کی تاریکی میں بڑی مشکل سے اس گاؤں میں پہنچے.جس احمدی بھائی کے پاس ہم نے جانا تھا، اس کا نام احمد باہ تھا.اس کے ہاں پہنچے ، علیک سلیک ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس بے چارے کو تو آج سانپ نے کاٹ لیا ہے اور وہ کمرے میں لیٹا ہوا ہے.ہم لوگ اس کے پاس پہنچے، میں نے دیکھا کہ سخت پریشانی اور خوف کی حالت میں ہے.میں نے ان کے افراد خانہ سے پوچھا کہ آپ اسے کر ما جبل اسپتال کیوں لے کر نہیں گئے.انہوں نے اپنی مالی بے بسی کے بارے میں بتایا.میں نے احمد لی صاحب کو کہا اسے تیار کریں اور ہم اسے ابھی اپنے ساتھ کر ما جبل لے کر جاتے ہیں.ہم نے اسے اپنے گاڑی میں بٹھایا اور کرما جبل کو روانہ ہو گئے.رات بہت تاریک تھی اور جا بجا پانی کھڑا تھا.خیر اللہ نے فضل کیا ہم لوگ رات گیارہ بجے کے قریب کرما جبل پہنچ گئے.سیدھے کلینک میں پہنچے.کلینک بند تھا.ڈاکٹر صاحب کا ایڈریس پوچھ کر ان کے گھر پہنچے اور انہیں انجکشن لگانے کی درخواست کی.ڈاکٹر صاحب 236
ارض بلال.میری یادیں ) نے بتایا کہ آپ لوگ کل آئیں.خیر بڑی مشکل سے انہیں راضی کیا پھر وہ کہنے لگے کہ ٹیکہ کی قیمت 20000 فرانک ہے.کافی تگ و دو کے بعد نصف رقم پر رضامند ہوئے جو میں نے ادا کی اور پھر ڈاکٹر صاحب نے کلینک میں آکر احمد باہ صاحب کو سانپ کے زہر کا اثر زائل کرنے والا ٹیکہ لگایا.اس طرح اللہ تعالی نے اس نوجوان کی جان بچانے کے لئے ہم لوگوں کے دل میں اس کے گاؤں جانے کی تحریک پیدا فرمائی اور پھر اس کے نتیجہ میں گاؤں کے لوگوں کے دلوں میں جماعت سے پیار اور ہمدردی کا جذبہ پیدا فرمایا.ایک پیر صاحب کی مہمان نوازی سینیگال میں تیجانی فرقہ اب بہت سے چھوٹے چھوٹے فرقوں میں تقسیم ہو چکا ہے.ہر گروہ کا ایک الگ خلیفہ ہے.اگر چہ تیواؤن کو خلیفہ جنرل کا نام دیا جاتا ہے لیکن اندرونی اختلافات کی بنا پر ان سب کی پہچان اب الگ الگ ہے.ان میں سے ایک تیجانی گروپ کا مرکز ولنگارا کے قریب ایک گاؤں مدینہ گوناس ہے.ان کے خلیفہ احمد تیجان صاحب ہیں.ایک دفعہ خاکسار ولنگارا کے علاقہ میں دورہ پر تھا، میری فیملی بھی میرے ساتھ تھی.میں نے خلیفہ صاحب کو ملنے اور احمدیت کا پیغام پہنچانے کا پروگرام بھی بنایا ہوا تھا.اس لئے ان کے ہاں پہنچ گیا.پیر صاحب اپنے ایک بڑے سے ہال میں اپنے مریدوں کے ساتھ تشریف فرما تھے.پیر صاحب ایک بڑے آرام دہ صوفہ پر براجمان تھے.جبکہ مرید زمین پر بچھائے ہوئے قالین پر بیٹھے ہوئے تھے.میں نے وہاں پہنچ کر اطلاع کی.جس پر پیر صاحب نے اپنے سارے مریدوں کو کمرہ سے باہر بھیج دیا اور مجھے اپنے ساتھ صوفہ پر بٹھالیا.ابتدائی علیک سلیک کے بعد میں نے ایک گھنٹہ تک انہیں حسب توفیق و علم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد، دعوئی اور جماعت کی دینی عالمی خدمات کے حوالے سے بتایا جس پر وہ اپنی فولانی زبان میں ایک ہی لفظ بولتے رہے، کو گونگا کو گونگا (سچ ہے.سچ ہے ) بہر حال انہوں نے اس ملاقات پر بہت خوشی کا اظہار کیا.اس کے بعد میں نے اجازت طلب کی.اس دوران 237
ارض بلال- میری یادیں) انہوں نے اپنے مریدوں کو بھی بلا لیا اور ہم لوگ ان کے مکان سے باہر میدان میں آگئے.اتنے میں ایک آدمی ایک بھیڑوں کا ریوڑ لے کے ہماری طرف آ گیا.پیر صاحب مجھے کہنے لگے کہ آپ نے ہمارے پاس وقت کی کمی کے پیش نظر کھانا نہیں کھایا اس لئے ایک بھیٹر بطور تحفہ پیش کرنا چاہتا ہوں.اس پر ان کے ایک مرید نے ایک بھیٹر میرے حوالے کر دی.میں نے انکی مہمان نوازی اور قدر دانی پر ان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں بتایا کہ میں نے ابھی بہت سے مقامات پر دورہ کے سلسلہ میں سفر کرنا ہے.اس لئے بھیڑ کو ساتھ لے جانا مشکل ہو گا.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ یہ بھیڑ میں اپنی جانب سے آپ کے مریدوں کی خدمت میں پیش کر دوں اور یہ بھیٹر میں نے مریدوں کی طرف بڑھا دی.اس پر مرید بہت خوش ہوئے اور ان سب نے میرا شکر یہ ادا کیا.اس کے بعد میں اپنی بیماری کے باعث ان سے ملاقات نہ کر سکا.موریطانین نو جوان کی حق گوئی موریطانیہ کے لوگ عام طور پر ضدی اور اجڈ ہوتے ہیں.عربی ہونے کے ناطے سے صرف اپنے آپ کو پکے اور سچے مسلمان سمجھتے ہیں لیکن ان میں بعض نیک فطرت اور شریف الطبع لوگ بھی ہوتے ہیں جو حق کو حق کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے اور اسے اپنی جھوٹی انا اور وقار کا مسئلہ نہیں بناتے.اسی طرح کے ایک نوجوان کی بات ہے کہ جب اُسے حقیقت کا علم ہوا اس نے بڑے خوبصورت الفاظ میں اقرار کیا.ڈا کار شہر میں ایک نوجوان محمد نامی رہتا تھا.یہ موریطانیہ کا رہنے والا تھا اور ڈاکار یونیورسٹی میں طالب علم تھا.اس کا مکان میرے محلہ میں ہی تھا.نہایت شریف الطبع نو جوان تھا.اکثر میرے گھر آتا مختلف موضوعات پر باتیں ہوتیں.ایک دفعہ میں نے عربی اور فرانسیسی زبان میں دینی معلومات کے سوال جواب کی طرز پر دوکتا بچے تحریر کئے.ایک روز میں نے محمد سے کہا کہ میں نے یہ عربی کتابچہ لکھا ہے.میں عربی زبان 238
ارض بلال- میری یادیں) میں ماہر نہیں ہوں اور تم بفضلہ تعالیٰ حافظ قرآن بھی ہو اور پھر عرب بھی ہو اور دنیاوی اعتبار سے بھی پڑھے لکھے ہو.اس لئے اس کتابچہ کو ذرا دیکھو اگر کوئی غلطی ہو تو درست کر لیں.وہ میرے نوٹس ساتھ لے گیا.اگلے روز میرے پاس آیا.کہنے لگا.استاذ اس کتابچہ میں ایک بہت بڑی غلطی ہے.میں نے پوچھا بتائیے کیا غلطی ہے؟ کہنے لگا، آپ نے ایک سوال لکھا ہے کہ کیا آنحضرت صلی ایام کے بعد کوئی نبی آسکتا ہے؟ پھر جواب میں آپ نے لکھا ہے، جی ہاں.یہ تو بالکل غلط ہے.میں نے اسے کہا.یہ غلط نہیں ہے بلکہ بالکل درست ہے.اس پر وہ کافی پریشان ہو گیا.میں نے کہا.دوست دیکھو ! تم عرب ہو.تمہاری زبان عربی ہے.تم حافظ قرآن ہو اور تمہارے خاندان کے سب لوگ بقول تمہارے علماء اور حفاظ ہیں.اب اس طرح کرتے ہیں میں ایک آیت کریمہ پڑھتا ہوں تم نے ترجمہ کرنا ہے.میں نے یہ آیت کریمہ پڑھی: يُبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَتِيْ فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (الاعراف: ۳۶) ترجمہ: اے ابنائے آدم ! اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں جو تم پر میری آیات پڑھتے ہوں تو جو بھی تقوی اختیار کرے اور اصلاح کرے تو ان لوگوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور وہ غمگین نہیں ہوں گے.میں نے آیت پڑھنی شروع کی اور اسے کہا کہ تم ساتھ ساتھ ترجمہ کرتے جاؤ.جب میں آیت پڑھ چکا تو میں نے کہا اب دوبارہ میں اسے پڑھتا ہوں دوبارہ ترجمہ کرو.پھر میں نے آہستہ آہستہ پڑھنا شروع کیا.وہ ساتھ ساتھ لفظی ترجمہ کر رہا تھا.میں نے محسوس کیا کہ اس کے چہرے کا رنگ بدل رہا ہے.جب آیت پڑھ چکے تو میں نے کہا ، اب پھر میں آیت کریمہ پڑھتا ہوں، ہم ترجمہ کرو.پھر اس نے لفظی ترجمہ شروع کیا.میں نے دیکھا کہ اس کی عجیب کیفیت تھی جب آیت کریمہ پڑھ چکے تو وہ کہنے لگا، استاذ آج میری حالت حضرت عمر فاروق کی طرح ہے.جب 239
ارض بلال- میری یادیں ) آنحضور ساشا ایلم کے وصال کے موقع پر تلوار سونت لی تھی اور کہہ رہے تھے جو کوئی یہ کہے گا کہ حضرت محمد صلی ایام فوت ہو گئے ہیں.تو میں اس کا سر تن سے جدا کر دوں گا.اس پر جب حضرت ابوبکر صدیق نے آیت کریمہ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى b أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَ اللهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِى اللهُ الشَّكِرِينَ ط b (آل عمران: ۱۳۵) ترجمہ: اور محمد نہیں ہے مگر ایک رسول.یقینا اس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں.پس کیا اگر یہ بھی وفات پا جائے یا قتل ہو جائے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو بھی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائیگا تو وہ ہر گز اللہ و کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ یقینا شکر گزاروں کو جزا دے گا.تلاوت فرمائی تو انہیں لگا جیسے آج ہی یہ آیت نازل ہوئی ہے.اسی طرح مجھے بھی ایسے لگا ہے جیسے آج ہی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے.حالانکہ میں نے بے شمار دفعہ اس آیت کریمہ کی تلاوت کی ہے.ایک پیر صاحب کا اعتراف حق سینیگال کے ایک ممبر آف پارلیمنٹ جن کا تعلق خانوادہ سادات سے ہے.ایک میٹنگ کے دوران مجھے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ مسلمانوں کی علمی ، اخلاقی اور سیاسی غلامی کی جو تصویر کشی آپ نے کی وہ بالکل درست ہے لیکن میری ایک درخواست ہے کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں صدیوں سے ہمارے خاندان میں پیری مریدی کا نظام رائج ہے اور اس نظام کے نشیب و فراز اور رموز واسرار کے بارے میں ہم سے بڑھ کر کون آشنا ہو گا.اس لئے مسلم معاشرہ کی تشکیل کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیے.میں اس روحانی بیماری کی اہمیت، کیفیت اور اس کے علاج کے بارے میں ایک مثال کے ذریعہ آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں.240
ارض بلال.میری یادیں نظام قدرت نے ہمیں بدن سے نوازا ہے اور یہ روزانہ صفائی کا محتاج ہے.اگر اس کی مناسب صفائی بروقت نہ کی جائے تو اس پر میل کچیل آجاتی ہے اور اگر ایک مدت دراز تک صفائی نہ کی جائے تو پھر میل کچیل کی بہت سی نہیں بن جاتی ہیں پھر اس کے کھرنڈ بن جاتے ہیں.اس لئے اس نوع کی کثافت کو دور کرنے کے لئے بڑی حکمت عملی ، احتیاط اور اعلیٰ قسم کے لوازمات کی احتیاج ہوتی ہے کیونکہ جلد بازی میں جلد کے مجروح ہونے کا خدشہ ہوتا ہے.کچھ ایسی ہی مثال ہمارے اسلامی معاشرہ کی بن چکی ہے.ہر قسم کا شرک ، تو ہمات، دھوکہ فریب، کی جڑیں اس قدر راسخ ہو چکی ہیں کہ ان کے استیصال کے لئے صبر ایوب چاہیئے.اب صدیوں پرانی میل کچیل اور کثافت نے سخت قسم کے کھرنڈوں کی صورت اختیار کر لی ہے اور جلد بازی سے ہماری جلد پھٹنے لگ جائے گی پھر یہ زخم پیپ آلود بن جائیں گے.اس لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے.گنی بساؤ کا ایک دلچسپ سفر گیمبیا سے ایک تبلیغی وفد گنی بساؤ کی مختلف جماعتوں میں دورہ پر گیا.اس وفد کے پاس مشن کی کار تھی.ایک سفر کے دوران اس کار کو ایک خطرناک حادثہ پیش آ گیا.جس سے کار کو بہت نقصان پہنچا.لیکن اللہ تعالیٰ نے سب سواریوں کو معجزانہ طور پر محفوظ و مامون رکھا.اب گاڑی تو مرمت کے قابل نہیں تھی.لیکن اس کی انشورنس کی کاروائی کے لئے گاڑی کو گیمبیا لا نا بھی ضروری تھا.گاڑی کو چلا کر لانا تو کسی طرح بھی ممکن نہ تھا.ٹرک وغیرہ پر لاد کر لانا بہت زیادہ مہنگا پڑتا تھا.کیونکہ گیمبیا کے دارلحکومت بانجول سے پہلے سینیگال کے علاقہ کا سانس جانا پڑتا تھا پھر اس کے بعد گنی بساؤ کا علاقہ شروع ہوتا ہے، اور مقام حادثہ فارن نامی قصبہ کے قریب تھا جو شارع عام سے خاصا دور تھا.رستہ نہایت دشوار اور کچا تھا.مکرم طاہر مہدی امتیاز صاحب مربی سلسلہ، جو بفضلہ تعالیٰ ہر مشکل کام جانفشانی سے سر انجام 241
ارض بلال.میری یادیں دینے کے عادی ہیں اور خاکسار گاڑی میں مقام حادثہ پر پہنچے.وہاں سے ہم نے موٹے موٹے رسوں کی مدد سے حادثہ شدہ گاڑی کو میری گاڑی سے باندھ لیا.میں نے اپنی گاڑی چلانی شروع کی اور دوسری گاڑی کا سٹیرنگ مکرم مہدی صاحب نے سنبھال لیا اور اللہ کا نام لے کر اس طویل اور کٹھن سفر پر روانہ ہو گئے.کچے رستے ، غیر ملک، اجنبی لوگ اور پھر ہم نے اڑنے والی گردوغبار سے بچنے کے لئے اپنے سروں کو ڈھانک رکھا تھا، جس سے ہماری کیفیت و ہیئت بھی عجیب لگ رہی تھی.رستہ میں گنی بساؤ کے ایک قصبہ میں ہی شام پڑ گئی ، اس لئے ہم نے رات وہیں بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا.اب سوال یہ تھا کہ اس اجنبی گاؤں میں ہم پر دیسی رات کیسے گزاریں.اتفاق سے ایک آدمی سے سر راہ ملاقات ہو گئی.اسے ہم نے اپنی بپتا سنائی جس پر اسے ہماری حالت زار پر رحم آگیا اور اس نے از راہ ہمدردی ہمیں اپنے گھر کے برآمدہ میں شب بسری کی اجازت مرحمت فرما دی.ہم لوگ برآمدہ میں ایک تختہ پر دراز ہو گئے.باوجود آرام دہ دبستر نہ ہونے کے بھی خوب نیند آئی.پھر علی الصبح نئے سفر پر روانہ ہو گئے.راستہ میں پولیس بار بار روک لیتی انہیں مطمئن کر کے پھر سفر شروع کرتے اور اس طرح تین ممالک کی سرحدوں پر امیگریشن اور کسٹم والوں کا سامنا کرتے ہوئے سفر کے دوسرے دن شام کے قریب اپنی منزل پر پہنچے.ہماری حالت قابل دید تھی.ہمیں پہچاننا مشکل تھا.بہر حال الحمد للہ ہم نے یہ سارا سفر بخیر وخوبی طے کر لیا.242
ارض بلال.میری یادیں باب پانژده....] حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی چند خوبصورت یادیں بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا حضرت خلیفہ المسیح الرابع " کے بارہ میں چند ایک خوبصورت باتیں لکھ رہا ہوں.آپ کی ذات اقدس کے بارہ میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور تاحیات لکھا جائے گا.آپ کا وجود اپنی ذات میں ایک عالم تھا اور ایک عالم بھی تھا.آپ ایک خوبصورت انجمن تھے.آپ ایک ایسا گلدستہ تھے جس میں ہر رنگ ونسل کا پھول مہکتا تھا.مبارک چهره کو لخ کے علاقہ میں ایک چھوٹا سا گاؤں جو چند گھرانوں پر مشتمل ہے.اس گاؤں کا نام پلاڈو ہے.اس گاؤں میں ایک بار تبلیغ کی غرض سے گئے.الحمد للہ کچھ پھل بھی ملے.جب اس دورہ سے واپس آگئے تو چند دن بعد ایک احمدی دوست احمد باہ کا پیغام ملا کہ پلاڈو کے رہنے والے ایک دوست گاتم جالو صاحب جماعت کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں.کچھ عرصہ بعد پھر جب دوبارہ ہم لوگ اس علاقہ میں گئے تو اس بزرگ سے بھی ملے.انہیں جماعتی تعارف کرایا.کافی بحث و تمحیص کے بعد کہنے لگے کہ ابھی آپ چلے جائیں پھر دیکھیں گے.جس روز مجھے کوئی بین ثبوت مل گیا تو میں بیعت کرلوں گا.اس پر ہم لوگ واپس چلے آئے.اتفاق سے چند ماہ بعد حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ گیمبیا کے دورہ پر تشریف لائے.پروگرام میں گیمبیا کے فرافینی نامہ قصبہ میں حضور انور کی آمد کا پروگرام تھا اس لئے خاکسار نے 243
ارض بلال- میری یادیں ) سینیگال کے اس علاقہ میں جملہ مقامات پر اطلاعات کر دیں کہ سب لوگ فرافینی پہنچ جائیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے حضور انور کی آمد پر سب سے بڑا اجتماع اسی جگہ پر ہوا جس میں اکثر احباب سینیگال کے تھے.ان لوگوں میں مکرم گا تم جالو صاحب بھی تھے.جلسہ کی بہت کامیاب کارروائی کے بعد سب لوگ اپنی اپنی منزل کو روانہ ہو گئے.کچھ عرصہ بعد میں مکرم گا تم جالو صاحب کے علاقہ میں دورہ پر گیا اور ان سے ملاقات کی.انہوں نے فوراً اپنے احمدی ہونے کا اعلان کر دیا اور کہنے لگے مجھے اب دلیل مل گئی ہے.میرے لئے حضور انور کا چہرہ مبارک ہی کافی ثبوت ہے کیونکہ اس قدر نورانی چہرہ صرف خدا کے پیاروں کا ہی ہو سکتا ہے.آپ کے چہرے پر نور نبوت ایک دفعہ گنی بساؤ کے ایک وزیر نے حضور انور سے ملاقات کی.خاکسار بطور ترجمان ساتھ تھا.حضور انور اس قدر پیار محبت اور شفقت سے اس کے ساتھ پیش آئے اور بہت سی قیمتی نصائح سے انہیں نو از ا اور بتایا کہ آج دنیا کن کن مسائل کا شکار ہے اور خصوصاً افریقن ممالک جواب بظاہر آزاد ہیں مگر اندرونی طور پر اب تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ہر قسم کی آزادی سے محروم ہیں.آپ نے مثالیں دے دے کر ان کو سمجھایا اور بتایا ان سب مشکلات کا اب کیا حل ہے.یہ دوست بہت غور اور توجہ سے سنتے رہے اور حضور انور کے چہرہ مبارک کا مشاہدہ بنظر غائر کرتے رہے اس دوران مجھے اس وزیر نے بتایا کہ یہ شخص کوئی عام انسان نہیں ہے.اگر آج عیسائی دنیا کا مقابلہ کرنے والا کوئی وجود ہے تو یہی بزرگ ہیں اور مزید کہنے لگے کہ ان کے چہرہ پر نبیوں والا نور نظر آتا ہے.وزیر موصوف کا یہ قول میں نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا تو حضور نے فرمایا یہ نبوت کا نور نہیں ہے بلکہ یہ نور آنحضور صلی یا اسلم کی محبت ، اطاعت اور پیروی سے ملا ہے.244
ارض بلال- میری یادیں افریقن اقوام کی ترقی کے لئے نسخہ کیمیا انہوں نے حضور سے سوال کیا کہ کس طرح افریقن اقوام ترقی کر سکتی ہیں.حضور نے فرمایا جب تک افریقن اقوام دوسرے ممالک سے مدد لینا بند نہ کریں اور اپنے وسائل خواہ کس قدر معمولی اور کم ہوں ان پر اکتفا نہ کریں کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتیں.حضور نے فرمایا یہ ایڈ (مدد) دراصل ایڈز کی بیماری کی طرح ہوتی ہے اس بیماری کے جراثیم ، اس کے شکار مریض کے سارے جسمانی نظام پر پوری طرح قابو پالیتے ہیں اور کوئی خوراک اور دوائی کارگر نہیں ہونے دیتے.اس طرح جو قوم یا ملک کسی کو مدددیتا ہے وہ بھی کسی مقصد کیلئے دیتا ہے اور جس قوم کو وہ مدد دیتے ہیں ان کے سارے اندرونی نظام کو مضبوط گرفت میں کر لیتے ہیں اس لئے مدد لینے والی قوم کبھی آزادانہ طور پر اپنا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی.اس لئے ہمیشہ غلامی کا طوق اس کے گلے میں پڑا رہتا ہے اس لئے آپ لوگوں کا خود کفیل ہونا ہی آپ لوگوں کی آزادی اور ترقی کا واحد ذریعہ ہے.عورتوں اور مردوں کی مساوات ایک ممبر خاتون محترمہ کمبا باہ صاحبہ نے حضور سے عرض کی کہ حضور میں تو سیاستدان ہوں، پردہ نہیں کر سکتی ، اس کے بارے میں مجھے کیا ارشاد ہے.اس وقت اس خاتون نے افریقن چولا پہنا ہوا تھا اور سر پر چادر سی اوڑھی ہوئی تھی.حضور نے فرمایا کہ آپ کا لباس بالکل درست ہے.یہ بالکل ٹھیک پردہ ہے.پھر حضور نے عورت کے مقام کے بارے میں بڑے دلنشین انداز میں وضاحت فرمائی.پھر فرمایا کہ یہ یورپ والے مرد اور عورت کے مساوی حقوق کے بارے میں شور ڈالتے ہیں.جبکہ خود تو عمل نہیں کر پاتے.کبھی دیکھا ہے کہ یہاں مردوں کی فٹ بال ٹیم عورتوں کی فٹ بال ٹیم سے کھیل رہی ہو.یہ ممکن ہی نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کی تخلیق میں الگ الگ قوتیں اور استعدادیں رکھی ہیں.245
شفقت و محبت کا بحر بیکراں ارض بلال.میری یادیں غالباً 1995ء کی بات ہے.حضور انور جلسہ سالانہ جرمنی میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے.خاکسار کے والد محترم اور والدہ محترمہ نے ملاقات وزیارت کے لئے درخواست کی جو حضور انور نے از راہ شفقت قبول فرمائی.میرے والدین حضور انور کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے.حضور انور ان سے بہت پیار اور شفقت سے پیش آئے.ملاقات کے آخر پر حضور انور نے فرمایا: آؤ فوٹو بنوالیں.“ میری والدہ محترمہ کا جسم قدرے بھاری تھا.جب انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی تو ہمارے پیارے شفیق آقا نے فرمایا کہ آپ لوگ کرسیوں پر ہی بیٹھے رہیں ، میں از خود آپ لوگوں کے پیچھے آکر کھڑا ہوتا ہوں.یہ صورتحال والدین کیلئے عجیب تھی اور وہ اس پر سخت نروس اور پریشان ہو گئے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہمارے آقا ہمارے پیچھے کھڑے ہوں اور ہم لوگ آگے کرسیوں پر بیٹھے ہوں.اس لئے انہوں نے دوبارہ اٹھنے کی کوشش کی.جس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ لوگ بیٹھے رہیں اور اتنے میں حضور ان کے پیچھے آکر کھڑے ہو گئے اور اسی طرح فوٹو ہوگئی.فوٹو کے بعد حضور انور نے میرے والدین کو فرمایا کہ اس فوٹو کی ایک کاپی ہمارے منور کو ضرور بھیجوانا.سبحان اللہ کس کس شفقت اور پیار کا ذکر کیا جائے کہ ہمارے آقا اپنے غلاموں سے کس قدر پیار کا سلوک فرمایا کرتے تھے.یہ ان کی ہی شان تھی.قبل از وقت خوشخبری حضور انور خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ 1988 ء کے اوائل میں گیمبیا کے دورہ پر تشریف لائے.مانسا کونکو گیمبیا کا ایک ریجنل ہیڈ کوارٹر ہے.اس جگہ گورنمنٹ کا ایک Rest House ہے وہاں پر حضور انور نے Basse نامی قصبہ سے 246
.میری یادیں واپسی پر رکنا تھا اور وہاں حضور انور نے کچھ آرام فرمانا تھا.وہاں پر مکرم داؤد احمد حنیف صاحب سابق امیر گیمبیا کی اہلیہ محترمہ کے علاوہ خاکسار کی فیملی بھی موجود تھی.میری بیگم کے علاوہ ایک بیٹا عزیزم عطاء القدیر، بیٹی سلطانہ خورشید اور عطیہ خورشید تھیں.حضور انور نے مکرم امیر صاحب کی اہلیہ سے استفسار فرمایا کہ یہ بچیاں کون ہیں.انہوں نے بتایا کہ یہ منورخورشید صاحب کی بیٹیاں ہیں.حضور نے فرمایا کہ ان کی تین بیٹیاں ہیں.امیر صاحب کی اہلیہ نے بتایا نہیں حضور دو بیٹیاں ہیں.حضور نے پھر فرمایا نہیں ان کی تین بیٹیاں ہیں.ان دنوں خاکسار کی اہلیہ امید سے تھیں.چند ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی سے نوازا جس کا نام طوبی خورشید ہے اس طرح حضور انور کے الفاظ حرف بحرف پورے ہوئے.اسی طرح ایک بار خاکسار مع فیملی جلسہ سالانہ UK میں شرکت کے لئے گیا.اس دوران حضور انور سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی دوران ملاقات خاکسار کی بیٹی طوبی خورشید نے حضور کو بتایا کہ حضور مجھے سر درد ہو رہا ہے.حضور نے جواباً فرمایا آپ کو ایک اور بھائی چاہیئے.حضور نے یہ کلمہ دو دفعہ ارشاد فرمایا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک اور بیٹے سے نوازا.کیڑی کے گھر نارائن 1988ء میں جب حضرت خلیفہ امسیح الرابع ” گیمبیا کے دورہ کے دوران فرافینی تشریف لائے تو میری بیوی اور بچوں کو حضور انور کے لئے کمرہ وغیرہ تیار کرنے کی سعادت ملی.حضور انور نے کمیونٹی ہال میں خطاب فرمانے کے بعد سالکینی کے لئے روانہ ہونا تھا اور اس کے بعد رات انجوارا کے مقام پر گزارنی تھی.جب حضور انور کا قافلہ حسب پروگرام کمیونٹی ہال میں خطاب فرما کر سالکینی کو روانہ ہوا، اتفاق سے میرا گھر بھی راستہ میں آتا تھا.جب حضور کا قافلہ میرے گھر کے قریب سے گزر رہا تھا تو مکرم داؤد حنیف صاحب نے حضور اقدس کو بتایا کہ یہ منور خورشید صاحب کا گھر ہے.اس پر حضور نے 247
ارض بلال- میری یادیں) فرمایا، قافلہ کوروکیں! قافلہ رُک گیا.حضور انور غریب خانہ پر تشریف لے آئے.آپ کی میرے گھر آمد اس قدر اچانک اور غیر متوقع تھی.گھر میں میری اہلیہ اور بچے حضور انور کی شہر میں آمد کی وجہ سے مہمان نوازی وغیرہ کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے تھے.حضور کمرے میں تشریف لائے.سب کو محبت بھر اسلام کیا اور فرمایا چائے پلائیں.چائے بنی شروع ہوگئی.اس دوران ہم چند دوست حضور کے پاس بیٹھے رہے.حضور نے بچوں سے بھی پیار کیا.سب سے چھوٹی بیٹی عطیہ کو بلا یا ، اسے پیار کیا اور فرما یا.فوٹولیں حضور کی اس طرح اچانک آمد ہم سب اہل خانہ کے لئے ایک تاریخ رقم کرگئی ہے جو نسلوں تک اس برکت اور اعزاز کو یا درکھیں گے.ایک یادگار انعام حضور خلیفة المسیح الرابع ” گیمبیا کے دورہ کے دوران ملک بھر کا سفر فرما رہے تھے.بصے سے واپسی پر مانسا کونکو کے مقام پر حضور نے کچھ دیر کے لئے رکنا تھا.ان دنوں یہاں پر کوئی جماعت نہ تھی.یہ جگہ ریجنل ہیڈ کوارٹر ہے اور یہاں پر کمشنر صاحب کا گیسٹ ہاؤس ہے.جہاں پر کچھ دیر کے لئے قافلہ کے رکنے کا پروگرام تھا.( آجکل اس جگہ پر طاہر احمد یہ مسلم ہائی سکول ہے ) حضور انور کے مانسا کونکو میں قیام کے دوران میری فیملی نے حضور انور اور قافلہ کے دیگر افراد کے لئے چائے وغیرہ کا اہتمام کرنا تھا.ان دنوں گنی بساؤ کے کچھ لوگ فرافینی میں آئے ہوئے تھے جو میرے زیر تبلیغ تھے.انہوں نے بیعت کرنی تھی.گیسٹ ہاؤس کے ایک بڑے کمرہ میں بیعت کا پروگرام ہوا.یہ لوگ گنی بساؤ سے آئے ہوئے تھے اور فولا زبان بولتے تھے.حضور نے فرمایا کہ ترجمہ کون کرے گا ؟ اس پر میں نے عرض کی حضور ترجمہ میں کروں گا.اس پر حضور انور کے الفاظ کا ساتھ ساتھ فولانی زبان میں خاکسار ترجمہ کرتا رہا.الحمد للہ علی ذلک.اس کے بعد حضور نے دُعا کرائی.حضوران بیعتوں اور پھر خاکسار کی فولانی زبان میں ترجمانی پر 248
بہت خوش ہوئے..میری یادیں بعد ازاں حضور ا گلے سفر کے لئے اپنی کار میں تشریف لے آئے.میں بھی کار کے پاس کھڑا تھا.حضور نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور بغیر گنے کچھ ڈالرز خاکسار کے ہاتھ میں تھما دیے اور فرمایا اس کی مٹھائی کھائیں اور باقیوں کو بھی کھلائیں.آج تک یہ شفقت اور ذرہ نوازی کا نظارہ میری آنکھوں کے سامنے ہے اور سرمایہ حیات ہے.وصال حضرت خلیفہ امسیح الرابع چھوڑنی ہو گی تجھے دنیائے فانی ایک دن ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے 2003ء کی بات ہے.سینیگال کے علاقہ نیورو کے گاؤں سار ماری میں ریجنل جلسہ منعقد کرنے کا پروگرام ترتیب دیا گیا.اس سلسلہ میں تقریباً چالیس دیہات میں اطلاعات کی گئیں.جلسہ سے صرف دو دن قبل مجھے ایک دوست نے یہ بتایا کہ جس مقام پر ہمارا جلسے کا پروگرام ہے.اس کے قریب ہی سینیگال کی ایک مسلم مذہبی تنظیم جن کو مرید کہتے ہیں، یہ لوگ وہاں پر ایک بہت بڑا اجتماع منعقد کر رہے ہیں.یہ سینیگال کی مضبوط ترین جماعت ہے.اس جماعت کے بانی ایک بزرگ احمد بامبا صاحب تھے.ان کی وفات کے بعد ان کے ہاں خلافت کا نظام جاری ہے.لیکن خلافت خاندانی وراثت کی مانند ہے.یہ ایک شدت پسند جماعت ہے.حکومتیں تک انہی کے تعاون سے بنتی ہیں.موجودہ سربراہ مملکت سینیگال عبد اللہ وڈ صاحب جب سر براہ مملکت بنے تو سب سے پہلے اس جماعت کے خلیفہ صاحب کے حضور حاضر ہوئے اور وہاں جا کر پیر صاحب کے دربار میں ان کے قدموں میں بیٹھے رہے ان کی یہ تصویر ملک بھر کے اخبارات کی زینت بنی.اس لئے حکمت یہی تھی کہ ہم اپنا جلسہ فی الحال کسی اور مناسب تاریخ تک ملتوی کر دیں تا کہ کسی قسم کی بدمزگی پیدا نہ ہو.اس لئے فوری طور پر جلسہ کے التوا کی جملہ مقامات پر اطلاعات کر دی 249
گئیں.ارض بلال.میری یادیں جلسہ کا پروگرام ملتوی ہونے کے باعث میں اب اپنے مستقر ڈا کار میں ہی تھا اور اتفاق سے دفتر ہی میں بیٹھا ہوا تھا کہ لندن سے عزیزم عطاء القدیر کا فون آیا.اس نے روتے ہوئے بتایا کہ حضور اقدس اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں.انا للہ واناالیہ راجعون.دفتر میں چند معلمین بھی بیٹھے ہوئے تھے.ان سب کو میں نے یہ دلخراش خبر سنائی جس پر سب ہی بہت دکھی ہو گئے.جب حضور کی وفات کی خبر مکرم سالی صاحب ( معلم ) نے سنی تو بیچارے شدت غم سے زمین پر گر گئے.کافی دیر تک اس تکلیف دہ کیفیت میں رہے.موصوف جلسہ سالانہ لندن میں شریک ہوئے تھے ، حضور سے ملے تھے.آپ کی ذات اقدس کے فدائی بن گئے تھے.اب یہ بھی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے.آمین.ایک خواب جو حقیقت بن گیا جب مجھے حضور کے وصال کی خبر ملی تو میں نے ملک بھر میں جماعتی مراکز اور بعض دیگر احباب جماعت کو اس افسوسناک سانحہ کی اطلاع دی.آنریبل کا بنے کا باڈا کار میں ہی تھے ، وہ فوری طور پر میرے پاس تشریف لے آئے اور انہوں نے بتایا کہ آج صبح میرے بڑے بیٹے نے مجھے اپنا ایک خواب بتایا ہے.خواب کچھ یوں ہے کہ کوئی آدمی مجھے بتا رہا ہے کہ آپ کے ایک بزرگ رہنما فوت ہو گئے ہیں اور اس کے تھوڑی دیر بعد ہی مجھے آپ کا حضور کی وفات کے بارے میں فون مل گیا.طاہر احمد کی پیدائش بعض افریقن ممالک میں یہ طریق ہے کہ لوگ اپنے بچوں کے نام اپنے پیاروں کے نام پر رکھتے ہیں، خواہ وہ خاندانی رشتہ سے ہوں یا روحانی تعلق سے ہوں.جس روز حضور انور کا وصال 250
ارض بلال.میری یادیں ہوا ممکن ہے وہی گھڑیاں ہوں.جب حضور کی روح جسد عصری سے پرواز کر رہی تھی.مجھے کو لخ جماعت سے ایک دوست مکرم احمد آؤ صاحب کا فون آیا اور انہوں نے بتایا کہ مجھے اللہ تعالی نے بیٹے سے نوازا ہے اور میں نے اس کا نام حضرت خلیفہ ایج" کے نام نامی پر طاہر احمد رکھا ہے.اس دوران مجھے مرکز سے مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لنڈن نے حضور انور کی اندوهناک وفات کی خبر دی اور انتخاب خلافت کے اجلاس کی بھی اطلاع دی.الہی تائید و نصرت کا ایک عجیب واقعہ میں نے ممکنہ تیاری کی اور ایئر پورٹ پر چلا گیا.میرے ساتھ کا بنے کا با صاحب ممبر اسمبلی بھی تھے، یہ ہفتے کا دن تھا اس لئے شہر میں سارے دفاتر بند تھے.ایئر پورٹ پہنچے ، وہاں پر ہی موجود ایئر لائنز کے دفاتر سے ٹکٹ کا پتہ کیا لیکن کسی بھی جہاز میں سیٹ نہ مل پائی.سخت مایوسی ہوئی.شام کو ہم لوگ واپس گھر آگئے.اگلے روز پھر ہم دونوں ایئر پورٹ پر پہنچے.سب متعلقہ دفاتر میں گئے.وہی پہلے والا جواب ملا کہ جگہ نہیں ہے.ایک ایئر لائن والوں نے بتایا کہ ہمارے پاس ایک سیٹ ہے.لیکن اس کا کرایہ عام کرایہ سے دوگنا ہے.میں نے دفتر تبشیر سے رابطہ کیا.انہوں نے فرمایا ، آپ وہ ٹکٹ لے لیں اور جلد آجائیں.جب ہم ٹکٹ لینے اس دفتر پہنچے تو انہوں نے بتایا کہ وہ ٹکٹ تو فروخت ہوگئی ہے.اس بات سے بہت پریشانی ہوئی.دفتر کا ایک کلرک کہنے لگا کہ ابھی ایک اور ٹکٹ ہے لیکن وہ عام قیمت سے تین گنا زائد قیمت کی ہے.وہ قیمت میری جیب اور استطاعت سے بہت بالا تھی.اس پر میں نے راضی برضائے تعالیٰ واپسی کا ارادہ کر لیا.مجھے کا بنے صاحب کہنے لگے کہ آپ یہ ٹکٹ لے لیں.یہ بہت تاریخی موقع ہے.میں نے انہیں بتایا کہ یہ ٹکٹ خریدنا میرے بس کی بات نہیں ہے.کہنے لگے کہ میں آپ کے لئے یہ ٹکٹ خرید دیتا ہوں.ان کی یہ بات سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ یہ افریقن بھائی کس قدر مخلص اور جماعت کے لئے قربانی کرنے والا ہے.میں نے عرض کی میں آپ 251
ارض بلال- میری یادیں ) پر بوجھ نہیں بننا چاہتا اور سامان اٹھایا اور واپسی کے لئے چل پڑے.جب واپسی کے لئے ایئر پورٹ سے نکل رہے تھے.اس دوران ہم ایک ایئر لائن کے دفتر کے سامنے سے گزرے.وہاں سے ایک کلرک نے مجھے آواز دی اور اندر آنے کا اشارہ کیا.میں اندر گیا، تو اس نے بتایا کہ ایک عام قیمت کی سیٹ مل رہی ہے، ابھی رقم ادا کرو اور دو گھنٹے تک جہاز تیار ہے.میں نے خدا کا شکر ادا کیا.فوری رقم ادا کی ٹکٹ لی اور چند گھنٹے میں سوئے منزل محو پرواز تھا.یہ واقعہ اسقدر تیزی سے ہوا کہ کافی دیر تک تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے تائید ونصرت سے مشکل آسان فرما دی.252
ارض بلال.میری یادیں.....باب شش ده....) میدان عمل کے مختلف واقعات سینیگال میں امام مہدی.لائن فرقہ سینیگال میں ایک شخص نے گزشتہ صدی میں مہدی ہونے کا دعوی کیا تھا.اس کا نام امام لاءِ ہے.کہتے ہیں وہ ایک ان پڑھ شخص تھا.اس کا پیشہ ماہی گیری تھا.اس کی کوئی کتاب نہیں ہے.ایک دفعہ مجھے بڑی مشکل سے ان کا ایک کتابچہ ملا تھا جس کے غالباً تیس صفحات ہونگے جس میں بقول مؤلف یہ امام لاء کے خطبات ہیں.اس میں ایک فقرہ یہ تھا کہ میں اس دور کا امام ہوں، ہاں! اگر مجھ سے بڑا امام مہدی آ جائے تو اسے ماننا چاہیے.لیکن ان کے خاندان والے اب انہیں نبی بھی مانتے ہیں بلکہ ان کے بیٹے کو بھی نبی مانتے ہیں.کہتے ہیں کہ باپ مہدی تھا اور بیٹا عیسی ہے.امام صاحب کے ماننے والے صرف ان کے اپنے خاندان کے لوگ ہیں اور اکثر ڈا کا رشہر میں ہیں یا اسی قبیلہ کے کچھ ماہی گیر جو چند دیگر ساحلی دیہاتوں میں بستے ہیں اور چونکہ یہ خاندان ماہی گیر تھا اس لئے سمندر کے کنارے پر ہی آباد ہیں.ان کے قبیلہ کا نام لیبو ہے.ان کی پورے ملک میں صرف تین مساجد ہیں جو کہ ڈاکار کے دو محلوں میں ہیں.جماعت احمدیہ کی کتاب اپنی صداقت کے حق میں سینیگال کے اخبار میں شائع کرادی امام صاحب 1990ء میں فوت ہو گئے تھے.ان کے دعویٰ کو جب 100 سال ہو گئے تو ان کے پیروکاروں نے انکی صد سالہ تقریبات منانے کا پروگرام بنایا.اب ان کے پاس نہ کوئی لٹریچر تھا،منہ ہی کوئی اور خاص چیز جسے اس موقع پر دکھا سکیں.ان کے پاس جماعت احمدیہ کی ایک کتاب ختم نبوت کی حقیقت موجود تھی.انہوں نے وہ ساری کی ساری کتاب سینیگال کے معروف اخبار 253
ارض بلال.میری یادیں لاسولیل میں اپنی تائید میں شائع کر دی.دلچسپ تفصیل ملاحظہ ہو: سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار میں ہر دو سال کے بعد ایک عالمی تجارتی میلہ منعقد ہوتا ہے جس میں دنیا بھر کے تاجر صاحبان اپنے اپنے سٹال لگاتے ہیں.خاکسار کو بھی بہت دفعہ اس میلہ میں جماعت احمدیہ کا تبلیغی سٹال لگانے کی سعادت ملی.ایک دفعہ میں نے سٹال لگایا.حسب روایت اس میں جماعت کی مختلف کتب فرانسیسی زبان اور انگریزی میں رکھ دیں.مختلف زائرین ہمارے سٹال پر آتے رہے اور مختلف کتب کو دیکھتے اور بعض خریدتے اور بعض ویسے ہی آگے بڑھ جاتے.بعض لوگ کسی کتاب کا مطالبہ کرتے اور بسا اوقات وہ ہمارے پاس نہ ہوتی تو ہم معذرت کر دیتے.ایک دن ایک سینیگالی دوست سٹال پر آئے اور انہوں نے ایک ختم نبوت کی حقیقت“ نامی کتاب کے بارے میں پوچھا.میں نے بتایا وہ تو میرے پاس نہیں ہے.اس کے بعد کئی اور لوگ بھی سٹال پر آئے اور انہوں نے بھی اس کتابچہ کے بارے میں استفسار کیا.میں بڑا حیران ہو رہا تھا کہ اس قسم کی کتاب عموماً غیر از جماعت بھائی نہیں خرید تے بلکہ ہم خود تبلیغی نقطہ نگاہ سے لوگوں کو پیش کرتے ہیں.اس پر میں نے ایک آدمی سے پوچھ ہی لیا.بھئی آپ کو اس کتاب سے کیا دلچسپی ہے.اس نے جواب دینے سے احتراز کیا مگر ایک اور آدمی نے مجھے بتایا کہ آپ کا یہ مکمل کتابچہ سینیگال کے معروف روز نامہ لاسولیل میں چھپا ہے.مجھے سخت حیرانگی ہوئی.اسی میلہ میں اس اخبار کی انتظامیہ نے بھی اپنا سٹال لگایا ہو ا تھا.میں ان کے پاس گیا اور ان سے اس مخصوص مضمون والے اخبار کے بارے میں استفسار کیا.چونکہ مجھے کسی معین تاریخ کا علم نہیں تھا اس لئے انہوں نے مدد کر نے سے معذرت کر دی.اس پر میں واپس چلا آیا.میلہ کے اختتام پر ہم لوگ واپس گیمبیا کوروانہ ہو گئے راستہ میں کولح شہر سے گزرے.وہاں پر 254
ارض بلال.میری یادیں ) ایک احمدی دوست دکاندار تھے جن کا نام محمد جوب صاحب تھا سو چا انہیں سلام کر لیں.جب ان کے پاس گیا تو باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ ہماری ایک کتاب اخبار لاسولیل میں چھپی ہے اور انہوں نے اپنی الماری سے وہ اخبار نکال کر مجھے دے دیا.اس اخبار کے اس طرح اچانک ملنے پر مجھے بڑی خوشی ہوئی.اخبار کے پہلے صفحہ پر یہ مضمون تھا.اس مضمون کے آغاز میں ایک سینیگالی شخص کی چھوٹی سی تصویر تھی اور اس کے بعد شاہ سرخی کچھ یوں تھی : ”نبی آسکتا ہے.“ اس کے نیچے لکھا تھا: ایم.اے.درد امام مسجد لندن لکھتے ہیں.لیکن احمدیت کا کہیں بھی ذکر نہ تھا.بعد ازاں پوری کی پوری کتاب من وعن شائع شد تھی.امام لاء کی قبر پر السلام علیکم یا نبی اللہ ایک روز میں جماعت کے ایک معلم صاحب کے ساتھ صبح کی نماز کے وقت لائن فرقہ کی جامع مسجد میں گیا.ان کی یہ مسجد ڈا کار کے محلہ یوف میں واقع ہے.صبح کی نماز میں ہیں کے قریب نمازی تھے.نماز سے فارغ ہو کر سب نمازی امام لاء کی قبر پر حاضری کے لئے چل پڑے.یہ قبر ساحل سمندر کے قریب ہے.ہم لوگ بھی ان نمازیوں کے ساتھ قبر کی طرف چل پڑے.پہلے سب لوگ مسجد سے نکلے.ایک سو میٹر تک چلے ہوں گے.تو ایک بڑے سے میدان میں داخل ہو گئے.جس کے ارد گرد چاردیواری سی بنی ہوئی تھی.یہ میدان سمندر کا ساحل ہونے کی وجہ سے ریتلا تھا.ہمیں بتایا گیا کہ یہ مقدس زمین ہے.اس کے بعد ایک کمرہ میں داخل ہو گئے جس کے اندر ایک قبر تھی.جیسے ہی لوگ اس کمرہ میں داخل ہوئے.سب لوگوں نے بآواز بلند کہا: السلام علیکم ورحمتہ اللہ یا نبی اللہ.اس کے بعد انہوں نے اپنے اپنے انداز میں دعا کی اور اس کے بعد اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے.اس فرقہ کی ملک میں کوئی مخالفت نہیں ہے.ان کا ہر سال ایک میلہ ہوتا ہے.جس میں 255
ارض بلال- میری یادیں - سب فرقوں کے لوگ شریک ہوتے ہیں.حالانکہ جماعت احمدیہ کو وہ سب ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ) نبوت پر ایمان رکھنے کے باعث راہ مستقیم سے دور سمجھتے ہیں لیکن اس فرقہ کی آنحضور ملیشیا اینم کی ذات اقدس کے بعد دونبیوں پر ایمان رکھنے کے باوجود کوئی مخالفت نہیں ہے.یادر ہے.یہ فرقہ صرف ایک ہی خاندان کے لوگ ہیں.ایک غیر از جماعت پاکستانی دوست اور عثمان دابوصاحب کی نماز تہجد پردیس میں اکثر اوقات مولوی حضرات کا عوام الناس میں پیدا کردہ زہر کم ہو جاتا ہے اور پاکستانی بھائی بڑے پیار سے ملتے ہیں.یہاں تک کہ اکثر اوقات بڑی فراخدلی کے ساتھ جماعت احمدیہ کی تعریف کرتے ہیں اور اپنے مولوی صاحبان کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے سے بھی نہیں چوکتے.ایک روز میں کسی کام کے سلسلہ میں سینیگال میں واقع پاکستان کے سفارت خانہ میں گیا.وہاں ایک اور پاکستانی دوست بھی تشریف فرما تھے.احوال پرسی کے بعد انہوں نے بتایا کہ وہ ڈاکار میں سلائی کڑھائی کا کام کرتے ہیں.میں نے ان کو بتایا کہ میں تو جماعت احمدیہ کامربی ہوں.اس پر اس دوست کی گرم جوشی قدرے ٹھنڈی ہوگئی اور اپنے کام سے فارغ ہو کر وہ دوست تشریف لے گئے.کچھ دیر کے بعد میں بھی اپنے کام سے فارغ ہو کر شہر کو نکل گیا.اتفاق سے سر بازار اس دوست سے پھر ملاقات ہو گئی.پھر دوبارہ علیک سلیک ہوئی.باتوں باتوں میں میں نے انہیں بتایا کہ میں گیمبیا سے آیا ہوں اور اکثر سینیگال میں آتا رہتا ہوں اور کوئی چیز گیمبیا سے منگوانی ہو تو بتا ئیں.کہنے لگے ،سنا ہے گیمبیا میں دالیں اور آچار بھی مل جاتا ہے.اگر وہ لے آئیں تو بہت مہربانی ہوگی.میں کچھ عرصہ کے بعد کسی کام کے سلسلہ میں ڈا کار گیا تو کچھ دالیں اور آچار وغیرہ ان کے لئے ساتھ لے گیا.جب میں سامان لے کر ان کی رہائش گاہ پر گیا تو کہنے لگے.آپ جب تک ڈاکار میں ہیں، میرا گھر حاضر ہے ادھر ہی رہ سکتے ہیں.میں نے ان کا شکر یہ ادا کیا.لیکن درخواست کی اگر میرے 256
ارض بلال- میری یادیں ) ڈرائیور کو ادھر رہنے کی اجازت دے دیں تو مہربانی ہوگی کیونکہ میری رہائش کا انتظام ایک اور پاکستانی دوست کے ہاں تھا.یہ رمضان کے دن تھے.اس نے مجھے کھانے کی پیشکش کی.میں نے اسے بتایا میں تو روزے سے ہوں.خیر میں نے اپنے ڈرائیور مکرم عثمان دا بو صاحب کو اس کے پاس چھوڑا اور خود اپنی رہائش گاہ پر چلا گیا.اس طرح روزانہ ہی اس نوجوان سے ملاقات کا ایک سلسلہ چل نکلا.ایک دن مجھے کہنے لگا کہ بھائی صاحب اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں.میں نے کہا کہ جی بسم اللہ، آپ ارشاد فرما ئیں.کہنے لگے : ر بھی آپ نے مجھ سے نماز کے لئے مصلیٰ مانگا ہے اور دوسرے کمرے میں جا کر نماز ادا کی ہے.معاف کرنا! میں نے چھپ کر آپ کو نماز پڑھتے دیکھا ہے تا کہ میں دیکھوں تو سہی آپ کی نماز کیسی ہے! آپ لوگ تو مسلمان نہیں ہیں ، پھر آپ کی عبادت کیسی ہے! میں نے آپ کو پوری نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے.اس نماز میں اور ہماری نماز میں تو کوئی فرق نہیں ہے.پھر جس روز آپ پہلی بار مجھے ملے تھے تو آپ نے بتایا تھا کہ آپ روزہ دار ہیں.پھر یہ آپ کا جو ڈرائیور عثمان ہے، میں نے دیکھا ہے کہ یہ عام نمازوں کے علاوہ نماز تہجد بھی ادا کرتا ہے اور پھر نماز بھی ہم مسلمانوں کی طرح پڑھتا ہے.میں تو بڑا پریشان ہو گیا ہوں کہ یہ سب کچھ کیا ہے.آیا جو کچھ ساری عمر میں اپنے مولویوں سے قادیانی جماعت کے بارے میں سنتا آیا ہوں کیا وہ سب غلط ہے یا آپ کی نماز اور روزہ وغیرہ اندر سے کچھ مختلف ہیں.“ اس پر میں نے تفصیل کے ساتھ اسے علماء کے کردار اور جماعتی عقائد اور تعلیم کے بارے میں بتا یا جس پر وہ سخت حیران ہوا.جب تک یہ دوست سینیگال میں رہا با قاعدہ الفضل اخبار لے کر پڑھتا رہا بلکہ ایک دفعہ ایک 257
ارض بلال- میری یادیں ) مال بردار بحری جہاز ڈاکار کی بندرگاہ پر آیا.اس کے عملہ میں کچھ پاکستانی نوجوان بھی تھے.مکرم صفدر علی صاحب ان کو ملنے کے لئے جہاز پر چلے گئے.ان نوجوانوں میں سے کسی نے صفدر علی صاحب سے کہا کہ ہم کافی عرصہ سے سفر پر ہیں.اب تو سخت بوریت ہو رہی ہے.اس لئے اگر آپ کے پاس کوئی اردو زبان میں پاکستانی اخبار یا رسالہ ہو تو ہمیں دے دیں تو ہم آپ کے بہت ممنون ہونگے.اس پر صفدر علی صاحب نے کہا.میرے پاس تو صرف جماعت احمدیہ کے الفضل اخبار پڑے ہوئے ہیں.اگر آپ پسند فرمائیں تو وہ میں آپ کو دے سکتا ہوں.اس طرح وہ کافی سارے الفضل اخبارات ان بحری جہاز کے ملازمین کو دے آئے اور ان لوگوں نے بھی خوشی سے ان اخبارات کو لے لیا.تقریباً اس بات کو پندرہ سال ہو گئے ہیں لیکن وہ جماعت کا بڑا احترام کرتا ہے.ابھی تک اپنے ذاتی مسائل میں مجھ سے مشورہ کرتا ہے اور مجھے اپنے بڑے بھائی کا سا احترام دیتا ہے.یہ سارا واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سفر کے دوران انسان کی قلبی کیفیت بہت مختلف ہو جاتی ہے ماحول کا انسان پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے.جب تک ایسے لوگ اچھے ماحول میں ہوتے ہیں یہ مثبت کردار کے حامل بن جاتے ہیں.لیکن جونہی یہ لوگ مولوی طبقہ کے زیر اثر ہوتے ہیں پھر انہی کی طرح خطر ناک اور زہر آلود ہو جاتے ہیں.جس طرح ماچس کی تیلیاں اور ڈبیہ اگر لمبا عرصہ تک بھی اکھٹی رہیں تو آگ نہیں جلتی.لیکن جب ایک تیلی کو ڈبیہ کے اوپر رگڑیں تو پھر ایسا شعلہ نکلتا ہے کہ الحفیظ و الامان ! کہتے ہیں کہ ماچس کی ایک تیلی پورے جنگل کو جلا کر راکھ کا ڈھیر کر سکتی ہے.جسطرح عبد اللہ بن صباح کی زہر آلود شخصیت اور فتنہ پرداز ذہنیت نے ایک بہت ہی پرسکون اور پر امن ماحول کو کشت و خون میں نہلا دیا تھا.258
.میری یادیں خلیفہ خدا بناتا ہے عیسائی صدر مملکت لیپورڈ سٹینفور نے علماء کو کیسا مسکت جواب دیا.سینیگال کو جب اہل فرانس سے آزادی ملی سب سے پہلے سر براہ مملکت بننے کا سہرا لیپورڈ سیغور صاحب کے سر پرسجا تھا.سینیگال کی اکثر آبادی مسلمان ہے.عیسائی لوگ صرف پانچ فیصد کے لگ بھگ ہیں.چونکہ مسلمانوں کی اکثریت زیر علم سے آراستہ نہ تھی اور عیسائی اگر چہ تعداد میں بہت تھوڑے تھے لیکن ان میں کافی لوگ پڑھے لکھے تھے.سین غور صاحب عیسائی تھے لیکن اس کے باوجو دسر براہ مملکت بن گئے.سب مسلمانوں نے بڑی خوشی اور سعادت سے انہیں قبول کر لیا.ایک دفعہ سینیگال کے علماء اور شیوخ کو یہ خیال آیا.یا کسی نے ان کے دماغ میں یہ بات ڈالی.کہ ہم تو مسلمان ہیں اس لئے ہمارا سر براہ مملکت کوئی مسلمان ہونا چاہیئے.لیکن پورے ملک میں ہم مسلمانوں میں کوئی ایسا گوہر نہیں جو رموز حکومت سے آشنا ہو.اس پر انہوں نے سوچا کہ اس مسئلہ کا ایک حل ہے کہ علما اور شیوخ کا ایک وفد جناب صدر سے ملے اور انہیں درخواست کرے کہ آپ ایک اسلامی ملک کے سر براہ ہیں.کیا ہی اچھا ہو کہ آپ مسلمان ہوجائیں.پھر ہمارے اسلامی ملک کا مسلمان سر براہ ہو گا جس سے ہمیں بہت سے فوائد ملیں گے.اس کے بعد یہ نمائندہ وفد سین غور صاحب کے دربار میں حاضر ہوا اور جا کر ان کی خدمت میں اپنی درخواست پیش کی.سین غور بہت ذہین اور چالاک آدمی تھا.اس نے کہا، مجھے آپ لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے اور میں آپ کے اس مشورہ کا تہہ دل سے ممنون ہوں اور میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کی بات ماننے کو تیار ہوں.اس پر علما اور شیوخ اپنی اس کامیابی پر بہت خوش ہوئے.تھوڑی دیر بعد سینغور صاحب نے کہا لیکن ایک چھوٹی سی مشکل ہے.اگر آپ اس سلسلہ میں میری مدد کر دیں تو پھر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور وہ یہ ہے کہ سینیگال میں مسلمان بہت سے فرقوں میں تقسیم ہیں.اگر میں تیجانی ہوتا ہوں تو مرید اور لائن اور دیگر فرقے مجھ سے نالاں ہو جائیں گے.اگر میں مرید بنتا ہوں تو 259
ارض بلال- میری یادیں ) باقی فرقے مجھ سے ناراض ہو جائیں گے.اس طرح میری محبت کی بجائے ان کے دلوں میں میرے لئے نفرت پیدا ہو جائے گی.اس لئے میری یہ خواہش ہے کہ آپ لوگ جا کر کسی بھی ایک خلیفہ کا انتخاب کرلیں جو سب سینی گالی مسلمانوں کا اجتماعی لیڈر ہو تو میں فوری طور پر اس کی بیعت کرلوں گا.اس پر سب علماء خاموشی سے وہاں سے چلے آئے.اس کے بعد کبھی بھی سینغور کے پاس اس کام کے لئے نہیں گئے.اور سین غور نے بڑے آرام اور سکون کے ساتھ ایک لمبے عرصہ تک بلا شرکت غیرے سینیگال پر حکومت کی تھی پھر از خود حکومت سے الگ ہو گئے اور آج تک سینی گالی قوم انہیں اپنا عظیم لیڈر جانتی ہے.اور بہت سی اہم قومی بلڈنگز کے نام ان کے نام پر ہیں.آنریبل سفیر سیرالیون کی حق گوئی ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ لائبیریا کے صدر مملکت گیمبیا کے یوم آزادی پر بطور مہمان خصوصی تشریف لا رہے تھے.گیمبیا سے وزراء کرام مختلف ممالک کے سفراء کرام اور ان کے علاوہ مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے بہت سے معززین شہر بھی اپنے قابل احترام مہمان کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ کے VIP لا ؤنج میں تشریف فرما تھے.خاکسار بھی بطور امیر جماعت اس موقع پر حاضر تھا.مختلف احباب کرام الگ الگ جگہوں پر تشریف فرما تھے.جس جگہ میں بیٹھا ہوا تھا ادھر موریطانیہ کے سفیر صاحب تھے اور ان کے قریب سیرالیون کے سفیر آنرا یبل مسٹر فو فنا بھی بیٹھے ہوئے تھے.باتوں باتوں میں موریطانین سفیر صاحب مسٹرفو فنا کو کہنے لگے.آپ بہت اچھے مسلمان ہیں.آپ کی اسلام سے محبت اور پیار کی وجہ سے میرا خیال ہے کہ آپ کی انگلی پوسٹنگ سعودی عرب میں ہوگی.مسٹرفو فنا فورا بولے یہ بالکل ممکن نہیں ہے اور میں کبھی بھی ادھر جانا پسند نہیں کروں گا.کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اہل سعود یہ صحیح مسلمان نہیں، اگر یہ لوگ صحیح مسلمان ہوتے تو ہم اہل افریقہ کبھی اس طرح کسمپرسی اور حالت زار میں نہ ہوتے.یہ لوگ صرف اور صرف بڑی حکومتوں کو خوش کرنے میں 260
ارض بلال- میری یادیں ) لگے ہوئے ہیں.میں آپ کو یہ بات بتانے میں کبھی بھی عار محسوس نہیں کروں گا کہ جو اسلام اور انسانیت کی خدمت جماعت احمدیہ نے افریقہ میں کی ہے، اس کی مثال کہیں نہیں مل سکتی.آج تو بے شمار حکومتیں اور ادارے افریقہ آ کر خدمت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں لیکن جماعت احمد یہ اس وقت ہمارے پاس پہنچی جب وہاں پر سوائے مشکلات و مصائب کے کچھ بھی نہ تھا اور کوئی شخص ادھر کا رخ نہیں کرتا تھا.اس دور میں جماعت نے جس طرح بے نفس ہوکر ہمارے ملک وقوم کی خاطر اور انسانیت اور دین اسلام کی خدمت سرانجام دی ہے وہ بے مثل ہے.میں اس جماعت کی تہہ دل سے قدر کرتا ہوں اور انکی خدمات پر ان کو سیلوٹ پیش کرتا ہوں.آنرا یبل فوفنا صاحب کا یہ رد عمل اسقدر فوری اور حقیقت پسندانہ تھا اور انہوں نے کچھ ایسے جذباتی اور دکھی انداز میں ان خیالات کا اظہار کیا کہ سب سننے والے بڑے متاثر ہوئے.موریطانین سفیر چونکہ سخت متعصب شخص تھا.اس کی حالت دیدنی تھی اور اس کی زبان پر جیسے تالا لگ گیا ہو.میں نے اس واقعہ کی اطلاع حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں ارسال کی جس پر حضور انور نے مکرم فوفقا صاحب کی بہادری اور حق گوئی کی تعریف فرمائی.فجزاہ اللہ احسن الجزاء عربی زبان کے چالیس ہزار ماؤوں کا الہی نشان حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے عہد سعید میں قرآن پاک کا فرانسیسی ترجمہ شائع ہوا.حضور نے ہمیں ارشاد فر مایا کہ قرآن پاک کا فرانسیسی ترجمہ سینیگال میں سب مسلمان سفراء کرام کو جماعت کی جانب سے بطور تحفہ پیش کریں.چنانچہ ہم چند دوست اس ارشاد کی تعمیل میں ڈا کار گئے، کیونکہ سب سفارت خانے ڈاکار میں ہی ہیں.ایک روز ہمارا وفد لبنان کے سفیر محترم کو ملنے کے لئے ان کے سفارت خانہ میں پہنچا.انتظامیہ کو بتایا کہ ہم جناب سفیر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں.انہوں نے سفیر صاحب کو ہمارے بارے میں بتایا.تھوڑی دیر کے بعد سفیر صاحب نے ہمیں اپنے دفتر میں بلالیا.261
ارض بلال- میری یادیں ) دفتر میں پہنچے ، سفیر صاحب سے علیک سلیک ہوئی.ہم نے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ ہمارا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے.ہماری جماعت نے بہت سی زبانوں میں قرآن پاک کے تراجم کیسے ہیں.ابھی حال میں ہی یہ فرانسیسی زبان میں ترجمہ شائع ہوا ہے.وہ آپکی خدمت میں پیش کرنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہم نے قرآن پاک کا ایک نسخہ انکی خدمت میں پیش کر دیا.انہوں نے کھڑے ہو کر بڑے احترام کے ساتھ اس مبارک تحفہ کو قبول کیا.اس کے بعد کہنے لگے آپ کے عقائد کیا ہیں.ہم نے اختصار کے ساتھ جماعت کا تعارف کرایا.اس پر کہنے لگے کہ ہمیں تو آج کل آپ کی جماعت کے خلاف پاکستانی گورنمنٹ کی جانب سے ڈھیروں ڈھیر لٹریچر مل رہا ہے آپ کو چاہیئے کہ آپ بھی اپنا نقطۂ نظر سب کو بتا ئیں.اس پر انہیں جماعت کے بارے میں مزید بتایا گیا.اس پر سفیر صاحب کہنے لگے آپ کے پاس بانی سلسلہ احمدیہ کی کوئی کتاب ہے.اتفاق سے اس وقت ہمارے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی تصنیف الاستفتاء موجود تھی ، ان کی خدمت میں پیش کر دی.انہوں نے پہلے تو اس کتاب کے آغاز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کو بنظر غور دیکھا.پھر کتاب کھولی اور اسے پڑھنا شروع کر دیا.پھر کتاب میں مستغرق ہو گئے اور اپنے ماحول سے بالکل بیخبر سے ہو گئے.کافی دیر کے بعد اس سحر سے باہر آئے اور استعجابا کہنے لگے.یہ مصنف عرب کی کس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں.انہیں بتایا گیا کہ یہ تو حصول علم کے لئے اپنے گاؤں سے باہر تک نہیں گئے.لیکن وہ ماننے کو تیار نہ تھے.کہنے لگے اس قسم کی عربی زبان عجمی کے اختیار اور بس کا روگ نہیں ہے.اس پر انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چالیس ہزار عربی ماڈوں والے معجزہ کے بارے میں بتایا گیا.الغرض وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور انہوں نے ہمارے وفد کا بھی بہت اکرام کیا.262
ارض بلال.میری یادیں ایک طفلانہ خواہش بھی پوری ہوگئی روز مرہ کی زندگی میں بعض اوقات بہت ہی دلچسپ واقعات جنم لیتے ہیں.ان میں سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے عاجز بندوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کر دیتا ہے.ایک بار خاکسار پاکستان سے گیمبیا کا سفر کر رہا تھا.کراچی ایئر پورٹ سے Turkish ایئر لائن کا جہاز انقرہ کی طرف رواں دواں تھا.اس جہاز کا گزر دوبئی کے قریب سے ہونا تھا.جہاز کے Cabin سے اعلان کیا گیا کہ ابھی کچھ دیر بعد ہم لوگ دوبئی کے اوپر سے گزریں گے.خاکسار کو کبھی دوبئی جانے کا اتفاق نہ ہوا تھا.لیکن میں نے دوبئی ائیر پورٹ کی وسعت اور خوبصورتی کے بارے میں بہت سے دوست احباب سے سن رکھا تھا.اچانک دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اللہ کرے کہ کسی طرح یہ جہاز اس سفر کے دوران دوبئی ائیر پورٹ پر رک جائے.بس وہ ایک عجیب سی طفلانہ خواہش تھی.بہر حال یہ خواہش دل میں پیدا ہوئی جس پر آج تک میں خود حیران ہوں.ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ دوبارہ جہاز میں ایک نسوانی آواز ابھری جو یہ اعلان کر رہی تھی کہ یہ جہاز کسی فنی خرابی کے باعث دوبئی ائیر پورٹ پر اتر رہا ہے.اس دوران مسافر باہر ائیر پورٹ کے لاؤنج میں جاسکتے ہیں.خیر تھوڑی دیر کے بعد ہم لوگ دوبئی ائیر پورٹ پر پھر رہے تھے.تقریباً دو گھنٹے تک ائیر پورٹ کے لاؤنج میں رہے.شاپنگ سنٹرز دیکھے کچھ شا پنگ کی.عرب لوگوں کو پہلی باراس قدر قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.ائیر پورٹ کی خوبصورتی قابل دید اور قابل تعریف تھی.اس لحاظ سے یہ سفر ایک تاریخی اور نا قابل فراموش سفر بن گیا کہ کس طرح سمیع وعلیم خدا ہے جو ہم گناہگاروں کی خواہشات کو اس طرح بھی پورا کر دیتا ہے.الحمد للہ.263
.میری یادیں خدائی کیمرہ کولڈا کے علاقہ میں ایک گاؤں مصرا بیٹی میں گئے.میرے ساتھ ہمارے معلم مکرم شیخ امبالو صاحب بھی تھے.اس گاؤں کے امام صاحب کافی عمر رسیدہ تھے اور اپنے علاقہ میں علم وفضل کے باعث بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.ان سے ملاقات ہوئی.مجھے مل کر فرمانے لگے کہ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے اور آج میں نے آپ کی فوٹو لے لی ہے.جو ساری عمر اپنے پاس سنبھال کر رکھوں گا میں بہت حیران ہوا.کونسی فوٹو ! کس نے لی! کب لی! کس نے ان کو دی کیونکہ ان کے ساتھ پہلی ملاقات تھی اور وہ بھی ایک چھوٹے سے کمرے میں! میں نے استنجا با عرض کی! کونسا فوٹو ؟ فرمانے لگے کہ مولوی صاحب آج سائنس نے بہت ترقی کی ہے.بہت سی ایسی چیزیں ایجاد ہو چکی ہیں کہ جس پر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کی تخلیق تو بے مثل ہے.آپ کی فوٹو میں نے اپنی آنکھوں سے لی ہے اور اپنے دل میں محفوظ کر لی ہے.اب ساری عمر اس تصویر کو مجھ سے نہ کوئی چھین سکتا ہے اور نہ ہی زمانہ کے حوادث اس کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں.جبکہ ظاہری کیمرہ سے لی گئی تصویر کچھ عرصہ بعد اپنی اصلیت کھو بیٹھتی ہے.انسانی عقل خدا تعالیٰ کی تخلیق کے سامنے کس قدر عاجز و بے بس ہے.تعویذ مافيا افریقہ میں سب سے زیادہ امیر لوگ پیر صاحبان ہیں.سینیگال کی بڑی بڑی عمارتیں اور اہم پلاٹ اور زمینیں انہی کی ملکیت ہیں.لوگ چونکہ تو ہم پرست ہیں اس لئے اپنے نفع اور نقصان سے بچنے کے لیے ان سے تعویذ لیتے ہیں.حکمران طبقہ بھی ان کا مرہون منت ہے.سابق صدر مملکت نے جب انتخاب جیتا تو سیدھا پیر صاحب کے در پر حاضر ہوا.پیر صاحب صوفہ پر براجمان تھے جبکہ صدر مملکت ان کے قدموں میں بیٹھ کر اپنی وفاداری کا اظہار کر رہے تھے.264
ارض بلال.میری یادیں.اعتقادا اپنا اپنا.بائیں ہاتھ سے سلام ڈئی تراول جو گیمبیا کے قریبی ملک مالی کے باشندہ تھے.وہ ناصر احمد یہ ہائی سکول میں چوکیدار تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے، وہ سکول کی سالانہ تعطیلات کے دوران اپنے وطن مالی جانے لگے تو اس موقع پر سب دوستوں کو الوداعی سلام کر رہے تھے.میں بھی ان کو ملنے کے لئے ان کے پاس گیا.میں نے سلام کے لئے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا.اس کے جواب میں انہوں نے اپنا بایاں ہاتھ میری طرف بڑھا دیا.میں سمجھا شاید ان کے دائیں ہاتھ میں کوئی مسئلہ ہے.بہر حال انہوں نے بایاں ہاتھ ہی مجھ سے ملایا.میں نے اس کی وجہ پوچھی تو علم ہوا کہ ان کے اعتقاد میں ہے کہ اگر آپ لمبے سفر پر روانہ ہونے سے قبل دائیں ہاتھ سے الوداعی سلام لیں تو پھر آپ کی دوبارہ ملاقات ناممکن ہوتی ہے.اس لئے لمبے سفر پر روانگی کے موقع پر بائیں ہاتھ سے ہی سلام کرتے ہیں.جب پیر صاحب شیر کاروپ دھارتے ہیں گیمبیا،سینیگال اور باقی قریبی ممالک میں جعلی پیروں اور فقیروں نے اپنے داؤ ، فریب اور مکر ودجل کا ایسا جال بچھا رکھا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.خاکسار بھی بصے ہائی سکول میں اسلامیات پڑھایا کرتا تھا.طلبہ مختلف موضوعات پر سوال کرتے رہتے تھے.میں انہیں حسب توفیق جواب دیتارہتا تھا.چونکہ ان میں سے اکثر کا تعلق ایک ضعیف الاعتقاد سوسائٹی سے تھا اس لئے ان کے سوالات بھی جنات ،تعویذ اور پیروں کے معجزات کے بارے میں ہی ہوتے تھے.ایک روز ایک طالبعلم جس کا نام کیمو جبائے تھا، جو ایک قریبی قصبہ جارج ٹاؤن کا رہنے والا تھا، اس نے مجھ سے استفسار کیا کہ کیا ایک آدمی کسی اور مخلوق کا روپ دھار سکتا ہے؟ میں نے اس کوفی میں جواب دیا.اس پر وہ کہنے لگا یہ درست نہیں ہے اور بطور ثبوت اس نے یہ بھی بتا یا کہ ان کے شہر کا 265
ارض بلال.میری یادیں ایک آدمی کبھی کبھار انسان سے شیر کا روپ دھار لیتا ہے.یہ جگہ بھے سے تقریباً 60 کلومیٹرز کے فاصلہ پر واقع ہے.چھوٹا سا جزیرہ ہے.یہاں سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں.میں اس علاقہ کا بھی جماعتی لحاظ سے نگران تھا.اس لئے اکثر اوقات جارج ٹاؤن جماعت میں آتا جاتا رہتا تھا.میں نے اس طالب علم سے اس آدمی کا نام پوچھا.اس پر پہلے تو وہ طالبعلم خائف ہو گیا مگر بعد میں میرے اصرار پر اس نے بتایا کہ اس آدمی کا نام سلیمان حیدرا ہے.( ہمارے ہاں سید کہتے ہیں.لیکن گیمبیا اور سینیگال وغیرہ میں انہیں شریف یا حیدرا کہتے ہیں.لوگ انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان میں سے اکثر عوام الناس کو اپنے جال میں پھنسا کر بڑی بیدردی سے ان کا خون چوستے رہتے ہیں) میں سلیمان حیدرا سے خوب واقف تھا.اگر چہ یہ احمدی تو نہیں تھا لیکن احباب جماعت کا بڑا احترام کرتا تھا.اس کے بڑے بھائی سیڈی مختار حید را صاحب ہماری لوکل جماعت کے صدر تھے.میں نے اپنے عزیز طالب علم سے کہا.اب میں جب بھی جارج ٹاؤن آؤں گا تو میں سلیمان حیدرا سے مل کر اس راز کی حقیقت کے بارے میں پوچھ کر آپ کو بتاؤں گا.کچھ عرصہ بعد میں جماعتی دورہ پر جارج ٹاؤن گیا.اس دوران ایک دن میں سلیمان حیدرا کے ہاں چلا گیا.علیک سلیک کے بعد آمدم برسر مطلب.میں نے اس سے اس کے شیر کا روپ دھارنے والی بات کی حقیقت کے بارے میں دریافت کیا.اس پر سلیمان حیدرا نے ہنسنا شروع کر دیا ، کافی دیر ہنستا رہا پھر کہنے لگا کہ استاذان بیوقوفوں کو اگر اس طرح کی باتوں سے ڈرایا دھمکایا نہ جائے تو یہ لوگ ہمیں ہی کھا جائیں گے.اس لئے ان لوگوں کے ساتھ مختلف قسم کے داؤ فریب کرنے پڑتے ہیں.266
ارض بلال.میری یادیں سارے تعویذ چولہے میں پھینک دیئے گیمبیا کے ایک نوجوان مکرم ڈاکٹر خلیل ینگاڈ و صاحب تحصیل علم کی خاطر جرمنی تشریف لے گئے گیمبین روایت کے مطابق ہر کسی نے اپنی محبت میں ان کی نمایاں کا میابی اور پھر ہر دکھ در داور ابتلا سے محفوظ رہنے کے لئے انہیں ایک ایک بجو بجو ( تعویذ ) پہنادیا.جب یہ دوست اپنے کالج میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے ساتھی طلبہ تو تعویذ کی نعمت سے محروم ہیں.میں صرف اکیلا ہی انہیں پہنے پھرتا ہوں لیکن یہ لوگ تعویذ نہ ہونے کے باوجود مجھ سے زیادہ ذہین اور قابل ہیں.مجھے اپنے تعویذوں کی بنا پر ان سب سے بہتر ہونا چاہیے تھا.ڈاکٹر صاحب نے بتایا میں روزانہ اپنے گھر آکر سوچتا کہ آیا یہ سب غلط ہیں یا میں انہیں پہن کر بیوقوف بنا ہوا ہوں.کافی دنوں کے غور وفکر کے بعد میں نے انہیں پھینکنے کا فیصلہ کر لیا لیکن اپنے کمزور اعتقاد کی بنا پر پھینکنے سے ڈرتا بھی تھا کہ کہیں مجھے یہ نقصان نہ پہنچا دیں.اسی بے یقینی کے عالم میں کافی دن گزر گئے.دل اور دماغ کے درمیان مسلسل جنگ ہوتی رہی.آخر ایک دن میں نے فیصلہ کر لیا کہ یہ بالکل دھوکہ اور فریب ہے.اب میں ضرور ان سے جان چھڑا کر ہی رہوں گا.اب یہ سوال تھا کہ انہیں کس طرح ختم کیا جائے؟ اگر پھینک دوں تو شاید اپنی ضعیف الاعتقادی کے باعث دوبارہ اٹھا کر نہ پہن لوں.انہوں نے ایک دن سارے تعویذ اٹھائے اور چولہے میں پھینک دیئے.جس میں سارے تعویذ جل کر راکھ ہو گئے اور ان سے جان چھوٹ گئی.جب جرمنی سے واپس آئے تو کچھ عرصہ بعد ان کا جماعت کے بعض دوستوں سے رابطہ ہوا.نیک فطرت اور سعید روح تھے، جلد آغوش احمدیت میں آگئے.267
دیار غیر میں پہلی نما زعید.میری یادیں ابتدائی دور کی چند یادیں 1983ء کے اوائل میں خاکسار کو مرکز کی جانب سے گیمبیا، مغربی افریقہ جانے کے لئے ارشاد ہؤا.اسی سال مئی کے مہینہ میں گیمبیا کے دارلحکومت بانجول پہنچا.ان دنوں گرمی اپنے عروج پر تھی.جون کے مہینہ میں رمضان شریف کی آمد تھی.مکرم امیر صاحب نے ارشاد فرمایا کہ ماہ رمضان میں آپ جارج ٹاؤن جماعت میں چلے جائیں وہاں رمضان المبارک کے ایام میں درس و تدریس اور نماز تراویح وغیرہ کا اہتمام کریں.مکرم امیر داؤد حنیف صاحب کی زیر قیادت، ایک دوست مکرم عمر سونکو صاحب کی ایک چھوٹی سی کار جس کا نمبر 6400 GO تھا، کے ذریعہ بانجول سے جارج ٹاؤن پہنچے.یہ قصبہ بانجول سے پونے رصد کلو میٹرز کے لگ بھگ ہوگا.کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد جارج ٹاؤن کے قریب پہنچے.جارج ٹاؤن سے قبل ایک چھوٹا سا دریا بہتا ہے جسے ایک فیری کے ذریعہ سے عبور کیا جاتا ہے.یہ فیری کسی انجن وغیرہ کی محتاج نہیں بلکہ فیری پر سوار مسافر اس پر بندھے ہوئے لوہے کے ایک طویل رسہ کو باہم مل کر اپنی طرف کھینچتے ہیں جس سے فیری مخالف سمت کو خراماں خراماں چل کر مسافروں کو دریا کے دوسرے کنارے پہنچا دیتی ہے.جب فیری پر سوار ہوئے تو اکثر لوگوں نے لوہے کے رسہ کو کھینچنا شروع کردیا اور بعض لوگ ویسے ہی اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے دریا کا نظارہ کر رہے تھے.میں بھی ایک طرف کھڑا ہو گیا اور زندگی میں پہلی بار اس قسم کے عجیب وغریب سفر چاره سے لطف اندوز ہونے لگا.مکرم امیر صاحب نے مجھے فرما یا آپ کو چاہیئے کہ آپ بھی باقی مسافروں کے ساتھ مل کر رسہ 268
ارض بلال.میری یادیں کھینچیں ورنہ یہ لوگ آپ کے بارے میں سوچیں گے کہ آپ ایک متکبر شخص ہو اور اپنے آپ کو ان لوگوں سے بالا تر سمجھتے ہو اور اس قسم کا تاثر ایک مبلغ کے لئے مناسب نہیں ہے.اللہ تعالی انہیں جزائے خیر دے.میں نے ان کی نصیحت کو پلے باندھ لیا اور پھر جب بھی اس نوع کی فیری کے ذریعہ سفر کیا.ہمیشہ ہی رسہ کھینچنے والوں میں شامل ہونے کی کوشش کی، بلکہ ہر قسم کے کام میں ان کے شامل حال رہنے کی کوشش کی جس سے عملی زندگی میں بہت ہی فائدہ ہوا.اس کے بعد جلدی جارج ٹاؤن پہنچ گئے.جارج ٹاؤن ایک مختصر سا قصبہ ہے.دراصل یہ ایک جزیرہ ہے.کھنڈر بتاتے ہیں کہ عمارت حسین تھی.کسی زمانہ میں یہ انگریزی سلطنت کا ایک اہم مرکز تھا.اس شہر کے زمین دوز تہہ خانے یہاں سے یورپ بھجوائے جانے والے غلاموں کی داستان عبرت آج بھی بیان کرتے ہیں کیونکہ یہی دریائے گیمبیا ہے جو انسانی تجارت کا اہم ذریعہ رہا ہے.یہاں پر ایک مختصر مگر مخلص جماعت تھی.اب تو تقریباً وہ سب بزرگ دار فانی سے رخصت ہو چکے ہیں.اللہ تعالی ان سب کو غریق رحمت فرمائے.آمین.جارج ٹاؤن میں جماعت احمدیہ کی مسجد اور مشن ہاؤس میں پہنچے.احباب جماعت کو اطلاع ملی تو تقریباً سبھی کشاں کشاں مسجد میں تشریف لے آئے.جن میں سیڈی مختار حیدرا صاحب ، بالا جاتا صاحب، الحاج کو ثوا کبیر اصاحب، الحاج ساھو اور مسٹر سیانگ تھے.ان بزرگ دوستوں نے ہم سب کا بڑا پر تپاک خیر مقدم کیا.پھر ایک بڑے سے تھال میں کھانا لایا گیا اور سب احباب نے مل کر ایک ہی تھال نما برتن میں کھانا کھایا.اس کے بعد مکرم امیر صاحب نے مجھے بعض ضروری ھدایات دیں اور بصے شہر کے لئے روانہ ہو گئے.اب میں جارج ٹاؤن میں تھا.وہاں پر کوئی بھی جان پہچان والا شخص نہ تھا.نئے لوگ ،نئی زبان، نیا کلچر اور بالکل اجنبی ماحول، میری انگریزی زبان ابھی تک نہ ہونے کے برابر تھی اور جماعت کے مقامی چیدہ بزرگوں کی انگریزی زبان کی بول چال کی اہلیت بھی کچھ میری انگریزی 269
ارض بلال- میری یادیں ) سے ملتی جلتی تھی.بہر حال غالباً اگلے روز رمضان شریف کا آغاز ہو گیا.جون کا مہینہ تھا.گرمی اپنے عروج پر تھی.روزہ رکھ کر دن کے وقت گھر سے باہر نکلنا خاصا مشکل ہو جاتا تھا.میں نے حسب توفیق درس و تدریس کا فرض ادا کیا.نماز تراویح پڑھائیں اور بچوں کی تعلیم القرآن کلاس کا آغاز کیا پھر احباب سے بول چال کا سلسلہ شروع ہو گیا جس سے زبان میں کچھ روانی پیدا ہو گئی.مکرم امیر صاحب کا ارشاد تھا کہ میں نے نماز عید جارج ٹاؤن میں ہی ادا کرنی ہے.اس کے بعد مجھے اجازت ہے کہ میں بانجول آجاؤں.بانجول مرکزی شہر بھی تھا نیز ادھر پاکستانی مرکزی کارکنان ڈاکٹر صاحبان ، اساتذہ کرام کی ایک خاصی تعدا دا اپنی فیملیز کے ساتھ رہتی تھی اس لئے یہاں کافی رونق تھی.اہل خانہ سے نئی نئی جدائی ، شدید گرمی کے ایام ، زبان سے نابلد، احباب سے بول چال میں دشواری، کھانے پینے کا بالکل نیا انداز! اب تو کسی ہم زبان کے لئے ترس گئے.اب دل میں صرف خواہش تھی کہ کب عید آئے اور بانجول جائیں اور اپنے پاکستانی رفقاء کرام سے ملیں.خیر رمضان بخوبی گزر گیا.عید پڑھائی اور عید کی وجہ سے ٹرانسپورٹ نہ ملنے کے سبب، اپنا بیگ اٹھایا اور پیدل ہی فیری کے لئے روانہ ہو گیا.جو جارج ٹاؤن سے چند کلومیٹرز کے فاصلہ پر تھی.فیری کے ذریعہ دریا عبور کیا.پھر چند کلومیٹرز مزید پیدل سفر کر کے برلب سڑک آ گیا.یہ ملک کی طویل ترین اکلوتی سڑک تھی.اس دور میں گیمبیا میں بسیں وغیرہ نہ چلتی تھیں.ہاں کچھ دیگین قسم کی کوئی اکا دکا گاڑی کبھی کبھار چلتی تھی.خیر مین روڈ پر پہنچ گیا اور کسی گاڑی کا انتظار شروع کر دیا.صبح سے دوپہر ہوگئی کسی گاڑی کا نام ونشان نہ تھا.کبھی کبھار کوئی ٹرک مٹی اڑاتے ہوئے پاس سے گزرجا تا.اب عید کا دن تھا.صبح سے بھوکا.سڑک کے کنارے بے یارو مددگار، خیر وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ عصر کا وقت ہو گیا.بھوک تھکاوٹ اور مایوسی، نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن، اس پریشان کن صورت حال اور کیفیت کا اندازہ وہی کرسکتا ہے 270
جو اس صورت حال میں رہا ہو.ارض بلال.میری یادیں اتنے میں اچانک دور سے ایک ہیولا نظر آیا جس نے تھوڑی دیر بعد ایک گاڑی کی شکل اختیار کر لی.میں فوراً اٹھا اور سڑک کے قریب آکر کھڑا ہو گیا اور اس گاڑی کی آمد کا بے چینی سے انتظار کرنے لگ گیا.اس کے قریب آنے پر علم ہوا کہ وہ تو ایک مال بردار ٹرک ہے.میں نے اس کے ڈرائیور کور کنے کی درخواست کی.جس پر از راہ کرم اس نے ٹرک روک لیا.میں نے علیک سلیک کے بعد بتایا ( گیمبیا میں کسی بھی اجنبی شخص سے علیک سلیک کے بغیر کوئی بات پوچھیں تو وہ آپ کو بخوشی جواب نہیں دیتا کہ میں نے بانجول جانا ہے.اگر مجھے آپ ساتھ لے جائیں تو آپ کی بہت نوازش ہوگی.ڈرائیور نے بتایا فرنٹ سیٹ پر تو گنجائش نہیں اور پیچھے بھیڑ بکریاں ہیں.اس لئے ادھر بھی ممکن نہیں ہے.میں نے کہا کوئی بات نہیں آپ مجھے پیچھے ہی بٹھا لیں.خیر اللہ ان کا بھلا کرے کچھ رقم لے کر وہ مجھے پیچھے جانوروں میں بٹھانے پر راضی ہو گئے اور پھر میں بھیڑوں کے اندر ہی ایک جانب دبک کر بیٹھ گیا اور غالباً سات گھنٹوں کی طویل مسافت طے کر کے رات گیارہ بجے کے قریب احمد یہ اسپتال پہنچا.جہاں پر سب پاکستانی احباب مرکز سے آمدہ ایک ویڈیو اجتماعی شکل میں ملاحظہ فرمارہے تھے.اس زمانہ میں کبھی کبھار کوئی ویڈیوملتی تھی.اگر بجلی میسر ہو تو اجتماعی صورت میں دیکھا کرتے تھے.یہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.احباب کرام سے ملاقات ہوئی اور صبح، دوپہر اور شام تینوں اوقات کے کھانے اکھٹے ہی کھائے.الحمد للہ اس طرح یہ ایک ناقابل فراموش اور یادگار عید گزرگئی.ناصر احمد یہ مسلم ہائی سکول بسے گیمبیا اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اے لوگو اگر تم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو شمار کرنا شروع کرو تو تم انہیں شمار نہیں کر سکتے.ان بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظمی آنکھ بھی ہے.اس کے ذریعہ سے انسان اس خوبصورت اور رنگ بھری دنیا ، پُر اسرار نظام کائنات کے دلر با کمالات 271
ارض بلال- میری یادیں ) اور ہوش ربا عجائبات کو دیکھتا ہے.پھر رجل رشید بے اختیار اس نظام بے بدل کے خالق و مالک کی عظمت و جبروت کے گیت گاتا ہے.ہماری یہ ظاہری آنکھ صرف اسی چیز تک ہمیں لے جاسکتی ہے جو ظاہری لحاظ سے اس کی طاقت اور رسائی میں ہے.اس آنکھ کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک اور آنکھ سے بھی نواز رکھا ہے.جسے ہم چشم تصور کہتے ہیں.یہ بھی ہمارے خدا کی ایک عجیب و غریب نعمت ہے.چند سال پہلے کی بات ہے کہ خاکسار کے دل کا آپریشن ہوا.اسپتال کی انتظامیہ آپریشن کے بعد مریضوں کو اپنی نگرانی میں ضروری علاج کے علاوہ کچھ عرصہ کے لئے بعض جسمانی ورزشیں بھی کراتی ہے.ان میں سے ایک ورزش یہ ہے کہ سب مریضوں کو زمین پر لٹا دیا جاتا ہے.پھر انہیں یہ کہا جاتا ہے کہ آپ سب لوگ اپنی آنکھیں بند کر لیں جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیں.اب آپ چشم تصور میں کسی تصوراتی خوبصورت باغ یا کسی اور خوبصورت مقام کا نقشہ ذہن میں لائیں.پھر اس کے خوبصورت مناظر، بلند و بالاسر سبز اشجار، رنگ برنگے خوشبو دار پھولوں کی ان گنت قسمیں، رقص کرتی آبشاریں، پرندوں کے دلکش نغمے اور معصوم بچوں کی مسرت بھری شرارتوں کو چشم تصور میں مشاہدہ کریں.کچھ دیر بعد آپ اپنے اندر عجیب سی فرحت اور تازگی محسوس کریں گے.دراصل بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو ہم کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھ پاتے.ان کو دیکھنے کے لئے آپ کو اپنی ظاہری آنکھیں بند کرنی پڑتی ہیں.اگر آپ اپنی آنکھیں بند کر لیں اور چشم تصور میں دنیا کے کسی بھی دور دراز مقام تک چند لحات میں جا پہنچتے ہیں.نہ صرف مقام پر بلکہ اپنی گزشتہ زندگی کی ہر ساعت کی کیفیت اس کا منظر اور پھر اس واقعہ سے متعلقہ سب لوگ آپ کی نگاہوں کے سامنے اسی زمانے کے مطابق آجاتے ہیں.انسانی زندگی ایک تلخ وشیر میں سفر ہے جس کی راہ میں خوبصورت ، دلکش اور مسرت بھرے نظارے بھی ہیں اور اس راہ گزر میں خاردار جھاڑیاں اور نوکیلے پتھر بھی ہیں.انسان اپنے فارغ 272
ارض بلال- میری یادیں ) اوقات میں کبھی کبھار، اپنے ماضی کے تلخ وشیر میں واقعات کی جگالی کرتا رہتا ہے اور ان حالات کے مطابق روحانی اذیت یا فرحت پاتا ہے.ناصر احمد یہ مسلم ہائی سکول بصے اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا“ چند سال قبل خاکسار سینیگال کے علاقہ کا سانس کے دورہ سے واپس آرہا تھا.واپسی پر گیمبیا کے شہر بھے سے گزرنے کا اتفاق ہوا.رات مکرم پرنسپل صاحب کے دولت کدہ پر بسر کی.اگلے روز ناصر احمد یہ مسلم ہائی سکول دیکھنے چلا گیا.سکول کی وسیع وعریض بلڈنگ ،جس میں میرے خیال میں کم از کم چھوٹے بڑے چالیس سے زائد کمرے ہوں گے اور سائنس لیبارٹریز اور موجودہ دور کی جملہ ضروریات کے مطابق مناسب سہولتیں دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا.پھر اچانک میری نگاہوں کے سامنے اس سکول کے ابتدائی سفر ایک فلم کی طرح میری نظروں کے سامنے گھومنے لگے.خاکسار 1983ء میں گیمبیا پہنچا تھا.ان دنوں بصے ہائی سکول کے لئے سیمنٹ کے بلاکس بن رہے تھے.اس کام کی نگرانی مکرم عمر سونکو صاحب کر رہے تھے.آپ محکمہ زراعت کے آفیسر تھے.سونکو صاحب بہت نیک اور مخلص احمدی دوست ہیں.انہی دنوں میں بھی بصے آگیا اور پھر مکرم امیر صاحب نے اس سکول کی تعمیر کا کام میرے سپرد کر دیا جس پر پہلا بلاک مجھے بنانے کی توفیق ملی.الحمد للہ.یہ بلڈنگ بنیادی طور پر دو کلاس رومز پر مشتمل تھی.چونکہ پہلے سال سکول میں داخل ہونے والے طلبہ زیادہ تھے.اس لئے انہیں دو گروپس میں تقسیم کر دیا گیا.جو ان دونوں کلاس رومز میں سما گئے.اس کے علاوہ ایک بڑا سا کمرہ تھا جس کو مختلف مقاصد کے لئے استعمال کر لیتے تھے اور اس بڑے ہال نما کمرے کے اندر ہی دو چھوٹے چھوٹے سے کمرے تھے ان میں سے ایک کمرے میں تو مکرم پرنسپل صاحب کا دفتر اور دوسرا کمرہ بطور سٹور بنالیا گیا.273
ارض بلال- میری یادیں ) ادھر پہلے بلاک کی تعمیر مکمل ہوئی اور ساتھ ہی تعلیمی سال کے آغاز کا وقت آگیا.اس لئے نئی کلاس کا داخلہ شروع کر دیا گیا.جس دن سکول کا باقاعدہ افتتاح ہونا تھا.اسی روز پرنسپل صاحب پاکستان سے گیمبیا پہنچے اور پھر وہ سیدھے ایئر پورٹ سے تقریباً چار سوکلومیٹر کا سفر طے کر کے بصے پہنچ کر اس تقریب سعید میں شامل ہوئے.سکول کا آغاز احمدیت کی مخالفت تو باقی الہی سلسلوں کی طرح روز اول سے ہی چلی آ رہی ہے.گیمبیا میں بھی جماعت کی مخالفت مختلف سطحوں پر ہوتی رہتی ہے.جب جماعت نے گیمبیا میں ایک نیا ہائی سکول کھولنے کا فیصلہ کیا اور گورنمنٹ نے بصے میں سکول کھلنے کی اجازت دی.اب بصے کی لوکل انتظامیہ نے زمین کے حصول میں رکاوٹیں ڈالنی شروع کر دیں.خاص طور پر لوکل چیف مسٹر قربانی صاحب بھی جماعت کے لوکل مخالف طبقہ اور ان کے زہریلے پراپیگنڈہ سے متاثر ہو گئے.اس لئے انہوں نے اپنے گاؤں میں زمین دینے سے انکار کر دیا.اس نازک صورت حال میں بصے کے ایک قریبی گاؤں مانے کنڈا کے ایک باسی مکرم احمد و مانے صاحب جو ایک بہت مخلص اور بہادر اور صاحب اثر ورسوخ احمدی دوست تھے انہوں نے بڑی تگ ودو کے بعد اپنے علاقہ کے معززین سے مل ملا کر مانسبجنگ کنڈا کے قریب سکول کے لئے ایک وسیع و عریض جگہ لے دی جہاں آجکل ناصر احمد یہ مسلم ہائی سکول کی خوبصورت اور وسیع وعریض بلڈنگ ہے.ابتدائی سٹاف ممبر سعید احمد چھٹہ صاحب (پرنسپل).منور احمد خورشید ( مربی سلسلہ ) محمد و باه ( ٹیچر ) کلائیو ( ٹیچر.وی ایس او).نڈے گا سما (سیکریٹری).جارا ( میسنجر ).ڈبی تراول (چوکیدار ) 274
.میری یادیں سکول کی مالی حالت ایک دفعہ خاکسار سکول کے پرنسل مکرم سعید احمد چھٹہ صاحب کے ہمراہ کسی سفر سے واپس اپنے شہر بصے کو آرہا تھا.راستہ میں ہم نے دیکھا کہ ایک حادثہ شدہ پرانی سی گاڑی سڑک کے کنارے شکستہ حالت میں پڑی ہے.سوائے باڈی کے اس کی ہر چیز غائب تھی.مکرم چھٹہ صاحب نے جب اس گاڑی کو دیکھا تو کہنے لگے.اگر ہم کسی ویلڈر کے ذریعہ اس گاڑی کی ایک سائد کاٹ لیں اور پھر اس کو ٹھیک کرا کے اس کا اپنے سکول کے لئے بڑا سا سائن بورڈ بنالیں جسے سکول کے مین گیٹ پر لگا دیں.تو اس سے ہر راہ گزرکو سکول کے بارے میں علم ہو جائے گا.اگر چہ بوجوہ اس تجویز پر عمل تو نہ ہو سکا.مگر یہ واقعہ سکول کی مالی حالت اور اس کی کسمپرسی کی بخوبی عکاسی کرتا ہے.ناصر احمد یہ مسلم ہائی سکول کے بعض شیر میں اثمار مکرم الحاجی با ہ صاحب گزشتہ دنوں مکرم الحاجی صاحب سے ملاقات ہوئی جو آجکل گیمبیا میں محکمہ تعلیم میں کسی نمایاں عہدہ پر تعینات ہیں.بڑے پیار اور احترام سے ملے.یہ جلسہ سالانہ انگلستان میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے.انہیں مل کر میں پچھیں چھبیس سال پہلے کے وقتوں میں جا پہنچا.جب ایک روز میں مکرم عمر علی صاحب طاہر مبلغ سلسلہ کے پاس فرافینی گیا ہوا تھا.ہم لوگ مشن ہاؤس میں جو کہ کرایہ پر لیا ہوا ایک مکان تھا، اس میں بیٹھے ہوئے تھے.اسی دوران تین دیہاتی بچے اجازت لیکر ہمارے کمرہ میں آئے.مکرم عمر علی صاحب نے ان کے بارے میں بتایا کہ یہ تینوں بچے الحمد للہ احمدی ہیں اور یہ فرافینی سے قریبی جماعت ڈوٹا بولو کے رہنے والے ہیں اور فرافینی کے سیکنڈری سکول میں زیر تعلیم ہیں.( گیمبیا میں جن طلبہ کے پرائمری سکول کے فائنل امتحان میں نمبر کم ہوں ان کو ہائی سکول کی بجائے سیکنڈری سکول میں داخلہ مل سکتا ہے ) مجھے بچے بڑے اچھے لگے.میں نے واپس بصے آکر مکرم چھٹہ صاحب سے ان بچوں کے داخلہ کے بارے میں بات کی کہ 275
ارض بلال- میری یادیں) ان کو اگلے سال ہائی سکول میں داخلہ دے دیں.اس پر چھٹہ صاحب بخوشی راضی ہو گئے.اس طرح یہ تینوں بچے ناصر احمد یہ ہائی سکول بصے میں داخل ہو گئے.اور پھر جب تک میں اس شہر میں رہا یہ میرے پاس ہی رہے.بچے نیک مخلص اور محنتی بھی تھے.اللہ کے فضل سے تینوں ہی ہائی سکول کے امتحان میں کامیاب ہو گئے.ان تین طلبہ میں سے ایک مکرم الحاجی باہ صاحب تھے.انہوں نے ہائی سکول سے فراغت کے بعد کالج میں اعلی تعلیم حاصل کی اور آج کل خدا تعالیٰ کے فضل سے گیمبیا کے محکمہ تعلیم میں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں اور جماعت احمد یہ گیمبیا کی نیشنل عاملہ کے مستعد ممبر ہیں.ان کی فیملی بالکل دیہاتی اور ان پڑھ تھی اب خدا کے فضل سے ان کا گھرانہ پورے علاقہ میں پڑھالکھا خاندان شمار ہوتا ہے.انکے ایک بھائی ٹیچر ہیں اور ایک بھائی جماعت احمدیہ کے معلم ہیں.مکرم ڈمبا باہ صاحب یہ نو جوان بھی انہی تین بچوں میں سے تھے.یہ بھی خاکسار کے گھر میں کافی عرصہ رہے.ناصر ہائی سکول سے فارغ ہوئے.اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے روس چلے گئے اور وہاں پر ماسٹرز کیا.ملک میں واپس آکر آجکل بہت اعلیٰ سرکاری عہدہ پر فائز ہیں.شروع سے ہی بہت ہی نیک فطرت نوجوان ہیں.بفضلہ تعالیٰ جماعت کے بڑے مخلص ہمستعد اور فعال رکن ہیں.جماعت احمد یہ گیمبیا کی نیشنل عاملہ کے سرگرم رکن ہیں اور جماعت کی حسب توفیق اخلاص کے ساتھ خدمت کر رہے ہیں.اللھم زد فزد.مکرم ابراهیم با یوصاحب یہ نوجوان بھی ابھی حال ہی میں جلسہ سالانہ انگلستان میں شرکت کے لئے گیمبیا سے تشریف لائے تھے.آج کل مکرم با یو صاحب مسرور سیکنڈری سکول کے پرنسپل کے طور پر خدمت کر رہے ہیں اور جماعت احمد یہ گیمبیا کے اہم ، مفید اور مستعد اور فعال رکن ہیں.یہ بھے سے چند میل دور 276
ارض بلال- میری یادیں ) گاؤں ڈانفا کنڈا کے رہنے والے ہیں.ان کے والد صاحب نہایت ہی مخلص اور فدائی احمدی تھے.اس نوجوان کو میں نے بچپن میں دیکھا.یہ اپنے والد صاحب کے ہمراہ نماز جمعہ کے لئے اپنے گاؤں سے بصے شہر کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے آیا کرتا تھا.شروع سے ہی بہت نیک اور سعید فطرت بچہ تھا.ایک بارا ابراہیم میرے پاس آیا.ان دنوں یہ پرائمری سکول کا طالب علم تھا اور کہنے لگا.استاذ میں نے انگلش ترجمہ قرآن پاک لینا ہے.میں نے اس کی بچپن کی عمر اور پھر تعلیم کے پیش نظر اسے کہا کہ بھئی وہ تو ہم فروخت کرتے ہیں.آپ کے پاس پیسے ہیں.اس پر اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جیب سے پانچ ڈلاسی کا نوٹ نکال کر میرے ہاتھ پر رکھ دیا.میں اس کا شوق اور اخلاص دیکھ کر بہت خوش ہوا.اس پر میں نے اسے قرآن پاک کا ایک نسخہ تحفہ میں دے دیا جو ایک لمبا عرصہ تک اس نے سنبھال کر رکھا.پھر یہ نوجوان ناصر ہائی سکول میں داخل ہو گیا.ان کی تعلیم کے سلسلہ میں سکول اور جماعت کی جانب سے بھی خدمت کی توفیق ملی اور آج انہیں ایک بہت بڑے ادارہ یعنی مسرور ہائی سکول کا سر براہ دیکھ کر بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے.آمین سیر یمنی کی تقریبات ابتدا میں بصے علاقہ کے لوگ جماعت احمدیہ کے بارے میں علماء اور عربی اساتذہ کے مسموم پراپیگنڈہ کی وجہ سے کافی خائف اور محتاط نظر آتے تھے.ہم لوگوں نے شروع سے ہی محکمہ تعلیم کے منظور شدہ کورس کے علاوہ قاعدہ لیسرنا القرآن بھی پڑھانا شروع کر دیا.پھر اس قاعدہ کی کی تکمیل پر قرآن پاک ناظرہ بھی سب طلبہ کو پڑھا دیا.اس کے بعد سال کے آخر میں جب سکول میں تقسیم انعامات کی تقریب منائی گئی.اس تقریب کو ہم نے آمین سیر یمنی کا نام دے دیا.پھر اس موقعہ پر مختلف طلبہ نے قرآن کریم کی مختلف سورتیں پڑھ کر سنائیں اور پھر دینی معلومات کے بارے میں طلبہ نے ایک دلچسپ کو ئیز پروگرام بھی پیش کیا.جس کی وجہ سے سب حاضرین کرام پر بہت خوشگوار اثر ہوا.277
ارض بلال.میری یادیں السفر قطع من النار ایک دفعہ خاکسار دو معلمین مکرم احمد جالو اور ابراہیم درامے صاحب کے ہمراہ ایک تربیتی دورہ پر روانہ ہوا.حسب پروگرام نماز مغرب ہم نے سالکینی جماعت میں ادا کی.وہاں سے فارغ ہوکر نمازعشاء saba نامی جماعت میں ادا کرنے کا پروگرام تھا.پھر وہاں پر میٹنگ کرنے کے بعدرات مکرم ڈاکٹر منور احمد صاحب کے پاس بسر کرنے کا ارادہ تھا.سالکینی سے ہم لوگ اپنی کار پر روانہ ہوئے.سڑک کچی تھی اور اس پر جابجا گڑ ھے تھے.سالکینی سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ سڑک کی حالت خاصی قابل رحم ہو چکی ہے جس کے باعث گاڑیاں سڑک سے ملحقہ کھیتوں میں سے گزرتی تھیں.بڑی بس بھی اسی رستہ سے گزرتی تھی.جس کی وجہ سے اس رستہ کی زمین بہت نرم ہوگئی تھی اور بس کے ضخیم ٹائروں کے باعث وہ جگہ خاصی گہری ہو چکی تھی.مگر بظاہر ٹھیک نظر آتی تھی.میں بھی جب اس جگہ پہنچا، میں بھی اپنی گاڑی اس بس کے ٹریک پر ہی لے گیا.ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ ہماری کار نے آگے جانے سے انکار کر دیا.نیچے اترے تو دیکھا کہ کار کی باڈی توسطح زمین کو چھورہی ہے اور جس قدر ایکسلیٹر دباتے ہیں گاڑی اور زمین میں دھنستی جارہی ہے.اب رات کا وقت تھا.ہر طرف جنگل ہی جنگل تھا.اس وقت کسی راہ گزر کے ادھر سے گزرنے کا احتمال بھی نہیں تھا.میرے ساتھی معلمین نے حسب توفیق گاڑی کو کافی دھکے لگائے.اس دھکم پیل کی وجہ کار آگے کی بجائے اور نیچے کی طرف ہی جاتی.ہر کوشش بے سود اور رائیگاں ہوئی.اس تگ و دو میں کافی دیر ہو گئی.میں اپنی کار میں ہمیشہ ایک بڑا سا کٹلس ( لمبے مونہہ والا کلہاڑا نما آلہ) رکھتا تھا جو حسب ضرورت سفروں میں بہت کام آتا تھا.اسے نکالا اور جنگل سے جھاڑیاں اور درختوں کی شاخیں کاٹ کر لانا شروع کیں اور پھر بڑی مشکل سے کار کی ایک سائڈ کو اٹھاتے اور اس کے ٹائروں کے نیچے وہ کٹی ہوئی جھاڑیاں بچھا دیتے.اس طرح بقیہ سارے رستہ پر بھی جھاڑیاں ڈالیں تا کہ گاڑی یہاں سے نکلنے کے بعد کہیں آگے جا کر دوبارہ نہ پھنس جائے.اب 278
ارض بلال- میری یادیں ) سوچا کہ گاڑی چل پڑے گی اور ہمیں اس مصیبت سے نجات مل جائے گی.جب گاڑی کو سٹارٹ کیا.تو گاڑی نے سٹارٹ ہونے سے انکار کر دیا کیونکہ دیر تک لائٹ آن رہنے کی وجہ سے کار کی بیٹری ختم ہوگئی تھی.اب نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن.اب ہم تینوں دوست بھوک اور پیاس اور تھکاوٹ سے نڈھال ہو چکے تھے.ہر طرف جنگل ہی جنگل ،اس پر اندھیرے کا راج، جانوروں کی آوازیں عجیب سماں پیدا کر رہی تھیں.آخر کار ہم لوگ کار میں ہی سونے کی کوشش کرنے لگے.اگر کار کے دروازے بند کرتے ہیں تو کار کے اندر سخت گرمی اور حبس ہو جاتا تھا.اگر دروازے کھولتے تو مچھر اور دیگر کیڑے مکوڑے آجاتے تھے.بہر حال رات بھر سوتے جاگتے رہے.کھانا بھی نہ کھایا تھا.بھوک نے بھی بہت ستایا ہوا تھا.پیاس سے بھی لب خشک ہو چکے تھے سکون خاطر کی خاطر نماز فجر کے قریب مجھے ایک جانب سے ٹیوب ویل کے چلنے کی آواز سنائی دی.میں اس آواز کی جانب چل پڑا.ہر طرف باجرے کے کھیت ہی کھیت تھے.ان میں سے گزرتا ہوا اس آواز کی طرف اندازہ سے چلتا رہا.کافی دیر چلنے کے بعد مجھے ایک جگہ پر کچھ لوگ نظر آئے.ان کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ ایک جرمن باشندہ نے جنگل میں ایک وسیع و عریض زرعی فارم بنارکھا ہے.میں اس یوروپین باشندے کو اس جنگل میں دیکھ کر بہت حیران ہوا.میں نے اس سے پوچھا آپ نے یورپ کو چھوڑ کر اس ویرانے میں کیوں ڈیرہ ڈال رکھا ہے.کہنے لگا کہ میرا تعلق جرمنی سے ہے.یورپ کی مشینی زندگی سے تنگ آ گیا ہوں اس لئے میں سکون خاطر کے لئے اس جنگل میں آبسا ہوں.میں نے اسے اپنی رات بھر کی داستان غم سنائی اور اس سے معاونت کی درخواست کی.اس نے فوری طور پر اپنے چند کارکنان کو میرے ہمراہ کر دیا اور مجھے نصیحت کی کہ جب گاڑی سٹارٹ ہو جائے تو پھر آپ نے گاڑی کہیں بھی نہیں روکنی بلکہ سید ھے کیر یوان کے فیری ٹرمینل پر جانا ہے اور وہاں جاکر فیری والوں سے بیٹری چارج کروالینی ہے.اس کے کارندوں نے گاڑی کو کافی دیر 279
ارض بلال- میری یادیں) تک دھکے لگائے.جس پر گاڑی سٹارٹ ہو گئی.ہم لوگ سیدھے فیری ٹرمینل جو وہاں سے چند کلو میٹرز کے فاصلہ پر تھا، پہنچے.فیری کی انتظامیہ سے بیٹری چارج کرنے کے سلسلہ میں درخواست کی جو انہوں نے بخوشی سرانجام دے دی.فجزاهم الله تعالی.اس طرح نصف گھنٹے کا سفر بارہ گھنٹے میں طے کر کے ہم لوگ مکرم ڈاکٹر منور احمد صاحب کے دولت خانہ پر پہنچے جو رات بھر ہمارے لئے پریشان اور منتظر رہے تھے.ضرورت ایجاد کی ماں ہے 1988ء کے اوائل میں مرکز نے پہلی بار گیمبیا جماعت کو جاپان مشن کی وساطت سے تین پرانی کاریں بجھوائیں.گیمبیا میں ڈرائیونگ دائیں طرف ہے.اب جو کاریں ہمیں ملیں وہ بائیں جانب ڈرائیونگ والی تھیں.ان کاروں کوملکی قوانین کے تحت گیمبیا میں چلا ناممکن نہ تھا.دوسری جانب تھوڑے ہی عرصہ کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الرابع گیمبیا کے تاریخی دورہ پر تشریف لا رہے تھے.جس کی تیاری ، بھاگ دوڑ اور جماعتوں سے فوری رابطہ کے لئے گاڑیوں کی اشد ضرورت تھی.ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے.ایک لوکل مکینک کو گاڑیاں دکھائیں.اس نے بڑی مہارت کے ساتھ گاڑیوں کے فرنٹ حصے کاٹ کر سٹیرنگ دوسری جانب کردیے.پھر ان گاڑیوں کو کئی سال تک جماعت کی بہت خدمت کی توفیق ملی.حضور انور کی آمد سے کچھ دن پہلے مکرم امیر صاحب نے ایک کار مجھے دی اور مکرم عثمان باہ صاحب بطور ڈرائیور ساتھ تھے اور ارشاد فرمایا کہ میں گیمبیا اور سینیگال کی جماعتوں کا ایک دورہ کروں.ان دنوں مجھے کار ڈرائیونگ نہ آتی تھی.ہاں ایک موٹر سائیکل میرے زیر استعمال ہوتی تھی.حسب پروگرام بعد از دو پہر بانجول سے روانہ ہوئے.ہمارے ساتھ ایک مستری صاحب تھے اور ایک خاتون تھیں جو عثمان باہ صاحب کی کوئی عزیزہ تھیں.ہمیں امید تھی کہ شام تک صبا جماعت میں پہنچ جائیں گے، بانجول سے بارہ کی طرف بذریعہ فیری جانا تھا.فیری بر وقت نہ ملنے 280
ارض بلال.میری یادیں کے باعث کچھ تاخیر ہوگئی.خیر دوسری جانب بارہ کی طرف پہنچے اور کیر یوان کو روانہ ہو گئے.جب ہم دریا کے کنارے پہنچے تو معلوم ہوا کہ فیری جا چکی ہے.کافی انتظار کیا مگر فیری دوسری جانب سے واپس نہ آئی.مکرم عثمان باہ صاحب کہنے لگے.میں کشتی کے ذریعہ دوسرے کنارے پر جاتا ہوں اور جا کر فیری والوں سے واپس آنے کی درخواست کروں گا تو امید ہے وہ واپس آکر ہمیں دوسری طرف لے جائیں.اس پر عثمان صاحب ایک کشتی کے ذریعہ روانہ ہو گئے.اب ہم اس طرف بے چینی کے ساتھ محو انتظار تھے.کافی دیر گزرگئی مگر عثمان صاحب واپس نہیں آئے.ادھر اب آہستہ آہستہ اندھیرا چھانا شروع ہو گیا تھا اور ہمارے آس پاس سوائے چند ایک دکانداروں کے باقی لوگ اپنا ساز وسامان سمیٹ کر اپنے اپنے گھروں کو جاچکے تھے.اب دریا کا کنارہ ہے اور قریب قریب آبادی کا کوئی نام ونشان نہیں ہے اور ہم لوگ اس علاقہ میں مسافر اور نو وارد ہیں.گاڑی کا رخ عین دریا کی طرف ہے اور برلب دریا کھڑی ہے.ڈرائیور ہمارے پاس موجود نہیں ہے اور مجھے بخار بھی ہو گیا تھا.اب اس صورت حال میں سخت پریشانی شروع ہو گئی.جب کافی دیر ہوگئی.مغرب کے بعد عشاء کی نماز کا وقت بھی گزر گیا.اب رات کی تاریکی کے باعث دریا کا پانی بھی نظروں سے اوجھل ہو گیا.اب تو عثمان صاحب کی دوسری طرف سے واپسی کی امید کی کرن بھی بجھ گئی.میں نے ڈرتے ڈرتے اپنے ساتھی مسافروں اور چند دیگر موجودلوگوں سے درخوست کی کہ میری کار کو آگے کی طرف سے پیچھے کو دھکیلیں.جس پر ان لوگوں نے گاڑی کو پیچھے کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا اور میں گاڑی کو قریباً دوسو میٹر دریا سے دور لے گیا اور اس کا رخ میں نے دوسری جانب کر لیا.اتفاق سے عثمان صاحب کار کی چابی اپنے ساتھ لے کر نہیں گئے تھے.میں نے گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی ، گاڑی سٹارٹ ہو کر بند ہو جاتی.وہاں پر موجود ایک آدمی نے بتایا کہ کیچ کو دبا کر رکھو تو پھر سٹارٹ ہوگی.خیر میں نے چند بار کوشش کی اور بفضل خدا کامیاب ہو گیا.چونکہ میں موٹر سائیکل تو چلایا ہی کرتا تھا.اس انداز پر آہستہ آہستہ کار کو چلانا شروع کر دیا.رات 281
ارض بلال- میری یادیں) کا وقت تھا.سڑک کشادہ اور خالی تھی.قریب ترین گاؤں وہاں سے تقریبا پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہوگا.وہاں پہنچے اور ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کے ہاں رات بسر کی.صبح ہوئی.اب گاڑی کو آگے کی طرف چلانا تو سیکھ گیا تھا.پیچھے کی طرف جانے کے طریق کا علم نہ تھا.تھوڑی سی تگ و دو کی تو پیچھے کے گیئر سے بھی شناسائی ہوگئی.اس کامیابی کے بعد میں پہلے سے زیادہ اعتماد کے ساتھ کار واپس دریا پر لے آیا.دوسری طرف عثمان صاحب بھی واپس آچکے تھے.ان کی رات کو واپس نہ آنے کی اپنی داستان تھی.بہر حال اب اس ساری پریشانی کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ میں ڈرائیور بن گیا.کیونکہ ہمارا اکثر سفر دیہاتوں کا تھا.سب کچے رستے تھے.جہاں ٹریفک وغیرہ نہ تھی.اس لئے اس دورہ کے دوران مجھے ڈرائیونگ کا خوب موقع مل گیا اور میں ایک با اعتماد ڈرائیور بن گیا.امیر پیٹرول پر اور گاڑی دعاؤں سے چلتی ہے مکرم ڈاکٹر سعید احمد خان صاحب انگلستان جماعت کے ایک بہت ہی مخلص اور وفادار دوست تھے.دو بار وہ اپنی اہلیہ محترمہ کے ہمراہ گیمبیا تشریف لائے.ڈاکٹر صاحب موصوف امراض جلد کے ماہر تھے.ان دورہ جات کے دوران آپ نے ملک بھر میں جماعت کے بڑے مراکز میں طبی سٹال لگائے اور عوام الناس کی بفضل ایزدی خوب خدمت کی.ان کی اہلیہ محترمہ نے بھی اس کارخیر میں ان کا بھر پور ساتھ دیا.فجزاهم الله تعالی.ایک بار تو کافی سارے موٹر سائیکل بھی گیمبیا جماعت کے لئے بطور تحفہ لائے تھے.جو گیمبیا میں معلمین کرام کو دیئے گئے تھے.انہیں دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا.ہر کس و ناکس تک دعوت حق پہنچانے کی پوری کوشش کرتے.اور خدا کے فضل سے انہیں اس کے پھل بھی ملے اور کئی بیعتیں بھی ان کے ذریعہ سے ہوئیں.282
ارض بلال.میری یادیں 1998ء میں پہلی بار گیمبیا تشریف لائے.ان دنوں مکرم امیر صاحب رخصت پر پاکستان گئے ہوئے تھے اور خاکسار قائم مقام کے طور پر خدمت کر رہا تھا.اس دور میں میرے پاس ایک پرانی سی گاڑی تھی جو اکثر اوقات خراب رہتی تھی.پہلے تو گاڑی پرانی تھی ، دوسرے اس کا سٹیرنگ کاٹ کر بائیں سے دائیں طرف لگا دیا گیا تھا، کیونکہ جاپان مشن نے غلطی سے رائٹ ہینڈ ڈرائیونگ والی گاڑی بھجوادی تھی.جبکہ گیمبیا اور سینیگال میں لیفٹ ہینڈ ڈرائیونگ ہوتی ہے پھر گیمبیا اور سینیگال کے کچے اور خستہ حال رستوں پر چلنے سے گاڑی اور بھی بہت سی بیماریوں کا شکار تھی.میں نے مکرم ڈاکٹر صاحب اور انکی بیگم صاحبہ کو مختلف جماعتوں کے دورہ پر لے جانے کا پروگرام بنایا.ان دنوں مکرم ڈاکٹر لئیق انصاری صاحب کے سسر مکرم چغتائی صاحب بھی گیمبیا آئے ہوئے تھے.جب انہیں معلوم ہوا تو ڈاکٹر انصاری صاحب اور ان کے سسر محترم بھی ہمارے ساتھ جانے کیلئے تیار ہو گئے.ہم نے سب سے پہلے Bara کی طرف جانے کا پروگرام بنایا.اس کے لئے فیری لینی تھی.فیری ٹرمینل پر پہنچے.سخت گرمی کا موسم تھا.گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے کوئی مناسب ذریعہ بھی نہ تھا.یہاں سے سینیگال کے علاقہ کا سانس کی بہت ساری گاڑیاں سینیگال کے دیگر شہروں میں جانے کے لئے دریا عبور کرتی ہیں.اس لئے یہاں پر غیر معمولی رش ہوتا ہے.جس کی وجہ سے چند گھنٹے تک وہاں ہی انتظار کرنا پڑا.گرمی کی شدت ، پسینے سے کپڑے شرابور اور پیاس کی وجہ سے یہ گھڑیاں کافی مشکل سے گزر رہی تھیں.ہم لوگ تو اس کیفیت کے عادی تھے.مگر مہمانوں کی حالت خاصی پریشان کن تھی.خیر سے فیری آئی اور ہم لوگ دریا پار کر کے دوسری جانب جا پہنچے.اب اگلا راستہ بہت زیادہ خراب تھا اور اب موسم برسات کی وجہ سے اس کی حالت پہلے سے بھی بدرجہا بد تر تھی.جابجا گڑھے 283
ارض بلال.میری یادیں تھے.پھر ان پر برساتی پانی نے بھی قبضہ کیا ہوا تھا.جس کی وجہ سے ڈرائیور اور سواریوں کے لیے اپنی اپنی قسم کی مشکلات تھیں.تھوڑی دور ہی آگے گئے تھے کہ گاڑی اچانک ایک جگہ پر رگ گئی.میں نے اپنے طور پر اسے چلانے کی کوشش کی مگر نہ چلی.کہتے ہیں گونگے کی رمزیں اس کی ماں ہی سمجھتی ہے.میں بھی کسی حد تک اپنی کار کی بیماریوں سے واقف تھا.میں نے سوچا کہ اس کا پٹرول بند ہو گیا ہے.میں نے پٹرول والا پائپ اتارا.اب ڈاکٹر صاحب یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے.میں نے پائپ کو اپنے منہ کے قریب کیا.اس پر ڈاکٹر صاحب سخت پریشان ہو گئے اور مجھے منع کیا کہ ایسا نہ کریں.یہ بہت خطر ناک ہے.لیکن ہم سب مبلغین کا تو یہ روز مرہ کا کام ہوتا ہے.کیونکہ جنگلات میں جب گاڑیاں خراب ہو جاتی ہیں تو پھر کیا کیا ترکیبیں اور علاج سو جھتے ہیں! میں نے زور سے سانس کو اپنی طرف کھینچا، جس کے نتیجہ میں پیڑول کے پائپ میں جو رکاوٹ تھی وہ دور ہوگئی اور گاڑی چل پڑی اور سارے سفر میں کئی بار اس ڈرامہ کو دوہرانا پڑا کیونکہ گاڑی بار بار رک جاتی تھی اور پورے راستہ میں کوئی مکینک نہیں تھا.بہر حال رستہ میں جماعتوں کا دورہ کرتے کرتے اپنی منزل فرافینی پہنچے.رستہ میں اور بھی کئی اس قسم کے دلچسپ واقعات پیش آئے جو مکرم ڈاکٹر صاحب کے لئے عجیب اور تائید الہی کے مظہر تھے.قصہ مختصر جب ڈاکٹر صاحب گیمبیا میں اپنے پروگرام کے اختتام پر واپس انگلستان تشریف لائے اور انہوں نے حضور انور کی خدمت میں ساری رپورٹ پیش کی.اس میں سب سے نمایاں اسی سفر کی داستان تھی.ڈاکٹر صاحب نے حضور کو بتایا کہ: Amir in the Gambia lives on petrol and his car goes on prayers.284
اس پر ارض بلال.میری یادیں بر حضور انور بہت محظوظ ہوئے اور حضور نے از راہ شفقت فرمایا میں انشاء اللہ ان کو جلد نئی گاڑی بجھوا رہا ہوں اور پھر حسب وعدہ جلد ہی ایک نئی گاڑی گیمبیا مشن میں پہنچ گئی.ڈاکٹر سعید احمد صاحب نے ایک دفعہ جلسہ سالانہ انگلستان کے موقعہ پر تبلیغ کے موضوع پر تقریر فرمائی تھی جس کا اکثر حصہ اسی سفر کے حوالے سے تھا.انمول ہیرا.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب حضرت ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ایک ایسا انمول ہیرا تھے جس کی روشنی چار دانگ عالم میں پھیل گئی اور ہر ملک، قوم اور علاقہ کے لئے پاکستان کی نیک نامی اور تعارف کا سبب بنے.سینیگال پاکستان سے بہت دور دراز مقام ہے.وہاں کے چند واقعات پیش خدمت ہیں جو بظاہر ڈاکٹر صاحب کی شان و مرتبہ کے لحاظ سے کچھ بھی نہیں کیونکہ آپ کے علمی کارناموں کے بارہ میں بڑی بڑی ضخیم کتب لکھی گئیں اور یہ کتا بیں دنیا بھر کی لائبریریوں کی زینت بن چکی ہیں.ان کے سامنے یہ واقعات بہت معمولی نوعیت کے ہیں.سورج کے آگے ایک کمز ورسی شمع جلانے کے مترادف ہے.بہر حال اس ملک کے لحاظ سے ان واقعات کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ کس طرح آپ کی شہرت اور نیک نامی اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کناروں تک پہنچائی.(1) ایک روز سینیگال کے کو نخ نامی شہر میں خاکسار ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس بغرض علاج گیا.ڈاکٹر صاحب کو اپنا تعارف کرایا کہ میں پاکستانی ہوں اور جماعت احمدیہ کا مبلغ ہوں.ڈاکٹر صاحب فوراً بولے پاکستان ایک عظیم ملک ہے وہاں کے لوگ بہت عالم اور ذہین ہیں.میں نے پوچھا آپ یہ بات کس حوالہ سے کر رہے ہیں.ان کے سامنے ایک فرنچ زبان میں رسالہ پڑا ہوا تھا جس کے سرورق پر ڈاکٹر سلام صاحب کی تصویر تھی اور ساتھ ہی آپ کے نوبل پرائز حاصل کرنے کی تفاصیل تھیں.انہوں نے فوراً مجھے وہ رسالہ دکھایا اور کہنے لگے ہم سب مسلمانوں کو اسلام کے اس 285
ارض بلال.میری یادیں بطل جلیل پر فخر ہے.(2) ایک دفعہ خاکسار ڈا کار سے کافی دور اندرون ملک کسی کام کے سلسلہ میں گیا ہوا تھا.وہاں ایک پاکستانی دوست بھی مل گئے.ہم لوگ ایک ریستوران میں چائے پینے کے لئے چلے گئے.ہمارے ساتھ والے Table پر ایک یوروپین چائے پی رہا تھا.اس سے باتیں شروع ہو گئیں اس نے ہمیں پوچھا کہ ہمارا تعلق کس ملک سے ہے؟ ہم نے اسے بتایا کہ ہم پاکستانی ہیں.وہ شخص فوراً بوالا ڈاکٹر عبد السلام کے ملک سے ! خدا جانتا ہے کہ مجھے کس قدر خوشی اور مسرت ہوئی کہ اس دور دراز علاقہ میں بھی ڈاکٹر صاحب کا نام نامی گونج رہا ہے.(اس شخص کا تعلق اٹلی سے تھا) (3) سینیگال میں جماعت کے ایک مخلص اور فدائی ممبر آنریبل کا بنے کا با صاحب ایک روز اپنے ایک عزیز کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے.اتفاق سے ان کے اس عزیز کا نام بھی کا بنے کا با ہی تھا.ان کے بارہ میں بتایا کہ میرے یہ عزیز ڈاکار یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر ہیں اور فرانس کے کسی ادارہ میں بھی تعلیم و تدریس کرتے ہیں.سیاست سے بھی ان کا تعلق ہے.آجکل اپنے شہر کے میئر بھی ہیں.جب باتیں شروع ہو ئیں اور انہوں نے بتایا کہ وہ فزکس کے پروفیسر ہیں.میں نے انہیں پوچھا کیا آپ نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا نام سنا ہے.وہ کہنے لگے کہ آپ نے عجیب سوال کیا ہے.میرے نزدیک اس صدی میں کوئی آدمی انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہے جو ڈاکٹر عبدالسلام جیسی عظیم المرتبت شخصیت کے اسم گرامی سے نا آشنا ہو.ی شخص تو ایسے لگتا تھا کہ ڈاکٹر سلام صاحب کا بہت بڑا عاشق ہے اور تقریباً سارا وقت وہ ڈاکٹر صاحب کے علم و معرفت اور خدمات کا اس رنگ میں ذکر کر تا رہا جس طرح کوئی ڈاکٹر صاحب کا بہت ہی قریبی عزیز باتیں کر رہا ہو اور یہ باتیں دل کی گہرائیوں سے کر رہے تھے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے افریقن ممالک کی بے حد خدمت کی ہے.اور نیز بتایا کہ ڈاکار یونیورسٹی کا ایک 286
ارض بلال.میری یادیں شعبہ آج تک ڈاکٹر صاحب کے اٹلی میں قائم کردہ ادارہ سے استفادہ کر رہا ہے.ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ مدرسہ مکمل نہیں کیا کیونکہ خدا سے وعدہ لیا تھا.تکمیل پروفات دینا ایک دفعہ ملائشیا سے ایک احمدی بزرگ مکرم نوح ہینڈسن صاحب گیمبیا تشریف لائے.میں انہیں سینیگال کے دورہ پر بھی ساتھ لے گیا.ہم نے ڈاکار میں ایک ہوٹل میں کمرہ لیا.کمرہ میں ٹی وی کی سہولت بھی میسر تھی.جب ٹی وی چلایا تو کیا دیکھتے ہیں کہ مکرم میر محمود احمد صاحب حدیث کا درس دے رہے ہیں.یہ سب کچھ نا قابل یقین لگ رہا تھا.بہر حال بڑی خوشی ہوئی.ہم لوگ بڑے حیران تھے.یہ کیسے ممکن ہوا ہے.پھر چند ماہ کے عرصہ کے بعد وہ پروگرام بند ہو گیا.( یہ ایم ٹی اے کی ترقیات سے پہلے کی بات ہے ) میں نے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا ایک سینیگالی نوجوان دنیا بھر کے مشہور چینلز کے پروگرام ریسیو کر کے از سر نو انہیں سینیگال سے نشر کرتا ہے.میں ایک بار اپنے ایک دوست محمد درامے کے ہمراہ اسے ملنے کے لئے گیا.وہ نوجوان ہمیں بڑے تپاک سے ملا.ہم نے اس کے ساتھ ایم ٹی اے کے بارہ میں بات کی.اس نے بتایا کہ میں نے ایک دن ایم ٹی اے کا پروگرام دیکھا.مجھے اس کی تو کچھ سمجھ نہ آئی.لیکن اتنا احساس ہوا کہ یہ کوئی مسلمان چینل ہے.اس لئے میں نے اسے چلانا شروع کر دیا.لیکن بعد میں مجھے بعض علماء نے کہا کہ اس پروگرام کومت چلاؤ.اس پر میں ڈر گیا اور میں نے اسے بند کر دیا.ہم نے اسے اپنا تعارف کرایا اور اس پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے درخواست کی تو کہنے لگا مجھے متعلقہ وزارت سے اجازت نامہ لا دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا، جو ممکن نہ تھا.نوجوان بڑا صاف دل اور ہمدرد انسان تھا.اس نے ہماری خاصی آؤ بھگت کی.اس نے بتایا کہ اس نے ڈاکار میں ایک بہت بڑا عربی مدرسہ مع ہاسٹل کے شروع کیا ہوا تھا جس کا اکثر حصہ مکمل ہو چکا تھا لیکن اس کا کچھ حصہ کافی عرصہ سے ابھی نامکمل تھا.ہم نے اس کی وجہ 287
ارض بلال.میری یادیں.پوچھی تو کہنے لگا میں نے اللہ میاں سے مالی کشائش کی دعا کی تھی اور ساتھ وعدہ کیا تھا اے اللہ اگر تو مجھے مالی وسعت عطا کریگا.تو میں ایک بہت بڑا مدرسہ بنادوں گا لیکن ایک درخواست ہے کہ جب تک یہ مشن مکمل نہ کر لوں مجھے زندہ رکھنا.پھر خدا نے میری دعا سن لی اور بہت سارا مال دیا.اب میں نے بھی اپنا وعدہ پورا کرنا شروع کیا ہوا ہے اور کافی سارا کام کر دیا ہے لیکن ایک حصہ چھوڑا ہوا ہے کیونکہ خدا سے وعدہ ہے کہ جب تک مکمل نہ کروں تو وہ مجھے زندہ رکھے گا.دیکھوا بھی تو میں جوان ہوں.اگر یہ کام مکمل ہو گیا تو ؟ آسمانی ضیافت اگست 1992ء کی بات ہے ہم جملہ افراد خانہ رخصت پر پاکستان جارہے تھے.گیمبیا سے لندن گئے جلسہ میں شرکت کی اس کے بعد جرمنی عزیزوں کو ملنے کیلئے چلے گئے.جرمنی سے واپسی فلپائن ائیر لائن سے ہوئی جو اس زمانہ میں پاکستانی بھائیوں کی سب سے زیادہ محبوب ائیر لائن ہوا کرتی تھی کیونکہ یہ ائیر لائن سب دیگر ائیر لائینز سے زیادہ ستی تھی.لیکن اس کے جہازوں کی حالت کافی خستہ اور مخدوش تھی.ہم لوگ علی الصبح فرینکفرٹ ائیر پورٹ پہنچے.فلائٹ صبح 8 بجے کے قریب تھی.ائیر پورٹ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ جہاز دو گھنٹے لیٹ ہے اس لئے ہر مسافر 8 مارک فی کس کے حساب سے ریستوران میں جا کر ناشتہ وغیرہ کر سکتا ہے.ہمارے پاس 7 ٹکٹیں تھیں اس لئے اس قدر وافر سامان خوردونوش مل گیا.ہمارے ساتھ الوداع کرنے والے عزیز بھی اس آسمانی ضیافت سے مستفیض ہوئے.بعد ازاں جہاز کی آمد پر لندن پہنچے.اب یہاں سے گلف ایئر لائن کے ذریعہ سے شام کے قریب اگلی فلائٹ تھی.سامان وغیرہ چیک ہو گیا.بورڈنگ کارڈمل گئے.اب ہم جہاز پر سوار ہونے کے اعلان کے انتظار میں تھے کہ یہ اعلان ہوا کہ گلف ائیر لائن کی فلائٹ برائے شارجہ فنی خرابی کے باعث 2 گھنٹے لیٹ ہے.جملہ معزز مسافرین کی خدمت میں التماس ہے کہ ایئر پورٹ پر موجود 288
ارض بلال- میری یادیں ) ریستوران میں جا کر ریفریشمنٹ کر لیں.تاخیر کیلئے معذرت خواہ ہیں.ریستوران میں ریفریشمنٹ وغیرہ کی گئی، دوبارہ لاؤنج میں آگئے.پھر اعلان ہوا کہ جہاز فنی خرابی کے باعث آگے سفر نہیں کر سکتا اس لئے تا اطلاع ثانی فلائٹ Cancel ہے.اس پر ایک نہایت خوبصورت بس کا انتظام کیا گیا.جس نے ہمیں شہر کے بعض حصوں کی سیر کرائی.اس کے بعد ایک نہایت خوبصورت اعلیٰ درجہ کے ہوٹل میں لے آئے اور ہمیں تین نہایت خوبصورت اور آرام دہ اور بے شمار خدائی نعمتوں سے مالا مال کمرے الاٹ کر دیئے.ہم تو دعا کر رہے تھے یا اللہ یہ جہاز ہفتہ بھر خراب ہی رہے اور ہم اس آسمانی ضیافت کے خوب مزے لیں.آخر دو دن ہم نے بڑے اچھے طریقے سے اس ہوٹل میں گزارے.بچوں نے بہت انجوائے کیا.افریقہ سے آنے والے بچوں کیلئے تو یہ ایک نعمت غیر مترقبہ تھی کہ اس قدر عالیشان ہوٹل جملہ سہولیات کے ساتھ مفت میں مل جائے ورنہ عام حالات میں تو ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے.ہمارے دل تو نہیں چاہ رہے تھے کہ اب جلدی جہاز ٹھیک ہو مگر اعلان ہوا کہ جہاز تیار ہے اس لئے مسافر اپنے سفر کیلئے تیار ہو کر بس میں بیٹھ جائیں.اس طرح ہم گلف ائیر لائن کے ذریعہ سے شارجہ پہنچ گئے اتفاق سے جس جہاز نے آگے ہمیں پاکستان لے کر جانا تھا.وہ بھی حسب پروگرام جا چکا تھا.پھر ادھر ہمیں بہت اچھے ہوٹل میں بھجوایا گیا اور یہاں بھی آسمانی ضیافت کی دوسری قسط مل کا کردار میں بہت تھے ہوٹل میں ھو کراچی ایئر پورٹ پر جماعتی نظام کے تحت بعض کارکنان ہمیں لینے کے لئے حسب پروگرام ائیر پورٹ پر آئے مگر جہازوں کی تاخیر کے باعث وہ خالی ہاتھ واپس تشریف لے گئے.ہم لوگوں نے فون پر رابطہ کی کوشش کی کہ ان کو پروگرام میں تبدیلی کی اطلاع کر دی جائے مگر فون کی خرابی کے باعث یہ کام نہ ہو سکا.اب جب ہم لوگ کراچی ائیر پورٹ پر پہنچے تو بہت پریشانی تھی.کس طرح گیسٹ ہاؤس جائیں گے.آخر سامان لیا اور باہر نکل آئے اور پریشانی کے حال میں کھڑے 289
ارض بلال.میری یادیں تھے.اتنے میں میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جو شکل سے احمدی لگ رہا تھا.کیونکہ اس نے جناح کیپ پہنی ہوئی تھی.میں نے اس کو سلام کیا.میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ وہ احمدی ہے اور گیسٹ ہاؤس سے ایک دوست کو لینے کیلئے آیا ہوا ہے.مگر وہ دوست نہیں آئے.میں نے بتایا کہ میں بھی جماعت کا مہمان ہوں اور میرا یہ نام ہے.وہ کہنے لگا چند یوم قبل آپ کو لینے کیلئے ہم لوگ آئے تھے.مگر آپ کی آمد نہ ہوئی اور ہم خالی ہاتھ واپس چلے گئے تھے.الحمد للہ آپ سے ملاقات ہوگئی.آئیے اب آپ کو گیسٹ ہاؤس لئے چلتے ہیں.اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک غیر متوقع آسمانی ضیافت نصیب ہوئی.”نہ جانے اس کریم کو تو ہے یادہ پسند ایک احمدی معمار کی خدمت دین حضرت خلیفہ امسیح الرابع " نے گیمبیا میں مرکزی مسجد تعمیر کرنے کا ارشاد فرمایا.اس غرض سے مکرم چوہدری عبدالعزیز ڈوگر صاحب کی قیادت میں دو کاریگر بھی گیمبیا بھجوا دیئے.ان میں سے ایک دوست مکرم مختار احمد صاحب تھے جو لکڑی کا کام کرتے تھے اور دوسرے مکرم عبدالحمید چھینہ صاحب جو تعمیرات کے لئے تھے.مکرم امیر صاحب نے انہیں مختلف اداروں میں مرمت اور بیت السلام کی تعمیر کا کام تفویض کر دیا جو انہوں نے بڑی ہمت اور دلجمعی سے سرانجام دیا.بیت السلام کی عمارت ایک ہال نما عمارت بن گئی.ایک دفعہ مجھے ایک غیر احمدی دوست ملے.انہیں میں نے اپنی نئی مسجد کے بارہ میں بتایا.کہنے لگے کہ وہ جو چرچ کی طرح بنی ہے.دراصل یہ ایک بہت بڑا ہال تھا جس میں مینار وغیرہ نہیں تھے گیمبیا میں مینار بنانے والے ماہرین نہ ہونے کے برابر ہیں،اس لئے مینار نہ بنائے جاسکے.ایک دن چند دوست مسجد میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اگر مسجد کے مینار بن جائیں تو تب ہی یہ مسجد کے طور پر نظر آئے گی.مکرم عبد الحمید چھینہ صاحب بھی ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.کہنے 290
ارض بلال.میری یادیں ) لگے کہ آپ نے کون سے مینار بنانے ہیں؟ ربوہ میں مسجد اقصی یا مسجد مبارک والے.ان کی بات پر کسی نے کوئی خاص دھیان نہیں دیا کیونکہ بظاہر وہ بہت معمولی قسم کے کاریگر لگتے تھے اور غالباً ایک دن کے لئے بھی سکول نہ گئے ہونگے.اگلے روز عبدالحمید صاحب ایک کاغذ پر میناروں کے مختلف نقشے بنا کر لے آئے.ہم سب دیکھ کر حیران ہو گئے.کیونکہ نقشے بہت خوبصورت بنے ہوئے تھے.اس کے بعد انہوں نے مینار بنانے شروع کر دیئے.مکرم حمید صاحب نے خود ہی سارا ساز وسامان تیار کیا اور بڑی محنت اور جانفشانی سے کام شروع کر دیا.ہر روز ہمیں ان کے ہنر کا کوئی نیا پہلو دیکھنے کو ملتا.نہ جانے کس طرح انہوں نے بڑے ہی عالیشان مینار بنا دیئے جو پورے گیمبیا میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے.بعض اوقات سیاح حضرات آکر ان میناروں کی تصاویر بھی لیتے تھے.اس مسجد کے مینار دور دور سے نظر آنے کے سبب ہر آنے جانے والے کے لئے کشش کا باعث بنتے ہیں اور جماعت احمدیہ کے تعارف کا بہت بڑا ذریعہ بن گئے.اس کے بعد مکرم حمید صاحب کو لائبیریا اور گنی بساؤ میں بھی مساجد بنانے کی سعادت نصیب ہوئی.اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک ان پڑھ آدمی سے اتنا بڑا کام لیا کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے اس کے مقابل پر پیچ نظر آتے ہیں.یہ کام خدا کے ہیں.جس سے چاہے کام لے.291
ارض بلال.میری یادیں......باب هفت ده.....] خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے چند دلچسپ واقعات پوٹو میں مدوجز را ور نصرت خداوندی سینیگال کے مرکزی شہر ڈاکار سے موریطانیہ کی طرف جب سفر شروع کریں، تو دوصد کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک شہر لوگا آتا ہے.وہاں سے بائیں جانب کو ایک سڑک نکلتی ہے جو پوٹو نامی قصبہ تک لے جاتی ہے.بحر اوقیانوس کے دائیں طرف ساحل سمندر پر واقع یہ ایک غیر معروف اور چھوٹا سا قصبہ ہے.اس سمندر کی دوسری جانب دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ واقع ہے.پوٹو سے تقریباً پچیس میل کی مسافت پر سمندر کے ساحل پر ایک چھوٹا سا فولانی گاؤں ہے جہاں پر مکرم احمد گئی صاحب کے ذریعہ کچھ نئی بیعتیں ہوئیں.وہاں پر ایک دوست مکرم احمد باہ صاحب تھے جنہیں عربی زبان پر خاصا عبور تھا.اپنے علاقہ میں اچھے اثر ورسوخ کے مالک تھے.میرے پاس ڈاکار میں تربیتی کلاس میں شرکت کے لئے بھی تشریف لائے تھے.اس ساحل سمندر پر کچھ اسی قسم کا مدوجزر کا سماں ہوتا ہے.دن کے پہلے حصہ میں پانی کا اُتار شروع ہو جاتا ہے.جس کے نتیجہ میں سمندر کا پانی کافی حد تک پیچھے چلا جاتا ہے.جس جگہ سے پانی اترتا ہے وہاں پر ریت گیلی ہونے کے سبب قدرے سخت ہوتی ہے اور گاڑیاں اس میں نہیں پھنتیں.اس لئے اس علاقہ کے لوگ اس راستہ پر آمد ورفت کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں.کہیں آپ کو سیاحوں کی گاڑیاں دوڑتی ہوئی نظر آئیں گی اور پھر اس کے ساتھ مقامی دیہاتیوں کے ریڑھے اور چھوٹی موٹی ٹوٹی پھوٹی پرانی پرانی گاڑیاں چیختی ، چنگھاڑتی اور دھواں اڑاتی نظر آئیں گی لیکن دن کے پچھلے پہر سمندری پانی آہستہ آہستہ ساحل سمندر کی طرف بڑھنا شروع ہو جاتا ہے.پھر رات گئے تک اس کی لہروں میں شدت، تیزی اور اضافہ ہوتا رہتا ہے اور خاص طور پر 292
ارض بلال- میری یادیں - چاندنی راتوں میں تو سمندر کی لہریں جوش و خروش سے اچھل اچھل کر ماہِ تابان کو چھونے کی سعی لا حاصل کرتی رہتی ہیں.جس کے نتیجہ میں سمندر کا پانی ساحل سمندر پر دور دراز تک کی زمین پر قبضہ کر لیتا ہے.ایک بار خاکسار اس علاقہ کے دورہ پر گیا.میرے ہمراہ ایک لوکل معلم صاحب بھی تھے.ہم نے رات ادھر ہی گزارنے کا پروگرام بنا رکھا تھا.دن کے پچھلے پہر ہم لوگ سمندر کے قریب پوٹو نامی جگہ پر پہنچے.پانچ بجے بعد دو پہر کا وقت تھا.سمندر کی طرف سے پانی کی واپسی کا سفر آہستہ آہستہ شروع تو ہو چکا تھا لیکن تاحال اس رستہ پر گاڑیوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری وساری تھا.اب پوٹو سے میری منزل تقریبا پچیس کلومیٹرز کے فاصلہ پر تھی جو تقریبا ایک گھنٹے کا سفر تھا.اس لئے سوچا کہ میں بھی اپنی گاڑی اس رستہ پر ڈال دوں.خیر اللہ کا نام لے کر ساحل سمندر پر گاڑی چلانی شروع کر دی لیکن ایک خوف سا تھا کیونکہ میری گاڑی کافی پرانی تھی اور اکثر و بیشتر یہ خراب ہو جاتی تھی.اب رستہ کے ایک جانب سمندر کی موجیں دوسری جانب دور تک ریت ہی ریت ، اس لئے بہت محتاط طریق پر گاڑی چل رہی تھی.تقریباً پانچ کلو میٹر ز کا سفر طے کیا ہوگا کہ میں نے محسوس کیا کہ گاڑی کی رفتار میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے.پھر گاڑی کی رفتار میں آہستہ آہستہ مزید کمی ہونی شروع ہوگئی.میں اس صورت حال میں خاصا پریشان ہو گیا.اب مزید آگے سفر کرنے میں تو کوئی حکمت نہ تھی.اس لئے وہیں سے گاڑی کا رخ واپس پوٹو کی طرف کر لیا اور پھر بڑی احتیاط سے ڈرائیو کرتے ہوئے آہستہ آہستہ واپس پوٹو پہنچ گیا.لیکن عجیب اتفاق ہوا کہ جیسے ہی گاڑی سمندر سے قدرے دور ایک محفوظ مقام پر پہنچی.گاڑی کا انجن خاموش ہو گیا.بڑی کوشش کی کہ کسی طرح گاڑی چل پڑے مگر اس نے نہ چلنا تھا نہ چلی.آخر کار مایوس ہو کر ہم لوگوں نے وہاں سے کافی دور ایک شہر لوگا میں ایک مکینک سے رابطہ قائم کیا جو وہاں سے آکر ایک اور گاڑی کے ساتھ ہماری گاڑی کو باندھ کر اسے اپنے گیراج میں لوگا لے گیا اور پھر 293
ارض بلال- میری یادیں) ایک ہفتہ کی تگ ودو کے بعد ہماری گاڑی چلنے کے قابل ہوئی.آج بھی جب کبھی میں اس واقعہ پر غور کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور شکر و سپاس سے گردن خم ہو جاتی ہے کہ کس طرح اس نے معجزانہ طور پر اس بظاہر ناممکن صورت حال میں ہماری اپنی جناب سے مدد فرمائی.تصور کریں اگر یہ گاڑی ساحل سمندر پر راستہ میں خراب ہو جاتی اور وہیں رک جاتی.پھر رات کو جب کہ پانی کا چڑھاؤ ہوتا تو گاڑی اس کی زد میں آجاتی اور جب پھر پانی کا اُتار شروع ہوتا تو پانی گاڑی کو اپنے ساتھ ہی سمندر میں لے جاتا.آج تک میں حیران ہوتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ہمیں اس حادثہ سے محفوظ رکھا.فالحمد لله على ذلك.پھر خدا تعالیٰ نے ان کی خواہش کو پورا کر دیا ایک احمدی ڈاکٹر کرم سید میر مشہود احمد صاحب لائبیریا میں نصرت جہاں کی مبارک اسکیم کے تحت طبی میدان میں خدمت بجا لا رہے تھے.باغیوں نے ملک میں فساد پیدا کر دیا.جس سے ہر طرف قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا.ڈاکٹر صاحب کی فیملی بھی ایک جگہ پر یرغمال بنالی گئی.اس اذیت ناک کیفیت میں ان کے کئی دن گزر گئے.ہر روز ان کی آنکھوں کے سامنے قتل وغارت ہورہی تھی.پھر ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعہ انہیں اور مکرم محمد اکرم باجوہ صاحب امیر لائبیریا اور ایک غیر از جماعت فیملی کو سینی گال پہنچانے کا انتظام ہو گیا.میں ان دنوں گیمبیا میں تھا.مجھے مرکز سے ان کے لئے سینیگال میں قیام وطعام کے انتظامات کے لئے ارشاد موصول ہوا.ان دنوں پاکستانی ایمبیسی میں ایک دوست مکرم منظور احمد قریشی صاحب تھے.جو اس وقت سفارت خانہ میں فرسٹ سیکرٹری تھے.میں ان کے ہمراہ ایئر پورٹ پر ان مہمانوں کے استقبال کے لئے گیا.یہ لوگ لٹے پٹے سینیگال پہنچے.میں نے انکی رہائش کے لئے مختلف مقامات پر انتظامات کیے.مکرم ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ امید سے تھیں اور چند دن میں ہی بچہ کی پیدائش متوقع تھی اس لئے 294
ارض بلال- میری یادیں ) ان کی رہائش میں نے اندرون شہر ممبران اسمبلی کے ہاسٹل میں کر دی.یہاں پر ہر ممبر اسمبلی کو ایک کمرہ الاٹ ہوتا ہے.ان میں سے دو احمدی اسمبلی ممبروں نے اپنے کمرے ہمیں دے دیے.اسی روز شام کو میں ڈاکٹر صاحب اور ان کی فیملی کو اپنی کار میں شہر دکھانے کے لئے لے گیا.ڈاکار کے ہر طرف سمندر ہے اور ہر جانب ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ سڑک بنی ہوئی ہے.کچھ دیر کے بعد ہم لوگ گھر آگئے.نصف شب کے قریب ڈاکٹر صاحب نے میرے دروازہ پر دستک دی.پوچھنے پر کہنے لگے کہ میری بیگم صاحبہ کی طبیعت ناساز ہے اور ہسپتال جانا چاہتے ہیں.میں نے انہیں ساتھ لیا اور ہسپتال پہنچا دیا.ہسپتال کی انتظامیہ نے انکی اہلیہ کو داخل کرلیا.میں ساری رات کار میں لیٹا رہا.صبح ڈاکٹر صاحب میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے کہ یہ درد کسی اور وجہ سے تھی اور ڈاکٹر نے ہمیں فارغ کر دیا ہے.ہم لوگ واپس گھر آگئے.اس روز پھر میں انہیں شام کے قریب کار پر تفریح کے لئے ساحل سمندر کی طرف لے گیا.جب ہوا خوری کے بعد واپس اپنے ہاسٹل کی طرف آرہے تھے راستہ میں سڑک کی ایک جانب ایک پرائیویٹ ہسپتال کی بہت عالیشان عمارت نظر آئی.ڈاکٹر صاحب مجھے کہنے لگے کہ اگر اس ہسپتال میں ڈلیوری کا انتظام ہو جائے تو بہت اچھا رہے گا.میں نے انہیں بتایا کہ کیونکہ یہ پرائیویٹ ادارہ ہے اس لئے خاصا مہنگا ہوگا.بہر حال کوشش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے.یہ ہسپتال ایک لبنانی آدمی کا تھا.میں نے ہسپتال میں جا کر اس کے مالک سے بات کی اور بتایا کہ میرے یہ مہمان لائبیریا سے مہاجر ہو کر آئے ہیں.اگر ممکن ہو تو ہمیں اخراجات میں کچھ رعایت کر دیں.اس لبنانی دوست نے بڑی فراخدلی سے نصف اخراجات منہا کر دیے.میں نے اسی وقت حضرت خلیفتہ المسیح الرابع" کی خدمت اقدس میں فیکس بھیجی اور اخراجات کی منظوری کے لئے استدعا کی جس کا جواب اثبات میں اگلے روز مل گیا.اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی روز ہی ہسپتال جانے کی ضرورت پیش آگئی اور اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کو بیٹی سے نوازا.295
ارض بلال.میری یادیں ان دنوں بہت سے احمدی ممبران اسمبلی ڈاکار میں موجود تھے.انہوں نے بچی کا عقیقہ بھی کیا.ایک احمدی ممبر اسمبلی حو ا جوب کے نام پر سینیگال کی روایت کے مطابق بچی کا نام حوا رکھ دیا اور ایک بکر ابھی ذبح کیا.اس پر ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کی بیگم صاحبہ نے انہیں بتایا کہ پہلے دن جب سیر کرتے ہوئے ہم لوگ اس ہسپتال کے سامنے سے گزرے تھے تو میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ کاش میرا بچہ اس ہسپتال میں پیدا ہو.پھر اللہ تعالی نے ایسے اسباب پیدا فرمائے کہ ان کی خواہش کے مطابق بچی کی ولادت اسی ہسپتال میں ہوئی.مرکز سے گرانٹ کی آمد سے قبل مرکز کے اکاؤنٹ میں رقم ڈاکٹر سعید احمد صاحب سے نہ تو کبھی ملنے کا اتفاق ہوا اور نہ ہی کبھی ان کے بارہ کچھ پڑھنے کو ملا.بہر حال گیمبیا میں انکی نیک نامی اور بہترین کارکردگی کے حوالے سے بہت کچھ سننے میں آیا.اس حوالے سے چند ایمان افروز باتیں پیش خدمت ہیں.یہ بزرگ ڈاکٹر جماعت احمدیہ کی طبی خدمات کے میدان میں پیشرو تھے.جن دنوں میں میں فرافینی میں تھا میں نے دیکھا کہ فرافینی کے احباب جماعت مکرم ڈاکٹر سعید احمد صاحب کا نام بڑے احترام اور پیار سے لیا کرتے تھے.ڈاکٹر صاحب ہفتہ میں ایک بار اس شہر میں بھی کلینک کرتے تھے.یہاں پر ایک احمدی دوست مکرم شیخو د بیبا صاحب نے اپنے ایک بیٹے کا نام ڈاکٹر سعید رکھا ہوا ہے.اس حوالے سے ان کا نام آج بھی فرامینی کی فضا میں گونجتا رہتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے مبارک دور میں تحریک جدید کے تحت پروگرام ترتیب دیا گیا کہ افریقہ میں تعلیم اور صحت کے میدان میں ڈاکٹر اور ٹیچر بھیجے جائیں.اس الہی ندا پر بہت سی سعید روحوں نے فوری طور پر لبیک کہا اور دربار خلافت میں حاضر ہو گئے.اس سعید فطرت گروہ میں ایک ڈاکٹر سعید احمد صاحب بھی تھے.سنا ہے مکرم ڈاکٹر صاحب ان 296
ارض بلال- میری یادیں ) دنوں لاہور کے میوہسپتال میں ایم ایس کے اعلی عہدہ پر فائز تھے.آپ نے اپنی اتنی اعلی نوکری کو خلیفہ وقت کی پکار پر الوداع کہا اور تعمیل ارشاد میں گیمبیا آگئے.مرکز نے آپ کے لئے گیمبیا میں کلینک شروع کرنے کیلئے پانچ سو پونڈ کی رقم مختص کی تھی.آپ حسب پروگرام گیمبیا تشریف لے آئے.مجوزہ رقم بعد میں آنی تھی.آپ گیمبیا پہنچ کر مرکز سے آنے والی رقم کا انتظار کر رہے تھے تا کہ ابتدائی ضروری سامان خرید کر کام کا آغا ز کریں.ان دنوں آپ کی ملاقات ایک گیمبین ڈاکٹر سے ہوئی جس کا اپنا ذاتی کلینک تھا.وہ ڈاکٹر آپ سے مل کر بڑا متاثر ہؤا.اتفاق سے ان دنوں اس ڈاکٹر کا کچھ عرصہ کے لئے کہیں سفر پر جانے کا پروگرام تھا.اس نے ڈاکٹر سعید صاحب سے درخواست کی کہ جب تک میں سفر پر ہوں.اس دوران آپ میرے کلینک میں میری جگہ کام کریں تو آپ کی بہت مہربانی ہوگی.ڈاکٹر سعید صاحب مان گئے اور اس ڈاکٹر کی عدم موجودگی میں عارضی طور پر کام کرنا شروع کر دیا.اسکا مکرم ڈاکٹر صاحب کو بڑا فائدہ ہوا.ایک تو لوگوں سے تعارف کا سلسلہ چل نکلا اور گیمبیا کے لوگ اور انکی بیماریوں سے بھی آگا ہی ہوگئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے آمد کا بھی ایک دروازہ کھول دیا.ڈاکٹر صاحب نے اس کلینک سے ملنے والی آمد سے جماعت کا ایک اکاؤنٹ کھول لیا اور پانچ سو پونڈ کی رقم جماعت کے اکاؤنٹ میں جمع کرادی اور اس سے قبل کہ مرکزی گرانٹ یہاں پہنچتی ہکرم ڈاکٹر صاحب کی اپنی آمد سے جماعت کے اکاؤنٹ میں پانچ سو پونڈ جمع ہو چکے تھے.یہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور احمدیت کے پروانوں کی بے مثل قربانیوں کی ایک جھلک ہے.اس کے بعد آپ کی تقرری کا اعور نامی قصبہ میں ہوگئی.جہاں پر کسی قسم کی سہولت نہ تھی.ڈاکٹر صاحب ہفتہ میں ایک بار فرافینی کے مقام پر بھی کلینک چلایا کرتے تھے.( یہ کلینک الحاج ایف ایم سنگھاٹے صاحب کا تھا) آپ نے کا عور میں بہت محنت سے کام کیا.باوجود نا مساعد حالات کے اللہ تعالی نے دست 297
ارض بلال.میری یادیں غیب سے آپ کی دستگیری کی اور آپ کے کام میں ایسی برکت ڈالی کہ آپ کے اس چھوٹے اور معمولی سے کلینک کی آمد سے نصرت ہائی سکول کا ایک بلاک تعمیر ہو گیا.چند روزه خدمت دین کا اجر گیمبیا کا ایک قصبہ کا عور ہے جو کسی زمانہ میں بڑی اہمیت کا حامل تھا.کیونکہ اس دور میں گیمبیا بھر میں نقل و حمل کے لئے ایک فیری چلتی تھی.لیکن فیری کے ڈوب جانے کی وجہ سے چند پرانے مقامات اپنی اہمیت کھو چکے ہیں کیونکہ اب فیری کی بجائے دیگر ذرائع نقل وحمل نے جگہ لے لی ہے.جس کے باعث راستے بدل گئے ہیں جس کے نتیجہ میں یہ قصبہ اب باقی شہروں سے بالکل الگ تھلگ ہو گیا ہے.ان دنوں سڑک بھی کچی تھی اور اس کی حالت نہایت مخدوش تھی.اب تو بڑی اچھی سڑک بن چکی ہے.کاعور کے قصبہ میں ایک نوجوان ڈاکٹر مکرم محمد اشرف صاحب خدمت سرانجام دے رہے تھے.ایک دفعہ خاکسار ڈاکٹر صاحب کو ملنے کے لئے گیا.میں نے دیکھا کہ مکرم ڈاکٹر صاحب بڑے خوش نظر آرہے ہیں.پوچھنے پر کہنے لگے کہ انہوں نے حضور انور کی خدمت اقدس کی میں ایک درخواست تحریر کی تھی جس میں اپنی کیفیت عرض کی تھی.لکھا تھا کہ پیارے آقا ، اس قصبہ میں بجلی نہیں ہے.یہاں پینے کے لئے میٹھا پانی بھی نہیں ہے.میں ہر ہفتے چالیس میل دور سے پینے کے لئے پانی لے کر آتا ہوں.یہاں گرمی بھی بہت زیادہ ہے.اگر حضور انور از راہ شفقت ایک گیس والے فرج کی اجازت فرما دیں تو میں بہت ممنون ہونگا.حضور نے ان کی یہ درخواست از راہ شفقت قبول فرمالی.اس پر وہ بہت زیادہ خوش تھے.اس واقعہ سے ان کے وسائل اور مالی حالت اور دیگر مشکلات کا اندازہ لگ سکتا ہے.آجکل مکرم ڈاکٹر صاحب امریکہ میں بطور ڈاکٹر دنیاوی لحاظ سے بڑی کامیاب زندگی بسر کر رہے ہیں.اللہ تعالی نے انہیں بہت زیادہ مالی کشائش سے نوازا ہے.سنا ہے انہوں نے 298
.میری یادیں سیالکوٹ کے علاقہ میں خدمت خلق کے طور پر ایک ہسپتال بھی تعمیر کرایا ہے.چند سال قبل مکرم ڈاکٹر صاحب کسی غرض سے لندن تشریف لائے ہوئے تھے.ان سے ملاقات ہوئی.پرانی باتیں شروع ہو گئیں تو کہنے لگے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کے افضال اور رحمتیں میری افریقہ میں چند روزہ خدمات کے نتیجہ میں ہیں.یہ اجر ہے خدمت دین کا.معجزانہ شفا عطا فرما دی گنی بساؤ میں مکرم حمید اللہ ظفر صاحب گیمبیا مشن کے زیر انتظام بطور مربی متعین تھے.ماشاء اللہ بہت محنتی اور انتھک نوجوان ہیں.( پھر 1997ء میں انہیں گنی بساؤ کا امیر مقرر کر دیا گیا) ایک دفعہ انہوں نے بعض ممبران اسمبلی کے ساتھ ایک میٹنگ اور بعض جماعتوں میں تبلیغی اور تربیتی پروگرام ترتیب دیئے اور مجھے بھی ان پروگراموں میں شرکت کے لئے کہا.ان دنوں مجھے گاؤٹ کی سخت تکلیف تھی.( 1998 ء سے مجھے گاؤٹ کی تکلیف ہے.کبھی کبھی اس مرض کا شدید حملہ ہوتا ہے.پاؤں کے انگوٹھے سے درد شروع ہوتا ہے.پھر اس کے نتیجہ میں سارا بدن متاثر ہوتا ہے.چلنا تک دو بھر ہو جاتا ہے ) اس حالت میں سفر کرنا بظاہر بہت مشکل تھا.لیکن میں نے سوچا گھر میں بھی تو بستر پر لیٹا ہوا ہوں.اگر میں سفر پر چلا جاؤں تو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹا رہوں گا.گھر والوں نے بہت منع کیا اور کہا کہ سفر بہت لمبا ہے، پہلے سینیگال جا ئیں گے.پھر وہاں سے گنی بساؤ جائیں گے جو آپ کے لئے بہت مشکل ہو جائے گا.بہر حال میں نے فیصلہ کر لیا کہ کچھ بھی ہو ، میں ان پروگراموں میں ضرور شرکت کروں گا.اس وقت مکرم محمود اقبال صاحب پرنسپل نصرت ہائی سکول میرے گھر تشریف لائے ہوئے تھے.انہیں میں نے درخواست کی کہ مجھے گاڑی پر ذرا بازار لے چلیں تا کہ میں اپنے لئے اور مکرم حمید اللہ ظفر صاحب کے لئے کچھ اشیاء خرید لوں.مکرم اقبال صاحب نے گاڑی چلانی شروع کی اور 299
ارض بلال- میری یادیں ) ہم بازار کو روانہ ہو گئے.شام کا وقت تھا.میں نے دیکھا کہ ہماری صدر لجنہ محترمہ Jojo Cham صاحبہ سڑک کی ایک جانب کہیں پیدل جارہی ہیں.میں نے مکرم اقبال صاحب سے کہا کہ گاڑی روک کر ان سے پوچھیں کہ انہوں نے کہاں جانا ہے.گاڑی روکی اور ان سے پوچھا تو وہ کہنے لگیں اپنے گھر جانا ہے، کوئی ٹرانسپورٹ نہیں ملی اس لئے پیدل ہی جارہی ہوں.ہم نے انہیں اپنی گاڑی میں بٹھالیا تاکہ ان کے گھر تک انہیں چھوڑ آئیں.احوال پرسی ہوئی.میں نے انہیں بتایا کہ پاؤں میں سخت درد ہے، دعا کریں ٹھیک ہو جائے.میں نے کل گنی بساؤ کے دورہ پر بھی جانا ہے.کہنے لگیں کہ میرے پاس ایک دوا ہے.اگر وہ استعمال کریں تو شاید آپ کو فائدہ ہو جائے.جب ان کے گھر پہنچے تو انہوں نے کچھ گولیاں مجھے دیں جو میں نے حسب ہدایت لے لیں.ان گولیوں کے کھانے کی تھوڑی دیر میں ہی معجزانہ طور پر درد اور تکلیف دور ہو گئے.اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ بہانے بہانے سے اسباب پیدا فرماتا ہے.پھر اگلے روز بڑے آرام سے سفر شروع کیا.یہ دورہ کافی دنوں کا تھا جو بڑے سکون کے ساتھ ہوا اور گنی بساؤ کے بہت سے مقامات پر جلسے اور میٹنگیں کرنے کے بعد بخیریت وا پسی ہوئی.الحمد للہ.سفر ہے شرط مہمان نواز بہتیرے نامساعد حالات میں اللہ تعالی نے قیام و طعام کا انتظام فرما دیا.غالباً1993 ء کی بات ہے.مکرم خلیل احمد مبشر صاحب سیرالیون میں جماعت کے امیر تھے اور ہمسایہ ملک گنی کو نا کری بھی جماعتی لحاظ سے سیرالیون مشن کے زیر نگرانی تھا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع ” نے انہیں گنی کو نا کری کے تبلیغی و تربیتی دورہ کے لیے ارشاد فرمایا اور مجھے بھی ہدایت ملی کہ میں بھی کو نا کری جاؤں کیونکہ میں فولانی اور فرانسیسی زبان میں بات چیت کر سکتا تھا.نیز میرے پاس کیمبین نیشنلیٹی تھی جس کی وجہ سے میں افریقہ کے ممالک میں بغیر ویزہ کے سفر کر سکتا تھا.حسب پروگرام ہماری کوناکری میں ملاقات ہونی تھی اور مکرم امیر صاحب سیرالیون نے ہی گنی کوناکری میں سب انتظامات کرنے تھے.300
ارض بلال.میری یادیں میں گیمبیا سے روانہ ہو کر کوناکری ایئر پورٹ پہنچ گیا.باہر نکلا، ہر طرف نگاہ دوڑائی مگر کوئی چہرہ شناسانظر نہ آیا.خیر سامان لیا اور ایک طرف کھڑا ہو گیا.شاید ابھی کوئی مہربان آجائے گا اور مجھے اپنے ساتھ کسی ٹھکانہ پر لے جائے گا.کافی انتظار کیا مگر بے سود! اب ایک طرف میں پریشان کھڑا تھا.کیونکہ یہ ایک چھوٹا سا ایئر پورٹ تھا اور جہاز بھی کبھی کبھا رہی ادھر آتے تھے.اس لئے وہی محدود سے کارکن اور کچھ ٹیکسیوں والے موجود تھے.آخر مایوس ہو کر میں نے کسی قریبی ہوٹل کے بارے میں لوگوں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ آجکل کوناکری میں دنیا بھر کے اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کا ایک سیمینار ہو رہا ہے اس لئے بہت سے ہوٹل ان کے لئے ریزرو ہیں.اس کے علاوہ کوناکری شہر میں ایک عالمی تجارتی میلہ بھی لگا ہوا ہے.جس کی وجہ سے دنیا بھر سے تاجر صاحبان صنعت کار اور دیگر متعلقہ شعبوں کے لوگوں نے باقی ہوٹلوں پر قبضہ کر رکھا ہے.اس لئے کسی ہوٹل کا ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے.ایک ٹیکسی والے نے مجھے بتایا کے اسے ایک ہوٹل کا علم ہے جس میں کمرہ ملنے کا امکان ہے.میں اس کے ساتھ اس ہوٹل میں پہنچا.یہ ایک درمیانہ سا ہوٹل تھالیکن اس کا کرایہ موجودہ صورت حال کی وجہ سے اچھے ہوٹل سے بھی زیادہ تھا.میں نے سوچا کہ پہلے چائے پیتا ہوں اور حالات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرتا ہوں.میں نے چائے کا آرڈر دیا اور ابھی چائے کے انتظار میں تھا کہ میں نے کسی وجہ سے اپنا سامان کھولا.اس میں مجھے ایک اپنی چھوٹی سی ڈائری نظر آئی.میں نے ڈائری کھولی تو مجھے اس میں ایک فون نمبر نظر آیا جو گنی کو نا کری میں کسی سعید صاحب کا تھا.میں اس آدمی کو نہیں جانتا تھا.بہر حال میں نے اس نمبر پر ڈائل کر دیا.دوسری طرف سے کسی نے اٹھا لیا.میں نے اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے بتایا کہ میں سعید بول رہا ہوں اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امیر صاحب سیرالیون نے آنا تھا لیکن انہیں گنی کو نا کری کا ویزہ نہیں مل سکا ، اس لئے نہیں آسکے.301
ارض بلال- میری یادیں میں نے انہیں بتایا کہ فلاں ہوٹل کے ریستوراں میں ہوں.کہنے لگے آپ نے ہوٹل میں کمرہ نہیں لینا.ابھی تھوڑی دیر میں میرا ملازم آپ کے پاس آ رہا ہے.آپ اس کے ساتھ میرے پاس آجائیں.میں ابھی چائے پی رہا تھا کہ ان کا بھیجا ہوا آدمی پہنچ گیا اور مجھے سیدھا ان کی فیکٹری میں لے گیا.سعید صاحب سے ملاقات ہوئی.بڑے اخلاق سے پیش آئے.ان سے مل کر علم ہوا کہ چند سال پہلے ڈاکار میں عالمی تجارتی میلہ میں ان کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی.تھوڑی دیر کے بعد سعید صاحب مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے.گھر ماشاء اللہ بہت بڑا تھا.میرے لئے انہوں نے ایک خاص کمرہ تیار کر دیا جس میں ساری مناسب سہولیات تھیں اور پھر مجھے کہا کہ آپ جہاں چاہیں دن کو جائیں، مگر کھانے کے وقت آپ نے میرے گھر آ کر کھانا کھانا ہے.اس کے بعد انہوں نے اپنی کار کی ٹینکی پٹرول سے بھر وائی اور ڈرائیور سمیت مجھے دے دی اور کہا کہ جب تک آپ کو نا کری میں ہیں، یہ گاڑی مع ڈرائیور کے آپ کے پاس رہے گی.آپ جہاں بھی جانا چاہیں اس پر جاسکتے ہیں.پھر تقریباً دس روز تک میں کوناکری میں رہا اور سعید ہو درج نے جس طرح خلوص اور پیار کا سلوک میرے ساتھ کیا اسے میں کبھی بھی نہیں بھلا سکتا.میں حیران تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے غیب سے میری مدد اور نصرت فرمائی.پھر میرے لئے جہاں تک ممکن ہو ا جماعتی پیغام لوگوں تک پہنچایا.کوناکری میں دو مقامات پر احمدی تھے، ان کے پاس بھی گئے اور اسی طرح سعید صاحب کے ہمراہ مختلف سرکاری دفاتر میں بھی تبلیغ کے لئے جانے کا موقع ملا اور بعض معززین کولٹریچر پیش کیا.سعید ہو درج صاحب لبنانی النسل ہیں اور سیرالیون کے رہنے والے ہیں.ان کی والدہ افریقن اور والد لبنانی ہیں.ان کے والد محترم مولانا نذیر احمد علی صاحب کے زمانہ میں احمدیت میں داخل ہوئے تھے.ان کا سیرالیون میں بڑا کاروبار ہے.انہی دنوں میں انہوں نے کوناکری میں بھی اپنے کام کا آغاز کیا تھا.302
ارض بلال.میری یادیں حفاظت خداوندی-طیارہ بخیریت مطار پر پہنچ گیا گنی کوناکری سے واپسی پر حسب پروگرام گیمبیا ایئر ویز کے طیارہ میں سوار ہوئے.طیارہ حسب معمول ضروری کارروائی کے بعد روانہ ہوا.جو نہی فضا میں بلند ہوا تقریباً پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ جہاز میں فنی خرابی کے باعث ہم لوگ واپس گئی کنا کری جارہے ہیں.کچھ دیر بعد جہاز واپس بخیر و خوبی ایئر پورٹ پر تھا.جب سواریاں باہرنکلیں تو سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں کیونکہ جہاز کے ایک ونگ میں کم از کم دوفٹ چوڑا سوراخ بنا ہو اتھا.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ جہاز اپنی اڑان کے دوران ایک پرندے سے ٹکرایا ہے.اگر جہاز کچھ اور دور چلا جاتا تو پھر قریب قریب کوئی ایئر پورٹ نہ تھا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے سب سواریوں کی حفاظت فرمائی.پولیس کی طرف سے وارنٹ اور نصرت الہی میں اپنی فیملی کے ساتھ ڈاکار میں رہائش پذیر تھا.ایک روز میں کسی کام کی غرض سے گھر سے باہر گیا ہوا تھا.جب کام سے فارغ ہو کر واپس اپنے گھر آیا تو گھر پر موجود ایک معلم نے بتایا کہ ایک پولیس کا آدمی آپ کو ملنے کے لئے آیا تھا.اس کے پاس آپ کے نام ایک خط تھا اور اس نے وہ خط آپ کو پہنچانے کے لئے ہمیں دیا ہے.میں نے ان سے خط لے کر جب پڑھا تو معلوم ہوا کہ پولیس کے دفتر سے یہ خط آیا ہے اور جس میں مجھے پولیس کے دفتر میں حاضر ہونے کا حکم ہے.جب میں نے خط پڑھا تو خاصی پریشانی ہوئی.ایک تو میری فیملی کے پاس سینیگال کا ویزہ نہیں تھا، جماعتی مخالفت بھی تھی.اس طرح دل و دماغ میں بہت سے خیالات نے جنم لینا شروع کر دیا.میں نے اپنے ایک دوست جو انسپکٹر پولیس تھے جن کا نام مکرم عمر جوب صاحب تھا، انہیں فون کیا اور انہیں اس خط کے بارے میں بتایا.خط کا مضمون اور ادارہ کا نام سن کر انہوں نے بتایا کہ 303
ارض بلال- میری یادیں یہ خط اس ادارہ سے ہے جو قتل اور دہشت گردی کے امور سے متعلق ہے.اس لئے کوئی امر خاصا تشویش ناک ہے.میں نے انہیں کہا اگر آپ کا کوئی شناسا اس ادارہ میں ہو تو اس سے کچھ معلومات تو حاصل کریں تا کہ اس کے مطابق کوئی انتظام کیا جائے.میں نے فوری طور پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع ” کی خدمت میں فیکس بھجوا دی.جس میں ساری تفصیل اور خدشات تحریر کیسے اور دعا کی عاجزانہ درخواست بھی کی.میں نے اپنے ساتھی معلمین کو کسی بھی ناخوشگوار حادثہ یا صورت حال سے نمٹنے کے لئے ضروری باتیں عرض کر دیں.میں نے اپنی فیملی کو اس صورت حال سے آگاہ نہیں کیا تا کہ وہ زیادہ پریشان نہ ہوں.خود بھی دعا کی اور حضور انور کی خدمت میں بھی درخواست دُعا کر دی.حسب ہدایت مقررہ وقت پر پولیس ہیڈ کواٹرز میں پہنچ کر متعلقہ دفتر پہنچا.معلوم ہوا کہ انچارج انسپکٹر صاحب مصروف ہیں، باہر گیلری میں انتظار کریں.یہ میری زندگی کا پہلا موقعہ تھا کہ پولیس کے حکم کے تحت تھانہ میں حاضر ہوا تھا پھر وہ بھی پردیس میں.مزید برآں سینیگال میں جماعت کے لئے کام کر رہا تھا جبکہ جماعت کی رجسٹریشن نہ تھی.پھر میری فیملی بھی بغیر ویزہ کے ادھر مقیم تھی.اب ایسی کیفیت میں میرے دل و دماغ کی جو صورت حال ہوگی اس کا اندازہ آپ بھی کر سکتے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد ایک سپاہی نے مجھے دفتر کے اندر آنے کے لئے اشارہ کیا.میں دھڑکتے دل اور دعاؤں کے ساتھ کمرے کی طرف بڑھا.جیسے میں دفتر میں داخل ہوا میں نے دیکھا کہ ایک پولیس آفیسر ایک کرسی پر براجمان ہے اور اس کے علاوہ ایک عورت اور ایک مرد بھی اس کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں.پولیس آفیسر مجھے دیکھ کر کھڑا ہو گیا اور مجھے بڑے تپاک سے گلے ملا.دراصل یہ پولیس انسپکٹر گیمبیا اور سینیگال کے بارڈر پر بطور انچارج متعین تھا.میری رہائش بھی اس بارڈر کے بالکل قریب گیمبیا میں فرافینی کے مقام پر تھی.یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا.یہاں سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے 304
ارض بلال- میری یادیں ) تھے.میرے بھی اس پولیس انسپکٹر سے بہت اچھے فیملی مراسم تھے.گھروں میں آنا جانا تھا، تحالف کا بھی تبادلہ ہوتا رہتا تھا.انسپکٹر صاحب نے سوچا میں شاید انہیں ویسے ہی ملنے کے لئے آیا ہوں.کہنے لگے ڈا کار کب آئے.اہل خانہ کی خیریت دریافت کی.میں نے انہیں بتایا کہ مجھے تو آپ کے دفتر والوں نے یہاں پر حاضر ہونے کا ارشاد فرمایا ہے اور میں اس کی تعمیل میں یہاں حاضر ہوں.بڑے حیران ہوئے.پھر انہوں نے مجھے پوچھا کہ کیا آپ اس مرد اور عورت کو جانتے ہیں؟ میں نے نفی میں سر ہلایا.اس پر وہ ان کو مخاطب ہوکر کہنے لگے.یہ تو جماعت احمدیہ کا مشنری ہے اور میں اسے دس سال سے اچھی طرح جانتا ہوں آپ کو کوئی غلط نہیں ہوئی ہے.اس پر اس نے مجھے بتایا کہ ان کا ایک عزیز نو جوان جو میرے مکان کے قریب ہی رہائش پذیر تھا کافی دنوں سے کہیں لا پتہ ہو گیا ہے.اس کے بارہ میں تلاش جاری ہے.محلے دار ہونے کے ناطے سے اس نوجوان سے میری قدرے شناسائی تھی اور کبھی کبھار مجھے ملنے بھی آجاتا تھا.یہ ایک عیسائی فیملی تھی جس کا تعلق کسی ہمسایہ ملک سے تھا.اور اس نو جوان کے والد بینک میں ملازم تھے.اس فیملی کا یہ خیال تھا کہ میں فلسطین سے ہوں.یہاں پر جنگلات میں شاید میرے فدائی کیمپ ہیں اور میں نوجوانوں کو ورغلا کر باہر کسی کیمپ میں لے جاتا ہوں.انہیں جنگی تربیت دے کر عرب ممالک میں نام نہاد جہاد پر بھیج دیتا ہوں.انسپکٹر صاحب نے انہیں میرے بارہ میں بتایا کہ یہ آدمی فلسطینی نہیں ہے بلکہ پاکستان کا رہنے والا اور میں اس کو طویل عرصہ سے جانتا ہوں اس لئے آپ کو غلط نہی ہوئی ہے.اس پر ان دونوں نے مجھ سے معذرت کی اور انسپکٹر صاحب نے بھی مجھے اس طرح دفتر میں بلائے جانے پر افسوس اور معذرت کی.اس طرح میرے خدا تعالیٰ نے غیب سے میرے لئے تائیدی سامان پیدا فرما دیئے.اگر کوئی اور انسپکٹر ہوتا تو نہ جانے بغیر تحقیق کے ہی بند کر دیتا اور 305
ارض بلال.میری یادیں جماعتی لحاظ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا.عمر جوب ( پولیس انسپکٹر ) ایک فرشتہ کے روپ میں 2 1977ء کی بات ہے.گیمبیا کی بعض سرکردہ شخصیات نے جماعت دشمن طاقتوں کے ایماء پر جماعت کی شدید مخالفت شروع کر دی.حالات کافی حد تک تشویش ناک صورت اختیار کر گئے.اس صورت حال میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ” نے سب مرکزی کارکنان کو گیمبیا سے چلے جانے کا ارشاد فرمایا.جس کی تعمیل میں سب مرکزی کارکنان سلسلہ گیمبیا سے تشریف لے گئے.ان دنوں خاکسارا اپنی فیملی کے ہمراہ مرکز کی اجازت سے پاکستان رخصت پر گیا ہوا تھا.یہ رخصت مرکزی کارکنان کو ہر پانچ سال کے بعد ملتی ہے.ابھی میری رخصت مکمل نہ ہوئی تھی کہ مجھے مرکز سے فوری واپس گیمبیا جانے کے لئے ارشاد ملا.( میرے پاس گیمبین نیشنلی تھی ) تعمیل ارشاد کی.پاکستان سے لندن پہنچا.حضور انور کی زیارت کی اور گیمبیا روانہ ہو گیا.ان دنوں گیمبیا میں کوئی بھی پاکستانی احمدی دوست نہ تھے جیسا کہ میں نے پہلے عرض کی ہے کہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر سب لوگ واپس بلا لیے گئے تھے.میں نے گیمبیا میں ایک ہفتہ تک قیام کیا اور اس کے بعد سینیگال چلا گیا.اس سے قبل خاکسار شروع سے ہی بعض قانونی مشکلات کی بنا پر اپنی فیملی کے ساتھ گیمبیا میں رہائش پذیر تھا.ادھر سے ہی سینیگال میں تبلیغ و تربیت کا فریضہ سرانجام دیتا تھا.خیر سینیگال پہنچا.وہاں جا کر ڈاکار میں ایک مکان کرایہ پر لیا.چند سینی گالی معلمین کے تعاون سے آہستہ آہستہ حکمت عملی کے ساتھ اپنا تبلیغی و تربیتی کام شروع کر دیا.اب میں سینی گال میں تھا فیملی ربوہ میں تھی.میں نے ایک گیمبین وزیر صاحب جو کسی کام کی غرض سے سینیگال آئے ہوئے تھے اور ایک ہوٹل میں مقیم تھے، ان سے ہوٹل میں جا کر ملاقات کی.مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی.دوران گفتگووزیر موصوف نے کہا کہ اگر مجھے کسی بھی کام کے لئے ان 306
ارض بلال.میری یادیں ) کی ضرورت ہو تو وہ بخوشی حاضر ہیں.ملاقات کے بعد خاکسار واپس اپنے گھر آ گیا.ایک دفعہ میں نے وزیر موصوف کو گیمبیا فون کیا.علیک سلیک کے بعد میں نے انہیں کہا کہ میں ایک گیمبین شہری ہوں.آجکل میری فیملی پاکستان میں ہے اور ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹس ہیں.مجھے ان کے لئے گیمبیا کے ویزہ کی ضرورت ہے تا کہ وہ میرے پاس آسکیں.وزیر صاحب نے کہا کہ آپ جب بھی چاہیں میرے دفتر میں آجائیں.میں اسی روز آپ کی فیملی کے لئے ویزے کا انتظام کر دوں گا.اس بات چیت کے چند روز بعد میں گیمبیا کوروانہ ہو گیا.مکرم وزیر موصوف کے دفتر پہنچا.وزیر صاحب بڑے تپاک سے ملے.اسی دوران انہوں نے اپنے سیکرٹری کو بلا یا اور میری طرف اشارہ کر کے بتایا کہ ان کا کام فوری کرنا ہے.جب تک ان کا کام مکمل نہ ہوگا یہ میرے دفتر میں ہی رہیں گے.اس تاکیدی حکم کے بعد سیکرٹری صاحب نے کمال پھرتی سے میری فیملی کے ویزے تیار کر کے خاکسار کو دے دیئے.عام حالات میں اس کام کے لیے کئی مہینے درکار ہوتے ہیں.فجز اھم اللہ.میں نے کاغذات لئے اور واپس سینیگال کا رخ کیا.حضور انور کی خدمت میں ویزے ملنے کی تفصیل عرض کر دی.حضور نے فرمایا کہ اب فیملی کو اپنے پاس بلا لیں.میں اب سینیگال میں شفٹ ہو چکا تھا.سینیگال کا پاکستانیوں کے لئے ویزہ ملنا ایسا ہی مشکل اور دشوار ہے جیسے کسی غریب قوم کے لئے امریکہ کا ویزہ.اس لئے میری فیملی کے لئے سینیگال کا ویزہ ملنا بظاہر نا ممکنات میں سے تھا.اس لئے اب نئی پریشانی شروع ہوگئی کہ اگر فیملی ادھر آتی ہے اور وہ گیمبیا میں رہتی ہے.گیمبیا میں کوئی بھی پاکستانی احمدی فیملی نہیں ہے اور میں سینیگال میں ہوں گا تو پھر بچوں کی دیکھ بھال، بچوں کی تعلیم و تربیت اور دیگر بہت سے مسائل ہیں، جن کے لئے میرا فیملی کے ساتھ رہنا بہت ضروری تھا.اس سلسلہ میں خاصی پریشانی تھی.سینیگال میں فیملی کے پاس ویزہ نہ ہونے کے باعث وہ ادھر نہیں رہ سکتی تھی اور میں اپنے مفوضہ فرائض کی وجہ سے گیمبیا میں نہیں رہ سکتا تھا.307
ارض بلال.میری یادیں ) اس دوران فیملی ربوہ سے روانہ ہو کر کراچی پہنچ گئی.کراچی سے فیملی نے ایتھوپیا ایئر لائن کے ذریعہ ایک طویل روٹ لیکر پہلے سینیگال آنا تھا.پھر ایئر پورٹ سے ہی ایک دوسرا جہاز لے کر گیمبیا روانہ ہو جانا تھا.اب ادھر گیمبیا کے احباب جماعت نے ہی انہیں ریسیو کرنا تھا اور رہائش وغیرہ کا انتظام کرنا تھا.اس کیفیت میں میں سخت پریشان تھا.کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا.فیملی اب کراچی میں تھی.چند دن بعد انہوں نے سینیگال کے ڈاکار ایئر پورٹ پر پہنچنا تھا اور مجھے ملے بغیر آگے گیمبیا کوروانہ ہو جانا تھا.اسی کشمکش میں تھا کہ مجھے اچانک کسی ضروری کام کی غرض سے شہر جانا پڑ گیا.ایک بازار سے گزر رہا تھا کہ کسی شخص نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا.میں نے واپس مڑ کر دیکھا تو یہ میرے ایک پرانے سینیگالی دوست مکرم عمر جوب صاحب تھے جو پولیس انسپکٹر تھے.کئی سال سے گیمبیا سینیگال کے بارڈر پر بطور انچارج متعین تھے.میری رہائش بھی ان دنوں اس سے قریبی شہر فرافینی میں تھی.اس لئے ان کے ساتھ میرے بڑے اچھے دوستانہ مراسم تھے.مجھے کہنے لگے، استاذ آپ کب ڈاکار آئے ہیں؟ میں نے بتایا میں تو اب ڈاکار میں ہی آگیا ہوں.بڑے خوش ہوئے.ان کے ساتھ ایک اور انسپکٹر پولیس بھی تھے.ان کے ساتھ بھی میرا تعارف کرایا اور کہنے لگے مجھے اس وقت بڑی جلدی ہے.ہم ایک ضروری کیس کے لئے جار ہے ہیں.اسی دوران اس نے اپنا وزٹنگ کارڈ میرے ہاتھ میں تھما دیا.اور کہا اگر کوئی ضرورت ہو تو ضرور رابطہ کرنا.اس اچانک اور اتفاقی ملاقات کے بعد وہ جلدی سے اپنے مشن کو روانہ ہو گئے.میں بھی اپنے کام سے فارغ ہو کر واپس گھر آ گیا.اب وہی فیملی والا مسئلہ دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا.کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا.پھر اچانک مجھے عمر جوب کا خیال ذہن میں آیا.کیوں نہ اسے اس مسئلہ کے بارہ میں بتایا جائے شاید وہ اس مشکل کا کوئی حل نکال لے.میں نے اس کے وزٹنگ کارڈ پر دیئے گئے فون نمبر پر اس سے رابطہ کیا.الحمد للہ رابطہ ہو گیا.اسے میں نے اپنے گھر آنے کے لئے 308
ارض بلال- میری یادیں ) درخواست کی اور اسے بتایا کہ مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے.اسی روز شام کے قریب وہ میرے گھر آ گیا.اسے میں نے بتایا کہ مجھے اپنی فیملی کے لئے کل ہی سینیگال کا ویزہ چاہیے اور اس کے پاس ساری کیفیت بیان کی.کہنے لگا کہ پاکستانیوں کے لئے ویزہ ملنا بہت مشکل کام ہے.بہر حال میں کوشش کرتا ہوں.مجھے علم تھا کہ اس کے وزارت داخلہ میں بہت اچھے تعلقات ہیں.اللہ تعالیٰ اسے بہت بہت جزائے خیر عطا فرمائے.نہ جانے کس طرح اس نے اگلے روز شام تک میری فیملی کے لئے وزٹ ویزہ کا انتظام کر لیا.اگلے روز میری فیملی نے ڈاکار پہنچنا تھا.عمر جوب صاحب خود میرے ساتھ ایئر پورٹ پر آگئے.جہاز تک چلے گئے اور میری فیملی کو ساتھ لیا.امیگریشن کی کارروائی مکمل کروا کر میرے پاس آئے اور کہا استاذ آپ کی فیملی آپ کے پاس پہنچ گئی ہے.اب مجھے اجازت چاہیے.آج تک میں اللہ تعالی کی غیبی امداد، غمگساری اور دلجوئی کے اس حیران کن واقعہ پر اس کی ذات بابرکات کا ممنون اور شکر گزار ہوں.309
ارض بلال.میری یادیں.....باب هشت ده.....]..)] مصنف کی ذاتی زندگی سے چند واقعات خاکسار اور وقف زندگی والدہ صاحبہ بتایا کرتی تھیں کہ میں شاید دو سال کا تھا.ایک روز سخت بیمار ہوگیا.بیماری کا حملہ اتنا شدید تھا کہ لگتا تھا کہ بس آخری وقت آ گیا ہے.گھر پر والدہ محترمہ اکیلی تھیں.والد صاحب اور دادا جان کھیتوں پر تھے.والدہ صاحبہ نے محلے سے ایک آدمی کو والد صاحب کے پاس باہر زمینوں پر پیغام دے کر بھجوایا کہ جلدی گھر آجائیں ، بچے کی طبیعت بہت ناساز اور مخدوش ہے.خیر والد صاحب اور دادا جان جلدی سے گھر آگئے.میری کیفیت خاصی مایوسی اور پریشان کن تھی.دادا جان حضرت مسیح پاک کے صحابی تھے.بہت دُعا گو ہستی تھے.نیکی ،تقوی میں ان کا بڑا نام تھا.انہوں نے میری والدہ صاحبہ اور والد صاحب سے فرمایا کہ اگر آپ اس بچہ کی زندگی چاہتے ہیں تو اس بچہ کو آپ اللہ تعالی کے رستہ میں وقف کر دیں.اللہ تعالی خود ہی اس کی صحت کے انتظامات فرمادے گا.اس پر دونوں میاں بیوی نے باہم عہد کر لیا کہ ہم اس بچہ کو خدا تعالی کی راہ میں وقف کر دیں گے.پھر خدا تعالی کے فضل سے انہوں نے اس عہد کو باوجود نا مساعد حالات و مشکلات کے نبھایا.فجزاهم الله احسن الجزاء مسبب الاسباب نے اپنے حضور سے شفا کے سامان پیدا فرما دیئے اللہ تعالیٰ کا ایسا کرنا ہؤا کہ دادا جان کسی کام کی غرض سے گھر سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے ایک قریبی گاؤں عالم گڑھ کے ایک حکیم صاحب جن کا نام خدا بخش تھا، گھوڑی پر سوار ہماری گلی میں سے گزر رہے ہیں.جب دادا جان کے قریب پہنچے حکیم صاحب نے دادا جان کو سلام کیا اور 310
ارض بلال.میری یادیں حال احوال پوچھا.دادا جان نے کہا، میں تو ٹھیک ہوں لیکن میرا پوتا کافی بیمار ہے.ذرا اسے دیکھ لیں تو مہربانی ہوگی.حکیم صاحب ہمارے گھر تشریف لائے اور مجھے دیکھا اور پھر کسی سفوف کی چند پڑیاں والدہ محترمہ کو تھما دیں.اس دوائی نے جادو کی طرح اثر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے میں بالکل صحیح ہو گیا.آپ نے خدا کے ساتھ اپنا کیا ہو ا عہد پورا کر دیا والدین نے مجھے بچپن میں ہی وقف کر دیا تھا.میں اپنے سب بہن بھائیوں میں عمر میں بڑا ہوں.میرا چھوٹا بھائی مجھ سے دس سال چھوٹا ہے.جب میں نے میٹرک کیا تو ان دنوں میرے والد صاحب کھیتی باڑی کرتے تھے.ہمارے وسائل بہت محدود تھے.گھر میں تنگ دستی تھی.پھر اتفاق سے جانوروں میں کچھ ایسی بیماری پڑی کہ ہمارے کچھ جانور بھی مر گئے.جس سے گھر میں سخت پریشانی کی حالت تھی.اب میرا جامعہ جانے کا پروگرام تھا.ان موجودہ حالات کے پیش نظر میرے بعض عزیزوں نے از راہ ہمدردی میرے والدین سے کہا کہ تمہارے بیٹے نے اب میٹرک کر لیا ہے.اب جوان ہو گیا ہے، اسے کسی مناسب کام پر لگائیں جس سے آپ کے حالات کچھ سنبھل جائیں گے.کیونکہ آپ کی مالی حالت آجکل بڑی مخدوش ہے.اس سے آپ کی کچھ مدد ہو جائے گی.ہاں اگر کسی بچہ کو ضرور جامعہ بھجوانا ہے تو چھوٹے بیٹوں میں سے کسی کو بھجوا دینا.والدہ محترمہ یہ سن کر اس عزیز سے سخت ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں، دیکھو! اگر یہ میرا بیٹا مر جائے تو پھر میری مدد کون کرے گا؟ اس لئے میں نے اپنے اس بیٹے کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے، میں یہ ضرور پورا کروں گی.اور مجھے جامعہ میں بھیج کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کر دیا.311
ارض بلال.میری یادیں وقف کی برکت سے تنگدستی کشائش میں بدل گئی جس سال میں جامعہ میں داخلہ کے لئے ربوہ گیا ہمارے گھر یلو مالی حالات سخت مخدوش تھے.والد صاحب حسب سابق تھوڑی بہت زمین داری کر رہے تھے.چند ماہ بعد جامعہ میں کچھ تعطیلات تھیں اس لئے میں گاؤں چلا گیا.سب اہل خانہ بہت خوش ہوئے.ہمارے ایک احمدی ہمسائے مکرم سید بشیر احمد شاہ صاحب پولیس میں تھے اور ان کی تقرری گجرانوالہ شہر میں تھی.گجرانوالہ میں ایک احمدی دوست مکرم ملک مظفر احمد صاحب کے پاس شیزان کی ایجنسی تھی.انہوں نے بتایا کہ مجھے ایک قابل اعتبار آدمی کی ضرورت ہے جو میرے کام کی دیکھ بھال کر سکے.شاہ صاحب نے بتایا ، میرے ایک دوست مکرم بشارت احمد صاحب ہیں ، جو ایک مخلص احمدی ہیں لکھنا پڑھنا جانتے ہیں اور مجھے یقین کامل ہے کہ وہ اس کام کو بخوبی سنبھال لیں گے.مکرم والد صاحب فرقان فورس میں رہ چکے تھے اردو کے علاوہ کسی حد تک انگلش سے بھی شناسائی تھی.فرقان فورس کے بعد کافی عرصہ تک سندھ میں ٹھیکہ داری کرتے رہے.کاروبار میں بعض بڑے نقصانات کے بعد واپس گھر آگئے تھے.پھر ادھر آ کر کاشتکاری شروع کر دی تھی.مکرم ملک صاحب نے شاہ صاحب کو فرمایا ، بشارت احمد صاحب کو کسی دن انٹرویو کے لئے بلا لیں.والد صاحب صرف مقررہ دن گوجرانوالہ تشریف لے گئے.خدا تعالی کی طرف سے دلجوئی گرمی کا موسم تھا.میں نے دوپہر کا کھانا کھایا اور سو گیا.اس دوران میں نے خواب دیکھا کہ والد صاحب گھر میں مسکراتے ہوئے داخل ہورہے ہیں.والدہ صاحبہ نے پوچھا، کام کا کیا بنا ہے؟ والد صاحب نے بتایا کہ انٹر ویو تو ہو گیا ہے اور انہوں نے بتایا ہے کہ وہ بعد میں اطلاع کر دیں گے.اس پر میری آنکھ کھل گئی.مجھے سارا خواب یا دکھا ، میں نے والدہ صاحبہ کو بتایا کہ اس طرح میں نے ایک خواب دیکھا ہے.غروب شمس سے کچھ دیر پہلے مکرم والد صاحب گھر تشریف لائے.لبوں 312
ارض بلال- میری یادیں ) پر وہی مسکراہٹ تھی اور جس طرح میں نے خواب میں دیکھا تھا.بعینہ وہ سارا واقعہ پیش آیا تھا.ہم سب حیران ہو گئے.ان دنوں فون وغیرہ کی سہولت تو نا پید تھی.اس لئے چند روز بعد شاہ صاحب کے ذریعہ پیغام ملا کہ آپ فلاں روز کام کے لئے حاضر ہو جائیں.والد صاحب کام پر حاضر ہو گئے.تھوڑے ہی عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملک صاحب نے آپ کی تنخواہ میں ایک معقول اضافہ کر دیا اور خدا تعالیٰ کے احسانات کی ایسی بارش ہوئی کہ ہمارے مالی حالات بہت تیزی سے بدلنا شروع ہوئے.پہلے ایک بھائی بیرون پاکستان چلے گئے.پھر والد صاحب بھی بحرین چلے گئے پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا خاندان ہی دنیا بھر کے مختلف ممالک میں پھیل گیا.فالحمد لله على ذلك ”اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما - دوفرشتہ سیرت بزرگ خاکسارجب جامعہ احمدیہ درجہ ثانیہ کا طالب علم تھا تو ایک مرتبہ بہت بیمار ہو گیا.پہلے تو ربوہ سے مختلف ڈاکٹرز و حکماء سے علاج کیا گیا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق کوئی افاقہ نہ ہوا.اس طرح پرنسپل صاحب سے رخصت حاصل کی تاکہ اپنے آبائی گاؤں جا کر والدین کے پاس رہوں اور علاج وغیرہ کراؤں.گجرات شہر کے بعض ڈاکٹر ز صاحبان سے علاج کرایا گیا.مگر نتیجہ وہی رہا.مرض بڑھتا گیا اور جسمانی طور پر سخت کمزوری ہوگئی.بدن بہت لاغر ہو گیا جس کے باعث والدین سخت پریشان تھے.ایک روز مکرم محمد دین صاحب مربی سلسلہ جوان دنوں گجرات شہر میں بطور مربی تعینات تھے ، ہمارے گاؤں تشریف لائے.خاکسار کے چونکہ پرانے ملنے والے تھے اور جامعہ کے حوالہ سے بھی ایک تعلق تھا.مجھے دیکھ کر بہت پریشان ہو گئے اور فرمانے لگے کہ ابھی تیار ہو جاؤ میں تمہیں جہلم بھجوا رہا ہوں.ان دنوں مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب جہلم ہسپتال کے انچارج تھے.آپ 313
ارض بلال- میری یادیں ) نے ایک رقعہ انکے نام لکھا.جس میں میرا تعارف کرایا اور جہلم بھجوانے کی غرض بیان فرمائی.اگلے روز میں جہلم کے سرکاری ہسپتال میں پہنچ گیا.مکرم ڈاکٹر صاحب کے دفتر کا پوچھ کر وہاں پہنچ گیا.دربان نے اند جانے سے روکا تو میں نے دربان کو وہ خط دیا اور کہا کہ از راہ کرم ڈاکٹر صاحب کو پہنچا دیں.ڈاکٹر صاحب نے فوراً اندر بلا لیا.بڑے پیار اور شفقت سے پیش آئے.ایک اہلکار کو بلا کر اس کو میرے بارہ میں ہدایات دیں کہ فوراً اس نوجوان کو ہسپتال میں داخل کر لیں اور فلاں فلاں ٹیسٹ لے کر فوری رپورٹ کریں.خاکسارصرف چیک اپ کی غرض سے ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا تھا.خیال تھا کہ دو دن کے بعد واپس گھر آ جاؤں گا.یہ بات ڈاکٹر صاحب کو عرض کی کہ اجازت دیں میں گھر جا کر کسی عزیز کو ساتھ لے آؤں جو میری دیکھ بھال کرے گا، نیز اپنے والدین کو ساری صورت حال سے بھی آگاہ کر دوں گا.ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کسی ذریعہ سے اپنے گھر اطلاع کر دیں کہ میں ہسپتال میں داخل ہو گیا ہوں اور کسی کو ساتھ لانے کی ضرورت نہیں.فرمایا یہاں پر میں تمہارا سب کچھ ہوں.میں تمہاری دیکھ بھال کروں گا.تمہارا کھانا میرے گھر سے نوکر لے کر آیا کرے گا.اگر دل چاہے تو گھر پر آکر کھانا کھالیا کریں.خیر ڈاکٹر صاحب کے اس حسن سلوک، پیار و محبت جس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے، نے مجھے وہاں روک لیا.دس روز تک خصوصی علاج کیا گیا ، چیک اپ روزانہ کیا جاتا.کئی بار ٹیسٹ لیے گئے.دوائیاں وافر دی گئیں.خوراک بہت اچھی مل رہی تھی جو ڈاکٹر صاحب کے گھر سے آتی تھی اس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور ڈاکٹر صاحب کی محنت اور کوشش نے بیماری میں خاصی کمی کر دی.ایک روز ایک دوسرے ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب کیا آپ کے کوئی قریبی عزیز ہیں جو اس قدر آپ کا خیال رکھتے ہیں.میں نے عرض کی کہ ہاں بہت بڑا 314
ارض بلال.میری یادیں رشتہ ہے جو عام رشتوں سے بہت بالا ہے.اس طرح ان دو فرشتہ سیرت بزرگوں کی ہمدردی و رہنمائی اور کوشش سے اللہ تعالیٰ نے صحت عطا فرمائی اور تقریباً دوماہ کے علاج کے بعد میں بالکل صحیح ہو گیا.الحمد للہ اس دوران سوائے کرایہ کے میرے کوئی اخراجات نہیں ہوئے.راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو خاکسار 1983 سے لیکر 2008 تک لگاتار گیمبیا اور سینیگال وغیرہ میں ہی رہا.پردیس میں گزرے ہوئے ان پچیس سال سے زائد عرصہ میں مجھے اپنے خاندان کی کسی بھی شادی کی تقریب میں شرکت کا موقع نہیں ملا.ظاہر ہے کا ئنات میں موت وحیات کا سلسلہ جاری وساری ہے.اس عرصہ میں میرے والدین، میری اہلیہ محترمہ کے والدین اور ان کے علاوہ ہمارے خاندان کے بہت سے بزرگ ، جماعت کے بزرگ اور کئی دوست احباب اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے.ہم ان کے جنازوں میں شریک نہیں ہو سکے.والدہ محترمہ کی وفات کا دلخراش حادثہ 1997ء میں رخصت پر پاکستان گیا ہوا تھا ( یہ وہ ایام تھے جب گیمبیا سے مرکزی کارکنان کو ہجرت کرنی پڑی تھی) ان دنوں میرے والدین جرمنی میں تھے.چند ماہ بعد حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے ارشاد پر خاکسار کو فوری طور پر گیمبیا پہنچنے کا ارشاد ہوا جس کی تعمیل میں واپس گیمبیا آ گیا اور میری آمد کے تھوڑے عرصہ بعد ہی والدین بھی پاکستان آگئے.اس طرح ان سے ملاقات نہ ہوسکی.پاکستان آمد کے چند ماہ بعد ہی والدہ محترمہ اللہ کو پیاری ہوگئیں.انا للہ وانا اليه راجعون.جس دن والدہ صاحبہ کا انتقال ہوا میں سینیگال کے شہر ڈاکار میں تھا.پاکستان کا ٹائم سینیگال سے پانچ گھنٹے آگے ہے.والدہ صاحبہ کی وفات صبح کے وقت ہوئی.سینیگال میں اس وقت نصف شب کے لمحات تھے.اس لئے جب مجھے ان کی اندوہناک وفات کا علم ہوا، اس وقت 315
ارض بلال- میری یادیں ) میں گھر میں اکیلا ہی تھا.میرے بیوی بچے انہی دنوں پاکستان سے گیمبیا آگئے تھے اور بعض مجبوریوں کی بنا پر وہ سینیگال نہیں آسکتے تھے اور اپنی ذمہ داری کی وجہ سے میں گیمبیا میں نہیں رہ سکتا تھا.اس لئے ان دنوں میں سینیگال میں اکیلا ہی تھا اور فیملی گیمبیا میں اکیلی تھی.جس کی وجہ سے پہلے ہی کافی پریشانی تھی.اب والدہ صاحبہ کی وفات نے تو پردیس میں ان حالات میں ہلا کر رکھ دیا.ساری رات میں اکیلے خود ہی روتا اور خود ہی اپنے آپ کو تسلی دیتا رہا.میرے ساتھ ایک معلم مکرم صالی جابی صاحب رہتے تھے.صبح کی نماز پر انہیں میں نے والدہ صاحبہ کی وفات کے بارہ میں بتایا.اس پر اہل محلہ اور احباب جماعت تشریف لے آئے.انہوں نے میرے دکھ اور غم میں میرا ساتھ دیا.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.316
ارض بلال- میری یادیں اختتامیه ہجوم مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا طریق از حضرت امام الزمان علیه السلام اک نہ اک دن پیش ہوگا تو فنا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے چھوڑنی ہوگی تجھے دنیائے فانی ایک دن ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے مستقل رہنا ہے لازم اے بشر تجھ کو سدا رنج و غم یاس و الم فکر و بلا کے سامنے و بارگاہ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشر کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے چاہیے نفرت بدی سے اور نیکی ایک دن جانا ہے تجھ کو بھی خدا کے سامنے راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے بھلا قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے سے پیار (در ثمین) 317
ارض بلال.میری یادیں دردمندانه التي خدایا رحم کن برمن، پریشاں وار می گردم خطا کارم گنهگارم، به حال زار می گردم اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں ، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں.آمین یا رب العلمین 318
ابتدائى مخلصین جماعت احمدیہ گیمبیا First Ahmadi.Mr.Mbara Njie Alh.Ibrahim jikini Alh.Sir Farman Singhateh GAMBIA Bro.As Malik Ndoy Bro.Alieu Bah Bro..Wali Joof Bro.Haroon Rashid
集 Bro.lamin Jawara Alh.Ibrahim Mbowe Bro.Sana Cham.Bro.Salif keita Bro.Muhammad Jane Bro.Alieu toury Bro Mamoor Bajane Bro Momdou Mby Imam arfang Trawally Imam Ismaila Toury Bro JunkunDrameh Bro.Omar sonko
Amirs & missionary Incharges حافظ بشیر الدین عبیدالله صاحب مولانا غلام احمد بدوملہی صاحب مولانا محمد شریف صاحب داؤد احمد حنیف صاحب فضل الہی انوری صاحب چوہدری عبدالشکور صاحب بابا ایف تراول صاحب عنائت الله زاہد صاحب خاکسار منور احمد خوشید
VISIT KHULAFA -E- KIRAM گیمبیا میں : حضرت خلیفۃ المسیح الثالث الحاج فرمان سنگھاٹے صاحب، مرزا مبارک احمد صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " گیمبیا میں امام بانجول سے محو گفتگو
حضرت خليفة المسيح الرابع حمہ اللہ مملکت گیمبیا داود جوارا گفتگو
لله الله حول الله * احمدیہ بیت السلام گیمبیا
LOCAL MISSIONARIES Oustaz Hamza sanalo Oustaz Alh.Ibrahim Jikini Oustaz Ismail trawaly Oustaz Yobi ba Oustaz Ousman ba Oustaz Isa joof Oustaz Abubakar Touray Oustaz Omar ba Oustaz Musa Ba Oustaz Dauda cham Oustaz Abdulla njie Oustaz Ibrahim ba
سینیگال میں ابتدائی احمدی Bro.Ahmad bah Oustaz Hamid mbaye TH ANNUAL RALLY OF KHUDDAM-UL-AHMADIYYA Early missionaries (From left to roght) Ahmad jallow.Alhaje janne.Munawar khurshid.Hamady gueye
Ahmadiyya Mosque, Baitul-Ahad, Senegal Ahmadiyya mosque, Misira لا اله الا الله محمد رسول الله Ahmadiyya mosque, kahil- bessil 14488
Prayers in Baitul- Ahad Nguch, Senegal wwwwww Tarbiyyati class, Dakar
Missionaries with Hazrat Amirul-momnin UK
01/01/2005 Scene of regional Jalsa, Kaolack, Senegal 95 1 5 H.E Rashid Ahmed, (Ambassador of Pakistan) during visit to Senegal
RHEIN-NECKAR-HOTEL 75 AURANT Ahmadi members of Parliament Senegal with mayor of Heidel berg: Jalsa Germny 1995
Ahmadi brothers in Lisbon Portugal Partidas Domácas C Ahmadi brothers in Praia Cape-Verde
Amir and missionaries in Senegal : 2015 Bro.Nasir Ahmad Sidhu.Amir Bro.Ahmad Bah Bro.Ahmad ly Bro.badra Sarr Bro.Alieu Faye Bro.Malick Gueey Bro.Amad jallow Bro.Shekhou sayang Bro.Hamady Gueye Bro.omar Jallo Bro.Ibrahim Aw Bro.Sunkrou Bodian Bro.Adama ba
Bro.dauda tamba Bro Tafsir Mara Bro.Wali Njaie Bro Bro,Aly Bah Bro.jbril faye Bro.Abdul Aziz faye Bro.Jibril jallow National Amila.2015