Arabi Zaban

Arabi Zaban

عربی زبان میں خداداد فصاحت و بلاغت کا عظیم الشان نشان

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا فصیح و بلیغ عربی زبان سیکھنے کا دعویٰ ، اس کے دلائل اور ممکنہ اعتراضات کا علمی ردّ


Book Content

Page 1

2.عربی زبان میں خداداد فصاحت و بلاغت کا عظیم الشان نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فصیح و بلیغ عربی زبان سیکھنے کا دعویٰ اس کے دلائل اور ممکنہ اعتراضات کا علمی رڈ محمد طاہر ندیم مربی سلسلہ عربک ڈیسک یو کے.2

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD عربی زبان میں خداداد فصاحت و بلاغت کا عظیم الشان نشان The Magnificent Sign of God-Given Eloquence and Articulacy in the Arabic Language Written by: Muhammad Tahir Nadeem First published in Urdu in the UK: 2021 Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey, GU9 9PS United Kingdom Printed in the UK at: Raqeem Press, Farnham Cover Designed by: Adeeba Tahir Бусо ISBN: 978-1-84880-706-8 2

Page 3

2 2

Page 4

Page 5

1 8 11 13 13 14 16 17 26 31 46 46 50 53 53 فہرست مضامین پیش لفظ تمہید حضور علیہ السلام کا عربی زبان میں کمال حاصل کرنے کا دعویٰ دعویٰ کا خلاصہ حضور علیہ السلام کا دعوی وسعت علمی اور اس کی تعریف کامل وسعت علمی کیا ہے ؟ عربی زبان پر ہریک پہلو سے قدرت معجزات انبیاء سے ہے عربی لغات کے علم کا دعویٰ اب سوال یہ ہے کہ یہ لغات کیا ہیں ؟ لغات عرب میں اختلاف کی صورتیں اور اس کے اسباب لغات عرب کی وضاحت کی اہمیت اور اس کے نتائج عربی زبان کی فصاحت کے بارے میں قاطع بیان حضور علیہ السلام کے موقف کی تائید صرف و نحو کی حقیقت 2

Page 6

99 66 111 91 68 80 69 60 70 76 823 82 63 64 66 2.حضور علیہ السلام کی عربی تحریرات پر ممکنہ اعتراضات، ان کے مآخذ کا بیان اور ان کے رڈ کا طریق صرفی نحوی قواعد کے خلاف عبارتوں کی تطبیق کا طریق کیا حضور کی کتب میں سہو وغیرہ کی کوئی غلطی نہیں؟! کتابت کی غلطیوں اور سہو کاتب کے بارے میں اصولی ہدایت مقامات حریری وغیرہ سے سرقہ کے الزام کا اصولی اور علمی رڈ پہلی اصولی بات: بعض فقرات کی بنا پر سرقہ کا الزام جہالت ہے * چند فقرات کی بناء پر سرقہ کے الزام کے نتائج لفظی اشتراک اور تضمین سرقہ نہیں دوسری اصولی بات: توارد اور اس کی ضرورت توار د کیوں ضروری ہے؟ تیسری اصولی بات اقتباس ایک ملکہ ہے نہ کہ سرقہ ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اور دیگر ادباء کے اقتباس میں فرق حضور علیہ السلام کی انشاء پردازی اور حریری کی تحریرات خلاصہ بحث 89 69 00 90 2

Page 7

2 بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.ھوالناصر پیش لفظ خدا تعالی نے اپنے تمام انبیاء و مرسلین علیہم السلام کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کی بدولت بے شمار نشانات اور معجزات کے ساتھ بھیجا جن میں سے ایک عربی زبان میں خداداد فصاحت و بلاغت کا عظیم الشان نشان ہے.جس کی تفصیل حضور علیہ السلام نے اپنی مختلف عربی واردو کتب میں درج فرمائی ہے.مخالفین اور منکرین کی طرف سے جب اس معجزہ پر اعتراضات کئے گئے تو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انکے اعتراضات کے کافی وشافی جواب عطا فرمائے اور بعد میں ہر زمانے میں علمائے جماعت نے تحقیق و تمحیص کے بعد نہ صرف معترضین کے اعتراضات کا جواب دیا بلکہ کئی نئے دلائل و حوالہ جات اور شواہد کی روشنی میں اس معجزہ کی اہمیت اور عظمت شان بھی نمایاں کر کے پیش کرنے کی کوشش کی.حالیہ دور میں کہا بیر کے ایک مخلص احمدی مکرم ڈاکٹر ایمن عودہ صاحب نے بعض عرب معترضین کے اعتراضات دینے کے لئے مختلف کتب لغت اور قدیم و جدید 2

Page 8

علمائے صرف و نحو کی مؤلفات کو بڑی عرقریزی سے کھنگالا اور بعض نئے شواہد کے اضافے سے اعتراضات کے جوابات کا ایک سلسلہ شروع کیا.بعد ازاں انہوں نے ان جوابات کے ایک بڑے حصہ کو الْإِيْجَازُ فِي مَظَاهِرِ الْإِعْجَازِ فِي لُغَةِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَالْمَهْدِي الْمَعْهُوْدِ سَيِّدِنَا أَحْمَد عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَأَزْكَى السَّلام“ کے عنوان سے کتابی شکل میں بھی جمع کر دیا.معترضین کے اعتراضات اور ڈاکٹر ایمن صاحب کے جوابات کو پڑھنے سے عربی زبان کے خداداد علم کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو اس کتاب کے شروع میں یکجائی صورت میں پیش کرنے کی ضرورت کو بشدت محسوس کیا گیا.حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی اجازت سے یہ مضمون تیار ہوا جس میں ریسرچ سیل ربوہ سے آمدہ مواد کے علاوہ مکرم ڈاکٹر ایمن صاحب کی تحقیق سے بھی استفادہ کیا گیا.حضور انور ایدہ اللہ نے اس مضمون کو ملاحظہ فرمانے کے بعد اسے مزید بہتر بنانے کے لئے ہدایات ارشاد فرمائیں جن میں اسے مختلف عرب اور غیر عرب علماء کو دکھانے اور انکی تجاویز سے استفادہ کرنے کا بھی ارشاد شامل تھا.چنانچہ اس بارہ میں استاذی المکرم را نا تصور احمد خان صاحب، مکرم عبد المؤمن طاہر صاحب، مکرم ڈاکٹر ایمن عودہ صاحب اور مکرم محمد شریف عودہ صاحب نے 2

Page 9

گرانقدر تجاویز ارسال کیں جن کے مطابق مضمون میں تبدیلیاں اور اضافے کئے گئے.بعد ازاں حضور انور نے اسے اردو زبان میں الفضل انٹر نیشنل میں جبکہ اسکے عربی ترجمہ کو رسالہ التقوی میں اور انگریزی ترجمہ کو رسالہ الحکم اور ریویو آف ریلیجنز میں شائع کروانے کا ارشاد فرمایا.الفضل انٹر نیشنل میں چھپنے کے بعد بہت سے احباب نے پسندیدگی کے اظہار کے ساتھ اس مضمون کو کتابی شکل میں بھی شائع کروانے کا مشورہ دیا.حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی منظوری کے بعد اب یہ مضمون کتابی شکل میں شائع کیا جارہا ہے.خدا تعالی سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ اس حقیر سی کاوش کو شرف قبولیت بخشے اور اس کتاب کو سعید روحوں کی ہدایت کا موجب بنائے.آمین.خاکسار طالب دعا محمد طاہر ندیم مربی سلسلہ عربک ڈیسک فارنہام یو کے.2 *2021 G*27

Page 10

Page 11

تمهید خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے انبیاء کو حق کے ساتھ بھیجتا ہے اور پھر روحانی علوم اور حقائق و معارف کے علاوہ نشانات اور معجزات کے ذریعہ ان کی تائید فرماتا ہے.چنانچہ اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے جب قرآن کریم میں مذکور پیشگوئیوں اور اپنے پیارے نبی کریم صلی الم کی دی ہوئی خبروں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تو جہاں آپ کی بے شمار نشانات و روحانی معارف سے تائید فرمائی وہاں آپ پر ربانی علوم کے دروازے بھی کھولے.ان آسمانی علوم میں سے ایک کے بارے میں آپ علیہ السلام نے اپنی کتب میں تفصیلی اعلان فرمایا کہ عربی زبان ام الالسنہ یعنی تمام زبانوں کی ماں ہے اور یہی وہ پہلی زبان ہے جو اللہ تعالیٰ نے الہامی طور پر سکھائی اور باقی تمام زبانیں اسی سے نکلی ہیں.آپ علیہ السلام نے اس کے بارے میں متعدد دلائل دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کے سردار اور خاتم النبیین صلی الم کو ام القریٰ میں مبعوث فرمایا اور اس کے ساتھ ام الالسنہ میں کلام فرمایا اور اسے ام الکتاب یعنی قرآن کریم عطا فرمائی جسے ہمیشہ کے لیے تمام دنیا کے واسطے ہدایت کا *1X

Page 12

ذریعہ قرار دیا.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منن الرحمن کے نام سے ایک عظیم الشان کتاب بھی تالیف فرمائی.آپ نے اس کتاب میں ایک جگہ فرمایا: وَتَفْصِيلُ ذَلِكَ أَنَّهُ صَرفَ قَلْبي إِلَى تَحْقِيقِ الْأَلْسِنَةِ، وَأَعَانَ نَظَري فِي تَنْقِيدِ اللُّغَاتِ الْمُتَفَرِّقَةِ، وَعَلَّمَني أَنَّ العَرَبِيَّةَ أُمِّهَا، وَجَامِع كَيْفِها وَكَمِّهَا، وَأَنَّهَا لِسانٌ أَصليٌّ لِنَوْعِ الإِنْسَانِ، وَلُغَةٌ إِلْهَامَّيَّةٌ مِنْ حَضْرَةِ الرَّحْمَنِ، وَتَتِمَّة لِخِلْقَةِ البَشَرِ مِنْ أَحْسَنِ الْخَالِقِينَ، مِنَن الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۶۶) اور اس مجمل کی تفصیل یہ ہے کہ اس (اللہ تعالیٰ) نے زبانوں کی تحقیق کی طرف میرے دل کو پھیر دیا، اور میری نظر کی متفرق زبانوں کے پر کھنے کے لئے مدد کی.اور مجھ کو سکھلایا کہ عربی تمام زبانوں کی ماں ہے اور ان کی کیفیت کمیت کی جامع ہے اور وہ نوع انسان کے لئے ایک اصلی زبان اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک الہامی لغت ہے اور انسانی پیدائش کا تنتمہ ہے جو احسن الخالقین نے ظاہر کیا ہے.“ (ترجمہ از من الرحمن) یہی نہیں بلکہ آپ نے دیگر نشانات و معجزات کے علاوہ یہ بھی ذکر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی خاص منت وعطا سے آپ کو اعلیٰ درجہ کی فصیح و بلیغ عربی زبان سیکھنے کا معجزہ عطا ہوا ہے.

Page 13

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس دعویٰ کے اعلان کے بعد اس کے ثبوت کے طور پر عربی زبان میں ۲۲ کتب تحریر فرمائیں جو تا قیامت اس معجزے کی حقانیت اور آپ کی صداقت کے زندہ ثبوت کے طور پر محفوظ رہیں گی.ان عربی کتب میں ایک کتاب کا نام خطبہ الہامیہ ہے جس میں اعلیٰ درجہ کی فصیح و بلیغ اور مسجع و مقفی عربی عبارات سے معمور اور اعلیٰ روحانی نکات اور معارف ودقائق پر مشتمل ایک خطبہ بھی ہے جو آپ نے خدا تعالیٰ کے الہام سے عید الاضحی کے موقع پر فی البدیہہ ارشاد فرمایا جسے صحابہ کی ایک بڑی تعداد نے دیکھا اور سنا اور اس عظیم الشان نشان کے گواہ بن گئے.ان عربی کتب کے کل صفحات ۲۲۰۰ سے زائد ہیں اور ان میں موجود عربی قصائد کے کل اشعار کی تعداد ۳۵۰۰ سے زائد ہے.لیکن جیسا کہ انبیاء کے مخالفین کا شیوہ ہے کہ وہ یا تو انبیاء کے نشانات و معجزات کو مشکوک بنانے کے درپے ہو جاتے ہیں یا پھر ان کا سرے سے ہی انکار کر دیتے ہیں.یہی سلوک انہوں نے سید الکونین خاتم النبیین صلى الم سے کیا.باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی کریم نے دنیا میں آنے والے سة الله سة ہر نبی سے زیادہ نشانات دکھائے پھر بھی مخالفین نے آپ کو بار بار یہی کہا کہ :

Page 14

لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّنْ رَبِّهِ) (النعام : ۳۸)، لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةً مِّنْ رَّبِّهِ) (الرعد :۲۸)، لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِّنْ رَّبِّه (طه : ١٣٤).یعنی یہ کوئی نشان کیوں نہیں لے کر آتا؟ اور اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشان کیوں نہیں نازل کیا جاتا؟ یہ اپنے خدا کی طرف سے کوئی نشان تو لا کے دکھائے، پھر ایمان لانے کا سوچیں گے.لیکن حقیقت یہی تھی اور آج تک یہی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا کہ: ﴿وَمَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ) (الأنعام ٥).یعنی نشانات تو آتے ہیں لیکن منکرین کا وتیرہ یہی ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نشان دکھایا جاتا ہے تو یہ اس سے منہ پھیر کر فورا انکار کر دیتے ہیں.بالکل ایسے ہی مخالفین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مذکورہ بالا عظیم نشان اور معجزہ کو بھی ماننے سے انکار کر دیا اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی.چنانچہ کبھی کہا کہ اس کو تو عام عربی زبان بھی نہیں آتی کجا یہ کہ اعلیٰ درجہ کی زبان کا دعویٰ کیا جائے.کبھی < حضور علیہ السلام کی عربی تحریرات میں سے اپنی دانست میں 4

Page 15

صرف و نحو کی غلطیاں نکال کر تمسخر کا نشانہ بنایا.اور جہاں حضور علیہ السلام کی عربی سے مرعوب ہوئے بغیر کوئی چارہ نہ رہا، وہاں آپ علیہ السلام کی ریر فرمودہ مسجع و مقفیٰ عبارات کو مختلف پرانی عربی کتب سے سرقہ کرنے کا الزام لگا دیا.چونکہ عربی زبان کے معجزے کے بارے میں ان الزامات اور اعتراضات کا یہ سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے ہی شروع ہو گیا تھا اس لیے آپ نے جہاں مخالفین کو بالمقابل عربی زبان میں لکھنے کا چیلنج دیا وہاں خود اپنی کتب میں مخالفین کے اعتراضات کے جواب بھی دیے.لیکن مخالفین وقفہ وقفہ سے وہی اعتراضات دوبارہ دہراتے رہتے ہیں اور افراد جماعت کی طرف سے مختلف اوقات میں ان تمام اعتراضات کے جوابات دیے جاتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے.مخالفین کے اعتراضات پر یکجائی نظر ڈالنے سے دو باتیں بڑی شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہیں: ا.مخالفین کے اکثر اعتراضات حضور علیہ السلام کے اس دعویٰ کو نہ سمجھنے اور اس کی حقیقت نہ جاننے کا نتیجہ ہیں.چنانچہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی زبان کے خدا داد علم کے بارے میں دعویٰ کو آپ کی

Page 16

مختلف کتب سے اکٹھا کر کے ایک جگہ مفصل طور پر درج کر دیا جائے تو اس کو ایک دفعہ پڑھنے سے ہی بہت سے اعتراضات ختم ہو جائیں گے.۲.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے زمانے میں اس دعویٰ پر اعتراض کرنے والوں کو جو جوابات دیے ہیں ان کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آپ نے محض ایک ایک جملہ میں یا چند الفاظ میں اپنے اس دعوی کی مختلف جزئیات اور اس پر ہونے والے تمام اعتراضات کی کنہ ، اور ان اعتراضات کے رڈ کے طریق کو بھی بیان فرما دیا ہے.چنانچہ اگر حضور علیہ السلام کے ان جوابات کو کسی قدر وضاحت کے ساتھ ایک جگہ درج کر دیا جائے تو جہاں باقی ماندہ اعتراضات کا بھی خاتمہ ہو جائے گا وہاں حضور علیہ السلام کے دعوی کی شوکت، عظمت اور شان بھی نمایاں ہو کر سامنے آجائے گی.یہ بھی شاید خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ جس چیز کو ابھار کر پیش کرنا مقصود ہو تا ہے اس کے پیچھے معترضین کو لگا دیتا ہے اور وہ بار بار اعتراض کر کے اہل ایمان کو اس بارے میں سوچنے اور تحقیق کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں نتیجہ ان کے اس اعتراض کے مقام پر چھپے ہوئے بے شمار خزانے باہر آجاتے ہیں.

Page 17

عجیب بات یہ ہے کہ مخالفین کے اعتراضات کے نتیجے میں حضور علیہ السلام کے اس دعویٰ سے متعلق جس نقطے کے بارے میں بھی عرب وغیر عرب علمائے جماعت نے تحقیق کی اور پھر دسیوں کتب کھنگال کر جس نتیجے پر پہنچے اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریباً سوا سو سال پہلے محض ایک ایک دو دو جملوں میں ہی بیان فرما دیا تھا لیکن اعتراضات کے رد کی غرض سے اس بارے میں تحقیق سے قبل ہم ان مختصر جملوں کی تفصیل اور حقیقت کے ادراک سے قاصر تھے.یہ مضمون حضور علیہ السلام کے عربی دانی کے بارے میں دعویٰ اور دلائل اور اعتراضات کے جوابات وغیرہ کے تذکرہ کو یکجائی صورت میں پیش کرنے کی ایک کوشش ہے.والله ولي التوفيق.

Page 18

حضور علیہ السلام کا عربی زبان میں کمال حاصل کرنے کا دعویٰ آئیے ہم حضور علیہ السلام کے اپنے اقوال سے آپ کے اس دعویٰ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.ایک مقام پر اجمالی رنگ میں آپ علیہ السلام نے فرمایا: إِنَّ كَمَالِي فِي النِّسَانِ الْعَرَبِي، مَعَ قِلَّةِ جُهْدِي وَقُصُورٍ طَلَبِي، آيَةٌ وَاضِحَةٌ مِنْ رَبِّي، لِيُظهِرَ عَلَى النَّاسِ عِلْمِي وَأَدَبِي، فَهَلْ مِنْ مُعَارِضَ فِي جُمُوعِ الْمُخَالِفِيْن؟ (مكتوب احمد ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۲۳۴) یعنی عربی زبان میں قلت جہد اور معمولی جستجو کے باوجود میر اکمال حاصل کرنا میرے رب کی طرف سے واضح نشان ہے، تا کہ وہ لوگوں پر میرا علم اور ادب ظاہر فرمائے.پس مخالفین کے گروہ میں کوئی ہے جو اس امر میں میر امقابلہ کر سکے ؟ اس دعوی کی تفصیل حضور علیہ السلام نے مختلف مقامات پر مختلف الفاظ میں بیان فرمائی.,, ایک جگہ فرمایا: و أُعْطِيتُ بَسْطَةٌ كَامِلَةً فِي الْعُلُومِ الأَدَبِيَّةِ.“ (مكتوب احمد، روحانی 66 خزائن جلد ۱۱ صفحه ۲۳۴)

Page 19

عربی زبان میں خداداد فصاحت و بلاغت کا عظیم الشان نشه مجھے عربی زبان کے علوم ادبیہ میں کامل وسعت عطا کی گئی ہے.وو صفحه ۲۳۵)..ایک اور مقام پر فرمایا: 66 وَقَدْ فُقْتُ فِي النَّظْمِ وَالنَّقْرِ.“ (مکتوب احمد، روحانی خزائن جلد ۱۱ میں نظم و نثر میں سب پر فوقیت رکھتا ہوں.د...ایک مقام پر فرمایا: وَمِنْ آيَاتِي أَنه تَعَالَى وَهَبَ لِي مَلَكةً خَارِقَةً لِلْعَادَةِ فِي اللَّسَانِ 66 الْعَرَبيّةِ.، نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۰۷) میرے نشانات میں سے ایک نشان یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے لسان عربی میں خارق عادت ملکہ عطا فرمایا ہے."...ایک اور مقام پر فرمایا: وَمِنْ آيَاتِهِ أَنَّهُ عَلَّمَنِي لِسَانًا عَرَبَيَّةً، وَأَعْطَانِي نِكَاتًا أَدَيَّةً، وَفَضَّلَنِي 66 عَلَى العَالَمِيْنَ المُعَاصِرِينَ ، (مكتوب احمد ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۷) اس (خدا) کے نشانات میں سے ایک نشان یہ ہے کہ اس نے مجھے لسان عربی سکھائی ہے اور مجھے ادبی نکات عطا فرمائے ہیں اور مجھے میرے ہم عصر تمام علماء پر فضیلت دی ہے.

Page 20

...ایک اور مقام پر فرمایا: سَأَلْتُ اللَّهُ أَنْ يُكَمِّلَنِي فِي هَذِهِ اللَّهْجَةِ، وَيَجْعَلَنِي وَاحِدَ الدَّهْرِ في مناهج البَلاغَةِ.وَأَلْحَحْتُ عَلَيْهِ بِالْاِبْتِهَا وَالْضَّراعَةِ، وَكَثُرَ إِطْراحِي بَيْنَ يَدَيْ حَضْرَةِ العِزَّةِ، وَتَوَالَى سُؤَالِي بِجُهْدِ العَزِيمَةِ وَصِدْقٍ الهِمَّةِ وَإِخلاص الْمُهْجَةِ.فَأُجِيبَ الدُّعاءُ وَأُوتِيْتُ مَا كُنْتُ أَشَاءُ، حجم الہدی، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۰۸) میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ مجھے اس عربی زبان کے لہجے میں مکمل فرمائے اور مجھے بلاغت کے راستوں کا یکتائے روز گار بنا دے....پس میری دعا قبول ہوئی اور مجھے میری من پسند مراد مل گئی."...ایک اور مقام پر فرمایا: وَعَلَّمَنِي رَبِّي مِنْ لَّدُنْهُ بِالْفَضْل والرَّحْمَةِ، فَأَصْبَحْتُ أَدِيبًا وَمِن 66 الْمُتَفَرِّدِيْنَ “ (نجم الهدی، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۱۱) مجھے میرے رب نے اپنی جناب سے اپنے فضل اور رحمت سے علم سکھایا چنانچہ میں ادیب اور یکتائے روز گار لوگوں میں سے ہو گیا.حمد...ایک اور مقام پر فرمایا: ,, 66 جَعَلَنِي أَفْصَحَ المُتَكَلِّمِينَ “ (مكتوب احمد ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۳۴ تا ۳۵) اللہ تعالیٰ نے مجھے افصح المتکلمین بنایا ہے.**107

Page 21

"..ایک اور مقام پر اپنی عربی زبان کے بارے میں فرمایا: وَوَاللَّهِ إِنَّهُ ظِلُّ فَصَاحَةِ الْقُرْآنِ، لِيَكُوْنَ آيَةً لِقَوْمٍ يَتَدَبَّرُوْنَ “ (الاستفتاء، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۲۹-۶۳۰) خدا کی قسم یہ (میری عربی تحریر) قرآن کریم کی فصاحت کا ظل ہے تا کہ تدبر کرنے والی قوم کے لیے نشان ثابت ہو.ایک اور مقام پر فرمایا: ”ہمارا تو یہ دعوی ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے.“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۳۷) دعویٰ کا خلاصہ مندرجہ بالا تحریرات حضور علیہ السلام کی کتب نجم الہدیٰ، مکتوب احمد ، الاستفتاء اور نزول المسیح سے لی گئی ہیں.ان کا خلاصہ مندرجہ ذیل دس نکات پر مشتمل ہے: ا.حضور علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عربی زبان میں کمال حاصل کرنے کا واضح نشان عطا ہوا.۲.آپ کو عربی زبان کے علوم ادبیہ میں کامل وسعت عطا کی گئی ہے.

Page 22

ہے.۳.آپ عربی زبان کی نظم و نثر میں سب ہم عصروں پر فوقیت یافتہ ہیں.۴.اللہ تعالیٰ نے آپ کو لسان عربی میں خارق عادت ملکہ عطا فرمایا ۵.آپ کو عربی زبان کے اپنے تمام ہم عصر علماء پر فضیلت دی گئی..اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سنی اور آپ کو عربی زبان کی بلاغت کے راستوں کا یکتائے روز گار بنا دیا.ے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت سے عربی زبان کا علم سکھایا.چنانچہ آپ ادیب اور یکتائے روز گار لوگوں میں سے ہو گئے.۸.اللہ تعالیٰ نے آپ کو افصح المتکلمین بنایا.۹.آپ کی عربی تحریر قرآن کریم کی فصاحت کا ظل ہے.۱۰.آپ کو معجزے کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس زبان میں انشاء پردازی کی طاقت ملی ہے.یہی نہیں بلکہ اس زبان کے خدا داد علم کے بارے میں حضور علیہ نے کچھ اور بھی دعاوی فرمائے ہیں جن کا بیان اگلے صفحات میں کیا السلام.جائے گا.

Page 23

حضور علیہ السلام کا دعوی وسعت علمی اور اس کی تعریف حضور علیہ السلام کی عربی کتب میں مذکورا علی علمی دقائق و معارف کے علاوہ، لغات و محاورات ،عرب ، ادبی نکات اور تراکیب واسالیب وغیرہ آپ کے خدا تعالیٰ کی طرف سے عربی زبان میں کامل وسعت علمی عطا ہونے کی ایک جھلک ہیں.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: حکمیہ پر مکمل ہیں بغیر اس قدر تصانیف عربیہ جو مضامین دقیقہ علمیہ کامل وسعت علمی کے کیونکر انسان ان کو انجام دے سکتا ہے.“ (نزول المسیح، روحانی خزائن ، جلد ۱۸ صفحه ۴۴۰) اس تحریر سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی تحریرات وسعت علمی کی عکاس ہیں اور آپ علیہ السلام کی عربی زبان کی حقیقت جاننے کے لیے گہرے علمی ذوق اور بہت ساری کتب کے مطالعہ کی ضرورت ہے.کامل وسعت علمی کیا ہے؟ آپ علیہ السلام نے خود ہی اس کی تعریف فرمائی ہوئی ہے.فرمایا: ”جب تک (۱) زبان عرب میں پورا پورا توغل نہ ہو اور (۲) جاہلیت کے تمام اشعار نظر سے نہ گذر جائیں اور (۳) کتب قدیمہ مبسوطہ لغت جو 13

Page 24

محاورات عرب پر مشتمل ہیں غور سے نہ پڑھے جائیں اور وسعت علمی کا دائرہ کمال تک نہ پہنچ جائے، تب تک عربی محاورات کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا اور نہ اُن کی صرف اور نحو کا باستہ یفاء علم ہو سکتا ہے.“ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۶) اس پر چنانچہ اگر کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان کو سمجھنا ہے اور تحقیق کرنی ہے یا کسی کو اعتراض کرنے کا شوق ہے تو اسے ان تمام امور کا علم حاصل کرنا ہو گا ورنہ اس کا اعتراض خود اس کی جہالت پر دلالت کرے گا.اگلے صفحات کا مطالعہ اس دعویٰ کی صداقت کا یقین دلانے کے لیے کافی ہو گا.اگر کوئی اتنا علم حاصل کر لے گا تو اسے لغات ولہجات عرب سے واقفیت ہو جائے گی اور خود بخود اس کے اعتراضات کا جواب مل جائے گا.لیکن اگر کسی کو لغات عرب کا دقیق علم ہی نہیں یا مختلف محاوروں اور استعمالات کا پتہ نہیں تو ایسے شخص کا اعتراض خود اس کی جہالت کی دلیل ہو گا.عربی زبان پر ہریک پہلو سے قدرت معجزات انبیاء سے ہے کامل وسعت علمی کے حصول کے لیے جن ضروری امور کا ذکر حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے.شاید بعض لوگ ذاتی کوشش سے ان تمام [14]>

Page 25

مراحل کو طے بھی کر لیں لیکن اس کا پورا احاطہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے.کیونکہ عربی زبان پر پورا احاطہ کرنا معجزات انبیاء علیہم السلام سے ہے.اس بارے میں حضور علیہ السلام نے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا قول درج فرمایا ہے جو ایک پیشگوئی کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے.فرمایا: لغت عرب جو صرف نحو کی اصل کنجی ہے وہ ایک ایسا نا پید ا کنار دریا ہے جو اس کی نسبت امام شافعی رحمۃ اللہ کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے کہ لا يَعْلَمُهُ إِلَّا نَبی یعنی اس زبان کو اور اس کے انواع اقسام کے محاورات کو بجز نبی کے اور کوئی شخص کامل طور پر معلوم ہی نہیں کر سکتا.اس قول سے بھی ثابت ہوا کہ اس زبان پر ہریک پہلو سے قدرت حاصل کرنا ہر ایک کا کام نہیں بلکہ اس پر پورا احاطہ کرنا معجزات انبیاء علیہم السلام سے ہے.“ (نزول المسيح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۷) 28 گویا ایک طرف تو امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس زبان کا کامل احاطہ نبی ہی کر سکتا ہے اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعلان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ معجزہ عطا فرمایا ہے.سو اس زمانے میں کامل احاطہ ایک شخص نے ہی کرنا تھا اور وہ اس زمانے کے امام کے حصے میں آیا جسے اللہ تعالیٰ نے نبی بنا کر بھیجا.15

Page 26

عربی لغات کے علم کادعویٰ علاوہ ازیں حضور علیہ السلام نے عربی زبان کے بارے میں ایک اور منفرد اور عظیم الشان دعوی فرمایا ہے کہ: 66 علمُتْ أَرْبَعِيْنَ أَلْفًا مِنَ اللُّغَاتِ العَرَبِيَّةِ.“ (مكتوب احمد ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه (۲۳۴) یعنی مجھے چالیس ہزار عربی لغات سکھائے گئے ہیں.اس فقرہ کی تشریح اور وضاحت کی بہت ضرورت ہے.عربی لغت کی عام معروف کتاب المنجد میں لکھا ہے کہ لغت کا لفظ ہر قوم میں معروف کلام پر بولا جاتا ہے.اور علم اللغہ ، عربی کے علوم کی تمام اقسام پر بھی بولا جاتا ہے.(المنجد) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قول: 66 "عُلِّمُتْ أَرْبَعِينَ أَلْفًا مِنَ اللُّغَاتِ العَرَبِيَّةِ.“ کا ترجمہ عموما چالیس ہزار مادے کیا جاتا ہے جو درست ہے.لیکن کیا اس سے صرف یہی مراد ہے ؟ اگر اس فقرہ کو اس کے سیاق میں پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد اور بہت کچھ ہے.اصل نص کچھ یوں ہے : إِنَّ كَمَالِي فِي النِّسَانِ الْعَرَبِيِّ، مَعَ قِلَّةِ جُهْدِي وَقُصُورٍ طَلَبِي، آيَةٌ وَاضِحَةٌ مِنْ رَبِّي لِيُظهِرَ عَلَى النَّاسِ عِلْمِي وَأَدَبِي، فَهَلْ مِنْ مُعَارِضِ 167

Page 27

عربی زبان میں خداداد فصاحت و بلاغت کا عظیم الشان فِي جُمُوعِ الْمُخَالِفِيْن؟ وَإِنِّي مَعَ ذَلِكَ عُلّمتُ أَرْبَعِيْنَ أَلْفًا مِنَ اللُّغَاتِ الْعَرَبيَّةِ، وَأُعْطِيْتُ بَسْطَةٌ كَامِلَةً فِي الْعُلُومِ الأَدَبِيَّة.“ (مكتوب احمد، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۲۳۴) 66 قلت جہد اور معمولی جستجو کے باوجود عربی زبان میں میر اکمال میرے رب کی طرف سے ایک واضح نشان ہے تا کہ وہ خدا لوگوں پر میرا علم اور ادب ظاہر فرمائے.پس مخالفین کے گروہ میں کوئی ہے جو اس امر میں میرے ساتھ مقابلہ کر سکے ؟ اور اس معمولی کوشش کے باوجود مجھے چالیس ہزار عربی لغات سکھائے گئے ہیں اور مجھے علوم ادبیہ میں کامل وسعت عطا کی گئی ہے.چالیس ہزار عربی لغات سے مراد اگر محض چالیس ہزار مادے سمجھا جائے تو یہ کامل وسعت علمی کا ہی حصہ سمجھا جائے گا.اس سے ثابت ہوا کہ چالیس ہزار لغات سے مراد کچھ اور بھی ہے جسے سمجھنے کیلئے ہمیں لغات عربیہ کے بارے میں مزید جاننے کی ضرورت ہے.اب سوال یہ ہے کہ یہ لغات کیا ہیں؟ یہ لغات مختلف الفاظ، مفردات تراکیب و محاورات اور اسالیب واستعمالات عرب ہیں جو مختلف قبائل عرب میں مختلف اشکال میں استعمال ہوتے تھے.کبھی 17

Page 28

ان لغات میں اختلاف، قبائل کے لہجوں میں ان الفاظ کی مختلف حرکات سے ہو تا تھا، تو کبھی قلب حروف سے.کبھی کوئی قبیلہ بعض حروف کا اضافہ کر کے مختلف کلمات بنالیتا تھا تو کبھی تذکیر و تانیث میں اختلاف کی وجہ سے مختلف لغات تشکیل پاتی تھیں.کبھی بعض حروف کو قریبی حرف میں مدغم کرنے سے مختلف لغات جنم لیتی تھیں تو کبھی ایک ہی لفظ کو متضاد معانی میں استعمال کرنے سے نئی لغت بن جاتی تھی.علاوہ ازیں مختلف استعمالات و تراکیب و محاورے بھی ان لغات کا حصہ ہیں جو ایک ہی صورت حال کے بیان کے لیے مختلف قبائل کے ہاں مختلف صورتوں میں رائج تھے.ان کا مفصل بیان آگے آئے گا.ایسے لغات العرب میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چالیس ہزار الفاظ و تراکیب و استعمالات و اسالیب و محاورے وغیرہ سکھائے گئے...لغات کے ان مذکورہ بالا معانی کی توثیق خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے بھی ہوتی ہے.حضور فرماتے ہیں : فَاعْلَمْ أَنَّ وَفاةَ عِيسَى ثابت بالْآيَاتِ الَّتِي هِيَ قَطْعِيَّةُ الدَّلالَةِ، لِأَنَّ القُرْآنَ مَا اسْتَعْمَلَ لَفْظَ التَّوَفِّي إِلَّا لِلْإِمَاتَةِ وَالْإِهْلَاكِ، وَصَدَّقَ ذَلِكَ المَعْنَى رَسولُ الله وَشَهِدَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ الصَّحَابَةِ الَّذِي كَانَ أَعْلَمُ بِلُغَاتِ قَوْمِهِ.(حمامۃ البشری، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۳۱) * 187

Page 29

یعنی جان لے کہ عیسی علیہ السلام کی وفات قطعیۃ الدلالت آیات سے ثابت ہے کیونکہ قرآن نے لفظ توفی کو صرف موت دینے اور ہلاک کرنے الله کے معانی میں ہی استعمال کیا ہے.اور ان معنوں کی رسول اللہ صلی ا ہم نے بھی تصدیق فرمائی ہے اور اس پر صحابہ میں سے ایک ایسے شخص نے شہادت بھی دی ہے جو اپنی قوم کی لغات کا سب سے زیادہ علم رکھتا تھا.یعنی اس کو الفاظ کے مختلف استعمالات اور محاورات واسالیب و معانی کا زیادہ علم تھا کہ توفی کا لفظ جب اس طرح کے استعمال میں آئے تو اس کا معنی سوائے موت کے اور کچھ نہیں.ایسے استعمالات یا اسالیب کو بھی لغات کہا گیا ہے.لغات کی مزید وضاحت کے لیے ذیل میں ہم لغت کی بعض کتب سے چند امور پیش کرتے ہیں.لغت کی کتاب (الْمُؤْهِرُ ) میں لکھا ہے: قَالَ الفَرَّاءُ: كَانَت العَرَبُ تَحْضُرُ الْمَوْسِمَ فِي كُلِّ عَامِ، وَتَحُجُّ البَيْتَ فِي الجَاهِلِيَّةِ، وَقُرَيْسٌ يَسْمَعُونَ لُغَاتِ العَرَب، فَمَا اسْتَحْسَنُوهُ 66 مِنْ لُغَاتِهِمْ تَكَلَّمُوا بِهِ؛ فَصَارُوا أَفْصَحَ العَرَبِ.“ (الْمُرْهِرُ، النَّوْعُ الْحَادِي عَشَرَ: مَعْرِفَةُ الرَّدِيءِ المَذْمُومِ مِنْ اللُّغَاتِ) **19***

Page 30

الفراء کہتے ہیں کہ عرب لوگ زمانہ جاہلیت میں ہر سال حج کے ایام میں اکٹھے ہوتے اور حج بیت اللہ کرتے.اور قریش (جو مکہ میں رہتے تھے وہ عربوں کے اس اجتماع کی بدولت ) مختلف لغات عرب کو سنتے اور پھر ان کی زبانوں میں سے جو جو (محاورہ ، استعمال، ترکیب یا لفظ وغیرہ) انہیں اچھا لگتا اسے خود بھی بولنے لگتے.اس طرح قریش افصح العرب ہو گئے.اس سے بھی ثابت ہوا کہ لغات عرب سے مراد مختلف استعمالات اور محاورے وغیرہ بھی ہیں جو مختلف قبائل میں مختلف تھے یا بعض قبائل میں زیادہ اور بعض میں کم تھے.لیکن چونکہ حج کی غرض سے سب عرب قریش کے پاس مکہ میں آتے تھے اس لیے قریش نے سب کی زبان سن سن کر اس میں سے اچھے اچھے محاورے اور استعمالات اپنی زبان میں جمع کر لیے تھے،.اس لیے قریش افصح العرب کہلائے....مزید وضاحت کے لیے لسان العرب کی یہ عبارت ملاحظہ ہو : نَزَلَ القُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ كُلُّها شَافٍ كَافٍ، أَرَادَ بِالْحَرْفِ اللُّغَةَ قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ وَأَبُو العَبّاسِ : نَزَلَ عَلَى سَبْعِ لُغَاتٍ مِنْ 66 لُغَاتِ العَرَب.،، (لِسانُ العَرَب، تَحْتَ كَلِمَةِ حَرْفَ) یعنی قرآن کریم سات حروف پر نازل کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک شافی اور کافی ہے.اس قول میں نبی کریم صلی الم نے حرف سے مراد لغت 20

Page 31

لی ہے.اس لیے ابو عبید اور ابو العباس نے کہا ہے کہ قرآن عربوں کی لغات میں سے سات لغات میں نازل ہوا.حافظ ابن جریر طبری کہتے ہیں احرف سبعہ سے مراد قبائل عرب کی سات لغات ہیں.(تفسير ابن جرير، القَوْلُ فِي اللُّغَةِ الَّتِي نَزَلَ بِهَا القُرْآنُ مِنْ لُغَاتِ العَرَبِ) سات لغات سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ سات بالکل مختلف زبانیں تھیں بلکہ یہ سات قبائل ایسے تھے جن کی عربی زبان میں بعض مقامات پر استعمال ہونے والے الفاظ و محاورات واستعمالات وغیرہ میں اختلاف تھا.اور یہی وہ امر ہے جسے لغات عرب کا نام دیا گیا ہے...لغات کی مزید وضاحت کے لیے لسان العرب کی یہ تحریر ملاحظہ ہو جس میں ابن منظور مؤلف لسان العرب، لیث کا قول درج کرتے ہوئے لکھتا ہے: وَيَكُونُ أَمْ بِمَعْنَى بَلْ، وَيَكُونُ أَمْ بِمَعْنَى أَلفَ الِاسْتِفْهَامِ كَقَوْلِكَ: أَمْ عِنْدَكَ غَداءٌ حاضِرٌ؟ وَأَنْتَ تُرِيدُ : أَعِنْدَكَ غَدَاءٌ حَاضِرٌ؟ وَهِيَ لُغَةٌ 66 66 حَسَنَةٌ مِنْ لُغَاتِ العَرَبِ لِسانُ العَرَبِ حَرْفُ المِيمِ تَحْتَ كَلِمَةِ أمم) یعنی اخم کبھی بل کے معنوں میں آتا ہے اور ام کبھی استفہام والے الف (أ) کے معنے میں استعمال ہوتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ أَمْ عِنْدكَ غَداء

Page 32

حاضر؟ اور اس سے مراد ہوتا ہے أَعِندَك غداء حاضر؟ اور یہ عرب میں سے ایک اچھی لغت ہے.لغات یہاں محض ایک لفظ کے عام مشہور مفہوم سے ہٹ کر ایک اور مفہوم میں استعمال کو ایک علیحدہ لغت قرار دیا گیا ہے.ڈالتی ہے: " لسان العرب کی یہ عبارت بھی ہمارے اس موضوع پر روشنی وطه قَالَ: وَقَوْلُ الشَّافِعِيِّ نَفْسُهُ حُجَّةٌ لِأَنَّهُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - عَرَبيّ النِّسانِ فَصيحُ اللَّهْجَةِ.قَالَ: وَقَدْ اعْتَرَضَ عَلَيْهِ بَعْضُ الْمُتَحَذْلِقِينَ فَخَطَّأَهُ وَقَدْ عَجلَ وَلَمْ يَتَثَبَّتْ فِيمَا قَالَ وَلَا يَجُوزُ لِلْحَضَرِيِّ أَنْ ،، يعجل إلى إنكار مَا لَا يَعْرِفُهُ مِنْ لُغَاتِ العَرَب.“ (لِسَانُ العَرَبِ، حَرْفُ اللَّامِ، تَحْتَ كَلِمَةِ عول) یعنی طہ نے کہا کہ شافعی کا قول تو بذات خود حجت ہے کیونکہ شافعی رضی اللہ عنہ عربی اللسان اور فصیح اللہجہ ہیں.ایک جلد باز نیم عالم نے آپ پر اعتراض کرتے ہوئے آپ کے کلام میں بغیر ثبوت اور توثیق کے غلطی نکالی حالانکہ شہر میں رہنے والے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر ایسی لغات عرب کا انکار کر دے جسے وہ نہیں جانتا.22

Page 33

اس قول سے بھی ثابت ہو تا ہے کہ لغات عرب کا مضمون بہت وسیع ہے اور ذاتی کوشش سے اس کا احاطہ کرنا ناممکن ہے کیونکہ تمام عربی لغات محفوظ نہیں رہیں.اس لیے محض عدم علم کی بنا پر کسی لفظ یا محاورے یا استعمال وغیرہ کو غلط کہنا جہالت ہے.قرآن کریم تو سات قبائل کی لغات یعنی سبعة أحرف میں نازل کیا گیا.لیکن کیا رسول اللہ صلی الم نے بھی دیگر لغات عرب کو استعمال کیا ؟ اس سلسلہ میں لسان العرب میں آنے والی ایک روایت ملاحظہ ہو: الله وَرَدَ فِي حَدِيثِ عَائِشَةَ رضي عَنْهَا: اسْتَأْذَنَتِ النَّبِيَّ فِي دخول أَبي الْقُعَيْس عَلَيْهَا، فَقَالَ: انْذِنِي لَهُ فَإِنَّهُ عَمُّجٍ فَإِنَّهُ يُرِيدُ: عَمُّكِ مِنْ الرَّضَاعَةِ.فَأَبْدَلَ كَافِ الخِطاب جيمًا، وَهِيَ لُغَةُ قَوْمٍ مِنْ اليَمَن قَالَ الخَطَّائِيُّ : إِنَّمَا جَاءَ هَذَا مِنْ بَعْض النَّقَلَةِ، فَإِنَّ رَسُولَ الله كَانَ لَا يَتَكَلَّمُ إِلَّا ِباللُّغَةِ العالِيَةِ.قَالَ ابْنُ الْأَثِيرِ: وَلَيْسَ كَذَلِكَ، فَإِنَّهُ قَدْ تَكَلَّمَ بكَثِير مِنْ لُغَاتِ العَرَب، مِنْهَا قَوْلُهُ: لَيْسَ مِن امُبرِّ امْصِيَام 66 وو فِي امْسَفَر، وَغَيْر ذَلِكَ.“ (لِسانُ العَرَب، حَرْفُ المِيم، تَحْتَ كَلِمَةِ عمم) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی لی نام سے ابو تھیں کے اپنے پاس آنے کی اجازت مانگی.حضور صلی ا ہم نے فرمایا: اسے آنے دیں کیونکہ وہ آپ کا رضاعی چچا ہے.آپ نے عمكِ کی 23

Page 34

بجائے عَمَّج فرمایا یعنی کاف کو جیم سے بدل دیا جو کہ یمن کی ایک قوم کی لغت ہے.خطابی نے کہا کہ یہ بات صرف بعض راویوں نے نقل کر دی (اور اس میں کوئی حقیقت نہیں) کیونکہ نبی کریم (صلی ا ) تو صرف اعلیٰ وافصح زبان ہی بولتے تھے.ابن اثیر نے کہا کہ (خطابی کی ) یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ نبی کریم (صلی للی ) نے بہت سی لغات عرب میں کلام فرمایا ہے ، ان میں سے آپ کا یہ قول بھی ہے کہ : لَيْسَ مِنَ امْبرِّ امْصِيامُ فِي امْسَفَر وغيره جو اصل میں: لَيْسَ مِنَ البرّ الصيام في السفر ہے.یعنی سفر میں روزہ رکھنا اعلیٰ درجہ کی نیکی نہیں ہے.اس جملے میں تین الفاظ میں لام کو میم سے بدل دیا گیا ہے اس لیے اس کی یہ صورت بن گئی ہے.اور یہ لغات عرب میں سے ایک لغت ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر کبیر میں قرآن کریم کی مختلف قراءات اور جمع قرآن کے مضمون پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے لغاتِ عرب کے اس فرق پر بھی روشنی ڈالی ہے.آپ کی اس تحریر کے بعض حصے ذیل میں پیش ہیں.آپ فرماتے ہیں: بعض زبانوں کے فرق کی وجہ سے یا بعض مضامین کو نمایاں کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سبعہ احرف پر نازل کیا ہے یعنی اس کی سات 24]

Page 35

الله.الله قرآتیں ہیں.ان قرآتوں کی وجہ سے یہ دھو کہ نہیں کھانا چاہیئے کہ قرآنِ کریم میں کوئی اختلاف ہے بلکہ اسے زبانوں کے فرق کا ایک طبعی نتیجہ سمجھنا چاہئے رسول کریم صلی علیم کے زمانہ میں چونکہ عرب کی آبادی کم تھی قبائل ایک دوسرے سے دور دور رہتے تھے اس لئے ان کے لہجوں اور تلفظ میں بہت فرق ہوتا تھا.زبان ایک ہی تھی مگر بعض الفاظ کا تلفظ مختلف ہوتا تھا اور بعض دفعہ ایک معنی کے لئے ایک قبیلہ میں ایک لفظ بولا جاتا تھا دوسرے قبیلہ میں دوسرا لفظ بولا جاتا تھا.ان حالات میں رسول کریم صل ال روم کو اللہ تعالی نے اجازت دے دی کہ فلاں فلاں الفاظ جو مختلف قبائل کے لوگوں کی زبان پر نہیں چڑھتے.ان کی جگہ فلاں فلاں الفاظ وہ استعمال کر لیا کریں.پس مضمون تو وہی رہا صرف بعض الفاظ یا بعض محاورات جو ایک قوم میں استعمال ہوتے تھے اور دوسری قوم میں نہیں اللہ تعالی نے ان الفاظ یا ان محاورات کی جگہ ان کی زبان کے الفاظ یا اپنی زبان کے محاورات انہیں بتا دیئے تا کہ قرآن کریم کے مضامین کی حفاظت ہو سکے اور زبان کے فرق کی وجہ سے اس کی کسی بات کو سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل نہ ہو جائے...یہ اجازت محض وقتی طور پر تھی اور اس ضروت کے ماتحت تھی کہ ابتدائی زمانہ تھا تو میں متفرق تھیں اور زبان کے معمولی فرق کی وجہ سے

Page 36

الفاظ کے معنی بھی تبدیل ہو جاتے تھے اس نقص کی وجہ سے عارضی طور پر بعض الفاظ کو جو ان قبائل میں رائج تھے اصل وحی کے بدل کے طور پر خدا تعالی کی وحی کے مطابق پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی تا کہ قرآن کریم کے احکام کے سمجھنے اور اس کی تعلیم سے روشناس ہونے میں کسی قسم کی روک حائل نہ ہو اور ہر زبان والا اپنی زبان کے محاورات میں اس کے احکام کو سمجھ سکے اور اپنے لہجہ کے مطابق پڑھ سکے.“ ( تفسیر کبیر جلد 9 ص47 تا 50) لغات عرب میں اختلاف کی صورتیں اور اس کے اسباب مذکورہ بالا وضاحت سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ عربوں کی بے شمار لغات ہیں.لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اختلاف لغات کے آخر اسباب کیا ہیں؟ گو بادی النظر میں یہ حصہ ہمارے مضمون سے براہ راست تعلق نہیں رکھتا لیکن ان اسباب کو جاننے کے بعد پتہ چلے گا کہ ان سے ہمارے مضمون کے بہت سے مخفی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے.اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بھی کچھ وضاحت کر دی جائے.اختلاف لغات کے اسباب کے بارے میں لسان العرب اور دیگر لغت کی کتب میں مختلف بیانات موجود ہیں.

Page 37

اختلاف لغات کے اسباب میں سر فہرست مختلف قبائل کا ایک ہی بات کو بیان کرنے کے لیے مختلف الفاظ و تراکیب استعمال کرنا ہے.اس اختلاف کے اسباب کے بارے میں محققین نے بہت کچھ لکھا ہے اور اس کی متعدد وجوہات بیان کی ہیں.ابن فارس نے اپنی کتاب فقہ اللغہ میں لغات عرب کے اختلاف کے اسباب و وجوہات کا ذکر کیا ہے جسے علامہ سیوطی نے اپنی کتاب المزھر میں درج کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے : ا.ایک وجہ حرکات (یعنی زیر زبر پیش اور جزم وغیرہ) کا اختلاف ہے.مثلاً قریش نَستَعِین نون کی زبر کے ساتھ پڑھتے تھے جبکہ قبیلہ اسد وغیرہ میں اسے نون کی زیر کے ساتھ نستعین پڑھا جاتا تھا..اسی طرح بعض قبائل میں معکم کو معکم یعنی عین کی جزم کے ساتھ پڑھا جاتا ہے.اب یہ محض ایک حرف کی حرکت کی تبدیلی سے مختلف لغت بن جاتی ہے..اسی طرح بعض قبائل کے ہاں أَنَّ زَيْدًا کو عن زيدًا لکھا یا پڑھا جاتا ہے.بظاہر ان کو عَنَّ سے بدلنا بہت بڑا اختلاف ہے لیکن یہ موجود ہے اور جسے عربی لغات کا علم دیا گیا ہے اس کے کلام میں اگر ایسے استعمال کا کہیں نہ کہیں اظہار ہو گا تو ان امور سے جاہل شخص ضرور اسے غلطی قرار دے گا حالانکہ یہ استعمال لغات عرب میں سے ہیں اور درست لغت ہے.

Page 38

اسی طرح بعض قبائل بعض حروف کو تبدیل کر کے استعمال کرتے تھے مثلاً أولئك كو بعض أولالك یعنی ھمزہ کو لام سے بدل کر پڑھتے تھے.لغات عرب کے علم سے بے بہرہ شخص اس استعمال پر نقطہ چینی کرے گا جو اس کی جہالت کا ثبوت ہو گا.۲.ان اسباب میں سے ایک، ہمزہ ظاہرہ کو تخفیف کے ساتھ لکھنا یا پڑھنا ہے.مثلاً بعض کے ہاں مُستهزئون کو مُستهزون لکھا جاتا ہے.اس کی مثالیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں بکثرت پائی جاتی ہیں..ان اسباب میں سے ایک سبب بعض حروف کی تقدیم و تاخیر ہے.مثلاً بعض لفظ صاعقة کو صافعةٌ پڑھتے یا لکھتے ہیں.۴.ان اسباب میں ایک سبب حذف واثبات بھی ہے مثلاً بعض اسْتَحْيَيْتُ میں دو یاء کو قائم رکھتے ہیں اور بعض ایک یاء حذف کر کے 10 اسْتَحَيْتُ لکھنا یا پڑھنا کافی سمجھتے ہیں.۵.ان اسباب میں سے ایک سبب تذکیر و تانیث میں اختلاف بھی ہے.بعض عرب هَذِهِ الْبَقَر ، اور هَذِهِ النَّحْل ، کہتے ہیں اور بعض: هذا الْبَقَر ، اور هذا النخل کہتے ہیں.اب عام فہم قواعد کو جاننے والا اور لغات عرب کے علم سے بے بہرہ شخص مذکر کے لیے هَذِهِ اور مؤنث کے لیے ھذا کے استعمال **287

Page 39

پر ضرور اعتراض کرے گا اور اسے غلط کہے گا.لیکن جس کا لغات عرب کا خداداد علم پانے کا دعویٰ ہے اس کے کلام میں ان لغات کی جھلک نظر آئے گی اور اس پر اعتراض کرنے والا اپنی جہالت کا ثبوت دے رہا ہو گا.۶.اسی طرح ایک وجہ ادغام ہے.مثلاً بعض مُهتَدون کو مُهَدُّون لکھتے ہیں یعنی تاء اور دال کے ادغام کے ساتھ.یہ بھی لغات عرب میں سے ایک لغت ہے.ے.ایک وجہ اعراب کا اختلاف ہے.مثلاً بعض مَا زِيدٌ قائمًا كو مَا زيد قائممٌ لکھتے ہیں اور بعض إِنَّ هذین کو إنّ هذان لکھتے ہیں.اور یہ بنی حارث بن کعب کی لغت ہے..ایک وجہ یہ ہے کہ کسی لفظ کے آخر پر گول تاہ آئے تو اس پر وقف کرتے ہوئے بعض اسے ہاء پڑھتے ہیں اور بعض اسے تاء ہی پڑھتے ہیں مثلاً بعض هَذِهِ أُمَّة کو وقف کی صورت میں هَذِهِ أُمَّهُ پڑھتے ہیں اور بعض اسے هَذِهِ أُمَّت پڑھتے ہیں.اور یہ دونوں الگ الگ لغات ہیں.۹.یہ تمام لغات عرب ان لوگوں یا قبائل کے نام سے منسوب ہیں جو انہیں استعمال کرتے تھے.گو یہ لغات مختلف اقوام و قبائل کی تھیں اور دیگر قبائل ان کو استعمال نہیں کرتے تھے.تاہم جب یہ لوگوں میں کثرت سے پھیل گئیں تو پھر ایک دوسرے کی جگہ پر بھی استعمال ہو نا شروع ہو گئیں.**29*

Page 40

۱۰.ان اسباب میں سے ایک بڑا سبب مختلف کلمات کے متضاد معانی اخذ کرنے کا ہے.مثلاً حمیٹر قبیلہ کی زبان میں شب کا مطلب ہے بیٹھ جا.ایک روایت میں آتا ہے کہ عامر بن طفیل رسول کریم صلی ال نیم کے پاس آئے تو ذکر ہے کہ وقلم فَوَتَّبَهُ وسادة یعنی آپ صلی الم نے ان کے لیے تکیہ وغیرہ لگا کر بیٹھنے کی جگہ تیار کی اور انہیں اس پر بٹھایا.اسی لیے حمیر قبیلہ کی لغت میں الوِثَاب چٹائی وغیرہ کو کہتے ہیں جسے بچھا کر اس پر لوگ بیٹھتے ہیں.لیکن اس کے برعکس بعض دوسرے قبائل میں یہ لفظ چھلانگ لگانے کے معنے میں استعمال ہوتا تھا.زید بن عبد اللہ بن دارم کے بارے میں آتا ہے کہ وہ حمیر کے ایک بادشاہ سے ملنے کے لیے گیا جبکہ وہ ایک پہاڑ پر قیام پذیر تھا.بادشاہ نے اسے کہا تب یعنی بیٹھ جا.جبکہ زید نے یہ سمجھا کہ بادشاہ اسے پہاڑ سے چھلانگ لگانے کا کہہ رہا ہے.چنانچہ اس نے کہا کہ اے بادشاہ تو مجھے اطاعت گزاروں میں پائے گا.یہ کہہ کر اس نے پہاڑ سے چھلانگ لگا دی اور ہلاک ہو گیا.تلخیص از المزهر للسيوطي النوع السادس عشر، معرفة مختلف اللغة) 307

Page 41

لغات عرب کی وضاحت کی اہمیت اور اس کے نتائج علامہ سیوطی نے المزھر میں اختلاف لغات کے فوائد کے بیان میں ابن جنی کا یہ قول نقل کیا ہے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے: ,, اللُّغَاتُ عَلَى اخْتِلافِها كُلَّها حُجَّةٌ ،، یعنی اختلاف کے باوجود تمام تر لغات حجت ہیں.نیز علماء کا اقرار ہے کہ تمام تر لغات جمع ہی نہیں ہوئیں اور جو جمع ہو سکی ہیں وہ تعداد میں بہت کم ہیں.اب چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ چالیس ہزار لغات عرب کے سکھائے جانے کا ہے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ ان میں بعض ایسی لغات بھی شامل ہوں جو جمع نہیں ہوئیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں آنے والے بعض اسالیب یا کلمات یا لغات کو اگر کوئی اپنی دانست میں غیر معروف پاکر ان پر اعتراض کرے گا تو یہ بات اس کی اپنی جہالت کا ثبوت ہو گی....لغات عرب کے موضوع کی اس وضاحت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں آنے والے بہت سے ایسے کلمات فصیح اور 317

Page 42

لغات عرب میں سے قرار پاتے ہیں جنہیں بادی النظر میں سہو یا خطا سمجھا جاتا ہے....جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں اس طرح کی مثالیں آتی ہیں تو ہم جواز کے طور پر لکھتے ہیں کہ یہ فلاں قبیلہ کی لغت ہے اس لیے درست ہے.یہ ایک دفاعی موقف ہے ، لیکن اگر حضور علیہ السلام کے دعوئی میں یہ بات واضح طور پر بیان کر دی جائے کہ ان تمام لغات کا حضور علیہ السلام کو علم دیا گیا تھا اور اس کا ظہور آپ کے کلام میں فلاں فلاں مقام پر ہوا ہے ، تو یہ بات آپ علیہ السلام کے خدا داد علم کا ثبوت اور آپ کی کامل وسعت علمی اور عظمت کی دلیل بن جاتی ہے.مثلاً ہمزہ کی تخفیف اور اسے یاء سے بدلنا جیسے بریئون کی بجائے بریون اور بٹر کی بجائے بیر وغیرہ لکھنے کی مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں بہت زیادہ ہیں اور لغات عرب سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فصیح لغت ہے.اسی طرح الفاظ کو ان کے معنوں پر حمل کرتے ہوئے تذکیر و تانیث لانے کی مثالیں بھی حضور علیہ السلام کے کلام میں بہت زیادہ ہیں.جیسے آپ نے عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی کتاب التبلیغ میں تحریر فرمایا ہے کہ "يَا أَهْلَ أَرْضِ النُّبوَّةِ وَجِيرَانَ بَيْتِ اللَّهِ العُظْمَى 66 32

Page 43

اس میں حضور بیت کی صفت عظیم کی بجائے عظمی لاتے ہیں.وجہ یہ ہے کہ بیت اللہ سے آپ کی مراد الکعبۃ ہے جو مؤنث ہے.,, اسی طرح وَأَمَّا الآفات الروحانيَّةُ فَيُهْلِكُ الْحِسْمَ والرّوحَ والْإِيمَانَ ،، معا.“ (الاستفتاء) میں الآفات کو جو کہ مؤنث ہے المرض پر محمول کر کے يُهلك یعنی مذکر کا صیغہ لایا گیا ہے.اور ” وَإِنَّ القِصَصَ لَا تَجْرِي النَّسْخُ عَلَيْهَا كَمَا أَنْتُمْ تُقِرُّوْنَ.“ (الخطبة الإلهامية) میں النسخ مذکر ہے لیکن اس کو عملية النسخ يا قاعدة النسخ پر محمول کر کے مؤنث کا صیغہ لایا گیا ہے وغیرہ وغیرہ.مذکورہ بالا اسباب اختلافِ لغاتِ عرب کو پڑھیں تو ان میں سے ایک سبب، بعض حروف کی تقدیم و تاخیر ہے.مثلاً بعض عرب صاعقة کو صافعةٌ پڑھتے یا لکھتے ہیں.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب (حجة اللہ ) کی یہ عبارت ملاحظہ فرمائیں : وَلَا رَيْبَ أَنَّهُمْ هُم العِلَلُ الموجِبَةُ لِفِتْنَتِهِ، وَمَنْبْتُ شُعْبَتِهِ، وَجَرْمُوثَةُ شَدْبَتِهِ.“ اگر عربوں کی ایک لغت حروف کی تقدیم و تاخیر سے صاعقة سے صافعة بن جاتی ہے تو اس پر قیاس کرتے ہوئے خیال کیا جا سکتا ہے کہ ایسی *337*

Page 44

ہی کسی لغت کے تحت یہاں جرثومة سے جرْمُوثَة بننا بھی ممکن ہے.جو کہ غلطی یا سہو کتابت نہیں ہے بلکہ ایک درست لغت کا استعمال ہو سکتا ہے.قلب حروف میں بعض قبائل مختلف کلمات میں (ہ) کو (ح) سے اور اس کے بر عکس بدل دیتے تھے.مثلاً لغت کی کتاب المخصص میں ہے کہ بعض كَدَحَهُ کو كَدَههُ ، اور يَهْتَبش کو يَحْتَبش، الحفيف كوالهفيف، اور أَهَمَّني الأمركو أَحَمَّني الأمر، قَمَحَ البعيرُ و قَمَةَ، طَحَرہ کو طَهَرَہ، اور مَدَحَه أَو مَدَهَہ بھی پڑھتے ہیں.مزید لکھا ہے کہ نبی کریم صلی ال کمی کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے عمار کو فرمایا: وَيْهَكَ ابن سُمَيَّة جبکہ اصل میں ويحك ہونا چاہیے تھا.اگر یہ حدیث کہیں محفوظ ہے تو اس میں (ح) کو (0) سے بدل دیا گیا ہے اور یہ افصح اللغات میں سے ہے.(ماخوذ از المخصص، كتابُ الأضدادِ، بَابُ مَا يَجِيءُ مقولًا بحَرفَين وَلَيسَ بدلًا) اب مذکورہ بالا قاعدہ کو ذہن میں رکھ کر حضور علیہ السلام کی کتب میں دیکھیں تو آپ نے اپنی کتب میں بعض جگہ محجّة الاهتداء کو 'ح‘ کی بجاۓ سے مهجة الاهتداء لکھا ہے.کیا اس کو مذکورہ بالا اسلوب پر قیاس نہیں کیا جا سکتا؟ اگر عرب طَحَره کو طَهَرَه، مَدَحَه کو مَدَهَه بھی پڑھ لیتے تھے اور اگر آنحضرت صلی الم نے حضرت عمار كو ويحك کی بجائے فرمایا: 34

Page 45

وَيْهَكَ ابنَ سُمَيَّة تو اس نہج پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا محجّة الاهتداء کو'' کی بجائے 'ہ' سے بدل کر مهجة الاهتداء لکھنا عين اسلوب عرب اور لغات عرب کے مطابق بنتا ہے اور اس پر اعتراض کرنے والا لغات عرب کے مضمون سے اپنی جہالت کا ثبوت دے رہا ہو تا ہے.نیز حضور علیہ السلام کی کتاب حجة اللہ میں ایک لفظ حوجاء آیا ہے اور مذکورہ بالا اسلوب کے مطابق یہاں بھی ح کوہ سے بدلا ہوا تصور کیا جائے تو ثابت ہو گا کہ اصل میں ھو جاء ہے جس کی 'ہ' کو 'ح' سے بدل کر حوجاء لکھا گیا ہے جو ایک فصیح لہجہ ہے اور لغات عرب میں سے ایک معروف لغت ہے.اسی طرح حضور علیہ السلام کی عربی کتب میں دیگر کئی ایسی قدیم عربی لغات بھی پائی جاتی ہیں جو آج کی عربی تحریرات میں نا پید ہیں.چند مثالیں پیش خدمت ہیں : ا.عربی زبان میں دیگر زبانوں کے برعکس واحد وجمع کے علاوہ دو کے عدد (یعنی مثنی ) کے بھی علیحد و قوائد ہیں.عربی میں مٹی یا مثنیہ الف یا الف ونون کے ساتھ آتا ہے.مثلاً جنۃ" کا شنی، جنتان ہو گا یعنی دو جنتیں یا دو باغ.یہ اس کی رفع کی حالت ہے.جبکہ نصب اور جر کی حالت میں 35

Page 46

الف یاء میں بدل جاتا ہے.یعنی جنتان کی حالت، نصب اور جر میں جنتین ہوگی.قرآن کریم میں رفع کی حالت کی مثال اس آیت میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے: ﴿وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (الرحمن : ٤٧)، اور نصب اور جر کی حالت میں قرآن کریم میں اس کی مثال یہ ہے: ﴿وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ (الكهف:٣٣).بعض قبائل جیسے بنو الحارث ابن کعب، خشم، زبید ، اور کنانہ وغیرہ کی لغات میں ان قواعد کے برخلاف رفع نصب اور جر تینوں صورتوں میں منی کی حالت تبدیل نہیں ہوتی اور ہر تینوں حالات میں الف بر قرار رہتا ہے اور یاء میں نہیں بدلتا (النحو الوافي ١٢٤/١ - ١٢٣، وجامع الدروس العربية للشيخ مصطفى الغلاييني) شنی کے بارے میں مذکورہ بالا اسلوب پر لغت عرب کی مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن بعض معترضین اپنی جہالت کی وجہ سے جب ایسی مثالوں کو آج کے عام معروف قواعد کے خلاف پاتے ہیں تو انہیں اپنے اعتراض کا نشانہ بناتے ہیں.ذیل میں ان پرانی لغات اور اس قاعدہ کی کچھ مثالیں حضور علیہ السلام کے کلام سے پیش ہیں.وو 66 *...مِنْهَا أَنَّ الشُّهُبَ الثواقِبَ انْقَضَتْ لَهُ مَرَّتَانُ.“ (الِاسْتِفْتاء).36

Page 47

*...أَلا تَعْلَمُونَ أَنَّ هَذَان نَقيضانِ فَكَيْفَ يَجْتَمِعَانِ فِي وَقْتِ 66 واحِدٍ أَيُّهَا الْغَافِلُونَ.(التَّبْلِيغِ)..." إِنَّ فِي هَذَا الِاعْتِقادِ مُصِيْبَتَانِ عَظِيْمَتَانِ.“ (التَّبْليغ) ان تمام مثالوں میں مثنی منصوب ہے جسے معروف قواعد کے اعتبار سے الف اور نون کی بجائے یاء اور نون کے ساتھ آنا چاہیے تھا لیکن جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ بعض پرانی لغات کے مطابق یہ درست ہے.۲.کیلا اور کتا کے بارے میں عام رائج قاعدہ یہ ہے کہ جب یہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوں تو رفع نصب اور جر تینوں حالتوں میں ان کا الف بر قرار رہتا ہے.لیکن اس معروف قاعدہ سے ہٹ کر قبیلہ کنانہ کی لغت میں مثنی کے عام قاعدہ کی طرح ان کی بھی رفع الف کے ساتھ اور جرّ و نصب یاء کے ساتھ آتی ہے جو عام رائج قواعد سے ہٹ کر ہے.اس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں یہ ہے: ،، لِيَدُلٌ لَفظُ الأُنسَين عَلَى كِلْتَي الصَّفَتَين.“ (منن الرحمن) جس کو اس لغت کا علم نہیں ہے وہ جہالت کے باعث کہے گا کہ یہاں پر كلتا الصفتين ہونا چاہیے.لیکن اس کی بات غلط ہے کیونکہ یہ بھی عربی لغات میں سے ایک لغت ہے.

Page 48

.قبیلہ بنی ربیعہ کی ایک لغت یہ ہے کہ وہ کسی بھی کلمہ کی نصب کی حالت کی تنوین میں الف نہیں لکھتے تھے.مثلاً وہ قراءت کتابا کو الف کے بغیر قراءت کتاب لکھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں اس لغت کی مثال بھی پائی جاتی ہے آپ فرماتے ہیں : 99 ہے.66 وَتَتَعَهَّدَها صَبَاحٌ وَمَساءً زُمَر الْمُعْتَقدِينَ.(مَكْتُوبِ أَحْمَد) صباحًا کی بجائے آپ علیہ السلام نے صباح لکھا ہے جو کہ ایک قدیم لغت ایک سبب اختلاف لغات عرب یہ ہے کہ بعض قبائل بعض حروف کو قلب کر کے ان کی جگہ دوسرے حروف استعمال کرتے تھے مثلاً نون کو قلب کے ساتھ میم لکھتے اور پڑھتے تھے.اس کے بارے میں لسان العرب کی یہ عبارت ملاحظہ ہو: وَفِي كِتابهِ لِوائِلِ بْن حُجْرٍ : مَنْ زَنَى مِم بِكْرٍ وَمَن زَنَى مِن ثَيِّبٍ، أَيْ مِنْ بَكْرٍ وَمِن ثَيِّب، فَقَلَبَ النُّونَ مِيمًا.(لِسانُ العَرَبِ تَحْتَ كَلِمَةِ موم) وو وائل بن حجر نے اپنی کتاب میں مَنْ زَىٰ مِمْ بِكْرٍ وَمَنْ زَىٰ مِمْ ثَيِّبٍ لکھا یعنی من کی بجائے ہم لکھا ہے اور یوں اس نے نون کو میم سے قلب کر دیا ہے.387

Page 49

اسی طرح لغات عرب کے اختلاف کے اسباب میں مختلف حروف مثلاً نین کو خاء اور جیم کو ھاء وغیرہ سے بدلنے کی مثالیں بھی موجو د ہیں.اگر ان اختلافات کو بھی ذہن میں رکھا جائے تو اعتراض کرنے والوں کے کئی اعتراضات کا جواب خود بخود آجائے گا.کوئی کہہ سکتا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہماری ہر توجیہ اور ہر قیاس درست ہو کیونکہ ایسے امور پر قیاس کر کے مختلف استعمالات کا بلا حدود و قیود دروازہ نہیں کھولا جا سکتا بلکہ ایسے امور عربوں سے سماعی طور پر لیے جانے چاہئیں یعنی جو انہوں نے استعمال کیا ہے اس کی اجازت ہے اور جو نہیں کیا اس کی گنجائش نہیں ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اہل لغت کے نزدیک یہ بات معروف ہے کہ عربوں کی سماعی لغات میں سے جو کچھ محفوظ ہوا ہے وہ بہت تھوڑا ہے اور جو ضائع ہو گیا وہ بہت زیادہ ہے، اس لیے اس نہج پر لکھی گئی کسی تحریر کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا، کیونکہ ہو سکتا ہے یہ بھی لغات عرب میں سے کوئی لغت ہو، خصوصا اگر لکھنے والے کا دعویٰ ہو کہ اسے لغات عرب کا علم خدا تعالی کی طرف سے دیا گیا ہے تو پھر یہ امکان یقین کی حد تک بڑھ جاتا ہے کہ جو عام طریق سے ہٹ کر لکھا گیا ہے وہ ضرور لغات عرب میں سے کوئی لغت ہو گی.1397

Page 50

ہمارے اس موقف کی تائید میں درج ذیل حوالہ جات ملاحظہ ہوں جو اس مضمون پر کافی وشافی روشنی ڈالنے والے ہیں.پہلی بات حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے جسے محمد غنیمی صاحب نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے : كَانَ الشَّعْرُ عِلْمَ قَوْمٍ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ عِلْمٌ أَصَحَ مِنْهُ...فَجَاءَ الإِسْلَامُ فَتَشاغَلَتْ عَنْهُ العَرَبُ، وَتَشاغَلُوا بِالْجِهَادِ وَغَزْوِ فَارِسِ وَالرّومِ، وَوَهَتْ عَنِ الشَّعْرِ وَرِوايَتِه، فَلَمَّا كَثُرَ الإِسْلامُ، وَجَاءَتِ الفُتُوحُ وَاطْمَأَنَّت العَرَبُ بالأَمْصار، راجعوا روايَةَ الشَّعْرِ، فَلَمْ يؤولوا إِلَى دِيوَانٍ مُدَوَّنِ، وَلَا كِتابِ مَكتوب، وَأَلَّفُوا فِي ذَلِكَ، وَقَدْ هَلَكَ مِنَ العَرَبِ مَنْ هَلَكَ بِالْمَوْتِ والْقَتْلِ، فَحِفْظُوا أَقَلَّ ذَلِكَ، وَذَهَبَ عَلَيْهِمْ مِنْهُ كَثيرٌ مُحَمَّد غُنَيْمي هلال، النَّقْدُ الأَدَبِيُّ الحَديثُ صفحة ٦ طَبْعَةُ دَارِ الثقافَةِ بَيْروت) یعنی شعر ، قوم عرب کے اس قدر درست علم کا مصدر تھا جس سے زیادہ درست اور کوئی مصدر ان کے پاس نہیں تھا...جب اسلام آیا تو عرب لوگ جہاد میں اور فارس و روم کی طرف پیش قدمی و فتوحات میں مصروف ہو گئے اور شعر اور اس کی روایت سے غفلت اختیار کی.پھر جب اسلام بکثرت پھیل گیا اور فتوحات ہوئیں اور عرب لوگ مفتوحہ ملکوں میں پراطمینان 40

Page 51

زندگی بسر کرنے لگے تو انہوں نے شعر کی روایت کی طرف رجوع کیا.اس وقت انہوں نے دیکھا کہ نہ تو کوئی شعر کا مدون دیوان ہے نہ اس بارے میں کوئی لکھی ہوئی کتاب.چنانچہ اس وقت انہوں نے اس بارے میں لکھنا شروع کیا جبکہ اس وقت تک بہت سے عرب شعراء وبلغاء یا تو وفات پاچکے تھے یا قتل ہو گئے تھے.تاہم اس وقت انہیں جو قلیل مقدار میں علم مل سکا انہوں نے اسے محفوظ کر لیا لیکن اس علم کا بہت بڑا حصہ ضائع ہو گیا.دوسری بات ابو عمرو بن علاء کا قول ہے جو کہ قراء سبعہ میں شامل ہیں اور بہت بڑے عالم اور نحوی سمجھے جاتے ہیں وہ لکھتے ہیں : ,, مَا انْتَهَى إِلَيْكُمْ مِمَّا قَالَت العَرَبُ إِلَّا أَقَلَّهُ، وَلَوْ جَاءَكُمْ وَافِرًا لجاءَكُمْ عِلْمٌ وَشِعْر كَثير، طَبَقاتُ فُحول الشعراء تأليف ابن سلام الجمحي، صفحة ٢٥ تحقيق محمود مُحَمَّد شاكر سَنَةَ ١٩٧٤م) یعنی تم تک عربوں کے کلام اور اقوال کا محض ایک قلیل حصہ ہی پہنچا ہے.اور اگر یہ وافر مقدار میں تم تک پہنچتا تو تمہارے پاس پرانے عربوں کا بہت سا علم اور بہت سا شعری سرمایہ ہوتا.تیسری بات چوتھی صدی ہجری کے مشہور ومعروف نحوی ابن جنی کا قول ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ( الخصائص) میں لکھا ہے.انہوں نے اس کتاب میں ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے: اختلاف اللغات وكلّها

Page 52

حجة یعنی لغات عرب کے اختلاف اور تمام لغات کے حجت ہونے کا بیان.اس عنوان کے تحت وہ مشہور و رائج لغات عرب کی بجائے غیر مشہور ور غیر رائج لغات کے استعمال کے بارے میں لکھتے ہیں: فَإِذَا كَانَ الْأَمْرُ فِي اللُّغَةِ الْمُعَوَّل عَلَيْهَا هَكَذَا، وَعَلَى هَذَا فَيَجِبُ أَنْ يَقِلَّ اسْتِعْمَالُها، وَأَنْ يَتَخَيَّرَ مَا هوَ أَقْوَى وَأَشْيَعَ مِنْهَا، إِلَّا أَنَّ إِنْسَانًا لَوْ اسْتَعْمَلَهَا لَمْ يَكُنْ مُحْطِئًا لِكَلام العَرَب، لَكِنَّهُ كَانَ يَكونُ مُخْطِئًا لِأَجْوَدِ اللُّغَتَيْن فَأَمَّا إِنْ احْتَاجَ إِلَى ذَلِكَ فِي شِعْر أَوْ سَجَع فَإِنَّهُ مَقْبُولٌ مِنْهُ، غَيْرُ مَنْعِي عَلَيْهِ.وَكَذَلِكَ إِنْ قَالَ: يَقُولُ عَلَى قِيَاسِ مَنْ لُغَتِهِ كَذَا كَذَا، وَيَقُولُ عَلَى مَذْهَب مَنْ قَالَ كَذَا كَذَا وَكَيْفَ تَصَرَّفَتِ الْحَالُ فَالْنَاطِقُ عَلَى قِيَاس لُغَةٍ مِنْ لُغَاتِ العَرَب مُصِيبٌ غَيْرُ مُحْطِئَ، وَإِنْ 66 كَانَ غَيْر مَا جَاءَ بهِ خَيْرًا مِنْهُ الخَصائِصُ الجزء الثاني الصفحة ١٤، باب في العربي يسمع لغة غيره أيراعيها ويعتمدها أم يلغيها ويطرح حكمها؟) یہ عربی تحریر چونکہ پرانی اور مختصر ہونے کی بنا پر کسی قدر مشکل ہے اس لیے اس کا لفظی کی بجائے کسی قدر تفصیلی اور وضاحتی ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.ابن جنی کہتے ہیں : غیر مشہور لغات کا استعمال کم ہونا چاہیے.اور کاتب کو چاہیے کہ وہ لغات عرب میں سے سب سے مضبوط اور مشہور ورائج لغات کا انتخاب کرے.42

Page 53

لیکن اگر کوئی مشہور لغت کے بالمقابل غیر مشہور لغات کا استعمال کرے تو اسے کلام عرب کے استعمال میں غلطی خوردہ نہیں کہا جائے گا.تاہم بہتر اور مشہور لغت کو چھوڑ کر اس پر غیر مشہور لغت کو ترجیح دینے کی غلطی ضرور اس سے سرزد ہو گی.تاہم اگر وہ شعر میں یا مسجع مقفی عبارت میں ایسا کرتا ہے تو یہ قابل قبول امر ہے اور اس کی مناہی نہیں ہے.اسی طرح اگر کوئی بات کرتے وقت حوالہ دے کر لکھے کہ یہ فلاں قبیلہ کی زبان پر قیاس کر کے لکھا گیا ہے یا فلاں صرفی نحوی مذھب کے مطابق درج کیا گیا ہے تو بھی ایسی غیر مشہور لغات کے استعمال میں وہ حق بجانب ہو گا.قصہ مختصر یہ کہ عربوں کی کسی بھی لغت پر قیاس کر کے بولا جانے والا کلام درست سمجھا جائے گا اور ایسا شخص غلطی مخوردہ نہیں کہلائے گا.اگر چہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ وہ اگر اس غیر مشہور لغت کی جگہ مشہور لغت استعمال کرتا تو اس سے بہتر تھا.عجیب بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جن بعض لغات یا استعمالات پر اعتراض کیا جاتا ہے ان میں سے اکثر مقامات حضور علیہ السلام کے سمع اور شعر سے لیے گئے ہیں اور اس بارے میں ابن جنی کہتے ہیں کہ ان دو مقامات پر غیر مشہور ورائج لغات کا استعمال جائز ہے اور اس کی کوئی مناہی نہیں ہے.

Page 54

پھر بہت سی لغات کے بارے میں تحقیق سے ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ فلاں قبیلہ کی لغات کے مطابق درست ہے.لیکن اگر اس کے علاوہ بھی آپ نے ایسی لغات یا اسالیب یا استعمالات لکھی ہوں جن پر یہ کہہ کر اعتراض کیا جائے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی تو اس کو آپ کا یہ دعویٰ درست قرار دیتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے چالیس ہزار لغات عرب سکھائی ہیں.اور چونکہ لغات عرب کو محفوظ کرنے میں بہت کو تاہی کی گئی ہے اور ہم تک ان لغات کا بہت کم حصہ پہنچا ہے اس صورت حال میں حضور علیہ السلام کے دعویٰ کی تردید کرنے کا کسی کے پاس کوئی جواز نہیں ہے.چوتھی بات ابن جنی کا یہ قول ہے جو اس نے اپنی کتاب المحتسب میں لکھا ہے: لَيْسَ يَنْبَغِي أَنْ يُطْلَقَ عَلَى شَيْءٍ لَهُ وَجْةٌ فِي العَرَبِيَّةِ قَائِمٌ ۖ وَإِنْ كَانَ غَيْرُهُ أَقْوَى مِنْهُ - أَنَّهُ غَلَط ، المُحْتَسِبُ فِي تَبْيِينِ وُجُوهِ شَوادِ القراءات والإيضاح عَنْهَا جلد ١ صفحة ٢٣٦) 66 یعنی عربی زبان کے کسی بھی استعمال کی اگر کوئی بھی صورت اس زبان میں کہیں موجود ہے تو اسے غلط نہیں کہا جاسکتا خواہ اس سے زیادہ مضبوط استعمالات بھی موجو د ہوں.الاند پانچویں بات ساتویں صدی ہجری کے مشہور و معروف علامہ ابو حیان اندلسی کا قول ہے.وہ اپنی کتاب التذييل والتکمیل میں لکھتے ہیں : 44

Page 55

كل ما كان لغةً لقبيلة قيس عليه“ (التذييل والتكميل في شرح التسهيل، ٢/٢٨) یعنی اگر کوئی بھی استعمال کسی بھی عربی قبیلہ کی لغت ہو گا تو اس پر قیاس کر کے اس جیسا اسلوب اختیار کیا جاسکتا ہے.سولغات عرب کے بارے میں تفصیلی بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس دعویٰ کی عظمت اور آپ کی وسعت علمی کی روشن دلیل ہے اور متعلق کلمات و جمل پر اعتراض مخالفین کی جہالت کا منہ بولتا اس ثبوت ہے.

Page 56

عربی زبان کی فصاحت کے بارے میں قاطع بیان عربی زبان کی فصاحت کے بارے میں بھی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے.اس کے بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت شافی بیان درج فرمایا ہے.ایک معترض نے اعتراض کیا کہ قرآن کریم میں غیر عربی الفاظ موجود ہیں، اس کا جواب دیتے ہوئے حضور علیہ السلام نے عربی زبان کی فصاحت کے بارے میں ایک کلیدی نقطہ بیان فرمایا جسے آج کے علماء بھی ماننے پر مجبور ہیں اور عربی زبان کی فصاحت کی حقیقت سمجھنے کے لیے یہ ایک نہایت اہم نقطہ ہے.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: " وَأَمَّا مَا ظَنَنْتَ أَنَّ فِي القُرْآنِ بَعْضَ أَلْفَاظَ غَيْرِ لِسَانِ قُرَيْشٍ، فَقَدْ قُلتَ هَذَا اللَّفْظَ مِنْ جَهِلٍ وَطَيْشٍ، وَمَا كُنْتَ مِنْ الْمُتَبَصِّرِينَ.أَيُّهَا الغَبِيُّ وَالْجَهولُ الدَّيُّ ، إِنَّ مَدارَ الفَصاحَةِ عَلَى أَلْفَاظِ مَقْبُولَةٍ سَوَاءً كَانَتْ مِنْ لِسانِ القَوْمِ أَوْ مِنْ كَلِمٍ مَنْقُولَةٍ مُسْتَعْمَلَةٍ فِي بُلَغَاءِ القَوْمِ غَيْر مَجْهولَةٍ، وَسَوَاءٌ كَانَتْ مِنْ لُغَةِ قَوْمِ وَاحِدٍ وَمِن مُحاوَرَاتِهِمْ عَلَى الدَّوَامِ، أَوْ خَالَطَهَا أَلْفَاظُ اسْتِحْلَاهَا بُلَغَاءُ القَوْمِ، وَاسْتَعْمَلُوهَا فِي النظم والنَّقْرِ مِنْ غَيْرِ مَخافَةِ اللَّوْمِ ، مُختَارِينَ غَيْرِ مُضْطَرِّينَ.فَلَمَّا كَانَ 46

Page 57

مَدَارُ البَلاغَةِ عَلَى هَذِهِ القاعِدَةِ فَهَذَا هُوَ مِعْيارُ الكَلِماتِ الصَّاعِدَةِ فِي سَماءِ البَلاغَةِ الراعِدَةِ، فَلَا حَرَجَ أَنْ يَكُونَ لَفْظُ مِنْ غَيْرِ النِّسَانِ به مَقْبُولًا فِي أَهْل البَيانِ، بَلْ رُبَّمَا يَزِيدُ البَلاغَةَ مِنْ هَذَا النَّهْجِ فِي بَعْضِ الأَوْقَاتِ، بَلْ يَسْتَمْلِحُونَهُ فِي بَعْض المقاماتِ، وَيَتَلَذَّذونَ أَهْلُ الأفانين.وَلَكِنَّكَ رَجُلٌ غَمْرٌ جَهُولٌ، وَمَعَ ذَلِكَ مُعَانِدٌ وَعَجُولٌ، فَلِأَجْلِ ذَلِكَ مَا تَعْلَمُ شَيْئًا غَيْرَ حِقْدِكَ وَجَهْلِكَ، وَمَا تَضَعُ قَدَمًا إِلَّا فِي دَحْلِكَ، وَلَا تَدْرِي مَا لِسانُ العَرَب وَمَا الفَصاحَةُ، وَلَا تَصْدُرُ مِنْكَ إِلَّا الوَقاحَةُ وَمَا لُقَنتَ إِلَّا سَبَّ الْمُطَهَّرَيْنَ» (نور الحق، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۴۹-۱۵۰) (اردو ترجمه منقوله از کتاب نور الحق) اور یہ جو تو نے خیال کیا کہ قرآن میں بعض ایسے الفاظ ہیں کہ وہ زبان قریش کے مخالف ہیں سو یہ بات تیری سراسر جہل اور نفسانی جوش سے ہے اور بصیرت کی راہ سے نہیں.اے نبی اور سفلہ نادان تجھے معلوم ہو کہ فصاحت کا مدار الفاظ مقبولہ پر ہوا کرتا ہے خواہ وہ کلمات قوم کی اصل زبان میں سے ہوں یا ایسے کلمات منقولہ ہوں جو بلغاء قوم کے استعمال میں آ گئے ہوں، اور خواہ وہ ایک ہی قوم کی لغت میں سے ہوں اور ان کے دائمی محاورات میں سے ہوں یا ایسے الفاظ اُن میں مل گئے ہوں، جو قوم کے بلغاء کو شیریں معلوم ہوئے اور

Page 58

انہوں نے ان کے استعمال اپنی نظم اور نثر میں جائز رکھے ہوں، اور کسی ملامت سے نہ ڈرے ہوں، اور نہ کسی اضطرار سے وہ الفاظ استعمال کیے ہوں.پس جبکہ بلاغت کا مدار اسی قاعدہ پر ہوا، پس یہی قاعدہ ان عبارات بلیغہ کے لئے معیار ہے جو فصاحت کے آسمان پر چڑھے ہوئے اور بلندی میں گرج رہے ہیں.پس اس بات میں کچھ بھی حرج نہیں کہ ایک غیر زبان کا لفظ ہو مگر بلغاء نے اس کو قبول کر لیا ہو بلکہ اس طریق سے تو بسا اوقات بلاغت بڑھ جاتی ہے اور کلام میں زور پیدا ہو جاتا ہے بلکہ بعض مقامات میں اس طرز کو فصیح اور بلیغ لوگ ملیح اور نمکین سمجھتے ہیں اور تفنن عبارات کے عشاق اس سے لذت اٹھاتے ہیں.مگر تو تو اے معترض ایک غبی اور جاہل ہے اور باوجود اس کے تو جلد باز اور دشمن حق ہے اسی لئے تو بغیر کینہ اور جہل کے اور کچھ نہیں جانتا، اور بغیر گڑھے کے اور کسی جگہ قدم نہیں رکھتا.اور تو نہیں جانتا کہ زبان عرب کیا شے ہے اور فصاحت کسے کہتے ہیں؟ اور صرف بے حیائی تجھ میں ہے نہ اور کوئی لیاقت اور تجھ کو تو کسی نے سکھایا ہے کہ تو پاکوں کو گالیاں دیتا ر ہے.“ یہ عبارت کئی لحاظ سے بہت بنیادی حیثیت کی حامل ہے.فصاحت و بلاغت کے حوالے سے اس عبارت میں مذکور دو نا قابل تردید امور یہ ہیں: 487

Page 59

اگر کسی زبان میں دوسری زبان کا کوئی لفظ قابل قبول سمجھا گیا ہو اور قبل ازیں بلغائے قوم کی طرف سے شعر و نثر میں استعمال کیا گیا ہو تو یہ لفظ فصیح سمجھا جائے گا.ایسے الفاظ خواہ کیسے ہی شاذ اور غیر مشہور ہوں اگر ان کا استعمال کاتب کے ذاتی ارادے سے ہوا ہے اور ایسا اس نے اپنی قلت علمی یا مناسب لفظ کی عدم موجودگی کی صورت میں نہیں کیا تو ایسا لفظ فصاحت و بلاغت کی ذیل میں ہی لکھا جائے گا.نتیجہ یہ ہے کہ حضور علیہ السلام کے عربی کلام میں بھی اگر کوئی ایسے کلمات پائے جائیں تو ان کے ارد گرد استعمال ہونے والے کلمات اور عبارات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قدر بے ساختگی کے ساتھ بلاغت و فصاحت اور مسمع و متقی عبارات کا دھارا بہ رہا ہے، ایسے میں اگر کوئی ایسا لفظ یا ترکیب استعمال ہوتی ہے جو بظاہر کسی دوسری قوم کی زبان کی ہے تو ایسے بے ساختہ استعمال کی وجہ سے کاتب نے اسے اس زبان کا حصہ بنا لیا ہے اور اس پر اعتراض کرنے والا فصاحت و بلاغت کے مناہج سے ناواقف اور ایسے اسالیب سے غافل و جاہل قرار پائے گا.49

Page 60

حضور علیہ السلام کے موقف کی تائید عباس حسن (متوفی ۱۹۷۹ء) موجودہ دور کے عربی زبان اور علم نحو کے مشہور عالم اور اس میدان میں حجت سمجھے جاتے ہیں.انہوں نے چار اجزاء میں النحو الوافی کے نام سے ایک کتاب تالیف کی جو نحو کے موضوع پر موجودہ دور کی سب سے بہترین کتاب ہے.عباس حسن نے صريح الرأي في النحو العربي..داؤه ودواؤه کے عنوان سے کچھ مقالات لکھے جو پہلی بار پچاس کی دہائی میں مصر کے ایک مجلہ (رسالة الإسلام) میں چھپے.ان مقالات میں انہوں نے لغات عرب کے مضمون پر بھی سیر حاصل بحث کی.انہوں نے علم نحو کی چھ عربی قبائل کی فصیح زبان پر بنا ہونے کے مقولہ کا رد کرتے ہوئے کئی صفحات لکھے ہیں.ذیل میں ان کے ذکر کردہ بعض امور کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے.وہ لکھتے ہیں : دیگر قبائل بھی اسی طرح فصیح تھے جس طرح یہ چھ قبائل.اور دیگر قبائل ان چھ قبائل سے کہیں زیادہ لغات کے مالک تھے.اس سلسلے میں ایسے قبائل پر یہ تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی کہ آیا وہ شہری علاقے میں رہتے تھے یا دیہاتی میں، ملکی حدود پر رہتے تھے یا وہاں عجمیوں اور عیسائیوں کے 507

Page 61

قریبی علاقوں کے رہائشی تھے.کیونکہ جزیرہ نما عرب کے باشندے اور وہاں کے اصیل عربی قبائل ہونے کی وجہ سے ان قبائل کو لفظوں کے بنانے اور نئے الفاظ ایجاد کرنے کا مکمل اختیار اور حق حاصل تھا بلکہ یہ بھی حق حاصل تھا کہ وہ عجمیوں کی زبان سے جو کلمہ یا ترکیب پسند کریں اسے اپنی زبان میں شامل کر لیں.اسی نہج پر قدیم عربوں نے جو غیر عربی کلمات اخذ کر کے استعمال کیے وہ معرب کہلاتے ہیں.ایسے معرب کلمات کا عربی زبان میں موجود ہونا صاف بتاتا ہے کہ عرب عجمیوں کے ساتھ رہے اور ان سے عربوں کا میل جول رہا جس کی بنا پر انہوں نے عجمیوں کی زبان سے جو پسند آیا لے لیا اور اسے اپنی زبان میں داخل کر لیا اور پھر ایسے کلمات ان کی زبان پر بھی جاری ہو گئے اور قرآن کریم میں بھی ان کا ذکر ہے.چنانچہ اس بنا پر ہم کسی قبیلہ کی زبان کو رد نہیں کر سکتے کہ اس کا فلاں عجمیوں کے ساتھ میل ملاپ تھا اور اس کی وجہ سے ان کی زبان فصیح نہیں رہی اور اس میں عجمی زبان کا اختلاط ہو گیا ہو گا.اگر اس منطق کو مان لیا جائے تو پھر ان مذکورہ چھ قبائل کی زبان کو بھی رڈ کرنا پڑے گا کیونکہ قریش کے رحلة الشتاء والصیف یعنی سردیوں اور گرمیوں کے تجارتی سفر جاری تھے جس میں وہ سردیوں میں یمن اور [51]

Page 62

گرمیوں میں شام کی طرف جاتے تھے اور وہاں رہتے اور وہاں کے قبائل سے ملتے جلتے تھے.اسی طرح بعض دیگر قبائل جزیرہ نما عرب کے شمال میں واقع رومی اور سریانی اور عبرانی قبائل سے اور جنوب میں فارسیوں اور اہل ہند و یونان سے رابطے میں تھے.اس لیے مختلف عربی قبائل میں لغوی اعتبار سے تفریق کرنا اور بعض کو بعض پر فوقیت دینا بعید از انصاف ہے.چنانچہ اگر کوئی قبیلہ کسی لفظ یا کلمہ وغیرہ کے اختیار و استعمال میں سب قبائل کے برخلاف اپنا علیحدہ اسلوب اختیار کرے تب بھی ہمیں اسے قبول کرنے کے سوا چارہ نہ ہو گا.یہی موقف ابن جنی، ابو حیان، ابو عمرو، ابن فارس اور امام شافعی کا ہے.

Page 63

صرف و نحو کی حقیقت معترضین اپنی کم علمی اور جہالت کی بنا پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی زبان کو آجکل کے معدودے چند معروف قواعد کے میز ان میں تولنا چاہتے ہیں.اور بہت سے اعتراضات کی اصل وجہ ان کی یہی کم فہمی ہے.حضور علیہ السلام کو ان صرف و نحو کے قواعد کی حقیقت کا بھی گہرا علم تھا اس لیے آپ نے عربی قواعد اور صرف ونحو کے بارے میں ایسی رائے درج فرمائی جس کی تصدیق آج کے محققین بھی کر رہے ہیں.آپ نے فرمایا: ” لغت عرب جو صرف محو کی اصل کنجی ہے وہ ایک ایسا نا پیدا کنار دریا ہے جو اس کی نسبت امام شافعی رحمتہ اللہ کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے کہ لا يَعْلَمُهُ إِلَّا نَبی یعنی اس زبان کو اور اس کے انواع اقسام کے محاورات کو بجز نی کے اور کوئی شخص کامل طور پر معلوم ہی نہیں کر سکتا.“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۷) اس پیرا گراف میں آپ علیہ السلام نے نہایت اختصار کے ساتھ ایسی عظیم الشان دلیل پیش فرمائی ہے کہ آپ کے محض ایک فقرے میں ساری 53)

Page 64

نام نهاد صرف و نحو کا جنازہ نکل جاتا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ صرف ونحو لغت عرب کے مطابق بنائی گئی ہے.چنانچہ صرف ونحو کی کنجی لغت عرب میں ہے.اور چونکہ لغت عرب دریائے نا پیدا کنار ہے اس لیے عقل کی بات یہی ہے کہ محدود قواعد صرف و نحو میں دریائے نا پیدا کنار کیونکر سما سکتا ہے ؟ !! علاوہ ازیں حضور علیہ السلام نے صرف ونحو کے فلسفہ پر بھی سیر حاصل بحث فرمائی ہے اور اس کے بعض اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں : ”صرف اور نحو ایک ایسا علم ہے جس کو ہمیشہ اہل زبان کے محاورات اور بول چال کے تابع کرنا چاہئے اور اہل زبان کی مخالفانہ شہادت ایک دم میں نحو وصرف کے بناوٹی قاعدہ کو رد کر دیتی ہے.ہمارے پر اللہ اور رسول نے یہ فرض نہیں کیا کہ ہم انسانوں کے خود تراشیدہ قواعد صرف و نحو کو اپنے لئے ایسار ہبر قرار دیدیں کہ باوجودیکہ ہم پر کافی اور کامل طور پر کسی آیت کے معنے کھل جائیں اور اس پر اکابر مومنین اہل زبان کی شہادت بھی مل جائے تو پھر بھی ہم اس قاعدہ صرف یا نحو کو ترک نہ کریں.اس بدعت کے الزام کی ہمیں حاجت کیا ہے.کیا ہمارے لئے کافی نہیں کہ اللہ اور رسول 54

Page 65

اور صحابہ کرام ایک صحیح معنے ہم کو بتلاویں.نحو اور صرف کے قواعد اطراد بعد الوقوع ہے اور یہ ہمارا مذہب نہیں کہ یہ لوگ اپنے قواعد تراشی میں بکلی غلطی سے معصوم ہیں اور ان کی نظریں ان گہرے محاورات کلام الہی پر پہنچ گئی ہیں جس سے آگے تلاش اور تتبع کا دروازہ بند ہے.میں جانتا ہوں کہ آپ بھی ان کو معصوم نہیں سمجھتے ہوں گے.آپ جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں إِن هَذَانِ لَسَاحِرَانِ بھی آیت موجود ہے.لیکن کیا آپ نظیر کے طور پر کوئی قول عرب قدیم کا پیش کر سکتے ہیں جس میں بجائے إِن هَذَینِ کے إِنْ هَذَانِ لکھا ہو.کسی نحوی نے آج تک یہ دعویٰ بھی نہیں کیا کہ ہم قواعد صرف و نحو کو ایسے کمال تک پہنچا چکے ہیں کہ اب کوئی نیا امر پیش آنا یا ہماری تحقیق میں کسی قسم کا نقص نکلنا غیر ممکن ہے.غرض التزام قواعد مخترعہ صرف ونحو کا حُج شرعیہ میں سے نہیں.یہ علم محض از قبیل اطراد بعد الوقوع ہے اور ان لوگوں کی معصومیت پر کوئی دلیل شرعی نہیں مل سکتی.خواص علم لغت ایک دریا نا پیدا کنار ہے.افسوس کہ ہماری صرف و نحو کے قواعد مرتب کرنے والوں نے بہت جلد ہمت ہار دی اور جیسا کہ حق تفتیش کا تھا بجا نہیں لائے.اور کبھی انہوں نے ارادہ نہیں کیا اور نہ کر سکے کہ ایک گہری اور عمیق نظر سے قرآنی وسیع المفہوم الفاظ کو پیش نظر رکھ کر قواعد 55

Page 66

تامہ کاملہ مرتب کریں اور یوں ہی نا تمام اپنے کام کو چھوڑ گئے.ہمارے ایمان کا تقاضا یہ ہونا چاہئے کہ ہم کسی طرح قرآن کریم کو ان کا تابع نہ ٹھہر اویں بلکہ جیسے جیسے خواص وسیع المفہوم قرآن کریم کے الفاظ کے کھلنے چاہئیں اسی کے مطابق اپنی پرانی اور نا تمام محو کو بھی درست کر لیں.یہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہر یک زبان ہمیشہ گردش میں رہتی ہے اور گردش میں رہے گی.جو شخص اب ملک عرب میں جا کر مشاہدہ کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ کس قدر پہلی زبانوں سے اب عربی زبان میں فرق آگیا ہے یہاں تک کہ اقعد کی جگہ اگر بولا جاتا ہے.ایسا ہی کئی محاورات بدل گئے ہیں.اب معلوم نہیں کہ جس زمانہ میں صرف و نحو کے قواعد مرتب کرنے کیلئے توجہ کی گئی وہ زمانہ کس قدر آنحضرت صلی الم کے زمانہ سے فرق کر گیا تھا اور کیا کچھ محاورات میں تبدل واقعہ ہو گیا تھا.نحوی اور صرفی اس بات کے بھی تو قائل ہیں کہ باوجو د ترتیب قواعد کے ایک حصہ کثیرہ خلاف قیاس الفاظ اور خلاف قیاس ترتیب الفاظ کا بھی ہے جس کی حد ابھی غیر معلوم ہے ، جو ابھی تک کسی قاعدہ کے نیچے نہیں آسکا.غرض یہ صرف اور نحو جو ہمارے ہاتھ میں ہے صرف بچوں کو ایک موٹی قواعد سکھلانے کیلئے ہے.اس کو ایک رہبر معصوم تصور کر لینا اور خطا اور غلطی سے پاک 56

Page 67

سمجھنا انہیں لوگوں کا کام ہے جو بجز اللہ اور رسول کے کسی اور کو بھی معصوم قرار دیتے ہیں.اللہ جل شانہ نے ہمیں یہ فرمایا ہے: فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ یعنی اگر تم کسی بات میں تنازع کرو تو اس امر کا فیصلہ اللہ اور رسول کی طرف رد کرو اور صرف اللہ اور رسول کو حکم بناؤ نہ کسی اور کو.اب یہ کیونکر ہو سکے کہ ناقص العلم صرفیوں اور نحویوں کو اللہ اور رسول کو چھوڑ کر اپنا محکم بنایا جائے.کیا اس پر کوئی دلیل ہے.تعجب کہ متبع سنت کہلا کر کسی اور کی طرف بجز سر چشمہ طیبہ مطہرہ اللہ رسول کے رجوع کریں.آپ کو یاد رہے کہ میرا یہ مذہب نہیں ہے کہ قواعد موجودہ صرف و محو غلطی سے پاک ہیں یا ہمہ وجوہ متمم و مکمل ہیں.اگر آپ کا یہ مذہب ہے تو اس مذہب کی تائید میں تو کوئی آیت قرآن کریم پیش کیجئے یا کوئی حدیث صحیح دکھلائیے ورنہ آپ کی یہ بحث بے مصرف فضول خیال ہے، حجت شرعی نہیں.میں ثابت کرتا ہوں کہ اگر فی الحقیقت نحویوں کا یہی مذہب ہے کہ نون ثقیلہ سے مضارع خالص مستقبل کے معنوں میں آجاتا ہے اور کبھی اور کسی مقام اور کسی صورت میں اس کے بر خلاف نہیں ہوتا تو انہوں نے سخت غلطی کی ہے.قرآن کریم ان کی غلطی ظاہر کر رہا ہے اور اکابر صحابہ اس پر شہادت دے رہے ہیں.حضرت انسانوں کی اور کو ششوں (57)

Page 68

عربی زبان میں خداداد فصاحت و بلاغت کا عظیم الشان نشه کی طرح نحویوں کی کوششیں بھی خطا سے خالی نہیں.آپ حدیث اور قرآن کو چھوڑ کر کس جھگڑے میں پڑ گئے.“ (الحق مباحثہ دہلی، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه (۱۸۴-۱۸۳ قواعد صرف و نحو کے بارے میں حضور علیہ السلام کے اس اقتباس میں مذکور فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ:...علمائے قواعد وصرف غلطی سے مبرا یا خطا سے معصوم نہیں ہیں..ہا.عربی زبان کے قواعد قطعی نہیں ہیں نہ ہی اس معنی میں جامع ومانع ہیں کہ ہر قسم کے تمام امور کو ان میں سمٹا ہوا تصور کیا جائے.اس لیے بہت سے ایسے امور ہو سکتے ہیں جو ان میں سے کسی قاعدے کے تحت نہ آتے ہوں.علمائے قواعد وصرف کے بنائے ہوئے قواعد کی پابندی کوئی حجت شرعی نہیں کہ جس کا ہر حال میں التزام کیا جائے.صرف ونحو کی کنجی لغت عرب میں ہے.اور چونکہ لغت عرب دریائے نا پیدا کنار ہے اس لیے عقل کی بات یہی ہے کہ محدود قواعد صرف و نحو میں دریائے نا پیدا کنار کا سمانا محال ہے ؟ ہیں.عربی زبان کا مکمل احاطہ سوائے نبی کے کوئی نہیں کر سکتا.***58**

Page 69

نویوں کا عربی زبان کے قواعد بنانے کا عمل ناقص اور نامکمل ہے.فہم قرآن کی بنا صرف آج کل کے معروف قواعد پر نہیں ہونی چاہیے بلکہ قرآن کریم کو ان تمام قواعد پر مہیمن ہے.اس امر کو مدِ نظر رکھ کر قرآن کریم کو سمجھنے کی ضرورت ہے یعنی اگر ان میں ن میں تبدیلی سے قرآن کریم کے خواص اور مفاہیم ظاہر ہوتے ہیں تو ایسے قاعدہ کو تبدیل کرنا عین درست ہو گا.اسی طرح اگر کوئی قاعدہ قرآن کریم کے نئے مفاہیم ظاہر کرنے والا ہو تو اسے ضرور عربی زبان کے مضبوط قواعد میں سے ایک قاعدہ قرار دیا جانا چاہیے.نحوی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ عربی زبان میں بہت سے ایسے الفاظ بھی موجود ہیں جو عربی زبان کے معروف قواعد کے تحت نہیں آتے.حضور علیہ السلام کے اس موقف کی تائید دور حاضر کے بڑے بڑے نحوی بھی کرتے ہیں.النحو الوافی کے مصنف عباس حسن صاحب نحو کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نحو کے بارے میں سب سے پہلے جو کسی محقق کو پڑھنے کو ملتا ہے وہ کسی نحوی مسئلہ میں مختلف آراء اور ان آراء کی بنا پر کسی بھی ایک مسئلہ میں مختلف نحویوں کے مختلف احکام یا قواعد ہیں.یہاں تک 59

Page 70

ان میں سے اگر کوئی کسی رائے کے بارے میں اس یقین پر بھی پہنچ جائے کہ وہ رائے سب سے زیادہ درست ہے تب بھی اسی معاملہ میں کوئی عام آدمی بغیر تحقیق کیے بآسانی کہہ سکتا ہے کہ ایک رائے اس موقف کے خلاف بھی ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نحو اور اس کے قواعد میں سے کوئی قاعدہ بھی دو یا اس سے زیادہ متضاد آرا سے خالی نہیں ہے.(مشخص از صریح الرأي في النحو العربي داؤه و دواؤه المقالة الأولى للأستاذ عباس حسن) علم نحو کے اصول کے بارے میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے.اس سلسلے میں دو معروف مدر سے بصری اور کوفی میں بھی حد درجہ اختلاف ہے.کوفی تو ہر چیز کو لے لیتے ہیں چاہے اس کے بارے میں صرف ایک مثال ہی مذکور ہوئی ہو ، اس لیے انہوں نے قرآن کریم کی قراءات کو بھی بطور حجت اخذ کیا ہے.لیکن بصری کہتے ہیں کہ محض ایک مثال سے کوئی فصیح نہیں کہلا سکتی.لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کوئی معیار یا تعداد بھی مقرر نہیں کی جس کی بنا پر کسی لغت کو فصیح یا غیر فصیح قرار دیا جاسکے.یہ اختلاف بذات خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال کی صداقت کا اعتراف ہے کہ قواعد صرف و نحو کوئی شرعی حجت نہیں ہیں کہ *09

Page 71

جسے آنکھیں بند کر کے قبول کر لیا جائے.نہ ہی یہ تمام لغات اور استعمالات پر نظر کر کے بنائے گئے ہیں.بلکہ جب تمام علمائے لغت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بہت سا ادب اور لغات اور علم ضائع ہو گیا تو پھر باقی ادب اور علم کی بنا پر بننے والے قواعد بھی ناقص ہی رہیں گے.اس سارے مضمون کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ”جب تک زبان عرب میں پورا پورا توغل نہ ہو اور جاہلیت کے تمام اشعار نظر سے نہ گذر جائیں اور کتب قدیمہ مبسوطہ لغت جو محاورات عرب پر مشتمل ہیں غور سے نہ پڑھے جائیں اور وسعت علمی کا دائرہ کمال تک نہ پہنچ جائے تب تک عربی محاورات کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا اور نہ اُن کی صرف اور کو کا باستیفاء علم ہو سکتا ہے.“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۶) اگر کسی کا علم اس سے کم ہے تو ہو سکتا ہے کہ عربی زبان کے صرف ونحو وغیرہ کے کچھ قواعد اور ادب کے کچھ محاورات اور تراکیب واستعمالات اس کی نظر سے اوجھل رہ گئے ہوں اور وہ جہالت کی بنا پر اعتراض کر بیٹھے جہاں تک آج کل کے محدود قواعد صرف ونحو کا تعلق ہے تو وہ محض بنیادی معلومات اور روز مرہ کی سطحی زبان کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں.***61**

Page 72

کامل وسعت علمی کو آج کے محدود قواعد کے اندر رکھ کر جانچنا جہالت متصور ہو گا.یہاں تک ہم نے حضور علیہ السلام کے عربی زبان میں بسطت کاملہ کے دعویٰ کو اجمالی طور پر اور لغات عرب کے بارے میں قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے.آپ کے اس دعویٰ کا ثبوت آپ کی کتب ہیں جن میں نہ صرف لغاتِ عرب کی بہت سی مثالیں ہیں بلکہ سیرۃ الابدال جیسی تصنیف میں عربی کے ایسے مفردات، تراکیب اور مادے بھی استعمال ہوئے ہیں جن کو عرب بھلا بیٹھے ہیں.اب ہم حضور علیہ السلام کی عربی دانی پر مخالفین کے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ایک جملے میں چھپے معافی کے سمندر کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.کیونکہ حضور علیہ السلام نے اپنے جوابات کے دوران عربی زبان کے بارے میں اپنے دعویٰ کے بعض نہایت اہم اور عظیم الشان پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے.62

Page 73

حضور علیہ السلام کی عربی تحریرات پر ممکنہ اعتراضات ان کے مآخذ کا بیان اور ان کے رڈ کا طریق معترضین کے اعتراضات پر حضور علیہ السلام کے جوابات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور علیہ السلام کو مخالفین کے اعتراضات کی نوعیت کا بھی علم تھا اور اپنے خداداد علم کے کمال پر بھی ایسا یقین کامل تھا کہ جو آپ نے لکھا ہے وہ حقیقی اغلاط سے مبرا ہے کیونکہ وہ خدائی تصرف سے لکھا گیا ہے اس لیے آپ کی تحریر یا اسلوب میں جس بات پر اعتراض کیا جاتا ہے اس قاعدہ یا اسلوب کی مثال عربی لٹر بھر میں کہیں نہ کہیں ضرور مل جائے گی.مثلاً فرمایا: ایک نادان نکتہ چینی کرتا ہے کہ فلاں صلہ درست نہیں یا ترکیب غلط ہے، اور اسی قسم کا صلہ اور اسی قسم کی ترکیب اور اسی قسم کا صیغہ قدیم جاہلیت کے کسی شعر میں نکل آتا ہے.“ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه (۴۳۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی تحریرات پر اعتراضات کے جواب میں آج تک جو کام جماعت نے کیا ہے وہ بعینم حضور علیہ السلام کے 63

Page 74

بتائے ہوئے طریق کے مطابق ہے یعنی ایسے استعمالات جن پر اعتراض کیا جاتا ہے اس کی مثال اور دلیل کسی نہ کسی پرانی کتاب سے یا پرانی لغات یا قاعدہ سے تلاش کی جاتی ہے اور وہ مل جاتی ہے.اس بیان سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حضور علیہ السلام نے جو کچھ لکھا اس کی حقیقت کے بارے میں بھی آپ کو گہرا علم تھا اور آپ نے اس کے مصادر وغیرہ کی طرف بھی اپنی تحریرات میں اشارے فرما دیے تھے.صرفی نحوی قواعد کے خلاف عبارتوں کی تطبیق کا طریق آپ علیہ السلام کی تحریرات میں جہاں بظاہر صرفی محوی قواعد کی پابندی نظر نہیں آتی وہ کوئی سہو نہیں بلکہ اس کے بارے میں بھی حضور علیہ السلام کو علم تھا اور آپ نے اس کے جواب دینے کے لیے بھی خود راور کھائی تھی.فرمایا: ” یہ عجیب بات ہے کہ بعض اوقات بعض فقروں میں خدا تعالیٰ کی وحی انسانوں کی بنائی ہوئی صرفی نحوی قواعد کی بظاہر اتباع نہیں کرتی مگر ادنی توجہ سے تطبیق ہو سکتی ہے.اسی وجہ سے بعض نادانوں نے قرآن شریف پر بھی اپنی مصنوعی نحو کو پیش نظر رکھ کر اعتراض کئے ہیں مگر یہ تمام اعتراض بیہودہ ہیں.“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۶) 64

Page 75

پھر فرمایا: زبان کا علم وسیع خدا کو ہے نہ کسی اور کو.اور زبان جیسا کہ تغیر مکانی سے کسی قدر بدلتی ہے ایسا ہی تغیر زمانی سے بھی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں.آج کل کی عربی زبان کا اگر محاورہ دیکھا جائے جو مصر اور مکہ اور مدینہ اور دیارِ شام وغیرہ میں بولی جاتی ہے تو گویا وہ محاورہ صرف و نحو کے تمام قواعد کی بیخ کنی کر رہا ہے اور ممکن ہے کہ اسی قسم کا محاورہ کسی زمانہ میں پہلے بھی گذر چکا ہو.پس خدا تعالیٰ کی وحی کو اس بات سے کوئی روک نہیں ہے کہ بعض فقرات سے گذشتہ محاورہ یا موجودہ محاورہ کے موافق بیان کرے.اسی وجہ سے قرآن میں بعض خصوصیات ہیں.“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۶) پرانی عربی لغات اور مختلف قبائل اور علاقوں کے مختلف لہجے سارے فصیح عربی زبان کا حصہ تھے.لیکن آج کل کے عربی لہجے بہت بگڑ گئے ہیں اور حضور علیہ السلام کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ آج کل دیار عربیہ میں بولی جانے والی عربی زبان صرف و نحو کے تمام قواعد کی بیخ کنی کر رہی ہے.ہو سکتا ہے ایسا کوئی لہجہ پہلے بھی گزرا ہو اور خدا نے جو اسلوب حضور علیہ السلام کو سکھایا ہے یا جو وحی فرمائی ہے وہ اس پرانے محاورہ کے مطابق ہو.65

Page 76

اس کلام سے واضح ہوتا ہے کہ حضور علیہ السلام کو اپنی وحی پر کس قدر یقین تھا اور کتنے وثوق سے آپ فرماتے ہیں کہ یہ کسی نہ کسی پرانے محاورہ کے مطابق درست ہو گی، صرف تلاش کرنے کی ضرورت ہے.آج جو بھی معترضین کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہے اس کی تحقیق کا ماحصل یہی ایک جملہ ہے کہ ادنی توجہ سے تطبیق ہو سکتی ہے.“ کیونکہ تھوڑی سی محنت سے ہر مقام اعتراض کی مثال پرانی کتب سے مل جاتی ہے.کیا حضور کی کتب میں سہو وغیرہ کی کوئی غلطی نہیں ؟! مذکورہ بالا ساری بحث کا یہ مطلب نہیں کہ حضور علیہ السلام کی عربی کتب میں نظر آنے والی ہر غلطی کے بارے میں ہمارا یہی موقف ہونا چاہیے کہ کسی نہ کسی قاعدہ کی رو سے یہ درست ہو گی.کیونکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بعض ایسی غلطیوں کی موجودگی کا ذکر فرمایا ہے تو ہمیں بھی اس سے انکار نہیں ہے.لیکن حضور علیہ السلام کے بیان میں جو اس کی تصریح ہے اسے ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے.آپ نے فرمایا ہے کہ: ”جو شخص عربی یا فارسی میں مبسوط کتابیں تالیف کرے گا ممکن ہے کہ حسب مقولہ مشہورہ قَلَّمَا سَلِمَ مِكْتَارٌ کے کوئی صرفی یا نحوی غلطی اُس سے 667

Page 77

ہو جائے اور باعث خطاء نظر کے اُس غلطی کی اصلاح نہ ہو سکے.اور یہ بھی ممکن ہے کہ سہو کاتب سے کوئی غلطی چھپ جائے اور بباعث ذہول بشریت، مؤلف کی اسپر نظر نہ پڑے.“ (کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۴۷) نیز فرمایا: إِن كُتُبِي مُبَرَّأَةٌ مِمَّا زَعَمْتَ، وَمُنَزَّهَةٌ عَمَّا ظَنَنْتَ، إِلَّا سَهْوَ الكاتبيْنَ، أَوْ زَيْغَ القَلَم، بتَغَافُل مِنِّي لَا كَجَهْلِ الْجَاهِلِيْنَ." (مكتوب احمد ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۲۴۱ - ۲۴۲) یعنی میری کتب تمہاری مزعومہ غلطیوں اور مظنونہ اخطا سے مبرا ہیں سوائے اس غلطی کے جو کاتبین کی سہو ہو، یا لغزش قلم ہو ، یا میری غفلت سے رہ گئی ہو ، نہ کہ جہالت کی وجہ سے صادر ہوئی ہو.اسی طرح ایک مقام پر فرمایا: اکثر جلد باز نکته چین خاص کر شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی جو ہماری عربی کتابوں کو عیب گیری کی نیت سے دیکھے ب گیری کی نیت سے دیکھتے ہیں باعث ظلمت تعصب، کاتب کے سہو کو بھی غلطی کی مد میں ہی داخل کر دیتے ہیں.“ (ستر الخلافہ ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۱۶)

Page 78

اس کا مطلب ہے حضور علیہ السلام نے بعض نکالی گئی غلطیوں کو چیک کر کے دیکھا کہ وہ کاتب کی غلطی ہے اور پھر یہ جواب دیا کہ کاتب کی غلطی کو میری غلطی شمار نہ کیا جائے.آگے اس کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے کہ بعض لوگوں نے سہو کاتب والی غلطیاں نکال کر حضور علیہ السلام کو بھیجیں اور حضور کے چیلنج کے مطابق ان پر انعام حاصل کرنے کا مطالبہ کیا.اس بارے میں حضور علیہ السلام نے خود تحریر فرمایا: بعض خوش فہم آدمی چند سہو کا تب یا کوئی اتفاقی غلطی نکال کر انعام کے امیدوار ہوئے.“ (ستر الخلافہ ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۱۶) اس کا مطلب ہے اتفاقی غلطی اور سہو کاتب ہوا، اور حضور علیہ السلام کے سامنے آیا.اور جہاں واضح طور پر اس کا پتہ چلا وہاں حضور علیہ السلام ا نے اسے خود تسلیم فرمایا ہے.لیکن اس کے لیے بھی حضور علیہ السلام نے خود ایک شاندار قاعدہ بنا دیا.کتابت کی غلطیوں اور سہو کاتب کے بارے میں اصولی ہدایت یہ سوال ہو سکتا تھا کہ یوں تو ہر غلطی کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ سہو کاتب یا لغزش قلم ہے.لیکن آپ علیہ السلام نے اس کے بارے میں بھی اصولی ہدایت بھی دے دی اور وضاحت بھی فرما دی.فرمایا:.68

Page 79

در حقیقت ہماری صرفی یا نحوی غلطی صرف وہی ہو گی جس کے مخالف صحیح طور پر ہماری کتابوں کے کسی اور مقام میں نہ لکھا گیا ہو.مگر جب کہ ایک مقام میں کسی اتفاق سے غلطی ہو اور وہی ترکیب یا لفظ دوسرے دس ہیں یا پچاس مقام میں صحیح طور پر پایا جاتا ہو تو اگر انصاف اور ایمان ہے تو اس کو سہو کا تب سمجھنا چاہیئے نہ غلطی.“ (ستر الخلافه ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۱۶) اس بیان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضور علیہ السلام خود بعض سہو کاتب وغیرہ کی قسم کی غلطیوں کو تسلیم فرماتے ہیں لیکن اگر وہ لفظ یا ترکیب دیگر مقامات پر حسب قواعد درست طور پر تحریر ہے تو لازم آتا ہے کہ اسے سہو كاتب تسلیم کیا جائے.چنانچہ کسی بھی سمجھی جانے والی غلطی کے بالمقابل حضور علیہ السلام کی کتب سے اس کے درست استعمالات نکال کر پیش کر دیے جائیں تو حضور علیہ السلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق خود بخود ایسے اعتراضات کا رڈ ہو جائے گا.مقامات حریری وغیرہ سے سرقہ کے الزام کا اصولی اور علمی رو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی تحریرات میں چونکہ بعض فقرے ایسے موجود ہیں جو بعینہ یا کسی قدر تبدیلی کے ساتھ مقامات حریری یا همذانی ***69

Page 80

وغیرہ کتب میں بھی پائے جاتے ہیں.ان پر جاہل اور کو تاہ علم مخالفین اُس وقت سے لے کر آج تک اعتراض کرتے جا رہے ہیں کہ نعوذ باللہ حضور علیہ السلام نے یہ ان مقامات سے سرقہ کیے ہیں.ان کے اعتراضات کی حقیقت اور اس کا اصولی جواب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی دے دیا تھا اور محض چند الفاظ یا ایک ایک جملے میں جوابات کے مآخذ کی طرف اشارہ فرما دیا ہے.ہ پہلی اصولی بات: بعض فقرات کی بنا پر سرقہ کا الزام جہالت ہے حضور علیہ السلام کا موقف یہ ہے کہ یہ اسلوب ادبی کتب میں بلکہ آسمانی کتب میں بھی پایا جاتا ہے کہ بعض معروف ادباء کے کلام سے توارد ہو جاتا ہے اور ایسے چند فقرات کی بنا پر ان کتب پر سرقہ کا الزام محض جہالت ہے.ایسے توارد پر نہ صرف یہ کہ اعتراض نہیں ہو سکتا بلکہ ادباء کے نزدیک یہ طریق مستحسن ہے اور ادبی ملکہ شمار کیا جاتا ہے.چنانچہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: خود ادباء کے نزدیک اس قدر قلیل توارد نہ جائے اعتراض ہے اور نہ جائے شک.بلکہ مستحسن ہے کیونکہ طریق اقتباس بھی ادبیہ طاقت میں شمار 700

Page 81

کیا گیا ہے اور ایک نجز بلاغت کی سمجھی گئی ہے.جو لوگ اس فن کے رجال ہیں وہی اقتباس پر بھی قدرت رکھتے ہیں ہر یک جاہل اور غبی کا یہ کام نہیں ہے.ماسوا اس کے ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارف حقائق قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں.اور وہ بلاغت جو ایک بیہودہ اور لغو طور پر اسلام میں رائج ہو گئی تھی اس کو کلام الہی کا خادم بنایا جائے اور جبکہ ایسا دعویٰ ہے تو محض انکار سے کیا ہو سکتا ہے جب تک کہ اس کی مثل پیش نہ کریں یوں تو بعض شریر اور بدذات انسانوں نے قرآن شریف پر بھی یہ الزام لگایا ہے کہ اس کے مضامین توریت اور انجیل میں سے مسروقہ ہیں اور اس کی امثلہ قدیم عرب کی امثلہ ہیں جو بالفاظہا سرقہ کے طور پر قرآن شریف میں داخل کی گئی ہیں.ایسا ہی یہودی بھی کہتے ہیں کہ انجیل کی عبارتیں طالمود میں سے لفظ بلفظ چرائی گئی ہیں.چنانچہ ایک یہودی نے حال میں ایک کتاب بنائی ہے جو اس وقت میرے پاس موجود ہے اور بہت سی عبارتیں طالمود کی پیش کی ہیں جو بجنسہ بغیر کسی تغیر تبدل کے انجیل میں موجود ہیں اور یہ عبارتیں صرف ایک دو فقرے نہیں ہیں بلکہ ایک بڑا حصہ انجیل کا ہے اور وہی فقرات اور وہی عبارتیں ہیں جو انجیل میں موجود ہیں 717-

Page 82

اور اس کثرت سے وہ عبارتیں ہیں جن کے دیکھنے سے ایک محتاط آدمی بھی شک میں پڑے گا کہ یہ کیا معاملہ ہے اور دل میں ضرور کہے گا کہ کہاں تک اس کو توارد پر حمل کرتا جاؤں اور اس یہودی فاضل نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ باقی حصہ انجیل کی نسبت اُس نے ثابت کیا ہے کہ یہ عبارتیں دوسرے نبیوں کی کتابوں میں سے لی گئی ہیں اور بعینہ وہ عبارتیں بائبل میں سے نکال کر پیش کی ہیں اور ثابت کیا ہے کہ انجیل سب کی سب مسروقہ ہے اور یہ شخص خدا کا نبی نہیں ہے بلکہ ادھر اُدھر سے فقرے چرا کر ایک کتاب بنالی اور اس کا نام انجیل رکھ لیا.اور اس فاضل یہودی کی طرف سے یہ اس قدر سخت حملہ کیا گیا ہے کہ اب تک کوئی پادری اس کا جواب نہیں دے سکا.یہ کتاب ہمارے پاس موجود ہے جو ابھی ملی ہے.اب چونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ حضرت مسیح نے ایک یہودی اُستاد سے سبق سبقا توریت پڑھی تھی اور طالمود کو بھی پڑھا تھا اس لئے ایک شکی مزاج کے انسان کو اس شبہ سے نکلنا مشکل ہے کہ کیوں اس قدر عبارتیں پہلی کتابوں کی انجیل میں بلفظیا داخل ہو گئیں اور نہ صرف وہی عبارتیں جو خدا کی کلام میں تھیں بلکہ وہ عبارتیں بھی جو انسانوں کے کلام میں تھیں.مگر اس سنت اللہ پر نظر کرنے سے جس کو ابھی ہم لکھ چکے ہیں یہ شبہ کیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ.

Page 83

بباعث اپنی مالکیت کے اختیار رکھتا ہے کہ دوسری کتابوں کی بعض عبارتیں اپنی جدید وحی میں داخل کرے اس پر کوئی اعتراض نہیں چنانچہ براہین احمدیہ کے دیکھنے سے ہر ایک پر ظاہر ہو گا کہ اکثر قرآنی آیتیں اور بعض انجیل کی آیتیں اور بعض اشعار کسی غیر ملہم کے اس وحی میں داخل کئے گئے ہیں جو زبر دست پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہے جس کے منجانب اللہ ہونے پر یہ قومی شہادت ہے کہ تمام پیشگوئیاں اُس کی آج پوری ہو گئیں اور پوری ہو رہی ہیں.“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۷ تا ۴۳۸) اس اقتباس میں اور دیگر کئی مقامات پر حضور علیہ السلام نے ایک نہایت عارفانہ نکتہ کی نشاندہی کی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی کا کوئی جملہ یا کلام خدا یہ کے الہام میں شامل ہو جائے تو اگر چہ کلمات تو وہی رہتے ہیں لیکن اس کلام کی عظمت خارق عادت ہو جاتی ہے اور جس کو چشم بینا عطا ہوئی ہو وہ دیکھ سکتا ہے کہ اگر چہ یہی کلام فلاں ادیب نے کہا تھا لیکن اس کی کوئی وقعت نہ تھی تاہم جب یہ فقرہ یا جملہ خدا تعالیٰ کی وحی میں شامل ہوا تو عظیم الشان پیشگوئی اور عظمت و جلال والے کلام کی حیثیت اختیار کر گیا.آپ علیہ السلام کو زلزلہ کی نسبت دی جانے والی پیشگوئی جن الفاظ میں دی گئی وہ لبید بن ربیعہ کے شعر کا ایک مصرعہ تھا.اس پر بہت اعتراض کیا گیا 73

Page 84

جس کے جواب میں آپ علیہ السلام نے اس عارفانہ مضمون کو بیان فرماتے ہوئے لکھا کہ : ”اب یاد رہے کہ وحی الہی یعنی عَفَتِ الدَيارُ مَحلَّها ومَقَامُها یہ وہ کلام ہے جو آج سے تیرہ سو برس پہلے خدا تعالیٰ نے لبید بن ربیعہ العامری کے دل میں ڈالا تھا جو اُس کے اس قصیدہ کا اول مصرعہ ہے جو سبعہ معلقہ کا چوتھا قصیدہ ہے اور لبید نے زمانہ اسلام کا پایا تھا اور مشرف باسلام ہو گیا تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں داخل تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کے کلام کو یہ عزت دی کہ جو آخری زمانہ کی نسبت ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ ایسی ایسی تباہیاں ہوں گی جن سے ایک ملک تباہ ہو گا وہ اُسی کے مصرع کے الفاظ میں بطور وحی فرمائی گئی جو اس کے منہ سے نکلی تھی.پس یہ تعجب سخت نادانی ہے کہ ایک کلام جو مسلمان کے منہ سے نکلا ہے وہ کیوں وحی الہی میں داخل ہوا.کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں وہ کلام جو عبد اللہ بن ابی سرح کے منہ سے نکلا تھا یعنی فَتَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ وہی قرآن شریف میں نازل ہوا جس کی وجہ سے عبد اللہ بن ابی سرح مرتد ہو کر مکہ کی طرف بھاگ گیا.پس جب کہ خدا تعالیٰ کے کلام کا ایک مرتد کے کلام سے توارد ہوا تو اس سے کیوں تعجب کرنا چاہیے کہ لبید جیسے صحابی بزرگوار کے کلام سے اس کے کلام کا توارد ہو جائے.خدا تعالیٰ جیسے ہر ایک چیز کا وارث ہے ہر ایک 74

Page 85

پاک کلام کا بھی وارث ہے اور ہر ایک پاک کلام اُسی کی توفیق سے منہ سے نکلتا ہے.پس اگر ایسا کلام بطور وحی نازل ہو جائے تو اس بارے میں وہی شخص شک کرے گا جس کو اسلام میں شک ہو...اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کلام سے بھی کئی مرتبہ قرآن شریف کا توارد ہوا جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.قال : قال عمر: وَافَقْتُ رَبِّي فِي أَرْبَعِ يعنى یعنی چار ہا نہیں جو میرے منہ سے نکلیں وہی خدا تعالیٰ نے فرمائیں.اگر کسی شخص کا کلام خدا کے کلام میں بطور وحی کے داخل ہو جائے تو وہ بہر حال اعجاز کا رنگ پکڑ سکتا ہے.مثلاً یہی وحی الہی یعنی عَفَتِ الدَيارُ مَحلَّها ومَقَامُها جب لبيد رضی اللہ عنہ کے منہ سے شعر کے طور پر نکلی تو یہ معجزہ نہ تھی.لیکن جب وحی کے طور پر ظاہر ہوئی تو اب معجزہ ہو گئی.کیونکہ لبید ایک واقعہ گذشتہ کے حالات پیش کرتا ہے جن کا بیان کرنا انسانی قدرت کے اندر داخل ہے لیکن اب خدا تعالیٰ لبید کے کلام سے اپنی وحی کا توارد کر کے ایک واقعہ عظیمہ آئندہ کی خبر دیتا ہے جو انسانی طاقتوں سے باہر ہے پس وہی کلام جب لبید کی طرف منسوب کیا جائے تو معجزہ نہیں ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے تو بلاشبہ معجزہ ہے.آج سے ایک سال پہلے اس بات کو کون جانتا تھا کہ ایک حصہ اس ملک کا زلزلہ شدیدہ کے سبب سے تباہ اور ویران ہو 75)

Page 86

جائے گا یہ کس کو خبر تھی کہ اس قدر شہر اور دیہات یک دفعہ زمین میں دھنس کر تمام عمارتیں نابود ہو جائیں گی اور اُس زمین کی ایسی صورت ہو جائے گی کہ گویا اس میں کبھی کوئی عمارت نہ تھی پس اسی بات کا نام تو معجزہ ہے کہ کوئی ایسی بات ظہور میں آوے جو پہلے اس سے کسی کے خیال و گمان میں نہ تھی اور امکانی طور پر بھی اس کی طرف کسی کا خیال نہ تھا.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۶۲ تا ۱۶۳) چند فقرات کی بناء پر سرقہ کے الزام کے نتائج اس ساری بحث پر نظر کرنے سے حضور علیہ السلام کی بات ہی سچی ثابت ہوتی ہے کہ کسی کے کلام میں پائے جانے والے قدیم کتب کے چند فقرے یا الفاظ کو سرقہ قرار دیا جائے تو پھر اس سے تو کوئی کتاب بھی محفوظ نہیں رہے گی بلکہ الہامی کتب بھی اس الزام سے باہر نہیں رہیں گے.جیسا کہ آپ نے فرمایا: اگر اس کو ایک جائز اعتراض سمجھا جائے تو نہ اس سے قرآن شریف باہر رہ سکتا ہے اور نہ احادیث نبویہ اور نہ اہل ادب کی کتابوں میں سے کوئی کتاب.“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۲) نیز اس قسم کے سرقہ کے الزام کے بارے میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ :

Page 87

بجز ایک پاگل آدمی کے کوئی خیال نہیں کرتا کہ یہ سرقہ ہے.انسان تو انسان خدا کے کلام میں بھی یہی پایا جاتا ہے.اگر بعض پر فصاحت فقرے اور مثالیں جو قرآن شریف میں موجود ہیں شعرائے جاہلیت کے قصائد میں دیکھی جائیں تو ایک لمبی فہرست طیار ہو گی اور ان امور کو محققین نے جائے اعتراض نہیں سمجھا.“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۴) آپ علیہ السلام کی بات سو فیصد درست ہے.کیونکہ قرآن کریم کے بعض فقرات کے بارے میں بعض جلد باز مخالفین نے اعتراض کیسے ہیں اور اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی بنا پر بعض عیسائی آنحضرت صلی الم پر جاہلیت کے زمانے کے قصائد سے سرقہ کا الزام عائد کرتے ہیں.ذیل میں اس کی چند مثالیں پیش ہیں.آیت قرآنيه عَلَى الله قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ) (النحل: ١٠) کو امرؤ القیس کے کلام کی نقل قرار دیا گیا ہے.امرؤ القیس نے کہا تھا: وَمِنَ الطَّرِيقَةِ جَائِرٌ وَهَدَى قصد السَّبِيْلِ، وَمِنْهُ ذُو دَخل " (ديوان امرؤ القيس، صفحة ۱۳١، قافية اللام، دار الكتب العلمية بيروت ٢٠٠٤م) اسی طرح قرآن کریم میں آیا ہے: فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسَ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ) (الرحمن: ٥٧)

Page 88

اور امرؤ القیس کہتا ہے: من القاصراتِ الطَّرفِ، لو دبَّ مُحولٌ من الذر فوق الإتب مِنها لأَثْرَا (ديوان امرئ القيس ، صفحة ٦٥ ، قافية الراء ، دار الكتب العلمية بيروت ٢٠٠٤م) قرآن مجید میں ہے: وَمَا يُبدِئُ البَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ (سبا: ٥٠) اور ابن الابرص کہتا ہے: أَقْفَرَ مِن أَهْلِهِ عَبْيدُ فاليومَ لا يُبْدِي ولا يُعِيدُ (الشعر والشعراء لابن قتيبة صفحة ١٦٦ ، دار إحياء العلوم بيروت، ط٢، ١٩٨٦م) پھر قرآن مجید میں ہے: إِنَّ عَذَابَها كَانَ غَرَامًا ﴾ (الفرقان : ٦٦) ابن ابی خازم کہتا ہے: وَيَوم النسَارِ وَيَوم الجفَارِ كانا عذابًا وكانا غرامًا (ديوان بشر بن أبي خازم الأسدي، صفحة ١٣٥، قافية الميم دار الكتاب العربي بيروت ١٩٩٤م) قرآن مجید میں آیا ہے: خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالَ كَالْفَخَارِ) (الرحمن: ١٥)

Page 89

اور امیہ بن ابی الصلت کہتا ہے : كَيْفَ الجُحُودُ، وَإِنَّمَا خُلِقَ الْفَتَى مِنْ طِيْن صَلْصَالٍ لَهُ فَخَارٍ (ديوان أمية بن الصلت صفحة ٨٢ ، قافية الراء، دار صادر بيروت ۱۹۹۸م) قرآن مجید میں ہے: مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ) (يس: ۷۹) زھیر بن ابی سلمیٰ نے کہا تھا کہ : لَولَا تَسبِّنِي الْعَرَبُ لَآمَنْتُ أَنَّ الَّذِي أَحْيَاكَ بَعْدَ يبس سَيُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيم.الملل والنحل، ج۳، الباب الثالث: آراء العرب في الجاهلية، الفصل الثاني: معتقداتهم) زید بن عمرو بن نفیل نے کہا تھا کہ : أسلمت وجهي لمن أسلمت له الأرض تحمل صخراً ثقالاً بلوغ الأرب في معرفة أحوال العرب محمود شكري الألوسي البغدادي ج ٢ ص ٢٥١) اور قرآن شریف میں ہے: فَإِنْ حَاجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ (آل عمران: ۲۱) قرآن شریف میں ہے: * * (قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ " اللهُ الصَّمَدُ " لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (الإخلاص : ٢ تا ٤) 79>

Page 90

قس بن ساعدہ نے کہا تھا کہ : كَلَّا بَلْ هُوَ اللَّهُ إِلَهُ وَاحِدٌ لَيْسَ بِمَولُودٍ وَلَا وَالِد الملل والنحل، ج۳، الباب الثالث: آراء العرب في الجاهلية، الفصل الثاني: معتقداتهم) قرآن کریم میں ہے : نیز آتا ہے: إيلافِهِمْ رِحْلَةَ الشَّتَاءِ وَالصَّيْف) (قريش: ٣) قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَه (عبس: ۱۸) اور امرؤ القیس کے شعر میں آتا ہے کہ : يَتَمَنَّى الْمَرْءُ فِي الصَّيْفِ الشَّتَا فَإِذَا جَاءَ الشَّتَا أَنْكَرَه فَهُوَ لَا يَرْضَى بِحَالِ وَاحِدٍ قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَه (حاشية الشهاب على تفسير البيضاوي، ج ۹، ص ٤١٧ ، سورة العبس، رقم الآية: ١٨) قرآن کریم میں آتا ہے: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ) (القمر: ٢) امرؤ القیس کا شعر ہے: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ عَنْ غزال صَادَ وَنَفَ 807

Page 91

نیز قرآن میں آتا ہے: إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا * وأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا) (الزلزال: ۲-۳) جبکہ امرؤ القیس کہتا ہے: إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا تَقُومُ الأَنَامُ عَلَى رِسْلِهَا لِيَوْمِ الْحِسَابِ تَرَى حَالَهَا يُحَاسِبُهَا مَلِكٌ عَادِلٌ فَإِمَّا عَلَيْهَا وَإِمَّا لَهَا (فيض القدير شرح الجامع الصغير لعبد الرؤوف المناوي، جلد٢ صفحة ١٨٧) یہ وہ چند مثالیں ہیں جن کے بارے میں مخالفین اسلام کا خیال ہے کہ یہ الله فقرات یا تراکیب قرآن کریم کے نزول سے پہلے معروف تھیں اور نعوذ باللہ محمد علی ایم نے وہاں سے چرا کر قرآن کریم میں شامل کر لیں.دوسرے معنوں میں وہ قرآن کریم کے پرانی کتب سے سرقہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں.آج کے معترضین بھی انہی کی روش اختیار کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی کلام پر ایسے ہی اعتراضات کرتے ہیں.جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر گذشتہ سطور میں مذکور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل کو 81>

Page 92

مد نظر رکھا جائے تو قدیم اشعار کی بعض تراکیب اور جملوں کا قرآن کریم میں آنا مورد اعتراض نہیں ٹھہرتا.ہیں: لفظی اشتراک اور تضمین سرقہ نہیں علامہ ابن رشیق اپنی کتاب العُمْدَةُ فِي مَحاسِنِ الشَّعْرِ وَآدَابِهِ میں لکھتے 99 عنترة ، وَمِمَّا يُعَدُّ سَرَقًا وَلَيْسَ بسَرَقَ اشْتِرَاكُ اللَّفْظِ الْمُتَعارَفِ كَقَوْل 66 یعنی الفاظ متعارفہ کا اشتراک سرقہ میں داخل نہیں ہے.اور پھر اس کی امثلہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جیسے عنترہ کا قول ہے: وَخَيلٍ قَد دَلَفتُ لَها بِخَيلٍ عَلَيْهَا الْأُسدُ تَهْتَصِرُ اهْتِصارا اور قول عمرو بن معدیکرب یوں ہے : وَخَيلٍ قَد دَلَفتُ لَهَا بِخَيلٍ تَحِيَّةُ بَينِهِمْ ضَرْبٌ وَجِيْعُ اور قول خنساء یہ ہے : وَخَيلٍ قَد دَلَفتُ لَهَا بِخَيلٍ فَدَارَتْ بَيْنَ كَبْشَيْهَا رَحَاهَا 82

Page 93

اسی طرح ایک اعرابی کا قول ہے: وَخَيلٍ قَد دَلَفتُ لَهَا بِخَيلٍ تُرى فُرسَانُها مثل الأَسْوَدِ اور ان مثالوں کو درج کر کے ابن رشیق لکھتے ہیں کہ "وأمثال هذا یعنی ایسے لفظی اشتراک کی بے شمار مثالیں ہیں.كثير، (العمدة في محاسن الشعر وآدابه، باب السرقات وما شاكلها، ج۲ ص۲۹۲) اس لفظی اشتراک کو تو ارد بھی کہا جاسکتا ہے اور ایسے توارد کی چند مزید مثالیں پیش ہیں.امرؤ القیس کہتا ہے: إِنِّي حَلَفْتُ يَمِينًا غَيْرَ كَاذِبَةٍ أَنَّكَ أَقْلَفُ إِلَّا مَا جَنَى القَمَرُ (ديوان امرئ القيس صفحة ۸۱ ، قافية الراء ، دار الكتب العلمية بيروت ٢٠٠٤م) حضرت حسان بن ثابت کہتے ہیں : إنِّي حَلَفتُ يَمِينًا غَيْرَ كَاذِبَةٍ كانَ لِلحارِثِ الجَفْنِي أَصحابُ (دیوان حسان بن ثابت، ص ٣٠ قافية الباء، دار الكتب العلمية بيروت ٢٠٠٤م) امرؤ القیس کہتا ہے :

Page 94

كأنّ الْحَصَى مِنْ خَلْفِهَا وَأَمَامِهَا إذا نجَلَته رحلُها حَذْفُ أَعسَرَا (ديوان امرئ القيس صفحة ٧٣ ، قافية الراء، دار الكتب العلمية بيروت ٢٠٠٤م) اور شماخ ذبیانی کہتا ہے: لَها مَنسِمٌ مِثلُ المَحارَةِ حُقَّهُ كَأَنَّ الحَصى مِن خَلْفِهِ خَدْفُ أَعسَرا (الشعر والشعراء لابن قتيبة، صفحة ٦٨ ، دار إحياء العلوم بيروت، ط٢، ١٩٨٦م) پھر امرؤ القیس کہتا ہے: سليم الشظى عَبْلِ الشَوى شَنج النَّسا لَهُ حَجَباتٌ مُشرفات على الفال (ديوان امرئ القيس، صفحة ،۱۲۷، قافية اللام، دار الكتب العلمية بيروت ٢٠٠٤م) جبکہ درید بن الصمة کا شعر ہے: سليم الشظى عبل الشوى شَنج النَّسا طوال القرا نهدٌ أَسيلُ الْمُقَلَّدِ (كتاب الصناعتين، لأبي هلال الحسن بن عبد الله الباب التاسع الفصل الخامس والعشرون في جمع المؤتلف والمختلف اور حضرت کعب بن زہیر کہتے ہیں: 847

Page 95

سليم الشظى عبل الشوى شَنِجَ النَّسا كَأَنَّ مَكَانَ الردفِ مِن ظَهرِهِ قَصْرُ (الشعر والشعراء لابن قتيبة، صفحة ٦٩ ، دار إحياء العلوم بيروت، ط٢، ١٩٨٦م) اسی طرح امرؤ القیس کہتا ہے : وقوفًا بها صَحِبي عَلَيَّ مَطِيَّهُم يَقولونَ لا تَهْلِكَ أَسَى وَتَجَمّل (ديوان امرئ القيس، ص ۱۱۰، قافية اللام ، دار الكتب العلمية بيروت ٢٠٠٤م) فرزدق (تابعی) کہتا ہے : وُقوفًا بها صَحِبي عَلَيَّ وَإِنَّما عَرَفتُ رُسُومَ الدارِ بَعدَ التَوَهُم يَقولونَ لا تَهْلِكَ أَسَى وَلَقَد بَدَت لَهُم عَبَراتُ المُستَهامِ المُتَيَّمِ (دیوان فرزدق صفحة ٥٢٤ حرف الميم“، دار الكتـ العلمية بيروت ۱۹۸۷م) * علامہ ابو ہلال عسکری اپنی مشہور و معروف تصنيف كتاب الصناعتين کے صفحہ ۱۴۷ پر لکھتے ہیں : وَرُبَّمَا أَخَذَ الشَّاعِرُ القَوْلَ المَشْهُورَ وَلَمْ يُبالِ، كَمَا فَعَلَ النَّابِغَةَ، فَإِنَّهُ أَخَذَ قَوْلَ وَهْبِ بْنِ الْحَارِثِ ابْنِ زَهْرَةَ: 85]

Page 96

یعنی بسا اوقات شعراء کسی مشہور قول کو لے کر بلا مضائقہ اسے اپنے اشعار میں استعمال کر لیتے ہیں جیسے وھب بن الحارث بن زھرہ کا یہ شعر ہے: تَبْدُو كَواكِبُهُ وَالشَّمْسُ طَالِعَة تُجْرَى عَلَى الْكَاسِ مِنْهُ الْصَابُ وَالْمَقرُ اس میں سے نابغہ نے پہلا مصرعہ لیتے ہوئے یہ شعر لکھا ہے: تَبْدُو كَواكِبُهُ وَالشَّمْسُ طَالِعَة لَا النُّورِ نُورٌ وَلَا الْإِظْلَامِ إِظْلَامٌ (كتاب الصناعتين أبو هلال الحسن بن عبد الله الباب السادس في حسن الفصل الأول في حسن الأخذ) الأخذ ان ابیات میں جو صنف بیان ہوئی ہے اسے تضمین کہتے ہیں اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں بھی پائی جاتی ہے.اشتراک لفظی، تضمین اور توارد شعراء کے کلام میں کثرت سے پایا جاتا ہے اور اس میں سرقہ کا کوئی دخل نہیں ہو تا.جیسا کہ سطور بالا میں شعراء کے کلام میں سے دی گئی بعض مثالوں سے بات واضح ہو جاتی ہے.چنانچہ ابن رشیق ”العمدہ“ میں لکھتا ہے: وَسُئِلَ أَبُو عَمْرُو بْنُ العَلاء: أَرَأَيْتَ الْشَاعِرَينَ يَتَّفِقَانِ فِي المَعْنَى وَيَتَوَارْدَانِ فِي اللَّفْظِ لَمْ يَلْقَ واحِدٌ مِنْهُمَا صاحِبَهُ وَلَمْ يَسْمَعْ شِعْرَهُ؟ قَالَ: 86

Page 97

تِلْكَ عُقولُ رجال توَافَتْ عَلَى أَلْسِنَتِها، وَسُئِلَ أَبُو الطَّيِّبِ عَنْ مِثْلَ ذَلِكَ 66 فَقَالَ: الشَّعْرُ جَادَّةٌ، وَرُبَّمَا وَقَعَ الْحافِرُ عَلَى مَوْضِعِ الْحَافِرِ.“ (العمدة في محاسن الشعر وآدابه، باب السرقات وما شاكلها جزء ۲صفحة ٢٨٩) یعنی ابو عمرو بن العلاء سے پوچھا گیا کہ آپ کا ایسے دو شعراء کے بارے میں کیا خیال ہے جن کی بعض شعروں میں لفظی اور معنوی توارد ہو جبکہ وہ دونوں آپس میں نہ کبھی ملے ہوں نہ ہی ایک نے دوسرے کے شعر کو سنا ہو ؟ ابو عمرو بن العلاء نے جواب دیا کہ یہ لوگوں کے باہم ملتے جلتے افکار ہیں جو ان کی زبانوں سے ادا ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے مطابقت اختیار کر گئے.اور ابو الطيب المتنبی سے بھی اسی طرح کا سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ شعر کو بھی ایک راستہ ہی سمجھو.اور راستہ میں چلتے ہوئے بسا اوقات ایک گھوڑے کے قدم کے نشان پر اس کے بعد میں آنے والے گھوڑے کا قدم آن پڑتا ہے.علاوہ ازیں حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”میرے رب نے تین باتوں میں میری موافقت فرمائی، (۱) میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کاش! ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنائیں تو اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوا:

Page 98

وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى یعنی: مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ.(۲) اور میں نے حضور نبی اکرم صلی علیکم کی خدمت میں عرض کیا: یارسول اللہ ! کاش آپ ازواج مطہرات کو پردے کا حکم فرمائیں کیونکہ ان سے نیک اور بد ہر قسم کے لوگ کلام کرتے ہیں تو پر دے کے حکم والی آیت نازل ہوئی.(۳) اور حضور نبی اکرم صلی علیم کی ازواج مطہرات نے آپس کی فطری غیرت کے باعث جب الله آپ صلی علیم پر دباؤ ڈالا تو میں نے انہیں کہا اگر آنحضرت صلی نام آپ سب کو طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ ان کا رب انہیں اور بیویاں عطا فرما دے جو آپ سے بھی بہتر ہوں.“ تو یہی آیت نازل ہوئی.( صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ) اگر اس حدیث کے عربی الفاظ پڑھیں تو تجویز دیتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بعینہ وہی الفاظ استعمال کئے ہیں جو بعد میں آیت کی صورت میں قرآن میں نازل ہوئے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ کیا نعوذ باللہ آنحضرت صلی علیکم صحابہ سے اچھے اچھے خیالات لے کر بعد میں اسے وحی الہی بنا کر پیش کر دیتے تھے ؟ یا وہی بات درست ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے کہ وحی الہی میں کسی انسان کے کلام کا بھی توارد ہو سکتا ہے.اور اگر وحی الہی میں ایسا ہو سکتا ہے تو پھر انسان کے کلام میں تو بدرجہ اولی ایسا ممکن ہے.88

Page 99

افسوس کہ مسلمان معترضین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دشمنی میں ایسے اعتراضات کرنے سے بھی باز نہیں آتے جو ڈائریکٹ قرآن کریم اور آنحضرت صلی علیم پر پڑتے ہیں.ایسے اعتراض کرنے والے آنحضرت صلی ال نی اور اسلام پر غیر مسلموں کے اسی طرح کے اعتراضات کے جواب دینے کا حق کھو چکے ہیں.اور یوں خداتعالی نے شاید ایسے اعتراضات کی پاداش میں ان سے اسلام کے دفاع کا حق چھین کر اپنے مسیح کے ہاتھ میں دے دیا ہے.* دوسری اصولی بات تو ارد اور اس کی ضرورت چوری تو وہ ہوتی ہے کہ پوری کی پوری عبارتیں مع اس کے مطالب کے اٹھا کر اپنے نام سے شائع کر دی جائیں.لیکن اگر کوئی دس ہزار فقرات پر مشتمل ایک کتاب یا کئی کتب لکھتا ہے اور اس میں دس بارہ فقرے یا پچاس فقرے ایسے بھی آجاتے ہیں جن کی نظیر دوسری کتب میں موجود ہے، تو ایسی بات کو سرقہ کہنا سراسر جہالت ہو گی.اس کی وضاحت بھی حضور علیہ السلام نے خود فرما دی.فرمایا: بیس ہزار فقرہ میں سے دس باراں فقرے جن میں سے کوئی آیت قرآن شریف کی اور کوئی عرب کی مثال اور کوئی بقول اُن کے حریر ی یا ***89

Page 100

ہمدانی کے کسی فقرہ سے توارد تھا.افسوس کہ اُن کو اس اعتراض کے کرتے ہوئے ذرہ شرم نہیں آئی اور ذرہ خیال نہیں کیا کہ اگر ان قلیل اور دو چار فقروں کو تو ارد نہ سمجھا جائے جیسا کہ ادیبوں کے کلام میں ہوا کرتا ہے اور یہ خیال کیا جائے کہ یہ چند فقرے بطور اقتباس کے لکھے گئے تو اس میں کون سا اعتراض پیدا ہو سکتا ہے ؟“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۲) توار د کیوں ضروری ہے؟ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر کسی کو لسان عربی میں کمال حاصل کرنے کا دعویٰ ہے اور کامل وسعت علمی حاصل ہے تو پھر تو ارد کی ایسی کیا ضرورت ہے ؟ اس کا بھی جواب حضور علیہ السلام نے خود ہی دیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ تو ارد کیوں ہوتا ہے اور اس کی ضرورت کیونکر پڑتی ہے ؟ فرمایا: بعض محاورات ادبیہ کا کوچہ ایسا تنگ ہے کہ یا تو اُس میں بعض ادباء کو بعض سے توارد ہو گا اور یا ایک شخص ایک ایسے محاورہ کو ترک کرے گا جو واجب الاستعمال ہے.ظاہر ہے کہ جس مقام پر خصوصیات بلاغت کے لحاظ سے ایک جگہ پر مثلاً اقتحم کا لفظ اختیار کرنا ہے نہ اور کوئی لفظ تو اس لفظ پر تمام ادباء کا بالضرور توارد ہو جائے گا اور ہر ایک کے منہ سے یہی لفظ نکلے 067

Page 101

گا.ہاں ایک جاہل نبی جو اسالیب بلاغت سے بے خبر اور فروق مفردات سے ناواقف ہے وہ اس کی جگہ پر کوئی اور لفظ بول جائے گا اور ادباء کے نزدیک قابل اعتراض ٹھہرے گا.ایسا ہی ادباء کو یہ اتفاق بھی پیش آجاتا ہے کہ گو ہیں شخص ایک مضمون کے ہی لکھنے والے ہوں جو میں ہی ادیب اور بلیغ ہوں مگر بعض صورتوں کے ادائے بیان میں ایک ہی الفاظ اور ترکیب کے فقرہ پر اُن کا توارد ہو جائے گا.اور یہ باتیں ادباء کے نزدیک مسلمات میں سے ہیں جن میں کسی کو کلام نہیں.اور اگر غور کر کے دیکھو تو ہر ایک زبان کا یہی حال ہے.اگر اُردو میں بھی مثلاً ایک فصیح شخص تقریر کرتا ہے اور اُس میں کہیں مثالیں لاتا ہے کہیں دلچسپ فقرے بیان کرتا ہے تو دوسرا فصیح بھی اُسی رنگ میں کہہ دیتا ہے اور بجز ایک پاگل آدمی کے کوئی خیال نہیں کرتا کہ یہ سرقہ ہے.انسان تو انسان خدا کے کلام میں بھی یہی پایا جاتا ہے.“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۳ تا ۴۳۴) تیسری اصولی بات: اقتباس ایک ملکہ ہے نہ کہ سرقہ ! تیسری اصولی بات یہ ہے کہ بڑے بڑے ادباء بھی اپنے ہم عصروں یا اپنے قدیم ادباء کے کلام سے اقتباس کرتے ہوئے اپنی کتب میں کسی مضمون کے تحریر 91>

Page 102

کرتے وقت چند جملے بطور اقتباس درج کر دیتے ہیں جو ہو سکتا ہے کہ پرانی کتب میں کسی اور مضمون کو ادا کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہوں لیکن اس نئے مضمون میں ایسے سلیقے سے پروئے جاتے ہیں کہ اس نئے مضمون کا ہی جزو بن جاتے ہیں اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ فقرات اسی مضمون کے لیے ہی لکھے گئے تھے.توارد اور اقتباس میں یہ فرق ہے کہ توارد بغیر علم کے کسی خاص موقع پر بعینہ وہی کلمات یا ترکیب یا محاورہ استعمال کرنا ہے جیسے کسی اور نے ماضی میں ویسی ہی یا اس سے ملتی جلتی صورت حال میں کیا.اور اس کی وجہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے یہ ہے کہ بعض محاورات ادبیہ کا کوچہ ایسا تنگ ہے کہ اُس میں بعض ادباء کو بعض سے تو ارد ہو نا عین ممکن ہے.لیکن اقتباس بعض فقرات کا بعض پرانی معروف کتب یا معروف مصنفین کے کلام سے اقتباس کر کے اثنائے کلام اسے اپنے مضمون کا حصہ بنانا ہے.اقتباس کوئی عیب کی بات نہیں بلکہ لکھنے والے کی قادرالکلامی اور علمی دسترس، وسعت معلومات اور کمال پر دلالت کرتا ہے اور اس پر بھی اعتراض محض جہالت کی وجہ سے ہی کیا جاتا ہے.اس کے بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود وضاحت فرما دی چنانچہ فرمایا: 92

Page 103

اگر یہ خیال کیا جائے کہ یہ چند فقرے بطور اقتباس کے لکھے گئے ، تو اس میں کون سا اعتراض پیدا ہو سکتا ہے ؟ خود حریری کی کتاب میں بعض آیات قرآنی بطور اقتباس موجود ہیں.ایسا ہی چند عبارات اور اشعار دوسروں کے بغیر تغییر تبدیل کے اس میں پائے جاتے ہیں اور بعض عبار تیں ابوالفضل بدیع الزمان کی اس میں بعینہ ملتی ہیں.تو کیا اب یہ رائے ظاہر کی جائے کہ مقامات حریری سب کی سب مسروقہ ہے ؟“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۳) اقتباس ایک بہت مشکل امر ہے اور سوائے قادر الکلام حضرات کے کوئی اور نہیں کر سکتا.کیونکہ اقتباس کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں ان میں سے اول نمبر پر وسعت علمی آتی ہے.یعنی آپ کسی تحریر کے دوران کسی پرانے مؤلف کے کلام سے اقتباس تجھی کر سکتے ہیں جب آپ نے ایسے مؤلفین کی کتب کو اتنے غور سے پڑھا ہو کہ ان کے فقرات کے فقرات آپ کو مستحضر ہوں اور جب آپ کوئی مضمون لکھنے لگیں تو بعض مفاہیم کے مناسب حال پرانے ادباء کی کتب کے فقرات خود بخود آپ کی نوک قلم پر آجائیں.یہ ایک ایسا ملکہ ہے کہ جو لکھاری جس قدر اپنے کلام میں اقتباس کرے گا اسی قدر یہ بات اس کی وسعت علمی پر دلالت کر رہی ہو گی اور ثابت ہو گا 93

Page 104

کہ اس شخص نے مختلف مؤلفین کی کتب کو کھنگالا ہے اور ان کتب کے کئی ہزار جملے اسے زبانی یاد ہیں جنہیں وہ جب چاہے اور جیسے چاہے اپنے مضمون کے دوران نئے مفاہیم کی ادائیگی کے لیے استعمال کر سکتا ہے.اسی لیے بعض محققین نے اقتباس اور تناص میں کوئی فرق نہیں کیا اور اس قسم کے اقتباس کو تناص یعنی ایک نئی نص قرار دیا ہے.یعنی گو کہ کلمات تو پرانے کسی ادیب کے ہیں لیکن چونکہ وہ الفاظ نئے مضمون میں ایک نیا مفہوم ادا کر رہے ہیں اس لیے یہ ایک نئی نص ہے.اور بلا شبہ ایسی قدرت رکھنا تو بہت مشکل کام اور ایک بے مثال ملکہ ہے.یہ بات بھی حضور علیہ السلام نے خود ہی بیان فرمائی ہے چنانچہ فرمایا: ادیب جانتے ہیں کہ ہزارہا فقرات میں سے اگر دوچار فقرات بطور اقتباس ہوں تو اُن سے بلاغت کی طاقت میں کچھ فرق نہیں آتا بلکہ اس طرح کے تصرفات بھی ایک طاقت ہے....نادان انسان کو اگر یہ بھی اجازت دی جاوے کہ وہ پچر اگر ہی کچھ لکھے تب بھی وہ لکھنے پر قادر نہیں ہو سکتا کیونکہ اصلی طاقت اُس کے اندر نہیں.مگر وہ شخص جو مسلسل اور بے روک آمد پر قادر ہے اس کا تو بہر حال یہ معجزہ ہے کہ اُمور علمیہ اور حکمیہ اور معارف حقائق کو بلا توقف رنگین اور بلیغ فصیح عبارتوں میں بیان کر 94

Page 105

دے، گو محل پر چسپاں ہو کر دس ہزار فقرات بھی کسی غیر کی عبارتوں کا اُس کی تحریر میں آ جائے.کیا ہر یک نادان نبی بلید ایسا کر سکتا ہے ؟“ نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۴۳) اگر ایسا بر محل اقتباس کرنے والا دس ہزار فقرے کا بھی اقتباس کر لے تب بھی وہ اس کا کمال شمار ہو گا.لیکن جس کا یہ دعویٰ ہو کہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے وسعت علمی عطا ہوئی ہے اس کے کلام میں اقتباس جیسی صنف کا اظہار نہ ہو تو عیب شمار ہو گا.ایسے کمال کے اظہار پر اعتراض کوئی جاہل ہی کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود کے اور دیگر ادباء کے اقتباس یا تناص میں فرق علم بلاغت پر لکھنے والوں کا اقتباس یا تناص اور تضمین کے بارے میں اختلاف ہے.بعض اس کو سرقہ قرار دیتے ہیں اور بعض اس کو بلاغت کی ایک اعلیٰ صنف سمجھتے ہیں.ان کی بات کو سمجھنے کے لیے اگر دو امور کا فرق واضح کر دیا جائے تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور فریقین کی بات اپنی اپنی جگہ پر درست ثابت ہوتی ہے.اگر کوئی اقتباس کرتے ہوئے کسی پرانے ادیب کے کلام کو اس کی نص اور مفہوم سمیت اٹھا لے اور اس کا حوالہ دیے بغیر اپنے نام سے اپنی کتاب میں لکھ لے تو اسے بلاشبہ سرقہ قرار دیا جائے گا.95

Page 106

جبکہ اگر کوئی پرانے ادیب کا کوئی جملہ اپنے مضمون کے سیاق کلام میں اس طرح لکھے کہ اس جملہ کا معنی بالکل بدل جائے اور یہ جملہ اس کا تب کے نئے مضمون کا حصہ بن جائے تو اسے سرقہ نہیں بلکہ اقتباس یا تناص کہا جائے گا، جسے محققین ایک فن اور قادر الکلامی شمار کرتے ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس کو جو چیز پوری دنیا کے تمام ادباء کے اقتباس سے ممتاز کرتی ہے وہ حضور علیہ السلام کا یہ دعویٰ ہے کہ میرا اقتباس، کسب کردہ علم اور ذاتی کوشش سے نہیں ہے، بلکہ وہ خدا کی دین ہے کہ بعض اوقات کسی پرانے ادیب یا شاعر کا کوئی فقرہ دوران مضمون ایسے آجاتا ہے کہ وہ اس مضمون کا حصہ بن جاتا ہے نیز اکثر اوقات تو ایسے فقرات میرے لیے علم غیب ہے جس پر اللہ تعالیٰ مجھے اطلاع دیتا ہے.ہو سکتا ہے ایسے فقرات کسی کے علم میں ہوں کہ فلاں کتاب سے ہیں لیکن میں لکھتے وقت نہیں جانتا کیونکہ یہ مجھے خدا کی عطا سے مل رہے ہوتے ہیں، اس لیے میرے لیے وہ علم غیب کی حیثیت رکھتے ہیں.اور یہ بات اقتباس کرنے والے کسی ادیب کے حصے میں نہ آئی ہے نہ آسکتی ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا: وو بار ہا بعض امراض کے علاج کے لئے مجھے بعض ادویہ بذریعہ وحی معلوم ہوئی ہیں قطع نظر اس سے کہ وہ پہلے مجھ سے جالینوس کی کتاب میں لکھی گئی

Page 107

ہیں یا بقراط کی کتاب میں.ایسا ہی میری انشاء پردازی کا حال ہے.جو عبارتیں تائید کے طور پر مجھے خدائے تعالیٰ سے معلوم ہوتی ہیں مجھے اُن میں کچھ بھی پروا نہیں کہ وہ کسی اور کتاب میں ہوں گی بلکہ وہ میرے لئے اور ہر یک کے لئے جو میرے حال سے واقف ہو معجزہ ہے.“ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۴ حاشیه ) نیز فرمایا: ”عربی تحریروں کے وقت میں صد ہا بنے ہوئے فقرات وحی متلو کی طرح دل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے اور بعض فقرات آیات قرآنی ہوتے ہیں یا اُن کے مشابہ کچھ تھوڑے تصرف سے.اور بعض اوقات کچھ مدت کے بعد پتہ لگتا ہے کہ فلاں عربی فقرہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے برنگ وحی متلو القا ہو ا تھا وہ فلاں کتاب میں موجود ہے.چونکہ ہر ایک چیز کا خدا مالک ہے اس لئے وہ یہ بھی اختیار رکھتا ہے کہ کوئی عمدہ فقرہ کسی کتاب کا یا کوئی عمدہ شعر کسی دیوان کا بطور وحی میرے دل پر نازل کرے...مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہی عادت اللہ میرے ساتھ ہے اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے جو مختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور میرے خدا کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ کوئی کلمہ جو

Page 108

م الله سة میرے پر بطور وحی القا ہو وہ کسی عربی یا انگریزی یا سنسکرت کی کتاب میں درج ہو کیونکہ میرے لئے وہ غیب محض ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بہت سے توریت کے قصے بیان کر کے ان کو علم غیب میں داخل کیا ہے کیونکہ وہ قصّے آنحضرت صلی لی عوام کے لئے علم غیب تھا گو یہودیوں کے لئے وہ غیب نہ تھا.پس یہی راز ہے جس کی وجہ سے میں ایک دنیا کو معجزہ عربی بلیغ کی تفسیر نویسی میں بالمقابل بلاتا ہوں ورنہ انسان کیا چیز اور ابن آدم کی کیا حقیقت کہ غرور اور تکبر کی راہ سے ایک دنیا کو اپنے مقابل پر بلاوے.“ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۵-۴۳۶) خلاصہ یہ کہ ادباء کے نزدیک معروف اقتباس، کسب کردہ علم سے آتا ہے اور جو اقتباس کر رہا ہوتا ہے اسے علم ہوتا ہے کہ وہ کس ادیب کا کتنا قول اور کلام اقتباس کے طور پر اپنے مضمون میں درج کر رہا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس خداداد ملکہ ہے کیونکہ اکثر آپ کو لکھتے وقت معلوم ہی نہیں ہو تا کہ یہ فقرہ یا فقرات فلاں مؤلف کے ہیں یا فلاں کتاب سے ہیں بلکہ وہ آپ کے لیے علم غیب کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ فلاں فقرہ فلاں کتاب میں بھی ہے.اور اقتباس کی یہ نوعیت اپنی ذات میں یکتا ہے جو صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاصہ ہے.98

Page 109

حضور علیہ السلام کی انشاء پردازی اور حریری کی تحریرات حضور علیہ السلام نے اکثر اپنی عربی کتب میں مسجع و مقفی عبارتیں لکھی ہیں جو کہ بلاغت کی ایک اعلیٰ قسم ہے لیکن اسلامی دور میں مختلف ادباء کی طرف سے یہ صنف محض قصے کہانیوں اور فضول طریق پر استعمال ہوئی.حضور علیہ السلام کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عربی زبان میں کمال عطا فرمایا ہے.یوں جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو شریعت محمدیہ کے مجدد اعظم کے طور پر مبعوث فرمایا وہاں اس الہامی زبان بلکہ ام الالسنہ کی بلاغت کی بعض اعلیٰ اصناف کی تجدید بھی آپ کے ذریعہ سے ہوئی.چنانچہ آپ نے نہ صرف عربوں کے بھولے بسرے الفاظ اور مفردات کو اپنی کتاب سیرۃ الابدال وغیرہ میں درج کر کے ان کو پھر زندہ کر دیا بلکہ عربوں کی بعض متروک لغات اور اسالیب کو بھی اپنی تحریر میں استعمال کر کے انہیں دوبارہ شناخت عطا کی.اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنی تحریرات میں اس بات کے واضح اشارے چھوڑے ہیں کہ کسی ایک انسان کے لیے اپنی ذاتی جد و جہد اور کوشش سے ان تمام امور کا سیکھنا اور پھر انہیں سیاق عبارت میں بر محل استعمال کرنا بغیر خدائی عنایت کے ممکن نہیں ہے.اس بارے میں حضور علیہ السلام کی یہ تحریر ملاحظہ ہو.فرمایا: 99

Page 110

”ہمارا تو یہ دعوی ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارفِ حقائق قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں اور وہ بلاغت جو ایک بیہودہ اور لغو طور پر اسلام میں رائج ہو گئی تھی اس کو کلام الہی کا خادم بنایا جائے.“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۷) حریری اور حضور علیہ السلام کے اسلوب میں نمایاں فرق یہ ہے کہ حریری نے معانی کو الفاظ کا تابع کیا یعنی الفاظ کی بناوٹ کا خیال رکھا تا جملوں کا وزن اور ردھم قائم رہے اور سبجمع بنی رہے خواہ الفاظ کی رعایت رکھتے رکھتے وہ معنی جو اس کے ذہن میں ہے کیسا ہی فتیح یا فرسودہ ہو جائے.اس کا مطلب ہے کہ وہ ایک معین معنے کو تبدیل کیے بغیر مسجع مقفی الفاظ کی لڑی میں پرونے سے قاصر تھا بلکہ الفاظ کی لڑی اور ترتیب کو قائم رکھنے کی خاطر اس نے معنے اور مغز کا ستیاناس کر دیا.اس لیے حریری کی کتب اور عبارات ظاہری الفاظ کی بناوٹ کے اعتبار سے تو ادبی رنگ ضرور رکھتی ہیں لیکن معنے کے حساب سے نہایت فرسودہ ہیں.اس کے بالمقابل حضور علیہ السلام نے اعلیٰ ادبی عبارات اور مسجع و مقفی تحریرات میں اعلیٰ درجے کے مفاہیم اور معارف کو پر دیا ہے جس نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا.*1007

Page 111

حضور علیہ السلام نے نہ صرف اس فرق کو خود بیان فرمایا بلکہ اس کے بالمقابل اپنے دعوی کو بھی نمایاں طور پر پیش کیا.فرمایا: دو مقامات حریری بڑی عزت کے ساتھ دیکھی جاتی ہے حالانکہ وہ کسی دینی یا علمی خدمت کے لئے کام نہیں آسکتی کیونکہ حریری اس بات پر قادر نہیں ہو سکا کہ کسی بچے اور واقعی قصہ یا معارف اور حقائق کے اسرار کو بلیغ فصیح عبارت میں قلمبند کر کے یہ ثابت کرتا کہ وہ الفاظ کو معانی کا تابع کر سکتا ہے.بلکہ اُس نے اوّل سے آخر تک معانی کو الفاظ کا تابع کیا ہے جس ثابت ہوا کہ وہ ہر گز اس بات پر قادر نہ تھا کہ واقعہ صحیحہ کا نقشہ عربی فصيح بلیغ میں لکھ سکے.لہذا ایسا شخص جس کو معانی سے غرض ہے اور معارف حقائق کا بیان کرنا اُس کا مقصد ہے وہ حریری کی جمع کر دہ ہڈیوں سے کوئی مغز حاصل نہیں کر سکتا.“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۳) اس ساری بحث پر نظر کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی عربی زبان کے دعوی کے اعتبار سے اوراس پر ہونے والے اعتراضات کے بارے میں کس قدر واضح موقف پر قائم تھے اور آپ کو ان اعتراضات کے مآخذ اور اسباب کا مکمل علم تھا.اور ان کے جوابات کے بنیادی نکات آپ کے سامنے واضح اور عیاں تھے.اور وہ نقطہ جس تک پہنچنے کے لیے *1017

Page 112

ہم دسیوں کتب کو کھنگالتے ہیں اس کا اشارہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قبل ازیں ہی اپنے کلام میں محض ایک ایک جملے میں ہمیں عطا فرما دیا تھا.یہ خدا ئی تقدیر ہے کہ وقتاً فوقتاً معترضین کی طرف سے اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کی بنا پر افراد جماعت کو اس بارے میں تحقیق اور غور و فکر کرنے کی توفیق ملتی ہے اور بالآخر انہی اعتراضات کے مقامات کی تہ میں موجود علم و معارف کے سمندر اور اعلیٰ نکات تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسلامی تعلیمات پر اعتراض کرنے والوں کے بارے میں مندرجہ ذیل قول آپ کی عربی دانی پر نکتہ چینی کرنے والوں کے متعلق بھی درست ثابت ہو تا ہے کہ : وو یہ اعتراضات تو کو تاہ اندیشوں اور نادانوں کی نظر میں اعتراض ہیں.مگر میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے جہاں ان اعتراضات کو شمار کیا وہاں یہ بھی غور کیا ہے کہ ان اعتراضات کی تہ میں دراصل بہت ہی نادر صداقتیں موجود ہیں جو عدم بصیرت کی وجہ سے معترضین کو دکھائی نہیں دیں اور در حقیقت یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جہاں نابینا معترض آکر انکا ہے وہیں حقائق و معارف کا مخفی خزانہ رکھا ہے.“ (ملفوظات جلد اصفحہ ۵۹-۶۰، ایڈیشن ۱۹۸۵ء مطبوعہ انگلستان) 1027

Page 113

اوپر کی بحث پر غور کرنے سے اجمالی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے تمام اہم اعتراضات کا خود بخود رڈ ہو جاتا ہے.اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان کے بارے میں آپ کے دعویٰ کا صحیح علم ہو جائے اور اسے مفصل طریق پر پیش کر دیا جائے تو ان سابقہ اعتراضات کے علاوہ نئے اعتراضات کا جواب دینے میں بھی آسانی پیدا ہو جاتی ہے.مثلاً ایک نیا اعتراض یہ ہوا ہے کہ : حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ کے شروع میں تقریباً ڈیڑھ صفحہ کا عربی زبان میں تمہیدی نوٹ لکھا ہے.اسے پڑھ کر بعض جلد باز معترضین کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے عربی زبان سیکھنے کا اعلان تو کئی سال بعد کا ہے جبکہ برائین کے زمانے سے آپ تو اچھی عربی جانتے تھے.اس لیے الہامی طور پر عربی سیکھنے کا اعلان ذہن کی اختراع ہے.الجواب : سبحان اللہ.ایک طرف اعتراض ہے کہ آپ علیہ السلام کی تمام ریریں مسروقہ ہیں اور دوسری طرف اعتراف کہ حضور علیہ السلام دعویٰ سے پہلے ہی اچھی عربی جانتے تھے.یہ اعتراض اسی طرح کا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بعض معترضین نے کیا جب انہوں نے ایک طرف سرقہ شدہ عبارتیں استعمال کرنے کا الزام لگایا تو دوسری طرف یہ اعتراض کیا کہ شامی اور عربی اشخاص سے یہ کتب لکھوائی ہیں.1037

Page 114

حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عربی زبان میں کمال عطا ہونے سے پہلے جو عربی آتی تھی وہ وہی تھی جو اس زمانہ میں مدرسوں وغیرہ میں پڑھائی جاتی تھی.اس زمانہ میں مدارس میں صرف و نحو کی کچھ کتابیں دیوان حماسہ کا کچھ حصہ ، متنبی کے بعض قصائد، سبعه معلقات اور مقامات حریری میں سے کچھ حصے پڑھائے جاتے تھے اور آج کل بھی یہی حال ہے.اگر انہی کتابوں کو پڑھ کر فصیح و بلیغ عربی میں کتب لکھی جاسکتی ہیں تو یہ تو اس زمانہ میں ہر مولوی نے پڑھی ہوئی تھیں.پھر کیوں نہ اس زمانہ میں مولوی اٹھ کر مقابلے میں آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں عربی زبان میں کتب لکھنے کا چیلنج قبول کیا ؟ ایسی عربی کے بارہ میں تو حضور علیہ السلام نے خود ہی فرمایا ہے کہ مجھے قبل ازیں ہی معمولی عربی زبان آتی تھی جسے علمیت نہیں کہا جاسکتا تھا.ملخص از نجم الهدی، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۰۷) جس عربی کا آپ نے دعویٰ کیا ہے وہ عربی زبان میں کامل وسعت علمی اور لغات عرب اور مختلف محاوروں و استعمالات اور جذور کے سکھائے جانے کا دعویٰ ہے.اور عام فہم اچھی عربی زبان کو اس دعویٰ سے کوئی 104

Page 115

نسبت ہی نہیں کیونکہ کسی کے بس کی بات نہیں کہ اپنی کوشش سے عربی زبان کے اس قدر علوم حاصل کر سکے جن کا احاطہ کرنا امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک کسی نبی کا کام ہے.خلاصہ یہ کہ عربی زبان کے خدا داد علم کے دعویٰ سے پہلے آپ کی عربی زبان جس قدر بھی اچھی ہو اسے اس زبان سے کوئی نسبت نہیں جو آپ کو الہانا سکھائی گئی اور جس کے جوہر آپ نے معارف کے بیان میں اپنی کتب میں دکھائے اور جس کے بارے میں مخالفین کو مقابل پر آنے کی دعوت دی.اسی طرح بعض محنتی معترضین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب کے ہر ہر جملے کو لے کر ادب کی مختلف کتب سے تلاش کیا اور جہاں کہیں اس جملے کے ایک دو کلمات بھی اکٹھے ملے وہیں پر فورا لکھ دیا کہ یہ جملہ اس کتاب سے چوری کیا گیا ہے.اور یوں تصویر یہ پیش کی گئی کہ جیسے حضور علیہ السلام نے ایک کمرے میں بدیع الزمان الهمذانی کے ۵۲ مقامات اور ابو محمد القاسم الحریری کے ۵۰ مقامات اور معلقات کے جملہ قصائد اور حماسہ کے قصائد نیز دیگر کتب ادب کھول کر صبح سے شام بیٹھے رہتے تھے اور ان کتب کے ورق الٹتے جاتے تھے اور ایک فقرہ ایک 105

Page 116

مقامے سے اور دوسرا دوسرے مقامے سے لیتے جاتے تھے، نیز کبھی معلقات سے اور کبھی حماسہ سے اور کبھی کسی اور کتاب سے اچھے الفاظ اور تراکیب اور جملے نوٹ کرتے جاتے اور آخر پر ان جملوں کو جمع کر کے کتاب بنا کر چھاپ دیتے تھے.جیسا کہ واضح ہے کہ اس طریق پر ایسی کتب تالیف نہیں ہو سکتیں جنہیں بطور چیلنج پیش کیا جا سکتا ہو.آج جبکہ کمپیوٹر پر ایسے پروگرام میسر ہیں جن میں کئی کئی ہزار کتب موجود ہیں اور محض چند سیکنڈز میں تمام کتب میں کسی لفظ یا جملے یا موضوع کے بارے میں تلاش کی جاسکتی ہے.لیکن آج سے سوا سو سال قبل ایسا سوچنا بھی ناممکن تھا.تاہم اگر فرض کر لیا جائے کہ آپ ایسا کر سکتے تھے تو یہ سہولت تو تمام مخالفین کے پاس بھی تھی.سارے مولوی مل کر اگر ایک ایک فقرہ بھی لکھتے تو اس طرح کی کئی کتابیں بن سکتی تھیں.پھر انہیں حضور علیہ السلام کے بالمقابل آنے کی جرات کیوں نہ ہوئی؟ یا اگر ان کے لیے مشکل تھا تو آج تو یہ آسان ہو گیا ہے.پھر آج یہ معترضین کیوں ایسی کوئی کتاب لکھنے سے قاصر ہیں جبکہ دنیا کی ساری اچھی کتب سے چند سیکنڈز میں اچھے اچھے جملے اور الفاظ تلاش کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا ہے.106

Page 117

علاوہ ازیں جو لکھنے والے ہیں وہ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ مضمون خاص کی بحث میں سرقہ کا دروازہ بہت تنگ ہوتا ہے.اگر آپ نے کسی خاص مضمون کو لکھنا ہے تو مضمون کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے آپ کو کئی مفردات اور جملے چھوڑنے پڑیں گے چاہے وہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں کیونکہ مضمون کی ادائیگی میں صرف وہی جملہ استعمال ہو سکتا ہے جو اس مضمون کا معنی ادا کرتا ہے.لیکن جو شخص الفاظ کی بندش کا خیال رکھے گا اسے مضمون سے ہاتھ دھونے پڑیں گے جیسے کہ حریری نے کیا.ان تمام حقائق کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایسے کاموں کے لیے فرصت کتنی تھی؟ آپ کو ذیا بیلس اور دوران سر کا عارضہ تھا.روزانہ احمدی اور غیر احمدی مسلم اور غیر مسلم افراد آپ کو ملنے آتے تھے.اکرام ضیف کے تحت سب کے ساتھ ملاقاتیں کرنا، ان کے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام کرنا یا ایسے انتظامات کا خیال رکھنا، ان کے ساتھ گفتگو کرنا اور ان کے اعتراضات اور سوالات کے جوابات دینا، موافقین اور مخالفین کی طرف سے روزانہ مخطوط کا آنا جن کی تعداد پانچ صد ماہوار تک پہنچ جاتی تھی، پھر تمام خطوط کے جواب لکھوانا اور بعض اوقات کسی خط کے جواب میں ایک مکمل اور مبسوط مضمون لکھوانا، پھر موافقین 1072

Page 118

و مخالفین کے مضامین کا پڑھنا یا دوسروں سے ان کے مضامین سننا، اس کے ساتھ ساتھ کبھی عیسائیوں کے اسلام پر حملے کے جواب میں مبسوط کتب تالیف فرمانا تو کبھی ہندوؤں اور آریہ کے اعتراضات کے جواب میں مضامین و کتب لکھنا، کبھی اشاعت اسلام کے لیے اعلانات تحریر کر کے چھپوانا اور کبھی اعلائے کلمہ حق کے لیے مناظرات اور مباحثات میں شمولیت اختیار کرنا، اور مختلف سفر اختیار کرناوغیرہ وغیر ہ ایسے کام تھے جن میں مصروف شخص کے پاس ایسی فرصتیں کہاں کہ کتابیں کھول کر ان میں سے جملے نکالے جائیں.پھر خدمت خلق کے کام ان دینی مہمات کے علاوہ تھے.اور یہ سب کام ایسے گھر میں اور ایسی بستی میں بیٹھ کر سر انجام دینا جس میں اس وقت نہ بجلی تھی نہ کوئی سہولت.جہاں گرمیوں کے موسم میں شدید گرمی اور سردیوں کے موسم میں شدید سردی ہوتی ہے.ایسی صورت حال میں بڑھاپے اور بیماریوں، کمزوری اور بے شمار مصروفیات کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فصیح و بلیغ عربی میں میں سے زائد کتب لکھنا اور ان میں سینکڑوں شعروں پر مشتمل قصائد بھی تحریر فرمانا یقیناً اپنی ذات میں ایک عظیم معجزہ ہے.خلاصہ یہ کہ معترضین اور مخالفین جب حضور علیہ السلام کے بالمقابل عربی دانی کے جوہر دکھانے سے عاجز آگئے تو کبھی کہا کہ یہ کلام اغلاط سے پر ہے اور 108

Page 119

نہایت ضعیف عربی لکھی ہے اور کبھی اپنی بات کے ہی بر عکس یہ کہہ دیا کہ ان کتب میں بہت اچھے اچھے ادبی فقرات اور بلیغ تراکیب ہیں اس لیے ہو نہ ہو یہ کتب پرانی کتب سے سرقہ کر کے لکھی گئی ہیں، اور جب یہ بات بھی نہ بنی تو انہوں نے یہ کہہ دیا کہ کوئی شامی یا عربی ان کو یہ کتب لکھ کر دیتا ہے.ان سب باتوں کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب جواب دیا.فرمایا: ” اس خیال میں میرے مخالف سراسر سچ پر ہیں کہ یہ اس شخص کا کام نہیں کوئی اور پوشیدہ طور پر اس کو مدد دیتا ہے سو میں گواہی دیتا ہوں کہ حقیقت میں ایک اور ہے جو مجھے مدد دیتا ہے لیکن وہ انسان نہیں بلکہ وہی قادر و توانا ہے جسکے آستانہ پر ہمارا سر ہے.“ (اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲) نیز فرمایا: انْظُرْ إِلَى أَقْوالِهِمْ وَتَناقُضِ سَلَبَ العِنادُ إصابَةَ الْآرَاءِ طَوْرًا إِلَى عَرَب عَـوْهُ وَتَارَةً قَالُوا كَلامٌ فَاسِدُ الإِمْلَاءِ هَذَا مِنَ الرَّحْمَن يَا حِزْبَ العِدا لَا فِعَلَ شَامِيٌّ وَلَا رُفَقَائِي الاستفتاء، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۷۲۶) 109

Page 120

ترجمہ: تو ان کی باتوں اور ان میں موجود تضاد کو دیکھ کہ کس طرح دشمنی نے ان سے درست بات کہنے کی طاقت بھی سلب کر لی ہے.کبھی تو میرے کلام کو کسی عرب کی طرف منسوب کرتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ اس کی تو املا ہی فاسد ہے.اے گردو دشمناں ! یہ تو خدائے رحمان کی طرف سے ہے.نہ کسی شامی کا کام ہے نہ ہی میرے رفقاء کا.110

Page 121

خلاصہ بحث اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر مولوی اصغر علی صاحب نے بھی حضرت بانی جماعت احمدیہ کی عربی دانی پر اعتراض کیا اور اپنے خط میں انہی اعتراضات کا ذکر کیا جو اس وقت کے مولوی حضرات اور حضور علیہ السلام کے دیگر مخالفین کی زبانوں پر تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مورخہ ۳ اپریل ۱۸۹۴ء کو اس مکتوب کا مفصل جواب دیا جس میں مختصر مگر جامع انداز میں ان تمام اعتراضات کے جوابات عطا فرمائے.ذیل میں ہم حضور علیہ السلام کے اس جامع و مانع جواب کو اس سارے مضمون کے خلاصہ بحث کے طور پر پیش کرتے ہیں.حضور فرماتے ہیں: د السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.بعد ہذا آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا.آپ کی یہ صفت قابل تعریف ہے جو آپ اس گروہ میں سے نہیں ہیں جو محض جلد باز ہیں اور تعصب کے رو سے ایک مسلمان کا نام کافر اور دجال اور بے ایمان بلکہ اکفر کہتے ہیں.اور معلوم ہو ا کہ آپ کی تحریر اس غرض سے تھی کہ بعض مقامات پر حمامۃ البشری میں صرفی یا نحوی یا عروضی غلطی ہے.اور نیز آپ کی دانست میں بعض مضامین یا فقرات یا اشعار اس کے *1117

Page 122

چرائے گئے ہیں.سو عزیز من! اس کے جواب میں یہ گزارش ہے کہ یہ شغل عاجز نہ ادیب، نہ شاعر اور نہ اپنے تئیں کچھ چیز سمجھتا ہے اور نہ اس میں کوئی حصہ عمر کا بسر کیا ہے.اور نہ ان عبارتوں اور اشعار کے لکھنے میں کوئی معتد بہ وقت خرچ ہوا ہے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ تحریریں معمولی خطوں کی طرح اپنی اوقات معمورہ میں سے ہر روز ایک دو گھنٹہ نکال کر لکھی گئی ہیں.اور ساتھ ساتھ کاپی نویس لکھتا گیا.اور اگر کبھی اتفاقا پورا دن ملا تو ایک ایک دن میں سو سو شعر طیار ہو گیا.اور وہ بھی پورا دن نہیں کیونکہ اگر آپ اس جگہ آکر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ دن رات کس قدر مشغولی ہے.خطوط کا یہ حال کہ کبھی تین سو کبھی چار سو کبھی پانچ سو ماہوار آجاتا ہے.اور بعض خطوط کا جواب رسالہ کی طرح لکھنا پڑتا ہے.مہمانداری کا یہ حال ہے کہ ایک جہان توجہ کر رہا ہے ایک قافلہ مہمانوں کا ہمیشہ رہتا ہے.اور عجیب عجیب صاحب کمال، مدنی، شامی، مصری اور اطراف ہندوستان سے آتے ہیں.اور بباعث رعایت حق ضیف بہت حصہ وقت کا ان کو دینا پڑتا ہے.عمر کا یہ حال ہے کہ پیرانہ سالی ہے.ضعیف الفطرت ہوں علاوہ اس کے دائم المریض اور ضعف دماغ کا یہ حال ہے کہ کتاب دیکھنے کا اب زمانہ نہیں جو کچھ خیال میں گزرا وہ لکھ دیا یا لکھا دیا.112

Page 123

دورانِ سر لاحق حال ہے.ادنی محنت سے گو فکر اور سوچ کی محنت ہو، مرض راس دامنگیر ہو جاتا ہے.عمر اخیر ہے، مرگ سر پر، تکبر اور ناز جو لوازم جوانی اور جہل ہیں کچھ تو ضعف اور پیرانہ سالی نے دور کر دیے تھے اور بقیہ ان کا اس معرفت نے دور کر دیا جو فیاض مطلق نے عطا فرمائی.اب ان حالات کے ساتھ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر کسی تالیف میں غلطی جو لازم بشریت ہے پائی جاتی ہے تو کیا بعید ہے ؟ بلکہ بعید تو یہ ہے کہ نہ پائی جائے.بہت سے نیک دل اور پرہیز گار اس جگہ رہتے ہیں.اور نوبت بہ نوبت اچھے علماء اور ادیب آتے رہتے ہیں اور ایک قافلہ بزرگوں کا لازم غیر منفک کی طرح اس جگہ رہتا ہے.ان سے آپ دریافت کر سکتے ہیں کہ اس عاجز کی طرز تالیف کیا ہے.اگر آپ دریافت کریں گے تو آپ پر بھی ثابت ہو گا کہ تالیفات ایک خارق عادات طور پر ہیں.میری عمر کا یہ تجربہ نہیں کہ کوئی انسان بجز خاص تائیدات الہی کے باوجود اس ضعف اور دامن گیر ہونے انواع و اقسام کے امراض کے اور باوجود اس کثرت شغل خطوط اور ایمانداری کے پھر یہ فرصت پا سکے کہ بہت سا حصہ نثر موزون کاجو بعض اوقات قریب قریب ایک جزو کے ہوتی ہے.معہ ان اشعار کے جو بعض اوقات سو سو بلکہ سو سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں، بتیں پہر میں لکھ *1137

Page 124

دے؛ اگر آپ کا کوئی تجربہ ہو تو میں آپ سے کوئی بحث کرنا نہیں چاہتا.اور نہ میں اپنے نفس کو کوئی چیز سمجھتا ہوں.باوجود ان سب اسباب کے کبھی مجھ کو موقعہ نہیں ملتا کہ جو کچھ لکھا ہے سوچ کی نظر سے اس کو دیکھوں.پھر اگر اس طور کی تحریروں میں اگر کوئی صرفی یا نحوی غلطی رہ جائے تو بعید کیا ہے.مجھے کب یہ دعوی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے.ان کم فرصتوں اور اس قدر جلدی میں جو کچھ قلم سے گزر جاتا ہے ، میں اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھتا ہوں.ہاں اگر غلطی ہے تو میرے نفس کی وجہ سے.پھر ان غلطیوں کے ساتھ سہو کاتب شامل ہو جاتا ہے.پھر کب دعویٰ ہو سکتا ہے کہ یہ کتابیں صرفی یا نحوی غلطی سے پاک ہیں.لیکن باوجود اس کے میں کہتا ہوں.اور زور سے کہتا ہوں کہ اس جلدی کے ساتھ جو کچھ نظم اور نثر عربی مخالفوں کے الزام و انجام کے لئے میرے منہ سے نکلتے تھے وہ میرے منہ سے نہیں بلکہ ایک اور ہستی ہے جو ایک جاہل نادان کو اندر ہی اندر مدد دیتی ہے.اور بیشک وہ امر خارق عادت ہے اور کسی عدوّ دین اور عدوّ صادقین کو یہ توفیق ہر گز نہیں دی جائے گی کہ وہ انہی لوازم ارتجال اور اقتضاب کے ساتھ اس کو اخیر تک نباہ سکے.اور جو سرقہ کا خیال آپ نے کیا ہے آپ ناراض نہ ہوں یہ بھی صحیح نہیں.اس عاجز کی ایک عادت ہے شاید اس کو آپ نے سرقہ پر حمل کیا ہے.اور وہ *1147

Page 125

یہ ہے کہ مضمون سوچتے وقت اگر سلسلہ تحریر میں جو روانگی کے ساتھ چلا جاتا ہے کوئی فقرہ یا بعض وقت کوئی مصرعہ کسی گزشتہ قائل کا دل میں گزر جائے اور مناسب موقعہ معلوم ہو تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھا جاتا ہے.اور اس کے لکھنے میں اگر محل پر چسپاں ہو کچھ بھی حرج نہیں دیکھا جاتا.کیونکہ بے تکلف ہماری راہ میں آگیا اور عجیب تریہ کہ اکثر اوقات مجھے بالکل احساس نہیں ہوتا اور دوسرا کہتا ہے کہ یہ مصرعہ یا فقرہ، فلاں فقرہ یا فلاں مصرعہ سے بالکل مشابہ ہو گیا ہے.بعض اوقات عجب طور کے توارد سے تعجب کرتا ہوں، جانتا ہوں کہ جلد باز اپنی جلد بازی اور سوء ظن سے اس پر اعتراض کرے گا.مگر جانتا ہوں کہ میرا کیا گناہ ہے.اگر کرے تو کر تار ہے.کلام فصیح اپنے کمال پر پہنچ کر ایک نور بن جاتا ہے.اور نور نور سے مشابہ ہوتا ہے.سرقہ کے لئے جوانی اور جوانی کا زور بازو اور وسیع فرصتیں چاہئیں وہ مجھے کہاں.اگر کوئی سرقہ کا خیال کرے تو کیا کرے.جن لوازم کے ساتھ یہ تحریریں ظہور میں آئی ہیں.اگر کوئی ان لوازم کے ساتھ تحریر کر کے دکھلاوے تو ایک دفعہ نہیں بلکہ ہزار دفعہ اس کو سرقہ کی اجازت دے سکتا ہوں.آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مضمون خاص کی بحث میں سرقہ کا دروازہ بہت تنگ ہو تا ہے.جو شخص اس کام میں پڑے وہ سمجھے گا کہ یہ الزام ایسے علمی مباحث میں کس قدر بیجا ہے.115

Page 126

پھر یہ بات بھی آپ یاد رکھیں کہ صرفی نحوی غلطیاں نکالنے میں عجلت نہیں کرنی چاہئے.کچھ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ ایک مخالف مولوی نے اسی طرح میری تالیف میں غلطیاں نکالیں.دوسرے اہل علم اور مخلص نے وہی غلطیاں قرآن سے نکال کر ان کی صحت کر دی ہے.ایک مخالف نے ایک شعر کے وزن میں بحث کی.اسی وقت ایک ادیب عربی نے قدماء میں سے ایک مسلم اور مشہور شاعر کا شعر پیش کیا.یہ خد اتعالیٰ کا فضل ہے کہ ہماری جماعت کے ساتھ کئی ایک ادیب شامی، مدنی اور اسی ملک کے ہندوستانی شامل ہیں.نوبت بہ نوبت علماء اس جگہ رہتے ہیں.عزیز من! صرف نحو کا میدان بڑا وسیع ہے.صلوں میں دیکھو کہ کس قدر اختلاف ہے بعض اوقات ایک ایک لفظ کے تین تین چار چار صلے آجاتے ہیں.جیسا کہ بَارَكَكَ، بَارَكَ اللهُ لكَ ، بَارَكَ اللهُ فيكَ، بَارَكَ اللَّهُ عليكَ.أَنْظُرْ.بعض جگہ من کی جگہ عن اور عن کی جگہ من اور فا کی جگہ با اور با کی جگہ فا.اور نئے محاورہ میں بہت فرق آگیا ہے.غرض یہ بڑا نازک امر ہے مجھے تعجب ہے کہ آپ کیوں اس میں پڑتے ہیں.اور کیوں ایسا دعویٰ کرتے ہیں کہ میں صرفی نحوی غلطیاں ملک میں شائع کروں گا.عزیز من اگر کوئی واقعی غلطی ہو گی تو ہمیں کب انکار ہے.[116]

Page 127

لیکن اگر بعض آپ کی قرار دادہ غلطیاں آخری تحقیقات سے غلطیاں ثابت نہ ہوئیں تو اس شتاب کاری کی کس کو ندامت ہوئی ؟ نکتہ چینوں نے حریری کی بھی غلطیاں نکالیں.بلکہ ان دنوں میں ایک خبیث طبع بیر و تنگی عیسائی نے قرآن کریم کی نکتہ چینی کی ہے.پھر جبکہ بد باطن معترض اعتراض کے وقت پر قرآن شریف سے بھی حیا نہیں کرتے اور اہل زبان کی نظم و نثر پر بھی حملے ہوئے ، تو پھر میں کیونکر کہوں کہ میں ان حملوں سے بچ سکتا ہوں.لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ بات سچ ہے کہ نکتہ چینی آسان اور نکتہ آوری مشکل ہے.مجھے ایک بات یاد آئی ہے اور معلوم نہیں کہ کب کا واقعہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی معمار عمارت بنا رہا تھا اور ایک فضول گو جاہل اس کے سر پر کھڑا ہوا اور اس کی عمارت میں نکتہ چینی شروع کی کہ یہ طاق خراب ہے اور یہ شاہ نشین ٹیڑھا ہے.معمار کاریگر اور حلیم تھا، مگر غصہ آیا اور اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ اگر تیری نکتہ چینی کی بنا کسی واقفیت پر ہے تو ذرہ لگا کر مجھے بتلا.ورنہ ایسی نکتہ چینی سے شرم کر جس کی بنا نادانی اور ناتجربہ کاری پر ہے.عزیز من! دنیا میں بہت سے ایسے نکتہ چیں ہیں ان کو اپنی لیاقت کا تبھی پتہ لگتا ہے کہ جب مقابل پر کوئی کام کرنے لگیں.علمی معارف کو فصیح اور بلیغ اور رنگین کلام میں کماحقہ انجام دینا کوئی آسان بات نہیں ہاں نکتہ (117)

Page 128

چینی کا کرنا بہت آسان بات ہے.ایک گورا ریل پر سوار ریل کے موجد پر سو سو اعتراض کرتا ہے کہ اس کے کام میں یہ کسر رہ گئی ہے اور ان مشکلات کو نہیں سوچتا جو اس کو پیش آئیں اور جن میں وہ کامیاب ہوا.میں ایک دینی کام میں لگا ہوا ہوں اور میں ایک کمزور اور بوڑھا آدمی ہوں اور بہت کم وقت ہو گا کہ کسی کام میں میں مصروف نہ ہوں اور آپ جو ان ہیں اور علمی طاقت کا بت بھی آپ کے ساتھ ضرور ہو گا.خد اتعالیٰ اس کو دور کرے اور آپ ناراض نہ ہوں بہت سے ایسے بت ہیں جو انسان ان کو شناخت نہیں کر سکتا اور سعید آدمی چاہتا ہے کہ وہ ٹوٹ جائیں تو اچھا ہو.لیکن اگر آپ کو مخیال ہے کہ یہ کام انسانی عام طاقتوں کا ایک عام نتیجہ بلکہ اس سے بھی گرا ہوا ہے اور خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہیں تو یہ ایک بیماری ہے جس کی جڑ نفسانی تکبر ہے.اگر اس عاجز کے ہاتھ سے دور ہو جائے تو شاید مجھ کو اس کا ثواب ہو.اور شاید آپ ایسے ہو جائیں کہ ہماری دینی خدمات کے کام آئیں.لہذا میں آپ کی اس درخواست کو بسر و چشم قبول کرتا ہوں جو آپ نے اپنے خط کے اخیر لکھی ہے کہ میں بمقابل رسالہ لکھنے کے لئے آیا ہوں بشر طیکہ باضابطہ اس امر کا فیصلہ ہو جائے کہ عربی انشاء پردازی کے لحاظ سے جس جانب کا رسالہ بلحاظ اغلاط ، آنقص ہو گا، اس کو 1187

Page 129

عربی زبان میں خداداد فصاحت و بلاغت کا عظیم الشان اپنے دعوئی زباندانی یا کشف اسرار قرآنی سے آئندہ دست بردار ہونا ہو گا.فقط.جانب کا رسالہ جو دینی عمی مضامین پر مشتمل ا یہ آپ کی درخواست منظور ہے.مگر عبارت اس طرح کی چاہئے کہ جس مشتمل ہو بلحاظ اغلاط و بلحاظ دیگر لوازم بلاغت و عدم بلاغت مرتبہ صحت اور عمدگی سے گرا ہوا ہو ایسا شخص آئندہ دعوی زباندانی سے اور نیز دعوی کشف اسرار قرآنی سے دست بر دار ہو.اور چونکہ کشف اسرار قرآنی الہام کے ذریعہ سے ہے اس لئے میں یہ بھی قبول کرتا ہوں کہ اگر آپ کا بالمقابل رسالہ جو مضامین دینیہ پر ہو بیانِ معارف میں باوجود امتزاج بلاغت و فصاحت اور رنگینی عبارت میرے رسالہ سے بڑھ جائے تو پھر اپنے الہام کے عدم صحت کا مجھے قائل ہونا پڑے گا.مگر اس مقابلہ کے لئے میری کتابوں میں سے وہ کتاب چاہئے جس کی نسبت خدا تعالیٰ کے الہام نے بے نظیری ظاہر کی ہے.سو میں آپ کو اعلام دیتا ہوں کہ ان دنوں میں نے ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام نور الحق ہے اور اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ نصاریٰ کے رڈ میں اور دوسرا حصہ خسوف و کسوف کے بیان میں.اور دو خواب اور دو الہام سے مجھ پر ظاہر ہوا ہے کہ دشمن اور مخالف اس کی نظیر بنانے سے عاجز رہے گا.119

Page 130

اور اگر چہ بہت ہی تھوڑا کام ہے لیکن میں نے عیسائیوں کو اس کے مقابل بنانے کے لئے دو مہینے کی مہلت دے دی ہے.آپ کے لئے تو صرف پندرہ دن کی مہلت کافی ہے لیکن اس لحاظ سے کہ آپ بار بار جھگڑا نہ کریں دو مہینے کی مہلت آپ کو بھی دیتا ہوں ایک مہینہ تالیف کے لئے اور ایک مہینہ شائع کرنے اور چھاپنے کے لئے اگر دو مہینے میں چھپ کر شائع نہ ہو جائے تو معاہدہ فسخ ہو گا.اور الزام گریز آپ پر رہے گا مگر چاہئے کہ یہ کاغذ جانبین اور گواہوں کے دستخط سے کسی اخبار میں شائع ہو جائے.شرائط جس کی پابندی آپ پر لازم ہوں گی وہ یہ ہیں.(۱) دونوں حصے نورالحق جس قدر اجزا رکھتے ہیں اسی قدر اجزا آپ کی کتاب کے بھی ضرور ہوں گے.(۲) جس قدر ہر دو حصے نورالحق میں اشعار ہیں.اسی قدر آپ کے رسالہ میں بھی اشعار چاہئیں.ہر گز اختیار نہیں ہو گا کہ اشعار اس سے کم ہوں.(۳) جو قصیدہ نونیہ ہو اس کے مقابل پر نونیہ و علیٰ ہذا القیاس.(۴) ہر ایک بحر کے مقابل وہی بحر ہو اور جس طرح ہماری کتاب کا ہر ایک فقرہ فقرہ مقفا ہو اور یا استعارات لطیفہ پر مشتمل ہوں یہ پابندی بھی آپ پر واجب ہو گی.*120

Page 131

(۵) جہاں قصائد میں التزام علمی مضامین یا کسی امر کے دلائل بیان کرنے کا التزام ہے وہی التزام آپ کی طرف سے ہو گا اور جس طور کی سلسلہ بندی کہ نظم میں یا نثر میں میں نے بنایا ہوا ہے وہی سلسلہ بندی انجام تک آپ کے ذمہ ہو گی.(۶) یہ ضروری ہو گا کہ آپ کا رسالہ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ کا مصداق نہ ہو.از قسم ہنرل نہ ہو.بلکہ جیسا کہ ہمارا رسالہ مباحث علمی پر مبنی ہو.اگر کسی آپ کو کسی بیان میں مجھ سے اتفاق ہو تو اتفاق ظاہر کریے اور معارف جدیدہ بیان کریے.اور اگر کسی جگہ اختلاف ہو تو ہمارے مباحث علمیہ کو رد کر کے دکھلاؤ اور جیسے میرے اشعار ایک مضمون کے بیان کرنے میں مسلسل چلے جاتے ہیں یہی شرط ان میں ملحوظ رہے.بایں ہمہ اشعار، اشعار کی تعداد سے مطابق ہوں اور شعر شعر کی تعداد سے.مثلاً اگر میرے رسالہ میں دو سو شعر پایا جائے تو آپ کے رسالہ میں بھی دوسو شعر ہو نا ضروری ہو گا.(۷) آپ کا اختیار نہیں ہو گا کہ کوئی مضمون چھیڑیں بلکہ آپ کا رسالہ میرے رسالہ کی تصدیق یا تکذیب پر مشتمل ہو گا.(۸) آپ کے لئے کسی اس تاریخ سے دو مہینے کی مہلت ہو گی کہ جب فریقین کی تحریر کسی اخبار کے ذریعہ شائع ہو کر آپ کو رسالہ نور الحق مل جائے.[121]

Page 132

عربی زبان میں خداداد فصاحت و بلاغت کا عظیم الشان (۹) اگر آپ دو ماہ میں بالمقابل رسالہ شائع نہ کر سکیں تو آپ کو یہ اقرار کرنا ہو گا کہ میں جس مقابلہ کے لئے اٹھا تھا اس میں میں نے شکست کھائی.(۱۰) بالمقابل دونوں رسالوں کے نقص اور کمال دیکھنے کے لئے منصف مقرر ہوں گے اور کم سے کم ان میں ایک آدمی ایسا ادیب ہو گا جو اہل زبان اور عرب کے کسی حصہ کا رہنے والا ہو.منصف یہ بھی دیکھیں گے کہ شوکت کلام اور متانت کلام اور پر برکت اور موثر از مضمون اور حق اور راستی کی پابندی سے اور پھر بلاغت سے بھرا ہوا کس کا مضمون ہے.اگر میری شرائط میں سے کوئی شرط بالمقابل رسالہ لکھنے کے لئے ہو جو میرے رسالہ میں نہ ہو تو آپ وہ ساقط کر اسکتے ہیں.یہ شرائط جن کی پابندی آپ پر لازم ہو گی اگر آپ کو منظور ہوں تو ایک پانچ دن کے لئے قادیان میں آجائیں آپ کے آنے جانے کا خرچ میرے ذمے ہو گا اگر چاہو تو پہلے بھیج دوں.اس جگہ کاغذ معاہدہ آپ کے رو برو لکھا جائے گا اور پھر فریقین کے دستخط اور گواہوں کی شہادت سے شائع کرا د یا جاوے گا اور اگر آپ کسی شرط کی برداشت نہ کر سکیں اور وجہ معقول بتا دیں تو اس شرط میں کسی قدر ترمیم کر دی جائے گی پھر لوگ دیکھ لیں گے 122

Page 133

کہ خدا تعالیٰ غالب آتا ہے یا آپ غالب آتے ہیں میں اپنے آپ کو کچھ لکھا پڑھا نہیں سمجھتا جو کچھ ہو گا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو گا اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور خدا تعالیٰ میرا مولیٰ ہے تو خدا تعالیٰ مجھ کو ذلیل کرے گا اور میری رسوائی ظاہر کر دے گا لیکن اگر ایسا نہیں تو وہ رسوا ہو گا جو میرے مقابل پر آئے گا.کیونکہ میں کچھ نہیں یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یہ کہاں انسان سے ہو سکتا ہے که با وجود صدہا مشغولیوں اور دائمی ضعف اور علالت کے اس کی تصنیف ایسی عجلت سے ہو.یہ بھی یاد رہے کہ میں نے افسوس کے ساتھ اس مقابلہ کو منظور کیا ہے.میں اس وقت عیسائیوں کی طرف متوجہ ہوں ایک وہ گروہ ہے جو صدق دل سے اپنے وطن چھوڑ کر میرے پاس آبیٹھے ہیں اور خدمت میں مشغول ہیں کوئی کسی تالیف میں مصروف ہے کوئی مخطوط نویسی میں مدد دیتا ہے اور کسی نے انگریزی خط لکھنے کا ذمہ لیا ہے اور کوئی عربوں کے خطوط کا عربی میں جواب دیتا ہے اور چند روز زندگی کو بیچ سمجھ کر اللہ جل شانہ کی راہ میں فنا ہو رہے ہیں اس جگہ رہ کر غریبوں کی طرح نان و نمک پر گزارہ کر رہے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ بعض انہیں میں بہت روتے ہیں بات بات 123

Page 134

میں انکے آنسو جاری دیکھتا ہوں.فاضل ہیں عالم ہیں ادیب ہیں خاکسار ہیں لیکن افسوس کہ آپ کو بے بنیاد عمر کا فکر نہیں کیا اچھا ہو تا کہ محبت کے ساتھ دینی فکر میں مشغول ہوتے اور مدد گاروں میں شامل ہو جاتے اور مجھے راحت پہنچاتے اور اس کا اجر راحت دیکھتے مثلاً رسالہ نور الحق لاہور میں چھپ رہا ہے اور یہ کسی خود نمائی کی غرض سے نہیں بلکہ محض ان پلید عیسائیوں کا منہ بند کرنے کے لئے ایک ہتھیار ہے جو قرآن شریف پر ٹھٹھا اور اس پاک کلام کی فصاحت پر حملہ کر رہے ہیں مگر میں قادیان میں ہوں اور لاہور میں چھپتا ہے.لاہور میں کوئی آدمی ایسا نہیں کہ پروف کو بھی دیکھ سکے اور للہ محنت کرے اور اس میں غور کرے اور کوئی غلطی ہو تو درست کر سکے.آخر پروف میرے پاس آتا ہے اور بیمار طبع ہوں کوئی محنت کا کام مجھ سے نہیں ہو سکتا ادنی توجہ سے درد سر شروع ہو جاتا ہے پھر غلطی رہنے کا احتمال ہوتا ہے.بعض ادیب دوست ہیں وہ بھی خدمات سے خالی نہیں اور ہمیشہ پاس نہیں رہ سکتے ایک عرب صاحب محض محط لکھنے کے لئے مقرر ہیں وہ دوسرا کام نہیں کر سکتے ان باتوں کے خیال سے دل بہت دکھتا ہے.مجھے اس کی کیا غرض کہ میں نفسانی دعویٰ کروں اور اگر کوئی اس عزت کو لینے والا ہو سب عزت اس کو دے دوں مگر دینی [124]

Page 135

غمخوار کم ہیں.اب نور الحق کے لئے پانچ ہزار روپے کا اشتہار شائع کر چکا ہوں اور چودہ سو اشتہار اردو میں شائع کر چکا ہوں جن میں سے ایک آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں اور اب چودہ سو انگریزی میں چھپ رہا ہے یہ تو میں نے اسلامی غیرت سے اپنی اس علیل طبیعت میں کیا اور نہایت سرسری نگاہ سے صرف چند روز میں اس کو تمام کیا اور میرے دوست جانتے ہیں کہ علاوہ اس کے کہ سو سو شعر گھنٹہ میں طیار ہوئے پھر اگر ایسے اسباب کے ساتھ احتمال غلطی نہ ہو تو غلطی کے لئے اور کون سے اسباب ہوا کرتے ہیں.بعض وقت لکھتا ہوں تو آنکھوں کے آگے اندھیرا اتر جاتا ہے اور یقین ہو جاتا ہے کہ منشی آگئی مگر ایسا قائمقام نہیں پاتا جو ابکلی مہیا کاموں کا متکفل ہو جائے.اگر آپ محبت کی وجہ سے یہ خدمت اختیار کرتے جو رسالہ نور الحق کو ہی تدبر سے دیکھتے اور اللہ خدمت کرتے ر غلطی پاتے تو اس کو درست کر دیتے اور عیسائی گروہ پر رعب ڈالنے کے لئے کوئی تقریظ لکھتے.نشست کا سامان نہیں اور جلدی سے یہ چند سطر کھینچ دیں ہیں اور یہ خط میں نے ایک ساعۃ فرصت نکال کر لکھا ہے مگر ہمیشہ مجھے اپنے ہاتھ سے لکھنے کی فرصت نہیں اور میں نے کوئی کلمہ سخت آپکو نہیں لکھا اور نہ کچھ رنج کیا 125

Page 136

اور نہ رنج کا مقام تھا.اکثر لوگ کافر دجال بے ایمان کہتے ہیں بڑی بڑی گالیاں نکالتے ہیں ان کی کچھ پروا نہیں کی جاتی.معاملہ خدا تعالیٰ ہے." ނ (مکتوب بنام مولوی اصغر علی صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور مورخہ ۳, اپریل ۱۸۹۴ء.مطبوعہ ہفت روزہ الحکم جلدے نمبر ۳۸ مورخہ ۷ ام اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۵ تا۷) وَآخِرُ دَعْوانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ.126

Page 136