Aqleem-eKhilafat

Aqleem-eKhilafat

اقلیم خلافت کے تاجدار

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے چشمدید اور دلآویز واقعات
Author: Other Authors

Language: UR

UR
خلافت اسلامیہ احمدیہ

یقیناً خلفائے احمدیت کبریت احمر کا حکم رکھتے ہیں اور سنگ پارس سے بڑھ کر تاثیر کا حامل ہوتے ہیں۔ مولانا دوست محمد شاہد صاحب مورخ احمدیت نے اس مختصر کتابچہ میں تین خلفائے احمدیت کی طرف سے نصیب ہونے والی قربت اور محبت کے واقعات یکجا کئے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح  مواد مرتب کرکے مولانا موصوف نے نہ صرف خلافت کے عظیم الشان مقام اور مرتبے کا تعارف کروایا ہے، بلکہ جماعتی تاریخ کے مختلف پہلو بھی محفوظ ہوگئے ہیں اور قریباً نصف صدی کے یہ قصے بہت سوں کے لئے مہمیز اور نشان راہ ثابت ہونگے جن کا مطالعہ کرکے  بہت سے مزید خدام دین اور خلافت کے سلطان نصیر اپنی محنت، محبت، وارفتگی اور اطاعت و وفا کے معیار بڑھائیں گے۔


Book Content

Page 1

خلافت ان سے صد سالہ جمالی ١٩٠٨ - ٢٠٠٨ میں خدا کی ایک جسم قدرتی ہوں اور میرے اور بعض امرہ کی قدر کر اتیر خلافت کے تاجدار دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت

Page 2

اقلیم خلافت کے تاجدار دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت

Page 3

(صرف احمدی احباب کیلئے ) اقلیم خلافت کے تاجدار سید نا حضرت مصلح موعوددؓ، حضرت خلیفة المسیح الثالث اور حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے چشمد ید اور دلآویز واقعات الناشر الحافظ پبلیکیشنز چناب نگر مطبوعہ: ضیاء الاسلام پریس ربوہ

Page 4

صادقوں کے بادشاہ سید المرسلین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی مے نے آخرین میں ادارہ خلافت کے از سر نو احیاء کی واضح خبرا ثم تكون الخلافة على منهاج النبوة (مشكوة كتاب اعلم ) میں دی ہے جس کی ایک قرآت مجد داہلسنت علامہ علی القاری کی تحقیق کے مطابق ثم تكون خلافة “ بھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضور ﷺ کے وصال کے بعد نبوت خلافت کی شکل میں نمودار ہوگی بالفاظ دیگر جمله خلفاء راشدین جو قیامت تک ظہور فرما ہوں گے رسول اللہ کی عکسی تصویریں ہوں گے اور ان کے وجود سے گویا گردشِ لیل و نہار صدیوں پیچھے پلٹ جائے گی اور زمانہ نبوی پھر عود آئے گا اور اس کی پر انوار جھلکیاں گل عالم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لے گا اسی لئے حضور پُر نور نے بارگاہ رب العزت میں دعا کہ اللهم ارحم خلفائى الذين ياتون من بعدى الذين يروون احادیثی و سنتی و يعلمونها الناس“ (طبرانی الاوسط بحوالہ " جامع الصغیر للسیوطی جلد اصفحہ ۶ مصری ) اس مبارک حدیث کا ترجمہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نافلہ موعود ذوالقرنین وقت کے قلم سے سیدنا رنا حسب ذیل ہے.”اے میرے اللہ میرے نائبین اور میرے خلفاء پر رحم کر جو میرے بعد آئیں گے اور میری باتیں اور میری سنت دنیا کے سامنے بیان کریں گے اور میری باتیں اور میری سنت ہی دنیا کو سکھائیں گے.( جلسہ سالانہ کی دعا ئیں صفوی ۱۰۴) تحریک احمدیت کے خلفاء خمسہ کی سیرت و شمائل کا یہ وہ جامع نقشہ اور لطیف خا کہ ہے جو خودشہنشاہ نبوت نے کھینچا ہے اور جیسا کہ خاکسار کے درج ذیل ذاتی اور چشمد ید واقعات سے بھی عیاں ہو جائے گا.انشاء اللہ.خلافت ثانیہ، خلافت ثالثہ اور خلافت رابعہ کے عالی پایہ اور عظیم الشان تاجداروں میں بھی اسی شان کی جلوہ گری ہوئی.نہ صرف عالمگیر سطح پر بلک بھی اور ذاتی ماحول میں بھی.

Page 5

1 حضرت سیدنا مصلح موعود سید نا محمود المصلح الموعود (۱۸۸۹ء ۱۹۲۵ء) دست قدرت کا عالمی شاہکار تھے، جن کی زندگی کے انوار و تجلیات کا نقشہ مضور خدا نے آپ کی ولادت سے چار برس قبل الہامی الفاظ میں کھینچ دیا تھا.حضور نے ۱۹۳۶ء میں فرمایا :- " حضرت خلیفہ اول....کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا.پس میں خلیفہ نہیں موعود خلیفہ ہوں.میں مامور نہیں مگر میری آواز خدا کی آواز ہے.“ ( رپورٹ مشاورت ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۷) پھر دعوی مصلح موعود کے معا بعد اعلان کیا :- وہ لوگ جن کا میرے ساتھ محبت اور اخلاص کا تعلق ہے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے مختلف خدمات میں میرا ہاتھ بٹانے کی توفیق عطا فرمائی ہے ان کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جب مجھ کو پالیا تو وہ حضرت مسیح موعود کے صحابہ سے جاملے.پس اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک نیا باب کھول کر اپنی عظیم الشان رحمتوں سے ہمیں نوازا ہے.رپورٹ مشاورت ۱۹۴۲ صفحه ۶۰۵) راقم الحروف ۱۹۳۵ء کے آخر میں اپنے والد حافظ محمد عبد اللہ صاحب کے ساتھ پہلی مرتبہ پنڈی بھٹیاں سے قادیان حاضر ہوا.دیار حبیب کی زیارت ، قدوسیوں کا اجتماع دیکھا اور ۲۸ / دسمبر کو حضرت مصلح موعود کا روح پرور خطبہ عید الفطر سنے کی بھی سعادت پائی.حضور پر نور نے یہ خطبہ عید گاہ میں پڑھا اور اس میں ارشاد فرمایا:.میں چاہتا ہوں کہ میں آپ لوگوں کو عید کا یہ تحفہ پیش کروں کہ ہمارا خدا کامل محبت ہے.کوئی محبت اس کے مقابل پر نہیں ٹھر سکتی.(الفضل مه جنوری ۱۹۳۶ صفح۲) یہ بھی محض اللہ جل شانہ کا احسانِ عظیم ہے کہ ۱۹۳۶ء ( یعنی مدرسہ احمد یہ قادیان میں داخلہ) سے لے کر ۱۹۶۵ ء تک کا زمانہ اس محبوب خدا اور خلیفہ موعود کا مبارک زمانہ پانے کی توفیق ملی

Page 6

2 بلکہ کم و بیش اسال (وسط ۱۹۵۲ء تا دسمبر ۱۹۶۳ء) آپ جیسی برگزیدہ شخصیت کے مقدس قدموں میں بیٹھنے ، فیضیاب ہونے اور قریب سے آپ کے خدا نما چہرہ کو دیکھنے کے بہت سے مواقع میسر آئے جو نور ربانی کا تجلی گاہ اور ع ملک کو بھی جو بناتا تھا اپنا دیوانہ خاکسار کے ذاتی مشاہدات اور تجربات کا خلاصہ یہ ہے کہ الہی نوشتوں کے مطابق سیدنا مصلح موعود اخلاق و شمائل کے اعتبار سے حضرت مسیح موعود کے حسن و احسان میں نظیر تھے.(ازالہ اوہام ) اور تاجدار خلافت کی رو سے ”فضل عمر ( سبز اشتہار ) جیسا کہ مندرجہ ذیل چند چشم دید وقائع و احوال سے عیاں ہوگا.اول اپریل ۱۹۴۱ء میں حضرت مصلح موعود کی معرکہ آراء تقریر کی پہلی جلد دفتر تحریک جدید نے شائع کی.چند ماہ بعد موسمی تعطیلات کے دوران قادیان سے اپنے آبائی وطن پنڈی بھٹیاں میں آیا تو اس کا ایک نسخہ تحفہ کے طور پر ساتھ لے گیا.پرائمری سکول پنڈی بھٹیاں میں ہمارے ہیڈ ماسٹر ایک شریف النفس بزرگ غالباً جناب قادر بخش صاحب تھے جو احراری پراپیگنڈا سے بہت متاثر تھے.یہ کتاب میں نے انہیں بھی مطالعہ کے لئے پیش کی.وہ اگلے ہی دن ہمارے گھر تشریف لائے اور کتاب واپس کر دی.میں نے حیرت زدہ ہو کر عرض کیا کہ اتنی جلدی آپ نے مطالعہ فرما لی؟ فرمانے لگے اب تک مجھے اس کے کچھ ابتدائی حصہ کے پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے مگر میں نے محسوس کیا کہ اس میں ایسی کشش ہے کہ مجھے ” مرزائی بنا کر چھوڑے گی.اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ یہ حادثہ رونما ہونے سے قبل میں کتاب ہی کو واپس کر آؤں.پھر کہا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر چہ آپ لوگ کافر ہیں مگر قرآن آپ لوگوں کے خلیفہ ہی کو آتا ہے.اگر چہ الفاظ بعینہ یہ نہیں تھے مگر مفہوم قطعی طور پر یہی تھا.ووم حضرت مصلح موعود نے آخری پارے کا درس جولائی ۱۹۴۴ء میں شروع فرمایا اور ابتداء اس کی ڈلہوزی میں فرمائی.مگر سورۃ الغاشیہ اور سورۃ الفجر کا درس بیت مبارک میں ارشاد فرمایا جس میں

Page 7

3 عاجز کو بھی شرکت کی سعادت نصیب ہوئی اور جیسا کہ حضور نے تفسیر سورۃ الفجر کے تعارفی نوٹ میں بھی ذکر فرمایا ہے ، حضور نے کے ارجنوری ۱۹۴۵ء کو عصر کی نماز کے آخر میں سجدہ سے سر اٹھایا ہی تھا کہ سورة الفجر کا مشکل مضمون جس کے بارے میں آپ کئی دن سے مضطرب تھے اللہ تعالیٰ نے ایک آن میں آپ پر حل کر دیا.خود فرماتے ہیں:." پہلے بھی کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سجدہ کے وقت خصوصا نماز کے آخری سجدہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے بعض آیات کو مجھے پرحل کر دیا مگر اس دفعہ بہت ہی زبر دست تقسیم تھی کیونکہ وہ ایک نہایت مشکل اور وسیع مضمون پر حاوی تھی.چنانچہ میں نے عصر کی نماز کا سلام پھیرا تو بے تحاشہ میری زبان سے الحمد للہ کے الفاظ نکل گئے.“ الفاظ جو تصرف الہی سے جاری ہوئے جملہ سامعین کی طرح میں نے بھی سنے اور جب حضور کی زبان مبارک سے سورۃ فجر کی تفسیر سنی تو روح وجد میں آگئی اور دل و دماغ معطر ہو گئے.اس وجدانی کیفیت کا نشہ میں اب تک محسوس کرتا ہوں.سوم دعوت الی اللہ کا بے پناہ جوش اور ولولہ آپ کو براہ راست اپنے مقدس باپ سے ورثہ میں ملا تھا اور کوئی انفرادی موقع بھی آپ ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے.۱۹۴۷ء کے آغاز میں خاکسار جامعہ احمدیہ درجہ ثالثہ کا طالبعلم تھا.حضرت مصلح موعود نے ہماری کلاس کو قادیان کے ماحول میں واقع گاؤں گل منبج میں بغرض دعوت و تربیت بھیجا اور انگریزی کے استاد حضرت چوہدری علی محمد صاحب بی اے بی ٹی ہمارے نگران مقرر ہوئے.وفد میں مکرم چوہدری سردار احمد صاحب بزمی ( حال مقیم لندن)، چوہدری عبدالمالک صاحب ( مرحوم مربی انچارج انڈونیشیا ) ، مولانا عبداللطیف صاحب پریمی ( مربی افریقہ ) اور مولانا عبد القدیر صاحب ( مربی افریقہ حال کینیڈا ) اور خاکسار شامل تھے.ہم لوگ قادیان دار الامان سے قاعدہ میسر نا القرآن کی کئی کا پیاں ساتھ لے گئے.ہمیں ارشاد تھا کہ کسی فرد پر بوجھ نہیں ڈالنا، خود ہی کھانا پکاتا ہے.یہ وقف عارضی حضور کی خصوصی توجہ کی بدولت بہت

Page 8

4 با برکت ثابت ہوئی.خود ہماری تربیت ہوئی.کئی احمدی و غیر احمدی بچوں نے قاعدہ پڑھا اور بعض سعید روحیں بھی داخل احمدیت ہوئیں.یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہم پانچوں کو سات برس تک مدرسہ احمدیہ میں صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کے ہم مکتب رہنے کا شرف حاصل رہا.اسی طرح مولا نا محمد زہدی صاحب فضلی مرحوم ( مربی ملائیشیا ) نے ہمارے ساتھ ۱۹۴۶ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا جس کے بعد وہ واپس اپنے وطن تشریف لے گئے.چہارم: ۱۹۴۸ء میں حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر خاکسار بھی دوسرے واقف زندگی ساتھیوں سمیت فرقان بٹالین کے رضا کاروں میں شامل ہوا.بربط میں دشمن کی گولہ باری کے نتیجہ میں میری دائیں آنکھ کا حسّاس پردہ پھٹ گیا.یہ بیماری میڈیکل کی اصطلاح میں DETACHMENT OF RETINA کہلاتی ہے.راولپنڈی کے.C.M.H نے علاج سے معذرت کی اور جواب دے دیا جس پر مجھے حضرت مصلح موعود کی اجازت سے میو ہسپتال میں داخل کرادیا گیا.سرائے عالمگیر کیمپ میں میرے روابط جناب پیام شاہجہانپوری سے قائم ہو چکے تھے.وہی دیکھ بھال کے لئے تشریف لاتے رہے.ان دنوں ڈاکٹر رمضان علی صاحب (۱۹۰۰ء.۱۹۸۸ء ) جیسے خلیق و ہمدرد خلائق ہسپتال میں امراض چشم کے معالج تھے.حضرت مصلح موعود سے بھی ان کی خط و کتابت تھی اور وہ حضور سے عقیدت بھی رکھتے تھے.جب انہیں پتہ چلا کہ یہ فرقان بٹالین کا رضا کا ر ہے تو وہ بہت محبت سے پیش آئے.مگر ساتھ ہی واضح کیا کہ یہ بیماری عام طور پر یا تو مغرب کے سائنسدانوں کو ہوتی ہے یا جنگوں کے دہما کوں سے لاحق ہوتی ہے.پاکستان ایک نیا ملک ہے، یہاں اس کے آپریشن کے مکمل آلات دستیاب نہیں.خود میں نے اپنے ایک عزیز کا آپریشن کیا جو نا کام رہا اور دوسری آنکھ بھی نکالنی پڑی.میں ربوہ سے روانگی سے قبل حضرت مصلح موعود کی خدمت میں درخواست دعا تحریر کر کے آیا تھا اس لئے میں خدا پر توکل کر کے داخل ہسپتال ہو گیا اور ساتھ ہی محترم پیام صاحب نے میرے والد حافظ محمد عبد اللہ صاحب کو بھی تار دے کر بلوالیا.

Page 9

گروپ فوٹو ممبران مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ (54-1953) حضرت خلیفہ اسی الثانی کے ساتھ دائیں سے بائیں بیٹھے ہوئے.مولانا علامہاری صاحب سیف صاجزادہ ڈاکٹر مرزا نوراحمد صاحب (نائب صدر دوم)) حضرت سیدنا مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ( نائب صدر اول و پرنسپل کالج) سید میر واؤ واحمد صاحب، چوہدری سعید احمد صاحب عالمگیر ( پچھلی قطار دائیں سے بائیں ) دوست محمد شاہد نائب ایڈیٹر خالد مولانامحمد احمد ثاقب صاحب ، کرم سید عبد الباسط صاحب (معتمد) مکرم ملک محمد رفیق صاحب (معتمد مال) اکرم قریشی مقبول احمد صاحب مکرم محمد اشرف صاحب بھیروی، مکرم جناب حسن محمد خان صاحب عارف، پیچھے پہر دار اور محافظ خاص کی لین محمد حسین چیمہ صاحب

Page 10

5 مجھے مسلسل دو ماہ تک میو ہسپتال کے ایک بیڈ پر چت لیٹنا پڑا.یہ میرے لئے اپنی زندگی کا پہلا نہایت کربناک تجربہ تھا مگر حضور کی دعاؤں کے طفیل ایک غیبی سکینت طاری رہی.میرے بستر کے ساتھ ہی ایک کیمونسٹ دوست بھی داخل ہسپتال تھے.چونکہ میں نے حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے " اسلام کا اقتصادی نظام کا روح پرور خطاب سنا ہوا تھا اس لئے اس دوست سے لیٹے لیٹے مذاکرہ سا جاری رہا.یہاں تک کہ خدا کے فضل سے ان پر اسلامی نظام حیات کی برتری کا سکہ بیٹھ گیا.علاوہ ازیں میرے ذہن پر بعض علمی و دینی افکار نے غلبہ پالیا اور میری درخواست پر والد صاحب روزانہ انہیں لکھنے میں مصروف ہو گئے.اس ماحول میں ایک ماہ بعد ڈاکٹر صاحب مرحوم نے میرا آپریشن کیا.کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا دوسرا کیس تھا جو تشویش کا پہلو بھی رکھتا تھا اس لئے میڈیکل کالج کے بہت سے طلبہ کو بھی بلا لیا گیا.آپریشن کے بعد میری دونوں آنکھوں پر سبز پٹی باندھ دی گئی جو ایک ماہ بعد کھولی گئی.یہ وقت میرے لئے قیامت سے کم نہیں تھا.مگر حضرت مصلح موعود کی دعاؤں کے طفیل آپریشن ہر لحاظ سے کامیاب رہا اور اب جبکہ اس نازک آپریشن پر نصف صدی سے زیادہ بیت گئی ہے اور کاروان عمراستی کی منزل میں داخل ہو چکا ہے یہ تکلیف دوبارہ نہیں ہوئی.پنجم : سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۱۶ ارنومبر ۱۹۵۶ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ دعا القاء فرمائی ہے کہ ہم قدم قدم پر خدا تعالی کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں اور ساتھ ہی جناب الہی سے بتایا گیا کہ یہ دعا سورہ فاتحہ کا حصہ ہے.جولوگ اپنی دعاؤں میں یہ فقرے پڑھیں گے ان کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی.(الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۵۶ صفحی۳) اس خطبہ کے چند ہفتے بعد حضرت مصلح موعود کی اجازت سے تحریک کشمیر کا قدیم ریکارڈ کی عکسی کا پیاں بنوانے کے لئے لاہور آنا پڑا.میں سیدھا برصغیر کے نامورادیب حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کی خدمت میں حاضر ہوا.انہوں نے فوری توجہ فرمائی اور عجائب گھر کے مشفق انچارج صاحب کے ذریعہ راتوں رات دستاویزات کے روٹو گراف بنوا دیئے.میں حضرت شیخ صاحب کے مکان واقع رام گلی میں ہی ٹھرا ہوا تھا.ابھی رات کی سیاہی ہر طرف چھائی ہوئی تھی اور ہر

Page 11

6 طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا کہ میں طلوع فجر سے بہت پہلے کراؤن بس کے اڈے تک پہنچ گیا.معلوم ہوا کہ ابھی پہلی سروس کے چلنے میں خاصی دیر ہے جس پر میں اپنے دو بیگ سنبھالے ہوئے ٹانگہ میں بیٹھ کر یونائیٹڈ بس کے اڈے پر پہنچا.میں نے اسے کرایہ دیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گیا اور ساتھ ہی یہ معلوم ہونے پر میرے اوسان خطا ہو گئے اور زمین پاؤں سے نکل گئی کہ وہ بیگ جس میں اصل کا غذات اور اس کے فوٹو کاپی رکھے تھے نانگہ میں ہی رہ گئے ہیں جس پر میں نے واپس کراؤن کے اڈا کی طرف سرپٹ دوڑنا شروع کر دیا.عین اس وقت جبکہ مجھ پر ایک قیامت ٹوٹ چکی تھی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے میری توجہ کا رخ حضرت مصلح موعود کے بیان فرمودہ القائی نسخہ دعا کی طرف پھیر دیا.میں لاہور سڑکوں پر ایک اڈہ سے دوسرے اڈہ کی طرف بھاگتا چلا جار ہا تھا مگر ساتھ ہی درد بھرے دل سے دعائیہ کلمات بھی پڑھتا جاتا تھا.سراسیمگی کے اس عالم میں دن چڑھ گیا مجھے یکا یک غیبی تحریک کی ہوئی کہ موچی دروازہ میں ٹانگوں کا وسیع اڈہ ہے، مجھے فی الفور وہاں جانا چاہیے.میں تیزی سے وہاں پہنچا.واقعی اس جگہ ٹانگے بکثرت موجود تھے اور آنے جانے والوں کا تو تانتا بندھا ہوا تھا.میں نے ہر ایک کو چوان سے یہی پوچھنا شروع کیا کہ میرا بیگ آپ کے ٹانگہ میں رہ گیا ہے؟ سبھی نے نفی میں جواب دیا اور اگر چہ بعض نے اظہار ہمدردی بھی کیا لیکن اکثر نے کھلا مذاق اڑایا کہ ہم تو ابھی گھر سے آرہے ہیں ، ہم نے تو کوئی سواری بٹھائی ہی نہیں.ایک کو یہ پھبتی بھی سوجھی کہ یہ عجیب شخص ہے جو ہر ٹانگے میں بیٹھنے کا دعویٰ کر رہا ہے.غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں.میں اس پریشان خیالی میں خاصی دیر تک سرگردان رہا کہ اچانک ایک ٹانگہ تیزی سے میرے سامنے آکھڑا ہوا.کیا دیکھتا ہوں کہ اس کا مالک میرا بیگ تھامے ہوئے نیچے اتر رہا ہے اور ساتھ ہی مجھے مخاطب کر کے کہہ رہا ہے کہ میں صبح سے تمہاری تلاش میں ہوں.میں نے لاہور کا کونہ کو نہ چھان مارا ہے.یہ لو اپنی امانت !! میں اس شخص کی دیانتداری پر حیران رہ گیا.حق یہ ہے کہ لا ہور جیسے وسیع و عریض شہر میں کسی ٹانگہ بان سے گمشدہ متاع کا دوبارہ مل جانا یقینا ایک معجزہ تھا جو حضور انور کی

Page 12

7 القائی دعا کی برکت سے رونما ہوا.جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے ششم: حضرت مسیح موعود کے لخت جگر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب عرصہ تک ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد کے منصب پر فائز رہے.ایک بار آپ نے حضرت مصلح موعود سے اجازت حاصل کر کے مجھے ہدایت فرمائی کی دنیا پور (ضلع ملتان ) میں جماعت کے خلاف اشتعال پھیلایا جارہا ہے.جس کے ازالہ کے لئے فوراً بذریعہ چناب ایکسپریس ملتان پہنچو اور چوہدری عبدالرحمن صاحب امیر ملتان کو لے کر دنیا پور پہنچو.مجھے یہ تحریری ارشاد چناب ایکسپریس آنے کے صرف چند گھنٹے قبل ملا جبکہ میں مسجد مبارک سے متصل خلافت لائبریری کے ایک کمرہ میں تصنیفی کام میں مصروف تھا.میری رہائش ان دنوں محلہ دار النصر شرقی کے آخر میں تھی.میں نے اپنے گھر والوں کو پیغام بھجوا دیا کہ میں دفتر سے بذریعہ ٹرین ملتان جارہا ہوں.ساتھ ہی اپنے مقدس آقا کے حضور سفر کی کامیابی کے لئے درخواست دعا لکھی.نیز عرض کیا کہ میری بیگم (سلیمہ اختر ) سخت بیمار ہیں از راه شفقت و ذره نوازی ان کو بھی خصوصی دعا میں یاد رکھا جائے.احسان ہوگا.دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں مختصری عرضداشت بھیجوانے کے بعد میں ملتان کے لئے روانہ ہو گیا.وہاں پہنچ کر اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ مجسٹریٹ صاحب سے جلسہ دنیا پور کے لئے تحریری اجازت لینا ضروری ہے.جناب عبد الحفیظ صاحب ایڈووکیٹ ملتان ( حال مقیم کینیڈا ) مجھے ساتھ لے کر فاضل جج کی خدمت میں پہنچے اور درخواست پیش کی.انہوں نے فرمایا ضلع بھر میں جلسوں کی مکمل آزادی ہے.کسی جگہ بھی دفعہ ۱۴۴ نافذ نہیں.میں نے عرض کیا بلا شبہ یہی حقیقت ہے.بایں ہمہ آپ کا احسان عظیم ہو گا اگر آپ ہماری عرضداشت کو شرف قبولیت بخشیں.یہ سنتے ہی انہوں نے اجازت نامہ دے دیا.دنیا پور میں کئی روز سے بد زبان مخالفین احمد بیت لاؤڈ سپیکر پر گندا چھال رہے تھے اور ان کی مفتریات نے پورے قصبہ کی فضا کو مکدر کر دیا تھا.ان دنوں جماعت احمد یہ دنیا پور کے پریذیڈنٹ

Page 13

8 شیخ محمد اسلم صاحب ( مرحوم) تھے جو بہت مستعد ومخلص اور فعال بزرگ تھے.انہوں نے اپنے مکان سے متصل میدان میں جوابی جلسہ کے انعقاد کے لئے دریاں بچھا دیں اور لاؤڈ سپیکر نصب کرا دیا.ابھی جماعت کے جلسہ کی کارروائی کا تلاوت قرآن مجید سے آغاز ہی ہوا تھا کہ احراری علماء کا ہجوم اند آیا حتی کہ اس نے پنڈال کو گھیر لیا.احرار دھاوا بولنے سے پہلے مقامی پولیس افسر سے ساز باز کر چکے تھے جس نے آتے ہی نہایت تند و تیز الفاظ میں پریذیڈنٹ صاحب کی جواب طلبی کی کہ سرکاری حکم کے بغیر کیوں جلسہ کیا جارہا ہے.محترم پریذیڈنٹ صاحب جواب دے سکتے تھے کہ احراریوں نے جلسہ کی منظوری کب لی ہے مگر انہوں نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جھٹ اجازت نامہ پیش کر دیا جس کے بعد سب شرپسند اور تماشہ بین میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور جماعت احمدیہ کا جلسہ عام کئی گھنٹے تک نہایت کامیابی سے جاری رہا اور عدوان محمد اور منکرین ختم نبوت کی ایسی قلعی کھلی کہ گویا دن چڑھ گیا.دو ایک روز بعد میں واپس مرکز احمدیت میں آگیا.گھر پہنچا تو یہ دیکھ کر خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کہ حضرت مصلح موعود کی روحانی توجہ اور دعا کے طفیل میرے اہل خانہ پوری طرح شفایاب ہیں.ہفتم: اوائل ۱۹۴۷ء کی بات ہے کہ خاکسار نے غیر مبائعین کی اشتعال انگیز تحریروں کو دیکھ کر ایک مضمون لکھنے کا فیصلہ کیا.میں ساری رات قادیان کی مرکزی لائبریری میں (جو ان دنوں بیت مبارک کے نیچے ایک کمرہ میں تھی ) اخبار ”پیغام صلح کا مطالعہ کر کے نوٹ لیتا رہا.میں نے ثابت کیا کرہ اہل پیغام اگر چہ سیح موعود کی کشتی میں بیٹھے ہیں مگر حضرت مصلح موعود کی مخالفت کر کے لیکھرام کا پر چم لہرا ر ہے ہیں اور ان کی زبان اور لب ولہجہ بھی وہی ہے جو اس شاتم رسول نے کلیات آریہ مسافر میں اختیار کیا تھا.یہ مضمون مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب نائب مدیر فرقان نے مارچ ۱۹۴۷ء کے ایشوع میں شائع کر دیا جس کے بعد مجھے خوشخبری دی کہ حضور نے اسے بہت پسند فرمایا ہے.۱۹۵۶ء کے فتنہ منافقین کے دوران اس کا پھر ترجمہ واضافہ کیا تو الفضل میں شائع کیا گیا.اس پر حضرت مصلح موعود نے بیت مبارک کی مجلس عرفان میں اظہار خوشنودی فرمایا.اس بابرکت مجلس میں استاذی

Page 14

9 اکترم خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مدیر ” الفرقان“ بھی موجود تھے.آپ نے خاتمہ مجلس کے بعد یہ خوشخبری سنائی اور میرا دل باغ باغ کر دیا.آہ! میرے محسن بزرگ بہشتی مقبرہ ربوہ میں ابدی نیند سورہے ہیں:.محمود کے سپاہی احمد کے خاص پیارے اب رہ گئے ہیں ایسے جیسے سحر کے تارے المختصر حضرت مصلح موعود کے احسانات بے شمار ہیں اور ان کا حقیقی شکر یہ حد امکان سے باہر ہے.فداہ روحی و جنانی.وسط ۱۹۵۶ء میں انکار خلافت کا اندرونی فتنہ اٹھا تو حضرت مصلح موعود نے اس ناچیز خادم کو اس کا ریکارڈ رکھنے اور جلسہ سالانہ پر اس کا خلاصہ پیش کرنے کا ارشاد فرمایا.انہی دنوں کا واقعہ ہے که سکندر آباد (دکن) سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الاسدی مؤسس الحکم کا ایک مفصل مکتوب پہنچا کہ خلافت ثانیہ کے اوائل میں میاں عبد الوہاب صاحب عمر (متوفی ۲۷ جون ۱۹۷۹ء ) نے مولوی محمد اسماعیل غزنوی سے گٹھ جوڑ کر کے حضور کے خلاف ایک ناپاک اور شرمناک سازش کی جس کی حیران کن تفصیل بھی انہوں نے قلمبند کی تھی.حضور نے چٹھی مہری توجہ سے سنی اور مجھے ارشاد فرمایا کہ انہیں فورا لکھو کہ یہ بات اس زمانہ میں مجھے کیوں نہیں پہنچائی.حضرت عرفانی صاحب کا جواب ملا کہ یہ سازش مرزا اگل محمد صاحب کی حویلی میں کی گئی اور خلیفہ صلاح الدین صاحب کے ذریعہ اس کا علم ہوا جس کے بعد میں نے اولین فرصت میں چشم دید شہادت حضور کی خدمت میں بھجوا دی تھی.مگر حضور نے انہیں معاف فرما کر سارا معاملہ داخل دفتر کر دیا اور پھر اپنے لوح قلب سے اصل واقعہ کو اس طرح صاف کر دیا کہ آج حضور کے مبارک حافظہ میں اس کا خفیف سا نقش بھی موجود نہیں.الفاظ میرے ہیں مگر مفہوم قریبا قریباً یہی تھا.بیانیام جماعتی تاریخ میں بہت نازک تھے.کیونکہ اس خوفناک فتنہ کی پشت پر ملک کی تمام دشمن احمدیت طاقتیں یکجان ہو کر آنا فانا مجتمع ہو گئیں لیکن حضور نے بڑھاپے اور بیماری کے باوجود

Page 15

10 فرشتوں کی آسمانی افواج کے ذریعہ فولادی ہاتھوں میں جکڑ کر اس کی دھجیاں فضائے بسیط میں بکھیر کر رکھ دیں اور سیدنا امیر المومنین حضرت عمر کا جلالی دور ایک بار پھر پلٹ آیا.بعض حسین یادیں -:1 سه آمد تھی ان کی یا کہ خدا کا نزول تھا صدیوں کا کام تھوڑے سے عرصہ میں کر گئے ۱۹۴۶ء میں خاکسار نے جامعہ احمدیہ قادیان سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا جس کے بعد حضور نے وکیل التبشیر حضرت خانصاحب ذوالفقار علی صاحب کو ارشاد فرمایا کہ اسے لنڈن مشن کے سیکرٹری کے طور پر بھیجوانے کا انتظام کیا جائے.یہ معاملہ ابھی ابتدائی مرحلہ میں تھا کہ ہمارے پرنسپل حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نے عرض کیا کہ اس طالبعلم کا رجحان علم کلام کی طرف ہے اس لئے ہندوستان کے لئے زیادہ موزوں ہو سکتا ہے.چنانچہ حضور نے سلسلہ کے مفاد کو مقدم کرتے ہوئے اس مشورہ کو شرف قبولیت بخشا اور میری بجائے مولوی مقبول احمد صاحب معتبر لندن بھجوائے گئے.-:2 حضرت اقدس نے ہم طلبہ کومحاذ کشمیر پر بھجوانے سے قبل رتن باغ لاہور میں شرف باریابی بخشا جس میں علاوہ اور امور کے یہ بھی بتایا کہ میں نے انگریزی زبان اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ سے سیکھی ہے.-:3 قیام ربوہ کے ابتدائی دور کا واقعہ ہے کہ حضرت مصلح موعود نے خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب فرمایا جس کے دوران خدام سے پوچھا کہ اصل فرائض کے علاوہ کیا کسی نے کوئی اور کام بھی بسر اوقات کے لئے سیکھا ہے.جس پر میں کھڑا ہوا اور نہایت ادب سے عرض کی کہ حضور ! خاکسار نے قادیان میں جلد سازی اپنے پچا میاں عبد العظیم صاحب ( درویش ) سے سیکھی تھی.جو بوقت ضرورت اب بھی جاری رکھے ہوئے ہوں.حضور اس جواب سے خوب محظوظ ہوئے.-:4 افتتاح ربوہ (۲۰ ستمبر ۱۹۴۸ء) کے کچھ عرصہ بعد خاکسار نے ازالہ اوہام کے ایک کشف

Page 16

11 کی روشنی میں حضور انور کی خدمت میں لکھا کہ ربوہ کے چوتھے مرکز کے ذریعہ تین کو چار کرنے کی نئی واقعاتی تعبیر سامنے آگئی ہے.حضور کی طرف سے مجھے کارڈ پہنچا کہ تمہاری یہ توجیہہ بھی درست ہے جس کے بعد خاکسار نے ” الرحمت“ لاہور میں ” مقام ابراہیم کی تجلیات کے زیر عنوان دو قسطوں میں مضمون لکھا اور یہ توجیہہ پہلی بار منظر عام پر آئی.-:5 حضرت مصلح موعود کا مری سے ارشاد موصول ہوا کہ کشمیر کمیٹی کا قدیم ریکارڈ ایک ساتھی کو لے کر یہاں لے آؤ.نیز ہدایت فرمائی کہ یہ بیش قیمت چیز ہے.اس کی حفاظت کے لئے دونوں میں سے ایک کو وقفہ وقفہ کے بعد جاگتا رہنا چاہیے.اس حکم کی تعمیل میں خاکسار اور مولانا منیر الدین احمد صاحب بی اے واقف زندگی ( حال جرمنی ) مری پہنچے اور ایک ماہ مقیم رہ کر اسے مرتب بھی کیا اور اس کے خلاصے بھی تیار کئے جن سے اس دور کی تاریخ احمدیت مرتب کرنے میں بھاری مدد ملی جسے بعض بزرگ کشمیری اکابر نے بھی خوب سراہا.بلکہ راولپنڈی کے مشہور کشمیری تر جمان انصاف کے مدیر جناب عبد العزیز نے اپنے اخبار میں اس کو خراج تحسین ادا کرتے ہوے زبر دست آرنیکل زیب قرطاس کیا.قیام مری کا ہی واقعہ ہے کہ حضرت مصلح موعود نے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب کو مولوی ظفر علی خان صاحب مدیر زمیندار کے علاج کے لئے بھیجوایا جنہوں نے علاوہ ادویہ مہیا کرنے کے بعض دوسرے ذرائع سے بھی ان کی خدمت کی.موصوف ان دنوں فالج زدہ تھے اور مری کے پوسٹ آفس کے قریب عمارت کے کھلے احاطہ میں کرسی پر سر جھکائے ہوئے بیٹھے رہتے تھے.-:6 میرے دادا پوری عمر احمدیت کے شدید معاندر ہے.ان کے غیظ و غضب کا یہ عالم تھا کہ وہ ہمارے گھر آکر میرے والد صاحب کو بھی پیٹ جاتے تھے.میرے چھوٹے چچا میاں عبد العظیم صاحب مرحوم کو انہوں نے ۱۹۲۹ء میں احمدیت کی پاداش میں برہنہ کر کے لہولہان کر دیا جس پر ہجرت کر کے پہلے سید والا پھر لاہور دہلی دروازہ میں قیام کیا اور پھر مستقل طور پر قادیان میں بود و باش اختیار کر لی.

Page 17

12 ہمارے خاندان میں احمدیت کی نعمت حضرت میاں محمد مراد صاحب حافظ آبادی جیسے اہل کشف ورد یا بزرگ کے ذریعہ میسر آئی اور وہ بھی عجیب رنگ ہے.بات یہ ہوئی کہ دادا صاحب نے حضرت میاں محمد مراد صاحب کو ان کی تبلیغی مساعی پر تین بار ظالمانہ طور پر زدو کوب کی جس پر آپ نے فرمایا تم نے تین دفعہ مجھے مارا ہے.انشاء اللہ تمہارے تین عظمند بیٹے ضرور احمدی ہو جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی عمل میں آیا جس پر داد صاحب اور بھی مشتعل ہو گئے اور اپنی مخالفت میں روز بروز تیز سے تیز تر ہوتے گئے.اس دوران وہ قادیان بھی گئے مگر اپنے بیٹے کی بجائے سکھوں کے گھر کھانا کھایا.حضرت مصلح موعود جن دنوں نخلہ (خوشاب) میں تفسیر صغیر تالیف فرما رہے تھے خاکسار کو اچا نک ربوہ سے خانقاہ ڈوگراں کے قریبی گاؤں کلسیاں جانا پڑا جہاں میرے ایک احمدی چا اللہ بخش صاحب عرصہ سے مقیم تھے.اتفاق کی بات یہ ہوئی کہ ان دنوں میرے دادا صاحب بھی وہیں موجود تھے اور اگر چہ بڑھاپے نے ان کو بہت کمزور کر دیا تھا مگر ان کی احمدیت دشمنی بدستور عالم شباب پرتھی.مجھے دیکھ کر کہنے لگے کہ میں تمہارے خلیفہ صاحب سے مل کر فریاد کرنا چاہتا ہوں.میں نے عرض کیا کہ میں واپسی پر سیدھا حضور ہی کی خدمت اقدس میں جارہا ہوں.مجھے اپنا پیغام دے دیں، جاتے ہی پہنچا دوں گا.انہوں نے درد بھرے دل سے مجھے کہا کہ میرے چھ بیٹے ہیں جن میں سے تین بچوں کو جن میں ایک حافظ قرآن اور دوسرے دو بھی بہت عقلمند اور صاحب علم ہیں، تمہارے خلیفہ صاحب نے مجھ سے چھین لئے ہیں اور باقی تین جو ان پڑھ یا معذور تھے میرے حوالے کر دیے ہیں.انہیں میری طرف سے درخواست کریں کہ انہیں تو گنتی ہی پوری کرنی ہے وہ تبادلہ کر لیں میں قبر کے کنارے پر آپہنچا ہوں.اس آخری وقت میں یہ تقسیم میرے لئے سوہان روح بنی ہوئی ہے.میں ان سے ملاقات کے بعد ربوہ سے ہوتا ہوا سیدھا جا بہ پہنچا.اس دن مکرم چوہدری احمد جان صاحب کی قیادت میں ضلع راولپنڈی کے مخلصین اپنے محبوب و مقدس آقا کی زیارت کے لئے پہنچے ہوئے تھے.سب سے پہلے انہی کو شرف ملاقات عطا ہوا جس کے بعد خاکسار کو در بار خلافت میں حاضری کا موقع نصیب ہوا.تصرف الہی ملاحظہ ہو کہ حضور نے از خود میاں محمد مراد

Page 18

13 صاحب کے اخلاص و خدمات کا تذکرہ شروع فرما دیا جس پر میں نے عرض کیا کہ خاکسار اپنے دادا صاحب کا ایک خصوصی پیغام لے کر آیا ہے کہ آپ نے میرے حافظ قرآن اور پڑھے لکھے بیٹوں پر قبضہ کر رکھا ہے.میرے دوسرے ان پڑھ یا معذور بچوں سے تبادلہ کر کے اپنی گنتی پوری کر لیں اور جیسا کہ بعد میں مولانا عبد الرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری نے مجھے بتایا کہ اہل راولپنڈی کی ملاقات کے دوران حضور بالکل خاموش رہے اور صرف مصافحہ کیا مگر جو نہی حضور نے میرے دادا کا پیغام سنا حضور بہت مسکرائے اور حضور کا روئے مبارک خوشی سے تمتما اٹھا اور پیار بھرے انداز میں فرمایا کہ اپنے دادا کو میرا پیغام بھی پہنچا دیں کہ مجھے بیٹوں کا یہ تبادلہ بخوشی منظور ہے.آپ اپنے غیر احمدی بیٹے میرے حوالے کر دیں اور آپ کے احمدی بیٹوں کو میری طرف سے اجازت ہے کہ وہ احمدیت کو ترک کر کے آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں.حضرت مصلح موعود کا یہ پیغام لئے میں اگلے دن واپس دادا جان کے پاس پہنچا اور انہیں مبارک باد دی کہ ہمارے امام عالی مقام نے بچوں کا تبادلہ منظور کر لیا ہے لیکن جب میں نے پیغام کی تفصیل بتائی تو وہ زار و قطار بچوں کی طرح رونے لگے اور کہا تمہارے خلیفہ صاحب کتنے چالاک ہیں !!! انہیں یقین ہے کہ میرے مرزائی بیٹے تو کبھی ”مرزائیت کو نہیں چھوڑیں گے اس لئے اب وہ میرے دوسرے تین بیٹوں پر بھی ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں.ہم لوگ مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہو گئے مگر دادا صاحب نے دوبارہ شور وفغاں شروع کر دیا.دادا جان تھوڑے عرصہ بعد اپنے دل میں ہزاروں حسرتیں لئے چل بسے، ایک بیٹے نے جو پنڈی بھٹیاں کی ایک برلب سڑک مسجد کا امام تھا خود کشی کر لی ، دوسرا جو پاؤں سے معذور تھا لا ولد اس جہان سے اٹھ گیا.اس کے مقابل تینوں احمدی بیٹوں نے لمبے عرصہ تک خدمت دین کی توفیق پائی اور عمر بھر مخالفتوں کے طوفانوں میں کوہ استقلال بنے رہے اور اب ان کی اولاد میں پاکستان، انڈیا ، ماریشس، کینیڈا اور جرمنی میں پھل پھول رہی ہیں جو محض خدا کا فضل اور اس کے خلیفہ موعود سید نامحمود نور اللہ مرقدہ ) کی مقبول دعاؤں کا کھلا اعجاز ہے.

Page 19

14 -:7 فسادات ۱۹۵۳ء کے بعد حضرت اقدس نے مودودی صاحب کے شر انگیز رسالہ قادیانی مسئلہ' کا خود جواب لکھوایا اور پھر فرمایا کہ میاں بشیر احمد صاحب بھی اسے دیکھ لیں.چنانچہ عاجز مسودہ لے کر حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ نے اپنے قلم سے اس کے اختتام پر ایک ضروری نوٹ کا اضافہ کیا جسے حضور نے بھی پسند فرمایا اور اشاعت کے لئے کراچی بھجوادیا گیا.دراصل اس میں میرے لئے سبق تھا کہ کبھی اپنی تحریر کو حرف آخر نہ سمجھنا.اس مسودہ سے مجھے یہ فائدہ بھی ہوا کہ حضرت میاں صاحب سے مستقل رابطہ کا دروازہ کھل گیا اور یہی میری دلی آرزو تھی جس کے غیبی سامان خدائے عز وجل نے اپنے محبوب بندہ محمود مصلح موعود کے مبارک ہاتھوں سے کر دیئے جس کے نتیجے میں یہ عاجز عمر بھر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ذرہ نوازیوں کا مبط بنا رہا.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں میری دلچپسی علم کلام سے تھی.میں تاریخ کے میدان میں بھی بالکل نو وارد تھا اور طفل مکتب بھی.آپ کی قیمتی رہنمائی عاجز کو تاریخ احمدیت کی تدوین کے ہر مرحلہ پر حاصل رہی اور آپ کے احسانات و تلطفات میری زندگی کا بہترین سرمایہ ہیں.نور اللہ مرقدہ.وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے ( بسمل صابری) اللهم صل على محمد وعلى آل محمد وعلى خلفاء محمد و بارک وسلم انک حمید مجید.

Page 20

حضرت خلیفة مسح الثالث کا دورہ مغربی افریقہ 1970ء 8 جون 1970 ء کو واپسی ربوہ پر سابق قصر خلافت کے گیٹ پر استقبال سامنے :.مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب، مولانا محمد احمد جلیل صاحب، دوست محمد شاہد دست مبارک کا بوسہ لیتے ہوئے.پیچھے حضور کے دائیں طرف رانا ناصر احمد صاحب مرحوم اور مکرم سمیع اللہ سیال صاحب

Page 21

15 سیدنا حضرت خلیفة اسبح الثالث اب میں سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثالث (ولادت 16 نومبر 1909ء.وفات 9-8 جون 1982 ء ) سے متعلق اپنے چند ذاتی مشاہدات و احوال عرض کرتا ہوں.خلیفہ بھی ہے اور موعود بھی مبارک بھی ہے اور محمود بھی لیوں ترانه ہے محمود کا زمانه زمانه ہے محمود کا ور عدن) اللہ جل شانہ نے اپنی از لی تقدیر کے مطابق 8 نومبر 1965 ء کوحضرت خلیفہ اسیح الثالث کو خلافت کی خلعت پہنائی یہ دوشنبہ (سوموار ) کا مبارک دن تھا اور ہجری کیلنڈر کی رو سے 13 رجب 1385 ھش کی تاریخ.12 نومبر 1965 ، خلافت ثالثہ کے تاریخ ساز عہد کا پہلا جمعہ تھا.اس روز حضور پُر نور نے صبح کے ابتدائی وقت میں شرف باریابی بخشا اور فرمایا کہ آج جمعہ کو تعطیل ہوتی ہے میں نے تمہیں تکلیف دی ہے.میں نے عرض کیا کہ میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ پوری جماعت میں حضور نے اس کفش بردار ہی کو زیارت کی سعادت بخشی ہے.فرمایا میں نے تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ جب میں نے وقف زندگی کا فارم پُر کر کے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ آج تم نے میرے دل کی پوشیدہ خواہش کو پورا کر دیا ہے میں چاہتا تھا کہ تم میری تحریک کے بغیر خود ہی تحریک جدید کے روحانی مجاہدوں میں شامل ہو جاؤ.آج میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں مگر یا در کھواب تم نے اپنی زندگی وقف کر دی ہے اب مرنے سے پہلے تمہارے لئے کوئی چھٹی نہیں.میں نے ادب سے عرض کیا کہ حضور میں بھی یہی عہد کرتا ہوں کہ ایک واقف زندگی کی حیثیت سے شب و روز خدمت دین میں مشغول رہوں گا.سو الحمد اللہ حضور کے سترہ سالہ زمانہ خلافت میں خاکسار جمعہ اور عیدین بلکہ مشاورت کے ایام میں بھی کارروائی سے قبل اپنے دفتر میں موجود رہتا تھا اور خدا کے فضل سے حضور کے فوری ارشادات کی تعمیل کی سعادت پا تارہا.اگر ہر بال ہو جائے سخنور تو پھر بھی شکر ہے امکان سے باہر

Page 22

16 اس سلسلہ میں دو ایک واقعات دلچپسی سے خالی نہ ہوں گے.خلافت ثالثہ کی پہلی مشاورت کے دوسرے دن کا پہلا اجلاس شروع ہونے میں بہت تھوڑا وقت باقی تھا کہ حضور اقدس کا ارشاد موصول ہوا کہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ اشاعت دین کے لئے نئی ایجادات اور جدید طریقوں کا استعمال ضروری ہے.یہ حوالہ فوری طور پر درکار ہے.تصرف انہی ملاحظہ ہو میں نے اس حکم کی تعمیل میں آئینہ کمالات اسلام اٹھائی اور اپنے اندازہ کے مطابق اسے جس مقام پر کھولا اسی میں مسیح الزمان کا یہ فرمان موجود تھا چنانچہ چند منٹوں کے بعد خاکسار دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں پہنچا حضور انور سیڑھیوں میں کھڑے انتظار فرما رہے تھے.حضور انور نے حوالہ ملاحظہ فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ اصل کتاب ساتھ لے چلو اور میری میز پر رکھ دینا چنانچہ خاکسار نے ایسا ہی کیا اور حضور نے اس کتاب کے حوالہ کو پڑھا اور فرمایا جو لوگ " فضل عمر فاؤنڈیشن کے نظام عمل میں متامل ہیں انہیں حکم عدل کے اس فیصلہ کو بغور سن لینا چاہئے.ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر جبکہ میں نے دو ہفتہ کے لئے اپنا بستر رات کو اپنے معمول کے مطابق بچھا رکھا تھا اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے فون کے لئے منتظر بیٹھا تھا کہ یکا یک شاعر احمدیت جناب ثاقب صاحب زیروی مدیر لاہور تشریف لائے اور مجھے بتایا کہ میں ابھی حضور کی زیارت کر کے آرہا ہوں حضور نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو فرمایا ہے کہ تمہیں فون کریں کہ فلاں حوالہ اولین فرصت میں بھجوادو.میں نے عرض کیا کہ وہ نصف شب میں کہاں ہوں گے؟ حضور نے فرمایا کہ اپنے دفتر ( شعبہ تاریخ ) میں.چنانچہ میں صرف یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ واقعی دفتر میں موجود ہیں.خاکسار نے اوائل میں ایک تحقیقی نوٹ لکھا کہ یہ قدرت خداوندی کا کرشمہ ہے کہ شمسی کیلنڈر کے مطابق حضرت عمرؓ کا وصال اور حضرت خلیفہ ثالث حضرت عثمان کا انتخاب خلافت بھی نومبر ہی کے آغاز میں ہوا.آخرین میں بھی یہی تاریخ دوہرائی جارہی ہے.حضور نے ارشاد فرمایا کہ یہ نوٹ فور " الفضل کو بھجواد والحمد للہ جناب مدیر صاحب الفضل مولانا مسعود احمد خان صاحب دہلوی نے اولین فرصت میں اسے زیب اشاعت کر دیا جو خلصین کے ایمان کی تازگی کا موجب بنا.اسی طرح خاکسار نے 7 ستمبر کے فیصلہ اسمبلی پر ایک مضمون لکھا جس میں مستند تاریخ

Page 23

دوست محمد شاہد ، مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ماحب جالندھری، حضرت خلیفہ مسیح الثالث، شیخ محمد احد مظہر صاحب ایک وکٹ وامیر جماعتہائے احمد یہ فیصل آباد، اسمبلی 1974ء کا جماعتی وفد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید

Page 24

17 اسلام اور گریگورین کیلنڈر کی روشنی میں ثابت کیا کہ قریش نے اپنی پارلیمنٹ ( دارالندوہ ) میں شہ لولاک رسول عربی عملے کے خلاف جو نا پاک فیصلہ کیا اس کی شمسی تاریخ بھی 7 ستمبر تھی.اس مضمون پر بھی حضور نے خوشنودی کا اظہار کیا اور جلد ہی اسے رسالہ ”لاہور میں چھپوا دیا گیا جو حضور کی خصوصی توجہ کی برکت تھی.یہ تحقیقی مقالہ الفضل انٹرنیشنل میں بھی چھپ چکا ہے.7 ستمبر کے فیصلہ کے چند روز بعد حضور نے اس ناچیز کو یاد فرمایا.حضور بالائی منزل میں رونق افروز تھے سامنے ایک میز پر درشین فارسی رکھی تھی.فرمایا گھبرانے کی ضرورت نہیں میں نے تمہیں فقط اس لئے بلوایا ہے کہ در شین کے ایک شعر پر میں نے باریک سا نشان لگا دیا ہے میں چاہتا ہوں کہ یہ شعر تم مجھے بھی سنادو بس اتنا کام ہے اس کے بعد تمہیں جانے کی اجازت ہے.اس موقع پر نا چیز کو حضرت مسیح موعود مہدی مسعود کے جس فارسی شعر کا اپنے محبوب آقا کے حضور پڑھنے کا شرف حاصل ہو وہ یہ تھا.بحمد اللہ، کہ خود قطع تعلق کرد ایں قومے خدا، از رحمت و احسان، میسر کرد خلوت را یعنی بجھ اللہ اس قوم نے ہم سے خود ہی قطع تعلق کر لیا ہے اور ہمیں ( خدمت دین ) کیلئے خلوت میسر آ گئی ہے.قرآن عظیم نے خلیفہ راشد کی حقانیت پر دونشانوں کا بطور خاص ذکر فرمایا ہے یعنی خوف کے بعد قیام امن اور تمکین دین اسی ضمن میں حضور کے ایک بے مثال کارنامہ کا ذکر کرتا ہوں جس کا علم جماعتی حلقوں میں شاید ہی کسی کو ہو.واقعہ یہ ہوا کہ 1976ء کے آغاز میں بھٹو حکومت نے یہ اعلان کیا کہ جن پاکستانی مصنوعات پر چھ کوئی نشان ہے انہیں ضبط کر لیا جائے گا کیونکہ یہ اسرائیلی حکومت کا نشان ہے اس اعلان کا پس منظر یہ تھا کہ احراری دیو بندی علماء اور بھٹو صاحب کے گٹھ جوڑ سے یہ سازش کی گئی کہ نہ صرف لوائے احمدیت پر جس میں چھ کوئی ستارہ ہے قدغن لگا دی جائے بلکہ احمدیوں کو اسرائیلی ایجنٹ اور خلاف آئین قرار دیکر سلسلہ کے پورے مرکزی نظام پر قبضہ کر لیا جائے.

Page 25

18 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں جو نہی خفیہ طور پر یہ اطلاع ملی حضو نے اپنے اس ناچیز خادم کو حکم دیا کہ فوری طور پر ریسرچ کر کے مضمون لکھو کہ تمام قدیمی اسلامی حکومتوں میں قلعوں ،سکوں اور اہم عمارتوں مسجدوں بلکہ مزاروں پر چھے کونی ستارہ ہی قومی نشان کے طور پر استعمال رہا.نیز یہ کہ صہونیت کا David Star بھی چھ کوئی ہے لیکن اسرائیلی حکومت نے اپنے جھنڈے پر مسلمانوں کی نقل میں چھ کوئی ستارے کو ترجیح دی چنانچہ حضور انور کی خصوصی توجہ اور زبر دست راہنمائی کے طفیل چند دن کے اندر اندر یہ تحقیقی مقالہ مرتب ہو گیا جس میں دیگر مثالوں کے علاوہ شاہی مسجد لاہور کے محرابی ستارہ کا بھی ذکر تھا اور رسالہ " لاہور نے یہ مقالہ یکم مارچ، 10 مئی اور 7 جون 1976ء کی تاریخوں میں زیب اشاعت کیا.ابھی پہلی ہی قسط منظر عام پر آئی تھی کہ بھٹو حکومت نے سارا معاملہ ہی داخل دفتر کردیا انہی دنوں کشمیر اسمبلی کے چیف جسٹس یوسف صراف کے اعزاز میں تحریک جدید گیسٹ ہاؤس ربوہ میں ایک عشائیہ دیا گیا جس میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح نے بھی شرکت فرمائی اور دوران گفتگو میری طرف اشارہ کر کے یہ پورا واقعہ سنایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل نے یہ خطرناک منصوبہ پیوند خاک کر دیا.فسبحان الذى اخرى الاعادي حضور کو چھ کوئی ستارہ کی تحقیق سے اس درجہ دلچسپی تھی کہ حضور نے اکتوبر 1980ء میں چین کی بیت الذکر بشارت کا اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھا اور ساتھ ہی مسلم سپین کی جن عمارتوں پر چھ کوئی ستارہ دیکھا اس کے فوٹو لئے اور ربوہ پہنچنے کے بعد از راہ نوازی احقر کو بغرض ریکارڈ عطا فرما دیے.اب مجھے خلافت ثالثہ کے ابتدائی ایام کا احوال بتاتے ہوئے یہ عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ امسح الثالث منصب خلافت پر منتخب ہوتے ہی قصر خلافت میں اقامت گزین ہو گئے اور آپ کی ذاتی لائبریری بھی منتقل کر دی گئی.حضور نے ابتدا ہی میں اس کا انتظام عاجز کے سپر د کیا اور ارشاد فرمایا کہ چند گھنٹوں کے اندر اندر سب کتابوں کو ترتیب دے دو.چنانچہ خاکسار نے عصر تک ان کو مرتب

Page 26

19 کر لیا اور ساتھ ہی پورے لٹریچر کو الماریوں میں آویزاں کر کے ان پر ہر مضمون کی چٹیں بھی لگا دیں جس پر حضور نے بہت اظہار خوشنودی فرما یا حتی کہ مسکراتے ہوئے فرمایا کہ تم تو جن ہو اور ساتھ ہی اپنے دست مبارک سے بہت سا پھل بھی تبر کا ایک طشت میں میرے سامنے رکھ دیا.یہ لائبریری قرآن مجید، احادیث، کتب مسیح موعود، کتب علماء سلسلہ، ادب عربی ، معاشیات اور بعض دوسرے قیمتی لٹریچر پر مشتمل تھی.اسی طرح بخاری شریف کی شرح کرمانی خاص اہتمام سے لائبریری کی زینت تھی علاوہ ازیں مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کی نصابی کتب بھی تھیں جنہیں دیکھ کر میں دنگ رہ گیا کیونکہ انقلابات لیل و نہار کے باوجود ایسی صاف اور نفیس صورت میں تھیں کہ گمان ہوتا تھا کہ ابھی بازار سے منگوائی گئی ہیں.حضور انور نے کتابوں یا رسالوں کی آئندہ جلد بندی کے لئے پہلے ہی روز عاجز کو ایک خاص رقم عطافرمائی اور ارشاد فرمایا حساب بتانے کی ضرورت نہیں جب مزید رقم درکار ہو بتادیا کرو یہ مبارک رقم میں نے نیشنل بینک ربوہ میں اپنے ہی نام سے جمع کرادی.اتفاق سے اسی روز بینک کا افتتاح ہوا اور یہ رقم اکاؤنٹ نمبر 1 میں داخل کر دی گئی.ان دنوں برادرم ہدایت اللہ صاحب ( ابن محمد عبداللہ صاحب جلد ساز قادیان) ربوہ کے بہترین جلد ساز تھے حضور کی عطا فرمودہ جملہ کتب یا رسالوں کی جلد بندی انہی کے ہاتھوں ہوئی.سیدی حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے قبل از خلافت مولا نا عبد اللطیف صاحب فاضل بہاولپوری کے ذریعہ تیرہ صدیوں کے الہامات و کشوف کا ایک مبسوط مجموعہ تیار کرایا تھا تا مذاہب عالم پر اتمام حجت کر کے ثابت کیا جاسکے کہ آنحضرت ﷺ زندہ رسول اور قرآن زندہ کتاب ہے جس کی برکتوں سے مکالمہ مخاطبہ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے یہ مجموعہ چار کا پہیوں میں ریکارڈ ہوا جسے حضور نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے معابعد خاکسار کو مرحمت فرما دیا جو میرے پاس محفوظ ہے.ایک دفعہ حضور نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ عاجز کا ” الفرقان“ میں شائع شدہ مقالہ حضرت نعمت اللہ ولی رحمتہ اللہ علیہ کا اصل قصیدہ کسی طرح لاہور کے کسی ادبی و نشریاتی ادارہ سے شائع ہو اور اسے ملکی لائبریری میں بھی بھیجوایا جائے.بظاہر حالات اس امر کا امکان بہت کم تھا مگر

Page 27

20 گفته گفته الله بوو اللہ تعالٰی نے پیارے امام ہمام کی آرزو کی تکمیل کا فوری سامان پیدا کر دیا.خاکساراس ! سلسلہ میں حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی ( مقیم رام گلی نمبر 3 برانڈ رتھ روڈ لاہور ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ مجھے انار کلی چوک کے ادارہ مکتبہ پاکستان“ کے ناظم محمد حفیظ شامی صاحب کے پاس لے گئے.شامی صاحب جناب حنیف رامے صاحب سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے بھائی تھے.میں نے انہیں جماعت کراچی کی طرف سے ہزار نسخے خریدنے کی پیشکش کی جس پر وہ رضامند ہو گئے جس کے بعد انہوں نے اس کے چار ایڈیشن شائع کئے.حضور کی ہدایت پر رسالہ میرے قلمی نام " قمر اسلام پوری پر چھپا.قبل ازیں مولا نا مبارک احمد خاں صاحب ایمن آبادی رفتار زمانہ میں میرے شذرات بعنوان " چرخ کہن کے نیچے ( شاہد مجی) کے قلمی نام سے شائع فرمارہے تھے.اس کتاب پر " انجمن حمایت اسلام لاہور کے ایڈیٹر جناب پیام شاہ جہانپوری ( متوفی 16 مارچ 2005ء) نے پر زور اور اثر انگیز تبصرہ کیا.1974ء کے سانحہ ربوہ کے بعد جب قادیانی مسئلہ کے حل کے لئے اسمبلی کی را ہر کمیٹی کا اعلان ریڈیو پر نشر ہوا تو حضرت اقدس نے خاکسار کو ہدایت فرمائی کہ تیرہ سوسال کی تاریخ اسلام سے بزرگوں کی تکفیر کے واقعات تاریخی ترتیب کے ساتھ جمع کئے جائیں چنانچہ عاجز نے مقربان البہی کی سرخروئی کے نام سے ایک مسودہ تیار کیا جسے ملاحظہ کر کے متعلقہ ادارہ کو اشاعت کا حکم دیا.خاکسار نے پرنٹر کے بارہ میں رہنمائی چاہی.فرمایا صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی بجائے اس پر صرف تمہارا نام ہی ہونا ہے اس میں احتیاط ہے.یہ رسالہ محضر نامہ" کے ساتھ دوسری بعض کتابوں کے ساتھ بطور ضمیمہ منسلک کر کے رہبر کمیٹی کو بھجوادیا گیا.محضر نامہ" کے نام کی تجویز خاکسار کی تھی جسے حضور نے پسند فرمایا.حضور انور قرآن عظیم، حدیث اور تحریرات مسیح موعود کے والہ وشیدا تھے حضور کا معمول مبارک تھا کہ اسمبلی پاکستان تشریف لے جاتے تو قرآن مجید اور درنشین عربی اردو فارسی ساتھ رکھتے

Page 28

21 تھے.یہ قرآن مجید جماعت احمدیہ مصر نے 1934ء میں آپ کو تحفہ دیا تھا اور حضور نے اسے سرخ رنگ کے بہت خوبصورت مخملی غلاف میں محفوظ رکھا ہوا تھا.حضرت اقدس اور ممبران وفد اسمبلی کا قیام اسلام آباد میں رسالپور کے نہایت مخلص بزرگ قاضی محمد شفیق صاحب (متوفی 18 فروری 2000ء) کی نئی آراستہ پیراستہ کٹھی میں رہا.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث مطالعہ کتب اور تحریر دونوں کے از حد شائق تھے اور دونوں سے آپ کی نفاست طبع اور شوق علم کی عکاسی ہوتی تھی.حضور ہمیشہ ہاف فلسکیپ سائز پر یاداشتیں رقم فرماتے اور اسی سائز پر مجھے بھی حوالے بھجوانے کا ارشاد فرماتے خدا تعالیٰ مولوی بشیر احمد قادیانی صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ دے وہ جلسہ سالانہ کے ایام میں حضور کے مطلوبہ حوالوں کی خوشخط نقل کے لئے وقف ہو جاتے تھے اور میرے ساتھ دفتر شعبہ تاریخ میں ساری ساری رات لکھنے میں مصروف رہتے تھے ان کا خط نہایت عمدہ اور دلآویز تھا جسے حضور بھی بہت پسند فرماتے تھے.حضور نے اوائل خلافت سے مختلف اہم یاداشتوں کے لئے الگ الگ کا بیاں تیار کرائی تھیں جن میں ضروری اور تازہ حوالے اکثر حضرت خلیفہ اسیح الاول کے انداز و اسلوب میں خود تحریر فرماتے یا بعض اوقات مجھے فرماتے.حضور نے عاجز کو بھی اہم مضامین پر الگ الگ کا پیاں تیار کرنے کا ارشاد فرمایا جن کی تکمیل جناب مولانا یوسف سلیم صاحب ایم اے ( انچارج شعبہ زودنویسی ) جناب مولوی بشیر احمد صاحب قادیانی مرحوم اور جناب محمد اصغر قمر صاحب ( سابق کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری حال امور عامہ ) کی رہین منت ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء.خدا کے فضل و کرم سے استاذی المحترم حضرت مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ، جناب شیخ محبوب عالم صاحب خالد ناظر بیت المال اور خاکسار کو 1965 ء سے 1981 ء تک کے سالانہ جلسوں میں بعض اوقات رات کے ڈیڑھ بجے تک حضور کے قدموں میں بیٹھنے کے مبارک مواقع میسر آئے جس کے دران حضور کے عطا فرمودہ تبرکات سے متمتع ہونے کی سعادت بھی ملی ایک شب حضور نے از راہ شفقت اس کفش بردار کو نہایت محبت و پیار سے ایک روپیہ

Page 29

22 مرحمت فرمایا اور ساتھ ہی میری درخواست پر اپنے مبارک دستخط بھی فرمائے.یہ یادگار تبرک ہمیشہ میرے بٹوہ میں رہتا ہے جس کی بے شمار برکات اب تک میرے مشاہدہ میں آئی ہیں.خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کے آخری جلسہ سالانہ (1981ء) کی دوسری شب (27 دسمبر ) کا ذکر ہے کہ مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب اور خاکسار قریباً ڈیڑھ بجے تک حضور انور کی خدمت میں حاضر رہے.خاکسار نے 28 دسمبر کی علمی تقریر کے حوالے پیش کئے فرمایا حوالے تو بفضلہ تعالیٰ بہت جمع ہو گئے ہیں اور شاید میں مکمل طور پر ان کو بیان بھی نہ کر سکوں مگر مشکل یہ پیش آ گئی ہے کہ جلسہ کی مصروفیات، تقاریر اور ملاقاتوں کے باعث اب حضرت مسیح ناصری کے الفاظ میں میری حالت یہ ہے که روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے ( مرقس باب 14 آیت 38 ) حالانکہ ابھی پونے دو بجے شب مجھے حسب معمول تحریک جدید کی ڈاک کو بھی دیکھنا ہے.میں نے عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو تفریح طبع کے لئے چند لطائف ہو جائیں.حضور انور نے فرمایا یہی تو میرا مقصد ہے.اپنے مقدس آقا کی اس اجازت پر میں نے سانگلہ ہل کے ایک معروف بریلوی عالم مولوی عنایت اللہ صاحب کی چک چٹھہ اور باغبانپورہ میں بعض تقاریر کے کچھ انتہائی دلچسپ نمونے انہی کے رنگ میں لہکتے اور گاتے ہوئے سنا دیئے جس پر حضور کا چہرہ مسکراہٹوں سے تمتما اٹھا اور آنکھوں سے خوشی کے مارے بے اختیار آنسو تک نکل آئے اور نہایت پیار سے فرمایا تمہیں چھٹی.میں تحریک جدید کی ڈاک پڑھنے لگا ہوں چنانچہ جب ہم دونوں فورا باہر آ گئے تو حضرت مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب نے فرمایا کہ حضور سے میرے مراسم و روابط قادیان کے زمانہ سے ہیں اور مجھے حضور کی خدمت میں بے شمار مرتبہ حاضری کا شرف حاصل ہوا ہے، حضور اس وقت دلچسپ لطائف سے جس طرح محظوظ ہوئے ہیں اس کا نظارہ میں نے آج پہلی دفعہ کیا ہے.مبارک ہو.حضرت صاحب کی بعض ضروری نصائح -1 ایک دفعہ عاجز بیت الفضل اسلام آباد کی بالائی منزل پر حضور کی خدمت اقدس میں حاضر تھا دوران گفتگو حضور نے نصیحت فرمائی کہ حضرات آئمہ اہلبیت کے نام کے ساتھ ضرور

Page 30

23 علیہ السلام لکھنا چاہئے.-2 آپ کا مجھے تاکیدی ارشاد تھا کہ سپین ، بغداد یا مسلمانوں کی دوسری قدیم سلطنتوں کے حالات پر قلم اٹھاتے ہوئے مسلمان مورخین ہی کے عظیم الشان لٹریچر کو اپنا بنیادی مآخذ بنانا چاہئے نہ کہ مستشرقین کی کتابوں کو.البتہ اس کی تائید میں ان کی مستند معلومات یا ضمنی امور سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں.راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ یہ ایسی اہم بات ہے کہ خود حضرت مسیح موعود نے مخلصین جماعت کو ابتداء ہی میں عیسائیت کے حملہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :- ایک تو پادری ہیں جو کھلے طور پر اسلام کے خلاف کتابیں لکھتے اور شائع کرتے ہیں.دوسرے انگریزی طرز تعلیم اور کتابوں میں پوشیدہ طور پر زہر یلا مواد رکھا ہوا ہے فلسفی اپنے طرز پر اور مورخ اپنے رنگ میں واقعات کو بری صورت پیش کر کے اسلام پر حملہ کرتے ہیں (ملفوظات حضرت مسیح موعود بلد اس ۱۳) اسی طرح سید نا محمود صلح الموعود نے احمدی سکالرز کو خبر دار کیا :- اسلام اور مسلمانوں پر سب سے بڑی تباہی اسی وجہ سے آئی ہے کہ ان کی شاندار قومی روایات طاق نسیان پر رکھ دی گئی ہیں اور ماضی سے ان کا تعلق مٹ گیا ہے اور صحابہ اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے لیڈروں کی خوبیاں مسلمانوں سے اوجھل ہو گئیں.اس ٹرڈیشن کے تباہ کرنے میں یورپین لوگوں کی لکھی ہوئی تاریخوں نے خصوصیت سے صہ لیا ہے.کوئی مسلمان بادشاہ ایسا نہیں جس پر انہوں نے الزام نہ لگایا ہو اور اسے بری سے برخی اور بھیا نک سے بھیا تک صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش نہ کی ہو.آسان سے آسان طریق کسی قوم کو تباہ کرنے کا یہ ہے کہ اسے اپنی پچھلی تاریخ سے بدظن کر دیا جائے.اگر اسے اپنی پچھلی تاریخ سے بدظن کر دیا جائے تو وواجتثت من فوق الارض مالها من قرار ابراہیم 27 ع 16 ) کا مصداق بن جاتی ہے اور کبھی زندہ نہیں رہ سکتی.یورپین لوگوں نے اس آسان حربہ سے کام لیا اور تمام اسلامی تاریخ کو انہوں نے بگاڑ کر رکھ دیا.بڑے بڑے مسلمان بادشاہ کا

Page 31

24 -3 ذکر کریں گے تو کہیں گے فلاں میں یہ نقص تھا اور فلاں میں وہ نقص تھا اور پھر بھجیب بات یہ ہے کہ وہ اس کا نام تحقیقات رکھتے ہیں اور دعوے سے کہتے ہیں کہ تحقیق کے بعد یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ فلاں مسلمان بادشاہ ایسا تھا حالانکہ وہ سراسر جھوٹ ہوتا ہے.(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 201) فرمایا حضرت مسیح موعود کی صداقت اور جماعت احمد یہ کے علم کلام کی تائید میں بے شمار ثبوت، شواہد اور دلائل گم گشتہ خزانوں کی طرح ابھی تک پردہ ، اخفاء میں ہیں مثلا ترکی اور یورپ اور امریکہ کی لائبریریوں میں بے شمار مخطوطے موجود ہیں جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.موجودہ دلائل و براہین حرف آخر نہیں اور اس کرنا پیدا کنار سے حقانیت احمدیت کے انمول موتیوں کی تلاش میں احمدیوں کو کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئے.

Page 32

25 سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع حضرت امام عالی مقام سیدنا حضرت خلیفۃ امسیح الرابع (ولادت 18 دسمبر 1928ء وفات 19 اپریل 2003ء) کے اکیس سالہ عہد خلافت میں حضرت مصلح موعود کا مبارک زمانہ اپنی بے شمار علمی عملی اور روحانی برکتوں کے ساتھ پلٹ آیا خصوصاً حضور کی فصیح و بلیغ خطابت اور رقت آمیز تلاوت سن کر سلطان البیان سید نا محمود الصلح الموعود کی بے شمار یادیں تازہ ہو جاتی تھیں.خاکسار کو 1944 ء سے آپ کی زیارت کا شرف حاصل تھا.1948ء کے جلسہ سالانہ لاہور کے سیج سے آپ کی زبان مبارک سے پہلی بار مصلح موعود کا کلام ع پہنچائیں در پہ یار کے وہ بال و پر کہاں نہایت خوش الحانی سے سننے کی سعادت ملی اور قلب و روح میں ایک نئی روحانی برقی لہر دوڑ گئی خصوصاً اس شعر نے تو پورے مجمع پر خاص کیفیت طاری کر دی.سجدہ کا اذن دے کے مجھے تاجور کیا پاؤں ترے کہاں مرا ناچیز سر کہاں اس وقت آپ کی عمر مبارک میں سال کے لگ بھگ تھی عنفوان شباب میں اس پر معارف نظم کا انتخاب بھی آپ کے فنافی اللہ ہونے پر شاہد ناطق ہے.ربوہ میں آپ سے ابتدائی تعلق 1954 ء کے بعد ہوا جبکہ یہ عاجز رسالہ ” خالد کا نائب ایڈیٹر تھا.اکتوبر 1957ء میں آپ انگلستان میں اڑھائی سال تک قیام فرمارہنے کے بعد واپس مرکز احمدیت میں رونق افروز ہوئے تو یہ ابتدائی تعلق آہستہ آہستہ گہرا اور بے تکلف رنگ اختیار کر گیا آپ نے نومبر 1966 ء سے نومبر 1969ء تک صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی حیثیت سے نوجوانان احمدیت کی فقید المثال قیادت فرمائی جس کے دوران آپ کی رفاقت میں سفر پشاور کا موقع بھی میسر آیا.حضور ہی کی ذاتی کار تھی اور حضور ہی نے ڈرائیو کی اور مجھے فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کا ارشاد فرمایا دوران سفر بہت سے علمی اور تبلیغی نکات پر اظہار خیالات فرمایا.رستہ میں اپنی جیب ہی سے اکل

Page 33

26 وشرب کے سارے اخراجات کئے پشاور میں خدام الاحمدیہ کا اجتماع تھا جس کی مجلس سوال و جواب میں حضور نے اپنے ساتھ اس ناچیز کو بٹھا لیا اس طرح اس مبارک مجلس میں مجھے بھی کچھ عرض کرنے کی توفیق مل گئی اجتماع ختم ہوا تو مجھے کو ہاٹ کے دورہ کا حکم دیا جوخدا کے فضل سے بہت کامیاب رہا.1974ء میں شیر خدا سید نا وامامنا حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے پاکستان اسمبلی کی رہبر کمیٹی سے خطاب کر کے ملک کے اعلیٰ ترین ادارہ بلکہ پورے ملک پر اتمام حجت کی.اس تاریخی موقعہ پر میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے مقدس اور خدائی اخلاق و شمائل کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا اور آپ کو سرتا پانور پایا اور نورالدین وقت بھی جن کی نسبت حضرت اقدس مسیح موعود نے درج ذیل الفاظ میں اظہار خوشنودی فرمایا :- ”میرے ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتے ہیں جیسے نبض کی حرکت نفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے.ترجمہ آئینہ کمالات اسلام کی اسمبلی کے لئے محضر نامہ" حضرت خلیفہ اسیح کی رہنمائی میں اکثر و بیشتر حضرت صاحبزادہ صاحب اور خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب کی سربراہی میں دو تین روز کے اندر مرتب ہوا جسے حضرت صاحبزادہ صاحب نے وقف جدید میں کاتبوں کے ذریعہ پوری پوری رات جاگ کر لکھوایا اور طبع کرایا طباعت کے معابعد محترم محمد شفیق صاحب قیصر سابق مربی افریقہ کے ذریعہ اسمبلی میں داخل کرا دیا گیا ان دنوں حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ تھے.اسمبلی اور سینٹ کے ممبروں میں تقسیم کے بعد بقیہ سب کا پہیاں آخر تک آپ ہی کی تحویل میں رہیں.آپ کی ہدایت پر اسمبلی کی کارروائی کے لئے خاکسار نے ضروری حوالہ جات کی متعدد فائلیں بنائیں کیونکہ حوالے اور اصل کتابیں مہیا کر کے حضور کی خدمت میں پیش کرنے کی خدمت عاجز کو عطا ہوئی.فالحمد للہ علی احسانہ ایک بار آپ کی خصوصی ہدایت پر خاکسار کو چوہدری رحمت علی صاحب آف سٹروعه ( دار البرکات ربوہ) کی کار میں راتوں رات مردان جانا پڑا کیونکہ جو شیعہ مسلک کی کتابیں مطلوب تھیں وہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی مرحوم سابق امیر سرحد کے ذاتی کتب خانہ میں موجود تھیں.

Page 34

27 سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو قرآن مجید مصری اور مینوں درنمین بہت محبوب تھیں جو حضرت صاحبزادہ صاحب باقاعدگی سے مع گرم پانی کے تھرماس کے اسمبلی میں لے جاتے تھے اور اسے اپنے لئے بہت بڑا اعزاز تصویر فرماتے تھے.آپ کی شفقتوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا.حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کپور تھلوی ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ فیصل آباد اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور خاکسار کو اپنی کار پر بٹھا کے اسلام آباد لے جاتے اور پھر خود ہی ربوہ پہنچاتے تھے.جہلم پل کے ساتھ سرائے عالمگیر میں ایک نہایت مختصر اور سادہ سا ہوٹل تھا جس کی گرم چپاتیاں اور دال آپ کو بہت مرغوب خاطر تھی.یہ پسندیدہ چیزیں ہمیں بھی دیتے اور خود بھی مزے لے لے کر نوش فرماتے تھے.اسمبلی ہال میں چیئر مین و پیکر اسمبلی جناب صاحبزادہ فاروق علی صاحب کے سامنے ایک لمبی میز رکھ دی گئی تھی.جس کے درمیان حضرت خلیفہ اسیح الثالث رونق افروز ہوتے اور آپ کے دائیں حضرت شیخ محمد احد صاحب مظہر کے بالکل ساتھ پہلے نمبر پر آپ تشریف رکھتے تھے.بائیں جانب پہلے عاجز کی پھر استاذی المحترم خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی سیٹ معین تھی.اسمبلی کے آخری اجلاس کے بعد حضرت خلیفتہ امیج الثالث نے آپ کو ارشاد فرمایا کہ آپ اور دوست محمد شاہدر بوہ پہنچیں چنانچہ حضرت میاں صاحب نے مجھے فرنٹ سیٹ پر بٹھایا اور مرکز احمدیت کی طرف روانہ ہو گئے.سفر شب طویل تھا مگر آپ نے اسے اپنے دلچسپ لطائف و ظرائف اور علمی موتیوں سے اس شان سے منور کر دیا کہ جب ہم صبح سویرے ربوہ کی مقدس ہستی میں داخل ہو وئے تو دونوں ہی تازہ دم تھے اور تھکان کا نام ونشان تک نہ تھا.حضور نے 23 اکتوبر 1982 ء کو مجلس علم و عرفان میں فرمایا :- مولوی دوست محمد صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے حوالوں کے بادشاہ ہیں.ایسی جلدی ان کو حوالہ ملتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جب قومی اسمبلی میں پیش ہوئے تھے تو وہاں بعض غیر از جماعت دوستوں نے آپس میں تبصرہ کیا اور بعض احمدی دوستوں کو بتایا کہ ہمیں تو کوئی سمجھ نہیں

Page 35

28 آتی ہمارے اتنے موٹے مولوی ہیں ان کو ایک ایک حوالہ ڈھونڈنے کے لئے کئی کئی دن لگ جاتے ہیں لیکن ان کا پتلا د بلا مولوی ہے اور منٹ میں حوالے ہی حوالے نکال کر پیش کر دیتا ہے.“ (الفضل ربوہ 11 جون 1983 صفحہ 1 کالم 1) یکم جنوری 1979 ء سے آپ کو مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی زمام سیادت سونپی گئی جس نے مجلس میں زندگی کی زبر دست روح پھونک دی اور ملک بھر میں دعوت الی اللہ کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا آپ ہی کی نظر کرم سے مجھے پہلی بار بذریعہ ہوائی جہاز کراچی میں بطور نمائندہ مرکز جانے کا اعزاز حاصل ہوا.قصہ یہ ہوا کہ مجلس کراچی نے اپنے سالانہ اجتماع کے لئے مرکز سے ایک نمائندہ بھیجوانے کی درخواست کی کسی نے آپ کو میری نسبت بتایا کہ اس نے سارے ملک کے دورے کئے میں مرا بھی کراچی نہیں گیا اس پر آپ نے فرمایا پھر اس کو بھجوانا چاہئے چنانچہ آپ نے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے حضور سفر کراچی کے لئے بغرض منظوری جو درخواست سپرد قلم فرمائی اس میں خاص طور پر یہ وجہ لکھ کر ہی سفارش کی.خدا کے محبوب خلیفہ راشد اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی دعاؤں اور قوت قدسیہ کی بدولت کراچی کا میرا یہ سفر بھی ہر لحاظ سے کامیاب رہا.فالحمد للہ کم نومبر 1981 کا واقعہ ہے کہ میں بہت اعلی میں انصار اللہ مرکز یہ کے پیج پر بیٹھانے مقدس و محبوب آقا نافله موعود حضرت خلیفة المسح الثالث کے لئے سرتاپا انتظار تھا.کیا دیکھتا ہوں کہ حضور تشریف لا رہے ہیں اور پیچھے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب آپ کی جوتیاں اٹھائے ہوئے کھڑے ہیں.جب 10 جون 1982ء کو اللہ جل شانہ نے آپ کو عرش سے خلعت خلافت سے نوازا اس وقت یہ نکتہ کھلا کہ منصب خلافت کے فی الواقع آپ ہی مستحق تھے کیونکہ پوری جماعت میں خلیفہ راشد سے عشق و فدائیت میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا.اگر حضرت مولانا نورالدین نے خلافت جوتیوں میں بیٹھ کر حاصل کی تو بلا شبہ آپ نے بھی خلیفہ وقت کی جوتیوں سے خلافت کا یہ عالی مقام پایا.وذالك فضل الله يوتيه من يشاء- حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے اپنے اکیس سالہ زریں عہد خلافت میں اپنے اس نالائق

Page 36

29 29 چا کر پر اس قدر احسانات فرمائے کہ جن کا بلا مبالغہ شمار ممکن نہیں.آپ نائب مہدی اور طل اللہ تھے اور آپ کے وجود مقدس میں ربوبیت، رحمانیت اور رحیمیت کی صفات پوری شان سے جلوہ گر تھیں جن کی جھلکیاں کسی نہ کسی شکل میں صبح و شام صاف دکھلائی دیتی تھیں.خلیفہ بننے کے چند روز بعد حضور انور نے اس ناچیز کو پگڑی اور آموں کا تبرک عطا فر مایا.خاکسار نے تحریری شکر یہ ادا کرتے ہوئے حضرت سید عزیز الرحمان صاحب بریلوی مالک عزیز ہوٹل بانس بریلی (متوفی 17 جولائی 1936ء) کی یہ روایت بھی لکھ دی کہ کسی دوست نے حضرت مسیح موعود سے عرض کیا کہ جنت کا پھل کیا ہوگا فرمایا آم.جو اللہ سے شروع ہوتا اور محمد پر ختم ہوتا ہے.“ ( روایات غیر مطبوعہ جلد 14 صفحہ 553) پیارے اور محسن حضور نے اپنے قلم مبارک سے جواب دیا کہ میرے آموں سے حضرت مسیح موعود کی روایت زیادہ قیمتی اور لذیذ ہے.یہاں تحدیث نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ خدا کے فضل وکرم سے اس احقر العباد کے نام خلفاء اربعہ کے جملہ خطوط کا ریکارڈ بھی ( جو علم و معرفت کا آسمانی خزانہ ہے ) میرے پاس محفوظ ہے.اوائل خلافت میں حضور نے اس امر کی تحقیق کے لئے ایک کمیٹی بنائی کہ کیا حضرت امام حسن علیہ السلام خلفاء راشدین میں شامل تھے ؟ حضور نے اس کمیٹی کا صدر عاجز کو نا مزد فرمایا.پیارے آقا نے کمیٹی کی رائے سے اتفاق کیا لیکن ارشاد فرمایا کہ اس کی اشاعت کی ضرورت نہیں.ابتداء ہی میں حضور نے جناب وکیل اعلیٰ صاحب تحریک جدید کو خاکسار کی نسبت ارشاد فرمایا کہ تحریک جدید کی سالانہ رپورٹیں جو مجھے بھجوائی جاتی ہیں انہیں بھی دکھلائی جائیں تا ضروری واقعات کا اس کے پاس بھی اندراج ہو اسی طرح چوہدری بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو بھی حکم دیا کہ جو خلا صے مجھے بھیجوار ہے ہیں وہ اسے بھی ضرور دکھلا دیا کریں نوٹ لے سکیں.جولائی 1984ء میں یہ عاجز وفاقی شرعی عدالت کی کارروائی کے سلسلہ میں لاہور تھا.حضور نے میرے ایک عریضہ کے جواب میں 25 جولائی 1984 کو تحریر فرمایا:- آپ تو ماشاء اللہ حوالوں کے بادشاہ ہیں.سارے مولوی مل کر بھی آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ ہر میدان میں آپ کا حامی و ناصر ہو.“

Page 37

30 اوائل 1989ء کی بات ہے کہ اخبار الفضل میں لنڈن کی ایک معروف شخصیت کا مضمون چھپا کہ مولانا حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف رحمہ اللہ کا ( ڈیورنڈ لائن کے موقع پر ) شائع شدہ گروپ فو ٹو صیح نہیں.جس کے جواب میں خاکسار نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا جو مدیر الفضل“ مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے 22 مئی 1989 ء کی ایک خصوصی اشاعت میں ریکارڈ کر دیا اس کے بعد عاجز نے ” حضرت شہزادہ عبداللطیف شہید کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں یہ تحقیقی مقالہ بھی شامل کیا نیز دیباچہ میں لکھا کہ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ احمدیت کی دوسری صدی کی پہلی عید قربان ٹھیک 14 جولائی 1989 ء کو منائی جارہی ہے جو حضرت شہید کابل کا یوم شہادت ہے.یہ کتاب عاجز نے سب سے پہلے محبوب آقا کی خدمت میں ارسال کی ازاں بعد جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے انگلستان پہنچا تو عجیب اتفاق ہوا کہ خاکسار جو نہی یت الفضل کے احاطہ میں داخل ہوا حضور پر نور نماز پڑھانے کے لئے تشریف لا رہے تھے.حضور نے مجھے دیکھتے ہی میری آمد پر بہت مسرت کا اظہار کیا اور فرمایا مبارک ہو تم نے حضرت شہید مرحوم کے فوٹو پر تنقید کرنے والوں کو ساکت و صامت کر دیا ہے.چند روز بعد حضور آسٹریلیا تشریف لے گئے اور 14 جولائی 1989ء کے خطبہ میں اس حیرت انگیز نکتہ کی طرف عالمگیر جماعت کو خاص توجہ دلائی کہ یہ عجیب توارد ہے کہ احمدیت کی دوسری صدی کی پہلی عید قربان ٹھیک 14 جولائی کو منائی جارہی ہے.جس میں یہ پر اسرار پیغام محفلی ہے کہ عشاق احمد یت کو اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہوگا.خاکسار 1990ء میں تلونڈی موسیٰ خان کیس میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 298، 188 اور 295 کے تحت سنٹرل جیل گوجرانوالہ میں تھا.حضور انور نے ہمارے کیس کی پیروی کے لئے محترم خواجہ سرفراز احمد صاحب ایڈووکیٹ سیالکوٹ کو مقررفرمایا آپ نے اس شان سے وکالت کا حق ادا کیا کہ حضور نے ایک خصوصی مکتوب ان کے نام لکھا جس میں آپ کو زبر دست خراج تحسین ادا کیا آپ کا وصال 22 مئی 2000ء کو ہوا.

Page 38

31 اے خدا بر تربت او بارش رحمت بیار داخلش کن از کمال فضل فضل در بیت النعيم میرے مشفق آقا نے ان دنوں ہم ناچیز خدام کے لئے نہ صرف خود نہایت گریہ وزاری سے اور نیم شی دعاؤں سے عرشی الہی کو ہلا دیا بلکہ 13 اپریل 1990ء کو محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر امور عامه ( حال ناظر اعلی ) کو بذریعہ ٹیلی فون پیغام دیا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مولوی دوست محمد صاحب اور دوسرے احمدی احباب کی قربانی قبول فرمائے.عسى ان تكرهوا شيئ وهو خير لكم خدا کی خاطر تکلیف پہنچی ہے.“ میں نے اپنی رپورٹ میں دینی سرگرمیوں کی رپورٹ حضور انور کی خدمت میں بھجوائی تو حضور نے بے انتہا مسرت کا اظہار فرمایا اور 19 جون 1990 ء کو تحریر فرمایا :- ” پیارے مکرم مولوی دوست محمد صاحب ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط ملا جیل میں ماشاء اللہ آپ نے خوب تبلیغ کی اور زبردست جماعت قائم کی ہے اللہ کرے آپ لوگوں کے بعد جو قیدی رہ گئے ہیں ان میں بھی باقاعدہ جماعت مستقل رہے.“ علاوہ ازیں حضور نے اپنے قلم مبارک سے 16 اپریل 1990ء کو عزیزم ڈاکٹر سلطان مبشر صاحب کو حسب ذیل مکتوب گرامی ارسال فرمایا جو آپ کے ان قلبی جذبات کا عکاس تھا جو حضور کے قلب صافی میں بحرنا پیدا کنار کی طرح موجیں مار رہے تھے.یہ روح پرور مکتوب انہوں نے خود جیل میں ہمیں پہنچایا اور ہم سب کے اندر زندگی کی ایک نئی برقی لہر دوڑ گئی اور پھر جلد ہی رہائی کے غیبی سامان بھی ہو گئے.اس مبارک مکتوب کا مبارک متن ہدیہ قارئین ہے.20 رمضان 1990ء پیارے عزیزم سلطان ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته شیر پنجرے میں بھی شیر ہی رہتا ہے اور زنداں میں یوسف کی بوئے یوسفی نہیں جاتی.اللہ کے شیروں سے ملنے جاؤ تو میرا محبت بھر اسلام اور پیار دینا.یہ شیر عصائے موسیٰ کی صفات بھی رکھتے ہیں.صاحب عصا کو ان کی طرف سے کوئی خوف نہیں.یہ شیر و الـذيــن مـعـه کا

Page 39

32 پر تو بھی ہیں کہ ان کے جلال کا چہرہ صرف آور دشمن کی طرف کھلتا ہے جبکہ اپنوں کے لئے رحما بينهم ہو کر اپنے جمال کی نرم چاندنی ان پر نچھاور کرتے ہیں.سلاخوں سے پار باز و تو جاہی سکتے ہوں گے.دلوں کی راہ میں تو کوئی آہنی دیوار بھی حائل نہیں ہوسکتی.پس بن پڑے تو سلاخوں میں سے گلے لگا کر دل سے دل ملا کر محبت بھر اسلام اور پیار بھرا عید مبارک کا تحفہ پیش کرنا.پھر اس چہرے کی کیفیت لکھنے کی کوشش نہ کرتا.میں اس وقت بھی تمہارے ابا کا وہ کھلا ہوا چہرہ دیکھ رہا ہوں اور ان کی خوشیوں کی چاندنی میری آنکھوں کی شبنم بن رہی ہے.خدا حافظ.امی کو بھی سلام اور عید مبارک تمہارے خاندان کو یہ سعادتیںاللہ تعالی تا ابد مبارک فرمائے.والسلام خاکسار " مرزا طاہر احمد تلونڈی موسیٰ خان کیس کے اسیران راہ مولی کے نام یہ ہیں.خاکسار ( دوست محمد شاہد ) شبیر احمد ثاقب صاحب حال پروفیسر، جامعہ احمد یہ ربوہ، چوہدری منظور احمد صاحب ( پریذیڈنٹ تلونڈی موسیٰ خاں) نذیر احمد صاحب، سلیم احمد صاحب، خالد پرویز صاحب، یوسف صاحب، منور احمد صاحب، ناصر احمد صاحب (نوائے وقت 4 اپریل 1990 ء ) شبیر احمد صاحب ولد نذیر صاحب، ظفر احمد صاحب اور اقوام قادیانی (ایف آئی آر 1984 ء تا2000ء ناشر نظارت اشاعت مرکز یہ اشاعت نومبر 2007ء) ہماری اسیری کے ایام میں اخبار الفضل نے ایک ادار یہ شائع کیا اور احمدیت کے نامور سخنور جناب سلیم شاہجہانپوری نے پابند سلاسل“ کے عنوان سے ایک طویل نظم میں اپنے مخلصانہ اور فدائیانہ جذبات کا اظہار فرمایا.یہ نظم کینیڈا کے احمد یہ گزٹ میں شائع ہوئی نمونہ کے چند شعر عرض کرتا ہوں.آقا کا چہیتا ہے یہ پابند وفا ہے اے ظالمو تم نے کے قید کیا ہے؟ پابند سلاسل کیا اک عالم دیں کو ہم بھی تو سنیں کونسا جرم اس نے کیا؟

Page 40

33 تنہا نہیں زنداں میں فقط دوست محمد ساتھ اس کے ہر اک فرد کی دعا ہے رب کریم کے فضل اور مقدس آقا اور تمام عشاق خلافت کی مقبول دعاؤں کے طفیل 10 مئی 1996ء کو ضمانت پر ہماری رہائی عمل میں آئی جس پر جناب سید محمد اسماعیل صاحب صدیقی گوجرہ نے بے ساختہ یہ شعر کہا :- آنکھوں میں تاب عشق تھی اور چہروں پر نور تھا نکلے جو قید خانے سے کچھ دن گزار کے حضرت اقدس نے ہجرت انگلستان سے قبل اک حرف ناصحانہ سپر قلم فرمائی جس کے لئے مطلوبہ حوالوں کے اضافہ کا اس ناچیز غلام کو بھی شرف بخشا.حضور نے ہجرت کے بعد تاکید فرمائی کہ خاکسار کی حفاظت کے لئے ایک خادم متعین رہے چنانچہ اس کی کئی ماہ تک تعمیل جاری رہی.حضور انور کی نظر کرم سے خاکسار کو جلسہ سالانہ انگلستان 1985ء ( منعقدہ اسلام آباد لندن ) میں نمائندہ صدر انجمن احمدیہ کی حیثیت سے شرکت کی سعادت نصیب ہوئی اور بعد ازاں حضور کے ارشاد مبارک پر ڈنمارک، سویڈن، ناروے اور جرمنی میں مجالس سوال وجواب کے مواقع میسر آئے.ہڈرزفیلڈ مشن میں رمضان کے مبارک مہینہ میں درس قرآن دیا علاوہ ازیں انگلستان کے مختلف شہروں مثلا ہڈرزفیلڈ، نیز ایسٹ لنڈن وغیرہ میں علمی مذاکرات بھی ہوئے.ایسٹ لنڈن کی تاریخی مجلس احراری ویمبلے کا نفرنس کے جواب میں تھے جن کی ویڈیو کیسٹ حضور پر نور کے ارشاد پر دنیا بھر کی جماعتوں کو بھجوائی گئی اور ہر جگہ نہایت درجہ دلچسپی اور ذوق سے سنی گئی جو حضرت کی زبر دست روحانی قوت و فیضان کا معجزہ تھا.قیام لندن کے دوران حضور کے فرمان مبارک پر سنسنی خیز انکشافات‘ تالیف ہوئی جو دوبارہ لنڈن سے ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوئی.حضرت اقدس نے 26 دسمبر 1985ء کو اس کفش بردار کو ایک خصوصی مکتوب میں لکھا.”آپ کی تبلیغی کوششیں انتہائی قابل قدر ہیں.اللہ تعالی اس کے بہتر نتائج برآمد

Page 41

34 فرمائے ماشاء اللہ پھل بھی اچھے لگ رہے ہیں.جماعتوں میں بیداری کی لہر نظر آ رہی ہے آپ جہاں جائیں ان کے جذ بہ تبلیغ کو بھی ابھاریں خدا کے فضل سے توقع سے زیادہ خوشکن نتائج ظاہر ہوں گے.الحمد للہ آپ کی کوششوں سے یو کے کی جماعتوں کے چہرے پر رونق آگئی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی اپنے فرشتوں سے مددفرمائے اور علم اور معرفت میں ترقی دے اور لوگ مستفیض ہوں.“ خاکسار 20 فروری 1986 ء تک حضور کے زیر سایہ انگلستان میں مقیم رہا اس دوران حضور نے از راہ شفقت و ذرہ نوازی میری بیگم سلیمہ اختر صاحبہ اور میری پیاری بیٹی طاہرہ صدیقہ سلما تعالی کو بھی انگلستان آنے کی اجازت بخشی اور نہ صرف میری بیٹی کے رخصتانہ کی تقریب میں شمولیت فرمائی بلکہ اس کے بھی اخراجات کا بھی خود انتظام فرمایا.اس موقعہ پر لنڈن کے عشاق خلافت نے محبت و خلوص کا جو نمونہ دکھلایا اس نے قرن اول کی یاد تازہ کردی بارگاہ خلافت کی طرف سے ہم و دنوں میاں بیوی کے قیام کے لئے اسلام آباد کے اس کمرہ کی منظوری عطا ہوئی جس میں بیگم ڈاکٹر عبد السلام صاحب صدر لجنہ اماءاللہ انگلستان کا دفتر یا قیام تھا.دوران قیام انگلستان حضور کی نظر کرم سے حضرت صاحبزادہ مرزا عبدالحق صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور خاکسار کو لیک ڈسٹرکٹ ، گلاسکو اور انگلستان کے کئی اور مقامات دیکھنے کی بھی سعادت ملی اور معلومات میں از حداضافہ ہوا.ایک شب صفدر حسین صاحب عباسی لنڈن سے اسلام آباد پہنچے اور ہمارے کیبن میں انڈوں کا ایک ٹوکرہ دے گئے اور بتایا کہ حضور نے آپ میاں بیوی کے لئے تحفہ بھجوایا ہے.میری رفیقہ حیات سلسلہ عالیہ کے معروف صاحب طرز شاعر جناب محمد ابراہیم صاحب شاد چک چہور کی صاحبزادی تھیں ان کی المناک وفات ( 20 مئی 1990ء) پر حضور نے تعزیت کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری خدمات میں وہ بھی برابر شامل تھیں.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں آسودہ خاک ہیں.رب ادخلها في الجنة پیارے حضور نے جلسہ سالانہ 1986 ء اور 1987ء میں شمولیت کی منظوری عطا فرمائی

Page 42

35 اور سارے اخراجات مخدومی چوہدری محمد شاہنواز خان صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ (آف شاہنواز لمٹیڈ ) نے برداشت کئے ازاں بعد آپ ہی نے 1989ء کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کا انتظام فرمایا.فجزاه الله تعالى رب اجعل مثوه في الجنة الفردوس حضور اقدس نے از راہ نوازش خاکسار کے لخت جگر ڈاکٹر سلطان احمد صاحب مبشر کا 24 ستمبر 1991ء کو اسلام آبا دلندن میں خطبہ نکاح پڑھا جس میں فرمایا:- عزیزم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر کے والد مکرم محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد سلسلے میں کسی تعارف کے محتاج نہیں بہت ہی عظیم الشان خدمت کی توفیق پائی ہے اور بہت گہرا علم رکھتے ہیں تاریخ احمدیت پر خدا کے فضل سے سند بن چکے ہیں اس کے علاوہ بھی ہمیشہ بڑی انکساری کے ساتھ سلسلہ کی مختلف خدمات پر مامور ہے اور ان خدمات کا حق ادا کر دیا.ان کا بچہ سلطان احمد بھی (جیسا کہ اللہ نے چاہا) انہی کے رنگ میں رنگین ہے.(الفضل 14 دسمبر 1991 صفحہ 7) حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی ہجرت انگلستان سے تحریک احمدیت کی فتوحات کا ایک انقلاب آفریں دور شروع ہوا اور خصوصاً آپ کی برکت سے ایم ٹی اے جیسا آسمانی ادارہ عطا ہوا جس نے دنیا بھر میں آنحضرت ﷺ ، قرآن اور اسلام کی دھومیں مچادیں.حضور انور نے از راہ ذرہ نوازی ہجرت انگلستان کے بعد اس قلمی ولسانی جہاد میں ہر قدم پر مجھ نا چیز اور نالائق چاکر کو بھی شامل رکھا اس طرح احقر کو بے شمار حوالہ جات اور ضروری معلومات بذریعہ فیکس ارسال کرنے کی توفیق ملتی رہی.اس بے پناہ لطف و کرم کا شکریہ میں لفظوں میں ادا نہیں کر سکتا اور نہ میری اولادیں ہی قیامت تک ادا کر سکیں گی.15 اپریل 1994ء کے ملاقات پروگرام میں ( جو ایم ٹی اے پر نشر ہوا) حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے فرمایا:- " جب کوئی حوالہ ہمیں یہاں سے نہ ملے تو پھر حوالوں کے بادشاہ مولوی دوست محمد صاحب ہیں، ان کو فیکس بھیجتے ہیں اور وہ ضرور نکال لیتے ہیں، کہیں سے نکالیں ، ایسا خدا کے فضل سے ان کو عبور ہے مطالعہ بھی وسیع ہے اور پھر یا در ہتا ہے کہ کتاب کہاں ہے.

Page 43

36 چونکہ لائبریری میں کام کرتے ہیں اس سے ان کو سہولت ہو جاتی ہے.یہاں کام کرنے والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ کہاں کتاب ہوگی اور اس کے کس صفحے پر متعلقہ حوالہ موجود ہو گا.اللہ تعالٰی ان کو بھی جزائے خیر دے.“ اب میں ایک ایسا نا قابل فراموش واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں جو میرے روح قلب بلکہ جسم کے ذرہ ذرہ پر ہمیشہ کے لئے نقش ہے اور جس کا تصور ہی آنکھوں کو اشکبار کر دیتا ہے.واقعہ یہ ہے کہ 17 جنوری 2000ء کو جبکہ میں سائیکل پر سوار بیت مبارک ربوہ میں نماز پڑھانے کیلئے جارہا تھا ایک سائیکلسٹ کی فکر سے میری بائیں ٹانگ کا تشویشناک حد تک فریکچر ہوگیا.(روز نامہ جنگ لاہور 19 جنوری 2000ء) محترم مخدومی ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب نے فوری طور پر جسم کے متاثرہ حصہ پر کمال مہارت سے مرہم پٹی کی اور فیصلہ ہوا کہ آپریشن فیصل آباد کے مشہور آرتھو پیڈک احمدی سر جن محترم ڈاکٹر شمس الحق طیب صاحب سے کرایا جائے لیکن اگلے روز صبح کے وقت یہ دردناک اطلاع پہنچی کہ آپ بوقت شب راہ مولیٰ میں قربان ہو گئے ہیں.(الفضل 20 جنوری 2000 بسلحہ 1) بنا کردند خوش رسم بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را اب مشکل یہ آن پڑی کہ اس نازک آپریشن کے لئے فضل عمر ہسپتال میں پورٹیبیل ایکسرے مشین ہی موجود نہیں تھی.ہمارے موجودہ عالی مقام امام سید نا خلیفہ اسیح الخامس حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب نے جو اس وقت ناظر اعلیٰ و امیر مقامی تھے حکم دیا کہ یہ مشین فوراً منگوائی جائے اور یہیں آپریشن کی جائے چنانچہ سکی فی الفورقی کی گئی اور جناب صاحبزادہ مرزا بشر احمد نے ہی آپریشن کیا اسی دوران عزیزم ڈاکٹر سلطان مبشر صاحب نے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی خدمت عالیہ میں متعدد بار بذریعہ ٹیکس دعائے خاص کی درخواست کی.حضور انور نے نہ صرف دعا کی بلکہ اپنی مبارک اچکن بطور تبرک عطا فرمائی.نیز فرمایا اللہ فضل فرمائے ، بہت فکر والی بات ہے مولوی صاحب تو بہت قیمتی وجود میں اللہ تعالیٰ جلد شفائے کاملہ عطا فرمائے، نتیجہ یہ ہوا کہ بفضل اللہ

Page 44

37 تعالٰی یہ انتہائی نازک آپریشن بھی نہایت درجہ کامیاب رہا اور بہت جلد شعبہ تاریخ کے دفتر میں حاضر ہونے کے قابل ہو گیا.ایک سال بعد مجھے بندش پیشاب کا عارضہ لاحق ہو گیا جس پر حضور انور نے عزیزم ڈاکٹر سلطان احمد صاحب کو تحریر فرمایا:- آپ کے ابا محترم مولوی صاحب کی صحت کا پڑھ کر فکر پیدا ہوئی اللہ تعالٰی خاص فضل فرمائے ان کو اعجازی رنگ میں شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے میری طرف سے انہیں عیادت کا پیغام اور بہت بہت محبت بھر اسلام پہنچائیں.ڈاکٹر مبشر صاحب دوسرے ماہر ڈاکٹروں سے مل کر مکمل علاج کروائیں اور مجھے تفصیلی رپورٹ بھیجوائیں.ہو میو پیتھک علاج بھی کرائیں اللہ شفا بخشے.“ 22 فروری 1997ء کو محترم محمود مجیب اصغر صاحب امیر جماعت احمد یہ مظفر گڑھ کو ان کے ایک استفسار کے جواب میں راہ نمائی فرمائی کہ تاریخی نکات کے متعلق محترم مولوی دوست محمد صاحب سے پوچھ لیا کریں.ہم بھی ان سے ریسرچ کرواتے ہیں.“ حضور نے 1999ء تا 2001ء میں پر معارف عالمی درس قرآن دیا جو اپنی مثال آپ تھا.رمضان المبارک کے دوران حضور نے فرمایا کہ احادیث اور روایات پر کھنے کا طریق کا روہی ہے جو مولوی دوست محمد شاہد مورخ احمدیت کا ہے.مکتوب جناب عبد الرحیم خان صاحب عادل مولوی فاضل ابن عبدالله خان افغان مهاجر در ویش مرحوم ) آخری زیارت خاکسار اکتوبر 2002ء میں جرمنی ، سویڈن، ناروے اور ہالینڈ کے تبلیغی دورہ پر تھا ہر جگہ خدا کے فضل و کرم سے تقاریر اور مذاکرات کے پروگرام غیر معمولی طور پر کامیابی سے ہمکنار ہوئے جو حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی قوت قدسیہ کا اعجاز تھا.خدا تعالی جزائے عظیم بخشے جناب عبداللہ واس ہاؤ ذر صاحب نیشنل امیر جماعت احمد یہ جرمنی کو جنہوں نے بذریعہ ہوائی جہاز فرینکفورٹ سے

Page 45

38 میرے لندن جانے کا انتظام کیا اور مجھے 25 اکتوبر 2002ء کو اپنی جان سے عزیز محبوب ترین آقا اور امام عالی مقام کی آخری زیارت کا شرف حاصل ہو گیا.حضور ان دنوں شدید علالت کے باعث ذاتی ملاقاتوں میں بھی اکثر بالکل خاموش رہتے تھے.مکرم جناب مولانا منیر حمد صاحب جاوید پرائیویٹ سیکرٹری نے جرمنی میں ہی مجھے برقی پیغام دیا کہ 25 اکتوبر کی عصر بیت الفضل لندن میں پڑھیں اس وقت ہی ملاقات ہو جائے گی سوالحمد اللہ ثم الحمد اللہ حضور انور نماز عصر پڑھانے کے بعد جب واپسی کے لئے جو نہی محراب میں کھڑے ہوئے حضور کی شفقت انگیز نظر مجھ نا چیز پر پڑگئی.حضور نے افسر حفاظت میجر محمود احمد صاحب سے دریافت فرمایا مولوی دوست محمد شاہد ہیں؟ یہ دیکھتے ہی میں دیوانه وار عقبی دروازہ کے آگے خالی جگہ پر پہنچ گیا اور اپنے محبوب آقا کے دست مبارک کو بوسہ دیا اور مبارک باد دی کہ حضور کے ترجمہ قرآن مجید کا دوسرا ایڈیشن بھی چھپ گیا ہے جس پر حضور نے دروازہ سے باہر پہنچ کر بلند اور سحر آفریں آواز میں فرمایا ” خیر مبارک آہ مجھے کیا معلوم تھا کہ اپنے مقدس امام سے یہ میری آخری ملاقات ہے.ایک پر جلال پیشگوئی حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد روئے گل سیر ندیدیم که بهار آخرشد اب آخر میں خاکسار نظام خلافت سے متعلق اللہ تعالیٰ کی ایک جلالی پیشگوئی ہدیہ قارئین! کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے.حضرت مسیح موعود نے 1907ء میں یعنی اسی سال جس میں حضرت اقدس کو خواب میں وہ بادشاہ آیا......."حكم الله الرحمن لخليفة الله السلطان يوتى له الملك العظيم وتفتح على يده الخزائن و في أعينكم عجيب ترجمہ : " خدائے رحمن کا حکم ہے اسکے خلیفہ کیلئے جس کی آسمانی بادشاہت ہے.اس کو

Page 46

رسول الله بیت فرینکفورٹ (جرمنی) ستمبر 1993ء ادنی ترین غلام اپنے مقدس آقا حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے حضور

Page 47

39 ملک عظیم دیا جائے گا اور خزینے اس کیلئے کھولے جائیں گے.یہ خدا کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب.(2 - الوی طبع اول صفحه 92 روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 94) حضرت اقدس نے جلی قلم سے یہ ربانی کلام درج کر کے حاشیہ میں تحریر فرمایا:- و کسی آئندہ زمانہ کی نسبت یہ پیشگوئی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے ہاتھ میں کشفی رنگ میں کنجیاں دی گئی تھیں مگر ان کنجیوں کا ظہور حضرت عمر فاروق کے ذریعہ سے ہوا.خدا جب اپنے ہاتھ سے ایک قوم بناتا ہے تو پسند نہیں کرتا کہ ہمیشہ ان کو لوگ پاؤں کے نیچے کچلتے رہیں.آخر بعض بادشاہ ان کی جماعت میں داخل ہو جاتے ہیں اور اس طرح وہ ظالموں کے ہاتھ سے نجات پاتے ہیں جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کیلئے ہوا.“ قبل ازیں حضور نے اشتہار 5 دسمبر 1900ء میں ڈنکے کی چوٹ منادی کی پہاڑٹل جاتے ہیں، دریا خشک ہو سکتے ہیں، موسم بدل جاتے ہیں مگر خدا کا کلام نہیں بدلتا جب تک پورا نہ ہوئے.( مجموعہ اشتہارات مسیح موعود جلد 3 صفحه 380) اللهم صل علی محمد و علی خلفاء محمد و بارک وسلم ( مسیح موعود )

Page 48

عظیم الشان مهد هنا حضرت خلیفہ اصبح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 27 مئی 2008 ء کو خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی کے موقع پر دنیا بھر کے احمدی احباب کو کھڑا کر کے یہ عظیم الشان عہد لیا :- اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شریک له و اشهد ان محمد اعبده و رسوله آج خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا جہد کرتے ہیں کہ ہم (دین حق) اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فریضہ کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک ( دین حق) کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخری دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تا کہ قیامت تک خلافت احمدیہ ف چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ اور یہ کے ذریعہ ( دین حق) کی اشاعت ہوتی رہے اور حمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا تو نہیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطافها اللهم امين اللهم آمين اللهم آمين

Page 48