Language: UR
جماعت احمدیہ کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کی فہرست نہایت طویل ہے، زیر نظر کتاب میں مصنف نے جماعت احمدیہ مسلمہ کے عقائد کو بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے الفاظ میں آپ کی اپنی تحریرات سے معین حوالہ جات کے ساتھ بطور اقتباس درج کرکے پیش کیا ہے یوں اس بابت اٹھنے والے اعتراضات کا خود ہی خاتمہ ہوجانا چاہئے کیونکہ جب جماعتی موقف اور عقیدہ سامنے آگیا تو الزامات کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی ہے۔
مصائد احمدیت اعتراضات کے جوابات مولانا دوست محمد شاہد مورخ احمدیت ○ ( صرف احمدی احباب کے استفادہ کیلئے ) احمد اکیڈمی ربوہ W
وہ پیشوا ہمٹ رہا جس سے بئے اور سارا نام اُس کا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے ور خمین)
1 الفهرست مضمون وحدت امت کی بنیادی اینٹ مري بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی مردم شماری عقائد احمدیت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں اعتراضات اور تاریخ انبیاء استہزاء کی لغوی تحقیق اور اس کے چھ طریق صفحه 9 ۲۶ ۲۷ استہزاء کا پہلا طریق (سفید جھوٹ ) اور اس کے نمونے ۳۰ استہزاء کا دوسرا طریق خود ساختہ معیار اور اسکے نمونے ۳۰ استہزاء کا تیسرا طریق (سیاق و سباق سے انحراف) اور اس کے نمونے استہزاء کا چوتھا طریق ربے بنیاد اعتراضات) اور اس کے نمونے استہزاء کا پانچواں طریق ( متضاد اعتراضات اور اسکے نمونے ہوتے م 04 (1 استہزاء کا چھٹا طریق (گالیاں ) درمندانہ اپیل مقبولان درگاہ الہی اور ظاہر پرست ام ۱۰۵
O قوم کے ظلم سے تنگ آگئے میر سیارے آج شور محشر تیرے کوچہ میں مچایا ہم نے ○
کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا عظیم ملت میں رکھایا ہم نے گالیاں سن کے دو عادیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے تیرے منہ کی یہی قسم میرے پیارے احمد منہ تیری خاطر سے یہ سب بارا ٹھا یا ہم نے المین)
O ہاں ہے جو سب توروں سے اجلانکا پاک و روس سے یہ استوار کا دریا کلام ہیں.! O
بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمُ وحدت امت کی بنیادی اینٹ عقل انسانی فطرت صحیحہ اور دنیا کے مسلمہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے کسی شخص کا مذہب ہی ہو سکتا ہے جسکا اظہا وہ خود کوت ہے، قرآن مجید جو انيقة اكملت لكم دينكم کا تاج از دال کرتا لَكُمْ اپنے سر پر رکھتا ہے اور تبیانا لِكُلِّ شَيء کے وسیع اور مرضع تخت پر جلوہ ور افروز ہے، ہر بنیادی اور اہم مسئلہ کی جزئیات کی طرح اس عالمگیر اور آفاقیے اصول کو بھی پیش فرماتا ہے.چنانچہ اس نے جہاں " لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينَ" کا پر شوکت اعلان کر کے پوری دنیا کو آزادی فکر کا الہامی چارٹر عطا کیا وہاں یہ رہنما اصول قائم کر کے وحدت امت کی بنیادی اینٹ رکھی کہ " لا تَقُولُوا لِمَن الى NULANA KONGمَ لَسْتَ مُؤْمِنا له " جو تمہارے سامنے اسلام ظاہر اليكُمُ السَّلمَ کرے اُس کے مسلمان ہونے کا ہرگزہ انکار مت کرو (ترجمہ مولنا شبیراحمدعثمانی) علامه سید سلیمان صاحب ندوی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں اپنی کتاب سیرت النبی جلد ششم ۲۳ پر تحریر فرماتے ہیں کہ " مقصد یہ ہے کہ جو کوئی اپنے کو مسلمان کہیے یا وہ مسلمان ہونے کا دعوی کرے کسی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہے کہ تم مسلمان نہیں ، برصغیر کے ایک عالم دین مولانا محمد عثمان فارقلیط کا بیان ہے کہ " خلافت کے دور میں جب یہ سوال اٹھا کہ مسلمان کس کو کہنا اور سمجھنا البقرة : ت النساء : ۹۵
= = چاہیے یا ایک مسلمان کی تعریف (D ALFINATION ) کیا ہے ؟ تو یری بچیتوں کے بعد طے پایا کہ مسلمان وہ ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا اور سمجھتا ہے.اس بات پر اکثر علماء نے اتفاق کیا عال مدینة النبی کی پہلی مردم شماری بخاری شریف سے ثابت ہے کہ مدینہ النبی میں اسلام کی پہلی اور حقیقی مملکت کے اندر مسلمانوں کی مردم شماری تخالص اسی قرآنی اصول کے مطابق کی گئی تھی چنانچہ صحابی رسول حضرت حذیفہ کی روایت ہے کہ.قال النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اكتبُوا لِي مَنْ تَلَفظَ اللَّهِ " نے کا " بِالإسْلاَمِ مِنَ النَّاسِ » » نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگوں نے اسلام کا زبان سے اقرار کیا ہے ان کے نام مجھے لکھ دو.اس سلسلہ میں عہد نبوئگی کا ایک تعجب خیز واقعہ حضرت امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم کتاب الصلوۃ میں ریکارڈ کیا ہے جو سر عاشق رسول عربی کیلئے قیامت تک مشعل راہ کا کام دیگا.لکھا ہے کہ ایک لونڈی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی.آنحضور نے ایس سے پوچھا اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا آسمان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا نہیں کون ہوں ؟ اُس نے جواب دیا آپ رسولی اللہ ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 1960 10 سے سالنامہ شبستان نئی دہلی، نومبر اء حد ۱۵ سے بخاری کتاب الجہاد باب کتابت الامام الناس مصری جلد ۲ در ۱۱ مطبوعہ مصر ۱۳۵۱ھ
نے لونڈی کے مالک کو حکم دیا " اعتقهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةً ، اس کو آزاد کردو یہ تو مومنہ ہے.ا اب آئیے عقائد احمدیت معلوم کرنے کیلئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر پر اس نقطۂ نگاہ سے ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالیں کہ آپ پر کن عقائد کے الہام ہوئے ہے آپ کا مقصد بعثت کیا تھا؟ آپنے غیر مسلموں کو کیا دعوت دی؟ اور مسلمانان عالم بالخصوص اپنی جماعت کے سامنے کون دینی عقائد کا اعلان فرمایا ؟ الہامی عقائد | آپ فرماتے ہیں." مجھے بتلایا گیا ہے کہ تمام دینوں." میں سے دین اسلام ہی سچا ہے مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدایتوں میں سے صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ پر اور انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے.مجھے سمجھایا گیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلی درجہ کی پاک اور پر حکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلی نمونہ دکھلا نیو الا صرف حضرت سیدنا مولانا محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم میں ہے مقصد بقت یه مایہ تو معنی اس غرض کیلئے بھیجا گیا ہے کہتا یہ پیغام محض تعلق اللہ کو پہنچا دے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے ن مسلم كتاب الصلواة جلد سرار علم اربعین دراما
- 1 اور دار النتجات میں داخل ہونے کیلئے درواز NG GALANGAWALANDENTلله محمد رسُولُ اللہ ہے " لے " خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تا میں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اس " عالمگیر منادی حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اپنے اس مقصد بعثت کے عین مطابق روئے زمین میں یہ منادی فرمائی کہ: اسے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو اور اسے تمام وہ انسانی رو جو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہوئیں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا سبھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلالی اور تقدیس کے تخت پر بیٹھنے ولا حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ا سکے حلفیہ بیان اس سلسلہ میں آپنے مسلمانان عالم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ :./ مجھے اللہ جلشانہ کی قسم ہے کہ میں کافر نہیں لا الہ الا الله محمد رسول اللہ میرا عقیدہ ہے اور لیکن رَسُول ل حجة الاسلام حد ۱۲-۱۳ ملے اشتہار ۲۵ رمئی ۱۹۰۰ (مجموعه اشتہارات سیح موعود جلد سوم ص ۳۶ سے تریاق القلوب مٹ
اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت میرا ایمان ہے.میں اپنے اس بیان کی صحت پر استقدیر قسمیں کھاتا ہوں جسقدر خدا تعالیٰ کے پاک نام ہیں اور جسقدر قرآن کریم کے حرف ہیں اور جسقدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تعالیٰ کے نزدیک کمالات ہیں کوئی عقیدہ میرا اللہ اور رسول کے فرمودہ کے بر خلاف نہیں.......لیکن اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا خدا اور رسول پر وہ یقین ہے کہ اگر اس زمانہ کے تمام ایمانوں کو ایک پلہ میں رکھا جائے اور میرا ایمان دوسرے پلہ میں تو بفضلہ تعالیٰ یہی پلہ بھاری ہوگا، اسے احمدیت کا خلاصہ " ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدُ رسول اللہ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں، جسکے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے ، یہ ہے کہ حضرت سیدنا مولینا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و خیرالمرسلین میں جین کے ساتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جسکے ذریعہ سے انسان راہ راست اختیار کر کے خدائے تعالیٰ ن كرامات الصادقين صحاب
تک پہنچ سکتا ہے اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعبہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور نہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الهام منجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کی تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو ا ال " جون پانچ چیزوں پر اسلام کی بناء رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مارتا حکم ہے ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں اور فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح ہماری زبان پر حسبنا کتب اللہ ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو، قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں.....اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ تعدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اسکے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ ن کو عمال حق ہے ، انت جماعت احمدیہ کیسے مقدس تعلیم حضور نے اپنی جاعت کو یہ مقدس تعلیم دی کہ AM-AL ن ازاله او نام حصہ اول حد سے آیا ما الصلح ص ۸-۸۶
" ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ پیچھے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ ADNAN TALENT الله مُحَمَّد رَسُول الله اللَّهِ اور اسی پر مریں اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جنکی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں اور صوم اور صلواۃ اور زکواۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں بغرض وہ تمام امور جون پر سلف صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں، اُن سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے " مذہب اسلام کا پیارا تصور مذہب اسلام کا پیارا نام سنتے ہیں ایک عارف کے ذہن پر حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک کے انبیاء کا تصور اسبرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دل کی گہرائیوں سے درود شریف جاری ہو جاتا ہے.مکہ اور مدینہ کے مراکز اسلام آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں.اہل بیت نبوتی ، خلفاء اریغہ اور دیگر صحابہ کرام ہی کی عظمتوں کے سامنے ت ایام الصلح من
سر عقیدت سے جھک جاتا ہے اور امت مسلمہ میں گزشتہ چودہ صدیوں میں آنے والے آئمہ ، صلحاء و اولیاء اور ابدال و اقطاب کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں جنہوں نے ہر زمانہ میں قلعہ محمدی کی حفاظت کی اور ہر خطہ میں پرچم اسلام کو بلند رکھا حضرت بانی سلسلہ عالیه احمدیه مسیح موعود و مهدی موعود علیه السلام چونکه اسلام کے بیمثال عاشق تھے اس لئے آپ کے قلب مطھر میں ان سب خدا نما اور برگزیدہ ہستیوں اور مقدس مراکز اسلام سے والہانہ الفت کا سمندر موجزن تھا اس سلسلہ میں آپ کے دلی خیالات و افکار اور عقائد و نظریات کیا تھے؟ اس کا اندازہ لگانے کیلئے آپ کی بے شمار تحریرات میں سے صرف چند کا تذکرہ کافی ہوگا چند انبیاء علیهم السلام | انبیاء کی نسبت آپ کا عقیدہ ہے.سے ہر رسولے آفتاب صدق بود ہر رسولے بود مہرا نور کے لیے ہر رسول سچائی کا سورج تھا ہر رسول نہایت روشن آفتاب تھا شان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے بارے میں فرماتے ہیں :- سے آں شہ عالم که نامش مصطفی سید عشاق حق شمس الضحى آن آنکہ ہر تور سے طفیل گور اوست؛ آنکه منظور قدرا منظور اوست سے وہ تمام جہانوں کا بادشاہ جس کا نام مصطفی ہے جو خدا تعالیٰ کے عاشقوں کا ت براہین احمدیہ حصہ اولی صدا سے برا بین احمدیہ حصہ چہارم ص ۵۲۵ (حاشیه درحاشیه)
۱۵ سردارا در شمس القطعی ہے وہی ہے میں کے نور کے طفیل ہر ایک نور ہے اور جو آپکا منظور نظر ہے وہی خدا کا محبوب ہے.به این چشمه که وان که بخلق خداد هم - یک قطره ز بر کمال محمد است انے ته یہ چشمہ رواں جو میں مخلوق خدا کو دے رہا ہوں یہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بمیہ کمالات کا صرف ایک قطرہ ہے.برکات درود شریف درود شریف کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے منظر ہو گیا.اسی رات خواب میں دیکھا کہ آپ زلال کی شکل پر نور کی مشکلیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات میں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں صلی اللہ علیہ تانے وسلم ، نان مصطفی پر تیرا بیحد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ تور لیا بار خدایا ہم نے حرمین شریف حرمین شریف کے بارہ میں فرمایا :- " اسلام کا مرکز مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ ہے اپنے مگر معظم خانہ خدا کی جگہ اور مدینہ منورہ رسول اللہ کا پایہ تخت ہے " کے INQ ن اخبار ریاض ہند " امرتسر یکم مارچ ۱۸۸۶ء ۱۳۵ سے براہین احمدیہ حصہ چہارم ص ۵۰ حاشیہ در حاشیہ سے تحفہ گولڑویہ خدا کے ازالہ اوہام ص حاشیہ طبع اول صفه ات
- M " خدا تعالیٰ نے حکم دیا.....کہ عمر بھر میں ایک دفعہ تمام دنیا ایک جگہ جمع ہو لیتی مگر منظمہ میں....خدا نے آہستہ آمستند است کے اجتماع کو سچ کے موقعہ پر کمال تک پہنچایا " اہلبیت نبوتی اہل بیت نبوی کی عظمت آپ کے الفاظ میں یہ ہے.سے جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است میری جان اور ولی محمد مصطفی مد کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آل محمد کے کوچے پر قربان ہے.پھر فرمایا " فاضیہ انوار الہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیبتیں طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے ہے ائمه اثنا عشر فرمایا :- آئمہ اثنا عشر نہایت درجہ کے مقدس اور راستباز اور ان لوگوں میں سے تھے جن پر کشف صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں ہے حضرت ابوبکر صدیق رضا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارہ میں فرمایا " آپ کی روح آنحضرت کی روح سے ملی ہوئی تھی فہم قرآنی محبت رسول میں سب سے متناز اور اپنے محبوب کے رنگ میں زندگیں کے چشمہ معرفت ص ۱۳ سے براہین احمدیہ جلد ۴ ص ۵۰۳ حاشیه در حاشیه سے ازالہ اوہام ص ۴۵
ந்தர் اور رتبہ العالمین کی رضا میں غائب تھے.چونکہ سیتی حب الہی آپ کے رگ و ریشہ میں متمکن تھی اس لئے آپ صدیق کہلائے گویا آپ کتاب نبوت کا ایک اجمالی استخر تھے یہ ایک حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمود یہ ظاہر کی ہے بہت حضرت ابو بکر صدیق نے اور عمر فاروق رض کے بارہ میں ایک روح پر ور اور وجد آفریں واقعہ عرض کرتا ہوں.حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کا بیان ہے کہ ایکد فعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے پورے چھ گھنٹے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد اور کمالات اور اپنی غلامی اور کفش بر لوری اور حضرات شیخین ( ابوبکر و عمر فاروق عليها السلام ) کے فضائل میں ایک پیر جلال تقریر کی اور فرمایا " میرے لئے یہ کافی فخر ہے کہ میں ان لوگوں کا مدات اور خاکیا ہوں جو تیزئی فضیلت خدا تعالیٰ نے انہیں بخشی ہے وہ قیامت تک کوئی اور شخص نہیں پا سکتا.کب دوبارہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں پیدا ہوں اور پھر کسی کو ایسی خدمت کا موقعہ ملے جو جناب شیخین علیهما السلام کو ملائیت حضرت عمر فاروق رض حضرت عمر فاروقی کے بارہ میں فرمایا : ク وَشَابَهَهِ الْفَارُوْنَ فِي كُلِّ خِطْةٍ - وَسَاسَ البَرَايَا كَ الْمَلِيكَ المُدير في وَقْتِه اَفرَاسُ خَتَلمـ مُحَمَّدٌ - آثَرْن غُبارا فى بِلاَدِ التَنَصّ فِي وَكَشَرَ كَسْرَى عَسْكَر الدِّينَ شَوَكَةٌ فَلَمْ يُنقى مِنْهُمْ غَيْرَ صُور التصورس ترجمه والخيص سر الخلاقه صدا س ملفوظات حضرت مسیح علیہ السلام جلد اول من اسو سے متر الخلافه منت و در ثمین عربی مترجم صدا
حضرت فاروق نے بھی ہر موقع پر حضرت ابوبکر و ر مثل اور مشابہہ تھے آپ نے ایک مدیر بادشاہ کی طرح رعیت کا انتظام فرمایا.آپ ہی کے عہد میں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواروں نے نصرانیوں کے ممالک میں عبار اڑا دی اور دین کے لشکر نے کسری کی ساری شوکت و سطوت پارہ پارہ کر دی اور تصور کی صورتوں کے سوا انکا کچھ نہیں بچا حضرت عثمان مضر حضرت عثمان رض کے بارہ میں فرمایا " میرے رب نے مجھ پر ظاہر فرمایا ہے کہ ابوبکر صدیق رضہ ، عمر فاروق رض اور عثمان غایت درجہ ایماندار اور رشد اور ہدایت سے معمور تھے اور وہ ان لوگوں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے فضیلت بخشی ہے.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے شیخین (حضرت ابوبکر وعمر) اور ذوالنورین (حضرت عثمان) کو اسلام کے دروازے بنایا ہے وہ شکر خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کے ہراول دستے تھے ہم حضرت علی ع آپ حضرت علی کرم اللہ وجہ کو ستر الخلافہ میں رض حجۃ اللہ اور اسد اللہ الغالب " اور " منظر العجائب" " " قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں والحق أن الحَتَّى كَانَ مَعَ الْمُرْتَضى وَمَنْ قَاتَلَهُ في وقتِه فَبَعَى وطفى ست سچی بات میں ہے کہ حق حضرت علی المرتضی کیساتھ تھا اور وَطَغَى رہا جس نے آپ کے وقت میں آپ سے جنگ کی وہ باغی اور طافی تھا کے ترجمہ ستر الخلافہ ص109
14 صحابہ نبوی من صحابہ نبوی کے بارہ میں فرمایا :- آنحضرت کی جماعت نے اپنے رسولِ مقبول کی راہ میں ایسا اتحاد اور ایسی روحانی یگانگت پیدا کر لی تھی کہ اسلامی اخوت کی رو سے بیچ میں عضو واحد کی طرح ہو گئی تھی اور ان کے روزانہ برتاؤ اور زندگی اور ظاہر اور باطن میں انوار نبوت ایسے روح گئے تھے کہ گویا وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عکسی تصویریں ہو.تھے ، ان ائمہ اربعہ ائمہ اربعہ کی نسبت کہا :- " میری رائے میں ائمہ اربعہ ایک برکت کا نشان تھے ، ۲." به چار امام دا امام اعظم و امام مالک و امام احمد بن حنیل و امام شافعی همهم اللہ تعالیٰ.ناقل ) اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے ، نے حضرت امام ابو حنیفہ امام اعظم رضی الله عنه....اینجا قویت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و + فراست میں ائمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل و اعلیٰ تھے......ان کی فطرت کو کلام الہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے اسی وجہ سے اجتہاد و استنباط میں ان کے لئے وہ درجہ علیا مسلم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے ، کے نے فتح اسلام ص ۳۵-۳۶ سے ملفوظات حضرت مسیح موعود جلد ۲ ص ۳۲ س البدر ۱۳ نومبر ۱۹۰۵ ص ۲ کاله کے ازالہ اوہام ص ۵۳۰ - ۵۳۱ ،
حضرت سید عبد القادر جیلانی حضرت غوث اعظم یو کے بارہ میں فرمایا جس طرح نور کے مقابل پر ظلمت نہیں ٹھٹھر سکتی اسی طرح شیطان اُن کے مقابل پر بھر نہیں سکا ، اسے دیگر اولیائے امت دوسرے اولیائے امت کی نسبت فرمایا " درمیانی زمانہ کے صلحائے امت محمدیہ یہ بھی با وجود طوفان بدعات کے ایک دریائے عظیم کی طرح ہیں ، نے باوجود ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک ہر ایک صدی نہیں ایسے باخدا لوگ ہوتے رہے ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ غیر قوموں کو آسمانی نشان دکھلا کر انکو ہدایت دیتا رہا ہے جیسا کہ سید عبد القادر جیلانی اور ابوالحسن خرقانی اور ابو یزید بسطامی اور جنید بغدادی اور محی الدین ابن العربی اور ذوالنون مصری اور معین الدین چشتی اجمیری اور قطب الدین بختیار کا کی ، فرید الدین پاک پٹنی اور نظام الدین دہلوی اور شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد تر مہندی رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ اسلام میں گزرے ہیں اور ان لوگوں کا ہزار ہا تک ندوہ پہنچا ہے.....جسقدر اسلام میں اسلام کی تائید میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی گواہی میں آسمانی نشان بذریعہ اس امت کے اولیاء کے ظاہر ہوئے اور ہورہے ہیں انکی نظیر دوسرے مذاہب میں ہرگز نہیں.....زندہ مذہب وہی ہوتا ہے جس پر ہمیشہ کیلئے زندہ خدا کا به 16 ک ضرورت الامام صلا سے تحفہ گولڑویہ صدا
PI ہاتھ ہو سو وہ اسلام ہے ، نے "یکن سچ سچ کہتا ہوں کہ زمین پر وہ ایک ہی انسانِ کامل (حضرت سیدنا دستید الوری محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.ناقل ) گزرا ہے جس کی پیشگوئیاں اور دعائیں قبول ہوتا اور دوسرے خوارق ظہور میں آتا ایک ایسا امر ہے جو اب تک امت کے سچے پیروں کے ذریعہ سے دریا کی طرح موجیں مار رہا ہے.بجز اسلام وہ مذہب کہاں اور کدھر ہے جو یہ خصلت اور طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور وہ لوگ کہاں اور کس ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی برکات اور نشانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں ،،ت ہر طرف فر کو دور کے تھکایا ہے کوئی دیں دین محمد سانیا یا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے یہ تم بارغ محمد سے ہی کھایا ہم نے مقام مهدی موعود یہ حقیقت ہے کہ مہدی موعود کا مقام است ر مسلمہ میں ایک متنازہ اور منفرد مقام تسلیم کیا گیا ہے اور جیسا کہ حضرت فرید الدین عطار نے فرمایا لاکھوں اولیاء ظہور مهدی ہو گیا ہے ان ت کیلئے دست بدعا ر ہے ہیں ڑے حضرت امام ابن سیر بی کا عقیدہ تھا کہ مہدی موعود کئی انبیاء سے افضل - کام کے IM كتاب البریه ص - اربعین را صدا سه ينابيع المودة جلد ۳ صدا ۱۴ PAY حج الكرامه ۳۸۶
۲۲ حضرت عبدالرزاق قاشانی جیسے عظیم صوفی یہ مذہب رکھتے تھے کہ مہدی موعود احکام شریعت میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوگا لیکن معارف علوم اور حقیقت میں تمام انبیاء اور اولیاء سب کے سب اُن کے تابع ہوں گے کیونکہ اسکا باطن خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن ہوگا ہے ڑے مشہور امامیه بزرگ حضرت علامہ باقر مجلسی نے پیشگوئی فرمائی کہ مہدی تمام نبیوں کا بروز کامل ہوگا.ایک روایت سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مہدی میں کوئی فرق نہ ہو گا سنت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موعد آخر الزمان کو پیار وقعہ نہیں اللہ کے خطاب سے پکارا امت کو اسے سلام پہنچانے اور اسکی بہوت کرنے کا تاکیدی حکم دیا نیز ارشاد فرمایا يقضوا ثرى لا يخطی یعنی مهدی میرے قدم بقدم چلے گا اور اپنے عقائد میں ذرا بھی خطا نہیں کرے گا چنانچہ شیخ الشیون عالم ربانی حضرت علامه امام سید عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میزان میں اس حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :.امام مہدی علیہ السلام کو پورے طور پر شریعت محمدی علی صاحبها ( ترجمه شديد النقاشاني على الفصوص الحكم لاستاذ الأكبر الشيخ محي الدين ابن عربی صد ۳۵ طبع مصر ۱۳۲۱ ھ نے بحارالا نوار فارسی جلد ۱۳ صد ۱۰۰ مطبوعه تهران YA سن ناية المقصود از علامه سید علی حائری جلد ۳ منه مطبوعہ ۱۳۱۹ھ
عليكم الصلوۃ والسّلام کے مطابق حکم کرنے کا الہام کیا جائیگا یہاں تک کہ اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہوتے تو ان کے تمام جاری کردہ احکام کو تسلیم فرماتے اور انہیں کو قائم رکھتے ، بلے چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اعلان عام فرمایا کہ " میں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ گویا میں اسلام سے اپنے تئیں الگ کرتا ہوں یا اسلام کا کوئی حکم منسوخ کرتا ہوں.میری گردن اُس جوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا اور کسی کو مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا شوشہ قرآن شریف کا منسوخ کر سکے اسے احضر العلمانی اگرچہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ پر الہاما منکشف ہوا کہ آپ یہی مسیح موعود و مہدی موعود کی پیش گوئی کے مصداق ہیں مگر آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احفر الغلمان " اور ادنی چاکر " ہونے کو " ہی اپنا سب سے بڑا اعزاز سمجھتے تھے اور اسی لئے آپ نے نہایت پر شوکت الفاظ میں یہ آواز بلند فرمائی کہ : " میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو ن مواہب رحمانی ، ترجمه میزان للمشعرانی ” جلدها هذا مطبوعه گلزار بنا سٹیم پرئیس لاہور ۱۳۳۸له بن مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود جلد ۳ ص ۵۹ من
سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرتا انسان کا کام نہیں......وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اسکے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اُس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے.جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے نے سے اس تور پر فدا ہوں اس کا ہی لیکن ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں لیس فیصد یہی ہے ان چند روح پر ور تحریرات نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رقم فرمودہ ہزاروں صفحات میں سے نمونہ منتخب کی گئی ہیں عقائد احدیت پر گویا دن چڑھا دیا ہے.یہ محکم عقائد کلید کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام اور آپ کے خلفاء کے لٹریچر کی اصل روح مجھنے اور اس کے مجمل مقامات کو حل کرنے میں سمھاری مدد ملتی ہے.یہی وہ عقائد ہیں جن سے ہزاروں غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا اور انہی مقلد کی بدولت ایشیا سے امریکہ تک اور یورپ سے آسٹریلیا تک پھیلے ہوئے ایک کروڑ عشاق رسول عربی اس نتیجہ پر پہنچے کہ احمدیت تمام صحیح اسلامی نے حقیقة الوحی ص 114 ۱۱
عقائد کا گلدستہ ہے.احمدیت وحدت امت کی ایک انقلابی تحریک ہے احمدیت یقیناً حقیقی اسلام کا دوسرا نام ہے..چنانچہ قریباً دو سال قبل کی بات ہے کہ ترکی کے ایک روشی خیال فاضل حق جناب شناسی سیبر ( SINASI SIBER) نے انقرہ سے ۲۰ نومبہ ۱۹۵۷ ء کو حضرت امام جماعت احمدیہ المصلح الموعود کیخدمت میں لکھا کہ : یکی یقین رکھتا ہوں کہ احمدیت ہی وہ حقیقی اسلام ہے جو ترقی کا علمبر وار ہوتے ہوئے بیسویں صدی کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے.....یہ میری دلی خواہش ہے کہ احمدیت نے جو قابل تعریف مثال قائم کی ہے ہمیں دوسر نے مسلمانوں کو بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے دیکھوں ہاں اُسی اسلام کی جو صحیح معنوں میں اسلام کی ایک روشن اور درخشندہ صورت ہے اور موجودہ ترقی یافتہ دنیا کی ضروریات کو بخوبی پورا کر سکتی ہے ،، اے شاد ترجمه) الفصل یکم دسمبر ۱۹۵۶ ء صدا
۲۶ احمدیت پر اعتراضات اور تاریخ انبیاء ا عقائد احمدیت پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے بعداب یہ بتانا مقصود ہے کہ ایک عاشق رسول کا دل یہ دیکھر خون ہو جاتا ہے کہ تحریک احمدیت کی خوشنما تصویر کو بگاڑنے اور اسے نہایت ہی بھیانک اور مکر وہ شکل میں پیش کرنے کی منظم کوشش کی جارہی ہے اور اعتراضوں کا ایک نہ ختم ہونیوالا سلسلہ جاری ہے اور غیرمسلم دنیا جماعت احمدیہ کی اسی درد ناک مظلومیت کا نظارہ بڑے شوق اور دلچسپی سے کر رہی ہے مگر اسے کان کھول کر سن لینا چاہیئے یہ بھی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا نشان اور عظیم معجزہ ہے.کیونکہ قرآن مجید نے ۱۴۰۰ سال پہلے یہ خبر دے دی تھی کہ یاد رکھنا خدا کے ماموروں کیلئے یہ سنت چلی آئی ہے کہ ان کا استقبالی ہمیشہ استھراء سے کیا جا تاہے یہی پہلے ! ہوا اور یہی آئندہ ہوگا.انبیاء کی تاریخ ہر زمانہ میں دوہرائی جاتی ہے اور لاز کا مستقبل میں بھی دہرائی کھاتی رہے گی.یہ عجیب بات ہے کہ گورنمنٹ کا اونی چپڑاسی وصولی لگان کے واسطے آجا دے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرتا اور اگر تجرے تو گورنمنٹ کا باعنی ٹھہرتا ہے اور سزا پاتا ہے مگر خدائیے گورنمنٹ کی لوگ پرواہ نہیں کرتے خدا تعالیٰ سے آنے والے تاریب غربت کے لباس میں آتے ہیں لوگ ان کو حفارت اور تمسخر سے دیکھتے ہیں ہنسی ٹھٹھا ) کرتے ہیں " ( ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جلد (۲۹۳) 1
مامورین زبانی سے استہزا چنانچہ اللہ جل شانہ نے اپنے کلام پاک میں قریباً ۳۵ مقامات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ استم سمیت گزشتہ انبیاء سے استہزاء کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ ون نے کوئی رسول ہے ال کے پاس ایسا نہیں آیا جس کے ساتھ انہوں نے استہزاء نہ کیا ہو يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِم مِنْ رَّسُول الاَ كانوا اپه يَسْتَهزء ونا افسوس بندوں پر کبھی ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا جس کے ساتھ انہوں نے استہزاء نہ کیا ہو.وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ نَبِي إِلا كَانُوا بِهِ يَسْتَهُ و دن سے لوگوں کے پاس کوئی نبی نہیں آیا جس کے ساتھ انہوں نے استہزاء نہ کیا ہو لفظ استہزاء کی لغوی تحقیق قرآن مجید کی اعجازی فصاحت و اور اس کے چھ طریق بلاغت کا یہ نقطہ معراج ہے کہ اس نے تاریخ انبیاء پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ تمہاری فرمایا کہ خدا کے برگزیدوں پر اعتراضات ہوتے ہیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ الانہ سے استہزا کیا جاتا ہے لفظ استہران کا بالعموم اردو ترجمہ ہنسی اور مذاق کیا جاتا ہے.مگہ تیسری صدی ہجری کے شہرۂ آفاق امام لغت اور ممتاز ادیب قلاع من ابو حلالی العسکری نے الفروق التقوير صلاح میں واضح فرمایا ہے کہ الحجر : ۱۲ سے لیس ۳ - الزخرف :
استہزاء میں دوسرے شخص کی تحقیر عقیدہ مقصود ہوتی ہے نہ اور سخر اور استہزاء میں ایک باریک اور لطیف فرق ہے اہل عرب سختر کا لفظ اس شخص کیلئے بطورِ مذاق استعمال کرتے ہیں جس سے واقعی قابل اعتراض فعل بھی سرزد ہو چکا ہو مگر استہزاء کا لفظ کسی ایسے فعل کے ارتکاب کے بغیر بولا جاتا ہے.حضرت امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ استہزاء مخفی اور ظاہر ہے.دونوں رنگ میں ہوتا ہے اور عہد حاضر کی مشہور لغت " اقرب الموارد میں امرء کے معنی قتل کے بھی لکھے ہیں.اس لغوی تحقیق کے مطابق آیت كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِعُ ون میں انبیاء کے خلاف اعتراضات کا یہ جامع خلاصہ بیان کیا گیا ہے کہ ان میں نبیوں کی حقارت کا جذبہ خاص طور پر کار فرما ہوتا ہے وہ ظاہر اور باطن دونوں طرز پر ہوتے ہیں.ان کے پیچھے خدا کے پیاروں اور انکی جماعتوں کو ہلاک کر نیکی نیز خواہش موجود ہوتی ہے.اور کوئی ٹھوس اور معقول بنیاد اُن کی نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف اعتراض برائے اغراض ہوتے ہیں جن پر ہنسی ٹھٹھا اور مذاق کا رنگ نمایاں ہوتا ہے اب اگر سم قرآن مجید کی بیان فرموده تاریخ انبیاء کا عموماً اور دوسرے مذہبی عالمی لٹریچہ کا خصوصاً مطالعہ کریں تو استہزاء کے عمل چھ واضح طریق ہمارے سامنے الاستهزاء يقتضى المستهزء به و اعتقاد تحقيره.الفرق بين الاستهزاء والسخرية ان الانسان يستهزء به من غيران يسبق منه فعل يستهزء من اجله " 11
جاتے ہیں.- سفید جھوٹ بولا جائے.۲.خود ساختہ معیاروں سے صداقت کا انکار کیا جائے ۳.ماموں کی تعلیم کو سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کیا جائے.۴.حسان اور سید ہی بات کو موجب اعتراض بنا کر دکھایا جائے ہے.متضاد اعتراضات کئے جائیں 4.حق وصداقت سے کھلم کھلا مذاق رویار کھتے ہوئے اسے سب وشتم کا نشانہ بنایا جائے.ایک تعجب خیز بات استہزاء کے یہ سب طریق ہیں جن کی متعدد مثالیں کتاب اللہ میں ملتی ہیں اور یہ تعجب خیز بات ہے کہ ۱۸۸۹ ءرلینی جماعت احمدیہ کے قیام سے لیکر اب تک کے سب عتراضات کو جمع کر کے اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو وہ کانوا ہے يَسْتَهْزِرُون کی قرآنی صداقت کی مکمل دافعاتی تفسیر بن جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی کہ يُكَذِّبُ فِيهَا الصَّادِقُ : ٹیک کہ خدا کے ایک خاص اور پیچھے بندے کی تکذیب کی جائیگی اسی طرح سپین کے ممتاز صوفی حضرت محی الدین ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں مجددالف ثانی اور حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے اپنے مکتوبات میں حاجی امداد اللہ ملکی نے تمائم الدلو یہ میں نواب صدیق حسن خان قنوجی مجدد اہلحدیث کے حجم الکرامہ" میں قبل از وقت اطلاع دیدی تھی کہ مسیح موعود و مہدی مسعود کی تکفیر کی جائیگی مستدرك للحاكم جلد ۴ ص ۴۶۵ و صلاه ( مطبوعہ بیروت) هم
F.اور امامیہ فرقہ کے ممتاز بنہ رگ حضرت علامہ باقر مجلسی نے بحار الانوار جلدسی من ۲۳ میں صدیوں قبل یہ انکشاف بھی کیا کہ مہدی کے ذکر پر استہزاء کیا جائیگا چنانچہ فرمایا " يستهزء بذكره" ابتدا به ناچیز منہایت درجہ ادب کے ساتھ اس تلخ حقیقت کی تفصیل یہ کی طرف آتا ہے.استہزاء کا پہلا طریق استہزاء کا پہلا طریق یہ ہے کہ سوفیصدی کا جھوٹ بولا جائے.یہ ہتھیار تحریک احمدیت کیخلاف جس طرح بے دریغ استعمال کیا گیا ہے اس کی نظیر زمانہ انبیاء کے سوا کہیں نہیں مل سکتی اس سلسلہ میں چند نمونے پیش کرتا ہوں جو زیادہ تر برصغیر پاک و ہند اور مشرق وسطی میں شائع شدہ اردو عربی اور انگریزی لٹریچر ٹر پر سے اخذ کئے گئے ہیں.ان نمونوں سے معلوم ہوگا کہ احدیث کو قادیئے اور مرزائیت کا نام دیکر کیسے کیسے فرضی، جعلی اور خیالی عقائد و نظریات وضع کئے گئے ہیں پہلا نمونہ - " اخبار آزاد " لاہور ۲۶ دسمبر ۱۹۵۰ ء نے لکھا کہ : " مرزا غلام احمد قادیانی نے قرآن و حدیث کو منسوخ قرار دیدیا " مرزائیوں کے قرآن کا نام تذکرہ ہے اور انکی حدیث کا میرت مہدی ہے " دوسرا نمونه - کتاب " مرزائیت اور اسلام صاہ میں ہے." مرزائی یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کا الگ اور مستقل دین ہے اور انکی شریعت شریعت مستقلہ ہے " (مؤلفہ مولانا احسان الہی ظہر ملعب این یونیت
اسم 146 تیسرا نمونہ - "سیرت ثنائی " میں صل" پر " "قادیانی تعلیم " کا خلاصہ یہ دیا گیا ہے " جناب نبی کریم علیہ السلام کو روحانی معراج ہوئی لیکن مرزائے قادیانی اس جسم عنصری کیسا تھے عرش عظیم پر گیا " توحید کا مسئلہ غلط ہے سورة اخلاص عبت نا قابل قبول اور بے بنیاد ہے اے جو تھا نمونہ - مکہ معظمہ کے انگریزی رسالہ " دی جنرل آف مسلم ورلڈ لیگ نے ستمبر راء کی اشاعت کے حاشیہ ص پر لکھا "MIRZA GHULAM AHMED SAID OF GOD I AM THE FATHER مرزا غلام احمد نے کہا کہ میں خدا کا بھی باپ ہوں اس کے بعد حقیقۃ الوحی" جن کا بریکٹ نہیں حوالہ دیا گیا ہے حالانکہ نہ صرف دیا حقیقۃ الوحی بلکہ حضرت اقدس کی کسی کتاب میں بھی یہ فقرہ موجو د نہاں.فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ ذَا حُونَ.پانچواں نمونہ.قادیانی کافر کیوں " اس نام کی یہ تانہ و کتابیں " کے صدا اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف یہ عبارت منسوب کی گئی ہے " میرے وقت کی فتح آنحضرت کے وقت کی فتح سے اعظم اور اکبر اور اظہر ہے اسیرۃ الابدال ص ۱۹ آپکو یہ معلوم کر کے حیرت ہوگی کہ کہ سیرة الابدال کوئی ضخیم کتاب نہیں بلکہ 14 صفحے کا عربی رسالہ ہے اور اس میں 19h نه مؤلف عبد الحمید صاحب خادم سوید روی ناشر دفتر المہدیت مسود ده سوہدروی اپریل ۱۹۵۲ء
کبھی اس عبارت کا نام و نشان تک نہیں ملتا.یہ کا کا ✔ چھٹا نمو نمونہ.ملتان سے چھینے والی ایک نئی کتاب " دور جدید کے منٹو عالمگر فتنے کے صلے میں یہ بالکل خلاف واقعہ بات لکھی گئی ہے کہ احمدیوں نے مکہ کا لفظ حذف کر کے قادیان قرآن کریم میں درج کر دیا ہے لارے ساتواں نمونہ - عراق سے شائع ہونے والی کتاب" القادیانیه والاستعمار الانكليز لینے کے صفحہ ۱۷۰ ۱۷۹ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ افترا کیا گیا ہے کہ آپنے معاذ اللہ کعبہ کی بجائے قادیان کو پدید حمد کا مقام بنایا ہے اور یہ کہ احمدی معاذ اللہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر قادیان کو فضیلت دیتے ہیں.یہ ناپاک الزام برطانوی ہند میں جب پہلی بار پھیلا گیا تو حضرت مصلح موعود نے ۳۰ اگست ۱۹۳۵ء کے خطبہ جمیعہ میں اس کی زیر دست تردید کی اور بتایا کہ مکہ اور مدینہ یقیناً قادیانی سے افضل ہیں نیز یه پر شوکت اعلان فرمایا " ہم ان مقامات کو مقدس ترین مقامات " سمجھتے ہیں.ہم ان مقامات کو خدا تعالیٰ کے ظہور کی جگہ سمجھتے ہیں اور ہم اپنی عزیز ترین چیزوں کو انکی حفاظت کیلئے قربان کرنا سعادت دارین سمجھتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جو شخص ترچھی نگاہ سے مکہ کی طرف ایک دفعہ بھی دیکھیگا خدا اس شخص کو اندھا کر دیگا اور اگر خدا تعالیٰ نے کبھی یہ کام انسانوں ا مؤلفہ جناب منشی عبد الرحمان خان صاحب سے مواقعہ عبداللہ سلوم السامرائی امور" منشورات وزارة شفاقه والا علام الجمهورية العراقية"
سے لیا تو جو ہا تھ اس بد میں آنکھ کو پھوڑنے کیلئے آگے بڑھیں گے ان میں ہمارا ہاتھ خدا تعالٰی کے فضل سے سب سے آگے ہوگا ہے اسلامیه نیز فرمایا مگر وہ مقدس مقام ہے جس میں وہ گھر ہے جسے خدا نے اپنا گھر قرار دیا اور مدینہ وہ بابرکت مقام ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری گھر بنا جس کی گلیوں میں آپ چلے پھرے اور جس کی مسجد میں اس مقدس نبی نے جو نسب نبیوں سے کامل نبی تھا اور سب نبیوں سے زیادہ خدا کا محبوب تھا نمازیں پڑھیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں بیت اللہ کو خدا تعالیٰ نے حج کیلئے چنا حبس کے سوا اب دنیا میں قیامت تک اور کوئی حج کی جگہ نہیں ہے آٹھواں نمونہ - بندر روڈ کراچی سے شائع شدہ کتاب" پاکٹ پاک ہے ، صفحہجہ میں لکھا ہے کہ " احمدی ربوہ کو کعبہ کا درجہ دیتے اور اسکا حج بھی کرتے ہیں ، علاوہ ازیں عزت مآب سماعتہ الشیخ ڈاکٹر عبد الله التزاید وائس چانسلہ مدینہ یونیورسٹی کی خدمت میں پچھلے سالوں میں یہ اطلاع دی گئی کہ " است مرزائیہ کے کفر و ارتداد کا عالمی مرکز ربوہ....ان کے نزدیک مکہ اور مدینہ سے زیادہ مقدس شہر ہے ، فَإِنَّا لِلّهِ ت الفضل ۳ ستمبر ۱۹۳۵ء صث له الفضل ۳ ستمبر ۱۹۳۵ ء حت کے سپاسنامه مطبوعہ ڈیلی بزنس پریس فیصل آباد منجانب خادم ختم نبوت منظور احمد مؤلف جناب محمد سلم بن بركت الله ن کیے گئے
وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اس مرحلہ یہ بانی ربوہ حضرت مصلح موعود کے چند علیہ اشعار زبان و قلم پر آگئے ہیں جن سے اس ادعا کی خود بخود تردید ہو جاتی ہے فرمایات ربوہ رہے کعبہ کی بڑائی کا دعا گو کیس کو نہیں رہیں ربوں کی دعائیں راجہ دے ہم کو یہ توفیق کہ ہم جان لڑا کر اسلام کے سر میہ سے کریں دور بلائیں نے نواں نمونہ.کراچی سے ارشاد خلیفہ اول صدیق اکبر رضا کے زیر عنوان مندرجہ ذیل عبارت چھپوا کہ ملک بھر میں پھیلائی گئی کہ ہ جھوٹے نبیوں سے خبر دار رہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے لباس میں آتے ہیں مگر باطن میں بھیڑیے ہیں ان کے اعمال سے تم انہیں پہچان لو گے کیا وہ جھاڑیوں سے انگور اور اونٹ کٹاروں سے انجیر حاصل کر سکتے ہیں " حق یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایسا کوئی قربان مبارک اسلامی لٹریچر میں موجود نہیں در اصل یہ متی بابے کی عبارت ہے جسکی آڑ میں اسلام کے دشمن صدیوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارفع ترین مقام نبوت پر حملہ کرتے رہے.یہی وہ عبارت ہے جس کو حضرت امیرالمومنین خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رض کا ارشاد مبارک ظاہر کر کے مشتہر کیا گیا جس کا مقصد احمدیت سے استہزاء اور کراچی سے شائع شدہ کتاب " فتولی رشیدیہ" ك الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۵۰ء ص ملے ناشد مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی بڑے
کے اس فتولی پر عمل کرنے کے سوا کچھ نہیں تھا کہ :- احیائے حق کے واسطے کذب درست ہے مگر تا امکان تعریض سے کام لیوے اگر نا چار ہو تو کذب صریح بولے مانے یہ فتوی بر صغیر کی ایک ایسی عالم دین شخصیت کا ہے جس کے بہت سے القاب میں چند ایک یہ ہیں.قطب عالم ، خاتم الاولياء والمحدثين ، فخر الفقبل والثا في حضرت عالی مادیئے تح جہاں ، مخدوم الکل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بار فرمایا :- " اس جماعت معاندین کے ہونے سے ہمارا ہر سوں کا کام د نور میں ہو رہا ہے.لوگ آگے ہی منتظر ہیں وقت خود شہادت دے رہا ہے در انکی آنکھیں اسطرق لگی ہوئی ہیں کہ آنیوالا آوے جب یہ معاندین ، آب متری کے رنگ میں نہیں پیش کرتے ہیں تو تحقیق کرتے کرتے خود حق پالیتے ہیں" استہراء کا دوسرا طریق مقبولایی در نگاہ الہی سے استہزاء کا دوسرا طریق یہ رہا ہے کہ ان پیر خود ساختہ معیاروں کے ذریعہ تنقید کی جاتی ہے.یہ برکت و سعادت جو ہمیشہ فتاوی رشیدیه هند از مولانا رشید احمد صاحب گنگوسی ناشر موادی ۴۶ محمد سعید اینڈ سنز تاجران کتب قرآن محل متقابل مولوی مسافر خانہ کراچی.بڑے کتاب ترتیے از مولانا محمود الحسن دیوبندی سرورق) مکتبہ قاسمیہ معارف پولیس لاہور سے ملفوظات حضرت مسیح موعود و جلد ۲ ص ۳۱۹
باسم اہل اللہ اور مقدسین کے حصہ میں آتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی حاصل ہوئی چنا نچہ احمدیت کے خلاف بہت سے اعتراضات کی بنیاد مفروضات پر ہی رکھی جاتی ہے جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں مثلاً ۱ - نبی کسی کات گرد نہیں ہوتا نبی کسی غیر اسلامی حکمت کے قوانین کی سیاسی اطاعت نہیں کرتا نہ اسکی مذہبی آزادی کی تعریف کر سکتا ہے.- پر نبی نئی شریعت لیکر آتا ہے اور اس کے آتے ہی امت بھی بدل جاتی ہے ۴ - نبی کا نام مرکب نہیں ہو سکتا.نبی کو صرف اس کی اپنی زبان میں الہام ہو سکتا ہے.-4 نہبی شعر نہیں کہتا.- -A.نبی اجتہادی غلطی سے منزہ ہوتا ہے اس کی ہر پیشینگوئی اس کے اجتہاد کیمطابق پوری ہوتی ہے اور خواہ ہزار استغفار کیا جائے ہرگزہ نہیں مل سکتی..نبی کا درتہ نہیں ہوتا..نبی جہاں فوت ہوتا ہے وہیں دفن کیا جاتا ہے.اب میں قرآن مجید اور دوسرے اسلامی لٹریچہ کی روشنی میں الا معیاروں کا مختصر اور ترتیب وار تجزیہ کرتا ہوں ا.قرآن سے ثابت ہے کہ " النبی الامی کا تاج صرف ہمارے آقاد مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا اور یہ حضور ہی کا معجزہ ہے
نہ با وجود ان پڑھ ہونے کے آپ کے مبارک ہونٹوں پر کوثر و تسنیم کے چشمے جاری ہوئے اس کے برعکس سورۃ کہف کے میں حضرت موسی علیہ السلام کے شاگر دینے اور بخاری میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قبیلہ بنو جرہ ہم سے عربی سیکھنے کا واضح ذکر ملتا ہے مشرق وسطی کے مشہور مؤرخ محمود عقاد نے حیات مسیح صیدہ پر لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے اساتذہ فریسی تھے اور کویت کے محقق السید نور الدین قمر نے " قصہ اور لیس صدا میں اور مصری عالم عبد الوہاب تجارت قصص الانبیاء ، ص ۲۵ میں حضرت اور لیس کے یونانی استاد کا نام تک بتلا دیا ہے یعنی " القوناز یمون " سلام -۲- فرعون مصر کا قانون اس درجہ ظالمانہ اور آمرانہ تھا کہ حضرت یوسف جیسے اولوالعزم پیغمبر اپنے سگے بھائی بن یامین کو بھی اپنے پاس نہ رکھ سکتے تھے.بایں ہمہ آپ نے قانون وقت کا احترام فرمایا جس پر سورۃ یوسف شاہد عادل ہے.اسی طرح حضرت عیسی رومی حکومت کے ماتحت رہے اور کی بھی اس غیر ملکی حکومت سے ٹکر نہ کی بلکہ ٹیکس دینے کے سوال پر فرمایا " جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو تعداد کا ہے خدا کو ادا کروانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک اسوہ یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے سفر طائف سے واپسی پر مکہ کے ایک کا فریمیں مطعم بن عدی کی پناہ طلب کی اور سکتے کے قبائلی قانون کی پابندی کرتے ہوئے اس کا فر کی اجازت سے مکہ میں قدم رکھا اور اس مقدس شہر کی دوبارہ شہریت اختیار کی ہے ! ا لوقا باب ۲۰ آیت ۲۵ سے سیرت النبی ( علامہ شبلی نعمانی، جلد ص ۲۵۶
پھر یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شرم میں اپنے صحابہ کو حبشہ کی عیسائی حکومت کی طرف ہجرت کرنے کی خود ہدایت فرمائی اور حبشہ کی سرزمین کی ارض صدق ہے ، اور اس کے عیسائی بادشاہ کو ملک صالح ہونے کے نام سے یاد فرمایا.اب اگر ان چند تحریروں کو جو حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے انگریزی حکومت کی مذہبی آزادی کے بارہ میں لکھی ہیں دس کروڑ سے بھی ضرب دید کی جائے تب بھی حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک فقرہ ان سب پر بھاری ہوگا کیونکہ وہ ایک خادم کی رائے اور یہ تمام تمہیوں اور رسولوں کے شہنشاہ کا فرمان مبارک ہے ۳.یہ مسلمات میں سے ہے کہ آسانی کتابیں صرف بیجانہ نازل ہوئیں مگر انبیاء ایک لاکھ چوبیس ہزار آئے ثابت ہوا کہ سوائے چار کے باقی جملہ انبیاء پہلی شریعت کی تعلیمات کو پھیلانے کیلئے مبعوث ہوئے تھے اس حیثیت سے اس نظریہ پر بھی مضرب کاری لگتی ہے کہ ہر نبی کی آمیا سے امت بھی بدل جاتی ہے.قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نور سے اے این پیشام با تفسیر معالم التنريل من پاره شیعہ مجتہاد شمس العلماء علامہ سید علی الحائری کے مرغطہ تنقید میں برطانوی حکومت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا یہ ہم کو ایسی سلطنت کے زیر سایہ ہونے کا فخر حاصل ہے جسکی عدالت اور انصاف پسندی کی مثالی اور نظیر دنیا کی کسی اور سلطنت میں نہیں مل سکتی...اس میں بھی حضور پیغمبر اسلام علیہ آلہ السلام کی اس مسلمانوں کو لازم ہے کہ آپ نے بھی تو تو یہ روال عادلی کے عہد سلطنت میں ہونے کا ذکر ملت اور فخر کے رنگ میں بیان کیا ہے
وسم عدة نی امت میں شمار کیا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل ۴ حضرت اسحق ، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہ السلام یہ سب ایک ہیں است کے فرد تھے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں ہزاروں نبی پیدا ہوئے مگر ان کے پاس کوئی نئی کتاب نہ تھی وہ سب تورات ہی کو قائم کرنیکی خاطر جھے گئے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوَانَةَ فِيهَا بھیجے.لَمُ بِهَا النبيُّونَ الَّذِيْنَ أَسْلَمُوا (المائده : (۴۵) هدى وتور ہم نے تورات نازل کی اسمیں ہدایت اور نور تھا اور جو انبیاء تو رات کے تالے اور اس کے ماننے والے تھے وہ سب اس سے فیصلے کرتے تھے.سم المسيح عیسی ابن مریم اور ذوالکفل " دو نبیوں کے نام ہیں.دونوں مرکب ہیں اور دونوں ہی قرآن مجید میں موجود ہیں.امام الائمہ حضرت علامہ قسطلانی نے " مواہب اللدنیہ ، جلد اول ص ۱-۱۰۰ میں آنحضرت صلی اللہ " علیہ وسلم کے 14 مرکب نام لکھے ہیں جو یہ ہیں.عبدالکریم - عبد الجبار عید حمید عبد المجيد - عبد الوہاب - عبد القهار - عبد الرحيم - عبد الخالق - عبد القادر عبد المهيمن - عبد القدوس.عبد الغيات - عبد الرزاق ، عبد السلام.والمومن - عبد الغفار محمد و اسلام علامہ جلال الدین سید عبيدات ( میں تحریر فرمایا ہے کہ حضرت نوح کا اصل نام عبد الغفار تھا ترجمہ جلد خدا (۴۴) اور مہاری موعود کے ذوالاسمان یعنی مرکب نام ہوتے کی پیشگوئی تو صدیوں قبل حضرت علامہ باقر مجلسی کی عربی کتاب بحار الانوار جلد سراحه مطبوعہ تہران میں درج ہے
-۵- قرآن مجید میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَمَلَارُ سَلْنَا مِنْ رَسُولٍ الابلسان قومه و ابراهیم ۵) جس کا مدارک التنزیل اور روح المعانی جیسی مشہور عالم تفسیروں کی رو سے مفہوم صرف یہ ہے کہ نبی جس قوم میں مبعوث ہوتے اسکی زبان بھی بولا کرتے تھے نہ یہ کہ الہام بھی انہیں لانگا انکی قومی زبان میں ہوتا تھا.چنانچہ حدیث نبوی میں ہے کہ تعدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دس ہزار زبانوں کی قوت سے بھرا ہوا کلایم فرمایا اور حضرت کعب اور حضرت عجلان جیسے اکابر امت کا قول ہے کہ خدا تعو حضرت موسیٰ سے ہر زبان میں ہم کلام ہوا (در منثور للسیوطی جلد (1) سویں صدی ہجری کے امام و مجدد حضرت علامہ علی اتغاری نے "موضوعات کبیر میں تسلیم کیا ہے کہ ان کے ہم عصر مشائخ عند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فارسی الہامات بیان کرتے ہیں جن میں سے بعض محمدت زمان حضرت علامہ عبد العزیة الفہاروی کی کتاب "کوثر النبی باب الفاء اور حضرت شمس الدین سیالوی ” کے ملفوظات " مرة العاشقین کے صدہ ۲۷ پر درج ہیں علاوہ بریں حدیث نبوی ہے " ان الله ملائكة في الارض تنطق عَلى السِنَةِ بنى ادم ( الديلى عن انس الدر المنتشرة للسیوطی صدام، زمین میں خدا کے ایسے فرشتے ہیں جو انسانوں کی 22 زبان میں کلام کرتے ہیں.- قرآن کریم کی مشہور لغت مفردات راغب سے پتہ چلتا ہے کہ شعر جھوٹ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے.آنحضرت کی ذاتِ اقدس سے اسکی
الم فی صورت شعراء میں کی گئی ہے ورنہ بخاری میں جو مسلمہ طور پر اصح الکتاب بعد کتاب اللہ ہے آنحضرت کے یہ اشعار موجود ہیں.انا النّبيِّ لا كَذِبُ - انا ابن عبدالمطلب هل انت الا صبح دميت و في سبيل الله ما لقيت.اجتہادی غلطی نبوت کے منافی نہیں.حضرت نوح کو یقین تھا کہ ان کا بیٹا طوفان میں محفوظ رہے گا مگر وہ ان کے سامنے ہی عرق ہو گیا د قرآن مجید) حضرت یونس یہ اللہ کی دی ہوئی کہ فلاں دن تمہاری قوم پر عذاب آنیوالا ہے سکے قوم نے گریہ وزاری کی تو عذاب ٹل گیا.حضرت میں نہ کو ایک شخص کی نسبت جبریل امین نے خبر دی کہ ظہر تک وہ مرجائیگا لیکن قبل اس کے کہ مقررہ وقت آتا اس نے تین روٹیاں صدقہ دید میں اور موت سے بچے گیا ( مسند احمد بن حنبل جلد ۲ ص۴۶) آنحضرت کو عالم خواب میں ہجرت گاہ دکھائی گئی آپ کا خیال یمامہ کی طرف گیا مگر واقعات نے ثابت کر دیا کہ اس سے مراد مدینہ تھا.بعض قرآنی آیات ہمیں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ انبیاء کی بعض پیش گوئیاں کلینہ منسوخ بھی کر دی جاتی ہیں اور تقدیر مبرم تک مل بھی جاتی ہے مَا نَفْسَحُ مِنْ آيَةٍ أَوْ نَفْسِهَا نَا بِخَيْرِ مِنْهَا أو ن بخاری کتاب المغازی باب قول الله و یوم حنين النخم جلد ۳ حد ۴۴ مصری سے بخارى كتاب الجهاد واليسر باب من ينكب في سبيل الله جلد ۲ صداه مصرى سے فتح البیان جلد ه ص از نواب صدیق حسن قنوجی ابن جریر جلد 1 صدا
مثلها (البقره : ۱۰۷) وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى اَمرِهِ وَلَكِن اكثر النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ( يوسف : ۲۲) سكتة...، بلا شبہ حدیث میں ہے.انا معشر الأنبياء لانرث ولا نورث کہ ہم انبیاء کا گروہ ہیں جو نہ وارث ہوتا ہے نہ وارث کیا جاتا ہے.مگر بخاری شریف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ام المومنين سيدة النساء حضرت عائشہ رض کی یہ تشریح درج ہے " يريد بذالك نفسه دبخاری کتاب المغازی باب حدیث بنی نضیر جلد ۳ طلا ۲ مطبوعہ مصر ) کہ اس سے مراد صرف آنحضرت کا وجود مبارک ہے یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں اسکی تصدیق قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتی ہے " ورث سلیمان داؤد ، که حضرت سلیمان حضرت داؤد کے وارث ہوئے ظاہر ہے کہ نبوت ور نہ میں نہیں ملتی لہذا اس جگہ قطعی طور پر وسیع بادشاہت کی وراثت ہی مراد لی جات - آنحضرت سے وصال مبارک پر یہ سوال پیدا ہوا کہ حضور کو دفن ؟ کہاں کیا جائے ؟ بعض صحابہ نے مکہ میں.بعض نے مسجد نبوی میں اور بعض نے جنت البقیع میں تدفین کا منشورہ دیا مگر دوسروں کی رائے تھی کہ حضور کو بیت المقدس میں دفن کیا جائے اس پر حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ میں نے آنحضرت کی زبان سے سنا ہے " ما من نبي يقيض الأدفن تخت مضجعه الذي مات فیہ ہے جو نبی بھی فوت ہوا اسے اپنے ہا اسی بستر کے نیچے دفن کیا گیا جس میں میں نے وفات پائی سختی ان الفاظ میں تمھیں در تہ والی حدیث کی طرح آنحضرت کا اپنی طرف اشارہ مقصود تھا.! - ان مسند احمد یا مبلمان و مرا وقن مطبع
جسکی صحی پڑ نے لفظا لفظا تعمیل کی چنانچہ حضور کی نعش مبارک ذرا اٹھائی گئی اور سب الٹ کر حجرہ عائشہ میں اسی مقام پر قبر مبارک کھو دی گئی اور وہ بستر جس میں حضور نے وفات پائی تھتی قیر میں ہی بچھا دیا گیا تدفین کی یہ صورت سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مستند تاریخ سے کسی نبی کی نسبت ثابت نہیں کی جاسکتی.اس کے برعکس حضرت اسحاق علیہ السلام نے میٹر تنبیہ میں انتقال کیا لیکن دفن خبروں میں کئے گئے نئے حضرت یعقوب علیہ السلام نے مصر میں داعی اجل کو لبیت کہا اور بیت المقدس سے ۲۰ میل دور خبروں میں سپرد خاک کئے گئے ہیں حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی مصر میں وفات پائی مگر مزار فلسطین میں ہے کے حضرت عزیر سائرہ آباد میں فوت ہوئے اور قبر و مشتق میں بنی ائت.میں نے بیشمار خود ساختہ اور وضعی معیاروں میں سے بطور نمونہ صرف و معیاروں کا ذکر کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اصلی حقیقت واضح کر دی ہے جس سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں ہے کہ یہ سب معیار فرضی ہیں جو بیت عنکبوت سے زیادہ چنداں کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور گو آج انہیں سے ہر ایک کو عین اسلام اور احمدیت کے خلاف ایک فولادی پتھر سمیا جاتا ہے ات سیرت النبی حید دادم ها ۲۳ - ۲۳۳ از علامیش بلی مرحوم سے معجم القرآن ص ۳۶۰۷۳ اسٹر غلام جیلانی برق) سے الیمامہ کے مستدرک حاکم جلد ۲ ص ۲۰۰۸ مسند احمد بن قتیل (مستند دماتیه کمتر اعمال میدم صدا سے قصص القرآن جلد واحد ۳۳ از مولانا حبیب الرحمان سهاروی خليد F معی انقرآن ۳ از ڈاکٹر غلام جیلانی برقی سے مخصص القرآن جلده من الله اسلام لها
م تم مگر خدا کے فضل سے وہ دن دور نہیں جبکہ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی للہ علیہ وسلم کے مبارک وجود سے دلی عقیدت رکھنے والے اور اسلام کے پیچھے شیدائی بیرونی دباؤ سے آزاد ہوکر علمی اور غیر اسلامی تخیلات کی زنجیریں کاٹ ڈالنے میں انشاء اللہ کامیاب ہو جائیں گے.اُسوقت ایسے تمام مصنوعی اصولوں اور خانہ ساز معیاروں سے بنی ہوئی پوری عمارت خود بخود پاش پاش ہو جائیگی اور خدا کی قسم اسکی اینٹیں بھی نہیں ملیں گی اور ان اینٹوں کی مٹھی تھی نہیں ملیگی.ت خدا خود جبر و استبداد کو برباد کر دیگا وہ ہر شو احمدی ہی احمدی آباد کر دیگا صداقت میرے آقا کی زمانے پر عیاں ہوگی جہاں میں احمدیت کا میاب و کامران ہو گئی استہزاء کا تیسرا طریق قدیم زبانی سنت کیمطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کو ان کے سیاق و سباق سے الگ اور نا تمام شکل میں پیش کر کے بھی استہزاء کیا گیا.اس حقیقت کے ثبوت میں صرف تین مثالیں کافی ہونگی.پہلی مثال.یہ مثال ایک ایسا شرمناک افتراء ہے جس کا تصور کرتے ہی ہمارے دل ودماغ پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے کیونکہ اس اعتراض کی آڑ میں شہ لولاک سرکار دو عالم نور دو عالم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی الله
۴۵ علیہ وسلم کی سخت تو میں وہ تنقیص کی جاتی ہے اور سید الرسل کی ذات والاه نت ہی ایک منتقد نیس ترین ذات ہے جس کیلئے فدائیت اور غیرت کا جذبہ حصہ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں بدرجہ اتم موجود تھا چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں : " خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کردیئے جائیں اور خود میرے اپنے ہا تھ اور پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور میری آنکھ کی نیلی نکال پھینکی جائے اور میں تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل اور پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں لے اس بینیتال عاشق رسول کی نسبت اخبار آزاد ۲۶ دسمبر ۱۹۵۰ء ص ۲۲ نے لکھا " مرزا صاحب خطبہ الہامیہ میں لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو پہلی رات کے چاند تھے اور میں چودہویں رات کا چاند ہوں" اَسْتَغْفِرُ اللهِ وَمَعَاذَ الله ) ان الفاظ میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا نام لیکر جو گستاخی کی گئی ہے اس سے ہر احد می کا جگر پارہ پارہ ہو جاتا ہے.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے خطبہ الہامیہ میں آنحضرت کے عدیم المثال مقام کا جو تخیل پیش کیا ہے پہلے اسے بیان کرتا ہوں اس کے کیا که ترجمه عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام صدا
امن سلام بعد خطبہ الہامیہ کی عبادت کا عربی اور اردو ملین عرش کروں گا تا آپ کو معلوم ہو کہ کہاں تک دیانتداری سے کام لیا گیا ہے." صَلُّوا عَلَى نَبتِكُمُ المصطفى وَهُوَ الوَصْلَةُ بَيْنَ اللهِ وخَلْقِهِ وَقَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى ر خطبہ الہامیہ طبع اول ص خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو کہ وہ خدا اور مخلوق میں وسیلہ ہیں اور ان دونوں قوس الوہیت اور عبودیت میں آپکا وجود واقع ہے" اس حقیقت کو نمایاں کرنے کے بعد اسلام کے شاندار مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں : کان الاسلام بدء كالهلال وكانَ قُدِّرَانّه سيكون بدرا في اخر الزمان والمال، رخطبه الباميه ص ۱۸۴) یعنی اسلام ہلال کی طرح شروع ہوا اور مقدر تھا کہ انجام کار آخری زمانہ میں بدر ہو جائے.کیا دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک کوئی ایک بھی ایسا شخص ہے جس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و کیلئے شمہ پھر محبت و غیرت ہو اور وہ اس عبارت سے یہ نتیجہ نکال سکے کہ نعوذ با اللہ حضرت.یانی سلسلہ نے آنحضرت کو پہلی رات کا چاند اور اپنے تئیں چودہویں رات کا چاند قرار دیا ہے ؟؟ بعض حلقوں میں کسی احمدی شاعر کے چند اشعار کو پڑھ کو آنحضرت کی تنقیص نشان کی جاتی ہے.حالانکہ اس شاعر کو دنیا کا کوئی احمدی سند نہیں سمجھنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ملک کے دانشوروں اور مذہبی راہنماؤں پر واضح کر دیا تھا کہ حضرت مصلح موعودرضہ اور جماعت احمدیہ نے ان اشعار سے اس درجہ نفرت و بریت کا اظہار کیا کہ
ان صاحب کو زندگی بھر اپنے کلام میں انکو دوبارہ شامل کرنے کی جرات نہ ہوسکی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے احمدیوں کو آنحضرت کی ذات اقدس سے ایسی بیمثال عقیدت اور فدائیت پیدا ہو چکی ہے کہ اگر ناموس مصطفیٰ ص کا سوال پیدا ہو تو وہ اپنی جانوں کو بھی بلاتا قتل خاتم الانبیاء محمد مصطفی مصلی اللہ علیہ وسلم یہ قربان کر دیں گے تے کو دوڑ جاں ہو تو کرد دل قدا محمد پیر کہ اس سے لطف و عنایات کا شمار نہیں.دوسری مثال - حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام ص ۵۶۲ پر ایک خواب بیان فرمائی کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں اور یقین کیا کہ میں وہی ہوں اس خواب کی بناء پر آپ کی طرف دعوی خدائی منسوب کر دیا گیا حالانکہ خواب ہمیشہ تعبیر طلب ہوتی ہے اور تعبیر الرویا کی مشہور کتاب تعطیر الانام خدا میں صاف لکھا ہے کہ خواب میں اپنے تئیں خدا ہو نیکی تغییر یہ ہے کہ وہ صراط مستقیم تک پہنچے گا.خود حضرت اقدس نے آگئے آئینہ کمالات اسلام کے مت۵۲ میں خود ہی تعبیر بیان فرما دی کہ اسمیں اشارہ ہے کہ آسمانی اور زمینی تائیدات مجھے حاصل ہونگی.اس کے بعد مزید وضاحت فرمائی کہ میں اس خواب کے یہ معنی ہرگز نہیں لیتا کہ گویا میں خدا ہوں اور نہ حلولیوں کی طرح کہتا ہوں کہ خدا مجھ میں حلول کر آیا بلکہ یہ خواب بخاری کی قرب نوافل والی حدیث قدسی کیمطابق ہے ،انت رای مطبوعہ بیروت ۱۲۸۴ھ (افسوس بعد کے ایڈیشن میں اس عبارت میں تحریف کر دی گئی) ل كتاب الرقاق باب التواضع (جلدهم صثه (مطبوعه مصر)
جسس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نفل پڑھنے والا بندہ میرے قرب میں ترقی کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے کان مین جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے.آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے.علاوہ ازیں ولی کامل حضرت غوث اعظم محبوب سبحانی سید عبد القادر جیلانی" فتوح الغیب" کے مقالہ ہوا میں تحریر فرماتے ہیں " قال الله في بعض كتبه اقول لشيء كن فيكون المعنى اجعلك تقول للشيء كن فيكون." اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض کتابوں میں فرمایا کہ میری اطاعت کرو جس کے نتیجہ میں میری طرح تم بھی کسی شئی کیلئے کن کہو گے فیکون وہ پیدا ہو جائیگی.امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ اس حدیث کیمطابق بہت سے بزرگوں نے مظہر باری تعالی ہو نیکی حیثیت میں اسی نوعیت کی خواہیں دیکھیں اور بڑے بڑے دعاوی فرمائے مثلاً حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی" فیوض الحرمین میں فرماتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ میں قائم الزمان ہوں یعنی اللہ تعالیٰ جب غیر کے نظام کا ارادہ فرماتا ہے تو اپنے اس ارادہ کی تکمیل کیلئے وہ مجھے اوزار یا آلہ کار کی طرح بنا لیتا ہے لئے قطب وقت سلطان المشائخ اور اہل طریقت و حقیقت کے پیشوا حضرت ابوالحسن خرقانی نے ایک بار فرمایا " میں خدائے وقت ہوں مصطفائے وقت ن الفرقان بریلی میز شاہ ولی الله نمیره تا از مولانا محمد منظور عمانی بار دوم مطبوعه و بین راه F19
ہوں اہلے حضرت حسین منصور تاج جیسے صوفی مرتاض اور پاک نہاد بزرگ تے اس حدیث کیمطابق " انا الحق " کا مجذوبانہ اور محجوب نہ نعرہ بلند کیا جسکی پاداش میں آپ کو سالہا سال جیل خانہ میں ڈال دیا گیا کوڑے مارے گئے ، جیل نکھیں نکال دی گئیں، پاؤں کاٹ دیئے گئے اور مچھر تختہ دار پر لٹکا کر آپ کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور آپ کی نعش جلا کر دجلہ کے پانی میں بہا دی گئی حالانکہ " انا الحق " کا لغرہ بخاری شریف کی حدیث قرب نوافل کی ایک کے اقعاتی نہادت محقی - اللہ غور فرمائیے کیا یہ متقدمین اور جلیل القدر بزرگ خدائی کے، بویدار تھے ؟ اگر ایسا نہیں اور ہرگز نہیں تو آنحضرت کے فرزند جلیل یا سلسلہ احمدیہ کو محض ایک خواب کی بناء پر مدعی الوہیت قرار دینا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے خصوصاً جبکہ آپ نے اپنے قلم سے اسکی واضح تعبیر بھی بیان فرما دی ہے تیسری مثال - تیسری مثال بھی حضرت محمد مصطفی اللہ علیہ وسلم کی بے نظیر شخصیت کے بارے میں ہے مگر اس کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لخت جگر حضرت مصلح موعود کی ایک تقریر سے ہے حضور کے دلی میں کس طرح عشق رسول سمندر کی طرح موتیان تھا اس کا کسی قدر اندازه حضور کے اس ایک اقتباس سے بخوبی ہو سکتا ہے آپ نوم حقيقة النبوة " ۱ - ۱۸۶ میں فرماتے ہیں :- اب الکتر د معاشی ملی ترجمة تذكرة الاولياء ص۵۱۵ (ناشتہ ملک چینی الدین کشمیری بازار لاہور)
" نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعود کو نبی مان کہ گویا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہننگ کرتے ہیں.اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم.اُسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل ی کے سرگوت ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہے وہ کیا جانے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میرے اندر کسطرح سرایت کر گئی ہے وہ میری جان ہے میرا دل ہے.میری مراد ہے.میرا مطلوب ہے اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے اور اس کی گفتش برادری مجھے تخت شاہی سے بڑھکر معلوم دیتی ہے اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشا صفت ہفت اقلیم ہی ہے وہ خدا تعالی کا پیارا ہے پھر مکیں کیوں اس سے پیار نہ کروں.وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر سکیں کیوں اس سے محبت نہ کروں وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے پھر نہیں کیوں اسکا قرب نہ تلاش کروں ، حضرت مصلح موعود کی تحریریں اور تقریریں عشق رسول کے ایسے ہی بیش قیمت لعل و جواہر سے مالا مال ہیں اور سورج کی طرح چمک دمک رہی ہیں انہیں میں سے ایک شاہکار عبادت خطبہ جمعہ ار فروری ۱۹۴۴ء کی ہے جس میں یہ فقرہ اپنے ماحول سے کاٹ کر عوامی ذہن میں ہیجان بلکہ طوفان برپا کرنے کیلئے چھین لیا گیا ہے کہ " اگر محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی شخص پڑھنا چاہے تو بڑھ سکتا ہے شہید بالاکوٹ حضرت شاہ اسمعیل شہید نے تقویۃ الایمان میں سہی مضمون ان دوسہ سے الفاظ میں ادا فرمایا ہے کہ " اس شہنشاہ کی تو یہ شان ہے "
کہ ایک آن میں ایک حکم کنی سے چاہے تو کروڑوں نہبی اور ولی اور جن و فرشتے جبرائیل اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر پیدا کر ڈالے الٹے مگر میں شہید بالاکوٹ کے ان الفاظ پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہتا بلکہ حضرت مصلح موعود کی پوری عبارت آپکے سامنے رکھتا ہوں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نظیر روحانی قوتوں پرفکر و نظر کا ایک نیا اور روح پر در باب کھلتا ہے آپ نے فرمایا : " قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کو نیم صلی اللہ کریم علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تو عیسائیوں سے کہدے کہ اگر خدا کا بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے اسکی عبادت کر نیوالا ہوتا اب اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ واقعہ میں خدا کا کوئی بیٹا ہے اسی طرح ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا میں کوئی شخص ایسا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پنے درجہ میں آگے نکل گیا ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی شخص بڑھنا چاہے تو بڑھ سکتا ہے خدا نے دروازہ بند نہیں کیا مگر عملی حالت یہی ہے کہ کسی ماں نے کوئی ایسا بچہ نہیں جنا اور نہ قیامت تک کوئی ایسا بچہ جن سکتی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ سکے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ انسان تھے جو ایک سیکنڈ میں کروڑوں میں خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھ جاتے ہیں اور لوگوں کی حالت یہ ہے کہ دو سالوں میں بھی ایک منزل طے نہیں کر سکتے ان کا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ ہی کیا ہے # م ص۴۲ ۱ تاشر محمد سعید اینڈ سنتر قرآنی محل مولومی، مسافر خانہ کراچی)
فرش سے جا کر لیا دم زن پر با مصطفے کی سیر روحانی تو دیکھ اللهُمَّ صَل عَلى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى اللِ مُحَمَّدٍ وَبَارِك وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيد چومتی مثال : کربلا " اورجین کے مقدس الفاظ استعارہ کی زبان میں صدیوں سے مظلومیت اور مظلوم کی علامت (SYMBOL) کے طور پر مستعمل ہیں چنانچہ عہد اکبری کے بزرگ شاعر حضرت علامہ محمد نوعی الجنوشانی الخراسانی حمد الله منتوفی ۱۰ اشمر) کی ایک غزل کا مطلع ہے کہ کر بلائے عشقم و لب تشنہ مسترا یائے میں } صد حسین گشته در هر گوشه صحرائے من کے یعنی نیکی کربلائے عشق ہوں اور سترتا یا کب نشتہ ہوں اور میرے صحرا کے ہر گوشہ میں تو حسین فدا شدہ ہیں.نیز مولانا محمدعلی جوہر کا مشہور شعر ہے قتل حسیں اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کہ بلا کے بعد زمانہ حاضر کے ایک شاعر ستیہ معصوم حسین رضوی فرماتے ہیں ہے ہر اک زمین ارض کربلا ہے.ہر ایک دان دان ہے دس محرم نہ جی سکے گا یہ خون ناحق جسے یہ دنیا چھیار ہی ہے ہے ن المنجد في الاعلام “ علامہ فارسی کے ادرالکلام شاعر تھے چنانچہ مورخ بغدادی اسماعیل بانشاتے " الصياح المكنون في الذيل على كشف الملتون " میں لکھا ہے کہ علامہ کا دیوان چھ ہزار ابیات پر مشتمل ہے 4 جا Ethe منے قلمی نسخه دیوان نوعی در انڈیا آفس لائبریری لنڈی ۱۴۰۵ REF : TOL ETLE) س رسالہ "فجر" جولائی ۱۹۸۳ء ص (اردو تر جمان سفارتخانه ایران )
= ظاہر ہے کہ ان اشعار میں بیٹی حسین اسکے معنی مظلوم کے اور کربلا کے معنی مقام مظلومیت کے ہیں.نہ کہ بالا سے مراد کربلا کا شہر ہے نہ حسین سے مراد حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدا نما شخصیت اور نہ ہر کہ بلا کا کوٹھے مفہوم ہی نہیں بنتا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کے جاں نثار عاشقوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- گشته او نزیک نه دونہ ہزار این قتیلان او بردن از شمار ہر نہ مانے قتیل تازه بخواست نماز روئے اوردم مشهد است این سعادت چو بود قسمت ما رفته رفته رسید نوبت ما کر بلائے است پیر ہر آنم صد سیدین است در گریبا تم و روان استانی وتزول خدا کے فدائی صرف ایک یا د دیا ہزار نہیں بلکہ اس کے بیشمار شہید میں ہر زمانہ ایک نیا قتیل چاہتا ہے.اس کے چہرہ کا خانہ شہیدوں کا خون ہے.یہ سعادت چونکہ ہماری قسمت میں معنی رفتہ رفتہ بہار بھی نوبت بھی آپہنچی.کربلا میرے ہر آن کی سیر گاہ ہے اور سینکڑوں حسین ولیعنی مظلوم نمیرے گریبان میں ہیں.یہاں بھی کربلا اور حسین اسکے الفاظ محض استعارہ ہیں اور مطلب یہ کہ اگر چه دشمنان اسلام ہر وقت میرے در بیتے آزار ہیں مگر میرا وجود خدا اور مصطفے کی راہ میں ایسا فقربان ہے کہ اگر میری سوجائیں کبھی ہوں تو وہ دین محمد پر فدا ہونے کو تیار ہیں.اس مضمون کو آپ نے ایک دوسرے فارسی شعر میں یوں ادا فرمایا ہے در لیفا گرد هم صد جالی وژین ره نباشد نیزت بالا محمد
ہائے حسرت اگر یکیں اس راہ میں مارا جاؤں اور پھر نہ ندہ کر کے قتل کیا جاؤں اور اسی طرح سو بار اپنی جان محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا کر دوں تو پھر بھی یہ قربانی محمدؐ کی شان بلند کے مقابل بالکل بے حقیقت ہے یہ اس سے بڑھ کر اپنے عاشقانہ تعلق کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہانتک فرماتے ہیں سے سرے دارم فدائے خاک احمد دلم ہر وقت قربان محمد میر اسر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی خاک پر فدا ہے اور میرا دل ہر دقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہے.اس واضع التشریح و توضیح سے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے فارسی کلام سے ہوتی ہے آپ کا بیتال عاشق رسول ہونا بالبداہت ثابت ہو جاتا ہے.مگر افسوس صد افسوس ! ! بعض خدا تا نترس اذہان و قلوب ان عارفانہ اشعار کو سیاق و سباق سے الگ کر کے ان کو ایسے نئے معنوں میں ڈھال دیتے ہیں جن سے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی تنقیص و تو نہیں لازم آتی ہے اور جن کا تصور کر کے ایک بیچے احمدی مسلمان بن کی روح کانپ جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.حسین رضی اللہ عنہ ظاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ اُن برگزیدوں میں سے ہے جنگو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلا شبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کیتہ رکھتا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقوی اور
۵۵ محبت الہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے.اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کر نیو الے ہیں جو اسکو ملی تھی تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی تنگ میں اسکی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقولی اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے.جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں کون جانتا ہے انکا قذر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں.دنیا کی آنکھ انکو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں.یہی وجہ حسین نے کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین سے بھی محبت کی جاتی.غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین نے کی تحقیر کی جائے.اور جو شخص حسین بن یا کسی اور بزرگ کی جو ائمہ مظہر بن میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اسکی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ اس شخص کا تخمین ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے ،مالٹے را مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام جلد سوم ۵۴۶ - ۵۴۵۵
کوسب استہزاء کا چوتھا طریق www کتاب اللہ میں اللہ جل شانہ نے علم موازنہ مذہب، علم عقائد و اختلاف مسائل میں تحقیق کیلئے جو راہنما اصول بیان فرمائے ہیں انہیں عدل و انصاف کو سب سے بڑھکر ا ہمیت دی ہے.چنانچہ فرماتا ہے :- ياتها الذِيْنَ المَنُوا كُونُوا قَدُّ مِينَ بِهِ شُهَدَاء بالقسط ذ وَلَا يَجْر مَثْكُمْ شَنَانُ قَوْمًا عَلَى اللَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ اقرب للتقوى : واتَّقُوا الله إلى اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ م (الماده:9) اسے ایما ندارد ! تم انصاف کیسا تھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کیلئے کھڑے ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم انصاف کرو تم انصاف کرو.یہ تقولی کے زیادہ قریب ہے اور اللہ کا تقواسی اختیار کرو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے یقیناً آگاہ ہے.۱۸۶ اء کا واقعہ ہے کہ مشہور اللحديث عالم البوسعید جناب مولدی کمیسیون صاحبہ بٹالوی جب دلی سے علم حاصل کر کے واپس اپنے وطن بالہ میں تشریف لائے تو انہیں دوسرے مذہبی راہنماؤں کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا.ان وقول حضرت مسیح موعود عليه السلام ہم کا عہد شباب تھا سو ۳ - ۳۴ سالی کی عمر ہو گی.آپ کسی کام یین ناله بالین قیام فرما تھے نہ آیا اکھاڑوں سے آپکو کوئی دیجیسی نہ مفتی لیکن ایک شخص ا:
06 کے اصرار پر آپ کو بھی مولوی صاحب کے مکان اور پھر مسجد میں جانا پڑا.دیکھا کہ سامعین کا ایک ہجوم ہے اور مباحثہ کیلئے بے تاب ہے آپ مولوی صاحب موصوف کے سامنے بیٹھ گئے اور پوچھا کہ آپ کا دعوی کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میرا دعوالی ہے کہ قرآن مجید سب سے مقدم ہے اس کے بعد اقوال رسول کا درجہ ہے کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ کے مقابل کسی انسان کی بات قابل حجت نہیں.حضور نے یہ سن کر بے ساختہ فرمایا کہ آپ کا یہ اعتقاد معقول ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا حضور کا یہ کہنا ہی تھا کہ لوگوں نے دیوانہ وار شور مچا دیا کہ مار گئے.ہار گئے.شخص آپکو ساتھ لے گیا تھا وہ سخت طیش سے بھر گیا کہ آپ نے ہمیں ذلیل ورسوا کیا مگر آپ کوہ وقار بنے رہے اور اس ہنگامہ آرائی کی ذرہ بھر پروانہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کیا میں یہ کہوں کہ امت کے کسی فرد کا قول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول پر مقدم ہے ؟ یہ دستکشی آپنے چونکہ تھا امتنا اللہ اور اس کے پاک رسول کی رضا کیلئے کی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے عرش سے اس پہ اظہار خوشنودی کرتے ہوئے الہام فرمایا تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت میرکت و یگا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں کے لیے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عدل و انصاف کی اس شاندار مثال کے مقابل مولوی صاحب موصوف کا انداز تم کیا تھا حضرت پیر سراج الحق نعمانی بر بر بین احمدیہ طبع اول حق چهارم مدل ۵۲ حاشیه در حاشیه ۳۷
جالی ہانسوی ضو کا چین تمدید بیان ہے کہ ۱۸۹۲ء کے مباحثہ لدھیانہ کے دوران انہوں نے یہاں تک کہ دیا کہ " اگر مرزہ ا کا قرآن سے دعوی ثابت ہو جاوے ، تو میں....قرآن کو چھوڑ دوں گا اس عرصہ ہوا کہ پاکستان کے ایک مشہور اور شعلہ بیان مقرر نے جواب رب ذوالجلال کے حضور پہنچ گئے ہیں ایک جلسہ عام میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا " اگر وہ سچا ہوتا اور نبوت کا دعوی کرتا تو کیا ہم مان لیتے غلام احمد کیا اگر نبی کا نواسہ حسین بھی نبوت کا دعوی کرنا.حضرت فاطری نبوت کا دعوی کرتیں تو ہم مانتے ہے الٹے ( یعنی کبھی نہ مانتے ) ایکطرف یہ کہا اور دوسری طرف 4 جولائی ۱۹۵۷ء کو انہوں نے ایک معزز اجتماع میں یہ بیان دیا کہ لیکن ممتاز صاحب دولتانہ کو اپنا لیڈر مانتا ہوں......وہ صوبہ پنجاب کی حکومت کے وزیر اعلیٰ ہیں اگر دولتانہ صاحب کہہ دیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی بنبوت پر ایمان لے آؤ تو میں ان پر ایمان لے آؤں گا اور مرزا بشیر الدین محمود کو خلیفہ المسیح مان لوں گا ، علاوہ ازیں شیطان کو ان الفاظ میں خراج نخستین ادا کیا " شیطان نے کتنی جرأت کا ثبوت دیا حضرت آدم کو نہیں مانا ابدی لعنت کو قبول کر لیا مگر منافقت نہ کی ھے" ن تذكرة المهدی حصہ اول ص ۳۳ سے خطبات امیر شریعت صدا ناشته مكنه تبصره د بیرون دہلی گیٹ لاہور سے بیان سید زین العابدین گیلانی سابق صدر ضلعی مسلم لیگ ملتان میونسپل کمشنر ر اشتہار ۳۰ جولائی ۶۱۹۵۲ ) کے ماہنامہ تبصره از جانباز مرزا بابت دسمبر نومبر ۱۹۶۶ء صدام
۵۹ انہوں نے سامعین کو یہ بھی یقین دلایا کہ میاں اب تو اپنا یہ مسلک ہے کہ اللہ کوخوش کروں یا نہ کروں پر تم کو ناراض نہ کروں ، ایک اور موقعہ پر فرمایا " یار لوگوں نے شریعت نہ ماننے کے لئے مجھے امیر شریعت بنا رکھا ہے اس مسئله ختم نبوت یہی وہ ذہنیت ہے جس نے احمدیت کیخلاف استہزاء کا یہ چوتھا طریق پیدا کیا کہ احمدیت کی ہر حال میں مخالفت کی جائے اور جو چیز قابلِ اعتراض نہ ہو بہر صورت موجب اعتراض بنا کر دکھلائی جائے.برصغیر کے ایک روشن خیال عالم مولانا عبد الماجد دریا آبادی لکھتے ہیں " غالباً ۱۹۳۰ ء تھا حکیم الامت تھانوی کی محفل خصوصی میں نماز چاشت کیوقت حاضری کی سعادت حاصل محنتی ذکر مرزہ ائے قادیانی اور انکی جماعت کا تھا اور ظاہر ہے کہ ذکر " ذکر خیر " نہ تھا حاضرین میں سے ایک صاحب بڑے جوش نہ سے بولے حضرت ان لوگوں کا دین بھی کوئی دین ہے نہ خدا کو مانیں نہ رسول کو " حضرت نے منا لہجہ بدل کرہ ارشاد فرمایا کہ یہ زیادتی ہے توحید میں ہمارا اُن کا کوئی اختلاف نہیں.اختلاف رسالت میں ہے اور اس سے بھی صرف ك 17 خطبات امیر شریعت صده سے ماھنامہ تبصرہ نومبر دسمبر ۱۹۷۹ء ص۴۳
ایک باب میں یعنی عقیدہ ختم رسالت میں ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ عقیدہ ختم رسالت میں بھی دوسرے مسلمانان عالم کے ساتھ احمدیوں کا کوئی اصولی اختلاف نہیں اور برصغیر کے بعض محقق فاضل رحین میں خود علامہ عبد الماید سر فہرست ہیں ، اپنی پوری عمر کی تحقیق کے بعد بالکل اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں.چنا نچہ علامہ عبد الماجد تحریر فرماتے ہیں : " جہاں تک میری نظر سے خود بانی سلسله الحمد به جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کی تصانیف گزری ہیں ان میں بجائے ختم نبوت کے انکار کے اس عقیدہ کی خاص اہمیت مجھے ملی.بلکہ مجھے ایسا یاد پڑتا ہے کہ احمدیت کے بیعت نامہ میں ایک مستقل دفعہ حضرت رسول خدا صلم کے خاتم النبیین ہونے کی موجود ہے.مرزا صاحب مرحوم اگر اپنے میں نہیں کہتے تھے تو اس معنی میں جسمیں ہر مسلمان ایک آنیوالے میسیج کا منتظر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ تنظیم نبوت کے منافی نہیں.پس اگر احمد بتا رہی ہے جو خود مرزا صاحب اگر احمدیت ہو مرحوم بانی مسلمین کی تحریروں سے ظاہر ہوتی ہے تو ا سے ارتداد سے تعبیر کرنا یہ کی ہی زیادتی ہے.ان کی تحریروں سے تو محض اتنا ہی نہیں معلوم ہوتا کہ وہ توحید ورسالت کے پوری طرح تامل ہیں، قرآن پر حد نا صرفا ایمان رکھتے بال که مهر دارکه نائین کی ذات ہیں، کہ مومنین کو اپنا فی کرتے ہے.مبارک کیا میت اشیا و شیفتگی هیچی با تین ما از علامه عبد الماجد دریا آبادی - جویم کا نشتر القایی آبادی شهر بین رود -
41 اسی طرح ایک اور بغیر از جماعت عالم دین شہفت روزہ " صدق جدید" لکھنود ۵- نومبر ۱۹۶۵ء) میں رقم فرمایا :- ) قادیانیوں اور غیر قادیانیوں کا اختلاف اصولی نہیں فروغی ہے.(۲) اگر مولوی صاحبان کے نزدیک حضرت نبی اللہ مسیح موعود کی آمد کے عقیدہ سے ختم نبوت کا انکار لازم نہیں آتا تو قادیانی بھی اپنے مسیح موعود کو مان کو ختم نبوت کے منکر قرار نہیں دیئے جا سکتے اگر قادیانی اس لئے ختم توت سے منکر ہیں کہ انہوں نے میسج موعود کو نبی قرار دیا ہے تو پھر مولوی صاحبان کو بھی ختم نبوت کا منکر قرار دینا پڑیگا اور پھر تکفیر کی توپ بھی سب پر ہیں دائی جائیگی " " دونوں ہی مسیح موعود کی نبوت کے قائل ہیں، دونوں ہی کا عقیدہ ہے کہ خاتم المرسلین کے بعد مسیح موعود نبی ہو کر آئیں گے.اب یا تو دونوں ہی ختم نبوت کے منکر ہیں یا دونوں ہی اس الزام سے بری ہیں مرکزی نقطه مسیح موعود کی نبوت ہے اور اس پر دونوں ہی کا اتفاق ہے، اپنے بلاست در نتج بالکل صحیح اور نہایت درجہ حقیقت افروز ہے.لیکن اگر موقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو اسکی حیثیت کبھی محجوبانہ ہے.عارفانہ پہلو اس کا ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ آج دنیا کے پردہ میں مقام خاتم النبیین کی معرفت کبھی جماعت احمدیہ کو حاصل ہے اور اس پر حقیقی ایمان سمجھی خدا کے فضل سے صرف اور صرف احمدی ہی رکھتے ہیں.وجہ یہ کہ قرآن مجید چودہ صدیاں قبل ون صدق جدید لکهنو هر نومبر ۱۹۶۵ء ص -
عوامی معنوں کو یکسر مسترد فرما چکا ہے اور جو الہامی معنے بتائے ہیں وہ جماعت احمدیہ کے اس تصور قائمیت پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں کہ رحمتہ للعالمیں صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضانِ نبوت آنحضرت کے پیتے غلاموں میں بھاری ہے.پہلے دعوی کا ثبوت پہلے دعواسی کا ثبوت یہ آیہ کریمیہ ہے وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولاً كَذَلِكَ يُضل الله مَنْ هُوَ مُسْرِفَ مُرْتَاب في الذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللهِ بِغَيْرِ سُلْطَنِ الهُمْ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ وَ عِنْدَ الَّذِينَ امَنُوا كَذَا بِكَ يَطيع اللهَ عَلَى كُل قلب b متكبر جباره ( المومن ۳۵-۳۶) را و فرمایا حضرت یوسف اس سے پہلے دلائل کیسا تھ تمہارے پاس آپ کے ہیں مگر وہ جو کچھ لائے تم لوگ اس کے بارے میں شک ہی میں رہے یہاں تک کہ جب آپ وفات پا گئے تو تم نے کہنا شروع کر دیا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی رسول مبعوث نہیں کریگا د یعنی بنوت غیر مشروط پر ختم ہو چکی اور یہ آخری نبی تھے ، اللہ تعالی پیش گوئی کرتے ہوئے فرماتا ہے.كذالك يقل الله مَنْ هو مسرِت مرتاب.اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر حد سے گزرتے والے اور شبہ کرنیوالے کو گمراہ قرار دیگا یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی آیتوں میں بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی بخشیں کریں گے جو اللہ اور مومنوں کے
کے نزدیک بہت بڑا ہے اسی طرح اللہ تعالی متکبر انسان کے پورے دل پر مہر کر دیتا ہے.دوسرے دعوی کا ثبوت دوسرے دعوی کا ثبوت سورۃ النساء کی آیت نمبر ، ہے جس میں اللہ تعالٰی نے یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ آئندہ نبوت ، صدیقیت، شہادت اور صالحیت کے الغامات کی برکات کے دروازے آنحضرت کی برکت اور تاثیر قدسی سے امت محمدیہ کیلئے کھلے ہیں اور باقی تمام نبیوں کا فیض ہمیشہ کیلئے ختم ہو گیا ہے پینا نچہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.ومَن يطع الله وَالرَّسُول فاولئِكَ مَعَ الَّذِينَ انْعَم الله عَلَيْهِمْ مِنَ النَبِيِّينَ وَ الصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِيْنَ وَحَسْنَ أو ليكَ رَفِيقًاه أُولئِكَ پانچویں صدی ہجری کے امام لغت قرآن حضرت امام راغب اصفهانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس آیت کے قطعی معنی یہ ہیں کہ جو لوگ بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گئے اللہ تعالیٰ انکو درجہ اور ثواب کے اعتبار سے نبیوں صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین میں شامل کر دے گا یعنی آنحضرت کی اطاعت سے نہیں بننے والے کو پہلے نبی کے ساتھ ' صدیق بننے والے کو پہلے صدیق کے ساتھ ، شہید بننے والے کو پہلے شہید کیساتھ اور صالح بننے والے کو پہلے صالح سے ملا دیگا اور یہ لوگ بہت ہی اچھے رفیق ہیں یہ فضل اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بہت جاننے والا ہے.ل البحر المحيط " جلد ۳ ص ۲۸ مؤلقہ حضرت ابن حیان 2
خاتم لام الله تم النبین کے الہامی معنوں کی تصدیق و توثیق اس حدیث قدسی سے بھی ہوتی ہے جو مجدد اسلام حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بروایت حضرت انس بن مالک حلیہ ابو نعیم کے حوالہ سے " الخصائص الکبری" حصہ اول میں درج فرمائی ہے " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ جو شخص مجھ سے اس حال میں ملے کہ وہ احمد مجابی کا منکر ہے تو میں اسے جہنم میں داخل کروں گا.موسیٰ علیہ السلام نے کہا.اے رب احمد کون ہیں؟ فرمایا میں نے کسی مخلوق کو ان سے بڑھ کر مکرم نہیں بنایا اور یکمیں نے انکا نام تخلیق آسمان و زمین سے پہلے عرش پر رکھا بلاشبہ میری تمام مخلوق پر جنت حرام ہے جب تک وہ اور انکی است اس میں داخل نہ ہوں.حضرت مومنی نے عرض کیا مجھے اس امت کا نبی بنا دے فرمایا نَبِهَا مِنْهَا اس امت کا نبی (یعنی اُمتی نبی.ناقل ) انہیں میں سے ہوگا.عرض کیا مجھے اس نبی کا امتی بنادے فرمایا تمہارا زمانہ پہلے ہے اور ان کا زمانہ آخر میں لالے اس حدیث قدسی سے خاتم الانبیاء کے یہ الہامی معنی متعین ہو گئے کہ امتی نبی آئین کا ضرور مگر وہ آسمان سے نہیں اترے گا آنحضرت کے خادموں میں پیدا ہو گا اور اسی کو حدیث مسلم میں آنحضرت نے چار دفعہ نبی اللہ کے خطاب سے یاد فرمایا ہے.نیز یہ کہ حضرت موسی جیسے اولوالعرم ت الترجمه " الخصائص الكبرى السيوطى جلدا ص ۳۲-۳۵ تا شهر مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی.
پیغبر نہ واپس آسکتے ہیں.نہ آکر آنحضرت کے امتی نبی ہو سکتے ہیں اور نہ ہی امتی کا مقام حاصل کر سکتے ہیں.انی الہامی معنی پیر جماعت احمدیہ ایمان رکھتی ہے.اس کے برعکس عوامی عقیدہ یہ ہے کہ یہودی امرت کے ایک گزشتہ نبی حضرت میں علیہ السلام جو صرف بنی اسرائیل کیلئے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے دوبارہ آئیں گے مگر آنحضرت کے غلاموں میں کوئی امتی نبی نہیں بلکہ معاذ اللہ و قال پیدا ہوں گے.اب دنیا بآسانی فیصلہ کر سکتی ہے کہ کون ہے جو حقیقہ خاتم النبیین پیر ایمان رکھتا ہے اور کون ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کو غیر مشروط آخری نبی قرار دیتا اور ختم نبوت کا تاج آنحضرت کی بجائے ان کے سر پر رکھنے کی جسارت کر رہ ہے.یہ امر قرآن و حدیث سے بالبداہت ثابت کرنے کے بعد آج سوا نے احمدیوں کے کوئی بھی حقیقی طور پر حضرت خاتم النبیین پر ایمان کا دعوت نہیں کر سکتا اس مضمون میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس دعوی کی مزید تائید و توثیق کیلئے " خاتم النبیین کے ان معنوں کا بھی ذکر کر دیا جائے جو زمانہ حال کے بعض بزرگ یا ممتاز علماء نے فرمائے ہیں جو یہ ہیں نبیوں کا باپ ، نبی بنانیوالی مہر اور نبوت بخش 1- نبیوں کا باپ ہونے کے معنی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اپنی کتاب تحذیر الناس حنا پر بیان فرمائے ہیں جیسا کہ آپ فرماتے ہیں.حاصل مطلب آیہ کریمیہ اس صورت میں یہ ہوگا کہ ابوہ معروفه تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں یہ الوت معنوی انتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے “
یہ مستی کہ آنحضرت نبی بنانیوالی مہر ہیں مولانا محمود الحسن اور علامہ شبیر احمد عثمانی سے ہیں جو ان کے حاشیہ ترجمہ القرآن میں بایں الفاظ موجود ہیں.لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رہتی اور زمانی ہر حیثیت.خاتم النبیین ہیں اور جنکو نبوت ملی ہے آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے " 000 مولانا قاری محمد طیب صاحب مرحوم مہتمم دارالعلوم دیوبند کے نزدیک خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ : " حضور کی نشان محض نبوت ہی نہیں نکلتی نبوت بخشی بھی ملتی ہے کہ جو بھی نبوت کی استعداد پایا ہوا فرد آپ کے سامنے آگیا نبی ہو گیا ، اگر یہ صحیح ہے اور یقیناً صحیح ہے کہ لفظ "خاتم النبیین میں یہ خبر دی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کے باپ ہیں ، نبی بنانیوالی مہر ہیں اور نبوت بخش ہیں تو دنیائے سلام کو جلد یا بدیر یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ختم نبوت زندہ باد کا عارفانہ رنگ میں نعرہ لگانے کے حقیقی مستق صرف اور صرف احمدی مسلمان ہی ہیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں: " ہمارا ملہ کا جس کے لئے ندا تعالیٰ نے ہمارے دلمیں جوش ڈال ہے.یہی ہے کہ صرف رسوں ، منہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قائم کی جائے جو ابدال آباد کیلئے خدا تعالیٰ نے قائم کی ہے اور تمام جھوٹی نبوتوں کو پاش پاش کر دیا جائے.....غرض اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو اسی لئے قائم نه ناشر نور محمد کارخانه تجارت کتب آرام باغ کراچی - ست آفتاب نبوت ص ناشر ادارہ عثمانیہ ص ۳۳ پرانی انار کلی اما سور
pl" made i کیا ہے کہ یہ حضرت کی نبوت اور عزت کو دوبارہ قائم کریں والے درہم میں قوت یقین ، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لا کھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور انکا ایسا ظرف ہی نہیں بنے وہ اس حقیقت اور راہ کو جو خاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے مگر اسکی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے ؟ مگر ہم بصیر بے نام سے (جسکو اللہ تعالیٰ بہتر جاتا ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے اس عرفان کے تشریت سے جو ہمیں بالا یا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا ہے Cam ہم تو رکھتے ہیں مہمانوں کا دیں دل سے اس خدام ختم المرسین سارے حکموں پر ہیں ایمان ہے جان و دل اس راہ پہ قربان ہے دے چکے دل اب تن خاکی رھا بے بہی خواہش کہ ہو وہ بھی ترا ت ملفوظات جلد سوم ص ۹-۹۲ نے ملفوظات جلدی ص ۳۴۷
یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ خدا کا پیارا کلام تو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے خادموں اور عاشقوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ لا تَفَرَّقُوا اپنی سوچ اور فکر کو امت میں تفرقہ کیلئے تمہیں بلکہ وحدت کیلئے وقف رکھو پھر فرماتا ہے " اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَب بتقوى ، عدل و انصاف سے کام لو کیونکہ میں تقوی کے قریب تر راہ ہے مگر جماعت احمدیہ کو منکر ختم نبوت ثابت کرتے ہوئے یہاں تک کیا گیا ہے کہ جنوری ۱۹۷۱ ء میں جبکہ پاکستان کے انتخابات میں عوامی لیگ جیت گئی اور ڈھاکہ میں پاکستان اسمبلی کا اجلاس متوقع تھا ہمارے محترم کرم فرماؤں نے ملتان کی ایک مجلس کی طرف سے ایک انگریز کا کتا بچہ شائع کرایا جس کا عنوان تھا - AN APPEAL To THE MEMBERS OF NATIONAL ASSEMBLY OF PAKISTAN » اسور کتا بچہ کے دیباچہ میں شیخ مجیب الرحمن اور خوامی لیگ کے دوسرے نمبروں کو یہ تاثر دیا کیا کہ قادیانی مسئلہ ایسا ہے کہ اس پر ملک کا مستقبل وابستہ ہے اسی لئے علامہ اقبال نے اس پر شری در بسط سے قلم اٹھایا نیز قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے جس سیاستدان نے ماحول کی نزاکت کو محسوس کیا وہ رہنما سید شہید سہر وردی ہی تھے اس تمہید کے بعد یہ واضح کر نے کیلئے کہ ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقید یا ہے بعض آیات اور احادیث درج کرنے کے بعد ڈاکٹر سر محمد اقبال کی طرف رو شعر منسوب کئے گئے.حالانکہ دونوں شعر علامہ کے نہیں بلکہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رقم فرمودہ ہیں جو یہ ہیں :-
سرد بود...--- بست داد خير الوسل خیر الانام پر نبودنت را بروش داخته تام ختم شده بر نفس پاکش پر کمال لا مسیر هم مشهد ختم ہر پیغمبری (ترجمہ) آنحفر یہ ہی خیر الرسل اور خیر الانام ہیں اور ہر یونتہا پر پر ختم ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک نفس پر ہر کمال ختم ہو گیا اس لئے ہر و غیر بھی ختم ہو گیا.رسالہ میں کی با تیوالی کارروائی سے دو با تنیس یا لکل بے نقاب ہو جاتی ہیں ایک تو یہ کہ احمدیہ پر انکار ختم نبوت کا الزام تو پینے کیلئے کسی بھی غیر اسلامی حریہ سے دریغ نہیں کیا جاتا دوسرے یہ کہ جس شخصیت کے قلم مبارک سے یہ اشعار نکلے ہیں اُس پر اور اس کے متبعین پر ختم نبوت سے انکار کا الزام سراسر افتر اور بہتان عظیم ہے کہا جا سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے استعار علمی سے علامہ اقبال کی طرف منسوب کر دیئے گئے ہیں مگر ایسا ہر گز نہیں یہ حرکت جانتے بوجھتے کی گئی ہے میں کا دستاویزی ثبوت یہ ہے کہ اس انگریز ہی عرضداشت کا ترجمہ بھی انہی دنوں منانی کی اسی مجلس نے شائع کیا لیکن چونکہ مغربی پاکستان کے اردودان طبقے اور عوام علامہ اقبال کے کلام سے واقف تھے اس لیئے اردو ایڈیشن سے نہ صرف یہ اشعار معدن کو دیئے گئے بلکہ اس سے تعلیم مکمل پیرا گراف مع عنوان کے غائب کر دیا گیا.
آیت و بالخفية قمة يوفنتون کی تفسیر به مساحقیت ہے وَبِالْخِرَةِ هُمْ ن مجید کی سرائیت کئی لطین رکھتی ہے اور پرابطہ کا امن بے شمار حقائق و معارف سے لبریز R ہے اس نقطۂ معرفت کو نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں متعد د سوالات اٹھائے جانتے ہیں مثلاً یہ خیال عام ہے کہ آیت " وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُون (البقرہ ) کے صرف یہ معنی ہیں کہ متقی آخرت کی زندگی پر یقین رکھتے ہیں اور آخرۃ کا نتز یہ کہ آئندہ آنیوالی موعود باتوں یا وحی پر یقین حاصل ہے" نہ قرآن مجید میں کھلی تعریف ہے حالانکہ اول تو قرآن مجید میں آخرت " کا لفظ دوسرے معانی کیلئے بھی استعمال ہوا ہے مثلاً سورۃ بنی اسرائیل آیت ۱۵ میں ہے: وَإِذَا جَاء وَعْدُ الأخيرة ، حضرت ابن عباس نے وعد الآخرة ، عیسی ابن مریم کو قرار دیا ہے نے اسی طرح سورة ضمی میں آغفرت " کو خطاب ہے کہ وَالآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولى علمائے سلف و خلف تے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے " پچھلی حالت بہتر ہے واسطے تیرے پہلی حالت ت" "یقینا رحمن شاہ رفیع الدین تمہارے لئے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے رسید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب) در سر سے قدیم مصر مدت میں حضرت قیاده جیسے نہایت باند یا به بزرگ " یومنون بالغرب" کی تفسیر میں فرماتے ہیں " وصَدَقُوا بموعود الله الذى وعد فى عدا القران یعنی منتقی وہ ہیں جو اللہ.> 4 " جل در کشور للسيوطى جدا صفحه ۳ تن در شور ناسیوی جلد ۲۵ به
* کے اُس موعود کی تصدیق کرتے ہیں جس کا وعدہ قرآن میں موجود ہے آیت سے آگے ہی وَ بِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُون کے الفاظ يار، لهنداسيات ہیں عبارت کی رو سے موعود با تین مراد لینا با لکل درست ہے، تلیسه آنحضرت سے بالاخرة کی تفسیر وحى الأخر ثابت ہے چنا نچہ خادم رسول حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ " قَالَ سُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ......أَعْجَبُ النَّاسِ إِيمَانًا قَوْم يَجِيْبُونَ مِنْ بَعْدِكُمْ فَيَجِدُونَ كِتَابًا مِنَ الوَفي فَيُؤْمِنونَ بهِ وَيَتَّبِعُونَ ، حضرت رسول اللہ نے ارشاد فرمایا.تمام لوگوں میں ایمان کے اعتبار سے وہ قوم سب سے عجیب ہوگی جو تمہارے بود آئیگی وہ لوگ وحی سے کتاب (قرآن) کو پائیں گے اور اسی وجی سے اس پر ایمان لائیں گے اور اس پر عمل پیرا ہوں گے.آنحضرت کی اس پر معارف تفسیر کا مآخذ اور سرمایہ بھی آیت " وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُؤْتِنُونَ " میں ہو سکتی ہے.لہذا اسے تحریف قرآن کا نام دینا ایک ایسی ناپاک جسارت ہے جسکی توقع کسی عاشق رسول سے نہیں ہو سکتی.مجھ کو استہزاء کا پانچواں طریق استہزاء کا پانچواں طریق وہ متضاد اعتراضات پلیر حسن کا دامن الشمائلہ سے ۱۹۸۴ تک پھیلا ہوا ہے اور جو زمانہ کی مصلحتوں کی مطابق مٹی سے بنی صورت ن در منشور للسيوطى جلدا ص۳۶
پکڑتے اور بدلنے پہلے جاتے ہیں ہیں اس سلسلہ میں منتضاد اعتراضات کی صرف تین مثالوں پر اکتفا کروں گا.پہلی مثال - حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ابتدا ہی سے تنہائی کو پسند فرماتے تھے اور اپنی درویشانہ طبیعت اور عجز و انکسار کے باعث کبھی ایک لحظہ کیلئے منہاں چاہتے تھے کہ دربار شہرت کی کرسی پر بیٹ میں فرمایا کرتے تھے اگر خدا تعالیٰ مجھے اختیار دے کہ خلوت و جلوت میں سے تو کس کو پسند کرتا ہے تو اس پاک ذات کی قسم ہے کہ میں خلوت کو اختیا.کروں کا مسجد میں بیٹھ کردعائیں کرنا اور قرآن مجید کی تلاوت میں متہک رہتا آپ کا سب کام م تھا حضرت مرزا سلطان احمد صاحبہ کی روایت ہے کہ آپ نے کم از کم دس ہزار مرتبہ قرآن شریف پڑھا ہوگا اُس زمانہ کا نقشہ آپ نے ان الفاظ میں کھینچا ہے " المسجد مکانی والصّالحون اخواني وذكر الله مالی و خلق الله عیالی او امی ہی سے مسجد یہ امکان، صالحین میرے بھائی یاد الہی میری دولت اور مخلوق خدا میرا خاندان ہے انہیں ابتدائی ایام میں آپ کو اپنے والد محترم کے حکم پر بامر مجبوری سیالکوٹ کچہری میں ملازم رہنا پڑا مگر قادیان میں واپسی کے ہیں.جب انہیں دوبارہ اپنے والد کی طرف سے یہ پیغام ملا کہ وہاں بعض انگریز افسروں سے کہلا کر ملازمت کا انتظام کرا سکتے ہیں تو اپنے جواب دیا " جو افسروں کے افسر اور مالک الملک الحکم الحا میں کا میایم ن i ملفوظات جلد و هم حدیث سے سیرت میں موجود جاد هر ۱۳۸۴ از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ام یعقوب علی
اور اسپند رب العالمین کا فرمانبردار ہو اس کو کسی ملازمت کی کیا پرواہ ہے ، یہ وہ ماحول تھا جس میں آپ پر رب ذو العرش کیطرف سے شداد کے آخر میں الہام ہوا کہ : " مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کہ وعدہ کے موافق تو آیا ہے ، سے اس خدائی فرمان پر اگرچہ آپکو از حد تشویش اور فکر دامن گیر ہوئی مگر آپ شہ ذی الاقتدار کے اس حکم کو تو بھی کیسے کر سکتے تھے آپ نے انگریزی حکومت اور عامتہ المسلمین کی شدید مزاحمت کے خوف کے باوجود بلا خوف یہ اعلان فرمایا کہ میں ہی موعود مسیح و مہدی ہوں اس آواز کے بلند ہوتے ہی آپ کیخلاف طوفان مخالفت اٹھ کھڑا ہوا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے متحدہ ہندوستان کے علماء کے فتاوی تکفیر جمع کر کے اور انکو بڑے سائز کے ۳۰۳ صفحات پر شائع کر کے حکومت اور پبلک میں ایک آگ بھڑ کادی ۲ بھڑکا پادری عماد الدین نے تو زمین الاقوال " میں آپ پر بغاوت کا الزام لگا یا حسین پر انگریہ کے نیم سرکاری اور سیاسی اختیار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور اسم در اکتوبر ۱۸۶۴ عر صہ کالم تین نے ایک اشتعال انگیز اداریہ لکھا " ایک خطر ناک مذہبی جنونی کہ پنجاب میں ایک مشہور مذہبی جنونی ہے، ہمارا خیال ہے اب وہ چل ضلع ل تذكرة المهدئ حصہ دوم ص ۳۳ ) از حضرت پیر سراج الحق نعمانی (۴) ۲۵ دسمبر ۱۹۹ عد یکے ازالہ اوہام ص۵۶ - ۵۶۲ کے نوٹ :.اس کا مکمل انگریزی آتی آخر میں ملاحظہ فرمائیں
گورداسپور میں ہے وہ اپنے آپکو مسلمان کہتا ہے اور مسیح بھی...اس قسم کا وہمی اور مذہبی جنونی بلاشک پولیس کی نگرانی میں ہے حبیب کبھی وہ باہر تبلیغ کرتا ہے امن عامہ ہمیں بڑے فسادات کا فوری خطرہ ہوتا ہے کیونکہ اس کے ماننے والے بے شمار نہیں اور وہ مذہبی جنون میں اس سے کچھ ہی کم ہیں.اس قسم کے شخص کے بے معنی تصورات سیاسی خطرہ کا اندیشہ تو نہیں ہو سکتا لیکن اس کی دیوانگی میں بھی ایک ڈھنگ ہے اس کی ادبی قابلیت مسلمہ ہے اس کی تصنیفات بہت ہیں اور عاملانہ ہیں.وہ تمام عناصر موجود ہیں جنکی ترکیب سے ایک خطرناک مرکزہ بنا کرتا ہے.- اس کی باتوں میں ایک دلی ہوئی وحشت ہے.جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے امکانی طور پر وہ ایک خطرناک ہلالی ہے اور جیسے اس کے سب ممکن ہے مدارج سمجھتے ہیں وہ صرف ایک سادہ آدمی نہیں ہے Ap اس کے مداحوں کو اس کا کچھ مطلب معلوم ہو ( خصوصاً موجودہ سر سری بحث کے بعد اور یہیں اپنی ذاتی رائے سے قائل کر سکیں.قادیان کا مولوی سالہا سال ہمارے زیر نظر رکھا ہے اور ہم اپنی ذاتی معلومات کی بناء یہ جو ہمیں اسکی ذات اور اسکے کام کے متعلق حاصل ہیں مندرجہ بالا رائے کی پور میں طرح تائید کرتے ہیں ہمارے نزدیک وہ طاقت پکڑ
رہا ہے اور غالبا مستقبل قریب میں ہم پر یہ فرض عائد ہو جائیگا کہ ہم اس کی طرف زیادہ تفصیل سے تو ہم دیں.اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے مولوی محمد حسین بٹالوی نے بھی حکومت کو انتباہ کرنا شروع کیا کہ گورنمنٹ اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پر سندر رہنا ضروری ہے ور اس کا دیا تی مہدی سے استقدیر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے نہیں پہنچا ہے اس مخبری کے کچھ عرصہ بعد انگریزی حکومت کی طرقہ سے مولوی محمد حسین بٹالوی کو چار مرتبہ زمین سے نوازا گیا جس کا اعتراف انہوں نے اپنے رسالہ اشاعت استہ جلد ۱۹ نمبرا صد میں فرمایا.بہر حال حضور کے خلاف جب یہ پروپیگنڈا بڑھ گیا تو پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ سطبات بنا السلام نے رسالہ اشاعت السنہ جلد ۱۸۸۴۶ء سے مولوی صاحب موصوف کی تحریر کا وہ اقتباس شائع کیا جس میں انہوں نے حضور کے آباؤ اجداد کی خدمات کا تذکرہ کر کے انگریزی حکام کی سندات کی نقول درج کی تھیں ازاں بعد اپنے با قا عدہ اشتہار میں اس الزام کی تردید فرمائی مگر اس کے باوجود حکومت کا رویہ پہلے سے بھی سخت ہو گیا اور مذہبی را ہنماؤں نے بھی انگریزی حکومت کے کان بھرنے شروع کر دیئے.چنانچہ قاضی فضل احمد کورٹ انسپکٹر لدھیانہ نے " کلمه رمانی ۲۲۰ ، ص میں انگریز کی حکومت کو اشتعال دلایا کہ مرزا صاحب در پر وہ ایک لاکھ لیے رسالہ " اشاعتہ السنہ جلد ۱ ۱۶۰ به اشاعت مهم جهادی ۱۳۹۶ در مطابق میر کشور
64 ہیں کی فوج تیار کر کے انگریزی حکومت کو تباہ کرنے کے منصوبے تیار کر رہے تھیں ضلع جہام کے ایک مشہور عالم دین " تازیانہ عبرت " میں لکھا کہ گورنمنٹ کو اپنی و نادار مسلمان پر عایا پر اطمینان ہے اور گورنمنٹ کو خود معلوم سے کہ مرزا جی جیسے مہدی وی دینے والے ہی کوئی نہ کوئی آفت سلطنت میں برپا کیا کرتے ہیں.....لیکن مرزا جی نے تو مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر دیا ہے کہ مہدی وسیع کا یہی زمانہ ہے اور قادیان ضلع گورداسپور میں وہ مہدی ومسیر بیٹھا ہوا ہے وہ کسر صلیب کیلئے مبعوث ہوا ہے تاکہ عیسوت کو محو کر کے اسلام کو روشن کرے اور یہ بھی برملا کہتا ہے کہ خدا نے اسکو بتا دیا ہے کہ سلطنت سمجھی اسکو ملنے والی ہے....ایسا خیال فرمائیے کہ یہ خیالی کہاں تک خوفناک خیال ہے جبکہ مرزا جی نے یہ الہام ظاہر کر کے پیش گوئی کر دی ہے کہ بادشاہ اُسکے حلقہ بگوش ہوں گے اور بادشاہت مرزائیوں کو ملے گی.کیا عجب کہ ایک زمانہ میں مرزائیوں کو اُسکی پیش گوئیوں کو پورا کرنے کیلئے اپنی جانیں دینے کو تیار ہیں...یہ جوش آجائے پیشگوئی کو پور ا کیا جائے اور وہ کوئی فتنہ و بغاوت برپا کریں گورنمنٹ کو ایسے اشخاص کا ہر وقت خیال رکھنا چاہیئے تے یہ پروپیگینڈا برسوں تک جاری رہا مگر آئی انڈیا نیشنل کانگریس کے ت متاز باد عسرت از مولوی کریم دین صاحب کہیں ضایع میلم پر میں ایا ہوں
یب 66 — 1 P دسمبر کے اجلاس لاہور کے بعد یہ خیال زور پکڑ گیا کہ حضرت با تحصے جماعت احمدیہ انگریز کے باغی نہیں بلکہ معاذ اللہ ایجنٹ تھے جس طرح پہلے بیان نبوت کا ذیہ حرف غلط کی طرح صفحۂ ہستی سے مٹ گئے اور انکی جماعت کا نام ونشان تک باقی نہ رھا آپ کی تباہی بھی یقینی تھی مگر انگریز نے استخدر مال وزر سے مدد کی کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے قدم نہایت آسانی سے جم گئے ، مست ۱۹۲۹ ء سے قبل الزام بغاوت کو مستند سمجھا جاتا تھا مگر اس کے بعد اس خیال کو عملاً " وحی کا سا درجہ دے دیا گیا حالانکہ یہ نظر یہ در اصل انگریز کو خدا بنانے کے مترادف ہے.وجہ یہ کہ قرآن مجید میں سورۃ الحاقہ ( ۴۵ - ۴۰) میں یہ اصول بیان فرمایا گیا ہے کہ جھوٹے مدعی نبوت کی رگ جان کٹ جاتی ہے ، اس کا سلسلہ برباد ہو جاتا ہے اور اگر ساری دنیا کی حکومتیں بھی مل جائیں تند و کسی کا یہ مدعی نبوت کو خدا کی سزا سے نہیں بچا سکتیں " فَمَا مِنكُمْ مِنْ أَحَدٍ عنه حاجزين (الحانه : (۴۸) بزرگان امت میں سے محمد و اسلام حضرت انام ابن قیم نے زاد المعاد جلد میں حضرت علامہ فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر سے مولانا حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی کی سوانح ریا میں ان حرار " " ر مؤلفہ عزیز الرحمان جامعی میں لکھنا ہے کہ : " ) ۱۹۲۹ ء کے کانگریس کے اجلاس میں ۲۹ دسمبر ۹۲۹ اعر کو مولانا آزاد کے مشورہ پر آل انڈیا کانگریس کے اسٹیج پر چودہری افضل حق حمایت کی صدارت میں مجلس احرار کا پہلا جلسہ ہوا ، م نیز لکھا ہے مجلس احرار ۱۹۲۹ء میں کانگریس کیمپ لاہور میں بنائی گئی تھی صدا سے قائد اعظم سے جنرل ضیاء یک م۳۱۵ از عارف بٹالوی های ) ناشر الطیر یک ایجنسی اردو بازار لاہور) " ۱۳۴ صاح
میں، علامہ جعفر طبری نے تفسیر" این تبریر میں، حضرت ولوی آل حسن صاحب نے ازالہ اوہام میں حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے اظہار حق نہیں ، امام اہل سنت حضرت علامہ سعد الدین تفتازانی کے شرح عقائد" میں اور علامہ حضرت عبد العزیز فرتھا روی نے اسکی شرح تیر اس میں اس قرآنی اصول کا بطور خاص تذکرہ فرمایا ہے اور دعوای ماموریت کے بعد ۲۳ سالہ عمر کو صادق کا پیمانہ تسلیم کیا ہے.عہد حاضر کمتاز علماء میں سے جناب مولانا ثناء اللہ امرتسری دیباچہ تفسیر ثنائی مڈا میں تحریر فرماتے ہیں :- " نظام عالم میں جہاں اور قوانین خداوندی ہیں یہ بھی ہے کہ کاذب مدعی نبوت کی ترقی نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ جانے گا جاتا ہے.واقعات گزت سے وہ بھی اس امر کا ثبوت پہنچتا ہے کہ خدا نے کبھی کسی جھوٹے نبی کو سر میبری نہیں دکھائی یہی وجہ ہے کہ دنیا میں باوجود غیر متناہی مذہب ہونے کے جھوٹے نبی کی امت کا ثبوت مخالف بھی نہیں بتلا سکتے ، بھر حاشیہ میں فرماتے ہیں " دعوی نبوت کا ذبہ مثل زہر کے ہے جو زہر کھا ئیگا ہلاک ہو گا" دنئے ایڈیشن سے " ثنائی اکادیمی لاہور نے یہ عبارت دیباچہ تفسیر نفذت فرما دی ہے ) یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پہلے حضرت اقدس کو حکومت کا باقی کہا گیا پھر یہ کہا گیا کہ آپ نعوذ باللہ انگریز ہی نہیں تھے مگر کچھ عرصہ سے پہلے خیال کی باز گشت سنائی دی جانے لگی ہے اور یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ آپ کا مقصد ابتدا ہی سے ربع مسکون پیر احمد می حکومت کا قیام تھا چنانچہ
69 جناب مولانا ابو القاسم دلاوری فرماتے ہیں " حقیقت یہ ہے کہ ترقی کر کے سلطنت پر فائز ہوتے کا لائحہ عمل بھی شروع سے ان کے پیش نظر تھا.اور انہیں آغاز کار سے اس مطلب کے الہام بھی ہوا کرتے تھے چنانچہ.....مرزا صاحب کا پہلا الہام جو ۸ ۸۶ یا ۱۸۶۹ء میں ہوا یہ تھا کہ " بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے...اس است کار قادیانی صاحب کی ذہنی کیفیت ، ان کے خیالات کی بلند پروازی اور انکی اولوالعرمین کا سفر در پتہ چلتا ہے اور اس سے یہ بھی متبادر ہوتا ہے کہ قیام سلطنت کے اصل داعی و محرک مرزا صاحب ہی تھے.آخر کیوں نہ ہو تا قوم کے مغل تھے اور رگوں میں تیموری خوبی دوڑ رہا تھا.میرے خیال میں مرزا صاحب نے سلطنت کی حسن آرزوؤں کو اپنے دل میں پرورش کیا وہ قابل صد ہزار تحسینی تھیں ، ہے.بہر حال قرآن کے خدائی اصول کے پیش نظر حضرت مریم موعود علیہ السلام نے علین اس زمانہ میں جب کہ آپکو انگریزی حکومت کا بانی قرار دیکر تختہ دار تک پہنچانے یا کم از کم نظر بند کئے جانے کی سازشیں کی جار ہی تختیں بار بار یہ پر شوکت اعلان فرمایا کہ : - یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کے ماتحتہ کا لگا ہوا پودہ ہے خدا اسکو ہر گز ضائع نہیں کریگا.وہ راضی نہیں ہو گا جنتک کہ اسکو کمال تک نہ پہنچا دے اور وہ اسکی آبپاشی کریگا اور اس کے گرد احاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دیگا اے.- ☑ ن اختبار آزاد لاہور ۲۴ نومبر ۱۹۵۰ء که انجام آنتم ص
نہیں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے والے سور صادقوں کی یہی نشانی ہے کہ انجام انہیں کا ہوتا ہے خدا اپنی سے تجلیات کے ساتھ ان کے دلوں پر نزول کرتا ہے.لیں کیونکہ وہ عمارت منہدم ہو سکے جس میں وہ حقیقی بادشاہ فروکش ہے، ہے سم : " لیکن جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے اگر میکن پیا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرے سے بھی چغیر نہ ہو جاؤں اور ہر ایک طرف.ایڈا اور گالی اور لعنت دیکھوں.تب بھی میں آخر فتحیاب ہوں گا.مجھے کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے.میں ہر گز ضائع نہیں ہوسکتا دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لا حاصل نہیں اے نادانوں اور اندھو مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہے ہو جاؤں گا.کس پیچھے دونادار کو خدا نے ذلت کیسا تھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کریگا یقینا یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونیوالی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ پہنچے ہیں.میں کسی کی پر واہ نہیں رکھتا.یکس اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں کیا خدا مجھے چھوڑ دیگا کبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کر دیگا کبھی نہیں ضائع کریگا و شین ذلیل ہوں گے اور حامد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دیگا ہے 薛 ن ضمیمہ تحفہ گولڑویہ محنت اربعین ۳ م فجہ سے انوار الاسلام صدا ۱۷
احمدیت کو انگریزی ایجنٹ قرار دینے والے ایک ممتاز لیڈر نے جلسہ کی مرزائیت کے مقابلہ کیلئے بہت لوگ سالكوت ۱۹۳۵ ء میں یہ پتلون اُٹھے لیکن خدا کو یہی منظور تھا کہ یہ میرے ہا سمنقوں سے تباہ ہو » یہ دعاوی بے جا نہ تھے بلکہ ایمرسن کی حکومت انگریز اور کانگریں دونوں اسکی پشت پناہ تھیں.اس پیشگوئی کے چار سال بعد 9 ۲۳ ء میں انکے ایک دوسرے ساتھی نے پشاور کا نفرنس میں اعلان فرمایا کہ : ہم دس برس کے اندر اندر اس فتنہ کو ختم کر سکے سے مگر عملاً ہوا یوں کہ ٹھیک دسویں سال خدا تعالیٰ نے جماعت رموج جیسے عالمی مرکز کی بنیاد رکھنے کے بعد اسمان سرب جلسہ کے انعقاد کی توفیق عطا فرمائی اور پھر اس کی ترقی کا ایک انقلابی اور اعجازی دور شروع ہوا کہ ایک عالم حیرت زدہ رہ گیا چنا : فیصل آباد کے اخبار المنیر نے مارا گست ۱۹۵۵ء مت میں لکھا " قادیانی جماعت ان تمام مخالفتوں کے علی الرغم بڑھتی چلی گئی اور آج تک مخالفت کے بقتے طوفان اسکے خلاف اُٹھے انکی لہریں تو آہستہ آہستہ و متی ابھرتی رہیں لیکن یہ پودا پھیلتا چلا گیا ، پھر ۲۳ فروری ۱۹۵۶ء کے پرچہ میں اعتراف کیا کہ " ہمارے واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلا حیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی کے سوانح عطاء اللہ شاہ بخاری صت الا خان کا ملی مطبوعہ ۱۹۴۰عد سے خطبات احرار صد ۳ جلد اول مرتبہ شورش کا شمیری مایه ۱۹۴۴ء (ناشر مکتبہ احرار لا ہور)
At جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع ہوتی گئی مرزا صاحب کے بالمقابل جون لوگوں نے کام کیا ان میں سے اکثر تقوی، تعلق باللہ، دیانت ، خلوص علم اور اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیتیں رکھتے تھے.لیکن ہم اس کے باوجود اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان کا یہ کی تمام کاوشوں کے با وجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے ، یہ اضافہ کس صورت میں ہوا ہے.اس سوال کا جواب اخبار " مشرق ۳۰ جون ۱۹۷۴ء مث کے الفاظ میں یہ ہے کہ." ہمنے گذشتہ نصف صدی میں احمدیوں کی مخالفت میں محض جلیسوں، جلوسوں اور مظاہروں اور کا نفرنسوں اور تقریروں سے کام لیا لیکن احمدیوں نے خاموشی کے ساتھ پاؤں پھیلائے.اسوقت دنیا کے اکتیس ملکوں میں انہوں نے ۵۰ سے زیادہ احمد دیش نام کر رکھے ہیں.ان کے زیر اہتمام ۲۳۴۴ مسجدیں تعمیر ہوئیں.گھانا میں ۶۱ - اندرویشیا میں ۶۰ - سیرالیونی ۴۰.نائیجیریا میں ہم اور مشرقی افریقہ میں ۲۰ برطانیہ امریکہ - جرمنی.ڈنمارک - ہالینڈ وغیرہ میں بھی انکی مساجد موجود ہیں.انگریزی.جرمن اور دوسری زبانوں میں 14 رسالے جاری ہیں اور بانی سلسلہ اور دوسرے نمایاں افراد کی کتابیں بھی مختلف زبانوں میں طبع ہو کر دنیا بھر میں فروخت ہو رہی ہیں چونکہ عامتہ المسلمین نے الیسی کو منظم کوشش نہیں کی اس لئے بیرونی دنیا کے بیشتر ممالک میں اسلام کی وہی تاویل چالو ہے جو احمدی کرتے ہیں اور بعض افریقی ممالک میں تو احمدیت ہی کو اصل اسلام کا منظر سمجھا جاتا ہے ، یہ سال قبل کتنا کم اعداد و شمار ہی خدا کے فضل سے جماعت کی کو 14
مساجد مشنوں اور لٹریچر میں اس کے بعد بیش بہا اضافہ ہو چکا ہے) مورخ پاکستان ہوچہ جناب شیخ محمد اکرم ایم.اے نے یہ بھی اعتراف کیا ہے " ہمارے بزرگوں نے عام مسلمانوں کو نظم و نسق، مذہبی جوش اور تبلیغ اسلام میں مرزائیوں کو فوقیت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھائی بلکہ بیشتر فتووں اور عام مخالفت سے فتنہ قادیان کا سدباب کرنا چاہا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کسی قوم کے ساتھ بے جا سختی کی جائے تو اس میں انتشار اور قربانی کی خواہش بڑھ جاتی ہے بچنا نچہ جب کبھی عام مسلمانوں نے قادیانیوں کی نا لفت میں معمولی اخلاق اسلامی تہذیب اور رواداری کو ترک کیا ہے تو انکی مخالفت سے قادیانیوں کو فائدہ ہی پہنچا ہے انکی جماعت میں ایثارو قربانی کی طاقت بڑھ گئی ہے اور ان کے عقائد اور بھی مستحکم ہو گئے ہیں" ہے c خداتعالی کی اس فعلی شہادت نے فیصلہ کر دیا کہ تحریک احمدیت خدائے ذو العرش کا لگایا ہوا لو دا ہے جو پہلے نہایت تیزی سے تناور درخت بنا اب ایک عالمی باغ کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کے پھولوں ت سے ساری دنیا مہک رہی ہے بہار آئی ہے اسوقت خزاں ہیں.لگتے ہیں پھول میرے بوستان میں پچھلی صدیوں میں برطانوی حکومت کے سیاستدانوں اور مدیروں نے اپنی پارلیمنٹ میں دعوی کیا تھا کہ انگریزی مملکت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوسکتا مگر دنیا نے دیکھ لیا کہ جب ۱۹۳۵ ء میں برٹش ایمپائر کے بعض سے موج کوثر ص ۱۹ بار دوم ناشر فیروز سنز لاہور
افسروں نے احدیت سے ٹکر لی تو خدا نے انکی صف پیسٹ دی مگر آج ہر احمدی مرد اور ہر احمد می عورت اور ہر احمدی بچہ ڈنکے کی چوٹ کہ سکتا ہے کہ احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا نہ کبھی ہو سکتا ہے اور ہر طلوع ہونے والا سورج احمدیت کی ترقی اور عروج کا پیغام میں لیکر آتا ہے.حضرت مسیح موجود علیہ السلام نے فرمایا ہے ہے کوئی کا ذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظر میرے جیسی جسکی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار یہ فتوحات نمایاں یہ تو انہ سے نشاں کیا یہ ممکن ہے بیشتر سے کیا یہ مکاروں کا کار دوسری مثال.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشہور شعرا یہ ہے ہے شان احمد را که داند بجز خدا وند کریم آنچنان از خود جدا شد که میان افتادیم ( توضیح مرام ) احمد کی شان کو سوائے خداوند کریم کے کون جان سکتا ہے.وہ اپنی خودی سے اسطرح الگ ہو گیا کہ میم درمیان سے گر گیا.(مطلب یہ کہ آنحضرت اللہ تعالیٰ کے مظہر ا تم ہیں اس لئے جس طرح اللہ تعالٰی خالق ہوتے ہیں شان احدیت کا حامل ہے اسی طرح آنحضرت تمام مخلوق میں احد ہیں ) اس شعر کو جو عشق مصطفی سے معطر ہے مولانا ثناء اللہ صاحب امرانتری نے اپنی کتاب " علم کلام مرزا » صا" میں " مشرکانہ تعلیم قرار دیا مگر زمانہ کی نیرنگیاں ملاحظہ ہوں کہ خدا کا وہ پاک اور برگزیدہ بندہ جس کو کبھی
AD آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غلو کر نیوالا اور مشترک بتایا جاتا تھا اب اُسی کو گستاخ رسول کہا جاتا ہے.تیسری مثال.پاکستان میں ایک عرصہ تک پوری بلند آہنگی سے یہ آواز بلند کی جاتی رہی کہ : مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی دلیل یہ ہے کہ مرزائیوں نے اپنے مسلمان نہیں کہلایا وہ خود اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں ، اسے دینی عمائدین کا ارشاد ہے کہ." مہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے احمد می تو ہم ہیں ،ہے ہماری تو دعا ہے کہ خدا کہ سے دنیا کا ہر فرد احمدی مسلمان کہلانے لگے تا حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ الہام ہمیشہ ایک نئی شان ہے جلوہ گر ہوتا رہے کہ " آن سرور كائنات عليه وعلى آله الصلوات والتسليمات کے زمانہ رحمت سے ایک ہزار اور چند سال بعد ایک زمانہ ایسا بھی آمینوال ہے کہ حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج فرمائے گی اور حقیقت کعبہ کے مقام ہیں متحد ہو جائیگی اسوقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمد می ہو جائے گا ہے اخبار " آزاد " ۱۳ جولائی جولائی ۱۹۵۲ء ص " es ver y a سے سوانح مولانا مفتی محمود صلا" مؤلف نعیم آسی ناشته مسلم اکادمه.وزیر اوه سیالکوٹ اکتوبر کا اردو ترجیه میده و معاد ۲۰۵ زنا شهر دوره مجددین ناظم آباد در اکران شام
AY استہزاء کا چھٹا اور آخری طریق عقاید احدیت سے استحضراء کا چھٹا اور آخری طریقی دینی حقائق سے وہ کھلم کھلا تمسخر اور مذاق ہے جس کے چار عناصر ہیں.- اشتعال انگیزی ۲ - مغالطہ آفرینی ۳.پھکڑ بازی ۴ - گالیاں بطور نمونہ ان میں ہر ایک جز کے بعض اعتراضات کا اسلامی لٹریچہ کی روشنی میں تحلیل و تجزیہ کیا جاتا ہے جس سے یہ نہایت دردناک حقیقت بھی نمایاں ہوگی کہ استہزاء کے اس طریق سے سب سے زیادہ اسلامی روایات کو مجروح کیا گیا ہے دوسرے الفاظ میں بظاہر سب اعتراضات تحریک احمدیت پر ہیں مگر حملہ بالواسطہ طور پر امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ بڑیچے اشتعال انگیزی.متکلمین اسلام نے دشمنان دین کے مسلمات کی بناء پر الزامی جواب دینے کو خاص اہمیت دی ہے اور اس بارے میں تاریخ کے کئی واقعات محفوظ کئے ہیں.محمد د اہل حدیث نواب صدیق حسن خان صاحب قنوجی انه تفسیر ترجمان القرآن " جلدءا من ۴۳ مطبوعه ۱۳۳ میں لکھا ہے کہ " ایک بار ایلچی روم پاس بادشاہ انگلستان کے گیا تھا اس مجلس میں ایک عیسائی نے اس کو مسلمان دیکھ کر یہ طعن کیا کہ تم کو کچھ شہر ہے کہ تمہارے پیغمبر کی بی بی نے کیا کیا تھا اس نے جواب دیا مجھکو یہ خبر
AL ہے کہ اسطرح کی دو بیاں تھیں جن پر تہمت زناد کی لگائی مگر اتنا فرق ہوا کہ ایک بی بی پر فقط اتہام ہوا دوسری بی بی ایک بچہ بھی تین لائیں وہ نصرانی مبہوت ہو کر رہ گیا حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی رحمہ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ " ایک دفعہ ایک پادری صاحب شاہ صاحب کی خدمت میں آئے اور سوال کیا کہ کیا آپ کے پیغمبر حبیب اللہ ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں.وہ کہنے لگا تو پھر انہوں نے بوقت قتل امام حسین فریاد نہ کی ، یا یہ فریاد سنی نہ گئی ہے شاہ صاحب نے کہا کہ نبی صاحب نے فریاد تو کی لیکن انہیں جواب آیا کہ تمہارے نواسے کو قوم نے ظلم سے شہید کیا ہے لیکن ہمیں اس وقت اپنے بیٹے عیسی کا صلیب پر چڑھنا یاد آرہا ہے ، الزامی جواب کا یہیں حریہ ہے جو آنحضرت کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انیسویں صدی کے بد زبان پادریوں کے آنحضور پر شرمناک حملوں کے جواب میں استعمال کر کے اُن کو دم بخود کر دیا مگر معترضیلی اصحاب اسکو توہین عیسی " کا نام دیتے ہیں حالانکہ حضور کی کتابوں میں بار بار یہ وضاحت موجود ہے کہ : ہماری قلم سے حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت...جو کچھ نکلا ہے وہ التزامی جواب کے رنگ میں ہے (چشمہ مسیحی حاشیہ نج) -۲ حضرت سلطان العارفین حضرت سلطان باہوں میں اللہ العزیز انتی و کتاب نورالمعلمی کے دسویں باب میں فقر کی اسفروسی منزل کے انوار در یافت " نے رود کوثر از شیخ محمد اکرام ایم اے 0-0 ناشر فیروز سنز لاہور
پیر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : be + مشق وجود یہ کی پاکی اور برکت سے مجلس حضرت محمد رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم میںایک نوری طفل معصوم کی شکل میں حاضر ہو جاتا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کمال لطف، شفقت اور مرحمت سے انس توری بچے کو اپنے اہل بیت پاک میں جناب القربات المؤمنین حضور حضرت فاطمتہ الزھرا اور حضرت بی بی خديجة الكبرى و حضرت عائشہ صدیقہ رضى الله عنوں کے سامنے لے جاتے ہیں وہاں ہر ایک ام المومنیاں اسے اپنا فرزند کتی ہیں اور اپنا نوری دودھ پلاتی ہیں اور وہ شیر ندار اہلبیت خاص ہو جاتا ہے اور اسکا نام فرزند حضوری اور خطاب فرزند نوری ہو جاتا ہے " پھرا اپنے روحانی مشاہدہ کا ذکر فرماتے ہیں کہ : " حضرت سرور کاشان صلی اللہ علیہ وسلم اس فقیر کو باطنی میں اپنے مریم محترم کے اندر کمال تنفقت اور مرحمت سے لے گئے اور حضرت امرنات المومنين حضرت فاطمة الزهراء اور حضرت خدیجۃ الکبری اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنصر نے اس فقیر کو دودھ پلایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور امہات المومنین نے تجھے اپنے نوری حضوری فرزند کے خطاب سے سر فراز فرمایا ت غوث اعظم حضرت استاد عبد القادر جیلانی ، حضرت شاہ محمد آفاق : حضرت شاہ نورالدھر اور حضرت سیداحمد شہید بریلوی رحمہم اللہ جیسے اکابر نے حق نمائے اردو ترجمہ نورالی این ۲۵ ۲۲-۲۲۵ صبح پنجم مقام اشاعت کلاچی ضلع ڈیرہ اسمعیلخان.
وه بزرگوں کی سوانح اور حالات سے ثابت ہے کہ انہیں سبھی اہل فقر کا یہ صوری اعزاز عطا ہوا اور حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو بھی ایک کشف میں کی شد پنجتن پاک کی زیارت نصیب ہوئی اور حضرت علی شے سے آپکو تفسیر عطا ہوئی جو آپکے عاشق رسول اور اہل فقر میں سے ہوتے کی ناقابل تردید آسمانی شہادت ہے مگر افسوس معرفت و حقیقت کے اس کوچہ سے بے خبر اور نا آشنا اذعان و قلوب کو اس ذریعہ سے بھی مشتعل کیا جاتا ہے.مغالطہ آفرینی - قرآن عظیم میں انبیاء علیهم السلام کے علاوہ حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ اور حضرت عیسی کے حواریوں سے بلکہ شہد کی مکھی پر تھے بھی وحی کا ذکر ملتا ہے اور مسلم، ابن ماجہ اور نہ ندی کی متعدد احادیث میں مسیح محمد می پر وحی کے اترنے کی واضح پیش گوئی موجود ہے.اسی طرح فرقہ امامیہ کے بزرگوں سے بھی مروی ہے کہ مہدی موعود پر وحی ہوگی اور آپ اللہ کے امر سے اس وحی پر عمل کریں گے تھے صل ۵ معه حاشیه ی علامت ہو ، قلائد الجوابر توان حضرت سید عبدالقادر جیلانی - گاسته کرامات الترجمه به كتاب مناقبه غوثیه از حضرت شیخ محمد صادق شیبانی مطبوعہ مصر - " ارشادر رحمانی از مولوی محمد علی صاحب مونگیری - "صراط مستقیم من از حضرت شاہ اسمعیل شهید القصص : س المائده : ۱۱۲ النحل : 49 و ترجمہ بحار الانوار جلد ۱۳ صحت ۱۱۱۴
مگر اب یہ نظریه ایجاد و اختراع کیا گیا ہے کہ تمام مسلمانوں کا یہ بالاتفاق فیصلہ ہے کہ آ نحضرت کے بعد جبرائیل امین کسی کیلئے وحی لیکر نازل نہیں ہونگے کے - - گزشتہ اہل کشف بزرگ جنہیں حضرت شیخ محی الدین ابن عربی اور حضرت معین الدین چشتی خاص طور پر قابل ذکر ہیں یہ قطعی مسلک رکھتے تھے کہ قرآنی ذکریم آیات بھی قلوب اولیاء پر نازل ہوتی ہیں سکے اور حضرت معین الدین چشتی تو اپنے دیوان میں یہاں تک فرماتے ہیں کہ تم خود اپنے وجود پر " دی فدلی" کا صعود د یکھ سکتے ہو یا یہی نہیں حضرت سید عبد القادر جیلانی ، حضرت مجدد الف ثانی حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی اور حضرت امیر الماننرئی ر پیر کو ٹھا شریف پر قرآنی آیات نازل ہوئیں جنکا مفصل تذکرہ اسلامی لٹریچر میں پایا جاتا ہے کے الہ الہامات میں ایسی آیات بھی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے مخصوص سمجھی جاتی ہیں مثلاً صَلوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيما - أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ - قل انما انا بشر مثلكم - يايها النبي اتق الله ولا تطع الكافرين ان حقائق کے باوجود یہ غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے کہ قرآنی آیات کے الفاظ میں الہام پر مہر لگ چکی ہے.یہ تاریخی حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی موعود کے ن مرزائیت اور اسلام ۴۵۰ از مولانا احسان الہی ظہیر تے فتوحات مکیہ جلد ۲ ص (باب (۱۵) کے ۳ من دیوان معین الدین چشتی ص کے فتوح الغیب ( امام ربانی ۱۳۶ سید عبد القادر جیلانی) مقاله به مقالات سوانح عمری موادی عبدالله الغزنوی عمل سير في نظم الى ير ا ا ا از ملاصفي الله مطبع فاروقی دیلی ۱۶۹۵ در :
91 لئے چاند سورج گرہن کے جس آفاقی نشان کی خبر دی تھی وہ ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۴ء میں نہایت آب و تاب سے ظاہر ہو گیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے " نور الحان " میں انعامی چیلنج دیا کہ یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ آپ سے پہلے کسی شخص نے دعوی کیا ہو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور پھر اس کے زمانے میں رمضان میں چاند اور سورج کا ان مقررہ تاریخوں میں کسوف خسوق ہوا ہو اس چیلنج پر کتاب " رئیس قادیان میں چار اعتراضات کئے گئے.* - اول یہ کہ حضرت مهدی موعود کے زمانہ کا گر سن قانون فطرت اور قاعدہ نجوم کے خلاف لگے گا.جیسا کہ صاحبزادہ رسول عربی حضرت ابراہیم کی وفات کے دلی سورج گرہیں.تاریخ کو لگا تھا حالانکہ مقرہ تاریخیں گر ین کی ۲۷.۲۹-۲۸ ہیں.- دوم آپکے زمانہ میں ہی مہدی سوڈانی موجود تھا مگر اس نے اسکو اپنی مہدیت کیلئے صرف اس لئے بطور نشان پیش نہیں کیا کہ وہ مرزا صاحب کی طرح پیسٹی کا خوگر نہ تھا.مرزا علی محمد باب نے میں دعوی مہدویت کیا اس کے ساتویں سال رمضان ۱۲۶۷ مطابق جولائی ۱۸۵۱ میں ۱۳ اور ۲۲ر رمضان کو خسوقی و کسوق کا اختراع ہوا.چہارم.باپ کے دونوں جانشین صبح ازل اور بہاء اللہ بھی.مہدویت کے ماری تھے پس یہ اجتماع کسو نہیں صداقت کا کوئی نشان نہیں یہ چار دن اعتراضات در اصل مقالطہ انگیزی کاید ترین نمونہ ہیں اس لئے کہ نے مؤلفہ مولانا ابوالقاسم دل اور میں صاحب کے رئیس قادیانی جلد یا مجلس تحفظ ختم موت دلاوری پاکستان ملتان
: ۹۴ ماہرین ملکیات کی تحقیق کے مطابق حضرت ابراہیم کی وفات کے موقعہ پر سوری گریان قاعدہ نجوم کے عین مطابق ۲۹ شوال سایہ کو ہوا.انڈی کر نتائج اور انڈین ہئے را کنگھم اور انڈین کلینڈر.رابرٹ سیول نے بیچی تاریخ اس گرین کی تسلیم کی ہے + -۲- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد کا گر سون ۱۸۹۴ء میں ہوا مگر مہدی سوڈانی اس سے 9 سال قبل ۱۸۸۵ء میں انتقال کر چکے تھے کے - خدائی و عید کیمطابق ایران کا مدعی مہدویت علی محمد باب جولائی ۱۸۵۰ میں مارا گیا اور مجوزہ گر میں اس کے بعد جولائی ۱۸۹۱ء میں ہوا.-۴ بہاء اللہ کی وفات دیور مٹی ۱۸۹۲ء کو ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک کے گر میں کا آسمانی نشان ۱۸۹۴ء میں رونما ہوا بنا جس زاویہ نگاہ سے بھی دیکھا جائے یہ چاروں اعتراضات قطعی طور پر بے بنیاد ہمیں اس گرین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیا ہے.پھکڑ بازی.سورۃ نور میں اشاعت قش کو سنگین بریم قرار دیا گیا ہے مگر دکھ بھرے دل سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ احمدی معتقدات پر اعتراضات میں بھنگ بازی کو عملاً خطابت کا سینہ واعظم بلکہ نقطہ کمال سمجھا جانے لگا ہے جس کے بہت سے نظائر پیش کئے جا سکتے ہیں مگر صرف چند انتشارات پر اکتفا ن رحمة للعالمین جلد ۲ منه از قاضی محمد سلیمان منصور پوری سے " المتحد في اللغت والا علام" من "
عد حبيب بس - کیا جائیگا تیرہویں صدی ہجری کے صوفیا میں حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی کو ایک خاص مقام حاصل ہے آپکے ملفوظات " مرة العاشقین ، ص ۲۷ میں لکھا ہے کہ انہوں نے ایک پنجابی شعر پڑھا جس میں مرزا کا لفظ نقا عرض تھا کیا گیا ' مرزا سے کیا مراد ہے ، فرمایا " رسول خدا " ایک ایسا پیارا لفظ جسکی نسبت پچھلی صدی کے صوفیا تے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سے طرف کی ہے اسے بھی احمدیت سے دشمنی کے باعث تختہ مشق بنایا جاتا ہے -۲ حضرت بانی سید عماد طالبیہ احمدیہ کی پیشگوئی متعلقہ " اسد بیگ محمدی سل بیگم ایک سلائی اور جمالی نشایی صداقت ہے جو اپنی شرائط کے ساتھ اس شارہ سے پورا ہوا کہ محمدی بیگم صاحبہ کی سنگی والدہ کی مشیر گا براسکا بھائی اور اس کا حقیقی بیٹا نیز اس کے خاندان کے دوسرے بہت سے فراد شامل احمدیت ہو گئے مگر اس پر بھی افسوسناک انداز میں اعتراض کیا جاتا و ہے جس کا کوئی جوانہ نہیں.مخلص اور دیندار مسلمان ملازمہ میں نو کا لحاف کے اوپر سے دبانے کا ایک معمولی واقعہ سیرت المہدی جلد سوم صدا پر لکھا ہے جو صرف، اس بڑھیا کی سادگی کا عکاس ہے جس پر قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی رو سے ہر گنہ کوئی تنقید نہیں کی جا سکتی.سم - خل و بیرونہ کی اصطلاح صدیوں سے صوفیائے عظام میں رائج ہے چنانچہ حضرت حکیم الملت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب
" التقسيمات الالبيه " جلد ۲۵-۲۶۱ میں حضرت شاہ اسماعیل شہید نے منصب امامت ص۱۲۵ میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے تحذیر الناس" مردانه ص ۳۳ پر مولانا محمد حسن صاحب امروہی نے التاديل المحكم في منشایہ فصوص ۴۳۳۰۴۳ میں اور حضرت خواجہ غلام فرید آن چاچڑاں شریف الحكم نے اشارات فریدی " جلد ۲ ص ۱۱۲۰ میں یہ اصطلاح اولیاء دوسرے انبیاء بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و بلئے سبھی استعمال فرمائی ہے مگریہ تصور کر کے روح کانپ اٹھتی ہے کہ ہوش خطابت میں یہاں تک کہ دیا گیا ہم کسی بات کو نہیں مانتے ہم پیروزی اور علی کی ایک انس بھی سنتا پسند نہیں کرتے اس قسم کی بکواس بند کرو کے ایک مشعلہ نوا شاعر کیسے گوہر افشانی ملاحظہ ہو ت نہیں قائل ہوا میں آجتک انکی شریعت کا خدا جن کا برونری ہے نبی جنت کابرازی ہے ہے اللہ جل شانہ نے زبانوں کے اختلاف کو بھی قرآن مجید (سورۃ روم ۲۳۰) میں اپنی علیم و غیر بستی کا عظیم نشان قرار دیا ہے اور اس طرح علم الا استہ کی تحقیقات کا ایک وسیع دروازہ کھولا ہے لہذا ایک محقق و فاضل کا اصل کام یہ ہے کہ وہ ان کے لفظی، صوری اور معنوی تفاوت کا فلسفہ اور حکمت اور ان کے باہمی ربط میں وغیرہ پر گہرا غور و فکر کرتے تا اُسے ایک IN د ستم طبات امیر شریعت مد ) و از جانباز مرزا ناشتر میکنه تبصره لاہور امیرشه ت چمنستان ( مولانا ظفر علی خان، مدت ناشر مکتبہ کا ردوان کچہری روڈ.لاہور
۹۵ تم طرف خدا تعالیٰ کے غیر محدود علم کی طرف توجہ پیدا ہو اور دوسری طرف زبانوں ا کے اصل سرچشمہ یعنی عربی زبان سے عاشقانہ تعلق پڑھے لہذا اختلاف الالمنہ کو تمسخر اور مذاق کا موجب بناتا کسی عارف کا کام نہیں ہو سکتا مثلاً قرآن مجید میں انسان کو قتورًا (کنجوس) کہا گیا ہے.علامہ سید سلیمان ندوی نے ارض القرآن میں تحقیق کی ہے کہ سہی نام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک حرم محترم کا تھا جس کے معنی عبرانی میں معطر کے ہیں.حضرت علامہ قسطلانی نے آنحضرت کے جو غیر عربی نام مواہب اللدنیہ، جلدا ۱۳۹۵-۲۲۷ میں لکھے ہیں ان میں " المنحنا " " مازمان " بھی بتایا ہے.مصری فاضلی مورخ علامہ الحارج کرارہ کی تصنیف " تاریخ حرمین شریفین “ میں لکھا ہے کہ مدینہ کا ایک نام " تند و تند " بھی ہے.مشہور اہل قلم مولانا محمد عبدالله صاحب منہاس کی تحقیق یہ ہے کہ چینی زبان میں قرآن کو " نان چین" آیت کو چان" رکوع کو چھٹے ، اسلام کو " ہوئے بچاؤ ، مسلمان کو چھینچے " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو " چوٹی سمی رائے منتھازان ، خدا کو شھنشان" فرشتہ کو ہو سو ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خو مور کہتے ہیں.ہے اسی طرح پاکستان کے ایک سکالر جناب ڈاکٹر غلام جیلانی برینی نے اپنی کتاب " ایک اسلام » ۱۳۳۰ - ۴۷۴ میں مہندؤوں کی کتاب کلنگی میران کے بارہویں یا سب سے آنحضرت کے ظہور قدسی کی بیشارات لکھی در ۵ ۵۲۰ طبع دوم مصنفہ محمد عبد اللہ منہاس ناشر دی سٹینڈرڈ ایجنسی ایجرٹن روڈ امرتسر ضروری ۱۹۳۹ ذی الحجہ مشتراه سے پیام امین " " "
✓ ہیں اور بتایا ہے کہ اس باب میں جگت گرڈ سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم " وشنو بھگت " سے مراد حضرت عبداللہ سومنتی سے مراد حضرت آمنہ ململ دیپ سے مراد ایشیائے صغیر و عرب اور پرس رام سے مراد جبرائیل ہے ان کے علاوہ مولوی نور احمد صاحب خطیب نے مجموعہ وظائف سبحانی ( مطبوعہ کشمیری بازار لاہور) (ص ۷۵-۶ میں اور بجناب درد علی شاہ قلندر قادری سجاده نشین دربار عالیہ قادریہ جھیز شاہ پچھلگراں ضلع راولپنڈی " نے اوراد قادریہ مت میں فرشتوں کے ایسے عجیب و غریب نام لکھے ہیں کہ انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے.اسی طرح ایک خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کسی شخص نے جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا اپنا نام ٹیچی بتایا جس کے پنجابی میں معنی مقررہ وقت پر آنیوالے کے اور چینی لغت اور زبان میں علامہ اقبال مند کے ہیں.حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہے إِنَّ لِلَّهِ مَلائِكَةِ فِي الْأَرْضِ ہے على السنة بني آدم كے اللہ کے فرشتے جو زمین میں ہیں بنی آدم کی زبانیں بولتے ہیں.شہنشاہ نبوت کے اس حقیقت افروز ارشاد کے باوجو دے اختلاف السنہ پر سنجیدگی سے ریسرچ کرنے کی بجائے الٹا ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے -4 - خدا کے مقبولوں اور محبوبوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف ناموں اور مقاموں سے ضرور نوازا جاتا ہے مگر یہ انعام انتہائی عاجزی اور تند کل و انکساری کے بغیر نہیں ملتا.یہی وجہ ہے کہ سید الانبیاء محمد مصطفے احمد مجتبی ن " الديلمي عن السم بحواله " الدرر المنتشرة للسيوطى "ص"
94 صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " إِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ لِلّهِ رَفَعَهُ الله : لَى السَّمَاءِ السابعَةِ » سے جب کوئی بندہ اللہ کیلئے تواضع کرتا ہے اللہ اسے ساتویں آسمان کی طرف اٹھالیتا ہے پھر تواضع کی تشریح میں فرمایا لا يَكْمُلُ إيْمَانُ المرحَى لَا يَكُونَ النَّاسُ عِنْدَه كالا باعر ثُمَّ يَرْجِعُ إِلى نَفْسِه فيراها أَصْغَرَ صَا غِرَات یعنی کوئی شخص اُسوقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کے نزدیک تمام مخلوق اونٹوں کی مینگنی کے برابر نہ ہو جائے پھر اپنے آپکو بھی وہ سب سے زیادہ حقیر و ذلیل نہ سمجھے.سلسلہ انبیاء میں ہمارے آقا سید الانبیاء امام الاصفیاء ختم 1 ملین آقاسید 1 فخر النبيين محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سب مقدسوں کے سرتاج تھے آپ کے محبوں میں خدا اور دریانوں میں جبرائیل بھی شامل ہیں آپ کی زبان خدا کی قرنا آپ کا دل خدا کا عرش اور آپکی آواز خدا کی آواز ہے مگر آپ تواضع کے جس انتہائی اور آخری مقام پر فائز تھے اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ خدا نے صرف آپکو تشفیع المذنبیین کا منصب عالی بخشا مگر حضور فرمایا کرتے تھے کہ میں بھی خدا ہی کے فضل سے جنت میں جاؤں گا.حضرت نظام الدین اولیاء نے ایک بار مجلس میں بیان کیا کہ : کنز العمال جلد ۲ ص ۲۵ م مطبع دائرة المعارف التظامیہ حیدر آباد دکن سوله YA مل " عوارف المعارف» از حضرت شہاب الدین سهروردی بحوالہ بلاغ المبین ۱۵ مؤلفہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی.-
."رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ گر قیامت کے دو حق تعالیٰ مجھے اور میرے بھائی عیسی کو دمعاذ اللہ ناقل) دوزخ میں ڈال دے تو یہ اس کا عدل ہوگا ، نہ یہ حدیث نبوی حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے اور اس کا تمن یہ ہے "لو ان الله يُوا خِذُ فِي وَعِنى بِذُنُوبِنَا لَعَذِّبْنَا وَ لا يظلمنا شيئاً ،ہے مجدد اسلام حضرت علامہ جلال الدین سیوطی " نے الجامع الصغیر" میں مستدرس المحاکم کے حوالہ سے آپکی یہ مسنون دعا ورج کی ہے کہ : ANALANGANT في ضعيف فقولي اللهم إني ذليل : اَللهُمَّ ا فَاعَزنی " اسے خدا میں کمزور ہوں مجھے طاقتور بنادے میں ذلیل ہوں مجھے عزت دے.شاہ لولاک کے اس ارشاد مبارک کے عین مطابق آپ کے " احقر الغلمان " بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اپنے اشعار میں اپنے مولائے حقیقی کے حضور غایت درجہ خاکساری اور فروتنی کا اظہار کیا مگر اُسے اس رنگ میں پیش کیا گیا کہ اخلاق و انسانیت کے چہرے بھی شرم و ندامت سے تر بتر ہو گئے.حالانکہ یہ عاجزانہ راہیں اس بات تربتر پر محبتم دلیل ہیں کہ آپ نے نوع بشر کی نفرت کو گوارہ کر کے یہ تو منظور کیا کہ آپ کے سینہ کو تیروں سے چھلنی کر دیا جائے مگر اسود محمد سی کا ترک کرنا ہر داشت نہ کر سکے اور پھر خدا کے فضلوں کے منادی بنکر فرمایا :- سے فوائد الفواد " شائع کردہ محکمہ اوقاف پنجاب لاہور مٹ سے " الترغیب التربيب ، جلد ۴ صد ۳۴ (صحیح ابن حیان، تالیف الحافظ محمد ز کی الدین عبد العظیم ہے معلم الله تمام ۱ ۵۱ - ۶۵۶ سے جلدا مت ۵۳
94 کر کے بودم مرا کر دی بیشتر من عجب تراز مسیح بے پدر میں ایک حقیر کیڑا تھا تو نے مجھے بشر بنا دیا میں بے باپ میں سے کبھی زیادہ مجیب ہوں.نیز میراحمدی کو اتباع رسول کی یہ تلقین فرمائی : اسے گرم خاک چھوڑ دے کبر و غرور کو زیبا ہے کبیر حضرت رب غیور کو تلخی کی زندگی کو کو وصدق سے قبول تاختم پہ ہو ملائکہ عرش کا نزول بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے قتل ہود دارا الوصال میں -۷ اسلامی تصوف کی تمام اصطلاحات کا اصل سرچشمہ قرآن مجید ہے اور قرآن مجید نے سورۃ تحریم کے آخری رکوع میں مومنوں کو مریم سے تشبیہ دی ہے جسکے نتیجہ میں سلوک و جذب کی مختلف منازل کیلئے معنوی حیض دردزہ ، حمل اور مریم اور عیسی وغیرہ استعارات نے جنم لیا قرآن مجسم سرتاج مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے NLOADب حق والاستغفارُ طهارة مِنْهُ ، جھوٹ حیض ہے اور استغفار اس سے پاک ہونا.حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " إذا كان الساعة من الناس كا الحامل المتم سے کنوز الحقائق صد ۲۳ زیر لفظ نام من ر حضرت امام عبدالردون منادی ) يض
طرح ہوگی یہ لا يدرى اهلها متى تفجاء هم بولادتها ليلاً اَمْ نهارًا ترجمہ جب وہ گھڑی آجائیگی تو لوگوں کو اُس سے لاعلمی اسی طرح ہوگی ھیں طرح وہ حاملہ عورت جس کے دن پورے ہوں نہیں جانتی کہ وضع حمل دن کو ہو گا یارات کو.مشیر خدا اسد اللہ الغالب حضرت علی سے مروی ہے کہ " ان مثل مصلى النوافل وعليه فريضة كمثل جلی، جس نمازی نے فریضہ ادا نہیں کیا مگر نواقل پڑھے اسکی مثال حاملہ عورت کی طرح ہے کے یہ حدیث حضرت سید عبدالقادر جیلانی نے فتوح الغیب میں درج فرمائی ہے.قرآن وحدیث کی روشنی میں ارباب معرفت و طریقت بزرگوں نے یہ استعارات نہ صرف اپنی ذات اور دوسرے اولیاء کیلئے بلکہ اقلیم تصوف کے آفتاب اور سالکوں کے قافلہ سالار حضرت محمد مصطفی اصلی ، اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کیلئے بھی استعمال کئے ہیں اور ان میں سے اکثر بزرگ اس شان کے حامل ہیں کہ آپ کپڑے سےبڑا عالم دین ان کا خاک پا ہوتا اپنا فخر محسوس کرتا ہے.مثلاً 1.حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء فوائد الفواد مدام ۴ مجموعه خواجگان بهشت (۶۸۵ ۲- حضرت خواجہ بندہ نواز ابوالفتح صدر الدين سيد محمد الحسين تذکره خواجه گیسو دراز (صلا ۳ حضرت بایزید بسطامی ظهیر الاصفیاء ترجمہ ارد و تذكرة الاولياء (۱۳۷) کہ حضرت شیخ احمد معشوق (تذکرۃ اولیائے ہند و پاکستان طلا از مرزا محمداختر بلوری) نے مستدرک علی کم کتاب الفتن جلدم ما به من فتوح الغیب مترجم فارسی ص ۲۷۲ از شیخ عبد القادر جیلاتی تاثر مطبع نامی منشی نولکشور لکھنو 1 FINAL
101 191- ه حضرت سید محمد بن مبارک کرمانی در سیر الاولیاء اردو ترجمه ملام) -4- قطب الاولیاء حضرت محی الدین ابن عربی ( تذکره خوشیه ۲۹ از مولانا گل حسن شاہ ، حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی (مرة العاشقین مث مرتبہ مولانا سید محمد سعید ۸ حضرت مولانا روم " و " الهام منظوم " ترجمه اردو مثنوی دفتر دوم م۱۳۹-۲۷۵) ۹ - حضرت شیخ فخرالدین ابراهیم المعروف عراقی خلیف کلیات عراقی ص ۱ - ۱۹۱) ۱ حضرت بہاؤ الدین ذکریا ملتانی ۱۰.فقیر نور محمد قادری کلاچوی از مانہ حال کی ایک صوفی مزاج شخصیت ( عرفان جلد ۲۳۲ (۲۳۵) ۱۱- حضرت الشیخ اسماعیل بر وسوی مفسر اسلام خاتم المفسرين بروح البیان جلد را صدا (۳) الغرض قرآن وحدیث اور بزرگان امت کی کتب متذکرہ استعارات اور صوفیانہ اصطبارات یریز ہیں مگر آہ جب حضرت مسیح موعود نے بھی حکم عدل کی حیثیت سے انکو صحیح قرار دیتے ہوئے استعمالی فرمایا تو آپ پہ نہ صرف اخلاق سوز بھرتیاں کسی گئیں بلکہ اسے اپنا کارنامہ بناتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا گیا کہ و یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مجلس کے خلیوں میں جذباتیت پھکڑ بازی اور اشتعال انگیزی کا عنصر غالب ہوتا ہے یہ ٹھیک ہے مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ ہماری قوم کی ذہنیت اور مذاق کیا ہے.....جذباتیت اور سطحیت ہماری کھٹی میں پڑگئی.ی ہے ہماری ہر تحریر اور ہر تقریر جدیا نیت اور سطحیت پر باتی ہوتی.ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم حقائق و واقعات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے صرف جذبات سے کام نکالتے ہیں...دیندار a
۱۰۴ اور بے دین سب کے سب اشتعال انگیزی ہی سے کام لیتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ اس سے کوئی کم کام لیتا ہے اور کوئی زیادہ..ہمارے بزرگ اس میں سب سے آگے ہیں اسی لئے وہ رشک و حسد کی نگاہوں سے دیکھے تے جانتے ہیں ، ٹ " مبلغین احمدیت کیلئے ہدایت اس طرز عمل کے بر عکس حضرت مصلح موعود کی احمدی مبلغین کو مستقل ہدایت یہ رہی ہے کہ : " ہمیں وہ تیز طرار مبلغ نہیں چائیں جو خم ٹھونک کر میدان مباحثہ میں نکل آئیں اور کہیں آؤ ہم سے مقابلہ کر لو.ایسے مبلغ آریوں اور عیسائیوں کو ہی مبارک ہوں.ہیں تو وہ چاہیں جنگی نیچی نظریں ہوں جو وحیا کے پتلے ہوں جو اپنے دل میں خوف تعداد رکھتے ہوں" ار کھتے ہوں.لوگ جنہیں دیکھ کر کہیں کہ یہ کیا جواب دے سکیں گے.نہیں ہر استنبول کی ضرورت نہیں جو مباحثوں میں جیت جائیں بلکہ ان خادمان و د ضرورت ہے جو سجدوں و میں جیت کر آئیں نے وم عینی سے بھی بڑ کر ہوں باؤل میں اللہ.یہ میں بنو موسیٰ کا عصا ہو جاؤ گالیاں بہ آنحضرت مسی الہ علیہ وسلام کی حدیث مبارک ہے کہ اپنی زبانوں سے بھی جہاد کہ وہ شیخ اعوج سے نہ انہ سے اس فرمان نبوی شتی پیکساری کی جارہی ہے والنهب ونحوذالك وبان تذمرهم وتسرهم بان تشوفو هم توان دوهم بالقتل وان هد 4-0 ن اخبار آزاد لاہور احرار نمبر سے میس مشاورت قاریان ۱۹۳۶ - ۲۵۰۲۳
یعنی مشرکوں کو قتل و تجارت کی دھمکیوں خوفزدہ کردو اور انہیں برا بھلا کہو اور خوب گالیاں دو یہ جہاد بالسان " جماعت احمدیہ پر اعتراضات کے ذریعہ نے جس بیدردی اور شدت اور وسعت اور کثرت سے کیا گیا اُس نے ملک کے غیر از جماعت مگر شریف النفس اور بزرگ اہل قلم کو بھی تڑیا کے رکھ دیا ہے چنانچہ جناب ڈاکٹر غلام جیلانی برقی تحریر فرماتے ہیں.آج تک احمدیت پر جسقدر لٹریچہ علمائے اسلام نے پیش کیا ہے اسمیں دلائل کم تھے اور گالیاں زیادہ ایسے دشنام آلود لٹر ی کو کون پڑھے اور مغلقات کون سنے.میٹھے انداز اور ہندوانہ رنگ میں کہی ہوئی بات پر ہر شخص غور کرتا ہے مگر گالیاں کوئی نہیں سنتا ہے.مولانا نعیم صدیقی لکھتے ہیں." انکی زبان اور ان کا انداز بیان بسا اوقات رکاکت اور ابتذال تمسخر اور استہزاء کی حد کو چھو جاتے کی وجہ سے کبھی ایمیل نہیں کر سکا ھے.مولانا عبد الرحیم اشرف مدير المنیر رقمطراز ہیں " استہزاء اشتعال انگیزی ، یاوہ گوئی بے سروپا لفاظی ، اس مقدس نام کے ذریعہ مالی علی لادینی سیاست کے داؤ پھیرا خلوص سے محروم اظہار جذبات مثبت اخلاق فاضلہ سے تہی کردار ناخدا ترسی سے بھر پور مخالفت کسی بھی غلط تحریک کو ختم نہیں کر سکتی اور ملیت اسلامیہ پاکستان سے مشکوۃ مطبع محمدی بیٹی ۱۲۸۲ و در ۳۶۳۲ مطبع مجتبائی کہ ۱۳۷، مطبع اصبح المطالعے پہلی ۳ - مطبع مجید کی کا پتوی ۳۳ - مطبع فاروقی و بی ۱۳۰۷ ۳۲ مطبوع آیا می ریلی م - سے محرقوه مجرباته والت : ( ناشده شیخ غلام علی اینڈ سنٹر لاہور ) سے رسالہ دراین راه » کراچی ماروح ۱۹۵۴ منت
کی ایک اہم محرومی یہ ہے کہ تحفظ ختم نبوت کے نام سے جو کچھ کیا گیا ہے اس کا اکثر و بیشتر حصہ انہی عنوانات کی تفصیل ہے اسے ب یہ تقریریں جو وہ قادیانیت کے خلاف کر رہے ہیں رحین میں ہے آیات کی تلاوت اور ان کے بعض مطالب کی تبلیغ کا حصہ جو فی الحقیقت انکی تقریروں کا یہ ہوگا مستی کر لیا جائے ، اگر انہیں دربارِ رسالت کی پسندیدگی حاصل ہے تو ہم اس اسلام کو (سبد کتاب و سنت میں پیش کیا گیا ہے اور جس میں ذہین ، قلب ، زبان اور اعضاء کو معمولیت سے ڈرایا گیا ہے خیر باد کہنے کو تیار ہیں “ سے ج " خوب اچھی طرح سمجھ لیے کام کا جواب نعروں سے مسلسل جد و جہد کا توڑ اشتعال انگیزی سے ، علمی سطح پر مساعی کو ناکام بنانے کا داعیہ صرف بھتیوں اور بے ہودہ جلوسوں اور ناکارہ ہنگاموں سے پورا نہاں ہو سکتا اس کیلئے جب تک وہ انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے فکری اور علی تقاضے پورے ہوں.ہنگامہ تیزی کا نتیجہ وہی برآمد ہو گا جس پر مرزا صاحب کا الہام إلى مُهين مَنْ أَرَادَاهَا نَتَكَ صادق آنها جناب مجیب الرحمان شامی نے رسالہ " لیل و نہار " لاہور مورخید چون ۱۹۷۴ء میں یہ اداریہ سیر و قلم فرمایا کہ کوتاہ نظروں کی کوتاہ نظری نے مرزائیت کے خلاف اس طرح کے محاذ بنائے کہ جو اہل مرزائیت کو اشتعال دلانے اور اپنے عقیدے میں مضبوا بنا دینے میں معادن ثابت ہوئے سستی نعرہ بازی ت المنیر جولائی ۱۹۵۶ ولت کے امیر و ماپر ه ٩۵۶ ٢٠ تل المنيز ار ا گست ٩٥٥ و مزا
".: 1-0 اوچھے حملوں اور فحش گالیوں سے مرقع گفت گو کسی کو قائل تو نہیں کر سکتی غصہ ضرور دلا سکتی ہے.چنانچہ مرزائیت کیخلاف کئی ایسے مبلغین بھی ابھرے جنہوں نے عامیوں کے ذوق کو ابھار کر داد تحسین تو حاصل کر لی به فاتح قادیان اور فاتح ربوہ بھی کہلائے لیکن مرزائیت کی جڑ نہ مار سکے ے گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیط گھٹایا ہم نے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بارا ٹھا یا سہتے اٹھایا درمندانہ اپیل اب اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درد دل سے ورودل نکلے ہوئے مبارک الفاظ پر ختم کرتا ہوں حضور فرماتے ہیں یہ ٹھٹھا کرو جس قدر چاہو.گالیاں دو مبتقدر رچا ہو اور ایذا اور تکلیف دہی کے منصوبے سوچو جس قدر چاہو اور میرے استیصال کیلئے ہر ایک تم کی تدبیریں اور شکر سو جو جسقدر رچا ہو پھر یا د رکھو کہ عنقریب خدا تمہیں دیکھا ئیگا کہ اس کا ہاتھ قالب ہے (اربعین (سمت) ملکی محض نصیحنا الله مخالف علماء اور ان کے ہمخیال لوگوں ، کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بہتے پانی کو تا طریق شرافت نہیں ہے اگر آپ کا دل کی ہیں طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی لیکن اگر مجھے آپ لوگ کا ذب سمجھتے ہیں تو آپکو
1-4 یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بد دعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں پھر اگر میں کا ذب ہوں گا تو ضرور دعائیں قبول ہو جائیں گی اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پیڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسووں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ وزاری سے بنیائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں....میری روح میں وہی سچائی ہے جوہ ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی.مجھے خدا سے ابراہیمی نسبت ہے کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا مخالف لوگ عیث اپنے تیں تباہ کر رہے ہیں.کہیں وہ پودا نہیں ہوں کہ انکے ہاتھ سے اکھر سکوں ، ( اربعین م م ) پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کاذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا....جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اسوقت بھی فیصلہ کریگا.خدا کے مامورین کے آنے کیلئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کیلئے بھی ایک موسم پیس یقینا سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ ہے موسم جاؤں گا مانہ ہے
16 خدا سے مت لڑو ! یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کردو (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صث ) جو خدا کا ہو اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شہروں پر نہ ڈال اسے روبہ زار و نزار واخر د عولنا ان الحمد لله رب العالمين ا
ور F منہ بولان درگاه الهی دو ظاہر پرست ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ۱۸۹۲ء میں تحریر فرمایا :- قدیم سے علماء کا یہی حال رہا ہے کہ مشائخ اور اکابر اور ائمہ وقت کتابیوں کے جب بعض بعض حقائق اور معارف اور قائق اور نکات عالیہ کو مجھ نہیں آئے ویہ ان کے تخم میں وہ خلاف کتاب اللہ اور آثار نبویہ پائے گئے تو بعض نے علماء میں سے ان اکا یہ اور آئٹہ کو دائرہ اسلام سے خارج کیا اور بعضوتن زمین کر کے کا خر تو نہ کیا لیکن ہل سنت والجماعت سے باہر کر دیا پھر جب وہ زمانہ گزرر یا اور دوسرا ، قرآن کے علماء پیدا ہوئے تو خدا تعالی نے ن پچھلے علماء کے سینوں کے دلوں کو کھول دیا اور ان کو وہ باریک باتیں ر سمجھادیتا پہلوں نے میں کبھی تھیں.تب انہوں سے ان گذشته کا برادر امام کو ان تکفیر کے فتووں سے بری کر دیا اور نہ صرف بری بلکہ کی قطبیت غوثیت اور اعلیٰ مراتب و زایت کے قائل بھی ہو گئے اور سی طرح علماء کی عادت رہی اور ایسے سعید ان میں سے بہت ہی کم بجلے جنہوں نے مقبولان درگاہ الہی کو وقت پر قبول کر لیا.امام کامل سین رضی اللہ الہ سے لیکر ہمارے اسی زمانہ تک یہی سیرت اور خصلت ان نظام پرست رویا و علم کو چلی آئی کہ انہوں نے وقت پر کسی مرد نی را 开
کو قبول نہیں کیا.ہاں علماء نے مقبولوں کو قبول بھی کیا اور بڑی ارادت بھی ظاہر کی یہاں تک کہ انکی جماعت میں بھی داخل ہو گئے مگر اس وقت کہ جب وہ اس دنیا تا پائدار سے گزر گئے اور جبکہ کروڑ با بندگان خدا پر انکی قبولیت ظاہر ہوگئی.اللہ در القائل.جب مر گئے تو آئے ہمارے مزار پر تھریڈ میں صنم تیرے ایسے پیار پر و آئینہ کمالات اسلام ( مقدمه ص ۳۴۰۳۲)
afforded by his writings, proclaim him hostile to modern civilization, which as accidentally associated with Christi- In warring with the anity, he hates with a perfect hatred.one he needs must war with the other they are one and indivisible.A railway train is as hateful to him as the doctrine of the Trinity, because it is device of the Trinitari is.In one place he thus delivers himself:- * Thus it is evident that these Christian race "-mark the words-" These supporters of the Trinity, have played such wonderful feats and cut a complete system of magic"--the italics are ours" that none but a first class dajjal could exhibit ".'
“A dangerous fanatie There is a well-known fanatic in the Punjab, he is now, we believe, in the Gurdaspur district, who calls himself Musalman and also the Messiah.His prophecies regarding the death of a native Christian gentleman in Amritsar kept up an excitement in the city for some months; but fortunately his utterances were so badly charged that they have hung fire miserably and the doomed is still alive.A fanatical vision of this sort is doubtless under the surveilance of the Police.Whenever he preaches abroad serious disturbances of the peace are imminent, for he has a numerous following who are only less fanatical than himself.: Of course no political danger can be apprehended from the vain imaginings of such a man ; but there is method in his madness.He has undoubted literary ability and his writings are voluminous and learned; all the elements present for forming a dangerous rallying point of course among the Orthodox he is anathema morantha.His fame has spread as far as even as distant Madras.We give an extract from the Mohammedan, an English daily published in that city.Deep religious conviction, such as that ascribed to the Qadian, is no matter for idle gibe, but we are afraid that even granting his mental health, it is so intermixed in the ⚫ reformer with a narrowness of view as to constitute him a crude reactionist.His convictions inform all his moods and impart a sickly hue to all his environments.Glimpses 11
جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ محفوظ ہیں نام کتاب : عقائد احمدیت اور اعتراضات کے جوابات ناشران :- جبال الدین انجم - اداره : احمد اکیڈیمی ربوہ مطبوعہ -: لاہور آرٹ پریس انار کلی لاہور کتابت : محمود انور خوشنولیس ریوه قیمت ۱۰ روپے
.