Aqaid Ahmadiyyat

Aqaid Ahmadiyyat

عقائد احمدیت

ماخوذ از دعوت الامیر
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
احمدیت یعنی حقیقی اسلام

نظارت نشر و اشاعت قادیان نے جماعت احمدیہ کے عقائد مندرجہ دعوت الامیر ، تصنیف لطیف حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ (مطبوعہ انوار العلوم جلد 7) کو ایک مختصر پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا ہے تا نومبائعین اور دیگر ناواقف احباب تک جماعت کے درست عقائد پہنچائے جاسکیں نیز ان لوگوں کی قلعی بھی کھل جائے جو جماعت احمدیہ کی طرف جھوٹے طور پر غلط عقائد منسوب کرتے اور سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔


Book Content

Page 1

عقائد احمدیت الناشر نظارت نشر واشاعت قادیان

Page 2

عقائد احمدیت شائع کرده نظارت نشر واشاعت قادیان- ۱۴۳۵۱۶ ضلع گورداسپور ( پنجاب )

Page 3

نام کتاب عقائد احمدیت سن اشاعت باراول حالیہ اشاعت بار دوم تعداد 2011: 2016: 1000: ناشر مطبع : نظارت نشر و اشاعت قادیان فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان-143516 ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا Name of Book Aqaide Ahmadiyyat : First Edition in India: 2011 Present Edition in India: 2016 Quantity Publisher Printed at : 1000 : Nazarat Nashr-o-Isha'at, Qadian : Fazale Umar Printing Press, Qadian-143516 Dist-Gurdaspur,Punjab,India

Page 4

تعارف المصـ احباب جماعت بالخصوص نومساکین حضرات کیلئے جماعت احمدیہ کے عقائد سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ امسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی کتاب دعوت الامیر سے ماخوذ شائع کئے جارہے ہیں تا کہ نا واقف حضرات کو جماعت احمدیہ کے صحیح عقائد کا علم ہو سکے.اور ان لوگوں کی قلعی کھل سکے جو جماعت احمدیہ کی طرف جھوٹے طور پر غلط عقائد منسوب کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس پمفلٹ کو سعید روحوں کے لئے ہدایت کا موجب بنائے.آمین ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 5

- 1 عقائد احمدیت ا ہم لوگ یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالی موجود ہے اور اُس کی ہستی پر ایمان لانا سب سے بڑی صداقت کا اقرار کرنا ہے نہ کہ وہم و گمان کی اتباع.۲ - ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں، اُس کے سوا باقی سب کچھ مخلوق ہے اور ہر آن اس کی امداد اور سہارے کی محتاج ہے نہ اس کا کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی نہ باپ نہ ماں نہ بیوی نہ بھائی وہ اپنی تو حید اور تفرید میں اکیلا ہے.- ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور تمام عیوب سے منزہ ہے اور تمام خوبیوں کی جامع ہے.کوئی عیب نہیں جو اس 4

Page 6

میں پایا جاتا ہو اور کوئی خوبی نہیں جو اس میں پائی نہ جاتی ہو.اُس کی قدرت لا انتہاء ہے اُس کا علم غیر محدود اُس نے ہر ایک شے کا احاطہ کیا ہے اور کوئی چیز نہیں جو اس کا احاطہ کر سکے، وہ اوّل ہے وہ آخر ہے وہ ظاہر ہے وہ باطن ہے، وہ خالق ہے جمیع کا ئنات کا اور مالک ہے گل مخلوقات کا اس کا تصرف نہ کبھی پہلے باطل ہوا نہ اب باطل ہے نہ آئندہ باطل ہوگا ، وہ زندہ ہے اس پر بھی موت نہیں ، وہ قائم ہے اس پر کبھی زوال نہیں، اس کے تمام کام ارادے سے ہوتے ہیں نہ کہ اضطراری طور پر، اب بھی وہ اُسی طرح دُنیا پر حکومت کر رہا ہے جس طرح کہ وہ پہلے کرتا تھا، اس کی صفات کسی وقت بھی معطل نہیں ہوتیں.وہ ہر وقت اپنی قدرت نمائی کر رہا ہے.۴.ہم یقین رکھتے ہیں کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہیں اور يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (الحل:۵۱) کے مصداق ہیں ، اس کی حکمتِ کاملہ نے انہیں مختلف قسم کے کاموں کے لئے پیدا کیا ہے وہ واقع میں موجود ہیں اُن کا ذکر استعارہ نہیں ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے اسی طرح محتاج ہیں جس طرح کہ انسان یا دیگر مخلوقات، اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے اظہار کے لئے ان کا محتاج نہیں وہ اگر چاہتا تو بغیر اُن کے پیدا 5

Page 7

کرنے کے اپنی مرضی ظاہر کرتا مگر اس کی حکمت کا ملہ نے اس مخلوق کو پیدا کرنا چاہا اور وہ پیدا ہو گئی جس طرح سورج کی روشنی کے ذریعہ سے انسانی آنکھوں کو منور کرنے اور روٹی سے اُس کا پیٹ بھرنے سے اللہ تعالیٰ سُورج اور روٹی کا محتاج نہیں ہو جاتا اسی طرح ملائکہ کے ذریعہ سے اپنے بعض ارادوں کے اظہار سے وہ ملائکہ کا محتاج نہیں ہو جاتا.۵- ہم یقین رکھتے ہیں کہ خدا اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور اپنی مرضی ان پر ظاہر کرتا ہے یہ کلام خاص الفاظ میں نازل ہوتا ہے اور اس کے نزول میں بندے کا کوئی دخل نہیں ہوتا نہ اس کا مطلب بندے کا سوچا ہوا ہوتا ہے نہ اس کے الفاظ بندے کے تجویز کئے ہوئے ہوتے ہیں، معنی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اور الفاظ بھی اسی کی طرف سے ، وہی کلام انسان کی حقیقی غذا ہے اور اسی سے انسان زندہ رہتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے اُسے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوتا ہے.وہ کلام اپنی قوت اور شوکت میں بے مثل ہوتا ہے اور اس کی مثال کوئی بندہ نہیں لا سکتا وہ علوم کے بے شمار خزانے اپنے ساتھ لاتا ہے اور ایک کان کی طرح ہوتا ہے جسے جس قد رکھو دو 6

Page 8

اسی قدر اس میں سے قیمتی جواہرات نکلتے چلے آتے ہیں بلکہ کانوں سے بھی بڑھ کر کیونکہ اُن کے خزینے ختم ہو جاتے ہیں مگر اس کلام کے معارف ختم نہیں ہوتے.یہ کلام ایک سمندر کی طرح ہوتا ہے جس کی سطح پر عبر تیرتا پھرتا ہے اور جس کی نئہ پر موتی بچھے ہوئے ہوتے ہیں.جو اس کے ظاہر پر نظر کرتا ہے اس کی خوشبو کی مہک سے اپنے دماغ کو معطر پاتا ہے اور جو اس کے اندر غوطہ لگاتا ہے دولت علم وعرفان سے مالا مال ہو جاتا ہے.یہ کلام کئی قسم کا ہوتا ہے کبھی احکام وشرائع پر مشتمل ہوتا ہے کبھی مواعظ و نصائح پر کبھی اس کے ذریعے سے علم غیب کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور کبھی علم روحانی کے دفینے ظاہر کئے جاتے ہیں کبھی اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی خوشنودی کا اظہار کرتا ہے اور کبھی اپنی ناپسندیدگی کا علم دیتا ہے کبھی پیار اور محبت کی باتوں سے اس کے دل کو خوش کرتا ہے، کبھی زجر و توبیخ سے اُسے اس کے فرض کی طرف متوجہ کرتا ہے کبھی اخلاق فاضلہ کے بار یک راز کھولتا ہے کبھی مخفی بدیوں کا علم دیتا ہے.غرض ہم ایمان رکھتے ہیں کہ خدا اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور وہ کلام مختلف 7

Page 9

حالات اور مختلف انسانوں کے مطابق مختلف مدارج کا ہوتا ہے اور مختلف صورتوں میں نازل ہوتا ہے اور تمام کلاموں سے جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے کیے ہیں قرآن کریم اعلیٰ اور افضل اور اکمل ہے اور اس میں جو شریعت نازل ہوئی ہے اور جو ہدایت دی گئی ہے وہ ہمیشہ کے لئے ہے کوئی آئندہ کلام اسے منسوخ نہیں کرے گا.۶.اسی طرح ہم یقین رکھتے ہیں کہ جب کبھی بھی دُنیا تاریکی سے بھر گئی ہے اور لوگ فسق و فجور میں مبتلا ہو گئے ہیں اور بلا آسمانی مدد کے شیطان کے پنجے سے رہائی پانا اُن کے لئے مشکل ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ اپنی شفقت کا ملہ اور رحم بے اندازہ کے سبب اپنے نیک اور پاک اور مخلص بندوں میں سے بعض کو منتخب کر کے دُنیا کی راہنمائی کے لئے بھیجتا رہا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا حَلا فيهَا نَذِيـره (سورۃ فاطر: ۲۵) یعنی کوئی قوم نہیں ہے جس میں ہماری طرف سے نبی نہ آچکا ہو اور یہ ہندے اپنے پاکیز عمل اور بے عیب رویہ سے لوگوں کے لئے خضر راہ بنتے رہے ہیں اور ان کے ذریعے سے وہ اپنی مرضی سے دنیا کو آگاہ کرتا رہا ہے.جن لوگوں نے 8

Page 10

اُن سے منہ موڑ ا وہ ہلاکت کو سو پینے گئے اور جنہوں نے اُن سے پیار کیا وہ خدا کے پیارے ہو گئے اور برکتوں کے دروازے ان کے لئے کھولے گئے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اُن پر نازل ہوئیں اور اپنے سے بعد کو آنے والوں کے لئے وہ سردار مقرر کئے گئے اور دونوں جہانوں کی بہتری ان کے لئے مقدر کی گئی.اور ہم یہ بھی یقین کرتے ہیں کہ یہ خدا کے فرستادے جودُ نیا کو بدی کی ظلمت سے نکال کر نیکی کی روشنی کی طرف لاتے رہے ہیں مختلف مدارج اور مختلف مقامات پر فائز تھے اور ان سب کے سردار حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے سید ولدِ آدم قرار دیا اور كَافَّةً لِلنَّاسِ مبعوث فرمایا اور جن پر اس نے تمام علوم کا ملہ ظاہر کئے اور جن کی اُس نے اس رُعب و شوکت سے مدد کی کہ بڑے بڑے جابر بادشاہ ان کے نام کو سنکر تھرا اٹھتے تھے اور جن کے لئے اس نے تمام زمین کو مسجد بناد یا حتی کہ چپہ چپہ زمین پر اُن کی اُمت نے خدائے وحدہ لاشریک کے لئے سجدہ کیا اور زمین عدل و انصاف سے بھر گئی بعد اس کے کہ وہ ظلم وجور سے بھری ہوئی تھی.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر پہلے انبیاء بھی اس نبی کامل کے 9

Page 11

وقت میں ہوتے تو انہیں اس کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاذْ اَخَذَ الله ميثاق النبين لما اتيتكم مِنْ كِتَبٍ وَ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَ كُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقَ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرله (ال عمران : ۸۲) اور جیسا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لَوْ كَانَ مُوْسَى وَعِيْسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا إِتِّبَاعِيْ - (اليواقيت و الجواهر جلد ۲ صفحه ۲۲ مطبوع مصر ۱۳۲۱ھ میں ”لما“ کی جگہ ما“ کا لفظ ہے) اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو کالفظ انہیں بھی میری اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا.ے.ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کی مشکلات کو ٹالتا ہے اور ایک زندہ خدا ہے جس کی زندگی کو انسان ہر زمانے میں ہر وقت محسوس کرتا ہے.اُس کی مثال اس سیڑھی کی نہیں جسے کنواں بنانے والا بنا تا ہے اور جب وہ کنواں مکمل ہو جاتا ہے تو سیڑھی کو توڑ ڈالتا ہے کہ اب وہ کسی مصرف کی نہیں رہی اور کام میں حارج ہوگی بلکہ اُس کی مثال اس نور کی ہے کہ جس کے بغیر سب کچھ اندھیرا ہے اور اس روح کی ہے جس کے بغیر چاروں طرف موت ہی موت ہے اس کے وجود کو بندوں سے جدا کر دو تو وہ 10

Page 12

ایک جسم بے جان رہ جاتے ہیں.یہ نہیں ہے کہ اس نے کبھی دنیا کو پیدا کیا اور اب خاموش ہو کر بیٹھ گیا ہے بلکہ وہ ہر وقت اپنے بندوں سے تعلق رکھتا ہے اور ان کے عجز و انکسار پر توجہ کرتا ہے اور اگر وہ اسے بھول جائیں تو وہ خود اپنا وجود انہیں یاد دلاتا ہے اور اپنے خاص پیغام رسانوں کے ذریعے اُن کو بتاتا ہے کہ اني قريب أجيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجيبو الى وليو منو بي لَعَلَّهُمْ بی يَرْشُدُوْنَ (سورة البقرہ: ۱۸۷) میں قریب ہوں.ہر ایک پکارنے والے کی آواز کو جب وہ مجھے پکارتا ہے سنتا ہوں.پس چاہئے کہ وہ میری باتوں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ ہدایت پائیں.ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنی خاص الخاص تقدیر کو دنیا میں جاری کرتا رہتا ہے ، صرف یہی قانون قدرت اس کی طرف سے جاری نہیں جو طبیعی قانون کہلاتا ہے بلکہ اس کے علاوہ اس کی ایک خاص تقدیر بھی جاری ہے جس کے ذریعہ سے وہ اپنی قوت اور شوکت کا اظہار کرتا ہے اور اپنی قدرت کا پتہ دیتا ہے.یہ وہی قدرت ہے جس کا بعض نادان اپنی کم علمی کی وجہ سے انکار کر دیتے ہیں اور سوائے طبعی قانون کے اور کسی قانون کے وجود کو تسلیم نہیں 11

Page 13

کرتے اور اسے قانونِ قدرت کہتے ہیں حالانکہ وہ طبعی قانون تو کہلا سکتا ہے مگر قانون قدرت نہیں کہلا سکتا ، کیونکہ اس کے سوا اس کے اور بھی قانون ہیں جن کے ذریعے سے وہ اپنے پیاروں کی مدد کرتا ہے اور ان کے دشمنوں کو تباہ کرتا ہے.بھلا اگر ایسے کوئی قانون موجود نہ ہوتے تو کس طرح ممکن تھا کہ ضعیف و کمزور موسی فرعون جیسے جابر بادشاہ پر غالب آجاتا.یہ اپنے ضعف کے باوجود عروج پا جاتا اور وہ اپنی طاقت کے باوجود برباد ہو جاتا ، پھر اگر کوئی اور قانون نہیں تو کس طرح ہو سکتا تھا کہ سارا عرب مل کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تباہی کے در پے ہوتا مگر اللہ تعالیٰ آپ کو ہر میدان میں غالب کرتا اور ہرحملہ دشمن سے محفوظ رکھتا اور آخر دس ہزار قد وسیوں سمیت اس سرزمین پر آپ چڑھ آتے جس میں سے صرف ایک جان نثار کی معیت میں آپ کو نکالنا پڑا تھا.کیا قانون طبعی ایسے واقعات پیش کر سکتا ہے ہرگز نہیں.وہ قانون تو ہمیں یہی بتاتا ہے کہ ہرا دنی طاقت اعلی طاقت کے مقابل پر تو ڑ دی جاتی ہے اور ہر کمزور طاقتور کے ہاتھوں سے ہلاک ہوتا ہے.۹ - ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان پھر اٹھایا 12

Page 14

جائے گا.اور اس کے اعمال کا اس سے حساب لیا جائے گا.جو اچھے اعمال کرنے والا ہوگا اس سے نیک سلوک کیا جائے گا اور جو اللہ تعالیٰ کے احکام کو توڑنے والا ہو گا اسے سخت سزادی جائے گی اور کوئی تدبیر نہیں جو انسان کو اس بعثت سے بچا سکے خواہ اس کے جسم کو ہوا کے پرندے یا جنگل کے درندے کھا جائیں.خواہ زمین کے کیڑے اس کے ذرے ذرے کو جُدا کر دیں اور پھر ان کو دوسری شکلوں میں تبدیل کر دیں اور خواہ اس کی ہڈیاں تک جلا دی جائیں وہ پھر بھی اٹھایا جائے گا اور اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے حساب دے گا کیونکہ اس کی قدرت کاملہ اس امر کی محتاج نہیں کہ اس کا پہلا جسم ہی موجود ہو تب ہی وہ اس کو پیدا کر سکتا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ وہ اس کے باریک سے باریک ذرہ یا لطیف حصہ روح سے بھی پھر اس کو پیدا کر سکتا ہے اور ہو گا بھی اسی طرح.جسم خاک ہو جاتے ہیں مگر اُن کے باریک ذرات فتا نہیں ہوتے اور نہ وہ روح جو جسم انسانی میں ہوتی ہے خدا کے اذن کے بغیر فنا ہو سکتی ہے.۱۰.ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے منکر اور اس کے دین کے مخالف - 13

Page 15

- اگر وہ ان کو اپنی رحمت کا ملہ سے بخش نہ دے ایک ایسے مقام پر رکھے جائیں گے جسے جہنم کہتے ہیں اور جس میں آگ اور شدید سردی کا عذاب ہوگا جس کی غرض محض تکلیف دینا نہ ہوگی بلکہ ان میں ان لوگوں کی آئندہ اصلاح مد نظر ہوگی اُس جگہ سوائے رونے اور پیٹنے اور دانت پینے کے ان کے لئے کچھ نہ ہو گا حتی کہ وہ دن آجائے جب اللہ تعالیٰ کا رحم جو ہر چیز پر غالب ہے ان کو ڈھانپ لے اور يَأْتِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَيْسَ فِيْهَا أَحَدٌ وَنَسِيْمُ الصَّبَا تُحَرِّفُ اَبْوَابَهَا کا وعدہ پورا ہو جائے.(معالم التنزيل في التفسير والتاويل مؤلفه ابى محمد الحسين بن مسعود الجزء الثالث صفحه ۲۴۳ مطبوعہ دارالفکر میں اس روایت کے الفاظ یہ ہیں اا - لياتين على جهنم زمان ليس فيها احد و ذلك بعد ما يلبثون احقابا) اور ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے نبیوں اور اس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں پر ایمان لانے والے ہیں اور اس کے احکام پر جان ودل سے ایمان لاتے ہیں اور انکسار اور عاجزی کی راہوں پر چلتے ہیں اور بڑے ہو کر چھوٹے بنتے ہیں اور امیر ہو کر غریبوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں اور اللہ کی مخلوق کی خدمت گزاری کرتے ہیں اور اپنے آرام پر لوگوں کی راحت کو مقدم 14

Page 16

رکھتے ہیں اور ظلم اور تعدی اور خیانت سے پر ہیز کرتے ہیں اور اخلاق فاضلہ کے حامل ہوتے ہیں اور اخلاق رذیلہ سے مجتنب رہتے ہیں وہ لوگ ایک ایسے مقام پر رکھے جائیں گے جسے جنت کہتے ہیں اور جس میں راحت اور چین کے سوادُ کھ اور تکلیف کا نام و نشان تک نہ ہوگا.خدا تعالیٰ کی رضا انسان کو حاصل ہوگی اور اس کا دیدار سے نصیب ہوگا اور وہ اس کے فضل کی چادر میں لپیٹا جا کر اس کا ایسا قرب حاصل کرے گا کہ گویا اس کا آئینہ ہو جائے گا اور صفات الہیہ اس میں کامل طور پر جلوہ گر ہوں گی اور اس کی ساری ادنی خواہشات مٹ جائیں گی اور اس کی مرضی خدا کی مرضی ہو جائے گی اور وہ ابدی زندگی پا کر خدا کا مظہر ہو جائے گا.یہ ہمارے عقیدے ہیں اور ان کے سوا ہم نہیں جانتے کہ اسلام میں داخل کرنے والے عقائد کیا ہیں.تمام آئمہ اسلام انہیں باتوں کو عقائد اسلام قرار دیتے چلے آئے ہیں اور ہم ان سے اس امر میں بلکلی متفق ہیں.( دعوت الامير بحوالہ انوار العلوم جلد ۷ صفحه ۲۳۲ تا صفحه ۲۳۷) 15

Page 16