Language: UR
یہ کتاب ان خطابات کا مجموعہ ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت کے دوسرے جلسہ سالانہ پر 27، 28 اور 30 دسمبر 1915ء کو ارشاد فرمائے۔ بعدازاں اس مجموعہ کو کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔ علاوہ دیگر موضوعات کے آپ نے پیش گوئی :<span class="quranic"> اسمہ احمد</span> کی تشریح و تفسیر، مسئلہ نبوت کی وضاحت، جماعت کی عملی حالت کی اصلاح و بہتری، مختلف فتنوں کی حقیقت اور آئندہ کے لئے انتباہ کے ساتھ ساتھ آپ نے اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کرشن ، بدھ اور مسیح و مہدی ہونے کے دعاوی کے ثبوت فراہم کئے۔ اور آخر پر خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک سے زیادہ نام رکھنے کی 10 حکمتیں بیان فرمائیں۔
انوارِ خلافت ✰✰ تقارير سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمداحمد خلیفہ السی الثانی رضی اللہ عنہ ☆☆ ☆ شائع کرده.نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان 143516 ضلع گورداسپورصوبہ پنجاب.بھارت
نام کتاب تقاریر انوار خلافت (ماخوذ از انوار العلوم جلد ۳) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ السیح الثانی سابقہ اشاعت : حالیہ اشاعت تعداد $2008 $2016 1000 شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت صدرانجمن احمد یہ قادیان فضل عمر پرنٹنگ پریس.قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب 143516 ISBN 978-81-7912-142-9 Name of the Book Anwar-e-Khilafat Author : Hadhrat Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad Khalifatul Maseeh lindra Previous Edition : 2008 Present Edition : 2016 Quantity Publisher Printed at : 1000 : Nazarat Nashr-o-lsha'at, Qadian : Fazl-e-Umar Printing Press Qadian, Dist-Gurdaspur, Punjab 143516
عرض ناشر کتاب انوار خلافت سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقاریر ہیں جو آپ نے 27 ، 28 اور 30 دسمبر 1915ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر فرمائیں.جن میں آپ نے خلافت کی اہمیت ، خلافت کی برکات ، خلافت سے متعلق ہونے والے اعتراضات کے مدلل جوابات بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ” پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گرتی ہوئی جماعت کو سنبھالنے کے لئے وہی طریق بتایا ہے.جو آنحضرت سلام ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی" کے بعد عمل میں آیا.یعنی خلفاء ہوئے.“ پس ظاہر ہے کہ اس دور میں اسلام کی زندگی کا انحصار خلافت پر ہے اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ساری دنیا کے لوگوں کو خلافت کا مطیع بنائے تا دین اسلام اپنا موعود غلبہ حاصل کر سکے.آمین اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر اس کو سید نا حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے افادہ عام کے لئے ایک بار پھر شائع کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے استفادہ کی توفیق عطاء فرمائے اور خلافت کی برکات سے متمتع فرمائے.(آمین) ناظر نشر و اشاعت قادیان
پیش لفظ سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت کے دوسرے جلسہ سالانہ پر ۲۸-۲۷ اور ۳۰ دسمبر ۱۹۱۵ء کو جو خطاب ارشاد فرمائے.اس میں آپ نے اسمہ احمد کی تفسیر بیان فرمائی اور آپ نے ثابت کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کسی طرح بھی قرآن مجید و احادیث کے متضاد نہیں.اسی طرح آپ نے جماعت کی اصلاح و بہتری کے پیش نظر بعض مسائل بھی بیان کرتے ہوئے ضروری نصائح فرما ئیں.نیز آپ نے جماعتی ترقی کے پیش نظر تاریخی واقعات بیان کرتے ہوئے آئندہ پیدا ہونے والے فتنوں سے بھی متنبہ کیا اور ان فتنوں سے بچنے کے ذرائع بھی بیان فرمائے ہیں حضور نے یہ بھی واضح کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے آپ کی اتباع میں آپ کے مشن کی تکمیل کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کا بروز اور کل بنا کر مبعوث فرمایا اور ظلی طور پر گذشتہ انبیاء کے نام سے سرفراز کیا تا کہ آپ ہر ایک قوم کو امت واحدہ میں شامل کر سکیں.حضور نے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک سے زیادہ نام رکھے جانے کی حکمتیں بھی بیان فرمائیں.حضور رضی اللہ عنہ کی یہ بصیرت افروز تقاریر ۱۹۱۶ء میں کتابی شکل میں انوار خلافت کے نام سے شائع ہوئیں خلافت احمدیہ کے سوسال مکمل ہونے کے تاریخی موقعہ پر سید نا حضرت اقدس امیر المومنین خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا ہے کہ تمام احمدی احباب اسے پڑھیں اور ذیلی تنظیموں کی طرف سے اس کا امتحان لیا جائے لہذا نظارت نشر و اشاعت اسے شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے اللہ تعالیٰ اس کی اشاعت کو مبارک کرے.خاکسار ( ناظر نشر واشاعت )
انوار خلافت بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم تقریر حضرت فضل عمر خلیفہ المسیح الثانی ( جو ۲۷ دسمبر ۱۹۱۵ء کو جلسہ سالانہ پر فرمائی) (ظہر سے قبل ) اشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ امَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ سَبَّحَ لِلهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ يَأَيُّهَا رج الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيْلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَدْ تَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ ، فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللهُ قُلُوبَهُمْ ، وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ b وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يُبَنِي إِسْرَاءِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَعَى مِنَ التَّوْرَيةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُةَ أَحْمَدُ، فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدعَى إِلَى الْإِسْلَامِ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ هُوَ الَّذِي أرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِةَ الْمُشْرِكُونَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ اليم تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ
۶ انوار خلافت وَانْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ يَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ط ط وَيُدْخِلُكُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ وَمَسْكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وَأخْرى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِّنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ مَنْ أَنْصَارِقَ إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ فَأَمَنَتْ طائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَاءِيلَ وَكَفَرَتْ ظَابِفَةٌ ، فَأَيَّدُنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظُهِرِينَ (سورة الصف) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ ، وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِيْنٍ وَأَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ (الجمعه: ۱ تا ۵) اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں اور سلامتی ہو تم لوگوں پر جو خدا تعالیٰ کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ کر اس لئے یہاں آئے ہو کہ خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی کوئی بات سنو.اللہ تعالیٰ بخیل نہیں کنجوس نہیں، ظالم نہیں اور کسی کے حقوق نہیں مارتا.پس یہ مت سمجھو کہ تمہاری یہ کوششیں اور محنتیں ضائع جائیں گی نہیں نہیں بلکہ یہ سود اور بڑے سود کے ساتھ واپس آئیں گی اور اپنے ساتھ بڑے بڑے انعام واکرام لائیں گی کیونکہ اگر کوئی خدا تعالیٰ کی طرف ایک قدم چل کر جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی طرف دو قدم آتا ہے اگر کوئی خدا تعالیٰ کی طرف دو گز چل کر جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی طرف چار گز آتا ہے اور اگر کوئی خدا تعالیٰ کی طرف چل کر
جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے پس وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے لئے اپنے گھروں سے چل کر یہاں آئے ہیں ان کو بشارت ہو کہ آنحضرت مصلای ایام فرماتے ہیں کہ جو کوئی خدا تعالیٰ کی طرف چل کر جاتا ہے خدا تعالیٰ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے اگر آپ لوگ یہاں خدا کے لئے چل کر آئے ہیں تو خدا تعالیٰ تمہاری طرف دوڑ کر آئے گا.وسیع جلسہ گاہ کی ضرورت میں نے کچھ آیات اس وقت پڑھی ہیں ان کے پڑھنے کی غرض انشاء اللہ میں ابھی بتاؤں گالیکن پہلے میں ایک اور بات بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ پچھلے سال کے تجربہ سے معلوم ہوا تھا اور اس سال تو ثابت ہی ہو گیا ہے کہ ہمارے اجتماع کے لئے پہلی جگہیں کافی نہیں ہیں.خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں دن بدن ایسی برکتیں ڈال رہا ہے کہ ہمارے ہاتھ جو کچھ انتظام کرتے ہیں اور ہمارے دل جو کچھ سوچتے ہیں اس سے بہت بڑھ کر خدا کی مخلوق آجاتی ہے.ہم ہر سال یہ سمجھتے ہیں کہ بس اس قدر مکانات اور دیگر اسباب کافی ہوں گے.خدا تعالیٰ ان کو نا کافی ثابت کر دیتا ہے.اس دفعہ ہمارے منتظمین نے جلسہ کے لئے جو تیاری کی تھی وہ بہ نسبت پہلے کے بہت زیادہ تھی لیکن خدا تعالیٰ نے آنے والوں میں ایسی برکت ڈالی ہے کہ وہ نا کافی نکلی ہے اور دن بدن خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم زیادہ سے زیادہ نازل ہو رہے ہیں.ہماری ہر سال کی یہ ترقی ظاہر کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے خاص الخاص فضل ہم پر ہو رہے ہیں اور وہ دن جلد آنے والے ہیں کہ ہماری ترقی کو دیکھ کر مخالف لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور نشانات دیکھ کرمحو حیرت ہو جائیں گے.اور وہ لوگ دیکھیں گے جو یہ سمجھتے تھے کہ یہ سلسلہ مٹ جائے گا کہ خود مٹ گئے ہیں اور اسی دُنیا میں ان پر موت وارد ہوگئی ہے.لیکن یہ سلسلہ ترقی پر ترقی کر رہا ہے.غرض ایک طرف خدا کی یہ برکتیں
ہو رہی ہیں اور دوسری طرف ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ جو لوگ یہاں آئیں ان کو ہم کچھ باتیں سنائیں اور ان کے فرائض سے ان کو آگاہ کریں اس لئے اب لیکچراروں کو بولنے کے لئے بہت زیادہ زور لگانا پڑتا ہے تاکہ سب کے کانوں تک ان کی آواز پہنچ جائے لیکن پھر بھی نہیں پہنچ سکتی.اس لئے میرا ارادہ ہے کہ آئندہ لیکچروں کے لئے یہ تدبیر کی جائے کہ لیکچر کسی بند مکان میں نہ ہوں جیسا کہ اس سال ہال میں تجویز تھی بلکہ کھلے میدان میں ہوں اور وہ اس طرح کہ ایک احاطہ بنایا جائے جس کی اطراف کو ڈھلوان کر دیا جائے.اس طرح بہت سے لوگ لیکچرار کی آواز کو اچھی طرح سن سکیں گے.یورپ میں اسی طرح کیا جاتا ہے اور بہت سے لوگ آواز کو سن سکتے ہیں حتی کہ دس دس ہزار آدمیوں کا مجمع بھی آسانی سے لیکچر سن سکتا ہے.اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو میں اس جلسہ کے بعد اس لکچر گاہ کے بنانے کی تجویز کروں گا.اس صورت میں عورتوں کے لئے بھی انتظام ہو سکتا ہے.اب عورتوں کیلئے انتظام کرنا چاہا تھا اور اسی غرض کیلئے سکول کے ہال میں جلسہ کا انتظام کیا گیا تھا لیکن جگہ ناکافی ہوئی اور پھر گھر پر ہی عورتوں کے لیکچروں کا انتظام کرنا پڑا.پس اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو آئندہ سال اس طرح جلسہ گاہ کا انتظام کیا جائے گا.انتظام جلسہ کے متعلق اس قدر کہنے کے بعد میں اپنے مضمون کی طرف لوٹتا ہوں.اس دفعہ میرا منشاء یہ تھا کہ جب جلسہ پر دوست و احباب آئیں تو میں بعض ایسی باتیں جو بہت ضروری ہیں ان کے سامنے بیان کروں اور کچھ نصائح ( جو اللہ تعالیٰ سمجھائے ) کروں.لیکن آخر کار میری توجہ اس طرف پھری کہ جہاں نصیحتوں اور دیگر باتوں کی ضرورت ہے.وہاں یہ بھی ضرورت ہے کہ احباب کو ان مسائل سے بھی واقف کیا جائے جن سے انہیں روز مرہ واسطہ پڑتا ہے.اس لئے میں نے چاہا کہ ان کو بھی مختصر بیان کر دوں.
پیغامیوں کی بدزبانی १ اس وقت جماعت احمدیہ میں اختلاف کی وجہ سے بہت جھگڑا پیدا ہو گیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ فریق ثانی نے تہذیب اور شرافت کو بالکل ترک کر دیا ہے اور ہمیں اس قدر گالیاں دی ہیں کہ غیر احمدی اخباروں نے بھی آج تک نہیں دی تھیں.میری نسبت اس وقت تک جو کچھ انہوں نے کہا ہے وہ تو ایک بہت بڑی فہرست ہے جس کا اس مختصر وقت میں بیان کرنا مشکل ہے لیکن اس میں سے کسی قدر میں بتاتا ہوں.وہ عام طور پر اور کثرت سے مجھے نوح" کا بیٹا کہتے ہیں یعنی وہ جو حضرت نوح" کے کشتی پر سوار ہونے کے وقت باوجود حضرت نوح کے بلانے کے ان کے پاس نہ آیا اور ان کو اس نے قبول نہ کیا اور طوفان میں غرق ہو گیا اور وہ جو کافروں میں سے تھا بلکہ کفار کا سردار تھا اور جو شرارت میں اس قدر بڑھا ہو ا تھا کہ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے.اور اپنے قول کی وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام چونکہ خدا تعالیٰ نے نوح“ رکھا ہے اور تم ان کے بیٹے ہو پس تم نوح کے بیٹے ہو.ہم کہتے ہیں حضرت مسیح موعود کو تو ابراہیم بھی کہا گیا ہے جن کا بیٹا اسماعیل “ تھا تو اگر تمہاری ہی دلیل درست ہے تو پھر مجھے اسماعیل کیوں نہیں کہتے پھر وہ میری نسبت کہتے ہیں کہ یہ دجال ہے کذاب ہے، مفتری ہے خائن ہے لوگوں کے مال کھا جاتا ہے خدا سے دور ہے پوپ ہے وغیرہ وغیرہ.غرض یہ اور اسی قسم کے اور بہت سے الفاظ ہیں جو میری نسبت وہ استعمال کرتے ہیں لیکن مجھے ان کے اس طرح کہنے سے کچھ گھبراہٹ نہیں اور میرا دل ذرا بھی ان کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جب انسان دلائل سے شکست کھا تا اور ہار جاتا ہے تو گالیاں دینی شروع کر دیتا ہے اور جس قدر کوئی زیادہ گالیاں دیتا ہے اسی قدرا اپنی شکست کو ثابت کرتا ہے.آپ لوگوں نے کئی دفعہ دیکھا ہو گا کہ ایک کمزور شخص مار تو کھاتا جاتا ہے لیکن گالیاں بھی دے رہا ہوتا ہے تو اب چونکہ ہم ان کو شکست پر شکست
دے رہے ہیں اور وہ ہار پر ہار کھاتے چلے جا رہے ہیں اس لئے وہ گالیوں پر اتر آئے ہیں ان کے آدمی ہم میں آکر مل رہے ہیں اور وہ دن بدن کم ہو رہے ہیں.ان کے پاس ہمارے دلائل اور براہین کا کوئی جواب نہیں ہے اس لئے بد زبانی کے ہتھیار کو استعمال کر رہے ہیں.دیکھو جب بیعت ہوئی تھی اس وقت جماعت کا اکثر حصہ ان کے ساتھ تھا چنانچہ انہوں نے خود بھی لکھا تھا کہ ہماری طرف جماعت کے بہت آدمی ہیں لیکن مجھے خدا تعالیٰ نے اسی وقت بتا دیا تھا کہ لَیمَزِ فَتَهُمْ وہ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.اس کے یہ معنی نہیں کہ ان کی ہڈیاں توڑ کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں گے بلکہ یہ کہ خدا تعالیٰ ان میں سے لوگوں کو تو ڑ تو ڑ کر ہماری طرف لے آئے گا اور ہم میں شامل کر دے گا.حضرت مسیح موعود " کو بھی یہی الہام ہوا تھا جس کے آپ نے یہی معنی کئے ہیں.اس میں شک نہیں وہ اس بات سے بھی چڑتے ہیں کہ میں کیوں اپنے الہام اور رویا شائع کرتا ہوں.لیکن میں کہتا ہوں کہ جب یہ باتیں تمام قوم کے متعلق ہوں تو کیوں نہ انہیں شائع کیا جائے.بیشک اگر میرے الہام کسی ایک شخص کے ساتھ تعلق رکھتے تو میں بیان نہ کرتا لیکن جب یہ قومی معاملہ ہے تو کیوں چھپایا جائے.پس اسی لئے میں اپنے وہ رویا جو جماعت کے متعلق ہوں شائع کرتا رہا ہوں اور کرتا رہوں گا.پھر میرے ساتھ ہماری جماعت کے اور لوگوں کو بھی اسی طرح گالیاں دیتے ہیں.ہم سب کا نام انہوں نے محمودی رکھا ہوا ہے اور اپنے خیال میں ہمیں یہ بھی گالی ہی نکالتے ہیں لیکن نادان یہ نہیں سمجھتے کہ یہ کوئی گالی نہیں.آنحضرت سالی اسلم کو بھی کفار گالیاں دیتے تو آپ فرماتے کہ میرا نام محمد ہے جس کے معنی ہیں کہ بہت تعریف کیا گیا پھر مجھے کس طرح گالی لگ سکتی ہے.اسی طرح عرب کے کفار جب آپ کو گالی دیتے تو اس وقت آنحضرت ماہ کا نام محمد منہ لیتے بلکہ مدتم کہتے.اس کے متعلق آنحضرت علی فرماتے کہ اگر یہ لوگ میرا نام محمدؐ لے کر گالیاں دیں تو مجھے گالی لگ ہی نہیں سکتی کیونکہ جسے خدا پاک ٹھہرائے کون ہے جو اس کی نسبت
کچھ کہہ سکے اور اگر مذقم کہہ کر گالیاں دیتے ہیں تو دیتے جائیں یہ میرا نام ہی نہیں.کفار عرب اہل زبان تھے اس لئے وہ اتنی سمجھ رکھتے تھے کہ محمد نام لیکر ہم گالی نہیں دے سکتے لیکن یہ چونکہ عربی نہیں جانتے اس لئے یہ گالی دیتے ہیں کہ تم محمودی ہو.ہم کہتے ہیں خدا تعالیٰ کا بڑا ہی فضل ہے کہ ہم محمودی ہیں کیونکہ یہ تو رسول کریم صلی عالی امن کا وہ مقام ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَاماً مَّحْمُودًا.( بنی اسرائیل :۸۰) اگر ہمارا رسول کریم سے اس عظیم الشان درجہ کے ذریعہ سے تعلق قائم ہو جسے اللہ تعالیٰ نے انعام عظیم کے طور پر آپ کے لئے وعدہ فرمایا ہے تو ہمارے لئے اس سے زیادہ فخر اور کیا ہو سکتا ہے.غرض یہ فتنہ بڑھتا ہی گیا اور ابھی تک بڑھ ہی رہا ہے اور عجیب عجیب اعتراض ہمارے خلاف پیدا کئے جاتے ہیں.مثلاً مولوی محمد علی صاحب میری نسبت کہتے ہیں کہ یہ اپنے آپ کو پاک اور معصوم عن الخطاء کہتا ہے.میں نے اس کے جواب میں لکھا کہ بالکل غلط ہے میں اپنے آپ کو ایسا نہیں سمجھتا اور نہ ہی کوئی انسان ہو کر ایسا سمجھ سکتا ہے لیکن اس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ میاں صاحب نے یہ جواب صرف لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے دے دیا ہے ورنہ واقعہ میں وہ اپنے آپ کو ایسا ہی سمجھتے ہیں.اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک اپنی کوئی غلطی شائع نہیں کی اور نہ ہی کسی غلطی کا اعتراف کیا ہے.میں کہتا ہوں غلطی کا ہونا اور بات ہے اور غلطی کرنے کا امکان اور بات ہے اور ان دونوں باتوں میں بہت بڑا فرق ہے.لیکن یہ عجیب بات ہے کہ وہ با وجود ایم اے ہونے کے اور امیر قوم کہلانے کے اتنا نہیں سمجھ سکتے کہ غلطی کرنا اور کر سکنا الگ الگ باتیں ہیں.میں نے یہ کبھی نہیں کہا اور نہ اب کہتا ہوں کہ میں غلطی نہیں کر سکتا.لیکن اگر میری طرف سے کسی غلطی کا اعلان نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ میں غلطی نہیں کر سکتا تو کوئی شخص مولوی صاحب سے پوچھے کہ جناب مولوی صاحب ! میاں صاحب تو آپ کی اس دلیل کی رو سے بیشک اپنے آپ کو معصوم عن الخطاء سمجھتے
۱۲ ہیں.مگر آپ یہ تو بتائیں کہ آپ نے اس وقت تک اپنی غلطیوں کے کتنے اشتہار دیئے ہیں اور کتنی غلطیوں کا اعتراف کیا ہے کیا آپ کو بھی معصوم عن الخطاء سمجھ لیا جائے ؟ کتنے تعجب اور حیرانی کی بات ہے کہ مجھ پر وہ سوال کیا جاتا ہے جو خود ان پر پڑتا ہے.لیکن پھر بھی وہ اسی پر اڑے ہوئے ہیں.اگر ان کی طرف سے اپنی غلطیوں کے اعتراف میں کوئی اشتہار شائع ہو چکا ہو تا تب تو وہ مجھے یہ کہنے کا حق رکھتے تھے.لیکن جب انہوں نے خود ہی ایسا نہیں کیا تو پھر مجھ سے کیوں یہ توقع رکھتے ہیں.لیکن میں اقرار کرتا ہوں کہ میں غلطی کرسکتا ہوں اور اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے غلطی بھی کی ہے اور بہت بڑی غلطی کی ہے جو یہ ہے کہ میں نے اپنے اخباروں کو سمجھایا کہ ان کے متعلق کچھ نہ لکھو.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی ہمارے اخباروں نے میرے کہنے پر خاموشی اختیار کی جب ہی وہ گالیوں اور بدزبانی میں بڑھ گئے اور طرح طرح کے جھوٹ اور بہتان لکھنے شروع کر دیئے.میں نے یہ غلطی کی اور بڑی غلطی کی کہ اپنے اخباروں کو ان کے متعلق لکھنے سے روکا.چونکہ انسان غلطی کرتا ہے میں نے بھی یہ غلطی کی.ایک دوست ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں سفر میں گیا تو ایک مسجد میں ٹھہرا.وہاں ایک شخص بیٹھا تھا وہ بے تحاشا مجھے گالیاں دینے لگ گیا اور میں خاموش سنتا رہا اور خیال کرتا رہا کہ میں اب کروں تو کیا کروں اور اسے کیونکر چپ کراؤں لیکن کچھ نہ سوجھتا.آخر کچھ دیر کے بعد اسی جگہ سے ایک صف میں سے ایک اور شخص نکلا اور وہ اس کو گالیاں دینے لگ گیا جب اس نے بھی گالیاں دینی شروع کیں تب جا کر وہ پہلا شخص خاموش ہو ا بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دونوں دیوانے تھے اور اتفاق سے اس جگہ اکٹھے ہو گئے تھے.اسی طرح اگر ادھر سے چپ ہو جائیں تو وہ گالیوں میں بڑھے چلے جاتے ہیں اور اعتراض پر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں اور آگا پیچھا کچھ نہیں دیکھتے.لیکن اگر ان کے اعتراضات کا جواب دیا جائے اور ظاہر کیا جائے کہ جو اعتراضات وہ ہم پر کرتے ہیں وہ ہم
پر نہیں بلکہ ان پر پڑتے ہیں تو پھر اپنے حملوں میں وہ ذرا محتاط ہو جاتے ہیں.غرض اس جھگڑے میں ہمارا روپیہ اور وقت بہت کچھ ضائع ہوا.نہ ان کے حملوں پر خاموش ہو سکتے ہیں کہ بعض کمزور طبائع لوگوں کو ابتلاء نہ آجائے اور نہ ان کا جواب دینے کو دل چاہتا ہے کیونکہ اس وقت اور اس روپیہ کو خدمت دین اسلام میں خرچ کرنے سے بہت سے نیک نتائج کے نکلنے کی امید ہوتی ہے مگر مجبوراً ان لوگوں کی طرف توجہ کرنی ہی پڑتی ہے اس وقت بھی جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ گو میں اور مضامین بیان کرنا چاہتا تھا لیکن موجودہ اختلاف کی وجہ سے دو اختلافی مسائل پر بھی کچھ بیان کرنا ضروری خیال کرتا ہوں.اور پہلے انہی اختلاف کو شروع کرتا ہوں.پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آیا حضرت مسیح موعود کا نام احمد تھا یا آنحضرت سالی یہ تم کا اور کیا سورۃ الصف کی آیت جس میں ایک رسول کی جس کا نام احمد ہو گا بشارت دی گئی ہے آنحضرت ﷺ کے متعلق ہے یا حضرت مسیح موعود" کے متعلق.اسمہ احمد کی پیشگوئی کے مصداق حضرت مسیح موعود ہیں میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے اور احمد آپ ہی ہیں لیکن اس کے خلاف کہا جاتا ہے کہ احمد نام رسول کریم سالی یا پیام کا ہے اور آپ کے سوا کسی اور شخص کو احمد کہنا آپ کی ہتک ہے.لیکن میں جہاں تک غور کرتا ہوں میرا یقین بڑھتا جاتا ہے اور میں ایمان رکھتا ہوں کہ احمد کا جو لفظ قرآن کریم میں آیا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہی ہے.میں اس بات کے ثبوت میں اپنے پاس خدا کے فضل سے دلائل رکھتا ہوں اور تمام دنیا کے عالموں اور فاضلوں کے سامنے بیان کرنے کے لئے تیار ہوں حتی کہ میں انعام رکھنے کے لئے بھی تیار ہوں اور اگر کوئی میرے دلائل کو غلط ثابت کر دے اور قرآن کریم سے اور احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت کر دے کہ احمد آنحضرت سال پیام کا نام تھا نہ کہ صفت
۱۴ اور یہ کہ جو نشانات احمد کے قرآن کریم میں آتے ہیں وہ آنحضرت سلی یا مسلم پر چسپاں ہوتے ہیں اور یہ کہ رسول اللہ ایسی ہی ہم نے یہ پیشگوئی اپنے پر چسپاں فرمائی ہے تو میں ایسے شخص کو ایک مقر ر تاوان جو فریقین کو منظور ہو دینے کے لئے تیار ہوں.یہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو احمد کہنے میں آنحضرت صلی اینم کی ہتک نہیں اور اس سے یہ مراد نہیں کہ آنحضرت سلینا بیلیم احمد نہ تھے.آپ احمد تھے اور ضرور تھے لیکن احمد آپ کی صفت تھی نہ کہ آپ کا نام اور جو شخص یہ کہے کہ احمد آپ کی صفت نہ تھی وہ جھوٹا ہے کیونکہ صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے اور اگر آپ احمد نہ ہوتے تو حضرت مسیح موعود احمد ہو ہی کیونکر سکتے تھے کیونکہ آپ نے جو کچھ حاصل کیا ہے آپ کی ہی شاگردی سے حاصل کیا ہے.لیکن باوجود اس کے یہ کہنا درست نہیں کہ رسول کریم مالی اسلام کا نام احمد تھا اور اس قول پر غیر مبائعین کا یہ شور مچانا کہ اس طرح رسول کریم سی نے یہ یمن کی ہتک ہوگئی بالکل غلط اور فضول ہے.رسول کریم مسایل پیام کی اس میں کوئی ہتک نہیں.کیا حضرت موسیٰ" کو موسی کہنے سے آنحضرت مالی ایلام کی ہتک ہے یا حضرت ابراہیم کو ابراہیم کہنے میں آنحضرت سلیم کی ہتک ہے اگر ایسا نہیں تو حضرت مسیح موعود کو احمد کہنے میں آنحضرت سلینا ای یام کی کیوں ہتک ہونے لگی.کسی شخص کا پیشگوئی کا مصداق ہونا دلائل سے معلوم ہوتا ہے اور جب دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت مسیح موعود ہیں تو رسول کریم ام کی اس میں کس وجہ سے ہتک ہوئی.یہ کہنا کہ آنحضرت سلیم کا نام احمد نہیں آپ کی ہتک نہیں ہے کیونکہ صرف نام کا بغیر نام کی صفات کے ہونا کچھ فائدہ نہیں رکھتا.جب تک کسی میں اس کے نام کے مطابق اوصاف نہ پائے جاتے ہوں.نام کوئی قابل عزت بات نہیں.دیکھو بعض لوگوں کا نام عبدالرحمن اور عبدالرحیم ہوتا ہے لیکن وہ کام عبدالشیطان کے کرتے ہیں.اسی طرح بعض کا نام نیک اور شریف ہوتا ہے لیکن دراصل وہ بد اور بد وضع ہوتے ہیں تو ماں باپ کا
۱۵ رکھا ہوا نام کوئی عزت کی شے نہیں ہو جاتا.اگر ہم رسول کریم این ایام کے متعلق یہ کہیں کہ رسول اللہ میں احمد کی صفت نہیں پائی جاتی تو یہ آپ کی ہتک ہے لیکن یہ کہنا کہ آپ کا نام احمد نہیں ہر گز آپ کی ہتک کرنا نہیں کہلا سکتا بلکہ یہ ایک امر واقعہ کہلائے گا.پس جبکہ نام فضیلت کا ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ کام فضیلت کا ذریعہ ہوتے ہیں تو پھر آپ " کا نام احمد نہ ماننے میں آپ کی ہتک کس طرح ہو سکتی ہے.اگر رسول کریم صلی الہام کا نام محمد بھی نہ ہوتا بلکہ کچھ اور ہوتا تو کیا اس میں آپ کی ہتک ہو جاتی اور کیا آپ کی برکات میں کمی آجاتی.آپ کا نام جو کچھ بھی ہوتا وہی بابرکت ہوتا اور اس نام پر دنیا اسی طرح فدا ہوتی جس طرح اب محمد نام پر فدا ہوتی ہے کیونکہ لوگ آپ کے نام پر فدا نہیں ہوتے بلکہ درحقیقت آپ کے کام پر فدا ہوتے ہیں.پس اگر یہ کہا جاتا ہے کہ آنحضرت سلیل یا پی ایم کا نام احمد نہیں ہاں احمد کی صفات آپ میں پائی جاتی ہیں تو پھر نا دان ہے وہ جو یہ کہے کہ ایسا کہنے سے آپ کی ہتک ہوتی ہے.قرآن کریم میں جو احمد کی خبر دی گئی ہے اس کے متعلق میں نے وہ آیات پڑھ دی ہیں جن میں احمد کا ذکر ہے اور اب میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بتاتا ہوں کہ ان آیات میں احمد کا اصل مصداق حضرت مسیح موعود ہی ہیں اور آنحضرت سال پیام صرف صفت احمدیت کی وجہ سے اس کے مصداق ہیں ورنہ جس احمد نام کے انسان کے متعلق خبر ہے وہ حضرت مسیح موعود ہی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سَبَّحَ لِلهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ ، الْحَكِيمُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُونَ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيْلِهِ صَفًّا كَانَهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَد تَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمُ ، فَلَمَّا زَاغُوا اَزَاغَ اللهُ قُلُوبَهُمُ ، وَاللهُ لَا ط يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ (الصف: ۲ تا۲ ) ( ترجمہ) تسبیح کرتی ہے اللہ کے لئے ہر ایک
17 وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور وہی غالب اور حکمت والا ہے.اے مؤمنو! کیوں وہ بات کہتے ہو جو خود نہیں کرتے.یہ بات اللہ کو بڑی ہی نا پسند ہے کہ دوسروں کو وہ کچھ کہو جو تم خود نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح صفیں باندھ کر لڑتے ہیں کہ گویا سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہیں اور جب کہا موسی“ نے اپنی قوم کو کہ اے قوم کیوں مجھے ایذاء دیتے ہو اور تحقیق تم یہ بات جانتے ہو کہ میں خدا کا رسول ہو کر تمہاری طرف آیا ہوں.پس جب انہوں نے بھی کی تو خدا نے ان کے دلوں کو بج کر دیا اور اللہ فاسقوں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعہ کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے کہ جب عیسی بن مریم نے بنی اسرائیل کو کہا کہ اے بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہو کر تمہاری طرف آیا ہوں اور ان باتوں کی تصدیق کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے کہی گئی ہیں تو رات سے.اور تمہیں خوشخبری دیتا ہوں اس رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہو گا.اب یہاں سوال ہوتا ہے کہ وہ کون سا رسول ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد آیا اور اس کا نام احمد ہے.میرا اپنا دعویٰ ہے اور میں نے یہ دعوی یونہی نہیں کر دیا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں بھی اسی طرح لکھا ہوا ہے اور حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے بھی یہی فرمایا ہے کہ مرزا صاحب احمد ہیں.چنانچہ ان کے درس کے نوٹوں میں یہی چھپا ہوا ہے اور میرا ایمان ہے کہ اس آیت کے مصداق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں ہاں پہلے پہل جب حضرت خلیفہ اول سے یہ بات میں نے سنی تو ابتداء سے قبول نہ کیا اور بہت کچھ اس کے متعلق بخشیں ہوتی رہیں لیکن جب میں نے اس پر غور کیا تو خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق میرا سینہ کھول دیا اور دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ عنایت فرما دیئے اور میں نے اس خیال کو قبول کر لیا.ان آیات میں خدا تعالیٰ نے اول حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے کہ جب وہ اپنی
۱۷ قوم میں آئے اور ان کی قوم نے انہیں دیکھ دیئے تو انہوں نے کہا کہ میں خدا کی طرف سے تمہارے پاس رسول ہو کر آیا ہوں مجھے قبول کر لو لیکن جب انہوں نے قبول نہ کیا اور کبھی اختیار کی تو خدا تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں کو سچ کر دیا.اس ذکر کے بعد خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کے تمام انبیاء کا ذکر چھوڑ دیا ہے اور صرف حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر کیا ہے.اس کی غرض سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سو سال بعد حضرت مسیح آئے تھے اسی طرح آنحضرت سالی ایم کے تیرہ سو سال بعد جو مثیل موسیٰ ہیں مسیح موعود آئے گا اور اسمه احمد کا جملہ اس کو صاف کر دیتا ہے کیونکہ آنحضرت سال اسلام کا نام احمد نہ تھا بلکہ محمد تھا.چنانچہ اس آیت زیر بحث کو چھوڑ کر جس میں نہ رسول اللہ صلی یہ یمن کو حد کہ کر مخاطب نہیں فرمایا بلکہ صرف حضرت مسیح کی ایک پیشگوئی بیان فرمائی ہے جو خود زیر بحث ہے کسی جگہ بھی قرآن کریم میں آنحضرت سالی تم کواحد نام سے یاد نہیں کیا گیا.اگر آنحضرت مصلی یہ ہیم کا نام احمد ہوتا اور جیسا کہ لوگ بیان کرتے ہیں والدہ کو الہام کے ذریعہ سے یہ نام بتایا گیا ہوتا تو قرآن کریم میں جو وحی الہی ہے اول تو احمد نام ہی آتا اور اگر محمد بھی آتا تو احمد بعض مقامات پر ضرور آتا.وہ عجیب الہامی نام تھا کہ قرآن کریم اس نام سے ایک دفعہ بھی آنحضرت سی ایم کو نہیں پکارتا.دوسری دلیل آپ کا نام احمد نہ ہونے کی یہ ہے کہ کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ آپ کا نام احمد تھا.کلمہ شہادت جس پر اسلام کا دار و مدار ہے اس میں بھی محمد رسول اللہ کہا جاتا ہے کبھی احمد رسول اللہ نہیں کہا جاتا ہے حالانکہ اگر آپ کا نام احمد ہوتا تو کلمہ شہادت کی کوئی روایت تو یہ بھی ہوتی کہ اَشهَدُ أَنَّ احمد رَسُولُ الله پنجوقتہ اذان میں بھی یہ بانگ بلند مُحمد رسُولُ اللہ کہہ کر آپ کی رسالت کا اعلان کیا جاتا ہے.کبھی احمد رسول اللہ نہیں کہا جاتا.تکبیر میں بھی محمد ہی آنحضرت سال یا اینم کا نام آتا ہے اور درود میں بھی آنحضور کومحمد نام لے کر ہی یاد کیا جاتا ہے اور اسی نام کے رسول پر
۱۸ خدا تعالیٰ کی رحمتیں بھیجی جاتی ہیں.رسول کریم صلی یا اسلام کے خطوط کی نقلیں موجود ہیں ان سب میں آپ نے اپنے دستخط کی جگہ محمد نام کی ہی مہر لگائی ہے.ایک خط میں بھی احمد اپنا نام تحریر نہیں فرمایا.پھر صحابہ کرام کی گفتگو احادیث میں مذکور ہیں لیکن ایک دفعہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ کسی صحابی نے آنحضرت صلی اینم و احمد کہ کر پکارا ہو اور نہ ان کی آپس کی گفتگو میں ہی یہ نام آتا ہے نہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آپ کا نام احمد رکھا گیا تھا.بلکہ تاریخ سے بھی یہی ثابت ہے کہ آپ کا نام محمد رکھا گیا تھا.آپ کے مخالف جس قدر تھے جن میں خود آپ کے رشتہ دار اور چچا بھی شامل تھے سب آپ کو محمد صلی شما پیام نام سے پکارتے تھے یا شرارت سے مذقم کہہ کر پکارتے تھے کہ وہ بھی محمدؐ کے وزن پر ہے.غرض جس قدر بھی غور کریں اور فکر کریں آپ کا نام قرآن کریم سے ، احادیث سے کلمہ سے اذان سے تکبیر سے ، درود سے، آپ کے خطوط سے، معاہدات سے ، تاریخ سے صحابہ کے اقوال سے محمد ہی معلوم ہوتا ہے نہ کہ احمد.پھر اس قدر دلائل کے ہوتے ہوئے کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا نام احمد تھا.اگر احمد بھی آپ کا نام ہوتا تو مذکورہ بالا مقامات میں محمد نام کے ساتھ آپ کا نام احمد بھی آتا اور کچھ نہیں تو ایک ہی جگہ احمد نام سے آپ کو پکارا جاتا یا کلمہ شہادت میں بجائے اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله کے احمد رسول اللہ بھی پڑھنا جائز ہوتا مگر ایسا نہیں ہے نہ یہ بات رسول کریم سے ثابت ہے اور نہ صحابہ سے.اب ان واقعات کے ہوتے ہوئے ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ آپ کا نام احمد نہ تھا.پس اس آیت میں جس رسول احمد نام والے کی خبر دی گئی ہے وہ آنحضرت ملا لیا ایلیم نہیں ہو سکتے ہاں اگر وہ تمام نشانات جو اس احمد نام رسول کے ہیں آپ کے وقت میں پورے ہوں تب بیشک ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس آیت میں احمد نام سے مراد احمدیت کی صفت کا رسول ہے کیونکہ سب نشانات جب آپ میں پورے ہو گئے تو پھر کسی اور پر اس کے چسپاں کرنے کی کیا وجہ ہے لیکن یہ بات بھی نہیں جیسا کہ میں آگے چل کر ثابت کروں گا.
۱۹ دوسری صورت یہ تھی کہ اِسمُه اَحْمَدُ والی پیشگوئی میں کوئی ایسا لفظ ہوتا جس کی وجہ سے ہم کسی غیر پر اسے چسپاں نہ کر سکتے مثلاً یہ لکھا جاتا کہ وہ خاتم النبین ہوگا اور چونکہ خاتم النبین صرف رسول کریم ہی ہیں اور ایک ہی شخص خاتم النبین ہو سکتا ہے اس لئے ہم کہہ سکتے تھے کہ گو بعض نشانات آپ کے وقت میں اپنے ظاہر الفاظ میں پورے نہیں ہوئے لیکن جبکہ ایک ایسی صریح علامت موجود ہے جو آپ کے سوا کسی اور میں پائی ہی نہیں جاسکتی تو ان باتوں کی کوئی اور تاویل ہوگی اور بہر حال یہ پیشگوئی آپ پر ہی چسپاں ہوتی ہے لیکن یہ بات بھی نہیں.اس پیشگوئی میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ پیشگوئی خاتم النبین کے متعلق ہے.نہ کوئی اور ایسا لفظ ہے جس کی وجہ سے ہمیں یہ پیشگوئی ضرور آنحضرت سلیہ اتم پر چسپاں کرنی پڑے.سوم با وجود آپ کا نام احمد نہ ہونے کے آپ پر یہ پیشگوئی چسپاں کرنے کی یہ وجہ ہو سکتی تھی کہ آپ نے خود فرما دیا ہوتا کہ اس آیت میں جس احمد کا ذکر ہے وہ میں ہی ہوں لیکن احادیث سے ایسا ثابت نہیں ہوتا نہ سچی نہ جھوٹی نہ وضعی نہ قوی نہ ضعیف نہ مرفوع نہ مرسل کسی حدیث میں بھی یہ ذکر نہیں کہ آنحضر مسایلیا ایلیم نے اس آیت کو اپنے اوپر چسپاں فرمایا ہو اور اس کا مصداق اپنی ذات کو قرار دیا ہو.پس جب یہ بھی بات نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم خلاف مضمون آیت کے اس پیشگوئی کو آنحضرت صلی یا ہم پر چسپاں کریں.ایک چوتھی مجبوری بھی ہو سکتی تھی جس کی وجہ سے ہم یہ آیت رسول کریم ملایشیا کی تم پر چسپاں کرنے کے لئے مجبور تھے اوروہ یہ کہ انجیل میں صرف ایک ہی نبی احد کی خبر دی گئی ہوتی.اس صورت میں واقعہ میں مشکل تھی کہ اگر اس پیشگوئی کو ہم کسی اور شخص پر چسپاں کر دیتے تو رسول کریم مسیح کے موعود نہ رہتے حالانکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ آپ حضرت مسیح ناصری کے موعود ہیں.لیکن انجیل میں ہم دونبیوں کے آنے کی خبر پاتے ہیں.ایک وہ نبی جو تمام نبیوں کا موعود ہے اور جس کا آنا گویا خدا تعالیٰ کا آنا قرار دیا گیا ہے.اور دوسرے مسیح کی دوبارہ
آمد.اور بتایا گیا ہے کہ پہلے وہ نبی آئے گا پھر مسیح دوبارہ آئے گا اور ان دونوں پیشگوئیوں میں احمد کا نام ہی موجود نہیں.پس جب اسمه احمد والی آیت کو اگر مطابق مضمون اس آیت کے بجائے رسول کریم کے چسپاں کرنے کے آپ کے کسی خادم پر چسپاں کیا جائے تو قرآن کریم کی کسی اور آیت کی تکذیب نہیں ہوتی اور آنحضرت سلیلا پسیان پھر بھی حضرت مسیح کے موعود رہتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اس آیت کے مضمون کو توڑ مروڑ کر آپ پر صرف اس لئے چسپاں کیا جائے تایہ ثابت ہو کہ آپ کے بعد کوئی اور رسول نہیں آسکتا.کیا خدا تعالیٰ کا خوف دلوں سے اٹھ گیا ہے کہ اس طرح اس کے کلام میں تحریف کی جاتی ہے اور صریح طور پر اس کے غلط معنی کر کے اس کے مفہوم کو بگاڑا جاتا ہے.جب تک حق نہ آیا تھا اس وقت تک کے لوگ مجبور تھے لیکن اب جبکہ واقعات سے ثابت ہو گیا ہے کہ احمد سے مراد آنحضرت صلی لا الہ یام کا ایک خادم ہے تو پھر بھی ہٹ دھرمی سے کام لینا شیوہ مؤمنانہ نہیں.انجیل میں آپ کا نام محمد " آیا ہے پھر ایک عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو یہ زور دیا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی یا پی ایم کا نام احمد تھا اور دوسری طرف یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ انجیل میں آنحضرت سلیم کا نام محمد آیا ہے.جبکہ انجیل میں آپ کا نام محمد آیا ہے تو پھر اسمُهُ أَحْمَدُ والی پیشگوئی آپ پر چسپاں کرنا گویا آپ کی تکذیب کرنا ہے کیونکہ انجیل تو صریح محمد نام سے آپ کی خبر دیتی ہے اور اس پیشگوئی میں کسی احمد نام رسول کی خبر دی گئی ہے تو کیا صاف ثابت نہیں ہوتا کہ وہ پیشگوئی اور ہے اور یہ اور.اور کیا اس پیشگوئی کو آپ پر چسپاں کرنے والا قرآن کریم پر غلط بیانی کا الزام نہیں لگا تا کہ انجیل میں تو محمد نام لکھا تھا لیکن قرآن کریم احمد نام بتا تا ہے.ایسا شخص ذرا غور تو کرے کہ اس کی یہ حرکت اسے کس خطرناک مقام پر کھڑا کر دیتی ہے اور وہ اپنا شوق پورا کرنے کے لئے قرآن کریم اور رسول کریم کی بھی تکذیب کر دیتا ہے.جس انجیل میں
۲۱ آنحضرت سیل یا پیام کومحمد کے نام سے یاد کیا گیا ہے وہ برنباس کی انجیل ہے اور نواب صدیق حسن خاں مرحوم بھو پالوی اپنی تفسیر فتح البیان کی جلد 9 صفحہ ۳۳۵ میں اسمه احمد والی پیشگوئی کے نیچے لکھتے ہیں کہ برنباس کی انجیل میں جوخبر دی گئی ہے اس کا ایک فقرہ یہ ہے لَكِنَّ هَذِهِ الْإِ هَانَةَ وَ الْإِسْتِهْزَاءَ تَبْقِيَانِ إِلى أَن يَجِيْءَ مُحَمَّدَ رَسُولُ اللهِ یعنی حضرت مسیح نے فرمایا کہ میری یہ اہانت اور استہزاء باقی رہیں گے یہاں تک کہ محمد رسول اللہ تشریف لائیں.یہ حوالہ ہمارے موجودہ اختلافات سے پہلے کا ہے اور نواب صدیق حسن خان صاحب کی قلم سے نکلا ہے.پس یہ حوالہ نہایت معتبر ہے بہ نسبت ان حوالہ جات کے جواب ہم کو مدنظر رکھ کر گھڑے جاتے ہیں اور اس حوالہ سے ثابت ہے کہ رسول کریم این ٹی ایم کا نام انجیل میں محمد آیا ہے.پس جبکہ اگر کوئی نام رسول کریم ماننا ہیم کا انجیل میں آیا بھی ہے تو وہ محد نام ہے تو پھر اس آیت کو خلاف منشاء آیت آپ پر چسپاں کرنے کی کیا وجہ ہے اور کیا اس میں رسول کریم ملا ایتم کی ہتک نہیں کی جاتی بلکہ خدا تعالٰی پر الزام نہیں دیا جاتا کہ اول تو انجیل میں اور نام سے خبر دی گئی تھی لیکن قرآن کریم نے وہ نام ہی بدل دیا.دوم یہ کہ وہ علامتیں بتا ئیں جو آنحضرت صلی ا یہ تم پر چسپاں نہیں ہوتیں.فارقلیط ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک اور رنگ بھی اختیار کرتے ہیں اور وہ یہ کہ انجیل میں فارقلیط کی جو خبر دی گئی ہے اس سے اسمه احمد کی پیشگوئی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فارقلیط سے احمد نام ثابت ہوتا ہے اور جبکہ تم اسمه احمد کی پیشگوئی رسول کریم پر چسپاں نہیں کرتے تو فارقلیط کی پیشگوئی آپ پر چسپاں نہ ہوگی.اور وہ بھی مسیح موعود پر چسپاں ہوگی.اور اگر ایسا ہوگا تو آنحضرت کے متعلق انجیل میں کونسی پیشگوئی رہ جائے گی.سواس کا جواب یہ ہے کہ فارقلیط کی پیشگوئی آنحضرت سیلانی ایم کے متعلق ہی ہے اور ہمارے نزدیک آپ ہی اس پیشگوئی کے مصداق ہیں.لیکن ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے
۲۲ کہ اگر فارقلیط کے معنی احمد نہ کئے جائیں تو یہ پیشگوئی آنحضرت سلی سالی تم پر چسپاں نہیں ہوتی بلکہ ہمارے نزدیک بہر حال یہ پیشگوئی آنحضرت سلیم پر چسپاں ہوتی ہے اور جو لوگ فارقلیط کے معنی احمد کر کے اس پیشگوئی کا مصداق رسول کریم صلیہ السلام کو بناتے ہیں تو وہ اپنا پہلو کمزور بناتے ہیں کیونکہ احمد ترجمہ لفظ پیر یکلیو طاس کا کیا جاتا ہے حالانکہ موجودہ یونانی نسخوں میں لفظ پیر یکلیط اس کا ہے پس جبکہ وہ لفظ جس سے احمد کے معنی نکالے جاتے ہیں موجودہ انا جیل میں ہے ہی نہیں.اور پہلے زمانہ کے متعلق بحث ہے کہ آیا ایسا تھا یا نہیں تو ایسے لفظ پر استدلال کی بنیاد جبکہ اور شواہد اس کے ساتھ نہ ہوں نہایت کمزور بات ہے اور صرف اس قدر کہ دینا کافی نہیں کہ چونکہ انجیل میں تحریف ہوئی ہے اس لئے اس میں یہی لفظ ہوگا جو بعض لوگوں نے خیال کیا ہے کیونکہ اس طرح تو جو شخص چاہے انجیل کی ایک آیت لے کر کہہ سکتا ہے کہ یہ یوں نہیں یوں ہے اور اس کی دلیل وہ یہ دے دے کہ چونکہ انجیلوں میں تحریف ہوئی ہے اس لئے مان لو کہ جو کچھ میں کہتا ہوں وہی صحیح ہے.تحریف کا ہونا اور بات ہے اور کسی خاص جگہ تحریف ہونا اور بات ہے.جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ کس جگہ تحریف ہوئی ہے اپنے پاس سے ایک نئی بات بنا کر انجیل میں داخل نہیں کر سکتے اور نہیں کہہ سکتے کہ اصل میں یہ تھا اور ایسا کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں کیونکہ فارقلیط عبرانی لفظ ہے اور یہ لفظ مرکب ہے فارق اور لیط سے.فارق کے معنی بھگانے والا اور لیط کے معنی شیطان یا جھوٹ کے ہیں اور ان معنوں کے رو سے آنحضرت مان لیا کہ تم ہی اس پیشگوئی کے مصداق بنتے ہیں کیونکہ آپ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے روحانی ہتھیاروں سے شیطان کو بھگایا اور جھوٹ کا قلع قمع کیا اور بلند آواز سے دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ منادی کی کہ وَقُلْ جَاءَ الْحَقُ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ( بنی اسرائیل : ۸۲ ) پس ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم خواہ مخواہ ایک یونانی ترجمہ پر جو خود زیر بحث ہے اپنی دلیل کی بناء رکھیں.اصل
۲۳ لفظ فارقلیط ہے اور اس کے لحاظ سے آنحضرت سلیل یا پی ایم کا نام احمد ہو یا نہ ہو آپ اس پیشگوئی کے مصداق بنتے ہیں بلکہ موجودہ ترجمہ یونانی میں جو لفظ پیر یکلیطاس ہے اور جس کا ترجمہ ف محققین نے تشفی دہندہ معلم مالک یا پاک روح کے کئے ہیں اگر اس کو بھی مان لیا جائے تو ہمارا کوئی حرج نہیں کیونکہ حضرت مسیح کے بعد کون انسان دنیا کے لئے تشفی دہندہ آیا ہے یا کس نے يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ کا دعویٰ کیا ہے یا کس کو خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان سے بیعت لینے کا حکم دیا ہے جو سنت کہ اس سے پہلے کے انبیاء میں بھی معلوم نہیں ہوتی اور بیعت کے معنی بیچ دینے کے ہوتے ہیں پس وہ مالک بھی ہوا بلکہ آگے اس کے غلام بھی مالک ہو گئے.پھر وہ کون شخص ہے جو سر سے لے کر پیر تک پاک ہی پاک تھا اور جس کو اللہ تعالیٰ نے کل جہان کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے.ظاہر ہے کہ ایسا شخص ایک ہی تھا اور صرف اسی نے ایسا ہونے کا دعوی بھی کیا یعنی ہمارے آنحضرت ملا یا اسلام فداہ ابی وامی ہی وہ شخص تھے جن کو یہ سب باتیں حاصل تھیں اور قیامت تک کے لئے بنی نوع انسان کی طرف مبعوث ہوئے تا کہ فارقلیط کی اس شرط کو پورا کریں کہ وہ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ رہے گی.اور کون سانبی ہے جس پر ایمان لانا اور اس کے حکموں کو ماننا قیامت تک واجب رہے گا سوائے ہمارے آنحضرت صلی السلام کے.غرض اشتمۂ احمد کے ساتھ فارقلیط والی پیشگوئی کا کوئی تعلق نہیں اور یہ پیشگوئی بہر حال رسول کریم صلی شمالی ایم کے متعلق ہے خواہ اس کے معنی احمد کے مطابق ہوں یا اس کے غیر ہوں اور اگر اس کے معنی احمد کے مطابق بھی فرض کر لئے جائیں تو کیا رسول کریم اپنی صفات میں احمد نہ تھے.کیا کوئی اس کا انکار کرتا ہے بلکہ انجیل میں فارقلیط کا نام آنا ہی دلالت کرتا ہے کہ یہاں صفت مراد ہے کیونکہ ناموں کا تر جمہ نہیں کیا جاتا ہاں صفات کا ترجمہ کیا جاتا ہے.پس اگر اس پیشگوئی میں تسلیم کیا جائے کہ آپ کی صفت احمدیت کی طرف اشارہ ہے تو یہ کیونکر معلوم ہوتا
۲۴ ہے کہ فارقلیط والی پیشگوئی میں اسمُهُ أَحْمَدُ والی پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے.ان دونوں میں کوئی تعلق دلائل سے ثابت نہیں کہ ہم ان دونوں پیشگوئیوں کو ایک ہی شخص کے حق میں سمجھنے کے لئے مجبور ہوں.شاید بعض لوگ میرے مقابلہ میں بخاری کی حدیث پیش کریں.عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعَمٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ لِي أَسْمَاء أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَنَا أَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللهُ فِي الْكُفْرَ وَانَا الْحَاثِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمَى وَانَا الْعَاقِبُ والْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِي (مشكوة كتاب الأداب باب اسماء النبى وصفاته) آنحضرت صلی سیستم فرماتے ہیں کہ میرے کئی نام ہیں.میرا نام محمد ہے میرا نام احمد ہے میرا نام ماحی ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ سے کفر کو مٹائے گا.میرا نام حاشر ہے کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میرا نام عاقب ہے اور عاقب کے معنی ہیں وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا.غیر مبائعین کہتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت سیل پی ایم کا نام احمد تھا مگر یہ ایسی ہی بات ہے جیسا ایک آریہ کہے کہ قرآن میں چونکہ خدا کی نسبت مکر کرنے والا آیا ہے اس سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا خدا مکار ہے.چونکہ آریہ نہیں جانتے کہ مکر کا لفظ اگر اردو میں استعمال ہو تو برے معنی لئے جاتے ہیں اور عربی میں برے معنوں میں نہیں آتا اس لئے وہ اس کو قابل اعتراض سمجھتے ہیں.حالانکہ عربی میں مکر کے معنی ہیں تد بیر کرنا اور چونکہ قرآن شریف عربی زبان میں ہے اس لئے مکر کے وہی معنی کرنے چاہئیں جو عربی زبان میں مستعمل ہوتے ہیں نہ کہ اردو کے معنی.یہی بات یہاں ہے.ان لوگوں کو یہ دھوکا لگا ہے کہ اس حدیث میں لفظ اسماء کا آیا ہے.اردو میں چونکہ اسم نام کو ہی کہتے ہیں اس لئے انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ رسول کریم کے یہ سب نام ہیں حالانکہ عربی میں اسم بمعنی صفت بھی اور اسم بمعنی نام بھی آتا ہے.انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ جب اسم کے دو معنی
۲۵ ہیں تو ان دو معنوں میں سے یہاں کون سے لگائے جائیں.قرآن کریم میں اسم بمعنی صفات کے آیا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَهُ الْأَسْمَاء الْحُسْنَى (الحشر : ۲۵) یعنی سب اچھے نام خدا تعالیٰ کے ہیں لیکن یہ بات ثابت ہے کہ اسم ذات تو اللہ تعالیٰ کا ایک ہی ہے یعنی اللہ.باقی تمام صفاتی نام ہیں نہ کہ ذاتی.پس قرآن کریم سے ثابت ہے کہ اسم بمعنی صفت بھی آتا ہے بلکہ قرآن کریم میں تو صفات الہیہ کا لفظ ہی نہیں ملتا.سب صفات کو اسماء ہی کہا گیا ہے اور جبکہ اسم بمعنی صفت بھی استعمال ہوتا ہے تو حدیث کے معنی کرنے میں ہمیں کوئی مشکل نہیں رہتی.اس میں آنحضرت صلی یہ تم نے اپنی صفات گنوائی ہیں کہ میری اتنی صفات ہیں.میں محمد ہوں یعنی خدا نے میری تعریف کی ہے میں احمد ہوں کہ مجھ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی تعریف کسی اور شخص نے بیان نہیں کی.میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے کفر مٹانا ہے.میں حاشر ہوں کہ میرے ذریعہ سے ایک حشر برپا ہوگا.میں عاقب ہوں کہ میرے بعد اور کوئی شریعت لانے والا نبی نہیں.اور اگر اس حدیث کے ماتحت رسول کریم ملایا کہ ان کا نام احمد رکھا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آپ کا نام ماحی بھی تھا اور حاشر بھی تھا اور عاقب بھی تھا.حالانکہ سب مسلمان تیرہ سو سال سے متواتر اس بات کو تسلیم کرتے چلے آئے ہیں کہ ماحی اور عاقب اور حاشر آپ کی صفات تھیں نام نہ تھے.پس جبکہ ایک ہی لفظ پانچوں ناموں کے لئے آیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک جگہ اس کے معنی نام لئے جائیں اور ایک دوسرے لفظ کے متعلق اسی لفظ کے معنی صفت لئے جائیں.غرض اس جگہ اسماء سے مراد نام لئے جائیں تو پانچوں نام قرار دینے پڑیں گے جو کہ بالبداہت غلط ہے.اور اگر صفت لئے جائیں تو اس حدیث سے اسی قدر ثابت ہوگا کہ آنحضرت سال شما پیام کی صفت احمد بھی تھی اور اس بات سے کسی کو بھی انکار نہیں بلکہ انکار کرنے والا مؤمن ہی نہیں ہوسکتا ممکن ہے کہ کوئی شخص اس حدیث سے یہ استدلال کرے کہ رسول کریم مالی اسلام نے محمد واحمد کی تو تشریح
۲۶ نہیں کی اور دوسرے تینوں ناموں کی تشریح کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے دونوں آپ کے نام ہیں اور دوسری تین آپ کی صفات ہیں کیونکہ تبھی ان کے معنی کر دیئے.لیکن یہ استدلال بھی درست نہیں کیونکہ اول تو یہ دلیل ہی غلط ہے کہ جس کی تشریح نہ کی جائے وہ ضرور نام ہوتا ہے.بلکہ تشریح صرف اس کی کی جاتی ہے جس کی نسبت خیال ہو کہ لوگ اس کا مطلب نہیں سمجھیں گے.دوسرے ایک اور روایت اس دلیل کو بھی رڈ کر دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ابو موسیٰ اشعری روایت کرتے ہیں کہ سلمی لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ أَسْمَاء مِنْهَا مَا حَفِظْنَا فَقَالَ أَنَا مُحَمَّدٌ وَ أَحْمَدُ وَالْمُقَقَى وَالْحَاشِرُ وَنَبِيُّ الرَّحمَةِ - - - وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ وَنَبِيُّ الْمَلْحَمَةِ.(مند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۳۹۵) یعنی رسول کریم صلی تم نے ہمارے سامنے اپنے کئی نام بتائے جن میں سے بعض ہم کو بھول گئے اور بعض یاد رہ گئے.آپ نے فرمایا کہ میرا نام محمد ہے میرا نام احمد ہے میرا نام منفی ہے حاشر ہے نبی الرحمہ نبی التوبہ اور نبی الملحمہ ہے.اس حدیث میں مقفی اور نبی الرحمہ اور نبی التوبہ اور نبی الملحمہ کی تشریح نہیں کی لیکن یہ سب صفات ہیں.آج تک کسی نے بھی ان کو نام تسلیم نہیں کیا اور نہ یہ نام ہو سکتے ہیں.کیونکہ آپ کے نام تو آپ کے بزرگوں نے رکھنے تھے اور عرب لوگ نبوت کے قائل ہی نہ تھے وہ آپ کا نام نبی الرحمۃ کیونکر رکھ سکتے تھے غرض یہ حدیث آپ ہی پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس میں رسول کریم کے نام نہیں بلکہ آپ کی صفات بیان کی گئی ہیں.شاید اس جگہ کوئی شخص یہ بھی سوال کر بیٹھے کہ اوپر کے بیان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی شما اسلام کا نام محمد بھی نہ تھا کیونکہ محمد بھی اس حدیث میں دوسری صفات کے ساتھ آیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث میں محمد بطور صفت ہی بیان ہوا ہے بطور نام نہیں.ہاں قرآن کریم اور دوسری احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کا نام محمد تھا اس
۲۷ حدیث میں سب صفات ہی بیان ہوئی ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس حدیث میں رسول کریم سالی یا اسلام نے تحدیث نعمت کے طور پر فرمایا کہ میرے یہ یہ نام ہیں.اب ظاہر ہے کہ نام ہونا تو کوئی تعریف نہیں ہوتی.کیا رسول کریم صلی یا پی ایم جیسا انسان صرف نام پر فخر کرے گا نعوذ باللہ من ذالک.بات یہی ہے کہ آپ نے اس جگہ اپنی صفات ہی بیان فرمائی ہیں.اور خدا تعالیٰ کا احسان بتایا ہے کہ اس نے مجھےمحمد بنایا ہے احمد بنایا ہے اور دیگر صفات حسنہ سے متصف کیا ہے اور محمد بھی اس جگہ بطور صفت کے استعمال ہوا ہے نہ بطور نام کے اور اس میں آپ نے بتایا ہے کہ میرا صرف نام ہی محمد ” نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے کاموں اور اخلاق کے لحاظ سے بھی میں محمد ہوں جس کی خدا نے تعریف کی ہے.فرشتوں نے پاکی بیان کی ہے.میں وہ ہوں جو سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی تعریف کرنے والا ہوں.میں وہ ہوں جو دنیا سے کفر اور ضلالت کو مٹانے والا ہوں.میں وہ ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جائیں گے اور میں وہ ہوں جو سب سے آخری شریعت لانے والا نبی ہوں.اگر اس حدیث میں صرف اتنا ہی آتا کہ میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ یہ آپ کے نام ہیں صفات نہیں ہیں.لیکن جب انہی کے ساتھ ماحی، حاشر اور عاقب بھی آ گیا.تو معلوم ہوا کہ یہ سب آپ کی صفات ہیں نام نہیں.اس لئے غیر مبائعین کا یہ استدلال بھی غلط ہو گیا کہ آنحضرت سیلی سیلین کا احمد نام اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے.ورنہ اگر صرف محمد نام پر نعوذ باللہ آپ نے فخر کیا تھا تو اس نام کے تو اور بہت سے انسان دنیا میں موجود ہیں.کیا وہ سب اپنے ناموں پر فخر کر سکتے ہیں اور کیا ان کا یہ فخر بجا ہو گا.اگر نہیں تو کیوں اس حدیث کے ایسے معنی کئے جاتے ہیں جن میں رسول کریم صلی یا پیلم کی ہتک ہوتی ہے اور نعوذ باللہ آپ پر الزام آتا ہے کہ آپ اپنے ناموں پر فخر کیا کرتے تھے یہ حرکت تو ایک معمولی انسان بھی نہیں کر سکتا چہ جائیکہ خدا کا نبی اور پھر تمام نبیوں کا سردار ایسی بات کرے.ہمارے مخالف ذرا اتنا تو سوچیں
۲۸ کہ وہ ہماری مخالفت میں رسول کریم مالی اسلم پر بھی حملہ کرنے لگ گئے ہیں.حضرت مسیح موعود بھی فرماتے ہیں کہ منم محمد واحمد کہ مجتبی باشد.کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بھی یہ سب نام تھے.احمد نام گو اختلافی ہے لیکن محمد تو آپ کا نام ہرگز نہ تھا.پھر کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھ میں صفت محمدیت ہے اور یہی بات قابل فخر ہو بھی سکتی ہے.صرف نام محمد آپ کے لئے باعث فخر کیونکر ہوسکتا تھا اور حضرت مسیح موعود کا نام محمد تو تھا بھی نہیں کہ یہاں وہ دھوکا لگ سکے.ہمارے مخالف یہ روایت بھی پیش کیا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی سیا ستم کی والدہ محترمہ کو آپ کا نام احمد بتایا گیا تھا.لیکن یہ حدیث جھوٹی ہے کیونکہ اس کا راوی وہ شخص ہے جس نے کئی ہزار جھوٹی حدیثیں بنائی ہیں.اور جس نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ میں نے جھوٹی حدیثیں بنائی ہیں.پھر جبکہ صحیح روایات میں یہ آتا ہے کہ آپ کی والدہ کو آپ کا نام محمد بتا یا گیا تھا.چنانچہ ابن ہشام کے صفحہ ۶۲ پر لکھا ہے کہ آپ کی والدہ فرماتی ہیں مجھے خواب میں بتایا گیا کہ جب یہ بچہ پیدا ہوگا تو سَمِيْهِ مُحَمَّدًا.(ابن ہشام جلد اصفحه ۶۲ ناشر دارریحافی بیروت) اس کا نام محمد رکھنا.اسی طرح دیکھو مواہب اللہ نیہ.پھر ایک ایسے جھوٹے کی حدیث پر ہم کیونکر اعتبار کر سکتے ہیں.یہ حدیث ایسے ہی لوگوں میں سے کسی نے بنالی ہے جنہوں نے اپنی عقل سے بلا سند قرآن مجید اور قول نبی کریم کے پہلے اسمه احمد کو آنحضرت الی تم پر چسپاں کیا اور پھر ان کو مشکل پیش آئی کہ اس کی سند کیا ہے.پس انہوں نے ایک روایت گھڑی ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایسی بڑی بات کا ذکر صحیح احادیث میں نہیں.کیوں اس حدیث کے راوی واقدی اور اسی قماش کے اور لوگ ہیں جو محدثین کے نزدیک جھوٹے یا منکر الاحادیث ہیں؟ غرض کسی طرح بھی یہ بات ثابت نہیں کہ آنحضرت صلی یا پیام کا نام احمد تھا.پس اب دو ہی صورتیں باقی رہ جاتی ہیں یا تو یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ پیشگوئی احمد نام کے کسی اور شخص کی نسبت
۲۹ ہے اور یا یہ مانا جائے کہ اسمہ احمد سے بھی یہ مراد نہیں کہ اس کا نام احمد ہوگا بلکہ یہ کہ اس کی صفت احمد ہوگی.اور چونکہ رسول کریم سینی یا پیلم کی صفت احمد تھی اس لئے آپ پر اس پیشگوئی کو اس رنگ میں چسپاں کیا جائے لیکن یہ تدبیر بھی کارگر نہیں ہوتی.کیونکہ جو علامات اس احمد نام یا صفت والے کی اس صورت میں مذکور ہیں وہ رسول کریم سی سی پی تم میں نہیں پائی جاتیں جیسا کہ ابھی بتایا جائے گا.پس اب ایک ہی صورت باقی ہے کہ یہ احمد نام یا احمد صفت والا نبی ( جیسی صورت بھی ہو ) آنحضرت سال یا اسلام کے بعد آپ کے خدام میں سے ہوگا.اور ہمارا دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح موعود ہی وہ رسول ہیں جن کی خبر اس آیت میں دی گئی ہے.بعض لوگ آنحضرت مالی ایم کے اسم ذات احمد ہونے پر یہ دلیل پیش کیا کرتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت مسیح نے کہا تھا کہ وہ رسول يأتي من بعدنی میرے بعد آئے گا.پس اس پیشگوئی سے کوئی ایسا ہی شخص مراد ہونا چاہئے جو آپ کے بعد سب سے پہلے آئے اور حضرت مسیح کے بعد آنحضرت صلی علیہ سلم ہی آئے تھے نہ کہ حضرت مسیح موعود.آپ تو آنحضرت صالی السلام کے بعد آئے تھے.پس آنحضرت صال یا ایہام کے سوا کوئی اور شخص احمد کیونکر ہوسکتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے معترضین بوجہ عربی زبان سے نا واقعی کے اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ بعد کے معنی پیچھے کے ہیں نہ کہ فوراً پیچھے کے.ایک چیز جو کسی کے پیچھے ہو خواہ دس چیزیں چھوڑ کر ہو یا فوراً پیچھے ہو وہ بعد ہی کہلائے گی.عربی زبان میں تین ہی لفظ ہیں.جو وقت کا اظہار کرتے ہیں.ایک قبل یعنی پہلے ، دوسرا فِي زَمَنِهِ یعنی اس کے وقت میں تیرے بعد یعنی پیچھے.اور یہی تین الفاظ ہر ایک زبان میں ہیں.پس دیکھنا چاہئے کہ ان تین لفظوں میں سے کون سا لفظ حضرت مسیح موعود کی نسبت استعمال ہو سکتا ہے آیا قبل کا لفظ آپ کی نسبت استعمال ہو سکتا ہے کیا آپ مسیح سے پہلے آئے تھے اگر نہیں تو پھر کیا ساتھ کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے کیا آپ اس کے زمانہ میں تھے.اگر یہ بھی نہیں تو وہ کون سا لفظ ہے جو آپ کی نسبت استعمال ہوسکتا ہے کیا وہ صرف بعد کا لفظ نہیں ہے پس
اگر بعد کا لفظ حضرت مسیح نے استعمال کیا تو اس میں کیا حرج ہوا اس کے سوا اور کون سا لفظ ہے جو وہ استعمال کر سکتے تھے.اگر حضرت مسیح موعود حضرت مسیح ناصری سے پہلے ہوتے یا ان کے 60 وقت میں ہوتے تب بے شک بعد کے لفظ سے آپ کے خلاف حجت ہو سکتی تھی.لیکن جبکہ وہ واقعہ میں بعد میں ہیں تو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.حضرت مسیح نے یہ فرمایا ہے کہ وہ رسول ان کے بعد ہوگا.اس سے صرف اتنا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ آپ کی زندگی میں نہیں آئے گا بلکہ بعد وفات آئے گا.اور یہ نتیجہ ہر گز نہیں نکل سکتا کہ وہ فوراً بعد آئے گا.اور پھر فوراً بعد تو رسول کریم سی سی کی یہ بھی کہاں ہوئے.آپ تو چھ سو سال کے بعد ہوئے تھے اور اگر کہو کہ یہ شرط ہے کہ رسول ہونے کے لحاظ سے وہ فورابعد ہی ہو اور یہ صرف رسول کریم سایہ ہم میں ہی پائی جاتی ہے تو میں کہتا ہوں کہ ہمارا حق ہے کہ ہم کہیں کہ رسول ہونے کے لحاظ سے نہیں بلکہ احمد ہونے کے لحاظ سے فوراًبعد کہا ہے یعنی جس رسول کی میں خبر دیتا ہوں یہ احمد نام کے لحاظ سے سب سے پہلا ہوگا پس جس سب سے پہلے رسول کا نام احمد ثابت ہو جائے اس کی نسبت یہ پیشگوئی تسلیم کرنی پڑے گی غرض اگر شرائط ہی بڑھانی ہوں تو دوسرا فریق بھی حق رکھتا ہے کہ شرائط بڑھائے اور اگر لغت عرب کے مطابق فیصلہ کیا جائے تو بھی ہماری بات کو رد کرنے کی کسی مخالف کے پاس کوئی وجہ نہیں حضرت مسیح نے بعد کا لفظ استعمال فرمایا ہے.اور حضرت مسیح موعودان کے بعد ہی ہیں.نہ ان سے پہلے نہ ان کے زمانہ میں.اب میں اس بات کا ثبوت قرآن کریم سے پیش کرتا ہوں کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت مسیح موعود ہی ہو سکتے ہیں نہ اور کوئی.پہلی دلیل پہلی دلیل آپ کے اس پیشگوئی کا مصداق ہونے کی یہ ہے کہ آپ کا نام احمد تھا اور آپ کا نام احمد ہونے کے مفصلہ ذیل ثبوت ہیں:
حضرت مسیح موعود کے احمد ہونے کے متعلق پہلا ثبوت: اول اس طرح کہ آپ کا نام آپ کے والدین نے احمد رکھا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ کے والد صاحب نے آپ کے نام پر گاؤں بسایا ہے اس کا نام احمد آبا درکھا ہے.اگر آپ کا نام غلام احمد رکھا گیا تھا.تو چاہئے تھا کہ اس گاؤں کا نام بھی غلام احمد آباد ہوتا.اسی طرح آپ کے بھائی کے نام پر بھی ایک گاؤں بسایا گیا ہے جس کا نام قادر آباد ہے حالانکہ ان کو غلام قادر کہا جاتا تھا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نام بھی قادر تھا.اور دونوں بھائیوں کے نام سے پہلے غلام صرف ہندوستان کی رسم وعادت کے طور پر زیادہ کر دیا گیا تھا.ہندوستان میں یہ رسم چلی آتی ہے کہ لوگ مرکب نام رکھتے ہیں.حالانکہ ان مرکب ناموں کا کوئی معنی اور کوئی مطلب نہیں ہوتا.مثلا بعض کا نام محمد احمد محمد علی وغیرہ رکھ دیتے ہیں حالانکہ ان ناموں کے کوئی معنی نہیں محمد ایک الگ نام ہے اور احمد یا علی ایک علیحدہ نام ہے.ان دونوں کے ملانے سے کوئی جدید فائدہ حاصل نہیں ہوتا صرف نام لمبا ہو جاتا ہے اور اسی غرض کے لئے یہ الفاظ بڑھائے جاتے ہیں ورنہ ان دونوں ناموں میں سے ایک ہی نام در حقیقت اصل نام ہوتا ہے.حضرت صاحب کے خاندان میں بھی غلام کا لفظ سب ناموں کے پہلے بڑھایا جاتا تھا آپ کے والد کا نام غلام مرتضیٰ تھا.چوں کا نام غلام حیدر.غلام محی الدین تھا.اسی طرح آپ کے نام کے ساتھ غلام بڑھایا گیا.ورنہ آپ کا نام احمد ہی تھا.جیسا کہ آپ کے والد کی اپنی شہادت موجود ہے کہ انہوں نے آپ کے نام پر جو گاؤں بسایا اس کا نام احمد آباد رکھا نہ کہ غلام احمد آباد اور غلام احمد اگر مرکب نام تسلیم کرو تو یہ توکسی زبان کا نام نہیں عربی زبان میں یہ نام غلام احمد ہونا چاہئے تھالیکن یہ آپ کا نام نہ تھا فاری ترکیب لوتو’ غلام احمد ہونا چاہئے تھا لیکن آپ کا نام یوں بھی نہیں.کیونکہ آپ کے نام میں
۳۲ میم پر جزم ہے زیر نہیں ہے.اور اگر اردو یا پنجابی ترکیب سمجھوتو احمد کا غلام “ یا ” احمد داغلام ہونا چاہئے تھا مگر اس طرح بھی نہیں.پھر یہ کون سی زبان کا نام ہے جو حضرت صاحب کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.پس سچی بات یہی ہے کہ آپ کا نام احمد تھا اور غلام صرف خاندانی علامت کے طور پر شروع میں بڑھا دیا گیا تھا.دوسرا ثبوت دوسرا ثبوت آپ کا نام احمد ہونے کا یہ ہے کہ آپ نے اپنے سب لڑکوں کے ناموں کے ساتھ احمد لگایا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ اپنا نام احمد ہی جانتے تھے تبھی تو علامت کے طور پر سب بیٹیوں کے نام کے بعد احمد لگایا.ورنہ جبکہ احمد لگانے سے معنوں کے لحاظ سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا تھا.تو پھر احمد بڑھانے کا کیا فائدہ تھا؟ ظاہر ہے کہ احمد حضرت صاحب کا نام تھا اور وہ خاندانی علامت کے طور پر ہر ایک لڑکے کے نام کے ساتھ بڑھا دیا گیا.تیسرا ثبوت تیسرا ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احمد ہونے کے متعلق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے جس نام پر بیعت لیتے رہے ہیں وہ احمد ہی ہے کہ آپ نے کبھی غلام احمد کہہ کر بیعت نہیں لی.چنانچہ آپ میں سے سینکڑوں آدمی ایسے ہوں گے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور وہ شہادت دے سکتے ہیں کہ آپ یہی کہہ کر بیعت لیا کرتے تھے کہ آج میں احمد کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں.پس آپ لوگ بتائیں کہ آپ نے احمد کے ہاتھ پر بیعت کی تھی یا غلام احمد کے ہاتھ پر ( چاروں طرف سے بڑے زور کے ساتھ آوازیں آئیں کہ ہم نے احمد کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ) اگر آپ کا نام غلام احمد ہوتا.تو آپ بیعت لیتے وقت یہ فرماتے کہ کہو آج میں غلام احمد کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں.لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا.پس ثابت ہے کہ آپ اپنا نام احمد ہی قرار دیتے تھے.
چوتھا ثبوت ٣٣ چوتھا ثبوت آپ کے احمد ہونے کے متعلق یہ ہے کہ آپ نے اپنی کئی کتابوں کے خاتمہ پر اپنا نام صرف احمد لکھا ہے جو اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ آپ کا نام احمد ہے اگر احمد آپ کا نام نہ ہوتا تو کیوں آپ صرف احمد لکھتے.اگر آپ کا نام غلام احمد تھا تو آپ کا اصل نام غلام قرار پاسکتا ہے نہ کہ احمد.پس اگر مختصر نام آپ کبھی لکھتے غلام لکھ سکتے تھے.نہ کہ احمد.لیکن آپ نے احمد ہی اپنا نام لکھا ہے نہ کہ غلام جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا نام احمد تھا.یا نچواں ثبوت پانچواں ثبوت یہ ہے کہ یہی غیر مبائعین جو آج ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود کو احمد لکھتے ہیں.وہ بار بار اپنی کتابوں میں حضرت مسیح موعود کو احمد قادیانی لکھتے رہے ہیں.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے ہی حضرت صاحب کے حالات کے متعلق ایک رسالہ لکھا تھا.اس کا نام ہی احمد رکھا تھا.اگر آپ احمد نہیں تھے تو آپ کے حالات پر جو رسالہ لکھا گیا اس کا نام احمد کیوں رکھا گیا.اسی طرح خواجہ صاحب نے اپنی تحریروں میں حضرت صاحب کو احد لکھا ہے.غرض یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں تو یہ کہتے رہے کہ آپ احمد ہیں.لیکن آج دھوکا دیتے ہیں کہ آپ احمد نہیں ہیں.چھٹا ثبوت حضرت صاحب کے الہامات میں کثرت سے احمد ہی آتا ہے.ہاں ایک یا دو جگہ غلام احمد بھی آیا ہے.اور ان مقامات کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہاں بطور صفت کے آیا ہے کیونکہ رسول کریم صلی یا نیلم جبکہ مفت احمدیت کے مظہر اتم تھے.تو حضرت مسیح موعود غلام احمد
۳۴ بھی ضرور تھے.پس ان چند مقامات سے یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ نام نہیں بلکہ صفت آئی ہے لیکن کثرت سے احمد کر کے پکارنا صاف دلالت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے علم میں بھی آپ کا نام احمد تھا.ورنہ تعجب ہے کہ آنحضرت مالی ایلام کا نام احد تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ بھی ان کو اس نام سے یاد نہ کیا.اور حضرت مسیح موعود کا نام احمد نہ تھا بلکہ غلام احمد تھا لیکن احمد نام سے آپ کو بار بار پکارا گیا.اور شاذ و نادر طور پر غلام احمد کے نام سے ( وہ بھی جہاں تک مجھے یاد ہے کہ غلام احمد کہہ کر آپ کو الہام میں کبھی مخاطب نہیں کیا گیا.ہاں اس قسم کے الہامات میں غلام احمد کی جے ) یاد کیا.اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ نعوذ باللہ اصل نام کو ترک کر دیتا ہے اور دوسرے نام سے یا اس نام سے جس کا پیشگوئی میں ذکر نہ ہو انسان کو پکارتا ہے.چاہئے تو یہ کہ اس نام سے پکارا جائے جس کا پیشگوئی میں خاص طور پر ذکر ہو.تا کہ لوگوں کو اس طرف توجہ ہو.ساتواں ثبوت پھر آپ کا نام احمد ہونے پر حضرت خلیفہ اول کی بھی شہادت ہے آپ اپنے رسالہ مبادی الصرف والنحو میں لکھتے ہیں کہ محمدصلی ایام خاص نام ہمارے سید ومولی خاتم النبین کا ہے.مکہ خاص شہر کا نام ہے جس میں ہمارے نبی کریم صلی یمن کا تو تد ہوا.احمد نام ہمارے اس امام کا ہے جو قادیان سے ظاہر ہوا اور حضرت خلیفہ اول تو وہ انسان تھے جن کی طہارت اور تقویٰ کے غیر مبائعین بھی قائل ہیں.پھر کیونکر ہو سکتا ہے کہ آپ نے نعوذ باللہ جھوٹ بولا.یا یہ کہ حضرت خلیفہ اول کو حضرت صاحب کا نام بھی معلوم نہ تھا.آٹھواں ثبوت خود غیر مبائعین بلکہ ان کی متفقہ انجمن کا ہے.اور اس شہادت سے زیادہ غیر مبائعین کے
۳۵ لئے اور کونسی شہادت معتبر ہو سکتی ہے؟ جو ان کی صدر انجمن نے دی ہے وہ شہادت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے الوصیت کے صفحہ ۸ پر لکھا ہے کہ: اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں الوصیت ص ۸ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶) اس حکم کے ماتحت انجمن اشاعت اسلام لاہور کی طرف سے جو الفاظ بیعت شائع ہوئے ہیں ان کی عبارت یہ ہے: آج میں محمد علی کے ہاتھ پر احمد کی بیعت میں داخل ہو کر اپنے تمام گناہوں سے تو بہ کرتا ہوں“ اس عبارت کو پڑھ کر ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ الوصیت کے اس حکم کی کہ میرے نام پر بیعت لیں.انجمن اشاعت اسلام نے یہ تاویل کی ہے کہ احمد کے نام پر لوگوں کی بیعت لینی شروع کی ہے.اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود کا نام احمد نہیں تو میرے نام پر بیعت لینے کا حکم کس طرح پورا ہوا.اور اگر آپ کا نام احمد ہے جیسا کہ ان الفاظ بیعت سے ظاہر ہے تو پھر اس بات پر بحث کیوں ہے کہ حضرت صاحب کا نام احمد نہ تھا اور کیوں جو الزام ہم پر دیا جاتا ہے اس کے خود مرتکب ہورہے ہیں اور کیوں غلام احمد کو احمد بنا رہے ہیں لیکن ہر ایک شخص جو تعصب سے خالی ہو کر اس امر پر غور کرے سمجھ سکتا ہے کہ در حقیقت ہمارے مخالفین کے دل بھی یہی گواہی دے رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کا نام احمد تھا.اور ہم پر جو اعتراض کئے جاتے ہیں وہ صرف دکھانے کے دانت ہیں اور ان کے کھانے کے دانت اور ہیں.نواں ثبوت نواں ثبوت حضرت مسیح موعود کا نام احمد ہونے کا یہ ہے کہ خود آپ نے اس آیت کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیا ہے.چنانچہ آپ ازالہ اوہام جلد ۲ صفحہ ۳۶۳ میں تحریر فرماتے ہیں:
۳۶ اور اس آنے والے کا نام جو احمد رکھا گیا ہے وہ بھی اس کے مثیل ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ محمد جلالی نام ہے اور احمد جمالی.اور احمد اور عیسی اپنے جمالی معنوں کی رو سے ایک ہی ہیں.اسی کی طرف یہ اشارہ ہے وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَذَكَر ہمارے نبی لای لای من فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیں یعنی جامع جلال و جمال ہیں.لیکن آخری زمانہ میں برطبق پیشگوئی مجرد احمد جو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے بھیجا گیا.“ (روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۶۳ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ آپ اس آیت کا مصداق اپنے آپ کو ہی قرار دیتے ہیں کیونکہ آپ نے اس میں دلیل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ اگر رسول کریم مالی پانی اس جگہ مراد ہوتے تو محمد واحمد کی پیشگوئی ہوتی.لیکن یہاں صرف احمد کی پیشگوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ے کہ یہ کوئی اور شخص ہے جو مجر داحمد ہے پس یہ حوالہ صاف طور پر ثابت کر رہا ہے کہ آپ احمد تھے بلکہ یہ کہ اس پیشگوئی کے آپ ہی مصداق ہیں اور اگر کسی دوسری جگہ پر آپ نے رسول کریم اللہ تم کو بھی اس آیت کا مصداق قرار دیا ہے تو اس کے یہی معنی ہیں کہ بوجہ اس کے کہ کل فیضان جو حضرت مسیح موعود کو پہنچا ہے آپ ہی سے پہنچا ہے اس لئے جو خبر آپ کی نسبت دی گئی ہے اس کے مصداق رسول کریم ملایی تم بھی ضرور ہیں کیونکہ جو خوبیاں ظل میں ہوں اصل میں ضرور ہونی چاہئیں.پس عکس کی خبر دینے والا ساتھ ہی اصل کی خبر بھی دیتا ہے پس اس آیت میں ضمنی طور پر رسول کریم صلا لا اسلم کی بھی بر دی گئی ہے اور اس بیان سے یہ واجب نہیں آتا کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت مسیح موعود نہ ہوں.اس کے اصل مصداق حضرت مسیح موعود ہیں اور اس لحاظ سے کہ آپ کے سب کمالات آنحضرت صلی یا یہ تم سے حاصل کئے ہوئے ہیں.رسول کریم صلی پریتم کی بھی پیشگوئی اس میں سے نکل آتی ہے.دسواں ثبوت حضرت مسیح موعود کے احمد ہونے کا دسواں ثبوت یہ ہے کہ انجیل میں لفظ احمد کہیں
۳۷ نہیں آتا.پس گو ایک صورت تو یہ ہے کہ انجیل سے یہ لفظ تحریف کے زمانہ میں مٹ گیا لیکن ایک دوسری صورت اور بھی ہے اور وہ یہ کہ احمد کا لفظ عربی زبان میں مسیح کی کسی پیشگوئی کا ترجمہ ہے.اور یہ بات ہم کو قرآن کریم سے صاف طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ مختلف زبانوں میں جو خبریں دی گئی ہیں ان کو عربی زبان کے لباس میں ہی قرآن کریم بیان کرتا ہے.پس اس اصل کو دل میں رکھ کر جب ہم انجیل کو دیکھتے ہیں تو اس میں دورسولوں کی خبر پاتے ہیں ایک وہ نبی کی خبر اور ایک مسیح کی دوبارہ آمد کی خبر.جب عربی زبان پر غور کریں تو وہ نبی کا ترجمہ عربی زبان میں احمد نہیں ہوتا نہ کسی محاورہ کا اس میں تعلق ہے لیکن دوبارہ آنے کے متعلق ہمیں ایک محاورہ عربی زبان کا معلوم ہوتا ہے اور وہ العود احمد کا محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ دوبارہ لوٹنا احمد ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان کسی کام کے کرنے کی طرف دوبارہ توجہ کرے تو اسے پہلے کی نسبت اچھا کرتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کی طرف یہ اشارہ فرمایا ہے کہ مَا نَنْسَخُ مِنْ آيَةٍ أو نُنْسِهَا تَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا (البقره: ۱۰۷) یعنی جب ہم کوئی تعلیم منسوخ کر دیں یا بھلوا دیں تو اس سے بہتر لاتے ہیں یا اس جیسی تو ضرور لاتے ہیں.اس آیت میں بتایا ہے کہ جب ایک تعلیم کو مٹا کر ہم دوسری لا دیں تو اس میں کوئی حکمت ہی ہوتی ہے اور اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس سے بہتر ہم کوئی اور تعلیم لاویں.یا کم سے کم ویسی ہی ہو.پس اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوسری دفعہ کام کرنے میں زیادہ خوبی والی شے مدنظر ہوتی ہے اور اسی بات کو مد نظر رکھ کر عربی زبان کا یہ محاورہ ہو گیا ہے کہ العود احمد پس جب کہ دوبارہ لوٹنے کو احمد کہتے ہیں تو حضرت مسیح کے اس قول کو کہ میں دوبارہ دنیا میں آؤں گا.عربی زبان میں استعارہ یوں بھی ادا کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ایک رسول کی خبر دی جس کی صفت
۳۸ ہوگی کہ وہ دوبارہ دنیا میں آیا ہوگا اور یہ معنی احادیث کی ان پیشگوئیوں کے بھی مطابق ہیں جن میں مسیح کے دوبارہ آنے کی خبر دی گئی تھی اور اس استعارہ کے استعمال کرنے میں یہ حکمت تھی کہ ایک تو اس پیشگوئی کو جو احادیث میں تھی اس طرح حل کردیا کہ یہ ایک استعارہ ہے نہ کہ مسیح کا لوٹنا حقیقت مراد ہے.دوسرے اس ایک ہی لفظ میں یہ بھی بتا دیا کہ مسیح کی یہ دوسری بعثت اس کی پہلی بعثت سے بہتر اور عمدہ ہوگی.اور اس طرح ان لوگوں کا اعتراض دور کر دیا جو کہتے ہیں کہ مرزا صاحب مسیح سے افضل کیونکر ہو سکتے ہیں.خدا تعالیٰ نے خود ان لوگوں کا جواب دیا کہ جب دوسری دفعہ ہم نے ایک شخص کو اسی نام سے بھیجا ہے تو اس کو احد بھی بنایا ہے یعنی پہلے مسیح" پر فضیلت بھی دی ہے.غرض یہ دس ثبوت ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ہی احمد تھے اور آپ ہی کی نسبت اس آیت میں خبر دی گئی تھی.اس جگہ میں ایک اور اعتراض کو بھی دور کر دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ شائد کوئی شخص کہے کہ حضرت صاحب کا ایک شعر ہے.ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے اس شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب کا نام غلام احمد تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ اس شعر میں تو حضرت صاحب نے اپنی صفت بیان کی ہے کہ میں جو غلام احمد ہو کر مسیح.بڑھ کر ہوں.اس سے رسول کریم صلی یا اپریتم کی عظمت معلوم ہوتی ہے اور اس جگہ اپنا نام بیان نہیں فرمایا اور اگر یہاں نام ہے تو اس شعر کے کیا معنی ہوں گے.کرامت گرچه بے نام ونشان است بیا بنگر ز غلمان محمد یعنی کرامت گو اس زمانہ میں کہیں نظر نہیں آتی لیکن آتو غلامان محمد سے کرامت دیکھ لے.کیا اس شعر کے یہ معنی ہیں کہ جن کا نام غلام محمد ہو ان سے کرامت دیکھ لے؟ اس شعر
۳۹ کے یہ معنی نہیں اور غلام محمد سے یہاں نام مراد نہیں بلکہ صفت مراد ہے کہ جو محمد کا غلام ہو.اسی طرح پہلے شعر میں بھی غلام احمد سے آپ کا نام مراد نہیں بلکہ آپ کی صفت مراد ہے پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہم کب کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کا پورا نام غلام احمد نہ تھا ہم تو خود تسلیم کرتے ہیں کہ پورا نام آپ کا غلام احمد ہی تھا لیکن اس تمام نام میں سے اصل حصہ نام کا احمد تھا اور غلام صرف خاندانی علامت کے طور پر بڑھا دیا گیا تھا.اسی وجہ سے کہیں آپ اپنا نام غلام احمد لکھتے تھے اور کہیں احمد.اور اصل نام وہی ہوتا ہے جو نام کا چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا ہو اور جسے انسان الگ استعمال کرتا ہو.دوسری دلیل دوسری دلیل آپ کے اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِين (الصف:۷) پس جب وہ رسول کھلے کھلے نشانات کے ساتھ آ گیا تو ان لوگوں نے کہا کہ یہ تو سحر مبین ہے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ رسول آئے گا تو لوگ ان دلائل و براہین کوسن کر جو وہ دے گا کہیں گے کہ یہ تو سحر مبین ہے یعنی کھلا کھلا فریب یا جادو ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود سے یہی سلوک ہوا ہے.جب آپ نے زبر دست دلائل اور فیصلہ کن براہین اپنے مخالفوں کے سامنے پیش کئے تو بہت سے لوگ چلا اٹھے کہ باتیں تو بہت دلربا ہیں لیکن ہیں جھوٹ.اور بہتوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ کی تحریر میں کچھ ایسا جادو ہوتا ہے کہ پڑھنے والے کو اپنی طرف مائل کر لیتی ہے اس لئے اس کو پڑھنا نہیں چاہئے.اور گو خواجہ صاحب نے سیالکوٹ میں لیکچر دیتے ہوئے کہا ہے کہ مرزا صاحب کو چونکہ کسی نے جادوگر نہیں کہا اس لئے وہ اس پیشگوئی کے مصداق نہیں ہیں مگر سینکڑوں آدمی ایسے ہیں جنہوں نے کہا کہ مرزا صاحب کو جاد و آتا ہے اور اب بھی بہت سے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو جادو آتا تھا.
اس جگہ شاید کوئی شخص یہ دلیل بھی دے کہ یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَمَّا جَاءَهُمُ بِالْبَيِّنَتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ ـ جب وہ رسول ان کے پاس دلائل کے ساتھ آگیا تو لوگوں نے کہا کہ یہ تو کھلا کھلا جادو ہے.پس یہ کوئی ایسا رسول ہے جو اس آیت کے نزول سے پہلے آچکا تھا اور وہ آنحضرت صلی ا ستم ہی ہیں لیکن ایسا اعتراض وہی شخص کرے گا جو قرآن کریم کی طرز کلام سے ناواقف ہو کیونکہ قرآن کریم میں بیسیوں جگہ پر آئندہ کی بات کو ماضی کے پیرایہ میں بیان فرمایا گیا ہے.حتی کہ بعض جگہ دوزخیوں اور جنتیوں کے اقوال کو ماضی کے صیغوں میں ادا کیا گیا ہے.پس جبکہ دوسرے دلائل سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہ رسول کسی آئندہ زمانہ میں آنے والا تھا تو صرف ماضی کے صیغوں میں اس عبارت کا ادا ہونا اس بات کا ہر گز ثبوت نہیں کہ وہ رسول ضرور اس آیت کے نزول سے پہلے آچکا تھا.تیسری دلیل احمد کی تعیین پر اس آیت میں یہ بیان کرنے کے بعد کہ جب وہ رسول آئے گا تو لوگ اسے جادوگر یا جھوٹا یا رتال یا فریبی کہیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى الله الكَذِبَ وَهُوَ يُدعَى إِلَى الْإِسْلَامِ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ (الصف: ۸) یعنی اور اس سے زیادہ اور کون ظالم ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتا ہے درآنحالیکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا.اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ پر افتراء کرے وہ تو سب سے زیادہ سزا کا مستحق ہے پھر اگر یہ شخص جھوٹا ہے جیسا کہ تم بیان کرتے ہو تو اسے ہلاک ہونا چاہئے نہ کہ کامیاب.اللہ تعالیٰ تو ظالموں کو بھی ہدایت نہیں کرتا تو جو شخص خدا تعالیٰ پر افتراء کر کے ظالموں سے بھی ظالم تر بن چکا ہے اس کو وہ کب ہدایت دے سکتا ہے.پس اس شخص
۴۱ کا ترقی پانا اس بات کی علامت ہے کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جھوٹا نہیں جیسا کہ تم لوگ بیان کرتے ہو.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے اس احمد رسول کی ایسی تعیین کر دی ہے کہ ایک منصف مزاج کو اس بات کے ماننے میں کوئی شک ہی نہیں ہو سکتا کہ یہ احمد رسول کریم صلی شی ایام کے بعد آنے والا ہے اور نہ آپ خود وہ رسول ہیں نہ آپ سے پہلے کوئی اس نام کا رسول گذرا ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی شرط لگا دی ہے جو نہ آنحضرت صالی یہ تم میں پوری ہوتی ہے نہ آپ سے پہلے کسی اور نبی میں پوری ہو سکتی ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر افتراء کرے حالانکہ اسے اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے اور یہ شرط کہ حالانکہ اسلام کی طرف اسے بلایا جاتا ہے ایک ایسی شرط ہے جو رسول کریم صلی ا یہ ہم میں نہیں پائی جاتی.کیونکہ اسلام کے معنی قرآن کریم سے دو معلوم ہوتے ہیں ایک تو ہر ایک سچے دین کا نام جب تک کہ وہ اپنی اصل حالت پر قائم ہو صفاتی طور پر اسلام رکھا گیا ہے چنانچہ پہلے تمام نبیوں کو بھی جو آنحضرت صلی شما پیام سے پہلے گزرے ہیں مسلم کہا گیا ہے.دوسرے اسلام اس دین کا نام رکھا گیا ہے جو آنحضرت سی پلم پر نازل ہوا.پس حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے“ کے جملہ کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ وہ اس وقت کے حقیقی اور بچے مذہب کی طرف بلایا جاتا ہے یا یہ کہ اسلام نامی دین کی طرف بلایا جاتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں رسول کریم صلی اینم پر چسپاں نہیں ہوتیں کیونکہ آپ کے وقت میں سچا دین تو کوئی تھا ہی نہیں سوائے اس دین کے جس پر آپ چل رہے تھے اور کفار کے نزدیک سچے دین کا نام اسلام تھا نہیں کہ ان پر حجت قائم کرنے کے لئے یہ کہا جاتا کہ حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے.باقی رہا یہ کہ کسی دین کا نام اسلام ہو.سو یہ بات سوائے اس دین کے جو رسول کریم صلی یتیم لائے اور کسی دین میں نہیں پائی جاتی اور رسول کریم کا لایا ہوا دین ہی وہ دین ہے جس کا نام اسلام رکھا گیا
۴۲ ہے.پس یہ شرط کہ اگر وہ جھوٹا ہے اور لوگ اس کو اسلام کی طرف بلاتے ہیں رسول کریم میں نہیں پائی جاتی کیونکہ لوگ آپ کو اسلام کی طرف نہیں بلاتے تھے بلکہ لات ومنات کے دین کی طرف آپ کو بلاتا تھا.کوئی یسوعی مذہب کی طرف کوئی یہودی دین کی طرف کوئی زرتشتی دین کی طرف اور ایسا کوئی بھی نہ تھا جو آپ کو اسلام کی طرف بلاتا ہو بلکہ آپ لوگوں کو اسلام نام دین کی طرف بلاتے تھے پس آپ داعی اِلَى الْإِسْلَامِ تھے نہ کہ يُدعى الى الْإِسْلَام اور دین اسلام کی طرف کوئی ایسا ہی شخص بلا یا جا سکتا ہے جو ایسے وقت میں آئے کہ اس وقت دنیا میں کوئی مذہب اسلام نامی ہو.اور اس بات میں کیا شک ہے کہ ایسا شخص رسول کریم صل السلام کے بعد ہی ہو سکتا ہے کیونکہ آپ ہی اسلام نام مذہب دنیا کی طرف لائے تھے.غرض يُدعى إلى الْإِسْلَام کی شرط ظاہر کر رہی ہے کہ یہ شخص رسول کریم صلی یا اپیرانم کے بعد آئے گا اور اس وقت کے مسلمان اسے کہیں گے کہ میاں تو کافر کیوں بنتا ہے اپنا دعویٰ چھوڑ اور اسلام سے منہ نہ موڑ.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر واقعہ میں یہ جھوٹا ہے اور تم سچے ہو یہ کافر ہے اور تم مسلم اور تم اس کو اسلام کی طرف بلاتے ہو اور یہ کفر کی طرف جاتا ہے اور خدا پر جھوٹ باندھتا ہے تو اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے اس کو تو ہلاک ہونا چاہئے کیونکہ خدا تو ظالموں کو بھی ہدایت نہیں کرتا.اور یہ اظلم ہے پس چونکہ یہ ہلاک نہیں ہوتا بلکہ ہر میدان میں ہدایت پاتا ہے اس لئے یہ جھوٹا کیونکر ہو سکتا ہے اور کیونکر ممکن ہے کہ تم اسلام پر ہو کر پھر ذلیل ہوتے ہو.غرض اس آیت میں دشمنان احمد رسول پر ایک زبر دست حجت قائم کی گئی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللہ کی آیت پر زور بھی بہت دیا کرتے تھے.بعض لوگ اس جگہ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ يُدعى إِلَى الْإِسْلَامِ رسول کی نسبت نہیں بلکہ اس کے دشمنوں کی نسبت ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلا یا جاتا ہے.پس اس
۴۳ جگہ آنحضرت سان اسلام کے دشمنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ وہ اسلام کی طرف بلائے جاتے تھے.یہ خیال ابتداء بیشک خوش کن معلوم ہوتا ہے لیکن قرآن کریم پر ایک ادنی غور کرنے سے اس کی غلطی معلوم ہو جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ اس جگہ کسی ایسے شخص کا ذکر ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرتا ہے کیونکہ افتراء کہتے ہیں اس بات کو ہیں جو جان بوجھ کر بنائی جائے اور کذب اور افتراء میں یہ فرق ہے کہ کذب اس کو بھی کہیں گے جو بات غلط ہو خواہ اس شخص نے خود نہ بنائی ہو بلکہ کسی سے سنی ہو.مثلاً ایک شخص کسی سے سن کر کہے کہ زید لا ہور چلا گیا ہے اور وہ گیا نہ ہو.تو وہ کا ذب ہے مفتری نہیں لیکن اگر اس نے خود اپنے دل سے یہ بات بنائی ہو تو وہ کاذب بھی ہے اور مفتری بھی ہے.پس چونکہ آیت کریمہ میں افتری عَلَی اللہ کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایسے شخص کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی نسبت کوئی بات کہتا ہے.یعنی مدعی ہے اور قرآن کریم میں کسی ایک جگہ بھی منکر کی نسبت مُفْتَرِی عَلَی اللہ کا لفظ نہیں آیا بلکہ یہ لفظ جب استعمال ہوا ہے.مدعی کی نسبت ہی ہوا ہے چنانچہ کفار کی نسبت بھی جب یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے تو پہلے ان کا دعوی بیان کیا ہے.غرض افترى على الله کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کوئی مدعی ہے.اب ہم ان آیات کو دیکھتے ہیں تو ان میں کفار کا کوئی دعوئی ایسا بیان نہیں جو وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہوں بلکہ صرف ان کا انکار بیان ہے اور منکر کی نسبت مُفتَرِی عَلَی اللہ نہیں کہتے.پس کفار اس آیت میں مراد نہیں ہو سکتے.بلکہ مدعی رسالت کا ہی اس آیت میں ذکر ہے کہ اگر وہ خدا پر اس حالت میں جھوٹ بول رہا ہے کہ اسے اسلام کی طرف بھی بلایا جاتا ہے تو ہلاک کیوں نہیں ہو جاتا.آخر میں حجت پوری کرنے کے لئے میں یہ بھی تسلیم کر لیتا ہوں کہ کفار کا جو یہ قول نقل ہے کہ انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے یہ ان کا دعویٰ ہے.گو کوئی دانا اسے دعوی نہیں کہے گا بلکہ
۴۴ یہ انکار ہے تو بھی یہ آیت کفار پر چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ اس آیت میں افتری عَلَی اللہ کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کا دعوئی خدا تعالیٰ کی نسبت ہے اور وہ جو بات کہتا ہے اسے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے لیکن یہ کہنا کہ فلاں شخص جو بات کہتا ہے یہ فریب ہے اگر اسے دعوئی ہی مان لیا جائے تو یہ افتراء تو کہلا سکتا ہے افتَرى عَلَى اللهِ نہیں کہلا سکتا.کیونکہ یہ اگر جھوٹ ہے تو اس شخص پر جو سچا ہے لیکن یہ اسے جھوٹا کہتا ہے اور خدا پر یہ افتر ا نہیں ہے لیکن آیت مذکورہ میں افتری علی اللہ کا ذکر ہے جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس آیت میں اسی رسول کا ذکر ہے جس کی آمد کی پہلے اطلاع دی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اگر یہ شخص جھوٹا دعوی رسالت کرتا ہے اور خدا پر افتراء کرتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ باوجوداس کے کہ اسلام کے ہوتے ہوئے یہ ایسی شرارت کرتا ہے خدا تعالیٰ اسے ہلاک نہیں کرتا.غرض اس آیت میں صاف طور پر بتادیا گیا ہے کہ یہ احمد رسول رسول کریم صلی ا یہ نام کے بعد آئے گا اور اس وقت کے مسلمان اسے کہیں گے کہ اسلام کی طرف آ.اور خدا تعالیٰ اپنے رسول کی زبانی ان سے کہے گا کہ اگر اسلام تمہارے پاس ہے اور تم اسے اسلام کی طرف بلاتے ہو اور یہ پھر بھی خدا پر افتراء سے باز نہیں آتا تو کیوں ہلاک نہیں ہوتا.اور جبکہ یہ ہلاک نہیں ہوتا تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسلام پر ہے نہ کہ تم.آخر میں میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ یہ اعتراض کہ قرآن کریم میں مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرای عَلَى اللهِ كَذِیا.کئی جگہ پر آیا ہے جہاں کوئی پیشگوئی نہیں درست نہیں.کیونکہ وہاں کسی جگہ بھی وَهُوَ يُدعَى اِلَى الْإِسْلَام کی شرط مذکور نہیں اور صرف اسی جگہ یہ شرط بیان ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ چونکہ اس جگہ عام قاعدہ نہیں بیان کیا گیا تھا بلکہ ایک پیشگوئی تھی اس لئے یہ لفظ بڑھا کر اس رسول کی ایک حد تک تعیین بھی کر دی کہ وہ اسلام کے ظہور کے بعد آئے گا.
چوتھی دلیل ۴۵ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُونُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ.لوگ چاہیں گے کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہہ کی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ اپنے نور کو پورا کر کے ہی رہے گا.اگرچہ کافر لوگ اسے ناپسند ہی کرتے ہوں.یہ آیت بھی حضرت مسیح موعود کے احمد ہونے پر ایک بہت بڑی دلیل ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت سلینا یہ تم اس پیشگوئی کے اول مصداق نہیں ہیں کیونکہ اس آیت میں بتایا ہے کہ اس رسول کے وقت لوگ اس کے سلسلہ کو مونہوں سے مٹانا چاہیں گے.رسول کریم صلی ایام کے زمانہ کے حالات ہمیں بتا رہے ہیں کہ آپ کے سلسلہ کو مونہہ سے نہیں بلکہ تلوار سے مٹانے کی کوشش کی گئی اور ایسے ایسے مظالم کئے گئے کہ الامان.اور دلائل سے اسلام کا مقابلہ کرنے کی بہت ہی کم کوشش کی گئی تھی.پس اس آیت میں ضرور کسی اور زمانہ کی طرف اشارہ ہے جس میں امن و امان ہوگا اور تلوار کی بجائے زیادہ تر زبانوں سے کام لیا جائے گا اور لوگ مونہوں کی پھونکوں سے اس رسول کے کام کو مٹانا چاہیں گے اور چاہیں گے کہ باتیں بنا بنا کر اس کے کام کو روک دیں اور اس کی ترقی کو بند کر دیں.اور وہ زمانہ یہی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی منصف حکومت قائم کر دی ہے کہ جس کے زیر سایہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں اور اگر کوئی شخص ظلم کرنے لگے تو یہ اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے.چنانچہ اس وقت ہمارے مخالفوں کے پاس سوائے فتوؤں اور گالیوں کے کچھ نہیں.اور وہ اپنے فتوؤں سے چاہتے ہیں کہ ہمارے کام کو مٹادیں لیکن ان کے ہاتھ میں ایسے سامان نہیں ہیں کہ جن کے ذریعہ سے زبر دستی وہ کسی کو دین سے پھیر دیں یا اسے قتل کر دیں.پس یہی زمانہ جبکہ لوگوں کے ہاتھ سے تلوار چھین لی گئی ہے اور صرف مونہ کی لڑائی رہ گئی ہے وہ زمانہ ہو سکتا ہے جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے اور آنحضرت سلائی کی ستم کا زمانہ تو وہ تھا کہ تلواروں سے مسلمانوں کو بھیڑ اور بکریوں کی طرح ذبح کیا گیا.اور عورتوں کی
۴۶ شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر ان کو شہید کیا گیا.پس وہ زمانہ جبکہ اصل کام تلوار کر رہی تھی اور دلائل و براہین کا استعمال مخالفین اسلام جانتے ہی نہ تھے وہ زمانہ نہیں ہو سکتا جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس وقت لوگ اپنے مونہوں کی پھونکوں سے اسلام کو مٹانا چاہیں گے بلکہ وہ زمانہ یہی ہے کہ گو اس وقت بھی مخالفین سلسلہ جہاں تک ہو سکے احمدیوں کو دکھ دینے سے باز نہیں آتے.لیکن ان کا زیادہ زور گالیوں اور فتوؤں پر ہی ہے اور ہاتھ چلانے کی ان کو اس قدر طاقت نہیں جس قدر کہ پہلے زمانوں میں ہوا کرتی تھی.پانچویں دلیل وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کر کے چھوڑے گا گو کہ کفار نا پسند ہی کریں.یہ آیت بھی احمد رسول کی ایک علامت ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے کیونکہ اس میں بتا دیا گیا ہے کہ احمد کا وقت اتمام نور کا وقت ہے اور گو قرآن کریم سے ہمیں یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی یا اسلام کے ہاتھ پر شریعت کامل کر دی گئی مگر اتمام نور آپ کے وقت میں معلوم نہیں ہوتا بلکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسیح موعود کے وقت میں ہوگا.اور رسول کریم مالی اسلام کے وقت میں اس کی بنیاد ڈالی گئی تھی.چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ وہ امت کس طرح گمراہ ہوسکتی ہے جس کے ابتداء میں میں اور آخر میں مسیح ہے.(کنز العمال فی سنن الاقوال والأفعال كتاب القيامة من قسم الاقوال نزول عيسى على نبينا عليه الصلوة والسلام جلد صفحه ۲۰۲ مطبوعه ۵۱۳۱۴) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمنان اسلام کے حملوں سے کامل نجات اسی وقت مسلمانوں کو ملے گی جبکہ دوسری طرف مسیح موعود کی دیوار کھینچ جائے گی.پس اتمام نور مسیح موعود کے ہی وقت میں ہونا مقدر تھا.اور اس جگہ بھی اتمام نور کا ہی وقت بتایا گیا ہے.پس اس آیت میں مسیح موعود کا ہی ذکر ہے اور بات بھی یہی ہے کہ اسلام کی تائید میں جو دلائل کہ قرآن کریم اور احادیث
۴۷ میں دیئے گئے تھے وہ ایک مخفی خزانہ کی طرح تھے اور باوجود موجود ہونے کے لوگ ان سے غافل تھے.اب مسیح موعود نے ہی آکر ان کو کھولا ہے.اور مسلمانوں کو ایک ایسی روشنی عطا کر دی ہے کہ اب دشمن تاریکی میں ان پر حملہ آور نہیں ہوسکتا.چھٹی دلیل هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ يعنى وہ خدا ہی ہے کہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اس کو غالب کر دے باقی سب دینوں پر.اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مسیح موعود ہی کا ذکر ہے.کیونکہ اکثر مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے حق میں ہے کیونکہ اسی کے وقت میں اسلام کا باقی ادیان پر غلبہ مقدر ہے چنانچہ واقعات نے بھی اس بات کی شہادت دے دی ہے.کیونکہ اس زمانہ سے پہلے اشاعت دین کے ایسے سامان موجود نہ تھے جواب ہیں.مثلاً ریل، تار، دخانی جہاز ، ڈاک خانے ، مطابع ، اخبارات کی کثرت علم کی کثرت، تجارت کی کثرت جس کی وجہ سے ہر ایک ملک کے لوگ ادھر ادھر پھرتے ہیں اور ایک شخص اپنے گھر بیٹھا ہوا چاروں طرف تبلیغ کر سکتا ہے.اور جہاں چاہے وہاں جا کر بھی اشاعت دین کا کام سرانجام دے سکتا ہے.چنانچہ ہم نے اپنے مبلغ ماریشس اور ولایت میں بھیجے ہوئے ہیں.اور دیگر ممالک میں بھی بھیجنے کا ارادہ ہے.تو یہی زمانہ ایسا ہے کہ اس میں نہایت آسانی سے سب مذاہب کا رد کیا جا سکتا ہے.آنحضرت سلی ایلام کے وقت ایسے حالات نہ تھے.آپ کے وقت نہ اس طرح مذاہب کا مقابلہ ہوا.اور نہ ان مذاہب نے آپ کے وقت اس طرح سر نکالا.یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہی ہونا تھا اور ایسا ہی ہوا.پھر اس زمانہ میں اشاعت دین تحریر اور تقریر کے ذریعہ اس لئے بھی ضروری تھی کہ دوسرے مذاہب والوں نے آنحضرت مال لا الہ اتم پر اعتراض کیا تھا کہ انہوں نے تلوار کے زور
۴۸ سے اسلام پھیلایا.خدا تعالیٰ نے اس اعتراض کو رد کرنے کے لئے آپ کے ایک غلام کو کھڑا کر کے دکھلا دیا کہ جب یہ دلائل اور براہین سے اسلام کو دیگر مذاہب پر غالب کر سکتا ہے تو اس کے آقا نے کیوں اسی طرح نہ کیا ہو گا.پس یہ بات بھی حل ہو گئی کہ آنحضرت سلائی یتیم نے جو تلوار اٹھائی تھی وہ اس لئے اُٹھائی تھی کہ آپ کے مقابلہ میں تلوار اٹھائی گئی ورنہ آپ بھی کبھی تلوار نہ اٹھاتے.غرض یہ آیت بھی ظاہر کرتی ہے کہ اس رسول کے آنے کا ایسا زمانہ ہوگا جب کل مذاہب ظاہر ہو جائیں گے اور ایسے سامان پیدا ہو جائیں گے جن کے ذریعہ سے اسلام کو کل ادیان پر غالب کیا جا سکے گا اور وہ یہی زمانہ ہے اور اس لئے مسیح موعود ہی احمد ہو سکتے ہیں.اس آیت سے ایک اور طرح بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ مسیح موعود کا ذکر ہے.اور وہ یہ کہ یہ آیت قرآن کریم میں تین جگہ آئی ہے اور تینوں جگہ مسیح کا ساتھ ذکر ہے.دو جگہ تو صاف مسیح کا نام موجود ہے اور تیسری جگہ ساتھ انجیل کا ذکر ہے.پس تین جگہ اس آیت کا قرآن کریم میں آنا.اور تینوں جگہ ساتھ مسیح کا ذکر ہونا دلالت کرتا ہے کہ مسیح کے ساتھ اس آیت کا کوئی خاص تعلق ہے اور وہ یہی ہو سکتا ہے کہ اس آیت کا مضمون مسیح کی بعثت ثانیہ کے وقت پورا ہونا تھا.اور اگر اس آیت کا مسیح کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ تین متفرق جگہ پر مسیح کے ذکر کے ساتھ اس آیت کو دہرایا گیا ہے ایک دفعہ سورۃ تو بہ رکوع ۵ میں.دوسری دفعہ سورۃ فتح رکوع ۴ میں.اور تیسری دفعہ اسی سورۃ صف میں.ساتویں دلیل هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (الصف:۱۱) وہ آنے والا رسول لوگوں کو کہے گا کہ اے لوگو! تم جو دنیا کی تجارت کی طرف جھکے ہوئے ہو کیا میں تمہیں وہ تجارت بتاؤں جس کی وجہ سے تم عذاب الیم سے بیچ جاؤ.یہ آیت بتاتی ہے
۴۹ کہ اس زمانہ میں تجارت کا بہت زور ہوگا لوگ دین کو بھلا کر دنیا کی تجارت میں لگے ہوئے ہوں گے.چنانچہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں دنیا کی تجارت کی اس قدر کثرت ہے کہ پہلے کسی زمانہ میں نہیں ہوئی.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے ان الفاظ میں بیعت لی کہ کہو میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.پس یہ آیت بھی ثابت کرتی ہے کہ ان آیات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی ذکر ہے.ایک ضمنی بات تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (الصف: ١٢) b اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے لوگو! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ.اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرو اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ.یہ تمہارے لئے بہت اچھی بات ہے.اگر تم جاننے والے ہو.بہت لوگ ایسے ہیں جو چندہ دے کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم چھوٹ گئے اب ہمارے سر پر کوئی فرض نہیں.لیکن یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مال بھی خرچ کرو اور جان بھی یعنی چندے بھی دو اور تبلیغ بھی کرو.پس احمدی جماعت کے لوگوں کو ایسا ہی کرنا چاہئے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم مال خرچ کرو گے اور تبلیغ بھی کرو گے تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہوگا.یعنی جلد جلد تم ترقی کرو گے.يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تحْتِهَا الْأَنْهرُ وَمَسْكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وَأُخْرى | تُحِبُّونَهَا نَصْرُ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَيرِ الْمُؤْمِنِينَ (الصف : ۱۳۱۳) خدا تعالیٰ تمہارے گناہوں اور تمہاری فرو گذاشتوں کو بخش دے گا اور تم کو باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور رہنے کے لئے بڑی پاکیزہ جگہیں ہوں گی
باغوں میں.یہ تمہارے لئے بہت بڑی کامیابی ہوگی.اور ایک اور بات تمہیں نصیب ہوگی جس کو تم چاہتے ہو یعنی خدا کی نصرت تمہارے لئے آئے گی اور جلدی کامیابی ہوگی.اور یہ مؤمنوں کے لئے بشارت ہے.آٹھویں دلیل اس کے بعد فر ما یا يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ ط T فَأَمَنَتْ ظَابِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَاءِيلَ وَكَفَرَتْ ظَابِفَةٌ ، فَأَيَّدُنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظُهِرِينَ) (الصف:۱۵)اے وہ لوگو! جو رسول پر ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے مدد کرنے والے بن جاؤ جیسا کہ عیسی بن مریم نے حواریوں کو کہا تھا کہ تم میں سے کون ہے جو انصار اللہ ہو تو انہوں نے کہا کہ ہم سب کے سب انصار اللہ ہیں.پس ایمان لایا بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ اور ایک گروہ نے کفر کیا.پس ہم نے ان کی مدد کی جو ایمان لائے او پر ان کے دشمنوں کے پس وہ غالب ہو گئے.اس میں یہ دلیل ہے کہ آنے والا رسول لوگوں کو کہے گا کہ انصار اللہ بن جاؤ.لیکن رسول کریم صلای ایام کی یہ آواز نہ تھی کہ اے لوگو انصار بن جاؤ.بلکہ آپ کے وقت میں مہاجرین وانصار دو گروہ تھے.اور مہاجرین کا گروہ انصار پر فضیلت رکھتا تھا.چنانچہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ حنین کے بعد جب بہت سا مال غنیمت آیا اور آپ نے اسے تالیف قلب کے طور پر مکہ کے نو مسلموں میں تقسیم کر دیا تو انصار میں سے بعض نے اعتراض کیا کہ خون تو اب تک ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے لیکن مال رسول اللہ نے اور لوگوں کو دے دیا اور بعض نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب آپ اپنی قوم سے جاملیں گے.جب آپ نے یہ بات سنی تو انصار کو ایک جگہ جمع کیا اور فرمایا کہ اے انصار ! مجھے تمہاری نسبت خبر پہنچی ہے اور تم نے میری نسبت کیا برائی معلوم کی ہے.کیا
۵۱ تم گمراہ نہ تھے کہ خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ تم کو ہدایت دی اور کیا جب میں آیا ہوں تم غریب نہ تھے کہ خدا تعالیٰ نے تم کو مالدار کر دیا.اور کیا تم آپس میں دشمن نہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو دوست بنادیا.انصار نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ ! اللہ اور اس کے رسول کے فضل اور احسان سے ایسا ہی ہوا.پھر فرمایا کہ اے انصار ! تم مجھے جواب کیوں نہیں دیتے انہوں نے عرض کیا کہ ہم کیا جواب دیں.فرمایا تم چاہو تو کہہ سکتے ہو اور تمہاری بات جھوٹی بھی نہ ہوگی کہ تو ہمارے پاس ایسے وقت میں آیا کہ لوگ مجھے جھٹلاتے تھے ہم نے تیری تصدیق کی.اور کوئی تیرے ساتھ نہ تھا پھر ہم نے تیری مدد کی.اور تو دھتکارا ہوا تھا ہم نے تجھے جگہ دی.اور تو غریب تھا ہم نے تیری ہمدردی کی.اے انصار ! تم نے دنیا کے مال کے لئے جس کے ذریعہ سے میں نے ایک نئی قوم کے قلوب کی تالیف کی تھی اپنے دلوں میں بر امنا یا.اے انصار! کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ لوگ تو بکریاں اور اونٹ اپنے گھروں کو لے جائیں اور تم اپنے گھروں کو خدا کے رسول کو لے جاؤ.مجھے اسی خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ہونا پسند کرتا.اور اگر لوگ ایک وادی میں جائیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں اس وادی میں جاؤں جس میں انصار گئے ہوں.اے خدا! انصار پر رحم کر اور ان کے بیٹوں پر اور ان کی بیٹیوں پر.اس پر انصار اس قدر روئے کہ ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں.(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الطائف...الخ ) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ملائیشیا ایلم کے زمانہ میں ہجرت کا درجہ بلند تھا.اور قرآن کریم میں بھی ہجرت پر خاص زور ہے پس اگر رسول کریم کا زمانہ مراد ہوتا تو انصار سے پہلے ہجرت کا ذکر ہوتا اور یہ لکھا ہوتا کہ مہاجرین و انصار میں داخل ہو جاؤ.لیکن اس جگہ ہجرت کا ذکر بھی نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا زمانہ ہے کہ جب ہجرت فرض نہ ہوگی اور وہ یہی زمانہ ہے.
نویں دلیل ۵۲ اس سورۃ سے اگلی سورۃ میں جو اس کے ساتھ ہی ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي بَعَتَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أيتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والْحِكْمَةَ، وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِين ( الجمعہ: ۳) اور اس کے بعد فرماتا ہے وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ( الجمعہ: ۴) اور وہ اس رسول کو ایک اور جماعت میں مبعوث کرے گا جواب تک تم سے نہیں ملی.ان آیات میں آنحضرت سلیم کی دو بعثشوں کا ذکر ہے اور چونکہ احادیث سے آپ کے بعد ایک مسیح کا ذکر ہے جس کی نسبت آپ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ وہ میری قبر میں دفن ہوگا.یعنی وہ اور میں ایک ہی وجود ہوں گے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری بعثت سے مراد مسیح موعود ہی ہے.کیونکہ اسلام تناسخ کا قائل نہیں کہ یہ خیال کیا جائے کہ آپ خود ہی دوبارہ تشریف لائیں گے اس لئے آپ کی بعثت ثانیہ سے صرف یہی مراد لی جاسکتی ہے کہ کوئی شخص آپ کے رنگ میں رنگین ہو کر آئے گا.اور وہ سوائے مسیح موعود کے اور کوئی نہیں ہوسکتا جس کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ میری قبر میں دفن ہو گا.(مشکوۃ کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ علیہ السلام) اب ہم جب پہلی سورۃ کے ساتھ اس کو ملاتے ہیں تو اس میں بھی پہلے حضرت موسیٰ کا ذکر ہے اور پھر حضرت مسیح کا.پھر اس سورۃ میں آنحضرت سال پیام کی دو بعثشوں کا ذکر ہے جن میں سے ایک مسیح کی بعثت کے رنگ میں ہوئی ہے.ان دونوں باتوں کو ملا کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلی سورۃ میں احمد کی جو پیشگوئی ہے وہ اسی بات کو بتانے کے لئے ہے کہ جس طرح اس امت میں مثیل موسی" ہوا ہے مثیل مسیح بھی احمد کے نام سے ظاہر ہو گا.چنانچہ اس بات کو صاف کرنے کے لئے سورۃ جمعہ میں رسول کریم کی دو بعثتوں کا ذکر فرما دیا.تا دانا انسان سمجھ لے کہ احمد سے مراد آپ کی بعثت ثانیہ ہے نہ کہ اول.کیونکہ اس سے پہلے موسیٰ “ کا واقعہ بیان ہو چکا
۵۳ ہے.اور آنحضرت سال یا سیستم حضرت موسیٰ کے مثیل ہیں.غرض سورۃ جمعہ کو سورۃ صف کے ساتھ رکھ کر خدا نے اسمه احمد کی پیشگوئی کو اور بھی صاف کر دیا ہے.اور بات بالکل صاف ہے خواہ کوئی مانے یا نہ مانے یہ اس کا اختیار ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے تم لوگ جو مسیح موعود کے ماننے والے ہو.صحابہ احمد سے ہو اور رسول کریم صلی السلام کی بعثت ثانیہ پر ایمان لانے والے ہو اس وقت کوئی اور جماعت نہیں جو تمہارا مقابلہ کر سکے.اس وقت سلسلہ احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے صحابہ کے ہم رنگ کر دیا ہے اور یہی ایک جماعت ہے جو ہر قسم کے دکھ تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھاتی ہے.لیکن پھر بھی دین خدا کے پھیلانے سے باز نہیں آتی اور نہ تھکتی ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ تمہیں جرات دلانے اور زیادہ جوش سے کام کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ تم میں یہ کمی ہے یہ نقص ہے یہ کمزوری ہے لیکن تم ہی دنیا میں ایک ایسی جماعت ہو جس کا کوئی نمونہ نہیں اور تمہیں وہ ہو جو صحابہؓ کا پورا پورا نمونہ ہو.اب کوئی اندھا ہی ہوگا جو یہ کہے کہ تم صحابہ کے رنگ میں رنگین نہیں ہو.گواس وقت دنیا کی نظروں میں تم غریب اور کمزور ہو مگر خدا کی نظر میں تم بہت طاقتور ہو.دنیا کی نظروں میں ذلیل ہولیکن خدا کے حضور تمہارا بہت بڑا درجہ ہے اور بہت عزت رکھتے ہو.اس لئے وہ دن آ رہے ہیں جبکہ خدا تعالیٰ تمہیں دنیا کی نظروں میں بھی کامیاب اور با مراد کر دے گا اور دنیا اپنی آنکھوں سے تم میں جماعت احمد کی پیشگوئی پوری ہوتی دیکھ لے گی.
۵۴ بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد ه فصلی علی رسولہ الکریم بقیہ تقریر حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ( جو ۲۷ / دسمبر ۱۹۱۵ء کو جلسہ سالانہ پر بعد از نماز ظہر و عصر فرمائی) اشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ امَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ میں نے ظہر کی نماز سے پہلے اسمه احمد پر کچھ بیان کیا تھا.اب مسئلہ نبوت پر کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.اس کے بعد انشاء اللہ جماعت کی عملی حالت کی درستی کے متعلق کچھ بیان کروں گا.مسئله نبوت مجھے مسئلہ نبوت کے متعلق ہمیشہ ہی سے تعجب آیا کرتا ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک کرنے کی کیا وجہ ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ باوجود ایک صاف مسئلہ ہونے کے اس کے متعلق عجیب عجیب اعتراض کئے جاتے ہیں.اور اپنی تائید میں عجیب عجیب دلیلیں پیش کی جاتی ہیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آنحضرت صلی یا اسلام کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا یا یہ کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے.مثلاً ان عجیب و غریب دلیلوں میں سے ایک یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جس کا نام مفرد ہو مرکب نام والا کوئی نبی نہیں ہوسکتا چنانچہ پیسہ اخبار میں کسی نے ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ یہ ایک ایسی دلیل ہے
جس سے مرزا صاحب کی نبوت بالکل باطل ہو جاتی ہے.وہ لکھتا ہے : ” خدا تعالیٰ کی طرف سے جس قدر انبیاء دنیا میں آئے ہیں اور انہوں نے مبعوث ہو کر لوگوں کو توحید کا قائل کیا.منجملہ ان کے ایک بھی ایسا نبی ورسول نہ آیا.جس کا اسم مبارک دو لفظوں سے مل کر بنا ہو.بلکہ ہر نبی ورسول منصوص من اللہ کا اسم مبارک نقطہ واحد سے مشتق ہوتا چلا آیا ہے.( روزنامہ پیسہ اخبار مورخہ ۲۸ / نومبر ۱۹۱۵ء) میہ اور اسی قسم کی اور دلیلیں بھی دی جاتی ہیں جن کو پڑھ کر تعجب ہی آتا ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کل کوئی شخص ایک ایسے نبی کو جسے وہ مانتا ہے خواب میں دیکھ لے کہ اتنی لمبی اس کی داڑھی ہے اتنا قد ہے اس طرح کی شکل ہے تو لکھ دے کہ نبی وہی ہو سکتا ہے.جس کی اس قسم کی داڑھی ہو اتنا بڑا قد ہواگر ایسا نہ ہوتو نبی نہیں ہوسکتا.پچھلے نبیوں کی نبوت کے متعلق ان کے نام کا مفرد ہونا دلیل ہی کس طرح ہو سکتی ہے؟ اور کس کو معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ کے ان تمام نبیوں کے نام جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت سالیا اپریتم تک ہوئے ہیں مفرد تھے ؟ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مجھے تمام انبیاء کے نام معلوم ہیں تو وہ جھوٹا ہے اور جھوٹا دعویٰ کرتا ہے.کیونکہ جب خدا تعالیٰ آنحضرت صلی نیلم کو فرماتا ہے کہ وَلَقَد أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِن قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ (المؤمن :۷۹) اور ضرور ہم نے تجھ سے پہلے رسولوں کو بھیجا ہے ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کا ذکر ہم نے تجھ پر کر دیا ہے.اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کا تجھ سے ذکر نہیں کیا یعنی خدا تعالیٰ نے آنحضرت سلائی کی تم کو بھی بعض انبیاء کے نام نہیں بتائے تو اب اور کون ہے جس کو تمام انبیاء کے نام معلوم ہوں.اور اگر کسی کو دعوی ہے تو کم سے کم ان ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کے نام ہی ہم کو بتائے جن کا ذکر حدیث میں آتا ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۲۶۶) غرض اول تو یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ تمام انبیاء کے نام مفرد تھے.اور اگر بفرض محال درست بھی ہو تو یہ کوئی ثبوت نہیں کیونکہ اس بات کا ثبوت نہ قرآن کریم سے ملتا ہے نہ احادیث
۵۶ سے نہ پہلے صحفِ انبیاء سے اور ایک عقلمند انسان تو نبی کی یہ علامت سن کر حیران ہو جائے گا کہ نبی وہی ہوتا ہے جس کا نام مفرد ہو.گویا نبوت کا سب دار و مدار نام پر ہے نہ کہ کام پر لیکن اگر اس دعوی کو قبول کر لیا جائے کہ نبی وہی ہوتا ہے جس کا نام مفرد ہو تو اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ قرآن میں مذکور انبیاء میں سے بھی بعض انبیاء کی نبوت کا انکار کرنا پڑے گا.کون نہیں جانتا کہ ہمارے رسول کریم مالی نے اسلام کے جد امجد حضرت اسماعیل تھے.اور آپ کا یہ نام مرکب ہے.عربی والوں نے اس کے دو حصے کئے ہیں.ایک سمع اور دوسرا ایل اور عبرانی والے بھی اس نام کے دو ہی حصے کرتے ہیں.ایک یسمع اور دوسرا ایل.تو معلوم ہوا کہ عبرانی کے لحاظ سے یسمع اور ایل.اور عربی کے لحاظ سے سمع اور ایل دو لفظوں سے یہ نام مرکب ہے.سمع کے معنی ہیں سن لیا.اور ایل کے معنی ہیں خدا.ایل در حقیقت عربی زبان کے لفظ آئل سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں قدرت رکھنے والا ، لوٹنے والا.تو چونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم اور کرم کی وجہ سے لوٹنا یعنی متوجہ ہوتا ہے اس لئے اس کا یہ نام ہو گیا.جس طرح عربی میں خدا تعالیٰ کا ایک نام تو اب ہے.اور اسی وجہ سے ہے کہ خدا اپنے بندوں کی طرف فضل کے ساتھ لوٹتا ہے.تو سمع ایل کے معنی ہیں خدا نے سنا.اس سے بگڑ کر اسماعیل بن گیا.اور بائبل میں اس نام کے رکھے جانے کی یہی وجہ لکھی ہے.چنانچہ وہاں لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم کی چھوٹی بیوی ہاجرہ ان کی بڑی بیوی سارہ کے تنگ کرنے سے گھر سے نکلی تو خدا وند کے فرشتے نے اسے میدان میں پانی کے ایک چشمے کے پاس پایا.یعنی اس چشمے کے پاس جوصور کی راہ پر ہے.اور اس نے کہا کہ اے سری کی لونڈی ہاجرہ ! تو کہاں سے آئی اور کدھر جاتی ہے.وہ بولی کہ میں اپنی بی بی سری کے سامنے سے بھاگی ہوں اور خداوند کے فرشتے نے اسے کہا.کہ تو اپنی بی بی کے پاس پھر جا اور اس کے تابع رہ.پھر خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھاؤں گا کہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے.اور خداوند کے
۵۷ فرشتے نے اسے کہا کہ تو حاملہ ہے.اور ایک بیٹا جنے گی.اس کا نام اسماعیل رکھنا کہ خدا وند نے تیرا دکھ سن لیا.( پیدائش باب ۱۶ آیت کے تا ۱ مطبوعہ 1906 ء ) اب یہ دلیل پیش کرنے والا بتائے کہ خدا اور سن لی دو الگ الگ لفظ ہیں یا نہیں.اور یہ بھی بتائے کہ یہ نام مرکب ہوا یا مفرد.پس اگر حضرت اسمعیل با وجود مرکب نام رکھنے کے نبی ہو سکتے ہیں.تو کیا وجہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب مرکب نام کی وجہ سے نبی نہیں بن سکتے.لیکن وہ نادان جو نہ عربی جانتا ہے نہ عبرانی.وہ کہتا ہے کہ کسی نبی کا مرکب نام نہیں ہے.اور جب نبی کا مرکب نام نہیں تو مرزا صاحب جن کا نام مرکب ہے نبی نہیں ہو سکتے.پھر ابھی مفتی محمد صادق صاحب نے ایک رقعہ لکھ کر دیا ہے کہ حضرت ابراہیم کا نام ابی اور رہام سے مرکب ہے اور اس کے معنی ہیں بلندی کا باپ.اور حضرت موسیٰ“ کا نام مواورشی سے مرکب ہے.مو ( عربی ماء بگڑی ہوئی عربی موسیہ ) کہتے ہیں پانی کو.اور شی (عربی شیئی ) بمعنی چیز.یعنی پانی کی چیز ہے.چونکہ حضرت موسی کو پانی میں ڈالا گیا تھا.اس لئے آپ کا یہ نام ہوا.پھر یسوع بھی مرکب نام ہے.غرض بہت سے نبیوں کے نام مرکب ہیں.لیکن وہ نادان بوجہ عربی اور عبرانی کا علم نہ رکھنے کے اس بات کو نہیں سمجھا.اس لئے کہتا ہے کہ تمام نبیوں کے نام مفرد ہیں.پھر قرآن کریم پر غور کرنے سے ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ اس میں نبیوں کے مخالفوں کے نام بھی مفرد آئے ہیں.( کیونکہ ابولہب صفت ہے نہ کہ نام ) اب اگر کوئی یہ کہہ دے کہ دنیا میں جس کا نام مرکب ہو وہ شریر نہیں ہوسکتا تو یہ جہالت نہیں تو اور کیا ہے لیکن کیا کیا جائے.حدیث میں آیا ہے کہ امت محمدیہ پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اس کے اندر سے علم اٹھ جائے گا اور جاہل لوگ عالم کہلائیں گے جو لوگوں کو اپنی بے علمی کی وجہ سے گمراہ کریں گے.پس چونکہ مسلمانوں پر یہ زمانہ آگیا ہے اور وہ علم و جہالت میں فرق نہیں رسکتے.اس لئے اس قسم کی باتیں کرتے ہیں جو ان کو مخالفین اسلام کی نظروں میں ذلیل
۵۸ کرنے والی ہوں اور صداقت کے ایسے معیار بناتے ہیں جنہیں کوئی دانا انسان قبول نہیں کرسکتا.اور جو خدا تعالیٰ کی سنت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں.کیا ایک مسیحی اس معیار کو سن کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ رسول کریم ملی پیام سے پہلے جس قدر نبی گذرے ہیں کسی کا نام محمد وزن پر نہیں ہوا.اس لئے آپ نبی نہیں ہیں اور کیا ایسا دعویٰ کرنے والا مجنون نہیں کہلائے گا.پھر حضرت مسیح موعود کی نبوت پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جس کے نام کا پہلے کوئی آدمی نہ گزرا ہو.چونکہ آپ کا نام غلام احمد تھا.اور اس نام کے آپ سے پہلے بہت سے لوگ ہو گزرے ہیں.اس لئے آپ نبی نہیں ہو سکتے.گویا ان لوگوں کے نزدیک چونکہ آنحضرت سلیم سے پہلے کوئی شخص آپ کا ہم نام نہیں گزرا.اس لئے آپ نبی ہیں اور اگر یہ غلط ثابت ہو جائے تو پھر آپ نبی نہیں (نعوذ باللہ ) اسی طرح حضرت مسیح سے پہلے چونکہ یسوع نام کا جو آپ کا نام تھا کوئی شخص نہیں گزرا اس لئے آپ نبی ہیں.اور اگر یہ غلط ثابت ہو جائے تو پھر آپ نبی نہیں.اس بات کا اگر ان سے ثبوت پوچھیں کہ تم نے یہ دلیل کہاں سے لی ہے تو کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں جو حضرت یحیی" کی نسبت لکھا ہے کہ لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا ( مریم : ۸) اول تو جو معنی کر کے وہ استدلال کرتے ہیں وہ معنی ہی ہمارے نزدیک قابل تسلیم نہیں لیکن اگر انہی کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو بات کسی نبی کی نسبت قرآن کریم میں مذکور ہو وہ نبوت کی شرط ہوتی ہے اور اگر یہ تسلیم کیا گیا تو نہایت مشکل پیش آئے گی.کیونکہ ایسی باتیں نکلیں گی جو قرآن کریم میں بعض انبیاء کے متعلق بیان ہیں اور دوسروں کی نسبت بیان نہیں اور نہ ان میں وہ پائی جاتی تھیں تو اس سے ثابت ہوگا کہ وہ نبی ہی نہ تھے مثلاً حضرت داؤد کی نسبت آتا ہے ان کو ہم نے زرہ بنانی سکھائی تھی.تو زرہ بنانی بھی شرائط نبوت میں داخل کرنی پڑے گی.اور چونکہ ہمارے نبی کریم صا تم یہ فن نہ جانتے تھے اس لئے آپ کی نبوت گو یا باطل ہو گئی.نعوذ باللہ من ذالک.پس یہ اصل ہی باطل
۵۹ ہے کہ جو بات ایک نبی کے متعلق بیان ہو وہ سب نبیوں میں پائی جانی چاہئے اور وہ شرائط نبوت میں سے ہونی چاہئے.لیکن ہم اس باطل کو بھی تسلیم کر لیتے ہیں اور فی الحال مان لیتے ہیں کہ نبی وہی ہے جس کے نام کا پہلے کوئی اور شخص نہ گذرا ہو.اور ثابت کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں جن نبیوں کا ذکر آتا ہے ان کے نام کے آدمی پہلے بھی گذرے ہیں چنانچہ زکریا" ایک نبی ہیں.اور قرآن شریف نے ان کو نبی قرار دیا ہے لیکن ان سے چارسوسال پہلے ایک نبی ہوئے ہیں ان کا نام بھی زکریا تھا.اور ان کی کتاب اب تک بائبل میں موجود ہے.پھر اسی طرح حضرت یحیی کے نام کے پہلے پانچ آدمی گزر چکے تھے جن کا ذکر بائیل میں موجود ہے جن میں سے ایک حضرت داؤڈ سے بھی پہلے ہوئے ہیں.اب کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ پھر اس آیت کے کیا معنی ہوئے.میں کہتا ہوں لوگوں نے اس کے معنی غلط سمجھے ہیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ بشارت کے طور پر ان سے پہلے کسی کا یہ نام نہیں رکھا گیا.لیکن مشکل وہی ہے کہ اس زمانہ میں جبال علماء بن گئے ہیں اور حقیقی علم ان سے چھین لیا گیا ہے اس لئے اس قسم کی باتیں مونہہ پر لاتے ہیں.پھر اس معیار کے ماتحت تو حضرت مسیح کی بنوت بھی ثابت نہیں ہوتی.کیونکہ ان کا نام یسوع ہے اور اس نام کا ایک اور شخص بھی تھا جس کو یسوع بن سائرس کہتے ہیں.اس کی کتاب بھی اپیو کر فاس میں موجود ہے.( یعنی بائبل کا وہ حصہ جسے بعض لوگ بائبل میں شامل سمجھتے ہیں اور بعض نہیں اور وہ الگ چھپا ہوا ہے اور جو لوگ اسے بائبل کا حصہ مانتے ہیں ان کی چھاپی ہوئی بائبلوں میں موجود بھی ہے ) تو اب کیا حضرت مسیح “ سے پہلے یسوع نام کا ایک اور شخص ثابت ہو جانے سے آپ کی نبوت باطل ہوگئی.پھر بڑے تعجب اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ نبی جو خاتم النبین ہے اور جو تمام نبیوں کا سردار ہے.اس کی نبوت بھی اس دلیل کے مطابق (نعوذ باللہ ) باطل ٹھہرتی ہے.کیونکہ آپ سے پہلے پانچ شخص ایسے گزرے ہیں جن کا نام محمد تھا.چنانچہ آپ سے پہلے بنو سواءۃ میں محمد ابنشمی گزرا ہے.اور ایک محمد اس ابرہہ کے
دربار میں تھا جس نے مکہ پر حملہ کیا تھا.اور یہ حملہ رسول کریم سال پیام کی پیدائش سے ایک سال پہلے ہوا.اس کی نسبت جاہلیت کا ایک شعر بھی ہے.فَذَالِكُمْ ذُوالتَّاجِ مِنا مُحَمَّدٌ وَرَأَيْتُهُ فِي حَوْمَةِ الْمَوْتِ تَخْفَقُ تیسرا شخص اس نام کا بنو میم میں گزرا ہے اور یہ شخص پادری تھا.چو تھا محمد الاسیدی تھا.پانچواں محمد افتیمی.پس اگر یہی دلیل حضرت مسیح موعود کی نبوت کو باطل کرنے والی ہے تو حضرت یحی ، حضرت زکریا ، حضرت مسیح اور آنحضرت صلی شما بی سیم کی نبوت بھی ثابت نہیں ہوتی.کیسے تعجب کی بات ہے کہ ہمارے مخالفین ہماری مخالفت میں ان ہتھیاروں پر اتر آئے ہیں کہ جن سے پہلے نبیوں کی نبوت بھی باطل ہو جاتی ہے.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کفار کی نسبت فرماتا ہے کہ یہ ہمارے رسول ( محمد سالم ) پر ایسے اعتراض کرتے ہیں جو ان کے نبیوں پر بھی پڑتے ہیں جن کو یہ مانتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ آسمان پر چڑھ جا.اور ہمارے لئے کتاب لا.وغیرہ وغیرہ.تو جیسے اعتراضات وہ لوگ آنحضرت سلانا ہی تم پر کیا کرتے تھے ایسے ہی اعتراضات یہ لوگ آج حضرت مسیح موعود " پر کرتے ہیں جن کو اگر سچا مان لیا جائے تو سب نبیوں کی نبوت باطل ہو جاتی ہے.ایک اور اعتراض اور اس کا جواب پھر ایک یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنے کئی نام رکھے ہیں.حالانکہ کسی اور نبی نے اپنے کئی نام نہیں رکھے اس لئے یہ نبی نہیں ہو سکتے.اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی فیلم فرماتے ہیں کہ ان لي اسماء أنا مُحَمَّد وَأَنَا أَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يمحو اللهُ فِي الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمَى وَانَا الْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيُّ (مشكوة كتاب الاداب باب اسماء النبى وصفاته ) یعنی آنحضرت سیل پیام فرماتے ہیں کہ میرے پانچ نام ہیں.پس اگر حضرت مسیح موعود“ کے بھی خدا تعالیٰ نے کئی نام رکھ دیئے اور آپ کو مہدی اور کرشن بنادیا.تو اس سے آپ کی نبوت کس
บ طرح باطل ہوگئی.آپ نے اپنے آقا سے تو ایک نام کم ہی پایا ہے.پس آنحضرت سلینا یہ ہم کی نبوت پانچ نام رکھنے کے باوجود ثابت ہو سکتی ہے.تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ کی نبوت چارنا م رکھنے کی وجہ سے ثابت نہیں ہوسکتی.وہ لوگ جو یہ اعتراض کرتے ہیں سوچیں اور بتائیں کہ حضرت مسیح موعود کی نبوت کیوں ثابت نہیں ہوسکتی.نبی کے لئے شریعت لا نا شرط نہیں پھر یہ کہا جاتا ہے کہ نبی کے لئے شرط ہے کہ وہ کتاب یعنی شریعت لائے.لیکن حضرت مسیح موعود " چونکہ کوئی کتاب نہیں لائے.اس لئے نبی نہیں ہو سکتے.یہ اعتراض جن کی طرف سے کیا جاتا ہے وہ اپنے آپ کو احمدی کہتے اور حضرت مسیح موعود“ کے شیدائی کہلاتے ہیں لیکن اتنا نہیں جانتے کہ حضرت مسیح موعود اس کے متعلق خود لکھ گئے ہیں کہ ”نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو ( براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۳۸، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۰۶) پھر آپ لکھتے ہیں کہ ”نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے.یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں.ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۶ ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۰) اسی طرح آپ فرماتے ہیں ” بعد توریت کے صدہا ایسے نبی بنی اسرائیل میں سے آئے کہ کوئی نئی کتاب ان کے ساتھ نہیں تھی.بلکہ ان انبیاء کے ظہور کے مطالب یہ ہوتے تھے کہ تا ان کے موجودہ زمانہ میں جو لوگ تعلیم توریت سے دور پڑ گئے ہوں.پھر ان کو توریت کے اصلی منشاء کی طرف کھینچیں.(شہادۃ القرآن صفحه ۴۴ ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴۰)
۶۲ پھر آپ لکھتے ہیں ”بنی اسرائیل میں کئی ایسے نبی ہوئے ہیں.جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی.صرف خدا کی طرف سے پیشگوئیاں کرتے تھے.“ ( بدر ۵ / مارچ ۱۹۱۵ء) اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ کوئی ایک نبی بھی ایسا نہیں ہوا جو شریعت نہ لایا ہو.لیکن حضرت مسیح موعود " فرماتے ہیں کہ کئی نبی ایسے ہوئے ہیں.ہم کہتے ہیں جب بنی اسرائیل میں ایسے نبی آچکے ہیں جو کوئی کتاب نہیں لائے تو پھر یہ مطالبہ حضرت مرزا صاحب کے لئے کیوں پیش کیا جاتا ہے.لیکن افسوس تو یہ ہے کہ یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ہمار اوار کہاں پڑتا ہے.کیسا نادان ہے وہ شخص جو کسی کو تیر مارے اور سامنے اس کا اپنا باپ کھڑا ہو مگر وہ یہ خیال نہ کرے کہ اگر میں نے تیر مارا تو تیر پہلے میرے باپ کو چھیدے گا اور پھر کہیں اس تک پہنچے گا.یہ لوگ بھی ایسے ہی ہیں یہ نہیں جانتے کہ ہمارا حملہ حضرت مسیح موعود“ پر نہیں ہے بلکہ حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ" ، حضرت عیسی اور آنحضرت صلی یا اسلام پر پڑتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ایسی باتیں پیش کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے بار بار لکھا ہے کہ کئی نبی ایسے ہوئے ہیں جو کوئی کتاب نہیں لائے.لیکن ہم سے یہی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ مرزا صاحب کی کتاب بتاؤ ورنہ وہ نبی نہیں ہو سکتے.انہوں نے سمجھا ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ کی کوئی کتاب دنیا میں کیوں آتی ہے.کتاب تو اس وقت آتی ہے جبکہ پہلی شریعت کے احکام مٹ چکے ہوں یا ایسے مسخ ہو چکے ہوں کہ ان کا معلوم کرنا مشکل ہو گیا ہو.لیکن جب پہلی شریعت موجود ہو اور اس کے احکام میں بھی کوئی نقص نہ واقعہ ہو گیا ہو تو پھر کسی اور کتاب کے آنے کی ضرورت نہیں ہوتی.نبوت خدا تعالیٰ کا ایک فضل ہوتا ہے اس کے لئے ضروری نہیں کہ نبی وہی ہو جس کو شریعت بھی دی جائے...جس طرح دنیا کے بادشاہوں نے اپنے وزراء اور امراء کے لئے درجے مقرر کر کے نام رکھے ہوتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ نے بھی اپنے مقربین کے لئے نام تجویز فرمائے ہوئے ہیں اور وہ نام یہ ہیں.نبی ، صدیق شہید اور صالح ان میں سے نبی ایک خاص درجہ ہے.اور جو یہ نام پا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے خاص الخاص انسانوں میں سے ہو جاتا
۶۳ ہے.جس طرح بادشاہوں کے بھی کچھ لوگ مقرب ہوتے ہیں جن سے وہ اپنے راز کی باتیں کرتے اور بڑے بڑے امور کی ان کو پیش از وقت اطلاع دے دیتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ جن کو اپنے راز کی باتیں بتاتا اور آئندہ ہونے والے امور کی اطلاع بخشتا ہے وہ نبی ہوتے ہیں.نبی ہونا خدا تعالیٰ کے قرب کا آخری درجہ پانا ہے اور امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع پا نا نبی ہونے کی علامت ہے.جس طرح بادشاہ جب اپنے کسی خاص آدمی سے مشورہ کرتا اور اس سے اپنے راز کی باتیں کہتا ہے تو لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بادشاہ کا خاص وزیر ہے.اسی طرح جب ایک انسان خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پا کر لوگوں کو بتاتا ہے اور وہ پوری ہوجاتی ہیں تو وہ جان جاتے ہیں کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں کہ غیب کی خبریں بتائے.اس لئے یہ جو بات بتا تا ہے خدا ہی کی بتائی ہوئی بتا تا ہے پس یہ خدا کا نبی ہے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ نبی کے لئے کتاب کا لانا ضروری ہے وہ تاریخ کا انکار کرتا ہے اور اسے ہندوؤں، یہودیوں اور عیسائیوں کے بہت سے انبیاء کورد کرنا پڑے گا.کیونکہ ان میں ایسے نبی آئے ہیں جو کوئی کتاب نہیں لائے.اور اگر کتاب سے الہامات کا مجموعہ مراد ہے تو ایسی کتاب تو حضرت مسیح موعود " بھی لائے ہیں.دور جانے کی ضرورت نہیں پیغامیوں میں سے ہی ایک شخص نے حضرت مسیح موعود کے الہامات کا مجموعہ تین جلدوں میں شائع کیا ہے.حضرت مسیح موعود" تو اپنے متعلق لکھتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اس کی طرف سے ہوں.اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی بھی ان سے نبوت ثابت ہوسکتی ہے لیکن چونکہ یہ آخری زمانہ تھا.اور شیطان کا مع اپنی تمام ذریت کے آخری حملہ تھا.اس لئے خدا نے شیطان کو شکست دینے کے لئے ہزار ہا نشان ایک جگہ جمع کر دیئے.“ (چشمہ معرفت صفحه ۳۱۷، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۳۲) لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایک ایسا انسان جس پر اتنے نشانات اترے کہ ان سے
۶۴ ہزاروں نبیوں کی نبوت ثابت ہو سکتی ہے وہ خود نبی نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے یہ سب باتیں اپنے پاس سے بنالی ہیں.اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی قدر کو نہیں سمجھا.خدا تعالیٰ کافروں کی نسبت قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ (الانعام: ۹۲) یعنی انہوں نے خدا تعالیٰ کی قدر کو نہیں سمجھا اور یہ سمجھ لیا ہے کہ خدا کے خزانے ختم ہو گئے اس لئے کسی کو کچھ نہیں دے سکتا.اسی طرح یہ کہتے ہیں کہ خواہ کتنا ہی زہد اور اتقاء میں بڑھ جائے پر ہیز گاری اور تقویٰ میں کئی نبیوں سے آگے گزر جائے معرفت الہی کتنی ہی حاصل کر لے لیکن خدا اس کو کبھی نبی نہیں بنائے گا اور کبھی نہیں بنائے گا.ان کا یہ سمجھنا خدا تعالی کی قدر کو ہی نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے ورنہ ایک نبی کیا میں تو کہتا ہوں ہزاروں نبی ہوں گے اور ایک ایسا انسان جو اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے جو حضرت یحی“ اور یوحنا وغیرہ انبیاء کا تھا وہ نبی بن سکتا ہے.وہ تو حضرت مسیح موعود کی نبوت کے متعلق کہتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ اب بھی نبی بن سکتا ہے.دنیا میں جب ضلالت اور گمراہی اور بے دینی پھیل سکتی ہے تو نبی کیوں نہیں آسکتا.جس جس وقت ضلالت اور گمراہی پھیلتی رہی ہے اور لوگ خدا تعالیٰ کو بھلا دیتے رہے ہیں اور فسق و فجور میں پھنس جاتے رہے ہیں.اسی وقت نبی آتا رہا ہے.اسی طرح اب بھی جب ایسا ہوگا کہ دنیا خدا تعالیٰ کو چھوڑ دے گی آنحضرت ملا ہی تم کو بھلا دے گی اور گند اور پلیدیوں میں مبتلا ہو جائے گی اس وقت نبی آئے گا اور ضرور آئے گا.لیکن وہ کوئی اور شریعت نہیں لائے گا بلکہ آنحضرت سال پیہم ہی کی شریعت کو پھیلائے گا.یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی نبی آئے اور آنحضرت سانیا اسلام کے سوا کوئی اور شریعت لائے کیونکہ آپ کی شریعت قیامت تک کے لئے ہے اس لئے جو نبی بھی آئے گا اسی کے اندر آئے گا اور اسی کو آکر پھیلائے گا.آنحضرت صلی یا یہ ستم حضرت موسیٰ “ کے بعد اس لئے شریعت لے کر آئے کہ ان کی لائی ہوئی شریعت باقی نہ رہی تھی.یعنی ان کی لائی ہوئی شریعت کو لوگوں نے اس طرح بگاڑ دیا تھا کہ کوئی اس پر عمل کر کے خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا تھا.پس ان کی شریعت کو
آنحضرت صلی اینم نے مٹادیا اور ان کی شریعت میں جو نقص پیدا ہو گئے تھے ان کو دور کر دیا اور دنیا کے سامنے ایک ایسی شریعت پیش کی جس میں کبھی نقص نہیں آسکتا.غرض نئی شریعت کی ضرورت پہلی شریعت کے خراب ہو جانے یا ضائع ہو جانے یا نئی ضروریات پیدا ہو جانے پر ہوتی ہے اور اگر کوئی شریعت ایسی آجائے کہ اس میں یہ تینوں نقص پیدا نہ ہوں تو اس کے بعد کسی جدید شریعت کی ضرورت نہ رہے گی چنانچہ قرآن کریم ایسی ہی کتاب ہے جس میں کامل شریعت آئی ہے اور جو ہر ایک نقص سے محفوظ ہے.پس اس کے بعد کوئی شریعت نہیں لیکن نبی کی ضرورت کو کامل شریعت نہیں روک سکتی.اور اگر کوئی شخص کہے کہ رسول کریم میان ایام کے بعد نبی نہیں آسکتا تو میں کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود آنحضرت سال ایام کے بعد نہیں آئے کیا نبی کریم کی نبوت اور آپ کی حکومت ختم ہوگئی ہے کہ کہا جائے کہ مرزا صاحب آپ کے بعد آئے ہیں مرزا صاحب کی نبوت تو نبی کریم کی نبوت کے اندر ہے.کیا اندر کی چیز کو باہر کی کہا جاتا ہے.مثلاً ایک مکان میں کچھ آدمی بیٹھے ہوں تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ مکان سے باہر ہیں.بلکہ یہی کہیں گے کہ مکان کے اندر ہیں.پس جب حضرت مرزا صاحب بھی آنحضرت ملا لیا ایم کے اندر ہیں تو پھر انہیں بعد میں آنے والا کیوں قرار دیا جائے.آنحضرت کی ہتک نہیں بلکہ عزت ہے ہمارے مخالفین کہتے ہیں کہ آنحضرت صان پہنم کے بعد کسی نبی کا آنا خواہ وہ آپ کے فیض سے ہی کیوں نہ نبی بنے آپ کی ہتک ہے.لیکن میں کہتا ہوں کہ ان لوگوں کا یہ کہنا آنحضر سایلم کی ہتک ہے کیونکہ نبوت تو خدا تعالیٰ کی رحمت ہے جو وہ اپنے بندوں پر نازل کیا کرتا ہے اور آنحضرت مانا کہ تم وہ رسول ہیں جو سارے جہان کے لئے رحمت ہو کر آئے تھے لیکن آپ کے آنے پر کہا جاتا ہے کہ اب خدا تعالیٰ نے وہ سارے فیض بند کر دیئے ہیں جو آپ سے پہلے اپنے بندوں پر کیا کرتا تھا.آپ سے پہلے تو نبی پر نبی بھیجتا تھا.جو اس کی طرف گرتا اسے
۶۶ اٹھاتا تھا.جو اس کی طرف جھکتا اسے پکڑتا تھا.جو اس کے آگے گڑ گڑاتا اسے چپ کراتا تھا.اور جو اس کی پوری پوری اطاعت اور فرمانبرداری کرتا اسے نبی بناتا تھا.لیکن (نعوذ باللہ ) اب ایسا بخیل ہو گیا ہے کہ خواہ کوئی کتنا ہی روئے چلائے اور کتنے ہی اعمال صالحہ کرے اس نے کہ دیا ہے کہ اب میں کسی کو مونہ نہیں لگاؤں گا اور اگر لگاؤں گا تو ادنی درجہ پر رکھوں گا پورا نبی کبھی نہیں بناؤں گا.اب بتاؤ آنحضرت صلی ا یتیم کی یہ تک ہے کہ آپ کی امت سے کوئی نبی نہیں بن سکتا یا یہ کہ آپ کے فیض سے آپ کی امت میں سے بھی نبی بن سکتا ہے.بڑے تعجب کی بات ہے کہ ایک انسان جو تمام جہان کے لئے رحمت اور فضل ہو کر آتا ہے اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس نے آ کر خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی تمام راہوں کو بند کر دیا ہے اور آئندہ نبوت تک کوئی نہیں پہنچ سکتا.لیکن میں کہتا ہوں نبوت رحمت ہے یا زحمت اگر رحمت ہے تو آنحضرت سلیم کے بعد بند کیوں ہو گئی آپ کے بعد تو زیادہ ہونی چاہئے تھی آپ تو ایک بہت بڑے درجہ کے نبی تھے اس لئے آپ کے بعد جو نبی آتا وہ بھی بڑے درجہ کا ہونا چاہئے تھا نہ یہ کہ کوئی نبی ہی نہ بن سکتا.دیکھو! دنیا میں مدر سے ہوتے ہیں.لیکن کسی مدرسہ والے یہ اعلان نہیں کرتے کہ ہمارے مدرسہ میں اپنے لڑکوں کو بھیجو کیونکہ ہمارے مدرسہ کے استاد ایسے لائق ہیں کہ ان کے پڑھائے ہوئے لڑکے ادنی درجہ پر ہی پاس ہوتے ہیں.لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ آنحضرت سال اسلام کی شان بلند ثابت کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ چونکہ آپ کے شاگرد ادنی درجہ پر پاس ہوتے ہیں اس لئے آپ کی بڑی شان ہے.لیکن آنحضرت سلیل ایم کی شان پر یہ ایک ایساز بر دست حملہ ہے کہ جو ابھی تک کسی عیسائی یا آریہ نے بھی نہیں کیا.کیونکہ وہ در حقیقت آپ سے دشمنی رکھتے ہیں اور آپ کو رحمت نہیں بلکہ زحمت سمجھتے ہیں لیکن یہ آپ کو رحمت سمجھ کر پھر یہ درجہ دیتے ہیں.اور وہ جو دوسروں کے درجہ کو بڑھانے آیا تھا اس کے درجہ کوگھٹاتے ہیں.مگر ہم رسول کریم سالی میں پیہم کی اس ہتک کو ایک منٹ کے لئے بھی برداشت
۶۷ نہیں کر سکتے.وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم حضرت مرزا صاحب کو نبی کہیں گے تو لوگ ہماری مخالفت کریں گے اور ہمیں دکھ دیں گے.میں کہتا ہوں حضرت مرزا صاحب کو نبی نہ کہنے میں آنحضرت میایی پیام کی سخت ہتک ہے جس کو ہم کسی مخالفت کی وجہ سے برداشت نہیں کر سکتے.وہ تو مخالفت سے ڈراتے ہیں لیکن اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آنحضرت مصلای ایام کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں اسے کہوں گا تو جھوٹا ہے کذاب ہے آپ کے بعد نبی آسکتے ہیں اور ضرور آسکتے ہیں.کیونکہ آنحضرت سلیل پیام کی شان ہی ایسی ہے کہ آپ کے ذریعہ سے نبوت حاصل ہو سکتی ہے.آپ نے رحمتہ للعالمین ہو کر رحمت کے دروازے کھول دیئے ہیں اس لئے اب ایک انسان ایسا نبی ہوسکتا ہے جو کئی پہلے انبیاء سے بھی بڑا ہو مگر اس صورت میں کہ آنحضرت سلائی یہ ان کا غلام ہو.ہمارے لئے کتنی عزت کی بات ہے کہ قیامت کے دن تمام نبی اپنی اپنی امتوں کو لے کر کھڑے ہوں گے اور ہم کہیں گے کہ ہمارے نبی کی وہ شان ہے کہ آپ کا غلام ہی ہمارا نبی ہے.لیکن مسلمان کہتے ہیں کہ ہمارے لئے وہی مسیح آئے گا جو بنی اسرائیل کے لئے آیا تھا.اگر وہی آیا تو یہ قیامت کے دن کیا کہیں گے کہ ہمارے نبی آنحضرت سلائی ستم کی وہ شان ہے کہ آپ کی امت کی اصلاح کے لئے بنی اسرائیل کا ہی ایک نبی آیا تھا.اس بات کو سوچو اور غور کرو کہ آنحضرت سلیم کی ہتک تم کر رہے ہو یا ہم.آنحضرت سلی یا اینم کی اسی میں عزت ہے کہ آپ کی امت میں سے کسی کو نبی کا درجہ ملے نہ کہ بنی اسرائیل کا کوئی نبی آپ کی امت کی اصلاح کے لئے آئے.حضرت مسیح موعود نے اسی لئے فرمایا کہ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے یعنی ابن مریم کا تم کیوں انتظار کر رہے ہو مجھے دیکھو کہ میں احمد کا غلام ہو کر اس سے بڑھ کر ہوں.کوئی کہے کہ اس شعر میں مرزا صاحب کہتے ہیں کہ میں غلام احمد ہوں اس لئے
۶۸ آپ کا یہی نام ہوا.میں کہتا ہوں کون مسلمان ہے جو اپنے آپ کو غلام احمد نہیں کہتا.ہر ایک سچا مسلمان اور مؤمن یہی کہے گا کہ میں احمد کا غلام ہوں.اسی طرح فرمایا ہے.چنانچہ آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کرامت گرچہ بے نام ونشان است بیا بنگر ز غلمان محمد اب اس شعر سے کوئی احمق ہی یہ نتیجہ نکالے گا کہ جس شخص کا نام غلام محمد ہو وہ کر امت دکھا سکتا ہے.پس پہلے شعر میں صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ آنحضرت سانا ہیم کا ایک غلام سیح سے بہتر ہوسکتا ہے.غرض کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کے بعد کوئی نبی نہ آئے تو اس طرح آپ کی تعریف ہوتی ہے لیکن یہ عجیب تعریف ہے.مثلاً ایک مدرس کی یوں تعریف کی جائے کہ اس کے پڑھائے ہوئے لڑکے کبھی پاس نہیں ہوتے بلکہ فیل ہی ہوتے ہیں اور اگر پاس بھی ہوتے ہیں تو بہت ادنی درجہ پر.کیا یہ اس کی تعریف ہوگی اور اس سے اس کی عزت بڑھے گی.یہ تو اس پر ایک بہت بڑا حملہ ہو گا.اسی طرح مسلمان کہتے ہیں کہ بیشک آنحضرت مالی سیستم تمام انبیاء کے سردار ہیں تمام سے بلند درجہ رکھتے ہیں اور تمام سے کمالات میں بڑھے ہوئے ہیں لیکن اس کا ثبوت یہ دیتے ہیں کہ آپ کے شاگرد بھی اعلی درجہ نہیں پاتے.اور اس طرح رسول کریم الم اسلام کی سخت ہتک کرتے ہیں.لیکن باوجود اس کے ہم پر الزام دیتے ہیں کہ تم آنحضرت الای ایلام کی ہتک کرتے ہو.لیکن در حقیقت وہ آپ کی ہتک کر رہے ہیں.اور وہ جو رحمتہ للعالمین ہے اس کو عذاب للعالمین ثابت کرتے ہیں.ہمیں اس بات کا فخر ہے کہ ہم آنحضرت صلا ایلم کی سچی عزت اور تعریف کرتے ہیں.اور ہم عیسائیوں کو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم صلی یمن کی وہ عزت ہے کہ اس کا غلام بھی تمہارے نبیوں سے بڑھ کر ہے.لیکن دوسرے لوگوں کو یہ فخر حاصل نہیں ہے.بھلا بتلاؤ ایک بادشاہ کا درجہ بڑا ہوتا ہے یا شہنشاہ کا.ہر ایک جانتا ہے کہ شہنشاہ کا درجہ بڑا ہوتا ہے.تو رسول اللہ کی نسبت خیال کرو کہ ہم آپ کی یہ شان بیان کرتے ہیں کہ آپ کی غلامی میں نبی آئیں گے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ دوسرے تمام نبی
۶۹ بادشاہ کی مانند ہیں اور آنحضرت سلیم شہنشاہ.کیونکہ آپ کے فیض سے نبی بن سکتے ہیں.یہی تو آپ کی عزت ہے جو خدا تعالیٰ نے خاتم النبیین کے الفاظ میں بیان فرمائی ہے.آپ انبیاء کی مہر ہیں جس پر آپ کی مہر لگی وہی نبی ہوگا.اس مسئلہ کے متعلق خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے دلائل دیئے جا سکتے ہیں لیکن اس وقت بیان کرنے کا موقعہ نہیں مگر یہ بات خوب یاد رکھو کہ یہ ماننا کہ آنحضرت سلینا لی ہیم کے فیض سے آپ کے بعد نبی ہو سکتا ہے آپ کی ہتک نہیں بلکہ عزت ہے اور یہ آپ پر حملہ نہیں بلکہ آپ کی شان کو بلند کرنا ہے.ہاں یہ کہنا بہتک ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا یہ ایک حیرانی کی بات ہے کہ آنحضرت سلیم سے پہلے جو رسول آئے ان کے ماننے والوں نے ان کو وہ درجہ دے دیا.جو خدا تعالیٰ نے ان کو نہ دیا تھا لیکن آج ایسے بد بخت ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی یا یہ ہم کو مانتے ہیں مگر آپ کو خدا تعالیٰ نے جو درجہ دیا تھا وہ بھی چھین لینا چاہتے ہیں.مسئلہ رسالت کے متعلق میں اس وقت اسی قدر کہنا کافی سمجھتا ہوں.اور اب دوسرے امور کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں.اور وہ بھی بہت ضروری ہیں.نبوت کے مسئلہ کے متعلق تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے.اور ابھی اور بھی لکھا جائے گا.اور جب تک خدا تعالیٰ اس روک کو ہمارے رستہ سے دور نہ کر دے گا لکھا ہی جائے گا.لیکن ہمیں اس بات کا بہت افسوس ہے کہ ہم تو دشمنان اسلام پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پیچھے گھر سے ہی ڈنڈا لے کر مارنے والے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے ہم سے لڑ لو تو پھر کسی اور سے لڑنا.گو ہم مانتے ہیں کہ ان کا یہ سلوک ہمارے ہی گناہوں کا نتیجہ ہے تاہم وہ دن قریب آگئے ہیں جبکہ ہمارے راستہ میں کوئی روک نہیں ہوگی اور ہم خدا کے دین کو آسانی سے پھیلاتے جائیں گے.
تحصیل علم تیسری بات جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں.وہ علم کا حصول ہے.علم اور جہالت میں بہت بڑا فرق ہے.جس طرح ایک اندھے اور سو جا کھے میں فرق ہے.اسی طرح عالم اور جاہل میں فرق ہے.جس طرح ایک اندھا نہیں جانتا کہ میں نجاست میں ہاتھ ڈال رہا ہوں یا کسی لذیذ اور مزیدار کھانے میں.سانپ پکڑ رہا ہوں یا کوئی نہایت نرم اور ملائم چیز.اسی طرح جہالت کی وجہ سے انسان بہت بری بری حرکتیں کرتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ میں کیا کر رہا ہوں.اس لئے تباہ ہو جاتا ہے.دیکھو وہ لوگ جنہوں نے جہالت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کو نہ سمجھا وہ خدا اور انسان میں فرق نہ کر سکے.پھر کیا تم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جو خود پتھر تراشتے ہیں اور خود ہی ان کے آگے گرتے اور سجدہ کرتے ہیں.پھر ایسے بھی فرقے ہیں جو جہالت میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ عورتوں کو ننگا کر کے ان کی شرمگاہوں کی پرستش کرتے ہیں اور اس کو بہت بڑی عبادت سمجھتے ہیں.پھر ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی اپنی ماں سے زنا کرلے تو وہ سیدھا بہشت میں چلا جاتا ہے.البتہ اس میں وہ ایک شرط بتاتے ہیں کہ انسان ایسا کر کے پھر اس کو مخفی رکھے اور کسی کو اس کا پتہ نہ لگنے دے.شاید تم کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ کیا ایسے انسان بھی دنیا میں ہوتے ہیں لیکن یہ کوئی تعجب کی بات نہیں.لاہور، امرتسر اور دہلی وغیرہ شہروں میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں.پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو قبروں سے مردوں کی لاشیں نکال کر کھانا بہت ثواب کا کام سمجھتے ہیں.غرض جہالت انسان کو بہت دور پھینک دیتی ہے اور جاہل انسان نہ خدا کو پا سکتا ہے اور نہ دنیا حاصل کر سکتا ہے نہ تمدن میں بڑھ سکتا ہے نہ تجارت میں فائدہ حاصل کر سکتا ہے.پس علم کو حاصل کرنا اور جہالت سے نکلنا بہت ضروری ہے.ہماری جماعت تو خدا تعالیٰ کی پیاری جماعت ہے اور آنحضرت سائی یتیم ہی کی جماعت کے مشابہ ہے کیونکہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اس قوم کے وارث ہو -
اے جن کے اہل قوم شر اور فساد میں سب سے بڑھے ہوئے تھے.ڈاکہ، چوری، راہزنی میں مشہور عام تھے فسق و فجور میں لاثانی تھے.انسان کا قتل کر دینا ان کے لئے کوئی بات ہی نہ تھی.ماؤں سے شادی کر لیتے تھے.علم و تہذیب سے بالکل نا آشنا تھے.غرضکہ ہر ایک قسم کی خرابی اور جہالت میں گرفتار تھے لیکن ان میں سے نکل کر ان لوگوں نے ایسا پلٹا کھایا کہ یا تو جاہل تھے یا تمام دنیا کے استاد بن گئے اور ایسے استاد بنے کہ اس زمانہ کے جو عالم تھے ان سے اقرار کرایا کہ ہم جاہل ہیں.اور یا تو فسق و فجور میں مبتلا تھے یا خدا رسیدہ اور خدا نما ہو گئے.اور یہ وہ قوم تھی جو تھوڑے سے عرصہ میں بجلی کی طرح کوند کر جہاں گرتی وہاں کی سب چیزوں کو بھسم کر دیتی.اور ایسی مہذب بنی کہ تمام دنیا کے مہذبوں کو اس کے سامنے زانوئے ادب خم کرنا پڑا.پھر ان میں وہ قدرت اور روشنی پیدا ہوگئی کہ بہت دور دور کی چیزوں تک ان کی نظر پہنچتی.اور خدا تعالیٰ کی معرفت کے باریک در بار یک راز پا گئی.اور ایک ایسی قوم بن گئی کہ دنیا کی کوئی قوم اس سے مقابلہ نہ کرسکی.کیا یہ تجب کی بات نہیں کہ اونٹوں کے چرانے والا ایک شخص عظیم الشان بادشاہ بن گیا اور صرف دنیاوی بادشاہ نہیں بلکہ روحانی بھی.یہ حضرت عمرؓ تھے جو ابتدائے عمر میں اونٹ چرایا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ حج کو گئے.تو راستہ میں ایک مقام پر کھڑے ہو گئے.دھوپ بہت سخت تھی جس سے لوگوں کو بہت تکلیف ہوئی لیکن کوئی یہ کہنے کی جرأت نہ کرتا کہ آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں.آخر ایک صحابی کو جو حضرت عمرؓ کے بڑے دوست تھے اور جن سے آپ فتنہ کے متعلق پوچھا کرتے تھے لوگوں نے کہا کہ آپ ان سے پوچھیں کہ یہاں کیوں کھڑے ہیں.انہوں نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ آگے چلئے یہاں کیوں کھڑے ہو گئے ہیں.فرمایا کہ میں یہاں اس لئے کھڑا ہوا ہوں کہ ایک دفعہ میں اونٹ چرانے کی وجہ سے تھک کر اس درخت کے نیچے لیٹ گیا تھا میرا باپ آیا اور اس نے مجھے مارا کہ کیا تجھے اس لئے بھیجا تھا کہ وہاں جا کر سورہنا.تو ایک وقت میں میری یہ حالت تھی لیکن میں نے رسول کریم مالیہ و سلم کو قبول کیا تو خدا تعالیٰ نے مجھے یہ درجہ دیا کہ آج
۷۲ اگر لاکھوں آدمیوں کو کہوں تو وہ میری جگہ جان دینے کے لئے تیار ہیں.(طبقات ابن سعد جلد ۳ صفحه ۱۹۱ مطبوعہ لندن ۱۳۲۱ھ) اس واقعہ سے اور نیز اس قسم کے اور بہت سے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کس حالت میں تھے اور رسول کریم کی اتباع سے ان کی کیا حالت ہوگئی.اور انہوں نے وہ درجہ اور علم پایا جو کسی کو حاصل نہ تھا.یہ قصہ میں نے اس لئے سنایا ہے کہ دیکھو ایک اونٹ چرانے والے کو دین اور دنیا کے وہ وہ علم سکھائے گئے جو کی کو سمجھ نہیں آسکتے.ایک طرف اونٹ یا بکریاں چرانے کی حالت کو دیکھو کہ کیسی علم سے دور معلوم ہوتی ہے.اور دوسری طرف اس بات پر غور کرو کہ اب بھی جبکہ یورپ کے لوگ ملک داری کے قوانین سے نہایت واقف اور آگاہ ہیں حضرت عمرؓ کے بنائے ہوئے قانون کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ایک اونٹ کا چرواہا اور سلطنت کیا تعلق رکھتے ہیں لیکن دیکھو کہ انہوں نے وہ کچھ کیا کہ آج دنیا ان کے آگے سرجھکاتی اور ان کی سیاست دانی کی تعریف کرتی ہے.پھر دیکھو حضرت ابوبکر“ ایک معمولی تاجر تھے.لیکن اب دنیا حیران ہے کہ ان کو یہ فہم یہ عقل اور یہ فکر کہاں سے مل گیا.میں بتا تا ہوں کہ ان کو قرآن شریف سے سب کچھ ملا.انہوں نے قرآن شریف پر غور کیا اس لئے ان کو وہ کچھ آ گیا جو تمام دنیا کو نہ آتا تھا کیونکہ قرآن شریف ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جب اس کے ساتھ دل کو صیقل کیا جائے تو ایسا صاف ہو جاتا ہے کہ تمام دنیا کے علوم اس میں نظر آجاتے ہیں اور انسان پر ایک ایسا دروازہ کھل جاتا ہے کہ پھر کسی کے رو کے وہ علوم جو اس کے دل پر نازل کئے جاتے ہیں نہیں رک سکتے.پس ہر ایک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کو پڑھنے اور غور کرنے کی کوشش کرے.دیکھو دنیا کے علوم کے لئے کس قدر محنت اور روپیہ خرچ کیا جاتا ہے.آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ بچوں کی پڑھائی کے لئے کس قدر روپیہ خرچ کر کے ان کو اس محنت اور مشقت پر لگایا جاتا ہے.جب دنیا کے علم کے لئے اس قدر کوشش کی جاتی ہے.تو دین کے علم کے لئے کتنی کوشش کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے.جیسا کہ فرما یا قُلْ هَلْ
۷۳ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (الزمر: ۱۰) کہہ دے کہ کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں ان کے برابر ہو سکتے ہیں جو علم سے بے بہرہ ہیں یعنی یہ دونوں ہرگز برابر نہیں ہو سکتے.اور آنحضرت سال پیتم فرماتے ہیں کہ عالم جو عابد ہو وہ جاہل عابد سے بڑھ کر ہوتا ہے جیسا که فرما یا فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِى على اذنا كُر ( ترمذی ابواب العلم باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ) یعنی عالم ( جو عابد بھی ہو) کو عابد (جو عالم نہ ہو ) پر اسی قدر فضیلت ہے جس قدر کہ مجھے تم میں سے ادنیٰ سے ادنی انسان پر فضیلت ہے.ہماری جماعت جس نے خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے ہاتھ پر دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہے میں اس سے پوچھتا ہوں کہ کیا اسے قرآن شریف کے پڑھنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے یا نہیں.اس وقت دنیا کے علوم سیکھنے میں جو قو میں لگی ہوئی ہیں ان کو دیکھو وہ کس طرح رات دن ان علوم کے سیکھنے میں صرف کرتی ہیں بعض لوگوں کا میں نے حال پڑھا ہے کہ انہوں نے بعض زبانیں بڑی بڑی عمروں میں سیکھی ہیں چنانچہ ایک انگریز کی نسبت لکھتے ہیں کہ اس نے ستر سال کی عمر میں لاطینی زبان سیکھنے کی طرف توجہ کی اور خوب اچھی طرح سے اسے سیکھ لیا پھر آپ لوگ جو دین کی خدمت کے لئے اور قرب الہی کے حاصل کرنے کے لئے کمر بستہ ہوئے ہیں آپ کو اس قانون کے سیکھنے کی طرف کس قدر توجہ کرنی چاہئے.مگر غور تو کرو کہ تم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اتنی عمر میں قرآن شریف کے پڑھنے کی کوشش کی ہے.قرآن شریف تو وہ کتاب ہے جس میں ایسی ایسی باتیں ہیں کہ اگر ہم ان سے واقف ہو جائیں تو اس دنیا میں بھی سکھ پاسکتے ہیں اور اگلے جہان میں بھی آرام سے رہ سکتے ہیں.پس کیسا غافل ہے وہ انسان جو اپنے پاس خدا تعالیٰ کی کتاب کے ہوتے ہوئے اس کو نہ پڑھے.دنیا میں اگر کسی کے نام چھوٹی سے چھوٹی عدالت کا سمن آئے تو اس کو بڑی توجہ سے پڑھتا ہے اور جو خود نہ پڑھ سکتا ہو وہ ادھر ادھر گھبرایا ہوا پھرتا ہے کہ کوئی پڑھا ہوا ملے تو اس سے پڑھاؤں اور سنوں کہ اس میں کیا لکھا ہے.اور جب تک پڑھانہ لے اسے صبر نہیں آتا.پھر اگر کسی کا
۷۴ خط آئے تو ان پڑھ چار چار پانچ پانچ دفعہ پڑھاتے پھرتے ہیں.اور پھر بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی.لیکن تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے خط آیا ہے ( کتاب کے معنی خط کے بھی ہیں ) اس کو پڑھنے یا پڑھوا کر سنے کی طرف کسی کو توجہ نہیں ہوتی.کتنے افسوس کی بات ہے کہ قرآن شریف ایسا خط اور آنحضرت مایا تا کہ تم ایسا کیا اور خدا تعالیٰ جیسا خط بھیجنے والا لیکن دنیا اور غافل دنیا نے اس کی کچھ قدر نہ کی.ایک سات روپیہ کا پٹھی رساں اگر خط لاتا ہے تو پڑھتے پڑھاتے پھرتے ہیں لیکن خاتم الانبیاء کی لائی ہوئی کتاب کو نہیں پڑھتے.ایک پیسہ کے کارڈ کی عزت کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب کی نہیں کرتے.کیا قرآن شریف کی قدر ایک پیسہ کے کارڈ کے برابر بھی نہیں ہے پھر کیوں اس کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.بے شک تم دنیا کے کام کرو.لیکن تمہارا یہ بھی کام ہے که قرآن شریف کے سیکھنے کی کوشش کرو.قرآن شریف میں وہ حکمت اور وہ معرفت ہے کہ اگر انسان اس پر غور کرے تو حیران ہو جائے.میں تو قرآن شریف کی ایک ایک زیر اورز بر پر حیران ہو ہو جاتا ہوں.قرآن شریف میں بظاہر ایک لفظ ہوتا ہے لیکن بڑے بڑے مضامین ادا کرتا ہے.قرآن شریف کوئی ایسی کتاب نہیں ہے کہ انسان اس کی طرف سے مونہہ موڑ لے اور توجہ نہ کرے.خصوصاً ہماری جماعت کا فرض ہے کہ قرآن شریف کو سیکھے اور دوسروں کو سکھائے.اس کے سیکھنے کے بہت سے طریق ہیں.ہماری جماعت پر خدا تعالیٰ کے بڑے فضل ہیں کہ سینکڑوں آدمی ایسے ہیں جو قرآن شریف کے معنی جانتے ہیں اور دوسروں کو پڑھا سکتے ہیں.غیر احمدیوں نے تو قرآن شریف کو بالکل بھلا دیا ہے اس لئے وہ کچھ نہیں جانتے بلکہ ان کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ قرآن شریف کے معنی بلا مددتفاسیر کے کرنے کفر سمجھتے ہیں.چنانچہ ایک شخص نے مجھے ایک واقعہ سنایا ایک احمدی کچھ لوگوں کو قرآن سنا یا کرتا تھا.ایک دن خطبہ میں اس نے قرآن شریف پڑھ کر مطلب بیان کیا.تو ایک شخص کہنے لگا کہ یہ باتیں تو بڑی اچھی کرتا ہے لیکن ہے کافر.اس کا کیا حق ہے کہ قرآن شریف کے معنی کرے اسے تو چاہئے تھا کہ بیضاوی دیکھتا.تفسیر کبیر پڑھتا.یہ قرآن شریف کے معنی
۷۵ اپنے پاس سے کیوں کر رہا ہے.یہ ہے غیر احمدیوں کی حالت.یہی ہیں وہ لوگ جن کی نسبت قرآن شریف میں آیا ہے.وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : ۳۱).کہ رسول کریم صلا تم خدا تعالیٰ سے کہیں گے کہ اے میرے رب ! اس میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ دیا.ان کے عزیزوں کے خط آتے تو بڑے شوق اور محبت سے پڑھاتے تھے.لیکن قرآن جس میں تجھ تک پہنچنے کی راہیں تھیں اور تجھ سے تعلق پیدا کرنے کے طریق تھے اس کو انہوں نے نہ پڑھا باوجودیکہ پڑھانے والے ان کو پڑھاتے تھے مگر انہوں نے کوئی توجہ نہ کی اور نہ پڑھا.پس وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک قرآن شریف نہیں پڑھا اور اگر پڑھا ہے تو با معنی نہیں پڑھا وہ ہوشیار ہو جائیں اور پڑھنے کی فکر میں لگ جائیں کیونکہ بے علمی کی مرض بہت بری ہے.ایک بے علم شخص نماز پڑھتا ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں.اسی طرح ایک جاہل انسان روزہ رکھتا ہے.اور سارا دن بھوکا رہتا ہے لیکن بے علمی کی وجہ سے بعض ایسی باتیں کر بیٹھتا ہے کہ جن سے روزہ کا پورا پورا ثواب اسے حاصل نہیں ہوتا.اسی طرح ایک شخص زکوۃ دیتا ہے.مگر کئی ایسی باتیں ترک کر دیتا ہے جن کی وجہ سے وہ پورے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے.ایسے آدمیوں کو اپنے اپنے اخلاص کا ثواب تو ملے گا.لیکن کیا ان کو ایسا ہی ثواب مل سکتا ہے جیسا ایک ایسے شخص کو ملے گا جو اپنے علم کی بناء پر اپنی عبادت کو تمام شرائط کے ساتھ بجالاتا ہے ہرگز نہیں.اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک انسان علم حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ پورے ثواب کا مستحق ہو سکے.اور جب تک علم نہ ہو یہ بات حاصل نہیں ہو سکتی.میں نے دیکھا ہے ہماری جماعت کے بعض لوگ جو بڑے بڑے علماء بنتے ہیں اور پاک ممبر کہلاتے ہیں ان میں سے ایک شخص ایسی حالت میں جرابوں پر مسح کر کے نماز پڑھتا تھا جبکہ اس کی جراب ایسی پھٹی ہوئی تھی کہ اس کی ایڑیاں بالکل سنگی ہوگئی تھیں اور وہ غریب بھی نہ تھا بلکہ اس وقت ایک معقول تنخواہ پر ملازم تھا.اس کی کیا وجہ تھی یہی کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ جرابوں پر مسح کرنے کی کیا شرائط ہیں.تو دین کے متعلق علم حاصل کرنا نہایت
۷۶ ضروری ہے.ممکن ہے کہ تم میں سے بہت سے لوگ یہ کہہ دیں کہ ہمیں دین کی واقفیت ہے.غیر احمدی ہمیں مولوی کہتے ہیں اور ہم سے مسائل پوچھتے ہیں اور عالم سمجھتے ہیں.لیکن میں کہتا ہوں ان کے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کی نظروں میں تم عالم نہیں ہو.کوئی تمہیں ہزار عالم کہے اگر خدا کی نظر میں تم اس کے دین کے عالم نہیں ہوتو کچھ نہیں ہو.خوب یا درکھو کہ جب تک تم خدا تعالیٰ کے لئے علم نہ سیکھو اور اس کی نظر میں عالم نہ ٹھہر واس وقت تک ان انعامات کے مستحق نہیں ہو سکتے جو اپنے علوم حاصل کرنے والوں کو خدا تعالیٰ دیا کرتا ہے.صحابہ پڑھے ہوئے لوگ نہ تھے بلکہ بعض تو ان میں سے اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتے تھے.لیکن دین کی ان میں ایسی محبت تھی کہ رسول کریم سی سی پہ ستم سے باتیں سن کر نہایت احتیاط سے یاد کر لیتے تھے اور جو خود نہ سنتے وہ دوسروں سے پوچھ کر حفظ کر لیتے.اس بات کی کوئی پرواہ نہ کرتے کہ اپنے سے چھوٹا بات بتا رہا ہے یا بڑا.اگر کسی چھوٹے کی نسبت بھی سنتے کہ اس کو فلاں بات یاد ہے تو اس تک پہنچتے اور اس سے سن کر یاد کر لیتے.وہ جب تک رسول کریم کی بات سن نہ لیتے انہیں چین نہ آتا تھا.لیکن ان کے لئے جو مشکلات تھیں وہ ہمارے لئے نہیں ہیں.خدا تعالیٰ کی ہزار ہزار رحمتیں ہوں محدثوں پر کہ انہوں نے ہمارے لئے بہت سی مشکلوں کو آسان کر دیا ہے.حدیثیں چھپی ہوئی موجود ہیں جن کو ہر ایک شخص خرید سکتا ہے.قرآن شریف کا تو خدا تعالیٰ حافظ تھا اسے کون مٹا سکتا تھا وہ موجود ہے اور اب تو چھپنے کی وجہ سے اس کا خریدنا نہایت آسان ہو گیا ہے آٹھ آٹھ آنہ کومل سکتا ہے.کیا اب بھی یہ مہنگا ہے یا اس کے خریدنے میں کوئی مشکل در پیش ہے ہر گز نہیں.پس آپ لوگوں کو میں نصیحت کرتا ہوں اور میرا فرض ہے کہ تمہیں نصیحت کروں کیونکہ میں اگر نہ کروں تو گنہ گار ہوں گا کہ آپ لوگ قرآن شریف پڑھیں.حدیث کی کتابوں کو پڑھیں.حدیثوں کے ترجمے ہو گئے ہیں.وہ لوگ جو عربی نہیں پڑھ سکتے وہ ترجمہ دیکھ کر پڑھ لیا کریں.پھر حضرت مسیح موعود کی اردو کتابیں ہیں ان کو پڑھیں.آج ہم میں جو یہ اتنا بڑا جھگڑا پیدا ہو گیا ہے تو اس کی یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں نے حضرت صاحب کی
22 کتابوں کے پڑھنے کی طرف توجہ نہیں کی اور ان کا پڑھنا ضروری نہیں سمجھا.اور اگر پڑھا تو اس وقت پڑھا جبکہ ان کے دل میں یہ بیٹھ چکا تھا کہ اگر ہم نے غیر احمدیوں میں حضرت صاحب کا ذکر کیا تو وہ ناراض ہوجائیں گے اور چندہ نہیں دیں گے.اگر یہی لوگ پہلے پڑھتے تو کبھی گمراہ نہ ہوتے.پس حضرت مسیح موعود کی کتب کا پڑھنا بھی نہایت ضروری ہے.اگر وہ لوگ بھی حضرت صاحب کی کتابیں پڑھتے تو کبھی گمراہ نہ ہوتے.آپ لوگوں کے لئے علم پڑھنے کے کئی ذرائع ہیں.اول یہ کہ جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے ہر مہینہ میں ایک یا دو یا تین دفعہ یہاں آئیں اور قرآن شریف پڑھیں.اور یہ مت خیال کریں کہ اس طرح تو بہت عرصہ میں جا کر قرآن کریم ختم ہو سکے گا کیونکہ آنحضرت سلائی یتیم فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی نیک کام کا ارادہ کر لے اور اس کے کرنے سے پہلے مرجائے تو خدا تعالیٰ اس کا اجر اسی طرح دیتا ہے جس طرح گویا اس نے وہ کام کر ہی لیا.پس تم میں سے اگر کوئی یہ ارادہ کرلے گا.اور خدانخواستہ فوت ہو جائے گا تو اس کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا اس شخص کو ملے گا جس نے قرآن کریم بھی ختم کر لیا.تم خدا کے لئے وقت نکالو اور یہاں آکر اس کے احکام سیکھو.اگر کوئی ملازم ہیں تو چھٹی لے کر آئیں اور علم دین کو پڑھیں.اور جو ان پڑھ ہیں وہ پڑھنا سیکھیں اور اگر نہیں پڑھ سکتے یعنی حافظہ کمزور ہے تو دوسروں کی زبانی سنیں.صحابہ میں سے ایسے لوگ بھی تھے جو بہت کچھ زبانی یا در کھتے تھے.اور بلا اس کے کہ ان کو لکھنا پڑھنا آئے دین کے پورے عالم تھے اور یہ مشکل بات نہیں حافظ روشن علی صاحب نے سب علم زبانی سن کر ہی حاصل کیا ہے اور بہت بڑے عالم ہیں.انہوں نے اسی طرح علم پڑھا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول کتاب پڑھتے جاتے اور وہ سنتے جاتے.اسی طرح انہوں نے سارا علم پڑھا ہے.پس خواہ کوئی کتنی عمر کا ہو اور اس کو لکھنا پڑھنا بھی نہ آتا ہو تب بھی اگر وہ کوشش کرے تو علم دین سیکھ سکتا ہے.میں نے ان مشکلات کے دور کرنے کے لئے
۷۸ جو قرآن شریف پڑھنے والوں کو پیش آتی ہیں کچھ تدابیر کی ہیں.جو امید ہے انشاء اللہ مفید ثابت ہونگی.پہلی یہ تدبیر کی ہے کہ قرآن شریف کے پہلے پارہ کا اردو میں ترجمہ کروا کے چھپنے کے لئے بھیج دیا ہے جو انشاء اللہ کل تک تیار ہو کر آجائے گا ( آ گیا تھا ) اس ترجمہ کے ذریعہ انشاء اللہ قرآن کریم کے تیسویں حصہ کے سمجھنے کے قابل تو انشاء اللہ ہماری جماعت کے لوگ ہو جائیں گے.دوسری تدبیر میں نے یہ کی ہے کہ قرآن شریف کے متعلق ایسے سبق تیار کرائے ہیں کہ جن کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی.وہ بھی کل پرسوں تک تیار ہو جائیں گے اور جو پرسوں تک ٹھہریں گے وہ لے سکیں گے اور جو نہیں ٹھہریں گے وہ منگوا سکتے ہیں.جو لوگ ان اسباق کو پڑھنا چاہیں وہ اپنے نام اور پتے دفتر ترقی اسلام میں لکھا دیں.ان اسباق میں یہ انتظام کیا گیا ہے کہ ہر لفظ کے معنی علیحدہ علیحدہ لکھ دیئے ہیں.مثلاً بسم اللہ لکھ کر اس کی یوں تشریح کر دی ہے کہ ب کے معنی ساتھ.اسم کے معنی نام اور اللہ ایک ایسی ذات کا نام ہے جو تمام نقصوں سے پاک اور تمام خوبیوں کی جامع ہے.اسم ذات ہے.امید ہے کہ اگر کوئی ان اسباق کو چار پانچ پارے تک پڑھ لے گا.تو سارا قرآن پڑھ سکے گا.ان اسباق کو نمونے کے طور پر پہلے میں نے خود لکھا اور پھر شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو دیا.انہوں نے فی الحال سورۃ فاتحہ کے سبق لکھے ہیں.ان اسباق کے ساتھ یہ بھی تجویز کی ہے کہ پڑھنے والوں کے ہوشیار کرنے کے لئے ان کے ساتھ سوالات بھی لکھے گئے ہیں جن کا جواب لکھ کر بھیجنا ہر ایک طالب علم کا فرض ہوگا.مثلاً بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ کا سبق ختم ہونے کے بعد ایسے سوال دے دیئے گئے ہیں کہ رحمن کے کیا معنی ہیں ان کے کیا معنی ہیں.اور ان سوالوں کے جواب دینے کے لئے یہ شرط ہے کہ سبق دیکھنے کے بغیر ان کا جواب دیا جائے.جواب کے پرچے تمام طالب علموں کو یہاں بھیجنے ہوں گے اور یہاں ایک استاد ان کو درست کر دے گا.اور انہیں لکھ دے گا کہ تم نے فلاں فلاں غلطی کی ہے جو درست کر دی
۷۹ ہے.اس طرح ہماری ساری جماعت کے لوگ جہاں جہاں بھی ہوں گے وہیں قرآن شریف سیکھ لیں گے.ہمارا کام ہے کہ چیز تیار کر کے قوم کو دے دیں آگے جس کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ فائدہ اٹھائے.ہم کسی کو زبردستی نہیں سکھا سکتے اس لئے جس کا دل چاہتا ہے خدا تعالیٰ کی باتوں کو سیکھے آنحضرت ملا لیا پیام کی باتوں سے واقف ہوا اور حضرت مرزا صاحب کی باتوں سے آگاہ ہو ہم اپنی طرف سے ایسے لوگوں کے لئے آسانی بہم پہنچانے کی حتی الوسع کوشش کریں گے تے.قرآن شریف کا ایک تو وہ ترجمہ ہو گا جس میں نوٹ اور ترجمہ ہوگا لیکن یہ علیحدہ ہوگا جس میں الگ الگ الفاظ کے معنی لکھے جائیں گے.اس سے آئندہ انشاء اللہ بہت آسانیاں پیدا ہو جائیں گی.موجودہ صورت میں قرآن شریف کے با ترجمہ پڑھنے میں بہت سی مشکلات ہیں.مثلاً آن ایک لفظ ہے جس کے معنی خاص کے ہیں.یہ جس لفظ پر آئے اس کے معنوں کو خاص کر دیتا ہے یہ حرف قرآن کریم میں سینکڑوں جگہ پر آتا ہے لیکن چونکہ یہ حرف جب آتا ہے دوسرے حرف سے مل کر آتا ہے.اس لئے عربی زبان سے ناواقف انسان ہر جگہ استاد کا محتاج ہوتا ہے لیکن اگر کسی کو ان کے معنی الگ بتا دیئے جائیں تو اس ایک حرف سے اسے گویا سینکڑوں مقامات آسان ہو جائیں گے.اب یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص مثلاق در کے معنی جانتا ہے.مگر جب القادِرُ آ جائے تو وہ کوئی اور لفظ سمجھنے لگ جاتا ہے.پس جب اسے ان کے معنی معلوم ہوں گے تو جہاں بھی اور جس لفظ پر بھی یہ آئے گا.اس کے معنی وہ خود کر لے گا.اور اس طرح ایک لفظ کے معنی جاننے سے اسے سینکڑوں الفاظ آجائیں گے.دوسری تجویز یہ ہے کہ جیسا میں نے ۱۲ / اپریل ۱۹۱۴ء کے جلسہ میں بتایا تھا.خاص خاص مسائل پر چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ لکھے جائیں تا کہ عام لوگ ان کو پڑھ کر مسائل دین سے پوری طرح واقف ہو جائیں تا ایسا نہ ہو کہ بعض پاک ممبر کہلانے والوں کی طرح ان کی جرابیں ایڑیوں سے پھٹی ہوئی ہوں اور انہیں کوئی پرواہ نہ ہو.انہی پاک ممبر کہلانے والوں
۸۰ میں سے میں نے ایک کو دیکھا ہے کہ ایک ٹانگ پر بوجھ ڈالے اور دوسری کو ڈھیلا چھوڑے نماز پڑھا کرتا تھا.اور ایک دیوار سے ٹیک لگا کر پڑھتا تھا وجہ یہ کہ اس نے حضرت صاحب کو اس طرح پڑھتے دیکھا تھا.حالانکہ آپ بیمار تھے اور بعض دفعہ یک لخت آپ کو دوران سرکا دورہ ہو جاتا تھا.جس سے گرنے کا خطرہ ہوتا تھا اس لئے آپ ایسے وقت میں کبھی سہارا لے لیا کرتے تھے.ان لوگوں نے تکبر اور بڑائی کی وجہ سے باوجود حضرت مسیح موعود کی صحبت پانے کے کچھ نہ سیکھا.ان میں سے ایسے بھی تھے کہ حضرت صاحب کے سامنے بیٹھے ہوئے اپنی لات پر مکیاں مار رہے ہوتے.اور آہا ہا ہا ہا کرتے.کوئی ادب اور کوئی تہذیب ان کو نہ ہوتی.میں ان کو دیکھ کر تعجب ہی کیا کرتا تھا کہ یہ کس طرح کے لوگ ہیں.غرض وہ خالی آئے اور خالی ہی چلے گئے.لیکن تم ڈرو کہ خدا تعالیٰ کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے.وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے احکام کی قدر نہیں کرتے اور ان کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے.خدا تعالیٰ بھی ان کو نہیں چاہتا کہ اپنے قرب میں جگہ دے.پس میں نے قرآن شریف کے پڑھنے کے لئے یہ تجویزیں کی ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤ اور کچھ حاصل کرلو.غرض جماعت کو علم دین سکھانے کی دوسری تدبیر ایسے ٹریکٹوں کا شائع کرنا ہے جن میں مختلف ضروری مسائل ہوں.فی الحال ایک رسالہ مسئلہ زکوۃ پر لکھا گیا ہے جو کل چھپ جائے گا.(چھپ گیا ہے ) اس کا آپ لوگ خوب مطالعہ کریں اور ان احکام پر عمل کرنے کی طرف متوجہ ہوں.زکوۃ کے متعلق کئی قسم کی غلط باتیں مشہور ہیں.بعض کہتے ہیں کہ صرف رجب کے مہینہ میں زکوۃ دی جاسکتی ہے.بعض کچھ اور کہتے ہیں اور پھر کئی قسم کے بہانے اور ذریعے زکوۃ نہ دینے کے نکالے جاتے ہیں.حضرت خلیفہ مسیح الاول فرماتے تھے کہ ایک شخص بڑا مالدار تھاوہ جب زکوۃ دیتا تو اس طرح کرتا کہ ایک گھڑے میں روپے ڈال کر اوپر تھوڑے سے گندم کے دانے ڈال دیتا اور ایک غریب طالب علم کو بلا کر کہتا کہ میں نے یہ مال تمہیں دے دیا ہے تم اسے قبول
کرو.وہ کہتا میں نے قبول کیا.پھر وہ اسے کہتا اس بوجھ کو کہاں اٹھا کر لے جاؤ گے.اس کو میرے پاس ہی بیچ دو اور دو تین روپے لے لو.اس طرح وہ اس کو دو تین روپے دے کر سارا مال گھر میں ہی رکھ لیتا.وہ آدمی خوب سمجھتا کہ اس گڑھے میں روپے ہیں لیکن اس ڈر سے کچھ نہ کہہ سکتا کہ اگر میں نے کچھ کہا تو ان دو تین روپوؤں سے بھی جاؤں گا.تو اس قسم کے حیلے تراشے جاتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ جاہل لوگ نہیں جانتے کہ زکوۃ دینے کی کیا شرائط ہیں.آنحضرت سالی ایم نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ جو شخص کسی کو صدقہ کا مال دے وہ اس سے نہ خریدے.معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی ایام کو معلوم تھا کہ ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ لوگ رو پوؤں پر گیہوں رکھ کر دھوکا دیں گے اور خود ہی خرید لیں گے.اس لئے فرما دیا کہ کوئی صدقہ کا مال دے کر پھر نہ خریدے.اگر یہ بات انہیں معلوم ہو تو کیوں ایسا کریں.یہ زکوۃ کا رسالہ بارہ صفحات کا ہے.اس کو اگر آپ لوگ اچھی طرح پڑھ لیں اور یاد کر لیں تو کوئی مولوی ان مسائل کے متعلق آپ سے گفتگو کرنے کی جرات نہیں کر سکے گا.یہ ٹریکٹ بہت محنت اور تحقیق سے تیار کیا گیا ہے.جلسہ کے قریب میں نے علماء کی ایک کمیٹی میں بیٹھ کر اور کتب حدیث وفقہ سامنے رکھ کر اس کو تیار کروایا ہے.پڑھنے والے کو معلوم نہیں ہوسکتا کہ فیج اعوج کے زمانہ میں کسی مسئلہ کے متعلق تحقیق کرنے میں کس قدر مشکلات پیدا ہوگئی ہیں.جنہوں نے یہ کام کیا ہے وہی اس کی مشکلات کو سمجھ سکتے ہیں.کئی مسائل ایسے ہیں کہ آئمہ نے ابتداء احادیث کے مرتب نہ ہونے کی وجہ سے ان میں قیاس سے کام لیا ہے لیکن ہمارے پاس احادیث نہایت مرتب صورت میں موجود ہیں پس ہمیں ان مسائل پر از سر نو غور اور تحقیق کی ضرورت ہوئی.اسی طرح اور بہت سی مشکلات تھیں جن کو دور کر کے یہ رسالہ تیار کیا گیا ہے جو خدا کے فضل سے بہت عمدہ تیار ہوا ہے.یہ رسالہ بارہ صفحات کا ہے.اسی طرح کے اور بھی چھوٹے چھوٹے رسائل مختلف مسائل مثلاً وراثت ، طلاق ، صدقہ ، نکاح وغیرہ کے متعلق
۸۲ ہوں گے.پھر اسی طرح اعتقادات کے متعلق کہ خدا تعالیٰ کو ہم کیا سمجھیں عرش کیا ہے ، بہشت، دوزخ ، فرشتے ، تقدیر وغیرہ وغیرہ کے متعلق کیا کیا اعتقاد رکھنے چاہئیں.اس زمانہ میں جھوٹے پیروں اور جاہل علماء نے بہت سی غلط اور بیہودہ باتیں پھیلا رکھی ہیں.آج ہی صوفی غلام محمد صاحب کا خط آیا ہے.جس میں وہ اور وہاں کے دوسرے احمدی بھائی آپ سب لوگوں کو السلام علیکم لکھتے ہیں.انہوں نے اپنے اس خط میں لکھا ہے کہ ایک شخص احمدی ہوا ہے.اس نے بتایا کہ میں ایک پیر کا مرید تھا پہلے میں نماز پڑھا کرتا تھا لیکن جب اس پیر کا مرید ہوا تو اس نے کہا کہ تم یہ کیا لغوحرکت کرتے ہو.خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ( ق : ۱۷) کہ ہم رگ جان سے بھی قریب تر ہیں.پھر تم نماز کیسی اور کس کی پڑھتے ہو.تم تو ہندوؤں کے پتھر کے بتوں پر ہنستے ہو اور خود اینٹوں کی بنی ہوئی مسجد کے آگے سجدے کرتے ہو.غرض اس طرح اس نے نماز چھڑا دی.تو ایسے لوگوں نے اس قسم کی باتیں پھیلا کر دین کو بگاڑ دیا ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو بیماری میں کہا جائے کہ علاج کراؤ تو کہہ دیتے ہیں کہ جو خدا کی مرضی وہی ہو گا علاج سے کیا بنتا ہے.یہ خیالات مسئلہ تقدیر کے نہ سمجھنے کا نتیجہ ہیں.پس میرا منشاء ہے کہ ایسے مسائل پر عمدگی کے ساتھ چھوٹے چھوٹے رسائل لکھے جائیں اور زبانی بھی سمجھایا جائے.میرا دل چاہتا ہے کہ اگلے جلسہ پر یا جب خدا تعالی توفیق دے اور جس کو دے تقدیر اور تدبیر کے مسئلہ پر بحث کر کے بتایا جائے کہ ان دونوں کا آپس میں کیا تعلق ہے.کہاں تک تقدیر کو دخل ہے اور کہاں تک تدبیر کو.اس وقت وقت نہیں ورنہ میں بتا دیتا.پھر ایک مسئلہ ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت ہے اس کے متعلق میرا ایک لیکچر فیروز پور میں ہوا تھا جس کو میں ایک ٹریکٹ کی صورت میں چھپوا کر مفت شائع کر چکا ہوں جواب بھی دفتر اخبار الفضل سے مل سکتا ہے اس میں میں نے خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت میں دس دلائل دیئے ہیں.ارادہ ہے کہ اسی طرح خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق
۸۳ ٹریکٹ لکھے جائیں جن میں موٹی موٹی دلیلیں لکھی جائیں.اور بار یک باتوں میں نہ پڑا جائے.کیونکہ بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جب ان پر کوئی اعتراض کر بیٹھتا ہے تو جواب نہیں دے سکتے.ان رسائل کو پڑھ کر انشاء اللہ وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ کسی کے سوال کے جواب میں لا جواب نہ ہوں.اسی طرح نبیوں کے ثبوت میں ان کے افعال میں ان کے نشانات میں اور دعا، الہام، قیامت وغیرہ کے متعلق جو بہت ضروری باتیں ہیں ، پندرہ پندرہ یا ہیں ہیں صفحات کے رسالے لکھے جائیں.جن کو لوگ جلدی سے پڑھ لیا کریں.اور جو مہینہ میں دو تین چار بار پڑھنے سے حفظ ہو جائیں اور جب تک کوئی دوسرا ٹریکٹ نہ نکلے.پہلے کو اچھی طرح یاد کر لیا جایا کرے.پس میں نے علم کے حاصل کرنے کے لئے چار تدبیریں بتائی ہیں.اول یہ کہ ہر ماہ میں ایک یا دو دفعہ قادیان آؤ اور آ کر قرآن پڑھو.دوم پہلا پارہ ترجمہ قرآن کا خریدو اور پڑھو.سوم اسباق قرآن پڑھو.چهارم مختلف رسائل کے ٹریکٹوں کو پڑھو اور حفظ کرو.ان باتوں کے علاوہ میرا ایک اور بھی ارادہ ہے مگر وہ ابھی وقت ، آدمی اور بہت سا روپیہ چاہتا ہے.اگر میری زندگی میں خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق اسباب پیدا کر دیئے تو میں اس پر بھی ضرور عمل کراؤں گا.جو یہ ہے کہ کچھ ایسے مدرس مقرر کئے جائیں جو اچھے عالم ہوں.وہ گاؤں یہ گاؤں اور شہر بہ شہر دورہ کرتے پھریں اور ایک جگہ پندرہ بیس دن ٹھہر کر وہاں کے لوگوں کو پڑھائیں پھر دوسرے گاؤں میں چلے جائیں.اس طرح وہ ہر سال اپنے اپنے مقررہ علاقے میں دورہ کرتے رہیں ایسا کرنے سے انشاء اللہ بہت سے لوگ عالم بن جائیں گے اور دین سے واقف ہو جائیں گے یہ دین کی ناواقفیت ہی ہے کہ لاکھوں آدمی دہر یہ بن
۸۴ گئے ہیں اور لاکھوں نے دوسرے مذاہب کو اختیار کر لیا ہے.اور ایسے انسان جو سیدوں کے گھر پیدا ہوئے تھے.آج رسول کریم مالی یہ تم کو گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے ہیں اور اسلام کو ایک جھوٹا مذہب قرار دیتے ہیں.جب میں حج کرنے گیا تو میرے ساتھ جہاز میں دو تین نوجوان بیٹھے ہوئے تھے جو ولایت پڑھنے کے لئے جارہے تھے وہ اسلام کی حمایت میں بڑے زور اور جوش سے باتیں کرتے.ایک کہتا اگر یوں ہو تو یوں ہو جائے.دوسرا کہتا اگر یوں ہو تو یوں ہوسکتا ہے.میں نے ان کی کسی بات پر کہا کہ قرآن شریف میں تو یوں لکھا ہے.ایک نے مجھے ہنس کر کہا قرآن کو کون مانتا ہے میں نے کہا ادھر تو تم اسلام کی حمایت میں بڑی بڑی باتیں کر رہے تھے اور ادھر کہتے ہو کہ قرآن کو کون مانتا ہے یہ کیا ؟ اس نے کہا میں رسول اللہ کی تو عزت کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے ایک متحد قوم تیار کر دی اور دنیا کو بہت فائدہ پہنچایا لیکن میں قرآن کی کوئی عزت نہیں کرتا.میں نے کہا رسول کریم نے قرآن شریف خود تو نہیں لکھا یہ تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے.کہنے لگا یہ انہوں نے لوگوں کو منوانے کے لئے کہ دیا ہے ور نہ خدا کیا اور اس کی کتاب کیا.میں نے ان باتوں سے سمجھ لیا کہ اسے اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے.میں بہت دیر تک اسے سمجھا تا رہا لیکن خدا ہی جانتا ہے کہ اس پر کوئی اثر ہوا یا نہیں.مگر اتنا میں نے دیکھا کہ جس دن ہم نے جدا ہونا تھا اس سے ایک دن پہلے ایک ہندو دہریہ نے جو اس کے ساتھ ہی کا تھا خدا تعالیٰ کی نسبت کوئی سخت لفظ کہا تو وہ اس کے پاس آکر کہنے لگا خدا کی نسبت ایسا نہ کہو.یہ الفاظ سن کر میرا دل دھڑکتا ہے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ متاثر ضرور ہوا.غرض لوگ ناواقفی کی وجہ سے اسلام کو چھوڑ رہے ہیں.اگر ان کو واقف کر دیا جائے تو وہ سچے مسلمان بن سکتے ہیں.وہ شخص جس کو ہیرے کی قدر ہی معلوم نہ ہو وہ اسے پھینکتا ہے لیکن جسے معلوم ہو کہ یہ نہایت قیمتی چیز ہے وہ حتی الوسع کبھی اس کو ضائع نہیں ہونے دیتا.میں نے علم کے حاصل کرنے کی یہ تجاویز کی ہیں سوان کو کام میں لانے کی تم لوگ کوشش
۸۵ کرو تا اسلام کی قدر اور قیمت جاننے والے بنو.اور اس بیش بہا ہیرے کو رائیگاں نہ جانے دو.اگر تم اس کام کے لئے کوشش کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہاری ہمتوں میں برکت دے گا.اور جو کوئی اس کام میں اپنا کچھ وقت لگائے گا خدا تعالیٰ پہلے سے کم وقت میں اس کا کام کر دیا کرے گا.میرا دل چاہتا ہے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک فرد اس قابل ہو کہ ہر ایک سوال کا جھٹ جواب دے سکے اور ہر ایک بات کے متعلق فوراً دلائل سنادے.عورتوں کو علم دین سکھاؤ اسی مضمون کا ایک اور حصہ ہے اور وہ یہ کہ ہماری جماعت کے وہ لوگ جو علم کا سیکھنا تو ضروری سمجھتے ہیں.لیکن اس کو فرض کفایہ جانتے ہیں یعنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک گھر میں سے خاوند سیکھ لے تو سب کے لئے کافی ہو جاتا ہے.مثلاً ابا جان احمدی ہو گئے تو بیٹے بھی بخشے گئے خواہ وہ غیر احمدی ہی کیوں نہ ہوں.لیکن یہ غلط ہے اور بالکل غلط ہے.اگر باپ نیک ہے اور بیٹا بد.تو باپ ہی بخشا جائے گا اور بیٹا سزا پائے گا اور اگر ایک بھائی نیک ہے اور دوسرا بد تو نیک ہی جنت میں جائے گا اور دوسرا دوزخ میں.اگر خاوند نیک ہے اور بیوی بد تو خاوند ہی خدا تعالیٰ کے انعامات کا وارث ہوگا اور بیوی خدا کے غضب کی.پس تم یہ مت سمجھو کہ تمہارے پڑھ لینے سے یا علم دین سے واقف ہو جانے سے تمہارے بیوی بچے بھائی بہن وغیرہ بخشے جائیں گے بخشا وہی جائے گا جس کا دل صاف ہوگا اور دل صاف سوائے علم کے ہو نہیں سکتا.پس جس طرح تم اپنے لئے پڑھنا ضروری سمجھتے ہو اسی طرح ان کے لئے بھی پڑھنا ضروری سمجھ کر ان کو پڑھاؤ تا تمہارے گھر ایسے نہ ہوں کہ صرف تم ہی قرآن جاننے والے ہو اور باقی جاہل.بلکہ تمہاری عورتیں بھی جانتی ہوں.خدا تعالی ، ملائکہ ، سزا و جزاء، قضاء وقدر وغیرہ سب احکام سے واقف ہوں.خدا تعالیٰ نے عورتوں کو مردوں کا ایک حصہ قرار دیا
۸۶ ہے.اور جہاں مردوں کے لئے حکم آیا ہے وہاں عورتوں کو بھی ساتھ ہی رکھا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ( النساء:۲) اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ہے.اور تم میں سے ہی تمہارا جوڑا پیدا کیا ہے.پھر ان دونوں سے بہت سی جانیں نکالی ہیں جو بہت سے مرد ہیں اور بہت سی عورتیں.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس کے نام سے تم سوال کرتے ہو.اور قرابتوں کا.بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے.اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ تقویٰ کا حکم صرف مردوں کو ہی نہیں بلکہ عورتوں کو بھی ہے.پس ان کو بھی دین سے واقف کرو.آنحضرت سالی ایم کی عورتیں دین سے بڑی واقف تھیں یہی وجہ ہے کہ آنحضرت سلیم نے فرمایا کہ تم نصف دین عائشہ سے سیکھ سکتے ہو اور واقعہ میں آدھا دین حضرت عائشہ نے سکھایا ہے.لوگوں نے اس کے غلط معنے گئے ہیں کہ اس طرح ان کو حضرت ابو بکر حضرت عمر وغیرہ پر فضیلت ہوگئی ہے لیکن یہ غلط ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول اللہ نے حضرت عائشہ کی فضیلت بتائی ہے بلکہ یہ عورتوں کے متعلق جو احکام ہیں وہ ان سے سیکھو.چنانچہ جب بھی صحابہ کو عورتوں کے متعلق کسی بات میں مشکل پیش آتی تو ان سے ہی پوچھتے.حضرت عمرؓ کو ایک دفعہ یہ دقت پیش آئی کہ مرد عورت سے صحبت کرے اور انزال نہ ہو تو غسل کرنا چاہئے یا نہیں.اس کے متعلق انہوں نے لوگوں سے پوچھا لیکن تسلی نہ ہوئی فرمایا دین کے معاملہ میں کیا شرم ہے آنحضرت سلی یا پیلم کی عورتوں سے پوچھنا چاہئے.پھر انہوں نے اپنی لڑکی سے پوچھا جس نے بتایا کہ غسل کرنا فرض ہے رسول کریم اسی طرح کیا کرتے تھے.پس اگر آپ کی بیویاں آپ سے اس قسم کے احکام نہ سیکھتیں تو یہ باتیں ہم تک کس طرح پہنچتیں.حالانکہ ان میں سے بعض ایسے مسائل ہیں کہ اگر
۸۷ ان کے متعلق معلوم نہ ہوتا تو ہمارا آرام حرام ہو جا تا زندگی مشکل ہو جاتی اور جینا دوبھر معلوم ہوتا.اس آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.او مردو! کیا تم اپنے آپ کو عورتوں سے بڑا سمجھتے ہو تم دونوں کو ہم نے ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے.پھر تم کیوں ان کو اپنے سے علیحدہ سمجھتے ہو.ان کو بھی اپنی طرح کا ہی سمجھو اور جو بات اپنے لئے ضروری خیال کرتے ہو وہی ان کے لئے کرو.خدا تعالیٰ کے اس حکم کے ہوتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ مرد یہ تو کرے گا کہ عورت کو اچھے کپڑے پہنا دے عمدہ زیور بنوا دے لیکن وہ یہ خیال نہیں کرے گا کہ اس کو دین سکھانا بھی ضروری ہے.کیا لوگ اچھے کپڑے میزوں اور کرسیوں پر نہیں ڈالتے.اور کیا لوگ گھنگرو اپنے گھوڑوں کی گردنوں میں نہیں پہناتے.پس جب ان حیوانوں اور بے جان چیزوں کی آرائش کے لئے بھی وہی کچھ کیا جاتا ہے تو عورتوں اور ان میں فرق کیا رہا.درحقیقت جو شخص عورت کو صرف ظاہری زینت کا سامان دے کر سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا وہ عورت پر کوئی احسان نہیں کرتا اور نہ اس کا ہمدرد ہے بلکہ وہ خودا اپنی خوشی کا طالب ہے کیونکہ عورت کی زینت مرد کی خوشی کا باعث ہوتی ہے پس عورت کا صرف یہی حق نہیں کہ اس کے جسمانی آرام کا مرد خیال رکھے بلکہ اس سے زیادہ کی وہ حقدار ہے اس کا حق ہے کہ جس طرح انسان خود دین سے واقف ہو اسی طرح اسے بھی دین سے واقف کرے.غرض دین کی تعلیم عورتوں کو بھی ضرور دینی چاہئے کیونکہ جب تک دونوں پہلو درست نہ ہوں اس وقت تک انسان خوبصورت نہیں کہلا سکتا.کیا کانا آدمی بھی خوبصورت ہوا کرتا ہے.کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اگر کسی کی ایک آنکھ جاتی رہے تو اسے برا معلوم ہوتا ہے.لیکن بہت سے ایسے ہیں جو بیوی کی طرف سے کا نا بنے کو محسوس بھی نہیں کرتے.میں تو باوجود اس کے کہ اور بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں گھر میں ضرور پڑھاتا ہوں کیونکہ عورتوں کو پڑھانا بہت ضروری ہے.خدا تعالیٰ نے مرد و عورت کے لئے زوج کا لفظ رکھا
۸۸ ہے.بعض لوگوں نے اس کے معنی میاں یا بیوی کے کئے ہیں.اور بعض نے جوڑا کئے ہیں.لیکن عربی زبان میں زوج اس شے کو کہتے ہیں جس کے ملے بغیر ایک دوسری ھے نامکمل رہے.جو تیوں کے جوڑا میں سے ہر ایک کو زوج کہتے ہیں کیونکہ صرف ایک جوتی کام نہیں دے سکتی.پس خدا تعالیٰ نے میاں بیوی کا نام زوج رکھ کر بتایا ہے کہ بیوی کے بغیر میاں اور میاں کے بغیر بیوی کسی کام کی نہیں ہوتی.پس جب مرد و عورت کا ایسا تعلق ہے تو غور کرنا چاہئے کہ عورتوں کو دین سے واقف کرنا کس قدر ضروری ہوا.ہماری جماعت کے وہ لوگ جنہوں نے اپنی عورتوں کو دین سے واقف نہیں کیا ان کا تلخ تجربہ ہمارے سامنے موجود ہے ان کے فوت ہو جانے کے بعد ان کے بیوی بچے غیر احمدی ہو گئے.اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ان کو کچھ نہ سکھایا.خاوندوں کی وجہ سے وہ احمدی ہوگئیں جب خاوند مر گیا تو انہوں نے بھی احمدیت کو چھوڑ دیا.اگر کوئی عورت مرجائے تو خاوند اس کا جنازہ پڑھتا ہے.لیکن نہیں جانتا کہ اس حالت میں جبکہ میں نے اپنی عورت کو دین سے واقف نہیں کیا میرا جنازہ پڑھنا کیا فائدہ دے گا.مذہب اسلام کوئی ٹھٹھا نہیں بلکہ اس کی ہر ایک بات اپنے اندر حقیقت رکھتی ہے جنازہ بھی ایک حقیقت رکھتا ہے اس طرح نہیں کہ جنازہ پڑھا اور مرنے والا بخشا گیا جنازہ تو ایک دعا ہے جو نیک بندے مردہ کے لئے اس طرح کرتے ہیں کہ اے خدا! تیرا یہ انسان بہت نیکیاں کرتا رہا ہے لیکن اگر اس نے کوئی تیرا قصور بھی کیا ہے تو اسے ان نیکیوں کی وجہ سے بخش دے.لیکن وہ شخص جو زندگی میں اپنی عورت کو دین سے ناواقف رکھتا ہے وہ کس مونہہ سے کہہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اسے بخش دے.غرض بیویاں انسان کا آدھا دھڑ ہیں.آنحضرت سلیم نے فرمایا کہ جو شخص اپنی بیویوں میں انصاف نہیں کرتا قیامت کے دن اس کا آدھا دھڑ گرا ہوا ہوگا.اس سے آپ نے بتایا ہے کہ عورت درحقیقت انسان کا جزو بدن ہے.وہ شخص جو اپنی بیوی کوعلم نہیں پڑھاتا وہ بھی
۸۹ اس سے نا انصافی کرتا ہے اسے بھی اس وعید سے ڈرنا چاہئے.اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی کی بیوی بیمار ہوتو گھبراتا ہے علاج معالجہ کے لئے ادھر ادھر بھاگا پھرتا ہے دعا کے لئے ہماری طرف تاریں بھیجتا ہے لیکن اگر بیوی روحانی بیماری میں مبتلا ہو تو اسے کوئی فکر نہیں ہوتا.اگر بیوی کے سر میں درد ہو تو میری طرف لکھتے ہیں کہ دعا کی جائے.لیکن اگر نماز روزہ کی تارک ہو.تو پتہ بھی نہیں دیتے.اگر کھانسی ہو تو حکیم کے پاس دوڑے جاتے ہیں.لیکن اگر زکوۃ نہ دیتی ہو بخل کرتی ہو.تو پرواہ نہیں کرتے.بخار کھانسی اور درد کو خطرناک سمجھتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس کھانسی بخار اور درد کی ماری ہوئی بیوی تو انہیں مل جائے گی مگر دین کی ماری ہوئی نہیں ملے گی.اس دنیا کی جدائی سے گھبراتے ہیں اور ہر طرح کی کوششیں کرتے ہیں کہ جدائی نہ ہو لیکن اس ہمیشہ کی جدائی کا انہیں فکر نہیں ہے جو بے دین ہونے کی وجہ سے واقعہ ہوگی.پس اگر تمہیں اپنی عورتوں سے محبت ہے، پیار ہے، انس ہے تو جس طرح خود دین کی تعلیم سیکھتے ہو اسی طرح ان کو بھی سکھاؤ.اور یا درکھو جب تک اس طرح نہ ہو گا ہماری جماعت کا قدم اس جگہ پر نہ پہنچے گا جس جگہ صحابہ کرام کا پہنچا تھا.کیونکہ اولاد پر عورتوں کا زیادہ اثر ہوتا ہے.اگر عورتوں کے بے دین ہونے کی وجہ سے اولا د بھی بے دین رہی تو آئندہ کس طرح ترقی ہوگی.ہمارے ایک دوست لکھتے ہیں کہ میں اپنے بچوں کو احمدیت کے متعلق سمجھا تا رہتا ہوں لیکن جب باہر جاتا ہوں تو ان کی والدہ پیار سے اپنے پاس بلا کر کہ دیتی ہے کہ تمہارا باپ جو کچھ کہتا ہے سب جھوٹ ہے اس کو نہ ماننا.اس طرح بچے ویسے کے ویسے ہی ہو جاتے ہیں.اب غور کرو کہ بچے باہر رہنے والے ابا کی بات مانیں گے یا ہر وقت پاس رہنے والی ماں کی.ماں سے بچوں کو بالطبع محبت ہوتی ہے اس لئے اس کی بات کا ان پر زیادہ اثر ہوتا ہے اور اسی کی بات وہ جلدی قبول کر لیتے ہیں.چنانچہ بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے جنہوں نے عیسائی عورتوں سے شادی کی ان کی اولاد بھی عیسائی ہو گئی.جس کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ ماں اپنے بچوں کو خفیہ خفیہ عیسائیت کی تعلیم دیتی رہی.پس تم لوگ اگر اپنی اولاد کو دیندار بنانا چاہتے ہو تو ان کی ماؤں کو مضبوط کرو تا کہ تمہاری نسلیں مضبوط ہوں.کیونکہ بچپن
१.سے کان میں پڑی ہوئی بات پھر مٹ نہیں سکتی.کیا اگر دنیا میں نسلی تعصب نہ ہوتا تو اسلام بھی کا سب مذاہب کو کھا نہ جاتا ؟ ضرور کھا جاتا.مگر چونکہ دوسرے مذاہب والوں نے بچپن میں ہی ماں کی گود میں بیٹھ کر یہ سنا ہوا ہے کہ اسلام جھوٹا ہے.اس لئے باوجود ہزاروں دلیلوں کے پھر بھی نہیں مانتے.اگر تم لوگ اپنی آئندہ نسلوں میں احمدیت دیکھنا چاہتے ہو تو ان ماؤں کو پور اپورا احمدی بناؤ.اور احمدیت سے خوب واقف کرو.یاد رکھو اگر تمہاری آئندہ نسلوں میں احمدیت نہ رہی تو تمہاری اس وقت کی ساری کوشش اور محنت ضائع جائے گی.کیونکہ انسان تو پچاس ساٹھ یا زیادہ سے زیادہ سو سوا سو سال کے عرصہ تک مر جاتا ہے.اگر اس کی جگہ لینے والا کوئی اور نہ ہوا تو وہ خالی ہو جائے گی.میرے چھوٹے بھائی میاں بشیر احمد نے مجھے ایک بات سنائی کہ گورنمنٹ کالج کے ایک طالب علم کو میں نے بعض دوسرے غیر احمدی طلباء سے یہ کہتے سنا کہ ہمارے ابا جان بڑے ہی نیک انسان ہیں کئی سال ہوئے کہ وہ احمدی ہوئے ہیں لیکن ہمیں کبھی ایک دن بھی انہوں نے نہیں کہا کہ تم بھی احمدی ہو جاؤ.اس لڑکے کو اپنے باپ میں یہ نیکی نظر آئی کہ مجھے احمدی بننے کے لئے کبھی نہیں کہا گیا.لیکن کس قدر افسوس ہے اس باپ پر جس نے اس طرح کیا.کیا ایک باپ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچے کو کنویں میں گرنے دے گا.نہیں بلکہ ممکن ہے کہ بچہ کوگرنے سے بچاتے ہوئے خود بھی گر پڑے.مگر بچہ جہنم میں جاتا ہے اور باپ سامنے کھڑا دیکھ رہا ہے.پکڑتا نہیں بلکہ خوش ہوتا ہے.پس تم اپنے گھروں میں تعلیم دو تا کہ تمہاری اولاد بھی سیکھے.میرا دل چاہتا ہے کہ ہماری نسلیں ہم سے بھی زیادہ احمدیت کا جوش لے کر اٹھیں.تا خدا تعالیٰ کا یہ دین اطراف عالم میں پھیل جائے.اس لئے میں یہی نہیں کہتا کہ تم قرآن پڑھو بلکہ یہ بھی کہتا ہوں کہ اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی پڑھاؤ تا کہ جس طرح تم اس دنیا میں اکٹھے ہو اگلے جہاں میں بھی اکٹھے ہی رہو.یہ کوئی معمولی بات نہیں میں اس کو سختی سے محسوس کر رہا ہوں.اس لئے سخت تاکید کرتا ہوں کہ عورتوں کے پڑھانے کی طرف جلدی توجہ کرو.ہماری جماعت میں عورتیں کم داخل ہیں اور بچے بھی کم احمدی ہیں جس کی یہی وجہ ہے کہ وہ تعلیم دین سے ناواقف ہیں.تمہیں
۹۱ چاہئے کہ دونوں طرفوں کو مضبوط کرو.یعنی بیوی بچوں کو پڑھاؤ اور خود بھی پڑھو.اگر ایسا نہ ہوا تو یا درکھو کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ احمدیت جس کے لئے تم جان اور مال تک دینے کے لئے تیار ہو اس کو تمہاری اولا د گالیاں دے گی.غور کرو کہ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو ہمیں غیروں کو احمدی بنانے اور اس قدر کوششیں کرنے کا کیا اجر ملا جبکہ ہماری اپنی اولاد ہی اس نعمت سے محروم ہوگئی.میرے خیال میں ایک ایسا شخص جو سینکڑوں روپیہ اس لئے دیتا ہے کہ ولایت میں مبلغوں کو بھیجو جولوگوں کو احمدی بنائیں لیکن وہ خود اپنی بیوی بچوں کو تبلیغ نہیں کرتا جن پر نہ روپیہ خرچ ہوتا ہے نہ کسی مبلغ کی ضرورت پیش آتی ہے وہ بہت افسوس کے قابل ہے.کیونکہ اس کا کیا خرچ ہوتا یا اسے کیا تکلیف پیش آتی اگر وہ گھر میں بیٹھے بیٹھے کچھ سنا دیا کرتا.صحابہ کرام اسی طرح کیا کرتے تھے.یہی وجہ تھی کہ ان کی عورتیں بھی اشاعت اسلام میں بہت مدددیتی تھیں.غرض میں نے یہ تیسری بات بتائی ہے کہ ہماری جماعت کے مرد اور عورتوں کو علم دین کی بڑی ضرورت ہے.پس تم خود بھی علم سیکھو اور اپنی عورتوں کو بھی سکھاؤ.تا کہ خدا تعالیٰ کے پاک انسانوں میں داخل ہو جاؤ اور ان انعامات کے وارث بنو جو خدا تعالیٰ کے پاک بندوں کو ملا کرتے ہیں.خدا کرے ہماری جماعت کا ایک ایک فرد دین اسلام سیکھے.اور جس طرح ہم اس دنیا میں اکٹھے ہیں اسی طرح اگلے جہان میں بھی اکٹھے ہوں.اور خدا تعالیٰ کی معرفت کو پائیں تا کہ جہالت کی موت نہ مریں.آمین چونکہ وقت بہت تھوڑا ہے اس لئے ہر ایک بات کو میں بہت اختصار سے بیان کر رہا ہوں.غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا منع ہے پھر ایک اور مسئلہ ہے جس کے متعلق بہت کچھ لکھا جاچکا ہے.اس کے متعلق بھی میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سختی سے تاکید فرمائی ہے کہ کسی احمدی کو غیر احمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے.باہر سے لوگ اس کے متعلق بار بار پوچھتے ہیں.میں کہتا ہوں تم جتنی دفعہ بھی پوچھو گے اتنی دفعہ ہی میں یہی جواب دوں گا کہ غیر احمدی
۹۲ کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں.جائز نہیں.جائز نہیں.میں اس کے متعلق خود کر ہی کیا سکتا ہوں.میں بھی تو اسی کا فرمانبردار ہوں جس کے تم سب ہو.پھر میں کیا کرسکتا ہوں اور میرا کیا اختیار ہے.ہاں میرا یہ فرض ہے کہ میں آپ لوگوں کو حضرت مسیح موعود کا یہ حکم بار بار سناتا رہوں خود مانوں اور تم سے منواؤں.غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق جو لوگ پوچھتے ہیں میں ان کو کہا کرتا ہوں مجھے یہ تو بتاؤ کہ جس شخص پر گورنمنٹ ناراض ہو اس کو تم لوگ گورنمنٹ کے آگے اپنی سفارش کرانے کے لئے پیش کیا کرتے ہو یا اس کو جس پر خوش ہو اور جو اس کے سامنے مقبول ہو اس کا یہی جواب دیتے ہیں کہ جس پر گورنمنٹ خوش ہو اسی کو پیش کیا کرتے ہیں.پس اگر گورنمنٹ کے سامنے اپنا ڈیپوٹیشن (DEPUTATION) لے جانے کے لئے کسی ایسے انسان کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی نظر میں مقبول ہو.تو پھر یہ کوئی عقلمندی ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لئے ایک ایسے آدمی کو اپنے آگے کھڑا کیا جائے جو مغضوب ہو.یہ کوئی مشکل بات نہیں آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے.اس لئے ان لوگوں کو اپنا امام نہیں بنانا چاہئے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کو قبول نہیں کیا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور مغضوب ٹھہر چکے ہیں اور ہمیں اس وقت تک کسی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے جب تک کہ وہ بیعت میں داخل نہ ہو جائے اور ہم میں شامل نہ ہو.خدا تعالیٰ کے مامور ایک بڑی چیز ہوتے ہیں جو ان کو قبول نہیں کرتا وہ خدا کی نظر میں قبول نہیں ہوسکتا.اس میں شک نہیں کہ بعض غیر احمدی ایسے ہوں گے جو سچے دل سے حضرت مسیح موعود کو صادق نہیں مانتے اس لئے قبول نہیں کرتے.لیکن ہم بھی مجبور ہیں کہ ایسے لوگوں کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ خواہ کسی وجہ سے سہی وہ حق کے منکر ہیں.غیر احمدیوں کا اس بات پر چڑنا کہ ہم ان کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے ایک لغو امر ہے.وہ غیر احمدی جو یہ سمجھتا ہے کہ مرزا صاحب جھوٹے ہیں وہ ہم کو مسلمان کیونکر سمجھتا ہے اور کیوں اس
۹۳ بات کا خواہاں ہے کہ ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں.ہمارا اس کے پیچھے نماز پڑھ لینا اسے کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیر احمد یوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں.کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں یہ دین کا معاملہ ہے اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں کہ کچھ کر سکے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ غیر احمدیوں سے ہم دیگر دنیاوی اور تمدنی تعلقات منقطع کر دیں.آنحضرت ملا کہ تم نے تو عیسائیوں کو بھی اپنی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی تھی.پس جب باوجود اس قدر اختلاف کے دین میں ایک دوسرے کو مذہبی سہولتیں بہم پہنچانے کا حکم ہے تو دنیاوی تعلقات کو ترک کرنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے.دوسروں سے محبت کرو پیار کرو، ان کی مصیبت کے وقت ان کے کام آؤ، بیمار کا علاج کرو، بھوکے کو روٹی کھلاؤ، ننگے کو کپڑا پہناؤ ان باتوں کا تمہیں ضرور ثواب ملے گا لیکن دین کے معاملہ میں تم ان کو اپنا امام نہیں بنا سکتے.حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق بار بار حکم دیا ہے.پس اس بات کو خوب یا درکھو.اور سختی سے اس پر عملدرآمد کرو.غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا پھر ایک سوال غیر احمدی کے جنازہ پڑھنے کے متعلق کیا جاتا ہے.اس میں ایک یہ مشکل پیش کی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود نے بعض صورتوں میں جنازہ پڑھنے کی اجازت دی ہے.اس میں شک نہیں کہ بعض حوالے ایسے ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے.اور ایک خط بھی ملا ہے جس پر غور کیا جائے گا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عمل اس کے برخلاف ہے چنانچہ آپ کا ایک بیٹا فوت ہو گیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا تھا.جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا ہے.ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوا اور شدت مرض میں مجھے غش آ گیا جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پاس کھڑا نہایت درد سے رورہا تھا.آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ میری
۹۴ بڑی عزت کیا کرتا تھا.لیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا حالانکہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی اتنے نہ ہوں گے.محمدی بیگم کے متعلق جب جھگڑا ہوا تو اس کی بیوی اور اس کے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے.حضرت صاحب نے اس کو فرمایا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو اس نے طلاق لکھ کر حضرت صاحب کو بھیج دی کہ آپ کی جس طرح مرضی ہے اسی طرح کریں لیکن باوجود اس کے جب وہ مرا تو آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا.حدیث میں آیا ہے کہ جب ابو طالب جو آنحضرت صلی ا یہ ستم کے چاتھے فوت ہونے لگے ( بعض نے تو ان کو مسلمان لکھا ہے لیکن اصل بات یہی ہے کہ وہ مسلمان نہ تھے ) تو آنحضرت ﷺ نے کہا کہ چا ایک دفعہ لا الہ الا اللہ کہد و تا کہ میں آپ کی شفاعت خدا تعالیٰ کے حضور کرسکوں لیکن انہوں نے کہا کہ کیا کروں جو کچھ تم کہتے ہو.اس کو دل تو مانتا ہے مگر زبان پر اس لئے نہیں لاسکتا کہ لوگ کہیں گے مرنے کے وقت ڈر گیا ہے.اسی حالت میں وہ فوت ہو گئے (السيرة النبوية لابن هشام جلد ۲ صفحه ۴۱۸ مطبوعه از مؤسسه علوم القرآن بیروت) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چونکہ والد تھے اس لئے وہ چاہتے تھے کہ آنحضرت سلی لا یہ کلام سے ان کے متعلق کچھ فیض حاصل کریں.مگر ساتھ ہی ڈرتے تھے کہ یہ چونکہ مسلمان نہیں ہوئے اس لئے رسول کریم ناراض نہ ہو جائیں.اس لئے انہوں نے اپنے والد کے مرنے کی خبر رسول کریم سایا ہی تم کو ان الفاظ میں پہنچائی کہ یا رسول اللہ آپ کا گمراہ بڑھا چا مر گیا ہے.آپ نے فرمایا جاؤ اور جا کر ان کو غسل دو لیکن آپ نے ان کا جنازہ نہ پڑھا.قرآن شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو بظاہر اسلام لے آیا ہے لیکن یقینی طور پر اس کے دل کا کفر معلوم ہو گیا ہے تو اس کا جنازہ بھی جائز نہیں.پھر غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے.یہ دین کی باتیں ہیں.ان میں جھگڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی.دنیا کے معاملات میں ہم دوسروں کے ساتھ ایک ہیں لیکن دین کے معاملہ میں فرق ہے اس میں ایک نہیں ہو سکتے.اور سمجھدار آدمی اس کو خوب سمجھ سکتے ہیں.لکھنو میں ہم ایک آدمی سے ملے جو بڑا عالم ہے اس
نے کہا آپ لوگوں کے بڑے دشمن ہیں جو یہ مشہور کرتے پھرتے ہیں کہ آپ ہم لوگوں کو کافر کہتے ہیں میں یہ نہیں مان سکتا کہ آپ ایسے وسیع حوصلہ رکھنے والے ایسا کہتے ہوں.اس سے شیخ یعقوب علی صاحب باتیں کر رہے تھے.میں نے ان کو کہا آپ کہہ دیں کہ واقعہ میں ہم آپ لوگوں کو کافر کہتے ہیں یہ سنکر وہ حیران سا ہو گیا.لیکن جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ آپ جس مسیح کے آنے کے منتظر ہیں اس کے منکروں کو کیا کہتے ہیں.تو کہنے لگا بس بس میں سمجھ گیا بے شک آپ کا حق ہے کہ ہم کو کافر سمجھیں.پس تم لوگ دین کو اپنی جگہ پر رکھو اور دنیا کو اپنی جگہ پر.اور جہاں دین کا معاملہ آئے وہاں فوراً الگ ہو جاؤ.وہ لوگ جو اس بات سے چڑتے ہیں کہ ہمیں کافر کیوں کہا جاتا ہے.ان سے پوچھو کہ جب تمہارا مسیح آئے گا اور جو لوگ اسے نہیں مانیں گے ان کو کیا کہو گے.یہی نا کہ ان کی گردن اڑا دو لیکن ہم تو کسی کی گردن نہیں اڑاتے ہم تو شریعت کا فتویٰ استعمال کرتے ہیں.ایسے لوگوں کو کہو اگر تمہارے خیال میں ہم ایک جھوٹے مسیح کو مانتے ہیں تو پھر ہمارے جنازہ پڑھنے سے تمہارے مردہ کو فائدہ کیا ہوگا کیا جس صورت میں کہ ہم مسلمان ہی نہیں ہماری دعا سے آپ کا مردہ بخشا جاسکتا ہے.پس اگر ان باتوں پر کوئی غور کرے تو کوئی لڑائی جھگڑ انہیں ہوسکتا.اب ایک اور سوال رہ جاتا ہے کہ غیر احمدی تو حضرت مسیح موعود کے منکر ہوئے اس لئے ان کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے.لیکن اگر کسی غیر احمدی کا چھوٹا بچہ مرجائے.تو اس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے.وہ تو مسیح موعود " کا مکفر نہیں.میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا اور کتنے لوگ ہیں جو ان کا جنازہ پڑھتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جو ماں باپ کا مذہب ہوتا ہے شریعت وہی مذہب ان کے بچہ کا قرار دیتی ہے.پس غیر احمدی کا بچہ بھی غیر
۹۶ احمدی ہی ہوا.اس لئے اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہئے.پھر میں کہتا ہوں بچہ تو گنہگار نہیں ہوتا اس کو جنازہ کی ضرورت ہی کیا ہے.بچہ کا جنازہ تو دعا ہوتی ہے اس کے پسماندگان کے لئے اور اس کے پسماندگان ہمارے نہیں بلکہ غیر احمدی ہوتے ہیں.اس لئے بچے کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہئے.باقی رہا کوئی ایسا شخص جو حضرت صاحب کو تو سچا مانتا ہے لیکن ابھی اس نے بیعت نہیں کی یا احمدیت کے متعلق غور کر رہا ہے اور اسی حالت میں مرگیا ہے اس کو ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی سزا نہ دے.لیکن شریعت کا فتویٰ ظاہری حالات کے مطابق ہوتا ہے اس لیے ہمیں اس کے متعلق بھی یہی کرنا چاہئے کہ اس کا جنازہ نہ پڑھیں.غیر احمدیوں کو لڑکی دینا ایک اور بھی سوال ہے کہ غیر احمدیوں کو لڑکی دینا جائز ہے یا نہیں.حضرت مسیح موعود نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے جو اپنی لڑکی غیر احمدی کو دے.آپ سے ایک شخص نے بار بار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا لیکن آپ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو لیکن غیر احمد یوں میں نہ دو.آپ کی وفات کے بعد اس نے غیر احمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اول نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹا دیا اور جماعت سے خارج کر دیا.اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی.باوجود یکہ وہ بار بار تو بہ کرتا رہا.اب میں نے اس کی سچی تو بہ دیکھ کر قبول کر لی ہے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں نے کہا تھا کہ اگر آپ نے اپنے بعد عمر رضی اللہ عنہ کو جانشین مقرر کیا تو بڑا غضب ہوگا کیونکہ یہ بہت غصیلے ہیں.انہوں نے فرمایا کہ ان کا غصہ اسی وقت تک گرمی دکھاتا ہے جب تک کہ میں نرم ہوں.اور جب میں نہ رہوں گا تو یہ خود نرم ہو جائیں گے.اسی طرح میرا نفس تھا جو یہ کہتا تھا کہ اگر کوئی ذرا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کے خلاف کرے تو اسے بہت سخت سزا دی جائے لیکن اب تو کچلا گیا ہے اور
۹۷ بہت نرمی کرنی پڑتی ہے.تاہم میں اس بات سے خوش ہوں کہ دس ہی پکے احمدی ہوں لیکن اس بات سے سخت ناخوش ہوں کہ دس کروڑ ایسے احمدی ہوں جو حضرت مسیح موعود کا حکم نہ ماننے والے ہوں پس وہ لوگ جو ایسے ہیں وہ سن لیں کہ حضرت مسیح موعود نے اس بات پر بہت زور دیا ہے اس لئے اس پر ضرور عمل درآمد ہونا چاہئے.میں کسی کو جماعت سے نکالنے کا عادی نہیں لیکن اگر کوئی اس حکم کے خلاف کرے گا تو میں اس کو جماعت سے نکال دوں گا.ابھی چند ماہ ہوئے ایک شخص نے غیر احمدیوں میں اپنی لڑکی دی تھی میں نے اسے جماعت سے الگ کر دیا.بعد میں اس نے بہت توبہ کی اور معافی مانگی لیکن میں نے کہا کہ تمہارا یہ اخلاص بعد از جنگ یاد آیا ہے.اس لئے برکلہ خود بائد زد کے مطابق اپنے سر پر مارو.ہمیں دیندار لوگوں کی ضرورت ہے.میں اگر کسی کی بیعت لے بھی لوں تو کیا اس وقت تک وہ احمدی ہو سکتا ہے جب تک کہ خدا کی نظر میں احمدی نہ ہو.احمدی اصل میں وہی ہے جو خدا کی نظر میں احمدی ہے.میرے احمدی کر لینے سے کوئی احمدی نہیں بن جاتا.پس تم خدا تعالیٰ کی نظر میں احمدی بنو.اور وہ اس طرح کہ حضرت مسیح موعود کے تمام احکام کو پوری پوری طرح بجالا ؤ.خدا تعالی تمہیں توفیق دے.گورنمنٹ کی وفاداری ایک اور خاص بات ہے جس کا بیان کر دینا بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کے متعلق بھی حضرت صاحب نے بار بار تا کید فرمائی ہے.میں نے پچھلے جلسہ پر اس کے متعلق بیان کیا تھا اور وہ گورنمنٹ کی وفاداری ہے.اس گورنمنٹ کے ہم پر بڑے بڑے احسان ہیں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مونہہ سے بار ہا سنا ہے کہ اس گورنمنٹ کے ہم پر اتنے احسان ہیں کہ اگر ہم اس کی وفاداری نہ کریں اور اسے مدد نہ دیں تو ہم بڑے ہی بے وفا ہوں گے.میں بھی یہی کہتا ہوں کہ گورنمنٹ کی وفاداری ہمیں دل وجان سے کرنی چاہئے.میں
۹۸ اگر کسی سے کوئی ایسی بات سنتا ہوں جو گورنمنٹ کے خلاف ہوتی ہے تو کانپ جاتا ہوں.کیونکہ اس قسم کی کوئی بات کرنا بہت ہی نمک حرامی ہے یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ اگر یہ گورنمنٹ نہ ہوتی تو نہ معلوم ہمارے لئے کیا کیا مشکلات ہوتیں.ابھی چند دنوں کا ہی ذکر ہے کہ ہمارے مالا بار کے احمدیوں کی حالت بہت تشویش ناک ہوگئی تھی ان کے لڑکوں کو سکولوں میں آنے سے بند کر دیا گیا.ان کے مردے دفن کرنے سے روک دیئے گئے چنانچہ ایک مردہ کئی دن تک پڑا رہا.مسجدوں سے روک دیا گیا.تجارت کو بند کر دیا لیکن اس گورنمنٹ نے ایسی مدد کی ہے کہ اگر ہماری اپنی سلطنت بھی ہوتی تو بھی ہم اس سے زیادہ نہ کر سکتے.اور وہ یہ کہ گورنمنٹ نے احمدیوں کی تکلیف دیکھ کر اپنے پاس سے زمین دی ہے کہ اس میں مسجد اور قبرستان بنالو.لیکن وہاں کا راجہ اس پر بھی باز نہیں آیا اور اس نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ زمین تو میری ہے میں نہیں دیتا.اور یہ بھی لکھا کہ خبر دار اگر تم نے اس پر کوئی عمارت بنائی تو سزا پاؤ گے.اور یہ بھی کہا کہ تم لوگ حاضر ہوکر بتاؤ کہ کیوں تمہارا بائیکاٹ نہ کر دیا جائے کیونکہ علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ تم مسلمان نہیں ہو.اس پر احمدیوں نے گورنمنٹ کی خدمت میں درخواست دی تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے یہ حکم دیا کہ اگر اب احمدیوں کو کوئی تکلیف ہوئی تو مسلمانوں کے جتنے لیڈر ہیں ان سب کو نئے قانون کے ماتحت ملک بدر کر دیا جائے گا اس طرح کا حکم کسی کے مونہہ سے نہیں نکل سکتا مگر اسی کے مونہہ سے جس کے دل میں بنی نوع انسان کی ہمدردی ہو.تو یہ تازہ سلوک اس گورنمنٹ نے تمہارے مالا باری بھائیوں کے ساتھ کیا ہے.اور جو کسی کے بھائی پر احسان کرتا ہے وہ اسی پر کرتا ہے.پس جب مالا باری احمدی ہمارے بھائی ہیں تو ہمیں گورنمنٹ کا کس قدر احسان مند ہونا چاہئے.پھر ماریشس میں ہمارے ایک مبلغ گئے ہیں جو جہاں لیکچر دینا چاہتے غیر احمدی بند کر وا دیتے.آخر انہوں نے گورنمنٹ سے سرکاری ہال کے لئے درخواست کی تو وہاں کے گورنر نے حکم دیا کہ آپ ہفتہ میں تین دن اس بال میں لیکچر دے سکتے ہیں.گویا گورنمنٹ نے ہفتہ کے نصف دن ہمارے مبلغ کو دے دیئے اور نصف اپنے لئے رکھے.
۹۹ پس جو گورنمنٹ ایسی مہربان ہو اس کی جس قدر بھی فرمانبرداری کی جائے تھوڑی ہے.ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر مجھ پر خلافت کا بوجھ نہ ہوتا تو میں مؤذن بنتا.اسی طرح میں کہتا ہوں کہ اگر میں خلیفہ نہ ہوتا.تو والسیر ہوکر جنگ میں چلا جاتا.اس وقت گورنمنٹ کو آدمیوں کی بہت ضرورت ہے.اس لئے جس کسی سے کوئی خدمت ادا ہو سکے ضرور کرے.اس جنگ سے تو ہمیں بہت فائدہ پہنچا ہے.ہمارے بہت سے احمدی احباب میدان جنگ میں گئے ہوئے ہیں لیکن خدا کا فضل ہے کہ ابھی تک ایک سے بھی فوت نہیں ہوا.پھر وہ احباب جو فرانس کے میدان جنگ میں ہیں وہ تو تبلیغ کا کام بھی خوب کر رہے ہیں.انہوں نے ٹیچنگز آف اسلام کا فرانسیسی میں ترجمہ کروا کر شائع کر دیا ہے.اس کے علاوہ اور بھی کئی ٹریکٹ فرانسیسی میں لکھا کر شائع کرائے ہیں.پس اگر کوئی میدان جنگ میں جائے گا تو گویا گورنمنٹ کے خرچ پر ہمارا مفت کا مبلغ ہوگا.اس لئے اگر کوئی جانا چاہے تو ضرور جائے بہت عمدہ کام ہے.مجھ سے اب تک جتنے احمدیوں نے لڑائی پر جانے کے لئے پوچھا ہے میں نے بڑی خوشی سے انہیں اجازت دی ہے.اور کہا ہے کہ اگر تم اس نیک نیتی سے جاؤ گے کہ ہم گورنمنٹ کی خدمت کرنے کے لئے جارہے ہیں اور ساتھ ہی دین کی تبلیغ بھی کریں گے تو خدا تعالیٰ تمہارا حافظ ہوگا اور تمہیں ہر ایک تکلیف سے محفوظ رکھے گا.پس یہ گورنمنٹ کی مدد کا ایک موقعہ ہے جس کو خدا تعالی توفیق دے.شامل ہو جائے.(نوٹ) چونکہ نماز مغرب کا وقت بالکل قریب آ گیا تھا.اس لئے حضرت خلیفہ مسیح نے تقریر کو یہاں ہی ختم کر دیا اور فرمایا کہ باتیں تو بہت تھیں لیکن وقت نہیں رہا اس لئے تقریر بند کرتا ہوں.(مرتب کننده )
بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم تقریر حضرت فضل عمر خلیفة المسیح الثانی ۲۸ / دسمبر ۱۹۱۵ء بر موقع جلسه سالانه) اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَفَلَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ امَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (سورة النصر ) میں نے آپ لوگوں کے سامنے جو یہاں تشریف لائے ہیں.بعض باتیں بیان کرنے کا ارادہ کیا تھا.چنانچہ میں نے نوٹ کر لیا تھا کہ فلاں فلاں بات کہوں گا.اور میرا منشاء تھا کہ جس طرح پچھلے جلسہ پر یہ انتظام کیا گیا تھا کہ کچھ امور ایسے بیان کئے جائیں جو جماعت کی اصلاح کے متعلق ہوں اور کچھ ایسے جو روحانیت سے تعلق رکھتے ہوں.چنانچہ گزشتہ جلسہ پر میں نے بتایا تھا کہ انسان کی روحانی ترقی کے سات درجے ہیں اور یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے حصول کے کیا ذرائع ہیں.اس دفعہ بھی میرا ارادہ تھا کہ ایک دن تو دوسری ضروری باتیں بیان کروں اور دوسرے دن ذکر الہی اور عبادت الہی پر کچھ کہوں.لیکن کہتے ہیں تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ.یہ کسی نے تو اپنے رنگ میں کہا ہوگا مگر میں جو کل اپنے ارادہ کو پورا نہیں کر سکا تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی خدا تعالیٰ کا منشاء ہوگا.کیونکہ خدا تعالیٰ کے سلسلوں کے کام اس کی منشاء اور ارادہ کے ماتحت ہوتے ہیں.کل جو میں تقریر کرنے لگا تو گو بہت اختصار سے کام لیا اور بہت حصہ مضمون کا کاٹ کر بیان کیا.مگر مغرب تک پھر بھی نہ بیان کر سکا اور ایک حصہ رہ ہی گیا جو میرے خیال
1+1 میں بہت ضروری ہے اور آج وقت بھی مل گیا ہے اس لئے اسی حصہ کو بیان کرتا ہوں.وہ دوسرا حصہ جس کو میں اس وقت بیان کرنا چاہتا ہوں.اس کے متعلق میں نے ایک مختصر سی سورۃ پڑھی ہے.جو گو عبارت کے لحاظ سے بہت مختصر ہے لیکن مضامین کے لحاظ سے بہت وسیع باتیں اپنے اندر رکھتی ہے اور حکمت اور معرفت کے بڑے بڑے دریا اس کے اندر بہہ رہے ہیں.نیز اس سورۃ میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ بات بتائی ہے کہ اگر وہ اس پر غور وفکر اور عمل درآمد کرتے تو ان پر وہ ہلاکت اور تباہی کبھی نہ آتی جو آج آئی ہوئی ہے.اور نہ مسلمان پراگندہ ہوتے.نہ ان کی حکومتیں جاتیں.نہ اس قدر کشت و خون کی نوبت پہنچتی اور نہ ان میں تفرقہ پڑتا.اور اگر پڑتا تو اتنا جلدی اور اس عمدگی سے زائل ہو جا تا کہ اس کا نام ونشان بھی باقی نہ رہتا لیکن افسوس کہ ان میں وہ تفرقہ پڑا جو باوجود گھٹانے کے بڑھا اور باوجود دبانے کے اٹھا اور باوجو د مثانے کے ابھرا اور آخر اس حد تک پہنچ گیا کہ آج مسلمانوں میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں فرقے موجود ہیں.کیونکہ وہ بند جس نے مسلمانوں کو باندھا ہوا تھا کاٹا گیا.اور اس کے جوڑنے والا کوئی پیدا نہ ہوا.بلکہ دن بدن وہ زیادہ سے زیادہ ہی ٹوٹتا گیا.حتی کہ تیرہ سو سال کے دراز عرصہ میں جب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تو خدا تعالیٰ نے اپنے پاس سے ایک شخص کو اس لئے بھیجا کہ وہ آکر اس کو جوڑے.اس فرستادہ خدا سے پہلے کے تمام مولویوں، گدی نشینوں ، بزرگوں اور اولیاؤں نے بڑی بڑی کوششیں کیں مگر اکارت گئیں.اور اسلام ایک نقطہ پر نہ آیا.پر نہ آیا.اور کس طرح آسکتا تھا جبکہ اس طریق سے نہ لایا جاتا جو خدا تعالیٰ نے مقرر کیا تھا یعنی کسی مامور من اللہ کے ذریعے سے.غرض اس سورۃ میں خدا تعالیٰ نے رسول کریم سانی پیلم کو ایک آنے والے فتنہ پر آگاہ فرمایا ہے اور اس سے بچنے کا علاج بھی بتایا ہے.اس سورۃ میں آنحضرت صلی یا پیام کوتاکید کی گئی ہے کہ آپ استغفار کریں.چونکہ استغفار کے معنی عام طور پر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے ہوتے ہیں.اس
۱۰۲ لئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص جو دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے آیا تھا.گمراہ اور بے دین لوگوں کو باخدا بنانے آیا تھا.گناہوں اور بدیوں میں گرفتار شدہ انسانوں کو پاک وصاف کرنے آیا تھا.اور جس کا درجہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے قُل اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( آل عمران : ۳۲) سب لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو.اس کا یہ نتیجہ ہو گا کہ تم خدا تعالیٰ کے محبوب اور پیارے بن جاؤ گے.پھر وہ جس کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( الاحزاب : ۲۲) کہ اس رسول میں تمہارے لئے پورا پورا نمونہ ہے.اگر تم خدا کے حضور مقبول بننا چاہتے ہو.اگر تم خدا سے تعلق پیدا کرنا پسند کرتے ہو تو اس کا آسان طریق یہ ہے کہ اس رسول کے اقوال، افعال اور حرکات وسکنات کی پیروی کرو.کیا اس قسم کا انسان تھا کہ وہ بھی گناہ کرتا تھا اور اسے بھی استغفار کرنے کی ضرورت تھی.جس رسول کی یہ شان ہو کہ اس کا ہر ایک قول اور فعل خدا کو پسندیدہ ہو کس طرح ہوسکتا ہے کہ اس کی نسبت یہ کہا جائے کہ تو اپنے گناہوں کی معافی مانگ.اگر وہ بھی گناہ گار ہوسکتا ہے تو خدا تعالیٰ نے اس کی اتباع کی دوسروں کو کیوں ہدایت فرمائی ہے.ہم اس بات کو ثابت کر سکتے ہیں کہ آپ ہر ایک قسم کی بدی اور گناہ سے پاک تھے.یہی تو وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اے لوگو! اگر تمہیں مجھ سے محبت کا دعویٰ ہے اور میرے محبوب بننا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریق ہے کہ تم اس رسول کی اتباع کرو.ورنہ ممکن نہیں کہ تم میرے قرب کی کوئی راہ پا سکو.پس آنحضرت سیلی می بینم کی طرف کسی گناہ کا منسوب کرنا تعلیم قرآن کے بالکل خلاف ہے مگر کوئی کہہ سکتا ہے کہ پھر آپ کے متعلق یہ کیوں آیا ہے کہ تو استغفار کر.استغفار کر.یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ انہی الفاظ کو مد نظر رکھ کر عیسائی صاحبان بھی مسلمانوں پر ہمیشہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ تمہارا رسول گناہ گار تھا.کیونکہ قرآن
۱۰۳ اس کو حکم دیتا ہے کہ تو استغفار کر لیکن ہمارے مسیح کی نسبت قرآن میں یہ کہیں نہیں آیا.پس معلوم ہوا کہ تمہارا رسول گناہ کرتا تھا.اور بعض جگہ تو تمہارے رسول کی نسبت ذنب کا لفظ بھی آیا ہے تو معلوم ہوا کہ تمہارا رسول گناہ گار تھا اور ہمارا مسیح گناہوں سے پاک.اس سے ثابت ہو گیا کہ مسیح کا درجہ اس سے بہت بلند ہے.اس اعتراض کے جواب میں مسلمانوں کو بڑی دقت پیش آئی ہے اور گوانہوں نے جواب دینے کی بڑی کوشش کی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے اس کا جواب دینے میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے.یہی وجہ تھی کہ ہزارہا مسلمانوں کی اولا د عیسائی ہوگئی اور تو اور سیدوں کی اولادوں نے بھی بپتسمہ لینا پسند کر لیا اور وہ اب سٹیجوں پر کھڑے ہو کر آنحضرت سال یا پیلم کو گالیاں دیتے ہیں.غرض ان الفاظ کی وجہ سے نادانوں نے دھوکا کھایا.اور بجائے اس کے کہ عیسائیوں کو جواب دیتے خود عیسائی بن گئے.قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ آنحضرت صلی شام کی نسبت ان معنوں کے لحاظ سے استعمال نہیں کیا گیا جن معنوں میں عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے.آپ کے متعلق اور معنوں میں استعمال ہوا ہے اور یہ بات اس طرح معلوم ہوتی ہے کہ آنحضرت میبینم کی نسبت ذنب کا لفظ قرآن شریف میں تین جگہ آیا ہے.اول سورہ مومن میں جہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ بِالْعَشِي وَالْإِبْكَارِ (المؤمن : ۵۶ ) دوم سورہ محمد میں یوں آیا ہے فَاعْلَمُ أَنَّهُ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ، وَاللهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوبِكُمْ ( محمد :۲۰) سوم سورہ فتح میں آیا ہے إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (الفتح ۲ - ۳) اسی طرح بعض جگہ پر استغفار کا لفظ آپ کی نسبت استعمال ہوا ہے جیسا کہ اسی سورۃ میں جو میں نے ابھی پڑھی ہے.ان سب جگہوں پر اگر
۱۰۴ ہم غور کریں تو ایک ایسی عجیب بات معلوم ہوتی ہے جو سارے اعتراضوں کو حل کر دیتی ہے اور وہ یہ کہ ان سب جگہوں میں آنحضرت سانیا اینم کے دشمنوں کے ہلاک ہونے اور آپ کی فتح کا ذکر ہے.پس اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی فتح اور آپ کے دشمنوں کی مغلوبیت کے ساتھ گناہ کا کیا تعلق ہے.اور یہی بات ہے جس کے بیان کرنے کے لئے میں نے یہ سورۃ پڑھی ہے اور جس سے ہمیں اقوام کے تنزل و ترقی کے قواعد کا علم ہوتا ہے.بعض لوگوں نے ان آیات کے یہ معنی کئے ہیں کہ خدا تعالیٰ آپ کو یہ فرماتا ہے کہ اب تمہاری فتح ہوگئی اور تمہارے دشمن مغلوب ہو گئے.اس لئے تمہارے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آگیا ہے پس تو تو بہ اور استغفار کر.کیونکہ تیری موت کے دن قریب آگئے ہیں اور گو یہ استدلال درست ہے لیکن ان معنوں پر بھی وہ اعتراض قائم رہتا ہے.کہ آپ نے کوئی گناہ کئے ہی ہیں اسی لئے تو بہ کا حکم ہوتا ہے.میں نے جب ان آیات پر غور کیا تو خدا تعالیٰ نے مجھے ایک عجیب بات سمجھائی اور وہ یہ کہ جب کسی قوم کو فتح حاصل ہوتی ہے اور مفتوح قوم کے ساتھ فاتح قوم کے تعلقات قائم ہوتے ہیں تو ان میں جو بدیاں اور برائیاں ہوتی ہیں وہ فاتح قوم میں بھی آنی شروع ہو جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ فاتح قوم جن ملکوں سے گزرتی ہے ان کے عیش و عشرت کے جذبات اپنے اندر لیتی جاتی ہے.اور چونکہ عظیم الشان فتوحات کے بعد اس قدر آبادی کے ساتھ فاتح قوم کا تعلق ہوتا ہے جو فاتح سے بھی تعداد میں زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس کوفوراً تعلیم دینا اور اپنی سطح پر لانا مشکل ہوتا ہے اور جب فاتح قوم کے افراد مفتوح قوم میں ملتے ہیں تو بجائے اس کو نفع پہنچانے کے خود اس کے بداثرات سے متاثر ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ رفتہ رفتہ نہایت خطرناک ہوتا ہے.جب اسلام کی فتوحات کا زمانہ آیا تو اسلام کے لئے بھی یہی مشکل در پیش تھی گو اسلام ایک نبی کے ماتحت ترقی کر رہا تھا لیکن نبی با وجود نبی ہونے کے پھر انسان ہی ہوتا ہے اور انسان کے تمام کام خواہ کسی حد تک وسیع ہوں محدود ہی ہوتے ہیں.ایک استاد خواہ
۱۰۵ کتنا ہی لائق ہو اور ایک وقت میں تیس چالیس نہیں بلکہ سوسو اسولڑ کوں تک کو بھی پڑھا سکتا ہو لیکن اگر اس کے پاس ہزار دو ہزارلٹر کے لے آئیں تو نہیں پڑھا سکے گا.رسول بھی استاد ہی ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں آنحضرت صلی عالی امن کی نسبت آیا ہے يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أيتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكّيهم (البقره: ۱۳۰) کہ اس رسول کا یہ کام ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی آیتیں لوگوں کو سنائے.کتاب کی تعلیم دے اور ان کو پاک کرے.غرض نبی ایک استاد ہوتا ہے اس کا کام تعلیم دینا ہوتا ہے.اس لئے وہ تھوڑے لوگوں کو ہی دے سکتا ہے کیونکہ لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو سبق دینا اور پھر یاد بھی کروا دینا کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا.پس جب کسی کے سامنے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کی جماعت سبق لینے کے لئے کھڑی ہو تو ضرور ہوگا کہ اس کی تعلیم میں نقص رہ جائے اور پوری طرح علم نہ حاصل کر سکے یا یہ ہوگا کہ بعض تو پڑھ جائیں گے اور بعض کی تعلیم ناقص رہ جائے گی اور بعض بالکل جاہل کے جاہل ہی رہ جائیں گے اور کچھ تعلیم نہ حاصل کر سکیں گے.پس آنحضرت صلی یا سلیم کو جب فتوحات پر فتوحات ہونی شروع ہو ئیں اور بے شمار لوگ آپ کے پاس آنے لگے تو ان کے دل میں جو بڑا ہی پاک دل تھا یہ گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ ان تھوڑے سے لوگوں کو تو میں اچھی طرح تعلیم دے لیتا قرآن سکھا سکتا تھا چنا نچہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت سال پیام بڑی پابندی سے صحابہ کو قرآن سکھاتے تھے ) لیکن یہ جو لاکھوں انسان اسلام میں داخل ہورہے ہیں ان کو میں کس طرح تعلیم دوں گا.اور مجھ میں جو بوجہ بشریت کے یہ کمزوری ہے کہ اتنے کثیر لوگوں کو تعلیم نہیں دے سکتا اس کا کیا علاج ہوگا.اس کا جواب سورۃ نصر میں خدا تعالیٰ نے یہ دیا کہ اس میں شک نہیں کہ جب فتح ہوگی اور نئے نئے لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوں گے تو ان میں بہت سی کمزوریاں ہوں گی.اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ سب کے سب تجھ سے تعلیم نہیں پاسکتے مگر ان کو تعلیم دلانے کا یہ علاج ہے کہ تو خدا
1+7 سے دعا مانگے کہ اے خدا! مجھ میں بشریت کے لحاظ سے یہ کمزوری ہے کہ اتنے لوگوں کو تعلیم نہیں دے سکتا تو میری اس کمزوری کو ڈھانپ دے اور وہ اس طرح کہ ان سب لوگوں کو خود ہی تعلیم دے دے اور خود ہی ان کو پاک کردے.پس یہی وہ بات ہے جس کے متعلق آنحضرت سال یہ تم کو استغفار کرنے کا ارشاد ہوا ہے.ذنب کے معنی ایک زائد چیز کے ہیں اور غفر ڈھانکنے کو کہتے ہیں.اس سے خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی ہے یہ لن کو یہ بات سکھائی ہے کہ تم یہ کہو کہ میں اس قدر لوگوں کو کچھ نہیں سکھا سکتا پس آپ ہی ان کو سکھائیے اور میری اس انسانی کمزوری کو ڈھانپ دیجئے.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتدائی زمانہ میں ایک ایک سے اپنے ہاتھ پر ہاتھ رکھا کر بیعت لیتے تھے پھر ترقی ہوئی تو لوگ ایک دوسرے کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کرنے لگے.پھر حضرت خلیفہ امسیح الاول کے زمانہ میں تو پگڑیاں پھیلا کر بیعت ہوتی تھی اور اب بھی اسی طرح ہوتی ہے.تو ایک آدمی ہر طرف نہیں پہنچ سکتا.آنحضرت صلی ایم کے زمانہ میں کوئی مسلمان یمن میں تھا کوئی شام میں کوئی عراق میں تھا کوئی بحرین میں اور کوئی مسجد میں تھا.اس لئے نہ آنحضرت صلی یا اس تم ہر ایک کے پاس پہنچ سکتے تھے اور نہ وہ آپ تک آسکتے تھے.جب حالت یہ تھی تو ضرور تھا کہ آپ کی تعلیم میں نقص رہ جاتا لیکن آپ کا دل کبھی یہ برداشت نہ کر سکتا تھا.اس لئے آپ کو حکم ہوا کہ خدا سے دعا کرو کہ اے خدا! اب یہ کام میرے بس کا نہیں اس لئے تو ہی اسے پورا کر.کیونکہ شاگرد بہت ہیں اور میں اکیلا مدرس ہوں مجھ سے ان کی تعلیم کا پورا ہونا مشکل ہے.آج کل تو سکولوں میں یہ قاعدہ ہو گیا ہے کہ ایک استاد کے پاس چالیس یا پچاس سے زیادہ لڑ کے نہ ہوں اور اس سے زیادہ لڑکوں کو جماعت میں داخل نہ کیا جائے.اور اگر کیا جائے تو ایک اور استاد رکھا جائے.کیونکہ افسران تعلیم جانتے ہیں کہ اگر ایک جماعت میں بہت زیادہ لڑکے ہوں.اور ایک اکیلا استاد پڑھانے والا ہو تو لڑکوں کی تعلیم ناقص رہ جاتی ہے.چنانچہ جن سکولوں میں
۱۰۷ بہت سے لڑکے ہوتے ہیں اور ایک استاد وہاں کے لڑکوں کی تعلیمی حالت بہت کمزور ہوتی ہے.کیونکہ زیادہ لڑکوں کی وجہ سے استاد ہر ایک کی طرف پوری پوری توجہ نہیں کر سکتا.تو چونکہ کے وقت لاکھوں انسان مسلمان ہو کر اسلام میں داخل ہوتے تھے.اس لئے آنحضرت سلی یا اسلام کو یہ خطرہ دامن گیر ہوا کہ مسلمان تعلیم میں ناقص نہ رہ جائیں.خدا تعالیٰ نے آپ کو اس کے متعلق یہ گر بتا دیا کہ خدا کے آگے گر جاؤ.اور اسی کو کہو کہ آپ ہی اس کام کو سنبھال لے.میری طاقت سے تو اس کا سنبھالنا باہر ہے.پس آنحضرت سال یا اسلام کے متعلق استغفار کا لفظ اسی لئے استعمال کیا گیا ہے کہ آپ کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جائے کہ اسلام میں کثرت سے داخل ہونے والے لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لئے آپ خدا تعالیٰ سے دعا کریں اور التجا کریں.کہ اب لوگوں کے کثرت سے آنے سے جو بدنتائج نکلیں گے ان سے آپ ہی بچائیے اور ان کو خود ہی دور کر دیجئے اور آپ کا لاکھوں انسانوں کو ایک ہی وقت میں پوری تعلیم نہ دے سکنا کوئی گناہ نہیں بلکہ بشریت کا تقاضا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی نسبت ذنب کا لفظ تو استعمال ہوا ہے.لیکن جناح کا لفظ کبھی استعمال نہیں ہوا.گناہ اسے کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت اور قوت کے باوجود اس کے حکم کی فرمانبرداری نہ کی جائے.اور وہ بات جس کی خدا تعالیٰ کی طرف سے طاقت ہی نہ دی جائے اس کا نہ کر سکنا گناہ نہیں ہوتا بلکہ وہ بشری کمزوری کہلاتی ہے.مثلاً ایک شخص بیمار ہو جاتا ہے تو یہ اس کا گناہ نہیں بلکہ ایک کمزوری ہے جو بشریت کی وجہ سے اسے لاحق ہے.تو رسول کریم ملی ایام کا یہ گناہ نہ تھا کہ آپ اس قدر زیادہ لوگوں کو پڑھا نہ سکتے تھے بلکہ خدا تعالیٰ نے ہی آپ کو ایسا بنا یا تھا.اور آپ کے ساتھ یہ ایسی بات لگی ہوئی تھی.جو آپ کی طاقت سے بالا تھی.اس لئے آپ کو بتایا گیا کہ آپ خدا تعالیٰ کے حضور کثرت طلباء کی وجہ سے جو نقص تعلیم میں ہونا تھا اس کے دور کرنے کے لئے دعا کریں.پس ان تمام آیات سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں رسول کریم صلی یا پی ایم کے گناہ کا اظہار نہیں
I+A ہے بلکہ ایک بشری کمزوری کے بدنتائج سے بچنے کی آپ گوراہ بتائی گئی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ آپ کے وقت کثرت سے لوگ ایمان لے آئے مگر ابتلاؤں اور فتنوں کے وقت ان کا ایمان خراب نہ ہوا.اور وہ اس نعمت سے محروم نہ ہوئے.چنانچہ آنحضرت کے زمانہ میں جو لوگ ایمان لائے تھے آپ کے بعد گوان میں سے بھی کچھ مرتد ہو گئے.مگر جھٹ پٹ ہی واپس آگئے اور ان فتنہ وفسادوں میں شامل نہ ہوئے جو اسلام کو تباہ کرنے کے لئے شریروں اور مفسدوں نے بر پاکئے تھے.چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جو بہت بڑا فساد ہوا اس میں عراق، مصر، کوفہ اور بصرہ کے لوگ تو شامل ہو گئے جو آنحضرت سلیم کی وفات کے بعد ایمان لائے تھے لیکن یمن، حجاز اور نجد کے لوگ شامل نہ ہوئے.یہ وہ ملک تھے جو آنحضرت ملا لیا پی ایم کے وقت میں فتح ہوئے تھے.جانتے ہو اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ خفیہ منصوبے جو مسلمانوں کی تباہی کا موجب ہوئے ان میں وہ ممالک تو شامل ہو گئے جو آپ کی وفات کے بعد فتح ہوئے.مگر وہ ملک شامل نہ ہوئے جو آپ کے زمانہ میں فتح ہوئے تھے.اس کی یہی وجہ ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان ملکوں کے لوگوں کی جو آپ کے زمانہ میں اسلام لائے تھے برائیاں اور بدیاں دور کر دی تھیں.لوگ تو کہتے ہیں کہ امیر معاویہ کا زور اور طاقت تھی کہ شام کے لوگ اس فتنہ میں شامل نہ ہوئے.لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ بھی آنحضرت سیل یا پیام ہی کی کرامت تھی کہ وہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف نہیں اٹھے تھے.کیونکہ گو یہ ملک آپ کے زمانہ میں فتح نہ ہوا.لیکن آپ نے اس پر بھی چڑھائی کی تھی.جس کا ذکر قرآن شریف کی سورہ تو بہ میں ان تین صحابہ کا ذکر کرتے ہوئے جو اس سفر میں شامل نہ ہوئے تھے آیا ہے.پس شام کا اس فتنہ میں شامل نہ ہونا امیر معاویہ کی دانائی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس لئے تھا کہ وہاں اسلام کا پیچ رسول کریم صلی یہ نام کے وقت میں بویا گیا.اور اس سرزمین میں آپ نے اپنا قدم مبارک ڈالا
1+9 تھا.پس خدا تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں میں اس ملک کو بھی شامل کر لیا اتنے بڑے فتنہ میں اس قدر صحابہ میں سے صرف تین صحابہ کے شامل ہونے کا پتہ لگتا ہے اور ان کی نسبت بھی ثابت ہے کہ صرف غلط فہمیوں کی وجہ سے شامل ہو گئے تھے اور بعد میں تو بہ کر لی تھی.تو یہ رسول کریم ایم کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی اور نبی کو حاصل نہیں ہوئی.اس لئے جہاں آپ کی فتح کا ذکر آیا ہے وہاں ساتھ ہی استغفار کا بھی حکم آیا ہے.جو آپ کو اس طرف متوجہ کرنے کے لئے تھا کہ دیکھنا ہم آپ کو بہت بڑی فتح اور عزت دینی چاہتے ہیں اور بے شمار لوگوں کو آپ کے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں.پس یاد رکھو کہ جب تمہارے بہت سے شاگرد ہو جا ئیں تو تم خدا کے حضور گر جانا اور کہنا کہ الہی اب کام انسانی طاقت سے بڑھتا جاتا ہے آپ خود ہی ان نو واردوں کی اصلاح کر دیجئے.ہم آپ کی دعا قبول کریں گے اور ان کی اصلاح کر دی جائے گی اور ان کی کمزوریوں اور بدیوں کو دور کر کے ان کو پاک کر دیا جائے گا.لیکن ان سب باتوں کو ملانے سے جہاں ایک طرف یہ اعتراض مٹ جاتا ہے کہ آپ کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے وہاں دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت ایک قوم ترقی کرتی اور کثرت سے پھیلتی ہے وہی زمانہ اس کے تنزل اور انحطاط کا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ما پیام کوخدا تعالیٰ نے فتح کے ساتھ ہی استغفار کا ارشادفرمایا ہے.کیونکہ کسی قوم کے بڑھنے اور ترقی کرنے کا جو وقت ہوتا ہے وہی وقت اس کے تنزل کے اسباب کو بھی پیدا کرتا ہے.اور جب کوئی قوم بڑھ جاتی ہے اسی وقت اس میں فساد اور فتنے بھی شروع ہو جاتے ہیں.جس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ قوم میں ایسے لوگ آجاتے ہیں جو نبی کی خدمت اور صحبت میں نہیں رہے ہوتے اچھی طرح بد آلائشوں سے پاک وصاف نہیں ہوتے.اور جنہیں وہ مشکلات پیش نہیں آئی ہوتیں.جو خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے بندوں کو پاک کرنے کے لئے مقرر فرمائی ہوئی ہیں اس لئے وہ فتنہ و فساد پیدا کرتے ہیں اور قوم کو تباہی کے گھاٹ اتارنا
11.چاہتے ہیں.آپ لوگ اس مضمون کو غور سے سنیں اس کا کچھ حصہ علمی اور تاریخی ہے اس لئے ممکن ہے کہ بعض کو مشکل معلوم ہو.لیکن یہ وہ بات ہے.اور میں کامل یقین سے کہتا ہوں.یہ وہ بات ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تو بیان فرمائی ہے لیکن آج تک کسی نے اسے قرآن شریف سے سیکھ کر بیان نہیں کیا.مجھے خدا تعالیٰ نے سکھائی ہے اور اس بات کا موقع دیا ہے کہ آپ لوگوں کوسناؤں.پس جو شخص اسے سنے گا اور پھر اس پر عمل کرے گا وہ کامیاب اور بامراد ہو جائے گا.اور جو نہیں سنے گا اور عمل نہیں کرے گا وہ یادر کھے کہ ایسے ایسے فتنے آنے والے ہیں کہ جن کے ساتھ یہ فتنہ جو اس وقت برپا ہوا ہے کچھ مقابلہ ہی نہیں کر سکتا.کیا یہ فتنہ تم کو یاد نہیں ہے اور تم نے نہیں دیکھا کہ اس کے بانیوں نے کس قدر زور سے کیا مگر انہیں کیا حاصل ہوا کچھ بھی نہیں.آج یہ نظارہ دیکھ لو اور لاہور جا کر بھی دیکھ لو.باوجود اس کے کہ بیعت کے وقت وہ زیادہ تھے اور ہم تھوڑے لیکن خدا تعالیٰ نے ظاہر کر دیا ہے کہ ان کی کچھ بھی پیش نہیں گئی پس یہ وہ فتنہ نہیں ہے جو جماعتوں کی تباہی اور ہلاکت کا موجب ہوا کرتا ہے.وہ وہ فتنہ ہوتا ہے جو سمندر کی لہروں کی طرح آتا ہے اور خس و خاشاک کی طرح قوموں کو بہا کر لے جاتا ہے.پس اس فتنہ سے خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے بغیر کوئی بچ نہیں سکتا.ہم سے پہلے بہت سی جماعتوں نے اس کے تلخ تجربے کئے ہیں.پس مبارک ہے وہ جو ان کے تجربوں سے فائدہ اٹھائے اور افسوس ہے اس پر جس نے پہلوں کے تجربہ سے فائدہ نہ اٹھایا اور چاہا کہ خود تجربہ کرے.دیکھو سنکھیا ایک زہر ہے اور اس کو ہر ایک زہر جانتا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ بہت سے لوگوں نے جب اس کو کھایا تو مر گئے.اس کے متعلق اب کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں اسے اس وقت تک زہر نہیں کہوں گا جب تک کہ خود تجربہ کر کے نہ دیکھ لوں.لیکن کیسا افسوس ہوگا اس شخص پر جو خود تجربہ سنکھیا کھائے کیونکہ اس کا انجام سوائے اس کے کچھ نہیں ہوگا کہ
مرے.تم لوگ بھی اس بات کا تجربہ کرنے کا خیال دل میں نہ لاؤ جس کا تجربہ تم سے پہلے لوگ کر چکے ہیں کیونکہ ان تجربات کا نتیجہ ایسا خطرناک تھا کہ اگر جوان سنے تو بوڑھا ہو جائے اور اگر سیدھی کمر والا سنے تو اس کی کمر ٹیڑھی ہو جائے.اور اگر کالے بالوں والا سنے تو اس کے بال سفید ہو جائیں وہ بہت تلخ اور کڑوے تجربے تھے اور از حد دل ہلا دینے والے واقعات تھے وہ نہایت پاک روحوں کے شریروں اور بد باطنوں کے ہاتھ سے قتل کے نظارے تھے.وہ ایسے درد انگیز حالات تھے کہ جن کو سن کر مؤمن کا دل کانپ جاتا ہے.اور وہ ایسے روح فرسا منظر تھے کہ جن کو آنکھوں کے سامنے لانے سے کلیجہ پھٹنے لگتا ہے.انہی کی سزا میں مسلمانوں میں اس قدر فتنہ اور فساد پڑا کہ جس نے انہیں تباہ کر دیا.حضرت عثمان کو جو آدمی قتل کرنے آئے تھے ان کو آپ نے فرمایا کہ اگر تم میرے قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یا د رکھنا کہ مسلمان جو اس وقت اس طرح پیوستہ ہیں جیسے دو کنگھیوں کے دندانے ہوتے ہیں بالکل جدا ہو جائیں گے اور ایسے جدا ہوں گے کہ قیامت تک انہیں کوئی نہ اکٹھا کر سکے گا.حضرت عبداللہ بن سلام نے بھی اس فتنہ کے بانیوں سے بیان کیا کہ میں نے بنی اسرائیل کی بعض کتب میں دیکھا ہے کہ ایک نبی ہوگا اس کے بعد اس کے خلفاء ہوں گے اس کے خلیفہ ثالث کے خلاف لوگ فساد کریں گے اگر وہ اس کے مارنے پر کامیاب ہو گئے تو اس کی سزا ان کو یہ دی جائے گی کہ وہ ہمیشہ کے لئے پراگندہ کر دیئے جائیں گے اور پھر کوئی تدبیر ان کو جمع نہ کر سکے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.یہ فتنہ اتنا پھیلا اتنا پھیلا کہ سوائے مسیح موعود علیہ السلام کے کوئی اس کو روک نہ سکا.اور مسلمان جو ٹوٹ چکے تھے انہیں کوئی نہ جوڑ سکا.پس تم لوگ یاد رکھو کہ آنے والا فتنہ بہت خطرناک ہے اس سے بچنے کے لئے بہت بہت تیاری کرو.پہلوں سے یہ غلطیاں ہوئیں کہ انہوں نے ایسے لوگوں کے متعلق حسن ظنی سے کام لیا جو بدظنیاں پھیلانے والے تھے.حالانکہ اسلام اس کی حمایت کرتا ہے جس کی نسبت بدظنی
١١٢ پھیلائی جاتی ہے.اور اس کو جھوٹا قرار دیتا ہے جو بدظنی پھیلاتا ہے.اور جب تک کہ با قاعدہ تحقیقات پر کسی شخص پر کوئی الزام ثابت نہ ہو اس کا پھیلانے والا اور لوگوں کو سنانے والا اسلام کے نزدیک نہایت خبیث اور متفنی ہے.پس تم لوگ تیار ہو جاؤ تا کہ تم بھی اس قسم کی کسی غلطی کا شکار نہ ہو جاؤ کیونکہ اب تمہاری فتوحات کا زمانہ آرہا ہے اور یاد رکھو کہ فتوحات کے زمانہ میں ہی تمام فسادات کا بیج بویا جاتا ہے.جو اپنی فتح کے وقت اپنی شکست کی نسبت نہیں سوچتا اور اقبال کے وقت ادبار کا خیال نہیں کرتا اور ترقی کے وقت تنزل کے اسباب کو نہیں مٹاتا اس کی ہلاکت یقینی اور اس کی تباہی لازمی ہے.نبیوں کی جماعتیں بھی اس فساد سے خالی نہیں ہوتیں اور وہ بھی جب ترقی کرتی ہیں اور ایسے لوگ ان میں داخل ہوتے ہیں جنہوں نے نبی کی صحبت نہیں پائی ہوتی اور ان کا ایمان اتنا مضبوط نہیں ہوتا جتنا ان لوگوں کا ہوتا ہے جو بنی کی صحبت میں رہے ہوتے ہیں اور جن کی تربیت بوجہ اس کے کہ وہ جماعت در جماعت آکر داخل ہوئے ہوتے ہیں نامکمل ہوتی ہے تو ان میں بھی فساد شروع ہو جاتا ہے جو آخر کار ان کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کر کے ان کے اتحاد کو توڑ دیتا ہے یا ان کی جڑ کو ایسا کھوکھلا کر دیتا ہے کہ آئندہ ان کی روحانی طاقتیں ضائع ہو جاتی ہیں.ہماری جماعت کی ترقی کا زمانہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت قریب آ گیا ہے اور وہ دن دور نہیں جبکہ افواج در افواج لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں گے.مختلف ملکوں.جماعتوں کی جماعتیں داخل ہوں گی اور وہ زمانہ آتا ہے کہ گاؤں کے گاؤں اور شہر کے شہر احمدی ہوں گے.اور ابھی سے مختلف اطراف سے خوشخبری کی ہوائیں چل رہی ہیں.اور جس طرح خدا کی یہ سنت ہے کہ بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے تا کہ غافل لوگ آگاہ ہو جائیں اور اپنے مال و اسباب کو سنبھال لیں.اسی طرح خدا تعالیٰ نے ہماری ترقی کی ہوائیں چلا دی ہیں پس ہوشیار ہو جاؤ.آپ لوگوں میں سے خدا کے فضل سے بہت سے ایسے
۱۱۳ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پائی ہے آپ کے مونہہ سے باتیں سنی ہیں آپ سے ہم کلامی کا شرف حاصل کیا ہے.ان کا فرض ہے کہ وہ آنے والوں کے لئے ہدایت اور راہنمائی کا باعث ہوں.کیونکہ کوئی ایک شخص بہتوں کو نہیں سکھا سکتا.دیکھو اسی جلسہ پر خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنے لوگ آئے ہیں کہ ان سب تک مشکل سے میری آواز پہنچ سکتی ہے مگر جب لاکھوں اور کروڑوں انسان آئے تو انہیں کون ایک شخص سنا سکے گا.لیکن بتلاؤ اگر ایک ہی سنانے والا ہو ا تو یہ کیسا دردناک نظارہ ہوگا کہ کچھ لوگ تو سن رہے ہوں گے اور کچھ لوگ پکوڑے کھا رہے ہوں گے.وہ سنیں گے کیا اور یہاں سے لے کر جائیں گے کیا.وہ اس اطاعت سے واقف نہ ہوں گے جو انبیاء لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں.وہ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ ایک دفعہ رسول کریم ملی یہ پہلی تقریر فرما ر ہے تھے آپ نے لوگوں کو فرمایا کہ بیٹھ جاؤ.عبداللہ بن مسعودؓ ایک گلی میں چلے آرہے تھے آپ کی آواز انہوں نے وہاں ہی سنی اور وہیں بیٹھ گئے.کسی نے پوچھا آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں وہاں رسول کریم مالی اسلم کی تقریر ہورہی ہے وہاں کیوں نہیں جاتے.انہوں نے کہا میرے کان میں رسول کریم صلی سیستم کی آواز آئی ہے کہ بیٹھ جاؤ پس میں یہیں بیٹھ گیا.(ابو داؤد کتاب الصلوة باب الامام يكلم الرجل في خطبته ) پھر ان کے سامنے یہ نظارہ نہ ہو گا کہ آنحضرت سال یا پریتم کی مجلس میں تین شخص آئے ایک کو آگے جگہ مل گئی وہ وہاں جا کر بیٹھ گیا دوسرے کو آگے جگہ نہ ملی وہ جہاں کھڑا تھا وہیں بیٹھ گیا.تیسرے نے خیال کیا کہ یہاں آواز تو آتی نہیں پھر ٹھہرنے سے کیا فائدہ وہ واپس چلا گیا.آنحضرت صلی یہ تم نے فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک نے تمہاری مجلس میں قرب حاصل کرنے کے لئے کوشش کی اور محنت کی اور آگے ہو کر بیٹھ گیا خدا تعالیٰ نے بھی اسے قریب کیا.ایک اور آیا اس نے کہا اب مجلس میں آ گیا ہوں اگر اچھی جگہ نہیں ملی تو نہ سہی
۱۱۴ وہیں بیٹھ گیا اور اس نے واپس جانا مناسب نہ سمجھا خدا نے بھی اس سے چشم پوشی کی.ایک اور آیا اسے جگہ نہ ملی اور وہ واپس پھر گیا خدا تعالیٰ نے بھی اس سے مونہہ پھیر لیا ( بخاری کتاب العلم باب من قعد حيث ينتهى به المجلس ومن رأى فرجة في الحلقة مجلس منها ) اس قسم کی باتیں نبیوں کی ہی صحبت میں رہ کر حاصل ہو سکتی ہیں.لیکن انہوں نے اس قسم کے نظارے نہ دیکھے ہوں گے پھر انہوں نے وہ محبت کی گھڑیاں نہ دیکھی ہوں گی جو آپ نے دیکھی ہیں.انہوں نے اطاعت اور فرمانبرداری کے وہ مزے نہ اٹھائے ہوں گے جو آپ نے اٹھائے ہیں.انہیں حضرت مسیح موعود سے وہ پیار نہ ہو گا جو آپ لوگوں کو ہے.انہوں نے وہ نشانات نہ دیکھے ہوں گے جو آپ لوگوں نے حضرت مسیح موعود کے ساتھ رہ کر دیکھے ہیں.انہیں حضرت مسیح موعود کا وہ پیار اور محبت سے دیکھنا اور باتیں کرنا نصیب نہ ہوگا جو آپ لوگوں کو ہوا ہے.ان کے دلوں میں اطاعت اور فرمانبرداری کا وہ جوش نہ ہو گا جو آپ لوگوں کے دلوں میں ہے.سوائے ان لوگوں کے جن کے سینے خدا تعالیٰ خاص طور پر خود کھول دے.اس میں شک نہیں کہ صحابہ کرام کے بعد بھی ایسے لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے پہلوں کی طرح ایمان اور یقین حاصل کر لیا تھا اور ان جیسی ہی صفات بھی پیدا کر لی تھیں.مثلاً امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل، امام ابو حنیفہ، شیخ عبدالقادر جیلانی ، شہاب الدین سہروردی معین الدین چشتی و غیر ہم.ان لوگوں نے محنتیں اور کوششیں کی اس لئے ان کے دل پاک ہو گئے.مگر جس کثرت سے صحابہ میں ایسے لوگ تھے اس کثرت سے بعد میں نہ ہو سکے.بلکہ بعد میں کثرت ان لوگوں کی تھی جن میں بہت نقص موجود تھے اور قلت ان کی تھی صحابہؓ جیسی صفات رکھتے تھے.لیکن صحابہ کے وقت کثرت کامل ایمان والوں کی تھی.ہماری جماعت میں اس وقت خدا کے فضل سے کثرت ان لوگوں کی ہے جو حضرت مسیح موعود کی صحبت میں رہے اور قلت ان کی ہے جو بعد میں آئے لیکن یہ کثرت ایسی ہے جو دن
۱۱۵ بدن کم ہوتی جارہی ہے.میرا مطلب اس تقریر سے یہ نہیں کہ نبی کے بعد اعلیٰ درجہ کے لوگ ہوتے ہی نہیں نہیں اعلیٰ درجہ کے لوگ ہوتے ہیں اور ضرور ہوتے ہیں جیسا کہ ابھی میں نے بعض آدمیوں کے نام لئے ہیں جنہوں نے صحابہؓ کے بعد بڑا درجہ حاصل کیا.اپنی جماعت کے متعلق بھی آج ہی ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ بعد میں آنے والے وہ درجہ پاسکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود کی صحبت پانے والوں نے پایا.تو میں نے اسے جواب دیا کہ ہاں وہ درجہ پاسکتے ہیں.پس اس تقریر کا یہ مطلب نہیں کہ بعد میں آنے والے لوگوں کو مایوس کروں بلکہ میرا مطلب تمہیں اور ان کو ہوشیار کرنا ہے.تمہیں اس لئے کہ تائم آنے والوں کی تعلیم کا فکر کرو اور انہیں اس لئے تاوہ جان لیں کہ ان کے راستہ میں بہت سی مشکلات ہیں وہ ان پر غالب آنے کی تذبیر کریں.ورنہ یہ عقیدہ کہ نبی کی جماعت کے بعد کوئی ان کے درجہ کو پاہی نہیں سکتا ایک غلط اور باطل عقیدہ ہے جو جھوٹی محبت سے پیدا ہوا ہے.صحابہ کے بعد بڑے بڑے مخدوم بڑے بڑے بزرگ اور بڑے بڑے اولیاء اللہ گزرے ہیں.جن کی نسبت ہم ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ وہ سب کے سب ہر ایک اس شخص سے روحانیت میں ادنی تھے جس نے رسول کریم ملا لیا ایم کی صحبت خواہ ایک دن ہی پائی ہو.اصل بات یہ ہے کہ وہ جو صحابہ میں اعلیٰ درجہ رکھتا ہے وہ ان بعد میں آنے والوں سے اعلیٰ ہے.لیکن وہ جو ان میں ادنی ہے اس سے بعد میں آنے والوں کا اعلیٰ طبقہ اعلیٰ ہے.ہاں سب صحابہ کو یہ ایک جزوی فضیلت حاصل ہے کہ انہوں نے آنحضرت سال اسلام کا چہرہ مبارک دیکھا جس کے لئے اب اگر کوئی ساری دنیا کی سلطنت بھی دینے کو تیار ہو جائے تو حاصل نہیں کر سکتا.یہی بات حضرت مسیح موعود کے صحابہ کے متعلق ہے.غرض وہ وقت آتا ہے کہ ایسے لوگ اس سلسلہ میں شامل ہوں گے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت نہ پائی ہوگی.اور اس کثرت سے ہوں گے کہ ان کو ایک آدمی تقریر نہیں سنا سکے گا اس لئے اس وقت بہت سے مدرسوں کی ضرورت ہوگی.اور پھر اس بات کی
117 بھی ضرورت ہوگی کہ ایک شخص لاہور میں ایک امرتسر میں بیٹھا سنائے.اور لوگوں کو دین سے واقف کرے.اور احکام شرع پر چلائے تا کہ تمام جماعت صحیح عقائد پر قائم رہے اور تفرقہ سے بچے.کل میں نے آپ لوگوں کو یہ بتایا تھا کہ علم ایک بہت اچھی چیز ہے اس کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرو لیکن آج بتاتا ہوں کہ علم بغیر خشیت اور تقویٰ کے ایک لعنت ہے.اور ایسا علم بہت دفعہ حجاب اکبر ثابت ہوا ہے.دیکھو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ایک عالم آدمی ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر وہ ایمان نہ لائے.بلکہ انہوں نے کہہ دیا کہ میں نے ہی مرزا کو بڑھایا تھا اور میں ہی گھٹاؤں گا.گویا انہوں نے اپنے علم کے گھمنڈ پر سمجھا کہ کسی کو میں ہی بڑھا سکتا ہوں اور میں ہی گھٹا سکتا ہوں.رسول کریم ماینیا ایام کے زمانے سے پہلے ایک شخص شرک کے خلاف تعلیم دیا کرتا تھا.جب رسول کریم ساینا یہ نام مبعوث ہوئے تو کسی شخص نے اسے اسلام کی تلقین کی.اس نے جواب دیا کہ شرک کے مٹانے میں جو محنت اور کوشش میں نے کی ہے وہ اور کسی نے نہیں کی پس اگر کوئی شخص دنیا میں نبی ہوتا تو وہ میں ہوتا یہ شخص نبی کیونکر بن گیا.گرو.وہ شخص گو توحید کا علم رکھتا تھا لیکن بوجہ خشیت نہ ہونے کے اسلام لانے سے محروم ہو گیا.پس میں آپ لوگوں کو یہی نہیں کہتا کہ علم سیکھو بلکہ یہ بھی کہتا ہوں کہ تقویٰ اور خشیت اللہ را کرو.کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو علم ایک عذاب ہے نہ کہ کوئی مفید چیز تم قرآن شریف پڑھو اور خوب پڑھو کیونکہ بے علم انسان نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کیا کیا حکم دیئے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جو قرآن شریف جانتے ہیں مگر خود گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے پھرتے ہیں اور اس طرح کے ہو گئے ہیں جس طرح کہ یہود کے عالم تھے جن کا ذکر قرآن شریف میں آتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ قرآن شریف وہی ہے جو رسول اللہ کے زمانہ میں تھا.مگر جانتے ہوئے نہیں جانتے.وہ مولوی اور مفتی کہلاتے ہیں مگر ان کے اعمال میں اسلام کا کوئی اثر نہیں پایا جاتا.قرآن شریف کے معنوں کی ایسی ایسی تو جیہیں نکالتے اور ایسی پیدا
۱۱۷ ایسی شرارتیں کرتے ہیں کہ ان کے دل بھی انہیں شرمندہ کرتے ہیں.عالم کہلاتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے.اس لئے گو انہوں نے علم پڑھا مگر ان کا علم ان کے کسی کام نہ آیا اور وہ گمراہ کے گمراہ ہی رہے.پس خشیت اللہ کی بہت ضرورت ہے.اس کے پیدا کرنے کے طریق نبیوں کے زمانہ میں بہت سے ہوتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ وہ انسان کو سانچے میں ڈھال دیتے ہیں اور خود نمونہ بن کر لوگوں کو سکھلاتے ہیں.یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ ہر ایک کام جس طرح کسی استاد کے بتانے اور تجربہ کر کے دکھانے سے آتا ہے اس طرح خود بخود کتابوں میں سے پڑھ لینے سے نہیں آیا کرتا مثلاً اگر کوئی شخص ڈاکٹری کی کتابیں پڑھ لے لیکن اسے تجربہ نہ ہو تو وہ لوگوں کا علاج کرنے کی بجائے ان کو مارے گا.کیونکہ علاج وہی کر سکتا ہے جس کو تجربہ بھی ہو اور جسے اس نے کسی استاد سے سیکھا ہو.مگر جس نے کسی استاد کو دیکھا ہی نہ ہو اس کے علاج سے بہت مرتے اور کم جیتے ہیں اور جو جیتے ہیں وہ بھی اس لئے نہیں کہ اس کی دوائی اور علاج سے بلکہ اپنی طاقت اور قوت سے.پس خشیت اللہ نبی کی صحبت سے جس طرح حاصل ہوتی ہے اس طرح کسی اور طریق سے نہیں حاصل ہو سکتی.پس تم میں سے تو بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود کی صحبت سے اس کو سیکھا ہے.اس لئے تم اس زمانہ کے لئے ہوشیار ہو جاؤ جبکہ فتوحات پر فتوحات ہوں گی عنقریب ایک زمانہ آتا ہے جبکہ تمہارے نام کے ساتھ لوگ رضی اللہ عنہ لگا ئیں گے.آج اگر تمہاری قدر نہیں تو نہ سہی لیکن ایک وقت آتا ہے جبکہ اس شخص کی پگڑی ، کرتہ اور جوتی تک کو لوگ متبرک سمجھیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ رہا ہے.بیشک حضرت مسیح موعود کو ہی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے لیکن یا درکھو صادقوں کے ساتھ رہنے والوں کے کپڑوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود نے الوصیت میں لکھا ہے
۱۱۸ کہ ”ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا.جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں.اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے.پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا.اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.“ الوصیت صفحہ ۸.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶) پس وہ وقت جلد آنے والا ہے اس میں شک نہیں کہ آج تم لوگوں کی نظروں میں جاہل ہو.پر وہ دن جلدی ہی آنے والے ہیں جبکہ دنیا کہے گی کہ تمہارے زمانہ میں تم سے زیادہ مہذب کوئی نہیں گذرا تم نے خدا تعالیٰ کا حکم مانا ہے اس کے رسول کا حکم مانا ہے اور اس کے مسیح کو قبول کیا ہے.پس تم ہی دنیا میں ایک برگزیدہ قوم ہو.تمہارے کپڑوں سے لوگ برکت ڈھونڈیں گے اور تمہارے ناموں کی عزت کریں گے کیونکہ تمہارے نام عزت کے ساتھ آسمان پر لکھے گئے ہیں.پس کون ہے جو انہیں دنیا سے مٹا سکے.لیکن یہ بات بھی یادرکھو کہ جس طرح تم پر اس قدر انعام ہوئے ہیں اسی طرح تمہارے فرض بھی بہت بڑھ گئے ہیں.بے شک بعد میں آنے والے تحریریں پڑھ سکتے ہیں حضرت مسیح موعود کی کتابوں کو پڑھ سکتے ہیں مگر اس طرح وہ اعمال نہیں سیکھ سکتے.اور نہ دوسرے لوگ انہیں سکھا سکتے ہیں جس طرح تم نے سیکھے ہیں.مگر وہی سکھا سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود کی صحبت میں پاک دل ہوئے.صرف علم نہ پہلوں کے کام آیا اور نہ پچھلوں کے کام آسکتا ہے.مگر تمہیں خود علم کی ضرورت ہے قرآن شریف عربی زبان میں ہے اس لئے جب تک عربی نہ آتی ہو اس کے پڑھنے میں لذت نہیں آسکتی اور نہ اس کے احکام سے انسان واقف ہو سکتا ہے.پس تم عربی سیکھو تا کہ قرآن شریف کو سمجھ سکو.ابھی میر حامد شاہ صاحب نے ایک نظم پڑھی ہے.عجیب بات ہے کہ اس میں
119 انہوں نے ایک شعر ایسا بھی کہا ہے کہ اسی کے مضمون کے متعلق میں اس وقت تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تم بار بار قادیان آؤ اور آکر قرآن سیکھو تا بعد میں آنے والوں کو سکھا سکو.اگر تم اس کے لئے تیار نہ ہوئے تو یاد رکھو کہ ایک عرصہ تک تو بے شک تمہیں عزت حاصل ہوگی لیکن ایسا زمانہ آئے گا جبکہ تم خاک میں ملائے جاؤ گے.اور تم سے آنے والے لوگ جن میں خشیت اللہ نہ ہوگی وہی سلوک کریں گے جو صحابہ کے ساتھ ان لوگوں نے کیا جو بعد میں آئے تھے کہ انہیں قتل کرا کر ان کی لاشوں پر تھوکا اور دفن نہ ہونے دیا.دیکھو میں آدمی ہوں اور جو میرے بعد ہو گا وہ بھی آدمی ہی ہو گا جس کے زمانہ میں فتوحات ہوں گی وہ اکیلا سب کو نہیں سکھا سکے گا.تم ہی لوگ ان کے معلم بنو گے.پس اس وقت تم خود سیکھوتا ان کو سکھا سکو.خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ دنیا کے لئے پروفیسر بنا دیئے جاؤ.اس لئے تمہارے لئے ضروری ہے اور بہت ضروری ہے کہ تم خود پڑھو تا آنے والوں کے لئے استاد بن سکو.اگر تم نے خود نہ پڑھا تو ان کو کیا پڑھاؤ گے.ایک نادان اور جاہل استاد کسی شاگرد کو کیا پڑھا سکتا ہے.کہتے ہیں ایک استاد تھا اس نے چند خطوط پڑھے ہوئے تھے جو کوئی خط لا کر دیتا اسے انہیں خطوں میں سے کوئی ایک سنادیتا.ایک دن ایک شخص خط لا یا اس وقت اس کے پاس اپنے پہلے خط موجود نہ تھے اس لئے نہ پڑھ سکا.اور کہنے لگا کہ میں طاق والے خط پڑھ سکتا ہوں.پس تم بھی اس خط کے پڑھنے والے کی طرح نہ بنو.آپ لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر اخلاص اور خشیت پیدا کرو اور علم دین سیکھو اور اپنے دلوں کو مینقل کرو تا کہ جو لوگ تم میں آئیں ان کو تعلیم دے سکو اور ان میں خشیت اللہ پیدا کر سکو.صحابہ کے وقت جوفتنہ ہوا تھا وہ اسی بات کا نتیجہ تھا کہ وہ لوگ مدینہ میں نہ آتے تھے.اور انہوں نے قرآن شریف نہ پڑھا اور نہ سمجھا تھا.اس لئے ان میں خشیت اللہ.پیدا نہ ہوئی.جس کا انجام یہ ہوا کہ انہوں نے صحابہ کو قتل کر کے اپنے پاؤں تلے روندا ان کی لاشوں
۱۲۰ کی بے عزتی کی.اور انہیں مکانوں میں بند کر دیا.اگر وہ مدینہ آتے اور اہل مدینہ سے تعلق رکھتے.تو کبھی یہ فتنہ نہ ہوتا.اور اگر ہوتا تو ایسی خطرناک صورت نہ اختیار کرتا.اس فتنہ میں سارے مدینہ سے صرف تین آدمی ایسے نکلے.جن کو مفسد اور شریر لوگ اپنے ساتھ ملا سکے.اور ان کو بھی دھوکا اور فریب سے.وہ ایک عمار بن یاسر تھے.دوسرے محمد بن ابی بکر اور تیسرے ایک انصاری تھے.چونکہ تم لوگ بھی صحابہ کے مشابہ ہو اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تاریخ سے بیان کروں کہ کس طرح مسلمان تباہ ہوئے.اور کون سے اسباب ان کی ہلاکت کا باعث بنے پس تم ہوشیار ہو جاؤ اور جو لوگ تم میں نئے آئمیں ان کے لئے تعلیم کا بندوبست کرو.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت جو فتنہ اٹھا تھا.وہ صحابہ سے نہیں اٹھا تھا.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ صحابہ نے اٹھا یا تھا ان کو دھوکا لگا ہے.اس میں شک نہیں کہ حضرت علی کے مقابلہ میں بہت سے صحابہ تھے اور معاویہ کے مقابلہ میں بھی لیکن میں کہتا ہوں کہ اس فتنہ کے بانی صحابہ نہیں تھے بلکہ وہی لوگ تھے جو بعد میں آئے اور جنہیں آنحضرت سلی شما پیلم کی صحبت نصیب نہ ہوئی اور آپ کے پاس نہ بیٹھے.پس میں آپ لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں اور فتنہ سے بچنے کا یہ طریق بتاتا ہوں کہ کثرت سے قادیان آؤ.اور بار بار آؤ تا کہ تمہارے ایمان تازہ رہیں.اور تمہاری خشیت اللہ بڑھتی رہے.حضرت خلیفہ امسیح الاول فرماتے تھے میں زمانہ طالب علمی میں ایک شخص کے پاس ملنے کے لئے جایا کرتا تھا.کچھ عرصہ نہ گیا پھر جو گیا تو کہنے لگے کیا تم کبھی قصائی کی دکان پر نہیں گئے میں نے کہا قصائی کی دکان تو میرے راستہ میں پڑتی ہے ہر روز میں اس کے سامنے سے گذرتا ہوں.انہوں نے کہا کیا تم نے کبھی قصائی کو نہیں دیکھا کہ وہ کچھ دیر گوشت کاٹ کر ایک چھری کو دوسری چھری پر پھیر لیتا ہے وہ ایسا اس لئے کرتا ہے کہ تا دونوں چھریاں تیز ہو جائیں.اسی طرح جب ایک نیک آدمی دوسرے نیک آدمی سے ملتا ہے تو ان پر جو کوئی بداثر ہوتا ہے وہ دور ہو جاتا ہے.پس تم لوگ بھی کثرت سے یہاں آؤ تا کہ نیک انسانوں سے ملو.اور
۱۲۱ صاف وشفاف ہو جاؤ.خدا تعالیٰ نے قادیان کو مرکز بنایا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے جو برکات اور فیوض یہاں نازل ہوتے ہیں اور کسی جگہ نہیں ہیں.پھر جس کثرت سے حضرت مسیح موعود کے صحابہ یہاں موجود ہیں اور کسی جگہ نہیں ہیں.اس لئے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ملنے سے انسان کا دل جس طرح صیقل ہوتا ہے اور جس طرح اسے تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے.اس طرح کسی جگہ کے لوگوں کے ساتھ ملنے سے نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جولوگ قادیان نہیں آتے مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہی رہتا ہے.اب ہی دیکھ لو ان لوگوں کو چھوڑ کر جو بھی یہاں متکبرانہ آتے اور اسی نشہ میں چلے جاتے تھے باہر کے ایسے ہی لوگ غیر مبائعین ہیں جو یہاں نہیں آتے تھے.پس اسی وجہ سے ان کے دل زنگ آلود ہوتے گئے.جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ مردہ دل ہو گئے.انہوں نے اپنے دل میں ایمان کا پودا تو لگایا تھا مگر اسے پانی نہ دیا.اس لئے وہ سوکھ گیا.انہوں نے اپنے دل میں خشیت اللہ کا بیج تو بویا تھا مگر اس کی آبپاشی نہ کی.اس لئے وہ خشک ہو گیا.تم ان لوگوں کے نمونہ سے عبرت پکڑو اور بار بار یہاں آؤ.تا کہ حضرت مسیح موعود کی صحبت یافتہ جماعت کے پاس بیٹھو.حضرت مسیح موعود کے نشانات کو دیکھو اور اپنے دلوں کو صیقل کرو.میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگوں نے اس وقت تک کچھ نہیں سیکھا یا کچھ نہیں حاصل کیا آپ نے بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ حاصل کیا ہے مگر اس کو قائم اور تازہ رکھنے کے لئے یہاں آؤ اور بار بار آؤ.بہت لوگ ایسے ہیں جو صرف جلسہ پر آتے ہیں اور پھر نہیں آتے.میں کہتا ہوں انہیں اس طرح آنے سے کیا فائدہ ہوا.یہ فائدہ تو ہوا کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود " کا حکم مانا اور اس حکم کی قدر کی.مگر ایسے موقعہ پر انہیں کچھ سکھانے اور پڑھانے کا کہاں موقعہ مل سکتا ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جلسہ پر آتے اور پھر چلے جاتے ہیں ان کی بعض حرکات خلاف شرع ہوتی ہیں.لیکن ایسے وقت میں نہ کچھ بتایا جاسکتا ہے اور نہ بتانے کا کوئی موقعہ ملتا ہے.اور پھر وہ جو یہاں نہیں آتے ان کے لئے بار بار دعا بھی نہیں ہوسکتی اور کس طرح ہو.میں تو
۱۲۲ دیکھتا ہوں.ماں بھی اپنے اس بچہ کو جو ہر وقت اس سے دور رہے بھول جاتی ہے اور جونز دیک رہے اسے یاد رکھتی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی ان لوگوں کو بھلا دیتا ہے جو اس کو یاد نہیں رکھتے.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کافروں کو کہتا ہے کہ تم میرے ملنے سے ناامید ہو گئے پس میں نے بھی تم کو ترک کر دیا.تو وہ شخص جو بار بار مجھے ملتا اور اپنے آپ کو شناخت کراتا ہے وہ اپنے لئے دعا کے لئے بھی یاد دلاتا ہے.بے شک میں تمام جماعت کے لئے ہمیشہ دعا کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا.اور مجھے اپنی دعاؤں کے نیک نتائج نکلنے کی امید ہے.ناامیدی میری فطرت میں ہی نہیں ہے کیونکہ میری طبیعت خدا تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے جو نا امیدی کے الفاظ کو سنا بھی گوارا نہیں کرتی.مجھے اس شخص پر بہت غصہ آتا ہے جو خدا تعالیٰ کی نسبت کسی ناامیدی کا اظہار کرے اس وقت میرے تمام بدن کو آگ لگ جاتی ہے.نیز میں یہ بات بھی کبھی نہیں سن سکتا کہ فلاں بات ہو نہیں سکتی.مجھے ایسے لوگوں سے ہمیشہ نفرت رہی ہے اور ہے جو اس قسم کے ہوتے ہیں.خیر یہ ایک ضمنی بات تھی جو میں نے بیان کر دی ہے.ہاں آپ لوگوں کو میں نے بتایا ہے کہ خدا سے دور رہنے والے لوگوں کا خدا سے قرب نہیں ہوتا.اسی طرح اس کے بندوں سے دور رہنے والا بھی ان کا مقرب نہیں بن سکتا.وہ دعائیں جو میں کرتا ہوں مجملی ہوتی ہیں.اس لئے ان کا اثر اجمالی طور پر سب کو ہوگا مگر فرداً فرداً اسی کے لئے دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے جو بار بار سامنے نظر آئے.پس اس بات کو مد نظر رکھ کر بھی یہاں آؤ.پھر قادیان میں نہ صرف قرآن شریف علمی طور پر حاصل ہوتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی ملتا ہے.یہاں خدا کے فضل سے پڑھانے والے ایسے موجود ہیں جو پڑھنے والے کے دل میں داخل کر دیں.اور یہ بات کسی اور جگہ حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ تفقہ فی الدین اور چیز ہے اور علم اور چیز.رسول اللہ سال عالم نے حضرت عباس کے لئے یہی دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ تمہیں دین کے باریک رازوں سے واقف کرے تفقہ فی الدین حاصل ہو.پس ہر ایک وہ
۱۲۳ شخص جو قرآن شریف پڑھ سکتا ہے وہ عالم ہو سکتا ہے مگر فقیہہ نہیں ہوسکتا.جب تک کہ قرآن کریم کے باریک رازوں سے بھی واقف نہ ہو.ایسے انسان خدا کے فضل سے یہاں موجود ہیں ان سے آپ یہ بات حاصل کریں.اور وہ اس طرح کہ بار بار یہاں آئیں کیونکہ وہ وقت عنقریب آنے والا ہے جبکہ آپ دنیا کے پڑھانے والے بنیں گے.پس جلدی تعلیم حاصل کرو تا کہ دوسروں کو پڑھا سکو.خدا تعالیٰ کا جن مرکزوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے ان کے رہنے والوں کے ساتھ بھی وہ اپنے خاص فضل کا سلوک کرتا ہے تو یہاں نہ صرف یہ کہ خود بہت سے لوگ خدا کے فضل سے تفقہ فی الدین رکھتے ہیں.بلکہ ہر ایک بات میں دوسروں کو بھی تسلی اور تشفی کر سکتے ہیں خدا کے فضل سے پھر یہاں کی ایک ایک اینٹ ایک ایک مکان حضرت مسیح موعود کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ یہ وہ شہر ہے جس کا نام بھی کوئی نہ جانتا تھا مگر اس میں پیدا ہونے والے ایک شخص نے کہا کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ تمہیں تمام جہان میں مشہور کر دوں گا.اور یہاں دور دور سے لوگ آئیں گے.چنانچہ وہ مشہور ہو گیا اور دور دراز ملکوں سے لوگ آئے جو آپ کی صداقت کا ایک کھلا کھلا ثبوت ہے.ایک دفعہ ایک انگریز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو امریکہ سے ملنے کے لئے آیا.اس نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ نبی ہیں.آپ نے فرمایا ہاں میں نبی ہوں.اس نے کہا اگر آپ نبی ہیں تو کوئی نشان دکھلائیے.آپ نے فرمایا آپ ہی میرے نشان ہیں.اس نے کہا میں کس طرح ہوں.فرمایا ایک وقت تھا کہ یہاں مجھے کوئی نہ جانتا تھا اور میں ایک گمنامی کی حالت میں رہتا تھا.لیکن آج آپ مجھے امریکہ سے ملنے کے لئے آئے ہیں.کیا یہ میری صداقت کا نشان نہیں ہے.غرض آپ میں سے ایک ایک شخص اور اس مسجد اور دوسرے مکانوں کی ایک ایک اینٹ آنے والوں کے لئے نشان ہے کیونکہ اگر حضرت صاحب کے ذریعہ یہاں لوگ جمع نہ ہوتے.تو کون یہ مسجد میں اور یہ سکول اور یہ بورڈنگ بناتا.حضرت مسیح موعود نے ایسے وقت میں اس کی خبر دی تھی جب کہ کسی کے خیال میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ قادیان اس
۱۲۴ دریا تک جو یہاں سے سات آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے پھیل جائے گا.چنانچہ ایک میل تک تو اس تھوڑے سے عرصہ میں ہی پھیل گیا ہے.قاعدہ ہے کہ ابتداء میں ہر ایک چیز آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہے اور کچھ عرصے کے بعد یک لخت بہت بڑھ جاتی ہے.مثلاً بچہ پہلے تھوڑا تھوڑا بڑھتا ہے لیکن ایک وقت میں یک لخت بڑھ جاتا ہے.تو یہ قادیان کی ابتدائی ترقی ہے اس سے اس کی انتہائی ترقی کا اندازہ کر لو.غرض قادیان کی ہر ایک چیز ہر ایک درخت ہر ایک اینٹ ہر ایک مکان نشان ہے.بہشتی مقبرہ ، حضرت صاحب کا باغ، بورڈنگ سکول ،مسجد میں وغیرہ سب حضرت صاحب کا معجزہ ہیں اور یہاں کی گلیاں بھی بہت بابرکت ہیں کیونکہ ان میں خدا کا مسیح چلا.کیا تم نہیں دیکھتے کہ مکہ اور مدینہ کیوں اب بھی بابرکت ہیں.ان میں کیا ایسی چیز ہے جو کسی اور جگہ نہیں ہے.وہ یہ کہ مکہ کی بنیاد حضرت ابراہیم جیسے برگزیدہ انسان نے رکھی.اور مدینہ میں رسول کریم ملای سی یہ رونق افروز رہے لیکن اب کیا وہاں رسول اللہ موجود ہیں.پھر کیوں اس کی عزت اور توقیر کی جاتی ہے.اور رسول اللہ نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ میری مسجد میں نماز پڑھنے والے کو بہ نسبت کسی اور مسجد میں پڑھنے والے کے زیادہ ثواب ہوگا حالانکہ وہاں رسول اللہ کیا آپ کے صحابہؓ بھی نہیں ہیں اور اب تو وہاں ایسے علماء رہتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود پر بھی کفر کا فتوی لگا دیا مگر چونکہ وہاں آنحضرت سائلہ پیہم کے قدم پڑے تھے اس لئے وہ اب بھی مقدس اور مطہر ہی ہے.پھر مکہ کو دیکھو وہاں نہ حضرت ابراہیم ہیں اور نہ حضرت اسماعیل.اور نہ ہی ان کے صحابہ موجود ہیں.مگر چونکہ ان کے متبرک انسانوں نے اس کی بنیاد رکھی تھی اس لئے باوجود اس وقت ان کے وہاں موجود نہ ہونے کے مکہ ویسا ہی متبرک ہے.تو جن مقاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کا تعلق ہوتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے متبرک بنادیئے جاتے ہیں.قادیان بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے.یہاں خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ مبعوث ہوا اور اس نے یہاں ہی اپنی ساری عمر گزاری.اور اس جگہ سے وہ بہت محبت رکھتا تھا.چنانچہ اس موقعہ پر جبکہ حضرت مسیح موعود لاہور گئے ہیں.اور آپ کا وصال
۱۲۵ ہو گیا ہے.ایک دن مجھے آپ نے ایک مکان میں بلا کر فرمایا.محمود دیکھو یہ دھوپ کیسی زردی معلوم ہوتی ہے.چونکہ مجھے ویسی ہی معلوم ہوتی تھی جیسی کہ ہر روز دیکھتا تھا.میں نے کہا نہیں اسی طرح کی ہے جس طرح کی ہر روز ہوا کرتی ہے.آپ نے فرمایا نہیں یہاں کی دھوپ کچھ زرد اور مدھم سی ہے.قادیان کی دھوپ بہت صاف اور عمدہ ہوتی ہے.چونکہ آپ نے قادیان میں ہی دفن ہونا تھا.اس لئے آپ نے یہ ایک ایسی ہی بات فرمائی جس سے قادیان سے آپ کی محبت اور الفت کا پتہ لگتا تھا.کیونکہ جب کہیں سے جدائی ہونے لگتی ہے تو وہاں کی ذراذرا چیز سے بھی محبت اور الفت کا خیال آتا ہے.تو اس جگہ کی چھوٹی سے چھوٹی چیز سے بھی خدا کے مسیح کو وہ الفت تھی جس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے.پھر خدا تعالیٰ نے تمہیں ایک سلک میں منسلک کر دیا ہے اور تم ایک لڑی میں پروئے گئے ہو.خدا تعالیٰ نے تمہیں اتفاق و اتحاد کی مضبوط چٹان پر کھڑا کر دیا ہے.اس لئے یہاں صرف مقام ہی کی برکتیں نہیں بلکہ اتحاد کی برکتیں بھی ہیں.لیکن میں کہتا ہوں اگر خدانخواستہ اتحاد نہ بھی ہو تو بھی یہاں آنا بہت ضروری ہے.ورنہ وہ شخص جو یہاں نہیں آتا.یادر کھے کہ اس کا ایمان خطرہ میں ہے.پس وہ لوگ جو پرانے ہیں اور وہ بھی جو نئے ہیں یہاں بار بار آئیں.میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ ان کے یہاں آنے جانے کے روپے ضائع نہیں جائیں گے بلکہ خدا تعالیٰ انہیں واپس کر دے گا.اور بڑے نفع کے ساتھ واپس کرے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کسی کا حق نہیں مارتا.اسے بڑی غیرت ہے اور اس معاملہ میں وہ بڑا غیور ہے.دیکھو اس میں اتنی غیرت ہے کہ جب مؤذن کھڑا ہو کر اذان میں کہتا ہے.حَتى عَلَى الصَّلوة کہ اے لوگو نماز کا وقت ہو گیا ہے نماز کے لئے آؤ.تو خدا تعالیٰ اتنا برداشت نہیں کر سکتا کہ اس آواز سے لوگ یہ خیال کر کے آئیں کہ چلو خدا کا حکم ہے مسجد میں چلیں.اور اس طرح ایک طرح کا احسان جتائیں.اس لئے ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ حَتی عَلَی الْفَلَاحِ کسی کا نماز پڑھنے کے لئے آنا مجھ پر کوئی احسان نہیں ہے اگر کوئی نماز پڑھے گا تو خود ہی فلاح حاصل کرے گا.تو جولوگ خدا
۱۲۶ تعالیٰ کے لئے اپنا مال خرچ کریں گے اس کی رضامندی کے لئے اپنا وطن چھوڑیں گے اس کی رضا کے لئے سفر کی تکلیفیں برداشت کریں گے.ان کی یہ باتیں ضائع نہیں جائیں گی.بلکہ وہ اس درجہ کو پائیں گے کہ خدا ان کا ہاتھ ، خدا ان کی زبان، خدا ان کے کان ، اور خدا ان کے پاؤں ہو جائے گا.اور جو کچھ وہ اس راستہ میں ڈالیں گے وہ بیج ہو گا جو انہیں کئی گنا ہو کر واپس ملے گا.پس کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ قادیان آنا خرچ کرنا ہے یہ خرچ کرنا نہیں بلکہ برکتیں حاصل کرنا ہے.دیکھو کھیتی میں بیج ڈالنے والا بھی بیج کو خرچ کرتا ہے لیکن اس سے گھبراتا نہیں بلکہ امید رکھتا ہے کہ کل مجھے بہت زیادہ ملے گا.پس تم بھی یہاں آنے جانے کے اخراجات سے نہ گھبراؤ.خدا تعالیٰ تمہیں اس کے مقابلہ میں بہت بڑھ کر دے گا.پس تمہارے یہاں آنے میں کوئی چیز روک نہ ہو اور کوئی بات مانع نہ ہوتا کہ تم اپنے دین اور ایمان کو مضبوط کر لو.اور اپنے میں آنے والوں سے پہلے ان کے لینے کے لئے تیار ہو جاؤ.اور اگر آنے والے ہزاروں ہوں تو تم بھی ہزاروں ہی ان کے لینے کے لئے موجود رہو.اس بات کو خوب ذہن نشین کر کے اس پر عمل کرو.صحابہ کا بڑا تلخ تجربہ ہمارے سامنے موجود ہے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کیسی درد ناک مصیبت ان پر آئی تھی.اور کس قدر مصائب اور آلام کا وہ نشانہ بنے تھے.یہ فساد جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے صحابہ سے پیدا نہیں ہوا تھا.بلکہ ان لوگوں نے کیا تھا جو مدینہ میں نہیں آتے تھے.اور صحابہ میں شامل نہ تھے.چنانچہ اس فساد کا بانی مبانی ایک شخص عبداللہ بن سبا تھا.اس کی ابتدائی زندگی کا حال تو معلوم نہیں ہوتا کہ سیاست کے ساتھ اس کو کیا تعلق تھا لیکن تاریخ میں اس کا ذکر حکیم بن جبلہ کے ساتھ آتا ہے.حکیم بن جبلہ ایک چور تھا جب فارس پر چڑھائی ہوئی تو یہ بھی صحابہ کے لشکر میں شامل تھا.لشکر کی واپسی پر یہ راستہ میں غائب ہو گیا.اور غیر مسلموں پر حملہ کر کے ان کے اموال لوٹ لیا کرتا تھا اور بھیس بدل کر رہتا تھا.جب غیر مسلم آبادی اور مسلم آبادی نے اس کی
۱۲۷ شرارتوں کا حال حضرت عثمان کولکھا تو آپ نے اس کے نظر بند کرنے کا حکم دیا اور بصرہ سے باہر جانے کی اسے ممانعت کر دی گئی اس پر اس نے خفیہ شرارتیں اور منصوبے شروع کئے.چنانچہ ۲۳ ھ میں اس کے گھر پر عبد اللہ بن سبامہمان کے طور پر آکر اترا.اور لوگوں کو بلا کر ان کو ایک خفیہ جماعت کی شکل میں بنانا شروع کیا اور آپس میں ایک انتظام قائم کیا.جب اس کی خبر والی کوملی تو اس نے اس سے دریافت کیا کہ تو کون ہے تو اس نے کہلا بھیجا کہ میں ایک یہودی ہوں اسلام سے مجھے رغبت ہے اور تیری پناہ میں آکر رہا ہوں.چونکہ اس کی شرارتوں کا علم گورنر کو ہو چکا تھا انہوں نے اسے ملک بدر کر دیا.یہ پہلا واقعہ ہے جو تاریخ عبداللہ بن سبا کی سیاسی شرارتوں کے متعلق ہمیں بتاتی ہے اور اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حکیم بن جبلہ بھی سچے دل سے مسلمان نہ تھا اور اس کا ذمیوں پر حملہ کرنا اس لئے نہ تھا کہ غیر مسلموں سے اسے دشمنی تھی.بلکہ غیر مسلموں کو اسلامی حکومت کے خلاف بھڑ کانے کے لئے وہ ڈاکہ مارتا تھا جیسا کہ آج کل بنگالہ کے چند شریر ہندوستانی آبادی پر ڈاکہ مارتے ہیں.اور ان کی غرض صرف اس قدر ہوتی ہے کہ عام آبادی انگریزی حکومت کو نا قابل سمجھ کر اس سے بگڑ جائے.اور یہ نتیجہ اس بات سے نکلتا ہے کہ عبداللہ بن سبا ایک یہودی جو دل سے اسلام کا دشمن تھا اسی کے پاس آکر ٹھہرا ہے اگر حکیم سچا مسلمان ہوتا اور غیر مسلموں کا دشمن تو کبھی عبداللہ بن سبا جو دل سے اسلام کا دشمن تھا سب بصرہ میں سے اس کو نہ چنا بلکہ اسے اپنا دشمن خیال کرتا.- جب عبداللہ بن سبا بصرہ سے نکالا گیا تو کوفہ کو چلا گیا.اور وہاں ایک جماعت اپنے ہم خیالوں کی پیدا کر کے شام کو گیا لیکن وہاں اس کی بات کسی نے نہ سنی.اس لئے وہ وہاں سے مصر کو چلا گیا.مصری لوگ تازہ مسلمان تھے.ان میں ایمان اس قدر داخل نہ ہوا تھا.جیسا کہ دیگر بلاد کے باشندوں میں پھر مدینہ سے زیادہ دور تھے اور مرکز سے تعلق کم تھا اس لئے بہت کثرت سے اس کے فریب میں آگئے.اور عبداللہ بن سبا نے دیکھ لیا کہ مصر ہی میرے قیام
۱۲۸ کے لئے مناسب ہوسکتا ہے چنانچہ اس نے مصر میں ہی رہائش اختیار کی اور لوگوں کو اکسانا شروع کیا.ادھر تو یہ فتنہ شروع تھا ادھر چند اور فتنے بھی پیدا ہور ہے تھے اور ان کے بانی بھی وہی لوگ تھے جو بعد میں مسلمان ہوئے تھے اور مدینہ سے ان کا تعلق بالکل نہ تھا اس لئے ان کی تربیت نہ ہو سکتی تھی.چنانچہ جس طرح بصرہ میں حکیم بن جبلہ عبداللہ بن سبا کے ساتھ مل کر یہ شرارتیں کر رہا تھا.کوفہ میں بھی ایک جماعت اسی کام میں لگی ہوئی تھی.سعید بن العاص گورنر کوفہ تھے اور ان کی صحبت اکثر ذی علم لوگوں کے ساتھ رہتی تھی.مگر کبھی کبھی تمام لوگوں کو وہ اپنے پاس آنے کی اجازت دیتے تھے تاکل حالات سے باخبر رہیں.ایک دن ایسا ہی موقعہ تھا با تیں ہورہی تھیں.کسی نے کہا فلاں شخص بڑا سخی ہے سعید بن العاص نے کہا کہ میرے پاس دولت ہوتی تو میں بھی تم لوگوں کو دیتا.ایک بیچ میں بول پڑا کہ کاش آل کسری کے اموال تمہارے قبضہ میں ہوتے.اس پر چند نو مسلم عرب اس سے لڑ پڑے اور کہا کہ یہ ہمارے اموال کی نسبت خواہش کرتا ہے کہ اس کو مل جائیں.سعید بن العاص نے سمجھایا تو اس نے کہا کہ تم نے اس کو سکھایا ہے کہ ایسی بات کہے اور اٹھ کر اس شخص کو مارنے لگے اس کی مدد کے لئے اس کا باپ اٹھا تو اسے بھی ماراحتیٰ کہ دونوں بیہوش ہو گئے.جب لوگوں کو علم ہوا کہ اس قسم کا فساد ہو گیا ہے تو وہ قلعہ کے ارد گرد جمع ہو گئے.مگر سعید بن العاص نے ان کو سمجھا کر ہٹا دیا کہ کچھ نہیں سب خیر ہے اور جن لوگوں کو مار پڑی تھی انہیں بھی منع کر دیا کہ تم اس بات کو مشہورمت کرنا خواہ مخواہ فساد پڑے گا.اور آئندہ سے اس فسادی جماعت کو اپنے پاس آنے سے روک دیا.جب انہوں نے دیکھا کہ ہمیں والی اپنے پاس نہیں آنے دیتا تو انہوں نے لوگوں میں طرح طرح کے جھوٹ مشہور کرنے شروع کر دیئے اور دین اسلام پر طعن کرنے لگے.اور مختلف تدابیر سے لوگوں کو دین سے بدظن کرنے کی کوشش شروع کی.اس پر لوگوں نے
۱۲۹ حضرت عثمان سے شکایت کی اور آپ نے حکم دیا کہ ان کو کوفہ سے جلا وطن کر کے شام بھیج دیا جائے.اور حضرت معاویہؓ کو لکھ دیا کہ ان کی خبر رکھنا.حضرت معاویہؓ نے نہایت محبت سے ان کو رکھا اور ایک دن موقعہ پا کر ان کو سمجھایا کہ رسول کریم صلی یا پی ایم کی آمد سے پہلے عرب کی کیا حالت تھی اسے یاد کرو اور غور کرو کہ خدا تعالیٰ نے قریش کے ذریعہ سے تم کو عزت دی ہے پھر قریش سے تمہیں کیوں دشمنی ہے ( وہ لوگ اس بات پر بھی طعن کرتے تھے کہ خلیفہ قریش میں سے کیوں ہوتے ہیں قریشیوں نے خلافت کو اپنا حق بنا چھوڑا ہے یہ نا جائز ہے ) اگر تم حکام کی عزت نہ کرو گے تو یا درکھو جلد وہ دن آتا ہے کہ خدا تعالیٰ تم پر ایسے لوگوں کو مقرر کرے گا جو تم کو خوب تکلیف دیں گے.امام ایک ڈھال ہے جو تم کو تکلیف سے بچاتا ہے.انہوں نے کہا کهہ قریش کا کیا احسان ہے کیا وہ کوئی بڑی جماعت تھی جن کے ذریعہ سے اسلام کامیاب ہو گیا اور باقی رہا کہ امام ڈھال ہے اور ہمیں تکلیف سے بچا رہا ہے.سو یہ خیال مت کرو جب وہ ڈھال ٹوٹ جائے گی تو پھر ہمارے ہاتھ میں دے دی جائے گی.یعنی خلافت اگر قریش کے ہاتھ سے نکل جائیگی تو پھر ہم ہی ہم اس کے وارث ہیں اس لئے ہمیں اس کا فکر نہیں کہ خلافت قریش کے ہاتھ سے نکل گئی تو پھر کیا ہوگا.اس پر حضرت معاویہؓ نے ان کو سمجھایا کہ ایام جاہلیت کی سی باتیں نہ کر و اسلام میں کسی قوم کا زیادہ یا کم ہونا موجب شرف نہیں رکھا گیا.بلکہ دیندار و خدا رسیدہ ہونا اصل سمجھا گیا ہے.پس جبکہ قریش کو خدا تعالیٰ نے جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں میں ممتاز کیا.اور ان کو دین کی اشاعت و حفاظت کا کام سپرد کیا ہے تو تم کو اس پر کیا حسد ہے اور تم لوگ اپنی پہلی حالت کو دیکھو اور سوچو کہ اسلام نے تم لوگوں پر کس قدر احسانات کئے ہیں.ایک وہ زمانہ تھا کہ تم اہل فارس کے کارندہ تھے اور بالکل ذلیل تھے اسلام کے ذریعہ سے ہی تم کو سب عزت ملی.لیکن تم نے بجائے شکریہ ادا کرنے کے ایسی باتیں شروع کر دی ہیں جو اسلام کے لئے ہلاکت کا باعث ہیں تم شیطان کا ہتھیار بن گئے ہو وہ جس
طرح چاہتا ہے تمہارے ذریعہ سے مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوار ہا ہے.مگر یا درکھو کہ اس بات کا انجام نیک نہ ہوگا اور تم دکھ پاؤ گے.بہتر ہے کہ جماعت اسلام میں شامل ہو جاؤ.میں خوب جانتا ہوں کہ تمہارے دل میں کچھ اور ہے جسے تم ظاہر نہیں کرتے لیکن اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کر کے چھوڑے گا (یعنی تم اصل میں حکومت کے طالب ہو اور چاہتے ہو کہ ہم بادشاہ ہو جائیں اور دین سے متنفر ہو لیکن بظاہر اپنے آپ کو مسلم کہتے ہو ) اس کے بعد حضرت معاویہؓ نے حضرت عثمان کو ان کی حالت سے اطلاع دی اور لکھا کہ وہ لوگ اسلام و عدل سے بیزار ہیں اور ان کی غرض فتنہ کرنا اور مال کمانا ہے پس آپ ان کے متعلق گورنروں کو حکم دے دیجئے کہ ان کو عزت نہ دیں یہ ذلیل لوگ ہیں.پھر ان لوگوں کو شام سے نکالا گیا اور وہ جزیرہ کی طرف چلے گئے.وہاں عبد الرحمن بن خالد بن ولید حاکم تھے انہوں نے ان کو نظر بند کر دیا اور کہا کہ اگر اس ملک میں بھی لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنے اور فتنہ ڈالنے کی کوشش کی تو یاد رکھو میں ایسی خبر لوں گا کہ سب شیخی کرکری ہو جائے گی.چنانچہ انہوں نے انہیں سخت پہرہ میں رکھا.حتی کہ ان لوگوں نے آخر میں تو بہ کی کہ اب ہم جھوٹی افواہیں نہ پھیلائیں گے.اور اسلام میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش نہ کریں گے.اس پر حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید نے ان کو اجازت دے دی کہ جہاں چاہو چلے جاؤ.اور اشتر کو حضرت عثمان کی خدمت میں بھیجا کہ اب یہ معافی کے طالب ہیں.آپ نے انہیں معاف کیا اور اختیار دیا کہ جہاں چاہیں رہیں.اشتر نے کہا کہ ہم عبدالرحمن بن خالد کے پاس ہی رہنا چاہتے ہیں چنانچہ وہیں ان کو واپس کیا گیا.اس گروہ کے علاوہ ایک تیسرا گروہ تھا جو تفرقہ کے پیچھے پڑا ہوا تھا.اس کا سر گروہ ایک شخص حمران بن ابان تھا اس نے ایک عورت سے عدت کے اندر شادی کر لی تھی جس پر اسے مارا گیا اور بصرہ کی طرف جلا وطن کر دیا گیا.وہاں اس نے فساد ڈلوانا شروع کیا اور تفرقہ
۱۳۱ اور فساد ڈالنے کے لئے یہ صورت اختیار کی کہ شرفاء کے خلاف موقعہ پا کر جھوٹ منسوب کر دیتا اور اس طرح تفرقہ ڈلواتا.غرض یہ تین گروہ اسلام کی تباہی میں کوشاں تھے اور تینوں گروہ ایسے تھے جو دین اسلام سے بے خبر اور اپنی وجاہت کے دلدادہ تھے.اسلام کی ناواقفی کی وجہ سے اپنی عقل سے مسائل ایجاد کر کے مسلمانوں کے اعتقاد بگاڑتے تھے اور چونکہ حکومت اسلامیہ ان کے اس فعل میں روک تھی اور وہ کھلے بندوں اسلام کو بازیچہ اطفال نہیں بنا سکتے تھے اس لئے حکومت کے مٹانے کے درپے ہو گئے تھے.چنانچہ سب سے پہلے عبداللہ بن سبانے مصر میں بیٹھ کر با قاعدہ سازش شروع کر دی اور تمام اسلامی علاقوں میں اپنے ہم خیال پیدا کر کے ان کے ساتھ خط و کتابت شروع کی اور لوگوں کو بھڑ کانے کے لئے یہ راہ نکالی کہ حضرت عثمان کے عمال کے خلاف لوگوں کو بھڑ کا نا شروع کیا.اور چونکہ لوگ اپنی آنکھوں دیکھی بات کے متعلق دھوکا نہیں کھا سکتے اس لئے یہ تجویز کی کہ ہر ایک جگہ کے لوگ اپنے علاقہ میں اپنے گورنر کے عیب نہ مشہور کریں بلکہ دوسرے علاقہ کے لوگوں کو اس کے مظالم لکھ کر بھیجیں.وہاں کے فتنہ پرداز ان کو اپنے گورنر کے عیب لکھ کر بھیجیں.اس طرح لوگوں پر ان کا فریب نہ کھلے گا.چنانچہ بصرہ کے لوگ مصر والوں کی طرف لکھ کر بھیجتے کہ یہاں کا گورنر بڑا ظالم ہے اور اس اس طرح مسلمانوں پر ظلم کرتا ہے اور مصر کے لوگ یہ خطوط لوگوں کو پڑھ کر سناتے اور کہتے کہ دیکھو تمہارے بصرہ کے بھائی اس دکھ میں ہیں اور ان کی فریاد کوئی نہیں سنتا.اسی طرح مصر کے متفنی کسی اور صوبہ کے دوستوں کو مصر کے گورنر کے ظلم لکھ کر بھیجتے اور وہ لوگوں کو سنا کر خلیفہ کے خلاف اکساتے کہ اس نے ایسے ظالم گورنر مقرر کر رکھے ہیں جن کو رعایا کی کوئی پرواہ نہیں.علاوہ ازیں لوگوں کو بھڑ کانے کے لئے چونکہ اس بات کی بھی ضرورت تھی کہ ان کے دل ان کی طرف جھک
۱۳۲ جائیں.اس کے لئے عبداللہ بن سبا نے یہ تجویز کی کہ عام طور پر وعظ ولیکچر دیتے پھرو تا کہ لوگ تمہاری طرف مائل ہوجائیں اور بڑا خادم اسلام سمجھیں.چنانچہ اس کے اصل الفاظ یہ ہیں جو طبری نے لکھے ہیں وَ أَظْهِرُوا الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهَى عَنِ الْمُنْكَرِ تَسْتَمِيلُوا النَّاسَ وَادْعُوهُمْ إِلى هَذَا الْأَمْرِ فَبَثَّ دُعَاتَهُ ( تاریخ طبری جلد ۶ صفحه ۲۹۴۲ مطبوعه مکتبه خیاط بیروت ) یعنی اس نے نصیحت کی کہ ظاہر میں تو تمہارا کام لوگوں کو نیک باتوں کا وعظ کرنا اور بری باتوں سے روکنا ہوتا کہ اس ذریعہ سے لوگوں کے دل تمہاری طرف مائل ہو جائیں کہ کیا عمدہ کام کرتے ہیں لیکن اصل میں تمہاری غرض ان وعظوں سے یہ ہو کہ اس طرح لوگوں کے دل جب مائل ہو جائیں تو انہیں اپنا ہم خیال بناؤ.یہ نصیحت کر کے اس نے اپنے واعظ چاروں طرف پھیلا دیئے.غرض ان لوگوں نے ایسا طریق اختیار کیا کہ سادہ لوح لوگوں کے لئے بات کا سمجھنا بالکل مشکل ہو گیا.اور فتنہ بڑے زور سے ترقی کرنے لگا.اور عام طور پر مسلمان خلافت عثمان سے بدظن ہو گئے اور ہر جگہ یہی ذکر لوگوں کی زبانوں پر رہنے لگا کہ ہم تو بڑے مزے میں ہیں.باقی علاقوں کے لوگ بڑے بڑے دکھوں میں ہیں.بصرہ کے لوگ خیال کرتے کہ کوفہ اور مصر کے لوگ سخت تکلیف میں ہیں اور کوفہ کے لوگ سمجھتے کہ بصرہ اور مصر کے لوگ سخت دکھ میں ہیں حالانکہ اگر وہ لوگ آپس میں ملتے تو ان کو معلوم ہوجا تا کہ یہ شریروں کی شرارت ہے ورنہ ہر جگہ امن و امان ہے.ہر جماعت دوسری جماعت کو مظلوم قرار دیتی تھی حالانکہ مظلوم کوئی بھی نہ تھا.اور ان سازشیوں نے ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ اپنے ہم خیالوں کو ایک دوسرے سے ملنے نہ دیتے تھے تا راز ظاہر نہ ہو جائے.آخر یہ فساد بڑھتے بڑھتے خیالات سے عمل کی طرف لوٹا.اور لوگوں نے یہ تجویز کی کہ ان گورنروں کو موقوف کروایا جائے.جن کو حضرت عثمان نے مقرر کیا ہے چنانچہ سب سے پہلے حضرت عثمان کے خلاف کوفہ کے لوگوں کو اکسایا گیا اور وہاں فساد ہو گیا.لیکن بعض بڑے
۱۳۳ آدمیوں کے سمجھانے سے فساد تو دب گیا.مگر فساد کے بانی مبانی نے فوراً ایک آدمی کو خط دے کر حمص روانہ کیا کہ وہاں جو جلا وطن تھے انکو بلا لائے.اور لکھا کہ جس حالت میں ہو فوراً چلے آؤ کہ مصری ہم سے مل گئے ہیں.وہ خط جب ان کو ملا تو باقیوں نے تو اسے رد کر دیا لیکن مالک بن اشتر بگڑ کر فوراً کوفہ کی طرف روانہ ہو گیا.اور تمام راستہ میں لوگوں کو حضرت عثمان اور سعید بن العاص کے خلاف اکساتا گیا اور ان کو سنا تا کہ میں مدینہ سے آرہا ہوں.راستہ میں سعید بن العاص سے ملا تھا وہ تمہاری عورتوں کی عصمت دری کرنا چاہتا ہے اور فخر کرتا ہے کہ مجھے اس کام سے کون روک سکتا ہے.اسی طرح حضرت عثمان کی عیب جوئی کرتا.جو لوگ حضرت عثمان اور دیگر صحابہ کے واقف نہ تھے اور مدینہ آنا جانا ان کا کم تھاوہ دھوکے میں آتے جاتے تھے اور تمام ملک میں آگ بھڑ کتی جاتی تھی عقلمند اور واقف لوگ سمجھاتے لیکن جوش میں کون کسی کی سنتا ہے.اس زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعود کے خلاف لوگ قسم قسم کے جھوٹ مشہور کرتے تھے اور ایسے احمدی بھی جو قادیان کم آتے تھے ان کے دھوکے میں آجاتے تھے.اب بھی ہمارے مخالف میری نسبت اور قادیان کے دوسرے دوستوں کی نسبت جھوٹی باتیں مشہور کرتے ہیں کہ سب اموال پر انہوں نے تصرف کر لیا ہے اور حضرت صاحب کو حقیقی نبی ( جس کے معنی حضرت مسیح موعود نے تشریعی نبی کئے ہیں ) مانتے ہیں اور نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم صلام کی تک کرتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ جو لوگ قادیان نہیں آتے ان میں سے بعض ان کے فریب میں آجاتے ہیں.ایک رئیس نے مسجد کوفہ میں لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک تقریر کی اور سمجھا یا لیکن دوسرے لوگوں نے انہیں کہا کہ اب فتنہ حد سے بڑھ گیا ہے.اب اس کا علاج سوائے تلوار کے کچھ نہیں.اس ناشکری کی سزا اب ان کو یہی ملے گی کہ یہ زمانہ بدل جائے گا اور بعد میں یہ لوگ خلافت کے لوٹنے کی تمنا کریں گے لیکن ان کی آرزو پوری نہ ہوگی.پھر سعید بن العاص ان کو سمجھانے گئے انہوں نے جواب دیا کہ ہم تجھ سے راضی نہیں.تیری جگہ پر اور گورنر طلب
۱۳۴ کریں گے انہوں نے کہا کہ اس چھوٹی سی بات کے لئے اس قدر شور کیوں ہے.ایک آدمی کو خلیفہ کی خدمت میں بھیج دو کہ ہمیں یہ گورنر منظور نہیں وہ اور بھیج دیں گے.اس بات کے لئے اس قدر اجتماع کیوں ہے؟ یہ بات کہہ کر سعید نے اپنا اونٹ دوڑایا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور حضرت عثمان کو سب حالات سے آگاہ کیا.آپ نے فرمایا کسے گورنر بنانا چاہتے ہیں انہوں نے کہا.ابو موسیٰ اشعری کو.فرمایا ہم نے ان کو گورنر مقرر کیا اور ہم ان لوگوں کے پاس کوئی معقول عذر نہ رہنے دیں گے.جب حضرت ابو موسیٰ اشعری کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے سب لوگوں کو جمع کر کے اس خبر سے آگاہ کیا.انہوں نے کہا تو آپ ہمیں نماز پڑھا ئیں.مگر انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ جب تک کہ تم آئندہ کے لئے تو بہ نہ کرو اور حضرت عثمان کی اطاعت کا وعدہ نہ کرو میں تمہاری امامت نہ کروں گا اور تم کو نماز نہ پڑھاؤں گا.انہوں نے وعدہ کیا تب آپ نے انہیں نماز پڑھائی.لیکن فتنہ اس پر بھی ختم نہ ہوا کیونکہ ان لوگوں کی اصل غرض تو خلافت کا اڑانا تھا.عمال و حکام کی تبدیلی تو صرف ایک بہانہ اور حضرت عثمان کے مظالم ( نعوذ باللہ ) کا اظہار ایک ذریعہ تھے جس سے وہ لوگ جو مدینہ آتے جاتے نہ تھے اور اس برگزیدہ اور پاک انسان کے حالات سے آگاہ نہ تھے وہ دھو کے میں آجاتے تھے اور اگر وہ خود آ کر حضرت عثمان کو دیکھتے تو بھی ان شریروں کے دھوکے میں نہ آتے اور اس فساد میں نہ پڑتے.غرض یہ فتنہ دن بدن بڑھتا ہی گیا اور آخر حضرت عثمان نے صحابہ کو جمع کیا اور دریافت کیا کہ اس فتنہ کے دور کرنے کے لئے کیا تدبیر کرنی چاہئے.اس پر مشورہ ہوا اور یہ تجویز ہوئی کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ حکام کی شکایت درست بھی ہے یا نہیں اور اس بات کے معلوم کرنے کے لئے تمام صوبوں میں کچھ ایسے آدمی بھیجے جائیں جو یہ معلوم کریں کہ آیا گورنر ظالم ہیں یا یونہی ان کے متعلق غلط خبریں پھیلائی جارہی ہیں.اس کام کے لئے جو آدمی بھیجے گئے ان سب نے لکھ
۱۳۵ دیا کہ ہر ایک صوبہ میں اچھی طرح امن اور امان قائم ہے.گورنروں کے متعلق کوئی شکایت نہیں ہے.لیکن عمار بن یاسر جو مصر میں بھیجے گئے تھے.ان کو عبد اللہ بن سبا کے ساتھی پہلے ہی مل گئے اور اپنے پاس ہی ان کو رکھا اور لوگوں سے ملنے نہ دیا بلکہ ایسے ہی لوگوں سے ملایا جو اپنے ڈھب کے اور ہم خیال تھے.اور انہیں سارے جھوٹے قصے سنائے اس لئے وہ ان کے دھوکے میں آگئے.یہ واقعہ اسی طرح ہوا جس طرح کہ آنحضرت سالم اسلام کے عہد میں ابو جہل کرتا تھا کہ جب لوگ رسول کریم مالی اسلام کو ملنے کے لئے آتے.تو وہ ان کو روکتا کہ اول تو اس کے پاس ہی نہ جاؤ.اور اگر جاتے ہو تو اپنے کانوں میں روئی ٹھونس کر جاؤ تا کہ اس کی آواز تمہارے کانوں تک نہ پہنچے.اسی طرح عمار بن یاسر کو گورنر اور دوسرے امراء مصر سے ملنے ہی نہ دیا گیا.ان لوگوں کے واپس آنے کے بعد جو تحقیقات کے لئے مختلف بلاد کی طرف بھیجے گئے تھے حضرت عثمان نے مزید احتیاط کے طور پر ایک خط تمام ممالک کے مسلمانوں کی طرف لکھا اور اس میں تحریر فرمایا کہ مجھے ہمیشہ سے مسلمانوں کی خیر خواہی مدنظر رہی ہے مگر میں شکایتیں سنتا ہوں کہ بعض مسلمانوں کو بلا وجہ مارا جاتا ہے اور بعض کو بلا وجہ گالیاں دی جاتی ہیں اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ لوگ جن کو شکایت ہو.اس سال حج کے لئے جمع ہوں اور جو شکایات انہیں ہیں وہ پیش کریں خواہ میرے حکام کے خلاف ہوں خواہ میرے خلاف، میری جان حاضر ہے اگر مجھ پر کوئی شکایت ثابت ہو تو مجھ سے بدلہ لے لیں.جب یہ خط تمام ممالک کی مساجد میں سنایا گیا.تو شریروں پر تو کیا اثر ہونا تھا مگر عام مسلمان اس خط کو سن کر بے تاب ہو گئے اور جب یہ خط سنایا گیا تو مساجد میں ایک کہرام مچ گیا اور روتے روتے مسلمانوں کی داڑھیاں تر ہو گئیں اور انہوں نے افسوس کیا کہ چند بد معاشوں کی وجہ سے امیر المؤمنین کو اس قدر صدمہ ہوا ہے.اور سب جگہ پر حضرت عثمان کے لئے دعا کی گئی.موسم حج کے قریب حضرت عثمان نے تمام گورنروں کے نام خطوط لکھے کہ حج میں حاضر ہوں.چنانچہ سب گورنر حاضر ہوئے اور آپ
۱۳۶ نے ان سے دریافت کیا کہ یہ شور کیسا ہے.انہوں نے کہا کہ شور تو کوئی نہیں بعض شریروں کی شرارت ہے اور آپ نے اکابر صحابہ کو بھیج کر خود دریافت کر لیا ہے کہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں بلکہ تمام الزامات جھوٹے ہیں.اس پر آپ نے فرمایا کہ اچھا آئندہ کے لئے کیا مشورہ دیتے ہو.سعید بن العاص نے کہا کہ یہ ایک خفیہ منصوبہ ہے جو الگ تیار کیا جاتا ہے اور پھر ایسے لوگوں کے کان بھر دیئے جاتے ہیں جو حالات سے ناواقف ہیں اور اس طرح ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک بات پہنچتی جاتی ہے.پس علاج یہی ہے کہ اصل شریروں کو تلاش کر کے انہیں سزادی جائے اور قتل کر دیا جائے.عبداللہ بن سعد نے مشورہ دیا کہ آپ نرمی کرتے ہیں جب آپ لوگوں کو ان کے حقوق دیتے ہیں تو لوگوں سے ان حقوق کا مطالبہ بھی کریں جو ان کے ذمہ واجب ہیں.حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ یہ دونوں بزرگ اپنے اپنے علاقہ کے واقف ہوں گے.میرے علاقہ میں تو کوئی شور ہی نہیں.وہاں سے آپ نے کبھی کوئی فساد کی خبر نہ سنی ہوگی.اور جہاں شورش ہے وہاں کے متعلق میرا مشورہ یہی ہے کہ وہاں کے حکام انتظام کی مضبوطی پر زور دیں.حضرت عمرو بن العاص نے فرمایا کہ آپ بہت پ نرمی کرتے ہیں اور آپ نے لوگوں کو ایسے حقوق دے دیئے ہیں جو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نہ دیتے تھے.پس آپ اب لوگوں سے ویسا ہی سلوک کریں جیسا کہ یہ دونوں کرتے تھے.اور جس طرح نرمی سے کام لیتے ہیں سختی کے موقعہ پر سختی سے بھی کام لیں.ان سب مشوروں کو سن کر حضرت عثمان نے فرمایا کہ یہ فتنہ مقدر ہے اور مجھے اس کا سب حال معلوم ہے کوئی سختی اس فتنہ کو روک نہیں سکتی.اگر رو کے گی تو نرمی.پس تم لوگ مسلمانوں کے حقوق پوری طرح ادا کرو.اور جہاں تک ہو سکے ان کے قصور معاف کرو.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نے لوگوں کو نفع پہنچانے میں کوئی کمی نہیں کی.پس میرے لئے بشارت ہے اگر میں اسی طرح مرجاؤں اور فتنہ کا باعث نہ بنوں.لیکن تم لوگ یہ بات یاد رکھو کہ دین کے معاملہ میں نرمی نہ کرنا بلکہ شریعت کے قیام کی
۱۳۷ طرف پورے زور سے متوجہ رہنا.یہ کہہ کر سب حکام کو واپس روانہ کر دیا.حضرت معاویہؓ جب روانہ ہونے لگے تو عرض کیا.اے امیر المؤمنین آپ میرے ساتھ شام کو چلے چلیں سب فتنوں سے محفوظ ہو جائیں گے.آپ نے جواب دیا کہ معاویہ میں رسول اللہ لا یا یتیم کی ہمسائیگی کو کسی چیز کی خاطر بھی نہیں چھوڑ سکتا.خواہ میرے چمڑے کی رسیاں ہی کیوں نہ بنادی جائیں.اس پر حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ آپ یہ بات نہیں مانتے تو میں ایک لشکر سپاہیوں کا بھیج دیتا ہوں جو آپ کی اور مدینہ کی حفاظت کریں گے آپ نے فرمایا کہ میں اپنی جان کی حفاظت کے لئے ایک لشکر رکھ کر مسلمانوں کے رزق میں کمی نہیں کرنا چاہتا.حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ امیر المؤمنین! خدا کی قسم آپ کو شریر لوگ دھوکا سے قتل کر دیں گے یا آپ کے خلاف جنگ کریں گے.آپ ایسا ضرور کریں لیکن آپ نے یہی جواب دیا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا خدا میرے لئے کافی ہے.پھر حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو پھر یہ کریں کہ شرارتی لوگوں کو بڑا گھمنڈ بعض اکابر صحابہ پر ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے بعد وہ کام سنبھال لیں گے اور ان کا نام لے لے کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں.آپ ان سب کو مدینہ سے رخصت کر دیں اور دور دراز ملکوں میں پھیلا دیں.شریروں کی کمریں ٹوٹ جائیں گی.آپ نے فرمایا کہ جن کو رسول اللہ صلی سی ایم نے جمع کیا تھا میں تو انہیں جلا وطن نہیں کر سکتا.اس پر حضرت معاویہ رو پڑے اور فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے اس فتنہ کے لئے منشائے الہی ہو چکا ہے.اور اے امیر المؤمنین !شاید یہ میری آپ سے آخری ملاقات ہے.اس لئے ایک عرض میں آخر میں اور کرتا ہوں کہ اگر آپ اور کچھ بھی نہیں کرتے تو اتنا کریں کہ اعلان کر دیں کہ میرے خون کا بدلہ معاویہ لے گا.( یعنی بصورت آپ کے شہید ہونے کے) آپ نے فرمایا کہ معاویہ ! تمہاری طبیعت تیز ہے.میں ڈرتا ہوں کہ تم مسلمانوں پر سختی کرو گے.اس لئے یہ اعلان بھی نہیں کر سکتا.اس پر روتے روتے حضرت
۱۳۸ معاویہ آپ سے جدا ہوئے اور مکان سے نکلتے ہوئے یہ کہتے گئے کہ لوگو ہوشیار رہنا.اگر اس بوڑھے ( یعنی حضرت عثمان ) کا خون ہوا تو تم لوگ بھی اپنی سزا سے نہیں بچو گے.اس واقعہ پر ذرا غور کرو اور دیکھو اس انسان کے جس کی نسبت اس قدر بدیاں مشہور کی جاتی تھیں کیا خیالات تھے اور وہ مسلمانوں کا کتنا خیر خواہ تھا اور ان کی بہتری کے لئے کس قدر متفکر رہتا تھا اور کیوں نہ ہوتا.آپ وہ تھے کہ جنہیں آنحضرت صلی الیہ امام نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیاں بیاہ دی تھیں اور جب دونوں فوت ہوگئیں تو فرمایا تھا کہ اگر میری کوئی تیسری بیٹی ہوتی تو اس کو بھی میں ان سے بیاہ دیتا.افسوس لوگوں نے اسے خود آ کر نہ دیکھا اور اس کے خلاف شور کر کے دین و دنیا سے کھو گئے.جب مفسدوں نے دیکھا کہ اب حضرت عثمان نے تحقیقات شروع کر دی ہیں.اور اس طرح ہمارے منصوبوں کے خراب ہو جانے کا خطرہ ہے تو انہوں نے فوراً ادھر ادھر خطوط دوڑا کر اپنے ہم خیالوں کو جمع کیا کہ مدینہ چل کر حضرت عثمان سے روبرو بات کریں.چنانچہ ایک جماعت جمع ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئی.حضرت عثمان کو ان کے ارادہ کی پہلے سے ہی اطلاع ہو چکی تھی.آپ نے دو معتبر آدمیوں کو روانہ کیا کہ ان سے مل کر دریافت کریں کہ ان کا منشاء کیا ہے.ان دونوں نے مدینہ سے باہر جا کر ان سے ملاقات کی اور ان کا عندیہ دریافت کیا.انہوں نے اپنا منشاء ان کے آگے بیان کیا پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا مدینہ والوں میں سے بھی کوئی تمہارے ساتھ ہے تو انہوں نے کہا کہ صرف تین آدمی مدینہ والوں سے ہمارے ساتھ ہیں.ان دونوں نے کہا کہ کیا صرف تین آدمی تمہارے ساتھ ہیں.انہوں نے کہا ہاں صرف تین ہمارے ساتھ ہیں.(اب بھی موجودہ فتنہ میں قادیان کے صرف تین چار آدمی ہی پیغام والوں کے ساتھ ملے ہیں یا دو تین ایسے آدمی جو مؤلفۃ القلوب میں داخل تھے اور جو بعد میں پیغام والوں سے بھی جدا ہو گئے ) انہوں نے دریافت کیا کہ پھر تم کیا کرو گے.ان مفسدوں نے
۱۳۹ جواب دیا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ ہم حضرت عثمان سے وہ باتیں دریافت کریں گے جو پہلے ہم نے ان کے خلاف لوگوں کے دلوں میں بٹھائی ہوئی ہیں.پھر ہم واپس جا کر تمام ملکوں میں مشہور کریں گے کہ ان باتوں کے متعلق ہم نے (حضرت) عثمان سے ذکر کیا لیکن اس نے ان کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور تو بہ نہیں کی.اس طرح لوگوں کے دل ان کی طرف سے بالکل پھیر کر ہم حج کے بہانہ سے پھر لوٹیں گے اور آکر محاصرہ کریں گے.اور عثمان سے خلافت چھوڑ دینے کا مطالبہ کریں گے.اگر اس نے انکار کر دیا تو اسے قتل کر دیں گے.ان دونوں مخبروں نے ان سب باتوں کی اطلاع آکر حضرت عثمان کو دی تو آپ ہنسے اور دعا کی کہ یا اللہ ان لوگوں پر رحم کر.اگر تو ان پر رحم نہ کرے تو یہ بد بخت ہو جائیں گے.پھر آپ نے کوفیوں اور بصریوں کو بلوایا اور مسجد میں نماز کے وقت جمع کیا اور آپ منبر پر چڑھ گئے اور آپ کے ارد گر دوہ مفسد بیٹھ گئے.جب صحابہ کو علم ہوا تو سب مسجد میں آکر جمع ہو گئے اور ان مفسدوں کے گرد حلقہ کر لیا.پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی.اور ان لوگوں کا حال سنایا اور ان دونوں آدمیوں نے جو حال دریافت کرنے گئے تھے سب واقعہ کا ذکر کیا.اس پر صحابہ نے بالاتفاق بآواز بلند پکار کر کہا کہ ان کوقتل کر دو.کیونکہ رسول اللہ مایا اسلام نے فرمایا ہے کہ جو کوئی اپنی یا کسی اور کی خلافت کے لئے لوگوں کو بلائے اور اس وقت لوگوں میں ایک امام موجود ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوگی اور تم ایسے شخص کو قتل کر دو.اور حضرت عمر کا بھی یہی فتویٰ ہے اس پر حضرت عثمان نے فرمایا کہ انہیں ہم معاف کریں گے اور اس طرح ان کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کریں گے.پھر فرمایا کہ یہ لوگ بعض باتیں بیان کرتے ہیں وہ ایسی باتیں ہیں کہ تم بھی جانتے ہو لیکن فرق یہ ہے کہ یہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کو میرے خلاف بھڑ کا نا چاہتے ہیں.مثلاً کہتے ہیں کہ اس نے سفر میں نماز قصر نہیں کی حالانکہ پہلے ایسا نہ ہوتا تھا.سنو میں نے نماز ایسے شہر میں پوری پڑھی ہے جس میں کہ میری بیوی تھی.کیا اسی طرح نہیں ہوا.سب صحابہ نے کہا کہ ہاں یہی بات ہے.پھر فرمایا یہ لوگ
۱۴۰ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اس نے رکھ بنائی ہے حالانکہ اس سے پہلے رکھ نہ بنائی جاتی تھی مگر یہ بات بھی غلط ہے حضرت عمرؓ کے وقت سے رکھ کا انتظام ہے.ہاں جب صدقات کے اونٹ زیادہ ہو گئے تو میں نے رکھ کو اور بڑھا دیا.اور یہ دستور بھی حضرت عمرؓ کے وقت سے چلا آیا ہے.باقی میرے اپنے پاس تو صرف دو اونٹ ہیں اور بھیڑ اور بکری بالکل نہیں.حالانکہ جب میں خلیفہ ہوا تھا تو میں تمام عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں والا تھا.لیکن آج میرے پاس نہ بکری ہے نہ اونٹ سوائے ان دو اونٹوں کے کہ یہ بھی صرف حج کے لئے رکھے ہوئے ہیں.کیا یہ بات درست نہیں سب صحابہ نے عرض کیا کہ بالکل درست ہے.پھر فرمایا کہ یہ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ قرآن کئی صورتوں میں تھا میں نے اسے ایک صورت میں لکھوا دیا ہے.سنو! قرآن ایک ہے اور ایک خدا کی طرف سے آیا ہے اور اس بات میں میں سب صحابہ کی رائے کا تابع ہوں.میں نے کوئی بات نہیں کی کیا یہ بات درست نہیں.سب صحابہ نے عرض کیا کہ بالکل درست ہے اور یہ لوگ واجب القتل ہیں ان کو قتل کیا جائے.غرض اسی طرح حضرت عثمان نے ان کے سب اعتراضوں کا جواب دیا اور صحابہؓ نے ان کی تصدیق کی.اس کے بعد بہت بحث ہوئی.صحابہ اصرار کرتے تھے کہ ان شریروں کو قتل کیا جائے لیکن حضرت عثمان نے اس مشورہ کو قبول نہ کیا اور ان کو معاف کر دیا اور وہ لوگ واپس چلے گئے.مدینہ سے واپسی پر ان مفسدوں نے سوچا کہ اب دیر کرنی مناسب نہیں.بات بہت بڑھ چکی ہے اور لوگ جوں جوں اصل واقعات سے آگاہ ہوں گے ہماری جماعت کمزور ہوتی جائے گی.چنانچہ انہوں نے فوراً خطوط لکھنے شروع کر دیئے کہ اب کے حج کے موسم میں ہمارے سب ہم خیال مل کر مدینہ کی طرف چلیں لیکن ظاہر یہ کریں کہ ہم حج کے لئے جاتے ہیں.چنانچہ ایک جماعت مصر سے، ایک کوفہ سے، ایک بصرہ سے ارادہ حج ظاہر کرتی ہوئی مدینہ کی طرف سے ہوتی مکہ کی طرف روانہ ہوئی.اور تمام لوگ بالکل بے فکر تھے اور کسی کو وہم
۱۴۱ و گمان بھی نہ تھا کہ کیا منصوبہ سوچا گیا ہے.بلکہ راستہ میں لوگ ان کو حاجی خیال کر کے خوب خاطر و مدارات بھی کرتے.لیکن بعض لوگوں کے مونہہ سے بعض باتیں نکل جاتی ہیں.چنانچہ کسی نہ کسی طرح سے ان لوگوں کی نیت ظاہر ہوگئی.اور اہل مدینہ کو ان کی آمد کا اور نیت کا علم ہو گیا.اور چاروں طرف قاصد دوڑائے گئے کہ اس نیت سے ایک جماعت مدینہ کی طرف بڑھی چلی آرہی ہے چنانچہ آس پاس جہاں جہاں صحابہ مقیم تھے وہاں سے تیزی کے ساتھ مدینہ میں آگئے.اور دیگر قابل شمولیت جنگ مسلمان بھی مدینہ میں اکٹھے ہو گئے اور ان مفسدوں کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ایک لشکر جرار مدینہ میں جمع ہو گیا جب یہ لوگ مدینہ کے قریب پہنچے اور انہیں اس بات کی خبر ہوگئی کہ مسلمان بالکل تیار ہیں اور ان کی شرارت کامیاب نہیں ہو سکتی تو انہوں نے چند آدمی پہلے مدینہ بھیجے کہ امہات المؤمنین اور صحابہ سے مل کر ان کی ہمدردی حاصل کریں چنانچہ مدینہ میں آکر ان لوگوں نے فرداً فرداً امہات المؤمنین سے ملاقات کی لیکن سب نے ان سے بیزاری ظاہر کی.پھر یہ لوگ تمام صحابہ سے ملے لیکن کسی نے ان کی بات کی طرف توجہ نہ کی اور صاف کہہ دیا کہ تم لوگ شرارتی ہو.ہم تمہارے ساتھ نہیں مل سکتے.اور نہ تم کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دے سکتے ہیں.اس کے بعد مصری حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں.آپ ہماری بیعت قبول کریں اس پر حضرت علی نے ان کو دھتکار دیا اور کہا کہ نیک لوگ جانتے ہیں کہ مردہ اور ذی خشب کے لشکر پر رسول کریم سانی ایم نے لعنت کی ہے.( یہ وہ مقامات ہیں جہاں مدینہ کے باہر باغیوں کا لشکر اترا تھا ) اسی طرح بصرہ کے لوگ طلحہ کے پاس گئے اور ان سے ان کا سردار بننے کے لئے کہا لیکن انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ مروہ اور ذی خشب کے لشکروں پر رسول اللہ سال کی ہم نے لعنت فرمائی ہے میں تمہارے ساتھ شامل نہیں ہوسکتا.اسی طرح کوفہ کے لوگ حضرت زبیر کے پاس گئے اور ان سے یہی درخواست کی لیکن انہوں نے بھی یہی جواب
۱۴۲ دیا کہ میرے پاس سے دور ہو جاؤ میں تمہارے ساتھ شامل نہیں ہوسکتا.کیونکہ سب مسلمان جانتے ہیں کہ رسول کریم سان سلیم نے مروہ ، ذی خشب اور اعوص کے لشکروں پر لعنت کی ہے.جب باغی سب طرف سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے یہ ظاہر کرنا شروع کیا کہ ان کی اصل غرض تو بعض عاملوں کا تبدیل کروانا ہے.ان کو تبدیل کر دیا جائے تو ان کو پھر کوئی شکایت نہ رہے گی.چنانچہ حضرت عثمان نے انکو اپنی شکایت پیش کرنے کی اجازت دی اور انہوں نے بعض گورنروں کے بدلنے کی درخواست کی.حضرت عثمان نے ان کی درخواست قبول کی اور ان کے کہنے کے مطابق محمد بن ابی بکر کو مصر کا گورنر مقرر کر دیا اور حکم جاری کر دیا کہ مصر کا گورنر اپنا کام محمد بن ابو بکر کے سپر د کر دے.اسی طرح بعض اور مطالبات انہوں نے کئے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ بیت المال میں سے سوائے صحابہ کے دوسرے اہل مدینہ کو ہر گز کوئی روپیہ نہ دیا جایا کرے.یہ خالی بیٹھے کیوں فائدہ اٹھاتے ہیں (جس طرح آج کل بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بعض لوگ قادیان میں یونہی بیٹھے رہتے ہیں اور لنگر سے کھانا کھاتے ہیں ان کے کھانے بند کرنے چاہئیں مگر جس طرح پہلوں نے اصل حکمت کو نہیں سمجھا ان معترضوں نے بھی نہیں سمجھا) غرض انہوں نے بعض مطالبات کئے جو حضرت عثمان نے قبول کئے اور وہ لوگ یہ منصوبہ کر کے کہ اس وقت تو مدینہ کے لوگ چوکس نکلے اور مدینہ لشکر سے بھرا ہوا ہے.اس لئے واپس جانا ہی ٹھیک ہے لیکن فلاں دن اور فلاں وقت تم لوگ اچانک مدینہ کی طرف واپس لوٹو اور اپنے مدعا کو پورا کر دو.جب یہ لوگ واپس چلے گئے تو جس قدر لوگ مدینہ میں جمع ہو گئے تھے سب اپنے اپنے کاموں کے لئے متفرق ہو گئے.اور ایک دن اچانک ان باغیوں کا لشکر مدینہ میں داخل ہو گیا اور تمام گلیوں میں اعلان کر دیا کہ جو شخص خاموش رہے گا اسے امن دیا جائے گا.چنانچہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ رہے اور اس اچانک حملہ کا مقابلہ نہ کر سکے کیونکہ اگر کوئی شخص کوشش کرتا بھی تو اکیلا کیا کر سکتا تھا اور مسلمانوں کو آپس میں ملنے کی
۱۴۳ اجازت نہ دیتے تھے سوائے اوقات نماز کے کہ اس وقت بھی عین نماز کے وقت جمع ہونے دیتے اور پھر پراگندہ کر دیتے اس شرارت کو دیکھ کر بعض صحابہ ان لوگوں کے پاس گئے اور کہا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی ہے انہوں نے کہا ہم تو یہاں سے چلے گئے تھے.لیکن راستہ میں ایک غلام حضرت عثمان کا ملا.اس کی طرف سے ہمیں شک ہوا ہم نے اس کی تلاشی لی تو اس کے پاس ایک خط نکلا جو گورنر مصر کے نام تھا اور جس میں ہم سب کے قتل کا فتویٰ تھا.اس لئے ہم واپس آگئے ہیں کہ یہ دھوکا ہم سے کیوں کیا گیا ہے.ان صحابہ نے ان سے کہا کہ تم یہ تو ہمیں بتاؤ کہ خط تو مصریوں کو ملا تھا اور تم تینوں جماعتوں ( یعنی کو فیوں ، بصریوں اور مصریوں) کے راستے الگ الگ تھے اور تم کئی منزلیں ایک دوسرے سے دور تھے پھر ایک ہی وقت میں اس قدر جلد تینوں جماعتیں واپس مدینہ میں کیونکر آگئیں اور باقی جماعتوں کو کیوں کر معلوم ہوا کہ مصریوں کو اس مضمون کا کوئی خط ملا ہے.یہ تو صریح فریب ہے جو تم لوگوں نے بنایا ہے.انہوں نے کہا کہ فریب سمجھو یا درست سمجھو ہمیں عثمان کی خلافت منظور نہیں.وہ خلافت سے الگ ہو جا ئیں.اس کے بعد مصری حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اب تو اس شخص کا قتل جائز ہو گیا ہے آپ ہمارے ساتھ چلیں اور عثمان کا مقابلہ کریں.حضرت علی نے بھی ان کو یہی جواب دیا کہ تم جو واقعہ سناتے ہو وہ بالکل بناوٹی ہے کیونکہ اگر تمہارے ساتھ ایسا واقعہ گزرا تھا تو بصری اور کو فی کس طرح تمہارے ساتھ ہی مدینہ میں آگئے.ان کو اس واقعہ کا کس طرح علم ہوا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے پہلے سے ہی منصوبہ بنارکھا تھا چلے جاؤ.خدا تعالیٰ تمہارا برا کرے.میں تمہارے ساتھ نہیں مل سکتا.(مصری لوگ خط ملنے کا جو وقت بتاتے تھے اس میں اور ان کے مدینہ میں واپس آنے کے درمیان اس قدر قلیل وقت تھا کہ اس عرصہ میں بصریوں اور کو فیوں کو خبر مل کر وہ واپس مدینہ میں نہیں آسکتے تھے پس صحابہ نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ مدینہ سے جاتے وقت پہلے سے ہی منصوبہ کر گئے تھے کہ فلاں دن مدینہ پہنچ جاؤ اور خط کا واقعہ صرف ایک فریب
۱۴۴ تھا ) جب حضرت علی کا یہ جواب ان باغیوں نے سنا تو ان میں سے بعض بول اٹھے کہ اگر یہ بات ہے تو آپ ہمیں پہلے خفیہ خط کیوں لکھا کرتے تھے.حضرت علی نے فرمایا کہ میں نے کبھی کوئی خط تم لوگوں کو نہیں لکھا آپ کا یہ جواب سن کر وہ آپس میں کہنے لگے کہ کیا اس شخص کی خاطر تم لوگ لڑتے پھرتے ہو ( یعنی پہلے تو اس نے ہمیں خط لکھ کر اکسایا اور اب اپنی جان بچاتا ہے)..اس گفتگو سے یہ بات صاف معلوم ہو جاتی ہے کہ یہ باغی جھوٹے خط بنانے کے پکے مشاق تھے اور لوگوں کو حضرت علیؓ کی طرف سے خطہ بنا کر سناتے رہتے تھے کہ ہماری مدد کے لئے آؤ.لیکن جب حضرت علیؓ کے سامنے بعض ان لوگوں نے جو اس فریب میں شامل نہ تھے خطوں کا ذکر کر دیا.اور آپ نے انکار کیا تو پھر ان شریروں نے جو اس فریب کے مرتکب تھے یہ بہانہ بنایا کہ گویا حضرت علی نعوذ باللہ پہلے خط لکھ کر اب خوف کے مارے ان سے انکار کرتے ہیں حالانکہ تمام واقعات ان کے اس دعوی کی صریح تردید کرتے ہیں اور حضرت علی کا رویہ شروع سے بالکل پاک نظر آتا ہے لیکن یہ سب فساد اسی بات کا نتیجہ تھا کہ ان مفسدوں کے پھندے میں آئے ہوئے لوگ حضرت علی سے بھی واقف نہ تھے.الغرض حضرت علی کے پاس سے نا امید ہو کر یہ لوگ حضرت عثمان کے پاس گئے اور کہا کہ آپ نے یہ خط لکھا آپ نے فرمایا کہ شریعت اسلام کے مطابق دو طریق ہیں یا تو یہ کہ دو گواہ تم پیش کرو کہ یہ کام میرا ہے.یا یہ کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ یہ تحریر ہرگز میری نہیں اور نہ میں نے کسی سے لکھوائی اور نہ مجھے اس کا علم ہے اور تم جانتے ہو کہ لوگ جھوٹے خط لکھ لیتے ہیں اور مہروں کی بھی نقلیں بنا لیتے ہیں مگر اس بات پر بھی ان لوگوں نے شرارت نہ چھوڑی اور اپنی ضد پر قائم رہے.اس واقعہ سے بھی ہمیں یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ مدینہ کے لوگ ان کے ساتھ شامل نہ تھے کیونکہ اگر مدینہ میں سے بعض لوگ ان کی شرارت میں حصہ دار ہوتے تو ان کے لئے دو
۱۴۵ جھوٹے گواہ بنا لینے کچھ مشکل نہ تھے لیکن ان کا اس بات سے عاجز آجانا بتاتا ہے کہ مدینہ میں سے دو آدمی بھی ان کے ساتھ نہ تھے (سوائے ان تین آدمیوں کے جن کا ذکر پہلے کر چھ ہوں مگر ان میں سے محمد بن ابی بکر تو ان لوگوں کے ساتھ تھے.مدینہ میں نہ تھے اور صرف عمار اور محمد بن ابی حذیفہ مدینہ میں تھے لیکن یہ دونوں بھی نیک آدمی تھے اور صرف ان کی فریب دینے والی باتوں کے دھوکے میں آئے ہوئے تھے ) اور یہ لوگ اپنے میں سے گواہ نہیں بنا سکتے تھے کیونکہ یہ لوگ مدینہ میں موجود نہ تھے ان کی گواہی قابل قبول نہ تھی.گو ہر طرح ان لوگوں کو ذلت پہنچی لیکن انہوں نے اپنی کارروائی کو ترک نہ کیا اور برابر مدینہ کا محاصرہ کئے پڑے رہے.شروع شروع میں تو حضرت عثمان کو بھی اور باقی اہل مدینہ کو بھی مسجد میں نماز کے لئے آنے کی اجازت انہوں نے دے دی تھی.اور حضرت عثمان بڑی دلیری سے ان لوگوں میں آکر نماز پڑھاتے لیکن باقی اوقات میں ان لوگوں کی جماعتیں مدینہ کی گلیوں میں پھرتی رہتیں اور اہل مدینہ کو آپس میں کہیں جمع ہونے نہ دیتیں تا کہ وہ ان پر حملہ آور نہ ہوں.جب جمعہ کا دن آیا تو حضرت عثمان جمعہ کی نماز کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے اور منبر پر چڑھ کر فرمایا کہ اے دشمنانِ اسلام ! مدینہ کے لوگ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی شما اینم نے تمہاری نسبت پیشگوئی کی ہے اور تم پر لعنت کی ہے پس تم نیکیاں کر کے اپنی بدیوں کو مٹاؤ.کیونکہ بدیوں کو سوائے نیکیوں کے اور کوئی چیز نہیں مٹاتی.اس پر محمد بن سلمہ کھڑے ہوئے اور فرمایا میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں لیکن حکیم بن جبلہ (وہی چور جس کا ذکر پہلے آچکا ہے ) نے ان کو بٹھا دیا.پھر زید بن ثابت کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا مجھے قرآن کریم دو ( ان کا منشاء بھی ان لوگوں کے خلاف گواہی دینے کا تھا ) مگر باغیوں میں سے ایک شخص نے ان کو بھی بٹھا دیا اور پھر اس خیال سے کہ ایسا نہ ہو صحابہ اسی طرح گواہی دے دے کر ہمارا ملعون اور خلاف قرآن امور پر عامل
۱۴۶ ہونا ظاہر کر دیں پتھر مار مار کر صحابہ کو مسجد سے باہر نکال دیا اور اس کے بعد حضرت عثمان " پر پتھر پھینکنے شروع کئے جن کے صدمہ سے وہ بیہوش ہو کر زمین پر جا پڑے.جس پر بعض لوگوں نے آپ کو اٹھا کر آپ کے گھر پہنچا دیا.جب صحابہ کو حضرت عثمان کا حال معلوم ہوا تو باوجود اس بے بسی کی حالت کے ان میں سے ایک جماعت لڑنے کے لئے تیار ہو گئی.جن میں ابوہریرہ ، زید بن ثابت کا تب رسول کریم ال ای ایم اور حضرت امام حسن بھی تھے.جب حضرت عثمان کو اس بات کا علم ہوا.تو آپ نے انکو قسم دے کر کہلا بھیجا کہ جانے دو اور ان لوگوں سے جنگ نہ کرو.چنانچہ بادل ناخواستہ یہ لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے اور حضرت علی حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے آپ کے گھر پر جا کر اس واقعہ کا بہت افسوس کیا.اس واقعہ کے بعد بھی حضرت عثمان نماز پڑھاتے رہے لیکن محاصرہ کے تیسویں دن مفسدوں نے آپ کو نماز کے لئے نکلنے سے بھی روک دیا.اور اہل مدینہ کو بھی دق کرنا شروع کیا.اور جو شخص ان کی خواہشات کے پورا کرنے میں مانع ہوتا اسے قتل کر دیتے اور مدینہ کے لوگوں میں کوئی شخص بغیر تلوار لگائے کے باہر نہ نکل سکتا کہ کہیں اس کو یہ لوگ ایذاء نہ پہنچا ئیں.انہی دنوں میں کہ حضرت عثمان ” خود نماز پڑھاتے تھے.آخری جمعہ میں آپ نماز پڑھانے لگے تو ایک خبیث نے آپ کو گالی دے کر کہا کہ اتر منبر سے اور آپ کے ہاتھ میں رسول کریم ساینی پیام کا عصا تھا وہ چھین لیا اور اسے اپنے گھٹنے پر رکھ کر توڑ دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ سزادی کہ اس کے گھٹنے میں کیڑے پڑ گئے.اس کے بعد حضرت عثمان صرف ایک یا دو دفعہ نکلے.پھر نکلنے کی ان باغیوں نے اجازت نہ دی.ان محاصرہ کے دنوں میں حضرت عثمان نے ایک شخص کو بلوایا اور پوچھا کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں.اس نے کہا کہ دو باتوں میں سے ایک چاہتے ہیں یا تو یہ کہ آپ خلافت ترک کر دیں اور یا یہ کہ آپ پر جو الزام لگائے جاتے ہیں ان کے بدلہ میں آپ سے قصاص لیا جائے.اگر ان دونوں باتوں میں سے آپ
۱۴۷ ایک بھی نہ مانیں گے تو یہ لوگ آپ کو قتل کر دیں گے.آپ نے پوچھا کہ کیا کوئی اور تجویز نہیں ہوسکتی.اس نے کہا نہیں.اور کوئی صورت نہیں ہو سکتی.اس پر آپ نے فرمایا.کہ خلافت تو میں چھوڑ نہیں سکتابی قمیض خدا تعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے اسے تو میں ہرگز نہیں اتاروں گا.مجھے اپنا قتل ہونا اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں خدا تعالی کی پہنائی ہوئی قمیض کو اتار دوں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑنے مرنے دوں.باقی رہا قصاص کا معاملہ.سو مجھ سے پہلے دونوں خلیفوں سے کبھی ان کے کاموں کے بدلہ میں قصاص نہیں لیا گیا.باقی رہا یہ کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے سو یا د رکھو کہ اگر وہ مجھے قتل کر دیں گے تو اس دن کے بعد سب مسلمان کبھی ایک مسجد میں نماز نہیں ادا کریں گے اور کبھی سب مسلمان مل کر ایک دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے.اور نہ مسلمانوں کا اتحاد قائم رہے گا.(چنانچہ تیرہ سو سال کے واقعات اس قول کی صداقت پر شہادت دے رہے ہیں ).تاریخ طبری جلد ۶ صفحه ۲۹۹۰ مطبوعہ بیروت) اس کے بعد مفسدوں نے حکم دے دیا کہ کوئی شخص نہ حضرت عثمان کے پاس جا سکے نہ اپنے مکان سے باہر نکل سکے.چنانچہ جب یہ حکم دیا تو اس وقت ابن عباس اندر تھے جب انہوں نے نکلنا چاہا تو لوگوں نے ان کو باہر نکلنے کی اجازت نہ دی.لیکن اتنے عرصہ میں محمد بن ابو بکر آگئے اور انہوں نے ان لوگوں سے کہا کہ ان کو جانے دو.جس پر انہوں نے انہیں نکلنے کی اجازت دے دی.اس کے بعد محاصرہ سخت ہو گیا اور کسی شخص کو اندر جانے کی اجازت نہ دی جاتی.حتی کہ حضرت عثمان اور آپ کے گھر والوں کے لئے پانی تک لے جانے کی اجازت نہ تھی اور پیاس کی شدت سے وہ سخت تکلیف اٹھاتے تھے.جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو حضرت عثمان نے اپنی دیوار پر چڑھ کر اپنے ایک ہمسایہ کے لڑکے کو حضرت علی حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اور امہات المؤمنین کے پاس بھیجا کہ ہمارے لئے پانی کا کوئی رض
۱۴۸ بند وبست کرو.اس پر حضرت علی فوراً پانی کی ایک مشک لے کر گئے لیکن ہر چند انہوں نے کوشش کی.مفسدوں نے ان کو پانی پہنچانے یا اندر جانے کی اجازت نہ دی.اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ کیا طریق ہے نہ مسلمان کا طریق ہے نہ کفار کا رومی اور ایرانی بھی اپنے دشمن کا کھانا اور پینا بند نہیں کرتے.تم لوگوں کو خوف خدا بھی اس حرکت سے نہیں روکتا.انہوں نے کہا کہ خواہ کچھ ہو اس کے پاس ایک قطرہ پانی نہیں پہنچنے دیں گے جس پر حضرت علی نے اپنی پگڑی حضرت عثمان کے گھر میں پھینک دی.تا ان کو معلوم ہو جائے کہ آپ نے تو بہت کوشش کی لیکن لوگوں نے آپ تک ان کو پہنچنے نہ دیا.اسی طرح رسول کریم صلی اینم کی زوجہ مطہرہ حضرت ام حبیبہ کو جب علم ہوا تو آپ بھی خلیفہ کی مدد کے لئے گھر سے تشریف لائیں لیکن ان بدبختوں نے آپ سے وہ سلوک کیا کہ جو ہمیشہ کے لئے ان کے لئے باعث لعنت رہے گا.اول تو انہوں نے اس خچر کو بد کا دیا جس پر آپ سوار تھیں.اور جب آپ نے کہا کہ حضرت عثمان کے پاس بنوامیہ کے یتامی اور بیواؤں کے اموال کے کاغذات ہیں.ان کی وفات کے ساتھ ہی یتامی اور بیواؤں کے مال ضائع ہو جائیں گے.اس کے لئے تو مجھے جانے دو کہ کوئی انتظام کروں تو انہوں نے کہا کہ تو جھوٹ بولتی ہے (نعوذ باللہ من ذالک) اور پھر تلوار مار کر آپ کی خچر کا تنگ توڑ دیا اور قریب تھا کہ وہ اس انبوہ میں گر کر شہید ہو جاتیں اور بے پردہ ہوتیں کہ بعض سچے مسلمانوں نے آگے بڑھ کر آپ کو سنبھالا اور حفاظت سے آپ کے گھر پہنچا دیا.اس خبر کے پہنچتے ہی حضرت عائشہ حج کے لئے چل پڑیں اور جب بعض لوگوں نے آپ کو روکا کہ آپ کے یہاں رہنے سے شاید فساد میں کچھ کمی ہو تو انہوں نے کہا کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ہر طرح اس فساد کو روکتی.لیکن کیا تم چاہتے ہو کہ میرے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو آنحضرت سایہ اسلام کی دوسری بیوی ام حبیبہ کے ساتھ ہوا ہے اور اس وقت میرے بچانے والا بھی کوئی نہ ہو.خدا کی قسم میں اپنے آپ کو ایسے خطرہ میں نہ ڈالوں گی
۱۴۹ کہ میرے ننگ و ناموس پر حرف آئے.ان باغیوں نے جب دیکھا کہ ان کی طرف سے فساد کی کوئی راہ نہیں نکلتی تو آپ کے گھر پر پتھر مارنے شروع کئے تا کوئی ناراض ہو کر ان پر بھی حملہ کر دے تو ان کو عذ رمل جائے کہ ہم پر حملہ کیا گیا تھا اس لئے ہم نے بھی حملہ کیا.پتھروں کے پڑنے پر حضرت عثمان نے آواز دی کہ اے لوگو! خدا سے ڈرود شمن تو تم میرے ہو.اور اس گھر میں تو میرے سوا اور لوگ بھی ہیں ان کو کیوں تکلیف دیتے ہو.ان بد بختوں نے جواب دیا کہ ہم پتھر نہیں مارتے یہ پتھر خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہارے اعمال کے بدلے میں پڑ رہے ہیں.آپ نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے تمہارے پتھر تو کبھی ہمیں لگتے ہیں اور کبھی نہیں لگتے اور خدا تعالیٰ کے پتھر تو خالی نہیں جایا کرتے وہ تو نشانہ پر ٹھیک بیٹھتے ہیں.فساد کو اس قدر بڑھتا ہوا دیکھ کر حضرت عثمان نے چاہا کہ مدینہ کے لوگوں کو بیچ میں سے ہٹاؤں تا کہ میرے ساتھ یہ بھی تکلیف میں نہ پڑیں چنانچہ آپ نے حکم دیا کہ اے اہل مدینہ ! میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ اپنے گھروں میں بیٹھ رہو اور میرے مکان کے پاس نہ آیا کرو اور میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ میری اس بات کو مان لو.اس پر وہ لوگ بادل نخواستہ اپنے گھروں کی طرف چلے گئے لیکن اس کے بعد چند نو جوانوں کو پہرہ کے لئے انہوں نے مقرر کر دیا.حضرت عثمان نے جب صحابہؓ کی اس محبت کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ اگر کوئی فساد ہوا تو صحابہ اور اہل مدینہ اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈال دیں گے لیکن خاموش نہ رہیں گے تو انہوں نے اعلان کیا کہ حج کا موسم ہے لوگوں کو حسب معمول حج کے لئے جانا چاہئے اور عبداللہ بن عباس کو جو ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپ کا دروازہ نہیں چھوڑا تھا.فرمایا کہ تم کو میں حج کا امیر مقرر کرتا ہوں.انہوں نے کہا اے امیر المؤمنین ! خدا کی قسم یہ جہاد مجھے حج سے بہت زیادہ پیارا ہے مگر آپ نے ان کو مجبور کیا کہ فوراً چلے جائیں اور حج کا انتظام کریں.اس کے بعد اپنی وصیت لکھ کر حضرت زبیر کے پاس
۱۵۰ بھجوادی اور ان کو بھی رخصت کیا.چونکہ حضرت ابوبکر کے چھوٹے لڑکے محمد ان باغیوں کے فریب میں آئے ہوئے تھے.ان کو ایک عورت نے کہلا بھیجا کہ شمع سے نصیحت حاصل کر ووہ خود جلتی ہے اور دوسروں کو روشنی دیتی ہے پس ایسا نہ کرو کہ خود گنہگار ہو کر ان لوگوں کے لئے خلافت کی مسند خالی کرو جو گنہ گار نہیں.خوب یا درکھو کہ جس کام کے لئے تم کوشش کر رہے ہو وہ کل دوسروں کے ہاتھ میں جائے گا.اور اس وقت آج کا عمل تمہارے لئے باعث حسرت ہوگا.لیکن ان کو اس جوش کے وقت اس نصیحت کی قدر معلوم نہ ہوئی.غرض ادھر تو حضرت عثمان اہل مدینہ کی حفاظت کے لئے ان کو باغیوں کا مقابلہ کرنے سے روک رہے تھے اور ادھر آپ کے بعض خطوط سے مختلف علاقوں کے گورنروں کو مدینہ کے حالات کا علم ہو گیا تھا اور وہ چاروں طرف سے لشکر جمع کر کے مدینہ کی طرف بڑھے چلے آرہے تھے.اسی طرح حج کے لئے جو لوگ جمع ہوئے تھے ان کو جب معلوم ہوا.تو انہوں نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ حج کے بعد مدینہ کی طرف سب لوگ جائیں اور ان باغیوں کی سرکوبی کریں.جب ان حالات کا علم با غیوں کو ہوا تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ یہ غلطی جو ہم سے ہوئی ہے کہ ہم نے اس طرح خلیفہ کا مقابلہ کیا ہے اس سے پیچھے ہٹنے کا اب کوئی راستہ نہیں.پس اب یہی صورت نجات کی ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کوقتل کر دو.جب انہوں نے یہ ارادہ کر کے حضرت عثمان کے مکان پر حملہ کیا تو صحابہ تلوار میں کھینچ کر حضرت عثمان کے دروازہ پر جمع ہو گئے.مگر حضرت عثمان نے ان کو منع کیا اور کہا کہ تم کو میں اپنی مدد کے عہد سے آزاد کرتا ہوں تم اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ لیکن اس خطر ناک حالت میں حضرت عثمان کو تنہا چھوڑ دینا انہوں نے گوارا نہ کیا اور واپس لوٹنے سے صاف انکار کر دیا.اس پر وہ اسی سالہ بوڑھا و جو ہمت میں بہادر جوانوں سے زیادہ تھا ہاتھ میں تلوار لے کر اور ڈھال پکڑ کر اپنے گھر کا دروازہ کھول کر مردانہ وارصحابہ کو روکنے کے لئے اپنے خون
۱۵۱ کے پیاسے دشمنوں میں نکل آیا.اور آپ کے اس طرح باہر نکل آنے کا یہ اثر ہوا کہ مصری جو اس وقت حملہ کر رہے تھے الٹے پاؤں لوٹ گئے اور آپ کے سامنے کوئی نہ ٹھہرا.آپ نے صحابہ کو بہت روکا لیکن انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں ہم آپ کی بات نہ مانیں گے کیونکہ آپ کی حفاظت ہمارا فرض ہے.آخر حضرت عثمان ان کو اپنے گھر میں لے آئے اور پھر دروازہ بند کر لیا.اس وقت صحابہ نے ان سے کہا کہ اے امیر المؤمنین اگر آج آپ کے کہنے پر ہم لوگ گھروں کو چلے جائیں تو خدا تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دیں گے کہ تم میں حفاظت کی طاقت تھی پھر تم نے حفاظت کیوں نہ کی.اور ہم میں اتنی تو طاقت ہے کہ اس وقت تک کہ ہم سب مر جائیں ان کو آپ تک نہ پہنچنے دیں ( ان صحابہ میں حضرت امام حسن بھی شامل تھے ) جب مفسدوں نے دیکھا کہ ادھر تو صحابہ کسی طرح ان کو حضرت عثمان کے گھر میں داخل ہونے نہیں دیتے اور ادھر مکہ کے حاجیوں کی واپسی شروع ہوگئی ہے بلکہ بعض بہادر اپنی سواریوں کو دوڑا کر مدینہ میں پہنچ بھی گئے ہیں.اور شام و بصرہ کی فوجیں بھی مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئی ہیں بلکہ ایک دن کے فاصلہ پر رہ گئی ہیں تو وہ سخت گھبرائے اور کہا کہ یا آج ان کا کسی طرح فیصلہ کر دو.ورنہ ہلاکت کے لئے تیار ہو جاؤ.چنانچہ چند آدمیوں نے یہ کام اپنے ذمہ لیا اور بے خبری میں ایک طرف سے کود کر آپ کے قتل کے لئے گھر میں داخل ہوئے.ان میں محمد بن ابی بکر بھی تھے جنہوں نے سب سے آگے بڑھ کر آپ کی داڑھی پکڑی.اس پر حضرت عثمان نے فرمایا کہ اگر تیرا باپ ہوتا تو ایسانہ کرتا اور کچھ ایسی پر رعب نگاہوں سے دیکھا کہ ان کا تمام بدن کانپنے لگ گیا اور وہ اسی وقت واپس لوٹ گئے.باقی آدمیوں نے آپ کو پہلے مارنا شروع کیا.اس کے بعد تلوار مار کر آپ کو قتل کر دیا.آپ کی بیوی نے آپ کو بچانا چاہا لیکن ان کا ہاتھ کٹ گیا جس وقت آپ کو قتل کیا گیا اس وقت آپ قرآن پڑھ رہے تھے اور آپ نے ان قاتلوں کو دیکھ کر قرآن کی تلاوت نہیں چھوڑی بلکہ اسی میں مشغول رہے چنانچہ ایک خبیث نے
۱۵۲ پیر مار کر آپ کے آگے سے قرآن کریم کو پرے پھینک دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شقی دین سے کیا تعلق رکھتے تھے.آپ کے قتل کرنے کے بعد ایک شور پڑ گیا اور باغیوں نے اعلان کر دیا کہ آپ کے گھر میں جو کچھ ہو لوٹ لو.چنانچہ آپ کا سب مال واسباب لوٹ لیا گیا.لیکن اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ آپ کے گھر کے لوٹنے کے بعد وہ لوگ بیت المال کی طرف گئے اور خزانہ میں جس قدر روپیہ تھا سب لوٹ لیا جس سے ان لوگوں کی اصل نیت معلوم ہوتی ہے یا تو یہ لوگ حضرت عثمان پر الزام لگاتے تھے اور ان کے معزول کرنے کی یہی وجہ بتاتے تھے کہ وہ خزانہ کے روپیہ کو بری طرح استعمال کرتے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کو دے دیتے ہیں.یا خود سرکاری خزانہ کے قفل تو ڑ کر سب روپیہ لوٹ لیا اس سے معلوم ہو گیا کہ ان کی اصل غرض دنیا تھی.اور حضرت عثمان کا مقابلہ محض اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لئے تھا تا کہ جو چاہیں کریں اور کوئی شخص روک نہ ہو.جب حضرت عثمان شہید ہوئے تو اسلامی لشکر جو شام وبصرہ اور کوفہ سے آتے تھے ایک دن کے فاصلہ پر تھے ان کو جب یہ خبر ملی تو وہ وہیں سے واپس لوٹ گئے تا ان کے جانے کی وجہ سے مدینہ میں کشت وخون نہ ہو اور خلافت کا معاملہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیا.ان باغیوں نے حضرت عثمان کو شہید کرنے اور ان کا مال لوٹنے پر بس نہیں کی بلکہ ان کی لاش کو بھی پاؤں میں روندا اور دفن نہ کرنے دیا.آخر جب خطرہ ہوا کہ زیادہ پڑے رہنے سے جسم میں تغیر نہ پیدا ہو جائے.تو بعض صحابہ نے رات کے وقت پوشیدہ آپ کو دفن کر دیا.ایک دو دن تو خوب لوٹ مار کا بازار گرم رہا.لیکن جب جوش ٹھنڈا ہوا.تو ان باغیوں کو پھر اپنے انجام کا فکر ہوا.اور ڈرے کہ اب کیا ہوگا.چنانچہ بعض نے تو یہ سمجھ کر کہ حضرت معاویہ ایک زبر دست آدمی ہیں اور ضرور اس قتل کا بدلہ لیں گے شام کا رخ کیا اور وہاں جا کر خود ہی واویلا کرنا شروع کر دیا کہ حضرت عثمان شہید ہو گئے اور کوئی ان کا قصاص نہیں لیتا.کچھ
۱۵۳ بھاگ کر مکہ کے راستے میں حضرت زبیر اور حضرت عائشہ سے جاملے اور کہا کہ کس قدر ظلم ہے کہ خلیفہ اسلام شہید کیا جائے اور مسلمان خاموش رہیں کچھ بھاگ کر حضرت علی کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس وقت مصیبت کا وقت ہے.اسلامی حکومت ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہے آپ بیعت لیں تا لوگوں کا خوف دور ہو.اور امن وامان قائم ہو جو صحابہ مدینہ میں موجود تھے انہوں نے بھی بالاتفاق یہی مشورہ دیا کہ اس وقت یہی مناسب ہے کہ آپ اس بوجھ کو اپنے سر پر رکھیں کہ آپ کا یہ کام موجب ثواب و رضائے الہی ہوگا.جب چاروں طرف سے آپ کو مجبور کیا گیا تو کئی دفعہ انکار کرنے کے بعد آپ نے مجبوراً اس کام کو اپنے ذمہ لیا اور بیعت لی.اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی کا یہ فعل بڑی حکمت پر مشتمل تھا.اگر آپ اس وقت بیعت نہ لیتے تو اسلام کو اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچتا جو آپ کی اور حضرت معاویہ کی جنگ سے پہنچا.کیونکہ اس صورت میں تمام اسلامی صوبوں کے آزاد ہو کر الگ الگ بادشاہتوں کے قیام کا اندیشہ تھا.اور جو بات چار سو سال بعد ہوئی وہ اسی وقت ہو جانی ممکن ہی نہیں بلکہ یقینی تھی.پس گو حضرت علی کا اس وقت بیعت لینا بعض مصالح کے ماتحت مناسب نہ تھا.اور اسی کی وجہ سے آپ پر بعض لوگوں نے شرارت سے اور بعض نے غلط نہی سے یہ الزام لگایا کہ آپ نعوذ باللہ حضرت عثمان کے قتل میں شریک تھے اور یہ خطرہ آپ کے سامنے بیعت لینے سے پہلے حضرت ابن عباس نے بیان بھی کر دیا تھا اور آپ اسے خوب سمجھتے بھی تھے لیکن آپ نے اسلام کی خاطر اپنی شہرت و عزت کی کوئی پرواہ نہیں کی اور ایک بے نظیر قربانی کر کے اپنے آپ کو ہدف ملامت بنایا لیکن اسلام کو نقصان پہنچنے سے بچالیا.فجزاہ اللہ عنا عن جميع المسلمین.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں قاتلوں کے گروہ مختلف جہات میں پھیل گئے تھے اور اپنے آپ کو الزام سے بچانے کے لئے دوسروں پر الزام لگاتے تھے جب ان کو معلوم ہوا کہ
۱۵۴ حضرت علی نے مسلمانوں سے بیعت لے لی ہے تو ان کو آپ پر الزام لگانے کا عمدہ موقعہ مل گیا اور یہ بات درست بھی تھی کہ آپ کے اردگر د حضرت عثمان کے قاتلوں میں سے کچھ لوگ جمع بھی ہو گئے تھے.اس لئے ان کو الزام لگانے کا عمدہ موقعہ حاصل تھا چنانچہ ان میں سے جو جماعت مکہ کی طرف گئی تھی اس نے حضرت عائشہؓ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے جہاد کا اعلان کریں چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہ کو اپنی مدد کے لئے طلب کیا.حضرت طلحہ اور زبیر نے حضرت علی کی بیعت اس شرط پر کر لی تھی کہ وہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے جلد سے جلد بدلہ لیں گے انہوں نے جلدی کے جو معنی سمجھے تھے وہ حضرت علی کے نزدیک خلاف مصلحت تھی ان کا خیال تھا کہ پہلے تمام صوبوں کا انتظام ہو جائے پھر قاتلوں کو سزا دینے کی طرف توجہ کی جائے.کیونکہ اول مقدم اسلام کی حفاظت ہے قاتلوں کے معاملہ میں دیر ہونے سے کوئی حرج نہیں.اسی طرح قاتلوں کی تعیین میں بھی اختلاف تھا جو لوگ نہایت افسردہ شکلیں بنا کر سب سے پہلے حضرت علی کے پاس پہنچ گئے تھے اور اسلام میں تفرقہ ہو جانے کا اندیشہ ظاہر کرتے تھے ان کی نسبت حضرت علی کو بالطبع شبہ نہ ہوتا تھا کہ یہ لوگ فساد کے بانی ہیں دوسرے لوگ ان پر شبہ کرتے تھے اس اختلاف کی وجہ سے طلحہ اور زبیر نے یہ سمجھا کہ حضرت علی اپنے عہد سے پھرتے ہیں.چونکہ انہوں نے ایک شرط پر بیعت کی تھی اور وہ شرط ان کے خیال میں حضرت علی نے پوری نہ کی تھی اس لئے وہ شرعاً اپنے آپ کو بیعت سے آزاد خیال کرتے تھے جب حضرت عائشہؓ کا اعلان ان کو پہنچا تو وہ بھی ان کے ساتھ جاملے اور سب مل کر بصرہ کی طرف چلے گئے.بصرہ میں گورنر نے لوگوں کو آپ کے ساتھ ملنے سے باز رکھا لیکن جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ طلحہ اور زبیر نے صرف اکراہ سے اور ایک شرط سے مقید کر کے حضرت علی کی بیعت کی ہے تو اکثر لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو گئے.جب حضرت علی کو اس لشکر کا علم ہوا تو
آپ نے بھی ایک لشکر تیار کیا اور بصرہ کی طرف روانہ ہوئے.بصرہ پہنچ کر آپ نے ایک آدمی کو حضرت عائشہ اور طلحہ اور زبیر کی طرف بھیجا.وہ آدمی پہلے حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا.اور دریافت کیا کہ آپ کا ارادہ کیا ہے.انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا ارادہ صرف اصلاح ہے اس کے بعد اس شخص نے طلحہ اور زبیر کو بھی بلوا یا.اور ان سے پوچھا کہ آپ بھی اسی لئے جنگ پر آمادہ ہوئے ہیں.انہوں نے کہا کہ ہاں.اس شخص نے جواب دیا کہ اگر آپ کا منشاء اصلاح ہے تو اس کا یہ طریق نہیں جو آپ نے اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ تو فساد ہے اس وقت ملک کی ایسی حالت ہے کہ اگر ایک شخص کو آپ قتل کریں گے تو ہزار اس کی تائید میں کھڑے ہو جائیں گے اور ان کا مقابلہ کریں گے تو اور بھی زیادہ لوگ ان کی مدد کے لئے کھڑے ہو جائیں گے.پس اصلاح یہ ہے کہ پہلے ملک کو اتحاد کی رسی میں باندھا جائے پھر شریروں کو سزا دی جائے ورنہ اس بدامنی میں کسی کو سزا دینا ملک میں اور فتنہ ڈلوانا ہے.حکومت پہلے قائم ہو جائے تو وہ سزا دے گی.یہ بات سن کر انہوں نے کہا کہ اگر حضرت علی کا یہی عندیہ ہے تو وہ آجائیں ہم ان کے ساتھ ملنے کو تیار ہیں.اس پر اس شخص نے حضرت علی کو اطلاع دی اور طرفین کے قائم مقام ایک دوسرے کو ملے اور فیصلہ ہو گیا کہ جنگ کرنا درست نہیں صلح ہونی چاہئے.جب یہ خبر سبائیوں کو ( یعنی جو عبد اللہ بن سبا کی جماعت کے لوگ اور قاتلین حضرت عثمان تھے ) پہنچی تو ان کو سخت گھبراہٹ ہوئی.اور خفیہ خفیہ ان کی ایک جماعت مشورہ کے لئے اکٹھی ہوئی.انہوں نے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ مسلمانوں میں صلح ہو جانی ہمارے لئے سخت مضر ہوگی.کیونکہ اس وقت تک ہم حضرت عثمان کے قتل کی سزا سے بچ سکتے ہیں جب تک کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے.اگر صلح ہوگئی اور امن ہو گیا تو ہمارا ٹھکانا کہیں نہیں.اس لئے جس طرح سے ہو صلح نہ ہونے دو.اتنے میں حضرت علی بھی پہنچ گئے.اور
ܪܙ آپ کے پہنچنے کے دوسرے دن آپ کی اور حضرت زبیر کی ملاقات ہوئی.وقت ملاقات حضرت علی نے فرمایا کہ آپ نے میرے لڑنے کے لئے تو لشکر تیار کیا ہے مگر کیا خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لئے کوئی عذر بھی تیار کیا ہے.آپ لوگ کیوں اپنے ہاتھوں سے اس اسلام کے تباہ کرنے کے درپے ہوئے ہیں جس کی خدمت سخت جانکاہیوں سے کی تھی.کیا میں آپ لوگوں کا بھائی نہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ پہلے تو ایک دوسرے کا خون حرام سمجھا جاتا تھا لیکن اب حلال ہو گیا اگر کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہوتی تو بھی بات تھی جب کوئی نئی بات پیدا نہیں ہوئی تو پھر یہ مقابلہ کیوں ہے اس پر حضرت طلحہ نے کہا.وہ بھی حضرت زبیر کے ساتھ تھے کہا کہ آپ نے حضرت عثمان کے قتل پر لوگوں کو اکسایا ہے.حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں حضرت عثمان کے قتل میں شریک ہونے والوں پر لعنت کرتا ہوں پھر حضرت علی نے حضرت زبیر سے کہا کہ کیا تم کو یاد نہیں کہ رسول کریم صلیا پی ایم نے فرمایا تھا کہ خدا کی قسم تو علی سے جنگ کرے گا اور تو ظالم ہوگا.یہ سن کر حضرت زبیر اپنے لشکر کی طرف واپس لوٹے اور قسم کھائی کہ وہ حضرت علی سے ہر گز جنگ نہیں کریں گے اور اقرار کیا کہ انہوں نے اجتہاد میں غلطی کی.جب یہ خبر لشکر میں پھیلی تو سب کو اطمینان ہو گیا کہ اب جنگ نہ ہوگی بلکہ صلح ہو جائے گی لیکن مفسدوں کو سخت گھبراہٹ ہونے لگی.اور جب رات ہوئی تو انہوں نے صلح کو روکنے کے لئے یہ تدبیر کی کہ ان میں سے جو حضرت علی کے ساتھ تھے انہوں نے حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ وزبیر کے لشکر پر رات کے وقت شب خون ماردیا.اور جو ان کے لشکر میں تھے انہوں نے حضرت علی کے لشکر پر شب خون ماردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شور پڑ گیا.اور ہر فریق نے خیال کیا کہ دوسرے فریق نے اس سے دھوکا کیا حالانکہ اصل میں صرف سبائیوں کا ایک منصوبہ تھا.جب جنگ شروع ہوگئی تو حضرت علی نے آواز دی کہ کوئی شخص حضرت عائشہ کو اطلاع دے.شاید ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اس فتنہ کو دور
۱۵۷ کر دے.چنانچہ حضرت عائشہ کا اونٹ آگے کیا گیا لیکن نتیجہ اور بھی خطرناک نکلا مفسدوں نے یہ دیکھ کر کہ ہماری تدبیر پھر الٹی پڑنے لگی.حضرت عائشہ کے اونٹ پر تیر مارنے شروع کئے.حضرت عائشہ نے زور زور سے پکارنا شروع کیا کہ اے لوگو! جنگ کو ترک کرو.اور خدا اور یوم حساب کو یاد کرو لیکن مفسد باز نہ آئے اور برابر آپ کے اونٹ پر تیر مارتے چلے گئے.چونکہ اہل بصرہ اس لشکر کے ساتھ تھے جو حضرت عائشہ کے ارد گرد جمع ہوا تھا.ان کو یہ بات دیکھ کر سخت طیش آیا اور ام المؤمنین کی یہ گستاخی دیکھ کر ان کے غصہ کی کوئی حد نہ رہی اور تلوار میں کھینچ کر لشکر مخالف پر حملہ آور ہو گئے.اور اب یہ حال ہو گیا کہ حضرت عائشہ کا اونٹ جنگ کا مرکز بن گیا.صحابہ اور بڑے بڑے بہادر اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ایک کے بعد ایک قتل ہونا شروع ہوا لیکن اونٹ کی باگ انہوں نے نہ چھوڑی.حضرت زبیر تو جنگ میں شامل ہی نہ ہوئے اور ایک طرف نکل گئے مگر ایک شقی نے ان کے پیچھے سے جا کر اس حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے ان کو شہید کر دیا.حضرت طلحہ عین میدان جنگ میں ان مفسدوں کے ہاتھ سے مارے گئے.جب جنگ تیز ہوگئی تو یہ دیکھ کر کہ اس وقت تک جنگ ختم نہ ہوگی جب تک حضرت عائشہ کو درمیان سے ہٹایا نہ جائے.بعض لوگوں نے آپ کے اونٹ کے پاؤں کاٹ دیئے.اور ہودج اتار کر زمین پر رکھ دیا.تب کہیں جا کر جنگ ختم ہوئی.اس واقعہ کو دیکھ کر حضرت علی کا چہرہ مارے رنج کے سرخ ہو گیا لیکن یہ جو کچھ ہوا اس سے چارہ بھی نہ تھا جنگ کے ختم ہونے پر جب مقتولین میں حضرت طلحہ کی نعش ملی تو حضرت علی نے سخت افسوس کیا.ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس لڑائی میں صحابہ کا ہرگز کوئی دخل نہ تھا بلکہ یہ شرارت بھی قاتلان عثمان کی ہی تھی.اور یہ کہ طلحہ اور زبیر حضرت علی کی بیعت ہی میں فوت ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے ارادہ سے رجوع کر لیا تھا اور حضرت علی کا ساتھ دینے کا اقرار کر لیا تھا.لیکن بعض شریروں کے ہاتھوں سے مارے گئے چنانچہ حضرت علی نے ان کے قاتلوں پر لعنت بھی کی.
۱۵۸ ادھر تو یہ جنگ ہورہی تھی.ادھر عثمان کے قاتلوں کا گروہ جو معاویہ کے پاس چلا گیا تھا.اس نے وہاں ایک کہرام مچا دیا.اور وہ حضرت عثمان کا بدلہ لینے پر آمادہ ہو گئے.جب حضرت علی کے لشکر سے ان کا لشکر ملا.اور درمیان میں صلح کی بھی ایک راہ پیدا ہونے لگی تو ایک جماعت فتنہ پردازوں کی حضرت علی کا ساتھ چھوڑ کر الگ ہو گئی.اور اس نے یہ شور شروع کر دیا کہ خلیفہ کا وجود ہی خلاف شریعت ہے احکام تو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہی ہیں باقی رہا انتظام مملکت سو یہ ایک انجمن کے سپر د ہونا چاہئے.کسی ایک شخص کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہئے.اور یہ لوگ خوارج کہلائے.اب بھی جو لوگ ہمارے مخالف ہیں ان کا یہی دعوی ہے اور ان کے وہی الفاظ ہیں جو خوارج کے تھے.اور یہ بھی ہماری صداقت کا ایک ثبوت ہے کہ ان لوگوں کو اس جماعت سے مشابہت حاصل ہے جسے کل مسلمان بالاتفاق کراہت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آئے ہیں اور ان کی غلطی کے معترف ہیں.ابھی معاملات پوری طرح سمجھے نہ تھے کہ خوارج کے گروہ نے یہ مشورہ کیا کہ اس فتنہ کو اس طرح دور کرو کہ جس قدر بڑے آدمی ہیں ان کو قتل کر دو.چنانچہ ان کے دلیر یہ اقرار کر کے نکلے کہ ان میں سے ایک حضرت علی کو، ایک حضرت معاویہؓ کو اور ایک عمر و بن العاص کو ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں قتل کر دے گا.جو حضرت معاویہؓ کی طرف گیا تھا اس نے تو حضرت معاویہ پر حملہ کیا لیکن اس کی تلوار ٹھیک نہیں لگی اور حضرت معاویہؓ صرف معمولی زخمی ہوئے.وہ شخص پکڑا گیا اور بعد ازاں قتل کیا گیا.جو عمر و بن العاص کو مارنے گیا تھا وہ بھی ناکام رہا.کیونکہ وہ بوجہ بیماری نماز کے لئے نہ آئے جو شخص ان کو نماز پڑھانے کے لئے آیا تھا اس نے اس کو مار دیا اور خود پکڑا گیا اور بعد ازاں مارا گیا.جو شخص حضرت علی کو مارنے کے لئے نکلا تھا اس نے جبکہ آپ صبح کی نماز کے لئے کھڑے ہونے لگے آپ پر حملہ کیا اور آپ خطر ناک طور پر زخمی ہوئے آپ پر حملہ کرتے وقت اس شخص نے یہ الفاظ کہے کہ اے علی ! تیرا
۱۵۹ حق نہیں کہ تیری ہر بات مانی جایا کرے بلکہ یہ حق صرف اللہ کو ہے (اب بھی غیر مبائعین ہم پر شرک کا الزام لگاتے ہیں ) ان سب واقعات کو معلوم کر کے آپ لوگوں نے معلوم کر لیا ہو گا کہ یہ سب فتنہ انہی لوگوں کا اٹھایا ہوا تھا جو مدینہ میں نہیں آتے تھے.اور حضرت عثمان سے واقفیت نہ رکھتے تھے آپ کے حالات نہ جانتے تھے ، آپ کے اخلاص، آپ کے تقویٰ، اور آپ کی طہارت سے ناواقف تھے آپ کی دیانت اور امانت سے بے خبر تھے.چونکہ ان کو شریروں کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ خلیفہ خائن ہے، بددیانت ہے، فضول خرچ ہے، وغیرہ وغیرہ.اس لئے وہ گھر بیٹھے ہی ان باتوں کو درست مان گئے اور فتنہ کے پھیلانے کا موجب ہوئے.لیکن اگر وہ مدینہ میں آتے.حضرت عثمان کی خدمت میں بیٹھتے آپ کے حالات اور خیالات سے واقف ہوتے تو کبھی ایسا نہ ہوتا جیسا کہ ہوا.میں نے ان حالات کو بہت مختصر کر دیا ہے ورنہ یہ اتنے لمبے اور ایسے درد ناک ہیں کہ سننے والے کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.پس یاد رکھو کہ یہ وہ فتنہ تھا جس نے مسلمانوں کے ۷۲ فرقے نہیں بلکہ ۷۲ ہزار فرقے بنا دیئے.مگر اس کی وجہ وہی ہے جو میں نے کئی دفعہ بتائی ہے کہ وہ لوگ مدینہ میں نہ آتے تھے.ان باتوں کو خوب ذہن نشین کر لو کیونکہ تمہاری جماعت میں بھی ایسے فتنے ہوں گے جن کا علاج یہی ہے کہ تم بار بار قادیان آؤ اور صحیح صحیح حالات سے واقفیت پیدا کرو.میں نہیں جانتا کہ یہ فتنے کس زمانہ میں ہوں گے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ہوں گے ضرور لیکن اگر تم قادیان آؤ گے اور بار بار آؤ گے تو ان فتنوں کے دور کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے.پس تم اس بات کو خوب یا درکھو اور اپنی نسلوں در نسلوں کو یاد کراؤ تا کہ اس زمانہ میں کامیاب ہو جاؤ.صحابہ کی درد ناک تاریخ سے فائدہ اٹھاؤ اور وہ باتیں جوان کے لئے مشکلات کا موجب ہوئی ہیں ان کے انسداد کی کوشش کرو.فتنہ اور فساد
17.پھیلانے والوں پر کبھی حسن ظنی نہ کرنا.اور ان کی کسی بات پر تحقیق کئے بغیر اعتبار نہ کر لینا.کیا اس وقت تم نے ایسے لوگوں سے نقصان نہیں اٹھایا ضرور اٹھایا ہے پس اب ہوشیار ہو جاؤ اور جہاں کوئی فتنہ دیکھوفوراً اس کا علاج کرو.تو بہ اور استغفار پر بہت زور دینا.دیکھو اس وقت بھی کس طرح دھو کے دیئے جاتے ہیں.ہمارے مخالفین میں سے ایک سرکردہ کا خط میر حامد شاہ صاحب کے پاس موجود ہے جس میں وہ انہیں لکھتے ہیں کہ نور دین اسلام کا خطرناک دشمن ہے اور انجمن پر حکومت کرنا چاہتا ہے.شاہ صاحب تو چونکہ قادیان آنے جانے والے تھے اس لئے ان پر اس خط کا کچھ اثر نہ ہوا.لیکن اگر کوئی اور ہوتا جو قادیان نہ آیا کرتا تو وہ ضرور حضرت مولوی صاحب کے متعلق بدظنی کرتا.اور کہتا کہ قادیان میں واقعی اندھیر پڑا ہوا ہے.اسی طرح اور بہت سی باتیں ان لوگوں نے پھیلائی ہیں لیکن اس وقت تک خدا کے فضل سے انہیں کچھ کامیابی نہیں ہوئی.لیکن تم اس بات کے ذمہ دار ہو کہ شریر اور فتنہ انگیز لوگوں کو کرید کرید کر نکالو اور ان کی شرارتوں کے روکنے کا انتظام کرو.میں نے تمہیں خدا تعالیٰ سے علم پا کر بتادیا ہے اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں جس نے اس طرح تمام صحیح واقعات کو یکجا جمع کر کے تمہارے سامنے رکھ دیا ہے جن سے معلوم ہو جائے کہ پہلے خلیفوں کی خلافتیں اس طرح تباہ ہوئی تھیں.پس تم میری نصیحتوں کو یادرکھو تم پر خدا کے بڑے فضل ہیں اور تم اس کی برگزیدہ جماعت ہو.اس لئے تمہارے لئے ضروری ہے کہ اپنے پیشروؤں سے نصیحت پکڑو.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں لوگوں پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ پہلی جماعتیں جو ہلاک ہوئی ہیں تم ان سے کیوں سبق نہیں لیتے.تم بھی گزشتہ واقعات سے سبق لو.میں نے جو واقعات بتائے ہیں وہ بڑی زبردست اور معتبر تاریخوں کے واقعات ہیں جو بڑی تلاش اور کوشش سے جمع کئے گئے ہیں اور ان کا تلاش کرنا میرا فرض تھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے جبکہ مجھے خلافت کے منصب پر کھڑا کیا ہے تو مجھ پر واجب تھا کہ دیکھوں پہلے خلیفوں کے وقت کیا ہوا
۱۶۱ تھا اس کے لئے میں نے نہایت کوشش کے ساتھ حالات کو جمع کیا ہے.اس سے پہلے کسی نے ان واقعات کو اس طرح ترتیب نہیں دیا.پس آپ لوگ ان باتوں کو سمجھ کر ہوشیار ہو جائیں اور تیار رہیں.فتنے ہوں گے اور بڑے سخت ہوں گے ان کو دور کرنا تمہارا کام ہے.خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے اور تمہارے ساتھ ہو اور میری بھی مدد کرے اور مجھ سے بعد آنے والے خلیفوں کی بھی کرے اور خاص طور پر کرے کیونکہ ان کی مشکلات مجھ سے بہت بڑھ کر اور بہت زیادہ ہوں گی دوست کم ہوں گے اور دشمن زیادہ.اس وقت حضرت مسیح موعود کے صحابہ بہت کم ہوں گے.مجھے حضرت علی کی یہ بات یادکر کے بہت ہی درد پیدا ہوتا ہے.ان کو کسی نے کہا کہ حضرت ابو بکر اور عمر کے عہد میں تو ایسے فتنے اور فساد نہ ہوتے تھے جیسے آپ کے وقت میں ہورہے ہیں.آپ نے اسے جواب دیا کہ اوکم بخت! حضرت ابوبکر اور عمر کے ماتحت میرے جیسے شخص تھے اور میرے ماتحت تیرے جیسے لوگ ہیں.غرض جوں جوں دن گزرتے جائیں گے حضرت مسیح موعود کے صحبت یافتہ لوگ کم رہ جائیں گے.اور آپ کے تیار کرده انسان قلیل ہو جائیں گے.پس قابل رحم حالت ہوگی اس خلیفہ کی کہ جس کے ماتحت ایسے لوگ ہوں گے.خدا تعالیٰ کا رحم اور فضل اس کے شامل ہو اور اس کی برکات اور اس کی نصرت اس کے لئے نازل ہوں جسے ایسے مخالف حالات میں اسلام کی خدمت کرنی پڑے گی.اس وقت تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ حضرت مسیح موعود کے بہت سے صحابہ موجود ہیں.جن کے دل خشیت الہی اپنے اندر رکھتے ہیں.لیکن یہ ہمیشہ نہیں رہیں گے.اور بعد میں آنے والے لوگ خلیفوں کے لئے مشکلات پیدا کریں گے.میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ خدا آنے والے زمانہ میں اپنے فضل اور تائید سے ہماری جماعت کو کامیاب کرے اور مجھے بھی ایسے فتنوں سے بچائے اور مجھ سے بعد میں آنے والوں کو بھی بچائے.آمین
۱۶۲ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم تقریر حضرت فضل عمر خلیفة المسیح الثانی ( جو حضور نے ۳۰ دسمبر ۱۹۱۵ء کو مسجد اقصیٰ میں بوقت ے بجے صبح فرمائی) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کرشن ، بدھ مسیح اور مہدی ہونے کا ثبوت اشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ امَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَتَ اللهُ النَّبِينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَانْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ۖ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْهِ إِلَّا الَّذِيْنَ أَوْ تُوْهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنْتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ امَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (البقرة : ٢١٣) تمام مذاہب ایک ہی مذہب کی شاخیں ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہوسکتا کہ دنیا میں اس وقت جس قدر مذاہب موجود ہیں وہ تمام کے تمام در حقیقت کسی ایک ہی مذہب کی شاخیں ہیں اور ان کی جڑ ایک ہی ہے مثلاً مسلمانوں میں ہی دیکھ لو کئی ایک فرقے ہیں، کوئی حنفی ہے، کوئی شافعی ، کوئی حنبلی، کوئی مالکی، کوئی شیعہ کوئی سنی، کوئی ظاہری ہے، کوئی باطنی، کوئی خارجی ہے، کوئی چکڑالوی یہ مختلف فرقے ہیں مگر ان تمام کی اصل در حقیقت ایک ہی ہے اور یہ مختلف فقہاء کے نکلنے کی وجہ سے پیدا ہو گئے ہیں.اسلام
۱۶۳ اصل میں ایک ہی تھا اور اس کے اصول اور فروع بھی ایک ہی تھے لیکن جب مختلف علماء نکلے اور انہوں نے قرآن کریم کی آیات کے مختلف معنی کئے تو کچھ کچھ لوگ ہر ایک کے ساتھ شامل ہو گئے.اس لئے کوئی مالکی بن گیا کوئی شافعی، کوئی حنبلی بن گیا، کوئی حنفی کوئی شیعہ بن گیا کوئی سنی پس جس طرح اسلام کے سب فرقوں میں یہ بات پائی جاتی ہے اسی طرح تمام مذاہب میں بھی یہی بات ہے.جس وقت بنی نوع انسان پیدا ہوئے تھے اس وقت خدا تعالیٰ نے ایک ہی مذہب پر سب کو قائم کیا تھا اور سب کا ایک ہی مذہب تھا.لیکن جب یہ لوگ اپنے مذہب میں سست ہو گئے اور دنیا میں پڑ کر خدا تعالیٰ کو بھول گئے تو خدا کی طرف سے ان میں ایک نبی مبعوث ہوا.اس نے ان کو کہا کہ آؤ میں تمہیں خدا کی طرف لے جاؤں اور تمہاری سستی اور کاہلی دور کر کے تمہیں پاک وصاف کر دوں.اس وقت کچھ لوگ تو ایسے نکلے جنہوں نے ضد، تکبر اور عزت کے گھمنڈ کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا اس لئے ان کی دو جماعتیں بن گئیں.ایک وہ جس نے دنیا کے لحاظ سے سب سے پہلے آنے والے نبی کو قبول کیا اور دوسری وہ جس نے قبول نہ کیا.اور اس طرح اس نبی کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں میں فرق ہو گیا.لیکن وہ لوگ جنہوں نے اس نبی کو مانا تھا ان میں آہستہ آہستہ کمزوریاں، بدیاں اور برائیاں آنی شروع ہوگئیں.اور ان میں سے کچھ عرصہ کے بعد ایسے لوگ پیدا ہو گئے جو دین میں بہت کمزور تھے اس لئے کچھ مدت کے بعد ان کی حالت بدل گئی.اور وہ ویسے نہ رہے جیسے نبی کے زمانہ میں تھے.بلکہ دین سے بے بہرہ ہو گئے اس لئے ایک اور نبی آیا اور اس نے آکر سب کو اپنی طرف بلایا لیکن اس کو پہلے نبی کے کچھ ماننے والوں نے اور کچھ نہ ماننے والوں نے قبول کیا.اس وقت تین مذاہب کے لوگ ہو گئے ایک وہ جنہوں نے پہلے نبی کو نہ مانا تھا اور دوسرے کو بھی نہ مانا دوسرے وہ جنہوں نے پہلے نبی کو تو مان لیا تھا مگر دوسرے کو نہ مانا تھا اور تیسرے وہ جن میں کچھ ایسے شامل تھے جنہوں نے پہلے نبی کو مانا تھا.اور کچھ عرصہ تو یہی تین
۱۶۴ مذہب رہے.مگر جب دوسرے نبی کے ماننے والے لوگوں میں بھی نقص پیدا ہو گئے اور وہ خدا کے پیارے اور پسندیدہ نہ رہے تو خدا تعالیٰ نے ایک تیسرا نبی بھیجا.جس کو پہلے تین مذاہب کے لوگوں میں سے کچھ کچھ نے قبول کیا اب چار مذہب ہو گئے.ایک مدت تک تو اس چوتھے نبی کے تابع لوگ اس قابل رہے کہ خدا تعالیٰ کے احکام کو بجا لاتے اور اس کی رضامندی کے حاصل کرنے والے کام کرتے.لیکن رفتہ رفتہ یہ بھی خدا کو بھول گئے.اور ان میں ایسے بھی لوگ پیدا ہو گئے جنہوں نے نبی کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے نشان نہ دیکھے تھے اس لئے ان میں بدیاں اور نقص پیدا ہو گئے.جب خدا تعالیٰ نے ان کی یہ حالت دیکھی تو ایک اور نبی بھیج دیا جس کے آنے پر ایک اور مذہب بن گیا.غرض اسی طرح نبی پر نبی آنا شروع ہوا.اور جماعت پر جماعت بنی شروع ہوئی.اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہزاروں ہزار مذاہب دنیا پر موجود ہیں.اور جو مٹ گئے ہیں ان کا کچھ پوچھو ہی نہ.آج کل ایسی کتابیں بنی ہیں جن میں یہ دکھایا گیا ہے کہ آج تک کس قدر مذاہب ہوئے ہیں.اس وقت تک ایک ایسی ہی کتاب کی بائیس جلدیں چھپ چکی ہیں اس میں عام طور پر ایک صفحہ سے زیادہ ایک مذہب کے حالات کے لئے نہیں دیا جا تامگر پھر بھی بہت بڑی تعظیم کتاب بن گئی ہے.ساری دنیا کے لئے ایک مذہب غرض اس قدر مذاہب در حقیقت مختلف انبیاء کے انکار کے نتیجہ میں پیدا ہو گئے ہیں.نبی پر نبی آئے.اور ہر نبی کے آنے پر ایک اور فرقہ پیدا ہو گیا.جس سے اختلاف بڑھتا گیا اور بہت ہی بڑھ گیا حتی کہ خدا تعالیٰ نے جب دیکھا کہ انسان بے انتہاء فرقوں میں متفرق ہو گئے ہیں حق اور صداقت سے بہت دور چلے گئے ہیں ظلمت اور تاریکی میں بہت بڑھ گئے ہیں فسق وفجور میں بہت ترقی کر گئے ہیں عصیان اور طغیان میں حد سے گزر گئے ہیں تو اس نے اس
ܬܪܙ طرف توجہ کی اور اس کی غیرت نے جوش مارا اور اس کی ربوبیت نے چاہا کہ جس طرح ابتداء میں دنیا میں ایک مذہب تھا اور اسی ایک پر ہی سب لوگ تھے پھر ایسا ہی ہو.اس کے لئے اس نے ایک ایسا نبی بھیجا جو تمام دنیا کے لئے تھا اور جو سب کو ایک کرنے آیا تھا اور وہ آنحضرت صلی ایام تھے.خدا تعالیٰ نے چاہا کہ جس طرح وہ آسمان پر ایک ہے اسی طرح اس کے بندوں میں بھی ایک ہی رسول آئے جو تمام دنیا کو اس کی طرف بلائے.چنانچہ ایک ایسا ہی نبی آیا.لیکن سنت اللہ کے مطابق ضروری تھا کہ جس طرح اس سے پہلے آنے والے نبیوں کی مخالفت کی گئی اسی طرح اس کی بھی کی جائے.اور مخالفت کا ہونا ضروری بھی ہے کیونکہ جب تک مخالفت نہ ہو صداقت اور حقانیت اچھی طرح نہیں کھلتی.پس ضروری تھا کہ اس نبی کی مخالفت بھی ہو.چنانچہ ہوئی اور بڑے زور سے ہوئی اس لئے ایک اور مذہب قائم ہو گیا.لیکن اس نبی کے مبعوث کرنے سے جو خدا تعالیٰ کا یہ منشاء تھا کہ تمام دنیا پر ایک مذہب ہو.وہ زائل نہ ہوا خدا تعالیٰ نے اس کے لئے یہ تجویز کی کہ آنحضرت صلی اسلام کے ذریعہ اس کی ابتداء کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اس کی انتہاء رکھی.چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرما دیا که هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِةَ الْمُشْرِكُونَ (القف : ١٠) لا خدا وہ ہے جس نے اپنا ایک رسول ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اور اس لئے بھیجا ہے تاکہ تم سب ایک امت بن جاؤ.اور ایسا ہی ضرور ہوکر رہے گا.خواہ مشرک لوگ اس کو نا پسند ہی کرتے ہوں.تمام علم حقیقی علم رکھنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے.تو خدا تعالیٰ نے اپنی اس تجویز کو آنحضرت سائیلی ایام کے وقت میں پورا نہ کیا بلکہ آپ کے خادموں میں سے ایک کو رسول بنا کر کھڑا کر دیا اور اس کے ہاتھ سے اس غرض کو پورا کرایا.اس میں شک نہیں کہ آنحضرت سالی یا پیلم کو خدا تعالیٰ نے تمام دنیا کے لئے بھیجا اور چاہا
۱۶۶ کہ تمام دنیا کو آپ کے ذریعہ اکٹھا کرے مگر اپنی بہت سی مصلحتوں اور حکمتوں کی بناء پر یہ کیا کہ اس ارادہ کو حضرت مسیح موعود کے وقت پورا کرے.ان حکمتوں کو میں انشاء اللہ آگے چل کر بیان کروں گا.خدا تعالیٰ کے تمام کام تدبیر سے ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے تمام دنیا کو ایک مذہب پر قائم کرنے کے لئے ایک تدبیر فرمائی.اور خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ اس کے تمام کام تدبیر سے ہی ہوتے ہیں.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ آسمان سے فرشتے آئیں اور ہمارے لئے سب کچھ بیان کریں.وہ غلط کہتے ہیں.خدا تعالیٰ آنحضرت صلی یا اسلام کو مخاطب کر کے فرماتا ہے وَلَقَد خَلَقْنَا السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ۖ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوْبِ فَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ (قَ : ۴۰،۳۹) کہ باوجود اس طاقت اور قدرت کے کہ میں گُنج سے سب کچھ پیدا کر سکتا ہوں.پھر بھی میں نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے اندر ہے چھ ہی دن میں بنایا ہے.ہم سارے کام کو تو کن سے بھی کر سکتے ہیں لیکن ہماری حکمت اور مصلحت چاہتی ہے کہ ہم آہستگی سے کریں اور ہم اس طرح کام کرنے سے تھکتے نہیں اور نہ ہی گھبراتے ہیں.پس جبکہ ہم باوجو دسب طرح کی طاقت رکھنے کے آہستگی سے کام کرنے سے نہیں گھبراتے تو جو انسان ہے اس خیال سے کیوں گھبراتا ہے کہ اس قدر دیر سے کیوں اسلام کی ترقی ہورہی ہے.تجھے تو چاہئے کہ تیرے مخالفین جو کچھ بھی کہیں اس سے ذرا نہ گھبر ائے اور خدا کے حضور گر کر صبح اور شام اس کی تسبیح کرے.وہ خود تیرے سب کاموں کو کر دے گا اور تیرے دشمنوں کو تباہ کر دے گا.غرض خدا تعالیٰ کے ہر ایک کام میں آہستگی اور ترتیب ہوتی ہے.اور خدا تعالیٰ نے ہر ایک کام کے لئے ایک تدبیر کی ہوئی ہے.دیکھو دنیا کی ہدایت کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف
۱۶۷ سے نبی آتے ہیں جو دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہی ہوتے ہیں لیکن ان کے منوانے کے لئے کبھی یہ نہیں ہوا کہ آسمان سے فرشتے اترے ہوں.اور آکر کہا ہو کہ ان نبیوں کو مان لو اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ انبیاء کے منکروں پر آسمان سے گولے بر سے ہوں.بلکہ قحط پڑتے ہیں، زلازل آتے ہیں ،سیلاب آتے ہیں اور بھی بہت سی بلائیں نازل ہوتی ہیں.لیکن نادان یہی کہتے ہیں کہ یہ کوئی نشان نہیں ہیں یہ تو پہلے بھی ہوا کرتے تھے.تو خدا تعالیٰ ہر ایک کام کے لئے تدبیر فرماتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلیہ ستم کی کامیابی کے لئے تدبیر کی تھی اس کام کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے تدبیر کی.آنحضرت صلی ایم کے زمانہ میں بھی خدا نے یہود کو سزا دینے کے لئے ایک تدبیر فرمائی تھی جو یہ تھی کہ جب آنحضرت صلی یا ہم مدینہ میں تشریف لائے تو آپ نے کفار سے معاہدہ کیا کہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کوئی فساد نہ کیا جائے اور مدینہ کی حفاظت میں مل کر کام کریں لیکن باوجود اس معاہدہ کے وہ شرارتوں سے باز نہ آتے.آنحضرت مالی اسلام ان کو معاف کر دیا کرتے لیکن جب حالت بہت خطر ناک ہوگئی اور رسول کریم مان لیا کہ تم پر پتھر گرا کر قتل کرنے کا منصوبہ انہوں نے کیا اور جنگ احزاب کے وقت جبکہ مسلمانوں کی حالت سخت نازک ہورہی تھی بر خلاف معاہدہ کے کفار سے مل کر مسلمانوں کو ہلاک کرنا چاہا تو ان کے خلاف جنگ کرنے کا حکم ہوا.لیکن جیسا کہ رسول کریم صال اسلام کا طریق تھا آپ غالباً اس جنگ کے بعد بھی ان لوگوں سے نرمی کرتے لیکن خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ انہیں سزا ہو اس لئے اس نے ایک تدبیر فرمائی.آنحضرت سلیم نے جب ان یہود کو کہا کہ آؤ میں تمہاری شرارت کے متعلق فیصلہ کروں تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہم تمہارا فیصلہ نہیں مانتے.آپ نے فرمایا اچھا بتاؤ تم اس معاملہ میں کس کو منصف مقرر کرتے ہو انہوں نے ایک آدمی کا نام لیا.لیکن جس کا انہوں نے نام لیا تھا اسی نے ان کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ ان کے سب قابل جنگ مردوں کو قتل کر دیا
۱۶۸ جائے.اگر آنحضرت سال شما دیپلم فیصلہ کرتے تو آپ ضرور نرمی فرماتے جیسا کہ اس قبیلہ کے دو بھائی قبیلوں سے نرم برتاؤ کر چکے تھے.لیکن خدا تعالیٰ چونکہ چاہتا تھا کہ انہیں ان کے اعمال کی سزا ملے اس لئے اس نے یہ تدبیر کر دی کہ انہیں کی زبانی ایک شخص مقرر کروا کر انہیں سزا دلوادی.تو اس مقصد کے لئے بھی کہ تمام دنیا ایک مذہب پر ہو جائے.خدا تعالیٰ نے اسی طرح ایک تدبیر فرمائی.تمام دنیا کو ایک مذہب پر لانے کی تدبیر دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپس میں لوگوں کے جھگڑے اور فساد ہوتے ہیں.تو عام طور پر فیصلہ کا طریق یہ مقرر کیا کرتے ہیں کہ کچھ پنچ مقرر کر وائے جاتے ہیں.یا اس طرح کہ ہر ایک فریق اپنی اپنی طرف سے ایک شخص کو مقرر کر دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ یہ جو کچھ فیصلہ کرے وہ مجھے منظور ہے.اور کبھی اس طرح ہوتا ہے کہ ایک ہی آدمی کو فیصلہ کے لئے تمام فریق منتخب کر لیتے ہیں.دنیا کی تمام حکومتیں بھی اپنے بڑے بڑے امور کی نسبت اسی طرح فیصلے کیا کرتی ہیں کہ اپنی اپنی طرف سے نمائندے مقرر کر دیتی ہیں اور ان کا ساختہ پرداختہ منظور کر لیتی ہیں.خدا تعالیٰ نے بھی چاہا کہ مختلف مذاہب کا فیصلہ بھی اسی طرح ہو اس لئے اس نے ایسی تدبیر کی کہ تمام مذاہب میں سے پنچ مقرر کر دیئے.چونکہ اس کا ارادہ تھا کہ ایک دین کو سب دینوں پر غالب کرے اور ایک ہی دین پر سب کو جمع کرے اس لئے اس نے یہ تدبیر کی کہ حضرت کرشن کے پیروؤں کو کہہ دیا کہ جب دنیا میں لڑائی فساد بہت پھیل جائے گا فسق و فجور بہت بڑھ جائے گا.اور لوگ خدا کو بھلا دیں گے تو اس وقت کرشن دوبارہ آئے گا.اور سب بدیوں کو آکر دور کرے گا.اسی طرح خدا تعالیٰ نے بدھ مذہب کے پیروؤں کو کہہ دیا کہ جب فتنہ و فساد بڑھ جائے گا اور دنیا خدا سے غافل ہو جائے گی تو اس وقت بدھ دوبارہ آئے گا اور آکر لڑائی جھگڑوں کا فیصلہ کرے گا.اسی طرح مسیحی مذہب والوں کو ان کے
۱۶۹ مسیح نے کہا کہ اب میں جاتا ہوں لیکن اس وقت دوبارہ آؤں گا جب کہ تو میں ایک دوسرے پر چڑھیں گی اور دنیا میں فساد پھیل جائے گا.تب میں آکر صلح کراؤں گا.اسی طرح خدا نے آنحضرت سالی یا پیام کے مونہہ سے یہ کہلایا کہ واخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعه : ۴) یہ رسول آخری زمانہ میں بھی آئے گا اور اس وقت کے لوگوں کو پہلوں کی طرح بنا دے گا.غرض تمام مذاہب کے بانیوں کی طرف سے یہ کہلا دیا گیا تھا کہ ہم دوبارہ آئیں گے.اس لئے ان کے پیروؤں نے ان کے دوبارہ آنے کی توقع رکھی.حضرت کرشن کے پیر و اس بات کے منتظر تھے کہ کرشن آئے گا.حضرت بدھ کے پیرو اس بات کے منتظر تھے کہ بدھ آئے گا.حضرت مسیح کے پیرو اس بات کے منتظر تھے کہ مسیح آئے گا.اور آنحضرت صلی یا الہام کے پیرواس بات کے لئے چشم براہ تھے کہ محمد مہدی آئے گا.اور سب سے یہ آپس کے اختلاف اور لڑائی جھگڑوں کے بند کرنے اور ایک مذہب پر قائم کرنے کے لئے کہلایا جارہا تھا.ہندوہ مسلمان ، عیسائی اور یہودی سب آپس میں جھگڑتے تھے اور ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ دوسرے کو برباد کر دے.لیکن خدا تعالیٰ نے اس لڑائی جھگڑے کو دور کرنے کے لئے یہ تدبیر کی کہ ہر ایک قوم سے ایک ایک پہنچ مقرر کر دیا اور ہر ایک کو فرما دیا کہ تمہارا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا.مولانا روم اپنی مثنوی میں ایک قصہ لکھتے ہیں کہ چار آدمی کہیں جارہے تھے ایک امیر نے انہیں کچھ پیسے دیئے ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم انگور لے کر کھائیں گے.دوسرے نے کہا انگور نہیں عرب لیں گے.تیسرے نے کہا کہ نہیں عنب بھی نہیں داکھ لیں گے.چوتھے نے بھی ان تینوں کے خلاف اپنی زبان میں انگور کا نام لے کر کہا کہ نہیں فلاں چیز لیں گے.اس طرح وہ چاروں ایک دوسرے کی بات نہ مانے اور خوب آپس میں لڑے.ایک شخص پاس سے گذر رہا تھا اس نے کہا کیا بات ہے مجھے بتاؤ میں فیصلہ کرتا ہوں.ان میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی بات بتائی اس نے کہا لاؤ میں سب کو مطلوبہ ھے
12 • لا دیتا ہوں وہ پیسے لے کر انگور خرید لایا اور ان کے سامنے رکھ دیئے وہ سارے ان کو دیکھ کر خوش ہو گئے اور کھانے لگ گئے.اسی طرح خدا تعالیٰ نے جو حضرت کرشن،حضرت بدھ ، حضرت مسیح اور آنحضرت مال یتیم کی زبان سے ان کے دوبارہ آنے کے متعلق پیشگوئی کرائی تھی وہ بھی جب پوری ہوئی تو ایک ہی آدمی کے حق میں نکلی وہ کرشن بھی تھا ، وہ بدھ بھی تھا، وہ مسیح بھی تھا، اور وہ محمد بھی تھا.خدا تعالیٰ نے ہر ایک قوم کی طرف سے ایک ایک پہنچ مقرر کیا تھا جس کے فیصلہ کے حق ہونے پر وہ یقین رکھتے تھے اور اسے قبول کرنے کے لئے تیار تھے.چنانچہ جب ہندوؤں نے کہا کہ کرشن ہمارا سردار ہے جو کچھ وہ کہے ہم اس کے ماننے کے لئے دل و جان سے تیار ہیں.تو خدا تعالیٰ نے کہا کہ اسی کو دوبارہ بھیجا جائے گا.اسی طرح بدھوں نے کہا کہ بدھ ہمارا آقا ہے جو کچھ وہ کہے اس کے ماننے سے ہمیں ذرا بھی انکار نہیں ہوسکتا تو خدا نے کہا کہ اسی کو دوبارہ بھیجا جائے گا.اسی طرح جب عیسائیوں نے کہا کہ حضرت مسیح کی ہر ایک بات ہم دل و جان سے مانتے ہیں تو خدا نے کہا کہ اسی کو بھیجا جائے گا.اور اسی طرح مسلمانوں نے کہا کہ آنحضرت صلی یا پیام ہمارے بادی اور راہنما ہیں ان کے مونہہ سے نکلی ہوئی ہر ایک بات کا ماننا ہم پر فرض ہے تو خدا تعالیٰ نے کہا کہ انہی کو ہم دوبارہ مبعوث فرماویں گے.یوں خدا تعالیٰ نے ان قوموں سے ان پہنچوں کو قبول کر والیا.تا کہ جب یہ آئیں تو ان کے فیصلہ کو ماننے میں انہیں کوئی تردد نہ ہو اور سب ایک دین پر قائم ہو جائیں.چنانچہ یہ چاروں پہنچ آئے مگر چاروں الگ الگ ہو کر نہیں بلکہ ایک ہی بن کر.اب ہندوؤں پر یہ حجت پوری ہوئی کہ تمہارے لئے حضرت کرشن کا فیصلہ ماناضروری ہے.پس جبکہ کرشن آ گیا ہے تو اس کے فیصلہ کو مان لو.بدھوں پر یہ حجت ہوئی کہ ان کا قائم مقام حضرت بدھ آ گیا.مسیحیوں پر یہ حجت ہوئی کہ ان کا قرار دادہ مسیح آ گیا.اور مسلمانوں پر یہ حجت ہوئی کہ ان کا منتخب کردہ پین محمد سلایا کہ ہم آ گیا.خدا تعالیٰ نے تو سب مذاہب کو ایک
بنانے کے لئے یہ تدبیر کی تھی.لیکن غلطی اور نا سمجھی سے ہندوؤ نے سمجھا کہ کرشن آکر ہمارے ہی مذہب کو پھیلائیں گے اور باقی کو نیست و نابود کر دیں گے.یہی بات بدھوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں نے بھی اپنے اپنے آنے والے نبیوں کے متعلق خیال کر لی.انہوں نے تو صلح کرانے کے لئے اور لڑائی جھگڑوں کو دور کرنے کے لئے آنا تھا لیکن سمجھا یہ گیا کہ وہ آ کر کشت وخون کا بازار گرم کریں گے.یہ ایک ایسی غلط فہمی ہر ایک مذہب والوں کے دلوں میں بیٹھ گئی کہ جس کا اس وقت تک دور ہونا مشکل تھا جب تک کہ وہ انسان نہ آتا جس کے وہ منتظر بیٹھے تھے.چنانچہ وہ آیا اور اس نے آکر ثابت کر دیا کہ جو جو خیالات تمہارے دلوں میں ہیں وہ غلط اور بیہودہ ہیں.میں ہی وہ ہوں جو تمہارے سب کے لئے آنے والا تھا تا کہ تم کو ایک کروں اور ایک مذہب پر قائم کر کے خدا تعالیٰ کے ایک ہی دین کو تمام دینوں پر غالب کروں.چنانچہ اس نے یہ سب کچھ اس زمانے میں کر کے دکھا دیا.اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی ایسا زمانہ ہے جس میں یہ مقصد پورا ہوسکتا ہے اور اسی زمانہ میں کسی ایسے انسان کو آنا چاہئے تھا جو ایک دین پر سب کو قائم کرتا.اور پھر وہ سب علامتیں بھی اس زمانہ میں پوری ہو رہی ہیں جو حضرت کرشن، حضرت بدھ ، حضرت مسیح اور مہدی کی آمد پر پوری ہوئی تھیں.پس جب کہ زمانہ کے حالات اور واقعات پکار پکار کر بتا رہے ہیں کہ ہر ایک مذہب کے آنے والے کا یہی وقت ہے.اور پھر جبکہ جو علامتیں مقرر کی گئی تھیں وہ بھی پوری ہو گئی ہیں.تو آنے والوں کو بھی آجانا چاہئے.لیکن ان سب کی طرف سے ایک ہی مدعی کھڑا ہوا ہے جس نے کہا کہ میں کرشن ہوں، میں بدھ ہوں.میں مسیح “ ہوں اور میں مہدی ہوں.پس وہی ان تمام جھگڑوں کا فیصلہ کرنے والا ٹھہرا.اور اگر پہلے نبیوں کو سچا سمجھا جائے تو اسے قبول کرنے کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں.اب اگر کوئی کہے کہ اس ایک کے آنے سے تو ایک فرقہ دنیا میں زائد ہو گیا اور بجائے پہلے
۱۷۲ مذاہب کے ایک مذہب ہو جانے کے ان میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا.تو اس کا یہ جواب ہے کہ گوابتداء میں ایسا ہی خیال کیا جاسکتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں اس دین کو تمام دینوں پر غالب کروں گا اس لئے ضرور ایک نہ ایک دن ایسا ہو کر رہے گا جس طرح ابتداء میں ایک چھوٹا سا بادل اٹھتا ہے اور پھر پھیل کر تمام آسمان کو ڈھانپ لیتا ہے اسی طرح اس آنے والے کا حال ہے.گو یہ اس وقت ایک چھوٹے سے ابر کی مانند ہے لیکن وہ دن قریب ہے جبکہ یہی تمام عالم پر پھیل جائے گا.کیونکہ جب ہندوؤں کے سامنے یہ پیش کیا جائے گا کہ جس کرشن کے تم منتظر بیٹھے ہو اور جس کی آمد کی علامات پوری ہو چکی ہیں وہ آگیا ہے.تو ان میں سے جو لوگ صداقت پسند ہوں گے وہ مان لیں گے اور کہیں گے کہ واقعہ میں ہمارا مذہب سچا ہے کیونکہ جس انسان کے آنے کی ہمیں خبر دی گئی تھی وہ آ گیا ہے.اسی طرح جب بدھ مذہب والوں کو کہا جائے گا کہ تمہارا بدھ آ گیا ہے اور اس کے آنے کی علامات پوری ہو چکی ہیں تو ان میں سے جو سمجھدار ہوں گے وہ بڑی خوشی سے قبول کر لیں گے.اسی طرح جب عیسائیوں اور یہودیوں کو کہا جائے گا کہ جس مسیح کی آمد کے انتظار میں تم بیٹھے ہو وہ دوبارہ آ گیا ہے تو ان میں سے عقلمند انسان بڑے جوش سے اس کا خیر مقدم کریں گے.اور اس طرح وہ مسلمان جواب تک اس انسان کے ماننے والوں میں شامل نہیں ہوئے جب آپ کو آنے والا مسیح اور مہدی پائیں گے تو بڑی خوشی سے قبول کر لیں گے.اس طرح کام بھی ہو جائے گا اور سارے مذاہب والے خوش بھی ہو جائیں گے کیونکہ ہر ایک یہی سمجھے گا کہ ہمارا ہی مذہب سچا ہے اور ہمارے ہی مذہب کا غلبہ دوسروں پر ہوا ہے.جس طرح وہ انگور کھانے والے سارے کے سارے خوش ہو گئے تھے اسی طرح یہ لوگ بھی اپنے اپنے مقصود کو پالیں گے تو خوش ہو جائیں گے اور وہ کام یعنی یہ کہ تمام کو ایک مذہب پر قائم کرنا بھی ہو جائے گا.خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اب دنیا پر اس کا ایک ہی مذہب ہو.پس جوں جوں
۱۷۳ قوموں کو معلوم ہوگا اور وہ غور کریں گی اس آنے والے کو جو سب کا قائم مقام ہو کر آیا ہے.مان لیں گی کیونکہ یہ کوئی دوسرا نہیں بلکہ ان کا اپنا ہی ہے.کسی دوسرے کو ماننے سے عار آیا کرتی ہے.لیکن جب ہندوؤں کو کرشن ، بدھوں کو بدھ، مسیحیوں کو مسیح اور مسلمانوں کو آنحضرت سان می ایستم کہیں گے کہ ہمیں مان لو تو پھر کسی کو ان کے ماننے میں کوئی عذر نہ ہوگا.اور عذر ہو ہی کیا سکتا ہے جبکہ وہ اپنے مانے ہوئے نبی کو ہی دوبارہ مانیں گے.اور جب یہ تو میں مان لیں گی تو اور سب انہی میں آجائیں گی کیونکہ باقی سب مذاہب انہی مذاہب کی شاخیں ہیں.میں نے ان چار مذاہب کے نام اس لئے لئے ہیں کہ یہ بڑے بڑے مذہب ہیں اور ان کے ماننے والی بڑی بڑی جماعتیں ہیں ورنہ ہر ایک مذہب میں کسی نہ کسی نبی کے آنے کی پیشگوئی موجود ہے.غرض خدا تعالیٰ نے تمام دنیا پر ایک ہی مذہب قائم کرنے کی یہ تدبیر کی.لیکن خدا کی یہ سنت نہیں ہے کہ مذاہب کو بالکل مٹا کر اور نیست و نابود کر کے ایک ہی مذہب کو رہنے دے.اسی سنت کے مطابق اب بھی دیگر مذاہب کچھ کچھ رہیں گے لیکن بہت ہی قلیل تعداد میں ان کے پیر وہوں گے جو گویا نہ ہونے کے ہی برا بر ہوں گے.ایک اعتراض اور اس کا جواب اس جگہ میں ایک اعتراض کا جو عام طور پر احمدیوں پر کیا جاتا ہے اور جو میری پہلی تقریر پر بھی پڑسکتا ہے ازالہ کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ مانا کہ تمام مذاہب کے جمع کرنے کے لئے یہ ایک عمدہ تدبیر ہے کہ سب مذاہب کے نبیوں کی دوبارہ آمد کی خبر دی جائے اور پھر ان سب کو ایک شخص کے وجود میں ظاہر کیا جائے لیکن یہ ہو کیونکر سکتا ہے کہ ایک ہی شخص کرشن بھی ہو مسیح بھی ہو محمد بھی ہو اور اسی طرح اور نبیوں کا بھی مظہر ہو.اس کے جواب میں میں کہتا ہوں کہ چار ناموں والے ایک شخص کا ہونا کچھ بھی مشکل نہیں.میں نے جلسہ کے موقعہ پر اپنی ایک تقریر میں بتایا ہے کہ آنحضرت سالی سیستم فرماتے
۱۷۴ ہیں کہ میرے کئی نام ہیں.میرا نام محمد ہے کیونکہ میں سب انسانوں سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے حضور تعریف کیا گیا ہوں.میں احمد ہوں کہ مجھ سے بڑھ کر خدا کی تعریف کرنے والا کوئی نہیں.میں حاشر ہوں کہ دنیا کو اس کی روحانی موت کے بعد پھر زندہ کروں گا.میں ماحی ہوں کہ دنیا کے کفر اور ضلالت کو مٹانے والا ہوں.میں عاقب ہوں کہ میرے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں ہوسکتا.پس اگر آنحضرت سایلیا میم کے پانچ نام ہو سکتے ہیں.تو حضرت مسیح موعود کے چار نام کیوں نہیں ہو سکتے.اس میں تعجب کی کونسی بات ہے.اور خدا تعالیٰ کے تو ننانوے نام کہے جاتے ہیں.ہمارے نزدیک تو خدا تعالیٰ کے ہزار ہا نام ہیں لیکن اگر ننانوے ہی تسلیم کئے جائیں.تب بھی بات صاف ہے اگر ایک ہستی کے ننانوے نام ہو سکتے ہیں تو چار نام ایک جگہ کیوں جمع نہیں ہو سکتے.اور یہ تو صفاتی ناموں کا حال ہے.ہم تو دیکھتے ہیں کہ اسم ذات بھی بعض دفعہ ایک سے زیادہ ہوتے ہیں مثلاً ہمارا ہی چھوٹا بھائی تھا جس کا مبارک احمد بھی نام تھا.اور دوست احمد بھی کئی لڑکوں کے نام نھیال والے اور رکھتے ہیں اور ددھیال والے اور بعض کا تاریخی نام کچھ اور ہوتا ہے اور عام مشہور نام کوئی اور.پس جب عام طور پر متعدد نام ہوتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ایک شخص کے نام کرشن ، بدھ مسیح ، مہدی ، احمد اور غلام احمد نہ ہوں.جب دنیا میں اور کئی شخصوں کے کئی نام ہوتے ہیں.اور اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں.تو یہ بھی تعجب کی کوئی بات نہیں کہ ایک ہی شخص پہلے کئی اشخاص کے نام پالے.ہاں یہ تعجب کی بات ہے کہ پہلے ہی اصل شخص پھر آجائیں.لیکن ہمارا یہ مذہب ہرگز نہیں کہ حضرت مسیح موعود وہی مسیح ہیں جو بنی اسرائیل کے لئے مبعوث ہوئے تھے.یا وہی بدھ ہیں جو بدھ مذہب کا بانی تھا.یا وہی کرشن ہیں جو ہندوؤں میں بھیجا گیا تھا.یا وہی محمد الیا ستم ہیں جو تیرہ سو سال ہوئے عرب میں مبعوث ہوئے تھے.بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان سب کے نام ایک شخص کو دے دیئے ہیں.اور ایک شخص کے بہت سے نام رکھنا
۱۷۵ ہرگز قابل تعجب نہیں.قابل تعجب یا تو یہ بات ہو سکتی تھی کہ پہلے ہی آدمی اپنے اپنے جسم عصری کے ساتھ واپس تشریف لاتے.یا یہ کہ تناسخ کے مسئلہ کے ماتحت ان کی ارواح دنیا میں آتیں اور ان کی روحیں ایک ہی جسم میں داخل ہو جاتیں.لیکن ہم تناسخ کے قائل نہیں اور نہ اس بات کے قائل ہیں کہ ان پہلے انبیاء کی ارواح ایک شخص میں آکر داخل ہوگئیں ہیں.ہم یہ نہیں کہتے چونکہ پہلے مسیح کی روح حضرت مسیح موعود کے جسم میں آگئی ہے اس لئے وہ مسیح کہلاتے ہیں.یا کرشن کی روح ان کے جسم میں آگئی ہے اس لئے وہ کرشن کہلاتے ہیں.یا بدھ کی روح آپ میں حلول کر گئی ہے اس لئے آپ بدھ کہلاتے ہیں.یا آنحضرت سلی یا پیام کی روح مبارکہ نے آپ کے جسم کو اپنا مسکن بنایا ہے اس لئے آپ محمد کہلاتے ہیں.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کئی آدمیوں کے اخلاق اور کمالات حاصل کر کے ان کے نام پا گیا ہے.اسلام اس عقیدہ کو جائز نہیں رکھتا کہ کوئی روح تناسخ کے چکر میں واپس دنیا میں آئے لیکن بروز کو جائز کہتا ہے کیونکہ تناسخ علیحدہ بات ہے.تناسخ تو اس کو کہتے ہیں کہ ایک شخص جو وفات پاچکا ہو اس کی روح کو خدا تعالیٰ جنت سے نکالے اور کسی اور جسم میں ڈال دے.جیسا کہ ہندو کہتے ہیں کہ جو انسان مر جائے اس کی روح مختلف جانوروں کی شکل اختیار کرتی رہتی ہے کبھی مکھی بنتی ہے کبھی کتا کبھی بلی کبھی سور کبھی انسان وغیرہ وغیرہ لیکن یہ ایک لغو بات ہے.پس ہمارا یہ کہنا کہ حضرت کرشن ، بدھ مسیح اور آنحضرت صالی ایم ایم آئے.اس سے یہ مراد نہیں کہ وہی آگئے ہیں جو پہلے وفات پاچکے ہیں بلکہ یہ کہ ایک شخص نے ان کے کمالات حاصل کرنے کے باعث ان کے نام پالئے ہیں.پس اگر کوئی شخص ہم پر یہ اعتراض کرے کہ ایک جسم میں اتنے آدمیوں کی ارواح کیونکر آگئیں تو یہ اس کی غلطی ہے کیونکہ ہم تو تناسخ کے قائل ہی نہیں پھر ہم کیونکر یہ عقیدہ رکھ سکتے ہیں کہ ایک شخص میں متعدد آدمیوں کی ارواح حلول کر گئی ہیں.پس ہم پر ایسا اعتراض کرنے
والاصرف ہمارے عقائد سے ناواقف ہونے کے باعث ایسا اعتراض کرتا ہے.پس جبکہ ہم تناسخ کی رو سے کسی کا دوبارہ آنا نہیں مانتے اور یہ بھی نہیں مانتے کہ کوئی مرکز دوبارہ اس دنیا میں آسکتا ہے.کیونکہ قرآن شریف اس بات کو بڑے زور سے رد کرتا ہے تو پھر ہمارے اس عقیدہ پر کہ ایک شخص نے کئی نبیوں کے نام حاصل کر لئے ہیں کیا اعتراض پڑسکتا ہے.ایک مسلمان جو یہ نہیں مانتا کہ بدھوں اور ہندوؤں کے مذہب میں بھی کوئی سچائی ہے وہ اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ کوئی کرشن اور کوئی بدھ مبعوث ہو کر نہیں آئے گا.لیکن اس بات کا منکر نہیں ہوسکتا کہ ایک مہدی آخری زمانہ کی اصلاح کے لئے آنے والا ہے لیکن ایک صداقت پسند انسان کرشن اور بدھ کے آنے سے بھی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ ان کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں اور ان کے آنے کی جو علامتیں مقرر کی گئی تھیں وہ پوری ہو رہی ہیں.تو پھر کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ یہ نبی نہیں آئیں گے.اگر ان تمام علامات کے ظاہر ہونے پر بھی کوئی شخص ان نبیوں کے دوبارہ آنے کا منکر ہی ہو تو اس کی مثال بالکل اس شخص کی ہوگی جو ایک جنگ میں شامل ہو کر زخمی ہو گیا تھا.چونکہ بزدل اور بیوقوف آدمی تھا اس لئے تیر لگتے ہی بھاگ گیا بھاگتے ہوئے اپنے زخم سے خون بھی پونچھتا جاتا تھا.اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا جاتا تھا کہ یا اللہ مجھے تیر لگنے والی بات جھوٹ ہی ہو.پس جب پیشگوئیاں پوری ہوگئی ہیں تو کیسا نادان ہے وہ شخص جو یہ کہے کہ ہندوؤں میں کرشن یا بدھوں میں بدھ کے آنے والی خبر جھوٹ ہے.وہ شخص بعینہ اسی قسم کا ہے جو خون بھی پونچھتا جائے اور کہے کہ الہی جھوٹ ہی ہو.یہ پیشگوئیاں ضرور سچی ہیں اور نبیوں کا کلام ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کلام ہوتا ہے وہ سچا ہوتا ہے اور جو شیطان کی طرف سے ہوتا ہے وہ جھوٹا ہوتا ہے.پس جبکہ ہم ان پیشگوئیوں کو بھی جھوٹا نہیں کہہ سکتے اور تناسخ کے بھی قائل نہیں ہیں.تو اب ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ چونکہ کہا گیا ہے کہ کرشن آئے گا.اور وہ
122 تناسخ کی رو سے آنہیں سکتا مگر اس کی علامتیں پوری ہو گئی ہیں.اس لئے ہم یہ مان لیں کہ کوئی شخص اس کی خو بو پر آئے گا.پھر کہا گیا ہے کہ بدھ دوبارہ آئے گا اور اس کے آنے کی علامتیں بھی پوری ہوگئی ہیں.لیکن وہ تناسخ کی رو سے آنہیں سکتا اس لئے ہمیں ماننا پڑے گا کہ کوئی شخص اس کے کمالات حاصل کر کے اس کا نام پا کر آئے گا.اسی طرح کہا گیا تھا کہ مسیح دوبارہ آئے گا.اور اس کے دوبارہ آنے کی جو علامتیں بتائی گئی تھیں وہ پوری بھی ہوگئی ہیں.لیکن چونکہ وہ فوت ہو چکا ہے.اس لئے ماننا پڑے گا کہ مسیح کے رنگ میں کوئی اور آئے گا نہ کہ وہی مسیح.اسی طرح آنحضرت مسالہ بیان کے متعلق پیشگوئی تھی کہ آپ دوبارہ مبعوث ہوں گے لیکن چونکہ حقیقتا آپ کا آنا تعلیم قرآن کے خلاف ہے اس لئے یہی تسلیم کرنا ہوگا کہ آپ ہی دوبارہ نہیں آئیں گے بلکہ آپ کا بروز اور مثیل آئے گا.پس جبکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ کوئی شخص مرکر دوبارہ دنیا میں نہیں آسکتا اور یہ بھی ثابت ہے کہ تناسخ ایک باطل عقیدہ ہے اور یہ بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ حضرت کرشن ، بدھ مسیح “ اور آنحضرت صلی ایام کے دوبارہ آنے کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ سچی ہیں تو اب سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ان سب کے رنگ اور صفات میں کوئی اور آئے گا.اور جب کہ ان کے مثیلوں کا آنا ثابت ہوا.تو پھر ایک ہی شخص کا ان سب کا مثیل ہو جانا بالکل ممکن ہے اور الگ الگ آدمیوں کے آنے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ صفات ایک آدمی میں بہت سی اکٹھی ہو سکتی ہیں.کیا یہ نہیں ہوتا کہ ایک شخص بہادر بھی ہو اور شریف بھی سخی بھی ہو اور رحم دل بھی.حاتم ایک بڑا سخی انسان ہوا ہے.جب کوئی بہت سخی ہو تو اسے حاتم کہتے ہیں.رستم ایک بڑا بہادر ہوا ہے اور جس میں بہت بہادری پائی جائے اسے رستم کہتے ہیں.افلاطون ایک بڑا فلسفی ہوا ہے اور جو کوئی بڑا فلسفی ہوتو اسے افلاطون کہتے ہیں.جالینوس ایک بڑا طبیب ہوا ہے اور جو کوئی بڑا طبیب ہو تو اسے جالینوس کہتے ہیں.لیکن کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی شخص بڑا سخی بھی ہو، بڑا بہادر بھی
12A ہو، بڑا فلسفی بھی ہو اور بڑا طبیب بھی ہو.اور جب ایسا ہوسکتا ہے تو ہم ایسے شخص کو اس کی چاروں صفات کی وجہ سے حاتم ، رستم ، افلاطون اور جالینوس کہہ سکتے ہیں.حالانکہ جب کسی کو یہ نام دیئے جائیں گے تو ان ناموں کے اصلی مصداق دنیا میں نہیں آجائیں گے.بلکہ یہی کہا جائے گا کہ ایک شخص میں ان چار آدمیوں کی صفات اکٹھی ہوگئی ہیں.پھر ذرا شاعروں کے قصیدوں کو پڑھو تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ تو بہت سے انسانوں کے نام اپنے محمد وحوں کی طرف منسوب کرتے ہیں.سکند ربھی بناتے ہیں، رستم بھی بناتے ہیں ، افلاطون بھی بناتے ہیں ، حاتم بھی بناتے ہیں پس اس میں کون سی مشکل ہے کہ ایک ہی انسان کو پہلے نبیوں کے نام دیئے جائیں.اگر ہم کسی کو حاتم کہتے ہیں تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہی حاتم جو مر چکا ہے دوبارہ آگیا ہے اس کی روح تناسخ کے طور پر اس میں آگئی ہے بلکہ یہ مراد ہوتی ہے کہ وہ بھی ایک بڑا سخی تھا اور یہ بھی ایک بڑا سخی ہے.تو ایک آدمی میں بہت سی صفات اکٹھی ہو سکتی ہیں اور اس میں کوئی عجیب اور انوکھی بات نہیں ہے.دیکھو آنحضرت سلینا ہی تم کو خدا تعالیٰ نے ان تمام صفات حسنہ سے جو انسانوں میں پائی جاتی ہیں متصف فرمایا ہے.اس لئے آپ ابراہیم بھی ہیں ، نوش بھی ہیں، موسیٰ بھی ہیں، عیسی بھی ہیں، اسماعیل بھی ہیں، اسحاق بھی ہیں.اور تمام انبیاء کے جامع ہیں.اب بتاؤ.آنحضرت صلاله ای لیم جب ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے جامع تھے جیسا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے تو آپ میں سب کے نام اکٹھے تھے یا نہیں.اگر نہیں تو یہ کہنا جھوٹ ہے کہ آپ سب نبیوں کے جامع تھے لیکن اگر جامع تھے.یعنی آدم کے کمالات آپ میں پائے جاتے تھے تو آپ آدم تھے.اگر نوح کے کمالات آپ میں پائے جاتے تھے تو آپ نوح تھے.اگر ابراہیم کے کمالات آپ میں پائے جاتے تھے تو آپ ابراہیم تھے.پس اگر کوئی یہ تسلیم کرتا ہے کہ آپ سب انبیاء کے جامع تھے.اور سب انبیاء کی خوبیاں آپ میں تھیں تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے
129 نام بھی آپ کے نام تھے.جو اس بات سے انکار کرتا ہے گویا وہ آپ کے جامع کمالات انبیاء ہونے سے بھی انکار کرتا ہے.پس جبکہ آنحضرت صالی یہ اہم کے اتنے ہی نام ہیں جتنے تمام انبیاء تھے تو یہ کون سے تعجب کی بات ہے.اگر حضرت مسیح موعود نے کہا ہے کہ میں محمد ہوں میں کرشن ہوں میں بدھ ہوں.یہ ایسا کھلا کھلا مسئلہ ہے کہ انسان تھوڑ اسا غور کرے تو اس پر روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتا ہے اور اسے کچھ شک وشبہ نہیں رہ جاتا.غرض میں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کچھ لوگوں نے آنا ہے اور ان کے آنے کے متعلق کچھ علامتیں مقرر ہیں جو اس وقت پوری ہوگئی ہیں اور جب علامتیں پوری ہوگئی ہیں تو کوئی ان کے آنے سے انکار نہیں کر سکتا.حضرت کرشن کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں وہ پوری ہوگئی ہیں اور واقعات نے شہادت دے دی ہے.اس لئے ان کے آنے کا کوئی انکار نہیں کرسکتا.حضرت بدھ کی آمد کی نسبت جو خبریں اور علامتیں تھیں وہ پوری ہوگئی ہیں اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ نہیں آئیں گے.اسی طرح حضرت مسیح کی آمد کے متعلق انجیل میں جو بشارتیں تھیں وہ پوری ہوگئی ہیں.اسی طرح آنحضرت صان اسلام کے دوبارہ آنے کے متعلق جو بشارتیں تھیں ان کی آسمان اور زمین گواہی دے رہے ہیں.پس ان انبیاء کا آنا ضروری ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اصل تو واپس نہیں آسکتے اور نہ ہی ان کی روحیں کسی بدن میں داخل ہو کر آسکتی ہیں اس لئے یہی ماننا پڑتا ہے کہ ان کی صفات اور خصوصیات کا حامل کوئی اور آئے گا اور وہ ایک ہی شخص میں ہوں گی جو ان کی صفات رکھنے کی وجہ سے انہی کے نام بھی پائے گا.ایک ضمنی اعتراض اور اس کا جواب اب میں نے یہ تو بتا دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے کرشن ، بدھ مسیح اور محمد نام ہونے سے یہ مراد ہے کہ آپ میں ان کی خوبیاں اور صفات پائی جاتی ہیں.لیکن اس پر ایک ضمنی اعتراض
۱۸۰ پڑتا ہے اور وہ یہ کہ اگر یہ درست ہے تو اس طرح آنحضرت سائیلی یہی ہم کی ہتک ہوتی ہے کیونکہ آپ تمام انبیاء کے جامع ہیں اور تمام کی صفات اپنے اندر رکھتے ہیں.مگر مرزا صاحب دعوئی کرتے ہیں کہ میں محمد بھی ہوں جس سے ماننا پڑتا ہے کہ آپ میں دوہرے کمالات ہیں.اس لئے آنحضرت مصلای ایام سے بڑے ہیں کیونکہ رسول اللہ تمام پچھلے انبیاء کے قائم مقام تھے مگر مرزا صاحب آپ کے بھی قائم مقام بنے کا دعویٰ کرتے ہیں.لیکن یہ ایک دھوکا لگا ہے جو کم سمجھی کا نتیجہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت ملا یلم تمام انبیاء کی تفصیل ہیں اور حضرت مرزا صاحب آپ کے بروز اور مثیل.لوگ تو کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے صرف چار نبیوں کے نام اپنے نام قرار دیئے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ تمام انبیاء کے نام رکھتے تھے.چنانچہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ میں عیسی ہوں.ہارون ہوں.موسیٰ ہوں.ابراہیم ہوں.داؤ ہوں.یہ تو اپنے نام لے دیئے ہیں لیکن آپ کے نام ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے نام تھے.اور پھر آپ آنحضرت صلی لی ایم کے غلام ہی تھے.کیونکہ آپ نے سب کچھ آنحضرت میان ایام کے ذریعہ ہی حاصل کیا تھا.آپ کا نام ابراہیم ، موسیٰ عیسی ، ہارون وغیرہ اس لئے تھا کہ آپ ان کی تفصیل تھے.اور محمد اس لئے تھا کہ آپ ان تمام انبیاء کے جامع تھے.پس بلحاظ الگ الگ صفات کے آپ ہر ایک نبی کا نام پانے والے تھے مگر مجموعی لحاظ سے آپ محمد تھے.اور چونکہ آپ نے یہ تمام کمالات محمد کی اطاعت میں پائے تھے اس لئے آپ ان کے غلام بھی تھے.حضرت مسیح موعود کے انتے نام کیوں رکھے گئے اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بجائے اس کے کہ یہ کہا جاتا کہ کرشن ، بدھ مسیح اور محمد دوبارہ آئیں گے.کیوں یہ نہ کیا گیا کہ سب کی طرف سے ایک ہی نبی کے آنے کی خبر دے دی جاتی.اس طرح تمام لوگ ایک نقطہ پر بھی جمع
۱۸۱ ہو جاتے.اور جب ان انبیاء کی پیشگوئی پوری ہوتی تو کسی کو دھوکا بھی نہ لگتا.یہ کیوں کہا گیا کہ کرشن ہی آئے گا؟ یہ کیوں نہ کہہ دیا گیا کہ حضرت کرشن یہ پیشگوئی کرتے کہ ایک انسان آئے گا جس کی یہ یہ علامتیں ہوں گی.اسی طرح حضرت مسیح “، حضرت بدھ اور آنحضرت صلی شمالی کنم سے یہ کیوں کہلایا گیا کہ مسیح اور بدھ اور محمد ہی آئیں گے.یہ کیوں نہ کہلا دیا کہ ایک شخص آئے گا جس کی فلاں فلاں علامتیں ہوں گی.اور اگر ایسا نہ کیا گیا تھا تو یہ تو کیا جاتا کہ ان سے یہ کہلا دیا ہوتا کہ ایک مثیل بدھ آئے گا.مثیل کرشن آئے گا.مثیل مسیح آئے گا.اور مثیل محمد آئے گا.اس کی کیا وجہ ہے کہ ان انبیاء کے اصل نام لے کر کہا گیا کہ یہی دوبارہ آئیں گے.ان کے اصل نام رکھ کر دھوکے میں ڈالنے کی کیا وجہ ہے؟ پہلی حکم اس کی ایک بڑی حکمت تو اب کھلی ہے جبکہ ہماری جماعت میں اختلاف پیدا ہوا ہے.اگر مثیل کہا جاتا تو آج اس طرح یہ حقیقت نہ کھلتی.کیونکہ مثیل کہنے سے یہ بات نہیں کھلتی کہ وہ جس کا مثیل ہے اس کے برابر ہے یا کم.کیونکہ صرف ایک صفت کے اشتراک سے مثیل بن سکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ایک شخص دوسرے کا مثیل ہو لیکن اس کے تمام کمالات کا جامع نہ ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے بھی بڑھ کر کمالات رکھنے والا ہو.پس خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے نام بدھ ، کرشن، مسیح اور محمد اور سب نبیوں کے جو نام رکھے.یعنی فرما یا جرمی الله في حُلّلِ الْأَنْبِيَاء ( تذکرہ صفحہ ۷۹) تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ان انبیاء کا مسیح موعود کو مثیل کہا جاتا.تو کہنے والے کہہ دیتے کہ آپ نبی نہیں ہیں کیونکہ مثیل کے لئے ضروری نہیں کہ ہر ایک بات میں مماثلت رکھے.پس ان ناموں کے رکھنے سے بھی حضرت مسیح موعود کی نبوت کا ثبوت ملتا ہے.خدا تعالیٰ نے آپ کو کرشن کہا ہے اور کرشن ایک نبی کا نام ہے.اس لئے آپ بھی نبی ہیں.خدا تعالیٰ نے آپ کو مسیح کہا ہے او سیخ ایک نبی کا نام ہے اس
۱۸۲ لئے آپ بھی نبی ہیں.خدا تعالیٰ نے آپ کو محمد کہا ہے اور محمد ایک نبی کا نام ہے اس لئے آپ بھی نبی ہیں.تو گویا پہلے انبیاء کے نام لے کر بتانے اور مثیل نہ کہنے کی یہی وجہ ہے کہ کیونکہ مثیل کہنے میں یہ نقص ہے کہ یہ کبھی بڑا ہوتا ہے اور کبھی چھوٹا اور کبھی برابر کا.اگر مثیل کہا جاتا تو ہمارے مخالف تیسری شق کو لے لیتے لیکن خدا تعالیٰ نے اس بات کو پہلے ہی دور کر دیا تا کہ ایسا کرنے کا کسی کے لئے موقعہ ہی نہ رہے.دیکھو آنحضرت مسی اینم کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ | رسُولًا (المزمل: ۱۶) حالانکہ آنحضرت سلمان پیام حضرت موسی سے بہت بڑا درجہ رکھتے تھے تو مثیل کبھی عین ہوتا ہے کبھی اعلیٰ اور کبھی ادنی.تو خدا تعالیٰ نے بجائے اس کے کہ ایک ایسا لفظ رکھتا جو تین پہلو رکھتا تھا جس کا ادنیٰ درجہ لے کر حضرت مسیح موعود کی ہتک کی جاتی ایسا لفظ رکھ دیا کہ جس سے کوئی اور پہلو نکل ہی نہیں سکتا.یعنی خدا تعالیٰ نے اس آنے والے نبی کو مثیل بدھ نہیں کہا بلکہ بدھ ہی کہا ہے.مثیل کرشن نہیں کہا بلکہ کرشن ہی کہا ہے.مثیل مسیح نہیں کہا بلکہ مسیح ہی کہا ہے.اور اسی طرح وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا (الجمعہ : ۴) میں مثیل محمد قرار نہیں دیا.بلکہ محمد مہی قرار دیا ہے تا کہ آپ کے درجہ کے کم کرنے والے آپ کے کمالات کا انکار نہ کر بیٹھیں.غرض یہ ایک بڑی حکمت تھی جس کے لئے مثیل نہیں کہا گیا بلکہ اصل نبی کا نام دیا گیا.دوسری عظیم الشان حکمت علم یہ ہے کہ کوئی لفظ جو کسی کے متعلق بولا جاتا ہے وہ مثال دینے کے لئے ہوتا ہے.مثلاً یہ کہیں کہ فلاں شیر ہے یا یہ کہیں کہ فلاں شیر کی طرح ہے تو ان دونوں فقروں میں بڑا فرق ہے.کیونکہ مثال کے طور پر لفظ بولنے سے اس طرح مطلب واضح نہیں ہوتا.جس طرح مجازاً
۱۸۳ وہی لفظ بول دینے سے ہوتا ہے.چنانچہ کسی کو مثیل شیر کہنے سے جو اس کی حیثیت پیدا ہوتی ہے شیر کہنے سے اس سے بہت بڑھ کر ظاہر ہوتی ہے.تو مسیح موعود کو جو اصل نام دیئے گئے ہیں اور کرشن ، بدھ مسیح ، محمد کہا گیا ہے اور ان کا مثیل کر کے نہیں پکارا گیا تو اسی لئے کہ تا اس سے آپ کے درجہ کی عظمت ظاہر ہو.تیسری حکمت یہ ہے کہ اگر حضرت کرشن کے منہ سے یہ نہ کہلوایا جاتا کہ کرشن آئے گا بلکہ مثیل کرشن آئے گا.اور حضرت بدھ کے منہ سے یہ نہ کہلوایا جاتا کہ بدھ آئے گا بلکہ مثیل بدھ آئے گا.اور حضرت مسیح کے منہ سے یہ نہ کہلوایا جاتا کہ مسیح آئے گا بلکہ مثیل مسیح آئے گا.اور آنحضرت مصلا لا اسلام سے یہ نہ کہلوایا جاتا کہ محمد آئے گا بلکہ مثیل محمد آئے گا.تو ان انبیاء کی تمام صفات کو تفصیل وار لکھنے کے لئے دفتر کے دفتر چاہئیں تھے.مثلاً خدا تعالیٰ نے انجیل میں فرمایا ہے کہ مسیح حلیم تھا اور مثالوں میں باتیں کیا کرتا تھا.تو بتایا جاتا کہ وہ جو مثیل مسیح ہو گا وہ بھی حلیم ہو گا اور مثالوں میں باتیں کرے گا.اسی طرح ہر ایک نبی کی ہر ایک صفت کو بیان کر کے بتایا جاتا کہ یہ یہ اوصاف اس میں بھی ہوں گے اور اگر ہر ایک صفت کو بیان کر کے اس کو حضرت مسیح موعود کے متعلق بھی قرار نہ دے دیا جاتا تو یہ سمجھ لیا جاتا کہ باقی صفتیں ان میں نہیں ہیں کیونکہ ان کے متعلق مذکور نہیں ہوئیں.لیکن یہ ایک بہت طول طویل کام تھا مگر جب خدا تعالیٰ نے ہر ایک نبی کا نام لے دیا اور بتادیا کہ یہی دوبارہ آئے گا تو اس سے پتہ لگ گیا کہ اس میں جس قدر بھی صفات ہیں وہ سب کی سب بغیر کسی استثناء کے آنے والے میں ہوں گی.اسی طرح اگر قرآن شریف میں آنحضرت مالی ایم کی تمام صفات کو بالتفصیل بیان فرما کر ان کو مسیح موعود کے لئے بھی بیان کیا جاتا تب یہ بات حاصل ہوسکتی تھی.لیکن نام لے
۱۸۴ دینے سے نہایت وضاحت سے یہ بات پوری ہوگئی.اور اگر حضرت کرشن یا حضرت بدھ یا حضرت مسیح یا آنحضرت صلی اینم کی کوئی ایک صفت بیان کر دی جاتی اور اس کا حضرت مسیح موعود کے متعلق ذکر ہوتا لیکن ان کی اور صفات کا ذکر حضرت مسیح موعود کے متعلق نہ ہوتا.تو لوگ کہتے کہ صرف یہی صفت مسیح موعود میں پائی جاتی ہے اور کوئی صفت نہیں پائی جاتی لیکن خدا تعالیٰ نے پہلے انبیاء کے نام رکھ دیئے تاکہ ان کی الگ الگ صفتیں نہ گنانی پڑیں.اور انجیل کا مطالعہ کرنے والے جو جو خوبیاں حضرت مسیح میں پائیں وہی مسیح موعود کی تسلیم کریں.اور قرآن شریف کے پڑھنے والے جو جو صفات آنحضرت سال یا پیلم کی دیکھیں وہی مسیح موعود کی قرار دیں.اسی طرح دوسرے انبیاء کی کتابیں پڑھنے والے جو کوئی خوبی بھی ان میں پائیں وہی مسیح موعود میں سمجھ لیں.تو خدا تعالیٰ نے ان انبیاء کے نام ہی حضرت مسیح موعود کے متعلق بول دیئے.تا کہ ان کی تمام کی تمام صفتیں آپ میں سمجھی جائیں.چوتھی حکمت یہ ہے کہ اگر یوں کہہ دیا جاتا کہ ایک نبی آئے گا تو خواہ اس کی کتنی ہی تعریف کر دی جاتی پھر بھی اس کی اصل حقیقت نہ کھل سکتی.کیونکہ جب تک کسی چیز کا نمونہ موجود نہ ہو اس وقت تک اس کی اصلیت معلوم نہیں ہو سکتی.مثلاً ایسے لوگوں کو جنہوں نے قادیان کو نہیں دیکھا اس کا نام بتایا جائے تو کوئی یہ خیال کرلے گا کہ قادیان ایک بڑا شہر ہو گا فٹنیں اور موٹر کاریں چلتی ہوں گی سجے سجائے بازار ہوں گے سیر و تفریح کے بڑے سامان موجود ہوں گے.اور کوئی یہ سمجھ لے گا کہ قادیان ایک چھوٹا سا گاؤں ہوگا پانچ دس شخص ہوں گے ایک پیر بیٹھا ہوگا طب و یا بس ہانک رہا ہوگا.اور جس طرح اور سینکڑوں ہزاروں گدیاں ہیں اسی طرح وہ بھی ایک گدی ہوگی اس کے سوا اور وہاں رکھا ہی کیا ہو گا.غرض جو انسان حضرت مسیح موعود کو مانتا ہوگا
۱۸۵ وہ اپنے دل میں اور ہی نظارہ کھینچے گا.اور جو نہیں مانتا ہو گا وہ کچھ اور ہی.لیکن اس قسم کے خیالی نظارے اکثر غلط ہوا کرتے ہیں.اور لاکھ میں سے نانوے ہزار نو سو ننانوے غلط ہوتے ہیں.تو اگر حضرت مسیح موعود کی نسبت یہ کہا جاتا کہ فلاں زمانہ میں ایک نبی آئے گا جوسب لوگوں کو ایک نقطہ پر بلائے گا.تو بعض ختم نبوت کے خیال سے اس کا ایسا بھونڈ انقشہ بناتے جو دیکھنے کے قابل ہی نہ ہوتا.اور بعض غلو کی راہ سے اسے کچھ اور کا اور ہی قرار دے لیتے.اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کا نمونہ بتادیا اور کہہ دیا کہ کرشن ہی آئے گا تا کہ کرشن کے ماننے والے سمجھ لیں کہ وہ اس طرح کا ہوگا.یہ اسی طرح کیا گیا ہے جس طرح جب کسی کو قادیان کا نام بتا یا جائے تو ساتھ ہی یہاں کا نقشہ اور صحیح حالات بھی اس کے سامنے رکھ دیئے جائیں.اس سے اس کو دھوکا نہیں لگے گا.خدا تعالیٰ نے اسی بات کو مد نظر رکھ کر کہ لوگ جھوٹا نقشہ نہ بنالیں جس سے دھوکا کھا جائیں کچھ نبیوں کے نام ہی دوبارہ آنے کے لئے رکھ دیئے.تا کہ اس طرح لوگ آسانی سے سمجھ لیں.پس اب کوئی حضرت مسیح موعود کے متعلق جھوٹا نقشہ نہیں کھینچ سکتا کیونکہ اس کے سامنے پہلے نبیوں کے نقشے موجود ہیں.پانچویں حکمت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی منشاء تھی کہ تمام لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک ہاتھ پر اور ایک جگہ جمع کر دے.اور ایسا اس وقت تک ہو نہیں سکتا تھا جب تک کہ جس کے ذریعہ اکٹھا کیا جاتا اس سے لوگوں کو محبت اور انس نہ ہوتا.دیکھو ایک راعی جب بکریوں کو بلاتا ہے تو سب دوڑی آتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ یہ ہمیں کوئی کھانے کی چیز دے گا یا آرام کی جگہ لے جائے گا.اسی طرح مرنے اپنے پالنے والے کی آواز پر اکٹھے ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ہمیں دانہ ڈالے گا.اسی طرح کبوتر پالنے والا جب انہیں بلاتا ہے تو وہ بھاگے آتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ہمیں کھانے کو دے گا.تو چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ تمام لوگوں کو ایک ہاتھ
۱۸۶ پر اکٹھا کرے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ اس ہاتھ والے سے سب کو محبت نہ ہو.اس لئے خدا تعالیٰ نے ان نبیوں کے نام جن سے انہیں پہلے ہی محبت اور الفت تھی ایک شخص کو دے دیئے.ہندوؤں کو حضرت کرشن سے محبت تھی اس لئے انہیں کہا گیا کہ آؤ یہ کرشن آ گیا ہے اس کے ہاتھ پر جمع ہو جاؤ.مسیحیوں کو حضرت مسیح کے ساتھ محبت تھی اس لئے انہیں کہا گیا کہ آؤ مسیح آگیا ہے اس کا ہاتھ پکڑ لو.مسلمانوں کو آنحضرت سال شما پیام سے محبت تھی اس لئے انہیں کہا گیا کہ آؤ محمد آ گیا ہے اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دو.مسلمان لِيُظهِرة عَلَى الدِّينِ كُلّه کا نظارہ دیکھنے کے لئے منتظر تھے کہ محمد صل السلام کب مبعوث ہوں گے.لیکن جب انہیں کہا جائے گا کہ لو تمہارے زمانہ میں محمد نازل ہو گیا ہے تو بہت خوش ہوں گے اور اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھیں گے کیونکہ جس بات کا شوق سے انتظار ہو اس کے پورا ہو جانے پر اسے شوق سے قبول بھی کیا جاتا ہے.دیکھو حضرت مسیح نے اپنے بعد دونبیوں کے آنے کی پیشگوئی کی تھی.ایک اپنے سے بڑے کی اور ایک اپنی ہی آمد ثانی کی لیکن مسیحی لوگ یہی کہتے ہیں کہ مسیح کب آئے گا.اور وہ نبی“ جو تمام انبیاء کا موعود اور سب نبیوں کا سردار تھا با وجود اس کی پیشگوئی انجیل میں موجود ہونے کے مسیحی لوگ اس کی آمد کے خواہشمند نہیں میسیج کو خواہ کتنا ہی بڑا کہا جائے پھر بھی وہ آنحضرت صالنا السلام کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن مسیحیوں نے اس خوشی اور شوق سے آپ کا انتظار نہ کیا جس سے وہ مسیح کا انتظار کر رہے ہیں.کیونکہ مسیح کو وہ اپنا نبی سمجھتے ہیں اور آنحضرت سلی دیپلم کو بیگانہ.ان کی حالت اسی طرح کی ہے کہ ایک شخص کو کہا جائے کہ تمہیں بیٹا ملے گا پھر یہ کہا جائے تمہارا وہ بیٹا مرگیا ہے وہ دوبارہ زندہ ہو کر ملے گا.تو اس شخص کو مردہ بیٹے کے زندہ ہوکر ملنے سے جو خوشی ہوگی وہ دوسرے کے ملنے سے نہ ہوگی.چونکہ خدا تعالیٰ کا منشاء تھا کہ تمام لوگوں کو ایک جگہ جمع کر دے اس لئے ان کی محبت اور شوق کو جوش دلانے کے لئے ان کے نبیوں کے نام بتا دیئے
۱۸۷ کہ یہی دوبارہ آئیں گے.لیکن اگر انہیں یہ کہا جاتا کہ ان کے مثیل آئیں گے تو انہیں ایسا شوق اور محبت ان سے ملنے کے لئے نہ ہوتی.اب مسیحیوں نے بڑے شوق سے انتظار کیا کیونکہ انہیں حضرت مسیح سے محبت تھی.ہندوؤں نے بڑی بے تابی سے انتظار کیا کیونکہ انہیں حضرت کرشن سے محبت تھی.بدھوں نے بڑے جوش سے انتظار کیا کیونکہ انہیں بدھ سے محبت تھی.مسلمانوں نے بڑی خوشی سے انتظار کیا کیونکہ انہیں آنحضرت سیل یا پیام سے محبت تھی.یہ خدا تعالیٰ نے ایک تدبیر فرمائی تھی کہ تمام لوگ آنے والے کی انتظار میں محبت اور شوق رکھیں لیکن جب وہ آ گیا تو پتہ لگا کہ وہ مثیل تھا.چٹھی حکمہ یہ ہے کہ اگر ہر ایک مذہب کی کتابوں میں حضرت مسیح موعود کا نام لکھ دیا جاتا کہ یہ نبی آئے گا اس کو قبول کر لینا تو ہر ایک مذہب والے کسی دوسرے نبی کی پیشگوئی دیکھ کر اس میں تحریف کر دیتے.یا اس کا نام ہی کاٹ دیتے جیسا کہ ایسا ایک واقعہ موجود ہے کہ استثناء باب ۱۸ میں آنحضرت سیلی لا یتیم کے متعلق پیشگوئی تھی لیکن یہود نے اس میں تحریف کر دی.بات یہ تھی کہ خدا تعالیٰ کے سچے الہاموں کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ بڑی شان کے ساتھ نازل ہوتے ہیں.ورنہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر ایک شخص یہ کہہ دیتا کہ میں خدا سے بات پوچھ لوں.وہ اپنے اوپر چادر ڈال لیتا اور تھوڑی دیر کے بعد کہہ دیتا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بتادیا ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا.ہم نے مسیح موعود گود دیکھا ہے کہ آپ کو جب الہام ہوتا تو آپ پر مردنی کی سی حالت ہو جاتی اور اس طرح آپ کے حلق سے آواز آتی کہ گویا کوئی سخت تکلیف میں ہے.تو خدا تعالیٰ کا کلام خاص شان کے ساتھ نازل ہوتا ہے.یہود جو ابھی پختہ ایمان والے نہ تھے انہوں نے جب الہام کا نازل ہونا دیکھا جس کو خروج
۱۸۸ باب ۲۰ آیت ۱۸ و ۱۹ میں اس طرح لکھا ہے کہ اور سب لوگوں نے دیکھا کہ بادل گرجے.بجلیاں چمکیں.قرنائی کی آواز ہوئی.پہاڑ سے دھواں اٹھا.اور سب لوگوں نے جب سیہ دیکھا تو وہ ہٹے اور دور جا کھڑے رہے.تب انہوں نے موسیٰ سے کہا کہ تو ہی ہم سے بول اور ہم سنیں.لیکن خدا ہم سے نہ بولے.کہیں ہم مر نہ جائیں.“ تو خدا تعالیٰ نے اس کی سزا ان کو یہ دی کہ میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پاکروں گا.اور اپنا کلام اس کے مونہہ میں ڈالوں گا.اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا.وہ سب ان سے کہے گا.(استثناء باب ۱۸ آیت (۱۸) یعنی اب ان میں سے کسی کو نبی نہ بناؤں گا اور ان کے ساتھ ہم کلام نہ ہوں گا.کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ ” خدا ہم سے نہ بولے بلکہ اس طرح کروں گا کہ بنی اسماعیل جو ان کے بھائی ہیں.ان میں نبی بھیجوں گا.جو تجھ (موسی) جیسا ہوگا.یہود پہلے تو ڈر گئے تھے اور کہ دیا تھا کہ ہم سے خدا نہ بولے.لیکن جب ان کو یہ سزاملی کہ ان میں سے صاحب شریعت نبی ہونے بند کئے گئے اور نبوت کا فیض بنی اسماعیل کی طرف چلا گیا.تو انہیں لالچ پیدا ہوئی کہ اب اگر غیر سے نبی پیدا ہوئے تو ہماری ذلت ہوگی اس لئے انہوں نے تحریف کر دی.اور اس طرح بنا دیا کہ خداوند تیرا خدا تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کرے گا“.استثناء آیت ۱۵.یعنی ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے“ کی بجائے ” تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے کر دیا گیا.لیکن جس نے یہ تحریف کی اسے یہ یاد نہ رہا کہ ۱۵ آیت میں تو میں نے تحریف کر دی ہے لیکن ۱۸ آیت اسی طرح کی ہے.پس اگر تمام مذاہب کی کتابوں میں لکھا ہوتا کہ ایک نبی اسلام میں آئے گا اس کو مان لینا تو ضرور ہر ایک مذہب والے حسد اور دشمنی کی وجہ سے اس میں ایسی تحریف کر دیتے کہ جس سے کچھ بھی برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۱۸۹ پتہ نہ لگتا.خدا تعالیٰ نے اس دھوکا سے لوگوں کو بچانے کے لئے یہ تدبیر کی کہ انہی کے نبیوں کے نام رکھ دیئے تا کہ وہ بجائے ان کے کاٹنے کے سب لوگوں کو سناتے پھریں.اور اس طرح اس کی آمد سے پہلے خود تمام مذاہب کے پیروؤں کے ذریعہ اس کی شہرت ہو جائے.اور جب آنے والا آئے گا تو لوگ خود سمجھ لیں گے کہ یہی ہے.غرض خدا تعالیٰ نے اسلام کے غلبہ کے لئے یہ تدبیر فرمائی کہ ہر ایک مذہب والوں کے منہ سے اقرار کرایا کہ فلاں نبی آئے گا.ساتویں حکمت یہ ہے کہ تناسخ کا مسئلہ جو ایک بہت پرانا مسئلہ ہے.لوگ اس کے دھوکا میں نہ پڑیں.اور وہ اس طرح کہ تناسخ کے قائل کہتے ہیں کہ جب کوئی انسان مرجاتا ہے تو اس کی روح کسی اور جسم میں داخل ہو کر دنیا میں آجاتی ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو تمام آنے والے انبیاء کی جگہ بھیج کر بتادیا کہ روحیں کبھی واپس نہیں آیا کرتیں اور نہ کوئی اور جسم اختیار کرتی ہیں.بلکہ کوئی شخص اس رنگ میں دوبارہ دنیا میں واپس آسکتا ہے کہ اس کی خوبوکسی اور میں آجائے.دیکھو تم اپنے اپنے نبیوں کی آمد کے منتظر تھے وہ اسی طرح آئے ہیں.تو اس طرح خدا تعالیٰ نے عملی رنگ میں تناسخ کا رد کر دیا.بیشک لوگ کسی بات کو دلائل اور براہین سے بھی سمجھ جاتے ہیں لیکن دلائل سے ایسی توضیح نہیں ہو سکتی جیسی کہ نمونہ سے ہوتی ہے.ہندوؤں نے کہا کہ کرشن آئے گا اور یہی تناسخ کے بڑے زور سے قائل تھے لیکن ایک شخص آیا جو نہ پہلا کرشن تھا اور نہ کرشن کی روح اس میں تھی.ہاں اس کی صفات رکھتا تھا.اس لئے وہ کرشن کہلایا.اسی طرح مسیحیوں کے کچھ فرقے ہیں جو تناسخ کے قائل ہیں.اب معلوم نہیں ہیں یا نہیں لیکن پہلے تھے.ان کو اس غلط عقیدہ سے بچانے کے لئے مسیح آئے.پھر مسلمانوں میں بھی ایسی جماعت ہے جو تناسخ کو مانتی ہے ان کے اس وہم کو دور کرنے کے لئے محمد آئے اور اس طرح ہر ایک مذہب والوں پر حجت ہوگئی کہ تناسخ بالکل
۱۹۰ غلط ہے.لیکن اگر آنے والے نبی کو مثیل کہا جاتا تو اس سے تناسخ کا رد نہ ہو سکتا تھا.لیکن جب انہی کا نام رکھا گیا اور وہ نہ آئے بلکہ ان کے رنگ میں ایک شخص آیا تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ جب خدا تعالیٰ نے ایک شخص کا نام لیا تھا کہ وہ دوبارہ آئے گا اور پھر بھی وہ دوبارہ دنیا میں نہ آیا بلکہ اس کا مثیل آیا.تو بلا وعدہ کے پہلی ارواح کس طرح واپس آسکتی ہیں.آٹھویں حکمت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے نبیوں اور پیاروں کی عزت کو بڑھاتا ہے.جب تمام دنیا میں اندھیر ہو گیا لوگ خدا کو چھوڑ کر فسق و فجور میں پڑ گئے اور اس بات کی ضرورت ہوئی کہ ایک مصلح بھیجا جائے اور ادھر اللہ تعالیٰ نے پسند نہ فرمایا کہ رسول کریم صلی اہیم کی نسبت یہ کہا جائے کہ آپ کی امت کے بگڑنے پر فلاں شخص نے آکر اس کی اصلاح کی پس اس آنے والے کو آپ کا بروز اور مثیل بنایا اور غیریت کو بالکل مٹانے کے لئے آپ کا نام اسے دیا تا یہ نہ کہا جائے کہ محمد الیای من کی امت کے بگڑنے پر کسی اور نے اس کی اصلاح کی بلکہ یہی کہا جائے کہ امت محمدیہ کی اصلاح محمد نے ہی کی.لیکن گو آپ کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ ایک نیا طریق اختیار کیا تھا مگر چونکہ دوسرے انبیاء کی امتوں کی اصلاح بھی اسی شخص کے سپر دتھی اس لئے ان کے نام بھی اس آنے والے کو دیئے گئے کیونکہ جب خدا تعالیٰ فضل کرتا ہے تو اس کا فضل وسیع ہو جاتا ہے.غرض اس طرح کی عجیب عجیب حکمتیں تھیں جن کے لئے ایک ہی انسان کو بھیجا گیا.اور آنحضرت صلی یا اسلم کی امت سے بھیجا گیا.نویس حکمت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے اور حدیث و قرآن کے مطابق لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پیاروں کو جبکہ وہ فوت ہو جاتے ہیں دنیا کے حالات بتائے جاتے ہیں.پس جب دنیا
۱۹۱ میں ظلمت اور تاریکی پھیل گئی فسق و فجور بڑھ گیا اور ایسی گمراہی پھیل گئی کہ اس کی نظیر اس سے پہلے کے کسی زمانہ میں نہیں ملتی تو تمام نبیوں کی روحوں کو کرب اور اضطراب ہوا کہ ہماری امتیں گمراہ ہورہی ہیں.پس خدا تعالیٰ نے ان کے اضطراب اور ان کی دعاؤں کے ماتحت ایک مصلح کو دنیا میں مبعوث کیا.اور ہر ایک نبی کی توجہ اور دعا کی قبولیت کے اظہار کے لئے اس مصلح کو اسی نبی کا نام دیا.دسویں حکمت یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود کا نام بدھ ، کرشن مسیح اور محمد نہ رکھا جاتا تو رسول اللہ صلی الی یوم کی اس میں سخت ہتک ہوتی.اور اگر ان کا مثیل کہا جاتا تو بھی بڑی ہتک ہوتی کیونکہ آنحضرت صلی یا اسلام نے تو فرمایا کہ لَوْ كَانَ مُوسى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتباعی ( الیواقیت والجواہر مرتبہ امام شعرانی جلد ۲ صفحہ (۲۲) اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو انہیں میری اطاعت کے بغیر کوئی چارہ ہی نہ ہوتا.اگر اس بات کا کوئی ثبوت دنیا کے سامنے پیش نہ کیا جاتا تو لوگ کہہ دیتے کہ (نعوذ باللہ) یہ بڑ مار دی ہے اس کا کیا ثبوت ہے کہ وہ آپ کی اتباع کرتے.خدا تعالیٰ نے اس بات کو دور کرنے کے لئے یہ کیا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو ان نبیوں کے کمالات کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ کو تمام نبیوں کے نام سے یاد کیا.موسیٰ بھی کہا.عیسی بھی کہا.ابراہیم بھی کہا.داؤ بھی کہا.اور پھر جرمی اللهِ فِي حُلّلِ الانبیاء کہہ کر سب نبیوں کے نام آپ کے نام رکھے اور پھر اس کے ساتھ آپ کو غلام احمد بھی کہا اور اس طرح رسول کریم این ایم کے قول کی سچائی ثابت کی.کیونکہ جبکہ ایک شخص ان سب انبیاء کے کمالات کا جامع ہو کر رسول کریم صلی ہی ان کا علم کہلایا.تو اگر ان ناموں کے مصداق الگ الگ دنیا میں زندہ ہوتے تو رسول کریم صلی ایتم کی کیوں غلامی نہ کرتے.پس تمام نبیوں کے نام حضرت صاحب کو دے کر رسول کریم صلی یا اسلام کے دعوے کی تصدیق کی گئی
۱۹۲ ہے.لیکن اگر خدا تعالیٰ یہ فرما تا کہ مثیل عیسی آئے گا مثیل موسی آئے گا تو لوگ کہہ سکتے تھے کہ مثیل تو چھوٹا بھی ہو سکتا ہے پس اس کی غلامی سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ اگر وہ انبیاء ہوتے تو وہ بھی آپ کی غلامی کرتے.پس خدا تعالیٰ نے آپ کو پہلے نبیوں کا مثیل نہیں کہا.بلکہ مسیح ، نوح موسی ، ابراہیم ، داؤد کہا اور سب نبیوں کے کمالات کا جامع کہا.لیکن باوجوداس کے محمد کا غلام کہا تا معلوم ہو کہ اگر وہ الگ الگ طور پر پہلے نبی دنیا میں ہوتے تو وہ بھی رسول کریم صلی یا اسلام کا غلام ہونے کو فخر سمجھتے.غرض یہ حکمتیں تھیں حضرت مسیح موعود کے اس قدر نام رکھنے کی اور یہ صلحتیں تھیں آپ کو وہی نبی قرار دینے کی اور مثیل نہ کہنے کی.جن کو میں نے مختصر الفاظ میں بیان کر دیا ہے.
۱۹۳ ا.اس مضمون میں نظر ثانی کے وقت میں نے اور مضامین بھی زائد کر دیئے ہیں جو لیکچر کے وقت بوجہ کمی وقت بیان نہیں کر سکا.میں اور بھی کردیئے ۲؎ حضرت خلیفہ اسیح یہاں تک تقریر فرما چکے تھے کہ ایک شخص نے بذریعہ رقعہ ایک سوال دریافت کیا جو یہ تھا کہ آنحضرت سانیا اینم نے فرمایا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہو سکتا تو وہ عمر ہوتا.پس جب حضرت عمر نبی نہیں ہوئے تو پھر آپ کے بعد کوئی اور کس طرح نبی ہو سکتا ہے.اس کا مختصر سا جواب حضور نے اپنی مسلسل تقریر کو بند کر کے جود یا وہ درج ذیل ہے:- حضور نے فرمایا کہ چونکہ رقعہ لکھنے والے غیر احمدی صاحب ہیں.اس لئے جواب دیتا ہوں اگر کوئی احمدی پوچھتا تو اسے روک دیتا کیونکہ دوران گفتگو میں بولنا جائز نہیں.جس صاحب نے یہ سوال کیا ہے وہ سن لیں کہ قرآن شریف میں خدا تعالی نے نبی کے آنے کی یہ شرط فرمائی ہے کہ جب دنیا میں ظلمت اور تاریکی ہو جاتی ہے اور دنیا خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر بحر عصیان میں گر پڑتی ہے.اس وقت نبی آتا ہے اور اس کو ضلالت کے گڑھے سے آکر نکالتا ہے.لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو اس زمانہ میں ہوئے ہیں جبکہ چاروں طرف نور ہی نور پھیلا ہوا تھا.اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے لئے بے شمار ذرائع موجود تھے.اسلئے وہ کس طرح نبی ہوتے پھر آنحضرت سایسی ہی تم نے ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ آنے والا مسیح نبی ہوگا اس لئے یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب مسیح موعود ہیں یا نہیں.اگر آپ مسیح موعود ہیں تو نبی بھی ہیں اور جب آپ مسیح موعود ہیں.تو پھر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ آپ نبی کس طرح ہوئے.پس نبوت کے ہونے نہ ہونے پر سوال نہیں ہو سکتا.ہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کا کیا مطلب ہے سو ایک مطلب اس حدیث کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر رسول کریم سینی پیتم کے بعد فورا ہی آپ کی جماعت کو سنبھالنے کے لئے کسی نبی کی ضرورت ہوتی.جس طرح حضرت موسی کے بعد تھی تو حضرت عمر ہی آپ کے بعد نبوت کے مقام پر ترقی پاتے.لیکن چونکہ آپ ایک ایسی جماعت تیار کر کے رخصت ہونے والے تھے جو اپنی نیکی اور تقویٰ میں حضرت موسی کی جماعت سے کئی درجہ زیادہ تھی اور مکمل تھی.اس لئے آپ کے بعد فوراً کسی نبی کی بعثت کی ضرورت نہ تھی.بعد میں معلوم ہوا کہ دو دوست فوت ہو گئے ہیں.