Anhazrat Ka Faizan

Anhazrat Ka Faizan

آنحضرت ﷺ کا عدیم المثال فیضان

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ النبی

محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مورخ احمدیت کا یہ قیمتی مضمون اخبار لاہور میں طبع ہواتھا، جسے احمد اکیڈمی گلبرگ لاہور نے مختصر کتابچہ کی صورت میں شائع کیا ۔اس میں قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی یادگار تصنیف ’’تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام‘‘ اور دیگر کتب کے اقتباسات کا انتخاب کرکے دنیا میں دجال اکبر کی ہولناکیوں، اس کے سدباب کے لئے آفاقی سکیم اور پھر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عظیم الشان اور عدیم المثال فیضان کا ایک پہلو نہایت محققانہ انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ مختصر کتابچہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو ایک جدید طرز پر دعوت فکر دے رہا ہے۔


Book Content

Page 1

صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم OO عديم المثال

Page 2

آنحضرت صلى الله عليه و تم کا عدیم المثال فیضان

Page 3

تفاوت اکرام الله جمیه

Page 4

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم آنحضرت کا عدیم المثال فیضان الحاج مولانا قاری محمد طیب صاحب مرحوم مهتم دار العلوم دیوبند کا شمار ان روشن خیال اور متین و فهیم علماء و فضلاء میں سے ہوتا ہے جنہوں نے عمر بھر مسند تعلیم و تدریس کو رونق بخشی اور آخر دم تک گلستان علم و حکمت کی آبیاری میں مصروف رہے آپ کی یادگار تصانیف میں، تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام کو ایک خاص مقام حاصل ہے.علامہ نے اس مشہور کتاب میں دجال اکبر کی ہولناکیوں کا ذکر فرمایا ہے اور اس کو نیست و نابود کرنے کیلئے خالق ارض و سماء کی آسمانی و آفاقی سکیم

Page 5

پر نہایت محققانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عدیم المثال فیضان کا نہایت اہم پہلو ہمارے سامنے آتا ہے.مولانا صاحب نے اس پہلو کو شاندار رنگ میں اجاگر کرتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو دعوت فکر و عمل بھی دی ہے.چنانچہ تحریر فرماتے ہیں : اگر ہم دنیا کے سامنے علم اور غیر مسلم افراد سے یہ امید رکھیں کہ وہ حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جامع اور خاتم سیرت کے مقامات کو سامنے رکھکر اس آخری دین کو اپنائیں اور اسی قدر عظمت کرتے ہیں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں تویہ سے جا آرنہ نہ ہوگی ، ( خاتم النبین ما ناشر ادارہ عثمانیہ لاہور ) " مولانا موصوف کی اس دلی خواہش کی تکمیل کیلیے کتاب، تعلیمات

Page 6

اسلام اور سیمی اقوام کا متعلقہ حصہ درج ذیل کیا جارہا ہے ہے.آنحضرت تمام کمالات نبوت کا منبع فیض ہیں جس طرح غیبی جہانوں میں ملائکہ کا مقابلہ شیاطین سے ہے ملائکہ مخزن صلاح ہیں اور شیاطین مخزن فساد اسی طرح اس محسوس جہان میں انبیاء کا مقابلہ دجالوں سے ہے.انبیاء مخزن خیر و کمالات ہیں اور دجال مخزن شر و فسادات - پھر جس طرح ملائکہ وشیاطین میں ایک ایک فرد خاتم ہے میں پر اس نوع کے تمام مراتب ختم ہو جاتے ہیں اور وہی اپنی نوع کیلئے مصدر فیض ہے ملائکہ کیلئے جبریل علیہ السلام جس سے کمالات ملکیت ملائکہ کو تقسیم ہوتے ہیں اور شیاطین کیلئے ابلیس لعین جس سے تمام شیاطین کو فسادات شیطنت تقسیم ہوتے ہیں.اسی طرح انبیاء ودجاجلہ

Page 7

میں بھی ایک ایک فرد خاتم ہے جو اپنے دائرہ میں مصدر فیض ہے نبیا علیہم اسلام میں دولت کامل اور خاتم مطلق جو تمام کمالات نبوت کا منبع فیض ہے اور جس کے ذریعہ سارے ہی طبقہ انبیاء کو علوم و کمالات تقسیم ہوئے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.ادھر و جالوں میں وہ فرد واحد جو تمام تلبیسات و مکان اور شمرد و مقاصد کا مخزن ہے اور سارے ہی طبقہ و جاجلہ کو جسکے باطن سے فیض دجل پہنچ رہا ہے " وجال اعظم " ہے.پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام کمالات بشریہ کے خاتم میں اور دجال تمام شرید بشریہ کا خاتم ہے.وہ دریائے روحانیت کے درشاہسوار ہیں اور یہ میدان مادیت کا پیک چالاک....

Page 8

ه - دنبال اعظم کا اصل مقابلہ ذات با برکات نبوی سے ہے....اس عمومی تقابل اور نسبت نقاد کو سامنے رکھ کر تالیا ہوتا ہے کہ دجال اعظم کا اصل مقابلہ ذات بابرکات نبوی ہے ہے کہ آپ تمام قرون دنیا کے خاتم کمالات ہیں اور وہ خاتم قساوانی آپ عیدیت مجسم ہیں اور وہ رعونت مجتم.آپ بھجوائے حدیث ر محمد فرق بين الناس فارق حق و باطل ہیں اور وہ تلبیس افترائے حق و باطل ہے.آپ مہر نبوت سے سرفراز ہیں وہ شہر دومیل و کفر سے ممتاز ہے.آپ بندگی محض کے مدعی ہیں.وہ خدائی محض کا مدعی ہے.اسلیے اگر خاتم النبین کے دور میں ہمہ گیر کمالات کا ظہور ایک امر طبعی تھا تو اُسی کے دور میں

Page 9

ان کمالات کی اضداد اور ہمہ انواع فسادات کا شیوع بھی ایک امر طبعی تھا اور اس لیے قائم الد جالین کو بھی جو خاتم فسادات ہے خاتم النبیین ہی کے دور....میں خروج کرنا چاہیے تھا.کہ اسکے عمیق دخیل و فساد کا مقابلہ محض نبوت کی طاقت نہ کر سکتی تھی چیٹنگ کہ اس کے ساتھ خاتمیت کی بے پناہ قوت نہ ہو.نیز خاتمیم کمالات کی پوری پوری عظمت وشان اور روحانی قوت بھی موقت تک نہ کھل سکتی تھی جنگ کہ اسکے کمالات کی امداد یعنی سارے ہی شرور و فسادات اپنے پورے کروفر کے ساتھ اپنی اسخری شخصیت خاتم اور قالین کے نان پر ظا ہر ہو کر بری طرح شکست نہ کھا جائیں -- دجال اعظم کا ظہور زمانہ نبوی میں کیوں نہ ہو ؟ ہاں مگر مقابلہ کی اگر یہ صورت ہوتی کہ دجال انظم کو حضور

Page 10

کے زمانہ خیر میں ظاہر کر کے شکست دلادی جاتی تو ظاہر ہے فتح و شکست کا یہ مظاہرہ ناقص رہ جاتا کیونکہ نہ فسادات دجال ہی سب کے سب بتدریج نمایاں ہو سکتے اور نہ کمالات نبوی ہی سب کے سب کھل کر انہیں شکست دے سکتے.نتیجہ یہ ہوتا کہ خیر کے ہر پہلو کی طاقت اور شتر کے ہر ہر پہلو کی کمزوری کھلے بغیر ہی مقابلہ ختم ہو جاتا اور دنیا آخرت کے کنارے جا لگتی.حالانکہ خاتمیت سے مقصود تکمیل ہوتی ہے اور اسی لیے خاتم کو سب سے آخر میں لایا جاتا ہے.مگر اس صورت میں کسی پہلو کی بھی تکمیل نہ ہوتی اور خاتموں کا آنا عبث ہو جاتا.ایسے وہاں عظیم کو بھی قیامت تک موقعہ دیا گیا کہ وہ ہر ہر پہلو سے چھپ کر اور کھل کر فساد پھیہ کے بواسطہ اور بلا واسطہ اپنی و بالیت سے دنیا میں تلبیس حق بالباطل کا جال پھیلائے تاکہ ایک دفعہ یہ

Page 11

ماری شرار اپنی کھلی چمک دمک کیساتھ ظا ہر ہوجائیں اور اپنا فروغ دیکھا کہ بے وزن قلوب کو اپنی طرف مائل کر سکیں.ادھر ختم نبوت کی طاقت کو بھی قیامت تک باقی رکھ کر موقعہ دیا گیا کہ وہ اپنی مخفی طاقتوں سے دجالی کروفر کے پہنچے اڑاتی رہے.اگر یہ دجل وفساد علوم نبوی میں فتن شبہات کی ظلمت پیدا کرے تو یہ حقانی طاقت اور یقین سے اسے شکست دے اور اگر المان میں فتنہ شہوات کھٹڑا کرے تو صبر و تحمل کے نبوی اخلاق سے اسے پسپا کر دے اگر تمدنی لائن میں فتنے پر پا کر نے تو سیاست نبوت آڑے آکر انہیں ختم کر دے عرض جس رنگ میں بھی دجل و فساد ظاہر سو اسی رنگ میں کمالات نبوت اسکو دفع کرتے رہیں.یہاں تک کہ فساد کی استعداد کامل ہو کر گویا دجال اعظم کے ظہور کا تقاضا کرتے گئے اور ادھر اصلاح وکمال کی تابعیت بھی اپنا دو مکمل کر کے اسکی کبھی

Page 12

11 شکست کی طلب گار ہو جائے تا آنکہ ختم نبوت اس خاتم الدجالین کو شکست دیگر ہمیشہ کیلئے وصل کا خانہ گردے “ " آنحضرت کا مقابلہ دجال کیلئے قبر مبارک سے تشریف لانا شان اقدس کے منافی ہے پس جب خروج دجال زمانہ نبوی میں مناسب نہ ٹھرا بلکہ خاتمه دنیا یہ مناسب ہوا تو پھر اب اس کے مقابلہ کی ایک صورت تو یہ تھی کہ حضرت خاتم الانبیاء کو خروج دجال کے وقت قبر مبارک سے تکلیف دی جاتی کہ آپ بنفس نفیس اسکے مفاسد کو مٹائیں لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ صورت شان اقدس سے فروتر تھی.اور آپ اس سے عزو اکرم تھے کہ آپ پر دو موتیں طاری کی جائیں یا ایک دفعہ قبر مبارک سے نکال کر پھر دوبارہ قیر دکھلائی جائے

Page 13

۱۲ آنحضرت کو خروج دجال تک زندہ نہ رکھنے کی حکمت.پھر ایک شکل یہ تھی کہ حضور کو خروج دجالی تک دنیا ہی میں مقیم رکھا جاتا لیکن اس صورت کا شان اقدس کیلئے نازیبا ہوتا پہلی صورت سے بھی زیادہ واضح ہے کیونکہ اولی تو اس صورت میں حضور کی بعثت کا آخری اور اصلی مقصد محض مدافعت دنبال ٹھہر جاتا حالانکہ ایسا نہیں ہے.دوسرے دجال کی اہمیت اسقدر بڑھ جاتی کہ گویا اسی کے خون کی خاطر حضور کو دنیا میں صدیوں ٹھہرایا جارہا ہے نیز امت کے کمالات بھی اس صورت میں پروہ افضاء میں رہ جاتے کیونکہ آفتاب نبوت کی موجودگی میں کسی ستارہ کی جھال تھی کہ اپنا تور تمایاں کر سکے.اسطرح تمام طبقا قامت کے جو ہر چھے رہ جانے اور گیا عماد

Page 14

۱۳ امتی کا نبیاء بني اسرائیل کا ظہور ہی نہ ہو سکتا.اور اس سب کے علاوہ یہ صورت خود اصل موضوع ہی کے خلاف پڑتی.یعنی دجال کا خروج ہی ناممکن ہو جاتا جس کے لیے مدافعت کی یہ صورتیں درکارتھیں کیونکہ وقال اور ا سکے مفاسد کا زور پکڑنا تو حضور ہی کے زمانہ سے بعد ہو جانے کے سبب سے ہو سکتا تھا.اور جبکہ آپ خود ہی قیامت تک دنیا میں تشریف رکھتے تو اسکے یہ معنی تھے کہ عالم میں کوئی فتنہ ہی نہ پھیلتا کہ قلوب میں شتر کی استعداد مجھے اور خروج دجال کی نوبت آئے.پس اس صورت میں خروج دجال ہی ممکن نہیں رہتا چہ جائیکہ اسی مدارت کی کوئی صورت فرض کی جائے بہر حال اس صورت میں نہ امت کے کمالات کھلتے نہ ختم نبوت کی بے پناہ طاقت واضح ہوئی جس میہ واقع ہو سکتا کہ ذات بابرکات خاتم مطلق کی سب سے اکمل روحانیت اور بے انتہاء مکمل انسانیت جسطرح انگوں کو فیض رومانیت پہنچا رہی تھی اسی طرح وہ

Page 15

۱۴ پھلوں میں تکمیل کمالات کا کام کر رہی ہے اور وہ ان محدود روحانیتوں کی مانند نہیں ہے جو دنیا میں آئیں اور گزر گئیں اور امتوں میں انکا کوئی نقترن قدم باقی نہ رہا." امت میں حضرت تیم نیند کے علم کامل کی ضرورت عکس کی لیکن پھر سوال یہ ہےکہ جب خاتم اور بالینک اصلی مقابلہ تو تم نہیں ہے مگر اس مقابلہ کیئے نہ حضور دنیا میں دوبارہ تشریف لانا مناسب تصدیوں باقی رکھا جانا شایان شان نہ زمانہ نیوی میں مقابلہ ختم کرادیا جان مصلحت اور او بر اس ختم دجالیت کے استیصال کیلئے چھوٹی موٹی روحانیت تو کیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی.عام محمد دین اور ارباب نایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سے عہدہ برآنہ ہو سکتے تھے جنگ کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اسوقت تک موثر نہ تھی جنگ کہ اسکے

Page 16

ساتھ ختم نبوت کا پاور شکل نہ ہو تو پھر شکست دجالیت کی صورت جو اسکے اور کیا ہو سکتی تھی ک اس قالی اعظم کو نیست ونابود کرنے کیلئے امت میں ایسا خاتم المجد دین آئے جو قائم نہیں کی غیر معمولی قوت کواپنے اندر جذب کیے ہوئے ہو اور ساتھ ہی خاتم انہیں ایسی مناسبت تا به ملتا ہوکہ اس کا مقابہ بعینہ ایمانین کا مقابلہ ہو مگر یہ بھی ظاہرت کہ نیم بوت کی مالیت کا انجن باسی مجدد کا قلب کر سکتا تھا جو خود بھی نبوت آشنا ہو محض مرتبہ ولایت یہ تم کہاں کہ وہ درجہ نبوت کی بھی برداشت کر سکتے چہ جائیکہ ختم نبوت کا کوئی انعکاس اپنے اندر اتار سکے.نہیں بلکہ اس انعکاس کیلئے ایک ایسے نبوت آشنا قلب کی ضرورت تھی جوئی ٹھیکہ خاتمیت کی شان بھی اپنے اندر رکھتا ہوتا کہ خاتم مطلق کے سہلاتے کا عکس اس میں اتر سکے.اور ساتھ ہی اس خاتم مطلق کی ختم ہوتے

Page 17

میں فرق بھی نہ آئے.۱۶ و تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام قد ۲۳ تا ۲۹ ندرة الصنفين آنحضرت کی شان نبوت بخشی دہلی.) مولانا طیب صاحب آنحضرت کی شان خاتمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید تحریر کرتے ہیں : حضور کی شان محض نبوت ہی نہیں نکلتی بلکہ نون بخشی بھی شکستی ہے کہ جو بھی نبوت کی استعداد پایا و فرد آپ کے سامنے آگیا نبی ہوگیا آپ کی یہ فیض رسانی اور رحیمیہ کمالات ہونے کی امتیازی ملی آغازی بشریت کھا سے شروع ہوئی تو انتہائے کائنات تک جا پنچی » ( آفتاب نوت 1 ناشر ادارہ عثمانیہ ۳۰ پرانی انار کلی لاہور ) والسلام دوست محمد شاهد و مطبوعہ اختبار لاہور)

Page 17