Andar Ki Kahani Aini Shahid Ki Zubani

Andar Ki Kahani Aini Shahid Ki Zubani

اندر کی کہانی عینی شاہد کی زبانی

1974ء قومی اسمبلی پاکستان میں کیا ہوا؟
Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات

<span class="ufont-small"> انٹرویوز رکن وفد جماعت احمدیہ مؤرخ احمدیت حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد</span> 1974 کا سال جماعت احمدیہ کی تاریخ اور پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ کے ابواب سے کبھی بھی مٹ نہ پائے گا، یہ وہی سال ہے جب طاقت کے زعم میں اکثریت نے بڑی شیخی بگھارتے ہوئے نوے سالہ مسئلہ حل کرنے کا اعلان عام کیا لیکن بنیادی انسانی حقوق اور عقل انسانی سے متصادم اس قانون سازی نے ھادی برحق ﷺ کی حدیث کی سچائی پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ جماعت احمدیہ کی طرف قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے اجلاسات میں پیش ہونے والے وفد کے ایک رکن مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے 2006ء میں اپنے ذاتی نوٹس، مشاہدات اور یادداشتوں کو ایم ٹی اے کے ناظرین کے لئے متفرق اقساط میں انٹرویو کی شکل میں عکسبند کروایا  تھا۔ ان انٹرویوز کو مجلس خدام الاحمدیہ  پاکستان نے افادیت کے پیش نظر اور تاریخ کو مسخ ہونے سے بچانے کے لئے  تحریری شکل میں ڈھالا، نوک پلک درست کی، بیان کردہ حوالہ جات کی ری چیکنگ کی اور ایک دیدہ زیب کتاب کی شکل میں طبع کروایادیا ہے۔ سینکڑوں صفحات کی اس کتاب میں پیش کردہ حقائق اور دلچسپ واقعات پاکستان میں اس کے باسیوں کے مذہب کی تعین کرنے کی تمام تر کارروائی کو بودے  پن سے لبریز کارعبث ثابت کر رہے ہیں اور اس کو مذہب کے نام پر سیاست کی خوفناک تاریخ کا ہی تسلسل سمجھا جاسکتا ہے۔ ٹائپ شدہ اس کتاب میں افادیت کی خاطر مواد کو ذیلی عناوین بنا کر تقسیم کیا گیا ہے نیز آخر پر تائیدی حوالہ جات کے اصل عکس بھی پیش کرکے کتاب کو مزید قیمتی بنادیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

$1974 قومی اسمبلی پاکستان میں کیا ہوا؟ اندر کی کہانی عینی شاہد کی زبانی انٹرویوز رکن وفد جماعت احمدیہ مؤرخ احمدیت حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد

Page 2

خصوصی کمیٹی قومی اسمبلی 1974ء اندر کی کہانی عینی شاہد کی زبانی قومی اسمبلی 1974 ء کے بارہ میں حضرت مولا نا دوست محمد صاحب شاہد مورخ احمدیت کے انٹرویوز

Page 3

ریاچه دنیائے مذہب کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے سچے مامورین کو ہمیشہ دنیا کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: اور کوئی رسول ان کے پاس نہیں آتا تھا مگر وہ اس سے تمسخر کیا کرتے تھے (سورۃ الحجر آیت (12) یہ سلسلہ صرف استہزاء تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ ظلم وستم کی تمام راہیں اختیار کی جاتی ہیں، باطل قوتیں ان کے مقابل پر یکجا ہو جاتی ہیں اور اپنی پوری قوت و طاقت سے بچے مامورین کے سلسلہ کی صف لپیٹنے کے نہ صرف دعوے کرتی ہیں بلکہ اس کے لیے ہر ممکنہ کاروائی بھی عمل میں لاتی ہیں.اس گٹھ جوڑ کو رسول اللہ ﷺ نے الكفر ملة واحدة کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے کہ سچائی کے خلاف معاندانہ کاروائیاں کرنے والوں کا اکٹھ ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں ان کی کیفیت قرآنی آیت تحسبهم جميعاً و قلوبهم شتى (سورة الحشر آیت 15 ) ( ترجمہ: ”تو انہیں اکٹھا سمجھتا ہے جبکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں) کی مصداق ہوتی ہے جبکہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اپنے مامورین کی سچائی ثابت کرتی رہتی ہے.جماعت احمد یہ جس کی بنیاد الہی نوشتوں اور آسمانی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام نے 1889ء میں الہی حکم کے تحت رکھی ، ابتداء سے ہی معاندین حق کے اس رویہ کا نشانہ رہی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حیات مقدسہ میں ہی فتاویٰ کفر اور بد زبانی سے لے کر مقدمات اور جسمانی ایذاء رسانی بلکہ قتل تک کی کوششوں کا سلسلہ پوری شدومد کے ساتھ شروع کر دیا گیا تھا.کابل کی سرزمین آج بھی گواہ ہے کہ اسی دور میں وہاں دو معصوموں کا خون صرف اس لیے بہایا گیا کہ وہ امام وقت کی بیعت میں آگئے تھے.یہ سلسلہ یہاں تھما نہیں بلکہ خون کی یہ پیاس بڑھتی چلی گئی اور ظلم وستم کی ایسی داستانیں تاریخ کے

Page 4

اوراق میں محفوظ ہیں کہ پڑھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہمدرد آنکھیں اشک بہائے بغیر ان سطور سے گزر نہیں سکتیں.اس طویل مخالفانہ ظلم وستم کے بالمقابل خدا تعالی کی فعلی شہادت و تائید ہمیشہ جماعت احمد یہ کے ساتھ رہی ہے.خدا تعالیٰ نے ہر آزمائش اور مخالفت کے بعد جماعت احمدیہ کے افراد کے ایمان و ایقان کو ترقی دی ہے اور ہر امتحان کے بعد استقامت کی نئی سے نئی چوٹی سر کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.جماعت دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے خلفائے احمدیت کی راہنمائی میں برق رفتاری کے ساتھ منزل مقصود کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے.1974ء کا سال بھی جماعت احمدیہ کے لیے ایک کڑی آزمائش کا سال تھا.اس وقت مقابل پر کوئی فرد نہیں بلکہ حکومت وقت تھی اور اس کی پشت پناہی پر کئی غیر ملکی حکومتیں کھڑی تھیں.یہ خلافت ثالثہ کا دور تھا اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلفیۃ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے امام تھے.حکومت پاکستان کی عنان اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سنبھالے ہوئے تھے.انہیں اقتدار کی ہوس اور سیاسی مصالح اور بعض مسلمان طاقتوں کی انگیخت ولالچ نے آمادہ کیا کہ وہ اسلامی دنیا کے ہیرو بن سکتے ہیں.اس کے لیے انہیں صرف نوے سالہ قادیانی مسئلہ حل کرنا ہوگا.چنانچہ اس وقت با قاعدہ منصوبہ بندی کے تحت حکومت کی طرف سے جماعت احمدیہ کو پارلیمنٹ میں پیش ہونے کے لیے مجبور کیا گیا تا کہ بعد میں یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ جماعت کو اپنے عقائد کے اظہار اور صفائی کا موقع دیا گیا تھا.یہ تمام کارروائی خفیہ ( ان کیمرہ) تھی اس لئے اسے عام نہیں کیا گیا.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی سربراہی میں ایک وفد پارلیمنٹ میں پیش ہوا.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اور راہنمائی سے پارلیمنٹ میں اٹھائے جانے والے سوالات کے حکمت و دانائی کے ساتھ مدلل جوابات دیئے اور مخالفین کو لا جواب کر دیا.اس وفد میں حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب

Page 5

رحمہ اللہ تعالیٰ ، حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب ، حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب اور حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب (مورخ احمدیت ) شامل تھے.اس دوران حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب کی ڈیوٹی پارلیمنٹ میں اُٹھائے گئے سوالات نوٹ کرنے پر تھی.آپ نے محنت سے ہر دن کے نوٹس لئے جو جماعتی تاریخ کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں.کی درخواست پر 2006ء میں جبکہ ابھی حکومت پاکستان کی طرف سے قومی اسمبلی کی کاروائی کی اشاعت نہیں ہوئی تھی.سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے موصوف سے اس کارروائی کے بارہ میں انٹرویوز لینے کی اجازت مرحمت فرمائی اور پھر یہ یادداشتیں اقساط کی صورت میں ایم ٹی اے کی زینت بنیں.بعدہ مجلس نے افادیت کے پیش نظر انہیں تحریری صورت میں ڈھالا ، نوک پلک درست کی اور حوالہ جات چیک کروائے.قارئین کی سہولت کے پیش نظر نظارت اشاعت کی ہدایات کی روشنی میں اصلاحات کی گئیں اور عناوین لگا کر مسودہ کی تبویب کی گئی ہے.ان انٹرویوز میں حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب (مرحوم ) مؤرخ احمدیت نے اسمبلی میں ہونے والی کارروائی کی روئیداد، رذاتی مشاہدہ اور تبصرہ جات ریکارڈ کروائے ہیں.یہ پروگرام 2007 ء میں ایم ٹی اے پر نشر ہوئے تھے.انہی دنوں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 17 دسمبر 2007ء میں اس کی بابت ارشاد فرمایا: آج کل ایم ٹی اے پر ایک پروگرام مولانا دوست محمد صاحب شاہد دے رہے ہیں.جو 1974 ء کی کی اسمبلی کے بارے میں حالات پر ہے.وہاں ماشاء اللہ بڑی حقیقت بیانی ہورہی ہے.خوب کھول کھول کر ان کے کچے چٹھے بیان ہور ہے ہیں اور مخالفین کے پاس ان کا جواب نہ اُس وقت تھا جب

Page 6

حضرت خلیفة المسیح الثالث اسمبلی میں پیش ہوئے تھے ، نہ آج ہے اور نہ کبھی ہو سکتا ہے.انشاء اللہ احمد بیت ہی ہے جس نے ہمیشہ میں رستے پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا اظہار اپنے ہر ماننے والے پر بھی کرنا ہے اور دنیا میں بھی پھیلانا ہے.“ (الفضل انٹر نیشنل 28 دسمبر 2007 ء تا3 جنوری 2008ءصفحہ 8) اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو اس قیمتی علمی خزانہ سے کما حقہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر پڑھنے والے کے ایمان وایقان میں اضافہ کا باعث بنائے.آمین درخواست ہے.نے بھر پور محنت کی ہے.قارئین سے انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنے کی

Page 7

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم فہرست عناوین نمبر شمار عنوان تعارف 1 2 3 4 5 6 7 8 9 ابتدائی عرضداشت تحریک 1974 ء کا پس منظر خصوصی کمیٹی قو می اسمبلی کا پس منظر اسلامی سربراہی کانفرنس اور مؤتمر عالم اسلامی کا کردار سانحہ ربوہ اور صمدانی رپورٹ 1973ء کا آئین اور پیش کردہ قرار داد قومی اسمبلی میں پیش کردہ قراردادیں جماعت احمدیہ کا پیش ہونے والا وفد 10 قومی اسمبلی میں وفد کی حاضری اور طریق کار 11 ایوان میں نشستوں کی ترتیب 12 آخری دن نشستوں کی ترتیب میں تبدیلی 13 کارروائی کی اشاعت پر پابندی کی حقیقت 14 حکومت پاکستان کے شائع کردہ سرکلر ز اور ریکارڈ صفحه 1 2 8 15 19 ات ق الله 32 41 47 53 55 59 62 64 67 22.

Page 8

75 لا له له له له لا 71 72 74 76 77 87 112 117 126 140 !! 15 کارروائی کے ریکارڈ کی موجودہ صورتحال 16 کارروائی کا مختصر خاکہ 17 محضر نامہ 18 محضر نامہ کی تیاری 19 محضر نامہ کے ماخذ 20 اسمبلی میں جمع کروائی گئی کتب 21 محضر نامہ کا خلاصہ 22 مولانا شاہ احمد نورانی کے مغالطہ آمیز بیان کا پوسٹ مارٹم 23 کتابچہ ہمارا موقف 24 علماء کی طرف سے پیش کردہ محضر نامے 25 حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے پوچھے گئے سوالات کا پہلا دور 5 تا 10 اگست 1974ء) 26 حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا سوانحی خاکہ 27 احمدیوں کی تعداد 28 حضور کا اصل مقام 29 اگر غیر مسلم قرار دیا گیا تو کیا ردعمل ہوگا ؟ 30 حقیقی مسلمان کی تعریف 31 کتنے احمدی حقیقی مسلمان ہیں 32 امتی نبی 33 دائرہ اسلام کیا ہے؟ 140 141 141 142 143 144 145 145

Page 9

147 153 158 159 166 181 188 188 190 194 198 204 205 206 217 217 219 221 225 226 iii 34 اسلامی نقطۂ نگاہ سے مرتد کون؟ 35 نیا کلمہ 36 پیشگوئی بابت محمدی بیگم، ثناء اللہ امرتسری و ڈاکٹر عبد الحکیم 37 پیشگوئی درباره محمدی بیگم 38 ایک واقعہ 39 کیا مسیح موعود علیہ السلام شرعی نبی ہیں 40 مختصر سوانح حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد به 41 ملت میں کون داخل اور کون خارج ہے؟ 42 کیا احمدی اپنے آپ کو اقلیت سمجھتے ہیں؟ 43 لاہوری گروپ کو کیا سمجھتے ہیں؟ 44 توہین حسین علیہ السلام کا جواب 45 کتاب "سيرة الابدال میں مسیح علیہ السلام کی گستاخی 46 اصطلاحات کفر اور خارج از اسلام کی تشریح 47 توہین حضرت فاطمہ کا مسکت جواب 48 آخری نبی 49 خدا ہونے کا دعویٰ؟ 50 مسلمانوں پر دشنام رہی؟ 51 غیر احمدی بچوں کا جنازہ؟ 52 قائد اعظم کا جنازہ؟ مرز افضل احمد صاحب کا جنازہ

Page 10

230 231 234 235 236 238 239 239 244 249 250 256 259 259 269 269 277 282 289 289 iv 54 مسلمانوں پر مظالم اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب 55 نجم الہدی کا حوالہ 56 اتمام حجت کا تصور 57 حضرت مرزا صاحب کے بعد اجرائے نبوت 58 الفضل 1948 ء کا حوالہ 59 " تم مجرموں کی طرح ہمارے سامنے پیش کیے جاؤ گے؟“ 60 الفضل 1952ء کی ایک تحریر کی وضاحت 61 جماعت احمدیہ اور تحریک آزادی ہند 62 غدر 1857ء 63 پہلی اور چودہویں رات کا چاند؟ 64 دعوتی“ سے مراد؟ 65 ہجری شمسی کیلنڈر کا تعارف 66 ضیاء الاسلام پریس 67 درود شریف 68 سوالات کا دوسرا دور ( 20 تا 23 اگست 1974ء ) 69 اکھنڈ بھارت 70 قائد اعظم کی ہندوستان واپسی 71 اسرائیل میں احمدیہ مشن 72 کیا الفضل جماعتی آرگن ہے؟ 73 قرآن عظیم اور الہامات کا مرتبہ

Page 11

> 74 روحانی خزائن 75 مسئلہ جہاد 76 پچاس الماریوں کی حقیقت؟ 77 خود کاشتہ پودا 78 الہام کی زبان 79 سقوط بغداد پر قادیان میں جشن؟ 80 مولانا ظفر انصاری صاحب کی جرح 289 296 302 304 306 308 309 1 مولاناظفر انصاری صاحب کا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے نام ایک خط 311 82 تحریف قرآن کا الزام 83 تحریف معنوی 84 ظلی حج 85 ام المومنين 86 مسجد اقصیٰ 87 پنج تن سرکلرز سے حضرت خلیفہ المسح الثالث" کے ایمان افروز کلمات کے چند نمونے 313 314 315 315 316 316 317 317 318 319 320 90 یورپ میں تبلیغ کے نتائج 91 فیضان محمدی اور امتی نبی 92 ختم نبوت اور مسیح محمدی 93 بزرگان سلف کی تکفیر

Page 12

vi 94 سفر یورپ 95 مسیح موعود کی بعثت کا مقصد 96 تحریک شدھی کا جہاد 97 تحریک ناموس رسالت 98 زندہ نبی کے زندہ معجزات 99 بزرگان سلف کے الہامات 100 ختم نبوت کے بارہ میں سوالات 101 ختم نبوت کا عرفان 102 اراکین اسمبلی سے حضرت خلیفہ مسیح الثالث" کا رقت آمیز الوداعی خطاب 103 کاروائی اور فیصلہ پر عمائدین کے تاثرات کی جھلکیاں 104 صاحبزادہ فاروق علی صاحب کا حقیقت پسندانہ بیان 105 بعض ممبران اسمبلی کے تاثرات 106 اٹارنی جنرل کے خیالات 322 322 323 324 325 326 327 330 333 334 334 340 342 107 حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے بارہ میں اٹارنی جنرل کا اسمبلی میں بیان 344 108 بعض علماء کے تاثرات 109 مولانا مفتی محمود صاحب 110 مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب 111 حفیظ جالندھری صاحب 112 شمس الحق افغانی صاحب 345 346 348 349 349

Page 13

350 351 352 353 354 354 355 356 358 358 360 360 360 361 364 365 367 367 368 370 vii 113 سید عبداللہ صاحب 114 مولانا ظفر احمد انصاری صاحب 115 مولانا محمد اشرف صاحب پشاور 116 حسن تهامی صاحب 117 مولانا قاضی عبدالکریم صاحب 118 راؤ شمشیر علی صاحب برطانیہ 119 مولانا خان محمد صاحب 120 مولانا ابوالحسن ندوی صاحب 121 مولا نا محمد طاسین صاحب کراچی 122 مولانا منظور احمد چنیوٹی صاحب 123 مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب 124 ملک نورالحسن وٹو صاحب ایم.اے 125 ملک غلام جیلانی صاحب 126 ہفت روزہ ”لولاک 127 چٹان.جناب شورش کا شمیری صاحب 128 اخبار نوائے وقت 129 ماہنامہ طلوع اسلام 130 الطاف حسن قریشی صاحب 131 مجیب الرحمن شامی صاحب اور مولوی محمد یوسف بنوری صاحب 132 اراکین پیپلز پارٹی

Page 14

370 370 371 372 373 373 375 375 376 376 376 379 379 379 389 391 392 396 396 397 viii 133 مولانا کوثر نیازی سابق وفاقی وزیر 134 سواداعظم کی خواہشات کے مطابق فیصلہ کرنے کی وجہ؟ 135 مولانا شاہ احمد نورانی صاحب 136 جناب خورشید حسن میر ڈپٹی سیکرٹری پیپلز پارٹی 137 صوبائی وزیر پارلیمانی امور سردار صغیر احمد صاحب 138 پیپلز پارٹی ساہیوال 139 بیرونی دنیا کے تبصرے 140 دیگر مسلم رہنما 141 وزیر اعلی مقبوضہ کشمیر جناب میر قاسم صاحب 142 برطانوی پریس 143 عوام الناس کے تبصرے 144 قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ غلط ہوا ہے 145 7 ستمبر 1974ء کے فیصلہ پر بے لاگ تبصرہ 146 آئین 1973ء میں حلف ناموں اور قرار داد کے الفاظ کا تجزیہ 147 چٹا کانگ کا واقعہ 148 حضور کا خطبہ جمعہ میں فیصلہ پر تبصرہ 149 حضور کا پیغام احباب جماعت کے نام 150 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا تبصرہ 151 شاہد کی اپنی دلی کیفیت 152 حضرت خلیفہ امسیح الثالث سے وابستہ دو یادگار واقعات

Page 15

398 399 406 408 413 418 426 433 434 437 440 442 453 457 464 465 470 473 478 ix 153 اسمبلی میں پیش ہونے کے فیصلہ کی حکمت 154 7 ستمبر کا فیصلہ.ایک خدائی نشان 155 دور ابتلا ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے بعض الا 156 کارروائی کے دوران تائیدات الہی 157 کارروائی کا تذکرہ خلیفہ وقت کی زبانِ مبارک سے 158 وفد کے ممبران کی خوشگوار یادیں 159 حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی معیت کا عقیدت مندانہ اظہار 160 حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے قربت کے لمحات 161 حضور کا بیان فرمودہ ایک واقعہ 162 حضور کی اسلام آباد میں قیام گاہ 163 کارروائی سے متعلق شائع شدہ بعض کتب پر سیر حاصل تبصرہ 164 کتاب ”تحریک ختم نبوت، فن تلبیس کا شاہکار 165 نوری بشر 166 رسوائے زمانہ آرڈینینس 1984ء 167 تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ 168 قائد ملت چوہدری غلام عباس صاحب کا حقیقت افروز بیان 169 پریم ناتھ بزاز کی چشم کشا تحریر 170 مشہور سکالر کلیم اختر کی تحقیقی کاوش 171 کے ایچ خورشید کی شہادت

Page 16

479 482 488 491 499 499 503 505 508 510 523 525 537 539 X 172 آزاد کشمیر سمبلی کی قرارداد پر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا تبصرہ 173 کشمیر اسمبلی کی قرارداد پر ہفت روزہ ”کہانی“ کا آرٹیکل 174 خلفائے احمدیت کے بیان فرمودہ حقائق کی قبولیت عام 175 جسٹس جاوید اقبال کے قلم سے بھٹو اور ضیاء کی چہرہ نمائی 176 دو فرعونوں کا موازنہ 177 محافظین ختم نبوت کا رخ کردار 178 چنیوٹی ملاں کی پیشگوئی کا انجام 179 MTA کا رعب اہلِ سیاست اور ملاؤں پر 180 واضح اعتراف حق ملاؤں کی زبانی 181 ملاؤں کا دردناک انجام 182 حضرت مسیح پاک کے قلم مبارک سے ابتلاؤں کی فلاسفی 183 عظیم الشان ترقیات کی حیرت انگیز پیشگوئیاں 184 احمدیت کا شاندار مستقبل 185 اختتامیه

Page 17

1 بسم الله الرحمان الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم تعارف ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.ناظرین کرام ! 1974ء جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.اس سال علماء سوء نے جماعت کے خلاف طے شدہ منصوبہ کے مطابق ہنگامے کروائے.احمدیوں کا معاشی اور اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا ، مکان جلائے گئے ، اموال لوٹ لئے گئے ، جائیدادیں تباہ کر دی گئیں سینکڑوں احمدیوں کو بے گھر ہونا پڑا اور بہت سے احمدیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے.اس شر پسند گروہ کی پشت پناہی بعض بین الاقوامی طاقتوں کی سر پرستی میں حکومت وقت کر رہی تھی.لیکن اس تکلیف دہ تصویر کا نیر تاباں کی طرح چمکتا ہوا ایک اہم اور حسین رخ یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے خوف کی حالت کو امن میں بدلا اور خلافت حقہ کے ذریعہ تمکنت دین کا مظاہرہ پوری شان کے ساتھ ہوا اور جماعت احمدیہ ترقیات کے ایک نئے دور میں داخل ہو گئی.سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا کہ خلیفہ وقت نے بنفس نفیس ایک ایسے ایوان میں اتمام حجت فرمائی جس میں اس وقت کے چوٹی کے لیڈر شامل تھے.ہماری مراد قومی اسمبلی 1974ء سے ہے جس میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ حکومت وقت کے حکم پر پیش ہوئے اور بنفس نفیس جماعت احمدیہ کا موقف اور جماعت کے بارہ میں اٹھائے جانے والے سوالات کے نہایت شاندار جواب اپنی زبان مبارک سے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے سربرآوردہ شخصیات کے سامنے مرحمت فرمائے اور اس طرح دین حق کا پیغام ہر مکتبہ فکر تک پوری وضاحت کے ساتھ پہنچ گیا.بہت سے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 1974ء کی اسمبلی میں کیا پیش ہوا.کون کون سے سوالات اٹھائے گئے.حضور نے ان کے کیا جواب ارشاد کئے؟ کیا فیصلہ دیا گیا ؟ سیاسی اور مذہبی لیڈروں کے اس فیصلہ کے بارے میں کیا تاثرات تھے وغیرہ وغیرہ.قومی اسمبلی میں سیدنا حضرت

Page 18

2 خلیفہ المسح الثالث کی معیت میں جماعت احمدیہ کے نمائندہ وفد میں دیگر بزرگان بھی شریک تھے.ان میں سے ایک مؤرخ احمدیت مکرم و محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد ہیں.جو بفضلہ تعالیٰ اب بھی خدمت سلسلہ کی توفیق پارہے ہیں.آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں.آپ اس دوران مسلسل اسمبلی میں موجود رہے اور نوٹس وغیرہ لیتے رہے.اس طرح آپ کا رروائی کے چشم دید گواہ ہیں.1974ء کے حالات کے حوالے سے ہم نے انہیں تشریف لانے کی درخواست کی ہے.ہم یقین رکھتے ہیں کہ مکرم مولانا صاحب کی زبان سے یہ روح پرور تفصیلات احباب جماعت کے ایمانوں میں اضافے کا باعث ہوں گی.ناظرین کرام! خاکسار زیادہ دیر آپ کے اور محترم مولانا کے درمیان حائل نہیں رہنا چاہتا.آئیے ! مولانا صاحب سے گفتگو شروع کرتے ہیں.اس گفتگو میں میرے ساتھ شریک ہیں مہتم تعلیم مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان مکرم حافظ محمد نصر اللہ صاحب مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ.مکرم مولا نا صاحب ہم آپ کو اپنے سٹوڈیوز میں تشریف لانے پر خوش آمدید کہتے ہیں.قبل اس کے کہ ہم سوالات کا سلسلہ شروع کریں، آغاز میں آپ کچھ فرمانا چاہیں گے.ابتدائی عرضداشت مولا نا دوست محمد شاہد صاحب: - اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و اشهد ان محمدا عبده و رسوله إِنَّ اللَّهَ وَ مَلئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً (الاحزاب : 57) اللهم صل علی محمد و سیدنا و مولانا محمد و علی آل سیدنا و مولانا محمد و بارک و سلم انک حمید مجید.نشان ساتھ ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں ہمارے دین کا قصوں ہی مدار نہیں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درخت وجود کی سرسبز شاخو! اور شمع

Page 19

3 خلافت کے پروانو ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کانت.خاکسار خلافت احمدیہ کا ادنی ترین خادم ہے اور میرا دل، میری روح بلکہ جسم کا ذرہ ذرہ اس تصوری سے اللہ جلشانہ کی حمد وتاہ سے بھر زخار کی طرح ٹھاٹھیں مار ہا ہے کہ اس نے محض اپنے فضل و کرم اور سید نا و امامنا و مرشدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی کفش برداری اور ذرہ نوازی کے طفیل اپنے محبوب وطن پاکستان کے چوٹی کے دانشوروں اور مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی رہبر کمیٹی کے اجلاسوں میں مسلسل تیرہ روز تک شرکت کا سنہری موقع میسر فرمایا.یہ وہی پاکستان کی مقدس سرزمین ہے جس کے متعلق آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سے بھی چار برس قبل اپریل 1902ء میں یہ حیرت انگیز الہامی بشارت دی گئی.یہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے الفاظ ہیں.عیسائی لوگ ایذا رسانی کے لئے مکر کریں گے.اور خدا بھی مکر کرے گا اور وہ دن آزمائش کے دن ہوں گے.اور کہ کہ خدا یا پاک زمین میں مجھے جگہ دے.یہ ایک روحانی طور کی ہجرت ہے.“ ( دافع البلاء صفحہ 21 طبع اوّل) اس ایمان افروز عبارت سے یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ پاک زمین یعنی پاکستان کا نام محمد مصطفی احمد مجتبی علیہ کے زندہ خدا نے اپریل 1902ء میں تجویز فرمایا تھا.حضرت اقدس علیہ السلام آگے فرماتے ہیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ انجام کار زمین میں تبدیلی پیدا ہو جائے گی اور زمین راستی اور سچائی سے چمک اٹھے گی.“ ( دافع البلاء صفحہ 21 طبع اوّل) اگلے سال ستمبر 1903ء میں رپ کعبہ نے اس پاک زمین کو قلعہ ہند سے موسوم کرتے ہوئے الہاما بتایا:.66 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزیں ہوئے قلعہ ہند میں.“ (15190324.171)

Page 20

4 (اسی طرف حضرت خلیفہ امسح الثالث نے اپنی تقاریر جلسہ سالانہ 1965ء میں بھی ذکر فرمایا ہے.(ملاحظہ ہو خطابات ناصر جلد اول صفحہ 23.84) یہاں تحدیث نعمت کے طور پر یہ بھی عرض کرنا ہے کہ اس عاجز کو 1947ء میں اس پاک زمین اور قلعہ ہند کے قیام میں بحیثیت کا رکن حصہ لینے کا اعزاز بھی حاصل ہے جو محض اللہ کا احسان ہے.میرے قلم سے تحریک پاکستان اور حضرت قائد اعظم کے یادگار کارناموں سے متعلق جولٹریچر اب تک منظر عام پر آچکا ہے اس کا مفصل ذکر 1979ء میں قائد اعظم اکیڈمی کی طرف سے ” قائد اعظم محمد علی جناح - توضیح کتابیات کی دوسری جلد کے صفحہ 319 اور صفحہ 320 میں منظر عام پر آچکا ہے.1948ء - 1949 ء کے جہاد کشمیر میں فرقان بٹالین کی شوکت کمپنی کے ایک سپاہی اور پھر لیفٹینٹ کے طور پر خاکسار دفاع پاکستان کا فریضہ بھی بجالا تا رہا.جس پر پاکستان آرمی ہیڈ کوارٹرز کی طرف سے تمغہ خدمت دیا گیا.فرقان بٹالین کے سنہری کارناموں پر کمانڈر انچیف پاکستان نے شاندار خراج تحسین ادا کیا ہے.فرقان مجاہدین کے یہ سنہرے کارنامے انشاء اللہ قیامت تک چاند ستاروں کی طرح چمکتے رہیں گے.خداتعالی کالاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ عاجز آج سے تو فیق تعالی امام عالی مقام حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذرہ نوازیوں اور دعاؤں کی برکت سے رہبر کمیٹی کے تیرہ تاریخی اجلاسوں سے متعلق عینی شاہد کی حیثیت سے اپنے مشاہدات اور تاثرات تفصیلی رنگ میں پیش کرنے کی توفیق پارہا ہے.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود کا ایک عارفانہ شعر ہے.اگر ہر بال ہو جائے سخنور تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر انشاء اللہ یہ عاجز دستاویزی حقائق سے یہ بھی ثابت کرے گا کہ اسمبلی 1974ء کا ہر اجلاس قرآنی آیت وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمُ (النور: 56) کی عملی تصویر اور ایمان افروز نظارے بہم پہنچاتا رہا.گل عالم نے قرآن اور حدیث رسول اور مسیح الزمان حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ اور آپ

Page 21

5 کے مقدس خلفاء کی حیرت انگیز پیشگوئیوں کی تجلیات کا ظہور اپنی آنکھوں سے اخباروں، ریڈیو اور پریس کے ذریعہ دیکھا اور ہمارے نبی، نبیوں کے سردار، نبیوں کے شہنشاہ، نبیوں کے فخر ، خاتم النبین ، خاتم المؤمنین ، خاتم العارفین ﷺ کی صداقت کے سورج چڑھ گئے.مصطفیٰ پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ نور لیا، بار خدایا ہم نے قبل اس کے کہ سوال و جواب کا آغاز ہو، تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے آپ حضرات کو یہ بتانا ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت نے بڑی وضاحت سے فرمایا ہے کہ قرآن مجید آسمانی علوم کا ایک جامع اور آخری انسائیکلو پیڈیا ہے جس میں بے شمار علوم موجود ہیں اور ان علوم میں تاریخ بھی سر فہرست نظر آتی ہے.قرآن کا اعجازی نشان یہ ہے کہ اس نے تاریخ کے سنہری اصول بیان کئے ہیں.آج دنیا کی مذہبی تاریخ کو تقریباً پانچ ہزار سال گذرے ہیں.بڑے بڑے مؤرخ یونان سے لے کر مصر اور مصر سے لے کر ہندوستان میں پیدا ہوئے اور پیدا ہو رہے ہیں.مؤرخ اسلام حضرت ابن خلدونؒ جنہیں مغرب کی دنیا بھی فلسفہ تاریخ کا سب سے بڑا سکالر بلکہ بانی قرار دیتی ہے.انہوں نے قرآن ہی کے اصولوں کو لے کر اپنی معرکۃ الآراء تالیف ”مقدمہ ابن خلدون سپر قلم فرمائی ہے.قرآن کے اصول جن کا براہ راست تعلق علم تاریخ سے ہے کیونکہ جس واقعہ کے متعلق مجھے عرض کرنا ہے وہ علم تاریخ ہی کا واقعہ ہے اور وہ واقعہ ایک ایسی مملکت میں پیش آیا جس کا اعلان ابتداء سے یہی ہے کہ یہ اسلامی مملکت ہے.اور اسلام فقہاء کی آراء کا نام نہیں ہے کہ جس کا کوئی شمار نہیں ہے، جس میں خوفناک تضاد موجود ہے، اور جس کا اکثر حصہ قرآن وحدیث سے، بالکل متضاد حیثیت رکھتا ہے.قرآن نام ہے ہمارے آقا محمد عربی ﷺ کی لائی ہوئی شریعت قران مجید کا.قرآن مجید میں سب سے بڑا اصول تاریخ کا یہ رکھا گیا ہے.قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يه سورة الاحزاب آیت 71 میں ہے.پھر فرمایا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ( المائدہ: 9) اے تاریخ لکھنے والو! تاریخ پر غور کرنے والو! تاریخ پر ریسرچ کرنے والو! یا درکھو کہ عدل اور انصاف کے پرچم کو کھڑا کرو.

Page 22

6 وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمِ (المائدة: 9) فرمایا کسی قوم کسی طائفہ کسی ملک کی دشمنی اور اختلاف نظریہ تمہیں عدل سے برگشتہ کرنے کا موجب نہ بنے.اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائدة: 9) فرمایا تاریخ لکھنے بیٹھے ہو تو تقویٰ کے ساتھ لکھنا اور یہی خدا کو پسند ہے.قرآن یہی کہتا ہے کہ خد تعالی بچوں کو پسند کرتا ہے اور فرمایا كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ( التوبة : 119 ) سچوں کے ساتھ ہو اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ تاریخ بھی کچی لکھو اور پھر اس کو اپنے دل میں جگہ دو اور سینے میں بساؤ جو کہ حقیقت پر مبنی ہے.مگر افسوس پچھلی صدیوں سے بالخصوص برصغیر کے چوٹی کے مذہبی رہنماؤں نے مسلمانان عالم کے دل میں یہ انتہائی خطرناک عقیدہ نقش کر دیا ہے.اپنی کتابوں ،اپنے خطبوں، تقریروں اور اپنے عمل کے ذریعہ سے کہ احیائے حق کے لئے جھوٹ کا بولنا محض جائز ہی نہیں بلکہ بعض اوقات واجب بھی ہو جاتا ہے.اور اس حد تک واجب ہے کہ جب وجوب کی حد تک جھوٹ بولنا حق وصداقت کی اشاعت کے لئے ضروری ہو جائے تو پھر سفید جھوٹ بولنا چاہئے تا کہ سننے والا یہ وہم و گمان ہی نہ کر سکے کہ اتنا بڑا جھوٹ بھی منبر و محراب کے وارث کی زبان سے بولا جاسکتا ہے.چنانچہ آپ دیکھیں دیو بند کے مشہور عالم مذہبی رہنما رشید احمد صاحب گنگوہی جن کا مقام اور جلالت مرتبت اس حد تک ہے کہ مولوی محمود الحسن اسیر مالٹانے ان کی وفات پر جومر ثیہ کہا اس میں ان کو بانی اسلام کا ثانی تک قرار دیا ہے.( مرثیہ بروفات مولا نا رشید احمد گنگوہی صفحہ 6 جناب گنگوہی صاحب نے اپنے فتاوی میں لکھا ہے کہ:.احیائے حق کے واسطے کذب درست ہے ، مگر تا امکان تعرض سے کام لیوے اگر ناچار ہو تو کذب صریح بولے.“ (فتاوی رشیدیہ کامل مبوب صفحہ 460 نا شرمحمد سعید اینڈ سنز تاجر کتب قرآن محل کراچی.) یہی نقطہ نگاہ سید حسین احمد صاحب مدنی کا ہے.جو انہوں نے ”نقش حیات میں بیان کیا ہے.(ملاحظہ ہو نقش حیات جلد دوم صفحه 625 ناشر دار الاشاعت کراچی) بانی جماعت اسلامی سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے ترجمان القرآن شعبان 1377ھ بمطابق فروری 1958ء صفحہ 118 میں کھلے لفظوں میں اس کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ غلط ہے کہ ہر موقع پر سچائی پر عمل کرنا چاہئے ، بعض اوقات جھوٹ بولنا واجب ہے.

Page 23

7 جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری جنہیں ان کے معتقدین ” شہنشاہ خطابت امیر شریعت سے موسوم کرتے ہیں ، ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن ضمناً ایک دلچسپ بات میں یہ بیان کر دوں کہ حکیم مختار احمد احسینی صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے فرمودات امیر شریعت اس میں انہوں نے شاہ جی کی ایک تقریر کا حوالہ دیا ہے.لکھتے ہیں کہ شاہ جی نے ایک دفعہ اپنی تقریر کے دوران یہ بتانے کے لئے کہ مجھے امیر شریعت کہنے والے دراصل کیا تصور رکھتے ہیں کہا کہ یار لوگوں نے شریعت کو نہ ماننے کے لئے مجھے امیر شریعت بنا رکھا ہے“.(صفحہ 78 ناشر مکتبہ تمیر حیات چوک رنگ محل لاہور ) شاہ جی نے ایک دفعہ یہ بیان دیا اور یہ ان کے مشہور عقیدت مند شورش کاشمیری صاحب مدیر چٹان نے ان کی سوانح عمری میں بیان کیا ہے.ان کے الفاظ یہ ہیں :.اُن کا عقیدہ تھا کہ اخبارات نے آغاز سے اب تک بڑے بڑے جھوٹ گھڑے ہیں، اگر اس جھوٹ کا بوجھ ماؤنٹ ایورسٹ پر پڑتا تو وہ زمین میں پھنس چکی ہوتی.“ سید عطاء اللہ شاہ بخاری (سوانح وافکار )‘ صفحہ 18) صاف طور پر اشارہ ہے کہ وہ دنیا میں تو گئے نہیں بر صغیر کے اخبارات کی طرف اشارہ ہے.یہ میری ابتدائی عرضداشت تھی اور اس عرضداشت کے ساتھ میں آپ سے دعا کا بھی طلبگار ہوں.ہم تہی دست تیرے در پر چلے آئے ہیں لطف سے اپنے عطا کر ید بیضاء ہم کو حضرات ! اس ناچیز کی معروضات ختم ہوئیں.اب آپ جیسے بالغ نظر مبصروں سے با ادب درخواست ہے کہ روداد اسمبلی کے پس منظر، اس کی تفصیل اور دیگر اہم کوائف کے متعلق اپنے نقطہ نگاہ سے سوالات کی شکل میں خاکسار کی راہنمائی فرمائیں.حق تعالیٰ نے آپ کو اس زاویہ نگاہ سے عالمگیر جماعت احمدیہ کے ترجمان کا درجہ عطا کیا ہے.فذالك فضل الله يوتيه من يشاء.

Page 24

8 ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب وحافظ محمد نصر اللہ صاحب :.جزاکم اللہ تحریک 1974ء کا پس منظر حافظ محمد نصر اللہ صاحب : مولانا صاحب! ہم آپ سے سوالات کا سلسلہ شروع کرتے ہیں.سب سے پہلے تو اس حوالے سے ہم یہ پوچھنا چاہیں گے کہ 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں جماعت احمدیہ کے حوالے سے پیش ہونے والی قرار داد کا پس منظر کیا ہے؟.کیا فوری کچھ ایسے عوامل پیدا ہو گئے تھے کہ جن کی وجہ سے یہ قرار داد پیش کرنا پڑی یا اس کے پیچھے کوئی بہت لمبی Background ہے.؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب: حق یہی ہے کہ بظاہر آج تک دوسرے حلقے دنیا کو یہی باور کراتے ہیں کہ ایک سانحہ ربوہ میں ہوا.جس میں ”قادیانیوں“ نے دوسرے مسلمان طلباء جونشتر میڈیکل کالج ملتان کے تھے، ان کی زبانیں کاٹ دیں، ان کو مارا پیٹا اور بڑی خونچکاں حکایات پیش کر کے کہا جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان اور عالم اسلام کو خیال آیا کہ ان کو غیر مسلم قرار دینا چاہئے.جیسا کہ آئندہ چل کر بیان کروں گا، یہ ضرب خفیف کا واقعہ تھا، کسی ایک مسلک کے طلباء کا دوسرے مسلک کے طالب علموں کو مارنے کے واقعات ہیں.اس پاکستان میں تو قتل و غارت کے روزانہ واقعات ہو رہے ہیں، ہر جگہ ہورہے ہیں، ہر سوسائٹی میں ہورہے ہیں.ہر شہر میں ہور ہے ہیں، تو اس کے نتیجے میں کسی کو مسلم یا غیر مسلم قرار دینا ایسی ہی بات ہے جس طرح کہا جائے کہ چونکہ چاول سفید ہیں لہذاز مین گول ہے.ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں تھا.زیادہ سے زیادہ یہ بات تھی کہ معاملہ عدالت میں دیا جاتا.چنانچہ صمدانی عدالت میں پیش کیا گیا اور انہوں نے صاف طور پر کہا کہ واقعات سے ثابت ہے کہ یہ سارا قصہ مارنے کا سوائے ضرب خفیف کے کوئی بات نہیں تھی.نشتر میڈیکل کالج ملتان کے سٹوڈنٹس جب لائل پور (فیصل آباد) میں پہنچے اور علماء نے سٹیج مولوی تاج محمود صاحب کی زیر نگرانی پہلے سے تیار کیا ہوا تھا.تو جناب جی ایم پراچہ صاحبکمشنر گوجرانوالہ ڈویژن کہتے ہیں کہ یہ بالکل غلط ہے کہ ان لڑکوں کی زبانیں کاٹی گئیں.وہ بکروں کی زبانیں تھیں جنہیں خون لگا کر رکھا گیا تا کہ عوام میں اشتعال پیدا ہو.میں خود

Page 25

9 ان دنوں فیصل آباد میں تھا اور یہ میری ذاتی معلومات ہیں.“ ہفت روزہ لولاک فیصل آباد، مولانا تاج محمود نمبر ، 8 مئی 1987ء صفحہ 50) اور حقیقتاً ایسی کوئی بات تھی بھی نہیں سوائے اس کے کہ کوئی زبانی کلامی بات ہوئی ہو.تو باور دنیا کو یہ کرایا جاتا ہے.مگر اختصار کے ساتھ میں عرض کروں گا.اس پر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مقالہ مکمل کر چکا ہوں.خلاصہ اس کا میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے خلاف بین الاقوامی ایجی ٹیشن کا محاذ حقیقتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے شروع ہو گیا تھا اور سب سے پہلا کفر کا فتویٰ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لگایا.لیکن وہ آغاز تھا اور اس وقت یہی سمجھا جاتا تھا اور اس وقت کے علماء جن میں مولوی کرم دین صاحب بھیں بھی تھے اور اس کے علاوہ ایک مولوی عبدالاحد خانپوری صاحب تھے.انہوں نے لکھا کہ مرزا صاحب نے اصلح خیر“ کے نام سے اشتہار دیا ہے کہ ہم دونوں فریق صلح کرلیں.کم از کم اپنے عقیدے پر ضرور قائم رہیں.لیکن اسلام کے مطابق اخلاقی اقدار کو پامال نہ ہونے دیں.یہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے قادیان سے اشتہار دیا.یہ 1900ء کی بات ہے تو خانپوری صاحب نے راولپنڈی سے ایک کتاب شائع کی.اس وقت بھی موجود ہے.انہوں نے کہا مرزا صاحب مصالحت کی بات کرتے ہیں یہ تو اپنے وقت کے ابو جہل ہیں.معاذ اللہ.اور آج نہیں تو چند دنوں تک یہ ختم ہو جائیں گے.ہمیں کوئی ایسے گھبرانے کی بات نہیں ہے اور مصالحت کا جہاں تک تعلق ہے.ایک ہی صورت ہے مصالحت کی کہ مرزا صاحب اپنی کتابوں کو جلا دیں ، نذر آتش کر دیں اور حضرت پیر مہرعلی شاہ صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لیں.تو ان کا خیال یہی تھا کہ یہ مخالفت تو ہم کر رہے ہیں مگر یہ سلسلہ جلدی ختم ہو جائے گا.تفصیل ملاحظہ ہو ا ظہار مخادعت مسلمہ قادیانی مؤلفه عبدالاحد خانپوری مطبع چودھویں صدی راولپنڈی ) خلافت اولی کے زمانے میں جماعت کو نظام خلافت کے استحکام کے لئے حضرت خلیفہ المسح الاول کی زیر قیادت اپنی پوری طاقت صرف کرنی پڑی اور اس دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب جیسے عالم دین نے لکھا کہ مرزا صاحب تو فوت ہو گئے ہیں اس لئے یہ جو مدرسہ احمدیہ بنانے کا قصہ ہے اس کو ختم کرو.یہ ہمارے کام آئے گا اور میں

Page 26

10 10 یہ کہتا ہوں کہ تمام دنیا کے مسلمان مرزا صاحب کی کتابوں کو جلا دیں اور آئندہ کوئی مؤرخ بھی ذکر نہ کرے.اور خواجہ حسن نظامی صاحب سجادہ نشین حضرت نظام الدین اولیاء نے یہ کہا کہ مرزا صاحب جیسے عالم دین تو فوت ہو گئے ہیں اب احمدیوں کو چاہئے کہ ہمارے ساتھ مل جائیں.تو وہ دوراس طرح ختم ہوا.” تاریخ احمدیت جلد سوم جدید ایڈیشن میں میں نے اس کی تفصیل دی ہے.اللہ تعالیٰ نے جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو تاج خلافت پہنایا تو اپنے بھی اور بیگانے بھی ،اپنوں سے مراد عمائدین تھے جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو بچہ قرار دیتے تھے اور وہ اس خیال کے ساتھ گئے تھے.چنانچہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے اس وقت ٹی.آئی ہائی سکول کی طرف اشارہ کیا کہ ہم تو جا رہے ہیں اور چند دنوں کے بعد یہاں پراتو بولیں گے.پشاور سے ایک رسالہ شائع کیا گیا کہ ایک بچے کے ہاتھ صدر انجمن احمد یہ سپر د کر دی گئی ہے اور یہ بچہ بھی ڈوب جائے گا اور پھر جماعت بھی ختم ہو جائے گی.تو اس وقت یہ صورت تھی.منتظم مخالفت کا وہ جو رنگ تھا اس میں نہ صرف یہ کہ کمی واقع ہوئی بلکہ دشمن کو یقین ہو گیا کہ اب خلیفہ اول کے فوت ہونے کے بعد جبکہ اندرونی کشمکش عروج تک پہنچ گئی ہے اور قیادت اور خلافت کے منصب پر آنے والا بچہ ہے.دسویں جماعت پاس بھی نہیں ہے تو اب ہمیں اتنے جوش کے ساتھ مخالفت کرنے کی ضرورت نہیں ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یکا یک انقلاب پیدا کیا.اس وقت پہلا اشتہار حضرت مصلح موعود کے قلم سے جو شائع ہوا، اس کا عنوان تھا کہ ”کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.حضور نے اس میں فرمایا کہ میں بچہ سہی مگر یہ بچہ عرش کے خدا کے ہاتھ میں ہے.کوئی نہیں جو خلافت کا مقابلہ کر سکے.طوفان اٹھیں گے خدا ان کے رخ کو بدل دے گا.پہاڑوں جیسے مصائب بھی ہوں گے تو خدا ان کو پاش پاش کر دے گا.یہ پہلا اشتہا رتھا.صورت یہ تھی کہ پہلا جلسہ سالانہ خلافت ثانیہ کا جو ہوا میرے پاس وہ ریکارڈ موجود ہے.افسر جلسہ سالانہ کی جو کہ اس وقت بیت المال کے افسر تھے ) رسید موجود ہے کہ جلسہ سالانہ کے لئے ہمارے پاس کوئی رقم نہیں ہے.ہم نے حضرت مرزا محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی سے پانچ سو روپے ادھار لئے ہیں.(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد چہارم جدید ایڈیشن ).یہ صورتحال تھی اس کے بعد یکا یک دنیا بدلی اور خدا کے فضل سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی دھوم مچ گئی.

Page 27

11 حضرت مصلح موعودؓ کے وفادار سپاہیوں اور جرنیلوں نے شدھی کی تحریک میں ہر قلعہ پاش پاش کر دیا.اور پھر جس وقت کہ سائمن کمیشن آیا اس وقت بھی حضرت مصلح موعودؓ نے مسلمانوں کی راہنمائی کی.قائد اعظم کا جو مسلک تھا وہی حضور کا مسلک تھا کہ مسلمانوں کے حق میں جو بھی صورتحال ہے اس کے مطابق ہمیں حکومت سے Co-operation کرنا چاہئے اور ہر وہ کوشش کرنی چاہئے کہ جس سے یہ خدشات ختم ہو جائیں کہ انگریز کے چلے جانے کے بعد مسلمان ہندو کا غلام بن جائے گا.قائد اعظم اسی کوشش میں تھے اور یہی حضرت مصلح موعودؓ کا ابتداء سے نظریہ تھا.تو آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک طرف جب شدھی کی تحریک میں ناکامی ہوئی، حالانکہ اس زمانے کی تاریخ پڑھیں شدھی کی تحریک در اصل غدر کے زمانے کاReflection تھا.غدر کی ساری پلاننگ ہندو نے کی تھی.ہندو مہاراجے اس کے پیچھے کارفرما تھے.مسلمانوں کے چند مولویوں کو پیسے دئے اور یہ تاریخ ہندوستان میں موجود ہے اور اسی طرح دوسرے documetns میں بھی موجود ہیں کہ مسلمان علماء کے دستخط لے کر جو اشتہار اس موقع پر دتی کی شاہی مسجد کے پھاٹک پر لگایا گیا، ہندوؤں کی کارستانی تھی کیونکہ مسلمانوں کے پاس تو حکومت ہی نہیں تھی.بہادر شاہ ظفر کی حکمرانی زیادہ سے زیادہ لال قلعہ کے اندر تھی.تمام ہندوستان پر مرہٹوں اور دوسرے ہندوؤں کی حکمرانی تھی تو ان کا خیال یہ تھا کہ موجودہ وقت میں اگر ہم انگریزوں کو ختم کر دیں تو ہم دتی نہیں پورے ہندوستان پر قابض ہو سکتے ہیں.مگر ساتھ ہی خطرہ یہ تھا کہ اگر یہ بغاوت ناکام ہوگئی تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے.لازما ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا.اس قوم نے اس کا متبادل یہ سوچا کہ مسلمانوں کو ساتھ ملا کر، ان کے علماء سے فتوی دلا کر، یہ شائع کرایا جائے تا کہ اگر نا کامی کی صورت پیدا ہو اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے ہمیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے تو ہم فتویٰ پیش کر سکیں کہ ہم تو مہاراج آپ کے ساتھ تھے.یہ ساری کارستانی مسلمانوں کی تھی جو اس کو جہاد سمجھ کر آئے تھے.اور میں آپ کو ضمنا یہ بتادوں کہ میں اس کی تفصیل اپنے مقالہ مطالبہ اقلیت کا عالمی پس منظر میں بیان کر چکا ہوں اور وہ اللہ کے فضل سے مکمل ہو چکا ہے.

Page 28

12 میں یہ اشارہ بتا رہا ہوں کہ غدر کے بعد ایجی ٹیشن ہوئی تحریک خلافت اٹھی اور سارا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح انگریز کو نکال دیا جائے اور ایسی صورت میں نکالا جائے کہ انگریز کے چلے جانے کے بعد براہ راست اقتدار ہندو کے ہاتھ میں چلا جائے.ان کے رستے میں سب سے بڑی روک مسلمانوں کے سیاسی طبقوں میں حضرت قائد اعظم تھے اور مذہبی دنیا میں اس وقت حضرت مصلح موعودؓ کا وجود تھا.یہاں تک کہ دہلی کے اخباروں نے لکھا کہ ہمیں اب پتا چلا ہے کہ ہماری سب سے بڑی مخالف جماعت جو کہ آتش فشاں پہاڑ کی طرح ہے وہ جماعت احمد یہ ہے.جب تک کہ ہم اس کو ختم نہ کریں ، ہم اپنا سوراج قائم نہیں کر سکتے.یہ امر قارئین کے لیے باعث حیرت ہوگا کہ 28-1927ء میں پنڈت جواہر لعل نہرو جو کہ اس وقت کانگریس کے بائیں بازو کے لیڈر تھے اور جنہیں فرانس انٹر نیشنل کانفرنس میں بطور ڈیلی گیٹ (Delegate) بلایا گیا تھا.وہ اپنے باپ کے ساتھ فرانس انٹرنیشنل کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں شامل ہوئے.پھر روسی لیڈر سٹالن سے ملے.اپنی سوانح عمری میں انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا.مگر دوسرے ذرائع سے صاف پتا چلتا ہے، ماسکو پہنچے.جشن میں شامل ہوئے.سٹالن سے ملاقات ہوئی اور اس کے بعد کیا کچھ ہوا وہ سوچنے والی بات ہے.یہاں سے ایک بنیا دشروع ہوتی ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.جماعت کے خلاف مخالفت کی؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.ہاں بالکل.جب بمبئی میں پہنچے تو سب سے پہلی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب تک جماعت احمدیہ کو Crush نہ کیا جائے ہم اپنا سوراج قائم نہیں کر سکتے.یہ بات اس زمانے میں سید محمود نے جو اس وقت جنرل سیکرٹری تھے آل انڈیا کانگریس کے ، حضرت مصلح موعودؓ کو بتائی ( الفضل 22 نومبر 1934 ءصفحہ 10.خطبات محمود جلد 15 صفحہ 394) اور 1935ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے خطبہ جمعہ اس کا ذکر فرمایا.” تاریخ احمدیت میں بھی میں نے تفصیل دی ہے.اس موقع پر حضور نے بتایا کہ مجھے سید محمود صاحب نے یہ بات بتا دی ہے اور میں کانگریس کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کی تمام سازشوں کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے علم ہے.(الفضل“ 6 اگست 1935 ء صفحہ 8.خطبات محمود جلد 16 صفحہ 470) فرانس کی

Page 29

13 کا نفرنس اور سٹالن کی ملاقات 28-1927ء کی بات ہے.اگلے سال 31 دسمبر 1929ء میں کانگریس کے پلیٹ فارم پر جیسا کہ مجلس احرار کے پہلے صدر مولوی حبیب الرحمان صاحب کی سوانح عمری میں (جو ان کے بیٹے عزیز الرحمان صاحب جامعی نے رئیس الاحرار کے نام سے لکھی ہے ) اور شورش کا شمیری صاحب نے اپنی کتاب میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے تذکرے میں کھلے لفظوں میں بات کہی ہے کہ یہ ساری پلانگ مولا نا آزاد کی تھی.ان کے کہنے پر کانگریس کے پلیٹ فارم پر مجلس احرار اسلام قائم ہوئی ہے.(رئیس الاحرار صفحہ 144 مؤلف عزیز الرحمن جامعی لدھیانوی اشاعت 1961ء) اور مولانا ابوالکلام آزاد کا مسلک کیا تھا؟ ان کی کتاب جو کہ ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی’India Wins Freedom‘ اس کے کئی انگریزی ایڈیشن چھپ چکے ہیں.ترجمہ بھی مولا نا رئیس جعفری کا ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : آزادی ہند کے نام سے ہے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہاں بھی چھپا ہے.ہندوستان میں کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں.اس میں انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ میں پاکستان کا لفظ کسی ملک کے لئے جائز ہی نہیں سمجھتا.یہ اسلام کے خلاف ہے کہ ایک ملک کا نام پاکستان رکھا جائے کیونکہ اسلام اس تقسیم کو جائز نہیں قرار دیتا کہ کسی زمین کو نا پاک کہا جائے اور کسی کو پاک قرار دیا جائے.Totally میں اس سے Differ کرتا ہوں.ہاں میں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ یہود بہت بے بس ہیں، بہت بڑی تعداد ہے.Intelligent لوگ ہیں ، ان کی کوئی حکومت نہیں، مسلمانوں کی تو بے شمار حکومتیں ہیں، کسی نئی حکومت کی ان کو کیا ضرورت ہے.اس بے بس قوم (یہود ) کے لئے ایک Home Land ضرور ہونا چاہئے.("India Wins Freedom" Published by Orient Longmans Calcutta Page 142-143 Printed in 1959) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یعنی یہودیوں کے لئے تو ان کے دل میں یہ بات تھی.

Page 30

14 مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.اور پاکستان کے متعلق یہ نظریہ تھا جس پر وہ آخر وقت تک ڈٹے رہے اور یہی وہ عملی پر وگرام تھا جس کے لئے سر دھڑ کی بازی ساری عمر مجلس احرار نے لگائی ہے اور آج تک وہی کام جاری ہے.پھر 1934 ء میں مجلس احرار نے جلسہ کیا قادیان میں اور اس میں 23 اکتوبر 1934 ء کو جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے کی قرارداد پاس کی اور قرار داد پیش کرنے والے وہ علماء تھے جو کانگریسی اور دیو بندی تھے.عجیب بات ہے یہ اس وجہ سے کیا گیا کہ کانگریس کی انتہائی کوشش تھی کہ گول میز کانفرنس (Round Table Conference) مسلمانوں کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کرے کیونکہ خود نہر و صاحب اپنی کتاب ” میری کہانی“ میں لکھتے ہیں کہ ہم نے ایک تو پہلے سیشن میں بائیکاٹ کیا.ایک میں گاندھی صاحب گئے اور انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا اور تیسرے میں ایسی صورت ہوئی کہ قائد اعظم نے فیصلہ کر لیا کہ میں اب ہندوستان واپس نہیں جاؤں گا کیونکہ کانگریس تو کوئی بات مسلمانوں کے متعلق مانتی نہیں، کیوں نہیں مانتی تھی ؟ پنڈت نہرو نے یہ میری کہانی میں لکھا ہے.ہم اس لئے نہیں گئے تھے کہ مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے حقوق کے متعلق وہاں پر کوئی رائے اختیار کریں یا کوئی فیصلہ کریں یا مفاہمت کریں کیونکہ یہ کام برطانوی گورنمنٹ کا نہیں تھا.یہ کانگریس کا کام ہے.انگریزوں کا اتنا ہی کام ہے کہ وہ جلدی.جلدی مکمل طور پر یہاں سے نکل جائیں اور اس کے بعد پورا اقتدار کانگریس کو جو کہ واحد جمہوری پارٹی ہے، اکثریت کی پارٹی ہے اس کو منتقل کر دیں.یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے، یہ انگریز کا کام نہیں ہے.” میری کہانی از جواہر لال نہرو حصہ اول صفحہ 399-397 ناشر مکتبہ جامعہ اشاعت 1936ء) اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو ، آغا خان کو، حضرت قائد اعظم کو، جنہوں نے سردھڑ کی بازی لگا دی مگر دیو بندی علماء بھی احراری بھی، کانگریسی بھی ، یہی شور مچاتے رہے کہ یہ گول میز کانفرنسیں ناکام رہیں.انگلستان کے سیاستدانوں کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے متعلق کوئی بات کریں.جمہوری لحاظ سے اور پارٹیشن کے لحاظ سے اس کا تعلق تو صرف کانگریس کے ساتھ ہے.قائد اعظم نے 1933ء میں جب جماعت احمدیہ کے امام حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر دوبارہ ہندوستان آنے پر آمادگی ظاہر کی تو آپ نے سب سے پہلے جو لیکچر دیا وہ مسجد فضل لنڈن

Page 31

15 میں دیا تھا جس کا عنوان ”The Future of India“ تھا اور اس کا ذکر اخبارات میں مثلاً Statesman ” ہندوستان ٹائمنز اور سنڈے ٹائمنر (9.اپریل 1933 ء) میں موجود ہے.اس کے علاوہ انگلستان کے پریس میں صاف موجود ہے اور دنیا حیران رہ گئی کہ جماعت احمدیہ کی مسجد میں آکر قائد اعظم نے یہ اعلان کیا ہے.اس کے بعد حضرت قائد اعظم ہندوستان تشریف لے آئے.بعض کا ذکر حضور نے اپنے خطبے میں فرمایا اور ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کے فضل سے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ جب بعض اوقات دتی میں مسلم لیگ کے اپنے جلسہ کے لئے فنڈ بھی موجود نہیں تھے تو فنڈ قادیان سے جاتے تھے اور عملی طور پر سب سے زیادہ کام کرنے والی جماعت احمدیہ تھی.اب میں آخر میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کانگریس کی مخالفت کے باوجود چونکہ اگلے سال 1935ء میں ایک ایکٹ نافذ ہونے والا تھا اور اس میں مسلمانوں کو مراعات ملنے والی تھیں، اس وقت کا نگریس نے یہ سوچا کہ اگر مسلمانوں کو حقوق بھی حاصل ہو جائیں تو ان کا ایسا آپریشن کیا جائے کہ جو فعال طبقہ ہے، جماعت احمدیہ، اس کو علیحدہ کر دیا جائے تو یہ مخالفت کی بنیاد تھی.اس بنیاد کے بعد جب 1947 ء میں احرار کی مخالفتوں کے باوجود اور آل انڈیا کانگریس اور ان کے جو ساتھی تھے، ان کی کوششوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ اور قائد اعظم کی کوششوں سے پاکستان حاصل ہوا.جماعت احمد یہ بحیثیت جماعت کے واحد جماعت ہے جس نے قائد اعظم کے دوش بدوش کام کیا اور یہ کہ آزادی ہند میں اور جہاد پاکستان میں حصہ لیا ہے.لیکن پہلے سے Underground فیصلے ہوئے اور تاج برطانیہ، ماؤنٹ بیٹن، پنڈت نہرو کا فیصلہ یہ تھا کہ فی الحال پاکستان بنانے دیا جائے مگر لنگڑا پاکستان ہو اور ایسی صورت ہو کہ چند سال کے اندر اندر خود پاکستان کے رہنے والوں کو جھکنا پڑے اور پھر درخواست کرنی پڑے کہ ہم ہندوستان میں شامل ہوتے ہیں.خصوصی کمیٹی قومی اسمبلی کا پس منظر ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مذہبی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان قائم ہو گیا.اس کے بعد 1953ء کی تحریک چلائی گئی اور 1974ء میں پھر اس آگ کو بھڑکایا گیا.اس

Page 32

16 معاملہ کو قو می اسمبلی میں پیش کر کے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی.کیا یہ سب ایک ہی کڑی کا تسلسل ہیں؟ مولا نا دوست محمد صاحب شاہد :.یہ اتنا ضروری اور اہم سوال آپ نے پیش فرمایا ہے کہ بیچ مانیں آپ بزرگوں کے لئے میرے دل سے دعا نکل رہی ہے.ع تیرے اس لطف کی اللہ ہی جزا دے ساقی 66 خصوصی کمیٹی کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے مجھے سب سے پہلے یہ بتانا ہے کہ علماء اور اس وقت کی بھٹو حکومت کے گٹھ جوڑ کے ساتھ جو سانحہ ربوہ کا پہلے سے تیار شدہ ڈرامہ رچایا گیا تو اس سے پہلے جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیزی اور منافرت اور افتراء پردازی کی ایک زبر دست مہم چلائی گئی.تقریر کے ذریعہ سے تحریر کے ذریعہ سے.کتابیں لکھی گئیں تا کہ جب یہ سانحہ ربوہ“ کا قصہ رکھا جائے تو اس کے ساتھ ہی پس منظر دنیا کو معلوم ہو کہ یہ تو ایسے لوگ ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں.پھر یہ حملہ کر کے ہم غریب اور نہتے مسلمان طالب علموں کے اوپر حملہ آور ہو گئے.اور پانچ ہزار اکٹھے ہو کر تو اس خیال میں آگئے کہ ہم مسلمانوں کو تباہ کر دیں گے اور یہ غرور اور نخوت پیدا ہو گئی کہ اب پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ہم اپنی حکومت بنائیں گے اور تختہ الٹ دیں گے.تو اس کے لئے سائیکالوجی کے لحاظ سے بھی ایک ماحول کا بنانا ضروری تھا.اس ماحول کے بغیر وہ پراپیگنڈہ جو سانحہ ربوہ کے نام سے کیا گیا ، مؤثر نہیں ہوسکتا تھا.اس پراپیگنڈہ میں بہت ہی زبر دست جو پہلولیا گیا اور جس کے لئے آگے پھر سیاسی اعتراضات اور مفتریات کو بھی ساتھ لگالیا گیا تا کہ مذہبی طبقے ختم نبوت کے نام سے مشتعل ہو جائیں اور سیاسی طبقے اور محب وطن طبقے ان اعتراضوں سے مرعوب ہو جائیں جن سے پاکستان کے وجود کے اوپر سخت حملہ کیا جارہا تھا ، ان کی نگاہ میں جس کی وجہ سے یقینی طور پر پاکستان کا وجود معرض خطر میں پڑنے والا تھا.سب سے بڑی بنیاد ، چونکہ یہاں جتنی بھی تحریکیں اٹھی ہیں برصغیر میں ، مغربی دنیا میں تو یہ ہے کہ سیاسی ایشو ہے ، معاشی معاملات ہیں، حکومتیں اگر گرتی ہیں، پارٹیاں اگر اپنا ووٹ بنک بناتی ہیں تو وہ ایشو کوئی معاشی ہوتا ہے، کوئی سیاسی ہوتا ہے لیکن مذہبی طور پر یہ کبھی نہیں ہوا.یہ صورت حال

Page 33

17 ہمیشہ ہندوستان میں رہی ہے، متحدہ ہندوستان میں.جو پاکستان میں بھی جاری ہے کہ یہ دماغ ایسا ہے کہ جس کو Exploit کرنے کے لئے مذہبی ایشو کی ضرورت ہوتی ہے.گاندھی کو ضرورت پڑی مسلمانوں کو ملانے کے لئے تو تحریک خلافت شروع کی.پھر تحریک ہجرت شروع کی اور یہ ساری مذہب کے نام پر تھیں.پھر پاکستان کی مخالفت شروع ہوئی تو پاکستان کے وجود کے متعلق اس وقت کے امام الہند صاحب نے یہ بات کہی کہ یہ تو شرعاً ہی جائز نہیں ، اس کا نام رکھنا ہی جائز نہیں ہے.کجا کہ اس کی کوشش کی جائے اور قائد اعظم کے پرچم کی طرف دیکھا جائے.مولانا ابوالکلام آزاد صاحب کی کتاب ”انڈیا ونز فریڈم (India Wins Freedom) میں یہ بات کہی گئی ہے.انگریزی میں چھپ چکی ہے اور آزادی ہند کے نام سے ترجمہ رئیس احمد جعفری کا ہے.مگر وہ دراصل بعض جگہوں پر خلاصہ بھی ہے.اصل تو کتاب کے ساتھ انصاف تبھی ہوتا ہے جب ایک تو یہ کہ ترجمہ ایسا ہو کہ وہ اصل معلوم ہو اور دوسرا یہ ہے کہ کوئی پہلو چھوڑا نہ جائے تا کہ مؤلف کی صحیح معنوں میں ترجمانی ہو سکے.لیکن بہر حال اس میں بھی یہ چیز موجود ہے.(India Wins Freedom, Page 142-143.Publisher Orient Longmans Bombay,Calcutta, Madras, New Delhi) تو بنیادی چیز مذہبی طور پر شروع سے ہی ہر تحریک کے پیچھے آپ دیکھیں کہ کوئی تحریک جو چلی ہے آپ پاکستان کو لے لیں.پہلے ہجرت کا میں نے حوالہ دیا ہے.یہاں مودودی صاحب نے پہلے اسلامی حکومت کا نعرہ بلند کیا.اس کے بعد آہستہ آہستہ پھر جو نعرے بلند کئے گئے نظام مصطفیٰ کا ایک نعرہ تھا.پھر سپاہ صحابہ کے نام سے اور تحفظ ختم نبوت کے نام سے.پھر ہر چیز ختم نبوت کے نام پر اکسانے کے لئے رکھ دی گئی، اگر مزدوروں کو اکسانا ہو تب بھی کہ تحفظ ختم نبوت کے لئے اکٹھے ہو جاؤ.یہ ایسا ظالمانہ اور بہیمانہ اور مفتریانہ پراپیگنڈہ تھا کہ 1953ء میں کلائمکس (Climax) تھا.پنجاب میں جو ابتداء ہوئی ہے وہ بھی بڑی ایجی ٹیشن (Agitation) پھیلا کر تو پاکستان کا تختہ الٹنا مقصود تھا.کانگریس کے ایجنٹوں کی یہ بات بھی ہمارے علم میں آئی کہ پاکستان میں بعض اسٹیشنوں پر ہندوستان زندہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے گئے.

Page 34

18 تو یہ حقیقتا تحریک ختم پاکستان تھی.مگر ملا آج تک اس کو تحفظ ختم نبوت سمجھتا ہے.حالانکہ اس وقت کی گورنمنٹ نے کہا کہ کچھ شرم کرو.مسلمانوں کو لوٹنا قبل کرنا ، بینکوں کولوٹ لینا، ریلوے اسٹیشن سے پٹڑیوں کو اکھیڑ دینا، یہ ختم نبوت کا تحفظ ہے؟ گورنمنٹ پنجاب نے اشتہار شائع کئے.اسی طرح علماء نے شائع کئے.صحافیوں کی طرف سے، جھنگ سے لاہور سے اشتہار شائع ہوئے کہ ختم نبوت کے نام پر غنڈہ گردی اور دہشت گردی! شرم آنی چاہئے یہ بات کہتے ہوئے.لیکن حیرت کی بات ہے.ذہنیت یہ بن گئی ہے کہ ہر وہ حرکت جو کہ اپنے مفاد کے لئے اور اپنے مقصد کے لئے کی جاتی ہے ملا اور ان کے ہمنواؤں کی طرف سے تحفظ ختم نبوت کے نام پر کی جاتی ہے.1953ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے پوری اتمام احجت کی.اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے خاص طور پر بیان دیا اور تحقیقاتی عدالت میں واضح کیا ، اس بات کو کہ ختم نبوت تو ہمارا جزوایمان ہے.کوئی احمدی ہی نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ ختم نبوت جیسے بنیادی مسئلے کو حرز جان نہ بنالے.وہ سینے سے سجانے والا ہے.اس کے بغیر تو احمدیت کا تصور ہی نہیں ہوسکتا اور بڑے قد آدم پوسٹر شائع کئے گئے.جماعت کی روایت ایسی نہیں ہے لیکن آپ حیران ہوں گے کہ قد آدم پوسٹر اتنے بڑے بڑے تھے کہ حیرت آتی تھی.لاہور میں لگائے گئے.کراچی میں لگائے گئے.سیالکوٹ میں اس وقت مولاناسید احمد علی شاہ صاحب تھے ان کی طرف سے لگائے گئے اوراس کے بعد چھوٹے ہینڈبل ، مولانا عبدالغفور صاحب نے ٹریکٹ لکھے اس موقع پر، پھر حضرت مولانا عبدالقادر صاحب سوداگر مل مرحوم (اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں ان سب پر انہوں نے التبلیغ “ کے نام سے جو رسالہ جاری کیا اس میں بڑی کثرت کے ساتھ سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا.حضرت مصلح موعودؓ نے اس وقت یہ کھلے لفظوں میں بیان شائع کیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں چاروں صوبوں میں تقسیم کیا گیا اور اس کا عنوان ہی یہی تھا کہ جو ختم نبوت کا منکر ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے.یہ ہمارا ایمان ہے.تو یہ چیزیں تھیں مگر اس کے باوجود چونکہ پراپیگنڈہ کا جو سسٹم ہے وہ احرار نے 1918ء سے لے کر 1947 ء تک براہ راست پٹیل سے، نہرو صاحب سے، گاندھی صاحب سے اور لالہ لاجپت رائے اور دوسرے حضرات سے سیکھا ہے اس واسطے وہ گوئبلز (Goebbels) کی اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہیں کہ جھوٹ کو اس کثرت سے اور اس شان کے ساتھ پھیلا دیا جائے کہ عوام جو

Page 35

19 کالانعام ہیں وہ ہر چیز کو بھول جائیں اور سمجھیں کہ اتنی کثرت سے یہ بات آ رہی ہے، منبر ومحراب کے وارث بھی بیان کر رہے ہیں، سیاسی لیڈروں نے بھی یہ بیان دیا ہے اور عوامی حلقوں میں بھی یہ قصہ ہے.یقینی طور پر ایک قطعی اور صداقت ہے جس کا انکار نہیں کر سکتے.اس کے ساتھ ہی چونکہ استعماری طاقتوں کی پشت پناہی تھی اور ان کی طرف سے پاکستان پر زور ڈالنے کے لئے جو قصہ شروع ہوا، وہ سعودی عرب سے شروع ہوا اور یہ میں واضح کروں گا کہ متفقہ طور پر مجلس احرار نے ،تحفظ ختم نبوت کے لیڈروں نے ، بادشاہی مسجد کے امام مولوی عبدالقادر صاحب آزاد نے ، ان سب نے یہ تسلیم کیا ہے کہ حق یہی ہے کہ اس تحریک کے پیچھے، پشت پناہی کرنے والے شاہ فیصل تھے اور اس کی صاف وجہ یہ تھی کہ استعمار یہ چاہتا تھا کہ عالم اسلام کو اکٹھا کیا جائے اور اس کی قیادت شاہ فیصل صاحب کو حاصل ہو اور شاہ فیصل ہمارے اس ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں جو کہ عالم اسلام کے مقابل پر ہم نے تیار کیا ہے.بین الاقوامی شخصیات کی کہانی ڈاکٹر مولانا عبد القادر آزاد کی زبانی از وقار ملک صفحہ 34-35) اس کے بعد اب اگلا قدم آتا ہے اسلامی سربراہی کانفرنس کا جو یہاں پر پاکستان میں کی گئی اور جس کے پیچھے اخراجات کے لحاظ سے بھی اگر آپ دیکھیں گے تو سعودی عرب کا پیسہ چل رہا تھا.اسلامی سربراہی کانفرنس اور مؤتمر عالم اسلامی کا کردار منعقد ہوئی! ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں فروری 1974ء میں مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.1974 ء فروری کی بات ہے.پاکستان کے پاس اتنا بجٹ کہاں تھا ، سب کچھ سعودی عرب نے مہیا کیا اور سکیم کے مطابق پہلے سے یہ کہا گیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ متحد ہو جائے اور یہاں سے اشتہار شائع کئے گئے کہ ہندوستان ہم پر حملہ کر دے گا.اس واسطے عالم اسلام کا فرض ہے کہ وہ خلیفتہ المسلمین کا انتخاب کرے اور بھٹو صاحب کو چاہئے کہ فوری طور پر جدہ میں پہنچیں اور حضرت شاہ فیصل کی بیعت کریں.اور اس کے نتیجے میں ہمارے ہاتھ میں تلوار آ جائے گی اور ہم تمام دنیا پر غالب آئیں گے.اس کانفرنس سے پہلے اس

Page 36

20 20 بات کی اشاعت کی گئی.66 آپ دیکھ لیں کہ پراپیگنڈہ کرنے والوں نے کس طرح پر آخری نکتہ کی طرف آنا شروع کیا.پھر اس کے بعد سر براہ کانفرنس میں ”المنبر “ نے خاص نمبر میں یہ بات کہی کہ وقت آ گیا ہے کہ شاہ فیصل جو کہ خادم حرمین شریفین ہیں، ان کے ہاتھ پر مسلمان بیعت کریں اور عیدی امین نے اس بات کو پیش کیا.لیکن بڑی بھول تھی ان کی کوئی عرب لیڈر اس بات پر تیار نہیں ہوا کہ وہ اپنے ملک کی قیادت شاہ فیصل کے سپر د کر دے.مگر یہ ایک سکیم تھی ان کے سامنے کہ مسلمانوں کو شاہ فیصل کی مٹھی میں دیا جائے اور شاہ فیصل اس پروگرام کو بروئے کارلائیں جو پروگرام کہ پوپ اور عیسائی دنیا چاہتی ہے، تو یه سر براہ کا نفرنس اس غرض کے لئے ہوئی.ایک مقصد یہ بھی تھا کہ احرار نے اور دوسرے لوگوں نے یہ کہا کہ یہ جو آپ لوگ کہتے ہیں کہ خلیفہ المسلمین آپ کو بننا چاہئے تو حدیث نبوی میں ہے کہ دوخلیفے بیک وقت نہیں ہو سکتے.اگر ایک کا انتخاب ہو جائے تو دوسرے کو قتل کر دینا چاہئے.اس قتل سے مراد جس طرح کہ لوگوں نے کہا ہے کہ من بدل دينه فاقتلوه (صحيح البخارى كتاب الجهاد والسير باب لا يعذب بعذاب الله ) قتل کا لفظ عربی زبان میں بائیکاٹ کے معنوں میں بھی آتا ہے.تو اس کے معنے تھے کہ بائیکاٹ کرو.اب دیکھیں عبد اللہ بن زبیر نے بیعت نہیں کی حضرت علی کی مگر ان کو قتل کیا گیا ہے؟ ؟ بائیکاٹ ضرور کیا ہے.تو اب دیکھیں کہ مقاصد سیاسی تھے.خلافت کا نام بھی سیاست کے لئے لیا جا رہا تھا.یہی وجہ ہے کہ اسی سربراہ کا نفرنس کا آج تک ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور اس وقت پیپلز پارٹی نے کہا کہ یہ سب سے بڑا عظیم الشان کارنامہ ہے جو پیپلز پارٹی گورنمنٹ نے دکھایا ہے.چوہدری نذیر احمد صاحب جو 1953ء میں جماعت اسلامی کی طرف سے تحقیقاتی عدالت میں وکیل تھے اور وہ وزیر صنعت بھی رہے.انہوں نے اپنی کتاب ”داستان پاکستان میں لکھا ہے کہ مجھے یہ لکھتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ سربراہ کا نفرنس کے دوران لاہور کے جتنے فائیو سٹار ہوٹل تھے، ان میں نوٹس جاری کئے گئے کہ وہسکی اور فلاں فلاں اعلیٰ کوالٹی کی شراب جو یورپ سے آتی ہے اس کا ہم سے مطالبہ نہ کریں اور شرمندہ نہ کریں کیونکہ ہم نے عالم اسلام کے معزز مہمانوں کے لئے اور سربراہان مملکت اسلامی کے لئے وہ مخصوص کر رکھی ہے.(داستان پاکستان صفحه 115-116 ناشر فیروز سنز لاہور )

Page 37

21 آپ حیران ہوں گے، یہی نہیں بلکہ بھٹو گورنمنٹ نے جو رو دا دانگریزی زبان میں شائع کی اس میں صاف طور پر تصویر میں دیں کہ فیصل صاحب اور تمام سربراہان مملکت ڈانس کا نظارہ کر رہے ہیں.عورتیں ڈانس کر رہی ہیں تو یہ خلافت کے قیام کی سکیم تھی جو دنیا کو بتائی جارہی تھی اور در پردہ یہ سارے قصے ہورہے تھے.(Report on Islamic Summit Conferane Lahore, February 22-24,1974.) اس پلاننگ کے ماتحت سعودی عرب میں سب سے پہلے اس پر ا پیگینڈے کو ہوا دینے کے لئے مکہ شریف سے مؤتمر عالم اسلامی کی قرار داد شائع ہوئی.( الندوہ 16 ربیع الاول 1394ھ ) خصوصی کمیٹی اور اس میں جو نمائندے تھے مؤتمر عالم اسلامی کے ، انہوں نے یہ بھی تلقین کی کہ ہم نے غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ہے.اس لئے تمام مسلمان ممالک کا فرض ہے کہ وہ اپنے تئیں اس قرار داد کو پاس کریں قانونی طور پر اور اپنے Constitution میں اس کو شامل کریں.جسے بعد میں پاکستان نے شامل کیا ہے.حالانکہ آپ دیکھیں کہ رابطہ عالم اسلامی میں مسلم ممالک ضرور موجود ہیں مگر ان میں وہ ممالک بھی ہیں کہ جو جمال عبدالناصر کو آخری نبی مانتے ہیں.کویت میں اشتہار شائع کیا گیا کہ اے عبد الناصر تم آخری نبی تھے.تمہارے جانے کے ساتھ ہمارا مستقبل تاریک ہو گیا.(اخبار الکویت 15 اکتوبر 1970ء ) پھر شیعہ حضرات ہیں تو انہوں نے انٹر نیشنل ” کیہان، جو بڑا مشہور، کثیر الاشاعت، ایران کا سرکاری ترجمان ہے.اس میں کارٹونوں کے ساتھ یہ شائع کیا گیا کہ سعودی عرب کا اسلام حقیقی اسلام نہیں ہے.لنڈن میں کانفرنس ہوئی شیعوں کی طرف سے اور اس میں غالباً عراق ہی کا شیعہ نمائندہ تھا.اس نے کہا کہ یہ عیاش قوم ہے جنہوں نے سارے پیسے اپنے خاندان پر لگانے کے لئے ہر چیز داؤ پر لگادی ہے.اس وجہ سے اٹھو اور اس کو الگ کر دو.کیونکہ اسلام میں قطعی طور پر کسی ملک کو خاندانی جاگیر کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا.یہ یزید کا پرچم تھا.یہ اس کو گرا کر رکھیں گے.تو مؤتمر عالم اسلامی کی قرارداد کی کیا حیثیت تھی.مگر یہ Background تیار کیا جا رہا تھا، اسی طرح بعد میں بھی اور خود مفتی عبداللہ بن باز نے جو ان دنوں مفتی اعظم تھے، شیعوں کے متعلق کھلے لفظوں میں یہ بات کہی کہ ان کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں

Page 38

22 22 اب بھی آپ دیکھ لیں بریلویوں کی کتابیں تو سعودی عرب نہیں جاسکتیں.ابن عربی کی کتاب شجرہ ممنوعہ ہے.کیونکہ اہلسنت والجماعت نقشبندی اور اسی طرح قادری اور چشتی اور سہروردی.یہ تصوف کی جان ہے.آپ اگر پڑھیں یہ سید پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی کتابوں کو ، وہ تو فدا ہیں کہ تصوف کے میدان میں ابن عربی سے بڑھ کر کوئی انسان ہمیں نظر نہیں آتا.تو اہلسنت والجماعت کی اکثریت ہے.سعودی عرب میں تو حنبلی حکومت ہے.اور واحد حنبلی حکومت ہے.باقی دنیا میں اکثر حنفی حکومتیں ہیں.ترکی جو عالم اسلام کی قیادت کرتا رہا ہے اس کا قانون حفی قانون تھا، امام ابوحنیفہ کا.سپین میں مالکی فقہ تھی.افریقہ کے بعض علاقوں میں اب بھی مالکی فقہ کی حکمرانی ہے.تو یہ ایک چھوٹی سی مملکت ہے اور سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ اس مملکت میں مکہ کے چوٹی کے ایک عالم محمد بن جمیل نے ایک کتاب شائع کی اور کھلے لفظوں میں یہ بات واضح کی.اس کا نام تھا منهاج الفرقة الناجية والطائفة المنصورة“ یہ مکہ مکرمہ کے چوٹی کے کالج دار الحدیث کے مدرس تھے.اس میں "علامة الفرقة الناجية“ کے تحت صفحہ 12 پر لکھا ہے کہ یادرکھو صحیح مسلمان فرقہ ، اس کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ اس کو گالیاں دی جاتی ہیں، اس کو تکلیف دی جاتی ہے، اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور وہ اقلیت میں ہے اور ہمیشہ خدا کی جماعتیں اقلیت میں ہی ہوتی ہیں.تو مکہ کی زمین سے یہ آواز بلند ہوئی ہے کہ کثرتوں کی کوئی حقیقت نہیں.خدا نے حنین کے موقع پر بھی یہ بات واضح کی اور یہ آواز مکہ سے دنیا میں بلند ہوئی.خود وہابی فرقہ کی حضرت محمد بن عبد الوہاب کی طرف نسبت ہے.بعض لوگ اہلحدیثوں کو بھی وہابی کہتے ہیں.وہ غلط ہے.انہیں پتا نہیں ہے اہلحدیث تو کسی امام کو سند قرار ہی نہیں دیتے.وہ غیر مقلد ہیں.حنفی تو امام ابو حنیفہ کو مانتے ہیں.مالکی حضرت امام مالک کے مسلک کو پیش نظر رکھتے ہیں.اور شافعی حضرت امام شافعی کو اپنا پیشوا سمجھتے ہیں.لیکن اہلحدیثوں کا مسلک یہ ہے کہ آئمہ جو ہیں وہ سند نہیں.قرآن اور سنت سند ہیں.اور سنت سے مراد وہ حدیث اور رسول کی متواتر روش جو ہے وہ مراد لیتے ہیں.تو یہ ایک چھوٹا سا گروہ ہے جس کی حکومت ہے.تو اس حکومت کے اندر کوئی قرار دادا اگر پیش ہو گئی ہے یا پاس ہو گئی ہے تو اس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ وہ اجماع ہے.لیکن لہ پراپیگنڈہ کرنا مقصود تھا.اس کو پاکستان میں خاص طور پر کہا گیا کہ رابطہ عالم اسلامی کے ذریعہ

Page 39

23 23 سے عالم اسلام کا اجماع ہو گیا ہے کہ ”مرزائی‘ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.جزاکم اللہ.مولانا! آپ نے یہ بات بیان فرمائی کہ احمدیوں کو اقلیت شاہ فیصل کے دباؤ کے نتیجہ میں بھٹو حکومت نے قرار دیا تھا.کیا یورپ اور امریکہ کے کوئی دانشور بھی ایسے ہیں جنہوں نے یہ انکشاف کیا ہو؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.اس سلسلے میں میں یہ عرض کروں گا کہ انسائیکلو پیڈیا برٹینی کا اور بعض اور جو Western لٹریچر ہے اس میں یہ شائع شدہ بات ہے کہ یہ فیصلہ شاہ فیصل اور سعودی عرب کے پریشر کے نتیجہ میں کیا گیا تھا.یہ چیز پاکستان میں بھی چھپ چکی ہے.یہ نہیں ہے کہ یہ چیز اہل پاکستان سے اوجھل ہو بلکہ یہاں کے دانشوروں نے بتانے کے لئے کہ کس طرح غیر ملکی استعماری طاقتیں ہم پر دباؤ ڈال کر فیصلہ کراتی ہیں ، انہوں نے اس بات کو شائع کیا ہے.یہ میرے پاس اس وقت ماہنامہ نیا زمانہ ہے.لاہور سے نکلتا ہے.دسمبر 2005 ء کا یہ شمارہ ہے اور بڑی تفصیل کے ساتھ اس کے صفحہ 26 اور 27 پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ لکھا ہے کہ غیر ملکی اخبارات نے کھل کر بتایا کہ یہ سب کچھ سعودی عرب کے دباؤ پر کیا گیا ہے.آگے انگریزی الفاظ ہیں.ایشین انسائیکلو پیڈیا نے لکھا کہ For some time back Pakistan Prime Minister Mr Z A Bhutto had been under great pressure from the Arab leaders especially King Faisal to declare Ahmadies heretics and he was unuimately forced to amend the constitution by an outbreak of serious riots throughout Punjab in June 1974.گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر عرب لیڈروں بالخصوص شاہ فیصل کی طرف سے شدید دباؤ تھا کہ وہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیں.آخر کار پنجاب میں ہولناک فسادات نمودار ہوئے.

Page 40

24 Asian History Encyclopedia نے لکھا:."At the urging of Pakistan's Saudi financial patrons, The Government of Paksitan declared Ahamadies a religious minority, Despite that Ahmadis remain some of Islam's most effective missionaries especially in Europe and Africa.پاکستان کے سعودی مالی سر پرستوں کی ترغیب پر حکومت پاکستان نے احمد یوں کو مذہبی اقلیت قرار دے دیا.حالانکہ احمدی اسلام کے بہت زیادہ مؤثر مشنریوں میں سے ایک رہے ہیں.خاص طور پر یورپ اور افریقہ میں.برطانوی اخبار گارڈین نے یہ خبر دی :."By a constitutional amendment, The National Assembly of Pakistan has striped half a million members of the Ahmadiyya community of their religious status as Muslims.The excommunication of such a large number of claiming to be muslims by a political institution is a unique event in the 1400 years of history of Islam." ایک دستوری ترمیم کے ذریعہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے نصف ملین احمدی آبادی کو مسلمان کہلانے کے مذہبی سٹیٹس سے محروم کر دیا.ایک سیاسی ادارہ کی طرف سے مسلمان ہونے کا دعوی کرنے والی اتنی بڑی تعداد کو یکسر خارج کر دینا اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے.

Page 41

25 25 یہ رسالہ ہے نیا زمانہ لاہور سے چھپتا ہے اور دسمبر 2005ء کا شمارہ ہے اور صفحہ ہے 25 اور 26.حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.مؤتمر عالم اسلامی نے لاہور میں منعقدہ اسلامی سربراہی کانفرنس 1974ء کے بعد مخالف احمدیت قرار داد پاس کی.کیا کسی سعودی اخبار نے اس کو زیب اشاعت کیا ؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.سعودی عرب کے قریباً تمام اخبارات نے اسے شائع کیا.سعودی عرب کی صحافت میں سے شاید ہی کوئی ایسا اخبار ہو جس نے اس خبر کو نمایاں طریق پر شائع نہ کیا ہو.اس صورت میں یہ ایک حیرت انگیز بات ہے جیسا کہ میں نے ابتداء میں بتایا کہ حمد عربی کے زمانہ میں دارالندوہ یہ کام کرتا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وہ فیصلہ بھی 7 ستمبر کو ہوا تھا اور یہ بھی 7 ستمبر کو کیا گیا..وہی ے ان کو ساقی نے پلا دی فسبحان الذى اخزى الاعادي اس میں ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ جو موتمر عالم اسلامی نے کیا، سر براہ کا نفرنس کے بعد کیونکہ تمہید کے لئے پہلے ضروری تھا کہ تمام ملکوں کی سربراہ کا نفرنس ہوتی جس میں ان کو خلافت کا تاج پہنایا جاتا.اس کے بعد جماعت احمدیہ کو الگ کیا جاتا.کیونکہ ایک وقت میں دو خلیفے ہو نہیں سکتے.یہ حیرت انگیز بات ہے کہ سب سے زیادہ تفصیلی خبر سعودی عرب کے اخبار الندوة“ نے دی.یہ اخبار 16 ربیع الاول 1394 ھ کا ہے.اس کا عنوان یہ دیا ہے:.رابطة الـعـالـم الاسـلامـي تـقــدم جدول اعمال شاملا للمؤتمر الاول المنتظمات الاسلامية في العالم اور اس میں ” القاديانية“ کا جلی عنوان دیا اور اس کے آگے قرار داد پیش کی اور اس میں تصویر میں بھی موجود تھیں.الندوۃ اخبار میں شاہ فیصل صاحب ہیں اور وہ ممبران ہیں جنہوں نے تفصیلی قرار داد پاس کی.تو یہ ان کا کارنامہ ہے.حالانکہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ مـــن رمـــی مـؤمـنـا

Page 42

26 26 بكفر فهو كقتله (صحیح بخاری کتاب الايمان والنذور باب من حلف بملة سوا ملة الاسلام) جو اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہتا ہے اس کا قاتل ہے.تو یہ قاتل شاہ فیصل کے سامنے اپنی عظیم الشان خدمات پیش کر رہے ہیں.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: اسلامی سربراہی کانفرنس اور مؤتمر عالم اسلامی کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی تکفیر کا ماحول تیار کیا گیا اور اس کے بعد سانحہ ربوہ رونما ہوا.اب خصوصی کمیٹی کے قیام کے بارہ میں کچھ فرمایئے:.مولانا دوست محمد شاہد صاحب : اب میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ماحول تھا جو منتج ہوا سانحہ ربوہ پر اور جس کے معا بعد خصوصی کمیٹی بنانے کی ضرورت پیش آئی.میں دور چلا گیا.مگر وہ جس طرح شاعر نے کہا ہے کہ - گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روز گار لیکن تیرے خیال ނ غافل نہیں رہا تو آپ بزرگ یہ نہ سمجھیں کہ میں کسی اور میدان میں چلا گیا ہوں.میں اس سارے بیک گراؤنڈ (Background) کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو بتارہا ہوں کہ یہ خصوصی کمیٹی کے لئے کیا فضا قائم کی گئی تھی.دنیا کو بتایا گیا کہ مرزائی منکر ختم نبوت ہیں اور اس سلسلہ میں پھر جو مغلظات دی جاسکتی تھیں احمدیوں کو اور جماعت کے بزرگوں کو، اس کی تو کوئی انتہا نہیں تھی.یہ سارا اشتعال انگیزی کا ماحول خصوصی کمیٹی سے پہلے ، سانحہ ربوہ سے پہلے آتشی ماحول تیار کیا جا رہا تھا اور گالیاں دی جارہی تھیں.آپ حیران ہوں گے.یہ تاریخی دستاویز ہے کہ امیر شریعت“ بھی مغلظات کے شہنشاہ تھے.شورش کا شمیری صاحب کی کتاب دیکھیں انہوں نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری“ کے نام سے ان کی سیرت لکھی ہے.اس میں بہت سی دلچسپ باتیں لکھی ہیں.ایک جگہ لکھا ہے کہ جس وقت دیناج کوٹ جیل میں تھے تحریک خلافت کا زمانہ تھا اور سنسر بیٹھا ہوا تھا.مسلمانوں کی ڈاک خاص طور پر سنسر ہوتی تھی.تو شاہ جی نے اپنا نام بدل دیا سنسر سے بچنے کے لئے اور نام رکھا.پنڈت کر پا رام برہمچاری.اور کہتے ہیں یہ دراصل متبادل تھا.سید کی بجائے پنڈت اور عطا کا ترجمہ کر پا اور اللہ کا

Page 43

27 ترجمہ رام اور اس طرح شاہ جی کی ڈاک با قاعدہ جاتی تھی.(صفحہ 58 ) یہ بھی لکھا ہے کہ شاہ جی کی بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ دل پھینک واقع ہوئے ہیں.(ملاحظہ ہو سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ 86 از شورش کا شمیری.ناشر ادارہ چٹان لاہور نومبر 1973 ء ) پھر آگے لکھتے ہیں کہ جس وقت تحریک خلافت کے دوران ہم لوگ اور دوسرے لیڈر جو تھے.وہ جیل میں تھے تو کوئی رقص کرتا تھا، کوئی کوئی کام کرتا تھا.سب نے ایک سکیم بنائی کہ شاہ صاحب سے کوئی واقعہ سنیں.کہتے ہیں کہ شاہ جی نے واقعہ سنایا کہ ایک انسپکٹر پولیس تھا.اس نے کسی بات پر کہا کہ شلغم بہت اچھی چیز ہے، شلغم ہے کہیں پر.اس کے مخالف تھے اور اس کے بہت سارے کرا توت تھے.(اگر کرتوت کی جمع یہ جائز ہو سکے ادب اردو میں.) تو جو عوامی لیڈر تھے انہوں نے اس کا مذاق اڑانے کے لئے یہ فیصلہ کیا کہ انسپکٹر صاحب جہاں جائیں ان سے یہ کہیں کہ حضرت آپ کے پاس شلغم تو ہوں گے ضرور.اب وہ جہاں جاتا نعروں کی گونج میں اور قہقہوں میں ان الفاظ میں ان کا استقبال کیا جاتا.خیر شاہ جی نے ایک دن واقعہ بیان کیا.شام کو باقی سارے جو تھے شرافت کا تحفظ کرنے والے اور ختم نبوت کا تحفظ کرنے والے، انہوں نے کہا کہ شاہ جی جو ہیں وہ اپنے تئیں بہت پھنے خان بنے پھرتے ہیں.ان کو بھی کچھ بنانا چاہئے.ہم نے یہ سوچا کہ ہم میں سے ایک جائے اور کہے کہ شاہ صاحب آپ کے پاس پن ہے؟ کہنے لگے پہلے چوہدری افضل حق صاحب گئے.انہوں نے کہا میاں میرے پاس کہاں؟ میں تو جیل کی کوٹھڑی میں ہوں.اس کے بعد کوئی اور گیا.کہنے لگا شاہ صاحب پن تو آپ کے پاس ہو گی؟ کہنے لگے کہ اب شاہ جی کے پاس پہنیں رہ گئی ہیں.کیا کہتے ہو تم ؟ کوئی دو تین اور آئے تو وہ بڑے جلال میں آگئے اور کہنے لگے شرم کرو.یہاں پر میں نے کوئی دکان کھولی ہوئی ہے.میرا کارخانہ ہے؟ اس کے بعد ایک احراری گئے.انہوں نے بڑے زور دار لہجے میں کہا کہ حضرت شاہ صاحب آپ کے پاس تو ہر چیز ہوگی.پن ہم تلاش کر رہے ہیں.کہنے لگے اس کے بعد شاہ صاحب کے جلال کا پارہ اس حد تک پہنچ گیا کہ انہوں نے ماں بہن کی مغلظات شروع کر دیں.تو یہ سنت ہے امیر شریعت احرار کی.(’سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ 85) تو احمدیوں کو اتنی گالیاں دی گئیں جس کی کوئی حد نہیں.عوام مشتعل ہو گئے ،نفرت پیدا ہوگئی.یہ ثابت کیا گیا کہ عالم اسلام کا اجماع ہے کہ یہ منکر ختم نبوت ہیں.اس حالت میں آ گئیں لگائی

Page 44

28 گئیں.منصوبے کے مطابق ربوہ میں ایک واقعہ برپا کیا گیا.پھر اس کے بعد یہ خصوصی کمیٹی جو تھی اس کا قیام عمل میں آیا.سمجھ گئے آپ اس کا Background.اب اس خصوصی کمیٹی کے متعلق میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ خصوصی کمیٹی کیوں قائم کی گئی.بھٹو صاحب نے اعلان کیا کہ میں اس سلسلہ میں خود کچھ کہنا نہیں چاہتا.یہ عوام کا فیصلہ ہونا چاہئے اور عوام کے نمائندے اسمبلی میں موجود ہیں.ہم اسمبلی کے اندر ہی ایک فورم بناتے ہیں اور پورے ہاؤس کو ہم ایک خصوصی کمیٹی میں کنورٹ (Convert) کریں گے.اس کے سامنے ”مرزائیوں کا مسئلہ پیش کیا جائے گا اور شورش کاشمیری کے سامنے کہا، کھلے لفظوں میں یہ بات کہی پہلے سے.کیونکہ فیصلے ہو چکے تھے کہ میں یقینا فیصلہ کروں گا.آپ بالکل نہ گھبرائیں اور یہ شائع شدہ چیز ہے.اخباروں میں چھپی ہوئی ہے ، رسالوں میں موجود ہے.شورش صاحب نے کہا کہ دیکھو ختم نبوت کا معاملہ ہے.یہی نہیں حنیف رامے صاحب جن کے سامنے سرگودھا میں احمدیوں کی دکانوں کو لوٹا گیا اور مسجد میں جلا دی گئیں.حافظ مسعود احمد صاحب ابن حضرت بھائی محمود احمد صاحب کا میڈیکل ہال جلا دیا گیا.اس وقت حنیف رامے جو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے، وہاں پر موجود تھے.جس وقت 7 ستمبر کا فیصلہ ہو چکا، انہوں نے جو بیان دیا وہ پاکستان ٹائمز میں چھپا ہوا موجود ہے کہ یہ علماء آج کہتے ہیں کہ یہ سہرا ہمارے اوپر ہے.بھٹو صاحب کے اوپر ہم چڑھ گئے اور ہم نے کہا کہ یا تو ہم ختم کر دیں گے اس حکومت کو یا پھر تمہارا فرض ہے کہ ختم نبوت کا تحفظ کر کے مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دو.یعنی ادھر فیصلہ ہوا، اُدھر مٹھائیاں تقسیم کرنی شروع کی گئیں اور چند دن کے اندر اندر انہوں نے پرا پیگنڈہ شروع کیا کہ یہ جھوٹ ہے.پیپلز پارٹی والے تو گھر سے نکلے ہی نہیں ہیں.یہ سارا کام تو رسول پاک کے معزز علماء تھے انہوں نے سرانجام دیا ہے.ہم تھے جنہیں بھٹو صاحب نے قید میں ڈال دیا تھا.کیونکہ بھٹو صاحب نہیں چاہتے تھے کہ سہرا ہمارے نام ہو.ہم نے قربانیاں دی تھیں.پیپلز پارٹی کا کوئی شخص بھی جیل میں نہیں گیا.حنیف رامے صاحب کہنے لگے کہ میرے پاس علماء آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم اپنی داڑھیوں سے بھٹو صاحب کے بوٹ شریف کو صاف کرنے کے لئے تیار ہیں اگر وہ مرزائیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیں.(The Pakistan Times Lahore, October, 25 1974 page 8)

Page 45

29 29 و, جب یہاں تک قصہ ہوا.تو اس کے بعد اس خصوصی کمیٹی کا اعلان کیا گیا.مگر خصوصی کمیٹی کے متعلق میں آج کھلے لفظوں میں دنیا بھر کے دانشوروں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ کمیٹی اس لئے نہیں بیٹھی تھی کہ یہ معلوم کریں کہ جماعت احمد یہ خاتم النبین کو مانتی ہے یا نہیں مانتی.وہ کمیٹی جیسا کہ دستاویزی ثبوت موجود ہیں اس لئے بیٹھی تھی کہ یہ تو ثابت کر دیا ہے ہم نے کہ مرزائی ختم نبوت کے منکر ہیں.اب ہم نے فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ختم نبوت کے منکروں“ کو کیا سزا دی جانی چاہئے قانونی اعتبار سے! یہی وجہ ہے کہ جس وقت یہ فیصلہ ہوا تو فیصلے کا عنوان ہی یہی تھا کہ منکرین ختم نبوت کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا.تو یہ عجیب بات تھی کہ جو ختم نبوت کا منکر ہے اس کے متعلق تو کسی فیصلے کی ضرورت کبھی پیدا ہی نہیں ہو سکتی تھی.جو خدا کو نہیں مانتا اس کے متعلق کبھی اسمبلی بیٹھی ہے کہ اس کو ہم مسلمان سمجھیں یا غیر مسلم قرار دیں.جوختم نبوت کا منکر ہے اس کو کون کہتا ہے کہ وہ مسلمان ہے.تو پہلے سے فرض کر لیا گیا اُس ماحول کی روشنی میں جو قرار داد مکہ سے شروع ہوا.اور یہ پیشگوئی میں موجود ہے.”بحار الانوار میں علامہ باقر مجلسی نے کہا ہے کہ جب مہدی آئے گا تو سب سے پہلے مخالفت کرنے والے مکہ کے لوگ ہوں گے.یہ پیشگوئی موجود ہے اس میں.بلکہ تفسیر صافی میں لکھا ہے کہ سورہ القیامۃ میں جو یہ آیت ہے جُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ( القيامة : 15) چاند اور سورج کو گرہن لگے گا.کس زمانہ میں لگے گا ، کیا تعلق ہوگا ؟ تو حضرت امام جعفر صادق” کی روایت تفسیر صافی میں ہے کہ یہ واقعہ امام مہدی کے زمانہ میں ہوگا.( کتاب الصافی فی تفسیر القرآن صفحہ 745 نا شر کتاب فروشی اسلامیہ تہران 1393 ق ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح کیا ہے کہ حقیقتاً جتنے بھی آئمہ اہل بیت تھے ، وہ صاحب کشف تھے.صاحب الہام تھے.امام جعفر صادق “ پر الہام کے طور پر یہ باتیں نازل ہوتی تھیں.یہ تذکرۃ الاولیاء میں بھی موجود ہے.یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی منکر ختم نبوت ہو اور اس کے متعلق دنیا کی کوئی مسلمان حکومت اسمبلی کا کروڑوں روپے خرچ کرے.یہ اگر آپ دیکھیں کتنا بجٹ صرف ہوا ہے.احمدیوں کی جائیدادیں تباہ ہوئیں.کھربوں روپے پاکستان کے تباہ کئے گئے.اسمبلی میں جانے والے ممبران کو روزانہ الاؤنس دیے جاتے تھے ، عیش بھی کرتے تھے.رہائش کے سامان گورنمنٹ کی طرف سے ہوتے تھے.پھر جو اس کے اوپر خرچ کیا گیا کھربوں رقم تھی جو کہ عوام سے لئے ہوئے یا سعودی عرب

Page 46

30 30 سے لئے ہوئے خزانہ سے بے دریغ خرچ کی گئی اور خرچ کی گئی تحفظ ختم نبوت کے لئے.اور خصوصی کمیٹی اس لئے بنائی گئی کہ یہ فیصلہ کریں کہ ختم نبوت کے منکر کو سزا کیا ملنی چاہئے.حالانکہ آپ سوچیں اور غور کریں کہ یہ تو ایک فیصلہ شدہ چیز تھی.اصل چیز تو یہ ہونی چاہئے تھی کہ یہ معلوم کیا جائے کہ آیا جماعت احمد یہ ختم نبوت کی منکر ہے یا نہیں ہے.بنیادی چیز تو یہ تھی.ایک جماعت جو پہلے دن سے کہہ رہی ہے..ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں دل ہیں خدام ختم المرسلیں بلا مبالغہ لاکھوں صفحے جن میں اشتہار، جن میں ہینڈ بل شامل ہیں وہ جماعت کی طرف سے 1974 ء تک شائع ہو چکے تھے.قد آدم پوسٹروں کا میں ذکر کر چکا ہوں.لیکن یہ یقین دلایا گیا جھوٹ کے ذریعے سے پھر اسی گوئبلز (Goebbels) کے پراپیگنڈہ کو اجماع امت قرار دے کر، اس پر بنیاد رکھی گئی کہ اب خصوصی کمیٹی ، ان ختم نبوت کے منکروں کی سزا تجویز کرے.یہ میں بتا چکا ہوں کہ چونکہ رہبر اور خصوصی کمیٹی کے ذمہ یہ نہیں تھا کہ احمدیوں کے خاتم النبین ہونے کے متعلق تفتیش کی جائے بلکہ یہ تھا کہ ہم سب ان کو منکر ختم نبوت سمجھتے ہیں اب انہیں اس کی سزاملنی چاہئے.اس سلسلے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں لاکھوں کی تعداد میں اس وقت بھی عیسائی موجود تھے کیتھولک ، پراٹسٹنٹ، اور مختلف مشنوں کے.آپ اگر دیکھیں کہ عیسائیت تمام دنیا کی عیسائیت، جس میں Catholics بھی اور Protestants بھی Jehovah's Witness والے بھی شامل ہیں.وہ تمام کے تمام آخری نبی حضرت عیسی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس خیال سے کہ کوئی مسلمان نہ ہو جائے ، انجیلوں میں پادریوں کے ذریعے سے Version بنا کر شامل کی گئی ہیں.”جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو.جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں مگر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں.“ (متی باب 7 آیت 15 ) یہ اس لئے کیا گیا کہ کوئی شخص مسیح کے بعد کسی اور کی نبوت پر ایمان نہ لا سکے.لیکن آپ

Page 47

31 دیکھیں محافظ ختم نبوت والوں کا یہ کارنامہ تحفظ ختم نبوت کے لئے کہ یہ الفاظ اسلام کے بدترین دشمنوں نے عیسائیوں نے ، بائبل میں اس لئے شامل کئے یعنی ( نیا عہد نامہ ) New Testament میں تا کہ کوئی شخص اس پیشگوئی کے بعد عیسائیوں میں سے اسلام کے دائرے میں داخل نہ ہو.کیونکہ اب آخری آنے والے تو حضرت عیسی ہیں، اب جو آئے گا وہ اس کے لحاظ سے بھیڑیا ہو گا اور جھوٹا ہوگا.لیکن اس عبارت کو جو بائیبل میں موجود ہے، تحفظ ختم نبوت والوں نے پوسٹر شائع کئے.میرے پاس موجود ہیں اور اس پوسٹر میں یہ ساری عبارت لکھی اور لکھا کہ حضرت خلیفہ اول ابو بکر صدیق کا ارشاد اور اس کے بعد New Testament کی یہ عبارت جو آنحضرت علیہ کے مخالف پادریوں نے شامل کی وہ درج کی اور نیچے لکھا، شائع کردہ مجلس تحفظ ختم نبوت.تو اصل ختم نبوت کے منکر تو وہ ہیں جنہوں نے چودہ صدیوں سے اسلام کے خلاف تحریک اٹھائی ہے.میرے پاس 1900 ء کے پمفلٹ ہیں جو لدھیانہ سے شائع ہوئے.مسیحیا محمد یہ اس کا نام ہے اور یہ کر چین لٹریچر سوسائٹی کی طرف سے شائع ہوا ہے.اس کو پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس میں ثابت کیا گیا ہے کہ خاتم النبین حقیقی معنوں میں Jesus Christ ہیں.یہ تو انگریز کے زمانہ کی بات ہے.رسالہ خاتم النبین رسالہ پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی انار کلی لاہور سے چھپا ہے.پادری بو ٹامل اس کے لکھنے والے ہیں ، لاکھوں کی تعداد میں چھپا، گو ایک وقت میں آ کر اس کو بین (Ban) کیا گیا.جب بین (Ban) کیا جاتا ہے تو اس کو اور زیادہ شہرت ملتی ہے.اس رسالہ میں کھلے لفظوں میں بتایا گیا ہے کہ یہ جھوٹ ہے کہ آنحضرت خاتم النبین ہیں ان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.اصل خاتم النبیین جو کہ خدا کے بیٹے بھی ہیں وہ حضرت Jesus Christ ہیں.تو اصل منکرین ختم نبوت تو یہ تھے جن کے متعلق اسمبلی میں فیصلہ ہونا چاہئے تھا.مگر یہ ساری سازش، چونکہ اس کے پیچھے عیسائی شامل تھے، ان کی پشت پناہی تھی ، ان کی سکیم تھی ، ان کی پلانگ (Planning) تھی.اس لئے آپ حیران ہوں گے کہ 1953ء میں بھی اور 1974ء میں بھی عیسائی مشنوں نے صوبہ خان اور دوسرے بڑے بڑے لیڈروں نے یہ اعلان کیا کہ ہم تحفظ ختم نبوت کی اس موجودہ تحریک میں ” مرزائیوں کے خلاف ہیں اور مجلس احرار کے ساتھ ہیں.کتنی حیران کن بات ہے.اصل میں اگر اسمبلی کو، پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر بنا تھا، اگر فیصلہ کرنا چاہئے تھا، کوئی

Page 48

32 32 سزا کے متعلق تو وہ ان لوگوں کے خلاف فیصلہ کرنا چاہئے تھا جو چودہ سوسال سے اعلان کر رہے ہیں کہ محمد عربی عیسی کے بعد میں ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا کہ میرے بعد جو بھی آئے گا معاذ اللہ وہ جھوٹا ہوگا.کتنی بڑی گستاخی ہے.اس سے بڑی گستاخی کا تصور ہی نہیں ہو سکتا مگر یہ ان لوگوں کے ساتھ معانقہ کرنے والے اور ان کے ساتھ ہیں یہاں تک چھپا.عیسائی اور مسلمان بھائی بھائی“.یہاں ہر فورم میں بھی یہ باتیں آتی رہیں حتی کہ مجلس تحفظ ختم نبوت نے ملتان سے لٹریچر شائع کیا.اس ایک کتاب کا نام تھا ”مجاہدین ختم نبوت ان میں عیسائی کا نام بھی شامل ہے.جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے خلاف تحریریں لکھی ہیں.ان کا نام بھی مجاہدین ختم نبوت میں شامل کیا ہے.پادری کے ایل ناصر نے ایک کتاب لکھی ہے اور اس کو Dedicate (معنون ) کیا ہے مولا نا ثناء اللہ امرتسری کے نام، عبد اللہ معمار کے نام، الیاس برنی کے نام اور دوسرے مولویوں کے نام تو ختم نبوت کے منکر اور یہ دونوں ایک ہی ہیں.دونوں کا عقیدہ ہے کہ عیسی علیہ السلام خاتم النبین ہیں.میرے پاس اس فیصلہ کے بعد فیصل آباد سے ایک عالم دین آئے ، مولوی سردار صاحب جو دیال گڑھ کے تھے اور یہاں ہجرت کے بعد آگئے ، ان کے بعض شاگرد تھے ، یہاں آئے ، کہنے لگے کہ کیا خیال ہے آپ کا.میں نے کہا کہ خیال ختم نبوت کے متعلق پوچھتے ہیں؟ آپ کا اور ہمارا اتناہی اختلاف ہے.آپ حضرت عیسی کو خاتم النبین مانتے ہیں اور ہم محمد مصطفی ﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں.جب غیر مشروط آخری کہیں گے آپ.آپ کی نگاہ میں بھی عیسی کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو خاتم النبیین کون ہوئے؟ تو آپ اور عیسائی ایک ہیں.ہم ہیں جنہیں خدا نے ختم نبوت کا پرچم لہرانے کے لئے دنیا میں بھیجا ہے.سانحہ ربوہ اور صدانی رپورٹ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.ربوہ میں جو واقعات ہوئے اس پر ایک عدالتی ٹریونیل (Tribunal) قائم کیا گیا جسٹس صدانی صاحب کی سربراہی میں، اس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث تشریف لے گئے تھے.تو وہاں پر جماعت احمدیہ نے کیا حقائق پیش کئے اور کیا یہ رپورٹ شائع ہوئی؟

Page 49

33 33 مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.میرے فاضل بھائیو! میں حقیقتا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے اس وقت ایک نہایت بنیادی اور کلیدی سوال پیش فرمایا ہے جس سے تاریخی حقائق سمجھنے میں مدد ملے گی.صمدانی عدالت سانحہ ربوہ کے معاً بعد قائم کی گئی تھی اور پورا پاکستان راتوں رات پریس کی جدو جہد سے صبح سویرے آگ اور خون میں گھرا ہوا نظر آتا تھا.یہ ایک وسیع پیمانے پر کر بلا تھی جو پورے ملک پر دیکھتے ہی دیکھتے محیط ہوگئی تھی.میرے برادر نسبتی جو اس وقت واہ کینٹ میں نائب قائد خدام الاحمدیہ تھے.چوہدری محمد الیاس عارف ان کا نام تھا.ایک وجیہہ اور شکیل نو جوان، سرتا پا خدمت ، حضرت ماسٹر محمد ابراہیم شاد صاحب کے لخت جگر، انہیں شہید کر دیا گیا اور اس طرح پر شہادتوں کے سلسلے گوجرانوالہ اور کچھ دوسری جگہوں پر شروع ہوئے.اسی رات کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی طرف سے ارشاد ہوا کہ میرے استاد حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب اور حضرت مولانا غلام باری صاحب سیف اور خاکسار، صدانی کورٹ میں وکلاء کی مدد کے لئے فورا لاہور پہنچیں.ہم لوگ لاہور پہنچے.مکرم چوہدری حمید نصر اللہ خان صاحب امیر لاہور ( اللہ تعالیٰ ان کو لمبی عمر بخشے ، ان کی زندگی خدمت دین سے لبریز ہے اور وہ اس عظیم خاندان کے چشم و چراغ ہیں جو ابتدا ہی سے سلسلہ احمدیہ کے لئے خدمت کے لئے وقف ہے اور اسی خاندان میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب " بطل احمدیت ہیں ) نے از راہ شفقت ہمیں رہائش کے لئے وہ کمرہ عطا فرمایا جس میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نور اللہ مرقدہ اکثر قیام فرماتے تھے.لاہور کے ایثار پیشہ اور مخلص اور پُر جوش وکلاء جنہوں نے اس زمانے سے لے کر آج تک خدا تعالیٰ کے فضل سے سرتا پا جہاد بن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عاشقوں کی قانونی لحاظ سے مدد کی ہے.وہ سارے وہیں پہنچے اور اس موقع پر جو فوٹو کاپیاں مختلف اخباروں کی دی گئیں.ان کی مدد سے خاکسار نے ایک نوٹ مرتب کیا.اس کا عنوان تھا یہ حادثہ ایک طویل سازش کا نتیجہ ہے.‘اس کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثالث بھی عدالت میں تشریف لائے.حضور پر جو سوالات کئے گئے وہ اس زمانے کے تمام اخباروں میں نمایاں طور پر چھپے ہوئے موجود ہیں، اس کے دہرانے کی بھی ضرورت نہیں ہے.جو معلومات اس وقت لاہور کے فاضل احمدی وکلاء کی خدمت میں پیش کی گئیں اس کا خلاصہ میں

Page 50

34 مختصر بیان کرتا ہوں.یہ بالکل ایسے ہی جس طرح کہ وکلاء اپنے کیس کی تیاری کے سلسلے میں بعض چھوٹے چھوٹے نوٹ شامل کر لیتے ہیں اور تشریح ان کے ذہن میں ، ان کے دماغ میں ہوتی ہے.حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب نے ایک دفعہ فرمایا کہ وکیل ہمیشہ کامیاب وہی ہے جو مختصر بات کرے.مختصر تحریر لکھے کیونکہ بے وجہ ، بے مقصد ، بے ضرورت کوئی ایک لفظ بھی بعض اوقات سارے کیس کو خراب کر دیتا ہے.یہ بہت بڑا صول ہے دراصل اور اس کی روشنی میں یہ تحریر لکھی گئی تھی.) بہر حال اختصار کے ساتھ یہ نوٹ میں سنا دیتا ہوں.د و بسم اللہ الرحمان الرحیم.یہ حادثہ ایک طویل سازش کا نتیجہ ہے.فاضل جج صاحبان تحقیقاتی عدالت 1953 ء کی رائے کہ مطالبات کا ( یعنی احراری مطالبات کا ) بچہ ابھی زندہ ہے اور راہ دیکھ رہا ہے کہ کوئی آئے اور اسے اٹھا کر گود میں لے لے.(دیکھیں یہ کتنی بصیرت افروز رائے فاضل جج صاحبان نے دی.مسٹر جسٹس منیر تھے اور جسٹس کیانی تھے ) اس مملکت خدا داد پاکستان میں سیاسی ڈاکوؤں ، طالع آزماؤں اور گمنام و بے حیثیت آدمیوں غرض سب کے لئے کوئی نہ کوئی روزگار ہے.“ ان سب حوالوں کی فوٹو کاپی ہم نے ساتھ لگائی ہے.رپورٹ تحقیقاتی عدالت‘ اردو صفحہ 307) پلان.(1) 1974ء کے آغاز سے پلاننگ کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ.چٹان 7 جنوری 1974 صفحہ 10 ) (2) ربوہ کو اس غرض کے لئے نشانہ بنایا جائے گا.“ یعنی اس پلان میں یہ شامل تھا کہ بجائے لاہور کے ہم نے یہ جو منصوبہ ہے اس کا آغاز ربوہ سے کرنا ہے.اور یہ لولاک 19 اپریل 1974ء صفحہ 8 اور ” لولاک‘18 جنوری 1974ء صفحہ 7 میں

Page 51

35 موجود ہے اور یہ جناب شورش صاحب کی تقریر ہے جو انہوں نے گوجرانوالہ میں کی تھی.(3) اس سکیم میں طلباء کو آلہ کار بنایا جائے.( لولاک‘ 18 جنوری 1974 صفحہ 5 و 7 لولاک 19 اپریل 1974 صفحہ 5) (4)1953ء میں ہمارا خون بہا تھا.اب مرزائیوں کی باری ہے.لولاک 18 جنوری 1974 صفحہ 8 اس مقصد کی تکمیل کے لئے جو ماسٹر پلان بنایا گیا تھا اب اس کے خدو خال آپ ملاحظہ فرمائیں.الف: غلط افواہیں.(1) سیاسی اور مذہبی رنگ میں مثلاً جماعت احمد یہ اسرائیل کی ایجنٹ بن کر پاکستان کو تباہ کرنا چاہتی ہے.( ” چٹان 12 نومبر 1973ء صفحہ 4) (2) احمدیوں نے کلمہ بدل دیا ہے.(3) قرآن میں تحریف کر دی ہے.چٹان 10 دسمبر 1973 ، صفحہ 10) ترجمان اسلام لاہور 31 اگست 1973ء صفحہ 7) (ب) احمدیوں اور عوام کو مشتعل کرنے کے لئے دل آزار اور نازیبا تحریرات.چٹان 19 نومبر 1972 ء صفحہ 18 ، ترجمان اسلام " 20 جولائی 1973ء صفحہ 11 چٹان 27 اگست 1973 ، صفحہ 4، چٹان 21 جنوری 1974 ، صفحہ 13 ) یہ دیکھیں وہ قصہ تو 22 اور 29 مئی کو ہوا ہے اور یہ جنوری 1974 ء ہے.پہلا 27 اگست 1973 ء ہے.) ایشیا (جماعت اسلامی کا ترجمان 24 فروری 1974 ، صفحہ 5، 'چٹان یکم اپریل 1974ء، لولاک.19 اپریل 1974 صفحہ 5 تا صفحہ 8) لولاک جمیعت علماء اسلام کا ترجمان ہے.ان سے مقصود یہ تھا کہ احمدیوں کو بھی مشتعل کیا جائے اور عوام کو بھی مشتعل کیا جائے...(ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مولانا تاج محمود صاحب اس کے ایڈیٹر تھے )

Page 52

36 یہ اشتعال انگیزی کی ایک فضا تھی جس کے قائم ہونے کے بعد اور جب یہ بڑھ گئی اور وہ پلان جو کہ ربوہ پر بنایا گیا تھا اور جو استعماری طاقتوں کی سرپرستی میں شاہ فیصل اور بھٹو صاحب اور علماء هم“ کی سازباز کے نتیجے میں تھا.جب اس کا اصل ماسٹر پلان قریب آ گیا تو اس پر پھر شورش کاشمیری صاحب نے اپنے نام کی طرح شورش کی انتہا کر دی کہ ”اب ربوہ کے تباہ ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے.“ یہ ان کی بہت بڑی لمبی نظم ہے جس کا مفہوم یہ تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ربوہ کو تباہ کر دیا جائے.(''چٹان' 8 اپریل 1974 ء ) اس کے بعد اس نوٹ میں یہ بتایا گیا کہ پاکستانی پریس نے یہ اعتراف کیا کہ یہ حادثہ ایک طویل سازش کا نتیجہ ہے.اخبار جہاں کراچی.12 جون 1974 ء اداریہ، اخبار آثار 3 تا 10 جون 1974ء) یہ غالبا لا ہور سے چھپتا تھا.اس کے اداریے میں یہ انکشاف موجود ہے.جور پورٹیں شائع کی گئیں اخبار کی طرف سے ، وہی اخبار جس کی مدح سرائی میں میں نے حوالہ پیش کیا تھا امیر شریعت احرار“ کا عنوان تھا:.پانچ ہزار مسلح افراد کا حملہ یعنی چند طالب علم وہ تھے اور چند وہ تھے.اس حادثہ کے وقت میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا.ساری جماعت کے افراد اپنا اپنا کام کر رہے تھے اور چند افراد وہاں ہوں گے.پہلے تو یہ بنایا گیا کہ یہ مرزا ناصر احمد صاحب کی شرارت تھی.جب حضور کی وفات ہوئی تو پھر کہتا ہیں جو چھپیں اس میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا نام دیا گیا کہ ساری پلاننگ ان کی تھی.کیونکہ اس وقت حضرت خلیفتہ ایسے الثالث خلیفہ تھے تو اس وقت ٹارگٹ حضور کی شخصیت کو بنایا گیا.جب سید نا حضرت خلیفتر مسیح الرابع تخت خلافت پر خدا کی طرف سے جلوہ گر ہوئے تو پھر ان ظالموں نے سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الرابع کا نام لکھا.ایک عنوان تھا: پانچ ہزار مسلح افراد کا حملہ نوائے وقت 30 مئی 1974 ، صفحہ 1 کالم 2-3)

Page 53

37 یہ نوائے وقت 30 مئی 1974 ء نے جلی عنوان کے ساتھ شائع کیا.حمید نظامی تو اللہ کو پیارے ہو گئے جو کہ صف اول کے مسلم لیگی تھے ، جنہوں نے ہر موقع پر جماعت کی تائید کی.انہیں پتا تھا کہ جماعت احمدیہ ہی ہے جس نے بحیثیت جماعت حضرت قائد اعظم کا ساتھ دیا تھا.1953ء میں بھی انہوں نے جماعت کے حق میں اور ملاؤں کی سازش کے خلاف پر زُور بیان دیا ہے.اس وقت کا پریس آپ دیکھ لیں ، ساری تفصیلات موجود ہیں.حمید نظامی صاحب نے تو مودودی صاحب کو با قاعدہ چیلنج کیا تھا کہ آپ ہم پر مقدمہ چلائیں.دراصل آپ کو اسلام سے کوئی غرض نہیں.آپ کا مقصد اپنی حکومت کا قیام ہے.( روزنامہ نوائے وقت لاہور 15 جولائی 1955 صفحہ 3 ) قائد اعظم کو چونکہ حکومت مل گئی اس لئے وہ بغض اور کینہ آج تک نہیں گیا اور اب غدار ہیں جنہوں نے کشمیر کے جہاد کو تہس نہس کرنے کے لئے سکھوں اور ہندوؤں سے سازش کر کے فتویٰ دیا کہ یہ جہاد نہیں ہے، یہ فساد ہے اور قرآن کے خلاف ہے.میں پرانا ریکارڈ دیکھ رہا تھا.چوہدری غلام عباس صاحب کا انٹرویو سول اینڈ ملٹری گزٹ میں چھپا ہوا موجود ہے کہ میں مودودی صاحب سے ملا تو کہتے ہیں کہ ہم نے فتویٰ ہی نہیں دیا.جب 1953ء کی تحقیقاتی عدالت میں پیش کرنے کے لئے میں نے کوشش کی تو ترجمان القرآن جون 1948ء کا پرچہ جس میں کہ کشمیر کے متعلق وہ فتویٰ تھا کہ جب تک ہمارے معاہدات انڈیا کے ساتھ ہیں از روئے قرآن ہم کوئی مسلح کارروائی نہیں کر سکتے.یہ کہیں بھی نہیں مل سکا.حتی کہ پنجاب پبلک لائبریری لاہور مشہور ہے.اس میں پرچہ موجود تھا.عنوان یہ تھا کہ ”مسئلہ کشمیر ، عنوان میں یہ چیز رکھی گئی تھی مگر آگے جب دیکھا تو وہ صفحہ ہی غائب تھا.مجاہدین جماعت اسلامی نے غائب کر دیا تھا.آخر اللہ نے فضل کیا وہ ہمیں مل گیا وہ عدالت کے سامنے پیش کیا.تو حمید نظامی نے چیلنج کیا کہ تم غدار ہو.سول اینڈ ملٹری گزٹ وہ مجھے بعد میں ملا.تو ایک تو وہ حمید نظامی کا زمانہ تھا.اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے.بہت شیر دل انسان تھے.جماعت سے بہت ہی محبت رکھنے والے، بہت ہی خیال رکھنے والے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ فقط یہی جماعت ہے، جس نے اپنے امام کی اطاعت میں سر بکف ہوکر دیوانہ وار جہاد پاکستان میں حصہ لیا ہے.جب حمید نظامی صاحب کی وفات ہوئی تو مجید نظامی صاحب پڑھ رہے تھے.ان کو شروع

Page 54

38 میں ہی جماعت اسلامی نے Grip کر لیا تھا.یہاں پر آئے تو پھر ہر حرکت جو ہوئی، جوادار یے لکھے گئے ، آج تک لکھے جارہے ہیں، جماعت اسلامی کی روح اس کے اندر شامل ہے.بہر کیف سب سے بڑھ کر پراپیگنڈہ میں حصہ ” نوائے وقت“ نے لیا اور آج تک یہی صورت ہے.یہ پالیسی بدلی نہیں.آپ اگر دیکھیں گے اخباروں کو پڑھیں گے اور اداریوں کو دیکھیں، سیٹنگ کو دیکھیں، ایجنسیوں کی خبروں کے اوپر جو نشان لگائے جاتے ہیں.یہ ساری چیزیں ہیں جن کے پیچھے جماعت اسلامی بول رہی ہے.تو اس وقت بھی سب سے زیادہ پراپیگنڈہ جماعت کے خلاف ” نوائے وقت“ نے کیا ہے.نوائے وقت“ نے عنوان دیا:.وو پانچ ہزار مسلح افراد کا حملہ نوائے وقت 30 مئی 1974 ، صفحہ 1 کالم (2-3) ربوہ ریلوے سٹیشن پر مسلح طلباء نے ملتان کے طلباء پر حملہ کر دیا.ایک مشرق“ نے دیا.پینتیس افراد زخمی 66 مشرق 30 مئی 1974 ء صفحہ 1 کالم 2-5،3) مشرق نے کچھ شرافت کا ثبوت دیا یعنی خبر سازی میں انہوں نے تھوڑا بہت شرافت کا نمونہ دکھایا ہے مگر خبر سازی میں شاہکار تو ” نوائے وقت ٹھہرا اور نوبل پرائز اگر جھوٹ پر ملنا چاہئے تو میں سمجھتا ہوں کہ اکیسویں صدی میں ”نوائے وقت“ کو ملنا چاہئے.” مساوات“ نے لکھا کہ جلوس نکالا.“ لائل پورٹرین پہنچی.طلباء کا لاؤڈ سپیکر پر قبضہ ، ہنگامہ، شہر میں یہ پیپلز پارٹی کے آرگن نے شائع کیا.( ” مساوات‘ 30 مئی 1974 ء صفحہ آخر ) اور نوائے وقت کی ایک اور خبر ہے.اس کے بعد یکم جون کی کہ

Page 55

39 ربوہ ریلوے سٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج کے طلباء پر کیا گذری.“ (نوائے وقت“ یکم جون 1974 ، صفحہ 1 کالم 1، 2) اسی طرح PakistanTimes 2 جون میں بھی خبر میں آئیں.اس کا حوالہ اس میں ہے.پھر یہ کہ نوائے وقت نے لکھا کہ:.زخمی طالب علموں کی حالت بہتر ہے.“ دیکھیں خدا کی قادرا نہ تجلی ! آج تک ملاؤں نے جو کتا میں لکھی ہیں اشتعال دینے کے لئے اس میں یہ سارے فسانے موجود ہیں مگر ” نوائے وقت“ 2 جون 1974ء صفحہ 1 کالم 7 پر یہ عنوان چھپا کہ خمی طالب علموں کی حالت بہتر ہے.اعضاء کاٹنے کی ساری افواہیں بالکل بے بنیاد ہیں.اسی طرح پھر 4 جون 1974ء صفحہ 1 پر ہے.اعضاء کاٹے جانے کی افواہیں بالکل غلط ہیں.“ آخر کچھ شرم آ گئی.تحریک استقلال کے کارکن قادیانیوں کے خلاف تحریک میں ایک خبر نوائے وقت نے دی کہ بھر پور حصہ لیں.‘“ (نوائے وقت“ 9 جون 1974ء صفحہ 2 کالم 5) ایک خبر نوائے وقت 12 جون 1974ء میں یہ دی گئی کہ ”ربوہ میں قادیانیوں کے تعینات کردہ ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کو گرفتار کر لیا گیا.“ (صفحہ 1 کالم 3-4) اب یہ مبہم سی خبر ہے.جو لفظ اس رپورٹ میں میں نے لکھے تھے اب وہی سنا رہا ہوں.بعد میں چیکنگ بھی کرنی چاہئے.(صدر عمومی ربوہ اور ناظر امور عامہ مراد ہیں.)

Page 56

40 جماعت اسلامی کا ہمیشہ طریق یہ رہا ہے کہ وہ چھپ کر وار کرتی ہے.کیونکہ یہ عقیدہ کتاب اسلامی ریاست میں موجود ہے کہ اگر صالحین کے پاس طاقت ہو اور وہ مسلح ہوں تو ان کا فرض ہے کہ بزور شمشیر ملک میں انقلاب برپا کریں.( اسلامی ریاست نمبر 10 صفحہ 41-42 ناشر مکتبہ جماعت اسلامی.ذیلدار پارک.اچھرہ.لاہور ) تو فرید پراچہ جو آج کل بہت چہک رہے ہیں.انہوں نے یہ اشتعال انگیز خبر دی اور ”مساوات 15 جون 1974 صفحہ 2 کالم 3 پر ہے.عنوان دیکھیں.اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو جہاں کوئی احمدی ملے گا قبل کر دیا جائے گا.“ اور آج یہ فرماتے ہیں کہ ہم نے کچھ کیا ہی نہیں.ہم تو مصلحین ہیں.مؤمنین ہیں اور عظیم الشان کام کرنے والے ہیں.سی وہ ایک خاکہ تھا جو میں نے ان کی خدمت میں پیش کیا.حضرت قاضی محمد نذیر صاحب اور حضرت مولانا غلام باری سیف صاحب نے بھی اس کو منظور فرمایا.اب جہاں تک تعلق ہے اس چیز کا کہ وہ شائع ہوئی یا نہیں ہوئی.بیان تو حضور کا شائع ہوا لیکن حکومت اور علماء نے گٹھ جوڑ کر کے صمدانی عدالت رپورٹ کو سیل کر دیا.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جو وہاں بیان دیا آپ بتائیں گے کہ وہ کیا تھا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.اس میں حضور نے جو بیان فرمایا اس میں موٹی بات یہ تھی کہ مجھے تو اس وقت پتا چلا جس وقت کہ اخباروں نے یہ خبر دی.باقی کچھ اور سوالات کئے گئے مگر ان کی تفصیل اس وقت چونکہ مجھے متحضر نہیں.بحیثیت مورخ کے مجھے اس میں قدم نہیں رکھنا چاہئے.وہ بڑی تفصیل سے چھپا ہوا موجود ہے اور اس پر کوئی پابندی نہیں ہے.وہ آپ دیکھ سکتے ہیں.اور میں سامعین سے بھی کہتا ہوں.بزرگوں سے بھی عرض کروں گا کہ وہ ضرور پڑھیں.اس سے یہ بھی ثابت ہو گا کہ خلیفہ وقت خدا کا شیر ہوتا ہے.آگ لگی ہوئی ہے اور خدا کا شیر وہاں پر پہنچ کر حقائق کو بیان کر رہا تھا.

Page 57

41 ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مولانا ! اب ہم قومی اسمبلی کی طرف چلتے ہیں.آپ یہ فرمائیے کہ رہبر کمیٹی، خصوصی کمیٹی ایک ہی چیز تھیں یا الگ الگ کمیٹیاں تھیں؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.پورے ایوان کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دیا گیا تھا.جیسا میں نے عرض کیا ہے پورا ایوان جو تھا اس کو کنورٹ (Convert) کیا گیا تھا خصوصی یا سپیشل کمیٹی میں.اس کا کورم نمائندگی کے لحاظ سے چالیس ممبروں کا مقرر کیا گیا تھا.تمہیں اس میں پیپلز پارٹی کے ممبر نمائندہ تھے اور دس اپوزیشن کے تھے.تو یہ اجلاس ہوتے تھے اسمبلی ہال میں.تو یہ خصوصی کمیٹی کہلاتی ہے.اس کمیٹی کے اندر جس طرح کمیٹی در کمیٹی ہوتی ہے.ایک کمیٹی اور مقرر کی گئی جو کہ ان کی راہنمائی کے لئے لائن تجویز کرتی تھی.خاکے تیار کرتی تھی ، راہنمائی کرتی تھی.یہ رہبر کمیٹی (Steering Committee) تھی اور اس میں عبد الحفیظ پیرزادہ تھے،مفتی محمود صاحب تھے.اور اسی طرح اور بھی بعض اراکین تھے.( تو اس واسطے یہ اس کمیٹی کا وہ حصہ تھا جس کی طرف سے قرار داد پیش کی گئی.جس وقت خصوصی کمیٹی کے اجلاس مکمل ہو گئے تو اس کمیٹی نے قرار داد ایوان کے سامنے پیش کی اور وہ قرارداد دراصل بھٹو صاحب کی مصلحت خاص اور علماء کی چالا کی سے، 1973ء کے آئین میں وہ جو حلف نامے تھے ، اس میں موجود تھی اور اس ساری قرار داد کی عبارت پرویزی خیال کے وزیر مملکت ملک جعفر خان کی تحریر کردہ تھی.1973ء کا آئین اور پیش کردہ قرارداد حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.جیسا کہ آپ نے بیان فرمایا کہ جماعت احمدیہ کے خلاف اس قرارداد کے پیش کرنے میں مسلسل مہم جوئی ہے اور فوری محرک کے طور پر ربوہ ریلوے سٹیشن کا واقعہ بنایا گیا.اور پھر اس کے نتیجے میں 7 ستمبر کا فیصلہ ہوا ہے.قومی اسمبلی میں اس حوالہ سے کیا قرار داد پیش ہوئی جس کی بناء پر یہ فیصلہ کیا گیا ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ بہت ہی اہم سوال ہے لیکن میں نہایت ادب سے پیشتر اس کے کہ قرارداد کا متن آپ بزرگوں کی خدمت میں عرض کروں ، یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس قرار داد کی بنیاد نہایت چالاکی سے، شاطرانہ چالوں کے ساتھ پاکستان کے کانگریسی ملاؤں نے 1973ء میں رکھ دی تھی.اور وہ بنیاد رکھی گئی 1973 ء کے آئین میں.

Page 58

42 تفصیل اس کی یہ ہے کہ بھٹو صاحب جنوبی ایشیا کی فرمانروائی اور قیادت اور لیڈرشپ کے خواب دیکھ رہے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ قوم کو جو مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد بڑی منتشر صورت میں تھی، کم از کم اس کو سنبھالا دے کر متفقہ آئین (Constitution) پر جمع کر دیں.یہ بات بہت ضروری تھی اور قابل ستائش تھی کہ جو بچا کچھا ملک تھا حضرت قائد اعظم کا، کیونکہ اصل ملک تو وہ تھا جس میں اکثریت بنگال کے بزرگوں کی تھی.یہ تو ایک واضح حقیقت ہے.بعض نے اس وقت کہا کہ اب قائد اعظم کا یہ تو پاکستان نہیں رہ گیا کیونکہ حضرت قائد اعظم کے پاکستان میں تو Majority مشرقی بنگال کی تھی.تو اب یہ بھٹو صاحب کا ایک نیا پاکستان ہے.تو اب جو کہنا چاہئے کہ بھٹو صاحب کے پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے.بھٹو صاحب چاہتے تھے کہ یہ سہرا ان کے سر بندھے کہ جو میرا پاکستان ہے اس میں Unanimously First Constitution جو تیار کیا جائے پیپلز پارٹی کی طرف سے وہ متحدہ طور پر ہو اور پولیٹیکل ( Political) طور پر یہ بہت بڑا کریڈٹ ہے جو کسی قائد کو جا سکتا تھا.بہت کم ملکوں کے لیڈروں کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کیونکہ اپوزیشن موجود ہوتی ہے.Majortiy پر عام طور پر فیصلے ہوتے ہیں.بہت کم قانون ہیں جن کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ متفقہ طور پر منظور کئے گئے.پہلے ان کے ریزولیوشن رکھے گئے اور اس کے بعد پھر ان کی منظوری دی گئی اور پھر وہ قانون بنے.بہر حال سہرا باندھنا پیش نظر تھا اور سہرا باندھنا ہی دراصل ہمارے مذہبی اور سیاسی لیڈروں کا مذہب رہا ہے.چنانچہ جناب مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کا بیان تسنیم“ میں چھپا ہوا موجود ہے 1953ء میں.آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں.مولانا نے ایک بیان دیا کہ میں قادیانیوں کے خلاف جو تحریک اٹھی ہے اس میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے 1953ء کی اس ایجی ٹیشن میں مجلس احرار کے ساتھ شامل ہوالیکن میں اب اس سے بریت کا اعلان کرتا ہوں.اس واسطے کہ مجھے یہ معلوم ہوا کہ دراصل احراری اپنے مقاصد کے لئے مسلمانوں کے سروں کے سودے کر رہے ہیں اور ان کے سامنے تحفظ ختم نبوت نہیں بلکہ نام کا سہرا ہے اور وہ تحریک جس کی بنیادیں یہ ہوں کہ ہم نے سہرا باندھنا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی ، تو سہرا باندھنے کا ہی مذہب ہے دراصل.تو یہ سہرا باندھنا چاہتے تھے.(روز نامہ تسنیم لاہور 2 جولائی 1955، صفحہ 3 کالم 4-5)

Page 59

43 کانگریسی ملاؤں نے سیاست کانگریس کے لیڈروں کے چرنوں میں بیٹھ کر 1918ء سے 1947ء تک سیکھی.یہ چانکیہ جو بدھ کے زمانے کا مشہور چالاک اور عیار قانون دان تھا اور ٹیکسلا کی یو نیورسٹی کا پروفیسر بھی تھا وہ چنیوٹ کا رہنے والا تھا.اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ چنیوٹ کا خمیر کہاں سے اٹھا ہے.اب دیکھیں کیا کارروائی کی ہے.یہ میں کوئی خیالی بات نہیں کر رہا میری عمر اس وقت اتنی سال کے قریب ہے.میں نے لاکھوں صفحے پڑھے ہیں.ان حضرات کی بھی میری لائبریری میں کتابیں موجود ہیں.جو بات ہوئی اس کو سمجھیں.چونکہ بھٹو صاحب یہ سہرا باندھنا چاہتے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ضرور چاہئے تھا کیونکہ وہ قوم جس کو اتنا دردناک سانحہ پیش آیا جو قیامت سے کم نہیں تھا.مجھے یاد ہے کہ جب میں نے ریڈیو پر سقوط ڈھاکہ کی خبر سنی تو زار و قطار میں رونے لگا کیونکہ قیام پاکستان میں جماعت احمدیہ نے اس شان سے حصہ لیا ہے کہ وہ بے نظیر ہے.آپ اگر مطالعہ کریں مولانا رئیس احمد جعفری کی کتاب ” قائد اعظم اور ان کا عہد کا ، اس میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر ہارون الرشید، یہ احمدی تھے اور شیخ محمد یوسف صاحب کے فرزند تھے.گڑھ مکیشٹر میں جب فساد ہوا اور مہاسبھائی غنڈوں نے مسلمانوں کا اس موقع پر قتل عام کیا تو ڈاکٹر ہارون الرشید جو پُر جوش مسلم لیگی تھے اور اس وقت طبی خدمات سرانجام دے رہے تھے.اس وقت غنڈوں نے ان کو بھی گولی مار کر شہید کر دیا تھا.اس کے بعد وہاں لکھا ہے کہ ان کے گردان غنڈوں نے گھیرا ڈالا اور گھیرا ڈالنے کے بعد ان کی بیوی سے کہا کہ کپڑے اتار دو اور اس کے بعد یہ کہا کہ یا تو ہم میں سے کسی کے ساتھ شادی کر لو ورنہ تمہیں بھی ختم کیا جاتا ہے.بیچاری پاگل ہوگئی.سامنے ندی چل رہی تھی.اس نے اسی طرح بر ہنہ صورت میں چھلانگ لگا دی.میلوں کے بعد یہ بظاہر جو لاش تھی وہ ایک گاؤں کے قریب جو پہنچی تو ایک مسلمان نے اس کو دیکھا اور جلدی سے نعش کو باہر نکالا.اس کے دل میں آیا کہ ہو سکتا ہے کہ ابھی یہ زندہ ہو.چنانچہ اس وقت خدا نے اپنے فضل کے ساتھ یہ سامان کیا کہ اس احمدی خاتون کو جن کا اصلی وطن لا ہور تھا، پانی نکالنے کی کوشش کی گئی اور آہستہ آہستہ سانس جاری ہو گیا.پھر اللہ کے فضل

Page 60

44 سے وہ اٹھ بیٹھی.اس نے پھر ساری کہانی بیان کی.اس کے بعد اس بیچارے نے اللہ اس کو جزائے خیر دے.پتا نہیں اب دنیا میں ہیں یا نہیں اللہ تعالی ہزاروں ہزار رحمتیں بھیجے.اس وقت دراصل ہر مسلمان ہی مظلوم تھا.اس بزرگ نے پھر ان کو لاہور بھجوا دیا.یہ تفصیل مولا نا رئیس احمد صاحب جعفری مؤرخ پاکستان کی کتاب میں موجود ہے.قائد اعظم اور ان کا عہد از مولانا رئیس احمد جعفری صفحہ 613-614 ناشر مقبول اکیڈمی شاہراہ قائداعظم.لاہور ) پاکستان بنانے میں ہماری احمدی مستورات کا خون شامل ہے.اس وجہ سے پاکستان پر جو معمولی سی بات بھی آتی ہے تو احمدیوں کا دل زخمی ہو جاتا ہے.قیامت اس پر ٹوٹتی ہے اس لئے کہ بنانے والوں میں جماعت احمد یہ ہے.احرار تو قائد اعظم کو کافر اعظم کہنے والے تھے.پاکستان کا نام پلیدستان رکھنے والے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ان دنوں جو مختلف مواقع پر خطاب فرمائے ، نہایت درد کے ساتھ فرمایا کہ پاکستان اور جماعت کی مثال یہ ہے کہ دو عورتیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پیش ہوئیں.دونوں کا یہ دعوی تھا کہ بیٹا ہمارا ہے.حضرت سلیمان علیہ السلام ( یہ حدیث میں بھی موجود ہے اور بائیبل میں بھی یہ تذکرہ ملتا ہے اور اسی طرح اولیاء امت نے بھی اپنے لٹریچر میں بھی اس کو بار بار پیش کیا ہے.) فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان نے کہا کہ مجھے تو کچھ پتا نہیں ہے کہ کون اس کی ماں ہے.میں تو یہ کر سکتا ہوں غیر جانبدار حج کی حیثیت سے کہ خنجر لے کر اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دوں.ایک حصہ تمہیں دے دیتا ہوں.ایک اس کو دے دیتا ہوں.تو جو اصل ماں تھی وہ روتے ہوئے ان کے قدموں میں گر گئی کہ خدا کے لئے اس بچے کو ذبح نہ کریں ، میں جھوٹ بول رہی تھی یہ بیٹا اس کو ہی دے دیں.اس پر حضرت سلیمان کو یقین ہوا کہ اصل ماں یہی ہے اور دوسری ماں کہنے لگی سبحان اللہ کیا مساوات محمدی قائم کی گئی ہے!“ تو آپ نے فرمایا ہمارا بھی دل اور جگر زخمی ہے.کوئی ہمارے ان زخموں کو دیکھے تو اسے اندازہ نہیں ہوسکتا ، تو میں بھی زار و قطار رو پڑا.تو اصل پاکستان وہ تھا اور احرار نے عوامی لیگ سے مل کر یہ ساری شرارت کرائی ہی اس لئے تھی.احراری لیڈر عوامی لیگ میں اس لئے شامل ہو گئے تھے کہ 1953ء میں چونکہ اسمبلی میں اکثریت مشرقی پاکستان کے ممبروں کی تھی.انہوں نے اس کو بالکل

Page 61

45 رد کر دیا تھا.اس لئے احرار نے یہ سمجھا کہ جب تک یہ مشرقی پاکستان الگ نہ ہو جائے اس وقت تک ہمیں ان ممبروں کی ، جو کہ ختم نبوت پر ہمارا ساتھ دینے والے ہیں، اکثریت نہیں مل سکتی.دراصل یہ قصہ تھا.مسٹر بھٹو چاہتے یہی تھے کہ متفقہ آئین بنے اور یہ اس وقت کے پاکستان کا تقاضا تھا.تو اس چانکیہ اور میکاولی کے ان بروز ملاؤں نے نہایت چالا کی اور عیاری اور مکاری کے ساتھ اپوزیشن کے لیڈروں پر زور ڈالا کہ بھٹو صاحب سے اتنا تو ضرور کہا جائے.جب آئین میں ہم نے یہ شامل کر دیا ہے کہ یہ مسلم مملکت ہے اور اس بات پر بھی ہم متفق ہو چکے ہیں کہ بحیثیت مسلم مملکت کے آئینی لحاظ سے پاکستان کا صدر اور وزیر اعظم مسلمان ہی ہو سکتا ہے تو یہ ایک مسلّمات میں سے ہے لہذا اس کے آخر میں اپنڈیکس (Appendix) کے طور پر وہ حلف بھی ہونا چاہئے کہ جس میں یہ دونوں حلف اٹھائیں کہ ہم مسلمان ہیں.یہ مرحلہ تھا جو اس وقت پیش ہوا اور بھٹو صاحب کے لئے بھی یہ آسان بات تھی کیونکہ ڈائریکٹ اگر یہ کہا جاتا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے تو وہ تیار نہ ہو سکتے تھے.کیونکہ نیا نیا یہ قصہ ہوا تھا اور نہ اس کی ضرورت انہیں تھی اور نہ ملا یہ چاہتا تھا کہ اس وقت یہ کیا جائے.بنیا درکھنی ضروری ہے.بنیا د اس چیز پر رکھی کہ دو حلف رکھے گئے.1956ء کا آئین جو چوہدری محمدعلی صاحب کے زمانے میں سب سے پہلا قائد اعظم کے بعد بنایا گیا، اس میں اتنا تو کہا گیا ہے کہ یہ اسلامی مملکت ہے لیکن یہ کہ اس میں صدر اور وزیر اعظم کو کوئی حلف اٹھانا پڑے گا کہ میں ایک مسلمان ہوں ، نہ تھا.آج تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے یورپ کے دوروں میں مختلف آئین دیکھے ہیں.اس کے علاوہ آپ جنوبی ایشیا کے دیکھیں، افریقہ کے دیکھیں، آئین کی بنیاد یہ ہوتی ہے جہاں تک کسی کے عقیدے کا تعلق ہے کہ جو شخص جو عقیدہ رکھتا ہے اس پر بنیا درکھی جاتی ہے.محمد عربی نبیوں کے سردار رسول پاک ﷺ نے مدینہ میں جو سب سے پہلی مردم شماری کئے جانے کا ارشاد فرمایا.مسلم کی روایت موجود ہے کہ ”احــصــوالــی کـم یـلـفـظ الاسلام“ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب جواز الاستسرار بالايمان للخائف ) مدینہ کی اسلامی حکومت میں ہر اس شخص کو مسلمان کے طور پر رجسٹر کیا جانا چاہئے جو اپنے تئیں اسلام کی طرف منسوب ہوتا ہے.

Page 62

46 اب ساری دنیا میں یہی قاعدہ ہے.اس واسطے براہ راست وہ نہیں چاہتے تھے لیکن بنیاد رکھنا چاہتے تھے.اس لیے جو حلف اس وقت انہوں نے پیش کیا اور جو Unanimously منظور کر لیا گیا ، یہ وہی الفاظ تھے جو کہ بعد میں 7 ستمبر کے ریزولیوشن میں پیش کئے گئے کہ میں حلف اٹھاتا ہوں کہ..محمد رسول اللہ آخری نبی ہیں اور میں غیر مشروط طور پر آنحضور ﷺ کے ختم نبوت پر اور ان کے بعد کسی اور نبی کے نہ ہونے پر ایمان لاتا ہوں.یہ حلف اس میں شامل کیا گیا.یہ بنی تھی اصل میں اس قرار داد کی.اب قرار داد کے الفاظ میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.قرار داد کے الفاظ اب دیکھ لیں.1973 ء کے آئین کی کا پی آپ دیکھیں.|| & | Appendix کو اسٹڈی کریں.بالکل یہ الفاظ تھے جو اس وقت اس میں شامل کئے گئے تھے.اب قرار داد کے الفاظ :.جو شخص حضرت محمد اللہ جو آخری نبی ہیں، کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا.“ یعنی یہ تسلیم نہیں کرتا کہ آنحضرت ﷺ آخری نبی ہیں.اس پر میں زور دینا چاہتا تھا کہ قرارداد کی رُوح، نیو کلیئس اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ خاتم النبیین کے معنی ہیں کہ محمد رسول اللہ علی غیر مشروط طور پر آخری نبی ہیں.اور جو شخص اس کو نہیں مانتا یا جو حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا جو کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے وہ آئین یا قانون کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہے.“ "They are not Muslims for the purpose of constitution and law" This was the wording of Bhutto Parliament in 1974.

Page 63

47 قومی اسمبلی میں پیش کردہ قراردادیں ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مولانا! ہم یہ پوچھنا چاہیں گے کہ یہ ایک ہی قرار داد تھی یا اپوزیشن کی طرف سے بھی کوئی قرار داد پیش کی گئی تھی..؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.اپوزیشن کی طرف سے بھی قرار داد تھی لیکن پھر چونکہ رہبر کمیٹی میں اپوزیشن لیڈر مفتی محمود صاحب آگئے اس وجہ سے اس کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.وہ تو اپناسہرا باندھنے کے لئے تھی نا اور نہ انہیں بھی پتا تھا کہ پیپلز پارٹی تو اپنی قرارداد کو ہی پیش کرے گی.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ قرار داد کس نے پیش کی تھی اور اس کے محرکین کون کون سے تھے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.پیش کرنے والے تو جناب عبد الحفیظ پیرزادہ وزیر قانون تھے.اور ان کے ساتھ دستخط کرنے والے مولانا مفتی محمود صاحب جمیعت علمائے اسلام کے سر براہ ، مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی صاحب جمیعت علمائے پاکستان کے، جناب پروفیسر غفور احمد صاحب جماعت اسلامی کے راہنما، جناب غلام فاروق صاحب، جناب چودھری ظہور الہی صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ، جناب سردار مولا بخش سومر وصاحب، یہ تو محرکین تھے.لیکن میں اس موقع پر مزید ایک بات ضرور کہنا چاہتا ہوں.وہ بات یہ ہے اور بڑی حیرت کی بات ہے کہ یہ قرارداد جو پیش کی گئی اس میں سب سے زیادہ پُر جوش مفتی محمود تھے، دیو بندی عالم.حالانکہ بانی دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے 1880ء میں یعنی جماعت کے قیام سے بھی نو سال پہلے ، ان کی وفات بھی 1880ء میں ہوئی ہے.اور ” تحذیر الناس“ بھی اسی زمانے میں سرکار پریس سہارنپور سے چھپی اور مختلف ایڈیشن چھپ چکے ہیں.میرے پاس اس کے تقریباً دس ایڈیشن موجود ہیں اس میں آپ نے لکھا ہے کہ عوام تو یہ سمجھتے ہیں کہ خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کے ہیں مگر یہ عوام کے معنی ہیں.کیونکہ آخر میں آنا کوئی خوبی کی بات نہیں ہے.( مثلاً آپ دیکھیں بہادر شاہ ظفر.یہ میں مثال دے رہا ہوں ضمنی طور پر.یہ آخری بادشاہ تھا تو یہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ معزز ہے؟ جس نے مغلیہ خاندان کا بیڑہ غرق کر دیا.

Page 64

48 زبان سے کہہ نہیں سکتا کسی کا باپ ہوں میں اپنی نسل کے فقرے کا فل سٹاپ ہوں میں) تو مولانا کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے، یہ عوام کے معنی ہیں.علماء کے معنی آگے چل کر لکھتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (الاحزاب : 41) فرمایا کہ حمد عربی صلم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں.(اگر خدا اتنا ہی فرماتا.یہ تشریح بریکٹ میں میں کر رہا ہوں الفاظ آگے آرہے ہیں حضرت مولانا قاسم کے.) اگر اتنی بات ہی جناب الہی کی طرف سے قرآن میں مذکور ہوتی تو پھر یہ تو دراصل ایک جیت تھی کفار کی کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ اِنَّا اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الابتر 0 (سورة الکوثر) یا رسول اللہ ! آپ ابتر نہیں ہیں.ابو جہل ابتر ہے.ابولہب ابتر ہے.عتبہ شیبہ یہ بدسگال جو کہ اسلام کے بدترین معاند ہیں.عرش پر ان کو ابتر قرار دیا گیا ہے.تو اتنے لفظ کے ساتھ تو دراصل یہ ٹکراؤ ہو جاتا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دینے کے لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابتر نہیں ہیں ، دو جواب دیتے ہیں.وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ مولانا قاسم کہتے ہیں لكِن استدراک کے لئے آیا ہے.ایک بہت بڑا اعتراض پیدا ہوسکتا تھا جس کے جواب کے لئے خدا نے دو لفظ استعمال کئے ہیں اور واؤ عاطفہ ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ جس غرض کے لئے رسول اللہ کا لفظ آیا ہے ، وہی غرض آنحضرت ﷺ کو خاتم النبین بنانے کی غرض کے لحاظ سے بنایا گیا ہے اور وہ کیا چیز تھی ؟ بتانا یہ مقصود تھا کہ حضور بہتر نہیں ہیں.آپ باپ ہیں.اس کے جواب کے لئے حضرت مولانا قاسم نے وہاں پر لکھا ہے کہ اللہ نے سب سے پہلے رسول اللہ کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ حقائق ببانگ دہل دنیا کے سامنے رکھے کہ یہ ٹھیک ہے کہ ظاہری اور مادی طور پر آنحضور ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں.کیونکہ حضرت ابراہیم تو اس وقت چھوٹے تھے.بعد میں دوسال کے بعد وفات پاگئے تو فرمایا کہ مردوں میں سے یعنی جو بالغ مرد ہیں کوئی بھی آپ کا بیٹا نہیں ہے مگر آپ ابتر ہر گز نہیں.آپ باپ ہیں کس شان کے باپ ہیں اسی شان کے جس طرح کہ خدا کے رسول اپنی

Page 65

49 امتوں کے باپ ہوتے ہیں.وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ جس طرح آدم اپنی امت کے باپ تھے، جس طرح حضرت ابراہیم اپنی امت کے باپ تھے ، جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی امت کے باپ تھے.حضرت محمد رسول اللہ بھی اپنی امت کے باپ ہیں اور ہر امتی جو تا قیامت آئے گا وہ حضرت محمد رسول اللہ کی اولاد میں شمار ہو گا.لیکن اگر اتنا ہی ہوتا تو پھر زیادہ سے زیادہ دنیا پر یہ بات بے نقاب ہوتی کہ رسالت کا جو مقام باقی نبیوں کا ہے وہی مقام محمد بیت ہے.خدا نے اس کا رد کرنے کے لئے خاتم النبیین کا لفظ استعمال کیا ہے.حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی فرماتے ہیں کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ باقی نبی امت کے باپ تھے اور محمد مصطفی مے نبیوں کے بھی باپ ہیں.یہ معنی ہیں خاتم النبین کے اور آخر میں فرماتے ہیں کہ اگر کوئی نبی آنحضرت کے بعد پیدا بھی ہو جائے تو ختم نبوت میں کچھ فرق نہیں آئے گا اور پھر لکھتے ہیں کہ علماء اہلسنت بھی اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت قطعی بند نہیں ہے.اب صرف ایسا نبی نہیں آ سکتا جو آنحضرت ﷺ کی امت میں سے نہ ہو.اب وہ آئے گا جو محمد کا غلام ہو گا.وہ آئے گا جو کہ کلمہ محمد پڑھانے والا ہوگا.وہ آئے گا جو دین محمد کو قائم کرنے والا ہوگا.خاک پائے مصطفیٰ بہتر ہے ہر اکسیر سے سینکڑوں عیسی بنے اس خاک کی تاثیر سے عیسی کے معجزوں نے مردے جلا دیئے محمد کے معجزوں نے عیسی بنا دیئے یہ محمد کی شان ہے ختم نبوت میں.مگر مولانا مفتی محمود صاحب نے یہ پیش کیا.میں یہ بتا رہا تھا آپ کو اور اس سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ دیو بندی حضرات سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو رحمت للعالمین ، سمجھتے ہیں.مولوی محمد موسیٰ صاحب مدرس مدرسہ قاسم العلوم ملتان نے مرثیہ کہا.عربی زبان میں وہ مرثیہ کہا گیا اور پہلے صفحہ پر مفتی محمود صاحب کے آرگن ” تر جمان اسلام ( مؤرخہ 15 ستمبر 1961 ء) نے اس کو شائع کیا.اور اس میں لکھا ہے..

Page 66

50 50 وكـــنــــت مـــن الـــرحيــم : ی بسیط عطاءً رحمة لــلــعـــالـــميـــنــــا شاہ جی آپ رحمتہ للعالمین تھے.اب میں آپ سے پوچھتا ہوں نبی کتنے ہوئے؟ بتائیے؟ حافظ صاحب! حافظ محمد نصر الله صاحب:.ایک لاکھ چوبیس ہزار.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.ایک لاکھ چوبیس ہزار.یہ آنحضور ﷺ کی حدیث میں موجود ہے.فرمایا حضور نے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی تھے اور امتیں بہتر تھیں.تو ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی تھے مگر رحمہ للعالمین کتنے گذرے ہیں؟ ایک ہی گذرا ہے.مفتی محمود صاحب اور دیو بندی امت مانتی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ رحمت للعالمین تھے اور عطاء اللہ بخاری بھی رحمۃ للعالمین.تو محض نبی ہونے کا قصہ نہیں.اصل قصہ یہ ہے کہ نبوت کے معاملہ میں یہ تو رحمتہ للعالمین بنائے بیٹھے ہیں اور اس کے باوجود یہ پیش کر رہے ہیں.اب میں اختصار سے کام لیتا ہوں.وقت ختم ہوا اور قصہ باقی ہے.ع سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے اس کو پیش کرنے والے نورانی صاحب بھی تھے جو اہلسنت والجماعت کے سر براہ سمجھے جاتے ہیں.حضرت ملا علی قاری جو کہ مکہ میں مدفون ہیں اور جنہیں مجدد اہلسنت قرار دیا جاتا ہے.انہوں نے ” موضوعات کبیر میں یہ لکھا ہے کہ خاتم النبیین کے معنے اتنے ہی ہیں لا یاتی نبی بعدہ ينسخ ملته و لم یکن من امتہ کہ آپ کے بعد کوئی بھی ایسا نبی نہیں آئے گا جو کہ آنحضرت صلحم کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.امتی نبی آئے گا، جو آئے گا محمد صلعم کا غلام بن کر آئے گا.( موضوعات کبیر صفحہ 58-59 مطبع مجتبائی.دہلی ) پھر فتاویٰ مولوی عبدالحی جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے چوٹی کے اہلحدیث تھے.دیو بند میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی جن کو خدا نے دراصل بھجوایا ہی ختم نبوت کی وضاحت کرنے کے لئے تھا.اللہ تعالیٰ کی ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں ان پر ہوں.انہوں نے اس

Page 67

51 مسئلہ کوحل کیا.مولاناعبدالحی صاحب نے اپنے طور پر اس مسلہ کو پیش کیا.چنانچہ ” تحذیر الناس‘ میں ان کا فتویٰ بھی موجود ہے اور وہ عبارت خود مولانا عبدالحی صاحب کی ہے.لیکن اس کے علاوہ مجموعہ فتاوی مولانا محم عبد الحی فرنگی محلی لکھنوی میں یہ لکھا ہوا موجود ہے کہ ایک شخص نے ان کی خدمت میں یہ استفسار کیا کہ مولانا ایک پٹھان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خواب میں مجھے محمد عربی کی زیارت نصیب ہوئی اور حضور نے مجھے فرمایا کہ خدا نے تمہیں نبی بنایا ہے.تم جاؤ اور ایک پریس لگاؤ اور پریس لگا کر دنیا میں دین محمد کی اشاعت کرو.تو اس خواب کے متعلق آپ کا فتویٰ کیا ہے.اب حضرت مولانا عبد الحئی صاحب نے یہ نہیں جواب دیا کہ یہ شیطانی خواب ہے کیونکہ اب تو کسی قسم کا نبی آہی نہیں سکتا.فرمانے لگے کہ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ یہ رحمانی خواب ہے ہمیں اس شخص کے حالات اور اس خواب کے اندرونی معاملات کو دیکھنا چاہئے.اگر یہ خواب رحمانی ہے تو اس کے مطابق اس شخص کے ساتھ معاملہ کیا جانا چاہئے.یہ فتویٰ کا جواب تھا.(ملاحظہ ہو مجموعہ فتاویٰ مولانا محمد عبد الحئی فرنگی محلی لکھنوی جلد سوم صفحہ 252 ناشر ایچ.ایم سعید کمپنی پاکستان چوک کراچی ) مگر یہ نورانی صاحب بھی جو بریلوی مسلک کے تھے.ان حضرات میں بھی شامل ہو گئے.حالانکہ اہلسنت والجماعت کا عقیدہ یہ تھا.پھر اس میں اہلحدیث بھی تھے.حالانکہ ساری عمر وہ رسول اللہ علیہ کی حدیث پڑھتے رہے کہ آنے والا مسیح موعود اِمَامُكُمُ مِنكُم ہوگا.( صحیح البخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم علیھما السلام ) اس کو رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ نہیں، دودفعہ نہیں ، تین دفعہ نہیں ، چار دفعہ نبی اللہ کے نام سے یاد کیا ہے.یہ مولا نا تو جتنے بھی 1974ء میں تھے اور اب تو قصہ اور بھی بڑھ گیا ہے.ان میں سے کوئی بھی مولانا ثناءاللہ صاحب کی طرح حضرت مسیح موعود کا ہمعصر نہیں تھا.مولا نا ثناء اللہ امرتسری پیدل چل کر بٹالہ سے قادیان حضرت مسیح موعود کی زیارت کے لئے گئے تھے.اس شان کے انسان تھے وہ.اختلاف الگ چیز ہے.انہوں نے دیانت داری اور شرافت سے اختلاف کیا.مناظرے بھی کئے.لیکن آپ حیران ہوں گے کہ مولانا نے ثنائی پاکٹ بک لکھی ہے.اس میں جماعت احمدیہ سے متعلق لکھا ہے کہ:.یہ فرقہ اسلامی فرقوں میں سب سے اخیر ہے.“ (صفحه 56 ناشر مکتبہ عزیز یہ رام گلی نمبر 4 چوک دالگراں لاہور )

Page 68

52 اور مولانا نے ایک جگہ لکھا ہے کہ مرزا صاحب کا عشق رسول تو دراصل اتنا بڑھا ہوا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ یہ شرک میں داخل ہو گیا ہے.(ملاحظہ ہو علم کلام مرزا‘ صفحہ 64 ناشر مکتبہ سعودیہ حدیث منزل کراچی.ستمبر 1932 ء ) یعنی ایک زمانہ وہ تھا کہ اہلحدیث کے علماء کے چوٹی کے سردار کہتے تھے کہ مرزا صاحب کے الله جو عاشقانہ اشعار ہیں رسول اللہ کے لئے ان کو تو دراصل ہم مشر کا نہ سمجھتے ہیں.مگر آج کی جو پیداوار اہلحدیث ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ بانی جماعت تو معاذ اللہ گستاخ تھے رسول پاک ﷺ کے ، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری کا فتویٰ " فتاویٰ ثنائیہ میں موجود ہے.یہاں بھی چھپا ہے اور ہندوستان میں بھی اس کے ایڈیشن چھپے ہوئے موجود ہیں.اس میں یہ سوال ہے کہ مہدی پر ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے کہا ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ( التوبة:119) سچوں کے ساتھ ہو جاؤ اور مہدی سے بڑھ کر کون سچا ہو گا.اس لئے امام مہدی کی بیعت کرنا ضروری ہے.( فتاویٰ ثنائیہ جلد ثانی صفحہ 704-706 ناشر اسلامک پبلشنگ ہاؤس 2 شیش محل روڈلاہور ) پھر کسی نے کہا کہ ان کے پیچھے نماز ہو سکتی ہے؟ کہنے لگے کہ جہاں تک نماز ہونے کا تعلق ہے.احمدیوں کے پیچھے نماز جائز ہے البتہ یہ میں چاہتا ہوں ہمارے علماء اہلحدیثوں کے پیچھے ہی نماز پڑھیں.( اہلحدیث 13 مارچ 1908ء صفحہ 1) اس طرح شریف انسان تھے وہ.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ گستاخ رسول ہیں.انہوں نے یہ کہا کہ اتنی تعریف کی ہے کہ شرک کی حد تک پہنچ گئے ہیں.پھر اس عقیدہ میں شیعہ حضرات بھی تھے محبان اہل بیت.جن کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت کے بعد بارہ امام ہوئے.اور امامت کا مقام نبوت سے افضل ہے.”حیات القلوب‘ پڑھ لیں آپ اور بحار الانوار میں علامہ باقر مجلسی نے کہا ہے و هو الذي ارسل رســـولــــه بـــالهــدى (الصف: 10) یہ آیت کہ آئے رسول امت محمدیہ میں دین کو غالب کرنے کے لئے.اس سے مراد قائم آل محمد ہیں.( حیات القلوب جلد دوم صفحه 664 باب چهل و نهم در بیان حجتہ الوداع - مطبع نامی منشی نولکشور لکھنو.بحارالانوار جلد 35 باب 20 ابواب الآيات النازلة في شانه صفحه 397 ناشر دار الکتب الاسلامیه طہران.ایڈیشن چہارم 1983 ء ) تو جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہو کہ آنحضرت کے بعد اور نبی ہی نہیں بلکہ امام بھی آ سکتے ہیں جو کہ نبوت سے افضل ہے.وہ اس قرار داد کے محرکین میں کیسے شامل ہو سکتے تھے.

Page 69

53 لیکن جو کچھ بھی ہوا وہ آپ کے سامنے ہے.پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی چوٹی کے اپنے زمانے کے مجدد تھے.بریلوی، اہلحدیث، جماعت اسلامی غرض کہ شیعہ حضرات کے علاوہ پورا عالم اسلام اس بات پر متفق ہے کہ وہ صاحب کشف تھے، صاحب الہام تھے، مفکر اسلام تھے.یہ سارے مولوی اگر ان کی جوتیوں کی خاک بھی بن جائیں تو ان کے لئے باعث فخر ہے.حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہزاروں ہزار کروڑوں کروڑ رحمتیں اور برکتیں ان پر ہوں.انہوں نے ” موطا امام مالک کی شرح ”مسولی“ میں یہ بات لکھی ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ میں نے عالم کشف میں محمد عربی کی زیارت کی ہے اور حضور نے یہ فرمایا ہے کہ یاد رکھو شیعہ ختم نبوت کے منکر ہیں.(ملاحظہ ہو د خمینی اور اثناء عشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ مرتب خلیل الرحمن سجاد ندوی صفحه 13, 80 -’در الثمين فــي مبشرات النبى الامين ، صفحہ 32 تصنیف حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مترجم مولانا غلام رسول صاحب نا شرسنی دارالاشاعت علویہ رضویہ ڈجکوٹ روڈ فیصل آباد ) جماعت احمدیہ کا پیش ہونے والا وفد حافظ محمد نصر اللہ صاحب : مولانا یہ قرارداد تو پیش ہو گئی.اس کے بعد جماعت احمدیہ کا وفد حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی قیادت میں اسمبلی میں پیش ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ بھی اس میں شامل تھے تو اس وفد میں کل کتنے افراد تھے اور کون کون تھے.؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ وفد پانچ ممبروں پر مشتمل تھا.سیدنا و امامنا و مرشدنا خلیفہ امسح حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے آکسن (Oxon یعنی آکسفورڈ کا پڑھا ہوا) امام جماعت احمد یہ عالمگیر.دوسرے میرے محبوب آقا سیدی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ جنہیں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے بعد عرش کے خدا نے خلافت کا تاج پہنایا، اللہ کی ہزاروں رحمتیں اور برکتیں ان پر ہوں.تیسرے میرے شفیق اور محترم استاد جن کا میں ادنیٰ ترین چاکر ہوں ، خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مبشر بلاد اسلامیہ، پرنسپل جامعہ احمدیہ، مدیر ماہنامہ الفرقان، ایڈیشنل ناظر تعلیم القرآن.چوتھے حضرت مہدی دوراں کے

Page 70

54 بے مثال عاشق حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کے لخت جگر اور سلسلہ کی ایک برگزیدہ شخصیت حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ فیصل آباد.آپ وہ عالمی شخصیت ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ نظریہ کی روشنی میں دنیا پر ثابت کیا ہے کہ چونکہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری شریعت دی جانے والی تھی اور وہ عربی زبان میں دی جانے والی تھی.اس واسطے سب سے پہلی زبان جو کہ الہاما اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو سکھائی وہ صرف اور صرف عربی زبان تھی.یہ جو پچھلی صدیوں سے مختلف لسانیات کے ماہرین کوئی سامی زبان کو، کوئی سنسکرت کو کہ رہا ہے، کسی کی نگاہ میں عبرانی زبان ہے.یہ سب غلط اور بے بنیاد چیزیں ہیں.حضرت بانی جماعت احمدیہ نے فرمایا کہ خدا نے الہاما پہلی زبان عربی ہی سکھائی تھی اور دنیا پر جب یہ ثابت ہو جائے گا کہ یہ خدا کی طرف سے از لی تقدیر تھی کہ اس عربی زبان میں آخری شریعت نازل ہو تو دنیا میں انقلاب عظیم آ جائے گا.میں ذکر کر رہا تھا حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کی تحقیقات کا.ان کی کتابیں چھپ چکی ہیں اور ایک دھوم مچی ہوئی ہے فلالو جی (Philology) کی دنیا میں.یہاں تک کہ اخبار "Pakistan Times “ نے ان کی پہلی کتاب Arabic- The Source of All Languages پر جو نوٹ دیا ہے، بہت طویل ہے اور اس کو حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس زمانہ میں شائع کیا تھا اپنے بہت معرکۃ الآراء تبصرہ کے ساتھ.پاکستان ٹائمن‘ (28 مارچ 1965ء) نے اس میں لکھا کہ آج تک حاطب اللیل کی طرح دنیا اس علم لسانیات کے معاملہ میں بہکی ہوئی پھر رہی تھی.اس مرد مجاہد نے سائنسی صداقتوں کی طرح ثابت کر دیا ہے اور دن چڑھا دیا ہے کہ چونکہ محمدرسول اللہ ﷺ کو عربی میں آخری شریعت دی جانے والی تھی اس لئے حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلی الہامی زبان جناب الہی کی طرف سے جو سکھائی گئی وہ صرف اور صرف عربی زبان تھی.ایک عرب نے ہمارے مجاہد بلا دعر بیہ سے یہ بات کی.کیونکہ عرب بھی اب تک عبرانی زبان کو ہی سمجھتے رہے ہیں.اب تو یہاں مفتی محمد شفیع صاحب نے جو المنجد‘ کا ترجمہ کیا اس کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ام الالسنہ عربی زبان ہے.(صفحہ 11) یہ انقلاب عظیم خدا کے فضل سے ہوا ہے ورنہ لوگ سنسکرت تک کو ماننے والے تھے.تو ایک عربی فاضل

Page 71

55 55 اور ادیب نے ایک احمدی مبلغ سے یہاں تک کہا ہے کہ بانی جماعت احمدیہ کی نبوت ثابت کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اگر دنیا پر ثابت کر دیا جائے کہ عربی زبان ہی دراصل سب سے پہلی الہامی زبان ہے.تو یہ معرکتہ الآراء ریسرچ سکالر جو کہ مشہور عالم ہیں حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر اللہ تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں ان پر ہوں ) وہ بھی شامل تھے.بہر کیف آج میں جب آیا تو آپ نے دیکھا کہ میں زار و قطار رورہا تھا.وہ زمانہ میرے سامنے آ گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کس طرح آگ اور خون کے ان طوفانوں میں خدا کے پہلوان اور شیر بن کر وہاں پر پہنچے ہیں.یہ آپ ہی کا جگر تھا کہ ساری جماعت کی قیادت بھی کر رہے ہیں اس ماحول میں بھی ہیں اور اس کے بعد پھر اسمبلی کے سامنے بھی جوابدہ بھی.جہاں اسی وقت جواب دینے کے لئے کہا گیا.یہ ساری چیزیں ہیں اور پھر خدا کی طرف جھکتے ہیں، ساری رات دعاؤں میں گزارتے ہیں، ریسرچ میں گزارتے ہیں تو مجھے یہ خیال آیا.اب بھی وہ سارا نقشہ میرے سامنے ہے کہ خدا کا شیر کس طرح ان پہاڑوں کو اپنے سر کے اوپر لئے ہوئے چلا جا رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ خلافت وہ امانت ہے کہ پہاڑ پر بھی اگر وہ ڈالی جاتی تو وہ پاش پاش ہو جاتا.تو یہ عظیم الشان معجزہ تھا جو کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ذریعے سے اس وقت دنیا نے دیکھا.پہاڑ اس وقت گرائے جارہے تھے، اس قلب نازک پر ، حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دل کے اوپر.ان کو چیرتے ہوئے خدا کا شیر وہاں تک پہنچا ہے.دنیا کی تاریخ میں پہلی مثال ہے کہ خلیفہ وقت نے حق کی آواز اسمبلی میں بلند کی ہو.ع خدا رحمت کنند این عاشقان پاک طینت را قومی اسمبلی میں وفد کی حاضری اور طریق کار ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : - مولانا یہ فرمائیے کہ یہ جو کارروائی اسمبلی کی ہوئی ، اس کے اجلاسات کہاں ہوا کرتے تھے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ اجلاس موجودہ اسٹیٹ بنک پاکستان کی جو پُرشکوہ عمارت ہے، اس میں ہوتے تھے ، جو ائیر کنڈیشنڈ تھی اور اس میں بہت نفیس برقی سیڑھیاں بھی

Page 72

56 موجود تھیں.پہلی دفعہ میں نے برقی سیڑھیاں یہیں دیکھیں اور حضور کی قیادت میں جو وفد تھا وہ کمیٹی روم نمبر 2 میں پہنچتا تھا اور پھر وہاں سے ہمیں چیئر مین صاحب کی طرف سے اطلاع آتی کہ اب آپ آجائیں.کارروائی جو ہوئی جیسا کہ میں نے بتایا کہ ان کیمرہ In Camera یعنی خفیہ تھی.عجیب بات ہے کہ ختم نبوت کا تحفظ ہورہا ہے اور ان کیمرہ ہو رہا ہے.پہلے دن سے ہی یہ حیرت آتی تھی کہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے اس طرح چھپانے کی کیا بات ہے.اس کو کھلا ہونا چاہئے تھا.کارروائی اوپن (Open) ہونی چاہئے تھی.جس وقت حضرت خلیفہ اسیح الثالث وہاں پر تشریف لے گئے ہیں.شدید گرمی کے ایام تھے.جولائی اگست کے ایام تھے.22 جولائی سے لے کر 24 اگست تک آپ تشریف لے جاتے رہے ہیں.شدید گرمی کے ایام تھے اور اس وجہ سے ساتھ ایک تھرماس کی بوتل بھی ہوتی تھی جس میں پانی تھا اور سبز چائے تھی.دراصل اس میں پانی تھا اور کوئی چیز نہیں تھی.یہ جو مختلف کتابیں لکھنے والے ہیں اسمبلی کے متعلق.انہوں نے بڑا مذاق اڑایا ہے تو میں اس وجہ سے بتاتا ہوں کہ اس وقت جو چیز ساتھ جاتی تھی ان میں حضرت خلیفتہ مسیح الثالث کا ایک تو قرآن مجید جو ان کو مصر کی جماعت کی طرف سے تحفہ ملا تھا، پہلی دفعہ آکسفورڈ جاتے ہوئے 1934 ء میں، دوسرا قرآن مجید کا انڈیکس، تیسرا در تین عربی، درشین فارسی ، در تشین اردو اور ساتھ یہ سبز چائے والا تھر ماس.یہ ساری چیزیں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع سیدی طاہر کے پاس ہوتی تھیں.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کے پاس ان کی کتاب تفہیمات ربانیہ تھی.حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کے پاس تحقیقاتی عدالت 1953ء کی رپورٹ“ اور باقی چونکہ ذمہ داری حوالوں کے نکالنے کی اور کا پیاں لانا، کتابیں دکھانا اور اس کے علاوہ اعتراضوں کے جواب کے سلسلے میں اخبارات اصل پیش کرنا.اس لئے تین ٹرنک میرے پاس ہوتے تھے.یہ میں نے ضمناً بتا دیا ہے کہ یہ صورت تھی.باقی میں یہ بتارہا تھا کہ وہ پرائیویٹ طور پر ان کیمرہ کارروائی ہوئی تھی اور یہ اس ان کیمرہ کارروائی میں عجیب بات یہ کہ بہت ہی محتاط طریقہ اختیار کیا.ایک تو ان کیمرہ تحفظ ختم نبوت کے لئے

Page 73

57 یہ ساری کارروائی ہوئی.اب بات یہ ہے کہ لطیفہ ہمیں پہلے دن یاد آیا.میرے دل میں خیال آیا یہ پرائیویٹ ان کیمرہ کارروائی کی جارہی ہے کہ کسی کو خبر نہ ہو جائے.مجھے اس وقت یہ بات ذہن میں آئی.کسی شخص کا ایک جگری دوست تھا.وہ شخص کسی بڑے اہم کام میں مصروف تھا.وہ دوست کہنے لگا کہ ایک بڑا پرائیویٹ سامعاملہ ہے.باہر لے گیا.گرمی کا موسم تھا.پسینہ کی وجہ سے دونوں ہی شرابور ہورہے تھے.اس نے کہا کہ بتائیے.دوست نے کہا کہ ابھی کچھ گلیاں باقی ہیں.باہر جا کر میں تمہیں بتاؤں گا.بہت سیرلیس (Serious) معاملہ ہے.وہ بڑا حیران تھا کہ عمر بھر کبھی ایسا قصہ نہیں ہوا.جب بہت دور نکل گئے تو کہنے لگا اب تو سوائے ریت کے ذروں کے کوئی یہاں موجود نہیں اب تو خدا کے لئے بتا دیں.اس وقت اس نے کان کے نزدیک منہ کیا اور کہنے لگا کہ گرمی بہت پڑی ہے، پرائیویٹ معاملہ ہے Leak Out نہ ہو جائے.بڑا ہنگامہ ہو جائے گا.تو ختم نبوت کا تحفظ کر رہے ہیں، جناب احمدیوں کے گھروں کو آگیں لگائی جارہی ہیں، تحفظ ختم نبوت کے لئے.یہ تو کھلم کھلا کیا جارہا ہے مگر جو بحث ہورہی ہے جس میں کہ ختم نبوت کا تحفظ ہے، اس کے اوپر پہرے لگے ہوئے ہیں، خیر ہمیں بھی اسمبلی میں داخلہ کے لئے ٹکٹ دئے جاتے تھے، یعنی اتنی احتیاط تھی.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.داخلہ کا طریقہ کار کیا تھا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.طریقہ کار آپ نے پوچھا ہے.مجھے بیک گراؤنڈ اس لئے بتانا پڑتا ہے کہ اس کے بغیر وہ حقیقی تصویر آ ہی نہیں سکتی.ایک تو مواقع کا فرق ہے خاص طور پر جو عینی شاہد ہو.تو میں حیران تھا کہ یہ تو ایک واضح بات تھی کہ ایک ٹکٹ بنالیا جاتا اور اس میں نام لکھے جاتے.ایک دفعہ دیکھنے کے بعد بہر حال چیکنگ کرنے میں آسانی تھی.مگر اس میں بھی بہت ہی محتاط رویہ اختیار فرمایا بھٹو صاحب کی حکومت نے کہ ہر ایک کو الگ الگ ٹکٹ دیئے.چنانچہ میرے پاس وہ ٹکٹ اب تک تبر کا محفوظ ہے اور ان کے اوپر مثلاً پہلا ٹکٹ ہے اس میں نمبر ہے اور اوپر لکھا ہوا ہے مولا نا دوست محمد صاحب شاہد.اس کے پشت پر انگریزی میں لکھا ہے کہ یہ کسی اور کو نہیں دیا جا سکے گا.تو بہت احتیاط فرمائی تھی تحفظ ختم نبوت کے معاملہ میں ، ہمارے داخلہ کے معاملہ میں بھی بہت خطرات تھے.

Page 74

58 فرماتے تھے؟ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.بلا یا کس طرح جاتا تھا جیسا آپ نے فرمایا کہ حضور ا نتظار بھی مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور کے قافلہ کا ایک وقت معین تھا.اس موقع پر اس وقت کی گورنمنٹ کی فورس بھی ساتھ ہوتی تھی یعنی فیڈرل سیکیورٹی فورس.جماعت کے والنٹیئر بھی ساتھ ہوتے تھے اور ہم اس خاص معین وقت میں جبکہ اسمبلی کا اجلاس یا رہبر کمیٹی والوں کے اپنے اجلاس روزانہ ہوتے تھے تو ان اجلاسوں میں ہم شامل نہیں ہو سکتے تھے.ہماری شمولیت کا وقت تو اس وقت ہوتا جب خصوصی کمیٹی والے پسند کرتے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان کو بلایا جائے.پھر ان کا کورم بھی پورا نہیں ہوتا تھا.چالیس کی تعداد ہوتی تھی.ان کا کورم پورا ہونے تک ہمیں انتظار کرنا پڑتا تھا.پھر جب کورم پورا ہو جاتا بعض اوقات ایک ایک گھنٹہ تک بیٹھنا پڑتا تھا.جب یہ محافظین ختم نبوت پہنچتے.چالیس کی تعداد پوری ہو جاتی تو اس کے بعد پھر ہمیں اطلاع آتی کہ چیئر مین صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں.تو یہ کمیٹی روم نمبر 2 میں انتظار کرنا پڑتا تھا اور ٹکٹ میں نے بتایا ہے کہ ہر ایک کو الگ الگ دی گئی تھی.بڑی احتیاط کی گئی کہ ایسا نہ ہو کہ حضرت میاں طاہر احمد صاحب کی جگہ کوئی اور آ جائے.تو بہر حال بڑی احتیاط کی گئی یعنی ” تقومی کی بڑی باریک راہیں تھیں.“ 66 مجھے اجازت دیں ایک چھوٹا سا لطیفہ ضرور سنانا چاہتا ہوں.یہ احتیاط اور تقویٰ کی باریک را ہیں یہ ساری اس دہشت گردی میں اول سے آخر تک اس وقت بھی شامل تھیں، آج بھی شامل ہیں.بات یہ ہے کہ ایک دیو بندی ملا کے متعلق یہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ اس نے صبح کے وقت نماز پڑھا کر لاؤڈ اسپیکر پر Volume Full تھا.درس دیا اور درس میں بڑی گالیاں دیں بریلوی حضرات کو اور اس کے بعد کہا کہ چلو جہاد کرنے کے لئے.خیر سارے سامعین بھی ساتھ ہو گئے.ساتھ ہی دوسری مسجد تھی بریلوی حضرات کی تو وہ امام باہر نکلا کہ اس کا گھیراؤ ہو گیا.اس نے گالیاں دینی شروع کیں.کچھ نے مار پیٹ شروع کر دی لہو لہان کر دیا.تو ایک بریلوی بزرگ نے کہا کہ کچھ خدا کا خوف کرو.رمضان کے ایام ہیں اور تم نے یہ دنگا فساد شروع کیا ہے.دین ملا فی سبیل اللہ فساد.تو رمضان کا تو احترام کرنا چاہئے تمہیں.اب اعلیٰ حضرت نے کیا جواب دیا ( بریکٹ میں کہنا چاہئے جو تقویٰ کی باریک راہوں کا ایک شاہکار تھا.)

Page 75

59 59 جواب یہ تھا کہ ہم علماء حضرات ہیں اور رمضان مبارک اور تقویٰ اور اسلام کو تم سے زیادہ بہتر جانتے ہیں.اس لئے یہ اعتراض بالکل غلط ہے.ہم تم سے بہتر جانتے ہیں کہ روزہ رکھ کر کوئی سخت بات نہیں کی جاسکتی.روزے دار کو اتنا ہی حکم ہے کہ اگر کوئی مارنے کے لئے آ جائے تو کہا جائے کہ میں روزہ دار ہوں.اسی لئے میں نے ” تقوی کی انتہائی باریک راہ اختیار کی ہے.چونکہ آج میرا پروگرام اس بریلوی کی پٹائی کا تھا اس لئے میں نے روزہ رکھا ہی نہیں.تا کہ رمضان مبارک کا بہترین احترام ہو سکے.ایوان میں نشستوں کی ترتیب ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: سیلی میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثان تشریف لے جاتے تھے تو ایوان میں بیٹھنے کی کیا ترتیب ہوا کرتی تھی، وفد کی بھی اور دوسرے جو وہاں پر چیئر مین اور دوسرے ممبران تھے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.اسمبلی ہال کے ڈائس پر تو خصوصی کمیٹی کے چیئر مین تشریف فرما ہوتے تھے.جو پورے ایوان کے اسپیکر بھی تھے یعنی صاحبزادہ فاروق علی صاحب اور ان کے بالکل سامنے دائیں طرف جو کرسیاں تھیں وہ پیپلز پارٹی کے ممبروں کے لئے تھیں، چونکہ پورا ہاؤس ایک کمیٹی میں خصوصی کمیٹی کے نام سے منتقل کر دیا گیا تھا.بعض لوگوں نے اس وقت ہی رہبر کمیٹی کے بجائے رہزن کمیٹی“ کہا..ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے لیلی نظر آتا ہے مجنوں نظر آتی ہے تو بہر حال رہزن کمیٹی یا رہبر کمیٹی جو بھی تھی تو ان کے چیئر مین کے سامنے جو چیئر ز تھیں.دائیں طرف ان میں پیپلز پارٹی کے تمیں ممبر جو کہ بطور ممبر کے کمیٹی میں شامل کئے گئے تھے وہ تشریف فرما ہوتے تھے اور انہی میں بعض اب تک میری نگاہ میں ہیں، پیرزادہ عبد الحفیظ صاحب، مولانا کوثر نیازی صاحب اور قیوم خان صاحب یہ سامنے بیٹھے ہوتے تھے.بائیں طرف جو کرسیاں تھیں وہ مخصوص تھیں اپوزیشن کے دس ممبروں کے لئے ان میں مولانا مفتی محمود صاحب ، مولانا شاہ احمد

Page 76

60 نورانی صاحب اور پروفیسر غفور صاحب، یہ حضرات تھے اور بالکل درمیان میں پیپلز پارٹی کی کرسی جہاں سے شروع ہوتی تھی اس کے اٹارنی جنرل تھے بیٹی بختیار صاحب.تو یہ ترتیب تھی.ڈائس میں چیئر مین کے سامنے کرسیاں جو تھیں وہ ایک طرف پیپلز پارٹی کے معززممبروں کی تھیں اور دوسری طرف معزز ارکان اپوزیشن کے لئے کرسیاں تھیں اور ان کے درمیان بہت ہی نفاست اور اہتمام کے ساتھ ایک بڑی میز لگائی گئی تھی وفد کے لئے.جس کے درمیان میں سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثالث اپنی نورانی شکل کے ساتھ جلوہ گر ہوتے تھے.بڑا ہی پر کیف نظارہ تھا.یہ بات تو میں بعد میں بھی بتاؤں گا.مگر یہاں میں ضرور ذ کر کرتا ہوں کہ پہلے دن جب حضور تشریف لے گئے تو برادرم محمد شفیق قیصر صاحب مرحوم جو کہ اس وقت مجلس خدام الاحمدیہ کے نائب صدر تھے، پارلیمنٹ لاجز گئے کہ تاثرات معلوم کریں.یہ محضر نامہ کا پہلا دن تھا.22 جولائی کی تاریخ تھی.غالباً سوات یا ( قبائلی ) Trible Area کے کوئی ممبر تھے پیپلز پارٹی کے ، ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ سنا ہے کہ آج امام جماعت احمدیہ کا بھی اسمبلی میں کوئی بیان ہوا ہے.تو وہ پیپلز پارٹی کے ممبر کہنے لگے کہ میں تو خدا کا بھی منکر ہوں.پتہ نہیں کیا ختم نبوت کا چکر ان لوگوں نے چلا دیا ہے.مگر آج مجھے امام جماعت احمدیہ کو دیکھ کر یہ یقین ہو گیا ہے کہ کوئی ہستی ضرور ہے جس نے ایسا نورانی چہرہ پیدا کیا ہے.تو حضور درمیان میں ہوتے تھے.حضور کے بالکل ساتھ حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کتاب رپورٹ تحقیقاتی عدالت 1953ء کے ساتھ اور پھر ان کے ساتھ اگلی نشست پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الرابع ) اور حضور کے بالکل ساتھ بائیں طرف حضور کا یہ کفش بردار اور نالائق خادم اور ٹرنک سامنے رکھے ہوتے تھے اور میرے ساتھ میرے پیارے استاد خالد احمدیت“ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نور اللہ مرقدہ، لیکن یہ ترتیب آخری دن بدل گئی تھی.وہ ترتیب اس لئے بدلنی پڑی کہ آخری دن سے ایک دن پہلے ایک سازش کی گئی.خصوصی کمیٹی میں یہ معاملہ پیش ہوا.ہمیں تو کچھ پتا نہیں تھا تو جس وقت وفد وہاں پر پہنچا تو چیئر مین فرمانے لگے کہ ہمارے اٹارنی جنرل صاحب نے یہ کہا ہے کہ اب تک جو سوالات تھے وہ تو میں صحیح معنوں میں پیش کر سکتا تھا اب عربی کی عبارتیں ہیں.حالانکہ بالکل فراڈ تھا کوئی عربی کی

Page 77

61 عبارتیں وغیرہ نہیں تھیں.یہ جس طرح سازشیں کی گئی تھیں ان سازشوں کا یہ بھی حصہ تھا اور یہ دراصل ملاؤں کو سمجھیں کہ قیامت آگئی تھی اور خلجان تھا کہ بیٹی صاحب نے کسی سوال کے اوپر ایسی جرح نہیں کی کہ جس سے ان کو ساکت کیا جا سکے.بلکہ کھلم کھلا احمدیت کی تبلیغ ہوئی ہے اور ہمارے لئے تو کوئی منہ دکھانے کی گنجائش نہیں رکھی.بہت طنز آمیز طور پر اور بڑے جوش کے ساتھ یہ بتایا گیا اس وقت چیئر مین صاحب کو کہ ہمارے کیس کو تو بالکل ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا اور حکومت کا جو انتظام تھا کہ سارے لوگ سوالات اٹارنی جنرل کو دے دیں اور وہ پیش کریں.طریقہ کار یہی ہوتا تھا.یہ جو بعد میں لکھا گیا ہے کہ جی تین سوسوال حضرت مفتی صاحب نے کئے.چارسوسوال نورانی صاحب نے کئے.اتنے ہزار ہم نے کئے.سوالات حضرت صاحب سے کسی نے بھی نہیں کئے.براہ راست کر ہی نہیں سکتے تھے.قانون کے خلاف تھا اور یہ قانون چھپا ہوا موجود ہے اس زمانے میں ، اور نشر کیا گیا تھا کہ سوال کرنے والے صرف بیٹی بختیار ہوں گے جو کہ اٹارنی جنرل ہیں.سوائے ایک دن کے ، جب از خود کھڑے ہو گئے مفتی محمود صاحب ذرية البـغـايـا کے لفظ پر ورنہ ان کو بھی اجازت نہیں تھی.سارے سوالات یہ مولوی حضرات جو تھے (1) حمدیہ پاکٹ بک اور (2) ” قادیانی مذہب یہ الیاس برنی صاحب کی کتاب ہے اور (3) تیسرے قادیانی مسئلہ جو کہ مودودی صاحب کی کتاب ہے اور جو سا را چربہ ہے اور خلاصہ کیا گیا ہے ” قادیانی مذہب کا.تو ان میں سے چند اعتراض نوٹ کرتے اور وہ اٹارنی جنرل کو دے دیتے ، اب اٹارنی جنرل تو ان کا غلام نہیں تھا.وہ تو گورنمنٹ کی جو پالیسی تھی اس کے مطابق چند سوال لے لیتا اور باقی سوال جو تھے وہ خود گورنمنٹ کے تجویز کردہ ہوتے تھے اور چند سوال ہی پیش ہوئے تھے، چونکہ جو پالیسی تھی یہ ثابت کرنے کی کہ قادیانی الگ ہیں اور اسی کے اردگرد یہ انہوں نے چکر لگایا (جیسا کہ اب میں آئندہ آپ کو بتاؤں گا) کہ آپ کا دین اور ہے، آپ نے ہمارے نبیوں کی توہین کی ہے، آپ کا خدا اور ہے، آپ کا رسول اور ہے، آپ کی امت اور ہے.تو یہ پالیسی تھی ، ایک پیٹرن تھا جس پر بیٹی بختیار چل رہے تھے تو ملاؤں کا دل رکھنے کے لئے فیصلے پہلے ہو چکے تھے.مور نے پہلے دن ہمیں یہ بتا دیا تھا کہ فیصلے ہو چکے ہیں کہ ہمیں انہوں نے دائرہ اسلام

Page 78

62 سے خارج قرار دینا ہے.مگر میرے خدا نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ ملاں کو اس بات کی پروا نہیں ہے پاکستان یا یہ لوگ جتنے پیپلز پارٹی کے کمیونسٹ ہیں وہ اسلام کے دشمن ہو جا ئیں، انہیں ہر قیمت پر جماعت احمدیہ کو زک پہنچانا مقصود ہے.تمہیں اس لئے اجازت دی گئی ہے تا کہ اس رنگ میں جواب دیا جائے کہ جو اسلام سے دور جا رہے ہیں وہ اسلام کے قریب آجائیں اور ایسا اثر ہو کہ اسلام کا جوسچا علمبر دار ہے اس نے اسلام کی عظمت اور شوکت کو یہاں قائم کرنا ہے.تاکہ ملاں کی اس روش کی وجہ سے جو خدا کے اور مصطفی عملے کے منکر ہور ہے ہیں وہ نظر ثانی کر سکیں ، یہ فلسفہ تھا دراصل.آخری دن نشستوں کی ترتیب میں تبدیلی ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : - آخری دن میں وفد کی نشستوں کی ترتیب کے بارے میں آپ وضاحت فرما رہے تھے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں ہم شامل نہیں تھے.جب یہ صورت ہوئی تو چیئر مین نے کہا کہ بجائے اس کے کہ یحییٰ بختیار کو آخری دن بطور اٹارنی جنرل کے پیش کیا جائے.حالانکہ یہ بالکل قانون کے خلاف تھا اور حکومتی نشریہ کے خلاف تھا.اعلان کے خلاف تھا لیکن ملاؤں کے زور دینے کی وجہ سے انہوں نے کہا کہ اچھا پھر سوال کرنے کے لئے کسی مولوی کو پیش کیا جائے اور اٹارنی جنرل صرف بیٹھنے والوں میں شامل ہوں.یہ فیصلہ ہوا تا کہ وہ داغ جوملاں کو لگ چکا تھا اور جو فتح و ظفر کا پرچم خلیفتہ امسح الثالث کی زبان مبارک کے ذریعہ سے لہرایا جا چکا تھا اور ہر ممبر اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا حقیقت کے لحاظ سے، یہ الگ بات ہے کہ وہ مجبور تھا فیصلہ دینے کے لحاظ سے اور پابند تھا.ہمیں پتا نہیں تھا ہم کمیٹی روم نمبر 2 میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آخری جو اجلاس تھا ایک دن سے پہلے کا، اس میں جب بلایا گیا تو یحییٰ بختیار صاحب کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ اب تک تو اٹارنی جنرل کی حیثیت سے میں آپ کی خدمت میں سوالات پیش کرتا رہا ہوں.میں عربی دان نہیں ہوں انگریزی بول سکتا ہوں.حقیقت یہی تھی کہ شروع میں سوال و جواب کا سلسلہ انہوں نے انگریزی میں ہی شروع کیا تھا.وہ سمجھتے ہوں گے کہ ان کو انگریزی کہاں آتی ہوگی.ٹوٹی پھوٹی بولیں گے اس طرح بھی مذاق اڑایا جائے گا.بہر حال یہ بھی ایک تماشا بنانے

Page 79

63 65 کے لئے انہوں نے سوچا.اللہ تعالیٰ کا ایسا نشان تھا انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ خدا کا شیر انگریزی زبان کا بھی ماہر ہے.حضور نے جس وقت کہ انگریزی زبان میں بات شروع کی تو چھکے چھوٹ گئے اس کے، چند سوالوں کے بعد پھر آدھا اردو اور آدھا انگریزی اور تیسرے دن پھر صرف اردو میں سوال انہوں نے شروع کئے، تو یحییٰ بختیار صاحب کہنے لگے کہ اب میں عربی زبان تو نہیں جانتا تو علماء میں سے کسی کو مقرر کیا جائے.میں چیئر مین سے یہ کہتا ہوں کہ مہربانی کر کے میری بجائے ( کیونکہ یہ فیصلے پہلے ہو چکے تھے ) آپ اجازت دیں (بھٹو صاحب کی اس اناؤنسمنٹ کے بعد تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.اس کے لئے تو پھر دوبارہ انا ونسمنٹ کرنی چاہئے تھی مگر یہ چونکہ سب سازش تھی اکٹھی ) اس وقت ہی چیئر مین صاحب نے کہا کہ ہاں یہ آپ کی بات معقول ہے.اس کے بعد چیئر مین نے حضور کو مخاطب کیا اور کہا کہ آپ کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اب آخری دن کے جو سوالات ہیں وہ خصوصی کمیٹی کے کوئی دوسرے ممبر جو علماء میں سے ہوں گے ، کریں گے.اس واسطے کل اٹارنی جنرل صاحب سوال نہیں کریں گے.باقی اگر سوال رہ گئے ہیں تو اس وقت ان کا جواب دیں.لیکن کل بہر حال کسی عالم دین کو سوال کرنا ہو گا.اس پر حضور نے فرمایا کہ کیا مجھے بھی اجازت ہے کہ میں ڈیلی گیشن میں سے کسی کو جواب کے لئے مقرر کر دوں.چیئر مین صاحب نے اتفاق کر لیا.خیر حضور نے یہ بات سنی اور پھر سوالوں کے جوابات دیئے.اگلے دن یعنی کارروائی کے آخری دن جب حضور تشریف لے گئے تو حضور نے کمیٹی روم میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب سے فرمایا کہ اب جواب دینے کے لئے آپ تیار رہیں اور مجھے فرمایا جہاں مولا نا تشریف رکھتے ہیں تم نے وہاں بیٹھنا ہے.ٹرنک وغیرہ بھی وہیں رکھ لو اور مولانا اب میرے ساتھ بیٹھیں گے.کیونکہ سوالوں کے جواب انہوں نے دینے ہیں.اس کے بعد حضور کی قیادت میں قافلہ جب آخری دن کے پہلے اجلاس میں پہنچا تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو مخاطب کرتے ہوئے حضور کی خدمت میں چیئر مین نے کہا کہ اب کارروائی شروع ہوتی ہے.تو میں اب رہبر کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق مولا نا ظفر انصاری صاحب سے کہوں گا کہ Eye Witness ( گواہ) کے اوپر جو سوالات آپ کرنا چاہتے ہیں بڑے شوق سے کریں.جب یہ بات چیئر مین صاحب نے کہی تو حضور نے فرمایا کہ گورنمنٹ کی طے شدہ پالیسی

Page 80

64 اناؤنسمنٹ کے مطابق جو اخباروں میں آچکا ہے.ریڈیو پر دنیاسن چکی ہے.سوال کرنے کی اجازت صرف اٹارنی جنرل کو ہے.نیز آپ مجاز نہیں تھے لیکن آپ نے اجازت دی ہے.مجھے اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے.جب آپ نے یہ اجازت دی ہے اپوزیشن پارٹی کے ایک عالم دین کو کہ وہ سوال کریں پھر مجھے بھی اجازت ملنی چاہئے کہ میں اپنا قائمقام ڈیلی گیشن کے کسی ممبر کو مقرر کروں اور میں مولا نا ابوالعطاء صاحب کو جو پر نسپل جامعہ احمد یہ رہے ہیں اپنا قائمقام مقرر کرتا ہوں.اب یہ لمحہ بڑا عجیب تھا.چونکہ وہ ساری سازش اس سے ختم ہوتی نظر آتی تھی لیکن فیصلہ ہو چکا تھا اور ملاں کا خیال تھا کہ حضور اس پر ڈٹے رہیں گے کہ میں جواب نہیں دوں گا، مولا نا ابو العطاء جواب دیں گے.اب جو رولنگ اسپیکر کی ہوتی ہے وہی حیثیت اس وقت چیئر مین کو حاصل تھی.چیئر مین نے اس وقت رولنگ یہ دی کہ کمیٹی کے ممبروں کی خواہش ہے کہ جب آپ امام جماعت احمد یہ ہیں.خود بنفس نفیس موجود ہیں اور جواب دے سکتے ہیں تو آپ ہی کو جواب دینا چاہئے.اب ملاں سمجھتا تھا کہ یہ موقع ایسا ہے کہ مرزا صاحب کبھی بھی جرات نہیں کریں گے اور آخر دم تک یہ کہتے رہیں گے کہ یہ نہیں ہو سکتا یا تو مولوی کو الگ کریں یا پھر میری طرف سے کوئی نمائندہ تجویز شدہ ہے، اس کو تسلیم کریں لیکن عجیب بات ہے کہ اس وقت بغیر کسی تامل کے حضور نے مائیک جو پہلے حضور کے سامنے تھا اور اب وہ مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب کے سامنے رکھا گیا تھا، اس کو خود اٹھایا اور اٹھانے کے بعد دوبارہ اپنے سامنے رکھا اور فرمایا کہ بالکل ٹھیک ہے.اگر ہاؤس یہی چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں ہی جواب دوں گا.اس موقع پر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب حضرت خلیفہ امسح الثالث کے بائیں طرف تشریف فرما تھے اور یہ عاجز ” حضرت خالد احمدیت کی اس کرسی پر تھا جس پر اس سے پہلے آپ وو تشریف فرما ہوتے تھے.تو یہ تبدیلی اس وجہ سے ہوئی تھی.کارروائی کی اشاعت پر پابندی کی حقیقت ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ 1974ء کی بھٹو حکومت نے قومی اسمبلی کی کارروائی کی اشاعت پر پابندی لگائی تھی.کیا ایسی پابندی تھی ؟

Page 81

65 مولانا دوست محمد شاہد صاحب: حق یہ ہے کہ خود بھٹو حکومت کی طرف سے سرکلرز کی شکل میں یہ روداد شائع کی جاتی رہی اور سینٹ اور قومی اسمبلی کے ممبروں کو با قاعدہ بھجوائی جاتی تھی.پابندی صرف یہ تھی کہ احمدیوں کو پتہ نہ لگے.جس طرح یہ پابندی تھی کہ جو وہاں پر روداد پیش کر رہے ہیں نہ وہ پریس میں جائے اور نہ احمدی اس کو ریکارڈ کریں.اسی طرح یہ جو شائع کی گئی وہ اس طریقے پر شائع کی گئی کہ اپنوں تک تو پہنچے اور احمدیوں کو خبر نہ ہو.مگر احمدیوں کی عظمت شان یہ دیکھیں کہ جب محضر نامہ کے متعلق بھٹو حکومت کی طرف سے درخواست کی گئی کہ آپ محضر نامہ بھجوائیں اور اس کے بعد ہم Cross Questions کریں گے.کتاب تاریخ انصار اللہ جو مکرم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب کی ابھی حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے، اس میں بیان ہے کہ حضور رحمہ اللہ سے پہلے کہا گیا کہ آپ محضر نامہ بھجوائیں.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا ہم پر بجائے اس کے کہ وہاں جرح کی جائے ، آپ ایک دن پہلے سوال بھجوا دیا کریں.ہم آپ کو جواب دے دیا کریں گے.میں کوئی سلسلہ کے لٹریچر کا حافظ نہیں ہوں.تو اس طرح بڑی آسانی کے ساتھ آپ کے سوالوں کا جواب آ جائے گا.انہوں نے کہا کہ نہیں محضر نامہ بھی لکھ کر بھجوائیں اور پھر محضر نامہ کے ساتھ جو کتابیں ہیں وہ بھی ہمیں پیک (Pack) کر کے بھجوائیں اور اس کے بعد ہم Cross Questions کریں گے.اب آپ سے میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی عظمت شان یہ تھی کہ محضر نامہ حکومت کے کہنے پر لکھا گیا اور اس کو شائع کیا گیا اور شائع کرنے کے بعد سید نا حضرت خلیفہ اصبح الثالث کے ارشاد کے مطابق وہ محضر نامہ جماعت احمدیہ نے سوائے سینٹ اور قومی اسمبلی کے ممبروں کے کسی کو نہیں دیا.حتی کہ ہم لوگ جو ڈیلی گیشن میں شامل تھے، کو بھی نہیں دیا گیا.حضور کے پاس تھا.اس حد تک جماعت نے اہتمام کیا کہ کوئی بھی ایسی صورت نہ ہو کہ فضا میں جو پہلے ہی اشتعال پیدا کر دیا گیا ہے مزید مکر رہو جائے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مولانا صاحب! یہ ابھی آپ نے فرمایا ہے کہ بھٹو حکومت کی طرف سے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی بلکہ سرکلر ز تو خود حکومت نے شائع کروائے تھے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.وہ سرکلر ز خود شائع کروا چکے تھے مگر چاہتے یہ تھے کہ یہ شائع

Page 82

66 شدہ چیز عوام کے سامنے نہ آئے.کہتے یہ تھے کہ عوامی فیصلہ ہے مگر عوام سے بھی بچا کر رکھتے تھے تا کہ عوام احمدی نہ ہو جائیں اور اس سلسلہ میں یہاں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ پابندی کا جہاں تک تعلق ہے یہ اس وقت سے پتہ نہیں کسی وجہ سے اس کو ایک وحی ربانی سمجھتے ہوئے لوگوں میں پھیلا دیا گیا ہے.ایک سازش کے تحت کہ حکومت نے پابندی لگائی ہے.حکومت تو خود اس کو صرف ممبران کمیٹی کے لیے شائع کر رہی تھی اور لرز رہی تھی کہ کہیں کسی اور کو پتہ نہ چل جائے.آپ کا جو سوال ہے میں اس کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں.آخری دن سوالات ختم ہوئے تو یکی بختیار صاحب نے جو اٹارنی جنرل تھے، کہا کہ مرزا صاحب! میرے سوالات تو ختم ہو چکے ہیں اب آپ کچھ فرما ئیں.جو حضور نے فرمایا وہ میں اپنے وقت پر بیان کروں گا.جب حضور اٹھ کر جانے لگے.میں بالکل ساتھ کھڑا ہوا تھا.حضور تشریف لائے اور ان کو الوداعی سلام کہا.اس موقعہ پر صاحبزادہ فاروق علی صاحب جو اس وقت قومی اسمبلی کے سپیکر تھے اس کا رروائی کے لیے پورے ہاؤس کو پیشل کمیٹی میں Convert کر دیا گیا تھا.تو اس کمیٹی کے چیئر مین بھی وہی تھے چیئر مین صاحب نے حضرت صاحب سے درخواست کی کہ جب تک ہم یہ روداد شائع نہ کریں، آپ خود بھی پبلک میں اس کے واقعات کو بیان نہ کریں.اس میں ہرگز یہ نہیں کہا گیا تھا کہ کوئی اور دوسرا شخص بھی بیان نہ کرے.چونکہ حضور لیڈ رتھے لاکھوں شیدائیوں کے اس واسطے ان کی طرف سے یہی درخواست تھی ، حضور ہی سے تھی کہ آپ اس کو Disclose نہ کریں.یہی وجہ ہے کہ حضور نے مجھے اجازت دی.میں کراچی میں اور بہت سارے مقامات میں حضور کے ارشاد کے مطابق گیا اور ان مجالس میں میں نے انہی دنوں میں کارروائی کی باتیں بتائی تھیں یہ حضور سے یہ بات کہی گئی تھی اور حضور نے اس کا اہتمام کیا ہے.حضور نے کبھی تفصیل نہیں بتائی.7 ستمبر کے فیصلہ کے بعد جب پہلا جمعہ آیا ہے تو حضور نے فرمایا کہ مجھے فیصلہ کے متعلق ساری دنیا کے احمدیوں کی طرف سے تبصرہ کرنے کے لئے کہا گیا ہے.میرے کان میں اب تک خدا کے اس شیر کے یہ الفاظ گونج رہے ہیں.حضور نے فرمایا No Comments.میں کوئی Comments نہیں کروں گا.اور پھر فرمایا کہ جس نے لنڈے بازار سے ایمان خریدا ہے اس کو تو فکر ہو سکتی ہے مگر جس نے اسلام اور ایمان عرش کے خدا سے خریدا ہے، اس کو کوئی غم کی ضرورت نہیں.

Page 83

67 اس وقت میرے دل و دماغ پر حضرت مصلح موعودؓ کا یہ شعر آ گیا.عشق خدا کی مے سے بھرا جام لائے ہیں ہم مصطفی کے ہاتھ اسلام لائے ہیں حکومت پاکستان کے شائع کردہ سرکلرز اور ریکارڈ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ سرکلر کل کتنے صفحات پر مشتمل تھے جو حکومت پاکستان کی طرف سے اراکین اسمبلی اور سینٹ کو دیے جا رہے تھے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.یہ ایک ہزار دوسوستر صفحات پر مشتمل ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اور کیا یہ سرکلر بعینہ اسی گفتگو پر مشتمل ہے جو وہاں پر کی گئی.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.بات یہ ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ پر فرمایا تھا کہ ایک شخص اپنے آقا کے ساتھ جارہا تھا.اس کا مالک گھوڑے پر سوار تھا.گڑھا آیا تو وہ گر پڑا تو اس نے آواز دی کہ مجھے اٹھا لو.اسی وقت اس نے جیب سے ملازمت کے جو شرائط تھے وہ پیش کئے کہ حضور اس میں یہ نہیں لکھا کہ جب آپ گر جائیں تو پھر آپ کو اٹھانا بھی میرے فرائض میں شامل ہے.تو یہ سارے کام For The Purpose Of The Law‘ نہیں تھے بلکہ اپنے اقتدار کی خاطر ہو رہا تھا.دنیا میں دراصل ڈھنڈورا پیٹنا تھا اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اس کے اوپر یہ ریمارکس دیے تھے کہ پنڈت نہرو کے مرنے کے بعد بھٹو صاحب کے دل و دماغ پر یہ خواب تھا کہ اب مجھے South Asia کا لیڈر بننا چاہئے.اور وہ چاہتے تھے کہ میرے عہد حکومت میں جو پہلا آئین تیار ہو وہ بالکل متفقہ اور متحدہ ، Unanimously ہو.تو ہر بات وہ اس رنگ میں کرتے تھے.یہ چیز تھی جو وہ دنیا میں بتانے کے لئے کر رہے تھے کہ ہم ڈیموکریٹک پالیسی پر عمل کر رہے ہیں.حکومت یہ سرکلر ز لکھتی تھی مگر ایک تو وہ بھی خلاصہ ہوتا تھا.آپ اس کو پڑھیں تو حیرت آتی ہے کہ قرآن کی آیتیں اس میں غلط ، حدیثیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارتوں کی عبارتیں غلط.حالانکہ سوال کیا گیا اور جو اشتعال پیدا کرنے کے لئے فتنے برپا کئے گئے.ان میں یہ بھی تھا کہ ”مرزائی قرآن مجید میں تحریف کر رہے ہیں.لیکن آپ اگر دیکھیں تو قرآن کی آیتیں

Page 84

68 تک اس میں بدلی ہوئی موجود تھیں.کیوں؟ دنیا کو صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ آپ کا جو مقصد ہے احمدیت کو ختم کرنے کا ، ہم کس طرح پورا کر رہے ہیں.عوام کو بتانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ عوام کی خاطر اور ان کے نام پر یہ کیا جا رہا تھا.آپ دیکھیں تو سینکڑوں غلطیاں آپ کو ملیں گی.اس واسطے اگر اسی شکل میں شائع کر دیا جائے تو دنیا کو پتا لگ جائے کہ اس کے لکھنے والے قرآن کے مخالف تھے.حدیث کے مخالف تھے.اور بانی جماعت کے مخالف تو تھے ہی.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اور اس کے علاوہ میرے علم میں ہے ، بہت سے اہم حوالے جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے غیر احمدی بزرگوں کے پڑھے، وہ بھی اس میں سے مکمل طور پر غائب کر دیئے گئے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.چار روز تک حضور نے جہاد کے مسئلہ پر بحث کی ہے اور وہ ان کتابوں میں جو غیر احمدی علماء نے شائع کی ہیں ، چند صفحوں میں آجاتی ہے.میں آپ کو ابھی یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں یہودیوں نے تحریف کی اور ریکارڈ تحریف کی.قرآن مجید نے اس کو بتایا ہے.مگر بیسویں صدی ہی نہیں میں کہتا ہوں کہ یہودیوں کی تاریخ میں بلکہ دنیا کی تاریخ میں اتنی بڑی تحریف نہیں کی گئی جو ان حالات کی اشاعت میں بعض حلقوں کی طرف سے کی گئی ہے.قصہ صرف یہ تھا کہ یہ جوسرکر ز تھے یہ مفتی محمود صاحب جو دیوبندی مسلک کے تھے اور نورانی صاحب کو یا پروفیسر غفور صاحب، ان سب کو تو با قاعدگی کے ساتھ جارہے تھے ہمیں تو اس بارے میں بتایا ہی نہیں گیا.میں نے بھی جو حاصل کیا ہے وہ مکرم ومحترم چوہدری انور حسین صاحب شیخو پورہ، اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے ، کے پیپلز پارٹی کے ایک دوست تھے جو کہ اس وقت پارلیمنٹ کے ممبر تھے، ان کے ذریعہ سے حاصل کیا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے دوسرے ذرائع سے حاصل کیا ہے.تو یہ ساری چیزیں ان کے پاس موجود تھیں.ان علماء نے ایک طرف تو یہ کہا اس پر پابندی لگی ہوئی ہے دوسری طرف یہ کیا کہ دنیا کو تو پتا نہیں ہے کہ یہ سرکلر ز موجود ہیں.اب کوئی شخص بھی یہ 1277 صفحات کے سرکلر ز کو لے کر دیکھے تو اسے پتا لگے گا کہ چار گھنٹے کی بحث یا چار دنوں کی بحث کو ان حضرات نے اس خلاصے میں سے خلاصہ کر کے دو سطریں اس میں شامل کر دی ہیں اور پھر اپنے مطلب کا اضافہ کر دیا ہے.لیکن جہاں تک تعلق ہے اسمبلی کے فیصلے سے پہلے اٹارنی جنرل کی تقریر کا وہ

Page 85

69 69 انہوں نے لفظاً لفظا دے دیا ہے کیونکہ وہ چیز Totally جماعت کے خلاف تھی.باقی سارے حصے میں ہر چیز کو سخ کیا گیا ہے.حالانکہ فل سٹاپ، سیمی کولن، Punctuation جو ہے اس کا خیال رکھنے کے نتیجے میں مضمون الٹ جاتا ہے.بڑی مشہور بات ہے آپ اگر ایک بات پر فل سٹاپ لگائیں کہ روکو.مت جانے دو.اگر روکو کے بعد (.) ڈیش کو Omit کر دیں اور مت کے بعد اضافہ کریں تو بنے گا کہ روکو مت.جانے دو.مضمون بدل جاتا ہے.تو تحریر تو ایسی چیز ہے کہ Punctuation میں سے سیمی کولن ، فل سٹاپ کسی کو بدلنے سے مضمون ہی بدل جاتا ہے.اور یہاں تو یہ ہے کہ جو لکھا گیا وہ خلاصہ تھا.لکھنے والے قرآن سے ناواقف تھے.لکھنے والے حدیث سے ناواقف تھے.لکھنے والے حضرت مسیح موعود کے کلام سے ناواقف تھے.عربی عبارتیں کہاں جانتے تھے.قرآن کہاں جانتے تھے.یہ تو صرف اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے اور بتانے کے لئے کہ ہم نے تو جمہوریت کا راستہ اختیار کیا ہے.ہم ہیں جو کہ جمہوریت کے چیمپیئن ہیں.یہ سارا قصہ تھا.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.ان سرکرز میں میری نظر سے ایسا بھی گزرا ہے کہ جہاں بعض جگہ عربی عبارت نہیں لکھ سکتے تھے اور وہ نابلد تھے تو لکھ دیا کہ آگے عربی“.اصل حوالہ کو مکمل طور پر Omit کر دیا گیا.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.آپ اس کو دیکھیں اول تو پتا چلے گا کہ انتہائی ناقص خلاصہ ہے.جس میں قرآن کو بدل دیا گیا.محمد رسول اللہ ﷺ کی احادیث کو بدل دیا گیا.ایسے گستاخ لوگ تھے یہ جنہوں نے مرتب کیا.اس کو لے کر جن لوگوں نے شائع کیا ہے کہ ہم نے یہ اسمبلی کا نچوڑ نکالا ہے وہ اس میں رد و بدل کر کے، اضافے کر کے ع کچھ بڑھا بھی لیتے ہیں زیب داستاں کے لئے اس کو بہت بڑھایا اور جو اصل حقیقت تھی اس کو بالکل ختم کر دیا اور دنیا کو یہ بتایا کہ دیکھیں مرزائیوں کے جو لیڈر تھے انہوں نے اسمبلی میں جو کیس پیش کیا اس میں وہ نا کام ہو گئے.حیرت آتی ہے کہ کس قماش کے انسان ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے کیا گیا.(انا لله و انا اليه راجعون)

Page 86

70 70 حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.اس صورتحال میں جبکہ سرکلر ز کی صورت میں حکومت نے خود بھی شائع کیا اور سرکلرز میں بھی تحریف کی گئی اور دوسری طرف حکومت کا یہ دعویٰ تھا کہ عوامی حکومت نے نوے سالہ مسئلہ حل کیا ہے تو کیا درست صورتحال کو چھپنا چاہئے؟ اس عوامی فیصلہ کو عوام کے سامنے آنا چاہیے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ بالکل اخلاقی طور پر واجب ہے کہ جو فیصلہ عوام کی خاطر کیا گیا ہے وہ عوام کے سامنے آنا چاہئے.جس بناء پر کیا گیا ہے اس کو بھی واضح ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جو صیح معنوں میں منصف ہواس کا فرض ہے کہ جو گواہ ہیں ان کے بھی بیانات کو پوری طرح لکھے.مدعی کے بیانات بھی اسی کے الفاظ میں آنے چاہئیں اور اس کے سامنے مدعا علیہ کے بھی.پھر Cross Questions ہوں، پھر جو صفائی کے گواہ ہیں وہ ، پھر صفائی کا وکیل جو کچھ کہ رہا ہے وہ ، پھر لکھنے کے بعد اور تنقیحات قائم کرنے کے بعد ، اپنے فیصلہ میں لکھے کہ فلاں فلاں امور فلاں نے بیان کئے.یہ حقائق کے مطابق ہیں اور فلاں چیزیں اس کے متضاد ہیں اور حقائق کے خلاف ہیں.اس حساب سے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں تب جا کر فیصلہ ہوتا ہے.دنیا میں آج تک یہ کبھی بھی نہیں ہوا کہ کسی مقدمہ میں کسی جج نے صرف اتنا فیصلہ کیا ہو کہ میں اس کو اتنے ہزار جرمانے کی سزا دیتا ہوں یا قید کی سزا دیتا ہوں.وہ با قاعدہ تنقیحات قائم کر کے، صفائی کے گواہ ، ملزم کے بیانات ، سب چیزوں کو لے کر، ان کو پیش نظر رکھ کر، بحث و تمحیص سامنے رکھ کر پھر اپنے نقطۂ نگاہ کو واضح کر کے کہتا ہے کہ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ ملزم ہے اور اس الزام کے لحاظ سے، فلاں سیکشن کے لحاظ سے، قانون کے لحاظ سے اس کو یہ سزا ہونی چاہئے.مگر عجیب بات یہ ہے کہ یہ جو فیصلہ کیا گیا اس میں تو بنیاد ہی نہیں ہے.اس میں یہ لکھا ہی نہیں گیا کہ ہم اس نتیجہ پر کیوں پہنچے ہیں اور فیصلہ سنادیا گیا.یہ سکھا شاہی کے زمانے میں بھی کبھی نہیں ہوا.اور سب سے بڑی مصیبت یہ ہوئی کہ جن عوام کے نام پر کیا گیا ان کو اس وقت بھی محروم رکھا گیا تو میں سمجھتا ہوں کہ حق اور انصاف کا تقاضا ہے اور ہم تو چاہتے ہیں کہ دنیا کے سامنے چیز آئے.ہماری تو اب بھی خواہش ہے کہ وہ شائع کرنے کی بجائے جس طرح کہ میں اس وقت M.T.A کے ذریعے سے آپ حضرات سے مخاطب ہوں وہ ہمیں دے دیں ، ہم اسے M.T.A پر

Page 87

71 نشر کر دیں گے.اب زمانہ پڑھنے کا اتنا نہیں رہ گیا سنے کا زمانہ زیادہ ہے.تو خدا کرے کہ وہ بھی دنیا کے سامنے آجائے.کارروائی کے ریکارڈ کی موجودہ صورتحال ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.1974ء میں جو کارروائی ہوئی وہ In Camera یعنی خفیہ ہوئی ، کیا اس کی ویڈیوٹیپ یا آڈیو ٹیپ، حکومت کے پاس موجود ہیں اور کیا جماعت احمدیہ کو ایسا حق دیا گیا تھا کہ وہ بھی اس کو ریکارڈ کر سکے.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.جماعت احمدیہ کو ہر حق سے محروم کیا گیا تھا.میرے پاس کا پیاں موجود ہیں.مجھے صرف یہ اجازت تھی کہ جو اعتراض کیا جائے وہ میں ان میں لکھوں تا کہ حضور کی خدمت میں اس کے مطابق حوالے اور اصل کتابیں پیش کر سکوں اور حضورا گلے دن اس کا جواب دیں.اس کے سوا کسی قسم کے ریکارڈ کی ہمیں اجازت نہیں تھی.وہ ریکارڈ جو انہوں نے کیا اور اپنے پاس رکھا پھر بھٹو صاحب کے زمانے میں ایک اعلان کیا گیا کہ ظفر انصاری صاحب کو مقرر کیا گیا ہے کہ اس کو دوبارہ صاف کر کے اور غلطیاں ٹھیک کریں اور پھر اس کی اشاعت کا سامان کیا جائے.تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مجھے ارشاد فرمایا کہ پیکر کے نام چٹھی لکھی جائے کہ جماعت احمد یہ اس میں فریق ہے اس واسطے یہ جب Revision کی جائے تو اس میں ہمارا نمائندہ بھی ہونا چاہئے مگر آج تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.ان کے پاس آڈیو کیسٹس موجود تھیں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.جو کیسٹیں تھیں اب ہیں یا نہیں ہیں؟ یہ تو اب اسمبلی کے رہنے والے ہی جانتے ہیں کیونکہ مقصد تو عوام کے نام پر احمدیوں کے خلاف ایک نیا کلمہ بنا کر ملا کے ظلم و ستم کو قانونی تحفظ دینا تھا.اس کے سوا تو کوئی بات نہیں تھی تو انہیں اس سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی کہ وہ قائم رہے یا نہ رہے بلکہ جیسا میں نے اشارہ کیا ہے کہ محضر نامہ جب لکھا گیا تو یہ حکم تھا کہ آپ اپنا کیس پیش کریں اور ساتھ کہا کہ ہم اس کو دیکھیں گے.ہر کتاب اصل بھی ساتھ ملنی چاہئے.جس کتاب کا حوالہ ہے خواہ ایک سطر بھی ہے.وہ بھی ساتھ رکھی جائے.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود

Page 88

72 کی کتابیں بھی ہمیں دی جائیں.یہ اسمبلی کی طرف سے مطالبہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا مکمل سیٹ حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب نے نظارت اصلاح وارشاد کی طرف سے پیش کیا اور جہاں تک محضر نامہ کا تعلق ہے، تئیس بنڈلوں میں میں نے وہ ساری کتابیں دوسرنکوں میں مولانا عطاء الکریم شاہد صاحب ابن حضرت مولانا ابو العطاء جالندھری صاحب کے ساتھ مل کر جمع کروائیں.جب اسمبلی کے اجلاس ختم ہوئے.فیصلے ہو گئے تو ہم کتابیں لینے کے لئے گئے تو میں نے دیکھا کہ ان کے اوپر گردوغبار پڑا ہوا ہے، جالا لگا ہوا ہے.جب ہم مسکرائے تو ہمیں دیکھ کر کہنے لگے کہ مولانا اللہ کا فضل ہے کہ دیکھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی.جب اس قسم کی حالت ہو تو وہ کیسٹ ہیں یا نہیں؟ یہ ان سے پوچھنا چاہئے.ہاں یہ بات میں بتانا چاہتا ہوں کہ ساری کارروائی میں یہ ضرور یاد رکھیں.ایک تو میں پہلے بتا چکا ہوں اور دوسرا یہ شعر ضرور یادرکھنا چاہئے جو فیض احمد فیض صاحب کا ہے.بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی کے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں تو وکیل بھی خود تھے.فتنہ برپا کرنے والے بھی خود تھے.خود ہی وکالت بھی کرنے والے تھے اور انصاف بھی کرنے والے تھے.کارروائی کا مختصر خاکہ حافظ محمد نصر اللہ صاحب : مولانا صاحب! اسمبلی کی کارروائی کے آغاز سے آپ اگر مختصراً ہمیں ایک Outline بتادیں کہ تیرہ ن میں کیا کیا ہوا محضرنامہ جماعت کی طرف سے پیش کیا گیا پھر اس کے بعد سوال و جواب ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث پر.تو اگر دنوں کے حساب سے ہمیں ایک Outline بتادی جائے تو سہولت رہے گی.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.تاکہ پھر ہم اس کے مطابق سوالات کر سکیں.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.میرے پاس وہ کاپی ہے جو میں سوالات کے لکھنے اور

Page 89

73 کارروائی کے اشاروں کے لئے لے کر جا تا تھا.اس کے شروع میں میں نے وہ تاریخیں لکھی ہیں.میں وہ عرض کر دیتا ہوں.تیرہ دن تھے جن میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث پیغام حق کو پہنچانے کے لئے تشریف لے گئے.پہلے دو دن تو 22 ،23 جولائی 1974ء کے ہیں.جن میں حضور نے مکمل محضر نامہ پیش فرمایا اس کے بعد پھر گیارہ دن ہیں جن میں سوال و جواب ہوئے اور وہ تاریخیں میرے اس ریکارڈ کے لحاظ سے 5 اگست، 6 اگست، 7 اگست، 8 اگست، 9 اگست (9 کو جمعہ تھا لیکن کارروائی جاری رہی ) پھر 10 اگست ہے.پھر 11 سے 19 تک وقفہ تھا.پھر آخر میں 20 اگست، 21 اگست، 22 اگست، 23 اگست کو بھی جمعہ تھا مگر کارروائی جاری رہی اور آخری دن 24 اگست 1974ء جبکہ آدھی رات کے قریب.تقریباً دس گیارہ بجے کے قریب، یہ کارروائی ختم ہوئی اور یہ تقریب باون گھنٹے بنتے ہیں جس میں کہ حضور پر جرح کی گئی اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی زبان مبارک پر خدا کی تائید سے،فرشتوں کی تائید سے حق و معرفت کے وہ دریا جاری ہوئے کہ سننے والے دنگ رہ گئے.یہ الگ بات تھی کہ فیصلے پہلے ہو چکے تھے.حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.پھر 24 اگست سے 7 ستمبر تک کیا ہوا؟ فیصلہ تو 7 ستمبر کوسنایا گیا.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.یہ جو تیرہ دن تھے ان کے متعلق تو میں بتا چکا ہوں ٹکٹیں ان دنوں کے لئے تھیں ہمارے پاس.تو میں یا وفد کے دوسرے ممبران تو ان تیرہ دنوں کے متعلق ہی کچھ بیان کر سکتے ہیں.تو باقی کس طرح پر خصوصی کمیٹی میں سازشیں کی گئیں.کیا انداز اختیار کیا گیا اور پھر آخر میں بیٹی بختیار نے اٹارنی جنرل کی حیثیت سے پورے ایوان کو بتایا.وہ رہبر کمیٹی اور پھر پورا ایوان اس خصوصی کمیٹی میں اکٹھا ہو گیا.پھر خصوصی کمیٹی کی طرف سے پوری ترجمانی کرنے والے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار صاحب تھے اور ان کے بعد پھر بھٹو حکومت کی طرف سے وہ قرارداد پیش کی گئی اور پھر اس پر بھٹو صاحب نے تقریر کی.اس کا علم تو کارروائی چھپنے پر ہی ہوسکتا ہے! ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.وہ قرارداد تو عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب نے پیش کی تھی.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.وہ میں پیش کر چکا ہوں.قرار داد پیش کرنے والے کے لیے جو خصوصی کمیٹی کے اندر ایک کمیٹی تھی، قرارداد ان کی طرف سے پیش ہوئی تھی.

Page 90

د محضر نامه 66 74 حافظ محمد نصر اللہ صاحب : جماعت احمدیہ کی طرف سے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے محضرنامہ پیش کیا گیا جسے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے دو دنوں میں پڑھ کر سنایا.اس کی تفصیل اگر آپ بیان فرمائیں؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب : محضر نامہ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت پہلے تو یہ حضور نے فیصلہ کیا، کیونکہ چند دن کے اندر اندر فوری طور پر یہ حکم دیا گیا بھٹو گورنمنٹ کی طرف سے کہ اپنا محضر نامہ پیش کریں.اللہ تعالیٰ نے بڑی تائید فرمائی اور چار پانچ دن کے اندر اندر خدا نے ایسے سامان کئے کہ حضور کی راہنمائی میں یہ تیار ہوا.اس کی ایک کاپی رکھی گئی اور جمع کرانے کے لئے اصل کا پی جو تھی یعنی اس اصل مسودے کو کاتب نے لکھا.کتابت شدہ حصہ پورے کا پورا لکھ کر اس کی فوٹو لی گئی اور وہ کتابت شدہ حصہ اسمبلی میں داخل کرانے کے لئے عین موقعہ پر جناب محمد شفیق قیصر صاحب مرحوم تشریف لے گئے تھے.انہوں نے وہ جمع کرایا اور اس کے بعد میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور گورنمنٹ کے لحاظ سے تو ہم نے ان کو پہنچا دیا ہے مگر ہمیں تو ہر ممبر سینٹ کا ہو یا قومی اسمبلی کا ان تک یہ بات بھی پہنچانی ہے تو اگر حضور اید کم اللہ اجازت دیں تو کم از کم اتنی تعداد میں ضرور شائع کر دیا جائے جو کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبروں تک پہنچ جائے.حضور نے اس کو بہت پسند فرمایا اور حکم دیا کہ ایک دن کے اندر اندر اس کو شائع کر دیا جائے.دن رات ایک کر کے پھر اتنی کا پیاں جتنی تقسیم کی جانی تھیں، شائع کی گئیں.(حضور کا منشاء مبارک تھا چونکہ یہ معاملہ اسمبلی میں ہے.اس واسطے اپنوں کو بھی دینے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے صرف حضور کے پاس اس کی کاپی تھی.وفد کے ممبروں کو بھی نہیں دی گئی.کئی سال کے بعد میں نے یہ محضر نامہ، جس کے اوپر لکھا ہوا تھا کہ شائع کردہ ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان کہیں سے حاصل کیا.اب دوسرا ایڈیشن تو اسلام انٹرنیشنل پبلیکشنز لمیٹڈ کی طرف سے شائع شدہ ہے، بہت نفیس ہے مگر پہلا ایڈیشن جو ہے اس کے ٹائٹل پیج پر لکھا گیا تھا کہ ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی طرف سے شائع کیا جارہا ہے.

Page 91

75 محضر نامہ کی تیاری ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مولانا ! جماعت احمدیہ کی طرف سے جو محضر نامہ تیار کیا گیا اس کی تیاری کن مراحل سے گذری؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.اس میں صرف میں اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اصل تو راہنمائی حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تھی.حضور نے اس کام کو مکمل کرنے کے لئے جو کمیٹی تجویز فرمائی اس کے سر براہ میرے پیارے آقا سیدی حضرت مرزا طاہر احمد صاحب تھے اور دوسرے ممبر حضرت مولانا ابو العطاء صاحب تھے، پھر خاکسار تھا.محضر نامہ ایک جامع اور مختصر دستاویز تھی جو ایوان میں رہبر کمیٹی کی فرمائش پر ناظر اعلی ، صدرا انجمن احمد یہ پاکستان حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ جو ہمارے امام ہمام عالی مقام اور دین حق کی روحانی افواج کے سپہ سالار حضرت خلیفہ مسیح الامس ایدہ اللہ بنصر العزیز کے والد ماجد تھے.ان کی طرف سے کمیٹی کو بذریعہ محترم محمد شفیق قیصر صاحب پیش کیا گیا تھا.جس کے بعد سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نور اللہ مرقدہ نے راقم الحروف کی درخواست کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے اس کو چھپوانے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی.چنانچہ حضور کے ارشاد پرسیدی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ نے دفتر وقف جدید میں اپنی نگرانی میں اس کی عمدہ کتابت کروائی اور نہایت اہتمام کے ساتھ ضیاء الاسلام پریس ربوہ سے اور سر ورق نصرت آرٹ پریس ربوہ سے طبع کرایا.یه مطبوعه محضر نامہ نیشنل اسمبلی اور سینٹ کے سب معزز ممبروں کی خدمت میں بھی پہنچا دیا گیا.یہ محضر نامہ جس میں مسٹر بھٹو وزیراعظم اور ان کی پیپلز پارٹی اور حزب مخالف کے ارکان پر نا قابل تردید براہین اور دلائل کے ساتھ حجت تمام کر دی گئی تھی ، ہر سعید الفطرت اور حق کے طلب گار پر یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ آج صرف احمدی ہی آسمانی دفتر میں حقیقی مسلمان ہیں.خدا تعالیٰ سے والہانہ تعلق، قرآن مجید سے وابستگی اور خاتم النبین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ سے عدیم المثال عشق اور فدائیت احمدیوں کی پہچان ہے.وہی قرآن وحدیث ، بزرگان سلف کے بیان فرمودہ ان سب معانی ختم نبوت کو دل سے تسلیم کرتے ہیں جن سے آنحضرت ﷺ کی شان دوبالا ہوتی ہے.مگر

Page 92

76 16 جس تشریح سے حضرت مسیح علیہ السلام کو خاتم النبین یا غیر مشروط طور پر آخری نبی تسلیم کرنا پڑے وہ اسے ہرگز ہرگز تسلیم نہیں کر سکتے.خواہ انہیں آروں سے چیرا جائے اور خنجروں سے ذبح کر دیا جائے یا زندہ آگ میں جلا دیا جائے.محضر نامہ کے ماخذ دنیا میں آج حامل قرآن کون ہے گر ہم نہیں تو اور مسلمان کون ہے حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.مولانا اس عظیم الشان محضر نامے میں جو حوالے پیش کئے گئے.ان کا ماخذ کیا تھا؟ لٹریچر کے حوالے سے کچھ تفصیل بیان فرمائیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.میں عرض کرنا چاہتا ہوں رہبر کمیٹی کی خصوصی ہدایت پر محضر نامہ میں شامل جملہ حوالوں کے اصل ماخذ اور بنیادی لٹریچر جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا پورا سیٹ شامل تھا، اسمبلی میں جمع کرانا ضروری تھا.یہ لٹریچر زیادہ تر خلافت لائبریری ربوہ سے فراہم کیا گیا.روحانی خزائن کا سیٹ مولا نا عبد المالک خان صاحب ناظر اصلاح وارشاد نے عطا فرمایا اور کچھ کتابیں اور رسائل جن کی تعداد بائیس کے قریب تھی ، خاکسار نے اپنی ذاتی لائبریری سے پیش کیں جو بالکل نایاب تھیں.میں ضمناً اتنا ضرور بتا دیتا ہوں کہ یہ کتابیں، محضر نامے کی کتابیات جس کو Bibliography کہتے ہیں، دی گئیں ان کی تعدا در جسٹروں اور رسالوں سمیت، قریباً ایک سو ہیں نبنتی ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اگر وہ نام بتا دیئے جائیں تو مناسب ہوگا.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.اس فہرست میں کتاب کا پورا نام، ایڈیشن ، سن ، صفحہ کتاب، پھر یہ بتایا گیا کہ محضر نامہ کا جو صفحہ ہے اس میں کون کون سی کتابوں کے حوالے دیئے ہیں.اس کے مطابق ساتھ ساتھ تشریح کی گئی.میں عرض کر دوں یہ کتابیں تئیس بنڈلوں میں تقسیم کر کے اور دوصند وقوں میں جمع کر کے قومی اسمبلی میں ان کو پہنچائی گئی تھیں اور اس وقت مولانا عطاء الکریم

Page 93

77 صاحب شاہد ابن خالد احمدیت حضرت مولانا ابو العطاء صاحب اور مولوی دین محمد شاہد صاحب جو اس وقت مربی سلسلہ راولپنڈی تھے ، میرے ساتھ تھے.دفتر سے با قاعدہ رسید لی گئی جو میرے پاس محفوظ ہے.ان کے علاوہ خلیفہ صباح الدین صاحب اور مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب کے ولی عہد، منیر الحق صاحب قائد خدام الاحمدیہ بھی تھے.ایک پوری پارٹی مجاہدانہ شان کے ساتھ لگی رہتی تھی ، ان کی قیادت تھی اس وقت اللہ تعالیٰ جزائے عظیم بخشے.اسمبلی میں جمع کروائی گئی کتب ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مولانا آخر میں اس قیمتی علمی خزانہ میں شامل ان کتابوں کی فہرست بتا دیجئے جو محضر نامے کے ساتھ اسمبلی میں جمع کروائی گئی تھیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.اصل محضر نامہ آپ دیکھیں کہ کتنی محنت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید کے ساتھ مرتب ہوا تھا.قرآنی فیصلے“ جلد اول وو وو مزاج شناس رسول از غلام احمد پرویز حقیقت جہاد از مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اسباب بغاوت ہند از سرسید احمد خان دلائل السلوک سید عطاء اللہ شاہ بخاری از شورش کاشمیری اقبال اور ملا از ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم حیات طیبه از جناب مرزا حیرت دہلوی دیوبندی مذہب بخاری شریف صحیح مسلم

Page 94

78 ر پورٹ آف دی کورٹ آف انکوائری 1954ء مختصر سیرت رسول از حضرت محمد بن عبدالوہاب دستوری سفارشات پر تنقید از مولانا ابوالاعلی مودودی البحر المحیط از محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان الاندلسی المفردات فی غریب القرآن از علامہ راغب اصفہانی ( مشہور عالم لغت قرآن ہے) تغییر اتمی “ یہ شیعہ لٹریچر میں بے مثال تفسیر ہے ) الحكم 1901ء آفتاب نبوت از مولانا محمد طیب ( حضرت مولانا قاسم نانوتوی صاحب کے پوتے ہیں) ابن ماجه الشہاب علی البیضاوی تصدیق النبی ( یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ مضمون ہے جو کہ ایک عیسائی کے تین وہ سوالوں کے جواب میں تھا ( یہ چار سوالوں کے جواب بعد میں چھپے ہیں.) یہ ابھی ابتدائی ایام میں چھپا اور انجمن حمایت اسلام نے اس کو شائع کیا تھا.تو اس کو تصدیق النبی“ کے نام سے کتاب گھر قادیان سے شائع کیا گیا ) ” ملفوظات جلد اول ملفوظات جلد سوم *1904"," ’الحام‘1905ء تاریخ اقوام عالم از مرتضی احمد خان میکش اشاعۃ السنة “.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی ادارت میں چھپنے والا رسالہ موضوعات کبیر از علامہ علی القاری ترجمه اردو کنوز الحقائق از حضرت علامہ مناوی سوانح احمدی از مولا نا محمد جعفر تھانیسری

Page 95

79 70 تکملہ مجمع الجار از حضرت محمد طاہر گجراتی البدر قادیان ظفر علی خان کی گرفتاری از حبیب الرحمن خان کا بلی فتویٰ علماء اسلام از انجمن اسلامیہ پنجاب لاہور ( یہ وہی فتویٰ ہے جس میں لکھا ہے کہ مرزائیوں کی اولا دکو بھی اور انہیں بھی کتوں کی طرح گڑھوں میں ڈال دیا جائے ) اشارات فریدی از حضرت خواجہ غلام فرید صاحب نصرة الابرار از مولوی محمد صاحب (جس میں انہوں نے کھلے لفظوں میں کہا ہے کہ انگریزی حکومت کے خلاف جہاد حرام ہے ) در تبلیغ رسالت، جلد ششم ہشتم اشاعة النت جلدے سلسلہ احمدیہ از قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب.حرف محرمانہ از ڈاکٹر غلام جیلانی برق فتنہ ارتداداور پولیٹیکل قلابازیاں از مفکر احرار چوہدری افضل حق دو صاعقه ربانی برفتنہ قادیانی از سمیع فاروقی اظہار مخادعت مسلمه قادیانی از مولوی عبدالاحد خانپوری حسام الحرمین از مولانا احمد رضا خان بریلوی فتاوی شریعت غراء" شرعی فیصلہ تحریک قادیان‘ مصنفہ سید حبیب صاحب مدیر سیاست الحیات بعد الممات ( یہ مولانا سید نذیرحسین صاحب دہلوی کی سوانح حیات ہے ) ”ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک از مسعود عالم ندوی تاریخی حقائق یہ بریلوی عالم کی کتاب ہے صراط مستقیم از حضرت شاہ اسماعیل صاحب

Page 96

80 60 رد قول الجاهلين في نصر المؤمنين از زبدة المحدثين والمفسرین مولوی محمد صدیق نیشاپوری ہفت روزہ ترجمان اسلام 31 مارچ 1972ء روز نامہ زمیندار 21 اکتوبر 1945ء ہفتہ وار رضوان، چکڑالویت نمبر الشہاب الثاقب مولوی حسین احمد صاحب مدنی ( بریلوی حضرات نے یہ تحقیق کی ہے کہ ٹانڈوی کہلانا چاہئے ان کو.یہ ٹانڈہ میں پیدا ہوئے تھے.مدنی اس لئے کہلاتے ہیں کہ مدینہ میں کچھ عرصہ تک رہے.اب یہ حیرت کی بات ہے کہ کوئی شخص اگر مدینہ دو چار سال رہ آئے تو پھر وہ مدنی کہلاتا ہے.ایک طرف یہ بات ہے دوسری طرف ہمیں قادیانی کہتے ہیں.حالانکہ میری پیدائش قادیان میں نہیں ہوئی تھی.) وہابیہ دیوبندیہ کی نسبت علماء کا متفقہ فیصلہ الملفوظ حصہ دوم مرتبہ مولانا شاہ مصطفیٰ رضا خان انتظام المساجد باخراج اہل الفتن والمكائد والمفاسد (یہ مختلف کتابوں کا مجموعہ ہے) ہفت روزہ ” زندگی 10 نومبر 1969ء (جس میں کہ مفتی محمود صاحب کا فتویٰ ہے کہ مودودی صاحب دائرہ اسلام سے خارج ہیں.ان کا ایک اور فتویٰ مجھے یاد آیا.انہوں نے کہا کہ اگر کسی مودودی کی قبر کے اوپر گھاس اگ آئے اور کوئی گائے یا بکری اس کو کھا جائے تو اس کا گوشت بھی حرام ہے.اس کا دودھ بھی حرام ہے.سبحان اللہ جو انڈسٹری ہے فتویٰ سازی کی اس کو climax تک پہنچا دینے کا کیسا شرف حاصل ہے ان افراد کو !! ) قرآن مجید مترجم از شیخ الہند مولانا محمود الحسن و شبیر احمد صاحب عثمانی (اسی میں یہ لکھا ہے خاتم النبین کے متعلق کہ آنحضرت کے نبیوں کی مہر ہیں اور اس کے معنی یہ ہیں کہ جتنے نبیوں کو نبوت ملی محمد رسول اللہ کی مہر لگ کر ملی ) حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب‘ از مولوی احمد علی صاحب وو غلام احمد پرویز کے متعلق علماء کا فتوی رد الرفضه از احمد رضا خان بریلوی صاحب ماہنامہ طلوع اسلام مئی 1953 ء ( اس میں وہ اشتہار تھا کہ مطالبات.دیو بندی امت کو اسلام سے خارج

Page 97

81 قرار دیا جائے.1953ء میں جو کراچی میں شائع کیا گیا تھا) مرزائیت نئے زاویوں سے “ از مولوی محمد حنیف ندوی صاحب وو المنتظر “ (سید امامیہ فرقہ کا تر جمان ہے) انوار الصوفیہ جلد 7 ستمبر 1911ء اور جلد 11 اگست 1915ء ( یہ مولوی سید جماعت علی شاہ صاحب کا ترجمان رسالہ نکلتا تھا.) د شمع تو حید از مولوی ثناء اللہ مے خانہ درد از ناصرنز بر فراق حضرت خواجہ میر در رحم الله علیه ی سواری) سلک السير في نظم الدرر مصنفہ علامہ دہر و فہامہ عصر اعتصم باللہ ملا صفی اللہ صاحب ( یہ پیر کوٹھہ شریف کے متعلق ہے ) وو وو قلائد الجواہر ( حضرت شاہ سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی سوانح ہے) چٹان لاہور.شورش کا شمیری کا رسالہ ار شادر حمانی فضل یزدانی ( یہ درویش پریس دہلی سے چھپی ہے) گلدستۂ کرامات حضرت پیران پیر عبدالقادر جیلانی کی سوانح کا ترجمہ ) تقویۃ الایمان از حضرت شاہ اسماعیل شہید اقتراب الساعة‘ از مولانا نورالحسن خان تجدید و احیائے دین از ابوالاعلیٰ مودودی روداد جماعت اسلامی حصہ پنجم ر مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش از ابوالاعلی مودودی ترجمان القرآن“ جنوری فروری 1945ء سوانح عمری حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنوی اثبات الالهام والبيعة تر جمان وہابیہ از نواب صدیق حسن.ترجمان افغان جلد 31

Page 98

88 82 نظام ربوبیت از غلام احمد پرویز فردوس گم گشته از غلام احمد پرویز خدا اور سرمایہ دار از غلام احمد پرویز اشاعت القرآن ( یہ چکڑالویوں کا رسالہ تھا) سولہویں بنڈل میں یہ شامل کیا گیا.دوسنی شیعہ اتحاد کے لئے مخلصانہ اپیل از محمد دین صاحب بٹ لنڈا بازار لاہور (جس میں انہوں نے کہا ہے حضرت یزید خلیفہ برحق تھے اور امام حسین کا کوئی حق نہیں تھا کہ ان کے خلاف جنگ کرتے ) دو نوادرات“ از اسلم جیراجپوری غنیۃ الطالبین از حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ ظہور علی بمقام قاب قوسین از مبلغ اعظم محمد اسماعیل صاحب بانی درس آل محمد ( اس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ قاب قوسین میں جب رسول اللہ پہنچے تو حضرت علی اس وقت رونق افروز تھے.) قاطع الانف الشيعة الشنيعة".( یہ کتاب پشاور سے شائع ہوئی.اس میں شیعوں کے اصل عقائد بیان کئے گئے ہیں.مگر شیعوں کے احتجاج کی وجہ سے گورنمنٹ انگریزی نے اس کو ضبط کر لیا تھا.) وو تحفة العوام مواضع مباہلہ الفروع من جامع الکافی ( یہ سب شیعہ حضرات کا لٹریچر ہے ) ازمحمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی الرازی فتاوی رشیدیہ ( یہ مولانا رشید گنگوہی صاحب کے فتاوی ہیں ) ”رسالہ طوفان ( یہ بریلوی حضرات کا رسالہ تھا 23 مارچ 1956ء) الفضل (رجسٹر مختلف تواریخ کے ) آفاق «تسنیم“ کی فائلیں رئیس الاحرار از عزیز الرحمن جامعی ( جو انہوں نے اپنے والد حبیب الرحمن صاحب کی جن کو انہوں نے رئیس الاحرار کہا ہے، سوانح لکھی ہے اور یہ دتی سے چھپی ہے )

Page 99

83 حجتہ الاسلام از علامہ محمد قاسم نانوتوی تحذیر الناس از علامہ محمد قاسم نانوتوی (اس میں حضرت مولانا قاسم نے کہا ہے کہ آخری نبی معنی کرنا یہ عوام کے معنی ہیں اصل معنی یہ ہیں کہ باقی نبی امتیوں کے باپ تھے اور محمد رسول اللہ خاتم النبین ہیں یعنی نبیوں کے بھی باپ ہیں ) "من لا يحضره الفقیه از حضرت ابو جعفر ” منار الهدی از شیخ علی البحرانی «تفسیر کبیر" مصنفه امام رازی رحمۃ اللہ علیہ حیات سعدی از مولانا الطاف حسین حالی تذکرۃ الاولیاء از حضرت فریدالدین عطار رحمتہ اللہ علیہ ( جس میں ظلی حج کا ذکر تھا، یہ وہ کتاب ہے ) وفیات الاعیان فتاوی شناسی فیصلہ قرآنی کل تیئیس بنڈل تھے اور اس پر وصولی کے دستخط ہیں دفتر کی طرف سے.حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.مولانا یہ تو وہ کتابیں ہیں، رسائل ہیں جن کے محضر نامہ میں حوالے دیئے گئے ہیں.ان کے علاوہ بھی کچھ کتب اور رسائل جمع کروائے گئے.کچھ قلمی نسخے ، کچھ مزید رسائل؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.وہ فہرست میں آپ کے سامنے عرض کرتا ہوں.نمبر 1.ہم مسلمان ہیں حضرت مسیح موعود کی روح پرور تحریرات.نمبر 2 - صفات باری کے مظہر اتم انسانیت کے محسن اعظم کی عظیم روحانی تجلیات از حضرت سیدنا خلیفة اسبح الثالث نمبر 3 مقام ختم نبوت یعنی مقام محمدیت کی تفسیر حضرت سید ناخلیفہ المسح الثالث کا خطبہ.سیدنا نمبر 4.خطبہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث بعنوان ” آزاد کشمیر اسمبلی کی قرارداد پر تبصرہ“.نمبر 5 'ہیومن رائیٹس اینڈ کانسٹی ٹیوشن آف پاکستان“ نمبر 6.”ہمارا موقف یہ حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب نے لکھا لیکن مسودے پر نظر ثانی

Page 100

84 سیدی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے قلم سے ہوئی اور آپ نے ہی اس کے اختتام پر الفاظ کا اضافہ کیا.66 نمبر 7 - حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی کتاب "القول المبین فی تفسر خاتم انبین نمبر 8 مقربان البہی کی سرخروئی یہ کتاب خاکسار نے حضرت خلیفتہ امیج الثالث کی ہدایت پر ہنگاموں کے ایام میں خاص طور پر ممبران اسمبلی کے لئے لکھی تھی اور لنڈن سے اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے.نمبر 9 'تحریک پاکستان میں جماعت احمدیہ کا کر دار.یہ بھی خاکسار ہی کی تالیف ہے.نمبر 10.” خاتم الانبیاء.یہ بھی حضور کے ارشاد پر میں نے مرتب کی.اور اس میں صدی کے لحاظ سے تمام آئمہ اور محدثین اور صوفیاء نے جو معنی ختم نبوت کے کئے ہیں، وہ اس میں درج کئے اور اس میں خاص اہتمام حضور کے ارشاد پر یہ کیا گیا کہ ہر صوفی اور بزرگ کی تاریخ ولادت اور وفات بھی ساتھ ہی شامل کی گئی تاکہ پڑھنے والے یہ سمجھ سکیں کہ ہر صدی میں وہی عقیدہ قائم رہا ہے.جس کو آج تیرہ سوسال کے بعد مسیح موعود اور آپ کی جماعت پیش کر رہی ہے.نمبر 11.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور تحریف قرآن کے بہتان کی حقیقت یہ ایک پمفلٹ تھا جو حضرت قاضی محمد نذیر صاحب، میرے استاد کے قلم سے لکھا گیا اور وہ اس میں شامل کیا گیا.نمبر 12.بارہویں نمبر پر ایک کتاب خاکسار کی ” مودودی شہ پارے“ کے نام سے شامل کی گئی.جو پہلے مولانا محمد اجمل صاحب سابق مجاہد افریقہ نے راولپنڈی سے شائع کی ، پشاور سے بھی چھپی اور اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے اس کو آفسٹ کے اوپر شائع کرایا تھا.اور پھر اس کا بنگالی میں بھی ترجمہ شائع ہوا.اور عجیب بات ہے کہ مولویوں نے بھی میرا نام لئے بغیر اپنے رسالے میں اس کو شائع کیا ہے.وہ اصل رسالے میرے پاس موجود ہیں.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.مولانا صاحب! اس کے علاوہ بھی بعض اور کتب اور قلمی دستاویزات فائلوں کی صورت میں وہاں پر پیش کی گئیں؟ ہو! مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.اتمام حجت کا کوئی پہلو نہیں تھا کہ جماعت نے جواٹھا رکھا

Page 101

85 ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.وہ تفصیل ہمیں آپ بتائیں گے.؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب : - محضر نامہ خود ایک بہت بڑی عظیم دستاویز تھی ، انسائیکلو پیڈیا تھی دراصل.اور پھر کتابی شکل میں گیارہ ضمیمے جو پیش کئے گئے تھے، اس کے علاوہ قلمی دستاویزات جو داخل کی گئیں.وہ یہ تھیں:.نمبر 1 تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.نمبر 2.میمورنڈم جماعت احمد یہ جو 1947 ء میں باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش کئے گئے.جس میں جماعت نے یہ مطالبہ کیا کہ ہمارا تعلق اسلام سے ہے.ہماری اکثر جماعتیں پاکستان میں ہیں.ہمارا تمدن ، ہماری سولائیزیشن (Civilization) ہماری تبلیغ کا تعلق اسلام کے ساتھ ہے اور ساری دنیا کو Feed کرنے والا مرکز قادیان ہے.اس کو اس لحاظ سے بھی پاکستان کا حصہ بنانا چاہئے.نمبر 3.” مباحثہ راولپنڈی.یہ مباحثہ مولانا ابو العطاء صاحب اور مناظر احسن صاحب گیلانی کے درمیان ہوا تھا.نمبر 4.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ ذیل قلمی نوٹ پیش کیے گئے.نمبر 5.حضرت مسیح موعود کی زندگی کا خاکہ نمبر 6 ظلی اور بروزی اصطلاح کے متعلق اصطلاحات گذشتہ اولیاء اور مسیح موعود کی نظر میں.نمبر 7 مسیح موعود کی آمد سے متعلق بزرگان سلف کی تحریرات.نمبر 8.الف.احمدی مسلمانوں کی اسلامی خدمات.نمبرب.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی اسلامی خدمات.ہاف فل سکیپ سائز کے ایک سو بہتر صفحات پر مشتمل.نمبر 9.احمدی مسلمانوں کی اسلامی خدمات متعلقہ تحریک آزادی کشمیر مرتبہ چوہدری ظہور احمد صاحب مرحوم ناظر دیوان صد را مجمن احمد یہ پاکستان.ہاف فل سکیپ سائز کے بیاسی صفحات پرمشتمل.نمبر 10.انتخاب خلافت اور ہجری شمسی کیلنڈر کے ناموں کی وجہ تسمیہ.یہ چیئر مین صاحب نے کہا تھا کہ آپ نے زبانی بہت ہی تاریخی بات بیان کی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس کو تحریری شکل میں ہمارے سامنے پیش کریں.

Page 102

86 نمبر 11.پیشگوئی مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری - مفصل تحقیق مع حوالہ جات.نمبر 12.پیشگوئی متعلقہ محمدی بیگم.اس سلسلہ میں مواد ایک مسودے کی شکل میں دیا گیا.اس کے علاوہ حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل کی کتاب ” پیشگوئی متعلقہ مرزا احمد بیگ اور اس کے متعلقات کی وضاحت.یہ مجلد شکل میں دی گئی.نمبر 13.اور تیرھویں میرا خیال ہے.پیشگوئی متعلقہ ڈوئی کے متعلق مطالبہ تھا.اس کے مطابق پیشگوئی متعلقہ ڈوئی“ کے نام سے بھی ان کی خدمت میں مسودہ پیش گیا.فوٹو کا پیاں جو دی گئیں وہ اس کے علاوہ ہیں.گی.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.جی میری درخواست ہے.بتا دیں تو ریکارڈ میں آجائیں مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.نمبر 14.اشتہار بجواب ڈاکٹر کلارک امرتسر 1893ء نمبر 15.اشتہار لن يجعل الله للكافرين سبيلا.یہ امرتسر 1893ء میں چھپا.نمبر 16.اخبار ” چودہویں صدی راولپنڈی یکم فروری 1897ء.یہ وہ معرکۃ الآراء اخبار ہے کہ جس میں انہوں نے ثابت کیا کہ جلسہ مذاہب عالم میں قرآن کے وہ نکات معرفت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے مضمون میں ہم نے دیکھے وہ آج تک ہم نے نہیں سنے.اور قرآن مجید کا اس شان کے ساتھ بیان ہونا ایسا اثر انگیز ہوا کہ غیر مسلم بھی پکارا تھے کہ آج اسلام کو فتح نصیب ہوئی.نمبر 17.ہفت روزہ ”حق“ جس میں کہ انہوں نے بتایا کہ یہ جو جشن منایا جا رہا ہے.بغداد کے سقوط کی وجہ سے نہیں بلکہ جنگ کے خاتمہ کی وجہ سے ہے.نمبر 18.محمدی بیگم صاحبہ کے صاحبزادہ مرزا محمد الحق صاحب کا اشتہار بیعت.(26 فروری (1933 نمبر 19.اخبار " Daily Dawn" 18 اکتوبر 1945ء.اس میں حضرت قائد اعظم نے پریس ریلیز جاری کی کہ جماعت احمدیہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ کی حمایت کریں گے.اس کی فوٹو کاپی دی گئی.

Page 103

87 نمبر 20.مولوی ظہور الحسن صاحب سیالکوٹ کے سینیٹر تھے.انہوں نے خاکسار کی کتاب ”تحریک پاکستان میں جماعت احمدیہ کے کردار کے تین سو نسخے سینٹ کے معزز ممبروں کو پیش کئے.یہ تفصیل ہے جو آپ کے سوالات کے جواب میں عرض کر دی ہے.حافظ محمد نصر اللہ صاحب مولانا محضر نامہ کے ساتھ اس میں درج حوالہ جات کے ماخذ پر مبنی لٹریچر کے علاوہ اور کئی کتابیں، فوٹوسٹیٹس اور قلمی نسخے ، فائلیں اسمبلی میں جمع کروائی گئیں.جب واپس لی گئیں تو اس وقت کیا ان سے استفادہ کیا گیا تھا؟ کیا حالت تھی ان کی؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب : سبحان اللہ.یہ شانِ بے اعتنائی کا ایک مظاہرہ تھا.جب ہم وہاں پر گئے تو ہم نے دیکھا کہ دونوں ٹرنک گرد و غبار سے اٹے ہوئے ہیں.جب ہم نے کہا کہ یہ ٹرنک ہیں؟ ان کا تو حلیہ ہی بگڑ گیا ہے.تو جو صاحب کتابوں کے دینے والے تھے اور جنہوں نے ہمیں اطلاع دی تھی کہ یہ فارغ ہو گئی ہیں.آپ لے جائیں.تو وہ ذہین آدمی تھے.ہمارے اس سوال پر کہنے لگے.مولانا آپ کیا بات کرتے ہیں.یہ بڑے اونچے دماغ کے لوگ تھے.ان کو ضرورت ہی نہیں پڑی، نہ نوبت آئی ہے کہ ان کو دیکھ سکیں.اس واسطے جس طرح آپ رکھ گئے تھے ویسے ہی حاضر ہیں.جالا بھی لگا ہوا ہے اور گردوغبار سے بھی اٹی ہوئی ہے.قیاس کن زگلستان من بهار مرا د محضر نامہ کا خلاصہ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ جو محضر نامہ پیش کیا گیا یہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے تھا یا نا ظر اعلیٰ کی طرف سے تھا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.یہ جماعت کی طرف ہے تھا.اشاعت اس کی ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ نے کی تھی مگر پڑھ کر سنانے والے خود حضرت خلیفہ اسیح الثالث تھے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مولا نا ہم چاہیں گے کہ جو ابواب ”محضر نامہ" میں دیئے گئے ان کے عناوین پڑھ کر سنا دیں تا کہ پھر بات چیت کو آگے بڑھایا جاسکے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.یہ بہت ہی اہم چیز ہے.حافظہ کو ریکارڈ کرنے کا یہ

Page 104

88 بہترین طریقہ آپ نے سوچا ہے.پہلا عنوان تو تھا: علیها دوسرا عنوان تھا: اس کے بعد عنوان یہ تھا: ایوان کی حالیہ قراردادوں پر ایک نظر“ مسلمان کی تعریف اور جماعت احمدیہ کا موقف مقام خاتم النبیین اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی عارفانہ تحریرات اس کے بعد وہ تحریرات دی گئیں اور پھر عنوان ہے: ذات باری کا عرفان از افاضات حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ازاں بعد جو عنوان دیا گیا وہ یہ تھا: قرآن عظیم کی اعلیٰ وارفع شان حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی نظر میں ہم لوگ رات کو ایک دفعہ گئے تو محضر نامہ مکمل ہو چکا تھا، حضور نے فرمایا حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کے ارشادات خدا تعالیٰ کے متعلق اور قرآن کے متعلق اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وہ ضرور اس میں شامل کئے جانے چاہئیں.تو اس وقت فوری طور پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے راتوں رات یہ صورت کی کہ حضرت سید میر داؤ د احمد صاحب کی کتاب ”حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام.اپنی تحریروں کی رُو سے میں جو ارشادات تھے ان میں سے حوالے فوٹو کاپی کر کے ان کو فوری طور پر محضر نامہ میں شامل کیا گیا.اگلا عنوان ہے: شان خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بانی سلسلہ احمدیہ کی نگاہ میں ایک عنوان تھا: آیت خاتم النبیین کی تفسیر“ اور پھر انکار جہاد کے الزام کی حقیقت

Page 105

پھر عنوان: 89 و بعض دیگر الزامات کا جائزہ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اس میں کون کون سے الزامات کو لیا گیا تھا ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.ہاں اس میں بعض دیگر الزامات ، احمدی دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں اور نہ جنازہ ادا کرتے ہیں اور نہ ان سے شادی بیاہ کا تعلق قائم کرتے ہیں.اہم ترین پہلو یہی تھے اور پھر عنوان تھا: معزز ارکان اسمبلی کی خدمت میں ایک اہم گزارش ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اس عنوان کے کوئی ذیلی عناوین بھی بنائے گئے تھے؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.اس کا ایک ذیلی عنوان ” مطالبات کے نام سے تھا.یہ ایک اشتہار تھا جو ان دنوں شائع کیا گیا کراچی سے اور ماہنامہ طلوع اسلام نے اس کو شائع کیا.یہ اشتہار در اصل اس زمانے کا نہیں بلکہ 1953ء کا ہے اور اس عنوان پر تھا اور یہ کراچی کی گل گلی میں لگایا گیا تھا.اس کا عنوان تھا ” مطالبات“.فرقہ دیوبندیہ کو علیحدہ اقلیتی فرقہ تسلیم کیا جائے اور اس کے علاوہ خلافت راشدہ کا نفرنس جو اہلسنت و جماعت نے ملتان میں کی تھی.اس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ شیعہ مسلمانوں سے الگ ہیں.ان کا نصاب علیحدہ کیا جائے.ان کے اوقاف علیحدہ کئے جائیں اور ان کو مسلمان تسلیم نہ کیا جائے اور کلیدی اسامیوں سے ان کو علیحدہ کیا جائے.اور اس کے بعد عنوان تھا: پاکستان کے مختلف فرقوں کے عقائد جو دوسرے فرقوں کے نزدیک محل نظر ہیں.“ ان میں بریلوی اور دیوبندی، اہلحدیث، جماعت اسلامی، چکڑالوی اور پرویزی فرقہ اور شیعہ مذہب کے خیالات اور ان کے عقائد مخصوصہ جن کی وجہ سے قتل و غارت تک نوبت پہنچی تکفیر تک نوبت پہنچی.ہنگامے ہوئے تو یہ اصل کتابوں کے حوالے اس میں پیش کئے گئے کہ اگر آپ ان دنوں میں پڑھیں گے تو ایک بہت بڑا افساد عظیم برپا ہو جائے گا.آخری عنوان تھا.

Page 106

90 90 ”حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا پُر در دانتباہ اور پھر اختتام اس عارفانہ محضر نامے کا دعا کے مبارک الفاظ تھے.حافظ محمد نصر اللہ صاحب مولانا صاحب! یہ نہایت اہم دستاویز ہے جماعت احمدیہ کے عقائد کے حوالے سے.اس کے کچھ نمونے آپ اگر پیش فرمائیں؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.ہاں یہ بہت ضروری چیز ہے.یہ جو پہلا عنوان ہے: ایوان کی حالیہ قراردادوں پر ایک نظر اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا کا مسلمہ بین الاقوامی اصول ہے کہ عقیدہ وہی تسلیم کیا جاتا ہے جس کا اظہار انسان خود کرے.بنیادی حقوق کے لحاظ سے بھی یہ ضروری ہے.اور دنیا کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے.یہ نہیں ہے کہ ایک شخص اپنے تئیں مسلمان کہے اور اس کو کسی اور مذہب کی طرف منسوب کر دیا جائے.یہ بنیادی انسانی حقوق کے مطابق ہے نہ پاکستان کی دستور کے مطابق ہے.کیونکہ جو شقیں ہیں دستور پاکستان کی.اس کی دفعات ہیں وہ پہلے 1956ء کے دستور سے لے کر آج تک بنیادی حق اس میں یہ موجود ہے کہ ہر شخص کو اپنے مذہب کی اشاعت کا حق حاصل ہے اور یہ وہ چارٹر ہے کہ جو مستقل شق کے طور پر UNO کا چارٹر ہے.اور اس پر پاکستان نے دستخط کئے ہیں اور اسلام کا واضح فیصلہ ہے کہ جو قوم کوئی عہد کرتی ہے اسے نبھا ہنا اس کا فرض ہے ورنہ وہ غدار ہوگا.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ ساری وضاحت اس محضر نامے میں موجود ہے.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.وضاحت یہ ہے کہ سیاسی، عقلی لحاظ سے، بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سے، حقوق کے اعتبار سے یہ جواز ہی نہیں ہے اس بات کا کہ اسمبلی اس بات کی طرف متوجہ ہو، خاص طور پر اس لئے بھی کہ محم عربی عملے کی سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ ہے کہ ستفترق هذه الامة على ثلاث وسبعين ملة كلها في النار الا واحدة (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب التفسير القرآن سورة آل عمران باب و انی اعیدها بک و ذریتها یہ کس کے الفاظ ہیں؟ نبیوں کے سردار خاتم النبیین ، خاتم المرسلین، خاتم المومنین ، خاتم العارفین محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ کے کہ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی.ان میں سے بہتر آگ میں جائیں گے، یا آگ لگانا شروع کر دیں گے

Page 107

91 اور ایک کو الگ کر دیں گے اور وہی مسلمان فرقہ ہوگا.چنانچہ آگے لکھا ہے کہ اس کے متعلق سعودی عرب کے مذہبی پیشوا جن کو ہم بھی مجدد سمجھتے ہیں.انہوں نے اپنی کتاب مختصر سیرۃ الرسول“ میں لکھا ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.آپ کی مراد حضرت محمد بن عبد الوہاب سے ہے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضرت مولانا محمد بن عبد الوہاب صاحب جو اپنی صدی کے مجدد تھے.بہت ہی عظیم الشان ، تو حید کے علمبردار اور سنت کے ایسے عظیم الشان وہ مجاہد تھے کہ انہوں نے انتہا درجہ کی وہ بت پرستی جو اس وقت حجاز میں ہورہی تھی اس کا نام ونشان تک مٹادیا.بعد میں مبالغے بھی ہوئے.انہوں نے لکھا ہے یہ حدیث دے کر کہ وو " فهذه المسئلة اجل المسائل فمن فهمها فهو الفقيه فمن عمل بها فهو المسلم.“ مختصر سيرة الرسول ع ، صفحہ 13-14 مطبوعہ قاهره ) ، فرمایا یہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد را ہنما اصول ہے کہ آخری زمانے میں عالم اسلام جب تہتر (73) فرقوں میں تقسیم ہو جائے گا تو ان فرقوں میں سے صرف ایک فرقہ مسلمان ہوگا.اور بہتر (72) فرقے ناری ہوں گے.کہتے ہیں کہ یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے آج جو اس کو جانتا ہے وہ فقیہہ کہلانے کے مستحق ہے.کوئی مفتی نہیں کہلا سکتا جب تک کہ یہ ایمان نہ رکھے کہ تہتر میں سے ایک مسلمان ہے.و من عمل بها فهو مسلم اور جو اس کے مطابق عمل کرتا ہے وہی مسلمان ہے.وہ مسلمان ہی نہیں ہے جو کہ بہتر کو مسلمان کہے اور ایک کو کافر کہے.مسلمان وہ ہے جو آنحضرت کے ارشاد کے مطابق بہتر (72) کو Non Muslim اور غیر مسلم کہے اور ایک کو مسلمان کہے.پھر عجیب بات یہ ہے کہ اس حدیث پر مجدد اہل سنت ( ملاعلی القاری) نے ” مرقاۃ شرح مشکوۃ کی پہلی جلد میں یہ جو تہتر (73) فرقے ہیں، ان کا تجزیہ فرمایا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک الہامی اور القائی صورت تھی جو وحی ربانی کی شکل میں حضرت علامہ ملا علی قاری (اصل میں ملا کا لفظ

Page 108

92 92 اگر چه افغانستان میں اور دوسری جگہ پر علامہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے لیکن یہاں اور معنوں میں استعمال ہوتا ہے.اس لئے میں علامہ ہی کہہ رہا ہوں.یہ بالکل ویسی ہی بات ہے جس طرح مثلاً مرزائی کا لفظ ہے.آپ غیاث اللغات“ کو دیکھیں تو مرزائی کے معنی شہزادہ کے ہوتے ہیں اور یہ جو کراچی سے سائنس بورڈ کی طرف سے مفصل پندرہ میں جلدوں میں اردو مستند لغت شائع ہوئی ہے اس میں لکھا ہے کہ مرزائی کا لفظ اتنا بڑا لقب تھا کہ سادات کو بھی جب کوئی منصب دیا جا تا ایرانی بادشاہوں کی طرف سے تو وہ مرزائی کا لفظ تھا.) اسی طرح حضرت علامہ علی القاری رحمہ اللہ علیہ نے جو مدفون ہیں مکہ شریف میں لکھا ہے کہ یہ جو رسول اللہ نے فرمایا ہے و الفرقة الناجية آنحضرت جس کو مسلمان فرقہ ناجیہ قرار دے رہے ہیں.فتلک الفرقة الناجية هم اهل السنة البيضاء المحمدية وہ فرقہ اہل سنت میں سے ہے یعنی وہ حضرت ابوبکر صدیق کو پہلا خلیفہ،حضرت عمرؓ کو دوسرا، حضرت عثمان غنی کو تیسرا خلیفہ اور حضرت علی کو آنحضرت کی حدیث کے مطابق چوتھا خلیفہ تسلیم کرتے ہے.فرمایا وہ فرقہ جو تہترواں ہو گا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی مہر تصدیق کے مطابق مسلمان سمجھا جائے گاوہ اہلسنت و جماعت میں سے ہو گا مگر اس کی نشانی کیا ہوگی؟ دیکھیں کس طرح آج سے پانچ سو سال پہلے خدا نے الہام کے ذریعے محمد رسول اللہ ﷺ کے ایک عاشق صادق کو راہنمائی فرمائی.فرماتے ہیں:.و الفرقة الناجية هم اهل السنة البيضاء المحمدية و الطريقة النقية الاحمدية (مرقاۃ المصابیح شرح مشکوۃ المصابیح کتاب الایمان باب الاعتصام بالكتاب والسنۃ صفحہ 248 ناشر مکتبہ امدادیہ.ملتان) ہوگا وہ اہلنست مگر اس کی شناخت کیا ہوگی وہ احمدی فرقہ ہوگا.خدا کی تقدیر نے اس قرار داد میں احمدی کا لفظ خود لکھوا دیا ہے.قیامت تک خدا نے مہر لگا دی کہ فرقہ ناجیہ جس کی نشاندہی محمد رسول اللہ نے فرمائی تھی.وہ احمدیہ فرقہ یہ ہے جس کا نام قرار داد میں لیا گیا ہے.اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.دوسرے موضوعات میں سے کوئی تفصیل بیان فرما ئیں تو

Page 109

ممنون ہوں گا.93 مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.مسلمان کی تعریف.چونکہ یہ بنیادی چیز ہے.مسلمان کی تعریف کے متعلق رسول اکرمﷺ کے ارشاد کے مطابق جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ جو اپنے تئیں مسلمان کہتا ہے وہ مسلمان ہے.حدیث میں یہ بھی ہے: "مَنْ صَلَّى صَلَوتَنَا وَ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَ أَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِى لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَ ذِمَّةُ رَسُولِهِ “ (صحیح بخارى كتاب الصلواة باب فضل استقبال القبلة) کہ جو ہمارا ذبیحہ کھالے، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے، ہماری طرح نمازیں پڑھے، حج کرے.فرمایا یہ خدا کے دفتر میں مسلمان ہے اور Constitution میں اس کو مسلمان تسلیم کیا جانا چاہئے اور آگے فرمایا: فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِهِ (صحیح بخارى كتاب الصلواة باب فضل استقبال القبلة) یہ خدا کی گارنٹی ( Gaurantee) ہے کہ ایسا شخص مسلمان ہے اس واسطے تم خدا کے اس ارشاد کے خلاف غداری نہ کرو اور بغاوت کی راہ رسول اللہ کے خلاف اختیار نہ کرو.اس پر مودودی صاحب نے لکھا تھا کہ اس حدیث سے ثابت ہے کہ جو لوگ کثرت کو اپنے لئے باعث نجات سمجھتے ہیں وہ جھوٹے ہیں کیونکہ رسول اللہ کے ارشاد کے مطابق فرقہ ناجیہ جو ہوگا وہ اقلیت میں ہو گا.اکثریت میں نہیں ہوگا.( ترجمان القرآن جنوری فروری 1945 ، صفحہ 175-176 ) اب جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں دیکھیں تین اصطلاحیں ہیں.ایک ہے غیر مسلم ،ایک ہے مسلم، تیسری اصطلاح ہے غیر احمدی.حضور نے اسمبلی کے سوالوں کے جواب میں بھی فرمایا.اور اس میں اشارہ موجود ہے.جماعت کے لٹریچر میں غیر مسلم صرف اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنے تئیں مسلمان نہیں سمجھتا.جو شخص اپنے تئیں مسلمان سمجھتا ہے خواہ ہمیں مرتد ہی قرار دے، ہم اس کو قانونی طور پر لازما مسلمان سمجھتے ہیں، ان کے لئے ہم نے کبھی غیر مسلم کا لفظ استعمال نہیں کیا.

Page 110

94 آج بھی جو لوگ ہمیں غیر مسلم یا کافر، مرتد ، واجب القتل قرار دیں، رسول اللہ کی حدیث کے مطابق قانون اور Constitution کے لحاظ سے ہم ان کو مسلمان تسلیم کر لیں گے اور یہ حکومت کا فرض ہے کہ ان کو وہ تمام سہولتیں اور بنیادی حقوق عطا کرے جو ایک مسلمان کے قانون کے لحاظ سے ہونے چاہئیں.اس سلسلے میں حضور نے جو وہاں مؤقف پیش کیا.اور اس میں بھی جھلک ہے، اس کے پیچھے ایک فلسفہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں جو حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بیان فرمایا تھا اور اسی سے ہی یہ ساری چیز دراصل منعکس ہوئی اور بہت ہی لطیف ہے.دیکھیں ! آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں فرمایا.ان میں سے 72 جہنمی ہوں گے اور ایک مسلمان ہو گا.اب اس کو آپ غور سے دیکھیں جس طرح کہ وکیل اپنا موقف پیش کرتا ہے تو قانون پر بنیا د رکھتا ہے.ایک لفظ کے نتیجے میں بعض اوقات فیصلے بدل جاتے ہیں، پھانسی پر چڑھنے والا آدمی بری ہو جاتا ہے.تو محمد عربی ﷺ کے الفاظ معمولی نہیں ہیں.ہر لفظ قانون ہے.اس کو پڑھیں.آپ ایک طرف فرماتے ہیں کہ تہتر فرقے میری امت کے ہیں سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً (مشكوة المصابيح كتاب الايمان باب الاعتصام بالكتاب والسنة) یہ تہتر فرقے میری امت میں شامل ہیں اور پھر فرماتے ہیں مگر ایک فرقہ ان میں سے مسلمان ہے.اس سے ثابت ہوا کہ ایک زاویہ نگاہ سے آنحضرت کا فیصلہ ہے کہ سارے فرقے جو اپنے تئیں مسلمان کہتے ہیں جن میں وہ بہتر (72) بھی شامل ہیں جو جہنمی ہیں وہ محمد رسول اللہ کی امت میں شامل ہیں مگر دوسرا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ اس بڑے سرکل کے اندر ایک چھوٹا سا سرکل ہے جو ایک ہے چھوٹا اور باقی 72 اس سے الگ ہیں.اب یہ کتنا لطیف اشارہ ہے.کوئی کھربوں روپے اس پر لگانے کی کیا ضرورت تھی.محمد رسول اللہ نے فیصلے کئے ہیں.یہ سب سے بڑا ظلم وستم ہوا ہے کہ ان نام نہاد فیصلوں نے دنیا میں یہ بات اٹھائی کہ اسلام ایسا ناقص مذہب ہے کہ اس میں مسلم کی تعریف ہی موجود نہیں ہے اور چودہ سوسال کے بعد کمیونسٹ حکومت کو شرف حاصل ہوا کہ اس ناقص چیز کو شامل کریں کہ اصل تعریف تو یہ تھی.آنحضرت کے زمانہ میں لوگوں کو پتا چلا نہ سارے خلفاء کو پتہ چلا.آئمہ اور متکلمین اور نہ ہی مفسرین کو اور اگر انکشاف ہوا.تو بھٹو صاحب پر یہ انکشاف ہوا ہے یا ان کی پارٹی پر انکشاف ہوا ہے تو

Page 111

95 95 میں حیران رہ جاتا ہوں کوئی عاشق رسول اس کا تصور کرے غشی طاری ہو جاتی ہے کہ کیا ہوا ہے.وہ کہا ہے عبید اللہ علیم صاحب نے.ہوا گلاب تو کانٹے چبھا گیا اک بنا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اک شخص Ceris ختم نبوت کا نام لے کر دنیا میں اعلان کیا گیا کہ اسلام کی جو تعریفیں عام بتائی جاتی ہیں وہ غلط ہیں.اصل تعریف اب ہمیں تلاش کرنی چاہئے اور وہ تعریف یہ ہے کہ غیر مشروط آخری نبی مانیں تو مسلمان، نہ مانیں تو غیر مسلم.حالانکہ قرآن میں تعریف موجود ہے لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِناً (النساء : 95) فرمایا کہ اے مسلما نو ا تم یہ حرکت نہ کرنا.جنگ کے دوران بھی تمہیں کوئی شخص السلام، سلام کہہ دے مسلمانوں والا تم ان کو مسلمان سمجھنا.رسول اللہ کی حدیث ہے جو ہماری طرح نماز پڑھے، روزے رکھے، قبلہ کوقبلہ سمجھے، وہ مسلمان ہے.اور دیکھو بغاوت نہ کرنا میرے اس فیصلہ کے خلاف.یہ بخاری شریف کی حدیث ہے.اس کے علاوہ ایک حدیث یہ بھی ہے.بہت کم لٹریچر میں یہ آئی ہے.سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی خدمت میں، میں نے ایک سوال و جواب کی مجلس کا جب خلاصہ لکھا تو حضور نے فرمایا کہ یہ بالکل نئی ہے.اس کی فوٹو کاپی بھجوائی جائے.یہ مسند احمد بن حنبل میں حدیث ہے.حضور ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے (اس کی کچھ شرائط حضور نے بیان کیں ) کہ جو جماعت سے وابستہ ہوتا ہے، ایک امام کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے، جہاد کرتا ہے، دو تین اور چیزیں تھیں اور جو شخص ان میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی ہے جس کو وہ چھوڑتا ہے تو حضور نے فرمایا فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَام ( مسنداحمد بن حنبل.حدیث الحارث الاشعری) وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا.یعنی اگر کوئی شخص جماعت سے علیحدہ ہوتا ہے تو وہ بھی اسلام کے دائرہ سے خارج ہے.جہاد نہیں کرتاوہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے.جہاد جہاد کہنے والوں کے لئے تو پہلا موقع تو کشمیر کا آیا تھا.اس وقت مودودی صاحب نے یہ اعلان فرمایا کہ یہ شرعاً نا جائز ہے.تو رسول اللہ نے فرمایا کہ جہاد کے وقت جو جہاد میں نہیں جاتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے.صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ پھر ہم ایسے شخص کو غیر مسلم کہیں ؟ حضور نے کیا فرمایا؟ حضور نے فرمایا کہ نہیں تم ان کو اسی نام سے یاد کر وجس نام سے خدا نے

Page 112

96 96 ان کو یاد کیا ہے یعنی مسلمان کے نام سے.کتنی لطیف بات ہے یہ.حضور نے فرمایا کہ حقیقی مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ جماعت میں امام کے ماتحت ہے.جہاد میں شامل ہوتا ہے ، جو نہیں کرتا وہ اس اسلام سے ضرور خارج ہے جو خدا اور محمد رسول اللہ کے دفتر میں اسلام ہے.حقیقی اسلام کے دائرہ سے یہ سب خارج ہیں.لیکن جہاں تک قانون، دستور ، آئین (Constitution) کا تعلق ہے، رسول اللہ فرماتے ہیں جو اپنے تئیں مسلمان کہتا ہے اگر چہ وہ خدا کے دفتر میں مسلمان نہیں مگر دستور مملکت میں لازمی طور پر وہ مسلمان تسلیم کیا جائے.اکبرالہ آبادی نے یہی بات کہی ہے کہ سے مسلماں تو وہ ہیں جو ہیں مسلماں علم باری میں کروڑوں یوں تو ہیں لکھے ہوئے مردم شماری میں احمدی کہتے ہیں کہ ہمیں تو یہی چاہئے کہ دنیا خواہ کچھ ہمیں کہے مگر خدا کے دفتر میں مسلمان ہیں اور یہی مصلح موعودؓ فرماتے ہیں..عشق خدا کی مے سے بھرا جام لائے ہیں ہم مصطفیٰ کے ہاتھ پر اسلام لائے ہیں تو ہماری تو کوئی بات ہی نہیں.ہم کب کہتے ہیں کہ دنیا ہمیں مسلمان جھتی ہے.حضرت حسین علیہ السلام کو کب اس زمانے کی اسمبلی نے مسلمان سمجھا تھا.حضرت امام بخاری پر کفر کا فتو ی لگایا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس دور میں مجھے ارشاد فرمایا کہ تیرہ صدیوں میں جو بڑے بڑے بزرگ ہیں جن پر کفر کے فتوے علماء کی طرف سے لگائے گئے ، ان کی تاریخ لکھ کر یہ بھی ہم نے ایوان کو دینی ہے.”مقربان الہی کی سرخروئی“ کے عنوان سے میں نے وہ کتاب لکھی.حضور نے فرمایا کہ یہ نظارت علیاء کی طرف سے نہیں بلکہ تم اپنے نام سے شائع کرو.حالات کچھ اس قسم کے تھے.تو اس میں حضرت امام حسین سے لے کر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی تک میں نے ثابت کیا ہے کہ اکابر امت میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کو غیر مسلم قرار نہ دیا گیا ہو اور کافر نہ سمجھا گیا ہو.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.یہ کفر بھی دراصل ایک برکت ہے جو کہ خدا والوں کو ہی

Page 113

97 حاصل ہوتی ہے.بلکہ صوفیاء کے تو کشف ہیں.لکھا ہے کہ ایک شخص سے قبر میں سوال کیا گیا کہ تمہیں کسی نے کافر بھی کہا ہے یا نہیں.کہنے لگا کہ مجھے تو کئی کا فر کافر کہتے تھے.تو کہا گیا چلو پھر تمہاری نجات ہوگئی.یہی کافی ہے کہ تمہیں کا فر کہا گیا ہے..کا موقف؟ ہے بہت سہل مسلمان کو کافر کہنا کاش کوئی کافر بھی مسلمان بنایا ہوتا جو انجیل سنانے یہاں آتے ہیں وہ ان کو قرآن وہاں جا کے سنایا ہوتا ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ تو تھا نا مسلمان کی تعریف کے بارے میں جماعت مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.اس میں یہ ہے کہ فتاویٰ کفر کی حیثیت اتنی ہے کہ ایک دستوری اسلام ہے.ایک حقیقی اسلام ہے.تو کفر کے فتووں کا تعلق جو ہے وہ حقیقی اسلام کے متعلق سمجھنا چاہئے.دستور اسلام کے لحاظ سے تو جو شخص اپنے تئیں مسلمان کہتا ہے، وہ مسلمان ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اس میں جو تحریرات دی گئی ہیں ان میں سے مقام خاتم النبیین کے بارہ میں نمونہ کے طور پر کوئی تحریر پیش فرمائیے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.خاتم النبیین کے مقام کے متعلق یہ تحریریں تو ایسی ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ چودہ سوسال کے عشق رسول کے لٹریچر کو اگر آپ اکٹھا کریں.ایک پلڑے میں وہ سارا لٹریچر ہو اور دوسرے پلڑے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر ہوتو یہ پلڑا بھاری رہے گا.نمونہ کے طور پر میں عرض کرنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ کی شان کے متعلق.پھر قرآن مجید کی شان.پھر آنحضرت ﷺ کی شان کے متعلق روح پر دور تحریرات ہیں.انسان کی روح وجد کر اٹھتی ہے.آپ اگر عربی قصیدہ ہی پڑھیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب میں لکھ چکا تو خدا نے مجھے بشارت دی کہ جو شخص اس کو حفظ کرے گا تو خدا تعالیٰ اس کی بصیرت میں اور اس کے ایمان میں اضافہ کرے گا اور زیارت محمد بھی نصیب ہوگی اور عملاً ایسا ہوا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجد آفرین اقتباسات کا نمونہ ہے.

Page 114

98 ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اور یہ سارے اقتباسات ممبران اسمبلی کے سامنے محضر نامہ میں پیش کئے گئے.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب: یقینی طور پر ، بالکل پیش کئے گئے.صرف یہ محضر نامہ ہی نہیں دیا گیا بلکہ ضمیمہ کے طور پر کئی کتا بیں بھی پیش کی گئیں.مثلاً خاکسار نے ایک کتابچہ لکھا تھا.” خاتم الانبیاء جس میں کہ تمام صلحاء امت کے بیان کردہ ختم نبوت کے معنے شامل کئے گئے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تعریف کی ہے اس بارے میں ایک کتاب ”ہم مسلمان ہیں، عربی، اردو، فارسی ، وہ بھی ساتھ شامل تھی.اسی طرح حضور کے وہ خطبات جو کہ آزاد کشمیر کی اسمبلی کی قرارداد کے وقت حضور نے دیئے جس میں خاتم النبیین کے معنی بیان کئے اور ایک کتابچہ احمدی مسلمان غیر احمدیوں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے.آٹھ دس کے قریب کتابیں تھیں، ساتھ دی گئی تھیں اور ہر ایک میں شان خاتم النبین ﷺ کا ذکر آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سراج منیرہ میں فرمایا :.ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں.“ ایک ایک لفظ سونے کے پانی سے لکھنے والا ہے اور اس طرح چمک رہا ہے قیامت تک کے لئے جس طرح کہ چاند اور ستارے چمکتے ہیں اور صاف نظر آتا ہے کہ عشق رسول کے چشمے سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ہیں.فرماتے ہیں:.”ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں.“ یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استعمال کئے ہیں.د یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر ، تمام مرسلوں کا سرتاج“ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ شخص بد قسمت ہے کہ جس کے سامنے میرا نام پڑھا جائے اور وہ درود پڑھنے کے لئے تیار نہ ہو.اللهم صل على محمد و على آل محمد كما

Page 115

9 99 صلیت علی ابراهیم و علی ال ابراهیم انک حمید مجید.فرماتے ہیں: " جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتی ہے ہے جس کے زیر سایہ دس دن 66 چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی.“ (سراج منیر صفحہ 72 طبع اول) یہ ختم نبوت کا عرفان جاننے والا ہی کہہ سکتا ہے.خشک ملاں نہیں کہہ سکتا جس نے کہ ختم نبوت کے نام کا روبار کے لئے اپنی دکان کھولی ہو.پھر فرماتے ہیں.یہ حقیقۃ الوحی“ کا ایک اقتباس ہے.فرماتے ہیں: میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اس پر یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ تو حید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرارا فاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے، وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے.جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فرنعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ

Page 116

100 نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ 115-116 طبع اول.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 118-119) مصطفیٰ ترا پر بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے نور لیا بار خدایا ہم نے اب آخر میں ایک چھوٹا سا اقتباس ہے.فرماتے ہیں ” تجلیات الہیہ میں : اگر میں آنحضرت ﷺ کی امت نہ ہوتا...امتی نبی کے معنی بھی اس سے واضح ہوتے ہیں.اگر میں آنحضرت ﷺ کی امت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں.“ ( تجلیات الہیہ صفحہ 25 طبع اول.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 411-412) تمام نبوتیں ختم ہو گئیں مگرمحمد کی نبوت قیامت تک کے لئے جاری ہے یہ عقیدہ ہے جماعت احمدیہ کا.(محضر نامہ میں ) اس کے بعد عنوان ہے: " آیت خاتم النبین کی تفسیر" اس میں بتایا گیا ہے کہ خاتم النبیین کے معنی خود قرآن نے بیان کئے ہیں اور وہ معنی اس تفصیل کے ساتھ ہیں کہ سورۃ النساء میں یہاں تک بتایا گیا ہے کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ ان معلمین کے ساتھ ہو گا جو نبی تھے ، صدیق تھے، شہداء تھے اور صالحین تھے یعنی اللہ تعالیٰ انہیں نبیوں میں شامل کرے گا یا صدیقوں میں شامل کرے گا یا شہیدوں میں شامل کرے گایا صالحین میں شامل کرے گا.تو یہ خاتم کا لفظ جو ہے اس کی تشریح قرآن نے کر دی ہے.کیونکہ خاتم النبین کی اصطلاح ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں میں صرف محمد عربی ﷺ کے لئے استعمال کی گئی ہے.یہ خطاب عرش کے خدا نے صرف محمد رسول اللہ ﷺ کو دیا ہے.یہ تخت آنحضرت ﷺ کو حاصل ہے.کو

Page 117

101 اس لئے خدا ہی کا فرض تھا کہ وہ بتاتا کہ خاتم النبیین کے معنے کیا ہیں؟ یہ نہیں کہ چودہ صدیوں کے بعد دیو بند کے رہنے والے یا بھٹو صاحب اس کے معنے بیان کریں.الْقُرْآنُ يُفَسِرُ بَعْضُهُ بَعْضًا یا (الكشاف تفسیر سورۃ ھود آیات : 106-107 ) پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے قرآن خود اپنے معنی بیان کرتا ہے.فرمایا اس میں اَللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَئِكَةِ رُسُلاً وَّ مِنَ النَّاسِ ( الحج : 76 ) که خدا فرشتوں میں بھی اور انسانوں میں سے بھی رسول چلتا ہے اور چلتا رہے گا.یہ مضارع کا صیغہ ہے.Past Tense نہیں ہے.پھر آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ يُبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمُ ايَتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ (الاعراف: 36) اے بنی آدم اگر تمہارے پاس میرے رسول آئیں جو میری آسیتیں تم کو پڑھ کرسنائیں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہوئے ان کی باتوں پر کان دھریں گے اور اصلاح کے طریق اختیار کریں گے ان کو آئندہ کسی قسم کا خوف نہ ہوگا اور نہ ہی گذشتہ غلطیوں پر انہیں کسی قسم کا غم ہوگا.اس آیت میں صاف بتایا گیا ہے کہ امت محمدیہ میں رسول آتے رہیں گے.اس کے بعد لغت عرب کی رو سے خاتم النبیین کے معنی بتائے گئے ہیں.پھر آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ خاتم لفظ کوئی نیا لفظ نہیں ہے.زبان عربی میں یہ ہزاروں سال پہلے سے استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنے ہمیشہ اگر وہ ترکیب میں استعمال کیا جائے، اضافت میں استعمال کیا جائے تو اس کے معنے یقینی طور پر افضل کے ہوتے ہیں.اس کی مثالیں پیش کی گئی ہیں.خاتم الشعراء، خاتم العلماء، خاتم الاولیاء، خاتم الائمہ، خاتم المهاجرين، خاتم المحققين.خود رسول اللہ ﷺ نے خاتم المہاجرین حضرت عباس کو قرار دیا ہے.خاتم الخلفاء حضرت علیؓ کے لئے استعمال کیا گیا ہے.خاتم الاولیاء کا لفظ تفسیر میں موجود ہے.اسی طرح حضرت علی خاتم الاوصیاء تھے.منار الہدی میں موجود ہے.شیخ الصدوق کو خاتم المحد ثین کہا گیا ہے.خود دیوبندی علماء انورشاہ کشمیری صاحب کو خاتم المحد ثین لکھتے ہیں.تو یہ کوئی نئی ڈکشنری نہیں ہے.عربی زبان میں قرآن نازل ہوا ہے.پشتو میں نہیں نازل ہوا، نہ پنجابی میں نازل ہوا ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ ساری مثالیں جو ہیں محضر نامہ میں شامل ہیں؟

Page 118

102 مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ سارا محضر نامہ کو ہی میں پیش کر رہا ہوں.اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہہ رہا.جو بات اگر کسی جگہ کہنے کی ضرورت ہو تو وہ میں ساتھ بتا دیتا ہوں وضاحت کرتے ہوئے.اور پھر قرآن مجید کی آیات کے بعد پھر احادیث کی رو سے بتایا گیا ہے مثلاً خود رسول پاک ﷺ کی حدیث ہے لَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (سنن ابن ماجه كتاب الجنائز باب ما جاء في الصلواة على ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم و ذکر وفاته) آپ کے فرزند حضرت ابراہیم فوت ہوئے تو اس موقع پر حضور نے فرمایا ، ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ اگر میرا یہ بیٹا زندہ رہتا تو وہ یقینی طور پر سچا نبی ہوتا.ان کی وفات سے پہلے خاتم النبین کی آیت نازل ہو چکی تھی.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.5 ہجری میں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب: 5 ہجری میں اور حضرت ابراہیم کا وصال جو ہوا ہے وہ دو تین سال کے بعد ہوا ہے.اور اب اگر اس کے معنے ختم کرنے کے ہوتے حالانکہ قرآن میں خاتم کا لفظ ہے خاتم کا لفظ نہیں ہے.عربی میں عالم کے اور معنی ہیں اور عالم کے بالکل اور معنی ہیں.خاتم کے معنی مہر کے ہوتے ہیں اور مہر بادشاہ کو ملتی ہے جو سب سے افضل ہوتا ہے اور وہ تصدیق بھی کرنے کے لئے ہوتی ہے.یہ میں وضاحت کے لئے اتنا عرض کروں، حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے ارشاد کے مطابق ایک سوال و جواب کی مجلس تھی تو وہاں کوئٹہ کے ایک غالبا وکیل تھے اور ایک حج تھے تو یہ مسئلہ شروع ہوا.میں نے کہا آپ کے لئے تو بڑی واضح چیز ہے مثلاً عدالت کی طرف سے یہ لکھا ہوتا ہے کہ مہر عدالت سے جاری ہوا.مہر عدالت سے کوئی بند ہوا استعمال نہیں کرتا.تو مہر جاری کرنے کے لئے ہوتی ہے.فیضان وہ جاری کرتا ہے جو سب سے افضل ہوتا ہے اس لئے یہ بالکل واضح بات ہے.آنحضرت ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ آیت خاتم النبین نازل ہو چکی ہے اس واسطے اگر زندہ بھی رہتا تب بھی نبی نہ بن سکتا تھا.اس کے معنے امام اہلسنت نے یہ لکھے.یہ موضوعات کبیر علامہ علی القاری صفحہ 59 ناشر مطبع مجتبائی دہلی میں موجود ہے.فرماتے ہیں:.فَلَا يُنَاقِضُ قَوْلَهُ تَعَالَى خَاتَمَ النَّبِيِّينَ إِذَا الْمَعْنى “ 66

Page 119

103 یہ پانچ سوسال پہلے گذرنے والے ایک بلند پایہ عالم دین اور مجد داہل سنت کے معنی ہیں فرماتے ہیں:." إِذَا الْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَأْتِي نَبِيٍّ بَعْدَهُ يَنْسِخُ مِلَّتَهُ وَ لَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِهِ فرمایا خاتم النبیین کے معنی صرف یہ ہیں کہ اب آنحضرت ﷺ کے بعد ایسا نبی نہیں آ سکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کا امتی نہ ہو.“ یہ شرط ہے دراصل اور یہ معنی ہے خاتم النبین کے.(محضر نامہ میں ) اس کے بعد ہے: " انکار جہاد کے الزام کی حقیقت.“ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالوں سے پہلے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کا ایک ایک لفظ قیامت تک کے لئے ہے.قرآن میں جہاد کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے.قرآن کو جہاد کبیر قرار دیا گیا ہے.حدیث میں جہاد بالنفس کو بھی جہاد کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے.اور جب کوئی دشمن طاقت کے زور پر اسلامی حکومت کے او پر حملہ آور ہو جائے تو پھر تلوار کا جواب یعنی طاقت کا جواب طاقت سے دینا دفاع کے طور پر، یہ بھی جہاد ہے.مگر باقی جہاد ہر وقت جاری ہیں.قرآن کا جہاد نفس کا جہاد، قرآن کی رو سے جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَ انْفُسِكُمُ (التوبة: 41) جہاد بالنفس بھی ہے، جہاد بالاموال بھی ہے.اس کے لئے کوئی وقت جو ہے مخصوص نہیں مگر جہاں تک جہاد بالسیف کا تعلق ہے قرآن خود کہتا ہے کہ ان لوگوں سے لڑائی کرو جو تم سے لڑائی کرتے ہیں قَاتِلُوا کا لفظ ہے اور کہا ہے ” الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ “ (البقرة: 191 ) جو تم سے جنگ کرتے ہیں.دفاع کے طور پر تمہارا فرض ہے.چنانچہ پہلی آیت جو کہ جہاد کے فرض ہونے کے سلسلہ میں نازل ہوئی وہ بڑی واضح ہے.أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ( الج: 40) فرمایا ان لوگوں کو جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے.کن لوگوں کو؟ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا جن پر ظلم کیا گیا ہے اور اتنا بڑا ظلم کہ انہیں اپنے وطن سے بھی نکلنا پڑا ہے اور ہجرت کر کے ایک دوسرے مقام پر آنا پڑا ہے.فرمایا ہم ان کو اجازت دیتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ آنحضور نے جب تک کہ حضور مکہ میں رہے ، یہی فرمایا.ایک حدیث میں

Page 120

104 موجود ہے خود تکلیفیں برداشت کیں.صحابہ کے متعلق یہاں تک لکھا ہے کہ حضور گلی میں تشریف لے جارہے تھے تو آل یاسر میں سے بعض بزرگوں کو تکلیفیں دی جا رہی تھیں.مارا پیٹا جارہا تھا.حضور علی رقت سے بھر گئے اور فرمایا ” اِصْبِرُوا آلَ يَاسر (المعجم الكبير للطبراني باب السين.سمية بنت خباط مولاة ابي حذيفة بن المغيرة ( اے آل یا سر صبر سے کام لو.اللہ کا یہی ارشاد ہے.حضرت سمیہ سب سے پہلے شہید ہوئیں.اور ابو جہل نے نیزہ ان کی شرمگاہ میں چھو کر ان کو شہید کیا.مگر پھر بھی حضور نے فرمایا کہ صبر کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت یہاں موجود ہے کہ تیرہ سال تک حضور نے صبر کیا پھر آپ نے ہجرت کی.ہجرت کے باوجود ان ظالموں نے تعاقب کیا اور پھر حملہ آور ہو گئے.اس موقع پر خدا نے اذن دیا.یہ ہے جہاد کی حقیقت.اور یہی حقیقت ہے اور آگے پھر اس میں بتایا ہے کہ آئمہ دین بھی جہاد بالسیف کے متعلق وہی نظریہ رکھتے ہیں جو حضرت بانی جماعت احمدیہ نے پیش کیا تھا.چنانچہ حضرت سید احمد بریلوی سے جب پوچھا گیا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد جائز ہے یا نہیں تو انہوں نے فرمایا:.سرکار انگریزی گومنکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے.“ یہ کون کہہ رہے ہیں ! حضرت سید احمد صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ جو تیرھویں صدی کے مجدد تھے اور جن کا مرقد مبارک بالاکوٹ میں ہے.ہم ان کے ملک میں اعلانیہ وعظ کہتے اور ترویج کرتے ہیں.وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی بلکہ اگر ہم پر کوئی زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزاد ینے کو تیار ہیں.ہم سرکار انگریزی پر کس سبب سے جہاد کریں اور خلاف اصول مذہب طرفین کا خون بلا سبب گرا دیں.“ سوانح احمدی مرتبہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری صفحہ 71) حضرت شاہ اسماعیل صاحب شہید کا فتویٰ یہ ہے کہ:.گورنمنٹ انگلشیہ سے ہمارا کوئی جہاد نہیں اور ہم براہ راست سکھوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں.“

Page 121

105 اہلحدیث عالم جن کو شیخ الکل“ کہتے ہیں.آگے تفصیل آئے گی.حضور نے اس وقت جو جہاد کے موضوع پر کہا ہے ”فتاویٰ نذیریہ جلد 4 کا ایک ٹکڑا اس میں ہے.حضور نے اس کی پوری عبارت پڑھ کر سنائی تھی.وہ اپنے وقت پر میں بھی سناؤں گا متعلقہ حصہ کے لحاظ سے:.جبکہ شرط جہاد کی اس دیار میں معدوم ہوئی تو جہاد کا یہاں کرنا سبب ہلاکت اور معصیت ہوگا“.(فتاویٰ نذیریہ جلد 4 صفحہ 472) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.یہ مولوی نذیر حسین صاحب کا فتویٰ ہے؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.یہ مولوی سید نذیر حسین صاحب ” شیخ الکل“ جن کے شاگردوں میں مولوی محمد حسین بٹالوی بھی تھے.یہ ان کا فتویٰ ہے اور یہ فتویٰ 1857ء کے قریب کا ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فتویٰ تو 1900ء میں دیا گیا.پھر خلیفتہ المسلمین کا فتویٰ اس میں درج ہے کہ خلیفہ المسلمین نے 1857ء میں :.اس مضمون کا فتویٰ لکھ کر انگریزوں کو دے دیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو انگریزوں سے نہیں لڑنا چاہئے کیونکہ وہ خلافت اسلامیہ کے حلیف اور مددگار ثابت ہو چکے ہیں“.تاریخ اقوام عالم ، صفحہ 639 از مرتضی احمد خان میکش ناشر مجلس ترقی ادب لاہور ) یہ فتویٰ خلیفتہ المسلمین ترکی کا تھا.اور 1857ء میں تھا اور جماعت قائم کب ہوئی ہے؟ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.1889ء میں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.اور فتویٰ کب دیا ہے مسیح موعود علیہ السلام نے؟ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.1900 ء میں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ حقیقت ہے! پھر علماء اسلام لاہور کا فتویٰ جن میں بڑے بڑے اکابر علماء کے دستخط ثبت ہیں ، یہ پیش کیا گیا.مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب اہلحدیث لیڈرکا یہ فتویٰ بھی شامل ہے.اہل اسلام ہندوستان کے لئے گورنمنٹ انگریزی کی مخالفت اور بغاوت حرام ہے (رسالہ اشاعۃ السنۃ جلد 6 نمبر 10 صفحہ 287)

Page 122

106 مفسدہ 1857ء میں جو مسلمان شریک ہوئے تھے، وہ سخت گنہگار اور بحکم قرآن وحدیث وہ مفسد اور باغی اور بد کردار تھے.“ (رسالہ اشاعۃ السنۃ جلد 9 نمبر 10 ) اب تو ملاں نے بنا دیا ہے کانگریس کی وجہ سے، کہ یہ تحریک آزادی تھی حالانکہ تحریک بربادی تھی مسلمانوں کے لئے.تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جوان کی نگاہ میں سب سے پہلے محافظ ختم نبوت ہیں، وہ کہتے ہیں کہ 1857ء میں فساد کرنے والے قرآن اور حدیث کی رو سے مفسد تھے.دہشتگر د تھے اور باغی تھے اور بد کردار تھے.اس گورنمنٹ سے لڑنا یا ان سے لڑنے والوں کی ( خواہ ان کے بھائی مسلمان کیوں نہ ہوں) کسی نوع سے مدد کرنا صریح غدر اور حرام ہے.“ (رسالہ ” اشاعۃ السنية جلد 9 نمبر 10 صفحہ 38-48) اس موقع پر میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس موضوع پر مسلسل مضامین اشاعۃ السنہ میں شائع کئے.الاقتصاد فی مسئلۃہ الجھاؤ“ شائع کیا اور اس میں واضح کیا کہ اس وقت ہمارا اتحاد ہے انگریز حکومت کے ساتھ.اس وقت جہاد کرنے والے دراصل فساد کرتے ہیں.وہ Terrorist ہیں.وہ باغی ہیں اور مفسد ہیں.اس پر گورنمنٹ انگریزی نے ان کو چار مربع زمین دی.خود انہوں نے اعتراف کیا ہے اور اس کے علاوہ شمس العلماء کا خطاب دیا.چنانچہ 1911ء میں شاہ ایڈورڈ کی تاجپوشی کی اگر آپ روداد دیکھیں.اس میں لکھا ہوا موجود ہے کہ تاجپوشی کے موقع پر جن علماء کو بلایا گیا اور شرف مصافحہ بخشا گیا اور کچھ ایڈریس بھی کیا گیا.ان میں مولوی محمد حسین صاحب بھی تھے.انہوں نے ایک قصیدہ گورنمنٹ انگریزی اور بادشاہ کے حق میں پڑھا.اور اس کے علاوہ وہ اس مجلس میں کرسی نشینوں میں شامل رہے.یہ 1911ء کی بات تھی.جماعت کا قیام 1889ء میں ہوا ہے.بائیس سال بعد کی بات تھی.کوئی احمدی تھا جو اس وقت کرسی نشینوں میں شامل ہو؟ کسی کو انگریز نے شمس العلماء کا خطاب دیا ہو؟ شبلی صاحب کا نام شمس العلماء شبلی.دارالعلوم دیو بند کے ناظم محمد احمد صاحب شمس العلماء کا خطاب لے کر 1911ء کی تاجپوشی کے اجلاس میں موجود تھے.مربعے ملتے ہیں مولوی محمد حسین بٹالوی کو اور مسیح موعود علیہ السلام کے آباء کی جو جا گیراشی

Page 123

107 دیہات کی دلی کی مغلیہ حکومت نے دی تھی ، غدر کے وقت وہ ساری جا گیر ضبط کر لی جاتی ہے.عجیب بات ہے مسیح موعود کے خاندان کی جاگیریں ضبط کی جاتی ہیں اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جنہوں نے مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے، انہیں ان جا گیروں سے نوازا جاتا ہے اور شمس العلماء کا خطاب دیا جاتا ہے اور پھر کہتے ہیں جی خود کاشتہ پودا مرزا صاحب ہیں.اسی طرح سرسید کا فتوی اسباب بغاوت ہند میں ہے.(ملاحظہ ہو صفحہ 104 ناشرار دواکیڈمی سندھ مشن روڈ.کراچی ) آخر میں سب سے اہم ہے.1857ء میں فتویٰ مکہ کے مفتیوں نے دیا اور کہا کہ ہندوستان دار السلام ہے اور اس میں جو قائم شدہ انگریز کی حکومت ہے اس کی اطاعت قرآن کی رُو سے فرض ہے اور اس کے اوپر مہر لگانے والے حنفی مفتی جمال الدین بن عبداللہ ، مالکی مفتی مکہ معظمہ حسین بن ابراہیم اور مفتی مکہ معظمہ شافعی احمد بن الذہبی کے دستخط موجود ہیں.شورش کاشمیری صاحب نے بھی اپنی کتاب میں اس کو نقل کیا ہے.(کتاب ”سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ 31) پہلے سرسید نے اس کو اسباب بغاوت ہند“ میں لکھا ہے.اس میں بنگال کے مسلمانوں کے متعلق بھی لکھا ہے.لیکن پیش یہ کیا جاتا ہے کہ گویا سارا عالم اسلام اس وقت جہاد کر رہا تھا اور انگریز نے مرزا صاحب کو کھڑا کیا کہ جہاد کو ختم کر دیں.جہاد کہاں ہورہا تھا ؟ بتائیے !! جماعت احمدیہ کے قیام سے پہلے خلیفتہ المسلمین ، ملکہ کے مفتی، ہندوستان کے چوٹی کے علماء سارے اس بات پر متفق تھے کہ انگریز کی قائم شدہ حکومت کے خلاف جہاد کرنا قرآن وحدیث کے لحاظ سے بغاوت ہے اور فساد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اتنا کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا تھا يَضَعُ الْحَرْبَ کہ مسیح موعود لڑائی کو بند کر دیں گے.یہ رسول اللہ کا فرمان تھا جس کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں خلیفتہ المسلمین ، اور مکہ مفتی اور ہندوستان کے تمام علماء کے اس فتویٰ کی تصدیق کرتا ہوں.بات اتنی ہے ساری.پیش کرنا تھا.- ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.آپ نے مولانا! ابھی حضرت بانی سلسلہ کا پُر در دانتباہ بھی مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ آخری الفاظ تھے.حضور نے پر شوکت جو بیان دیا ہے.یہ محضر نامہ اس پر ختم ہوتا ہے.بہت ہی درد بھرا پیغام ہے.انسان آنسوؤں سے لبریز ہو جاتا ہے.فرماتے ہیں:.

Page 124

108 دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.“ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ ہیں اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دوہرایا.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ ہیں.تحفہ گولڑویہ صفحہ 8 اور 9 میں.حضرت خلیفہ اصبح الثالث نے محضر نامہ کے آخر میں یہ پڑھ کر سنائے.یہ 23 جولائی کا واقعہ ہے.نہایت رفت بھرے انداز میں فرمایا اور حق یہ ہے کہ آنسوؤں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں ان کو پڑھ کر ، ان کا تصور کر کے:.”دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بدقسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے....اے لوگو! تم یقیناً سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائے اور ہاتھ شل ہو جا ئیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا.میں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افتراء کے ساتھ ہو اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے.وہ خدمت جو عین وقت پر خداوند قدیر نے میرے سپرد کی ہے اور اسی کے لئے مجھے

Page 125

109 کیا ہے ہرگز ممکن نہیں کہ میں اس میں سستی کروں اگر چہ آفتاب ایک طرف سے اور زمین ایک طرف سے باہم مل کر کچلنا چاہیں.انسان کیا ہے محض ایک کیڑا.اور بشر کیا ہے محض ایک مضغہ.پس کیونکر میں ایک حی و قیوم کے حکم کو ایک کیڑے یا ایک مضغہ کے لئے ٹال دوں.جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا.اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا.خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم.پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑوا یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو.“ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 8-9 طبع اول.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 49-50) ضمیمہ اربعین نمبر 4 صفحہ 5 اور 7 میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جوتحریر فرمایا وہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی زبان مبارک سے ملک کے دانشوروں نے سنا.فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے :.میں محض نصحت اللہ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے.اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی لیکن اگر مجھے آپ لوگ کا ذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بددعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں.پھر اگر میں کا ذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی.اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں.میں ضمناً عرض کرتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک شعر اس وقت ذہن میں آ گیا تھا.میں اگر کاذب ہوں کذابوں کی دیکھوں گا سزا تو فرمایا:.پر اگر صادق ہوں پھر کیا عذر ہے روز شمار اگر میں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی اور

Page 126

110 آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ وزاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعا ئیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں.کوئی زمین پر مر نہیں سکتا جب تک آسمان پر نہ مارا جائے.میری روح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی.مجھے خدا سے ابراہیمی نسبت ہے.کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا.مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں.میں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں....اے خدا تو اس امت پر رحم کر.آمین (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 471-473) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اس کے بعد جو اختتام تھا وہ بھی سنا دیجئے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.وہ عنوان تھا دو دعا حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.اس میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ بھی آپ بیان فرمایا کرتے ہیں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.بات یہ ہوئی کہ حضرت خلیفہ اُسیح الثالث" جب اس پر شوکت بیان کو پڑھ چکے.ایک وجد کی کیفیت اس وقت پورے ایوان پر تھی یعنی ایوان سے مراد خصوصی کمیٹی کے ممبران پر اور ان کی شکلوں سے، ان کے خدوخال سے یہ بات بالکل عیاں ہو رہی تھی.حضور نے اس کے بعد عنوان پڑھا.” دعا.اب جو ملاں بیٹھے ہوئے تھے اپوزیشن کے بنچوں پر، کہنے لگے نہیں ! نہیں !! مرزا صاحب دعا ہم خود کریں گے.حضور نے فرمایا کہ یہ عنوان ہے اصل عبارت کا جو میں اب پڑھنے لگا ہوں.اس کے بعد حضور نے یہ عبارت پڑھی.اب میں وہ سناتا ہوں.یہ اختتام ہے.وو " دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے معزز ارکان اسمبلی کو ایسا

Page 127

111 نور فراست عطا فرمائے کہ وہ حق وصداقت پر مبنی ان فیصلوں تک پہنچ جائیں جو قرآن وسنت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوں اور پاکستان کی ترقی وسربلندی اور عروج و اقبال کے اس عظیم الشان مقام تک پہنچ جائے جس کا تصور جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی نے 1947ء میں درج ذیل الفاظ میں پیش کیا تھا.“ یہاں خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے الفاظ اس وقت موجود تھے.اسمبلی میں بھی سنائے گئے تھے.ہم لوگ قانون کی اتباع کرنے والے ہیں.چونکہ یہ تاریخ کا معاملہ ہے اس وقت رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال کئے گئے اور چھپ بھی گئے اور شائع بھی ہوئے.گورنمنٹ کے ریکارڈ میں موجود ہیں.میں نے امیر المؤمنین کا لفظ بھی اسی Sense میں استعمال کیا تھا.اس لئے کہ 1974ء کی بات ہو رہی ہے.بتارہا ہوں مؤرخ کو، تاریخ کے اوراق دنیا کے سامنے پیش کرنے ہیں.میرا فرض تھا کہ میں اس موقع پر امیر المؤمنین کا لفظ ہی استعمال کروں کیونکہ اس وقت حضرت مرزا ناصر احمد نہیں تھے امیرالمؤمنین خلیفہ اسیح الثالث کی حیثیت سے وہاں پر گئے تھے اور یہ تاریخ کا نوشتہ ہے.لکھا ہوا موجود ہے.دنیا کی کوئی طاقت اس کو مٹا نہیں سکتی.اب حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جن الفاظ میں تصور پیش کیا ، وہ یہ تھے:.” ہم نے عدل اور انصاف پر مبنی پاکستان کو اسلامک یونین کی پہلی سیڑھی بنانا ہے.یہی اسلامستان ہے جو دنیا میں حقیقی امن قائم کرے گا اور ہر ایک کو اس کا حق دلائے گا.جہاں روس اور امریکہ فیل ہوا ،صرف مکہ اور مدینہ ہی انشاء اللہ کامیاب ہوں گے.و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.روزنامه الفضل 23 مارچ 1956ء) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: محضر نامہ کا یہ مختصر خلاصہ تھا اور بعض جگہ پر وہ تحریرات بھی پیش کی گئی ہیں.حضور نے یہ محضر نامہ 22 اور 23 جولائی 1974ء کو قومی اسمبلی پاکستان کی خصوصی کمیٹی کے سامنے پڑھ کر سنایا.

Page 128

112 شاہ احمد نورانی کے مغالطہ آمیز بیان کا پوسٹ مارٹم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: مولانا ! 24 مئی 1983ء کے اخبار جنگ لاہور میں مولانا شاہ احمد صاحب نورانی کا یہ بیان چھپا تھا کہ 1974ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی قادیانیوں کے سربراہ (حضرت) مرزا ناصر احمد پر جرح کر رہی تھی اور ( حضرت ) مرزا ناصر احمد نے اپنا اسی (80) صفحات پر مشتمل محضر نامہ پڑھنا شروع کیا تو کسی پرندے کا ایک پر جو غلاظت سے بھرا ہوا تھا، چھوٹے پنکھے سے نکل کر آہستہ آہستہ گھومتا ہوا سیدھا مرزا ناصر احمد کے محضر نامہ پر گر گیا اور لوگوں نے دیکھا کہ ناصر احمد کا محضر نامہ گندگی میں بھر گیا.یہ واقعہ ہوایا نہیں ہوا؟ اس بارے میں آپ ایک چشم دید گواہ کی حیثیت سے اور ایک راوی کی حیثیت سے کچھ بتائیے کیونکہ آپ اُس وقت قومی اسمبلی ہال میں موجود تھے.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.جزاکم اللہ.میں آپ کا بہت ممنون احسان ہوں.یہ بہت ہی اہم سوال تھا جو اگر رہ جاتا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ساری گفتگو تشنہ رہ جاتی.جس وقت 24 مئی 1983 ء میں یہ خبریں شائع ہوئیں جنگ میں بھی اور دوسرے اخباروں میں بھی.تو حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اُس وقت ربوہ میں ہی تھے.جو نہی میں نے یہ خبر پڑھی تو اس پر ایک مختصر سا مضمون لکھا جسے پہلے ہفتہ وار لاہور نے 18 جون 1983 ء کو اور پھر اخبار الفضل نے 23 جون 1983ء کی اشاعت میں شائع کیا.اُس کا عنوان تھا ” قومی اسمبلی ہال میں آنحضرت ﷺ کا زندہ معجزہ میں یہ مختصر مضمون جو اس لحاظ سے جامعیت کا حامل ہے، لفظاً لفظ سنانا چاہتا ہوں.مضمون کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے.دور حاضر میں یہ فخر اور امتیاز تحریک احمدیت کو ہی حاصل ہے کہ وہ 1889ء یعنی اپنی بنیاد کے آغاز سے دنیا بھر میں یہ پر شوکت منادی کر رہی ہے کہ آنحضرت علیہ سلسلہ انبیاء میں سے واحد زندہ نبی ہیں جن کے فیضان، کرامات ،خوارق ، نشانات اور معجزات کا حیرت انگیز سلسلہ قیامت تک کے لئے جاری ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.

Page 129

113 کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے یہ ثمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے مصطفیٰ پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے نور لیا بار خدایا ہم نے معجزات کی غرض وغایت معجزات اور اقتداری نشانات کی غرض وغایت خدائے عزوجل کی زندہ ہستی اور اس کے برگزیدہ بندوں کی صداقت ثابت کرنا ہے.لہذا اگر کسی امر سے یہ مقصد پورا نہ ہو تو وہ ہرگز معجزہ قرار نہیں پاسکتا.مثلاً ایک عالم دین احسن علی سنبلی صاحب نے کرامات صحابہ صفحہ نمبر 81 میں (فاطمۃ الزھراء) سیدۃ النساء کی یہ کرامت لکھی ہے کہ معاذ اللہ انہوں نے بچپن میں کفار مکہ کو بڑی جرات سے گالیاں دیں.ع یہ معجزے میں شمار فرمایا ہے.جو بات کی خدا کی قسم لا جواب کی) اسی طرح حافظ محمد الحق صاحب دہلوی نے اپنی کتاب معجزات مسیح صفحہ 97 میں یہ انکشاف فرمایا ہے.( یہ کراچی سے چھپی ہے.) کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو یہ معجزہ دیا گیا کہ ان کی توجہ سے پانچ ہزار انسان مسخ ہو کر خنزیر بن گئے.یہ معجزہ نہیں دیا گیا کہ خنزیروں کو انسان بنا دیا گیا !! معجزہ یہ دیا گیا ہے کہ انسان تھے اور اپنی توجہ اور کرامات سے ان کو خنزیر بنادیا.) فرضی اور جعلی بالکل اسی طرح کا فرضی اور جعلی معجزہ کالعدم جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ جناب شاہ احمد نورانی صاحب نے حال ہی میں فرانس میں بیان فرمایا

Page 130

114 ہے.(اس کی تفصیل جو 24 مئی 1983 ء کے اخبار ”جنگ“ میں شائع ہوئی ڈاکٹر صاحب آپ بیان فرما چکے ہیں.) یہ محضر نامہ جس کے گندگی سے بھر جانے کا فسانہ جناب نورانی صاحب نے تیار کیا ہے دراصل ایک ایسی بصیرت افروز دستاویز تھا جو قرآن مجید اور احادیث اور بزرگان امت کے قیمتی افکار کا مرقع تھا.ایسی مقدس اور حقیقت افروز تحریر کے گندگی سے بھر جانے کو معجزہ قرار دینا معاذ اللہ آنحضرت ﷺ کی ایسی شرمناک تو ہین ہے جس کا تصور کر کے بھی ایک عاشق رسول کے دل و دماغ کا نپ اٹھتے ہیں.اور میں اسمبلی میں جماعت احمدیہ کے ایک نمائندہ وفد کے رکن کی حیثیت سے خدائے ذوالجلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بیان سراسر افتراء اور سیاہ جھوٹ ہے جس میں صداقت کا ذرہ برابر بھی شائبہ نہیں.اور جیسا کہ اسمبلی کے سپیکر اور اس کے تمام ممبران شاہد ہیں کہ یہ عاجز ان ایام میں پوری کا رروائی میں حاضر رہا.اور اسمبلی کے ممبران میں سے کوئی ممبر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ان میں سے کوئی ممبر بھی حضرت امام ہمام حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کے وجود مقدس سے مجھ سے زیادہ قریب نہیں تھا.کیونکہ ممبران اس میز سے دور فاصلے پر تھے جو حضور اور حضور کے خدام کے لئے سپیکر کے ڈائس کے پاس رکھی گئی تھی اور راقم الحروف کی نشست حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے بالکل ساتھ بائیں طرف مخصوص تھی.اور میں ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ نورانی صاحب کا بیان سو فیصدی بے بنیاد اور بے حقیقت ہے.ایسا کوئی واقعہ سرے سے رونما ہی نہیں ہوا.اور پھر ایک فرضی، جعلی اور خود تراشیدہ بات کو معجزہء رسول ع قرار دینا آنحضرت ﷺ کی افسوسناک تو ہین ہے.ہاں میں یہ ضرور کہوں گا کہ قومی اسمبلی میں ایک عظیم الشان علمی معجزہ ضرور دیکھنے میں آیا جو ہفت روزہ اہلحدیث لاہور ( 13 دسمبر 1974ء صفحہ 5) کے الفاظ میں یہ ہے.

Page 131

115 قاسم نانوتوی نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی بھی آجائے تو ختم نبوت میں فرق نہیں آتا.مولوی اسماعیل کہتا ہے کہ خدا ہزاروں محمد پیدا کر سکتا ہے.چنانچہ مرزائیوں نے قومی اسمبلی میں انہیں پیش کر کے ان مولویوں کی زبان بند کر دی تھی.“ 66 اس علمی معجزے کا اعتراف نورانی صاحب کے عقیدت مند مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری صاحب کو بھی ہے چنانچہ وہ اپنے رسالہ ” کل پاکستان صنعتی کا نفرنس ملتان“ کے صفحہ 20 پر لکھتے ہیں.تحریک نے اس قدر زور پکڑا کہ یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش ہوا.مرزا ناصر احمد کو وضاحت پیش کرنے کے لئے اسمبلی میں بلایا گیا.اس نے دیگر ثبوت پیش کرنے کے علاوہ بانی دارالعلوم دیو بند مولوی محمد قاسم نانوتوی کی کتاب تحذیر الناس سے اس قسم کی عبارات پیش کیں کہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.وہاں دیو بندی علماء بھی موجود تھے.وہ کیا جواب دیتے ؟.(یعنی بالکل خاموش اور ساکت ہو گئے.وہ بالکل ایسے ہی ہے جیسا کہ یہ مجھے خیال آیا.حضرت مصلح موعود کا شعر ہے..میرے پکڑنے قدرت کہاں تجھے صیاد کہ باغ حسن محمد کی عندلیب ہوں میں) آخر میں میں نے اس مضمون کے لکھا کہ ”مولانا شاہ احمد نورانی صاحب کو ان کے عقیدت مند دین محمد کی آبرو اور دین رسالت مآب کو زندہ کرنے والے اور پرچم مصطفی کو سر بلند کرنے والے قرار دیتے ہیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جناب نورانی صاحب کو آنحضرت عمﷺ کی قوت قدسی سے ظاہر ہونے والے اس عظیم الشان علمی معجزے کو چھوڑ کر ایک

Page 132

116 سراسر جھوٹی کہانی وضع کرنے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی.اس کا جواب کالعدم جمعیت علماء اسلام کے ایک دوسرے نامی گرامی رہنما علامہ خالد محمود کے نہایت مختصر مگر جامع الفاظ میں صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے.مولانا سید شاہ احمد نورانی اور ان کے رفقاء بیرونِ ملک تبلیغ کے نام پر فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں اور اس سلسلہ میں انتہائی غیر ذمہ داری سے کام لیتے ہیں.“ ( ” مشرق‘ لاہور 9 جنوری 1983 ، صفحہ 3) سچ فرمایا مخبر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے ”مِنْهُمْ تَخْرُجُ الْفِتَنُ وَفِيهِمْ تَعُودُ 66 (ہفت روزہ لاہور 18 جون 1983 ، صفحہ 5 الفضل ربوہ 23 جون 1983 ، صفحہ 4) ع دین ملا فی سبیل اللہ فساد مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا.ایک میجر صاحب کے ساتھ میں ریل گاڑی میں سرگودھا سے ربوہ آ رہا تھا.وہ میجر صاحب ذوق تھے.میں خاموش بیٹھا ہوا تھا.انہوں نے اس وقت بعض اکابر اور قدیم شعراء کے بعض اشعار سنائے.میں تو اس خیال میں تھا کہ کہیں کوئی ایسی بات ہو تو میں احمدیت کا ذکر ان کے سامنے پیش کروں.اسی سلسلہ میں جب وہ اس بات پر پہنچے کہ اب میں آپ کو داغ جیسے نامور شاعر کے بعض اشعار سنانا چاہتا ہوں.میں نے کہا ارشاد فرما ئیں.انہوں نے ان کے کلام میں سے یہ شعر پڑھا.پڑا فلک کو کبھی دل جلوں سے کام نہیں جلا کے راکھ نہ کر دوں تو داغ نام نہیں میں نے کہا میجر صاحب بالکل اسی قسم کا مضمون ایک سیاسی لیڈر نے بھی اپنے ایک شعر میں بیان کیا ہے.کہنے لگے وہ کیا ہے.میں نے کہا ان کا شعریہ ہے..کروڑ دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں جسے غرور ہو آئے کرے شکار میرا اس کے بعد میں نے کہا کہ ایک مذہبی لیڈر کا بھی شعر ہے اور مضمون یہی ہے اگر چہ قافیہ اور

Page 133

117 ردیف الگ ہیں.مگر ہے وہ روحانیت میں ڈوبا ہوا.اگر اجازت دیں تو میں سناؤں.کہنے لگا وہ تو ضرور سنانا چاہئے.ایک روحانی لیڈر کے سامنے ایک سیاسی لیڈر اور شاعر کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے.ضرور سنا ئیں.اس وقت پھر میں نے خوش الحانی سے یہی شعر پڑھا.میرے پکڑنے پہ قدرت کہاں تجھے صیاد که باغ حسن محمد کی عندلیب ہوں میں وہ تو جناب پھڑک اٹھا.کہنے لگے کہ جس طرح سورج کے مقابلے پر ذرے کی کوئی حیثیت نہیں اسی طرح داغ کی کوئی حیثیت نہیں ہے.کہنے لگے دوسرے کون ہیں میں نے کہا وہ امیر شریعت احرار ہیں.میں نے بتایا کہ آخری شعر امام جماعت احمد یہ سیدنامحمود کا ہے.کہنے لگے کہ جتنی ایک ذرے کی حیثیت سورج کے مقابل پر ہوتی ہے اس کے مقابل ان اشعار کی کوئی حیثیت نہیں ہے.یہ شعر تو ایک عارف انسان اپنے نقطۂ معراج پر پہنچ کر کہ سکتا ہے.کتابچہ ہمارا موقف حافظ محمد نصر اللہ صاحب : جزاکم اللہ.مولانا صاحب! قومی اسمبلی میں جو کتب اور رسائل " پیش کئے گئے، ان میں ایک کتابچہ ”ہمارا موقف بھی ممبران کو خصوصی طور پر پیش کیا گیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور حوالہ جات موجود ہیں.از راہ کرم اس کتا بچہ کا خلاصہ اور کچھ حوالہ جات ناظرین کے لئے پیش فرمائیں! مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.بات یہ ہے کہ کتابچہ ”ہمارا موقف صمدانی عدالت کے لئے تیار کیا گیا تھا اور اس کا خلاصہ یہ ہے.عنوان تو یہ ہے: ”ہمارا موقف بانی سلسلہ احمدیہ کو حضرت خاتم الانبیاء ﷺ سے ایک احقر خادم کی نسبت ہے.“ ' حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ختم نبوت کا اقرار اور حضرت خاتم النبین حضرت محمد مصطفی اللہ کے خاتم النبین ہونے پر ایمان کا نہایت شد ومد سے اعلان فرمایا ہے.“ آگے پھر حضرت مسیح پاک کی زبر دست تحریرات کے وہ حوالے دیئے گئے ہیں جن میں کہ ختم نبوت

Page 134

118 کے عقیدہ پر زور دیا گیا ہے.مثال کے طور پر حضوڑ فرماتے ہیں کہ:.میں جناب خاتم الانبیاء کی نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں.“ تقریر واجب الاعلان 23 اکتوبر 1891ء) یہ دعویٰ مسیحیت کے پہلے سال کی تحریر ہے.پھر فرماتے ہیں:.”ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا اله الا الله محمد رسول اللہ.ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گذران سے کوچ کریں گے، یہ ہے کہ حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی ﷺ خاتم النبین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا.اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.“ (ازالہ اوہام صفحہ 137 طبع اول تالیف 1891ء.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 169-170 ) یہ دو نمونے ہیں ورنہ حوالے اور بھی تھے.ایک عنوان اس میں تھا :.سوال کیا جاتا ہے کہ (۱) باوجود اس اعلان کے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے کس قسم کی نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ (۲) کیا امت محمدیہ کے موعود کے لئے اس قسم کی نبوت کا ذکر سلف صالحین کی کتب میں موجود ہے.(۳) اگر سلف صالحین کی کتب میں بھی اس قسم کا ذکر موجود تھا تو علماء وقت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر اس دعوی کی وجہ سے کفر کا فتویٰ کیوں لگاتے ہیں؟“ اس پہلے سوال کے جواب میں متعدد حوالوں میں سے یہ حوالہ دیا گیا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے:.اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں.شریعت والا نبی کوئی

Page 135

119 نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہوسکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو.“ تجلیات الہیہ صفحہ 25 طبع اوّل تالیف 1906 ء.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 412) جہاں تک سرور کونین حضرت خاتم النبین محمد مصطفی ﷺ سے نسبت کا سوال ہے، حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنا مقام ایک ادنی غلام کا مقام بیان فرمایا ہے.چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:.یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے.66 (براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 500 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3.روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 594) پھر فرماتے ہیں کہ دو و آنحضرت ﷺ کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک اس کو امتی بھی نہ کہا جائے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اس نے آنحضرت کی پیروی سے پایا ہے نہ براہ راست “ تجلیات الہیہ صفحہ 9 حاشیہ طبع اول تالیف 1906ء.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 170 ) پھر فرماتے ہیں:.کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی ﷺ کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ ملتا ہے، خلی اور طفیلی طور پر ملتا ہے.“ (ازالہ اوہام صفحہ 138 طبع اوّل تالیف 1891ء.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 170 ) پھر فرماتے ہیں:.میں نے محض خدا کے فضل سے، نہ اپنے کسی ہنر سے، اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی اور میرے لئے اس نعمت کا پا ناممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولی فخر الانبیاء اور خیر الورای حضرت محمد مصطفی ﷺ کی راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا اُس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی

Page 136

120 انسان بجز پیروی اُس نبی ﷺ کے، خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ پاسکتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ 62 طبع اول تالیف 1907 ء.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 64-65) یہ تحریر 1907 ء کی ہے یعنی وصال سے صرف ایک سال پہلے.پھر فرماتے ہیں:.میں بار بار کہتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول صلى الله کریم ﷺ سے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنا دیتا ہے اور اسی کامل انسان پر علوم غیبیہ کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دنیا میں کسی مذہب والا روحانی برکات میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.چنانچہ میں اس میں صاحب تجربہ ہوں.میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مردے، ان کے خدا مردے اور خود وہ تمام پیر و مردے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہو جانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں ، ہر گز ممکن نہیں، ضمیمہ رسالہ انجام انتقم صفحہ 62-61 طبع اول تالیف 1897ء.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 346-345) آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود مجھے دین اسلام کی حمایت کے لئے حج قاطعہ عطا فرمائے ہیں.آج دنیا معترف ہے کہ ان دلائل و براہین اور آسمانی نشانوں کو رد نہیں کیا جا سکتا.کیتھولک ہیرلڈ نائیجیریا 19 اگست 1955 ء کی اشاعت میں عیسائی مشن کے ایک سرگرم اور سرکردہ ممبر کا یہ بیان شائع کرتا ہے.آج سے تمہیں سال قبل ( یعنی 1925 ء کی طرف اشارہ ہے.) مسلمان نہایت پسماندگی کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے لیکن جب سے احمد یہ جماعت نے اپنی ترقی پسندانہ پروگرام کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا ہے مسلمانوں میں حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوگئی ہے“ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.یہ حوالہ بھی اسی کتابچہ میں درج کیا گیا؟

Page 137

121 مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.جی اسی کے میں اقتباس پیش خدمت کر رہا ہوں.مولوی اشرف علی تھانوی صاحب کے ترجمہ قرآن کے دیباچہ میں لکھا ہے.( یہ حوالہ اگر چہ پہلے آچکا ہے لیکن یہاں ضروری ہے جو اس کو سنایا جائے.) فرماتے ہیں:.اسی زمانہ میں پادری لیفر ائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا.ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا.حضرت عیسی کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا.تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور لیفر ائے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسی جس کا تم نام لیتے ہو.دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں.پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو.اس ترکیب سے اس نے لیفر ائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کو اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا.اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی.“ (دیباچه صفحه 30 مرتب و ناشر مولوی نور محمد قادری نقشبندی چشتی مالک اصبح المطابع و کارخانه تجارت کتب آرام باغ کراچی) تین سوال تھے جو اٹھائے گئے تھے، ان میں سے دوسرے سوال کے سلسلہ میں بتایا گیا کہ جس قسم کی نبوت کا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے دعوئی فرمایا ہے اس کا ذکر آنے والے موعود کے لئے سلف صالحین کی کتابوں میں بھی موجود ہے.اور خو درسول اکرم ﷺ نے آنے والے موعود کو چار مرتبہ نبی اللہ کے لفظ سے یاد فرمایا ہے.چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت النواس بن سمعان سے یہ روایت موجود ہے.( صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 516-515 مطبوعہ مصر ) اس کے بعد وہ حوالے جو کہ محضر نامہ میں موجود تھے اس میں دیئے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے

Page 138

122 کہ امت کے سلف صالحین بھی آنے والے موعود کو بہر حال نبی مانتے ہیں اور خاتم النبیین کی وہی تعریف کرتے ہیں جو تعریف حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے فرمائی ہے اور جماعت احمدیہ جس پر عمل پیرا ہے.اس میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ حضرت امام محمد طاہر گجراتی اور اسی طرح حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہم کے ارشادات پیش کیے گئے ہیں.مثلاً اس میں حضرت محی الدین ابن عربی کا حوالہ اس موقف میں یہ دیا گیا:.” فالنبوة سارية الى يوم القيامة في الخلق وان كان التشريع قد انقطع.فالتشريع جزء من اجزاء النبوة “ فتوحات مکیہ جلد 2 صفحہ 90 ناشر دار صادر.بیروت) ترجمہ.یہ نبوت مخلوق میں قیامت تک جاری ہے.اگر چہ شریعت کالا نا منقطع ہو گیا.پس شریعت کالا نا نبوت کے اجزاء میں سے ایک جز ہے.اس کے بعد اہلسنت کے مشہور امام حضرت امام علی القاری کا حوالہ دیا گیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ فلا يناقض قوله خاتم النبيين اذ المعنى انه لا ياتى نبى بعده ينسخ ملته ولم يكن من امته موضوعات کبیر‘ صفحہ 69) ترجمہ حديث ( لو عاش لكان صديقا نبيا) اللہ تعالیٰ کے قول خاتم النبین کے ہرگز مخالف نہیں کیونکہ خاتم النبین کے تو یہ معنی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہو سکتا جو آپ کے دین کو منسوخ کرے اور آپ کا امتی نہ ہو.شیعہ مسلک کی مشہور کتاب بحار الانوار‘ میں لکھا ہے:." يقول يا معشر الخلائق الا ومن اراد ان ينظر الى ابراهیم و اسماعيل فها انا ذا ابراهيم و اسماعيل الا ومن اراد ان ينظر الى موسى و يوشع فها اناذا موسى و يوشع الا ومن اراد ان ينظر الى عيسى و شمعون فها انا ذا عيسى و شمعون الا ومن

Page 139

123 اراد ان ينظر الى محمد و امیر المومنين صلوات الله عليه فها انا ذا محمد صلى الله عليه واله و امير المومنين 66 بحار الانوار جلد 13 صفحہ 202 ترجمہ:.امام مہدی کہیں گے اے لوگوں کے گروہ جو چاہتا ہو کہ وہ ابراہیم اور اسماعیل کو دیکھے تو مجھے دیکھ لے میں ابراہیم اور اسماعیل ہوں اور جو شخص موسیٰ اور یوشع کو دیکھنا چاہے تو وہ موسیٰ اور یوشع میں ہوں اور جو چاہے کہ عیسیٰ اور شمعون کو دیکھے تو میں وہی عیسیٰ اور شمعون ہوں.اور جو چاہتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ اور امیر المومنین صلوت اللہ علیہ کو دیکھے تو سنو! میں محمد اور امیر المومنین ہوں.“ شق سوم میں یہ بتایا گیا ہے کہ سلف صالحین اس بات کے قائل تھے کہ امت میں غیر تشریعی امتی نبی آسکتا ہے اور اس کا آنا ختم نبوت کے منافی نہیں....سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر موجودہ علماء حضرات بانی سلسلہ احمدیہ پر کفر کا فتویٰ کیوں لگاتے ہیں.تو ہم اس بارے میں اتنا ہی عرض کر سکتے ہیں کہ ” اولیاء امت پہلے سے اس کی خبر دے چکے ہیں.متعدد حوالہ جات میں سے صرف چند ایک حوالے نقل کئے جاتے ہیں.66 اس میں میں اصل متن پڑھنا چاہتا ہوں اگر چہ اشارہ میں پہلے بتا چکا ہوں.”دنیائے اسلام کے ممتاز اور بلند پایہ صوفی اور مفسر حضرت شیخ محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ نے پیشگوئی فرمائی:.واذا خرج هذا الامام المهدى فليس له عد و مبين الا الفقهاء خاصة فانه لا تبقى لهم رياسة ولا تمييز عن العامة فتوحات مکیہ جلد 3 صفحہ 337 مطبوعہ دار صادر.بیروت ) یعنی جب یہ امام مہدی آئیں گے تو ان کے سب سے زیادہ دشمن اور مخالف ومعاند شدید

Page 140

124 اس زمانہ کے علماء اور فقہاء ہوں گے کیونکہ (مہدی معہود کی بعثت کے بعد ) عوام پر ان کی برتری اور ان کا امتیاز باقی نہ رہے گا.قطب الاقطاب حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ( ولادت 971ھ بمطابق 1564ء.وفات 1034ھ بمطابق 1624ء) نے فرمایا.و, نزدیک است که علماء ظواہر مجتہدات...نبینا وعلیہ الصلوة والسلام از کمال دقت و غموض مأخذ انکار نمایند و مخالف کتاب و سنت و انند.مکتوبات امام ربانی جلد 2 مکتوب 35 صفحه 107) علماء ظواہر حضرت عیسی علی نبینا علیہ الصلوۃ والسلام کے مجتہدات سے ان کے ماخذ کے کمال دقیق اور پوشیدہ ہونے کے باعث انکار کر جائیں گے اور ان کو کتاب وسنت کے مخالف جانیں گے.جناب نواب صدیق حسن خان صاحب مجدد اہلحدیث (ولادت 1248ھ بمطابق 1835ء.وفات 1307ھ بمطابق 1889ء) نے لکھا: وو چوں مہدی علیہ السلام مقاتله بر احیاء سنت و امانت بدعت فر ماید علمائے وقت کہ خوگر تقلید فقہاء و اقتدائے مشائخ و آباء خود باشند گویند ایس مرد خانه براند از دین و ملت ماست و بمخالفت برخیزند و بحسب عادت خود دحکم تکفیر و تضلیل دی کنند نج الکرامہ ، صفحہ 363 مطبوعہ 1291 ء در مطبع شاہجہانی بھوپال) 1291ھ کے معنی یہ بنے کہ جماعت احمدیہ کا قیام 1306ھ میں ہوا ہے.اور یہ 1291ھ میں شائع ہوئی ہے.اس طرح قیام جماعت سے تقریباً پندرہ سال پہلے.اس کا ترجمہ یہ ہے:.جب امام مہدی علیہ السلام سنت رسول کو جاری کرنے اور بدعت کو مٹانے کی جنگ میں مصروف ہوں گے ، علمائے زمانہ جو اپنے فقہا کی تقلید اور اپنے مشائخ کی اقتدا کے خوگر ہیں، کہیں گے کہ یہ شخص (یعنی یہ مہدی ہونے کا مدعی ) تو ہمارے دین وملت کے طریق کے برخلاف ہے.اس

Page 141

125 لئے اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جائیں گے اور اپنی سابقہ عادت کے موافق ان کو کافر اور گمراہ قرار دینے لگیں گے.پھر اس میں لکھا ہے:.یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ جہاں تک علماء کے کفر کے فتوے کا تعلق ہے، کوئی فرقہ اس سے محفوظ نہیں رہا.جیسا کہ منیر انکوائری رپورٹ (یعنی تحقیقاتی عدالت 1954ء کی منیر انکوائری رپورٹ.ناقل ) میں ہے کہ فتوؤں کو دیکھا جائے تو کوئی ایک پاکستانی بھی مسلمان نہیں رہتا.جو آنحضرت علی کے اس واضح ارشاد کو نظر انداز کر دینے کا نتیجہ ہے کہ ”من صلى صلواتنا واستقبل قبلتنا و اكل ذبيحتنا فذالك المسلم الذى له ذمة الله و ذمة رسوله فلا تخفروا الله في ذمته “ (بخاری شریف کتاب الصلوۃ باب فضل استقبال القبلة مصری جلد 1 صفحہ 56) حضور ﷺ کے ارشاد مبارک کا ) ترجمہ (یہ ہے.) ”جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے.یہ دستوری اور قانونی تعریف ہے مسلم کی جوخود محمد عربی سرتاج مدینہ فخر دو عالم خاتم النبین خاتم المرسلین خاتم الصالحين خاتم العارفین محمد مصطفی احمد مجتبی مال نے بیان فرمائی ہے.فرمایا:.جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھالے وہ مسلمان ہے جس کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی امان ہے پس اللہ کی امان کے متعلق عہد کو مت توڑو.آخر میں لکھا ہے:.خلاصہ کلام خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے فرمایا کہ میں صرف امتی نبی ہوں.میرا اپنا کچھ نہیں ہے جو کچھ ہے وہ سیدنا ومولانا حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ کا ہے.جس طرح نظام شمسی میں چاند

Page 142

126 اپنے نور کے لئے کامل طور پر سورج کا محتاج ہوتا ہے اور سورج کے نور کے بغیر چاند کا اپنا کوئی معنوی وجود باقی نہیں رہتا اسی طرح روحانی دنیا میں حضرت رسول اکرم ﷺ کا وجود سراج منیر ہے اور آپ کے نور کے کامل انعکاس سے فیض یاب ہو کر چودہویں صدی کو منور کرنے والا وجود ہر گز کسی علیحدہ فضیلت کا دعویدار نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے نور کی ہر شعاع حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الاصفیاء ﷺ کے سرچشمہ نور کی مرہون منت ہوگی اور اس کے فیض کے بغیر کامل تاریکی ہوگی.بعینہ یہی صورت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوی کی ہے.چنانچہ آپ نے آنحضور خاتم الانبیاء ﷺ سے اپنی نسبت بیان کرتے ہوئے فرمایا:.سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں؟ بس فیصلہ یہی ہے“ یہ خلاصہ کلام حضرت سیدنا طاہر کے الفاظ میں لکھا گیا ہے.باقی حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے تحریر فرمایا تھا.علماء کی طرف سے پیش کردہ محضر نامے حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.جماعت احمدیہ کی طرف سے تو ابھی ذکر ہوا کہ محضر نامہ پیش کیا گیا.حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ نے دو دن میں اپنی زبان مبارک سے سنایا تو کیا علماء کی طرف سے بھی کوئی محضر نامہ پیش کیا گیا اسمبلی میں؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.بات یہ ہے کہ دو محضر نا مے اس وقت پیش کئے گئے.ایک تو مولوی غلام غوث صاحب ہزاروی نے لکھا.اس کا نام ہی محضر نامہ تھا اور دوسرا مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے یوسف بنوری صاحب کی (جو ساری ایجی ٹیشن کی رہبری کر رہے تھے ) نگرانی میں لکھا گیا

Page 143

127 اور وہ لکھنے والے مولوی تقی عثمانی صاحب تھے.جو غالباً شریعت کورٹ کے جسٹس بھی رہے ہیں اور دوسرے سرحد کے مشہور دیو بندی عالم مولوی سمیع الحق صاحب تھے اور اس کا عنوان تھا...ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اس کا نام ملت اسلامیہ کا موقف رکھا گیا تھا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہاں میں مجلس تحفظ ختم نبوت کا کاروبار کرنے والوں کا جو محضر نامہ ہے ، اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.لیکن ذکر سے پہلے دو باتیں مجھے ضرور عرض کرنی چاہئیں.ایک تو یہ جو محضر نامہ ہے اس کا نام ” ملت اسلامیہ کا موقف رکھا گیا ہے.سوال یہ ہے کہ تقی عثمانی صاحب اور مولوی سمیع الحق صاحب کو کس ملت اسلامیہ نے اپنا وکیل اور سفیر مقرر کیا.اس سے بڑھ کر کوئی دجل و فریب نہیں ہوسکتا کہ دو آدمی گھر بیٹھ کر ساری دنیا کے لوگوں کی طرف سے سفیر بن جائیں اور وکیل بن جائیں.یہ دونوں حضرات دیو بندی ہیں.ان حضرات نے جو لکھا ہے خودان کے متعلق مسلمانوں نے کیا لکھا ہے.آیا کسی مسلمان فرقے نے بطور نمائندہ کے ان کو چنا ہے.یہ ایک ایسی بات ہے کہ بہت نمایاں طور پر جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے.سفیر تو وہ ہوتا ہے جس پر اعتماد ہو.یہ دونوں دیو بندی حضرات جنہوں نے گھر بیٹھے ہوئے اپنے تئیں خود ہی اتنی بڑی عیاری اور مکاری کی کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کا اپنے تئیں سفیر قرار دے دیا.سفیر تو سعودی عرب والے بھی نہیں ، ان کو بھی کوئی مانتا نہیں ہے سفیر.ان کے مذہب کو نجدی مذہب کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نجد سے شیطان کی قرن نکلنے والی تھی ، رسول اللہ کا ارشاد ہے اور وہ نجدی فرقہ ہے.یہی سعودی عرب کی حکومت ہے، تو دو مولویوں کی سفارت تو الگ رہی سعودی عرب کو کوئی اپنا سفیر نہیں سمجھتا.مسلمان ان کو کیا سمجھتے ہیں؟ یہ فیصلے 1974ء سے پہلے ہو چکے ہیں.اور مسلمان وہ فیصلہ کر چکے ہیں !! وہ فیصلہ انہوں نے اس وقت کیا 1935ء میں، پاکستان کے قیام سے بھی بارہ سال پہلے جس وقت کہ ان لوگوں نے ووٹ لینے کی خاطر سکھوں سے سودا کیا.ان کے سامنے ،ان کے دفتر کے ساتھ ہی مسجد شہید گنج کو سکھوں نے شہید کر دیا مگر انہوں نے ووٹ لینے کی خاطر محض تماشائی ہونا قبول کیا.مسلمانوں نے اپنی جانیں دیں اس موقع پر.جہاں جہاں بھی مسلمان تھے انہوں نے شدید احتجاج کیا اور ایجی ٹیشن کرتے ہوئے بالا تفاق اعلان کیا کہ احرار کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.یہ

Page 144

128 اسلام کے غدار ہیں.پیا یہ فیصلہ صرف پاکستان کے چند صوبوں کے مسلمانوں نے نہیں کیا.متحدہ ہند کے چپے میں رہنے والےمسلمانوں نے کیا.اور کس وقت کیا؟ 1935ء میں.پاکستان کے قیام سے بارہ سال پہلے.یہ اس دور کی بات ہے " کتاب الاشرار محمد یحییٰ خان انا ؤ یو پی اس کے مرتب ہیں اور لکھنو کے یوسفی پریس سے وہ شائع ہوئی.1935ء کی کتاب ہے.اس میں ”زمیندار“ اخبار 10 اگست 1935 ء سے مولانا ظفر علی خان صاحب کی نظم شائع کی.آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ 1934ء میں قادیان کی احرار کا نفرنس میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والوں کی تائید کرنے کے لئے جو حضرات اٹھ کھڑے ہوئے ، ان میں مولانا بھی شامل تھے.مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر اخبار ”زمیندار“ لاہور.عنوان یہ تھا:.احرار کا جنازہ" مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی اور چودھری افضل حق کی اسلام فروشی کے کندھوں پر ( منقول از زبان خلق ) اللہ کے قانون کی پہچان سے اسلام اور ایمان اور احسان ހނ بیزار آگے کہتے ہیں:.بیزار ناموس پیمبر کے نگہبان ނ بیزار بیزار کافر سے موالات.مسلمان اور اس پر دعوی کہ ہیں اسلام کے احرار احرار کہاں کے، یہ ہیں اسلام کے غدار پنجاب کے احرار اسلام کے غدار بے گانہ بدبخت ہیں تہذیب عرب سے ڈرتے نہیں اللہ تعالیٰ کے غضب سے مل جائے حکومت کی وزارت کسی ڈھب سے

Page 145

129 سرکار مدینہ ނ نہیں ان کو سروکار پنجاب کے احرار اسلام کے غدار لیکن ختم نبوت کی مہر او پر ضرور لگاتے ہیں.کانگرس سے تعلق ضرور ہے، کمیونسٹوں سے ضرور ہے مگر سرکار مدینہ سے احرار کا کوئی تعلق نہیں ہے.) جا کر کہے ان سے کوئی اللہ کا بندہ جب دین کی حرمت کا گلے میں نہیں پھندہ اور شرع کی تذلیل ہے احرار کا دھندہ پھر کیوں ہیں مسلمان سے چندہ کے طلبگار پنجاب کے احرار اسلام کے غدار (احرار کی پوری تاریخ اس بات پر شاہد ناطق ہے.جتنے بھی اشتہار دیکھیں گے پہلے احمدیوں کو گالیاں دی گئیں.پھر آگے لکھتے ہیں کہ کھالوں کے لئے فلاں سے رابطہ کریں.چندہ ہمیں دیا جائے.آگے لکھتے ہیں مولانا ظفر علی صاحب : ) کھاتا ہے مسلمان کوئی سینے میں جو گولی گالی اسے دیتی ہے ان احرار کی ٹولی اسلامیوں کے خوں چلے کھیلنے ہولی ނ احرار کو پھر آج سے لکھیں نہ کیوں اشرار“ پنجاب کے احرار اسلام کے غدار سوجھی شہداء سکھوں انہیں مردار کی کھیتی پر کی یہ پچھیتی ہے نہ سرکار کی چھیتی توحید کے بیٹو! یہ ہے احرار کی پھبتی گمراہ ہیں خود اور ہمیں کہتے ہیں غلط کار پنجاب کے احرار اسلام کے غدار اللہ کے گھر کو ڈھا دے تو خوش ہیں

Page 146

130 مسجد کا نشاں کوئی مٹا دے تو یہ خوش ہیں پنجاب کے احرار اسلام کے غذار (اس لئے اذان کو گوارا نہیں کرتے ) مردان مجاہد سے جو اس طرح کئے ہیں اللہ کے رستے سے جو اس طرح ہے ہیں کی فوجوں کے مقابل جو ڈٹے ہیں پھر کیوں نہ یہ کمبخت ہوں رسوا سر بازار اسلام پنجاب کے احرار اسلام کے غدار یہ ایک دوسری نظم ” سیاست اخبار 16 اگست 1935 ء صفحہ 13 کی ہے.اس کو اگر غزل کہا جائے تو اس کا مطلع ہے.ع احرار کہاں اور کہاں خدمت اسلام“ احرار کہاں اور کہاں خدمت اسلام چندے کی اسے فکر لگی ہے سحر و شام یہ شیخ مولانا، سید میاں جی سب پیٹ کے بندے ہیں انہیں چندے سے ہے کام جمع ہوں جہاں چند غلامان محمد نازل ہوئے چندے کے لئے صورت الہام جب وقت مصیبت پڑا قوم پر آ کر اور چھا گئی ہر سمت قیامت کی سیاہ شام (1935ء کے اس خطرناک قیامت خیز واقعہ کی طرف اشارہ ہے.شہید گنج کی شکل میں ) ملت یا غلامان محمد خادم خاموش کھڑے تکتے رہے صورت اصنام

Page 147

131 ٹ کی خاطر یہ تگ و دو بھی عبث ہے بہتر ہے کہ دنیا سے مٹا ڈالیں تیرا نام بھی ہو ناصیہ فرسا سرکار کی چوکھٹ یہ بھی ہندو سے بھی مل سکھ سے بھی نامہ و پیغام انگریز کے خود کاشتہ پودے بھی ہیں) اسلام نوازی کا اٹھا چہرے سے پردہ اب منہ کو چھپانے کی نہ کر کوشش ناکام دنیا میں بہت چندے کی خاطر کی تگ و دو بہتر ہے کہ اب گوشئہ تربت میں کر آرام اب تمہیں اس زمین میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ) ہاتھوں میں ترے ساغر کوثر کی بجائے مے خانہ انگریز کا ہے ٹوٹا ہوا جام کون تھا خود کاشتہ پودا ؟ احراری جس کو ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں نے خود کاشتہ پودا انگریز کا قرار دیا، اسلام کا غدار قرار دیا.یہ فیصلہ ہے.اس قوم کے یہ ترجمان بن سکتے ہیں؟ کتنا بڑا فراڈ ہے.کتنا بڑا جھوٹ ہے.کتنا بڑا بہتان ہے!! اب میں بتاتا ہوں کہ ان کے متعلق مذہبی حلقوں نے کیا کچھ فیصلہ کیا؟ کیا کچھ شائع کیا؟ بریلوی حضرات نے کھلے لفظوں میں.یہ کتاب ہے ”نماز قضاء عمری پڑھنے کا طریقہ اس کے آخر میں لکھا ہے.یہ دیو بندی گستاخ رسول ہیں.اس کا کوئی تعلق اسلام کے ساتھ نہیں.یہ مسلمان کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں.(صفحہ 13 منصفہ انہیں احمد نوری ناشر مکتبہ نوریہ رضویہ وکٹوریہ مارکیٹ سکھر ) مولوی محمد مقبول احمد قادری نے یہاں پاکستان میں لاہور سے کتاب شائع کی.اس کا نام تھا بھیڑ نما بھیڑیے اور اس میں لکھا کہ تم لوگ احمدیوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہو کہ یہ ختم نبوت کے منکر ہیں.تم عجیب انسان ہو.مرزائی ایک آیت کا مفہوم بگاڑ کر پیش کریں

Page 148

132 یعنی خاتم النبیین کی آیت کے منکر نہیں ہیں، کوئی مرزائی یہ نہیں کہتا کہ نبی آنحضرت ﷺ کو خاتم النبین نہیں مانتا.صرف مفہوم کو بگاڑتے ہیں.“ یعنی یہ بھی احمدی نہیں کہتا کہ ہم آنحضرت ﷺ کو خاتم النبین نہیں مانتے.اتنا ہے کہ صرف اس کے مفہوم کو بگاڑتے ہیں.یہ نفی عالم کہہ رہے ہیں:.ان کے پیچھے لٹھ لئے پھرتے ہو“ یہ لکھنے والے مولا نا محمد مقبول احمد صاحب قادری جامعہ مسجد رحیمیہ اہلسنت و الجماعت سلیم پارک چاہ میراں لاہور.عنوان کیا ہے؟ ”بھیڑ نما بھیڑیے تو کہتے ہیں کہ احمدیوں کے پیچھے لٹھ اٹھائے ہوئے ہو حالانکہ وہ خاتم النبین کو مانتے ہیں.معنی میں اختلاف ہے.آپ ضرور حیران ہوں گے میں نے جس طرح کہ عرض کیا ہے پینتیس معنی امت مسلمہ کے علماء نے کئے ہیں خاتم النبین کے.اور جماعت احمد یہ سارے معنوں کو تسلیم کرتی ہے.صرف وہ معنی جن سے مسیح کو خاتم النبین تسلیم کرنا پڑے ہم ان کو رد کرتے ہیں.تو لکھتے ہیں.مگر خود علم مصطفی ﷺ کا انکار کر کے سارے قرآن اور آپ کی نبوت کے منکر ہو کر بھی دین اسلام کے علمبر دار کہلاتے ہو.“ (بھیڑ نما بھیڑیے ناشر جامع مسجد رحیمیہ اہلسنت سلیم پارک چاہ میراں لا ہور صفحہ 13 ) تم ختم نبوت ہی کے منکر نہیں بلکہ سارے قرآن کے منکر ہو.اسی طرح اب دیکھیں کہ خودان حضرات نے ، دیو بندیوں نے ، دوسروں کے متعلق جن کے کہ یہ سفیر بنے ہوئے ہیں دونوں حضرت، کیا کہا ہے.اب یہ آپ سوچیں؟ یہ دیوبندی عالم جن کا مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ بڑا گہرا تعلق تھا بلکہ انہوں نے ان کی سوانح بھی لکھی ہے.علامہ عبدالرزاق ملیح آبادی.انہوں نے یہاں پاکستان میں پمفلٹ لاکھوں کی تعداد میں شائع کئے کہ یہ جو اہلسنت والجماعت کہلاتے ہیں اور یا عبد القادر جیلانی کہنے والے ہیں، یہ سارے کے سارے مشرک ہیں.ان کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.( مسلمان مشرک شائع کردہ ڈاکٹر عثمانی تو حید روڈ کیماڑی.کراچی ) یہ علامہ عبد الرزاق ملیح آبادی ہیں.اب آپ دیکھتے ہیں کہ کون سی ملت اسلامیہ ہے.

Page 149

133 جہاں تک اہلسنت کا تعلق ہے، دیو بندی مذہب کے مطابق یہ سارے مشرک ہیں.یہ تھا عبدالرزاق صاحب ملیح آبادی کا ارشاد.اب آپ امیر شریعت صاحب کا ارشاد نیں.آپ فرماتے ہیں.ز کاف کعبه تا کاف کراچی سراسر کفر کفر دون کفر کعبہ کے کاف سے لے کر کراچی کی کاف تک ہر طرف کفر ہی کفر ہے.کفر ہی مسلط ہے.( حیات امیر شریعت صفحہ 420) یہ ملت ہے جس کا موقف بیان کر رہے ہیں؟ مولاناحسین احمد صاحب مدنی چوٹی کے عالم دین.انہوں نے ”الشہاب الثاقب میں لکھا ہے کہ وو رسول مقبول علیه السلام دجال بریلوی اور ان کے اتباع کو سحقاً سحقاً فرما کر اپنے حوض مور دو شفاعت محمود سے کتوں سے بدتر کر کے دھتکار دیں گے اور امت مرحومہ کے اجر وثواب و منازل و نعیم سے محروم کئے جاویں گے.“ (صفحہ 111 ناشر کتب خانہ اعزاز یہ دیوبند ضلع سہارنپور ) اہلسنت والجماعت جن کی دنیا میں اکثریت ہے.یہ ان کے متعلق مولا ناحسین احمد صاحب مدنی کا عقیدہ ہے.مودودی صاحب کے متعلق دیکھیں.مفتی محمود صاحب جو کہ اپوزیشن لیڈر تھے اس وقت اور خصوصی کمیٹی کے روح رواں بھی تھے.یہ ہفت روزہ زندگی لاہور 10 نومبر 1969ء میں شائع شدہ ہے اور اسے الگ بھی مفتی محمود صاحب کی تنظیم جمعیت گارڈ لائکپور نے شائع کرایا ہے.یہ میں مفتی محمود صاحب کا فتویٰ پڑھ رہا ہوں:.میں آج یہاں پریس کلب حیدر آباد میں فتویٰ دیتا ہوں کہ مودودی گمراہ ، کافراور خارج از اسلام ہے.اس کے اور اس کی جماعت سے تعلق رکھنے والے کسی مولوی کے پیچھے نماز پڑھنا نا جائز اور حرام ہے.“ کون کہہ رہا ہے؟ مولانا مفتی محمود صاحب ! جو نام نہاد می فطین ختم نبوت کے سرخیل اور قافلہ سالار تھے.

Page 150

134 اس کی جماعت سے تعلق رکھنا صریح کفر اور ضلالت ہے.“ اے کاش مولوی فضل الرحمان صاحب بھی اس فتوی کوسن لیں اور آگے لکھتے ہیں:.وہ امریکہ اور سرمایہ داروں کا ایجنٹ ہے 66 تو مولوی فضل الرحمان صاحب کے والد اور تحفظ ختم نبوت کے چیمپیئن مفتی محمود صاحب کا فتویٰ مودودی صاحب کے متعلق یہ ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور امریکہ کے ایجنٹ ہیں.یہ اشتہار قاری عبد الحمید صدیقی تحصیل گلی بنوں سٹی کی طرف سے شائع ہوا ہے.1963ء کا اشتہار ہے یعنی 1974ء سے گیارہ سال پہلے کی بات ہے.لکھتے ہیں : فتنہ مودودیت کے استیصال کے لئے علماء پاکستان کا اولین فرض ہے کہ وہ شریعت محمدی کا پوسٹمارٹم کرنے والے اور تجدید واحیائے دین کے علمبر دار مودودی کے ملحدانہ عقائد اور اسلام کش سرگرمیوں کو عوام میں بہت جلد بے نقاب کریں اور اس کی مخرب اسلام مطبوعات بذریعہ حکومت ضبط و تلف کرائیں.مودودی اور مودودے اپنی حاصل کردہ ملحدانہ طاقت اور خوشنما الفاظ میں ملبوس پُر فریب جماعت ( جماعت اسلامی) کے ذریعہ ماڈرن اسلام پھیلا کر بہت جلد ملت اسلامیہ کے قلوب سے روح اسلام نکال دینا چاہتے ہیں.ڈکٹیٹرانہ ذہنیت کے مالک خدا اور سول کے احکام سے بے نیاز اور اسلاف کی شان میں گستاخیاں روا رکھنے والے دریدہ دہن مودودی کا مشن نا قابل برداشت ہے.“ پھر سب بڑی تو تعداد جماعت اہلسنت کی تھی.اس میں پھر مودودی صاحب کا میں ذکر کر رہا ہوں اور مودودی صاحب کے متعلق اب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کا کیا قول ہے؟ دیکھیں: میں بخاری ہوں.مودودی نہیں ہوں.آج وہ کہتا ہے کہ میں تحریک ( تحریک ختم نبوت) میں شامل نہیں تھا.میں کہتا ہوں کہ اگر مودودی شامل نہیں تھا تو ان سے حلفیہ بیان کا مطالبہ نہیں کرتا.صرف یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے لڑکوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر اعلان کر دیں، سچ اور جھوٹ سامنے

Page 151

135 66 آجائے گا.“ اور آخر میں لکھتے ہیں کہ:.مودودی صاحب تحریک کی ذمہ داری سے ہزار دامن بچا ئیں لیکن میں ذمہ داری قبول کرتا ہوں.میں تحریک میں شامل تھا.جو شامل تھا اس نے سال ( کی سزا) کاٹی.جو شامل نہیں تھا اس نے دوسال کائی.جب میں رہا ہوا تو جیل کی ڈیوڑھی پر آ کر کہا کہ جنہوں نے تقریریں کیں وہ رہا ہوئے.جنہوں نے سر ہلایا وہ پھنسے رہے.“ آگے لکھتے ہیں:." کیا یہی دیانت ہے کہ ہزاروں کو مروا کر کہا جائے کہ میں شامل نہ تھا“ آگے پھر مودودی کو للکار کر کہتے ہیں:.ارے تم سے تو کافر گلیلیو ہی اچھا تھا جس نے زہر کا پیالہ پی لیا تھا.“ نوادرات امیر شریعت صفحہ 61.ادارہ کریمیہ تعلیم القرآن اندرون شیرانوالہ گیٹ لاہور ) یہ امیر شریعت کا فتویٰ مودودی صاحب کے بارے میں ہے.یہ ملت اسلامیہ ہے! ! جس کے ترجمان اور سفیر مولوی تقی صاحب اور مولانا سمیع الحق صاحب ہیں؟ اب آخر میں ایک بہت بڑا گر وہ اہلسنت کا اور فرقہ امامیہ اثنا عشریہ کا آتا ہے اس بارے میں آپ حیران ہوں گے کہ کراچی سے دیوبندیوں نے کتاب شائع کی ” تاریخی دستاویز“.یہ چھ سو صفحہ کی کتاب ہے اور سارے کے سارے انہوں نے خود شیعہ حضرات کی کتابوں کے عکس دئے ہوئے ہیں اور کس غرض سے دیئے ہیں؟ مطالبہ کیا گیا، اس وقت نواز شریف کی حکومت تھی اور وزیر مذہبی اموراس وقت میانوالی کے مسلم لیگی لیڈر جو کہ 1953ء میں روپوش ہو گئے تھے داڑھی منڈوا کر مولوی عبدالستار صاحب نیازی.ان کی تحریک پر اہل سنت و الجماعت کی طرف سے اور دیو بندیوں کی طرف سے خصوصاً دیوبندی حضرات کیونکہ یہ کتاب صرف دیو بندیوں نے شائع کی ہے اور سپاہ صحابہ کے سر پرست ضیاء الرحمان فاروقی نے اس کا مندرجہ ذیل دیباچہ لکھا ہے.لمحہ فکریہ

Page 152

136 قارئین کرام سے خصوصی گذارش ہے کہ تاریخی دستاویز کے مطالعہ سے آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ شیعہ کے عقائد کے مطابق کلمہ طیبہ کی تبدیلی ، عقیدہ تحریف قرآن، تکفیر صحابہ اور عقیدہ امامت میں امت مسلمہ کے عقائد سے یکسر انحراف کر کے من گھڑت اور خود ساختہ نئی شریعت اور نئے دین کی ترویج کی گئی ہے.ان عقائد کا محمدی شریعت اور اسلامی عقائد سے دور کا بھی تعلق نہیں.اس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے ( دیو بندی کہتے ہیں ) کہ سپاہ صحابہ کی طرف سے شیعہ کے کفر کے اعلان کو محض تعصب اور تنگ نظری پر محمول کرنا حقائق سے انحراف ہے.شیعہ کے مذکورہ عقائد کے بعد اگر ایرانی حکومت یا دنیا بھر کا شیعہ اپنے اسلام کے دعوئی میں اگر اسی طرح اصرار کرتا رہے گا تو شرعی ذمہ داری کے مطابق ان کے کفر کا اعلان بھی اسی قوت اور جرات کے ساتھ ہوتا رہے گا.یہ نہیں ہوسکتا کہ کفریہ عقائد کو اسلام کا نام دے کر دولت کے بل بوتے پر عام کیا جائے تو اس پر مسامحت یا چشم پوشی یا خاموشی اختیار کی جائے.شیعہ عقائد کی تکفیر پوری امت مسلمہ کا بنیادی فریضہ ہے.( تاریخی دستاویز صفحه 744) اور یہی نہیں بلکہ مفتی احتشام الحق صاحب نے انہی دنوں میں یہ بیان جاری کیا جب احمدیوں کو ناٹ مسلم قرار دیا گیا کہ اب مودودیوں کو بھی غیر مسلم قرار دیا جانا چاہئے ، اب میں آپ سے پوچھتا ہوں خدا کے لئے بتائیں اور سوچیں کہ وہ کون سی ملت اسلامیہ ہے جس کے سفیر اور جن کے وکیل ہونے کی حیثیت سے انہوں نے یہ موقف لکھا تھا.سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ ملت اسلامیہ سے مرادان کی اصطلاح میں دیکھیں.یہ تو تمام دنیا مانتی ہے اور متکلمین کا مشہور یہ علم کلام کے لحاظ سے کہ لِكُلِّ أَنْ يُصْطَلِعَ ہر شخص اپنی Terminology بنا سکتا ہے،اختیار ہے.اس میں کسی کو اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں.یہ بالکل ویسی ہی بات ہے کہ جس طرح ایک دیو بندی شخص تھا اس سے کسی نے پوچھا کہ

Page 153

137 آپ بادشاہی مسجد میں کیوں نہیں گئے.کہنے لگے کہ نہیں میں بادشاہی مسجد میں گیا تھا اور نماز و ہیں پڑھتا ہوں.کہنے لگا میں نے تو نہیں دیکھا.کہنے لگے میں نے اپنی چارپائی کا نام بادشاہی مسجد رکھا ہوا ہے.تو میں نماز ہمیشہ بادشاہی مسجد ہی میں پڑھتا ہوں اور مراد میری چار پائی ہے.تو حضرت اگر یہ حضرات اپنا نام اصطلاح کے لحاظ سے ملت اسلامیہ رکھیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے.مگر انہیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ مسلمانوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہے.مسلمان تو ان کو پہلے ہی اسلام کا غدار قرار دے چکے ہیں.ان کو تو اپنا نام کہتے ہوئے ہی شرم کھانی چاہئے تھی مگر یہ عجیب بات ہے کہ اسلام کے غذاروں نے اس زمانہ میں آکر کتاب لکھی اور کہا کہ آج ہم غدار نہیں آج ہم ملت اسلامیہ کے ترجمان اور سفیر کی حیثیت سے پیش ہوں گے.شیطان نے بہت جھوٹ بولے ہوں گے لیکن میرا خیال ہے کہ بیسویں صدی میں اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں ہوگا.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مولانا آپ نے بتایا کہ ایک محضر نامہ تو وہ تھا جو کہ مجلس تحفظ ختم نبوت والوں کی طرف سے پیش کیا گیا اور اس کا نام انہوں نے ملت اسلامیہ کا موقف رکھا.اور اس کا آپ نے بڑی تفصیل کے ساتھ پوسٹمارٹم کیا ہے کہ ملت اسلامیہ اصل کیا تھی اور کس طرح انہوں نے اس کا نام چرایا.اس میں جو دوسرا محضر نامہ پیش کیا گیا وہ مولانا غلام غوث ہزاروی کی طرف سے پیش کیا گیا تھا.کیا آپ مولانا غلام غوث ہزاروی کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.ایک خاص چیز بیان کرنی ہے.بہت دلچسپ اور دو باتیں عرض کرنی چاہتا ہوں.ان کے محضر نامہ میں جو خاص بات کہی گئی اور ملت اسلامیہ، یعنی مولوی تقی صاحب اور سمیع الحق صاحب نے نہیں بیان کی.وہ یہ تھی کہ یہ زمانہ جمہور بیت کا ہے اور ہمیں اختیار ہے کہ ہم جس کو چاہیں کا فر سمجھیں اور جس کو چاہیں فیصلہ کریں کہ کا فرنہیں ہے اور اس کے لئے تاریخی صلى الله ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ آنحضرت علیہ کے خلاف قریش مکہ نے دارالندوہ میں فیصلہ کیا تھا اور یہ ان کا حق ہے کیونکہ اکثریت آنحضرت کے خلاف تھی.اس وجہ سے انہوں نے فیصلہ صادر کیا.اسی طرح آج ہمارا حق ہے کہ اکثریت ہونے کی وجہ سے ہم بانی جماعت احمد یہ اور جماعت کے متعلق فیصلہ کریں.یہ عجیب بات ہے میں سوچ رہا تھا اور اس پر میں نے مقالہ لکھا ہے.ہفت روزہ لا ہور میں چھپا.یہ ہفت روزہ لاہور 24 مارچ 1975ء صفحہ 10 تا 13 میں شائع شدہ ہے پھر اس کے بعد الفضل

Page 154

138 انٹر نیشنل یکم تمبر 2000ء صفحہ 10 تا 12 میں بھی شائع کیا گیا.کینیڈا میں بھی چھپ چکا ہے.تحقیق سے میں نے ثابت کیا ہے کہ گریگورین کیلنڈر (Gregorian Calendar) کا ہجری کیلنڈر کے ساتھ اگر توافق کیا جائے اور تاریخ الخمیس کو دیکھا جائے جو کہ انتہائی مستند تاریخ ہے اسلام کی.اس میں 28 صفر تاریخ بتائی گئی ہے دارالندوہ کے فیصلہ کی اور اگر آپ گریگورین کیلنڈ رکو دیکھیں، یہ ٹھیک 7 ستمبر بنتی ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یعنی آنحضرت ﷺ کے خلاف جو فیصلہ کیا گیا وہ بھی 7 ستمبر کو ہوا ہے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.آنحضرت ﷺ کے خلاف جو فیصلہ کیا گیا، قریش مکہ نے کیا ، ابوجہل نے کیا ، عتبہ نے کیا ، شیبہ نے کیا، نجدیوں نے کیا ، وہ فیصلہ بھی ٹھیک 7 ستمبر کو ہوا تھا.اب آپ دیکھیں یہی وجہ ہے کہ موجودہ مورخ جن میں مبارک پوری صاحب بھی اور دوسرے بھی ہیں اور مصر کے مشہور ماہر فلکیات محمد مختار پاشا جو ہیں جنہوں نے دو ہزار سالہ گریگورین کیلنڈر کا توافق دیا ہے اپنی کتاب "التوفیقات الہامیہ میں جو 1894ء کی شائع شدہ ہے.20 ستمبر 622ء آنحضرت کے ورود قبا کی تاریخ انہوں نے بتائی ہے.20 ستمبر اگر ورو د قبا کو سمجھا جائے تو آپ یہ دیکھیں کہ اس دور میں سفر کے لحاظ سے آنحضرت معہ آٹھ دن میں پہنچے ہیں ہجرت کر کے غار ثور سے اور آٹھ دنوں میں ہی حجتہ الوداع کے موقع پر مدینہ سے مکہ میں پہنچے ہیں.اب بالکل واضح طور پر آپ کے سامنے یہ تصویر آ جائے گی کہ 7 ستمبر کو فیصلہ ہوا.7 اور 8 ستمبر کی درمیانی رات غار ثور تک پہنچنے میں گزری.اور 9، 10، 11 تین دن غار میں رہے.یہ تین دن 11 کو ختم ہوتے ہیں.بارہ کو چلے ہیں اور آٹھ دن میں 20 ستمبر کو پہنچے ہیں تو ٹھیک 7 ستمبر کو یہ فیصلہ ہوا.میں سمجھتا ہوں اور اکثر خیال آتا ہے کہ اگر بھٹو صاحب کو اور مولویوں کو پتا ہوتا کہ 7 ستمبر ہی کو اسلام کے دشمنوں نے محمد مصطفی اے کے خلاف فیصلہ کیا تھا تو پھر وہ 7 ستمبر کی تاریخ نہ رکھتے.اگر خواہ ہم ہزاروں لاکھوں روپے بھی دے دیتے.لیکن یہ خدا کی نقد ی تھی.سے وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی فسبحان الذى اخرى الاعادي

Page 155

139 اور عجیب بات ہے کہ کوئٹہ میں مولوی تاج محمود صاحب نے جو کہ وہاں کے ختم نبوت کے چوٹی کے لیڈر سمجھے جاتے ہیں، عدالت میں بیان دیا اور وہ مصدقہ بیان ہے.جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ جو تکلیفیں آپ احمدیوں کو دے رہے ہیں یہ مسلمانوں کو بھی دی جاتی تھیں؟ انہوں نے کہا کہ وہ تکلیفیں جن میں یہ ہے کہ کلمہ کی وجہ سے، مسجد سے نکالنے کے لحاظ سے، یہ وہی کام ہے جو مشرکین مکہ محمد رسول اللہ کے خلاف کرتے تھے، وہی کچھ ہم کر رہے ہیں.تو خدا نے ان کی زبان سے کہلوا دیا کہ خاتم النبین کے بروز کون ہیں اور دشمنان خاتم النبین کے بروز کون ہیں.یہ تو پہلی بات تھی.مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی نے اپنے محضر نامہ میں اس نکتہ کو پیش کیا.یہ خدا کی تقدیر ہے.یہ جواز کی بنیاد ہے.دوسری بات یہ ہے کہ مولانا غلام غوث ہزاروی کا گہرا مطالعہ کرنے والے اور ان کے رفیق کار مجلس احرار پشاور کے صدر سید عبداللہ شاہ صاحب تھے.اب وہ فوت ہو چکے ہیں.عرصہ تک یہ پشاور میں مجلس احرار اسلام کے صدر رہے ہیں اور اسی زمانہ میں مولانا غلام غوث ہزاروی بھی تھے ، وہ بھی احرار میں ہی شامل تھے اس وقت.سید عبداللہ شاہ صاحب نے اپنی یادداشتیں، سوانح حیات ”میری یادداشتیں“ کے نام سے شائع کی ہیں.اس میں مولا نا صاحب کے متعلق یہ لکھا ہے.فرماتے ہیں کہ :.ان کو میں نے بہت نزدیک سے دیکھا ہے.جب میں مجلس احرار اسلام کا صدر تھا تو یہ چوٹی کے لیکچراروں میں سمجھے جاتے تھے اور چندہ بٹورتے تھے.دوسری طرف کانگریس سے ان کو وظیفہ ملتا تھا.تیسری طرف وہ CID کے وظیفہ خوار تھے.تین طرف سے چندے حاصل کرنے میں یہ ایسے ماہر تھے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.احراری بھی تھے.انگریز کے خود کاشتہ پودا بھی تھے.کانگریس کے خود کاشتہ پودے بھی تھے.تو یہ ہیں مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی.(ملاحظہ ہو میری زندگی کی یاداشتوں کا چوتھا حصہ از سید عبداللہ شاہ مدیر روزنامه الفلاح پیشاور صفحہ 38) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.جزاکم اللہ آپ نے مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب کا بھی تعارف کروادیا اور نام نہاد ملت اسلامیہ کا موقف پیش کرنے والے جولوگ تھے ان کا بھی.

Page 156

140 حافظ محمد نصر اللہ صاحب : - مولانا صاحب ! یہ بھی بعض اوقات ہم نے سنا کہ حضور جوابات کے لئے اگلے دن کا وقت لے لیا کرتے تھے اس میں کیا حکمت تھی؟ یا کس قسم کے سوالات تھے؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.بات یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی زبان خدا کی زبان ہے.حضور اس شان کے ساتھ سوالوں کا جواب دیتے تھے کوئی چوٹی کا محقق بھی ہو تو اس پر حرف نہیں رکھ سکتا تھا.حضور اکثر سوالات کے اسی وقت جواب دیتے اور خود چاہتے تھے کہ جتنی جلدی ہو سکے ،حق وصداقت کا پیغام میں پہنچاؤں، لیکن بعض اوقات حوالے ان کتابوں کے تھے جن کتابوں کو دیکھنا ضروری ہوتا تھا.تو حضور نے فرمایا اور کھلے بندوں حضور نے اظہار کیا کہ میں قرآن مجید کا حافظ ہوں لیکن بانی جماعت احمدیہ کی کتابوں اور سلسلہ کے لٹریچر کا حافظ نہیں ہوں.تحقیق کرنے کے لئے ضروری ہے اور اپنے منصب کے لحاظ سے بھی کہ اصل کتابوں کو دیکھ لیا جائے اور اصل کتاب کو دیکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ حضور نے فرمایا کہ میرا ایمان ہے کہ بانی جماعت احمدیہ کی کتابیں روح القدس کی تائید سے لکھی گئی ہیں اور جو اعتراض آج کئے جارہے ہیں ان کے سیاق و سباق میں خدا نے آپ کے قلم سے ہی ان کے جواب بھی بتا دیئے ہیں.تو اس واسطے میں دیکھے بغیر آج جواب نہیں دوں گا.کل جواب دے سکتا ہوں.یہ فلسفہ تھا جو کارفرما تھا.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.لیکن ایسا کبھی کبھار ہوا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ بہت کم ہوا.”سیرۃ الا بدال‘ کے موقع پر خاص طور پر اور ایک آدھ اور موقع پر ورنہ فوری طور پر جواب دینا خود حضور کا اپنا مسلک تھا.کیونکہ خدا کی طرف سے جو ارشاد تھا خلیفہ راشد کو، وہ یہی تھا ملاں تو یہی چاہتا ہے کہ خواہ ساری دنیا دہر یہ ہو جائے ، کمیونسٹ ہو جائے لیکن احمدیوں کو اسلام کے دائرے سے خارج ضرور کرنا ہے لیکن آپ کا فرض یہ ہے کہ ایسا طریقہ اختیار کریں کہ جو اسلام سے دور ہیں،اسلام کے قریب آجائیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے پوچھے گئے سوالات کا پہلا دور ( 5 تا10 اگست 1974ء) حضرت خلیات اسیح الثالث کا سوانحی خاکہ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.جزاکم اللہ مولانا ! اب ہم ان سوالات کی طرف آتے

Page 157

141 ہیں جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سے 5 اگست 1974 ء سے 10 اگست 1974ء کے درمیان کئے گئے اسی ترتیب کے ساتھ کہ جس طرح قومی اسمبلی میں حضور پر سوالات کئے گئے وہ ہم دونوں دوست آپ کی خدمت میں پیش کر دیں گے تو حضور نے جو جوابات اس کے پیش فرمائے وہ ہم چاہیں گے کہ آپ کی زبان سے ناظرین تک پہنچ جائیں.اس ضمن جب حضور سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کا تعارف کیا ہے اور آپ کا سوانحی خاکہ کیا ہے؟ اس کے جواب میں حضور نے کیا فرمایا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس موقع پر اپنی زبان مبارک سے بتایا کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ریکارڈ کے مطابق 16 نومبر 1909ء کو قادیان میں میری ولادت ہوئی.17 اپریل 1922ء کو حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی.جولائی 1929ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.1934ء میں گورنمنٹ کالج لا ہور سے بی.اے کی ڈگری حاصل کی.6 ستمبر 1934 ء آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان روانہ ہوا اور 1938ء میں واپس آیا.مئی 1944ء سے تعلیم الاسلام کا لج قادیان کا پرنسپل مقرر کیا گیا.8 نومبر 1965ء کو خلیفہ اسی منتخب ہوا.احمدیوں کی تعداد حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.حضور سے دوسرا سوال یہ پوچھا گیا کہ احمدیوں کی کیا تعداد ہے اس وقت؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے فرمایا:.ایک کروڑ.حافظ محمد نصر اللہ صاحب اس پر کوئی جرح بھی ہوئی.تعداد کے حوالہ سے علماء نے کی؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب: نہیں نہیں علماء تو کر ہی نہیں سکتے تھے.اٹارنی جنرل صاحب نے بھی اتنا ہی سوال کیا تھا اور جواب بھی حضور نے اتنا ہی دیا تھا.حضور کا اصل مقام ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.حضور سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ آپ کا اصل مقام کیا ہے.

Page 158

142 اس کا جواب حضور نے کیا دیا تھا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے ارشاد فرمایا کہ میرا اصل مقام خلیفہ مسیح کا امسیح ہے.باقی جماعت کے دوست مجھے امام جماعت احمدیہ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں.امیر المؤمنین بھی کہتے ہیں.اگر غیر مسلم قرار دیا گیا تو کیا رد عمل ہوگا ؟ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.ایک اگلا سوال انہوں نے یہ کیا کہ اگر آپ کو غیر مسلم قرار دے دیا جائے تو آپ کا کیا رد عمل ہوگا.اور بات یہ پیش کی کہ اس قانون سے آپ کے سیاسی حقوق محفوظ ہو جائیں گے.تو حضور نے اس بات کا کیا جواب ارشاد فرمایا.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے یہ سوال سن کر مسکراتے ہوئے یہ بات کہی کہ میری سمجھ سے بالا سوال ہے.اور فرمایا کہ میں اس لئے سمجھ نہیں سکا کہ ایک شخص اگر سنی ہو تو اسے شیعہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے.ایک کہے کہ میں مسلمان ہوں اور اسمبلی کہے کہ ہم تمہیں سکھ اور عیسائی کے شیڈیول میں شامل کرتے ہیں تو یہ مینٹل کیس ہے.سکھ کبھی ہو نہیں سکتا.حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.اٹارنی جنرل صاحب خود شیعہ تھے؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.اٹارنی جنرل نے تو یہ پوچھا تھا کہ رد عمل کیا ہوگا ؟ تو اس پر شروع میں ہی چیئر مین صاحب جوش میں آگئے اور کہنے لگے کہ "You are eye witness.You must reply this fundamental question." اس بنیادی اور مرکزی سوال کا جواب بحیثیت شاہد کے، گواہ کے، آپ کو دینا پڑے گا.اس پر حضور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ پاکستان تو چند ڈویژنوں کا نام ہے.پاکستان نہیں ،سعودی عرب نہیں، سارا عالم اسلام بلکہ U.N.O بھی ہمیں غیر مسلم قرار دے تو میں اس فیصلہ کو غلط قرار دے کر اپنا فیصلہ خدا پر چھوڑ دوں گا.دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے آقا خاتم النبین محمد عربی ﷺ نے آخری زمانے کے متعلق فرمایا تھا سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاثٍ وَّ سَبْعِينَ مِلَّةً وَ كُلُّهُمْ فِي النَّارِ

Page 159

143 الَّا مِلَّةً وَاحِدَة ( مرقاة المصابيح شرح مشكاة المصابيح كتاب الايمان باب الاعتصام بالكتاب والسنة ) میری امت فرقوں میں بٹ جائے گی.بہتر ( 72 ) ناری ہوں گے.ایک جنتی اور حقیقی مسلمان ہو گا.اب آپ سارے حضرات یہاں فیصلہ کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں.آپ کو اپنی کرسیاں مضبوط نظر آتی ہیں مگر میں بحیثیت خلیفہ اسیح آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر یہ فیصلہ ہو کہ باقی بہتر تو مسلمان ہیں اور احمدی دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو یہ فیصلہ ہمارے خلاف نہیں بلکہ محمد مصطفی مے کی سپریم کورٹ کے خلاف ہوگا.محمد ﷺ کی سپریم کورٹ جانے اور آپ جانیں.حقیقی مسلمان کی تعریف ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اگلا سوال یہ کیا گیا تھا کہ حقیقی مسلمان سے کیا مراد ہے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پُر معارف تحریر پڑھ کر سنائی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم سے آئینہ کمالات اسلام طبع اول صفحہ 60 تا 62 میں موجود ہے.وہ پوری تحریر پڑھنے کے لائق ہے، سننے کے لائق ہے اور سینے میں بسانے کے لائق ہے اور دل میں سجانے کے لائق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقدمہ حقیقت اسلام کے عنوان سے تحریر فرمایا:.اسلام کی حقیقت نہایت ہی اعلیٰ ہے اور کوئی انسان کبھی اس شریف لقب اہل اسلام سے حقیقی طور پر ملقب نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود معہ اس کی تمام قوتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخدا نہ کر دیوے اور اپنی انانیت سے معہ اس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اٹھا کر اسی کی راہ میں نہ لگ جاوے.پس حقیقی طور پر اسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا جب اس کی غافلانہ زندگی پر ایک سخت انقلاب وارد ہو کر اس کے نفس امارہ کا نقش ہستی معہ اس کے تمام جذبات کے یکدفعہ مٹ جائے اور پھر اس موت کے بعد محسن اللہ ہونے کے نئی زندگی اس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اس میں بجز طاعت خالق اور ہمدردی مخلوق کے اور کچھ بھی نہ ہو.

Page 160

144 خالق کی اطاعت اس طرح سے کہ اس کی عزت و جلال اور یگانگت ظاہر کرنے کے لئے بے عزتی اور ذلت قبول کرنے کے لئے مستعد ہو اور اس کی وحدانیت کا نام زندہ کرنے کے لئے ہزاروں موتوں کے قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو بخوشی خاطر کاٹ سکے اور اس کے احکام کی عظمت کا پیار اور اس کی رضا جوئی کی پیاس گناہ سے ایسی نفرت دلا وے کہ گویا وہ کھا جانے والی ایک آگ ہے یا ہلاک کرنے والی ایک زہر ہے.یا بھسم کر دینے والی ایک بجلی ہے جس سے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ بھاگنا چاہے.غرض اس کی مرضی ماننے کے لئے اپنے نفس کی سب مرضیات چھوڑ دے اور اس کے پیوند کے لئے جانکاہ زخموں سے مجروح ہونا قبول کر لے اور اس کے تعلق کا ثبوت دینے کے لئے سب نفسانی تعلقات توڑ دے.اور خلق اللہ کی خدمت اس طرح سے کہ جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اور طرق کی راہ سے قسام ازل نے بعض کو بعض کا محتاج کر رکھا ہے، ان تمام امور میں محض اللہ اپنی حقیقی اور بے غرضانہ اور سچی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہوسکتی ہے، ان کو نفع پہنچاوے اور ہر ایک مدد کے محتاج کو اپنی خدا دا د قوت سے مدد دے اور ان کی دنیا و آخرت دونوں کی اصلاح کے لئے زور لگاوے.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 60-62) اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش پے مرضی خدا کتنے احمدی حقیقی مسلمان ہیں حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.اس سے اگلا سوال ہوا کہ مرزا صاحب کی مسلمان کی تعریف کے

Page 161

145 مطابق کتنے احمدی حقیقی مسلمان ہیں؟ امتی نبی مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے بڑے اختصار سے جواب دیا.چند ہزار.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.امتی نبی کے بارے میں بھی سوال کیا گیا تھا حضور پر.اس کا حضور نے کیا جواب دیا ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.بہت ہی پیارا جواب تھا.حضور نے اس موقع پر یہ فرمایا کہ جس کا اپنا کچھ نہیں سب کچھ نبی متبوع کا ہے، یہ دراصل خلاصہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کا اور اس کا ایک نمونہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان اشعار میں بھی موجود ہے کہ وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے وہ جس نے حق دکھایا اور پھر کس شان سے فرماتے ہیں:.تو خدایا وہ مه لقا یہی ہے اس نور فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں پر وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے دائرہ اسلام کیا ہے؟ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.دائرہ اسلام سے متعلق سوال کیا گیا کہ آپ کے نزدیک دائرہ اسلام کیا ہے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ ایک تو عمومی دائرہ ہے جس میں تہتر فرقے شامل ہیں اور ان تہتر فرقوں کو (اس کی تفصیل پہلے آچکی ہے ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت قرار دیا ہے.سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی کے الفاظ ہیں اور یہ قانونی اور آئینی

Page 162

146 دائرہ ہے.دوسرا دائرہ صرف ایک فرقے پر مشتمل ہے جسے آنحضرت نے الجماعة کہا ہے اور مَا اَنَا عَلَيْهِ وَ أَصْحَابِی قرار دیا ہے.الجماعة کے معنی ہیں کہ جو ایک امام کی پیروی کرنے والی ہو.اور مَا أَنَا عَلَيْهِ وَاَصْحَابِی یہ جو میں اس وقت عرض کر رہا ہوں میرے ذہن میں اس وقت بھی یہ تشریح تھی اور اب بھی یہ تشریح ہے جو واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ ما انا علیہ و اصحابی سے قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ہر حدیث کا سر چشمہ دراصل قرآن مجید ہے.یا الہی! تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا قرآن میں آیت موجود ہے کہ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِي (یوسف: 109 ) کہ میں اور میرے اصحاب خدا کی دعوت علی البصیرت دیتے ہیں.اس پر غور کریں یہ ما انا عليه و اصحابی ( سنن الترندی ابواب الایمان باب ماجاء في افتراق هذه الامة ) كامفهوم ہے.خدا کو ماننے والے تو آج بھی بہت سارے ہیں.آنحضرت کے زمانے میں اگر چہ بت پرستی بھی تھی مگر خدا کو ماننے والے بھی تھے.آنحضرت اور آپ کے صحابہ دنیا میں دعوت الی اللہ کرتے تھے.صرف یہ نہیں کہتے تھے کہ خدا ہے.بلکہ علی وجہ البصیرت بتاتے تھے کہ خدا ہم سے ہمکلام ہوتا ہے اور ہم اس کے زندہ ہونے پر گواہ ہیں.پہلی اذان میں آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے، جیسا کہ خواب کے ذریعے سے ایک صحابی کو بتایا گیا، یہ الفاظ رکھے قیامت تک.کیا ہر مسلمان اذان میں یہ الفاظ نہیں کہتا ؟ الله اکبر، الله اکبر، اشهد ان لا اله الا الله ، اشهد ان محمد رسول الله حي على الصلواة حى على الفلاح، الله اكبر الله اكبر، لا اله الا الله یہ اذان ہے جو رسول پاک نے سکھائی ہے.اس کے آغاز میں ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الہ موجود نہیں.اب مجھے آپ بتائیں کہ شہادت کا لفظ قانون کی رو سے سنی سنائی بات پر چسپاں ہوسکتا ہے؟ کوئی عدالت سیشن کورٹ کی ہو ، ہائی کورٹ کی ہو ، سپریم کورٹ کی ہو، کسی کو گواہ نہیں قرار دیتی جو کہہ دے کہ میں نے بات سنی تھی.جو Eye Witness ہو اس کو گواہ تسلیم کیا جاتا ہے.تو سچا

Page 163

147 مسلمان وہ ہے کہ گواہی دے کہ خدا زندہ موجود ہے اور آج دنیا میں کون ہے جو کہے کہ محمد رسول زندہ نبی ہیں اور خدا زندہ ہے.اور مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اسلام آج موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا کلام کرتا ہے.(ضمیمہ انجام انتقم ، صفحہ 62.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 346) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مولانا ! آپ نے اس کی تشریح فرمائی.میں چاہوں گا کہ اس سوال کا جو حضور نے جواب دیا وہ آپ دوبارہ پڑھ دیجئے گا کہ دائرہ اسلام کیا ہے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے فرمایا کہ دو دائرے ہیں.ایک قانونی اور دستوری دائرہ ہے جو اپنے تئیں مسلمان کہتا ہے وہ اس دائرے میں شامل ہے اور تہتر فرقے اس میں شامل ہیں اور ایک دائرہ ہے خدا کی جناب میں حقیقی مسلمان کا اور حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی تشریح آئینہ کمالات اسلام میں کی گئی ہے اور اسی کے متعلق حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے فرمایا ہے کہ اس دائرہ میں چند ہزار احمدی ہیں.اسلامی نقطہ نگاہ سے مرتد کون؟ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اسلامی نقطہ نگاہ سے مرتد کون ہے؟ یہ سوال بھی کیا گیا تھا.مولانا دوست محمد شاہد صاحب: حضور نے بڑا فیصلہ کن جواب دیا تھا.اصل میں حضور کی زبان پر خدا تعالیٰ کے فرشتوں اور روح القدس کی تائید کے ذریعے سے جو کوثر جاری ہوا وہ حیران کن تھا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فرمانے لگے کہ ساری عمر ہم نے مناظروں میں گذاری ہے مگر حضور کی زبان مبارک سے جو جواب ہم نے سنے ہیں، وہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے.اب دیکھیں مرتد لفظ اتنا استعمال ہوا ہے آج بھی.آج بڑھ گیا ہے دہشت گردی کے زمانہ میں اور مرتد کے ساتھ قتل و غارت ایک لازمی چیز ہے.جس طرح ایک شاعر نے کہا ہے کہ کمبخت نے اتنی دفعہ شراب کا ذکر کیا کہ منہ سے شراب کی بدبو آنے لگی.مرتد کا لفظ اتنی دفعہ ان لوگوں نے استعمال کیا ہے کہ ارتداد کی بدبو ان کے قلم اور ان کی زبانوں دونوں سے جاری ہوگئی ہے.حضور نے جو جواب دیا آپ وہ سنیں.حیران ہو جائیں گے.ساری دنیا کے نام نہاد مفکرین اسلام بھی جمع ہو جائیں

Page 164

148 تو اس کا جواب نہیں دے سکتے چونکہ اس کی بنیاد قرآن پر ہے.حضور نے اس سوال کے جواب میں ایک حیرت انگیز نکتہ قرآن مجید سے پیش کیا.حضور نے فرمایا کہ مرتد وہ ہے جو خود دین اسلام سے خارج ہونے کا اعلان کرے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَأُوْلَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ (البقرة : 218) یہ بیان کرنے کے بعد حضور نے اس کا ترجمہ بھی فرمایا کہ تم میں سے جو اپنے دین سے ارتداد اختیار کرے تو وہ کافر ہے.یعنی اس نے انکار کر دیا ہے.اس کا نتیجہ اسے خدا کے عذاب کی شکل میں بھگتنا پڑے گا کیونکہ اس کے تمام اعمال جو وہ دنیا میں بجالاتا رہا وہ حبط ہو گئے اور اس لئے آخرت میں بھی صریح طور پر خیر و برکت سے محروم رہے گا.حضور کا یہ استدلال تھا اور کسی ماں نے ایسا بیٹا نہیں جنا جو اس کا جواب دے سکے.الفاظ ہیں کہ مَنْ يَّرْتَدِدُ مِنْكُمُ جو تم میں سے خود اعلان ارتداد کرتا ہے.یہ نہیں کہ کوئی اور دوسراشخص فتوی دیتا ہے تمہارے خلاف.یہ تھا جواب سید ناو اما منا ومرشد نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا.اب میں اس پر آپ کی اجازت سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس مذاکرہ میں واضح ہے کہ سرفہرست وہی جواب ہیں جو کہ خدا کے خلیفہ کی زبان مبارک سے سنے گئے.لیکن ایک پہلو میں آپ کی خدمت میں ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جو تاریخ احمدیت کی تصنیف کے سلسلے میں مجھے ہدایات دیں ایک تو ان میں سر فہرست یہ ہدایت تھی کہ پچھلی صدیوں میں سپین سے لے کر مصر تک یا الجیریا تک اور الجیریا سے جنوبی ایشیا تک اور جنوبی ایشیا سے انڈونیشیا تک جو اسلامی حکومتیں معرض وجود میں آئیں.ان پر ریسرچ کرنے کے لئے ماخذ مستشرقین کی کتابیں نہیں ہوسکتیں.بنیا د وہ لٹریچر ہے جو قدیم مسلم مؤرخوں نے اپنے زمانہ میں مرتب فرمایا تھا.دوسری بات حضور نے یہ فرمائی کہ میرے یا جماعت کے کسی عالم دین کے کسی جواب سے خواہ وہ لٹریچر میں آچکا ہو، یہ بالکل نہیں سمجھنا چاہئے کہ احمدیت کا علم کلام کا ذخیرہ اتنا ہی ہے.آپ نے فرمایا کہ دنیا بھر کی حکومتوں کے لشکر تو شاید گنے جائیں مگر احمدیت کے دلائل کبھی شمار میں نہیں آ سکتے.بلکہ یہ فرمایا کہ سمندر کے قطرے بھی گنے جاسکتے ہیں مگر احمدیت کی صداقت کے دلائل کبھی ختم

Page 165

149 نہیں ہو سکتے.اس واسطے ہمیشہ زندگی بھر کوشش کرتے رہنا کہ جہاں سے بھی کوئی نئی تحقیق آئے اس کو جماعت کے سامنے پیش کرنا ہے.تو میں اس کی تعمیل میں آگے وضاحت کرتا چلا جاتا ہوں پہلے بھی اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ یہ سلسلہ جاری رہے گا.اب میں مَنْ يُرْتَدِدُ کے سلسلے میں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ قرآن مجید نے یہاں اتنا ہی فرمایا ہے کہ ارتداد کے نتیجے میں جو رد عمل خدا کی طرف سے اور خدا کی جماعت کی طرف سے ہوسکتا ہے وہ ایک ہی ہے کہ یہ بہت بد قسمت انسان ہے جس نے خدا اور محمد مصطفی میں ﷺ کا انکار کیا ہے.اور آگے فرمایا کہ اس کی سزا خود اسی کو بھگتنی پڑے گی کیونکہ خدا کی جناب میں اس کے سارے اعمال حبط ہو جائیں گے.اس میں سیاسی سزا یا تعزیرات کا کوئی سوال نہیں ہے اور آنحضور ﷺ کی زندگی میں بھی کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں ملتا کہ محض ارتداد کی وجہ سے آنحضور علیہ نے کسی فرد واحد کو سزا دی ہو.عبدالرحمن بن ابی سرح آپ کا کاتب وحی تھا.اس نے کھلم کھلا طور پر یہ کہا کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں میری زبان پر یہی جاری ہو گیا ہے.الیس اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ (التين : 9) اس کے بعد ارتداد اختیار کیا.کوئی مؤرخ ہے جو ثابت کر سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ حکم دیا ہو کہ جاؤ اور اس کو قتل کر دو.مدینہ میں ایک شخص آیا اور بیعت کی پھر اگلے دن آ کر کہنے لگا کہ میری بیعت واپس کریں کیونکہ مجھے بخار ہو گیا ہے.آنحضور ﷺہ مسکرائے اور فرمایا کہ تمہاری بیعت ختم ہوگئی.تو سرور دو عالم محمد مصطفی ﷺ اور مدینہ کی پہلی حکومت کا یہ اسوہ ہے.قرآن کہتا ہے يَنَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ (المائدة: 55) عرش کے خدا نے کتنی بڑی خوشخبری سنائی ہے کہ ایک شخص جو کہ ایسا عضو تھا جو کہ نہ صرف یہ کہ خود اسلام سے علیحدہ ہو گیا بلکہ دوسرے جسم کو بھی وہ تباہ کرنا چاہتا تھا.واضح بات ہے کہ ڈاکٹر اس عضو کو بھی نکال دیتے ہیں.اس آپریشن کا نتیجہ جسم کے لئے مفید ہوتا ہے.کوئی واویلا نہیں کرتا ایسے موقع پر، بلکہ سمجھتا ہے کہ خدا کا شکر ہے کہ اس ٹکڑے کے نکل جانے کے بعد پورا جسم صحت یاب اور شفایاب ہو گیا ہے.یہی فلسفہ جناب الہی کی طرف سے بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ ـوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ (المائدة:55) فرمایا اے مومنو! خدا اور مصطفی پر ایمان لانے والو! اور اس

Page 166

150 کے عاشقو! مرتد ہونے والے کی فکر نہ کرو بلکہ خوشیاں مناؤ، جشن مناؤ کہ ایک گندہ عضو تم سے کاٹ لیا گیا ہے.جو شخص اگر ایک بھی تم میں سے مرتد ہو تو اس ایک مرتد کے نتیجے میں تم پر کوئی فرق نہیں پڑ سکتا.بلکہ خدا کا وعدہ ہے فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ (المائدة:55) یہ محد رسول اللہ کے خدا کا وعدہ ہے کہ اگر ایک بھی مرتد ہو گیا تو خدا اس کے بدلے میں پوری قوم لے آئے گا.اب اس کے مقابل پر آپ حیران ہوں گے کہ مودودی صاحب نے اپنی کتاب ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں میں یہ لکھا ہے کہ جب اسلام کی حکومت کے قیام کا ہم اعلان کریں گے تو یہ بھی اعلان کر دیں گے کہ ایک سال تک یا تو صحیح معنوں میں مسلمان ہو جاؤ اور یا اگر اسلام کے دائرہ میں شامل نہیں رہنا چاہتے تو علیحدہ ہو جاؤ.اس کے بعد اگر کوئی شخص مسلمان کا لیبل لگائے گا اور پھر اعلان کرے گا تو اسلامی معاشرہ کی طرف سے ایک ہی سزا ہوگی کہ اس کا قتل عام کر دیا جائے.نا شهر مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان اچھرہ لاہور بار اول جون 1951 صفحہ 80-81) اب آپ یہ سوچیں قرآن اور محمد عربی کا تو اسوہ وہ ہے.تو یہ مودودی اسلام ہے، محمد رسول اللہ کا اسلام تو نہیں ہے جس طرح کہ سر اقبال شاعر مشرق نے یہ کہا ہے.الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں ہرگز ملاں کی اذاں اور ہے غازی کی اذاں اور تو ملاؤں کا اسلام بالکل اور ہے.آپ یہ دیکھیں کہ اگر یہ ایک لمحے کے لئے بھی فرض کر لیا جائے کہ اسلام کسی ایسے شخص کا وجود برداشت نہیں کرتا جو دیانتداری سے یہ سمجھتا ہو کہ مجھے اسلام میں نہیں رہنا چاہئے.کسی نے اس کو صحیح حقائق ہی بیان نہیں کئے.کوئی شخص کہتا ہے کہ میں نے جہاں تک مطالعہ کیا ہے یا ملاؤں نے جو کچھ ہمیں بتایا ہے میں اسلام پر راضی نہیں ہوں، میں کسی اور کی تلاش میں ہوں، تو ملا یہ کہتا ہے کہ اگر وہ تصور بھی کرے گا تو اس کا سر قلم کر دیا جائے گا.اس کے معنے کیا ہوئے؟ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلام یہ تو گوارا کرتا ہے کہ کوئی شخص دل میں نفرت کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں منافق بنا رہے اعلان نہ کرے کیونکہ جونہی اعلان کرے گا خاتمہ اس کا یقینی ہے.حالانکہ قرآن ہی ہے جو یہ کہتا ہے کہ منافق کافروں سے بھی بدتر ہیں، ان کو سزا دی جائے گی.معاذ اللہ یہ اتنا بڑا اتہام ہے اس اسلام پر جو یہ کہتے ہیں کہ کفر کو تو ہم برداشت کریں گے ، منافقت کو

Page 167

151 برداشت نہیں کریں گے.دوسری بات یہ ہے اور پاکستان کے قانون میں یہ لکھا ہوا موجود ہے کہ کسی شخص کو ایک جرم میں دوسرا ئیں نہیں مل سکتیں.یہ پاکستان کا بھی اصول ہے اور اسلام کا بھی اصول ہے.اسلام کا ایک اور اصول بھی ہے جو قرطبہ کے بہت بڑے بین الاقوامی شہرت رکھنے والے عالم جن کی کتاب مشہور ہے آنحضور ﷺ کے فتاویٰ اور قضایا کے متعلق ، اس میں لکھا ہے کہ جن اعمال کو قرآن مجید نے اچھا قرار دیا ہے، اس پر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی.سزا ان باتوں میں دی جاسکتی ہے جومنکرات ہوں.ضیاء کے رسوائے عالم آرڈینینس کے ساتھ انہی اصولوں کو تصور میں لانا چاہئے.یہ لکھا ہے کہ ایک جرم کی اگر ایک دفعہ سزا دی جا چکی ہے تو اس جرم کی دوبارہ سزا نہیں دی جاسکتی.1974ء کی اسمبلی کے لحاظ سے احمدیوں کو کتنی بڑی سزا دی گئی کہ تمہارا دامن محمد سے کوئی تعلق نہیں.دائرہ اسلام سے تمہیں خارج کیا جاتا ہے.اس سے بڑی کوئی گالی دنیا میں نہیں ہے.ایک عاشق رسول کے تڑپانے کے لئے یہ کافی ہے.جو ہر وقت محمد عربی کے لئے فدا ہورہا ہے کہ تمہارا شمار اسلام اور رسول پاک کے دشمنوں میں کیا جاتا ہے.اس سے بڑی سزا د نیا تجویز ہی نہیں کرسکتی.ایک احمدی تصور ہی نہیں کر سکتا کہ وہ عشق رسول کے سوا زندہ کیسے رہ سکتا ہے؟ مجھے یاد آیا جب میں 1990ء میں گوجرانوالہ کی ڈسٹرکٹ جیل میں تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ، حضرت مولانا سید عبد الحی شاہ صاحب اور ایک اور بزرگ تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا امنصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ کی طرف سے تشریف لائے اور یہ احمدیت کے بین الاقوامی نظام اخوت کا بہت بڑا شاہکار تھا.ڈاکٹر صاحب ! آپ بھی تشریف لائے تھے.تو جب مجھے اور میرے نو ، دس ساتھیوں کو جن میں مولا نا شبیر احمد صاحب ثاقب پروفیسر جامعہ احمدیہ بھی تھے.(اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے ).تو ہم لوگ پہلی رات جب جیل میں اکٹھے ہوئے.ایک بہت بڑا وسیع کمرہ تھا.ہم دس ایک طرف تھے.باقی پورا کمرہ بھرا ہوا تھا اور بعد میں پتا چلا کہ نمازیں پڑھتے تھے وہ لوگ مگر امام وہ شخص تھا جو اغوا کے کیس میں چار دفعہ پہلے جیل میں آپکا تھا.خیر نمازیں ہم نے ایک طرف ہو کر پڑھیں.اس کے بعد بیٹھ گئے.میں اس طرف بیٹھا ہوا تھا.میں نے ہی نماز پڑھائی تو ایک نو جوان جو اہلحدیث تھا، میرے پاس آیا.کہنے لگا مولا نا آپ کس جرم

Page 168

152 میں گرفتار ہوئے ہیں.میں نے کہا جی بڑا خوفناک جرم ہے.رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں میں اپنا جرم تو بعد میں بتاتا ہوں اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں نے بارگاہ رسالت محمد عربی شاہ لولاک ﷺ کے حضور ہدیہ نعت پیش کرنے کے لئے چند ٹوٹے پھوٹے اشعار کہے تھے کسی زمانے میں اور میں نے اپنے امام حضور کی خدمت میں بھی پیش کئے تھے، چھپ بھی چکے ہیں.اگر آپ مجھے اجازت دیں، پہلے وہ سنادوں.کہنے لگے ہاں سنائیں آپ.( دراصل اس کا پہلا جو مصرعہ ہے وہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے شعری کلام سے ماخوذ ہے ) یعنی اگر اس کو غزل کہا جائے تو مطلع کا مصرعہ ہے.وہ چند اشعار ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں بھی میں نے سنائے تھے اور حضرت سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے بھی ان پر نظر ثانی فرمائی تھی.بلکہ انہوں نے اس کو پڑھ کر مجھے کہا کہ تم شاعری کے متعلق کتابیں لکھنو سے صدیق بک ڈپو والوں سے منگواؤ.وہ میں نے کتابیں منگوائی تھیں.شاعری کی پہلی کتاب جلال لکھنوی کی تھی جن سے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے طالب علمی کے زمانہ میں اصلاح لی ہے.تو بہت مشہور شخصیت ہیں انہی کی کتاب مجھے صدیق بک ڈپو سے ملی.وہ اشعار یہ ہیں.مولی میری بگڑی ہوئی تقدیر بنانے والے فرش سے عرش تلک جلوہ دکھانے والے ترے احسانوں کا ہو شکر بھلا کیسے ادا ہم غریبوں کو محمدم ނ ملانے والے ارض یثرب تیری عظمت ہیں افلاک جھکے شہ لولاک کو سینہ بانے والے اک نظر شاہد تشنہ کی طرف بھی آقا آب کوثر سے بھرے جام پلانے والے

Page 169

153 یہ چند اشعار سنانے کے بعد میں نے کہا میں جب تلونڈی موسیٰ خان میں پہنچا ہوں تو گوجرانوالہ کے ملاؤں نے تحفظ ختم نبوت کے نام پر جھوٹی رپٹ لکھا دی کہ میں نے گستاخی رسول کی ہے.حالانکہ میں نے تقریر ہی کوئی نہیں کی تھی.جلسہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا کہ پولیس نے آ کر جلسہ کوختم کر دیا تھا.تو میں یہ بتا رہا تھا کہ سب سے بڑی سزا ایک عاشق رسول کے لئے یہ ہے کہ تمہارا محمد رسول اللہ سے کوئی تعلق نہیں.اب اس کے بعد ملاں نے جو یہ کھیل کھیلا کہ جی اس کے اب تقاضے پورے کئے جائیں.اب احمدیوں کو اذان کی اجازت نہیں ہونی چاہئے.اب احمدی رضی اللہ کا لفظ نہیں لکھ سکتے.اب احمدی فلاں کام نہیں کر سکتے.ایک جرم کی دوبارہ سزا کیسے دی جاسکتی ہے.سب سے بڑی سزا اگر کوئی عاشق رسول کہو تو یہی ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ تصور ہی ایک احمدی کے لئے قیامت ڈھا دینے والا ہے کہ اس کے متعلق ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصہ کے متعلق بھی خیال کیا جائے کہ اس کا نبیوں کے سردار محمد مصطفی سے کوئی تعلق نہیں رہا.اس کے بعد اس سے بڑی کیا سزا ہوسکتی ہے؟ مجھے ایک شعر یاد آ گیا.حضرت میاں غلام احمد صاحب نے مجھے وہ شعر سنایا.کہتے ہیں کہ میں نے ٹیلی ویژن پر سنا ہے.وہ شعر یہ تھا.کامل ایمان رحمت سید لولاک سید لولاک ڈر لگتا ہے (ہفت روزہ تسخیر یکم تا 17 اگست 1997ء) تو جس امت سے ڈر اور خوف آتا ہے.اس کا تصور ہی کیا ہوسکتا ہے کہ کسی شخص کو یہ سب سے بڑی گالی دی جائے اور سب سے بڑی سزا دی جائے کہ تمہارا دین محمد سے کوئی تعلق نہیں ہے.یہی وجہ ہے کہ احمدیوں نے اپنی جانیں نچھاور کر دیں لیکن کلمہ محمد کو نہیں چھوڑا.نیا کلمہ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.مولانا صاحب! اس کے بعد ایک سوال کیا گیا.یہ سوال جسٹس صمدانی کی کورٹ میں بھی ڈسکس ہوا تھا کہ نائیجیریا کی احمد یہ مسجد میں لا الہ الا اللہ احمد رسول اللہ لکھا گیا ہے.تو اس کا حضور نے کیا جواب ارشاد فرمایا ؟

Page 170

154 مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے فرمایا کہ صمدانی عدالت نے بھی (حضور صمدانی عدالت میں بھی تشریف لے گئے تھے ) تسلیم کیا کہ احمد نہیں محمد ہی لکھا ہے اور یہ محض رسم الخط کا ایک انداز ہے.حضور نے یہ بھی واضح فرمایا کہ یہ جو رسم الخط افریقہ میں اختیار کیا گیا ہے، بہت سارے رسم الخط ہیں افریقی ، پرانے اگر آپ documents دیکھیں بلکہ قرآن مجید کے ابتدائی نسخوں کی فوٹو کاپی انسائیکلو پیڈیا میں موجود ہے.پنجاب کے انسائیکلو پیڈیا میں بھی اس کے نمونے موجود ہیں.وہ بالکل اور انداز ہے.تو وہ اس طرز پر لکھا ہے کہ الف اور میم کو اوپر سے ملا دیا گیا ہے اور میم کے او پر شد ڈالی گئی ہے.حضور نے فرمایا کہ شد احمد لفظ اگر ہوتا تو ڈالی ہی نہیں جاسکتی تھی.اتنی موٹی بات ہے یہ ، لیکن مقصد تو دراصل اشتعال پیدا کرنا تھا.اور فضا ایسی قائم کرنی تھی کہ جس میں سانحہ ربوہ کے متعلق منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے.حضور نے یہ بھی اس موقع پر فرمایا کہ دنیا میں صرف نائیجیریا میں ہی تو مسجد نہیں ہے.جماعت احمدیہ نے ساری دنیا میں مسجدیں بنائی ہیں.کسی بھی مسجد میں جا کر دیکھو گے لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کے سوا کوئی بھی کلمہ موجود نہیں ہے.تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ساری دنیا میں تو کلمہ میں محمد لکھا جائے اور نائیجیریا کی کسی مسجد میں احمدی یہ لکھوا د ہیں.یہ بات ہی نہیں بنتی.یہ محض جھوٹا پراپیگنڈہ ہے.اس سلسلے میں پہلی بات میں یہ عرض کرنی چاہتا ہوں.اصل جواب جو حضور نے اپنی زبان مبارک سے دیا وہ تو میں عرض کر چکا ہوں.حضور نے اتنا ہی جواب دیا تھا.یہ میں وضاحت کی غرض سے کرنا چاہتا ہوں.نئے نوجوانوں کے لئے ، ان کی معلومات میں اضافے کے لئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حجۃ الاسلام صفحہ 12-13 طبع اول میں یہ کھلے لفظوں میں لکھا ہے کہ یہ عاجز اس لئے دنیا میں آیا ہے کہ دنیا کو یہ بتائے کہ دار النجات کا دروازہ لا اله الا الله محمد رسول اللہ ہے.آپ کی بعثت کا مقصد ہی لا اله الا الله محمد رسول الله کی آواز کو پہنچانا ہے.پھر حضرت مصلح موعود نے لکھا ہے کہ احمدی تو سوائے لا اله الا الله محمد رسول اللہ کے کوئی اور کلمہ مانتے ہی نہیں ہیں.یہ جو گلے لکھے گئے ہیں کہ لا الہ الا الله آدم صفی الله - لا اله الا الله موسى كليم الله لا اله الا الله عيسى روح الله -

Page 171

155 بالکل غلط ہیں اور میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ یہ ایسا نظریہ ہے کہ صرف جماعت احمد یہ عشق رسول کے نظریہ کے ساتھ وابستہ ہے.باقی آپ دیکھیں گے تو عجیب وغریب کلے ہیں.حضرت ابن عباس کی روایت ہے اور وہ روایت دیو بندی عالم مولا نا اشرف علی صاحب تھانوی جنہیں کہ مسجد دسمجھا جاتا ہے اور علوم ظاہری اور باطنی کے ماہر بھی تسلیم کیا جا تا ہے.یہ اس ترجمہ قرآن کے اوپر عبارت ہے جو دلی سے ان کا ترجمہ قرآن شائع کیا گیا ہے.وہ مجدد ہیں دیو بندی دنیا میں.انہوں نے حضرت عمر بن الخطاب کی یہ روایت نشر الطیب میں درج کی ہے کہ آنحضرت علی صلى الله نے ایک مرتبہ فرمایا کہ جب آدم سے سہوا کوئی بات ہوئی جو بعد میں معاف کی گئی تو حضرت آدم نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ عرض کیا کہ الہی مجھے محمد مصطفی احمد مجتبی کے طفیل بخش دے.تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ تمہیں کیسے علم ہوا کہ سب سے بڑا میرا محبوب اور نبیوں کا سردار محمد رسول اللہ ہیں.کہنے لگے کہ جب آپ نے مجھے پیدا کیا تو میں نے عرش پر دیکھا تو اس میں یہ کلمہ لکھا ہوا تھا لا اله الا الله محمد رسول اللہ تو میں نے اس سے یہ سمجھا ( حضرت آدم نے عرض کیا ) کہ آپ نے اپنے نام کے ساتھ اس وجود کو رکھا ہے جو آپ کی نگاہ میں تمام کائنات میں سب سے افضل ہے.(نشر الطيب في ذكر النبي الحبيب ، صفحہ 13-14 ناشر تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور ) تو حدیث سے ثابت ہوا کہ کلمہ صرف ایک ہے باقی سب فرضی کلے ہیں.اب آپ دیکھیں کہ کتنے کلے بنائے گئے ہیں.میں جب 1985ء میں پہلی دفعہ انگلستان گیا تو غالباً بریڈ فورڈ میں ایک سوال و جواب کی مجلس تھی.کہنے لگے کہ جی احمدی بچے خوامخواہ یہ کلمے کا بیج لگاتے ہیں.اور دوسرے احمدی بھی لگاتے ہیں اور فیصل آباد کے کئی احمدی بچوں کو اسیر راہ مولیٰ بننا پڑا ہے.کیا ضرورت ہے یہ بیج لگانے کی ؟ حضور کا ارشاد تھا کہ ہم نے یہ اعلان کرنا ہے کہ کچھ کر لوکلمہ طیبہ سے تعلق تم کبھی ہم سے توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے.کیونکہ یہ ہماری روح ہے ، یہ ہماری جان ہے، احمدیت کا خلاصہ یہی ہے.میں نے کہا جی اس کی کئی وجوہ ہیں.پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ کلمہ طیبہ تھا جس سے آنحضرت کے زمانہ سے آج تک مسلمان ہوتے رہے ہیں.بلکہ شیخ الاسلام ترکی سے پوچھا گیا.ہنوور جرمنی کا ایک شخص تھا.اس نے کہا کہ مسلمان ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ کہنے لگا کہ بس ایک ہی طریقہ ہے کہ تم

Page 172

156 گھر بیٹھے ہوئے اتنا کہہ دو کہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ.تم مسلمان بن جاؤ گے.نہ کسی مولوی کی سفارش کی ضرورت ہے.نہ تصدیق کرنے کی ضرورت ہے.صرف خدا کے سامنے کہہ دو کہ لا اله الا الله محمد رسول الله مسٹر آرنلڈ نے اپنی کتاب Preaching of Islam میں اس کو بیان کیا ہے.(The Preaching of Islam by T.W.Arnold page 461 Printed by Sh.Muhammad Ashraf, Kashmiri Bazar.Lahore 1961) تو میں نے کہا کہ اسلام میں داخلے کے لئے تو ایک ہی کلمہ ہے لا اله الا الله محمد رسول الله - ملاؤں نے سوشلسٹ، کمیونسٹ حکومت سے یہ پاس کرایا کہ احمدی کروڑوں دفعہ بھی کلمہ پڑھیں ، وہ مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک کہ یہ نیا کلمہ جو ایجاد کیا گیا ہے، ملاؤں اور بھٹو صاحب کی سازش کے نتیجے میں ، اس پر ایمان نہ لایا جائے.احمدی جو بیج لگاتے ہیں وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ کلمہ محمد کو دنیا کی کوئی طاقت منسوخ نہیں کر سکتی.اسی کلمہ سے پہلے مسلمان ہوئے اور اس کلمہ سے اب مسلمان ہوں گے اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہوں گے کیونکہ خدا نے ان لوگوں کو کلمہ عطا کر دیا ہے جو کلمہ سے مسلمان کرنے والے ہیں.دوسرا میں نے کہا.اس کے علاوہ بھی بڑے کلمے بنائے گئے ہیں.یہ دیکھیں ”الا امداد“ ان کے القاب دیکھیں.”حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی، جیسا کہ میں نے بتایا کہ انہیں علوم ظاہری اور باطنی سے پر اور مسجد دا سلام کہا جاتا ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پڑھ رہا ہوں.اللهم صل علی سیدنا و نبینا و مولانا اشرف علی اور کلمہ لا اله الا الله اشرف على رسول الله خواب میں پڑھتا ہوں.تو کہنے لگے.بہت مبشر خواب ہے.( الامداد جلد 3 نمبر 8 بابت صفر المظفر 1336ھ صفحہ 34-35 مطبع امداد المطابع بھون ) لا اله الا الله اشرف على رسول اللہ.میں نے کہا ایک کلمہ تو یہ ہو گیا.پھر یہ احمدیت کے پکے معاند مولوی محمد عالم صاحب آسی معتمد انجمن خدام الحنفیہ ہاتھی دروازہ امرتسر کی کتاب ہے.الکا ویہ علی الغاویہ.1930ء کی کتاب ہے.اس میں کلمے لکھے ہیں مثلاً یہ لکھا ہے ایک دفعہ حضرت عبد القادر سے ایک شخص نے مرید ہونے کے لئے کہا تو حضرت غوث

Page 173

157 اعظم عبد القادر جیلانی نے یہ فرمایا اتشهد انی محمد رسول اللہ.اس نے تردید کی.آگے لکھتے ہیں ابو بکر شبلی نے ایک مرید سے کہا کہ اگر تم مرید ہونا چاہتے ہو تو یہ کلمہ پڑھو لا اله الا الــه شبلى رسول اللہ.ایک اور صوفیاء کی کتابوں میں یہ دلچسپ بات لکھی ہوئی ہے کہ حضرت ابوبکر شبلی کے پاس جن کا شمار بڑے طبقہ اولیٰ کے کبار صوفیوں میں ہوتا ہے ایک مرید آیا.اس نے کہا کہ میں آپ کی بیعت سے مشرف ہونا چاہتا ہوں.کہنے لگے کہ کہو لا اله الا اللہ شبلی رسول اللہ کہنے لگا لا حول و لا قوۃ الا بالله.اس پر حضرت شبلی نے بھی کہا لا حول و لا قوة الا باللہ شبلی نے پوچھا کہ تم نے اس پر لا حول کیوں پڑھا.کہنے لگا.میں نے لاحول اس لئے پڑھا کہ ایسا گستاخ ہے محمد رسول اللہ کا کہ وہ محمد رسول اللہ کی بجائے اپنا کلمہ پڑھانا چاہتا ہے.کہنے لگا تم نے لا حول کیوں پڑھا ہے.علامہ شبلی کہنے لگے ( یہ ان کی روایات ہیں) میں نے اس لئے لاحول پڑھا ہے کہ ایسے بے دین کے سامنے میں نے پُر اسرار معرفت کی بات کیوں بیان کر دی ہے.(صفحہ 48 تا 50 مطبوعہ آفتاب برقی پریس امرتسر.اگست 1930 ء ) اسی طرح ایک صوفی کی کتاب میرے پاس موجود ہے.یہ غالباً کراچی کے ہیں.اس میں ایک بزرگ کی طرف منسوب کر کے لکھا ہے اور ان کی کتابیں گنج بخش روڈ لاہور میں مکتبہ نبویہ میں بھی میں نے دیکھی ہیں.تفصیل اس کی یہ ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے یہ کہا کہ میں نے کلمہ تو بہت دفعہ پڑھا ہے مگر مجھے اس سے شفا نہیں ہوتی.کہنے لگے کہ نہیں اب وہ کلمہ جو ہے وہ Out of date ہو گیا ہے.آپ اس کی بجائے یہ کلمہ پڑھا کرو.وہ کلمہ کیا تھا.لا الله من كان الا الله تن کان.کہنے لگے اس مرید نے یہ کلمہ پڑھا.پھر وہ صحت یاب ہو گیا.حق نمائے ، صفحہ 123 طبع پنجم 1976 ء) تو احدی جو پڑھتے ہیں، جو کلمہ پڑھتے ہیں، وہ یقین کر کے پڑھتے ہیں کہ سوائے لا اله الا الله محمد رسول اللہ کے کوئی کلمہ نہیں اور اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اور کسی کلمہ کو ہم ماننے کے لئے تیار نہیں خواہ وہ بھٹو کا بنایا ہوا ہو، یا مفتی محمود کا بنایا ہوا ہو، یا بنوری صاحب کا بنایا ہوا ہو، یا تقی عثمانی صاحب کا بنایا ہوا ہو.کسی ماں نے ایسا بیٹا نہیں جنا جو محمد کے کلے کو منسوخ کرے اور انشاء اللہ دنیا پر ثابت کریں گے ، اسی کلمے سے غیر مسلموں کو مسلمان بنا کر دکھا ئیں گے.کیونکہ یہ محمد

Page 174

158 کا کلمہ ہے.اس محمد کا جو زندہ خدا کا زندہ رسول ہے.اللهـم صــل عـلـى مـحـمـد و على ال محمد كما صليت على ابراهيم و علی ال ابراهیم انک حمید مجید.پیشگوئی بابت محمدی بیگم ، ثناء اللہ امرتسری و ڈاکٹر عبدالحکیم حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.مولانا ! قومی اسمبلی میں محمدی بیگم کے حوالے سے بھی حضرت خلیفہ امسح الثالث سے سوال کیا گیا.تو اس کے جواب میں حضور نے کیا ارشاد فرمایا؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.بات یہ ہے کہ اصل سوال تو بنیادی طور پر پہلے سے طے شدہ فیصلہ کے مطابق وہی تھے جو خود بھٹو حکومت کی طرف سے اپنے اٹارنی جنرل کو دئے گئے تھے.مگر ملاں کی اشک شوئی کے لئے اور اس کی ذہنی عیاشی کی تسکین کے لئے بھی کچھ سوالات پیش کئے گئے جن کا براہ راست یا بالواسطہ کوئی بھی تعلق نہیں تھا اور جن کو پیش کر کے ملاں ہمیشہ ہی استہزاء اور خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہیں.تو ان میں ایک یہ سوال بھی تھا.حضور نے اس سلسلہ میں نہ صرف محمدی بیگم کا سوال بلکہ مولوی ثناء اللہ صاحب سے مباہلہ ، جس سے انکار کر دیا مولوی ثناء اللہ نے کھلے طور پر اور کہا کہ قرآن مجید میں تو لکھا ہے کہ جو خبیث اور بدمعاش ہیں، ان کی عمریں لمبی ہوتی ہیں اس لئے میں آپ کی اس تحریر کو قبول نہیں کرتا.پھر عبدالحکیم مرتد کے متعلق بھی سوال کیا گیا.اس نے پہلے لکھا تھا کہ 4 اگست تک وفات ہوگی.پھر چنددنوں کے بعد کہا کہ نہیں میرے خدا نے کہا ہے کہ 4 اگست کو ہوگی ، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی پیشگوئی کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود کو 26 مئی کو بلا لیا.تو وہ ” کو والا جو الہام تھا، وہ باطل ثابت ہوا، اور بلایا بھی کس طرح؟ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے حضور علیہ السلام کے وصال سے پہلے خواب دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک تخت پر رونق افروز ہیں اور ایک کتاب تصنیف فرما رہے ہیں کہ اسی دوران دروازے پر آواز آتی ہے.میں باہر جاتی ہوں تو مجھے کہا جاتا ہے کہ آپ کی خدمت میں یہ اطلاع کر دوں کہ صحابہ اور خود محمد عربی علیہ تشریف لا رہے ہیں آپ کو لینے کے لئے.کب آئیں گے آپ؟ تو خواب میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ یہ خوشخبری

Page 175

159 ملی ہے.تو حضور ایک کتاب لکھ رہے تھے تو حضرت مسیح موعود نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ بس جو نہی یہ کتاب ختم ہوگی، میں حاضر ہو جاؤں گا.اب عجیب بات یہ ہے کہ ”پیغام صلح جب ختم ہوئی، چند گھنٹوں کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام محمد مصطفی ﷺ کے دربار میں پہنچ گئے.اور عجیب بات ہے کہ موجودہ تحقیق ” تاریخ احمدیت‘ ( جلد دوم ایڈیشن جدید صفحہ 552) میں میں نے واضح طور پر لکھی ہے اور یہ تحقیق ایسی ہے جس میں علامہ شبلی بھی اور اسی طرح مشرقی پاکستان کے بہت بڑے سکالر تھے پروفیسر شہید اللہ فوت ہو چکے ہیں، جب میں بنگال گیا تھا تو ان کے مزار کی طرف بھی گیا.ان کی بھی تحقیق یہی ہے.قریباً ملتی جلتی ابوالکلام آزاد صاحب کی بھی ہے اور تحقیق یہ ہے کہ آنحضور کی وفات کا دن 12 ربیع الاول نہیں بلکہ یکم ربیع الاول ہے.اور "Gregorian Calendar" کو اگر اس سے تو افق دیں تو یہ ٹھیک 26 مئی بنتی ہے.علامہ شبلی نے بھی تاریخیں دی ہیں ”سیرت النبی“ میں کہ یہ دوسری تاریخیں جن پر کہ مدتوں تک آنحضور کا دن منایا جاتارہا ہے، وہ تاریخیں غلط ہیں.اصل تاریخ یکم ربیع الاول بنتی ہے اور اس پر انہوں نے جو حساب کیا، اس کا آغاز انہوں نے حجۃ الوداع سے کیا، پھر حضرت ابراہیم کی وفات کے لحاظ سے سارے زاویے دیکھنے کے بعد علامہ شبلی اس نتیجے پر پہنچے ہیں.اور یکم ربیع الاول کو آپ دیکھیں تو وہ ٹھیک 26 مئی کی تاریخ بنتی ہے، تو یدفن معی فی قبری اس تاریخ کو وفات ہوگی جس تاریخ کو ، جس وقت کہ آپ کی وفات ہوئی.تو یہ ایک نیا پہلواللہ تعالیٰ نے چمکتے ہوئے نشان کے طور پر ثابت کیا ، تو اس پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود علیہ السلام کی واپسی ہوئی.تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے سامنے تینوں مسئلے اکٹھے آئے تھے تو حضور نے تینوں کے متعلق یہ ارشاد فرمایا کہ یہ چونکہ تفصیل طلب چیزیں ہیں، ہم ان پر تین الگ الگ مقالے پیش کریں گے.چنانچہ اللہ کے فضل سے جماعت کی طرف سے یہ تین مقالے پیش کئے گئے.پیشگوئی درباره محمدی بیگم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مولانا ! یہ آپ نے فرمایا کہ محمدی بیگم، مولوی ثناء اللہ صاحب اور عبد الحکیم مرتد کے بارے میں بھی وہاں مقالے پیش کئے گئے تھے اور اس کی نقول آپ

Page 176

160 کے پاس محفوظ ہیں.تو میں یہ چاہوں گا کہ محمدی بیگم کے حوالے سے جو مقالہ وہاں پیش کیا گیا اس کے کچھ نکات ناظرین کے سامنے پیش فرما دیں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب : یہ بہت ہی ضروری اور اہم سوال ہے.اس مقالہ میں بنیادی بات یہ پیش کی گئی ہے کہ محمدی بیگم کے نکاح کا معاملہ دراصل عشق رسول کا ایک شاہکار ہے.اور یہ نہیں ہے کہ جس طرح کہ ملاں لوگ اپنے ذوق کی تسکین کے لئے اور بدنامی کے لئے اس کو ایک معاشقہ کی شکل دیتے ہیں جس طرح کہ آنحضور کے خلاف بد باطن مستشرقین کا طریقہ ہے.ان حضرات پر حیرت آتی ہے کہ دعوئی تو اسلام کا ہے مگر آپ حیران ہوں گے کہ جن نبیوں کو وہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا کے پاکباز نبی تھے، ان کی طرف معاشقہ منسوب کرتے ہوئے کبھی ذرہ شرم و حیا نہیں محسوس ہوتی اور تفسیر کی کتابیں اب تک پڑھائی جارہی ہیں.حضرت یوسف پر الزام ہے زلیخا کا.یہاں تک لکھا ہے کہ اللہ کی طرف سے جب اختباہ کیا گیا تو تب قصہ ختم ہوا.ورنہ حضرت یوسف علیہ السلام تو آخری حدوں پر پہنچے ہوئے تھے.تصور کریں حضرت داؤڈ کے متعلق لکھا ہے کہ ننانوے بیویاں تھیں، اور یا ایک افسر تھا اس کی بیوی کو انہوں نے محل کے جھروکے سے دیکھ لیا اور خاوند کولڑائی میں بھجوا دیا اور بعد میں اس سے شادی کر لی.سب سے بڑھ کر خود محمد عربی ﷺ کی ذات کو ان ظالموں نے نشانہ بنایا ہے.بیضاوی میں یہ روایت موجود ہے اور اس کو پڑھایا جاتا ہے کہ معاذ اللہ، معاذ اللہ آنحضرت علﷺہ ایک دفعہ اپنی پھوپھی زاد بہن زینب کے پاس گئے اور زید، ان کا خاوند موجود نہیں تھا.تو ان کا سفید چہرہ دیکھ کر فوراً انہوں نے دعا کی.یا مقلب القلوب اے کاش اس کی محبت کا رخ میری طرف ہو جائے.اللہ نے اسی وقت الہام کیا کہ تم بغیر کسی نکاح کے ان سے تعلق قائم کر سکتے ہو اور پھر یہ قرآن میں نازل کیا گیا.یہ ساری کی ساری انتہائی خیث نہ تفسیر بیضاوی میں موجود ہے.( تفسیر سورہ الاحزاب الجزء الرابع صفحہ 232 ناشر مؤسسة التاريخ العربی بیروت) چونکہ ضیاء الحق پکا احراری تھا، جب اس نے سیرت کانفرنس منعقد کی.احمدیوں کو تو علیحدہ رکھا جنہوں نے کہ سیرت النبی کے جلسوں کا آغاز کیا تھا.جماعت احمدیہ ہی ہے تمام دنیا میں پہلی جماعت.پہلے تو میلاد کے جلوس نکلتے تھے.قوالیاں ہوتی تھیں اور اب بھی ہوتی ہیں مگر سیرت النبی کے

Page 177

161 جلسے جن میں کہ دوسروں کو بھی اپنے پلیٹ فارم پر بلا کر محمد عربی کی شان اور عظمت کے متعلق وضاحت کی جائے اور بتایا جائے کہ آج دنیا کا امن آنحضرت کی تعلیم پر عمل کرنے میں مضمر ہے، سب سے پہلے جماعت احمدیہ نے 1928ء میں اس کا آغاز کیا اور آج یہ ایک بین الاقوامی عظیم الشان ادارہ بن گیا ہے تمام دنیا میں اور ہم کہ سکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے سیرت النبی کے جلسوں پر سورج غروب نہیں ہوتا.ہم ہر ایسے اعتراض کو رد کرتے ہیں جو آنحضور ﷺ کی سیرت کو داغدار کرنے والا ہو.ہم تو حضرت داؤڑ کے متعلق یہ خیال کر سکتے ہیں نہ حضرت یوسٹ کے متعلق اور محمد عربی ﷺ تمام دنیا کے مقدسوں کے سردار اور شہنشاہ دو عالم تھے جن کی خاطر کا ئنات بنی، جن کی منادی کرنے کے لئے اور انتظام کرنے کے لئے تمام نبیوں کو دنیا میں بھیجا گیا تو یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مگر احراری بیضاوی کے اس اصول کو آج تک مانتے ہیں.چنانچہ ضیاء الحق صاحب نے سیرت کانفرنس کی.احمدیوں کو تو الگ رکھا اور اس کے مقابل پر ایک انگریز مارٹن لنکس کو بلایا گیا اور اس کا مقالہ اول قرار دیا گیا.فرسٹ پرائز اس کو دیا گیا.پانچ ہزار ڈالر.آپ دیکھ لیں کہ پاکستانی کرنسی میں اس کی کیا قیمت ہے.یہ ضیاء ظالم نے عوام کے خزانہ میں سے اس کو دیا اور اس میں زینب کے معاشقہ کا ذکر اس بد قماش انسان نے کیا ہے.یہ ان لوگوں کی ذہنیت ہے.ملاحظہ ہو, MUHAMMAD His life and earliest source by Martin Lings) Page 212-213 Sohail Academy Lahore) تو ان پر تو کوئی افسوس نہیں کہ محمدی بیگم کے نام سے جو چاہیں اچھالتے چلے جائیں.مجھے تو اب تک حیرت آتی ہے.اسمبلی کے دوران کی بات ہے.حضور آگے تشریف لے جارہے تھے.میں پیچھے پیچھے جا رہا تھا تو نورانی صاحب مجھے دیکھ کر اپنے ایک شاگرد کو کہنے لگے کہ یہ مرزا جو تھانا، وہ عاشق تھا ایک محمدی بیگم کے اوپر، یہ صرف مجھے سنانے کے لئے کہا، یہ بات کہہ کر وہ شخص آگے چلا گیا.دل کی تاریکیوں کی انتہا یہ ہے جو اس وقت میں نے دیکھی.پھر نورانی صاحب اور علماء کے متعلق جو افسانے میں نے سنے، میں بس صرف اشارے ہی کر سکتا ہوں.یہ آپ سمجھ لیں کہ مولانا روم سے کسی نے کہا کہ میں ملاں کو انسان نہیں فرشتہ سمجھتا ہوں تو آپ کا کیا خیال ہے؟

Page 178

162 مولانا روم فرمانے لگے کہ فرشتہ تو بہر حال نہیں ہے.باقی ملاں انسان ہے یا نہیں؟ یہ بعد میں فیصلہ کیا جائے گا.حقیقت یہ ہے ایسی ایسی غلیظ داستانیں سننے کا موقع ملا کہ انسان تصور ہی نہیں کر سکتا.چوں بخلوت روند آن کار دیگر ے کند تو یہ محض ان کے ذوق کی تسکین کے لئے اور مذاق اڑانے کے لئے چیز تھی.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ارشاد پر جو مقالہ بھجوایا گیا اسمیں بتایا گیا کہ حمدی بیگم کا خاندان اسلام کے بدترین دشمنوں میں سر فہرست تھا اس زمانہ میں، اور عیسائیوں کے ہاتھ پر کھیل رہا تھا.عیسائیوں نے ہی دراصل سب سے پہلے اس پیشگوئی کو اچھالا ہے یاد رکھیں آپ.اور وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ اسلام اور آنحضرت کا مذاق اڑاتے تھے اور ان کا خیال یہ تھا ہندوؤں کی طرح کہ پھوپھی زاد بہن یعنی زینب سے نکاح کرنا جائز ہی نہیں تھا!.اندازہ کریں یہ تصور تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالات اسلام میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ میں بیٹھا تھا اور رونے لگا اور ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ یہ ایسے بدقماش لوگ ہیں کہ میرے سامنے قرآن مجید کے اوپر انہوں نے پاؤں رکھا (نعوذ باللہ ) اور اس کے بعد پھر آنحضرت کی شان میں انتہا درجہ کی گستاخیاں کیں.تو حضور علیہ السلام پر بڑی رقت طاری ہوگئی.جناب الہی کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ اس خاندان پر خدا کا قہر اور عذاب نازل ہوگا چونکہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی شادی کے متعلق اعتراض کیا ہے.اب ان کے بچاؤ کی ایک صورت ہے کہ وہ اپنی بیٹی محمد کے غلام کو دیں ورنہ ان کے بچاؤ کا کوئی سامان نہیں.خدا کا قہران پر نازل ہونے والا ہے.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 568-569) دراصل یہ Background تھا.اور ساتھ ہی مسیح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے الہام یہ کیا گیا کہ اگر خدا کے اس حکم کے خلاف محمدی بیگم کے والد نے بغاوت کی تو تین سال میں وہ خدا کے قہر سے مرجائے گا.اس کے بعد جس کے ہاں شادی ہوئی اگر وہ بھی اسی طرح انہی کے ڈگر پر چلتا رہا اور گستاخ رسول بنا رہا تو اڑھائی سال

Page 179

163 کے بعد وہ بھی اس دنیا سے راہی ملک عدم ہو جائے گا اور اس کے بعد پھر یہ محمدی بیگم میرے عقد میں آئے گی اگر وہ تو بہ نہ کرے.لیکن اللہ تعالیٰ نے پہلے دن جو الہام کیا اس میں یہ تھا کہ يَمُوتُ وَيَبْقَى مِنْهُ كِلابٌ مُّتَعَدِّدَة ( اشتهار 15 جولائی 1888ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم ایڈیشن جدید صفحہ 140 ) کہ عملاً یہ صورت ہوگی کہ خاندان میں ایک ہی گستاخ رسول مرے گا یعنی محمدی بیگم کا والد اور دوسرا معافی مانگے گا اور اسلام کے ساتھ محبت کا اظہار کرے گا تو خدا اس عذاب کو ٹال دے گا.نتیجہ کیا نکلے گا کہ چونکہ بیوہ ہونے کے بعد اس نے آنا تھا مگر خدا نے رحم کر کے اس کے خاوند کی توبہ قبول کر لی.اس کے نتیجے میں اسلام کے دشمن جن میں سرفہرست عیسائی اور اس کے بعد ملاں ہیں، یہ پھر استہزاء کریں گے جس طرح کہ خدا کے نبیوں کی پیشگوئیوں پر استہزاء کیا جاتا ہے.الفاظ یہی ہیں يَمُوتُ وَيَبْقَى مِنْهُ كِلابٌ مُتَعَدِّدَة عیسائی اور ان کے ہمنوا کتوں کی طرح بھونکیں گے.یہ بیک گراؤنڈ بیان کرنے کے بعد اس میں دو چیزیں نمایاں کی گئیں، اس ثبوت کے لئے کہ یہ تو ایک واقعہ ہے اور عجیب بات ہے کہ عیسائی اور ان کے ہمنو امولوی کبھی بیان نہیں کرتے کہ محمدی بیگم کا والد واقعی طور پر پیشگوئی کے مطابق تین سال کے اندر مر گیا تھا اور اس کے نتیجے میں کہرام مچ گیا.قیامت ٹوٹ پڑی پورے خاندان پر اور نتیجہ یہ نکلا کہ پورے خاندان نے عملاً تو بہ کی اور خود محمدی بیگم کے خاوند نے بھی نہ صرف تو بہ کی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت کا اظہار کیا.چنانچہ سلسلہ کی تاریخ میں ان کے خط کا عکس شائع شدہ ہے.وہ الفاظ جو محمدی بیگم کے خاوند نے انبالہ چھاؤنی سے 29 مارچ 1913 ء کو تحریر کیے ہیں: ” برادرم السلام علیکم نوازش نامہ آپ کا پہنچا.یاد آوری کا مشکور ہوں.میں جناب مرزا جی صاحب مرحوم کو نیک، بزرگ ، اسلام کا خدمت گزار، شریف النفس، خدایار، پہلے بھی اور اب بھی خیال کر رہا ہوں.مجھے ان کے مریدوں سے کسی قسم کی مخالفت نہیں بلکہ افسوس کرتا ہوں کہ چندا مورات کی وجہ سے ان کی زندگی میں ان سے شرف نہ حاصل کر سکا.

Page 180

164 نیازمند 66 سلطان محمد از انبالہ.“ اور آگے اپنے جس رسالہ میں وہ فوجی ملازمت کر رہے تھے اس کا نمبر 9 دیا ہے.یہ تو عکس تھا جو اس میں شامل کیا گیا ہے.پھر اس کے بعد محمدی بیگم کے بیٹے نے 1933ء میں اشتہار شائع کیا.ان کا جو تحریری بیان ہے وہ کمل میں پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں.” برادران السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.پیشتر اس کے کہ میں اپنا اصل مدعا ظاہر کروں ، یہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ واللہ میں کسی لالچ یا دنیوی غرض یا کسی دباؤ کے ماتحت جماعت احمدیہ میں داخل نہیں ہوا ( یعنی وہ پیشگوئی جس پر کہ آج تک ملاں پبلک میں استہزاء کا مظاہرہ کر کے ثابت کرتا ہے کہ خدا کے نبیوں کے ساتھ استہزاء کیا جاتا ہے وہ ہم کر رہے ہیں.خود محمدی بیگم کا بیٹا اعلان کر رہا ہے کہ میں اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی وجہ سے جماعت احمدیہ میں شامل ہو رہا ہوں.ناقل.) ”واللہ میں کسی لالچ، یا دنیوی غرض یا کسی دباؤ کے ماتحت جماعت احمدیہ میں داخل نہیں ہوا بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ایک لمبے عرصہ کی تحقیق کے بعد اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب اپنے ہر دعوی میں صادق اور مامور من اللہ ہیں اور اپنے قول و فعل میں ایسے صادق ثابت ہوئے ہیں کہ کسی حق شناس کو اس میں کلام نہیں ہوسکتا.آپ کی تمام پیشگوئیاں ٹھیک ٹھیک پوری ہوئیں.یہ الگ سوال ہے کہ بعض لوگ تعصب یا نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض پیشگوئیاں پیش کر کے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کہ پوری نہیں ہوئیں.مثلاً ان میں سے ایک پیشگوئی مرزا احمد بیگ صاحب وغیرہ کے متعلق ہے.“ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مرزا احمد بیگ محمدی بیگم کے والد تھے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.جی محمدی بیگم کے والد تھے اور یہ اشتہار دینے والے محمدی

Page 181

165 بیگم کے بیٹے تھے.مرزا محمد اسحاق بیگ صاحب پھر لکھتے ہیں: اس پیشگوئی کو ہر جگہ پیش کر کے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کا پورا ہونا ثابت کرو حالانکہ وہ بھی صفائی کے ساتھ پوری ہوگئی.میں اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کرنے سے پیشتر یہ بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی تھی اور ایسی انداری پیشگوئیاں خدا تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ اس لئے کراتا ہے کہ جن کے متعلق ہوں ان کی اصلاح ہو جائے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَتِ إِلَّا تَخْوِيْفًا کہ ہم انبیاء کو نشانات اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ ڈر جائیں.اس میں اللہ تعالیٰ نے اصل بیان فرما دیا ہے کہ ایسی انذاری پیشگوئیاں لوگوں کی اصلاح کی غرض سے کی جاتی ہیں.جب وہ قوم اللہ تعالیٰ سے ڈر جائے اور اپنی اصلاح کی طرف رجوع کرے تو اللہ تعالیٰ اپنے متعلق عذاب بھی ٹال دیتا ہے.جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ نیز حضرت موسیٰ کی قوم کے حالات ” وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرّجُزَ “ سے ظاہر ہے.اس صورت میں انذاری پیشگوئی کا لفظی طور پر پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا.یہی نقشہ یہاں نظر آتا ہے کہ جب مرزا صاحب کی قوم اور رشتہ داروں نے گستاخی کی، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے انکار کیا.نبی کریم ﷺ اور قرآن پاک کی ہتک کی اور اشتہار دے دیا کہ ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے.تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کے مامور کے ذریعہ پیشگوئی فرمائی.اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہو گئے اور باقی خاندان اصلاح کی طرف متوجہ ہو گیا.جس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیت قبول کر لی.تو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت غفور و رحیم کے ماتحت قہر کو رحم میں بدل دیا.....پھر میں زور دار الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی.میں ان لوگوں کو جن کو احمدیت قبول کرنے میں یہ پیشگوئی حائل ہے عرض کرتا ہوں کہ مسیح الزمان پر ایمان لے

Page 182

166 آئیں.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں یہ وہی مسیح موعود ہیں جن کی نسبت نبی کریم نے پیشگوئی فرمائی تھی.ان کا انکار نبی کریم ﷺ کا انکار ہے.حضرت ہے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا درست فرمایا ہے.صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار مرز امحمد اسحاق بیگ ولد مرزا سلطان محمد بیگ صاحب آف پٹی ضلع لاہور حال وارد چک EB-165 66 ایک واقعہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ حضرت مصلح موعودؓ کے عہد مبارک کے آخری دور کا واقعہ ہے کہ جلسہ سالانہ کے لئے پرالی کی ضرورت تھی.اس وقت ابھی احمد نگر میں چاول وغیر ہونے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا.حضرت خلیفہ امسح الثالث اس وقت صدر صدر انجمن احمد یہ تھے.حضور نے مجھے تحریر فرمایا.وہ تحریر میرے پاس محفوظ ہے.تمام خلفاء کی تحریریں خدا کے فضل سے پلاسٹک کے لفافوں میں محفوظ ہیں.سب سے بڑا خزانہ تو یہی ہے جو میں اپنی اولاد کے لئے چھوڑ رہا ہوں.حضور نے اس میں لکھا کہ آپ کو پندرہ دن کے لئے تحصیل حافظ آباد میں بھجوایا جاتا ہے تا کہ آپ وہاں سے حضرت مسیح موعود کے مہمانوں کے لئے پرالی بھجوائیں.ان دنوں میں خدام الاحمدیہ میں تھا.خالد کا ایڈیٹر تھا.شاید اس وجہ سے کسی نے حضرت صاحب کو بتایا کہ اس کے بڑے تعلقات ہیں اور ساتھ ہی حضور نے مجھے ایک چٹھی اپنی جو رائس ملز تھی جس کو گنیش مل کہتے تھے حافظ آباد کی.بالکل سٹیشن کے سامنے واقع تھی اور سامانہ کے ایک خادم تھے حضور کے، وہ حضور کی طرف سے وہاں پر سارا کام کر رہے تھے.تو حضور نے انہی کے نام عطا

Page 183

167 فرمائی.(نام مجھے یاد نہیں ورنہ میں ضرور اس موقع پر بیان کرتا کیونکہ انہوں نے بڑی محنت کے ساتھ میری راہنمائی کی اور کامیابیوں میں بھی بہر حال ان کا بڑا دخل ہے.اللہ تعالیٰ ان کی تربت پر بے شمار رحمتوں کی بارشیں نازل فرمائے.) چٹھی میں یہ تھا کہ یہ آرہے ہیں تو آپ پہلے تو کولو تارڑ ان کو بھجوائیں، اس کے بعد پھر مختلف وہ جگہیں جہاں احمدی چاول کاشت کرتے ہیں، ان سے رابطہ کرا دیں.وہاں پر میں سب سے پہلے کولو تارڑ گیا پھر اس کے بعد پیر کوٹ اور چک چٹھہ، یہ سارے علاقے چوہدری سردار احمد صاحب موبلنکے والے اور بڑے فدائی تھے احمدیت کے، میرے ساتھ تھے.کام کے ساتھ ساتھ بعض جگہ پر مثلاً کولو تارڑ میں تو گفتگو ہوئی اور وہ اتنی کامیاب تھی کہ چوہدری فیروز محمد صاحب نے جو کہ وہاں ہمارے پریذیڈنٹ تھے ، حضور کی خدمت میں تار دیا کہ جتنے دن تک آپ کے نمائندے مولوی دوست محمد صاحب یہاں رہیں گے میں عہد کرتا ہوں کہ تین بوگیاں روزانہ حافظ آباد سے بھجواؤں گا.اس کے بعد ہم وہاں سے چلے پیر کوٹ اور دوسری جگہوں پر.پیرکوٹ میں مجھے اچھی طرح سے یاد ہے، وہاں پہنچے تو مجھے دیکھتے ہی پریذیڈنٹ صاحب نے کہا کہ اب مغرب کی نماز کا وقت ہے آپ نماز پڑھائیں.نماز پڑھائی.اور کہنے لگے اب درس بھی دے دیں.درس دے کر میں باہر نکلنے لگا تو پریذیڈنٹ صاحب کہنے لگے کہ کوئی خاص مقصد ہے جو آپ تشریف لائے ہیں.میں نے کہا ”حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کے لئے آپ نے پر الی مہیا کر ہی دینی تھی اس لئے مجھے اعلان کی کیا ضرورت تھی.“ کہنے لگئے ”اچھا پر الی لینے کے لئے آئے ہوئے ہیں.بس میں تبلیغی لیکچر دیتارہا اور وہ پرالی جمع کرتے رہے.میں حافظ آباد پہنچا تو ایک احراری ٹائپ کا آدمی مجھے مل گیا.اس نے کہا کہ جی محمدی بیگم کے ساتھ بڑے معاشقے کئے ہیں مرزا صاحب نے اور وہ پیشگوئی بھی پوری نہیں ہوئی.میں نے کہا خدا کی قسم اگر مرزا صاحب کی صرف یہی پیشگوئی جو میری نگاہ میں پوری ہوئی ہے، اگر کسی غیر کے سامنے پیش کر دی جائے ، میں احمدی ہوں اگر میں احمدی نہ ہوتا تو خدا کی قسم صرف اس پیشگوئی کی وجہ سے احمدی ہو جاتا.کہنے لگا یہ کیسے ہو سکتا ہے.میں نے کہا میں آپ کو بتاتا ہوں.میں نے انہیں کہا

Page 184

168 کہ یہ اس شان کی پیشگوئی ہے کہ مسیح موعود کی سچائی کے لئے کافی ہے.اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کر دگار ع اس پر میں نے جو بات کہی سب سے پہلی تو ی تھی کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک آیت میں آنحضرت ﷺ سے وعدہ کیا ہے کہ اگر تو ان نو بیویوں کو طلاق دے دے گا تو اس کے بدلے میں ان سے اچھی محمدی بیگم تمہیں عطا کی جائیں گی.کم از کم 9 محمدی بیگم کا خدا نے محمد رسول اللہ علے سے وعدہ کیا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ سورۃ التحریم ہے اور آیت ہے چھ.فرمایا.عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجاً خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتِ َو اَبْكَارًا (التحريم: (6) فرمایا.عَسى رَبُّه قریب ہے کہ محمد رسول اللہ کا خدا، اگر اے ازواج رسول تمہیں طلاق دے دے تو وہ تم سے زیادہ اچھی بیویاں بدل کر اس کو دے دے، جو مسلمان بھی ہوں، مومن بھی ہوں ، فرمانبردار بھی ہوں، تو بہ کرنے والی، عبادت کرنے والی، روزہ رکھنے والی ، بیوہ بھی ہوں اور کنواریاں بھی.اب اس میں عسی رَبُّہ کا لفظ ہے.یاد رکھیں جب خدا کے لئے عیسیٰ کا لفظ آئے تو وہ شک کے لئے نہیں ہوتا.علامہ سیوطی نے بھی اتقان میں لکھا ہے کہ اللہ کے لئے جب عسی کا لفظ آئے تو وہ یقین کے معنوں میں ہوتا ہے.دیکھیں سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عسی آنُ يُبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا (الاسراء: 80) قریب ہے یا رسول اللہ کہ آپ کو مقام محمود پر فائز کیا جائے.اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ جی یہ شک والی بات ہے.ممکن ہے کہ مقام محمود نہ عطا کیا جائے.مگر تمام مفسر یہ تسلیم کرتے ہیں اور اس کے بغیر چارہ کار کوئی نہیں ہے کہ یہ یقینی بات ہے.تو خدا نے فرمایا یہ یقینی بات ہے " عسى رَبُّهُ ، جس طرح محمدی بیگم کے متعلق بھی حضور نے فرمایا تھا کہ یہ خدا کا وعدہ ہے کہ جب اس کا خاوند مر جائے گا تو بیوہ ہو جانے کے بعد ضرور میرے پاس آئے گی.تو یہاں اسی یقین کے ساتھ خدا نے رسول اللہ سے وعدہ کیا ہے اس وقت حضور علیہ السلام کے عقد میں جو بیویاں تھیں ان کی تعداد 9 تھی.حضرت خدیجہ کا پہلے انتقال ہو چکا تھا سورہ تحریم سے پہلے اور حضرت ام المساکین بھی وفات پا چکی تھیں.خود حضور علیہ السلام نے ان کا جنازہ پڑھامد بینہ

Page 185

169 میں اور جنت البقیع میں سپردخاک کی گئیں.تو اس وقت آنحضرت کے عقد میں جبکہ یہ سورۃ تحریم نازل ہوئی ام المؤمنین حضرت سودہ تھیں ، ام المؤمنین حضرت عائشہ ام المؤمنین حضرت حفصہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ، ام المؤمنین حضرت زینب ، ام المؤمنین حضرت جویریہ (حضرت ابراہیم کی والدہ) 66 اور ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ ، ام المؤمنین حضرت میمونہ ، ام المؤمنین حضرت صفیہ تو یہ نوتھیں.خدا فرماتا ہے کہ یقینی طور پر ان بیویوں کے بدلے میں خدا تعالیٰ ان سے بہتر نو تمہیں عطا کرے گا.میں نے کہا کہ مرزا صاحب نے تو ایک محمدی بیگم کی بات کی تھی یہاں تو نو محمدی بیگم کی بات کی گئی ہے.کیونکہ محمدی بیگم کے معنی ہی یہی ہیں جو محمد رسول اللہ کی بیگم ہو.تو نو محمدی بیگم کے دیئے جانے کا عرش کے خدا نے وعدہ کیا تھا.بتاؤ ایک بھی ملی ہے یا نہیں ملی.کہنے لگا کہ جی اس میں شرط تھی.میں نے کہا کہ محمدی بیگم کے بارے میں بھی شرط تھی.یہ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.میں نے کہا دوسری بات یہ ہے کہ یہ پیشگوئی ایسی ہے کہ اس کا اقرار تو خود آپ کی شریعت کے امیر شریعت احرار کے امیر عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اور تمام احراری حضرات کرتے ہیں.کہنے لگے وہ کیسے! ان دنوں امروز کے سٹاف رپورٹر نے ایک انٹر ویو عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری سے لیا تھا.وہ امروز میں شائع ہوا.اس وقت امروز“ کا ایک ایڈیشن ملتان سے چھپتا تھا.ایک لاہور سے چھپتا تھا.تو میں جس وقت پرالی کی مہم پر چلا ہوں وہ اس وقت ایک آدھ دن قبل مجھے ملا وہ میں نے ساتھ ہی رکھ لیا.کیونکہ میں نے کوئی سفر نہیں کیا جس میں کوئی کتاب نہ ہو کیونکہ دعوت الی اللہ تو بنیاد ہے ہماری تو وہ میں نے اپنے بیگ میں رکھ لی.حافظ آباد جب گیا تو اس وقت بیگ میں میرے پاس تھا.میں نے کہا جی بانی جماعت احمدیہ کی پیشگوئی اتنی تھی.الہام میں يَمُوتُ وَ يَبْقَى مِنْهُ كَلَابٌ مُّتَعَدِّدَة کہ بالآخر خدا کی تقدیر یہ ہے کہ خاندان میں دو نہیں مریں گے ، ایک ہی مرے گا یعنی مرزا احمد بیگ ( محمدی بیگم کا والد ) اور چونکہ خاوند تو بہ کی وجہ سے بچالیا جائے گا.تو عیسائی اور ان کے ہمنوا جتنے بھی ملاں ہوں گے وہ استہزاء کریں گے اور الفاظ یہ تھے يَمُوتُ وَيَبْقَى مِنْهُ كلابٌ مُتَعَدِّدَة کتے بھونکتے رہیں گے.یہ جو بھونکنے کا لفظ ہے یہ تو ان کی زبانوں پر چڑھا ہوا ہے.چوہدری افضل حق نے ایک دفعہ اپنے خطبات " خطبات احرار صفحہ 99 میں پاکستان کی تحریک کے علمبرداروں کو مخاطب کر کے لکھا.اندازہ کریں.

Page 186

170 کتوں کو بھونکتا چھوڑو حضرت قائد اعظم بھی مخاطب ہیں.مسلم لیگی زعماء بھی مخاطب ہیں.تحریک پاکستان کا ہر علمبر دار مخاطب ہے.یہ یکم دسمبر 1941 ء کی تقریر ہے.کتوں کو بھونکتا چھوڑو.کاروان احرار کو اپنی منزل کی طرف چلنے دو.احرار کا وطن لیگی سرمایہ دار کا پاکستان نہیں.احرار اس ”پاکستان“ کو ”پلیدستان سمجھتے ہیں“.(صفحہ 99،83) یہ ریلوے روڈ لاہور کی چھپی ہوئی کتاب ہے.اور ان کے Socalled محافظ ختم نبوت شورش کاشمیری نے اس کو شائع کیا ہے.وہی اس وقت جنرل سیکرٹری تھے.شائع کرنے والا مکتبہ احرار لاہور ہے.بار اول مارچ 1944 ء.میں نے کہا خدا کے الفاظ یہ تھے کہ پیشگوئی تو پوری ہو جائے گی مگر کتے پھر بھی بھونکتے رہیں گے.اب دیکھیں شریعت احرار کے امیر صاحب نے جوا بھی حال ہی میں بیان دیا ہے وہ کیا ہے.امروز کا سٹاف رپورٹر کہتا ہے کہ میں نے شاہ صاحب سے پوچھا یعنی سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری امیر شریعت احرار، (احرار کی شریعت کے امیر ) "شاہ جی آپ کو ذیا بیطیس کی شکایت کب سے ہے.جواب دیا یہ مرض سکھر جیل میں میرے ساتھ آلگا تھا.ابھی تک سنگت نبھا رہا ہے“.اُن دنوں جبکہ آپ اس قدر بیمار تھے.یہ فالج کے حملہ سے بیکار ہو گئے.حضرت مولانا ابوا لعطاء صاحب اور مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب بھی ملنے کے لئے گئے تھے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب سے بخاری صاحب نے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے، تو مولانا ابوالعطاء صاحب کا نام تو ان کو اچھی طرح یاد تھا.لیکن حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے کہا کہ ( یہ مجھے عبدالحفیظ صاحب ایڈووکیٹ نے بعد میں بتائی جو آج کل میرے خیال میں کینیڈا میں ہیں.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب 1934 ء سے پہلے ان کو جس نام سے یاد کیا جاتا تھا.پیدائشی نام اللہ دتہ تھا ) کہنے لگے کہ جی میرا نام اللہ دتہ ہے.جب واپس آئے تو چوہدری عبد الحفیظ صاحب نے ”خالد احمدیت سے پوچھا کہ حضرت یہ تو پرانا نام ہے اور احمدی نوجوانوں کے سامنے یہ بیگانہ سا ہے.تو آپ نے

Page 187

171 ابوالعطاء کیوں نہ کہہ دیا.کہنے لگے بات یہ تھی کہ ابو العطاء کے معنی ہیں عطاء کا باپ تو میں نے گوارا نہ کیا کہ دل میں یہ نہ محسوس کریں کہ وہ عطاء اللہ شاہ بخاری ہے اور میں اپنے تئیں اس کا باپ کہتا ہوں.حضرت مسیح موعود نے تقویٰ کی راہیں بیان کی ہیں تو میں نے اپنا پہلا نام بیان کیا ہے.یہ ایک ضمنی بات آ گئی تھی.سٹاف رپورٹر کا تذکرہ میں کر رہا تھا.عجیب بات یہ ہے کہ یہ جو میں اس وقت پڑھ رہا ہوں ید امروز سے براہ راست نہیں پڑھ رہا.”امروز کا پرچہ میرے پاس محفوظ ہے.یہ میں مشہور احراری جانباز مرزا کی کتاب ”حیات امیر شریعت سے پڑھ رہا ہوں.اس میں انہوں نے خاص اہتمام سے اس کو درج کیا ہے امیر شریعت کے تبرکات کے اعتبار سے.یہ صفحہ 436 ہے جو میں اس وقت پڑھ رہا ہوں اور کتاب کے اوپر لکھا ہے ”حیات امیر شریعت اور آگے لکھا ہے ان کی پہلی مکمل اور مستند سوانح حیات.لکھتے ہیں.میں نے پوچھا شاہ جی سے ان دنوں جبکہ آپ اس قدر بیمار ہیں اور پبلک لائف سے بھی ریٹائر ہو چکے ہیں، کبھی دیرینہ رفقاء میں سے کوئی ملنے آیا؟“ یہ سوال سٹاف رپورٹر نے کیا لکھا ہے.تو جواب میں مسکرائے اور کہا بیٹا! جب تک یہ کتیا ( زبان ) بھونکتی تھی ،سارا برصغیر ہند و پاک ارادتمند تھا.اس نے بھونکنا چھوڑ دیا ہے تو کسی کو پتا ہی نہیں رہا کہ میں کہاں ہوں.“ میں نے کہا اب آگے چلیں.میں نے یہ بتایا تھا کہ یہ شاہ جی کی جو سنت ہے اور کچھ ہو یا نہ ہو جس طرح بخاری صاحب نے کہا تھا کہ شریعت نہ ماننے کے لئے ان ظالموں نے میرا نام امیر شریعت رکھ دیا ہے.(فرمودات امیر شریعت صفحہ 78 ناشر مکتبہ تعمیر حیات چوک رنگ محل.لاہور ) لیکن شاہ جی کی اس سنت کو کسی احراری مولوی نے نہیں چھوڑا.حتی کہ اسمبلی میں بھی نہیں چھوڑا اور آج تک بھی نہیں چھوڑا.یعنی نام ختم نبوت کا ہو گا کہ آج یوم ختم نبوت منایا جارہا ہے اور اس میں مسیح موعود کو گالیاں ضرور دیں گے.یہ احرار کا سرکاری آرگن آزاد " 27 ستمبر 1958ء ہے جس کا حوالہ میں پیش کر رہا

Page 188

172 ہوں.احراری لیڈر خود کس شان سے لکھتے ہیں:.دو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مجلس احرار کے خطیبوں میں جذباتیت، پھکڑ بازی ( گالیاں دینا) بھونکنا اور اشتعال انگیزی کا عنصر غالب ہے.یہ ٹھیک ہے مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ ہماری قوم کی ذہنیت اور مذاق کیا ہے.آپ ذرا حقیقت پسند ،سنجیدہ اور متین بن جائیں پھر آپ مسلمانوں میں مقبول ہو جائیں اور کوئی تعمیری اور اصلاحی کام کر لیں تو ہمارا ذمہ.یہی تو ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم حقائق و واقعات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے.“ تاریخ حقائق و واقعات کا دراصل عکس ہوتی ہے.کہتے ہیں، ہم جو کہتے ہیں وہ حقائق اور واقعات کے خلاف کہتے ہیں.مگر پھکڑ بازی اور اشتعال انگیزی میں ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا.ناقل ) کہتے ہیں:.یہی تو ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم حقائق اور واقعات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے.آپ بڑے بڑے دیانتدار، با اخلاق اور سنجیدہ، متین پہاڑوں کو کھو دیں تو اشتعال کا چوہا نکلے گا.( کہتے ہیں ) یہ ہمارا ہی قصور نہیں تمام مسلمان کہلانے والے مولویوں اور جماعتوں کا قصور ہے.الیکشن بازی میں تو دیندار اور بے دین سب کے سب اشتعال انگیزی سے ہی کام لیتے ہیں.ہاں یہ ضرور ہے کہ اس سے کوئی کم کام لیتا ہے کوئی زیادہ.(اب اپنے کاروبار کے متعلق لکھتے ہیں.ناقل ) ہمارے احراری بزرگ اس میں سب سے آگے ہیں اسی لئے وہ رشک و حسد کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.“ یہ ہے اصل چیز اور اسی وجہ سے پھر دنیا کے دوسرے مفکر مسلمانوں نے اس بات کا کھل کر اظہار کیا ہے.چنانچہ دیکھیں غیروں کے متعلق آنحضور کی حدیث علامہ السیوطی نے اپنے جامع الصغیر میں لکھی ہے.فرمایا کہ "جَاهِدُوا الْمُشْرِكِيْنَ..بِالْسِنَتِكُمْ» مشرکوں کے خلاف زبانوں سے بھی جہاد کرو.

Page 189

173 اب اس کا تو صاف مطلب ہے کہ قرآن مجید اور اس کے حقائق ، اس کے دقائق اور آنحضور کی سیرت مقدسہ پیش کرو تا کہ جس طرح ابتداء میں اسلام میں آنے والے لوگ سیرت رسول اور قرآن کے دلائل کے ذریعہ سے محمد عربی علیہ کے قدموں میں آئے تھے وہ تمہارے اس جہاد بالسان کے ذریعے سے رسول اللہ کے عاشق بن جائیں.مگر احراری ملاں اور ان کے بڑے بڑے پیر و مرشد جو گزرے ہیں جنہیں محدث قرار دیا جاتا ہے.بڑا چرچا ہے کہ جی حدیث کے علوم کا سر چشمہ دیو بند شریف ہے.اب اس حدیث کا مفہوم کیا بیان کیا جاتا ہے.مشکوۃ کے حاشیہ میں بھی درج ہے اور مکتبہ نعمانیہ میں یا جس جگہ سے بھی یہ دوبارہ چھپی، ہے اس کے حاشیہ میں یہ لکھا ہے ” بان تخوفوهم و توعدوهم“ جہاد باللسان کے معنی یہ ہیں کہ تم مشرکوں کو ڈراؤ دھمکاؤ.”بالقتل و الاخــذ ان کو دھمکی دو کہ اگر نہیں مانو گے تو ہم تمہیں قتل کر دیں گے.یہ جہاد باللسان ہورہا ہے والاخذ والنهب تمہارے مالوں کو لوٹ لیں گے.”و نحو ذلک و بان تذموهم و هم “ ان کو برا بھلا بھی کہو اور گالیاں بھی دو.( ناشر نور محمد مالک اصبح المطابع و کارخانه تجارت کتب بالمقابل آرام باغ فریر روڈ.کراچی صفحہ 332) یہ جہاد باللسان ہے جناب.اب یہ جہاد باللسان جس طرح کر رہے ہیں، ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب لکھتے ہیں.جو معاندین احمدیت کی صف اول میں شامل ہیں لیکن اقرار کیا ہے.خدا نے اقرار کروایا ہے.فرماتے ہیں:.آج تک احمدیت پر جس قد رلٹریچر علمائے اسلام نے پیش کیا ہے اس میں دلائل کم تھے اور گالیاں زیادہ.ایسے دشنام آلود لٹریچر کو کون پڑھے اور مغلظات کون سنے.میٹھے انداز اور ہمدردانہ رنگ میں کہی ہوئی بات پر ہر شخص غور کرتا ہے.مگر گالیوں کو کوئی نہیں سنتا.“ ان کی کتاب ” حرف محرمانہ طبع اوّل 1954ءصفحہ 11 اور 12 پر یہ اقتباس ہے.” شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور کے مشہور ناشر ادارے نے یہ اہتمام شیخ نیاز احمد پرنٹر و پبلشر اس کو شائع کیا ہے.یہ وہی کتاب ہے جس کا جواب میرے استاد حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ و نور اللہ مرقدہ نے ” تحقیق عارفانہ کے نام سے شائع کیا ہے.

Page 190

174 آگے سنیں! جماعت اسلامی کے نعیم صدیقی صاحب کہتے ہیں.احرار کے متعلق انہوں نے رسالہ ” چراغ راہ کراچی مارچ 1954 ء صفحہ 18 پر ان کی تحریک ختم پاکستان، جس کو یہ تحریک تحفظ ختم نبوت کہتے ہیں، تبصرہ کیا ہے.تحقیقاتی عدالت نے اس کو تحریک ختم پاکستان“ قرار دیا ہے اور بتایا ہے چوہدری فضل الہی صاحب کے بیان کے ذریعہ سے جو اس وقت حکومت پنجاب کے وکیل کے طور پر تحقیقاتی عدالت میں پیش ہوئے تھے.فاضل ججوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ دراصل دولتانہ صاحب یہ چاہتے تھے کہ مذہب کے نام پر ایسی ایجی ٹیشن چلائی جائے کہ خواجہ ناظم الدین کو الگ کر دیا جائے اور ان کے بعد پھر مجھے پرائم منسٹر بنا دیا جائے اور اس کے بعد ان کے چونکہ کمیونسٹوں کے ساتھ مراسم تھے.ان کا ارادہ یہ تھا کہ پاکستان کو کمیونسٹ حکومت بنادیا جائے.رپورٹ تحقیقاتی عدالت 1953 ، صفحہ 304) مسلمان کمیونسٹوں میں سر فہرست تو مجلس احرار ہی ہیں.اس واسطے گٹھ جوڑ ہوا.ورنہ ارادہ دولتانہ کا یہی تھا کہ یہاں پر کمیونزم کو لایا جائے.تو یہ 1953ء کے حالات پر تبصرہ کر رہے ہیں نعیم صدیقی صاحب.کہتے ہیں:.ان کی زبان اور ان کا انداز بیان بسا اوقات رکاکت اور ابتذال (یعنی بازاری زبان.ناقل ) اور تمسخر (جو کہ خدا کے نبیوں کے خلاف کیا جاتا ہے.ناقل ) اور استہزاء کے حد کو چھو جانے کی وجہ سے کبھی اپیل نہیں کر سکا.“ پھر مولوی عبدالرحیم صاحب اشرف جو کبھی بہت پکے احراری تھے اور کئی مناظرے ہوئے اور (حضرت سیدہ آبا طاہرہ صدیقہ صاحبہ کے والد حضرت خان عبدالمجید صاحب نے اپنے قلم سے مجھے لکھ کر جو تحریر دی.وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ” تاریخ احمدیت“ کی زینت بنے والی ہے.اس میں ان کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ یہ پکے احراری تھے اور انہوں نے ہر جگہ پر احمدیت کی مخالفت کی.لکھتے ہیں:.” استہزاء، اشتعال انگیزی ، یاوہ گوئی ، بے سروپا لفاظی ، اس مقدس نام کے ذریعے مالی غبن ، لا دینی سیاست کے داؤ پھیر ، خلوص سے محروم اظہار جذبات، مثبت اخلاق فاضلہ سے تہی کردار، ناخدا ترسی سے بھر پور مخالفت کسی بھی غلط تحریک کو ختم نہیں کر سکتی اور ملت اسلامیہ پاکستان کی ایک اہم محرومی یہ "

Page 191

175 ہے کہ مجلس احرار اور تحفظ ختم نبوت“ کے نام سے جو کچھ کیا گیا ہے اس کا اکثر و بیشتر حصہ انہی عنوانات کی تفصیل ہے.“ المنیر “ 6 جولائی 1956 صفحہ 7) 66 المنیر ، فیصل آباد سے نکلتا تھا اور اس وقت ابتداء میں جب ڈیکلریشن لیا گیا تو المنیر “ نام تھا بعد میں پھر نقطہ کاٹ کر المنبر “ کر دیا اور اس میں حسن ذوق اور حسن ادب کی بات ہے.بہر حال المنیر " 6 جولائی 1956ء میں یہ عبارت موجود ہے.اسی طرح المنیر 9مارچ 1956 ء صفحہ 4 پر انہوں نے لکھا:.اگر مولانا عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی یہ تقریریں جو وہ قادیانیت کے خلاف کر رہے ہیں (جن میں سے آیات کی تلاوت اور ان کے بعض مطالب کی تبلیغ کا حصہ جو فی الحقیقت ان کی تقریروں کا 1/1000 حصہ ہو گا مستثنیٰ کر لیا جائے.اگر انہیں دربار رسالت کی پسندیدگی حاصل ہے تو ہم اس اسلام کو جو کتاب وسنت میں پیش کیا گیا ہے اور جس میں ذہن ، قلب، زبان اور اعضاء کو مسئولیت سے ڈرایا گیا ہے، خیر باد کہنے کو تیار ہیں.“ پھر المنیر " 10 اگست 1955 ، صفحہ 4 و11 میں لکھا:.66 خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کام کا جواب نعروں سے، مسلسل جدوجہد کا توڑ اشتعال انگیزی سے علمی سطح پر مساعی کو ناکام بنانے کا داعیہ صرف پھبتیوں اور بیہودہ جلوسوں اور نا کارہ ہنگاموں سے پورا نہیں ہوسکتا.اس لئے جب تک وہ انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے فکری اور عملی تقاضے پورے ہوں ، ہنگامہ خیزی کا نتیجہ وہی برآمد ہوگا جس پر مرزا صاحب کا الہام ان مهين من اراد اهانتک صادق آئے گا“ اور آخر میں مجیب الرحمان شامی کے قلم سے آپ سنئے.رسالہ ”لیل ونہار لا ہور سے شائع ہوتا تھا.8 جولائی 1974ء میں انہوں نے یہا دار یہ سپرد قلم کیا.جناب شامی صاحب نے لکھا:.

Page 192

176 کوتاہ نظروں کی کوتاہ نظری نے مرزائیت کے خلاف اس طرح کا محاذ بنایا کہ جو اہل مرزائیت کو اشتعال دلانے اور اپنے عقیدے میں مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوئے.سستی نعرہ بازی ، اوچھے حملوں اور فحش گالیوں سے مرصع گفتگو کسی کو قائل تو نہیں کر سکتی ، غصہ ضرور دلا سکتی ہے.چنانچہ مرزائیت کے خلاف کئی ایسے مبلغین بھی ابھرے جنہوں نے عامیوں کے ذوق کو ابھار کر داد تحسین تو حاصل کر لی، فاتح قادیان اور فاتح ربوہ بھی کہلائے لیکن مرزائیت کی جڑ نہ مار سکے.“ یہ خدا کی نصرت کا نشان ہے جو ہمیشہ ہی ان پھبتیوں اور گالیوں کے مقابل پر عرش کے خدا نے مسیح موعود کی جماعت کے لئے دکھایا ہے.ع ایک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کر دگار مجھے ایک خیال چھوٹا سا آ گیا ہے.وہ بھی اس کا ایک ضمیمہ ہے بہت اہم.ان گالیوں میں سب سے بڑی صورت جو سیاسی دماغوں نے سوچی ہے مخالفین کے لئے ، وہ ہمیشہ سے دنیا کی ہر جگہ پر، اپوزیشن استعمال کرتی ہے، مخالفین استعمال کرتے ہیں.مذہبی سطح پر بھی ، سیاسی سطح پر بھی اور معاشرتی انداز سے بھی کہ کسی قوم یا جماعت یا کسی شخص کا اصل نام بگاڑ کر پہلے تو ایک نام تجویز کیا جاتا ہے، پھر ساری برائیاں اس کی طرف منسوب کر کے اس انداز میں پبلک کو بتایا جاتا ہے کہ جس وقت وہ نام عوام کے سامنے آئے تو اس نام کی وجہ سے تمام برائیاں خود بخود منعکس ہو جائیں.یہ ہتھکنڈہ اور حربہ مدت سے شیطان کے چیلے اختیار کرتے چلے آ رہے ہیں.قرآن تو کہتا ہے وَلَا تَنَا بَزُوا بِالُ الْقَابِ کہ دیکھو ایسے ناموں سے یاد نہ کیا کرو جو دوسرے کے لئے دل آزاری کا موجب ہوں یا حقیقت کے خلاف ہوں.اب دیکھیں ظالمانہ بات ہے کہ اہلحدیث نے کبھی اپنے تئیں وہابی نہیں قرار دیا.محمد بن عبد الوہاب تو ابن تیمیہ کے شاگرد تھے اور ان کا تعلق اور ان کا مسلک حضرت امام احمد بن حنبل کے ساتھ تھا.تو اہل حدیث بزرگ تو کہتے ہیں کہ ہم آئمہ کی تقلید نہیں کرتے وہ غیر مقلد ہیں.حضرت امام ابو حنیفہ، حضرت امام شافعی ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل".یہ

Page 193

177 برگزیدہ لوگ تھے، بہت معزز تھے.ہم احترام ضرور کرتے ہیں مگر ان کی تقلید نہیں کرتے.حضرت امام احمد بن حنبل پر مجھے اکبر الہ آبادی صاحب کا یہ شعر یاد آیا جس میں حضرت امام حنبل" کے لفظ کو انہوں نے بڑے انگریزی الفاظ میں مرصع کیا ہے وہ یہ ہے کہ ے ہر طرح اب ہے عاجزی ہم میں وو ہمارے امام 'Humble“ ہیں اور حنبل سے مراد Humble ہیں.انہوں نے اس کے قوسین میں یہ بات لکھی ہے انگریزی کے لفظ Humble“ مگر تلفظ کے لحاظ سے جب آپ پڑھیں گے تو امام حنبل کی طرف اشارہ ہوگا.یہ بھی ان کے استعارات کا بہت بڑا شاہکار ہے.بہر حال یہ نام دیا جاتا ہے مرزائی کا اور جب مرزائی کا لفظ یہ لوگ استعمال کرتے ہیں.حالانکہ ہم بانی جماعت احمدیہ کے ارشاد کے مطابق احمدی کہلاتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب پوچھا گیا تو حضور نے فرمایا کہ لوگوں نے بعض علماء کی طرف اپنے تئیں منسوب کیا ہے، بعض نے صوفیاء کی طرف کیا ہے، بعض نے آئمہ کی طرف کیا ہے.کوئی قادری کہلاتا ہے، کوئی سہروردی کہلاتا ہے، کوئی حنفی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کسی نے کوئی اور نام رکھا آنحضرت ﷺ کے دو نام تھے محمد بھی اور احمد بھی.محمد شان جلالی کا مظہر ہے اور احمد شان جمالی کا لفظ ہے.شان احمدیت آخری دور میں رسول پاک ﷺ کے لئے مقدر تھی.اس لئے دیکھیں کہ پہلے بزرگوں کو بتایا گیا، یہ حوالہ میں بتا چکا ہوں.حضرت ملا علی القاری نے فرمایا کہ وہ تہترواں فرقہ ہوگا اہلسنت میں سے مگر طریقہ احمدیہ کے اوپر ہوگا.ہے.(مرقاۃ المصابیح شرح مشکوۃ صفحہ 248 ناشر مکتبہ امدادیہ.ملتان ) اسی طرح حضرت مجددالف ثانی نے ” مبدا و معاد“ میں لکھا ہے کہ:.میں ایک عجیب بات کہتا ہوں جو اس سے پہلے نہ کسی نے سنی اور نہ کسی بتانے والے نے بتائی، جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے صرف مجھے بتائی اور صرف مجھ پر الہام فرمائی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ آں سرور کائنات علیہ وعلی آلہ الصلوات والتسلیمات کے زمانہ ء رحلت سے ایک ہزار اور چند سال

Page 194

178 بعد ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے کہ حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج فرمائے گی اور حقیقت کعبہ کے مقام میں متحد ہو جائے گی.اس وقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمدی ہو جائے گا.( مبدأ و معاد مع اردو تر جمه صفحه 205 ناشر ادارہ مجددیہ ناظم آباد.کراچی) تو ہم رسول اللہ کی پیشگوئی کے مطابق اپنا نام احمدی رکھتے ہیں.احمدی کہلاتے ہیں اور احمد کی طرف منسوب ہوتے ہیں مگر یہ لوگ اس دجالی اور شیطانی پرا پیگنڈہ کو استعمال کرنے کی وجہ سے مرزائی کا نام دیتے ہیں اور اس کے بعد پرو پیگنڈہ اس طرز پر کرتے ہیں کہ اس کے اندر برائیاں منسوب کرتے جاتے ہیں اور جب یہ نام لیا جائے تو ساری برائیاں سامنے آجائیں.اب میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتا ہوں.میں دفتر میں بیٹھا ہوا تھا تو حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح و ارشاد ( اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے.خلافت کے عاشق تھے ) سرگودھا کے ایک سنی بزرگ کو ساتھ لے کر آئے.اب مجھے پتا نہیں تھا کہ ان کا مسلک کیا ہے.کہنے لگے کہ یہ تشریف لائے ہیں ربوہ کی زیارت کرنے کے لئے.میں لائبریری لے کر آیا ہوں تم سے بھی مل لیں.میں نے کہا مولانا آپ کی موجودگی میں؟ کہنے لگے میں پسند کروں گا کوئی بات آپ بھی کہیں.حضرت مولانا بیٹھے.میں نے خیر مقدم کیا اور حضرت مولانا صاحب نے کہا تھا یہ ہمارے ایک غیر احمدی بزرگ ہیں جو سر گودھا سے آئے ہیں.میں نے کہا حضرت مولانا معذرت کے ساتھ میں بات کہتا ہوں ، میں نے ان سے پوچھا.میری فراست نے ان کی شرافت کو دیکھ کر اور ان کے چہرے کے انداز کو دیکھ کر اور داڑھی کو دیکھ کر اور یہ دیکھ کر کہ سرگودھا سے آئے ہیں تو میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ یہ سیال شریف والوں کے مرید ہیں.حالانکہ کوئی بات انہوں نے از خود نہیں کی.تو میں نے مولانا سے کہا حضرت مولانا ! ( میں ان سے پوچھتا ہوں ) حضرت! آپ آنحضرت ﷺ کو احمد مانتے ہیں؟ کہنے لگے یقینی طور پر.میں نے کہا کبھی اپنے تئیں غیر احمدی نہ کہا کریں اور مولا نا یہ میں آپ سے بھی عرض کرتا ہوں کہ ان کو غیر احمدی آپ نہیں کہہ سکتے کیونکہ جو خود کہتا ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کو احد مانتا ہوں.احمد تو ہیں ہی حقیقی معنوں میں محمد عربی ﷺ تو آپ کو غیر احمدی کہنے کا حق نہیں آپ واپس لیں.حضرت مولا نا بہت

Page 195

179 مسکرائے.کہنے لگے.میں واپس لیتا ہوں.میں نے کہا یہ آپ کی مہربانی ہے ورنہ ایک عیسائی سے حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب کا مناظرہ ہو رہا تھا.گوجرہ کی بات ہے پارٹیشن سے بہت پہلے.حضرت قاضی صاحب اسلامیہ سکول فیصل آباد میں (اس وقت وہ لائکپور تھا) استاد تھے.مناظرہ ہو رہا تھا جس عیسائی کے ساتھ اس کا نام تھار لیا رام.اس نے کوئی ایسی حرکت کی.آنحضرت ﷺ کا نام لیتے ہوئے اس نے انتہائی بدقماش ہونے کا ثبوت دیا تو قاضی صاحب کہنے لگے کہ یہ چیز واپس لو یہ بہت ظالمانہ بات ہے اور شرم آنی چاہئے تمہیں تم محبت کے دعوے کرتے ہو اور رسول پاک ﷺ کے اسم گرامی کے متعلق تم نے یہ بکواس کی ہے اور کہنے لگے تم نے یہ بات کی ہے.تمہارا نام رلیا رام ہے.میں تمہیں دمڑی رام بنا کر چھوڑوں گا.خیر وہ ایسی جلالی بات تھی پادری رلیا رام کہنے لگا میں واپس لیتا ہوں.کہنے لگے اب میں واپس دینے کے لئے تیار نہیں ہوں.میں نے جب سرگودھا سے آئے مہمان سے پوچھا دوبارہ کہ یہ ٹھیک ہے ناجی کہ آپ رسول اللہ ﷺ کو مانتے ہیں، تو کبھی اپنے تئیں غیر احمدی نہ کہلائیں.جہاں جائیں آپ کہیں کہ میں احمدی ہوں.وہ بھی بڑے ہوشیار آدمی تھے.کہنے لگے میں احمدی تو ہوں مرزائی نہیں ہوں.جو نہی انہوں نے بات کہی ، میں نے اسی وقت کتاب منگوائی.سیال شریف والوں کے بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی فوت ہو گئے تھے.بہت بڑے اکابر صوفیاء میں ان کا شمار ہوتا ہے.حضرت قاضی اکمل صاحب اور ان کے والد حضرت مولوی امام الدین صاحب یہ ان کے مریدوں میں شامل تھے.بعد میں احمدیت میں آئے.بہت بلند پایہ بزرگ مسیح موعود کے آنے سے پہلے بے شمار ستارے گذرے ہیں.آسمان پر چمکتے رہے جن کے طفیل بر صغیر میں اسلام پھیلا ہے.ملاں نے تو مسلمانوں کو کافر بنایا ہے.کافروں کو مسلمان بنانے والے تو اہل اللہ ہی تھے جن میں حضرت خواجہ شمس الدین بھی تھے.میں نے کتاب منگوائی ” مرآة العاشقین“ میں نے کہا کہ اب سنیں یہ حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی کی کتاب آپ نے پڑھی ہے ” مرأة العاشقین“.کہنے لگے کتاب تو نہیں پڑھی مگر میں تو ان کا مرید ہوں.سنا ئیں کیا لکھا ہے.میں نے کہا سنیں.

Page 196

180 حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی کے مرید سید محمد سعید صاحب نے ان کی سوانح لکھی ہے.لکھتے ہیں کچھ آپ کے ملفوظات کا تذکرہ کرنے کے بعد کہ:.بعد ازاں آپ کے پوتے (حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی کے پوتے.ناقل ) صاحبزادہ محمد امین صاحب آئے.آپ نے پوچھا.اے بیٹے کون سی سورت پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا سورت نور.آپ نے تبسم کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا.صورت مرزے یار دی ساری سورت نور غفور و الشمس والضحیٰ پڑھیا رب بندہ نے عرض کیا.مرزا سے کیا مراد ہے (اب یہ غور فرمائیں ) بندہ نے عرض کیا.مرزا سے کیا مراد ہے.فرمایا رسول خدا ( محمد مصطفی ﷺ ) '' پھر فرمایا عاشقوں کا دستور ہے کہ وہ اپنے معشوق کو مرزا یا رانجھا کہہ کر یاد کرتے ہیں.(اردو ترجمہ ”مرأت العاشقین، صفحہ 272 ناشر اسلامک بک فاؤنڈیشن N.249 سمن آبا دلا ہور ) وہ بہت شریف النفس بزرگ تھے.کہنے لگے آج سے میں احمدی بھی ہوں اور مرزائی بھی ہوں.میں نے کہا آپ کو اس سلسلے میں ایک اور بات بھی بتاؤں.یہ تو بات تھی حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی کی اور چشتی خانوادے میں حضرت خواجہ غلام فرید کا مقام تو آپ کے سامنے ہے.” مقابیس المجالس، ان کے ملفوظات کی کتاب ہے.اس کے ترجمہ کے صفحہ 560-561 میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ صاحب کے سامنے قوالوں نے دوھڑے پڑھے اور آخری مصرعہ پر حضرت خواجہ پر بہت گر یہ طاری ہوا.اس کے بعد حضرت اقدس کے حکم سے مہاروی قوالوں نے گانا شروع کیا.اشعاریہ تھے.

Page 197

181 مرزا میں نہیں لائق صاحباں مرزا ہے لجپال دی شان عظیم کون جانن کی سیال کر بسم الله صاحباں لیں سبق قرآن صورت مرزے یار دی لیس الف پہچان صاحباں رات معراج دی ساندل وچ رہی مرزا دی لقا توں کیس سہی رب ناں اے کلمہ کفر ہے نہ اے ترک ادب میں مرزا دی بندی ہاں مرزا میرا رب قوال نے جب یہ پڑھا تو لکھا ہے کہ خواجہ صاحب پر بڑی وجد کی کیفیت طاری ہو گئی اور آپ کھڑے ہو کر رقص کرنے لگے جس سے آپ کے سر سے ٹوپی بھی گر گئی اور ایک خادم نے کمال ادب سے اٹھا کر آپ کے سامنے رکھی.اس کے بعد آپ بیٹھ گئے.پھر قوالی کرنے والوں نے دوبارہ یہ مصرعہ کہا اور اس کے بعد آپ نے اس کیفیت کے بعد پھر خیرات بھی تقسیم کی.(ناشر اسلامک بک ڈپو فاؤنڈیشن لاہور وصوفی فاؤنڈیشن بہاولپور ) یہ بات میں کہنا چاہتا تھا جو آپ کی ذرہ نوازی سے میں نے بیان کی ہے.) کیا مسیح موعود علیہ السلام شرعی نبی ہیں حافظ محمد نصراللہ صاحب : مولانا ! حضرت خلیفہ امسیح الثالث سے اسمبلی میں ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ”اربعین میں شرعی نبی ہونے کا دعوی کیا ہے.اس کا حضور نے کیا جواب ارشاد فرمایا ؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.حضرت خلیفہ آسیح الثالث نَوَّرَ اللَّهُ مَرْقَدَہ نے اس سوال کے جواب میں جو میری یادداشت ہے.اس کو دوبارہ دیکھ لیتا ہوں.حضور نے اس کے جواب میں یہ نہایت جامع اور مانع فقرہ ارشادفرمایا.

Page 198

182 یہ محض غلط فہمی ہے.پیش کردہ عبارت میں قرآنی آیات میں الہامات کے نزول کا ذکر ہے.اور قرآنی آیات میں بزرگان سلف کو بھی الہام ہوئے ہیں.مثلاً حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام جو آئمہ اہل بیت میں آسمان روحانیت کے ستارے ہیں اور حضرت مولوی سید عبد اللہ غزنوی.66 یہ حضور کا جواب تھا.اب میں اسی ذیل میں اربعین کا ایک آدھ حصہ آپ کے سامنے سنا تا ہوں اور پھر جہاں تک حضرت امام جعفر صادق کا تعلق ہے ان کی سوانح میں اس بات کا جا بجاذ کر ہے.تذكرة الاولیاء میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ جب تک کسی شخص کو الہام نہیں ہوتا اس کی کوئی بات بھی قابل قبول نہیں.یہ شان ہے اور آج اسی شان سے خدا نے تمام ملا ؤں کو محروم رکھا ہے.الہام کے دروازے تو مسیح موعود کے خدام پر خدا نے جاری کئے ہیں جو رسول پاک علی کے حقیقی خادم ہیں.دیو بندی عالم نے ایک کتاب لکھی ہے.” فضائل تبلیغ.مولوی محمد زکریا صاحب نے جو تبلیغی جماعت کے بہت بڑے لیڈر تھے.حدیث رسول لکھی ہے اذا تـــركــت الامر و النهي حرمت عن بركة الوحى فرما یا جب اسلام کی تبلیغ امت محمدیہ سے علماء چھوڑ دیں گے خدا ان کو وحی کی برکتوں سے محروم کر دے گا.تو یہ برکتیں آج اسلام کی تبلیغ کرنے والی جماعت کو خدا نے عطا کی ہیں.تمام دنیا کے مسلمان، آج کوئی ایک بھی مولوی دعوی نہیں کرتا کہ خدا نے مجھے الہام کے ساتھ نوازا ہے.طاہر القادری صاحب نے خواب بیان کی تھی.غار حراء میں فرشتہ آیا اور اس نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے تمہیں مقرر کیا ہے.اگلے دن پریس میں شائع ہوئی.تمام مولویوں نے کفر کا فتویٰ لگایا تیسرے دن کہا کہ یہ بات غلط شائع ہوگئی ہے، میں نے کہی ہی نہیں.تو یہ امتیاز ہے آج دنیا میں کہ وحی کی برکتیں خدا نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سے جماعت احمدیہ کو عطا کی ہیں اور پہلے بزرگ جیسا کہ حضور نے اپنے جواب میں فرمایا ، ان کو مکالمہ مخاطبہ کا شرف یہاں تک حاصل تھا کہ قرآن کی آیتیں ان پر نازل ہوتی تھیں.یہ تو نہیں اس سے

Page 199

183 مراد کہ شرعی نبی ہونے کا انہوں نے دعویٰ کیا.اب میں آپ کو بتا تا ہوں حضرت عبداللہ صاحب غزنوی کی سوانح عمری جو ان کے بیٹے مولوی عبدالواحد غزنوی نے لکھی ہے.یہ مولانا عبد الواحد غزنوی داماد ہیں حضرت خلیفتہ امسیح الاول حضرت مولانا نورالدین کے اور مولوی اسماعیل غزنوی جوان کے بیٹے تھے، حضرت خلیفہ اسیح الاول کے نواسے تھے اور خالد غزنوی جوریسرچ سکالر ہیں انہوں نے حدیث اور سائنس اور طب کے متعلق بہت لٹریچر لکھا ہے اور ماشاء اللہ بہت ہی شاندار ہے.اس پر انہیں انعام بھی دیا گیا.وہ مولوی اسماعیل صاحب غزنوی کے بیٹے ہیں.مولوی اسماعیل صاحب غزنوی نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں یہ لکھا کہ میری نگاہ میں آج دنیا میں سب سے بڑے عالم دین آپ ہیں.یہ خط میرے پاس محفوظ ہے.تو یہ مولوی عبدالواحد صاحب غزنوی نے اپنے والد مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی سوانح عمری شائع کی ہے اور ناشر ہیں عبدالحمید پسر مولانا عبدالواحد غزنوی تاجر کتب مسجد چینیاں والے لاہور، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور سے باہتمام مولوی نور الحق صاحب یہ کتاب چھپی ہے.اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح میرے والد پر قرآن کی آیتیں نازل ہوئیں.اب آپ غور فرمائیں کہ یہ آیات قرآن میں موجود ہے یا نہیں.ایک آیت الہام ہوئی وَ نُيَسِرُكَ لِلْيُسْرَى“ (الاعلى: 9) پھر الہام ہوا ” فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقِّ مِثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنْطِقُونَ“ (الذاریات: 24) پھر ایک الہام ہوا وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ “ ( ص : 47 ) یہ قرآن کی آیت ہے یا نہیں؟ إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ (الزخرف: 60) یہ بھی حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی کو الہام ہوا ہے.فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام: 46).قرآن مجید کی آیت ہے یا نہیں؟ پھر الہام ہوا وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللهِ مِنْ وَّلِي وَّلَا نَصِيرٍ “ (البقرة: 121 ) قرآنی آیت ہے یا نہیں؟ یہ سب الہام کن کو ہوئے؟ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.حضرت مولانا عبد اللہ غزنوی صاحب کو؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضرت مولوی عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ کو اور آگے دیکھیں یہ

Page 200

184 بھی الہام ہوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا ( الاحزاب: 57 ) یہ دیکھ لیجئے.پھر الہام یہ بھی ہوا لکھتے ہیں.قُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ “ (البقرة: 239) اس میں کچھ قرآن کی آیت ہے کچھ الہام الہی کے الفاظ ہیں.تو اب یہ دیکھ لیں کہ سب الہام حضرت مولا نا عبداللہ صاحب غزنوی پر نازل ہوئے اور ان میں سے وہ الہام بھی تھے جو خالصہ رسول پاک محمد عربی علیہ کی مقدس شخصیت کے ساتھ خاص طور پر مخصوص تھے.تو اب کوئی شخص اگر محض اس وجہ سے کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قرآن مجید کی آیات میں الہام ہوئے ، اعتراض کی بات بنالے تو اس کا کیا علاج.حضور اربعین میں لکھتے ہیں کہ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن مجید میں جو یہ ارشاد ہے " کہ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيلِ سورۃ الحاقہ میں کہ اگر آ نحضور ﷺ اپنی طرف سے کوئی بات بنا دیں تو خدا آپ کی شہ رگ کو کاٹ دیتا.تو یہ Criterion ہے.مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے دیباچہ تفسیر ثنائی میں یہ بات لکھی ہے.کہتے ہیں کہ نظام عالم اس بات کا گواہ ہے کہ دعویٰ نبوت کاذبہ مثل زہر کے ہے.جو کوئی زہر کھائے گا وہ مارا جائے گا اور دنیا میں کسی ایک جھوٹے نبی کی امت نہیں کہی جاسکتی.کسی جھوٹے نبی کی امت اس کے مرنے کے بعد قائم نہیں رہی.اور دنیا کی تاریخ اس پر گواہی دے رہی ہے.چنانچہ مولانا تحریر فرماتے ہیں : یہ عبارت زیر خط واضح طور پر ہمیں ایک قانون الہی سے آگاہ کرتی ہے اور بتلاتی ہے کہ نظام عالم میں جہاں اور قوانین خداوندی ہیں، یہ بھی ہے کہ کاذب مدعی نبوت کی ترقی نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے.واقعات گزشتہ سے بھی اس امر کا ثبوت پہنچتا ہے کہ خدا نے کبھی کسی جھوٹے نبی کوسرسبزی نہیں دکھائی.“ اور پھر حاشیہ میں لکھتے ہیں.ہوگا.دعوی نبوت کا ذبہ مثل زہر کے ہے، جو کوئی زہر کھائے گا، ہلاک (دیباچه تفسیر ثنائی جلد اوّل صفحہ 17 مطبع چشمه نور امرتسر شوال 1313ھ) تو یہ حضور نے Criterion پیش کیا اور فرمایا کہ پہلے بزرگ بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ

Page 201

185 آنحضرت ﷺ کو دعوی نبوت کے بعد خدا نے تمیس سال کی زندگی عطا فرمائی.تو یہ پیمانہ ہے صداقت کا ،Criterion ہے کسی مدعی الہام کے لئے.یہ خدا کی طرف سے معیار ہے کہ محمد رسول اللہ کو خدا نے تئیس سال تک زندہ رکھا اور کوئی آپ کو شہید نہ کر سکا.آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ جی یہ Criataria جو ہے وہ شریعت والوں کے لئے ہے.تو آپ نے فرمایا کہ شریعت کیا چیز ہے، امر اور نہی ہے.مجھے بھی خدا نے قرآنی الہامات قرآن مجید کی آیات امر اور نہی میں سکھائی ہیں.مثلاً يَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمُ ( النور : 31) اب یہ قرآن کی آیت ہے کوئی نئی شریعت نہیں جو کہ آپ پر نازل کی گئی ہے.اب میں اس سلسلہ میں آخری ایک اور بات عرض کرنی چاہتا ہوں.حضرت مرزا عبد الحق صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے ) نے ایک سوال و جواب کی مجلس کا انتظام کیا.یہ خلافت ثالثہ کے زمانے کی بات ہے اور حضرت خلیفہ مسیح الثالث کی خدمت میں میرے متعلق کہا کہ سوالوں کے جوابات کے لئے اسے بھجوایا جائے.سوال و جواب انہی کی کوٹھی میں شروع ہوئے تو ایک عالم دین کھڑے ہو گئے.کہنے لگے جی ایک سوال ایسا ہے کہ جتنے بھی علماء کا بر سمجھے جاتے ہیں میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا مگر کوئی جواب نہیں دے سکا.میں نے کہا فرمائیے میں تو جن بزرگ علماء کا آپ نے ذکر کیا ہے، خاک پا بھی ہو جاؤں تو میرے لئے باعث سعادت ہے.فرمائیے اگر میرے ذہن میں بات آگئی تو میں عرض کر دوں گا ورنہ اللہ کے سپرد کروں گا.لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا (البقرة:33) خدا ہی ہے جو اپنے فضل سے علم کے چشمے جاری فرماتا ہے زبان پر بھی اور دل اور دماغ پر بھی نازل کرتا ہے.کہنے لگے یہ Criterion وغیرہ نہیں ہے.یہ آپ لوگ دنیا کو دھوکہ دیتے ہیں کہ Criterion ہے.یہ تو آنحضرت علیہ کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اگر آنحضرت علی کوئی جھوٹی بات بنائیں تو خدا ان کی شہ رگ سے پکڑ لے اور ان کو سزا دے دے اور سلسلہ ختم ہو جائے.اس میں کہاں Criterion اور کہاں کون سا معیار ہے.یہ تو آنحضرت علی کو خطاب ہے اور یہ خصوصیت آنحضرت عے کی ہے، کوئی معیار نہیں ہے.خیر یہ کہہ کر بیٹھ گئے اور ساتھ ہی انہوں نے کہا.

Page 202

186 نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان ނ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں بڑے طنطنے اور رعب کے ساتھ انہوں نے یہ سوال پیش کیا اور ایک بڑا مناظرانہ اور مکابرانہ انداز اختیار کیا اور تمام لوگ اس سوال سے متاثر تھے.میں نے ان سے عرض کیا کہ میں سوال کا جواب از خود دینے کی بجائے یہ چاہتا ہوں کہ ہم دونوں محمد مصطفی کے دربار میں پہنچیں اور حضور کی خدمت میں پیش کریں اور حضور کی زبان سے جو جواب ملے، اس پر صاد کریں.تو میں حضور نبی اکرم ﷺ کی زبان سے آپ کو اس کا جواب دیتا ہوں.نوٹ کر لیں آپ.آپ نے چیلنج کیا ہے کہ یہ Criterion نہیں ہے.حدیث میں لکھا ہے کہ ایک عورت آنحضور ﷺ کی خدمت میں ایک بہت ہی وقیع اور سر بر آوردہ خاندان کی عورت تھی، پیش کی گئی جس نے چوری کی تھی یعنی اتنی چوری کہ جس پر حد جاری ہو جائے کیونکہ الشارق کا لفظ ہے.تو اس کے ساتھ صحابہ کے بھی تعلقات تھے اور ویسے بھی ایک بہت نمایاں درجہ کے خاندان سے اس کا تعلق تھا.صحابہ جن کی قیادت حضرت اسامہ بن زید کر رہے تھے، وہ حضور ﷺ کے دربار میں حاضر ہوئے.انہوں نے کہا یا رسول اللہ! پہلی دفعہ اس نے یہ حرکت کی ہے اور عالی پایہ خاندان اور صلى الله خانوادے سے اس کا تعلق ہے.حضور ﷺ اگر نظر کرم فرما ئیں تو اس کو بخش دیں.اس پر آنحضور علی پر ایک جلالی شان طاری ہوئی اور حضور ﷺ نے انتہائی پر شوکت اور پر تمکنت الفاظ میں فرمایا." و الله لو سرقت فاطمة بنت محمد لقطعت يدها (سنن النسائی کتاب قطع السارق ذكر اختلاف الفاظ الناقلين) اللہ کی قسم تم اس عورت کی بات کرتے ہو، اگر میری بیٹی فاطمہ الزہراء بھی اس جرم کا ارتکاب کرتیں لقطعت یدھا تو میں بلا تامل یہ حد اس پر بھی جاری کرتا.میں نے کہا سورۃ الحاقہ کی آیت کی پڑھیں آپ.لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ کے الفاظ ہیں.وہ بھی قطع کا لفظ ہے، محمد رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے بھی قطع کے الفاظ ہیں.وہاں شہ رگ کے کٹنے کا ذکر ہے، یہاں ہاتھوں کے کاٹنے کا ذکر ہے.پر ہے دونوں جگہ قطع اور لو کا لفظ تقول سے پہلے ہے اور لو کا لفظ اس حدیث میں بھی

Page 203

187 موجود ہے.اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ حضرت فاطمہ کے ساتھ ہی مخصوص تھا کہ اگر وہ چوری کرتیں تو ان کے ہاتھ کاٹ دیئے جاتے.باقی سارے چوروں کو قیامت تک کے لئے رسول اللہ نے کھلی چھٹی دے دی کہ اگر وہ چوری کریں گے تو ان کو تو میں کچھ نہیں کہوں گا لیکن اگر میری بیٹی نے سرقہ کا ارتکاب کیا تو میں ضرور اس کے ہاتھ کو کاٹ دوں گا.میں نے کہا کیا یہ معنی ہیں؟ کون ظالم ہے جو یہ معنی پیش کرتا ہے.اس کے ایک ہی معنی ہیں کہ یہ ایسا خطرناک جرم ہے کہ اگر فاطمہ میری لخت جگر ہے جو سیدۃ النساء اهل الجنة ہے.(صحیح البخاری کتاب اصحاب النبی الله بهاب مناقب فاطمة عليها السلام ) جو حسن اور حسین کی والدہ ہیں جو خودشبان جنت کے سردار ہونے والے ہیں.اگر ایسی برگزیدہ شخصیت بھی خدا کے حکموں کو توڑنے والی ہوگی تو میں حد کو ضرور جاری کروں گا.پس اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ یہ ایسا خطرناک جرم ہے خدا کے قانون ، آسمان کے قانون میں کہ اگر محمد رسول اللہ اللہ جیسا انسان جو شاہ لولاک ہیں ، جو شہنشاہ نبوت ہیں، جن کی خاطر کائنات بنائی گئی ، جن کے استقبال کے لئے اور انتظام کے لئے تمام نبیوں کو بھیجا گیا، اگر وہ بھی اس کا ارتکاب کرتے تو خدا کی جو قہری تجلی تھی وہ ضرور اس سے انتقام لینے کے لئے حرکت میں آ جاتی تو مرزا غلام احمد صاحب کی کیا حیثیت ہے محمد رسول اللہ اللہ کے مقابل پر.تو خدا نے بتانے کے لئے کہ یہ خطرناک ترین جرم ہے جو کہ کسی انسان سے سرزد ہو سکتا ہے.جس جرم میں رسول اللہ کو خدا تعالیٰ نہیں چھوڑ سکتا وہ بانی جماعت احمدیہ کو کیسے چھوڑ سکتا تھا !! میں نے آخر میں ان کو بتایا کہ یہانی واضح بات ہے کہ ابن حزم اور عیسائیوں کے مقابلہ پر حربہ ہی یہی استعمال کیا ہے، وہ ہمیشہ چیلنج کرتے رہے ہیں.اس کے سوا اور کوئی دلیل نہیں تھی کہ بتاؤ دنیا میں کوئی ایسا انسان کہ جس نے آنحضرت علی کی طرح نبوت کا دعویٰ کیا ہواور دعویٰ کرنے کے باوجود تئیس سال تک ان کو خدا نے زندگی عطا فرمائی ہو.میں نے کہا یہ معیار تھا جو عیسائیوں کے سامنے متکلمین اسلام بغداد سے لے کر ہندوستان تک استعمال کرتے چلے آئے.یہی ہتھیار ہے اور یہی Criterion ہے جو آج مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت کرنے کے لئے بالکل نمایاں ہے.خدا کے فضل سے انہوں نے اس کے بعد بیعت کا اعلان کیا.متکلمین نے

Page 204

188 مختصر سوانح حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: جزاکم اللہ.مولانا! حضرت خلیفۃ المسح الثالث سے یہ پوچھا گیا تھا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مختصر سوانح کیا ہے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.اس پر بھی حضور نے یہ ارشاد فرمایا وہ تو بڑی تفصیلی چیز ہے.ہم اس پر بھی ایک مختصر سا مقالہ پیش کر دیں گے.وہ مقالہ بھی پیش کر دیا گیا.ملت میں کون داخل اور کون خارج ہے؟ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.ایک سوال یہ ہوا حضور سے کہ ملت میں کون داخل اور کون خارج ہے.اس حوالے سے حضور نے کیا ارشاد فرمایا ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس سوال کے جواب میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے ایک بیان کا اقتباس اپنی زبان مبارک سے پڑھ کر سنایا جو حضرت مصلح موعود نے 1953ء کی تحقیقاتی عدالت میں ارشاد فرمایا تھا.اس کے الفاظ یعنی اس کا مکمل متن میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ وہ موقع تھا جبکہ جماعت اسلامی کے ایڈووکیٹ جو بعد ازاں انڈسٹری کے وفاقی وزیر بھی مقرر ہوئے.چوہدری نذیر احمد صاحب کی کتاب " داستان پاکستان کا حوالہ میں دے چکا ہوں.ان کی جرح میں جو سوالات اٹھائے گئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ” کیا آپ اب بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں جو آپ نے کتاب آئینہ صداقت کے پہلے باب میں صفحہ 35 پر ظاہر کیا تھا.یعنی یہ کہ تمام وہ مسلمان جنہوں نے مرزا غلام احمد صاحب کی بیعت نہیں کی خواہ انہوں نے مرزا صاحب کا نام بھی نہ سنا ہو وہ کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج.“ یہ سوال تھا جو جماعت اسلامی کے ایڈووکیٹ چوہدری نذیر احد صاحب نے پیش کیا تھا.اب حضرت مصلح موعود کا جو جواب ہے جسے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے پیش فرمایا.اس کے الفاظ سنیں.حضرت مصلح موعودؓ نے 14 جنوری 1954ء کو جوا با فرمایا: یہ بات خود اس بیان سے ظاہر ہے کہ میں ان لوگوں کو جو میرے

Page 205

189 ذہن میں ہیں مسلمان سمجھتا ہوں.پس جب میں کافر کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے ذہن میں دوسری قسم کے کا فر ہوتے ہیں جن کی میں پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں.یعنی وہ جو ملت سے خارج نہیں.جب میں کہتا ہوں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ نظریہ ہوتا ہے جس کا اظہار کتاب مفردات راغب کے صفحہ 240 پر کیا گیا ہے.جہاں اسلام کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں، ایک دون الایمان اور دوسرے فوق الایمان.دون الایمان میں وہ مسلمان شامل ہیں جن کے اسلام کا درجہ ایمان سے کم ہے.فوق الایمان میں ایسے مسلمانوں کا ذکر ہے جو ایمان میں اس درجہ ممتاز ہوتے ہیں کہ وہ معمولی ایمان سے بلند تر ہوتے ہیں، اس لئے جب میں نے یہ کہا تھا کہ بعض لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ مسلمان تھے جو فوق الایمان کی تعریف کے ماتحت آتے ہیں.مشکوۃ میں بھی ایک روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی ظالم کی مدد کرتا اور اس کی حمایت کرتا 66 ہے وہ اسلام سے خارج ہے.تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان ، صفحہ 14-15 ناشر دار التجلید اردو بازار لاہور ) یہ جواب تھا جو حضرت مصلح موعودؓ نے تحقیقاتی عدالت میں پیش کیا اور اس کو حضرت خليفة أصبح الثالث نے پوری شان کے ساتھ دانشوران پاکستان کے سامنے پیش کیا تھا.اب اس میں ، میں سمجھتا ہوں عربی کے الفاظ روایت رسول کے بیان ضرور ہونے چاہئیں اور یہ روایت علامہ سیوطی نے لکھی ہے.اصل کنز العمال میں دوسری جگہ بھی موجود ہے.” من مشى مع ظالم و هو يعلم انه ظالم فقد خرج من ربقة الاسلام جو شخص کسی ظالم کے ساتھ ہوا اور اسے پتا ہے کہ یہ ظالم ہے اور غاصب ہے فرمایا فقد خرج من ربقة الاسلام وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا.“

Page 206

190 کیا احمدی اپنے آپ کو اقلیت سمجھتے ہیں؟ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.جزاکم اللہ.ایک سوال الفضل 13 نومبر 1946 ء کے حوالے سے کیا گیا تھا کہ اس میں حکومت برطانیہ سے عرضداشت کی گئی ہے کہ پارسیوں کی طرح ہمیں بھی علیحدہ حقوق دیئے جائیں، گویا آپ لوگ پہلے دن سے ہی اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ اقلیت سمجھتے ہیں.اس کا جواب حضور نے کیا دیا تھا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.اس کا نہایت پیارا جواب تھا.حضور نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ خطبہ تو آل انڈیا مسلم لیگ کی تائید میں دیا تھا اور اس میں آپ نے یہ ذکر فرمایا تھا کہ ہم لوگ تحریک پاکستان کی پر زورحمایت کر رہے ہیں.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ حضرت مصلح موعود نے اس خطبہ میں بیان فرمایا ہے.؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.اس خطبہ میں حضور نے برطانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے اور لک کے سامنے، سیاسی جماعتوں کے سامنے اپنا نظریہ اور اپنا مسلک پیش کیا تحریک پاکستان کے سلسلے میں.فرمایا کہ ہم احمدیوں کی پارسیوں سے بڑھ کر تعداد ہے اور پاکستان کی جو مخالف تحریکیں ہیں، انہوں نے اپنی تحریک کو مضبوط بنانے کے لئے بعض دوسرے غیر مسلموں کو پاکستان کی تحریک کے خلاف استعمال کیا ہے اور حکومت برطانیہ نے بھی ان دوسری جماعتوں کو جو Pro Congress ہیں ان کو ایک مستقل اقلیت کی حیثیت سے قانون میں جگہ دی ہے اور اس کے نتیجے میں کانگریس کو بڑی تقویت ہوئی اور وہ اپنے اس موقف کو اور زیادہ زور دار پیرا یہ میں بیان کر رہی ہے کہ کانگریس حقیقتا آل انڈیا پلیٹ فارم پر مخاطب ہو رہی ہے اور وہی دراصل آئینی اور جمہوری انداز سے ملک کی اصل تنظیم ہے اور اصل وہی وکیل ہے.تو اس واسطے یہ نتیجہ نکلا کہ پارسیوں کو اور دوسرے فرقوں کو جو مذہبی فرقے کہلاتے ہیں ان کو گورنمنٹ نے بحیثیت اقلیت کے حقوق دیئے.مگر جماعت احمد یہ جو کہ تائید کرتی ہے مسلم لیگ کی ، ہمیں کیوں وہ حقوق نہیں دیئے جاتے؟ تاکہ پاکستان کی تحریک کے حق میں جو پراپیگنڈہ ہے، اس میں اور زیادہ قوت پیدا ہو جائے.یہ تو حضرت مصلح موعودؓ نے جواب دیا تھا.اور اسی کو حضرت خلیفہ اسیح

Page 207

191 الثالث نے پیش کیا کہ یہ اس لئے کیا گیا تھا.جس طرح کانگریس نے پارسیوں کے اقلیت ہونے کی وجہ اور حقوق کی وجہ سے اپنے موقف میں زور پیدا کیا.حضور چاہتے تھے کہ اگر یہی Criterion ہے تو پھر برطانوی حکومت کا فرض ہے کہ پھر ہمیں بھی مسلم اقلیت میں شمار کرے اور ہم تائید کریں تا کہ پاکستان کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگی زعماء اپنی اس تحریک کے حق میں زور دار پرا پیگنڈہ کر یں.تو یہ موقف تھا دراصل جو حضرت مصلح موعودؓ نے مسلم لیڈروں سے مشورہ کے بعد اختیار کیا.اب ضمناً میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ملاں کی ہر بات ہی انوکھی ہوتی ہے، مثلاً ربوہ کے بننے کے بعد یہ مطالبہ کیا گیا کہ جی کھلا شہر ہونا چاہئے.اب کھلا شہر کے معنی یہ جو Terminology ہے ان کی نگاہ میں یہ ہے کہ ایسا شہر ہو کہ جس میں ہم گالیاں دے سکیں احمدیوں کو اور لوٹ مار مچاسکیں.لیکن جو Politically ٹرم ہے، اگر انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کو دیکھیں اس میں Open City کے ماتحت یہ معنی بیان کئے گئے ہیں کہ ایسا شہر جس کے متعلق اقوام متحدہ یہ فیصلہ کرے کہ اگر کوئی عالمگیر سطح پر جنگ ہو تو اس شہر کو بمباری سے مستثنیٰ کیا جائے.ویٹی کن (Vatican ) اس لئے Open City کہلاتا ہے.تو اصل معنی یہ ہیں اور ملاں Open City کو ان معنوں میں استعمال کرتا ہے کہ اس میں گالیوں کی اجازت دی جائے ، فتنہ پردازی کی اجازت دی جائے ، جلوس نکالنے کی اجازت دی جائے ، لاؤڈ سپیکر لگا کر گالیوں کی اجازت دی جائے.تو یہ عجیب وغریب بات ہے.سبو اپنا اپنا ہے جام اپنا اپنا کئے جاؤ خوارو کام اپنا اپنا تو یہ ظالم اسلام اور ختم نبوت کا نام لے کر مغربی دنیا کی Diplomatic جو پالیسی ہے اس کی Terminology تو استعمال کرتے ہیں مگر اتنا بھی عقل اور دماغ نہیں ہے کہ اس کے معنی کیا ہیں؟ اقلیت کا بھی یہی ہے.ہمیشہ یادرکھیں اور ابتداء میں جب اقلیت قرار دینے کی تحریک وزیر اعلیٰ پنجاب ممتاز دولتانہ صاحب کے زمانے میں اٹھائی گئی تو انہوں نے غالباً سیالکوٹ یا پسرور میں ( دولتانہ صاحب اس وقت وزیر اعلیٰ تھے ) یہ تقریر کی کہ ان احمقوں کو یہ بھی خیال نہیں آتا کہ اقلیت

Page 208

192 کا مطالبہ خود اقلیت کیا کرتی ہے.دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی دوسری قوم کسی کے لئے اقلیت کا مطالبہ کرے.احمدی تو اس بات کا مطالبہ ہی نہیں کرتے اور اقلیت کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظام حکومت کو چلانے کے لئے خواہ وہ فیڈرل سسٹم ہو اور خواہ وہ ایسا سسٹم ہو جس میں کہ مرکزیت ایک جماعت کو حاصل ہو.اس میں جو Majority رکھنے والی جماعت ہوتی ہے اس کو تو تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں لیکن چھوٹی کم تعدا در کھنے والے جو لوگ ہیں وہ اکثر اپنے معاشی حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں.سول ملازمتوں میں ان کو پیچھے رکھا جاتا ہے.اب دیکھیں مسلمان پاکستان سے زیادہ ہندوستان میں ہیں اور وہ اقلیت میں ہیں اور حکومت ہندوستان ان کو اقلیت میں شمار کرتی ہے مگر اس کے باوجود آپ دیکھیں وہ دس کروڑ اقلیت میں ہیں.جس طرح انہوں نے ہمارے متعلق کہا کہ تم اقلیت میں ہو.خود مسلمانوں نے کہا کہ ہمیں یہاں اقلیت کے حقوق دئے جاتے ہیں اور آج تک مسلمان یہی کہہ رہے ہیں.یہ نہیں کہ اس کو مرتد قرار دے کر قتل کر دیا جائے جس طرح کہ ملاں کا مذہب ہے.جب یہ لوگ ہمارے متعلق اقلیت کا لفظ استعمال کرتے ہیں.تو ان کے محضر نامہ میں تھا کہ مرتد اقلیت شمار کیا جائے.حالانکہ یہ کوئی Terminology دنیا میں نہیں.رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں دیکھیں کہ اسلام کی پہلی حکومت تھی مدینہ کی.اس میں کوئی اقلیت یا مرتد اقلیت کا کوئی لفظ موجود تھا؟ وہاں تو میثاق مدینہ میں رسول پاک ﷺ نے جو اس وقت الفاظ لکھے، یہ ہیں کہ مدینہ کے یہود امت اسلام میں شامل ہیں.جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہ مدینہ کے رہنے والے یہودیوں کو بھی حاصل ہیں.وہاں کوئی اقلیت کا تصور ہی نہیں تھا.مرتد اقلیت تو آج ملاں نے بنایا ہے فیج اعوج کے زمانہ کے بعد.اقلیت جو کہ آج دنیا میں تین چار صدیوں سے مروج ہے.اقلیت کا معاملہ جو تھا ہندوستان میں بھی سب سے بڑا رہا کیونکہ مسلمان اقلیت میں تھے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب، سر آغا خان صاحب، حضرت قائد اعظم ان سب نے یہ کہا کہ اگر ہم اقلیت میں ہیں تو ہمارے حقوق کو محفوظ کرنا ضروری ہے.دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو مسلمانوں کو محروم کر سکے.یہ ٹھیک ہے کہ ہم مسلمان اقلیت میں ہیں.مگر ہم مستقل قوم ہیں.اس واسطے جب تک کہ ہمارے حقوق محفوظ نہیں

Page 209

193 ہوں گے ہندوستان کو آزاد نہیں کیا جا سکتا.ہمارا مطالبہ ہے کہ ہندوستان کو آزاد کیا جائے مگر آزادی اس شکل میں ہونی چاہئے کہ ہمیں ہندو کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے.ہم یہ نہیں چاہتے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہم ہندوؤں کے مستقل غلام ہو جائیں، یہ پالیسی تھی ، یہ تھیوری تھی حضرت قائد اعظم کی.یہی مسلک تھا جماعت احمدیہ کا.ہمارے بزرگ احمدی جن میں کشمیر کے بھی بعض لیڈر تھے ، مجھے انہوں نے بتایا کہ اس زمانے میں مثلاً خواجہ غلام نبی گل کار مرحوم جو آزاد کشمیر کے بانی لیڈر تھے اور اس کے سب سے پہلے صدر تھے.وہ صوبہ سرحد میں اس زمانہ میں گئے جس وقت کہ عبوری حکومت قائم ہوگئی اور مسلم لیگ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور جماعت احمدیہ کے تعاون سے نہ صرف مرکزی اسمبلی میں بلکہ صوبائی اسمبلیوں میں بھی بھاری اکثریت حاصل ہوگئی اور جمہوری لحاظ سے یہ ثابت ہو گیا کہ ہندوستان کے مسلمان پاکستان کو چاہتے ہیں اور مسلم لیگ ہی دراصل مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے.تو گل کار صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب کا ارشاد تھا کہ سرحد میں جانا چاہئے اور وہاں چونکہ اس وقت حکومت عبد الغفار خان صاحب کی تھی.اکثریت مسلمانوں کی تھی مگر اقتدار اس وقت کانگریس کا تھا عملی لحاظ سے.جو جماعت احمدیہ کے وفود وہاں پر گئے تو خواجہ غلام نبی گل کار مرحوم نے مجھے بتایا کہ ہم وہاں پر Debate کرتے اور کہتے تھے کہ ہم مسلمانوں کا پاکستان لینے کا مسلک بالکل واضح ہے اور مثال یہ پیش کرتے تھے کہ دیکھو اگر ایک جگہ پر بکری ہو، ساتھ بھیڑ یا کھڑا ہو،ساتھ شیر ہو، تو کتنی واضح بات ہے بکری اس وقت تک محفوظ ہے جب تک شیر موجود ہے.شیر ادھر ادھر ہو گیا تو پھر بکری بھیڑیے کا لقمہ بن جائے گی.ہم یہ کہتے ہیں کہ کراؤن (Crown) کی حکومت خود اس کا Slogan ،خود اس کا نشان بھی ، ایسٹ انڈیا کمپنی کا بھی شیر تھا.( میرے پاس تو اس زمانے کے سکے بھی موجود ہیں اور ان میں شیر ہی کا نشان ہے.) ہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی حیثیت ایک بھیڑ یا بکری کی ہے.ہندو بھیڑیا ہے اور ہمیں کھا جانا چاہتا ہے.ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جب تک مسلمانوں کے حقوق محفوظ نہ ہو جائیں، شیر کو یہیں رہنا چاہئے اور یہ آواز ہر ایک مسلمان کی ہے کہ کانگریس ایک بھیڑیا ہے،اس سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ شیر بکری کی حفاظت کا سامان کر کے جائے.اس کے سوا ہم آزادی کو اپنے لئے

Page 210

194 بربادی سمجھیں گے اور شیر کے جانے کے بعد مسلمانوں کا قتل عام اور خون ہو جائے گا.یہ مسلک تھا.اقلیت اس وقت کیوں کہا گیا تھا ؟ مسلمان کیوں کہتے تھے کہ اقلیت کے حقوق ہمیں دیئے جائیں.اس لئے کہ ڈیموکریسی ہو یا فیڈریشن ہو یا کنفیڈریشن ہوا کثریتی پارٹی جو ہوتی ہے خواہ وہ مذہبی ہو ، Political ہو یا معاشی بنیادوں پر قائم کی گئی ہو، جس طرح کی مثلاً ٹوری پارٹی ہے یا کنزرویٹو پارٹی ہے یاڈیموکریٹک پارٹیاں ہیں، کینیڈا میں ہیں یا انگلستان میں.ہر ملک میں یہی صورتحال ہے تو واضح بات ہے کہ زیادہ تر حقوق معاشی اور ملکی جو ہیں وہ اکثریتی پارٹی کے پاس چلے جاتے ہیں.کلیدی اسامیاں ان کے پاس ہوتی ہیں.اقلیتی گروپ جو ہے وہ ہمیشہ محروم رہتا ہے، تو اقلیت اس کو قرار دیا جاتا ہے جس کے متعلق یہ تسلیم کیا جائے کہ اکثریتی پارٹی کی زد میں ان کے حقوق آجائیں گے.تو اصل حقوق سے بھی زیادہ ان کو دئے جاتے ہیں تاکہ عوام میں ان کی بھی آواز ہو اور سرکاری حلقوں میں ان کو بھی ملازمتیں مل سکیں.اقلیت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کر مرتد سمجھتے ہیں اور مرتد کی سزا قتل ہے.یہ ہے ان کا خیال اور تصور ان کا تو میں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا تھا.لاہوری گروپ کو کیا سمجھتے ہیں؟ حافظ محمد نصر اللہ صاحب : جماعت احمدیہ کا ایک گروپ جو خلافت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے حوالے سے اختلاف کے بعد ہم سے علیحدہ ہوا اور لاہوری گروپ“ کہلایا.اس حوالے سے بھی حضور سے سوال پوچھا گیا کہ آپ انہیں کیا سمجھتے ہیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب: بس حضور نے ایک ہی لفظ میں جواب دیا.احمدی.حافظ محمد نصر اللہ صاحب : یعنی با وجود اس اختلاف کے ، ہم انہیں احمدی ہی سمجھتے ہیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.احمدی ہی سمجھتے ہیں.اب میں آپ سے عرض کروں کہ تمام خلفاء، حضرت مصلح موعودؓ نے بھی فرمایا کہ جو لوگ خلافت سے الگ ہیں وہ نظام جماعت سے ضرور الگ ہیں مگر جب خود اپنے تئیں احمدی کہتے ہیں ہم ان کو غیر احمدی کیسے کہہ سکتے ہیں.یہی ہمارا مسلک ہے.ایک شخص کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں.ہم یقینا اسکو مسلمان کہیں گے.ایک کہے گا میرا

Page 211

195 ہندو ازم سے تعلق ہے ہم اس کو ہندو کہیں گے.تو یہ بنیا دی مسلک ہے جماعت احمدیہ کا.اب میں ایک چھوٹی سی بات اس سلسلے میں کہنی چاہتا ہوں کہ حضرت خلیفتہ اسح الثالث" کا جواب تو میں نے عرض کر دیا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی اجازت سے ہی میں جلسوں میں جاتا تھا خواہ خدام کے جلسے ہوں.بدوملہی میں مثلاً مولانا عطاء المجیب راشد صاحب اس وقت خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے صدر تھے، ان کے ساتھ وہاں پر گئے.اس کے علاوہ بھی کئی موقعوں پر جانے کا موقع ملا.تو بڑی دلچسپ بات ہوئی.وہاں پر کسی زمانہ میں بڑی مضبوط غیر مبائعین کی جماعت سمجھی جاتی تھی.وہاں دو باتیں ہوئیں.ایک بات تو اس وقت ہوئی جبکہ میں بدوملہی کے پریذیڈنٹ صاحب کی بیٹھک میں بیٹھا کتا بیں کھولے، اپنے آخری نوٹ لکھ رہا تھا اور چار پانچ منٹ باقی ہوں گے.یوم مسیح موعود علیہ السلام کی تقریب تھی.میں کچھ لکھ رہا تھا.کتابوں کو تر تیب دے رہا تھا تو ایک پُر جوش داعی الی اللہ نو جوان تھے، انہوں نے السلام علیکم کہا اور آگے آئے اور ساتھ دو بڑی بڑی لمبی داڑھی رکھنے والے اہلحدیث بزرگ عالم بھی تھے.خاصی بڑی عمر تھی ان کی اور اِذَا جَاءَ لمُ كَرِيمُ قَوْمٍ فَاكْرِمُوهُ ( سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب اذا جاء كم كريم قوم فأكرموه ) آنحضور کا ارشاد ہے.کسی قوم کا کوئی معزز شخص آئے تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے.یہی ارشاد نبوی ہے یہی ہم نے اختیار کیا ہے.یہ نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پچھلے سے پچھلے سال (یعنی 2005ء میں ) لدھیانہ سے جب گذرنے والے تھے تو وہاں حبیب الرحمان بوکے کی جو اولاد رہتی ہے.انہوں نے ہندوؤں کی طرح وہاں پر حضرت خلیفۃ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آمد پر آپ کے نام پر پہلے جلانے شروع کئے.ہندوؤں کا یہی ہوتا ہے کہ جب کسی کی مخالفت کرتے ہیں تو پھر اس کے پتلے جلاتے ہیں اور یہ صورت پھر بعد میں باہر کی دنیا نے بھی کی.بہر حال یہ خبر ہند سماچار میں آئی یہ ان کا اکرام کا انداز تھا! رسول اللہ نے تو یہ فرمایا تھا کہ اکرام کیا جانا چاہئے اور احراری چونکہ مجسم کا نگرسی اور کمیونسٹ تھے انہوں نے اس وقت ہندوؤں کی طرح پتلے جلائے اور پتلے جلاتے ہیں ہندو.اس وقت جبکہ کوئی ہندو بیرونی ملک میں مر جائے تو اس کی چتا کو تو آگ نہیں لگا

Page 212

196 سکتے.پھر وہ اس کے نام پر دراصل پتلا جلاتے ہیں.تو یہ اسوہ گاندھی اور اسوہ پٹیل پر انہوں نے عمل کیا.آنحضور ﷺ کے ارشاد پر میں نے تو بہر حال آنحضور ﷺ کے غلاموں کے غلاموں کے ادنی ترین چاکر ہونے کے اعتبار سے إِذَا جَاءَ كُمُ كَرِيمُ قَوْمٍ فَاكْرِمُوهُ کے لحاظ سے ان کا اعزاز و اکرام کیا ، بٹھایا ان کو.حالانکہ اس وقت جب دو تین منٹ رہ گئے تھے اور میں نے جانا تھا اور سینکڑوں کی تعداد میں احمدی انتظار میں تھے اور میں مرکزی نمائندہ تھا.میں نے کہا ارشاد فرمائیں آپ کی بڑی ذرہ نوازی ہے کہ آپ کی زیارت ہوئی، ایسے وقت میں جب دو تین منٹ میرے یہاں سے جلسہ گاہ میں جانے کے رہ گئے ہیں.مقصود یہ تھا کہ یہ غور فرمالیں کہ یہ لمحہ ہے میرے لئے.کہنے لگے کہ جی دوسوال ہم لے کر آئے ہیں.میں نے کہا جی فرمائیں.کہنے لگے کہ جی یہ جولاہوری گروپ ہے اس کو آپ کیا سمجھتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ یہ تمہیں دراصل الجھانا چاہتے ہیں تقریر سے پہلے.جس طرح حضرت مسکین فرید آبادی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں یہ لطیفہ سنایا کہ میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب دونوں کا خادم ہوں.چند دن ہوئے مجھے دونوں نے آواز دی اپنے اپنے کام کے لئے.اب میں بڑا پریشان تھا تو میں نے اونچی آواز سے یہ لفظ کہے جو شعر کے ہیں.نوابین مضمون نے مجھے ہو گیا الٹا پلٹا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت مسکرائے.پکارا سارا تو میں نے بھی خیال کیا کہ اب یہ لوگ مضمون کو الٹا پلٹا کرنے کے لئے آئے ہیں.خدا نے میرے ذہن میں ڈالا.میں نے کہا کہ حضرت بات یہ ہے کہ آپ نے لاہوری گروپ کے متعلق پوچھا ہے نا.ہمارا اتنا اختلاف لاہوریوں سے نہیں جتنا آپ کا بریلویوں سے ہے.آپ بریلویوں کو مشرک کہتے ہیں اور وہ آپ کو گستاخ رسول کہتے ہیں.ہم لاہوری جماعت کو احمدی کہتے ہیں.انہیں گستاخ رسول کبھی کہا ہے اور نہ مشرک کا نام دیا ہے.اختلاف صرف اتنا ہے کہ حدیث رسول میں مسلم شریف میں آنے والے مسیح ابن مریم کے لئے چار دفعہ نبی اللہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.ہم کہتے ہیں

Page 213

197 کہ نبی سے مراد حقیقتا نبی ہے اور ہمارے لاہوری احمدی بزرگ جو ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد محدث ہے.بس اتنا فرق ہے.کہنے لگے ہاں اس بارے میں تو آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن اصل سوال ایک اور ہے.میں نے کہا وہ کیا ہے.کہنے لگے کہ جی اصل سوال یہ ہے کہ الیکشن ہوا اور اس میں آپ نے کمیونسٹ پارٹی ، پیپلز پارٹی والوں کو ووٹ دیئے اور جن پارٹیوں میں ہم علماء موجود تھے آپ نے ان کو نظر انداز کر دیا.یہ ایک الہی جماعت کے لئے تو زیب نہیں دیتا جو کہ مذہبی اور مسلمان ہونے کی علمبر دار ہو.اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے.میں نے اس وقت جو میرے پاس چند کتا ہیں تھیں ان میں جلدی میں اور یہی چیز دراصل اسمبلی میں ہوئی اور اس کے پیچھے چونکہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی روحانیت اور توجہ کام کرتی تھی اسمبلی میں بھی اور ان جلسوں میں بھی جن میں حضور کے ارشاد پر میں شامل ہوتا تھا.تو اسی توجہ میں میں نے جلدی میں وہ کتاب رکھ لی.حالانکہ بظاہر یوم مسیح موعود سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا.وہ مولانا مودودی صاحب کی کتاب تھی اور ”جماعت اسلامی کا انتخابی نظریہ تقریباً یہی نام تھا اس کا.یہ اس وقت کا کتابچہ تھا جو انہوں نے پاکستان کے بعد 1950ء میں پنجاب میں ہونے والے سب سے پہلے الیکشن کے زمانہ میں لکھا تھا.اس میں یہ لکھا کہ مسلم لیگ تو ایک پر لے درجے کی ذلیل جماعت ہے اور اس کی وجہ سے ہی ساری گندگی پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے، اس سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے.مگر حدیث میں لکھا ہے اور بہت سی حدیثوں میں ہے بلکہ مسلم شریف میں کتاب الامارۃ میں کئی حدیثیں ہیں کہ خدا کی قسم ! آنحضور ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے کوئی عہدہ طلب کرنے کی کوشش کی.حضور نے فرمایا خدا کی قسم ! ہم کسی عہدہ طلب کرنے والے کو کوئی عہدہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں.اس سے بڑھ کر کوئی خائن نہیں ہے.میں نے کہا یہ آنحضرت ﷺ کی حدیث تھی.یہ سب علماء خواہ مودودی ہوں خواہ بریلوی ہوں، خواہ جماعت اسلامی سے ان کا تعلق ہو یا کسی اور جماعت سے ان کا تعلق ہو.وہ ان حدیثوں کو ساری عمر پڑھتے رہے، درس دیتے رہے، کتابیں چھاپتے رہے.بھٹو تو ایک سیاستدان ہے.( بھٹو

Page 214

198 صاحب اس وقت زندہ تھے ) اور اس کی پارٹی ایک سیاسی پارٹی ہے.اس کے سوا کوئی حیثیت نہیں.انہوں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کی حدیث پڑھی نہ ان کو ضرورت ہے.ایک کمیونسٹ کو کیا ضرورت پڑی ہے.لیکن حیرت کی بات ہے جب بیٹی خان صاحب کے لیگل فریم ورک کے مطابق انتخابات شروع ہونے لگے تو بھٹو پارٹی بعد میں پہنچی اور ملاں پہلے پہنچا ہوا تھا.66 ہم نے سوچا کہ یہ لوگ ساری عمر رسول اللہ کی حدیث پڑھتے رہے.جن میں اہلحدیث بھی ہیں اور جماعت اسلامی والے بھی ہیں کہ وہ شخص سب سے بڑا خائن ہے جو خود کوئی عہد ہ طلب کرنے کے لئے پراپیگنڈہ کرتا ہے یا کوشش کرتا ہے مگر عجیب لوگ ہیں کہ اس حدیث رسول کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ملاں سب سے پہلے پہنچا ہے.تو جماعت احمدیہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم دہر یہ اور کمیونسٹوں کو ووٹ دیں گے مگر محمد رسول اللہ ﷺ کے ان گستاخوں کو ووٹ نہیں دے سکتے جوساری عمر رسول اللہ کی حدیث پڑھتے رہے اور اقتدار کی خاطر خدا کے رسول کی بات کی ایسی بے حرمتی کی کہ اس کو پارہ پارہ کر کے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور اقتدار کی خاطر میدان انتخاب میں آگئے.کہنے لگے تم نے ٹھیک کیا.میں جب واپس آیا.طریق یہ تھا کہ فورا حضور کی خدمت میں رپورٹ پیش کرتا تھا یا اگر نماز کا وقت ہوتا تو پھر نماز کے معا بعد حضور چلتے چلتے مجھ سے پوچھ لیتے.میں نے جب یہ بات کی تو حضور بہت خوش ہوئے.فرمایا کہ تم نے بہترین وکالت اور ترجمانی کی ہے جماعت احمدیہ کی.تو ہین حسین علیہ السلام کا جواب ڈاکٹرسلطان احمد مبشر صاحب:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی مصرع ”صد حسین است در گریبانم پر اعتراض کیا جاتا ہے جو اسمبلی میں بھی کیا گیا کہ اس سے حضرت امام حسین علیہ السلام کی تو ہین ہوتی ہے.اس سوال کے جواب میں حضور نے کیا ارشاد فرمایا ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ واقعی جس طرح آپ نے فرمایا ہے اشتعال دلانے کے لئے ، استہزاء کے لئے تو محمدی بیگم کی پیشگوئی اورسنی اور شیعہ حلقوں میں اشتعال کے لئے اس کو استعمال کیا جاتا ہے.سوالات کیونکہ بے شمار تھے اور حضور حضرت خلیفہ اسیح صرف اسمبلی کے دانشوروں

Page 215

199 کے سامنے جماعت احمدیہ کے عظیم الشان علم کلام اور مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے مسلک کی حقانیت کا دن چڑھانے کے لئے نمونے پیش کرنا چاہتے تھے.اس لئے حضور نے بعض جوابات تفصیل سے دیئے اور بعض جواب اشارہ دیئے اور خود وہ اشارہ بھی ان کے لئے دراصل کافی تھا.حضور نے اس موقع پر علامہ نووی جو کہ برصغیر کے بہت ہی بلند پایہ شاعر تسلیم کئے جاتے ہیں ان کے دیوان کا سب سے پہلا شعر پڑھا.یہ شعر جو حضور نے پڑھا ہے وہ عکس تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے انڈیا آفس سے میسر آیا تھا.اس وقت ہمارے محمد اکرم خان غوری صاحب مرحوم جو کہ یروبی افریقہ میں رہے.بہت ہی عظیم انسان تھے.خدا نے ان کو خلافت ثالثہ میں الہاما بتا دیا تھا کہ حضرت خلیفة امسیح الرابع خلیفہ بننے والے ہیں.ربوہ میں رہے پھر دفتر میں کام کرتے رہے.لندن میں گئے تو میں نے بعض چیزیں ان سے منگوائیں.انگریزی میں میرے جتنے بھی مقالے مولانا بشیر احمد خان صاحب رفیق نے " مسلم ہیرلڈ' میں شائع کئے ہیں.ان کا ترجمہ انہی کے قلم سے ہوا ہے.اس شان کے انسان تھے کہ جب نیروبی میں تھے ، حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب اس وقت امیر جماعت تھے تو انہوں نے ان کی جازت سے حضور کی خدمت میں لکھا کہ حضور شبورہ اگر تشریف لائیں تو سارے اخراجات میں ادا کروں گا.یہ عکس محمد اکرم خان صاحب غوری کے ذریعہ سے مجھے ملا ہے اور اس پر انڈیا آفس کی مہر بھی لگی ہوئی ہے.اس قلمی نسخہ کا پہلا شعر یہ ہے.(فارسی دیوان ہے ) ؎ حسین کشته در ہر گوشہ صحرائے من صد کربلا عشقم لب تشنہ سر تا پائے من علامہ نووی فرماتے ہیں کہ ” کر بلا عشقم میں عشق کا کربلا ہوں اور ”لب تشنہ سر تا پائے من “ اور سر سے لے کر پاؤں تک پیاسا ہوں، تشنہ ہوں.’صد حسین کشتہ در ہر گوشہ صحرائے من“ اور میرے صحراء کے ہر گوشہ میں سوسوحسین مقتول اور شہید موجود ہیں.تو تشبیہ دینے والوں نے تو یہاں تک کہا ہے.یہ جواب تھا جو حضور نے دیا.،اس سلسلہ میں ایک چھوٹی سی بات یہ عرض کروں جو حضور کے اس ارشاد کے مطابق

Page 216

200 تحقیق کے بعد میرے سامنے آئی.وہ یہ ہے.مولانامحمد علی جو ہر صاحب کا ایک مشہور شعر ہے.قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے ہر کربلا کے بعد اسلام زندہ ہوتا ہے ہر اب میں پوچھتا ہوں کہ یہ جو دوسرا مصرعہ ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد“ کر بلا تو ایک ہی ہے جو عراق میں ہے.یہ ہر کا لفظ بتاتا ہے کہ یہ تشبیہ ہے دراصل.استعارہ ہے، یہ مجاز اور کنایہ ہے.تو استعارہ میں مصیبتوں کو اور دکھوں کو کر بلا کہا جاتا ہے.اور اس میں مبتلا ہونے والے کو حسین سے تشبیہ دی جاتی ہے.یہی تشبیہ اس میں ہے تو جب ہر کر بلا کے لحاظ سے بہت سے کر بلا ہیں تو پھر حسین بھی بہت سے ماننے پڑیں گے.یہ دیکھیں شعبہ اشاعت امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان گورنمنٹ ڈگری کالج ڈیرہ غازی خان کا یہ رسالہ ہے.لمحہ فکریہ کے عنوان پر ہے.اور اس میں لکھا ہے ” حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول كل يوم عاشوراء وكل ارض کربلا ہر دن ہمارے لئے دس محرم کی تاریخ ہے اور ہر ایک زمین ہمارے لئے کربلا ہے.اب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہر جگہ کو کر بلا قرار دیا ہے کیونکہ مصائب میں مبتلا تھے.اور ہر دن کو یوم عاشوراء قرار دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی یہی فرماتے ہیں.آپ کا شعر یہ ہے.سیر کر بلائے صد حسین است، در ہر آنم گریبانم حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری تو فرمایا کرتے تھے کہ اس سے بہتر کوئی تشبیہ ہی نہیں ہوسکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ فرماتے ہیں کہ میں جو مد عربی ﷺ کے دین کی طرف سے دفاع کر رہا ہوں، اسلام کے دشمن جن میں برہمو سماج شامل ہیں، سناتنی شامل ہیں، دیو مارگی شامل ہیں، عیسائی شامل ہیں، ہندو شامل ہیں، سکھ شامل ہیں، بدھسٹ شامل ہیں.ان تمام کے تمام نے میرے لئے ہر جگہ کر بلا بنائی ہوئی ہے.ہندوستان کا چپہ چپہ میرے لئے کربلا بن گیا ہے.ہزاروں لاکھوں کر بلا ہوئے یا نہ ہوئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے مطابق! تو فرماتے

Page 217

201 ہیں بے شمار کر بلائیں میرے لئے بنائی گئی ہیں، اسلام کے دشمنوں کی طرف سے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا آئینہ کمالات اسلام میں فارسی کلام ہے.اس میں فرماتے ہیں کہ رسول پاک ﷺ کی راہ میں اگر میں لاکھوں بار بھی شہید کر دیا جاؤں تو میرے لئے بہت بڑی سعادت ہے.تو یہی مضمون یہاں پر ہے.فرمایا کہ اسلام کے دشمن مجھ پر ہرلمحہ حملہ کرتے ہیں گویا ان کی نگاہ میں ان کے مقابل پر ایک حسین نہیں بلکہ سوحسین نظر آتے ہیں.یعنی سوعشاق محمد کی طاقت انہیں مجھ میں نظر آتی ہے.اس واسطے وہ ایک دفعہ میرے لئے کر بلا نہیں بناتے ، سینکڑوں بار میرے لئے کربلا بناتے ہیں.آپ دیکھیں کتنے مقدمے کئے گئے ہندوؤں کی طرف سے، عیسائیوں کی طرف سے اور ان میں ہندو شامل، اس میں مسلمان کہلانے والے شامل.اس کربلا بنانے والوں میں کتنے یزیدی اکٹھے ہو گئے تھے.تو فرماتے ہیں کہ مجھ پر حملہ کرنے والے اسلام کے دشمن ایک بار حملہ نہیں کرتے بلکہ سینکڑوں بار کرتے ہیں اس لئے کہ انہیں نظر آتا ہے کہ اسلام کا دفاع کرنے والا ایک حسین نہیں بلکہ سوحسین ہیں.اس لئے سینکڑوں دفعہ ان پر حملہ کیا جا رہا ہے.اور اس صلى الله سے بڑھ کر اسلام اور محمد عربی ﷺ اور امام حسین کی عظمت کا تصور نہیں ہوسکتا.اب آخر میں میں خود مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں بتاتا ہوں کہ حضرت امام حسین کا مقام کیا ہے؟ آج تک حضرت امام حسین علیہ السلام کی منقبت اور شان اور جلالت مرتبت کے متعلق بہت لٹریچر شائع کیا گیا ہے.شیعہ حضرات کی طرف سے سنی سکالرز کی طرف سے بھی لیکن جس بصیرت کی نگاہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت امام حسین کی شان بیان کی ہے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آج تک کوئی متکلم، کوئی محدث ، کوئی عالم دین، فیج اعوج کے زمانے سے لے کر آج تک کا ، عرب و عجم میں ہو، شیعہ مسلک سنی مسلک، بریلوی خیالات، جماعت اسلامی کا ہو، جس بصیرت سے، سید نا حضرت حسین کا مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان کیا ہے آج تک کسی نے بیان نہیں کیا.اب وہ الفاظ سنیں آپ.تمام ہندوستان میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے یہ اشتہار شائع کیا.یہ کتنے ظلم کی بات ہے کہ یہ شعر تو پڑھا جاتا ہے مگر جو مسیح موعود علیہ السلام کی نگاہ میں مقام حسین ہے اس کا اشارہ تک نہیں کیا جاتا.صاف بات ہے یہ دراصل گستاخی حسین ہے کہ جو شخص حسین

Page 218

202 علیہ السلام کا عاشق صادق ہے.اس کے ایک شعر کو بیہودگی اور بے شرمی کے ساتھ دوسرے معنی پہنا کر خود حسین علیہ السلام کی تذلیل اور تحقیر اور گستاخی کا ارتکاب کیا جارہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.میں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد ر کھتے ہیں کہ یزید ایک نا پاک طبع دنیا کا کیڑہ اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنی اس میں موجود نہیں تھے“ پھر فرماتے ہیں:.دد مگر حسین رضی اللہ عنہ ظاہر مطہر تھا اور بلا شبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے وجب سلب ایمان ہے اور اس امام کا تقویٰ اور محبت الہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے.(ایک ایک لفظ سے ایک بڑا مقام بن سکتا ہے.ناقل ) اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی.تباہ ہو گیا وہ دل جو اس شخص کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیاوہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں.کون جانتا ہے ان کا قد رمگر وہی جو اُن میں سے ہے.“ یزیدیوں کو کیا علم ہے حسین کی شان کیا تھی؟ فرماتے ہیں:.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں.کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہے.دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں.یہی وجہ حسین کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا

Page 219

203 گیا.دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانے میں محبت کی تا حسین سے بھی محبت کی جاتی “.اشتہار "تبلیغ الحق 18 اکتوبر 1905ء - مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 653-654) اب آخر میں صرف چند شعر سنانا چاہتا ہوں حضرت امام حسین علیہ السلام کی منقبت میں.حسین کا لفظ جب ایک احمدی کے سامنے آتا ہے تو کر بلا کا سارا نقشہ اس کے سامنے آجاتا ہے.حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی روایت ہے.محرم کے دن تھے.خود مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ اپنے سارے بچوں کو بلایا اور محرم کی کہانی دردناک انداز میں بیان کی اس صورت میں کہ حضور بھی زار وقطار رور ہے تھے اور بچوں پر بھی ایک رقت کی کیفیت طاری تھی.عرصہ ہوا، حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا زمانہ تھا اور حضور بھی اس وقت کراچی میں تشریف فرما تھے.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سے ملاقات کا موقع تھا.وہ سابق صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق صاحب سے ملنے کے لئے جانا چاہتے تھے اور تفسیر کے بارے میں کوئی بات تھی.حضور ” نے مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب اور مجھے ارشاد فرمایا کہ بذریعہ ہوائی جہاز فوراً پہنچو.خیر حضرت مولانا تو بیمار تھے.میں حاضر ہوا.حضور کے ارشادات کی تعمیل کی.وہ ایک دوسری بات ہے.ان دنوں ایک اخبار میں نے دیکھا غالبا صداقت اس کا نام تھا.اس میں حفیظ ہوشیار پوری کے قلم سے مرثیہ میں نے پڑھا.وہ چارا شعار ایسے ہیں کہ میرے دل پر نقش ہیں ہمیشہ کے لئے.وہ اس طرح پر تھے.جو حسن میں بھی لاثانی تھا کربل میں علی کا ثانی تھا جو پیاس سجائے پھرتا تھا لاشوں اٹھائے پھرتا تھا تنها تھا مگر ہے دینوں جو دین بچائے پھرتا اللهم صل على محمد و آل محمد.ول تھا

Page 220

204 کتاب ”سیرۃ الابدال میں مسیح علیہ السلام کی گستاخی حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.ایک سوال حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ سے یہ ہوا.بڑے ذومعنی فقرات اس میں استعمال کئے گئے کہ مرزا صاحب نے ” ہمارے مسیح علیہ السلام کے خلاف اپنی کتاب ”سیرۃ الابدال کے صفحہ 193 پر سخت گستاخی کی ہے.تو اس کے جواب پر آپ روشنی ڈالیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.بات یہ ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب جناب یحیی بختیار صاحب جو بھٹو گورنمنٹ کی ترجمانی میں جرح کر رہے تھے وہ شروع سے ہی اس انداز پر چل رہے تھے کہ آپ لوگوں کا مذہب اور ہے ہمارا مذہب اور ہے ، آپ کا قبلہ الگ ہے، ہمارا قبلہ الگ ہے.اسی دوران انہوں نے کہا کہ دیکھیں جی ہمارے مسیح علیہ السلام کی کتنی تو ہین کی گئی ہے.حضور نے فرمایا.کیا؟ بیٹی بختیار صاحب کے ہاتھ میں ایک چٹ تھی اور وہ چٹ اپوزیشن لیڈرز میں سے کسی کے ذریعے ان تک پہنچی تھی.اس میں یہ لکھا تھا کہ مرزا صاحب نے اپنی کتاب ”سیرۃ الابدال کے صفحہ 193 پر حضرت مسیح علیہ السلام کی سخت توہین کی ہے اور سخت گستاخی کا مظاہرہ کیا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث فرمانے لگے کہ بانی جماعت کی یہ تحریر میں آج ضرور دیکھوں گا اور کل آ کر ہی اس کا جواب دوں گا.اگلے دن اجلاس میں شامل ہونے سے پہلے حضرت خلیفتہ امسیح الثالث" نے ہمیں یہ ارشاد فرمایا کہ "سيرة الابدال کے متعلق کوئی یاد دہانی نہ کرائے اب.یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو گی تو یحیی بختیار سوال کرے گا یا اس کی مشیت نہ ہوئی تو سوال نہیں کرے گا.خدا کی حکمت کہ جاتے ہی جناب بیٹی بختیار صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب یہ بڑا اہم ترین سوال تھا اور آپ نے اس کو نظر انداز کر دیا.فرمایا کون سا سوال ؟ حضور چاہتے تھے کہ یہ ٹیپ ریکارڈ ہو جائے.دوباره ی بختیار صاحب نے کہا آپ کے مرزا صاحب نے ” سیرۃ الا بدال‘ کے صفحہ 193 پر حضرت مسیح علیہ السلام کی جو مسلمانوں کا نبی ہے توہین کی ہے.حضور نے فرمایا کہ میں نے

Page 221

205 وعدہ کیا تھا آپ سے.رات میں نے وہ کتاب دیکھی ہے.اس کتاب کے 193 صفحات تو الگ رہے اس کا سوصفحہ بھی نہیں ہے، اتنی بھی صفحہ نہیں ہے، ساٹھ بھی نہیں، چالیس بھی نہیں تھیں صفحہ بھی مجھے نہیں ملا اس کا ، ہیں بھی نہیں ملا.وہ عربی زبان کا ایک رسالہ ہے اور اس کے صرف سولہ صفحات ہیں اور اس میں خدا کے برگزیدہ بندوں کی علامتیں بیان کی گئی ہیں.حضرت عیسی کا ذکر ہی کوئی نہیں.اب یہ خدا کا عاجز بندہ سولہ صفحے کے رسالہ میں سے ایک سو ترانوے صفحہ کہاں سے لاسکتا ہے.جب حضور نے ایک خاص انداز کے ساتھ تقسیم کرتے ہوئے یہ جواب ارشاد فر مایا تو وہ منظر ایسا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ کاش ہمارے پاس بھی کوئی کیمرہ ہوتا تو کم از کم یہ منظر تو دنیا کو دکھانے کے لائق تھا.میرے سامنے اب بھی وہ نقشہ ہے.اپوزیشن کے لیڈر مفتی محمود صاحب نورانی صاحب، پروفیسر غفور صاحب، ظفر انصاری صاحب یعنی ایک بھا گڑ مچی ہوئی تھی.کوئی کہہ رہا تھا مرزا صاحب کی کتاب منگواؤ، کتا بیں سامنے پڑی ہوئی تھیں.کوئی اس طرف دوڑا دیکھنے کے لئے ، کوئی اپنی کتاب دیکھ رہا ہے محمدیہ پاکٹ بک، یا غالباً اس جواب کے بعد ایک طرف تو یہ قیامت ڈھائی ہوئی تھی اپوزیشن کے مولویوں پر اور ممبروں پر اور دوسری طرف پیپلز پارٹی والوں نے ہوٹنگ کی مگر کوئی آواز نہیں بلند کی.یہ ان کی شرافت تھی کیونکہ ویسے بھی پروٹوکول کے لحاظ سے وہ اسمبلی ہال میں کچھ کر نہیں سکتے تھے.لیکن اٹھ اٹھ کر مسکراتے اور اشارے بھی کرتے تھے.اگر ان کے اختیار میں بات ہوتی اور اس کو کر سکتے تو پھر وہ وقت تھا کہ اتنی نعرہ بازی ہوتی کہ دنیا دیکھ لیتی.لیکن بہر حال انہوں نے ایک حد تک ہوٹنگ کی مگر عملی طور پر کی اور جناب یحییٰ بختیار صاحب کا تو یہ عالم تھا کہ اس کے بعد جو سوال آتا کہتے کہ مرزا صاحب ! یہ میرا سوال نہیں ہے.یہ ان حضرات کی طرف سے آیا ہے.اور اصطلاحات کفر اور ” خارج از اسلام کی تشریح ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : ایک سوال کفر اور خارج از اسلام کی اصطلاحات کے بارے میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے کیا گیا تھا کہ یہ اصطلاحات جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں مسلمانوں کی نسبت استعمال کی گئی ہیں؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب: - حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس کا مختصر جواب دیا کیونکہ اصل

Page 222

206 جواب حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں حضور پہلے دے چکے تھے.حضور نے فرمایا ہے كُفَرٌ دُودَ كُفْرِ کے معنوں میں استعمال ہوئی ہے.ایک کفر ہے ایک دون کفر ہے.جیسا کہ حدیث میں ہے.مَنْ تَرَكَ الصَّلوةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ كَفَرَ “ (کنز العمال جلد 7 حدیث 18874 جدید ایڈیشن) ترجمہ اس کا یہ ہے کہ جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کر دی وہ کافر ہو گیا." اور کنز العمال میں یہ حدیث ہے.ربقة الاسلام من مشى مع ظالم و هو يعلم انه ظالم فقد خرج "کنز العمال، جلد 3 صفحہ 498) جو شخص کسی ظالم کے ساتھ چلاتا کہ اس کی مدد کرے و هو يعلم اور اسے پورا علم ہے کہ وہ ظالم اور غاصب ہے فقد خرج من ربقة الاسلام تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا.تو ہین حضرت فاطمہ کا مسکت جواب حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.ایک اعتراض جو علماء کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کیا جاتا ہے وہ اسمبلی میں بھی دو ہرایا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت فاطمۃ الزہراء کو کشف میں دیکھا اور اس کی کچھ تفصیل بیان کی اور کہا کہ نعوذ باللہ حضور نے حضرت فاطمہ کی توہین کی ہے.اس حوالے سے حضور نے کیا بیان فرمایا ؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ اشتعال انگیزی کا حربہ تھا جو سننے والوں میں نفرت پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا.حضور نے اس موقع پر جو جواب ارشاد فرمایا، وہ یہ تھا کہ :.” نبی کے کشف کی بھی تعبیر ہوتی ہے.تذکرۃ الاولیاء میں ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ نے خواب میں دیکھا کہ میں آنحضرت علیہ کے مزار سے آنحضور ﷺ کی ہڈیاں چن رہا ہوں.جس کا مطلب آنحضرت ﷺ کی مبارک سنت کا احیاء تھا.“ یہ مقدس الفاظ تھے جو خلیفہ راشد کی زبان مبارک سے اس وقت اسمبلی کے ہال میں گونج

Page 223

207 رہے تھے.آپ اگر اجازت دیں تو میں اس کے بعد کی تحقیق جو حضور کے ارشاد کے مطابق میں کرتا رہا.اس کی چھوٹی سی جھلک آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.یہ جو حضور نے حوالہ پیش فرمایا یہ تذکرۃ الاولیاء کے صفحہ 188 میں حضرت امام ابو حنیفہ کے حالات میں حضرت فرید الدین عطار جیسے ولی کامل نے بیان فرمائے ہیں.حضرت امام ابو حنیفہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :.شرع و ملت کے چراغ ، دین و دولت کی شمع، ثابت حق کے نعمان ، جواہر معانی اور دقائق کے عمان ، عالم ،صوفی ، عارف ، امام جہان ، امام ابو حنیفہ کو فی رحمتہ اللہ علیہ ایسے شخص ہیں جن کی صفت ہر ایک نے کی ہے اور ہر مذہب کے مقبول ہیں.آپ کی ریاضت ، مجاہدے، خلوت اور مشاہدے کی کوئی انتہا نہ تھی.اصول طریقت اور فروع شریعت میں اعلیٰ درجہ اور گہری نظر رکھتے تھے.آپ نے بہت سے صحابہ کی زیارت کی ہے.مثلاً انس بن مالک، جابر بن عبد الله عبد اللہ بن اوفی ، واثلہ بن اسقع ، اور عبد اللہ بصری رضی اللہ عنہم اور صادق رضی اللہ عنہ کے ہم نشین رہے ہیں.( یعنی امام جعفر صادق علیہ السلام) آپ فضیل، ابراہیم ادہم، بشر حافی اور داؤد طائی رحمۃ اللہ یھم کے استاد تھے.پھر سید المرسلین ﷺ کے روضہ مبارک پر گئے عليه اور سلام علیک یا سَيّد المرسلین کہا.جس کے جواب میں سناعلیک السلام یا امام المسلمين (صاحب کشف تھے )...منقول ہے کہ آپ نے حقیقی قبلہ کی طرف توجہ کی اور دنیا سے منہ پھیر لیا اور صوف پہن لی.ایک رات خواب میں دیکھا کہ آپ جناب رسول کریم ﷺ کی ہڈیاں لحد میں سے اکٹھی کر رہے ہیں اور بعض کو پسند کرتے ہیں اور بعض کو نہیں.مارے خوف کے بیدار ہوئے.تو ابن سیرین کے ایک صحابی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ آپ پیغمبر ﷺ کے علم اور آنحضرت کی لغت کو محفوظ رکھنے میں اس درجے کو پہنچیں گے کہ اس پر متصرف ہوں گے اور ان کے صحت وسقم میں تمیز

Page 224

208 کریں گے.“ (اردو ترجمہ ”تذکرۃ الاولیاء، صفحہ 188 - ترجمہ علامہ عبدالرحمن شوق ناشر ملک سراج دین اینڈ سنز لاہور ) اب اس میں صحابی کا لفظ ابن سیرین کے ماننے والوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے تو جس نے وہ رسوائے عالم آرڈینینس جاری کیا ہے 1984ء کا.اس کو اپنے لٹریچر کا بھی پتا نہیں ہے.انہوں نے کہا کہ احمدی اہل بیت کا لفظ استعمال کریں اور نہ ہی صحابی کا لفظ وغیرہ.تو میں بتاؤں گا کہ آنحضرت ﷺ نے تو مثلاً بلی کو بھی اہل بیت قرار دیا ہے.حیران کن بات ہے.میں بعد تفصیل میں انشاء اللہ بیان کروں گا.ابن سیرین جو عالم اسلام کے مشہور معتبر سمجھے جاتے ہیں ان کا تذکرہ حضرت فریدالدین عطار گر رہے ہیں اور ابن سیرین کے ساتھی کو صحابی کا نام دیا جارہا ہے.وہ کہتے ہیں نا.کیونکر خدا کے عرش کے قائل ہوں یہ عزیز جغرافیہ میں عرش کا نقشہ نہیں ملا اسلام میں نہیں پڑھا، قرآن میں نہیں دیکھا، تاریخ اسلام کی ورق گردانی نہیں کی اور ایک نیا اسلام بنا کر جماعت احمدیہ کو بزعم خویش ختم کرنے کے لئے یہ آرڈنینس بنادیئے اور اس لحاظ سے دنیا پر ظاہر ہو گیا کہ جن ہاتھوں نے لکھا ہے اور جن کی وجہ سے لکھا ہے.ان کا اسلام سے بھی تعلق نہیں تاریخ سے بھی تعلق نہیں.حضرت پیران پیر حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کسی تعارف کے محتاج نہیں.آپ نے اپنی کتاب قلائد الجواہر “ میں لکھا ہے کہ:.ایک شب میں نے دیکھا کہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ 66 کی آغوش میں داہنی چھاتی سے دودھ پی رہا ہوں.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرماتے ہیں کہ میں نے کشف میں دیکھا حضرت فاطمہ کو مادر مہربان کی طرح.فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ نے بتایا کہ تمہارے خاندان میں تمہاری دادیاں، نانیاں،سادات میں سے بھی تھیں.یہ کشف تھا اور میں نے اپنے تئیں دیکھا کہ حضرت فاطمہ مجھ کو اپنی گود میں اس طرح بٹھائے ہوئے ہیں جس طرح کہ ایک مہربان والدہ اپنے بیٹے کو بٹھائے ہوئے

Page 225

209 ہوتی ہے.تو یہ کشف ہے جس پر اعتراض کیا گیا ہے.حضرت پیران پیر فرماتے ہیں کہ:.ایک شب میں نے دیکھا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی آغوش میں داہنی چھاتی سے دودھ پی رہا ہوں.پھر آپ نے بائیں چھاتی نکالی اور میں نے دودھ پیا.اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے داخل ہو کر فرمایا کہ اے عائشہ! یہ ہمارا حقیقی فرزند ہے.“ یہ قلائد الجواہ“ موجود ہے.یہ تو عربی میں ہے’قلائد الجواہر.آپ کے شمائل کی اردو میں کتاب ہے.اس کتاب میں اس کو درج کیا گیا ہے.یہ ایک عرب تھے صدیوں قبل کے، انہوں نے ایک کتاب لکھی.اس کتاب کا ترجمہ ” گلدستہ کرامت“ کے نام سے 1896ء میں شائع ہوا ہے.(قلائد الجواہر مترجم مولانا زبیر افضل عثمانی صفحہ 187 ناشر مدینہ پبلشنگ کمپینی محمد علی جناح روڈ.کراچی ) اب آپ اس سلسلہ میں یہ بھی دیکھیں.حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے متعلق سوانح الله احمدی میں ان کے مرید مولوی محمد جعفر خان صاحب تھانیسری نے لکھا ہے کہ:.ایک رویاء میں رسول اللہ ﷺ نے تین چھوارے اپنے دستِ مبارک سے سید صاحب کے منہ میں ایک دوسرے کے بعد رکھ کر بہت پیار اور محبت سے کھلائے.اور جب آپ بیدار ہوئے تو شیرینی ان چُھواروں کی آپ کے ظاہر اور باطن سے ہویدا تھی.اس کے بعد ایک دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور جناب سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہما کو سید صاحب نے خواب میں دیکھا.اس رات کو حضرت علیؓ نے اپنے دست مبارک سے آپ کو نہلایا اور حضرت فاطمہ نے ایک لباس اپنے ہاتھ سے آپ کو پہنایا.“ (سوانح احمدی صفحہ 10 ناشر صوفی پر نٹنگ اینڈ پبلشنگ کمپنی لمیٹڈ ،منڈی بہاء الدین) یہ رویاء کن کا ہے؟ حضرت سید احمد صاحب بریلوی کا جو سواغ احمدی میں موجود ہے.ایک مجدد، حضرت مجدد الف ثانی " بہت ہی شہرہ آفاق شخصیت ہیں.اپنے مکتوبات ( دفتر سوم، حصہ دوم ) میں اپنے ایک کشف کا ذکر کر کے فرماتے ہیں:.

Page 226

210 میں اس وقت ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میں رسول اللہ ہے کے ساتھ ایک جگہ میں رہتا ہوں اور بیٹے کی طرح اپنے باپ کے ساتھ زندگی گزارتا ہوں.“ بالکل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انداز میں.کیونکہ عشق رسول کا چشمہ تو دونوں کا ایک ہے.فرماتے ہیں :.وو " رسول اللہ ﷺ اور ان کے اہل بیت میرے لئے اجنبی نہیں ہیں اور میں نے اس کاغذ کو لپیٹ کر اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھا ہے اور فرزندان محرم کی طرح میں بھی ان کے حرم شریف میں داخل ہو گیا ہوں.امہات المومنین میں سے سب سے بڑی ماں نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں مجھے بعض خدمات کا اہتمام سے حکم دیا ہے اور فرمایا ہمیں تمہارا انتظار تھا.اس طرح کرنا چاہئے اور اس وقت میں خواب سے بیدار ہو گیا.“ (مکتوبات امام ربانی (اردو) صفحہ 1566 ناشر مدینہ پبلشنگ کمپنی بندر روڈ کراچی) یہ حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا کشف ہے جو مکتوبات میں موجود ہے.اسی طرح ایک بزرگ گزرے ہیں جن کو اپنے زمانے کا عظیم سالک بھی کہا جاتا ہے.ان کے متعلق جناب مولوی سید محمد علی صاحب نے ارشا درحمانی و فضل یزدانی‘ ایک کتاب شائع کی جو عرصہ ہوا درویش پریس دہلی میں طبع ہوئی تھی.اس کا وہ ایڈیشن جولکھنو میں چھپا تھا.وہ اصل میرے پاس موجود تھا.یہ جو میں نے اب دیکھا کہ لندن سے بھی حاصل کی ہے.اس کے اوپر انڈیا آفس کی مہر لکھی ہوئی ہے.یہاں جو میرے پاس تھا چونکہ میں جب 1985ء میں گیا ہوں تو میرا خیال تھا کہ میں بس جلسہ سن کر نمائندہ کی حیثیت سے واپس آ جاؤں گا، مگر حضور ( حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ) نے فرمایا چھ مہینے تم نے یہاں رہنا چاہئے اور جس طرح سوال و جواب کی مجلسیں تم ربوہ میں قائم کرتے رہے ہو وہی مجلسیں تمہیں یہاں کرنی ہوں گی.چنانچہ حضور خلیفتہ اسیح الرابع کے ارشاد پر انگلستان میں بریڈ فورڈ ، ہڈرز فیلڈ، برمنگھم اور اس طرح اور دوسرے مقامات کے علاوہ پھر جرمنی اور اس کے علاوہ ناروے ،سویڈن، ڈنمارک، ان علاقوں میں اللہ کے فضل سے توفیق ملی اور وہاں پر اکثر پھر اطلاعات حضور کو یہی ملیں کہ

Page 227

211 ہمیں ربوہ کا سوال و جواب کا زمانہ یاد آ گیا.بہر کیف چونکہ میں تو کتابیں لے کر نہیں گیا تھا.حضور کا ارشاد تھا تو میں نے سات دن انڈیا آفس لائبریری میں لگائے.صبح ٹیوب ( زیر زمین ریل) پر جاتا تھا اور شام کو آتا تھا.تو جتنی اہم کتابیں حوالوں کی مجھے مل سکتی تھیں میں نے ان کی فوٹو کاپی کر والی.یہ بھی ان میں سے ایک ہے.وہ جو لکھنو والا ایڈیشن تھا.یہ 1974 ء سے پہلے کی بات ہے.میں نے حاصل مطالعہ کا ایک سلسلہ اس زمانہ میں جاری کر رکھا تھا.اب بھی الفضل انٹرنیشنل میں چلتا ہے.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب اس کو بڑے خاص انداز سے ماہنامہ الفرقان میں سے شائع کرتے تھے.اس حاصل مطالعہ میں میں نے یہ حوالہ جواب میں پڑھنے لگا ہوں یہ بھی دیا حضرت فاطمہ الزہر اٹھ کے متعلق.تو اس پر بڑا شور مچا.مختلف مذہبی حلقوں نے مرکزی حکومت کو توجہ دلائی.انہوں نے پھر یہاں کے ڈپٹی کمشنر صاحب کو کہا کہ اس ظالم شخص کی گرفت ہونی چاہئے.ایک نوٹس آیا حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے نام کہ تم نے یہ حوالہ شائع کیا ہے اور میرے نام کے متعلق کہا کہ اس کی طرف سے شائع کیا گیا ہے اور آپ نے شائع کیا ہے اور آپ کو پتا نہیں ہے کہ اس سے تو حضرت فاطمہ الزہرائو کی بہت تو ہین ہوتی ہے؟ تو جواب دیں کہ آپ کے خلاف کیوں نہ کارروائی کی جائے.تو حضرت مولانا نے مشورہ کیا تو میں نے ان سے یہ عرض کی کہ آپ وکلاء سے مل کر ان کو جواب دیں کہ یہ ہمارے حاصل مطالعہ لکھنے والے جو اہل قلم ہیں، انہوں نے تو اپنی کوئی بات ہی نہیں کی.یہ تو سو سال پہلے ایک عالم دین کا کشف ہے جو حوالہ کے ساتھ انہوں نے شائع کیا ہے.اور یہ کشف پہلی دفعہ لکھنو میں چھپا ہے.تو اگر اس میں کوئی ایسی بات تھی تو سارے متحدہ ہندوستان میں سب سے بڑا مرکز تو شیعہ حضرات کا ، امامیہ فرقہ اثنا عشریہ کا لکھنو میں ہے ، تو اس وقت کے شیعہ لیڈروں نے کیوں اس کے خلاف احتجاج نہ کیا.ڈپٹی کمشنر صاحب کی طرف سے یہ جواب آیا کہ آپ وہ کتاب بھجوا دیں جو کہ اس زمانہ میں لکھنو سے چھپی تھی.مجھے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کہنے لگے کہ وہ کتاب چاہئے.میں نے کہا کہ کیوں.کہنے لگے کہ یہ کتاب.D.C صاحب نے منگوائی ہے.میں نے کہا کہ کل عرض کروں گا.میں نے پھر حضرت خلیفتہ اسیح الثالث سے ذکر کیا.میں نے کہا حضور یہ کتاب اگر وہاں چلی گئی تو پھر واپس نہیں آ سکتی.ایک مستقل ثبوت ضائع ہو جائے گا اور پھر ہم یہ بات لکھ ہی نہیں سکیں گے.

Page 228

212 حضور نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے.اس کا عکس بھجوا دو.اصل کتاب بالکل نہیں جانی چاہئے.چنانچہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے اسی کے مطابق کیا.تو اصل کتاب اب بھی میرے پاس موجود ہے.یہ ایڈیشن جو دکھا رہا ہوں یہ انڈیا آفس کا ہے.اس میں اب الفاظ ملاحظہ کریں آپ لکھا ہے:." ایک شب حضرت عالی اس نیاز مند سے اپنے بعض واردات اور معاملات بیان فرماتے تھے.ان میں ایک یہ ارشاد ہوا کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے.“ ( یہ اپنا بتا رہے ہیں) کہ ہمارے گھر میں جاؤ.مجھے جاتے ہوئے شرم آئی ( یعنی یہ واردات بیان کر رہے ہیں.واردات سے مراد کشف اور رویاء ہوتی ہے صوفیاء کی زبان میں.) ارشاد ہوا کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ ہمارے گھر میں جاؤ.مجھے جاتے ہوئے شرم آئی اس لئے تأمل کیا.حضرت نے مکر رفرمایا.“ ( یعنی شیر خدا حضرت علی نے ) کہ جاؤ ہم کہتے ہیں.میں گیا.اندر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف رکھتی تھیں.آپ نے..مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.( یعنی حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا نے ) " آپ نے سینہ مبارک بالکل کھول کر مجھے سینے سے لگالیا اور بہت پیار کیا.“ اور حاشیہ میں لکھا ہے کہ:.اس سے مقصود بلا واسطہ اور بلا حجاب اپنے کمالات باطنی سے فیض یاب کرنا ہے اور یہ امرظاہر کرتا ہے کہ حضرت مولا نا مثل معصوم بچوں کے

Page 229

213 ہیں اور ہمارے پیارے ہیں.اس کی نظیر شاہ نور الدھر کی حالت سے جو ملفوظات رزاقی کے صفحہ 92 میں لکھی ہے کہ حضرت عبد الرزاق بانسوی در مدح ایشان فرموده اند که شاه نور الدهر را دیده ام که در آغوش حضرت فاطمہ زہراء علیها السلام آں چناں بازی میکنند که اطفال در کنار مادر خود میسازند - چھوٹے بچے جب ماں کی گود میں کھیلتے ہیں تو کبھی ماں کے کرتے میں اپنا منہ چھپا لیتے ہیں، کبھی ماں کا پیٹ کھولتے ہیں.سینہ پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو شاہ نور الدھر کہتے ہیں کہ میں نے خواب اور کشف میں دیکھا کہ میں اسی طرح حضرت فاطمہ الزہراء کی گود میں کھیل رہا ہوں.ارشا در حمانی فضل یزدانی صفحه 50 ناشر در ولیش پریس دہلی) اب اسی سلسلہ میں آپ آخر میں سنیں.واقعہ کے ساتھ بیان کرتا ہوں کیونکہ واقعہ بیان کرنے سے اصل حقائق ذہن میں آ جاتے ہیں.حضرت سلطان العارفین سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ بہت ہی عظیم صوفی گذرے ہیں اور ان کا وطن یہی ضلع جھنگ تھا.حضرت سلطان باہو کی کتاب ” نور الہدی“ ہے.اس کا ترجمہ فقیر نورمحمد صاحب سروری قادری کلانچوی کے قلم سے پانچویں دفعہ 1976ء میں شائع ہوا اور اس کی فوٹو کاپی میرے پاس ہے.یہ وہی ترجمہ ہے جس کے حاشیہ میں، میں نے ایک کلمہ کے متعلق بتایا تھا اور وہ کلمہ تھا لا الله من كان الا اللہ تن کان.یہ اس کے حاشیہ میں موجود ہے کہ ایک بزرگ آئے اور انہوں نے دوسرے بزرگ سے کہا کہ میں نے سورۃ المزمل کا چلہ کیا ہے تو میری بات ہی نہیں بنی.کہنے لگے اچھا تم یہ کلمہ پڑھو.اس میں جو لکھا ہے میں آپ کو سناتا ہوں مگر واقعہ کی شکل میں.بات یہ ہوئی کہ میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا، تو ایک صوفی مزاج رکھنے والے غالباً قادری فرقہ سے ان کا تعلق تھا یا چشتی تھے.انہوں نے آتے ہی یہ بات کہی.کہنے لگے کہ میں جماعت احمدیہ سے محبت رکھتا ہوں.لیکن ایک ایسا سوال

Page 230

214 ذہن میں ہے.اس کا تصور کرتے ہی ایک خلجان اور طوفان پیدا ہو جاتا ہے.اے کاش کہ وہ کشف مرزا صاحب کو نہ آیا ہوتا.اس کو میں پیش کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اگر آپ کے پاس کوئی جواب ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ کسی احمدی کے پاس جواب ہو.اگر ہے تو بتائیں آپ، کیونکہ میرے راستے میں مرزا صاحب کا یہ کشف سب سے بڑا حائل ہے کہ مرزا صاحب نے حضرت فاطمہ الزہراہ کے متعلق دیکھا کہ گود میں لئے ہوئے ہیں.تو اہل بیت میں سے امہات المومنین ، حضرت فاطمہ اور دوسروں کے متعلق ایسا دیکھنا تو سب سے بڑی گستاخی ہے اور مسلمان تو اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے.اور جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کے لئے یہ سب سے بڑا حربہ مخالفوں نے یہی استعمال کیا ہے.اور وہ جانتے ہیں کہ اس کی وجہ سے شیعہ اور سنی دونوں کے جذبات کو ابھارا جا سکتا ہے.اسی لئے محضر نامہ میں بھی جیسا کہ آپ نے بتایا ہے اس کو شامل کیا گیا ہے.میں نے کہا کہ میں آج آپ کو بتانا چاہتا ہوں ڈنکے کی چوٹ پر یہ کشف ہی اس بات کی دلیل ہے کہ بیسویں صدی میں اہل بیت محمد ملے کا سب سے بڑا عاشق بانی جماعت احمدیہ کا وجود ہے.یہ میں نے بات کہی اور اس کے بعد کتاب ” نور الہدی ، جس کا ترجمہ ” حق نمائے“ کے نام سے شائع ہوا، کے دسویں باب کی یہ عبارت پڑھی.یہ حضرت سلطان باہو کے الفاظ ہیں.” فقر کسے کہتے ہیں اور فقر کی کیا صورت ہے اور فقیر سے کیا چیز حاصل ہوتی ہے.اور فقیر کن اعمال اور احوال سے پہچانا جاتا ہے.یادر ہے کہ ابتداء میں مشق وجود یہ اور تصور اسم اللہ ذات کے ذریعے طالب کے سر سے قدم تک تمام وجود ایسا پاک اور صاف ہو جاتا ہے گویا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے.یہ صوفیاء کی بہت پرانی اور نفیس اور روح پرور تحریر ہے.آگے فرماتے ہیں:.اور مشق وجود یہ کی پاکی اور برکت سے مجلس حضرت محمد رسول اللہ صلعم میں ایک نوری طفل معصوم کی شکل میں حاضر ہو جاتا ہے.“ (اب یہ سننے والے الفاظ ہیں.میں نہایت ادب سے درخواست کروں گا کہ وہ سنیں کہ یہ سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ جیسے پاک نفس اور سلطان الاولیاء کے الفاظ ہیں.)

Page 231

215 فرماتے ہیں کہ وہ شخص جو فقر کی انتہائی منزل تک پہنچتا ہے اور مقدس بن جاتا ہے وہ ایک بچہ کی مانند محمد مصطفی ﷺ کے حضور حاضر ہوتا ہے.اور حضرت محمد رسول اللہ صلعم کمال لطف اور شفقت اور مرحمت سے اس نوری بچے کو اپنے اہل بیت پاک میں جناب امہات المؤمنین، حضور حضرت فاطمہ الزہراء و حضرت بی بی خدیجۃ الکبری و حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہن کے سامنے لے جاتے ہیں.“ جب انسان عشق رسول کی معراج تک پہنچتا ہے تو جناب الہی سے اس پر کشفی حالت طاری ہوتی ہے اور وہ محمد رسول اللہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے اور پھر عشق رسول کے نتیجے میں وہ امہات المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے بچہ کی شکل میں.وہاں ہر ایک ام المؤمنین اسے اپنا فرزند کہتی ہیں اور اپنا نوری دودھ پلاتی ہیں اور وہ شیر خوار اہلبیت خاص ہو جاتا ہے اور اس کا نام فرزند حضوری اور خطاب فرزند نوری ہو جاتا ہے." یہ مقام اس کو ملتا ہے اور فرماتے ہیں کہ مجھے بھی یہ مقام حاصل ہوا.آگے لکھتے ہیں کہ حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اس فقیر کو باطن میں اپنے حرم محترم کے اندر کمال شفقت اور مرحمت سے لے گئے اور حضرت امہات المؤمنین حضرت فاطمہ الزہراہ اور حضرت خدیجۃ الکبری اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہن نے اس فقیر کو دودھ پلایا.“ یعنی صرف حضرت فاطمہ نے نہیں بلکہ تمام ازواج مطہرات نے.اور آنحضرت صلعم اور امہات المؤمنین نے مجھے اپنے نوری حضوری فرزند کے خطاب سے سرفراز فرمایا.“ یہ صفحہ 224، 225 ہے اور اس کا طبع پنجم ہے جو 1976 ء میں شائع ہوا.اور آخر میں میں دوشعر ناناضروری سمجھتا ہوں.جماعت کے ایک بہت مشہور شاعراگر چہ وہ آج کی نسل سے فراموش ہو گئے ، حافظ سلیم اٹاوی صاحب.ان کا شعر ہے.

Page 232

216 بڑے عجیب پر کیف الفاظ میں وہ خراج تحسین ادا کرتے ہیں.تیرے صدقے تیرے قربان رسول عربی تجھ سے جاری ہوا فیضان رسول عربی اور حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں..کروڑ جاں ہو تو کر تو کر دوں فدا محمد پر کہ اس کے لطف و عنایات کا شمار نہیں اور آخر میں وہ جو ہدیہ نعت میں نے پیش کیا تھا، میں چاہتا ہوں کہ چاروں شعر اختتام پر برکت کی خاطر پڑھ دوں.مولی میری بگڑی ہوئی تقدیر بنانے والے فرش ހނ عرش تلک جلوہ دکھانے والے تیرے احسانوں کا ہو شکر بھلا کیسے ادا ہم غریبوں کو محمدم ارض یثرب تیری عظمت شاہ لولاک کو سینے آخر میں عرض کیا ہے.مقطع ہے.ނ ملانے والے پہ ہیں افلاک جھکے بسانے والے اک نظر شاہد تشنہ کی طرف بھی آقا آب کوثر سے بھرے جام پلانے والے اللهم صل على محمد و على آل محمد كما صليت على ابراهیم و علی ال ابراهيم-

Page 233

217 آخری نبی ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: محترم مولانا صاحب! ایک سوال سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی سے یہ بھی کیا گیا تھا کہ اگر حضرت مرزا صاحب امتی نبی ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف نہیں لائیں گے تو پھر اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب ہی آخری نبی ہوں گے آپ کے نزدیک؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.بسم الله الرحمن الرحيم صلّ على محمد وال محمد سيد ولد آدم وخاتم النبيين.یہ سوال جو محترم ڈاکٹر صاحب نے پیش فرمایا ہے، اس کے جواب میں سید نا وامامنا ومرشد نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا:.کرے جس کا یہ دعوی ہو کہ اس کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے اور وہ یہ اعلان عے وہ ہے، میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے وہ آخری نبی کیسے ہوسکتا ہے؟ ہاں اگر حضرت عیسی ، موسوی امت کے نبی ، دوبارہ آجائیں تو وہ یقیناً آخری نبی ہوں گے کیونکہ وہ مستقل نبی تھے.اور انہیں براہ راست نبوت کا منصب عطا ہوا تھا.“ خدا ہونے کا دعویٰ؟ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.حضور سے ایک سوال یہ ہوا کہ حضرت مرزا صاحب نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا.اور کچھ تحریرات کے حوالے بھی انہوں نے دیئے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے اس کے جواب میں یہ ارشاد فرمایا کہ آپ کی طرف سے منسوب حوالہ میں جس کشف کا ذکر ہے، اس کی تعبیر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے قلم سے بیان فرما دی ہے اور بتایا

Page 234

218 ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ میرے ذریعہ سے دنیا میں ایک زبر دست روحانی انقلاب برپا ہوگا.اور یہ ایسا عظیم الشان اور عالمی انقلاب ہو گا کہ گویا زمین و 66 آسمان ہی بدل جائیں گے.“ یہ حضور کا جواب ہے.اب میں آپ کی اجازت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ عبارت آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جس میں حضور نے خود اپنے الفاظ میں اس کشف کے معنی بیان کئے ہیں.چشمه سیحی ، صفحہ 58 کے حاشیہ پر حضور فرماتے ہیں:.ایک دفعہ کشفی رنگ میں میں نے دیکھا کہ میں نے نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا اور پھر میں نے کہا کہ آؤاب انسان کو پیدا کریں.اس پر نادان مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو اب اس شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا.حالانکہ اس کشف سے یہ مطلب تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے.“ (روحانی خزائن جلد 20 صفحه 375-376 حاشیہ ) پھر کشتی نوح صفحہ 7 پر فرماتے ہیں:.خدا نے ارادہ کیا کہ وہ نئی زمین اور نیا آسمان بناوے.وہ کیا ہے نیا آسمان؟ اور کیا ہے نئی زمین ؟ نئی زمین وہ پاک دل ہیں جن کو خدا اپنے ہاتھ سے تیار کر رہا ہے.جو خدا سے ظاہر ہوئے اور خدا ان سے ظاہر ہوگا اور نیا آسمان وہ نشان ہیں جو اس کے بندے کے ہاتھ سے اسی کے اذن سے ظاہر ہورہے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 7) پھر حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں:.ہر ایک عظیم الشان مصلح کے وقت میں روحانی طور پر نیا آسمان اور نئی زمین بنائی جاتی ہے.“ (حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ 99.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 102 )

Page 235

219 مسلمانوں پر دشنام دہی ؟ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : ” آئینہ کمالات اسلام کے حوالے سے یہ الزام عموماً دہرایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کو ذرية البــغــایا کہ کر گالی دی ہے.یہ سوال حضور پر بھی کیا گیا.اس کا جواب حضور نے کیا عطا فرمایا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.حضور نے اس کا بڑا واضح اور جامع اور مختصر جواب یہ ارشاد فرمایا کہ اس میں متعصب اور متشد د عیسائیوں کی نسبت پیشگوئی ہے کہ وہ ہرگز اسلام نہیں لائیں گے.اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ:.وو " الا ذرية البغايا الذين ختم الله على قلوبهم ، " ،، پہلے ذکر ہے کہ میں اسلام کی دعوت بلند کر رہا ہوں.براہین احمدیہ کا ذکر ہے.سرمہ چشم آریہ کا ذکر ہے.اور عیسائیوں کے ساتھ مقابلہ کا ذکر ہے.یہ آئینہ کمالات اسلام“ کے ضمیمہ میں جو عربی پر مشتمل ہے، آپ اس کو ملاحظہ فرما ئیں تو اس میں الفاظ یہ ہیں.خود حضور نے ذرية البغايا کے معنی کئے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے.” الــذيــن ختم الله على قلوبهم ، جن کے دلوں پر اللہ کی مہر ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہوں گے.ان کے سوا اللہ تعالیٰ میرے لٹریچر کے ذریعہ سے سب کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دے گا.اور یہ ذریۃ البغایا کا جو لفظ ہے، وہ پہلے بزرگ بھی ان معنوں میں استعمال کرتے آئے ہیں کہ جس کے معنی بد نصیب کے ہیں.اس کا جوروٹ (Root) ہے اصل عربی زبان کے لحاظ سے بغی اور دوسرے بھی ہیں.ان سب کے الگ الگ معنی ہیں اور ایک محقق انسان انہی معنوں کو ترجیح دے گا جو صاحب تالیف نے خود بیان کئے ہیں.اور اگر اس کو چھوڑ دے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے دراصل خود گالی دی ہے.مگر نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس کے اوپر لگا دیا ہے.چنانچہ آپ حیران ہوں گے کہ مفتی محمود صاحب کی ایک کتاب ” المتنبي القادیانی ‘استنبول سے شائع ہوئی تھی.یہ میرے پاس موجود ہے اور اس نے اصل حوالہ کی بجائے اپنی طرف سے معنی بیان کر کے پورا حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کر دیا ہے.اب وہاں الفاظ تو یہ تھے کہ الذین ختم الله علی قلوبھم لیکن ان لوگوں

Page 236

220 نے ایک عبارت خود بنائی.صرف اس لئے کہ امت مسلمہ خود گالی دینا چاہتے تھے کو مگر منسوب حضرت مسیح موعود کی طرف کیا ہے.ان کے الفاظ تھے.قبلني جميع المسلمين ولم يرفضنى الا اولاد العاهرات والموبسات (المتنبي القادياني صفحه 36 طبعة جديدة بالأوفست حسين حلمی بن سعید استانبولی.مكتبه اشيق شارع دار الشفقت استانبول ترکی ) که زنا کاروں کی جو ذریت ہے اس کے سوا باقی مسلمان جو ہیں وہ سارے مجھ پر ایمان لے آئیں گے.حالانکہ یہ الفاظ مسیح موعود علیہ السلام کے ہیں ہی نہیں اور یہ اس لئے بنائے گئے تاکہ دنیا کو بتایا جائے کہ گالی دینے والے یہ لوگ تھے.اس سلسلہ میں میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ کتاب استنبول سے چھپی ہے.اور انہی ایام میں چھپی ہے جب کہ ہمارے خلاف استعماری طاقتیں اس تحریک کی پشت پناہی کر رہی تھیں.یہ در اصل عالم اسلام کو ختم کرنے کی تحریک تھی.پاکستان کو ختم کرنے کی تحریک تھی.حضرت امام جعفر صادق کا یہ قول موجود ہے کہ سوائے ہمارے ساتھیوں کے اور ہماری جماعت شیعہ کے سارے کے سارے اولاد البغایا ہیں.( الفروع الکافی من الجامع الکافی جلد 3 کتاب الروضۃ صفحہ 135 مصنفہ رئیس محد ثین اشیخ الامام الحافظ ثقة الاسلام ابی جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی الرازی، مطبع العالى المغر بی نولکشو رلکھنو جولائی 1886ء).یہ شائع شدہ موجود ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا.اس لئے کہ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ معاذ اللہ حضرت جعفر صادق نے یہ فرمایا ہے کہ جو ہمارا مسلک نہیں رکھتا وہ اولاد البغایا ہے.کوئی بھی شریف النفس انسان ایک امام عالی شان کی طرف یہ معنی منسوب نہیں کر سکتا.لیکن ان لوگوں کے دل میں چونکہ بغض ہے عالم اسلام کے خلاف.اس بغض کو مسیح موعود کے نام سے شعلہ جوالہ بنانا چاہتے ہیں.اور اس کا ثبوت یہی کتاب ہے جو کہ مفتی محمود صاحب کی میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے.خود عبارت بنا کے مسیح موعود کی طرف منسوب کی ہے.حالانکہ مسیح موعود علیہ السلام کا تو کھلا فرمان یہ ہے کہ.ہمیں کچھ کیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ کوئی جو پاک دل ہو دے دل و جاں اس پہ قرباں ہے پھر فرماتے ہیں کہ.

Page 237

221 گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں کسی گاؤں کے ایک نئے احمدی ہونے والے نمبر دار نے یہ فریاد کی کہ حضور احمدی ہونے سے پہلے تو میری بڑی عزت تھی اور بڑا احترام کیا جا تا تھا اور پبلک کی محبت کی نگاہیں مجھ پر تھیں.اور اب جہاں جاتا ہوں گالیوں کے سوا کوئی بات نہیں کرتا.حضور اس کا جواب دینے کی بجائے گھر تشریف لے گئے اور بہت بڑا بنڈل ہاتھ میں لئے ہوئے واپس تشریف لائے جو بیرنگ لفافوں کا تھا.وہ ان کے سامنے رکھا اور کہا کہ میاں اس قوم نے اس موعود کو بھی نہیں چھوڑا جسے محمد رسول اللہ ﷺ نے سلام کہنے کے لئے ارشاد فرمایا تھا.دیکھیں عجیب بات ہے.اس میں بھی پیشگوئی تھی دراصل، میں نے اس پر غور کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں.یہ میں عرض کر رہا ہوں کہ یہ پیشگوئی تھی کہ دنیا اس کو گالی دے گی اور اسلام کی بجائے کفر کی طرف اس کو منسوب کیا جائے گا.لیکن محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ نے چودہ صدیاں پہلے امام مہدی کو بتا دیا تھا.تم فکر نہ کر وہ ساری دنیا کی گالیوں کی کوئی حیثیت نہیں.محمد رسول اللہ کی طرف سے تمہیں سلام دیا جا رہا ہے.جسے خدا کا نبی سلام کہتا ہے کون ہے جو اسے غیر مسلم قرار دے سکے.اور ان گالیوں کی کیا حیثیت ہے جو خدا کے مہدی کو دی جاتی ہیں؟ غیر احمدی بچوں کا جنازہ؟ افظ حمد مرالہ صاحب :- اگلا سال حضرت خلیفہ اسیح الثالثسے یہ ہوا کہ غیراحمدی بچوں کا جنازہ آپ لوگ کیوں نہیں پڑھتے ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے اس کا بڑا واضح جواب دیا.فرمایا :.”ہمارا فتویٰ ہے کہ اگر کوئی غیر احمدی مسلمان وفات پا جائے.اور احمدیوں کے سوا اور کوئی مسلمان موجود نہ ہو تو احمدیوں پر اس کا جنازہ پڑھنا 66 واجب ہے." یہ حضور کا جواب تھا.

Page 238

222 اب اس تعلق میں مزید میں یہ ادب کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گا کہ میرے پاس اس وقت 29 نومبر 1985ء کی ایک تحریر ہے کمال یوسف صاحب جو اس وقت ناروے میں تھے، مولانا کمال یوسف صاحب جنہوں نے سکینڈے نیوین مشن کی بنیاد رکھی.انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی خدمت میں فون کیا کہ ڈیڑھ ماہ کا غیر احمدی بچہ فوت ہو گیا ہے.غیر احمدیوں نے اس کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا ہے.بچے کے والد نے مجھ سے نماز جنازہ پڑھنے کا کہا ہے.آج ایک بجے جنازہ ہے.حضور انور سے استصواب ہے.یہ پیغام حضور کی خدمت میں مولانا مجید احمد صاحب سیالکوٹی نے پیش کیا تو حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قلم مبارک سے لکھا کہ ان حالات میں بچے کی نماز جنازہ ضرور پڑھائی جائے.یہ موقف ہے ہمارا.اس کے مقابل پر غیر احمدی علماء جو کہ آج تک یہ اعتراض کرتے ہیں، ہمیں ظالم قرار دینے کے لئے اور اپنی معصومیت کا اظہار کرنے کے لئے اور مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لئے.ان کا فتویٰ بھی اب سن لینا چاہئے.کیونکہ تصویر کا دوسرا رخ جب تک نہ ہو صحیح تاریخ دنیا کے سامنے نہیں آسکتی.یہ متفقہ فتاوی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر 1891 ء سے لگائے جا رہے ہیں.جو حوالے بچوں کے متعلق پڑھے جاتے ہیں انوار خلافت“ سے، وہ تو خلافت ثانیہ کے آغاز کے ہیں.یہ اس سے قبل کے فتاوی ہیں.حضور نے تو اسمبلی میں یہ بیان فرمایا تھا کہ ہم نے کوئی فتویٰ نہیں دیا.فتوے علماء نے دیئے ہیں.1891ء میں کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ اس سے پہلے جماعت کی طرف سے کوئی فتوی دیا گیا ہو.برسوں کے بعد اس کے جواب میں ہم نے کارروائی کی ہے.تو جو ظالم ہے اس کے گریبان کو پکڑنا چاہئے.اب آپ دیکھیں فتوی کیا ہے؟ ایک طرف یہ فتویٰ اور دوسری طرف یہ متفقہ فتاوی علماء دیو بند 1336ھ میں پہلی دفعہ شائع ہوا اور 1369ھ میں پانچویں بار یہ شائع ہوا ہے.تو دیکھیں کتنی کثرت کے ساتھ اس کی اشاعت ہوئی ہے.ادارہ اسلامیات انارکلی لاہور نے یہ پانچویں بار شائع کیا ہے.فتویٰ کے الفاظ ہیں:.جماعت مرزائیہ مرتد خارج از اسلام ہے.سب مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے.اور شرعاً مرتد کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے.اور اس کی عورت اس پر حرام ہوگئی اور اپنی عورت کے ساتھ صحبت کرے گا وہ زنا ہے.“ اب دیکھیں یہ فتویٰ کیا ہے؟ کوئی شریف النفس انسان اس کا تصور بھی کرے تو وہ حیرت

Page 239

223 رض میں ڈوب جائے گا.پھر لکھتے ہیں:.دو اور ایسی حالت میں جو اولاد پیدا ہوتی ہے ولد الزنا ہوگی اور مرتد جب بغیر تو بہ کے مرجائے تو اس پر جنازہ پڑھنا اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا حرام ہے بلکہ مانند کتے کے بغیر غسل و کفن کے گڑھے میں ڈالا جائے.متفقہ فتاوی علماء دیوبند بابت فرقہ قادیانی صفحہ 10-11 ناشر ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور ) یہ فتویٰ ہے اور یہی بچے کے متعلق ہے.صرف یہی نہیں کہ وہ اسی طرح بغیر نسل کے کتے کی طرح ڈالا جائے بلکہ کہا ہے جو احمدی بچہ ہے وہ ولد الزنا ہے.اور اسی فتویٰ میں ہے.”جو مرزائیوں کو مسلمان خیال کرے وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج اب یہ ایک لفظ اگر آپ دیکھیں تو اس کے بعد سب سے پہلے حضرت قائد اعظم اس کی لپیٹ میں آتے ہیں.چنانچہ عاشق حسین بٹالوی صاحب اپنی کتاب ” ہماری قومی جد و جہد“ میں لکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے اسمبلی کے ایک اجلاس میں یہ کہا تھا کہ یہ جو اس وقت حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب نے تقریر کی ہے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب مسلمان ہیں اور میں انہیں اپنا بیٹا سمجھتا ہوں.( ہماری قومی جد و جہد صفحہ 21 از عاشق حسین بٹالوی) اور دیو بندی ملا کا یہ عقیدہ ہے کہ جو شخص احمدی کو مسلمان کہے وہ بھی ان تمام سزاؤں کا مستحق ہے.وہ بھی کافر ہے، وہ بھی مرتد ہے.اس کا جنازہ پڑھنے کی بجائے اس کو کتوں کے سامنے پھینک دینا چاہیے.یہ تو قائد اعظم کا فرمان حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کے بارے میں ہے.جب قائد اعظم سری نگر میں تشریف لے گئے ، آخری بار 23 مئی 1944ء کو تو اس موقع پر کشمیری صحافت کی نمائندگی میں آپ سے انٹرویو لیا گیا.آپ نے خطاب فرمایا.احمدیوں کے متعلق سوال کیا گیا تھا کہ ان کو آپ کیا سمجھتے ہیں ، تو حضرت قائد اعظم نے بہت ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ مجھ سے ایک پریشان کن سوال پوچھا گیا کہ مسلمانوں میں سے

Page 240

224 مسلم لیگ کا ممبر کون بن سکتا ہے؟ یہ سوال خاص طور پر قادیانیوں کے سلسلا میں پوچھا گیا.میرا جواب یہ ہے کہ جہاں تک آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کا تعلق ہے، اس میں درج ہے کہ ہر مسلمان بلا تمیز عقیدہ وفرقہ مسلم لیگ کا ممبر بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ مسلم لیگ کے عقیدہ، پالیسی اور پروگرام کو تسلیم کرے.رکنیت کے فارم پر دستخط کرے اور دو آنے چندہ ادا کرے.میں جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے اپیل کروں گا کہ وہ فرقہ وارانہ سوالات نہ اٹھائیں.“ (اخبار اصلاح سرینگر 13 جون 1944 ء صفحہ 2) لیکن ظلم و ستم کی حد یہ ہے کہ وہ کشمیر جس کی خاطر جماعت احمدیہ نے اپنے محبوب امام کی قیادت میں کشمیر کمیٹی کے پلیٹ فارم کے ذریعہ سے سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور آزادی کا جھنڈا لہرایا.سب سے پہلے اس کے غیر مسلم قرار دیئے جانے کی قرار داد کشمیر نے پیش کی اور پیش کرنے والے سردار عبدالقیوم صاحب تھے جنہوں نے اپنی کتاب ” مقدمہ کشمیر میں یہ لکھا ہے کہ میں جب جنگ عظیم کے دوران عرب ملکوں میں تھا تو میرے یہودیوں کے ساتھ بڑے تعلقات تھے اور اکثر جو میں مشورے دیتا تھا ان پر عمل کرتے تھے.(صفحہ 13 ) یہودیوں کے اس ایجنٹ نے سب سے پہلے کشمیر میں ہی قائد اعظم کی مخالفت کرتے ہوئے مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو غیر مسلم قرار دینے کی قرارداد پیش کی.قائد اعظم نے فرمایا کہ میں جموں وکشمیر کے مسلمانوں سے اپیل کروں گا کہ وہ فرقہ وارانہ سوالات نہ اٹھائیں بلکہ ایک ہی پلیٹ فارم پر اور ایک جھنڈے تلے جمع ہو جا ئیں.اسی میں مسلمانوں کی بھلائی ہے.اس سے نہ صرف مسلمان موثر طریقے سے سیاسی ،سماجی تعلیمی اور معاشرتی ترقی کر سکتے ہیں بلکہ دیگر اقوام 66 بھی اور بحیثیت مجموعی ریاست کشمیر بھی.“ اصلاح سرینگر 13 جون 1944 ء صفحہ 2)

Page 241

قائد اعظم کا جنازہ؟ 225 حافظ محمد نصر اللہ صاحب : مولانا ! کیا قائد اعظم کے جنازے کا بھی کوئی ذکر ہوا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.جنازے کا بھی ذکر تھا.حضور نے ، جہاں تک مجھے یاد ہے، میں حتمی بات نہیں کہہ سکتا.حضور نے اس موقع پر جو بات بیان کی وہ یہی تھی ، جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے کہ جماعت احمدیہ کا ایک موقف ہے کہ جو جماعت احمدیہ میں شامل نہیں ہم ان کا جنازہ نہیں پڑھتے مگر جنازہ نہ پڑھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ خدا کی نگاہ میں وہ خدا کی عطا کردہ مغفرت سے محروم ہو جائے گا.یہ ایک امام زمانہ کی طرف سے اس وقت ارشاد ہوا، جبکہ احمدیوں کے بچوں کو جنازہ پڑھنے کی بجائے انہیں کتوں کی طرح پھینک دینے کا قصہ ہوا تھا.تو حضور نے فرمایا جب ایسی صورت ہے تو کسی اور کے پاس جا کے، کسی مجمع میں پہنچ کے کسی اور کا جنازہ پڑھنے کی بجائے ہمیں یہ چاہئے کہ ہم کسی کے جنازہ میں شامل نہ ہوں.کیونکہ اس کے نتیجہ میں خود احمدیوں کے اوپر حملہ ہونے کا اندیشہ ہو سکتا ہے.چنانچہ اگر آپ کتاب پڑھیں اظہار مخادعات مسلمہ قادیانی.“ یہ کتاب 1901ء یا 1902ء کے قریب چھپی ہے.اس کے لکھنے والے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے مرید مولوی عبدالاحد خانپوری ہیں اور مطبع چودھویں صدی راولپنڈی سے چھپی ہے.میرے پاس موجود ہے.اس کا نام ہے اظہار مخادعات مسیلمہ قادیانی اور یہ اس اشتہار کے جواب میں ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الصلح خیر“ کے نام سے دیا تھا.آپ نے فرمایا کہ اسلام میں کم از کم یہ تو ہے کہ اختلاف نظریہ کے نتیجہ میں کسی دوسرے کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے تو مسلمان علماء سے کہتا ہوں کہ اختلاف اپنی جگہ پر رکھیں، میرے خلاف دلائل بھی دیں، مناظرے بھی کریں لیکن زبان تو کم از کم بازاری نہ استعمال کریں.شائستہ زبان استعمال کریں.قرآن کا یہ ارشاد ہے، حدیث کا ارشاد ہے بلکہ خدا تو فرماتا ہے کہ کافروں کو بھی گالی نہ دو.مشرکوں کو بھی گالی نہ دو کیونکہ اس کا رد عمل بڑا خطرناک ہو سکتا ہے.اس کے جواب میں راولپنڈی یہ سے کتاب چھپی ، اور اس میں انہوں نے لکھا کہ دراصل مرزا صاحب نے تنگ آکر یہ صلح خیر رکھی ہے اور اپنے مرزائی جو ماننے والے ہیں ان کو تسلی دلائی ہے کہ تمہیں جو ایک بڑی قیامت سے دو چار ہونا پڑا ہے کہ

Page 242

226 تمہیں مسجدوں سے نکال دیا گیا اور جنازے تمہارے بغیر کفن دفن کے کسی اور قبرستانوں میں دفن کئے گئے اور اس کے علاوہ پھر اور بڑی ذلت ہوئی.تمہاری عورتوں کے نکاح فسخ کئے گئے.تو میں اس طرح کرتا ہوں کہ کم از کم مولویوں سے کہتا ہوں کہ ہم سے صلح کر لیں.اس طرح نہ ہمیں مسجدوں سے نکالا جائے گا اور نہ ہمیں جنازہ پڑھنے سے کوئی روکے گا.تو یہ Background خود علماء نے بیان کر دیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جماعت ان فتووں کے بعد 1900 ء تک ان کے جنازوں میں شامل ہوتی تھی.نکاح شادی کے تعلق موجود تھے.مسجدوں میں ہم جاتے تھے.ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے لیکن جب یہ صورتحال ہوئی تو حضور نے فرمایا کہ اب جب انتہا تک ہمارے خلاف اشتعال پیدا ہو گیا ہے تو اب خواہ تم چاہو بھی کسی دوسرے مسلمان کے جنازے میں جانا چاہو گے تو تمہیں نشانہ بنایا جائے گا.مسجدوں میں جاؤ گے تو تمہیں مسجدوں سے نکال دیا جائے گا.اس لئے خود اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھو اور کسی کا جنازہ پڑھنے کی بجائے خود اپنوں کا جنازہ پڑھو.باقی اس فتنہ میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے.تو یہ اصل صورت تھی جس کی روشنی میں حضور نے جواب دیا.لفظ کیا تھے وہ میں اب معین نہیں بتا سکتا.مرزا افضل احمد صاحب کا جنازہ ہوا تھا؟ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.کیا مرز افضل احمد صاحب کے جنازے کے حوالے سے بھی ذکر مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.ہاں ! حضور نے فرمایا کہ ان کا جنازہ نہیں پڑھا گیا.اس لئے کہ وہ حضرت بانی جماعت احمدیہ پر ایمان نہیں رکھتے تھے.تو امام وقت کا ایک ارشاد تھا تو بنیاد تو یہی ہے.اصل سوال یہ نہیں ہے کہ جنازہ پڑھا جائے یا نہ پڑھا جائے.اس واسطے کہ اول تو بات یہ ہے کہ جنازہ جو پڑھنے کا معاملہ ہے یہ فرض کفایہ ہے.اگر ایک شخص بھی جنازہ پڑھ لے تو دوسرے پر اعتراض ہی نہیں کیا جا سکتا.اب دیکھیں روزانہ ہزاروں مسلمان مرتے ہیں.کیا ساری دنیا ان کا جنازہ پڑھتی ہے.؟ ایک بھی پڑھ لے تو فرض کفایہ ادا ہو گیا.تو کسی کے اعتراض کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.

Page 243

227 مجھ سے ایک دفعہ ایک صاحب نے سوال کیا کہ آپ جنازہ کیوں نہیں پڑھتے.میں نے کہا میں ایک موٹی سی بات آپ سے کہتا ہوں.ہم تو آنحضرت ﷺ کے غلام ہیں، ہماری فقہ رسول اللہ کی فقہ ہے، ملاؤں کی بنائی ہوئی فقہ نہیں ہے.جس میں یہاں تک لکھا ہے اور دیو بندی اس کو مانتے ہیں ، بریلوی بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں رد المحتار ، ابن عابدین کی کتاب ہے اور فقہ میں اس کو ایک اتھارٹی سمجھا جاتا ہے.نورانی صاحب اور اسی طرح دوسرے جمیعت علماء اسلام نے 1974 ء سے پہلے اور بعد میں جب نظام مصطفیٰ کا نعرہ بلند کیا بھٹو کو الگ کرنے کے لئے ، تو اس نعرے میں یہ کہا تھا کہ اگر ہمیں اقتدار دے دیا جائے تو ہم چوبیس گھنٹے میں اسلام نافذ کر سکتے ہیں.اس کے یہی معنی تھے کہ رد المحتار یا ”فتاوی عالمگیری، ہم آرڈینینس کے ذریعہ جاری کر دیں گے کہ آئندہ جس قدر بھی فیصلہ ہوں گے اس کے مطابق ہوں گے.تو ایک منٹ میں نظام اسلامی قائم ہو جائے گا تو یہ فلسفہ تھا اس کے پیچھے.اب رد المحتار میں یہ لکھا ہے اور دیوبندیوں کے مجد داشرف علی تھانوی صاحب نے بھی اپنے فتاویٰ میں اس کو بطور نظیر کے پیش کیا ہے کہ لا رعف فكتب الفاتحة.سوال یہ تھا کہ آیا معاذ اللہ ! معاذ اللہ! یہ خباثت نفس دیکھیں آپ! اس کے پیچھے کیا کارفرما ہے پوپ نے جو کچھ کہا اس کی کچھ حیثیت ہی نہیں اس فتویٰ کے مقابل پر جو دیو بندی اور بریلوی دونوں مانتے ہیں.فتویٰ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی نکسیر پھوٹے اور وہ ہومیو پیتھی یا ایلو پیتھی یا یونانی جوطریق ہائے علاج رائج ہیں، لا رعف فكتب الفاتحة اگر نکسیر کے علاج کے لئے اگر وہ کوئی ظاہری علاج کی بجائے خون کے ساتھ سورۃ فاتحہ اپنی پیشانی پر لگا دے تو وہ بھی جائز ہے.وبالبول ايضاً اوراگر سورۃ فاتحہ کومعاذ اللہ ، معاذ اللہ پیشاب سے لکھ کر لگا دے اپنی پیشانی پر تو علاج ہو جائے گا اور نکسیر ختم ہو جائے گی.(ردالکتار علی در المختار جلد 1 صفحہ 154 طبع اول 1399ھ ) یہ جو ختم نبوت کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں.یہ دیو بندی امت کا عقیدہ ہے اور تمام اہل سنت قرار دینے والے اپنے تئیں، یہ ان کا عقیدہ ہے.تو ان لوگوں کی نگاہ میں تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.جو قرآن کو یہ حیثیت دینے والے ہیں.ان کو اسلام اور رسول اللہ اللہ کی کیا پرواہ ہے.تو میں یہ بتا رہا تھا کہ ہماری فقہ یہ فقہ نہیں ہو سکتی.جس طرح کہ شاعر مشرق ڈاکٹر سرا قبال نے بھی فرمایا ہے.

Page 244

228 الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں ہر گز ملاں کی اذان اور ہے غازی کی اذاں اور قرآن تو وہی ہے، اسلام تو وہی ہے.لیکن ملا کا اسلام اور ہے ہمارا اسلام یقیناً اور ہے، کیونکہ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ قال اللہ وقال الرسول کی بنا پر کہتے ہیں.اب میں آپ کو بتا یہ رہا تھا کہ ایک صاحب نے مجھ پر سوال کیا کہ آپ جنازہ کیوں نہیں پڑھتے.غالبا ضلع فیصل آباد کی ایک سوال وجواب کی مجلس میں یہ بات ہوئی اور جہاں تک مجھے یاد ہے مکرم مولا نا محمد اعظم اکسیر صاحب اس وقت بطور مربی صدارت فرما رہے تھے.اس وقت میں نے یہ عرض کیا کہ ہم تو سنت رسول پر عمل کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ کے متعلق حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضور اُس شخص کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جو قرض دار ہوتا تھا.ایک بہت بڑا قرض جو امت مسلمہ کے نام یہ ہے کہ آنحضرت علی نے فرمایا کہ جب مہدی کا ظہور ہو تو خواہ تمہیں برف کے تو دوں پر بھی جانا پڑے تو جانا اور اسے میرا سلام کہنا اور اس کی بیعت کرنا.تو یہ قرض ہے محمد عربی کا ہر مسلمان کے لئے.تو ہم جنازہ نہیں پڑھیں گے اس شخص کا جو محد عمل اللہ کے قرض کی ادائیگی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے.احمد نگر کی بات ہے جہاں مشہور ذاکر مولوی بشیر ٹیکسلا والے تھے.شہادت حسین کی شب کو حضرت حسین کے تذکرہ کی بجائے ان کی ساری تقریر ہمارے خلاف تھی.یہ خلافت ثانیہ کی بات ہے.حضرت قاضی محمد نذیر صاحب، مکرم گیانی واحد حسین صاحب اور میں.ہم تینوں اگلے دن اس کے جواب کے لئے بھجوائے گئے.میرے ذمہ یہ سوال تھا کہ شیعہ ذاکر نے یہ کہا کہ اہل سنت والجماعت جو ہیں وہ بھی قادیانیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں حالانکہ کبھی بھی کسی قادیانی نے کسی سنی کا جنازہ نہیں پڑھا.یہ بات بھی انہوں نے اشتعال دلانے کے لئے کہی کہ سنیوں کو غیرت آنی چاہیے، ان کا جنازہ نہیں پڑھا جاتا اور پھر بھی وہ ان کے ساتھ ہماری مخالفت میں محاذ قائم کئے ہوئے ہیں تو میں نے اس کے جواب میں جو بات کہی وہ اس سوال کے جواب کے آخر میں عرض کرنا چاہتا ہوں.میں نے تحفتہ العوام پیش کی.یہ بڑی مستند کتاب ہے غالباً علامہ باقر مجلسی کی ، اس کا ترجمہ لکھنو میں چھپا.وہ میرے پاس تھی.اس وقت لائبریری سے لے گیا تھا.اس میں لکھا تھا کہ اول تو ناصبی کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے.جس طرح کہ سنی ان کو رافضی کہتے ہیں اور اس لئے کہتے ہیں کہ

Page 245

229 اہل بیت میں سے کسی نے واقعہ کربلا کے بعد یہ بات کہی کوفہ والے شیعوں کوقد رفضتم الحسین بالکربلاء کہ تم نے حسین کو کربلا میں بلایا اور فنا کر دیا اور شہید کر دیا تو رفض کے الفاظ سے رافضی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے دنیائے اہل سنت کی طرف سے اور یہ گالی نہیں ہے بلکہ اہل بیت محمدؐ کا سرٹیفیکیٹ ہے دراصل ظالموں کے نام.خود بلا کے نواسے کو نبی کے افسوس موت کے گھاٹ سے پانی کو پلانے والے کی وفا شیر خدا سے، نہ حسن سے ایفا کیسے شیعہ تھے اماموں کے زمانہ والے تو میں نے احمد نگر کے اس پبلک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ ہم اپنے سنی بھائیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے.میرے دادا فوت ہوئے تھے.میں نے نہیں جنازہ پڑھا تھا مگر میں آج یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شیعہ حضرات جو جنازہ پڑھتے ہیں، جب ان کے گھیراؤ میں ہوں اور مجبوراً پڑھنا پڑے تو دعائے مغفرت جو کی جاتی ہے ناصبی کے جنازے پر ،شیعہ میتھالوجی کے لحاظ سے.ہم لوگ تو کہتے ہیں:.اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وانثنا اللهم من احييته منا فاحيه على الاسلام ومن توفيته منا فتوفه على الايمان.جیسے احمدی جنازہ پڑھتے ہیں، تمام اہل سنت والجماعت کے جنازہ کے الفاظ یہی ہیں مگر سنیوں کا جنازہ جب شیعوں کی طرف سے پڑھا جاتا ہے تو ”تحفۃ العوام“ میں ”مغفرت“ کے الفاظ اس طرح ہیں.اگر میت شیعہ نہ ہو اور دشمن اہل بیت ہو اور نماز بضر ورت پڑھنا پڑے تو بعد چوتھی تکبیر کے کہے...اللهم اصله حر نارك اللهم اذقه اشد عذابک ( تحفة العوام بار هفتم صفحہ 216-217 مطبع نول کشور لکھنو) اے اللہ تو اس کو آگ کے عذاب میں داخل کر.

Page 246

230 پھر ”الفروع من الجامع الکافی میں غیر شیعہ کی دعائے جنازہ اس طرح ہے.اللهم املأ جوفه ناراً وقبره نارا وسلط عليه الحيات والعقارب الفروع من الجامع الکافی کتاب الجنائز صفحه 100 از رئیس المحد ثین الامام الحافظ ثقة الاسلام ابی جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی الرازی ناشر مطبع العالی مغربی نول کشور لکھنو 1884-1885ء) اے خدا اس ناصبی کی قبر کو آگ سے بھر دے وسلط عليه الحيات والعقارب اور موٹے سروں والے بڑے بڑے سانپ اور بچھو اس پر مسلط فرمادے.یہ دعائے مغفرت ہو رہی ہے.اگلے دن یہ ہوا کہ سنی جتنے بھی تھے وہاں پہنچے ہوئے انہوں نے یہ دعا حفظ کر لی تو صبح گلی کوچے میں جو بھی شیعہ بزرگ ملتے تھے ، وہ اونچی آواز سے پھر یہ دعا شروع کر دیتے تھے.املا جوفه نارا و قبره نارا و سلط عليه الحيات والعقارب - جی فرمائیے ! مسلمانوں پر مظالم اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب نے 1974ء میں بیان دیا تھا کہ حقوق انسانی کی علمبردار بین الاقوامی ایجنسیاں پاکستان میں فوری طور پر اپنے نمائندے بھجوائیں تا احمدیوں پر ڈھائے جانے والے ہولناک مظالم کا بچشم خود مشاہدہ کر سکیں.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال کیا کہ ایسا بیان انہوں نے احمدیوں کے بارے میں تو دے دیا ہے لیکن کشمیر اور برما اور فلپائن اور ہندوستان میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں ان کی نسبت کیوں نہیں دیا ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے پہلے تو یہ جواب دیا کہ چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کی طرف سے مجھے کوئی ایسا بیان نہیں ملا.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نےCross Question کیا کہ پاکستانی اخبارات نے یہ شائع کیا ہے اور یہ سارے اخبار میرے پاس موجود ہیں.یہ معتبر نائی کا ذکر کرنا ضروری تھا کہ پاکستان کے پریس نے جو کہ جھوٹ کا پلندہ ہے اس

Page 247

231 میں یہ آچکا ہے.یہی اللہ وسایا صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اور جو کتا ہیں ہمارے خلاف لکھی گئی ہیں ، خود ہی جو جھوٹ ڈرامائی طور پر اخباروں میں چھپتے رہے اس کو پھر اپنا دعا اور بنیاد بنادیا گیا.جب اٹارنی جنرل صاحب نے پاکستانی اخباروں کا حوالہ دیا تو حضور جلال میں آگئے.وہ وقت بڑا ہی عجیب تھا.حضور نے درد اور جوش سے مغلوب لب ولہجہ میں فرمایا کہ آپ ان پاکستانی اخبارات کو پیش کر رہے ہیں جنہوں نے ضرب خفیف کے ایک معمولی واقعہ کو ایک انتہائی مبالغہ آرائی کے رنگ میں پیش کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ گویا نشتر کالج ملتان کے معصوم طلباء پر ربوہ کے ہزاروں احمدیوں نے حملہ کر کے ان کی زبانیں تک کاٹ ڈالیں اور پھر وہ زبانیں اسی دن ایبٹ آباد میں مولویوں نے اپنی تقریروں کے دوران عوام کو بھی دکھلائیں.پھر انہی اخبارات نے یہ سفید جھوٹ بولا کہ گویا یہ سب کا رروائی میرے حکم پر ہوئی ہے حالانکہ میں وہ شخص ہوں جو تعلیم الاسلام کالج کا تمیں برس تک پرنسپل رہا ہوں.اس دوران کالج میں غیر احمدی بچوں کی اکثریت رہی ہے لاہور میں بھی اور ربوہ میں بھی.میں نے ان احراری معاندین کے بیٹوں کو بھی ، ان کی فیس کو معاف کر کے داخلہ دیا جنہوں نے لاہور کی 1953ء کی ایجی ٹیشن میں حصہ لیا اور ہمارے کالج کو نقصان بھی پہنچایا.کئی غیر احمدی طلباء کو میں نے اپنی جیب سے خرید کر سویا بین فراہم کی اور بیماری کی صورت میں کئی کئی راتیں ان کی تیمار داری میں گزار دیں.آخر میں مجھے کہنا ہے کہ آپ کا پیش کردہ مزعومہ بیان آپ ہی کے اعتراف کے مطابق میرا نہیں چو ہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کا ہے.اس لئے یہ سوال انہی سے کرنا چاہئے.میں ظفر اللہ خان نہیں ہوں.میں خلیفہ اسیح ہوں.د نجم الہدی“ کا حوالہ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.ایک سوال جو حضور سے کیا گیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” نجم الہدی کے صفحہ 53 کے حوالہ سے تھا کہ اس میں مخالفین احمدیت کو بیابانوں کے خنازیر کہہ کر دل آزاری کی گئی ہے.حضور نے اس کے جواب میں کیا فرمایا تھا ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.بہت پیارا جواب تھا.فرمایا یہاں بد زبان پادری مراد ہیں.اصل کتاب دیکھیں تو پادریوں کا ذکر ہورہا ہے لیکن یہ تو بڑا مختصر مگر جامع جواب تھا.

Page 248

232 مزید میں نو جوانان احمدیت کے اضافہ علم کے لئے یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیشہ مخالفین کا یہ طریق رہا ہے کہ ایسی عبارتیں جو کہ اسلام کے دشمنوں کے متعلق تھیں، احراری علماء ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر کے اشتعال پیدا کرتے ہیں.خود یہ واقعہ میرے سامنے ہوا.غالباً راولپنڈی کی احرار کا نفرنس میں احسان شجاع آبادی صاحب کی تقریر تھی اور اس میں کہا کہ دیکھو مسلمانو! یہ مرزا صاحب نے ایک ہزار لعنت ہم پر بھیجی ہے.لعنت، لعنت، لعنت.یہ دیکھو اصل کتاب موجود ہے.اب قصہ یہ ہوا کہ چند سالوں کے بعد، یہ تو خلافت ثانیہ کی بات ہے.خلافت ثانیہ کے وسطی دور کی کہنی چاہئے پاکستان کے لحاظ سے لیکن اسی دور کے آخر کی بات ہے.اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ، ہمارے پیارے امام حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کے دادا اور مبشر اولاد میں سے، خدا کے شیروں میں سے بہت عظیم شیر ، جن کے متعلق بے شمار خدائی بشارتیں تھیں.ان دنوں آپ ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد تھے.اس وقت ناظر دعوت و تبلیغ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا.حضرت میاں صاحب کی طرف سے مجھے یہ ارشاد آیا کہ دنیا پور میں لال حسین صاحب اختر کی تقریریں ہو رہی ہیں اور بڑا اشتعال پھیل رہا ہے تو تمہیں حضور نے اجازت دے دی ہے.فور اوہاں پر پہنچو.میرا دفتر اس وقت بیت مبارک ربوہ کے بالکل ساتھ تھا اور میں اور میرے بچے اس وقت دار النصر میں رہتے تھے.جس وقت یہ ارشاد موصول ہوا میں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں لکھا کہ یہ ارشاد میاں صاحب کا ملا ہے اور چونکہ حضور کی اجازت اس میں موجود ہے تو میں عاجزانہ طور پر درخواست کروں گا کہ میری اہلیہ شدید بیمار ہیں ، حضور ان کی شفایابی کے لئے دعا کریں اور اب میں اسٹیشن کی طرف روانہ ہوں.پھر جب میں واپس آیا تو میری اہلیہ بالکل شفایاب تھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے.بہر حال میں گھر بھی نہیں گیا، کپڑے بھی نہیں تھے میرے پاس اور انہی کپڑوں میں میں اسٹیشن پر پہنچا اور رات ملتان رہا.اس وقت امیر جماعت ہمارے عبدالحفیظ صاحب کے والد تھے، چوہدری عبدالرحمن صاحب.بہت ہی بزرگ انسان تھے.ان کے پاس پہنچا.انہوں نے کہا کہ صبح سویرے میں اپنی گاڑی پر تمہیں دنیا پور پہنچاؤں گا لیکن میں نے ان کے بیٹے جو اس وقت ایڈووکیٹ تھے اور اب بھی ہیں، اس وقت پریکٹس کر رہے تھے.میں نے ان سے کہا

Page 249

233 کہ جس طرح بھی ہو سکے ، جانے سے پہلے ہمیں لاؤڈ سپیکر کیا جازت لے لینی چاہئے.ہم لوگ اگلے دن گئے اور مجسٹریٹ صاحب جو موجود تھے، بہت شریف ، کہنے لگے کہ اجازت کی ضرورت ہی نہیں ہے.دفعہ 144 تو نافذ نہیں ہے.کسی صوبے میں ہی نہیں اور ملتان کے ضلع کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.تو میں نے پھر یہ عرض کی کہ اس کے باوجود آپ کا احسان عظیم ہو گا اگر ہمیں اجازت دے دیں.یہ قانون کی خلاف ورزی تو نہیں ہو گی لیکن یہ ہمارے لئے تسکین کا باعث ہوگا ، با برکت بات ہوگی.یہ بات ان کو بہت پسند آئی ہمیں اجازت دے دی.محترم چوہدری عبدالرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ ملتان نے چلنے سے پہلے مجھے دو جوڑے کپڑوں کے دیئے جو راتوں رات انہوں نے بنوائے.کیونکہ انہیں پتہ چل گیا تھا کہ میں بس تنہا اسی طرح پہنچا ہوں.کوئی چیز ہی نہیں تھی میرے پاس.اتنا احساس تھا میں وہاں جب یہ جلسہ شروع ہوا اس وقت مرحوم شیخ محمد اسلم صاحب ( یہ ہمارے جو شیخ محمد نعیم صاحب مربی سلسلہ عالیہ احمد یہ ہیں، ان کے والد تھے.فرشتہ خصلت بزرگ تھے.ان کی صدارت میں جلسہ شروع ہوا اور ابھی تلاوت ختم نہیں ہوئی تھی کہ بڑے بڑے داڑھیوں والے علماء کا ایک ہجوم سامنے آ گیا اور اس کے ساتھ انسپکٹر پولیس اور دوسرے سپاہی بھی ساتھ تھے.جاتے ہی انہوں نے شیخ محمد اسلم صاحب کو بلایا.وہ اٹھ کر گئے.کہنے لگے جی کہ آپ کوکس نے اجازت دی ہے؟ آپ لاؤڈ سپیکر نہیں لگا سکتے.بڑے فریس آدمی تھے.کہنے لگے کہ وہی قانون جو احراری علماء کے لئے ہے وہی ہمارے لئے ہے.ہم بھی پاکستان کے رہنے والے ہیں.انہوں نے کون سی اجازت لی ہے؟ کہنے لگے نہیں تم اقلیت میں ہو، تمہیں اجازت لینی چاہئے تھی.اسی وقت انہوں نے کہا کہ جناب ہم اجازت لے کے آئے ہیں.بس یہ کہنا تھا کہ ان کے اوسان خطا ہو گئے.پھر وہ فوراً چلے گئے.اس کے دوران میں نے اس سوال کو بھی لیا اور بھی بہت سی باتیں ہیں مگر وہ اپنے وقت پر میں بیان کروں گا کسی اور موقعہ پر.غیر احمد یوں نے یہ حوالہ بھی پیش کیا کہ مسلمانو ! مرزا صاحب نے ہزار لعنت تم پر بھیجی ہے.حالانکہ دنیا پور کو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام جانتے نہیں تھے اور یہاں پر تشریف لائے نہ کسی کو خطاب کر سکتے تھے اور نہ کیا تھا.تو وہ پادریوں کے نام تھا اور کتاب نور الحق میں لکھا ہے کہ پادری عماد الدین کا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن مجید کوئی حیثیت نہیں رکھتا.میں عربی زبان میں قرآن سے بڑھ کر لکھ سکتا ہوں.تو حضور نے عربی میں رسالہ لکھا ”نورالحق اور فرمایا

Page 250

234 کہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کا ادنی ترین غلام ہوں اور قرآن کا خادم ہوں.یا تو تم اس عربی رسالے کا عربی میں جواب دو اور اگر نہ جواب دو اور نہ گالیوں کو چھوڑو، رسول عربی ﷺ کے خلاف بھی تم بکواس کر رہے ہو تو پھر خدا کی ہزار لعنت تم پر ہوگی.یہ اصل بات تھی.میں نے وہ سارا حوالہ اور اصل کتاب دکھائی.میں نے کہا کہ ہم لوگ تو عاشق رسول ہیں.مگر دیکھیں ان حضرات کو ”نجم الہدی میں جو الفاظ ہیں خنازیر کے ، وہ بھی اپنی طرف منسوب کرتے ہیں اور یہ لعنت کے الفاظ بھی اپنے اوپر چسپاں کر کے اشتعال دلا رہے ہیں تو اس سے ثابت ہے کہ یہ ایجنٹ ہیں دراصل عیسائیوں کے.تکلیف تو پادریوں کو ہونی چاہئے تھی.مگر مجسم شورش یہ لوگ بنے ہوئے ہیں بد خصال اور آنحضرت ﷺ کے دشمنوں اور جو شاتم رسول ہیں ، ان کی غیرت ان کے دل میں آگئی ہے.صاف ثابت ہے کہ یہ ایجنٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں.لیکن یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ مسیح موعود علیہ السلام جیسے عاشق رسول ان بد قماش لوگوں کو پھولوں کے ہار پہناتے.یہ احراری ہی پہنا سکتے ہیں.اتمام حجت کا تصور ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت خلیفہ امسح الثالٹ رحم اللہ سے یہ سوال کیا تھا کہ اتمام حجت کا تصور کیا ہے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے ارشا د فر مایا قرآن کریم میں بیان ہے.وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا ( سورة النمل :15) ترجمہ یہ ہے: انہوں نے اصرار سے ظلم اور تکبر کرتے ہوئے ان نشانوں کا انکار کیا حالانکہ ان کے دل اس پر یقین لاچکے تھے.یعنی وہ دل سے قائل ہو چکے تھے کہ یہ واقعی خدا کا پیغمبر ہے.اسی مرحلہ کو اتمام حجت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے.جیسا کہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر خدا بھی آکے کہہ دے کہ مرزا صاحب بچے ہیں تو بھی ہم مرزا صاحب کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہاں پر حضور" کا جواب ختم ہو گیا تھا؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.جی یہاں پر ختم ہوا.اس پر یہ عاجز صرف اتنا عرض کرے

Page 251

235 گا کہ احراری لٹریچر میں یہ بات 1974 ء کے بعد بھی شائع شدہ موجود ہے اور وہ کتاب بھی میرے پاس ہے.اس میں ایک احراری کے متعلق یہ لکھا گیا ہے کہ یہ کیسا فدائی ہے ختم نبوت کا کہ عالم خواب میں آنحضرت ﷺ کی زیارت ہوئی اور حضور نے فرمایا کہ مرزا صاحب سچے ہیں، جاؤ اور ان کی بیعت کر لو.تو لکھا ہے کہ اس خواب دیکھنے والے احراری شخص نے کہا یا رسول اللہ مجھے ختم نبوت کے معنی آتے ہیں.یہ احرار لٹریچر کی کتاب میرے پاس موجود ہے.اس سے بڑھ کر آپ یہ دیکھیں یہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کا بیان ہے اور چشم دید بیان ہے.”تذکرۃ المہدی“ میں موجود ہے.اس میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ میں لدھیانہ ٹیشن پر چہل قدمی کر رہا تھا کہ اچانک مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اول المکفرین تھے، (سب سے پہلے کفر کا فتویٰ انہوں نے دیا اور ان احراریوں کے لحاظ سے محافظ ختم نبوت سب سے پہلے تو وہی ہیں.باقی تو یہ ان کی جوتیوں کی خاک ہیں.) حضرت پیر صاحب کہنے لگے کہ مولانا! آپ کو مرزا صاحب سے کوئی ذاتی دشمنی تو نہیں ہوگی.اگر میں قرآن سے ثابت کر دوں کہ مرزا صاحب خدا کے فرستادہ ہیں تو پھر تو آپ کو انکار کی گنجائش نہیں ہوگی.مولوی محمد حسین بٹالوی کہنے لگا کہ اگر قرآن سے ثابت ہو جائے کہ مرزا سچا ہے تو میں قرآن چھوڑ دوں گا مگر مرزا صاحب کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گا.یہ تذکرۃ المہدی میں لکھا ہے.(ملاحظہ ہو صفحہ 330 ناشر حضرت میر قاسم علی صاحب.ضیاء الاسلام پر لیس قادیان.جون 1915ء) حضرت مرزا صاحب کے بعد اجرائے نبوت حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس ہم تمام مسلمانوں کے لئے بہت بابرکت ہے.بار بار سوالات یہ کرتے رہے کہ کیا مرزا صاحب کے بعد بھی کوئی نبی آسکتا ہے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.یہ یقیناً سوال ہوا تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے.حضور نے اس کے جواب میں یہ فرمایا کہ آنحضرت ﷺ خاتم بھی ہیں اور فاتح بھی.آئندہ وہی نبی آ سکتا.جس پر مہر محمدی مثبت ہو.اور یہ مہر صرف مسیح موعود کے لئے ہے.جہاں تک امکان کا تعلق ہے حضرت شاہ اسماعیل شہید بالا کوٹ فرماتے ہیں:.ہے

Page 252

236 اس شہنشاہ ( خداوند قدوس) کی تو یہ شان ہے کہ اگر چاہے تو لفظ گن سے کروڑوں نبی ، ولی، جن ، فرشتے ، جبرائیل اور محمد یو کے برابر ایک آن میں پیدا کر دے.66 ( تقویۃ الایمان صفحہ 38 ناشر دار الاشاعت اردو بازار کراچی) الفضل 1948 ء کا حوالہ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ سوال اٹھایا گیا کہ آپ کے لٹریچر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یعنی احمدیوں نے ہمیشہ ملت اسلامیہ سے علیحدگی کی راہ اختیار کی اور اس پر انہوں نے والفضل 1948ء کا ایک حوالہ پیش کیا جس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ دشمن یہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی حرکت پیدا ہوئی تو ہم اس کے مذہب کو کھا جائیں گے.تو یہاں اٹارنی جنرل صاحب نے پوچھا کہ مذہب اور کھا جانے سے کیا مراد ہے؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب: حضرت خلیفہ مسیح الالث کا جواب ہ تھا کہ سیدنا حضرت تھا مصلح موعودؓ نے اس خطبہ میں غیر مسلموں کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ انہیں پتہ ہے کہ خدا نے ہمیں وہ دلائل دیئے ہیں کہ ان کے سارے قلعے پاش پاش ہو جائیں گے.اب دیکھیں عیسائیت کے متعلق مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ عظیم الشان ریسرچ دنیا کے سامنے پیش کی کہ مسیح علیہ السلام بچالئے گئے تھے اور اس کے بعد نصیبین کے شہنشاہ کی کوشش کے نتیجہ میں پھر وہ افغانستان کے رستے سے سرینگر پہنچے.کیونکہ اس وقت بدھوں کی حکومت تھی اور بدھوں کی حکومت میں یہ سارے رستے بڑے کھلے بنائے جارہے تھے کیونکہ بدھ چاہتے تھے کہ بیرونی دنیا سے بھی ان کا تعلق ہو.اور اشوک کے زمانہ میں سرینگر کی بنیاد رکھی گئی ہے.تو اس وقت حضرت مسیح ابن مریم نے یہ صورت اختیار کی کہ جب انہیں زندہ صلیب سے اتارا گیا تو ان کے زخم کے لئے مرہم تیار کی گئی.اور یہ آپ نے تاریخی لٹریچر سے ثابت کیا.بلکہ انجیل سے ثابت کیا کہ مسیح علیہ السلام زندہ بچالئے گئے تھے.یہ میں اپنی بات بیان کر رہا ہوں.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.آپ نے بیان کیا ہے کہ حضور نے یہ فرمایا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے اس خطبہ میں غیر مسلموں کا ذکر کیا ہے!

Page 253

237 مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.یہ غیر مسلموں کا ذکر ہے.تو میں اس کی تشریح کر رہا ہوں کہ خدا نے ایسے دلائل دیئے ہیں کہ ان کے مذہب کو کھا جانے والے ہیں.مذہب کا لفظ ہے اور مذہب تصورات کا نتیجہ ہوتا ہے.نظریات کا نام ہے مذہب.تو فرمایا تمہارے مذہب کے مقابل پر ہمارے دلائل تمہیں ختم کر کے چھوڑیں گے.چنانچہ مسیح موعود کا نام ہی کا سر صلیب ہے تو حضور نے انجیل سے یہ بات ثابت کی.انجیل (عبرانیوں ) میں لکھا ہے کہ اس نے بشریت کے دنوں میں رورو کے اور تضرع سے دعا کی جو اس کو بچا سکتا تھا اور خدا نے تقویٰ کے سبب اس کی دعا قبول کر لی.یہ حوالہ اعلان عام کر رہا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے خدا کی جناب میں تضرع کی ، عاجزی کی، آنسو بہائے کہ اے باپ اگر ہو سکے تو یہ موت کا پیالہ ٹال دیا جائے.تو خدا نے تقویٰ کے سبب ان کی دعاؤں کو قبول کر لیا.صاف ثابت ہے کہ خدا نے اس طرح ہی ان کو مبعوث کیا جس طرح حضرت ابراہیم آگ میں جلائے گئے مگر آگ جلا نہیں سکی.موسیٰ علیہ السلام سمندر میں چلے گئے مگر سمندران کو نگل نہیں سکا.آنحضرت نے غار ثور میں پناہ لی مگر دشمن آپ کے اوپر مسلط نہ کیا جا سکا.تو یہ خدا تعالیٰ کے عجائبات ہیں نبیوں کے ساتھ.یہی صورت باقی نبیوں کے ساتھ ثابت ہوئی.یہی مسیح علیہ السلام کے ساتھ ثابت ہوئی اور آج یہ عجیب بات ہے ایک بہت بڑی تعداد یورپ کے سکالرز کی جن میں جرمنی کے بعض سکالرز شامل ہیں، کسر صلیب کا نفرنس لندن میں انہوں نے مقالہ پڑھا اور آج تو دنیا گونج رہی ہے ان حقائق سے.امریکہ سے رسائل چھپ رہے ہیں، فلمیں دکھائی جارہی ہیں انڈیا میں اور اس کے علاوہ امریکہ میں، جرمنی میں.خود وہاں سے آئے ہوئے ایک احمدی مبلغ نے مجھے اس کے شیپ وغیرہ بھی بھجوائے ہیں.آج دنیا پر کھل گیا ہے کہ مسیح علیہ السلام آسمان پر نہیں گئے بلکہ ہجرت کر کے کشمیر پر تشریف لے آئے تھے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.ڈوینچی کوڈ (DEVENCI CODE) کے نام سے ی فلم ہے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.مجھے یاد ہے.عرصہ ہوا ، یہ خلافت رابعہ کے زمانے کی بات ہے.ہمارے مکرم نواب منصور احمد خان صاحب وکیل التبشیر تھے.تو وہ خاکسار کے پاس

Page 254

238 تشریف لائے.ایک خاتون کینیڈا سے آئی تھیں.وہ پہلے مدراس گئیں.حواری کی قبر دیکھنے کے لئے.پھر قادیان گئیں اور وہاں سے ربوہ آئیں.جس جگہ سے وہ آئی تھیں وہاں کے احمدی پریذیڈنٹ نے میرا ذکر بھی کیا کہ تم ربوہ بھی جارہی ہو تو اس سے ضرور ملنا.بات جب شروع ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ ہم تو دو مسیحوں کو ماننے والے ہیں.حضرت مسیح ابن مریم کو بھی مانتے ہیں اور اس مسیح کو بھی مانتے ہیں جس کے متعلق حضرت مسیح ناصری نے یہ کہا تھا کہ میں تو اس کا تسمہ کھولنے کے برابر بھی نہیں ہوں اور جس کے متعلق موسیٰ علیہ السلام نے پیشگوئی کی تھی کہ وہ فاران کی چوٹیوں پر سے ظاہر ہو گا.اور دس ہزار قدوسی اس کے ساتھ ہوں گے اور آتشی شریعت اس کے ساتھ ہو گی.یہاں سے بات شروع ہوئی تو میں نے کہا کہ میں بھی گیا ہوں مدراس میں.اس کے بعد میں نے کہا کہ مدراس کی طرف تو ما حواری کیوں بھجوائے گئے تھے ؟ آپ سوچیں.وہ اس لئے بھیجے گئے کہ حضرت مسیح (Jesus Christ) کا یہ مشن تھا کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کے سوا کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا.اور چونکہ ساؤتھ انڈیا میں مالا بار کے علاقہ میں، مدراس کے علاقہ میں کثرت سے بنی اسرائیل آباد تھے تو تو ما حواری کو حضرت مسیح علیہ السلام نے وہاں بھجوایا تھا.میں نے کہا کہ اب میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ مسیح کا مشن تو یہ تھا کہ وہ بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو جمع کریں.اب آپ کا نکتہ نگاہ یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام نے باپ کے اس ارشاد کی تعمیل کرنے کی بجائے ان کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف جن کے متعلق یہ تاریخ سے ثابت ہے کہ باقی جو دس قبیلے تھے، وہ افغانستان، کشمیر، مدراس وغیرہ میں چلے گئے مسیح علیہ السلام نے باپ کی نافرمانی کر دی.بجائے یہاں کشمیر اور افغانستان کی طرف آنے کے، وہ آسمان پر چلے گئے.میں نے کہا کہ آپ خود بتائیں کہ اگر کوئی گورنمنٹ کسی کو کسی کالج کا پرنسپل بنائے اور وہ وہاں جانے کی بجائے آسٹریلیا آجائے تو وہ اس کی عزت کرے گی یا اسے جرمانہ ہوگا اور سزا ہوگی.تم مجرموں کی طرح ہمارے سامنے پیش کیے جاؤ گے ؟“ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.ایک سوال الفضل 3 جولائی 1952ء کے حوالہ سے حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ سے کیا گیا کہ اس میں درج ہے کہ ہم فتح یاب ہوں گے اور تم مجرموں کی

Page 255

239 طرح ہمارے سامنے پیش کئے جاؤ گے.تو اس کے جواب میں حضور نے کیا فرمایا ؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے اس کے جواب میں، جہاں تک مجھے یاد ہے، یہ ارشاد فرمایا کہ اس تاریخ کی الفضل میں یہ عبارت نہیں مل سکی.الفضل 1952ء کی ایک تحریر کی وضاحت ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ سے یہ کہا گیا کہ مرزا محمود احمد کا یہ بیان ہے 16 جنوری 1952 ء کے الفضل میں شائع ہوا کہ 1952ء کوگز رنے نہ دیا جائے جب تک دشمن آغوش احمدیت میں نہ گر جائے.“ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب حضور نے اپنی زبان مبارک سے یہ فیصلہ کن جواب دیا کہ یہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا بیان نہیں ایک ذیلی تنظیم خدام الاحمدیہ کے مہتم تبلیغ کا نوٹ ہے.“ اس پر میں صرف یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں اس وقت مہتم تبلیغ عبدالحمید صاحب آصف تھے جواب فوت ہو چکے ہیں.جماعت احمد یہ اور تحریک آزادی ہند حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.اگلا سوال حضور سے یہ ہوا کہ جب انگریز کی حکومت کی اطاعت جماعت احمدیہ کے عقیدہ کا حصہ تھی تو آپ نے تحریک آزادی میں کیونکر حصہ لیا ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.حضور نے اس کے جواب میں ارشا د فر مایا کہ اس کی اجازت خود حکومت وقت نے ملک کے باشندوں کو دے دی تھی.“ یہ حضور کا جواب ختم ہوا.آپ اگر بر صغیر کی تاریخ کو پڑھیں تو یہ بڑا واضح ہے کہ 1857ء کے غدر کے بعد مدت تک آزادی کے تصور سے ملک کے رہنے والے نا آشنا تھے.اس کے بعد وقت آیا اور وہ وقت پہلی جنگ عظیم کے بعد آیا ہے جبکہ حکومت نے یہ کہا کہ ہم اس جنگ کے بعد کوشش کریں گے کہ ہندوستانیوں کو آہستہ آہستہ کئی قسطوں میں آزادی دیں.پہلے نو آبادیوں کا علاقہ ملے گا

Page 256

240 ان کو.اس کے بعد جب ہم سمجھیں گے تو پورے کا پورا اقتدار مکمل طور پر ہندوستانیوں کو دے دیا جائے گا.تو یہ خود گورنمنٹ نے اجازت دی تھی.احمدی تو آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق قانون کی پابندی کے آج دنیا میں پرچم لہرا رہے ہیں.آنحضرت ﷺ کا نمونہ کیا تھا ؟ اور وہ نمونہ قرآن کی روشنی میں تھا.قرآن میں لکھا ہے کہ یوسف علیہ السلام وزیر تھے مگر اس وقت کی جابر حکومت کے ما تحت کسی غیر ملکی کو وہ اپنے ہاں رکھ نہیں سکتے تھے.اس لئے بن یامین کے لئے خدا نے تدبیر کی مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِی دِینِ الْمَلِكِ (یوسف: 77) اس میں خدا نے یہ بیان کیا ہے کہ خواہ کوئی بادشاہ فرعون بھی ہو اور اس میں موسی جیسا اولوالعزم پیغمبر رہتا ہو پھر بھی اس یوسف کو حکم ہے کہ فرعون وقت کی اطاعت کرنی ہے.آنحضور ﷺ کا اپنا اسوہ آپ دیکھیں.حضور جب طائف کی طرف ہجرت کر کے تشریف لے گئے.حضرت خدیجہ اور چچا حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد (ہماری نگاہ میں حضرت ابوطالب نے آخر میں اسلام قبول کر لیا تھا.) مکہ والوں نے عرصہ حیات جب تنگ کیا تو حضور نے فیصلہ کیا کہ اب مجھے ہجرت کر کے طائف جیسے شہر میں چلا جانا چاہئے.یہاں میں خدا کی آواز نہیں پہنچا سکتا.لیکن وہاں ان ظالموں نے جو سلوک کیا وہ تاریخ کا ایک کھلا ورق ہے.کس طرح الله بدسگالوں نے جھولیوں میں پتھر ڈال کے رسول پاک علی پر سنگ باری کی اور آنحضور علی سر سے لے کر پاؤں تک خون میں نہا گئے.یعنی وہ خون جس کا ایک ایک قطرہ اس کا ئنات سے افضل تھا، وہ بہایا گیا.اس عالم میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام پھر واپس آئے مگر مکہ میں تشریف نہیں لا سکتے تھے.بارڈر پر آپ نے اپنے خادم زیڈ سے کہا کہ ٹرائیل سسٹم (Tribal System) یہ ہے کہ جب تک ایک قبیلے کا کوئی سردار یہ اعلان نہ کرے کہ میں انہیں پناہ دیتا ہوں،شیلٹر (Shelter) دیتا ہوں.اس وقت تک اگر کوئی شخص مستقل ہجرت کا ارادہ رکھنے والا پھر واپس آتا ہے تو اس کو جو بھی شخص چاہے قتل کر سکتا ہے.یہ ٹرائبل سسٹم تھا تو آنحضرت ﷺ جو کائنات کے شہنشاہ تھے ،مقصود تھے جن کو خدا نے کہا لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفَلَاكَ ( تفسیر روح البیان.زیر آیت القصص 10-15 ) یہ نہیں کہا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے مقاصد میرے ذریعہ سے پورے ہونے والے ہیں.میں ہی اس کا ئنات کا وہ فرد ہوں جو کہ اس کائنات کا موجب ہے.حضور علیہ نے یہ صورت اختیار کی کہ مکہ سے باہر آپ ٹھہر گئے.زید کو بھجوایا.سب نے انکار کر دیا کہ ہم پناہ دینے کے لئے تیار نہیں

Page 257

241 ہیں.مطعم بن عدی بہت ہی سعید انسان تھا.اس نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ ہم محمد ﷺ کے دعوی کو تو تسلیم نہیں کرتے مگر وہ ایک عالی نسب شاہی خاندان کا فرزند ہے.میں پناہ دیتا ہوں وہ تشریف لا ئیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ اس یقین دہانی کے بعد زید کو لئے ہوئے اس کے گھر پہنچے.رات کا وقت تھا.آپ تصور کریں.مطعم بن عدی نے اپنے چاروں بیٹوں کو کہا کہ تلواریں سونت لو اور آنحضرت ﷺ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ان کو اپنے ہالے میں، دائرے میں لے کر خانہ کعبہ تک لے جاؤ.نبیوں کا سرداران چار بیٹوں کے دائرہ میں آہستہ آہستہ خانہ کعبہ تک پہنچا ہے.وہاں جا کر مطعم بن عدی جو اونٹنی پر سوار تھے.یہ ابن ہشام کی روایت ہے اور دوسری مستند تاریخوں میں موجود ہے.اس وقت کھڑے ہو کر بلند آواز میں مطعم بن عدی نے یہ آواز دی اور کہا یا معشر قریش صلى الله قد اجرت محمدا.اے اہل قریش میں نے محمد رسول اللہ ﷺ کو پناہ دی ہے.فلا تخضلوہ اسے بیگانہ نہ چھوڑ دینا.ولا تؤ ذوہ اور اس کو تکلیفوں کا نشانہ نہ بنانا.سیرة الحلبیہ، باب ذکر خروج النبی الی الطائف.جلد اوّل صفحہ 507) اس اعلان کے بعد جو گویا Tribal System کے مطابق اسے ویزا کہہ سکتے ہیں آج موجودہ Terminology کے لحاظ سے حضور نے اس کے بعد ان کی اجازت سے طواف کیا خانہ کعبہ کا اور پھر ان سے اجازت لی کہ میں اپنے گھر جا سکتا ہوں.یہ تعامل تھا محمد عربی ﷺ کا.تو آج دنیا میں اس اسوہ محمدی کا پرچم سوائے احمدیوں کے کسی کے پاس نہیں ہے.اسی لئے ہم کہتے ہیں اور ہمارے آقا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز فرما چکے ہیں کہ دنیا کا امن جماعت احمد یہ کے ساتھ وابستہ ہے.ابھی پچھلے سال 2005 ء میں میں قادیان گیا تھا.ایک رات کو وہاں ہند سماچار کے ایڈیٹر تشریف لائے.ان سے گفتگو ہوئی.آخر میں ایک بات ہوئی.بہت ساری باتیں تھیں.میں نے ان سے یہ بات کہی کہ آج دنیا پر یہ کھل گیا ہے کہ باوجود یکہ دنیا بڑی فارورڈ ہو چکی سائنسی لحاظ سے.دنیا کے انقلاب کی کوئی مثال نہیں.آج ہر چیز دنیا کے سامنے ہے.مگر یہی ایک مصیبت کا پیش خیمہ بن گیا ہے اور جو امن کا دعوی کرنے والے ہیں وہ بموں سے اور قتل وغارت سے امن کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں اور کرتے چلے جارہے ہیں.تو آپ جانتے ہیں کہ ایسی صورت میں تو کبھی امن نہیں قائم ہو سکتا.امن صرف اس صورت میں قائم ہو سکتا ہے کہ دنیا میں ان پاک نفس اور معصوموں کی

Page 258

242 اکثریت ہو جائے جو آنحضرت ﷺ اور حضرت یوسف کی طرح قانون کی اطاعت کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتی ہو اور وہ ایک امام کے ماتحت ہو اور میں نے کہا کہ سوائے جماعت احمدیہ کے کون ہے جو یہ دعویٰ کر سکے.انہیں ماننا پڑا کہ حقیقتاً جماعت احمدیہ سے ہی دنیا کا امن وابستہ ہے.تو ہم نے، جماعت احمدیہ نے حضرت مصلح موعودؓ کی قیادت میں تحریک آزادی میں حصہ لیا اور تحریک آزادی سے مراد ہماری نگاہ میں مسلم لیگ کی تحریک پاکستان ہے.ہم اسی کو تحریک آزادی سمجھتے ہیں ورنہ ملاں جس کو تحریک آزادی سمجھتا ہے ہم اس کو تحریک بر بادی کہتے ہیں.اس لئے آپ یہ دیکھیں کہ عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے مسجد خیر الدین امرتسر میں تقریر کی اور یہ تقریر اخبار ” مجاہد ( 11 مئی 1936ء صفحہ 4 کالم 1.2) میں شائع شدہ موجود ہے.وہ تقریر اس عنوان سے چھپی.احرار پولیٹکل کانفرنس امرتسر میں آزادی کا پرچم لہرانے کی تقریب پر حضرت امیر شریعت کی حریت پرور تقریر.“ اب وہ حریت پرور تقریر ی تھی:.یہ بھی جلی قلم سے عنوان ہے.وو ہندوستان صرف ہمارا اور ہمارا ہی وطن ہے.مسلمانوں کا فرض 66 ہے کہ آزادی حاصل کر کے دیگر اقوام کے سامنے بطور تحفہ پیش کریں.“ اور اس کی وضاحت اس رنگ میں انہوں نے کی ہے، کہتے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی ہم نے سلب کی تھی.آپ ذہنیت دیکھیں.مراد یہ ہے کہ محمد بن قاسم مسلمان تھے.انہوں نے ہندوستان کے رہنے والوں کو غلام بنالیا تھا.اس جرم کی سزا کے طور پر ہم مسلمانوں کا فرض یہ ہے کہ جس طرح محمد بن قاسم نے یہ جرم کیا تھا کہ ہندوستان کے رہنے والوں کا خون بہایا اور پھر ہندوستان پر قابض ہو گئے.ہمیں اب اپنے خون کی قربانی دینی چاہئے ہندوستان کی آزادی کے لئے.مگر جب ہندوستان آزاد ہو جائے تو یاد رکھو کہ ہمیں کسی آزاد ملک کی ضرورت نہیں ہے.ہمارا یہ فرض ہوگا کہ ہم ہندوستان کی آزادی کے بعد آزادی کا تحفہ پنڈت جواہر لعل نہرو کی خدمت میں پیش کر دیں اور خود خدمت خلق میں شامل ہو جا ئیں.

Page 259

243 تو یہ تحریک بربادی تھی دراصل.ہم لعنت بھیجتے ہیں اس تحریک پر جس میں کہ مسلمانوں کی بربادی ہو.تحریک آزادی حضرت قائد اعظم کی تحریک پاکستان تھی اور اس میں جس جوش کے ساتھ جماعت احمدیہ نے حصہ لیا تھا.مولانا میر محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے مارچ 1946ء میں کلکتہ میں تقریر کی اور وہ چھپی ہوئی موجود ہے.پیغام ہدایت در تائید پاکستان.“ 66 یہ مارچ 1946ء کی بات ہے اور یہ وہ دور تھا جس وقت کہ مرکزی انتخابات میں سب مسلم نشستیں مسلم لیگ نے حاصل کر لی تھیں اور ایک بہت بڑا جشن تشکر منایا گیا 11 جنوری 1946ء کو.مارچ میں تمام ہندوستان کے صوبوں کی یعنی صوبائی انتخابات ہوئے جس میں کہ جماعت احمد یہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھر پور حصہ لیا.اس موقعہ پر میر ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے تقریر کی.میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ اصل ماخذوں سے معلوم کی جاسکتی ہے.وہ جھوٹی اور افسانوی تاریخ جو کہ احرار نے بنارکھی ہے.اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.اصل تحریک آزادی قائد اعظم کی تحریک پاکستان تھی اور اس موقعہ پر جماعت کا کردار تھا میں بتا رہا ہوں آپ کو.میرابراہیم صاحب سیالکوٹی جماعت اہلحدیث کے صف اول کے لیڈر تھے.انہوں نے اپنی تقریر میں یہ بیان فرمایا کہ ”میرے ایک مخلص دوست کے فرزند ارجمند لیکن گستاخ حافظ محمد صادق سیالکوٹی نے احمدیوں کے مسلم لیگ سے موافقت کرنے کے متعلق اعتراض کیا ہے اور ایک اور امرتسری شخص نے بھی پوچھا ہے.“ آگے فرماتے ہیں کہ سوان کو معلوم ہو کہ اول تو میں احمدیوں کی شرکت کا ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میں نہ تو مسلم لیگ کا کوئی عہدہ دار ہوں اور نہ ان کے یا کسی دیگر 66 کے ٹکٹ پر ممبری کا امیدوار ہوں.“ کہتے ہیں:.احمدیوں کا اس اسلامی جھنڈے کے نیچے آجانا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے.

Page 260

244 وجہ یہ کہ احمدی لوگ کانگریس میں تو شامل ہو نہیں سکتے.کیونکہ وہ خالص مسلمانوں کی جماعت نہیں ہے اور نہ احرار میں شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ سب مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ صرف احراری جماعت کے لئے لڑتے ہیں جن کی امداد پر کانگریسی جماعت ہے.“ اور پھر فرماتے ہیں:.”ہاں اس وقت مسلم لیگ ہی ایک ایسی جماعت ہے جو خالص مسلمانوں کی ہے.اس میں مسلمانوں کے سب فرقے شامل ہیں.پس احمدی صاحبان بھی اپنے آپ کو ایک اسلامی فرقہ جانتے ہوئے اس میں شامل ہو گئے جس طرح کہ اہلحدیث اور حنفی اور شیعہ وغیرھم شامل ہوئے.“ اور آگے فرماتے ہیں کہ میں اس گستاخ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ابوالکلام آزاد جیسا انسان جو کہ کانگریس کا علمبردار ہے، اس نے اپنے فتاوی میں احمدیوں کو مسلمان تسلیم کیا ہے.اور اگر تمہیں اعتراض ہو تو میں تمہیں اس کا جواب دینے کے لئے تیار ہوں.ان کے الفاظ یہ تھے:.اس امر کا اقرار کہ احمدی لوگ اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہیں مولانا ابوالکلام صاحب کو بھی ہے.ان سے پوچھئے.اگر وہ انکار کریں گے تو ہم ان کی تحریروں میں دکھا دیں گے.“ مولا نا ثناء اللہ صاحب امرتسری کا اس میں بیان موجود ہے.وہ کہتے ہیں کہ دراصل مسلم لیگ مسلمانوں کی جماعت ہے اور اس میں نوع کے لحاظ سے نہیں دیکھنا چاہئے کہ فلاں اہلحدیث ہے، فلاں قادیانی ہے.یہ تو نوع کی بات ہے بحیثیت مسلمان سارے اکٹھے ہیں.پیغام ہدایت در تائید پاکستان مسلم لیگ صفحہ 112 - 113 ، 170 بار اول ناشر دفتر تبلیغ سنت سیالکوٹ.مطبع شنائی پریس امرتسر ) غدر 1857ء ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.یہ اعتراض اٹارنی جنرل کی طرف سے اٹھایا گیا کہ

Page 261

245 مرزا صاحب نے 1857ء کی جنگ کو غدر سے موسوم کیا ہے.اس کا جواب حضور نے کیا دیا تھا ؟ پھر حضور نے حوالے بھی پڑھے مولوی نذیر حسین صاحب کے اور دوسرے اکابرین کے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب: حضور نے اس کے جواب میں یہ فرمایا کہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ، مؤرخ ذکاء اللہ خاں ، اور خواجہ حسن نظامی اور دیگر کئی اور مشاہیر اور اکابر کا یہی مسلک ہے.اس موقعہ پر حضور نے مفصل حوالے پیش کئے جن میں مولانا نذیر حسین صاحب کی سوانح حیات حیات بعد الممات کا حوالہ بھی پیش کیا.اس میں کھلے لفظوں میں غدر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.ان میں سے کوئی اقتباس آپ پڑھ کے سنائیں گے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.اس وقت ” حیات بعد الممات“ کا اقتباس اس حوالہ سے پیش کرتا ہوں.میں اس کا مضمون زبانی عرض کرنا چاہتا ہوں.اس میں یہ لکھا ہے کہ مولوی نذیر حسین صاحب نے ایک دفعہ کہا کہ بیچارہ بہادر شاہ ظفر تو باغیوں کے ہاتھوں خود مجبور ہے، وہ کیا کرسکتا ہے اس وقت؟ اور باغی یہ ہندو ہیں اور بہادر شاہ ظفر جو کہ انگریزوں کا پنشن خوار ہے ، وہ اس معاملے میں بے بس ہے، تو کارروائی ہندو کر رہے ہیں اور نام بہادر شاہ ظفر کا لیا جا رہا ہے.تو یہ تفصیل اس میں موجود ہے.یہ جواب تو میں نے عرض کیا ہے.اس سلسلے میں ایک آدھ حوالے میرے سامنے بھی، میرے پیش نظر ہیں.وہ یہ ہے کہ اس زمانے میں جتنے بھی اکابر تھے انہوں نے غدر ہی قرار دیا ہے.تاریخ تو وہی مستند ہے، اس دور کے اکابرین نے جس کی طرف اشارہ کیا ہے.وہ ملا جو آج کی پیداوار ہے، وہ 1857ء کے بارے میں کیا سمجھ سکتا ہے جب تک کہ وہ اس دور کے لٹریچر کو نہ دیکھے.اب آپ دیکھیں یہ جو اس کو تحریک آزادی قرار دیا گیا ہے اور غدر کا نام چھوڑا گیا ہے.یہ بات دراصل مسلمانوں میں احراری اور کانگریسی مولویوں کے ذریعہ ہی آئی ہے.اور یہ ہندو کی Planning تھی.کارل مارکس اس کی پشت پناہی میں تھا اور انٹر نیشنل جو اس وقت مرکز تھا Terrorist لوگوں کا شکاگو میں ،سوشلسٹوں کے ان کے ساتھ رابطے ہوئے.اور ان کے کہنے پر دراصل ہندوستان کے ہندوؤں کو اس بات کی جرات ہوئی کہ مسلمان جو اس وقت در اصل ان کا بادشاہ تو نام کا بادشاہ تھا اور اس کی حکومت سوائے دہلی کے قلعے کے کہیں بھی نہیں تھی.تو ساری بڑی بڑی آسامیاں ہندوؤں کے پاس تھیں اور مہاراجے جتنے بھی تھے، ان کے مقابل پر کوئی بھی مسلمان حکومت ایسی نہیں تھی کہ جس کی

Page 262

246 کوئی بھی حیثیت رہ جاتی ہو.تو اصل میں تو ہندو کی حکومت تھی.ہندو یہ چاہتا تھا کہ آنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریزوں کو ختم کر دیا جائے اور دہلی کا تخت مستقل طور پر ہندوؤں کے پاس ہو جائے.لیکن پہلے انہوں نے پیش بینی یہ کی کہ کچھ مسلمان مولویوں سے بھی دستخط لئے کہ یہ جہاد ہے.بعض مرے ہوئے جو مولوی تھے ان کا بھی انگوٹھا لگا لیا اور مولوی صدرالدین آزردہ جو چیف جسٹس تھے بہادرشاہ ظفر کے، ان سے بھی بالجبر انگوٹھا لگوایا اور یہ ساری چیزیں تھیں اشتہار کے طور پر.انہوں نے دہلی کی جامع مسجد کے پھاٹک پر یہ سارے اشتہار لگائے اور کہا کہ مسلمانوں کے اوپر جہاد فرض ہو گیا ہے.مقصد یہ تھا کہ اگر اس بغاوت میں ہم ناکام ہوئے اور مقدمہ چلا تو ہم یہ پیش کر دیں گے کہ حضور ہم تو آپ کے وفادار تھے.یہ ساری کارستانی مولویوں کی اور مسلمانوں کی ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا بلکہ آپ حیران ہوں گے کہ جب قلعہ معلی میں مقدمہ چلا.اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایڈوکیٹ جنرل نے مفتی صدرالدین آزردہ کا فتویٰ سنایا اور یہ ملزم کے طور پر اس وقت عدالت میں پیش تھے.انہوں نے اس فتویٰ کو پیش کیا کہ بہادر شاہ ظفر بھی شامل تھے اور یہ آزردہ بھی شامل تھے.کیونکہ ہندو مکھن لال جو پرائیویٹ سیکرٹری تھا بہادر شاہ ظفر کا، خود اس نے ایک سوچی سمجھی سکیم کے مطابق بہادر شاہ ظفر کے متعلق کہا کہ دراصل سر پرستی یہی کرنے والے تھے.حالانکہ بہادرشاہ ظفر نے خود اس کو غدر قرار دیا.عجیب بات ہے آپ اگر خواجہ حسن نظامی صاحب کی اس زمانہ کی تحریریں، جو سبھی موجود ہیں.غدر کے متعلق ساری کارروائی کا انہوں نے ترجمہ شائع کیا ہوا ہے ”مقدمہ بہادر شاہ ظفر کے نام سے.اس میں بادشاہ نے کہا ہے کہ میں تو خود مجبور تھا.باغی آتے تھے اور پسٹل دکھا کر مجھ سے دستخط کرالیتے تھے.مجھے خود ڈر تھا کہ یہ مجھے مار دیں گے.ایسی بغاوت کے اوپر تلے ہوئے تھے یہ لوگ تو بہا درشاہ کہہ رہا ہے کہ غدر ہے.خلیفۃ المسلمین کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اس غدر سے بچنا چاہئے.پہلے یہ محضر نامہ میں میں بیان کر چکا ہوں.حضور نے یہ بات بیان کی کہ مکہ کے چاروں مفتی کہہ رہے ہیں کہ یہ غدر ہے اور مسلمانوں کو حکومت وقت کی اطاعت کرنی چاہئے.ہندوستان کے علماء میں سے مولانا قاسم نانوتویؒ کے متعلق تذکرۃ الرشید میں عاشق میرٹھی صاحب لکھتے ہیں کہ ظالموں نے ان پر الزام لگایا کہ وہ بھی بغاوت میں شامل ہیں تو وہ چھپ گئے لیکن آخر خدا نے ان کو بری قرار دے دیا.لیکن جس وقت

Page 263

247 احراری علماء اور دیوبندی علماء کانگرس کے ہتھے چڑھ گئے اور ان کے جھنڈے بندھ گئے.ساری تاریخ کو تبدیل کر دیا.اور یہ ثا بت تھا کہ مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کے خلاف دشمنوں نے یہ کہا تھا کہ وہ بغاوت میں شامل تھے.مگر اب جونئی کتا بیں چھپی ہیں جس میں حسین مدنی صاحب کی کتاب ”نقش حیات بھی ہے.اس میں اس جگہ پر پیش کیا گیا کہ گویا معاذ اللہ وہ ہندوؤں کی اس تحریک میں شامل تھے، اور کہا کہ جی اس کی آزادی میں حضرت مولانا نے بھی بہت بڑا کردار ادا کیا.یعنی اپنی تاریخ بدل دی صرف اس لئے کہ کانگرس کے ساتھ جو مراسم ہیں، وہ قائم رہیں.اور جو کچھ ملتا ہے وہ ملتا چلا جائے.اتنی ظالمانہ پالیسی ہے.تو یہ کوئی جنگ آزادی نہیں تھی یہ حقیقتا غدر تھا.بہادر شاہ ظفر کے لحاظ سے بھی ، مولوی نذیرحسین کے لحاظ سے بھی ( فتاوی نذیریہ جلد 4 صفحہ 472) ، خلیفہ المسلمین ترکی کے لحاظ سے بھی ، ( " تاریخ اقوام عالم صفحہ 639 از مرتضی احمد خان میکش ناشر مجلس ترقی ادب 2 نرسنگھ گارڈن کلب روڈ.لاہور ) مکے کے جو اس وقت مفتی تھے ان کے لحاظ سے بھی ( ”سید عطاء اللہ شاہ بخاری“ صفحہ 31 مؤلفہ شورش کا شمیری ) اور ہندوستان کے بڑے بڑے مذہبی رہنماؤں کے لحاظ سے بھی.اب میں آخر میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ عجیب بات ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ جی یہ انگریز کا لگایا ہوا پودا ہے.مطلب یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی بنیاد اس زمانہ میں رکھی گئی جبکہ یہاں پر برطانوی حکومت تھی.حالانکہ یہ بتائیں کہ یہ جتنی تنظیمیں ہیں، بریلوی تنظیم ہو، اہل حدیث ہو، یہ سارے انگریز کے زمانہ کی تحریکیں ہیں.خود احرار انگریز کے زمانہ میں بنی ہے.مگر جماعت احمدیہ کا یاد رکھیں انگریز کے زمانہ میں قائم ہونا اور مسیح موعود کا آنا اور اس لئے آنا کہ مسلمان اسلام کو چھوڑ چکے تھے.یہ سیح موعود اور جماعت احمدیہ کی حقانیت کے روشن نشان ہیں.اس کی وجہ کیا ہے؟ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں.یہ حیرت انگیز انکشاف ہے.جماعت احمدیہ کا قیام کس سن میں ہوا تھا؟ 1304 ہجری میں یعنی 1889ء میں.یہ دو سال پہلے کی کتاب ہے.”حقیقت گلزار صابری“ یہ صابری بزرگ گزرے ہیں.مرشد برحق ، ہادی مطلق ، واقف اسرار حقیقت محمدی حضرت بادشاہ دو جہاں مخدوم شاہ محمد حسن صاحب صابری چشتی حنفی قدوسی معشوق شام کے بزرگ تھے.اور یہ کتاب رام پور کے پریس جس کا نام حسنی تھا، اس میں چھپی.یہ چوتھا ایڈیشن ہے میرے پاس اس کا.پہلا ایڈیشن بھی موجود ہے.یہ مخدوم علاؤ الدین علی احمد صابر کلیری کے حالات پر لکھی گئی ہے.

Page 264

248 اس میں یہ لکھتے ہیں کہ در اصل خدا کی طرف سے یہ مقدر تھا.بہادرشاہ ظفر کے زمانہ میں مسلمان اور مغلیہ حکومت بد کردار ہو چکی تھی.اب اندازہ لگائیں کہ جہادا گر کہا جاتا ہے کہ جنگ آزادی تھی اور جہادِ آزادی تھا تو امیر المومنین کون تھا اس وقت سوائے ہندوؤں کے؟ یہ بھی تو سوچنا چاہئے اور اگر مسلمانوں کے لئے جہاد تھا تو بتائیں کس کی قیادت میں لڑا جار ہا تھا.اور مسلمانوں کی حالت لکھتے ہیں کہ اب یہ صورت پیدا ہو گئی ہے کہ بہادر شاہ کا زمانہ ایسا آگیا ہے کہ جس زمانے میں بادشاہ بھی بد کردار ہے اور رعایا بھی اسلام کے خلاف پنپ رہی ہے.آگے یہ بیان کرنے کے بعد یہ حالت بتا رہے ہیں.یہ 1887ء کی کتاب ہے.جماعت احمدیہ کے قیام سے دو سال پہلے کی کہ اس وقت جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز آگئے.یہ انگریز ایسے زمانہ میں آئے ہیں جب ہندوستان کا مسلمان اور خود بہادرشاہ ظفر کی حکومت بدکردار ہو گئی ہے.یہ میں نہیں کہہ رہا یہ اس زمانہ کے بزرگ حضرت شاہ محمد حسن صاحب صابری چشتی حنفی " قدوسی معشوق کے الفاظ ہیں.آگے فرماتے ہیں.دیکھیں خدا نے ان بزرگوں کو اور پارسا انسانوں کو کس طرح بصیرت اور کشف کی آنکھ بخشی تھی.کہتے ہیں کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر کی حکومت کو پارہ پارہ کر دیا جائے کیونکہ یہ ظالم حکومت ہے اور کیوں پارہ پارہ کیا جائے؟ میں پہلے الفاظ دہراتا ہوں.کہتے ہیں:.آنحضرت نے معرفت ابدال درجہ دوم کے حکم نامہ باطنی پاس سردار حنفیہ حضرت عرب حسن صاحب کے جاری کر دیا اور میعاد بھی مقررفرما دی.“ یہ کشوف کا ذکر کرتے ہیں اور آنحضرت ﷺ سے کشفی تعلق کے نتیجہ میں بتاتے ہیں کہ یہ آنحضرت علہ کا حکم تھا جو محبوب الہی نظام الدین اولیاء کو دیا گیا، قطب الاقطاب ہند کو پھر علی احمد صابری کو پھر اس کے بعد حضرت عرب حسن کو اور وہ کیا حکم تھا جو کہ مد عربی ﷺ کے دربار سے جاری ہوا.اور حضرت علی احمد صابری کے زمانہ سے لے کر مجھ تک پہنچا.فرماتے ہیں کہ یہ حکم تھاجو محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر ہم تک پہنچا ہے کہ:." بادشاہت ماتحت فرنگ بھی موقوف کر کے، قوم فرنگ مستقل حکمران کر دی جائے.“

Page 265

249 یہ رسول اللہ علیہ کا حکم اولیاء کو ملا ہے.ہندوستان کے اولیاء کو کہ یہ بد کردار حکومت ہے، اس کو انگریزوں کے ماتحت بھی نہ رکھا جائے بلکہ اس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے.کیوں مٹایا جائے؟ اس لئے کہ زمانہ امام مہدی علیہ السلام کا قریب ہے.“ اب زمانہ آگیا ہے کہ امام مہدی کا ظہور ہو اور آگے لکھتے ہیں کہ:.کفر ترقی پکڑے تو کچھ مضائقہ نہیں ، لیکن خلق اللہ ظلم سے محفوظ رہے.اور فسق و فجور کی سزائے کامل حضرات اقطاب واغیاث حد و دعرب و عجم دیا کریں گے.“ کہتے ہیں کہ خدا یہ نہیں چاہتا کہ مہدی کے آنے کے وقت بھی ظالم حکومت رہے.اس لئے خدا چاہتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر کی حکومت کو پارہ پارہ کر دیا جائے تا کہ امام مہدی جب آئے تو انگریز کے زمانہ میں آزادی ہو اور وہ آزادی سے محمد رسول اللہ ﷺ کا پرچم لہرائے.صفحہ بتانا چاہتا ہوں.یہ 418 اور 419 صفحہ ہے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھا ہے.اور یہ باب چہارم ہے.پہلی اور چودہویں رات کا چاند؟ حافظ محمدنصر اللہ صاحب :.ایک سوال اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت خلیفہ مسیح سے یہ کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خطبہ الہامیہ میں اپنے تئیں بدر یعنی چودہویں کا چاند اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو ہلال یعنی پہلی رات کا چاند قرار دیا ہے اور اس سے آنحضور ﷺ کی شان میں گستاخی واقع ہوتی ہے.اس کے جواب میں حضور نے کیا فرمایا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے ارشاد فرمایا کہ آنحضرت علی ہی ہلال ہیں اور آنحضرت ہی بدر.اور یہاں بھی دونوں لفظ آنحضور ﷺ کی مبارک ذات کی نسبت استعمال ہوئے ہیں.یہ ایک فقرہ ہے مگر آپ دیکھیں کتنی واضح بات ہے.چاند جب ابتدا میں طلوع ہوتا ہے پہلے دن اس کو ہلال کہا جاتا ہے.جب چودہویں رات کی شکل اختیار کر جاتا ہے تو وہی چاند

Page 266

250 بدر کے نام سے موسوم ہوتا ہے تو اصل میں تو ایک ہی چاند ہے.تو حضور نے یہی جواب دیا کہ ہلال بھی محمد رسول اللہ تھے اور بدر بھی آپ تھے.صرف یہ بتایا گیا تھا کہ آخری زمانہ میں جب آپ کا غلام آئے گا تو تمام اکناف عالم پر اسلام کا جھنڈا لہرائے گا.اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضور کے زمانے میں تو اکثر آبادی کا پتہ ہی نہیں تھا.امریکہ دریافت نہیں ہوا تھا.آسٹریلیا کے متعلق پتہ ہی نہیں تھا.مسلمان انڈونیشیا کی طرف گئے تو دوسری طرف فرانس تک پہنچے.لیکن ساری دنیا ایک گلوبل و پیچ ( Global Village) کی حیثیت اختیار کر جائے ، یہ مسیح موعود کے زمانہ میں مقدر تھا.جیسا کہ چشمہ مسیحی میں حضور نے بیان فرمایا ہے تو آنحضرت ﷺ کی شان بدر کی حیثیت سے آخری زمانہ میں ظاہر ہوئی ہے.یہ اصل حقیقت ہے جو مسیح موعود نے بیان فرمائی.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.یہ جواب ذرا دوبارہ آپ پڑھ دیں حضور کا.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا آنحضرت مہ ہی ہلال ہیں اور بدر بھی ہیں اور یہاں بھی دونوں لفظ آنحضور ﷺ کی مبارک ذات کی نسبت استعمال ہوئے ہیں.”دعوتی“ سے مراد؟ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : جزاکم اللہ.ایک بات انہوں نے یہ کہی کہ آئینہ کمالات اسلام صفحہ 548 میں یہ لکھا ہوا ہے کہ کل مسلم يصدق دعوتی “ تو اس عبارت میں دعوتی سے کیا مراد ہے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے اس کے جواب میں بس دو لفظ فرمائے تھے اور سمندر کو کوزے میں بند کر دیا.فرمایا " دعوت اسلام.جب یہ نام ہی آئینہ کمالات اسلام ہے.اس میں فرماتے ہیں کہ میں نے اسلام کی دعوت ” براہین کے ذریعہ سے دی.اسلام کی دعوت ”سرمہ چشم آریہ کے ذریعہ سے دی.یہ دعوت مراد ہے اور وہ اسلام کی دعوت ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یعنی حضور نے اس سوال کا دولفظوں کا ہی جواب دیا کہ دعوت اسلام.“

Page 267

251 مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.دو ٹوک جواب کہ اسلام ہی مراد ہے اس سے، اور کوئی دعوت مراد نہیں ہے.اب میں اس سلسلہ میں، بعد میں جو میں نے تحقیقات کیں حضرت خلیفہ المسح الثالث" کے ارشاد پر، اس کی صرف ایک جھلک آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.1892ء میں جبکہ حضرت مسیح موعود پہلی دفعہ لاہور تشریف لائے تو بڑا ہنگامہ تھا.پیسہ اخبار کے ایڈیٹر محبوب عالم صاحب نے لکھا ہے کہ مرزا صاحب نے تو اسلام کی تبلیغ کی ہے.ان کی کتابیں اس بات پر شاہد ناطق ہیں تو بجائے اس کے کہ ہندو اور دوسرے جو غیر مذاہب والے ہیں، ایجی ٹیشن کرتے ، علماء لوگ جن کو نسبت ہے اسلام کے ساتھ.انہوں نے ہنگامہ آرائی شروع کر دی ہے.مسلمانوں کو مرزا صاحب سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ وہ اسلام کے علمبر دار ہیں.اگر خطرہ ہوسکتا ہے تو غیر مسلم کو ہوسکتا ہے.یہ پیسہ اخبار نے لکھا.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اس کا حوالہ بتائیں گے آپ.؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ پیسہ اخبار لاہور کا اخبار ہے 22 فروری 1892ء.اس کا اداریہ ہے.عنوان میں لکھتے ہیں کہ ” جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی لاہور میں پھر یہ تمیں مئی 1908ء کا وکیل ہے جس وقت کہ مولانا ابوالکلام آزاد صاحب ادارت کر رہے تھے.مولانا نے خود لکھا ہے کہ میں اس وقت تک اس اخبار کا ایڈیٹر رہا جب تک کہ میرے والد فوت نہیں ہوئے اور وہ اگست میں فوت ہوئے ہیں اور یہ 30 مئی 1908ء کا آپ کا اداریہ ہے.اس سے پہلے کا بھی ہے.لیکن میں اصل آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.اس میں فرماتے ہیں.(اگر چہ لمبی عبارت ہے اس میں سے عرض کر رہا ہوں.) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد لکھا گیا ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور علیہ السلام کی وفات پر مولانا ابوالکلام آزاد صاحب نے جو دوسرا آرٹیکل لکھا تھا اس کی عبارت میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں.اصل میرے پاس محفوظ ہے.اس کا عنوان ہے " مرزا غلام احمد مرحوم “ لکھتے ہیں کہ اگر چہ مرزا صاحب نے علوم مروجہ اور دینیات کی باقاعدہ تعلیم

Page 268

252 نہیں پائی تھی مگر ان کی زندگی اور زندگی کے کارناموں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خاص فطرت لے کر پیدا ہوئے تھے.جو ہر کس و ناکس کو نصیب نہیں ہو سکتی.انہوں نے اپنے مطالعہ اور فطرت سلیم کی مدد سے مذہبی لٹریچر پر کافی عبور حاصل کیا.1867 ء کے قریب جبکہ ان کی عمر پینتیس چھتیں سال کی تھی ، ہم ان کو غیر معمولی مذہبی جوش میں سرشار پاتے ہیں.وہ ایک سچے اور پاکباز مسلمان کی طرح زندگی بسر کرتا ہے.اس کا دل دنیوی کششوں سے غیر متاثر ہے.وہ خلوت میں انجمن اور انجمن میں خلوت کا لطف اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہے.ہم اسے بے چین پاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسی کھوئی ہوئی چیز کی تلاش میں ہے جس کا پتہ فانی دنیا میں نہیں ملتا.اسلام اپنے گہرے رنگ کے ساتھ اس پر چھایا ہوا ہے.کبھی وہ آریوں سے مباحثے کرتا ہے.کبھی حمایت اور حمیت اسلام میں وہ بسیط کتابیں لکھتا ہے.1886ء میں بمقام ہوشیار پور آریوں سے جو مباحثات انہوں نے کئے تھے ، ان کا لطف اب تک دلوں سے محو نہیں ہوا.غیر مذاہب کی تردید اور اسلام کی حمایت ( یہ دعوت اسلام ہے.ناقل ) غیر مذاہب کی تردید اور اسلام کی حمایت میں جو کتابیں انہوں نے تصنیف کی تھیں ، ان کے مطالعہ سے جو وجد پیدا ہوا وہ اب تک نہیں اترا.ان کی ایک کتاب براہین احمدیہ نے غیر مسلموں کو مرعوب کر دیا.اور اسلامیوں کے دل بڑھا دئیے.“ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد لکھا گیا جبکہ حضور کی اکثر کتابیں چھپ چکی تھیں اور حضور کے سارے عقائد دنیا کے سامنے آچکے تھے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.مولا نا ہم عصر تھے ، قادیان میں بھی گئے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھی پہنچے.کہتے ہیں مولانا کہ:.ان کی ایک کتاب براہین احمدیہ نے غیر مسلموں کو مرعوب کر دیا اور اسلامیوں کے دل بڑھا دیئے اور مذہب کی پیاری تصویر کو ان آلائشوں اور

Page 269

253 گردو غبار سے صاف کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا جو مجاہیل کی تو ہم پرستیوں اور فطری کمزوریوں نے چڑھا دیے تھے.غرضیکہ اس تصنیف نے کم از کم ہندوستان کی مذہبی دنیا میں ایک گونج پیدا کر دی.( کتنا ز بر دست خراج تحسین ہے.اور یہ ایک شاہد ناطق کی حیثیت میں کیونکہ ان کے زمانے میں یہ ساری بات ہوئی ہے.آج کا ملا کیا جان سکتا ہے؟.ناقل ) اس تصنیف نے کم از کم ہندوستان کی مذہبی دنیا میں ایک گونج پیدا کر دی جس کی صدائے بازگشت ہمارے کانوں میں اب تک آ رہی ہے.“ 66 فرماتے ہیں:.و گو بعض بزرگانِ اسلام اب براہین احمدیہ کے بُرا ہونے کا فیصلہ دے دیں محض اس وجہ سے کہ اس میں مرزا صاحب نے اپنی نسبت بعض پیشگوئیاں کی تھیں اور بطور حفظ تقدم اپنے آئندہ دعاوی کے متعلق بہت کچھ مصالحہ فراہم کر لیا تھا.( یہ ان کی ذاتی رائے ہے.ناقل ) لیکن اس کے بہترین فیصلہ کا وقت 1880ء تھا جبکہ وہ کتاب شائع ہوئی.مگر اُس وقت مسلمان بالا تفاق مرزا صاحب کے حق میں فیصلہ دے چکے تھے یہ فیصلہ تھا مسلمانان ہند کا.آگے لکھتے ہیں.ایک چھوٹا سا دھبہ بھی آپ کے دامن پر نظر نہیں آتا.یہی رسول پاک کے لئے معیار تھا کہ آپ نے فرمایافَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمَرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ.(يونس: 170) آگے مولانا آزاد نے لکھا:.کریکٹر کے لحاظ سے ہمیں مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا ایک چھوٹا سا دھبہ بھی نظر نہیں آتا.“ اور وہ ملاں جو مولانا آزاد کی جوتیوں کا غلام ہے، سوائے گالیوں کے اس کے پاس موجود ہی کچھ نہیں ہے.لیکن مولانا آزاد فرماتے ہیں کہ مرزا صاحب ایک مقدس انسان تھے.کوئی داغ ان کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا.

Page 270

254 شاندار تھا.وو وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی.غرض کہ مرزا صاحب کی زندگی کے ابتدائی پچاس سالوں نے کیا بلحاظ اخلاق، عادات اور پسندیدہ اطوار، کیا بلحاظ مذہبی جذبات و حمایت دین مسلمانانِ ہند میں ان کو ممتاز ، برگزیدہ اور قابل رشک مرتبہ تک پہنچا دیا.“ یہ ہے دعوت اسلام.اب آگے اور پیاری چھوٹی سی بات.اس دعوت اسلام کا نتیجہ کیسا ترجمہ قرآن کے دیباچہ میں پاک و ہند کے نامور عالم مولانا نور محمد صاحب نقشبندی، چشتی مالک اصبح المطابع دہلی نے یہ لکھا.یہ قرآن مجید اب بھی دہلی میں چھپ رہا ہے اور جس وقت کو مبطور (انڈیا) میں مباحثہ کے سلسلہ میں یہ خاکسار اور مولانا حافظ مظفر احمد صاحب حضرت خلیفۃ اسیح الرابع کے حکم پر ہندوستان گئے تو دتی میں ہم جامع مسجد کے سامنے کی دوکان میں گئے.تو ایک ہی کتاب ہم نے اس وقت حاصل کی اور وہ یہ دیباچہ تفسیر القرآن والا ترجمۃ القرآن تھا مولا نا اشرف علی تھانوی صاحب کا.اور اس میں وہ دیباچہ اب تک موجود ہے.یہ نہیں ہے کہ جہاں اہلحدیثوں نے وہ حوالہ جو مولوی ثناء اللہ صاحب کی تفسیر ثنائی کا تھا کہ نظام کائنات میں یہ خدا کا اصول ہے جو جھوٹا نبی ہوتا ہے وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور اس کی امت نہیں رہتی.اب چونکہ یہ مسیح موعود کی صداقت کا ایک روشن ثبوت تھا.کراچی سے جو چھپی ، اس میں لکھا ہے کہ ہم اسی کی فوٹو کاپی آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں اور وہاں پر دیکھیں تو وہ پورا صفحہ ہی غائب ہے.اس کے حاشیہ میں لکھا تھا کہ :.66 دعوی نبوت کا ذبہ مشل زہر کے ہے.جو کوئی زہر کھائے گا ہلاک ہو گا.“ اور اس کے پہلے لکھا تھا.” جو شخص زہر کھاتا ہے ، مرجاتا ہے.اس کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ ہر مرنے والے نے زہر بھی کھائی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو کوئی زہر کھائے گا وہ ضرور مرے گا.“ تفسیر ثنائی جلد اول صفحہ 17 ناشر مطبع چشمه، نور امرتسر شوال 1313ھ ) یہ ساری باتیں نکال دی گئیں.مگر دتی کے کتب خانوں کو داد دینی چاہئے کہ وہ اب تک

Page 271

255 شائع کر رہے ہیں.اس میں یہ لکھا ہے.اسی زمانہ میں پادری لیفرائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا.ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ، ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا.حضرت عیسی کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود...ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا تب...اب سنئے ان الفاظ کو ، کتنا بڑا دعویٰ ہے دعوت اسلام کا اور کتنا بڑا انقلاب پیدا کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور کس طرح کا سر صلیب ہونے کے لحاظ سے دھجیاں بکھیر دیں صلیب پرستوں کے تمام قسم کے خیالات کی.فرماتے ہیں مولانا نور محمد صاحب نقشبندی چشتی مالک اصح المطابع دہلی کہ:.حضرت عیسی کے آسمان پر بجسم خا کی موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا، تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور لیفر ائے اور اس کی جماعت سے کہا (یعنی لیفر ائے کی جماعت سے.ناقل ) کہ عیسی جس کا تم نام لیتے ہو، دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں.پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو.اس ترکیب سے اس نے لیفر ائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی.“ ( دیپاچه قرآن صفحه 30 نا شرمولوی نور محمد قادری نقشبندی چشتی مالک اصبح المطابع و کارخانه تجارت آرام باغ کراچی)

Page 272

256 ہجری شمسی کیلنڈر کا تعارف حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.اگلا سوال 10 اگست 1974ء کو شام کے اجلاس میں حضور سے کیا گیا اور سوال یہ تھا کہ آپ کا کیلنڈر مسلمانوں سے الگ ہے.اس کے جواب میں حضور نے کیا فرمایا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے ارشاد فرمایا.ہمارا اپنا کوئی کیلنڈر نہیں.جو کیلنڈر آنحضرت ﷺ کے واقعہ ہجرت سے شروع ہوتا ہے اور جس کا ہر مہینہ زمانہ نبوی کے واقعات سے موسوم ہے وہ پوری ملت اسلامیہ کا کیلنڈر ہے.اس کے بعد حضور نے تشریح فرمائی کہ:.اس کیلنڈر کے ہر مہینہ کا نام آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک کے کسی واقعہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے.اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم ہجری کیلنڈر کو گریگورین کیلنڈر میں Convert کریں تو مسلمانوں کو یہ پتہ لگے کہ اس مہینہ میں آنحضور ﷺ کے عہد مبارک میں کون سا واقعہ ہوا تھا اور وہ واقعات جو تاریخ کے لحاظ سے ہیں اور گریگورین کیلنڈر کے لحاظ سے ثابت ہوئے انہی کے نام پر ان کو موسوم کیا گیا ہے اور یہ دراصل تمام مسلمانوں میں عشق رسول پیدا کرنے اور تاریخ اسلام کے دہرانے کا انتہائی کامیاب ذریعہ ہے.مثلاً آنحضور عملے پر غارحرا میں سب سے پہلے نومبر میں وحی نازل ہوئی.تو نومبر کا مہینہ نبوت کا مہینہ کہلاتا ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.باقی کی تفصیل بھی اگر آپ بتادیں...مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.جنوری کا مہینہ یہ صلح حدیبیہ کی طرف منسوب ہے.اس کا نام صلح رکھا گیا.فروری میں آنحضور ﷺ نے کھل کے تبلیغ کا آغاز کیا اور بادشاہوں کی طرف تبلیغی خطوط ارسال فرمائے.تو وہ تبلیغ “ کہلاتا ہے.مارچ جو ہے وہ ”امان“ کا مہینہ تھا حضور علیہ السلام نے امان دی بعض لوگوں کو بعض قبیلوں کو ، بعض ایسے لوگوں کو جو واجب القتل تھے مگر آپ نے امان دی حجۃ الوداع کے موقعہ پر.اپریل یعنی ” شہادت میں رسول کریم ﷺ کے صحابہ شہید ہوئے بئر معونہ اور رجیع کے

Page 273

257 موقعہ پر.بہر حال اس وقت شہیدوں کا تذکرہ سامنے آجاتا ہے،صحابہ نے جوخون کے نذرانے پیش مئی کو ہجرت کہا جاتا ہے.ہجرت کا مہینہ دراصل اس ہجرت کی طرف اشارہ کے لئے ہے جبکہ صحابہ رسول پہلی دفعہ حبشہ کی طرف تشریف لے گئے تھے.اب دیکھیں جب مئی کا مہینہ آتا ہے تو مسلمانوں کے دل میں وہ زمانہ سامنے آجاتا ہے.ایک نقشہ پھر جاتا ہے ایک منظر سامنے آجاتا ہے کہ کیسی بے بسی کا عالم تھا کہ صحابہ کو مکہ چھوڑ کے حبشہ میں جانا پڑا.حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.یعنی ہجرت مدینہ تو ستمبر میں ہوئی تو یہ ہجرت حبشہ کی طرف؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ ہجرت حبشہ کی طرف ہے لیکن جس وقت ابتدا میں کیلنڈر ترتیب دینے والی ) کمیٹی نے اس کو شائع کیا تو اس میں اس کی نسبت آنحضرت کی ہجرت کی طرف تھی.حالانکہ حضور کی ہجرت تو ستمبر کے مہینہ میں ہوئی ہے.7 ستمبر کو فیصلہ ہوا، حضور ﷺ کے خلاف قریش کی اسمبلی کا.میں بتا چکا ہوں تفصیل کے ساتھ تو یہ ہجرت“ جو ہے.یہ مئی میں ہونے والی ہجرت صحابہ رسول کی حبشہ کی طرف اشارہ ہے.حضور ﷺ نے بنی طے کے اسیروں پر حاتم طائی کے ساتھ ان کی قومی نسبت کی وجہ سے الله بعض احسانات کئے.اس نسبت سے جون کو احسان کہا جاتا ہے.جولائی وفا کے نام سے موسوم ہے.اس مہینہ میں غزوہ ذات الرقاع ہوا تھا جس میں سفر کی شدت اور سواری کی کمی وجہ سے پیدل چلنے کے باعث صحابہ کے پاؤں چھلنی ہو گئے تھے.اس جنگ میں صحابہ نے خارق عادت کے طور پر اپنے صدق و وفا کا نمونہ دکھایا تھا.اگست یعنی ظہور اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت علیہ کے ہاتھ سے بیرون عرب میں اسلام کی اشاعت اور ظہور یعنی غلبہ کی بنیادرکھوائی.ستمبر کو تبوک کہا جاتا ہے.یہ غزوہ تبوک کی طرف اشارہ ہے.اکتوبر کو اخاء اس لئے کہ جب مدینہ میں حضور تشریف لائے.ستمبر میں پہنچے.اکتوبر میں اخوت کا نظام قائم کیا انصار میں اور مہاجرین میں.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اور نومبر نبوت“ آپ نے بتا دیا ہے اور دسمبر ؟

Page 274

258 مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.دسمبر فتح مکہ کی طرف اشارہ ہے.اس لیے اس مہینہ کو د فتح “ کہا جاتا ہے.اب میں آپ کو یہ بتا تا ہوں کہ اول تو یہ سمجھنا چاہئے کہ شمسی کیلنڈر کا خیال مدت سے صدیوں پہلے مسلمان بادشاہوں کا تھا.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.ہجری شمسی کا ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.ہجری شمسی کا چونکہ قرآن مجید بھی یہ کہتا ہے کہ ہم نے چاند اور سورج کو حسبانا بنایا ہے.تو اس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن یہ چاہتا ہے کہ کیلنڈر دونوں قسم کے ہونے چاہئیں مگر اسلامی کیلنڈ رہجری تھا.حضرت عمرؓ کے زمانے سے جاری ہوا.تو یہ خیال پڑتا تھا کہ عام دنیا کے لین دین میں شمسی کیلنڈر بھی ضروری ہے اور وہ شمسی کیلنڈر جو کہ ہجرت کے واقعہ کے ساتھ جاری ہوا.تو یہ خیال ہمیشہ یعنی خود ترکی میں یہ خیال دامنگیر رہا وہاں کے بادشاہوں کو.حضرت سلطان ٹیپو رحمتہ اللہ علیہ نے ہجری شمسی کیلنڈر بنایا بھی تھا.ان کے سوانح نگارمحمود بنگلوری صاحب نے لکھا ہے.سلطنت خداداد میسور میں کہ حضرت سلطان ٹیپو نے اپنی فوج کا نام جماعت احمدی رکھا تھا.ایک مسجد کا نام مسجد اقصیٰ رکھا تھا.ایک کا نام مسجد احمدی رکھا اور جو اشرفی سونے کی تھی اس کا نام سکہ احمدی رکھا اور ہجری شمسی کیلنڈر جو تھا اس کا پہلا مہینہ احمدی مہینہ ہی کہلاتا تھا.وو تو یہ ایک عظیم الشان خدمت تھی جو حضرت مصلح موعودؓ کے ذریعہ سے جماعت احمدیہ نے کی ہے.اور اس کا مقصد یہ ہے کہ دیکھیں جنوری ، فروری ، مارچ ، اپریل یا چیت، بیساکھ.اس کا اسلام کے ساتھ کیا تعلق ہے.لیکن کسی ہجری کیلنڈر جس وقت ایک احمدی پڑھتا ہے تو ہر آنے والا مہینہ محمد رسول اللہ ﷺ کی یاد تازہ کر دیتا ہے.کتنا بڑا احسان عظیم ہے اور میں آپ کو یہ خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کیلنڈریعنی ہجری شمسی کیلنڈرسعودی عرب کے اخباروں نے بھی رائج کر دیا ہے.آپ اگر سعودی عرب کے اخباروں کو پڑھیں 1385 ھش آپ کو اس میں ملے گا.ہجری سمسی کیلنڈر میں مہینوں کے نام وہ نہیں رکھے.انہوں نے اپنے حساب سے رکھے ہیں.یہ ایک شاندار امتیاز ہے.اسی طرح ایران میں اخبار کیہان انٹرنیشنل بہت مشہور اخبار ہے.حکومت ایران کا سرکاری ترجمان ، اس میں یہ کیلنڈر استعمال ہوتا ہے.” اتحاد اسلامی مجاہدین افغانستان کا اخبار

Page 275

259 ہے اتحاد مجاہدین.اس میں آپ دیکھیں.اس میں 29 رجب المرجب 1401 ہجری ہے اور 3 جون 1981ء اور مطابق 1360 ہجری شمسی.یہی ہجری شمسی کیلنڈر ہے جو حضرت مصلح موعودؓ نے تیار کر وایا ہے تو یہ ایک فتح مبین ہے احمدیت کی.ضیاء الاسلام پر لیس ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.ضیاء الاسلام پریس کے بارے میں یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا قادیان میں بھی یہ پر لیس تھا؟ درود شریف مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے فرمایا.ہاں.حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.ایک رسالہ کا نام لیا اور یہ کہا گیا کہ اس رسالہ سے ثابت ہے کہ مرزا صاحب نے درود شریف کے الفاظ میں ردو بدل کیا ہے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے اس کا جواب ارشاد فرمایا تھا کہ جس رسالہ کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ رسالہ ہمیں نہیں مل سکا.اس واسطے جواب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اس کے بعد میں آخری معروضات اسی سلسلہ میں کرنا چاہتا ہوں.بات یہ ہے کہ ایک درود شریف تو وہ ہے جو خود آنحضرت ﷺ نے جو کہ مجسم قرآن تھے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور الہام کے ساتھ امت کو سکھایا ہے.حضرت مسیح موعود اور خلفاء احمدیت اور جماعت احمدیہ اسی کو حقیقی درود مجھتی ہے اور وہی پڑھتی ہے نمازوں میں.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جہاں تک ممکن ہو درود شریف بکثرت پڑھیں اور دلی محبت اور اخلاص سے پڑھیں.اگر گیارہ سو دفعہ روز ور د مقرر کریں یا سات سو دفعہ ورد مقرر کریں تو بہتر ہے.“ اور وہ درود کے الفاظ حضور علیہ السلام نے خود دہرائے." اللهم صل على محمد و على آل محمد كما صليت

Page 276

260 على ابراهيم وعلى آل ابراهیم انک حمید مجید.اللهم بارک علی محمد وعلى آل محمد كما باركت على ابراهيم وعلى آل ابراهیم انک حمید مجید.فرماتے ہیں:." یہی درود شریف پڑھیں.اگر اس کی دلی ذوق اور محبت سے مداومت کی جاوے تو زیارت رسول کریم بھی ہو جاتی ہے.اور تنویر باطن اور استقامت دین کے لئے بہت موثر ہے.“ یہ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ سوم صفحہ 6-7 کی عبارت ہے.( مرتب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.ناشر محمود احمد عرفانی صاحب) میں یہاں بتانا چاہتا ہوں کہ آج دنیا میں حضرت مسیح موعود ہی ہیں اور آپ کے خلفاء، جنہوں نے درود شریف کی عظمت دنیا پر نمایاں کی ہے.لوگ تو صرف ظاہری الفاظ کو لیتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے درود کی عظمت اور برکت کے اوپر اتنا کچھ لکھا ہے کہ جیسے دن چڑھا دیا ہے.بے شک درود کے متعلق مولوی حضرات ، دیوبندی امت کے حوالے اور لٹریچر پڑھیں آپ کو اس کا ہزارواں حصہ بھی درود شریف کی برکتوں کا نہیں ملے گا.اس واسطے کہ ایک وہ درود شریف ہے جو صرف زبانوں پر آتا ہے.ایک وہ ہے کہ جو شخص اس درود کی عظمت کو سمجھ کر اس کا التزام کرتا ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں خدا کے فضلوں کی بارشیں اس پر نازل ہوتی ہیں وہ شاہد ناطق ہے درود شریف کی عظمتوں پر.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.درود شریف کی عظمت کیا ہے اور اس کی برکات کیا ہیں.آپ بے شک درود شریف کے متعلق ساری کتابیں پڑھیں جو کہ علمائے حاضر نے لکھی ہیں، آپ کو ان میں سے اس کا عشر عشیر بھی نہیں ملے گا.اس واسطے کہ ایک درود شریف محض طوطے کی طرح رٹ لینے کی بات ہے، ایک درود صاحب عرفان کا ہے.حضور فرماتے ہیں:.ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا.اسی رات خواب میں دیکھا کہ فرشتے آب زلال کی

Page 277

261 ہیں.شکل پرنور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں.اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں.صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم 66 (براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 503.روحانی خزائن جلد اول صفحہ 598 حاشیہ ) اب دنیا میں کون ہے جس کو در ود محمد علی کے نتیجے میں برکتیں حاصل ہوتی ہیں.پھر فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ دوستے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں هَذَا بِمَا صَلَّيْتَ عَلَى مُحَمَّدٍ (حقیقۃ الوحی صفحہ 128.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 131 حاشیہ) یہ برکتیں، یہ نعمتیں جو عرش کے خدا نے تمہیں دی ہیں.یہ درود شریف کی برکت سے ملی پھر آگے پڑھیں.کون صوفی ہے کہ جو درودشریف کی اس عظمت کو سمجھتا ہے.سب حاجی ہیں جو اپنے تئیں حاجی کعبہ سمجھے بیٹھے ہیں.حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں :.درود شریف کے طفیل...اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں وو 66 آنحضرت ﷺ کی طرف جاتے ہیں.“ یہ حضور کے مشاہدات اور تصورات دیکھیں کتنے وجد آفرین ہیں!.اور پھر وہاں جا کر آنحضرت ﷺ کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہا نالیاں ہو جاتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں.“ کتنا عظیم الشان منظر ہے آسمانی دنیا کا! پھر حضرت مسیح پاک فرماتے ہیں:.درود شریف کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ کے اس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا

Page 278

262 چاہتا ہے، اُس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود پڑھے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو.“ ( اخبار الحکم جلد 7 نمبر 8 مؤرخہ 28 فروری 1903ء صفحہ 7) اب اسی سلسلہ میں آخر میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ صورت ہے درود شریف کی عظمتوں کی جو آج ہمیں مسیح موعود علیہ السلام ہی کے لٹریچر سے پتہ لگتی ہیں.اس سے بڑھ کر آپ دیکھیں.درود شریف کی عظمت کا اندازہ لگانے کے لئے اس کے اندر پوشیدہ معارف اور حقائق کو دیکھنا ضروری ہے.آج میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی شخص اگر صحیح معنوں میں درود شریف پڑھے تو وہ عاشق رسول بن جائے اور وہ جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.اس کی وجہ؟ ایک دفعہ میں نے ایک صاحب سے یہ بات کہی تھی.میں نے کہا دیکھیں کہ درود شریف کے بغیر تو نماز نہیں ہوتی.درود شریف کا ترجمہ یہ ہے کہ اے خد آنحضرت ﷺ اور آل محمد ﷺ پر برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام پر اور آل ابراہیم پر نازل کی تھیں.اب میں آپ سے درد مند دل کے ساتھ عاجزانہ درخواست کروں گا کہ آپ غور فرمائیں درود شریف کے الفاظ پر.ہم اللہ کی جناب میں عرض کرتے ہیں کہ الہی جو تو نے آل ابراہیم کو عطا کیا تھا آل محمد کو بھی وہ عطا کر.میں نے کہا آپ قرآن سے دیکھیں کہ وہ کیا خزانہ تھا جو آل ابراہیم کوعطا ہوا تھا.کوئی پراپرٹی تھی جو کہ الاٹ ہوئی تھی ؟ کوئی بینک بیلنس تھے؟ کوئی باغ تھا؟ کیا چیز تھی؟ قرآن سے ثابت ہے کہ وہ امامت اور نبوت کے سوا اور کوئی چیز نہیں تھی.تو ہم ہر نماز میں اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ آل محمد کو بھی نبوت عطا کر.اگر کوئی شخص دیانتداری سے ایک لمحہ کے لئے سوچے تو وہ احمدی ہوئے بغیر کیسے رہ سکتا ہے.کتنی موٹی سی بات ہے.درود شریف کی عظمت کو احمدی کے سوا کوئی جان ہی نہیں سکتا.حضرت خلیفۃ اسح الاول نے ایک مرتبہ درود شریف کے متعلق یہاں تک فرمایا کہ درود شریف سے یہ ثابت ہے کہ سارے نبیوں میں سب سے افضل اور سب نبیوں کے شہنشاہ محمد مصطفی احمد مجتبی ملے ہیں.آپ نے فرمایا:.چونکہ درود شریف پڑھنا ایک نیک کام ہے اور یہ ایک حکم ہے کہ جو

Page 279

263 کوئی نیکی سکھاتا ہے تو اس کو بھی اسی قدر ثواب پہنچتا ہے جس قدر کہ سیکھ کر عمل کرنے والے کو.اس لئے دنیا میں جس قدر لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور عبادتیں کرتے ہیں ان سب کا ثواب ہمارے نبی کریم ﷺ کوہی پہنچتا ہے اور ہر وقت پہنچتا ہے کیونکہ زمین گول ہے.اگر ایک جگہ فجر ہے تو دوسری جگہ عشاء ہے.ایک جگہ اگر عشاء ہے تو دوسری جگہ شام ہے.ایسے ہی اگر ایک جگہ ظہر کا وقت ہے تو دوسری جگہ عصر کا ہوگا.غرض ہر گھڑی اور ہر وقت ہمارے نبی کریم ﷺ کو ثواب پہنچتا رہتا ہے.دنیا میں کروڑ در کروڑ رکوع اور سجدہ کرتے اور درود پڑھتے اور دوسری دعائیں مانگتے ہیں اور پھر اس کے علاوہ دوسرے احکام پر چلتے ، روزے رکھتے ، زکوتیں ادا کرتے ہیں.اس لئے ماننا پڑے گا کہ ہر آن میں محمد رسول اللہ اللہ کو بھی ان عبادات کا ثواب پہنچتارہتا ہے.کیونکہ اس نے تو یہ باتیں سکھائی ہیں کہ تم لوگ نمازیں پڑھو، زکو تیں دو اور مجھ پر درود بھیجو.اور پھر محمد رسول اللہ ﷺ کی اپنی روح جو دعائیں مانگتی ہوگی وہ ان کے علاوہ ہے.اب تم سوچ سکتے ہو کہ جب سے مسلمان شروع ہوئے اور جب تک رہیں گے، ان سب کی عبادتیں ہمارے نبی کریم ﷺ کے نامہ اعمال میں بھی ہونی چاہئیں.اس لئے ماننا پڑے گا کہ وہی تمام دنیا کی کل مخلوقات کا سردار ہے.“ (احکام قادیان جلد 12 نمبر 4 مؤرخہ 14 جنوری 1908ء صفحہ 5) اب آخر میں ایک واقعہ میں عرض کرتا ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے حکم پر جب میں کراچی گیا.تو حضور کی خدمت میں، کراچی کے عزاداروں کی ایک مجلس کے صدر تھے، وہ بھی حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہم لوگ شیعہ حضرات کی تحریک پاکستان میں شمولیت کے متعلق تاریخ لکھنا چاہتے ہیں تو حضور اپنی مرکزی لائبریری سے ہمیں اس کے لئے کوئی مواد عطا فرمائیں.حضور نے میرے متعلق ارشاد فرمایا کہ وہ نیچے موجود ہے.آپ اس سے بات کریں.انشاء اللہ جس قسم کی بھی کتاب اور اقتباسات کی ضرورت ہوگی وہ جماعت مہیا کرے گی کیونکہ قائد اعظم بھی شیعہ تھے اور

Page 280

264 9966 شیعوں نے تحریک پاکستان میں بڑا سرگرم حصہ لیا ہے.حقائق کا انکار نہیں کیا جاسکتا.میں ضمناً کہتا ہوں کہ خان عبدالولی خان صاحب نے کتاب لکھی ہے.نام ہی ہے کہ حقائق حقائق ہیں ” Facts Are Facts “ اور اس میں پارٹیشن سے پہلے کا جو دستاویزی ریکارڈ لندن میں موجود انڈیا آفس میں ہے، اس کی رُو سے ثابت کیا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ 23 مارچ کی قرارداد پاکستان حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی لکھی ہوئی ہے جو قائد اعظم کو بھجوائی گئی تھی.تو بہر حال حقائق حقائق ہیں.حضور نے فرمایا کہ انہیں لکھ دیں.میں نے عرض کیا کہ آپ جو چاہتے ہیں میں بھجواؤں گا اور بعد میں ان کا کوئی خط نہیں آیا لیکن بہر حال اس وقت ایک بات ہوئی.مجھ سے کہنے لگے کہ آپ اہل بیت کو کیا سمجھتے ہیں؟ میں نے کہا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے فارسی کلام میں فرمایا ہے:.جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است میری جان بھی اور میرا دل بھی محمد رسول اللہ علیہ پر قربان ہے اور فدا ہے.خاکم نثار کوچه آل محمد است اور میری خاک ان راہوں پر بھی قربان ہے، جہاں اہل بیت محمد ، حضرت علی شیر خدا، سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہراء، حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسین کے قدم مبارک پڑے تھے.یہ عقیدہ ہے اس شخص کا جسے خدا نے امام مہدی بنا کر بھیجا ہے.کوئی ہے دنیا میں جس نے یہ شان بیان کی ہو امام حسین کی اور اس عقیدت کا اظہار کیا ہو.میں نے کہا، میں بھی ایک سوال کر سکتا ہوں.کہنے لگا ہاں.اس کا تعلق اس موضوع سے ہے.میں نے کہا دیکھیں ماتم تو اس شخص کا کیا جاتا ہے جو فوت شدہ ہوں.ہم تو امام حسین کو زندہ سمجھتے ہیں اگر ماتم ہی دراصل عقیدہ کا اظہار ہے تو آنحضرت ﷺ کی وفات پر کیوں نہیں کیا جاتا.حضرت علی بھی تو شہید ہوئے تھے.اسی طرح بے شمار شہداء ہوئے ہیں.تو یہ ماتم حسین کیوں مخصوص کیا گیا ہے.لیکن قطع نظر اس کے میں نے کہا کہ اگر کوئی شخص حضرت امام حسین یا خود آنحضرت ﷺ پر اعتراض کرے تو اس کا جواب ہم ماتم سے تو نہیں دے سکتے.ہم احمدیوں کو خدا نے اس لئے کھڑا کیا

Page 281

265 ہے کہ ہم مسلمانوں میں وحدت پیدا کریں اور ساری دنیا کی قوموں کو محمد رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے تلے جمع کریں.تو غیر مسلموں سے مناظرے، غیر مسلموں سے تبادلہ خیالات، ان کے متعلق لٹریچر لکھنا، یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے.قرآن مجید کے ساٹھ کے قریب اب اللہ کے فضل سے تراجم شائع ہو چکے ہیں.اس کے علاوہ اور بے نظیر لٹریچر ہے جو صرف جماعت احمدیہ نے شائع کیا ہے.اسلام کی حقانیت کے لئے تو آپ لوگ تو اپنے خیالات میں محو ہوتے ہیں.ماتم کا دن آیا تو آپ اکٹھے ہو گئے ، عزا داری کے لئے اکٹھے ہو گئے.ہمارے سامنے بعض اوقات عیسائیوں نے یہ اعتراض کیا ہے.میں نے پوچھا درود شریف تو آپ پڑھتے ہیں ناں؟.کہنے لگے اس کے بغیر تو ہماری کوئی مجلس بر پاہی نہیں ہوتی.میں نے کہا اس میں لکھا ہے کہ اللهُمَّ صَلِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ الہی وہ برکتیں جو تو نے ابراہیم کو دی تھیں وہ محمد عمر بی کو بھی عطا فرما.اور جو آل ابراہیم کو میں وہ آل محمد کو عطا کی جائے.آل محمد کی جو برکتیں تھیں وہ تو آپ کی کتابوں میں آئمہ کا بیان موجود ہے کہ وہ برکت نبوت کی تھی.حیرت کی بات ہے کہ لوگ ابراہیم کی اولا د میں تو نبوت کو جاری سمجھتے ہیں اور آل محمد میں جاری نہیں سمجھتے.میں نے کہا یہ آئمہ کی تحریر موجود ہے.اس وقت مجھے یاد نہیں تھا کہ یہ اصول کافی میں ہے یا صافی شرح اصول کافی میں ہے بہر حال جو بھی ہے یہ موجود ہے.لیکن میں نے کہا سوال یہ کرتے ہیں کہ یہ دعا کرنا کہ ابراہیم کی برکتیں رسول پاک کو بھی عطا ہو جائیں.عیسائی کا سوال یہ ہے کہ اس سے مطلب یہ ہوا کہ جو برکتیں ابراہیم کو ملی تھیں، آپ کے پیغمبر معاذ اللہ اس سے محروم ہیں.میں نے کہا آپ جو درود شریف کثرت سے پڑھتے ہیں، پڑھنا بھی چاہئے.اگر کوئی عیسائی سوال کرے تو آپ ماتم کریں گے اس کے مقابل پر یا کوئی جواب دیں گے.ہے جواب آپ کے پاس؟ کہنے لگے آپ نے تو میرے پاؤں تلے سے زمین نکال دی ہے.ہمارے تو وہم و گمان میں بھی کبھی یہ اعتراض نہیں آیا.میں نے کہا کہ ہم آج پر چم حسین کے لہرانے والے ہیں.آل محمد کا پر چم خدا نے مسیح موعود کو بخشا ہے پھر اس سے آپ کو کیا فکر ہے؟ فکر تو ہمیں ہے.میں نے کہا آپ بے شک آیت اللہ صاحب سے جا کر پوچھیں.یہاں کے ذاکروں کی بات میں نہیں کرتا.آج تک

Page 282

266 آپ کوئی لٹریچر نہیں بتا سکتے جس میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہو.اس کا جواب ہمارے امام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ فرمودہ 6 جنوری 1928ء میں دیا تھا.یہ خطبہ الفضل 13 جنوری 1928ء صفحہ 7-9 میں چھپا ہوا موجود ہے اور اس کا متن حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب حلال پوری نے اپنی کتاب ”محامد خاتم النبین صفحہ 373 تا 376 مطبوعہ جنوری 1936ء میں بھی درج کیا ہے.اس کا خلاصہ دیکھیں! آج تک میں نے اپنی عمر میں لاکھوں صفحات کا مطالعہ کیا ہے مجھے یہ نکتہ کہیں نہیں ملا.اور میں ناظرین سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بے شک تلاش کریں اور اگر ملے تو مجھے بھی اطلاع دیں لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ جس کا آل محمد سے تعلق ہے وہی یہ چیزیں بیان کرسکتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ اس سے اعتراض کرتے ہیں کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ شانِ محمدیت ارتقاء کی اس منزل تک نہیں پہنچی جو جناب الہی کی طرف سے حضرت ابراہیم کو عطا کی گئی تھی.حضور نے فرمایا کہ یہ سوچنا چاہئے کہ قرآن مجید نے ابراہیم کی عظمت اور جلالت مرتبت کے متعلق جو لکھا ہے اس میں ایک خاص پہلو بیان کیا گیا ہے.وہ پہلو ہے جس کی طرف اشارہ کر کے تشبیہ دی گئی ہے.اب دیکھیں حضرت مصلح موعود کا علوم ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کا تصور ! فرماتے ہیں کہ قرآن میں یہ لکھا ہے کہ انہوں (ابراہیم ) نے اللہ کے حضور دعا کی کہ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَكَ وَآرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرة: 129 ) اے خدا مجھے بھی مسلم بنا دے اور میری اولاد کو بھی مسلم بنا دے.اس کے جواب میں خدا نے جو جو دوسخا کا اظہار فر مایا اور بیان فرمایا.وہ یہ تھا.فرمایا: إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا کہ ہم تمہیں اور تمہاری اولا د کو صرف مسلم ہی نہیں بنائیں گے ،مسلمانوں کا امام بھی تمہیں بنایا جائے گا.بہت تھوڑا مانگا تھا، بہت زیادہ خدا کی سرکار سے ملا.یہ بالکل ایسی ہی بات ہے.حضرت ابو ہریرہ اپنی زندگی کے آخری زمانہ میں بحرین کے گورنر تھے.حضرت عمرؓ کا زمانہ تھا.ان کے دربار میں ایک حاملہ عورت کا پیغام آیا کہ مجھے فوری طور پر چند

Page 283

267 چھیاں شہد کی چاہئیں.اس وقت دربار میں ان کے سامنے ایک پوری چھاگل بھری ہوئی تھی.انہوں نے حکم دیا کہ فورا اس کے گھر پہنچا دو.آدمی وہاں پہنچانے کے لئے چلا گیا تو مصاحبین میں سے ایک نے کہا کہ حضرت اس نے تو صرف چند چیچیوں کے لئے درخواست کی تھی اور آپ نے پوری چھا گل بھیجوا دی ہے.تو حضرت ابو ہر یہ ہا نے یہ جواب دیا کہ اس خاتون نے اپنی ضرورت کے مطابق مانگا تھا اور میں نے اپنی وسعت کے مطابق اس کا جواب دیا ہے.یہی صورت یہاں پر ہے.ہم اللہ کے حضور دعا کرتے ہیں کہ الہی جو حضرت ابراہیم کے ساتھ معاملہ کیا تھا اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب آپ سے عرض کرتے ہیں کہ ابراہیم تو اپنے زمانے کے ایک علاقائی نبی تھے.دائگی اور زندہ نبی اور عالمگیر نبی اور آفاقی نبی محمد عربی ﷺے ہیں اس لئے آپ جو دعا کریں گے وہ تو عالمگیر شان کی حامل ہوگی.آپ کی ضرورتیں بھی عالمگیر ہوں گی اوّلین کے لئے بھی اور آخرین کے لئے بھی.اس لئے الہی ! آنحضرت ﷺ جو نبیوں کے سردار ہیں ، جب وہ کوئی دعا کریں اور طلبگار ہو جائیں تو محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ وہی سلوک کرنا جو ابراہیم کے ساتھ کیا تھا.تھوڑا مانگا گیا تھا اور بہت زیادہ آپ کو عطا کیا گیا.تو شانِ محمدیت کا اظہار کرتے ہیں یہ الفاظ کہ محمد عربی بادشاہوں کے بادشاہ ہیں.مگر خدا آپ کے ساتھ وہی سلوک کرے گا کہ تھوڑا مانگنے کے باوجود بہت زیادہ عطا کیا جائے گا اسی لئے ساقی آپ کو ثر آپ کو بنایا گیا ہے.آخر میں ” سلام بحضور سید الا نام ، وو صل الله : علی حضرت سید میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کلام کے چند اشعار پڑھ کر ختم کریں گے.بدرگاه ذی شان خیر شفیع الوری مرجع خاص بصد عجز و کرتا , الانام عام منت بصد احترام ہے عرض آپ کا اک غلام کہ اے شاہ کونین عالی مقام عليك الصلواة عليك السلام

Page 284

حسینان 268 عالم ہوئے شرمگیں جو دیکھا وہ حسن اور وہ نور جبیں پھر اس پر وہ اخلاق اکمل تریں کہ دشمن بھی کہنے لگے آفریں زہے خلق کامل زہے زہے حسنِ تام عليك الصلواة عليك السلام گھائل کیا محبت نے دلائل سے قائل کیا آپ نے جہالت کو زائل کیا آپ نے شریعت کو کامل کیا آپ نے بیاں کر دیئے سب حلال و حرام عليك الصلوة عليك السلام نبوت کے تھے جس قدر بھی کمال وہ P سب جمع ہیں آپ میں لامحال صفات جمال اور صفات جلال ہر اک رنگ ہے بس عدیم المثال لیا ظلم کا عفو انتقام عليك الصلواة عليك السلام علمدار عشاق ذات یگاں سبه دار افواج قد وسیاں کراں افاضات میں زنده جاوداں معارف کا اک قلزم بے پلا ساقیا آب کوثر کا جام عليك الصلواة عليك السلام

Page 285

269 سوالات کا دوسرا دور ( 20 تا 23 اگست 1974ء) اکھنڈ بھارت محترم مولانا صاحب! کچھ وہ سوالات ہیں جو حضور انور سے 20 راگست 1974ء سے 23 راگست 1974 ء تک کئے گئے اور یہ سوالات کا دوسرا دور تھا.اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت صاحب سے یہ پوچھا تھا کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اکھنڈ بھارت کے قائل تھے؟ اور اس ضمن میں الفضل 15 اپریل 1947ء کا حوالہ بھی دیا تھا.مولانا دوست محمد شاہد صاحب : بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ سَيِّدِ وُلْدِ آدَمَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ.اس سوال کے جواب میں کہ حضرت مصلح موعودؓ اکھنڈ ہندوستان کے قائل تھے.اٹارنی جنرل صاحب نے افضل 15 اپریل 1947 ء کو بطور دستاویز کے پیش کیا تھا.حضرت خلیفہ اُسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ کا وہ معرکۃ الآراء جواب خصوصی کمیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے پڑھ کر سنایا جو حضور نے 1953ء کی تحقیقاتی عدالت کے سامنے پیش فرمایا تھا.کتا بچہ تحقیقاتی عدالت میں بیان‘ صفحہ 23 پر یہ حوالہ ہے.اس وقت حضرت مصلح موعودؓ پر جرح کرتے ہوئے 14 جنوری 1954ء کو مذکورہ حوالہ پیش کیا گیا تھا اور اس کے الفاظ یہ بھی تھے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے اور ساری قو میں باہم شیر وشکر ہو کر رہیں.“ حضور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہوئی.“ الفضل 5 اپریل 1947ء میں میری تقریر صیح طور پر رپورٹ نہیں نامہ نگار جنہوں نے یہ رپورٹ لکھی وہ اناڑی قسم کے تھے اور بطور رپورٹر کے انہوں نے وہ شائع کی تھی."الفضل یہ اہتمام کرتا تھا کہ مجلس عرفان کے خلاصے بھی ساتھ ساتھ منظر عام پر آتے

Page 286

270 رہیں.تو حضور نے فرمایا کہ 66 و صحیح رپورٹ 12 اپریل 1947ء میں شائع ہوئی ہے.“ تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان ، صفحہ 23-24 ناشر صیغہ نشر واشاعت.ربوہ ) اب وہ رپورٹ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ پانچ اپریل ہے یا پندرہ اپریل ہے.پندرہ اپریل کا انہوں نے حوالہ دیا تھا.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.حضور کا بیان جو الفضل میں ہے،اس کے بارہ میں جرح کرنے والے نے اگست 1947ء کا حوالہ دیا ہے.اور حضور نے جواب میں یہ فرمایا کہ یہ میری تقریر کا جو خلاصہ ہے وہ ٹھیک شائع نہیں ہوا.12 اپریل 1947ء کے ”الفضل میں صحیح رپورٹ شائع کی گئی ہے.یہ وہ رپورٹ ہے جو الفضل قادیان کے شمارے میں 12 اپریل 1947ء کو شائع کی گئی اور یہ چوہدری فیض احمد صاحب فیض گجراتی ، بعد میں جنہیں درویشوں کے حلقے میں شامل ہونے کا افتخار بھی حاصل ہوا ، کے قلم سے نکلی.ان کے قلم سے بہت معرکۃ الآراء کتا بیں بھی ہیں.انہوں نے حضور کے جو ملفوظات 3 اپریل 1947 ء کے تھے وہ شائع کئے.اس میں حضور نے پہلے ایک رویاء کا ذکر کیا ہے اور پھر اس کی روشنی میں اس کی تعبیر بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں میں اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کی قوموں کی مناسبت سے آپ کو کرشن اور دوسرے الہاموں سے بھی نوازا ہے اور یہ بھی الہام ہے کہ :."رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزیں ہوئے قلعہ ہند میں“ (15190324-17") اس کی تعبیر تو بعد میں خود حضور نے بیان کی تھی کہ اس سے مراد پاکستان ہے.پس یہ قلعہ ہند ضرور قائم رہنا چاہئے.کیونکہ اسلام کی ترقی کے لئے اس کا قائم رہنا ضروری ہے.مگر اس حوالہ میں یہ لکھا ہے کہ یہ جو الہام ہے اس میں اشارہ ہے کہ ہندوستان میں وسیع پیمانے پر تبلیغ اسلام مقدر ہے یعنی کوئی پولیٹیکل (Political) انداز سے آپ جواب نہیں دے رہے.بلکہ روحانی اعتبار سے جواب

Page 287

271 دے رہے ہیں کہ ہندوستان میں نہایت وسیع پیمانے پر تبلیغ اسلام مقدر ہے.پس یہ قلعہ ہند ضرور قائم رہنا چاہئے کیونکہ اسلام کی ترقی کے لئے اس کا قائم رہنا ضروری ہے.یہاں یہ نقطہ نگاہ ہے.مگر اس قلعہ کو فتح کرنے کے لئے ہمیں بہت زیادہ قربانیاں کرنی ضروری ہیں.یہ نہیں بتا رہے کہ ہندوستان اکٹھا رہے بلکہ فرماتے ہیں کہ ایسا طریق اختیار کیا جائے کہ سارا ہندوستان محمد عربی ﷺ کی آغوش میں آجائے.یہ آپ فرما رہے ہیں اور آپ یہ دیکھیں کہ یہ بیان حضور کا 3ار پریل 1947ء کا ہے.اب ایک مورخ کے لئے یہ جاننا بھی تو ضروری ہے کہ حضور نے یہ بیان اس وقت دیا ہے جب کہ حضور کے دوش بدوش پوری جماعت احمد یہ جہاد پاکستان میں قائد اعظم کے ساتھ تھی اور اس کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ خدا کے فضل سے نومبر 1945ء میں مسلم لیگ مرکزی انتخاب میں سو فیصدی مسلم نشستوں پر قابض ہو گئی.اس پر آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے قائد اعظم کے ارشاد پر 11 جنوری 1946 ء کو ایک جشن منایا گیا.فروری 1946 ء میں صوبائی انتخابات ہوئے.ان انتخابات میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ بعض احمدی عورتوں نے تو یہاں تک کمال دکھلایا ہے کہ حاملہ تھیں اور اس کے باوجود میرے حکم کی وجہ سے پالکی میں بیٹھ کر انہوں نے پولنگ اسٹیشن پر جا کر تحریک پاکستان اور پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالے اور لدھیانہ میں تو مسلم لیگ کے کیمپ میں، مستورات کے کیمپ میں، جماعت احمدیہ کی وہ مستورات تھیں ، لجنہ اماءاللہ سے جن کا تعلق تھا اور براہِ راست قادیان سے پہنچی تھیں کہ بہت عظیم ڈیوٹی تھی.اس سلسلے میں آپ یہ بھی دیکھیں کہ صف اول کے مسلم لیگی لیڈر سردار شوکت حیات صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے The Nation That Lost Its Soul" کتاب کا ٹائیٹل ہے.اس کا اردو ترجمہ گم گشتہ قوم کے نام سے شائع شدہ ہے.وہ لکھتے ہیں کہ صوبائی انتخابات کے سلسلہ میں چونکہ براہ راست حضرت قائد اعظم کی طرف سے مجھے نگران مقرر کیا گیا تھا.میں اپنے سارے پروگرام حضرت قائد اعظم کو بھجواتا تھا تو جب میں بٹالہ جانے لگا تو مجھے آپ کی طرف سے یہ میسج (Message) پہنچا کہ بٹالہ کے آگے قادیان بھی ہے.وہاں حضرت صاحب رہتے ہیں.وہاں بھی تمہیں جانا ہے اور میرا یہ پیغام پہنچانا ہے میری طرف سے کہ آپ پاکستان کے قیام کے لئے دعا بھی کریں اور اس کے ساتھ ہمیں سپورٹ (Support) بھی کریں.چنانچہ وہ

Page 288

272 فرماتے ہیں کہ میں حضرت قائد اعظم کا پیغام لے کر آدھی رات کے قریب قادیان گیا.حضور اس وقت سو چکے تھے مگر اسی وقت حضور کو اطلاع دی گئی.حضور فوراً تشریف لائے یہ سن کر کہ قائد اعظم کا پیغام لے کے آئے ہیں.میں نے پیغام دیا تو حضرت مصلح موعودؓ نے یہ جواب دیا.( یہ سٹیٹمنٹ Statement سردار شوکت حیات صاحب کا ہے.) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.یہ کہ اسی وقت وہ دروازے پر تشریف لائے اور آکر میری بات سنی.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.تو حضور نے فرمایا کہ قائد اعظم کو یہ پیغام دے دیں کہ پہلے دن سے یعنی قیام پاکستان کی جو قرار داد ہے اس دن سے ، ہم پاکستان اور مسلم لیگ کی کامیابی کے لئے دعا کر رہے ہیں.اور دوسری بات یہ ہے کہ میرا حکم ہے کہ مسلم لیگ کو ووٹ دیئے جائیں.اس واسطے کوئی احمدی کسی اور کو ووٹ دے ہی نہیں سکتا.اور اگر مسلم لیگی امیدوار کے علاوہ کسی اور کوکوئی ووٹ دے گا تو احمدی اس کی سپورٹ نہیں کریں گے.چنانچہ آگے لکھتے ہیں کہ سیالکوٹ کے ضلع میں یونینسٹ پارٹی (Unionist Party) کی طرف سے ایک امیدوار تھے اور وہ نواب محمد دین صاحب اس وقت جماعت احمد یہ سیالکوٹ کے امیر تھے، ان کے چونکہ یونینسٹوں سے بڑے گہرے مراسم تھے.تو جماعت کی پالیسی سے پہلے ہی یونینسٹوں کے ساتھ ان کا ایک تعلق تھا.یونینسٹ (Unionist) جو تھے وہ پاکستان تو چاہتے تھے مگر قائد اعظم کی قیادت کے پوری طرح قائل نہ تھے.خضر حیات کی یونینسٹ پارٹی نے اپنے امیدوار کھڑے کئے ہوئے تھے.اس حلقے میں ممتاز دولتانہ مسلم لیگ کی طرف سے امیدوار تھے تو انہوں نے لکھا ہے کہ حقیقتاً ایسا ہی ہوا، نواب محمد دین صاحب چونکہ وعدہ کر چکے تھے انہوں نے تو ووٹ یونینسٹ کو دیا.مگر ساری جماعت نے دولتانہ صاحب کے حق میں ووٹ ڈالے اور دولتانہ صاحب جیت گئے.جماعت کے کسی ایک فرد نے بھی سوائے نواب صاحب کے کسی اور کو ووٹ نہیں دیا.حافظ محمد نصر اللہ صاحب : سردار شوکت حیات صاحب اس وقت مولانا مودودی صاحب کے پاس بھی گئے تھے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.ہاں مودودی صاحب کے پاس گئے اور آگے یہ بیان

Page 289

273 کرتے ہیں کہ مودودی صاحب کے پاس میں پہنچا تو کہنے لگے کہ جہاں تک دعا کا تعلق ہے میں دعا کیسے کر سکتا ہوں.میں تو اس کو نا پاکستان سمجھتا ہوں.چنانچہ ان کی کتا میں آپ دیکھیں، آج تو قاضی حسین احمد صاحب جو ہیں اور دوسرے نفس ناطقہ بنے ہوئے.وہ جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں کہ ہم نے تو کبھی مخالفت نہیں کی تھی.آپ اگر دیکھیں تو یہاں تک مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم میں لکھا ہوا موجود ہے اگر ان اصولوں کے ماتحت ، جمہوری اصولوں کے مطابق پاکستان بن گیا تو یہ کافرانہ حکومت ہوگی.اور ایسی کا فرانہ حکومتیں تو پہلے بھی مسلمانوں کے پاس موجود ہیں.ترکی مسلمانوں کی حکومت ہے مگر کافر حکومت ہے.افغانستان کی یہ صورت ہے.مصر ہے.دوسری حکومتیں ہیں.تو یہ بلکہ اس سے زیادہ بدترین ہوگی.اور ترجمان القرآن میں انہوں نے یہ بات لکھی کہ ہم ہرگز یہ گوارا نہیں کریں گے کہ پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالیں.یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص پشاور جانے والا ہو اور اس کو یہ خوشخبری سنائی جائے کہ کلکتہ کی ٹرین تیار ہے.تو یہ صورتحال تھی.مودودی صاحب نے اس وقت جواب دیا کہ میں تو اس کو نا پاکستان سمجھتا ہوں.دعا نہیں کر سکتا اور سپورٹ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.(The Nation That Lost Its Soul p.147 Published by Jang Publishers Lahore) - ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.حضرت مصلح موعود کی اسی پالیسی کی وجہ سے صاحبزادہ فیض الحسن صاحب آلو مہار والے جو ہمارے مشہور مخالف تھے.وہ بھی چونکہ مسلم لیگ کی طرف سے کھڑے ہوئے تھے.ان کو بھی احمدیوں نے ووٹ دیئے ہیں.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.اس واسطے کہ ان سے پہلے معاہدہ ہو چکا تھا.مگر ووٹ صرف انہوں نے دیئے جن کے ساتھ ان کا معاہدہ تھا.معاہدہ تو جو کافروں کے ساتھ بھی کیا گیا ہو قرآن کے مطابق اس معاہدے کی پابندی ضروری ہے.صلح حدیبیہ میں دیکھیں حضرت ابو جندل کو جو کہ سہیل کے بیٹے تھے، رسول پاک نے کافروں کے حوالے کر دیا تھا.اسلام اپنے نظام کے لحاظ سے معاہدوں کی پابندی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے.اگر دنیا میں معاہدوں کی پابندی حکومتی سطح پر اور اسی طرح غیر سرکاری طور پر عوام میں آجائے تو دنیا کا نقشہ

Page 290

274 ہی بدل جائے گا.آپ دیکھیں کہ سیکنڈ ورلڈ وار کے دوران اس دور کے جرمنی کے سر براہ ہٹلر نے رشیا کے ساتھ معاہدہ کیا اور چند دن کے بعد راتوں رات ماسکو پر چڑھائی کر دی.تو وہ معاہدے کی بات تھی.وہ استثنائی قصہ تھا.اب میں اس سلسلہ میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ یہ جو حضور نے یہاں بیان فرمایا ہے.اکھنڈ ہندوستان کا پہلوحضور نے اس کو اس سے پہلے واضح کیا ہوا ہے کہ حضور کا موقف کیا ہے.دراصل احراری ملاں تو کانگریس کا سدھایا ہوا جانور ہے.قائد اعظم نے اس کو یہ نام دیا ہے.یہ شائع شدہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کانگریس کے سدھائے ہوئے پرندے اس وقت ہمارے مخالف ہیں.(اخبار ” انقلاب 18 اکتوبر 1945ء صفحہ 8 اور براہ راست مخاطب اس کے احراری ٹولے والے تھے.حضور نے جس وقت کہ پارلیمنٹری مشن کے ایام تھے، مسلمانوں کو اور مسلم لیگ کو اور حکومت کو اور کرپس (Cripps ) کو ، ان سب کو اپنے مخلصانہ مشوروں سے نوازا.اس میں آپ نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کے نمائندوں کو یعنی مسلم لیگ کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہندوستان ہمارا بھی اسی طرح ہے جیسا کہ ہندؤوں کا.آپ دیکھیں کہ اکھنڈ ہندوستان کا کیا تصور ہے.وہ تصور نہیں جو ملاں کے دل میں پہلے دن سے تھا کہ اگر پاکستان بن بھی گیا تو ہم مسلح بغاوت کر کے پھر اس کو ہندوستان میں شامل کریں گے.یہ ملاں کا تصور ہے.حضرت مصلح موعودؓ کا تصور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں اور حضوڑ ہی کے اپنے الفاظ میں ! فرماتے ہیں کہ میں مسلمانوں کے نمائندوں کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہندوستان ہمارا بھی اسی طرح ہے جس طرح ہندوؤں کا.ہمیں بعض زیادتی کرنے والوں کی وجہ سے اپنے ملک کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے.اس ملک کی عظمت کے قیام میں ہمارا بہت کچھ حصہ ہے.ہندوستان کی خدمت ہندوؤں نے تو انگریزی زمانہ میں انگریزوں کی مدد سے کی ہے لیکن ہم نے اس ملک کی ترقی کے لئے آٹھ سو سال تک کوشش کی ہے.پشاور سے لے کر منی پور تک اور ہمالیہ سے لے کر مدراس تک ان محبان وطن کی لاشیں ملتی ہیں جنہوں نے اس ملک کی ترقی کے لئے اپنی عمر میں خرچ کر دی تھیں.ہر علاقہ

Page 291

275 میں اسلامی آثار پائے جاتے ہیں.کیا ہم ان سب کو خیر باد کہہ دیں گے.کیا ان کے باوجود ہم ہندوستان کو ہندؤوں کا کہہ سکتے ہیں.یقیناً ہندوستان ہندؤوں سے ہمارا زیادہ ہے.قدیم آریہ ورت کے نشانوں سے بہت زیادہ اسلامی آثار اس ملک میں ملتے ہیں.اس ملک کے مالیہ کا نظام ، اس ملک کا پنچایتی نظام، اس ملک کے ذرائع آمد و رفت سب ہی تو اسلامی حکومتوں کے آثار میں سے ہیں.پھر ہم اسے غیر کیونکر کہہ سکتے ہیں.“ آگے سنیں آپ ! کیا سپین میں سے نکل جانے کی وجہ سے ہم اسے بھول گئے ہیں.ہم یقیناً اسے نہیں بھولے.ہم یقیناً ایک دفعہ پھر سپین کو لیں گے.اسی طرح ہم ہندوستان کو نہیں چھوڑ سکتے.یہ ملک ہمارا ہندوؤں سے زیادہ ہے.ہماری سنتی اور غفلت سے عارضی طور پر یہ ملک ہمارے ہاتھ سے گیا ہے.ہماری تلوار میں جس مقام پر جا کر گند ہوگئی تھیں وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہوگا اور اسلام کے خوبصورت اصول کو پیش کر کے ہم اپنے ہندو بھائیوں کو خو دا پنا جز و بنا لیں گے مگر اس کے لئے ہمیں راستہ تو کھلا رکھنا چاہئے.“ 66 روزنامه الفضل قادیان 16 اپریل 1946 ، صفحہ 3-4) یہ تصور ہے حضرت مصلح موعودؓ کا.ہاں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرار داد پاکستان کس نے پیش کی تھی.حضرت قائد اعظم راؤنڈ ٹیبل کا نفرنس (Round Table Conference) کے بعد خود فرماتے ہیں کہ میں ہندوؤں کے اور کانگریس (Congress) کے لیڈروں کی جو چالیں تھیں، ان کی وجہ سے میں بالکل مایوس ہو گیا تھا کہ ہندوستان میں اب مسلمانوں کا مستقبل بالکل تاریک ہے.میں کوئی مدد ہی نہیں کرسکتا.جب گاندھی اور نہرو یہ کہہ رہے تھے کہ یہ برٹش ایمپائر کا حق نہیں ہے کہ وہ ہندوستان کی اقلیتوں کے متعلق ہم سے کوئی مذاکرات کرے.اگر ہندوستان سے انگریز چلے جائیں یہ مذاکرات کرنا کانگریس کا فرض ہو گا.یہ صورتحال تھی.آج کے پاکستانی افراد کو پتہ ہی نہیں ہے.کس قیامت

Page 292

276 سے دو چار تھی اس وقت مسلم لیگ اور کس طرح بے قراری کے ساتھ اس وقت حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور حضرت مصلح موعودؓ نے اور پوری جماعت نے مسلمانوں کو بیدار کیا کہ دیکھو تمہارے خلاف سازش ہے کہ انگریز کو نکال دو اور اس کے بعد ہندو جس طرح چاہے گا تمہیں قصاب خانے میں لے جا کر تمہارا قتل عام کرے گا.یہ معمولی بات نہیں تھی.جو منظر اب آپ کشمیر میں دیکھ رہے ہیں 1947ء سے لے کر آج تک.اس سے زیادہ خوفناک وہ منظر آنے والا تھا.حضور نے فرمایا کہ یا درکھو اگر آج پاکستان کے جھنڈے تلے جمع نہ ہوئے تو پھر سپین کی طرح تمہارا صفایا کر دیا جائے گا.یہ حضور کا دتی میں خطبہ تھا اور وہ شائع شدہ موجود ہے کہ دیکھو پین کے سے حالات پیدا ہورہے ہیں.حضرت قائد اعظم انگلستان سے ہندوستان نہیں آرہے تھے.آپ جانتے ہیں کہ بہت اولوالعزم انسان تھے.جب انہیں نظر آرہا تھا کہ انگریز کانگریس کی طرف جھکا ہوا ہے کیونکہ آخر اسے یہ بھی فکر ہے کہ آج نہیں تو کل اسے جانا پڑے گا اور اس لئے زیادہ فکر تھی کہ سیکنڈ ورلڈ وار (1939-1945 Second World War) نے اس کی اکانومی کو بالکل تنہس نہس کر کے رکھ دیا تھا.اس کے بعد یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ہندوستان میں انگریز زیادہ دیر تک اور حکومت کر سکتا.وہ اس کے بعد جانا چاہتے تھے.یہ بات نظر آ رہی تھی اور اس بات پر تلے ہوئے تھے کہ اگر مسلمان ہماری کسی تجویز کو نہ بھی مانیں گے تو بھی ہم بہر حال جائیں گے اور کانگریس کو اقتدار منتقل کر کے چلے جائیں گے.یہ صورتحال تھی اس وقت.آپ تصور تو کریں.اک قیامت کا سا منظر تھا.آج کے مسلمانوں کو علم نہیں ہے کہ ایک کیمپ ( Camp) حضرت قائد اعظم اور جماعت احمدیہ کا تھا جو مسلمانوں کی طرف تھے.پاکستان کے قیام میں سر دھڑ کی بازی لگا رہا تھا اور دوسری طرف احرار اور دوسرے کانگریس کے غمخوار اور خود کاشتہ پودے اور حضرت قائد اعظم کے الفاظ میں کانگریس کے سدھائے ہوئے جانور اور پرندے تھے جو اس سازش میں ہندوؤں کے ساتھ شریک تھے کہ انگریز افرا تفری کی حالت میں جائے اور مسلمانوں کا کوئی موقف ہو اور نہ کوئی پاکستان ہو.بلکہ جس طرح چاہیں ہندومسلمانوں کے ساتھ سلوک کریں.یہ صورتحال تھی.قرار داد پیش کس نے کی تھی آخر ! حضرت قائد اعظم نے.قائد اعظم انگلستان سے ہلنا نہیں چاہتے تھے.وہاں مستقل طور پر انہوں نے بنگلہ لے لیا تھا.

Page 293

277 قائد اعظم کی ہندوستان واپسی حضرت مصلح موعودؓ نے خدا کے تصرف خاص سے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب در دامام مسجد فضل لندن کو لکھا کہ آج متحدہ ہندوستان کے مسلمان ایک قیامت کے دور سے گذر رہے ہیں اور میرے خیال میں کوئی پولیٹیکل شخصیت مسلمانوں کی قیادت کرنے والی ہندوستان میں ایسی نہیں ہے جو رہنمائی کر سکے.میری نگاہ میں سوائے قائد اعظم محمد علی جناح کے کوئی بھی اس کشتی کو پار نہیں لگا سکتا.تو خدا کے لئے ان سے کہیں کہ آپ اپنا ارادہ ترک کریں اور یہاں پہنچیں.حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد کے اپنے لکھے ہوئے نوٹ میں نے پڑھے ہیں.ایک تقریر بھی چھپی ہوئی موجود ہے.کہتے ہیں میں قائد اعظم کے پاس گیا.گھنٹوں میں وہاں پر ٹھہرا.قائد اعظم کہنے لگے میں فیصلہ کر چکا ہوں اور دوسری بات یہ ہے کہ مجھے تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے.میں از خود کیسے جا سکتا ہوں تو حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درڈ نے کہا کہ اس کا انتظام میں کروں گا.چنانچہ اس کے بعد پھر حضرت مولانا در دصاحب نے مسجد فضل لندن میں عیدالاضحیہ کے موقع پر اپریل 1933 ء میں ایک پبلک جلسہ کیا اور اس میں ہاؤس آف کامنز ( The House of Commons) اور ہاؤس آف لارڈز (The House of Lords) کے بڑے بڑے ممبر بلائے بلکہ پارلیمنٹ (Parliament) ہی کے ممبر تھے سٹیوارٹ سنڈیمین ایم.اے ( Sir Stewart Sandaman) جنہوں نے اس کی صدارت کی اور در دصاحب نے قائداعظم سے کہا کہ آپ تقریر فرمائیں.فیوچر آف انڈیا (Future of India) یہ موضوع ہے.اس تقریر کے بعد خود ہندوستان کا مسلمان آپ کو آواز دے گا کہ آپ آئیں خدا کے لئے اور اس مصیبت سے بچائیں.ورنہ انگریز کے جانے کے بعد ہم ہندؤوں کا شکار ہو جائیں گے.وہ ہندو جو شو در کونہیں چھوڑتا ، ہمیں تو وہ شودر بھی نہیں سمجھتا.ہمیں تو ملیچھ سے بھی زیادہ خطر ناک سمجھتا ہے.خدا کے لئے آئیں آپ.قائد اعظم کے دل میں خدا نے ڈال دیا کہ یہ وقت ایسا ہے کہ مجھے یہاں نہیں ہونا چاہئے.حضرت مولانا در وصاحب نے یہاں تک الفاظ کہے کہ آپ غدار ہوں گے اگر آپ اس وقت مسلمانوں کو غرق ہونے سے بچانے کی تیاری نہ کریں گے.حضرت مصلح موعودؓ کی دعا ئیں تھیں.ضمناً

Page 294

278 عرض کر دوں در دصاحب نے ایسا انداز بیان اختیار کیا.خدا نے ان کو بڑی عظمت بخشی تھی.یعنی ایسی صورتحال تھی کہ وائسرائے (Viceroy) تک کو جھکنا پڑا ، آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے جس وقت سیکرٹری تھے مہاراجہ کشمیر تک دہل گیا تھا کیونکہ حضور کی دعائیں ساتھ تھیں.حضور کے مشوروں سے جاتے تھے.ولنگڈن کے پاس گئے اور اقرار کر لیا کہ کشمیر کے معاملے میں آپ کو مداخلت کرنی پڑے گی.دور نہ برٹش ایمپائر کی جمہوریت کی چادر کے اوپر ایسا داغ لگے گا کہ آنے والے نسلیں اور مؤرخ اس کو صاف نہیں کر سکیں گے.بہر حال ذکر ہورہا تھا قائد اعظم کی تقریر کا.چنانچہ یہ معرکۃ الآراء تقریر ہوئی.آپ اگر اس دور کے اخباروں کو دیکھیں تو نہ صرف لنڈن کے اخباروں میں قائد اعظم کی یہ تقریر چھپی ہے بلکہ دوسرے مشہور اخباروں میں بھی اس کی اشاعت ہوئی.مدراس میل Madras Mail مدراس 7 اپریل 1933ء.ہندو ، مدراس 7 اپریل 1933ء اور دی ایونگ سٹینڈرڈ (The Evening Standard)، لندن 7 اپریل 1933ء.Egyptian Gazzette ، سکندریہ.ویسٹ افریقہ (West Africa) 15 اپریل 1933 ء سٹیٹس مین، کلکتہ (States Man Calcutta)8 اپریل 1933ء.سنڈے ٹائمنز ،لنڈن (Sunday Times, London)9اپریل 1933ء.اس تقریر پر ایک شور قیامت برپا ہو گیا.نواب زادہ لیاقت علی خان اور ان کی بیگم کو مسلم لیگ کے فیصلے کے مطابق فوری طور پر لنڈن بھجوایا گیا.انہوں نے ملاقات کی اور ان سے ملاقات کے بعد حضرت قائد اعظم نے فیصلہ کیا کہ مجھے واپس آنا چاہئے.آج دنیا کو کیا پتہ ہے آزادی ہند اور پاکستان کا قیام.آزادی سے مراد میں صرف مسلم لیگ کی تحریک پاکستان لیتا ہوں.میں بتا چکا ہوں کہ کانگریس جس آزادی کی علمبردار بنی ہوئی تھی اور احراری جس کے خود کاشتہ پودے تھے وہ مسلمانوں کی آزادی کی تحریک نہیں تھی، وہ مسلمانوں کی ہمیشہ کے لئے بربادی کی تحریک تھی.م.ش ( میاں محمد شفیع) صف اول کے قائد اعظم کے پیاروں میں سے تھے اور حمید نظامی صاحب کی طرح صحافت میں انہیں بڑا مقام حاصل تھا جب تک کہ وہ زندہ تھے.انہوں نے پاکستان ٹائمنر 11 ستمبر 1981ء کو سپلیمنٹ (Supplement) کے صفحہ دو پر مضمون میں لکھا:."So disgusted was Mr.Jinnah with

Page 295

279 washing of the dirty linen in Indian politics in public by the leaders of the Indian public opinion that he decided to retire from Indian politics and in token thereof took his abode in London, almost permanently" مسٹر جناح ہندوستان کی گندی سیاست سے اس قدر بد دل ہو گئے اور رفاہ عامہ کے ہندوستانی لیڈروں سے اس قدر برداشتہ خاطر ہوئے کہ انہوں نے ہندوستان کی سیاست سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کر لیا اور اس علامت کے طور پر انہوں نے لندن میں قریباً ہمیشہ کے لئے قیام کر لیا.یہ مسٹر لیاقت علی خان اور مولانا عبدالرحیم در دامام مسجد لندن ہی تھے جنہوں نے مسٹر جناح پر زور دیا کہ وہ اپنا ارادہ بدلیں اور وطن واپس آکر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں.اس کے نتیجے میں مسٹر جناح 1934ء میں ہندوستان واپس آئے اور مرکزی اسمبلی میں Unanimously یعنی بلا مقابلہ منتخب ہوئے.اب اس کے مقابل پر احراریوں نے جو کہ مسلمانوں کی بربادی کی تحریک میں شامل تھے.اس زمانے میں کیا لکھا؟ کس طرح خنجر گھونپا ان ظالموں نے ! میرے پاس 1945ء.1946ء کے اصل اشتہار ہیں جو دیو بندیوں کی طرف سے اراکین مرکزی مسلم پارلمنٹری بورڈ جو کانگریس کے کہنے پر اور اسی کے خرچ پر اور اس کی وجہ سے بنایا گیا تھا.اس کی طرف سے لاکھوں کی تعداد میں شائع کئے گئے.عنوان دیکھ لیں : ایک ہے: کہتے ہیں کہ آزاد ہندوستان میں آزاد اسلام پاکستان انگریزی ایجنٹوں کا فریب ہے.“ ود مسلم لیگ کے شاندار اسلامی کارنامے د مسلم لیگ کی تاریخ مسلمانانِ ہند کی پیشانی پر داغ ذلت ہے.

Page 296

280 حقیقت یہ ہے کہ اس نام نہاد مسلم جماعت پر ان رعونت پسند سرمایہ داروں، جاہ پرست نوابوں اور دشمن اسلام برطانیہ کے خطاب یافتہ غلاموں کا قبضہ ہے جن کی زندگی کا نصب العین ہمیشہ سے برطانیہ اور اس کے حکام کی خوشنودی اور ان کے درباروں میں عہدہ طلبی ہے.“ یعنی یہ سب خود کاشتہ پودا ہیں انگریز کے اور آخر میں پھر لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ اتنی سرکش ہے کہ مسلم لیگ کے مرکزی اجلاس میں قائد اعظم کے سامنے مولانا عبدالحامد بدایونی نے قرار داد پیش کی کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں.ان کو مسلم لیگ سے خارج کیا جائے.تو قائد اعظم محمد علی جناح صاحب نے یہ قرارداد پیش کرنے کی بھی اجازت نہیں دی.“ یہ حضرت قائد اعظم کا موقف تھا.پھر حضرت علامہ الحاج مولانا محمد حفظ الرحمن سیوہاروی ناظم اعلیٰ جمعیت علماء ہند نے کیا لکھا ہے.لطیفہ یاد آ گیا.ایک فائیوسٹار ہوٹل میں ایک مولوی اپنا وزٹنگ کارڈ ( Visiting Card) لے کر گیا اور مینیجر سے کہا کہ مجھے اکاموڈیشن (Accommodation) چاہئے ایک دن کے لئے.اس نے دیکھا تو بڑے القاب تھے حضرت علامہ، الحاج ، مولانا ، ملاں شیر علی صاحب چشتی اور قادری اور سہروردی اور بہت لمبے چوڑے القاب تھے.تو وہ مینجر کہنے لگے کہ حضور بات یہ ہے.برا نہ منائیں اتنے آدمیوں کی گنجائش نہیں ہے میرے پاس.وو تو ہر ملاں جو کہ بکا ہوا تھا اس کا نام ” حضرت“ اور ”علامہ“ اور ”الحاج “ سے کم تر لینا شرعاً جائز نہیں.تو یہ پراپیگنڈہ (Propaganda) ہے جو دیو بند کے ان شاگردوں نے سیکھا اور کانگریس کے توسط سے سیکھا.کانگریس کے عزائم قائد اعظم جانتے تھے یا حضرت مصلح موعودؓ کو پتہ تھا.اب اس میں دیکھیں حضرت نے اس وقت کیا فرمایا.بعد میں تو ” احراری شریعت کے امیر نے ایک جگہ پر کہا کہ اصل میں یہ اجتہادی غلطی تھی.اب پاکستان بن گیا ہے تو بھی ٹھیک ہے.یہ اجتہادی غلطی نہیں تھی.تم زرخرید غلام تھے اس وقت کانگریس کے اور ساری عمر تم نے اس بات پر گذاری اور آج بھی گزار رہے ہو کہ جو مسلمان بچ گئے ان کو بھی ختم کیا جائے اور پاکستان کو

Page 297

281 ہندوستان میں شامل کیا جائے.چنانچہ آپ دیکھیں.مولا نا محد حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی ناظم اعلیٰ مرکز یہ جمیعۃ علماء ہند نے اس میں لکھا ہے کہ :.بلا شبہ پاکستان کا یہ تخیل سیاسی الہام ہے مگر ربانی الہام نہیں بلکہ ” قصر بکنگھم کا الہام ہے.“ یہ خود کاشتہ پودا ہے پاکستان بھی ، قائد اعظم بھی.اور آگے لکھا ہے : ” جو ڈاکٹر اقبال کو بھی جب ہی ہوا تھا جب وہ لندن سے قریب ہی زمانہ میں واپس تشریف لائے تھے.اور وہ الہام دوبارہ اس وقت پھر ہوا جبکہ مسلم لیگ کا وفد جو زیر سر کردگی چودہری خلیق الرحمن مصر اور لندن کا حج کرنے گیا تھا.اس نے ہندوستان واپس آکر بمبئی اترنے کے ساتھ ہی پہلے انٹرویو میں اس بات کو ظاہر کر دیا تھا اور جس کو عرصہ کے بعد مسٹر جناح نے اپنایا اور لاہور میں پیش کرنے کی اجازت دی.“ تحریک پاکستان پر ایک نظر صفحہ 18-19 ناشر جمیعۃ علماء ہند دہلی مطبوعہ دلی پرنٹنگ ورکس دہلی ) صاف لکھا ہے کہ یہ سب انگریز کے ایجنٹ ہیں.قائد اعظم بھی ایجنٹ ہیں اور اس کے علاوہ پاکستان بھی انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے.اور اس کے ساتھ ہی دیکھیں ،مجلس احرار یہ پراپیگنڈہ کر رہی تھی مجلس احرار.یہ اشتہار ہے.مجلس احرار کی تمام خدمات کا مجموعہ مسمی بہ مجلس احرار اور مسلم لیگ.یہ شیخ نظام الدین نائب صدر مجلس احرار اسلام، باغبان پورہ لاہور کا شائع کردہ ہے.اوپر قرآن کی آیت لکھی ہے.(ایسے ظالم ہیں کہ ہر خیانت ، ہر شرارت اور ہر جھوٹ اور ہر بے ایمانی اور غنڈہ گردی قرآن کے نام پر کرتے ہیں.) اور پھر لکھا: - يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ( التوبة : 119) اور نیچے اس میں لکھا ہے کہ ہم صادق ہیں احراری ، اور کہتے کیا ہیں؟ عنوان دیا ہے.اور کہتے ہیں کہ ہم عرض کریں گے کہ ایک خطرہ خطرہ نہ یہود سے ہے نہ ہنود سے بلکہ خطرہ خودان نیک دل

Page 298

282 اور سادہ لوح تیمارداروں سے ہے جو ملتِ اسلامیہ کے مرد بیمار کے مداوا کے لئے مسلم لیگ اور اس کے رہنماؤں ( یعنی حضرت قائد اعظم اور دوسرے بزرگان.ناقل ) کی جد و جہد اور عملی پروگرام پر آس لگائے بیٹھے ہیں.“ اور نیچے شعر لکھا ہے.دو میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں“ 66 تو کہتے ہیں کہ یہودیوں سے ہمیں خطرہ نہیں جس طرح کہ ان کے پیرومرشد اور ان کے بانی ابوالکلام صاحب آزاد نے اس سے پہلے اپنی کتاب میں لکھا India Wins Freedom“ میں کہ پاکستان کا تو نام ہی شرعی لحاظ سے ناجائز ہے.میں اس کو گوارا ہی نہیں کرسکتا، برداشت نہیں کر سکتا.پھر مسلمانوں کے پاس تو بے شمار حکومتیں ہیں لیکن غریب بیکس اور معصوم انسان یہودی بیچارے بکھرے ہوئے ہیں.انہیں ضرور مملکت ملنی چاہیے.(ناشر Orient Longmans Bombay, Calcuta, Madras صفحه 143-142) تو یہ ہے اصل روح ان لوگوں کی اور یہ رخ ہے جماعت احرار کا جو نقصان پہنچارہا ہے.اسرائیل میں احمد یہ مشن حافظ محمد نصراللہ صاحب :.مولانا صاحب اگلا سوال جو اٹارنی جنرل نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث سے کیا کہ اسرائیل میں احمدیوں کا مشن قائم ہے.اس کی حضور نے کیا وضاحت فرمائی تھی؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب: حضور انور نے اس کے جواب میں یہ ارشاد فرمایا کہ کئی لاکھ مسلمان اسرائیل میں موجود ہیں.اس سرزمین میں جماعت احمدیہ کا مشن مارچ 1928 ء سے قائم ہے.جب موجودہ اسرائیلی حکومت کا نام ونشان نہیں تھا.پھر سوال یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں کئی یہودی آباد ہیں.ان سے ملاقات کرنا اور انہیں اسلام کا پیغام دینا، محمد عربی ﷺ کا پیغام دینا کیا جائز نہیں ہے؟ یہ حضورانور کے جواب کا خلاصہ تھا.اب میں آپ کی اجازت سے مزید صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ کا مشن اللہ تعالیٰ کے فضل سے 1928 ء سے آج تک یہودیوں میں اسلام کو پھیلا رہا ہے اور مسلمانوں

Page 299

283 کی والہانہ خدمت میں سرگرم عمل ہے اور یہ ایک واضح حقیقت ہے جیسا کہ حضور نے فرمایا کہ کئی لاکھ مسلمان اسرائیل میں موجود ہیں.میں جب 1985ء میں لنڈن تھا تو بعض حضرات کے ذریعہ سے فلسطین سے اخبار الاخبار الاسلاميه تسترها دائرة الستون الاسلاميه في وزارة الادیان“ منگوایا.یہ یروشلم سے مسلمانوں کا رسالہ شائع ہوتا ہے.اس میں مسلمانوں کی تعداد کا تذکرہ کیا گیا ہے.پھر اس کے علاوہ یہ کوئی قریباً دس یا گیارہ بیانات ہیں تحریری طور پر جو 1986ء میں خدا تعالیٰ کے فضل سے فلسطین کے مسلمانوں کے قلم سے مجھے ملے جبکہ میں لنڈن میں موجود تھا.ان سب میں بتایا گیا ہے کہ جماعت احمد یہ ایک بہترین اسلامی جماعت ہے اور اسلام کی اشاعت میں سرگرم عمل ہے.یہ سارے کے سارے میرے پاس ہیں.ان کا عکس موجود ہے اور اس سلسلے میں میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پہلے تو انچارج تھے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس، جنہوں نے شام مشن کا آغاز کیا.شام کے بعد پھر حضور کے ارشاد پر آپ حیفہ میں تشریف لے گئے.اس کے بعد حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب تشریف لے گئے جنہوں نے رسالہ البشری جاری کیا.پریس جاری کیا، غالبا مسجدمحمود بھی ان کے زمانے میں بنی اور بہت بڑا لٹریچر اسلام کی تائید میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے زمانے میں شائع کیا گیا.اس کے بعد جب یہود کی تحریک چلی اور دھڑا دھڑ فلسطینی عرب یہودی سرمایہ داروں سے بہت گراں قیمت وصول کر کے اپنی زمینیں دے رہے تھے.حضرت چوہدری محمد شریف صاحب مجاہد احمدیت ( جو مولانا محمد صدیق صاحب سابق انچارج خلافت لائبریری ربوہ کے بڑے بھائی تھے) نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ یہ صورتحال ہو رہی ہے.یہاں تو تحریر کے بغیر ہی ساری زمینیں یہودیوں کو فروخت کی جارہی ہیں.حضور نے فرمایا کہ خدا کے لئے فلسطینی مسلمانوں کو کہو کہ خود کشی نہ کریں ورنہ یہ زمینیں سب چلی جائیں گی.پھر تمہارا ان پر کوئی بھی بس نہیں چلے گا.اس کے بعد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے جس شان کے ساتھ فلسطین کا کیس اقوام متحدہ میں پیش کیا ہے.اس کے بارے ڈاکومنٹس(Documents)موجود ہیں.شاہ فیصل صاحب نے مبارکباد دی اور دھوم مچ گئی جنرل اسمبلی میں.یہ رسالہ ”العربی میں نے کو یت سے حاصل کیا.اس نے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی تصویر کے ساتھ دس پندرہ صفحے کا مقالہ شائع کیا ہے.اور عنوان دیا ہے.

Page 300

284 ظفر الله خان بطل قضية فلسطين في امم المتحدة اور اس کے لکھنے والے عبدالحمید ہیں.هذا المقالة الثمينة التي طبعت في الرسالة العربى مع التصاوير وخدمات الاسلامية ودينيه الذى خدمتها السيد ظفر الله خان رحمه الله تعالیٰ و نورالله مرقده تو دنیا کی کون سی طاقت ہے کہ ان خدمات کو فراموش کر سکے جو چاند اور ستارے کی طرح آسمان فلسطین کے اوپر بلکہ آسمان اسلامی دنیا کے اوپر جگمگا رہے ہیں اور جگمگاتے رہیں گے.یہ ایسا مرحلہ تھا کہ خود فلسطینی اور عرب لیڈروں نے تسلیم کیا کہ ہمیں ان باتوں کا علم نہیں تھا جو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس وقت ہمارے حق میں پیش کی تھیں.یہ سازشیں تھیں جو امریکہ اور رشیا اور خود انگلستان کی گٹھ جوڑ کے ساتھ بروئے کار لائی گئیں.قریب تھا کہ یو این او (UNO) کی طرف سے Majority (بھاری اکثریت ) کے ساتھ یہ قرار داد پیش ہوتی کہ فلسطین پر فلسطینیوں کا حق ہے، یہودیوں کا حق نہیں.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کہا کہ اگر اتنا ہی آپ کو درد ہے یہودیوں کے متعلق تو امریکہ کیوں اپنی جگہ پر کیلی فورنیا میں کوئی کالونی نہیں آباد کرتا.رشیا کو ماسکو کے قریب کوئی جگہ بنانی چاہئے.یہ کیا صورت ہے کہ غریب فلسطینی عربوں کو مجبور کیا جائے کہ تم اپنی زمینیں ان کو دے دو.یہ تو انتہائی ظالمانہ بات ہے.قانوناً، بین الاقوامی قانون کے لحاظ سے، اخلاق کے لحاظ سے، سیاست کے اعتبار سے کوئی حق نہیں بنتا.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے اس زور دار بیان نے تہلکہ مچا دیا.اب یہ چیزیں تو چوہدری صاحب کے یا مسلمان ملکوں کے، کسی کے اختیار میں نہیں تھیں بلکہ بڑا سخت رویہ اس وقت تینوں طاقتوں نے اختیار کیا اور یہ ایسی صورت تھی کہ اس کی وجہ سے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے خلاف استعماری طاقتیں اکٹھی ہوئیں اور الاستاذ علی الخیاط آفندی صاحب نے جو کہ عراق کے بہت بڑے صحافی تھے، بغداد کے مشہور اخبار الانباء“ 21 ستمبر 1954ء میں ایک مقالہ سپر د قلم کیا.” تاریخ احمدیت میں بھی موجود ہے.اس کے الفاظ اور اس کا متن موجود ہے.عربی زبان میں انہوں نے لکھا کہ حیرت کی بات ہے کہ جب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے فلسطین کے حق میں آواز بلند کی تو سارا استعمار آگ بگولہ ہو گیا.اور کہتے ہیں

Page 301

285 کہ میں چونکہ صحافی تھا تو استعماری طاقتوں کے بعض ایجنٹ میرے پاس آئے اور انہوں نے قادیانیوں کے خلاف لٹریچر دیا.یہ وہی زمانہ تھا کہ جب احرار نے پاکستان میں یہود اور ہنود کی سازش کے نتیجہ میں ہمارے خلاف 1950 ء اور 1951 ء کے قریب تحریک کا آغاز کیا تھا.اس کے متبادل یہ تاریخ چلتی ہے کہ اس وقت استعمار کے ایجنٹ نے بعض کتا بچے دیئے کہ یہ جو قادیانیوں کا ٹولہ ہے، یہ اسلام سے خارج ہے اور آپ کی ہم مدد بھی کریں گے.آپ ادار یہ بھی لکھیں.اس پر کمنٹ (Comment) بھی کریں.آپ ہماری مدد کریں.کہنے لگے کہ میں حیران رہ گیا.میں نے کہا کہ تمہیں اسلام کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ تم میں سے بعض دہریے ہیں، بعض عیسائی ہیں جو اسلام کے دشمن ہیں.یہ سازش ہے دراصل اسلام کے خلاف کہ جو جماعت سب سے بڑھ کر اس وقت فلسطین کے معاملے میں بھی اور دوسرے مسائل میں بھی سبقت لے جارہی ہے اور قیادت کر رہی ہے، اس کو ختم کر دیا جائے.( تفصیل ملاحظہ ہو.” تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 393-402) متاع زندگی سردار محمد ابراہیم خان صاحب کی کتاب ہے.ان کی سوانح عمری، آٹو بائیوگرافی (Autobiography) ہے.کہتے ہیں کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مجھے لے گئے جس وقت میری تقریر کرانے کے لئے تو انہوں نے مجھے گائیڈ کیا.کہنے لگے کہ وہاں پر یہودی پریس چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کے خلاف تھا اور گالیاں دیتا تھا مگر وہ یہ کہتا تھا کہ اس شخص کا دماغ ایسا ہے کہ آج اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.متاع زندگی، صفحہ 115-116) جناب حمید نظامی، انہی دنوں فرانسسکو کانفرنس تھی ، پاکستان کی طرف سے شامل ہونے کے لئے وہاں پہنچے.انہوں نے اپنی بیگم کو خطوط بھیجوائے ، وہ چھپے ہوئے موجود ہیں.اس میں لکھتے ہیں کہ ایک ہوائی جہاز میں ، میں بیٹھا ہوا تھا.ایک یہودی بھی میرے پاس موجود تھا.اس نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو گالیاں دیں.(جس طرح احراری ابتدا سے گالیاں دے رہے ہیں) تو یہ دنیا کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا ہے.یہ وہی تاریخ ہے جو اس وقت حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب نے شروع کی تھی.سارا عالم اسلام عقیدت مند تھا.شاہ فیصل نے کہا کہ میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں تمام عالم اسلام کی طرف سے.لیکن چونکہ اس سے یہود اور ہنود کی ساری پالیسی ختم ہو جاتی تھی اس واسطے احراری بھی، ہندوستان کا پریس بھی اور سارے کے سارے جو کہ استعمار کے آلہ کار تھے، حضرت چوہدری ظفر اللہ

Page 302

286 خان صاحب کے خلاف تھے.ان حقائق کو کوئی انسان دنیا سے چھپا نہیں سکتا.تو احرار کی کوئی الگ حیثیت نہیں ہے، وہ آلہ کار استعمار کے ہیں، آلہ کار یہود کے ہیں.چنانچہ آپ حیران ہوں گے.میں ڈسکوری (Discovery) کرنا چاہتا ہوں آپ کے سامنے کہ یروشلم جیسی بستی سے موازنہ مذاہب کے پروفیسر Yohanan Friedmann نے 1985ء میں کتاب لکھی اور آکسفورڈ پریس سے شائع ہوئی.یہ صاحب انسٹی ٹیوٹ آف ایشیاء اینڈ افریقہ سٹڈیز ہیبر یو یونیورسٹی یروشلم میں پڑھاتے ہیں.نام اس کا دھوکہ دینے کے لئے رکھا "Prophecy Continues" پرافٹ ہڈ نبوت کا نام ہے.کہتے ہیں کہ نبوت جاری ہے.ابتدا میں لکھا کہ قادیانی نظر یہ ٹھیک ہے کہ نبوت جاری ہے.یہ اس لئے لکھا تا کہ دنیا دھو کہ میں آجائے کہ اس کا لکھنے والا کوئی دشمن نہیں ہے.مگر حق یہ ہے کہ تین صفحات کے علاوہ ساری کی ساری کتاب جو ہے وہ احراریوں کے اس محضر نامہ کی ہی بازگشت ہے.اس میں حوالے وہی ہیں جو کہ محضر نامہ میں احراریوں نے یہاں پر دیے تھے اس یہودی سکالر نے اس میں لکھا ہے کہ میں نے اس وقت سے یہ کتاب معنی شروع کی جب ضیاء صاحب نے قادیانیوں کے خلاف آرڈینینس جاری کیا اور پھر شریعت کورٹ کے بینچ نے قادیانیوں کی اپیل کو خارج کر دیا.جس دن خارج ہوئی اس دن سے میں نے یہ کتاب شروع کی ہے.اب اندازہ لگا سکتے ہیں ان کڑیوں کا اور اس کے پیچھے جو کڑیاں کار فرما ہیں.کہتے ہیں کہ میں انتظار میں تھا کہ ضیاء الحق صاحب اور اس کے بعد ان کی عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے.اس کے بعد میں نے یہ کتاب لکھی ہے اور پھر آگے لکھتے ہیں کہ میں نے حوالے محضر نامے سے لئے ہیں.یہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے انڈیا آفس سے فلاں فلاں انچارج ہیں قریشی سلیم الدین صاحب اور فلاں فلاں انچارج ہیں برٹش لائبریری میں قاضی محمود الحق ہیں.( میں جانتا ہوں ان کو.انہوں نے حوالے دیئے ہیں.وہ بھی سب احراری ہیں اور اس کے بعد کتاب چھپی ہے 1989ء میں جبکہ جماعت احمدیہ کی جو بلی ہو رہی تھی.اور اس جو بلی کے متعلق احراریوں کی وجہ سے اس دور کی حکومت نے کہا کہ احمدیوں کو خاص طور پر ربوہ میں، احمدی بچوں کو نئے کپڑے پہنے بھی ناجائز ہیں اور قانون کے خلاف ہے.نہ کوئی احمدی یہاں پر جلوس نکالیں ، نہ احمدی مٹھائی تقسیم کریں، نہ بیج لگا ئیں.چنانچہ اس زمانے میں آپ دیکھیں آرائشی دروازے لگے ہوئے تھے، اسی طرح لگے رہے ایک سال تک تو عین اس وقت جب جماعت احمدیہ

Page 303

287 جو بلی منا رہی تھی اور اس دور کی حکومت ملاؤں کی پشت پناہی کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کو جو بلی کی خوشیوں سے محروم کرنا چاہتی تھی.عین اس وقت یہ کتاب شائع کی گئی اور بیک وقت امریکہ اور ہندوستان سے چھپی اور کسی احمدی کو پتہ نہیں ہے.میرے پاس موجود ہے.آسٹریلیا کے ایک احمدی نے میرے پاس بھجوائی تھی.تو میں بتانا یہ چاہتا ہوں.حمید نظامی صاحب کا میں ذکر کر رہا تھا.وہ خطوط چھپے ہوئے موجود ہیں.اس کتاب کا نام ”نشانِ منزل“ ہے.وہ دوبارہ بھی ان کی سوانح عمری میں چھپ چکے ہیں.اس میں اپنی بیگم کو لکھتے ہیں کہ میں ہوائی جہاز میں بیٹھا تھا.ایک بہت ذہین یہودی لیڈر بھی تھا.وہ بہت گالیاں دے رہا تھا چوہدری سر ظفر اللہ خان کو.مگر ان کی قابلیت کا بے حد مداح تھا.وہ مشن کیا کر رہا ہے 1928 ء سے؟ لاکھوں مسلمان اسرائیل موجود ہیں مگر کون ہیں جنہوں نے یہود تک محمد عربی ﷺ کا پیغام پہنچایا؟ وہ کون ہے جس نے قرآن کی عظمتوں کو ثابت کیا ؟ اب بھی آپ دیکھیں مصر کے بشپ نے بھی اعتراض کیا ہے اور آج حیفہ اور فلسطین کا احمدی اس کا جواب دے رہا ہے.اور آج عرب دنیا کو محسوس ہو چکا ہے کہ کا سر صلیب کے شاگر رہی ہیں جو عیسائیت کو للکار سکتے ہیں.ہاں یہ میں بتانا بھول گیا.وہاں کی عرب جماعت احمدیہ کا کردار میں نے ذکر کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.گر نبودے در مقابل، روئے مکروہ کس چه دانستے، جمال شاہد گلفام را اس فارسی کلام کا ترجمہ ہے کہ اگر سفید چہرے کے مقابل سیاہ چہرہ موجود نہ ہو تو اس نورانی چہرے کی عظمت کا پتہ کیسے لگ سکتا ہے.تو جماعت احمدیہ، حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب اور حضرت مصلح موعود کی بات تو واضح ہے کہ جس وقت یہ خنجر گھونپا گیا اسرائیل کا، حضرت مصلح موعودؓ ہی تھے جنہوں نے الکفر ملة واحدة“ شائع کیا ، اس کا پھر عربی ترجمہ شائع ہوا.شیخ نور احمد منیر صاحب (حضرت شیخ مبارک احمد صاحب کے چھوٹے بھائی.ایک دفعہ شیخ صاحب مجھے کہنے لگے کہ میں اپنے چھوٹے بھائی کو ولی اللہ سمجھتا ہوں.بہت ہی پارسا انسان اور عرصہ دراز تک بلا دعر بیہ میں رہے.بڑے با ذوق انسان تھے.اور عربی تو ایسے جیسے ان کے گھر کی زبان ہو.بہترین شائستہ عربی میں نے بولتے دیکھا ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے بعد ان کا مقام تھا) نے ترجمہ کیا.تو

Page 304

288 یہ تو جماعت احمدیہ کے کارنامے ہیں.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: محترم شیخ صاحب کے خرچ پر اس ترجمہ کو سارے شام وغیرہ میں تقسیم کیا گیا.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.ہاں شام اور عرب ملکوں نے ریڈیو پر اس کو نشر کیا اور اخباروں نے بھی شائع کیا.اس کو زبر دست خراج تحسین پیش کیا کہ اسلامی دنیا کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی پیغام نہیں ہے، فلسطین کے مسلمانوں کی مدد کرنے کے لحاظ سے.حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ یا درکھوسوال فلسطین کا نہیں بلکہ یہ مکہ اور مدینہ کا مسئلہ ہے.دشمن یہ چاہتا ہے سرنگ لگا کر فلسطینی مسلمانوں کو نگلنے کے بعد براہ راست مکہ اور مدینہ پر حملہ کر دے.تو خدا کے لئے تمام مسلمان اکٹھے ہو جائیں اور ہر ملک میں مسلمان اپنی حکومتوں سے مطالبہ کریں کہ اتنے فیصدی ہر مسلمان اپنی جائیدادوں کا اپنی حکومتوں کو دینے کے لئے تیار ہوں اور وہ جس طرح بھی ہو سکے، جتنا اسلحہ ہو سکے فوری طور پر خریدیں کیونکہ غریب فلسطینی مسلمان آج یہودیوں کے اس خوفناک حملے کی ، جس کی پشت پناہی امریکہ بھی اور رشیا بھی کر رہا ہے، تاب نہیں لا سکتے.یہ آواز تھی جو مصلح موعودؓ نے بلند کی تو اس پر وہ ری ایکشن (Reaction) ہوا چوہدری سر ظفر اللہ خان کی آواز کا.اس کے بعد میں بتاتا ہوں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے عرب کے رہنے والے.میں ان دنوں ابوظہبی میں تھا.یہ 12 مئی 1988 ء کا "الاتحاد" ہے.یہ الاتحاد اسی طرح بہت مقبول ہے امارات متحدہ میں جس طرح پر کہ یہاں ”جنگ“ ہے.”خبریں“ ہے ”دن اخبار ہے.تو یہ بہت پاپولر اخبار ہے.یہ رمضان کے دن تھے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے ارشاد پر میں موجود تھا امارات متحدہ میں اور یہ پرچہ لیلۃ القدر کی رات کے حوالے سے تھا.اس کا اداریہ بھی لیلۃ القدر کے متعلق تھا.اس میں کارٹون بنایا کہ مسلمان عرب کیا کر رہے ہیں.اداریہ میں لکھا ہے کہ یہ لیلۃ القدر ہے اور یہ خَيْرٌ مِنْ الْفِ شَهَر (القدر: 4) قرآن مجید کا ارشاد ہے.آنحضرت ﷺ نے تو یہ دعا سکھائی ہے کہ لیلۃ القدر جب کسی شخص کو اللہ تعالیٰ اس عظیم گھڑی کو دیکھنے کی توفیق بخشے اور سعادت عطا فرمائے تو ایک دعا سکھائی.غالبا اس میں الفاظ یہی ہیں کہ

Page 305

289 اللهم ارزقنی حبك وحب من يحبك وحب من يقربنی الیک و اجعل حبك احب الى من الماء البارد مگر انہوں نے کارٹون بنایا اور کارٹون یہ ہے کہ ایک عرب شیخ اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے لیلتہ القدر کے موقع پر مصلی بچھائے ہوئے ہے اور ہاتھ میں تسبیح ہے اور آنحضور ﷺ کی ارشاد فرمودہ دعا کی بجائے دعا یہ کر رہا ہے.اللهم اجعل حلنا امریکه و سلام امریکیه...امتنا على حبک و حب امریکه یا رب العالمین اے خدا ہمارا اوڑھنا بچھونا امریکہ بنادے.ہمارے لئے سلامتی کی جگہ امریکہ ہو جائے.ہمارا ہتھیار امریکہ ہو اور اے خدا ہم تیری محبت پر اور امریکہ کے عشق اور محبت پر ہماری واپسی ہو اور جان دیں.یا رب العالمین تو اپنا فضل فرما.کیا الفضل جماعتی آرگن ہے؟ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.جزاک اللہ.اٹارنی جنرل صاحب نے ایک یہ سوال کیا تھا کہ کیا روزنامہ ”الفضل“ کو جماعت احمدیہ کا آرگن قرار دیا جا سکتا ہے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے فرمایا کہ ساری دنیا میں احمدی پھیلے ہوئے ہیں.دوسرے ملکوں کے احمدی اس کے مندرجات کے ذمہ دار کیونکر ہو سکتے ہیں.قرآن عظیم اور الہامات کا مرتبہ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.اگلا سوال حضور سے یہ ہوا کہ قرآن عظیم اور الہامات کا ایک ہی مرتبہ ہے یا دونوں میں کچھ فرق ہے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.حضور نے یہ جواب ارشاد فرمایا کہ قرآن عظیم اور الہامات دونوں کا سر چشمہ ایک ہے یعنی اللہ جل شانہ.روحانی خزائن ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں نے

Page 306

290 خزانے بانٹے ہیں.اس حوالے سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ مرزا صاحب نے کون سا خزانہ روحانی خزائن“ کا پیش کیا ہے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے اس کے جواب میں قرآن مجید کے کتاب عظیم اور کتاب مکنون ہونے کی نہایت لطیف اور وجد آفرین تفسیر فرمائی یعنی قرآن کے دو نام اللہ تعالیٰ نے لکھے ہیں یعنی کتاب مبین بھی ہے.اس کی بعض صداقتیں سورج کی طرح ہر شخص کو نظر آتی ہیں لیکن اس میں کتاب مکنون بھی ہے.اس میں بے شمار چھپے ہوئے موتی موجود ہیں.حضور نے فرمایا کہ خصوصاً حضرت مسیح موعود کی تفسیر سورۃ فاتحہ کے نکات معرفت بے شمار ہیں اور اس سلسلہ میں حضور نے ان کو بہت پُر کیف انداز میں بیان بھی فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سورۃ فاتحہ کے متعلق جو معارف بیان کئے ہیں وہ ’ادارة المصنفین کی طرف سے حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے حکم پر تفسیر سورۃ فاتحہ کے نام سے شائع کئے جاچکے ہیں.میں صرف ایک چھوٹی سی جھلک دکھانا چاہتا ہوں.اس سورۃ فاتحہ کی تفسیر کو آپ پڑھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رقم فرمائی ہے تو حضور نے اس میں یہ واضح کیا ہے کہ سورۃ فاتحہ ایک حیرت انگیز مجزہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اوا مر بھی ہیں، نواہی بھی ہیں اور دنیا کے تمام علوم اس میں موجود ہیں.پھر کمال یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بعد سارے قرآن میں جو مضمون ہیں، اس سارے سمندر کو سورۃ فاتحہ میں جمع کر دیا گیا ہے.اس واسطے حضور فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص قرآن سمجھنا چاہے تو اس کے لئے کلید سورۃ فاتحہ ہے.اس پر جتنا غور کرے گا، قرآن مجید اس پر کھلے گا.اس کے معارف بے نقاب ہو جائیں گے اور اسے پتہ چلے گا کہ تمام مضامین سورۃ فاتحہ میں خلاصہ موجود ہیں.یہ ایسے ہے کہ جس طرح ایک بہت بڑا شہر ہو.اگر آپ اس کی تصویر لیں تو ایک مختصر سا خاکہ جو ہے ایک چھوٹی تصویر میں آجاتا ہے.پھر اس کی انلارجمنٹ (Enlargement) کریں گے تو پھر بڑی تصویر بن جائے گی.تو سارے قرآن کی اگر روحانی تصویر بنائی جائے تو اس کے خلاصہ کے طور پر سورۃ فاتحہ ہے.یہ ایک ایسا عرفان کا نکتہ ہے کہ دنیا میں پہلی دفعہ آنحضور ﷺ کے بعد صرف مسیح موعود علیہ السلام نے پیش کیا ہے.اور فرمایا کہ اس کی سات آیتیں سات ہزار سال کی نمائندگی کرتی ہیں.

Page 307

291 ہر آیت ہر ہزار سال کی طرف اشارہ کرتی ہے آخری آیت میں مغضوب اور ضالین کا ذکر ہے وہ اس زمانے کے متعلق ہے.پھر فرمایا کہ الحمد للہ کا لفظ ہے اس میں الحمد سے قرآن مجید اس لئے شروع کیا گیا ہے تا کہ اس لفظ کا روٹ (Root) جو ہے وہ حمد ہے.اس کے پیش کرنے کے ساتھ ہی آنحضرت ﷺ کے اسم مبارک محمد کی طرف بھی اشارہ ہو جائے اور احمد کی طرف بھی اشارہ ہو جائے اور اس سے یہ ثابت ہو کہ خدا کے مظہر اتم محمد مصطفی واحد مجتبی ملے ہیں.پھر حضور نے فرمایا کہ اس میں بنیادی صفات رحمن، رحیم، ملک یوم الدین کو پیش کیا گیا ہے اور اگر ساری صفات الہیہ کو بیان کیا جائے جن کا تذکرہ قرآن شریف میں موجود ہے، ننانوے عام طور پر بتائی جاتی ہیں ورنہ حدیثوں سے تو ثابت ہے کہ بے شمار صفات ہیں.مگر ان ننانوے صفات کی بنیاد دراصل ان چاروں پر ہے.اس کے بعد دعا سکھائی گئی ہے.إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحة : 5) جب کوئی شخص ، صاحب عرفان خدا کے آستانہ پر گرتا ہے تو پہلے وہ چاروں صفات کو مستحضر کرتا ہے.خدا کی ایک زندہ تصویر اس کے دل کے اوپر نقش ہو جاتی ہے.وہ کہتا ہے کہ اے خدا جو رحمن بھی ہے، جو رحیم بھی ہے، جو مالک یوم الدین بھی ہے اور جو اللہ ہونے کے لحاظ سے تمام صفات سے متصف ہے اور کوئی عیب نہیں جو اس کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہو.کیونکہ اللہ کا لفظ اسم ذات ہے اور سوائے قرآن کے یہ نام کسی اور کتاب میں موجود نہیں ہے.اللہ کے معنی ہیں کہ تمام صفات کا جامع اور ہر قسم کے عیوب سے پاک.یہ تصور جب انسان قائم کر کے پھر خدا کے آستانے پر پہنچتا ہے.اور کہتا ہے الہی اس تمام کائنات کا مالک بھی تو ہے.رب بھی تو ہے.رحمانیت کے چشمے بھی تیرے ہاتھ میں ہیں اور رحیمیت کے بھی ، اس لئے میں تیری درگاہ میں آیا ہوں.ایساكَ نَسْتَعِينُ تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں.حضرت مصلح موعودؓ کے کیسے دردناک شعر ہیں وہ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہی کی عکاسی کر رہے ہیں.در نمین دیکھیں یا کلام محمود دیکھیں یا کلام طاہر دیکھیں یا در عدن دیکھیں تو قرآن ہی کی تفسیر ہے اگر کسی انسان کی بصیرت کی نگاہ ہو.اِيَّاكَ نَسْتَعِین کا میں عرض کر رہا تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے خلافت کے ابتدائی دور میں جبکہ پیغامی جن کو میں لیکھر امی کہتا ہوں.چند آنے کے پیسے چھوڑ کے قادیان سے چلے گئے تھے.اس زمانے میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک طرف تو یہ دعا کی درد کے ساتھ ، سوز کے ساتھ، تضرع کے ساتھ.

Page 308

292 کر اپنے فضل سے تو میرے ہمسفر پیدا کہ اس دیار میں اے جانِ من غریب ہوں میں یہ حالت تھی اُس وقت.الہی یہ بڑے بڑے اکابر تھے اس وقت چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور پھر دعا کس طرح کرتے ہیں.میں تیرا در چھوڑ کر جاؤں کہاں چین دل آرام جاں پاؤں کہاں یاں نہ گر روؤں کہاں روؤں بتا یاں نہ چلاؤں تو چلاؤں کہاں جاں تو تیرے در پہ قرباں ہو گئی سر کو پھر میں اور ٹکراؤں کہاں یہ آواز ہے.ایک خدا کا عاشق ، آستانہ الوہیت پر اپنی روح کو گداز کرنے کے بعد عرض کرتا ہے.إِيَّاكَ نَسْتَعِيْن.اس کے بعد حضور فرماتے ہیں، تشریح کرتے ہیں کہ اس میں آگے پھر جو اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے اور صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمُ ہے.قرآن نے آگے خود اس کی تشریح کی ہے.سورۃ النساء میں :- وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولئِكَ رَفِيقًا (النساء : 51) فرمایا جو شخص اللہ اور اس رسول ﷺ کی اطاعت کرے گا یا وہ نبیوں میں شامل ہوگا یا صدیقوں میں شامل ہوگا یا شہیدوں میں شامل ہوگا یا صالحین میں شامل ہوگا.مجھے یاد ہے ایک عالم دین آئے.کہنے لگے جی نبوت کی بات بالکل نہ کریں.باقی معاملات جو ہیں اس بارے میں مذاکرات ہو سکتے ہیں.میں نے کہا آپ میرے مہمان ہیں.میں آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں.میں نبوت کی بات نہیں کرتا.یہاں چار درجے ہیں.نبوت کی بات نہیں ہوئی.یہ تو معاہدہ ہو چکا ہے آپ سے.صدیق بھی آسکتے ہیں کہ نہیں آ سکتے ؟ صِرَاطَ الَّذِينَ

Page 309

293 اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں پہلا درجہ نبوت کا ہے وہ تو آپ فرماتے ہیں کہ اس کا ذکر ہی نہ کرو.ایک بم کا گولہ ہے.ایک مصیبت ہے.نبوت کا تصور کرنا ہی قیامت کبری سے کم نہیں.میں بھی چھوڑتا ہوں.لیکن صدیق آسکتے ہیں کہ نہیں آسکتے؟ کہنے لگے آسکتے ہیں.میں نے کہا.سوچ لیں.صدیقیت کا دروازہ بھی بند نہ کرنا پڑے.کہنے لگے جی آ سکتے ہیں.امت کا اتفاق ہے.میں نے کہا اب آپ سے میں پوچھتا ہوں.صدیقیت کی تعریف کیا ہے؟ بے ساختہ ان کی زبان سے یہ جواب نکلا اور ٹھیک نکلا.انہوں نے کہا کہ صدیق وہ ہے جو خدا کے نبی کا اول نمبر پر چہرہ دیکھتا ہے اور اول نمبر پر ایمان لے آتا ہے.یہ ان کا جواب بالکل ٹھیک تھا.تمام چودہ صدیوں کے آئمہ محدثین، مفسرین، متکلمین ، مؤرخین ، دانشور ، سپین کے ہوں ، بغداد کے ہوں ،عرب کے ہوں ، ہندوستان کے ہوں ، ان کا متفقہ فیصلہ ہے کہ صدیق کی یہی تعریف ہے اور یہ بھی فیصلہ ہے کہ حضرت علی صدیق نہیں تھے ، حضرت ابو بکر صدیق تھے.میں نے کہا اب میں آپ سے پوچھتا ہوں.علامہ رازی نے اس آیت کی تشریح میں اپنی تفسیر میں لکھا ہے.اسی کو خواجہ میر درد کے ملفوظات میں آپ موجود پائیں گے.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتابوں میں یہی تشریح کی ہے.حضرت داتا گنج بخش کی ”کشف الحجوب میں یہی تفسیر آتی ہے.میں نے ان سے یہ پوچھا کہ آپ نے Definition یہ کی ہے کہ صدیق وہ ہے جو خدا کے نبی کا چہرہ دیکھتے ہی اول نمبر پہ ایمان لاتا ہے.اب آپ مجھے یہ فرما ئیں کہ اگر کوئی نبی ہی نہیں آئے گا تو صدیق کہاں سے پیدا ہوگا؟ زار و قطار رونے لگا.شریف انسان تھا.ہزاروں شریف ہیں علماء میں سے بھی.ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار آخر میں ، میں یہ بتاتا ہوں حضور نے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں بتایا کہ یہ زبردست پیشگوئی ہے جو آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے.میں اس نکتہ کی طرف سامعین کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اپنے عزیزوں کو.(اب وقت نہیں ہے کہ میں لفظ لفظ پڑھوں) حضور نے فرمایا کہ اس میں دعا سکھائی گئی ہے اور چودہ سو سال سے دنیا کے تمام مسلمان دعا کر رہے ہیں کہ اے خدا ہمیں مغضوب نہ بنا.کون تھے مغضوب؟ مغضوب وہ تھے جن میں چودہویں صدی میں موسیٰ علیہ السلام کے بعد خدا نے مسیح علیہ السلام

Page 310

294 و بھیجا تھا.یہود نے ان کو کافر کہا.ان کو گالیاں دیں.ان کو قتل کرنے کے منصوبے کئے.آپ نے فرمایا کہ اگر کسی مسیح موعود نے چودہویں صدی میں نہیں آنا تھا کیونکہ آنحضرت عے مثیل موسیٰ ہیں اور کسی نے ان کا انکار نہیں کرنا تھا، کسی نے ان کو کا فرنہیں قرار دینا تھا تو یہ دعا کیوں سکھائی گئی.یہ دعا اعلان عام کر رہی ہے کہ یہ مقدر تھا کہ چودہویں صدی میں بھی خدا کی طرف سے مسیح آئے گا محمد رسول اللہ ﷺ کی امت میں اور جس طرح یہودی علماء نے انکار کیا اس دور کے ملاں بھی انکار کریں گے اور قتل کے منصوبے کریں گے.چنانچہ آپ دیکھیں کہ مرتد اقلیت کے الفاظ احمدیت کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں کہ واجب القتل ہیں.اس سے کم تو ٹھہرا ہی نہیں جاتا.وہ غالبا امیر مینائی کا ہی علی شعر حضرت حافظ مختار احمد شاہجہان پوری صاحب کی زبان سے میں نے سنا تھا.کہتے ہیں کہ یہ زبان چلتی ہے اے واعظ کہ چھری چلتی ہے ذبح کرنے مجھے آئے یہ وہ سب جانیں ہر تقریر، ہر کتاب، ہر پمفلٹ ، خواہ وہ ننکانہ سے چھپے، حضوری باغ ملتان سے چھپے یا بنوری کی مسجد سے چھپے یا کسی اور جگہ سے چھپے، پورا نقشہ گالیوں کا آپ کو ہر ایک میں ملے گا اور بالکل یہ یہودیوں کی بات تھی.یہود نے جو کچھ بھی کیا حضرت مسیح علیہ السلام سے، وہ یہ لوگ 1889 ء سے لے کر آج تک کرتے چلے آرہے ہیں.ان کے سارے منصوبے، ان کی ساری کتابیں یہ اعلان عام کر رہی ہیں کہ ہم وہی کر رہے ہیں جس طرح کفار کیا کرتے تھے.یہ اعتراف تو کر رہے ہیں کہ ہم وہ کر رہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ابو جہل کیا کرتا تھا.اسی میں یہ شامل ہے کہ جو یہود نے دو ہزار سال پہلے مسیح علیہ السلام کے خلاف کیا تھا.تو آپ نے فرمایا کہ سورۃ فاتحہ خدا کی طرف سے اتمام حجت اور معجزہ ہے میرے لئے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اے دوستو جو پڑھتے ہو ام الکتاب کو اب دیکھو میری آنکھوں سے اس آفتاب کو یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے یہ میرے صدق دعویٰ مہر الله ہے

Page 311

295 میرے مسیح ہونے پہ یہ اک دلیل ہے میرے لئے یہ شاہد رب جلیل ہے چودہ سو سال سے یہ دعا کر رہے ہیں کہ الہی ایسا نہ ہو کہ وہ مسیح آئے اور چودہویں صدی کے یہودیوں کی طرح ہم اس کا انکار کریں.کتنا بڑا انشان ہے اور یہ اسمبلی اور یہ محضر نامہ، ان کے نام نہاد ختم نبوت کے فتوے والے جنہوں نے کہ حضرت یوسف کے زمانے والے یہود کا پرچم لہرایا ہوا ہے، وہ سب گواہی دے رہے ہیں کہ خدا کی بات پوری ہو گئی.دو اب میں ضمنا نہیں بلکہ حقیقتاً اشارہ ، میں اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ یہ تو صرف سورۃ فاتحہ کی بات ہے جس کا حضور نے نمونہ ہی پیش کرنا تھا چونکہ وقت کم تھا، ورنہ اگر آپ دیکھیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید کے جو خزانے تقسیم کئے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات اور حضور کی کتابوں میں موجود ہیں.اس کو بھی ” ادارۃ المصنفین “ نے اور نظارت اشاعت“ نے شائع کر دیا ہے.اس کا ایک واضح نمونہ دنیا نے جلسہ اعظم مذاہب میں دیکھا.خدا کے مسیح کو بتایا گیا کہ اس جلسہ اعظم مذاہب میں جس میں ہندو بھی، چینی بھی سکھ بھی، آریہ سماج بھی ، کیتھولک بھی ، پروٹسٹنٹ بھی.مسلمانوں میں سے بریلوی بھی ، دیو بندی بھی، اہلحدیث بھی شامل ہوئے.خدا تمہارے مضمون کو غالب کرے گا اور بتائے گا کہ قرآن دنیا میں واحد زندہ کتاب ہے اور اسلام زندہ مذہب ہے.چنانچہ آپ حضرات دیکھیں چودہویں صدی اخبار راولپنڈی سے چھپتا تھا.یکم فروری 1897ء میں بہت تفصیلی ریویو ہے، پڑھنے والا." تاریخ احمدیت جلد اول جدید ایڈیشن صفحہ 569-567 میں یہ دونوں ریویو چھپے ہوئے موجود ہیں.چودہویں صدی کے مدیر نے لکھا کہ میرا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن خدا جانتا ہے کہ قرآن کے وہ معارف جومولا نا عبدالکریم صاحب کے ذریعہ مرزا صاحب نے بتائے ہیں، آج تک ہم نے نہیں سنے اور سننے والے غیر مسلموں کے اوپر بھی اسلام کا سکہ بیٹھ گیا.کلکتہ کے اخبار نیر اعظم گوہر و آصفی.“ اس نے بھی قریباً ڈیڑھ صفحہ یعنی تین کالم کا اداریہ لکھا اور کہا کہ یہ بہت بڑا عظیم معرکہ ہے جس میں تمام دنیا کے مندوبین جمع ہوئے اس پلیٹ فارم پر اور اس موقعہ پر اگر چہ اس میں بڑی کوشش کی گئی کہ فلاں بھی آئیں، فلاں بھی آئیں لیکن کسی نے آنے کی کوشش ہی نہیں.چند جو آئے ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی.آنے والوں میں مولوی

Page 312

296 ثناء اللہ صاحب تھے ، مولوی محمد حسین بٹالوی تھے.کہہ رہے ہیں کہ اصل معرکہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے سر کیا تھا اور لکھا ہے کہ غیروں کے دلوں ، دماغ اور زبان سے بھی جاری ہو گیا کہ آج اس مضمون سے اسلام کو فتح ہوئی ، قرآن کو فتح ہوئی محمد رسول اللہ ﷺ کو فتح ہوئی.مسئلہ جہاد حافظ محمد نصر اللہ صاحب.مولانا صاحب ! اگلا سوال جو ہم آپ سے پوچھنا چاہ رہے ہیں اس کی اہمیت اس حوالے سے بھی ہے کہ آج بھی علماء اس کو اٹھاتے ہیں اور اس وقت اسمبلی میں بھی جب یہ سوال کیا گیا اور اس کا ایک خاص ماحول بنانے کے لئے مولانا شاہ احمد نورانی صاحب نے اسلام آباد میں انہی دنوں مسئلہ جہاد کے متعلق ایک بہت ہی اشتعال انگیز تقریر کی کیونکہ اسمبلی میں تو تقریر کی اجازت نہیں تھی.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.ایک طرف یہ مقدمہ لڑا جا رہا تھا اور دوسری طرف عوام میں اشتعال پھیلایا جا رہا تھا.حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.جی.اور اٹارنی جنرل صاحب نے بھی جب یہ سوال کیا تو اس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرا کو بڑے طمطراق سے پیش کیا اور با قاعدہ اشتعال دینے کی کوشش کی تو نائب مہدی کی حیثیت سے اسلامی مسئلہ جہاد پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے دو دن یعنی 20 اور 21 اگست 1974ء کو اسمبلی میں بہت تفصیلی وضاحت بیان فرمائی.اس کی اگر آپ کچھ تفصیل بیان فرمائیں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ حقیقتا بڑا معرکۃ الآراء مسئلہ ہے اور آج بھی یہی ہے اور آج تو ایسے حالات ہیں کہ وہ کہتے ہیں نا.صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور جب میکدے سے نکلے تو دنیا بدل گئی تو آج ساری دنیا میں مسیح موعود علیہ السلام کے اس موقف کے نقارے بج رہے ہیں.سعودی عرب سے آواز بلند ہو رہی ہے.افغانستان سے بلند ہو رہی ہے.خود افغانستان کے صدر اور

Page 313

297 تمام دنیا کے ممالک میں جن میں انڈو نیشیا بھی شامل ہے، اسلام کے نام پر دہشت گردی کے خلاف رائے عامہ اکٹھی ہو رہی ہے.آج ایک شور قیامت برپا ہے.خدا نے وہ زمانہ تو گذار دیا.اب دنیا پر اور مسلمانوں پر یہ کھل گیا ہے کہ ملاں جس کو جہاد کہتا تھاوہ دراصل دہشت گردی ہے.اب میں بتاتا ہوں آپ کا جو ارشاد ہے اس کی تعمیل میں کہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے حقیقی اسلامی نظریہ جہاد کی اس موقعہ پر اس شاندار رنگ میں ترجمانی فرمائی کہ دل و دماغ معطر ہو گئے اور اس وقت ہم سب اس نتیجہ پر پہنچے کہ حقیقت یہ ہے کہ تمکنت دین کا نشان خلفاء سے ہی وابستہ ہے اور خلفاء کی زبان عرش کے خدا کی زبان ہوتی ہے.حضور نے پہلے تو یہ بیان کیا کہ حضرت بانی سلسلہ نے جو 1902ء میں فتویٰ دیا ہے.دراصل یہ 20 اکتوبر 1900ء کا واقعہ ہے جب حضوڑ نے در گورنمنٹ انگریزی اور جہاد نامی رسالہ شائع کیا اور اس میں تاریخی عوامل سے بالبداہت ثابت کیا کہ اوائل اسلام کی سب جنگیں محض وقتی اور مدافعانہ تھیں اور اسلام سے بڑھ کر صلح اور امن کا علمبر دار کوئی مذہب نہیں.اسی لئے اپنی دعوت کی بنیاد صلح ، آشتی اور محبت کے عالمگیر اصولوں پر رکھی ہے.یہ جیسے آپ نے اشارہ کیا، اٹارنی جنرل صاحب نے اسمبلی میں ملاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کو بڑے نمک مرچ لگا کر پیش کیا اور نورانی صاحب نے بھی ایک دن پہلے اس موضوع پر اشتعال انگیز تقریر کی اور اگلے دن پھر یہ سوال جڑ دیا گیا.حضور نے دودن 20 اور 21 راگست کو اس مسئلہ پر نہایت بلیغ اور فیصلہ کن روشنی ڈالی ہے.حضور نے فرمایا کہ دراصل بانی جماعت احمدیہ نے جو مسلک اختیار کیا وہ تو آنحضور ﷺ کا مسلک تھا.آپ کی پیشگوئی تھی کہ جب مسیح موعود آئے گا يَضَعُ الْحَرْبَ وہ مذہب کے نام پر جنگوں کو ملتوی کر دے گا.یہ بخاری شریف میں موجود ہے.بانی جماعت نے تو بحیثیت نائب مصطفیٰ کے اس کا اعلان کیا ہے کہ میں اعلان کرتا ہوں کہ محمد ﷺ کا جو آرڈینینس ہے وہ آج سے نافذ ہو گیا ہے.آپ نے یہ کہا کہ اس میرے زمانے میں تیرھویں صدی کے مجد د حضرت سید احمد شہید سید احمد رضا بریلوی اور مفتیان مکہ اور سید نذیرحسین دہلوی اور نواب صدیق حسن خان اور مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی ان لوگوں نے جہاد کے موضوع پر بیان کیا کہ جہاد دفاعی جنگ کا نام ہے اور موجودہ زمانہ ایسا نہیں ہے کہ قرآن کی شرائط اس پر لاگو ہوتی ہوں.اس لئے اب جو جہاد کرتا ہے وہ فساد کرتا ہے.دراصل مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو اس

Page 314

298 وجہ سے پھر زمین کے چار مربعے بھی عطا کئے گئے.تو آپ نے فرمایا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا اعلان کیا ہے اور توثیق کی ہے کہ اس ارشاد کے مطابق جہاد کے مسئلہ کی جو مفتیان مکہ نے ، خلیفۃ المسلمین نے اور یہاں برصغیر ، ہندوستان کے جو بڑے بڑے علماء ہیں.نے نظریہ جہاد کے متعلق جو یہ کہا ہے کہ موجودہ زمانے میں وہ شرائط نہیں ہیں قرآن کی رُو سے، میں اس کی توثیق کرتا ہوں.کوئی نیا فتویٰ ہی نہیں تھا وہ.وہ اعلان عام تھا محمد عربی ﷺ کے ارشاد پاک کا.اس کے بعد پھر حضور نے ” اول المکفرین“ مولوی سید نذیر حسین صاحب شیخ الکل کی کتاب ” فتاویٰ نذیریہ کا ایک بہت طویل اقتباس پڑھا.وہ کتاب چھپی ہوئی ہے.میں اس کا خلاصہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ فتاویٰ نذیریہ کتاب الامارۃ والجہاد ہے اور ابواب میں آپ کے فتوے سارے جمع کئے گئے ہیں.تیسری جلد ہے.مکتبۃ المعارف الاسلامیہ گوجرانوالہ پاکستان اس کے ناشر ہیں.ان کا بیان صفحہ 277 سے صفحہ 286 تک چلتا ہے.بڑی تقطیع کی کتاب ہے.اس کا ذکر چند حرفوں میں کیا ہے اللہ وسایا نے اپنی کتاب میں.حالانکہ حضور نے بڑی تفصیل سے ساری باتیں بیان کیں.اور اس کے علاوہ پھر یہ صفحات بھی پڑھے.وہ دوسطروں میں کیسے آگئے؟ اس سے ان کی خباثت باطنی کا پتہ لگتا ہے.اس کتاب ہی سے ثابت ہے کہ یہودی دو ہزار سال سے وہ تحریف نہیں کر رہے جو ان لوگوں نے چند دنوں میں کر کے دکھا دی ہے.اب اس میں یہ بہت تفصیلی ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ سارا حضور نے وہاں پڑھ کے سنایا تھا ؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.ہاں لفظاً لفظاً پڑھ کے سنایا ہے.اور اس کی رپورٹنگ اللہ وسایا نے چند سطروں میں کی ہے.حالانکہ یہ صرف اسی کو نقل کر دیتے تو یہ کئی صفحوں تک جاتا تھا.دو دن یہ بحث جاری رہی ہے.اور سناٹا چھایا ہوا تھا اس وقت.کسی کو دم مارنے کی گنجائش نہیں تھی.تو سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں جہاد جائز ہے یا نہیں؟ اس سے پہلے یہ میں بتا دیتا ہوں کہ یہ فتویٰ ہے جو شائع کیا گیا اور اس کے آخر میں مولوی نذیر حسین صاحب، سید ابوالحسن صاحب، سید عبدالسلام صاحب، محمد یوسف صاحب اور دیگر علماء کے نام لکھے گئے ہیں.اس دور کے سن اگر آپ معلوم کریں

Page 315

299 احباب خود اندازہ کریں.یہ فتوے 1288 ہجری کے ہیں.اور ایک فتوی 1255 ہجری کا ہے.اب آپ اندازہ کریں کہ جماعت احمدیہ کا قیام ہوا ہے 1306ھ میں اور یہ 1255ھ کا فتویٰ ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.1255 ہجری مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.1255 ہجری.اور یہ کتنے سال ہوئے پہلے.حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.51 سال پہلے کا.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:- 51 سال پہلے کا فتویٰ ہے یہ.جماعت احمدیہ کے قیام سے بھی پہلے کا.دیکھیں سب کی مہریں ہیں.سید نذیر حسین ،سید ابوالحسن،سید عبدالسلام وغیرہ.یہ جو تصور کیا جاتا ہے کہ تمام اہل اسلام جہاد پر متفق تھے اور مرزا صاحب نے آکر جہاد کو انگریز کے کہنے پر منسوخ کر دیا ہے.ایسا قصہ، ایسا فسانہ، ایسا جھوٹ بنایا گیا ہے جس طرح ان کے پیر ومرشد کہتے ہیں نا کہ سفید جھوٹ بولو کہ یہ اندازہ ہی نہ ہو سکے کہ کوئی ملا منبر رسول پر کھڑا ہو اور اس طرح کی جھوٹی کہانی اسلام اور قرآن کے نام پر بنا سکتا ہے.تو یہ فتوی کس وقت کا ہے؟ اکاون سال جماعت احمدیہ کے قیام سے پہلے کا اور مسیح موعود کا فتویٰ اس کے بعد 1902ء میں دیا گیا ہے.تو 1889ء اور 1902ء میں یہ تیرہ سال اور ہو گئے.تیرہ کو اگر اکاون میں جمع کریں تو یہ چونسٹھ سال بنتے ہیں.تو یہ حضرت مسیح موعود کے فتویٰ سے چونسٹھ سال پہلے کا فتویٰ ہے اور اس کا خلاصہ یہ دیا گیا ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.جس سوال پر فتویٰ دیا گیا تھا وہ کیا تھا؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.سوال یہ کیا ہے کہ کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے میں کہ ہندوستان میں جہاد جائز ہے یا نہیں؟ تو اس کے جواب میں سارے علماء کی طرف سے متفقہ جواب دیا گیا جو کہ جماعت احمدیہ کے قیام سے اکاون سال پہلے کا اور حضرت مسیح موعود کے فتویٰ جہاد سے چونسٹھ سال پہلے کا ہے.سر فہرست مولوی نذیر حسین صاحب کہتے ہیں کہ جہاد کوئی بازیچہ اطفال نہیں ہے.اس کی چار شرطیں ہیں اور چاروں میں سے کوئی شرط بھی ایسی نہیں ہے جس سے کہ جہاد جائز قرار دیا جا سکے.چنانچہ کہتے ہیں کہ اس میں یہ بھی شرط ہے کہ مسلمانوں کا امام ہو.مسلمانوں کے

Page 316

300 پاس اتنی طاقت ہو کہ وہ کافروں کا مقابلہ کر سکیں.پھر یہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی ایسا ملک ہو جو ان کو امن دینے والا ہو.پھر شرط یہ ہے کہ دشمن حملہ آور ہو.ان سارے علماء نے مسیح موعود کے فتوے سے چونسٹھ سال پہلے یہ فتویٰ شائع کیا کہ یہ چاروں شرطیں اس وقت ہندوستان میں نہیں ہیں اس واسطے آج اسلام کے مطابق جہاد کرنا نا جائز ہے اور جہاد نہیں بلکہ فساد ہے.اب آخر میں اتنا میں عرض کروں گا کہ ملاں سمجھتے ہیں کہ دنیا سب اندھی ہے.اور کوئی شخص تاریخ کو نہیں جانتا.اس زمانے کے منظر کو پیش کرنے کے لئے کہ وہ کتابیں اب بھی موجود ہیں عالم اسلام کی کیا کیفیت تھی.جہاد کے لفظ سے تو پہلے اس زمانے میں بھی مسلمانوں کی حکومت افغانستان کی طرف انسانوں کی توجہ ہو جاتی تھی.اب میں افغانستان کے ضیاء الملت والدین امیر عبدالرحمن خاں غازی حکمران دولت خدا داد افغانستان اس دور کے ، حضرت مسیح موعود کے زمانے کے.ان کی خود نوشت سوانح عمری آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس کا ترجمہ آگرہ سے سید محمد حسن بلگرامی کی طرف سے دبدبہ امیری“ کے نام سے شائع کیا گیا.انگریزی ترجمہ لندن سے چھپا ہے.وہ میں نے انڈیا آفس میں دیکھا ہے.یہ اردو ترجمہ ہے اور حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں چھپا ہے اور چھپا بھی مطبع تنسی آگرہ سے ہے.اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ عالم اسلام کی کیا کیفیت تھی جہاد کے معاملہ میں.’امیر عبدالرحمن خاں غازی حکمران دولت خدا دادافغانستان اپنی آٹو بائیو گرافی میں لکھتے ہیں.صورت حال کا اندازہ کرنے کے لئے پہلے تو دیگر مسائل لکھنے کے بعد روس کی پالیسی کا ذکر کیا ہے.روس کی پالیسی جس کے احراری بھی ایجنٹ ہیں اور جواہر لعل نہرو صاحب اپنے دور میں کانگریس میں جو سوشلسٹ ونگ تھا اس کے سربراہ تھے اسی لئے میں نے اشارہ بتایا ہے کہ جس وقت 1928 میں فرانس میں نیشنل کمیونزم کی کانفرنس ہوئی تو بطور ڈیلیکیٹ (Delegate) کے، نہرو صاحب کو کانگریس کی طرف سے بھجوایا گیا تھا.تو یہ روس کی پالیسی کا ذکر کر رہے ہیں.کون؟ امیر عبدالرحمن والی افغانستان.فرماتے ہیں کہ گورنمنٹ روس کی پالیسی امیر بخارا اور دیگر میرانِ وسط ایشیا اور ٹر کی اور ایران اور افغانستان کی نسبت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ وہ قومی نہ ہونے پائیں جو اس کی دائگی پیش قدمی میں مخل ہوں.ایشیائی سلطنتوں کی دقتوں اور.

Page 317

301 کمزوریوں سے روس برابر فائدہ اٹھاتا ہے.بعض اسلامی ریاستوں پر وہ بالکل قابض ہو گیا ہے.اور بعض پر کم کم مسلط ہے.وہ دیکھ نہیں سکتا کہ کوئی اسلامی بادشاہ فوجی تیاریاں کرے.“ یہ کس کی پالیسی ہے؟ رشیا کی.جنرل کا فمان کی تحریر میں ایک بات بالکل صحیح تھی وہ یہ کہ اسلام روس کا جانی دشمن ہے اور یہ بلا وجہ نہیں.“ یہ نقشہ آپ کے سامنے آ گیا اس وقت دنیا کی اجتماعی طاقتوں کا.امیر عبدالرحمن صاحب گورنمنٹ کے متعلق جو فرماتے ہیں وہ سمجھیں آپ.اس سے معلوم ہوگا کہ جب مسیح موعود دنیا میں تشریف لائے اور جب آپ نے فتویٰ دیا تو اصل فتویٰ تو چونسٹھ سال پہلے دیا جا چکا تھا.جب آپ نے فتویٰ دیا اس وقت کیا کیفیت تھی عالم اسلام کی؟.فرماتے ہیں امیر عبدالرحمن :.بخلاف اس کے ( یعنی روسی پالیسی کے مقابل پر ) انگلش پالیسی عموماً اسلام اور کل اسلامی سلطنت ہائے ایشیا کے ساتھ دوستانہ ہے.اور انگلستان کی دلی خواہش ہے کہ یہ سلطنتیں ( یعنی مسلمانوں کی سلطنتیں ) قائم رہیں.قوی و خود مختار ہوں.مگر کبھی کبھی اس پالیسی میں عارضی تغیرات ہوا کرتے ہیں.انگلش پالیسی روس کی طرح مضبوط اور مستقل نہیں ہے.“ 66 آگے لکھتے ہیں :.ایک عرصہ دراز سے برطانیہ اعظم کی عام پالیسی یہ ہے کہ اسلامی سلطنتیں جو ہندوستان اور ایشیائی روس کے درمیان مثل دیوار کے حائل ہیں باقی رہیں.اور ان کی خود مختاری بخوبی قائم رہے تا کہ روس کی راہ میں ایک آہنی دیوار بن جائیں.بخلاف اس کے روس کی پالیسی، بالکل اس کے برعکس ہے.نہ صرف اس وجہ سے کہ اس کے ملک کے حدود ہندوستان کی سرحد کے ساتھ مل جائیں.بلکہ اسے ہمیشہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اگر ٹر کی یا ایران یا افغانستان یا ہندوستان کے ساتھ جنگ ہوئی تو اس کی مسلمان رعایا میں عام غدر ہو جائے گا.“

Page 318

302 غدر کس کے خلاف ہوگا ؟ روس کے خلاف اور کس کے حق میں ہوگا ؟ برطانیہ کے حق میں اور کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ:.اس میں شک نہیں کہ تمام دنیا کے مسلمان سلطنت برطانیہ کی دوستی کو روس کی دوستی پر ترجیح دیتے ہیں.“ ( ” دبدبہ امیری صفحہ 217-218) یہ نقشہ تھا اس وقت.اور سیدنا حضرت مسیح موعود کا یہ شعر میں ضرور پڑھوں گا کہ حضور نے جوفتو ی ڈنکے کی چوٹ پر دیا، وہ آج آپ کی صداقت کا اعلان عام کر رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا.فرما چکا ہے سید کونین مصطفی عیسی مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا اک معجزہ کے طور سے پیشگوئی ہے کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے حافظ محمد نصر اللہ صاحب : مولانا صاحب ! اس ضمن میں حضور نے سید احمد صاحب بریلوی اور مفتیان مکہ کا بھی ذکر فرمایا تھا؟ ہو چکا ہے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.جی جی وہ میں ذکر کر چکا ہوں.تفصیل کے ساتھ ذکر پچاس الماریوں کی حقیقت؟ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.ایک سوال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب تریاق القلوب کے حوالے سے تھا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ میں نے انگریزی حکومت کے احسانات اور مذہبی آزادی کا جو ذ کر کیا ہے اس سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.حضور نے بہت ہی لطیف اور فیصلہ کن جواب ارشاد

Page 319

303 فرمایا.میں نے بتایا ہے کہ حضور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی قوت عطا کی گئی تھی کہ حضرت مسیح موعود کے اوپر جو اعتراضات وارد ہوتے تھے، خود مسیح موعود کے قلم ہی سے اس کا جواب اسمبلی کے سامنے آپ نے پیش کیا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشتہارات میں خودان کتابوں کی فہرست شائع فرمائی ہے جن میں حکومت وقت کی تعریف کی گئی تھی.اس کے تھوڑے سے صفحات ہیں اور اس کی فہرست خود حضرت اقدس نے ایک اشتہار میں دے دی ہے.پچاس الماریوں کے لفظ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ کتا ہیں جتنی تعداد میں چھپیں ،اگر ان تمام چھپنے والی کتابوں کو یکجا طور پر رکھا جائے تو پچاس الماریاں یقیناً اس سے بھر سکتی ہیں.کیونکہ کوئی ہزار کی تعداد میں چھپی کوئی دو ہزار کی تعداد میں چھپی.یا اشتہار کی بات ہے کئی ہزاروں کی تعداد میں چھپے ہیں.اور فرمایا کہ اس میں کوئی مبالغہ کی بات نہیں ہے.اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا 20 ستمبر 1897ء کا اشتہار ہے اور اس کا نام ہے اشتہار واجب الاظہار“ اور یہ مجموعہ اشتہارات طبع اول کی جلد نمبر 2 کے 456 تا 473 صفحے پر ہے اور اب حال ہی میں مکرم مولانا عبدالحی شاہ صاحب کے زیر اہتمام تینوں جلدیں دو جلدوں میں بہت ہی نفیس انداز میں اضافوں کے ساتھ شائع ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ شاہ صاحب کو جزائے خیر دے.وہ بھی سلطان القلم کے مجاہد ہیں.تو انہوں نے اضافوں کے ساتھ تمام اشتہارات دو جلدوں میں شائع فرمائے ہیں.بہت ہی د بیزی اس کا سرورق اور گردو پوش ہے اور وجد آ جاتا ہے اس کو دیکھ کے خصوصاً اضافوں کو دیکھتے ہوئے.تو اس تازہ ایڈیشن کی دوسری جلد کے 161 سے 174 صفحات تک ہے.20 ستمبر 1897ء کے اس اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض کتابوں کا ذکر کیا ہے اور کسی کا کہا اس کے ایک صفحہ پر ذکر ہے اور کسی کا کہا کہ اس کے دو صفحوں میں ذکر ہے.یہ کتا بیں براہین احمدیہ، آریہ دھرم ، آئینہ کمالات اسلام، نور الحق ، شہادت القرآن، سر الخلافته ، اتمام الحجة ، حمامة البشرى، تحفہ قیصریہ، انجام آتھم ، سراج منیر وغیرہ.پھر آگے چند اشتہارات ہیں.ان کا ذکر ہے.یہ مضمون تین صفحے کا ہے.کوئی ایک صفحے کا ہے.کوئی چار صفحے کا ہے تو یہ حضور نے خود بیان کر دیا ہے.پہلے نام لکھا ہے.پھر اس کی تاریخ اشاعت بتائی ہے.پھر یہ لکھا ہے کہ کتنے صفحے کا ہے.مثلا ایک میں لکھتے ہیں کہ یہ جو اشتہار ہے اس کے ایک صفحہ سے لے کر تین صفحہ تک.پھر ایک اشتہار 25 جون 1897ء میں اس کے دس صفحے

Page 320

304 ہیں.پھر سراج منیر میں ایک صفحہ ہے 74 صفحہ.میں نے شعبہ تاریخ کے مخلص جو شعبہ کمپیوٹر کے انچارج ہیں، ان سے یہ درخواست کی کہ آپ یہ سارے صفحے بتائیں کتنے بنتے ہیں؟ مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی بھر کی کتابوں میں جہاں انگریز کی تعریف کی گئی ہے.حضرت محمد عربی ﷺ نے بھی تو تعریف کی تھی.یہ بات مجھے یاد آئی کہ شیش محل روڈلاہور پر جماعت اہلحدیث کا ایک کتب خانہ ہے.میں وہاں ایک عرصہ دراز ہوا، گیا.خلافت ثانیہ کی بات تھی.وہاں یہ قصہ شروع ہوا.میں تو جہاں جاتا ہوں لازماً دعوت الی اللہ میرے فرائض میں شامل ہوتی ہے ایک مربی سلسلہ ہونے کی حیثیت سے.اور یہ ہماری روح ہے.ہماری غذا ہے.تو میں نے ان سے کہا کہ حضرت رسول پاک ﷺ کی طرف منسوب یہ روایت علامہ سیوطی نے بھی لکھی ہے کہ حضور نے فرمایا کہ مجھے فخر ہے کہ میں نوشیروان عادل کے زمانہ میں پیدا ہوا.حالانکہ وہ پکا دہریہ تھا.میں نے کہا کہ اگر مرزا صاحب کی ساری کتابوں کے حوالے ایک معنی میں آپ جمع کر دیں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک فقرہ اس پر غالب ہے کیونکہ اعلان کرنے والے سید نا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو نبیوں کے سردار ہیں.اور پھر فخر کس پر کر رہے ہیں؟ نوشیروان کے اوپر ، جو د ہر یہ ہے.تو کسی کی انصاف پروری کو سراہنا، اس کی تعریف کرنا، یہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے.میں نے مولانا حافظ انوار رسول صاحب سے یہ کہا کہ آپ ذرا بتا ئیں تو سہی کہ کتنے صفحے بنتے ہیں؟ تو ہزاروں صفحات کے لٹریچر میں مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کے عدل کے متعلق جو لکھا ہے اس کے مجموعی صفحات 183 بنتے ہیں.خود کاشتہ پودا بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہ خون نکلا حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.ایک سوال حضور سے اسمبلی میں یہ ہوا کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنے آپ کو ایک اشتہار میں انگریز کا خود کاشتہ پودا کہا ہے.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے جواب میں فرمایا کہ خود کو نہیں اپنے خاندان کو جو

Page 321

305 ستی ہے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے براہین احمدیہ پر بہترین ریو یولکھا اور اس میں لکھا تیرہ سو سال میں دنیائے اسلام میں کسی نے قلمی اور لسانی اور زبانی اور عملی طور پر اتنی خدمت اسلام نہیں کی جتنی کہ براہین احمدیہ کے مصنف نے کی ہے.تو اس میں یہ لکھا ہے کہ افسوس کی بات ہے کہ غیر مسلموں کے اوپر تو سناٹا چھا گیا.مگر دیو بندی مولوی اس کتاب کی وجہ سے اعتراض کر رہے ہیں.عجیب بات ہے.1884ء میں سب سے پہلے لدھیانہ کے دیوبندی مولویوں نے اعتراض کیا تھا.اور اس پر مولوی محمد حسین بٹالوی نے لکھا کہ یہ مولوی جو ہیں ایک طرف سے مرزا صاحب کے دعاوی پر اعتراض کرتے ہیں اور اس کا جواب انہوں نے خود دیا.حدیثوں اور قرآن کریم کی رو سے.جتنے اعتراض احراریوں نے آج شائع کئے ہیں، مولوی محمد حسین بٹالوی نے جماعت احمدیہ کے قیام سے پہلے ان کے جواب دیئے ہوئے ہیں.اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ مولوی ایک طرف اشتعال دلاتے ہیں مسلمانوں کو اور دوسری طرف انگریزوں سے کہتے ہیں کہ یہ تو دراصل باغی ہے.تو کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے بالکل.اور گورنمنٹ کے دستاویزی ثبوت بتاتے ہیں کہ جس خاندان سے ان کا تعلق ہے، وہ وفادار ہے.حکومت وقت کا یقینی طور پر وفادار ہے.اس تعلق میں یہ دو خط انہوں نے ولسن کے جو کہ کمشنر تھالا ہور کا اور ایک اور کمشنر ، حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے نام حضور کے دعوئی سے پہلے یعنی طالب علمی کے زمانے کے جو لکھے گئے ، وہ انہوں نے بطور شہادت کے پیش کئے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 20 ستمبر 1897 ء کا جو اشتہار دیا ہے،اس کا پس منظر یہ تھا کہ چند ماہ پہلے آپ کے خلاف ڈاکٹر پادری مارٹن کلارک نے قتل کا مقدمہ درج کروایا جس میں کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دوسرے مولویوں نے جا کر شہادت دی.پیسے ان سے لئے اور شہادت جا کر دی کہ یہ ٹھیک ہے.اس میں مرزا صاحب کا ہاتھ ہوسکتا ہے.یہ پہلا معاوضہ ختم نبوت پر لیا.تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ بھی ڈیفنس کیا، وہ کتاب البریہ میں موجود ہے.خدا نے کیپٹن ڈگلس کے دل میں جو اپنے زمانے کا پیلا طوس تھا، یہ ڈال دیا کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بے گناہ ہیں.انہوں نے فیصلہ یہ دیا کہ مبارک ہو.آپ کو بری کیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو انہوں نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں اجازت دیتا ہوں کہ اس کذاب ڈاکٹر پادری مارٹن کلارک کے خلاف آپ مقدمہ دائر کر سکتے ہیں.مسیح موعود تا خدا

Page 322

306 کا شیر کھڑا ہوا.آپ نے فرمایا کہ میں کوئی مقدمہ نہیں کرنا چاہتا.میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ اشتہار دیا اور فرمایا کہ مقدمہ تو ختم ہو گیا ہے.لیکن مارٹن کلارک نے اپنے بیانوں میں بار بار کہا ہے کہ یہ حکومت کا باغی ہے اور باوجودیکہ مجھے بری قرار دیا گیا ہے.اس کے اثرات میں دیکھ رہا ہوں کہ پادری اور ان جیسے، میں نے بیان بھی کیا ہے.اس زمانے میں خود مولوی محمد حسین بٹالوی نے صاف لکھا کہ مہدی قادیانی مہدی سوڈانی سے زیادہ خطرناک ہے اور کہا کہ یہ در پردہ صرف طاقت کے اکٹھا ہونے کے انتظار میں ہے.پھر مسیح موعود علیہ السلام کو خیال آیا کہ عیسائیوں کی حکومت ہے.عیسائی پادری ہے.پادریوں کے پیچھے امریکہ اور برطانیہ کے لشکر ہیں.حکومت کروڑوں کھربوں پاونڈ اور ڈالرخرچ کر رہی ہے کہ کسی طرح ہندوستان کو عیسائی بنالے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ڈاکٹر کلارک اندر ہی اندر بغاوت کے نام پر ایک اور تحریک اٹھا دے.تو یہ بیک گراؤنڈ (Background) تھا جس پر حضوڑ نے لکھا.آپ نے فرمایا کہ میں یہ بیچ بتانا چاہتا ہوں.جس طرح وکیل ایک کیس پیش کرتا ہے تو اس کے ڈیفنس میں ڈاکومنٹ پیش کرتا ہے تو آپ نے یہ ڈاکومنٹ پیش کئے.اور فرمایا کہ اس سے ثابت ہے کہ میرا خاندان خود کاشتہ پودا ہے، سنی خاندان اور اس کے ثبوت کے طور پر اپنے والد کے نام خطوط بیان کئے ہیں.اس کا آپ کے ساتھ تعلق نہیں.1858ء میں کون سی جماعت احمدیہ تھی جس کے خود کاشتہ پودہ ہونے کا اعلان کیا جا سکتا تھا.تو وہ الفاظ دراصل اس خاندان کے متعلق تھے جوشنی خاندان تھا.جس کے بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب تھے اول نمبر پر.پھر آپ کے بڑے بھائی تھے ، حضرت مرزا غلام قادر صاحب.تو یہ ان کی طرف اشارہ ہے.تو یہ جو دونوں چٹھیاں ہیں، سفارشیں ہیں یہ دونوں لاہور سے گئیں ولسن کی طرف سے اور رابرٹ کی طرف سے اور دونوں میں ان کی خدمات کو سراہا گیا تھا.اور یہ خود پروف پیش کئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے براہین احمدیہ کے ریویو میں.اسی کو حضور نے پیش کیا ہے اور مرادستی خاندان ہے.الہام کی زبان ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اٹارنی جنرل صاحب نے یہ ایک سوال کیا تھا کہ یہ ایک

Page 323

307 بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی زبان تو کوئی اور ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو.جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا.یہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ پیش کر کے کہا اور اس سے ان کا تمسخر کا خیال تھا کہ حضور کو بعض ایسے الہام بھی ہوئے جو کسی اور زبان میں تھے جس کو کہ حضور سمجھ نہیں سکتے تھے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے نہایت پر شوکت انداز میں یہ جواب دیا کہ یہ حوالہ ”چشمہ معرفت سے ہے اور چشمہ معرفت“ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ 1908ء کے آغاز میں چھپی ہے.آریہ سماج کے مندر میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مضمون بھی پیش کیا گیا تھا.اس دوران ہندوؤں نے اسلام اور بانی اسلام کو جو گالیاں دی تھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چشمہ معرفت ان کا جواب دیا ہے.حضور کے مخاطب آر یہ ہیں اور آریوں کا عقیدہ جو ہے ، حضور کا جواب سنانے سے پہلے اسے میں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس جواب کو آپ زیادہ نمایاں طور پر سمجھ سکیں.آر یہ کہتے ہیں کہ اس یو نیورس یا کائنات کے آغاز میں جس طرح کہ ایک سورج یہ کام کر رہا ہے تو ایک شریعت نازل کی گئی ویدوں کی شکل میں.رگ وید ہے.اتھرو ید ہے.سام دید ہے.یجروید ہے.اور یہ نسکرت کی زبان میں نازل ہوئے اور سنسکرت زبان وہ تھی جو خدا کی زبان تھی.اور جن رشیوں پر نازل ہوئے وہ بھی یہ زبان نہیں جانتے تھے.آریہ سماج کا یہ عقیدہ ہے کہ عربی زبان جس میں قرآن نازل ہو، یہ تو لوگ جانتے تھے.مگر دیدوں کو یہ نقدس حاصل ہے کہ ویدوں کی زبان وہ تھی جو دنیا کے لوگ جانتے ہی نہیں تھے ،صرف خدا ہی جانتا تھا.اس پس منظر میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا جواب سنیئے.فرمایا :- حوالے کے سیاق وسباق سے پوری طرح عیاں ہے کہ یہاں ملہم کا ذکر نہیں.بلکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام آریوں کے اس عقیدے پر تقریر فرمارہے ہیں کہ الہامی کتاب اس زبان میں نازل ہونی چاہئے جو کسی انسان کی زبان نہ ہو بلکہ خدا کی اور ایشور کی زبان ہو اور اسی لئے وید نازل کئے گئے خدا کی زبان میں.جس کو کہ رشی اور منی نہیں جانتے تھے.حضور اس پر تنقید کر رہے ہیں کہ یہ تو بے عقلی کی بات ہے کہ ایسی زبان میں الہام ہو کہ انسان بھی نہ جانتا ہو اس کو.اور یہ تکلیف مالا يطاق بھی ہے اور بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے.

Page 324

308 سقوط بغداد پر قادیان میں جشن؟ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.اگلا سوال یہ کیا گیا کہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب سقوط بغداد ہوا تو قادیان میں اس پر جشن منایا گیا.مولانا دوست محمد شاہد صاحب حضور نے اخبار حق“ لاہور 23 نومبر 1918ء حاضرین کو دکھایا.اخبار ”حق“.یہی رسالہ تھا جس کا عکس میں آپ کے سامنے پیش کیا.خاکسا رہی بائیس تئیس کتابیں اپنی لے گیا تھا.ہزار کتابیں تو وہ تھیں جو خلافت لائبریری سے میں لے گیا تھا.کچھ کتابیں حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نے عطا فرمائیں.اور حضرت مولا نا عبدالمالک صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا سیٹ دیا.خاکسار جولٹریچر لے گیا تھا، ان میں یہ اخبار ”حق“ بھی ہے.اصل میرے پاس محفوظ ہے.اخبار ” حق‘لا ہور 23 نومبر 1918ءحضور نے اپنے دستِ مبارک میں پکڑ کر جو کمیٹی کے ممبر تھے پیپلز پارٹی کے اور اپوزیشن کے، ان کو دکھایا.اس میں سیکرٹری خلافت کمیٹی سرشیخ عبد القادر صاحب کا جو مدیر مخزن تھے اور جنہوں نے دیباچہ لکھا ہے بانگِ درا‘ کا.یہ سیکرٹری تھے خلافت کمیٹی کے.انہوں نے اس میں یہ لکھا ہے.وو یہ پہلا صفحہ ہے اس کا اور دوسرا صفحہ دوسرے کالم میں صلح اور فتح کا عنوان ہے اور لکھا ہے از شیخ عبدالقادر صاحب بی اے.بیرسٹر آف لاء.آغا ز ان الفاظ سے ہوتا ہے.ماہ نومبر کی بارہویں تاریخ جو خوشیاں سارے ملک میں منائی گئی ہیں ، وہ مدتوں تک یادر ہیں گی.اور اس ایک دن کی خوشی نے لڑائی کے زمانے کی بہت سی کلفتوں کو دھوڈالا.سرکاری طور پر جو تار افسران اضلاع کے نام صلح کی خوشخبری لے کر پہنچا اس کے الفاظ یہ تھے کہ صلح مع فتح کی خوشی منائی جائے.اخبارات نے بھی مردہ صلح چھاپتے ہوئے فتح کا عنوان بڑے جلی حروف میں دیا.66 مقصد یہ ہے کہ جنگ جب ختم ہوگئی تو سارے ہندوستان میں 12 نومبر کی تاریخ تھی 1918ء کی.تمام ہندوستان کے باشندوں نے جن میں مسلمان تھے.جن میں ہندو بھی شامل تھے.

Page 325

309 جن میں سکھ بھی شامل تھے.جن میں پارسی بھی شامل تھے.جن میں آریہ سما جی بھی شامل تھے.غرضیکہ چالیس کروڑ ہندوستان کے باشندے جن میں مسلمان بھی تھے، انہوں نے چراغاں کیا اس موقع پر.حضور نے یہ نوٹ پڑھنے کے بعد جوفرمایا ، وہ میں اب بتا تا ہوں.فرمایا:.دسقوط بغداد پر جشن نہیں ہوا.پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر ہوا.اور یہ جشن ہندوستان کے تمام باشندوں نے منایا.جن میں مسلم اور غیر مسلم سب شامل تھے.ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پُر جوش طور پر چراغاں کیا گیا.اس سلسلہ میں قادیان کی چھوٹی سی بستی میں احمدیوں نے بھی چند دیے جلا دیے مگر آپ احباب کو ہندوستان کے لاکھوں چراغ تو بھول گئے.ہاں اگر یا در ہے تو احمدیوں کے چند دیئے یادر ہے.ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا یہ شعر میرے تاثرات ہیں.مولانا ظفر انصاری صاحب کی جرح ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.مولانا صاحب ! اب ہم سوالات کے دور کے آخری دن پر آگئے ہیں جو کہ 24 را گست 1974ء کو ہوا.اور اس دن کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ اس دن بجائے اس کے کہ سوالات اٹارنی جنرل یحی بختیار صاحب کرتے ، چیئر مین کی اجازت سے مولوی ظفر احمد انصاری صاحب نے کئے.اس کی بیک گراؤنڈ (Background) کیا تھی؟ کیوں یہ تبدیلی واقع ہوئی؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.خاکسار اس سلسلہ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ اس روز خصوصی کمیٹی کے چیئر مین صاحب نے خلاف دستور اور حکومت کے اعلامیہ کے خلاف محترم اٹارنی جنرل صاحب کی بجائے رکن اسمبلی ظفر انصاری صاحب کو سوالات پیش کرنے کی اجازت دے دی.

Page 326

310 بعد میں بعض مستند ذرائع سے یہ پتہ چلا کہ اپوزیشن کے ملاؤں نے چیئر مین صاحب سے شکایت کی اور شکوہ کیا ہے کہ اٹارنی جنرل ملت اسلامیہ کے موقف کی صحیح وکالت کرنے میں ناکام رہے ہیں.ملت اسلامیہ کا تو میں پوسٹ مارٹم پہلے کر چکا ہوں.لیکن میں یہاں یہ دلچسپ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ملت اسلامیہ کے نام سے کچھ عرصہ قبل دیو بندی مولویوں نے ایک دہشت گرد پارٹی بنائی تھی یعنی نام ہی ملت اسلامیہ" رکھا.بلی تھیلے سے باہر نکل آئی تھی نا.جسے موجودہ مشرف حکومت نے خلاف قانون قرار دے دیا.بہر حال ملاؤں کی شکایت یہ تھی کہ اٹارنی جنرل صاحب ملت اسلامیہ کے موقف کی وکالت کرنے میں ناکام رہے ہیں.یعنی ملا جو چاہتا تھا وہ اٹارنی جنرل صاحب نہیں کر سکے.اس لئے ان کے نمائندہ ظفر انصاری صاحب کو مرزا ناصر احمد صاحب پر جرح کرنے کا موقع دیا جائے.دراصل ملاؤں کو یہ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ اٹارنی جنرل دینی علم و دانش رکھتے ہیں نہ مناظرانہ داؤ بیچ اور چالوں سے واقف ہیں.اس لئے اگر وہی جرح کرتے رہے تو شکار ہاتھ سے نکل جائے گا جس سے سیاسی حلقوں میں ہی نہیں پبلک میں بھی ہماری رسوائی ہوگی.مگر خدا کی قدرت دیکھئے خود ان کے نمائندہ کے ذریعہ ان کی رہی سہی ساکھ بھی جاتی رہی اور ان کی ساری مذہبی بصیرت کا پردہ چاک ہو گیا.جناب ظفر انصاری صاحب کے پاس خلاف احمدیت لٹریچر تھا.( اور میرے سامنے ابھی بھی وہ نظارہ اسی طرح ہی ہے.) جسے وہ ایک تھیلے میں رکھ کر کھڑے ہوئے.بالکل آخری جو قطاریں تھیں، کرسیوں کی ،ان کے وسط میں کھڑے ہوئے اور اٹارنی جنرل صاحب کی طرح واضح سوال کرنے کی بجائے طول طویل تمہید کے بعد وہ من گھڑت کہانی دہرانی شروع کر دی جس کا پراپیگنڈہ آل انڈیا نیشنل کانگریس کی پروردہ اور خود کاشتہ احراری پارٹی اور اس کے سیاسی پیشوا مدتوں سے خدا کی قائم کردہ جماعت کے خلاف کرتے آرہے تھے.اس ضمن میں انہوں نے غدر 1857ء کے بعد برطانوی حکومت کے استحکام کے لئے کسی خلقی نبی کی تلاش کے مضحکہ خیز ڈرامے کا بھی ذکر کیا اور آغاز میں ہی کیا.اس پر چیئر مین صاحب تلملا اٹھے اور انہیں سختی سے توجہ دلائی کہ مولانا یہ اسمبلی ہال ہے.اختصار سے کام لیں جس پر انہیں جوش خطابت کے جو ہر دکھانے کی بجائے لینے کے دینے پڑ گئے.اب آگے چلنے سے پہلے میں ایک بات جو مجھ پر واردات ہوئیں ، ان کا ذکر بھی کرنا دیچیپسی

Page 327

311 سے خالی نہیں ہوگا.چیئر مین صاحب یعنی صاحبزادہ فاروق علی صاحب کی تنبیہ پر مجھے متحدہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر ایس پی سنگھا کا واقعہ یاد آ گیا.کہتے ہیں کہ سرکاری پارٹی کا پیش کردہ بل پنجاب اسمبلی میں زیر بحث تھا یعنی وہ متحدہ اسمبلی تھی مشرقی اور مغربی پنجاب.یہ تو بعد میں قیام پاکستان کے بعد مشرقی پنجاب کو ذبح کر کے علیحدہ کیا گیا ہے.سرکاری پارٹی کا پیش کردہ بل زیر بحث تھا کہ اپوزیشن نے مخالفانہ نعرے لگانے شروع کر دئے.کرسیاں چلنے لگیں اور اسمبلی ہال میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا.قبل اس کے کہ مار پٹائی تک نوبت پہنچے، مسٹرایس پی سنگھانے بلند آواز سے کہا کہ آنریبل ممبران کو یا درکھنا چاہئے کہ یہ اسمبلی ہال ہے، چنگڑ محلہ نہیں ہے.اس پر اسمبلی پر تو پوری طرح سناٹا چھا گیا جس طرح کہ سکوت مرگ جس کو اردو میں کہتے ہیں اور جوسر کاری بل تھا وہ پاس ہوا اور پھر آئین کا حصہ بنا.مگر اگلے روز چنگڑ محلہ میں ہاتھا پائی شروع ہو گئی.اتفاق ملاحظہ ہو کہ اس محلہ کا ایک مکین جو ایک روز قبل پنجاب اسمبلی کی وزٹرز گیلری (Visitors Gallery) میں بیٹھا آنریبل ممبران اسمبلی کا تماشہ دیکھ چکا تھا.صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لئے کھڑا ہو گیا اور انہیں شرم دلائی اور کہا کہ یہ چنگڑ محلہ ہے، اسمبلی نہیں ہے.یہ سن کر اہل محلہ کے سر ندامت سے جھک گئے اور دوبارہ امن وامان کی فضا قائم ہوگئی.مولانا ظفر انصاری صاحب کا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے نام ایک خط حافظ محمد نصر اللہ صاحب : مولانا ظفر انصاری صاحب کے بارہ میں کچھ بتانا پسند فرمائیں گے.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.میں ظفر انصاری کے ایک مکتوب کا ذکر کرنا چاہوں گا.ظفر انصاری صاحب ( جنہوں نے آخری دن حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے سوالات کئے.) نے 7 اگست 1935 ء کو جبکہ ابھی وہ لاہور میں تھے اور درشن لال ولالہ دیں راج کولڈ بینک متصل تھانہ گوالمنڈی لاہور میں مقیم تھے.یہاں سے انہوں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو قادیان کے پتہ پر خط لکھا.اس کے اوپر الفاظ یہ تھے:.قبلہ وکعبہ حضرت خلیفة المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت 66 خلیفہ بشیر الدین محمود صاحب قادیان شریف.“

Page 328

312 اوپر پھر انگریزی میں Qadian.یہ خط 22 اگست 1935ء کو قادیان میں پہنچا اور حضور مصلح موعودؓ نے اپنے قلم سے اس کے او پر یہ لکھا ” محفوظ یعنی دفتر اس کو محفوظ رکھے.اور جواب یہ دیں.آگے حضور نے لکھا کہ اس رنگ میں جواب دیا جائے کہ آپ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ کو لاہور میں ملیں اور کسی وقت مجھ سے بھی ملیں.یعنی پہلے شیخ بشیر احمد صاحب سے ملاقات کر لیں اور پھر وقت مقرر ہو جائے گا.پھر مجھ سے ملیں آپ.اس خط میں ظفر انصاری صاحب نے ابتدا میں لکھا ہے:.قبلہ حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ نصرۃ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.بارگاہ ایزدی میں آپ کی درازی عمر کے لئے دست بدعا ہوں.راقم الحروف ایک ہیں سالہ نوجوان ہے.میرے رشتہ دار کانگریس و احرار جیسی محض روپے اکٹھے کرنے والی جماعتوں میں رہے ہیں.میرے والد صاحب کانگریس میں ایک سال قید رہے.میرے ماموں صاحب مشہور قومی کارکن ہیں اور مجلس احرار میں قید ایک سال کی کاٹ چکے ہیں.اگر چہ اب مجلس سے علیحدہ ہو چکے ہیں مگر علامہ مشرقی کی تحریک میں مل گئے.“ اعلیٰ حضرت صاحب یہ سب مجلسیں صرف رو پیدا کٹھا کرنے کے لئے ہیں.خدا کی قسم ان کے دلوں میں ملک کا ذرہ برابر بھی درد نہیں.جتنامل کر اپنا ملک، اپنا ملک کرتے ہیں اتنے ہی بے حیا ہوتے ہیں.میں ان کی پرائیویٹ زندگی سے بھی خوب واقف ہوں.“ یہ ملت اسلامیہ کا پوسٹ مارٹم ہو رہا ہے.میں ان کی پرائیویٹ زندگی سے بھی خوب واقف ہوں.سید عطاء اللہ شاہ صاحب سے بد انسان بلحاظ کریکٹر نہیں دیکھا.سب ایک تھیلی کے چٹے بیٹے ہیں.میں ان مجلسوں کو دور ہی سے سلام بھیجتا ہوں.میرا ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں.ان میں گفتار ہی گفتار ہے.جوش کردار آپ کی جماعت سا نہیں.کشمیر کی تحریک کے سلسلہ میں ہزاروں کو شہید کرایا ، کتنے بچوں کو یتیم

Page 329

313 کرایا.یہ بھیڑئیے ہیں.میں ان کا منہ نہیں دیکھنا چاہتا.اگر کوئی مجھے کہے کہ اپنی داستان مصیبت کسی لیڈر سے کہو تو میں اس کے منہ پر تھوکوں گا.یہی حال کانگریسی لیڈروں کا ہے.خود تو فرسٹ کلاس میں سفر کرتے ہیں اور غریب مزدوروں کو کہتے ہیں کہ آزادی مل جانے پر تمہیں عیش ملے گی.میری باتیں دل سے نکلی ہوئی ہیں.جب ان کی یہ حالت دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ ہندوستان غلام رہے اور ان کتوں سے ملک کو صاف کر دے.یہ تحریر تھی اور آخر میں لکھتے ہیں کہ :.66 پہلے میں دوسروں کی دیکھا دیکھی نعوذ باللہ نقل کفر کفر نباشد طعن و تشنیع کرتا تھا.“ وو حالانکہ آپ کی کوئی تصنیف میں نے نہیں پڑھی.بخدا جتنے دوسرے لوگ زبان دراز واقع ہوئے ہیں اپنے گریبانوں میں نہیں دیکھتے.جب غور کی تو معلوم ہوا کہ ہندوستان میں صرف آپ کی جماعت ہے جو کہتی ہے وہ کرتی بھی ہے.اور یہ بات میں سچے دل سے آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں.“ تحریف قرآن کا الزام حافظ محمدنصر اللہ صاحب :.یہی مولانا ظفر انصاری صاحب جب حضرت خلیفہ اسح الثالث رحمہ اللہ سے سوال کرنے آئے تو پہلا سوال یہ کیا کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے نعوذ باللہ قرآن میں تحریف کی ہے اور روحانی خزائن جلد تین میں آیت وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولِ یعنی سورة الحج آیت 53 کومسخ کر دیا ہے.اس کے جواب میں حضور نے کیا فرمایا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.حضور نے ارشاد فرمایا کہ جماعت احمدیہ نے آج تک ہزاروں کی تعداد میں قرآن مجید اور مختلف زبانوں میں اس کے تراجم شائع کئے ہیں.ہر نسخہ قرآن میں

Page 330

314 یہ آیت اصل صورت میں ہی درج ہے.علاوہ ازیں روحانی خزائن جلد 3 کے انڈیکس میں بھی آیت کے صحیح الفاظ ہی لکھے ہیں.اسی کتاب میں ہی قرآن مجید کی آیات بالکل وہی لکھی ہیں جو اصل متن کی ہیں.پس یہ محض سہو کتابت ہے جس کو تحریف قرآن کا نام دینا ظلم عظیم ہے اور اخبار الفضل بر صغیر کے چوٹی کے علماء کی کتابوں سے اس نوع کی سہو کتابت کی بہت سی مثالیں شائع کر چکا ہے.تو کیا آپ کے یہ سب مذہبی لیڈر تحریف قرآن کے مجرم تھے ؟ اب میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ خاکسار نے حضور ہی کے ارشاد مبارک کی تعمیل میں اس زمانے میں تحریف قرآن یا سہو کتابت کے زیر عنوان ہر مکتبہ فکر کے جید علماء کے لٹریچر سے متعدد حوالے جمع کئے جو بالاقساط ” الفضل“ کے آخری صفحات میں سپر داشاعت ہوئے.روزنامہ الف الفضل 13 نومبر 1973 ء سے اس سلسلہ کا آغاز ہوا.ایک پرچہ میں خاکسار نے امیر شریعت احرار کی تقریروں سے سہو کتابت کی کئی مثالیں دی تھیں.یعنی ایک کتاب سے نہیں بلکہ کئی تحریروں سے اور یہ مضمون ”الفضل میں بھی چھپا اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ نے خاص اہتمام سے ”الفرقان“ کی بھی زینت بنایا.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.جہاں جہاں پر ایسی سہو کتابت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں ہوئی تھی.بعد میں اس کی تصحیح کر دی گئی تھی.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.اس وقت موجودہ ایڈیشن میں نظارت اشاعت کی طرف سے ہر جگہ تصیح کر دی گئی ہے کیونکہ قرآن مجید ایک زندہ کتاب ہے.تو سہو کتابت تو فورا معلوم ہو جاتی ہے.تحریف معنوی ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : ایک سوال یہ پیش کیا گیا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ( البقرة:5) کے معانی آپ کے لٹریچر میں ”آخر میں آنے والی وحی کے لکھے ہیں یعنی جو وحی آنحضرت ﷺ کے بعد میں آئے گی.تو یہ تحریف کا ایک نمونہ ہے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.حضور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ سیاق وسباق کے علاوہ آیت وَلَاخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الأولى ( الضحی : 5) یہ بھی تو قرآن کی آیت ہے سورۃ الضحیٰ

Page 331

315 کی.اس سے بھی ثابت ہے کہ قرآنی محاورہ میں آخرت کا لفظ اس دنیا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ وَللَاخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأولى (الضحی : 5) میں ہر آنے والی گھڑی مراد ہے.ظتی حج حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.ایک سوال حضور سے یہ ہوا کہ مرزا صاحب نے اپنے جلسہ سالانہ کونفلی اور ظلی حج سے تعبیر کیا ہے.تو اس سے گویا کہ اسلامی حج کی ہتک ہوتی ہے.نعوذ باللہ.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.یہ سوال انہوں نے بڑے طمطراق کیا.ابھی تک وہ نقشہ میرے سامنے ہے کیونکہ وہ تو اس خیال سے اٹھے تھے نا کہ آج ہم نے بدلہ لینا ہے جو کہ بیچی بختیار صاحب نا کام ہوئے.ہم اس کی کسر نکالیں گے اور یہ سوال اس وقت انہوں نے بڑا زور دیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ ام المومنين اصل حج ہمارے عقیدہ کے مطابق صرف مکہ معظمہ میں ہو سکتا ہے.باقی رہی ظلی حج کی اصطلاح.سو تاریخ اسلام کے مستند لٹریچر سے ثابت ہے کہ یہ صدیوں تک امت کے بزرگ علماء، اولیاء اور صلحاء میں رائج رہی ہے.جس کا ایک واضح ثبوت حضرت علی بن موفق کا واقعہ ہے جو حضرت خواجہ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور عالم کتاب ”تذکرۃ الاولیاء کے پندرہویں باب میں تحریر فرمایا ہے.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مشہور صوفی حضرت عبداللہ بن مبارک حج سے فارغ ہو کر حرم میں سوئے ہوئے تھے کہ خواب میں انہیں ایک فرشتے نے بتایا کہ اس دفعہ چھ لاکھ حاجیوں میں سے کسی کا حج قبول نہیں ہوا.پھر اس نے بتایا کہ دمشق میں ایک موچی علی بن موفق نام رہتا ہے.وہ حج کو نہیں آیا لیکن اس کا حج قبول ہوا اور اسی کی بدولت یہ ساری خلقت بخش دی گئی.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.ایک سوال یہ تھا کہ آپ مرزا صاحب کی بیوی کو

Page 332

ام المؤمنین کیوں کہتے ہیں؟ 316 مسجد اقصى مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.حضور نے اس موقعہ پر کمال کر دیا.فرمایا کہ:.اتم کے معنی ماں کے ہیں اور مؤمنین کے معنی ہیں مسیح موعود کو ماننے والے، ان پر ایمان لانے والے.تو معنی ہوئے مسیح موعود پر ایمان لانے والوں کی ماں.آپ کو کیا اعتراض ہے؟“ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.قادیان کی مسجد کا نام ”مسجد اقصیٰ رکھنا بے ادبی ہے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یعنی قادیان کی مسجد اقصی کا نام ”مسجد اقصی رکھنا ؟ یہ بے ادبی ہے.حضور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ:.”ہندو پاکستان میں اس نام کی کئی مسجد میں موجود ہیں.“ میں مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں.سلطان ٹیپو رحمۃ اللہ علیہ نے جو مسجدیں بنائیں.ایک کا نام مسجد احمدی تھا.ایک کا نام مسجد اقصیٰ تھا اور اس کی تصویر بھی چھپی ہوئی موجود ہے کتاب سلطنت خداداد میسور میں جس کے مصنف محمود بنگلوری ہیں.و پنج تن ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک مصرع ہے ع یہی ہیں پنج تن جن پر بنا ہے.یہ حضور نے اپنی مبشر اولاد کے بارے میں فرمایا ہے.انہوں نے کہا کہ ”پنج تن ایک مخصوص اصطلاح ہے.تو اس لحاظ سے یہ مصرعہ قابل اعتراض ہے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ” پنج تن فارسی ترکیب ہے جس کے معنی پانچ وجودوں کے ہیں.جہاں تک پنج تن پاک کی اصطلاح کا تعلق ہے، حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک بھی اس کا اطلاق صرف حضرت رسول خدا محمد مصطفی ، حضرت علی ، حضرت حسنین اور حضرت فاطمۃ الزھراء رضوان اللہ علیھم اجمعین کی

Page 333

مقدس ہستیوں پر ہوتا ہے.317 ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : - آخر پر اٹارنی جنرل نے پوچھا کہ ممبران کی طرف سے استفسار ہے کہ محضر نامہ کے صفحہ ایک سوانا نوے سے لے کر ایک سوا کانوے تک جوار بعین کی عبارت رکھی گئی ہے تو کیا اس کو ہم دھمکی سمجھیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب: حضور نے نہایت پیار اور محبت کے عطر سے ممسوح الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ یہ الفاظ در اصل حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی طرف سے فقط دردمندانہ اپیل ہے کہ میں خدا کی طرف سے آیا ہوں.اگر میں کا ذب ہوں تو اس کا فیصلہ بد دعاؤں کے ذریعہ سے کرلو.“ میں اگر کاذب ہوں کذابوں کی دیکھوں گا سزا پر اگر صادق ہوں پھر کیا عذر ہے روز شمار سرکلرز سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ایمان افروز کلمات کے چند نمونے ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : مولانا صاحب! حکومت پاکستان نے جو سرکلر (Circular) جاری کئے تھے.چونکہ جماعت کے پاس تو ریکارڈ کرنے کی کوئی چیز نہیں تھی اور نہ ہی اس کی اجازت تھی تو اس سرکلر (Circular) میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کے بیان سے بعض شائع شدہ نمونے ہیں ہم چاہیں گے کہ آپ ہمارے ناظرین کو بتا ئیں.مثلاً اس میں یورپ میں تبلیغ کے نتائج کے بارے میں حضور نے جو فرمایا، وہ آپ سرکلر (Circular) سے پڑھ سکیں گے؟ یورپ میں تبلیغ کے نتائج فرمایا کہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب: سرکلر (Circular) کے مطابق حضور نے اس مو انگلستان میں ساری قوم کا مذہب عیسائی ہے.وہاں دہریت

Page 334

318 کے ساتھ مقابلہ ہے.جو عیسائیت کو سچا سمجھتے ہیں آج بھی نبی کریم ﷺ کی حقاقیت اُن پر پوری طرح واضح نہیں ہوئی اور آہستہ آہستہ کھل رہی ہے.ان کو ہم کہہ دیتے ہیں کہ حسین مذہب اسلام دنیا میں احسان کرنے کی تعلیم دیتا ہے.یہ ہمارا کام ہے.اس کے دو نتائج نکل رہے ہیں، ایک وقت میں ایک وہ کہ جو گندے ذہن سے کام لے رہے ہیں.اسلام کے خلاف ، نبی کریم ﷺ کے خلاف ، اس میں بڑی کمی آگئی ہے اور دوسرے یہ کہ ان میں سے بہت سارے اسلام لے آئے.ڈنمارک میں ایک نو مسلم رہتے تھے تو اس نے اسلام لانے کے بعد عربی سیکھی اور قرآن کریم کا ڈینیش زبان میں ترجمہ بھی کیا.“ الله فیضان محمدی اور امتی نبی (سرکلر 5 اگست 1974 صفحه 12) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ غالباً مکرم و محترم عبدالسلام میڈیسن صاحب کا ذکر ہے.حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.اسی طرح سے فیضان محمدی اور امتی نبی کے حوالے سے حضور نے کیا فرمایا؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ سرکلر (Circular) جو ہے یہ پانچ اگست 1974ء کا ہے.اور یہ اگلے بھی قریباً اسی کے ہیں.حضور نے فرمایا کہ امتی نبی کے یہ معنی ہیں کہ وہ شخص جو نبی اکرم ﷺ کے عشق اور محبت میں اپنی مذہبی زندگی گزار رہا ہے اس کو ہم امتی کہیں گے.قرآن کریم نے فرمایا ہے قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( آل عمران: 32) میری اتباع کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی محبت کو پاؤ گے.امتی کے معنی یہ ہیں کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نبی اکرم مے کے کامل متبع تھے.اور ہمارا عقیدہ یہ ہے

Page 335

319 کہ کوئی روحانی برکت اور فیض نبی اکرم ﷺ کی اتباع کے بغیر حاصل ہو ہی نہیں سکتا.ہزار ہا نبی آئے.کہیں مذہبی لٹریچر میں، بائیل ، انجیل اور دوسرے مذاہب کی کتب میں ان میں کہیں نظر نہیں آیا کہ مثلاً بنی اسرائیل کے انبیاء حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوت قدسیہ، افاضہ روحانی کے نتیجہ میں نبوت کے مقام پر پہنچے.میرے علم میں کہیں نہیں ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہے ہی کوئی نہیں.اس واسطہ ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ...یہ صرف آنحضرت ﷺ کے بعد ایک تاریخی اور مذاہب انسانی کے اندر ایک عجیب انقلابی نئی چیز پیدا ہوئی کہ اب کوئی کسی قسم کا بھی روحانی رتبہ حاصل نہیں کر سکتا.یعنی عام ایک اچھا آدمی ، نیک آدمی وہ بھی نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع نہ کرے.“ 66 ختم نبوت اور مسیح محمدی سرکار 5 را گست 1974، صفحه 93-92) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: کیا سی محمدی کی آمد ختم نبوت کے منافی نہیں ؟.اس بارے میں حضور نے کیا ارشاد فرمایا ؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب: فرمایا :.امت محمدیہ شروع سے لے کر تیرہ سو سال تک نبی ﷺ کو خاتم النبین مانتے ہوئے ایک ایسے مسیح کا انتظار کرتی رہی جس کو مسلم کی حدیث میں خود آنحضرت ﷺ نے چار بار نبی اللہ کہا اور وہ خاتم النبین پر بھی ایمان رکھتے تھے.اس واسطے یہ میرے نزدیک کوئی الجھن نہیں ہے.ساری امت تیرہ سو سال تک خاتم النبیین کے خلاف اس عقیدہ کو نہیں بجھتی رہی.ایک مسیح آئے گا جو نبی اللہ ہو گا اور میں نے ابھی بتایا ہے کہ امت کے سلف صالحین کی سینکڑوں عبارتیں یہاں بتائی جاسکتی ہیں جو آنے والے کے مقام کو ظاہر کر رہی ہیں.

Page 336

320 ایک شیعہ حضرت میرے بھائی جو ہیں ان کا حوالہ کل میں نے پڑھا ، ان کا حوالہ ہے کہ وہ تمام انبیاء سے، تمام انبیاء سے افضل ہو گا کیونکہ وہ نبی کریم ع کا کامل ظل ہو گا.اس طرح سینکڑوں حوالے موجود ہیں.“ 66 سرکلر 9 اگست 1974 ء صفحہ 21) در اصل سرکلر (Circular) میں الفاظ واضح نہیں ہیں.جو میری یاد داشت ہے میں نے اس کے مطابق دو ایک لفظوں کو تبدیل کر دیا ہے.کیونکہ یہ لفظ اس طرح نہیں تھے.حضور نے مسیح محمدی کی آمد کے متعلق بتایا کہ جب وہ آئے گا آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق آئے گا اور یہ یقیناً ختم نبوت کے منافی نہیں ہوگا اور یہی جماعت احمدیہ کا موقف ہے.حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.حضور نے احمدیوں اور دوسرے بزرگوں کے عقیدہ میں کیا فرق بیان فرمایا ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے فرمایا کہ تیرہ سوسال تک جو عقیدہ تھاوہ یہ تھا کہ مسیح نبی اللہ آئے گا.یہ امت کا عقیدہ تھا.لیکن معین کوئی شکل انہوں نے اس لئے نہیں بتائی کہ وہ آیا نہ تھا.ہمارا اور باقی ہمارے بزرگوں کا صرف یہاں فرق نظر آتا ہے.اور یہ ہونا بھی چاہئے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جس کا انتظار تیرہ سوسال تک کیا جارہا تھا، وہ آگیا.وہی ہمارے سلف صالحین کہ رہے تھے کہ جس کا انتظار تیرہ سو سال سے کیا جارہا تھا وہ آنے والا ہے.آ گیا اور آنے والا.فرق ہے اور ہونا چاہئے.عقلاً کیونکہ وہ پہلی صدیاں تھیں اور ہم دوسری صدی میں داخل ہو گئے ہیں.“ بزرگان سلف کی تکفیر حضرت صاحب نے وہاں پر کوئی ارشاد فرمایا ؟ سرکلر 9 اگست 1974ء صفحه 32) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.بزرگان سلف پر تکفیر ہوتی رہی ہے.اس حوالے سے بھی

Page 337

321 مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور نے فرمایا کہ ہمارے محضر نامے میں ایک رسالہ اس کا نام ”مقربان الہی کی سرخروئی“ ہے.میں عرض کر چکا ہوں یہ خاکسار نے حضور کے ہی ارشاد پر لکھا تھا اور پھر محضر نامہ کے جو ضمیمے دیئے گئے تھے، اس میں شامل تھا.اس کا انگریزی ترجمہ بھی مولانا بشیر احمد رفیق خان صاحب نے لندن سے رسالہ "Muslim Herald " میں شائع کیا.اب میں حضور کے اصل الفاظ پڑھتا ہوں.”ہمارے محضر نامے میں ایک رسالہ ہے اس کا نام ”مقربان الہی کی سرخروئی روح کا فر گری کے ابتلاء میں ہے.اس میں بطور مثال کے صدیوں میں سے انتخاب کر کے مختلف پچپن مشہور بزرگان امت کے کچھ واقعات مختصراً لکھے ہیں جو ان کی سیرت پر نظر ڈالتے ہیں.تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ مثلاً جب سید عبدالقادر جیلانی صاحب نے تطہیر اور تدریس کا کام شروع کیا تو اس وقت کے علماء نے یہ کہہ کر کفر کا فتویٰ لگایا کہ آپ وہ باتیں کرتے ہیں جو آپ سے پہلے سلف صالحین نے نہیں کیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے چھپی ہوئی کتاب کے چھپے ہوئے خزانے ، اس کتاب مکنون کے حصے اس زمانے کے مطابق سکھائے لیکن علمائے ظاہر نے پہلی کتب کو دیکھا اور ان پر الزام دیا اور سو سال کے بعد جو نئے بزرگ ہماری امت میں پیدا ہوئے سید عبدالقادر جیلانی کے بعد، ان کے اوپر یہ کہہ کر کفر کا فتویٰ دے دیا کہ آپ وہ باتیں کرتے ہیں جو سید عبدالقادر جیلائی صاحب نہیں کیا کرتے تھے.یہ میں مفہوم ان کی زندگیوں کا بتارہا ہوں.زمانہ ہر آن بدل رہا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد اس زمانہ کے بدلنے کے نتیجہ میں نئے مسائل انسان کی زندگی میں پیدا ہو جاتے ہیں.ان مسائل کو حل کرنے کے لئے قرآن کریم آئے گا یا نہیں آئے گا.میں کہتا ہوں کہ ہمیشہ آتا ہے.“ ( سرکلر 21 اگست 1974 ءصفحہ 56)

Page 338

322 سفر یورپ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.1973ء میں حضور نے سفر یورپ کیا.اس کے حوالے سے قومی اسمبلی میں کیا بیان فرمایا ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.فرمایا:.پچھلے سال 1973ء میں یورپ میں گیا تھا.اور میں نے کانٹینیفل (Continental) پر چار جگہ پریس کانفرنس کی.“ دیکھیں یہ حال سرکلر (Circular) کا، کانٹی نینٹل کو کانٹی نینٹ لکھا ہوا ہے.اس سے ثابت ہے کہ اردو اور عربی اور انگریزی تینوں سے ہی بے بہرہ ہے نوٹ کرنے والا شخص.) اور وہاں میں نے اس مسئلہ پر بتایا کہ کمیونزم جوصل انسان کے آج کے مسائل کا پیش کر رہا ہے.اس سے کہیں زیادہ اچھا، بہتر ، اس سے کہیں، اور اس سے کہیں زیادہ انسان کو Satisfy کرنے والا حل قرآن کریم میں موجود ہے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ کون سے مخفی خزانے تھے جو اس Age میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ ظاہر ہوئے.چنانچہ ان کے متعلق میں یہ کہوں گا کہ میرا یہ دعویٰ نہیں کہ پہلی کتب ساری پر میرا عبور ہے.اگر کسی صاحب کو عبور ہو کہ وہ آج کے مسائل حل کرنے کے لئے پہلی کتب میں سے مواد نکال دے تو میں یہ سمجھوں گا کہ وہ ٹھیک ہے.66 ( سرکلر 21 اگست صفحه 57) مسیح موعود کی بعثت کا مقصد ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا جو مقصد تھا اس کے بارے میں حضور نے کیا فرمایا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.حضور نے فرمایا.” دوسرے مسلمانوں میں وحدت کا محمد قیام پھر حضور نے حضرت مسیح موعود کے ہی الفاظ بیان فرمائے جو’ الوصیت‘ صفحہ 6 طبع اول

Page 339

میں موجود ہیں :.323 ”خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں، کیا یورپ اور کیا ایشیا، ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.“ تحریک شدھی کا جہاد (سرکلر 22 اگست 1974 ، صفحہ 91) حافظ محمد نصر اللہ صاحب :- تحریک شدھی کے حوالے سے جماعت احمدیہ کا جو عظیم الشان جہاد ہوا، اس حوالہ سے حضور نے کیا فرمایا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب: حضور اقدس نے فرمایا:.اندوہناک واقعہ ہوا.یوپی کے اضلاع آگرا، میتھر اوغیرہ وغیرہ شاہجہان پور، فخر آباد ، بدایوں اور تر واہ میں ایسے ملکانہ راجپوت آباد تھے.جو اپنے آپ کو مسلمان خیال کرتے تھے لیکن ان کا رہن سہن، کھانا پینا ، بول چال، رسم و رواج سب ہندوانہ تھے.حتی کہ بعض کے نام بھی ہندوانہ تھے اور نا واقعی کی وجہ سے وہ اپنی غیر اسلامی حالت کو اسلامی حالت سمجھ کر مطمئن تھے اور لمبے عرصے تک ان کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی.آریاؤں نے میدان خالی پا کر انہیں ہندو قوم میں ضم کرنے کے لئے بڑے زور شور سے شدھی کی تحریک شروع کر دی.تمام اضلاع میں پر چارک بھجوائے اور اسلام کے خلاف نہایت زہریلا پراپیگنڈہ شروع کیا جس سے سارے ملک میں شور پڑ گیا.اس موقعہ پر 7 مارچ 1923ء کو امام جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کو ارتداد کے فتنہ سے بچانے کے لئے جہادا کبر کا علم بلند کیا اور ایک سو پچاس احمدی رضا کارفوری طور پر ایک نظام کے ماتحت مختلف علاقوں میں بھجوا دیئے.اور اس میں ایک لمبا تسلسل پیدا کیا.چنانچہ ان مجاہدین کی مساعی رنگ لائی اور دوسرے دوست

Page 340

324 بھی پہنچے ہوئے تھے اور یہ فتنہ جو تھا اس وقت جب بڑا سیلاب آیا تھا مسلمان اخبارات نے اس سلسلہ میں جو لکھا.مثلاً زمیندار مولانا ظفر علی خان صاحب کا.8 اپریل 1923 ء کو لکھا.احمدی بھائیوں نے جس خلوص ، جس ایثار، جس جوش ، ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا ہے، وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے...اخبار ”ہمدم لکھنو “ 16 اپریل 1923 ء نے لکھا قادیانی جماعت کے مساعی حسنہ اس معاملے میں بے حد قابل تحسین ہیں اور دوسرے اسلامی بھائیوں کو بھی انہیں کے نقش قدم پر چلنا چاہئے.“ تحریک ناموس رسالت (سرکلر 22 اگست 1974 ء صفحہ 101-102 ) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : - 1927ء کی تحریک ناموس رسالت میں جماعت احمدیہ کے کردار کے بارے میں بھی حضور نے وہاں ارشاد فرمایا.وہ ارشاد کیا تھا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور کے مبارک الفاظ یہ ہیں:.اب ہم آتے ہیں 1927ء میں.اسلام کے افق میں نمودار ہوئے آگ کے شعلے تھے.بڑا اس کا رد عمل ہونا چاہئے تھا.آریہ راجپال کی ناپاک کتاب ”رنگیلا رسول“ اور ”امرتسر “ کے رسالہ ”ورتمان“ سید المعصومین آنحضرت عملے کے خلاف ان رسالوں میں جو دل آزاری کے مضمون شائع ہوئے ، یہ اس کے اوپر ہے.ایک حوالہ ” مشرق“ 22 ستمبر 1927 ء اس کے متعلق پڑھ دیتا ہوں.( یہ سرکلر کے الفاظ میں پڑھ رہا ہوں.ناقل ) کام کیا.بڑی سخت جنگیں لڑی گئیں.ورتمان “ اور ”رنگیلا رسول“ کے متعلق جناب امام جماعت احمدیہ کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں.آپ کی ہی تحریک سے ورتمان پر مقدمہ چلایا گیا.( یہ اخبار مشرق‘ 22 ستمبر 1927 ء کا حوالہ ہے.ایک مشرق تو اب پاکستان کے قیام کے بعد جاری ہوا.یہ بہت قدیم

Page 341

325 اخبار تھا گورکھپور کا.ناقل ) تو اخبار ”مشرق“ نے لکھا کہ جناب امام جماعت احمدیہ کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں.آپ کی ہی تحریک سے ورتمان “ پر مقدمہ چلایا گیا.آپ ہی کی جماعت نے ”رنگیلا رسول“ کے معاملے کو آگے بڑھایا.سرفروشی کی اور جیل جانے سے خوف نہیں کھایا.آپ کے ہی پمفلٹ نے جناب گورنر صاحب بہادر پنجاب کو عدل و انصاف کی طرف مائل کیا.آپ کا پمفلٹ ضبط کر لیا مگر اس کے اثرات کو زائل نہیں ہونے دیا اور لکھ دیا کہ اس پوسٹر کی ضبطی محض اس لئے ہے کہ اشتعال نہ بڑھے.انگریز کی حکومت نے اس کا تدارک نہایت عادلانہ فیصلہ سے کر دیا اور اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے (یہ ” مشرق اخبار کا حوالہ ہی ہے ) مسلمانوں کے ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندؤوں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہورہے ہیں.صرف ایک جماعت احمد یہ جماعت ہے جو قرونِ اولیٰ کی طرح کسی فرد یا جمعیت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلام کا کام سرانجام دے رہی ہے.“ حضرت مصلح موعودؓ کا ایک شعر یاد آ گیا ہے." 66 سرکلر 22 راگست 1974ء صفحہ 103) تعریف کے قابل ہیں یا رب تیرے دیوانے آباد ہوئے جن سے دنیا کے ہیں ویرانے زندہ نبی کے زندہ معجزات کیا بیان فرمایا ؟ حافظ محمد نصر اللہ صاحب : زندہ نبی کے زندہ معجزات کے حوالے سے حضور نے اسمبلی میں مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.فرمایا:.”ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ ایک زندہ نبی ہیں.زندہ نبی جسمانی لحاظ سے نہیں ہیں.جسمانی زندگی تو آپ کی محدود ہے.وہ ہمیں پتہ

Page 342

326 ہے کہ آپ کتنے برس زندہ رہے.لیکن آپ کی جو روحانی زندگی ہے وہ قیامت تک ممتد ہے.اس کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ کو ایک زندہ نبی مانتے ہیں اور زندہ نبی کا جو تصور ہمارے دماغ میں ہے اُس میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کی روحانی زندگی کے نتیجے میں امت محمدیہ میں قیامت تک ایسے افراد پیدا ہوتے رہیں گے جو آپ کی روحانیت کے طفیل خدا تعالیٰ کے نشانات اسلام کی حقانیت کے ثبوت کے لئے بنی نوع انسان کے سامنے پیش کرتے رہیں گے.عرف عام میں ہم کہتے ہیں کہ سید عبدالقادر کے معجزات ہیں اور ہم یہ کہتے ہیں کہ امام باقر کے معجزات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک چھوٹا سا ” تمہ حقیقۃ الوحی“ کا حوالہ ہے.میں پڑھ دیتا ہوں.”اسلام تو آسمانی نشانوں کا سمندر ہے.کسی نبی سے اس قدر معجزات ظاہر نہیں ہوئے جس قدر ہمارے نبی کریم ﷺ سے.کیونکہ پہلے نبیوں کے معجزات ( وہی میرا جو پہلا مضمون تھا اس کے متعلق ہے.) کیونکہ پہلے نبیوں کے معجزات ان کے مرنے کے ساتھ مر گئے مگر ہمارے نبی کریم ﷺ کے معجزات ابد تک ظہور میں آرہے ہیں اور قیامت تک آتے رہیں گے.جو کچھ 66 میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ آنحضرت ﷺ کے معجزات ہیں.“ یہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کے الفاظ تھے.بزرگانِ سلف کے الہامات (سرکلر 24 اگست صفحه 56-57) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.گزشتہ تیرہ صدیوں کے الہامات جو بزرگان کو ہوئے اُس بارے میں بھی حضور نے اپنا بیان اسمبلی میں دیا تھا وہ حضور کے الفاظ آپ بیان فرمائیے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضور کے الفاظ اُس سرکلر کے یعنی حکومت کے شائع کردہ

Page 343

327 سرکلر کے مطابق یہ تھے.یہ سرکلر 24 اگست کا ہے.اس کا صفحہ 116 ہے.فرمایا:.ایک دفعہ ہمارے سکالر عارضی طور پر فارغ تھے.میں نے ان سے کہا کہ سلف صالحین کی کتب کا مطالعہ کرو.ان کے نقطہ سے وحی الہام، کشف اور رویا اکٹھے کرو تو وہ چار کا پیاں بڑے سائز کی انہوں نے اکٹھی کر کے دیں.1/1000 وہ شاید ہمارے لٹریچر کا ہے.یہ کہنا کہ سلف صالحین میں سے نہ وحی کے نزول پر ایمان لاتے تھے نہ الہام اور کشوف اور رویا پر، ہماری تاریخ اُس کو غلط ثابت کرتی ہے.“ یہ حضور کے الفاظ تھے.اس میں حضور نے جس سکالر کی طرف اشارہ کیا ہے وہ استاد کمتر م حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب بہاولپوری فاضل دیو بند تھے اور یہ چاروں کا پیاں جو حضور کے ارشاد پر اُس وقت تیار کی گئیں جب حضور صدر انصار اللہ تھے.جب حضور خلیفہ منتخب ہوئے تو حضور نے یہ چاروں کا پیاں اس خاکسار نابکار کو عطا فرمائی تھیں.ختم نبوت کے بارہ میں سوالات حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.مولانا تقریباً تیرہ دن یہ کارروائی جاری رہی.تحریک کا نام تحریک ختم نبوت تھا اور ساٹھ کے قریب ہم نے سوال آپ سے کئے جن کے آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کے حوالہ سے جوابات دیئے.اب حیرت کی بات یہ ہے کہ ختم نبوت کے نام سے تحریک جاری ہے اور اتنی لمبی کارروائی ہوئی ہے اس میں ایک سوال بھی ہمیں ختم نبوت کے حوالے سے نہیں ملا.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ حقیقتاً ایک چونکا دینے والا انکشاف ہے جو سوال کے ذریعہ سے آپ نے اخذ فرما دیا ہے.حق یہ ہے کہ بھٹو صاحب کی حکومت اور نام نہاد جہادی ملاؤں نے خدا کی پیاری جماعت کے خلاف اگر چہ ہمہ گیر فتنہ تو ختم نبوت کے تحفظ کے نام سے اٹھایا تھا اور سربراہ کمیٹی کا بھی کام یہی تھا منکرین ختم نبوت کو سزا دینے کے لئے قانون کیا بننا چاہئے مگر یہ حقیقت ہے کہ اسمبلی 1974ء میں ختم نبوت ، اُس کی حقیقت اور اُس کے معنی کے متعلق سرے سے کوئی سوال

Page 344

328 ہی نہیں کیا گیا.ایک بھی نہیں کیا گیا.بلکہ اٹارنی جنرل اور ملاؤں کے نمائندوں دونوں کو حضرت خليفة أسبح الثالث نے جو محضر نامہ پیش کیا اُس میں ختم نبوت سے متعلق اور دیگر اقتباسات اور حوالہ جات میں سے کسی کو بھی چیلنج کرنے یا تنقید کرنے کی جرات نہیں ہوئی اور اسی بدحواسی کے عالم میں قرآن واحادیث کے خلاف ایک نیا کلمہ ایجاد کر کے اُس کی بنا پر احمد یوں کو Non Muslim قرار دے دیا گیا جس پر گزشتہ چودہ صدیوں میں کسی ایک مسلمان کا ایمان لانا ثابت نہیں ہوسکتا اور ہرگز نہیں ہوسکتا.خلاصہ یہ ہے.وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یعنی یہ بات تو کھل کے واضح ہوگئی کہ جس نام پر یہ سارا ڈرامہ کھیلا گیا اُس بارے میں کوئی سوال ہی نہیں کیا گیا.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب: قطعی طور پر.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسمبلی کی کارروائی کے بعد آپ کو تحقیق جاری رکھنے کا ارشاد فرمایا تھا.تو کیا ختم نبوت کے حوالے سے کوئی آپ کو مزید مواد ملا ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.جزاکم اللہ.سبھی حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ وقور اللہ مرقدہ کا دائگی اعجاز ہے کہ حضور کے طفیل اس خدمت کی توفیق ملی.میں اس موقع پر یہ سب سے پہلے عرض کروں گا کہ سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ ونور اللہ مرقدہ کے فیضان خلافت کو میں نے آج تک اس پہلو سے بھی مشاہدہ کیا ہے اور خدا کے فضل سے بہت سے امور حضور کے اس فرمان کے نتیجہ میں میرے سامنے آئے ہیں.یہاں پاکستان میں ریسرچ کرتے ہوئے بھی اور بیرونی ممالک میں سفر کرتے ہوئے بھی.2002ء میں میں جب فرانس کا دورہ کر رہا تھا تو ختم نبوت کے تعلق میں مجھے فرانس کی مسجد کے قرب میں واقع ایک لبنانی کتب خانے کو دیکھنے کا موقع ملا.خدا تعالیٰ کا یہ ایک ایسا تصرف ہوا کہ دیگر اہم اور نایاب کتابوں کے علاوہ ایک کتاب ختم الاولیاء کے نام سے مجھے ملی اور یہ کتاب

Page 345

329 تیسری صدی ہجری کے وسط میں وصال پانے والے دنیائے اسلام کے ایک عظیم بزرگ اور صوفی کامل حضرت ابوعبداللہ حمد بن علی بن الحسن الحکیم الترندی کی تھی.اس کی اہمیت یہ ہے کہ آنحضور ﷺ نے امت کو پہلے سے بتا دیا تھا کہ سب سے پہلے تو برکات سے معمور میری صدی ہے.وہی تمام صدیوں سے سب سے افضل ہے.اس کے بعد مرتبہ ہے دوسری صدی کا پھر تیسری صدی کا اور اس کے بعد علم کے لحاظ سے عمل کے لحاظ سے، جھوٹ اور غلط بیانیوں کا ایک سیلاب آ جائے گا.جس سے کہ اسلامی عقیدے بھی اور مسلمانوں کے ایمان بھی متاثر ہوں گے.تو حضرت حکیم الترندی کی شان یہ ہے کہ یہ بزرگ فوت ہوئے ہیں 155 ہجری میں یعنی تیسری صدی میں ان کی وفات ہوئی ہے اور یہ دراصل دوسری صدی کے بزرگ ہیں.حضرت حکیم الترندی نے اپنی اس کتاب میں جو عرب میں شائع ہوئی ہے اور بیروت سے المطبعة الكاثولیکیہ میں چھپی ہے.اس میں آپ پہلے بتاتے ہیں کہ مقام ختم نبوت کیا چیز ہے اور وضاحت کر رہے ہیں کہ یہ مقام خاتمیت فیضان کی طرف اشارہ کر رہا ہے.اس کے بعد فرماتے ہیں:.فان الذى عمى عن خبر هذا يظن ان خاتم النبيين تاویله انه آخر هم مبعثا فاى منقبة فى هذا و اى علم في هذا.هذا تاويل الملحد الجهلة.کہتے ہیں.جو لوگ بشریت بھی رکھتے ہیں اور قرآن کی عظمتوں اور محمدعربی ﷺ کے مقام ختم نبوت کے بارے میں بالکل اندھے ہیں.ان کا یہ خیال ہے کہ خاتم النبین کے معنے یہ ہیں کہ آنحضور آخری نبی ہیں.مگر آپ فرماتے ہیں:.فاي منقبة في هذا آخر میں آنا کون سی منقبت (خوبی) ہے.و اي علم في هذا اور اس میں کون سا علم ومعرفت کا نکتہ ہے.هذا تاويل الملحد الجهلة(صفحه 340-341) یہ پاگلوں کی تاویل اور تفسیر ہے اور ان لوگوں کی ہے جوشان محمد بیت سے بھی جاہل ہیں اور

Page 346

330 قرآن سے بھی ناواقف ہیں.میں نے جب یہ کتاب خریدی اور یہ حوالہ پڑھا تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر 7 ستمبر 1974ء کو چوہدری فضل الہی صاحب کی بجائے حضرت حکیم الترمذی صدرمملکت ہوتے تو وہ بھٹو صاحب، پیپلز پارٹی کے ارکان، اپوزیشن کے ممبروں سب کو گمراہ قرار دیتے ، جاہل قرار دیتے اور پاگل خانے میں بھیج دیتے.کیونکہ لکھتے ہیں کہ یہ پاگلوں کی تاویل ہے جس کا شان محمدیت سے تعلق ہے نہ قرآن کی عظمتوں کے ساتھ کوئی تعلق ہے.) اسی کتاب میں ایک اور بات بھی لکھی ہے.چنانچہ حضرت حکیم الترمذی نے یہ بات بھی فرمائی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد عیسی جو آنے والے ہیں، وہ آنحضرت کی امت میں سے آئیں گے اور یہ محمد عربی عمل اللہ کی عظمت کی دلیل ہے کہ آپ کی امت میں نبی آئیں اور آپ کا فیضان امت میں جاری رہے.(کتاب مذکورہ صفحہ 316) تو جو بات تیرہ سو سال کے بعد جماعت احمدیہ نے دنیا کے سامنے پیش کی وہ خیر القرون قرنی“ (مرقاة المصابيح شرح مشكوة المصابيح كتاب الايمان باب الاعتصام بالكتاب والسنة ) کے بعد دوسری صدی کے ایک عظیم اور بلند پایہ صاحب کشف اور صاحب الہام بزرگ نے تمام عالم اسلام کے سامنے رکھ دی اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ختم نبوت کا پرچم خدا نے یا پہلے آنحضرت ﷺ کے زمانہ کی صدی اور دوسری صدی کے بزرگوں کے ہاتھ میں رکھا تھا اور یا پھر آج یہ مسیح موعود کے غلاموں کو عطا کیا ہے.ختم نبوت کا عرفان ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.عرفانِ ختم نبوت کے بارہ میں آپ کچھ فرمانا چاہتے ہیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب : بِسمِ اللهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِيْمِ.صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ سَيِّدِ وُلُدِ آدَم قبل اس کے کہ میں اپنی معروضات اور گذارشات پیش کروں.میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بسم اللہ کے بعد درود شریف کے الفاظ جو میں نے پڑھے ہیں یہ ہمارے آقا، ہمارے مولی محمد عربی ﷺ کے پر جلال خدا کے الفاظ ہیں جو آج سے ایک سو تیرہ برس پہلے آنحضرت

Page 347

331 کے بے مثال عاشق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر نازل ہوئے.اور تحفہ بغداد کے صفحہ 23 (طبع اول ) پر حضور نے خود اس کو نقل کیا ہے.یہ الفاظ آئندہ بھی یہاں نشست میں دہراؤں گا کیونکہ اس الہام پر جماعت احمدیہ کی بنیاد قائم ہے اور رب کعبہ کی قسم اٹھا کر میں کہتا ہوں کہ آج نقشہ عالم پر صرف احمدی ہیں جنہیں خاتم النبیین اور خاتم النبیین کے فیضان پر زندہ عرفان حاصل ہے.وہی آج سفیر ختم نبوت ہیں.انہی کے ہاتھ میں خدا کے الہام نے پرچم ختم نبوت تھمایا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ احمدی زندہ جلایا جانا گوارا کر سکتا ہے، اسے یہ بھی منظور ہے کہ اسے سمندر میں غرق کر دیا جائے ، آروں سے چیر دیا جائے مگر وہ خاتم النبین اور اس کے فیضان سے کبھی انکار نہیں کرسکتا.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں دل ހނ سارے ہیں خدام ختم المرسلیں حکموں پر ہمیں ایمان ہے جان و دل اس راہ پر قربان ہے دے چکے دل اب تن خاکی رہا ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی کتاب حقیقۃ النبوۃ میں فرمایا ہے کہ:.ا سے ( اغیار کو) کسی کے دل کا حال کیا معلوم.اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد رسول اللہ ملے کے لئے ہے.وہ کیا جانے کہ محمد علی کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کر گئی ہے.وہ میری جان ہے.میرا دل ہے.میری مراد ہے.میرا مطلوب ہے.اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے اور اس کی کفش برداری مجھے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے.اس کے گھر کی جاروب کشی کے

Page 348

332 مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم بیچ ہے.وہ خدا تعالیٰ کا پیارا ہے ( یعنی مد مصطفیٰ احمد مجتی فدا نفسی و روحی وابی وامی.ناقل ) پھر فرماتے ہیں:.وہ خدا تعالیٰ کا پیارا ہے.پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں.وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر میں اس سے کیوں محبت نہ کروں.وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے پھر میں کیوں اس کا قرب نہ تلاش کروں.میرا حال مسیح موعود اس کے شعر کے مطابق ہے.بعد از خدا بعشق محمد محترم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم (انوار العلوم جلد 2 صفحہ 503 ناشر فضل عمر فاؤنڈیشن.ربوہ ) خدا کے بعد سب سے بڑھ کر مجھے محمد عربی ﷺ کی مقدس ذات کے ساتھ عشق ہے میں اس میں مخمور ہوں.میرے رگ وریشہ میں یہ عشق سرایت کئے ہوئے ہے.اگر یہ کفر ہے تو میں دنیا میں ڈنکے کی چوٹ صدائے ربانی بن کر اعلان کرتا ہوں کہ میں دنیا میں سب سے بڑا کافر ہوں.تو یہ ختم نبوت اور اس کی شان اور جلالت مرتبت اور مقام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا اور جماعت احمدیہ کا ہر فرد آج اس کی چلتی پھرتی تصویر ہے.مگر آخر میں سوال کا جواب دینے سے پہلے اس کا دوسرا رخ بھی بتانا چاہتا ہوں.اور وہ صرف واقعات کی حد تک ہے.تمہیں جولائی 1952ء کو ملتان کی ایک بلند پایہ شخصیت جناب سید زین العابدین گیلانی میونسپل کمشنر نے جو کہ ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کے صدر تھے ، ملتان سے ایک اشتہار شائع کیا.یہ اشتہار پاکستان پبلسٹی پرنٹنگ پریس چوک شہیداں ملتان شہر سے 30 جولائی 1952ء کو شائع ہوا.محترم سید زین العابدین صاحب گیلانی نے اس اشتہار کا عنوان رکھا:.سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی سیاسی قلابازی اور ملتان میں کشت و خون اور حسب معمول احراری لیڈروں کی بے وفائی.“

Page 349

333 اس اشتہار میں وہ لکھتے ہیں کہ ایک سرکاری افسر نے ماہ رمضان میں ملتان کے اندرکشت و خون کرنے اور دہشت گردی کا مظاہرہ کرنے پر سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کو ڈانٹ پلائی.اس پر انہوں نے جو بیان دیا اس کے وہ الفاظ میں اس وقت رکھنا چاہتا ہوں جس سے ان کے ختم نبوت کے سارے دعوؤں کا علم ہوتا ہے.لکھتے ہیں کہ :.وو سید عطاء اللہ صاحب امیر شریعت نے ایک بھرے معزز اجتماع میں ان الفاظ میں اظہار معذرت کیا...میں ممتاز صاحب دولتانہ کو اس لئے اپنا لیڈر جانتا ہوں.(اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ دولتانہ صاحب تھے.ناقل ) کہ ایک تو وہ صوبہ مسلم لیگ کے صدر ہیں اور دوسرے وہ صوبہ پنجاب کی حکومت کے وزیر اعلیٰ ہیں.“ اب یہ ساری عمر کہا جاتا رہا کہ بانی جماعت احمدیہ کا دعویٰ نبوت کرنا ، دعوی نبوت کے منافی ہی نہیں بلکہ گستاخی بھی ہے.یہ سرقہ ہے.شاہ جی نے کہا کہ:.اگر دولتانہ صاحب کہہ دیں ( خدا کہے تو نہیں مانوں گا.مصطفیٰ کے جب بھی نہیں مانوں گا.ناقل ) کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر ایمان لے آؤ.تو میں اس پر ایمان لے آؤں گا اور مرزا بشیر الدین محمود کو خلیفہ اسیح مان لوں گا“.یہ ہے ختم نبوت کا مظاہرہ جس کا پوسٹمارٹم خود امیر شریعت نے کیا ہے.اراکین اسمبلی سے حضرت خلیفتہ امسیح الثالث" کا رقت آمیز الوداعی خطاب حافظ محمد نصراللہ صاحب :.مولانا ! اس تمام کارروائی کے بعد جو تیرہ دن جاری رہی آخری دن 24 اگست 1974ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے قومی اسمبلی سے رخصت ہوتے ہوئے ممبران کو کیا پیغام دیا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.جب کا رروائی ختم ہوئی، یہ رات کا وقت تھا اور حضرت

Page 350

334 خلیفہ المسح الثالث پر بھی ایک رقت کی کیفیت طاری تھی.اسی طرح ہم جو خدام تھے اس وقت ایک ایسا عالم طاری تھا کہ آج میں لفظوں میں اس کو بیان نہیں کر سکتا.خاموشی بھی تھی.زیر لب دعائیں بھی تھیں.استغفار بھی تھا.خدا کا شکر بھی ادا کر رہے تھے.اور ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہ آخری دن ہے.اور نہ یہ پتہ تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب کا آخری سوال تھا جس کا جواب حضور نے ارشاد فرمایا ہے.اس ماحول میں بیٹی بختیار صاحب اٹارنی جنرل نے حضور کو مخاطب ہو کر کہا کہ مرزا صاحب جو سوالات علماء یا گورنمنٹ نے مجھے دیئے تھے آپ تک پیش کرنے کے لئے ، وہ تو میں کر چکا ہوں.اب میرے پاس کوئی سوال نہیں ہے.اب میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ خصوصی کمیٹی کے ممبروں سے کچھ خطاب کرنا چاہیں.ہمیں بڑی خوشی ہوگی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے یہ بات سن کر قرآن مجید جو حضور ہر اجلاس میں ساتھ رکھتے تھے ، اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمانے لگے کہ مجھے آپ ممبران کی خدمت میں تیرہ دن تک آنے کا موقع ملا ہے.پہلے دو ایام میں میں نے محضر نامہ آپ کے سامنے پیش کیا.باقی گیارہ ایام میں آپ حضرات کی طرف سے بہت سے سوالات کئے گئے.ان تیرہ دنوں میں مجھ پر انتہائی سخت قسم کے سوالات کئے گئے.جرح کی گئی.میں قرآن کو ہاتھ میں رکھ کے اور خدا کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ ان تیرہ دنوں میں اگر کوئی شخص میرے دل کو چیر کے دیکھ سکتا تو خدا کی قسم اس دل میں سوائے خدا اور محمد مصطفی ﷺ کی محبت کے اور کوئی چیز نہ پاتا.و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.کاروائی اور فیصلہ پر عمائدین کے تاثرات کی جھلکیاں صاحبزادہ فاروق علی صاحب کا حقیقت پسندانہ بیان ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ کارروائی جو تیرہ دن جاری رہی.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اس میں اپنا محضر نامہ بھی پڑھا اور اس کے بعد سوالات کے جوابات بھی دیئے.اس وقت اس سیشن میں جو چیئر مین تھے یعنی جو پیکر تھے قومی اسمبلی کے صاحبزادہ فاروق علی صاحب.ان کے اس کا رروائی کے بارے میں کیا تا ثرات تھے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب: بسم الله الرحمن الرحيم صل على محمد و

Page 351

335 آل محمد سید ولد آدم و خاتم النبيين..چیئرمین کمیٹی جناب صاحبزادہ فاروق علی صاحب کے تاثرات کے بارے میں آپ نے استفسار فرمایا ہے.اس فیصلے کے یعنی 7 ستمبر کے دو ماہ بعد 12 نومبر 1974ء کو مسٹر بھٹو وزیر اعظم پاکستان ملتان تشریف لے گئے.ان کو سی آف (See Off) کرنے کے بعد میاں فاروق علی صاحب ملتان کے بار روم میں تشریف لائے اور ایک پروگرام کے تحت غالبا تمام ملتان یا ملتان ضلع کے ایڈووکیٹس جمع تھے.اس موقع پر ان سے کچھ سوالات جماعت اسلامی کے ایک ایڈووکیٹ صاحب کی طرف سے کئے گئے.اور خلاصہ ان سوالوں کا یہ تھا پہلے نمبر پر کہ آپ کا بہت شکریہ، پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ کا کہ جنہوں نے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ہے.اس تعلق میں کچھ اور مطالبات بھی ہیں.امید ہے اس کی طرف بھی توجہ کریں گے.یہ سوال صاحبزادہ فاروق علی صاحب سے کیا گیا.یہی پالیسی ملاں کی رہی ہے.پہلے ایک مطالبہ کرو وہ پورا ہو جائے تو پھر آگے چلو.پھر بے شمار مطالبات شروع کر دو.پوری تاریخ یہی بتاتی ہے.تو یہ اپنی قدیم پالیسی ملاں نے اب تک جاری رکھی ہوئی ہے.صاحبزادہ فاروق علی صاحب فرمانے لگے کہ حضرت بات یہ ہے کہ جو اصل مطالبہ تھا وہ تو ہم پورا کر چکے ہیں.اب کوئی اور تقاضا کسی مطالبے کے پورا کرنے کا باقی ہی نہیں رہا.میں یہ آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ فیصلہ ہم نے کوئی دلائل کی بنا پر نہیں کیا.بلکہ عوام اور بیرونی مسلم ممالک کے دباؤ کی وجہ سے کیا ہے.جب یہ بات کہی انہوں نے اشارہ کیا.انہوں نے سعودی عرب کا نام نہیں لیا جس نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا.میرا خیال ہے میں اشارہ بتا چکا ہوں.مولوی منظور چنیوٹی صاحب نے دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں بعد ازاں تقریر کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ یہ بھٹو صاحب کا کارنامہ نہیں.یہ حضرت شاہ فیصل کا کارنامہ ہے.انہوں نے حکومت پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج نہ کیا گیا تو پھر پاکستان سے کسی آدمی کو حج بیت اللہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی.اس وجہ سے بھٹو صاحب کو گھٹنے ٹیکنے پڑے.جناب ایم حمزہ نے بھی اس حقیقت کا انکشاف کیا.چنانچہ روزنامہ امروز رقمطراز ہے کہ پاکستان جمہوری پارٹی پنجاب کے صدر مسٹر حمزہ سابق ایم.پی.اے نے کہا ہے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے پر وزیر اعظم بھٹو کو مبارک بادیں پیش کرنے والوں کو شرم کرنی چاہیے.

Page 352

336.....عرب ممالک حکومت پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے.روزنامه امروز لاہور 19 ستمبر 1974ء) تو بہر حال اشارۃ بات کہی.مگر یہ کہا کہ ہم نے مسلم برادری کے دباؤ کے نتیجہ میں یہ فیصلہ کیا ہے.جب انہوں نے یہ بات کہی تو وہ ایڈووکیٹ کہنے لگے کہ کم از کم اتنا کریں کہ جو کارروائی ہوئی ہے وہ شائع ہی کر دیں.اس کی اشاعت کر دی جائے ، عوام کا مطالبہ ہے یہ.تو جناب میاں فاروق علی صاحب فرمانے لگے کہ اگر آج ہم شائع کر دیں تو آدھا پاکستان احمدی ہو جائے گا.اس کا حوالہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے بھی دیا تھا.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.ہلٹن ہوٹل لاہور میں حضور کے اعزاز میں جو استقبالیہ دیا گیا تھا ، اس میں حضور نے فرمایا تھا.مولانا دوست محمد شاہد صاحب : استقبالیہ تھا.اس میں فرمایا کہ یہ جواب ہے لیکن اب وہ کنسیشن(Concession) دینے کا زمانہ بیت گیا ہے.اب ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم نے پاکستان کی ہر روح کو صداقت سے منور کرنا ہے.اب یہ آدھے حصے کی بات نہیں پورے پاکستان کا معاملہ ہے اور وہ معاملہ بھی دعاؤں سے اور دلائل سے طے ہونے والا ہے.یہ بات ہوئی تو اس پر صاحبزادہ فاروق علی صاحب نے کہا کہ اگر فیصلہ شائع کر دیا جائے تو آدھا پاکستان احمدی ہو جائے گا.تو وہ ایڈووکیٹ کہنے لگے کہ خدا کے لئے پھر شائع نہ کریں اور آخر میں صاحبزادہ صاحب نے یہ بات کہی کہ ہم نے لاہوری پارٹی کا بھی محضر نامہ اور ان کے دلائل سنے ہیں.ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اصل میں دونوں ایک ہی ہیں.لاہوری پارٹی ہمیں ورغلانے کے لئے اپنے عقائد کے اوپر پردہ ڈال کر اور چھپ کر آ رہی تھی اور قادیان کی جماعت نے برملا اپنے عقیدوں کا اظہار کیا.ہم تو اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ لاہوری پارٹی کا اختلاف قادیانیوں کے ساتھ صرف بجٹ کے معاملے میں تھا.مولانامحمد علی صاحب اور دوسرے اکابرین انجمن کے چاہتے تھے کہ انجمن کا سارا بجٹ ہمارے ماتحت ہونا چاہئے اور ہمیں اس معاملے میں جانشین قرار دیا جانا چاہئے.ہم اس معاملے میں کسی اور کی بالا دستی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.آپ تک صاحبزادہ فاروق علی صاحب کی یہ بات کیسے پہنچی ؟

Page 353

337 مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ بات ہمیں ایک ایسے احمدی ایڈووکیٹ کے ذریعہ سے پہنچی جو اس موقع پر موجود تھے.محمد حسن صاحب ایڈووکیٹ کہروڑ پکا ضلع لیہ کے تھے اور وہ اس مجلس میں موجود تھے.انہوں نے یہ ساری تفصیل ملتان کے مربی مولانا برکت اللہ صاحب محمود مرحوم کے سامنے پیش کی.انہوں نے اسی وقت ان کی حلفیہ گواہی لی اور اس کے بعد اگلے دن وہ سید نا حضرت خلیفة أصبح الثالث کی خدمت میں پہنچے.ایک کاپی حضور کی خدمت میں دی اور ایک کاپی مجھے بھیج دی.اور وہ اصل کا پی جس میں یہ حلفیہ بیان درج ہے وہ اب تک ریکارڈ میں محفوظ ہے حافظ محمد نصر اللہ صاحب : محترم مولانا صاحب! ہم چاہیں گے کہ ناظرین کو اس تاریخی اور نایاب خط کا متن بھی احباب تک پہنچا دیا جائے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب.جزاکم اللہ بسم الله الرحمن الرحيم - صل على محمد وال محمد سيد ولد آدم وخاتم النبيين.آپ کے اس ارشاد کی تعمیل میں یہ عاجز جناب محمد حسن لودھی صاحب ایڈووکیٹ کہروڑ پکا کا حلفیہ بیان سامعین کے سامنے رکھ رہا ہے.انہوں نے تحریر فرمایا:.میں حلفا بیان کرتا ہوں کہ بارہ نومبر 1974ء کو جب وزیر اعظم صاحب بہاولپور ڈویژن کا دورہ کر کے ملتان سے واپس اسلام آباد گئے تو اس دن صاحبزادہ فاروق علی سپیکر قومی اسمبلی بھی انہیں See Off ( یعنی الوداع) کرنے کے لئے ملتان میں موجود تھے.وزیر اعظم کے رخصت ہونے اور ان کے Fly کرنے کے بعد وہ ملتان بار میں تشریف لائے.حالانکہ ان کا کوئی مقررہ پر وگرام یہاں آنے کا نہیں تھا.جب وہ کچہری میں کار سے اترے تو میں بھی انہیں ملا اور ان کے ساتھ ہی بار روم میں چلا گیا.بار روم میں ان کے دوست وکلاء ان سے ملے اور دوستانہ ماحول میں ان سے گپ شپ ہوتی رہی.دوران گفتگو محمد اشرف خان صاحب صدر بار نے ان سے احمدیوں کے مسئلہ کے حل کے بعد کے نتائج اور قرار داد پر عمل درآمد کرانے کے بارے میں

Page 354

338 دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ مسئلہ سیاسی ہے اور اسے مذہبی رنگ دیا گیا ہے اور مولویوں نے نوے سال تک اس مسئلہ پر قوم کو دھوکا دیا ہے.جہاں تک مذہبی نقطہء نگاہ ہے.اس برصغیر میں جماعت احمدیہ پر جتنے بھی اعتراضات ہوتے رہے ہیں، مرزا ناصر احمد نے ان کے رد میں جو دلائل دئے ہیں مولویوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا.مرزا ناصر احمد صاحب ان اعتراضات کے رد کے لئے دلائل میں ایسے ماسٹر ہیں اور مولویوں نے اسمبلی میں بہت ہی کو دن پن کا ثبوت دیا ہے.اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ "Mirza Nasir Ahmad is the winner and all the mullas are defeated" اور ہم نے جو فیصلہ کیا ہے وہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے.احمدیوں کو ہم نے سیاسی اور جمہوری طور پر مسلمانوں سے علیحدہ کر دیا ہے یہ مذہبی نہیں بلکہ کانسٹیٹیوشنل (Constitutional) ہے.جو کچھ ہوا ہے اس میں ملاؤں نے کچھ نہیں کیا بلکہ قائد عوام نے کیا ہے.ملاؤں کے پاس صرف دو سوال تھے جنہیں وہ جامع سمجھتے تھے.پہلا سوال یہ تھا کہ مرزا غلام احمد صاحب ہیضہ کی وبائی بیماری سے فوت ہوئے.اس پر مرزا ناصر احمد صاحب نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ہیضے کی وبائی بیماری سے ہر گز فوت نہیں ہوئے.پھر ملاں لا جواب ہو گئے.دوسرا سوال ان کا محمدی بیگم کے نکاح (کے متعلق تھا ) جس کا مرز اصاحب کو الہام ہوا لیکن وہ الہام پورانہیں ہوا تو وہ الہام خدا کی طرف سے نہیں تھا ؟ لیکن مرزا ناصر احمد صاحب نے اس سوال کا بھی منہ توڑ جواب دیا.بلکہ مرزا صاحب کی صداقت ثابت کی.صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ ہم نے اسلامی عالمی برادری کی خاطر احمدیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ کیا ہے.انہوں نے فرمایا کہ ہم اس نتیجہ

Page 355

339 پر دو دن میں پہنچ چکے تھے کہ لا ہوری احمدیوں کو ضرور اقلیت قرار دیا جائے.کیونکہ ممبران کی رائے میں لاہوری احمدی اپنے منصوبوں میں قادیانی احمد یوں سے زیادہ خطر ناک ہیں.پہلے ہم سمجھتے تھے کہ لاہوری اور قادیانی احمد یوں میں عقائد کا بنیادی اختلاف ہے.مگر اب ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ بنیادی طور پر دونوں کے عقائد یکساں ہیں.ابتدا میں دونوں کا صرف فنڈ ز پر جھگڑا ہوا تھا جو کہ بعد میں شدید اختلافی صورت اختیار کر گیا.حالانکہ یہ دونوں فرقے ایک ہیں.جہاں تک مرزا ناصر احمد صاحب کی قابلیت کا سوال ہے.مولوی ان کے پاسنگ نہیں ہیں.ممبران اسمبلی نے مجھے کہا تھا کہ قادیانیوں کو آپ غیر مسلم قرار دیں یا نہ دیں لیکن لاہوریوں کو ضرور اقلیت قرار دیں، کیونکہ یہ سلو پائزنگ (Slow Poisoning) ہے جس کو ہم چیک نہیں کر سکتے.لیکن قادیانیوں کو ہم چیک کر سکتے ہیں.ایک وکیل دوست نے سپیکر صاحب سے پوچھا کہ احمدیوں کے غیر مسلم قرار دیئے جانے کے بعد اور دیگر اور قوانین کی ترامیم کے لئے کیوں کا رروائی نہیں ہوئی.تو آپ فرمایا کہ اس پر ٹائم لگے گا.یہ Legislation جلدی کا کام نہیں ہے.پھر سوال ہوا کہ کلیدی آسامیوں سے ان کو کیوں نہیں ہٹایا جا رہا.تو سپیکر صاحب نے فرمایا یہ انتظامی نوعیت کا مسئلہ ہے.احمدیوں کا مسئلہ کانسٹیٹیوشنل (Constitutional ) طور پر حل ہوا ہے.کلیدی آسامیوں سے ہٹانے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے.ایک وکیل مسٹر خضر حیات نے جو کہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں سوال کیا ، مولانا ظفر احمد انصاری اور پروفیسر غفور احمد نے کیسے سوال کئے تھے.اس پر سپیکر نے فرمایا میرے نزدیک کسی مولوی نے اچھا سوال نہیں کیا.جو کچھ کیا ہے بھٹو صاحب نے کیا ہے اور ملک کو بچالیا ہے.

Page 356

340 ایک دوست نے سوال کیا کہ اب اس فیصلہ کا نتیجہ کیا نکلے گا.تو صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ اب اندرون ملک ان کی تبلیغ رک جائے گی.اس پر ایک اور وکیل صاحب نے کہا کہ چند دن پہلے شیزان ہوٹل میں دو احمدی ہو گئے ہیں اور سنا گیا ہے کہ بہت لوگ احمدی ہو رہے ہیں.اس پر صاحبزادہ صاحب کھلکھلا کر ہنسنے لگے.ایک دوست نے ان سے پوچھا کہ یہ عجیب بات ہے کہ کسی مسلمان کو عقیدہ ختم نبوت کے خلاف کہنے پر مجرم قرار دیا گیا ہے.لیکن احمدی کھلم کھلا اس کی تبلیغ کر سکتے ہیں.اس کے جواب میں صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ احمدیوں کو جب ہم نے غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ہے تو وہ اپنے عقیدہ کی تبلیغ کرنے کے حقدار ہیں.کیا آپ نے عیسائیوں کو تبلیغ کا حق نہیں دیا جو کہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کے بھی منکر ہیں.اس لئے ہم احمدیوں کو تبلیغ سے کس طرح روک سکتے ہیں.اس پر ایک صاحب نے کہا کہ اس طرح تو ان کی تبلیغ پھیلے گی.اس پر سپیکر صاحب نے فرمایا کہ آخر کیا کیا جاسکتا ہے.ہم ان کی تبلیغ کو زبر دستی کس طرح روک سکتے ہیں.یہ نشست تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک رہی.اور میں تقریباً تمام وقت وہاں موجود رہا.پھر جب دوسری باتیں شروع ہو گئیں.تو میں اٹھ کر چلا آیا.“ محمد حسن لودھی ایڈووکیٹ کہروڑ پکا اس حلفیہ بیان کے اوپر مکرم مولا نا برکت اللہ صاحب محمود مرحوم مربی ملتان نے اپنے قلم سے یہ نوٹ لکھا.لودھی صاحب نے میرے کہنے پر میری موجودگی میں یہ بیان لکھ کر دیا ہے.“ بعض ممبران اسمبلی کے تاثرات حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.اس کارروائی کے حوالے سے قومی اسمبلی کے ممبران کے بھی

Page 357

341 تاثرات اب کچھ سامنے آئے ہیں.اگر آپ وہ بھی ناظرین کے سامنے بیان فرما دیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.بات یہ ہے کہ کارروائی کے دوران یا کارروائی کے بعد کئی دوستوں سے ہمارے بعض احمدیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، انہی کے ذریعہ سے پھر انہی دنوں میں یہ بات مجھ تک پہنچی کہ پیپلز پارٹی کے جو مبرز ہیں انہوں نے برملا اظہار کیا ہے اور خاص طور پر حضرت خلیفة أسبح الثالث" کے نورانی چہرہ کو دیکھ کے اور آپ کے انداز گفتگو اور قرآن وحدیث سے مرصع جوابات کو دیکھنے کے بعد کہنے لگے کہ ہم تو اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اصل مسلمان آپ ہی ہیں.لیکن یہ یا درکھیں کہ ہم پیپلز پارٹی کے دستور اور ان کے پالیسی کے ماتحت ہیں.بس اتنی بات یادر ہے.یہ باتیں انہی دنوں ہم تک پہنچی تھیں.ایک بات تو یہ ہے.خصوصی کمیٹی کے ممبران سے وفد کو براہ راست ملنے کا کوئی بھی موقع نہیں تھا نہ ضرورت تھی.نہ اختیار تھا نہ کوئی وجہ تھی.مگر ایک دن ایسی صورت ہوئی جس سے کہ براہ راست تو نہیں لیکن بالواسطہ طور پر قلمی تاثر کی عکاسی ہوتی ہے.بات یہ ہوئی کہ عام معمول کے مطابق سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثالث اپنے خدام کے ساتھ اجلاس کے اختتام کے معا بعد اسمبلی ہال سے باہر لاؤنج میں میرا انتظار کر رہے تھے.میرے پاس چونکہ کتا بیں بھی تھیں.بکس تھے تو میں دستاویزات کو ، کتابوں کو ، رسالوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھ کر پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا.تو حضور از راہ شفقت کچھ انتظار فرماتے.تو میں نے کتابیں جب بکسوں میں رکھیں اور لے جانے کے لئے ہال سے باہر جارہا تھا تو ایک کونے سے آواز آئی کہ یہ کتابیں ہمیں دے کے جائیں.ابھی یہ آواز بلند ہوئی تو اس کے ختم ہونے کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی والوں کی طرف سے آواز آئی کہ یہ لیتے جائیں.یہ بم ہیں.یہاں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے.اس پر میں یہ کہہ کر فورا باہر آ گیا کہ یہ بم زندوں کو مارنے کے لئے نہیں، مر دوں کو زندہ کرنے کے لئے ہیں.حضور مجھ ناچیز کو دیکھتے ہی مسکرائے اور نہایت شفقت بھرے انداز میں فرمایا.شیر آ گیا؟“ تو اس سے آپ اندازہ کرتے ہیں کہ دل تسلیم کرتے تھے کہ حقیقی اسلام جماعت کے ساتھ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.اے مدعی ! نہیں ہے ترے ساتھ کردگار یہ کفر تیرے دیں سے ہے بہتر ہزار بار

Page 358

342 حافظ محمد نصر اللہ صاحب : مکرم و محترم محمد شفیق قیصر صاحب کی بھی ممبران سے ملاقات ہوئی تھی اس حوالے سے کچھ بیان فرمائیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.ہاں ! یہ اچھا کیا! بات یہ ہوئی کہ مرحوم محمدشفیق قیصر ، ان کا وصال بھی شہادت کا رنگ رکھتا ہے.ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید چھپوانے کے لئے ہانگ کانگ گئے ہوئے تھے تو یہ حادثہ پیش آیا.بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را انہوں نے بتایا کہ پہلے دن ، یہ میں غالباً اشارہ بتا چکا ہوں.وہ جو قیام گاہ تھی اسمبلی اور سینٹ کے ممبروں کی پارلیمنٹ لاجز.تو اس میں سوات کے یا قبائلی علاقہ کے ایک ممبر تھے غالباً پیپلز پارٹی کے اُن سے ملے اور کہا کہ سنا ہے آج جماعت احمدیہ کے سربراہ نے بھی خطاب کیا ہے.آپ تھے اس وقت؟ کہنے لگے جی ہاں.ان کے بارے میں آپ کے تاثرات کیا ہیں.کہنے لگے کہ میں تو خدا کا بھی قائل نہیں.یہ لوگ ختم نبوت کے پتہ نہیں کس چکر میں پڑے ہوئے ہیں.اور مسلم اور غیر مسلم قرار دینے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں.لیکن قادیانیوں کی جماعت کے سربراہ کا چہرہ دیکھ کر مجھے اتنا یقین آگیا ہے کہ کوئی تو بالا ہستی ہے جس نے ایسا نورانی چہرہ پیدا کیا ہے.تو یہ ان کے تاثرات تھے.یہ قیصر صاحب مرحوم نے بتایا.بعد میں اگلے سال انصار اللہ کے اجتماع میں میں نے اس کو بیان بھی کیا تھا.اٹارنی جنرل کے خیالات حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.اٹارنی جنرل صاحب کے کیا خیالات تھے.اس حوالے سے آپ مزید کچھ بتانا چاہیں.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.میں یہ یہاں ضرور اعتراف کروں گا کہ جناب بیچی بختیار صاحب کے بہر حال اپنے سرکاری فرائض تھے ، انہیں ادا کرنا چاہئے تھا اس پالیسی کے مطابق جو اس وقت کی گورنمنٹ نے ان کے سامنے رکھی تھی.لیکن جہاں تک ان کے لب ولہجہ، ان کے انداز ، ان کی محبت کا تعلق ہے، ہم سب ان سے بہت متاثر تھے.ایک دفعہ مجھے یاد ہے کہ واپسی پر حضور ان کے

Page 359

343 چیمبر کے پاس سے گزر رہے تھے اور ہم لوگ پیچھے تھے تو یہ وہاں پر پہلے سے موجود تھے.انہیں اندازہ ہوا کہ حضور تشریف لا رہے ہیں تو وہ باہر آ گئے اور جب تک کہ ہم لوگ الیکٹرک سٹیئر ز ( Electric Stairs) تک چلے نہیں گئے ، وہ حضور کے احترام میں کھڑے رہے.باقی میں نے کہا ہے وہ مجبوری کی بات الگ ہے.مجھے ایک بات یاد آ گئی.شاہ جی کی بات یعنی امیر شریعت احرار صاحب کی.یہ واقعہ الفضل میں شائع شدہ موجود ہے کہ منصوری پہاڑ پر ایک جلسہ تھا.اس جلسے سے پہلے ایک شب جماعت احمدیہ منصوری کے بعض احباب ( غالباً حافظ عبد الحمید تھے اور انہی کا بیان تھا جو جہاں تک مجھے یاد ہے، الفضل میں شائع ہوا.ان سے ملاقات کے لئے پہنچے جہاں ان کی قیام گاہ تھی.بہت ادب کے ساتھ انہوں نے شاہ جی کو سلام کہا.کیونکہ رسول پاک ﷺ کا یہی ارشاد ہے إِذَا جَاءَ كُمُ كَرِيمُ قَوْمٍ فَاكْرِمُوهُ ـ باقی معاملے تو یہ قیامت کے دن ہی حساب کتاب ہوگا.یہ تو ہلاکو خان تھا جس نے کہا کہ یوم حساب میں لے کے آیا ہوں.اور یہ ہلاکو خان کے ایجنٹ ہیں جو کہ یہ حساب کتاب اپنی تلواروں اور تفنگوں اور بموں کے ذریعہ سے یہاں ختم کرنا چاہتے ہیں.وہ پکے دہریئے ہیں کیونکہ قرآن نے کہہ دیا ہے کہ یوم الدین کا مالک اللہ تعالیٰ ہے.شاہ صاحب نے حضرت حافظ عبدالحمید صاحب کو دو یکم (Welcome) کرتے ہوئے کہا کہ جماعت احمد یہ بہت اچھا کام کر رہی ہے اور حقیقت میں اسلام جس قسم کی سپرٹ (Spirit) دینِ اسلام کی تبلیغ کی پیدا کرنا چاہتا ہے اس کے پیکر جماعت احمدیہ ہی کے نوجوان ہیں.تو حافظ صاحب نے کہا کہ حضرت یہ آپ کا ارشاد ہے.اور بہت ہی پیارا ارشاد ہے اور حقیقت پر مبنی ہے.آپ کے تجربے کے مطابق ہے.تو آپ جلسے کے سٹیج پر بھی اس کو بیان کر دیں تو بڑی ذرہ نوازی ہوگی تو شاہ جی مسکرانے لگے.بہت ہی پر لطف انداز میں کہنے لگے.حافظ صاحب بات یہ ہے کہ بخاری سٹیج پر تو آن ڈیوٹی ہوتا ہے.وہاں کی بات بالکل اور ہے.اور خلوت کی باتیں بالکل جدا ر نگ رکھتی ہیں.تو یہی صورت حال تھی اس وقت اٹارنی جنرل صاحب کی !! میں نے ذکر کیا تھا حضرت چوہدری عبدالرحمن صاحب امیر جماعت احمد یہ ملتان کا.(جو چوہدری عبدالحفیظ صاحب ایڈووکیٹ کے والد تھے.ان کی دکان ملتان کلاتھ ہاؤس تھی.تو وہاں

Page 360

344 قاضی احسان شجاع آبادی صاحب بھی آیا کرتے تھے.سٹیج پر وہ گالیاں دیتے اور کپڑے لینے کے لئے ان کی دکان پر پہنچتے تھے.مولانا محمد شفیع صاحب اشرف مرحوم ان دنوں مربی ملتان تھے.انہوں نے حضور سے جس وقت ذکر کیا میں اس وقت سیدنا حضرت خلیفہ اُسیح الثالث کی خدمت میں موجود تھا.انہوں نے کہا کہ حضور ! قاضی شجاع آبادی صاحب نے سلام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ کوئی وقت مجھے ملاقات کے لئے عطا فرمائیں.حضور بہت مسکرائے کہ ان کے لئے وقت ہی وقت ہے جب مرضی تشریف لے آئیں.بہر حال یہ ان کا اندرونی معاملہ تھا.حضرت خلیفہ اُسیح الثالث کے بارہ میں اٹارنی جنرل کا اسمبلی میں بیان ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: بیٹی بختیار صاحب نے قومی اسمبلی میں اپنے بیان میں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی شخصیت کے بارہ میں کیا ذکر کیا تھا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب : قطعی بات ہے.اس بیان کے آخر میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ حضرت مرزا صاحب بہت ہی مؤثر شخصیت کے مالک ہیں.انہوں نے یہ بیان 6 ستمبر کو خصوصی کمیٹی کے ممبران کے سامنے تقریر کے دوران دیا تھا.جزاکم اللہ.آپ نے یاد دہانی کرادی.انہوں نے فرمایا:.” جب بشیر الدین محمود احمد کا انتقال ہوا تو اس کے بعد مرزا ناصر احمد نے بطور خلیفہ عہدہ سنبھال لیا.وہ کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے.میں نے ان کی اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں ایک سوال کیا.جواب میں انہوں نے جو کچھ کہا وہ ریکارڈ پر موجود ہے.اس کے علاوہ مجھے جو کچھ قادیانی لٹریچر سے مل سکا ہے وہ بھی میں پورے احترام کے ساتھ بیان کرتا ہوں.مرزا ناصر احمد نے اپنے والد بشیر الدین محمود احمد کی جگہ بطور خلیفہ سوئم جماعت احمدیہ 1965 میں عہدہ سنبھالا اور وہ قادیانی (ربوہ) گروہ کے سربراہ ہیں.وہ 1909ء میں پیدا ہوئے.وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے انسان ہیں.مؤثر شخصیت کے مالک ہیں.وہ حافظ قرآن ، ایم.اے ( آکسفورڈ ) عربی ، فارسی اور اردو

Page 361

345 کے بہت بڑے عالم ہیں.دینی معاملات پر گہری دسترس رکھتے ہیں.وہ احمدیوں کے نوجوانوں کی تنظیم خدام الاحمدیہ کے سربراہ رہے ہیں.وہ مسیح موعود کے ” موعود پوتا ہیں.ان کے خلیفہ سوئم کے تقرر سے اس پیشگوئی کی تکمیل ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ مسیح موعود کے تخت کا وارث اس کا پوتا ہوگا.“ یہ طالمود کی پیشگوئی تھی.طالمود جوزف بار کلے باب پنجم صفحہ 37ایڈیشن جولندن سے 1878ء میں چھپا ہے.) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اور یہ بیٹی بختیار صاحب نے وہاں پڑھ کے سنائی تھی ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ یکی بختیار صاحب نخصوصی کمیٹی کے تمام ممبروں کے سامنے اس حقیقت کا اظہار کیا.اور ان کی اپنی بلند شخصیت کا بھی اس سے اعلان عام ہوتا ہے.(یہ انہوں نے انگریزی میں بیان دیا تھا.یہاں بھی مولوی اللہ وسایا نے اپنی کتاب تحریک ختم نبوت 1974ء میں تحریف کی اور اٹارنی جنرل صاحب کے بیان کہ وہ ” حافظ قرآن ہیں کو کاٹ دیا ہے تا کہ دنیا یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ کیسا غیر مسلم ہے جو حافظ قرآن بھی ہے.) بعض علماء کے تاثرات ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اس قرار داد کے بارہ میں جو بعد میں پیش بھی کی گئی غیر احمدی اکابر کی کیا رائے تھی.خاص طور پر ہم اس میں مولانا مفتی محمود صاحب کا ذکر کرنا چاہیں گے.وہ تو وہاں موجود تھے.اور انہوں نے پھر اس ضمن میں کچھ بیان بھی دیئے.اس کے علاوہ مولانا مودودی صاحب گو وہاں موجود تو نہیں تھے لیکن ان کو سب اطلاع تھی.حفیظ جالندھری صاحب اور ملک غلام جیلانی صاحب وغیرہ تھے.ان کی اس بارے میں کیا رائے تھی ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ نہایت دلچسپ اور بہت سی معلومات پر مبنی ایک نہایت ہی نا قابل فراموش سوال تھا جو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت آپ نے پیش فرمایا ہے.میں تفصیل میں تو نہیں جاتا کیونکہ یہ دلچسپ باب ہے اور بڑی تفصیل چاہتا ہے مگر میں آپ کو ایک جھلک دکھانا چاہتا ہوں.اور وہ بھی صرف غیر احمدی اکا بر مولانا مودودی صاحب، جناب حفیظ

Page 362

346 جالندھری ، ملک غلام جیلانی صاحب اور مفتی محمود صاحب کی بلکہ اس میں بھی میں ایک مختصر سکیچ (Sketch) بیان کروں گا اس زمانے کے پریس کا اور چٹان کا اور مجیب الرحمن شامی صاحب کی رپورٹ اور مولوی محمد یوسف بنوری صاحب جو ساری تحریک کے انچارج تھے.اسی طرح ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک میں جو علماء کے تاثرات شائع ہوئے اور آخر میں غیر ملکی پر لیں جن میں برطانیہ اور ہندوستان کا پریس ہے.اس کا بھی میں اشارۃ ذکر کرنا چاہتا ہوں.اسی طرح پیپلز پارٹی کے جو افراد تھے، ان کے تاثرات بھی دلچسپی کا موجب ہوں گے.مولانا مفتی محمود صاحب جو تاثرات اس موقع پر مفتی صاحب کے تھے، سب سے پہلے میں اسی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.جناب مفتی محمود صاحب کا یہ بیان بعد میں ”لولاک میں شائع ہوا کہ :.جب ہم لوگ مرزا ناصر احمد صاحب پر جرح کر رہے تھے تو پیپلز پارٹی کے افراد اور اپنے بھی حیران ہو کر ہم سے کہتے تھے اور ان خیالات کا اظہار کرتے تھے کہ اس کے چہرے کو دیکھو.پھر یہ دیکھو کہ یہ شخص جسے کہ تم غیر مسلم قرار دینے کے لئے اکٹھے ہوئے ہو، اس کی ہر بات اسلام کے مطابق ہے.درودشریف پڑھتا ہے، حدیث اور قرآن کو پیش کرتا ہے اور یہ اکثریت کے تاثرات تھے جو اس وقت پیش کئے گئے.اس چیز کا اظہار انہوں نے ایک خطاب عام میں کیا.میرے پاس لولاک کا پرچہ ہے جس میں انہوں نے اس بارے میں لکھا.لولاک کے اس پر چہ کا نفرنس نمبر میں یہ ساری تفصیل شائع ہوئی ہے.یہ مولا نا مفتی محمود صاحب کے الفاظ ہیں :.’جب انہوں نے ( یعنی حضرت خلیفہ المسح الثالث" نے.ناقل ) اپنا بیان پڑھا تو مسلمانوں کے باہمی اختلاف سے فائدہ اٹھایا اور یہ ثابت کیا کہ فلاں فرقے نے فلاں پر کفر کا فتویٰ دیا ہے اور فلاں نے فلاں کی تکفیر کی ہے.مسلمانوں کے باہمی اختلاف کو لے کر اسمبلیوں کے ممبران کے دل میں یہ بات بٹھا دی کہ مولویوں کا کام ہی صرف یہی ہے کہ وہ کفر کے فتوے دیتے

Page 363

347 ہیں.یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو کہ صرف قادیانیوں سے متعلق ہو.یہ انہیں تأثر دیا.اس میں شک نہیں کہ ممبران اسمبلی کا ذہن ہمارے موافق نہیں تھا.بلکہ ان سے متاثر ہو چکا تھا.تو ہم بڑے پریشان تھے.چونکہ ارکان اسمبلی کا ذہن بھی متاثر ہو چکا تھا.اور ہمارے ارکان اسمبلی دینی مزاج سے بھی واقف نہ تھے.اور خصوصاً جب اسمبلی ہال میں مرزا ناصر آیا تو قمیض پہنے ہوئے اور شلوارو شیروانی میں ملبوس ، بڑی پگڑی ، طرہ لگائے ہوئے تھا اور سفید داڑھی تھی.تو ممبروں نے دیکھ کر کہا کیا یہ شکل کا فر کی ہے؟.اور جب وہ بیان پڑھتا تھا تو قرآن مجید کی آیتیں پڑھتا تھا اور جب حضور اکرم صلعم کا نام لیتا تو درود شریف بھی پڑھتا تھا.تو ہمارے ممبر مجھے گھور گھور کر دیکھتے تھے کہ یہ قرآن اور رسول کریم کے نام کے ساتھ درود شریف پڑھتا ہے اور تم اسے کافر کہتے ہو اور دشمن رسول کہتے ہو.اور پراپیگنڈے کے لحاظ سے یہ بات مشہور ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے وہ مسلمان ہے.تو جب وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو تمہیں کیا حق ہے کہ آپ ان کو کا فرکہیں.تو ہم اللہ تعالیٰ سے دست بدعا تھے کہ اے مقلب القلوب ان دلوں کو پھیر دے.اگر تو نے بھی ہماری امداد نہ فرمائی تو یہ مسئلہ قیام قیامت تک اسی مرحلہ میں رہ جائے گا اور حل نہیں ہو گا.حتی کہ میں اتنا پریشان تھا کہ بعض اوقات مجھے رات کے تین 66 چار بجے تک نیند نہیں آتی تھی.“ یہ ہفت روزہ ”لو لاک“ لائل پور 28 دسمبر 1975ء کی اشاعت ہے.اور اس کا صفحہ 18-17 ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: مفتی محمود صاحب شاید اس وقت قائد حزب اختلاف تھے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.ہاں قائد وہی تھے اور انہی کی طرف سے دوسرا محضر نامہ پیش کیا گیا تھا.بعد میں پھر چونکہ رہبر کمیٹی کے ممبر بن گئے تو اس کو انہوں نے ترک کر دیا.اگر چہ پرا پیگنڈے کے لئے ضرور کہا کہ ہم نے ختم نبوت کا اس وقت حق ادا کیا اور ہمارا محضر نامہ تیار ہوا اور یہ

Page 364

348 ہوالیکن حق یہ ہے کہ جب وہ رہبر کمیٹی میں شامل ہو گئے تو اس کے بعد تو وہ بات ہی ختم تھی.یہ تو محض سہرا باندھنے والی بات تھی.مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب اب میں عرض کرتا ہوں مولانا مودودی صاحب کا خط’ چٹان میں شائع ہوا اور یہ وہ خط تھا جو انہوں نے سمیع الحق صاحب مدیر الحق اکوڑہ خٹک کے نام لکھا.میں اس کا خلاصہ ہی بیان کرتا ہوں.انہوں نے لکھا کہ بڑا شور ہے کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے.خاک حل ہو گیا.اتنی جلدی میں یہ فیصلے کئے گئے ہیں کہ بجائے احمدیوں کو سزا دینے کے، اس میں یہ بھی آگیا ہے اور دفعہ الف کے بعد ب شق کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں یہ درج ہے کہ ایک مسلمان جو محمد ﷺ کی ختم نبوت کے مفہوم مندرجہ آئین پاکستان دفعہ 260 شق نمبر تین کے خلاف عقیدہ کا اعلان یا اس کے خلاف عمل کی تبلیغ کرے وہ قابل سزا اور تعزیر ہوگا.اس پر مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی امیر جماعت اسلامی نے جو Comments کئے وہ ان کے الفاظ میں یہ ہیں:.یہ قرار داد غالباً عجلت میں مرتب اور پاس کر دی گئی ہے.اور اس کی ابتدا میں مسلمان کا لفظ رکھنے کی وجہ سے اس میں ابہام واشتباہ پیدا ہو گیا ہے.ظاہر ہے کہ کسی مسلمان کے متعلق یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس جرم شنیع کا مرتکب ہو گا.اور مرتکب ہونے کے بعد وہ مسلمان 66 کہلانے کا مستحق رہ سکے گا.“ تو فرماتے ہیں کہ یہ جلدی میں پاس ہو گئی ہے.بجائے قادیانیوں کو سزا دینے کے مسلمان کہلانے والوں کو سزا دی گئی ہے.یہ خط اخبار ” چٹان 3 دسمبر 1974 صفحہ 5 سے لے کر تین صفحات پر مشتمل شائع ہوا ہے.علاوہ ازیں ”الحق اکوڑہ خٹک ماہ اکتوبر نومبر 1974 ، صفحہ 29 پر بھی شائع ہوا.جس وقت میں نے

Page 365

349 مولا نا کا یہ خط پڑھا تو ایک واقعہ یاد آ گیا.ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ پارٹیشن سے پہلے کی بارہ ہے.گاڑی پر سوار ہوتے ہوئے ایک بوڑھا شخص بیٹھا ہانپ رہا تھا.گاڑی اس وقت تیز ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود وہ ہینڈل پکڑ کے ڈبے میں چڑھ گیا.نوجوانوں نے کہا سردار جی کمال کر دیا ہے.بوڑھا ہونے کے باوجود چلتی گاڑی میں اس طرح آپ اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئے ہیں.لائق تحسین ہیں.کہنے لگے کہ اصل بات یہ ہے کہ بٹھانا کسی اور کو تھا، چڑھ میں گیا ہوں.تو علامہ مودودی امیر جماعت اسلامی نے فرمایا کہ یہ قصہ ہوا ہے، بڑی جلدی پاس کر دیا گیا ہے بجائے اس کے کہ احمدیوں کو شکنجے میں ڈالا جاتا، سزا مسلمانوں کے لئے تجویز کی گئی ہے.تو یہ مودودی صاحب کا تبصرہ تھا.حفیظ جالندھری صاحب ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: - ابوالاثر حفیظ جالندھری صاحب کا کیا تبصرہ تھا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب : حفیظ جالندھری صاحب کا تبصرہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ کوئی قرآنی فیصلہ نہیں ہوا.عوامی فیصلہ ہوا ہے.اب فیصلہ کرنے والے جانیں اور اس کو آگے پیش کرنے والے جانیں.( الحق اکتوبر نومبر 1974، صفحہ 14) شمس الحق افغانی صاحب یہ چیزیں جو تھیں اس پر سمیع الحق صاحب نے الحق‘ کا ایک خاص شمارہ شائع کیا تھا جو ماہ اکتوبر نومبر 1974ء کا تھا.اس میں یہ سارے ان کے تاثرات موجود تھے.مثلاً شمس الحق صاحب افغانی شیخ التفسیر نے لکھا کہ یہ بڑا جرأت مندانہ فیصلہ ہے اور اس دور میں اس سے زیادہ ممکن ہی نہیں تھا.اور لکھا کہ بس یہی اس کا مطلب ہے کہ لا الہ الا الله محمد رسول الله.ولكن رسول الله وخاتم النبیین.مقصد یہ تھا کہ بس اب کلمہ محد مکمل ہوا ہے کیونکہ محمد رسول الله یہ سے اب تک تو امت مسلمہ تیرہ سو سال میں اس گمشدہ بات کو پہچان نہیں سکی.اب بھٹو گورنمنٹ کے طفیل ہی ممکن ہوا کہ مکمل کلمہ پر اجماع امت ہو جائے.تو اب کلمہ یہ ہے لا اله الا الله محمد رسول اللہ لیکن جب شائع کیا تو الرسول

Page 366

350 شائع کیا.حالانکہ یہ فاش غلطی ہے کسی عربی طالب علم سے بھی ممکن نہیں ہے، کیونکہ جو مضاف ہے اس پر الف لام نہیں آسکتا.الرسول الله نہیں کہہ سکتے.مـحـمـد رسول اللہ اس میں الف لام ہو ہی نہیں سکتا.بہر حال یہ جو نیا کلمہ بنایا گیا اس میں ایک تو محمد الرسول الله اور آگے وَلكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ.اب یہ کمل کلمہ ہوا ہے.یہ خراج تحسین بھٹو صاحب کے اس فیصلہ کو انہوں نے پیش کیا.(صفحہ 20-21) سید عبداللہ صاحب اس کے علاوہ تھے ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب صدر شعبہ دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یو نیورسٹی.یہ اس کمیٹی کے چیئر مین تھے جس نے پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے شائع ہونے والا انسائیکلو پیڈیا اردو دائرہ معارف اسلامیہ شائع کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے بھی انہوں نے درخواست کی کہ بانی جماعت احمدیہ کے متعلق ہم نوٹ شائع کرنا چاہتے ہیں.حضور نے مجھے ارشاد فرمایا.وہ نوٹ میں نے بھجوایا تو سید عبداللہ صاحب نے بہت شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم اس کو درج کریں گے لیکن فیصلہ کے بعد اس کو گول کر گئے.تو بہر حال ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب نے اس پر یہ کہا کہ :.قادیانیوں کے بارے میں اقلیتی فیصلہ ہو چکا ہے.اس طرح علماء کی وہ جد و جہد کامیاب ہو گئی جس کے لئے وہ تقریباً ایک سو سال بھر پور لڑائی لڑتے رہے.اور مجھے یہ کہنے دیجئے کہ لڑتے رہے.میں جب یہ کہتا ہوں کہ یہ لڑائی تنہا علماء نے لڑی تو بالکل حقیقت بیان کر رہا ہوں.( یعنی یہ سارا فتنہ تکفیر کا ملاؤں ہی کا تھا.علماء کے علاوہ جو طبقے یہاں موجود ہیں ان کی بہت سی تحریر میں بطور شہادت پیش کی جاسکتی ہیں کہ ان میں بالعموم علماء کے موقف کے خلاف اور قادیانیوں کے حق میں رہا ہے اور اس میں بڑے بڑے لوگوں کے نام لئے جاسکتے ہیں.‘“ (صفحہ 24 ) یعنی دوسرے لوگ تو دراصل قادیانیوں کے حق میں رہے لیکن ملا ہمیشہ جماعت احمدیہ کے

Page 367

351 خلاف لڑتا رہا.مولانا ظفر احمد انصاری صاحب تھا؟ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : مولانا ظفر احمد انصاری صاحب کا اس بارے میں کیا تبصرہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.بتاتا ہوں اسی ترتیب سے میں آرہا ہوں.اس میں مولانا ظفر احمد انصاری صاحب کا تاثر بھی آتا ہے.لکھا ہے کہ ( یہ بڑے دلچسپ الفاظ ہیں ) ” میں سمجھتا ہوں کہ جن اکابر نے ارباب اقتدار سے گفت و شنید اور مفاہمت کے نتیجے میں یہ فارمولا تیار کیا (یعنی فیصلہ اسلامی معاملہ میں قرآن و حدیث کو چھوڑ کے مفاہمت سے ہوا.ناقل ) کیونکہ پارٹیز (Parties) کی سطح پر ہوا ہے.وہی اس بات کے زیادہ اہل ہیں کہ اس کے مالہ وما علیہ پر روشنی ڈالیں.آئندہ کے لئے تدابیرو اقدامات بھی تجویز فرمائیں.فارمولے میں درج شدہ دفعات جس حد تک مؤثر ہیں.وہ بھی رفتہ رفتہ واضح ہو جائے گا.(یعنی اب تو بڑا جوش و خروش ہے لیکن آئندہ وقت بتائے گا کہ اس کے نتائج کیا برآمد ہوتے ہیں.) میرا اس مرحلہ پر کچھ عرض کرنا بے محل معلوم ہوتا ہے ،سکوت ہی انسب نظر آتا ہے.حضرت مولانا اکوڑہ خٹک میں تشریف رکھتے ہوں تو میرا سلام عرض کر دیجئے جانتے ہیں.(28) یعنی دور سے سلام کہہ کے کہ بس مہربانی کریں جنہوں نے یہ مفاہمت کی ہے بس وہی اس الحق میں مولانا ابوالاعلیٰ صاحب مودودی بانی جماعت اسلامی کا تبصرہ ایک تو میں سنا چکا ہوں ، یہ بھی شائع شدہ ہے.(صفحہ 28 تا 31 )

Page 368

352 مولانا محمد اشرف صاحب پشاور اس کے علاوہ اس موقعہ پر یہ ایک بیان ہے جو ایک عالم دین نے دیا ہے.یہ حضرت مولانا محمد اشرف صاحب صدر شعبہ عربی اسلامیہ کالج پشاور ہیں.بہت لمبا یہ بیان ہے.بہت کچھ اس میں لکھا ہے،مطالبے کئے ہیں کہ:.”اب یہ فیصلہ تو ہو چکا ہے“ لیکن اب فوری طور اگلا مطالبہ یہ شروع کر دیا ہے.(صفحہ 33 تا40 ) میں نے بتایا ہے نا کہ یہی سیاسی پالیسی ہمیشہ ملاؤں نے اختیار کی ہے.تو پہلے زور ڈالا بھٹو صاحب پر بس اتنا فیصلہ کر دیں.اسلام زندہ ہو جائے گا.اور اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی.یہ مضحکہ خیز اقدام دیکھیں.یہ میں نے عرض کیا ہے نام ان کا ، مولانا حضرت یعنی القاب کے سوا، تو کوئی جتنی گالیاں دینے والا ہو احمدیوں کو اسے حضرت اور مولانا اور فاتح ختم نبوت“ سے کم تو اس کو کوئی خطاب ہی نہیں دیا جاسکتا.حضرت مولانا محمد اشرف صاحب، یہ بہت بڑے حضرت تھے.فرماتے ہیں کہ:.فوری عمل کیا جائے.قادیانیوں کو فوری برطرف کیا جائے.66 سرکاری ملازمتوں میں ان کا کوٹہ ان کی آبادی کے مطابق قرار دیا جائے.“ حالانکہ اقلیت قرار دینے کے معنی ہی یہ ہوتے ہیں کہ یہ بے بس ہو کر رہ گئے ہیں.اس واسطے ان کی تعداد سے بڑھ کر ان کو حصہ ملنا چاہئے تا کہ ان کی آواز ہو اور اکثریت ان کے حقوق کو دبا نہ دے اور غصب نہ کر لے.لیکن ملاں نے یہ کہا کہ اب چونکہ اقلیت قرار دے دیئے گئے ہیں.تو جہاں جہاں یہ لوگ پہلے موجود ہیں ان کو وہاں سے ہٹا دیا جائے.یہ دیکھا جائے کہ ان کی تعداد کتنی ہے؟ اس کے مطابق کوٹہ دیا جائے.پھر ربوہ کو کھلا شہر بنا دیا جائے.یعنی وہاں پر ہمارا جانا ، گالیاں دینا اور غنڈہ گردی کرنا، اس کی اجازت دی جائے.لٹریچر کو ضبط کیا جائے.اشاعت پر پابندی لگائی جائے وغیرہ.اور سمیع الحق صاحب کا جو موقف ہے وہ سرکاری طور پر عربی میں، انگریزی میں ، اردو میں

Page 369

353 شائع کیا جائے.یہ لکھنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :.میاں ناصر احمد صاحب نے آزاد کشمیر کی قرار داد جب ان کے خلاف پاس ہوئی تو انہوں نے ایک بیان دیا تھا.اس کے کچھ اقتباس لکھنے کے بعد حضرت مولا نا فرماتے ہیں کہ :.مرزا ناصر احمد صاحب نے اس میں کہا ہے کہ قانون صرف یہ کہتا ہے کہ ہر وہ احمدی جو اپنے تئیں غیر مسلم سمجھتا ہے وہ اپنا نام رجسٹر کروائے.ہمیں کوئی اعتراض نہیں.کیونکہ ہر احمدی اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے اور خدائے علیم و خبیر کی نگاہ میں بھی مسلمان ہے اس لئے اس پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا.تو بہت واویلا مچایا کہ یہ بے اثر سی چیز ہے جو پاس ہوئی ہے.خدا کی عدالت میں میاں ناصر احمد کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں.قانون ہمیں مجبور نہیں کر سکتا.ہم خدا کی عدالت میں مسلمان ہیں.قانون ہمیں خدا کی عدالت میں مسلمان ہونے سے کہاں روک سکتا ہے.جزاکم اللہ ! یہ آپ نے بڑی مہربانی کی ہے.اس کے بعد کیا لکھا ہے ! آگے پھر تجاویز دی ہیں.(صفحہ 33-40) حسن تهامی صاحب ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : حسن تہامی صاحب جو کہ شاہ فیصل صاحب کا پیغام لے کر آئے تھے ان کا کیا بیان تھا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.عجیب بات ہے کہ حسن تہامی صاحب نے اسی رات کو فیصلے کے بعد یہ اس پر تاثر بیان کیا کہ:.الحمد للہ فیصلہ ہو گیا ہے اور عوام کے امنگوں کے مطابق ہوا ہے.آنحضرت نے یہی فرمایا تھا کہ آخری زمانے میں مسلمان حکومتیں عوام کے خیالات کے مطابق فیصلہ کریں گی.یہ کنز العمال میں موجود ہے.تو تہامی صاحب نے کہا کہ الحمد للہ ان عوامی

Page 370

354 فیصلوں کے بعد اب صحیح معنوں میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی ہے.(مشرق لاہور.9 ستمبر 1974ء صفحہ 1) اُنہوں نے تو یہ بات کہی لیکن انہوں نے کہا کہ فیصلہ تو ہو گیا ہے مگر اور مطالبات ہیں ان پر فوری طور پر عمل کیا جائے.تب اسلامی حکومت بن سکتی ہے.مولانا قاضی عبدالکریم صاحب یہ ایک اور محسن ہیں مولانا قاضی عبد الکریم صاحب مہتم نجم المدارس کراچی.فرماتے ہیں:.1.1.ان نامسلموں کو کلیدی آسامیوں سے ہٹایا جائے.2.ان کے اوقاف حکومت کے قبضے میں لئے جاویں.3.ان کے اسلامی نام انجمن حمایت اسلام وغیرہ قانوناً ممنوع قرار دیے جاویں.“ (صفحہ 42) اور یہ دلچسپ بات ہے انہیں اتنا بھی پتہ نہیں.انجمن حمایت اسلام وغیرہ قانونا منع قرار دیئے جائیں.حالانکہ انجمن حمایت اسلام کے نام سے کوئی تنظیم ہے ہی نہیں.تو یہ شیعہ حضرت ہیں.اور پھر کہتے ہیں:.کی اذان؟ اسلامی شعائر از قسم اذان، مسجد وغیرہ کا استعمال یہ غیر مسلم ہرگز نہ کر سکیں.‘‘ (صفحہ 42) اور یہ فرمانے والے وہ ہیں جن کی اذان ہی الگ ہے.آپ نے کبھی سنی ہے شیعہ حضرات اشهد ان امیر المومنين امام المتقين على ولی اللہ.یہ اذان ہے.جناب خود تو اذان یہ دے رہے ہیں.کہتے ہیں کہ قادیانیوں کو جو اصل اذان ہے وہ دینی نہیں چاہیئے.را و شمشیر علی صاحب برطانیہ اس کے بعد راؤ شمشیر علی صاحب انٹرنیشنل اسلامی مشن برطانیه و مدیر ماہنامہ دعوت الحق برطانیہ.( میں بریڈ فورڈ میں گیا ہوں.انہوں نے بڑے اشتہار اور بعض کتابیں لکھیں.میں وہاں سے 1985ء میں لے کر آیا تھا) لکھتے ہیں کہ یہ پاس تو ہو گیا ہے.بات یہ ہے کہ قادیانی فتنہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہمیں اس کے لئے اب پہلے سے زیادہ چوکس ہونا چاہئے.مسلمانوں کی ذمہ داری اس

Page 371

355 سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے.کیونکہ یہ لوگ بڑا خطرناک ردعمل ظاہر کریں گے.ان کے الفاظ یہ ہیں کہ :.مسلمانوں کی ذمہ داری اب اس سے بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ قادیانی امت اپنے اندر زہریلے سانپ والے تأثرات رکھتی ہے جب موقع ملے گا وہ زہر یلے تاثرات والے ڈنگ لگائیں گے.ظفر اللہ قادیانی لنڈن میں مقیم ہے.لاکھوں کی تعداد میں غیر ممالک سے خطوط بھٹو کو لکھوائے.یہودی عیسائی اداروں کی طرف سے بھٹو پر دباؤ ڈالا گیا.سنا ہے کہ کروڑوں روپیہ بھٹو کو رشوت پیش کی گئی.اگر بھٹو صاحب پاکستانی قوم کے ہاتھوں مجبور نہ ہوتے تو شاید وہ یہ آفر لے لیتا.“ اب دیکھیں کہ گپوں کا یہ ایک طوفان تھا.مگر قوم فولادی دیوار کی طرح بھٹو کے سامنے تھی ، مجبور ہو کر غیر مسلم قرار دینا پڑا.اگر میں غیر ممالک میں قادیانیوں کی سرگرمیاں پوری لکھوں تو آپ پر یہ بات واجب ہو جائے گی کہ مسلمانوں کو پہلے سے بھی زیادہ کوشش کرنی چاہئے.“ (صفحہ 47) کہنے لگے کہ پہلے تو ہم کوشش نہیں کر رہے تھے.اب ہمیں آرام سے بیٹھنا ہی نہیں چاہئے کیونکہ جور د عمل قادیانیوں کا ہوگا وہ بہت زبردست ہوگا.مولانا خان محمد صاحب میں جب انڈن میں پہلی دفعہ گیا ہوں حضرت خلیفہ امسیح الرائع کے ارشاد کے مطابق، صدر انجمن احمدیہ کے نمائندہ کے طور پر تو اس وقت رسالہ ختم نبوت میں So Called ختم نبوت تنظیم کے سربراہ مولانا خان محمد صاحب کی طرف سے ایک اپیل شائع کی گئی.دیکھیں یہ ایسے شاطر اور چالاک ہیں کہ کوئی نہ کوئی موقع مسلمانوں کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے پیدا کر لیتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ یا درکھو اب یہ قربانیوں کا وقت آ گیا ہے.آپ کو چاہئے کہ

Page 372

356 کھا لیں تحفظ ختم نبوت کے لئے دیں.ساری عمر کھا لیں ادھیڑتے رہے مگر کھالوں کے لینے کا جب بھی موقع عید قربان پر آتا ہے، کبھی بھی اس معاملے میں مجلس احرار نے کمی نہیں کی.تو انہوں نے کہا :.میں مسلمانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میاں طاہر جب سے انگلستان میں آگئے ہیں انہوں نے کروڑوں اور کھربوں کے منصوبے شروع کر دیئے ہیں.( تو یہ حالت ہے ) اس واسطے ختم نبوت کے پروانوں کو چاہئے کہ کم از کم عید کے موقع کی جو کھالیں ہیں وہ تحفظ ختم نبوت کوضرور جمع کر کے دیں.مولانا ابو الحسن ندوی صاحب تحریک ختم نبوت جلد سوم صفحہ 960) مولانا دوست محمد شاہد صاحب : - ماہنامہ ” الحق“ میں اس کے بعد ماہ دسمبر اور جنوری 1975ء کے شماروں میں بھی کچھ تاثرات چھپے ہیں.اس میں ”حضرت مولانا ابوالحسن صاحب ندوی سربراہ ندوۃ العلماءلکھنو کا تبصرہ بھی ہے.انہوں نے سمیع الحق صاحب کو لکھا.اس ایک فیصلہ نے افہام و تفہیم اور اطمینان قلب کی وہ خدمت انجام دی جو علماء کی سینکڑوں تصنیفات اور ہزاروں تقریریں نہ انجام دے سکتیں.( یعنی جو کام ملاؤں کے سوسالہ تصنیفی کارناموں سے نہیں ہوسکا وہ بھٹو صاحب کے اس فیصلے نے سرانجام دیا ہے.) اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسلام اور تبلیغ اسلام کے نام سے احمدیت کی تبلیغ کا جو کام کیا جاتا تھا وہ بے اثر اور بے بنیاد ہو گیا.“ ( الحق دسمبر 1974ء جنوری 1975 ء صفحہ 6) اب آپ دیکھیں کہ یہ ندوۃ العلماء لکھنو کے سربراہ صاحب ہیں اور اس کے بانی مولا ناشیلی نعمانی تھے.انہوں نے اپنے شعری کلام میں ایک جگہ لکھا ہے کہ :.میں نے علماء سے کہا کہ احمدی تو یورپ میں پہنچ کر اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی دعوت الی اللہ کے ذریعہ سے اسلام کے ڈنکے بجا دیتے ہیں.تو آپ لوگ کیوں نہیں جاتے تو

Page 373

357 آگے انہوں نے شعری کلام میں علماء کا جواب دیا.دیکھیں ان کا جواب یہ ہے کہ یہ اسلام کے نام پر تبلیغ کر رہے ہیں.لیکن حقیقت علامہ شبلی کو معلوم تھی، حضرت مسیح موعود کے ہم عصر تھے.یہ ملاں تو کل کی پیداوار ہیں.علامہ شبلی نے کیا جواب دیا؟ کہتے ہیں کہ علماء کی طرف سے جو جواب آیا ہے میں پیش کرتا ہوں..کرتے ہیں مسلمانوں کی تکفیر شب و روز بیٹھے ہوئے کچھ ہم بھی تو بے کار نہیں ہیں میدان کو الٹ کر رہے ہیں.یعنی میں نہیں کہتا کہ ایسے لوگ سر براہ بنائے جو کذاب اور دجال تھے.رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ دجال بنیں گے علماء یہ کھلی صداقت ہے.علامہ شبلی کہتے ہیں کہ ملاں کا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو کافر بنائے اور جماعت احمدیہ کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ کافروں کو مسلمان بنا رہی ہے.مولا نا ابوالحسن ندوی آگے لکھتے ہیں.اس فیصلہ کی اثر انگیزی اور انقلاب آفرینی کے باوجود علماء کی ذمہ داری کم نہیں ہوئی.“ یعنی ابھی ان کو کا فر بنانے کے لئے اور بھی ہمت کرنی چاہئے.بلکہ بڑھ گئی ہے.مسئلہ کا فیصلہ اگر چہ حکومتی اور انتظامی سطح پر ہو گیا.لیکن علمی اور فکری سطح پر بھی اس کو مختم کرنے کے لئے ختم نبوت کے موضوع پر بلند پایہ اور یقین آفرین سنجیدہ اور محققانہ کتابوں اور مضامین کی ضرورت ہے.‘ (صفحہ 6) جس کا یہ نعر ولگاتے ہیں.سید لیا کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ختم نبوت ہے کیا چیز.تو یہ تبصرہ کن کا ہے؟ مولانا ابوالحسن ندوی صاحب کا.

Page 374

358 مولانا محمد طاسین صاحب کراچی مولا نا محمد طاسین صاحب ناظم مجلس علمی کراچی فرماتے ہیں کہ :.میں سمجھتا ہوں یہ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا خاص اور عظیم فضل ہوا ہے.(یعنی بھٹو صاحب کا جو یہ فضل ہوا ہے.ملا تو سو سال سے خدا کے فضل سے بالکل محروم تھا.) اس سے ایک طرف اس فتنہ کے سر پر کاری ضرب لگی اور اس کے انقلابی عزائم ملیا میٹ ہو گئے جو آگے چل کر بہت بڑی تباہی اور بربادی کا موجب بنتے.دوسری طرف اس وقت مسلمان ایک بہت بڑے خون خرابے سے بچ گئے جس سے بے اندازہ جانی و مالی نقصان پہنچتا.لہذا اس پر اللہ کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہوگا.‘ (صفحہ 7 ) مولانا منظور احمد چنیوٹی صاحب لکھتے ہیں:.مولا نا منظور احمد صاحب چنیوٹی ناظم ادارہ دعوت وارشاد چنیوٹ.بڑا لمبا چوڑا بیان ہے.راقم اپنی عمر کی منتالیس منزلیں طے کر چکا ہے.اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی خوشیاں نصیب فرمائی ہیں.عیدیں بھی آئیں.حرمین شریفین کی زیارت سے بھی بارہا مشرف فرمایا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ زندگی بھر کی تمام خوشیاں بھی اگر جمع کر دی جائیں تو وہ اس خوشی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں....راقم خوشی کے ان احساسات کو اپنے الفاظ کے قالب میں ڈھال کے پیش کرنے سے قاصر ہے.“ معلوم ہوتا ہے مٹھائی جو پیش کی گئی تھی بہت زیادہ کھا گئے ہوں گے اس کی وجہ سے تو اب وہ الفاظ ہی نہیں مل رہے حضرت کو کہ وہ اس خوشی کا اظہار کر سکیں.قادیانیوں کے متعلق یہ تاریخی فیصلہ اس صدی کا اہم فیصلہ اور عظیم کا رنامہ شمار ہوگا.“

Page 375

359 یہ وہی ملاں تھے جنہوں نے فور اقلا بازی کھائی.تو کہتے ہیں کہ یہ اس صدی کا اہم فیصلہ اور عظیم کارنامہ شمار ہوگا.بتارہے ہیں کہ بھٹو صاحب کا کارنامہ اس صدی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے.کیونکہ فیصلہ تب ہی ہو سکتا تھا جب پیپلز پارٹی کی اکثریت اس کو تسلیم کرتی.ملاں کے تو خیر چند ووٹ تھے.آگے لکھتے ہیں کہ اب آئین میں ترمیم ہو جانے کے بعد بہ نسبت عوام کے حکومت کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے.قوم نے تحریک کے دوران قادیانیوں سے بائیکاٹ اور آپس میں اتحاد کا جو بے نظیر مظاہرہ کیا ہے، مجلس عمل کی سر پرستی میں ان دو کامیاب ہتھیاروں کا استعمال اس وقت تک جاری رہنا چاہئے جب تک آئینی ترمیم کے تقاضے مکمل طور پر پورے نہیں ہو جاتے.“ (صفحہ 8-9) کہہ رہے ہیں کہ ابھی کچھ بھی نہیں ہوا.یہ سارے جھنگ کے ہی تھے.یہ جھنگ کا ہی واقعہ ہے اور پارٹیشن سے پہلے کا واقعہ ہے.یہاں جامع محمدی کے قریب ایک بستی ہے ساہمل.یہ میرے نہال کی بستی ہے.یہاں پارٹیشن سے پہلے پوری تجارت پر ہندوؤں کا قبضہ تھا.کہتے ہیں کہ ایک مسلمان خاتون کچھ چھنے لے کر ایک ہندو کے پاس آئی اور اس سے کہا کہ یہ چنے دیکھ لیں تول لیں.اس کے بدلے میں مجھے فلاں چیز دے دو...یہ بارٹر سسٹم (Barter System) تو حکومتوں میں موجود ہے.اس کے بغیر تو اکانومی برابر نہیں رہ سکتی.کیونکہ اگر درآمدات اور برآمدات کا بیلنس نہ ہو تو حکومتوں کا تو دیوالیہ نکل جاتا ہے تو یہ اکثر متحدہ ہندوستان میں بارٹر سسٹم گاؤں کی حد تک جاری تھا.بہر حال خاتون نے چنے دیئے.تو لے تو پتہ نہیں کتنے بنے.کہنے لگے کچھ بھی نہیں بنا.وہ حیران ہوگئی کہ چنے میں لے کے آئی ہوں.کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ میں نے پاسکو جو ہے ناوہ ایک سیر کارکھا ہوا ہے.تو جب تک دوسیر نہ دو کچھ بھی نہیں ہے تمہارا.تو ملاں چنیوٹی نے کہا کہ فیصلہ تو بڑا ہوا ہے.تاریخی فیصلہ ہے مگر بنا کچھ بھی نہیں ہے.اب ذمہ داری حکومت کی یہ ہے کہ وہ جو باقی ہمارے ہتھیار ہیں، وہ استعمال کرنے ہیں ورنہ ہمارا کچھ بھی نہیں رہ جائے گا.ہم دعوے تو کر رہے ہیں کہ بس جی اب مرزائیت کے تابوت کو ہم نے چناب کی لہروں کے

Page 376

360 سپر د کر دیا ہے مگر بنا کچھ بھی نہیں ہے.اس واسطے اب ہمیں ضرورت ہے کہ کچھ کام کریں.یہ کن کے الفاظ تھے؟ منظور چنیوٹی صاحب کے.مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب کارروائی کے دوران جماعت اسلامی کا کردار کا پردہ چاک کرتے ہوئے مولوی غلام غوث ہزاروی سربراہ جمیعتہ العلماء اسلام نے کہا کہ ” جماعت اسلامی جو پورے ملک میں قادیانیوں کے خلاف گلا پھاڑ پھاڑ کر چلاتی رہی ہے، قومی اسمبلی میں عضو معطل بن کر بیٹھی رہی.اس کے کسی ممبر نے نہ تو کئی سوال کیا اور نہ ہی مرزا ناصر احمد کے کسی بیان پر کسی قسم کی تنقید کرنے کی جرات کی.“ ملک نورالحسن وٹو صاحب ایم.اے ( روزنامہ مساوات لاہور 28 اکتوبر 1974ء) ملک نورالحسن وٹو ایم.اے اپنے خط مندرجہ ہفت روزہ اہل حدیث لاہور میں لکھتے ہیں:.قاسم نانوتوی نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی آ بھی جائے تو ختم نبوت میں فرق نہیں آتا.مولوی اسمعیل کہتا ہے کہ خدا ہزاروں محمد پیدا کرسکتا ہے چنانچہ مرزائیوں نے قومی اسمبلی میں انہیں پیش کر کے ان مولویوں کی زبان بند کر دی تھی.“ ملک غلام جیلانی صاحب (اہل حدیث لاہور 13 دسمبر 1974ء) تحریک استقلال کے سابق سیکرٹری جنرل ملک غلام جیلانی نے کہا ہے که قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے بارے میں قومی اسمبلی کے فیصلے کو وہ تسلیم نہیں کرتے کیونکہ ان کی رائے میں اسمبلی ایسا فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے.انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ جماعت احمدیہ کے سر براہ مرزا ناصر احمد محب وطن مسلمان ہیں.“ (نوائے وقت لاہور 22 دسمبر 1974ء)

Page 377

361 اس کے علاوہ بھی کئی اور تھے لیکن میں اس کو چھوڑتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ کافی ہیں جو کہ بطور نمونے کے میں نے آپ کی خدمت میں پیش کر دیئے ہیں.میں کیا لکھا؟ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ تو علماء یا لیڈروں کے تبصرے تھے.پریس نے اس بارہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.اب میں پریس کی طرف آتا ہوں.پریس میں جو تبصرہ چھپا.یہ تبصرہ ہے ”لولاک‘ کا.ہفت روزہ لولاک لولاک“ یہ فیصل آباد کا اخبار ہے.یہ وہی اخبار ہے ملاں تاج محمود جس کے آرگنائزر تھے.راتوں رات سیٹ قائم کر کے 1974ء میں پورے پاکستان کو ایک خوفناک آتش فشاں میں مبتلا کر دیا گیا.یہ لکھتے ہیں :.آل پاکستان ختم نبوت کانفرنس تمام مکاتیب فکر کے اتحاد کا ایمان افروز مظاہرہ اس میں روداد تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں.لکھتے ہیں کہ :.آل پاکستان ختم نبوت کانفرنس دارالکفر اور دار الارتدادر بوہ میں گزشتہ سال سے منعقد ہونا شروع ہوئی ہے.“ حالانکہ یہی چنیوٹی صاحب تھے جنہوں نے چناب نگر سے پہلے اس کا نام ہی صدیق آباد رکھا تھا.جس کے معنی ہیں کہ یہ صدیق اکبر کی یاد گار ہے.کسی ایسے شخص نے اس کی بنیاد رکھی ہے جو کہ صدیق ہے اپنے زمانے کا.اور صدیق وہ ہوتا ہے جو خدا کے نبی کو اول نمبر پر تسلیم کرتا ہے.تو یہ صدیق آباد کا نام رکھا پھر اس کو چھوڑ دیا ہے ان حضرات نے.جلدی عقل آگئی کہ یہ تو ہم نے خود تسلیم کر لیا کہ جنہوں نے یہ بنیا درکھی ہے وہ اپنے زمانے کے صدیق تھے.یہ تو ہم نے اپنا بیڑا غرق کر لیا.بہر حال اس کے بعد پھر چناب نگر نام رکھا.سیالکوٹ کا نام مدینہ رکھا ہے ”مدینہ احرار.یہ چناب نگر رکھا.

Page 378

362 اس روداد میں لکھا ہوا ہے.آج ہم فاتحانہ شان سے کہتے ہیں کہ دو تیس مئی سے لے کر سات ستمبر تک ہم نے احتجاج کیا، جلوس نکلے، جلسے ہوئے.مرزائیوں کا حقہ پانی بند ہوا.“ گیانی واحد حسین صاحب مرحوم ایک دفعہ فرما رہے تھے.پنجابی زبان میں تو ان جیسا لیکچرار میں نے جماعت میں نہیں دیکھا.کہنے لگے کہ ایک گاؤں میں نمبر دار نے کہا کہ بس احمدیوں کا حقہ پانی ہم بند کرتے ہیں.تو ایک احمدی تھے انہوں نے حقہ ان کے سامنے رکھا.پی کے کہنے لگا کہ یہ حقہ بند تو نہیں ہوا.میں اب بھی اسی طرح ہی پی رہا ہوں.بہر حال یہ ایک دلچسپ لطیفہ تھا.اس وقت کے ساتھ تعلق تھا.جو الفاظ میں بتانا چاہتا ہوں وہ سننے کے لائق ہیں.میں دوبارہ بتاتا ہوں کہ دو تمھیں مئی سے لے کر سات ستمبر تک احتجاج ہم نے کیا ، جلوس نکلے، جلسے ہوئے.مرزائیوں کا حقہ پانی بند ہوا.“ یہ نہیں بتایا کہ اسلام کا جلوس نکال دیا.جس طرح حبیب جالب نے ایک شعر کہا تھا.فاصلہ خود ہی کر ذرا محسوس یوں نہ اسلام کا نکال جلوس اسلام کا جلوس نکالا ہے انہوں نے.حالانکہ علماء نے ،شریف علماء نے کہا کہ ایک طرف تم اقلیت قرار دینا چاہتے ہو.اور اقلیت کے معنی ہیں کہ پہلے سے زیادہ ان کو حقوق دیئے جائیں.اور اس کے لئے تم کہہ رہے ہو کہ ان کا بائیکاٹ کیا جائے.جبر کے ساتھ جو فیصلہ کیا جائے وہ تو اسلامی عدالت میں منظور ہی نہیں ہوتا.یہ مشہور حدیث ہے.بالجبرا کراہ ہے.بالجبر اکراہ کے ساتھ جو کام کیا جاتا ہے اسلامی عدالت اس کو قبول نہیں کر سکتی.حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کو اس وجہ سے کوڑے لگائے گئے کہ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ جبر کا نکاح، نکاح نہیں ہے.انہوں نے ہر چیز گوارا کی مگر یہ گوارا نہیں کیا کہ جبر کے ساتھ جو کام کیا جاتا ہے اس کو اس رنگ میں قبول کر لیں.مخالفین خود تسلیم کرتے ہیں کہ یزید کی طرح ہم نے کر بلا بنایا.اس وقت چنیوٹ کا ہی ایک ایم پی اے تھا.ان کی زبان کو تسلیم کرنا پڑا کہ ہم نے

Page 379

363 ”مرزائیوں کے لئے کربلا بنائی.”مرزائیوں کا حقہ پانی بند ہوا.اور ان کے الفاظ ہیں رپورٹر کے مطابق:.اور بالآخر سات ستمبر کو اس وقت کی فاسق و فاجر حکومت نے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخی فیصلہ کیا.“ ( لولاک 6 نومبر 1983 ءجلد 20 نمبر 25 ) مبارک ہو ان لوگوں کو جن کو سات ستمبر کو فاسق اور فاجر حکومت نے مسلمان قرار دیا ہے.اور اللہ کا ہزار ہزار فضل اور احسان ہے کہ فاسق اور فاجر حکومت ہمیں مسلمان نہیں سمجھتی تھی اور اس کے مطابق ہمیں ہونا ہی نہیں چاہئے تھا.ہم نے کب کہا ہے کہ فاسق اور فاجر ہمیں مسلمان کہیں.ہمارا تو اعلان ہی یہی ہے..عشق خدا کی مے سے بھرا جام لائے ہیں ہم مصطفیٰ کے ہاتھ پر اسلام لائے ہیں تو مبارک ہو ان کو جنہیں فاسق اور فاجر حکومت نے مسلمان قرار دیا ہے.سبو اپنا اپنا ہے جام اپنا اپنا کئے جاؤ مے خوارو کام اپنا اپنا یہ عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب اکثر سنایا کرتے تھے.میں بھی کئی موقعہ پر سٹیج پر تھا.مرید کے کی کانفرنس میں میں موجود تھا.اپنا اپنا ہے جام اپنا اپنا کئے جاؤ مے خوارو کام اپنا اپنا خرابات میں مے کشو جا کے چن لو نبی اپنا اپنا امام امام اپنا اپنا تو اس فاجر اور فاسق حکومت کا جو امام ہے وہ ان نام نہا دختم نبوت فروش مولویوں کومبارک ہو.

Page 380

364 چٹان.جناب شورش کا شمیری صاحب اب آگے چلتے ہیں کہ شورش صاحب جو کہ ان کے سب سے بڑے محافظ ختم نبوت تھے.انہوں نے اس پر جو تبصرہ کیا.وہ سنانے کے لائق ہے.شورش کا شمیری صاحب نے اپنے رسالہ چٹان لاہور 10 تا 16 ستمبر 1974ء کے شمارے میں اس پر مستقل ادار یہ لکھا.اس کے دوسرے صفحہ پر اس ادار یہ میں انہوں نے عنوان یہ دیا تھا.” جیت گئے اسلام کے غازی یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا“ اس اداریہ کے آخر میں جناب شورش نے یہ تحریر فرمایا کہ آج تک بڑی بڑی حکومتوں نے کوشش کی مگر کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا.اور یہ سعادت جناب بھٹو کے حصہ میں آئی ہے.اور آگے انہوں نے لکھا کہ اب بھٹو صاحب کے لئے قیامت کے دن خاتم المرسلین کی شفاعت مقدر ہو چکی ہے اور مسلسل ان کے اقتدار کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہے.انہوں نے ختم نبوت کی پاسبانی کی ہے.حالانکہ یہ گستاخانہ لفظ ہیں.وہ گستاخ رسول ہے ، وہ خدا کا گستاخ ہے جو اپنے تئیں محافظ ختم نبوت کہتا ہے.یا بھٹو کو کہتا ہے.اس لئے کہ قرآن کہتا ہے.اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ( الحجر 10) الذكر سے مراد قرآن بھی اور قرآن مجسم حضرت محمد مصطفی علیہ بھی ہیں.فرمایا وہ جھوٹے اور کذاب اور دجال ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم محافظ ہیں خدا کے رسول کے.محمد رسول اللہ اور آپ کی ختم نبوت کا محافظ عرش کا خدا ہے.لیکن یہ گستاخی چل رہی ہے.کوئی بھی رجل رشید ہے جو ان گستاخوں کی زبانوں کو لگام دے سکے؟ خدا کہتا ہے کہ دیکھو الذکر یعنی آنحضرت ﷺ اور آپ کی نبوت اور ختم نبوت کا میں محافظ ہوں.یہ چودہ سو سال بعد میں آنے والے آج محافظ بنے.غور فرما ئیں کبھی کسی زمانے میں کسی مسلمان عالم نے ، آنحضرت ﷺ کے زمانے میں کسی صحابی نے اپنے تئیں محافظ ختم نبوت کہا ہو.یہ انتہائی ظالمانہ اور گستاخانہ لفظ ہے.میں سمجھتا ہوں خدا اور مصطفیٰ اور خاتم الانبیاء کا کوئی عاشق یہ لفظ سننا ہی گوارا نہیں کر سکتا.میں سمجھتا ہوں کہ ساری

Page 381

365 گستاخیاں جو کہ دوصدیوں سے مغرب کے مستشرق کر رہے ہیں.اور وہ گستاخیاں جو ہندوستان میں آریہ سماج نے کیں.وہ گستاخیاں جو بیسویں صدی کے بعد کیسویں صدی میں پوپ جیسے شخص نے کی ہیں.ان سب کو ملا دیا جائے تو اس کے مقابل پر سب سے بڑی گستاخی یہ ہے کہ مسلمان کہلانے والے مولوی یہ کہتے ہیں کہ عرش کا خدا نہیں ہم محافظ ہیں یا بھٹو صاحب محافظ ہیں.جن کا نام محافظ ختم نبوت رکھا گیا اور اشتہار دیئے گئے ، شائع کئے گئے.اور شورش صاحب نے لکھا کہ آپ نے ختم نبوت کا محافظ ہونے کا فخر حاصل کیا ہے.آپ کا اقتدار ہمیشہ کے لئے قائم ہو چکا ہے.یہ تاثرات تھے شورش صاحب کے.اخبار نوائے وقت آرٹیکل شائع کیا گیا.اخبار ” نوائے وقت“ جماعت اسلامی کے ڈھنڈور چی رپورٹر کے الفاظ میں یہ بہت قوی روزنامہ نوائے وقت" 6 اکتوبر 1974 ء میں آغا ز ان الفاظ سے ہوتا ہے.اسلامی تاریخ میں اس قدر پورے طور پر کسی اہم مسئلے پر کبھی اجماع امت نہیں ہوا.“ کی سرخی دی ہے.فرماتے ہیں:.دو قادیانی مسئلہ پر حکومت کے فیصلہ کے سلسلے میں چند حقائق کا 66 تذکرہ ناظرین کے لئے دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا.“ اجماع امت.اس فیصلے کی ایک خاص اہمیت یہ ہے کہ اس پر اجماع امت بالکل صحیح طور پر ہوا ہے.اسلام کی ساری تاریخ میں اس قدر پورے طور پر کسی اہم مسئلہ پر کبھی اجماع امت نہیں ہوا.“ حالانکہ اجماع صرف ایک بات پر ہوا اور وہ ہوا محمد عربی علیہ کے وصال کے بعد اور وہ صحابہ امت کا تھا اور وہ اجماع وفات مسیح پر ہوا تھا.لیکن اسلام اور اسلام کی تاریخ کے ساتھ ان کا کیا تعلق ہے؟

Page 382

366 فرماتے ہیں کہ ساری تاریخ میں....66 یعنی صحابہ نے بھی کوئی اجماع نہیں کیا.تابعین میں بھی کوئی پیدا نہیں ہوا.اگر اجماع ہوا تو بھٹو صاحب اور ان کے پرستاروں کی بدولت ہوا.کیونکہ اوپر حکومت کے فیصلہ کا تذکرہ ہے.علماء کی بات تو آگے آرہی ہے.کہتے ہیں کہ یہ سہرہ جو ہے اسلام کی پوری تاریخ میں صحابہ سے لے کر آج تک، یہ بھٹو حکومت کے سر چڑھا ہے.کتنے گستاخانہ الفاظ ہیں!! آگے فرماتے ہیں کہ اجماع امت میں ملک کے سب، بڑے سے بڑے علمائے دین اور حاملان شرع متین کے علاوہ تمام سیاسی لیڈر اور ہر گروپ کے سیاسی راہنما کماحقہ متفق ہوئے ہیں اور صوفیائے کرام اور عارفین باللہ برگزیدگان تصوف و طریقت کو بھی پورا پورا اتفاق ہوا ہے.“ یہ الفاظ میں پہلے سنا دیتا ہوں.پھر ایک دوامور کی طرف اشارہ کروں گا.قادیانی فرقہ کو چھوڑ کر جو بھی بہتر (۷۲) فرقے مسلمانوں کے بتائے جاتے ہیں.سب کے سب اس مسئلہ کے اس حل پر متفق اور خوش ہیں.زعمائے ملت اور عمائدین کا کوئی طبقہ نظر نہیں آتا جو اس فیصلہ پر خوشگوار رد عمل نہ رکھتا ہو.“ یہ تبصرہ کس کا ہے؟ نوائے وقت کے مقالہ نگار کا.کہتے ہیں کہ سوائے بھٹو صاحب کے اجماع امت کے صحابہ سے لے کر آج تک اجماع ہی کسی مسئلہ پر نہیں ہوا.اور اجماع کرنے والے مولوی تھے.میں بتا چکا ہوں جن میں سے کوئی مولوی کسی کو مسلمان نہیں سمجھتا.اب آپ بتائیں کہ آنحضور نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کو کافر کہتا ہے وہ خود کافر ہو گیا ہے.بلکہ فرمایا ہے:.مَنْ رَمَى مُؤْمِن بِكُفْرِفَهُوَ كَقَتْلِه (صحیح بخاری کتاب الايمان والنذور باب من حلف بملة سواملة الاسلام) جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو کفر کی طرف منسوب کرتا ہے وہ در اصل اس کا قاتل ہے.تو یہ قاتل تھے محمد عربی ﷺ کے کروڑوں عشاق کے.اور اس کی وجہ جو کہتے

Page 383

367 ہیں کہ علماء متفق ہیں.علماء وہ ہیں جو اصل میں میں بتا چکا ہوں.جو کسی کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے.بڑی بڑی بحثیں ہوئیں.اجتماع ہوئے.نماز کا وقت ہوا تو بریلوی الگ ہو گئے.مودودی الگ ہو گئے.دیو بندی بالکل الگ ہو گئے.تو مجھے بتائیں کہ وہ لوگ جو آنحضرت علی کے فتوے کے مطابق خود کا فر ہو گئے تو بہتر (۷۲) کا فرا گر ا کٹھے ہو جائیں تو وہ مسلمان اور مسلمانوں کے پیشوا بن جاتے ہیں اور وہ اجماع امت قرار پاتے ہیں.آخر کچھ تو خدا کا خوف کرنا چاہئے! دنیا اتنی اندھی نہیں ہے.بہتر (۷۲) قسم کے کافروں کا اجماع کفر کا اجماع ہوسکتا ہے، اسلام کا اجماع نہیں ہوسکتا.یہ کتنی واضح بات ہے.ماہنامہ طلوع اسلام ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: "طلوع اسلام کا کیا تبصرہ تھا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب : مدیر طلوع اسلام نے لکھا.اس مسئلہ کے متعلق حکومت نے کہا ہے کہ اسے عوام کے مطالبہ 66 کے مطابق حل کیا گیا ہے.یہ نہیں کہا گیا ہے کہ یہ اسلام کا تقاضا ہے.“ الطاف حسن قریشی صاحب (طلوع اسلام لا ہور نومبر 1974 ءصفحہ 6) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.الطاف حسن قریشی صاحب مدیر اردو ڈائجسٹ کا بھی آپ نے ذکر کرتا ہے.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.ہاں الطاف حسن صاحب قریشی نے بھی اردو ڈائجسٹ دسمبر 1975ء صفحہ 57 میں یہی بات لکھی کہ حیرت کی بات ہے کہ اتنے مراحل سے گذرنے کے بعد تمام قانون پاس ہوتے ہیں.بڑی پابندیاں ہوتی ہیں.اس واسطے کہ کروڑوں انسانوں کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے کسی قانون کے ساتھ.سب کمیٹیاں بنتی ہیں پھر ریزولوشن کو ڈکٹیٹ (Dictate) کرایا جاتا ہے.پھر اس کے بعد سب کمیٹیوں میں معاملہ جاتا ہے.کبھی کسی ایک لفظ پر بحث ہوتی ہے.کبھی دوسرے پر بحث ہوتی ہے.اور پھر اس کے بعد وہ قومی اسمبلی میں جاتا ہے پھر وہاں پر جا کر

Page 384

368 سب کمیٹیوں کے سامنے آتا ہے پھر ان کی رائے پیش ہوتی ہے.پھر سینٹ میں پیش کی جاتی ہے.لیکن یہاں چند منٹوں کے اندر اندر ہو گیا ہے.یہ انتہائی ظالمانہ بات ہے.تو یہ اس وقت ہی صدائے احتجاج انہوں نے بلند کی ہے.مجیب الرحمن شامی صاحب اور مولوی محمد یوسف بنوری صاحب ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : مجیب الرحمن شامی صاحب اور مولوی یوسف بنوری صاحب نے کیا تبصرہ کیا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.مجیب الرحمن شامی صاحب و محمد یوسف بنوری صاحب انہوں نے لکھا کہ حیرت کی بات ہے کہ یہ فیصلہ پندرہ منٹ کے اندراندر پاس کیا گیا.اور وہ سارے اصول اور دستور کے وہ مراحل جو کہ اسمبلی اور سینٹ کے لئے ہوتے تھے ان کو بالکل نظر انداز کر کے پندرہ منٹ کے اندر اندر یہ فیصلہ کیا گیا اور یہ بات صرف انہوں نے نہیں کی بلکہ یوسف بنوری صاحب نے بھی اپنے بیان میں کہی ہے.اور خود انہوں نے بتایا ہے.رسالہ ختم نبوت 23 تا 29اکتوبر 1995ء میں یہ شائع شدہ ہے.فرماتے ہیں کہ میں بھٹو صاحب کے پاس گیا.میں نے کہا “ اب آپ سنیں الفاظ.یہ تو آپ کو میں بتا چکا ہوں کہ یہاں تک ان لوگوں نے کہا جیسا کہ حنیف رامے صاحب کا بیان پاکستان ٹائمنز 125اکتوبر 1974ء میں موجود ہے کہ اگر بھٹو صاحب مرزائیوں کو کافر قرار دے دیں تو ہم اپنی داڑھیوں سے ان کے بوٹ کو صاف کرنے کو تیار ہیں.“ یعنی اب تحفظ ختم نبوت“ کا یہ آخری معرکہ بھی سرانجام دینے کے لئے تیار ہیں.اب دیکھیں ” حضرت شیخ الاسلام مولانا یوسف بنوری صاحب کے متعلق چنیوٹی صاحب نے اپنے کتا بچہ میں لکھا ہے کہ :.بھی قادیانیوں کے خلاف تحریک شروع نہیں ہوئی.“ یعنی ربوہ کا جو حادثہ تھا وہ ابھی ہماری طرف سے برپا نہیں ہوا تھا.تو یہ چند روز پہلے سعودی عرب گئے

Page 385

369 اور پھر وہاں سے کراچی گئے.اب آپ خود غور فرمائیں کہ ابھی سانحہ ربوہ نہیں ہوا.چنیوٹی صاحب کہتے ہیں کہ چند دن پہلے کی بات ہے کہ یہ صاحب ایک سوچی سمجھی سکیم کے مطابق سعودی عرب سے کراچی یہاں پہنچے ہیں.منظور چنیوٹی صاحب لکھتے ہیں." حضرت شیخ قدس سرہ کے ساتھ طویل تخلیہ کے بعد...دروازہ سے نکلتے ہوئے ہم خدام کی طرف دیکھ کر بہت زوروں میں فرمایا.بس لا کھ دولاکھ مروا دینے ہیں مگر اس دفعہ انشاء اللہ مسئلہ حل کروالینا ہے.“ 66 ( ” حضرت شیخ الحدیث کی دینی فکر ، صفحہ 33 ناشر ادارہ مرکز یہ دعوت ارشاد چنیوٹ ) اور اس کے تیسرے دن انہوں نے یہ قصہ سانحہ ربوہ کے نام سے شروع کر دیا.بہر حال بنوری صاحب نے جو فرمایا ، میں ان کے ہی الفاظ بیان کرتا ہوں :.وو میں نے کہا بھٹو صاحب خدا کی قسم اگر تم کافروں کے پریشر سے ڈرتے ہو تو اسلام کی عظمت محسوس نہیں کرتے ہو.اگر خدا پر آپ کا ایمان اور یقین ہے.اگر اللہ کے راضی کرنے کے لئے تم مسلمانوں کے اس مطالبے کو مانو تو خدا کی قسم کوئی طاقت تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی.اس وقت وہ اکیلا تھا.صرف میں ہی اس کے پاس تھا.علیحدہ ملاقات تھی.وہ کہنے لگا کہ مسئلہ پرانا ہے.اتنی جلد کیسے حل ہوگا.میں نے کہا کیسے حل نہیں ہوگا.ایمان کا مسئلہ ہے.آپ وقت کے وزیر اعظم ہیں.اکثریتی پارٹی کے لیڈر ہیں.منصب آپ کے پاس ہے.ایک حکم پارٹی کو دو.چلو اسمبلی پوری نہیں ہوتی ، آپ تو اکثریتی پارٹی کے لیڈر ہیں.اگر تم نے مان لیا تو اپنی پارٹی کو آزاد مت چھوڑو حکم دے دو کہ یہ کام کرو.( یہ خباثت باطنی کا جواظہار ہے وہ آپ ان الفاظ کو دیکھیں کہ حکم دے دو اپنی پارٹی کو کہ یہ کام کرو.) کام آج ہو جائے گا.ایک گھنٹے میں ہوسکتا ہے.یہ تو وہ شخص کہہ سکتا ہے جوا کثریتی پارٹی کا لیڈر نہ ہو.تم وزیر اعظم بھی ہو اوراکثریتی پارٹی کے لیڈر بھی ہو.سب دارو مدار تمہاری نیت پر ہے.پھر پندرہ منٹ میں یہ

Page 386

370 کام ہوا.(فرماتے ہیں پھر پندرہ منٹ میں یہ کام ہوا.) یعنی قومی اسمبلی نے پندرہ منٹ میں کام کر لیا.سینٹ نے پندرہ منٹ میں کام کر لیا.اور آخر کار بھٹو صاحب نہیں مانتے تھے.نہیں مانتے تھے.مجبور ہوکر پندرہ منٹ میں اس نے بھی کام کر دیا.خیال میں آیا کہ ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا کہ 6 ستمبر کو یہ تمام مراحل ایسی برق رفتاری سے طے ہو گئے کہ عقل حیران ہوگئی کہ کیا ہورہا ہے.“ ہفت روزہ ختم نبوت جلد 11 شماره 21 مورخہ 23 تا 29 اکتوبر 1992 ، صفحہ 25) یہ بیان تھا مولا نا یوسف بنوری صاحب کا.اراکین پیپلز پارٹی پیپلز پارٹی کا جور د عمل تھا.وہ بھی دیکھنے والا ہے.ایک طرف سے دیوبندی کہہ رہے تھے ہم اگر پریشر نہ ڈالتے تو بھٹو صاحب تو ماننے کے لئے تیار نہ تھے.اور دوسری طرف پیپلز پارٹی نے اگلے آنے والے انتخاب کے متعلق کہا کہ اب تو کامیابی ہماری قطعی اور یقینی ہے.مولانا کوثر نیازی سابق وفاقی وزیر یہی وجہ ہے کہ کوثر نیازی صاحب نے لکھا ہے کہ جب یہ فیصلہ ہو گیا اور پہلے دن ایک دو بیان مولویوں کے آگئے کہ مولویوں نے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا.اگلے دن پھر ساروں نے کہا کہ یہ تو ہماری وجہ سے اور شاہ فیصل کی وجہ سے ہوا ہے.اور اگر ہم اس وقت قربانیاں نہ دیتے تو بھٹو صاحب تو انکار کر بیٹھے تھے.( تفصیل ملاحظہ ہو.” اور لائن کٹ گئی صفحہ 15 ناشر جنگ پبلشرز ) سواد اعظم کی خواہشات کے مطابق فیصلہ کرنے کی وجہ؟ ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب جناب حنیف رامے صاحب نے علماء اور قائد طلباء کو اپنا عہد یاد دلاتے علماء نے بیانات دیے اور قائد طلباء نے اعلان کیا کہ اگر بھٹو نے قادیانی مسئلہ کا فیصلہ سواد اعظم کی خواہشات کے مطابق حل کر دیا تو پھر جو ہاتھ بھٹو کے اقتدار کی طرف بڑھے گا اسے ہم کاٹ دیں گے لیکن ان کی بات

Page 387

371 پوری ہونے کے باوجود وہ اب نئے نئے شوشے چھوڑ رہے ہیں اور اپنے عہد سے پھر رہے ہیں.مولانا شاہ احمد نورانی صاحب (نوائے وقت لاہور 14 ستمبر 1974ء) 7 ستمبر 1974ء قومی اسمبلی کے فیصلہ کا سہرا اوزیر اعظم بھٹو کے سر باندھنے والے علمائے دین کے متعلق شاہ احمد نورانی صاحب کہتے ہیں:.” دراصل یہ خوشامدیوں کا ٹولہ ہے جو اپنے مادی مفادات کی خاطر ہر دور میں چڑھتے سورج کی پوجا کرتا ہے.اس کی ساری سوچ اس لیے وقف ہوتی ہے کہ کب اور کس طرح انہیں کوئی موقع ملے اور یہ دُم ہلاتے ہوئے اور زبان چاہتے ہوئے خوش آمدید کے لیے پہنچ جاویں تا کہ سرکاری نظر کرم ہو جائے.“ (ترجمان اہلسنت کراچی نومبر 1974ءصفحہ 21) تو اب یہ دونوں سہرے باندھنے کی تیاری میں مصروف ہو گئے.ملاں کو اپنے مستقبل کا فکر تھا.اور بھٹو صاحب اس داؤ پر تھے کہ آئندہ الیکشن میں نے اس بنیاد پر جیتنا ہے.چنانچہ اس کے بعد پھر جو بھی پمفلٹ شائع ہوئے.بھٹو صاحب کی تقریر میں شائع ہوئیں یا جو بھی سرکلر جاری کئے گئے، جو بیانات سرکاری طور پر دیے گئے ، اس میں خاص طور پر یہ اہتمام کیا جاتا تھا کہ پیپلز پارٹی وہ پارٹی ہے جس نے کہ وہ نوے سالہ مسئلہ جو کسی سے حل نہیں ہوا تھا.ملاں سے بھی حل نہیں ہوتا تھا.نوے سال سے حل نہیں ہوتا تھا.ہم نے پندرہ منٹ میں حل کر کے دکھا دیا ہے.اب کون ہے جو ہمیں ووٹ نہ دے.لیکن پیپلز پارٹی نے اس سلسلہ میں جو کیا وہ بھی کمال تھا.اس کو دراصل کہتے ہیں جنگ زرگری.، اگر اردو کی لغات دیکھیں.اس میں ” جنگ زرگری‘ ایک لفظ آتا ہے.” جنگ زرگری‘ کیا چیز ہے؟ اس کا ایک تاریخی پس منظر بعض ادیبوں نے لکھا ہے.وہ بات یہ تھی کہ ایک زمانے میں بغداد میں دو فقیر ہوتے تھے.اب ظاہر ہے کہ بغداد سنیوں کا بھی مرکز ہے اور شیعہ

Page 388

372 حضرات کا بھی مرکز ہے.حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ بھی وہیں مدفون ہیں اور آئمہ اثنا عشریہ بھی.وہ بھی دراصل ہمارے ہی آئمہ ہیں.اہل بیت محمد.ہم تو ان کی خاک پا ہیں.تو یہ دو بھائی تھے.گداگری کرنے کے لئے انہوں نے یہ سسٹم تجویز کیا کہ ایک بھائی پل کے ایک طرف بیٹھ جاتا اور حضرت ابوبکر صدیق کے نام پر مانگتا.سنی اس کو پیسے دیتے.دوسرا بھائی حضرت علیؓ اور حضرت حسین کے نام پر مانگتا تو شیعہ پیسے دے جاتے.اس طرح دونوں کو بہت رقم جمع ہو جاتی.رات جب اکٹھے ہو جاتے تو آدھا آدھا کر لیتے تھے.یہ جنگ زرگری کہلاتی ہے ہم نے اس جنگ زرگری کو دیکھا ہے.وہ تو بغداد کا زمانہ صدیوں پہلے کا ہے، ہم نے 1974ء میں خود اس جنگ زرگری کو دیکھا ہے.اب اس جنگ زرگری میں علماء نے کہا کہ یہ تو ہماری وجہ سے ہوا ہے.ہم تھے جنہوں نے زور ڈالا اور اس وقت بھٹو صاحب نے گھٹنے ٹیک دیئے.اور پھر شاہ فیصل صاحب کی وجہ سے یہ سارا کام ہوا ہے.اور پیپلز پارٹی والے کہہ رہے تھے کہ ہم ہیں دراصل.ہماری وجہ سے یہ کام ہوا ہے.اس پر یہاں تک ہوا کہ پیپلز پارٹی نے بڑے بڑے قد آدم پوسٹر ز شائع کئے.یہ ایک پوسٹر ہے.اس میں ستمبر 1974ء کے کاموں میں ہی لکھا ہے کہ وزیر اعظم بھٹو نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ملک بھر وو سے داد تحسین حاصل کی.66 جناب خورشید حسن میر ڈپٹی سیکرٹری پیپلز پارٹی مشرق نے رپورٹر کے حوالہ سے لکھا ہے:.”مسٹر خورشید حسن میر نے کہا کہ جولوگ ذاتی مفاد کی خاطر مذہب کا ناجائز استعمال کر کے فتوے صادر کیا کرتے تھے ہماری جماعت نے شروع میں انہیں شکست دے دی تھی.اب چار سال بعد مذہب کا غلط استعمال کرنے والے وہی لوگ پھر باہر نکل آئے ہیں.“ قادیانی مسئلہ کا ذکر کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے کہا کہ

Page 389

373 اس مرتبہ استحصال پسندوں اور ان کے حواریوں نے منصوبہ بنایا کہ مذہب کے نام پر اپنے مفادات حاصل کریں.حقیقت میں یہ لوگ خود ہی ختم نبوت کے پر سنجیدہ اور مخلص نہیں ورنہ جنرل اعظم خاں کے مارشل لاء کے دور میں راتوں رات زیرزمین نہ چلے جاتے اور میدان میں رہتے." صوبائی وزیر پارلیمانی امور سردار صغیر احمد صاحب (مشرقی 12 اگست 1974ء) پیپلز پارٹی نے ختم نبوت کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل کیا ہے.اس مسئلہ کا حل سانحہ کربلا اور سب سے بڑا اسلامی تاریخی واقعہ ہے قادیانی مسئلہ حل کر کے وزیر اعظم بھٹو نے اپوزیشن لیڈروں کی سیاست ختم کر دی ہے.“ پیپلز پارٹی ساہیوال امروز لاہور 17 نومبر 1974ء) اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے محمد علی اختر صاحب حویلی.ساہیوال نے انجمن اتحاد المسلمین کی طرف سے یہ پمفلٹ شائع کیا اور اس میں سنئے :.قومی اسمبلی کا عظیم تاریخی فیصلہ اب اس پر جو ٹوٹے پھوٹے شعر کہے.وہ سنیں کہ جنگ زرگری میں پیپلز پارٹی نے جو ڈھول بجایا تھا، وہ کیا تھا..رسول پاک کو خاتم جو نہ مانے، کافر قادیانی نبی کو جو ہے مانے، کافر ملت کا مسیحا ذوالفقار علی بھٹو اب بھی اسے قائد جو نہ مانے، کافر اس کے علاوہ مولویوں نے ، جو بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی کے ہاتھ پر بکے ہوئے تھے اور یہ بہت سارے تھے.مولوی عنایت اللہ یہ جو مشہور اہل سنت و الجماعت کے لیڈر گزرے ہیں.بڑے

Page 390

374 مناظرے ان کے شیفیلڈ برطانیہ میں خالد محمود صاحب سے بھی ہوئے.میرے پاس وہ اصل مناظرہ بھی موجود ہے.ان کی وہاں اپنی مسجد تھی.یہ وہاں پر اذان دیا کرتے تھے.اور اذان کے آخر میں یہ ضرور کہتے.اسی یارسول اللہ کیا ہے.تسی اس طرح ہی سڑدے رینا اے.یہ واقعہ میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں ایک دفعہ رات کے وقت جب ہم جلسے کے دنوں میں حضور کی خدمت میں جاتے تھے، حضرت مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب اور شیخ محبوب عالم صاحب خالد.تو اس موقعہ پر میں نے یہ سنایا.خالد صاحب موجود نہیں تھے.مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب موجود تھے.تو انہوں نے جن دنوں 1970ء میں انتخاب ہو رہا تھا، پیپلز پارٹی کے سٹیج پر تقریر کی.یہ مجھے ہمارے ملک منور احمد صاحب جاوید جو اس وقت لاہور کے قائد تھے، نے بتایا تھا.کہنے لگے کہ رات انہوں نے عجیب لطیفہ کیا.تقریر پیپلز پارٹی کے حق میں کی ، جماعت اسلامی کے خلاف کی.آخر میں چٹیں آنی شروع ہو گئیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم در پردہ مرزائی ہو.انہوں نے کہا کہ مرزا صاحب اور مرزائیوں کو کیا سمجھتے ہو.کہنے لگے مجھے پتہ ہے کہ یہ چٹھیاں آ رہی ہیں.جماعت اسلامی کے ملک غلام علی صاحب اور مودودی صاحب سے جو وابستہ ہیں.یہ ان کی طرف سے آرہی ہیں.اچھا اب میں بتاؤں اپنا عقیدہ؟ کہنے لگے سنو! مرزائی دائرہ اسلام سے خارج ہیں لیکن اللہ کی قسم قیامت کے دن مرزائی بخشے جائیں گے.مودودی پھر بھی نہیں بخشا جائے گا.تو کچھ بکے ہوئے بھی تھے اور ان کا انداز ویسا تھا جیسے میں نے آپ کو اس کا نمونہ بتایا ہے.تو انہوں نے اس قسم کی نغمہ سرائی بھی کی ہے.اس سے بڑھ کر ایک مولوی صاحب نے یہ کمال کیا کہ ایک قصیدہ خود بنایا اور شاہ نعمت اللہ ولی صاحب کی طرف منسوب کر کے شائع کیا.یہ میرے پاس موجود ہے.اور اب پھر دوبارہ شائع کیا ہے.(ملاحظہ ہو.” آٹھ سو سالہ پیش گوئی مؤلف ایچ ایم سرور نظامی ناشر میاں علی حسن جالندھری منٹگمری بازار مین کارخانه بازارگلی نمبر 3 لائل پور ) اور اس میں شعر خود بنالیا اور اوپر لکھا شعر شاہ نعمت اللہ ، اس شعر میں شاہ غربی، شیخ غربستان یا فاتح ہند کا ذکر آتا ہے اور اس کے پھر خود ہی معنی کئے کہاس سے مراد در اصل

Page 391

375 ذوالفقارعلی بھٹو ہے اور پھر اشتہار دیا ایک اور مصرعہ بنا کر کہ ایک شخص ہوگا جس کا نام ذال سے شروع ہوگا اور وہ اسلام کی بہت بڑی خدمت کرے گا.یہ قد آدم پوسٹر کراچی میں شائع کئے گئے.یہ فیصل آباد میں تقسیم کئے گئے.بیرونی دنیا کے تبصرے بیرونی ملکوں میں سعودی عرب کی حکومت اور ” الاتحاد اور امارات متحدہ اور دوسروں نے اس کی اشاعت کی کیونکہ سب ملے ہوئے تھے.انہی کی شہہ پر سب کچھ ہوا جس طرح کہ چنیوٹی صاحب نے اعلان کیا.آپ حیران ہوں گے کہ دنیائے عرب کی صحافت نے کس طرح خراج تحسین ادا کیا.شاہ فیصل کو نہیں بلکہ بھٹو صاحب کو.الاتحاد 11 دسمبر 1973ء کا یہ شمارہ ہے.بھٹو صاحب کی ایک شاندار تصویر شائع کی ہے.اور یہ پورے ایک صفحہ کا آرٹیکل ہے اور اس کے ایک کارنر میں نوٹ میں دیا ہے:.القادم الينا اليوم زعيم من الزعماء الذين يبعث الله بهم الى الامم عندما تشتد تتكاثف ظلمات اليأس وذو الفقار على بوتو واحد من هولاء الرجال العظام القلائل في التاريخ امة کہتے ہیں کہ اس وقت وہ شخص جو عظیم ہے اور امتوں میں مشکلات اور مایوسی کی ظلمتوں میں ظاہر ہوتے ہیں اور خدا جن کو مبعوث کرتا ہے.یبعث الله خدا ان کو مبعوث کرتا ہے ان میں سے ایک بڑی شخصیت موجودہ امت محمدیہ میں ذوالفقار علی صاحب بھٹو کی ہے.یہ تاثرات تھے ” الاتحاد کے جو دنیائے اسلام کا ترجمان ہے.دیگر مسلم رہنما لیکن دوسرے مسلمانوں کا اب میں آپ کو بتاؤں.یہ لولاک 28 دسمبر 1975ء میں شائع شدہ ہے.لکھا ہے کہ نبی آئی لینڈ سے ماہنامہ ” پیام حق کا ایک شمارہ ہمیں ملا ہے جس میں یہ

Page 392

376 تبصرہ کیا گیا ہے کہ سات ستمبر 1974ء کو پاکستانی حکومت نے مظلوم اور کمزور مسلمانوں ( قادیانیوں) کو کافر قرار دے کر پاکستان سے کلمہ طیبہ اور اسلام کا جنازہ نکال دیا ہے.“ وزیر اعلی مقبوضہ کشمیر جناب میر قاسم صاحب انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ جناب میر قاسم صاحب کے متعلق روز نامہ امروز لا ہور لکھتا ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان نے قرآن اور حدیث پر یقین رکھنے والوں کو اسلام کے دارے سے خارج کر دیا ہے.“ برطانوی پریس (امروز 11 ستمبر 1974 ، صفحہ 6) برطانوی پر لیس نے اس موقعہ پر جو کہا اور جس کو کہ یہاں پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی شائع کیا گیا.برطانوی پریس نے اس موقع پر جو مینٹس کئے ، یہ ذرا سوچنے والے ہیں.برطانوی پریس نے اس موقع پر لکھا ہے.اس پیپلز پارٹی کا جو اشتہار ہے.اس میں 9 ستمبر 1974ء کو برطانوی اخبارات نے یعنی عیسائی دنیا نے قادیانیوں کے متعلق فیصلے کو سراہا ہے اور لکھا ہے کہ " شاباش قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو خانہ جنگی سے بچالیا ہے.“ تو کس نے خراج تحسین ادا کیا ؟ عیسائی دنیا نے.یہ ایک جھلک تھی جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا.عوام الناس کے تبصرے حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.یہ تو ا کا بر پریس کے حوالے سے آپ نے بیان فرمایا کہ ان کے

Page 393

377 کیا تبصرے تھے.عوام الناس کے کوئی کمنٹس اس حوالے سے بیان فرمائیں ؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.عوام الناس کے مینٹس (Comments) میں سے ایک دلچسپ بات تو یہ ہے جو مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال اول نے مجھے بتائی تھی پھر انہوں نے تحریر بھی دی اور وہ تحریر 1974 ء کے مسودے میں شامل ہے.انہوں نے بتایا تھا.نالہ ڈیک سیالکوٹ کے قریب ایک مجذوب بیٹھے ہوئے تھے.فیصلے کے دوسرے دن ایک احمدی وہاں سے گذرا اور ان سے یہ بات کہی کہ تم احمدی ہو.کہنے لگے جی ہاں.میرا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے.کہنے لگے مبارک ہو.گند سے بچ گئے ہو تم.ان مولویوں کو میں خود سنبھال لوں گا.یہ بات اس مجذوب نے کہی.پھر مکرم چوہدری عبدالحق صاحب ورک جو اسلام آباد کے امیر تھے، انہوں نے مجھے سنایا.کہنے لگے کہ میرے بھائی ابھی تک غیر احمدی ہیں.مگر ان کا محبت کا تعلق بہت ہی بے مثال ہے.واقعہ یہ ہوا کہ جس وقت اناؤنسمنٹ ہوئی تو جماعت اسلامی کے ایک رکن، اور جماعت اسلامی کا جب لفظ آئے تو فوراً آپ کو چاہئے کہ آپ مودودی صاحب کی کتاب ”مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش کا تیسرا حصہ دیکھیں.اس میں لکھا ہے کہ مسلمان چڑیا گھر کے جانوروں کی طرح ہیں اور یہ لوگ ہر چیز کو جو کافرانہ ہے اسلامی کا لفظ لگا کے پیش کرتے ہیں اپنے کاروبار کو چلانے کے لئے اور کہتے ہیں کہ یہ اسلامی شرابخانہ ہے.یہ اسلامی شراب ہے.اسلامی سود ہے.( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش“ حصہ سوم صفحه 25 بار سوم ناشر دفتر تر جمان القرآن دار الاسلام جمال پور متصل پٹھانکوٹ ) تو جماعت اسلامی نے اس سے فائدہ اٹھایا.آخر وہ بھی مسلمان ہیں اس کو بھی تو فائدہ اٹھانا چاہئے.اسلامی کے لفظ سے.بہر حال کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے ایک رکن ہمارے بھائیوں کے پاس آئے.غالباً بہاولنگر کی بات ہے.یا بہر حال اسی علاقے کی بات انہوں نے بتائی تھی.کہنے لگے ہمارے گھر جو آئے تو ہمارے بھائیوں سے کہنے لگے جی آج رات انا ونسمنٹ ہوگئی ہے کہ مرزائی دائرہ اسلام سے خارج قرار پائے ہیں.بھٹو صاحب نے فیصلہ کر دیا ہے.اجماع امت ہو گئی ہے.کہنے لگے جی پھر کیا کیا جائے.کہنے لگے بس.اب یہ مرزائی کا فر ہو گئے ہیں.ان کی کوئی چیز مشترک نہیں ہونی چاہئے.اگر کوئی جائیداد مشترک ہے تو اس سے الگ ہو جاؤ.کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے.کھانے پینے میں نہ

Page 394

378 معاملات میں نہ جائیدادوں میں.کہنے لگے جی باقی چیزیں اور جائیدادیں تو پہلے ہی ہم تقسیم کر.ہیں.اب صرف بھینسیں رہ گئی ہیں.کہنے لگے جی ان کو علیحدہ کیا جائے.ان منکرین ختم نبوت اور گستاخان ختم نبوت کی بھینس بھی تمہارے پاس نہیں ہونی چاہئے.الگ کرو.کہنے لگے جی کہ یہ کام تو پھر آپ ہی کر سکتے ہیں.صاحب بصیرت ہیں آپ.اور شمع ختم نبوت“ کے پروانے ہیں.آپ ہر بھینس سے پوچھ لیں جو ختم نبوت کو مانتی ہو وہ ہمیں دے دی جائے اور جو نہیں مانتی وہ ان کے حوالے کر دی جائے.اس کے علاوہ حضرت مرزا مبارک احمد صاحب نے مجھے یہ بات بتائی.حضرت مرزا مبارک احمد صاحب نے فرمایا کہ ان کے نانا کے خاندان یعنی خلیفہ حمید الدین اور حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب کے خاندان کے جو غیر از جماعت بعض بزرگ کراچی میں مقیم تھے.کہنے لگے کہ میں ان کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا.انہوں نے بتایا کہ دلچسپ بات ہوئی ہے.ایک مولوی صاحب نے آکر کہا کہ آپ نے سنا ہے خلیفہ صاحب؟ مرزائیوں کو تو گورنمنٹ نے غیر مسلم قرار دے دیا ہے.کہنے لگے آپ کا تو کوئی تعلق مرزائیوں کے ساتھ نہیں ہے.آپ کو فکر کرنی چاہئے اگر آپ کا تعلق ہے.کہنے لگے مرزائی نمازیں پڑھتے ہیں مجھے کبھی دیکھا ہے نماز پڑھتے ہوئے ؟ میں شراب پیتا ہوں.کوئی مرزائی ایسا ہے جو شراب پیتا ہو؟ میں مرزائی کیسے ہو سکتا ہوں.کہنے لگے جی الحمد للہ خدا کا شکر ہے مرزائیت کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے.کراچی کے ایک احمدی ملے جب میں پہلی دفعہ گیا ہوں اس فیصلے کے بعد میں نے تمام واقعات اس وقت ان کے سامنے بیان کئے تھے.اس وقت حضرت چوہدری احمد مختار صاحب بھی تشریف فرما تھے اور اسی طرح جماعت کے جو بزرگ تھے اور مخلص نوجوانوں ، خدا کے شیر، ان کی مجلس تھی.تو میں نے وہ ساری باتیں بتائیں اور میں نے پہلے اشارہ بھی کیا ہے کہ قطعا ہم پر کوئی پابندی نہیں تھی کہ ہم بیان نہ کریں.میں بیان کرتا تھا اور حضور کو بتا تا تھا.اتنی بات ہے کہ میں نے اکثر اپنی الله رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ 1974ء کا دارالندوہ ہے.وہ تو قریش کا تھا رسول پاک ﷺ کے زمانے میں.622ء میں اور یہ دارالندوہ اس زمانے کا ہے تو وہ میں نے ساری مفصل کا رروائی دارالندوہ کی بیان کر دی ہے.تو آخر میں کراچی کے ہمارے ایک احمدی بزرگ کہنے لگے کہ یہاں ایک دلچسپ

Page 395

379 لطیفہ ہوا ہے.میرے ایک غیر از جماعت دوست کہنے لگے کہ اور نمازیں پڑھ لو.اور تہجد پڑھ لو.دیکھانا ہم نے نمازیں پڑھیں نہ اب پڑھتے ہیں.تہجد کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.روزے ہم نے کبھی رکھے نہیں.کلمہ ہم جانتے نہیں.اللہ کا شکر ہے کہ ہم مسلمانوں کے دائرے میں رہ گئے ہیں.میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ اتنی نمازیں نہ پڑھو اور نہ تہجد کی طرف جاؤ.یہ ساری خرابی اسی وجہ سے پیدا ہوئی ہے.قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ غلط ہوا ہے یوم تشکر کے موقع پر مولوی ظفر احمد انصاری ممبر قومی اسمبلی کے اسلام آباد یو نیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کی رپورٹ نوائے وقت نے دی ہے کہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ قادیانیوں سے اب کسی قسم کا جارحانہ تعرض نہیں کرنا چاہیے تا کہ ملک میں امن برقرار ر ہے لیکن بعض سامعین ان سے بھی الگ سوچ رہے تھے وہ یہ کہہ رہے تھے کہ قادیانی تو صرف ختم نبوت کے منکر تھے.پاکستان میں بھی ابھی ایسے لوگ خاص مقامات اور اونچی کرسیوں پر متمکن ہیں جو سرے سے نبوت اور خدا کے ہی منکر ہیں.یہ ملک و ملت کی تخریب کاری میں اس آزادی سے مصروف ہیں کہ ان کا ہاتھ پکڑنے والا ہی کوئی نہیں.یہاں تک کہ یہ اب بھی کھلے بندوں کہہ رہے ہیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ غلط ہوا ہے.“ 7 ستمبر 1974ء کے فیصلہ پر بے لاگ تبصرہ 66 (نوائے وقت لاہور 19 ستمبر 1974ء) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : - مولانا صاحب ! 7 ستمبر 1974ء کو جماعت احمدیہ کے حوالے سے پاکستان کی قومی اسمبلی میں جو قرار داد پیش کی گئی اور جو فیصلہ ہوا اس کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟ آئین 1973ء میں حلف ناموں اور قرارداد کے الفاظ کا تجزیہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ انتہائی بنیادی سوال ہے جو خدا کے فضل سے اور اس کے

Page 396

380 راہنمائی سے آپ اس وقت کر رہے ہیں اور میں ممنون احسان ہوں اس بارے میں آپ کا.بات یہ ہے کہ 1973ء میں جو قانون آئین پاکستان کا پاس ہوا اس کے آخر میں وزیر اعظم اور صدر کے لئے ایک حلف نامہ تیار ہوا جس میں ختم نبوت کے الفاظ تھے اور وہی الفاظ پھر دوبارہ 1974ء میں پیش کئے گئے.اس حلف نامہ کی شکل میں تو وہ الفاظ دراصل پرویزی مسلک رکھنے والے وزیر مملکت ملک جعفر خان صاحب کے تجویز کردہ تھے.انہی کو دوبارہ اس میں شامل کیا گیا اور یہ انہی کے الفاظ تھے.اور اس کا ڈاکومنٹری پروف یہ ہے کہ اپنی کتاب ”احمدیہ تحریک میں انہوں نے اس عقیدہ کو واضح کیا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ و جس ختم نبوت کے عقیدہ سے انکار کی بناء پر علماء جماعت احمدیہ کو اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں، اس کی روشنی میں یہ علماء اپنی پوزیشن پر کیوں غور نہیں کرتے ؟ اگر ختم نبوت سے یہ مراد ہے کہ محمد رسول اللہ صلعم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ( اور ہمارے نزدیک یہی مراد ہے ) تو جماعت احمدیہ اور غیر احمدی علماء جونزول مسیح پر ایمان رکھتے ہیں ، دونوں ہی ختم نبوت کے منکر ہیں.مسیح ابن مریم کے نبی ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور اگر ان کو رسول کریم کے بعد آنا ہے تو نبی کریم خاتم النبین نہیں ہو سکتے.احمدیوں کے نزدیک مسیح ابن مریم کو نہیں آنا بلکہ ان کے مثیل کو آنا تھا جو مرزا صاحب کی ذات میں آگیا....اس طرح بنیادی لحاظ سے ان دونوں فریقوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے.صرف اتنا فرق ہے کہ ایک فریق ایک نبی کے آنے کا منتظر ہے اور دوسرے کا خیال ہے کہ یہ نبی آچکا ہے.ایک منکر ختم نبوت بالقوہ ہے اور دوسرا بالفعل.“ احمد یہ تحریک از ملک محمد جعفر خان صفحه 129-130 ناشر سندھ ساگرا کا دمی چوک مینارا نارکی.لاہور ) تو یہ عقیدہ تھا جو نئیس سال پہلے ملک جعفر صاحب اپنی کتاب ”احمدیہ تحریک“ میں شائع کر چکے تھے.اب بالکل وہی چیز اس میں موجود ہے.پہلی بات اس سلسلہ میں یہ ہے.الفاظ اس کے یہ ہیں کہ ہر وہ شخص جو آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت پر غیر مشروط طور پر ایمان نہیں لاتا.یعنی غیر مشروط آخری نبی نہیں تسلیم کرتا یا وہ کسی قسم کی نبوت کا دعوی کرتا ہے یا ایسے دعوی کرنے والے کو نبی ،

Page 397

381 محدث یا مصلح قرار دیتا ہے."They are not Muslims for the purposes of the Constitution and Law." This was the wording of the resolution that was passed in parliment of Pakistan in 1974.پہلا سوال تو یہ ہے کہ For the purposes of the Constitution and Law یہ الفاظ کیوں لکھے گئے ہیں.قانون کو قانون دان ہی سمجھ سکتے ہیں.دوسرا شخص جو بھی معنی پہنائے گا وہ دراصل اس قانون سے بغاوت کے مترادف ہے.For the Purposes of the Contitution یٹر مینالوجی (Terminology) دنیا کے تمام کانسٹی ٹیوشنز میں پائی جاتی ہے.خود اسلامی جمہوریہ پاکستان کا جو دستور اس وقت میرے سامنے ہے 5 مارچ 1987ء یعنی ضیاء الحق تک کے زمانے کے بھی جو آرڈینینس تھے وہ سارے اس میں منتقل ہوئے ہیں.اس میں دو جگہ پر For the purposes of the Constitution and Law کے الفاظ موجود ہیں.ایک جگہ لکھا ہے کہ ” ہم قانون کی اغراض سے، قانون جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا 66 ہے، اس کے مطابق انگریزی کیلنڈر کو تسلیم کریں گے.“ قانونی اغراض کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں ہم ہجری کیلنڈر کی بجائے انگریزی کیلنڈر یعنی گریگورین کیلنڈر کو قرار دیتے ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان حضرت عمرؓ کے زمانے سے جاری ہجری کیلنڈر سے انکار کرتا ہے.اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہجری کیلنڈر اپنی جگہ پر ہے.اس کو کوئی مسلمان فراموش نہیں کر سکتا.سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.مگر ہم قانون

Page 398

382 کی اغراض کے لئے ، بین الاقوامی تعلقات کے لحاظ سے، انٹرنیشنل ٹریڈ کے لحاظ سے، ڈپلومیٹک معاملات کے لحاظ سے، قانون کے فیصلوں کے لحاظ سے سیشن کورٹس، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ یہ اپنی Judgment میں جب مہینوں کا ذکر کریں گے یا سالوں کی نشاندہی کریں گے تو اس سے مراد ہجری کیلنڈر کے سال اور مہینے نہیں ہوں گے.اس سے مراد کون سے مہینے ہوں گے؟ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: سن عیسوی مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.سن عیسوی ہوگا تو یہ ہے.For the purposes of the Constitution and Law دوسری جگہ پر لکھا ہے کہ قانونی اغراض کے لئے سرکاری زبان انگریزی ہوگی.“ اب کیا مطلب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں عربی زبان کو ختم کر دیا گیا حالانکہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ عربی زبان خدا کی زبان ہے.محمد مصطفیٰ کی زبان ہے اور جنت کی زبان ہے.یہ معنی ہیں For the purposes of the Constitution کے؟ اس کی روشنی میں سورج کی طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بھٹو صاحب نے جو فیصلہ کیا اور خود انہوں نے اس فیصلے کو پیش کرتے ہوئے جو بات کی.وہ ساری تفصیل اخباروں میں چھپی ہوئی موجود ہے.وزیر اعظم بھٹو صاحب نے ہاؤس کے لیڈر کی حیثیت سے Preamble کے طور پر اس کا تعارف کراتے ہوئے یہ بات کہی کہ اس فیصلہ کا کریڈٹ ہمیں جاتا ہے اور نہ کسی اور کو جاتا ہے.عوام کو جانا چاہئے.کیونکہ یہ فیصلہ ہم نے عوام کی امنگوں کے مطابق کیا ہے.یہ نہیں کہا کہ قرآن وحدیث کے مطابق کیا ہے.عوام کہتے تھے کہ یہ فیصلہ کیا جائے ہم نے کر دیا ہے.آگے کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ جمہوری فیصلہ ہے.جمہور نے کیا ہے.مذہبی فیصلہ صرف اس وجہ سے ہے کہ جمہور کی اکثریت مسلمان کہلاتی ہے.ان معنوں میں یہ اسلامی فیصلہ ہے.( پوری تقریر ملاحظہ ہو ) The Pakistan Times Lahore September 9, 1974 page 7 نیز قادیانیت کا سیلاب اور ہماری حکمت عملی از اسراروڑائچ ناشر پائر اصفحہ 173-181)

Page 399

383 جمہور مسلمان کیسے ہیں؟ مسلمان ان کی نگاہ میں سرا قبال صاحب ہیں اور سرا قبال صاحب جمہور کے متعلق کیا فرماتے ہیں..شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟ یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو سبھی کچھ ہو بتاؤ کہ مسلمان بھی ہو تو عوامی فیصلہ ہوا ہے.ان عوام کا فیصلہ جو مسلمان ہی نہیں ہے.For the Purposes Of the Constitution کا پہلو لیکن اب میں آگے لے چلتا ہوں آپ کو.ہم Climax پہ پہنچ گئے ہیں اس کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے.میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ الفاظ کسی سنی وزیر کے نہیں ہیں.شیعہ کے نہیں ہیں جو کہ امام غائب کے آنے کے قائل ہیں اور امام کو رسول سمجھتے ہیں، رسولوں سے افضل سمجھتے ہیں.یہ Wording کس شخص کی ہے؟ پرویزی خیال رکھنے والے ملک جعفر خان کی اور اس کا عقیدہ ہے کہ جو آنحضرت کے بعد کسی قسم کے نبی آنے کا بھی قائل ہو، غیر مشروط طور پر تسلیم نہیں کرتا کہ آنحضرت کے بعد ہر قسم کے نبی پرانے اور جدید اور ظلی بروزی یہ ختم ہو گئے ہیں.وہ مسلمان نہیں ہے.پہلے نمبر پر تو وہ Category آتی ہے.اور اس میں تمام مسلمان بشمول جماعت احمدیہ کے شامل ہیں.اس واسطے کہ شیعہ حضرات امام غائب کے قائل ہیں.اور امام کو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نبیوں سے بھی افضل ہوتے ہیں.اور تمام دیو بندی اور بریلوی جن میں جماعت اسلامی بھی شامل، جن میں طاہر القادری کے پرستار بھی شامل، جن میں ڈاکٹر اسرار صاحب کے عقیدت مند بھی شامل.تمام کے تمام حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کے قائل ہیں جو پرانے نبی تھے.تو یہ Clause کا پہلا حصہ تمام سنیوں، تمام شیعوں ، تمام مودودیوں ، تمام اسراریوں ، تمام طاہر القادر یوں کو نان مسلم قرار دیتا ہے.آگے لکھا ہے کہ

Page 400

384 یا آنحضرت کے بعد کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے.“ اور اس سے مراد کون ہے.؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اس Clause کے پہلے حصہ میں سوائے پرویزیوں کے بشمول جماعت احمدیہ کے شیعہ، سنی، اہلحدیث سارے کے سارے دائرہ اسلام سے خارج ہیں.For the Purpose of the Constitution and Law دوسرے نمبر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف اشارہ ہوا کہ کسی قسم کی نبوت کا دعوی کرے.حضرت مسیح موعود کا دعوی ہے کہ ظلی نبی ہوں.اصل نبوت تو محمد رسول اللہ کی ہے اور فرماتے ہیں کہ جس طرح آفتاب کے سامنے جب شیشہ کیا جاتا ہے تو اس میں جو تصویر نظر آتی ہے اس کو بھی آپ آفتاب کہیں گے یا نہیں کہیں گے؟ مگر اصل آفتاب کون ہے جو آسمان پر طلوع کر رہا ہے تو میں تو ظل ہوں.میں نے اپنے دل کے آئینے کو ایسا صاف کیا ہے کہ محمد رسول اللہ کا سورج اس میں چمک رہا ہے.یہ معنی ہیں ظلی نبوت کے.تو کہتے ہیں کہ جو شخص کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے وہ بھی نان مسلم ہے.اس سے مراد بانی جماعت احمد یہ ہیں.تیسرا یہ ہے کہ جو ایسے شخص کو نبی قرار دے اس سے مراد جماعت احمدیہ ہے.اور یا مصلح قرار دے اس سے پیغامی مراد ہیں.اب اگر تو اس قرار داد کا مطلب ہے اور For the purpose of constitution کا مطلب یہی ہے جیسا کہ ملاں نے بھی بعد میں یہی لیا اور بظاہر بھٹو صاحب نے ڈپلومیٹک ( Diplomatic) طریق اختیار کر کے قرار داد کو پیش کرتے ہوئے اس کو صرف ان معنوں میں اسلامی قرار دیا کہ میجارٹی (Majority) عوام کی مسلمان کہلاتی ہے.یہ نہیں کہا کہ دراصل مسلمان ہے.اقبال کی نگاہ میں تو پہلے بھی کبھی مسلمان ہوئے تھے یا نہیں ہوئے تھے.اب اگر اس کے معنی یہ تھے For the purpose of constitution کہ وہ اسلام کے دائرہ سے خارج ہو گئے ہیں تو واضح بات ہے پھر تو سارے ہی اسلام سے خارج ہیں.سوائے پرویزی صاحبان کے.ہاں پر ویزیوں کے علاوہ بابی اور بہائی بھی مسلمان قرار پاتے ہیں.اس لئے کہ بہائیوں کا یہ عقیدہ ہے.یہ غور سے سننے والی بات ہے.وہ کہتے ہیں کہ دراصل ہم ہیں جو آخری نبی مانتے ہیں محمد رسول اللہ کو اور اس کا ثبوت مولویوں کے عقیدہ پر رکھتے ہیں.

Page 401

385 تمام معاندین احمدیت کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول وہ ہوتا ہے جو کہ شریعت لے کر آئے مگر نبی کے لئے شریعت کا لانا ضروری نہیں.اس لئے وہ کہتے ہیں کہ شریعت لانے والے رسول جو تھے وہ چار تھے.باقی وہ تھے جو کہ نبی تھے اور نبی وہ ہوتے ہیں جو کہ پہلی شریعت کو قائم کرنے والے ہوتے ہیں.یہ فرق ہے ان کی نگاہ میں نبی کا اور رسول کا.اس پر بنیاد رکھتے ہیں یہ تمام نام نہاد ( Socalled ) محافظین ختم نبوت کی.یہ ان کا عقیدہ ہے.بابی دنیا اور امر بہائی کے علمبردار ڈنکے کی چوٹ مولویوں سے کہتے ہیں کہ تم تو عیسی کو آخری نبی مانتے ہو کیونکہ ان کے بعد نہ کوئی نیا نبی آئے گا نہ کوئی پرانا آئے گا.محفوظ الحق علمی کی کتا ہیں آپ پڑھیں.اس میں کھلے لفظوں میں ، ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا گیا ہے اور آج تک کسی ملاں کو اس کا جواب دینے کی توفیق نہیں ملی.وہ کہتے ہیں کہ تمہاری نگاہ میں نبی وہ ہے جو نئی شریعت نہیں لاتا اور رسول وہ ہے جونئی شریعت لے کے آتا ہے.قرآن نے خاتم المرسلین نہیں کہا.نہ خاتم الرسل کا خطاب دیا ہے.وہاں پر خاتم النبین قرار دیا ہے اور اس کے معنی یہ ہوئے کہ اب کوئی نبی ایسا نہیں آسکتا جو محمد رسول اللہ کی شریعت کا تابع ہو کر آئے.اب ختم رسولوں کو نہیں کیا یعنی نئی شریعت لانے والوں کو بلکہ نبیوں کوختم کیا ہے اور ملاں کی نگاہ میں نبی وہ ہوتا ہے جو پہلی شریعت کی اتباع کرے اور رسول وہ ہے جو نئی شریعت لے کر آئے.اس واسطے آخری نبی ہم رسول اللہ کو مانتے ہیں تو اس فیصلے کی رُو سے اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو سوائے پرویزیوں کے اور سوائے ہابیوں اور بہائیوں کے خود ان کے اپنے عقیدے کے مطابق کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر مشروط آخری نبی نہیں مانتا.لیکن چالا کی اور عیاری یہ کی گئی کہ For The Purpose Of Constitution کے الفاظ رکھے گئے.تو پہلے ہی چونکہ مشتعل کر دیا گیا تھا.کسی شخص کو اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ لکھا کیا تھا.لیکن اس وقت ہی ہم نے یہ سنا، جب یہ فیصلے ہوئے.چند دن کے بعد میں گیا ہوں.تو وہاں مجھے ایک تو اتفاق یہ ہوا کہ چوہدری رحمت علی صاحب کے ساتھ جارہا تھا تو جس بس پر تھے اس کے اوپر لکھا ہوا تھا.؎

Page 402

386 جنہیں حقیر سمجھ کے بجھا دیا تو نے وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی یہ عجیب اتفاق تھا.مجھے راولپنڈی کے ایک بزرگ نے بتایا کہ فیصلے کے اگلے دن ایک اہلحدیث عالم نے لاؤڈ سپیکر پر یہ اعلان کیا کہ مسلمانو! تمہیں ہوش آنا چاہئے.اس فیصلے نے تمام مسلمانوں کو کا فرقرار دیا ہے.ہم لوگ جو مسیح کے دوبارہ آنے کے قائل ہیں ، اس فیصلے کی رو سے ہم بھی دائرہ اسلام سے خارج کر دیئے گئے.مگر عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی.ملاؤں نے اور پھر چونکہ بھٹو پارٹی بھی دراصل بظا ہر دنیا کو ڈپلو میٹک (Diplomatic) طریقے سے سمجھانا چاہتی تھی کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے عوام کی مرضی کے مطابق کیا ہے اس لئے عیسائی دنیا کو اور یورپ کو اور امریکہ کو ایسا نہیں کہنا چاہئے کہ قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے.ہم نے جمہوری قانون اختیار کیا ہے.عوام کا فیصلہ تھا.لیکن دراصل جہاں تک دشمنی کا تعلق تھا بھٹو صاحب کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے اپنے دل میں جماعت سے ان سے زیادہ بغض تھا.اس لئے باوجود یہ الفاظ ر کھنے کے دنیا کو دکھانے کے لحاظ سے اعلان یہی کیا گیا اور ملاؤں نے کہا ، بس جی ہماری نگاہ میں تو پہلے ہی اسلام کے دائرہ سے خارج تھے، اب قانونا بھی ثابت کر دیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے ”مرزائیوں“ کو خارج کر دیا گیا ہے.حالانکہ اگر یہ بات تھی اور عوام کو تو اس کی طرف توجہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ملاں اس کو کارنامے کے طور پر پیش کر رہا تھا.اگر یہ بتاتا کہ اس سے تو خود ہماری اس معاملے میں جو ساری عمر کی کمائی ہے وہ ختم ہوگئی ہے.ہمیں بھی غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے.تو یہ ان کی اپنی بدنامی ہوتی.اس واسطے انہوں نے یہی سوچا کہ For The Purpose Of Constitution کے یہی معنی دئے جائیں.مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ گیانی واحد حسین صاحب مرحوم اور میں ایک جگہ ہم سفر تھے.کہنے لگے کہ پانی پت کرنال میں ایک نوجوان جاٹ تھا.اس کی شادی ہوئی.وہاں شادی کے وقت ہندو جاٹ یہ تو خطبہ نکاح نہیں پڑھتے جو محمد عربی ﷺ نے امت کو سکھایا ہے.ان کے ہاں یہ ہے کہ وہ چھوٹی سی تلوار دولہا میاں کو دے دیتے ہیں اور دولہا میاں صرف یہ اعلان کرتا ہے کہ میں اس تلوار کے

Page 403

387 ذریعہ سے اپنی بیوی کی حفاظت کروں گا.استری کا لفظ عام طور پر بیوی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.ادھر اس نے یہ اعلان کیا.شادی ہو گئی.تیسرے دن آدھی رات کے وقت ڈا کو آئے.انہوں نے گن پوائنٹ (Gun Point) پر اس کی بیوی جو سونا چاندی جہیز میں لے کر آئی تھی وہ نکلوا کے کہا کہ سر کے اوپر رکھو اور دوڑا دوڑا کے آخر جنگل میں جب پہنچے تو انہوں نے کہا یہاں رکھ دو اور چلے جاؤ.جب واپس آیا تو سارے محلے میں کہرام مچا ہوا تھا.لوگوں نے کہا کچھ شرم کرو کل تم نے کیا کہا تھا کہ تلوار کے ذریعہ سے میں رکھشا کروں گا اپنی استری کی ، اور آج تم یہ چاندی اور سونا سارا دے آئے ہو اور حتی کہ وہ جس بکس میں تھا وہ بھی تم دے آئے.سب کچھ وہ سنتا رہا پھر کہنے لگا کہ یہ کہنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے کہ سونا چاندی تو میں دے آیا ہوں.لیکن میں نے بھی ایسی ضرب کاری لگائی ہے کہ یاد کریں گے کہ کسی سے واسطہ پڑا تھا.کہنے لگے اچھا! تم نے کیا کارنامہ دکھایا ہے.کہنے لگا کہ وہاں ڈاکوؤں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ سونا کتنا ہے اس کے اندر.ایک سیر تھا، میں نے بھی چھٹانک ہی بتایا ہے.چاندی پانچ سیر تھی میں نے کہا ایک سیر ہے.ایسی ضرب کاری لگائی ہے یا درکھیں گے کیا ہوا !! تو یہ کیفیت اس ملاں کی ہے.اگر تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو اس قرار داد کے مطابق سوائے پر دیزیوں کے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں بابیوں کے کوئی بھی مسلمان نہیں تھا.اور اگر For The Purpose Of Constitution سے مراد یہ تھی کہ حلف اٹھانے کے لحاظ سے صدر اور وزیر اعظم پابند ہیں کہ وہ کہیں کہ میں غیر مشروط آخری نبی آنحضور ﷺ کو مانتا ہوں.تو یہ قانون صرف یہ بتاتا ہے قانونی اغراض کے لحاظ سے کہ اگر احمدیوں کی اکثریت بھی ہو جائے پارلیمنٹ میں تو اس قانون کی رو سے وہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں نہ صدر بن سکتے ہیں.لیکن اگر اس کو چھوڑ دیں آپ تو پھر سارے کا سارا قصہ یہی بنتا ہے کہ دین محمد کے دشمن جو کہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت کو منسوخ کر کے نئی شریعت کے مدعی ہیں، نئے دین کے مدعی ہیں.بلکہ وہ کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ.اب دور محمد ختم ہو گیا، اب دور بہائیت ہے قیامت تک کے لئے “ وہ مسلمان ہیں

Page 404

388 اور میں یہ چونکا دینے والی بات بھی آپ کے سامنے آج کھول کے رکھتا ہوں اور واضح کر کے بتانا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر سر اقبال صاحب جنہوں نے سب سے پہلے کانگریسی حلقوں کے علاوہ مسلمانوں سے 1935ء میں کہا اور وہ رسالہ ان کا چھپا ہوا موجود ہے.پرویزی خاص طور پر اس کو شائع کرتے ہیں.اگر چہ سب سے پہلے شیرانوالہ گیٹ سے شائع کیا گیا مگر پرویز صاحب نے اس کو بڑی کثرت سے شائع کیا ہے.احمدیت اور اسلام اس کا نام ہے.اس میں یہ بھی اس نے لکھا ہے کہ ابن تیمیہ کی روح اس وقت بہت خوش ہوئی ہو گی جبکہ اتاترک نے ملاؤں کو سیاست سے خارج کر دیا تھا.مگر اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ قادیانیوں کو تو فوراً خارج کر دینا چاہئے.اور مثال دی ہے انہوں نے سپینز وسے.اقبال صاحب نے کہا اور خود ان کی اپنی یاد داشتوں میں چھپا ہوا موجود ہے کہ وہ اپنے زمانے کا ولی تھا.لیکن چونکہ یہودی اس سے خطرہ محسوس کرتے تھے.اس لئے انہوں نے اپنی تنظیم سے، اپنے دائرہ سے خارج کر دیا.اسی طرح ہندوستان کے مسلمان کی وحدت کو خطرہ ’ قادیانیوں سے ہے.اس لئے ان کو علیحدہ کرنا چاہئے.یہ انہوں نے بنیادرکھی ہے اور ساتھ لکھا ہے کہ میری نگاہ میں قادیانیوں کے مقابل پر بابی اور بہائی جو ہیں انہوں نے بہت ہی معقول نظریہ اختیار کیا ہے.اب اس ” شاعر مشرق اور علامہ مشرق کا بابیت اور بہائیت کے ساتھ عشق میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں.تا کہ آپ کو پورے بیک گراؤنڈ (Background) کا پتہ چلے.آپ اگر با بیت کی تاریخ پڑھیں قرۃ العین کا ذکر آپ کو ملے گا.جس نے سب سے پہلے بابیت کا سفیر ہونے کی حیثیت سے اعلان کیا بدشت کا نفرنس میں، کہ آج سے دور محمد یت ختم ہے اور حضرت باب کا دور شروع ہوتا ہے.اور ساتھ ہی کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ذاتی جاگیر میں ختم کر دی جائیں اور ساری جاگیروں اور تمام پراپرٹی کے اوپر حکومت کا قبضہ ہو جائے.بالکل کارل مارکس کی آواز تھی جو با بیت کے پلیٹ فارم سے سنائی دی اور یہی وہ قرۃ العین ہے جس نے اس دور کے ایران کے بادشاہ ناصرالدین قراچار کے سامنے باب کی شان میں قصیدہ پڑھا.یہ قصیدہ ابوالقاسم رفیق دلاوری نے اپنی کتاب ” آئمہ تلبیس “ حصہ دوم صفحہ 226 تا 228 میں شائع کیا ہے.اس میں قرۃ العین کا ایک شعروہ ہے جس میں وہ کہتی ہے:

Page 405

389 باب کی عظمت اور شوکت یہ ہے کہ اگر ہزاروں مصطفیٰ بھی ہوں تو اس کے مقابل پر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.(نعوذ باللہ ) اصل شعر اور اس کا ترجمہ یہ ہے.دو ہزار احمد مجتبی زبروق آں شہر اصطفاء شده مختفی شد در خفا متدثراً متز ملاً یعنی شاہ اصطفاء باب کی چمک دمک سے دو ہزار احمد مجتبی بالا پوش اوڑھے جھرمٹ مارے ہوئے پوشیدہ ہو گئے.قرة العین وہ گستاخ رسول ہے جس کے متعلق ”جاوید نامہ میں سرا قبال نے یہ لکھا ہے کہ مجھے جنت کی ارواح میں کوئی اور خاتون نظر نہیں آئی.مردوں میں سے مولانا روم نظر آئے اور جنت کی خواتین میں نہ حضرت فاطمہ کا ذکر کیا انہوں نے نہ حضرت خدیجہ کا ذکر کیا ہے نہ حضرت سودہ کا ذکر کیا ہے اور ذکر کیا ہے؟ قرۃ العین طاہرہ کا.یہ عقیدہ ہے اقبال کا.تو اس اقبال کے پرستار ملک جعفر خان کے الفاظ میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے.ظلم و ستم کی انتہا ہے کہ فیصلہ کرنے والی وہ حکومت تھی جو اسلام کی علمبر دار تھی.فیصلہ کروانے والے وہ مولوی تھے جو تحفظ ختم نبوت کا نعرہ لگا رہے تھے.اور عوام وہ تھے جن کے متعلق مشہور کیا جاتا تھا کہ ہم ان کی خاطر فیصلہ کر رہے ہیں.اور فیصلہ یہ ہوا کہ بابیت کے علمبر دار رسول اللہ کو آخری نبی مانتے ہیں اور یا پرویزی خیال کے لوگ مانتے تھے.یہ اصل حقائق تھے.چٹا کانگ کا واقعہ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.مولانا اس حوالہ سے چٹا کا نگ کا ایک واقعہ آپ نے سنایا تھا.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.میں چٹا کا نگ کے متعلق عرض کرتا ہوں جس کا ذکر میں نے پہلے کیا تھا.بات یہ تھی کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے عہد مبارک کے آخری ایام میں غالبا یہ 1980ء کی بات ہے، ایک ڈیپوٹیشن (Deputation) بنگلہ دیش کے لئے بھجوایا اور وہ ہمارے پیارے اور مشہور عالم احمدی ایڈووکیٹ جناب مجیب الرحمن صاحب کی سرکردگی میں تھا.وہ ہمارے وفد کے قائد تھے اور مولانا سلطان محمود صاحب انور جو اس وقت ناظر اصلاح وارشاد کے منصب پر تھے

Page 406

390 اور تیسرا ممبر یہ خاکسار تھا.ہم لوگ چٹا گانگ میں گئے تو ڈاکٹر عبدالصمد صاحب مرحوم جو ہمارے نہایت مخلص مربی سلسلہ عبدالا ول صاحب کے والد ہیں.اور ان کے اکثر M.T.A پر بھی بیانات اور سوالوں کے جوابات آتے ہیں.اور بہت شاندار انداز میں بنگالی زبان میں احمدیت کی ترجمانی فرمارہے ہیں اور انہوں نے نہایت وسیع پیمانے پر اپنی کوٹھی میں ایک دعوت کا اہتمام کیا جس میں کہ چوٹی کے سیاسی لیڈر بھی تھے، عدالت کے نمائندے بھی ، جز بھی موجود تھے ، وکلاء بھی موجود تھے.جماعت اسلامی کے ایک وکیل نے ہم سے یہ سوال کیا کہ پاکستان کی حکومت نے آپ کے خلاف قانون پاس کر دیا ہے.اب آپ کو کیا حق ہے کہ آپ جماعت احمدیہ کی آواز کو بلند کریں.میں نے کہا جناب والا بنگلہ دیش کی جو عدالتیں ہیں وہ پاکستان کے قانون کو بھی تسلیم کرتی ہیں؟ کہنے لگے نہیں.میں نے کہا یہ قرار داد پاس تو پاکستان کی اسمبلی نے کی ہے اور لاگو پاکستان کی حد تک ہوسکتی ہے.بنگلہ دیش نے تو کبھی یہ اعلان نہیں کیا.اب آپ پاکستان کی اسمبلی کا حوالہ دے کر ہمیں کس طرح روک سکتے ہیں.؟ ایک بات.مگر اصل بات یہ ہے میں نے کہا مجھے بڑی خوشی ہے آپ نے یہ بڑا اہم سوال اس وقت ہمارے سامنے رکھا ہے.آپ کی وجہ سے دوسرے جو ہمارے یہاں تشریف لانے والے معزز مہمان ہیں ان کو بھی بہت فائدہ ہوگا.آپ خدا کے فضل سے بہت باذوق اور تجربہ کا روکیل ہیں، سپریم کورٹ بنگلہ دیش کے ایڈووکیٹ ہیں.آپ یہ فرما ئیں کہ جب کوئی قرارداد پاس ہو کر فیصلہ تک پہنچتی ہے تو وہ فیصلہ کب سے لاگو ہوتا ہے؟ کہنے لگے یہ تو ایک واضح بات ہے.قانون کا ادنی ترین طالب علم بھی جانتا ہے کہ اسمبلیوں میں پاس ہونے والا قانون اس وقت لاگو ہوتا ہے کہ جب وہ پاس کیا جائے.سوائے اس استثناء کے کہ اس کے اندر ہی یہ کنڈیشن (Condition) لگا دی جائے کہ یہ مؤثر بہ ماضی ہوگا.اتنے سال پہلے کا یہ معاملہ ہے ان کے اوپر بھی یہ لاگو ہوگا.میں نے کہا بالکل ٹھیک کہا ہے.صاحب بصیرت ہیں آپ.اب آپ یہ بتائیں کہ یہ جو دوسرے الفاظ ہیں.پہلے الفاظ تو یہ ہیں کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کو غیر مشروط طور پر آخری نبی نہیں ما نتایا آپ کے بعد کسی قسم کی نبوت کا دعویدار ہے.They are not muslims for the purpose of Constitution آپ یہ فرمائیں کہ اس قرار داد کا یہ جو دوسرا حصہ ہے یہ کس کی طرف اشارہ کر رہا ہے؟ کہنے

Page 407

391 لگے یہ تو واضح ہے کہ یہ آپ کی جماعت کے بانی کی طرف اشارہ ہے.میں نے کہا کہ اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں ادب کے ساتھ کہ بانی جماعت احمدیہ 1835ء میں پیدا ہوئے تھے.1908ء میں آپ نے انتقال کیا.1908ء کے انتالیس سال بعد پاکستان کا قیام ہوا اور قیام پاکستان 14 اگست 1947 ء کے ستائیس سال کے بعد اسمبلی نے یہ قرار داد پاس کی تو بانی جماعت احمدیہ کی وفات کے کتنے سال بعد یہ قرار داد ہوئی ؟ چھیاسٹھ سال بنتے ہیں.انتالیس سال وہ اور ستائیس سال یہ، چھیاسٹھ سال بنتے ہیں.میں نے کہا کہ اب مجھے آپ فرمائیں کہ وہ قانون جو سات ستمبر 1974ء کو پاس کیا گیا، وہ ایسی شخصیت پر کیسے لاگو ہو سکتا ہے جو اس قانون سے چھیاسٹھ سال پہلے انتقال کر چکی ہے.کہنے لگے نہیں ہوسکتا ہے.میں نے کہا پھر ہم پر بھی نہیں ہوسکتا.حضور کا خطبہ جمعہ میں فیصلہ پر تبصرہ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.اس کے علاوہ سیدنا حضرت خلیفہ امسح الثالہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں جو اس فیصلہ کے فوراً بعد آیا تھا اس فیصلے پر کیا تبصرہ فرمایا تھا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.یہ یعنی 13 ستمبر 1974ء کے خطبہ میں سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مجھے بہت سے دوستوں کی طرف سے یہ درخواست پہنچی ہے کہ اس فیصلہ پر تبصرہ کیا جائے.فرمایا کہ میں فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا.No Comments.اس فیصلے سے فکر اس کو دامنگیر ہو سکتی ہے جس نے اپنا ایمان لنڈے بازار سے خریدا ہے.جنہیں رب کریم نے یہ نعمت بخشی ہے، انہیں اس پر کوئی تشویش نہیں ہوسکتی.‘“ تفصیلی خطبہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل“ 14 اکتوبر 1974ء ”خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ 631 تا 641 ناشر نظارت اشاعت.ربوہ )

Page 408

392 حضور کا پیغام احباب جماعت کے نام حافظ محمد نصر اللہ صاحب : سر اس قانون کے پاس ہونے کے بعد سات اور آٹھ ستمبر نے 1974ء کی درمیانی رات حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ایک پیغام دیا آپ ناظرین وہ پیغام بھی سنادیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب : وہ پیغام جو حضور خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا.وہ میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں.یہ اسی دور کی ایک نقل ہے میرے پاس.اوپر الفاظ یہ ہیں کہ پیغام حضرت امیر المومنین.یہ میں 1974ء کی بات کر رہا ہوں.یہ رسوائے عالم آرڈینینس ضیاء صاحب کے فیصلے سے دس سال پہلے کی بات ہے.حضور کے ارشاد پر 8 ستمبر 1974ء کو صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب نے پاکستان کی تمام احمدی جماعتوں کو جو پیغام دیا.حضور کی منشاء مبارک کے مطابق اور حضور کے الفاظ میں جو ''Inverted Commas میں تھے.وہ میں آپ کو پڑھ کے سناتا ہوں.الفاظ یہ تھے.مکرم و محترم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته براہ مہربانی اپنی جماعت کے تمام احباب اور اسی طرح اپنی اردگرد کی چھوٹی جماعتوں میں یہ پیغام بھجوائیں.( حضرت خلیفہ امسیح الثالث" کے الفاظ یہاں سے شروع ہوتے ہیں.) و جس احمدی کو اپنے اسلام پر ایمان کے لئے کسی غیر کے فتوے کی ضرورت تھی اسے تو فکر ہوسکتی ہے.لیکن جو احمدی سمجھتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مسلمان ہے،اسے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے.“ ( یہاں پہ آکر حضرت امیر المومنین کے الفاظ ختم ہوتے ہیں.)

Page 409

393 آگے لکھا ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ ہمیشہ اس کے دامن سے چمٹے رہیں.والسلام خاکسار مرزا خورشید احمد آپ کے دستخط ہیں اور نیچے تاریخ ہے 8 ستمبر 1974 ء کی.اس تحریر کو، اس پیغام کو آگے پھر امراء نے تمام جماعتوں میں پھیلایا ہے.چنانچہ اس کی تعمیل میں حضرت چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت لاہور نے 10 ستمبر 1974ء کو تمام صدر صاحبان حلقہ جات شہر لاہور اور صدر صاحبان جماعت ہائے احمد یہ ضلع لاہور کو ایک سرکولر بھجوایا.جس کے شروع میں یہی الفاظ تھے اور اس کے بعد، علاوہ سرکولر کے جو حضور کے ارشاد کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چند بشارتیں تھیں جو پہلے الفضل میں چھپی تھیں.اس زمانے میں جبکہ ابھی فیصلہ نہیں ہوا تھا.اس موقعہ پر جماعت احمد یہ بدوملہی ضلع سیالکوٹ نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی چند بشارتیں“ کے عنوان سے اشتہار شائع کیا اور اس کے بعد حضرت چوہدری اسد اللہ خان صاحب نے حضور کے تازہ پیغام کے ساتھ اس کو بھی ساتھ شامل کیا ہے تا کہ تمام جماعتیں اس کو مخلصین جماعت تک پہنچادیں.اوپر مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کے ذریعہ حضور کے پیغام کا متن دینے کے بعد لکھا گیا ہے:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب نشان آسمانی میں فرماتے ہیں:.یہ عاجز خدائے تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا نہیں کر سکتا کہ اس تکفیر کے وقت میں کہ ہر طرف سے اس زمانہ کے علماء کی آواز میں آرہی ہیں کہ سْتَ مُؤمِناً ( یعنی تو مومن نہیں ہے.ناقل ) اللہ جل شانہ کی طرف سے یہ ندا ہے کہ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤمِنِينَ ( یعنی تو کہہ میں مامور ہوں اور میں پہلا مومن ہوں.یہ ناقل کا ترجمہ ہے.ایک طرف حضرات مولوی

Page 410

394 صاحبان کہہ رہے ہیں کہ کسی طرح اس شخص کی بیخ کنی کرو اور ایک طرف الہام ہوتا ہے يَتَرَبَّصُونَ عَلَيْكَ الدَّوَائِرَ عَلَيْهِمْ دَائِرِةَ السَّوْءِ ( یعنی وہ تمہارے متعلق حوادث کی انتظار میں رہتے ہیں حالانکہ مصائب ان کو پھیر دیں گے.یہ ترجمہ مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کا ہے جو اس خاکسار نے کیا ہے.) آگے فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے :.” اور ایک طرف وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس شخص کو سخت ذلیل اور رسوا کریں اور ایک طرف خدا وعدہ کر رہا ہے.اِنِّی مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اِهَانَتَكَ.اللَّهُ أَجُرُكَ.اللَّهُ يُؤْتِيكَ جَلَالَكَ ( یعنی میں ان کو جو تیری تذلیل کے درپے ہیں رسوا کر دوں گا.اللہ تعالیٰ تیرا اجر ہے.خدا تجھے بزرگی عطا فرمائے گا.ترجمہ از ناقل ) یہ تقریباً 1894ء کے قریب کی تحریر ہے.آگے فرماتے ہیں:.اور ایک طرف مولوی لوگ فتوے پر فتوے لکھ رہے ہیں کہ اس شخص کی ہم عقیدگی اور پیروی سے انسان کافر ہو جاتا ہے اور ایک طرف خدا تعالیٰ اپنے اس الہام پر بتواتر زور دے رہا ہے کہ قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (فرماتا ہے کہ تو کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرو تو میری پیروی کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا.ناقل.غرض یہ تمام مولوی صاحبان خدا تعالیٰ سے لڑ رہے ہیں.اب دیکھئے کہ فتح کس کو ہوتی ہے.“ نشان آسمانی صفحه 35 طبع اوّل روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 398-399.ناقل ) اس کے بعد حضرت چوہدری اسد اللہ خان صاحب تحریر فرماتے ہیں.براہ کرم سب احباب تک یہ ہدایت پہنچا دیجئے کہ طالب علم اپنے سکول اور کالج میں، دوکان دار اپنی دوکانوں پر اور ملازم حضرات اپنی اپنی ملازمتوں پر لازماً حاضر ہو جائیں.“

Page 411

395 والسلام خاکسار اسد اللہ خان امیر جماعت احمد یہ لاہور 10 ستمبر 1974ء اب اس سلسلہ میں یہ ایک اور پیغام ہے.یہ پیغام بذریعہ جماعت احمد یہ راولپنڈی تمام پاکستان کی احمدی جماعتوں کو پہنچایا گیا.اس کا میں اب متن پڑھتا ہوں.کیسی بے بسی کا زمانہ تھا وہ.یہ ایک سرکلر (Circular) کی صورت تھی.لکھا بھی جلدی میں گیا تھا اور شام کے وقت لکھا گیا ہے یہ.اس میں کچھ چیزیں اور بھی ہیں.یعنی پیغام اپنی روح کے لحاظ سے یقیناً ایک ہے مگر اس میں اضافہ بھی ہے.اس واسطے میں اجازت چاہتا ہوں کہ اس کا مکمل متن بھی آجائے.بسم الله الرحمن الرحیم ”پیغام حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مؤرخہ 10 ستمبر بوقت 5:30 بجے شام وہ تو آٹھ ستمبر کا ہے.یہ ہے 10 ستمبر 1974 ء کا اور 5:30 بجے شام ہے اور بذریعہ جماعت احمد یہ راولپنڈی شائع کیا گیا ہے.جیسے آپ نے فرمایا ابتدا وہی ہے.ہدایات:.جس احمدی کو اپنے اسلام اور ایمان کے لئے کسی غیر کے فتوے کی ضرورت تھی اسے تو فکر ہو سکتی ہے لیکن جو احمدی سمجھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مسلمان ہے، اسے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ سب کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کو تو فیق عطا فرمائے کہ آپ ہمیشہ اس کے دامن سے وابستہ رہیں.آمین ثم آمین.“ نمبرا.اپنے گھروں کو نہ چھوڑیں.نمبر ۲.اپنے جذبات کو مکمل طور پر

Page 412

396 قابو میں رکھیں.حالات پر بلا وجہ تبصرہ نہ کریں.نمبر ۳.اشتعال انگیزی سے ہرگز مشتعل نہ ہوں.نمبر ۴.دعاؤں اور صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور رضا کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہیں.انشاء اللہ تعالیٰ خدا تعالیٰ کا فضل آپ کے شامل حال ہوگا.نمبر ۵.طلباء سکول اور کالج جائیں.نمبر 4.ملازمین اپنی ملازمت پر جائیں.نمبرے.دوکاندارا اپنی دوکا نہیں کھولیں.(کتاب نشانِ آسمانی جس کا میں نے پہلے متن پڑھا ہے.) کتاب نشان آسمانی صفحہ 39، 40 کو نماز مغرب کے بعد پڑھ کر احباب جماعت کو سنائیں.یہ عاجز خدا تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرسکتا...اب دیکھئے فتح کس کی ہوتی ہے.“ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.جزاکم اللہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا تبصرہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.اس سلسلہ میں یہ بھی میں ضمناً ذکر کر دوں کہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بھی ایک بیان دیا تھا اور وہ بیان اخباروں میں بھی چھپا.” نوائے وقت“ 19 ستمبر 1974ء میں شائع ہوا.وو اپنے مسلمان ہونے کے بارے میں کسی کی تائید کی ضرورت نہیں.“ شاہد کی اپنی دلی کیفیت حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.جب یہ فیصلہ سنایا گیا تو اس وقت آپ کے دل کی کیا کیفیت تھی؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.عرض یہ ہے کہ اس وقت ایک ہی خیال آرہا تھا کہ یہ الہی تقدیر تھی کہ تہتر فرقوں میں سے ایک فرقے کی نشاندہی حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے دور میں مقدر تھی اور وہ بھی اسمبلی کے ہاتھوں سے اور مولویوں کی مہر کے ساتھ.

Page 413

397 حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے وابستہ دو یادگار واقعات ہے ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے اس فیصلے کے بعد خاص طور سے کوئی یاد گار بات آپ بیان کرنا چاہیں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.یہ بھی ایک بہت ہی ایمان افروز سوال ہے.اس سلسلہ میں دو باتیں میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضور انور نے مجھ حقیر خادم کو فوری طور پر فیصلے کے بعد حاضر خدمت ہونے کا ارشاد فرمایا.میں مشوش اور مضطرب حالت میں اپنے آقا کے حضور قدموں میں پہنچا.حضور کے سامنے میز پر ایک کتاب رکھی تھی جس کی طرف حضور نے اشارہ کرتے ہوئے ہدایت فرمائی.فرمایا کہ یہ در مشین فارسی ہے.تمہیں صرف اس غرض سے بلایا ہے کہ اس کے ایک صفحہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس شعر پر میں نے نشان لگایا ہے اسے پڑھ کر سنا دو.خاکسار نے اپنے پیارے آقا کے حکم کی تعمیل میں در مشین سے وہ شعر سنایا جو آئینہ کمالات اسلام صفحہ 55 طبع اوّل پر موجود ہے.وہ شعر یہ تھا - بحمد اللہ کہ خود قطع تعلق کرد ایں قومے خدا از رحمت و احسان میسر کرد خلوت را خدا کا شکر ہے کہ اس قوم نے یعنی وہ قوم جس کی خدمت کے لئے صبح شام ہم مصروف ہیں اس نے ہم سے قطع تعلق کر دیا اور خود قطع تعلق کیا ہے.خدا از رحمت و احسان میسر کرد خلوت را اور خدا کا احسان ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے اب دین کی خدمت کے لئے ہمیں خلوت میسر کر دی.فرمایا بس میں تمہیں اتنا بتانا چاہتا تھا کہ اللہ کے فضل کے ساتھ مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ میں اب ہمارے لئے دین اسلام کی خدمت کرنے کا زمانہ خدا نے عطا کر دیا ہے.اب ہمیں دوسروں کی خدمت کے لئے کسی سیاسی الیکشن میں شامل ہونے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی.ایک دوسرا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے.اس ملاقات کے جلد بعد ہی حضور نے اس عاجز کو

Page 414

398 شرف بازیابی بخشا اور مسکراتے ہوئے یہ بات بتائی.حضور ا کثر بھٹو صاحب کا کوئی ذکر کرتے تو ”صاحب“ کا لفظ استعمال فرماتے تھے کہ میں حال ہی میں ”صاحب“ سے ملاقات کر کے آیا ہوں.”صاحب“ نے پرتپاک خیر مقدم کرتے ہوئے یقین دلانے کی کوشش کی کہ خدا کی قسم میں آپ کو دوسروں سے بہتر مسلمان سمجھتا ہوں.میں نے کہا کہ میں آپ کے تاثر سے کیا جماعت کو اطلاع کر دوں؟ تو ”صاحب“ نے جواب دیا کہ اگر آپ نے ایسا کیا تو میں فوراً بیان دے دوں گا میں نے ہرگز یہ بات نہیں کی.اسمبلی میں پیش ہونے کے فیصلہ کی حکمت حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.مولانا صاحب! جماعت احمد یہ ہمیشہ اس بات کو پیش کرتی ہے کہ مذہبی اور دینی معاملات میں سیاسی اسمبلیوں کو بھی اور ان علماء کو بھی کوئی اختیار نہیں کہ وہ فیصلہ کریں خاص طور پر ہے کہ کسی کو مسلمان قرار دیں یا کسی کے مذہب کا فیصلہ کریں تو جماعت احمدیہ کے وفد نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی سرکردگی میں کن عوامل کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس اسمبلی کے سامنے پیش ہوں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ سوال نہایت اہمیت کا حامل ہے، حافظ صاحب ! بات یہ ہے کہ اس کے متعلق خود حضرت خلیفتہ اصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقعہ پر وفد کے ممبروں کے سامنے یہ بات کھولی اور ابتدا میں یہ بات حضور نے فرمائی کہ فیصلے تو پہلے سے ہو چکے ہیں.باقی اسمبلی کی کارروائی ایک ڈرامہ کھیلنے کے لئے دنیا کو جمہوریت کا نام دے کر سیاست چمکانے والی بات ہے، ور نہ فیصلے ہو چکے ہیں.مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی اور القاء فرمائی کہ ملاں کو اسلام سے کوئی غرض نہیں.اس واسطے کوئی غرض نہیں کہ پیپلز پارٹی میں آنے والے بہت سے ممبر اسلام سے ہی بدظن ہو جائیں.انہیں فکر ایک ہی ہے کہ کسی طرح جماعت احمدیہ کو دائرہ اسلام سے خارج کیا جائے.تو اس واسطے مجھے خدا نے یہ حکم دیا ہے کہ میں جماعت احمدیہ کا مؤقف اس انداز میں پیش کروں کہ پیپلز پارٹی اور دوسرے جو ممبر ہیں، اس طرح پر کمیٹی میں آنے والے، اسلام سے دور ہونے کی بجائے اسلام کے قریب آجائیں.یہ روحانی پس منظر ہے.

Page 415

399 7 ستمبر کا فیصلہ.ایک خدائی نشان ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.جماعت احمد یہ اس فیصلے کو خدا کا ایک نشان سمجھتی ہے.اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.جماعت احمد یہ یقیناً اس فیصلہ کو ایک نشان نہیں بلکہ نشانوں کا بہت بڑا مجموعہ قرار دیتی ہے.اس واسطے کہ اس کے نتیجہ میں قرآن مجید ، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء احمدیت کی بہت سی عظیم الشان پیشگوئیاں پوری ہوئیں اور ان میں سے کوئی بھی ایسی پیشگوئی نہیں کہ جس کے بارہ میں ہم با اختیار ہوتے.قرآن میں یہ لکھا تھا جیسا کہ میں اشارہ کر چکا ہوں.یعنی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے پہلے سے یہ خبر دی اور تاریخ کا واقعہ پیشگوئی کے رنگ میں بیان کیا کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو پیغمبری کا منصب عطا فرمایا تو اس دور کے لوگوں نے ہمیشہ ہی شک کی نگاہ سے دیکھا.حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَتَ اللهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا (المؤمن: 35) جب تک تو حضرت یوسف زندہ رہے.وہ ظالم اور نا پاک لوگ حضرت یوسف کی نبوت اور ماموریت کے بارے میں شک میں رہے اور جب وہ فوت ہو گئے ان پر تو ایمان لائے اور آئندہ کے لئے کہا لَنْ يُبْعَثُ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا اس کے بعد کوئی بھی رسول نہیں آئے گا.یعنی پہلے آنے والے کو بھی نہیں مانا اور آنے والے کے لئے کہا کہ آئے گا ہی نہیں کوئی.یہ روح ہے دراصل کہ قوموں کے سردار، مذہبی لیڈر یہ گوارا نہیں کرتے کہ ہماری لیڈرشپ کوئی اور چھین کے لئے جائے.خواہ وہ نبی ہو یا کوئی اور ہو.قرآن نے آگے لکھا.كَذَالِكَ يُضِلُّ اللهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ 0 الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللهِ بِغَيْرِ سُلْطَانِ (المؤمن : 35) فرمایا خدا آخری زمانے میں ایسے ہی لوگوں کے اوپر اپنی مہر لگا دے گا.وہ تو نبوت کے خاتمے کی مہر لگائیں گے مگر ہم ان کے دلوں پر مہر لگائیں گے اور ان کی گمراہی ثابت کر دیں گے اور ان کے نشانی یہ ہوگی يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلطان.وہ قرآن کی آیتیں پیش کر کے کہیں گے کہ اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.حالانکہ قرآن میں نبوت کے ختم ہونے کے لفظ ہی نہیں.خاتم کا لفظ ہے.خاتم کا لفظ نہیں.نہ آخری کا

Page 416

400 لفظ اس میں موجود ہے.تو فرمایا ایسا گروہ آنے والا ہے اور وہ پیدا ہوا اور اسمبلی اس بات کا منہ بولتا نشان بنی.پھر رسول پاک ﷺ نے فرمایا تھا بہتر (72) فرقے اکٹھے ہوں گے ، آگیں لگائیں گے.وہ سارے کے سارے ناری ہوں گے اور ایک مسلمان فرقہ ہوگا.ایک ہو گا جو نا جی ہوگا.رسول پاک عید نے فرمایا کہ وہ فرقہ صحیح معنوں میں مسلمان ہے.حضرت علامہ علی القاری جو کہ مسجد داہلسنت تھے انہوں نے اعلان کیا کہ وہ فرقہ جو صحیح معنوں میں مسلمان ہو گا وہ اہلسنت میں سے ہوگا اور طریقۂ احمدی کے اوپر ہوگا.(مرقاۃ شرح مشکوۃ صفحہ 248 ناشر مکتبہ امدادیہ.ملتان ) ہم پر کرم کیا ہے خدائے غیور نے پورے ہوئے جو وعدے کئے تھے حضور نے پھر دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ازالہ اوہام میں اپنا الہام شائع کیا اور الہام یہ تھا كَلْبٌ يَمُوتُ عَلَى كَلْبِ.آپؐ فرماتے ہیں کہ اس کا ترجمہ ہے کتے پر کتا مرے گا.فرمایا اس کے اعداد کے لحاظ سے باون سال بنتے ہیں.وہ شخص جو احمدیت کا بدترین دشمن ہو گا، باون سال میں قدم رکھے گا تو ہلاک کر دیا جائے گا.(صفحہ 187 طبع اول) یہ جو پیشگوئی تھی اسے راولپنڈی کے ایک بزرگ حکیم دین محمد صاحب نے صداقت اخبار کراچی کو بھجوایا.صداقت 8 و11 مارچ 1979 ء نے اس کو شائع کیا اور ساتھ ہی یہ لکھا کہ یہ مرزا صاحب کی پیشگوئی ہے اس واسطے حکومت کو سوچنا چاہئے کہ کہیں مرزا صاحب کی پیشگوئی نہ پوری ہو جائے.اس کے علاوہ سانگلہ ہل کے گدی نشین تھے ، انہوں نے لکھا ، بلکہ اس وقت لکھا جبکہ ضیاء الحق صاحب جو کہ نوے دن میں انتخاب کرانے کا وعدہ کر کے آئے تھے کہ میں خدا سے وعدہ کرتا ہوں.یہ انہوں نے مجیب الرحمن شامی صاحب کو اپنا انٹر ویو دیا تو اس میں یہ الفاظ موجود ہیں.بہر حال یہ انٹرویو چھپا ہوا موجود ہے.اس میں انہوں نے لکھا کہ میں نے خدا سے وعدہ کیا ہے کہ میں اقتدار نہیں سنبھالوں گا اور فوراً الیکشن کرا کے اقتدار کی باگ ڈور ملک کے منتخب نمائندوں کے سپرد کر دوں گا اور میں خدا سے وعدہ کرتا ہوں.مگر اس شخص نے خدا کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا جس طرح پارہ پارہ کیا ہے، وہ دنیا کے سامنے ہے.بہر حال ضیاء الحق صاحب نے تمام دنیا کی اپیل تسلیم نہیں کی اور سپریم کورٹ نے بھٹو

Page 417

401 صاحب کو پھانسی دئے جانے کا فیصلہ بحال رکھا.ساری دنیا نے جن میں سعودی عرب ، لیبیا اور دوسرے بڑے بڑے مسلمان ممالک تھے ، لیبیا نے بلکہ سعودی عرب نے یہ کہا کہ بھٹو صاحب کو ہمارے پاس بھجوادیا جائے.کیونکہ وہ تو لکھ چکے تھے کہ یہ وہ شخص ہے کہ يَبْعَتَ اللهُ بِهِمُ خدا ان کو مبعوث کرتا ہے اور امت مسلمہ کی ظلمتوں کو کافور کرنے کے لئے اس نے بھیجا ہے.تو بڑی عقیدت کا اظہار تھا اور عقیدت اس لئے بھی تھی کہ شاہ فیصل صاحب کے ذریعہ سربراہ کا نفرنس کو کامیاب کرانے والے بھٹو صاحب ہی تھے اور ان کے لئے خلافت کی بساط جمانے کے لئے یہ بطور آلہ کار کے استعمال ہوئے تھے.تو سعودی عرب اور لیبیا اور دوسرے تمام اسلامی ملکوں کے کہنے کے باوجو دضیاء صاحب نے یہ تمام کی تمام سفارشیں مستر دکر کے ان کو ختم کر دیا.اور جب یہ صورت بنی تو اس وقت میں جیسا کہ آپ کو ابھی اشارۃ بتایا ہے.سانگلہ ہل کے ایک گدی نشین نے ضیاء الحق صاحب کو لکھا کہ د بھٹو صاحب کا پکا اور سچا مسلمان ہونا تو ان کے اس فیصلے سے ثابت ہو گیا ہے جو انہوں نے مرزائیوں کے خلاف کیا ہے.اور اس کے بعد لکھا کہ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ خدا کے لئے اس اپیل کو منظور کریں ورنہ مرزائیوں کے جھوٹے نبی کی صداقت دنیا پر ثابت ہو جائے گی.“ عجیب بات ہے لیکن اس کے باوجود فیصلہ قائم رہا اور پھانسی کی سزا ملی اور باون سال کی عمر میں پھانسی ہوئی.اب اگر ازالہ اوہام کو پڑھیں.اس میں ایک اور ذکر بھی ہے.اس میں ان کی باقیات کی حکومتوں کا بھی ذکر ہے.آپ اگر پڑھیں.اس میں آگے یہ بھی لکھا ہے.مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ان ظالموں کی تمثیل یہ ہے کہ ایک دفعہ باغ کے مالک نے کہا کہ میں اپنا نمائندہ بھجواؤں گا.اس نے وہ نمائندہ بھجوایا مگر شہر کے رہنے والوں نے اس نمائندے کو تکلیفیں دیں.اس کے خلاف کفر کے فتوے دیئے.شام ہو گئی.اور شام تک انتظار کرتے رہے اور کہتے رہے کہ ابھی وہ نمائندہ آئے گا.حالانکہ وہ نمائندہ اس مالک نے بھجوا دیا تھا.اب وہ مالک خود آئے گا اور آنے کے بعد یہ لوگ جو کہ اس کے نمائندہ کے خلاف حرکتیں کرنے والے تھے، ان کو شام کے وقت ہتھکڑی لگا کر جیل خانے میں بھیج

Page 418

402 دے گا.(صفحہ 187 تا 189 طبع اوّل.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 191 ) تو ضیاء کی باقیات تک کا ذکر ہے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد میں.پھر آپ دیکھیں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے 1956ء کے جلسہ سالانہ پرا اپنی تقریر میں پیشگوئی فرمائی کہ میں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ،ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر کھڑا ہو جائے گا تو...اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی.“ 66 خلافت حقہ اسلامیہ صفحہ 18 اور اس سے پہلے خود حضور نے تفسیر کبیر سورۃ الفجر میں لکھا ہے.فرماتے ہیں کہ اسی صدی میں وہ واقعہ ہونے والا ہے اور قرآن کے حوالے سے آپ نے لکھا کہ اس سے ثابت ہے کہ کسی زمانے میں مسیح موعود کا کوئی خلیفہ کسی دریا کے کنارے پر یہ کہے گا کہ فرعون وقت ہمارا تعاقب کر رہا ہے.جماعت گھبرا اٹھے گی.لیکن مسیح موعود اور مسیح موعود کا خلیفہ یہ کہے گا، موسیٰ کی زبان میں کہ ، ہر گز گھبرانے کی ضرورت نہیں.خدا ہمارے ساتھ ہے.وہ ہماری حفاظت کرے گا.حضور کے الفاظ یہ ہیں:.جب جماعت احمد یہ کسی فرعون کے مظالم کی وجہ سے سخت گھبرا اٹھے گی.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت احمدیہ کو روحانی طور پر اس کے خلیفہ اور امام کی زبان سے کیونکہ وہ دو نہیں بلکہ ایک ہی وجود ہوں گے جبکہ وہ ہم وہم کے تمثیلی سمندر کے کنارے کھڑا ہوگا یا ممکن ہے کہ مصر یا کسی اور ملک میں ایسے ہی حالات پیدا ہونے پر اور واقعہ میں دریائے نیل کے کنارے پر یا کسی اور دریا کے کنارے پر بڑے جاہ وجلال کے ساتھ فرمائیں گے.گلا اِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ - كَلَّا کے معنی یہی ہیں لَا تَحْزَنُ غم مت کر.اِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِینِ میرے ساتھ میرا رب ہے یعنی ایک وتر بھی ہمارے

Page 419

403 ساتھ ہے اور وہ اس کیل میں سے ہمیں نکال کر لے جائے گا.“ تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ 548 ناشر نظارت اشاعت.ربوہ) اب عجیب بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں کلب کا لفظ ہے.کتے پر کتا مرے گا اور اس کے اعداد باون آپ نے لکھے ہیں.یہ گالی نہیں ہے یا درکھیں.یہ ایک حیرت انگیز پیشگوئی ہے.جس وقت 1977 ء کے بعد بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ گیا اور ضیاء الحق صاحب کے ہاتھ میں اختیار آیا اور یہ سازش ملاں نے ضیاءالحق سے بھٹو صاحب کے بارہ میں مکمل کر لی تھی کہ اس کے معاً بعد بھٹو سے اقتدار چھین لیا جائے اور یقین تھا کہ اب بھٹو صاحب آخری لمحوں میں ہیں تو پھر جو گالیاں دی جاسکتی تھیں وہ انہوں نے دیں.اس وقت لاہور سے جو رسالے مفتی محمود صاحب کی جماعت کی طرف سے نکلتے تھے اس میں سے ایک نے ایک کتے کی تصویر بنائی کارٹون کے لحاظ سے.اور وہ بھٹو صاحب کی تصویر تھی.نقیب ملت اس رسالے کا نام ہے.یہ مفتی محمود صاحب کے مسلک سے تعلق رکھنے والے حضرات کا اس وقت ترجمان تھا.ہفت روزہ ” نقیب ملت لا ہور (8 تا 14 فروری 1979ء) نے کارٹون میں بھٹو صاحب کی تصویر ایک کتے کی بنائی اور اگلے صفحے میں یہ لکھا کہ ایک کتے کی اپیل.کتا یہ اپیل کر رہا ہے کہ حضور امیر المومنین میری طرف توجہ فرمائیں اور مجھ پر رحم کریں.اگلے ایشو میں انہوں نے یہ لکھا کہ ہمارے خلاف اس پر پیپلز پارٹی کے حلقوں کی طرف سے رٹ (Writ) دائر کی گئی ہے کہ ہم نے بھٹو صاحب کی تحقیر اور تذلیل کی ہے.اس رٹ کا عکس بھی دیا اور کتے کی تصویر پھر بنادی.پھر تیسرے ایشوع میں اوپر بھٹو صاحب کی کتے کی تصویر بنا کے کارٹون میں اور نیچے لکھا کہ ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ یہ تصویر جس کے متعلق پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ بھٹو صاحب کی ہے.یہ ہم نے ایک انگریزی ریڈر سے لی ہے.تین دفعہ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی مفتی محمود کے رسالہ کے ذریعہ سے پوری ہوئی.اب اس میں کہاں کسی احمدی کا اختیار ہو سکتا تھا؟

Page 420

404 اس کے بعد كَلْبٌ يَمُوتُ عَلَى كَلْبِ میں جس دوسرے فرعون کا ذکر تھا اور آپ اگر اس زمانے کے اخباروں اور رسالوں اور اپوزیشن کے جو بیانات پڑھیں ، ان میں بار بار بھٹو کو فرعون قرار دیا گیا ہے.یہی لقب ضیاء الحق صاحب کو دیا گیا.کھلے لفظوں میں یہ کہا گیا.ادارتی نوٹوں میں ان کی زندگی میں یہ بات کی گئی.اب حیران کن بات یہ ہے کہ اتنا بڑا خدا کا نشان ہے کہ ترمذی شریف کی حدیث میں لکھا ہوا موجود ہے کہ:.آنحضور ﷺ کی خدمت اقدس میں ایک شخص حاضر ہوا.اور اس نے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں چاہتا ہوں کہ رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے میں ، میں روزہ رکھوں تو حضور مجھے راہنمائی فرمائیں کہ میں کس مہینے میں روزہ رکھ سکتا ہوں.حضور نے فرمایا کہ اگر رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں روزہ رکھنا چاہتے ہو تو پھر محرم کے ایام میں روزہ رکھو.کیونکہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں خدا نے ایک قوم کو فرعون سے نجات بخشی تھی اور فرمایا ایک دوسری حدیث میں کہ اسی مہینے میں محرم میں آخرین میں بھی ایک فرعون پیدا ہوگا اور خدا آخرین کو بھی محرم کے مہینے میں نجات بخشے گا.(سنن ترمذی ابواب الصوم باب ما جاء في صوم المحرم و جامع الترمذی ابواب الصوم بحواله النقر مرللنر ندی جلد اول صفحہ 123 ناشر قرآن محل مقابل مولوی مسافرخانہ کراچی وصحیح مسلم کتاب الصیام مع شرح نووی مترجم علامہ وحید الزمان جلد اول 133-134 ناشر خالد احسان پبلشرز لاہور ) آپ جنگ اور دوسری اخباروں، ہر ایک اخبار کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا یہ تین محرم 1409 ہجری کی تاریخ تھی جب آنکھوں کے سامنے ضیاء الحق کا طیارہ آگ کی لپیٹ میں آگیا.اور اس سے محمد عربی علیہ کی ایک اور حدیث پوری ہوئی.آنحضور ﷺ نے فرمایا تھا.علامہ سیوطی نے بھی اس کو لکھا ہے اور بہت ساری اور کتابوں میں بھی اس کا تذکرہ ہے.آنحضور علی کے زمانے میں حضور علیہ السلام کے ارشاد پر ایک مسلح دستہ دشمن کی سرکوبی کے لئے بھجوایا گیا.ایک شخص جس کا نام حدیثوں میں موجود ہے.اس نے یہ حرکت کی کہ ایک ایسے شخص کو جو کہتا تھا کہ آنَا مُسْلِمٌ

Page 421

میں مسلمان ہوں.405 ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں دل سے ہیں خدام ختم المرسلیں حدیث میں لکھا ہے کہ اُس شخص نے اس شخص کو جو کہ کہتا تھا کہ میں مسلمان ہوں قتل کر دیا.جب یہ دستہ واپس آیا تو ایک صحابی نے دربار رسول میں شکایت کی کہ اس شخص نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو کہتا تھا کہ میں مسلمان ہوں.آنحضور ﷺ نے جواب طلبی فرمائی اور فرمایا کہ تم نے یہ ظلم عظیم کیا! ایک شخص کہتا تھا میں مسلمان ہوں.تمہیں کیا حق تھا کہ تم اس کو قتل کر دیتے؟ کہنے لگے یا رسول اللہ ! اس نے مجھ سے ڈر کے کہا تھا.دل میں ایمان نہیں تھا اس کے فرمایا هَلَّا شَقَقْتَ قَلْبَهُ تم نے اس کے دل کو چیر کے دیکھا تھا ؟ تم عالم الغیب تھے ؟ کہ یہ تم سے ڈرنے کی وجہ سے کہہ رہا ہے، اندر سے مسلمان نہیں ہے.فرمایا خدا نے یہ واقعہ میری امت کے لئے عبرت کا نشان اس لئے بنایا ہے کہ خدا کسی اور شخص کے لئے یہ قبول کر سکتا ہے کہ زمین اس کو قبول کرے مگر یہ اسے گوارا نہیں ہے کہ اس شخص کو زمین میں قبول کیا جائے جو ایک مسلمان کو قتل کرتا اور اس کو کا فرقراردیتا ہے.(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب الكف عمن قال لا الہ الا اللہ والخصائص الکبری فی معجزات خیر الورای از حضرت جلال الدین سیوطی اردو مترجم حکیم غلام معین الدین نعیمی صفحہ 183 ناشرمدینہ پبلشنگ کمپنی بندر روڈ.کراچی ) یہ پیشگوئی چودہ سو سال پہلے ہوئی اور لفظاً لفظ ضیاء الحق کے سانحے کے ذریعہ پوری ہوئی.یہ خدا کا قیامت تک کے لئے نشان ہے، جو ثبوت ہے کہ اسلام زندہ مذہب ہے.محمد رسول اللہ خدا کے زندہ نبی ہیں اور قرآن مجید خدا کی زندہ کتاب ہے اور مسیح موعود ہی ہیں جنہیں محمد عربی ﷺ کا پرچم لہرانے کے لئے آج خدا نے مبعوث کیا ہے اور خلافت حقہ وہی ہے جو مد عربی ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق قائم ہوئی.اور جس کی جو بلی انشاء اللہ تعالیٰ ہم 2008ء میں منانے والے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ.

Page 422

406 دور ابتلاء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث" کے بعض الہامات ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: محترم مولانا ایک بہت اہم سوال یہ پوچھنا ہے کہ جماعت مشکل حالات سے گذر رہی تھی اور خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ بھی مصروف تھے.دعاؤں میں بھی مصروف تھے.اس دوران میں حضور کو خدا تعالیٰ سے راہنمائی بھی ملتی رہی اور بعض الہامات اللہ تعالٰی نے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ پر نازل فرمائے.آپ ان کا کچھ ذکر کرنا چاہیں گے؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.یقیناً.یہ تو تاریخ کا ایک سنہری ورق ہے اور بتا تا ہے کہ یہ خدا کی آسمانی جماعت ہے.اور خلافت خدا کی قائم کردہ ہے.اس سلسلہ میں میں دو امور کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.ایک تو یہ ہے کہ یہ حضور نے خود بیان فرمایا اور دونوں باتیں آپ نے اپنی زبان مبارک سے انہی دنوں جماعت کے سامنے بھی رکھ دیں.ابتدا میں اکثر احمدیوں کو پتہ نہیں تھا لیکن بعض بزرگوں نے بتا ئیں.اس کے بعد حضور نے اپنے خطبوں میں بھی بیان کیں.میں اس کا ذکر کرتا ہوں.پہلی اہم ترین بات جس کو میں نے خود حضور کی زبان مبارک سے اس موقعہ پر سنا جہاں تک مجھے یاد ہے.” سرائے محبت کی چابیاں جس دن حضور نے ایک تقریب کے دوران جناب چوہدری حمید اللہ صاحب ناظر ضیافت ( حال وکیل اعلی تحریک جدید ) کو عطا فرما ئیں تو اس دوران حضور نے یہ ذکر فرمایا کہ ان ایام میں جبکہ دنیا ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی تھی، میرے پیارے خدا نے مجھ پر دو الہام نازل فرمائے.اس کے علاوہ حضور نے اپنے خطبہ جمعہ یکم نومبر 1974ء میں بھی ذکر فرمایا تھا کہ جس دن قومی اسمبلی پر مشتمل خصوصی کمیٹی بنے کا اعلان ہوا نیز یہ کہ کاروائی خفیہ ہوگی.اس اعلان پر تشویش ہوئی.اور ساری رات دعا کی کہ اے خدا خفیہ اجلاس ہے.پتہ نہیں ہمارے خلاف کیا تدبیر کی جائے.سورۃ فاتحہ پڑھی اور اھدنا الصراط المستقیم بہت پڑھا.صبح خدا تعالیٰ نے بڑے پیار سے دو الہامات کئے.( الفضل ربوہ 11 دسمبر 1974ء صفحہ 6) ایک الہام یہ تھا کہ وَسِعُ مَكَانَكَ یعنی آنے والے اب کثرت سے آنے والے ہیں.

Page 423

407 اس لئے ان گیدڑ ھھکیوں کی پرواہ نہ کرو بلکہ اپنے مکانوں کو وسیع کرتے چلے جاؤ.مسجدوں کو وسیع کرو اور اسی طرح اپنے مدارس کو وسیع کرو، مہمان خانوں کو وسیع کرو کیونکہ خلقت خداوندی آسمان کے فرشتوں کے ذریعہ سے فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے والی ہے.اور دوسرا فر مایا کہ یہ الہام ہوا.إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ فرمایا استہزا کرنے والوں کی پرواہ نہ کرو.ان کی کوئی حیثیت نہیں.میں خود ان کے لئے کافی ہوں جو استہزا کرنے والے ہیں.مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تو فرمایا ہے.جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار و نزار تو خدا نے پہلے سے بتا دیا کہ اس کا رد عمل دو شکلوں میں ہونے والا ہے.ایک تو یہ کہ کثرت سے مخلوق آئے گی مسیح موعود کی غلامی میں داخل ہونے کے لئے اور دوسرا خدا تعالیٰ کی جو چکی ہے انذار کے لحاظ سے ، وہ دشمنان دین کے خلاف چلنے والی ہے کیونکہ یہ معاملہ خدا نے کہا ہے کہ میں خود نبٹ لوں گا.یہ دونوں عظیم الشان نشان تھے کہ جو اس کے بعد، ہر آنے والے طلوع ہونے والے دن ، جب بھی چڑھا، آج تک پوری شان کے ساتھ دنیا کے سامنے آرہے ہیں.ایک اور منذ را لہام جس میں اِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِینَ کی تشریح موجود ہے.وہ ایک دوسرا الہام تھا.اس سلسلہ میں جناب مولانا منیر احمد صاحب بسمل سابق مجاہد افریقہ، حال نائب ناظر اشاعت ربوہ کا حلفیہ بیان میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جو انہیں دنوں مولانا نے مجھے عطا فرمایا.وہ تاریخ احمدیت کے مسودہ میں شامل ہے اور انشاء اللہ شائع ہوگا.مولانا نے تحریر فرمایا:.”خاکسار خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر عرض کرتا ہے کہ:.مکرم کرنل حیات قیصرانی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ( یہ دسمبر 1978ء کی بات ہے.1974ء میں حضرت خلیفۃ اسیح الثالث قومی اسمبلی میں تشریف لے جاتے اور غیر احمدی علماء کے سوالات کے جوابات دیا کرتے تھے.ایک دن حضور نے مجھ سے ( یعنی کرنل حیات قیصرانی صاحب سے ) بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھٹو کے بارہ میں یہ آیات الہام کیں.فَدَمُدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ فَسَوْهَا وَلَا يَخَافُ

Page 424

408 عُقبها.حضور نے فرمایا کہ اس کے بعد میں نے خدا تعالیٰ سے بہت دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تو ان کو ہدایت دے اور تباہی سے بچالے.حضور فرماتے ہیں اس پر پھر یہ آیت الہام ہوئی.حضور فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے اور زیادہ الحاج سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کو تباہی سے بچادے اور ہدایت دے.اس پر تیسری دفعہ یہی آیات الہام ہوئیں.والسلام خاکسار منیر احمد بسمل یہ بیان مکرم سهل صاحب نے 21 اکتوبر 1997ء کو دیا ہے.کارروائی کے دوران تائیدات الہی حافظ محمد نصر اللہ صاحب : مولانا ! جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے اور دعویٰ ہے کہ ہمارا زندہ خدا کے ساتھ ایک تعلق ہے اور اس کے تائیدی معجزات اور نشانات ہمارے شامل حال ہیں ہمیشہ سے.تو اس اسمبلی کی کارروائی کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نشانات ظاہر ہوتے رہے جن میں سے کچھ آپ نے بیان فرمائے کچھ مزید نشانات کا تذکرہ آپ فرمائیں گے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب: مختصر ا میں اس سلسلہ میں یہ عرض کروں گا کہجبکہ سب آپ اُس ماحول کو اپنے سامنے رکھیں جبکہ سب دشمنان احمدیت سرکاری سطح پر متحدہ محاذ قائم کئے ہوئے تھے اور استعماری طاقتیں ان کی پشت پناہی کر رہی تھیں.سعودی عرب کا ہاتھ کارفرما تھا اور یہ خیال اور تصور بھی نہیں تھا کہ کیا کیا سوالات اسمبلی میں پوچھے جائیں گے.اس ماحول میں آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنے وسیع پیمانے پر جماعت کو اپنے دفاع کے لئے تیاری کی ضرورت ہو گی.اپنی بساط کے لحاظ سے اور ان واقعات کے لحاظ سے.حضور کے ارشاد پر میں قریباً ایک ہزار کتب خلافت لائبریری ربوہ سے لے کر گیا تھا.کچھ میری اپنی کتا بیں تھیں.مگر یہ سارے کام اللہ ہی کے تو کل پر کئے جارہے تھے اور جو انتخاب کیا گیا تو یہ کسی نے نہیں بتایا تھا کہ یہ کتابیں منتخب ہونی چاہئیں.یہ اللہ تعالیٰ نے اس و قت مجھے جو راہنمائی فرمائی اس کے مطابق میں نے وہ کتابیں چن لیں اور ساتھ لے گیا.لیکن اس کے بعد ایک موقعہ ایسا آیا کہ اس میں شیعوں کی بعض کتابوں کا پیش کرنا مقصود تھا

Page 425

409 مثلاً یہی ”كلهم اولاد البغايا ما خلا شيعتنا“.حضرت امام جعفر صادق کی یہ کتا بیں ہمارے پاس تھیں ہی نہیں.لائبریری میں بھی موجود نہیں تھیں.سیدی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ شیعہ لٹریچر ہمارے حضرت قاضی محمد یوسف صاحب کے پاس موجود تھا.وہ فوت ہو چکے ہیں لیکن ان کی لائبریری اگر دیکھی جائے تو ممکن ہے، یہ چیز مل جائے.اب صرف رات ہی کا وقفہ تھا ہمارے پاس.اسمبلی کا اجلاس ختم ہوا.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے چوہدری رحمت علی صاحب آف سر وعہ حال دار البرکات ربوہ کو.وہ ان دنوں راولپنڈی میں تھے.انہوں نے اپنی کار پر مجھے لے جانے کی حامی بھری اور راتوں رات ہم مردان پہنچے.اب یہ اللہ کا فضل اور احسان ہے کہ گھر میں ان کے صاحبزادے یا ان کے عزیز موجود تھے اور اس سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے اجازت دی کتب خانہ کو دیکھنے کی.اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ساری کتابیں اس میں موجود تھیں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے راتوں رات یہ کام ہو گیا.اس کے علاوہ بھی یہ صورت بنی کہ فوری طور پر بعض کتابیں راولپنڈی جماعت کے بعض مخلص احباب سے ہمیں ملتی رہیں مثلاً پیر صلاح الدین صاحب کی طرف سے اور سید ضیاء الحسن صاحب کی طرف سے عربی لٹریچر عطا ہوا.لسان العرب یا غالبا مفردات امام راغب تھی.یہ اس وقت ضرورت پڑی جس وقت ذُرِّيَّةُ الْبَغَايَا کے لغوی معنوں کا سوال پیدا ہوا تھا.تو یہ کتابیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے راولپنڈی کے بزرگوں سے عطا فرمائیں.یہ اللہ ہی کا فضل ہے کہ کتابیں پہلے سے موجود تھیں.پیر صلاح الدین صاحب مرحوم انگریزی میں قرآن کریم کا ترجمہ کر رہے تھے اور اس کے علاوہ پھر اس کی تفسیر بھی انہوں نے شائع کی.اس لحاظ سے ایک بہت بڑا اور بیش بہا ذخیرہ ان کے پاس تفسیروں کا بھی تھا اور عربی لغات کا بھی موجود تھا.اللہ تعالیٰ جزائے عظیم بخشے اس موقعہ پر انہوں نے یہ سارا خزانہ ہمیں عطا فر مایا جو بعد میں ان کی خدمت میں واپس پیش کر دیا گیا.یہ سلسلہ در اصل آج تک خلیفہ وقت کی توجہ سے چل رہا ہے.آپ حیران ہوں گے.یہ جو میں نے آپ کے سامنے پڑھا ہے.إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِين اور پھر فَدَمُدَمَ عَلَيْهِمْ.اب یہ کل سوال آپ کی طرف سے پیش ہوا ہے.آپ حیران ہوں گے کہ اس سلسلہ میں کل ہی ہمارے شعبہ تاریخ کے کمپیوٹر سیکشن کے جو انچارج ہیں مولانا حافظ انوار رسول صاحب، وہ آئے ، کہنے لگے کہ یہ چند

Page 426

410 کتابیں ہیں.یہ میں آپ کو Present کرنا چاہتا ہوں.رات میں نے وہ کتابیں دیکھیں تو ان دونوں کا تعلق ہمارے انٹرویو کے ساتھ تھا.ان میں کیا کچھ تھا.وہ انشاء اللہ میں بعد میں بیان کروں گا.نشان ساتھ ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں ہمارے دین کا قصوں پہ ہی مدار نہیں ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.ایک اور واقعہ بھی آپ نے ہمیں بتایا تھا حضرت خواجہ فرید الدین عطار کی کتاب کے بارے میں.وہ بھی آپ بیان فرما دیں! نہیں کر سکتا.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.ہاں وہ مجھے یاد آ گیا ہے.آپ کا شکریہ میں لفظوں میں ادا عے تیرے اس لطف کی اللہ ہی جزا دے ساقی بات یہ ہوئی.یہ آخری دن تھا اور ہم لوگ ساری رات مولانا ابو المنیر صاحب کے صاحبزادے منیر الحق اور خدام الاحمدیہ والے وغیرہ ضمیموں کی تیاری کر رہے تھے یعنی ایک تو وہ امتحان تھا روزانہ جس کے پرچے دینے پڑتے تھے اسمبلی میں.ایک یہ تھا کہ ساتھ ضمیمے دیئے جا رہے ہیں.کتا میں پہنچائی جارہی ہیں.تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.تیسری طرف یہ کہ تشویشناک اطلاعات مل رہی تھیں.احمدیوں کے جان و اموال ہتھیا لئے گئے ہیں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.تو قیامت خیز گھڑیاں تھیں دراصل جماعت کے لئے.تو اس موقعہ پر کچھ سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ سوال کیا ہونے والے ہیں.میں اب تک یہ سوچ رہا ہوں.اب دیکھیں ہر لمحہ یہ خلافت کی تو جہات کے نتائج تھے.جس طرح میں نے کہا ہے کہ سیدنا حضرت خلیفۃ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی توجہ کام کر رہی ہے.اس انٹرویو میں یہ جو دو کتابیں ملی ہیں یہ حضور کی دعائے خاص کے نتیجہ میں ہیں.میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا اور یہ اچانک ایسے وقت میں ملی ہیں کہ اس کا تذکرہ میرے لئے کرنا ضروری تھا.لیکن میرے ذہن اور خیال میں بھی وہ چیزیں موجود نہیں تھیں.پہلی دفعہ میں نے دیکھیں.یہ خدا کا تصرف نہیں تو اور کیا ہے؟ میں عرض کر رہا تھا ساری رات ہم لوگ جاگتے رہے.کوئی حوالے نقل کر رہا ہے.اور کوئی جو

Page 427

411 پہلے حوالے تھے مثلاً جو کچھ رہ گئے تھے جن کا جواب دینا مقصود تھا.اس کی تیاری ، پھر نئے کا تو کچھ پتہ نہیں تھا.اسی عالم میں ہمیں بتایا گیا کہ اب تیار ہو جاؤ جانے کے لئے.میں نے تین ٹرنک حسب دستور ساتھ لئے.ان میں کتابیں رکھیں.کسی میں دستاویزات کسی میں مسودات، کسی میں اخباریں، اس میں میں نے وہ مسودے رکھے جو ہم نے فوٹو کاپی کر کے پیش کرنا تھے.ان کو جمع کرانا تھا.اس سے قبل داخل ہونے والے مسودے.تو یہ ایک ہجوم تھا مطالبوں کا.یہ الگ چیز تھی کہ یہ سارا کھیل اور ڈرامہ تھا دراصل.عجیب بات ہے کہ چلتے ہوئے جب میں یہ تینوں ٹرنک اٹھانے لگا تو خدا نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ ان ہزار کتابوں میں بڑی مشہور کتاب ”تذکرۃ الاولیاء بھی ہے.شاید اس کی ضرورت پڑ جائے.اب دیکھیں خالصہ خلیفہ وقت کی دعاؤں اور آسمان کے فرشتوں کے نتیجہ میں یہ بات تھی ورنہ میرے ذہن اور خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا.میں نے اس وقت تذکرۃ الاولیاء سب سے اوپر رکھی.اب وہاں پہنچے تو اول خیال یہ تھا کہ آج حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب سوالوں کے جواب دیں گے.لیکن وہاں پہنچے تو چیئر مین صاحب نے پہلے دن تو یہ کہہ دیا یعنی اس سے پہلے دن تو یہ رولنگ دے دی تھی کہ ٹھیک ہے.حضور نے یہ فرمایا تھا کہ جب حکومت کے اعلامیہ کے باوجودا ٹارنی جنرل صاحب کی بجائے آپ ایک اپوزیشن کے ممبر کو سوالوں کے لئے مدعو کر رہے ہیں تو پھر مجھے بھی اجازت دی جائے کہ میں اپنے ڈیلی گیشن کے کسی ممبر کو اپنی طرف سے ترجمان مقرر کروں.اس وقت انہوں نے تسلیم کر لیا لیکن پھر بعد میں، جیسا ہمیں علم ہوا، علماء آئے.انہوں نے کہا کہ اب ایسی آپ کے اٹارنی جنرل نے ناکام قسم کی وکالت کی ہے.ہم چاہتے ہیں کہ اب ہماری طرف سے نمائندہ ہونا چاہئے.آخر چیئر مین صاحب کو تو دکھانے کے لئے ، ان کی بات رکھنے کے لئے یہ ایک موقعہ تھا.انہوں نے کہا کہ جی ٹھیک ہے آپ کر لیجئے اور حقیقت یہ ہے کہ انہیں بھی یقین تھا کہ یہ ایسا موقعہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب اس کا جواب نہیں دے سکیں گے کیونکہ ملاؤں کے بڑے بڑے دعاوی تھے.بہر حال جب حضور کمیٹی روم نمبر دو میں پہنچے.ہم منتظر تھے کہ ابھی چیئر مین صاحب کی طرف سے ہمیں یہ اطلاع پہنچے کہ آپ آجائیں.اسی دوران حضور نے ہم سب سے کہا کہ مولانا ابوالعطاء صاحب میری طرف سے جواب دیں گے اور حضور نے مجھے فرمایا کہ تم مولانا ابوالعطاء صاحب کی نشست پر بیٹھ جانا اور مولانا ابوالعطاء صاحب سے یہ ارشاد فرمایا کہ اس کی جگہ پر

Page 428

412 بیٹھیں اور آپ نے یہ شروع کرنا ہے.ہمیں حضور نے یہ ہدایت فرمائی.جب وہاں پہنچے تو نقشہ ہی بگڑا ہوا تھا.حضور نے جاتے ہی فرمایا کہ آپ نے جس طرح مجھ سے حلف لیا ہے.اسی طرح قانونی حلف مولانا ابوالعطاء صاحب سے بھی لیں.بجائے اس رولنگ پر قائم رہنے کے، چیئر مین صاحب نے بالا دستی اور چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کل آپ کو یہ اجازت دی تھی لیکن کمیٹی کے تمام افراد یہ کہتے ہیں کہ آپ امام جماعت احمدیہ کی حیثیت سے خود موجود ہیں اور اپنا دفاع بڑے شاندار طریقے پر آپ کر سکتے ہیں تو ہم یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ڈیلی گیشن کے کسی ممبر کی بجائے آپ خود اپنی زبان سے اس کا جواب دیں.بڑے اچھے طریقے پر انہوں نے یہ بات کہی.ان کا اب یہ خیال تھا کہ حضور اس پر دوبارہ یہ جرح کریں گے کہ یہ تو عجیب بات ہے اور انتہائی قسم کی یہ خلاف قانون بات ہے.لیکن اس پر حضور نے قطعاً کوئی بات نہیں کی بلکہ جس بشاشت سے حضور تشریف لائے تھے ، اسی طرح مسکراتے ہوئے ، مائیک جو حضور نے اپنے دست مبارک سے مولانا ابوالعطاء صاحب کے سامنے رکھا تھا وہ خود اپنے سامنے کر لیا اور کہا فرمائیے.اس پر جو سوالات کئے گئے محترم ظفر انصاری صاحب کی طرف سے جیسا کہ پہلے بات آچکی ہے، تحریف قرآن کے متعلق تھا.ام المؤمنین کے متعلق تھا.تیسرا سوال ظلی حج کے متعلق تھا.انہوں نے کہا دیکھیں جی! آپ کا قرآن علیحدہ، آپ کے حج علیحدہ ہیں.جس وقت یہ بات حضور نے سنی تو حضور نے مجھے نہ علی بن موفق کا حوالہ دیانہ تذکرۃ الاولیاء کی بات کی، مجھے بس اتنا فرمایا کہ وہ حوالہ دیں کسی کتاب کا ذکر نہیں کسی صوفی کا ذکر نہیں اور عجیب خدا کا تصرف یہ ہے کہ جلدی میں چلتے ہوئے ٹرنک میں سب سے اوپر وہی تذکرۃ الاولیاء “ رکھا گیا مجھ سے.اور اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ باقی دو ٹرنک ذرا دور ر کھے تھے اور یہ رنک بالکل میرے سامنے رکھا تھا.ایک لمحہ کے اندراندر میں نے وہ جب ٹرنک کھولا تو وہ کتاب سامنے تھی اور جب میں نے اس کو کھولا تو وہ علی بن موفق کا واقعہ تھا.( تذکرۃ الاولیاء اردو تر جمه صفحه 157 از علامہ عبدالرحمن شوق ناشر ملک سراج الدین اینڈ سنز لاہور ) یہ کتنا حیرت انگیز تصرف ہے اور اس کا ثبوت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو منصب خلافت عطا فرماتا ہے تو آسمان کے فرشتے اس کی طاقت بن کر اس کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور پھر جو بھی اس کے خادموں میں شامل ہو جاتا ہے، تو جو کام خدا کے مامور کی طرف سے اس خادم کے سپرد کیا جاتا ہے عرش کے فرشتے اس کی تائید کرتے ہیں.

Page 429

413 کارروائی کا تذکرہ خلیفہ وقت کی زبانِ مبارک سے ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کے صفحہ نے اسمبلی کی کارروائی کے ضمن میں احباب جماعت کے سامنے کچھ ذکر فرمایا تھا.میں چاہوں گا کہ وہ بھی آپ احباب کو پڑھ کر سنا دیں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.جزاکم اللہ ! اللہ تعالیٰ کی خاص تائید سے ایک بیان آپ نے ” تاریخ انصار اللہ جلد دوم میں ابھی حال میں ہی شائع فرما دیا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے تصرفات ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تحریر میں سنا دیتا ہوں.” تاریخ انصار اللہ جلد دوم 96-95 پر زیب قرطاس ہوئی ہے.حضور انور نے فرمایا:.74ء میں جب میں نیشنل اسمبلی گیا ہوں ، خدا تعالیٰ نے بہت نشان دکھائے.بہت بڑا نشان یعنی عجیب ہے اپنی کمیت Volume کے لحاظ سے کہ جب انہوں نے کہا کہ پہلے تو زبر دستی مجھے بلایا، ہم نے کراس ایگزیمن (Cross Examine) کرنا ہے.پہلے کہا کہ محضر نامہ خود پڑھو جماعت کا.ہم سوال کریں گے.آپ جواب دیں.مجھے پتہ لگا تو میں نے پیغام بھیجا کہ 90 سال پر پھیلا ہوا ہے ہمارا لٹریچر اور مذہب کا معاملہ ہے.بڑا سنجیدہ ہے اور میں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ سارالٹر پچر مجھے زبانی یاد ہے.ایک دن پہلے آپ سوال لکھ دیں، بھجوا دیں.ہمیں دے دیں.اگلے دن ہم جواب دے دیں گے.انہوں نے کہا نہیں.ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ اُسی وقت سوال ہو گا اُسی وقت آپ جواب دیں گے.میں نے کہا ٹھیک ہے.دعا کی بھی اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے.قریباً ساری رات میں نے دعا کی خدا سے.خیر مانگی اس سے.صبح کی اذان سے ذرا پہلے مجھے یہ کہا گیا وَسِعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِنِينَ مہمان تو پہلے سے بھی زیادہ آئیں گے.اتنی بڑی خوشخبری.یہ استہزا کا منصوبہ تو بنا رہے ہیں.یہ ٹھیک ہے.لیکن فکر کیوں کرتے ہو؟ ہم تمہارے لئے کافی ہیں.ان کی رپورٹ جو تھی وہ یہ تھی کہ انہوں نے گیارہ دنوں

Page 430

414 پر پھیلا کر کل 52 گھنٹے دس منٹ مجھے کراس ایگزیمین ( Cross Examine) کیا.باون گھنٹے دس منٹ کفیناک المستهزئین کا مجھے یہ نظارہ نظر آتا تھا.جس طرح فرشتہ میرے پاس کھڑا ہے.جہاں مجھے جواب نہیں آتا تھا وہاں مجھے جواب سکھایا جاتا تھا.بعض دفعہ یہ بتایا جاتا تھا کہ یہ جواب اس طرح دینا ہے.مثلاً ایک رات شام کو مجھے یہ کہا گیا کہ اس کا جواب نہیں دینا اس وقت کل صبح دینا ہے.میرے پیچھے پڑ گئے.میں نے کہا میں نے دینا ہی نہیں.بہت پیچھے پڑے.میں نے کہا آپ یہ لکھ لیں، میں نہیں جواب دینا چاہتا.میں نے اس وقت جواب نہیں دینا.تو مجھے یہی کہا گیا تھا کہ کل صبح دینا جواب کیونکہ کل صبح دینے میں ان کے لئے کافی خفت کا سامان پیدا ہونا تھا.یعنی اس تفصیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے راہنمائی کی.کوئی معمولی بات نہیں ہے.باون گھنٹے دس منٹ ہر ہر سوال کا جواب مجھے وصول ہوایا سوال سکھایا جاتا تھا یا یہ کہ اس کا جواب کس طرح دینا ہے.یہ بتایا جا تا تھا ( سبحان اللہ ).ایک دن یہ سوال کیا.ایک پیرا یہاں سے شروع ہوا.یہ ایک صفحہ سمجھیں اس کو.یعنی بیچ میں لکیر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ہے.یہاں سے شروع ہوا.یہاں جا کے ختم ہوا.یہاں سے ایک فقرہ اٹھایا سوال کے لئے.ایک فقرہ ایک پیرے سے اٹھا کے کہنے لگے، یہ تو جی بڑے قابل اعتراض فقرے لکھ گئے ہیں مرزا غلام احمد صاحب.تو بڑا فساد پیدا ہوتا ہے.اس قسم کی باتیں شروع کر دیں.مجھے کہا گیا ابھی جواب دو.مجھے جواب کوئی نہیں آتا تھا.یعنی یہ حقیقت ہے بغیر ذرا مبالغہ کے کہ میں بالکل اندھیرے میں تھا.میں نے کہا کہ کتاب بھیج دیں.میرے پاس کتاب نہیں ہے.مجھے کتاب بھیج دیں.ابھی میں جواب دے دیتا ہوں.بیٹی بختیار کہنے لگے ، اچھا کل پھر آپ دے دیں، کوئی ضروری نہیں ہے ابھی دیں.میں نے کہا میں کہہ رہا ہوں.میں نے ابھی دینا ہے جواب تو آپ مجھے کتاب بھیج دیں.دو تین

Page 431

415 دفعہ تکرار کے بعد وہ لے آیا نشان لگا کے.کتاب میں نے کھولی.جہاں سے وہ پیرا شروع ہوتا تھا تین چار سطریں نیچے وہ فقرہ تھا جہاں اس کا جواب موجود تھا.اور میری آنکھ نے وہی پکڑا.میں نے پہلی ہی نظر میں اس کو پکڑا.میری عادت تھی کہ جہاں مجھے موقعہ ملتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام ان کے کانوں میں ڈال دیتا تھا.تو میں نے کہا آپ نے ایک فقرہ پڑھا اور اعتراض کر دیا.میں ایک پیرا پڑھ دیتا ہوں اور آپ کو جواب مل جائے گا.میں نے سارا پیرا پڑھ دیا اتنی تفصیل میں.تو اس سے بڑا نشان سوچ بھی نہیں سکتا.گیارہ دن باون گھنٹے 10 منٹ جو خدا نے کہا تھا، اس کے مطابق میری راہنمائی کرتا رہا.ایک دن مجھے شام کو خدا نے کہا کہ کل ایک ایسا سوال کیا جائے گا کہ تمہارے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل جائے گی.میں نے اپنے ساتھیوں کو کہہ دیا کہ مجھے خدا نے یہ بتایا ہے.ہوشیار ہو جائیں.گیارہ بجے چائے کا وقفہ ہوا.کوئی ایسا سوال نہیں آیا.سوال آتے گئے.جواب دیتے رہے کھانے کا وقت آ گیا.کوئی سوال نہیں.شام کی چائے پینے کے لئے بہت سارے وقفے آیا کرتے تھے.اس وقت تک کچھ سوال نہیں ہوا.بالکل آخری پانچ دس منٹ بلکہ آخری سوال کر دیا.بالکل کسی کو اس کے جواب کا نہیں پتا تھا.ہم دے ہی نہیں سکتے تھے اس کا جواب.بڑی پریشانی اٹھانی پڑی.ہم نے ان کو کہا کہ کل دیں گے جواب ، انہوں نے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے.دیر ہو گئی ہے کل ہی دے دیں.مشورہ کیا اس کے جواب کے لئے.فون کیا، دس سال کے الفضل کے فائل منگوائے ربوہ سے.وہاں سے موٹر چلی صبح کی اذان کے وقت وہاں پہنچی.اس کو دیکھا.تلاش کیا.وہاں سے وہ جواب ڈھونڈا.تب تسلی ہوئی یعنی ساری رات خدا تعالیٰ نے پریشان رکھا، دعائیں کرائیں.یہ بھی اس کا احسان ہے.لیکن بتا دیا تھا پہلے کہ اتنی پریشانی اٹھاؤ گے کہ حد نہیں.پھر وہ جواب دیا ان لوگوں کو.تو انصار اللہ سے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ کی ذمہ داری ہے ساری دنیا

Page 432

416 66 کو نبی اکرم ﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.جزاکم اللہ.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.جزاکم اللہ.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.آپ کا بھی شکریہ کہ آپ نے چھپا چھپایا حوالہ کتاب میں سے پہلے سے ہی مہیا فرما دیا ہے.ع اس سے بڑھ کر تجھے یہ تو فیق خدا دے ساقی حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.اس دوران حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو اللہ تعالیٰ کی بے شمار مدد اور نصر تیں شامل حال رہیں.اسی طرح وہاں پر محترم مولانا صاحب کی ذمہ داری تھی کہ آپ حوالوں کو پیش فرما ئیں.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے محترم مولانا صاحب کو حوالوں کا بادشاہ کے لقب سے نوازا ہے.میں حضور کے فرمودات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 23اکتوبر 1982ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک ربوہ میں ایک مجلس میں فرمایا :.مولوی دوست محمد صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے حوالوں کے بادشاہ ہیں.ایسی جلدی ان کو حوالہ ملتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جب قومی اسمبلی میں پیش ہوئے تھے تو وہاں بعض غیر از جماعت دوستوں نے آپس میں تبصرہ کیا اور بعض احمدی دوستوں کو بتایا کہ ہمیں تو کوئی سمجھ نہیں آتی.ہمارے اتنے موٹے موٹے مولوی ہیں.ان کو ایک ایک حوالہ ڈھونڈنے کے لئے کئی کئی دن لگ جاتے ہیں لیکن ان کا پتلا د بلا سا مولوی ہے اور منٹ میں حوالے ہی حوالے نکال کر پیش کر دیتا ہے.“ الفضل 11 جون 1983 ء صفحہ 1) پھر ایک اور موقع پر پروگرام ملاقات (15 اپریل 1994ء) میں ایم ٹی اے پر ارشاد فرمایا:.وو " جب کوئی حوالہ ہمیں یہاں(لندن) سے نہ ملے تو پھر حوالوں کے بادشاہ مولوی دوست محمد صاحب ہیں.ان کو فیکس بھیجتے ہیں اور وہ ضرور نکال

Page 433

417 دیتے ہیں.کہیں سے نکالیں.ایسا خدا کے فضل سے ان کو عبور ہے.مطالعہ بھی وسیع ہے اور پھر یا در ہتا ہے کہ کتاب کہاں ہے.چونکہ لائبریری میں کام کرتے ہیں.اس سے ان کو سہولت ہو جاتی ہے.یہاں کام کرنے والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ کہاں کتاب ہوگی اور اس کے کس صفحہ پر متعلقہ حوالہ موجود ہوگا.اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزائے خیر دے.“ حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے مزید فرمایا :- وہاں بھی ان کے کوئی مددگار ضرور ہوں گے اور ان کا نام آئے یا نہ آئے ، اللہ کے علم میں ہے اللہ ان کو جزاء عطا کرے گا.اس دوران مکرم منیر احمد جاوید صاحب نے عرض کیا کہ بعض اوقات وہ خود بھی اپنے مددگاروں کے نام لکھتے ہیں.مکرم نعمت اللہ صاحب بشارت اور مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب.یہ مربیان سلسلہ ہیں.(حضور انور نے ہر دو مربیان کرام کے نام دہرائے.اور فرمایا ) ہاں وہ خود بھی خیال رکھتے ہیں کہ میں ہی دعاؤں کا حصہ دار نہ بنوں، ان 66 سب کو بھی شریک کیا جائے.“ اسی طرح سے حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے اپنے ایک خط میں جو محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے نام تھا.اس میں بھی آپ کی ان خدمات کا ذکر فرمایا.حضور کے خط کا متن آپ کو پڑھ کے سناتا ہوں.لندن دو بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم پیارے مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد مؤرخ احمدیت السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے احمد یہ مسلم ٹیلی وژن کے ذریعہ پوری دنیا میں پیغام حق پہنچانے کی توفیق مل رہی ہے اور دشمنوں کے اعتراضات کے

Page 434

418 جوابات کا ایک سلسلہ جاری ہے.جس میں آپ بھی میرے محمد ومعاون ہونے کے اعتبار سے شامل ہیں.جب بھی مجھے حوالہ جات کی ضرورت ہوتی ہے، آپ کی طرف سے بر وقت حوالہ جات مل جاتے ہیں اور آپ فوراً لبیک کہتے ہیں.فجزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.اللہ آپ کو صحت سے بھر پور زندگی عطا فرمائے.آپ کے علم اور عرفان میں برکت ڈالے.آپ اور آپ کے رفقائے کار جو حوالے تلاش کرنے اور نوٹ کرنے میں آپ کے معاون ہیں، سب دعاؤں میں یاد رہتے ہیں.عزیزم ڈاکٹر سلطان مبشر بھی دعاؤں میں یاد رہتا ہے.اللہ سب پر اپنا فضل نازل فرمائے.دین و دنیا کی بے شمار نعمتوں سے نوازے.میری طرف سے سب کو محبت بھر اسلام دیں.کان اللہ معکم والسلام مرتباطاہر احمد خلیفة امسیح الرابع یہ حضور کی فیکس ہے جو محترم مولانا صاحب کو 23 جون 1994 ءکوموصول ہوئی.وفد کے ممبران کی خوشگوار یادیں حافظ نصراللہ صاحب : اس کارروائی کے دوران وفد میں حضرت خلیفہ المسح الثالث" کے ساتھ حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب ، حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر، حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفتہ اسیح الرابع ) اور آپ شامل تھے اس دوران کچھ خوشگوار واقعات، کچھ یا دیں بھی آپ کی زندگی کا لازمی حصہ ہوں گی.اگر ان یادوں میں سے کچھ بیان فرما ئیں تو احباب کرام کے لئے مفید ہوں گی.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.بہت ہی دلچسپ سوال کیا آپ نے ماشاء اللہ.آپ کے ذوق سلیم کی بھی عکاس ہے.وفد میں شامل حضور کے خدام میں سر فہرست حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب تھے.اپنی عمر کے لحاظ سے حضرت شیخ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت کے ایک خاص رنگ

Page 435

419 سے رنگین فرمایا تھا.ان کا کلام بھی جامعیت کا شاہکار ہوتا تھا اور ان کی باتوں میں بھی فصاحت و بلاغت کا رنگ رہتا تھا.بہت کم بولتے تھے.کسی وقت ان دنوں حضور کی خدمت میں جو کچھ کہا وہ ایسے موقع پر کہا جبکہ کم از کم میں اس میں موجود نہیں تھا.کیونکہ ان کی رہائش حضور کی رہائش کے بالکل قریب تھی اور خاکسار نچلی منزل میں تھا.جبکہ کتا بیں بھی تھیں میرے ساتھ ، تو حضرت شیخ صاحب کسی کسی وقت تشریف لاتے اور جب سونے کا وقت قریب آتا تو فرماتے.”مولا نا! اب میں ”سونا“ بنانا چاہتا ہوں.یہ کہہ کہ پھر چلے جاتے.میرے ساتھ ایک دفعہ حضرت خلیفقہ اسے الثالث کی خدمت میں صرف ایک بات عرض کرنے کا مجھے یاد ہے اس وقت ، اور وہ بات تھی اس موقع کی جس کا میں نے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کے بیان میں ذکر کیا ہے کہ راتوں رات اخبار منگوایا گیا.یہ در اصل اخبار تھا ایک تو بدر.ایک الفضل‘ اور یہ حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب کے اس شعر سے متعلق 66 سوال تھا کہ " محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں تو راتوں رات بدر بھی آگیا پھر حضرت قاضی اکمل صاحب نے جو بیان وضاحت کے لئے الفضل میں دیا تھا وہ بھی آگیا.اس میں موجود تھا کہ اس سے مراد تو وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة : 4) کی تفسیر ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے.میں نے تو کچھ کہا ہی نہیں ہے اور وہ مقام بڑا ہے.وَلَلآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الأولى (الضحی : 5 ) کے مطابق میں نے شعری زبان میں اس کا تذکرہ کیا ہے.(ملاحظہ ہو الفضل قادیان 13 اگست 1944 صفحه 1) اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کے پاس عموماً " تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا رسالہ جو کہ حضور نے سپرد قلم فرمایا تھا نظر یہودی ونبوت ساتھ ہوتا تھا.جب یہ مسئلہ پیش ہوا اور یہ بہت اہم مسئلہ تھا کیونکہ اشتعال انگیزی کے لئے بطور بم کے استعمال کرنا مقصود تھا.

Page 436

420 یعنی ہم ایسا کہ جس سے ایوان پر یہ کھل جائے کہ یہ گستاخ رسول ہیں.ان کا کوئی تعلق رسول عربی ہے کے ساتھ نہیں ہے اور یہ وجہ جواز بن گیا ہے کہ ہم ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیں تو حضرت شیخ محمد احمد صاحب (اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں اور برکتیں ان پر ہوں ) نے اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر حضور کی خدمت میں عرض کیا: غنی لیک آئینہ ام ز از پئے مدنی صورت حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.دو لیکن میں رب غنی کی طرف سے بطور آئینہ ہوں مدینے کے چاند کی صورت دنیا کو دکھانے کے لئے.“ ( نزول مسیح ، صفحہ 100 طبع اول ) تو جو کچھ اکمل صاحب نے کہا ہے وہ تو انہی معنوں میں کہا ہے کہ محمد عربی چاند کی شکل میں دنیا میں ظاہر ہوئے.خدا نے اس چاند کی شکل کو دکھانے کے لئے موجودہ دنیا میں جو اس زمانہ کی دنیا سے بہت بڑی ہے اور اس دنیا میں اب آسٹریلیا بھی اور اس کے علاوہ امریکہ بھی شامل ہے اور ذرائع اور وسائل بھی شامل ہیں.وہ چاند پہلے سے بڑھ کر دنیا میں دکھانے کے لئے خدا نے مجھے بھجوایا ہے.اور یہ وَاخَرِينَ مِنْهُمُ کی تشریح ہے.یہاں مجھے خیال آیا.یہ حضرت شیخ صاحب نے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کا پُر معارف شعر پڑھا لیکن میں عرض کر دوں کہ یہ جو حوالہ ہے اس کو احمدیت کے دشمنوں نے پچھلی صدی سے انتہا درجہ کی اہمیت قرار دے کر ہر جگہ پر اس کی اشاعت کی اور صاف بات ہے کہ اک عاشق رسول کے لئے اتنا ہی بتادینا کہ فلاں گستاخ رسول ہے، کافی ہے.یہ نماز ہے کہ وہ شخص جو مشتعل ہوتا ہے حقیقتاً اس کے دل میں محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ کی محبت ہے.یہ الگ بات ہے کہ ملاں نے ہر ایک کو گستاخ رسول قرار دے دیا ہے.بریلوی جب بات کریں گے اہلحدیث کے متعلق اور دیو بندیوں کے متعلق ، مودودی کے متعلق تو گستاخ رسول سے کم پر وہ راضی نہیں ہوتے.احمدیوں کے خلاف مقدمات میں بھی اور جس وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ ، ( مولانا شبیر احمد ثاقب میرے ساتھ تھے ) ایسے احمدی مخلص نوجوانوں کو بھی 298C کے تحت مقدمہ کی اپنی

Page 437

421 ایف.آئی.آر میں شامل کیا ، کہ جو بیچارے اردو بھی نہیں پڑھ سکتے تھے اور ان کو بطور لیکچرار کے شامل کیا کہ اس نے لیکچر دیا اور ایک غلطی کا ازالہ کا یہ حوالہ پڑھا.افتراء پردازی“ کا فن تو ختم ہے ان لوگوں پر جس طرح کہ آنحضرت ﷺ پر نبوت ختم ہے.حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ یہ لوگ ساری کارروائی ختم نبوت اور اسلام کے نام پر کرتے ہیں.قرآن کے حوالے بھی دیتے ہیں جس طرح خدا نے فرمایا تھا کہ آخری زمانہ میں جو جھگڑا اٹھے گا وہ یوسف کے زمانے کے کافروں کا مثیل اور نظیر ہوگا اور وہ کہے گا کہ لَنْ يُبْعَتَ اللهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولاً (المؤمن: 35) نبوت ختم ہوگئی ہے.تو اس میں یہی فرمایا کہ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللهِ بِغَيْرِ سُلْطَانِ انهُمُ کہ وہ قرآن کی آڑ میں قرآن کا نام لے کر جھگڑا کریں گے.قرآن کو بدل دیں گے اپنے مقاصد کے لئے.ے خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیهان حرم بے توفیق یہ لوگ نہ قرآن سے واقف، نہ حدیث سے واقف، نہ اپنے بزرگوں سے واقف.یہ میرے پاس اس وقت قدوۃ العلماء، زبدۃ الفضلاء حضرت مولانا الحافظ احمد بن مبارک سلماسی کی کتاب تبریز کا ترجمہ ہے ابریز “ جو کہ مشہور دیوبندی عالم مولا نا عاشق الہی صاحب میرٹھی نے کیا اور جسے مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم.اے جناح روڈ کراچی نے طبع کیا ہے.اس کا میں صرف ایک صفحہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ محمد عربی ﷺے کی کیا شان ہے جو ان بزرگوں نے دیکھی جو صاحب بصیرت تھے، صاحب الہام تھے ، صاحب کشف تھے.مسیح موعود کا انتظار کرنے کی وجہ سے خدا نے اپنی وہ نعمتیں جو چودہ سوسال تک اپنے ولیوں کو عطا کیں، خدا نے ان مخالفین سے ہمیشہ کے لئے چھین لیں.آج دنیا میں کوئی شخص نہیں ہے جو کہتا ہو کہ خدا مجھے الہام کرتا ہے.میں صاحب کشف ہوں.صاحب رؤیا ہوں.یہ سب سے بڑی سزا ہے جو خدا نے خاتم النبین کے منکروں کو دی ہے اور جس کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا.دنیا میں کوئی ایک بھی غیر احمدی عالم دین عرب میں ہو، عجم میں ہو، پاکستان میں رہنے والا ہو، انڈو نیشیا کا ہو، بنگلہ دیش کا ہو ، سعودی عرب میں ہو، مصر میں ہو، تیونس میں ہو، کوئی ایک بڑے سے بڑا عالم، مفکر ،Historian ، جو چاہے ہو سکتا ہے مگر خدا کے آستانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں.قرآن کہتا ہے قیامت کے دن سب سے بڑی سزا کافروں کو اور بے ایمانوں کو اور دوزخیوں کو اور

Page 438

422 مجرموں کو یہ ملے گی کہ خدا ان سے کلام نہیں کرے گا.تو یہ سزا خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکفیر کرنے والوں کو اس وقت سے دی ہے جب سے کہ انہوں نے تکفیر کا یہ کارخانہ شروع کیا ہے.اور یہ قیامت تک رہے گی.اب میں بتاتا ہوں کہ پہلے بزرگوں کو جو عاشق رسول تھے، جو صحیح معنوں میں محمد مصطفی علا اللہ کو خاتم النبین سمجھتے تھے اور جن میں ختم نبوت کا فیض خدا کی طرف سے الہام اور کشف کی صورت میں ظاہر ہوا تھا، انہوں نے محمد عربی ﷺ کا کیا فیضان دیکھا.یہ کتاب دیو بندیوں نے شائع کی ہے.کراچی سے چھپی ہے یعنی ترجمہ اس کا.اس شان کی بلند پایہ کتاب ہے.یہ کسی معمولی عالم کی کتاب نہیں ہے.اپنے دور کے ایک کامل صوفی ہیں اور صاحب کشف اور الہام ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ مد عربی ﷺ کی کیا شان ہے.دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام کہ میں تو محمد عربی ﷺ کے چاند کا چہرہ تمام دنیا کو دکھانے کے لئے آیا ہوں اور رب غنی نے محمد رسول اللہ ﷺ کے چاند کو دکھانے کے لئے مجھے آئینہ بنا دیا ہے.ایک آئینہ تو وہ ہے جو انسان خود دیکھتا ہے.فرمایا کہ میں وہ آئینہ ہوں کہ میں دنیا کو دکھانے کے لئے آیا ہوں کہ محمد مصطفی میے کی عظمت اور شان کیا ہے اور کس طرح خدا نے تمام مخلوقات میں تمام نبیوں کے سردار ہونے کا منصب آنحضرت علہ کو عطا فرمایا ہے.حضرت احمد بن مبارک فرماتے ہیں: سمودیا ہے.”حضرت سلام بھی کہتے ہیں کہ ہر عاشق رسول میں آپ کی صورت اس طرح مرتسم ہوئی ہے جیسے آئینہ کے سامنے کوئی کھڑا ہوا ہو.“ بالکل وہی اصطلاح استعمال کی ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مصرعہ میں جیسے آئینہ کے سامنے کوئی کھڑا ہوا ہوتو وہ خود آئینہ کے اندر نہیں آیا بلکہ اس کی صورت اس میں اتر آئی ہے ( اور جتنے آدمی بھی آئینہ پر نظر ڈالیں گے وہ صورت بیک وقت سب کو نظر آئے گی.) یہی وجہ ہے کہ بے شمار مخلوق ایک ہی وقت میں مختلف جگہوں پر خوابوں میں آپ کی زیارت سے مشرف ہوتی ہے.(اتنا باریک نکتہ ہے یہ.ناقل ) کہ کوئی مشرق میں ہے اور کوئی مغرب میں

Page 439

423 اور ایک شمال میں ہے تو دوسرا جنوب میں.( مگر سارا عالم چونکہ ذات محمدی کا آئینہ بنا ہوا ہے اس لئے اپنے اپنے مقام پر بیٹھے ہوئے سب نے صورتِ مبارکہ کو دیکھ لیا ہے.نہ یہ کہ آپ کی ذات مطہرہ بیک وقت اماکن مختلفہ میں سب کے پاس پہنچ گئی.) پس صاحب فتح جب اس صورت مبارکہ کو دیکھتا ہے ( خواہ حالت بیداری میں ہو یا بحالت خواب ).عبدالعزیز بن باز صاحب جو سعودی عرب کے مفتی اعظم تھے.کسی زمانے میں انہوں نے فتویٰ دیا کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ آنحضرت علی کشف میں نظر آتے ہیں، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے.لیکن آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے عاشقوں کو بیداری میں بھی یا بحالت خواب آپ کی زیارت کی سعادت بخشتا ہے.تو اس کی بصیرت پیچھے پیچھے چلتی ہے اور (چشم قلب کو جس نے صورت محمد یہ دیکھی ہے قوت اور مدد پہنچا کر) نور عالم کو پھاڑتی ہوئی ذاتِ مبارکہ تک پہنچتی اور ( عین ذات کے مشاہدہ سے فیض یاب ہوتی ہے ) اور جو شخص بصیرت سے محروم ہے اگر حق تعالیٰ فضل و احسان فرمائے تو کبھی وہ بھی عین ذات کا مشاہدہ کر لیتا ہے کہ ذات مطہرہ اس مقام پر خود تشریف لے آتی ہے.کیونکہ اپنے متعلق اس کی کمال محبت اور بچے تعلق کو معلوم فرما لیتی ہے.غرض یہ آنحضرت ﷺ کی مرضی پر موقوف ہے کہ جس کو چاہیں اپنی ذات مطہرہ کا نظارہ کرا دیں اور جس کو چاہیں صرف صورتِ شریفہ دکھا ئیں.نیز آپ کی صورت اصلیہ کا ظہور دوسری صورتوں میں بھی ہوا کرتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام عام اور آپ کی امت مرحومہ کے تمام اولیاء کی صورتیں آپ کی صورت شریفہ کے مظاہر ہیں.( جتنے نبی آئے، جتنے ولی آئے یا قیامت تک آئیں گے وہ کسی نہ کسی شکل میں رسول اللہ ﷺ کی تصویر ہیں.ناقل ) کہ اپنے زمانہ کا ہر نبی اس لحاظ سے کہ آپ ہی کے انوار و فیضان وحی سے مستفیض

Page 440

424 ہو کر نبی بنا ہے اور آپ کی امت کا ہر ولی اس اعتبار سے کہ آپ ہی کی روح مع الجسد کی تعلیم وتربیت سے ولی بنا ہے ،معنوی لحاظ سے گویا ذات محمدی کی صورتِ مثالیہ ہے.“ اب آپ دیکھ لیں آئینہ میں جس شخص کو محمد رسول اللہ ﷺے دکھائی دیں گے اس صورت کو محمد رسول اللہ کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے.فرماتے ہیں:.اور یہی سبب ہے کہ اکثر مریدوں کو خواب میں آپ کی زیارت اپنے شیخ کی صورت میں ہوتی ہے.“ حضرت جی مولود علیہ السلام اور پر حضرت ایت اسمی الثانی ف امسح الاول حضرت خلیفہ اسیح الثالث ، حضرت خلیفہ مسیح الرابع اور سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ کو بھی بعض بزرگوں نے خواب میں محمد عربی ﷺ کی شکل میں دیکھا ہے.اب یہ ملاں کی شریعت میں تو گستاخی رسول ہے.مگر حضرت مولانا سلماسی فرماتے ہیں یہ حمد رسول اللہ ﷺ کا فیض ہے.اور وہ فیض اسی طرح ظاہر ہوتا ہے کہ حضور کی شکل بعض اوقات کسی مرید کو اپنے مرشد کی شکل میں بھی نظر آتی ہے اور مرشد اور ولی اور نبی سارے محمد عربی ﷺ کی ہی تصویریں ہیں.دیکھیں ایک شخص کو اگر یہ اختیار ہو کہ اس کی پیدائش سے لے کر اس کی وفات تک کی تصویریں لی جائیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ تصویر میں کروڑ اگر لی جائیں تو مختلف ہوں گی.اسی طرح انبیاء اور خلفاء اور اولیاء کی کل تصاویر لی جائیں اور اگر محمد عربی ﷺ کے زمانے میں کیمرہ ہوتا اور حضور ﷺ کی تصویر پہلے دن سے آخر تک لی جاتی تو اس وضاحت کے لحاظ سے ہر نبی کی تصویر کوئی نہ کوئی ایسی ضرور ہوگی جو محمد رسول اللہ ہے کی تصویر سے مل جائے گی.اتنا عجیب نکتہ ہے تو فرماتے ہیں کہ حضرات انبیاء کی تعداد صحیح تو یہی ہے کہ کسی کو معلوم نہیں.مگر بعض کا قول ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں اور اتنی ہی تعداد اولیاء امت بلکہ صرف حضرات صحابہ کی تھی جنہوں نے بلا واسطہ جسم اطہر سے استفادہ فرما کر انبیاء بنی اسرائیل کا سا درجہ حاصل کیا اور قیامت تک بعد کے آنے والے اولیاء

Page 441

425 میں ہر ولی انہی حضرات میں سے کسی ایک کے رنگ پر آیا اور سب گویا صحابہ ہی کی صورتوں کی صورت مثالیہ بنتے رہے.لہذا صورت محمدیہ کے ظہور کے لئے دنیا میں دو لاکھ اڑتالیس ہزار صورتیں آئیں کہ جس طرح کسی کے پاس دولاکھ اڑتالیس ہزار لباس ہوں کہ جس لباس کو چاہے پہن لے.سب اسی کے ہیں.اسی طرح ذات محمدی کو اختیار ہے کہ جس نبی یا جس ولی کی صورت میں چاہے مصور ہو جائے کہ سب آپ ہی کے روحانی بچے ہیں اور سب کی صورتیں آپ ہی کے ثمرات اور فیضان و نتائج جو دو کرم سے ہیں.چنانچہ جامع کتاب کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ جناب رسول اللہ ﷺ کو اپنے شیخ (عبد العزیز ) کی صورت میں دیکھا اور گود میں لے کر چاہا کہ آپ کو اپنے اندر داخل کرلوں (یعنی دیکھتے ہیں کہ آنحضرت علی شیخ عبدالعزیز کی صورت میں آئے ہیں.ناقل ) صبح کو حضرت شیخ سے تعبیر پوچھی تو فرمایا کہ ایک دفعہ نہیں صلى الله ہوسکتا.تھوڑا تھوڑا کر کے بتدریج ہو گا.مطلب یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کے انوار و تجلیات خاصہ کا اپنے اندر لینا تدریجی طور پر نصیب ہوا کرتا ہے.“ ابریز ترجمه تبریز.یہ اس کتاب کا پہلا حصہ ہے.اس کے ترجمہ کا صفحہ 173-172 ہے.اس کے مترجم دیو بندی عالم مولوی عاشق الہی صاحب میرٹھی ہیں.یہ وہی ہیں جنہوں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی سوانح " تذکرۃ الرشید کے نام سے لکھی اور اس کے نشر وطبع کا انتظام کرنے والی مدینہ پبلشنگ کمپنی جناح روڈ کراچی ہے." ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.یہ تو مولانا ! آپ نے، مکرم و محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے جو ایک شعر حضرت صاحب کی خدمت میں پیش فرمایا تھا اس کے حوالے سے تشریح فرمائی.باقی بزرگان کے بارے میں جو آپ کی یادیں ہیں اس سے بھی ہمیں مستفید فرمائیں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب سے بعض اوقات علاوہ اسمبلی میں جانے آنے کے وقت ملاقات ہوتی تھی.ایک دفعہ اسمبلی کے اجلاس کے اختتام کے بعد آپ نے فرمایا کہ ہم لوگوں کی ساری عمر مناظرے میں گذری ہے.

Page 442

426 عمر گذری ہے اس دشت کی سیاحی میں مگر حضور کے جوابات خدا کے خاص تصرف کے ماتحت ہیں.ان سے نظر آتا ہے کہ جناب الہی کی طرف سے سکھائے گئے ہیں اس لئے کہ ساری عمر ہماری گذری ہے کتابیں پڑھتے ہوئے، اعتراضوں کا جواب دیتے ہوئے ، مناظرے اور مباحثے کرتے ہوئے مگر کبھی ہمارے ذہن اور خیال اور گمان میں بھی یہ جواب نہیں آیا.بلکہ جب حضور نے خود ذکر فرمایا، خلیفہ اسیح الثالث نے، اپنے خطبہ میں اور ( ڈاکٹر سلطان احمد مبشر کو مخاطب کرتے ہوئے ) آپ کی نئی معرکۃ الآراء تصنیف ہے تاریخ انصار اللہ میں بھی اس کا ذکر موجود ہے.حضور نے فرمایا کہ جب پوچھا گیا مجھ سے کہ مرزا صاحب نبی تھے.نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے.حضور نے فرمایا کہ نہیں.یہ جواب انتہائی بلیغ تھا اور سب کو حیرت میں ڈال دیا.مولانا ابوالعطاء صاحب فرمانے لگے کہ میں بھی حیران ہو گیا تھا.لیکن اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو شخص اپنے تئیں نبی کہتا ہے وہ دجال اور کذاب، دائرہ اسلام سے خارج ہے.بانی جماعت احمدیہ نے کبھی نبی ہونے کا دعوی نہیں کیا.دعوی کیا ہے امتی نبی ہونے کا.جس کے معنی یہ ہیں کہ میں تو محمد رسول اللہ ﷺ کے سورج کا آئینہ ہوں.دراصل اگر اس آئینے میں کوئی روشنی ہے تو وہ مرہون منت ہے شمس محمد یت کی.بانی جماعت احمدیہ نے خود فرمایا ہے:.این چشمه روان که بخلق خدا دہم یک قطره از بحر کمال محمد است فرمایا یہ جو عظیم الشان نظام جس کے نتیجے میں ہزاروں محمد عربی علیہ کے جھنڈے تلے جمع ہورہے ہیں اور یہ قرآن مجید کے عظیم الشان معارف جو ایک بحر مواج کی طرح موجیں لے رہے ہیں، یہ میری وجہ سے نہیں.نہ میری ذات کا نتیجہ ہے، یہ سب محمد عربی ﷺ کے فیضان کے نتیجہ میں ہے.آنحضرت عے سمندر ہیں جس کا کوئی کنارہ نہیں اور میں اس کا ایک قطرہ ہوں.تو بانی جماعت احمدیہ کا اتنا ہی دعویٰ ہے کہ محمد عربی و کمالات کے نا پیدا کنارسمندر ہیں اور سمندر کا ایک قطرہ محمد رسول اللہ علیہ کی جوتیوں کے طفیل مجھے عطا ہوا ہے.صلى الله حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی معیت کا عقیدت مندانہ اظہار اب سیدی حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کے متعلق بھی آپ نے اس سوال میں پوچھا.

Page 443

427 دراصل اس اسمبلی کے سلسلہ میں ابتداء سے لے کر آخر تک سب سے زیادہ مجھے جو سعادت ملی وہ سیدی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفتہ امسیح الرابع کی جوتیوں میں حاضری کا شرف حاصل ہوا.بے تکلفی بھی بے انتہا تھی.ابتداء سے آخر تک ہر مرحلہ پر محضر نامہ کے لکھنے، پہنچانے پھر سوالوں کے جوابات لکھوانے میں بھی ساتھ رہا.ایک دفعہ فرمانے لگے کہ ہمیں تو کچھ پتہ نہیں کہ سوالات کیا ہونے والے ہیں.تو کچھ نہ کچھ خود ہی اندازہ کر کے، خدا سے دعا کر کے کچھ سوالوں کے جواب بناتے رہا کرو.پتہ نہیں کس وقت کس کی ضرورت ہو.لوگوں میں تو ملاؤں نے مشہور کیا تھا کہ جی پہلے کوئی بتا دیا کرتا ہے حالانکہ اس سے بڑا جھوٹ بیسویں صدی میں شاید ہی کسی نے بولا ہو.تو بات اتنی تھی حضور کے ارشاد پر میں نے پھر کئی حوالوں کی کئی فائلیں بنا ئیں.آپ چاہیں تفصیل میں تو میں دکھا سکتا ہوں.کچھ چھوٹی تھیں کچھ بڑی تھیں.پھر مختلف مضامین کے لئے الگ بنائی گئیں کہ ممکن ہے کہ اس کی ضرورت پڑ جائے.اس کے علاوہ یہ ہے کہ ربوہ سے اسلام آباد آنے کے لئے حضرت سیدی مرزا طاہر احمد صاحب نے خود ہی انتظام کیا اور فرمایا کہ میں اپنی گاڑی پہ آپ حضرات کو لے جاؤں گا.چنانچہ جتنی دفعہ ہم گئے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا قیام تو وہاں ایک مخلص احمدی قاضی محمد شفیق صاحب مرحوم کے ہاں تھا اور ہم لوگوں کو آپ ارشاد فرماتے کہ اب آپ جا سکتے ہیں.بعض اوقات حضور بھی درمیان میں ربوہ تشریف لے آتے.لیکن بہر حال اس کے علاوہ پھر ہمارا قیام نہیں ہوتا تھا بلکہ حضور کا ارشاد ہوتا تھا کہ آپ فوراً چلے جائیں.چنانچہ جس وقت آخری دن یہ اجلاس ختم ہوا تو حضور نے ارشاد فرمایا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو بھی اور مجھے بھی کہ اب تم دونوں فوراً راتوں رات ربوہ پہنچ جاؤ اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور حضرت شیخ صاحب میرے پاس رہیں گے.اس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں ان خوشگوار یادوں میں.مگر اس سے پہلے اس سلسلہ میں میں نے بتایا ہے کہ حضور کی کار ہوتی تھی.تو ہم اکثر ربوہ سے یہ جومونگ رسول والی نہر اور رستہ ہے،اس راستہ سے ہم پہنچتے تھے اور سرائے عالمگیر تک پہنچنے کے بعد آخر میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ دریائے جہلم

Page 444

428 کے پل کا اگلا حصہ تو جہلم پر ختم ہوتا ہے اور پہلے حصہ کے بائیں طرف بڑا سادہ سا ہوٹل ہوتا تھا اور اب بھی شاید ہو.تو حضور کو نور کی گرم روٹی اور دال بہت پسند تھی ، اکثر آتے اور جاتے ہم لوگ ناشتہ یا چائے یا کھانا وغیرہ وہاں کیا کرتے تھے اور ہم نے اس وقت دیکھا ہے کہ جو لطف اس وقت گرم تنور کی روٹی سے اور دال سے آپ لیتے تھے.حیرت آتی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ پلاؤ اور زردہ کھانے والے جو ہیں ان کو بھی وہ لطف نہیں آتا ہو گا جو حضور کو اس دال اور روٹی سے آتا تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتنی سادہ زندگی تھی.وہ کسی نے کہا ہے کہ ؎ لذت نان جویں تجھ کو مبارک اے شیخ مجھ گناہگار کو ہے صرف متنجن کافی مگر حضور نے کبھی وہاں پر رستے میں کوئی ایسی دکان نہیں چنی ،صرف یہ جگہ تھی جو ہمارا مرکز تھا اور اس میں تنور کی روٹی مل جاتی تھی.اب دلچسپ یادوں میں سے انتہائی دلچسپ واقعہ میں آپ کے سامنے عرض کروں گا اور یہ واقعہ ہے کہ جب حضرت خلیفہ اسیح الرابع اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ، الہام کے مطابق اور آسمانی نوشتوں کے مطابق ” غار ثور کا نشان دوبارہ اللہ کے فضل سے دنیا کو دکھانے کے بعد لنڈن تشریف لے گئے اور حضور نے از راہ شفقت اسلام آباد لنڈن میں منعقد ہونے والے پہلے سالانہ جلسہ میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب اور خاکسار کو بطورنمائندہ ، شرکت کا ارشاد فرمایا.وہاں میں اس خیال میں پہنچا تھا کہ جلسہ کی کارروائی سننے کے بعد واپس آنا ہو گا اور کوئی کتاب ساتھ نہیں لے گیا.لیکن وہاں پر حضور کے ارشاد پر میں قریباً چھ ماہ رہا ہوں.واپسی میری اگلے سال 20 فروری 1986 ء کو ہوئی.اور میری بیگم بھی ساتھ تھیں.حضور نے اتنی ذرہ نوازی فرمائی کہ میری بچی جو ایک عرصہ تک ٹورانٹو کی صدر لجنہ بھی رہی ہیں اور حضرت سیده ام متین صاحبہ اور حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ کے حضور خاص طور پر انہیں خدمت کا موقع ملا، ان سے تربیت حاصل کی.کئی سال تک انہوں نے ٹورانٹو کے جلسہ پر تقریریں بھی کیں.ان کا بچہ رضوان جامعہ احمدیہ ٹورانٹو میں تعلیم حاصل کر رہا ہے.دعا کی بھی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو آسمان احمدیت کے ستارے اور آفتاب و ماہتاب بنادے.

Page 445

429 وہ ہوں میری طرح دیں کے منادی فسبحان الذى اخرى الاعادي میری طرح سے مراد یہ ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام جس طرح چاہتے تھے.نداء مسیح موعود کی بلند کرنا ، خدا ان کے ذریعہ سے اور پھر قیامت تک میری نسل کے ذریعہ سے بلند سے بلند تر ہوتی چلی جائے.میں یہ عرض کر رہا تھا کہ جب آخری اجلاس 24 اگست کی شب کو تقریبا دس ، گیارہ بجے آخری اجلاس تھا.وہاں سے واپسی کے معاً بعد حضور نے ہمیں ارشاد فرمایا اور مجھے یاد ہے کہ ہم نے وہاں کھانا بھی نہیں کھایا ، کھانا راستے میں ہی کھایا.حضرت سیدنا طاہر نے مجھے کہا کہ میں کارلاتا ہوں، مجھے فرنٹ سیٹ پر ہی بیٹھنے کا ارشاد فرمایا.خیر وہاں سے چلے تو مسجد نور مری روڈ راولپنڈی کی جو ہے.( میں بیت النور کہتا ہوں چونکہ آئین یہی کہتا ہے اور بیت کا لفظ ہی ہے جو خانہ کعبہ کے لئے استعمال ہوا ہے.دیکھیں گلاب کو جس نام سے بھی یاد کیا جائے اس کی خوشبو تو نہیں جاسکتی.تو بیت خانہ کعبہ کے لئے خدا نے خود استعمال کیا ہے.مسجد کا لفظ مسجد حرام کے لئے استعمال ہوا ہے.لیکن خانہ کعبہ کے لئے بیت کا لفظ استعمال ہوا ہے.تو وہی ہم استعمال کرتے ہیں.اب ہمارا اس میں کیا نقصان ہے.؟) بہر کیف بیت نور تک جب ہم پہنچے تو حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے فرمایا کہ دیکھیں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں راتوں رات ربوہ تک پہنچا دوں.گھر تک نہیں پہنچانے کا ارشاد فرمایا ہے.بلکہ ربوہ تک پہنچانے کا ارشاد فرمایا ہے.تو یہ میرا فرض ہے لیکن تمہارا بھی ایک فرض ہے.میں نے کہا حضور وہ کون سا فرض ہے.فرمانے لگے کہ تمہارا فرض یہ ہے کہ جب تک ربوہ کی پہلی دیوار نہیں آتی تم نے خاموش نہیں ہونا.کوئی لطیفہ بیان کرو.کوئی نکتہ بیان کرو، کوئی مناظرہ ہے تو اس کا تذکرہ کرو تم نے خاموش نہیں ہونا.کیونکہ ڈرائیو(Drive) میں کر رہا ہوں ، اونگھ آجائے گی.کون ذمہ دار ہے اس کا ؟ خیر ! میں سنتا رہا یہ بات.اب وہ بھی جانتے تھے کہ یہ جو حکم دیا جارہا ہے کس محبت اور پیار کا سمندر ہے اس کے پیچھے.میں نے کہا میاں صاحب بات یہ ہے کہ آپ مجھ سے خدا کے لئے ربوہ کا

Page 446

430 ڈبل کرا یہ لے لیں.یہ شرط بڑی مشکل ہے میرے لئے.یہ کہنے کے بعد پھر میں نے وہ لطائف شروع کئے.ایک لطیفہ میں نے پیش کیا تو میاں صاحب نے ملاں نصیر الدین کے لطیفے شروع کر دیئے.مثلاً ایک لطیفہ یہ بیان کیا کہ ملا نصیر الدین کسی قرض دار کے پاس جسے خان صاحب کہا جاتا تھا ، قرضہ لینے کے لئے گئے اور کہا کہ یہ ایسا شخص ہے کہ دس سال ہو گئے ہیں، درہم ہی دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا.اور عجیب و غریب قسم کے بہانے بنانا بھی اس پر ختم ہے.کہا کہ میں نے آج بہر کیف جو بھی صورت ہو گی قرض واپس لے کے آنا ہے.وہاں قریب جو پہنچا تو اوپر دوسری منزل میں اس نے دیکھا کہ خان صاحب بیٹھے ہوئے ہیں.خیر یہ تسلی ہوگئی کہ آج میں خالی نہیں جا سکتا ، گھر میں ہی ہیں.یہ اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آپ دوبارہ آئیں لیکن اس نے بھی دیکھ لیا.اس نے اپنی خادمہ سے کہا کہ ملاں آرہا ہے.دروازہ کھٹکھٹائے گا.تم کہنا کہ خاں صاحب تو باہر تشریف لے گئے ہیں.اس کے بعد میں نے ایک گرہ لگائی.کیونکہ ناظم وقف جدید تھے ناں حضرت صاحب.میں نے اس حکایت میں یہ شامل کی کہ خادمہ کو اس نے یہ بھی کہا کہ جب مزید کہے گا ناں مولوی تو تم کہنا کہ میں وقف جدید کا چندہ لینے گیا ہوں.حضور ”بہت مسکرائے اس پر یعنی کہنے لگے داؤ لگا لیا ہے تم نے کسی کی حکایت بیان کر کے.اس کے بعد قصہ یہ ہوا کہ اس نے Knock کیا ، اور کہا خاں صاحب! خاں صاحب! تو وہ جو گورمتا بنائی تھی، اس کے مطابق خادمہ آئی.کہنے لگی کون صاحب ہیں؟ کہنے لگاملاں نصیر الدین.کن سے ملنا ہے آپ نے؟ حضرت خاں صاحب سے! کہنے لگی افسوس وہ تو گھر میں نہیں ہیں.اگر کوئی Message ( پیغام دینا چاہیں آپ تو.کہنے لگے ہاں بات یہ ہے کہ ہم تو بے کار آدمی ہیں.اور خاں صاحب ”سلسلے“ کی خدمت میں مصروف ہیں.اب وہ وقف جدید کے چندے کے لئے تشریف لے گئے ہیں.سال کا آخر آگیا ہے.تو ویسے وہ باہر ہی رہیں گے یا کبھی گھر بھی آئیں گے؟ کہنے لگی نہیں آجائیں گے.ایک دن تو آ جانا ہے انہوں نے.اچھا پھر ایک پیغام آپ پہنچاسکیں گی؟ کہنے لگی کیا ؟ میں لکھتی ہوں.خیر اس نے پھر لکھا اس نے کہا خاں صاحب سے بس اتنی بات کہیں کہ آپ چندہ لینے کے لئے تشریف لے جائیں سلسلہ کے کام کے لئے.لیکن اپنی گردنِ مبارک جو ہے وہ دوسری منزل پر نہ رکھا کریں.اس سے خواہ مخواہ آنے والوں کو شبہ پڑتا ہے کہ شاید حضرت خاں

Page 447

431 صاحب گھر میں ہی موجود ہیں.یہ لطیفہ اس وقت ہوا.اچھا اس کے بعد پھر لطیفوں کا تبادلہ ہوتا رہا.تبادلہ خیالات کے بجائے تبادلہ لطائف اور مضحکات.میرے دل میں خیال آیا کہ ساری رات ابھی پڑی ہوئی ہے تو کوئی لمبا سا ایسا لطیفہ ہو کہ یہ سفر بھی کٹ جائے اور حضرت میاں صاحب بھی لطف اندوز ہوں.اس سے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ چند دن پہلے میں لاہور گیا تھا کشمیری بازار میں.وہاں سے میں نے حضرت سلطان باہو کی ابیات سے متعلق کچھ کتابیں لیں.یہ 1974ء کی بات ہے.32 سال پہلے کا تذکرہ ہے.اس میں ایک کتاب تھی ”ہزار مسئلہ“.میں نے کہا میاں صاحب! ایک بڑی دلچسپ کتاب لایا ہوں.آپ حضرات کو یاد ہوگا خلیفة امسح الثالث نے غالباً 1974 ء کے جلسہ سالانہ پر نو جوانوں سے یہ فر مایا تھا کہ ہر کتاب پڑھنی چاہئے اور میں تو وہ کتاب جو بکواس ہو وہ بھی پڑھتا ہوں.اور اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اپنی جو کتابیں آپ پڑھ لیں اور آپ کے کام کی نہ ہوں تو وہ سلسلہ کی مرکزی لائبریری ،خلافت لائبریری میں دیا کریں.چنانچہ اس وقت سے خدا کے فضل سے جو مخلص احمدی ہیں اس پر عمل کر رہے ہیں.حتی کہ حضرت ملک عمر علی صاحب جب وفات پاگئے تو میں نے ملک فاروق صاحب سے کہا کہ حضرت ملک صاحب کی کتابیں آپ خلافت لائبریری میں دے آئیں.اس کے علاوہ یوزیڈ تا شیر صاحب کی وفات کے بعد ان کے اعزاء آئے.کہنے لگے جی کہ یہ کتا بیں ہم کہاں رکھیں.میں نے کہا کہ وہ تو خلیفہ اُسیح الثالث" کا پہلے سے ہی ارشاد ہے.ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ سلسلہ کے مرکزی ادارے کی طرف توجہ رکھے کیونکہ یہ ہمارا واحد مرکزی ادارہ ہے کہ جس سے ساری دنیا کے احمدی استفادہ کر رہے ہیں.بہر کیف میں نے کہا کہ یہ ”ہزار مسئلہ کتاب بہت ہی دلچسپ ہے.کہنے لگے کہ اس میں دلچسپی کیا ہے.میں نے کہا جی اس میں ایک کذاب اور دجال نے چالیس صفحے کی ایک حدیث وضع کی ہے اور جس طرح کہ فسانہ بنایا جاتا ہے اور ناولوں میں ہیرو ہیں اور پھر اس میں کوئی Nucleus ہوتا ہے.بعض اوقات وہ معاشرے کے حالات کا منظر پیش کرتے ہیں.بعض اوقات وہ ادبی دنیا کی طرف لے جاتے ہیں.تو اس میں یہ ہے کہ آنحضور ﷺ کے دعوی کو سن کر مدینہ میں عبداللہ بن سلام تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ، وہ یہودیوں کے بہت بڑے عالم تھے، اپنے زمانے کے ریسرچ

Page 448

432 سکالر تھے ، تو انہوں نے یہ سوچا کہ میں ایک ہزار سوال اگر بناؤں اور یہ دعویٰ نبوت کرنے والے اگر ان کا جواب دیں تو مجھے لازماً آپ کی بیعت کرنی چاہئے.خیر انہوں نے ایک ہزار سوال بنایا اور اس کے بعد اپنی یہودی قوم کو جمع کیا اور کہا کہ یہ ہزار سوال میں نے اس لئے بنایا ہے کہ میں محمد ﷺ کے پاس جانا چاہتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ ان کا اگر صحیح صحیح جواب مجھے مل جائے تو میں ایمان لے آؤں گا.سب نے کہا یہ تو بہت ہی اچھا ہے.اگر آپ ایمان لائیں گے تو ہم بھی ایمان لے آئیں گے.چنانچہ یہ پس منظر بیان کرنے کے بعد پھر وہ سوالات بنائے گئے ہیں، ان میں سے چار پانچ میاں صاحب! اس میں سے آپ کو اسی زبان میں بتا تا ہوں جوسنی اور شیعہ واعظ اور خطیب خطبے دیتے ہیں کیونکہ یہ قصے انہی کے لئے بنائے گئے ہیں کہ وہ خطبوں میں ان زٹلیات کو بیان کریں اور لوگوں کی دلچسپی کا موجب بنیں اور اس سے پھر لوگوں میں واہ واہ اور سبحان اللہ کے نعرے لگیں کہ علم و عرفان کے یہ تو پیکر ہیں اور علامہ دوراں“ اور ”غزالی زمان“ ہیں.حضرت میاں صاحب کہنے لگے ہاں سناؤ.تو میں نے انہی کی زبان اور لب ولہجہ استعمال کرتے ہوئے وہ سوال و جواب دہرانے شروع کئے.عبداللہ بن سلام نے یہ سوال کیا زمین کی صفت کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ زمین چپٹی ہے.عبداللہ بن سلام نے یہ بات کہی کہ زمین کسی جگہ پر کھڑی ہے؟ فرمایا رسول اللہ نے کہ تحقیق البتہ زمین کھڑی ہے ایک بیل کے سینگ کے اوپر.عرض کیا گیا وہ بیل کہاں پر کھڑا ہے؟ فرمایا رسول اللہ نے سوہنے کملی والے نے تحقیق البتہ زمین کھڑی ہے اک بیل کے سینگ کے اوپر.عرض کیا گیا کس نے عرض کیا ؟ عبداللہ بن سلام نے عرض کیا.بہت دلچسپ قصہ ہے یہ.میرے بھائیو! ذرا توجہ کے ساتھ سنو اس بات کو.یہ موقع پھر نہیں آئے گا.آپ کو عرض کیا گیا کہ اس بیل کی صفت کیا ہے؟ فرمایا رسول اللہ اللہ نے تحقیق البتہ ( تحقیق البتہ نہیں چھوڑا ) بیل کھڑا ہے وادی غزبان کے اوپر.سبحان اللہ عبداللہ بن سلام نے عرض کیا.وادی غزبان کی صفت کیا ہے؟ فرمایا رسول اللہ نے ، میرے سوہنے نبی نے ، وادی غزبان جہنم کی وادیوں میں سے ایک وادی ہے.جس کے دس ہزار شہر ہیں.کتنے شہر ہیں؟

Page 449

433 دس ہزار.دس ہزار شہر ہیں.ہر شہر کے دس ہزار محلے ہیں.ہر محلے میں دس ہزار گلیاں ہیں.ہرگلی میں دس ہزار مکان ہیں.ہر مکان کی دس ہزار کوٹھڑیاں ہیں.ہر کوٹھڑی میں دس ہزار سانپ ہیں.ہرسانپ کی دس ہزار آنکھیں ہیں.عبداللہ بن سلام کہنے لگے.حق ہے یا رسول اللہ ! عبد اللہ بن سلام فوراً مسلمان ہو گئے.( محترم مولانا صاحب نے یہ قصہ بعد میں حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی فرمائش پر مسجد مبارک ربوہ میں منعقدہ ایک مجلس عرفان میں بھی سنایا تھا.ناقل ) تو یہ ایک نمونہ تھا.اب حضرت سیدنا طاہر اس طرح لطف اندوز ہوئے کہ ہم نے جانا تھا منڈی بہاؤالدین کی طرف اور پتہ نہیں کسی اور طرف چلے گئے.تو جب میں نے وادی غزبان کا لفظ استعمال کیا تو کہنے لگے آج سے ہم اس جگہ کا نام وادی غزبان رکھتے ہیں.تو یہ ان یادوں میں سے ایک ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے قربت کے لحات اب حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی نسبت ! اس بارے میں معذرت چاہتا ہوں کہ ان ایام میں حضور کی خدمت میں ملاقات کے وقت میں روزانہ جو جاتا تھا تو اس کا براہ راست تعلق کتابوں اور حوالوں کے دیکھنے کے ساتھ تھا.لیکن چونکہ آپ کا سوال ہے اور خوش طبعی کے معاملہ کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ اگر چند ماہ بعد کی کوئی بات ہو تو بھی اس سے حسنِ ذوق کے نظارے میں بہر حال ایک دلکش اضافہ ہوسکتا ہے.وہ ایک واقعہ میں صرف عرض کرنا چاہتا ہوں.یہ 1974ء کی بات ہے کہ خاکسار نے جلسہ سالانہ کے اسٹیج پر تقریر کی تھی " تفسیر خاتم النبیین اور بزرگان سلف“ اور اس میں اللہ کی دی ہوئی توفیق سے پہلی دفعہ میں نے اسلامی ممالک خصوصاتر کی سے لٹریچر منگوایا اور ختم نبوت کے متعلق تیرہ سو سال میں جو کتا بیں شائع ہوئیں یا جو ہمیں میسر آسکتی تھیں ان کی ریسرچ کی ، اور میں نے یہ ثابت کیا که خاتم النبین قرآن مجید کی آیت میں آیا ہے اور قرآن عربی زبان میں آیا ہے اور عربی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ہر لفظ بیسیوں نہیں بعض اوقات ہزاروں معنے رکھتا ہے.تو میں آپ کو بتاؤں گا کہ امت مسلمہ کے اکابر اور بزرگ اور صوفیاء اور مفسرین اور صاحب قلم اور دانشوروں اور مؤرخوں نے خاتم النبین کی آیت پر معرکۃ الآراء روشنی ڈالی ہے کم از کم میری ریسرچ کے مطابق کم از کم تمھیں معنی کئے

Page 450

434 ہیں.اس میں اللہ کے فضل سے تین کا اور اضافہ ہوا ہے.وہ معنی میں نے اس میں بیان کئے تو ہمارے بہت مخلص بزرگ جنہوں نے شعبہ تاریخ احمدیت کے لئے ٹائپ رائیٹر (Type Writer) مرحمت فرمایا.ان کا خاندان ، حضرت با بو قاسم الدین صاحب سیالکوٹ کا خاندان، بہت مخلصین میں سے ہیں.اور یہ ہمارے میاں مبارک علی صاحب اور دوسرے میاں اصغر علی صاحب اور میاں عبدالماجد صاحب ہیں.یہ سارے خدا کے شیر ہیں اور حضرت بابو قاسم الدین صاحب سے نسبت کی وجہ سے بس یہ سمجھیں کہ یہ اخلاص کے پیکر ہیں.میاں عبداللطیف صاحب ایڈووکیٹ میاں بھائی آٹوز والے اس وقت سٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے تو تقریر ختم ہوتے ہی انہوں نے مجھے مبارکباددی اور کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ پانچ ہزار کی تعداد میں تمہاری تقریر کو اپنے خرچ پر شائع کروں.تو میں نے شکریہ ادا کیا.میں نے کہا کہ آپ پھر اس طرح کریں کہ ناظر اشاعت حضرت قاضی محمد نذیر صاحب کی خدمت میں درخواست کریں.چنانچہ انہوں نے درخواست لکھی.حضور کی خدمت میں عرض کی.حضور نے لکھا کہ ضرور شائع کی جائے مگر میں اس کو اشاعت سے پہلے ایک نظر دیکھنا چاہتا ہوں.حضور” کا بیان فرمودہ ایک واقعہ اس سلسلہ میں حضور نے مجھے بلایا.حضور کی خدمت میں میں بیٹھا ہوا تھا.یہ ایک دلچسپ بات لا ہور سے ایک احمدی ایڈووکیٹ بزرگ نے لاہور بار ایسوسی ایشن کے اجلاس کی کارروائی کے سلسلہ میں تفصیل بھجوائی.وہ حضور نے چند منٹ پہلے پڑھی تھی.تو وہ جو میرا مسودہ تھا وہ تو حضور نے بس ایک نظر دیکھ کر چند منٹ بعد فرمایا کہ کا تب کو دے دیں.لیکن فرمایا میں تمہیں دلچسپ بات بتا تا ہوں.فرمانے لگے یہ تو ذرا ملنے کا یہ بہانہ تھا.کتاب تم دے دو.لطیفہ میں سنانا چاہتا ہوں.یہ وہ ایام ہیں جن کی میں بات بیان کر رہا ہوں.وہ دراصل بھٹو صاحب کے دور کی نہیں ہے.یہ بھٹو صاحب کا جو ضمیمہ ہے كَلْبٌ يَمُوتُ عَلى كَلْبِ کا مصداق ضیاء الحق ہے.یہ اس دور کی بات ہے اور اس زمانے کی بات ہے جبکہ اس غاصب نے اپنا ز بر دست تسلط جما لیا تھا اور کہا تھا کہ میں قادر مطلق ہوں اور یہاں تک ایران میں بیان دیا کہ آئین کی کیا حیثیت ہے.بتیس صفحہ کا ایک چھوٹا

Page 451

435 سا چیتھڑا ہے.میں اس کو چاہوں تو پھاڑ دوں.اور یہ جو سیاسی لیڈر ہیں وہ اپنی دم ہلاتے ہوئے میرے پیچھے آئیں گے.اس قسم کے الفاظ اس وقت استعمال کئے گئے.یہ اُس زمانے کی بات ہے اس وقت ایک فرعون وقت کا جو رعب داب حضرت موسیٰ کے زمانے میں تھا اس کا اندازہ ہمیں اس دور میں ہوا کیونکہ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے.یہاں بار ایسوسی ایشن میں سارے ہی مخالف تھے.انہوں نے فیصلہ کیا کہ مارشل لاء کے متعلق کوئی جلسہ ہونا چاہئے لیکن ایسے رنگ میں ہو کہ قانون کی زد میں نہ آئے اور سب باتیں حکایتوں کی شکل میں ہوں.تو صدر کی اجازت سے پہلے دو جو مقرر تھے ان کی وضاحت کے سلسلہ میں حضور نے فرمایا کہ ایک نے یہ بات کہی کہ ایک اونٹ جنگل میں سرپٹ دوڑا چلا جارہا تھا.ایک دوسرے اونٹ نے کہا کہ کیا مصیبت آگئی ہے.کوئی قیامت تو نہیں ہے.وقار کے ساتھ چلو.آہستہ آہستہ ہم پہنچ جائیں گے.کہنے لگا.نہیں تمہیں پتہ نہیں لگا ابھی تک؟ کیسے بے خبر ہو سیاست سے.کہنے لگا کیا ہوا؟ کہنے لگا ضیاء الحق کا مارشل لا لگ گیا ہے.کہنے لگا پھر کیا ہوا.کہنے لگا اس میں یہ بھی ہے کہ جس قدر بھی ہاتھی موجود ہیں ان کو فوراً اریسٹ (Arrest ) کر لیا جائے.کیونکہ انسانی حکومت قائم ہونے والی ہے ہاتھیوں سے معاملہ بگڑ جائے گا.کہنے لگا پھر تمہیں اس سے کیا فکر ہے؟ تم تو ہاتھی نہیں ہو، اونٹ ہو.کہنے لگے جی مارشل لا ہے ناجی اب کوئی پتہ نہیں For the purpose of constitution مجھ کو ہی ہاتھی سمجھ کر وہاں پر نہ ڈال دیں.دوسرا اٹھا.اس نے تو اونٹ کی مثال دی تھی.اس نے ایک بھیٹر کی مثال دی.کہتے ہیں کہ ایک شخص جنگل میں گیا تو دیکھا ایک بھیٹر چل رہی تھی.بدصورت انتہا درجے کی اور رطوبت اس کی ناک سے نکل رہی تھی اور رنگ بالکل کالا سیاہ تھا.تو اس نے پوچھا کہ سنا ہے یہاں پریاں بھی رہتی ہیں.کہنے لگی تم ٹھیک کہتے ہو.شبہ تو مجھ پر ہی ہے لوگوں کا.کہنے لگے کہ اسی طرح ضیاء کو شبہ ہو گیا ہے کہ اللہ نے مجھے Islamization کے لئے دنیا میں مبعوث فرمایا ہے.اب صدر صاحب کی باری آئی.بارایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ کی.انہوں نے ایک خان صاحب کا واقعہ سنایا.کہنے لگے ایک خان صاحب جو بڑی قد آور شخصیت تھی.ان کے متعلق عوام میں یہ چرچا ہونے لگا کہ انہوں نے خدا کے چھوٹے بھائی ہونے کا دعوی کیا ہے.ہر مجلس میں، ہر گلی،

Page 452

436 کوچے میں ، ہر ہوٹل میں Burning Issue کے طور پر یہی موضوع تھا.اس دن ایک مجلس میں دو چار آدمی بیٹھے ہوئے بات کر رہے تھے.ایک کہنے لگا یہ خواہ مخواہ ایک شریف آدمی کے اوپر تہمت لگانے والی بات ہے.بد نام کرنے والی بات ہے.یہ کوئی سازش معلوم ہوتی ہے.دوسرے نے کہا، دیکھیں ہوسکتا ہے سازش ہی ہو.مگر دیکھیں انسان کے دماغ میں خلل آنے کا حادثہ تو سبھی کو ہوسکتا ہے.ہم مولوی محمد حسین صاحب آزاد کی نظمیں پڑھتے ہیں.ان کی ”آب حیات اور دوسری کتا ہیں.وہ اس دور کے ادب کا شاہکار سمجھی جاتی ہیں.آخر عمر میں پاگل ہو گئے تھے.بچے ان کو چھیڑتے تھے.وہ ان کو پتھر مارتے تھے.حالانکہ بچے نظمیں ان کی پڑھتے تھے.تو ہوسکتا ہے دماغ خراب ہو گیا ہو.ایک شخص کہنے لگا اصل طریق تو یہ نہیں ہے کہ خواہ خواہ اس کے اوپر ہم کوئی جرح کریں.نزدیک ہی تو ان کی کوٹھی ہے.وہاں جا کر خود ان سے پوچھ لینا چاہئے تاکہ اصل حقیقت ہمارے سامنے آجائے.دو بھائی تھے.انہوں نے اس گپ شپ میں کوئی حصہ نہیں لیا.وہ دونوں اکٹھے وہاں سے نکلے اور خان صاحب کی کوٹھی پر پہنچے.Knock کی.انہوں نے اپنے ڈرائینگ روم میں ان کو بٹھایا.کہنے لگے جی ارشاد.کہنے لگے نہیں کوئی ایسی بات نہیں.ہمارے دل میں ایک خیال آیا کہ اتنی عمر ہوگئی ہماری، ہم خدا کو نہیں دیکھ سکے تو ہم نے سوچا.یہ اللہ کا فضل ہو گیا ہے کہ کم از کم خدا کے چھوٹے بھائی کی ہی زیارت کر لیتے ہیں.اب صاف بات ہے.مقصد یہ تھا کہ ہاں یا ناں میں بات صاف ہو جائے گی.خان صاحب نے بڑے وثوق کے ساتھ اور اعتماد کے ساتھ کہا.ہاں یہ واقعی محض اللہ کے فضل سے آپ کو زیارت نصیب ہو رہی ہے.خدا کے چھوٹے بھائی کی.کہنے لگے احمدللہ یہ تو بڑا اللہ کا کرم ہے.آپ کا احسان ہے کہ آپ نے شرف بخشا ہے.بس ایک درخواست ہے.بڑا بھائی کہنے لگا.درخواست یہ ہے یہ جومیرا چھوٹا بھائی ہے اس کی دائیں آنکھ سلامت ہے.بائیں آنکھ جو ہے وہ سلامت نہیں ہے.یعنی ایک آنکھ کام ہی نہیں کرتی.تو آپ کے بڑے بھائی نے ایک آنکھ دی ہے میرے بھائی کو.آپ اس کے چھوٹے بھائی ہیں.چھوٹی سی آنکھ آپ بھی مرحمت فرما دیں.ع ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے کہنے لگے ہاں.یہ مطالبہ تو بالکل معقول ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ حکومتوں میں بھی یہ چیز ہے.چھوٹی سے لے کر بڑی حکومتوں تک اپنے سارے نظام کی بنیاد تقسیم کار پر رکھتی ہیں.تو ہر

Page 453

437 ڈیپارٹمنٹ کے اپنے فرائض ہیں.آنکھیں بنانے ، آنکھوں کو صاف کرنے ، آنکھوں میں زیادہ نور بر پا کرنے کی ذمہ داری بڑے بھائی نے اٹھائی ہوئی ہے، اور کسی کو اندھا کرنا.یہ اس ناچیز کے کندھوں کے اوپر یہ فرض عائد کیا گیا ہے.تو اگر آپ یہ چاہتے ہوں یہ پہلی جو آنکھ ہے اس کو بھی ختم کر دیا جائے تو یہ ناچیز یہ فریضہ بحیثیت خدا کے چھوٹے بھائی کے بآسانی سرانجام دے سکتا ہے.یہ مثال بیان کرنے کے بعد کہنے لگا ضیاء الحق صاحب مسلمانوں کو اور اسلام کو ضائع کرنا جانتے ہیں.اسلام قائم کرنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.حبیب جالب صاحب نے بھی تو ایک شعر کہا تھا کہ سب کچھ تمہیں کرنے کی اجازت ہے مگر خدا کے لیے اسلام کا جلوس نہ نکالو.تو یہ دلچسپ یا دوں کا ضمیمہ تھا.حضور کی اسلام آباد میں قیام گاہ حافظ محمدنصر اللہ صاحب :.مولانا صاحب! حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ کا دوران اسلام آباد میں قیام کس گھر میں رہا؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.مکرم قاضی محمدشفیق صاحب کے گھر میں.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.کچھ تھوڑا سا تعارف ان کا کروادیں؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب - مکرم قاضی محمد شفیق صاحب سے میری ملاقات اسی دور میں ہوئی اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے اسلام آباد میں یہ کوٹھی بنوائی ہے.میں ربوہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا کہ حضور یہ میں نے نئی کوٹھی بنائی ہے.میں چاہتا ہوں کہ حضور کے قدموں سے اس کو برکت حاصل ہو جائے.یہ ایک موقعہ آگیا ہے.جماعت کو بہر حال ضرورت ہے تو میں اپنی کوٹھی اس کے لئے پیش کرتا ہوں تو حضور نے از راہ شفقت اس کو شرف قبولیت بخشا.یہ بات انہوں نے خود مجھے بیان فرمائی تھی.قاضی محمد شفیق صاحب فیض اللہ چک ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے.اللہ تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں ہوں.وہ 19 فروری 2005ء کو ہم سے جدا ہو گئے.ع خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.قاضی صاحب کی ایک خود نوشت آپ کے پاس موجود ہے.جو

Page 454

438 اس مکان کی تعمیر میں اللہ تعالی کے افضال اور حضرت خلیفہ اسح الثالث کی اس مکان میں رہائش کے حوالہ سے بڑی ایمان افروز ہے.آپ اگر اسے ہدیہ ناظرین کر سکیں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ ان کا اصل خط ہے.میں نے ان کی خدمت میں اسمبلی کی کارروائی کے معا بعد لکھا کہ آپ تو ایک تاریخی شخصیت بن گئے ہیں.اپنے حالات سے اطلاع بخشیں تو بڑی عنایت ہوگی.انہوں نے جو تحریر فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ 66 میرا آبائی گاؤں فیض اللہ چک ضلع گورداسپور ہے.“ ڈاکٹر صاحب ! آپ کے سرال کا تعلق بھی تو فیض اللہ چک سے ہے.اور اسی طرح بڑے بڑے اکابر بزرگ اور میرے استاد حضرت مولا نا عبد الرحمان صاحب جٹ کا تعلق بھی اسی گاؤں کے ساتھ ہے.ڈاکٹر عطاء الرحمان صاحب امیر جماعت احمدیہ ساہیوال بھی وہیں سے تعلق رکھتے ہیں.تو کہتے ہیں کہ ” میرا آبائی گاؤں فیض اللہ چک ضلع گورداسپور ہے..میرے والد کا نام قاضی کریم اللہ تھا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.( یہ میں ان کی تحریر پڑھ رہا ہوں.) آپ ہجرت کے وقت گاؤں میں شہید ہو گئے.“ ( دراصل فیض اللہ چک میں اس وقت بہت بڑا معرکہ اور جنگ تھی.کئی احمدی بھی شہید ہوئے تھے.) کہتے ہیں:.ریٹائر منٹ کے وقت ائیر فورس میں سکواڈرن لیڈر کے عہدہ پر فائز تھا.میں نے اسلام آباد میں ایک ٹکڑا زمین بنانے کے لئے 1966ء میں خریدا.1973 ء جنوری میں ریٹائر ہونے کے بعد اس زمین پر مکان بنانے کا پروگرام بنایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مئی 1973ء میں اس پر کام شروع ہوا.اس مکان کی تعمیل اور مالی مشکلات کے لئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض قریباً روزانہ کیا کرتا تھا.آخر 73 ء یا شروع 74ء میں

Page 455

439 امیر جماعت اسلام آباد مکرم جناب ورک صاحب اور مکرم جناب امیر جماعت راولپنڈی شہر چودھری احمد جان صاحب نے اشارۃ مکان حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے کرایہ پر لینے کی خواہش کی.مکان مکمل نہ تھا اور نہ ہی سرمایہ.میں نے عرض کیا کہ پندرہ ہزارل جائے تو کام ہو جائے گا.“ اور اس کے بعد کہتے ہیں کہ ”انہوں نے خاموشی اختیار کی اور میں اکثر دعا کیا کرتا کہ یا اللہ حضور مکان میں تشریف لے آویں.کام رکھتا اور چلتا رہا.جولائی 1974ء کے وسط میں مجھے 1200 کی سخت ضرورت تھی مگر کوئی انتظام نہ تھا...مکرم جناب امیر صاحب چوہدری احمد جان صاحب...نے مجھے ایک خط پر لکھ دیا کہ حضور کے لئے مکان چاہئے اور پچیس سو روپے نقد عطا فرمائے کہ فور ضروریات پوری کرلو....پھر لکھتے ہیں کہ 66 حضرت مرزا منور احمد صاحب نے ایک دن اسمبلی کے دنوں میں مجھ سے کہا کہ حضور سے بھی ملاقات کر لو.حضور قیام فرما ہیں اور یہ برکت کے ایام ہیں.تو میں پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے بعد پھر میں نے عرض کیا کہ حضور دو ہی حصے ہیں اس کوٹھی کے.جن میں سے ایک میں تو حضور قیام فرما ہیں.اور دوسرے میں وفد کے ارکان ہیں تو حضور ان کے نام رکھ دیں.تو فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ لمسیح الثالث نے اس جگہ پر جہاں حضور کا قیام تھا اس کا نام دار الامن تجویز فرمایا اور جہاں وفد کے ممبر مقیم تھے، اسے دار السلام قرار دیا.“ اس گھر کا پتہ یہ ہے.مکان نمبر 18 گلی نمبر 44 سیکٹر 8/1-F اسلام آباد.سلطان احمد مبشر )

Page 456

440 پھر فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور ایدہ اللہ تعالیٰ باہر Terrace میں کھڑ.فوٹوگرافی فرمارہے تھے.ایک فوٹوگرافر نے حضور کا فوٹو لے لیا اور یہ ایک فوٹو بھی میرے پاس موجود ہے.“ آخر میں لکھتے ہیں کہ میں اس وقت رسالپور میں رہتا ہوں اور یہ مکان وہ ہے جو ابھی تک نامکمل ہے اور یہ رسالپور میں احمدی کا پہلا مکان ہے.نماز جمعہ رسالپور میں جماعت احمدیہ کے ممبر میرے مکان پر پڑھتے ہیں.کارروائی سے متعلق شائع شدہ بعض کتب پر سیر حاصل تبصره ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : - مولانا صاحب! قومی اسمبلی 1974 کی کارروائی خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا.لیکن اس حوالہ سے کچھ کتابیں بھی بازار میں آئی ہیں.آپ نے لازماً ان کا مطالعہ کیا ہوگا.ایک چشم دید گواہ کی حیثیت سے آپ کا تبصرہ ان کتابوں پر کیا ہے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.جزاکم اللہ.یہ بھی نہایت اہم ترین سوالات میں سے ہے.اس تبصرے سے پہلے میں صرف یہ عرض کروں گا کہ بھٹو گورنمنٹ نے جو فیصلہ احمدیوں کے متعلق کیا تھا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے یورپ میں بھی اور پاکستان میں بھی ، انصار اللہ کے اجتماع میں یہ فرمایا ہے کہ یہ قانون جو For The Purpose Of The Constitution ہے، یہ خودحکومت کے اپنے سیاسی قانون کے لحاظ سے ہے.یہ ہمیں پابند نہیں کرتا کہ ہم اپنے تئیں مسلمان نہ سمجھیں اور حقوق انسانی کے چارٹر کے لحاظ سے جو کہ خود آئین پاکستان کا مستقل حصہ ہے، ہمیں اختیار ہے کہ ہم اپنے مذہب کا اعلان عام کریں.اسی طرح یہ کارروائی خفیہ رکھنے کا نہ کوئی گورنمنٹ کی طرف سے اعلان ہوا.نہ صرف یہ نہیں ہوا بلکہ میں نے بتایا ہے کہ خود بھٹو حکومت نے اس کو شائع کیا مگر اس کی اشاعت خفیہ رکھی.سرکلر میں اس کا مختصر جو خلاصہ تھا، وہ شائع کیا اور اس کی کا پیاں سینٹ اور اسمبلی کے ممبروں کے لحاظ سے شائع کیں اور پھر ان کو دیں اور ان سے کہا کہ پھر جس کو آگے وہ دینا چاہیں.تو یہ چیز ہمیں پابند نہیں کرتی کسی لمحے میں بھی ، خاص طور پر اس شخص کو جو کہ Eye Witness ہو.

Page 457

441 تو یہ خفیہ کا لفظ بھی جیسا کہ میں نے بتایا کہ یہ ایک سازش تھی.جس طرح کہ احمدیوں کے مکانوں کو تو کھلے بندوں تباہ کیا جارہا تھا اور ختم نبوت کے تحفظ کے لئے "In Camera" کارروائی ہورہی تھی.اب یہ ایک وضاحت جو میں نے عرض کی ہے.اس کے بعد میں اس سلسلہ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ایک کتاب جو میں نے دیکھی ہے غالبا وہ ملتان سے چھپی ہے So Called مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے.مجھے اس سلسلہ میں یہ بھی یاد آیا.حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ بہت بلند پایہ بزرگ تھے.دس کروڑ دیوبندی ملاں بھی ان کی جوتیوں پر قربان کر دیئے جائیں تو ان کے لئے باعث سعادت ہے.وہ اپنے مکتوب میں یہ تحریر کرتے ہیں کہ ایک صاحب نظر نے دریا کے کنارے شیطان کو دیکھا.اس سے پوچھا کہ تم کون ہو.کہنے لگا میں شیطان ہوں.کہنے لگے تمہیں تو قیامت تک کے لئے خدا نے ورغلانے اور گمراہ کرنے اور برائیاں پھیلانے کے لئے حکم دیا ہے.تم آرام کے ساتھ چھٹی منا رہے ہو یہاں پر.اپنا کام کرو.کہنے لگا نہیں بات یہ ہے کہ میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں.میں نے اپنا سارا کام جو ہے وہ تکفیر گر ملاؤں کے سپر د کر دیا ہے.“ مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ 47 ناشر مطبع نامی گرامی منشی نولکشور کانپور ) اب میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ جو نام نہاد کا رروائی ہے دراصل وہ ختم نبوت کے نام پر ایک نہایت شرمناک اور اخلاق سوز ڈرامہ ہے.جس میں بھٹو سر کار کے شائع کردہ سرکلر کو پیش نظر رکھ کر اسمبلی کی کارروائیوں کی رپورٹنگ (Reporting) اپنے باطل نظریات کے مطابق ڈھالنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے.اور انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ اخلاق سوز ڈرامہ اسلام اور ختم نبوت کے نام پر کھیلا گیا ہے.مولا نا فضل الرحمن صاحب کے والد مفتی محمود نے تو کہا تھا کہ میں پاکستان کے قیام کے گناہ میں شامل نہیں ہوں ( امروز یکم ستمبر 1975 صفحہ 8) اور فضل الرحمن نے یہ کہا کہ پاکستان فراڈ اعظم ہے.لیکن حق یہ ہے کہ اگ فراڈ اعظم کا لقب دیا جاسکتا ہے چپہلی صدی میں تو اس کتاب کو دیا جا سکتا ہے.کیونکہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کے بارہ روزہ حقیقت

Page 458

442 افروز بیانات کی تفصیلات سرکاری سرکلر کے فل سکیپ (Fools Cap) سائز کے ایک ہزار دوسو ستتر صفحات پر محیط ہے.جس کا خلاصہ مرتب کتاب نے نہایت مسخ شدہ صورت میں دو سو چوبیس صفحات میں پیش کیا ہے.اور یہ صفحات کتابی سائز کے ہیں، سرکلر فل سکیپ سائز کا ہے.اور اس کے صفحات ہیں بارہ سوستر.یہ اعدادو شمار ہی اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ مرتب نے ایک مذہبی ، قومی اور تاریخی امانت کے معاملے میں کس درجہ دجل وفریب ، بددیانتی اور جعل سازی سے کام لیا ہے.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے موقف پر جس تفصیل سے جواب دیئے.تقویۃ الایمان کے حوالے سے لا جواب کیا.مسئلہ جہاد پر مسلم لیڈروں کی آراء پیش کیں.فتاویٰ تکفیرسامنےرکھے.سعودی عرب کا کردار بے نقاب کیا، اس کا نام ونشان بھی اس خلاصے میں نہیں پایا جاتا کیونکہ زد پڑتی تھی.اصل حقائق سامنے آتے تھے اور مقصود حقائق کو دبانا تھا اور احمد یوں کو بدنام کرنا تھا.کتاب ”تحریک ختم نبوت فنِ تلمیس کا شاہکار کرتا ہوں.اب میں غلط بیانیوں کے بہت سے نمونوں میں سے وقت کی مناسبت سے چند نمونے عرض صفحہ نمبر 102-103 میں یہ ذکر ہے کہ 8 اگست کو مفتی محمود نے حضور پر جرح کرتے ہوئے قلائد الجواہر ، تذکرۃ الاولیاء اور دیو بندی مذہب کے متعلق کہا کہ یہ ہم پر حجت نہیں.ان رطب و یابس کتب کو بہانہ بنا کر الجھانا یہ دجل ہے.اس کے بعد لکھا ہے کہ مرزا ناصر احمد صاحب نے صرف یہی جواب دیا کہ مفتی صاحب نے صحیح کہا کہ یہ ان کی کتابیں نہیں ہیں.“ یہ سب فرضی بیان ہے جو مفتی محمود کی علمیت جتانے کے لئے اختراع کیا گیا ہے.حد یہ ہے کہ اس بیان میں سات نکات کا ہیولہ مرتب نے خود تیار کیا ہے.اور مفتی محمود کی طرف منسوب کر ڈالا ہے.نیز اس میں زور پیدا کرنے کے لئے یہ فرضی بیان درج ذیل الفاظ میں ختم کیا ہے کہ : میں پھر چیلنج کرتا ہوں کہ میرے سات نکات میں سے کسی ایک کا مرزا ناصر کے پاس ہمت ہے، جواب ہے تو لائے.“

Page 459

443 8 اگست کی کارروائی کے متعلق سرکاری سرکلر موجود ہے جو اس دجل و فریب پر شاہد ناطق ہے کہ مفتی محمود کی طرف سے نہ کوئی سات نکات پیش کئے گئے نہ کوئی چیلنج کیا گیا.وہ موقع ہی کوئی نہیں تھا یعنی اس طرح پیش کرنے والے نے کیا ہے یعنی بتایا جائے کہ مناظرہ ہو رہا ہے.یہ محض افسانہ ہے جو مرتب کے دماغ کی پیداوار ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اس کے علاوہ کوئی اور بھی مغالطہ ہے جو ڈالا گیا.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.جی 20 اگست 1974ء کی کارروائی میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی طرف یہ بیان منسوب کیا گیا ہے کہ آپ نے اٹارنی جنرل کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ مرزا صاحب کی زندگی کی بات نہیں ہے بلکہ قیامت تک مسیح کا زمانہ محدود نہیں.آپ ان کے زمانے کو محدود نہ کریں بلکہ حضور علیہ السلام کے خلفاء کا زمانہ اب مسیح موعود کے خلفاء کا زمانہ ہے.میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اب تین صدیوں میں اسلام پھیل جائے گا امریکہ سمیت ساری دنیا میں.یہ میرا ایمان ہے.ی تحریک ختم نبوت جلد دوم صفحہ 172-173 کی عبارت ہے.اب اس کے مقابل پر حکومت پاکستان کے سرکلر سے حضرت خلیفہ المسح الثالث کا اصل بیان میں پیش کرتا ہوں.حضور نے فرمایا اس سرکلر کی رپورٹنگ کے مطابق:.اصل زمانہ محمدعلی کا ہے.صبح اگر میں اپنی وضاحت نہیں کر سکا تو میں معافی مانگتا ہوں.اس لئے زمانہ بعثت نبوی سے قیامت تک محمد عے کا زمانہ ہے.بیچ میں مختلف آپ کے روحانی فرزند مجددین وغیرہ آئے.ہمارا محاورہ ہے کوئی چیز ان کی طرف نہیں جاتی جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ ہماری تمام تر خوشی اس میں ہے.ہماری بعثت کی غرض خدا تعالیٰ کی توحید، نبی کریم علیہ کی عزت کو دنیا میں قائم ہو.ہم یقیناً جانتے ہیں کہ ہماری نسبت جس قدر تعریفی کلمات پہلی پیشگوئی اور تجھیدی باتیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائیں

Page 460

444 یہ بھی در حقیقت آنحضرت علی کی طرف راجع ہے.اس لئے میں آپ ہی کا غلام ہوں اور آپ ہی کے مشکوۃ نبوت سے نور حاصل کرنے والا ہوں.مستقل طور پر ہمارا کچھ نہیں اس لئے وہی زمانہ چل رہا ہے ( یعنی محمد مصطفی ﷺ کا زمانہ.ناقل ) غلبہ دین کے متعلق مہدی اور مسیح موعود کے وقت کے متعلق ، پہلوں نے لکھا، تفسیر میں بھی ہے اور دوسری ہماری جو مذہبی کتابیں ہیں ان میں بھی ہے.‘ (سرکار صفحہ 84-85) اس کے بعد حضور نے مختلف تفاسیر کے حوالے پیش فرمائے.مثلاً تفسیر ابن جریر تفسیر حسینی حافظ محمد نصر اللہ صاحب : ذرية البغایا“ کے حوالہ سے جو اعتراض ہوتا ہے اس پر بھی؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.ہاں جزاکم اللہ اس پہلو کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت تھی.اس کتاب کی جلد دوم کے صفحہ 114 پر ذریۃ البغایاکی بحث کے متعلق لکھا ہے کہ ( حضرت خلیفہ اسیح الثالث ) ” نے ایوان میں اتنا ہی جواب دیا کہ 66 ذرية البغایا کے معنی کنجریوں کی اولاد نہیں اور پھر کہا کہ خیر آگے چلیں.“ حالانکہ حضور نے ایوان میں ایسا مدلل اور مسکت جواب دیا کہ گویا دن چڑھا دیا.اب میں اس کے ثبوت میں گورنمنٹ کے شائع کردہ سرکلر کا حوالہ پیش کرتا ہوں.لکھا ہے:.اس مضمون کو دوسری جگہ آپ نے (یعنی مسیح موعود نے.ناقل ) اس طرح بیان کیا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے دنیا میں بھیجا ہے اور مجھے بشارت دی گئی ہے کہ تمام نوع انسانی اسلام کو قبول کر لے گی اور صرف وہی باقی رہ جائیں گے جن کی حالت چوہڑوں اور چماروں کی طرح ہو گی.اور بھی بعض جگہ آیا ہے تو ایک مؤلف کے حوالے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس قسم کے جو مضمون اس نے بیان کئے ہیں ان سب کو اپنے سامنے رکھا جائے.یہ عربی کا صیغہ ہے.یہ حال اور مستقبل دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے.حال اور مستقبل ہر دو کے لئے.دوسرا حوالہ اس میں یہ بتا رہا ہے کہ یہاں مستقبل کے لئے ہے حال کے لئے نہیں.معنی یہ نہیں

Page 461

445 قبول کرتے ہیں.جب یہ لکھا گیا تھا تو اس کے بعد لاکھوں آدمیوں نے اسلام کو قبول کر لیا.ہماری تبلیغ اس وقت ہو رہی ہے افریقہ میں، یورپ میں، امریکہ میں، لاکھوں نے اسلام کو قبول کیا.بت پرستوں نے اپنے بت توڑ دیے.ہمیں تصویر میں آتی رہتی ہیں وقفے وقفے کے بعد ان لوگوں کی جو بت جلاتے ہیں.یہاں جو مضمون بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آخری زمانہ میں یہ مقدر رکھا ہے کہ تمام نوع انسانی اسلام کو قبول کرلے گی.ذرية البـغـايـا الـذيــن ختم الله على قلوبهم ( یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ مبارک ہیں.) صرف وہ باقی رہ جائیں گے جن کی حالت چوہڑے چماروں کی طرح ہوگی.آگے اس کی تشریح کی ہے جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگادی ہے صرف وہ اسلام کو قبول کرنے میں پیچھے رہ جائیں گے.سارے اسلام کو قبول کر لیں گے.یہ مستقبل کی بات ہے اس کو حال پر کیوں لگایا جاتا ہے.“ سرکلر 20 اگست 1974 ، صفحہ 132-133) کتنا شاندار اور فیصلہ کن اور معرفت سے لبریز جواب ہے.قیامت تک اس کا دیو بندی دنیا کوئی جواب نہیں دے سکتی.خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب : ” جہاؤ کے سلسلہ میں جو کچھ لکھا گیا ہے، اس کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.اس بارے میں، میں یہ سرکلر ہی کی روشنی میں عرض کرنا چاہتا ہوں.22 اگست 1974ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جہاد، اس کی شرائط اور دیگر بعض اہم مسائل پر معرکہ آراء بحث فرمائی جو حکومت کے جاری کردہ سرکلر میں فل سکیپ سائز کے ایک سوچار صفحات پر مشتمل ہے.مگر اس کتاب کے مصنف نے اس کو محرف و مبدل بلکہ حذف کر کے اور مسخ کر کے صرف اکیس صفحات میں اس کا خلاصہ کیا ہے اور انتہائی خباثت باطنی کے ساتھ حضور کے بیان

Page 462

446 فرمودہ حقیقت افروز مباحث کو غارت کر دیا ہے.اس روز حضور نے تفصیل کے ساتھ مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی اور مولوی کرم دین صاحب بھیں کے بھی مفصل حوالے پیش فرمائے.جن کا خلاصہ صرف ایک فقرے میں دیا گیا ہے اور وہ فقرہ یہ ہے کہ ะ مرزا ناصر احمد :.اوروں نے انگریز کی حمایت نہیں کی ؟“ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی حافظ محمد نصر اللہ صاحب : ایک بات اس کتاب میں یہ درج کی گئی کہ مولوی ثناء اللہ امرتسری اور محمدی بیگم کے متعلق جو سوال کئے گئے تو حضور نے فرمایا کہ اس کا مفصل جواب دے دیا جائے گا جو کہ کتاب کے مطابق نہیں دیا گیا.اس بارہ میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.اس کتاب کے صفحہ 225 اور صفحہ 231 میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ حضور نے مولوی ثناء اللہ صاحب اور محمدی بیگم سے متعلق پیشگوئیوں کی وضاحت آئندہ کرنے کا وعدہ کیا جو ایفاء نہیں ہوا.یعنی تاثر یہ دیا گیا ہے.حالانکہ حضور کی طرف سے ان پیشگوئیوں کے متعلق جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، مفصل نوٹ اسمبلی میں چند دنوں کے اندر دے دیئے گئے تھے.اور وہ نوٹ ، ان کا مکمل عکس میرے پاس موجود ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مولوی ظفر انصاری صاحب کے حوالے سے یہ بات کہی ہے کہ وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (البقرة: (5) کی آیت کے حوالہ سے، اس نے کہا کہ جی مرزا صاحب نے اس لحاظ سے معنوی تحریف کی ہے قرآن کریم میں.نعوذ باللہ من ذالک.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.ہاں یہ سوال کیا تھا انہوں نے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.تو اس حوالے سے بھی کچھ مغالطہ دینے کی کوشش کی گئی ہے اس کتاب میں.ذکر ہے کہ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.جی صحیح فرمایا آپ نے.اس کتاب کے صفحہ 234 پر جناب مولوی ظفر انصاری صاحب نے یہ اعتراض پیش کیا کہ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ اس میں مرزا صاحب کی نبوت مراد لی گئی ہے جو

Page 463

447 تحریف معنوی ہے.“ آگے جو حضور کی طرف سے اس میں جواب لکھا گیا ہے چودہویں صدی کے اس یہودی کی طرف سے اس میں صرف یہ لکھا گیا ہے کہ ایک لفظ کے کئی ترجمہ ہو سکتے ہیں.“ لیکن حق یہ ہے جیسا کہ خود حکومت پاکستان کے مجریہ سرکلر سے ثابت ہے،حضور نے اس دعوئی کے ساتھ دلائل بھی پیش فرمائے ہیں اور اس ضمن میں بعض قدیم کتب کا بھی حوالہ دیا ہے.صفحہ 236 پر ظفر انصاری کا یہ سوال درج ہے کہ ”حضرت مرزا صاحب کو ان آیات قرآنی میں الہام ہوا جو 66 آنحضرت ملالہ سے مخصوص ہیں.“ جیسا کہ سرکاری ریکارڈ یعنی سرکلر کے صفحہ 114 اور 115 کے مطالعہ سے واضح ہے.حضور نے اس ضمن میں حضرت مولوی عبداللہ غزنوی کے متعدد الہامات پیش فرمائے.میں تفصیل عرض کر چکا ہوں.آنحضرت ﷺ کے لئے جو آیات اور مقام سے مختص تھے ان الفاظ میں الہامات ہوئے.اسی طرح حضرت سید عبد القادر جیلانی کی کتاب "فتوح الغیب سے بھی مثالیں حضور نے پیش کیں.حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانی کو کئی بار وہ آیات الہام ہوئیں جو قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اعلیٰ شان کے لئے مذکور ہیں.مگر کتنے شرم کی بات ہے کہ اس نام نہاد گستاخ ختم نبوت نے اپنی کتاب کے صفحہ 237 پر حضور کی طرف سے صرف یہ جواب نقل کیا ہے بزرگوں کو الہام نہیں ہوتے ؟ اس کا کوئی مقصدی نہیں ہے." حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.منارہ اسیح کے حوالے سے بھی ایک سوال تھا اور حضور نے جو مفصل جواب دیا.اس حوالے سے بھی اس کتاب میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب: کتاب کے صفحہ 240 پر مولوی ظفر انصاری کا یہ اعتراض درج ہے کہ دمشق میں ایک مینار پر حضرت عیسی کا نزول ہوگا.مرزا صاحب

Page 464

448 66 نے قادیان میں مینار مسیح بنوایا.“ کتاب کے مؤلف کے مطابق حضور نے اس کا جواب محض یہ دیا کہ مشق ایک اینٹ گارے کا شہر ہے“ اب حکومت پاکستان کے سرکلر سے حضور کا اصل جواب ملا حظہ ہو :.دمشق ایک اینٹ گارے کا بنا ہوا شہر بھی ہے اور دمشق کے ساتھ کچھ مذہبی Associations بھی ہیں.تو جو حدیث میں آیا ہے کہ دمشق کے قریب اترے گا آنے والا مسیح.بانی سلسلہ احمدیہ نے ہمیں یہ نہیں کہا.بانی سلسلہ احمدیہ نے ہمیں یہ کہا کہ یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دمشق جو اینٹ گارے کا بنا ہوا ہے وہ، بلکہ جو Associations امت مسلمہ کے دماغ میں دمشق کے ساتھ ہیں وہ مراد ہے اور وہ اس کے سمبل (Symbol) کے طور پر مینار ہے.مینار کی کوئی حرمت نہیں لیکن ایک علامت ہے اور ایک سمبل کے طور پر اس کو کھڑا کیا گیا ہے.“ ( سرکلر 24 اگست صفحہ 142-143) کتنا شاندار، دلنواز اور محققانہ جواب ہے مگر ان ظالموں نے سب کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے اور ڈھنڈورا یہ پیٹا کہ ہم کامیاب ہو گئے.کامیاب ضرور ہوئے ہیں مگر جھوٹ میں، دجل میں، فریب میں تحریف میں.کامیابی اگر اس چیز کا نام ہے تو کوئی نہیں جو ان کی کامیابی کا انکار کر سکے.مگر صاف ظاہر ہے کہ اگر حقیقتا کامیابی ہوئی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث اور احمدیت کی ہوئی ہے کیونکہ جب کوئی شخص جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جائے تو وہ اعلان کرتا ہے کہ اس صداقت کا جواب میرے پاس کوئی موجود نہیں ہے.الغرض کہاں تک بتایا جائے.اس کتاب کی تیسری جلد میں عالمگیر جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا حضرت خلیفہ مسیح الثالث کے مفصل، مدلل اور حقیقت افروز بیان کو نہایت بے دردی سے اور اس کی تفصیل اور اصل سیاق و سباق سے قطع کر کے اپنے ڈھب میں ڈھالنے اور اس کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.مستشرقین یورپ نے عہد مظلمہ میں بالخصوص آنحضرت ﷺ کے ذکر میں اسی نوعیت کے دجل و تلیس کے بڑے بڑے شرمناک مظاہرے کئے ہیں.مگر بلا شبہ اس کتاب نے پچھلی صدیوں کی

Page 465

449 رپورٹنگ (Reporting) کی تاریخ میں جعلسازی کے سارے ریکارڈ مات کر دیئے ہیں.حکومت پاکستان نے ان دنوں خود اسمبلی کی کارروائی سے متعلق بیانات شائع کئے خواہ ان میں غلطیاں بھی ہیں، قرآن اور حدیث کی نقل کرنے میں بہت ہی نالائقی کا ثبوت دیا گیا ہے مگر بہر حال کچھ نہ کچھ بیان تو اس میں موجود ہے مگر حکومت کی چھپی ہوئی رپورٹ کے باوجود کس طرح ظالمانہ طور پر یہ تحریف کی گئی ہے.اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ چہ دلاور است دز دے که به کف چراغ دارد حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.کتاب میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے گویا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث کو حوالہ جات کی کوئی فائل حکومت کی طرف سے دی گئی تھی.مثلاً ایک جگہ پر حضور نے ایک حوالہ ان سے پوچھا کہ اس کو مکمل بتائیں.اس پر انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس فائل موجود ہے اس میں سے دیکھ لیں.تو کیا کوئی ایسی بات تھی کہ کوئی فائل حضور کو دی گئی تھی.مولانا دوست محمد شاہد صاحب : یہ فن تلبیس کا ایک شاہکار ہے.اس قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی.فائلیں جو ہماری طرف سے دی گئیں ان کا جو حشر ہوا وہ تو میں پہلے بتا چکا ہوں.اور فائل کا حوالہ تو دے بھی نہیں سکتے تھے.اگر دینا چاہتے تو پھر پہلے دن ہی دے دیتے کہ فائلیں تو میں آپ کو دے چکا ہوں.ان سوالوں کی کیا ضرورت ہے؟ تو یہ خالص گپ ہے.جس میں سچائی کا کروڑواں حصہ بھی نہیں ہے.اس سلسلہ میں میں ایک دو باتیں عرض کرنا ضروری ہیں.بات یہ ہے کہ یہ کتاب احمدیت کی صداقت کا ایک کھلا اور چمکتا ہوا نشان ہے.اس لحاظ سے بھی کہ اس کتاب میں جابجا جھوٹ بول کر عملاً اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ احمدیت مجسم صداقت ہے.جھوٹ بولنے کی نوبت تو تبھی آتی ہے جب صداقت کا کوئی جواب نہ ہو.بز در قانون بھی اسی وقت بنائے جاتے ہیں.مجھے یاد ہے.یہ 1978ء کی بات ہے یعنی فیصلہ سے چار سال بعد کی.حرمین شریفین کے ایک عرب تھے ، اب بھی ان کے دوستوں سے میرا رابطہ ہے.نام بتانے کی ضرورت نہیں.وہ ربوہ تشریف لائے تو اپنے ایک احمدی دوست کے ساتھ شعبہ تاریخ میں بھی آئے.آتے ہی کہنے لگے:.يا شيخ انا رجل معمور الاوقات وقد زرت في هذا الوقت ولكني ليس

Page 466

450 عندى وقت اني ذاهب فى الطيارة فعليك ان تخبرني عن هذا الامر ماذا وقع في بارليمان خلاف الجماعة الاحمديه وما هى الالفاظ وما المتن في هذا.کہنے لگے میرے پاس وقت نہیں ہے میں فوری طور پر جانا چاہتا ہوں.صرف یہ پوچھنے کے لئے آیا ہوں کہ پارلیمنٹ نے آپ کے متعلق قرار داد کیا پاس کی تھی؟ میں نے ان کے سامنے شیخ الاسلام، مجدد القرن الثانی عشر، بارہویں صدی ہجری کے مجدد سعودی عرب کے رہنے والے بھی ان کو مجدد سمجھتے ہیں، جماعت احمدیہ بھی ان کو مجد دقرار دیتی ہے.اور جماعت احمدیہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ مسیح موعود کی بعثت سے پہلے جتنے بھی بزرگ تھے خواہ کسی فرقے میں تھے، وہ ہمارے بزرگ ہیں.یہ جماعت احمدیہ کی عجیب شان ہے اور یہ بنیا دی ایک کلید ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیائے اسلام خلیفہ وقت کی قوت قدسی کے نتیجہ میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے والی ہے.میں اس بارہ میں ضرور عرض کروں گا کہ احمدیت کے جو عقائد ہیں وہی دنیا میں اتحاد المسلمین کی مہم کو کامیابی تک پہنچانے والے ہیں.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.آپ ذکر کر رہے تھے کہ ایک عرب آپ کو ملنے کے لئے آئے اور انہوں نے آپ سے بات کی.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.تو میں نے تمہیدا یہ بات کی ہے کہ جماعت احمد یہ جو ہے وہ در اصل بنیاد بننے والی ہے تمام امت مسلمہ کو اکٹھا کرنے کی.اس وقت ان عرب سے میں نے کہا:.يا اخي هذا كتاب لشيخ الاسلام الامام المجدد لقرن الثاني عشر محمد بن عبدالوهاب رحمة الله عليه انى اريد ان تطالع هذا الكتاب وهذا الكتاب ينطق مجيبا عنك في هذا الوقت.میں نے کہا کہ میں خود جواب دینے کی بجائے مسجد دقرن ثانی عشر، بارہویں صدی کے مجدد کا یہ آپ کو اقتباس پیش کرتا ہوں.حضرت امام محمد بن عبدالوہاب فرماتے ہیں کہ جب حضرت رسول پاک ﷺ کا وصال ہوا تو بہت سارے قبیلے مرتد ہو گئے اور مرتدوں نے یہ کہا.ان میں سے ایک فرقے نے کہ لو کان

Page 467

451 نبياً مـا مـات اگر نبی ہوتے آپ تو کبھی وفات نہ پاتے.وقــالــت فرقة : انقضت النبوة بموته فلا نطيع احداً بعدۀ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد غیر مشروط طور پر ہر قسم کی نبوت ختم ہوگئی ہے.فلا نطيع 66 احداً بعدۂ اس کے بعد ہم کسی کی بھی اطاعت نہیں کریں گے.“ مختصر سیرت الرسول“ از حضرت شیخ محمد بن عبد الوہاب صفحہ 197-198 ناشر دارالکتاب العربی ) جب وہ پڑھ چکے.میں نے کہا.سیدى و حبيبى ما الفرق بين هذاه العقيدة الفاسدة التي جحدها ابو بكر الصديق و خالد بن ولید وغير ذلك من الصحابة الكرام خلاف هذه العقيدة.وما الفرق بين هذا العقيدة وما الفرق فى قرار داد باكستان.میں نے ان سے یہ کہا کہ اب آپ مجھے یہ فرما ئیں کہ ان مرتدوں کے عقیدہ میں جن کے خلاف حضرت ابوبکر صدیق کی سرکردگی میں حضرت خالد بن ولید اور تمام مسلمان کمانڈروں نے جہاد کیا تھا.ان کے عقیدہ میں اور بھٹو حکومت کے 7 ستمبر کی قرارداد میں کیا فرق ہے؟ اس پر وہ رو کے کہنے لگا:.انما الفرق هذا بان هذا العقيدة في اللسان العربی و قرار داد في لسان الارديه او الانكليزيه فرق ایک ہی ہے.عقیدہ وہی ہے جو ان مرتدوں کا تھا.فرق اتنا ہے کہ انہوں نے عربی زبان میں اپنا عقیدہ بیان کیا اور بھٹو حکومت اور مولویوں نے اس کو اردو یا انگریزی میں ڈھال دیا.اب اسی سلسلہ میں دوسری اور آخری بات یہ کہتا ہوں.میں نے کہا ہے نا کہ یہ احمدیت کی سچائی کی دلیل ہے.میرے پاس ایک بہت بڑے دیو بندی عالم جن کو ”قطب عالم حضرت مولانا شاہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.اکثر جو چوٹی کے علماء ہیں ان میں حضرت مولا نا محمد قاسم نانوتوی اور شاہ حاجی امداداللہ صاحب سر فہرست ہیں.یہ ان کا ایک مکتوب ہے اور جو بعد میں شمائم امدادیہ میں چھپا جسے مضمون کہنا چاہئے.بعد میں ان کے دوسرے بعض ملفوظات اور تصوف سے متعلق مضامین کا مجموعہ شمائم امدادیہ کے نام سے شائع کیا گیا.انہوں نے یہ مضامین

Page 468

452 غالبا مکہ میں لکھے ہیں.یہ ہم عصر تھے مسیح موعود علیہ السلام کے اور یہ تحریر بالکل حضرت مسیح موعود کے دعوی کے ابتدائی ایام کی ہے، یا چند دن اس سے پہلے ہو کیونکہ معین اس میں تاریخ نہیں ، ایام وہی تھے.وہ فرماتے ہیں کہ ظہور امام مہدی آخر الزمان کے ہم سب لوگ شائق ہیں.مگر وہ زمانہ امتحان کا ہے.اول اول ان کی بیعت اہل باطن اور ابدال شام بقدر تین سو تیرہ اشخاص کے کریں گے اور اکثر لوگ منکر ہو جائیں گے.اللہ سے ہر وقت یہ دعا مانگنا چاہیے کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (شمائم امدادیہ حصہ سوم صفحہ 102 نا شرکتب خانہ شرف الرشید شاہ کوٹ.شیخو پورہ) یہ وہی دعا ہے جو ہمارے آقا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جو بلی کی دعائیہ پروگرام میں شامل فرمائی ہے اور پھر اس کو کثرت سے پڑھنے کا ارشادفرمایا ہے.کہتے ہیں مولا نا امداد اللہ صاحب مہاجر مکی کہ مسیح موعود جب آئے گا تو ساری دنیا میں صرف تین سو تیرہ لوگ مانیں گے.چنانچہ امت مسلمہ کی تاریخ میں اگر چہ بہت سے مدعیان مہدی گذرے.جس طرح چاند سورج کا گرہن مسیح موعود کے ذریعہ سے ظاہر ہوا.یہ تین سو تیرہ کی فہرست سوائے مسیح موعود کے کسی نے شائع نہیں کی.تو یہ ایک زبر دست نشان ہے مسیح موعود کی صداقت کا.اسی سلسلہ میں ضمناً یہ حوالہ بیان کر کے میں یہ جواب ختم کروں گا.بالکل اسی طرح اہل بیت کی طرف سے بھی پیشگوئیاں صدیوں سے چلی آرہی ہیں اور شیعہ کتب میں موجود ہیں اور انہی کی روشنی میں پچھلی صدی میں ایک شیعہ عالم مولانا سیدمحمد سبطین سرسوی نے ایک کتاب لکھی ہے.”الصراط السوی في احوال المهدی یہ امامیہ کتب خانہ لاہور نے شائع کی.یہ موچی دروازہ کے اندر ایک کتب خانہ ہے.میں اور مولا نا ریاض محمود باجوہ صاحب یہ کتاب لینے کے لئے ان کے پاس گئے تھے.اس میں صفحہ پانچ سوسات پر لکھا ہے کہ دراصل بات یہ ہے کہ یہ نہ سمجھیں کہ جب امام غائب آجائے گا تو فوراً دنیا اس کو تسلیم کر لے گی.دیکھیں نا یہ تو تاریخ عالم کا کھلا ورق ہے.دنیا میں کوئی ایک نبی ایسا نہیں آیا جس کا استقبال پھولوں سے کیا گیا ہو.حلوے کی دیگیں چڑھائی گئی ہوں.شربت تقسیم کئے گئے

Page 469

453 ہوں.استقبال محمدمصطفی ﷺ جیسے خاتم النبین کا بھی پتھروں سے کیا گیا، گالیوں سے کیا گیا، دل آزاری سے کیا گیا قتل کے منصوبوں سے کیا گیا.تو لکھتے ہیں کہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے بلکہ مثل شیطان شک و شبہ کر کے اپنے قیاسات باطلہ رکیکہ سے اس کی حجیت کا انکار کریں گے بلکہ اس کے مقابلہ کو اکثر لوگ عداوت و دشمنی پر آمادہ ہو جائیں گے اور ہر طرح سے اس کو اور اس کے معتقدین کو اذیت پہنچانے کی کوشش کریں گے.علماء اس کے قتل کا فتوی دیں گے اور بعض اہل دول اس کے قتل کے لئے فوجیں بھیجیں گے اور یہ تماما نام کے مسلمان ہی ہوں گے.“ دیو بندیوں نے جو محضر نامہ پیش کیا وہ محض اقلیت کا نہیں تھا بلکہ مرتد اقلیت کا تھا اور مرتد اقلیت کے معنی کئے ”واجب القتل“.پہلے سے خدا نے محمد رسول اللہ علیہ کے عشاق کو بتا دیا کہ جب امام مہدی کا ظہور ہوگا تو علماء قتل کے فتوے دیں گے.اور یہی قتل کا فتویٰ آپ محضر نامہ میں دیکھ سکتے ہیں، جس میں کہ مسیح موعود کی جماعت کو مرتد قرار دیا گیا ہے اور عملاً مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ اقلیت نہیں بلکہ مرتد اقلیت قرار دیا جائے.یعنی دنیا میں پہلی دفعہ یہ اصطلاح استعمال ہوئی ہے اور ملاں نے استعمال کی ہے صرف قتل و غارت کے لئے.تو حق یہ ہے کہ خود یہ پوری ایجی ٹیشن، جماعت کی مخالفت سے لے کر آج تک اور بالخصوص یہ 1974ء کا دور اور یہ محضر نامہ، پھر اسمبلی کی کارروائی یہ ء سے سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا اعلان عام کر رہے ہیں.نوری بشر تاریخ احمدیت کا چوتھا حصہ میں لکھ رہا تھا تو بھیرہ جاتے ہوئے میں ملکوال سے بذریعہ ٹرین جب جارہا تھا تو اسی ڈبے میں بریلوی اور دیو بندی دوست بیٹھے ہوئے تھے.عالم تھے دونوں.بڑی لمبی لمبی داڑھی تھی اور بزرگ آدمی تھے.بہت لمبی عمر دونوں کی ہوگی اور میری حیثیت تو یہ غالباً 1960ء کی بات ہے اگر تو 1927ء میں جو شخص پیدا ہوا ہے تو کتنی عمر ہوگی اس کی؟) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: تینتیس سال مولانا دوست محمد شاہد صاحب : تینتیس سال بس کم و بیش یہی میری عمر ہو گی اُس وقت.

Page 470

454 دو میرا طریق یہ رہا ہے اور اب بھی ہے کہ میں جس جگہ یا شہر میں جاتا ہوں اگر وہاں کتابوں کا کوئی مرکز ہو تو کتا بیں ضرور خریدتا ہوں اور پھر یہ ہے کہ گھر آنے سے پہلے ایک نظر ضرور ان کو دیکھتا ہوں.میرے پیارے دوست محمد شفیق قیصر صاحب جو ہمارے رشتہ دار بھی ہیں ان کا ایک مقولہ تھا.”میں ایک کتاب خرید کے لایا ہوں ابھی میں نے سونگھنی ہے وہ.‘ تو سونگھنا“ بڑی ضروری چیز ہے.اس سے ایک خاکہ فوری طور پر دماغ پر آجاتا ہے.پھر انسان کبھی بیٹھے تو اس کے مندرجات کے لئے اس کی فہرست پڑھے.پھر اسی طرح Author (مصنف) کو پڑھ لے کبھی کوئی چیز پڑھے.پھر اس کے بعد وہ بالالتزام پڑھے تو یہ آسانی کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے.تو میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا اس وقت لیکن یہ علماء دونوں بریلوی اور دیو بندی مناظرانہ گفتگو کر رہے تھے.آواز میں آتی تھیں میرے کان میں لیکن مجھے اپنے کام سے غرض تھی.میں نے دیکھا کہ یکا یک جس طرح کہ ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے بڑی تیز گفتاری کا ، اور اس وقت وہ گویا میدان مناظرہ بنا ہوا تھا ، دونوں پہلوان اکھاڑے میں جس طرح کہ اترتے ہیں اور پھر بڑا شور و فغاں بلند ہوتا ہے.اور کہ کیا رہے تھے بریلوی صاحب؟ یہ کہہ رہے تھے کہ آنحضرت علہ نور تھے اور دیو بندی یا غالبا وہ اہلحدیث تھے ان کا موقف یہ تھا کہ یہ شرک ہے.وہ کہہ رہے تھے کہ تم گستاخ رسول ہو تم بشر کہتے ہو.یہ کہتے تھے کہ تم مشرک ہو.اب جس وقت Climax ( عروج) پر یہ معرکہ پہنچا، ان دنوں قتل و غارت بھی ہو چکی تھی.غالباً منٹگمری میں بھی اسی وجہ سے مسجد میں ایک شخص کو قتل کر دیا گیا تھا ان ایام میں.بریلوی اخبار اور شورش کا اخبار یہ دونوں آپس میں اس وقت ایک دوسرے کے مقابلے میں آرہے تھے.اس زمانہ کے وہ اخبار بھی میرے پاس محفوظ ہیں.اور اس میں گالیاں بھی تھیں، شعروں میں گالیاں، نثر میں گالیاں.دونوں ایک دوسرے کو ایجنٹ کہتے تھے.دونوں گستاخ رسول قرار دیتے تھے.اس وقت ایک نوجوان درمیان میں بیٹھا ہوا تھا.اس نے نہایت ہی بصیرت سے اور ذہانت سے کام لیتے ہوئے دونوں علماء سے کہا کہ ایک مولانا صاحب یہ بھی بیٹھے ہوئے ہیں.ان سے پوچھیں ان کا نظریہ کیا ہے؟ اب اس موقع پر اس کا یہ کہنا ایسا مفید ثابت ہوا کہ لوگ جو بیٹھے ہوئے تنگ آگئے تھے.مصیبت سمجھ کے ڈرر ہے تھے کہ شاید یہاں قتل و غارت ہی نہ شروع ہو جائے.سبھی نے تائید کی کہ ہاں

Page 471

455 یہ طریق ٹھیک ہے.بھیرہ بھی آنے والا تھا.وہ خطرہ اس طرح ٹل گیا.سبھی نے کہا ہاں مولوی صاحب آپ بتا ئیں.تو میرے لئے یہ اپنی زندگی میں پہلا موقع تھا سوچنے کے لئے.لیکن مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے اِنِّی مُعِيُنٌ مَنْ اَرَادَ إِعَانَتَک جو مسیح موعود کی اعانت کا ارادہ بھی کرے گا خدا اس کی تائید کرے گا.پس بجلی کی طرح میرے دل میں یہ خیال آیا.خیال آتے ہی ان کی طرف سے پہلا سوال یہ ہوا کہ مولانا! آپ کا نظریہ کیا ہے کہ آنحضرت نور تھے یا بشر تھے.تو میں نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت ع نوری بشر تھے.اب یہ ان کے لئے ایک بالکل جدید زاویہ نگاہ تھا.کہنے لگے یہ تو ایک انوکھا نظریہ ہے جو آپ نے پہلی دفعہ پیش کیا ہے.کبھی ہمارے علماء نے اس کو پیش نہیں کیا.صلى الله میں نے کہا اصل ہے ہی یہی.دیکھیں آنحضرت ﷺ کی خواب میں بھی کبھی آپ لوگوں نے زیارت کی ہے؟ کبھی نہیں کی.تو بیداری میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.آنحضرت علی حقیقت اور شخصیت خدا سے بڑھ کر کون جانتا ہے؟ جو خالق ہے.اسی نے محمد عربی ﷺ کو شہنشاہ نبوت کی خلعت عطا فرمائی.ختم نبوت کا تاج بخشا ہے.شاہ دو جہاں کے منصب پر فائز فرمایا ہے.قرآن میں دونوں لفظ موجود ہیں.بشر کا بھی قُلْ إِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف : 111) اور نور کا لفظ بھی آتا ہے.تو محض نور کہنا بھی غلط ہے.محض بشر کہنا بھی غلط ہے.قرآن کی رو سے محمد عربی علی نوری بشر تھے.اور اس کے بعد جو میں نے جواب دیا وہ خدا ہی نے سمجھایا ، جس طرح ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ دعوت الی اللہ کے وقت سمجھاتا ہے.میں نے کہا دیکھیں میں بریلوی بزرگ سے کہتا ہوں کیونکہ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں.تجربہ بھی ان کو ہے.عالم دین ہیں اپنے فرقے کے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر فرقے کے علماء دین کا اعزاز اور اکرام اور احترام کریں.یہ حضور کا ارشاد ہے.میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ نو ر ہونے پر جو اصرار فرمارہے ہیں کبھی آپ یہ غور فرمائیں کہ شب معراج میں آپ کے ساتھ حضرت جبرائیل تھے.ان کو آپ کیا سمجھتے ہیں؟ وہ نور تھے یا بشر تھے.کہنے لگے وہ تو نور تھے.میں نے کہا ایک موقعہ ایسا آگیا کہ جب جبرائیل نے کہا کہ یا رسول اللہ آپ جا سکتے ہیں میں نہیں جا سکتا.کہنے لگے ہاں آ گیا تھا.میں نے کہا اگر محمد عربی ﷺ کو صرف نور کہا جائے تو پھر ان کا مقام حضرت

Page 472

456 جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام جتنا رہ جاتا ہے.حالانکہ جبرائیل پیچھے رہ گئے.جبرائیل بھی نور تھے.محمد مصطفی بھی نور تھے مگر نورمحمدی آگے چلا گیا.تو اگر آپ صرف نور کا لفظ استعمال کریں گے تو نور تو جبریل بھی تھے تو آپ کی شان کو آپ نے گرایا ہے.اس حقیقت کو بیان نہیں کیا.اور دیوبندی حضرات سے کہا کہ آپ بشر پر زور دے رہے ہیں.میں نے کہا کہ غیر مسلم بھی تو بشر ہیں کہ نہیں.تو شرم آنی چاہئے ہمیں کہ وہ مقام دیا جائے جس میں غیر مسلم شامل ، جس میں دہر یہ شامل ، خدا کو گالیاں دینے والے بھی بشر ہیں.اب رشیا کے رہنے والے خدا کو گالیاں دیتے ہیں.کارل مارکس نے کس طرح کہا ہے کہ سارا فتنہ ہی معاذ اللہ ، خدا کی وجہ سے ہوا ہے.اس واسطے محض نور کہنا بھی گستاخی ہے محض بشر کہنا بھی گستاخی ہے.نوری بشر“ کہنا چاہئے.اور میں نے کہا.آگے میں کہتا ہوں میں جماعت احمدیہ کا فرد ہوں ، اس وقت میں نے بتایا.میں نے کہا میں جماعت احمدیہ کے ایک فرد کی حیثیت سے آپ سے یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں.اب اس پر وہ ذرا اور چونک پڑے.ان کے لئے یہ بھی ایک زلزلہ سا تھا کہ یہ بات کہنے والا ایک احمدی ہے جس کو ہم کا فرقرار دیتے ہیں.میں نے کہا بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں آنحضرت ﷺ کو بشر کہا گیا ہے.مگر اسی قرآن میں سید البشر بھی تو کہا گیا.سورۃ پیلس میں ہے.يا سيد البشر - نور بھی کہا گیا ہے لیکن سراج منیر کا نام بھی آپ کو دیا گیا ہے کہ آپ روشن سورج ہیں اور نور بنانے والے ہیں.منیر کے معنی ہیں جو دوسروں کو نور بنا دے.آپ ہی کی وجہ سے سارے صحابہ مجسم نور بن گئے.جتنے عارف، صوفیا ، صلحاء ، اہل کشف ،امت میں گذرے ہیں وہ سب نور تھے اور ان کو نور کس نے عطا کیا؟ حضرت محمد مصطفی عملے نے.اس لئے حضرت بانی جماعت احمد یہ کہتے ہیں:.سے اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے تو آپ کو محض نور نہیں کہنا چاہئے ، سراج منیر کہنا چاہئے.تو میں جماعت احمدیہ کے ایک ادنیٰ خادم کی حیثیت سے آپ سے یہ درخواست کروں گا کہ آج سے دنیا میں یہ اعلان کریں کہ محمد رسول اللہ سید البشر ہیں.محمد رسول اللہ سراج منیر ہیں.

Page 473

457 پڑھا کہ خاک پائے مصطفیٰ بہتر ہے ہر اکسیر سے سینکڑوں عیسی بنے اس خاک کی تاثیر سے ایک مناظرے میں حضرت ملک عبدالرحمن خادم صاحب کے مطالبے پر ایک پادری نے ع عیسی کے معجزوں نے مردے جلا دیئے حضرت ملک عبدالرحمن خادم صاحب مسکراتے ہوئے کھڑے ہوئے.کہنے لگے.پادری صاحب پورا شعر پڑھیں.عیسی کے معجزوں نے مردے جلا دیئے محمد کے معجزوں نے عیسی بنا دیئے رسوائے زمانہ آرڈینینس 1984ء ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب: - مولانا ! جو ضیاء الحق نے رسوائے زمانہ آرڈینینس 1984ء میں جاری کیا وہ بھٹو حکومت کی قرارداد کا نکتہ عروج تھا.اس بارے میں آپ کوئی تبصرہ کرنا پسند کریں گے؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.ہاں یہ بہت ہی بنیادی سوال ہے مگر جس وقت آپ نے سوال کا ابتدائی جملہ ہی استعمال کیا تو میرے ذہن میں اس پہلے مضمون کے سلسلہ میں جس کی طرف میں نے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کے اشعار اور ارشادات کا بھی ذکر کیا ہے.یہ نظم سامنے آگئی.کچھ شعر میں اس کے سنا دیتا ہوں کہ کس طرح حضور نے اظہار کیا ہے..ظالم مت بھولیں بالآخر مظلوم کی باری آئے گی مکاروں پر مکر کی ہر بازی الٹائی جائے گی پتھر کی لکیر ہے یہ تقدیر.مٹا دیکھو گر ہمت ہے یا ظلم مٹے گا دھرتی سے یا دھرتی خود مٹ جائے گی ہر مکر انہی پہ الٹے گا.ہر بات مخالف جائے گی بالآخر میرے مولیٰ کی تقدیر ہی غالب آئے گی اک روز تمہارے سینوں پر بھی وقت چلائے گا آرا

Page 474

458 ٹوٹیں گے مان تکبر کے، بکھریں گے بدن پارہ پارہ مظلوموں کی آہوں کا دھواں ظالم کے افق کجلا دے گا نمرود جلائے جائیں گے دیکھے گا فلک یہ نظارہ کیا حال تمہارا ہو گا جب ، شداد ملائک آئیں گے سب ٹھاٹھ دھرے رہ جائیں گے جب لاد چلے گا بنجارہ تو کس طرح دھوئیں نے اور آگ نے دنیا کو یہ نظارہ دکھلا دیا.لفظ لفظاً خدا نے اپنے محبوب خلیفہ کی بات پوری کر دی.کون ہے دنیا میں جو اس صداقت کا انکار کر سکے.! میں صرف یہ کہوں گا کہ یہ پورا آرڈینینس قرآن مجید کی بانگ دہل نافرمانی ہے.قرآن تو کہتا ہے کہ مَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأَوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (المائدة: 45) پھر آگے ہے فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (المائدة: 46) - پھر فَأُولئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (المائدة:48) ہے.کتاب اللہ کو چھوڑ کر جو فیصلہ کیا جاتا ہے.وہ بتاتا ہے کہ فیصلہ کرنے والا کافر ہے ، ظالم ہے، فاسق ہے.قرآن یہ فرماتا ہے هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَ فِي هَذَا ( الج: 79) فرمایا مسلم کا نام کسی کمپنی کو ٹریڈ مارک کے طور پر ہم نے نہیں دیا جس طرح کہ ضیاء کے بیٹے نے لندن میں اور یہاں پر کہا ہے.بلکہ فرمایا کہ هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَ فِي هَذَا (الحج: 79) یہ مسلمان کا نام ہم نے عطا کیا ہے تمہیں بھی اور تم سے پہلے بزرگوں کو بھی.چنانچہ قرآن مجید میں یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا موجود ہے:.رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَّكَ (البقرة: 129) اے خدا مجھے بھی مسلمان بنا اور میری ذریت کو بھی امت مسلمہ بنا دے.تو جتنے تھے وہ مسلم تھے اور امت مسلمہ کے ہر فرد کا نام خدا نے مسلمان رکھا ہے.جو نام اللہ نے دیا ہے وہ سوائے اللہ کے کون واپس لے سکتا ہے؟ اس لئے قرآن مجید نے اگر چہ منافقوں کے متعلق یہ کہا ہے کہ یہ جہنم کے عذاب میں کافروں سے بھی زیادہ نیچے جائیں گے مگر انہیں بھی اجازت دی ہے کہ تم اپنا نام مسلمان رکھ سکتے ہو.

Page 475

459 آنحضور ﷺ نے رئیس المنافقین ابی ابن سلول کی گستاخانہ بکواس کے باوجود کبھی اس کو غیر مسلم نہیں کہا بلکہ اس کا جنازہ پڑھا اور جنازہ کے ساتھ ہی حضور نے اپنا مبارک کر یہ بھی عطا فرمایا.یہ اسوہ محمدی ہے.لیکن اس کے مقابل پر ضیاء صاحب نے جو آرڈینینس جماعت کے خلاف بنایا ہے، وہ ایک نئی شریعت ہے، نیا اسلام ہے.محمد ﷺ کی شریعت کے ایک ایک لفظ کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں.دیکھیں مسلم کا لفظ ایہ پابندی ہے کہ احمدی اپنے تئیں مسلمان نہیں کہلا سکتے.قرآن تو کہتا ہے کہ یہ نام آدم کے زمانے سے ہر نبی کا تھا اور ہر امت کا تھا اور ہر مسلمان کو اللہ نے یہ خطاب دیا ہے اور قرآن کی رُو سے منافق کو بھی آپ غیر مسلم نہیں کہہ سکتے اس کو مسلمان کہنا پڑے گا.بلکہ باوجود منافق معلوم ہونے کے، خدا نے بتایا کہ یہ منافق ہے، اس کو غیر مسلم نہ کہا بلکہ مسلمان قرار دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھایا اور جیسا کہ میں نے بتایا کر یہ بھی عطا فرمایا.رضی اللہ کا لفظ ہے.قرآن میں لکھا ہے کہ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمُ (التوبہ:100) فرمایا کہ مہاجر صحابہ اور انصار جو اولین میں سے ہیں خدا ان سے راضی ہو گیا اور ان سے بھی راضی ہوا جو ان کی پیروی کریں كَ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُمُ بِاِحْسَانِ اب آپ دیکھیں کہ جماعت احمدیہ کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ تمام صحابہ خواہ وہ مہاجر ہوں یا انصار ہوں ان کو محمد عربی ﷺ کے صحابی ہونے کی وجہ سے آسمان روحانیت کا ستارہ بجھتی ہے.جب یہ صورت ہو تو قرآن نے وَالَّذِينَ اتَّبَعُوَاهُمُ میں خود ہر احمدی کے لئے رَضِيَ الله کا لفظ استعمال کیا ہے.دنیا کی کوئی طاقت قرآن کا دیا ہوا یہ لقب احمدیوں سے چھین نہیں سکتی.اپنے وجود میں جو کہتا ہے، کہتار ہے.مسجد کا لفظ استعمال کرنے کی ممانعت کی گئی.حالانکہ عیسائیوں کے عبادت خانوں کا نام سورۃ کہف میں مسجد رکھا گیا ہے.بلکہ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سورۃ جن میں آتا ہے.اَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (الجن: 19) 66 مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ سورۃ السجن “ ہے.اور یہ آنحضرت ﷺ کے دعوی نبوت کے چند مہینوں کے بعد نازل ہوئی ہے.بالکل ابتدائی سورۃ القلم کے بعد جو سورتیں نازل ہوئیں ان میں یہ سورت ہے.اس وقت مسلمانوں کی کوئی مسجد ہی موجود نہیں تھی.یہ ایک حیرت انگیز

Page 476

460 بات ہے.ایک بھی نہیں تھی اور یہاں مساجد کا ذکر ہے.یہ ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ مفسرین کو پیش آیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہاں تو تین مسجدوں کا ذکر ہے.مسلمانوں کے پاس تو ایک بھی مسجد نہیں تھی.نمازیں آخری کی زمانہ میں دار ارقم میں پڑھی جاتی تھیں جو اسلام کا مرکز تھا.یہیں انصار کی بیعت بھی ہوئی.یہیں معاہدات ہوئے.تو مسجد اگر تھی، ایک تو حضرت ابوبکر صدیق کے گھر کا ایک کو نہ تھا.اس کو مسجد قرار دیا انہوں نے اور ایک کمرہ سا بنایا ہوگا اور اس کو بھی ان ظالموں اور بدسگالوں نے جلا دیا جس طرح کہ یہ احراری کر رہے ہیں.یعنی خدا کی مسجدوں کو بھی گوارہ نہیں کیا بالکل یہی ذہنیت یہاں ہے.گراتے بھی ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اپنی ان مساجد کا نام مساجد نہ رکھو.حالانکہ ان کے مجدد صاحب نے یہ لکھا ہے کہ غیر مسلم کی بنائی ہوئی مسجد بھی مسجد ہی ہے.یہ فتاوی رشیدیہ میں موجود ہے.(صفحہ 409 ناشر محمد سعید اینڈ سنز.قرآن محل مقابل مولوی مسافر خانہ.کراچی) تو خواہ کچھ بھی تم چاہو، کسی کو غیر مسلم کہو، یہ کفر سازی کے کارخانے ہیں اور ہر ایک کے پاس ہیں جو چاہو تم کر سکتے ہو.لیکن بات یہ ہے کہ یہ نام نہیں کوئی چھین سکتا.مگر میں یہ بتارہا تھا کہ مفتروں کے لئے یہ بڑا نا قابل حل مسئلہ پیش آیا ہے کہ وہاں تو ایک بھی مسجد نہیں تھی اور قرآن کہتا ہے کہ اَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلهِ.تمام تفسیروں کو دیکھیں حتی کہ مودودی صاحب کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ مساجد کا لفظ جو ہے یہ مسجد کی جمع ہے اور مسجد سے مراد یہ عبادت گاہ نہیں بلکہ وہ اعضاء مراد ہیں جن پر سجدہ کیا جاتا ہے.سجدہ کرتے ہوئے مسلمان اپنی پیشانی رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ کے دربار میں ناک رکھتا ہے.دونوں ہاتھ پاؤں وغیرہ.مودودی صاحب کہتے ہیں کہ یہ اعضاء مراد ہیں.(تفہیم القرآن جلد ششم صفحه 119 ناشر ادارہ ترجمان القرآن اچھرہ.لاہور.1972ء) قرآن نے ان اعضاء کو، پیشانی کو مسجد کہا ہے.ناک کو مسجد کہا ہے.ہاتھ کو مسجد کہا ہے.پاؤں کو مسجد کہا ہے.یہ خدا کہتا ہے تو خدا جو ہے وہ ناک اور پاؤں اور پیشانیاں جو احمد یوں کی ہیں ان کو بھی مسجد قرار دے رہا ہے.اب کون سی طاقت ہے جو مسجد کا لفظ ہم سے ہٹا سکتی ہو.اب اس بارے میں سب سے بڑی بات میں آخر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ ایک اہلحدیث بزرگ میرے پاس تشریف لائے.میں نے ان سے عرض کیا کہ بریلوی حضرات تو حدیث کی عظمت نہیں جانتے.افسوس آپ حضرات پر ہے جنہوں نے 1984ء میں فرعون وقت

Page 477

461 سے رسول پاک ﷺ اور آپ کے اسوہ حسنہ کو پارہ پارہ کرنے کی پیشکش کی اور پھر وہ قلم تبر کا عبدالقادر روپڑی صاحب نے لیا جس سے کہ وہ آرڈینینس جماعت کے خلاف پاس کیا گیا کہ احمدی اذان کا لفظ نہیں استعمال کر سکتے.یہ عجیب دلچسپ بات ہے.عرب میں جائیں تو یہ لفظ وہاں جو بھی ہیں وہ استعمال کرتے ہیں.یہ کبھی دنیا میں ایسا ہوا ہی نہیں ہے.اب جتنی بڑی بڑی لغات ہیں وہ بیروت میں چھپتی ہیں اور ان کو مرتب کرنے والے عیسائی ہیں.اب کہتے ہیں کہ اذان کا لفظ نہیں استعمال کرنا چاہئے اذان دیتے وقت.میں نے ان سے کہا کہ میں اب آپ کے سامنے اس آرڈینس کو پیش کروں گا اور بتاؤں گا اور بات واضح ہو جائے گی کہ دراصل یہ آرڈینینس محمد عربی ﷺ کے خلاف اعلان جنگ ہے.اسی وقت میں نے دار قطنی منگوائی.اس میں ان اہل حدیث بزرگ کو یہ حدیث دکھائی، تقریباً ساری حدیث کی کتب میں موجود ہے، ابومحذورہ کی وہ حدیث یہ ہے.دار قطنی میں چونکہ زیادہ تفصیل ہے اس لئے میں نے وہی منگوائی.اب ذرا توجہ سے غور فرما ئیں کہ یہ لوگ ختم نبوت کے تحفظ کے نام پر خود خاتم النبیین کے خلاف اعلان جنگ کر رہے ہیں اور دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ Islamization کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں.ابومحذورہ کی اپنی روایت اس میں درج ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہم لوگ جو کہ اسلام کے دشمن تھے اور بہت بغض رکھتے تھے.اپنے متعلق کہا کہ میں تو آنحضرت ﷺ کا چہرہ بھی دیکھنا گوارہ نہیں کرتا تھا.ہم نے جو نہی یہ سنا کہ مکہ پر محمد رسول اللہ کا قبضہ ہو گیا تو ہم نے کہا کہ یہاں سے ہمیں چلے جانا چاہئے.بھاگ کے وہاں سے نکلے، یعنی ایسی حالت تھی کہ ابو جہل کی بیٹی نے اس موقعہ پر ( یہ ابن ہشام میں لکھا ہے ) یہ کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ میرا باپ موجود نہیں تھا ورنہ اذان سن کے پتہ نہیں اس کے اوپر کیا گذرتی یعنی ایسا ہول تھا کہ پتہ نہیں، ہے کیا چیز ؟ جس طرح کسی نے سکھوں کے زمانے میں اذان دی رنجیت سنگھ کے زمانے کی یہ بات ہے.سکھ آئے جی کہ انہوں نے بانگ دی ہے.کہنے لگے کیا ہوا ہے؟ کہنے لگے کہ ہمارے جو کپڑے تھے وہ باندھے گئے ، بھوجن تھا وہ بھی باندھا گیا.کہنے لگے کیا مقصد ہے.انہوں نے پھر اذان دی جس وقت تو کہنے لگے کہ اب میرے پر تو اس کا کوئی فرق نہیں پڑا.کہنے لگے اچھا

Page 478

462 پھر میں ان کو کہتا ہوں کہ اذان نہ دیا کرو.لیکن اب تمہارا فرض یہ ہے کہ اذان تو نماز پر بلانے کے لئے ہے.تو اب تم میں سے ہر ایک جائے اور پنجوقتہ نمازوں کے لئے ہر ایک کا دروازہ کھٹکھٹائے اور ان کو بلائے.کہنے لگے کہ پھر اذان دینے کی اجازت دیں کوئی ایسی بات نہیں.مگر ان سکھوں کو اب اتنی بھی ہوش نہیں رہی.بہر کیف یہ جو مکہ والے تھے انہوں نے اذان کے تصور سے ہی خوف کھا لیا تھا.یہ میں اس لئے بھی کہہ رہا ہوں کہ یہ اسلامی فقہ کا مسلمہ اصول ہے کہ جو چیز جائز ہواس پر سزادی نہیں جاسکتی.دوسرا یہ ہے کہ ایک دفعہ کسی جرم میں سزا دی جائے تو پھر دوسری دفعہ اس کو سزا نہیں دی جاسکتی.ہم پر پہلے قرار داد کی رو سے سب سے بڑا ظلم کیا گیا.اگر ہمیں زندہ جلا دیا جاتا تو یہ اس سے کم جرم تھا کہ ہمیں محمد رسول ﷺ کے عاشقوں میں سے علیحدہ کرنے کی سازش کی گئی.تو یہ ہمارے لئے سب سے بڑی قیامت تھی.اس کے بعد سب سے بڑا ظلم یہ آرڈینینس تھا.شریعت اسلامیہ ایک جرم کی ایک ہی سزا دیتی ہے.اور ان باتوں پر کبھی سزا نہیں ہو سکتی جس کو اسلام نے جائز قرار دیا ہو.یہ تمام مفتیان اسلام کافتوی ہے.ابو محذورہ کی بات میں کر رہا تھا اذان ہی کے سلسلہ میں.ابو محذورہ کی ”دار قطنی میں روایت ہے کہ انہوں نے خود بتایا کہ ہم لوگ اذان کوسن کے اور یہ معلوم کر کے کہ اب ان لوگوں کا جو رسول اللہ کے ماننے والے ہیں ، ان کا قبضہ ہو گیا ہے.ہم لوگوں نے کہا اب مکہ کو چھوڑ دینا چاہئے.اب مکہ میں رہنے کی ہمیں ضرورت نہیں ہے.تو ہم ایک الله جگہ پر تھے کہ آنحضرت ﷺ اپنے لشکر سمیت غزوہ حنین سے واپس آئے اور وہاں کیمپنگ کی.حضور کے ارشاد پر خیمے لگائے گئے.اذان کا وقت ہوا تو ایک صحابی نے اذان دی.جب ہم نے اذان سنی کیونکہ ہم بدترین دشمن تھے، ہم نے مذاق کے طور پر اذانیں دینی شروع کر دیں.نستهزی به ہم بھی مذاقاً ، ان کا مذاق اڑانے کے لئے کہ جی اللہ ایک ہے.اللہ ایک کیسے ہوسکتا ہے.سینکڑوں بت، خدا موجود ہیں اور ہم یہ کیسے شہادت دیں کہ اللہ ہی ہے جو دنیا میں

Page 479

463 پروردگار ہے.باقی ہم رسول اللہ کو رسول اللہ کیسے مان سکتے ہیں.تو ہم نے مذاقاً اذان دی.نستهزی به یہ الفاظ ہیں.جب اذانیں ختم ہو چکیں تو آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ جتنے غیر مسلم جنہوں نے اذانیں دی ہیں ، ان کو بلا لو.ہم دس بارہ نوجوان تھے.ایک سے ایک بڑھ کر اسلام کا دشمن.میں رسول اللہ کا چہرہ ہی نہیں دیکھنا چاہتا تھا.بات کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.وہ کہنے لگے کہ میں بدترین دشمن تھا.میں بھاگنا چاہتا تھا کہ یہ چہرہ نہ نظر آ جائے.بات نہ ہو جائے.کہنے لگے لشکر کیونکہ بہت بڑا تھا، دس گیارہ نوجوان تو بھاگ بھی نہیں سکتے.مجبوراً محضرت عمﷺ کی خدمت اقدس میں جب پیش کئے گئے تو حضور نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین اذان کس نے دی ہے؟ سب نے بیک زبان میری طرف اشارہ کیا کہ ابو محذورہ کی اذان بہترین اذان ہے.انتہائی خوش الحانی 66 سے اس نے اذان دی ہے.“ بہترین تلفظ تھا اس کا اور آواز بہت بلند تھی.پہاڑ بھی گونج رہے ہوں گے.حضور نے فرمایا کہ باقی چلے جائیں اور مجھے فرمایا کہ قریب آجاؤ.اس کے بعد اظہار خوشنودی کرتے ہوئے پہلے تو حضور نے اپنا دست مبارک میرے سینے کے اوپر رکھا اور اسے برکت دی.اور فرمایا ابو محذورہ ! تمہیں اللہ 66 نے آواز بڑی دلکش عطا فرمائی ہے.ایک دفعہ پھر میرے سامنے اذان دو.“ اور یہ غیر مسلم سے حضور کا ارشاد ہے! " کہنے لگے میں نے پھر اذان دی.حضور کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا یعنی اس سے بڑی خوشی کیا ہو سکتی ہے کہ ایک غیر مسلم ہے اور یہ اعلان کرتا ہے کہ الله اكبر الله اكبر اشهد ان لا اله الا اللہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اشهد ان محمد رسول اللہ اور میں گواہی دیتا ہوں، ڈنکے کی چوٹ ، نوبت خانوں کے ذریعہ سے کہ محمد مصطفی ہے خدا کے

Page 480

464 نائب ہیں.خدا کے رسول ہیں ،خدا کے پیامبر ہیں.حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے انتہائی خوشی کے ساتھ مجھے شاباش بھی دی اور اپنی جیب خاص سے تھیلی نکالی.اس میں لکھا ہے اَعْطَانِي صُرَّةً فِيْهَا شيء مِنْ فِضَّةٍ جو چاندی سے بھری ہوئی تھی.اور فرمایا محذورہ یہ تمہیں انعام دیتا ہوں.اور تمہیں اجازت ہے کہ اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے تم مکہ معظمہ اور خانہ کعبہ میں بھی اذان دے سکتے ہو.کہتے ہیں اس کے بعد میں نے اسلام قبول کیا ہے.(تفصیل ملاحظہ ہوسنن الدارقطنی کتاب الصلوۃ باب فی ذکر اذان ابی محذوره) تو میں نے اس اہلحدیث عالم سے کہا کہ قیامت کے دن رسول اللہ کے سامنے کس منہ سے جاؤ گے تم ؟ آنحضرت کی سنت ی تھی.حضور نے مؤذن رسول حضرت بلال کو کبھی انعام نہیں دیا.میں نے ریسرچ کی ہے کوئی واقعہ مجھے نہیں ملا.مگر انعام کس کو دیا ہے؟ اسلام کے بدترین دشمن اور غیر مسلم کو.آنحضرت ﷺ کی سنت تو یہ تھی کہ بدترین غیر مسلموں کو انعام دیا کرتے تھے.مگر عبدالقادر رو پڑی صاحب اور دوسرے اہلحدیث مولوی حضرات ضیاء الحق کے قدموں میں پہنچے اور کہا آپ سے درخواست ہے کہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے احمدیوں کو ، جو اذان دیں، جو اپنے تئیں مسلمان کہتے ہیں ، مگر ہم ان کو کا فرقرار دیتے ہیں.اگر وہ اذان دیں تو ان کو انعام کی بجائے جیل میں ڈال دینا اور اتنے ہزار جرمانہ لینا.میں نے کہا اب آپ خود سوچیں یہ آرڈینینس کھلی جنگ ہے یا نہیں حضرت محمد عربی ع کے ساتھ ؟ تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.مولانا صاحب! دوران انٹرویو یہ بات بھی سامنے آئی کہ 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی قرارداد سے قبل ہی آزاد کشمیر اسمبلی نے جماعت احمدیہ کے حوالے سے ایک قرار داد پاس کی.اس حوالے سے نئی نسل کی خاطر ہم آپ سے کچھ سوالات آزاد کشمیر کی تحریک آزادی کے حوالے سے کرنا چاہیں گے.

Page 481

465 مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.جی.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.جماعت احمدیہ کا جو کر دار تحریک آزادی کشمیر میں رہا ہے، پاکستان کے قیام سے قبل 1947 ء سے پہلے 1931ء یعنی پاکستان کے قیام سے قبل جو تحریک آزادی کشمیر تھی ، وہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی رہین منت تھی.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب :.جی بالکل یہی بات ہے کہ حافظ محمدنصر اللہ صاحب :.اور اس کے صدر حضرت خلیفہ آسیح الثانی الصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ رہے ہیں تو اس بارے میں آپ کچھ دستاویزی ثبوت ناظرین تک پہنچادیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ بہت ہی اہم تاریخی سوال ہے جو آپ نے نئی نسل کے سامنے حقائق کو بیان کرنے کے لئے پیش فرمایا ہے جس کے لئے میں آپ کا شکریہ ادا کرنے کو الفاظ نہیں پاتا.حق یہ ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے حقیقی معنوں میں حضرت مصلح موعود ہی علمبردار تھے اور بحیثیت صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے، تمام آزادی جو انگریز کے زمانے میں ملی ، ہمارے کشمیری بھائیوں کو ٹلٹن کمیشن ، بلانٹ گلانسی کمیشن کے بعد اور دوسرے معاملات کے بعد ، ہزاروں روکوں کے باوجود وہ صرف آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور حضرت مصلح موعودؓ کے طفیل ہے.یہ ایسے حقائق ہیں کہ اگر کوئی شخص کچھ بھی خدا کا خوف رکھنے والا ہو ، خدا ترس ہو تو وہ کسی مرحلے پر اس امر کو نظر انداز نہیں کر سکتا.اور حق یہ ہے کہ قیامت تک کوئی تاریخ آزادی کشمیر کی لکھی ہی نہیں جاسکتی جس میں حضرت مصلح موعودؓ کے عظیم کردار اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی شاندار خدمات کا ذکر نہ کیا جائے.قائد ملت چوہدری غلام عباس صاحب کا حقیقت افروز بیان چوہدری غلام عباس، شیخ عبداللہ کی طرح صف اول کے عظیم کشمیری لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں.قائد ملت بھی ان کو کہا جاتا ہے.چوہدری غلام عباس صاحب نے اپنی آٹو بائیو گرافی (Autobiography) کشمکش کے نام سے لکھی، اردواکیڈمی لاہوری دروازہ لا ہور سے وہ چھپی ہے.اس میں انہوں نے کھلے لفظوں میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ آزادی کشمیر کی ابتداء

Page 482

466 اگر چہ ہو چکی تھی.مگر اس تحریک کی زیادہ سے زیادہ آواز سنائی دیتی تھی تو کشمیر سے باہر ہندوستان کے بعض علاقوں میں سنائی دیتی تھی.مگر ولایت تک کی دنیا میں اس کی گونج جو ہوئی ہے وہ رہین منت ہے صرف آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات کی.یہ ان کی کتاب کے صفحہ 111-112 پر موجود ہے.فرماتے ہیں:.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی معرفت ہماری شکایات سمندر پار کے ممالک میں زبان زد ہر خاص و عام ہوگئیں.“ چونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد فضل لنڈن انگلستان کا مشن موجود تھا.حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درڈ پہلے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری تھے اور اس کے بعد وہاں تشریف لے گئے.ان کے ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز کے ممبروں کے ساتھ انتہائی گہرے تعلقات تھے.تو چوہدری غلام عباس صاحب لکھتے ہیں:.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی معرفت ہماری شکایات سمندر پار کے ممالک میں بھی زبان زد ہر خاص و عام ہو گئی.اس نزاکت حال کے پیش نظر حکومت کشمیر کے لئے ہماری شکایات کو ٹالنا اور بزور طاقت عمومی محرکات کو بلا نتائج کچلتے چلے جانا مشکل ہو گیا.“ کتنی بڑی اہمیت ہے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی اس بین الاقوامی کوشش کی.لکھتے ہیں:.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پیہم اصرار کے باعث حکومت ہند کا معاملات کشمیر میں دخل انداز ہونا ناگزیر ہو گیا.کشمیر کی سرحدات چین، روس جیسے اشترا کی ممالک سے ملتی ہیں لہذا اپنی فوجی اہمیت اور بین الاقوامی معاملات کے نقطہ نظر سے بھی ضروری ہو گیا کہ انگریز ریاست کے معاملات میں دخل ضرور ہی دے.نومبر 1931ء کے آخری دنوں میں حکومت کشمیر کو مجبوراً مسلمانان ریاست کی شکایات اور مطالبات کی تحقیقات کے لئے ایک آزاد

Page 483

467 کمیشن کا اعلان کرنا پڑا.یقین غالب ہے کہ اس کمیشن کے تقرر میں حکومت ہند کو بھی زبر دست دخل تھا.“ آپ اگر ” تاریخ احمدیت کی جلد ششم دیکھیں جس میں کہ تحریک کشمیر کی تفصیل بتائی گئی ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس وقت جو ہندوستان کے وائسرائے تھے.یہ 1931 ء کی بات ہے.خود حضور نے ”الموعود میں جو 1944 ء کا حضور کا لیکچر ہے.اس بات کو واضح کیا ہے کہ سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ گورنمنٹ انڈیا یہ اظہار کر چکی تھی کہ ہم ریاستوں کے معاملات میں Interfere نہیں کریں گے.چنانچہ حضور اور مولانا عبد الرحیم صاحب درد جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری تھے، وائسرائے ہند سے ملے.لارڈ ولنگڈن ان دنوں وائسرائے تھے اور نئے نئے آئے تھے.آپ نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے یہ بات کہی کہ آپ اس وقت برٹش ایمپائر کے نمائندے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ برٹش ایمپائر کا نظام موجودہ وقت میں بہترین انتظام ہے کہ جس میں ہمیں جمہوریت کی را ہیں بہت ہی کھلی نظر آتی ہیں اور روشن نظر آتی ہیں.اور اس وقت دنیا میں بھی اس بات کا چرچا ہے کہ ڈیموکریٹک طریق پر یہ حکومت ہمیشہ تمام ملک میں رہنے والے برٹش جو ہندوستانی ہیں (انڈیا کے رہنے والے ہندوستانی) ان کے حقوق کی پاسداری کرتے ہیں اور یہ بھی آپ نے کہا ہے کہ جو ریاستیں ہیں وہ خود مختار ہیں.اس بارے میں آپ کوئی Interfere کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.اصل میں آپ سمجھتے ہیں کہ جمہوری انداز میں ہمیں ایسا کرنا چاہئے.یہ ان کو یاد رکھنا چاہئے.مولانا عبدالرحیم صاحب درڈ نے کہا کہ باوجود یکہ ہم کشمیر کمیٹی بھی اور روشن خیال لوگ بھی یہ خیال کرتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ دنیا میں جو حکومتیں اس وقت قائم ہیں، برطانیہ کی حکومت اپنے جمہوری اصولوں کے لحاظ سے سب سے بالا ہیں.مگر یہ جمہوری حکومت داغ دار ہوگئی ہے مظلوم مسلمانوں کے خون سے.میں آپ کے پاس استغاثہ لے کر آیا ہوں کہ چالیس لاکھ کشمیری مسلمان کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے.آپ ہزار پرو پیگنڈہ کریں اور ہم بھی کہیں مگر دنیا دیکھ رہی ہے کہ چالیس لاکھ مظلوم مسلمانوں کا خون اس وقت گرایا جا رہا ہے.تو آپ کو یہ زیب نہیں دیتا.میں ہمدردی کے طور پر آپ کو کہتا ہوں کہ دنیا میں آپ بدنام ہورہے ہیں.

Page 484

468 دیکھیں کس انداز سے حضور نے ان کے ذریعہ سے آواز پہنچائی.لارڈ ولنگڈن نے اس پر یہ کہا کہ دیکھیں آپ نے خود بتایا ہے کہ گورنمنٹ انڈیا جو ہے وہ سٹیٹس کے معاملے میں مداخلت نہیں کرتی.اور مجھے بھی ہدایات ہیں اور دوسرا یہ کہ دو تین مہینے ہوئے میں لنڈن سے آیا ہوں.اور مجھے بہت سے پولٹیکل معاملات، سوشل معاملات، ڈیموکریسی کے متعلق بہت سی باتیں جن کا پہلے مجھے مطالعہ کرنا ہے.پھر میں کوئی بات کر سکتا ہوں.ہندوستان کے یا ریاست کے مسلمانوں یا دوسرے لوگوں کے متعلق.لیکن اسی بات سے آپ یہ سوچ لیں کہ میری مشکل یہ ہے کہ یہ ہماری پالیسی کے خلاف ہے یہ کہ ہم اس معاملے میں، کشمیر کے معاملے میں پڑیں کیونکہ یہ ریاست کا معاملہ ہے.سنٹرل گورنمنٹ کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرمانے لگے کہ یہ ٹھیک ہے.آپ کی عمومی پالیسی یہی ہے مگر اس میں استثنا بھی ہے.آپ نے حیدرآباد دکن کے معاملات میں انٹر فیئر (Interfere) کیا ہے.تو وہی استثناء آپ کو کشمیر کے معاملے میں بھی اختیار کرنا چاہئے.اس بات سے وہ لا جواب ہو گیا.کہنے لگے.اب میں یہ چاہتا ہوں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ریزولیوشن کے مطابق آپ مہاراجہ جموں و کشمیر کو کھیں کہ کشمیر کمیٹی جو کہ کشمیر کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے اور ان کی وکیل جماعت ہے.وہ اپنے ڈپیوٹیشن سری نگر اور جموں میں بھجوانا چاہتی ہے.اس کے لئے انتظام کریں اور اطلاع دیں کہ کب یہ انتظام کریں گے اور کون سی تاریخیں آپ مقرر کریں گے.چنانچہ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درڈ نے حضور کے ارشاد کے مطابق فوری طور پر کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری ہونے کے لحاظ سے مہاراجہ کو خط لکھا کہ ہمارا ڈپیوٹیشن آ رہا ہے آپ بتائیں کون سی معین تاریخ آپ دے سکتے ہیں.یہ اس لئے لکھا کہ انہی کے سامنے خود وائسرائے کی طرف سے یہ چٹھی جا چکی تھی اور جب وائسرائے کا یہ حکم پہنچ گیا تو پھر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری کی طرف سے یہ چھٹی بھجوائی گئی کہ ہمیں بھی تاریخیں بتائیں آپ.اس پر چند دن کے بعد مہاراجہ کے وزیر اعظم ہری کشن کول کی طرف سے ایک چٹھی آئی کہ آپ کی تجویز بہت معقول ہے لیکن اگر موجودہ صورت میں جبکہ کشمیر میں فسادات بر پا ہیں اور اشتعال پھیلا ہوا ہے اگر کوئی ڈپیوٹیشن اس موقع پر حالات کا جائزہ لینے کے لئے پہنچے گا تو عین ممکن ہے کہ سیاسی صورت حال زیادہ بگڑ جائے اور فسادات پہلے سے زیادہ بگڑ جائیں اور ٹینشن (Tension) میں اضافہ ہو جائے.اس واسطے اس کا آنا ہمارے لئے بھی

Page 485

469 شکلات کا موجب بنے گا اور خود ان کے مقاصد کی تکمیل میں بھی حائل ہو جائے گا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ارشاد فرمایا کہ بظاہر یہ بڑی معقول تجویز ہے کچھ دن انتظار کیا جائے.اب یہ ظاہر بات ہے کہ زیادہ دیر تک کوئی حکومت یہ پسند نہیں کرتی کہ اس کی بدنامی کے دن ایسے لمبے ہوں کہ لوگوں میں یہ چر چا ہو کہ یہ حکومت ناکام ہوگئی اور قتل عام ہو رہا ہے اور یہ حکومت کچھ نہیں کر رہی جلاد ہے اور قصاب ہے.پس چند دن کے بعد ہی کشمیر گورنمنٹ ،اس کے وزیر اعظم ، اس کے کارندوں نے ، اس کے پریس کے نمائندوں نے ، اس کی ایجنسی کے نمائندوں، نے یہ اعلان کیا کہ اب صورتحال قابو میں ہے اور فساد بھی ختم ہو چکے ہیں.پس یہ خبر جب پریس میں آئی تو حضور نے حضرت مولانا درد صاحب سے کہا کہ اب آپ لکھیں.مبارک باد بھی دیں کہ اب صورتحال بدل گئی ہے اور ہم نے فیصلہ کر لیا ہے.اب آپ بتائیں اس امن کی صورت میں آپ کیا تاریخ مقررفرماتے ہیں.اس کا جواب بذریعہ تاریہ آیا کہ وقتی طور پر یہ فتنہ دب گیا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ڈیپوٹیشن کے پہنچنے کے بعد پھر اشتعال پیدا ہو جائے.بس اس خط کے آنے کی بات تھی ، حضور نے دوبارہ حضرت درد صاحب کوارشاد فرمایا کہ آپ سیکرٹری کی حیثیت سے اور میرے نمائندے کی حیثیت سے وائسرائے صاحب سے وقت لیں.درد صاحب نے وقت لیا، وہاں پہنچے اور ان کے سامنے یہ بات پیش کی کہ آپ کے حکم کے ماتحت ہم نے وزیر اعظم کو اور مہاراجہ صاحب کو یہ لکھا تھا.ان کا یہ جواب آیا کہ اس وقت ہنگامے ہور ہے ہیں.ہم نے کہا بالکل ٹھیک ہے ایسے موقع پر آپ کی شرائط کا ہم احترام کرتے ہیں.اب اس کے بعد اعلان ہوا کہ اب ہنگا مے ختم ہو گئے ہیں اور حالات قابو میں ہیں اور کوئی فتنہ کہیں نہیں ہے.نہ جموں میں ، نہ سری نگر میں ، نہ پونچھ میں.تو اب آپ مہربانی کر کے تاریخ مقرر فرما ئیں تو اب جواب یہ آیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے آنے سے پھر اشتعال پیدا ہو جائے.اب سوال یہ ہے کہ مہاراجہ صاحب نے انکار کیا اُس وقت اس وجہ سے کہ اب فسادات ہو رہے ہیں.اب انکار ایسے وقت میں کیا ہے کہ فسادات ختم ہو چکے ہیں مگر ہو سکتا ہے کہ دوبارہ شروع ہو جائیں.تو اب وہ کون سا وقت آئے گا جب کہ ایک غیر جانبدار ڈ پیوٹیشن وہاں جا کر کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حال کا جائزہ لے سکے.یہ ایسی زبر دست بات تھی کہ اس نے ہلا دیا وائسرائے کو.اس کے نتیجہ میں پھر اُسے مداخلت کرنی پڑی.

Page 486

470 پریم ناتھ بزاز کی چشم کشا تحریر اس کے علاوہ دیکھیں آپ.میرے پاس کشمیر کے بہت ہی نامور ہسٹورین کی کتاب ہے The History Of Struggle For Freedom In Kashmir The Culture And Political From The Earliest Times To The Present Day.یعنی ابتدائی ایام سے لے کر اس وقت تک کے جو حالات ہیں وہ انہوں نے وہ پوری طرح اس شامل کئے ہیں.پریم ناتھ بزاز بہت ہی عظیم الشان اور نامور انسان ہیں اور حقیقتا مسلمان کشمیری لیڈروں کی طرح یہ شخص پوری طرح پوری زندگی مسلمانوں کے ساتھ وابستہ رہا ہے.اور سرفروشانہ طور پر ہر موقع پر اس نے مسلمانوں کے Cause کو ترجیح دی ہے.ان کی اس کتاب کا ایک نیا ایڈیشن چھپا ہے جس کے ناشر کشمیر پبلشنگ کمپنی 122 کو ٹلہ مبارک پور نیو دبلی ہیں.اس ایڈیشن کے صفحہ 620-621 پر انہوں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات کا بھی ذکر کیا ہے.اور بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے.اس کے علاوہ پارٹیشن کے بعد جب آزاد کشمیر حکومت قائم ہوئی ، اس کی تفصیل بھی اس میں بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہے.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.میں عرض کرتا ہوں اس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلیدی کردار تھا اور جو آزاد کشمیر حکومت (کشمیر حکومت کہنا چاہئے ) اس وقت راولپنڈی میں اناؤنس کی گئی ، اس کے صدر بھی احمدی تھے جناب خواجہ غلام نبی گل کار صاحب.انور کے نام سے میڈیا میں ان کا ذکر آتا تھا.اس ضمن میں بھی شاید پریم ناتھ بزاز نے اپنی اس کتاب میں ذکر کیا ہے.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ آپ کے سامنےصفحہ 620اور 621 ہے.بڑی لمبی عبارت ہے.اس میں انہوں نے صاف لکھا ہے کہ 3 اکتوبر 1947ء کو راولپنڈی کے پیرس ہوٹل میں عبوری حکومت قائم کی گئی.اس کے پیچھے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد تھے اور سب سے پہلے اس کی چارا کتوبر کو نا ونسمنٹ کی گئی.یہ سب سے پہلا دن ہے آزاد کشمیر کا! لکھتے ہیں کہ خواجہ غلام نبی گل کار اس کے سب سے پہلے صدر تھے.اور اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ حالات چونکہ مخدوش تھے اس لئے ان کا نام انور رکھا گیا.اور اس دوران پھر جن جن کشمیری

Page 487

471 بزرگوں کو وزارت میں لیا گیا.ان کا نام بھی انہوں نے بتایا ہے.مثلاً ان کی عبارت یہ ہے کہ That Anwar was no other person than Ghulam Nabi Gilkar, a member of the working committe of the Muslim Conference, one of the old veterans of the Kashmir Freedom Movement who headed the provisional revolutionary Government of Azad Kashmir.پھر وہ کہتے ہیں کہ Other member according to the some source were: 1.Sardar Muhammad Ibrahim: Prime Minister 2.Ghulam Haider Jandalvi: Defence Minister 3.Nazir Hussain Shah:Finance Minister 4.Mr Alim:(assumed name) Education Minister 5.Mr Luqman (assumed name) Health Minister 6.Mr Karkhana(assumed name) Industries Minister 7.Mr Fahim (assumed name) Agriculture Minister تو یہ بات کھلم کھلا انہوں نے بیان کی کہ تحریک آزادی کشمیر کے ایک صف اول کے کشمیری لیڈر ہیں، خواجہ غلام نبی گل کار جو کہ صدر اول بنائے گئے اور 14اکتوبر 1947ء کو اس کی اناؤنسمنٹ کی میں وہ غلام گئی.پھر آپ دیکھیں ”امروز‘ نے ایک خصوصی نمبر میں خواجہ صاحب کی تصویر کے ساتھ ایک مفصل آرٹیکل شائع کیا ہے اور بتایا کہ ایسا جانباز انسان تھا.اپنی جان کو تھیلی پر رکھ کر یہ بھی خواجہ غلام

Page 488

472 جا رہا تھا.اور نبی گل کار اور شیخ عبداللہ جن کو پر بت کے قلعے میں جو جیل خانہ کے طور پر بنایا گیا دھکیلا اس وقت یہ معلوم بھی نہیں تھا کہ زندہ رہیں گے یا نہیں.یہ لیڈر مسلم کانفرنس کے تھے اور مسلم کا نفرنس کے بنانے والے بھی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد تھے." تاریخ احمدیت جلد ششم میں شیخ عبد اللہ صاحب کی تحریر موجود ہے کہ آپ ہی نے مسلم کانفرنس کا قیام فرمایا.اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کو اپنے نمائندہ کے طور پر یہاں سارے انتظام کے لئے بھیجا.اخراجات قادیان سے ادا کئے گئے کہ کشمیر کمیٹی میں ممبر تو بہت تھے مگر چندہ صرف احمدیوں کا جا تا تھا.وکیل بھی احمدیوں کے تھے.حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب نے خود مجھے بتایا کہ یہ جو بد زبان کشمیری مولوی گزرا ہے.انور کشمیری جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقدس نام دجال کے لفظ کے بغیر کسی کتاب میں نہیں لکھتا، اس کے دو سگے بھائیوں مولوی سیف اللہ شاہ صاحب اور مولوی سلیمان شاہ صاحب کو پھانسی کی سزا ہو چکی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حکم پر حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب نے کیس لڑا اور خدا کے فضل سے باعزت طور پر بری کر دیئے گئے.شیخ صاحب کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان کیا کہ خدا نے میرے دل میں ڈالا کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے کہ یہ بغاوت کر رہے تھے.بغاوت کی سزا ہماری ریاست کے جو رولز اور ریگولیشن ہیں پھانسی کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتی.تو میں نے جب رولز اور ریگولیشن دیکھے تو اس میں یہ بات دیکھی کہ اس چیز کی اطلاع موقع پر پولیس میں دی ہی نہیں گئی.یہ بات بعد میں بنا کر بعض لوگوں نے ان کے نام پر تھوپی.چنانچہ سارا ریکارڈ نکالنے کے بعد جب کورٹ کے سامنے اس وقت حضرت شیخ صاحب نے یہ بات پیش کی کہ یہ تو مقدمہ ہی نہیں چل سکتا.کیونکہ جو قواعد وضوابط ہیں اس کے لحاظ سے اس مقدمہ کو اتنی تاریخ کے اندر اندر رجسٹر ڈ ہونا چاہئے تھا.اور یہ صاف بات ہے کہ اصل معاملہ کے گزرنے کے بعد بعض لوگوں نے شرارت کے طور پر یہ ساری Conspiracy ( سازش) کی ہے، اس وجہ سے یہ مقدمہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو سماعت کیا جا سکے.چنانچہ اس پوائنٹ پر آ کر ان کو رہا کر دیا گیا.

Page 489

473 مشہور سکالرکلیم اختر کی تحقیقی کاوش کلیم اختر بھی بہت بڑے عظیم سکالر ہیں.کشمیری لیڈروں میں سے ہیں.ان کی کتاب ہے.شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ.تاریخ حریت کشمیر کے آئینہ میں“.سندھ ساگر اکیڈمی.26 بیرون لوہاری دروازہ لاہور نے اسے شائع کیا ہے.یہ کتاب بہت ضخیم ہے.اس کتاب کے صفحہ 121 سے لے کر اس کے صفحہ 129 تک جماعت احمدیہ کا ذکر ہے.دس صفحے بنتے ہیں.اور عنوان ہے:.اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ جماعت احمدیہ کا مسلک“ جماعت احمد یہ خطہ کشمیر کی آزادی کے بارے میں کچھ مذہبی اعتقادات رکھتی ہے.اور ان اعتقادات کی یہ اساس وہ پیشگوئیاں ہیں جو کشمیر کے بارے میں اس کے امیر نے کی ہیں.چنانچہ جماعت احمدیہ کی ایک مشہور کتاب ” المبشرات‘ کے ( یہ خاکسار کی کتاب ہے جو مصلح موعودؓ کے ارشاد پر لکھی تھی.صفحہ 359 پر ایسی ہی ایک پیشگوئی کا ذکر ہے جو 31 جولائی 1932ء کے الفضل کے صفحہ 7 پر بھی شائع ہو چکی ہے.کشمیر کے مسلمان یقیناً غلام ہیں اور ان کی حالت دیکھنے کے بعد بھی جو یہ کہتا ہے کہ ان کو کسی قسم کے انسانی حقوق حاصل ہیں وہ یا تو پاگل ہے یا اول درجہ کا جھوٹا اور مکار.ان لوگوں کو خدا تعالیٰ نے بہترین دماغ دیئے ہیں.اور ان کے ملک کو دنیا کی جنت بنایا ہے مگر ظالموں نے بہترین دماغوں کو جانوروں سے بدتر اور انسانی ہاتھوں نے اس بہشت کو دوزخ بنادیا ہے.“ یہ حضرت مصلح موعود کی تقریرتھی 1931 ء کے جلسہ سالانہ کی.و لیکن خدا تعالیٰ کی غیرت نہیں چاہتی کہ خوبصورت پھول کو کانٹا

Page 490

474 بنا دیا جائے.اس لئے وہ اب چاہتا ہے جسے اس نے پھول بنایا ہے، وہ پھول ہی رہے اور کوئی ریاست یا حکومت اسے کا نشا نہیں بنا سکتی.یہ بہر حال پوری ہوگی ایک دن وہ پھول ہی رہے اور کوئی ریاست اور حکومت اسے کانٹا نہیں بنا سکتی.روپیہ، چالا کی مخفی تدبیریں اور پروپیگنڈہ کسی ذریعے سے بھی اسے کا نشانہیں بنایا جا سکتا.چونکہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے اس لئے کشمیر آزاد ہوگا، اور اس کے رہنے والوں کو ضرور ترقی کا موقع دیا جائے گا.“ (المبشرات) یہ 1932 ء کی پیشگوئی ہے اور یہ پوری ہو کے رہے گی.جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے احمدی ہر وقت یہ دعائیں کر رہے ہیں.آگے پہلی تحریک حریت کشمیر کے متعلق رویا و کشوف“ کا عنوان دے کر پھر انقلاب کے حوالہ سے حضور کے رویا و کشوف بیان کئے ہیں.ھر شیر کمیٹی کے وجد کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے اپیل کرنے پر کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ مظلوم کشمیریوں کی حفاظت کے لئے اور ان کی آواز کو بلند کرنے کے لئے اور ان کی مدد کے لئے جمع ہو جائیں.آگے ذکر کیا ہے مسلمانوں کے کشمیری لیڈروں کا جن میں سرا قبال ، نواب ابراہیم صاحب آف کنج پورہ ، سر ذوالفقار علی خان، خان بہادر شیخ رحیم بخش ،سید حسن شاہ صاحب ایڈووکیٹ (ان کے بیٹے نسیم حسن شاہ صاحب پاکستان کے چیف جسٹس تھے ) سید کشفی صاحب ( ان کے بیٹے سید محمد ظفر.ایس ایم ظفر صاحب ، بہت مشہور ایڈووکیٹ ہیں.) ، خواجہ حسن نظامی صاحب اور سید حبیب مدیر سیاست، مولانا حسرت موہانی وغیرہ شامل ہیں.سید کشفی صاحب حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ کشمیر کمیٹی میں تھے.یہ رنگون میں رہتے تھے.جناب ایس ایم ظفر صاحب کے والد سید کشفی.سید محمد محسن شاہ صاحب ایڈووکیٹ بھی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبر تھے اور جسٹس سید نسیم حسن شاہ صاحب انہی کے فرزند ہیں.تو حضور کی اپیل کا ذکر کرتے

Page 491

475 ہیں کہ سارے ہندوستان میں کسی نے اپیل نہیں کی.یہ جوش اور درد اور رقت اور خدمت کا جذبہ طوفان کی طرح اگر بلند ہوا ہے تو حضرت مصلح موعودؓ کے قلب مطہر پر.اس واسطے کہ عرش سے حضور کی ولادت سے پہلے فرمایا تھا کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.“ سے اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے تو فرماتے ہیں کہ حضور ہی کی آواز پر علامہ اقبال، سر ذوالفقار علی ، سید محسن شاہ ، خواجہ حسن نظامی ، سید حبیب اور حسرت موہانی جیسے لوگ اکٹھے ہوئے اور علامہ اقبال کی تجویز پر حضور سے زمامِ قیادت کی درخواست کی گئی اور حضور نے اپنے روحانی مقام کے باوجود جو لاکھوں کی جماعت کے دینی پیشوا ہونے کی حیثیت سے آپ کو حاصل تھا، محض اسلامی اخوت کے تقاضوں کے پیش نظر آپ نے اسے قبول فرمایا.پھر لکھتے ہیں کہ جس وقت آپ نے یہ کٹھن کام اپنے ذمہ لیا“ یعنی حضرت مصلح موعودؓ نے ، اس وقت کشمیری باشندوں کی حالت کس قدر دردانگیز تھی اس کا نقشہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اجلاس اوّل کی روداد میں بایں الفاظ کھینچا گیا ہے.وہ الفاظ یہ ہیں:.”ریاست میں اس وقت تک نہ پریس کی اجازت ہے.(مسلمانوں کا کوئی پریس نہیں تھا.) 66...نہ تقریر کی ، نہ اجتماع کی اور کوئی ایسی صورت نہیں جس سے پُر امن طریق سے رعایا حکومت تک اپنے خیالات پہنچا سکے.اس طرح مذہبی آزادی جو کہ تہذیب کا پہلا رکن ہے اس سے بھی کشمیری محروم ہے.چنانچہ اگر کوئی شخص مسلمان ہو جائے تو اس کی جائیداد ضبط کر لی جاتی ہے اور بیوی بچوں سے اسے علیحدہ کر دیا جاتا ہے نیز زمین کے مالکانہ حقوق سے بھی وہ لوگ محروم ہیں کیونکہ زمینداروں کو خود اپنی زمین پر مالکانہ حقوق نہیں دیئے جاتے اور

Page 492

476 یاست اپنے آپ کو پورے کشمیر کی زمین کی مالک سمجھتی ہے.یعنی مہاراجہ بادشاہ ہے اور باقی سارے غلام ہیں.ان کی زمینیں بھی مہا راجہ کی ہیں اور ہر شخص غلام ہے جس طرح چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے.اس طرح باوجود تعلیم یافتہ ہونے کے اور کثرت کے، مسلمانوں کو ملازمت میں نہایت ہی قلیل حصہ دیا جاتا ہے جو تین فیصدی ہے.“ (صفحہ 125) یہ پس منظر تھا جبکہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی زمام اقتدار حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ہاتھ میں لی.آگے پھر اس کے بعد مشکلات بتاتے ہیں کہ ان مشکلات کے باوجود حضور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلی دی گئی اور اس کے بعد کلیم اختر صاحب نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ 4 اکتوبر 1947 ء کو راولپنڈی میں خواجہ غلام نبی گلکار انور آزاد کشمیر حکومت کے پہلے صدر اور سردار ابراہیم خان وزیر اعظم بنے.یہ دور حکومت جنوری 1948 ء تک جاری رہا.“ پھر لکھا:.14 اکتوبر کو حکومت قائم ہونے کے ساتھ ہی 6 اکتوبر کو مجوزہ پروگرام کے مطابق خواجہ غلام نبی گلکار انور مظفر آباد سے مقبوضہ کشمیر میں چلے گئے تا کہ وہاں بھی انڈر گراؤنڈ متوازی حکومت قائم کر کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کو گرفتار کیا جاسکے.( یہ مقصد تھا ان کے جانے کا.) جہاں آپ نے شیخ محمد عبداللہ سے راز داری کے ساتھ ملاقات کی اور ان سے مل کر انڈر گراؤنڈ حکومت اور اس کے لئے رضا کاروں کی ایک فوج بنائی تھی.اس انڈر گراؤنڈ حکومت کے عہدہ دار مقبوضہ کشمیر میں جن میں سے ہر ایک کا مخفی نام تجویز کیا گیا تھا، حسب ذیل ہیں.“ آگے پھر انہوں نے نام دیئے ہیں.جس میں بتایا کہ مخفی نام کیا تھا اور اصل نام کیا تھا.مسٹر علیم وزیر تعلیم ، اصل نام ڈاکٹر نذیر اسلام، مسٹر لقمان وزیر 66 صحت : اصل نام ڈاکٹر وز یر احمد قریشی.“ مخفی نام تھا یعنی Code Word کے طور پر استعمال ہوا.جنگوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.

Page 493

477 اسی طرح انہوں نے کئی اور نام لکھے جن میں سے مسٹر انصاف ،مسٹر ریشم الدین ، ڈاکٹر بشیر محمود، ڈائریکٹر میڈیکل سروسز.یہ ڈاکٹر بشیر محمود بھی احمدی تھے جو شہید ہوئے اور مسٹر انعام خلیفہ عبدالمنان صاحب چیف انجینئر ، یہ حضرت خلیفہ نو ر الدین صاحب کے صاحبزادے تھے.اس طرح منور، یہ چیف پبلسٹی آفیسر مقرر ہوئے.یہ میرے پیارے دوست اور صف اول کے قدیم لیڈروں میں سے اب یہی رہ گئے ہیں خواجہ عبدالغفار ڈار صاحب.آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ امیر جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے راقم الحروف کو ( یعنی کلیم اختر صاحب) ایک انٹرویو میں 3 دسمبر 1955ء میں فرمایا میرا مسئلہ کشمیر سے گہرا تعلق ہے اور اس سانحہ کا زخم ابھی تک میرے دل پر قائم ہے.میں ہر وقت کشمیریوں کی بے بسی پر خون کے آنسو روتا اور اللہ تعالیٰ سے ان کی رستگاری کے لئے دعا گو ہوں.“ قیام پاکستان کے بعد جماعت احمدیہ نے کشمیر کی جنگ میں حصہ لیا اور فرقان فورسز محاذ پر بھی لڑتی رہیں جن کا شکریہ پاکستان کے کمانڈرانچیف نے بڑے اچھے الفاظ میں کیا.“ پھر حضور نے افسوس کے ساتھ کہا، اس وقت کی حکومت نے میرے مشوروں پر عمل نہیں کیا.اگر وہ میری بات مان لیتی تو صورتحال یقینا بدل جاتی.“ یہ دراصل صفحہ 129 پر لکھا ہے.میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اصل بات یہ تھی کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی 31 اگست 1947ء کو قادیان سے ہجرت کر کے لاہور تشریف لے آئے.یہاں سب سے پہلے آپ نے صدر انجمن احمدیہ کی بنیاد رکھی.یکم ستمبر کو صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی.اور اس کے ساتھ اپنے قلم سے اخبار الفضل میں ادارتی نوٹ لکھے اور ان میں واضح لفظوں میں پُرزور طریقے سے حکومت پاکستان کو جس کے وزیر اعظم لیاقت علی خان تھے.کھلے لفظوں میں یہ بات بتائی کہ میرا کشمیر کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور خدا نے اپنے فضل سے پالیٹکس

Page 494

478 (Politics) پر مجھے بصیرت بخشی ہے.میں آپ کو کلم کھلا بتانا چاہتا ہوں کہ کشمیر کا مسئلہ آپ کی آنکھوں سے نظر انداز کیا جا رہا ہے.پاکستان قائم ہو گیا لیکن ریاستوں کا معاملہ ابھی تک لٹک رہا ہے اور ایسی صورت نظر آ رہی ہے کہ مسلمان ریاستیں بھی ، ہندوستان ہڑپ کرنا چاہتا ہے.اس لئے آپ نے فرمایا کہ سب سے پہلا اقدام لیاقت علی خان صاحب کی حکومت کو یہ کرنا چاہئے کہ وہ اعلیٰ سطح پر نہر وحکومت کے ساتھ گفتگو کرے.اور اس میں یہ اصولی فیصلہ کیا جائے کہ ہندوستان کا بقیہ حصہ تو آزاد ہو چکا.ریاستیں ابھی تک فیصلہ نہیں کر پائیں.بعض نے کھلم کھلا اعلان کر دیا ہے.کسی نے پاکستان میں شامل ہونے کا، کسی نے ہندوستان میں شامل ہونے کا، لیکن بعض ریاستیں ایسی ہیں کہ جو گومگو کی حالت میں ہیں.حیدر آباد جن میں سرفہرست ہے اور کشمیر اس کے ساتھ ہے.فوری طور پر لیاقت حکومت کو چاہئے کہ وہ فیصلہ کرے حکومت ہند کے ساتھ کہ ان کی شمولیت کا کیا فارمولا ہونا چاہئے.حضور نے فرمایا.میرے خیال میں دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں یا تو یہ نقطہ نگاہ پیش نظر رکھا جائے کہ ریاست کا جو والی ہے، جس مذہب کے ساتھ اس کا تعلق ہے، اگر تو وہ ہندو ہے تو اس کو ہندوستان میں شامل ہونا چاہئے.اگر وہ مسلمان ہے تو اس کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے ، لیکن میری نگاہ میں اصل یہ ہونا چاہئے کہ آزادی ہو چکی ہے، مہاراجے اب کوئی زرخرید غلام نہیں رکھ سکتے.ان کی اصل Base یہ ہونی چاہئے کہ جس ریاست میں اکثریت جس مذہب کی ہے، اس کے مطابق اس کو ملکوں کے ساتھ شامل ہونا چاہئے.اگر کسی ریاست کی اکثریت مسلمان ہے تو اس کو لازمی طور پر پاکستان میں شامل کیا جانا چاہئے ، اور اگر وہ ریاست اپنی اکثریت کے لحاظ سے ہندو کی ہے مگر حکمران مسلمان ہے جیسا کہ حیدر آباد دکن ہے تو اس کو لازمی طور پر ہندوستان میں شامل ہونا چاہئے.کے ایچ خورشید کی شہادت آپ حیران ہوں گے کہ حضور بھی زور دے رہے تھے اور خدا نے موقع بھی پیدا کیا.ابھی حال ہی میں یہ خبریں دوبارہ شائع ہوئی ہیں.قائد اعظم کے ساتھی تھے کشمیر کے جن کی یادداشتیں بھی شائع ہو چکی ہیں.انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے، یہ میں کے ایچ خورشید صاحب کا ذکر کر رہا ہوں جو قائداعظم کے سیکرٹری بھی رہے ہیں.

Page 495

479 انہوں نے اپنی یادداشتوں میں یہ بات لکھی ہے کہ نہر وحکومت با قاعدہ اس مفاہمت کے لئے تیار ہوگئی کہ حیدر آباد میں دے دیں.کشمیر ہم آپ کو دیتے ہیں مگر لیاقت کی نالائقی کی وجہ سے کہ وہ یہ خیال کرتے رہے کہ حیدر آباد دکن ہماری اسٹیٹ ہوگی اور ہم ہندوستان کے اوپر اس کی وجہ سے بالا دستی قائم کرلیں گے.وہ تو جا نہیں سکتی اور کشمیر تو ہمارا ہی ہمارا ہے کیونکہ ہمارے بارڈر کے ساتھ ہے.نتیجہ کیا نکلا ؟ ہندوستان نے جارحانہ طور پر قبضہ کر لیا حیدر آباد دکن پر اور ابوالکلام آزاد، لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور نہرو اور گاندھی ، ان ساروں کے پریشر (Pressure) میں سری نگر پہنچے اور ان کے پریشر (Pressure) کی وجہ سے وہاں کے مہاراجہ نے الحاق ہندوستان کا اعلان کیا.اور نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک اصل جو کشمیر کا حصہ تھاوہ ہندوستان کے قبضے میں چلا آ رہا ہے.آزاد کشمیر اسمبلی کی قرارداد پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا تبصرہ حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.مولانا آزادی کشمیر کی تحریک کے حوالے سے جماعت احمدیہ کی فی عظیم الشان خدمات ہیں.لیکن 1973ء میں ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی منظوری کے فوراً بعد 29 اپریل 1973ء کو سب سے پہلے کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا.اس حوالے سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث" نے 4 مئی 1973ء کو ایک خطبہ ارشاد فرمایا وہ اگر آپ قارئین کو اور ناظرین کو بتائیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.حضرت خلیفہ امسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آزاد کشمیر حکومت کی جماعت احمدیہ کے خلاف غیر مسلم اقلیت سے متعلق قرارداد کے پریس میں آنے کے بعد 4 مئی 1974 ء کو بیت اقصیٰ ربوہ میں پر شوکت خطبہ ارشاد فرمایا جو کہ آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرار داد پر تبصرہ کے نام سے نظارت اشاعت لٹریچر وتصنیف صدرانجمن احمد یہ ربوہ کی طرف سے شائع شدہ ہے.اس سلسلہ میں میں ایسے سربستہ راز آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو میں سمجھتا ہوں کہ عالمگیر جماعت احمدیہ کے سامنے یہ کبھی نہیں آئے.بات یہ ہوئی کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے اس خطبہ میں تہرہ کیا کہ یہ قرارداد کیا

Page 496

480 چیز ہے؟ کتنے ممبر اس میں موجود تھے؟ کل ممبر کتنے ہیں اور اس میں کیا کچھ کہا گیا؟.اس کے بعد حضور نے جوارشاد فرمایا.اور جسے ہمارے انچارج صاحب زود نویسی مولانا یوسف سلیم شاہد صاحب ( اللہ تعالیٰ ان کو جزائے عظیم بخشے) نے ٹیپ ریکارڈر سے تحریر کر کے حضور کی خدمت میں بھجوایا، یہ اس کا عکس میرے سامنے ہے.اور یہ اس وجہ سے ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے ارشاد فرمایا تھا کہ خطبہ چھپنے کے بعد مجھے بھجوایا جائے تا کہ یہ میں ریکارڈ رکھ سکوں.کسی اور خطبے کے متعلق حضور نے یہ ارشاد نہیں فرمایا.باقی سب آج تک شعبہ زود نویسی کے پاس ہیں مگر یہ اصل خطبہ میرے پاس ہے اور یہ حضور کا ارشاد تھا.یہ بھی اللہ تعالیٰ کے تصرفات میں سے ہے.حضور نے اس موقعہ پر جو فرمایا اصل میں.وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضور نے پہلے تو اس خطبہ میں سے کوئی آٹھ دس سطریں کاٹنے کے بعد آخر میں جماعت احمد یہ کونصیحت فرمائی کہ ہمیں مضبوطی سے ان ہدایات پر عمل کرنا چاہئے.یہ حضور کے اصل الفاظ تھے:.دو نحضرت ﷺ سے پیار کرتے رہنا ہے.اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھنا.بے لوث خدمت میں آگے رہنا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہے اور جب دنیا پیار کو کلی طور پر قبول کرنے سے انکارکر دے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام ” آؤ دعائیں کریں اور قیامت کا نمونہ دیکھیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ وقت نہیں کہ آؤ دعائیں کریں اور قیامت کا نمونہ دیکھیں.کسی وقت کسی خطہ ارض پر ہو سکتا ہے کہ ایسے حالات پیدا ہوں کہ احمدی دعائیں کریں اور ان لوگوں کو جو مخالفین اسلام واحمدیت ہیں ان کی ہلاکت کا نشان دیکھیں یعنی ان کو خدا اسی طرح ملیا میٹ کر دے جس طرح اس نے پہلے بعض قوموں کو کیا تھا.لیکن ہم اسے پسند نہیں کرتے اور اس دعا کی اجازت کے باوجود جیسا کہ آنحضرت ﷺ سے کہا گیا تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ میں کفار کے لئے بد دعا نہیں کرنا چاہتا.میں ان کی ہدایت کا طلبگار ہوں.ہم بھی یہی

Page 497

481 کہتے ہیں.“ یہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا اور میرے کانوں میں آج بھی یہ آواز گونج رہی ہے.فرمایا:.ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اے خدا ایسے حالات یہاں پیدا نہ ہوں اور ان احمدیوں کو جن کی زندگی میں ایسے حالات پیدا ہوں.خدا نہ کرے کہ کبھی پیدا ہوں لیکن اگر کبھی پیدا ہوں تو ان کو مقبول دعاؤں کی توفیق عطا فرمائیو جس کے نتیجہ میں ظلمات“ خدا کے نور سے بدل جائیں اور دنیا وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا (الزمر: 70) کا نظارہ دیکھنے لگ جائے.اللھم آمین.“ یہ اصل عبارت تھی جو حضور کی زبان مبارک سے اس وقت بیت اقصیٰ کے منبر پر ادا ہوئی.جب حضور نے ”الفضل کو بھجوانے کے لئے اس مسودہ پر نظر ثانی فرمائی تو حضور نے یہ ساری عبارت کاٹ دی.اور اس کی بجائے پہلے یہ عبارت لکھی کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہے اور جب دنیا پیار کو کلی طور پر قبول کرنے سے انکار کر دے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کو یاد رکھنا کہ اٹھو نمازیں پڑھیں.اور قیامت کا نمونہ دیکھیں.اور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ رحمت الہی کو جذب کر کے اور مستانہ وار اپنے رب کریم کی طرف رجوع کر کے خدائے قادر و توانا کی غیرت کے عظیم نشان دیکھنے کی کوشش ہمارا فرض ہے.“ یہ عبارت ہے جو حضور نے اس وقت تبدیل کر کے لکھی اور یہی شائع شدہ ہے.اس سے پہلے حضور نے عبارت تبدیل کی تھی.اصل عبارت یہ تھی :- اور قیامت کا نمونہ دیکھیں.اور کسی وقت کسی خطہ ارض پر ہوسکتا ہے ایسے حالات پیدا ہوں.66 یہ ساری عبارت میں نے بتائی ہے کہ اس سے پہلے تھی.حضور نے ساری کاٹ دی اور پھر

Page 498

482 یہ عبارت کہ ایسے حالات میں ہماری یہ دعا ہو گی کہ اے رحیم خدا! ہمیں مقبول دعاؤں کی توفیق عطا فرمائیو جس کے نتیجہ میں ظلمات‘ خدا کے نور سے بدل جائیں اور دنیا وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا (الزمر: 70) کا نظارہ دیکھنے لگ جائے.آمین معمولی تصرف کے ساتھ یہ عبارت اسی طرح حضور نے رکھی اور اسی طرح شائع شدہ ہے.شمیر اسمبلی کی قرارداد پر ہفت روزہ ”کہانی“ کا آرٹیکل ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.آزاد کشمیر اسمبلی کی قرارداد پر ہفت روزہ ”کہانی“ نے بھی آرٹیکل لکھا تھا.ہفت روزہ ”کہانی“ نے اس بارے میں کیا تبصرہ کیا تھا؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.جزاکم اللہ.ہفت روزہ ”کہانی“ کے تبصرے کا ایک حصہ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.عنوان اس حصے کا ہے:.یہ ماہنامہ لکھتا ہے:.گھر پھونک دو.“ آزاد کشمیر اسمبلی کے کل چھپیس ارکان ہیں جن میں سے سردار قیوم کے تیرہ اور اپوزیشن پارٹیوں کے گیارہ رکن ہیں.ایک سپیکر ہے.اپوزیشن پارٹیوں کی تفصیل یہ ہے.لبریشن لیگ پانچ ، پیپلز پارٹی چار ، آزاد کانفرنس دو، ہنگاموں کی وجہ سے اپوزیشن کے ارکان اجلاس میں موجود نہ تھے اور بائیکاٹ کر چکے تھے.اٹھائیس تاریخ کو ( یعنی اٹھائیس اپریل کو ) اسمبلی میں سردار قیوم کے اپنے ارکان بھی صرف نو کی تعداد میں تھے.چنانچہ سردار قیوم کے اشارے پر احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی قرارداد انہیں نوارکان سے منظور کروائی گئی.یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایسی کوئی قرارداد اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل نہ تھی.اس پر کوئی بحث نہ ہوسکی کیونکہ اپوزیشن کے ارکان اس سے پہلے ہی واک آؤٹ

Page 499

483 کر چکے تھے اور انہیں اس قرارداد کے پیش کرنے کا علم نہ تھا.چوبیس میں سے نو ارکان کی منظور کردہ قرارداد کو یوں پیش کیا گیا کہ اسے آزاد کشمیر اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی دائیں بازو کی جماعتوں نے وسیع پیمانے پر پاکستان میں جلسے کرنے اور جلوس نکالنے کا پروگرام بنایا.“ دیکھیں قدم قدم پر فراڈ اور جھوٹ اور دجل اور فریب ہے.اور اس کے ساتھ ہی یہ ” کہانی“ کا تبصرہ ہے جو میں عرض کر رہا ہوں.اس کے ساتھ ہی دائیں بازوں کی جماعتوں نے یعنی احراریوں نے وسیع پیمانے پر پاکستان میں جلسے کرنے اور جلوس نکالنے کا پروگرام بنایا.اس کی غرض و غایت یہ تھی کہ ایک طرف سردار قیوم کو مجاہد اسلام بنا کر پیش کیا جائے اور ان کو جو مجاہد اول کہتے ہیں.یہ بھی فراڈ ہے.اگر آپ جسٹس یوسف صراف کی کتاب دیکھیں اس میں ایک Chapter ہے کہ یہ بالکل غلط اور جھوٹی کہانی ہے.تو یہ ان کے مجاہد اول ہیں.پھر ” کہانی میں عادل چشتی لکھتے ہیں:.اس کی غرض و غایت یہ تھی کہ ایک طرف سردار قیوم کو مجاہد اسلام بنا کر پیش کیا جائے تاکہ حکومت پاکستان اسے پوچھ گچھ کرے اور دھاندلیوں، لوٹ کھسوٹ کی تفصیل چاہے تو سردار قیوم اور اس کے حواری آزاد کشمیر اور پاکستان کے عوام کو یہ تاثر دے سکیں کہ ہم نے احمدیوں کو اقلیت قرار دیا ہے اس لئے پیپلز پارٹی کی حکومت ہمارے خلاف ہوگئی ہے.“ عجب باریک ہیں واعظ کی چالیں ارز جاتا ہے آواز اذال چنانچہ یہی پروپیگنڈہ کیا گیا.ایک طرف تو یہ تھا کہ پاکستان کے عوام کو یہ تاثر دے سکیں کہ ہم نے احمدیوں کو اقلیت قرار دیا ہے اس لئے پیپلز پارٹی کی حکومت ہمارے خلاف ہوگئی ہے.” دوسری طرف احمدیوں کو اقلیت قرار دیئے جانے کے مسئلہ پر خواجہ ناظم الدین کے زمانے میں جس طرح پنجاب میں ہنگامے کرائے گئے تھے.اسی طرز پر پورے پاکستان میں شور مچایا جا سکے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو نا کام کرنے کی کوشش کی جائے.“

Page 500

484 یہ بیک گراؤنڈ تھا.آگے لکھتے ہیں:.”مذہب کا سیاسی استعمال“ اس امر کے قطع نظر کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینا چاہئے یا نہیں، یہ امر ٹھنڈے دل سے غور وفکر کا متقاضی ہے کہ اس خالص مذہبی مسئلے کو ہمیشہ مخصوص سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا اور جب وہ مقصد پورا ہو گیا تو ختم نبوت کے لئے جان دینے والے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے.آج مفتی محمود صاحب کی حکومت جاتی رہی تو وہ آزاد کشمیر کی اسمبلی کی قرارداد پر سر دھن رہے ہیں.کوئی ان سے پوچھے، مفتی صاحب! اگر آپ کے نزدیک ختم نبوت واقعی اتنا اہم مسئلہ تھا تو آپ سرحد اسمبلی کے کم و بیش ایک سال تک وزیر اعلیٰ رہے.آپ نے یہ قرار داد وہاں کیوں نہ منظور کروائی.آپ نے اس تحریک کے لئے وہاں کام شروع کیوں نہ کرایا ؟ ع کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے.“ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.اور یہ جو قرار داد پیش کرنے والے تھے میجر ایوب صاحب، وہ اکتوبر 2005 ء میں آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلہ میں عبرت کا نشان بنے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.وہ تو خدا تعالیٰ کے عبرتناک نشان کا لقمہ بنے اور دنیا میں اس بات کا اعلان کرنے کا موجب بنے کہ جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار و نزار حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.اکتوبر 2005ء میں کشمیر میں جو زلزلہ آیا.یہ بہت ہی قہری نشان تھا.کیا اس نشان کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات بھی ملتی ہیں؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ تاریخ احمدیت کا ایک عظیم الشان پہلو ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ہے.حق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت اور حقانیت کے لئے زلزلہ 2005 ء ایک نشان ہی کافی ہے.

Page 501

485 اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار سن 2005ء کا جو زلزلہ آیا تھا اور جس کے اثرات اب تک دکھائی دے رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب الوصیت میں اس کے متعلق اتنی تفصیلی علامات بیان کی گئی ہیں کہ سوائے عرش کے خدا کے کوئی علم غیب دنیا میں ظاہر نہیں کر سکتا.اور یہ تو ایک واضح حقیقت ہے کہ دنیا خواہ مریخ پر چلی جائے ، سائنسدان خواہ کتنی رفعتوں پر پہنچ جائیں، یہ تو ہے کہ ایسے زلزلہ پیما آلے تیار ہو گئے کہ کیا کیفیت ہے زلزلے کی ، مگر یہ کہ زلزلہ آ رہا ہے یا نہیں آ رہا ؟ اس بارے میں کوئی بھی انسان نہیں جان سکتا.نہ کوئی اس بارے میں کوئی آلہ ایجاد کیا گیا ہے.مگر آپ دیکھیں یہ زلزلہ 8 اکتوبر 2005ء کو بر پا ہوا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب الوصیت“ چوبیس دسمبر 1905ء کو شائع ہوئی.ایک سو سال پہلے کی یہ کتاب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ پہلے ایڈیشن کے صفحہ 14 اور 15 کے الفاظ ہیں.ایک ایک لفظ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو خدا کے حکم سے اپنے قلم سے لکھا ہے.وہ اس شان کے ساتھ پورا ہوا ہے کہ کوئی انسان اس کا انکار نہیں کرسکتا.یہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے الفاظ ہیں اور بہت توجہ سے سننے کے لائق ہیں.میں ناظرین سے یہ عرض کروں گا کہ خدا کے مسیح کے ایک صدی پہلے کے ان الفاظ کو غور سے سنیں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کا جلالی نشان 2005ء میں کس شان کے ساتھ پورا ہوا ہے.حضور کے الفاظ یہ ہیں.اور خدا نے فرمایا زَلْزَلَةُ السَّاعَةِ یعنی وہ زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگا.اور پھر فرمایا لَكَ نُرِى آيَاتٍ وَّ نَهْدِمُ مَا يَعْمَرُونَ یعنی تیرے لئے ہم نشان دکھلا ئیں گے اور جو عمارتیں بناتے جائیں گے ، ہم ان کو گراتے جائیں گے.اور پھر فرمایا بھونچال آیا اور شدت سے آیا.زمین تہ و بالا کر دی یعنی ایک سخت زلزلہ آئے گا اور زمین کو یعنی زمین کے بعض حصوں کو زیروزبر کر دے گا

Page 502

486 جیسا کہ لوط کے زمانے میں ہوا.اور پھر فرمایا إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيْكَ بَغْتَةً یعنی میں پوشیدہ طور پر فوجوں کے ساتھ آؤں گا اس دن کی کسی کو بھی خبر نہیں ہوگی جیسا کہ لوڈ کی بستی جب تک زیروز بر نہیں کی گئی کسی کو خبر نہ تھی.اور سب کھاتے پیتے اور عیش کرتے تھے کہ نا گہانی طور پر زمین الٹائی گئی.پس خدا فرماتا ہے کہ اس جگہ بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ گناہ حد سے بڑھ گیا اور انسان حد سے زیادہ دنیا سے پیار کر رہے ہیں اور خدا کی راہ تحقیر کی نظر سے دیکھی جاتی ہے اور پھر فرمایا زندگیوں کا خاتمہ اور پھر مجھے مخاطب کر کے فرما یا قَالَ رَبُّكَ إِنَّهُ نَازِلٌ مِّنَ السَّمَاءِ مَا يُرْضِيْكَ رَحْمَةً مِّنَّا.وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا ( یہ خاص توجہ سے سننے کے لائق ہیں.ناقل ) یعنی تیرا رب کہتا ہے کہ ایک امر آسمان سے اترے گا جس سے تو خوش ہو جائے گا.یہ ہماری طرف سے رحمت ہے اور یہ فیصلہ شدہ بات ہے جو ابتدا سے مقدر تھی اور ضرور ہے کہ آسمان اس امر کے نازل کرنے سے رُکا ر ہے.جب تک کہ یہ پیشگوئی قوموں میں شائع ہو جائے.“ (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 314-315) یہ پیشگوئی حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے زمانے میں اس وقت پوری ہوئی جبکہ ساری دنیا میں تحریک الوصیت کا ایک عظیم الشان جذ بہ پیدا ہوا اور مخلصین احمدیت نے امریکہ سے لے کر یورپ اور افریقہ اور آسٹریلیا تک ”لبیک یا امیر المومنین کہتے ہوئے نظام امیرالم الوصیت سے وابستگی کا اعلان کیا اور ساتھ ہی الوصیت مختلف زبانوں میں شائع ہو چکی.عربی میں، انگریزی میں ، دوسری زبانوں میں.تو فرمایا یہ احمدیت کی صداقت کے لئے خدا نے نشان پہلے سے رکھا ہوا تھا.مگر خدا اس وقت تک اس نشان کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا.جب تک کہ ساری دنیا میں الوصیت“ شائع نہ کی جائے.مختلف زبانوں کے ذریعہ سے دنیا کی مختلف قوموں کو اس سے متوجہ نہ کیا جا سکے.یہ خدا کا عظیم الشان نشان ہے جو خلافت خامسہ کے زمانے میں پوری آب و تاب کے ساتھ پورا ہوا.ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.جزاکم اللہ.مولانا صاحب ! یہ بتائیے کہ عرب

Page 503

487 صحافت نے بھی اس زلزلے کے بارے میں کوئی تبصرہ کیا تھا؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.عرب صحافت نے اس بارے میں ہوسکتا ہے کہ اور بھی اخباروں نے لکھا ہو لیکن مجھے یہاں ” السياسة “ اخبار کا جو عرب کا مشہور اخبار ہے، تذکرہ کرنا ہے یہ اکیس اکتوبر 2005ء کا شمارہ ہے.اخبار السياسة‘ نے اس پر جو تبصرہ کیا اس کا ایک حصہ میں سناتا ہوں.عنوان تھا:." زلزال باكستان اختبار من الخالق و علينا الحذر من غضبه و نقمته...اخبار نے لکھا: صلى الله " ان المولى سبحانه اخبر نبیہ اللہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو یہ اطلاع دی که انه قد اهلك الامم المكذبة للانبياء والمرسلين السابقين عليه و على المومنين جميعا اللہ تعالیٰ نے محمد عربی ﷺ کو اطلاع دی کہ خدا نے ان قوموں کو ہلاک کیا جو خدا کے نبیوں اور بچے مرسلوں کے مکذب تھے و على المومنين جميعا ان يتقوا الله اور مومنوں کو فرض ہے کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کریں.و يراقبوا بامتثال اوامره و اجتناب نواهيه اور ان کا فرض ہے کہ خدا کے احکام پر عمل پیرا ہو جائیں اور خدا نے جو منہیات رکھی ہیں ان سے علیحدگی اختیار کریں.و اذا ما حلت بهم نازلة من النوازل فعليهم اور جب تکذیب کرنے والی قوموں کی طرح ان پر بھی عذاب آئے.تو ان کا فرض ہے کہ ان ینیبوا الی اللہ کہ وہ خدا کی انابت اختیار کریں.خدا کی طرف جھک جائیں.اس کے آستانہ کے او پر اپنا سر رکھیں.و یرجعوا الیہ اور اسی کی طرف توجہ کریں.ویفتشوا فی انفسهم عن اسباب ما حصل اور ان اسباب کو دیکھیں کہ کہیں وہ بھی تو تکذیب کرنے والوں میں سے شامل نہیں ہیں.و عليهم ان يتوبوا الى اللہ کہ ان کا فرض اولین ہے کہ وہ خدا سے تو بہ کریں.

Page 504

488 حیرت کی بات ہے کہ زلزلہ کے آنے سے پہلے مظفر آباد اور ایبٹ آباد کی دیواروں کے اوپر احمدیت کے خلاف اشتعال انگیز پوسٹر موجود تھے.اخبار السياسة“ نے لکھا کہ اس زلزلے کے بعد اب ان کا فرض ہے کہ ان حرکتوں سے تو بہ کریں.يتوبوا الى الله مما حصل منهم من نقص في الطاعات او اقتراف للسيئات فان التوبة من اسباب رفع المصائب ان کا فرض ہے کہ جو غلطیاں تھیں اس سے اجتناب کریں اور جو گناہ کئے اس سے تائب ہو جائیں کیونکہ تو بہ ہی ہے جو مصیبتوں کو اٹھا دیتی ہے.یہ ریمارکس تھے جو عرب کی صحافت نے کئے.اخبار السیاسۃ 21 اکتوبر 2005 ء بمطابق 18 رمضان 1426ھ.خلفائے احمدیت کے بیان فرمودہ حقائق کی قبولیت عام حافظ محمد نصر اللہ صاحب : مولانا ! آپ نے محترم حافظ انوار رسول صاحب (جو آپ کے شعبہ تاریخ میں کمپیوٹر سیکشن کے انچارج ہیں) کے حوالہ سے بیان فرمایا تھا کہ انہوں نے کچھ کتابیں آپ کو تحفہ دی ہیں تو ان میں سے کچھ اہم حوالہ جات افادہ عام کے لئے سنائیں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.آپ نے کمال کر دیا ہے اتنا ذہن رسا رکھتے ہیں کہ ان کتابوں پر میرا خیال ہے ، اسی وقت سے نظر ہے کہ کم از کم ان کا بھی تعارف ہو جائے.ایک کتاب کا نام ہے: پاکستان اور دنیا.کون کیا ہے.“ اس کے مصنف ہیں زاہد حسین صاحب، جہانگیر بک ڈپو لا ہور راولپنڈی ملتان کراچی.دوسری کتاب ہے: فرقہ واریت ملی خود کشی یہ عنوان ہے اور مؤلف ہیں جناب قربان انجم صاحب.پاکستان کے بہت مشہور اور نامور مؤلف اور دانشور.اور کتاب کو شائع کرنے والے ہیں دارالتذکیر لاہور.مکرم جاوید احمد غامدی

Page 505

489 صاحب پاکستان کے بڑے مشہور مفکر ہیں.یہ غالباً ان کا ادارہ ہے.اب کون کیا ہے“ کے بارہ میں عرض کرتا ہوں.میں نے حضور کے بیانات کے سلسلہ میں یہ بتایا تھا کہ پہلے دن ہی حضور نے فرمایا.جب یہ اٹارنی جنرل صاحب کی طرف سے سوال ہوا کہ آپ کا رد عمل کیا ہوگا تو حضور نے یہی جواب دیا تھا کہ یہ فیصلہ اگر ہوا تو ہمارے خلاف نہیں، محمدعربی ﷺ کی سپریم کورٹ کے خلاف فیصلہ ہوگا.“ ور اس کے بعد جیسا کہ ڈاکٹر ( سلطان احمد مبشر ) صاحب کی تازہ تالیف ” تاریخ انصاراللہ جلد دوم میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے خود بیان فرمایا کہ میں نے تین دفعہ دعائیں کیں مگر الہام یہی ہوا کہ خدا اس پارٹی کو اور ان لوگوں کو تباہ کرے گا اور ( عفوکی ) دعا کرنے کے باوجود بار بارخدا کی طرف سے یہی الہام ہوا.اس دوسری کتاب ” فرقہ واریت ملتی خود کشی‘ میں نہ صرف یہ ذکر ہے کہ آج تک فرقہ واریت جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بھی آخر میں خلیفہ عبدالحکیم کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا تھا اور اس کی روشنی میں فرمایا تھا کہ آج ہمارے خلاف ہو، کل ملا جو ہے دوسرے کے خلاف فتنے اٹھا ئیں گے اور اس کے نتائج آپ کو بھگتنا پڑیں گے.یہ کتاب بتاتی ہے کہ 1974ء میں خدا کے شیر نے اسمبلی میں ملک کے دانشوروں کو خدا سے علم پا کر پاکستان کا جو عبرت ناک نقشہ ہونے والا تھا اور وہ پاکستان جس کو حسن تہامی صاحب نے کہا تھا کہ اب صحیح معنوں میں اسلامی حکومت بنی ہے کیونکہ مرزائیوں کو خارج از اسلام قرار دے دیا گیا ہے.(روزنامہ مشرق لاہور 9 ستمبر 1974، صفحہ 1 ) وہ نقشہ اس کتاب سے آپ کو پوری طرح نظر آئے گا بلکہ یہی نہیں، خدا کا تصرف یہ ہے کہ اس میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ جب تک حکومت ملاؤں کو لگام نہیں دے گی اور مسجدوں کا کنٹرول خود نہیں سنبھالے گی اور ان کے خطبہ دینے پر پابندی نہیں لگائے گی ، اس وقت تک ملک میں کبھی بھی امن نہیں ہوسکتا.(صفحہ 235) اور یہی وہ بات ہے کہ جسے بیسیوں مرتبہ حضرت خلیفتہ اسیح الرابع نے اپنی تقریروں میں بیان کیا.اپنے خطبوں میں اس کی نشاندہی کر کے فرمایا جب تک کہ اس پیر تسمہ پا کو ختم نہیں کیا جائے گا، پاکستان آرام کی نیند نہیں سو

Page 506

490 سکتا.سو فیصدی اس کی تائید اس میں ملتی ہے.اس پہلی کتاب ” کون کیا ہے“ میں یہ ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے اور حضرت خلیفہ المسح الرابع نے آئین پاکستان کے متعلق جو کچھ کہا اوران فیصلوں کے متعلق جوعدالتوں میں کئے گئے.اس کے بعد جو حشر ہوا اس آئین کا وہ اس سے پتہ چلے گا.1973ء کے متفقہ آئین کی خاطر بھٹو صاحب نے جماعت احمدیہ کو نشانہ بنایا اور فخر کیا کہ یہ متفقہ آئین میں نے دیا ہے، 1973ء کا آئین اور اس کے بعد انتخابی مہم میں خاص طور پر ان کا تذکرہ کیا گیا کہ ملک میں پہلی دفعہ متفقہ آئین دیا گیا ہے جس پر کہ چاروں صوبے متفق ہیں.لیکن آپ دیکھیں کہ وہ متفقہ آئین ! اس کے بعد اس فیصلے سے پہلے صرف ایک ترمیم ہوئی تھی.23 اپریل 1974ء کو اور وہ ترمیم مشرقی پاکستان کو پاکستان سے نکالنے اور بنگلہ دیش کے تسلیم کرنے کی.لیکن اس دوسری ترمیم کے بعد یہ سترہویں ترمیم تک معاملہ پہنچا ہے.(اب 22 ویں ترمیم تک نوبت پہنچ گئی ہے.ناقل ) اور سپریم کورٹ کے سابق جوں نے لکھا ہے کہ ضیاء الحق کے زمانے میں اس آئین کی دھجیاں بکھر گئیں جس کو کہ بھٹو صاحب نے متفقہ بنایا تھا اور جس کی وجہ سے احمد یوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے منصوبے بنائے گئے تھے.اور اس کا خلاصہ میں بیان کر چکا ہوں.ہاں ایک بات اس میں رہ گئی ہے چھوٹی سی.وہ یہ ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نے محضر نامے میں بھی اور حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے تو کھلے لفظوں میں یہ بات کہی کہ اگر پاکستان کے سیاسی لیڈر اور مذہبی لیڈر اس روش پر قائم رہے تو نہ صرف خدا تعالیٰ لیڈروں کی رسوائی کا سامان کرے گا بلکہ پاکستان نہایت خطرناک قسم کے نتائج کی گرداب میں پھنس جائے گا.پھر زیڈ.اے.سلیری کی ایک کتاب ہے.مسئلہ افغانستان“ یہ بھی جس طرح میں نے عرض کیا ہے ایک آسمانی Aid ( تائید ) ہے جو کہ ہم لوگوں کو حضرت خلیفہ اسیح کی غلامی کے طفیل ملتی ہے.میں کوئی دو ہفتے سے اپنی یہ کتاب تلاش کر رہا تھا.آج صبح میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ کہا کہ الہی تیرا ہی وعدہ ہے.انــی مــعـيـن مـن اراد اعانتک یہ دعا

Page 507

491 کرتے ہوئے میں نے ایک ایسی الماری کو دیکھنا شروع کیا کہ جس کے متعلق میرا تصور بھی نہیں تھا.در اصل بات یہ تھی کہ یہ کتاب Arrival والی کتابوں کی بجائے افغانستان کے خانے میں رکھی ہوئی تھی تو وہاں سے نکلی.اس میں زیڈ.اے.سلیری صاحب کا بیان ہے.یہ سلیری صاحب مونچھوں کے بال سمجھے جاتے ہیں ضیاء صاحب کے اور یہ چار پانچ سال تک ان کی مجلس شوری کے سرگرم ممبر رہے، پھر مشیر بھی رہے.یہ جنیوا میں ہونے والا امریکہ اور رشیا کا سمجھوتہ جو کہ افغانستان کی جنگ کے متعلق تھا، اس کا اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.شاید اس بارے میں صدر ضیاء الحق کو کوئی زخم لگا ہے کہ ان جیسا سابر اور تحمل اور اپنے اوپر ضبط رکھنے والا صاحب اقتدار بھی اپنے درد کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکا.انہوں نے مدیران جرائد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ( یعنی پر یس کا نفرنس میں یہ کہا ) کہ سر براہی کانفرنس میں امریکہ اور روس میں سمجھوتہ ہو گیا اور اس کوئلوں کی دلالی میں ہمارا منہ کالا ہو گیا.“ مسئله افغانستان از زیڈ اے سلیری صفحہ 156 ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کس طرح ان کے گرویدہ اور خلیفتہ المسلمین سمجھنے والوں میں سے تھے.” صاحب اقتدار بھی یعنی جس شخص نے کھلے بندوں کوڑوں کی سزا دی اور اس ملک کو وسیع قید خانے میں بدل دیا اور اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا اور اسلام کے نام پر سب کچھ کیا.تو یہ صاحب فرماتے ہیں کہ ضیاء الحق بڑے صابر، بڑے تحمل اور اپنے اوپر ضبط رکھنے والے صاحب اقتدار تھے.تو یہ سزا تو قیامت کے دن جہنمیوں کی خدا نے قرار دی ہے.ویسے تو مرنے پر بھی دنیا کے سامنے ظاہر ہو گیا مگر اس سے پہلے زبان سے خدا نے کہلوا دیا اور ساری دنیا میں یہ بیان چھپ گیا کہ ضیاء صاحب دلال تھے اور مرے نہیں جب تک کہ خدا نے ان کا منہ کالا نہیں کر دیا.جسٹس جاوید اقبال کے قلم سے بھٹو اور ضیاء کی چہرہ نمائی حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.مولانا ! ڈاکٹر سر اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج بھی رہے ہیں.دونوں لحاظ سے

Page 508

492 آپ کا نام ایک بلند پایہ شخصیت کی حیثیت سے جانا جاتا ہے پاکستان میں بھی اور برصغیر میں بھی.یہ دونوں حکمرانوں یعنی بھٹو صاحب اور ضیاء الحق صاحب سے بہت قریب رہے ہیں.وہ ان دونوں فرعون صفت حکمرانوں کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.جزاکم اللہ.یہ بھی بہت ہی معرکہ آراء سوال ہے.جناب جسٹس ڈا کٹر جاوید اقبال کے قلم سے سنگ میل پبلی کیشنز لا ہور نے ایک مبسوط کتاب شائع کی ہے.”اپنا گریبان چاک یہ محترم ڈاکٹر صاحب کی کتاب کا عنوان ہے.خود نوشت سوانح حیات ہے جو ان کے قلم سے نکلی ہے.اور یہ کتاب دراصل محض ان کی سوانح عمری نہیں بلکہ انہوں نے اپنے عہد کے سیاسی اور مذہبی حالات پر بھی بہت گہری نظر رکھتے ہوئے تبصرہ کیا ہے.بعض مقامات پر ضمنا باتیں انہوں نے کی ہیں.بعض مقامات پر کھل کر کی ہیں.میں اس کتاب کے چند اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.اس کتاب کے صفحہ 162 پر لکھتے ہیں.پاکستان میں جب بھی کسی حکومت کو گرانا مقصود ہوتو عموماً اسلام کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے.بھٹو کی مخالف سیاسی جماعتوں کے کٹھ “ نے بھی نظام مصطفیٰ تحریک کے تحت ان سے زیادہ تر مذہبی مطالبات ہی کئے.مثلاً احمدیوں کو اقلیت قرار دو، اتوار کی بجائے جمعہ کی چھٹی کرو، گھڑ دوڑ پر جو بند کرو،شراب بند کرو.بھٹو نے اپنی کرسی محفوظ کرنے کی خاطر سب مطالبات مان لئے لیکن سیاسی جماعتوں کے ”کچھ“ کی تسلی نہ ہوئی.دراصل ان کا مقصد کسی قسم کے اسلام کے نفاذ کا نہ تھا بلکہ کسی نہ کسی طریقہ سے بھٹو کو ہٹانا تھا.“ (اپنا گریبان چاک صفحہ 162) اس کے بعد ایک حوالہ پڑھتا ہوں جس کا تعلق غاصب پاکستان، آمر پاکستان ، فرعون پاکستان ضیاء الحق کے ساتھ ہے.جسٹس جاوید اقبال فرماتے ہیں کہ وو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار غصب کرتے ہی ایک نئے تجربے کی

Page 509

493 ابتداء کی.انہوں نے پاکستانیوں کو اچھے مسلمان بنانے کی خاطر بھٹو کی عطا کردہ اصلاحات ( قادیانیوں کو اقلیت قرار دو، جمعے کی چھٹی کرو ، گھڑ دوڑ بند کرو، شراب بند کرو ) کی سمت میں مزید آگے قدم بڑھانے کی ٹھانی.اس کے نتیجہ میں قادیانیوں پر اسلامی شعار استعمال کرنے کی پابندی لگادی گئی.مسلمانوں اور غیر مسلموں میں تمیز کرنے کی خاطر ہر قسم کے فارموں میں مذہب کا اندراج کرنا ضروری قرار پایا، کسی منصب کا حلف لیتے وقت بھی یہ حلفی بیان دینا اہم تھا کہ مختلف قادیانی نہیں ہے.وغیرہ.علاوہ ان کے، قرون وسطیٰ کے عہد کے فقہی اسلام کی کڑوی دوا کی چند خوراکیں پاکستانیوں کو پلوانے کا اہتمام بھی کیا گیا.” توہین رسالت کا قانون بنا جس کے سبب غیر مسلم اقلیتوں میں خوف و ہراس پھیلا ، شریعت کورٹ قائم ہوا.جہاں خصوصاً سرقہ ، حربہ، زنا وغیرہ کے کیس سنے جاتے تھے اور مجرموں کو اسلامی سزائیں دی جانی مقصود تھیں.( جو ثبوت کا معیار بہت مشکل ہونے کے سبب آج تک نہیں دی گئیں.) اس عدالت کے جج صرف مسلمان ہو سکتے تھے اور صدر جنرل ضیاء الحق کے رحم وکرم پر تھے.چونکہ وہی ان کو مقرر کرنے اور ہٹانے کا اختیار رکھتے تھے.گویا ان اسلامی جوں کو وہ آزادی ضمیر بھی حاصل نہ تھی جو سیکولر عدالتوں کے جوں کو معلق دستور“ کے تحت حاصل تھی.علاوہ اس کے اس عدالت کو اسلامی عائلی قوانین اور مالی معاملات سے متعلق کیس سنے کا اختیار بھی نہ تھا.پہلے یہ تجربہ کیا گیا کہ ہائی کورٹوں ہی میں شریعت بیج بنادی جائے اور ابتدائی دور میں ہائی کورٹ لاہور کے دو جوں پر مشتمل شریعت بنچ میں میں سینئر جج کے طور پر بیٹھا تھا لیکن بعد ازاں بعض علماء کے مشورے پر اس عدالت کو علیحدہ فیڈرل نوعیت کا بنادیا گیا.جہاں تک اسلامی قانون سازی کا تعلق ہے ،اس ضمن میں حدود آرڈینینس نافذ کیا گیا.نیز ضابطہ قانون شہادت میں عورت کی گواہی نصف کر

Page 510

494 دی گئی اور چند مزید ایسی تبدیلیاں لائی گئیں جو آج کے زمانے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں.ضرب خفیف اور ضرب شدید کے قانون میں بھی آنکھ کے بدلے آنکھ کے اصول پر تبدیلیاں ہوئیں.جن کے تحت سزا دیتے وقت جوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.خیر یہ تو مختصر سا خاکہ اس اسلامائزیشن' کا تھا جو جنرل ضیاء الحق نے ملک میں نافذ کی مگر ہم پر ان اصلاحات کا نہ تو کوئی روحانی اثر ہوا اور نہ اخلاقی بلکہ سنگین جرائم میں کمی کی بجائے روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا.پاکستان میں خصوصی طور پر عورتوں سے متعلق کئی نئے قسم کے جرائم مشاہدے میں آئے جن کی پہلے کوئی مثال موجود نہ تھی.مثلاً پنجاب میں مردہ خواتین کو قبروں سے نکال کر ان کے ساتھ زیادتی کرنے کے دو واقعات پیش آئے.اور شرعی عدالت کے لئے یہ طے کرنا مشکل تھا کہ جرم زنا بنتا ہے یا نہیں.پھر مخالف پارٹی کے مردوں نے کسی خاندان کی خواتین کو ( بوڑھی عورتوں، جوان اور چھوٹی عمر کی بچیوں سمیت) الف ننگا کر کے انہیں بازار میں نچوایا اور مردوں نے مل کر ان کے اردگرد بھنگڑا ڈالا.نیز حدود آرڈینینس کا بالخصوص عورتوں کے معاملے میں غلط استعمال کیا گیا.بطور حجج لاہور ، بہاولپور، ملتان اور راولپنڈی کے بنچوں پر میرے سامنے مستغیث پارٹی اور پولیس کی اس دیدہ دانستہ دھاندلی کے بعض ایسے کیس آئے کہ میں حیران رہ گیا.“ اپنا گریبان چاک سنگ میل پبلیکیشنز لاہور صفحہ 172-173) چند مثالیں بھی دی ہیں لیکن میں پیش نہیں کرتا.یہ مثالیں بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں.د پس یہ نام نہاد اسلامی اصلاحات دراصل کتاب قوانین پر سرخی پاؤڈر ( کاسمیٹک ) لگانے کے مترادف تھیں.ان اسلامی قوانین کے دانت تو تھے مگر نمائشی.وہ کاٹ سکنے کی اہلیت نہ رکھتے تھے.نیز اصلاحات کا زیادہ زور سزاؤں پر تھا یعنی منفی پہلو پر.”مثبت پہلو پر

Page 511

495 بھی ہوتا جب اسلامی برکات سے متعلق اصلاحات نافذ کر کے ابتداء کی جاتی جن سے غربت اور افلاس کے خاتمے کے لئے اقدام اٹھائے جاتے.مگر اس ضمن میں زکوۃ اور عشر وغیرہ کی وصولی سے متعلق جو اصلاحات نافذ کی گئیں.ان سے حاصل کردہ رقوم میں بھی غین کی شکایات سننے میں آئیں اور مالی امداد مستحقین تک نہ پہنچ سکی.“ اپنا گریبان چاک سنگ میل پبلیکیشنز لاہور صفحہ 175) پھر فرماتے ہیں ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب:.” یہ 84ء کی بات ہے.“ یہ وہی سال ہے جبکہ احمدیت کے خلاف اس ظالم اور غاصب نے رسوائے عالم آرڈینینس جاری کیا تھا.فرماتے ہیں کہ اسی سال ( یعنی 1984 ء.ناقل ) مجھے حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام مذہبی عدم رواداری“ کے موضوع پر ایک سیمینار میں شرکت کے لئے جینیوا ( سوئٹزر لینڈ ) بھیجا.مجھے احساس تھا کہ اس سیمینار میں پاکستان نے احمدی اقلیت کے متعلق جو قانون سازی کر رکھی ہے اس پر بین الاقوامی برادری کے سامنے کوئی نہ کوئی تسلی بخش دینا پڑے گا.اس لئے میں نے وزارت خارجہ سے بریف مانگی مگر وہ مجھے کچھ نہ دے سکے بلکہ جواب دیا کہ وزارت قانون سے پوچھوں.میں نے شریف الدین پیرزادہ صاحب سے رابطہ کیا مگر وہاں سے بھی کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا.بالآخر میں نے سیمینار میں علامہ اقبال اور قائد اعظم کے فرمودات کے حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بانیانِ پاکستان مذہبی رواداری سے متعلق کیا خیالات رکھتے تھے.مگر جینیوا میں احمدیوں کا مشن بھی سیمینار میں آبزرورز (Observers) کے طور پر حصہ لے رہا تھا.انہوں نے مجھے احمدیوں سے متعلق جنرل ضیاء الحق کی مخصوص قانون سازی پر خوب لتاڑا بلکہ مجھ سے بین الاقوامی برادری کے

Page 512

496 رو بروا اپیل کی کہ اپنی حکومت کو علامہ اقبال اور قائد اعظم کی مذہبی رواداری سے متعلق اصول اپنانے کی تلقین کروں.میرا موقف یہی تھا کہ یہ قانون سازی احمدی برادری کے خلاف نہیں بلکہ ان کے تحفظ کی خاطر کی گئی ہے تا کہ وہ مسلم اکثریت کے غیظ و غضب کا نشانہ نہ بنیں.مگر بین الاقوامی برادری نے میرے دلائل مستر د کر دیئے.اور اس مسئلہ پر جو بھی قرار دادیں پاس ہوئیں سب کی سب پاکستان کے خلاف تھیں.افسوس تو یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے ہی سے بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا امیج مذہبی طور پر ایک تنگ نظر اور متشد دریاست کے ابھرا.میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا کہ جب بانیان پاکستان کی نگاہ میں پاکستان کو ایک وسیع النظر اور روادار ریاست بنا تھا تو پھر مذہبی طور پر تنگ نظر اور متشد دریاست کیونکر بن گئی.“ 66 اپنا گریبان چاک ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور صفحہ 192-191) اسی سال کہتے ہیں.پس منظر یہ ہے اس وقت چیف جسٹس کے بننے کا سوال تھا.اس وقت غالباً یہ سپریم یا ہائی کورٹ میں جسٹس تھے.تو ضیاء گورنمنٹ نے یہ چاہا کہ کسی طرح وہاں سے منتقل کر کے انہیں پھر دوبارہ لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا جائے.تو لکھا ہے کہ ” میں نے جواب دیا ” میں اس کیفیت میں واپس چیف جسٹس کے طور پر لاہور آنا نہ چاہوں گا.اگر آپ مجھے اس قابل سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں میرا بطور جج تقرر ہو تو مجھے منظور ہے.لیکن واپس لوٹ کر اپنے کسی جونیئر رفیق کی چیف جی کا حق مارنا مجھے پسند نہ ہوگا.“ پھر فرمایا: ” آپ اپنی جگہ چیف جسٹس بننے کی سفارش کس کے لئے کریں گے.؟ میں نے کہا ”میرے بعد سب سے سینئر جج سعد سعود جان ہیں.جو لائق بھی ہیں اور قابل ستائش بھی مگر وہ تو قادیانی ہیں.“ جونیجو نے اعتراض کیا.”سر اول تو وہ اعلانیہ کہتے ہیں کہ میں قادیانی نہیں ہوں.دوم وہ

Page 513

497 جمعہ کی نماز بھی ہمیشہ اسی جی او آر کی مسجد میں پڑھتے ہیں جہاں دیگر مسلمان پڑھتے ہیں.لیکن اگر وہ قادیانی ہوں بھی تو کیا مذہبی عقائد کے سبب ان کی Seniority اور میرٹ کو نظر انداز کر کے ان کا حق مارنا جائز ہے؟ اس سوال کا جواب جو نیجو کے پاس نہ تھا.میری ریٹائرمنٹ کے روز ہی سے مجھے سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا.لاہور ہائی کورٹ میں میرا رخصتی ریفرنس ہوا.میرے رفقاء نے بڑے تپاک اور محبت سے مجھے الوداع کہا.جسٹس سعد سعود جان کا تقرر بھی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر کر دیا گیا مگر انہیں اپنی لیاقت اور Seniority کے باوجود لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ سے اس لئے محروم رکھا گیا کہ وہ قادیانی سمجھے جاتے تھے.یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ جو ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہے لیکن اگر کسی منصب پر غیر مسلم“ کا استحقاق ہو تو اسے محروم رکھنا کہاں کا اسلام ہے؟.میں جب کبھی بھی اس بات پر غور کرتا ہوں تو ندامت سے مجھے پسینہ آنے لگتا ہے.ہمارے یہاں ماضی میں اپنی Seniority کے لحاظ سے غیر مسلم ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں.مگر وہ قائد اعظم کی تعلیمات کا اثر تھا.اب ہم پر ضیاء الحق کے متعصب قسم کے اسلام کا نفاذ تھا جس کے سامنے کوئی بول سکنے کی جرات نہ کر سکتا تھا کیونکہ ہم ضمیر کی آزادی سے محروم تھے.بلکہ بقول اقبال سلطانی و ملائی و پیری کا کشتہ بن چکے تھے.“ اپنا گریبان چاک سنگ میل پبلیکیشنز لاہور صفحہ 195) پھر ڈاکٹر صاحب ایک جلسے کی روئیداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک کانفرنس تھی.کانفرنس کی صدارت ضیاء الحق کر رہے تھے اور ضیاء الحق صاحب نے یہ اعلان کیا کہ اب ہم جاوید اقبال کے خیالات بھی ضرور سنیں گے.یہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں شش و پنج میں پڑ گیا.میرے پہلو میں مجید نظامی بیٹھے تھے.

Page 514

498 میں نے انہیں بتایا کہ طے تو یہی ہوا تھا کہ میں صرف تقاریر سنوں گا.نیز میرے پاس تو تقریر بھی لکھی ہوئی نہیں.بہر کیف ان کے کہنے پر میں نے وہیں بیٹھے جلدی سے اپنی تقرریکھی اور جب مجھے بلوایا گیا تو میں نے وہی تقریر پڑھ ڈالی.تقریر اردو میں تھی اور میرا موقف مختصر آیہ تھا:.وطن عزیز کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے قائد اعظم کے نظریات سے انحراف کیا اور اب اس کی سزا بھگت رہے ہیں.اس مسئلہ کا حل یہی ہے کہ بانی پاکستان کے نظریات کی طرف از سر نو رجوع کیا جائے.اپنی تقریر کے دوران میں نے جنرل ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور خصوصی طور پر حدود آرڈنینس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اس کے تحت ( ثبوت کے مشکل معیار کی بنا پر) کسی مجرم کو سزا دے سکنا ممکن نہیں.لہذا یہ قانون نمائشی ہے.ہمارے ضابطوں پر محض سرخی پاؤڈر لگانے کے مترادف ہے اور ایسے قانون کو نافذ کر کے احکام البہی کا مذاق اڑایا گیا ہے.تقریر کے اختتام پر علماء حضرات نے شور وغل مچانا شروع کر دیا کہ گذشتہ چودہ سوسالوں میں کسی کو یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی کہ احکام الہی کو کالعدم قرار دیا جائے.( میں نے کب کہا تھا کہ احکام الہی کو کالعدم قرار دیا جائے لیکن بدقسمتی سے ہمارے علمائے کرام جب کوئی منطقی دلیل پیش نہ کرسکیں تو ایسی ہی تخیلی جذباتیت کا اظہار کر کے آپ کے پاؤں کے نیچے سے دری کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں ).“ پھر کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق پہلے تو چند لمحے اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے رہے اور علماء حضرات کے شور وغل سے لطف اٹھاتے رہے.پھر یکدم اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور سنجیدہ لہجے میں فرمایا:.علماء حضرات اطمینان رکھیں.“ یہ کن کے الفاظ تھے؟ جنرل ضیاء الحق صاحب کے.فرمایا:.علماء حضرات اطمینان رکھیں.ڈاکٹر جاوید اقبال کی

Page 515

499 سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا (یعنی قائد اعظم کے نظریات کی طرف رجوع نہیں ہو گا.) اس پر تمام علماء حضرات خاموش ہو گئے اور کانفرنس کی کارروائی جاری رہی.“ اپنا گریبان چاک“ سنگ میل پبلیکیشنز لاہور صفحہ 205) اب آپ کو آخری اقتباس جو میں سنانا چاہتا ہوں وہ ذراغور کے قابل ہے.انہوں نے دونوں فرعونوں کی حکومت اور یہاں اسلام کو جس طرح استعمال کیا جاتا ہے اس کا نقشہ جامع الفاظ میں کھینچا ہے جو سننے کے لائق ہے.دو فرعونوں کا موازنہ جناب جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی سوانح حیات کے صفحہ 207 پر ان دونوں فرعونوں کے زمانہ حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.جنرل صاحب ( ضیاء الحق صاحب ) اتنے ہی مسلمان ہیں جتنے بھٹو صاحب تھے.فرق صرف اتنا ہے کہ ایک نے اسلام کو اپنے اقتدار کی ڈوبتی کشتی کے تحفظ کی خاطر استعمال کیا اور دوسرے نے اسے اپنے اقتدار کے چڑھتے سورج کے استحکام کے لئے.مجھے پہلا مارشل لاء لگنے پر سکندر مرزا کے اعلان کی یاد نے شرمندہ کر دیا.ہم سیاسی مقاصد کی خاطر کب تک اسلام کو بطور طوائف“ استعمال کرتے رہیں گے؟“ می افین ختم نبوت کا رخ کردار (''اپنا گریبان چاک‘صفحہ 207) ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مولانا ! 1974ء میں بھی یہ الزام دہرایا گیا اور احراری اور دیو بندی حلقوں کی طرف سے اب تک اخبارات میں بھی یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ اقلیت ہے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.جی.ہاں یہ تو آج تک کیا جا رہا ہے.

Page 516

500 ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.یہ تو ایک محض مفتریانہ پروپیگنڈہ ہے لیکن آپ کیا یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ یہ جو محافظین ختم نبوت ہیں، ان کا رُخ کردار کیا ہے.اس سعی کے حوالے سے؟ مولا نا دوست محمد شاہد صاحب: ان احراری ملاؤں نے جو دنیا میں یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ ہمیں یکا یک ختم نبوت کے تحفظ کا خیال آیا، یہ وہ لوگ تھے جو ساری عمر پنڈت نہرو اور گاندھی اور پٹیل اور دوسرے اسلام دشمن لیڈروں کے چرنوں میں رہے.دنیا حیران ہے کہ ان دشمنان اسلام کے قدموں میں رہنے والے شخص کہاں سے عاشق ختم نبوت ہو سکتے ہیں.بہر حال یہ سیاسی قلابازی تھی اور چونکہ انہیں معلوم تھا کہ ایشیا کا دماغ مسلم دماغ خاص طور پر، وہ مذہب کے نام پر ہی مشتعل ہو سکتا ہے اور اسی اشتعال کے نتیجہ میں ہم پاکستان کو تباہ کر سکتے ہیں.ان لوگوں نے وہی راہ اختیار کی جو کہ سیاست میں ہمیشہ ہی دنیا کی تمام پارٹیاں استعمال کرتی ہیں اور اس میں مسلم غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں.جتنی بھی کوئی سیاسی پارٹی ہو گی اتنی ہی زیادہ فریب کاری کا نمونہ وہ دکھائے گی.یہ بالکل ویسا ہی طریقہ کا رہے جیسا کہ چوروں کا گروہ جب کہیں چوری کی واردات کے لئے پہنچتا ہے تو وہ اپنے میں سے بعض لوگوں کی ڈیوٹی تو سیندھ لگانے کے لئے لگاتے ہیں.بعض اندر پھلانگنے کے لئے ہوتے ہیں.بعض چور ہیں جو بازار میں کھڑے ہوتے ہیں اور آواز دینے کے لئے کہ دیکھو چور ہے اور فلاں چور ہے تاکہ لوگوں کی توجہ دوسری طرف ہو جائے اور چوری کرنے میں آسانی ہو جائے.بعینہ یہی صورت ہے.یہ وہ لوگ ہیں.ابوالکلام آزاد صاحب کے ذریعہ سے کانگریس نے 1929ء کے اجلاس راوی پر اس مجلس احرار کو قائم کیا اور ابوالکلام صاحب آزاد نے اپنی وصیت میں جو "India Wins Freedom" میں چھپ چکی ہے اور میں حوالہ دے چکا ہوں.یہ کہا کہ مجھے پاکستان سے شدید نفرت ہے.پاکستان کا نام ہی اسلام کے خلاف ہے.میری تمام ہمدردیاں یہودیوں کے ساتھ ہیں.تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جس پارٹی کا لیڈر پاکستان کے نام کا ہی دشمن ہو اور

Page 517

501 اس کی 1929 ء سے ساری ہمدردیاں یہودیوں کے ساتھ ہوں.یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے پرستار یہودیوں سے علیحدہ رہ سکیں.ان کا تو صبح اور شام اوڑھنا اور بچھونا یہودی کاز (Cause) کوفروغ دینے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا.یہ چیزیں لوگوں نے یہاں پر اس لئے شروع کیں کہ استعمار کی طرف سے اس رنگ میں پروپیگنڈہ کیا گیا کہ مسلمان اس وقت یہود کے نام سے مشتعل ہو سکتے تھے.حیرت کی بات ہے کہ یہودیوں کے خلاف ضرب کاری، قانونی لحاظ سے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے لگائی تھی.اس وجہ سے استعماری طاقتیں، جن میں امریکہ اور رشیا وغیرہ آتی تھیں.انہوں نے اسی بناء پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی مخالفت کی.چونکہ حضرت چوہدری صاحب جماعت احمدیہ کی عظیم شخصیت تھے اس لئے پھر اس کے بعد یہ ساری تحریک جماعت احمدیہ کے خلاف کر دی گئی.ورنہ اندرون خانہ یہ لوگ 1929 ء سے یہودیوں کے ایجنٹ تھے.لیکن انتہائی چالا کی اور عیاری کے ساتھ انہوں نے یہ تحریک اٹھائی.اس وجہ سے کہ یہودی کے نام پر اشتعال پیدا ہو سکتا ہے کہ احمدی یہودیوں کے ایجنٹ ہیں.حالانکہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہی تو تھے جنہوں نے اس وقت تمام دنیا کے سامنے ثابت کیا کہ قانونی طور پر عقلی طور پر ، اخلاقی لحاظ سے، کسی لحاظ سے بھی امریکہ اور رشیا کی یہ قرارداد تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ مظلوم اور مصیبت زدہ اور ستم رسیدہ عربوں کو ان کے وطن سے نکال دیا جائے اور اس کی بجائے ان ظالموں کو جو کہ ہمیشہ ہی خنجر چھپائے ہوئے محمد عربی علہ کی نعش تک نکالنے کے لئے سازشیں کرتے رہے ہیں ان کو یہاں آباد کیا جائے.جنہوں نے سارے حربے محمد ﷺ کی زندگی میں بدر کی زمین سے لے کر اور جنگ سے لے کر غزوہ احزاب تک استعمال کئے ،سارے عرب کو اکٹھا کیا.عرب اکٹھا ہو ہی نہیں سکتا تھا.یہ یہود کی کارستانی تھی.اس کا روپیہ، اس کا ہتھیار، اس کا پروپیگنڈہ، اور اس کی تیاریاں تھیں جس کی وجہ سے سارا عرب اکٹھا ہو کر مدینہ رسول پر حملہ آور ہوا تھا.تو یہ یہودی تھے جن سے ان کے تعلقات 1929 ء سے ہیں مگر کیونکہ انہوں نے عیاری اور مکاری سے یہودیوں کا ایجنٹ احمدیوں کو قرار دے کر اشتعال دلانا تھا.خود یہ پس پردہ رہے تا کہ عوام اس بات کو محسوس نہ کر سکیں کہ اصل ایجنٹ تو یہ ہیں.یہ خود تو نعرہ لگا رہے ہیں.چنانچہ یہ بات زیادہ دیر تک پوشیدہ رہ نہیں سکتی تھی.

Page 518

502 یہ آپ دیکھیں کہ دیو بندی مولوی پیرمحمد اشرف 1984ء میں استعماری طاقتوں کی سر پرستی میں پاکستان سے اسرائیل میں پہنچا.ان سے کیا کچھ سازش ہوئی؟ اس کے نتیجہ میں جب یہ شخص یہاں پر آیا ہے تو ” جنگ اور دوسرے اخباروں میں اس نے یہ اعلان کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس کو (اسرائیل ) کو تسلیم کر لیں.آپ مجھے یہ بتائیں جماعت احمدیہ نے 1947ء سے لے کر آج تک کبھی اس بات کی تحریک کی ہے کہ اقوام عالم کو اسرائیل کو حقیقت کے طور پر تسلیم کر لینا چاہئے.مگر یہ یہودی ایجنٹ تھے کہ جن کے رکن، اس وقت پاکستان کی مجلس شوری کے رکن بھی تھے پیراشرف ، یہ خفیہ طور پر وہاں پہنچے.ساری بات یہ ہے کہ وہاں پہنچنے کے لئے استعماری طاقتیں اور وہاں کی یہودی حکومت ان سب کی سازش تھی اور وہ یہ سوچ رہے تھے کہ ہم نے مصر کو تو رام کر لیا ہے.اردن بھی تقریباً ہمارے ساتھ متاثر ہو چکا ہے.تو اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کو بھی اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ تسلیم کر لے.تو جب اس نہج تک یہ صورت پہنچی تو پیرمحمد اشرف صاحب کو وہاں پر پہنچایا گیا اور انہوں نے آ کر کھلے بندوں اعلان کیا کہ یہ حماقت ہوگی کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہ کریں.اس پر ایک شور مچ گیا اور یہ بات اخباروں میں آئی اور پھر گورنمنٹ نے اس پر تحقیقات شروع کی.یہ ساری باتیں روزنامہ ”جنگ“ میں موجود ہیں.14 جولائی 1984 ء کا اور 11 ستمبر 1997ء کے اخبار ” جنگ لاہور میں دیکھیں.یہ سارے حقائق چھپے ہوئے ہیں.صاف بات ہے کہ یہ خود یہودی ایجنٹ تھے اور یہودی ایجنٹ کے نام پر اشتعال پھیلانے کے لئے انہوں نے ہمارے نام یہ سارا پروپیگنڈہ کیا اور عجیب بد بخت یہ لوگ ہیں کہ اپنی اسکنٹی کو چھپانے کے لئے آج تک پھر وہی الزام دہرا رہے ہیں.یہ سمجھتے ہیں کہ گوئبلز (Goebbles) نے جس طرح یہ کہا تھا کہ اگر ایک الزام کو کئی مرتبہ دہرا دیا جائے تو وہ صداقت میں تبدیل ہو جاتا ہے.اس کے علاوہ مولانا اجمل قادری بھی اسرائیل گئے حالانکہ کوئی پاکستانی اپنے پاسپورٹ پر وہاں نہیں جا سکتا.اور اس شخص نے بھی یہی بات کہی.تو یہ باتیں اب دنیا کے سامنے آ گئی ہیں.دنیا اتنی اندھی نہیں ہے کہ ان حقائق کو نہ سمجھ سکے.

Page 519

503 چنیوٹی ملاں کی پیشگوئی کا انجام حافظ محمد نصر اللہ صاحب : مولانا چنیوٹ کے ایک بدنام زمانہ ملاں نے 1989ء سے قبل ایک پیشگوئی کی اور یقینی طور پر شیطانی القاہی ہے.اس نے کہا کہ جماعت احمد یہ 1989ء سے قبل ہی مکمل طور پر مٹ جائے گی.اس کا یہ قول اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ استعماری طاقتوں کے بل بوتے پر یہ لوگ اپنے دعوے کرتے ہیں.اس بارہ میں کچھ فرمایئے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.یہ آپ نے بالکل سچ فرمایا.یہ الفاظ روز نامہ جنگ“ لاہور کی اشاعت 30 جولائی 1986ء میں شائع ہوئے جبکہ ضیاء الحق زندہ تھا.اور ضیاء ہی وہ شخص تھا جس نے 1985ء میں ویمبلے کا نفرنس لندن میں خاص طور پر پیغام دیا تھا کہ قادیانیت کینسر ہے اور ہم اس کو ختم کر کے چھوڑیں گے.( جنگ 11 ستمبر 1985ء) تو استعماری طاقتوں کی آواز ہی تھی جس کے ترجمان اس دور کے فرعون بنے ہوئے تھے اور انہیں کے گماشتوں میں اور خود کاشتوں میں یہ ملاں بھی تھے.اس ملاں کا نام لینا دراصل اس مجلس کو نا پاک کرنے کے مترادف ہے.اس لئے نام کے بغیر میں الفاظ اس شخص کے پڑھتا ہوں.ویسے اتنا بتا دیتا ہوں کہ پہلاں وہ ہے جس کا ہم نام ڈیرہ غازی خان میں بھی موجود ہے.اسی دیوبندی مسلک کا آدمی ہے اور اسے حکومت کی طرف سے دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے.تو ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں خواہ وہ چنیوٹ کا کوئی ملاں ہو یا ڈیرہ غازی خان کا ہو.اس شخص نے یہ کہا کہ 1989 ء تک پوری دنیا سے قادیانیت کا جنازہ نکل جائے گا.“ بات واضح ہے.یہ الفاظ ہیں 1989 ء تک پوری دنیا سے قادیانیت کا جنازہ نکل جائے گا.“ اسے الہام ہوا ؟ کشف ہوا؟ صاف بات ہے کہ یہ لوگ تو اب خدا کو مردہ سمجھتے ہیں.الہام اور وحی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یہ دراصل استعماری طاقتوں کی سازش کا اعلان تھا کہ اب انہوں نے 1989 ء تک صفحہ ہستی سے مٹادینا ہے ” قادیانیت کو.آگے یہ لکھا کہ مولانا اسلم قریشی اور سکھر کے شہداء کا قتل قادیانیت کی غنڈہ گردی کا منہ بولتا ثبوت ہے.“

Page 520

504 اب آپ دیکھیں کہ کتنا بڑا فراڈ ہے.اسلم قریشی کو ضیاء نے اور مولویوں نے خود بھجوایا صرف اس لئے تا کہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع پر مقدمہ دائر کیا جا سکے کہ آپ معاذ اللہ اس کے قاتل ہیں.چنیوٹ کے اس خبیث الفطرت ملاں نے یہاں تک کہا کہ اگر گورنمنٹ اجازت دے تو میں مرزا طاہر احمد صاحب کے مکان سے، ان کے بستر کے پاس اسلم قریشی کو برآمد سکتا ہوں اور پھر کہا کہ یہ مار دیا گیا ہے اور ملاؤں نے اس کا جنازہ پڑھا.حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اسلم قریشی کو ہم نے خود بھیجا ہے.اتنا بڑا فراڈ میں سمجھتا ہوں مذہبی دنیا میں کبھی نہیں کھیلا گیا.مولا نا فضل الرحمن صاحب نے تو یہ کہا تھا اپنی ایک مجلس میں کہ پاکستان فراڈ اعظم ہے.لیکن میں کہتا ہوں یہ تو بے بنیاد چیز ہے.یہ تو حقیقت ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ پاکستان جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ مکہ اور مدینہ جس طرح کامیاب ہوئے اللہ تعالیٰ بالآخر پاکستان کو بھی اسلامستان بنائے گا اور یہ دنیا کی قوموں کی صف اول میں آئے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو یہاں پناہ دی ہے اور انہی کی کوشش سے یہ عظیم الشان مملکت معرض وجود میں آئی ہے اور اب تک جو بچی ہوئی ہے، وہ ان دعاؤں ہی کا نتیجہ ہے جو حضرت مصلح موعود نے ، حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ، حضرت خلیفتہ اسیح الرابع نے اور موجودہ حضور کر رہے ہیں.تو یہ سب سے بڑا فراڈ ہے جو ملاں نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع پر قتل کا مقدمہ کرنے کے لئے اسلم قریشی کی شکل میں بنایا تھا.اس نے اس کا حوالہ دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ غنڈہ گردی ہے اس لئے اب وقت آ رہا ہے کہ اس کے جواب میں اب مرزائیت کو 1989 ء سے پہلے پہلے ختم کر دیں گے.یہ اعلان تھا کہ اب ساری طاقتیں مجتمع ہو رہی ہیں اور ممکن نہیں ہے کہ جماعت احمد یہ اب استعماری طاقتوں کا مقابلہ کر سکے.یقینا اس کو ختم کر دیا جائے گا.یہ بالکل فراڈ اعظم ہے.جب میں نے یہ خبر پڑھی تو بس ادھر میں نے خبر پڑھی اور اُدھر مجھے حضرت گیانی واحد حسین صاحب کا ایک لیکچر یاد آگیا.غالبا یہ لیہ کی بات ہے.حضرت ملک عمر علی صاحب امیر جماعت احمدیہ ملتان صدارت کر رہے تھے اور گیانی واحد حسین صاحب نے احرار کے متعلق تقریر کی.میری تقریر کا عنوان تھا اتحاد المسلمین.ان کی تقریر احرار کے متعلق تھی.ان دنوں میں احرار کی بڑی شورش تھی.تو انہوں نے احراریوں کے جھوٹ اور ان کی فریب کاریوں کا نقشہ کھینچنے کے بعد یہ پڑھا.پنجابی کے شعر تھے:.

Page 521

505 کے منڈا کے دی دهی گھی نائی لے گیا رپئے تی (30) نالے لے گیا اینوں کیندے جی چار سو وی عجب زمانہ آیا لوکو عجب زمانہ آیا تو یہ چار سو بیس اور فراڈ اعظم دنیا نے دیکھا ہے اور یہ قیامت تک کے لئے روز نامہ جنگ لاہور 30 جولا ئی 1986 ء میں محفوظ ہے.MTA کا رعب اہلِ سیاست اور ملاؤں پر ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.اللہ تعالی نے اپنے فضل سے سیدنا حضرت علایقیہ اسیح الرائع کے ذریعہ 1994ء سے M.T.A کا عالمگیر اور آفاقی نظام عطا فرمایا ہے اور اس کی وجہ سے مخالفین کے چھکے چھوٹ گئے ہیں.اس سلسلہ میں اگر ناظرین کو کوئی مستند نمونہ پیش فرماسکیں تو یقیناً یہ از دیا دایمان کا باعث ہوگا ! مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.یہ بھی بہت ہی اہم سوال ہے.یہ میرے ہاتھ میں اس وقت پاکستان کا ایک مشہور اخبار ہے.یہ اس دور کا اخبار ہے.منظور وٹو صاحب وزیر اعلیٰ تھے اور چوہدری الطاف حسین صاحب گورنر پنجاب تھے.میرے سامنے موجود ہے اس کا پورا صفحہ.اس صفحہ پر عنوان یہ ہے.ذوالفقار علی بھٹو کے بعد قادیانیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والا 66 دوسرا کر دار گورنر پنجاب ہیں.“ لیکن وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ قادیانیوں کو کسی ثبوت کے بغیر فرقہ واریت کے ناسور کا ذمہ دار کیسے قرارد یا جا سکتا ہے.“ دوسری سرخی یہ ہے کہ

Page 522

506 امریکہ صرف قادیانیوں سے کیوں ڈرتا ہے؟.“ تیسری سرخی یہ ہے کہ علماء کرام متحد نہ ہوئے تو احمدیت کے سیلاب کو روکا نہیں جاسکتا.“ اور ایک بڑی سرخی یہ ہے:.”روزانہ سینکڑوں افراد مرزا طاہر احمد کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں.قادیانی الگ ٹی وی سٹیشن بنانے کی تیاریاں مکمل کر چکے.“ اس میں انہوں نے تصاویر دی ہیں گورنر پنجاب کی.بھٹو صاحب کی ہمنظور احمد صاحب وٹو کی اور اسی طرح بعض اور ملاؤں کی بھی.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی بھی تصویر دی ہے.متن میں لکھا ہے کہ گورنر پنجاب نے حال ہی میں یہ انکشاف کیا ہے کہ مرزائی لندن میں ڈش انٹینا پر تبلیغ کر رہے ہیں.ان کا یہ انکشاف نیا نہیں.ہمارے ہاں اس امر کا اندازہ نہیں کیا جا رہا کہ احمدی اب کس قدر طاقتور قوت بن چکے ہیں.اور اس قوت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں وطنِ عزیز میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے علاوہ کیا کچھ کیا جانا چاہئے.حیرت کی بات ہے کہ جماعت احمدیہ کے سر براہ مرزا طاہر احمد نے گزشتہ دنوں اپنے خطاب میں بعض حیرت انگیز دعوے کئے ہیں.ان کا کہنا ہے کہ امریکہ بہت جلد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو جائے گا اور یہ کہ امریکہ دنیا میں احمدیوں کے علاوہ اور کسی سے نہیں ڈرتا.پاکستان کے عام لوگوں اور دنیا کے مسلمانوں کے نزدیک ان کے ان خیالات کو امریکہ کو چیلنج کرنے کے مترادف قرار دیا جائے گا.حالانکہ امریکہ کی طرف سے اپنے حامیوں کو طاقت میں لانے کے لئے اس قسم کی مخالفت کی اجازت ہوتی ہے.مرزا طاہر احمد مزید کہتے ہیں کہ اس وقت احمدیوں کا ٹیلی ویژن چینل دنیا کی کئی زبانوں میں بارہ گھنٹے تبلیغی نشریات پیش کر رہا ہے.اور یہ نشریات دنیا بھر میں دیکھی جاسکتی ہیں.اطلاعات کے مطابق لندن میں قائم

Page 523

507 اس ٹیلی ویژن چینل کی قیمت پانچ لاکھ روپے فی گھنٹہ ہے.اس طرح جماعت احمد یہ روزانہ ساٹھ لاکھ روپے ٹیلی ویژن والوں کو دے رہی ہے.آج تک کسی نے نہیں سوچا کہ اس قدر خطیر رقم کہاں سے آرہی ہے.کون دے رہا ہے.“ دیکھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رعب پیدا کرنے کے لئے غیروں کی طرف سے کیا سامان ہوتے ہیں.کہتے ہیں کہ اس طرح جماعت احمد یہ روزانہ ساٹھ لاکھ روپے ٹیلی ویژن کو دے رہی ہے.آج تک کسی نے نہیں سوچا کہ اس قدر خطیر رقم کہاں سے آرہی ہے.کون دے رہا ہے اور دینے والے کے مقاصد کیا ہیں.احمدیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ فنڈ جماعت احمدیہ کے کارکن دیتے ہیں.جن کے طفیل نہ صرف ٹیلی ویژن چینل بلکہ پوری دنیا کے ایک سو پچاس ممالک میں احمدیت کے تبلیغی سینٹر کام کر رہے ہیں.احمدیوں کے یہ دعوے ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہیں.جب تک ہم پاکستان میں احمدیوں کا سرکاری اثر و نفوذ ختم نہیں کرتے یہ سلسلہ پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں جاری رہے گا.اس ضمن میں ہمارے ہاں دینی کرداروں اور جماعتوں کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ ہمیں احمدیت کے ابھرتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کا یا کم کرنے کے لئے کیا کچھ کرنا ہے.ہماری دینی جماعتیں اور جید علماء یہ تو کہتے ہیں کہ قادیانیوں کو یہودیوں کا اثر ورسوخ حاصل ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اثر ورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں نے کیا کردار ادا کیا ہے.آپ ہی اپنی اداؤں ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی گزشتہ اشاعت میں ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت حکومتی ایوانوں تک میں احمدیت کو رسائی حاصل ہے اور اس رسائی کی اصل حقیقت جاننے کے لئے ہمیں تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا.مستقبل ماضی اور

Page 524

508 ماضی حال سے وابستہ ہوتا ہے.آئیے ذرا اپنے ماضی، حال اور مستقبل میں 66 جھانک کر تو دیکھیں.“ آگے پھر چنیوٹ کے ملاں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ " ( اس ) نے یہ انکشاف کیا ہے کہ یہودیوں کے تعاون سے قادیانیوں نے ایک ٹیلی ویژن سٹیشن بنانے کے پروگرام کو مکمل کر لیا ہے.انہوں نے ڈش انٹینا کے ذریعہ مرزا طاہر احمد کی تقاریرہ پورے ملک میں سنانے اور دکھانے پر بھی اعتراض کیا.حیرت کی بات ہے کہ اب احمدی اقلیت اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ وہ پوری دنیا میں اپنی نشریات پہنچا سکتی ہے.اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ نیٹ ورک کے ذریعہ ہماری حکومت ابھی تک ٹیلی ویژن کی نشریات پوری دنیا میں دکھا نہیں سکتی.اس انکشاف نے یہ ثابت کر دیا کہ احمدی دنیا بھر میں ہمارے ملک کی حکومت سے زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں.پاکستان میں ان کی تبلیغ بہت شاندارانداز میں جاری ہے.اکثر سرکاری اداروں کے سر براہ قادیانی ہیں.(خدا کرے کہ ایسا ہو.ناقل ) اس ملک میں احمدیوں کے لئے روزگار حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہیں.تمام اداروں کے علاوہ خصوصاً ذرائع ابلاغ پر احمدیوں کا قبضہ ہو چکا ہے.“ اور پھر عنوان یہی دیا ہے کہ علمائے کرام متحد نہ ہوئے تو احمدیت“ کے سیلاب کو روکا نہیں جاسکتا.“ واضح اعتراف حق ملاؤں کی زبانی یہ احمدیت کی شاندار ترقی کا ایسا نمونہ ہے کہ جو ثابت کر رہا ہے کہ خدا کے فضل سے آسمان کی فوجیں اس شان سے حرکت میں آگئی ہیں کہ تمام دنیا میں احمدیت کے نوبت خانے کی آواز کی گونج

Page 525

509 سنائی دے رہی ہے.اس کے ساتھ ہی میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ دیو بندی جنہوں نے یہ سارا کھیل کھیلا ہے ختم نبوت کے نام پر، وہ آج اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ہم نے بہت کوشش کی کہ احمدیوں کو کلمہ سے الگ کیا جاسکے مگر وہ اس میں ناکام و نامراد ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے حالیہ خطبہ میں یہ فرمایا کہ باوجود دشمنوں کی انتہائی کوشش کے خدا کے فضل سے کلمہ محمد مصطفی ﷺ ہم سے چھینا نہیں جاسکا.وہ ہماری جان ہے، وہ ہماری روح ہے.یہ میرے پاس حق نواز جھنگوی کے ”خطبات“ کی پہلی جلد ہے.جو عامرا کیڈ می ذیلدار روڈ اچھرہ لاہور نے شائع کی ہے.اس میں جھنگوی صاحب کی تقریر کا ایک فقرہ یہ لکھا ہے:.کلمہ قادیانیوں نے اس وقت بھی نہیں چھوڑا تھا اور آج بھی نہیں چھوڑا.‘ (صفحہ 209) اسی طرح دیوبندی اکابر میں سے مولانا محمد منظور نعمانی نے یہ لکھا.یہ 1993ء کی کتاب ہے جس میں یہ شائع ہوا ہے.عنوان اس کتاب کا ہے:.خمینی اور اثناعشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ اس کتاب کے صفحہ 95 اور 96 پر لکھا ہے:.قادیانی نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور کلمہ گو ہیں بلکہ انہوں نے اپنے خاص مقاصد کے لئے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ایک صدی سے بھی زیادہ مدت سے اپنے طریقہ پر اسلام کی تبلیغ واشاعت کا جو کام خاص کر یورپ اور افریقی ممالک میں کیا اس سے باخبر حضرات واقف ہیں.اور خود ہندوستان میں قریباً نصف صدی تک اپنے کو مسلمان اور اسلام کا وکیل ثابت کرنے کے لئے عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کا انہوں نے جس طرح مقابلہ کیا تحریری اور تقریری مناظرے مباحثے کئے.وہ بہت پرانی بات نہیں ہے.پھر ان کا کلمہ، ان کی اذان اور نماز وہی ہے جو عام امت مسلمہ کی ہے.زندگی کے مختلف شعبوں کے بارہ میں ان کے فقہی مسائل قریب قریب وہی ہیں جو عام مسلمانوں کے ہیں....( کتنا زبردست اعتراف ہے.پھر لکھا ہے ) لیکن

Page 526

510 اثنا عشریہ کا حال یہ ہے کہ مذکورہ بالا موجب کفر عقائد کے علاوہ ان کا کلمہ الگ ہے.ان کا وضو ا لگ ہے.ان کی اذان اور نماز الگ ہے.زکوۃ کے مسائل بھی الگ ہیں.نکاح و طلاق وغیرہ کے مسائل بھی الگ ہیں.حتی کہ موت کے بعد کفن دفن اور وراثت کے مسائل بھی الگ ہیں.(اور پھر چیخ و پکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں.) ” بہر حال اس دور کے حضرات علماء کرام کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ اپنی علمی اور دینی ذمہ داری اور عند الله مسئولیت کو پیش نظر رکھ کر اثنا عشریہ کے کفر و اسلام کے بارے میں فیصلہ فرمائیں.“ ملاؤں کا درد ناک انجام ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اوائل ماموریت میں یعنی 1892ء میں یہ الہام ہوا کہ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اهَانَتَكَ یہ الہام احراری تحریک کی ناکامی کی صورت میں 125 سال سے پورا ہو رہا ہے.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.الحمد للہ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب :.کیا آنحضور ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آخری زمانے کے ملاؤں کے درد ناک انجام کی خبریں بھی دی ہیں؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.سب سے پہلے تو میں نبیوں کے سردار، رسولوں کے فخر ، خاتم النبین ، خاتم المؤمنین ، خاتم العارفین حضرت محمد مصطفی احمدمجتبی ﷺ کی مبارک احادیث آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.حضور نے آخری زمانے کے ملاؤں کے متعلق بڑی وضاحت کے ساتھ پیشگوئیاں فرمائی ہیں.چنانچہ مشکوۃ شریف میں کتاب العلم میں دو عظیم الشان پیشگوئیاں کی گئی ہیں.ایک مسیح موعود کے متعلق ہے اور ایک پیشگوئی علماء سوء کے متعلق مسیح موعود کے متعلق جو پیشگوئی ہے وہ آنحضرت عمﷺ کی اس حدیث کی تشریح میں ہے جس میں حضور نے فرمایا کہ مہدی موعود دنیا میں بکثرت خزانے لٹائے گا.اور اتنے کہ لوگ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے.(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی)

Page 527

511 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ ظاہری خزانے تو ہو نہیں سکتے کیونکہ رسول اللہ نے خود فرمایا ہے کہ انسان تو اتنا حریص ہے کہ مرتے دم تک، جب تک قبر میں نہیں چلا جا تا دنیا پرستی میں مبتلا رہتا ہے.اور باقی ظاہری روپے پیسے تو دنیا کی حکومتیں دیتی ہیں.خدا کے نبی تو اس غرض سے نہیں آتے.وہ تو دنیا کو خدا سے ملانے کے لئے آتے ہیں اور اس کے لئے قربانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں اور وہ قربانیاں جانی بھی ہوتی ہیں اور مالی بھی ہوتی ہیں.مسیح موعود کے متعلق جو مشکوۃ میں حدیث ہے.اس کے الفاظ یہ ہیں کہ صلى الله عن انس بن مالک قال قال رسول الله علم هل تدرون من اجود جودا قالوا الله و رسوله اعلم " (مرقاۃ المصابیح شرح مشکوۃ المصابیح کتاب العلم) حضرت انس بن مالک آنحضرت ﷺ کے مشہور خادم، جس طرح کہ حضرت بلال مؤذن رسول تھے، یہ خادم رسول کہلاتے ہیں.حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے صحابہ سے پوچھا کہ ”هل تدرون من اجود جودا قالوا الله و رسوله اعلم 66 کہ کیا تمہیں پتہ ہے کہ سب سے زیادہ سخی کون ہے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ اور اس کا رسول ہی جانتا ہے.یہ ادب کا طریق تھا.آنحضور ﷺ نے اس کے بعد یہ فرمایا :.قال الله اجود جودا ثم انا اجود بنی آدم “ سب سے بڑھ کر سخی تو خدا کی ذات ہے.بنی آدم میں خدا نے مجھے سب سے زیادہ بنی بنایا ہے.واجودهم من بعدى رجل علم علما فنشره ياتي يوم القيامة اميرا وحده او قال امة واحدة "مشکوۃ شریف کتاب العلم مترجم جلد اول صفحہ 73 ناشر مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور )

Page 528

512 فرمایا کہ میرے بعد ایک عظیم رجل آئے گا.یہ وہی حدیث ہے رجل من ابناء فارس ایک عظیم شخص آئے گا جوٹی ہو گا.علم علماً جسے جناب الہی سے علم عطا ہو گا.فنشرہ اور وہ تمام دنیا میں اس علم کو پھیلا دے گا.اور جب قیامت کے دن خدا کے دربار میں آئے گا تو وہ مجسم امت اور امیر کی حیثیت میں آئے گا.یہ تو مسیح موعود کے متعلق خبر ہے.اس کے مقابل پر آخری زمانے کے جاہل ملاؤں اور مسیح موعود کے مخالفوں کا ذکر حضرت علی کی روایت میں ملتا ہے.یہ اسی کتاب العلم میں ہمشکوۃ میں موجود ہے.حضرت علیؓ سے مروی ہے.حضرت علی تھے خلیفہ رابع رسول پاک ﷺ کے.! ” عن على قال قال رسول الله له یوشک ان یاتی على الناس زمان لا يبقى من الاسلام الا اسمه ولا يبقى من القرآن الا رسمة مساجدهم عامرة وهى خراب من الهدى.علماؤهم شر من تحت اديم السماء من عندهم تخرج الفتنة و فيهم تعود (مشکوۃ المصابیح، کتاب العلم الفصل الثالث ( مترجم ) جلد اول صفحہ 76 ناشر مکتبہ رحمانیہ اردو بازارلا ہور ) حضرت علیؓ سے مروی ہے.یہ بیہقی نے شعب الایمان میں حدیث ریکارڈ فرمائی ہے.حضرت شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ خلیفہ رسول سے مروی ہے کہ آنحضرت محمد عربی ﷺ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے جبکہ اسلام نام کا باقی رہ جائے گا.اور قرآن کی صرف رسم رہ جائے گی.نام نہاد مسلمانوں کی مسجد میں آباد ہوں گی.مگر ہدایت سے خالی ہوں گی.اور ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.ان کے نزدیک سے فتنہ نکلے گا.مگر فرمایا.یاد رکھو: وفيهـم تعـود ایک وقت تک وہ فتنہ ان سے یقیناً نکلے گا مگر ہر فتنہ بالآخر انہی کے اندر داخل ہو جائے گا.تو یہ دور ہے جس کا آغاز ہو چکا ہے..

Page 529

513 ناز اتنا نہ کریں ہم کو ستانے والے اور بھی دور دور فلک ہیں ابھی آنے والے اب آگے دیکھیں.آنحضور ﷺ نے آنے والے کے سلسلہ میں یہ بھی فرمایا.یہ حدیث بہت ہی عظیم الشان ہے اور اسلام کی صداقت کا ایک روشن سورج کی طرح نشان ہے.فرمایا:.تكون فى امتى قزعة فيصير الناس الى علمائهم فاذا هم قردة وخنازير“ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب العدة باب ما جاء في من يستحل الخمر ) یہ کنز العمال“ کی چودہویں جلد میں شائع شدہ ہے.اس کا صفحہ 280 ہے.یہ کتاب بیروت سے چھپی ہے.مؤسس الرسالہ اس کا نشریاتی ادارہ ہے.اور علامہ علاؤالدین علی متقی بن حسام الدین الہندی رحمتہ اللہ علیہ (متوفی 975ء) کی یہ تالیف ہے.علامہ سیوطی نے جامع الصغیر لکھی ہے.دراصل یہی روایات ان سے لی ہیں مگر ان میں فرق صرف یہ کیا ہے کہ روایات میں سے سند کو نکال دیا ہے.باقی اصل متن اس میں شامل کیا ہے.تو یہ بہت ہی عظیم الشان کتاب ہے.اس میں لکھا ہے کہ ” تكون في امتى قزعة“ میری امت میں ایک زمانہ آئے گا کہ بھا گڑ بچ جائے گی.اور عالمی سطح پر ایک بہت بڑا سانحہ قیامت خیز پیش آئے گا اور اس کو دیکھ کر لوگ اپنے ملاؤں کے پاس جائیں گے.فرمایا فاذا هم قردة وخنازیر مگر وہ دیکھ کر حیران ہو جائیں گے کہ (جن کو آپ ملا سمجھتے تھے، مولوی قرار دیتے تھے، محافظ ختم نبوت قرار دیتے تھے ) فاذاهم قردة وخنازیر وہ بندر اور سو رہیں.یہ کن کے الفاظ ہیں؟ خاتم النبین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی ملے کے.میں آپ سے درخواست کروں گا کہ اگر آپ بصیرت کی آنکھ سے اس حدیث کو دیکھیں تو آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ آنحضور ﷺ نے چودہ سو سال پہلے عرش سے آج کے ملاؤں کی سیاست کا نظارہ دیکھا اور اس کو دنیا کے سامنے بیان کیا.حضور کو معراج میں بھی نظارہ دکھایا گیا تھا.چنانچہ معراج کی حدیثوں میں یہ لکھا ہوا موجود ہے کہ آنحضور علہ جب آسمان پر تشریف لے گئے تو آپ کو جنت دکھائی گئی ، دوزخ دکھائی گئی.اور بعض ایسے لوگ دکھائے گئے جن کی لمبی لمبی زبانیں تھیں اور

Page 530

514 فرشتے آتے تھے اور قینچیوں سے ان کی زبانیں کاٹتے تھے.کاٹنے کے بعد وہ زبانیں پھر لمبی ہو جاتیں.پھر دوزخ کے فرشتے ان کو قینچیوں سے کاٹتے تھے.آنحضرت ﷺ نے حضرت جبریل سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبریل نے فرمایا کہ یا رسول اللہ یہ آپ کی امت کے مولوی اور خطیب ہیں جو لمبی لمبی تقریر میں کریں گے مگر اس پر عمل نہیں کریں گے.عمل اور ہو گا اور خطبے بالکل ان کے اور ہوں گے.( معجم الاوسط باب من اسمہ احمد جز و اوّل صفحہ 131 مؤلف ابوالقاسم الطمر انی متوفی 360 ھ ناشر دار الحرمین.قاہرہ ،حلیۃ الاولیاء باب مالک بن دینار جزء 2 صفحہ 386 مؤلفہ ابونعیم متوفی 430 ناشر العادة بجوار محافظة مصرسن اشاعت 1974) خدا نے تو اس رات یہ دکھا دیا.معراج سے متعلق حضرت سرمد رحمتہ اللہ علیہ کا ایک شعر بھی یاد رکھنا چاہئے.فرماتے ہیں کہ ملا گوید که فلک پر شد احمد احمد در شد سرمد گوید فلک صلى الله کہ ملاں تو یہ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ آسمان پر گئے تھے مگر سرمد کا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت آسمان پر نہیں گئے مگر آسمان محمد کی پیشوائی کے لئے آپ کے پاس آیا.پہلے بزرگوں نے یہ لکھا ہے غالباً حضرت نظام الدین اولیاء یا بعض دوسرے اکابر نے اور یہ شائع شدہ ہے.یہ کتاب یہاں لا ہور سے دوبارہ چھپی ہے.اس میں یہ لکھا ہے کہ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ آنحضور آسمان پر نہیں گئے بلکہ آسمان آنحضور ﷺ کی پیشوائی کے لئے آگیا ہے.تو اس سے محمدی مقام کی زیادہ عظمت ثابت ہوتی ہے.اور حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے تفسیر صغیر میں دَنی فَتَدَلی کی تفسیر عجیب وجد آفرین رنگ میں کی ہے.اور تفسیر بھی ترجمے کی شکل میں کی ہے.اور ترجمہ یہ کیا ہے کہ دَنَی فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى (النجم : 9-10) کہ آنحضرت اللہ خدا کے قریب ہوئے اور خدا آپ کے قریب ہوا.فرمایا کہ یہ جو سمجھتے ہیں کہ آنحضرت آسمان پر نہیں گئے بلکہ آسمان محمد مصطفیٰ کے قدموں میں آیا ہے بلکہ قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ معاملہ یہیں تک نہیں رہا بلکہ اس کا ئنات کا خدا محمد رسول اللہ کے استقبال کے لئے آسمان سے نازل ہوا ہے.تو بہر حال معراج میں بھی یہ بتایا گیا.

Page 531

515 اب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں.نہایت توجہ سے سننے کے لائق ہیں.محمد عربی ﷺ نے اس ایک فقرے میں بیسویں اور اکیسویں صدی میں ملاؤں کی سیاست کا پوری طرح پوسٹ مارٹم کر دیا ہے.دیکھیں اور غور کریں.حضور نے کوئی گالی نہیں دی.حقیقت بیان کی ہے.فرمایا وہ بندر ہوں گے اور خنزیر ہوں گے اور کہتیکیا ہوں گے ؟ علماء اسلام ، بڑے بڑے خطاب لمبے لمبے جیتے ان کے ہوں گے.اور خطاب کے بغیر تو ملاں ہوتے ہی نہیں ہیں.چنیوٹ کا ملاں خود اشتہار دیتا تھا اور بڑے بڑے القاب خود لکھتا تھا.ایک ملاں نے بڑے القاب لکھے غلام قادر جیلانی ، مجددی، نقشبندی ، چشتی اور پتہ نہیں کیا کچھ انہوں نے لکھا.تو وزٹنگ کارڈ (Visiting Card) لے کر ایک ریسٹورنٹ کے مینجر سے ملا اور کہا کہ مجھے ا کا موڈ یشن چاہئے جاب کے لئے.اس نے جب وہ وزٹنگ کارڈ لمبا سا دیکھا تو اس کا رنگ فق ہو گیا.کہنے لگا آپ کی تشریف آوری کا شکریہ.مگر اتنے آدمیوں کی گنجائش نہیں ہے.اس نے سمجھا کہ یہ تو ایک فوج آجائے گی.میں اتنے کمرے کہاں سے مہیا کروں گا.تو القاب کے بغیر نہیں رہتے.مگر محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم ان کے القاب پر نہ جانا، وہ بند اور خنزیر ہوں گے.میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ بندر کھڑا ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا ؟ رکوع بھی کر سکتا ہے؟ یقینا کر سکتا ہے.سجدہ بھی کر سکتا ہے کہ نہیں؟ یقیناً کر سکتا ہے.آپ نے مری میں لنگور دیکھیں ہوں گے.سامنے آتے تھے، کھاتے بھی تھے ، پھر سجدے بھی کرتے تھے.سارے کام کرتے ہیں مگر آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا بندر نظام مصطفی قائم کر سکتا ہے؟ نہیں!! اس واسطے کہ نقالی کر سکتا ہے وہ.حقیقت سے بالکل خالی ہے.تو خدا کے رسول نے فرمایا کہ ان کے سجدوں اور خطبوں پر نہ جانا.وہ بندر ہیں.اسلام کی روح ان میں موجود نہیں ہے.دیکھیں کتنی واضح بات ہوگئی.ابھی حال ہی میں یہ گذرا ہے رؤیت ہلال کا معاملہ ساری دنیا میں ایک ہنگامہ مچا ہوا ہے.یہ وہ ملاں تھا جس نے انگریز کے زمانے میں یہاں تک فتویٰ دیا کہ اگر ریڈیو پر بھی خبر آجائے کہ چاند دیکھا گیا ہے تو اس پر عمل کرنا نا جائز ہے.کیونکہ یہ شیطان کا آلہ ہے.ریڈیو پر اعلان ہوتا ہے.چونکہ انگریزوں کا ریڈیو ہے اس پر عمل نہیں کرنا چاہئے.جناب رشید گنگوہی صاحب کا یہ فتویٰ ہے کہ منی

Page 532

516 آرڈر کا بھجوانا بھی ناجائز ہے.(فتاوی رشیدیہ صفحہ 431-430 ناشر محمدسعید اینڈ سنز قرآن محل.کراچی ) اور یہ حقیقت ہے کہ آج تک جتنی بڑی بڑی ایجادیں ہوئی ہیں ملاں نے اس کو نا جائز قرار دیا ہے.سعودی عرب کی تاریخ میں لکھا ہے کہ شاہ ابن سعود نے کہا کہ ملاؤں نے مجھے اتنا تنگ کیا کہ پہلے ٹیلی فون لگایا گیا تو یہ فتویٰ دیا گیا کہ یہ شیطان آواز پہنچاتا ہے.تو میں نے اس وقت یہ کوشش کی کہ اذان دی جائے پھر ان کو سنوائی جائے اور یہ کہا جائے کہ کچھ شرم کرو.شیطان بھی کبھی اذان دیتا ہے.اس کے بعد پھر یہ حملہ جو ٹیلی فون پر تھا، ختم ہوا.پھر کہنے لگے کہ میں نے پہلی کار منگوائی تھی غالباًا امریکہ سے اور ملاں نے اس کو آگ لگا دی اور کہا کہ یہ شیطانی چرخہ ہے.پھر لاؤڈاسپیکر کے استعمال پر فتوے موجود ہیں.میرے پاس پارٹیشن سے پہلے کی کتاب موجود ہے.ملاؤں کا فتویٰ ہے کہ لاؤڈ اسپیکر خطبہ جمعہ میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے اور نماز اس کی وجہ سے پڑھنا ، وہ تو سخت مکروہ ہے.اس واسطے کہ اس میں آواز اصل نہیں ہوتی.وہ تو آواز اس آلہ کی ہوتی ہے اگر چہ سنائی دیتی ہے کہ یہ امام صاحب پڑھ رہے ہیں اور آج دیکھیں کہ حکومت جہاں لاؤڈ اسپیکر کی ممانعت کرتی ہے ، ملاں کہتے ہیں مداخلت فی الدین ہو گئی ہے.اسی طرح رؤیت ہلال کے متعلق ان کا 1947ء کا فتویٰ بھی یہی تھا کہ جی اگر حکومت کی طرف سے اعلان ہو تو ہم اس کو تسلیم نہیں کریں گے.اب اس کے بعد یہ کتاب چھپی ” القول السدید از قلم مناظر اسلام حضرت صوفی محمد اللہ دتہ صاحب“ شائع کرنے والا ادارہ اشاعۃ العلوم وسن پورہ افغان سٹریٹ لاہور.اب پتہ نہیں کہاں کہاں اسلام کے مناظرے کئے؟ کتنے کافروں کو مسلمان بنایا؟ لیکن بڑا لقب ہے ” مناظر اسلام اور حضرت بھی ہیں اور صوفی بھی ہیں.فرماتے ہیں:.چونکہ انگریزی دور اور قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں یہ حالت اعتماد نہ تھی لہذا مجبوراً عدم اعتماد کافتویٰ رہا.مگر اب جبکہ با نتظام حکومت پاکستان رؤیت ہلال کمیٹی کے حکم سے یعنی علماء کرام کے حکم سے کہ کمیٹی کے ارکان ہیں، ثبوت شرعی رؤیت ہلال بذریعہ ریڈیو اعلان کیا جاتا ہے تو اعتبار ضروری و لازم ہو گیا.“ ( صفحہ 18 ) یعنی اب چونکہ ملاں رؤیت ہلال کمیٹی میں آگئے ہیں اس لئے اب ان کی بات کو ماننا

Page 533

517 ضروری ہو گیا.اب جو ملاں اس کا روبار میں آج تک چلتا چلا آرہا ہے اس نام سے پیسے بٹورتے ہوئے.اس سال اس کا بندر ہونا بالکل ثابت ہو گیا ہے.اور یہ میں نہیں کہتا.یہ پچھلی عید سے لے کر اب تک کے اخباروں کو آپ دیکھیں.صرف عنوان ہی دیکھیں کہ پاکستان میں تین چار جگہ پر الگ الگ عید میں منائی گئیں.مولویوں نے الگ الگ عیدیں منائیں.اب چند عنوان آپ دیکھ لیں کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے بغیر جو اعلان کئے گئے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا.“ پھر لکھا ہے کہ کردی.“ پھر لکھا ہے:.پشاور ہائی کورٹ نے ٹی وی چینلز کے خلاف درخواست مسترد ایک جگہ پر عید کا اعلان کیا گیا اور چودہ مارے گئے.“ (ڈیلی ٹائمنز 25 اگست 2006ء) کتنی بدقسمتی اور بدبختی ہے اس قوم کی کہ اللہ نے عید اس لئے بنائی تھی سال میں ایک دفعہ عید الفطر تاکہ وہ خوشیاں منائے.اب ملاں کی وجہ سے خوشیاں بھی قیامت میں بدل گئی ہیں.پھر لکھا ہے:."Mufti Muneeb says that Eid in DIK is not according to Sharia" نیوز انٹر نیشنل 25 اکتوبر 2006ء) پھر لکھا ہے کہ عید بدمزہ ہوگئی.“ اوصاف لاہور 25 اکتوبر 2006ء)

Page 534

518 ساری تفصیل ہے.پھر عنوان ہے:.بائیس اکتوبر کو شہادتوں کے بعد عید کا اعلان کیا.مذہبی امور سرحد 66 اور ایک عنوان ہے:.روز نامہ ایکسپرلیں 25 اکتوبر 2006ء) قوم کو منتشر کرنے کے ذمہ دار سرحد حکومت کے علماء ہیں.“ پھر عنوان ہوا:.حسین احمد.لیا گیا.“ روزنامہ ایکسپریس“ 25اکتوبر 2006ء) 66 منگل کی عید غیر شرعی تھی.مولا نا مفتی منیب الرحمن “ من، فیصل آباد 25 اکتوبر 2006ء) تین عیدوں کی ذمہ داری رؤیت زونل ہلال کمیٹیوں پر ہے.حافظ امن، فیصل آباد 25 اکتوبر 2006ء) عید کا چاند نظر آجانے کی غلط اطلاع پر تین افراد کو اعتکاف سے اٹھا آگے پھر یہ اعلان ہے."Dawn" میں لکھا ہے کہ من، فیصل آباد 125 اکتوبر 2006ء) "Universal Islamic calendar bid fails" ڈان.لاہور 24 اکتوبر 2006ء) یعنی پورے آوے کا آوہ ہی بگڑ گیا ہے.چاند نظر نہیں آیا.مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا اعلان.سرحد تین ، بلوچستان دو عید میں کرے گا.“ ”خبریں“ 24اکتوبر 2006ء)

Page 535

519 فضل الرحمن نے روزہ رکھا.اکرم درانی نے عید پڑھی.سراج الحق آج سوتیاں کھائیں گے.گورنر سرحد کل نما ز عید ادا کریں گے.“ ”خبریں“ 24 اکتوبر 2006ء) سرحد حکومت کا اعلان غیر شرعی ہے.جماعت اہل سنت کے علماء کا فتویٰ.رؤیت ہلال کمیٹی کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے.“ ”خبریں“ 24اکتوبر 2006ء) یہ ہر لفظ رسول اللہ ہے کی اس عظیم الشان پیشگوئی کا اعلان عام کر رہا ہے.چاند نہ نظر آنے کے باوجود عید منانا گناہ عظیمہ ہے.“ ایک خبر ہے:.یہ بھی مولویوں کا بیان ہے.(روز نامہ جناح “ لاہور 24 اکتوبر 2006ء) صوبہ سرحد کے علماء کا چاند نظر آنے اور عید منانے کا اعلان غلط تھا.“ یہ ماہر فلکیات کا اعلان ہے.شکار ہو گئے.“ روزنامہ انصاف لاہور 24 اکتوبر 2006ء) عید الفطر آج ہوگی یا کل ہوگی.برطانیہ میں مسلمان شدید الجھن کا (روزنامہ امن 23 اکتوبر 2006ء) یعنی یہ وبا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ مغربی دنیا تک پہنچی ہوئی ہے.پھر لکھا ہے:.رؤیت ہلال پر انتشار کا اصل سبب سعودی عرب کا غلط نظام ہے.“ روزنامه "امن" 23 اکتوبر 2006ء) یہ وہی سعودی عرب ہے جس کے نمائندہ حسن تہامی نے کہا تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بعد اب صحیح معنوں میں پاکستان اسلامی حکومت بن گیا ہے.مشرق لاہور 9 ستمبر 1974 ء )

Page 536

520 اور یہ سب سے بڑی خبر ہے کہ دو سرگودھا میں امام مسجد نے عید کے بجائے نماز جنازہ پڑھا دی.،، نمازیوں کے احتجاج پر امامت سے فارغ.“ (روز نامہ جناح لاہور 28 اکتوبر 2006ء) یعنی اب ملاؤں کی وجہ سے ، ان کے بندر ہونے کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ملاں نے عید پڑھانے کی بجائے عید کا جنازہ نکال دیا ہے.فانا لله وانا اليه راجعون اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ نے جو حدیث بیان فرمائی تھی اس کا تذکرہ میں کر رہا تھا.فرمایا تھا." اذا هم قردة وخنازير " میں یہ بتا رہا تھا کہ اس میں ملاؤں کی جو اکیسویں یا بیسویں صدی کے ملاں ہیں، ان کی پالیسی کا نقشہ کھینچا گیا ہے.جو اپنی دوکانداری کے لئے مذہب کو استعمال کرتے ہیں.فرمایا.وہ بندر ہوں گے.نقالی کریں گے.اس میں یہ بھی پیشگوئی ہے کہ اس دور کا ملاں از خود رقص نہیں کرے گا بلکہ بیرونی طاقتوں کے اشارے پر رقص کرے گا.آپ مجھے بتائیں پاکستان کی کوئی بڑی جماعت جس کا تعلق استعماری طاقتوں کے ساتھ نہ ہو.کسی نہ کسی بیرونی طاقت کے ساتھ یہاں کے ملاؤں کی جماعتیں ساتھ لگی ہوئی ہیں.دوسری بات یہ فرمائی کہ وہ خنازیر ہوں گے.خنزیر کی دو باتیں سامنے رکھیں.خنزیر وہ جانور ہے جو پاخانہ کھاتا ہے.فرمایا وہ بد زبان ہوں گے.خنزیر وہ ہے جس کی فطرت میں اجاڑنا ہے.جس کی فطرت میں دہشت گردی ہے.خنز میر اپنی بھوک کو مٹانے کے لئے اپنے بچوں کو بھی کھا جاتا ہے.وہ کھیتوں کو ویران کرتا ہے.فصلوں کو ویران کرتا ہے کیونکہ ویرانی اور دہشت گردی اس کی خصلت میں شامل ہے.اب آپ خود دیکھ لیں ساری دنیا کے ملاؤں کا طریقہ اور رسول اللہ کی حدیث.آپ کو نظر آئے گا کہ محمد رسول اللہ علیہ نے جو فرمایا تھا وہ آج کھلے الفاظ میں پورا ہوا.اب آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث پڑھ کر پھر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی بیان کروں گا.حضرت رسول پاک ﷺ نے ملاؤں کا انجام بھی بتا دیا ہے اور آج پاکستان

Page 537

521 میں ہی نہیں پاکستان سے عراق تک بلکہ ساری دنیا میں آپ دیکھیں تو رسول اللہ ﷺ کی حدیث پوری ہو رہی ہے.کنز العمال جلد 11 صفحہ 192 ( ناشر مؤسسة الرسالہ بیروت) پر رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا.يــاتــى عـلـى الـنـاس زمان لوگوں پر ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے يـقـتـل فـيـه العلماء جس میں علماء کو قتل کیا جائے گا.مگر کس طرح کیا جائے گا كما تقتل الكلاب جس طرح کتے مارے جاتے ہیں.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی ماموریت کے پہلے سال میں پہلی کتاب جو حضور کے قلم سے نکلی وہ فتح اسلام تھی.اس کتاب میں حضور نے اس دور کے ملاؤں کے آخری انجام کی پہلے سے خبر دے دی تھی.عجیب بات ہے.فرمایا یہ ملاں لوگ جو دنیا کے لوگ ہیں ” تاریک خیال اور اپنے پرانے تصورات پر جمے ہوئے ہیں، وہ اس کو قبول نہیں کریں گے.مگر اس کے بعد ہی ملاؤں نے پھر اسی سال فتویٰ شائع کیا.276 صفحات کا فتویٰ.مذہبی تاریخ میں اتنالمبافتوئی کبھی نہیں دیا گیا.فرمایا:.مگر عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جو ان کی غلطی ان پر ظاہر کر دے گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہیں کیا لیکن خدا اسے قبول کرے 66 گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ فرمایا:.یہ انسان کی بات نہیں.خدا تعالیٰ کا الہام اور رب جلیل کا کلام ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان حملوں کے دن نزدیک ہیں.مگر یہ حملے تیغ و تبر سے نہیں ہوں گے.اور تلواروں اور بندوقوں کی حاجت نہیں پڑے گی.بلکہ روحانی اسلحہ کے ساتھ خدا کی مددا ترے گی.اور یہودیوں سے سخت لڑائی ہوگی.وہ کون ہیں؟.اس زمانے کے ظاہر پرست لوگ جنہوں نے بالا تفاق یہودیوں کے قدم پر قدم رکھا ہے.ان سب کو آسمانی سیف اللہ دو ٹکڑے کرے گی.اور

Page 538

522 یہودیت کی خصلت مٹا دی جائے گی اور ہر ایک حق پوش دجال دنیا پرست یک چشم جو دین کی آنکھ نہیں رکھتا...66 میں یہاں پر بتادوں کہ آنحضور ﷺ کی یہ حدیث مسلم شریف میں موجود ہے.مسلم شریف کے مقدمے یکھی ہے.فرمایا:.آخری زمانے میں جو علماء ہوں گے.(وہ دجال اور کذاب ہوں گے اور ) ایسی باتیں بنا کے دنیا کے سامنے پیش کریں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی نہ تمہارے آبا ؤ اجداد نے سنی ہوں گی.“ (صحیح مسلم“ مقدمه الامام مسلم رحمه الله باب فى ضعفاء والكذابين ومن يرغب عن حديثهم) اور اس کا نمونہ ملتان سے چھپنے والی وہ روداد بھی ہے جو اسمبلی کے نام پر شائع کی گئی جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.تو فرمایا میری امت میں ایسے مولوی پیدا ہوں گے دجالون کذابون_اور فرمایا کہ یا درکھو! ان سے بیچ کر رہنا وہ تمہیں گمراہ کر دیں گے اور فتنے میں مبتلا کر دیں گے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام انہی دجالوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.ہر ایک حق پوش دجال دنیا پرست یک چشم جو دین کی آنکھ نہیں رکھتا ، حجت قاطعہ کی تلوار سے قتل کیا جائے گا.اور سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے.اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے.لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے.جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں.اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کر لیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی ، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے.اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام

Page 539

523 ہے.اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے.“ ( فتح اسلام ، صفحہ 12 تا 17 طبع اول.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 9 تا 11) ہم تہی دست تیرے در چلے آئے ہیں لطف سے اپنے عطا کر ید بیضاء ہم کو اللهم صل و سلم علی سیدنا و مولانا و شفيعنا محمد و بارک علیه و اله بعدد غمه و حزنه لهذه الامة وانزل عليه انوار رحمتك الى الابد.اللهم آمين.ثم آمين.حضرت مسیح پاک کے علم مبارک سے ابتلاؤں کی فلاسفی ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.1953ء، 1974ء اور 1984ء عالمگیر جماعت احمدیہ کے لئے ابتلاء کے سال ہیں.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ابتلاؤں کی کیا فلاسفی بیان کی ہے؟ مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے شہرہ آفاق اور مشہور عالم "سبز اشتہار میں ابتلاؤں کی فلاسفی پر ایک نہایت بصیرت افروز رنگ میں روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ہے.اس کا ایک ایک لفظ سونے سے لکھنے کے لائق ہے.فرمایا:.ابتلا جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سے کر کے ان کو دکھاتا ہے.یہ ابتلا اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحہ عالم سے ان کا نام ونشان مٹا دیوے.کیونکہ یہ تو ہرگز ممکن ہی نہیں کہ خداوند عز و جل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور اپنے سچے اور وفا دار عاشقوں کو ذلت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے.بلکہ حقیقت میں وہ ابتلا کہ جو شیر بر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے.اس لئے نازل ہوتا ہے کہ تا اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند منار تک پہنچاوے اور الہی معارف کے بار یک دقیقے ان کو سکھاوے.یہی

Page 540

524 سنت اللہ ہے جو قدیم سے خدائے تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے.زبور میں حضرت داؤد کی ابتدائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں.اور انجیل میں آزمائش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریبانہ تضرعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں.اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخر الرسل کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتہالات اسی قانون قدرت کی تصریح کرتے ہیں.اگر یہ ابتلاء درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیا ء ان مدارج عالیہ کو ہرگز نہ پاسکتے کہ جو ابتلاء کی برکت سے انہوں نے پالئے.ابتلاء نے ان کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے اور جانفشانی کی عادت پر مہر لگا دی.اور ثابت کر دکھایا کہ وہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں.اور کیسے بچے وفا دار اور عاشق صادق ہیں کہ ان پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں، اور بڑے بڑے زلزلے ان پر وارد ہوئے اور وہ ذلیل کئے گئے اور جھوٹوں اور مکاروں اور بے عزتوں میں شمار کئے گئے ،اور اکیلے اور تنہا چھوڑے گئے.یہاں تک کہ ربانی مددوں نے بھی ، جن کا ان کو بڑا بھروسہ تھا کچھ مدت تک منہ چھپا لیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی مربیانہ عادت کو بہ یکبارگی کچھ ایسا بدل دیا کہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے، اور ایسا انہیں تنگی و تکلیف میں چھوڑ دیا کہ گویا وہ سخت مورد غضب ہیں.اور اپنے تئیں ایسا خشک سا دکھلایا کہ گویاوہ ان پر ذرا مہربان نہیں.بلکہ ان کے دشمنوں پر مہربان ہے اور ان کے ابتلاؤں کا سلسلہ بہت طول کھینچ گیا.ایک کے ختم ہونے پر دوسرا اور دوسرے کے ختم ہونے پر تیسرا ابتلاء نازل ہوا.غرض جیسے بارش سخت تاریک رات میں نہایت شدت و سختی سے نازل ہوتی ہے.ایسا ہی آزمائشوں کی بارشیں ان پر ہوئیں پر وہ ایسے پکے اور مضبوط ارادہ سے باز نہ آئے اور ست اور دل شکستہ نہ ہوئے.بلکہ جتنا مصائب و شدائد کا باران پر پڑتا گیا اتنا ہی انہوں نے

Page 541

525 آگے قدم بڑھایا اور جس قدر وہ تو ڑے گئے.اسی قدر وہ مضبوط ہوتے گئے اور جس قدر انہیں مشکلات راہ کا خوف دلایا گیا اسی قدر ان کی ہمت بلند اور ان کی شجاعت ذاتی جوش میں آتی گئی.بالآخر وہ ان تمام امتحانات سے اول درجہ کے پاس یافتہ ہوکر نکلے اور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہو گئے اور عزت اور حرمت کا تاج ان کے سر پر رکھا گیا.“ سبز اشتہار ، صفحہ 11 تا 14 طبع اوّل.روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 457 تا 460) عظیم الشان ترقیات کی حیرت انگیز پیشنگوئیاں حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.جماعت احمدیہ کی مخالف تحریکات کے پُر آشوب ادوار میں بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت احمدیہ کی عظیم الشان ترقیات کے حوالے سے جو پیشگوئیاں فرمائی ہیں.وہ بھی آپ سے درخواست ہے کہ ناظرین کو سنائیں! مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.جزاکم اللہ.عین وقت پر آپ نے ایک بہترین سوال ناظرین کے سامنے رکھا ہے.اس کے لئے میں ازحد ممنون ہوں.اس سلسلہ میں پیشگوئیاں بے شمار ہیں لیکن میں نے اس کے لئے دو بین الاقوامی پیشگوئیوں کا انتخاب کیا ہے اور انتخاب بھی مجلس مشاورت کی رپورٹوں سے جو کہ عام طور پر نایاب ہوتی تھیں.میں نے سوچا کہ اس خزانے کا اب منظر عام پر آنا ضروری ہے.1941ء اور 1943ء کی رپورٹوں کا عکس اس وقت میرے سامنے ہے.1941ء میں جنگ عظیم دوم (Second World War) زوروں پر تھی اور اس زمانے میں، ابتدائی دور میں ، ہٹلر کی فوجیں تیزی کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی تھیں.یخنی کہ فرانس کے شہروں کو بھی اس نے زیروزبر کر دیا تھا.اور اس کے بعد پورا انگلستان خاص طور پر لنڈن ہٹلر کے بمبار طیاروں کی زد میں آگیا.اور House of Commons اور House Of Lords کے جو بڑے ممبر تھے اور بڑی بڑی شخصیتیں بمباری سے بچنے کے لئے ٹیوب سٹیشنوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئیں.اس زمانے میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس رحمہ اللہ تعالی خالد احمدیت انگلستان مشن کے انچارج تھے.اس بمبارمنٹ (Bombardment) سے خدا تعالیٰ نے ”مسجد فضل“ کو محفوظ

Page 542

526 رکھا.لیکن باقی سارا انگلستان خصوصاًلنڈن اس وقت اس کی زد میں تھا.اور دوسری طرف جرمن کی سپاہ جو تھیں وہ بڑھتی چلی جارہی تھیں.میں ان دنوں مدرسہ احمدیہ کا سٹوڈنٹ تھا اور ہمیں یہ خبریں پہنچ رہی تھیں کہ اب وہ وقت قریب آ گیا ہے کہ انگریزوں کو شکست ہو جائے گی اور برٹش امپائر کا خاتمہ ہو جائے گا.یہی وجہ ہے آپ اس زمانے کی تاریخ کو دیکھیں.کانگریس نہ صرف یہ کہ قائد اعظم کی کسی بات کو خاطر میں نہیں لاتی تھی بلکہ انگریز گورنروں اور وائسرائے اور انگریز افسروں کو اس طرح ردی کی ٹوکری میں پھینکتی تھی گویا کہ یہ بھنگی ہیں.ان کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھی.اور وہ اس یقین سے لڑ رہے تھے کہ برٹش گورنمنٹ کا خاتمہ بالکل نزدیک آ گیا ہے.یہ دلچسپ خبریں بھی ہمیں قادیان میں پہنچیں.مجھے ابھی تک یاد ہے کہ بعض دوستوں نے سنایا کہ علماء حضرات ضلع گورداسپور میں خصوصاً قادیان کے ارد گرد، خطبے دے رہے ہیں کہ در اصل ہٹلر پوشیدہ مہدی موعود ہے مگر وہ اپنے مہدی ہونے کا اعلان اس وقت کرے گا جس وقت کہ وہ دتی کو فتح کر لے گا.یعنی بالکل افغانستان کے ملا عمر کی طرح کی سوچیں اس وقت بھی دکھائی جا رہی تھیں.یہ حالت تھی اس وقت.اور یہ قطعی بات سمجھی جا رہی تھی کہ جرمنی غالب آئے گا اور برٹش ایمپائر (British Empire) ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے نابود ہو جائے گی.اس زمانے میں حضرت مصلح موعودؓ نے 13 اپریل 1941ء کو مجلس مشاورت کے ممبران کے سامنے جو تقریر کی ، اس کا ایک حصہ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.حضور نے فرمایا کہ جنگ کے دوران میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سی رؤیا دکھائی ہیں اور میں انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعا میں مشغول رہتا ہوں.اور خوابوں میں مجھے جو خواب نظر آئے ان میں میاں مظفر احمد صاحب اور حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب نظر آئے.یہ ذکر کرنے کے بعد آپ فرماتے ہیں کہ اس رویاء سے مجھے اتنی تسلی ضرور ہوئی کہ اس جنگ میں خدا تعالیٰ کا دخل ہے اور جس جنگ میں خدا تعالیٰ کا دخل ہو اس کا نتیجہ اسلام اور احمدیت کے لئے مضر نہیں ہوسکتا.ابھی میں برابر دعا میں مشغول ہوں.دوستوں کو چاہئے کہ وہ بھی دعا کریں.

Page 543

527 نے فرمایا:.ب دیکھیں یہ خدا کے خلیفہ موعود کے سوا اور کوئی آدمی نہیں کہہ سکتا تھا.حضرت مصلح موعودؓ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر اس جنگ میں جرمنی کو شکست ہوئی تو اس کے بعد تبلیغ کا بہترین مقام جرمنی ہو گا.(یہ 1941ء کی بات ہے.ناقل ) جرمن قوم تین سو سال سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس غرض کے لئے اس نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں مگر ابھی تک وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہوسکی.اگر اس جنگ میں بھی اسے کامیابی حاصل نہ ہوئی تو ہم اسے بتا سکیں گے کہ خدا نے تمہاری ترقی کا کوئی اور ذریعہ مقرر کیا ہوا ہے.جو سوائے اس کے کچھ نہیں کہ تم خدا کے دین میں داخل ہو جاؤ اور بحبل من الله ترقی کر جاؤ.پھر تمہیں دنیا میں کوئی مغلوب نہیں کر سکے گا.پس میں سمجھتا ہوں جرمن قوم کا اس شکست میں دینی لحاظ سے بہت بڑا فائدہ ہے اور عنقریب تبلیغ کے لئے ہمیں ایک ایسا میدان میسر آنے والا ہے جہاں کے رہنے والے با تیں نہیں کرتے بلکہ کام کرتے ہیں اور زبانی دعوے نہیں کرتے بلکہ عملی رنگ میں قربانیاں کر کے دکھاتے ہیں.“ (صفحہ 135-136 ) کس شان کی پیشگوئی تھی اور کس شاندار طریقے سے اللہ کے فضل سے یہ پوری ہورہی ہے.دوسرا حضور کا ارشاد 25 اپریل 1943ء کا ہے.جنگ تو 1945ء میں ختم ہوئی.یہ جنگ کے خاتمے سے دو سال پہلے کی بات ہے.حضور نے مجلس مشاورت کے ممبران کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے بتایا گیا ہے کہ فتح اور کامیابی کے بعد یہ لوگ اسلام پر حملہ کرنے کی کوشش کریں گے.(اس سے قبل حضور نے بتایا کہ آج کل وہ حکومت انگریزوں کی دوست ہے.ناقل )...اس کا علاج کسی ظاہری تدبیر سے نہیں ہوسکتا.اس کے لئے دعائیں ہی کارگر ثابت ہوں گی اور انہی دعاؤں سے تمہیں کام لینا چاہئے.میں سمجھتا ہوں لڑائی کا یہ سلسلہ جو اس

Page 544

528 وقت جاری ہے زیادہ عرصہ تک نہیں رہ سکتا.45ء کے پہلے نصف حصہ میں یا تو جنگ بالکل ختم ہو جائے گی یا ایسی صورت اختیار کر لے گی کہ انسان اطمینان کے ساتھ یہ کہہ سکے گا کہ اس لڑائی کا کیا انجام ہوگا اور اس کی بنیاد اسی سال یعنی 43ء میں پڑے گی.مگر یہ فتنے ابھی ختم نہیں ہوں گے.اللہ تعالیٰ ان فتنوں کو لمبا کرے گا اور لمبا کرتا چلا جائے گا.تا کہ وہ قوم اس عرصہ میں تیار ہو جائے جس نے آئندہ دنیا کی حکومتیں اپنے ہاتھ میں لینی ہیں.سورۃ کہف میں ذکر آتا ہے.( یہ نمور سے اور توجہ سے سماعت فرمائیں ) سورۃ کہف میں ذکر آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھی کے ساتھ جا رہے تھے کہ انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گر رہی تھی.انہوں نے دیوار کو بغیر کسی اجرت کے دوبارہ کھڑا کر دیا اور اسے گرنے سے محفوظ کر دیا.پھر اللہ تعالیٰ اس سورت میں یہ بتاتا ہے کہ دیوار کو مضبوط بنانے میں حکمت یہ تھی کہ اس کے نیچے دو یتیم بچوں کا خزانہ تھا اور اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ جب تک وہ بچے جوان نہ ہو جائیں ان کا خزانہ دیوار کے نیچے محفوظ رہے.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.” جنگ کی موجودہ حالت بھی ایسی ہی ہے مگر وہاں تو دیوار بنانے سے خزانہ محفوظ رہا تھا اور یہاں دیواریں گرانے سے خزانہ محفوظ رہتا ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان دنیاوی عمارتوں کو گرا رہا ہے مگر بجائے اس کے کہ وہ یکدم سب عمارتوں کو گرائے ان کو آہستہ آہستہ گرا رہا ہے.کیونکہ وہ لوگ جن کے سپرد اس عمارت کی نئی تعمیر ہے وہ خدا تعالیٰ کے انجینئر نگ کالج میں اس وقت پڑھ رہے ہیں اور ابھی اپنی تعلیم سے فارغ نہیں ہوئے.پس اگر آج تمام عمارتیں یکدم گر جائیں تو چونکہ وہ لوگ جنہوں نے کئی عمارتیں کھڑی کرنی ہیں ابھی اپنی تعلیم کی تعمیل نہیں کر سکے ، اس لئے خلا رہ جائے گا.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ ان دیواروں اور مکانات کو گرا رہا ہے.آج ایک دیوار کو گراتا ہے تو کل

Page 545

529 دوسری دیوار کو گرا دیتا ہے.آج ایک چھت اڑا تا ہے تو کل دوسری چھت کو اڑا دیتا ہے.آج ایک کمرے کو گراتا ہے تو کل دوسرے کمرے کو گرا دیتا ہے.اسی طرح وہ آہستہ آہستہ اور قدم بقدم دنیا کی تمام عمارتوں اور دنیا کے تمام مکانوں اور دنیا کے تمام سامانوں کو گرا رہا، مٹارہا اور تباہ و برباد کر رہا ہے اور اس کا منشاء یہ ہے کہ وہ اس وقت تک ان عمارتوں کو مکمل طور پر بر باد نہ کرے جب تک خدا تعالیٰ کے کالج میں جو لوگ تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ اس کالج سے تعلیم حاصل کر کے فارغ نہ ہو جائیں اور ان پر قبضہ کرنے کے لئے تیار نہ ہوں.“ یہ اس رپورٹ کے صفحہ 147-148 کی عبارت ہے.حافظ محمد نصر اللہ صاحب : مولانا صاحب! آج دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو قانون کی پابند ہے اور جیسا کہ ابھی ضیاء الحق کے بدنام زمانہ آرڈینینس کے حوالہ سے بھی بیان فرمایا کہ پاکستانی قانون کے لحاظ سے جماعت احمدیہ کو تبلیغ کی بھی پابندی ہے لیکن دینی لحاظ سے دیکھا جائے تو تبلیغ واجب ہے تو اہل پاکستان کو اس صورتحال میں آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.عرض یہ ہے کہ اسلام تو ایک بین الاقوامی مذہب ہے اور احمدیت کے معنی اسلام کی وہ تصویر ہے جو اللہ تعالیٰ نے الہاما حضرت مسیح موعود پر نازل فرمائی.تو میں عمومی سطح پہ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ایک سونامی طوفان کی طرح مخالفتوں کی لہریں ہر جگہ اٹھتی ہیں.بنگلہ دیش سے، انڈونیشیا سے، اور کسی زمانے میں کئی اور جگہ پر، بلکہ آپ دیکھیں یورپ میں پہلا شہید جو ہوا وہ احمدی ہے.البانیہ کا میں ذکر کر رہا ہوں.یہ Pre Partition کی بات ہے.جنگ عظیم سے پہلے کی بات ہے.تو خدائی سلسلوں کا Criteria یہ ہے کہ خدائی جماعتوں کی مخالفت ضرور ہوتی ہے.آپ تصور کریں کہ جس خدا نے حرف کن کے نتیجہ میں اتنی بڑی کائنات پیدا کی ، کیا وہ اس بات پر قادر نہیں تھا کہ جو نہی آنحضور ﷺ پر سورۃ قلم کی پہلی آیات نازل ہوتیں حضور علیہ السلام مکہ پہنچتے اور سارا مکہ مسلمان ہو جاتا اسی لمحے اور پھر اس کے دیکھا دیکھی ساری دنیا کی طاقتیں جو تھیں وہ رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں آجاتیں.قادر ہے یا نہیں قادر؟ یہ قادر کی بات بھی بڑی عجیب ہے.مجھے یاد ہے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے ایک

Page 546

530 دفعہ سنایا کہ میں ایک دفعہ سفر میں ایک اہلحدیث سے بات چیت کر رہا تھا.کہنے لگے جی کیا خدا قادر نہیں ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو آسمان پر لے جائے.آپ نے فرمایا.خدا قادر ہے چاہے تو آپ کو بھی آسمان پر اٹھا کے لے جائے اور خدا کرے چلے ہی جائیں آپ آسمان پر.اور پھر فرمانے لگے کہ میں کہتا ہوں کہ سارے احراری آسمانوں پر ہی چلے جائیں خس کم جہاں پاک.“ لیکن اس کے بعد حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فرمانے لگے کہ آپ نہیں قادر سمجھتے.کہنے لگے نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے کہا آپ مجھے بتائیں کہ کیا خدا قادر ہے کہ نہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کومسیح موعود بنادے.کہنے لگے نہیں.کہنے لگے کہ بس ثابت ہو گیا کہ آپ قادر نہیں مانتے.تو بات یہ ہے کہ خدا قادر تھا کہ تمام دنیا شام سے پہلے پہلے رسول پاک ﷺ پر ایمان لے آتی ،مگر خدا کی حکمت تھی.اس حکمت کے مطابق ایک طرف خدا بتانا چاہتا تھا رسول پاک ﷺ کے عظیم الشان اخلاق ، حضور کی تعلیم اور دوسری طرف دشمنوں کی ساری کوششوں کو سامنے لانے کے بعد پھر خدا نے آپ کو فتح مبین بخشی.اس کے نتیجہ میں ثابت ہوا کہ واقعی وہ ایک آواز جو تمام دنیا پر چھا گئی، وہ عرش کے خدا کی تھی اور محمد رسول اللہ کی زبان خدا کی زبان ہے.اسی طرح قرآن نے Criteria جو بیان کیا ہے.يَا حَسُرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِم مِّنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِقُ وُن (يس : 31) اور استہزاء کی ساری صورتیں قرآن نے تاریخ کی روشنی میں بیان کی ہیں اور وہ تاریخ نہیں، دراصل مستقبل کے لئے واقعات بیان کئے ہیں.اس واسطے ہم پر پابندیاں ہیں اور یہ پابندیاں ہی بتاتی ہیں کہ یہ خدا کا قائم کردہ سلسلہ ہے.ان سے تو وہ گھبر اسکتا ہے کہ جسے خدا کی ازلی سنت کا پتہ نہ ہو.یہ تو اللہ نے پانچ ہزار سال پہلے سے ہی سنت قائم کی ہوئی ہے.باقی قرآن یہ ضرور کہتا ہے کہ ہم نے امت محمدیہ کو اس لئے خیر امت قرار دیا ہے کہ وہ دنیا میں تبلیغ کرتے ہیں كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران: 111) خیر امت ہے ہی اس لئے کہ وہ ساری دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچاتے ہیں.پہلے انبیاء بھی علاقائی تھے اور امتیں بھی علاقائی تھیں.مگر اسلام بین الاقوامی ہے، بین الآفاقی ہے.بلکہ میں نے تو ایک دفعہ تحریک جدید کے ایک بزرگ سے کہا کہ اب چاند اور ستاروں اور مریخ تک انسان کی رسائی ہو گئی ہے.اب وقت آگیا ہے کہ آپ پہلے سے مجاہدین کو تیار کریں جو

Page 547

531 وہاں مشنری انچارج بنیں گے.اسلام صرف یہی نہیں کہتا کہ جب امریکہ دریافت ہو تو امریکہ تک جانا ہے بلکہ وہ تو کہتا ہے کہ تمام کائنات میں جہاں جہاں دنیا معلوم ہوگی ، وہاں تم نے تبلیغ کے لئے اپنے مجاہدوں کو بھیجنا ہے.لیکن فرمایا :.أدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (النحل: 126).فرمایا ہم نے تمہیں محمد عربی عملے کے مقدس اور دلکش اور انقلاب آفرین پیغام کے پہنچانے کا حکم دیا ہے.مگر یاد رکھو حکمت سے پہنچانا.ایسے طریقے سے پہنچانا کہ جس کے نتیجہ میں دلوں کے اوپر اثر پڑے اور حقائق بالکل بے نقاب ہو جا ئیں.حکمت عملی سے بات کریں.میں ایک مثال دیتا ہوں.ایک مسلمان بادشاہ تھا اور اس زمانے کے بادشاہوں میں یہ دستور تھا، مغلیہ خاندان کے آخری بادشاہ تک بھی یہ دستور قائم رہا.ایران میں بھی رہا.وہ یہ تھا کہ بادشاہ اپنے دربار کے مصاحبین میں درویشوں کو بھی رکھتے تھے.اللہ والوں کو بھی رکھتے تھے.بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ اس کے سارے دانت جھڑ گئے ہیں.اس پر اپنے وزیروں سے پوچھا کہنے لگے کہ حضور یہ تو بیٹا ہی غرق ہو گیا ہے آپ کے خاندان کا.اس کا مطلب اتنا ہی ہے کہ سارا خاندان آپ کا تباہ ہو جائے گا.بادشاہ نے وہ جو بزرگ بیٹھے تھے درویش، انہیں یہ کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ بزرگ آدمی ہیں.صاحب کشف اور الہام ہیں.کہنے لگے بادشاہ سلامت میں تو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں.مبارک ہو اتنی مبشر خواب ! اتنی مبارک خواب !! بادشاہ حیرت زدہ رہ گیا.کہنے لگا جی کیا مطلب؟ کہنے لگے.دیکھیں اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر یہ فیصلہ ہے کہ تمام خاندان کے افراد میں سب سے زیادہ لمبی عمر خدا تعالیٰ تمہیں عطا کرے گا.بادشاہ کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا تو اس وقت نقارے بجادیئے گئے.اور ہر جگہ پر خیرات تقسیم کی گئی اور چراغاں ہوا.اب دیکھیں بات تو وہی تھی مگر انداز حکیمانہ.تو فرمایا ہم نے فرض کیا ہے تم پر مگر اس رنگ میں فرض کیا ہے کہ حکمت عملی سے تم نے یہ بات کرنی ہے.یہ ناممکن ہے کہ دنیا کی کوئی بھی بڑی سے بڑی حکومت جماعت احمدیہ کی تبلیغ پر پابندی کرنے کا فیصلہ کرے اور پابندی لگا دے اور عملاً وہ پابندی لگ جائے.یہ کبھی نہیں ہوسکتا.میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں.عرصہ ہوا خدام الاحمدیہ کی ایک کلاس تھی راولپنڈی

Page 548

532 میں.حضرت سید میر داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ تھے.ان کی بھی تقریر تھی.مولانا غلام باری صاحب سیف، ہمارے استاذ رحمہ اللہ وہ بھی تشریف لے گئے تھے.تو میں اپنے معمول کے مطابق راجہ بازار میں مولوی غلام اللہ خاں کا وہاں پر مدرسہ بھی تھا، کچھ دکانیں دیو بندیوں کی بھی ہیں.وہاں پر میں گیا اور میں نے کہا کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ کی کوئی کتاب ہے.میں وہ لینا چاہتا ہوں.خیر انہوں نے کچھ کتابیں دیں.میں نے وہ کتا ہیں جو میرے پاس موجود نہیں تھیں، وہ خرید لیں، پیسے دیئے.ان میں جو میرے پاس موجود تھی ” تحذیر الناس، بھی تھی لیکن میں نے وہ بھی ایک نسخہ خرید لیا.اس وقت تک وہ ہمارے سامنے چائے وغیرہ پیش کر چکے تھے.میرے ساتھ دو تین خدام بھی تھے.میں نے ان سے کہا میں آپ کو تبلیغ کے لئے لے جاتا ہوں.انہوں نے بھی یہ بات کہی کہ جی بڑی مشکل ہے.یہاں فتنہ پیدا ہو جائے گا اگر کوئی احمدیت کی تبلیغ کرے گا.ہم لوگوں نے چائے پی ، ان سے کتابیں خریدیں، پیسے دیئے.اب پیسے بھی ان کو مل چکے تھے.میں نے ان سے کہا دیکھیں کتنی عظمت خدا نے بخشی ہے کتنے ظالم ہیں بریلوی لوگ جو حضرت مولانا قاسم نانوتوی کو منکر ختم نبوت کہتے ہیں.کس شان کے ساتھ انہوں نے ختم نبوت کے معنی بیان کئے ہیں کہ باقی نبی امتیوں کے باپ تھے اور محمد رسول اللہ نبیوں کے بھی باپ تھے اور اگر کوئی اور نبی بھی پیدا ہو جائے تو ختم نبوت میں کوئی فرق نہیں آئے گا ( تحذیر الناس، صفحہ 34 ناشر دار الاشاعت اردو بازار کراچی ).اور اہل سنت یہی کہتے ہیں جو نبی آئے گا وہ شریعت محمدی لے کر آئے گا.اور یہی جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے.السلام علیکم.یہ بات کہی اور پھر میں واپس آ گیا.تو اصل میں سوچنے کی ضرورت یہ ہے کہ خدا نے تبلیغ کا حکم نہیں دیا بلکہ اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (النحل: 126) (ترجمہ: اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے) کا حکم دیا.دوسری بات یہ ہے کہ یہ اصل کام تو خدا کا ہے.وہ تو دنیا میں کوئی احمدی اگر خدا کی آواز کو بلند کرتا ہے تو خدا اس کو ثواب دینا چاہتا ہے.ور نہ حضرت مسیح موعود نے یہی فرمایا ہے کہ قضائے آسمانست ایس بہر حالت شود پیدا اسلام کو تو دنیا میں غالب ہونا ہی ہوتا ہے.یہ اللہ کا فضل ہے کہ تمہیں اس کی توفیق عطا کی

Page 549

533 جارہی ہے.اس بارے میں آپ دیکھیں کہ خدا نے ایک وسیع نظام قائم کیا ہے اور پہلے دن سے مسیح موعود کو بتایا ہے.ینصرک رجال نوحى اليهم من السماء فرمایا جہاں تک قانون تمہیں اجازت دے، حکمت عملی کے ساتھ حقیقی اسلام کی دعوت دیتے چلے جاؤ.غافل نہ ہونا کیونکہ دعوت الی اللہ جو ہے وہ صرف پانچ وقتہ فرض نہیں ہے.آنحضرت ﷺ نمازیں پانچ پڑھتے تھے تہجد کے علاوہ مگر تبلیغ کا کوئی وقت معین تھا ؟ زندگی کے آخری سانس تک آپ نے یہ فرض ادا کیا ہے.اتنی بڑی اور اہم چیز ہے.یہ آنے والے کیا خیال ہے کہ سب حضور ہی کی تبلیغ سے پہنچے وہاں پر.وہ اللہ کا سامان تھا.کیونکہ رسول اللہ کے متعلق لکھا ہے کہ خدا نے فرشتے رسول پاک ﷺ کی خدمت میں بھیجے ہیں کیونکہ سب سے بڑے آدم تو آپ تھے.تو فرشتوں کا نزول بدن پر ہوا کیونکہ عقیدہ کا بدلنا دلوں سے ممکن ہے.بموں سے کھوپڑیاں آپ تو ڑ سکتے یا تلواروں سے مگر عقیدہ کو نہیں بدل سکتے.دشمنوں نے آگ کے انگاروں پر صحابہ کو ڈال دیا اور ظالموں نے یہاں تک خبیب کے ساتھ کیا ، وہ خود فرماتے ہیں کہ جب تک اندرونی طور پر رطوبت باہر نکل کر ان کوئلوں کو بجھا نہیں دیتی تھی ، اس وقت تک یہ ظالم آگ پر رکھتے رہے.بلال کو تپتی ہوئی ریت کے اوپر لٹاتے تھے.مگر بلال احد، احد، احد ہی کہتے تھے.کیوں؟ اس واسطے کہ ایمان لانے والے پر خدا کا انقلاب یہ ہے کہ اس کے دل کے اوپر خدا کا تخت قائم ہو جاتا ہے.تو تبدیلی جو ہے وہ انسان کے دل میں واقع ہوتی ہے اور دلوں پر قابض نہ کوئی حکومت ہوسکتی ہے نہ کوئی اقتدار ہو سکتا ہے.دلوں پر خدا کا قبضہ ہے یا درکھیں.اس دل کو بدلنے کے لئے خدا نے اپنے فرشتے نازل کئے ہیں.پہلی جماعتوں کے لئے بھی اور محمد رسول اللہ کے لئے بھی یہی انتظام کیا اور خدا نے مسیح موعود کو بتایا کہ گھبرانے کی بات نہیں ینصرک رجال نوحى اليهم من السماء تم اپنا کام کرتے چلے جاؤ.ہم اپنے فرشتوں کے ذریعہ سے تمہارے پاس لائیں گےلوگوں کو.اب آپ احمدیت کی تاریخ کو پڑھیں.میرے پاس استاذی المحتر م مولا نا عبدالرحمن صاحب مبشر کی ایک عظیم الشان اور بلند پایہ کتاب ہے.یہ خلافت سلور جوبلی کے سال قادیان میں شائع ہوئی تھی.یہاں دوبارہ چھپی اضافوں کے ساتھ.” بشارات رحمانیہ اس کا نام ہے.اس میں بہت ہی عظیم الشان واقعات بیان کئے گئے ہیں کہ بزرگوں کو قادیان تک کا نقشہ دکھا دیا گیا.مسیح موعود کی شکل دکھا دی گئی.وہ یہاں آئے.کسی نے تبلیغ نہیں کی اور آتے ہی درخواست کی کہ حضور میں آپ

Page 550

534 کی بیعت کرنا چاہتا ہوں.ایک دلچسپ ترین واقعہ اس میں یہ بھی ہے جو میں صرف نمونہ بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ ہدایت دینے کا ایک حیرت انگیز آسمانی طریق تھا.جس کی ایک مثال جماعت کی تاریخ میں ملتی ہے.میرا خیال ہے یہ عالم روحانی کے لعل و جواہر کی جو اقساط ہیں ان میں بھی یہ بیان کیا تھا اور حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے جب اس کو پڑھا تو حضور نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ حوالہ جس ”الحکم“ سے لیا گیا ہے فوری طور پر اس کا عکس لیا جائے.چنانچہ مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نے مجھے ٹیکس کیا اور میں نے اسی رات وہ الحکم بھی حضور کی خدمت میں بھجوا دیا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی روایت ہے اور یہ ساری تفصیل احکام میں اسی زمانے میں چھپ چکی تھی.اسی حوالہ سے مولانا عبدالرحمن صاحب مبشر نے یہ لکھا ہے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ 1903ء کا واقعہ ہے جس وقت کہ آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے کہ اسی دوران محمد افضل صاحب مرحوم ( با بومحمد افضل صاحب مشرقی افریقہ سے آنے والے البدر کے پہلے ایڈیٹر ) فوت ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو دوسرا ایڈیٹر مقرر کیا.پہلے ” البدر نام تھا پھر آپ کے زمانے سے جو شروع ہوا وہ بدر کے نام سے شروع ہوا.تو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کہتے ہیں کہ میں ہیڈ ماسٹر تھا تو مجھے پچھلی رات کو خواب میں ایک لفافہ دکھایا گیا جس پر ایڈریس زیرک خان محمد نظام الدین مسجد کتب شاہی آصف آباد لکھا تھا.میں جب بیدار ہوا اور سٹاف میں تذکرہ کیا تو سب نے کہا کہ اس نام پر کوئی کا رڈلکھا جائے.چند دن کے بعد جب ڈاکخانہ سے اس کے جواب میں کوئی خط نہ آیا تو پھر مجھے دوستوں نے مشورہ دیا کہ آپ کو چاہئے کہ صرف یہ نہ لکھیں کہ آپ مہربانی کر کے مجھے جواب دیں.میں آپ سے رابطہ کرنا چاہتا ہوں بلکہ آپ پوری تفصیل لکھیں خواب کی کہ اس وجہ سے میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں.یہ خدا کی تحریک ہے.لیکن اس کے آٹھ دن بعد گذر گئے پھر بھی کوئی کارڈ نہ آیا.آخر پر آپ نے اخبار ” الحکم“ میں اپنی یہ خواب شائع کی.چند روز کے بعد حیدر آباد دکن سے ایک خط آیا اور خط لکھنے والے نظام الدین ہی تھے.انہوں نے یہ لکھا کہ اللہ آپ کو جزائے خیر دے.مجھے بھی ضرورت تھی قادیان کے

Page 551

535 متعلق کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کہتا ہوں کہ میں اگر امام مہدی تک پہنچنا چاہوں تو مجھے قادیان جانا چاہئے.تو یہ خواب میں میری زبان پر جاری ہوا.میں حیران تھا کہ قادیان کہاں پر واقع ہے.کبھی سمجھتا تھا پٹنہ کے قریب ہے.کبھی آسام کی طرف نظر تھی.اور میں حیران تھا.کسی سے پتا ہی نہیں چلتا تھا کیونکہ گمنام بستی تھی.؎ میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر تو مجھے پتہ ہی نہیں لگ رہا تھا کہ اسی دوران اب آپ کا خط آ گیا ہے جس میں بتایا ہے کہ مهدی موعود قادیان میں ہے اور قادیان ضلع گورداسپور میں ہے اور خدا نے آپ کو بتایا اور عجیب بات ہے کہ آپ جو وقت بتا رہے ہیں، جو تاریخ بتا رہے ہیں بعینہ وہی رات تھی اور وہی تاریخ تھی اور وہی وقت تھا جبکہ خدا نے مجھ پر یہ انکشاف کیا.تو اب میں آپ سے اتنا عرض کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود مہدی معہود کی خدمت میں میری بیعت کا خط لکھ دیں.میں خود بھی حاضر ہوں گا.چنانچہ بعد میں وہ خود بھی حاضر ہوئے.“ بشارات رحمانیہ جلد اول بار دوم صفحه 139-140) اب دیکھیں کتنی عظیم الشان بات ہے.یہی واقعات پاکستان میں ہو رہے ہیں.چند دن پہلے ایک شہر سے دونو جوان ایک احمدی دوست کے ساتھ آئے اور انہوں نے یہ بتایا کہ ہم دونوں بھائی ہیں.ایک ہی قسم کا کاروبار کرتے ہیں.بہت بڑا کاروبار ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھاتے پیتے خاندان سے تعلق ہے.مذہبی خیالات رکھنے والے تھے.اہلسنت والجماعت سے ان کا تعلق ہے.کہنے لگے کہ ایک رات ہم دونوں کو ایک خواب آئی کہ ایک بزرگ ملے.پگڑی پہنے ہوئے تھے.اچکن پہنی ہوئی تھی اور سفید داڑھی تھی اور ہمیں کسی نے کہا کہ اگر تم آج دنیا میں اپنی کسی مشکل کو حل کرنا چاہتے ہو تو تمہیں فی الفور اس بزرگ کے پاس جانا چاہئے.دونوں نے خوا ہیں دیکھیں اور اتفاق کی بات ہے کہ دونوں اپنے کسی کام کے لئے اس احمدی کے پاس آئے تھے اور انہیں پتا نہیں تھا کہ یہ احمدی ہیں.کاروباری لحاظ سے ان کا کوئی تعلق تھا مگر ان کے احمدی ہونے کا کوئی علم نہیں تھا.تو ساتھ ہی کہا دونوں نے کہ آج رات عجیب و غریب واقعہ ہوا ہے کہ صرف ایک کو نہیں دونوں کو خوا میں آئی

Page 552

536 ہیں.ایک ہی وقت میں آئی ہیں اور ایک ہی طرز کے خواب ہیں.جب اس احمدی نے سنا تو حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر ان کے سامنے رکھی.دونوں نے بیک زبان کہا کہ یہی بزرگ تھے.اور کہا کہ ہماری طرف سے بیعت کا خط لکھ دیں.اور اس کے بعد یہ کہا کہ پہلے ہمیں ربوہ دکھا ئیں اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے حضور سے ملنے کے لئے پاسپورٹ کے لئے ش شروع کر دی ہے.یہ چند دن پہلے کا واقعہ ہے.تو یہ آسمان سے فرشتوں کا نزول دنیا کی ساری طاقتیں بھی اکٹھی ہو جا ئیں ، بند کر سکتی ہیں؟ نہیں کر سکتیں !! حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.مولانا صاحب ! 1974ء کے اسمبلی کے واقعات کے حوالے سے بہت تفصیلی انٹرویوالحمد للہ آپ نے دیا اور سوالات کے جوابات دئے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب: یہ اللہ کے فضل اور حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ ولانا الله بنصرہ العزیز کی خاص دعاؤں کی برکات ہیں.حافظ محمد نصر اللہ صاحب : یہ تاریخ احمدیت کا ایک بہت ہی درخشاں پہلو ہے اور بہت ہی اہم واقعات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بے شمار مناظر ہم دیکھتے ہیں.اس موقع پر یہ بتاتا چلوں کہ محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب 1955ء سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت پر ” تاریخ احمدیت مرتب کر رہے ہیں اور تاریخ احمدیت کا شعبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاری فرمایا اور مکرم و محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کو تاریخ احمدیت مرتب کرنے کی ہدایت فرمائی.حضرت خلیفۃ اصسیح الثانی کا ایک اعلان "سیدنا ا بالمصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ کا ایک تازہ پیغام.برادران جماعت کے نام کے عنوان سے احباب جماعت کے نام الفضل 10 دسمبر 1963 ، صفحہ 1 میں چھپا.حضور کا پیغام ان الفاظ میں ہے:.بسم اللہ الرحمان الرحیم.نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم وعلى عبده السيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر.

Page 553

537 برادران ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاته جیسا کہ احباب کو علم ہے مولوی دوست محمد صاحب شاہد میری ہدایت کے ماتحت تاریخ احمدیت لکھ رہے ہیں.الحمد للہ کہ خدا کے فضل سے انہوں نے اس کا چوتھا حصہ بھی مکمل کر لیا ہے.استاذی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بلند مقام اور آپ کے عظیم الشان احسانات کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ جماعت کا ہر فرد آپ کے زمانہ کی تاریخ کی اشاعت میں پورے جوش و خروش سے حصہ لے.اسے خود بھی پڑھے اور دوسروں کو بھی پڑھائے.بلکہ میں تو یہ بھی تحریک کروں گا کہ جماعت کے وہ مخیر اور مخلص دوست جو سلسلہ کے کاموں میں ہمیشہ ہی نمایاں حصہ لیتے رہے ہیں تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ اپنی طرف سے پاکستان اور ہندوستان کی تمام مشہور لائبریریوں میں رکھوادیں تا اس صدقہ جاریہ کا ثواب انہیں قیامت تک ملتا رہے اور وہ اور ان کی نسلیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ہوتی رہیں.آمین.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد خلیفة المسیح الثانی 4 دسمبر 1963ء مولا نا دوست محمد شاہد صاحب:.جزاکم اللہ احمدیت کا شاندار مستقبل ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب:.مولانا احمدیت کے مستقبل کے بارہ میں بھی خدا تعالیٰ نے وعدے فرمائے ہیں.ان کا مختصر تذکرہ آپ فرمائیں.مولانا دوست محمد شاہد صاحب :.میں بطور مثال کے اس وقت حضرت مصلح موعودؓ کی ایک

Page 554

538 تحریر عرض کرنا چاہتا ہوں.سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے 1944ء میں مصلح موعود ہونے کا دعویٰ فرمایا اور اسی سال کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ” الموعود ہی کے موضوع پر ایک پر شوکت خطاب فرمایا.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں اس خطاب میں موجود تھا.حضور نے اپنی اس جلالی تقریر کے آخر میں یہ اعلان فرمایا:.”خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں.دنیاز ورلگالے.وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لے.عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں.یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے.دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقتور قو میں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں ناکام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں.پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا.اور خدا میرے ذریعہ سے...66 حضور کے الفاظ ملاحظہ کریں! ” اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریم ﷺ کے نام کے طفیل اور صدقے ، اسلام کی عزت کو قائم کرے گا.اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہ ﷺ کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے.“ پھر آخر میں فرمایا:.میں اس سچائی کو نہا یت کھلے طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں.یہ آواز وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی آواز ہے.یہ مشیت وہ ہے

Page 555

539 جو زمین و آسمان کے خدا کی مشیت ہے.یہ سچائی نہیں ملے گی نہیں ملے گی اور نہیں ملے گی.66 بس ان الفاظ پر تو سارا مجمع جو تھا وہ نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:.یہ سچائی نہیں ملے گی نہیں ملے گی اور نہیں ملے گی.اسلام دنیا پر غالب آکر رہے گا.مسیحیت دنیا میں مغلوب ہوکر رہے گی.اب کوئی سہارا نہیں جو عیسائیت کو میرے حملوں سے بچا سکے.خدا میرے ہاتھ سے اس کو شکست دے گا اور یا تو میری زندگی میں ہی اس کو اس طرح کچل کر رکھ دے گا کہ وہ سر اٹھانے کی بھی تاب نہیں رکھے گی اور یا پھر میرے بوئے ہوئے پیج سے.“ واضح اشارہ تحریک جدید کے مجاہدانہ کارناموں کی طرف ہے.) یا پھر میرے بوئے ہوئے بیج سے وہ درخت پیدا ہو گا جس کے سامنے عیسائیت ایک خشک جھاڑی کی طرح مرجھا کر رہ جائے گی اور دنیا میں چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا انتہائی بلندیوں پر اڑتا ہوا دکھائی دے گا.“ الموعود صفحہ 211 تا 214 ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ) اب میں اس اقتباس کے ساتھ خالد احمدیت حضرت ملک عبدالرحمن صاحب خادم کے دو اشعار پڑھنا چاہتا ہوں.اختتامیه اس ذات کی جس نے محمد کو کیا پیدا قسم اس ذات کی جس نے ہمیں اس کا کیا شیدا یقیناً لشکر شیطاں شکست فاش کھائے گا علم اسلام کا سارے جہاں پر لہلہائے گا حافظ محمد نصر اللہ صاحب :.مولانا صاحب ! آپ نے اس انٹرویو میں بڑی تفصیل کے ساتھ

Page 556

540 الحمد للہ ہمارے سوالات کے جوابات دیئے ہیں.آپ سے اب آخر میں گزارش ہے کہ مزید کوئی بات بیان کرنا چاہیں تو ہم ممنون ہوں گے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب:.میں آپ کی اور ایم ٹی اے کے آفاقی نظام کی وساطت سے دنیائے احمدیت کے تمام بزرگوں اور عزیزوں اور شمع خلافت کے پروانوں کی خدمت میں ازخود کچھ کہنے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حسن و احسان کے نظیر اور بانی خدام الاحمدیہ سید ناو امامنا و مرشدنا حضرت مصلح موعودؓ کے اس خطبہ کا ایک انقلاب آفرین اقتباس رکھنا چاہتا ہوں جو قیامت تک کے لئے ایک زندہ پیغام ہے.یہ وہ خطبہ ہے جو حضور نے مسجد اقصیٰ قادیان میں ارشاد فرمایا اور یہ پہلا خطبہ ہے جس میں آپ نے مجلس خدام الاحمدیہ کی اہمیت اور اس کی حقیقت کو واضح کیا ہے.یہاں پہلے حضور نے حضرت طلحہ کا ایک واقعہ بیان فرمایا.حضور فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ ایک بہت بڑے صحابی گزرے ہیں.ان کا ایک ہاتھ لڑائی کے موقعہ پر شل ہو گیا تھا.بعد میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جو جنگیں ہوئیں ان میں کسی موقعہ پر ایک شخص نے طنز ا حضرت طلحہ کو لنجا کہہ دیا.حضرت طلحہ نے کہا تمہیں پتہ بھی ہے میں کس طرح لنجا ہوا.پھر انہوں نے بتایا کہ احد کے موقع پر جب رسول کریم ﷺ پر کفار نے حملہ کر دیا اور اسلامی لشکر پیچھے ہٹ گیا تو اس وقت کفار نے یہ سمجھتے ہوئے کہ صرف محمد (ﷺ) کی ذات ہی ایک ایسا مرکز ہے جس کی وجہ سے تمام مسلمان مجتمع ہیں ، آپ پر پتھر اور تیر برسانے شروع کر دیئے.میں نے اس وقت دیکھا کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں کوئی تیر رسول کریم ﷺ کے چہرہ مبارک پر آکر نہ لگے.چنانچہ میں نے اپنا بازو رسول کریم ﷺ کے منہ کے آگے کر دیا.کئی تیر آتے اور میرے بازو پر پڑتے مگر میں اسے ذرا بھی نہ ہلاتا.یہاں تک کہ تیر پڑتے پڑتے میرا بازو شل ہو گیا.کسی نے پوچھا جب تیر پڑ رہے تھے تو اس وقت آپ کے منہ سے کبھی اُف کی آواز بھی نکلتی تھی یا نہیں.کیونکہ ایسے موقع پر

Page 557

541 انسان بے تاب ہو جاتا اور درد سے کانپ اٹھتا ہے.انہوں نے کہا میں اُف کس طرح کرتا.جب انسان کے منہ سے اُف نکلتی ہے تو وہ کانپ جاتا ہے.پس میں ڈرتا تھا کہ اگر میں نے اُف کی تو ممکن ہے میرا ہاتھ کانپ جائے اور کوئی تیر رسول کریم ﷺ کو جا کر لگ جائے.اس لئے میں نے اف بھی نہیں کی.دیکھو 66 یہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں، وہی مصلح موعودؓ سے اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ ملت کے اس فدائی رحمت خدا کرے وہ خدا کا شیر یہ پیغام دے رہا ہے:.دیکھو کتنا عظیم الشان سبق اس واقعہ میں پنہاں ہے.طلحہ جانتے تھے کہ آج محمد ﷺ کے چہرہ مبارک کی حفاظت میرا ہاتھ کر رہا ہے.اگر میرے اس ہاتھ میں ذرا بھی حرکت ہوئی تو تیر نکل کر محمد ﷺ کو جا لگے گا.پس انہوں نے اپنے ہاتھ کو نہیں ہلایا.کیونکہ وہ جانتے تھے اس ہاتھ کے پیچھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ہے.“ اور فرمایا:.اسی طرح اگر تم بھی اپنے اندر یہ احساس پیدا کرو، اگر تم بھی یہ سمجھنے لگو کہ ہمارے پیچھے اسلام کا چہرہ ہے.اور اسلام اورمحمد د نہیں بلکہ ایک ہی ہیں تو تم بھی ایک مضبوط چٹان کی طرح قائم ہو جاؤ.اور تم بھی ہر وہ تیر جو اسلام کی طرف پھینکا جاتا ہے، اپنے ہاتھوں اور سینوں پر لینے کے لئے تیار ہو جاؤ.پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارے ممبر کم ہیں.“ اس وقت لازمی نہیں تھی یہ تحریک خدام الاحمدیہ ) ہر شخص کے لئے.فرمایا: پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارے مبر کم ہیں یا تم کمزور ہو بلکہ تم یہ سمجھو کہ ہم جو خادم احمدیت ہیں، ہمارے پیچھے اسلام کا چہرہ ہے.تب بیشک تم کو

Page 558

542 خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسی طاقت ملے گی جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکے گا.پس تم اپنے عمل سے اپنے آپ کو مفید وجود بناؤ.غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرو.نہ صرف اپنے مذہب کے غریبوں اور مسکینوں کی بلکہ ہر قوم کے غریبوں اور بیکسوں کی.تا دنیا کو معلوم ہو کہ احمدی اخلاق کتنے بلند ہوتے ہیں.“ و مشعل راه جلد اول صفحه 30-31) حضرت مصلح موعودؓ نے درد بھرے الفاظ کے ساتھ جماعت کے نونہالوں کو اور خدام احمدیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:.کام مشکل ہے بہت منزل مقصود ہے دور اے مرے اہل وفا کبھی کام نہ ہو حشر کے روز نہ کرنا ہمیں رسوا و خراب ہو پیارو آموخته درس وفا خام نه ہم تو جس طرح بننے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں سلسلہ بدنام نہ ہو

Page 559

543 حضرت قلع الرخام الاولياء الحدين و الفتها الشارخ حضرت عالی ماوالے جہاں مخدوم البل ماع العالم خانی و استان صاحب گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کی وفات حسرت آیات پر ت ۹۲۲ حضرت سولنا جی 4 زمانہ نے دیا اسلام کو داغ اُس کی فرقت کا نجوم رنج و غم جوش بنائی مد نہیں.اب ہم کہ تھا دریغ علایمی جن کا تمغائے مسلمانی سرا پا دل نہیں یا چشم ہی یہ سخت حیرانی زباں پر اہل ا ہوا کی ہے کیوں آغل تقبیل شاید خوشی کیا اب کسی غم کی بھی گنجایش نہیں دل ہیں اٹھا عالم سے کوئی بانٹے اسلام کا ثانی غم جانجا و جانان کر رہا ہے دل کی دربانی ملکہ کس بے آبادی سے صحرا کو کیا مسکن نہ آئے کس طرح اُن غمزدوں کے حال پر ہونا چمن سے دشت اور گھر میں ہے دیرانی سی یرانی کر جن آفت زدوں کی درددل کرتا ہے درمانی وہ صحرا دیکھنے سے جسکے گھر یاد آرہی جاتا تھا اسید مرگ پر جن کا مدار زندگانی ہو اب اُسکو یاد دلواتی ہے میرے گھر کی دیانی ہے قابل دیکھنے کے اُن کی مایوسی و حیرانی کہاں لوئیمیں کہاں جڑمیں کہاں دل کھو کر رہ ہمیں نہیں ہے سینہ مجروح کم گنج شہیداں سے جگہ خون کرتی ہے دار فا کی تنگ میدانی منائیں جو تھیں دل میں ہوئی ہے سبکی قربانی کف افسوس ملنے کی ہو ہا تھوں کو جب ملت امیدوں کا ہوا ہے خاتمہ یک سخت ہجراں میں کریں کا ہے سے پھر زخم جگر کی ہم مس رانی جسے طول امل سے بھی الم نگلا یہ طولانی

Page 560

544 گالی نده و سمجھنیا دو شاہ جی نے فرمایا : جو کچھ کہتے ہو مجھے سمجھا دو.گالی سے انسان قائل نہیں ہوتا.میں امیر نہیں تغیر ہوں.میں صرف سچا ہی ہوں ، اللہ کا سپاہی ، رسول کا سپاہی.اسلام کا سیاسی ، آزاد می کا سپاہی تمہارا سپاہی اور جب تم سمبا دو گے پھر مجھے تنہا چھوڑ دو.تب میں سانوں اور میدان جنگ جانے سپاہی میرت به تهران میرا بہ بنا کام میرے ، قید ہونا پڑے یا تختہ دار پر ان کا نا ہو.تم مجھے ہر اول دستہ پاؤگے.گالی نہ دو تمہارے یا تو خوش نوائی کے ساتھ) میری تنگه بی نون کنشگر به امادست 1 ہے توں میری اور دیکھنی.ایک شیر تھا جو گونج رہا تھا بھار میں ت چوک رنگ محل للمو

Page 561

545 Jadis Wins Freshom said while it did not into my principle, is teringat smat clearly the undicatif federalism in the fuLEST Sardar Patel asked whether the Central Com would he restricted to three subiects alone.He said that there were emai afety live currency and france which must lisanslee nature of the un the General aphones He old that trade us falpstry could develdly on no all-India basis and the same ding to teneral policy.I have to reply to tion Cand po panties and end Strdar Patel.He o de Cue eu questions prsial panton as had wood k in the's our intrest wifed polley in the mon therefore in that my fees art be included in the commalsory fista Cennest rohjes The Meska agar had for first we pape Fata in fluuium Thilates unease be known the Pista Revolusi The solution waggeted intrud meet the Fras id the Muslim League.Now that I had discussed naw sheme with my collar o monken of the Cabina S if the time had car tu plase in infurt in contry.Accord ingly on 15 April 1945, I said staat daling with the devf Mulia and Now that dir das em ou The and ten years have pairs.I agilenke the shine and fed that syang hanes and has ac a codes my considered view the problem, I feel should aute it.This is what lion of the i den and would I have com a eving joita Palagic Medine Long Anda.I bave INDIA WINS FREEDOM An Autobiographical Narrative of MAULANA ABUL KALAM AZAD sara ilawal in Harlier agon the fomunes of Mes Cite when inte avea nu dievnadlakan thaithai ir lie as a whole laat separ – Such, a divisionĀDAS Apar epudiation of opinion oncogul.co urthertai this Shin fibi ina wale soulmad broken wir mes spažally with the rich a – Lovew, un clay and active all mablag macary vilstice site in the admin.The recitive dining ORIENT LONGMANS CALCUTTA MADRAS NEW DILJI urbanist, the dural for Pa for pied for at give up my right can be wwf and share in comm ich w is y pary and myself with diy Mr Ja's Unkäsuna schermo pling of its pull cical unire in the up it.BOMBAY al wa and Dr.Is this that India coctum may als elip duties.Of the ter major wake.Qe Stili pralnia Beats.Lange wise to Sir.Jinch chat Elinth and Male cidugi dands of dialled Strin na regalie that this in no way aged eerpunte ark Twain on Mr.Jinal condutther i By taxle, village and com, na he, therface, deim that they I am pacpand te verlier all her sports a the probadan anal, j'ai lyge it front the grains view of Mali golf and my tit way beat Sauli waktos open be shown that the uw of Pakistan Gan in any I would ac prepared in my fa by the truth is that we Bears hazed us to that it can i un vay beacht thegallay'in pitie kan Leader dispasionately into the Pakistan uses which will wille ideal into state iny Maltheather of Hindus.In the Hil Square will win 3 ones of Bastiens catirred in sil all over the end.With per ca.12.in siecy will be read than they say the H majority prices.Tay have had their lands in here is fin anota dinand built upwelwaren al Mulle m and edilization these.They will an night driver that they lave become

Page 562

546 ہندوستان اسان میری زندگی کا ایک نیا حصہ اور دو سے تعلق رہا ہے جو تم اسیری می افتی زندگی بھر شامل عدالتوں میں جھونے میں ہے تھے جب میں کہا تو بارالپنڈی کیا.اطلاع بی ام کرتا ہے اس لئے میں ہو سکتا ہوں کہ میں مرے فریم میں مڑے ہوئے اس نام سیاست خود را تھا کہ ہے اے شیل ڈسٹرکٹ بیٹریٹ کی.اند در این ارده وام مستقلیل تشاندار سی سی کا ی این این امام و ان دونوں ان میں سے ایک سوال کے مالک اور فوڈ ایک اور د ناسته چند داستان ها یا بولی جاتی ہے علوم پر گائوں کے دل ایک ایک سیاسیا پیش مریم نے اپنی بیماری کا سرٹیفیکیٹ اور مال استان اس کا یہ مانا اور کہنے والے کرو یہاں کی نگدار کریں مجھے تو کیا ہم انہیں استعمال کر رکھی ہے ؟ کی میزاری کا یقین آیا اور آپ خود ہ نے بیان کیا پاکستان نے ان میں کرایا اور ہم ایک ایسی زبان ہے جس کے کون آن آیا ہے اس کی نہ بات کس طرح کوئی اور دیکھا کہ ملزم اپنے کاروبار میں مور اب ملک کے مشمول ماں کو موم کہتے ہیں اور وہ سے دوا لیے ناک کے کسی حصے میں جا کر نہیں چاہیئے ، اس کی میں مقتل ہونی چاہیے.آدمی نے ملزم کو اپنے ساتھ لادیں نبھایا اور چاہئے.اور استان که می توان این اکرای وان امنیت انہیں نہیں ہوتی.یاسی پامال کرنا ہوگا وہ کیا سیا ستائے ہسپتال میں جائے جہاں کو واگرا مات اکانادا شدہ تان کے مسلمان مند دوستان میں مد و زبان کی کیفیت کی ہے اور پینے کے لیے آیا ہے یا اس کو تو ان طلب تورم یار نہیں.اس نے بی کیٹرین ماهان استار است ایران اور پیپ بہتی ہے بیاں ہندوستان کے کانسٹی ٹیوشن سا کام کیا.ان تیتر اسیا نام نہیں چاہئیے دینے والے ڈاکٹر کے پاس پہنچے اس خیال کے دائیں اور اسرار کرنے کے لئے تیار ہیں بلکہ ایک زبان کے مو جو د ہے.مہنا دوستان کے هستره تر باسعار ماه به میان این دعا و نیت کرنے کا مشورہ ریاض کو اکٹر نے ہوں تو پاکستانی وتی دایر سلام کیا مانا انی ات برای فرمان می کار ماہ کے اور اس کی آنکھیں کرنے کا راستہ ہونا چاہیے ان اسپانیا و یا مادہ امام مہینیاں اپنے کرا ال پیش شکلا نے کی تلقین کرتے رہتے ہیں.سریہ جات کے کا شوق ہے اور چاہتے ہیں کہ اب میں نہیں جاگا تھا کھایا گیا تا نت و این یک متری کرانے جو ہوا ہو یہ تھا کہ پرستان و ان ساری کے من میں بیانات دیتے رہتے ہیں اور جائیں کیا وہاں کے بوقت منی کو پا ستاتے ہی نی ہو رہی ہیں وہ ملزم کے دونوں مندی ا گریت وال نے کے پانی لینی ہوئی ایک بند رہیں ایسا سیاروں میں کہ اسے ان کے پیش کر یں اور ان ایر پانی میں ان کی با بیان این این فریب این مال میں جائے گا امداد سینے کے کا پانی په برام پاکستان علامت کی کہنے کی جرات ہو مگر ان بیانات اور امریت کی جائے کیے کو میں لوگوں کو مان مردان خدا مانینگ اسپرٹ کی اسدیان کے ہونا میں پایا تو داستان اس کو اپنے اور یہ تقریروں کی موجودگی میں میں کوئی صوبہ ایسا نہیں کی مخلوق کی خدمت انجام دینا ہے وہ یہ ہوا خانوں کو بھی میں جانا ہے.لانا بدرستان کی تری کو یہاں کہ اسی کو شانے اور اس کو موت کے گھاٹ گوا کو ردی کے پہلے سے سے زیادہ حیربیت دینے بار التوان ای ام در پست ها این اے سے بات کرناہ نے کی سرزیم کو ششیں جاری.اور جنات کے سے تیار ہیں.میڈیکل سر فلیٹ میں کئے جانے شهر و اس وقت وہ شام کے بلا شرکت بی پنجاب کی عدالتوں میں بے زبان جاری الی را به انیان مرات مائل کرنے کا الہ باہت کی حالت میں جانا چاہا اور کسی بھی اور ے کے کیا ہے اور یہ واقہ ہے کہ بو لای لایت کا منی نہیں شدید کہ عدالت کی حاضری سے

Page 563

547 N The Vatican.Islam, and he Middle East Edited by Kail C.Ellis with from reading.) The balance was ther posing apina valac roof d C At Puku tegen in mudy the Scriptions, wi in of their shah began is he recried for ca с прек abang it in The lid winks fomnogi Bezpilde, dj aping of the Big Aracking in Brand in these de Holmes When once the call run iae from the We Se prod is the be ki Medan Ma sobe in splasheraer the driving age of shine Bowie with you.You The Fi and of nationwimpact.In hoc Chound them there d least as populice.The |rinderyal, munden audaces they have of and on Loppau sould ad Balf the earth cofriend the wine and is ong The aim of the school wegarded by Gi and how Chaty in Palman.When thin had the sign of a young scy church helais peshape Mam virmers was the amcapture el pep for (wo separate in THE Ubers of on and child verg tog In the woke this folkved caniges põsed i Crocanal eligis lunes, indicing achingly the Madenciled with beeves The local churel was we longe a foran plan and its post from the will of Bestick that she cipel disappoin The Tek Alead yance on akan ha bem dos first Pak China, aga misyan of Pha, and datgen end, that sine ninetenine perni al the Gra population of aan de acknowledged as equal and third in the Clefilm of Palike every ellin so be fully insegrain into the on- ala presens form and gen is present way of e.Contempo tgh the win minorities in der kandi fregal.In a few ream, shh spread sa wher parish and in groeps.Priess and relicious given to the kind of spontaneous prayer were both red and be the on cot Sound Be T The digital bicingsfund dos evil that competed the Pope's L pla y

Page 564

548 М Син The Committee ro-assembled after broak, Jr.Chairman in the chant.The loves be closed.the Chairmans us.The Horny Girl Delegation entered the Chamber) اتارنی جنرل مرزا صاحب ! کیا مرزا غلام احمد کاتب نے یہ کہا ہے بارانی خلافت کے جھگڑا جوڑدو ، اب ایک نئی خلافت لو - ایک زنده علی ا مرزا غلام اسد) تم مین مرام ے ، اس کو تم چھوڑتے ہو اور ایک علی کر ( مقولات العديد ، جلد اول، صفت (۳۱) مرزا ناصر احمد مرد: علی کی وفات یافته این نان ؟ اٹارنی جنرل وا تیر آپ جو بر را تاثیر احمد مرده علی کہنے میں برین دراد در سن ، بلکه اس غالی شیما کو تو آپ کا منا تھا ایسے غل اور قوم کے نقصان دہ ریستان کی ارف تريد دلاتی که وفات یافت بزرگوں کو تو ان کے سلام سی بنت کیا جاتا لیکن جو خدا کے سلچین باندن کی پاتی ہے.پہلی امتین کو بنی اسی ریحان نے ایسے رجحانات است سل کے لئے نقصان دہ ثابت کوٹے میں ان کی نقصان پہنچایا کے اب ہونی حضرت علی کی اعلی سیرت قابل اقتدا وجی کے استمال آپ نے فرمایا کے ي ان خون کو پہنچان کر جن بزرگوں میں جات پائی جاتی ہیں ، ان کی بھی کرو - بنادیت اپنے آپ کو اس سے زیادہ اس کا کوئی مفہوم نہیں - جهان سلسله اسدین کے دل میں آپ کی عامت اور زنده مثال کے کا تعلق ه دارت بانی آپ فرماتے میں الله عنا -------- انسان رشی تو اس میں حضرت علی کا بنا نظام اپنے تاثر کیا ہے.تو دوسری جگہ کیا ہے.ایس لے کو اپنے کام از میان رسیان سے نکال کر ، اس کے خلاف سنتی درست نہیں الین 266.

Page 565

۳۲ 549 برزا نادر احمد به علامه برای تایر شهمه عالم دین بڑے مشہور پرانے زمانے کے عالم نوعی ان کی ہے ٹیک کاپی اندیا آنس ریکارت اصل میں یہ جو سارے اعتراضات بین نرسیده یرانی تو اس سلسلے میں یہ نظریاتی کتی تھی اب ان کے اشعار آپ سنتے.فارسی اشعار تر نهان مد حسین باد و گرنه صحرائی د حسین کے تو ید شیب حضرات کا ایک محاورہ میں ے جو محبت کے اظہار کے.عالیت کے الہار تحقیر و تذلیل کا اخبار کیلئے نہیں اٹارنی جنرل - بترا میں تو مرزا صاحب ایک چیز اور یہ کہہ دینا کے مد حسین است در گریبانم - مرزا نادر اسد اٹارنی جنرل سرا مادر است شرين کشته در از گوشه صحرائی من اٹارنی جنرل پڑ لینے آپ.جهان تک جناب حضرت امام حسین رضی الله تعالی اور دوسری اصل حت کے الزام کا تسلق کے پئے لگا وہ اثر کے اقدار کے بغیر چارہ نہیں کہ جماعت احمدیہ کے مسلسل یا انسانی کا یہ طریقہ اختیار کیا ہارتا ہے کا محضر باني سلسلة احمدية پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ہر رنا میں ان اقتباسات کو پیش کیا جاتا کہ خود بادی سلمان کی واضح رت موجود خوشی کے نقد دار الزام میں جناب جنيرس - یہ آپ لکنا تردید این مرزا ناصر احید اٹارنی جنرل ***¿ª explanation 269

Page 566

550 جامعه سیرتی ہے.اس طرح کتاب مشکرہ کا حوالہ ہانب ظلم ہے.(عربی) ایسے لوگین ظلم نہ کرنا یہاں اللہ کرنے والے کا ذکر ہے دو شخصی فلم کرنے والا کے ان میں ملاتا ان کو درست ت کرتے الین وہ صرف بدائرہ اسلام سے ان تا ہے.جو گناہ کی وجہ سے خارج نہیں کیا جا سکتا.ان کے متعلق حضرت صلی الله عليه وسلم کے زمانے سے کفر کا لفظ استعمال ہوتا میرا اور سات کی یہ ہوتا ہے کہ تم مسلمان عو - ایک می وست مین قرآن کریم نے فرمایا اے (عربی) دیہاتیوں کو جنہیں زیادہ تربیت کا موقع نہیں ملتا وہ کہتے ہیں کہ شمارے ایمان ہیں یا نہیں هم سلمان مین گیرنکه ایمان شیار داری میں داخل نہیں کرا.بیا جگہ فرمایا ( عربی ) سلمان کہیں گے.کنویں کے باربرد اینان دل من داول اب میں مخلصی کا کرتا ہے جو اللہ تعالی کی راہ پر اپنی دو چیز قربان کرنے والے اور ایسا تره کا سردار نے (عربي) حضرت صلی الله عليه و سلم میں جن نیاں سے قرآن کریم نے یہ نکلرایا.سلمانوں کے سردار کا مقام سیب ہے.ایک کرو مخلصین کا اور دوسرا گروہ اس قسم کا مسلمین جہاں خلتیں کی به حد انتم خوشی سے.275

Page 567

ता 551 اٹارنی جنرل ایک تر و لوک در مرزا غلام احمد صاحب کو نبی نہیں مانتے اتمام حبت کے بعد درین مرزا ناصر احمد نین حضرت مرزا غلام محمد صاحب کر نبی نہیں مانتا لیکن ره آنشرت.الله عليه وسلم : لکو مسلم ہی نہیں سکتے.اتارنی جنرل ضریب جی رہا کہتے ہیں کہ آخری نبی.ان کی interpretector کے مطابق.مرزا ناصر احمد ان کی in the charter کے مطابق میں تو یہ کہا اون که کدینار ا وہ شعر کے جو خود کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی.منسوب کرتا س او کسی دوسرے کا من نہیں ہے کہ اسکر غیر مسلم قرار دے.رة سلمان اتارنی جنرل.آپ اسکو مسلمان سنتی این این صنفی میں یہ نہیں کہتے کہ سلمانی کا دعوی - کرتا ہے.مرزا ناصر احمد (عربی) اسے بجھا ہے تو آپکو پانی کئی تون دھری کیسے کر سکتا - نین دل چیر کر دیکنے کین اتارنی جنرل ایک ہیں آپ براون کا.دال کے مرزا غلام احمد صاحب کے بارے میں - بشیر احمد کاتب مامزاده بشیر احمد حاسب - ہ کہتے وانب اور بھی نہیں وقت اس بات کا خیال کیا کہ دم برنا ) مسیح موارد) یعنی مرزا غلام محمد قادیانی کہیں میری تحریریں سے غير ان سلمان کا سل لوگ د حركة ند کنائین - اسلئے آپ نے کہیں کہ من بدور ازالہ اندہی کے خان ایسے الفاظ بنی بر اسلام کا دعوی کرتے ہیں #4 ہاں کہیں بنی * سلمان کا لفظ جرا ان سے بدنی مسلمان اسلامی سمجھا جائے کہ لیتی مدان ہی یہ ایک ایسی بات کے کے عبارت مرزا غلام احمد صاحب نے جہان کہیں پکی غیر العيون 278.

Page 568

552 رام الان تمام مسلم کہکر پکارا کے یہاں یہ سالب کے کتے یا اسلام کا دعتی کرتے میں وقتا آپ حکم الہی اپنے مفکرین کو مسلمان نا سمجتے تانے ناشتد النقل رسالة Kether relirions جلد ۱۳ صفحه ۳ - پار آگے ۳۱۳۷ تھا مرزا ناصر الخط - یہ چیک کریں گے.آج صبح ہی دیکھنا کیا کہ اخبار پانی نہیں پانی نہیں تھا.اور یہاں آگیا چیک کریں گے.سوالة كه مزا غلام احمد وان اب میں پرانی ) Aaj پر آریا اتارنی جنرل نے کیا یہ کہا ہے از دیکتر که آج تم میں ایک برای صبح سے بڑا شکر ہے.ایرانت میں سے صیح صبح سے تا کی یاد میں مست بڑھ کر ہے اور نہیں جانتے یتا تو پہلے ابن مریم ایک عاجز انسان تھے.اگر بنا پائے تو عیسی بن مریم کی مانند 7 یت امرینی برانکر بہتر جیسے کہ اس نے کہا ،، اب غدا بتانا نے آدمی پیدا کر دے اسکا ثانی پیدا کرونگا جو اس سے بہتر اور جو غلام اسد کے یمنی احمد کا غلام - دید ابن مریم کے ذکر کو چھو.ان بهتر غلام احمد کی رزا ناصر احمد نے یا حوالہ کرنھا کے 9 اتارنی غزل یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ راتھی دیں اور اگر تجربہ کی رو سے خدا کی تائید ابن مریم کے ہرا کر گرے سات نہ سر تر میں جارنا رحنا..ر دانج البلا اشته ۱۳ - ال ۲۰ ) quotations so ار پر آئے کہتے ہیں.مرزا نادر اسد : دافع البلا کا صفحہ کرنا ہے اتارني بتقول - Ir دو کو نیتیں تیں ان کی پتر آئے.کا رشت سارے نبی اکرم علی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گزر کیا.انے اردی فتح پانی رہتی کہ پہلے طلبا سے بہت بڑی اور زیادة لامر ہے.او شد سی مرد کا ریت کی - ابن دارج کیا خدا تعالی کے اس قول میں اشارہ سے ، سبحان علی الربح - يا سيرت البار : ١١٠ 279

Page 569

(عربی) 553 (The Special Committee re-assembled at 6.00 PM, Me, Chiran Sahibzada Farooq ali, in the chair ).Hr.Choirman: Yes, the attorney-General.Attorney-General: are you ready with some repliest مرزا ناصر شد: ایک میں کتاب یا بنے تو تذکرة الاولیا ریهان میشود کے ماتم نے اٹارنی جنرل : تذكرة الاولياء ---- مرزا ناسر اسد ایر ایک ارشاد رسانی - پل لائبریری سے لے آئین کے بند پاتی برش این را این من میرزا ناصر احمد : تان تان ایک یه سوال تا که بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ فرمایا ہے E وشتنا مابین والضرر کہ میں اور تھنا نوع العین میں بہت فرق ہے ،، یہاں حسین کم " " ام کی بر اہی کے ید کے یا اس مطلب دو ظاہر کرتی ہے ار به دو نام کے راندران مرکزن کا ذکر دام بڑی نایت کے بانی کے جو عمر سین کا شرک تر دیتے ہیں اور ان سے دعائیں مانگتے تنی اپنے آپ کی سین کے متلی یا درون دے بلکہ یہ کی کہ جو تصور تم حضرت حسین او را درست نہیں کے مارت سکن کے متعلق میں نے پانی مسلسلہ کا ایک اقتباس پڑھا ہے.بتانا نے دو ، تارا اتارنی جنرل : د میں بھی آپ نے ایا تا به جز ریفرنس سید مین از تمنا ہے فرع الصين میں سے ہوں کیا تانه ت ا را ، خون جمعے میرا باران شان کی شہر بتائے کی بار اس کا کیا مطلب ہے تھا.کو اب کیا کیا تا را ارام میں مختلت میں میں پانی کے رہ نہیں پاتے ہیں اسی علم میں ر لی ، کم ، کا ہم نے دینا کے مراح دیا کے مین 289

Page 570

554 على كا لبہ شعیب مینل کراچی فون ۳۶۰۸۹

Page 571

555 علم کلام مرزا ۶۴۰ قُل إنما أنا بشر مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى انا الحلمُ الهُ وَاحِدٌ ( ع ) اے پیغمبر کہ دو کہ سوائے اس کے نہیں کہ میں بشر ہوں میری طرف وحی آتی ہے کہ تمھارا معبود ایک ہے " مگر مرزا صاحب کے علم کلام میں خدائے احتدا در حضرت احمد میں فرق نہیں ملکہ در اصل دونوں ایک ہیں.چنانچہ آپ کا شعر ہے ہے شان احمد را که داند جز خدا وند کریم آنچنان از خود جدا شد کز میاں افتاد میم ( توضیح مرام صلا) (ترجمہ) حضرت احمد کی شان خدا کے سوا کون جانتا ہے.وہ ایسے ہیں کہ اپنی ذات سے جدا ہوئے ہیں درمیان میں میم آگئی ہے یہ یعنی احمد در اصل احد ہے.احد سے جدا ہوا تو درمیان میں ٹیم آگئی.مرزا صاحب نے ان دو شعروں سے یہ عقیدہ اخذ کیا ہے جو پنجاب کے جاہل فقیروں کا قول ہے ے (۱) احمد احمد و چ فرق نہ کوئی ذرہ اک بھیت مروری دا دہی جو ستوی عرش تھا خدا ہو کر اتر پڑا وہ مدینے میں مصطفے ہو کر ناظرین! اس مشہر کا نہ تعلیم پر کہا جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے جو تو..سکھائی ہے پہلے نبیوں سے بڑھ کر ہے.چوتھا مسئلہ خود اپنے حق میں الہام بنایا یہ انما امرك اذا اروت شيئا ان تقول له كن فيكون (اصل حقیقہ اومی بشنا) " یعنی اے مرزا تیرا اختیار ہے جب کسی چیز کا تو ارادہ کرے تو اسے اتنا کہہ دے کہ موجود ہو جا پس وہ ہو جائے گی " اس الہام کی گویا تشریح دوسرے مقام پر یوں کی ہے.اعطیت صفة الافتاء والاحياء من الرب الفعال (خطبہ الہامیہ

Page 572

556 واعتصموا بحبل الله جميعا ولا نعرف.منهاج الفرقة الناجية والطائفة المنصورة على ضوء الكتاب والسنة جمع وترتيب محمد بن جميل زينو المديرين في دار الحديث بمكة المكرمة ن علامة الفرقة الناجية ة - الفرقة الناجية هم تنة بين الناس ، دعا لهم الرسول صلى الله جنيه وسلم بقوله: طوني الغرباء : أنام صالحون ، في أناس و سوه بخیر ، من ينسبهم أكثر بمن يطيعهم وصحيح رواه الحمد.ولقد أخبر عنهم القرآن الكريم فقال مادحاً لهم : و قليل من عيادي الشكور : ( سورة سباء - الفرقة الناجية يعاديهم الكثير من الناس ، ويفترون عليهم ، وين الزرتهم الأكتاب ، وضم أسرة بالأنبياء الذين قال الله عنهم : د وكذلك جاملنا لكل في عدوا شياطين الإنسر والجزر ، يرجى يفهم إلى الغير اعتراف القول غرور..سورة الأنعام : و ملا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال منه نوسه (ساحر كلاب) سينما دعام بان التوحيد، وكانوا قبل ذلك يسرته الصادق الأمين.هذه بمفر مناهج وعلامة القرنة النتاجية ، وستكلم في الفصول القادمة من هذا الكتاب عن عقيدة الفرقة التاجية ، والطائفة المنصورة لتكون على عقيدتهم إن شاء القد.

Page 573

557 PAKISTAN TIMES HORE, TRIDAY, COOBER - STAWWALIMUXARRAM, A Ramay for annual municipal elections "FROM OUR RAWALPINDI OFFICE OCTOBER 26: General elections will be held only after the present Government has served its full team, resent, be le closed that his Govered asked the Tea Com pucace de pora of cecioral rolls to he Fch cod of Fury in Exc elections teile acal heat in April Uv ite resee the mis ac to Twas stated by in un bure there swald be a galaman due at th Chwald while rebe no incial Gover Pring nevreme is the cont the local about se face à la 'er the Brows webe ser af elodies Me Ray sized, erabis of anal tribe lion would he held bedend at should be she held summary all the local bois electicas rend the trials of gas of want part scheduled for early next Aarif countries.This metize won cularly the recum sint However, be added Pero help me lership bomb all would rathen like that and acedes the process of on The Common, and e 44 carina e leis and facces ale the bias is of the tow the seven boral destin ocre overs from the WP- the bay is Governocal to avert delica of the ra em Sargodha jang members of a minoney cou y the vidit, le Mavata that the stren takes by him acials ahould see but to hose retounsible for theme of law and anor Govonumes was com mitted in chle seats at the Lonly the P

Page 574

558 MACMILLAN'S NEW ENGLISH READERS REA ER I KING EMPEROR GEORGE VI MACMILLAN AND CO., LIMITED ST.MARTIN'S STREET, LONDON CALCUTTA, BOMBAY AND MADRAS 1943

Page 575

CHRIST 559 OR MUHAMMAD.On whom will you rely? مسیح یا محمد او زیانہ ك حول محسوسا ينظر في شائع هوا د عادل ١٩٠٠ء قیمت پائی C.L.8.LODIANA

Page 576

560 میسج یا محمد آپ کین پر بعر و سد کرینگے ؟ و مسلمان اور سیمی بہت سی باتوں میں تعلق میں دونوں تسلیم کرتے ہیں کہ خدا ایک اور اسی کو تمام بنی آدم کا خالق اور پیدا کندہ مانتے ہیں.اس امر میں سچی اور ندی بالکل ہم اعتقاد ہیں کہ آدم اور حوا نے شیطان مون سے فریب کھایا راپنے آپ کو گناہ کی آلودگی سے آلودہ کیا.خدائے تعالیٰ نے بہت سے پیغمبر اور دی دنیا میں بھیجے تاکہ لوگ نیک و بد میں امتیاز کرنا سیکھیں.چنانچہ حضرت ابراہیم - یوسف موسیٰ اور حضرت داؤد وغیر ہ اسی غرض سے دنیا میں آئے.وں کی معرفت اللہ جل شانہ نے توریت (شریعت اور زبور (مزامیر کو نازل فرمایا آخر کار اس نے یسوع مسیح کو بھیجا اور اس کے وسیلہ سے انجیل (خوشخبری) تمام آدمزاد پر آشکارا کیا.یہ سب باتیں تم محمدی اور سیحی قبول کرتے اور تے ہیں.لیکن ہمارے محمدی بھائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے

Page 577

561 بعد حضرت محمد صاحب مخدائے تعالے کی طرف سے پیغمبر ہوکر تشریف لائے.وہ خاتم النبی اور تمام انبیاء سے بزرگ وبرتر میں انہی کا دین سچا دین ہے اور اسی دین کی تقلید و پیرس سے نجات حاصل ہو سکتی ہے مسیحی کہتے ہیں کہ یوں نہیں بلکہ میں صبح سب سے برتر اور خاتم المرسلین ہے اور اسی کے وسیاہ سے نجات حاصل ہو سکتی ہو.اسلئے مسلمانوں اور عیسائیوں میں اصلی تفاوت اور اختلان ایسی بات میں ہے کہ عیسائیوں کے نزدیک مسیح اور مسلمانوں کے نزدیک محمد صاحب نبی آخر الزمان افضل الانبیاء اور نجات دہندہ ہیں.مناسب بلکہ انس ہے کہ ہم دونو کا مقابلہ کریں اور جوان میں سے بڑا اور فلس ٹھہرے اس کی پیروی اختیار کریں اور اس پر ایمان لاویں + پہلے ہم دونوں کی پیدائیش کے باب میں غور کریں.ہم جانتے ہیں کہ محمد صاحب کے والد صاحب کا نام عبد اللہ اور اُن کی والدہ صاحبہ کا نام لینہ تھا.اور اُن کی پیدائش اور لوگوں کی طرح اور حسب معمول تھی.اور ان کی پیدایش کے وقت کوئی عجیب و غریب بات وقوع میں نہیں آئی.اُن کی پیدائیش کا حال بالکل اور لوگوں کا سا ہے اور مدت تک اُن کی بابت کوئی عجیب نشان کہیں بیان نہیں کیا گیا.آخر کار چالیس برس کی عمرمیں وہ کہنے لگے کہ حضرت جبرائیل اُن سے ہم کلام ہوئے.لیکن اس سے پیشتر کوئی ایسا نشان ظاہر نہیں ہوا جس سے لوگ یہ سمجھتے کہ وہ پیغمبر ہونگے.اس میں شک نہیں کہ جاہل مسلمان محد صاحب کی پیدائیش کے بارے میں نہایت عجیب

Page 578

562 ساتھ بھیجنے سے ہمیں کوئی چیز مانع نہیں ہے سوائے اس کے کہ زمانہ قدیم کے واروں نے اُن کو جھٹلا دیا.اب اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محمد صاحب نے کوئی نشان نہیں دکھلایا اور کوئی معجزہ نہیں کیا.لیکن یسوع مسیح نے بہت سے معجزے دکھلائے.اس نے کئی اندھوں کو آنکھیں بخشیں.اس نے بہت سے لنگڑوں کو چلنے اور گنگوں کو بولنے کی طاقت عطا فرمائی.بہت سے مبروصوں اور بیماروں کو چنا گیا او شفا مینی اس سے بڑھکر اُس نے تین مردوں کو زندہ کیا جن میں سے ایک کو دفن کئے ہوئے چار دن گزر چکے تھے.علاوہ اس کے یہ امر نہایت عجیب اور قابل غور ہے کہ جب دوسرے پیغمبروں میں سے کسی نے کبھی کوئی معجزہ دکھلایا تو اس نے اُسے خدا کی طرف منسوب کیا اور یہ ظاہر کیا کہ اس نے وہ معجزہ اپنی طاقت سے نہیں دکھایا.لیکن شیوع بیج نے اپنے تمام معجزات اپنے نام سے اور اپنی طاقت و قدرت سے کہنے پس وہ شخص کہ جس نے اپنے سید رحم اور غیر محدود طاقت کا اس طرح کے کاموں سے عملی طور پر اظہار کیا تاریب شافع مطلق اور حقیقی نجات دہندہ ہے : پھر یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ محمد صاحب مر گئے اور یہ یہ امر کسی سے بھی مخفی و پوشیدہ نہیں ہے.وہ بالکل اور لوگوں کی طرح پیدا ہوئے اور انہی کی طرح ایک دن موت کا شکار ہو گئے.وہ مکہ میں پیدا ہوئے اور مدینہ میں اس سے پہنچ سے کوچ کر گئے.مرنے کے بعد وہ دفن کئے گئے اور دوسرے لوگوں کی طرح اس کا جسم بھی

Page 579

563 ڑ گیا اور خاک اسے کھا گئی لیکن بیچ کا انجام ایسا نہ تھا.قرآن میں سیج کی موت کا بیان دو طرح پر ہے (۱) سورہ عمران کی توتالیتون ت میں لکھا ہو کہ خدا نے کہا کہ اسی مسیح میں تجھے فوت کرونگا اور اوپر اپنے پاس مالونگا" اور سورہ مریمہ کی چونتیسویں آیت میں آیا ہو کہ مسیح نے خود کہا کہ جب میں یدا ہوا سلامتی میرے ساتھ تھی اور میرے مرنے اور پھر زندہ ہونے کے دن بھی میرے ساتھ ہوگی لیکن دہ ہور ہنسا کی لکیر چھ نویں آیت میں لکھا ہے کہ نہ انہوں ہے اس کو قتل کیا اور نہ صلیب پر کھینچا بلکہ انہوں نے اُس کے عوض میں کسی اور خص کو جو اس سے شکل و شباہت میں مشابہت رکھتا تھا غلطی سے پکڑ لیا.الحقیقت انہوں نے اُس کو قتل نہیں کیا بلکہ خدائے تعالیٰ نے اُسے اوپر اپنے اس اُٹھالیا " اب اگر کوئی کہے کہ دوسرا میان صحیح ہے تو پھر یہ انسانی کاک مسیح مرگز نہیں ھوا خدائے تعالیٰ نے اُسے زندہ آسمان پر اٹھا لیا ہے دیکھئے محمد صاحب تو مر گئے اور اُن کے جسم کو خاک کھاگئی + اب ہم ان دونوں میں سے بڑانی کس کو کہینگے ؟ اور تام بنی آدم کا نجات ہند ان ہو سکتا ہے ؟ کیا وہ جو مر گیا یا وہ کہ جس نے موت کا مزہ نہیں چکھا اور ہمیشہ رہا ہے ؟ پر انجیل شریف میں صاف لکھا ہے کہ یسوع مسیح موا.یہودیوں نے سے صلیب پر کھینچا.چھ گھنٹوں میں اس نے جان دی اور قبرمیں رکھا گیا " اب شاید کوئی یہ کہے گا کہ جب صیح اور محمد دونوں مر گئے تو پھر ان میں کیا

Page 580

564 نوادر تا حضرت امیر شریعیت افادات سید عطاء اللہ شاہ بخاری 12.00 دار کریم تعلیم القرآن اندرون خیرانوالہ گیٹ لاہو

Page 581

565 فریک ختم نبوت کے غداروں کے بارے میں ایک مرتبہ تھولوں کے بارے میں حضرت امیر شریعت نے ارشاد میں سبخاری ہوں مودودی نہیں ہوں، آج وہ کہتا ہے کہ میں تحریک استحریک ختر نیت میں شامل نہیں تھا، میں کہتا ہوں شامل تھا، اگر مودودی شامل نہیں تھا تو میں ان سے حلفیہ بیان کا طالبہ نہیں کرتا.صرف یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے لڑکوں کے سروں پر اللہ لکھ کر اعلان کر دیں، سچ اور جھوٹ سامنے آجائیگا ؟ مودودی صاحب تحریک کی ذمہ داری سے ہزارہ دامن بیجائیں لیکن میں ذمہ داری قبول کرتا ہوں میں تحریک میں شامل تھا جو شامل تھا اس نے سال کائی ، جو شامل نہیں تھا اس نے دو سال کائی جب میں ہا ہوا تو جیل کی ڈیوڑھی پر آکر کہا کہ جنہوں نے تقریریں کیں وہ رہا ہوں نہوں نے سرما یا وہ پچھنے ہے کیا یہی دیا سنت ہے کہ ہزاروں کو مردا کر کہا جائے کہ میں شامل نہ تھا ، اسے ہم سے تو کافر گیلو اچھا تھا جس تحریر کا پیالہ پی لیا تھا.J

Page 582

566 MAM.اصل دارشا و سمیه شهریه ملقبه مشتمل شعب علیه متنوعه تقریبا ساله و دائره مینی امداد الفتاوي في الفقه والعقائده جواد مث العتاد في في ما يتعلق بالسوان المجد بية تربية السالك في الاحوال السلوك والرفین کی سوار الطريق في الاحوال العامت سند المحفوظات خبرت إلى العوالم المختلفة اب است بادل آن از ان انسات حضرت الحرب الجم مولانا امان باشه همیاریدا وا له ماست که لقب صحیفه مشیرت به ترک بنام نامیرا علشارد بابت با صفر ازه دیگران است بادارة المحترفيق ا الطبع امداد الطابع مت بھون جلوه نمودن گرفت داعی ہوتا ہے بعض اوقات حدودہ شرعیہ کا تیال بھی نہیں رہتا ایسا شخص شاید حضرت صدیق کی اور سو گیا کچھ عرصہ کے ہوں جواب دیکھتا ہوں کرتا الا الله الله عمر رسول الله پرته بورن لیکن محمد ہوں انٹر کی جگہ جنوں کانامریتا ہوں اتنے میں پال کے اندر خیال پیدا ہو کر مجھے فلمی اندی کے اس حال کے ہے جیسی تنگ وہ اسلام لائے تھے کہ ہمیں وقت بھی وہ حضرت رسول الشعر صلی الہ علیہ وسلم کی حضرت فرماتے تھے مگر محض محبت طبیعت ہے نہ کہ نیست شریف سے میں خواب میں اسکو بیج پڑھنا چاہئے اس خیال سے دوبارہ کر شریف پڑھتا ہوں المیا میرے تو یہ ہے کہ بیج پر بجھاتے لیکن زبان سے بیساختہ بجائے سول اللہ صلی الہ عیب ہالہ کے نام کے ایسے خادموں کی حقیقت بیاد لی گئی اس خواب میں جیز دستم بالشان ہیں تھا یاتی ظاہر ہے اسلام اشرف علی نکل جاتا ہے جانا کہ امی کو اسی بات کا علم ہے کیا سی این دوست نہیں لیکن بے اختیار زبان ۲۰ ر شوال شاه سوال اب وجہ اس کی عرض کرتا ہوں کہ بیعت ہونے کا خیال مجھکو کیوں ہوا اور حضور کی سے ہی کر لکھتا ہے روتین با جیب بھی صورت ہوئی تو حضور کو اپنے سامنے دیکھتا ہوں اور ہیں طرت کیوں جان کیا بیعت کا شوق صرت مطالعہ کتب تصوف سے اور تصور کی جانب رجوع ہے چند منفی معنوی کے پاس تھے لیکن اتنے میں میری یہ حالت ہو گئی کہ میں کھڑا کھڑا ہو جب اس کے کہ یت طاری ہوگئی زمیں پر گرگیا اور نہایت مرد کے ساتھ ایک پیج باری و جارو معلوم ہوتا تھا کہ که سی ام صاحبان مولانا مولوی محمد صاحب مرحوم مولانا مولوی حمید اختر صاحب مراوم و میرے اندر کوئی طاقت باقی نہیں رہی اتنے میں بندہ خواب سے بیدار ہو گیا لیکن بدن میں تقوم الوں سے حضور کے اعتقادات ملتے بہنے تھے اس سے یہ مرض تھی کہ اسے اتنا یا ور کوئی اپنے دادا وغیرہ عالم کے اعتقادات کو خراب ہی ہوں بے بسی تھی اور وہ اثر نا طاقتی بدستور تھا لیکن حالت خواب اور بیداری میں حضور کا نہیں میاں ان کو بلا یہ تو بیچ دی جائے اصل غرض یہ ہے کہ حضور کے اور بندہ کے اعتقادات بالکل ایک تھا لیکن حالت بیداری میں کار شریعت کی تسلی جیب کہاں آیا تو اس بات کا مادہ ہوا کہ بھرتیاں میں خدا گر مولوی صاحبان کو دیا نوی اور حضور کے درمیان کسی فروعات میں اختلاف نہیں ہوتا کو دل سے دور کیا جائے میں ایسے کہ جو کوئی ایسی تسلی نہ ہو جائے، بایں خیال پہ پہنچے گی اور یہی تو ہمیں بھی جناب کی طرف مجموع کرتا ہوں (۳) اور حضور کی تصنیف چند کتا ہیں زیر مطالعہ دو مربی کی شایت کو کار شریف کی معلمی کے تدارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم پر درود و شرایت پڑھتا ہوں لیکن پھر بھی کہتا ہوں اللهم صل على سيدنا ونبينا و مي انا اثرون على حالها رہی ہیں جن میں سے بہشتی زیور تو میز جان ہے اور شرح مثنوی مولانا رومی رحمہ اللہ لہے کے علا بھی چند تصانیف منظر سے گذر میں (م) ایک دفعہ رامپور ریاست میں جانے کا اتفاق میا تو وہاں اب بیدار ہوں جواب نہیں لیکن بے اختیا ہوں مجبور ہوں زبان اپنے قابو میں نہیں آئیں اور ایک مسجد میں ایک مولوی صاحب کے طالب علم تھے ان کے پاس شہرنے کا تفاق ہو گیا اور یہ بھی ایسا ہی کو خیال را تو دو حشر از میداری می رفت رہی خوب ، دنیا اور بھی بہت سے اجابات معلوم ہوا کہ وہ مولوی صاحب حضور سے بعیت نہیں، اس لئے اُن سے اور بھی محبت ہوگئی ٹوانا.میں پھلوں کے ساتھ باحث محبت میں کیا تشک عرض کروں.گفتگو میں معلوم ہوا کہ ان کے پاس تھا.بھوروں سے دو سالہ الامداد اور سن العزیز بھی ماہوارہ میں جو اب اس واقعہ میں تیلی تھی کہ ہی کی طرف تم بھی کرتے ہو وہ بو نہ تعالی نتیج دیتے آتے ہیں بندہ نے اُن کے دیکھنے کے واسطے درخواست کی تو ان مولوی صاحب طالب علم نے چند سالہ جھکا دیکھنے کے واسطے دیئے احمد بشر و لطف اُن سے اُٹھایا بیان سے باہر ہے سوال جناب اند ستاد مولانا نیم مالی اسلام و راه و بیراه مارست نام دارد ایک راہ کا ذکر احسن العزیز دیکھیں تھا اور در پی کا وقت تھی کہ نیند سے قلب کیا اور سو جائے گا موکر باعث اعزاز ہوا مینا پیر عطرت را مجد قبلہ عالم الله العالی کیا برا واسه مولوی ارادہ کیا مسار حسن العزیز کا ایک طرف نکند یا لیکن جب بندہ نے دوسری طرف کروٹ بدلی تو صاحب مرقوم کا لڑکا ہے امیں مشیر نہیں کہ جناب لیے ضروریات زبان کے لحاظ سے دینی خدمت دل میں خیال آیا کہ کتاب کو پشت ہو گئی اسلئے پیار حسن المرز کو اٹھا کر اپنے سرکی جائے کھایا بہت آئی ہے اور بہت سے رسائل سفیدہ دینیات میں کور اکر لوگوں کو مستفیض فرمایا اگر آپ سے

Page 583

567 جملہ حقوق بحق مصنف محفونا نئیں 614 No: 58 كاوية الغاوية کتب نما نه ماران یا تصنیف تازیان تعلیمات دریا ایک لق مولفه و مرتبه آنتی میته انجمن خدام مهارت های من جفين تعلیمات مرزائیہ کو خصوصا اور دیگر تعلیمات کو صوتا زیر بحث ذاکر انتہائی دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تا کہ جانیں کی طرف جو غلط فہمیاں پڑی ہوئی ہیں.آٹھ کر زیر بہت مسائل کا مبحث بہت مختصر ہو جائے.اور باہمی تناظر اور تین ان کا کیا خاتمہ ہو گر گیری خاص نتیجه پر بار اول تعداد ایران (قیمت فی نسخه هام ایک ا ی ناصری بنام محصول مار۱۹۳ ایمان حقوق محفوظ ہیں) ین لوگوں نے استسلام کو نائل سمجھ کر تقوی تر میره تیغ و تعریف شریع کردی ہے اور اپنے آپ کو تصلح تم بعد وینا مہدی یا سی ظاہر کرکے لگوائی دھوکے میں حال ہے ہیں کہ ہم است نام کا روشن پہلو رکھا کر دین محمدی کے صل تشریح سے کر کے انھار ہے ہیں ایسے فریقین کیلئے یہ سارے الصويرة کہا گیا ہے جس میں تمام مشبات کا عموما اور مرزائی ہے خاکہ پیش کیا گیا ہے کہ جس کے دیکھنے سے انیلین خود معلوم کر سکیں گے کہ مالی تعلیم پانی اصطلاحا میں کب تک تعریف و تنسیخ سے کام لیاگیا ھے محمد عالم است امینی معشوقہ سات تی ہیں.تعمید اما یک هزار

Page 584

568 ۴۹ پھر بھی کسی حد تک قرین قیاس ہوتا اس پر وہ یہ ہے کہ باوجود اس کے جنا کے حضور کی تعلم کا ہی دعوئی ہے اور مرزا محمود نے توکہہ دیا ہے کہ مرزا حاب فضل المرسلین تھے ایسے بچے کی ضرورت نہیں.یکھتی اور دیکھئے کہ یہ استدلال ثابت کرتا ہے کہ مرزا نصاب میں صرف فوٹو گئے تھے اور روح کوئی نہیں آئی تھی اور استدلال سابقہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزاقضات کے جسم میں رومیں آئی تھیں اسلئے دو نو استدلال تفات ہوئے اور دھوائی نبوت کا ثبوت پیش نہوا کیا کوئی مرزائی اس تخالف بیانی کو اٹھائے گا ؟ اس بہانہ کی تصحیح کیلئے یوں بھی کہا جاتاہے کہ صوفیائے کرام میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں کہ جنہوں نے مرزا صاحب کی طرح بروز نیوت او ظل رسالت کی آڑ لے کر اپنے آپ کے نبی اورقبل الہی ظاہر کیا ہے.چنانچه حضرت خواجہ معین الدین اجمیری تم اپنے دیوان میں کہتے ہیں سے مین نے گویم انا الحق یار میگویندیگو چون نگویم چهل مراد لدار میگوید بگو و چه مراد حضرت بایزید بسطامی و فرماتے ہیں کہ جب کوہ طور میں آگ سے یہ آواز نکلی تھی کہ اپنی انا للہ ۴۸ زنا محبت بر سیم باید د مین انی ان الله کی آواز کیوں نہیں نکل سکتی.آی صوفی کا قول ہے ہے این جان من الله شید میتواں موسے کلیم ال ان انانی تا تو را به شان مولانا سے روم رود کتاب سیف بانی حفا مصنف محمد کیت میں ہے کہ حضرت عبد القادر جیلانی فرماتےہیں کہ للہ تعالی نے جھے ایسا تو کردیا کہ میں یوں کہ رہاتھا کہ کوکانَ مُوسَى حَيَّا لَمَا وَسَعَدُ إِلَّا اتاری تو مجھے معلوم ہوا کہ میں فنا فی اگر مشغول ہوں پھر ایک فعہ وہ رات میں ہو رہا تا کہ ان است و ایام کا خر است معلوم ہوگیا کہ میں اس انت متحمل بن گیا تہا ورنہ ایسے لفظ بطور دھوئی مجھ سے ظاہر نہ ہوتے ایک تو آپنے اپنی مری سے فرمایا تھا کہ انتہائی محمد رسول اللہ تو مرید نے اس کی تصدیق کی تہی تذکرہ خوشیہ کی ملت ۵۲ میں ہوا کہ حضرت ابو بکر شبلی نے ایک مرید سے کہا تھا کہ یوں کہنے کا الہ الا اللہ شبلی رسول اللہ ایسے انکار کردیا آپنے اس کی محبت توڑ ڈالی فیض سبحانی میں مذکور ہو کہ جس کا قلب بالکل ماں ہو جاتا ہے وہ نبی کی مانند ہو جاتا ہے اس سے کم درجہ کا صحابی بہت ہے اور اس کو کز در تابعی بنتا ہے اسی طرح or

Page 585

ریالہ کھا دے 569 25/3/13 السلام.نورانی کا آپ کو نا را درآوری کا پونچا ٹونوں میں جناب مرزاقی صاحب ہر قوم کو نیک - بزرگت، اسلام کا خدشکار شرای خدا یار پہلے ہی اور اب یہی خیال کر رہا ہونا بھی ان کے مریدوں سے گرقم 8 مخالفت نہیں تھے بلکہ افسوس کرتا ہوں میں خہر ایک امورات وجہ کر دین کے زندگے میں اون شرف حاصل کر 2 ن نیاز موسلطان محمد از انار نا به سالنه مهر ۹۰

Page 586

570 محمد می کیریا کے صاحبزادہ کا اعلان تبعیت برادران - السلام علیکم ورحمتہ اللد و برکات پیش تر اس کے کہ میں اپنا اصل در ما بیان کریں یہ عرض گزار یا ضروری سمجھتا ہوں کہ واللہ میں کسی انا یا و نیومی غون یا کسی دباؤ کے ماتحت جماعت احمدیہ میں داخل نہیں جو جگہ عمدہ تعالیٰ کے فضل کے تحت کیا ہے وہ کی تحقیق کے بعد اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ حضرت مرزا صائب اپنے ہر د عمومی میں صادق اور مامور من اللہ ہیں.اور اپنے قول و فعل میں ایسے ثابت ہوئے ہیں کہ کسی حق شناس کو اسمیں کام نہیں ہو سکتا.آپ کی تما پیشنگوئیاں ٹھیک ٹھیک پور کیا ہوتیں.یہ الگ سوال ہے.کہ بعض لوگ تعصب یا نہ سمجھنے کی وجہ سے پیش پیشگر بانی ہیں کے عوام کو د جو کا دیتے ہیں کہ پوری نہیں ہوئیں.خاور انہیں سے یہ پیشیوٹی بری اتر بیگ صاحب وغیرہ کے سنتی ہے.اس پیشگوئی کو ریگہ پیش کر کے مطالبہ کیا جاتا ہے.گہر اس کا پھل ہونا نہایت کرو.حالانکہ وہ بھی صفائی کیساتھ پوری ہوگئی میں اس پیش گوئی کے متعلق ذکر کرنے سے پینیز یہ بیان کر دنیا طروری کہتا اور کر تا یک مداری پیش ہوئی تھی.اور اسی اندوری پیشنگوئیاں خداتعالی اپنے نبی کے ذریہ اس لئے کراتا ہے کہ جن کے نور ہوں ان کی اصلاح ہو جائے ا پنا ہ قران کریم یا ان قوالی ولات الست الان اند که همانها که انتشارات اسے کہتے کہ ان کی لوگ ڈر عامر ہیں.یش گوئیاں لوگوں کی اصلا تا کی غرض سے کی جاتی ہو ا اللہ تعالی نے یہ اصل بیان فرما دیات کراسی از تیری سے نجار کیا.نبی کریم کی انا یہ کہ اور قران پاک کی جنگ کی اور حکور تر میں کتاب برای لب کرم و ار کھا لوار کی ہے، ظاہر ہے اس صورت میں انداری پر بلولی کا بعضی امور میں کیا نا صاحب کی تو رشتہ داروں نے گنائی کی یہاں تک کہ خدا تعالی کی تمد اتاری کہانیا ں کوئی انسان دیکھا پا چاہئے.تو اس کے جوا اللہ تعالی نے اپنے مور بی ایشیا کی فرالی است سنگ بزرگ اسلام ان نزار سروے کے مطابق میرے نانا جان مرزا محمد ایک صاحب پاک ہو گئے اور باقی نامدان اصلاح کی طرف متو تم ہو گیا.جس کا ناقابل دریا و پہلے ہی رونا ہی خیال کردیا تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثرت امت دین قبول کرلی.تو اسناد تعالی نے اپنی صفت محور میم کے تحت تمہی کو تیرے بنا دیا اور امیر امین کے دریا کے میری جو کہ اس پیشگوئی کا تعلق میرے والد صاحب میرا سلطان گیا ان بینیم کے ساتھ بھی تھا.اس لئے وہ بھی خوف میں انتباہ انت نہیں ہے بلکہ اس کرتا ہوں کہ ہوئے.یہاں تک کہ انہوں نے حضرت مربا صاحب سے مشین حقیقت کی من مختان اوقات پر اپنا خیال تمبر یہ مطلوب فرمایا انند یک ادوات و کا سننے کے نہ صرف خیال کار فرما دیا.بلکہ معاندین سلسلہ کے اکسانے ہوں ان میں منشا جواب دیایہ یا مثلا ہناروں کیسا ہوں، اورمسلمانوں الشرف حاصل ایک اولیه انسان کردیں کہ وہ پیشگوئی کی وجہ سے نہیں ڈے لیکن معیت این نبوت یہ ہے کہ جسطرح حضرت علی کرم التروبية علیہ وسلم کی بہت میں وائل نہیں ہوئے تھے لیکن حضرت نے ہزاروں روپے کا اپنی دیکر استانی کوشش کی کہ آپ اس پر آپ نے ہر گز ان کی بات نہیں جاتی.احمد یت کی تعمق ان کی شیرین تیار دنیا کےوالد ابو طالب بن و نبوی صورت کیوجہ سے میں کریکی سی ہے علی کو بیعت کر لیے سے نہیں روکا تھا.اسی طرح جب میں حضرت ماند پیسے کافی کی بیعت کرکے احمدیت میں شامل ہوا تو بجائے دن نکل کر خوش ہے.گروپ میرے والدصاحب کو ا ال ال دریا میں واضح اس پیشگوئی میں دکان کرتا ہوں می امور کی پینگوئی ہی پوری ہوئی ہیں ان لوگوںکو حیوانات قبولی میں پیشیوں ہی کہا ں کہ یا اور این ایان نے ہی میں ایک کم کی کیا ہیں یہ ریتی سیم موجود ہیں بھی نسبت بھی کر ایک میگونی فرای ان کا نکا نبی کریم کا اک است حضرت نے کیا درست فرمایا و از کرمیری عزت اور اس میں تیرتے ہیں وندے ہاف میں مائیت کا ہوں ) اس کے بعد اب آئی ہے ٹھنڈی ہوا پھر خدا کا رک ہیں یہ دن اور پر استار هنر محمد اسحاق بیا له هراسا ور مل ایرو حال اردو چک نمر : EB/ اده میگرین میں مالی

Page 587

571 خطبات احرار جلد اول شورش کاشمیری مكتبه احرار ک هون کتب خانہ افغانی برین مله حقوقی اشاعت و طباعت محفوظ باراول نیمت اور دہے مكتبة الحرارة الهوس

Page 588

572 سوسائٹی کا ماحول یا تنگ ہے مرد ان مسمانوں کا دم گھٹنے لگتا ہے.ہندو والی حیثیت میں بہترین انسان ہے لیکن عجیب بد نصیبی ہے کہ یہی مرنجان قراد جیب جماعتی حیثیت میں سمجھتے ہیں تو مسلمان کی جان رحیران ہو جاتی ہے.وہ ہمیشہ مسلمان سے پیلیاں رہ گیا رکھ کر سوچتے ہیں مسلمان بایں ہمہ رہ کر بھی ہے یہاں سانحہ مں کرتا ہے.ہندہ یہ بھی قیاس ہی نہیں کرتا کہ اس کے طرز عمل کا کوئی یہ دلیل بھی ہو گا یا ہو سکتا ہے علیحدہ انتخاب اور علیحدہ گھر تیار نہ ہونے کا آخری چاند کا ر اکثریت اپنی تنگ دلی سے دور ہے پر عزت کی کوئی راہ باقی نہ رکھے تو یہ کھلا کر بھاگ کھڑے ہونے کے سوا چارہ کار کیا ہے.پاکستانی غریب در اصل بند و سرمایہ دار سوسائٹی کے طرز عمل سے ہو کھایا کہ بھا گیا ا مسلمان اچھوت ہے.چاہتا ہے مرنے پھرنے کے لئے کوئی کو نا مل جائے جہاں وہ مام سے پیار ہے، البتہ یہ قسمت کی ستم ظریفی ہے گروہ مسلمان سرمایہ دار کے ہتھے چڑھے گیا ہے جو مہند و سود خواس سے ٹھنڈا کر مسلمان کی جاگیر داری میں پھنسانا چاہتا ہے مندر دشمن بن کر روتا ہے.یہ دوست بن کر گلا کاٹے گا.فرض اکھنڈ بند دستان اور اس پاکستان میں دونوں جگہ بیچارے مسلمان کا کونڈا کونڈا ہوگا.نوانے اور ایک ایدار اس پاکستان کو پلیدستان بکھتے ہیں، جہاں امری بھوک کر چوہان سے بڑھاتے ہوں.اور غریب غم کھاتے ہوں جہاں ایک طرف ایک منہ کے لئے سینکڑوں بیسیوں روتا ہے ہوں اور دوسری طرف جہاں سردیوں میں جنگوئی سے بھی تخلف با من زندگی ہو.اردوم کے آنے جانے پر ہی زندگی کا قیاس ہو جنہیں آپ کسی غریب ہمسایہ کی افسردہ میں اللہ انہدہ شاہیں دیکھے کرید کرنے کا خیال نہیں وہ کسی حصے کو صحیح معنوں میں پاکستان کیا بنائیں گے.پاکستان کے خیاتی مدور میں پھیلانے اور اس کا اقتدار جانے کے لئے بے آب ہوں گے کانگریس اور لیگ کی سرمایہ دارا پیشکش میں غریب کا بھلا ہے.انہار کسی کے طرق اء تہ ہونا.بلکہ ان کی اس جنگ زرگری کی طوالت کے لئے دعا مانگتا اور اس سے نہ ختم ہونے کی آرزو کرتا.سرمایہ دار جب تک آپس میں دو دو ہاتھ دکھاتے رہیں گے تب تک نظر یہاں کی گلو خلاصی رہے گی.اعداد و دست تو جنگ تک کے اس سیاسی نبود تحصیل کے زمانے کو غنیمت جانو اور جماعت کے نظام کو اور مضبوط کرد ایلینگ اور کانگریس کی جنگ در سرمایہ دار طبقات کی جنگ ہے اس سے دامن بچائے.پروگرام پر نگاہ رکھو انتہاد کے سنگ دل اور مشتعقب فرقہ پرست تمہیں فرقہ پرست کہیں گے ان کے کی کیوں نکرد کتوں کو بھونکنا چھوڑے کا زمان جسر الر کو اپنی متوال کی حروف چلنے اور اسمار کیا دین ننگی سرمایه داری کا پاکستان تمہیں یہ کالم مینی کا اسکن و منور استارتا ہے کے در سرزمین ہے جہاں ! سوسائٹی میں درجے نہ ہوں بلکہ انسانیت ایک رہے ہو.احرار کا وطن وہ ہے جہاں کوئی اچھوت نہ میں جہاں انسانوں کو ذلیل رکھنے والے الیل مجھے جائیں..جہاں نظر مولی کو لوٹنے والے لوٹ لئے جائیں.اور لوگوں کو کام پر لگا کر ان کی ضرورتوں کے مطابق معیشت مہیا ہو.مہ جہالہ ہر کوئی اپنے مذہب انسانی تہذیب کے مطابق ترقی کرتے میں آزاد ہو.ہ یہاں نظام حکومت کامل مساوات پر قائم ہو اندر جہاں سرمایہ نظام کی طرح

Page 589

573 سوانح عمری مولوی عبد الله الر نوای مرحوم و عبدالله الغزنو ایشان ماتنا

Page 590

574 ظالم اور مشائخ فائدہ حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوئے : اور آپ کے تسبیح اور تسلی کے وقت جارات ہیں جیاواز کے ساتھ آپ کے ہمراہ سبحان اللہ ور لا الہ الا للہ کہنے اور حرکت کرنے لگے امیروں اور اور دنیا داروں سے تاوقت وفات اس قدر گریزاں رہے.ہر کسی کی باوجود ان کے بہت دور ہے ہونے کے ملاقات نہیں کی.اور اپنی اولاو اور دوستوں کو ہمیشہ یہ وصیت کرتے رہے کہ دنیا داروں جمعیت زہر قاتل ہے.اپنے مالک کی طرف متوجہ ہو وہ تم کو ضائع نہ کریگا.اور فرماتے تھے.دالله احمد بل کہ اللہ تعالی نے مجھ کو دنیا داروں اور امیروں سے ابتدا اور انتہا میں محفوظ ابتدا میں تو یہ حالت تھی.کہ امیر لوگ سینکڑے روپیہ خرچ کرتے.کہ ایک بار میرا منہ دیکھیں ریں.دور دورت لیکن میں ہرگز ہرگز ان کو اجازت نہ دیتا تھا.کہ میرے مکان کے پاس سے گزریں بھلے جاتے اس کے پیچھے سنت کی تابعداری کے شوق کی آگ.نت کی تابعداری کے شوق کی آگ نے میرے سینے میں شعلہ مارا پیس پر تو تمام لوگ بہن بن گئے.اور انہوں نے مخالفت کا جھنڈا اٹھایا.الحمد للہ یہی اللہ ع مقبل کی تربیت بھی.کہ آخر عمر میں اسی طرح اُس نے مجھ کو دنیا داروں سے بچالیا یہ ورنہ میری فلاح تو بسبب توجہ اسیروں اور حاکموں کے اُن کی صحبت اور مجالست اختیار کرلیتے اور دین سے ہاتھا یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے.اور اس کی نعمت اور عمدہ تربیت ہے آپکے کان میں جو لوگ کا با خا اور کیا نام شرک اور بچیوں اور رہوں میں مبتلا تھے.اور عالم اور مشائخ اس کو سمجھتے تھے.پھر بیچارے عامیوں کا کیا ذکر ہے.آپ کو غیب سے کبھی الہام کے ساتھ ان بھی خواب میں ان کاموں سے سخت روکا جاتا.اور کتاب و سنت کی ترغیب دی جاتی آپ حیران ہوتے کہ اس ولایت میں کتاب و شدت کے علم کا نام نشان تک نہیں ہے.اور بر کتاب و سنت کا اسباب موجود ہے کس طرح مجھ سے یہ امر انجام پذیر ہو گا.جب یہ خیال کرتے رتیب سے تاکید آیت سنترك لیری کا مضمون الہام ہوتا نا چار سنت کی تابعداری اور رسموں اور بدعتوں کا رد کرنا اختیار کیا.اور کتاب و سنت کے علم کی طرف توجہ کی حمہ اللہ عز وجل آپ کی تربیت کرنے والا تھا.عرب اور مجھ سے حدیث اور تفسیر کی کیا ہیں ہم پ نے تعلیمی تعلیم اور تیری فہم اور اپنے فکر سلیم کے ساتھ محد ثمین کا عمدہ طریقہ سب طریقوں سے بہتر طریق ہے اور جن مسلوں اور جگہوں میں شبہ پڑا.فاضل امبل

Page 591

575 کے زیور اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی موافقت کے ساتھ آراستہ ہے.اس کا باطن اہل صفا کے احوالات اور مقامات کے ساتھ پیراستہ لیکن صرف اسی قدر نقصان ہے کہ یہ صاحبزادہ اپنے آپ کو اُن کے مخلصوں اور دوستوں سے شمار نہیں کرنا لاکٹ اس بزرگ صاجزادہ کو کبھی وہابی کہتا ہے.اور بھی بند کہ کر پکارتا ہے.بلا معتہ لوگوں سے سنا گیا ہے.کہ ملاکٹر نے فلمائی کے اطراف و اکناف میں اس مضمون کے نامے بھی ارسال کئے ہیں کہ فلان وفلاں دمیاں محمد اعظم کے ساتھ ایسا ایسا معاملہ کرو نعوذ باللہ اس میں شک نہیں ہے.کہ اہل اللہ کی عداوت نے اس کے دل کی آنکھ کو نا بنا کردیا ہے.کہ دن کو رات اور رات کو دان سمجھتا ہے انت ہے.ملا عبدالحق کہ اپنے زمانہ کے فاضل تھے.اس خط کے آخر میں جس کو انہوں نے آپ کے نام نامی پربھیجا ہے.اور اس میں بعض مسائل کی تحقیق کی ہے.لکھتے ہیں.مخد و ما مطاعا از امثال ما گم گشتگان بادی جهالت و نگو نساران مناک غفلت این مسائل را بدان جناب مقدیس قلمی نمودن در زنگ آنست که گنا سے طرق غالیه سازی را در نند و عطار بیان نماید تا این جرات و گستاخی و ہرزہ سرائی محض بنابر الطاف و اشفاق آن مخدوم معظم است که درباره این احتقر دار و آنچه بفکر قاصر می رسد بدان گستاخی کرده می آید انتهای - مولوی عبد الرحمن بن شیخ محمد بن بارک اللہ کہ وقت کے عالموں سے مشہور عالمہ ہیں.اور زہر اور تقویٰ اور صلاحیت میں اپنے زمانے کے امام آپ کی صحبت بابرکت سے فیض حاصل کرنے کے لئے ملک پنجاب سے سفر کر کے ملک غربی تک جو دو ماہ کی مسافت ہے گئے راستے ہیں جو انہوں نے مخالفوں سے کچھ کلمات آن جناب کی نسبت سنے تو حیران ہوئے.اسی رات ان کو یہ الہام ہوا.فوراتِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ان کو اس قسم ہے اب آسمان اور زمین کے کی یہ بات تحقیق مِثْلَ مَا انَّكُمْ تَنْطِقُونَ : دوسری بار یہ الہام ہوا.ہے جیسے کہ تم بولتے ہو.وَإِنَّهُ عِندَ نَا لَمِنَ المُصطفين الأخيار تحقیق یہ ہمارے پاس ہے پہلے نیک لوگوں میں.تیسری بار یہ الہام ہوا.

Page 592

576 أن هُوَ إِلا عَبْد العَمنا عليه وہ کیا ہے ایک بندہ ہے جس پر ہم نے فضل گیا.القصہ جب دوسری بار قندہار سے مراجعت کر کے اپنے ملک میں پہنچے.تو لوگوں کو توحید اور اتباع سنت کی طرف بلانا اور شرک اور بدعت اور مروج رسموں کا رد کرنا شروع کیا.زمانے کے لوگ خاص و عام اور عالم اور حاکم جو سب کے سب آپ کے فرمانبردار تھے آپ کی اس کارروائی پر آپ کے مخالف ہو گئے.اور ایذا رسانی کے در پے.اس نواح کے عالمہ اس مسئلہ میں کہ مذہب کے خلاف حدیث پر عمل کرنا چاہئے.بجٹ کرنے کے لئے جمع ہو گئے.اور انہوں نے اقرار کیا کہ حق آپ کی طرف ہے.اور یہ بھی آپ کی ایک کرامت تھی کہ سب نے اپنا خطا پر ہونا مان لیا.اور پھر انجناب کا حق پر ہونا قبول کر لیا حالانکہ مقابلہ کے وقت ای اقرار کرنانیان کالا معلوم ہوا ہے اور دور دُور کے عالموں نے یہ ماجراسنا تو وہ بھی گفتگو و مباحثہ سے ڈر گئے.اور لشکروں کو جمع کیا.اور لڑائی کا ارادہ کیا.مگر چونکہ آپ کے تابعدار اور دوست اور معتقد بھی بہت تھے.مخالفوں سے کچھ نہ بن سکا.ناچار وقت کے حاکموں کے پاس انہوں نے شکایت کی.اور تقسیم کے بہتان اور جھوٹ آپ پر باند ہے.اوربعض ٹھیوں کی وساطت سے امیر کے گوش مد ہوش میں یہ بات ڈلوادی کہ اس شخص کو اگر ایک سال تک ایسا ہی چھوڑ دو گے تو تمہارے ملک اور بادشاہی کو خراب کر دیگا.اور سلطنت میں ایک خلال عظیم ڈالدیگا.دولت کے تمام امیر و وزیر اور عہدہ دار اس شخص کے معتقد اور مرید ہیں.پس اس وقت بعض آپ کے دوستوں نے یہی مصلحت دی کہ امیر وقت کے طلب کرنے سے پہلے ہم کابل میں جاویں.اور امیر کے سامنے مخالفین کے ساتھ بحث کریں آنجناب کی مرضی تو نہ تھی.مگر دوستوں کی رعایت کے لئے شہر کابل میں امیر دوست محمد خان کے پاس جو اس وقت کابل کا امیر تھا.چلے گئے.اور علماء مخالفین بھی حاضر ہوئے.ان کے سرپرست خان ملا درانی و ملا مشکی انڈری اور ملا نصر اللہ لوہانی تھے.اور اُن کے سوا سینکڑوں ملا جمع تھے سر بنے پوشیدہ بھی اتفاق کیا کہ سیاست میں کبھی ہم اس شخص پر غالب نہ ہونگے.جھوٹی گواہی اس پر مباحثہ دینی چاہئے.ورنہ اگر بحث تک نوبت پہنچیگی.تو ہم سب شرمندہ اور رسوا ہونگے.

Page 593

577 14 سخت چوٹ نہ لگی بسبب نشیمنوں کے درمیان سے سلامت نکل آئے.اور آپ کا اسباب اور کتابیں سب دشمنوں کے ہاتھ میں آئیں بعض عالم اور آپ کے تابعدار صلحہ ان کے ساتھ مل گئے اور جب دیکھا کہ یہ ظالم ظلم کرتے ہیں تو جدا جدا ہو گئے.اور آپ کے اسباب اور منتشر کتا بوں کو ایک جگہ جمع کیا اور اور دشمنوں سے ان کو بچا لیا.اور آپ کی خدمت بابرکت میں پہنچا دیا.یہ سب رب العالمین کی حفاظت اور حمایت اور تربیت تھی.ورنہ ایسے ہیمنوں سے مال اور جہان کا سلامت رہنا عقل کے خلاف ہے.حاصل کلام آپ بڑے عالموں اور ظالم حاکموں کے ہاتھ سے جو اٹھاتے دیہ پر یہ اور کوہ کوہ پھرتے رہے.اور جس جگہ پہنچے وہاں کے لوگ آپ کے مخالف ہو جاتے.اور وہاں سے نکال دیتے سبحان اللہ ان انتخانوں اور جلا وطنی اور تمام جہان کی دشمنی میں آپ ایسے مرفو الحال اور خوش علیش رہتے کہ کوئی امیر آپ سے بڑھ کر اطیب عیش میں نے نہیں دیکھا.گویا یہ ہے قسم کی نعمتیں آپ کے سری ہستی تھیں.وہ کون نعمت تھی.جو آپ کے پاس ان پہاڑوں میں نہیں بیچتی تھی ان دنوں میں امیر دوست محمد خان نے شہر ہرات میں وفات پائی.چونکہ ان پہاڑوں میں آپ کوئی سکونت کی جگہ نہیں پاتے تھے.پھر اپنے وطن کی طرف کہ وہاں کے باشند سے آپ کے عقیدت مند تھے مراجعت کی امیر شیر علیخان ملک کا امیر تھا.انہیں مر سے عالموں نے امیر شیر علی خان کو آپ کی ھوا.بڑے ایزا دینے پر ترغیب دی.آپ اسیروں کی ملاقات سے نہایت نفرت رکھتے تھے.اس قدر امتحانوں میں بھی کبھی ایسی امیر کے پاس نہ گئے.اسی وقت کے نام ایک خط اس مضمون کا لکھا.کہ میں مظلوم ہوں اور حاسدوں کے افترا اور تہمت کے ساتھ تمہارے باپ نے مجھ کو اپنے ملک سے بدر کر دیا تھا تم اس کام میں اپنے باپ کی تابعداری نہ کرو.امیر نے جواب میں لکھا کہ میںایک شخص کی تمام رعایا کے خلاف رعایت نہیں کر سکتا.تم کولازم ہے.کہ ہماری ولایت سے باہر ہو جاؤ.آپ حیران ہوئے.کہ اب کس طرف جاؤں.اور کوئی جگہ بھاگنے کی نہ دیکھی جنگل کی کسی غار میں اکیلے جا کر جھیپ گئے.اور کچھ مدت پوشیدہ رہے.ان دنوں میں یہ الہام ہوا.فَقُطِعَ دَائِرُ القومِ الذين ظلموا و احمد پھر کٹ گئی بوڑھے ان ظالموں کی اور تعریف ہے لله رب العالمين واسطے اللہ کے جور ہے ، سارے جہان کا.اور یہ شعر بھی الہام ہوا.نے

Page 594

578 یکڑو ہ ای موعی پیچ که بر ایج میشوی من سبزه رسیده زبستان نیستیم.انہیں دنوں میں اس کی سلطنت الٹ لیٹ ہوگئی.اور اس کا اقبال اوبار کے ساتھ بدل گیا.اور وہ اپنی سلطنت سے جدا ہوکر رات چلاگیا.پھر محد افضل خان او محمد عظم فنان نیکی سلطنت کی نوبت پہنچی.بٹر سے مولویوں دین فروش جاہ عربات سے طالبوں اور دین آخرت کے تارکوں نے پھر دی تہمتیں اور جھوٹ محمد افضل خان اور محمد اعظم خان کے کانوں میں پہنچائی مانہ طرح طرح کے وسواس اور و ہم ان کے دلوں میں ڈالدیئے.اور آپ تو کسی حاکم کے پاس جاتے ہی نہ تھے.وقت کے امیر محمد فضل خان نے منظر کے حاکم کے نام پروانہ لکھا کہ فلاں شخص کو بے خبر شہوار ہاتھ سے نہ جائے.سردار محمد کرنے اسی وقت ایک سلحدار سواروں کا رسالہ رات رات ی ھیجدیا.جنہوں نے آدمی رات کے قریب مکان کا اگر حاطہ کر لیا ا نہوں نے آپ کو پکڑ لیا اور ر آپ کوا در آپ کے تمام اسباب اور کتابوں کو ملک کے صوبہ سردارمحمد عرفان پر میردوست محمد خان س کے پاس اگر حاضر کیا.اور آپ کے فرزندوں میں سے مولوی محمد صاحب مرحوم اور مولوی عبد الله صاحب مرحوم اور مولوی عبد الجبار صاحب مرتوم اُس وقت آپ کے ہمراہ تھے سب لوگوں کو یقین تھا.کہ وہاں پہنچتے ہی سخت سزا دیئے جاوے خت سزا دینے جاوینگے.جب آپ وہاں " ہنچے تو صوبہ دار میں آپ کا مبارک چہرہ دیکھ کر نرم ہو گیا.ادب کے ساتھ بولا.کہ آپ کیوں اس اپنے راستہ کو چھوٹا ہوگیا.کہ کل ہوتے نہ کچھ وقت کے مولومی کرتے ہیں.آپ بھی اُن کے ساتھ شریک ہو جائیں ملا دیا میرا ان کے جومیں نے کہا کہ اس شخص کو میرے ہاتھ میں دو میں اس کو توپ سے اڑا دوں آپ نے جواب میں فرمایا مجھ کو الہ تعالی کا کم ہے کہ میں ابی در سنت کو جای کرد بارہا مجھ کو الہام ہوا ہے د يا عبدي هذا كتابي وهذا عبادى یعنی اسے میرے بندے یہ میری کتاب ہے اور یہ میرے قاصر كتابي على عبادی بندے ہیں نہیں پڑھ سیری کتاب میرے بندوں پر.اور یہ بھی الہام ہوتا ہے.كان أَتَبَعْتَ أَهْوَاءَ هُرُ بَعْدَ اللَّذِى اور بی تو یا ان کانوں پر یہ اسلام کے جو جی کو نیا کو تیرا جاة من العلم مالك من اله من ولى العاب کوئی نہیں اللہ کے عذاب سے حمایت کرنیوالا نہ میں گھر.میں محکم قصد اور صحم ارادہ رکھتا ہوں کہ جب تک جان بدن میں ہے اور سرتن پر کتاب

Page 595

579 المتنبى القاياني نبذة من احواله و الكاذيبة تألیف المفتى محمود رکن مجلس تحفظ ختم نبوت باکستان الاسلام آغا شورش کاشمیری مدیر جریده "جنان لاهور - پاکستان قد اغتني بطبعه طبعة جديدة بالأوفست ستين حلمى بن سعید استانبولی يطلب من المكتبة اشيق بشارع دار الشفقة بفاتح ٧٢ استانبول - ترکیه

Page 596

580 J ان الميرزا غلام احمد استخدم عددا لا يحصى من السب و الشتم ليقنع الناس بأنه نبي - وكان بنجاب آنذاك اكثر المقاطعات المعدية تخلفا في الثقافة والوعى فتوجه الميرزا غلام احمد اليهم بما يلى من العبارات : قبلني جميع المسلمين ولم يرفضي الا اولاد العاهرات و المويات ! اتنة كمالات ص ٥٧٤.-٤ الذي يخالفي هو مشرک و جهنمی (تبلیغ الرسالة ج و ص ۲۷۸ والذي لا يؤمن بنجاحى يتضح أنه يحب أن يعد من اولاد الحرام - لأن هذا هو الدليل لكونه ولد الحرام (انوار اسلام ص (r.اعداؤنا خنازير فى البادية ونساؤهم اصبحن احسا من الكلبات در ثمین عربی ص ٢٤٩ مات الميرزا في ٢٦ مايو عام ۱۹۰۸م - نجعل خليفته الاول الحكيم نورالدين وتولى الخلافة من مايو ۱۹۰۸م الى مارس ١٩١٤م) و خلیفته الثاني الميرزا بشير الدين محمود و تولى الخلافة من مارس ۱۹۱۴م الى : ١٩٦٥م) جعلا الاحمدية وكالة لخدمة الاستعمار - ان هذه الوكالة قامت بخدمات جسيمة للانكليز ابان الحرب العالمية الأولى - اذ كان الأحمديون هم الذين يقومون بمهمات الجاسوسية للانكليز في البلدان الاسلامية - كما كانوا على علاقة وثيقة بمراكز الجاسوسية للانكليز في الهند في الدوائر المركزية و الاقليمية - و لقنوا المسلمين الدروس عن ضرورة ولاء الانكليز ليميتوا بذلك الروح العالمية للاواصر الدينية - ومن الجدير بالذكر أن الأحمديين أقاموا افراحا كبيرة حين سقطت بغداد على ايدى الإنكليز وكتب بشير الدين محمود عن مكة المكرمة والمدينة المنورة : "نضب سمينهما و كتب عن القاديان (مولد الميرزا غلام (احمد) في جريدة : الفضل عدد يناير ۱۰۲۵م : "إنها أم العالم و يستطيع العالم أن ينال منها كل : و صرح في نفس الجريدة في عدد ١٣ سبتمبر ۱۹۳۵ م - بأننا لا خير

Page 597

581 رستان تیار اور ای من پرسیمان کا دامن گاری حجت اپنا اسیر اور بتوں کوایا اورپی پی ام این و واین کہ آزادی بی کینیا مسلمانوں شعارہی کر دیا کی معاش میں انیٹی یونینسٹ پارٹی کے قیام کی تجو مولانا محمد الرمنیش ضیاء اور ان کے رکھا کا بصیرت افروز بیان ا نجاب کی رین امی کو بوقت سے بعد ہر وہ ریاں سے شروع ہو گا الم حسام صاحب ہی اسے صدر سویر داری ہے سنے کونفرانس مو جوس سوبر شده است استاد کو جد داری که کاری کی من است کرلی.قرآن اتاری کا بانی اسلام میں سے اس کا وہاں سے شروع ہو کہ بان بازار کو نہال کے گھر یا شانه کانی بیران انه است ما یونان کو بول کر تیل ماه - بازار میام نا ہو گی فرید راہیم.اس کا بیج سے باتم دروازہ سے ہو کر گول انے میں ختم ہوگیا.حصار محرمه مبانی بورے والہ دینگے ، مگر تمام پنجاب کے سے بات سے نمائندگان کامل فرید احمد جزل سیکر توفانی استقبالی پر ار ال عالموں نے مین کا نیں.امیرارزم آزادی کی اور د کنائی ہے اس سے اس کی مخالفت کرنا ہارا فرض ہے.ات 1 کرائی تے ے اور تم بل پر لاہور میں.اور ان سے کہاں سے پیش اسرار لنگ پوند داریاں ہیں جو میں کیا یہ ان میں انکے ہم سے اور پیش مراد کی زید که مان و ترکیه برطانوی سوشلسٹوں اور رمبران پارلیمنٹ کا فیصلہ این و متن بسته قرار داد کے ترین انتخاب الك المالية اليوم رویہ بہت ہے لیکن نے آپ.رتی ہے.کہ یہ امیر الیوم کی حقیقی سے کہا ہے خواہ ایک سال ہی ہوں اور ان کی جو ہند کے شانلی نے کہا کہ اشد ان

Page 598

582 اس کتاب کا کا غذ اسکارٹی کوٹہ سے حسب اندراج دفتر کلکتہ وی ہو استعمال کیا گیا يا عزيز يا جبار الحمد لله که نسخه مفید و مجموعه مضامین متبرکه یعنی بینام هدایت در تائید پاکستان و مسلم لیگ مرتبہ بند والضعیف محمد ابراهیم میر سیالکوئی انی بارشیں امرتسرمیں اور رضاعطا ودشت مینور وزیر اہتمام سے جھا اور مصنف نے ، دفتر تبلیغ سنت سیالکوٹ سے شائع کی

Page 599

583 کہ مجدد کیا بلا ہوتی ہے.آغایہ تر یہ ہے اور نمائندہ جماعت ہے.وجہ یہ کہ احمدی لوگ کانگریس میں تو شایل من ، جنات ات باتفاق کل حفاظ حدیث میں ہے ؟ ہو نہیں سکتے.کیونکہ وہ خالص مسلمانوں کی جماعت نہیں ہے.اور رح اکرام کی کے مقابلہ میں آپ عاجز آگئے.املا کیا اعداد میں شامل ہو سکتے ہیں.کیونکہ وہ سب مسلمانوں کے لئے علالت و خطر ایت کی تحقیر کر دی.ورنہ آپ حریت نہیں بلکہ صرف اپنی احراری جماعت کے لئے کرتے ہیں.جن کی و صحیح مانتے ہوئے ان کو کر سکتے تھے.کہ مرزا جی جس طرح احادیر کانگریسی جماعت ہے.اور حدیث الدین النصیحت کی ی نہ مہندی میں اسی طرح مجدد بھی نہیں ہیں.کیونکہ ان تفصیل میں خود رسول مقبول اتنے عامر مسلمین کی خیر خواہی کو شمار کیا ے عقائد و صفان شتہ کے خلاف میں بس ہے.رہیں مسلم ) ان سے پنڈ بھی چوت کیا اور صحیح حدیث کی تحقیر بھی نہ ان اس وقت مسلم لیگ ہی ایک ایسی جماعت ہے.جو ہوتی.اس موقع پر ان در واقع وقل مقدر این و ان کو خالص مسلمانوں کی ہے.اُس میں مسلمانوں کے سب فرقے شامل بھی حل کردوں.اور اس ہ ہی کی تعین کر رہے ہیں.پیش امدی صاحبان بھی اپنے آپ کو ایک اسلامی فرقہ جانتے ہوئے اس میں شامل ہو گئے.جس طرح کہ اہلحدیث ، حل کرونگا.میرے ایک گستاخ ما قطار مسافر سے موافقت کرلئے کے میں امرتسری شخص نے بھی پوچھا اتل کو میں احمدیوں کی شرکت میں نہ تو مسلم لیگ کا کوئی عہدے کسی دیگر کے ٹکٹ پر اسیری کا امینی ا مت دیگر یہ کار امویوں کا اس مانا اس بات کی دلیل ہے کہ والی حقی اور شیعہ وغیر ہم شابل ہوئے.اور اس امر کا اقرار کہ احمدی لوگ اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہیں.مولنا ابو الکلام کا کر ہی ہے.ان سے کو چھٹے اگر وہ انکار کر سکے.تو ہم ان کی تحریک میں دیکھا دینگے امارت کار سب سے آخری وجہ یہ کہ مولنا ابو الکلام نے معید مبارک کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ آنحضرت صلعم نے ایسے کفار قریش کے خلاف معاہدہ کیا تھا.پس ہی نہ لئے میں ہے کہ احمدی صاحبان بہر حال ہوت سے بہتر ہیں.کیونکہ بٹور سرے سے اس کی شان میں آپ نئے قانون وقت علی الاولاد کا ذکر کیا.یتیم یہ بتایا ہاں یو پی کے گورنر کو ایک تارہ دے دیا.کہ جماعت اہلحدیث کہ میں طرح سندھ اور سرحد کا الگ ہونا ان دو صوبوں کے لئے کو انتخاب میں جداگانہ حق ملنا چاہیئے.جرات یہ کی کہ میرا ان مفید ثابت ہوتا.اسی طرح مرکزی اسمبلی سے بھی مسلم اکثریت والے لیگ سے پوچھا بھی نہیں محض غیرت اور جوش سے کام صوبوں کا الگ ہو جانا مسلمانوں کے حق میں مفید ہو گیا.انشاء ال تعال ہے کہ ایسا کر دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا.کہ مسلم اخباروں یہ ہے پاکستان کی مختصر تشریح : نے بھی اس کی سخت مخالفت کی.اور ممبران اہل حدیث آپ نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ اس وقت قرآنی حدود شرعی لیگ بالکل خاموش بلکہ شرمندہ تھے ، کیونکہ آنہیں خیر جاری ہو جائینگی ، یا بے نمازوں کو سزائیں ملیں گی.بلکہ یہ کہتا ہوں.اور بھی نہ تھی ، آخر کیا ہوا؟ نہ پائیں رہا نہ بانسری رہی، نہ پاکستان کے حامی بھی یہی کہتے ہیں.کہ جو تجویز مسلمانوں کے لئے بحیثیت لیگ رہی نہ ممبر ر ہے ، إِنَّا لِلَّهِ وَإِنا اليه راجعون.نجوم مفید ہو گی.اسے ہم پاکستانی پاس کرا سکیں گے.اس کی مثالیں میری بعض اور عزیزوں نے بھی مراسلات بھیجے ہیں.جن پیش کردہ نظائر و دو صوبوں ، میں بیتی ہیں.باقی ادھر ادھر کی باتوں میں پاکستان پر اعتراضات کئے گئے ہیں ، مگر وہ ایسے کا ئیں قومہ دار نہیں، میں نے پاکستان کے جو معنی سمجھے ہیں وہ بہی میں اعتراضات ہیں.کہ ان کے شائع ہوئے.اسکے بعد دفتر میں مجھ سے فرمایا.کیا پاکستان کے مفہوم پر جو نوسیوں کی علمیت اور لیاقت کو صدمہ پہنچنے کا خطرہ اعتراضات مجھے نیچے ہیں.میں ان کو صحیح نہیں سمجھتا.مثلاً یہ کہا گیا ہے.ہے، اس لئے میں ان کو قابل اشاعت نہیں سمجھتا ہے کہ اس کے بانی را نتی ہیں، بدعتی ہیں.اور میرزائی بھی شریک نہیں.وغیرہ وغیرہ میرے خیال میں یہ اعتراضات سیاسی اصول سے رضاء الله نبیرہ مولنا ثناء اللہ صاحو قابل بالا تر نہیں.سیاسیات میں قوم کو بحیثیت نوع کے دیکھا جاتا ہے اصفات کا لحاظ نہیں ہوتا." لطیفہ : چند سال ہوئے ، ملحدیث اخبار کی تحریک سے ایک جماعت اہلحدیت نیک بنائی گئی تھی.اس نئے اور کوئی کام تو نہ کیا امرتسری

Page 600

584 ان الله مع الصابرين این کاا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ایریا یا انا کلیری ختم الله الله ارح سلطان الاولیا موسوم به من تاليف لطیف مرشد برحق بادی مطلق واقعیت اسرار حقیقت محمدی حضرت بادشاه دو جہاں مخدوم شاہ محمد حسن صاحب صابری چیشتی منفی قدوسی معشوق الہی بار چهارم ا جلد

Page 601

585 احدیت صرفہ میں وصال فرمایا اور میں شاہ جارج چہارم نے دس برس حکومت کر کے قضا کی یہ بادشاہ اول تو باشند وصیت نامه کار را بعد کو آخرت کی عیاشی میں بکثرت مصروف ہوا یہ دیکھکر اور سردار منفی عر نے اسکو قدیم سے عربی یعنی ہلاک کرکے اسکی بگشاہ ولیم چہارم کرانا اگلتان پر جاکر اس کام مطابق شام میں اس کا جاریس کرا دیا اور معرفت ابدال کے حضرت شاہ محمد امیر شاہ صاحب تغب الارشاد صابر یہ قادریہ نظامیہ کو اطلاع دی ان حضرت نے بقاعده بانی وصیت نا متضمن ہدایت و عدالت رعایا پروری ارقام فرما کرائی ابدال کے ہاتھی حضرت عبد الرشید صاحب سردار اکبر صفیہ عرب ٹیم کے پاس روانہ کیا ان حضرت نے حکیم منظوری بادشاہ مذکور کا ان سے حاصل کر کے قطب لندن کے پاس بھیجیا اور شب کے وقت لندن کے قطب نے اپنا قوت روحانی جاذبہ سے وہ صیت ۱۲۵۳ نامه بادشاہ کو شناکر اس کا پابند کرا دیا بادشاہ نے وصیت نامہ کا اقرار کیا اور آٹھ برس عمدہ طور سے سلطنت کر کے مر گیا.بجائے اس کے ملک کوئن وکٹوریہ کو سردار صفیہ عر بے تخت انکل ان پر شکن کیا اور کام مطابق ۶۱۸۳ میں جلوس کرو اگر معرفت ابدال کے حضرت شاہ محمد امیر شاہ صاحب قطب الارشاد صابر یہ قادریہ دنظامیہ کو اطلاع کی ان حضرت نے وصیت نامہ اس مضمون سے کوخلق اللہ ظلم من ارقام فرماکر امی ابدال کے ہاتھ سردار حسینیہ ور کے پاس روانہ کیا ان حضرت نے منظوری بادشاہت میں وصیت نامہ بذریعہ ابدال کے حضرت عبدالرشید صاحب سردار گبر حنفیہ عرب عجم کے پاس ارسال فرمایا ان حضرت نے حکم منظوری ملک کوئن وکٹوریہ کا ابٹن سے نافذ کرا کر قلب لندن کے پاس بھیج یادہ کم پانی کے موافق ملک موصوفہ کو سلطنت کرانے لگا اور اپنی قوت روحانی جاذبہ سے ملکہ مذکورہ کو حیات سنا دیا اور تبصرت بالمنی انصاف و عدالت کا وعدہ کرا یا یک شام میں ابو النصر مین الدین محمد اکبر شاہ نے نہیں ہیں ایتخت بادشاہ انگلستان کی بادشاہت کر کے قضا کی اور اسوجہ سے کہ مرنے چار برس قبل حضرت شاہ محمد امیر شاہ مینا قلب الارشاد مروح کی غلامی میں داخل ہو گیا تھا.یا ایمان دنیا سے گیا اور خاتمہ بخیر ہوا حضرت شاہ محمد عبد اللہ منا سردار مفید حجم نے بادشاہ مرحوم کی جگہ ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ بن اکبر شاہ کو مقرر کیا.میں بمقام دہلی جلوس کرا کر معرفت ابدال کے حضرت شاہ محمد میر شاه صاحب صابر به قادر به فنا سید کو طلا کی ان حضرت نے ویت نام مرور بال اتار کار کی ہداں کے ہاتھ سرا نفی ہونے کی اس بیا تا ان حصر نے وصیت نامہ نیا بور بادشاہ ذکور که اگر با بند دمیت کا ر ی به یاد شاه مذکور کو اقرار اور پابندی وصیت نامہ کے احوال و معرفت بال کے نی اری افرنگ منوی بادشاه نور الامام ما در کار را بدال در بالا توسط سے حضرت علو العزائم المرتبہ صابری قادری کے بھیج دیا اُن حضرت نے قلب پلی کے پاس مرسل کیا وہ اس سرور کیا پابند ہو گیا اور ابوظفر کو ماتحت قوم نصاری کے بادشاہت کرانے لگا.اور بادشاہ وصیت نامہ کایا بند ہو گیا ہے میں ہے حضرت شاہ محمد عبد الرحماد نے مشی گنگوہی سردار حنفیہ نے رحلت فرمائی اور بجائے آپکے حضرت عرس من نایی

Page 602

586 ۴۱۹ به حضرت مره رجب اور میں پیدا ہوئے اور گیارھویں ذی اسلام کو خلافت حاصل کی اُن حضرت کی وفات بھی نہیں ہوئی اس سے مرفوع علم نہ آئی بادشاہ کور نے ستائیس سال چند ماہ سلطنت کی اور بادشاہ کے نام سے اس عالم میں موسوم رہا لیکن پندرہ برس تک یہ بادشاہ مع متعلقین کے وصیت نامہ کا پابند ر ہا ہی اس کے بارہ برس تک میں متعلقی کے طاعت وصیت نامہ سے اکرات کیا اور جانگ امر سردری صادر ہو چکا تھا کہ مسلسلات انمت نوم فرنگ کے باقی رسیلی الوی بادشاه مذکور کو سردار صفیہ موصوف نے قدیم سے معزول یعنی ہلاک نہیں کیا صرف کثرت فسق ونجور دیگر جدید سے معربا کر دیا اور بموجب فرمان حضرت علو العزم و المرتبہ سابر یہ قادریہ نظامیہ کے حضرت عبدالرشید صاحب سرد اراکبر صفیہ عرب و جم کو ہر سال اسکی کیفیت سو اطلاع دیتے رہے.وہاں سے ہر سال ہی حکم صادر ہوتا تھا کہ ظاہر سے ہدایت کردیا کرو اور ہر قطب پہلی ہر روز بادشاہ کے احوال کو معرفت ابدال درجہ اول کے حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ ہی کے حضور میں عرض کرتا رہتا وہاں سے ہر دور کم ہوتا کہ یہ بادشاہ دا طریق ہے اور مجھ کو اپنے اولیا کی خاطر منتظری شاید یہ اپنی حرکات ناشایستہ سے کل باز آجائے حتی کہ بارہ برس تک مہلت دی کہ اس عرصہ میں راہ راست اختیار کرے اگر اس نہات میں بھی یہ بادشاہ اپنی حرکات سے باز نہ آوے تو اس مصیبت زدہ کو مع متعلقین کے حضرت سلطان نظام الدین محبوب التھی کے سپرد کر دیا جائے اسکو اختیار ہے کہ و چاہے کرے آخرالامر جیب بادشاہ مذکور نے بعد انقضائے بدت بارہ سال کے راہ راست پر قدم نہ رکھا تو سلام میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلطان سید نظام الدین محبوب کسی کے اُس کو سپرد کردیا ان حضرت نے حضرت بادشاہ دو جہاں محدود معلاء الدین علی احمد صابر صاحب ختم اللہ ان ارواح سلطان الاولیا قطب عالم اعیات بند مرا در رفیق طریق حقیقی اپنے کے تفویض کیا ان حضرت نے اپنے خاندان کے علو العزم المرتبہ مرفوع الاجازت حضرت شاہ امیر شاہ صاحب قد ابلے ارشاد کو مطلع فرما یا ان حضرت معرفت ابدال درجہ دوم کے حکمنامہ پانی پاس سردار حنفیہ حضرت عرب من صاحب آگے جاری کردیا اور میعاد بھی مقرر فرما دی کہ اس عرصہ میں کیمینا دوں کے چند ہزار چند صد و چند نفر سختی کے ساتھ مکہ متلی قدیم لعنتی قدیم سے معزول بھی ہلاک گر جائیں.اور بادشاہت باتحت فرنگ بھی موقوف کر کے قوم فرنگ مستقل حکمراں کر دیجائے کہ زمانه امام مهدی علیه السلام کا قریب؟ کفر تونی پکڑے تو کچھ مضائقہ نہیں ہے لیکن خلق اللہ ظلم سے محفوظ رہے اور فق و فجور کی سزائے کامل حضرات اقطاب اغیاث حدہ دھرے بیجھ دیا کریں گے اور ہر زمانہ کے علو العزم والمرتینا شہنشاہ ولایت سے اس کا عہدہ مقرر ہو جائے گا کہ فلاں قطب عالم اغیاث ہند کے تحت حضرات اقطاب اغیات و لقبا و یکجا و رقبا در یون و اولاد عشقوش و جماعت رجال الغیث اولا د فردی جوشش ہیں اور فلاں نام کے فلاں فلاں مقام میں مقرر ہے اور ان نو جماعتوں کا عالی سلسلہ حنفیہ کے بیان میں اول تحریر ہو چکا ہے العرض کی انجری مطابق شهردار تک بہادر شاہ بادشاہ کا ہو جب جسم مروری انتظار کیا گیا ۱۳۷۳

Page 603

587 THE HINDUSTAN TIMES ALC-INDIA MUSLIM LEAGUE Council Meels SUPPORT FOR MUSLIM R.T.G.DELEGATES Fruer Paquiry The Cut the enge expuse its dep doarpoint at the repo e Sin Finaner Baquiry Cooler sind is strangly of the opinion by mics and by introducing à les r mive for a minit, it was stil pride in laing the finan (Fram Our Spreist Reputatient positition of an previno tea THE NEAR EAST AND INDIA, THE D-UL-AZILA On the pening a He Minta Kruical_of_Muche, Meubl AR.Jauer -the LM, 3 de, held in my in g of the Wimble parteving, sandy the challan of S Naine Stewart Kand M.I'w hirved by Mr.M.B.Jimat Taking the Irwin's Future" the latter clath Genches for the maiden his miljess of India that nothing titly "ja" To the Widay Paper, bold sock bok full nel rich well-enent wok Wirlarna! Ha Blik Intan, la brated, a lasting train rid Hooded neer in man of his alience, tot wally adorned by others, the challenged by the Thodnot, who shed Haat he might not Star with the Ware Major proje, Mail.It would be Pr passive aga tua jat kaward by the jeremas jumla.ee, Unasty, who had luva samanset at a great hoster of Instian Muslima Lisfactory rain.This Cl Delhi, Monday.Annaler of realations of the Lego again repeated its think the renelionery a word at a very pontly sitededim and frame:lay form of mark important meeting of the Council of the All Medie demands of a fundamentals lin Mulin.Lengue, held in hion, Sunday afternoon will cha Tr.By Mohaliq, N.W...The Court of the Longue yiel Piyain Senelary to this Klasifs of with great alarm sal bed Qian in nahair.had almoriniai bine in nas from le Cen Party at in hie Spreyls his all the Lange Un ada i zakrution degment in fisting wineshed by un- Jadian villa in the M.Jinal mpiled a land can splin's Batin malt In where be strand send in the amo The Iman.H husking The Mir.Try fo and spines shut than myndbandia's fury lay d Amewal birth to be si mesdal Lag et sudy A, Kewwwthy, Sir Patrick and Taly Graber, Shadh die Wul, M.She Have A Meßerna Edward Marten Nader Out of a Talal, longth of 300, the effera shich being made only twelve mom alinded "stop the introduction of reforms niceling, among whip worn praentine M.W., Provinetration of Tin out first rithi Dr.ufti Afolui Siddiq nos in other parts of the Ciniry no embed make it ul Qadian, Sir Mohd Yaquite clear that any differential Duter Xix-ddin Syel Murixa, Mr.Chini, njt Abdulla Haroway MLA M.Tafni: Ahmad, Sheikh Abdul fan, Mr.Arif Hanvi, Mr.Abdul Wahid, "Mirza Tjan orain, and Mr.S, M, Alaclu lich.Only avo ratnical of the N.W.F.Pi a lain berente phenvet Lin Frontier Singh with gave The cemel father, orged at de NW, Pinhole oily fautside helileged like other ruvinees and to attend the meaning- Ta tho first rent in Tongueters berorpossible to L expend the of the late Maraja of Maharul- sad for President of Langue The Tenge the offered d statin in Nizam an the legislature.Kakunte The Count of the alrongly, tarbed nt the alentine" mtbil Kashuair Muslisan Allend The Id Azha Fisifal, dhurwas, Str Waugh, The celebration at the Sannlege Mamed Thursday me de festival at Pt of Av deewan herng of Telin nd Angle Indias and e Wnds of Wst Africe for as I ought This was pridaldy lesse West Africans de THE SUNDAY TIMES, APRIL 9, 1933 The Wimbledon Mosque TN addition to the crowded meeting of True Believers at the Woking Mosque last Thursday afternoon to celebrate the festival of the Id-ul-Azha there was also a large gathering in the grounds of the little mosque in Melross Road, Wird bledon, where Mr.Jinnah, the famous Indian Moslem, spoke on India's future.The chair A taken by Sir Nairne Stewart Sandeman M.P., and there were quite a number of alher, non-Moslems present.Mr.Jinnah made unfavourable comthents on the Indian White Paper and the afeguards from a nationalist point of view.The chairman.in reply, took up the Churchill attitude on the subject.and this led to heckling by some of the Moslem students present, who were, however, even- tually calmed by the Imam of the Mosque." Such gatherings are obviously no place for political discussions, and the experiment is not likely to be repentod,

Page 604

588 ZAY آزاد بنارستان میں آزاد اسلام پاکستان انگریزی ایجنٹوں کا فریب ہے مسلمانو ! سمجھو اور سوچو جنگ کی وجہ سے ہندوستانی عوام جس میں مسلمان بھی شامل ہیں.کھانے، کپڑے اور دوسری ضروریات زندگی کی جن روح فرسا تکلیفوں میں مبتلا ہیں.امید تھی کہ شملہ کا نفرنس میں جو قومی وزارت بنے گی وہ ہندوستانیوں کو ان مصائب سے نجات دلانے کی موثر کوشش کرے گی لیکن مسٹر جناح کی اس صدر نے کہ سروں خان بہادروں اور نوابوں کی جماعت مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نما بندہ ہے اور تنہا اسی کو مسلمانوں کی طرف سے بولنے اور ان کی ترجمانی کرنے کا حق ہے.اس لئے وائسرائے کی عارضی قومی وزارت میں غیر مسلموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے مسلم لیگ کے نمایندوں کے سوا کسی دوسری مسلم جماعت کا ایک نمائندہ بھی شریک نہ کیا جائے.شملہ کا نفرنس کو ناکام بنا دیا اور ہندوستان کے بدترین وضمن ایمبرے (جو اس وقت وزیر مہند تھے) نے بھی اپنے سامراجی مقاصد کے لئے ان کی سرپرستی کر کے اس بہٹ کو پورا کرنے میں اعداد و سی.کا نفرنس کی ناکامی کے بعد مسٹر جناح نے مسلم لیگ کی واحد نمایندگی کے دعوے کو صحیح ثابت کرنے کے لئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملک میں عام انتخابات کرائے جائیں، چنانچہ حکومت کی جانب سے انتخابات

Page 605

589 ہفتہ وار اخبار لاہور جلد ۲۳ نومبر ۶ نمبر ۱۹ مضمون سر عبد القادر صاحب متعلق جشن فتح جنگ عظیم اورام بر صفحه ۳ و ۴

Page 606

590 ہم اہل فرانس کوان کی انتہائی امداد کی کیونکہ ہم انسانیت کی حمایت جرمنی نے دوران جنگ میں فرانس پر مشریا گیا ہے.ان کا شہ عرصہ دوران کیا تک خواتین ہوگا، اس کے وسیم جنگلوں کے شیا جاب خطر اختیار کئے گے ڈرٹیز کالوں کے بارود سے اڑایا گیا.فرانس کے نوجوان بچوں سے قلیوں کا کام لیا گیا.اور بقبول جرمن اخبارات اس ستھرائی سے یہ مقصود تھا کہ فراش کی سپریے وب جائے مجھ ہو جائے لیکن میرے محو ہونے کی بجائے ناقابل تسخیر اخلاقی عظمت کی صورت میں آشکا..ہوئی کیا اور آج وہی سپرٹ.کیلئے منیر کی الفاظ کی محرک ہے : کا نام نہیں طرح نپولین کی گرفتاری کے نئے علوم و فنون کا دور جاری ہوا.اور ان کے کو قابل انتخاب لقب حاصل کیا حالت تھی طرح قیصر ولیم کا نہ وال ایک اور بعالم گیر تحر یک دامن و یہودی کا دینا چہ ثابت یک یورپ کا مستیار ترین ہیلو امن کی ہلاکت آفرین طاقت تھی.ایسا نوں کو بلاک کر پینے کے لئے زمین پر ہوا ہیں اور سمندر کے نیچے بیاہ کن چین انسانی تہنہ ہے.علم و سائنس ملہ کیا.نومبر مو حالات مسلح اور سح تنا ہی نے یہ تو میر کی یاں ہویں تاریخ جو خوشیاں سارے ن پیدا ایک میں سنائی گئی ہیں وہ مدتوں تک یار پیشین ے اور اس ایک دن کی خوشی نے لڑائی کے بابے یورپ کی بہت سی گافیوں کو دھوڈالا سرکاری طور حریک امیر جو نا یہ افسران اصلاح کے نام صلح کی خوشخبری دل ایک پہنچا.اس کے الفاظ یہ تھے پر صبح سے خیال ان کی خوشی منائی جائے.اخبارات نے بھی مره صلح چاہتے ہوئے صبح کا عنوان بڑے ملی حروف میں قائم کیا ہے یہی لوگ جو انس صلح کے پورے مفہوم سے واقف نہیں یہ وہ ہد کی خبروں کو پڑھ کر کہتے ہیں کہ جو کچھ ابھی اہے وہ تو یہی ہے کہ جرمنی نے عارضی ہ دستخط کئے ہیں اور عارضی صبح بھی پوری صباح کی کا ضروری ہے.کہ جن حالا اپنے لوگوں کو یہ بتانا ہونے کو ہے.اُن حالات میں صلح کے بنے فتح ہیں اور صلح کی جگہ اگر صرف فتح کا لفظ استعمال کیا جائے تو بیجا نہیں.دیہ کیجئے تو مندرجہ بالا و جوئے بادل ہو سکتا ہے جرمنی اور اس کے ہمرا ہوں.صلح کی درخواست که امین فیصلہ بر طانیہ اوبه دیگر کال ہیں جو حالات اتحاد میں کے

Page 607

حديث رسول الله صلى الله کا نفرنس نمبر 591 لمولات بلے از انبسیار او بود مقصود جو او آمد نوست گشت مشدد ایلر و حديث رَسُولُ الله صلى الله عليه لالالالام محمد ال لانبی بعدی از احسان خداست قیمت کیک رو پیدا

Page 608

592 17 موقت سنا جائے تاکہ کل اگر ان کے خلاف نیل دینے کے لئے ہم نے اس سے پوچھا کہ کیا حضروری ہے اب غیر مسلم کی تعریف کر د یعنی جو عقیدہ ختم نبوت کے افکار سے کافر ہوتا ہے اس کی تعریف کرو کر دہ ہو ابو کو حضرت عمر، حضرت عثمان غنی اور حضرت علال کر دیا جائے تو وہ دنیا میں اور بیرونی ممالک ہیں یہ نہ سے کسی نے یہ مقام حاصل کیا تو نہیں ، اور عیش ہیں تو ہم نے اس بارے میں فارمولہ تیار کیا کہ جو کہیں کہ ہم کو بلائے بغیر اور موقف سنے بغیر ہا ہے شخص اپنے نئے نبوت کا دگوئی کر سے دو کافر ہے علاوہ فیصلہ کر دیا گیا ہے.بطور اتمام حجت کے ان ممبر اسمبلی شیعہ تھے تو ان کے معاشرہ کے نئے میں نے مرزا ناصر سے پوچھا کہ اس مقام کو حضرت حسن وہیں نہیں جو یہ عقیدہ رکھے کہ کوئی اور نبی بھی بن سکتا کا موقف سنا ہمارے لئے ضروری تھا.اس لئے ان کو بلایا گیا جب انہوں نے اپنے نے حاصل کیا، تو انہوں نے کہا کہ نہیں گویا یہ اسلام ہے وہ بھی کافر ہے.بیانات پڑھے تو ان پر تیرہ دن بجٹ ہوئی.گیارہ دن سرورا تا سر پر اور دو دن صدر الدین پر جیتا.ہوئی میں شبہ نہیں کہ جب انہوں نے اپنا بیان پڑھا نم که جوان کو نبی یا مذہبی پیشوا تسلیم کرے وہ ہمیں ایک ہی شخص کو ملا ہے.ہم نے کہا کہ مرزا کے کافر ہے ، ترمیم نیست وقعہ میں جو اقلیتی فرقوں ملک کوئی آپی کا ہی نہیں.ہم نے کہا کہ اس کے معنی کو شمار کیا گیا ہے.ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی ادوات ستر سال میں کوئی اتنی نہیں آیا تو کہا نہیں کیا قیامت جھوٹ کاسٹ نہیں تو ہم نے کہا کہ ان کا بھر لیکر تو مسلمانوں کے باہمی مشکلات سے فائدہ اٹھایا اور یہ ہیں کہ یہ لوگ مرزا کو خلفاء راست دین اور حضرت یہ ثابت کیا کہ فلاں فرقے نے تلان پر کفر می فتوسل حسن و حسین سے کسی مرزا کو افضل سمجھتے ہیں.تو ہم دیا ہے، اور فلان نے تعمال کی تکفیر کی ہے.مسار انور سے نے مرزا کے شمائلہ سے کو کے باہمی اختلات کو لیکر اسمیوں کے ممبران کے ولی ہیں کہ مرزا کو اس میں اضافہ کرد ، ہماری گورنمنٹ اس کی مخالفت کر رہی تھی چنانچہ اس کے لئے ہم نے سیٹو معنی تو میر صاحب سے ملاقات کی اور میٹنگ کی تو بھٹو صاب ہونگر فرق یہ نے کہا کہ جب انہیں غیر مسلم کہا گیا ہے تو آپ ہم نے کہا کہ یہ تو ایک کلیہ اور دفعہ کے تحت غیر مسلم کہا گیا ہے.لیکن کو اس کا ہو مطالبہ ہے وہ ان کے میں یہ بات بیٹھا رہی کہ مولویوں ہم ہی صرف یہی ہے ہے کہ ہم حضور اکرم کو خاتم ان نے میں آپ سزا کو ان کے نام لینے کی کیا ضرورت ہے تو اس سے کروہ کفر کے فتوے دیتے ہیں.یہ کوئی ایسا تو نہیں کو خاتمہ نہین سمجھتے ہوئے کے قائل تم سبی جو کہ صرف آنا دیا نیوں سے متعلق ہو.یہ انہیں ناشر ہو، تو وہ اس سے ہو گھل گئے اور کہنے لگے کہ وہ دیا.اس میں شک نہیں کہ سمبران اسمبلی کا ز مین ہم اسے کچھ نہیں دینی مرزا غلام احمد تو ہم نے کہا آخر وہ کچھ بارہ میں مخصوص ہے کہ ان کو کافر کہا جائے.موافق نہیں تھا بلکہ ان سے متاثر ہو چکا تھا تو ہی ہے تھے تو سہی تو انہوں نے بار بار کیا کہ وہ کچھ نہیں تھے تو کوئی بحث کے بعد اس نے تسلیم کیا تو ہم نے کہا کہ پریشان تھے.چونکہ ارکان اسمبلی کا ذہین بھی متا بلکہ وہ کامل اتباع سے حضور کریم کی بات میں فنا دستور میں چھوٹ کاسٹ اینڈ مونالی لکھی.بریکیٹ ہو چکا منا اور ہمارے ارکان امیلی دینی مزاج سے مبی تھے اور ان کے تمام اوصاف حضور اکرم والے اور سان میں لاہوری گروپ اور گروپ ھو، پیرزاد لکھو عالیت نہ تھے اور خصوصا جب اسمبلی حال میں مرزان امر تھے ، تو ہار مبر اگر چہ ہے عمل تھے مگر بحیثیت نے کہا کہ ان کو احمد کی لکھو.ہم نے کہا کہ وہ احمدی کیا تو نہیں پہنے ہوئے اور شلوار و شروانی میں منہوس مسلمان ہونے کے یہ بات تو برداشت نہیں کر سکتے ہیں ہی نہیں ہمران ہم ہی نہیں کرتے پڑھی پکڑی نہ لگائے ہوئے تھا اور سفید ڈاڑھی تھے اور ہم نے سوال کیاکہ مرزا جو کچھ کہتا ہے وہو گی کیونکہ وہ تو و منشی آبرسول یانی من بعدی تھی کو ممبروں نے دیکھ کر کیا گیا یہ مشکل کافر کی ہے.انی ہے اور حقیقت ہے اس میں شک نہیں انہوں سے اسمه احمد ! سے تعبیر کرتے ہوئے اور جب وہ میان پڑا تھا تو قرآن بیند کی آنہیں پینا نے کہا ان چونکہ ان کو معلوم تھا کہ ان کے پاس والے اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں تو پیر زادہ نے کہا ه در جب حضوراکرم معلم تا این تور دو شریف میں جس میں مرزا نے اپنی بات کو بھی کہا ہے، تو اب کہ ان کو آئین میں احمدی لکھ کر بریکٹے ہیں لاجوردی پڑھتا کہ کو آیات سے ممبر مجھے گھور گھور کر دیکھتے مہم تھے ان کتابوں سے یہ حوالہ دیا کہ مرزا لکھتے ہیں کہ پا کا دیانی لکھو تو ہم نے اس سے بھی انکار کیا.تھے کہ یہ قرآن اور رسول کریم کے نام کے ساتھ دور جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لانا چاہیے اس نے مجھے نہ دیکھا میں نے کہا اس کا معنی تو یہ ہیں کہ ہم نے بھی.شرایت پڑھنا ہے اور تم اسے کافر کہتے ہو اور اسن ہو اور نہ میرا نام سنا ہو تو وہ کافر ہے.تو ہم نے انہیں احمدی تسلیم کر لیا تو کمیٹی کے کچھ مہروں نے.رسول کہتے ہیں اور پراپیگنڈے کے لحاظ سے ہیں کہا کہ کیا یہ درست اور صحیح ہے تو انہوں نے کہالاں اس بارہ میں ان سے اتفاقی راستے کیا اور کچھ ہے.مشہور ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کیسے وہ سا ہے یہ صحیح ہے اس میں ضلعی کا کوئی احتمال نہیں ہے.کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں آتا تو میں نے انہیں جا ہے تو جب وہ مسلمان ہونے کا کوئی کرتا ہے تو تو میر سمجھے کہ تو ہمیں کافر کہتے ہیں.اور ہم ان کے علیحدہ کمرے میں سمجھایا کہ دیکھو میں قانون دان تو نہیں کیا حتی ہے کہ آپ ان کو کافر کہیں تو ہم اللہ مسلمان ہونے کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں نہیں ہوں لیکن مجھے معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جو بات کھائی سے دست بدعا تھے کہ اسے مقلب القلوب یہاں مہروں کا زمین بدل اور وہ ان کے مخالف ہو گئے بر سیٹ میں لکھی جاتی ہے وہ دستور کا حصہ نہیں.ال دلوں کو پھیر رہے.اگر تو نے بھی ہماری امداد نہ کریں کیونکہ انہوں نے مرزا پر تو ایمان نہیں لایا تھا.ہوتی.بریکٹ میں تو بطور وضاحت کے لکھا جاتا تو یہ مسئلہ قیام قیامت تک اسکی مرحلہ میں رہ چانچ کہوں دبیاں سامعین نے کہلے لائے ، تو انہوں نے کہا کہ ہے تو انہوں نے کہا کہ اب پھر کیا لکھیں تو ہیں میں نہیں ہوا لی کہ میں اتنا پریشان کر بعض اوقات ، اگر ان کو ہم روٹ دینگے تو گویا ہم اپنے کفر پر والے نے کہا کہ ہے مکمو د فانور آن روی مرزا غلام احمدا یان نا مجھے رات کے تین چار بجے تک نیند نہیں آتی تھی دیں مجھے.اور بریکٹ میں لکھو کہ قادیانی مینڈی مہوری تو میاں جب ان کے بیانات کے فورا بعد جماع شروع ہوئی اللہ تعالی نے مدد فرمائی اور محمد اللہ یہ مسکر میں پیر زادہ نے یہ حربہ استعمال کیا اور کہا کہ نام کی آرمین کر وہ جنت میں ایسی باتیں کرتے کہ مہران کے فین ہوگیا اور دستور میں ترمیم کرنی پڑی یہاں چارہی ہیں میں ضرورت نہیں ہے.ہم نے کہا بوقت ضرورت فوری طور پر منتقل ہو گئے مثل ہم نے ان سے پوچھا ہو میں پہلی ترمیم میں ہم نے واک آدھے کیا.ہوتی ہے.جیسے تغیر علی چنارج اور تاریخ اسلام میں کہ تم مرزا کو کیا کہتے ہو.انہوں نے کہا کہ وہ اتنی بھی دوسری ترمیم مسئلہ ختم نبوت کے بارے میں تھی حضور اکر یہ علم کا نام ہے.تو پیر زادہ نے دوسرا ہے تو ہم نے پوچھا کہ امتی ہی کیا ہو تا ہے تو کہا کہ اس کو اتفاقی رائے سے پاس میں تمہر ہی سے اختلاف حربہ استعمال کیا کہ مفتی صاحب آپ ان کا نام جو کامل اتباع سے نبوت کا مقام حاصل کرے وہ کیا اور چوتھی ہیں تو نہیں باہر نکال دیا گیا.لکھ کر دستور کو ناپاک نہ کرو تو میں نے کہا کہ کوئی امتی بھی ہے ہم نے کیا کہ کوئی اور بھی امتی نبی میں اپنے دوسری ترمیم جو مسئلہ ختم نبوت کے متعلق ایسی بات بایاں ہے بلکہ قرآن مجید اللہ تعالے کہا میں ہم نے کہا کہ تیرہ سو سال قبل کوئی ہوا کیا تھی اسمیں عجیب باتیں کہ اب فیصدی کی ہی تو ہم نے کی کتاب ہے تو اس میں شیطان ، فربونت نہیں چونکہ بہار سے بعض سکتی تھے تو ہم نے ان کو تاثر کیا کہ روتر یہ میں کرو.نبیلہ مسلم کی تعریت تو موریکی قارون کا نام تبھی ہے.

Page 609

لاہور عان مانی تشویش کا شیرین سکاٹ لینڈت GIGAA ROYAL SAL 593

Page 610

594 مولاناسید ابو الاعلی مودودی کا خط مدیر الحق اکوڑہ خٹک کے نام قادیانی مسئلہ اپنے حمل کے بعد ! قانون سازی بھی یا مشکل ناگزیر ہے، مثال کے طورہ کی دفعہ الف کے بعد واقعہ ب کا اضافہ کیا ہے ر انتخابی قوانین میں ایسی ترمیم ہونی چاہیے ، جو کے مطابق ووٹوں کے فارم میں نام درج کرواتے.وقت پورا مہدی اور رابونی مرزائی پر یہ قانون اندیم قرار دیا جائے کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلموں کے خانے میں مرزائی یا اعمری لکھوائے اور ان دونوں گروہوں کا اپنے آپ کو مسلم لکھوانا جرم میں گا جیسی مر میں رنگرزی ! السلام علیکم آپ کا عنایت نامہ ملا، نھیں میں آپ نے قادیانی جس میں درج ہو کہ مسئلے سے متعلق چند سوالات دریافت کئے ہیں، آپ و ایک مسلمان جو محمد صلی اللہ علیہ مسلم کالے سوال یہ ہے کہ قادیانی مسئلے کے حل پر آپ کے کی ختم نبوت کے مفہوم مندرجہ آئین پاکت احساسات کیا ہیں، ظاہر ہے کہ اس مسئلے کے حل سے وضہ ۲۶ شلق غیر یو کے خلات مقید ہے کا اعلان یا اس کے خلاف عمل یا تبلیغ آپ کی مرادہ قومی اسمبلی کا فیصلہ ہے، بلاشبہ اسمبلی اور حکومت کا یہ فیصلہ نہایت مستحسن اور ساری دنیا کے کرے وہ قابل سندار تعریے ہوگا مسلمانوں کے لیے حیرت انگیز ہے ، اور اس پر ہم یه قرار داود غالبا ملت میں مرتب اور پاس کر کی کم سے کم مزاستی رائے رہی سے قریبی ہوگئی تنی بھی خوشی منائیں اور الہ تعالی کا شکار گوری دی گئی ہے، اور اس کی ابتداء میں مسلمان کا تو کتنے ایشن ایکٹ میں کے تحت شناختی کاموڈ میں الکل بجا ہو گا لیکن ہماری حکومت نیشنل اسمبلی اور اسی کی وجہ سے اس میں ابہام واشتہاء پیدا ہو گیا ہے ظاہر رہے ہیں، ان میں بھی ترسیم ہونی چاہیئے، جس کہ اس فقدان ہی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیئے کہ اس ہے کہ کسی مسلمان سے متعلق ہے تصور ہی نہیں کیا چاہتا کی رو سے کارڈ میں بھی ایسی تصریح کا زمان کالا سلسلے میں ان کی ذمہ داری اب ختم ہو چکی ہے، اور کہ وہ اس جرم شنیع کا مرتکب ہو گا اور مرتکب ہونے پیالی موجب مرا ہو.اس فیصلے سے قادیانی مسئلہ پھرنے کا پر اصل ہو گیا کے بعد وہ مسلمان کہلانے کا مستحق رہ سکے گا.نوروز اسی طرح ہر اعدام محکومت پر بھی یہ لازم ہونا چاہیئے ہے، اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف پہلا دستوری ترمیم ہی تھے کے طے کر دیا ہے کہ ایسا شخص قدم ہے، ہم صحیح سمت میں اٹھایا گیا ہے اور ابھی دائرہ اسلام سے خارج ہوگا خواہ وہ کمان ہونے کا داروئی نے کسی ایک سے تعلق رکھتا ہے تو وہ اس کی باقاعدہ اصلاح اپنے نمکہ کے توسط سے حکومت ملک بہت سے ضروری اقدامات ایسے باقی ہیں جن کے کرے ، چنا نچوان الفاظ کے ساتھ اس مرزا کے احد قد بغیر تعلیم جوں کا توں باقی رہے گا کہ نہ یہ بھی ہو میں دشواری کا سامنا ہوگا، ابن العری زرات پاکستان میں ود ہے ، اور جو ایسانہ کرے یا غلط اطلاع دے کتا ہے کہ خدانخواتہ مزید پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں اور اس مجوزہ ترمیم کو واضح اور غیر مہم بنانے اور اس کے اسے علامت کے لیے نا اہل قرار دیا جائے.ہم اس اہم فیصلے کے تار سے محروم نہ ہو جائیں آپ مقصد تنقید کو آسان بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پاسپورٹ میں بھی اسی قسم کا نور ای اور امین ک ایک عنایت تار پہلے آچکا تا اب یا دو اند باید ایک مسلمان و نان و روم کی بجائے ایک مر گیا کی خلاف ورزی پر سزا نیز روئے قانون لازم مانی تقانے کا دوسرا خط آیا ہے، جس میں آپ نے جلد جان اسلام سے کیا جائے.کہ اگر وہ قادیانیوں سے ان دونوں گروہوں میں چاہیئے.معلوم ہوا ہے کہ حکومت کے بعض ملکوں بالٹکا ہے، چند ضروری کرنے سے کام جو اس وقت تار گری رو بشر مسلمان ہونے کا دھوئی کرتے ہوئے میں قادیانیوں کی فہرستیں تیار ہور ہی ہیں، دیکھیں قرآن میں آر ہے ہیں، وہ درج خیل ہیں :.ختم نبوت کے مسلمہ عقیدہ و مفہوم کے خلاف کسی قالی ان میں بعض قادیانیوں کا نام درج نہیں ہونا ر کا شہر گوری اسمبلی نے آئینی ترمیم کے علاوہ ایک عمل کا اظہار کر سکے.یا اخراج ہو جانے کے بعد اسے مذمت کرا دیا گیا قرار داد پہ بھی منظور کی ہے کہ تعزیرات پاکستان کا نیشنل اہلی کے فیصلے پر عمل آمد کے لیے کچھ مزید ریات میں

Page 611

595 مستاج محمود مجلس ادارت مولانا نعیم استی مولا نام امل و نایا مرانا تاج محمد نفر دالى آنکه شیاره میں واهد من برهامر مان احمد اسمعیل علیہ نے آوا مرانوں کی ساتوش ناکام في تفضیل ریو در آمده شماره مین ملاحظه فرمایی : مساله با تو برا ۱۸ ۲۵ آل پاکستان ختم نبوت کانفرنس وات آپ کی تمام مکاتیب فکر کے اتحاد کا ایمان افروز منظاہرہ اماد حتی کہ صدر مملکت کے رہنے میں رائل تھے ، جیسے ہوس کے ہر برائیوں کی حقہ پانی ملے گی ایانات نہیں اور جہاں سے نیر مرا اور بانه شیر کو درست کرنیوار شرکت مائل نہ پریست که امیدی باید کسی باهم وقت کی دوستش در تاجر تکریت ہے کے امد کرنے کمرہ آل است از اختر حیرت کی انفرنس با اکثر مسلمان کے والے کا نعرہ میں اس میں کیا مراد امیوں کو غیر مسلم امیت کرانے والے کیم اور رانی انار ها و باره این افراشته سالی است اشاره گر کر تی ر اول مر گیا تو به ایده تاریخی فیصد کیا اور مدیر کو نا ام ایام میشوں اور علامات سے منتقل ہونا خریدا ہوتی ہے اس سیٹ پر آتی را میں اس کے تعاتب مر گیا.ی ترقی میرا شہر موصود ہوتی تھی عیسی محمد ایک اندازے کے مطابق لائیے پھر اس کے ساتھہ انسانیت سوز ملوک سے مر تیرہ دربار سے اسٹیشن پر سنی انا کی لاکھ افراد نے شرکت کی تھی اس ترقی کو کیسے است کہ دیا جاتا.میں گلت باقی تھی میں اسے گرفتار کر لی اور روں کو نقد یہ الفرانس الکتریہ میں رکھی مستی کر کہ مشیر آن اگر قصر ملاقت ہے قصابیات میں فیس میں تھی تکمیل ہو چکی ہے جہاں جھلسی ہیرو، ایبٹ آیا ید اس قبیل نمار کی نسبت اس نام میں موسم معتدل ہوں کہنا کی بارہ مہینے ہے اس کی کیا اور کسی اکسیر تحفظ ختم نبوت کے سہلانے مال کا تند باشیم ہے.یاستے کو کتنے ہی بے معندو الفاظوں اور سی مان جاری آبادی شان کے لیجانے گجرات مگر جب پر اب پاکستان کی مقدر میں سر زمین پا ایک سوالوں کی ہی ہیں وہاں سے ہر امیر ہوں نہیں جر و بحر رات والقريب اله شینو با سایر اسر ایل کی حیثیت رکھتا ہے.مجھے گم پسند ام وی ایک تھا نے کا ایام عمل میں ای مینا ست میں ره بهرنگ نا تو سیٹ پر پیری مرحوم نے مرنا شال بار کا ر۹۰ پرستی کو مامان کے اسیر کا ہوششوں سے مسلم کا رتی برای بیان بہت ساہین احمد کا نام دیا تھا جو مرا از سورت پر ایک سو ہے ہے رہے کے تحت مسلمانوں کو پالے ویسے تمھتے ہو تمام رہیں میں سر لاشوں کی اپنی منکرت ہے " میں مکر کے انہیں ہے کی طرح گھائی کمر و یا ایشی کاوانی میں کینس مختلف ختم به ان کا اپنا نظام ہے اور مملکت کی جہاد کی حالت از انتهای فارسی کسی مریوه به سه ختم بنوت الله با نگے سیف اور وزارت کا بھا تے القارت کی ناپاک دھرتی پر میت مسلمان جب کے لئے کہ میں ایسا ما منقطہ استعمال کیا جاتا ہے پیسے کیسے پاک توان کے نظرے کرنے فر پور سے ہر بار ہے اور سے قبیل روپوں کی یہ حالت تھی کہ حکومت ملک میں النحویہ کے مرد است نه مرزبانی نے مدینہ مین ۳ ا لا هنتر تعمیر پاکستان کو بڑے سے بلا ما ان القمر کے خلاف تم رنسے کا ایک اور صدر گرین اری کر کھا مشہر میں چیٹ آن وی درپردہ کی اجازت اور ہر و ریش سے لیکر اور نمبر ایک کے بعد میرے اس لیے گھر مشی و سیاسے ہو سکتے ہیں؟ ماچی دال

Page 612

596 بهترین چهار جابرٹ انسان کے سامنے کلیہ بھی کہنا ہے (حدیث پاک) روزی تو اسے قت انوار در اکتوبر ۱۹۷۴م لا شود.راولپنڈی قائیمانی مسئلے کا حل اور چندر بھی چھے تق اسلامی تاریخ میں اس قدریو عرب تا دیا نے مسئلہ پر حکومت کے فیصلہ کے سلسلے میں چند حقات کا تذکرہ ناظرین کیلئے میں قید کی اہم اور اہمیت یہ ہے کلامی کا علاج اجتماع امت است با لی مین و پر رائے امور کی سنوری تاریخ میں ا اور ان کی کسی مستند و کسی را تا امت نہیں ہوا.ایمان است ہیں ملک کے سب بڑے سے بڑے ملا د کیا اور باطلان شریح کورہ تمام سیاسی لیڈے اور ہر گروپ کے سیا کیا ہیں ؟ کیا عورت ی ہوتے ہیں اور میر بیا ئے کرام اور بار زمین باللہ برگزید تا این ران دو طریقت کو معین علی الی اتفاق ہوا ہے، کادیانی فرقہ کو چھوڑو یں نہیں کرتے مسلا نوں کئے جائے جاتے ہیں.سب کے سب اس کیا میں مال پرستی اور خوشی میں نے جمائے ملت اور مالکہ میں کا سید عطا اللہ شاہ بخاری سے اترانا ہوتا ہے.میں پڑھتا گیا جوں جوں زما کی وال است ہو جاتی ہے مثلا وہ لکھتے ہیں کہ ار پہر کا کام تقبل کستانی ہے نہ کہ قبض پیداکرنا لیکن کبھی کبھی سامعین کا مریض اس قسم کا خطرناک ملے کہ پیچیدہ ہو گیا ہوتا ہے کہ یہ تعین کشاورائی جو انہتر کی صورت میں ترین کر دیا ہاتی ہے.الٹا اثر کر کے معنی کو قیمتی کے عارضہ میں مبتلا کر دیتی ہے اور در سرا مریض جاتا رہتا ہے تھے.از پیله تبعیض شده اعلان را بالی بات ہو جاتی ہے کیونکہ مرضین و کچھ میں کھاتا ہے.رہ مریض ہی بنتا جاتا ہے.ارچه نمیرد حتی ملت شود کفر کیبرد کامل تمت شود اس دور میں پاکستان میں پاسکل میں ہو اہے جیبی نیست سے بھی ہوا.خوب امرا کیو نکہ اس فتنہ کا مقرباب ہو گیا اور اب ان حالات میں یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ سو کامل اس فرقہ کار سے اٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے تویی باران تقدح خوار کئے اللہ تعالے ان کو ہم ان ساتھی مبارک کہ سے انسان میں اسلام کا درد بھرے ہے.اور انھیں صحیح معنوں میں مسلمان میں جو اس میداد و خراش اور روال د داکت برجی انتشار تخریب موری، شادو نشتہ پیدا کر کے رائل اس کو تباہ کردے گی کہ تم کہ ان کی مہارت اور بصیرت کی ضرورت ہے کم کرلینا چاہئے.حضر علم کا ارمان ہے کہ میری امت کبھی کرنے کے لئے روا رکھی ہیں.اور جب وہ اگلی امن تنا ہو جاتا ہے متعلق نہ ہوتی اسلئے یہ اسد میں ہے.اور گرہ پر شریہ نا ہو جاتی ہے تو سر مہدوں پر فوج کشی کی دوری نہیں اقلیت کا تصو بہ اور چود دری محمد ظفرالله تان اس کے علاوہ اسی فیصد کی.مشروع ہو جاتی ہیں اور اگر موقع بہتربن جائے تو جک ہے دنیا میں کچھ عجیب باتیں ہو جاتی ہیں ہوئی بات ایک

Page 613

597 الجله غير ان شماره غیر ۲۱ KHATME NUBUWWAT LAN INTERNATIONAL WEEKLY MAGAZINE) مهوری احمد التامل کا

Page 614

598 خطاب المرید کو کیا ہوا ہو جائے گا.اور بھٹو کی تقریر کیا وہ ایسے تخت پر ہوا بھی تھے پر میں نے آج تمہارے پا سی طاقت نہیں، ہمارے خلاف اشتہارات سے وہ تقریر این قاریہ دور میں ان کی قدر کرنی چاہیے ایران کون ہے یہ کسی سے تختہ میں بھر سکتی ہے امل العلم میں کرے یا ہار ہے مہارت اور کچھ بڑھ کر سے دور، خالد پیش می گفتی مارش نیز میگو یہ کہ قوت سے کوئی الك المدرسي أول الملك من تشاء ونوع الذيب میں آجائے ہم کیا یا نہ کر سکیں ، اس نے یہ ظلم کیا آورد مطلوب نہیں سک 10 میں اس مسئلہ کو پایا گیا نہ کہیں نشاء و تعز من تشارو تا من تشار پیدل قلم نے ہماری اس تحریک کنہ شہر کھا ، اس لیے قدرت ار آیا پہلے پہلے عوامل نہیں ہوتا اسے کیا اور انکے بھی کیاشی و تقدیم میں نے اوپر سایہ اسلام کا ایک طرف لوگوں نے اجر میاد یعنی شہر ہے یہ ہے کرا قیام تقدیم سے مسلہ حل کیا جائے اجسام است امی اور اس نیک و فکر اور جوایز میرے مانے ہو گئے، سینے جھیل گئے سب کچھ مہرا، ان کو تو جھیل گیا تیب سے مسلمان ہو گیا انسانده بود، انجام تقسیم پر کی میں اتا ہوں اور میں نے کہا اور ماحب انشاء اللہ تعالی نے بازاری اور جناب در جیب کی یاد تان کر یوں اسانی سے عمل کرنے کا راستہ کھل گیا ہی کی تر کر نے کا ارادہ کہ پیر سے ڈرتے ہو تو اسلام ان کی کا میا یا الان الافرادی تحریک کی ایک شاندار باتیں اس کے پینا میں کتنا ہونا اللہ نے ان کی مفت میں نہیں کرتے ہو.اگروں پر آپ کو سیدنی داستان ہے جو بغیر بات ہو گی.شہبہ عظیم فوت ۵۳ اور لوگ نہ ان سے پیچھے الفاظ و کمال بیٹے اس لیے ہوا اور نہیں ہے.اگر اللہ کے راضی کرنے کے لیے تم کی، شہر اخر مرکوزہ نہ ہو تے ہیں ، مظالم نے اس اپنا اس کے کہ تیور اور خود کہا ہے کہ ہم اقدام و نظریں مسلما ہوں گے کے مقابہ کو ماتو توی کی امر کی اشاعت کا تحریک کو یز مری کی اور قوم کوستی را در تفتق بناد یا ندارد ہے.انکی علوم کے پروگے ا ا بھی پہنیں لے کر اس وقت وہ کیا اتنا برا ہوں اتنا اپنا سینہ کے اندر جب سے یہ شاہرہ امجد کر نے منزل مقص: ابھی آئے.انا بھی ختم نا میں ہی اس میں کہا تھا علیحدہ ملاقات تو یہ پینے یا ہے تا دریا میں میرے علم میں اس سے بڑا المیہ وا ایک مال ہوا اور تم نے قومی اصول کند بایہ ہو گا کہ مسلہ یہاں سے اتنی جلد کے عمل ہوگا؟ میں نے کیا ہوا نہ محدود ہیں یا در سری کا نظریوں کے اے رہنا قسیم سے سائن ان ہو سکتے ہیں ہم میں کتے کیا ہی کہنا ہے کہ نہیں ہے میرا بیان کا منہ ہے ، آپ دشت مینا محمد انور تھاجو کسی کے بھرا ہوا تھا ایک لا کھو ام کہاں اور امر ناچاپ بنے ہیں اہم تو ا نلوم رہے کے وزیر اعظم میں اس نے پارٹی کے لیے ہیں امشب توضیح معنوں میں آتا ہے اور لوگ بغیر صفوں کے بیٹے کا ہم تھوڑے رہے ہیں نے ان سے کیا تھا کریں نہیں آپ کے پاک ہے، ایک پکی پارٹی کو پورا پورا نہیں ہوئے تھے، بینی دو لاکی تھی اندر تھا اور اس سے بارک ہو ہے کہ ماہم تجھ سے نہیں لینا چاہےتو و مہارا نہتے نہیں ہوں وہ آپ کو اکثر نے پارٹی کے لیڈر این دو گیا اس سے باہر تھا.ان سب نے پر جوش الدائن گر تم نے مان لیا تو اپنی پارٹی کی کز او مت چھوڑو میں کہا ہم سب مرنے کے لیے قبیلہ ہیں ، آخر میں میں بات تم ان تھے.کی چہیتے ہیں تشہ پایا گیا، ان ہے.مرن کر یہ کہ ہوا کرو ہم آن ہو جائے گا ایک نے بھی ایک جملہ کہا جو بہت سخت تھا اور مزاج کے اس سے اور کہے کہ تین مہینے اس نے میر انڈ پایا نہیں لکھنے میں ہو سکتا ہے، یہ تو وہ شخص کہ سکتا ہے جو اکثری خلاف تھا میں نے کیا کہ بھٹو صاحب لکھنے والے کیا وہ سلام کرنے کے منہ کی بیاہ انہاری تو یہ کہتے پارٹی کا لی ہو.تم وزیر اعظم بھی ہو اور اکثریتی پانی کے ہیں اور سنے والے من میں ! اب میں اللہ کے لیے کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور پنجاب کیہ احمدیہ کے بیٹے بھی ہوں ، حسب دارد ایرانہ تیاری میت یہ ہے کرتا ہوں کہ مات تامریکا کے بعد اگر فیصلہ آپ نے الم نے بعد مظالم ڈھائے، جن کے تصور ہے ان پر بارہ منٹ یہ اپنے کام کیا اپنی قومی اکیلی نے پیار می خواہش میں مسلمابق نہیں کیا تو آنکھ بھر لی ہے کچھ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، الا للہ مانا یہ یوں پندرہ منٹ میں کام کر لیا سینیٹ نے وار منٹ میں کی وزارت علمی مبارک ہوں آپ پر قادیانیوں میں جاکر وں کو نہ ہی ان کوشت یا ان کو سوئیاں چھو لیں کام کر لیا انسان کا بھٹو صاحب نہیں مانتے تھے انہیں بیٹھ جائیے.آپ ان کا مبارک ہوں ، آپ ان کے کیا کچھ کیا اتنے امام کے کرم اوردن او واشر ہ سے مانتے تھے ایجود ہے کہ ہندے موٹے میں اس نے بھی کام وزیر اعظم ہوں گے ہمار ے نہیں ہوں گے یا نہیں ان کل پر مان ہوتی پردہ نشین طور شی ہو نے سے کرے دیار والی کیا یا کہ ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا اور تمہیں پھر کہنا پڑا.انہوں نے بلی اور یہ تمام مرامی اپنی ہوتی رفتاری سے تھے میں جمنے کی میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قوم کے اتحاد اور قوم ا پرادش منوی کی میتوان ہوگیا کہ کیا ہورہا ہے.کی تنظیم میں بڑی طاقت ہے ، اس کے ساتھ اور مظلوم ان کو گرفتار کرنے کے لیے محمد یوں کا کہ میں یونانی ہو جانا یہ ان کا فرق سے کوئی بات تھی، انہوں بن کر کے رہتا ، اتحاد کو وہاں منظوم نور لیس امن اس کا کچھ نہیں کیا گیا ہی سے ایسے اسکو یہ ہے ہم نے نے کہا ہے سب وسائل بیات مہینے تھے اند اخبار سے ہو.پھر کامیابی انشاء اللہ آپ کے قدم چاہے اپنے روتر سیہ اندراج کو ملاقات ہوئی تحاری کا مقالہ جاری پاس پر میں تمہارے پاس نہ لیا دی جائے گی یہ ہمیشہ کے لیے ہماری تاریخ ہے ، اس سے زیادہ میں انیہ ہمارے پاس ، ہمارے پاس کوئی باقی می پر

Page 615

599 دین کے ہر محاذ پر کام کرنیکی ضرورت کا جامع الناس STATETETETERS خ الحديث ك قادیانیت کی تردید شائع کردی ع الله تر بامحمد کریا کی جامع شخصیت بینی کاموں اداره مرکز ندید شمع فروزاں تھی.دعوت و ارشاد ولایت فقیر امین چنیوٹ (پاکستان) رہے تھے اور عجیب جوش میں تھے.در دارہ سے نکلتے ہوئے ہم خدام کی طرف دیکھ کر بہت زوردی علاوہ ازیں دوسرے ہر قسم کے دینی کاموں کو حضرت ہمیشہ میرا ہے میں فرمایا : رہتے.رو فرق باطلہ میں اپنے مشاغل علمیہ وغیرہ کے لحاظ سے حتی الوسع بھر پور حصہ لیا.قادیانیت جیسے خطر ناک فتنہ کے رد میں اس فتنہ کے ابتداء میں سہو کچھ کیا ہو گا وہ ہمارے سامنے نہیں ، مگر اس شعبہ کے خصوصی لبس لکھ دوں کے مروا دیتے ہیں نکہ اسی دفعہ انشاء اللہ مسایل کی والیتا ہے کو اسے بار بار تجیب جوش میں نہاتے رہے اور متقی بھی رہی ہے کہ اکابر کے ساتھ حضرت کے خصوصی تعلقات خصوصا اکابر علما ء جماعت.ختم نبوت جیسے اہم و بنیاد می مسئلہ کے حل کے لیے اگر لاکھ دوں کو فرزندان احرار اسلام ان کے سر پرست حضرت اقدس رائے پوری اور حضرت علامہ اسلام و عاشقان رسول خیر الانام قربان ہو جاتے تو سودا مہنگا نہیں تھا.مگر سید انور شاہ صاحب کشمیری نیرامیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ سنت اللہ یہی ہے کہ جب کوئی مالک کی رضا کے لیے دین کی سربلندی کا حب بخاری اور رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لما له مالون کے لیے اخلاص کے ساتھ مرنے مردانے پر آجاتا ہے تو قادر کریم نخود اس وغیرہ کی بناء پر یقینا عملا اور مشوروں میں وافر حصہ لیا ہو گا گمراہی اخیر ورود کی حفاظت فرماتا ہے اور پھر پوری تحریک کے دوران تحریک کے ارکان نہیں جو اس سیاہ کار کے سامنے.ہے، پاکستان میں اس فتنہ کے سراٹھانے کا اور اس کے حالات کے بارے میں برابر معلومات رکھتے اور دعاء و توجہ من کے رسالہ ز عشرہ کاملہ کا بہت اہتمام سے کچھ وانا جور کا دریا نیت میں بہت اہتمام سے فرماتے.نیز حضرت کے خلیفہ خاص حضرت مولانا مفتی معرکہ اللہ رسالہ ہے.جب تحریک ختم نبوت بھٹو کے دور میں چلی امین العابدین صاحب بذات خود بہت اہتمام سے اس تحریک میں شریک تو اس کے قائد معشرت، مولانا محمد یوسف اسلامی جمہوری قدس سرہ تحریک ہوئے.اور نہایت اندر برد حکمت سے اس کی قیادت میں حصہ لیا.وفات شروع ہونے سے چند روز قبل مدینہ منورہ تشریف لائے.سے کچھ روز قبل جب مجلس تحفظ ختم نبوت کے بارے میں پتہ چلا کہ ان کو ان کی مدینہ منورہ سے کراچی کے لیے روانگی کا منظر بھی آنکھوں ایک ہفت روزه بنام رختم نبوت ) کی اشاعت کی اجازت ہوتی ہے تو بہت کے سامنے ہے کہ حضرت شیخ قدس سرہ کے ساتھ طویل تخلیہ کے بعد مسرت کا اظہار فرمایا اور اس رسالہ کے لیے اپنی طرف سے نقد چندہ بھی جب حضرت کے حجرہ سے نکلے ہیں تو حضرت بنوری کا چہرہ الگ کے بھجوایا اور ایک گرامی نامہ بھی اس موقعہ پر با وجود اپنی انتہائی علالت کے انکاروں کی طرح سرخ اور ہا تھا اور جذبات سے آنکھوں میں آنسو جھیلک ارسال فرمایا.جسے تیر کا رسالہ کے مدیر نے اس کے پہلے شمارے میں شائع

Page 616

600 رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَا انَكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ قطب الواصلین خوش العارفین حضرت عبد العزیز رباغ ان کے کالمات طیبات اور مبارک ارشادات بنام تبريز (ترجمہ) ابريز حصہ اول حدقة العلمار زبدة الفضلا ولنا الحافظ احمدبن مبارك الماستى حضرت مولانا عاشق الہی میں کشی (مرحوم) ناشر منی پینا کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

Page 617

601 آپ کی صورت اس طرح مرتسم ہوئی ہے جیسے آئینہ کے سامنے کوئی کھڑا ہوا ہو تو وہ خود آئینہ کے اندر نہیں آیا بلکہ اس کی صورت اس میں اکثر آئی ہے (اور جتنے آدمی بھی آئینہ پر نظر ڈالیں گے وہ صورت بیک وقت سب کو نظر آئے گی) یہی وجہ ہے کہ بے شمار مخلوق ایک ہی وقت میں مختلف جگہوں پر خوابوں میں آپ کی زیارت سے مشرف ہوتی ہے کہ کوئی مشرق میں ہے اور کوئی مغرب میں اور ایک شمال میں ہے تو دوسرا جنوب میں (مگر سارا عالم چوں کہ ذات محمد می کا آئینہ بنا ہوا ہے اس لئے اپنے اپنے مقام پر بیٹھے ہوئے سب نے صورت مبارکہ کو دیکھ لیا.نہ یہ کہ آپ کی ذات مطہرہ بیک وقت اماکن مختلفہ میں سکے پاس پہنچ گئی ہیں صاحب فتح جب اس صورت مبارکہ کو دیکھتا ہے (خواہ حالت بیداری میں ہو یا سبحالت خواب) تو اس کی بصیرت پیچھے پیچھے چلیتی اور (چشم قلب کو جس نے صورت محمدیہ دیکھی ہے قوت اور مدد پہونچا کر نور عالم کو پھاڑتی ہوئی ذات مبارکہ تک پہونچتی ( اور عین ذات کے مبہ مشاہدہ سے فیضیاب ہوتی ہے.اور جو شخص بصیرت سے محروم ہے اگر حق تعالیٰ فضل و احسان فرمائے تو کبھی وہ بھی عین ذات کا مشاہدہ کر لیتا ہے کہ ذات مطہرہ اس مقام پر خود تشریف لے آتی ہے.کیونکہ اپنے متعلق اس کی کمال محبت اور سچے تعلق کو معلوم فرمالیتی ہے.غرض یہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پر موقوف ہے کہ جس کو چاہیں اپنی ذات مطہرہ کا نظارہ کرا دیں اور جس کو چاہیں صرف صورت شریفیہ دکھائیں.نیز آپ کی صورت اصلیہ کا ظہور دوسری صورتوں میں بھی ہوا کرتا ہے کہ تمامی انبیاء علیہم السلام اور آپ کی امت مرحومہ کے تمامی اولیاء کی صورتیں آپ کی صورت شریفہ کے مظاہر ہیں کہ اپنے زمانہ کا ہر نبی اس لحاظ سے کہ آپ ہی کے انوار و فیضان روحی سے مستفیض ہو کر نبی بنا ہے اور آپ کی امت کا ہر ولی اس اعتبار سے کہ آپ ہی کی روح مع الجسد کی تعلیم و تربیت سے ولی بنا ہے، معنوی لحاظ سے گویا ذات محمدی کی صورت مثالیہ ہے اور یہی سبب ہے کہ اکثر مریدوں کو خواب میں آپ کی زیارت اپنے شیخ کی صورت میں ہوتی ہے.حضرات انبیاء کی تعداد مسیح تو یہی ہے کہ کسی کو صحیح معلوم نہیں.مگر بعض کا قول ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں.اور اتنی ہی تعداد اولیاء است (بلکہ صرف حضرات صحابہ کی تھی جنہوں نے بلا واسطہ جسم اطہر سے استفادہ فرما کہ انبیاء نبی اسرائیل کا منا درجہ حاصل کیا اور قیامت تک بعد کے آنے والے اولیاء میں ہر ولی انہیں حضرات میں کسی ایک کے رنگ ہے

Page 618

602 شمانم ایدا دیہ قلب المحضرات انا شاه حاجی امداد الله مهاجر کی رانیه کے حالات محفوظات اور تصوف سر شار مضامین کا مجموعہ ام عدالت 1-r كتفانة شرق الرشيد شاہ کوٹ شیخ یوری مغربی پاکستان عائم امرادی..١٠٣ کرتے ہیں بتا اکثر لوگوں کا شکریہ آتا ہے میں کام کی وہ خود نہیں کرتا اس کے بتلانے میں چنداں نام انتظار یار مهدی آخرالزمان کو ان کے مرشد نے انکو قریب از امام مہدی کی خبردی می مقیم تھے نہیں ہوتا حافظ الدیو رحان احمد ضامن بنانے ایک پیارسال کیا اس میں ہے اوراب انکے پر بائی میت اسی غرض سے کی گرمی میں کمی ہیں اور جو سو کر ا ات بلے تھے و فتقر وفاقہ کامل لکھا تھا آپ نے فرمایاکہ راوی اسکا جواب کرد و درد کھو کر سوره واقعه بعد ناز اور امام مہدی کے قابو کے آثار و اخبار سناتے ہیں سید احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ یسے خواب عشاء و سورہ مل گیارہ بار ہر روز وہ بعد نماز فرض کے دور فر اور عشا کے تین دفعہ دیکھاکہ رسول مقبول من العلاوہ آپکو تیاری کے باتے ہیں انھم فی اصول اور مجھ سے ایشیار وردور کھا جاوے اور ہر روز یا اللہ یا معنی گیارہ نوم تر با ضریب بینی دل اپنے پھر نہیں کرتے ہیں کہ حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مہندی کے پاس ایک تلوار مہندی ہے تم ان سے تلوار طرف اس کے بعد ساتے پھریوں میں اس کے ضرب لائی جاوے میتوں اور اس کی مقرونا اہندی یک امام مہدی علی اسلم کے معین قاصر و اب انہوں نے یہ تا بیان کیا میرا اس ے کافی وشافی ہیں گریام کے جاویں تو ہر داخل ہے ور نایک ایک بھی کفایت کرتا ہے او مردہ تواری میں حاجی ماری کہ بارے رویوں سے تھے اور انگریزی سر زمین کابڑا اعزاز گر دوام شراری در میارید با لخصوص مفید ہے.مایاکہ کہ کر میری ایک شیخ الاکرم یا الامل ارا تھا ان کے پاس حمد محمد تلواریں انہیں انہوں نے دریا ایک اور عمرہ کو ہر شہری تھی میں نے نام تھے ان کا خرچ بہت تھا اور آمدی کہ مجھ سو شکایت کی ماں نے کچھ ور و بلایا میرے میں ہو جب خواب احمد کے بذریعہ مولوی منورعلی می انوار و نا چاہا ایک مولوی تمت امیر پارس شکر کو دیکھئے اور چند قصائد میری شان میں جریان حول کہے ہیں راوی نے عرض کیا کر رہی ہے سے وہ تلوار اپنے حجرے میں میرا جو دنیا کو دینے کیلئے لگتے مگر چونکہ اس زمانے میں کچھ شور پیر اور ان کی بھی تھے اور کبھی فرمایاکہ ان عرب لوگ میری طرف رجون با این گیاتھا اور وہی باعث سیاحمد ناشامی کے خرج کا ہوا ہن اوہ تلوار کو نہیں دی تھی ماری و غیر مس پر بھی کرتے مگر میں نے نہوں اس میں اپنے بان دیکھ کر خو کر خود منع کر دیا امام میلادی ارکر میں بہت بزرگ ہیں کہ کو عوی ہے کہ ہم مہدی آخرالزمان ہو گئے او این شورا رایمان کا زکریا وایا کرو مدریت کا دعوی کرتے ہیں اورپہلے دانے میں ہی کیا ہے ان کے منتر ہیں خود منتظرین کے سیدعلی بغدادی ہیں وہ اکثر ہمارے پاس آمد و رفت بعضی لوگ تو بالکل کھوئے ہوتے ہیں اور میں مجبور و معذور ہوتے ہی سیاسی انہیں یہ بھی واقع رکھتے تھے ان کی کشت و کرامت ابل کر میں مشہور ہیں ان کے حساب سے امام مہدی کے ہوتی ہے مانی جاتی ہیں یا ہمار ے صحافت ک جاتی ہے کتنے کا ہے مرید کو یا مال داری یک در سال با ہیں انہوں نے مہدی کودکی بیانی کے پاس ناز مجھے بھی کیا سے نکال دیتا ہے اس خاندان میں مصر میں میری ہیں سیال کند وسیری اند و سیمین ہے اوران سے مصافہ بھی کیا ہے اسوقت امام صاحب کی عمر قریب چالیس سال کے معلوم اللہ اور دوسرے خاندانوں میں میرا سما کے واقعہ تعلیم کئے جاتے ہیں میراسم بادی میں ہوتی تھی بید میں سنا کہتے ہیں کریں ہو جب ارشاد جناب سره نم صلی الہ علیہ سلم این کار رام اکثر فعلی واقع ہوتی ہے جو کہ مسلک پرسیار کم بادی میں تجلیات اسم راوی کی واقع ہوتے ہیں مہدی تقسیم ہوں، واللہ اعلم بالعتاب ) ملک اپنے آپ کو گمان کرتا ہے کہ مہدی فابریاں ہیں ہی ہوا ور ابان تو نام مودی خوانی ابنائے درسی مثنوی معنوی میں فرمایا کہ ملانے مظاہروان من کے ہم سب لوگ شائق ہیں مگر وہ زبان امتحان کا ہے اول اول ان کی بیعت رانی باشن اور رو تم چون تسبد معیار کی شرح میں یہ جماتے ہیں کیو نکردی روح انسان جیب سی جینے کا عمل ہلاک شام تھے تین سو تیرہ اشخاص کے کریں گے اور اکثر لوگی منکر ہو جائیں گے اللہ کی ہر ة ولكن کرتا ہے تو بے ساختہ اسکی زبان سے ری ہوتا ہے تو گویا اس شے نے سبحان اللہ کیا جیسے سب بنا کے بیت کو بائی اور یہ قلع و قاطع کہتے ہیں بائی یہ مجھے کی ایل ہے تمام الات النقاب الا اهالی می کانام بابا یا انہاں اگر میں اتنی ہی میں جاری البتہ سے یقینی کے سنے کون کانون ظاہر ی کسانی کان 50€

Page 619

603 خمینی اور اثنا عشریہ کے بارے میں علما کرام کی شفقت فیصلہ مقدمه و استفتار جوانات و فناوی حت الان چه نخواهانی اجرای کار را موازی با ایران خليل الحمن سجاد ندادی

Page 620

604 90 رسول اله صلی الہ علیہ وسلم پر نبوت کی حقیقت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ امامت کے عنوان سے جاری ہے.اور حضور صلی الہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیا ر ہونے کا مطلب اور حاصل صرف یہ ہے کہ آپ کے بعد آپ کے احترام وتعظیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی اور کے لئے نبی ورسول کا لفظ استعمال نہیں کیا جائے گا؟ پھر آپ نے شیعہ اثنا عشریہ کے ان عقائد کی بنا پر امت کے متقدمین و متاخرین حضرات علما و فقہا کے فیصلے اور فتوے بھی ملاحظہ فرمائے اب آپ حضرات سے درخواست ہے کہ ان سب چیزوں کے سامنے آجانے کے بعد آپ کے نزدیک شیعہ اثنا عشریہ کے بارے میں جوشرعی حکم ہو عام امت مسلمہ کی واقفیت اور رہنمائی کے لئے وہ تحریر فرمایا جائے واجركم على الله بلاشبہ اپن کو سلمان کہنے والے کی کم گو شخص یا فرقہ کو دائرہ اسلام ہے خارج قرار دینے کا فیصلہ بڑا سنگین اور خطر ناک کا مر ہے اور اس باریر ی اخری حد تک احتیاط کر نا علماء کرام کا فرض ہے لیکن اسی طرح جس شخص یا فرقہ کے ایسے کا فرض عقائد یقین کے ساتھ سامنے آجائیں جو موجب کفر ہوں تو عام مسلمانوں کے دین کی حفاظت کے لئے اس کے بارے میں کفر و ارتداد کا فیصلہ اور اعلان کرنا بھی علمائے دین کا فرض ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کے نازک ترین وقت میں منکرین زکواۃ اور مسیلمہ و غیرہ مدعیان نبوت اور ان کے متبعین کے بارے میں صدیق اکبر نے جو فیصلہ فرمایا اور جو از عمل اختیار کیا وہ آپ کے لئے تاقیامت رہنہ ہے قادیانی نہ صرف یہ کہ اپنے کو مسلمان کہتے ہیں اور کلمہ گو یں ، بلکہ انھوں نے اپنے خاص مقاصد کے لئے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ایک صدی سے بھی زیادہ مدت نے اپنے طریقہ پر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا جو کا مرخاص کر یورپ اور افریقی ممالک میں کیا.اس سے با خبر حضرات اقف ہیں.اور خود ہندوستان میں قریبا نصف صدی تک اپنے کو مسلمان اور اسلام کا وکیل ثابت کرنے کے لئے عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کا انھوں نے جس طرح مقابلہ کیا تحریری اور تقریری مناظرے مبالے کیئے وہ بہت

Page 621

605 94 ی پیرانی بات نہیں ہے ، پھر ان کا کلمہ ان کی اذان اور نماز وہی ہے جو عام امت مسلمہ کی ہے زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں ان کے فقہی مسائل قریب قریب وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہیں ، لیکن جب یہ بات یقین کے ساتھ سامنے آگئی کہ وہ فی الحقیقت عام عقیدہ ختم نبوت کے منکر ہیں اور مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں اگر چہ زبان سے رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم کو خاتم النبیین اکہتے ہیں.اور اسی طرح کے ان کے دوسرے موجب کفر عقیدے غیر مشکوک طور پر سامنے آئے تو علمائے کرام نے ان کے بارہ ہیں کفر و ارتداد کا فیصلہ اور اس کا اعلان کرنا اپنا فرض سمجھا اور اگر وہ یہ فرض ادا نہ کرتے تو خدا کے مجرم ہوتے.لیکن اثنا عشریہ کا حال یہ ہے کہ مذکورہ بالا موجب کفر عقائد کے علاوہ ان کا کلمہ الگ ہے ان کا و منو الگ ہے ان کی اذان اور نماز الگ ہے.زکوۃ کے مسائل بھی الگ ہیں نکاح و طلاق وغیرہ کے مسائل بھی الگ ہیں حتی کہ موت کے بعد کفن دفن اور وراثت کے مسائل بھی الگ ہیں.اگر اس کو تفصیل سے لکھا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے بہر حال اپنے اس دور کے حضرات علمائے کرام کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ انی علی و دینی ذمہ داری اور عدالله مسئولی کو پیش نظر رکھ کہ اثنا عشریہ کے کفر و اسلام نے بارے میں فیصلہ فرمائیں - والله يقول الحق وهو يهدى السبيل

Page 622

606 حت ایک سورج چاند رہے گا خنگوی شہید کا نام رہے گا امیر عزیمیت جھنگوی شہید کی ۱۴ تقاریر کا بے مثالی بود جلد اول امیر عزیمت حضرت مولانا جمع وترتيب حق نواز جنگوی رسید ابو عامر قاری نظهر داریم شایع کرده عامة اكيد في ذیلدار روڈ ، اچھرہ ، لاہور

Page 623

607 یہ بات ماننے پر کہ واقعتا قادیانیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اوران کے لیے آخر کار غیرمسلم اقلیت ہونے کا فیصلہ کر لیاگیا.کلمہ قادیانیوں نے اس وقت بھی نہیں چھوڑا تھا آج بھی نہیں چھوڑا پھر قادیانی مختلف عدالتوں میں گئے پاکستان کی عدالتوں میں گئے پھر اسی طرح پاکستان سے آگے نکل کر وہ غیر مسلم عدالتوں میں.بھی گئے.چنانچہ آپ کے نوش میں ہے کہ افریقہ کی غیر مسلم عدالت میں قادیانیوں کیس کیا.ہم کلمہ پڑھتے ہیں ہم قرآن مجید پڑھتے ہیں ہم مسجدیں بناتے ہیں ہم مسلمان ہیں اور مسلمانوں کا ایک طبقہ ہمیں اپنے قبرستان میں اپنے مردے دفن نہیں کرنے دیتا.لہذا اسی کو اس حرکت سے رکھا جائے وہ سٹے آرڈر لینے کے لیے گئے تھے کہ ہمارے مردوں کو مسلمان اپنے قبرستان میں دنی کرنے نہیں دیتے.لہندان کو روک دیا جائے.چنانچہ عدالت کی ایک حج عورت تھی اور جو غیر مسلم ہے اس نے فریقین کے دلائل منے.قادیانیوں نے اپنے مسلمان ہونے کے دلائل دیتے مسلمانوں نے افریقہ کی عدالت میں قادیانیوں کا کفر ثابت کیا عدالت غیر مسلم تھی لیکن اس نے فیصلے میں میں لکھا کہ جس چیز کا نام اسلام ہے جو محمد لا ء ہے اور جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وگرام لے کر آئے تھے اس پروگرام اور اس کے مطابق قادیانی غیر مسلم ہیں مسلمان نہیں ہیں.نعرہ تکبیر علما اسلام جیوے جیوے اللہ اکبر زنده باد حق نواز غیر مسلم عدالت نے اپنے فیصلے میں کہ جو اسلام کے قواعد و ضوابط ہیں ان کے مطابق قادیانی پورے نہیں اترتے لہذا انہیں مسلمان نہیں مانا جا سکتا اس وجدت مسلمان حق

Page 623