Anbiya

Anbiya

رَیُّ الْاَنبِیَاء ۔ انبیاء کی خوشبو

انبیاء کے حالات زندگی
Author: Other Authors

Language: UR

UR
انبیاء علیھم السلام

حضرت آدم ، حضرت شیث، حضرت ادریس،حضرت نوح ،حضرت ھود ، حضرت صالح ،حضرت لوط ، حضرت ابراھیم علیھم السلام کے حالات زندگی۔ اس کتاب میں 8 انبیاء کرام کے حالات ، ان کی تعلیمات، ان کے محاسن اخلاق اور ان کی دینی خدمات کو سوال جواب کی شکل میں پیش کیا گیاہے۔ یقینا اس مادہ پرستی کے دور میں مقدس انبیاء کی خوشبو ،ان کی پھیلائی ہوئی روشنی اور ان کی حیات طیبہ کے واقعات سے آگاہی و واقفیت ہی مشعل راہ بن کر اصلاح اور صفائی قلب کے سامان کرنے والی ہے۔انبیاء علیھم السلام کے روحانی قوت بخشنے والے یہ حالات زندگی نہ صرف بڑوں کے لئے مفید ہونگے بلکہ چھوٹوں بچوں کو زندگی کے سفر میں درست سوچ اور صالح عمل اختیار کرنے میں ممد ہونگے۔ کیونکہ آج یہ انبیاء کی خوشبو ہی اندر و باہر رچ بس کرہمارے بڑوں اور بچوں کی اصل حفاظت کرنے والی ہے۔


Book Content

Page 1

ضرت شیث السلام حضرت ادریس علیہ السلام ضرت نوح حضرت آدم علیہ السلام رَى الْأَنبياء (انبیاء کی خوشبو) ضرت ابراہیم) حضرت لوط علی السلام حضرت ہود یکی از مطبوعات

Page 2

رثى الأنبياء حالات زندگی حضرت آدم ، حضرت شیت ، حضرت ادریس حضرت نوح حضرت ہود ، حضرت صالح ، حضرت لوط ، حضرت ابراہیم مصنفة امتة الرفيق ظفر

Page 3

نام کتاب ري الأنبياء

Page 4

انتساب میں اس کتاب کو اپنے والد محترم فضل حق صاحب قریشی مرحوم کے نام منسوب کرتی ہوں جنہوں نے اپنی سے ساری زندگی دعوۃ الی الحق میں گزاری.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند سے بلند ترکرتا چلا جائے.آمین

Page 5

بسم الله الرحمن الرحيمة عرض حال خدا تعالے عر وصل کی ازل سے یہ سنت جاریہ ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی ہدایت اور اصلاح کے لئے انبیاء و مرسلین بھیجتا رہا ہے جیسا کہ وہ سورۃ المومنون میں فرماتا ہے.ثمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنا نترا پھر ہم اپنے پیغمبر لگا تار بھیجتے رہے اور سورۃ الفاطر کی یہ آیت کریمہ وَإِن مِنْ أُمَّةِ الخَلَا فِيهَا ندیدہ بھی اسپر دلیل ہے.یہ ابنیاء کرام علیہم السلام جو انسانیت کا پیکر تھے اپنے مقدس سینوں میں خدا تعالے کے نور کی قندیلیں لے کر اپنی اپنی قوم کو توحید کا درس دیتے رہے اور قوم کو حقیقی معنوں میں انسان بنانے کیلئے اور انہیں خدائے واحد کا نورانی جلوہ دکھانے کے لئے تبلیغی کوششوں میں سرگرم عمل رہے ، ان کی ان مسائکی جلیلہ سے بعض متلاشیان حق نے خدا تعالے کو اس دنیا میں ہی پالیا.اور معاندین اور منکرین توحید نے ان کی مخالفت میں کمر بستہ ہو کہ اس دنیا میں ہی اپنے لئے جہنم خرید لی.ذیل میں آٹھ انبیاء کرام علیہم السّلام کے حالات ، ان کی تعلیمات ان کے محاسن اخلاق اور ان کی دینی خدمات کو سوال و جواب کے رنگ

Page 6

میں پیش کیا جاتا ہے.تاکہ آج کی اس مادہ پرست دنیا میں ان مقدس انبیائد کی حیات طیبہ کو مشعل راہ بناتے ہوئے ہم اپنی اصلاح کرتے رہیں اور ان پر سچے دل سے ایمان لانے کے توسل سے ہم رضوان یار کو پالیں.خدا کرے کہ ابنیاء کی خوشبو ہمارے لئے ہماری اولا دوے بلکہ نسلوں تک کے لئے روحانی ترقی کا زینہ ثابت ہو.آمین ربَّنَا تَقَبَّلُ مِنَا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيمُ الْعَلِيمُ

Page 7

سْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر لجنہ اماءاللہ کی سیکر ٹری تعلیم عزیزه امته الرفيق ظفر صاحبہ نے ابنیاء علیہم السّلام کے حالات کے متعلق سوال و جواب کی صورت میں کر تی الانبیاء کے نام سے تحقیقی کاوش سے کتاب مرتب کی ہے.منظور شدہ ہے بچوں اور پیروں کے لئے یکساں مفید ہے.خدا کرے ہر قاری اس سے استفادہ کرے.اور کتاب کے نام کی مناسبت سے انبیاء کی خوشبو اس میں رمرج کی جائے.اور ان سے کامل تعلق اور محبت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالے کے بار کو حاصل کر سکے.

Page 8

صفحہ نمبر 9 14 ۱۷ ٢٠ ۶۴ نمبر شمار فہرست اسماء انبیا کرام علیم سلام عنوان حضرت آدم علیہ السّلام ۲ حضرت شیث علیہ السّلام حضرت ادریس علیہ السّلام حضرت نوح علیہ السّلام ه حضرت ہود علیہ السّلام 4 حضرت صالح علیہ السّلام حضرت لوط علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام A

Page 9

Page 10

9 حضرت آدم علیہ السلام :- دنیا میں سب سے پہلے نبی کون آئے ؟ ج -:- حضرت آدم علیہ السّلام.سش :- ابوالبترکس نبی کو کہتے ہیں ؟ ج :- حضرت آدم علیہ السلام کو سش :.آدم کے معانی کیا ہیں ؟ ج -:- آدم - وہ شخص ہے جو سطح زمین پر رہا ہو.کھیتوں میں کام کرتا ہو، اپنی روزی کماتا ہو.آدم کے معانی ہو لوگوں کو ایک تمدن پر جمع کر دیے.جو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان وسیلہ ہو.تجو اپنے خاندان کے لیے نمونہ ہو.گندم گوں رنگت والا.- حضرت آدم علیہ السلام کے مبعوث ہونے کی عرض کیا تھی ؟ ن در حضرت آدم علیہ السلام فریب کے قیام اور اللہ سے مخلوق کا رشتہ استوار کرنے کی غرض سے مبعوث ہوئے تھے.ش حضرت آدم کو کیا اسمار سکھائے گئے تھے ؟ ا حضرت آدم علیات ام کو اللہ تعالے کے اسمار یعنی صفات کا علم دیا گیا.تاکہ ان کی آنت ان صفات کے ذریعہ خدا تعالے کے بلند مقام کو پہچانے اور اس سے اپنا مضبوط تعلق پیدا کر ہے.

Page 11

سورۃ اعراف رکوع ۲۲ میں اسماد سے مراد صفات الہیہ ہیں وَلِلهِ الأَسماء الحسنى نادعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي اسمائه سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.اور اللہ تعالے کے لیے تمام نیک صفات ہیں.پس اللہ تعالے کو ان نیک ناموں سے یاد کرو.اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں یعنی صفات میں غلط راستہ اختیار کرتے ہیں.وہ اپنے اعمال کا بدلہ پائیں گے.حضرت آدم کو فنون وعلوم کے اسرار اور ان کی حکمتیں بھی سکھائی گئیں.ش:.زبان کا علم کسی نبی کے ذریعہ جاری ہوا ؟ ج :- حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ.اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو زبان کے اصول بھی سکھا ئے تاکہ وہ تمدن کو قائم کر سکیں.ش :- حضرت آدم علیہ اس نام کو نام کس بنا پر سکھائے گئے ؟ ج :- حضرت آدم علیہ السلام کو نام سمیات کی بنا پر سکھائے گئے یعنی ہر میں جو خصوصیت پائی جاتی ہے.اس کی بنا پر اس کا نام رکھ کر ان کو سکھایا گیا.ش - حضرت آدم کو کون سی زبان سکھائی گئی ؟ ہر چیز ج : عربی زبان - کیونکہ یہی وہ زبان ہے جو زبانوں کی ماں ام ای کینہ کہلاتی ہے.ش : - حضرت آدم کو زبان کیسے سکھائی گئی در ابتدار میں حضرت آدم کو زبان ایسا نا سکھائی گئی.( تفسیر کبر سورة النمل صفحه ۳۳۱) نی : جب اللہ تعالٰے نے حضرت آدم کو خلعت خلافت بخشا تو ملائکہ کو کیا حکم دیا ؟

Page 12

ج : اللہ تعالی نے عالیہ کو یہ حکم دیا کہ تمہیں چاہیے کہ آدم جو کام کرے اس کی امداد کرو.اور اس کی تائید میں اس نظام کو لگا دو جو تمہارے ماتحت ہے.ن انہیں کون تھا جس نے آدم کی فرمانبرداری نہ کی ؟ ج: قرآن مجید میں الہی نام اس وجود کارکھا گیا ہے جو فرشتوں کے مقابل پر بدی کی تحریک کرنے والا ہوتا ہے.اہیں بعدی کی ایک محرک روتا ہے.ایک برائی پیدا کرنے والی تحریک ہے.س : ابلیس کے کیا معانی ہیں.رج : ابمیں ایک صفاتی نام ہے جس کے مندرجہ ذیل معانی ہیں.ا وہ ہستی جس میں نیکی کا مادہ کم ہو جائے اور جس میں بری کی طاقتیں زیادہ ہو جائیں.۲ - جود اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائے.جس کی ہمت ٹوٹ جائے اور نا کامی کا غم جسے دیاہے.۴ - بھے اپنی منزلِ مقصود کے لیے راستہ نظر نہ آئے اور وہ حیران رہ جائے میں روح یا انسان میں یہ برائیاں ہوں تو اس کو ابلیس کا نام دیا جاتا ہے : شیطان کیا ہے ؟ اور اس کے کیا معانی ہیں ؟ ا.ان تمام لوگوں کو جو ابلیس کے نائب کے طور پر کام کرتے ہیں اور لوگوں کو ستی سے دور لے جاتے ہیں شیطان کہا جاتا ہے.نیز نظام ارواح خبیشہ کے متعلق بھی شیطان کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے.شیطان کے معانی ہیں حق کا دشمن ، جلنے والا.شیطن کا لفظ شطن سے ہے جس کے معانی ہیں وہ ڈور یا رسی جس کے ساتھ ڈول باندھو کو کنویں میں پانی نکالنے کے لیے پھینکا جاتا ہے کیونکہ !!

Page 13

۱۲ جوہ اسی کنویں میں ڈول کو دور یک لے جاتی ہے.اس لیے شیطان سے مراد وہ شخص جوانسان کو حق سے بہت دور لے جائے اور اسے گمراہ کر دے.اور حمد کی حالت پیدا کر دے جو آگ میں جلنے کے مشابہ ہے.کس: حضرت آدم علیہ السلام کہاں پیدا ہوئے.؟ اور کسی دن پیدا ہوئے ؟ ج :- حضرت آدم کا مولد عراق کا علاقہ ہے.آپ جمعہ کے دن عصر کے وقت پیدا ہوئے.س : آدم اور ان کی بیوی دیا سا تھی) کو کسی جنت میں رہنے کا حکم دیا گیا تھا ؟ ج :- آدم اور ان کی بیوی کو جنت فی الارض میں رہنے کا حکم دیا گیا عراق کے علاقہ میں ہی کوئی خاص مقام تھا جسے مقام کے آرام دہ ہونے اور اچھے نظام کی وجہ سے آدم نے قائم کیا تھا.جنت کہا گیا ہے.پس اچھے نظام اور اچھے ساتھیوں میں رہنے کو جنت کہا گیا ہے.:- حضرت آدم اور اس کے ساتھی کو کس (شجره) درخت کے پاس جانے سے روکا گیا ؟ ج-: درخت (شجره) کا لفظ استعارنا استعمال ہوا ہے.قرآن مجید میں ہی شجرہ کا لفظ استدارة اچھی اور بری باتوں کی نسبت استعمال ہوا ہے جیسا کہ سور تا ایسا ہی رکوع ہم میں ارشاد باری تعالی ہے.المُتَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً كَلِمَةٌ طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ.وَمَثَلُ كُلة خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَيْئَةِ ترجمہ.کیا تونے نہیں دیکھا کہ اللہ نے پاک کلام کی مثال ایک پاک درخت کی طرح بیان کی......اور بری بات کا حال برستے درخت کی طرح ہے.حضرت آدم علیہ السلام کو بری باتوں سے بچنے کی تلقین کی گئی تھی.تیز

Page 14

شجرہ ممنوعہ سے مراد اہلیں اور اس کی ذریت بھی مراد ہیں، کہ تم ان سے بچتے رہو.کیونکہ وہ تمہارے دشمن ہیں.ی حضرت آدم نے اپنی غلطی پر پشیمان ہو کر خدا تعالے کے حضور کیا دعا کی.:.حضرت آدم نے اپنی لغزش پر نادم ہو کہ للہ تعالی سے یہ دعا مانگی.رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَم تَغْفِرُ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ - مِنَ الخَسِرِينَ.(سورۃ اعراف رکوع ۲) اسے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اور اگر تو ہماری غلطی کو معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جائیں گئے.مشکلی : - حضرت آدم کے کتنے بیٹے تھے.؟ ج :- قرآن مجید سورہ مائدہ رکوع ۵ ہیں.داقل عليهم نباً ابي ادم بِالْحَقِّ.اور تو ان کو آدم کے دو بیٹوں کی خبر پڑھ کرسنا.اس میں آدم کے دو بیٹوں کا ذکر ہے.تورات میں ان دو بیٹوں کے نام ہابیل استابیل آئے ہیں بائبل میں پائیں اور قابیل کے علاوہ آپ کے تیسرے بیٹے کا نام سیت ، لکھا ہے یہ حضرت شیث علیہ السلام ہیں جو حضرت آدم کے بعد لوگوں کو ہدایت کا راہ بتاتے رہے.رائیل کتاب پیدائش باب ۵ آیت ۱ تا ۲۹) مشکل قرآن کریم میں سب سے پہلے کسی نبی کا ذکر آیا ہے ؟ ج :- حضرت آدم علیہ السلام کا.

Page 15

۱۴ نگ :- حضرت آدم کا ذکر سب سے پہلے کس سورۃ میں آیا ہے ؟ ج-: صورۃ بقرہ میں - : حضرت آدم کے حالات کتنی سورتوں میں بیان ہوئے ہیں.سورتوں میں سورۃ بقرہ آل عمران.مائرہ اعراف ، كيف بنی اسرائیل، مریم ، طلا، یس آدم کی پیدائش خدا تعالی کی کسی صفت کے ماتحت ہوئی ؟ ج: خدا تعالی کی صفت حکم کے ماتحت جو اپنے اندر بھاری مکتیں رکھتی ہے.-:- حضرت آدم کے حالات سے ہمیں کیا نصیحت ملتی ہے ؟ ج :- انسان روئے زمین پر خدا کا خلیفہ ہے.اسے چاہیے کہ وہ نیابت کا یقی ادا کرے برائیوں سے بچے.اپنے اعمال درست رکھے خدا کے حکموں کی پابندی کرے.اور دوسروں کو بھی اس طرف توجہ دلائے.نیکی کی راہوں پر چلے اور اپنے ہم جنسوں کے لیے راحت کا ذریعہ بنے.با وجود خطا کارہ ہونے کے اگر انسان نیچے دل سے خدا کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگے گا تو خدا تعالی جو تو اب ہے اس پر فضل سے متوجہ ہو گا.شکل.سماعت کے طریقہ کار سے کسی نبی نے دنیا کو روشناس کرایا ؟ ج :- حضرت آدم علیہ السلام نے دنیا کو زراعت کے اصول اور طریقے سکھائے.شکی -- زمین پر کعبہ سب سے پہلے کسی بھی کرنے بتایا ؟ ج-: سب سے پہلے حضرت آدم نے زمین پر گھر بنایا احمد اس کے کونے پر او حجر اسود رکھا.بحوالہ ( اسلام کی دوسری کتاب - مث ہے)

Page 16

۱۵ ش : - حضرت آدیہ کی عمر کتنے سال تھی.ج 1.حضرت آدم کی عمر ۱۲۰ سال کی ہوئی.(واللہ اعلم) اسلام کی دوسری کتاب " کشی ، حضرت آدم کی بیوی کا کیا نام تھا ؟.ج :- بی بی سقا - راسلامی لٹری پر احادیث میں خدا کا ہم آیا ہے، شت :.حوا کے معانی کیا ہیں ؟ ج 1- توا کا لفظ حوی بیوی سے نکلا ہے جس کے معانی ہیں کسی چیز کو ڈھانپ لینا.کسی چیز کوجمع کر لینا اور مالک ہو جانا.تقوا کے معانی ہیں وہ عورت جو بچوں کو گھیر کر اپنے ارد گرد جمع کر کے اپنے گھر میں بیٹھتی ہے.بچوں کی نگرانی کرتی ہے.انکی تربیت کرتی ہے اور گھر کی مالکہ اور رانی ہے

Page 17

14 حضرت شیث علیہ السلام سل : حضرت شیث علیہ السّلام کون تھے ؟ كلامي ج.حضرت آدم کے تیسرے بیٹے تھے.(کتاب پیدائش باب ۵ آیت (۵) : جب حضرت شیث پیدا ہوئے تو حضرت آدم کی عمر کتنی تھی ؟ - ج ا.آپ کی ولادت کے وقت حضرت آدم کی عمر ۱۲ برہی تھی.آپ کی تو حضرت آدم سے ملتی جلتی تھی.ر تورات کتاب پیدائش باب ۵ آیت ۳) سکس :.حضرت آدم کے بعد کون سے نبی آئے ؟ ج : حضرت شیث علیہ السلام - سل :- شیت کے معانی کیا ہیں.ج : حافظ ابن کثیر نے بتایا ہے کہ شیت کے لفظی معنی و عطیہ خدا ہمیں حضرت آدم نے یہ نام اس لیے رکھا کہ حضرت ہابیل کی شہادت کے بعد خدا نے انہیں یہ صالح فرنہ ند عطا کیا تھا.ش حضرت شیث کی وفات کے بعد ہدایت کا سلسلہ کس نے جاری رکھا.ج:.حضرت شیث کے بیٹے انوش نے حضرت شیث ۵ برس کے تھے جب ان کے ہاں انوش پیدا ہوا.( تورات کتاب پیدائش باب ۵ آیت ۷۱۶ ش بحضرت شیث نے دنیا کو کسی فن سے آگاہ کیا.ج :- حضرت شیث نے دنیا کو کپڑا بنا سکھایا.بحوالہ ( تفسیر کبیر سوره النمل ص۳۲۱)

Page 18

16 حضرت ادریس علیہ السلام حضرت اور بیٹی کا ذکر قرآن مجید میں کن صورتوں میں آیا ہے ؟.ج به صورت صریح اور سورۃ الانبیاء صورة مریم آیت ۵۷ داد كر في الكتب، إدْرِيسَ رَاهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا.وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّاه ترجمہ.اور تو تر آن کی رو سے اور لیس کا بھی ذکر کر.وہ بھی راستیانہ نبی تھا.اور ہم نے اسے نہایت اصلی مقام تک پہنچایا تھا.سورۃ الانبیار ہیں.اسمُعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الكَثْل كُلَّ مِّنَ الصَّابِرِينَ.اور اسماعیل اور ادریس اور ڈالکفل کو بھی یا دکر.یہ سب کے سب صبر کرنے والے تھے.: - حضرت ادریس کا نام بائبل میں کیا آیا ہے ؟ ج : حنوك ر کتاب پیدائش باب ۴) سل :.محنوک کے کیا معنی ہیں ؟ گ :- خون کے معانی میرانی زبان میں سکھانا یا کسی چیز کی طرف منسوب کہ ج دینا کے ہیں.(انسائیکلو پیڈیا با سیلیکا)

Page 19

IA سنتی :.ادریس سے کیا معنی ہیں.ج : اور تیس کا لفظ درس سے نکلا ہے.اس نے پڑھا اور درس کے معانی ہیں اس نے پڑھایا.اور نہیں کے معانی ہیں.بڑا پڑھنے والا یا بڑا پڑھانے والا بڑی مہارت رکھنے والا.اور تین کے لیے وقف ہو جانے والا گویا اور میں اور حنوک ہم معنی لفظ ہیں.احمد مریم م۲۹ تفسیر کبیر - ش : حضرت ادریس حضرت اللہ سے کتنی لغت میں سے تھے.ج : ساتویں پشت سے.ش : حضرت اور میں اور حضرت نوح کام پس میں کیا رشتہ تھا ؟ ج : حضرت اور میں حضرت نوح کے پردادا تھے.حضرت ادریس کے بیٹے متوسطح اور متوسلح کا بیٹا ملک اور لمک کے بیٹے حضرت نوح تھے.(پیدائش باب ۴) اور بعض روایات میں ہے کہ آپ حضرت نوح " کے دادا تھے.ش در معراج کی رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اور میس کوکس آسمان پر دیکھا.ج : احادیث میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اور میں کو چوتھے آسمان پر دیکھا.ش :- حضرت ادریس " کس قوم کی طرف مبعوث ہوئے ؟ ج : حضرت شیت کے ماننے والوں نے دوسرے مشرک اور بت پرست ہم قوموں کی دیکھا دیکھی حضرت شیث کا بت بنا کر پوجنا شروع کر دیا تھا چنا نچھ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے حضرت اور میں کو نبوت عطا فرمائی.

Page 20

19 ش.حضرت اور میں نے قوم کی اصلاح کے لیے کیا کوشش کی ؟ ج :- حضرت ادریس نے مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود مصبر سے کام لیا.نہایت مستقل مزاجی کے ساتھ دین الہی کی تبلیغ میں مصروف رہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس کی ثابت قدمی کا ذکر سورۃ الانبیاء میں فرمایا ہے.واسماعيل وإدريس وَنَا لِفلُ كُلَّ مِنَ الصَّابِرِينَ ، و دخَلْتُهُمْ نِ رَحْمَتِنَا إِنَّهُمْ مِنَ الصَّالِحِينَ.اور اسماعیل، اور یس اور ذالکفل کو بھی یاد کر.یہ سب کے سب بر کرنے والے تھے اور ہم نے انسب کو اپنی رحت میں داخل کیا تھا اور وہ سب نیکو کار تھے.شکی: آورم کے نسب نامے میں تیرے نبی کون سے ہیں ؟ ج :- اسلامی روایات کے مطابق آدم کے نسب نامے میں تیرا نبی حنوک تھا جو آدم کاپانچواں پڑپوتا تھا اور چوتھا نبی نوٹ تھا جو پانچویں پڑپوتے کا پوتا تھا.تفسير كبير صورة مريم م۳ ) :- حضرت ادریس گذر اوقات کے لیے کیا کام کرتے.تے تھے.ج : حضرت ادریس کپڑے بیتے تھے اور گذر اوقات کرتے.

Page 21

حضرت نوح علیہ السلام سلی : حضرت نوح علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کی کتنی پشت میں سے ہے ج : حضرت نوح علیہ السلام حضرت آدم سے نویں پشت میں سے تھے.حضرت آدم کو شمار کر کے آپ دسویں تھے.ک : حضرت نوح کے والد کا کیا نام تھا ؟ ج : حضرت نوح کے والد کا نام لک" تھا.والحمالة (کتاب پیدائش باب آیت ۲۱ تا ۲۹) کل : حضرت نوح کے بیٹوں کے نام بتائیں.ج : سام ، عام ، یافت اور کنستان.(قاموس میں کفان کا نام یام “ آیا ہے).ش - کتب سابقہ میں حضرت نوح " کا پہلا نام کیا ملتا ہے ؟ ج: ظالموں میں حضرت نوح کا نام مناسیم متا ہے.جس کے معانی ہیں تسکی دینے والا.یہ نام ان کے باپ نے رکھا تھا.کتاب سفرها لیشیرا ش : - نوح کے معانی کیا ہیں.ج - نوح صفاتی نام ہے.آپ کا بار بار ماجیزی کے ساتھ دعا کرنے کی وجہ سے آپ کا نام نوح رکھا گیا.مفسرین کہتے ہیں کہ آپ کا نام عبد الغفار يا عبد الستار تھا.د قرآن مجید مترجم منظور کرده نظارت تالیف و تصنیف تادیان

Page 22

حضرت نوح کا نام ان کے والد صاحب نے طوفان کے بعد نوح رکھا اور نوح کا کا نام ان کے ہل ایجاد کرنے کے سبب نوح رکھا گیا.(مدارش اغاده) عبرانی زبان میں نوح امن اور آرام کو کہتے ہیں حضرت نوح کا زمانہ بڑے آرام کا زمانہ تھا.ملک نے کہا.نوح کے معانی یہ ہمارے ہاتھوں کی محنت اور مشقت سے جو زمین کے سبب سے ہیں جس پر خدا نے لعنت کی ہے میں آرام دے گا.قرآن مجید اور بائبل میں آپ کا نام نوح ، ملتا ہے.شی :.حضرت نوح و کامک کہاں تھا ؟ ج : حضرت نوح کا ملک دجلہ نیندہ اور فرات کے درمیان تھا.آپ عراق کی ایک ایسی وادی میں رہتے تھے جس کے پاس بہت سے پہاڑ تھے.شی.دور تہذیب کا پہلا انسان کون کہلاتا ہے ؟ ج : حضرت نوح علیہ السّلام - ش در بندوستان کی قدیم تاریخ میں حضرت نوح " کا کی نام ملتا ہے ؟ ج :- ومنوة ش - کیا حضرت نوح " شریعت والے نبی تھے ؟ ج-: جی ہاں حضرت نوح شریعت والے نبی تھے.آپ پہلے شارع نبی تھے جیسا کہ آپ کے متعلق حدیث میں آتا ہے.اولُ نبي شُرِعَتْ عَلَى لِسَانِهِ الشَّرَائِعُ کہ نوح پہلاتی تھا جس پر اللہ کی طرف سے شریعت نازل ہوئی.

Page 23

۲۲ سورۃ نساءع ۲۳ میں انا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إلى توح تر تمبر.یقیناً ہم نے تیری طرف وحی کی جیسا کہ ہم نے نوح کی طرف وہ بھی کی تھی.اس آیت میں یہ اشارہ کیا گیا ہے.حضرت نوح علیہ اسلام کے ذریعہ نسل انسان کو ن ہے آغاز ہوا.سن:- حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت میں کس قسم کے مسائل تھے ؟ ج :- طالمود جو یہودیوں کی کتب احادیث کا مجموعہ ہے لکھا ہے.طوفان کے ۲۸ سال بعد شریعت مرتب کرنی شروع کی.جس میں کچھ طبیعات کے مسائل تھے اور کچھ موسی کی شریعت سے ملتے جلتے مسائل تھے.را فائیل فرشتہ نے انہیں علم طب سکھایا اور بوٹیوں کے خواص سکھائے تھے.:- قرآن مجید میں حضرت نوح کا ذکر کتنے مقامات پر آیا ہے ؟ ج : ۴۵ مقامات پر - سلی : سورۃ نوح کس پارے میں ہے ؟ ج :- انتیسویں پارے ہیں.ی حضرت نوح کو اللہ تعالے نے کن لوگوں کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ج-: عراق عرب گراہ لوگوں کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا.سال به حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی حالت کیسی تھی ؟ ج : حضرت نوح علیہ السلام جس قوم میں مبعوث ہوئے وہ بت پرست تھی فستق ونجور میں مبتلا تھی.سورۃ نوح میں ان کے مشہور بہتوں کے نام یہ آئے ہیں

Page 24

۲۳ 10 ود، سواع.یغوث ، یعوق اور نسر ل : حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو کس بات کی تلقین کی ؟ ان لا تَعْبُدُوا إِلَّا اللهُ (سورة هود) ترجمہ ہے کہ تم اللہ تعالے کے سوا کسی ہستی کی پرستش نہ کرو.ان الحيد و اللهَ وَاتَّفُوهُ وَأَطِيعُونِه (سورة نوح) ترجمہ : اللہ کی عبادت کرو اس کا تقوئے اختیار کر و.اور میری اطاعت کرو.اور یہ تینوں عذاب سے بچنے کے گر ہیں.:- حضرت نوح کے دعوی رسالت کے بعد آپ کی قوم نے آپ سے کیا کہا ؟ ج : کافر سر داروں نے کہا کہ ہم سمجھے اپنے جیسے آدمی کے سوا کچھ نہیں سمجھتے اور نہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سوائے ان لوگوں کے جو سرسری نظر میں ہم میں سے حقیر ترین نظر آتے ہیں.کسی نے تیری پیروی کی اور ہم اپنے پر تمہاری کسی قسم کی فضیلت نہیں دیکھتے بلکہ ہم یقینی رکھتے ہیں کہ تم بھوٹے ہو.(سورة هود) شکل :.حضرت نوح نے مخالفین کو کیا جواب دیا ؟ ج : آپ نے اپنے مخالفین سے فرمایا.خداتعالی کا پیغام پہنچانے میں میری کوئی غرض نہیں ہے.میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا اور میرے پیرو کار اگر ظاہر میں ایمان لاچکے ہیں تو میرا حق نہیں کہ میں شک وشبہ کی بناء پر ان کو دھتکار دوں.یہ لوگ تو خدا کے فضل کے طلب گار ہیں.ل: کیا حضرت نوح نے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے بددعا کی تھی.؟ ج :- جی نہیں.

Page 25

۲۴ رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الكَافِرِينَ دَيَّارًا - ترجمہ : اے میرے رب ! زمین پر کافروں کا کوئی گھر باقی نہ رہ ہے.کی دعا بد دعا نہ تھی بلکہ یہ دعا تھی کہ سب قوم ایمان سے آئے اور کوئی کا فن نہ رہے.اگر یہ بد دعا ہوتی تو حضرت نوح اپنی قوم کے ایمان نہ لائے کی وجہ سے کیوں غم کھاتے.جیسا کہ اللہ تعالے آپ کے متعلق فرماتا ہے.دارى إلى نوح إنه لَنْ يُؤْمِنَ مِنْ دُوْمِكَ إِلَّا مَنْ قَدْ أَمَنَ فَكَ تبيسُ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ.(سورۃ ہود) ترجمہ.اور فوج کی طرف وحی کی گئی کہ جو لوگ ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا تیری قوم میں سے (اب) کوئی ایمان نہیں لائے گا اس لیے جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس وجہ سے تو انسوس نہ گھر اگر آپ قریہ کی تباہی کیلئے بد دعائیں کر رہے تھے تو ہر قوم کی تباہی کا سنکر آپ کیوں فلکین ہو گئے آیت وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الذِينَ ظَلَمُوا الهَوْ مُعْرَقُونَ.کہ ظالموں کے بارے میں مجھ سے سوال نہ کر کے الفاظ بھی بناتے ہیں.کہ حضرت نوح نے بددعا اپنی طرف سے نہیں کی تھی اگر وہ بد دعا گو رہے ہوتے تو انہیں دعا کرنے سے روکنے کی کوئی ضرورت نہ تھی.شکل:.حضرت نوح کو خدا تعالیٰ کی طرف سرکشوں اور نافرمانوں کو سزا کا اعلان نوح خدا کی اور سزا کا سنانے کے بعد کیا حکم ملا.ج - اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک کشتی کے تیار کرنے کا حکم دیا.واصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْينًا کہ تو ہمارے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بنا.

Page 26

۲۵ اور اس کشتی پر سوار ہو کر آپ اور آپ کے ماننے والے مخلصین خدا کے عذاب سے محفوظ رہ سکیں گے.فلک کے معانی جماعت کے بھی ہوتے ہیں.مراد یہ کہ ہر طبقہ کے لوگ جو آپس میں انس ریحت کی وجہ سے زوجین یعنی جوڑوں کی مانند ہوں ان کی طرف توجہ کہ و.تورات میں لکھا ہے کہ وہ کشتی تین سو ہاتھ لمبی پچاس ہا تھ کھڑی اور تین ہاتھ اونچی تھی اور اس کے باہر اور اندر سال لگی ہوئی تھی.سن : حضرت نوح کو اپنے ساتھ کن چیزوں کے رکھنے کا حکم ہوا.ج :- حضرت نوح کو اپنے ساتھ کشتی میں اپنے ماننے والوں اور انہی جانوروں کے جوڑے لینے کا حکم ہوا.یعنی ایک ایک نادر ایک ایک مادہ جانوروں کے لینے کا حکم ہوا جن کی نہیں ضرورت تھی اور جو ان کے گھر میں موجود تھے.جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے.كلتا الحمل فيها مِن كُلِّ دَوجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سبق عليه القولُ وَمَنْ أمَنُ وَمَا مَنَ مَعَد الا قليل ترجمہ : ہم کہیں گے کہ ہر ایک قسم کے جانوروں) میں سے ایک ہوڑا اینی دو کو اور اپنے اہل کو سوائے اس کے جس کے متعلق پہلے فرمان جاری ہو چکا ہے اور نیز ان کو جو تجھ پر ایمان لائے ہیں اس میں سوار کرا دے اور اس پر سوائے قلیل تعداد کے کوئی ایمان نہ لایا تھا.: حضرت نوح کی قوم پر کس قسم کا عذاب آیا ؟ - ج :- حضرت نوح کی قوم پر پانی کا عذاب آیا.پانی، آسمان سے بھی برسا اور زمین سے بھی نکلا اور دونوں پانیوں کے ملنے سے حضرت نوح کی قوم پر تبا ہی آئی.

Page 27

سورۃ قمر میں آتا ہے.تفتَحْنَا ابْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ منهير - ترجمہ : اس پر ہم نے آسمان کے دروازے ایک شدیت سے برسنے والے پانی کے ذریعہ سے کھول دیئے.اور سورۃ تمر میں فرمایا.وَنَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا - ترجمہ :.کہ ہم نے زمین میں پیشے پھوڑ دیئے.قومات میں لکھا ہے کہ دجلہ فرات میں بے پناہ سیلاب آگیا.ہر شے اس کی پیٹ میں آگئی اور ساتھ ہی طوفانی ہواؤں سے اونچی اونچی موجیں اٹھنے لگیں.سر زمین کے دھانے کیسے کھل گئے کہ قوم نوح فرق ہو گئی ہے ج :- اس کے لیے ایک اشارہ قرآن مجید میں پایا جاتا ہے.بائیل میں نہیں اور وہ ہے التنور کا اہلنا.جودی کے اوپر نظر دوڑائیں جھیل در ان نظر آئے گی اس کے شمال مغرب میں دنیا کا سب سے بڑا دھانہ CAATER منہ پھاڑے کھڑا ہے اس کا نام جیل نمرود ہے.اس میں آج بھی گرم اور ٹھنڈے پانی کی جھیلیں ہیں اور یہ بھی آثار سے پتہ مل گیا ہے کہ زمانہ قبل از تاریخ میں یہ دھانہ اہل پڑا تھا اور اس کے باعث جھیل وان میں پھیلے ہوئے دوسرے دھانے یعنی CRATER پھوٹ پڑے.نمرود اور جھیل دان کا پانی نشیبوں میں بھر گیا حضرت نوح کی قوم جھیل دان کے قرب و جوار میں پیالہ نما نشیبی وادیوں میں بسی ہوئی تھی.آسمان کے پانی اور زینی چشموں نے سارے نشیبی علاقوں کو پانی سے لبریز کر دیا.اس طرح قوم نوح فرق ہو گئی.

Page 28

۲۷ ظالموں میں ہے کہ قوم نوح کو ابلتے پانی سے عذاب دیا گیا.ار سالہ انصار اللہ فروری مار ص۱۶) :- حضرت نوح نے کشتی پر سوار ہوتے ہوئے کیا دُعا مانگی.ج : بسم الله مجرٍهَا وَمُرْشِهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورُ ت جيوه (سورة هود) ترجمہ :.اس کا چلتا اور اس کا ٹھہرائے جانا اللہ تعالے کے نام کی برکت سے ہو گا.میرا رب یقیناً بہت ہی بخشنے والا باریار رحم کرنے والا ہے.شکلی.حضرت نوح نے جب اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کے لیے کہا تو اس نے کیا جواب دیا ؟ ج :.اس نے کہا.سَادَى إِلى جَبَلٍ تَعْصِمُنِي مِنَ السَّمَاءِ ترجمہ : میں کسی پہاڑ کی طرف چلا جاؤں گا اور پناہ لوں گا تو اس پانی سے مجھے بچائے گا.شش ، حضرت نوح کے اس بیٹے کا کیا نام تھا ؟ ج : کنعان - (قاموس ہیں یام ہے.شش :- بیٹے کے ہلاک ہو جانے پر حضرت نوح نے اللہ تعالے سے کیا کیا.؟ ج : حضرت نوح نے اللہ تعالے کو پکارا اور کہا کہ میرے رب! میرا بیٹا یقیناً میرے اہل میں سے تھا اور تیرا وعدہ بھی یقینا سچا ہے اور توسب فیصلہ کرنے والوں سے بڑھ کر بہتر فیصلہ کرنے والا ہے.: اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو کیا جواب دیا ؟

Page 29

PA قَالَ يَتُوحُ إِنه لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ : فَلَا تَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمُ إِلَى اعْظَكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ترجمہ دار فر مایا.اسے نوح !.وہ تیرے اہل میں ہرگز نہیں اور تمہاری یہ (دعا) یقیناً ایک (نا درست ہے عمل کام ہے (یا کیونکہ وہ نا منا سب اعمال کرتا رہا ہے، پس جس چیز کی بھلائی یا برائی) کا تجھے کچھ علم نہیں وہ مجھ سے مت مانگ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں تاکہ تو ر کہیں جہالت دکھانے والوں میں سے (نہ) اپنے.:- کیا حضرت نوح " سے ان کے بیٹے کے عمل پوشیدہ تھے.ج -: جی ہاں.کیونکہ حضرت نوح نے اسے کشتی پر سوار ہونے کے لیے کہا تو اس نے انکار کر دیا.تب خدا تعالے نے آپ پر واضح کیا کہ وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے.کیونکہ وہ نا مناسب اعمال بجا لاتا رہا ہے.شکی : کشتی کہاں ٹھہری.؟ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِي - (سورة هود) اور وہ کشتی جودی پہاڑ) پر آٹھہری.تورات کتاب پیدائش باب ۸ آیت ۴ میں لکھا ہے.ساتویں مہینہ کی سترہویں تاریخ کو کشتی اراراط کے پہاڑوں پر تک گئی.دار رباط پہاڑوں کے سلسلہ کا نام ہے جو ایران ،روس اور جمہوریہ ترکی کی مشترکہ سرحد پر واقع ہے اور جس حصے کا نام اماراط ہے وہ جمہوریہ ترکیہ کی حدود میں ہے، بابل کی روایتوں میں اس پہاڑ کا نام آرمینیا ہے.

Page 30

۲۹ شش : - جودی کے معانی کیا ہیں ؟ اور اراراط کے معانی کیا ہیں ؟ ج :- سجود کے معانی رحمت اور احسان کے ہیں.اور جودی کے معنی میری رحمت کے ہیں.اور اراراط کے معانی ہیں میں رحمت کی جگہ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں.ناموں کے معانی میں کوئی اختلاف نہیں.نگ :- مقام کا نام جو دی رکھ کر کسی بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا ؟ ج :.اس میں یہ اشارہ تھا کہ وہ میری رحمت اور احسان کے ظہور کا مقام ہے.خدا تعالیٰ کی تجلی گاہ ہے.اسل :.طوفان کتنے دن جاری رہا ؟ ج : چالیس دن اور چالیس رات زمین پر بارش ہوتی رہی.اور پانی زمین پر ایک سو پچاس دن تک پڑھتا رہا......اور پانی زمین گھتے تھٹتے ایک سو سیاس دن کے بعد کم ہوا.......اور کشتی اراراط کے پہاڑوں پڑک گئی.رکتاب پیدائش باب ۷ آیت ۱۲-۱۳) ل : کیا طوفان نوح عالمگیر تھا.سے ج :- اس کے متعلق مضرین کی مختلف آراء ہیں.بعض اسے عالمگیر سمجھتے ہیں اور بعض نہیں.یہ طوفان عالمگیر نہ تھا بلکہ اس خاص خطے تک محدود تھا.جہاں حضرت نوح کی قوم آباد تھی کیونکہ وہ عذاب کی مستحق تھی اس لیے ان پر عذاب آیا.لیکن اس طوفان کا ذکر قریباً دنیا کی تمام تاریخوں میں ہے.ں :.حضرت نوح نے بشری کمزوریوں پر قابو پانے یا ان سے بچنے کے لیے کیا دعا مانگی.

Page 31

٣٠ راتي اعوذ بك أن اسْتَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمُ وَإِلَّا تَغْفِرُى وَتَرْحَمُنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ.اے میرے رب ! میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں سمجھ سے (آئیندہ) کوئی ایسی چیز مانگوں میں کا مجھے کچھ علم نہ ہو.اور اگر تو مجھے نہ بخشے اور مجھ پر رحم نہ کرے تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا.:- کیا حضرت نوح کے علاوہ دوسرے مومنوں کی نسل دنیا میں پھیلی ؟ ج-: جی ہاں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قيل لنوع القبط السلم منَّا وَبَرَكَةٍ عَلَيْكَ وَعَلى أَمر مِمَّن مَّعَكَ ترجمہ - کہا گیا کہ اسے نوج ! تو ہماری طرف سے عطا شدہ سلامتی اور (طرح طرح) کی برکات کے ساتھ جو تجھ پر اور جو لوگ تیرے ساتھ ہی ان پر کئی جماعتوں پر (نازل کی جاتی ).ہیں اتر جا.مشکل : حضرت نوح کو کس طرح یہ علم ہوا کہ پانی کم ہوگیا ہے ؟ ج وہ بائیل میں لکھا ہے کہ کبوتری کے منہ میں زیتون کی تازہ پتی دیکھ کہ آپ کو علم ہوگیا کہ پانی کم ہونا شروع ہو گیا ہے.:- حضرت نوح کو زیتون کی پتی کے ذریعہ کیا خبر دی گئی تھی ؟.ج -:- حضرت نوح گو آپ کی جماعت کی آئندہ ترقی نیز ان کی ایمانی حالت میں ترقی کرنے اور کامیابی کی خبر دی گئی تھی.اور یہ کہ دشمن مغلوب ہو گئے ہیں.خش صورۃ التین میں ڈالہ تیون" کے لفظ میں کسی طرف اشارہ کیا گیا ہے.؟

Page 32

والا نیوں کے الفاظ میں حضرت نوح کی ہجرت کا ذکر ہے اور آپ کو بشارت دی گئی ہے.کہ آپ کی ہجرت کامیاب ہو گئی ہے.شکل : حضرت نوح کی اولاد کہاں آباد ہوئی.ج :- بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد نوح کی اولاد موجودہ عراق میں آباد ہوئی.حضرت نوح کے بیٹے سام نے بابل وغیرہ پر حکومت کی.ن -: حضرت نوح علیہ السلام جب بحفاظت جو دی مقام پر پہنچ گئے تو آپ کو خدا تعالیٰ نے کن الفاظ میں شکر ادا کرنے کے لیے کہا.: وَقُل رَبِّ انْزِلْنِي مُسرَ لا مُبَارَكًا وَانتَ خَيْرُ المنزلين.(المومنون) ترجمہ :.اور کہہ کہ اسے میرے رب! تو مجھے (اس کشتی سے).ایسی حالت میں اتار کہ مجھ پر کثرت سے برکتیں نازل ہو رہی ہوں.اور تمام اتارنے والوں سے تیرا وجود بہتر ہے.یہ سواری سے اترنے کی دعا ہے.اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دکھ سے نجات پاکر بھی دعا کرنی چاہیے.:- حضرت نوح کی نبوت کا زمانہ کتنا ہے ؟.نكبت فيه هِمْ الفَ سَنَةٍ الاحْمِيْنَ عَامَّاط (صورة عنكبوت) پس وہ ان میں نو سو پچاس سال تک رہا.کی :.موجودہ زمانہ کو حضرت نوح کے زمانہ کے ساتھ کیا مطابقت ہے ؟ ج : موجودہ زمانہ میھی حضرت نوح کی طرح پر امن اور راحت و آرام کا زمانہ ہے اور لوگ عیش و عشرت میں مشغول ہیں.اس زمانہ میں بھی خدا نے ایک نوٹ بھیجا ہے، اور اس نے بھی اپنی ایک کشتی مرام جماعت

Page 33

تیار کی ہے، جو اس کشتی میں سوار ہوگا دہ یا مراد ہو جائے گا اور دکھوں سے نسجت پائے گا.: حضرت نوح کی چند دعائیں بتائیں.ج :- ١- رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَبُونَ - ترجمہ ا.اے میرے رب میری بود کہ اس وجہ سے کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے.-٢ رَبِّ اغْفِرُ لِي وَلِوَالِدَعَى وَ لِمَنْ دَخَلَ بَيْتِي مُؤْمِنَّا لِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنْت دَولَا تَزِدِ الظَّلِمِينَ إِلَّا تَبَارًا.ترجمہ : اے میرے رب! مجھے اور میرے ماں باپ کو اور ہراس شخص کو جو میرے گھر میں مومن ہو کر داخل ہوتا ہے اس کو بخش دے اور تمام مومن مردوں کو اور تمام مومن عورتوں کو سبھی.یوں ہو کہ ظالم صرف تباہی میں ہی ترقی کریں.ان کو کامیابی نصیب نہ ہو.) سورة نوح ) شکی : کیا حضرت نوح کی اولاد میں نبوت جاری رہی ؟ ج : جی ہاں حضرت نوح کی اولاد میں نبوت جیسی عظیم الشان نعمت جاری رہی جیسا کہ سورۃ الحدید آیت ۲۷ میں ارشاد ہے.ولقد ارسلنا نوقا ر إِبْرَاهِيمَ وَجَعَلْنَا ادري ما النبوة والكتب ترجمہ : اور ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھی رسول بناکر بھیجا تھا.اور ان کی اولاد سے نبوت اور کتاب کو مخصوص کر دیا تھا پس بعض انام میں سے ہدایت پانے والے تھے اور بہت لوگ ان میں سے نام تھے :- کیا طوفان نوح کا ذکر دنیا کی سب اقوام کی تاریخ میں ملتا ہے.18.جی ہاں.دنیا کی سب اقوام کی تاریخ میں ایک ایسے طوفان کا ذکر ملتا ہے

Page 34

٣٣ جو نوح کے طوفان کے مشابہ تھا.صورة قمر آیت ۱۶ میں مذکور ہے.ولند تَرَكْنها آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِره ترجمہ : اور ہم نے اس واقعہ کو ایک نشان کے طور پر ان کھیلی اقدام کے لیے چھوٹا پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے.کیا حضرت نوح کی بیوی آپ پر ایمان لائی تھی ؟ ج : جی نہیں.وہ حضرت نوح پر ایمان نہیں لائی تھی وہ آپ کی مخالفت کی وجہ سے عذاب الہی میں گرفتار ہو کر ہلاک ہو گئی.شکش :- اللہ تعالیٰ نے کافروں کی مثال کن دو عورتوں کے ساتھ دی ہے ؟ ج : سورۃ التحریم میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی مثال حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں سے دی ہے.وہ خدا کے رسول کی بیوہ یاں تھیں.مگران دونوں نے ان بندوں کی خیانت کی تھی.اور وہ دونوں مذاب الہی کے وقت ان کے کسی کام نہ آسکے اور ان دونوں صورتوں سے کہا گیا کہ جہنم میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں چلی جاؤ.شکی :.حضرت نوح کی بیری کا نام کیا تھا ؟ ج :.حضرت نوح کی بیوی کا نام علمہ تھا.دورس القرآن فرمودہ حضرت خلیفة المسح الاول ۲)

Page 35

۳۴ حضرت ھود علیه السّلام سی: حضرت صود علیہ السلام کسی قوم کی طرف مبعوث ہوئے ؟ ج : عاد قوم کی طرف س : عاد قوم کون تھی ؟ ج :- حضرت نوح کے بیٹے سام کی نسل عرب اور اطراف عرب میں پھیلی.عادہ اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے.یہ قوم ارم بن سام بن نوح کی طرف منسوب تھی.قرآن مجید نے عاد قوم کو.خُلَفَاء مِنْ بَعْدِ قَومِ نوح کہا کرتا دیا کہ قوم نوح کے بعد عاد کی ترو نے شرکت حاصل کی.قوم عاد حضرت نوح کی قوم سے معا بعد گزری ہے.سامی تو میں جوہ کہ ارم سے پہلے حاکم تھیں وہ بھی عاد ہی کا حصہ تھیں.نی :- عاد قوم کو قرآن مجید میں اور کسی نام سے پکارا گیا ہے.ج -: سورۃ الفجر میں ہے.المتركَيفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادِهِ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِهِ ترجمہ :.کیا تجھے معلوم ہے کہ تیرے رب نے عاد سے کیا معامہ کیا.یعنی ارم سے جو بڑی بڑی عمارتیں بنانے والے تھے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ارم قبیلے کا نام ہے.اور یہاں ارم قبیلہ سے تعلق رکھنے والے عاد کا ہی ذکر کیا گیا ہے.بعض کے نزدیک یہ ایک شہر کا نام ہے.

Page 36

۳۵ بعض کے نزدیک یہ ایک شہر کا نام ہی ہے لیکن مراد ائرکم صاحب ذات العماو یعنی ارم ہجر بڑی بڑی عمارتوں والے تھے.ا تفسير سورة نمبر ۵۳ از حضرت مصلح موعود ) ارم یا تو عاد کے دادا عوص کے باپ کا نام ہے یا ارم کے شہر کا نام دونوں مراد ہو سکتے ہیں یعنی اہل ارم.یہ لوگ سام بن نوح عدم کی اولاد میں سے تھے.ش :- عاد قوم کہاں رہتی تھی.؟ درس القرآن فرمودہ حضرت خلیفہ اول ) (سورة الفجر ) ج - عاد قوم کا خاص مسکن مین سے خلیج فارس کے دھانے تک جنوبی عرب میں پھر ساحل تخلیج فارس کے ساتھ ساتھ عراق تک تھا.قوم عامہ عرب کے جنوب مشرقی علاقہ میں خلیج فارس کے ساحل میں خلیج فارس کے پر آباد تھی.ماد قوم ہیں علاقے میں آباد تھی وہ نہایت سرسبز و شاداب تھا.باغات اور چشموں کی فراوانی تھی اور بہت سی نعتیں اور آسائشیں انہیں مہیا تھیں.جیسا کہ سورۃ الشعراء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آمد و با نُعَامِ وَبَنِينَ وَجَنَّتٍ وَهُبُونٍ.ترجمہ :.اس نے تمہاری مدد کی ہے.چارپائے اور بیٹے اور باغ اور پیشے دے کر.ش و عاد قوم کا مذہب کیا تھا ؟ ج : عاد قوم بت پرست تھی.بت تراشی میں ماہر تھی.دیوتاؤں کے بت بنا کر پرستش کرتی تھی.

Page 37

٣٦ سٹن مادر ترم کیسی قوم تھی یا.ش : عاد قوم - عاد قوم بت تراشی کے علاوہ فن تعمیر میں کمال رکھتی تھی.سورۃ الفجر میں آتا ہے.لم يخلى مِثْلُها في البلاد ترجمہ اور وہ لوگ جن کی ماند کوئی قویم ان سکوں میں پیدا ہی نہیں کی گئی تھی.من کاری میں تمام ہم عصر قدموں میں ممتاز تھی.مجھے بناتی تھی اور عالی شان مکان اور بڑی بڑی کو ٹھیاں بناتی تھی.بڑی بڑی فیکٹریاں اور کیمسٹری کے مراکزہ تیار کر تی تھی.سورة الشعراء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اتبنُونَ بِكُلِ ديمِ ايَةً تَعْتُونَ.ترجمہ - کہ تم ہر اونچی جگہ پر نشان کھڑا کرتے ہو.فضول کام کرتے ہوئے.ماد قوم اپنے اونچے اونچے مقامات پر یاد گاریں قائم کرنے کی عادی تھی.مار قوم کی تہذیب کی بنیاد علم ہندسہ ، کیمری اور ہیئت پر تھی ، آلات جنگ کی بعض حیرت انگیز ایجادات انہی کے زمانہ میں ہوئی ہیں.ش عاد قوم کا پیشہ کیا تھا ؟ ج : عاد قوم زراعت پیشہ تھی.: حضرت صدر کا ان سے یہ کہنا بتاتا ہے : ويقوم اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُؤْمِلِ السَّمَاء عَلَيْكُم مدراس اويَزِدْكُم قُوةُ إِلى قُوتِكُمْ (هود ، ۵۲) ترجمہ :.اور اے میری قوم تم اپنے رب سے بخشش مانگو.....

Page 38

۳۷ کہ اگر تم ایسا کر دو گے تو وہ تم پر خوب برسنے والا بادل بھیجے گا اور تمہاری موجودہ قوت کے ساتھ مل کر تمہیں قوت میں بڑھا دے گا.پر لوگ بارانی زمینوں والے تھے.ش : عامر قوم کا مرکزی مقام کون سا تھا ؟ ج : عاد قوم کا مرکزی مقام احتقان تھا.واذكر أنا هَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَاتِ - ترجمہ : اور عاد کے بھائی دھود) کو یاد کہ جب اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا تھا.(سورۃ الاحقاف آیت نمبر ۲۲) سنس :- احقاف کے کیا معنی ہیں.ج :- احقاف حقف کی جمع ہے.ریت کے وہ لیے جو ایک طرف مجھے ہوتے ہوں یعنی گرنے کی طرف مائل ہوں.احقاف.لغت کے لحاظ سے ریت کے ٹیڑھے اور ترچھے شینوں کو کہتے ہیں.اور اصطلاح عرب میں دو علاقوں کو کہتے ہیں جو خود شاداب ہیں لیکن محرار کے پاس ہیں اور محرانہ سے ریت اڑ اڑ کر ان علاقوں میں ٹیلے بنا دیتی ہے.جنوبی احقاف اور شمالی احقاف جنوبی اختلاف عرب کے جنوب کی جانب میں سے شروع ہو کر متعار کے نیچے نیچے مون سے اوپر مشرق کی طرف چلا گیا ہے.دوسرا علاقہ شمالی احقاف جو بصری سے نیچے کی طرف عراق کے

Page 39

بیابان کے ساتھ چلا جاتا ہے.( تفسير كبير سورة هود ص۲۰۲) :- ان علاقوں کا نام انتقاف کیوں پڑا ؟.ممکن ہے کہ عذاب آنے کے بعد ان علاقوں کا نام احقاف پڑ گیا ہو.یا صحرا کی ریت آنے سے ٹیلے بن گئے ہوں.تباہی کے بعد اس علاقے کا نام احقاف پڑا.شہریت کے ٹیلوں میں دب گیا اور ٹیلے ہی بیٹے نظر آنے لگے.س :- عاد قوم کی اخلاقی حالت کیسی تھی ہے.ج 1- عاد قوم سخت متکبر قوم تھی.ظالم اور سرکش قوم تھی.شرارت میں مدرسے بڑھی ہوئی تھی.اپنے سے ہر قوم کو حقیر سمجھتی تھی.حق کا جان بوجھ کہ انکار کرنے والی قوم تھی.صورة طبقة سجدہ میں ان کی حالت یوں بیان کی گئی ہے.نا ما عادنَا سُتَكَبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ترجمہ.اور عاد قوم نے زمین میں بغیر کسی حق کے بیجر سے کام لیا ہے.وَقَالُوا مَنْ اَشَدُّ مِنا قُرَّةٌ.(سورة حم سجده) ترجمہ :.اور انہوں نے کہا.ہم سے زیادہ طاقت میں کون ہے.ک إِذَا بَطَشْتُم بَطَتُمْ جَبَّارِينَ - (سورۃ شعراء) ترجمہ :.اور جب تم رکسی کو پکڑتے ہو تو ظالموں کی طرح ہی پکڑتے ہو.شکلی در جب مار قوم سرکشی ، سخت اور تکبر میں حدت بڑھ گئی تواللہ تعالی نے

Page 40

٣٩ ان کی طرف کسی کو نبی بنا کر بھیجا.ج :- حضرت عود علیہ السلام کو.و إلى عاد اخاهم هوداد (سورة هود) (ترجمہ:.اور عاد قوم کی طرف ان کے بھائی حصود کو نبی بنا کر بھیجا.کلی : حضرت ھود علیہ السلام کا تعلق عاد کی کی شاخ سے تھا ؟ ج : عاد کی سب سے معزز شاخ خلود سے آپ کا تعلق تھا.شکی :.حضرت عقود کا پیشہ کیا تھا.ج : حضرت مصور تجارت کیا کرتے تھے.لی :.حضرت عفواد کا حلیہ مبارک کیسا تھا.؟ ج :- حضرت ھوڈ کا سرخ و سفید رنگ تھا.آپ وجیہ تھے.اور داڑھی بڑھی ہوئی تھی.رمینی جلد کتاب الا بیار) کلی :.حضرت ھود نے انہیں کیا تعلیم دی ؟.ج-: حضرت ھوڑ نے انہیں دعوت توحید دی.اور کہا کہ عبادت کے لائق صرف اللہ تعالی کی ذات ہے.اور یہ دولت و عظمت اور قوت ہو تمہیں حاصل ہے.یہ خدا کی عطا کردہ ہے.اس کے بدلہ میں خدا تعالیٰ کے احسانات کا شکریہ ادا کرو.اللہ تعالیٰ سے ڈرد اور میری اطاعت کرو.ويقوم اسْتَغْفِرُ والبَكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ (سورة هود ) ترجمہ :.اے میری قوم ! اپنے رب سے بخشش طلب کرو پھر اس کی

Page 41

طرف رجوع کرو.:- عاد قوم نے حضرت ھود کی نصیحوں کا کیا جواب دیا ، ج : عاد قوم نے حضرت ھوڑ کی توہین کی اور کہا کہ تو کوئی روشن نشان نہیں لایا.ہم سمجھ پر ایمان نہیں لائیں گے.اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑیں گے.اور یہ کہ ہمارے کسی بت نے تیرا دماغ خراب کر دیا ہے.اللہ تعالی کسی فرشتے کو پیغمبر بنا کر بھیجتا.قوم کے سرداروں نے کہا کہ اسے محدود ! اہم تجھے کم عقل اور جھوٹے لوگوں میں سے سمجھتے ہیں.شکل:.حضرت ھود نے انہیں کیا جواب دیا اور کون سے دلائل دے ھود نے انہیں کیا اور کون کر سمجھایا ؟.ج :- حضرت ھود نے جواب دیا کہ مجھ میں کم عقلی نہیں پائی جاتی بلکہ میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں اور تمہار ا سکا خیر خواہ ہوں.آپ نے اللہ تعالٰی کا وہ مذاب یاد دلایا جس نے حضرت نوح کی قوم کو ان کی سرکشی کی وجہ سے تباہ وبرباد کر دیا تھا.ن : قوم عاد نے حضرت ہود کی نصائح کا کیا جواب دیا.؟ نے ج :.قوم عاد نے کہا.مراة علينا أو عطت أم لَمْ تَكُن مِّنَ الْوَاعِظينَ إِنْ هَذَا إِلَّا خلق الأولِينَ، وَمَا نَحْنُ بِمُعد بين - (الشعراء : ۱۳۶ ) ترجمہ :.تیرا وعظ کرنا یا نہ کر نا ہمارے لیے برابر ہے (کیونکہ جو باتیں ہم کر رہے ہیں وہ تو پہلے زمانہ کے لوگوں سے رائچ ہیں اور ہم پر کبھی عذاب نہیں آئے گا.اں :.حضرت ہود نے ان کی حد سے بڑھتی ہوئی شرارتوں پر کیا گیا.

Page 42

۴۱ ج :.آپ نے فرمایا.الي اسود الله واشْهَدُوا إِلَى بَرِيُّ مِّمَّا تُشْرِكُونَ مِنْ دونم فكيدُ وَلي جَمِيعًا تُو لَا تُنْظُرُونِ.ترجمہ :.میں اللہ کو اس ربات اکا گواہ ٹھہراتا ہوں اور تم بھی گواہ نہ ہو کہ جس کسی کو تم اللہ کا شریک قرار دیتے ہو.ہمیں اس سے بے زار ہوں.اس کو چھوڑ کر تم سب مل کر میرے خلات منصوبہ کرو اور مجھے کوئی ڈھیل نہ دو.پھر آپ نے کہا کہ میرا اپنے رب پر توکل ہے اور وہ میری مدد کے لیے آرہا ہے.قریب کی راہ سے.اللہ تعالیٰ کا تم سب پر تصرف ہے اور یہ کہ اگر تم نے خدا کو نہ مانا تو تمہارے علاوہ وہ کسی اور قوم کو جانشین اور بنا دے گا.اور تم اس کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکو گے.میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا.ش در حضرت ھود کی قوم نے آپ سے کیا مطالبہ کیا.& ج.قوم عاد نے کہا.ما تنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ.ترجمہ - کہ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب نے آؤ جس کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے.:- حضرت ھوڑ نے ان کے عذاب کے مطالبے پر کیا جواب دیا ؟ ج : - فانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُو مِنَ الْمُنتَظِرِينَ.(سورۃ اعراف) ترجمہ :.پس تم بھی (میرے لیے عذاب کا انتظار کرو.میں بھی تمہارے ساتھ (تمہارے لیے) عذاب کا انتظار کرتا رہوں گا.

Page 43

۴۲ لی.عاد قوم کسی عذاب سے ہلاک ہوئی.؟ ج در آندھی کے عذاب سے.جو متواتر سات راتیں اور آٹھ دن تک چلتی رہی.داما عاد ما هيكُوا بِرِيعِ صَرْ صَرٍ عَاتِيَةٍ لا سَخَّرَهَا عَلَيْهِمُ سَبعَ لَيَالٍ وثَمِنِيَةَ أَيَّا ما حُسُومَا لا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرُعَى وَانَّهُمْ أَعْمَا نُخلِ خَاوِيَةٍ O (سورة الحاق آیت ۱۷) ترجمہ :.اور عاد ایک ایسے عذاب سے بلاک کیے گئے جو ہوا کی صورت میں آیا تھا جو سکیاں چلتی تھی اور سخت تیز تھی.اس (اللہ) نے ہوا کو متواتر سات رائیں اور آٹھ دن ان کی تباہی کے لیے مقرر کہ چھوڑا تھا.سو اس کا نتیجہ تمہیں معلوم ہے کہ وہ قوم بالکل گر گئی گھر یا کہ وہ کھجور کے ایک کھوکھلے درخت کی جڑیں ہیں جن کو تیز آندھی نے گیرا کر رکھ دیا ہے.( ترجمه تفسیر صغیر) ہوا کا تیز طوفان بلا وقفہ ایک ہفتہ تک چلتا رہا.اور قوم عاد زیر زمین مدفون ہو گئی اور ان کا شہر ریت کے ٹیلوں میں دب گیا - مشکل :- عاد قوم کی تباہی کس طرح ہوئی ؟.ج : عاد قوم جو ذات العماد کہلاتی تھی.جو مَن اسد مينا ا ترجمہ :.کون طاقت میں ہم سے زیادہ ہے).کی دعویدار تھی.وہ خدا کے عذاب سے دوچار ہوئی تو.لا ميوى الا مباركة مر کے مطابق ان کے صرف گھر ہی نظر آتے تھے.سب قوم ریت میں دب گئی.انہوں نے اپنی وادیوں کی طرف بڑھتا ہوا بادل دیکھا تو خوش ہوئے کہ یہ ہم پر بادل برسائے گا (ہم نے کہا، انہیں یہ وہ عذاب ہے جنس کو تم جلدی مانگتے تھے.یہ ایک ہوا ہے جس میں دردناک عذاب

Page 44

۴۳ پوشیدہ ہے.یہ ہوا اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کرتی چلی جائے گی.(سورۃ الاحقات) ل : قرآن مجید کی کن صورتوں میں عاد قوم کی تباہی کا نقشہ کھینچا گیا ہے ؟ ج-: سورۃ اعراف سورة هود سورة لحم سجده f سورة التفاف سورة القمر سورة الذاريات سورة الحاقة شکش :- عذاب تو اور قوموں پر بھی آئے مگر دِنوں کے لیے منوس ہونے کا ذکر کسی قوم کے لیے آیا.ج : عاد قوم کے لیے.اور فی ایام نحسیات کے الفاظ آئے.سورۃ قمر نہیں آیا ہے.کہ یہ اس قوم کے لیے میلہ اور عید کے دن تھے جنہیں وہ مبارک سمجھتے تھے.اس سے فرمایا کہ جنہیں تم مبارک دن سمجھتے تھے وہی منحوس ثابت ہوئے.شکل : حضرت صدر کو تاریخی لحاظ سے کیا اہمیت اور شان حاصل ہے.ج در حضرت معصود کو تاریخی لحاظ سے یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ پہلے نبی ہیں جو عرب میں مبعوث ہوئے.مشق -:- حضرت ھود اور آپ پر ایمان لانے والوں نے کسی علاقہ کی طرف ہجرت کی ؟.ج : حضرت ھوڑ اور آپ کے متبعین نے قوم عاد کی تباہی کے بعد حضرت کی طرف ہجرت کی.حضرت تھوڑ اور آپ پر ایمان لانے والوں کو خد اتعالے نے اپنی عظیم الشان رحمت سے بچا لیا.

Page 45

سلام نام نگ :- حضرت مصور نے کہاں وفات پائی.؟ ج : حضر موت ہیں.حضر موت کی شمالی سرحد یہ ایک مقام تقسیم ہے.تریم سے دو منزل کے فاصلہ پر آپ کی قبر ہے.ر قصص القرآن ما ) شکی: عاد قوم کا ذکر قرآن مجید میں کتنی بار آیا ہے؟ ؟ ج : ۲۱ بار.چار مرتبہ سورۃ ھود میں.سورت ہائے شعرار ، قمر، اعراف، فجر ، زاریات ، ص ، ق ، توبہ ، ابراہیم ، حج، مومن، نجم فرقان، عنکبوت، احتقان ، اور سورۃ فضیلت میں ۲ بار.سل :.سورۃ ھود کسی سیپارے میں ہے.ج :- سورة هود گیارہویں اور بارہویں سیپارے میں بچے : حدیث میں سورۃ ھود کی فضیلت کیا بیان کی گئی ہے.؟ ج-: حضرت کعب سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اتروا الهُودَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ - ترجمہ :.سورۃ ھود کو جمعہ کے دن پڑھا کرو.اس سورۃ میں نظام جماعت کا ذکر ہے.اور جمعہ کا دن بھی اجتماع کا دن ہوتا ہے.اس لیے حضور نے اسے جمعہ کے دن پڑھنے کا ارشاد فرمایا.: حضور صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ ہود کے متعلق کیوں فرمایا کرتے تھے کہ سورۃ ھود نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے.(شینی خود)

Page 46

۴۵ سورہ ہود کی وہ آیت جس کے متعلق آپ فرمایا کرتے تھے کہ سورہ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے درج ذیل ہے.فاستقم كما أمرت وَمَنْ تَابَ مُعَكَ.ترجمہ ار پس اسے رسول ، توان لوگوں سمیت جنہوں نے تیرے ساتھ ہو کر ا ہماری طرف) رجوع کیا ہے (اس طرح پر میں طرح تجھے حکم دیا گیا ہے سیدھی راہ پر قائم رہ

Page 47

حضرت صالح علیہ السلام ش ، قوم ثمود کس قوم کی قائم مقام تھی.ج 1- قوم ثمود قوم عاد کی قائم مقام تھی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.واذكروا إذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاء مِنْ بَعْدِ عَادٍ - (سورة الاسراف) ترجمہ :.اور یاد کہ در جب اللہ تعالے نے تم کو عاد کے بعد ان کا قا ئمقام بنایا.س : عاد ثانیہ کون سی قوم کہلاتی ہے ؟.ج - قوم محمود در : قوم نمود کا نام کسی نسبت سے نمود پڑا.ج : حضرت نوح کی اولاد میں سے ایک شخص کا نام نمود تھا جس کی طرف یہ قوم منسوب ہے.سکس : کیا نمود قوم عربی تھی.؟ ج : جی ہاں.حمود قوم عربی نشاد امت تھی ش :- اصحاب الحجر سے کون سی قوم مراد ہے ؟ حج :- اصحاب الحجر سے نمود، قوم صالح مراد ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے.وَلَقَد كَذَّبَ أَصْحَبُ الحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ (الحجر: (۸۰)

Page 48

ترجمہ : ( حجر دالوں نے بھی یقیناً ہمارے رسولوں کو جھٹلایا تھا) ش نمود کی بستیاں کن علاقوں میں پھیلی ہوئی تھیں ؟ - ج :- ثمود کی بستیاں حجاز اور شام کے درمیان وادی القری میں پھیلی ہوئی تھیں.بعض کے نزدیک عدن سے لے کر حدیدہ ، حضرموت ، حجاز اور تہامہ کے علاقوں میں محمود نوم رہتی تھی.فتوح الشام کا مصنف لکھتا ہے کر مود قوم بصری سے لے کر عدن تک پھیلی ہوئی تھی.ش تقوم ثمود کا ابتدائی مقام یا دارالحکومت کیا کہلاتا تھا ؟.ج :- توم محمود کا دارالحکومت الحجر کہلاتا ہے.ابتدار میں اس کا نام سلع تمھا الحجر کو مدائن صالح بھی کہتے ہیں.سش :- الحجر کہاں واقع ہے.؟ ج : یہ مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان ہے اور اس وادی کو جس میں مجر واقع ہے.دادی القری کہتے ہیں.جیسا کہ سورۃ الفجر میں آیا ہے کہ.جابة الصحر بالواد وہ وادیوں کو کھود کر اپنے مکان بناتے تھے.ش : اس شہر کو الحجر کیوں کہتے ہیں ؟ ج :- اسے مجر اس لیے کہتے ہیں کہ مضبوط فصیلوں کا شہر تھا اور پتھروں سے اس کی تعمیر میں بہت کام لیا گیا تھا.اور مجر اس احاطہ قلعہ یا شہر کو کہتے ہیں جن کے گرد پتھروں کی مضبوط دیوار ہو.( تفسیر صغیر م۲۲)

Page 49

NA ش - محمود قوم کا مک کیسا تھا :- ج : محمود قوم کا مک چشموں والا ، باغات کی کثرت اور لہلہاتے کھیتوں والا تھا کھجوروں کی کثرت تھی اور زراعت خوب ترقی پر تھی میدانوں اور پہاڑوں دونوں پر ان کی حکومت تھی.جیسا کہ سورۃ الشعراء میں آتا ہے.في جنتٍ وَعُيُونٍ وَذَرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيرُهُ وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجَبَالِ بُيُوتًا تَرِمِينَ.ترجمہ : (باغات اور چشموں میں اور لہلہاتے کھیتوں ہیں.اور کھجوروں میں جن کے پھل بوجھ کی وجہ سے ٹوٹے جا رہے ہوں اور تم لوگ پہاڑوں کو کھود کھ دراپنی بڑائی پر اترتے ہوئے گھر بناتے ہو.نی :- محمود قوم کے متعلق آپ کیا جانتے ہیں ؟ ج - نمود قوم بڑی طاقت در قوم تھی.بڑی متمدن اور متمول قوم تھی.کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا.یہ قوم سیال کا کچھ حصہ یعنی گرمیاں پہاڑوں پر سیر و تفریح کرتے ہوئے گزارتی تھی.مگر با وجود اس کے کسی کو ان کے ملک پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی.اور ان کے پیچھے ملک میں وكانوا ينحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا مِنِينَ.ترجمہ :.اور وہ پہاڑوں کو کھود کر گھر بناتے تھے اور امن سے رہتے تھے.میں اس طرف اشارہ ہے.سردیوں کا موسم یہ میدانی علاقوں میں گزارا کرتی تھی.نمود قوم میں تحریر کا رواج کم تھا.

Page 50

۴۹ ال : ثمود توہم کس فن میں ماہر تھی ؟ نمور قوم نے سنگ تراشی میں زبردست کمال حاصل کیا ہوا تھا.یہ قوم پہاڑوں کو کھود که عالی شان مکان بناتی تھی جو نقش ونگار سے مرائی ہوتے تھے.اور خوبصورت محلات بھی تعمیر کرتی تھی.سورۃ الاعراف آیت 20 میں ان کے فن کمال کا ذکر آیا ہے.تتخذون من سلولها تُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالُ بُيُوتًا.تو جمہ.تم اس کے میدانوں میں قلعے بناتے تھے اور پہاڑوں نہیں کھود کر گھر بناتے تھے.شی : محمود قوم کی دینی حالت کیسی تھی ؟ ج : محمود قوم مشرک تھی.اللہ تعالے سے باغی ہو چکی تھی.ہرقسم کی برائیوں میں ملوث تھی.جزا سزا سے بے نیاز تھی، لہو و لعب میں مصروف نہ ہستی تھی.عاد قوم کی دولت اور قوت پر انہیں بڑا نازہ اور فخر تھا.شکی :- اللہ تعالے نے محمود قوم کی اصلاح کے لیے کس نبی کو مبعوث کیا ؟.ج : اللہ تعالے نے محمود قوم کو گمراہی کے گڑھے سے نکالنے کے لیے حضرت صائح کو بھیجا تا کہ وہ اس قوم کو توحید کا درس دیں، جیسا کہ سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وإلى تردا خا هُم صَالِحاً قَالَ يَقُومٍ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُم من الله غيرة - ترجمہ :.اور ہم نے انمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو رسول بنا کر بھیجا تھا اس نے کہا.اسے میری قوم اللہ کی عبادت کرد اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے.ل : صالح کسی زبان کا لفظ ہے اور اس کے کیا معانی ہیں.؟ ج :- صالح عربی زبان کا لفظ ہے.اور اس کے معانی ہیں مناسب حال عمل کرنے

Page 51

والا.نیک اور موقعہ محل کے مطابق کام کرنے والا.صالح کے معنی ہیں درست جس میں صلاحیت پائی جائے.صالح.وہ شخص جس کی زندگی اپنے ماحول کے مطابق ہو اور جس کا وجود نیری خیر ہو.شکش : حضرت صالح نے اپنی قوم کو کیا پیغام دیا.ج : حضرت صالح نے اپنی قوم سے کہا کہ وہ خدائے واحد کی عبادت کریں جس نے انہیں زمین سے اٹھایا اور بلندی عطا کی اور اس میں آباد کیا اور خدا تعالے سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں.اور اس کی طرف کامل رجوع اختیار کریں.کیونکہ خدا تعالے قریب اور دعائیں قبول کرتا ہے.ی :.حضرت صالح نے اپنی قوم کو حصول عزت کا کیا طریق بتایا ؟.ج : - حضرت صالح نے اپنی قوم کو عزت کے حصول کے لیے دو طریق بتائے.ا اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.۲- اور میری اطاعت کرد جیسا کہ سورۃ الشعراء میں آتا ہے.مَا تَقُوا اللهَ وَأَطِيعُونِ.ترجمہ :.پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرد.شکل :.حضرت صالح کی قوم نے آپ کی نصائح کا کیا جواب دیا ؟ ج : انہوں نے حضرت صالح کا تمسخر اڑایا اور آپ کو جھٹلایا اور کہا کہ ہم تو تم سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے.لیکن تو تو الٹا قوم کو تباہ کر رہا ہے.اور ہمیں اپنے باپ دادوں کے عبادت کے طریق سے روک کر ان کی

Page 52

اه جڑیں کاٹ رہا ہے.ہم تمہاری تعلیم کے متعلق بے چین کر دینے والے شکوک میں پڑے ہوئے ہیں.جیسا کہ سورۃ الہود آیت نمبر 4 میں آتا ہے قالُوا يُصْلِحُ قَد كُنْتَ فِيْنَا مَرْجُوا قَبْلَ هَذَا اتَنْهُنَا أَنْ تعبدَ مَا يَعْبُدُ اباؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُريب ترجمہ : انہوں نے کہا.اسے صالح : اس سے پہلے تو تو ہمارے درمیان امید کی جگہ سمجھا جاتا تھا کیا تو ہمیں اس بات سے روکتا ہے کہ ہم ایسی چیز کی عبادت کریں جس کی عبارت ہمارے باپ دادے کرتے چلے آئے ہیں.اور ہم یقیناً جس بات کی طرف تو نہیں بلا رہا ہے اس کے متعلق ایک بے چین کر دینے والے شک میں پڑے ہوئے ہیں.کر دیا.اسی طرح محمود قدیم نے حضرت صالح کی پیروی کرنے سے انکار (معافہ اللہ آپ کو سخت جھوٹا اور متکبر کہا.جس کا ذکر سورۃ قمر آیت ۲۵ ، ۲۶ آیا ہے فقالوا ابشرا منا وَاحِدَ التَّبِعُهُ إِنَّا إِذَا تَلَى قَبْلٍ وَسُعُرِه التى ان كُر عَلَيْهِ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَا اب اسره.ترجمہ :.پس انہوں نے کہا.کیا ہم اپنے میں سے ہی ایک آدمی کی پیروی کریں.اگر ہم ایسا کریں تھے تب ہم ایک بڑی گراہی اور جلنے والے عذاب میں پڑ جائیں گے.کیا خدا کی وحی ہم میں سے اسی پر نازل کی گئی ہے.حقیقت یہ ہے کہ وہ سخت جھوٹا اور متکبر ہے.شل قوم محمود نے حضرت صالح پر کیا الزام لگایا ؟

Page 53

۵۲ ج :- قوم ثمود نے حضرت صالحہ پر لوگوں سے رشوت سے کر ان کی ایجنٹی کرنے کا الزام لگایا.اور کہا.قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مِنَ الْمُحْرِينَ ترجمہ: کہ نہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تجھے کھانا دیا جا رہا ہے.:- حضرت صالح نے تو م کے سوالوں کا کیا جواب دیا ؟ ج :- آپ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم کہتے ہو کہ اس تعلیم کی وجہ سے نہیں مشکوک شبہات پیدا ہو رہے ہیں اور اگر تو انہیں پیش نہ کرتا تو ہم سمجھے اپنا لیڈر بنانے کے لیے تیار تھے.سوچو تو سہی کہ اگر میں فی الواقع خدائی طرف سے ہوں تو اس کو چھوڑ کر تمہاری لیڈری مجھے کیا نفع پہنچا سکتی ہے اس صورت میں تمہاری امداد تو میرے لیے نقصان ہی نقصان کے سامان پیدا کرے گی.جیسا کہ سورۃ مصور آیت ۶۴ میں آیا ہے.قال يقوم ال يتو إن كُنتُ عَلَى بَيْنَةٍ مِنْ رَبِّي وَالَّتِي مِنْهُ رَحْمَةٌ نَمَنْ يَنْصُدُ فِي مِنَ اللهِ إِن عَصَيْتُهُ فَمَا تَزيدُ وَنَنِي غَير تغيره ترجمہ :.اس نے کہا اے میری قوم ! مجھے بتاؤ تو سہی.اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر قائم ہوں اور اس نے مجھے اپنی جناب سے رحمت بھی عطا کی ہے.اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو اللہ کے مقابل پر کون میری مدد کرے گا.پس تم تو مجھے صرف گھاٹے میں ہی بڑھاؤ گے.ن:.حضرت صالح پر کون لوگ ایمان لائے ؟ ج - حضرت صالح پر غریب اور کمزور لوگ ایمان لائے.قوم کے بڑے لوگوں نے آپ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ سچ سچے خدا کا رسول ہے.

Page 54

۵۳ س: حضرت صالح کی توم کتنے فریقوں میں بٹ گئی.؟ ج :- حضرت صالح کی قدیم کے لوگ دو گرد ہوں میں بٹ گئے.کچھ لوگوں نے تو حضرت صالح کو مان لیا.اور کچھ لوگوں نے انکار کر دیا.جیسا کہ سورۃ النمل آیت نمبر ۴۶ میں آتا ہے.فإذا هُمْ فَرِيْقَانِ يَخْتَصِمُونَ.ترجمہ :.پس وہ سنتے ہی دو گروہ ہو گئے جو آپس میں جھگڑنے لگے.ل : قوم محمود نے حضرت صالح کے دعوی کی صداقت جانچنے کے لیے کیا طلب کیا ؟ ج :- قوم ثمود نے کہا.نَأْتِ بِايَةٍ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ - الشعراء) ترجمہ : کہ اسے صالح ! اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو جو نشان تیرے پاس ہے وہ لے آ.ی :.حضرت صالح نے قوم نمود کے نشان طلب کرنے پر کیا نشان پیش کیا ؟.ج :- حضرت صالح نے خدائی حکم کے مطابق اپنی اونٹنی کی آزادی کو ایک نشان قرار دیا.اور کہا کہ اس اونٹنی کو نقصان پہنچانے پر تمہیں عذاب اپنی گھیرے گا.ایک دن اس اونٹنی کے لیے گھاٹ سے پانی پینا مقرر ہے اور ایک دن تمہارے لیے گھاٹ سے پانی لینا مقر ر ہے.سورۃ الشعراء میں اس کا ذکر یوں آیا ہے.قَالَ هَذِهِ نَاقَةُ لها سوب وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ وَلَا تَمَسُّوهَا سُوء نَيَا حُدَ كُو هَذَابُ يَوْمٍ عَظِيره

Page 55

۵۴ ترجمہ : حضرت صالح نے کہا یہ ایک اونٹنی ہے.ایک دن اس کے لیے گھاٹ پر پانی پینا مقرر ہے اور ایک دن تمہارے لیے گھاٹ سے پانی لینا مقرر ہے.اور تم اس کو کوئی نقصان نہ پہنچا تا ور نہ ایک بڑے دن کا عذاب تمہیں آ پڑے گا.سورۃ الشمس میں آتا ہے.فَقَالَ لَهُم رَسُولُ اللهِ نَاقَةَ اللهِ وَسُقيها.ترجمہ : پس ان کوہ اللہ کے رسول (حضرت صالح نے کہا کہ اللہ کے لیے وقف شدہ اونٹنی سے بچتے کہ ہو اور اسی طرح اس کے پانی پلانے کے معاملے میں بھی ہر قسم کی سرکشی سے باز آؤ.(سورۃ الشمس آیت ۱۴) مشکل :- اور منی نشان کسی طرح تھی ؟ ج : عرب اور دوسرے ممالک میں دستور تھا کہ بادشاہ اپنی طاقت کے اظہار کے لیے کوئی جانور چھوڑ دیا کرتے تھے اور اعلان کر دیا کرتے تھے کہ اسے کچھ نہ کہے ، اگر کوئی کچھ کہتا تو وہ اسے تباہ کر دیا کرتے تھے.اس طریق کسے نقل میں حضرت صالح نے اپنی اور منی کو اللہ تعالے کے حکم سے نشان مقر کیا کہ تمہاری دیرینہ رسم کے مطابق اس اونٹنی کو بھی نشان مقرر کیا جاتا ہے.اگر تم اسے دکھ دو گے تو وہ انہی گورنمنٹ کا مقابلہ سمجھا جائے گا اور تم عذاب میں مبتلا کیے جاؤ گے.(تفسیر کبیر من سورة هود) شش :.اور منی کے نشان کا مفہوم بیان کریں ؟ ج :.اس نشان سے حضرت صالح کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ تبلیغ کے لیے نجھے ادھر ادھر پھرنے دو.اور اس میں روک نہ ڈالو.کیونکہ سواری کو روکنے

Page 56

۵۵ سے ، مراد سوار کا رد کیا ہوتا ہے.اور زمین میں اونٹنی کو چرنے دینے سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ضروریات دینی کے پورا کرنے کے لیے جو میں مختلف علاقوں میں پھروں تو اس میں روک نہ ڈالو.شنل :.کیا حضرت صالح کی اونٹنی عام لوگوں کی چھرا گا ہوں میں گھر منتی پھرتی تھی ؟.ج :- جی نہیں.قرآن مجید میں.فذَرُوها تاكل في أرض الله.ترجمہ :.پس تم اس کو چھوڑ دو کہ یہ اللہ کی زمین پر چور سے کے الفاظ آئے ہیں.کہ حضرت صالح کی یہ اونٹنی دور افتادہ زمینوں میں چہرے گی وہاں اسے نہ چھیڑا جائے.شکی:.وہ کون سی وادی تھی جس میں حضرت صالح کی اونٹنی چرتی تھی.ج : پرانی تاریخوں سے پتہ چلتا تھا کہ حضرت صالح کی اونٹنی نجح الناقة وادی میں چرتی تھی.حضرت مسیح سے ڈیڑھ سو سال قبل کے ایک جغرافیہ میں بھی اس کا ذکر ہے.پرانے یونانی مورخ اسے بیٹا نا ٹا لکھتے ہیں جو کہ فی النافر کا بگڑا ہوا لفظ ہے.(تغير كبير سورة صور م) شکل :- حضرت صالح نے ایک الگ وادی اپنی اونٹنی کے چونے کے لیے کس لیے مقرر کی تھی.؟ : حضرت صالح نے فساد سے بچنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کرتے

Page 57

04 ہوئے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر ایسی جگہوں اور وقتوں کو چھوڑ دیا تھا جس میں لوگوں سے مل کر فساد کا ڈر پیدا ہو سکتا تھا.حضرت صالحی نے اپنی قوم کو سمجھایا تھا کرتم اس ناتہ کو آزاد پھرنے دو اور اس کے پانی پینے میں رنگ نہ ہو کیو نکہ اس طرح میری تبلیغ میں روک واقع ہو جائے گی.:.جب حضرت صالح نے اپنی قوم کے سامنے اپنی صداقت کا ایک فیصلہ کن نشان پیش کر دیا تو پھر قوم ثمود نے کیا تدبیر کی ؟ : یہ بات سنکر حضرت صالح کی قوم ہر ہم ہوگئی اور آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو نعوذ باللہ منحوس قرار دیا اور آپ کے خلاف سازش کی کہ آپ کو قتل کر ڈالیں.جیسا کہ سورۃ النمل میں آیا ہے.لنبتَنَه واهله - ترجمہ :.ہم اس پر اور اس کے گھر والوں پر رات کے وقت حملہ کریں گئے.شکی:.حضرت صالح کے خلاف سازش کرنے میں کتنے آدمی تھے ؟ ج :- حضرت صالح کے خلاف تو آدمی تھے جنہوں نے آپ کو قتل کرنے کی سازش کی تھی.اور آپ کے مشن کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بنائے تھے.قرآن مجید میں ہے.وكان في المدينة تَسْعَةُ رَهْطٍ تُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ قَالُوا تَقَامُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّنَةُ وَاهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لوَلِيهِ مَا شَهدُنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَأَنَا تَصْدِ قُوْنَ.(سورۃ النمل آیت ۴۹ ۵۰۰)

Page 58

ترجمہ : اور شہر میں تو آدمی تھے جو ملک میں فساد کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے.انہوں نے کہا کہ تم سب اسپر اللہ کی تم کھاؤ کہ ہم اس پر اور اس کے گھر والوں پر رات کے وقت حملہ کریں گے پھر جو بھی اس کے خون کا مطالبہ کرنے آئے گا ہم اس کو کہیں گے کہ ہم نے اس کے اہل کی ہلاکت کے واقعہ کو نہیں دیکھا اور ہم بچے ہیں.نگی : کیا نمود قوم کے نوبڑے سرداروں کا منصوبہ کامیاب ہوا ؟ ج :.جی نہیں.وہ اپنی اس سازش میں کامیاب نہ ہو سکے.کیونکہ خدا تعالٰے بھی اس قوم کی ہلاکت کی تدبیریں کر رہا تھا.: قوم ثمود نے ناکامی و نامرادی سے دوچار ہونے کے بعد اور ٹی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ جر قوم ثمود نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور علی الاعلان اظہار کردیا کہ وہ آپ کو تبلیغ نہیں کرنے دیں گے.جیسا کہ سورۃ القمر میں آتا ہے.فنا دَوا صَاحِبَهُمُ فَتَعَالَى فَعَقَرَه.اس پر انہوں نے اپنے سردار کو بلایا جس پر وہ آیا اور اس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں..جس شخص یا سردار نے اونٹنی کو زخمی کیا تھا اور اس کی ٹانگیں کاٹی تھیں اس کا کیا نام تھا ؟ ج :- سکتے ہیں کہ اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والا " قیدار نام ایک شخص تھا میں نے دوسروں سے ہتھیار لے کر ان کے مشورہ سے اونٹنی کو زخمی کیا تھا کہ وہ چل پھر نہ لگے.دورس القرآن ص ۷ه فرمودہ حضرت خلیفہ المسیح الاول)

Page 59

سکی.حضرت صالح نے روٹی کی ٹانگیں کاٹ دینے کے بعد قوم کو مزید کتنے دنوں کی مہلت دی ؟ ج :- آپ نے اپنی قوم کو بدعملیوں سے بچنے کے لیے تین دن کی مہلت دی اور کہا کہ یہ وعدہ سچا ہے اگر تم نے توبہ کرلی اور ایمان لے آئے تو خدا تعالے تمہارے گناہ معاف کر دے گا.فَقَالَ تَمَتَّعُوا فِي دَارِكُمْ ثُلُثَةَ آيا ما ذلِكَ وَعْدُ غَيْرُ مَكنُ وبه (سورة هود) ترجمہ.اس نے (حضرت صالح نے کہا تم تین روز تک اپنے گھروں میں اپنے حاصل شدہ سامانوں سے فائدہ اٹھا تو یہ (وعدہ) ایسا وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہوگا.شتی -- حضرت صالح نے اپنی قوم کو کسی قوم کی عذاب کی مثال دی اور کیوں دی ؟.ج : حضرت صالح نے اپنی قوم کو عاد کی مثال دی اس لیے کہ وہ عبرت پکڑیں.کلی : محمود قوم نے کس بات کو تر جیح دی ؟ - ا محمد قوم نے ہدایت پرگرانی کو تر جیے ہیں انھوں نے اپنی سرکشی سے خدا کی تکذیب کی.ش : محمود قوم کا کیا انجام ہوا ؟ اور کس قسم کے عذاب سے ہلاک ہو گئی ؟ ج : اتمام حجت ہو چکنے کے بعد قوم چوتھے دن ایک بہت بڑے زلزلے کے ساتھ جس کے ساتھ ایک ہولناک کڑک تھی ہلاک ہو گئی.كان لم يعد إنهاء الآ اِنَّ تَبُورَ كَفَرُوا رَبَّهُمُ الَا بُعدًا الشوره (هود)

Page 60

۰۹ ترجمہ :.اور جہنوں نے ظلم کیا تھا انہیں اس عذاب نے پکڑ لیا.اور وہ اپنے گھروں میں زمین سے لگے ہوئے ہو گئے گویا انہوں نے ان میں زندگی نہیں گزاری تھی سنو ! تمو د نے اپنے رب کے احسانوں کی ناشکری کی تھی یسنو !انمود کے لیے قرب الہی سے دوری ہے.شکل به نمود توم پر عذاب کسی وقت آیا اور کسی وجہ سے وہ ہلاک ہوگئی ؟ ج :- نمود قوم پر صبح کے وقت عذاب آیا.فاخَذَ تَهُمُ الصَّيْحَةُ مُصْبِعِينَ (الحجر) ترجمہ :.پس عذاب نے انہیں صبح صبح آپکڑا.سرکشی اور بغارت اور مرد سے بڑھنے کی وجہ سے یہ قوم ملاک ہو گئی.كا مَا ثَمُودُ فَا فَلِكُوا بِالطَّاغية ترجمہ ، پس جو نمور قوم تھی وہ سرکشی کی وجہ سے بلاک کر : - عذاب آنے کے بعد اس قوم کی کیا حالت قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے ؟ ج : - إِنَّا اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَاحِدَةً فَكَالُوا لَّهَ خَيْرِ الْمُحْضَرِه ترجمہ : ہم نے ان پر ایک ہی عذاب نازل کیا اور وہ ایک باڑ بنانے والے کے درختوں سے گرائے ہوئے چورے کی طرح ہو گئے.اور سورۃ الذاریات میں بتایا گیا ہے کہ وہ عذاب کی وجہ سے نہ کھڑے ہو سکے اور نہ بدلرے سکے.اور سورۃ الشمس میں بتایا.

Page 61

۶۰ ترجمہ :.ان کے رب نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاکت نازل کی اور اس قوم کو مار کر زمین کے برابر کر دیا.کس : قرآن مجید نے اس ہلاکت آفرین آواز کو جس سے صالح کی قوم ہلاک ہوئی کسی کسی نام سے تعبیر کیا ہے ؟ ج :- 1- صاعقہ کڑک دار بجلی.نے حضر.زلزلہ ڈال دینے والی شے.طانیہ.دہشت ناک - صحه - چیخ - شی : - حضرت صالح نے بلاک شدگان کو مخاطب ہو کہ کیا کہا ؟ ج : حضرت صالح نے فرمایا.لِقَوْمٍ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصْحْتُ لَكُمْ وَلكِن لا تحبون النايمين حضرت صالح کا یہ خطاب اسی طرح کا خطاب تھا جس طرح بدر میں مشرکین مکہ کے سرداروں کی ہلاکت پر حضور نے مردہ نعشوں کے گڑھے پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا.ل: کیا مردے اس خطاب کو سن سکتے تھے ؟.ج :.اس قسم کا خطاب انبیاء کی خصوصیات میں سے ہے.اس لیے اللہ ان کے اس کلام کو بلاشبہ مردوں کو سنوا دیتا ہے.اگر چہ وہ جواب دینے سے قاصر ہوتے ہیں.جب حضور نے مشرکین کی لاشوں کو خطاب کیا تھا تو حضرت عمرض نے تعجب سے پوچھا تھا.کیا یہ سن رہے ہیں یا آپ نے فرمایا.ہاں تم سے زیادہ.گھر جواب سے عاجز ہیں.دوسرے اس سے زندہ انسان جو ان کے اس انجام کو دیکھ ر ہے

Page 62

41 ہوتے ہیں عبرت حال کریں اور کی قیم کی سکری کی بات کریں.(قصص القرآن من جلد اول) س نش قوم ثمود کی ہلاکت کے بعد حضرت صالح کہاں چلے گئے.؟ ج :- کہا جاتا ہے کہ حضرت صالح مفلسطین کے علاقہ میں رملہ کے قریب جا کر آباد ہو گئے.(خازن کا قول ہے).اور بعض کے نزدیک حضر موت میں آباد ہوئے اور وہ این حرفات پائی تھی.:- حضرت صالح کی قوم ثمود کا ذکر قرآن مجید میں کن صورتوں میں آیا ہے ؟ ج : اعراف هود ، الحجر الشعراء نمل ، عنکبوت ، ذاریات ، قمر ، حاقہ ، بروج، الشمس ، النجم - کی : قرآن مجید میں حضرت صالحہ کا نام کتنی بار آیا ہے؟ ج : بار ی : محمود کی قوم کی ہلاکت میں جو نشان پایا جاتا ہے وہ آنے والی نسلوں کو کیا سبق دیتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ران في ذلكَ لَا يَةٌ وَمَا كَانَ الشِّرُهُم مُؤْمِنِينَ ترجمہ :.اس میں یقینا ایک بڑا نشان تھا.لیکن ان میں سے اکثر مومنوں میں شریک نہ ہوئے.کہ اس واقعہ میں ایک بڑا نشان ہے جو آئندہ آنے والی نسلوں کو یہ سبق دیتا ہے کہ الہی جماعتوں کے تبلیغی راستہ میں روڑے اٹکانا اور خدا تعالے کے نام بلند کرنے کی اجازت نہ دینا قوموں کو اﷲ تعالی کی نادانگی

Page 63

۶۲ کا مستحق بنا دیتا ہے.(تفسير كبير سورة الشعراء ص۲۲۳) اور خدا تعالے اپنی صفت رحیمیت کے ماتحت اپنے صالح بندوں کی تبلیغی مساعی میں برکت ڈالتا ہے اور نہیں دنیا کے لیے راہنما بنا دیتا ہے.:- " ناقتہ اللہ " سے اور کیا مراد ہے ؟ ج :.بعض لوگوں نے ناقتہ اللہ سے مراد حضرت صالح کا وجود دیا ہے اور تاکل سے مراد ، ان کا تبلیغ کرنا.د قرآن مجید مش۲۹ م : - فَقَالَ لَه هُدى سولُ اللهِ نَاقَةَ الله وسقيها (سورة الشمس) - لهم اللهِ میں ناقہ اللہ کے لفظ میں کونسی لطیف مثال بیان کی گئی ہے.ج :.خدا تعالیٰ نے انسان کے نفس کو ناقہ اللہ سے مشابہت دی ہے اور مطلب یہ ہے کہ انسان کا نفس بھی درحقیقت اس غرض کے لیے پیدا کیا گیا ہے کہ تا وہ ناقہ اللہ کا کام دیو ہے اور اس کے فنافی اللہ ہونے کی حالت میں خدا تعالٰی اپنی پاک تھیلی کے ساتھ اس پر سوار کی جسے کوئی اونٹنی پر سوار ہوتا ہے.سونف پرست لوگوں کو تجو حق سے منہ پھیر رہے ہیں.تہدید اور انزار کے طور پر فرمایا کہ تم لوگ بھی قوم ثمود کی طرح ناتے اللہ کا سقیا یعنی اس کے پانی پینے کی جگہ جو یا واہی اور مصارف الہی کا چشمہ ہے جس پر اس ناقہ کی زندگی موتون ہے اس پر بند کر رہے ہو اور نہ صرف بند بلکہ اس کے پیر کاٹنے کے فکر میں ہو تادہ خدا تعالے کی راہوں میں چلنے سے بالکل رہ جائے.دورس القرآن فرمودہ حضرت خلیفہ اول

Page 64

شکی : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ تبوک کے موقعہ پر مقام حجر اترے تو آپ نے صحابہ کو کیا حکم دیا ؟ ج -: آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اس کنویں سے پانی نہ پئیں اور نہ پانی بھریں یہ حکم سن کر صحابہ نے جواب دیا کہ ہم نے اس پانی سے آٹا گوندھ لیا ہے.اور پانی بھریا ہے.آپ نے حکم دیا کہ اس آٹے کو پھینک دو.اور اس پانی کو بہا دور دبخاری جلد اول کتاب الانبیار باب قول الله) ( والی نمو دا فاهم صالحاً ) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے صحابہ نو سے ارشاد فرمایا کہ نہ یہاں ٹھہرو اور نہ یہاں کسی چیز سے فائدہ اٹھاؤ.ایسا نہ ہو کہ تم کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ.اس لیے کہ اس بستی پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا.ایک روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا کہ ایسی بستیوں میں داخل ہو تو خدا سے ڈرتے، بجز وزاری کرتے اور روتے ہوئے داخل ہو.تاریخ ابن کثیر جلد نمیرا ما)

Page 65

47 حضرت لوط علیہ السّلام حضرت لوط علیہ السّلام کے والد کا کیا نام تھا ؟ ج : حضرت لوط علیہ السلام کے والد کا نام "ماران تھا.ی یہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور حضرت لوط علیہ السّلام کا آپس میں کیا رشتہ تھا ؟ جمہ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی جارا ان کے بیٹے تھے.اسی طرح آپ حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے.ی.حضرت کوط علیہ السّلام کی پرورش کس نے کی ؟ ج : حضرت لوط علیہ السلام کی پرورش حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی اور برابر اپنے ساتھ رکھا.کیونکہ حضرت لوط کے والد آپ کے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے.حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی بڑھا پے کی عمر تک کوئی اولاد نہ ہوئی تھی.اس لئے آپ حضرت لوط علیہ السّلام کو اپنا وارث ہی سمجھتے تھے.اور حضرت لوط علیہ السّلام سے بہت پیار کرتے تھے.ش - حضرت ابراہیم علیہ السّلام پر سب سے پہلے کون لوگ ایمان لائے ؟ ج - حضرت ابراہیم علیہ السّلام پر سب سے پہلے حضرت سارہ اور حضرت لوط ایمان لائے تھے.نا من لم سُوا فَقَالَ إِنِّي مُهَاجِد إلى رتي كبوت) ترجمہ ، پس حضرت لوط اسپرایمان لائے اور اس نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کر جانیوالی ہوں ش ملت ابرا اینجا کے پہلے سلم اور السالبقون الاولسون کون تھے.ج : حضرت سارہ - حضرت لوط ۲۴

Page 66

40 ستی.کیا حضرت ابراہیم کے ساتھ حضرت لوط نے بھی ہجرت کی تھی ؟ ج : جی ہاں.قوم کی مخالفتوں سے تنگ آکر حضرت ابراہیم نے وطن سے ہجرت کی تو حضرت لوط علیہ السّلام بھی آپ کے ساتھ تھے.شکنی :- حضرت لوط علیہ السّلام ہجرت کے بعد کہاں گئے ؟ ج - حضرت ابراہیم علیہ السلام سے الگ ہو کر حضرت لوط علیہ السّلام شرق ارون کے علاقے سدوم اور عمورہ چلے گئے تاکہ وہاں دین حق پھیلائیں اور لوگوں کو سچائی کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کریں.شر - حضرت عثمان رضہ کی ہجرت کے وقت حضور م نے کسی نبی کی ہجرت کا ذکر کیا.ج - حضرت عثمان رض حب اپنی زوجہ ریقہ مطہرہ کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کر گئے تو رسول اکرم نے فرمایا.ان عثمان اول مهاجر با صله بعد لوط بلاشبہ لوڈ کے بعد ثمان شہیلے نہا جو ہیں جنہوں نے اپنی بیوی سمیت ہجرت کی.ش کیا حضرت لوط نے حضرت ابراہیم کے ساتھ مصر کی طرف مبھی ہجرت کی ؟ ج : جی ہاں.حضرت لوط علیہ السّلام حضرت ابراہیم کی ہجرتوں میں ہمیشہ ساتھ رہے ہیں.اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام مصر میں تھے.تو اس وقت بھی اُن کے ہم سفر تھے.سنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت لوط علیہ السلام کو کس وجہ سے شرق آرون کے علاقوں سدوم اور مشورہ کی جانب ہجرت کرنے کا حکم دیا.ج : توارت میں ہے کہ مصر کے قیام میں چونکہ دونوں کے پاس کافی ساز و سامان تھے اور مولیٹوں کے بڑے بڑے ریوڑ تھے.اس لئے اُن کے چرواہوں اور محافظوں کے درمیان بہت زیادہ کشمکش رہتی تھی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پرواھے چاہتے تھے کہ اس چراگاہ اور سبزہ زار سے ہمارے ریوڑ فائدہ اُٹھائیں اور حضرت لوط علیہ السلام کے چرواہوں کی خواہش ہوئی تھی کہ اول ہمارا حق سمجھا جائے.

Page 67

حضرت ابرا ہیم علیہ السّلام نے اس صورت حال کا اندازہ کر کے حضرت لوط علیہ السلام سے مشورہ کیا اور دونوں کی صلاح سے یہ طے پایا کہ باقی تعلقات کی خوشگواری اور دائمی محبت والفت کی بقا کیلئے ضروری ہے کہ حضرت لوہا ہوں مصر سے ہجرت کر کے شرق اُردن کے علاقہ سدوم اور عمورہ پہلے جائیں اور وہاں رہ کر دین حنیف کی تبلیغ کریں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رسالت کا پیغام حق سنا تے رہیں.(قصص القرآن جلد اول ص ۲۵۶ - ۳۵۷) سل حضرت لوط علیہ السّلام کے تحت کتنی بستیاں تھیں؟ ج: حضرت لوط علیہ السّلام کے زیر تبلیغ پانچ بستیاں تھیں.ی.وہ بستیاں کہاں واقع تھیں.ج - موجود و شرق اردن اور فلسطین کے درمیان ایک مشہور جھیل ہے جس کے نام بحیرہ میت.بحیرہ مردار اور بحیرہ لوط ہیں اس جھیل کے جنوبی حصے میں سر سبز شاداب وادی واقعہ تھی جس میں کئی بستیاں، سدوم ، عمورہ ، ) ، گمرا معرفہ آباد تھیں.و درس القرآن س۲۷۵ فرموده حضرت خلیفته المسيح الاول ) : - سدوم اور عمورہ کی بستیاں کیسی تھیں ؟ ج : یہ بستیاں بہت سرسبز و شاداب تھیں.پانی کی کثرت تھی زمین زرخیز تھی.پھلوں کی بہتات تھی.باغات کی کثرت تھی.لوگ خوب کھیتی باڑی کرتے تھے.ان کے باشندے خوشحال اور فارغ البال تھے.ی.حضرت لوط علیہ السّلام نے اپنا مسکن کسی لیستی کو بنایا ؟ -: حضرت لوط علیہ السّلام نے اپنا مسکن سدوم کی بستی کو بنایا جو سب سے زیادہ مشہورا اور آباد تھی.شرہ قوم لوط کی اخلاقی حالت کیسی تھی ؟ ج : ہر قسم کی نعماد سے مالا مال ہونے کی وجہ سے یہ لوگ بجائے بعد شکور

Page 68

46 بننے کے نہایت مغرور ، متکبر اور سرکش ہو گئے تھے شیطانی اعمال بجالاتے تھے، بے بیائی اور بدکرداری کی انتہا تھی اور یہ فعل اعلانیہ کرتے اور فخر کے ساتھ اس کا ذکر کرتے قرآن مجید نے ان کے اس فعل شنیعہ کا ذکر کیا ہے.نكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْرَةٌ مِنْ دُونِ النِّسَاءِ ط بل انتو قوم مشرحُونَ (الاعرات کو تا ۱۰ آیت ۸۲) ترجمہ :.کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت کے ارادہ سے آتے ہو بلکہ اصل بات یہ ہے کہ قم حد سے بڑھنے والی قوم ہو.اہل سدوم اور عمورہ بد اخلاقی اور بد کاری میں حد سے تجاوز کر چکے تھے.ان میں شرافت اور انسانیت کی کوئی خوبی ہے نہ پائی جاتی تھی اسی نسبت سے قوم کے بد کاروں کو سیڈومی کہتے ہیں.عام لوگوں کے علاوہ سرداران اور قوم کے حکماء بھی اخلاق سے عاری تھے.اس قوم میں یہ برائی بھی تھی کہ یہ اپنی بستیوں میں داخل ہونے والے مسافروں کو ٹوٹ لیا کرتے تھے.جیسا کہ سورۃ العنکبوت میں الفاظ آئے ہیں.و تعلمون السبيل وَتَالُونَ فِي نَارِ يكُمُ المنكر ترجمہ.اور تم ڈاکے مارتے ہو اور اپنی جلسوں میں ناپسندیدہ حرکتیں کرتے ہو.) یا.حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کیا کہا؟ ج وہ حضرت لوط علیہ السّلام نے اپنی قوم سے کہا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہاری جانب ایک امانت دار پیغمر بنا کر بھیجا گیا ہوں تم خدا سے ڈرو ، میری اطاعت کرو اور میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگا.جیسا کہ اس کا ذکر سورة الشعراء رکوع 9 میں آیا ہے.حضرت لوط علیہ السّلام نے اپنی قوم کو اخلاقی برائیوں سے بچنے کی بھی تلقین کی اور کہا.

Page 69

MA سالوت الركرانَ مِنَ الْعَالَمِينَ، وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُوتُ بِكُمْ من أن واحكُمْ بَلْ أَنتُمْ قَوْمُ عُدُونه ترجمہ.کیا تمام مخلوقات میں تم نے نروں کو اپنے لئے چنا ہے اور تم ان کو چھوڑتے ہوا اور جن کو تمہارے رب نے تمہاری بیویوں کی حیثیت سے پیدا کیا ہے بلکہ تم حد سے بڑھی ہوئی قوم ہو.سورۃ اعراف میں آتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام نے کہا کہ تم ایسی بے حیائی کرتے ہو کہ تم سے پہلے ساری قوموں میں سے کسی نے نہیں کی تھی.شی قوم نے آپ کی نصائح کا کیا جواب دیا ؟ ج :- قوم لوط پر حضرت لوط علیہ السلام کی دعوت الی الحق اور پاکیزگی اور پاکدامنی کی زندگی بسر کرنے کی ترغیب بہت گراں گزری.بجائے اس کے کہ وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے طنز کہنے لگے کہ ہم تمہاری پاکیزگی کو جانتے ہیں.تم بڑے نیک بنے پھرتے ہو.تم تو ایک ایسا گروہ ہو جو نیکی اور تقویٰ کا دعویٰ کرتے ہو لیکن نیک نہیں ہوا اور ہمیں تمہارے مشورے کی کوئی ضرورت نہیں.شش.قوم لوط نے آپ کو کیا دھمکی دی ؟ جو انہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو بستی سے نکال دینے کی دھمکی دى جيسا كہ سورۃ اعراف اور سورۃ نمل میں آتا ہے.فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِةٍ إِلَّا أَنْ قَالُوا أَخْرِجُوا ال لوط من فرتكة إِنَّهُمْ أَنَّاسُ يَتَطَهَّرُونَ ) تو جمہ.اس پر اس کی قوم نے صرف یہی کہا کہ اے لوگو ) لوط اور اس کے ساتھیوں کو شہر سے نکال دو وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنی پاکیزگی پیرا تر اتے ہیں.اور سورۃ الشعراء میں آتا ہے.

Page 70

49 تالوالين لم تنتهِ بلُوطُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِينَ ) ترجمہ :.انہوں نے کہا.اسے ٹوط ! اگر تو باز نہ آیا تو تو ملک بدر کیئے جانے والوں میں شامل ہو جائے گا.ی: حضرت لوط علیہ السّلام نے اُنھیں کیا جواب دیا ؟ جمہ آپ نے دُعا کی اور ان کے عمل کو نفرت سے دیکھا اور آپ نے فرمایا.الي لِعَمَلِكُمْ مِنَ الْقَالِينَ ) ترجمہ :.یقیناً میں تمہارے عمل کو نفرت سے دیکھتا ہوں.سنگی - حضرت لوط علیہ السلام کی اس بات سے کیا نتیجہ نکلتا ہے ؟ ج : حضرت لوط علیہ السلام کی اس بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عمل بد سے نجات مانگنی چاہیئے اور یہ کہ برے اعمال سے ہمیشہ نفرت کرنی چاہئیے نہ کہ گمراہ اور خطا کار انسان کو قابل نفرت سمجھنا چاہیئے.- سی.کیا حضرت لوط علیہ السلام کی جد و جہد کا کو کوئی نتیجہ نکلا ؟ ج بھی نہیں.حضرت لوط علیہ السلام کی لگا تار کوششوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلا بلکہ سدوم اور نمونہ کے سرکش لوگ بے حیائی کے کاموں میں پڑے رہے تب حضرت لوط علیہ السّلام نے انہیں عذاب الہی سے ڈرایا تا کہ وہ اپنی بے حیائیوں اور بد کہ والیوں سے یا نہ آجائیں.ی.عذاب الہی کی غیر سن کر قوم لوط نے حضرت لوط علیہ السلام سے کیا مطالبہ کیا ؟ جہ قوم لوط نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو جس عذاب سے ڈراتے ہو اُسے لے آؤ.هما كان حوابَ قَوْمِ اللَّدْ أَنْ قَالُوا الْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ O ستش.قوم کی جانب سے اس نے خونی اور بے باکی کے مظاہرہ پر حضرت لوگ نے

Page 71

کیا دعا مانگی ؟ :- حضرت لوط علیہ السلام نے اس قوم کی سرکشی اور بے باکی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ سے یہ دُعا کی.رَبِّ الْمُرْنِ عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ ترجمہ : اے میرے رب ! مفسد قوم کے خلاف میری مدد کی.ی اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو عذاب کی خبر کن کے ذریعہ دی ؟ ج - خدا تعالے نے حضرت لوط علیہ السلام کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو بچانے کے لئے اور قوم کو عذاب سے دوچار کرنے کی موعود خبر اپنے فرستادوں کے ذریعہ دی.شل :.حضرت لوط علیہ السّلام کا ذکر حضرت ابراہیم کے ذکر سے کیوں شروع کیا جاتا ہے ؟ ج :- کیونکہ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماتحت نبی تھے.اِس لئے جہاں بھی قرآن مجید میں حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر آیا ہے وہاں حضرت ابراھیم علیہ السّلام کے ذکر سے اسے شروع کیا ہے.ل : حضرت لوط علیہ السّلام کی قوم کو تباہی کی خبر دینے والے حضرت ابرا ہیم کے پاس پہلے کیوں گئے تھے ؟ ج م فرستادے پہلے حضرت ابراھیم کے پاس اِسی لئے گئے تھے ایک تو اس لیے کہ حضرت لوط علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماتحت نبی تھے.دوسرے اس وجہ سے کہ ان کی آپس میں رشتہ داری تھی.بخشی.حضرت ابراهیم مانے جب ان فرستادوں سے پوچھا کہ تمہارا کیا اہم معاملہ ہے ؟ تو انہوں نے کیا جواب دیا ؟ ج -- انہوں نے کہا.ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ اُنہیں عذاب کی خبر دیں.ہاں ٹوط کا خاندان اس سے مستشنی ہے.سوائے اس

Page 72

اس کی بیوی کے قالُوا إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُجْرِمِينَ إِلَّا إِلَ لُوطٍ إِنَّا لمهم بعينه إلَّا امْرَأَتَهُ تَدَدْنَا إِنَّهَا مَنَ العامرين.ترجمہ :.انہوں نے کہا ہمیں ایک مجرم قوم کی طرف بھیجا گیا ہے سوائے لوط کے پیروؤں کے کہ ان سب کو ہم بچا لیں گے.ہاں اس کی بیوی کے متعلق اندازہ ہے کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں سے ہو گی.فرستادوں نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو یہ تسلی بھی دی تھی کہ آپ حضرت لوط علیہ السّلام کی وجہ سے غمگین نہ ہوں.شتی و حضرت ابراہیم علیہ السلام نے لوط کی بستی سے عذاب کے ملانے کے لئے کیا دعائیں مانگیں ؟ ج : حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک درد مند دل رکھنے والے اور بید با رتھے.آپ نے حضرت لوط کی قوم کے عذاب سے بچائے جانے کیلئے دُعائی مانگنی شروع کر دیں.قرآن مجید ہیں.يُجَادِلُنَا فِي قَومِ لوط وہ ٹوٹ کی قوم کے متعلق ہمارے ساتھ جھگڑنے لگا ہ کے الفاظ آتے ہیں.جب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے یہ سنا کہ لوط علیہ السلام کی بستی کے لوگ ہلاک ہو جائیں گے تو غم سے ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا.پنا نچہ بائبل میں آتا ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خدا سے دعا کی کہ اے خدا کیا تو نیکیوں کی موجودگی میں بڑوں کو ہلاک کر دے گا اور فرمایا اگر اس میں پچاس نیک ہوں اور باقی بڑے ہوں تو کیا ان پچاس کی خاطر تو ان باقیوں کو نہیں بچائے گا.اللہ تعالے نے انہیں الہام کیا اور کہا اے ابرا عقیم ! اگر

Page 73

ان میں اتنے نیک ہوئے تو میں ان کی خاطر باقیوں کو بھی بچا لوں گا.آخر گرتے گرتے حضرت ابراھیم نے کہا کہ اگر دس نیک ہوں تو کیا دس کی خاطر دوسروں کو نہیں بچائے گا.اللہ تعالے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ہر ایک بات مانتا گیا آخر حضرت ابراھیم علیہ السّلام سمجھ گئے کہ دس نیک بھی اس بستی میں موجود نہیں اور خاموش ( پیدائش باب ۱۸ ) ہو گئے.شکی:.اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قوم لوط کے متعلق کیا کہا ؟ ج :- اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا.تو اس سفارش سے رک جا کیونکہ تیرے رب کا آخری حکم آچکا ہے اور ان کفار کی ایسی حالت ہے کہ اُن پر نہ ملنے والا عذاب آکر رہے گا جیسا کہ سورۃ ہود آیت کے میں ذکر ہے.يا إبراهيم أَعْرِضْ عَنْ هَدَا إِنَّهُ قَدْ جَاء أَمْرُرَتِكَ وَإِنَّهُما تِيْهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَن دُورِهِ ترجمہ مہ اسے ابراہیم علیہ السلام تو اس سفارش سے ڈرک جا.کیونکہ تیرے رب کا آخری حکم آچکا ہے اور ان کفار پر نہ ملنے والا عدات آکر رہے گا..یہ درشل کون تھے ؟ ج - بعض لوگوں کے نزدیک یہ فرشتے تھے اور بعض کے نزدیک یہ فرشتہ خصلت انسان تھے.جنہیں ان کی نیکی کی وجہ سے ملک کہا گیا ہے.جیسا کہ سعدرہ یوسف علی حضرت یوسف علیہ السّلام کی نسیت.إِن هَذَا الَّا مَلَكُ كَرِيمٌ ترجمہ.یہ تو ایک معزز فرشتہ ہے ) کے الفاظ کہے گئے ہیں.حضرت مصلح موعود کے نزدیک بھی رسولوں

Page 74

۷۳ سے مراد بعض نیک لوگ تھے جو خدا سے وحی پاکہ پہلے حضرت ابراہیم کے پاس اور پھر حضرت لوط کے پاس آنے تھے.سنی.جب وہ ارسل حضرت لوط کے پاس آئے تو آپ نے اُن سے کیا کہا ؟ ج - حضرت لوط نے انہیں دیکھ کر کہا کہ آپ اس علاقہ میں اجنبی معلوم ہوتے ہیں.جیسا کہ سورۃ الحجر میں آتا ہے کہ قَالَ أَنكُمْ قَوْم مُنكَرُونَه وہ ان رسولوں کو دیکھ کر حضرت لوط علیہ السلام کو کیوں غم ہوا ؟ ج - حضرت لوط علیہ السّلام کو یہ رسل دیکھ کر اس وجہ سے تم پہنچا اور ان کا دل تنگی محسوس کرنے لگا کہ قوم کے لوگوں نے آپ کو غیر معروف مسافروں کو گھر میں لانے سے منع کیا ہوا تھا.وكما أن جَاءَتْ رُسُلَنَا لُوطًا سَى بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ دَرْعاً ترجمہ :.اور جب ہمارے فرستادے لوط کے پاس آئے.تو ان کی وجہ سے انہیں رکھ پہنچا اور ان کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہو گیا.(العنكبوت ) ف بائیل میں یہ واقعہ اس طرح درزی ہے اور حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ صحیح ہے کہ جب یہ لوگ حضرت لوط علیہ السلام کی بستی کے پاس پہنچے تو حضرت لوط نے ان لوگوں کو اپنے گھر چلنے کی دعوت دی.انہوں نے اس سے انکار کیاکہ غالباً اس سے ڈرے ہونگے کہ حضرت لوط علیہ السّلام کو تکلیف ہو گی.مگر حضرت لوط علیہ السلام نے اصرار کیا.انہوں نے انکار پر اصرار کیا.اس پر حضرت لوط علیہ السّلام کو تکلیف ہوئی اور اسی تکلیف کا اس جگہ ذکر آیا ہے.اور خدا کا اپنے نبی کی مہمان نوازی کی شان بتانا مقصود ہے نہ کہ اس کے بخل اور بد خلقی کا اظہار.خروج باب (۱۹)

Page 75

۷۴ حضرت لوط علیہ السلام مہمانوں کو کیوں گھر لے آئے تھے ؟ ج :- حضرت لوط علیہ السّلام چونکہ مہمان نواز تھے.وہ مسافروں کو گھر لے آتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ لوگ اگر باہر رہیں گے تو لوٹ لیے جائیں گے ظالمود جو یہود کی روایات اور تاریخ کی کتاب ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ ان نیتوں کے لوگ مسافروں کو کوٹ لینے کے عادی تھے.رجوش انسائیکلو پیڈیا زیر لفظ سدوم ) قوم لوط غیر معروف مسافروں کو شہر میں کیوں آنے نہیں دیتی تھی.ج - سدوم والوں سے تو ہمسایوں کی عملاً لڑائی بھی رہتی تھی.( پیدائش باب ۱۴ ) اس وجہ سے یہ لوگ غیر معروف آدمیوں کو شہر میں آنے نہیں دیتے تھے تا کہ ایسا نہ ہو کہ رات کو شہر کے دروازے کھولدیں اور دشمن ہوئے ہیں آکر حملہ کر دیں.اس زمانہ میں شہر چھوٹے چھوٹے اور دور دور ہوتے تھے اور غیر معروف مسافروں کو لانے سے ڈر ہوتا تھا کہ کہیں ڈا کہ نہ پڑے.خود لوط کی بستی کے لوگ ڈاکو تھے اور دوسروں کو بھی اپنا جیسا سمجھتے تھے.حضرت لوط علیہ السلام چونکہ مہمان نواز تھے اُن کی قوم ان کو اس بات سے روکتی تھی.( تفسیر صغیر ص۵۱۹) لویا کی قوم مہمانوں کو دیکھ کر خوشی اور غصہ میں دوڑتی ہوئی کیوں آئی؟ تا.شہر والے خوش ہو کہ بھاگے کہ آج لوگ کو سزا دینے کا بہانہ مل گیا ہے اور وہ اب ہمارے قابو می آجائے گا اور ہمیشہ کے لئے یہ قصہ ختم ہو جائے گا.جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے.وجاء أهل المدينة جردن.(الحمور کوتاه) اور شہر والے خوش ہو کر بھاگتے ہوئے آئے

Page 76

قوم لوط مہمانوں کو دیکھ کہ فقہ میں اس لیے آگئی کہ اس نے حضرت لوط کو مہمانوں کے لانے سے منع کیا ہوا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے :- ادَ لَهُ نَشْهَكَ عَنِ الْعَالَمِينَ کہ ہم نے تمہیں غیر معروف لوگوں کو لانے سے منع نہیں کیا (الحجر) اور اب پھر حضرت لوط مان لے آئے تھے غیر معروف لوگوں کو لانے سے انہیں ڈر تھا کہ کہیں ڈاکہ نہ پڑے.خود ڈاکو تھے اور دوسروں کو اپنے جیسا کہتے تھے.شکل:- حضرت لوط نے قوم کے لوگوں کو کیا جواب دیا ؟ ج :- حضرت لوط نے اپنی قوم سے کہا کہ میرے مہمانوں کے سامنے مجھے رسوا نہ کرو.اور کہا کہ میری بیٹیاں یہاں موجو د ہیں.وہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہیں تمہیں یہ خیال کرنا چاہیئے کہ میں تمہارا دشمن نہیں ہوں اور نہ ہی دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر تمہارے شہر کو کوئی نقصان پہنچاؤں گا.شش.حضرت لوگا نے اپنی بیٹیوں کا کیوں حوالہ دیا ؟ ج : حضرت لوط نے اپنی بیٹیوں کو ضمانت کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ دیکھو یہ میری لڑکیاں تم میں موجود ہیں.اگر میں تم سے دھوکہ کروں تو تم ان کے ذریعہ سے مجھے سزا دے سکتے ہو.تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت روح کی سات بیٹیاں تھیں پانچے اسی گاؤں میں بیاہی گئیں حضرت ہوتا تے ان کو شرم دلائی کہ دیکھو سب لڑکیاں سارے ہی گھروں میں ہیں ان کی میں تالے پڑے ہیں چوں کہ انی لوگوں کو لیبیا میں داخل کروں یا حضرت لوڈ نے اپنی بقیہ دو بیٹوں کو بطور یر غمال پیش کیا اظهر لکھ کے یہ بھی معانی ہیں کہ یہ لڑکیاں میں نے تمہارے تقویٰ کے لیے پیش کی ہیں.ان کا معاملہ سوچو کہ جب یہ تمہیں دے دیں تو میں گاؤں کے برخلاف منصوبہ کیوں کرنے لگا.(درس القرآن فرموده حضرت خلیفة المسیح الاول ص ۲۹۳) عہد نامہ قدیم پیدائش باب نمبر ۱۹ آیت ۱۵ میں درج ہے کہ حضرت لوط کی دو بیٹیاں اس شہر میں بیا ہی ہوئی تھیں.

Page 77

64 قرآن مجید میں سورۃ ہود آیت 4 میں آتا ہے.قال يقدم هؤلاء بنات من الهرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا الله وَلَا تُخَرُونِ نِي في اليسَ مِنكُمْ رَجُل رَشِيدُه ترجمہ : حضرت لوط نے کہا.اسے میری قوم یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمہارے ہی گھروں میں بیاہی ہوئی ہیں) وہ تمہارے لئے (اور تمہاری آبرو بچانے کے لیے نہایت پاک رول اور پاک خیال نہیں ہیں تم اللہ کا تقوی اختیار کرد ، اور میرے بھائیوں کی موجودگی میں مجھے رسوا نہ کرد.کیا تم میں کوئی سمجھیدار بھی نہیں ہے.شکل : حضرت لوط نے لڑکیوں کو دکھ دینے کی تجویز کیوں پیش کی ؟ ج ، حضرت لوط نے ان لوگوں کی تسلی کے لیے یہ تجویز پیش کی کیو نکہ حضرت لوط جانتے تھے کہ نہ میں اُن سے غداری کروں گا اور نہ ہی لڑکیوں کو دکھ دینے کا سوال پیدا ہوگا.شکل بر حضرت لوط کی قوم نے حضرت لوط کو کیا جواب دیا ؟ ج :.انہوں نے کہا کہ تیری لڑکیوں کے متعلق ہمیں کوئی حق حاصل نہیں.وہ تو پہلے ہی سے ہماری بہو بیٹیاں ہیں.ہم نے تو امینی مہمانوں پر اعتراض کیا ہے.قالوالد عليتَ مَا لَنَا فِي بَيْتِكَ مِنْ حَةٍ وَإِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُرِيدُ ترجمہ :.انہوں نے کہا.تو معلوم کر چکا ہے کہ تیری بیٹیوں کے متعلق نہیں کوئی حق حاصل نہیں اور جو کچھ ہم چاہتے ہیں تو اُسے تو جانتا ہے.(سورہ ہود آیت (۸۰) شش: حضرت لوط ی قوم نے مہمانوں کو قابو کرنا چاہاتو کیا واقعہ پیش آیا؟ :- جب شہر والوں نے حضرت لوط کے مہمانوں کو قابو کر کے قید کرنا چاہا یا مار نا چاہا کہ پھر وہ اس کے پاس نہ آیا کریں.جب باتوں سے وہ نہ مانے اور زبردستی

Page 78

کرنی چاہی تو فرشتوں نے اپنے منہ سے آگ پھینکی جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں ضائع ہوگئیں اور لوط کو پکڑ کر انہوں نے اندر کر لیا اور دروازہ بند کر دیا.د قر آن مجید مترجم نظارت تالیف و تصنیف قلیان سورة الفهرست جیسا کہ سورہ قمر میں آتا ہے ملة اوورهُ مَنْ نَيْنِ فَعَلَمَنَا أَعْيُنَهُ هُ فَذَرْقُوا ترجمہ :.اور انہوں نے اسے مہمانوں کے خلاف بہکانا چاہا ارسہم نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور کہا کہ میرے عذاب اور میرے ڈرانے کا مزہ چکھو.نگ :- قوم لوط کی ایذا رسانیوں پر حضرت لرو نے انہیں کیا جواب دیا ؟ 218 حضرت لوط نے کہا کاش مجھے تمہارے مقابلہ میں کسی قسم کی قوت حاصل ہوتی تو میں تمہارا مقابلہ کرتا اور تمہیں بدی سے روکتا.اب علاج یہی ہے کہ میں خدا کی پناہ لے لوں اور تمہارے لیے عذاب طلب کروں " جیسا کہ سورۃ ہو سایت ۸۱ میں ذکر آتا ہے..قَالَ لَوْ ان لى بكم قرة او ادى إلى مركسٌ شَدِيد ترجمہ :.اس نے کہا کاش مجھے تمہارے مقابلہ میں کسی قسم کی طاقت حاصل ہوتی یا یہی بات ہے کہ میں ایک زبر دست جائے پناہ کی طرت ٹھیکوں پرکن شدید کی طرف حضرت لوط کے رجوع کرنے سے کیا مراد تھی ؟ ج : رکن شدید سے مراد حضرت لولا کی خدا تعالیٰ کی ذات تھی جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ کی رحمتیں ہوں حضرت لوط پہ.یا یہ فرمایا کہ اس پر اللہ رحم کرے.وہ باربار ایک رکن شدید کی طرف پناہ لیتے تھے اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ ہے (ابن کثیر

Page 79

شکر فرستادوں نے حضرت لوط کو تسلی دیتے ہوئے کیا کہا ؟ ج : فرستادوں نے حضرت لوط کو تسلی دی اور کہا کہ نڈر اور نہ آئندہ کا خوت کرے.کیو نکہ خدا نیکی کے بیج کو ضائع نہیں کرے گا.ہم تجھے کا دور تیرے گھر والوں سوائے تیری بیوی کے جو پچھلے رہ جانے والوں میں شامل ہو جائے گی سنجات دینے والے ہیں.ہم اس بستی پر ان کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب نازل کرنے والے ہیں.جیسا کہ سورۃ عنکبوت آیت ۳۴ ۳۵ میں اس کا ذکر آیا ہے..فرستادوں نے حضرت لوط سے یہ کہا کہ خُدا کا فیصلہ ہو چکا ہے اب ان کی تیا ہی کا وقت آچکا ہے.اس لیے تو رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کولے کہ تیزی سے یہاں سے چلا جا.اور تم میں سے کوئی بھی فرداد ھر ادھر نہ دیکھیے.ہاں تیری بیوی ایسی ہے کہ جو عذاب اُن پسا کیا ہوا ہے وہ اس پر بھی آئے گا.جیسا کہ سورہ ہو در آیت ۸۲ میں ذکر ہے.قالوا يا لوطُ إِنَّا رُسُلُ رَيَّاكَ لن يسلوم الياكَ فَاشْرِ بِأَهْلِكَ يقطع مِنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ أَحَد إِلَّا امْرَانَكَ إِنَّهُ مصيبها ما أصابهم انہوں نے عذاب کے آنے کا وقت کیا بتایا ہے ؟ ج :.انہوں نے بتایا کہ مذاب صبح صبح آئے گا، جیسا کہ : اِن مَوعِدُهُم العالي الشيخ تقریب میں بتایا گیا ہے ان کا مقررہ وقت آئندہ صبح ہے اور کیا صبح قریب نہیں ہے.(سورۃ ہود) س، وہ فرشادے حضرت لوط کے پاس کسی خاص مقصد کے لیے آئے تھے ؟ ج:- وہ فرستادے حضرت لوط کے لیے خدا تعالٰی کے حکم کے مطابق آئندہ کے لیے رہائش گاہ کا انتظام کرنے کے لیے آئے تھے تا کہ وہ عذاب کے آنے سے پہلے

Page 80

29 انہیں محفوظ مقام تک پہنچادیں.وسوطًا أَتَيْنَا حَمَّا وَ عَمَّا تَنَجَيْنَهُ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ تُعمل الخبايت اور ہم نے اسے لوط (بھی بخشا) جسے ہم نے حکم بھی عطا کیا اور علم بھی.اور اس بستی نجات دی جو کہ نہایت گندے کام کرتی تھی.(سورة ابيار ) سے بھی ظاہر ہے.دوسرے وہ حضرت لوط کو عذاب کے وقت کی خبر دینے آئے تھے اور جیسا کہ سورۃ الحجر آیت میں ذکر ہے.ناس بأهْلِكَ بِقِلَّهِ مِنَ اللَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ وَلَا يلتفت منكم أحددا مُضُوا حَيْثُ تُؤْمَرُونَ سو تم رات کے کسی وقت اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے چلے جاؤ اور خود ان کے پیچھے پیچھے رہو اور تم میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے اور یہاں جانے کا تمہیں حکم دیا جاتا ہے.سب وہاں پہلے جاؤ.:- حضرت لوط کو نکلتے وقت پیچھے رہنے کے لیے کیوں کہا گیا ؟ ا : کیونکہ اصل حفاظت نبی کو حاصل ہوتی ہے.اس لیے حضرت لوط کر سکتے وقت پیچھے رہنے کا حکم دیا گیا.ش : پیچھے پڑ کر دیکھنے سے کیوں منع کیا گیا ؟ ج : ایک تو یہ مراد تھی کہ کفار کی طرف توجہ نہ گرو اور ان کو ہلاک ہونے دو.مخزن معارف سورة مجره (۱۳) اس حکم سے لوڈ کی بیوی بچوں پر احسان کیا کہ اگر مٹر کہ دیکھیں گے تو شاید کچھے رہ جانے والی بیا تا لڑکیوں اور دامادوں کی وجہ سے کسی کو ابتلا نہ آجائے.( تغير مصغير الحجر ص۳۲۷) ش، سورۃ التحریم میں کافروں کی مالکن انبیا کی بیویوں کے ساتھ دی گئی ہے ؟

Page 81

ج : حضرت لوط اور حضرت نوح کی بیویوں کے ساتھ کیونکہ یہ دونوں ایمان نہ لائی تھیں اس واسطہ ظاہری تعلق اور رشتہ کسی کام نہ آیا بلکہ اپنی بدگوئی اور مخالفت کی وجہ سے عذاب الہی میں گرفتار ہو کہ بلاک ہو گئیں.شش :- عذاب الہی کی نوعیت کیا تھی ؟ ج : اس قوم پر عذاب الہی ایک زلزلہ کی صورت میں آیا عذاب کی بارش خطر ناک زلزلہ کی صورت میں ہوئی اور زمین کا تختہ الٹ گیا اور مٹی سینکڑوں فٹ اوپر جا کہ پھر نیچے گری اور اس طرح گو یا مٹی اور پتھروں کی بارش ہوئی.قرآن مجید میں متعدد بار اس عذاب کا ذکر آیا ہے.جیسا کہ سورۃ الحجر میں ہے.ما خَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِيْنَ، نَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَائِلُهَا وَامْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ سِجَيْلِ ترجمہ :.اس پر اس عذاب نے انہیں دن چڑھتے ہی پکڑ لیا یہیں پر ہم نے اس بستی کی اوپر والی سطح کو نچلی سطح کر دیا اور ان پر سنگر نیندوں سے بنے ہوئے پتھروں کی بارش برسائی.اور سورہ ہود آیت ۸۳ ۸۴ میں ہے فلا جَاءَ امْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيهَا سَائِلَها وَامْطَرْنَا عليها حمالة من سِينِ، مَنْفَيْرِهِ مُسَرَمَةً عِنْدَرَيكَ ومَاهِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيد ترجمہ :.پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اس بستی کے اوپر والے حصے کو نیچے والا حصہ بنا دیا اور اس پر سوکھی مٹی کے بنے ہوئے پتھروں کی یکے بعد دیگرے بارش برساتی.جو تیرے رب کے ہاں ان کے لیے مقدر کئے ہوتے تھے.اور ان ظالموں سے یہ عذاب دور نہیں.سورة الشعراء آیت ۱۷۲ ۷۴ میں آیا ہے.تم دمرنَا الْأَخْرِينَ ، وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِ عَمَلاً

Page 82

Al ناء مطر المندرين.توجہ.پھر سب دوسروں کو ہم نے ہلاک کر دیا اور ہم نے ان پہ پتھروں کی بارش برساتی.اور جن کو ہوشیار کر دیا جاتا ہے اُن پر برسائی جانے والی بارش بہت بڑی ہوتی ہے.:- حضرت لوط سروم سے ہجرت کر کے کہاں چلے گئے؟ ج :- تورات میں مذکور ہے : حضرت لوط ہجرت کر کے ایک قریبی شہر زعفر کو چلے گئے.پھر نر کو چھٹ کہ قریب ہی ایک پہاڑی پر آباد ہو گئے اور وہیں وفات پائی.ر کتاب پیدائش باب - آیات ۲۲-۲۳ - ۲۰) نش.کیا آج کل ان بستیوں کا وجود پایا جاتا ہے ؟ 2: وہ جگہ آج بھی سحر مردار کے نام سے موجود ہے، جہاں کوئی درخت وغیرہ نہیں ہوتا سدوم اور عمورہ وغیرہ تباہ ہو کر گندھک کے چشمہ کی صورت میں کردی گئیں مسافر بھی آتے جاتے وہاں نہیں ٹھہر سکتے وہ جگہ خدا کے قہر کی نظارہ گاہ اسورة ذاریات ص449 و سورة الشعراء ص ۲۸ ) ہے.قرآن مجید مترجمه نظارت تالیف و تصنیف قادیان ما سورة الحجرة وانها ليل مقيم " میں بتایا کہ ان کی بستیاں جس راستہ پر ہیں وہ اب تک چلتا ہے.وہ ایک معلوم شا ہراہ ہے.شی حضرت لوڈ پر ایمان لانے والے کتنی تعداد میں تھے ؟ ج :- حضرت لوط پر ایمان لانے والوں کی تعداد دس سے کم تھی اور تین سے زیادہ تھی.ش:.حضرت لوط کی دعائیں لکھیں ؟ رَبِّ العُونَ عَلَى قَوْمِ المُفيدين

Page 83

Ar ترجمہ: اے میرے راب.مصد قوم کے خلاف میری مداد کرد.رب نجني و اصلي بما يكون.(سورة الشعراء ) ترجمہ :.اے میرے رب مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کے اعمال سے نجات دے.شی :.حضرت لوط کے واقعہ کہ حضرت صالح کی قوم کے واقعہ سے کیا مشابہت ہے ؟ ج:.دونوں کے واقعات میں یہ مشابہت ہے کہ حضرت صالح کی قوم نے بھی رات کے وقت منصوبہ کر کے ان پر حملہ کرنا چاہا تھا اور حضرت لوط کی قوم نے بھی رات کے وقت منصوبہ کہ کے ان کو گھر سے نکالنا اور ان کے مہمانوں کو ذلیل کرنا چاہاتھا شش حضرت لوط کی امتیازی خوبی قرآن مجید میں کیا بیان ہوئی ہے ؟ ج حضرت لوط کی امتیازی خوبی مہمان نوازی تھی.شش حضرت لوط کا ذکر کن کن سورتوں میں آیا ہے.ج : صورة امرات، ہود، الحجر الشعرار خل - عنکبوت رق - انبار تخل تمد ش: حضرت لوڈ کے کتنے بیٹے تھے ؟ ج :- بائیل کے بیان کے مطابق ایک بیٹا مو آب تھا جو مو آبیوں کا باپ بنا اور دوسرا بیٹا کمی بین بھی تھا جو نبی عمون کا باپ بنا.اور یہ دونوں بیٹے بڑے بڑے خاندانوں کے بانی قرار پائے اور خدا نے ان سے ایک لمبا سلسل نسل جاری کیا.خدا بحوالہ (سورۃ شوراه ۱۳۳ تفسیر کبیر) شش: اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط کے دشمنوں جیسے سلوک سے کس قوم کو ڈرایا ہے ؟ ج : اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں کو توجہ دلائی کہ اگر تم بھی اپنی شرارتوں سے بازہ نہ آئے تو لوط کے دشمنوں جیسا سلوک تم سے بھی کیا جائے گا.چنانچہ میں طرح حضرت لوط کی قوم یہ پتھر برسے.بدر کی جنگ میں ان پر پتھر پڑے یعنی ایک نشان کے طور پر آندھی چلی.کنکر اڑاڑ کر آنکھوں میں پڑے اور

Page 84

Ar اور وہ مقابلہ کی طاقت کھو بیٹھے.پھر معنوی طور پر ان سے یہی سلوک ہوا جس طرح سدوم کی بستی کے اوپر کے حصہ کو نیچے کردیا اسی طرح کفارہ تمہ کی عمرمیں فاک میں مل گئیں.اُن کے بڑے بڑے خاندان تباہ ہو گئے اور وہی بچے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش میں پناہ گزیں ہوئے.(تفسير كبير - سورة الشعراء ص ۲۳۶)

Page 85

Ar السلام حضرت ابراہیم میدادم لي: حضرت ابراہیم علیہ السلام کہاں پیدا ہوئے ؟ ج :- حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے ایک قدیم شہر اور میں پیدا ہونے (اور دریائے فرات کے ساحل پر ایک قصبہ ہے) (سجواله ۲۸ ستمبر ۱۹۸۱ء الفضل ) ی: حضرت ابراہیم کسی نبی کی امت میں سے ہیں ؟ ج حضرت ابراہیم حضرت نوح کی امت میں سے تھے جیسا کہ سورۃ الصفت آیت ۴ میں آتا ہے.وران مِنْ شيعيه لإبْرَاهِيمَه لینی حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے متبعین میں سے تھے.حضرت نوح کا زمانہ حضرت ابراہیم کے زمانہ تک محمد ہوا.: ابو الانبیاء کون سے نبی کہلاتے ہیں ؟ ج: حضرت ابراہیم علیہ اسلم کو نبیوں کا باپ کہا جاتا ہے.کیونکہ آپ کے ذریعہ سے انبیاء کا ایک وسیع سلسلہ جاری ہوا.شی، حضرت ابراہیم کی ولادت حضرت عیسی علیہ اسلام سے کتنے سال پہلے کی ہے ؟ ج قریباً دو ہزار سال پہلے.انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا میں حضرت ابراہیم کی پیدائش ۲۰۱۵ سال قبل مسیح تحریر ہے شی :.حضرت ابراہیم کی شکل کس نبی سے ملتی متقی ہے

Page 86

ج : حضرت ابراہیم کی شکل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی تھی.انوار انبیاء (ص) حضرت ابن عباس ضہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابراہیم کو دیکھنا چا ہو تو اپنے صاحب کو (یعنی میری طرف ) دیکھ لو.دستجرید بخاری ص۶۱) ت: حضرت ابراہیم کا کیا حلیہ حدیث میں بیان ہوا ہے ؟ ج :- حضرت ابراہیم طویل القامت تھے.حضرت سمرہ نہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میرے پاس دو آنے والے آئے اور وہ مجھے اپنے ہمراہ لے گئے ہیں ہم ایک طویل القامت شخص کے پاس پہنچے کہ بوجہ طول ہم اس کا سرنہ دیکھ سکتے تھے اور وہ ابراہیم تھے.( ص ۱۵ ستجرید سبخاری ) ش: حضرت ابراہیم کے خاندان کا پیشہ کیا تھا ؟ ج-: حضرت ابراہیم کا خاندان بت تراش تھا اور بت پرستی میں ڈوبا ہوا تھا.عراق کے شہر میں بدل دیوتا کا مندر بھی بہت مشہور تھا جس میں بھل دیوتا کے بڑے بت کے علاوہ کئی چھوٹے بہت رکھے تھے اور یہ سب حضرت ابراہیم کے خاندان ہی نے بنائے تھے.ان کے گھر میں بارہ مہینوں کے بارہ ثبت ہمیشہ رکھے رہتے تھے جنہیں وہ پور جتھے اور مرادیں مانگتے تھے.ش: حضرت ابراہیم کی قوم کا نام کیا تھا ؟ ج-:- کدیوں تھا جیسا کہ جیوش انسائیکلو پیڈیا (زیر لفظ ابرا نام میں آتا ہے." تجھے کسدیوں کی آگ سے نکال لایا ش حضرت ابراہیم کی اور کسی گھرانے میں پیدا ہوئے ؟ ج: حضرت ابراہیم آج سے قریباً چار ہزار سال پہلے ایک مشرک ، بت پرست اور

Page 87

*4 بت فروش گھرانے میں ایک نورانی دل لے کر پیدا ہوئے.نس: آپ کے والد کا نام کیا تھا ؟ ج: - قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے والد کا نام " آزر آیا ہے.جیسا کہ سورۃ الانعام میں ذکر ہے.و اتقال إبراهيم لا يبُ وأَذَرَ أَتَتَّخِذُ أَمْنَامًا الفة اور جب الہی نے اپنے باپ آذر سے کہا.کیا تو میتوں کو معبود بنا تا ہے.شی تورات میں حضرت ابرا ہیم کے والد کا نام کیا آیا ہے؟ ج : تورات میں حضرت ابراہیم کے والد کا نام " تاریخ " یا " تارہ " آیا ہے.س: کیا تاریخ یا تارہ ہی آزر تھے ؟ ج :- آذر ایک عرب نام ہے.اور قرآن مجید چونکہ معرب نام استعمال کرتا ہے.اس لیے تارہ کی جگہ آنس ہونا کوئی اعتراض کی بات نہیں.ابراہام کو ابراہیم اسبوع کو علیٹی حنوک کو ادریس اور یوجن کو کئی لکھنا اگر اعتراض کی بات نہیں تو تازہ کو آزر کہا بھی کوئی اعتراض کی بات نہیں ہوسکتی.یہ صرف ان کے ناموں کو عربی بنانے کا نتیجہ ہے.چنانچہ قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ وہ وہی نام استعمال کرتا ہے جو عربوں کی زبان سے آسانی کے ساتھ ادا ہو سکیں اور یا پھر قرآن مجید اصل نام کا ترجمہ لے لیتا ہے.(تفسیر کبیر سورہ مریم حک (۲۶) : " آنت کے کیا معنی ہیں ؟ اور کیا یہ تاریخ کا د صفی نام ہے ؟ ج بعض کے نزدیک اور عبرانی زبان میں محبت صنم کو کہتے ہیں بعض کے نزدیک آزر کے معنی اعوج.کم فہم یا بے وقوف اور پیر فرتوت کے ہیں.(تاج العروس جلد ۲ ص ۱۲) آدار کا لدی زبان میں بڑے بیچاری کو کہتے ہیں اور عربی میں نہیں " آن را

Page 88

کہلایا.چونکہ تا ریخ میں یہ باتیں موجود تھیں اس وجہ سے اسے آندر کہا گیا اور ان راس کا وصفی نام ہے اور تاریخ اس کا اسمی نام ہے اور قرآن مجید نے وصفی نام آن رلیا ہے.بعض کا خیال ہے کہ آخر اس بت کا نام ہے، تاریخ ، جس کا بیجاری تھا.: کیا قرآن مجید کے لفظ اب " سے مراد آپ کے پیچا ہیں ؟ ج :.بعض کے نزدیک حضرت ابرا ہیم کے والد کا نام تاریخ تھا اور پھچا کا نام آذر تھا.اور چونکہ چچا نے آپ کی پرورش کی تھی اور وہ بہزار باپ کے تھے.اس لیے قرآن مجید میں آنار کو باپ کہہ ہ پکارا گیا ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : العمر منو ابيد یعنی چچا باپ ہی کی طرح ہوتا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاول کے نزدیک اب سے مراد آپ کے چھاتھے کیونکہ ربنا الحفر لي واليو الدى کی دعا میں آپ نے والدی فرمایا ہے اور یہ آپ کی آخری عمر کی دعا ہے.اور جہاں ردعا کرنا مصنع ہے وہاں آپ کا لفظ ہے.الأقول ابراهيم لا بِي لَا تَغْفِرَنَّ لَكَ سے علم ہوا کہ اب سے مراد بیچا تھا والد نہیں.(درس القرآن ص ) شد: حضرت ابراہیم کے والد کیا کرتے تھے ؟ ج : حضرت ابراہیم کے والد نجاری کا پیشہ کرتے تھے اور اپنی قوم کے مختلف قبائل کے لیے لکڑی کے مثبت بناتے اور فروخت کیا کرتے تھے.ل : حضرت ابراہیم کا بچپن کیسے گزرا.ج : حضرت ابراہیم بچپن ہی سے بتوں سے نفرت کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے

Page 89

^^ شروع ہی سے آپ کو حق کی بصیرت اور رشد و ہدایت عطا کی تھی.آپ اس یقین پر قائم تھے کہ بہت نرسن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ کسی کی پکار کا جواب دے سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں.آپ اپنے باپ کو خود اپنے ہاتھوں سے بتوں کو تراشتے اور فروخت کرتے دیکھتے اور سوچتے کہ وہ کس طرح خدا کے ہمسر ہو سکتے ہیں.آپ بچپن ہی سے بہت عمدہ بحث کرنے والے تھے.شی: حضرت ابراہیم کے بچپن کا کوئی واقعہ بتائیں میں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ کو بتوں سے نفرت تھی اور توحید کے قائل تھے.ج : یہودی روایات میں آپ کے بچپن کا یہ واقعہ درج ہے کہ ایک دفعہ باپ نے انہیں دوکان پر بٹھا دیا کہ اگر کوئی بہت خرید نے کے لیے آئے تو اُسے بت دے دیا.ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک بڑھا شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں کوئی بت خرید نا چاہتا ہوں.انہوں نے پو چھا کون سابت لیں گے.اس نے ایک بت کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ فلاں ثبت مجھے چاہیے وہ اٹھے اور ثبت لاکہ اس کے سامنے رکھ دیا اور پھر پوچھا کہ آپ کی عمر کیا ہے.اس نے کہا کہ میری عمر ستر سال کی ہے.حضرت ابراہیم نے کہا کہ یہ بہت تو ابھی کل ہی بین کر آیا ہے اس بڑھے پر بات کا ایسا اثر ہوا کہ وہ اس بیت کو وہیں چھوڑ کر چلا گیا.جب ان کے بھائیوں کو یہ بات معلوم ہوتی تو انہوں نے باپ سے شکایت کی کہ یہ تو ہمارے گاہک خراب کرتا ہے.باپ نے حضرت ابراہیم سے پوچھاتو انہوں نے کہا ٹھیک ہے.جس پر باپ نے آپ کی خوب خبر لی.اور یہ پہلی تکلیف تھی جو توحید کی راہ میں اس پاک باز استی نے اٹھائی.شی: حضرت ابا ایٹم کی زندگی کا نمایاں وصف کون سا تھا ؟ ج :- حضرت ابراہیم کی زندگی کا نمایاں وصف تھا صداقت کی تائید کے لیے دلائل اور راہیں پیش کرنا اور اپنے مخالفت سے اعلی درجہ کی بحث کر کے اُسے

Page 90

19 خاموش کر دینا یہاں تک کہ مخالف حقیقت کو سمجھے جائے..ابراہیم کے کیا معنی ہیں ؟ 1 ج :- ابراہیم کے معانی مبرا ، بڑی عمدہ سبحت کرنے والا.نمبر ۲ : نہایت اعلیٰ درجہ کے دلائل پیش کرنے والا.نمبر : اور ایسی باتیں کرنے والا میں سے دوسرا شخص حقیقت کو سمجھ جائے.ر تفسیر کبیر سورة مريم ص۲۶۶) نمبر : مقدسوں اور ایما نداردں کا باپ.د درس القرآن ص ۲۳۵) سنگی:.بائیل میں حضرت ابرا ہیم کا کیا نام کیا ہے ؟ بائبل میں حضرت ابراہیم کا نام " ابرام ہے اور ابراہام " آتا ہے.عبرانی زبان کیونکہ عربی زبان سے ہی نکلی ہے عربی زبان میں.اہرام کے معانی بات کو پکا کرنے والا کے ہیں.اسی طرح نہایت عمدگی کے ساتھ بحث کر کے مدمقابل کو ساکت کر دینے والا کے ہیں.اچھی طرح بحث کرنے والا اوراپنا مافی الضمیر اچھی طرح سمجھاتے والا کے ہیں.بائیل میں لکھا ہے..---- تب الرام منہ کے بل گرا اور سخدا اس سے ہم کلام ہو کہ بولا کہ دیکھ میں جو ہوں.میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہوگا اور تیرا نام پھر الزام نہ کہلایا جائے گا بلکہ تیرا نام ابراہام ہو گا کیونکہ میں نے تجھے بہت قوموں کا باپ ٹھہرایا.( پیدائش باب ۱۷ آیت اتا ) مللی:.حضرت ابرا ہیم کا نام بائبل میں ابرام سے ابراہام تبدیل کرنے کی کیا وجہ تھی ؟ ج :- حضرت ابراہیم کا نام بائیل میں البرام سے ابراہم تبدیل کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اب تو ابرام نہیں کہ ایک فرد نہیں بلکہ ابراہام ہوگا یعنی بہت قوموں کا باپ"

Page 91

عبرانی زبان کا قاعدہ ہے کہ بھا" لگانے سے جمع بن جاتی ہے.ان معنوں کی تائید قرآن مجید بھی کرتا ہے.سورۃ التحمل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً کہ ابراہیم ایک امت تھا.س حضرت ابراہیم کا نام رکھے جانے میں کیا پیشگوئی محنتی تھی ؟ حضرت ابراہیم کا نام اپنی تصرف سے ان کے باپ کی زبان سے ایرام رکھوایا گیا جس میں اُن کی آئندہ زندگی کا ایک اجمالی نقشہ پیش کر دیا گیا ہے.اور اس میں یہ پیش گوئی مخفی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بہت اچھی طرح صداقت کے اظہار کے لیے بحث کرنے کی توفیق دے گا.قرآن مجید میں متعدد واقعات ملتے ہیں جن سے آپ کا اسم با مسمیٰ ہونا ثابت ہے.بادشاہ وقت سے جب آپ نے سورج کے طلوع و غروب کے متعلق بحث کی اور دلیل دی تو قرآن مجید میں آتا ہے: فَبُهِتَ الَّذِي كَفَ (سورہ بقرہ) کہ وہ کافر بادشاہ حیران رہ گیا.اس طرح آپ کے یہ نام رکھے جانے میں یہ حکمت بھی تھی کہ آپ عالم روحانی کے باپ ہوں گے اور آئندہ اصلاح آپ سے اور آپ کی نسل سے مخصوص ہوگی.حضرت ابراہیم نے پیغام حق کی ابتداء کہاں سے شروع کی ؟ ج.حضرت ابراہیم نے پیغام حق کی ابتداء اپنے گھر سے شروع کی کیونکہ آپ کے والد مشترک تھے.بت پرست تھے.آپ نے انہیں تہوں کی عبادت کرنے سے لہر دیکھا یہ کہا کہ اسے میرے باپ! تو کیوں ان چیزوں کی پرستش کرتا ہے جو نہ سنتی ہیں اور نہ دیکھتی ہیں اور نہ تجھ سے کوئی تکلیف

Page 92

۹۱ دور کر سکتی ہیں.اے میرے باپ ! مجھے ایک خاص علم عطا کیا گیا جو تجھے نہیں ملا پس تو میری اتباع کہ میں تجھے سیدھا راستہ دکھاؤں گا.اے میرے باپ ا تو شیطان کی عبادت نہ کر.یقیناً شیطان رحمن خدا کا نا فرمان ہے میں تیرے متعلق رشن خدا کی طرف سے آنے والے عذاب سے ڈرتا ہوں.جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تو شیطان کا دوست بن جائے گا.سورۃ مریم میں حضرت ابراہیم کی اپنے باپ کے ساتھ اس بحث اور مناظر سے کا ذکر آیا ہے.ا قَالَ لَابِيهِ يَا بَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِيرُ وَلا يُغْنِي عَنكَ شَياً ، يَا بَتِ إِنِي قَدْ جَاءَ نِي مِنَ الْعِلْمِ مَالَمُ يَاتِكَ فَاتَّبِعَنِي اهْدِكَ صِرَاطَ سَرِيَّا.يَابَتِ لا تَعَبدِ الشَّيطن إنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَمِيَا ، يَابَتِ إني أَخَاتُ أَن يَسَكَ عَذَابٌ مِّنَ اللرِحُمْنِ نَتَكُونَ الشيطن ولياه :.باپ نے حضرت ابراہیم کی باتوں کوشن کر کیا جواب دیا ؟ ج : اُس نے کہا کہ اسے ابراہیم تو میرے معبودوں سے نفرت کرتا ہے اور اگر تو اس طریق سے باز نہ آیا تومیں تجھے سنگھار کر دوں گا.لوگوں کے سامنے تجھ سے نفرت کا اظہار کروں گا اور اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے اپنے گھر سے نکال دوں گا.پس کچھ دیر کے لیے میری نظروں سے او شبل ہو جا.شکی: حضرت ابراہیم کو ان کے اب لینی چا اور اچازاد بھائیوں نے کیا مشورہ دیا تھا ؟ ج : حضرت ابراہیم کے خاندان کا گزارہ ہی بتوں کے چڑھا دوں اور بتوں کی فروخت پر ہوتا تھا اس لیے ان کے چچا اور چچازاد بھائیوں نے ان کو مشورہ دیا کہ ہم بود بہت ہیں اور ہمارا گزارہ بھی اسی پر ہے اور اگر تم نے خود بھی نیتوں کی پرستش نہ کی تو ہمارا رزق بند ہو جائے گا.

Page 93

۹۲ شکس: اپنے چچا اور چچا زاد بھائیوں کے مشورے کا حضرت ابراہیم نے کیسا جواب دیا ؟ ج: حضرت ابراہیم نے جن کے دل پر خدا کے نور کا پر تو تھا نہایت دلیری کے ساتھ انہیں یہ جواب دیا کہ جن بتوں کو انسانی ہاتھوں نے گھڑا ہے اُن کو میں ہر گز مسجیدہ نہیں کر سکتا.، باپ لینی چچا نے حضرت ابراہیم کی باتوں کوشن کر کیا جواب دیا ؟ ج: باپ نے کہا.کہ تو میرے معبودوں سے نفرت کرتا ہے اگر تو اس طریق سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگار کر دوں گا اور اپنے گھر سے نکال دوں گا.بس کچھ دیر کے لیے میری نظروں سے ارتعمیل ہو جا.شی: باپ کے فقہ کے اظہار پر براہیم نے کیا جواب دیا ؟ ج : آپ نے اپنے باپ کی اس بات کا جواب اخلاق کریمانہ کے ساتھ اُس کے احترام کو مد نظر ر کھتے ہوئے یہ دیا.کہ میری طرف سے تجھ پر ہمیشہ سلامتی کی دعا پہنچتی رہے.میں تجھ سے الگ ہو جاتا ہوں.مگر غائبانہ اللہ تعالیٰ سے جو مجھ پہ ہے مہ مہربان ہے تیری مغفرت کی دعا طلب کرتا رہوں گا تاکہ تجھ کو ہدایت نصیب ہو.اس کا ذکر سورۃ مریم میں یوں آتا ہے.قال سلم عليكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَني اندمان في حياه حضرت ابراہیم کے دین کا معروف نام کیا ہے ؟ ج : حضرت ابراہیم کے دین کو دین حنیف " کہا جاتا ہے.آپ شرک کے مقابلہ میں ملت حقیقی کے داعی ہیں.اور آپ کی شخصیت اس کی دعوت میں نہایت نماز ہے جیسا کہ سورہ انعام میں آتا ہے.كن التي هك الا الى إلى سما المنسقية لدينا بينا ملغ

Page 94

۹۳ إبْرَاهِيمَ حَيْتُقَاتِمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ.ترجمہ :.تو کہہ دے کہ یقیناً میرے رب نے میری سیدھے راستے کی طرف را ہنمائی کی ہے.ایسے دین کی طرف جو بغیر کسی کچی کے ہے.یعنی ابرا ہیم کے دین کی طرف جو سچائی پر قائم تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا.نس: حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکنے اور توحید اختیار کرنے کے لیے کیا لفاتح کیں ؟ ج: حضرت ابراہیم نے جب دیکھا کہ اب آزر نے رشد و ہدایت کو قبول کرنے سے انکا کر دیا ہے تو آپ نے اپنی دعوت حق کے پیغام کو وسیع کر دیا اور قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : مَا هُدِهِ الثَّمَانِيْلُ الَّتِي أَنْتُمْ لَهَا عَالِفُونَ - (سورة الأنبياء ) یہ کیا مجتے ہیں جن کے آگے تم دن رات میٹھے رہتے ہو.یہ عقیر چیزیں تو پرستش کے لائق نہیں ہیں.یہ تو نہیں کی قسم کا نفع پہنچاسکتی ہیں اور نہی نقصان پہنچا سکتی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب آسمانوں کا رب ہے اور زمین کا بھی رب ہے حسیں نے اُن کو پیدا کیا اور میں اس بات پر تمہارے سامنے گواہ ہوں.اس قوم نے آپ کو ان باتوں کا کیا جواب دیا ؟ ج : قوم نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو بتوں کی عبادت کرتے ہوئے دیکھنا تھا اس لیے ہم بھی نینوں کی عبادت کرتے ہیں.س: حضرت ابراہیم نے ان کے جواب کو سُن کر انہیں خدائے واحد کی ہستی کی طرف کس طرح تو جہ دلائی ؟ ج : حضرت ابراہیم نے اُن سے کہا کہ تم اور تمہارے آباؤ اجداد ایک کھلی گرا ہی میں مبتلا تھے.تمہارے یہ سب معبودان باطلہ سوائے رب العالمین خدا کئے یہ میرے دشمن ہیں.آپ نے رب العالمین خدا کی صفات بیان کرتے ہوئے

Page 95

۹۴ کہا کہ میں رب العالمین خدا نے مجھے پیدا کیا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ مجھے ہدایت بھی دے گا اور جس کی صفت یہ ہے کہ وہ مجھے کھانا کھلاتا اور پانی پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے اور جو مجھے مارے گا اور پھر زندہ کرے گا اور وہ ایسا ہے کہ میں امید کرتا ہوں کہ میرے گناہ جتند استرا کے وقت مجھے معاف کر دے گا.سل : قوم پر ان باتوں کا کیا اثر ہوا ؟ ج: قوم کے دل قبول حق کے لیے بالکل تیار نہ ہو ئے بلکہ ان کا انکار حد سے بڑھ گیا.، بت پرستی کے علاوہ قوم کا کیا عقیدہ تھا؟ ج :- حضرت ابراہیم کی قوم ثبت پرستی کے ساتھ ساتھ کو اکب پرستی بھی کرتی تھی.ان کا یہ عقیدہ تھا کہ انسانوں کی موت وحیات ، ان کا نفع نقصان، ان کا رزق.ان کی فتح و شکست معرض تمام کارخانہ عالم کا نظام کو اکب کی تا نیزوں سے چل رہا ہے.اس لیے ان کی پرستش بھی ضروری ہے.حضرت ابراہیم کے زمانہ میں شریک ایک فلسفیانہ مضمون بن گیا تھا اور عقلوں پر فلسفہ کا غلبہ شروع ہو گیا تھا.شکی: حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو کن پانچ امور کی طرف توجہ دلائی ؟ ج :- حضرت ابراہیم نے انہیں کہا کہ تم خا کی عبادت کر دور جن معبودان باطلہ کی تم پرستش کرتے اور وہ نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی مشکلات میں تمہارے کام آسکتے ہیں..ہر قسم کا رزق خدا کے ہاتھ میں ہے.اس لیے اس خدا تعالیٰ سے مانگو جو تام خیر برکت کا منبع ہے.عیادت بھی اللہ ہی کی بیجا لاؤ کسی اور کو قابل پرستش نہ سمجھو.خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعما.پرائس کاشت کر یہی لائے.تم مرنے کے بعد پھر زندہ ہو کہ خدا کے حضور حاضر کیے جاؤ گے اس لیے نیک

Page 96

اعمال بجالاؤ.۹۵۰ یہ امور بناتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو مرت بت پرستی سے ہی نہیں روکا تھا بلکہ اس فلسفہ کا بھی یہ کیا تھا جو اس بت پرستی کے پیچھے اس زمانہ میں کام کر رہا تھا.سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر د ا میں اس کا ذکر آتا ہے.انهَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَدْنَانَا وَتَخْلُقُونَ إِنكَاء إِنَّ الَّذِينَ تَعبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لا يملكون تكوين تا ما بغدا عِندَ اللهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا له طريه ترجعون شکل: حضرت ابراہیم نے قوم کے سامنے کو اکب پرستی سے رد میں کیا کیا عظیم الشان وائل پیش کیے ؟ سے ج-: حضرت ابراہیم ایک جلیل القدر پیغمبر تھے.آپ نے اپنی قوم کو اس حقیقت اگاہ کیا کہ ان کے چکتے ہوئے سورج.چاند اور ستاروں کو ہرگز خدائی طاقت حاصل نہیں ہے.یہ عقیدہ باطل ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت ابہ ایم کو قوم کے مقابلہ میں ایک عظیم الشان محبت عطا کی.اور آپ کو غلیہ عطا فرمایا سورۃ الانعام کی آیات اسپر شاہد ناطق ہیں.جن کا ترجمہ یہ ہے.ترجمہ : اور ہم ابراہیم کہ اس طرح آسمانوں اور زمینوں پر اپنی بادشاہت دکھاتے تھے تا اس کا علم کامل ہو اور تاکہ وہ یقین کر نے والوں میں سے ہو جائے.ایک دن ایسا ہوا کہ جب رات نے اس پر پردہ ڈال دیا تو اس نے ایک شارہ دیکھا اسے دیکھ کہ اس نے کہا کہ یہ میرا رب ہو سکتا ہے پھر جب وہ ڈوب گیا تو اس نے کہا کہ میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا اس کے بعد جب اُس نے چاند چمکتا ہوا دیکھا تو اس نے کہا کہ (کیا) یہ میرا رب ہو سکتا ہے پھر جب وہ بھی غائب

Page 97

44 ہو گیا تو اس نے کہا کہ اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دیتا تو میں ضرور گھرا ہوں کی جماعت ہیں سے ہوتا.پھر جب اس نے سورج کو چکھتے ہوئے دیکھا تو اس نے کہا.کیا یہ میرا رب ہو سکتا ہے.یہ بے شک سب سے بڑا ہے پھر جب وہ غائب ہو گیا تو اس نے کہا کہ میں اس سے جسے تم خدا کا شریک بناتے ہو بالکل بیزار ہوں !! آپ نے قوم پر یہ بات واضح کر دی کہ ستارے، چاندا در سورج خدا کہلانے کے لاکتی نہیں ہیں.اور ربوبیت صرف اس عظیم الشان ہستی کو زیبا ہے جو رب العالمین" ہے جو زمین و آسمان اور کائنات کی ہر چیز کی خالق ہے.آپ نے اپنی قوم کے سامنے علی الاعلان تمام معبودان باطلہ سے پھر بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہا : اتي وَجَهتُ وَجُرمي يتَدِى فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ.(سورہ الانعام آیت نمبر ) ترجمہ ہیں نے تمام کچھ راہوں سے بچتے ہوئے اپنی وہ یقیناً اس خدا کی طرف پھیر دی ہے نہیں نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں.نوٹ :- (حضرت ابراہیم کی یہ دعا نماز کی نیت کرتے وقت پڑھی جاتی ہے ؟ کواکب پرستی کے خلاف یہ دلائل سن کر قوم کا کیا رد عمل ہوا ؟ ج : قوم کے پاس ان دلائل کا کوئی جواب نہ تھا.صداقت کو قبول کرنے کی بجائے اس نے آپ سے لڑنا جھگڑنا اور بحث کرنا شروع کر دیا.جیسا کہ حاجبہ قرمہ کے الفاظ بتاتے ہیں شل : حضرت ابراہیم نے انہیں اس بحث و مباحثہ کا کیا جواب دیا ؟ ج : توحید پرست حضرت ابراہیم نے قوم سے کہا کہ کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہو حالانکہ اس نے خود مجھے ہدایت دی ہے اور جیسے تم اللہ کا شریک بناتے ہو.میں اس سے نہیں ڈرتا ہاں اگر میرا ری کسی بات کا ارادہ

Page 98

96 کرے تو اس سے ڈرتا ہوں.میرے رب نے ہر ایک چیز کا علم سے احاطہ کیا ہوا ہے پھر کیا تم سمجھتے نہیں.اور میں اس چیز سے جسے تم خدا کا شریک بناتے ہو کس طرح ڈر سکتا ہوں جب کہ اس چیز کو جس کے متعلق اس نے تم پر کوئی دلیل نہیں اُتاری تم اللہ کا شریک بنانے سے نہیں ڈرتے س اگر تم کچھ علم رکھتے ہو تو بتاؤ کہ ہم دونوں فریق میں سے کون سا امن میں رہنے کا زیادہ ستی ہے.قَالَ اتحاجو تي في اللهِ وَقَدْ هَذِينُ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِه إِلا أَنْ يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ ري كُلَّ تَني عِلْمًا أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنكُمْ أَشْرَكُم بِاللهِ مَا لَمْ يُنَزِّكَ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَنَا، فَاقُ الفَر اَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۚ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَة رسورة الانعام آیت ۸۲۸۱) س : حضرت براہیم نے بتوں کے متعلق اپنے دل میں ان کے لیے کیا سوچا ؟ ج : حضرت ابراہیم نے جب یہ دیکھا کہ قوم بت پرستی میں بری طرح مبتلا ہو چکی ہے.اور حق کی باتوں کا اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو آپ نے کہا.وَنَا للَّهِ لا كِيْدَنَ أَهْنَا مَكُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ و سورۃ الانبیا مرکوریا ۵ا آیت (۵۸) ترجمہ اسخدا کی قسم جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تومیں تمہارے بتوں کے خلاف ایک پکی تدبیر کروں گا.سکیں، حضرت ابراہیم نے بتوں کے خلاف اپنی اس تد بیر کو علی جامہ کسی طرح پہنایا ہے ج المن اتفاق سے ایک نداہی تہوار کے سلسلے میں قوم کے سب افراد کو جاناپڑر الور جب انہوں نے حضرت ابراہیم سے ساتھ چلنے کے لیے احرار کیا تو آپ نے

Page 99

۹۸ اپنی قوم کے دستور کے مطابق ستاروں کی چال سے اندازہ لگایا اور اپنی قوم کو شرمندہ کرنے کے لیے کہا کہ تمہاری جوش کے اصول سے تو میں بیمار ہونے والا ہوں دیکن خدا تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا.) فَنَظَرَ نَفْرَةٌ فِي النُّجُوْمِ O فَقَالَ إِنِّي سَقِيمُ رسورة الققت آیت (۹۹) ترجمہ :.الپس اس نے ستاروں کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں بیمار ہونے والا ہوں.قوم ابراہیم کیونکر تاروں کی تاثیوں پر اعتقاد رکھتی تھی.اس نے اپنے مقید کے لحاظ سے یہ جا کہ واقعی برای کانکس ادارہ کے بالز میں بتا ہیں.یہ رہا کرو ارگ ابراہیم کو چھوڑ کر میلہ میں چلے گئے.اب جب کہ ساری قوم تہوار منانے میں سکول تھی.حضرت ابراہیم چپکے سے بت خانہ کی طرف آئے وہاں کھانے رکھے تھے.آپ نے طنز ا بتوں سے کہا.کیا تم کچھ کھاتے نہیں نہیں کیا ہوا ہے کہ تم بولتے بھی نہیں ؟ پھر چپکے سے ایک کاری سی ضرب اُن پر لگادی.پھر انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا سوائے ان میں سے بڑے کے تاکہ وہ ایک دفعہ پھر اس کے پاس آئیں.فَراعَ إِلَى الهَتِهِمْ فَقَالَ الَا تَأْكُلُونَ في مَا تَكُمْ لَا نطِقُونَ فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِينِ O رسورة الصافات) فَجَعَلَهُمْ جَذَا ذَا الأَبِيْنَا لَهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ (سورة الانبيار آیت ۵۹) حضرت ابراہیم نے بڑے بت کو چھوڑ کر بیاتی نیتوں کو ریزہ ریزہ کر کے عملی صورت میں ان بتوں کی بڑائی قوم پر ظاہر کردی.

Page 100

۹۹ کی قوم ابراہیم کا بتوں کو ریزہ ریزہ دیکھے کہ کیا حال ہوا ؟ ج : قوم ابراہیم نے جب مندر میں اپنے جھوٹے خداؤں کو ریزہ ریزہ دیکھا تو سخت یہ ہم ہوئی.اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کیا ہوا ہے ؟ اور یہ کام کس نے کیا ہے ؟ جس نے بھی کیا ہے وہ بڑا ظالم ہے.انہیں یہ علوم تھا کہ ابراہیم ان کے بتوں کی برائیاں بیان کرتا ہے اور ان کے بتوں کا دشمن ہے.یہ اسی کا کام ہے.قوم کے سرداروں نے جب یہ سنا تو فقہ سے بھرے لہجے میں کہا کہ ابراہیم کو سب لوگوں کے سانے پڑھ کر لاؤ تا کہ وہ سب دیکھ لیں کہ مجرم کون شخص ہے.اور جب حضرت ابرا ہیم آئے تو انہوں نے پوچھا کہ اسے ابراہیم ! کیا تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے.تَالُوا مَنْ نَعَل هذا نه لمن قالوا نالوا به عل أمين النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ قالوا و انت لمنتَ هَذَا بِالهَتِنَا يَا ابْرَاهِيمَ (سور 16 لانبیار) ی، حضرت ابراہیم نے قوم کے سامنے کیا جواب دیا ؟ ج : حضرت ابراہیم کی عادت تھی کہ آپ عام طور پر تعریضاً کلام کیا کہتے قصے آپ نے ان سے یہ کہا یہ کام کسی نے کیا تو وہ ہو گا بغیر کسی سے کرنے کے اپنے آپ تو نہیں ہو سکتا.اب یہ بہت ان میں سے سب سے بڑا ہے اگر یہ بت بول سکتے ہیں تو ان سے پور چھو.مجھ سے کیا پوچھتے ہو ؟ دوسرے آپ کی یہ مرا تھی کہ یا یہ سال بھی پوچھنے والا تھا میں کرتا تو کیا اس نے کرنا تھا.قال بل تعلم كبير هُمْ هَذَا فَشَلُوهُمْ إِن كَانُوا

Page 101

يَنطِقُونَ.تر جمہ : کیا بلکہ کسی کرنے والے نے یہ ضرور کام کیا ہے.یہ ان کا بڑا ہے پس تم ان سے پوچھ لو اگر وہ بول سکتے ہیں.رسورة الانبيار ) ی ، قوم ابراہیم نے حضرت ابراہیم کا یہ جواب سن کر کیا کیا ؟ ج : حضرت ابراہیم کی اس یقینی دلیل کا سردار وں کے پاس کوئی جواب نہ تھا.وہ سمجھ گئے تھے کہ ان کا عقیدہ باطل اور سراسر جھوٹ پر مبنی ہے مخالفوں نے شرمندگی ا سے اپنے سر نیچے ڈال دیتے اور حیرت میں ڈوب گئے اور اپنے دلوں میں شرمندہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ ابرا ہیم، ظالم نہیں تھا کہ ہم خود ظالم تھے.پھر بولے کہ ابرا ہیم تم جانتے ہو کہ یہ بہت تو بہلتے نہیں.اس طرح حضرت ابراہیم کی حجت کامیاب ہو گئی اور دشمنوں نے خود ہی اعتراف کرلیا کہ ابراہیم مظالم نہیں ہے.ترجعو إلَى الْبِهِ مُنَتَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ و نكوا على مُ بِهِمُ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا ولاء ترجمہ، اس پر وہ اپنے سرداروں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے کہا یقینا تم ہی ظالم ہو اور وہ لوگ اپنے سروں کے بل گرائے گئے راعینی ا جواب کیے گئے اور رکہا ) تو جانتا ہے کہ یہ تو بولا نہیں کرتے (الانبيار ) گی: حضرت ابراہیم نے انہیں کیا جواب دیا ؟ ج-: حضرت ابراہیم نے انہیں ملامت کی اور نہایت جامع الفاظ میں حضرت ابراہیم نے انہیں نصیحت کی اور کہا کہ جب یہ تمہارے دیوتا نہ تمہیں نفع پہنچا سکتے اور نہ نقصان.پھر یہ معبود کیسے ہو سکتے ہیں کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

Page 102

قَالَ انتَعْبُدُونَ مِنْ يُذنِ اللهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَياً لا يفتركُمْ أن تحمدَ لِمَا تَعَبُدُونَ مِنْ دُرُنِ اللَّهِ (الانبياء ) تَعْقِلُونَ سورۃ الصفت میں اس واقعہ کا ذکر یوں آتا ہے.جب لوگوں کو خبر ہوئی تو وہ اس کی طرف دوڑتے ہوئے آئے ابراہیم نے ان سے کہا.کیا تم اپنے ہاتھ سے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے ہو حالانکہ اللہ نے ہی تم کو بھی پیدا کیا ہے اور تمہارے عمل کو بھی.نَاقْبَلُوا إِلَيْهِ سَنتُوْنَ ، قَالَ الْعَبدُونَ مَا تَنْحِتُونَ.وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ) (سورة الصفت آیت ۹۵ - ۹۶-۹۷) کی یہ حضرت ابراہیم نے میں بہت خانہ کے بت توڑے وہ کس کی ملکیت تھا ؟ ج :.حضرت ابراہیم نے میں بت خانہ کے بہت توڑے وہ ان کے اپنے خاندان کا بت خانہ تھا اور انہیں ورثہ میں ملا تھا اور چونکہ حضرت ابراہیم بچپن ہی سے شرک سے متنفر تھے.اس لیے انہوں نے اس بت خانہ کو جوان کی آمدنی کا ذریعہ تھا اسے توڑ دیا.اور بہت نا نہ توڑے جانے کی وجہ سے ملک میں شور پڑ گیا اور حضرت ابراہیم کی عداوت اور دشمنی کا نعرہ بلند کر دیا گیا.شش ملک کے دستور کے مطابق بتوں کی جنگ کرنے کی سزا کیا تھی ؟ ج :- یہ ایک پرانی رسم نفسی کہ جو بتوں کی بہتک کرتا تھا اُسے میلا دیا جاتا تھا اور ملک کے دستور کے مطابق اور بادشاہ کے قانون کے مطابق بتوں کی ایک کرنے کی سزا جلا دینا تھا.کیونکہ بہتوں کی ہتک کرنا ارتداد سمجھا جاتا تھا اور ارتداد کی سزا یا تو جلانا تھی یا سنگسار کرنا تھی.تب نہ ہبی پیشواؤں نے ہی فیصد کیا کہ ابراہیم کو سنت سے سخت سزا دی جائے.چنانچہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ در

Page 103

نمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِةٍ إِلَّا أَنْ تَالُو اقْتُلُوهُ أَوْ ) عنکبوت ) ترجمہ : میں اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ اس کو قتل کر دو یا اس کو میلا دو.ی اس زمانے میں عراق کے بادشاہ کا کیا لقب تھا ؟ ج : اس زمانے میں عراق کے بادشاہ کا لقب " نمرود " تھا.تش نمرود کون تھا ؟ ج : نمرود کے متعلق تعربی انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے.ملك الكلدانيييي هوا سن کرش بن حام جاء ذكره في كتب العرب قالوا انه كان خصما - ابراهيم اشتهر بولوعه بالصيد نمرود کلدانی قوم کا بادشاہ تھا اور وہ این کوشش بن عام ہے اس کا ذکر عربوں کی کتب میں مذکور ہے اور یہ نمرود حضرت ابراہیم کا مخالف مخفا مشہور ہے کہ اس کو شکار کا بہت شوق تھا.ر جواله الفضل (۲۸ ستمبر مثله شش دینی لحاظ سے بادشاہ کی کیا حیثیت تھی ؟ بلکہ دینی لحاظ سے وہ ج :- نمرود بادشاہ محض دنیوی حکمران نہ تھا اپنے آپ کو ہلا یک چیز کا مالک بلکہ رب سمجھتا تھا.اُس کے اعمال کے خلات کوئی اعتراض کا حق نہ رکھتا تھا.اُس کا ہرفیصلہ قطعی ہوتا تھا.رعایا بھی اُسے دوسرے دیوتاؤں کی طرح اپنا معبود مانتی تھی.بادشاہ خود سورج کا پرستار تھا اور سورج ان کا سب سے بڑا دیوتا تھا.شی با دشاه وقت مرد اور حضرت ابراہیم کے درمیان کیا مباحثہ ہوا ؟ ج : حضرت ابراہیم کے بتوں کو ریزہ ریزہ کرنے کی خبر بادشاہ وقت نرود کے کانوں تک

Page 104

١٠٣ جا پہنچی.خود حضرت ابراہیم کے باپ نے بھی بادشاہ کو اس واقعہ کی اطلاع دی.تب بادشاہ نے حضرت ابراہیم کو بلا بھیجا اور اسے تباہ کرنے کی دھمکی دی.آپ نے فرمایا.زندہ کرنے والا اور مارنے والا خدا تعالیٰ ہے.تم میرا کچھ نہیں والا بگاڑ سکتے چونکہ نمرود خدائی کا دعویدار تھا اس نے غصہ بھرے لہجے میں کہا کہ زندہ کرنا اور مار نا میرے اختیار میں ہے یعنی آبادی اور دیرانی میرے قبضہ میں ہے.حضرت ابراہیم کو علم تھا کہ نمرود اور اس کی قوم کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام حیات سورج پر مخصر ہے لیکن اگر یہ سچ ہے کہ بادشاہ موت اور حیات پر قدرت رکھتا ہے تو پھر سورج اس کے ماتحت ہوا.اس لیے حضرت ابراہیم نے کہا.ایسا ہے تو سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکال کر دکھاؤ.اس پر وہ بادشاہ لا جواب ہو گیا اور مبہوت رہ گیا.اگر بادشاہ مزود یہ کہتا کہ میں سورج کو مشرق سے نکالتا ہوں تو سورج کی خدائی کو جواب مل جاتا اور اگر یہ کہتا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا تو اس کا اپنا خدائی کا دعوی جھوٹا ثابت ہو جاتا.اس لیے وہ خاموش ہو گیا اور کوئی جواب نہ دیا.سورۃ البقرہ میں اس مباحثہ کا ذکر آیا ہے.الله.انقَالَ ابْرَاجِعُ رَنِي الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ انا أخي وأمنيتُ ، قَالَ الْبَاهِمُ عَنَانَّ اللهَ يَات بالشمس مِنَ الْمُشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَهُتَ الَّذِي حضَرَ وَاللهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ البِينَ.(سورة البقره (۲۵۹) ش نمرود بادشاہ حضرت ابراہیم کے اس سوال پر کہ تو سورج کو مغرب کی طرف سے لے آہ پر خاموش کیوں ہو گیا تھا ہے ج بادشاہ اور اس کی قوم سورج کی پرستش کرتی تھی.سورج ان کا سب سے بڑا دیوتا

Page 105

۱۰۴ سمجھا جاتا تھا.اور اس کو ہر قسم کی کا میابی اور ناکامی ، ترقی اور تنزل تفع اور نقصان کا اصل باعث قرار دیا جاتا تھا.پہچنا نچہ نیلسنز انسائیکلو پیڈ یا زیر لفظ بہلونیا میں لکھا ہے کہ میرے ڈاک ان کا بڑا خدا تھا.جیسے سورج کی شعاع یا دن کی روشنی سمجھا جانا تھا اور اسے بنی نوع انسان کی ترقی اور تنزل کا اصل باعث قرار دیا جاتا تھا.اس کا نام بعل یعنی آقا بھی تھا.اس کے علاوہ ان کا ایک بہت شمس تھا یعنی سورج دیوتا.جب حضرت ابراہیم اور بادشاہ وقت کے درمیان فی رج؟ کے متعلق بحث ہوئی اس وقت دن کا وقت تھا اور سورج چڑھا ہوا تھا.حضرت ابراہیم نے کہا کہ اس سورج کو پیچھے لے جایا یہ کہا کہ اسے مغرب سے چڑھا لا.اور اس سورج پر اپنی حکومت قائم کر کے دیکھا.کیونکہ میر سے خدا تعالیٰ کا تو یہ قانون ہے کہ وہ سورج کو.مشرق سے چڑھاتا ہے اور اس طرح دنیا کو نفع پہنچتا ہے.اور اگر دنیا کا نفع نقصان تمہار سے ہاتھ میں ہے تو پھر سورج کیا کرتا ہے.اگر وہ بادشاہ حضرت ابرا ہیم کہ یہ جواب دیتا کہ میں نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتا اور نہ ہی ترقی اور تنزل میرے ہاتھ میں ہے بلکہ سورج کے ہاتھ میں ہے تو اس کا م انا احي وامیت کا دعوکی باطل ہو جاتا اوہ اگر وہ یہ کہتا کہ میں ہی سارے امو بہ بجا لاتا ہوں اور نفع و نقصان بھی میرے ہاتھ میں ہے سورج کے اختیار میں نہیں تو ساری قوم اس کی دشمن ہو جاتی اور اس وجہ سے وہ کوئی جواب نہ دے سکا.اور مبہوت رہ گیا.اس طرح حضرت ابراہیم کی زبان سے نمرود بر خدا تعالیٰ کی حجت پوری ہو گئی.شش.حضرت ابراہیم نے بادشاہ نمرود سے مناظرہ کر کے کیا ثابت کر

Page 106

۱۰۵ دکھا یا.ج.حضرت ابراہیم نے بادشاہ وقت اور قوم کے سامنے یہ بات روشن کردی کہ ربوبیت اور الوہیت کا حق صرف خدا تعالیٰ کو حاصل ہے اور کسی بڑے سے شہنشاہ کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کی برابری اور ہمسری کا دھوئی کرے.کیونکہ وہ اور تمام دنیا خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے.ستش.کیا طالمود میں بھی اس بحث کا ذکر ملتا ہے ؟ ج.جی ہاں طالور میں بھی اس بحث کا ذکر ہے.لیکن طالمجود اور قرآن مجید کے بیان میں فرق ہے.قرآن مجید میں زندہ کرنے اور مارنے کا ذکر پہلے ہے اور سورج کے تبدیل کرنے کا ذکر بعد میں آتا ہے لیکن ظالمو د میں سورج کی تبدیلی کا ذکر پہلے ہے اور احیاء و امانت کا بعد میں.ظالموں میں لکھا ہے کہ : جب حضرت ابراہیم نمرود بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے تو اس نے آپ کو کہا کہ تو بتوں کی پوجا کیوں نہیں کرتا.اس نے کہا جن کہ آگ جلا دیتی ہے.اُن کی کیا پوچھا کروں.اس نے کہا پھر آگ کی کیوں نہیں کرتا انہوں نے کہا مجھے پانی بجھا دیتا ہے اس کی کیا پر جا کروں.اس نے کہا پھر پانی کی کیوں نہیں کرتے.انہوں نے کہا پانی کو تو بادل لاتا ہے اس نے کہا پھر بادلوں کی کیوں نہیں کرتا.انہوں نے کہا اُن کوہ ہوا اثرا لے جاتی ہے.اس نے کہا پھر ہوا ہی کی کر.انہوں نے کہا کہ انسان اس سے بھی بچاؤ کہ لیتا ہے اور بچ جاتا ہے اور وہ اس پہ غالب نہیں آتی.اس نے کہا.پھر مجھے پو جو.کیو نکہ میں انسانوں کا خدا ہوں.انہوں نے کہا تمہارے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں اگر تو خدا ہے تو پھر سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا.شش.بادشاہ وقت اور قوم ابراہیم جب حضرت ابراہیم کے دلائل ہستی

Page 107

1.4 باری تعالی سن که دا جناب ہو گئی تو انہوں نے کیا فیصلہ کیا ؟ ج بادشاہ اور اس کی قوم حضرت ابراہیم کے دلائل سن کو لاجواب ہو گئے.مرابط مستقیم کو اختیار کرنے کی بجائے وہ حق سے منحرف ہی رہے.بلکہ غیض و غضب میں مزید بڑھ گئے اور سب نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ بہتوں کی توہین و تذلیل کرنے کے باعث ابراہیم کو دہکتی ہوئی آگ میں جلا دینا چاہیئے اور اپنے معبودوں کی مدد کرنی چاہیے.قالواهم قوه وانْصُرُوا الهَتَكُمْ إِن كُنتُم فاعلين.(سورة الانبياد) فلسطینی رہتوں کے لڑیچر میں لکھا ہے کہ جب نمرود نے حضرت ابراہیم کو جلانے کا حکم دے دیا.ایک لکٹریوں کا انبار پانچ گز مربع جمع کیا گیا اور اس کو آگ لگائی گئی اور ابراہیم کو اس میں ڈالا گیا.اور بعض جگہ یہ واقعہ یوں لکھا ہے کہ فرود اور قوم نے ابراہیم کی سزا کے لیے ایک مخصوص جگہ بنوائی اور اس میں مسلسل کئی روزہ آگ دہکائی گئی حتی کہ اس کے شعروں سے قرب وجوار کی اشیا جھلسنے لگیں.جب جب بادشاہ کو اور قوم کو یہ اطمینان ہو گیا کہ اب ابراہیم کے بچنے کی کوئی صورت باقی نہ رہے گی تب ایک گوپھن میں ابراہیم کو بجھا کہہ دھکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا گیا.شہ اللہ تعالیٰ نے آگ کو کیا حکم دیا ؟ ج : اللہ تعالیٰ نے آگ کو یہ حکم دیا کہ اسے آگ ! تو ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا.اس پر اعجاز واقعہ کا ذکر سورۃ الانبیا میں آتا ہے : تلنا يباركونى مرداً وَ سَلَّما عَلَى إِبْرَاهِيمَه وَأَرَادُوا یہ كَيْدًا نَجَعَلْتُهُمُ الْأَحْسَرِينَ ٥

Page 108

1.6 ترجمہ : ہم نے کہا کہ اسے آگ ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کے لیے سلامتی کا موجب بن بجا اور انہوں نے ایک تدبیر کرنی پچا ہی نہیں ہم نے انہیں گھاٹے پانے والے بنا دیا.معلوم ہوتا ہے کہ عین اس موقع پر بادل برسا جس نے آگ کو ٹھنڈا کر دیا اور دری دیا اوروہ ابراہیم کے لیے برود و سلام بن گئی اور حضرت ابرا ہیم اس آگ میں سے صحیح سلامت نکل آئے.سورۃ العنکبوت میں " فاتجه الله من الناس کے مبارک کلمات آئے ہیں.بعض نسخوں میں یہ الفاظ درج ہیں." تجھے کسدیوں کی آگ سے نکال لایا ؟" ر جیوش انسائیکلو پیڈیا زیر لفظ ابراهام).حضرت ابراہیم پر جو آگ ٹھنڈی ہوئی تھی.آیا وہ آتش بیرم تھی یا فتنہ و فساد کی آگ تھی ؟ ج-: حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں.قفتنہ و فساد کی آگ تو ہرنی کے مقابل میں ہوتی ہے اور وہی ہمیشہ کوئی ایسارنگ اختیار کرتی ہے کہ اللہ تعالی ایک معجزہ نما طاقت اپنے نبی کی تائید میں اس کے بالمقابل دکھاتا ہے.ظاہری آتش کا حضرت ابراہیم پر فرو کر دنیا خدا تعالیٰ کے آگے کوئی مشکل امر نہیں.دالحکم.ارجون ۷ - ۲۶۱۹ س - حضرت ابراہیم جب آگ میں ڈالے گئے تو آپ کی زبان پر کیا کلمات تھے ؟ ج :.حضرت ابراہیمؑ کو جب آگ میں ڈالا گیا تھا تو آپ کی زبان پر حسبنا الله ونعم الوکیل ر اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہت ہی اچھا کا رہ ساز ہے) کے الفاظ تھے.حدیث میں آتا ہے بعضرت ابن عباس سے روایت ہے جب

Page 109

ابرا ہیم آاگ میں ڈالے گئے تو کہا حسبنا الله ونعم الوکیل.اور محمد نے یہ کلمہ اس وقت ادا کیا جب لوگوں نے آپ سے کہا کہ لوگ تمہارے لئے جمع ہو کر آئے ہیں، میں تم ان سے ڈرد.پس ان صحابہ ض کا ایمان اس سے زیادہ ہوا اور کہا.حسبنا الله ونعم الوکیل.(بخاری).کیا اس واقعہ کے بعد حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکا ؟ رح در جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو معجزانہ رنگ میں آگ سے بچا لیا تو پھر توحید کے عاشق ابراہیم نے آگ سے نجات پاتے ہی اپنی قوم کو سمجھا نا شروع کیا اور کہا کہ تم نے تو بتوں کو اس لیے خدا بنالیا ہے تا کہ وہ اس دنیا میں تمہارے درمیان محبت پیدا کرنے کا موجب ہو.لیکن یہ یاد رکھو کہ یہ بہت اس دنیا تک ہی ہیں اگلے جہان میں یہ تمہیں کوئی فائدہ نہیں دیں گے.بلکہ قیامت کے دن پجاری بتوں کے تعلق سے اور بیت پجاریوں کے تعلق سے انکار کر دیں گے اور ایک دوسرے پر لعنت ڈالیں اور تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہوگا اور ان میں سے کوئی بھی تمہاری مدد کو نہیں آئے گا.کا ذکر ہے.جیسا کہ سورۃ العنکبوت میں حضرت ابراہیم کی اس آخری تبلیغی کوشش وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذُ تُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانَاهُ مَوَدَّةً بَيْنِكُمْ فِي الحَ الدُّنْيَاج ثمَّ يَوْمَ الْقِمَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَا وَيكُمُ النَّارُ وَ مَا لَكُم مِّن نصرين.اس واقعہ کے بعد کون آپ پر ایمان لایا ؟ ج :.اس پر اعجاز واقعہ کے بعد حضرت لوط جو آپ کے بھائی جاران کے بیٹے تھے آپ پرایمان لائے جس کا ذکر سورۃ العنکبوت میں ہے.فائن له لوط ، پھر لوط 14

Page 110

اس پر ایمان لے آیا.1-9 س قوم نے ابراہیم کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا ؟ ج بادشاہ اور قوم بت پرست تھی اور بت پرست وہی ہوتے ہیں اس لیے جب انہوں نے آگ جلائی اور بادل کے برسنے سے جب وہ آگ بجھ گئی تو انہوں نے سمجھا کہ خدا کی مشیت رہی ہوگی اس لیے انہوں نے حضرت ابراہیم کو چھوڑ دیا.: - حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالے جانے کا واقعہ کس شہر میں پیش آیا ؟ ج :- جس شہر میں حضرت ابراہیم کو پکڑ کر آگ میں ڈالا گیا اس کا نام " اور تھا.پشتو زبان میں اب تک اور آگ کو کہتے ہیں اور اس شہر میں آتشکدہ تھا.س :.اس واقعہ کے بعد حضرت ابراہیم عل کہاں تشریف لے گئے ؟ ج :.اس واقعہ کے حضرت ابراہیم نے جو مضبوطی سے تو حید پر قائم تھے اور خدا تعالیٰ کو ہی خالق ارض و سماء سمجھتے تھے.ارادہ کیا کہ وہ کسی اور جگہ جا کر پیغام حق سنائیں تب آپ نے اپنی قوم میں اپنی ہجرت کا اعلان کر دیا اور کہا کہ میں خدا تعالیٰ کی خاطر اب اپنا وطن چھوڑ رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میرا خدا جو غالب ہے اور میں کے تمام کام حکمتوں پر مبنی ہیں مجھے غلیہ عطا کرے گا اور میری اس ہجرت کے اعلیٰ نتائج عطا فرمائے گا.وقال إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ (سورة صافات) وقال إني مهاجر إلى رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (سورة العنكبوت ) حضرت ابراہیم نے اپنا مولد اور دندان آرام ، چھوڑ دیا اور حاران (عمران) کی طرف چلے گئے اور وہاں دین حنیف کی تبلیغ شروع کی.س : - حمران شہر کہاں واقع ہے ؟ ج-: - حمہ ان شہر کلدی علاقہ اور شام کے درمیان تھا.جب چلڈیا سے ملیں تو فلسطین

Page 111

کی طرف راستہ میں یہ شہر آتا ہے.یہ بڑا بھاری شہر تھا.تمام تجارتی قافلے یہاں ٹھہرا کرتے تھے اور اسے تجارتی دروازہ کہتے تھے.اس کے علاوہ یہ مذہبی سنٹر بھی تھا اور یہاں ایک بہت بڑا مندر چاند دیوتا کا تھا وہ لوگ جو چاند کے پرستار تھے وہ اس جگہ آتے اور نذرانے وغیرہ چڑھاتے تھے.و تغییر کبیر سورة مريم ص۲۷۲ ) حضرت ابراہیم نے اپنا وطن کیوں چھوڑ دیا تھا ؟ ج: حضرت ابرا ہیم نے اپنا وطن اس لیے چھوڑا تھا کہ آپ کا باپ مشرک تھا اور قوم بھی بت پرست اور ستارہ پرست تھی اور یہ اختلاف اس قدر بڑھ گیا تھا کہ حضرت ابراہیم نے آخر ہجرت کرلی.ا.حضرت ابراہیم کے ساتھ کس نے ہجرت کی ؟ :- حضرت ابراہیم کے ساتھ ان کی بیوی حضرت سارہ اور ان کے بھتیجے حضرت لوط نے ہجرت کی.: حضرت سارہ کون تھیں اور لفظ سارہ کے کیا معانی ہیں ؟ ج :- حضرت سارہ حضرت ابراہیم کے چھا جاران کی بیٹی تھیں اور آپ کی زوجہ مطہرہ سارہ کے معنی خوش کرنے والی.: حضرت ابراہیم نے جاتے ہوئے اپنے باپ سے کیا وعدہ کیا تھا ؟ ج :.حضرت ابراہیم نے جاتے ہوئے اپنے باپ سے یہ وعدہ کیا کہ میں آپ کے لیے دعا کرتا رہوں گا.اسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ فِي حَفِيًّا د سورة مريم ترجمہ :.میں ضرور تیرے لیے اپنے رب سے بخشش طلب کرتا رہوں گا.یقینا وہ مجھ پر بہت مہربان ہے.

Page 112

: کیا مشرک کے لیے دعا کرنا جائز ہے ؟ ج :- حضرت ابراہیم کا اپنے مشرک باپ کے لیے یہ دعا کرنا سا ستَغْفِرُ لگ مري انه كان بی حیا سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ مشرک کے لیے زندگی میں دعا کرنا جائز ہے.بلکہ مرنے کے بعد بھی ایسے مشرک کے لیے دعا کرنا جائز ہے جس پر اتمام حجت کی سند نہ ملے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ حضرت آمنہ کو مشرک قرار دیا ہے.لیکن آپ نے ان کے لیے بھی دعا کی.استند احمد بن حنبل جلدہ ص ۳۵۵ :- حضرت ابراہیم کا بارگاہ الہی میں اپنے باپ کے لیے استغفار کر نے پر خدا تعالے نے آپ پر کیا ظاہر کیا ؟ ج :.جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو بذریعہ وحی یہ بتا دیا کہ آر ایمان لانے والا نہیں ہے تو آپ نے آزر سے اپنی بات کا صاف صاف اعلان کر دیا اور اس س لا تعلقی کا اظہار کر دیا کیونکہ وہ خدا کا دشمن تھا.سورۃ التوبہ میں اس واقعہ کا ذکر آتا ہے.وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ ابْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَا أَنَّهُ عَدُو لِلَّهِ تَبَا مِنْهُ اِنَّ اِبْعِيْمَ لَدَواةُ حَلِيمٌ ) ترجمہ :.اور ابراہیم کا استغفار اپنے باپ کے لیے صرف اس وجہ سے تھا کہ اس نے اس سے ایک وعدہ کیا تھا مگر جب اس پر ظاہر ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس وعدہ سے پوری طرح دست بردار ہو گیا.ابراہیم بہت ہی نرم دل اور عقل مند تھا.س:.حضرت ابراہیم نے اپنے مشرک والد کے لیے دعا کیوں مانگی ہے ج : - حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میرا خدا معنی ہے انتہائی خیر خواہ ہے اور والدین میں

Page 113

۱۱۳ اس کی صفت کا اردنی اپر تو ہوتا ہے.اس لیے محبت الہی کا یہ تقاضا ہے کہ میں اس کے لیے بھی دعا کروں جس کے وجود میں صفات الہیہ کا ظہور ہو.س: ماران سے حضرت ابراہیم نے کہاں ہجرت کی ؟ ج :- حضرت ابراہیم نے خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق حاران سے کنعان (فلسطین) کی طرف ہجرت کی اور یہ زمین آئندہ ان کیسے اولاد کے لیے مقرر کردی گئی تھی.حضرت ابراہیم کے ساتھ حضرت سارہ ، حضرت لوط اور ان کی بیوی نے بھی ہجرت کی تھی.حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کی اس ہجرت کا ذکر سورۃ انبیاء آیت نمبر ۷۲ میں آتا ہے.ونجَيْنَهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بُرَكْنَا فِيهَا لِلعَلَمِينَ ) ترجمہ: اور ہم نے اس کو اور لوط کو اس زمین کی طرف نجات دی جس میں ہم نے تمام جہانوں کے لیے برکتیں نازل کی تھیں " فلسطین کا علاقہ کن کی زیر اقتدار تھا.ج : فلسطین کا علاقہ کنعانیوں کی زیر اقتدار تھا..حضرت ابراہیم نے فلسطین سے کس طرف ہمیرات کی ؟ ج :- کہا جاتا کہ فلسطین میں جب قحط پڑ گیا تو لوگ غلہ کی تلاش میں مصر جانے لگے تب حضرت ابراہیم بھی اپنے کنبے کے لوگوں کے ساتھ مصر چلے گئے..اس وقت مصر پر کس خاندان کی حکومت تھی ؟ ج :.اس وقت مصر پر سامی خاندان کا بادشاہ حکمران تھا.جس کا لقب فرعون تھا.حضرت ابراہیم اور اس بادشاہ کا سلسلہ نسب ایک ہی تھا.سفر ایشیاء میں رجو یہودیوں کی ایک معتبر تاریخ ہے مذکورہ ہے کہ حضرت ابراہیم کے زمانہ میں مصر کا بادشاہ حضرت کا ہم وطن تھا.دارض القرآن جلد ۲ صدا )

Page 114

: ابراہیم کے خاندان کو برگزیدہ جان کر حاکم مصر نے کیا سلوک کیا ؟ ج-: - فرعون مصر کو جب یہ معلوم ہوا کہ حضرت ابرا ہیم اور اس کا خاندان خدا تعالیٰ کا مقبول اور برگزیدہ خاندان ہے تو اس نے آپ کا بہت اعزاز و اکرام کیا اور ہر قسم کے مال و منال سے نوازا.ملکہ اس نے آپ کی نیکی و بزرگی کو دیکھ کر اپنے خاندانی رشتہ کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اپنی بیٹی " ہاجرہ کو آپ کی زوجیت میں دے دیا.جو اس زمانہ کے رسم و رواج کے اعتبار سے پہلی اور بڑی بی بی کی خدمت گزار قرار پائیں..حضرت سارہا کی عمر اس وقت کتنی تھی ؟ ج :- تورات کی روایت کے مطابق اس وقت حضرت سارہ کی عمر ستر سال تھی.ش:.حضرت ہاجرہ کون تھیں اور لفظ " ہاجرہ" کے کیا معانی ہیں.ج :.حضرت ہاجرہ مناقبطی تھیں.شاہ مصر فرعون کی بیٹی تھیں لونڈی اور باندی نہیں تھیں.تو رات میں حضرت ہاجر کا کو صرف اس لیے لونڈی کہا گیا ہے کہ شاہ مصر نے ان کو سارہ اور ابراہیم کے سپرد کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ وہ سارا کی خدمت گزار رہے گی.ہاجرہ کے معانی عربی زبان میں ہجرت کرنے والی کے ہیں.هاجرہ اصل میں عبرانی لفظ حصا خانہ ہے جس کے معانی بیگانہ اور اجنبی کے ہیں.ان کا وطن چونکہ مصر تھا اس لیے یہ نام پڑ گیا.صاغار کے معافی پیدا ہونے والے کے ہیں چونکہ اپنے وطن مصر سے جدا ہو کہ حضرت ابراہیم کی شریک حیات نہیں اور حضرت سارہ کی خدمت کرنے والی ٹھہریں اس لیے ہاجرہ کہلائیں.دارض القرآن جلد ۲ ص)

Page 115

۱۱۴ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مصر کے قبطیوں کا خیال رکھنے کی کیوں نصیحت فرمائی تھی ؟ ج : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نصیحت کی تھی کہ مصر کے قبطیوں کا خیال رکھتا وہ تمہارے رشتہ دار ہیں.کیونکہ حضرت اسماعیل کی ماں مصر کی تھیں.آپ نے ایک مرتبہ صحابہ سے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھ پر مصر کو فتح کرے گا.جب تم فاتحانہ حیثیت سے مصر میں داخل ہو تو اس وقت تم اس بات کو یاد رکھنا کہ تمہاری دادی ہاجرہ مصر کی تھیں.د درس القرآن صدا فرمودہ حضرت خلیفہ اول اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) حضرت ابراہیم نے مصر سے پھر کس علاقہ کی طرف ہجرت کی ؟ ج: حضرت ابراہیمؑ نے اپنے کنبے کے ساتھ دوبارہ کفان کے علاقہ کی طرف ہجرت کی جسے اب فلسطین کہتے ہیں اور جس میں یوروشلم وغیرہ بیہود کے مقدس مقامات ہیں.سن : - ہجرت کرنے کے بعد حضرت ابراہیم کی مالی حالت کیسی تھی ؟ ج : اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیوی ترقیات سے بھی نوازا تھا اور بڑے آرام کی زندگی معطا کی تھی جیساکہ " وأتيناه في الدنيا حسنة ط (سورة النحل) سے ثابت ہے اور بائیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یا وجود دوسرے ملک سے ہجرت کر کے آنے سے حضرت ابراہیم کی مالی حالت بہت اعلیٰ ہوگئی تھی اور حکومت بھی حاصل ہو گئی تھی.و پیدائش باب ۱۳ - آیت ۱۴ تا ۱۶ ) یا وجود د بنیادی نعماء اور ترقیات کے حضرت ابراہیم خدا تعالی کی طرف ہی متوجہ رہے.:- حضرت ابراہیم کیا کام کرتے تھے ؟

Page 116

١١٥ ج :.حضرت ابراہیم کھیتی باڑی کرتے تھے.آپ نے زراعت کے بعض عمدہ طریقے بھی ایجاد کیے تھے.س: اللہ تعالیٰ نے آپ کو ارض کنعان میں کیا کیا بشارتیں عطا کیں ؟ ج : حضرت ابراہیم سے خدا تعالیٰ کے بہت سے وعدے تھے.بائیل میں لکھا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ سے کہا تھا کہ :- اور میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور تجھ کو مبارک اور تیرا نام بڑا کروں گا اور تو ایک برکت ہوگا اور ان کو جو تجھے برکت دیتے ہیں برکت دوں گا اور اس کو جو تجھ پر لعنت کرتا ہے یعنی کروں گا اور دنیا کے سب گھرانے تجھ سے برکت پائیں گے پیدائش باب ۱۲، آیت ۲ ۲۳۰ اسی طرح لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا.کہ یہ تمام ملک جو تو اب دیکھتا ہے میں تجھ کو اور تیری نسل کو ہمیشہ کے لیے دوں گا : و پیدائش باب ۱۳ آیت ۱۵ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی دعا رب هب لي من الصالحين (الصافات) کو قبولیت کا شرف پہنایا اور حضرت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے ایک علیم بیٹے کی بشارت دی.فبشرناه بغلام حليمه (الصافات) اور حضرت باجرہ کے بطن سے ایک فرزند پیدا ہوا جس کا نام اسمعیل ایک فرزند ہوا رکھا گیا.اسی طرح حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کے متعلق بھی بشارات عطا کیں، جیساکہ سورۃ العنکبوت میں آتا ہے.

Page 117

114 وَوَهَبْنَالَة إِسحق وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبوة والكتب واتيْنَهُ آجُرَهُ فِي الدُّنْيَاء وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لمِنَ الصُّلِحِينَ.اور سورۃ الصافات میں حضرت اسحق کی بشارت اس طرح دی ہے.وَبَشَّيْتَهُ بِالْحَقِّ نَبِيًّا مِّنَ الصَّلِحِينَ.(۱۳) س: حضرت ابراہیم کی عمر کیا تھی جب حضرت اسماعیل پیدا ہوئے ؟ ج :- جب حضرت اسماعیل پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم کی عمر ۶ ۸ سال تھی.تورات میں مذکور ہے."جب ابرام کے لیے باجرہ سے اسماعیل پیدا ہوا تب ایسرام چھیاسی برس کا تھا " و تورات پیدائش باب ۱۶ - آیت ۷ - ۱۲) س: اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو کس طرح آزمایا ؟ ج-: - اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرا ہیم کو بعض باتوں کے ذریعے سے آزمایا اور حضرت ابراہیم نے ان کو پورا کر دکھایا.جیسا کہ ارشاد ربانی ہے.واد احلى ابر هم رَبُّهُ بِكَلِمَتِ فَاتَمَهُنَّ وسورة البقرة) اللہ تعالے نے آپ کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ذبح کر دیں.پھر خدا تعالیٰ نے انہیں یہ حکم دیا کہ وہ ہاجرہ اور اسماعیل کو ایک دادی غیر ذی زرع میں چھوڑ آئیں.حضرت ابراہیم کے بہت بڑے ابتلاؤں میں سے ایک بڑا ابتلا یہ تھا کہ اللہ تعالے نے ان کو ایسے زمانہ میں مبعوث کیا جب ان کو پالنے والا باپ موجود تھا اور اسے بتانا پڑا کہ تمہاری غلطی ہے اور کہنا پڑا کہ :-

Page 118

114 فاتبعنى اهْدِكَ صِرَاطَاً سوياً.یہ آج سے میں تمہا را روحانی باپ ہوں اور تم میری روحانی اولاد ہو.تفسير كبير سورة مريم ص ۲۷۶) اور حضرت ابراہیم ان امتحانات میں کامیاب ہو گئے اور اللہ تعالی نے اس کی اندونی نیکی، اس کی منفی روحانی طاقتیں اور قابلیتیں اور تقوی تمام دنیا پرظاہر کردیا حضرت ابراہیم کا حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ رینز کو بے آب و گیاہ دادی میں چھوڑ آنے کا واقعہ بتائیں ؟ ج-: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالی کی منشاء کے مطابق حضرت با جریان اور اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو جوانہ میں بڑھاپے میں نصیب ہوا تھا ایک وادی بغیر ذی زرع میں لا کر چھوڑ دیا.حضرت ابراہیم کا حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو مکہیں چھوڑنے کا واقعہ حدیث میں یوں آتا ہے.حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ :- پھر ابراہیم ان کو اور ان کے لڑکے اسماعیل کو لے آئے اور وہ ان کو دودھ پلا رہی تھیں یہاں تک کہ ان کو کعبہ کے پاس ایک درخت کے قریب زمزم کے پاس مسجد کی جگہ کے اوپر بٹھا دیا اور ان کے پاس چپڑے کا ایک تمھیلا رکھ دیا جس میں چھوہارے تھے اور ایک چھوٹی سی مشک رکھ دی.جس میں پانی تھا.پس جب ابراہیم واپس جانے لگے تو اسماعیل کی والدہ ان کے پیچھے دوڑیں اور کہا.اسے ابراہیم کہاں جاتے ہو ؟ اور ہمیں ایسے جنگل میں کہاں چھوڑے جاتے ہو.جہاں انسان نہیں اور نہ کوئی چیز ہے ؟ انہوں نے کئی مرتبہ یہی کیا.مگر ابراہیم نے ان کی طرف پھر کر نہ دیکھا.پھر اسماعیل کی والدہ نے ان سے پو چھا کہ کیا اللہ نے تم کو اس کا حکم دیا ہے ابراہیم نے کہا ہاں.اسماعیل کی والدہ نے کہا.تو اب وہ ہمیں ضائع نہ

Page 119

کرے گا بعد اس کے وہ لوٹ آئیں اور ابراہیم چلے گئے.تجرید بخاری صا ن:.وہ کو نسا مقام تھا جہاں حضرت ہاجرہ گھبرائی ہوئی پہنچی تھیں اور حضرت ابراہیم سے کہا تھا کہ نہیں کہاں چھوڑے جارہے ہو ؟ ج : " منی " وہ مقام ہے جہاں حضرت ہاجر کا گھبرائی ہوئی پہنچی تھیں مگر جب حضرت ابراہیم نے کہا کہ میں خدا کے حکم کے مطابق تمہیں یہاں چھوڑ کر جا رہا ہوں تو انہوں نے کہا.اذا لا يضيعنا کہ اگر یہ بات ہے تو اللہ تعالے ہمیں کبھی منائے نہیں کرے گا.:- وہ کونسا مقام ہے جہاں حضرت ابراہیم کو اس کی قربانی کے بدلہ میں بلند درجات عطا کرنے کا وعدہ دیا گیا.ج: " مزدلفہ وہ مقام ہے جہاں آپ سے خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا کہ اسے ابراہیم میں اس قربانی کے بدلہ میں تجھے بہت بلند درجات معطا کروں گا.:.وہ کون سا مقام ہے جہاں حضرت ابراہیم پر خدا تعالی کی تحمیلی ظاہر ہوئی ہے ج : - "عرفات" وہ مقام ہے جہاں حضرت ابراہیم.کہ خدا تعالی کی تحیلی ظاہر ہوئی.اور عرفات ساحل سمندر کی طرف ہے.حضرت ابراہیم اسی راستہ سے حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل کو چھوڑنے کے لیے شام سے تشریف لائے تھے.و تفسير سورة البقرص : - حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ کو دادی غیر ذی زرعے میں کیوں چھوڑ آئے تھے ؟ ج :- حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ کو خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے اس بھیانک وادی میں چھوڑ آئے تھے.آپ کا مقصد یہ تھا کہ خدا کا ذکر بلند ہو اور اس کی کھوئی ہوئی عظمت پھر سے دنیا میں قائم ہوتا ہے

Page 120

119 سن :.حضرت ابراہیم نے انہیں چھوڑ آنے کے بعد کیا دعائیں مانگیں ؟ ج : الہی منشاء کے مطابق جب حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کو اس جنگل میں لا بسایا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرتے ہوئے کہا کہ اسے اللہ میں نے اپنی اولاد کو تیری مقدس عبادت گاہ کی خدمت اور آبادی کے لیے چھوڑا ہے تاکہ تیرا ذکر بلند کریں.لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں.ان کی تبلیغ اور وعظ میں اثر ہو.وہ تیری عبادت قائم کرنے والے ہوں تو ان کی جسمانی درستی کا بھی خیال رکھے.باوجود اس کے کہ وہ جگہ ہے آب و گیاہ ہے تو ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ پھل پہنچا تا کہ لوگ جان لیں کہ خدا کی راہ میں قربانی کیے جانے والے اور قربانی کرنے والے کبھی ضائع نہیں کیے جاتے.تجرید بخاری صحابہ میں حضرت ابن عباس سے روایت آتی ہے کہ جب ابراہیم چلے گئے یہاں تک کہ جب تنیہ کے پاس پہنچے جہاں سے وہ لوگ ان کو نہ دیکھتے تھے تو انہوں نے اپنا منہ کعبہ کی طرف کیا اور ان الفاظ سے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے.رب اتى اسكنت من ذريتي بِوَادٍ غير ذى ذرع عِندَ بِيكَ المُحرم...قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کی ان دعاؤں کا ذکر ہے ربنا إلى اسكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ المُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ فَا جَعَلَ أَفْئِدَةٌ مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقَهُمْ مِنَ الثَّمَوتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ربِّ اجْعَلْنِي مُقِيمُ الصَّلوة وَمِنْ در متى لى رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءه

Page 121

ا : حضرت ابراہیم نے مکہ والوں کے لیے صرف وارزقهم من الثمرات کیوں کہا؟ ج : در حقیقت حضرت ابراہیم نے مکہ والوں کے لیے پھلوں کی دعا کر کے انتہا درجہ کی فراوانی کی دعا کر دی ہے.کیونکہ مکہ میں ثمرات کا مہیا ہوتا ناممکن تھا.کیونکہ ملکہ ایک ایسی بے آب وگیاہ وادی تھی جس میں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی تھی.پس آپ نے تازہ تازہ میرے مانگے اور جب میسو سے آجائیں گے تو اور چینوبیں خود بخود وہاں پہنچ جائیں گی.آپ نے دعا کی کہ خدایا ان کو ثمرات سے محروم نہ کیجیو ، ایسی نازک اشیاء بھی پہنچ جائیں جن سے دنیا پر یہ محبت قائم ہو سکے کہ خدا نے اپنی خاطر قربانی کرنے والوں کے لیے جنگل میں منگل کر دیا ہے.آج بھی اس ایرا سیمی دعا کی برکت سے مکہ والوں کو تازہ بتازہ پھل میسر آ رہے ہیں.: حج کی عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کرتا ہے ؟ ج :- " حج اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کر تا ہے جو حضرت ابراہیم نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو بیت اللہ کے قریب ایک وادی غیر ذی زرع میں انتہائی بے سرو سامانی کی حالت میں چھوڑ کر سر انجام دی تھی.جہاں نہ پانی تھا ۹۳ اور نہ کھانے کا سامان.حج ایک عظیم انسان عیادت ہے اور علی اس بات کا اعلان ہے کہ ہم خد اتعالیٰ کی کی خوشنودی کی خاطر دیوانہ وار اس کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کر نے کے لیے تیار ہیں اور انسان کی آنکھوں کے سامنے یہ نقشہ آجاتا ہے کہ خدا کی خاطر قربانی کرنے والے بچائے جاتے ہیں اور دائمی زندگی اور غیر معمولی انعامات کے وارث کئے جاتے ہیں.حضرت ابراہیم نے مکہ کے لیے کیا دعا مانگی ؟ س:

Page 122

۱۲۱ ج :- آپ نے خدا تعالی سے یہ دعا کی کہ اس شہر نگر کو امن کی جگہ بنا ، اور میری اولاد کو شرک سے دور رکھیں.(5) وَإِذْ قَالَ إِبْراهِيمُ رَبِّ اجْعَلُ هَذَا الْبَلَدَا مِنًا وَلِجُنبي وبى ان تعبدِ الْأَصْنَامَ آپ نے یہ دعا اس وقت مانگی تھی کہ جب مکہ مکرمہ کوئی شہر نہ تھا صرف چند جھونپڑیاں تھیں.اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم اس امر کا علم رکھتے تھے کہ مکہ کے علاقے میں مشرک پھیلنے والا ہے تبھی انہوں نے دعا کی.ورنہ میں وقت حضرت ابراہیم نے دعا کی مکہ میں شرک کا نام و نشان تک نہ تھا صرف اسماعیل کا گھر آباد تھا یا وہ لوگ بستے تھے جو ان کے تابع تھے.؟ کیا حضرت اسماعیل کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آتا ایک ظالمانہ اور وحیات فعل تھا ؟ ج :- جی نہیں حضرت اسماعیل کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آتا ایک ظالمانہ اور و حیا نہ فعل نہ تھا بلکہ یہ ایک پر مغز اور باطنی قربانی تھی جس سے آج بھی دنیا فائدہ اٹھارہی ہے اور آج بھی حضرت اسماعیل کے ذریعے اس وادی میں خدائے واحد کا نام بلند کیا جارہا ہے اور آج بھی وہاں بیک الله یک کہہ کر حضرت ابراہیم کی طرح توحید کو پھیلانے کے لیے حاضر ہونے کا اعلان کیا جا رہا ہے کیا حضرت ابراہیم حضرت با جرگہ اور حضرت اسماعیل کو بے آب و گیاہ مینگل میں چھوڑ آنے کے بعد بھی ان کی خبر گیری کرتے رہے ؟ ج :- حضرت ابراہیم اگر چہ فلسطین میں مقیم تھے.مگر برا بر مکہ کی بے آب و گیاہ وادی ہیں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو دیکھنے آتے رہتے تھے.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم جب اپنے چھوڑے ہوؤں کو دیکھنے آئے تو انہیں اسماعیل

Page 123

۱۲۲ نہ ملے تو آپ نے ان کی بی بی سے ان کا حال پوچھا.جنہوں نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق تلاش کرنے گئے ہیں.پھر ابراہیم نے ان سے اسماعیل کی بسر اوقات اور حالت کی بابت پوچھا تو انہوں نے کہا.ہم بہت بری حالت میں ہیں.یعنی بہت تنگی اور تکلیف حضرت ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو انہیں سلام کہنا اور ان سے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو بدل دیں.) تجرید بخاری - ص ۶۲۱ س حضرت ابراہیم کا یہ کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو بدل دیں سے کیا مرا تھی ؟ ج: حضرت ابراہیم کا حضرت اسماعیل کے نام یہ پیغام د کہ دروازے کی چوکھٹ بدل دیں) سے مراد یہ تھی کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور اس سے جدا ہو جاؤ 9< تب حضرت اسماعیل نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور ایک دوسری عورت کے ساتھ نکاح کر لیا.حضرت ابراہیم جب دوبارہ حضرت اسماعیل کو ملنے آئے تو آپ نے ان کی ہوئی سے کیا حالات پوچھے اور کیا پیغام دیا ؟ ج :- تھوڑے توقف کے بعد جب حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل کو ملنے آئے ملنے اور ان کو نہ پایا تو ان کی بی بی سے حال پوچھا اور کہا کہ تم لوگ کس طرح ہو.بی بی نے کہا کہ ہم اچھی حالت اور وسعت میں ہیں اور اللہ کی تعریف کی حضرت ابراہیم نے پوچھا تمہاری غذا کیا ہے ؟ اسماعیل کی بی بی نے کہا گوشت حضرت ابراہیم نے پوچھا پینتی کیا ہو، کہا، پانی.اس پر حضرت ابراہیم نے دعا دی.اللهم بارك لهم في اللحم والماء :.کہ اے اللہ ان کے لیے گوشت اور پانی میں برکت دے ؟ پھر حضرت ابراہیم نے انہیں کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو انہیں میرا سلام دنیا اور کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ قائم رکھیں.حضرت ابراہیم نے خواب میں کیا دیکھا تھا ؟

Page 124

۱۲۳ ج:.حضرت ابراہیم نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ اپنے جگر گو نے حضرت اسماعیل کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں.حضرت اسماعیل نے رڈیاس کمر کیا جواب دیا تھا ؟ ج:- فرمانبردار بیٹے نے جانثاری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ اسے میرے باپ ! جو کچھ تجھے خدا کہتا ہے وہی کرہ تو انشاء اللہ مجھے ایمان پر قائم رہنے والا دیکھے گا.میں خوشی سے خدا کی راہ میں قربان ہونے کو تیار ہوں.من :.باپ اور بیٹے کی فرمانبرداری دیکھ کہ خدا تعالیٰ نے کیا فرمایا ؟ ج : جب باپ اور بیٹا دونوں ثابت قدمی اور بلند حوصلگی کے ساتھ فرمانبرداری پر آمادہ ہو گئے.اور باپ نے بیٹے کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے ماتھے کے بل گرالیا تو اللہ تعالی نے پکار کر کہا کہ اسے ابراہیم ا تو اپنی رویا پوری کر چکا.ہم اسمی طرح محسنوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں.یہ یقینا ایک کھلی کھلی آزمائش تھی اور ہم نے اس کا فدیہ ایک بڑی قربانی کے ذریعہ سے دے دیا.اور بعد میں آنے والی قوموں میں اس کا نیک ذکر باقی رکھا.ابراہیم پر سلامتی نازل ہوتی رہے.وہ یقینا ہمارے مومن بندوں میں سے تھا.سورۃ الصافات میں اس واقعہ کا ذکر آتا ہے...فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعَى قَالَ يُبنى إلى أرى في المَنَامِ الى اذُحِكَ فَانظُرُ مَا ذَا تَرَى قَالَ يابَتِ افْعَلُ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُ فِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصَّبِرِينَ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَقَلَّهُ لِلْجَبينِ 8 وَنَادَيْنَة إِن تَابُوهِيمُل قَدْ صَدَّقْتَ ONLNALOGUE إِنَّا كَذَلِكَ نَجْوَى الْمُحْسِنِينَ ٥ ترجمہ :.پھر جب وہ لڑکا اس کے ساتھ تیز چلنے کے قابل ہو گیا تو اس نے کہا.اسے میرے بیٹے میں نے تجھے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر

Page 125

IPM رہا ہوں.پس تو فیصلہ کر کہ اس میں تیری کیا رائے ہے.کہا ، اسے میرے باپ جو کچھ تجھے خدا کہتا ہے وہی کہ توانشا اللہ مجھے اپنے ایمان پر قائم رہنے والا دیکھے گا.پھر جب وہ دونوں فرمانبرداری پیسا مادہ ہو گئے اور اس نے اسے پیشانی کے بل گرا لیا اور ہم نے اس کو پکار کر کہا.اسے ابراہیم تو اپنی رویا پورا کر چکا.ہم اسی طرح محسنوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں.س: حضرت ابراہیم کا یہ واقعہ اسلام میں کس نام سے مشہور ہے ؟.ج :- اسلام میں حضرت ابراہیم کا یہ واقعہ سنت ابراہیمی کے نام سے مشہور ہے.س:.یہ واقعہ کہاں پیش آیا تھا ؟ ج :.یہ واقعہ شام کے علاقے میں پیش آیا تھا.( تفسير سورة البقرة من ۳۵ ) !.اس خواب کے اصل معنی کیا تھے ؟ ج :.اس خواب کے اصل معنی یہ تھے کہ حضرت اسماعیلی کو ایک بے آب و گیاہ دادی میں چھوڑ آؤ.خدا تعالیٰ نے الہام کیا کہ ظاہری قتل کے مقابلہ میں جنگل میں رہ کر ہر وقت کی موت قبول کرنا بہتر فدیہ ہے.تم اور تمہارا بیٹا اس قدیر کو قبول کر و تو خدا کے مقرب ہو جاؤ گے اور سمجھ لیا جائے گا کہ تم نے اپنے بیٹے کو ذبح کر دیا ہے اور تمہارے بیٹے نے اپنی خوشی سے ذبح ہونا منظور کر لیا ہے.د تغیر صغیر م عیدالاضحیہ کے موقع پر ہم کس کی قربانی کو یاد کرتے ہیں ؟ ج: عید الاضحیہ کے موقع پر ہم حضرت ابراہیم کی قربانی کو یاد کرتے ہیں خدا تعالے نے حضرت ابراہیم کی قربانی کو قبول کرتے ہوئے اس کی یاد کے لیے ایک خاص دن مقرر فرمایا اور عام دنیا کے لیے اس کو نمونہ بنا دیا.بائیل میں یہ واقعہ کس طرح بیان ہوا ہے ؟.ج:.بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے

Page 126

۱۲۵ لگے تو انہیں آواز آئی کہ اسے ابراہیم ! تو اپنا ہا تھ لڑکے پر نہ چلا اور نہ اس سے کچھ کر کیوں کہ میں اب جان گیا ہوں کہ تو خدا سے ڈرتا ہے اور پھر انہوں نے پیچھے نگاہ کی تو ایک مینڈھا دیکھا جسے انہوں نے اسما عیل کی جگہ ذبح کیا.( پیدائش باب ۲۲) س اس امتحان میں پورا اترنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو کیسا بشارت دی ؟ ج: حضرت ابراہیم کے حضرت اسماعیل کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آنے کے بعد جو ایک قسم کی موت تھی اور میں امتحان میں حضرت ابراہیم پورے اترے تھے.اللہ تعالے نے آپ کو " حضرت اسحق کے پیدا ہونے اور پھر اس کا 1.6 نبی ہونے کی بشارت دی.وبشرته بإسحق نَبِيَّا مِّنَ الصَّالِحِينَ.ترجمہ :.اور ہم نے اس کو اسحق کی بشارت دی کہ وہ نبی ہوگا اور نیک کاروں میں سے ہوگا..اس وقت حضرت ابراہیم کے تابع کون سے نبی تھے ؟ ج:.حضرت ابراہیم کے تابع ان کے بھتیجے حضرت لوط نبی تھے، جو آپ کے ساتھ ہجرت کر کے شام کے ملک میں آئے تھے اور بعد ازاں سردم بستی میں سکونت اختیار کرتی تھی.اس وقت نبوت براہ راست ملا کرتی تھی نہ کہ نبی متبوع کے فیض ہے.! حضرت لوط کی قوم کے متعلق تیا ہی کی خبر دینے والے فرستادوں نے حضرت ابراہیمؑ کو کیا بشارت دی ؟ ج: خدائی منشاء کے مطابق فرستادوں نے حضرت لوط کی قوم کی تباہی کی تکلیف وہ خبر دینے سے پہلے حضرت اسحق اور حضرت یعقوب کی ولادت کی خوشخبری

Page 127

IPY دی اور ایک نیک نسل کی ابتداء کی خبر دے کہ صد مرکو کم کر دیا.حضرت ابراہیم کو یہ بشارت بلا واسطہ کیوں نہ دی.ج : اللہ تعالی کی یہ سنت ہے کہ المومن يرى دیدی له ، کبھی مومن کو براہ راست خبر دی جاتی ہے اور کبھی دوسروں کی معرفت، چونکہ ان فرستادوں کو کسی خاص غرض کے ماتحت حضرت لوط کے پاس جانے کا حکم ملا تھا اور یہ خبرا نہوں نے حضرت ابراہیم کو بھی پہنچاتی تھی.اس لیے حضرت ابراہیم کے انج کو دور کرنے کے لیے یہ بشارت بھی انہی کی معرفت بھیجی گئی.( تفسير سورة صور م۲۲ ) : حضرت ابراہیم نے ان فرستادوں کی مہمان نوازی کسی طرح کی ؟ ج :.جب دہ فرستاد سے حضرت ابراہیم کے پاس خوشخبری لائے اور کہا کہ تمہارے لیے بھی ہمیشہ سلامتی ہو، پھر آپ نے کچھ بھی دیر نہ لگائی کہ ایک بھنے ہوئے بچھڑے کو لے آئے اور جب آپ نے دیکھا کہ وہ کھانا نہیں کھاتے تو آپ کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ شاید کوئی بات مہمان نوازی کے خلاف ہو گئی ہے.سورہ حور میں اس واقعہ کا ذکر آیا ہے.ولقد جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا سلما ط قَالَ سَلامُ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجُلِ حَنِيْدٍ فَلَمَّا رَا أَيْدِيَهُمُ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكَرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَادُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أَرْسِلُنَا إلى قَوْمِ لوط : - حضرت ابراہیم کی بیوی کو بشارت دیئے جانے کا باعث کیا بات بنی ہے ج :- حضرت ابراہیم کی بیوی پاس ہی کھڑی تھی وہ لوط قوم کے متعلق عذاب کی خیر سُن کر گھبرائیں.ان کے دل میں ایک قوم کی تباہی پر دل میں درد پیدا ہوا.اللہ

Page 128

۱۳۷ ۱۱۲ تعالٰی کو ان کی یہ بات پسند آئی اور حضرت اسحق کی پیدائش کی خبر بھی دے دی جس کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ ان کے دل میں بنی نوع انسان کے لیے رحم کا جذبہ پیدا ہوا.اور خدا تعالیٰ کا رحم تو اس قدر وسیع ہے کہ وہ عذاب میں گرفتار ہونے والوں سے سچی ہمدردی کو بھی قدر کی نگاہوں سے دیکھتا ہے.تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ایک ترقی کرنے والی نسل کی بشارت دی گئی.ان خوشخبریوں کو سن کر حضرت ابراہیم کی بیوی نے کیا کہا ؟ ج: حضرت ابراہیم کی بیوی حضرت سارہ نے اس نعمت عظمیٰ کی عظمت پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہائے میری رسوائی کیا، میں بچہ جنوں گی.حالانکہ میں بوڑھی ہو چکی ہوں اور یہ میرا خاوند بڑھاپے کی حالت میں ہے.قالت يويلنى و الدُوَانَا عَجُورٌ وَ هُذَ العُلى شَيْئًا إِنَّ هَذَا لَشَيء عجيب.ر سورة صور ) C ا فرستادوں نے اس گھرانہ کے متعلق کیا کہا ؟ ج : فرستادوں نے حضرت ابراہیم کی بیوی کی بات سن کر کہا کہ تم اللہ تعالی کی بات پر تعجب کرتی ہو اسے اس گھر والو تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی ہر قسم کی برکات نازل ہو رہی ہیں.سورہ صور میں آتا ہے.عليكم أهل الْبَيْتِ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ O حضرت ابراہیم نے گھبراہٹ دور ہونے کے بعد کیا گیا ؟ ج:.جب حضرت ابراہیم کا خون کم ہوا اور آپ کو یہ خوشخبری مل گئی کہ آپ کو ایک بہتر قوم مل جائے گی تو محبت الہی کے اس

Page 129

۱۲۸ نظارہ کو دیکھ کر آپ نے خدا تعالٰی سے لوٹھ کی قوم کو عذاب سے بچائے جانے کی درخواست شروع کر دی حضرت ابراہیم ایک درد مند دل رکھنے والے تھے اور خدا کے حضور بار بار جھکنے والے تھے.داس کی تفصیل حضرت لوط کے واقعات میں در رچا ہے ؟ فَلمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْري يُجَادِ لنا في قَومِ لُوطٍ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَعَلِيمُ من اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کیا کیا ؟...اللہ تعالے نے کہا.- و : يَا بْرَاهِيمُ أَعْرِضُ عَنْ هَذَا هُ إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ ربك وانهُمُ انِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرُدُورٍ.(سوره صور ) ترجمہ :.اسے ابراہیم ، تو اس دعا سے اپنا رخ پھیرے.اب تو تیرے رب کا حکم یقینا آچکا ہے اور ان کی یقینا یہ حالت ہے کہ ان پر ہٹایا جا سکتے والا عذاب آرہا ہے ، سن.جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کوخانہ کعبہ کی تعیر کاحکم دیا تو حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل" سے کیا کہا ؟ ج :- جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو خانہ کعبہ کی عمر کا حکم دیا تو آپ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کے پاس آئے حدیث میں آتا ہے کہ اس وقت حضرت اسماعیل زمزم کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے اپنے تیر بنا رہے تھے پس جب اسماعیل نے ابراہیم کو دیکھا تو کھڑے ہو گئے اور دونوں نے وہ بات کی جو باپ بیٹے کے ساتھ اور بیٹا باپ کے ساتھ کیا کرتا ہے.پھر ابراہیم نے کہا.اسے اسماعیل اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے.اسماعیل نے کہا کہ جو کچھ تمہارے پروردگار نے حکم

Page 130

١٣٩ دیا ہے وہ تم کرو.ابراہیم نے کہا تم میری مدد کرو گے ؟ اسماعیل نے کہا ، ہاں میں تمہاری مدد کروں گا.ابراہیم نے کہا تو اللہ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں یہاں ایک گھر بناؤں اور انہوں نے ایک اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے گرداگرد تجرید بخاری ص ۶۲۲ ، ص ۶۲۳) : - حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل نے کعبہ کی دیواریں بناتے وقت کیسے کام کیا ؟ ج : حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت اسماعیل پتھر لانے لگے اور حضرت ابراہیم بنانے لگے.یہاں تک کہ جب دیوار اونچی ہوگئی تو اسماعیل ایک پتھر کو لے آئے اور اسے ان کے لیے رکھ دیا.نیسں ابراہیم و اس پر کھڑے ہو کر بنانے لگے اور اسماعیل “ انہیں پتھر اٹھا اٹھا کر دیتے جاتے تھے اور دونوں یہ کہتے جاتے تھے.تبنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ تجرد بخاری ص ۶۲) کعبہ کی عمارت بناتے وقت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے کتنی دعائیں مانگی نہیں ؟ ج :.جب خانہ کعبہ کی بنیاد ڈالی جارہی تھی تو حضرت ابراہیم نے سات دعائیں کی تھیں.باپ اور بیٹا مل کر دعا کرتے تھے.ا رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمِينَ لَكَ ترجمہ : الہی ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے - وَمِنْ نُدِيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لكَ ترجمہ : اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک فرمانبردار جماعت بنا.وَارِنَا مَنَا سِكَنَا ترجمہ : ہمیں ہماری عبادت کے طریقے سکھا.- وَتُبْ عَلَيْنَا سے ترجمہ: اللہ ہم پر فضل سے متوجہ ہو.

Page 131

119 ايتك ا بْعَثُ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ تر مجید :.اے ہمارے رب ان میں ایک عظیم الشان رسول مبعوث کر جو انہی میں سے ہو جو تیری آیات پڑھے.ويُعَلِّمُهُمُ الكتب والحكمة ترجمہ :.اور انہیں کتاب اور حکمت سکھائے ويزكيهم ترجمہ :.اور انہیں پاک ٹھہرائے.اس واسطے مومن سات دفعہ وہاں طوائف کرتا ہے اور یہ دعائیں کرتا ہے اور اس مقام کو ڈھونڈتا ہے جہاں یہ دعائیں قبول ہوئیں.د درس القرآن ص فرموده حضرت خلیفہ اول ، حضرت ابراہیم نے کس نیت سے مکہ کی بنیا د رکھی تھی ؟ ج : - حضرت ابراہیم نے اس نیت سے مکہ کی بنیاد رکھی تھی کہ یہ توحید اور دین حق کی تبلیغ و اشاعت کا مرکز بنے اور امن عالم کے قیام کا ایک زبر دست ذریعہ قرار پائے.خدا تعالے کے گھر کی تجدید کس نے کی؟ ج : - تمام آزمائشوں پر پورا اترنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے بہت اللہ کی از سر نو تعمیر کی اور اس کی بنیادوں کو بلند کیا.جیسا کہ سورۃ البقرۃ میں آتا ہے.وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ( سوره البقره آیت ۱۴۸) ترجمہ :.اور داس وقت کو بھی یاد کرو) جب ابراہیم اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہا تھا اور اس کے ساتھ، اسماعیل بھی اور وہ دونوں کہتے جاتے تھے کہ

Page 132

ے ہمارے رب ! ہماری طرف سے اس خدمت کو قبول فرما، تو وہی ہے جو بہت ملنے والا اور جاننے والا ہے " تھا تعالی کے گھر کی دیواریں بلند کرتے ہوئے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے کیا دعائیں مانگیں ؟ ج : انبیاء کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ خدا تعالی سے دعائیں بھی کرتے جاتے ہیں.حضرت ابراہیم اور اسماعیل نے خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی کہ اسے ہمارے رب! ہم نے تیری خالص تو سید اور محبت کے لیے یہ گھر تعمیر کیا ہے تو اسے اپنے فضل سے قبول کرہ اور اس کو ہمیشہ ہمیش کے لیے اپنے ذکر کی جگہ بنادے، اسے ہمارے رب! تو ہمیں نیک بنا اور پھر ہماری اولاد میں سے ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود - رہے جو تیل فرمانبردار ہو اور ہمیں ہمارے مناسب حال عبادت کے طریق بھی بتا.ہمارے گناہوں سے دور گنہ رکھتا رہ.تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْن لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لكَ وَارِنَا مَنَا سَكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ.دسورة البقره آیت نمبر ۱۲۹) حضرت ابراہیم کی بعثت کیونکہ تمام دنیا کی طرف نہ تھی اس لیے آپ نے خانہ عیہ کی دیواریں بلند کرتے ہوئے یہ عظیم الشان دعا بھی مانگی کہ انہی آئندہ دنیا میں ایک عظیم الشان رسول کھڑا کیجئے اور وہ رسول میری اولاد میں سے ہوا اور ساری مخلوق اس کے فیض سے مستفیض ہو سکے اور وہ دعا یہ ہے.ربَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ابْتِكَ وَيُعَلّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ، إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الحكيم (سورة البقره آیت ۱۱۳)

Page 133

IPF س اس دعا میں حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ایک رسول کے مبعوث کیے جانے کی دعا کیوں مانگی ؟ ج : - حضرت ابراہیم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ علم دیا جا چکا تھا کہ ان کی اولاد میں سے خدا تعالی بہت سے رسول مبعوث کرے گا.لیکن آپ پر یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ آخری رسول جو دنیا کا نجات دہندہ ہو گا جو خاتم النبیین ہوگا وہ بتو اسماعیل میں سے ہو گا جس کی کتاب پر تمام شریعتوں کا اختتام ہو گا.۱۲۳ دعائے ابراہیٹی کا مصداق کون ہیں ؟ دعائے ابراہیمی کے مصداق حضرت محمد مصطفے اصلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے تمام دنیا کی اصلاح کے لیے کھڑا کیا ہے.خود حضرت فخر المرسلین محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے باپ حضرت ابراہیم کی دعاؤں کا ثمر ہوں دو "أنا دَعْوَةُ أن إبراهيم دجامع البیان جلد اول ص ۴۳۵ دعائے ابراہیمی رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً منه....کا جواب کونسی سورۃ ہے ؟ ج-: دعائے ابراہیمی کا جواب سورۃ الکوثر" ہے.۱۲۵ ( تفسير سورة البقرص ) س دعائے ابراہیمی میں انبیاء کے کیا فرائض اور ذمہ داریاں بنائی گئی ہیں ؟ ج :- ہر نبی جو دنیا میں آیا اس کے یہی فرائض تھے کہ وہ ا تلاوت آیات کرتا.- کتاب اللہ کی تعلیم دیتا.۳.احکام کی حکمتیں بتانا اور ۴.تزکیہ نفس کرنا.یہی چار مقاصد خلافت اسلامی کے فرائض سے بھی تعلق رکھتے ہیں.! حضرت ابراہیم کو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے کلام کی کیا کیفیت بتائی گئی تھی ؟

Page 134

ج :- حضرت ابراہیم کو حضرت خاتم النبین محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے کلام کی کیفیت یوں بتا دی گئی کہ وہ کلام اکٹھا نہیں اترے گا بلکہ آہستہ آہستہ اور ٹکڑے ہو کر اترے گا.آپ کو يَتْلُو عَلَيْمو ایت کے الفاظ میں قرآن کریم کے نزول کی کیفیت سمجھا دی گئی تھی..خداتعالی کے اس گھر کی عمارت جس کی دیواریں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے بلند کی تھیں، کیسی تھی ؟ ج-: خدا تعالیٰ کا یہ گھر صرف پیار دیواروں کا خالی احاطہ تھا مقابل کی دور یواریں ۳۱ اور ۳۲ گزلی اور دوسری رو دیواریں ۲۲ اور ۲۳ گزر نبی تھیں ، اس پر چھت نہ تھی.ایک طرف اندر آنے بھانے کا کھلا راستہ تھا.جس پر کوئی کواڑ یا چوکھٹ ۱۳۸ وغیرہ نہ تھی.خانہ خدا کے قرآن مجید میں اور کیا نام بیان ہوتے ہیں ؟ ج : 1- البيت ٢ - البيت العتيق تقدیم ترین گھر ، وإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمناء (سورة البقرة اور وَلْيَطوفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ (الج آیت ٣٠) یعنی لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس قدیم ترین گھر کا طواف کریں.دنیا میں پہلی عیادت گاہ کونسی ہے ؟ ج : دنیا میں پہلی عبادت گاہ " بیت اللہ ہے معینی خانہ کعبہ ہے.جس کی ابتدا یسے زمانہ سے والبتہ ہے جیس کا علم صرف خدا تعالیٰ کو ہے.حضرت ابراہیم کے آنے سے پہلے بیت اللہ کے نشانات موجود تھے.جیسا کہ احادیث سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے.جب حضرت ابراہیم نے خدا تعالیٰ کے اذن کے مطابق حضرت ہاجرہ اور

Page 135

۱۳ حضرت اسماعیل کو دادی غیر ذی زرع میں چھوڑ دیا اور وہ ان کی نظروں سے اد جھل ہو گئے تو آپ نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کیا اور ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگی.رَبَّنَا ان اسكنتُ مِن ذُرِّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ المُحَرَّمِ پھر قرآن مجید کے یہ الفاظ ان أول بَيْتِ وَضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكة مُبَارَ كَاوَ هُدًى بتعالينَ ( صورة آل عمران آیت ) یقینا سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے فائدہ کے لیے بنایا گیا و جو مکہ میں ہے.مکہ کا اصل نام کیا ہے اور اس کے معانی کیا ہیں ؟ ج مکہ کا اصل نام بگہ ہے.اور اس کے معانی اثر د معام.یعنی بہت زیادہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے ذریعہ بیت اللہ کے متعلق کیا اعلان کروایا ؟ ج: اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کو ایک نقطہ مرکزی پر جمع کرنے کے لیے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی اور پھر حضرت ابراہیم کے ذریعے اس عمارت کی تجدید کی اور دنیا کے سامنے پہلی دفعہ یہ اعلان کروایا کہ یہ خدا کا پاک گھر اس لیے بنایا گیا ہے کہ یہاں لوگ آئیں ، اس مقدس گھر کا طواف کریں، اس میں عبادات بجالائیں.ذکر اہی کریں اور دین کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کر دیں.اور فرمایا لهرابيتِي لِلطَّالِقِينَ وَالْعَلِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ مقام ابراہیم کونسی جگہ ہے ؟ د سورۃ البقرہ آیت ۱۲۶) ج: - مقام ابراہیم مقام کعبہ کے پاس ایک خاص جگہ ہے جہاں طواف بیت اللہ

Page 136

۱۳۵ کے بعد مسلمانوں کو دوستیں پڑھنے کا حکم ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے تعمیر کعبہ کے بعد اس جگہ شکرانہ کے طور پر نماز پڑھی تھی اور اس گفت کو جاری رکھنے کے لیے وہاں دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے.س : اللہ تعالی کے اس ارشاد" واتخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى کہ تم مقام ابراہیم کو عبادت گاہ بناؤ ، میں کسی امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ؟ ج:- اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مسلمانوں کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کروائی گئی ہے کہ عبادت اور فرمانبرداری کے جس مقام پر حضرت ابراہیم مکھر سے تھے تم بھی اپنے آپ کو اسی مقام پر کھڑا کرنے کی کوشش کر در حضرت ابراہیم کا اصل مقام وہ متقام اخلاص اور مقام تقویٰ تھا جس پر کھڑے ہو کر انہوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا.حضرت ابراہیم نے جس اخلاق ، جس محبت اور جس تقویٰ اور جس انابت الی اللہ سے نیکیوں میں حصہ لیا تھا تم بھی اسی مقام پر کھڑے ہو کہ نیکیوں میں حصہ اور تم بھی اسی طرح اللہ سے محبت کرو اور اسی رنگ میں دین کے لیے قربانیاں بجا لاؤ جس رنگ میں حضرت ابراہیم نے اللہ تعالی کے لیے قربانیاں کی تھیں تا کہ تمہیں بھی متقام ابراہیمی حاصل ہو جائے.ا تغير كبير بقره ص۱۶) نیز اس خدائی ارشاد سے دنیا کے تمام مقامات اور شہروں میں ایسے تبلیغی مراکز قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو خانہ کعبہ کی ظلیت میں اشاعت اسلام کے مراکز ہوں اور جہاں بیٹھ کر عبادت الہی کو قائم کیا جائے اور توحید کی اشاعت کی جائے.و تغير كبير سورة بقره مت)

Page 137

بیت اللہ کو قبلہ مقرر کرنے سے کسی نبی کی پیش گوئی کی عظمت ظہور میں آئی ہے ج: - بیت اللہ کو قبلہ مقرر کرنے سے حضرت ابراہیم کی پیش گوئی کی عظمت دنیا پر ظاہر ہو گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ شان کے خلاف تھا کہ دعائے ابراہیمی کے مصداق ۱۲۵ حضرت محمد مصطفے اصلی اللہ علیہ وسلم پر تو دنیا ایمان لے آتی اور خانہ خدا کے ساتھ اس کا پختہ تعلق قائم نہ ہوتا.پس اس نے حضرت ابراہیم کی پیش گوئی کی عظمت کے ظہور کے لیے بیت اللہ کو قبلہ مقرر کر کے تمام بنی نوع انسان کا اپنے گھر سے ایک دائمی مضبوط تعلق پیدا کر دیا اور سچے مومنوں کی روحانی عظمت ظاہر کر دی..حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو کیا نصیحت فرمائی تھی ؟ ج: حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ تم اپنی خیر خواہی صرف اپنی ذات یا اپنی قوم تک محدود نہ رکھنا بلکہ اسے وسیع کرتے چلے جانا اور ساری دنیا کو اس میں شامل کرنا.اپنے آپ کو صفت رب العالمین کا مظہر بنانا اور ساری دنیا کی بہتری کو مد نظر رکھتے ہوئے خدا کی اطاعت میں اپنی زندگی بسر کرنا اور جب تم پر موت آئے تو تمہارا اپنے رب سے سینچا اور مخلصانہ تعلق قائم ہو چکا ہو.سورة البقره آیت نمبر ۱۳۳ میں اس وصیت کا ذکر آتا ہے.وَوَصّى بِهَا إِبْرهِم بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يُبَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصطفى لَكُمُ الدِّينَ فَلا تَمُوتُنَّ إِلَّا أَنتُم مُّسْلِمُونَ ٥.حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل اور حضرت اسحق" پر کن کلمات کو پڑھ کر پھونکا کرتے تھے ؟ ج: حدیث میں آتا ہے حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن اور حضرت حسین مہر یہ کلمات پڑھ کر پھونکا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمہارے باپ ابراہیم انہی کلمات سے اسماعیل اور اسحق کے لیے پناہ مانگا

Page 138

IFC کرتے تھے.أعُوذُ بكلماتِ اللهِ التَّامَّةِ مِن كُلِّ شيطنٍ وَ هامة ومن كل عين لامة التجريد بخاری ) ترجمہ ایسے اللہ میں تیری صفات کا ملہ کے ذریعہ ہر شیطان اور ہر غیر دینے والے سے اور ہر طاعت کرنے والی شرانگیز آنکھ سے پناہ مانگتا ہوں.تجرید بخاری ص۱۳۵ ).حضرت ابراہیم کا اللہ تعالی سے یہ کہنا " تي اس بي كيف تحى السوقى " " اے میرے رب! مجھے بتا کہ تو مردے کس طرح زندہ کرتا ہے یا کسی وجہ سے تھا ؟ ج:.حضرت ابراہیم کو اس بات پر کامل ایمان تھا کہ اللہ تعالیٰ احیاء موتی کر سکتا ہے مگر آپ اپنی قوم کے متعلق یہ تسلی کرنا چاہتے تھے کہ اس پر انہی فضل نازل ہوگا اور وہ بھی زندہ قوم بن جائے گی.حضرت ابراہیم کو حقائق اشیاء کی حتیجوا در طلب کا طبعی ذوق تھا.آپ حق الیقین حاصل کرنے کے لیے خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو اطمینان قلب کے لیے کیا جواب دیا ؟ ج : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے فرمایا ! تو چار ہندسے لے اور ان کو اپنے ساتھ سدھائے.پھر ہر پہاڑ پر ان میں سے ایک ایک حصہ رکھ دے پھر انہیں بلا.وہ تیری طرف تیزی کے ساتھ چلے آئیں گے اور جان سے کہ اللہ تعالی بڑا غالب اور حکمت والا ہے.سورۃ البقرۃ آیت ۲۶۱ میں اس کا ذکر آتا ہے.وَ إِذْ قَالَ ابْرُهم رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْي الموتى ، قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنُ ، قَالَ بَلى ولكن ليطمن قلبى قَالَ فَخُذُ ارْبَعَةٌ مِّنَ الطَّيْرِ نَصُرُهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا

Page 139

۱۳۸ ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَا بَيْنَكَ سَعْيَاءَ وَأَعْلَوَانَ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيوه س.حضرت ابراہیم کے اس سوال اور اللہ تعالے کے اس کلام سے کیا مراد بھی ؟ ج: - حقیقت یہ ہے کہ یہ ظاہری کلام نہیں بلکہ مجازی کلام ہے.حضرت ابراہیم نے اللہ سے یہ دعا کی کہ الہی ! احیاء موتی کا کام جو تو نے میرے سپرد کیا ہے اسے پورا کر کے دیکھنا اور مجھے بنا کہ میری قوم میں زندگی کی روح کس طرح پیدا ہوگی.جب کہ میں بڑھا ہوں اور کام بہت اہم ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہم نے وعدہ کیا ہے تو یہ کام ہو کہ رہے گا.حضرت ابراہیم نے عرض کیا کہ ہو کہ تو ضرور رہے گا مگر میں اپنے اطمینان کے لیے پوچھتا ہوں کہ یہ مخالف حالات کسی طرح بدلیں گے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو چار پرندے لے کر مدھا یعنی اپنی اولاد میں سے چار کی تربیت کر وہ تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس احیاء کے کام کی تکمیل کریں گے.و تغيير كبير سورة البقره مت ن!.یہ چار روحانی پرندے کون ہیں ؟ ج :- یہ چار روحانی پرندے حضرت اسماعیل.حضرت اسحقا حضرت یعقوب اور حضرت یوسف ہیں.ان پرندوں کو پہاڑ پر رکھنے سے کیا مراد تھی ؟ ج :- ان روحانی پرندوں کو پہاڑ پر رکھنے سے مراد ان کی نہایت اعلی تربیت کرنا تھی اور دوسرے ان کے یہ فیع الدرجات ہونے کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ وہ بلندیوں کی چوٹیوں تک جا پہنچیں گے.ان روحانی پرندوں میں سے دو کی یعنی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحق کی حضرت ابراہیم نے براہ راست تربیت کی اور دو کی یعنی حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کی بالواسطہ تربیت کی.س:.ان چار روحانی پرندوں کو علیحدہ علیحدہ چار پہاڑوں پر رکھنے سے کیا مراد تھی؟ ج :- اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو یہ بتایا کہ یہ احیاء چار ملیحدہ علیحدہ وقتوں میں

Page 140

ہو گا.۱۳۹ ۱۴۳ احیاء قومی کا وہ نقشہ جو حضرت ابراہیم کے قریب زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا.انہیں بتا دیا گیا اسی طرح بعد کے زمانہ میں حضرت ابراہیممؑ کی قوم کی چار ترقیات کو حاصل کرنے کا اشارہ بھی کر دیا.اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم سے فرمایا کہ تمہاری قوم چار دفعہ مردہ ہوگی اور ہم اسے چھالہ دفعہ زندہ کریں گے.ایک دفعہ حضرت موسیٰ کے ذریعہ ، پھر حضرت عیسی کے ذریعہ پھر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اور پھر جو تھی بار حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ابراہیں آواز بلند ہوئی اور مردہ زندہ ہوا.پہلا پرندہ جسے حضرت ابراہیم نے بلایا اور اطمینان قلب حاصل کیا وہ موسوی امت تھی.دوسرا پرندہ عیسوی امت تھی.تیسرا پرندہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلالی ظہور کی حامل اور منظر محمد کی جماعت تھی اور چو تھا پرندہ آپ کے جمالی ظہور کی مظہر جماعت احمدیہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے قلب کو راحت پہنچائی اور آپ نے کہا کہ واقعی میرا خدا زندہ کرنے والا ہے.غرض اس میں قریب اور بعید دونوں زمانوں کی پیشگوئی تھی جو اپنے اپنے وقت پر بڑی شان سے پوری ہوئی اور خدا تعالی کا مزیز اور حکیم ہونا ظاہر ہو گیا.تفسير كبير سورة البقره مت) وہ کون سے نبی ہیں جن کا احترام تمام اقوام میں پایا جاتا ہے ؟ ج : انبیاء سابقین میں سے حضرت ابراہیم ہی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کا ادب و احترام تمام اقوام کرتی ہیں.عرب ، عیسائی، یہودی اور صابی سب کے سب حضرت ابراہیم پر ایمان لانے میں مشترک ہیں.س حضرت ابراہیم کی اولاد کے لیے اللہ تعالٰی کا مشروط عہد کیا تھا؟ ج-: اللہ تعالی نے جب حضرت ابراہیم کو قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے

Page 141

۱۴۰ ایک نمونہ کے طور پر پیش کئے جانے کے متعلق بتایا تو حضرت ابرا ہیم نے اپنی ذریت کے لیے بھی خدا کے حضور یوں دعا کی کہ اپنی ! میری اولاد پر بھی تیری رحمت کا ہاتھ رہے.اس پر اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا.لايناك عهدي الظالمين (سورة البقره) ٹھیک ہے مگر میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا یا اللہ تعالیٰ نے یہ مشروطہ وعدہ فرمایا کہ تمہاری اولاد میں سے بعض اس عہد سے حصہ پائیں گے ان پر خدائی انعامات نازل ہوں گے مگر حصہ پانے والے وہی ہوں گے جو قومی ظلم کے ذریعہ سے اپنے آپ کو انعام سے محروم نہ کر چکے ہوں.و تفسير سورة البقره مت) اور تمہاری اولاد میں سے جو ابراہیمی سنت کو قائم رکھیں گے ہم ان میں امام بناتے جائیں گے اور وہ خدا تعالیٰ کے تازہ تازہ انعامات سے حصہ لیتے رہینگے.اس مشروط عہد کی ظاہری علامت کیا بیان کی گئی ہے ؟ ج:.اس مشروط عہد کی ظاہری علامت فتنہ تھا.اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر بتا دیا تھا کہ تیری اولاد میں سے جو اس عہد کی پابندی نہیں کریں گے.خدا تعالی کا عہد بھی ان سے ختم ہو جائے گا اور ان کو دہ انعامات نہیں دیئے جائیں گے جن کا حضرت ابراہیمؑ کے ذریعہ وعدہ کیا گیا ہے.رسم ختنہ آج بھی ملت ابراہیمٹی کا شعار ہے.یہ ظاہری نشان بنی اسرائیل کے کسی نبی تک جاری رہا؟ ج :- اس عہد کا ظاہری نشان جو ختنہ کی صورت میں قائم کیا گیا تھا.بنی اسرائیل میں حضرت علی تک جاری رہا اور یہ قوم خدا تعالیٰ کے انعامات کی وارث رہی بگر بنواسرائیل کا وہ حصہ جوان پر ایمان نہ لایا تھا.اس گروہ سے کٹ گیا جس کو انعامات کا وعدہ دیا گیا تھا اور صرف وہی لوگ انعامات کے مستحق رہ گئے جو حضرت عیسی پر ایمان لائے تھے.لیکن آگے چل کر انہوں نے بھی اس عہد کو

Page 142

۱۴۱ ۱۴۷ توڑ دیا.ختنہ چھوڑ کر اور شریعیت کو لعنت قرار دے کر دنعوذ باللہ) انہوں نے اپنے آپ کو خدائی فضلوں سے محروم کر لیا.کیا بائبل میں بھی اس عہد کے مشروط ہونے کا ذکر آتا ہے ؟ ج :.بائیل میں آتا ہے.پھر خدا نے ابراہام سے کہا کہ تو اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں اور میرا شہد جو میرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد اور تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھو.سوریہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کی کھڑی کا ختنہ کرو اور یہ اُس عہد کا نشان ہوگا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے.تمہاری پشت در پشت ہر لڑکے کا جب وہ آٹھ روز کا ہو ختنہ کیا جائے گا، کیا گھر کا پیدا کیا پردیسی سے خریدا ہوا جو تیری نسل کا نہیں لازم ہے کہ تیرے خانہ زاد اور تیرے زر خرید کا ختنہ کیا جائے اور میرا عہد تمہارے جسموں میں عہد ابدی ہوگا اور وہ فرنیند نہ یہ بس کا خستہ نہیں ہوا وہی شخص اپنے لوگوں میں سے کٹ جائے کہ اس نے میرا عہد توڑا یا پیدائش باب ۱۷).حضرت ابراہیم نے اپنا فتہ کتنی عمرمیں کیا تھا؟ ج :- حضرت ابراہیم برس کے تھے جب آپ نے اپنا ختنہ کیا، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابراہیم نے اپنا ختنہ ایک ہولے سے کیا تھا.جبکہ وہ اسی برس کے تھے یا و تجرید بخاری ص۶۵) تو رات میں مذکور ہے کہ جب حضرت ابراہیم کی عمر ننانوے سال ہوئی اور حضرت اسماعیل کی تیرہ سال ہوئی تو اللہ کا حکم آیا کر ختنہ کرو اور حضرت ابراہیم نے تعمیل

Page 143

۱۴۲ ۱۴۹ حکم میں پہلے اپنی ختنہ کیں اور اس کے بعد اسماعیل اور تمام خانہ زادوں اور غلاموں کی ختنہ کرائیں.اللہ تعالیٰ کے کسی نبی کے زمانہ سے مکہ کو حرم قرار دیا ؟ ج:- اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے زمانہ سے مکہ کو حرم قرار دیا اور خود اس کی ۱۵۰ حفاظت فرمائی.حضرت ابراہیم کی تمام کامیابیوں کا گر کیا بتایا گیا ہے ؟ ج :- حضرت ابراہیم صدیق (راستباز) تھے.ہر کام میں سچائی اختیار کرنا آپ کی کامیابیوں کا گر تھا.حضرت ابراہیم کی صفات بیان کریں ؟ ج :- 1- اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو شروع ہی سے حق کی بصیرت اور رشد و ہدایت عطا فرمائی تھی.قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کی بصیرت افروز رشد و ہدایت کا ذکر اس طرح آتا ہے.وَكُنَّابِهِ عَلِمينَ.ترجمہ: اور ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اس کی صلاحیت اور قابیت عطا کی تھی اور ہم اس کے اندرونہ سے واقف تھے.- حضرت ابراہیم مجسم راست باز نبی تھے.جیسا کہ سورۃ مریم میں آتا ہے.واذكر في الكِتْبِ أنا مِبْرَهُ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقَا نبيا.ترجمہ:.اور تو کتاب کی رو سے ابراہیم کا ذکر کر یقینا وہ بہت راست باز نبی تھے." و صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے اور اس سہتی پر اطلاقی پاتا ہے جس کی ذاتی اور نفسیاتی

Page 144

صفت صدق ہو.) -۲ حضرت ابراہیم معلم خیر تھے.یعنی دنیا کو نیکی کی تعلیم دینے والے تھے.۲.حضرت ابراہیم مجا مع المیر تھے.سب قسم کے اخلاقی فاصلہ ان میں پائے جاتے تھے.۵- حضرت ابراہیم نہایت اعلیٰ فطرت رکھتے تھے آپ کے اندروہ طاقتیں اور استعدادی موجود تھیں جن سے امتیں پیدا ہوئی تھیں..آپ خدا تعالے کے کامل فرمانبردار تھے اور بہت دعائیں کرنے والے تھے.آپ موحد تھے ، شرک سے آپ کو سخت نفرت تھی.اپنی ہر ایک خوبی کو نعمت خداوندی سمجھتے تھے.-۸- آپ تمام نعماء الہی پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے آپ خدا تعالی کے شکر گزار بندے تھے اور ترقیات کے موقعہ پر آپ کا ایمان اور بڑھ جایا کرتا تھا.ان تمام صفات کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو پسند کر کے اسے چن لیا اور اپنا بر گزیدہ بنا لیا.آپ کی ان صفات کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں بھی ترقیات سے نوازا اور آخرت میں بھی صالحین میں آپ کا شمار ہو گا.سورۃ النحل کی یہ آیات آپ کی خداداد صفات پر دلیل ہیں.ان ابوا منه كَانَ أُمَّةً قَانِتَا لِلَّهِ حَنِيفًا ط وَلَو يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ، شاكراً لأنعمة اجْتَبَه وهَدُ لَهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيه وانيد في الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ، وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لمِنَ الصَّالِحِينَ.ترجمہ : یقینا ابراہیم ہر ایک خیر کا جامعہ اللہ کے لیے تذلیل اختیار

Page 145

۱۴۴ کرنے والا اور ہمیشہ خدا کا کامل فرما برداری کرنے والا تھا.اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا.وہ اس کے انعاموں کا شکر گزار تھا، اس کے رب نے اس کو برگزیدہ کیا تھا اور ایک سیدھی راہ کی طرف اس کی رہنمائی کی تھی.اور ہم نے اسے اس دنیا میں بھی بڑی کامیابی بخشی تھی اور وہ آخرت میں بھی یقینا صالح لوگوں میں سے ہوگا.حضرت ابراہیم رقیق القلب ، نرم دل اور دردمند دل رکھنے والے تھے.۱۰.حضرت ابراہیم بردبار تھے.جیسا کہ سورہ تو بہ میں آتا ہے.إنَّ إِبْرَاهِير لا واة حليوه ترجمه : یقینا ابراهیم درد مند دل رکھنے والے اور بردبار تھے.ار حضرت ابراہیم خدا کے حضور بار بار جھکنے والے تھے.قوم لوط کے متعلق عذاب کی خبر سن کر خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنے لگے.انَّا بُرَاهِيمَ لَعَلِيمٌ أَوَاهُ مُّنِيْبُ ترجمہ :.یقیناً حضرت ابراہیم البته بردبار، نرم دل اور بار بار جھکنے والے تھے.(سورة هود ) ۱۲ حضرت ابرا رسیم م بہت مہمان نواز تھے.جیسا کر سورۃ ھور میں آتا ہے.وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرى قَالُوا سَلَمًا ، قَالَ سَلَمُ فَا لَبِثَ أَن حَبَاءَ بعجل حنينه ترجمہ :.اور یقینا ہمارے رسول ابراہیم کے پاس خوشخبری لائے.انہوں نے کہا سلامتی ہو.کہا.دا تم پر بھی ، ہمیشہ سلامتی نازل ہوتی رہے نہیں

Page 146

۱۴۵ زیادہ دیرنہ گزری کہ وہ بھنا ہوا بچھڑا لے آیا.حضرت ابراہیم کا لقب کیا تھا ؟ ج: حضرت ابراہیم کا لقب " خلیل اللہ تھا.۱۵۳ فقر آنی ارشاد ہے.ہے.وانند الله أقول هيه خَلِيلاً ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو اپنا دوست بنایا.ر سورۃ نساء رکوع نمبر ۱۸) سورۃ ابراہیم کس پار سے میں آئی ہے ؟ ج :- سورۃ ابراہیم ۱۳ ، پارے میں ہے.یہ سورۃ مکی ہے اور سیم اللہ سمیت اس کی ۱۵۳.آیات ہیں اور ے، رکوع ہیں.100 حضرت ابرا ہیم کا ذکر کتنی سورتوں میں آتا ہے ؟ :- حضرت ابدانیم کا ذکر ۲۵ سورتوں میں آیا ہے.آپ کا ذکر مکی اور مدنی دونوں سورتوں میں موجود ہے.سورة البقره ، ال عمران ، النساء ، الانعام ، التوبه ، هود إبراهيم النحل، الانبياء الشعراء ، الاحزاب مت الزخرف النجم الممتحنه يوسف الحجر مريد الحج العنكبوت ، الصافات الشورى الذاريات الحديد الاعلى

Page 147

۱۴۹ س 10 سورۃ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو کس طرف توجہ دلائی ہے ؟ ج: سورۃ ابراہیم میں اللہ تعالٰی نے مومنوں کو تو جہ دلائی ہے کہ ابراہیم کی زبان سے ہم تمہارے فرائض بیان کر چکے ہیں تمہیں وہ ذمہ داریاں کبھی نہیں بھلانی چاہئیں 134 سورۃ ابراہیم میں کفار کو کس بات سے ڈرایا گیا ہے ؟ ج :- سورۃ ابراہیم میں کفار کو اس بات سے ڈرایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے مکہ کی بنیاد اس نیت کے ساتھ رکھی تھی کہ یہ توحید کا مرکز ہو.اور اگر تم شرک کہ وگے تو تم کو یہاں سے دور کر دیا جائے گا اور تمہاری ہلاکت اور تمہاری دوری توحید کی تصدیق کے لیے دلیل بن جائے گی.( تفسیر سورۃ ابراہیم ص ۲۳) س اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مکہ والوں کو دین ابراہیم پر چلنے کی نصیحت کیوں کی تھی ؟ ج: حضرت ابراہیم مکہ والوں کے جد امجد تھے، مکہ والے اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کی ذریت میں سے سمجھتے تھے اور حضرت ابراہیم کو اپنا باپ کہتے تھے اس لیے باپ کی مثال دے کر ان کو غیرت دلائی کہ دیکھو وہ خدا کا فرمانبردار تھا تم بھی اس کے نقش قدم پر چلوا در اپنے اندر شکر گزاری کے جذبات پیدا کردہ اور اس کی طرح دین کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کر دو.باپ کی مثال دے کر غیرت دلانا اصلاح کا بہترین طریقہ ہے.اس لیے مکہ والوں کو نصیحت کی..حضرت ابراہیم نے ترقی کی کلیم کیا بتائی ہے ؟ ج:.حضرت ابراہیم نے ترقی اور کامیابی کی کلید اس بات کو قرار دے دیا ہے کہ ہر نیک بات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی جائے اور ہر بڑی بات پر نا کامی کو اپنی ذات کی طرف منسوب کیا جائے.و تغيير كبير سورة الفرقان مت )

Page 148

جیسے حضرت ابراہیم " فرماتے ہیں.وَاذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشفِين (سورة شعراء ع ۵) ا کہ جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے شفا دیتا ہے.یعنی بیماری میری طرف سے آتی ہے اور شفا خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے آپ نے محبت اور توکل کا درس دیا ہے جو کامیابی کی کلید ہے.حضرت ابراہیم کی کتنی بیویاں تھیں.ان کے نام بتائیں.ج: حضرت ابراہیم کی تین بیویاں تھیں.14.ا.حضرت سارگا حضرت با جریان حضرت قطور الله حضرت سارہ کے بطن سے حضرت اسحق پیدا ہوئے.حضرت ہاجرہ ان کے بطن سے حضرت اسماعیل جو پہلو مجھے بیٹے تجھے پیدا ہوئے حضرت قطور ان کے بطن سے حضرت ابراہیم کے چھ بیٹے پیدا ہوئے.جیسا کہ پیدائش ۲۵ آیت ۱.ہم میں لکھا ہے اور ابراہیم نے ایک اور جورو کی جس کا نام قطورہ تھا اور اس سے زمران ، یقان ، مدان ، مدیان ایشاق اور شوما پیدا ہوئے......ان سب کو بنو قطورہ کہتے ہیں.: حضرت ابراہیم نے کتنے برس کی عمر میں وفات پائی ؟ ج: حضرت ابراہیم نے ۷۵ار برس کی عمر میں وفات پائی.واقعہ معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم کو کسی آسمان پر دیکھا تھا ؟ ج:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم کو ساتویں آسمان پر دیکھا تھا د مسند احمد بن حنبل ص۲).حضرت ابراہیم کے ساتھ کن صفات کے حامل لوگ رکھے جائیں گے ؟

Page 149

۱۴۸ ج :- حضرت ابراہیم کے ساتھ ساتویں آسمان پر وہ عبادالرحمن رکھے جائیں گے جنہوں نے دنیا میں انکسار اور عدل و انصاف کے ساتھ اپنی عمر بھر کی جو دن کے اوقات میں احکام الہی کے تابع رہے اور رات کی تاریکیوں میں بھی سجدہ و قیام میں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور دعائیں کرتے رہے.قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے درمیات کو بلند کرتے ہوئے انہیں ساتویں آسمان پر جگہ عنایت فرمائے گا.یعنی وہ حضرت ابراہیم کے ساتھ رکھے جائیں گے.کیونکہ حضرت ابراہیم ساتویں آسمان پر ہی ہیں.د مسند ا محمد بن منیل ص ۲۰ ۲۰۹ بجوار تفیس كبير سورة الفرقان م (۱۸۵) قیامت کے دن سب سے پہلے کس کو لباس پہنایا جائے گا ہے ج: - قیامت کے دلن سب سے پہلے حضرت ابراہیم کو لباس پہنایا جائے گا؟ حدیث شریف میں آتا ہے.حضرت ابن عباس رضا روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تم لوگ بر ہنہ پا، بر مہندیدن ، بغیر ختنہ کے حشر کئے جاؤ گے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی.كَمَا بَدَ أنا أول حَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَاء انا كنا فاعلين ، ترجمہ: جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کی تھی اس طرح ہم اس کو دو بار لوٹائیں گے.یہ وعدہ ہمارے ذمے ہے.اس کو ہم ضرور پورا کریں گے؟ اور قیامت کے دن جسے سب سے پہلے کپڑے پہنائے جائیں گے.وہ ابراہیم علد ہیں.د تجرید بخاری ص ۶۱۳ ) (

Page 150

۱۴۹ اس کتنا بچہ کی تیاری میں مندرجہ ذیل کتب و تفاسیر سے استفادہ کیا گیا.ا تغیر صغیر از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) تفسیر کبیر کی متعدد جلد میں محزن معارف ۴ - درس القرآن - فرموده حضرت حکیم مولوی نور الدین اللہ آپ سے راضی ہو) ۵ قصص القرآن اتوار الانبياء تجرید بخاری الواح المدى

Page 150