Language: UR
انبیاء کا موعود
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اظهار نشر بچوں کے لئے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتب مقدس در شه چشمه زمزم، اصحاب فیل اور پیاری مخلوق کی مصنفہ مکرمہ بشر می داؤد اب ہم میں موجود نہیں مگر خدا تعالیٰ کے فضل و احسان سے اپنے جذبہ صادق کی بدولت اپنی تحریرات کی شکل میں وہ زندہ جاوداں ہے.انبیاء کا موعود اس کی وفات کے بعد شائع ہو رہی ہے.اس کتاب کی اشاعت میں قیادت نمبرہ کی ایک ممبر نے جو بشری داؤد مرحومہ سے بہت پیار کرنے والی اور بشری کو بھی ان سے بہت پیار تھا ، مالی تعاون کیا ہے.خدا تعالیٰ ان کو اجر عظیم سے نوازے اور ان کی نیک تمناؤں کو پورا کرنے کے سامان اپنی جناب سے بہم فرماتا چلا جائے.آمین اللهم آمین کتاب کے سر ورق کا ڈیزائن پیاری بشری کے بچوں عزیزان نے تیار کیا ہے.اللہ پاک ان بچوں کو ہمیشہ اپنے فضل و رحم کے سائے تھے رکھے.آمین اللهم آمین.
بسم اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ خدا تعالیٰ کے فضل و احسان کے ساتھ لجنہ ایام الله صد ساله جشن تشکر کے مبارک و مسعود موقع پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے زیر نظر کتاب عزیزه بشری داؤد مرحومہ کی سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سلسلہ دار کتابوں میں سے پانچویں کتاب ہے.عزیزہ بشری داؤد صاحبہ اس کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی اپنے مولا نے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئیں اللهم اغفر لها وَادْخِلُهَا في اعلى عليين " انبیاء کا موعود " کتاب میں وہ پیش گوئیاں جمع کی گئی ہیں جو گنہ شستہ انبیاء علیہم السلام نے ہمارے آقا و مولی رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہنے بیان کی تھیں اور اپنی اپنی قوم کو موجود نہی کی بشارات دی تھیں.بچوں کے لئے اس موضوع پر یہ پہلی کتاب ہے.خدائی ارشاد لولاكَ كَمَا خَلَقْتُ الافلاك کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے.جب وہ موعود نبی انسان کامل حضرت محمد مصطفے کی صورت میں تشریف لے آئے تو خدا تعالیٰ نے اس نام کو اپنے نام کے ساتھ لگا لیا اور اپنی امت کو لا إله إلا الله مُحَمَّدَةٌ سُول اللہ پڑھنا لازمی قرار دیا یعنی کلمہ شہادہ کا نام دیا اب جب تک یہ دُنیا باقی رہے گی دونوں ناموں کو یعنی اللہ اور محمد کو
ساتھ ساتھ دیکھے گی اور دنیا کی کوئی طاقت ان دونوں ناموں کو جدا نہیں کر سکتی.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے آنضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شانمیں فرمایا ہے وہ اعلی درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو دہ ملائک میں نہیں تھا.ہجوم میں نہیں تھا.تم میں نہیں تھا.آفتاب میں بھی نہیں تھا.وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا غرض وہ کسی چیز ارضی اور سمادی میں نہیں تھا.صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحباء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وستم ہو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اُس کے تمام ہمہ رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی تو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں.......اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی بنی امی صادق مصدوق محمد مصطفے صلی للہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں.(آئینہ کمالات اسلام ۱۹۱۲) اللهم صل على محمد وعلى ال مُحَمَّدٍ فَبَارَكُ سَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
مندرجات حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیش گوئی ۲.حضرت لیسعیاہ علیہ السلام کی پیش گوئی.حضرت حبقوق علیہ السلام کی پیش گوئی حضرت سلیمان علیہ السلام کی پیش گوئی ۵- حضرت موسی علیہ السلام کی پیش گوئی ۶.حضرت عیسی علیہ السلام کی پیش گوئی صفحہ نمبر 1 14 ۳۷ ۵۰ ۵۹
4 آپ نے اکثر کہانیوں میں پڑھا ہوگا کہ ایک بہت بڑا بادشاہ ہے.بادشاہوں کا بادشاہ.اس کی حکومت دُور دور تک پھیلی ہوئی ہے.ہر طرف امن و سکون پہرے بھرے باغات لہلہاتی کھیتیاں.سرسبز و شاداب میدان بادشاہ بڑا غریب پرور ہے.اس کی رعایا اس سے بہت خوش ہے.البتہ بادشاہ کی یہ حسرت پوری نہ ہوسکی کہ اسے بالکل اس جیسا بیٹا یا وارث بھی ملے.جو اُس کی نیک نامی ہیں اضافہ کرے اور رعایا سے پیار ومحبت سے پیش آئے.اگر کسی بادشاہ کو قابل جانشین مل جائے تو بادشاہ کی صفات کو زندہ رکھتا ہے.یہ تو کہانی ہے اس دنیا کی.ایک دنیا روحانی دنیا ہے.ہم اس دنیا کی مثال دے کہ اب روحانی دنیا کی طرف آتے ہیں.اگر چہ یہ دونوں عالم جدا جدا نہیں مگر مثال کو سمجھانے کے لئے روحانی دنیا کے بادشاہوں کے بادشاہ کی بات کرتے ہیں.روحانی دنیا کے بادشاہ کی بھی خواہش تھی کہ اس جیسی صفات والہ اس کی تخلیق کی ہوئی دنیا کا شہزادہ ہو.کیونکہ وہ بادشاہ صرف روحانی نظام کا بادت نہیں ہے بلکہ وہ اس مادی دنیا کا بھی بادشاہ اس کا سارا نظام سارا کنٹرول اس نے سنبھالا ہوا ہے.اس کی سلطنت کی کوئی انتہا نہیں ہے.اس کی عظمت اور شان کا اندازہ لگانا مشکل ہے.وہ بڑی قدرتوں اور طاقتوں کا مالک ہے.کوئی چیز بھی اس کے قبضہ قدرت سے باہر نہیں اور ایک بات سے تھوڑا سا اندازہ لگانے کی کوشش کرو کہ یہ جو ہماری دنیا ہے.جس
میں ہم رہتے ہیں یعنی گزرہ ارض شاید اس کی سلطنت کی وسعت میں اس کو اگر دیکھا جائے تو رائی کے ہزارویں حصہ سے بھی چھوٹی ہوگی.اتنی بڑی بادشا است کے باوجود کوئی ذرہ بھی اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں زمین کے سینے میں دفن خزانے سمندر کی تہوں میں چھپے ہوئے ہوتی دمرجان.آسمان کی وسعتوں میں بکھرے ہوئے ذرات سب اس کو معلوم ہیں.اس کے اشاروں کے منتظر.یہ بادشاہ ہمارا خدا ہے.لیکن اس بادشاہ نے جو بادشاہوں کا بھی بادشاہ ہے.شہنشا ہوں کا بھی شہنشاہ ہے ارادہ کیا کہ میں ظاہر ہو جاؤں اور چونکہ وہ خود تمام مادی دنیاؤں کا بادشاہ ہونے کے باوجود عالم روحانی سے زیادہ تعلق رکھتا ہے.کیونکہ وہ ہمارا رب.ہمارا مالک ہمارا خالق خدا ہے.اور خدا کو دیکھا نہیں جا سکتا.اس کی عادتوں کو دنیا والے کیسے دیکھ میں کہ ان کا خدا کیسا ہے.تو اس بادشاہ نے یعنی خدا تعالیٰ نے چاہا کہ میرا ایک منظر ہو.اس کو دیکھ کر دنیا کو معلوم ہو کہ یہ خدائی نشان ہے.اس کی عظمت کا علمبردار ہے خدا تعالیٰ نے اپنے نور سے ایک نور کو پیدا کیا.اس نور کا نام نور محمدی رکھا.پھر اس نے یہ نور انسان کے پیکر میں ڈھالا.پھر اس وجود کو ہماری زمین میں بھیجا.اس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے ظاہر ہونے کا سامان کر لیا.اس کو اب ایک آئینہ (مظہر مل گیا جس کو وہ اپنی ساری بادشاہت، دولت اور سلطنت دینا چاہتا تھا.اسی لئے اس نے اس کا نام محمد رکھا تھا کہ جب وہ آئے تو اس کی خوبیاں دیکھ کر اس کے اخلاق سے متاثر ہو کر اس کی اتنی تعریف ہو اتنی تعریف ہو کہ دنیا اس کی تعریف سے بھر جائے اور جس طرح ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتی ہے.اس کی عبادت کرتی ہے اس سے پیار کرتی ہے
ا بالکل اسی طرح وہ اس کے پیارے سے پیار کریں.اس کی اطاعت فرمانبرداری اب اللہ تعالیٰ نے اس نور محمد کو یکدم دنیا میں نہیں بھیجا بلکہ انسانوں کی آنکھوں کو اس نور سے مانوس کرنے کے لئے دنیا میں اپنے سفیر باری باری بھیجے جو اس نور سے تھوڑی تھوڑی سی چمک لے کر آتے تھے تاکہ دنیا میں پھیلے ہوئے گناہوں کے اندھیروں کو دور کریں فلسلم کی سیاہی مٹائیں اور انسان کو سیح معنوں میں انسان بنا سکیں اور اس آنے والے کے بارے میں بتائیں اس وقت کا انسان ابھی چونکہ اس قابل نہیں ہوا تھا کہ وہ اس موعود کی باتیں سمجھ سکے کیونکہ اس نے تو خدا کی تمام قدرتوں ، عظمتوں کو بیان کرنا تھا.اس لئے یہ سفیر جو خدا کے نبی تھے ، رسول تھے.انسانوں کو اس آفاقی پیغام کو سننے سمجھنے کے قابل بنانے کیلئے تیار کر رہے تھے.بتھوڑی تھوڑی تعلیم دے کر ان کے ذہنوں کو ترقی دے رہے تھے.ان کو سمجھدار اور عقلمند بنا رہے تھے کہ وہ ان تمام علوم کو سن کو سمجھ سکیں.اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ماننے والوں سے عہد بھی لیتے تھے کہ اس آنے والے موخود کے بارے میں اپنی اولادوں اور اپنے رشتہ داروں کو بتاتے چلے جانا کہ ایسا انسان آنے والا ہے اس کا انتظار کرو.اس کے استقبال کے لئے تیاری کرو.صرف اس موعود نبی کے بارے میں ہی نہیں بتاتے تھے بلکہ یہ بھی بتاتے تھے کہ اس کے ساتھی کیسے ہوں گے.اس کے زمانے کے حالات کیسے ہوں گے.اس کے ساتھ کیسے کیسے واقعات پیش آئیں گے.پھر اس کی شکل و صورت اخلاق و عادات اس کے کردار کے بارے میں بھی بتایا گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ جب اس کا موعود دنیا میں آئے تو انسان اس کو پہچان لیں اور یوں یہ بادشاہ اپنے شہزادے کے بارے میں اپنی رعایا کو بتا رہا تھا.
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی خدا تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اس موعود نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک لاکھ چوبیس ہزار نیوں کو بھیجا اور ہر ایک نے اپنے ماننے والوں کو اس عظیم اور بابرکت وجود کے بارے میں بتایا.ان پیش خبریوں اور پیش گوئیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے.ہم ان میں سے بعض پیشگوئیوں کو سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں کہ کس طرح گذشتہ انبیاء نے خدائی نور کے ایک مظہر کامل کا ہو ہو نقشہ کھینچا تھا.تقریباً چار ہزار سال پیچھے کوٹ چلیں.یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ ہے یہی حضرت ابراہیم ، جن کو نمرود نے آگ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا اس لئے کہ انہوں نے اس بادشاہ کو خدا ماننے سے انکار کر دیا تھا اور اس کو بتا دیا تھا کہ خدا صرف ایک ہے اور وہ تمام طاقتوں کا مالک ہے.ہم سب اس کے بندے ہیں ہم میں سے کوئی بھی خدا نہیں ہو سکتا.پہچانا آپ نے ؟ یہ حضرت اسمعیل کے بزرگ والد ہیں.حضرت اسماعیل کو جب یہ بالکل بچتے تھے تو ان کی امی حضرت ہائیرہ کے ساتھ ایک ویران صحرا میں خدا کے حکم سے چھوڑ دیا تھا.حضرت ابراہیم کو اپنے خدا سے بہت پیار تھا.وہ اس کا ہر حکم اتنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے تھے.اپنی ہر پیاری چیز کو اس کی خاطر قربان کر دیتے تھے.جیسے کہ انکلوتے بیٹے حضرت اسمعیل کو مکہ کے ویرانے میں چھوڑ کر ایک طرح سے قربان کر دیا تھا.یہ تو خدا تعالیٰ نے بچا لیا اور سنبھالا.لیکن جب پھر ندا نے کہا کہ ذبح کر دو تو سچ مچ ذبح کرنے لگے.
اس کی ایک وجہ تھی کہ ان کا دل چاہتا تھا کہ کس طرح میں اپنے خدا سے پیار کرتا ہوں کو نا میرا بیٹا ایسا ہو کہ وہ بھی اسی طرح محبت کرے بلکہ میری نسل اس کی خاطر یعنی خدا کے لئے اپنے آپ کو قربان کر دیا کرے.اور پھر جب اللہ میاں نے ان کو بتایا کہ میں ایک ایسا وجود دنیا میں بھیجوں گا جو میرا سچا مظہر ہو گا.صرف اور صرف میرا ہوگا اور میں اس کا ہوں گا.تو اُن کے دل میں حدت سے تمنا پیدا ہوئی کہ کاش! میرے اولاد ہوتی اور وہ با برکت وجود میری نسل میں پیدا ہوتا.اللہ میاں کو حضرت ابراہیم کی یہ تمنا کہ میری اولاد میری نسل بھی تجھ سے ایسا ہی پیار کرے جیسا کہ میں کرتا ہوں! تب خدا نے حضرت ابراہیم سے بہت سے وعدے کئے.ان میں سے ایک وعدہ یہ تھا کہ دور میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا.تجھ کو مبارک اور تیرا نام بڑا کریں گا.تو ایک برکت ہوگا.ان کو جو تجھے برکت دیتے ہیں.برکت دوں گا.ان کو جو تجھے لعنت دیتے ہیں لعنتی کروں گا.اور دنیا کے سب گھرانے تجھ سے برکت پائیں گے" پیدائش باب ۱۲ آیت ۳۰۲ یں اسے برکت دوں گا.برومند کروں گا.اسے بڑھاؤں گا.اس سے بارہ سرا پیدا ہوں گے.پیدائش باب ۱۷، آیت ۱۸ جب یہ وعدہ کیا گیا تو حضرت ابراہیم" بہت بوڑھے ہو گئے تھے اور ان کے کوئی اولاد نہیں تھی.وہ حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے.میرا خدا کہ رہا ہے کہ میں تجھے بڑی قوم بناؤں گا.پھر خدا تعالیٰ کے فرشتہ نے حضرت ہاجرہ کو بتایا کہ خدا نے کہا ہے کہ " میں تیری اولاد کو بہت بڑھاؤں گا کہ وہ کثرت سے اگنی نہیں جائیگی " پھر فرشتے نے کہا کہ تیرا ایک بیٹا ہوگا.اس کا نام اسمعیل رکھنا.( پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۰)
10 آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان تمام باتوں سے آنے والے دارت کا کیا تعلق ؟ بھٹی تعلق تو ہے.وہ اس طرح کہ حضرت ابراہیم کی بڑی خواہش تنویم، منفی کر وہ بابرکت وجود میری نسل میں سے پیدا ہو.اور اللہ میاں بھی اپنے اس بندے کو اس کی اس خواہش کو بڑے پسیار سے دیکھ رہا تھا.اس انسان (ابراہیم میں ایسی خوبیاں نظر آر ہی نہیں کہ جن کی وجہ سے خوش ہو کر وہ ان کو اس انعام سے نواز دیتا.لیکن اس پاک اور مقدس وجود کے لئے جو تیاری کرنی تھی کہ اس روئے زمین پر اس کو کس علاقے ہیں.کسی قوم میں پیدا کرے کیونکہ اس قوم کی صفات بھی دنیا کی دوسری قوموں سے الگ ہونی چاہئیں.پھر اللہ میاں کی چند نشانیاں جو اس نے اس دنیا میں قائم کیں ان میں سے ایک اس کا گھر تھا جو خانہ کعبہ ہے.وہ چاہتا تھا کہ اس گھر کا محافظ اس گھر کے قریب ہو.پھر صرف وہی اس گھر سے پیار نہ کرے.اس کی حفاظت نہ کرے بلکہ اس کے آباؤ اجداد ، باپ دادا بھی اس گھر کی عظمت کے قائل ہوں.ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھیں کہ جب حضرت اسمعیل خدا کے وعدے کے مطابق حضرت ہاجرہ کے ہاں پیدا ہوئے تو خدا نے اپنے پیارے بند سے ابراہیم کو حکم دیا کہ اس کو میرے گھر کے پاس چھوڑ آؤ.وہ تو ایسا عاشق بندہ تھا.ایسا اطاعت گزار فرماں بردار کہ اس نے فوراً اس معصوم جان کو اس کی ماں کے ساتھ مکہ کے ویرانے میں چھوڑ دیا.یوں خدا تعالیٰ نے اپنے گھر کو دوبارہ دنیا کا مرکز بنانے کی بنیاد رکھ دی.اور حضرت اسمعیل کی اولاد کو جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا.ان کو بڑی قوم بناؤنگا ان کو ۱۲ بیٹے دیئے.اور عرب ان کی ہی اولاد ہیں.یہ بارہ بیٹے بارہ سردار تھے
۱۵ ہر بیٹے کے نام پر قبیلہ یا علاقہ ملتا ہے.لیکن ساتھ ساتھ اللہ میاں یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ اسمعیل میں وہ خوبیاں ہیں جو میرے وارث کے بزرگ ہیں ہونی چاہئیں.تو جب خدا نے جو قربانی حضرت ابراہیم سے حضرت اسمعیل کے روپ میں مانگی حضرت ابرا ہیمر نے فورا دے دی.اور جب خدا نے کہا کہ اسمعیل کے ساتھ میرے گھر کو اس کی بنیادوں پر.کھڑا کر.پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۰-۱۱ تو حضرت ابراہیم فورا منہ آئے.حضرت اسماعیل ان کو پتھر لا کر دینے گئے اور انہوں نے ایک کچا کوٹھا اس کی بنیادوں پر تعمیر کر دیا جو خانہ کعبہ ہے.آپ اس کو تعمیر کرتے ہوئے مسلسل دعائیں کرتے رہے کہ خدایا تیر سے حکم کے مطابق میں نے تیرے گھر کو بنا دیا.اب اس گھر کے وارث کو میری اولاد میں پیدا کر لے پھر خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو خوشخبری دی کہ " آنے والا میرا موعود نبی جو میرا محبوب ہے.میرے نور کا حصہ ہے.میرا پر تو ہے عکس ہے.وہ اسمعیل کی نسل میں پیدا ہو گا " یعنی بنو اسمعیل میں.اسی دعا کی قبولیت کے بارے میں بائیبل میں بھی لکھا ہے کہ اسمعیل کے حق میں میں نے تیری سُنی پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۸ یہ ادھر حضرت اسمعیل کے ساتھ خدا تعالیٰ کی محبت کا سلوک ایسا تھا تو دوسری طرف حضرت سارہ کے ہاں اسحق کو دے کر بھی مزید حضرت ابراہیم کی اولاد کو نہ صرف روحانی بلکہ دنیاوی انعامات سے بھی نوازا.وہ اس طرح کہ حضرت اسحق " جو حضرت اسمعیل کے چھوٹے بھائی تھے ان کی اولاد میں نسلاً نبوت کا سلسلہ شروع ہو گیا.یعنی باپ کے بعد بیٹا اور بیٹے ے سورۃ بقرہ : ۱۲۹ - ۱۳
14 کے بعد پوتا نبی بنتے رہے.یہ قوم جو حضرت اسحاق کی اولاد ہے بنی اسرائیل کہلاتی ہے.ان کے ذمہ خدا تعالیٰ نے یہ کام لگا دیا کہ تم دنیا کو خبردار کرتے چلے جاؤ بناتے جاؤ.اپنی اپنی امت سے عہد لیتے جاؤ کہ جب میرا محبوب میری بادشاہت میں داخل ہوگا تو اسکو پہچانتے ہیں غلطی نہ کرتا بلکہ اسپر فوراً ایمان لے آنا.اسکی اطاعت کو لازمی نہیں کرنا.اب جتنی بھی نشانیاں ہم کو ملیں گی وہ حضرت اسحاق کی نسل میں آنے والے نیوں کی بتائی ہوئی ہیں.
16 حضرت یسعیاہ علیہ السلام کی پیش گوئی حضرت یسعیاہ نبی جو حضرت اسحاق کی اولاد میں سے ہیں اور یہ حضرت عیسی کی پیدائش سے ۷۱۴ سال پہلے دنیا کی اصلاح کے لئے آئے.اس وقت عرب کے علاقے حجاز میں حضرت اسمعیل کی اولاد آباد تھی (پیارے آقا جب پیدا ہوئے تو ان کو بارہ سو پچاسی سال ہو گئے تھے) لا - حضرت یسعیاہ نبی کو اللہ میاں نے جو کچھ بھی بتایا اس کو بیان کرنے سے پہلے آتا ہے." عرب کی بابت الہامی کلام گویا اس سے وضاحت ہوگئی کہ خدا نے بتایا ہے.فرماتے ہیں " ہو نہ ایک برس مزدور کے سے.ٹھیک ایک برس میں قیدار کی حشمت جاتی رہے گی اور تیر اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے.کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا ہے.یسعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۷۱۳ اس پیشگوئی میں بتائی نشانیوں میں سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ قیدار کون ہے.قیدار حضرت اسمعیل کے دوسرے نمبر کے بیٹے کا نام ہے.بڑے کا نام ثابت تھا.تریش قیدار کی نسل ہے جو ایک لمبے عرصے تک کعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے سارے عرب میں سب سے زیادہ معززہ اور باعزت مانے جاتے تھے اور پیارے آقا بھی قریش قبیلہ کی شاخ بنو ہاشم سے تعلق رکھتے تھے.اس میں تشنشانی بتائی گئی کہ قیدار کی حشمت جاتی رہے گی.کب جاتی رہے گی.ٹھیک ایک سال بعد -
اب ہم اپنے پیارے آقا کے بابرکت دور میں دیکھیں کہ جب آپ نے مکہ سے ہجرت کی تو ٹھیک ایک سال بعد جنگ بدر ہوئی اور جب یہ جنگ ہوئی ہے اس وقت مسلمانوں کی حالت بڑی کمزور تھی.مدینہ میں ابھی پوری طرح وہ جم نہ سکے تھے.مکہ میں جو رشتہ دار رہ گئے تھے ان کی تکالیف کی خبریں آتی رہتی تھیں لیکن جب لڑائی ہوئی تو مسلمان ۳۱۳ تھے.ان میں صرف چند تجربہ کار جرنیل کچھ پیچھے کچھ بوڑھے کسی کے پاس تلوار ہے تو ڈھال نہیں.ڈھال بھی تو تلوار ٹوٹی ہوئی.کما میں جو کچھ سلامت تو کچھ ٹوٹی ہوئیں.تیر بھی بہت کم.گویا جنگی نوعیت سے بالکل ناقص سامان اور وہ بھی پورا نہیں.اب سپاہیوں کی حالت دیکھیں کہ اکثر پیدل.چند اونٹ اور گھوڑے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنی کمزوری پر خوف زدہ نہ تھا.بلکہ اس ملزم سے جنگ کے لئے نکلا تھا کہ میں خُدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر لڑوں گا.اسی عزم نے ان میں ایک ایسی قوت پیدا کردی کہ ایک مخبر نے کہا کہ " اسے مکہ والو تم مسلمانوں سے جنگ نہ کرو.بے شک وہ تھوڑے ہیں لیکن میں نے اونٹوں پر سوئیں سوار دیکھی ہیں.اس کا مطلب یہ تھا کہ جب کوئی خود ہی مرنے کے لئے نکلے اسے کوئی مار نہیں سکتا.وہ دس پر بھاری ہوتا ہے.اور اس جنگ میں ایسا ہی نمونہ دنیا نے دیکھا.قریش ایک ہزار سے زیادہ اور تجر به کار جرنیل - عتبہ بن ربیعہ - شیبہ بن ربیعہ.ابوجہل اور امیہ بن خلف جیسے لوگ تھے.سامان جنگ کی کثرت.ساتھ ہی اپنی عظمت اور شان پر غرور کہ ہم ان کمزوروں کو ایک ہی وار میں ختم کر دیں گے.لیکن خدا کا کیا کیسے مل سکتا ہے.لڑائی نے ثابت کر دیا.یہ تمام جرنیل پار سے گئے.ابو جہل کو تو کمسن معاذ بہ معوذ بچوں نے ختم کر دیا.امیہ بن خلف اپنے
19 غلام حضرت بلال کے ہاتھوں مارا گیا.عتابہ اور شیبہ بھی ہلاک ہوئے.گویا قیدار کی حشمت جو حضرت یسعیاہ نبی نے فرمائی تھی جاتی رہی اور اگلی نشانی کہ " تیر انداز جو باتی رہے قیدار کے بہادر گھٹ جائیں گئے.یعنی ان پر مسلمانوں کا خوف بیٹھ جائے گا.قرآن شریف نے بھی جنگ بدر کے دن کو یوم الفروان کہا.واقعی اس جنگ نے عربوں پر ثابت کر دیا کہ خدا پر توکل کرنے والے کبھی شکست نہیں کھاتے چاہے ان کے مقابلہ پر کیسے ہی جبرئیل اور لشکر ہوں اور یہ نشانی پڑی شان کے ساتھ میرے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تیرہ سواتا نہیں سال بعد پوری ہوئی.جنگ بدر کے بارے میں سورہ نمبر میں میسی مکہ میں ہی پیشگوئی کی گئی تھی جو کفار کے سمجھانے کے لئے تھی مگر وہ نادان نہ مانے.حضرت یسعیاہ نبی ایک اور جگہ اس موعود نبی کے ماننے والوں کے بارے میں پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- وہ قوموں کے لئے دُور سے ایک جھنڈا کھڑا کرے گا اور انہیں زمین کی است یاد سے سیٹی بجا کے بلاتا ہے.اور دیکھے در ٹرے چلے آتے ہیں.ان میں سے کوئی تفکرتا نہیں اور نہ پھسل پڑتا ہے.وہ نہیں اونگھتے اور نہیں سوتے.نہ ان کا کمربند کھلتا ہے اور نہ ہو توں کا تسمہ ٹوٹتا ہے.ان کے تیر تیز ہیں.ان کی کما نہیں کشیدہ ہیں ان کے گھوڑوں کے تم چقماق کے پتھر کی مانند ٹھہرتے ہیں اور ان کے پیتے گردباد کی مانند وے شیرنی کی مانند گر جتے ہیں.دے غراتے اور شکار پکڑتے ہیں اور اسے بے روک ٹوک لے جاتے ہیں اور کوئی بچانے والا نہیں.اس دن ان پر ایک ایسا شور مچائیں گے.جیسا کہ سمندر کا منشور ہوتا ہے.اور یہ زمین کی طرف تاکیں گے اور کیا دیکھتے ہیں کہ انڈیسٹر
۲۰ ہے اور تنگ حالی ہے.اور روشنی اس کی بدیوں سے تاریک ہو جاتی ہے.( باب ۵ آیت ۲۶ تا ۳۰) اب ان نشانیوں پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ” وہ قوموں کے لئے دُور سے ایک جھنڈا کھڑا کرے گا " جھنڈا قوم کی پہچان ہوتا ہے.پھر تو موں کے لئے یعنی تمام لوگوں کے لئے.اب جتنے بھی نہی پہلے گزرے ہیں وہ کسی خاص قوم.زمانے یا علاقے کی اصلاح کے لئے آئے لیکن ہمارے پیارے آقا نے ساری دنیا کو اسلام کی دعوت دی کسی نبی نے دنیا کی ساری قوموں کو نہیں بلایا.صرف اور صرف آنحضرت نے خدا کے حکم پر یہ اعلان کیا کہ اسے انسانو! میں تم لوگوں کی طرف خدا کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں (سورہ اعراف آیت (۱۵۹) گویا آپ نے سب کو بلایا.ريا يما النَّاسُ إِلَى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا ) پھر دور سے جھنڈا کھڑا کیا.سارے نبی بنی اسرائیل میں آئے.اور بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسی بھی فلسطین میں ظاہر ہوئے لیکن آنحضرت مکہ میں آئے اور مسلمانوں کا مرکز مدینہ کو بنا یا گویا مسلمان قوم کا جھنڈا مدینہ میں بلند ہوا.اور مدینہ فلسطین سے دُور ہے.اس طرح دُور سے جھنڈا کھڑا ہوا.پھر جب آپ نے ساری اقوام کو دعوت دی تو ہر قوم اور ہر قبیلہ سے بلکہ ہر ملک سے لوگوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہا.تاریخ شاہد ہے کہ واقعی وہ دوڑتے ہوئے آپ کے گرد جمع ہونے لگے اور جمع ہوتے چلے گئے.عربوں کے مختلف قبائل سے چند مثالیں لیتے ہیں کہ اس آواز پر کون کون دوڑا.رضا قبیلہ بنو تیم میں سے حضرت ابو بکر صدیق " بنو عدی میں سے حضرت عمر فارون بنو امیہ میں سے حضرت عثمان غنی " بنو ہاشم میں سے حضرت علی " حضرت عقیل حضرت عباس"
۲۱ حضرت حمزہ یہ بنو اسد میں سے زہیر بن العوام بنو مطلب سے عبیدہ بن الحارث بنو زہرہ میں سے عبد الرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص بتو سہم ہیں.عمرو بن العاص رضیہ بنو شمس میں سے ابو حذیفہ بنو نوفا میں سے جبیر بن معظم اور مصعب بن عمیرہ قبیلہ عبدالدار سے تھے.مدینہ کے قبائل میں سے، ادوس میں سے ابوالہیثم بن تیوہان نہ خزرج میں سے معاذ بن حارث تھے.یہودی قوم میں سے عمر بن سعدی عبداللہ بن سلام اور مخیریق دونوں بڑے یہودی عالم تھے.حبشہ کے حضرت بلال یونانی حضرت صہیب عیسائی حضرت جبیر ایران ملک کے حضرت سلمان فارسی - روم سے حضرت صہیب رومی - ایمان لائے یمن سے حضرت اویس قرنی رضی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی آوازہ پر ہر ملک ہر قوم ہر قبیلہ سے لوگ دوڑ پڑے جبکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے کسی کو یہ دعوی نہیں کہ انہوں نے تمام قوموں کو پکارا ہو.اور نہ ہی تاریخ سے ثابت ہے کہ جس قوم میں آئے اس کے سوا کسی اور قوم کے فرد کو ہدایت کی ہو.احل نشانیوں میں آپ کے صحابہ کی خصوصیات بتاتی ہیں کہ مکان نہیں اور تاریخ میں وہ مثالیں موجود ہیں کہ مسلمان مشکلات اور پریشانیوں سے مسلسل خاتوں اور تکالیف سے کبھی نہیں تھکے.حتی کہ ہجرت کے بعد مدینہ میں بھی کفار مکہ نے آرام کا سانس نہ لیتے دیا اور یہود کی سازشیں اپنی جگہ پر تھیں.صحابہ کرام رنو مسلسل ہتھیار سے لیس ہوتے کہ نہ معلوم کب آواز پڑ جائے ایسا نہ ہو کہ ہم پیچھے رہ جائیں.حتی کہ بعض دفعہ سوتے بھی ہتھیار لگا کر تھے.پھر دیکھیں ایک اور نشانی کہ وہ نہیں اونگھتے اور نہیں سوتے.تو جنگ خندق
۳۳ کے موقع پر مسلسل جنگ بینی دشمن مدینہ کے گرد پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے.اس کے چاق و چوبند دستے بار بار خندق عبور کرنا چاہتے ہیں کبھی ادھر سے کبھی ادھر سے.ساتھ شدت کی سردی پھر بھوک اور افلاس ان تمام مصائب کے باوجود وہ یہ تمنا نہیں کرتے تھے کہ ہمیں وقت مل جائے تو کچھ دیر آرام کرلیں بلکہ سونا تو کجا اونگھنا بھی گوارا نہ تھا.پھر نشانی بنائی کہ ان کا پیر پھسلتا نہیں تاریخ کے اس دور میں چلیں جہاں آپ نے دعوی کیا ہے.چند افراد مکہ کے ایمان لاتے ہیں کچھ غلام چند جوان اور بڑے ہی غریب اور مفلس لوگ آپ کے گرد جمع ہو جاتے ہیں.ان پر مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں.کسی کو پتھریلی زمین پر گھسیٹا جا رہا ہے.(حضرت بلال کسی کے سینے پر بھاری پتھر رکھے ہوئے ہیں.(ابو فکیہ ، کوئی انگاروں پر کوٹ رہا ہے (حضرت خباب ، کسی عورت کو بے شرمانہ طریق پر شہید کر دیا گیا ہے (حضرت سمیہ (رض) کسی کی آنکھیں مار کھاتے کھاتے ضائع ہوگئی ہیں.(حضرت زنیرہ (نہ) لیکن ان تمام میں سے کوئی ایک نام بھی ایسا تاریخ پیش نہیں کر سکتی کہ وہ پھسل گئے ہوں.خوف سے ڈر کر بجھے ہٹ گئے ہوں اس سیدھی راہ سے.بلکہ دوہ ہر تکلیف پر اور مضبوط ہو جاتے تھے ایمان میں.ہر مشکل ان کو خدا اور اس کے رسول سے قریب کر دیتی ہے اور بعد کے زمانے میں جب اسلام تیزی سے پھیلا تو اس وقت تو اتنی سختی نہ تھی پھر بھی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ جو پیچھے دل سے ایمان لایا ہو.وہ ٹوٹ گیا ہو.جبکہ دوسہ ہے انبیاء کی امتیں اپنے نبیوں سے سوال پر سوال کرتی نظر آتی ہیں.مشکل وقت میں ساتھ دینے سے انکار کر دیتی ہیں.حضرت موسیٰ کو ان کی قوم
نے کہا کہ تو اور تیرا خدا جاکر لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں.اور حضرت عیسی کے بارہ نواریوں میں سے دس چھوڑ کر چلے گئے.ایک نے مخبری کر دی اور پکڑوا دیا.لیکن آنحضرت کے صحابہ نہ میں سے ہر ایک کی یہ حالت تھی کہ آپ پر فدا ہونا ان کا جزو ایمان تھا.وہ اپنا سب کچھ.مال و دولت اولاد رشته دارسب قربان کر دیتے تھے.پھر بھی یہ حسرت ہوتی کہ ہم حق ادا نہ کر سکے.ان کی اسی اعلیٰ ایمانی حالت کو دیکھ کر خُدا نے انہیں کہا کہ میرے بندو! میں تم سے راضی ہو گیا ہوں تم مجھ سے راضی ہو....اگلی نشانیوں میں وہ حالات بیان ہوئے ہیں جب مسلمانوں کی حالت بہتر ہو چکی تھی کہ ان کی کما نہیں کشیدہ اور تیز تیز ہیں.یعنی وہ ہر وقت تیار رہتے ہیں.پھر جب میدان میں اترتے ہیں تو اس تیزی اور پھرتی سے حملہ آور ہوتے ہیں کہ سوار ہوں کو روکتے ہوئے ان کے سموں سے آگ نکلتی ہے.پھر اسی تیزی اور پھرتی کی وجہ سے گردو غبار کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے.اس زمانے میں تو متقابل پر لڑائی کا رواج تھا.اور میدانوں میں پہاڑوں میں دریاؤں میں لڑتے ہوئے جب وہ اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے زمین و آسمان اس آواز کی شدت سے گونج رہے ہوں.جس طرح شیر کی دھاڑ سے جنگل گونج اٹھتا ہے ان کے نعروں سے صحرا د دشت و جبل کانپ جاتے ہیں پھر بتاتے ہیں کہ جب قابو پاتے ہیں تو کوئی ان سے چھڑا نہیں سکتا کیونکہ فرار کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں خوف و دہشت سے اب آپ دوسرے نبیوں کی امتوں کو دیکھیں تو کہیں بھی یہ منظر نظر نہیں آئے گا.آگے ایک اور نشانی بتائی کہ " جب وہ زمین کو تاکیں گے تو اندھیرا اور تنگ حالی ہے اور روشنی ان کی بدیوں سے تاریک ہو جاتی ہے ؟"
۲۴ اب آنحضرت کے زمانے کو دیکھیں تو یہ وہ واحد زمانہ ہے جب بڑے بڑے مذاہب یہودیت ، عیسائیت، مجوسیت کے ہوتے ہوئے.ان کی تعلیمات کے باوجود ان کی عظیم الشان حکومتوں کے باوجود دنیا کی حالت کیا تھی.اور خود ان اقوام کی حالت کو دیکھیں تو اخلاق اور کردار کے لحاظ سے ان میں انسانیت بھی باقی نہیں رہی تھی.یہ وہ تو میں ہیں جن میں الہامی تعلیمات موجود تھیں.لیکن سب بیکار اور بے معنی ظلم انتہار کا تھا.ان کے بادشاہ سردار اپنی قوم کے غریب انسانوں پر ایسے مظالم کرتے تھے کہ ان کو بیان کرنا مشکل ہے.پھر وہ قومیں جن میں کوئی تعلیم نہیں تھی ان میں سب سے آگے غریب قوم ہے.بت پرست مشرک پھر اندر ہیں.دوسرے اقوام کی حالت بھی دیسی ہی ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی خراب منفی.قرآن پاک نے اسی نقشہ کو یوں بیان کیا کہ ظهر الفساد في البر والبحر کہ خشکی اور ترمی سب میں فساد پھیل چکا تھا.ایسے وقت میں یہ خدا کا محبوب ظاہر ہوا اور اس کی تعلیمات کی روشنی نے سارے اندھیروں کو آہستہ آہستہ مٹانا شروع کیا (۱) شرک کی جگہ تو حید نے لے لی اور یوں آہستہ آہستہ پر اندھیرا روشنی سے دور ہونے لگا رہا، ظلم کی جگہ رحم لینے لگا.(۳) دکھ کی جگہ سکھ آتا گیا ، غربت اور مفلسی کی جگہ قناعت، صبر اور توکل نے لی (ہ) انسانیت کی خدمت کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا ہوا پھر جہاں بھی آپ کے ماننے والے گئے.وہ اس تعلیم کو پھیلاتے رہے.دکھ سمیٹتے رہے.سکھ اور راحتیں بانٹتے رہے اور یوں انہوں نے ہر اندھیرے کو روشنی سے بدل ڈالا اور ان ساری نشانیوں میں سے ایک بھی ایسی نہیں جو کسی اور پر پوری ہوئی ہو.یہ صرف اور صرف میرے آقا آپ کے صحابہ اور
۲۵ آپ کے زمانہ سے متعلق تحقی حضرت سیسعیاہ نبی ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ.جو کہے تم اس کی تقدیس کرو اور اس سے ڈرتے رہو اور اس کی دہشت رکھو.وہ تمہارے لئے ایک مقدس ہوگا.پھر اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے نگر کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان اور یروشلم کے باشندوں کے لئے پھندا اور دام ہوگا بہت لوگ اس سے بھر کر کھا ئیں گے اور گر پڑیں گے اور ٹوٹ جائیں گے اور دام میں پھنسیں گے اور پکڑے جائیں گے.شہادت نامہ بند کر لو اور میرے شاگردوں کے لئے شریعت پر مہر کر دو.میں بھی خداوند کی راہ دیکھوں گا.جو آب یعقوب کے گھرانے سے اپنا منہ چھپاتا ہے میں اس کا انتظار کر دوں گا (یسعیاہ باب ۸ آیت ۱۳ تا ۱۷) اس پیشگوئی میں بھی چند نشانیاں اس موعود نبی کی بتائی گئی ہیں.سب سے پہلے تو خدا تعالیٰ کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے کہا گیا کہ رب الأفواج افواج فوج کی جمع ہے یعنی فوجوں کا رب.پالنے والا.بڑی طاقتور مہتی.اور جب ایک طاقتور ہستی حکم دے کہ اس کی تقد میں کرو یعنی اس کو مقدس جانو.اس پر ایمان لاؤ تو بھلا کس کی مجالی ہے کہ انکار کرے.اللہ تعالیٰ اس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کے ذریعہ دنیا کو اپنے سچے محبوب کے بارے میں سمجھاتا ہے کہ دیکھو ئیں بڑی عظمت والا، قدرت والا خدا ہوں اس لئے میری بات مانو.مجھ سے ڈرو.اور صرف اور صرف میرا خوف اپنے دل میں پیدا کرد تا کہ جو بھی حکم میں دوں اس کو ماننے میں کوئی عذر نہ ہو.اور جس کے بارے میں میں تم کو بتا رہا ہوں اگر تم نے اس کو مان لیا تو وہ تمہارے لئے بڑا مقدس ثابت ہوگا.یعینی اس کی اطاعت تم کو دین اور دنیا کی بھلائی کی طرف لے جائے گی.اور تم ہمیشہ فائدہ اور نفع ہی اٹھاؤ گے.کبھی نقصان نہیں ہوگا.
پھر خدا تعالیٰ توجہ دلا رہا ہے.سمجھا رہا ہے کہ بنی اسرائیل کے گھرانے دور ہیں.ایک یہودی.ایک عیسائی.ان دونوں کو اپنی شریعیت پر بڑا نا نہ ہے اور یہ غرور اور تکبر میں بھی دنیا کی دوسری قوموں سے آگے نکل گئے ہیں.اس لئے یہ دونوں گھرانے، اس سے ٹکرائیں گے یعنی اس کو ماننے میں تکلیف ہوگی.حالانکہ ان کی کتابوں میں اس موعود نبی کے بارے میں بڑے واضح اور کھلے کھلے نشانات موجود ہیں.تھا یہ اپنی طبیعت کی وجہ سے ایک نشان کے بعد دوسرا نشان پھر تیرا اور پوتی مانگتے چلے جائیں گے.جب ہر بات واضح ہو جائے گی تب بھی کہیں گے کہ نہیں.ہے تو وہی مگر ہم اس کی مخالفت کریں گے.اس جگہ ایک واقعہ بتا دوں کہ ام المومنین حضرت صفیہ اپنے والد حتی بن احطب اور چچا ابو یا سر کا واقعہ بیان کرتی ہیں.فرماتی ہیں کہ جب آنحضرت مدینہ ہجرت کرکے پہنچے تو بہت لوگ آپ سے مل رہے تھے.بعض ایمان لے آئے اور ابض رہ جاتے.ان میں میرے والد اور چچا بھی تھے.ایک دفعہ جب یہ مل کر آئے تو بڑے اداس اور تھکے ہوئے سے بیٹھے گئے.جیسے بڑے دکھ میں ہم میں ہوں.میرے چچا نے پوچھا کیا یہ وہی ہے.باپ نے جواب دیا.خدا کی قسم رہی ہے.چچانے پوچھا کہ آپ جانتے ہیں اور تحقیق کرلی ہے جواب دیا ہاں.پھر چچا نے پوچھا.پھر دل میں کیا خیال ہے اس کے بارے ہیں.جواب دیا.واللہ جب تک زندہ رہوں گا اس سے دشمنی کروں گا.سلے دیکھا آپ نے یہ حال تھا بنی اسرائیل کے گھرانے کا.اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو کراتا نہیں لیکن یہ خود اس سے کراتے ہیں پھر خدا تعالیٰ ان ہ سیرۃ ابن ہشام جلد اول صفحہ ۵۷۵۷۶
کو سمجھانے کیلئے کہتا ہے کہ اس سے کو لینے کے بعد تمہارا کیا ہوگا کہ وہ تو شان ہے جس سے ٹھو کر کھاؤ گے گرد گے اور ٹوٹ جاؤ گے لینی تم اپنے مقام سے گرو گے تمہارا غرور پاش پاش ہو جائیگا اور یہودی سلا اور عیسائی علماء کی یہی حالت ہوئی.پھر خدا تعالیٰ بتاتا ہے کہ اسے یروشلم کے باشندو! (یروشتم سیہودیوں کا مقدس شہر ہے، تمہارے لئے وہ پھندا بن جائے گا.اور تم فرار نہیں ہو سکو گے.تم اس میں پھنس جاؤ گے.یعنی جتنے سوال کرو گے.جتنی مخالفت کرو گے اس کی شان اور اس کی عظمت اتنی ہی زیادہ واضح ہو کر دنیا پر ظاہر ہوگی.اس کو لا جواب نہیں کر سکو گے بلکہ خود لاجواب ہو جاؤ گے اور اپنے بیانوں میں جو تم اس سچے محجوب کے لئے بنتے ہو خود پھنس جاؤ گے.مگر افسوس ہے ان نیود اور نصاری پر کہ اتنے واضح نشانوں کے باوجود نہ مان سکے.پھر اور نشان بتائے کہ اس زمانے میں موسوی شریعت پر مہر لگا دی جائیگی.اس لئے کہ ایک نئی آسمانی تعلیم آجائے گی اور اس کی ضرورت باقی نہیں رہے گی.اور یسعیاہ نبی فرماتے ہیں کہ اب سوائے اس کی اطاعت کے.سوائے اس تعلیم پیر مکمل کرنے کے کوئی چارہ نہیں کیونکہ سب تعلیمات تو اب عمل کے قابل نہیں رہیں.اور خدا سے تعلق پیدا کرنے کے لئے یعقوب کے گھرانے بنی اسرائیل میں سے ہونا لازمی نہیں.کیونکہ اب تو خدا نے بھی اس گھر کو چھوڑ دیا.اس سے منہ موڑ لیا.یعنی اب خدا تعالیٰ صرف اس شخص سے کلام کرے گا جو اس کے محبوب ، اس کے دارث کا اطاعت گزار ہوگا.اس کی محبت کے واسطے سے مجھ سے محبت مانگے گا.تو میں اس سے بات کروں گا.ورنہ میں ہرگز کسی سے کلام نہیں کروں گا اب میں نے اپنی محبت کا حصول اس کی محبت سے وابستہ کر دیا ہے.قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْسَكُمُ اللهُ - تو کہہ دے
YA ان کو جو مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہیں وہ میرے محبوب سے محبت کریں.اب ان نشانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے پیارے آقا کی زندگی کو دیکھیں تو ایک عجیب دنیا نظر آتی ہے.حضرت حسان بن ثابت بیان کرتے ہیں.کہ جب آپ پیدا ہوئے تو مدینہ کا ایک یہودی ایک بلند مقام پر چڑھ کر بلند آواز سے کہہ رہا تھا کہ اس گروہ یہود! اس گروہ یہود ! لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے کہ کیا ہو گیا ہے تجھے.تو بولا " احمد کا ستارہ طلوع ہو گیا ہے میں میں وہ پیدا ہے ہوگا (سيرة ابن هشام حصہ اول صفحه ۱۸۲) (سیرۃ اس واقعہ کو بتانے کی وجہ یہ ہے کہ توریت میں بڑی نمایاں نشانیاں نھیں بگر خدا تعالیٰ بھی اس قوم کی فطرت سے واقف تھا اس لئے بار بار ان کو بتا رہا تھا کہ تم ان تمام باتوں کے باوجود مانو گے نہیں.اور جب نہیں مانو گے تو میں بڑی قدرتوں طاقتوں والا خدا ہوں.وہ میرا ہے میں اس کی حفاظت کروں گا اور تم سب مخالفین کو پکڑ لونگا.اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ اس کو مان لو.یہی حال عیسائیوں کا تھا کہ وہ جانتے بوجھتے بھی ضد پر اڑے رہے اور نہ ماتا.اور ان بدنصیب قوموں میں سے ہو خوش نصیب ماننے والے تھے انہوں نے چند نشانیوں پر ہی مان لیا.اور نہ صرف وہ بلکہ ان کی اولادیں کبھی فائدہ میں یہ ہیں.اور نہ ماننے والے نہ صرف خود بلکہ ان کی حکومتیں ، بادشاہتیں بھی تباہ وبرباد ہو گئیں اور جو خدا نے کہا تھا کہ اس سے ٹکر لینے والے اس کو تو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے بلکہ خود ختم ہو جائیں گے.ٹوٹ جائیں گے بکھر جائیں گے.دیسا ہی ہوا.اور اب خدا صرف اور صرف امت محمدیہ سے کلام کرتا ہے.اور کرے گا.صرف شرط یہ ہے کہ اس کے محبوب سے محبت کرد.اس کے سچے وارث کی بادشاہت میں داخل ہو جاؤ.اس کے شہزادے کی اطاعت کرد بپھر میری محبت
۲۹ بھی تم کو حاصل ہوگی اور تمہارا ہر نیک فعل جو اس کے حکم کے تحت ہو گا وہ بھی عبادت بن جائے گا.اس طرح میرے محبوب سے میرے دارث سے محبت کرنے کے صلے میں میں بھی تم سے محبت کروں گا.اللھم صل على محمد وال محمد وبارك وسلم إنك حميد مجيد
حضرت حبقوق علیہ اسلام کی پیش گوئی اب آئیں حضرت حبقوق کے دور میں چلتے ہیں.جو ہمارے پیارے آقا کی پیدائش سے گیارہ سوستانو سے سال ۱۱۹۷۱) پہلے آئے تھے اور یہ بھی بنی اگر ایک کے نبی تھے.آپ کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ مد خدا نیما سے اور وہ جو قدوس ہے کو ہ فاران سے آیا.اس کی شرکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوئی.اس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی.اس کے ہاتھ سے کو نہیں نکلیں.پر وہاں بھی اس کی قدرت در پردہ تھی مری اس کے آگے آگے چلی اور اس کے قدموں پر آتشی ویا روانہ ہوئی.وہ کھڑا ہوا تو اس نے زمین کو مردہ دیا.اس نے نگاہ کی اور فوجوں کو پراگندہ کر دیا.اور نے قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے.پرانی پہاڑیاں اس کے آگے دھنس گئیں.اس کی قدیم را ہیں یہی ہیں.میں نے دیکھا کہ کو شان کے خیموں پر بستہ تھی اور زمین مدیان کے پر دے کانپ جاتے تھے (حقوق باب ۳ آیت ۳ تا ۷) اس پیشگوئی کو پڑھنے کے بعد جو نشانیاں اس میں بتائی ہیں ان میں سب سے پہلے ان دو ناموں کو لیتے ہیں کہ ان سے کیا مراد ہے ایک شیما.دوسرا فاران اب اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ حضرت اسمعیل کو خدا نے بارہ بیٹے دیئے.ان کے ایک بیٹے کا نام شما تھا.یہ نواں بیٹا تھا اس کی اولاد نجد سے حجاز اور خلیج فارس تک بڑھتے بڑھتے پھیل گئی تھی.اسی وجہ سے یہ تمام علاقہ
۳۱ اس کے نام سے مشہور ہو گیا عا اب ناران کے متعلق معلوم کریں تو بائیبل میں لکھا ہے کہ " خداوند اس لڑکے (اسمعیل ) کے ساتھ تھا.وہ پڑھا اور بیابان میں رہا.اور تیر انداز ہو گیا.وہ فاران کے بیابان میں رہا." ( پیدائش باب ۲۱ آیت ۲۰) عربوں کے جغرافیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ سے شمالی عرب کی سرحد تک کا علاقہ کوہ فاران کہلاتا ہے.جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم کے بڑے بیٹے حضرت اسمعیل سے پہلے مکہ بالکل غیر آباد تھا.اور وہ حضرت اسمعیل اور ان کی اولاد کی وجہ سے آباد ہوا.ان کی نسل پھیلتے پھیلتے سارے عرب میں آباد ہوگئی.اور عرب ہی اپنے آپ کو بنو اسمعیل کہتے ہیں.دنیا کی کسی قوم کو یہ دعوی نہیں کہ وہ اسمعیل کی اولاد ہے.یہ بات تو سمجھ میں آگئی کہ شیما اور فاران عرب کے علاقے ہیں.اور مکہ سے قریب کے حضرت اسمعیل کے بعد سے اس علاقہ میں کوئی نبی پیدا نہیں ہوا لیکن اب خدا کے سینا اور خاران سے ظاہر ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس سرزمین کو اپنے ایک موعود کے لئے چنا چاہتا ہے.جبھی تو وہ یہاں سے ظاہر ہوگا.اور اس علاقے سے اس پیشگوئی کے بعد صرف اور صرف پیارے آقا نے دعوی کیا.گویا آپ کے ذریعہ خدا کا ظہور ہوا.خدا آیا.اگلی نشانی ہے کہ اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا.اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوئی.محمود کے معنی ہیں بھر جانا.حمد کہتے ہیں تعریف کو ایسی تعریف جو محبت پیار اور احسان کی وجہ سے کی جائے.خدا تعالیٰ کی شان بیان کرنے کو بھی حمد کہتے حاشیه را دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۷۵
ہیں حمد سے پہلے ہم کو لگا دیا جائے تو محمد بن جاتا ہے اور محمد کے معنی ہیں جسکی بے پناہ تعریف ہو.قابل ستائش.لائق تحسین اور محمد نام سوائے ہمارے آقا کے کہ کا نہیں.آپ کا نام جب آپ کے دادا جان نے محمد رکھا اور لوگوں کو اس انوکھے نام پر تعجب ہوا تو اس پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ اس کی ماں نے اس کی پیدائش سے پہلے خواب دیکھا تھا کہ اس کے وجود سے ایک نور نکلا ہو ساری دنیا میں پھیل گیا.یہ بچہ بڑی عظمت اور شان والا ہوگا.اور میں چاہتا ہوں کہ ساری دنیا اس کی تعریف ہے.اب پیار سے آقا کی زندگی دیکھیں کہ دیسے ہی بچپن سے آپ کی پیاری پیاری عادتوں کی وجہ سے آپ کی تعریف ہوتی تھی.پھر جب جوان ہوئے تو مکہ کے جوانوں سے بالکل مختلف بڑی پاکیزہ عادتیں اور حسین اخلاق.اس لئے سارا مکہ آپ کا دیوانہ ہو رہا تھا.اس کے بعد جب نبوت کا دعوی کیا اور سارے مخالف ہو گئے اس کے با وجود ان کو محمد کہہ کر گالیاں دینے یا برا بھلا کہنے کی جرأت نہیں تھی.وہ مذمم کہہ کو گالی دیتے تھے.گویا محمد ایک ایسا نام تھا جو سوائے تعریف کے بولا ہی نہیں جا سکتا تھا.اور یہ نام اس پاک وجود کا تھا جو خدا کا ، اس کی خدائی کا ، اس کی بادشاہت کا تنہا وارث تھا.پھر ایک اور نشانی بتائی کہ اس کی جگہ گا ہٹ نور کی مانند ہے.آپ کی ذات میں خدا تعالیٰ نے ایسی خصوصیات رکھ دی تھیں کہ ان کی وجہ سے اس تاریکی کے دور میں بھی ایک روشنی تھی جو پھیل رہی تھی.یعنی آپ کا بولنا.ہنستا.چلنا پھرنا لوگوں کے ساتھ سلوک ، غریبوں سے محبت غلاموں سے پیار رشتہ داروں سے حسن سلوک ، دشمنوں سے صلہ رحمی یہ سب آپ کے پاکیزہ اخلاق کی چند کرنیں ہیں.پھر بچپن سے ہی صادق اور امین مشہور ہو جانا.بعثت کے بعد انتہائی دشمنی سے ہوتے ہوئے بھی اپنی قیمتی چیزیں آپ کے پاس ہی رکھنا یہ سب کیا تھا.
۳۳ یہ ایک نور تھا جو آپ کی ذات میں جگمگا رہا تھا اور اسی نوار کی کرنوں نے تمام لوگوں سے آپ کے اخلاق کی پاکیزگی کو منوالیا.اس نور میں نبوت کے نور کو بھی شامل کر کے اس کی جگمگاہٹ کو اور بڑھا دیا.پھر بتایا گیا کہ اس کے ہاتھ سے کرنیں نکلیں پھر وہاں بھی اس کی قدرت در پردہ تھی.درپردہ سے مراد چھپی ہوئی.اس نشانی میں خدا تعالیٰ کہ دیا ہے کہ یہ تو صرف اس کی ذات کے لئے نہیں تھا بلکہ اس کے ہاتھ سے کرنیں نکل کر دوسروں کو بھی نور بنا رہی تھیں.وہ کیسے ؟ وہ اس طرح کہ جو بھی آپ کی بیعت کرتا.آپ کے ہاتھ میں اپنا ہا تھ دیتا وہ اپنے اس معاشرے کی تمام برائیوں سے پاک ہو جانا تھا.کیسا ہی گناہ گار ظالم جاہر کیوں نہ ہو جب ہاتھ کو پکڑتا تو اس کی دنیا ہی بدل جاتی.وہ اس دنیا میں رہتے تو تھے مگر ان کے وجود اس نور کی وجہ سے خدا کی سچائی کو ظاہر کرنے والے وجود بن جاتے تھے.ان نور کے ٹکڑوں میں آپ کو کہیں حضرت ابو بکر صدیق رینہ چمکتے ہوئے نظر آئیں گے تو کہیں حضرت عمر فاروق کہیں اپنے وجود کی روشنی حضرت عثمان رنہیں منعکس کر رہے ہیں تو کہیں حضرت علی نہیں.سارے عرب میں صرف اور صرف یہی انسان تھے جن کے وجود کی چمک دوسرے اندھیرے وجودوں کو بھی روشنی عطا کر رہی تھی.اب آپ دیکھیں اس دنیا میں کتنی روشنیاں یعنی کرنیں ہیں RAYS ہیں جن کو انسان نہیں دیکھ سکتا.لیکن ان کے وجود سے انکار بھی نہیں کر سکتا.تو میرے آقا کے ہاتھ کی کرنیں بھی ان کرنوں جیسی ہی تھیں جو موجود تھیں.ان کے اثرات ظاہر ہوتے تھے اور ہو رہے ہیں مگر وہ نظر نہیں آتی تھیں.نشانیوں میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مری اس کے آگے چلی اور اس کے قدموں پر آتشی و با روانہ ہو گئی.مری ایسی بیماری کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے انسان مر جائے.
اس میں دو باتیں ہیں.ایک تو یہ کہ آپ نے جو جنگیں کیں اور آپ کے دشمن ہلاک ہوئے.دوسری یہ کہ آپ کی مخالفت میں جو انسان پڑے وہ اتنے بڑھے اتنے بڑھے کہ ان کی انسانیت مرگئی.اور انسانیت مرنے کے ساتھ ساتھ وہ دنیا میں اتنے ذلیل خوار ہوئے کہ ان کی عزتیں مرگئیں.جن کو بچانے کے لئے اپنی سرداریوں کو قائم رکھنے کیلئے وہ آپ کو مانتے نہیں تھے.نہ صرف ان کی سرداری ختم ہوئی بلکہ ان کی اولاد بھی اُن سے دُور ہونے لگی.ان میں عبد اللہ بن ابی بن سلول اور اس کے بیٹے عبداللہ کا واقعہ کہ اس نے جب رسول خدا کو بُرا کہا تو بیٹے نے اس کو پکڑ لیا کہ جب تک تم ان کو معزز اور اپنے آپ کو ذلیل ترین نہیں کہو گے میں تم کو نہیں چھوڑوں گا.اور جب انسان تنہا رہ جائے تو زندہ ہو تب بھی مردوں سے بدتر ہے.کوئی اس سے بات کرنے والا پیار کرنے والا نہیں.ان نشانیوں سے مراد یہ ہے کہ آپ کے دشمن ہلاک ہو جائیں گے ک ہو جائیں گے یا پھر آپ کی عظمت کو ماننے پر مجبور ہوں گے.ایک اور نشانی کہ وہ کھڑا ہوا تو اس نے زمین کو لرزا دیا.اس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا.پہلی بات سے مراد آپ کا رعب و دبدبہ ہے جو خدا نے آپ کو خاص طور پر عطا کیا تھا.آپ فرماتے ہیں کہ مجھے رعب عطا کر کے میری مدد کی ہے اور اسی وجہ سے دشمن خوفزدہ ہو جاتا ہے.اس واقعہ پر نظر کریں کہ ابو جل جو سخت دشمن تھا اس نے کسی کی رقم دینی تھی اور وہ نہیں دے رہا تھا.وہ شخص آپ کے پاس آیا اور کہا کہ میری مدد کریں میری رقم دلا دیں.آپ چل پڑے.اب لوگ حیران دیکھ رہے ہیں کہ محمد خود چل کر ابو جہل کے پاس جا رہا ہے اور اب ابو جبل کو موقع مل جائے گا اور وہ مار دے گا.لیکن جب آپ نے کہا کہ اس کی رقم دیدو تو اس نے فوراً ادا کر دی.یہ خدائی رعب تھا جس سے وہ لرز گیا.
۳۵ دوسری بات میں خدا تعالیٰ نے بتایا کہ ہر قوم، ہر قبیلہ، ہر ملک کے ایسے افراد جن کی فطرت میں نیکی تھی.وہ پاک وجود تھے جب میرے محبوب نے ان پر نگاہ کی تو وہ اس کی توجہ سے اس کی طرف بڑھے.جیسے لوہے کے ٹکڑے مقناطیس کی کشش سے اس سے چپک جاتے ہیں اسی طرح یہ اپنی قوموں کو قبیلوں کو ملکوں کو چھوڑ کر آپ کے گرد جمع ہو گئے.انہوں نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا اور ایک نئی قوم کے فرد بن گئے.یعنی امت مسلمہ کے فرد.انہوں نے صدیوں سے باپ دادوں کے مذہب کو چھوڑ کر مسلمان کہلانا پسند کیا.حتی کہ اپنے نام بھی بدل کر اپنے آقا کی پسند کے نام رکھ لئے.اس طرح قو میں پرا گندہ ہو گئیں.پراگندہ سے مراد بکھر جانا.اور ایسے بکھرنا کہ پھر ان کو ایک جگہ جمع نہ کیا جاسکے اور یہ صرف پیارے آقا کے پرستاروں میں نمونہ نظر آتا ہے.کہ جو آ گیا سو آ گیا.اب جانے کے سارے راستے انہوں نے خود بند کر لئے.گویا آپ کی نگاہ کی ایسی تاثیر منفی.ایسا اثر تھا کہ اس کی کشش سے تو میں بکھر گئیں.پھر بتایا گیا کہ قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے.پرانی پہاڑیاں اس کے آگے دھنس گئیں.پہاڑ سے مراد طاقتور - بڑا دشمن.بڑی حکومتیں بھی پہاڑ کی طرح ہوتی ہیں پہاڑیاں چونکہ پہاڑ سے چھوٹی ہوتی ہیں.اس لئے اس کا یہ مطلب ہوا کہ پہاڑ سے چھوٹے یعنی قبیلوں کے سردار وغیرہ جب آپ نے اپنے آپ کو خدا کی طرف سے ہونے کا دعوی کیا تو دو بڑی بڑی طاقتور حکومتیں تھیں.قیصر اور کسریٰ کی.ایران اور روم کی.ایک تھے آتش پرست دوسرے عیسائی تھے اور یہ دونوں حکومتیں آپ کے خلفاء کے زمانے میں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہو گئیں گویا بڑے بڑے پہاڑ ٹوٹ پھوٹ گئے ، اور آپ کی اپنی زندگی میں ہی عزیز کے بڑے بڑے قبیلوں کے سردار جنہوں نے مخالفت کی وہ یا تو مارے گئے یا مسلمان ہو گئے گویا پہاڑیاں بھی دھنس گئیں.
ایک نشانی یہ بتائی کہ اس کی قدیم کی راہیں یہی ہیں.یعنی جب سے خدا تعالیٰ نے انبیاء کا سلسلہ شروع کیا ہے وہ اپنے ہر نبی کو اس کی ایسی ہی باتیں بتاتا رہا ہے.پیرانی سے پرانی نشانیاں دیکھ لو.ان میں بھی اس کی یہی شان بتائی گئی ہے.آخر میں حضرت حقوق " کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا گویا خدا تعالیٰ نے ان کو یا تو خواب دکھایا یا کشف تھا کہ کوشان کے خیموں پر بہت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے.کوشان اور مدائن کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا موعود نبی شام سے دور کے علاقے سے تعلق رکھے گا.اس زمانے میں یہ دونوں قیصر روما کے ماتحت تھے اور وہ تقریباً آدھی دنیا کا بادشاہ تھا مگر جب حضرت ابو بکر صدیق ان کے زمانے میں فلسطین کی طرف مسلمان پڑھے تو قیصر کی فوجیں ان مٹھی بھر افراد کے سامنے ایسی بھا گیں کہ اپنے خیمے اپنی سواریاں اپنا سامان جنگ اپنے زخمی اور لاشیں بھی چھوڑ گئے.ایسا خوف ان پر طاری ہوا اور حقیقتاً ان پر تو آفت ہی ٹوٹ پڑی.اور جو نظارہ حضرت حبقوق نے دیکھا.وہ اس وقت نظر آگیا ان تمام نشانیوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی اور بنی کے زمانے میں پوری نہیں ہوئیں.یہ پیارے آقا کے لئے تھیں.اس لئے ان کے زمانے میں خدا تعالیٰ نے ایک ایک نشانی کو صاف اور واضح انداز میں پورا کیا.تاکہ کسی کو کوئی شک نہ رہے.کہ یہ وہ موعود نبی ” نہیں ہے.
حضرت سلیمان علیہ السلام کی پیش گوئی آئیں اب حضرت سلیمان کے زمانے میں چلیں.حضرت سلیمان بھی حضرت اسحاق کی اولاد میں سے ہیں اور آپ نے سنا ہوگا کہ ان کی بادشاہت بہت پھیلی ہوئی تھی.ان کے پاس بہت دولت تھی بہیرے جواہرات پھر یہ اپنے زمانے کے طاقت در بادشاہ تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کو نبی بھی بنایا تھا.جب خدا تعالیٰ نے ان کو بتایا کہ میرا ایک محبوب ہے تو اور نبیوں کی طرح ان کو بھی تمنا ہوئی کہ وہ کیسا ہوگا.اس میں کیا کیا خصوصیات ہونگی.چنانچہ خدا تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو بھی اپنے وارث کے بارے میں بتایا.اور جب انہوں نے یہ تمنا کی کہ خدا مجھے اس کا جلوہ دکھا دے تو خدا نے آپ کو پیارے آقا کی جھلک بھی دیکھا دی.اور اس کو دیکھنے کے بعد انہوں نے آپ کو اپنا محبوب بنا لیا.اور آپ کی محبت میں گم ہو گئے پھر جو کچھ بھی انہوں نے بیان کیا وہ کتاب غزل الغزلات میں درج ہے.جو آپ سے محبت کی بناء پر لکھی گئی بٹ حضرت سلیمان کی ساری نشانیوں میں ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی نظم یا غزل بیان کہ رہے ہوں جس میں ان کے محبوب کا عکس نظر آتا ہو.وہ اس پاک وجود کی عظمت شان اور حسن سے بے پناہ متائثر معلوم ہوتے ہیں.ایک جگہ اپنے محبوب کے بارے میں فرماتے ہیں.عا دیا چه تغییر القرآن از مصلح موعود
PA 1 : " میرا محبوب سرخ و سفید ہے.دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے.اس کا سر ایسا ہے جیسے چھوکا سونا.اس کی زلفیں پیچ در پیچ اور کوے کی سی کالی ہیں.اس کی آنکھیں ان کبوتروں کی مانند ہیں جو لب دریا دودھ میں نہا کر تمکنت سے بیٹھتی ہیں.اس کے رخسارے پھولوں اور بلسان کی ابھری ہوئی کیاریوں کی مانند ہیں.اس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا مر سکتا ہے.اس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جس میں توسیس کے جواہر سکے ہوں.اس کا پیٹ ہاتھی دانت کا سا کام ہے جس میں نیلم کے گل بنے ہوں.اس کے پیر ایسے ہیں جیسے سنگ مرمر کے ستون جو سونے کے پایوں پر کھڑے کئے جائیں.اس کی قامت لوبان کی سی ہے وہ خوبی میں رشک سرد ہے.اس کا منہ شیریں ہے.وہ سراپا عشق انگر (محمدیم، اسے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا ہے میرا جانی (غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۰ تا ۱۶) آپ کو اس تحریر کے پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے گویا کوئی عاشق اپنے محبوب کی ایک ایک چیز کو بڑے غور سے دیکھتا ہے پھر روئے زمین پر پائی جانے والی ساری قیمتی چیزوں سے ان کو تشبیہ دیتا ہے یعنی ان جیسا بناتا ہے، گو یاد نیا کی تمام خوبصورت اور قیمتی چیزیں اس کے محبوب کے وجود کا حصہ ہیں.اس بیان سے ایسا لگتا ہے کہ حضرت سلیمان نے پیارے آقا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا.پہلے ان خوبصورت اور قیمتی چیزوں کو لیتے ہیں.(۱) سرخ اور سفید رنگ خوبصورتی کی علامت ہے (۲) جھنڈا قوم کی عظمت اس کی شان کا نشان ہوتا ہے (۳) چھو کا سونا بالکل خالص سونا جس میں ذرہ برابر بھی ملاوٹ نہ ہو رہی پیچ در پیچ زلفیں یعنی بال یا تو سید مصے ہوتے ہیں جو ایک طرح کی خوبصورتی ہے دوسرے گھنگریالے بال چین میں زیادہ
خم ہوتا ہے.لیکن ایک درمیا نے جو بالکل سیدھے بھی نہیں اور بہت گھونگر والے بھی نہیں.بلکہ خوبصورتی کی انتہا.ہلکے ہلکے خمدار پھر سیاہ بال.جو رنگ کے حساب سے بالوں میں سب سے زیادہ پرکشش ہوتے ہیں.ان میں ایک طرح کی چمک بھی ہے (0) کبوتر جب دریا میں نہا کر اس کے کنارے بیٹھ جائیں تو ان کی آنکھیں نہ تو پوری کھلی ہوتی ہیں نہ بندیس آدھی کھلی آدھی بند بڑے حسین انداز میں مگن نظر آتے ہیں.(4) رخساروں کی مثال چین سے دی جہاں سوائے پھولوں کے ، ان کے رنگوں اور حسن کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا.میں حسن ہے اور کچھ نہیں (4) سوسن ایک پھول ہے جس کو زبان سے تشبیہ دیتے ہیں (۸) مر ایک قسم کی گوند ہے جس کی خوشیو بری اعلیٰ اور اس کی تاثیر زخموں کو ٹھیک کرتی ہے.اس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے.جراثیم کو بھی مار دیتی ہے (1) سونے کی کڑیاں.کڑیاں مثلاً چھت میں لگی ہوئی کو ہے کی مضبوط سلا نہیں جو ہر وزن کو برداشت کر لیتی ہیں اور اس کو سہارے کے مطلوبہ پر پکڑا جا سکتا ہے (1) ترسیس کے جواہر بنیادی خوبیاں بہت قیمتی جواہراتا (1) ہاتھی دانت بھی قیمتی چیز ہے جو اپنی سفیدی اور سختی میں مشہور ہے.یہ آسانی سے نہ ٹوٹتا ہے نہ چٹختا ہے.(۱۲) فیلم نیلے رنگ کا قیمتی پتھر (۱۳) سنگ مرمر عام پتھروں میں سب سے قیمتی پتھر خوبصورتی اور مضبوطی ہیں.پھر اس پر ایک طرح کی چمک ہوتی ہے (۱۴) لبنان کی قامت.لبنان کے لوگ بڑے مضبوط جسم کے ہوتے ہیں محنتی جفاکش (۱۵) سرد - ایک خوبصورت درخت جس پر ختراں اثر نہیں کرتی بہت اونچا.اس کی شاخیں آسمان کی طرف سیدھی کھڑی ہوتی ہیں.تنا چکنا سفید - رشک سرد محبوب کے لئے استعمال ہوتا ہے (۱۶) سرا پا عشق انگیز اس کو دیکھ کر سوائے محبت کے کچھ نہیں کیا جا سکتا.تعریف ہی تعریف.حضرت سلیمان نے ان نشانیوں میں آپ کے جسمانی حسن یعنی صورت اور اخلاق
ذکر دار یعنی سیرت اور آپ کی تعلیم کی خصوصیات کے علاوہ آپ کی زندگی کے کچھ تاریخی واقعات کو بھی لیا ہے.اب اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ محبت کیا ہے ؟ عشق کس کو کہتے ہیں ؟ یہ جذبات ہیں.یہ جذبہ پیدا کیسے ہوتا ہے ؟ وہ اس طرح کہ کسی خوبصورت چیز کو دیکھ کر ظاہری خوبصورتی سے انسان متاثر ہوتا ہے اور بار بار دیکھنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے اخلاق پر بھی نظر پڑتی ہے کہ سچا ہے.وعدہ خلاف نہیں رحمدل ہے اس میں خلوص ہے.قربانی کرتا ہے وغیرہ وغیرہ تو پھر احترام کے جذبات ہونے ہیں.اس کے بعد جب کردار پر نظر پڑتی ہے کہ اس میں کوئی کمزوری نہیں.خامی نہیں تو عقیدت پیدا ہوتی ہے.پھر پتہ چلتا ہے کہ یہ محسن بھی ہے کیونکہ بھلائی کی تعلیم دیتا ہے.برائی سے روکتا ہے سمجھاتا ہے.بتاتا ہے.پھر نیکی پر نہ صرف خود چلتا ہے بلکہ چلاتا ہے اور منزل تک پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے.پھر ان تمام احسانوں کے بدلے میں کوئی صلہ نہیں مانگتا.بلکہ ان کی اخلاقی کمزوریوں.کردار کی بیماریوں کا علاج کرتا ہے.پھر سہارا دیتا ہے تو ہمیشہ کے لئے مضبوط تھام لیتا ہے.پکڑا لیتا ہے محسن ہونے کی وجہ سے محبت ہوتی ہے.اور محبت جب ترقی کرتی ہے تو عشق بن جاتی ہے جہاں تمام رشتے ٹوٹ جاتے ہیں.حتی کہ اپنا ہوش بھی نہیں رہتا.اور یہ ہے وہ مقدس اور پاک جذبہ رجس میں خدا تعالیٰ نے نہ صرف ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیار کو مبتلا کیا بلکہ رہتی دنیا تک کروڑوں انسان اس خدائی محبوب کے عاشق ہوں گے اور ہوتے رہیں گے ) پہلے ظاہری حسن کو لیتے ہیں اور ساتھ ساتھ دیکھتے ہیں کہ یہ خوبی پیارے آقا میں نظر آتی ہے کہ نہیں.رنگ کے بارے میں کہا گیا.سرخ دسفید - یعنی نہ تو بالکل سفید نہ کالا بلکہ
ایسی سفیدی جس میں سُرقی کی جھلک ہو.تو پیارے آقا کا رنگ گندم گوں ہے کچھ سفید تھا.زلفیں پیچ در پیچ اور کالی - پیارے آقا کے بال بھی بالکل سیدھے نہیں تھے بلکہ خمدار چمکدار اور سیاہ تھے.آنکھیں جو کبوتروں کی مانند تو پیارے آقا کی آنکھیں روشن اور سیاہ نہیں.کبھی پوری آنکھ کھول کر نہیں دیکھتے تھے بلکہ ہمیشہ غض بصر کی کیفیت رہتی دینی آدھی کھلی آدھی بند ) کہ خسار جو چین کی طرح ہیں.ہمارے آقا کا چہرہ گول چوڑا اور اس میں ایک خاص بات یہ تھی کہ دُور سے آپ پہچانے جاتے تھے.لبنان کی قامت مضبوط جسم.پیارے آقا کا جسم مضبوط محنتی تھا.آپ نازک جسم کے مالک نہ تھے.بلکہ مردانہ وجاہت کا نمونہ تھے.ایک انسان میں جتنا حسن اور خوبصورتی ہو سکتی ہے وہ سب آپ میں موجود تھی.اب صفات کی طرف آتے ہیں.لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا مرٹیکتا ہے.یعنی آپ کی تعلیم جو آپ بیان کرتے ہیں.خدا کا پیغام جو سناتے ہیں.اس کی خاصیت یہ بتائی ہے کہ وہ مر گوند کی صفات لئے ہوئے ہے یعنی مزے میں کردی کیونکہ ہر بری خواہش سے روک دیتی ہے.پھر یہ جراثیم کو مارتی ہے.اور اسلام تمام اخلاقی اور کردار کی بیماریوں کا علاج کرتی ہے.پھر یہ زخموں کو اچھا کرتی ہے تو آپ کی تعلیم ہر روح کے زخم کو بھر دیتی ہے اس کو صحتمند کر دیتی ہے.یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جو تجربہ کار ڈاکٹر یا حکیم ہوتا ہے وہ کسی بھی مریضین کو دیکھنے کے بعد اس کا اصل مرض تلاش کرتا ہے اور سب سے پہلے اس کا علاج کرتا ہے تاکہ بنیادی خرابی درست ہو تو کئی امراض خود به خود ٹھیک ہو جائیں گے.بنیادی مرض کی تشخیص کے بعد ایسی دوا تجویز کرتا ہے جس کا استعمال
مشکل نہ ہو.اگر بہت ساری دوائیں شربت کیپسول وغیرہ دیئے جائیں تو مریض پریشان ہو جاتا ہے کہ کس طرح یاد رکھا جائے کہ کونسا صبح کو نسا دو پہر کوئی کھانے سے پہلے کوئی بعد اور کوئی درمیان ہیں.اسی طرح بہت ساری دواؤں سے بھی علاج ممکن نہیں ہوتا بلکہ اچھا حالج یعنی ڈاکٹر آسان اور سستی دوا تجویز کرتا ہے جس کو حاصل کرنا اور سات کرنا بھی آسان ہو.اس بات کو سمجھ کر جب ہم اسلام کی تعلیم کو لیتے ہیں تو عربوں میں بہت سی اخلاقی برائیاں تھیں.کردار کی کمزوریاں نہیں لیکن میرے پیارے آقا م نے ان تمام امراض کی جڑ پر ہاتھ ڈالا.کہ اکثر خرابیاں بلکہ تمام شرک کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں.پھر خدا کو ایک نہ ماننے کی وجہ سے مرض پھیل گیا اس لئے اس کا علاج یہ ہے کہ ایک خدا پر ایمان لاؤ.یعنی لا الہ الا اللہ کہ خدا کے سوا کوئی نہیں.جب اس کے سوا کوئی نہیں تو پھر رزق کون دیگا.زندگی موت کا سبب کیا ہو گا یعزت دولت کہاں سے ملینگی.اگر دکھی ہوں گے تو کون دیکھے گا.فریاد کون سنے گا.تو تعلیم دی وہ رحمن ہے تمہاری تمام بنیادی ضروریات جو زندگی کیلئے لازمی اور ضروری ہیں وہ بن مانگے دیتا ہے.پھر رہیم ہے.یعنی جو بھی عمل کرد گے اس کا بدلہ ضرور ملے گا.ری العالمین ہے.پالتا ہے ترقی دیتا ہے.مالک ہے.ایسا طاقتور بادشاہ ہے کہ جب حساب کرے گا تو اس میں کوئی نا انصافی نہیں ہوگی.کیونکہ اس کو کسی کی گواہی کی ضرورت نہیں بلکہ وہ خود عالم الغیب ہے.یعنی اس کی نظر سے کوئی چیز کوئی بات پوشیدہ نہیں.پھر رازق ہے.رزق دیتا ہے حتی القیوم ہے.زندگی دیتا ہے اور اس کو قائم رکھتا ہے.قادر ہے.قدرت رکھتا ہے کہ جس کو چاہے عزت دے جس کو چاہے ذلیل کرے.یہی حال دوسری نعمتوں کا ہے.وہ ہر دکھی کو دیکھتا
۴۳ کیونکہ بغیر ہے.اور ہر پکارنے والے کی آواز کو سنتا ہے کیونکہ سمیع ہے اس لئے اسی ذات پر ایمان لاؤ.اس کے در پر چھکو اور اسی سے مدد مانگو.یہ تھا علاج جو اس ماہر معالج نے کیا.(جو خدا کی طرف سے آیا تھا اور اس کا اثر اس معاشرے پر ایسا ظاہر ہوا کہ انسانوں میں تبدیلیاں آنے لگیں.) ہر اخلاقی بیماری اور کردار کی کمزوری کے لئے جو علاج تجویز کیا وہ یہ تھا کہ " خدا کے سوا کوئی نہیں.اور اس کی وجہ سے ایک ظالم ڈر گیا کہ مسجد سے بڑی اور طاقت ور ذات ہے جو دیکھ رہی ہے.اگر اس نے پکڑ لیا تو کیا.نے ہو گا.وہ ظلم سے رک گیا اور یوں آہستہ آہستہ اخلاقی امراض درست ہونے لگے.پھر لا الہ الا اللہ کی برکت سے انسانوں میں ایک طاقت پیدا ہوگئی.ایک ایسی طاقت جو ہر مرمن سے لڑ سکتی تھی.وہ مظالم سہتے ہوئے پیچھے نہیں ہٹے.بلکہ آگے بڑھے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.وہ ایک طاقتور ذات ہم کو دیکھ رہی ہے ہماری فریاد سن رہی ہے.اس میں اتنی قوت ہے کہ وہ ظالموں کو پکڑ لے.چنانچہ وہ ماریں کھاتے ہوئے بھی خدا کے دامن سے چھٹے رہے اور ان میں جو خوف تھا مالکوں ، آقاؤں کا ، سرداروں اور حاکموں کا وہ خوف خدا کے خوف سے بدل گیا.اس کی محبت میں ڈھل گیا.پھر تاریخ نے ان کمزور وجودوں کو دیکھا کہ حضرت بلال ہو کے ہاتھوں جنگ بدر میں ان کا آقا امیہ بن خلف مارا گیا.کیونکہ ان کی لڑائی ذات کی لڑائی نہیں تھی بلکہ وہ اپنے خدا کے دشمنوں سے لڑ رہے تھے.پھر ایک جگہ بے شمار امراض جھوٹ.زنا - شراب چوری کے مریض کو جو پر ہیز بتایا وہ یہ کہ جھوٹ چھوڑ دو.اور وہ صحتیاب ہو گیا.یہ تاثیر نقلی اس تعلیم کی اور یہ خوبی تھی اس معالج کی کہ اس کے کہوں سے
۴۴ بہتا ہوا امر ہر مرض کی دوا بن گیا.اب ہم ایک اور نشانی کو لیتے ہیں.جس میں بتایا گیا کہ وہ دس ہزار آدمیوں کے درمیان جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے" اگر تمام انبیاڈا کی زندگیوں کو دیکھیں تو سوائے ایک کے کسی بھی نبی کی زندگی میں ایسا دن نظر نہیں آنا جب ان کے ساتھ دس ہزار لوگ موجود ہوں.اور وہ با برکت وجود ہمارے پیارے آقا سید نا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.جب فتح مکہ کے موقع پر آپ دس ہزار کے لشکر میں جھنڈے کی طرح موجود تھے.حضرت سلیمان فرماتے ہیں.وہ سراپا عشق انگیز ہے.اس سے مراد ایسا انسان ہے جس کی ہر ادا خو بیوں سے بھری ہوئی ہو.اس میں کسی کو کوئی خامی نظر نہ آئی ہے.اصل میں یہ ترجمہ ہے لفظ محمد تیم کا اور محمدیم کے نام کو دیکھیں تو کسی نبی کا نام اس سے ملتا جلتا بھی نہیں ہے.ہمارے آقا کا نام محمد رکھنا گیا.اور جب کوئی آپ کو جسمانی خوبصورتی کے لحاظ سے دیکھتا ہے تو آپ عرب کے حسین ترین انسان دکھائی دیتے ہیں اور جب اس حسن کو دنیا کے اور انسانوں میں تلاش کرنا چاہا تو کوئی بھی اس جیسا نہ تھا.پھر اخلاق کے لحاظ سے دیکھا تو خدا نے گواہی دی کہ اسے محمد.آپ اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں ملا میر کردار کے لحاظ سے دیکھیں تو اس میدان میں بھی سوائے آپ کے کوئی نظر نہیں آتا کیونکہ واحد آپ میں جن کی زندگی کو خدا نے تمام دنیا کے لئے تمام انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا.۲ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ ایسا محبوب جس میں سوائے حسن کے خوبیوں کے.ه (سوره الظلم - آیت (۵) اسور ان کزاب آیت (۲۲)
۴۵ اور کچھ نہ ہو اس سے کیسے پیار نہ کیا جائے.ایسے وجود سے تو خود بخود پیار ہو جاتا ہے اور جن لوگوں نے اس محبوب کی جھلک دیکھی اور دیکھ کر اپنی قوم کو پکارا کہ جب بھی تم کو ملے تو صرف اور صرف اس سے محبت کرنا.اور یہی بات حضرت سلیمان نے بھی اپنی قوم کو بتائی کہ جیسے تم مجھ کو مانتے ہو.میرا احترام کرتے ہو.مجھ سے محبت کرتے ہو.میری اطاعت کرتے ہو تو یاد رکھو وہ میرا محبوب ہے.میری جان ہے.اس کو کبھی نہ دکھ دیا.صرف پیار کرتا اور عشق کرنا گویا آپ کی ذات جیسے کہتے ہیں اسم با مسمیٰ بالکل یہی بات ہے.آپ جب ان نشانیوں کو پڑھ رہے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ خدا کس طرح اپنے پیارے کے لئے قوموں کو تیار کر رہا تھا.ساتھ ہی دل سے بے اختیار ان مقدس افراد کے لئے بھی محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جنہوں نے آپ سے محبت کی حضرت سلیمان کا کلام کیونکہ شاعرانہ کلام ہے اور شاعر اپنے محبوب کو اپنی پسند کے ناموں سے پکارتا ہے.کبھی محبوب کو مونث یعنی عورتوں کی طرح خواہ وہ مرد ہی کیوں نہ ہو.اور کبھی مذکر یعنی مرد کی طرح خواہ وہ عورت ہی کیوں نہ ہو.یہ تو ہر شاعر کے کلام میں نظر آتا ہے.اب ، چنانچہ حضرت سلیمان اپنے محبوب کو سب ہی پیار کے رشتوں سے پکارتے ہیں کبھی بہن کہتے ہیں.کبھی نہ وجہ.کبھی ہوا.( باب ۴ آیت ۱-۱۰) آپ نے پیارے آقا کو بہن اس لئے کہا کہ آپ حضرت اسمعیل کی اولاد سے ہیں.اور حضرت سلیمان.حضرت اسحاق" اس لئے دونوں کی اولاد آکس میں بھائی بھائی ہوئے اور آپ نے بھائی کی میگہ بہن کہہ دیا.پھر زوجہ بوا کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بہن بھائی ایک گھر سے تعلق رکھتے ہیں.لیکن چونکہ اسلام کی تعلیم ساری دنیا کے لئے تھی.ہر قوم کے لئے ہر
انسان کے لئے.گویا اسلام کا دروازہ سب کے لئے کھلا ہے اور یہ تعلیم غیر خاندانوں سے بڑھتے ہوئے قوموں تک پھیل گئی بلکہ ساری دنیا کو منور کر دیا.اس لئے غیر کا لفظ استعمال کیا.ج - ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ میرا محبوب اپنے باغ میں آوے اور اس کے لذیذ میوے کھا دے“ (باب ۴) اس نشانی کو لیکر جب آپ ہرنجی کے دروازے پر جا ئیں اور ان سے پوچھیں کہ کیا یہ سارا نظام یہ کائنات آپ کے لئے بنائی گئی تھی تو سب انکار کر دیں گے.کیونکہ ان کے لئے تو یہ دنیا بنی ہی نہیں.پھر یہ باغ کس کیلئے لگایا گیا.اس سوال کا جواب تو خدا کے سوا کوئی نہیں دے سکتا.اور خدا نے اپنے محبوب کو بتایا کہ یہ دنیا میں نے تیری خاطر بنائی.وہ محبوب کہنا ہے کہ مجھے میرے ندا نے بتایا کہ اگر تجھے پیدا کرنا میرا مقصد نہ ہوتا تو میں یہ آسمان بھی نہ بنا نا مل حدیث قدسی سط) اس سے ثابت ہوا کہ یہ باغ خدا نے اپنے محبوب کے لئے لگایا اور اس کے لذیذ میرے بھی تو اس کے لئے ہی تھے.اب ہم دیکھیں کہ اس کائنات کے پھیل کیا ہیں ؟ پھل درخت کی سب سے قیمتی چیز ہوتی ہے جس کو تیار کرنے ہیں.درخت کی جڑیں.شاخیں اپنے سب حصہ لیتے ہیں.پھر پھول کے ختم ہو جانے پر پھیل بنتا ہے.اور پھول جیسا کہ آپ نے دیکھا ہے کہ اپنی خوبصورتی میں اپنی مثال ہوتا ہے.اس کا رنگ.اس کی بناوٹ.پھر رنگوں میں امتزاج - ملارٹ.ان کا اپنا حسن ہے.لیکن یہ سب کو نظر آتا ہے.اس کا کوئی مزہ تو نہیں ، کوئی ذائقہ تو نہیں.لیکن جب یہ حسن فنا ہوتا ہے تو پھر اس کی فضا ایک لازوال چیز کو جنم دیتی ہے.تولاك لَمَا خَلَقْتُ الافلاك.
یعنی نہیں.جس میں بیج ہوتا ہے اور بیچ اس نظام کو دوبارہ چلا دیتا ہے.یعنی پھر پودا ، درخت.پھر پھول اور پھل.گویا یہ سب اپنی ذات کو کھو دیتے ہیں لیکن کسی اور شکل میں زندہ ہوتے ہیں.اس لئے لازوال ہیں.اور انسان چونکہ خدا کا نائب ہے اس کا جسم فنا ہو جاتا ہے لیکن اسکی عادات اخلاق کردار یہ لانہ وال ہیں.کیونکہ ہر اچھائی اور ہر برائی اپنی ذات میں موجود رہتی ہے صرف اس کا جسم بدل جاتا ہے اس لئے یہ لازوال ہوئیں.انسان تمام مخلوقات میں سب سے آخر میں پیدا ہوا جس طرح پھیل سب سے آخر میں بڑا ہے.اس لئے اس کائنات کا میں اس لحاظ سے بھی انسان ہوا.اور پیارے آقا تعجب اپنے باغ میں آئے تو اس باغ کے سب سے اچھے پھیل.لذیذ مزیدار بشیریں یہ سارے پھل میرے آقا کے دامن میں جمع ہو گئے.کیونکہ آپ کے ماننے والے آپ کے صحابہ نے آپ کو اپنا محبوب بنایا اور محبوب کے عکس کو اپنے اندر سمیٹنا چاہا تو جو بننے رنگ سمیٹ سکا سمیٹ لئے اور ہر ذات نے چونکہ حسن کو چنا تھا اس لئے ہر حسن مختلف رنگوں میں نظر آیا اور بکھر گیا.اور تمام صحابہ میں سے کوئی اپنے محبوب کے ساتھ عشق میں فنا کی حد تک گم ہو گیا تھا.جیسے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوئی اپنے نظم ونسق اور انتظامی صلاحیتوں میں باکمال تھا جیسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ.کوئی سخاوت میں غنی تھا جیسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو کوئی شجاعت میں بے مثال یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اب آپ سر خلق کے ایک ایک پھیل کو دیکھیں.وفا کا پھل حضرت بلال ہے.ندائیت کا پھل حضرت طلحہ قربانی کا پھیل حضرت ابو دجانہ ری ایثار کا پھل حضرت حمزہ مالی قربانی حضرت مصعب بن عمیر ہو.خلوص کا پھل حضرت امید بن الحصیری دیری کا پھیل حضرت خالد بن ولید - رحم کا کھیل منذر بن عمرو - حلم کے پھل حضرت
عبد الرحمن بن عوت به فضل کا پھل حضرت ابو عبیدہ مساوات کا پھل حضرت سعد بن عبادہ بہادری کا میں حضرت سعد بن ابی وقاص " حافظہ کا پھل حضرت ابو ہریرة ہیں.یہ تو چند میوے ہیں جو آپ نے دیکھے.ایسے ایسے ہزاروں پھلوں سے میرے آقا کا دامن بھرا ہوا تھا.یہ تمام کے تمام انتہائی شیریں لذیذ اور خوبصورت پھل میں یہ صرف اور صرف میرے آقا کا مقدر ہے جو خدا نے ان کے لئے تیار کئے تھے اور ان پھلوں سے صرف اُمت مسلمہ نے ہی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ تمام دنیا ان کی مٹھاس سے بھر گئی.آج بھی جب دنیا میں تلخی گھل جاتی ہے تو ان پھلوں کی یاد اور ان کے نمونے کی مٹھاس سے یہ تلخی دور ہو جاتی ہے.یہ پھیل صرف اسی دور سے وابستہ نہیں بلکہ ہر دور، ہر زمانے میں ایسے ہی شیریں پھل دنیا کو فائدہ دیتے رہے جن میں صداقت کا پھل حضرت شیخ عبد القادر جیلانی نے امانت کا پھل حضرت امام ابو حنیفہ.دیانت کا پھل حضرت امام شافعی ہیں.( د ) ایک اور جگہ حضرت سلیمان " فرماتے ہیں " اسے یروشلم کی بیٹیو! میں غزالوں اور میدان کی ہرنیوں کی قسم نہ کو دیتا ہوں کہ تم میری پیاری کو نہ جگاؤ اور نہ اٹھاؤ جب تک کہ وہ خود اٹھنا نہ چاہیے“ باب ۲ آیت.اس پیشگوئی میں حضرت سلیمان نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ آنے والا تو تمام دنیا کو پرکارے گا اور ان کو خدا کی طرف بلائے گا.تم اگر سمجھ نہ سکو تو اس کو پریشان نہ کرنا کیونکہ اگر تم نے اس کے کام میں دخل اندازی کی.اس کو ستایا اور مجبور کیا کہ وہ تمہاری شرارتوں سے تنگ آکر تم کو سزا دے تو پھر تمہارا ٹھکانہ کوئی نہ ہوگا.کیونکہ خدا کے نبی کبھی بھی کسی کو پریشان نہیں کرتے.بلکہ جو انہیں پریشان کرتے ہیں ان کو بھی خود سزا نہیں دیتے بلکہ سمجھاتے رہتے ہیں.
۴۹ اب آپ اگر دیکھیں تو بنی اسرائیل قوم نے خدا کے بہت سے نبیوں کو ستایا تنگ کیا.حتی کہ ان کو قتل بھی کر دیا لیکن کسی سے ٹکرانے کی وجہ سے ان کو ایسی سترا نہیں ملی کہ وہ نصیحت حاصل کرتے بنی اسرائیل کی دو شاخوں بیٹولوں اور عیسائیوں کو اگر سزا ملی اور ان کا علاج ہوا اور انہوں نے محسوس کیا کہ واقعی ہم نے غلطی کی تھی تو وہ صرف آنحضرت کو ستانے کی وجہ سے ہوا کہ بار بار یہودی اور عیسائی اقوام مسلمانوں پر حملہ آور ہوتی تھیں.لیکن جب خدا کی منشاء کے مطابق مسلمان ان پر حملہ آور ہوئے تو ان کی اس زمانے کی بڑی حکومت قیصر تباہ ہو گئی.اور یہودیوں کو مدینہ سے اپنی شرارت کی وجہ سے نکلنا پڑا.اور جب بھی یہ تو میں مسلمانوں سے ٹکرائیں.ان کو سرا ملی مذہب کی خاطر جنگ کرنے کا حکم صرف آنحضرت نے دیا جو جہاد کہلاتا ہے اور اس مقدس فرض کی ادائیگی میں مسلمانوں نے بڑی بڑی قربانیاں دیں.پیارے آقا کی زندگی اس نشانی پر گواہ ہے کہ جس نے بھی آپ سے ٹکر لی.آپ کو ستایا تنگ کیا لڑنا چاہا.وہ برباد ہو گیا.اس کی نسل بھی نباہ ہوگئی.اور جب قوم اور قبیلہ کرایا تو وہ بھی نہ رہا.اور جن لوگوں نے آپ کی مدد کی.آپ سے محبت کی آپ کی اطاعت کی.ان کو بھی خدا نے اسی طرح انعام دیئے.تو یہ حضرت سلیمان کا محبوب اپنی ذات میں اپنی صفات میں ایک بے مثال بہتی تھا.جس سے محبت کر کے عشق کر کے حضرت سلیمان نے اپنے خدا کی محبت کو حاصل کیا.اسے خدا تو ان پر اپنی رحمتیں نازل فرما کہ یہ میرے آقا سے محبت کرتے ہیں.
حضرت موسی علیہ اسلام کی پیش گوئی اب ہم بنی اسرائیل کے ایک اور نبی حضرت موسی کے بارے میں معلوم کرتے ہیں.حضرت موسیٰ کا زمانہ نبوت پیارے آقا سے تقریباً ۱۹۰۰ سال پہلے کا ہے.اور آپ بنی اسرائیل میں بڑے بلند مقام کے نبی گزرے ہیں.آپ پر توریت نازل ہوئی.اور آپ کا ہی پیچھا کرتے ہوئے فرعون مصر جس کا نام منفتاح تھا بحیرہ قلزم میں اپنے تمام لشکر کے ساتھ غرق ہو گیا اور اس کی لاش کو خدا تعالٰی نے اپنے وعدہ کے مطابق محفوظ کر لیا اور قرآن پاک میں بتایا کہ کالْيَوْمَ تُجَيكَ بِبَدَنِكَ لِتَلُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ أيَةً "تیرے جسم کو محفوظ رکھوں گا تا کہ یہ آنے والوں کے لئے نشان ہو " را کو آج یہ لاش مصر کے عجائب گھر میں محفوظ ہے.حضرت موسی کو بنی اسرائیل کا نجات دہندہ کہا جاتا ہے کیونکہ آپ نے اس مظلوم قوم کو ظالم فراعین سے نجات دلائی تھی.اب ہم دیکھیں کہ حضرت موسیٰ کون سی نشانیاں بتاتے ہیں.حضرت موسیٰ کو خدا تعالیٰ نے کوہ طور پر بلایا اور ان کو بتایا کہ خداوند تیرا خدا تیرے ہی در میان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کریگا.استثناء باب آتا.پھر دوبارہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ " یہیں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجمد سانبی بر پا کروں گا.اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں ان نے سورہ یونس آیت نمبر ۹۱
اه سے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا.اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا.یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی تقتل کیا جائے گا.راستثناء باب ۱۸ - آیت ۱۸ تا ۲۰) ان نشانیوں کو ایک ایک کر کے لیتے ہیں.کہ پہلے خدا نے حضرت موسیٰ " کو کہا کہ خداوند تیرا.یعنی وہ خدا جس نے تجھے نبی بنایا ہے.وہی خدا جو تیرا خدا ہے وہ ایک اور نبی پیدا کرے گا.سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ نبی کسی خاندان سے ہوگا.کون ہوگا.اس کے بارے میں مزید وضاحت کی کہ وہ نبی تیرے آباؤ اجداد کی اولاد ہوگا.کیونکہ کہا گیا کہ ہو تیرے ہی درمیان سے ، حضرت موسیٰ کے آباؤ اجداد حضرت اسحاق ہیں.جو حضرت ابراہیم کے چھوٹے بیٹے ہیں.اس طرح آنے والا حضرت ابراہیم کی اولاد سے ہوا.پھر بتا یا کہ تیرے ہی بھائیوں میں سے “ وہ اسحاق کے بھائی کی اولاد ہوگا.یعنی حضرت اسمعیل کی اولاد جو بنو اسمعیل کہلاتی ہے کیونکہ حضرت اسحق کی اولاد حضرت اسمعیل کی اولاد کے بھائی ہوئے.اور حضرت اسمعیل حضرت اسحاق کے بڑے بھائی تھے.پھر آگے کہا کہ ” تیری ہی مانند “ یعنی جس طرح میں نے تجھے شریعت عطا کی ہے.کتاب توریت دی ہے اسی طرح اس کو بھی شریعت دی جائے گی.وہ بھی صاحب کتاب نبی ہوگا.ان نشانیوں کی مدد سے جب ہم اس دو ہزار سال کے عرصے پر نظر ڈالتے ہیں
۵۲ تو نبی کئی ملتے ہیں.مگر وہ سب بنی اسرائیل میں آئے یعنی حضرت اسحاق کی اولاد ہی تھے.پھر سب کے سب توریت کی شریعیت کو ہی بار بار زندہ کرتے رہے بینی جو بھی شریعت میں کمی یا زیادتی ہوئی وہ اس کو درست کرتے رہے.بنی اسرائیل کو اسی شریعت کی پابندی کرواتے رہے اور کوئی نئی شریعت نہیں آئی.حتی کہ حضرت عیسی.وہ بھی چونکہ حضرت داؤر کی اولاد سے ہیں اور حضرت داؤد حضرت اسحاق کی اولاد ہیں.وہ بھی کوئی نئی شریعت نہیں لائے.انجیل جو عیسائی نئی شریعت کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ بھی تو ریت کی تعلیم کا ہی حصہ ہیں.اور حضرت عیسی خود فرماتے ہیں کہ میں توریت یا نیوں کی کتاب کو منسوخ کرنے نہیں آیا.بلکہ پوری کرنے کے لئے آیا ہوں.(گلتون باب ۳) حضرت عیسی ابنی اسرائیل کے آخری نبی ہیں کیونکہ ان کے بعد جو جلیل القدیر اور بڑے مرتبے کا نبی نظر آتا ہے وہ بنو اسمعیل میں سے عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوا.اور وہیں سے اس نے اپنی نبوت کا دعوی کیا.گویا یہ عظیم الشان نبی حضرت موسی کے بھائیوں میں سے ظاہر ہوا.اس مقدس انسان پہ جو کتاب نازل ہوئی وہ قرآن پاک ہے.اسی قرآن پاک میں گواہی موجود ہے کہ ہم نے تمہاری طرف تم میں سے ایک رسول بھیجا جس طرح فرعون کی طرف ہم نے رسول بھیجا تھا.سورة مرتل آیت 14 اور یہ آخری شریعت ہے.اس طرح یہ بلند مقام والا انسان حضرت موسی کی طرح صاحب شریعت نبی تھا.اور یہ نبی ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفے ہیں.اب اگلی نشانیوں میں حضرت موسی فرماتے ہیں کہ " میں ان کے لئے ان بھائیوں میں سے تجھ سانبی برپا کروں گا.یعنی بنی اسرائیل کے لئے بھی وہ بنی ہوگا کیونکہ کہا کہ ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے.گویا آنے والا بنی اسرائیل کو بھی پیکان گیا
اور پیارے آقا نے ساری دنیا کو اسلام کی دعوت دی اور خدا نے آپ کو ساری دنیا کے لئے نبی بنایا.پھر فرماتے ہیں کہ " میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا." یعنی جو خدا کہیگا دہی وہ آگے سنا دیگا.یہ شان صرف اور صرف قرآن پاک کو حاصل ہے کہ وہ خدا کا کلام کہلاتا ہے.یہ کلام اللہ ہے.اس میں ایک لفظ تبھی کسی انسان کا شامل نہیں.بسم اللہ کی "ب" سے لے کر والناس کی سی تک سارے کا سارا خدا کا بیان کیا ہوا پر حکمت کلام ہے.اور جو باتیں پیارے آقا نے لوگوں کو سمجھانے کے لئے بتانے کے لئے کہی ہیں وہ حدیث کہلاتی ہیں.اور حدیث کی زبان اور قرآن پاک کی زبان میں بڑا فرق ہے حالانکہ حدیث قرآن پاک کی تشریح ہے تعلیم رہی ہے لیکن طرز کلام اور طرز بیان الگ الگ ہے اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ایک خدا کا کلام ہے جو قرآن پاک اور دوسرا اس کے محبوب کا کلام ہے جو حدیث ہے.آگے آتا ہے کہ " جو کچھ میں اسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا.اب حضرت موسی کے بعد سوائے رسول کریم کے کوئی نبی ایسا نہیں کہ جو خدا نے ان کو کہا ہو وہ سب کا سب اپنی امت کو سنا دیں.اس لئے کہ بعض باتیں خدا تعالیٰ صرف اپنے نبی کی ہدایت کے لئے دیتا ہے لیکن رسول کریم کو خدا نے خود کہا کہ اسے رسول پہنچا سنا دے وہ سب کچھ جو تجھ پر اتارا گیا تیرے رب کی طرف سے (سورۃ مائدہ) پھر بتایا گیا کہ " اور جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہیگا.نہ سنیگا تو میں اس کا حساب لوں گا " اس نشانی میں بھی سوائے قرآن پاک کے کوئی کتاب ایسی نہیں جس کی ابتداء اس مقدس کتاب کی طرح ہوتی ہو یعنی بسم الله الرحمن الرحيم شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.نہ صرف شروع میں بلکہ ہر سورۃ
۵۴ کے شروع میں بسم اللہ نازل ہوئی اور خدا کا نبی خدا کا نام لے لے کر دنیا کو بتاتا رہا بلاتا رہا کہ سنو اے لوگو میں تم کو یہ تمام حکمت کی دانائی کی باتیں ایسے خدا کے نام سے سناتا ہوں جو بن مانگے دینے والا اور سچی محنت کو ضائع نہ کرنے والا ہے، گویا مرحکم خدا کے نام پر نازل ہوا.ہر حکمت اسی کے نام پیہ.ہر دانائی ہی کے نام سے.ہر برائی سے روکا گیا تو اسی کے نام اسی کے کلمہ سے.ہر اچھائی کے کرنے کی طرف توجہ دلائی تو اسی کے نام سے گویا خدا کے سوا کچھ نہیں صرف اور صرف اسی کا کلمہ ہے.پھر آگے خدا نے کہا کہ جو میرے نام سے بتائی ہوئی بات نہ سنے گا تو میں اس کا حساب لوں گا.تاریخ اسلام گواہی دیتی ہے کہ جس نے بھی اس کلام کو جھٹلایا یا تو کیا تو خدا نے اس کو رد کر دیا مثلاً ابو جہل جس کو مکہ کے لوگ اس کی حکمت اور دانانی کی وجہ سے ابوالحکم کہتے تھے یعنی دانائی کا باپ.اس کی ہر بات پر حکمت ہوتی تھی.اور سب کے لئے قابل قبول.اسلام کے بعد سے جب اس نے مخالفت شروع کی تو وہی ابوالحکم ابوجبل بن گیا.کیونکہ اس کی باتوں میں اب دانائی نہیں بنتی.اس لئے وہ جہالت کا باپ بن گیا.آخر جب خدا نے پکڑا تو جنگ بدر میں انتہائی ذلت کی موت مرا.اور اسکی آخری خواہش کہ میری گردن کو لمبا کر کے کاٹنا کیونکہ میں سردار ہوں بھی پوری نہ کی گئی.اور جڑ سے اس کا سرکاٹ دیا گیا.گویا اس کلام کو نہ ماننے والوں کا انجام برا عبرتناک ہوا.پھر خدا تعالیٰ نے پہچان بتائی کہ ہو نبی میرے نام سے کوئی بات کہے جسے کہنے کا حکم نہیں تو وہ نبی قتل کیا جائے گا.“ اب ہم پیارے آقا کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو نبوت کے بعد ۲۳ سال تک آپ زندہ رہے.ہر موقع پر دشمن نے آپ کو مارنے کی کوششیں کیں کئی جنگیں
ہوئیں اور آپ سب سے آگے رہے.بلکہ آپ کو جب روکا جاتا کہ اتنا آ گے تک نہ بڑھیں تو آپ فرماتے " میری سواری کی باگ چھوڑ دو.میں جھوٹا نبی نہیں ہوں ، رجنگ حنین، گویا خدا تعالیٰ کی حفاظت مخفی.فرشتوں کا لشکر ہر وقت آپ کے ساتھ ہوتا کیونکہ کئی بار آپ بالکل تنہا ہوئے اور دشمن آپ پر حملہ کرنا بھی چاہتا تھا مگر خود خوفزدہ ہو جاتا اور رک جاتا.یہ سب کیا تھا.یہ ایک سچے نبی کی نشانی ہے اور یہ نشانی میرے آقا کے حق میں پوری ہوئی کیونکہ خدا نے کہا تھا کہ " اللہ آپ کو انسانوں کے حملے سے بچائے گا." (سورۃ مائدہ آیت ۶۸ ) حضرت موسیٰ “ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ خدا سینا سے اترا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے ان پر جلوہ گر ہوا.دس ہزار قد دسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی.د استثناء باب ۳۳ آیت ۳ ) اس پیشگوئی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے تین جملوے بتائے ہیں.خدا سینا سے اترا شعیر سے ان پر طلوع کیا اور ناران کے پہاڑ سے ان پر جلوہ گر ہوا جیسا کہ آپ خود جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تو کبھی بھی ظاہر نہیں ہوتا.بلکہ وہ اپنے آپ کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے اپنے نبیوں کو بھیجا کرتا ہے.وہی اسکی باتیں دنیا کو سناتے ہیں.اور ان کی ذات میں خدائی معجزات ظاہر ہوتے ہیں.جو کسی انسانی عقل - دانائی یا حکمت کے محتاج نہیں ہوتے.یا ان میں کوئی انسانی مدد یا ہاتھ نظر نہیں آتا.بلکہ وہ صرف ظاہر ہوتے ہیں اس لئے معجزہ کہلاتے ہیں.ان تین جلووں میں ہم دیکھیں کہ خدا کا جلوہ کوہ سینا سے کب ظاہر ہوا.تو توریت میں لکھا ہے کہ خدا وند کوہ سینا پہاڑ کی چوٹی پر نازل ہوا.اور اس نے موسی کو بلایا تو موسی چڑھ گیا." ( خروج باب ۱۹ آیت ۲۰)
04 گویا کوہ سینا پر ظاہر ہونے والا جلوہ حضرت موسیٰ کی شکل میں تھا.دوسرا حلوہ شعیر سے تعلق رکھتا ہے.شعیر فلسطین کا حصہ ہے اس کا نام بہت زیادہ وقت گزرنے کی وجہ سے بگڑ گیا ہے اور حضرت یعقوب کی اولاد کی ایک شاخ بنو آشر کہلاتی تھی.اب اگر ہم تاریخ پر غور کریں کہ فلسطین میں کونسا واقعہ ایسا ہوا جس کو خدائی جلوہ کہا جا سکے تو حضرت مسیح " فلسطین کے علاقے کنعان میں ظاہر ہوئے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر اپنی شکل شعیر سے دنیا کو دکھائی جہاں حضرت مسیح کے معجزات ظاہر ہوئے تھے.آخری جلوہ کوہ فاران سے ظاہر ہونا تھا.تو فاران عرب کا علاقہ ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے.اس علاقے میں پہاڑ ہیں.یہی وہ علاقہ ہے جہاں حضرت اسمعیل نے اپنی زندگی گزار دی.جب آپ جوان ہوئے تو خاران کے علاقے میں ہی تیر اندازی کر کے اپنے لئے شکار تلاش کیا کرتے تھے.گویا فاران کے علاقہ سے ظاہر ہونے والا خلائی جلوہ ہمارے پیارے آقا کی شکل میں ظاہر ہوا کیونکہ آپ ہی حضرت اسمعیل کی اولاد ہیں.پھر آپ نے ہی مکہ سے نبوت کا دعوی کیا.اور ہجرت کر کے مدینہ میں پہلی اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالی.آگے جو نشانی بتائی کہ " وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا تو فاران سے ظاہر ہونے والے جلوے نے جب انسانوں کے دلوں کو بدلا.وہ اس کے محبوب کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہونے لگے.پھر جب آپ مدینہ چلے گئے تو یہ پروانے آہستہ آہستہ مدینہ میں آبسے.جب یہ قدوس یعنی پاک وجود خدائی حکم سے مکہ کی طرف روانہ ہوا تو نہ صرف انصار اور مہاجر آپ کے ساتھ تھے بلکہ اس قدرس خدا کے محبوب قدوس نبی کے قدوس پر دانے تھے.کہ جو بھی ان کی زندگی کو نمونہ بناکر
۵۷ چلے تو خود بھی قدوس بن جاتا ہے.تو جب ان دس ہزار قدوسیوں کو ابو سفیان نے دیکھا تو کہا کہ عباس "تیرے بھائی کا بیٹا دنیا کا سب سے بڑا با دستاں ہے کیونکہ وہ میں نے بڑے بڑے لشکر دیکھے ہیں مگر جو منظر اس لشکر میں نظر آتا ہے شاہ روم قیصر اور شاہ ایران کسری کے دربار میں بھی نہیں کیونکہ اس نے آپ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ یہ جاں نثار اس پانی کے قطروں کو سمیٹ لیتے تھے اپنے منہ پر ہاتھوں پر اور جسموں پر ملتے تھے.تو اتنا بڑا عاشقوں کا پاک وجودوں کا لشکر میں نے نہیں دیکھا.گویا مکہ کی طرف جانے والا دس ہزار قد دسیوں کا شکر جس کے ساتھ خدائی جلوہ تھا وہ پیارے آقا کا وجود تھا.آگے مزید وضاحت کر دی کہ اس کے سیدھے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت تھی.آتش سے مراد آگ ہے.یعنی ایسی شریعت جو انسان کے تمام گناہوں کو جیلا دے.تمام خامیوں ، کمزوریوں کو خاک کر دے.اس کے وجود کو فنا کر کے ایک ایسی تپش عطا کرے جس کی گرمی سے وہ ایک نئی زندگی پا جائے.جو خدا کی محبت کی زندگی ہو جس میں خدا کے عشق کے سوا کچھ نہ بچے.وہ سارا کا سارا خدا کا ہو جائے.اور ایسی پر حکمت شریعت سوائے پیارے آقا کے کسی کو نہیں ملی.اس شریعت پر صحیح معنوں میں عمل کر کے انسان بیچ بیچ نیا انسان بن جاتا ہے اس کو گناہ کرتے ہوئے ایک خوف ہوتا ہے.ڈر ہوتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ اس کی کمزوریاں بھی جل جاتی ہیں اور وہ سوائے اس ڈر کے جو اس کے مولا کا ڈر ہے کسی در پر جانا گوارا نہیں کرتا کیونکہ اس کے اندر محبت کی گرمی پیدا ہو جاتی ہے.اور اسی گرمی سے وہ اپنی زندگی کی حرارت کو حاصل کر کے زندہ رہتا ہے.یہ حالت پیارے آقا کے دور کے مسلمانوں کی ہی نہیں تھی بلکہ ہر دور میں ایسے
لوگ موجود رہے ہیں جنہوں نے اس آگ کو اس خدائی جلوے کو دنیا کو دکھایا ہے کہ یہ اسی آتشی شریعت کا کمال ہے.جو قرآن پاک ہے.یہ زندہ کتاب ہے زندگی عطا کرتی ہے.گناہوں کو جلا دیتی ہے اور خوبیوں کو مزید بڑھاتی ہے اور یہی وہ کتاب ہے جو انسان کی ہر ضرورت کو بھی پورا کرتی ہے.ہر مسئلہ کا حل بتاتی ہے.اب حضرت عیسی کے دور کو لیتے ہیں.
۵۹ حضرت عیسی علیہ اسلام کی پیش گوئی حضرت عیسی جو ہمارے پیارے آقا سے ۷۱ ۵ ۶ سال پہلے پیدا ہوئے اور آپ بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے.آپ کو خدا تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت کے تحت پیدا کیا کیونکہ آپ کے باپ نہیں تھے.پھر رومی حکومت کے لوگوں نے آپ پر مقدمہ کر کے صلیب پر چڑھا دیا.مگر چونکہ آپ سچے نبی تھے.خدا کی طرف سے تھے اس لئے یہ دنیا والے آپ کو مار نہیں سکے اور آپ کو صلیب پر سے اتارا گیا.جب آپ کے زخم ٹھیک ہو گئے.تو خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق آپ نے ہجرت کی اور فلسطین سے نکل کر کشمیر تک بنی اسرائیل کے خاندانوں میں تبلیغ کا کام انجام دیتے رہے.حضرت عیسی نے بھی اور نبیوں کی طرح آپ کے لئے بہت سی نشانیاں اپنی قوم کو بتائیں اور ان کو سمجھایا.یہ تمام علامات انجیل میں محفوظ ہیں آپ اپنے ماننے والوں کو ایک تمثیل سناتے ہیں د تمثیل سے مراد ایسی کہانی یا واقعہ ہے جس میں عام ناموں سے مخاطب کر کے لوگوں کو سمجھانا مقصود ہو) و - ایک گھر کا مالک تھا.جس نے انگورستان لگایا اور اس کے چاروں طرف روندھا اور اس کے بیچ میں کھود کے کو کھو گاڑا.اور برج بنایا.اور باغبانوں کے پاس بھیجا کہ اس کا پھل لائیں.پر ان باغبانوں نے اس کے نوکروں کو پکڑ کر ایک کو پیٹا.اور ایک کو مارڈالا اور ایک کو پتھراؤ کیا.پھر اس نے اور
نوکروں کو جو پہلوں سے بڑھ کر تھے بھیجا.انہوں نے ان کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا.آخر اس نے اپنے بیٹے کو یہ کہ کر بھیجا کہ دے میرے بیٹے سے وہیں گے.لیکن با غبانوں نے پینے کو دیکھا.آپس میں کہنے لگے کہ وارث بیجا ہے آؤا سے مار ڈالیں کہ اسکی میراث ہماری ہو جائے اور اسے پکڑ کے اور انگورستان کے باہرلے جا کر قتل کیا.“ اب حضرت مسیح اپنے شاگردوں سے پوچھتے ہیں کہ " اب انگورستان کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا '' شاگرد جواب دیتے ہیں کہ ردان بدوں کو بری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اور باغبانوں کو سونپے گا.جوا سے موسم پر میوہ پہنچا دیں " دمتی باب ۲۱ آیت ۳۲۳ تا ۴۲ ) اس واقعہ میں گھر سے کائنات مراد ہے.اس کا مالک خدا تعالیٰ ہے.جو انگورستان دیتا ہے.باغبان بنی نوع انسان ہیں.نوکروں سے مراد اس کے انبیاء کرام ہیں.وہ نوکر جو پہلے سے بڑھ کر تھے.اس کا مطلب ہے صاحب شریعیت نبی.بیٹے سے مراد حضرت عیسی " خود ہیں جن کو صلیب دی گئی.اب حضرت عیسی نے اس واقعہ میں تمام انبیاء کی تاریخ بیان کی ہے کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کو بنایا.انسانوں کو اس میں بسایا اور پھر اپنے انبیاء کرام کے ذریعہ ان انسانوں میں سے بہترین انسان کو توفیق دی کہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں کو مانیں جو نبی کا درجہ رکھتے ہیں تاکہ وہ ان کی بشری صلاحیتوں کو مزید چپکا دیں.اور وہ باغ کا میوہ بن جائیں.جس طرح پھل درخت کا سب سے قیمتی حصہ ہوتا ہے اسی طرح خدا کے نبی کو ماننے والے بھی دنیا کے تمام انسانوں میں سب سے قیمتی ہوتے ہیں وہ پھل ہیں اس کائنات کا.انسانیت کا جو انبیاء کرام خدا کے حضور پیش کر دیتے ہیں.کہ اسے ہمارے مالک.ہمار سے رب.ان انسانوں کو ہم تیر سے دربار میں لائے ہیں.جنہوں نے ہمیں مانا.اور تیر سے حکم پر تیری اطاعت
41 کی خاطر مرد کھ کو برداشت کرنے کا ارادہ کیا ہے.لیکن ہمیشہ سے یہ ہوتا رہا ہے کہ ہر نبی کے آنے پر دنیا کے لوگ اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور انسانوں کو بہکاتے ہیں کہ وہ سچے کو مان نہ لیں یہی بات اس واقعہ میں بھی بتائی گئی کہ خدا کے نوکروں کو مارا پیٹا بستا یا.اور دنیا کا پھل ان کو لینے سے روکا.پھر خدا تعالیٰ نے ان انبیاء کرام سے بڑے درجے کے نبی بھیجے جو صاحب شریعت تھے.یعنی ان کو خدا تعالیٰ نے باقاعدہ ایک تعلیم دی تھی.ایک پروگرام دیا تھا.لیکن دنیا دار انسان ان کو بھی سنانے سے باز نہ آئے.اور یوں وقت گزرتا رہا.آخر میں خدا نے ایسے نبی کو بھیجا جس کا باپ نہیں تھا.یعنی خدا تعالیٰ دنیا پر یہ ثابت کرنا چاہ رہا تھا کہ تم اتنے ظالم ہو گئے ہو کہ کوئی مرد اس قابل نہیں رہا کہ وہ نبی کا باپ بن سکے اس لئے یہ میرا بیٹا ہے بیٹا اس لئے کہا کہ وہ خدا کی خاص قدرت کی وجہ سے پیدا ہوا تھا.لیکن اس کو بھی صلیب پر چڑھا دیا.اور دنیا کے شیریں میں سے خدا تعالیٰ تک نہیں کھجنے دئے.تب حضرت عیسی فرماتے ہیں کہ خدا نے ان کو یعنی تیر سے انسانوں کو جو خدا کے بندوں کو ستانے میں مصروف رہتے ہیں بری طرح مارا یعنی سخت عذاب میں پکڑ لیا.پھر فرماتے ہیں کہ پھر خدا تعالیٰ اس دنیا کے نظام کو اور با غبانوں کو سونپنے کا یعنی دوسری قوم کو چن لے گا.جو اس کی منشاء اس کی مرضی کے مطابق اس کے احکامات کو مانے گی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کوئی اور قوم تھی جس کے پاس باغبانی کا کام تھا ظاہر ہے کہ وہ قوم بنی اسرائیل تھی جس میں تمام نبی آتے رہے اور آخری نبی حضرت عیسی علیہ السلام تھے جن کو صلیب پر چڑھایا.پھر خدا نے بنو اسمعیل کی قوم کو چنا تا کہ وہ دنیا کے میوے یعنی بہترین انسانوں کی جماعت جو خدا کی عبادت اور اطاعت
کے لئے تیار ہو سکے.کیو نکہ حضرت عیسی فرماتے ہیں کہ جو اسے موسم پر میوہ پہنچا دیں یعنی خدا تعالیٰ کے دربار میں عبادت کے ، ریاضت کے ، اطاعت کے محبت کے میوے پہنچتے رہیں.اور یہ شرف صرف اور صرف مسلمانوں کو حاصل ہے.خدا کی اطاعت اس کی عبادت کو اپنی زندگی کا مقصد جانا.ہر دور میں ، ہر زمانے میں ایسے با خدا انسان موجود رہے اور موجود ہیں جو خدا کے تھے اور اسی کی خاطر جیئے.اسی کی خاطر مرے.ان میں قطب غوث.ولی - ابدال - صوفی.شہید.صدیق گزرے ہیں.پھر ایسے افراد بھی ملتے ہیں جو دنیا میں رہتے ہوئے بھی ان کو اس دنیا کی پرواہ نہیں ہوتی.نہ کھانے کی نہ پینے کی نہ پہچنے کی نہ سردی نہ گرمی نہ برسات کسی کی ہوش نہیں حیرت اور صرف خدا کی لگن اور اسی میں مگن گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں یہ مجذوب کہلاتے ہیں.قطب بغوث وغیرہ تو اصلاح کا کام کرتے ہیں.اپنے گرد خدا کے عاشقوں کو جمع کرتے ہیں لیکن مجذوب کسی کی اصلاح نہیں کرتے بلکہ اپنی ذات میں خدا میں گم ہوتے ہیں.مگر یہ سب رنگ برنگے پھل ہیں.جو اس کے دربار میں ہمارے پیار آقا نے اپنی زندگی میں بھی پیش کئے اور بعد میں بھی پیش ہوتے رہتے ہیں.(ب ) اب آپ متی کے اکیسویں باب میں آگے دیکھیں تو ملنا ہے کہ " جس سفر کو راجگیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سرا ہوا.یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب " متی باب ۲۱ آیت ۴۴ پھر فرماتے ہیں کہ دو میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کا میوہ لا دے ، دی جائے گی.جو اس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا.اور جس پر یہ پتھر گرے گا اسے پیس ڈالے گا.دمتی باب ۲۱ آیت ۴۵ - ۱۴۶
اب آپ ان نشانیوں کو دیکھیں کہ جس آنے والے کے لئے وعدہ کیا جارہا ہے وہ موعود جس کو پتھر کیا گیا یہ بات زبور باب ۱۱۸ آیت ۴۲ میں بھی ملتی ہے کہ وہ پتھر جسے معماروں نے رو کیا کونے کا سرا ہو گیا.اسی لئے حضرت عیسی " فرماتے ہیں کہ کیا تم نے الہی نوشتوں میں نہیں پڑھا " متنی باب ۲۱ ایک جگہ پیش گوئی کی گئی کہ یہ پھتر تمام دنیا پر پھیل جائے گا.اور پہاڑ کی طرح بن جائے گا را اگر ہم غور کریں کہ آنے والے مقدس موعود کو پھر کیوں کہا گیا تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ انسان کی زندگی میں پتھر کی بہت اہمیت ہے.ایک تو یہ اپنی ذات میں سخت مضبوط ہوتا ہے اس کو توڑنا آسان نہیں.پھر جو گھر پتھروں سے بنائے جائیں وہ انیٹوں کے گھروں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اور عمارت بناتے ہوئے ستون اور بیم کی مضبوطی کے لئے سیمنٹ میں پتھر ڈالے جاتے ہیں.عمارتوں کی خوبصورتی کے لئے پتھر لگائے جاتے ہیں.شہروں کی حفاظت کے لئے فصیل پتھر سے بنائی جاتی تھی دریاؤں پر پتھروں کی مدد سے بند باندھے جاتے ہیں جو طوفانوں کو روک لیتے ہیں پھر انسان کی تاریخ میں ایک دور پتھر کا زمانہ گزرا ہے جب انسان پھر سے شکار کرتا تھا.اسی سے ہتھیار بناتا اسی سے گھر بناتا یا پھر پھر کے پہاڑوں میں غاروں کے اندر رہتا.ہیتھر پر پتھر رگڑ کر آگ پیدا کرتا.گویا اس کی زندگی میں پتھر بڑی قیمتی چیز تھی پتھر کو تراش کو رگڑ کر گھس کر معبود کی شکل دیتا.یہ تو عام پتھروں کی بات ہو رہی ہے لیکن قیمتی پتھر بھی ہیں جیسے نیلم یاقوت زمرد - فیروزہ وغیرہ آنے والے موعود کو پھر اس لئے کہا گیا کہ وہ اپنے ایمان کی مضبوطی ، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر ختی سے پابندی اور خدا تعالیٰ کی ذات سے عشق کرنے کے حسن میں وہ تمام پتھروں را دیباچه تفسیر القرآن صفحه ۹۶
۶۴ کے حسن کو پیچھے چھوڑ دے گا.مذہب کی عمارت جو آہستہ آہستہ بن رہی منفی جس میں ہر نبی ایک اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے پھر اس عمارت میں سکون اور ہیم شریعت والے نبی تھے لیکن چونکہ یہ عمارت بنی اسرائیل کی قوم میں تیار ہو رہی تھی اس لئے اس کے راجگیر جو علماء تھے انہوں نے اس قیمتی پتھر کو جب ان کو ملا تو ایک طرف رکھ دیا یعنی رد کر دیا بیکار جانا مگر چونکہ وہ عمارت کا حسن تھا اس لئے وہی سرے کا پتھر بنا اور آپ کے بعد عمارت اپنے تمام حسن آرائش کے ساتھ مکمل ہو گئی.آپ سوچ رہے ہونگے کہ آنے والے موعود کو جس کو پتھر کہا گیا وہ کس طرح پیارے آقا ہیں.وہ ایسے کہ آگے پیشگوئی میں بتایا کہ جو اس پتھر پر گرے گا چور چور ہو جائے گا اور جس پر یہ ہمھر گر گیا اس کو پیس ڈالے گا.یہودی اپنی کتابوں میں اور عیسائی اپنی تعلیم میں آپ کے بارے میں بڑی تفصیل سے جانتے تھے کہ آنے والا کیسا ہوگا.اس کی تعلیم کیسی ہو گی.اس کی جمات کیسی ہوگی.لیکن جب پیارے آقا نے ان کو اسلام کی دعوت دی تو سب سے زیادہ مخالفت انہوں نے کی اور آپ کو آپ کی تعلیم کو آپ کے پیغام کو رد کر دیا کہ نہیں ہے مگر جب یہ آپ سے ٹکرائے تو ریزہ ریزہ ہو گئے.حالانکہ ان کی بڑی طاقت تھی.اور جب مسلمانوں نے ان کی حکومتوں پر حملہ کیا تو ان کو پیس ڈالا گویا آپ کے خلفاء کے زمانے میں آپ کے ماننے والوں نے ان قوموں کی طاقت کو ختم کر دیا اور دنیا میں ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی عظمت چھائی رہی اور حضرت عیسی نے جو کہا تھا کہ خدائی بادشاہت لے لی جائے گی.وہ بنی اسرائیل سے ان کے ظلم کی وجہ سے چھینی گئی اور یہ بادشاہت بنو اسمعیل کو عطا کی گئی تاکہ وہ دنیا میں رحم کو قائم کریں اور مسلمانوں کے حسن و احسان کی داستانوں سے آج بھی تاریخ بھری
40 ہوئی ہے کہ انہوں نے کس طرح انسانیت کی خدمت کی.اب ہم آنحضرت کی زندگی میں پتھر اور پہاڑ کی اہمیت کو لیتے ہیں دا، آپ غارِ حرا میں عبادت کرتے تھے جو کوہ بشیر میں واقع ہے اور اسی کی وجہ سے وہ اب جبل نور کہلاتا ہے پھر جب آپ کو حکم ملا کہ کھل کر تبلیغ کرو (۲) تو آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر تمام عرب کے قبائل کو پکارا (۳) پھر ہجرت کے وقت کوہ نور کے غار ثور میں پناہ لی اور گھر سے نکلتے ہوئے ایک مٹھی کنکر ان کفار کی طرف رات کو پھینکے جو آپ کے گھر کا پہرہ دے رہے تھے جس کی وجہ سے وہ آپ کو دیکھنے سے معذور ہو گئے.(۴) جنگ بدر کے موقع پر بھی کفار پر کنکریاں پھینکیں جس نے آندھی کی شکل اختیار کرلی (۵) شعب ابی طالب میں جو ایک پہاڑی درہ ہے ۳ سال گزارے (4) اُحد کے پہاڑ بھی آپ کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے جہاں شہدائے احد آج بھی اپنے عشق اور دفا کی یادگار ہیں دے) طائف کی وادی میں آپ پر پتھر برسائے گئے اور جب آپ لہو لہان ہو گئے تو پہاڑوں کا فرشتہ نازل ہوا کہ آپ حکم دیں تو میں ان پہاڑوں کو ملادوں مگر آپ نے گوارا نہ کیا (1) جنگ خندق کے موقع پر جب خندق کھودی جارہی تھی تو ایک پتھر ایسا آیا جو ونتا نہ تھا مگر جب آپ نے ۳ بار گدال ماری تو وہ پتھر ٹوٹ گیا اور ۳ نظارے کھائے گئے جن میں شام ایران اور یمن کی فتح کی پیشگوئی تھی دو، فتح مکہ کے موقع پر پتھروں کے بتوں کو توڑا (1) اور آخری خطبہ جو حجتہ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا تو آپ اپنی اونٹنی قصوی پر سوار جبل نور پر موجود تھے.اس طرح سے پیارے آقا کی زندگی میں بڑے بڑے پتھر آئے جو قبائل کے سردار تھے جو آپ سے ٹکرائے وہ تو ٹوٹ پھوٹ گئے لیکن جو آپ کے قدموں میں آگئے وہ نیلم یا قوت اور زمرد بن گئے.
44 پھر حضرت عیسی نے کہا کہ " خدا کی بادشاہت ان سے لے لی جائے گی تو خدا کی بادشاہت نبوت کا انعام ہے جو بنی اسرائیل سے لے لی گئی اور میرے آقا کو ملی.اب ان کے صدقے سے جو بھی آپ کی اطاعت.آپ کی محبت میں فنا ہو گا وہ بھی اس بادشاہت سے حصہ لے سکتا ہے کیونکہ اب نبوت نسلی نہیں رہی.نہ ہی قومی اور متلی ہے بلکہ اس کے لئے شرط ہے اس کے محبوب کی محبت کی پھر حضرت عیسی فرماتے ہیں دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے جب تک کہو گے مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے.(متی باب ۲۳ آیت ۳۸ - ۳۹) اس میں بھی جو نشانی ہے کہ گھر دیران چھوڑا جاتا ہے تو بنی اسرائیل کا گھر ویران ہوا کیونکہ اس سے خدا کی بادشاہت بھی چھینی گئی اور اب کوئی خدا کی طرف سے اس گھر میں نہیں آئے گا.اس لئے گھر تو ویران ہوا.پھر عیسائیوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ جب تم اس خدا کے نام پر آنے والے کو مبارک نہ جانو گے مجھے نہ دیکھ سکو گے.اور آپ کے بعد سوائے رسولِ خدا کے کوئی خدا کے نام پر نہیں آیا.آپ نے ہی دنیا میں خدا کی عظمت کو اس کی قدرت کو ظاہر کیا اور قائم کیا.تمام چھوٹے بتوں کو توڑا اور خدا کی وحدانیت یعنی خدا کا ایک ہونا ثابت کیا.اس کے نام کو پھیلایا.اپنے ماننے والوں سے جو پہلا کلمہ کہ بلواتے تھے وہ تھا لا الہ الا اللہ کہ خدا کے سوا کوئی نہیں جب خدا کے سوا کوئی نہیں تو سب کچھ رہی ہوا.اور اس طرح مسلمانوں کی زندگی میں خدا ہی خدا نظر آتا تھا.حضرت عیسی یو حنا میں کہتے ہیں " جو بات ناموس میں ہے اس کا پورا ہونا ضروری ہے.انہوں نے مجھ سے ناحق بغض کیا پس کاش منمنا آگئے ہوتے جنہیں اللہ تمہاری طرف پاک روح کے ساتھ بھیجے گا.یہ وہ ہوگا جو رب کے پاس سے نکلا اور میرا
گواہ ہوگا " 44 اس پیشگوئی میں حضرت عیسی آنے والے موعود کو منعمنا کے نام سے پکارتے ہیں.یہ سریانی زبان میں ہے جس کا مطلب محمدؐ ہے اور یہ نام سوائے پیارے آقا کے کسی کا نہیں.پھر کہتے ہیں کہ جو بات اس پاک وجود میں ہے جو عزت و ناموس ہے وہ ضرور پوری ہو گی تم ان باتوں کو بتا نے کی وجہ سے کیوں مجھ کو ستاتے ہو.تنگ کرتے ہو.اس نے آتا ہے اور وہ آئے گا.تمہاری شرارتوں سے اس کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا.کیونکہ اس کے ساتھ پاک روح ہوگی یعنی جبرائیل اور حضرت جبرائیل فرشتوں کے سردار ہیں.گویا تمام فرشتوں کی فوجیں اس کے ساتھ ہونگی.پھر پیارے آقا کی شان بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ وہ ہو گا جو رب کے پاس سے نکلا یعنی خدا نے اس کو اپنے وجود سے اپنے نور سے پیدا کیا.جب ہی تو رب کے پاس سے نکلا.باقی تو سب پیدا ہوتے ہیں اور اس کو خدا نے اپنے پاس سے نکاں.پھر اپنی قوم کے ظلموں سے تنگ آکر کہتے ہیں کہ وہ میرا گواہ ہوگا.یعنی تم مجھ پر جو بُرے برے الزامات لگاتے ہو وہ خود آکر تم کو بتا دے گا کہ میں کیسا ہوں.اس سلسلہ میں اگر آپ قرآن پاک دیکھیں تو اس میں اس پاک کتاب نے نبیوں کے نام لیکر گواہی دی کہ وہ سچے نبی تھے.ان پر خدا کی سلامتی ہو وہ پاکباز تھے.وہ خدا کی طرف سے تھے.اور حضرت عیسی اور آپ کی والدہ پر جو بنی اسرائیل نے الزامات لگائے تھے قرآن پاک نے ان کی بھی ہریت کی اور گواہی دی کہ حضرت مریم پاکباز عورت تھیں.حضرت عیسی " خدا کی طرف سے تھے اور بنی اسرائیل کی اصلاح کے لئے آئے تھے.
گویا پیارے آقا آپ کی پاکبازی - شرافت نیکی اور نبوت پر گواہ بن گئے آپ نے دیکھا کہ پیارے آقا کے لئے (حضرت آدم سے لیکر حضرت عیسی تک ہر نبی نے پیشگوئی کی کہ ایسا مقدس پاک وجود آئے گا.وہاں پیارے آقا نے بھی ہر نبی کے بارے میں گواہی دی کہ یہ سچے اور خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی اور رسول تھے.اب ہم دیکھیں کہ آپ کو بھیجنے کی غرض جو بتائی گئی وہ یہ معنی کہ خدا جو نظر نہیں آتا.اس کی صفات جو دیکھی نہیں جاسکتیں وہ آپ کے ذریعہ دنیا پر ظاہر ہوں گویا خدا ظاہر ہو گیا ہے.تو کیا آپ کا وجود خدا کا مظہر بنا.جب ہم خدا کی بات کرتے ہیں تو خدا کی ذات بے عیب ذات ہے اس میں کوئی کمی نہیں کجی نہیں.خامی نہیں.وہ برائیوں سے پاک خوبیوں اچھائیوں کا مجموعہ ہے.تو پیارے آقا کی زندگی کو دیکھیں.بچپن سے لے کر وفات تک آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ انسانی آنکھ سے پوشیدہ نہیں ہے.آپ کا کلام حدیث کی شکل میں محفوظ ہے.آپ کے اعمال سنت کہلاتے ہیں اور ایک ایک عمل ایک ایک قول پر کئی کئی گواہیاں ہیں.لیکن پندرہ سو سال ہونے کو آئے آج تک کوئی انسان آپ کی زندگی میں عیب نہیں نکال سکا.عرب کی قوم کا آپ کو امین اور صادق کہنا بتاتا ہے کہ یہ خوبیاں انتہائی اعلیٰ درجہ پر پہنچی ہوئی تھیں.آپ کی امانت.دیانت اور شرافت پر تو دشمن بھی گواہ ہیں.انسانوں کی گواہی ایک طرف یہاں تو خدا گواہی دے رہا ہے کہ یہ اخلاق انتہائی اعلیٰ درجہ کے ہیں (إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيم) پھر خدا تعالیٰ نے آپ کی زندگی کو تمام دنیا کے لئے نمونہ بنا دیا د لقد کان
49 لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أسْوَةٌ حَسَنَه ) کیونکہ آپ کی زندگی میں ایک عام انسان کی زندگی سے لے کر تمام انسانوں کی زندگیوں میں پیش آنے والے واقعات کو جمع کر دیا گیا تھا اور نہ صرف جمع کیا بلکہ ان واقعات میں ہر انسان کے لئے نمونہ رکھا.بہترین نمونہ.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں چونکہ غریب ہوں تو کیسے زندگی گزاروں خدا کہتا ہے کہ جاؤ محمد کی زندگی کو دیکھو.اس نے غربت میں مفلسی میں انتہائی سادہ زندگی گزاری.وہ پیوند لگے کپڑے پہن لیتا ہے.صرف کنجور پر گزارہ کرتا ہے.اگر وہ بھی میسر نہیں تو شکر کر کے صرف پانی پی لیتا ہے.تم کو فاقہ ہوتا ہے تو گلہ کرتے ہو لیکن وہ فاقوں میں بھی قنات اور سبر کی مثالی ہے.وہ خدا کی بادشاہت کا.اس کی سلطنت کا تنہا وارث ہے مگر اس کا گھر ایک چھوٹا سا کمرہ میں میں کوئی سامان نہیں.سادہ سا بہتر ہے.اسی طرح باری باری ہر انسان ، اپنے لئے اس زندگی سے سبق حاصل کر سکتا ہے.تو جس طرح خدا بے عیب ہے یہ محبوب خدا بھی بے عیب ہے.جیس طرح خدا تمام حسن کا مجموعہ ہے اسی طرح تمام حسن اس کی ذات میں بھی جمع ہو گئے ہیں.جس طرح خدا کی ذات میں کوئی کمی نہیں کجی نہیں.اسی طرح اس کے وجود میں بھی کیا جسمانی لحاظ سے.اخلاقی.روحانی.ذہنی اور قلبی لحاظ سے کوئی کمی نہیں.بلکہ ہر لحاظ سے اس میں خوبیاں ہی خوبیاں پائی جاتی ہیں.خدا کی ذات صفت رحمانیت کی مظہر ہے.اسی طرح یہ بھی بلا تفریق مذہب ملت سب پر احسان کرتا ہے.ان کو تعلیم دیتا ہے.ان کی ہدایت کی دعائیں مانگتا ہے اور پھر کوئی مسلہ یا انعام اس کو نہیں چاہیئے.اب ہم دیکھیں کہ خدا آپ کے وجود میں کیسے ظاہر ہوا تو جنگ بدر کے موقع پر جب آپ نے مٹھی بھر کنکریاں کفار کی طرف پھینکیں تو وہ ایک آندھی کی شکل
میں تبدیل ہو گئیں اور خدا نے کہا مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَ اللهَ رَبُّى.که یہ انگر تونے نہیں پھینکے بلکہ ہم نے پھینکے تھے.پھر بیعت رضوان کے موقع پر حکم ہوا کہ آج جو اس ہاتھ پر بیعت کر رہا ہے وہ میرے ہاتھ پر بیعت کر رہا ہے.ان الَّذِينَ يُنَا لِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ خدا رب العالمین ہے.وہ سارے جہانوں کا پالنے والا ہے.ترقی دینے والا ہے لیکن ان عالمین کے لئے رحمت محمد کی ذات ہے.کیونکہ خدا نے ان کو رحمت العالمین قرار دیا ہے.وَمَا اَرْسَلْتُكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمين خدا جميل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے اور میرے آقا ہر لحاظ سے حسین تھے.آپ مردانہ حسن کا نمونہ تھے اسی لئے خدا نے آپ کو طالے کہا.دنیا میں ایک لاکھ چو بیس ہزار نبی آئے کسی کی تعلیم مکمل ہ نفی کوئی بھی کامل نمونہ نہ تھا لیکن میرے آقا کی ذریعہ انسانیت اپنے کمال کو پہنچی.یعنی عابد اور معبود کے درمیان معراج کے موقع پر کوئی پردہ نہ تھا.اس لئے خدا نے صرف اس نام کو چنا اور اپنے نام کے ساتھ لگا لیا.اب الہی جماعت میں شامل ہونے کے لئے اسی کو دہرانا لازمی ہے.یعنی کلمہ طیبہ لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحمدٌ رَسُولُ الله اسبہ جب تک یہ دنیا باقی ہے یہ دونوں نام ساتھ ساتھ زندہ ہیں.دنیا کی کوئی قات ان ناموں کو یعنی اللہ اور محیر کو جدا نہیں کر سکتی.محمد خدا نما تھے.آپ کے وجود میں خدا ظاہر ہوا.اور آپ کے ذریعہ دنیا نے خدا کو دیکھا.آپ نے دنیا والوں کو یہ راز سکھا دیا کہ تم بھی خدا کو اپنی ذات میں بسا سکتے ہو وہ اس طرح کہ خدا کے ہو جاؤ.خدا خود تمہارا ہو جائے گا.تم اس کی ذات میں گم ہو جاؤ وہ تم کو ڈھونڈ نکالے گا.تم اس سے محبت کرو وہ تم سے پیار کرے گا.تم اس سے راضی ہو جاؤ وہ تم سے راضی ہو گا.اور پھر خود بخود تم اس کی رضا کی جنتوں میں بس
جاؤ گے خدا ایک چھپا ہوا خزانہ تھا لیکن خدا کے محبوب نے اس خزانے کو کھول دیا.ساری دنیا کے لئے.آؤ اور اس خزانے سے جواہرات سمیٹ لو یہ تو تکل.ایسی تناعت صبر شکر - ایثار - قربانی - رحم - اخوت - مساوات رواداری سیب جواہرات ہی تو ہیں.ان سے اپنے دامن پھر لو خدا خود تمہارے وجود میں بس جائے گا.یہ تھا وہ راز جو کائنات کی ابتداء سے لے کر میرے آقا کے آنے تک کوئی نہ جانتا تھا لیکن آپ نے تو نہ صرف خدا کا پتہ و بابلکہ اس کے چھپے ہوئے خزانے بھی کھول دیئے.آپ کی رحمت ہر انسان کے لئے برا بر کتی.آپ نے ہر پیاسی قوم کو سیراب کیا مردہ روحوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی اور بلا شبہ آپ خدا تعالیٰ کی بادشاہت کے وارث اس کے محبوب تھے.اور تمام انبیاء کے موعود.رسولوں کی نشانیوں کو پورا کرنے والے تھے اگر کوئی کہتا ہے کہ نبیوں کی بتائی ہوئی نشانیاں پوری نہیں ہوئیں.اور وہ موعود ابھی نہیں ظاہر ہوا تو نبوت کی عمارت گر جائے گی.اس لئے کہ اس کی ہر اینٹ جو ایک نبی ہے کمزور پڑ جائے گی.لیکون نبوت کی عمارت کبھی نہیں کر سکتی.کیونکہ اس کا حسن میرے آقا کی ذات ہے.اس عمارت کو مکمل میرے آقا نے کیا کیونکہ ہر نبی کی سچائی پر گواہی دی اور ہر نشان پر پیشگوئی اپنے اپنے وقت پر پوری ہوئی کیونکہ یہ سب خدا کے بنائے ہوئے نشان تھے پھر سر نبی نے اپنی امت سے عہد لیا تھا کہ اس کو مانیں.اس کی اطاعت
کریں.اگر کوئی قوم ہمارے آقا کو نہیں مانتی اور آپ کی تعلیم کو رد کرتی ہے.تو وہ اپنے انبیا کی صداقت کو جھوٹا کر رہی ہے.اپنے نبی کی اطاعت سے باہر جا رہی ہے لیکن وہ موعود نبی بڑی شان کے ساتھ ظاہر ہوا.اور اس کی حمد سے آج بھی دنیا بھری ہوئی ہے.وہ محمد تھا.محمد رہا.اور محمد رہے گا.خدا کی ہزاروں برکتیں اور رحمتیں اس پاک وجود پر جو مقصود کائنات تھا.انسانیت کا معراج اللهم صل على محمد وآل محمد کتب جن سے استفادہ کیا گیا قرآن پاک سیرت خاتم النبيين - از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب - دیباچہ تفسیر القرآن - از حضرت خلیفة المسیح الثانی سيرة ابن هشام ه انجیل متی - یوحنا A 4 - توریت - عهد نامه قدیم قصیده - عربی قصیده از حضرت مسیح موعود - سیرة النبی - از شبلی نعمانی