Language: UR
قرآن کریم میں مذکور انبیاء علیھم السلام کی دعاؤں پر مشتمل اس مجموعہ کی اضافی خوبی یہ ہے کہ ان دعاؤں کو مختصر پس منظر اور پیش منظر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اور کتاب کا حجم بھی ایسا ہے کہ لوگ سفر و حضر میں ساتھ رکھ کراپنے خالق و مالک کے سامنے انبیاء علیھم السلام کی زبان سے ادا ہونے والی مقبول دعاؤں کا ورد باآسانی کرسکتے ہیں۔ ان قرآنی دعاؤں کا اردو ترجمہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ترجمہ القرآن سے لیا گیا ہے اور کتاب کے آغاز میں دعا، اس کی قبولیت، اہمیت و برکات کے متعلق قرآن کریم ، احادیث مبارکہ اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی مواد پیش کیا گیا ہے۔
(احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے) غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے میرے فلسفیو ! زور دعا دیکھو تو انبیاء کرام علیہم السلام کی دعائیں 2 نام کتاب انبیاء کرام علیہم السلام کی دعائیں
4 3 انتساب کتاب کو اپنی والدہ مرحومہ محترمہ مریم بیگم صاحبہ اہلیہ میجر ڈاکٹر شاہ نواز خان مرحوم میڈیکل مشنری (سیرالیون) کے نام منسوب کرتی ہوں جن کی زندگی کا محور صرف اور صرف دعا کرنا تھا اور اپنی زندگی کے تمام امور وحاجات کے لئے اپنے رب کے حضور ہر وقت دعا گو رہتی تھیں.استغفار اور درود شریف کا ورد کثرت سے کرتی تھیں.قرآن کریم ، دینی کتب اور احادیث کا مطالعہ کرنے کا شوق ابتدائی عمر ہی سے تھا جس کی روشنی میں اپنی اولاد کی دینی تربیت کے لئے کوشاں رہتی تھیں.قارئین کرام سے اپنے محترم والدین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لئے دعا کی درخواست کرتی ہوں.جنہوں اظہار تشکر اور درخواست دعا ا وا ین ا ل اب اس کتاب کی اشاعت میں مالی تعاون کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کا یہ جذبہ خیر قبول فرمائے.ان کی نیک خواہشات پورا کرنے کے خود سامان کرے.ان کی اولاد کو آنکھوں ٹھنڈک بنائے اموال نفوس اور اخلاص میں برکت عطا فرمائے.نیز ان کے والدین کو اعلیٰ علیین میں مقامِ قرب سے نوازے.آمین اللھم آمین.
6 5 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ نے بفضلہ تعالی لجنہ اماء اللہ کے شعبہ اشاعت کو صد سالہ جشن تشکر کے سلسلے کی چورانویویں (94) کتاب پیش کرنے کی توفیق مل رہی ہے.زیرِ نظر کتاب 'انبیاء کرام علیہم السلام کی دعائیں مرتب کی ہے.فجزاها اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.اگر چہ تمام دعائیں قرآن کریم میں موجود ہیں اور مختلف کتب میں یکجا بھی کی گئی ہیں.تاہم اس میں انفرادیت یہ ہے کہ دعاؤں کو مختصر پس منظر اور پیش منظر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے.اور کتاب کا حجم ایسا ہے کہ سفر حضر میں ساتھ رکھی جائے اور معبود کی بارگاہ میں عبودیت کا عاجزانہ نذرانہ پیش کرنے میں مدد دے.خدا تعالیٰ سے تعلق قائم رہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اسی خاص مقصد کے ساتھ مبعوث فرمایا اور دعا کا خصوصی اعجاز عطا فرمایا.آپ فرماتے ہیں:.میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبیعہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دعا برکات الدعا.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 11) ہے.اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے ادعونی استجب لکم.مجھے پکارو میں تمہیں کا مطالعہ بہت مفید رہے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس بابرکت کتاب سے فائدہ اُٹھا سکیں.آمین اللہ تعالیٰ مرتبہ موصوفہ کی اس کوشش کو قبول فرمائے.اسی طرح میں دعا کی درخواست کروں گی اپنے شعبہ اشاعت کی خادمات کے لئے خاص طور پر عزیزہ امہ الباری ناصر کے لئے جن کی شب و روز کی محنت سے یہ روحانی مائدہ ہمیں میتر آتا ہے.جواب دوں گا.پکار کا ڈھنگ ، آداب، سلیقہ اور تقاضے سیکھنے کے لئے اس کتاب
8 7 عرض حال میں اللہ تعالیٰ کی انتہائی شکر گزار ہوں جس نے انبیاء کرام علیہم السلام کی دعاؤں کے موضوع پر چھوٹی سی کتاب مرتب کرنے کی توفیق دی.دعا کے متعلق حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے کیا خوب فرمایا ہے.تم دعائیں کرو یہ دعا ہی تو تھی جس نے توڑا تھا سر کبر نمرود کا ہے ازل سے یہ تقدیر نمرودیت آپ ہی آگ میں اپنی جل جائے گی یہ دعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا ساحروں کے مقابل بنا اثر دھا آج بھی دیکھنا مرد حق کی دعا سحر کی ناگنوں کو نگل جائے گی اس کاوش کا محرک دعا کی قبولیت پر میرا یقین کامل اور حضرت خلیفہ ایچ الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پہلا پُر سوز خطاب تھا.بہت دعائیں کریں.بہت دعائیں کریں.بہت دعائیں کریں.مجھ ناچیز نے یہ ارادہ کیا کہ میں وہ تمام دعائیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کو سکھائیں بالترتیب جمع کر دوں تاکہ پڑھنے والوں کو آسانی ہو اور اُن کے علم میں اضافہ ہو.ابتداء میں قرآنِ پاک ، احادیث مبارکہ اور ارشادات حضرت مسیح موعود درج کئے گئے ہیں نیز قبولیت دعا کے اصول ، شرائط اور اوقات تحریر کئے ہیں.اس کتاب میں قرآنی آیات کا ترجمہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کا بیان فرمودہ ہے.تذکرہ کے حوالے جدید ایڈیشن سے درج کئے ہیں.آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری اس چھوٹی سی کاوش کو قبول فرمائے اور جزائے خیر عطا کرے.آمین قارئین سے درخواست ہے کہ میرے بزرگوں، مجھے اور میری اولاد کو دعاؤں میں یاد رکھیں.
31 32 33 33 36 38 39 40 41 42 53 10 17 - حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا 18- حضرت طالوت علیہ السلام کی دعا 19- حضرت شعیب علیہ السلام کی دعا 20 - حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں 21 - حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا 22- حضرت یونس علیہ السلام کی دعا 23 حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا 24 - حضرت زکریا علیہ السلام کی دعائیں 25- حضرت عیسی علیہ السلام کی دعا 26 حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں 27 حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی دعائیں 9 مندرجات صفحه نمبر نمبر شمار عنوان -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 انتساب اظہار تشکر و درخواست دعا پیش لفظ عرض حال مندرجات دعا کی اہمیت وفضیلت قرآن کریم کی روشنی میں.حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دعا کے متعلق ارشادات 14 34510- 7 9 11 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعا کے متعلق ارشادات 16 18 19 20 22 24 29 30 چه شه له له ته قبولیت دعا کے اوقات 10 - قبولیت دعا کی شرائط 11- انبیاء کرام علیہم السلام کی دعائیں -12- حضرت آدم وحو اعلیہ السلام کی دعا -13 حضرت نوح علیہ السلام کی دعائیں 14 - حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں 15- حضرت لوط علیہ السلام کی دعا -16 حضرت یعقوب علیہ السلام کی دعا
12 تا کہ ہدایت پائیں.11 دعا کی اہمیت اور فضیلت قرآن کریم کی روشنی میں دعا عربی زبان کا ایک لفظ ہے.بنیادی طور پر جس کے معنی پکارنے کے ہیں.وسیع معنوں میں اس کا مفہوم مانگنے سوال کرنے یا نصرت طلب کرنے کا لیا جاتا ہے.اصطلاح میں دعا سے مراد اللہ تعالیٰ کو اپنی مصیبت دور کرنے اور حاجتیں پوری کرنے کے لئے پکارنا اور اُس سے مدد مانگنا ہیں.دُعا کرنے سے اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان گہرا تعلق پیدا ہو جاتا ہے.جس سے دین و دنیا کی حسنات ملتی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَاذْكُرُونِي اذْكُرُكُمْ (2: البقره: 153) ترجمہ: پس میرا ذکر کیا کرو.میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا.- إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ طَأُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ترجمہ : اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں.میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں (2: البقرہ: 187) ہیں.دعا کے لئے کوئی مخصوص قید نہیں ہر وقت ہر جگہ اور ہر حال میں کر سکتے الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قَيْمًا وَّ قُعُودًا وَّ عَلَى جُنُوبِهِمْ (3: ال عمران : 192) ترجمہ: وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل بھی.دلوں کو سکون و راحت صرف اور صرف دعا عبادت اور ذکر الہی سے حاصل ہوتی ہے اس کے لئے کسی دنیاوی عیش وعشرت کے سامان کا ذکر نہیں - اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (13: الرعد : 29) ترجمہ: سنو! اللہ ہی کے ذکر سے دل اطمینان پکڑتے ہیں.دعا سے غفلت قابل معافی نہیں ہے.- وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (40:المؤمن: 61) ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا.یقیناً وہ لوگ جو میری عبادت کرنے سے اپنے تیں بالا سمجھتے ہیں ضرور جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے.- وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا ص (7: الاعراف: 181) ترجمہ: اور اللہ ہی کے سب خوبصورت نام ہیں.پس اُسے
14 13 ان ( ناموں ) سے پکارا کرو.- قُلْ مَا يَعْبَوابِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ = فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامَاً.(25: الفرقان : 78) ترجمہ: تو کہہ دے کہ اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تو میرا ربّ تمہاری کوئی پرواہ نہ کرتا.پس تم اُسے جھٹلا چکے ہو سو ضرور اس کا وبال تم سے چمٹ جانے والا ہے.م - أَمَّنْ يُجيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ءَ إِلهُ مَّعَ اللهِ ط قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ.(27: النمل: 63) ترجمہ : یا ( پھر ) وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے.کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور ) معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو.حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلّم کے دعا کے متعلق ارشادات ہے.حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا.اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا ہے ، بڑا کریم اور سخی ہے.جب بندہ اُس کے حضور دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ( ترندی کتاب الدعوات) ہے.یعنی صدق دل سے مانگی ہوئی دعا کو وہ رد نہیں کرتا بلکہ قبول فرماتا ہے.ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ.انسان اپنے رب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ میں ہو اس لئے سجدہ میں بہت دعا کیا کرو.“ (مسلم کتاب الصلوۃ باب ما يقال في الركوع والسجو دص 181 حديقة الصالحين ص 135) - حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جب تم دعا کرو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ خدا تمہاری دعا ضرور سنے گا اور یاد رکھو کہ خدا ایسے دل سے نکلی ہوئی دعا ہر گز نہیں سنتا جو غافل اور بے پروا ہو.(صحیح بخاری جلد دوم) جو یہ چاہتا ہے کہ سختی کے موقعوں پر اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرے
16 15 اُسے چاہیے کہ عیش کے زمانے میں کثرت سے دعا کرے.“ ( ترمذی ابواب الدعوات ، دعوة المسلم مستجابة) -الصلواة مخّ العبادة دعا عبادت کا مغز ہے.- لا يرد لقضاء الا دعا دعا کے سوا تقدیر تبدیل نہیں ہوتی..جب ایک مسلمان خدا سے کوئی دعا کرتا ہے تو خدا اُسے تین صورتوں میں سے کسی نہ کسی ایک صورت میں ضرور قبول فرما لیتا ہے.1 - یا تو وہ اُسے اُسی صورت میں اُسی دنیا میں قبول کر لیتا ہے.2- یا اُسے آخرت کے لئے دعا کرنے والے کے واسطے ذخیرہ کر لیتا ہے.3 یا اگر دُعا کا قبول کرنا کسی سُنت الہی یا مشیت الہی کے خلاف ہو تو اس کی وجہ سے دعا کرنے والے سے کسی ملتی جلتی تکلیف یا بدی کو دور فرما دیتا ہے.“ - اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم پر دعا کرنا اور مانگنا لازم ہے قبولیت دعا اور بخشش میں نے اپنے ذمے لگائی ہے.(الطبرانی) اللہ تعالیٰ سے پر یقین دل کے ساتھ دعا مانگو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل و لا پروا دل سے کی گئی دعا قبول نہیں کرتا.(الترندی).مظلوم کی دعا مقبول ہوتی ہے.(الطیاسی) جب تم میں سے کوئی دعا کرنے لگے تو اُس کو چاہیے کہ اپنے سوال پر پختگی سے قائم ہو اور ایسے الفاظ استعمال نہ کرے کہ خدایا اگر تو پسند کرے تو میری اس دُعا کو قبول کر خدا تو اُسی حال میں اُسی صورت میں قبول کرے گا اگر وہ اُسے پسند کرے گا کیونکہ خدا سب کا حاکم ہے اور اس پر کسی کا دباؤ نہیں.پس ڈھیلے ڈھالے الفاظ کہہ کر اپنی دعا کے زور اور اپنے دل کی توجہ کو کمزور نہیں کرنا چاہیے.ہ - حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا.جب اپنی دعا کے قبول ہونے کا پتہ چلے تو یہ دعا پڑھو.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى بِعِزَّتِهِ وَ جَلَالِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ مستدرک حاکم مطبوعہ بیروت جلد 1 ص 730) ترجمہ: تمام تعریفیں اُس ذات کے لئے ہیں جس کی عزت و جلال کے ساتھ تمام نیک کام پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعا متعلق ارشادات.سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ جس سے دعا کرتا ہے اس پر کامل ایمان ہو اس کو موجود سمیع بصیر علیم متصرف قادر سمجھے اور اس کی ہستی پر ایمان رکھے کہ وہ دعاؤں کو سنتا ہے اور قبول کرتا ہے.(ملفوظات جلد 3 ص 522) ہے.سانپ کے زہر کی طرح انسان میں زہر ہے.اس کا تریاق دعا ہے جس کے ذریعہ سے آسمان سے چشمہ جاری ہوتا ہے.جو دعا سے غافل ہے وہ مارا گیا.ایک دن اور رات جس کی دعا سے خالی ہے وہ شیطان سے قریب ہوا.ہر روز دیکھنا چاہیے کہ جو حق دعاؤں کا تھا وہ ادا کیا ہے یا نہیں.( ملفوظات جلد 3 ص 591) ہیں.دعا میں بھی جب تک کچی تڑپ اور حالت اضطراب پیدا نہ ہو تب
18 17 تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے.( ملفوظات جلد 5 ص 455) نماز میں دعائیں اپنی زبان میں مانگو جو طبعی جوش کسی کی مادری زبان میں ہوتا ہے وہ ہرگز غیر زبان میں پیدا نہیں ہوسکتا.( ملفوظات جلد 4 ص 29) اصل دعائیں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے واسطے کرنی چاہئیں باقی دعا ئیں خود بخود قبول ہو جائیں گی کیونکہ گناہ کے دُور ہونے سے برکات آتی ہیں یوں دُعا قبول نہیں ہوتی جو نری دنیا کے واسطے ہو“ ( ملفوظات جلد 3 ص 602) حی - دعا ایک موت ہے اور جیسے موت کے وقت اضطراب اور بے قراری ہوتی ہے اسی طرح پر دعا کے لئے بھی ویسا ہی اضطراب اور جوش ہونا ضروری ہے.اس لئے دعا کے واسطے پورا پورا اضطراب اور گدازش جب تک نہ ہو بات نہیں بنتی پس چاہیے کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نہایت تضرع اور زاری اور ابتہال کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی مشکلات کو پیش کرے اور اس دعا کو اس حد تک پہنچا دے کہ ایک موت کی سی صورت واقع ہو جاوے.اس وقت دعا قبولیت کے درجے تک پہنچتی ہے.( ملفوظات جلد 3 ص 616 حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے چاہیے تجھ کو مٹانا قلب نقش دوئی سر جھکا بس مالک ارض ނ سما کے سامنے قبولیت دعا کے اوقات قبولیت دعا کے لئے کچھ اوقات مناسب اور بہترین ہیں.1 - رات کو آخری اوقات مناسب اور بہترین ہیں.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.ہمارا رب ہر رات قریبی آسمان تک نزول فرماتا ہے جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کو جواب دوں کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اس کو دوں کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں.“ ( ترمذی کتاب الدعوات) 2 - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اذان اور اقامت کے درمیان کی (حدیث صحیح بخاری جلد دوم) دعا رد نہیں ہوتی.3 - سورج طلوع ہونے اور سورج غروب ہونے تک سے پہلے کا وقت.4-عصر سے مغرب تک کا وقت.5- روزہ کھولنے کے وقت.6-سفر کے دوران.7- چاند دیکھنے کے وقت.8- اذان اور اقامت کے درمیان 9- جمعہ کے دن عصر اور مغرب کے درمیان
20 20 19 قبولیت دعا کی شرائط قبولیت دعا کے لئے چند شرائط ہیں جن کا ہونا لازم ہے.1 - قبولیت دعا کے لئے یقین کامل ، توجہ اور مکمل یکسوئی ہونی چاہیے.2- دعا کے مؤثر ہونے کے لئے قلب ، ذہن اور خیالات کا پاک ہونا بہت ضروری ہے.3- بندے میں عاجزی اور خوف خدا ہونا بھی لازم ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.”اپنے رب کو یاد کر و اور خوف کے ساتھ.“ 4- دعا کا تنہائی اور سکون کی جگہ پر کرنا زیادہ بہتر ہے.تاکہ دل و جان سے خدا کے حضور حاضر ہوسکیں.5- دعا کرتے وقت خشوع و خضوع اور رقت طاری ہونا قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے.6- دعا کے لئے جگہ ، بدن اور بستر پاک و صاف ہونا چاہیے.کیونکہ فرشتے صفائی کو پسند کرتے ہیں اور پھر بندے کے قریب ہو جاتے ہیں اور گندگی سے دُور بھاگتے ہیں.7- ایک حدیث میں ہے کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ہی رکی رہتی الله ہے او پر نہیں جا سکتی یعنی خدا تک نہیں پہنچتی جب تک آنحضرت ﷺ پر اول اور آخر درود نہ بھیجا جائے.پس ہمیں چاہیے کہ دعا کرنے سے پہلے اور آخر میں درود شریف پڑھیں ( حديقة الصالحين ص 135) تا کہ ہماری دعا مؤثر ہو کر قبول ہو.انبیاء کرام علیہم السلام کی دُعائیں انبیاء کرام علیہم السلام جو غیر معمولی کام کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں اور عام انسانی قویٰ سے بالاتر قوت کے ساتھ کام کرتے ہیں اُن کے پیچھے استجابت دعا کا اعجاز ہی کارفرما ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں.اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی دراصل استجابت دعا ہی ہے اور جس قدر ہزاروں معجزات انبیا سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ اولیاء ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل منبع یہی دعا ہے.اور اکثر دعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سُنا کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللهم صل و سلم و بارک علیه و اله بعدد همه وَ
22 21 21 غمه و حزنه لهذه الامة و انزل عليه انوار رحمتک الی الا بد“ برکات الدعا.روحانی خزائن جلد 6 ص 10-11 ) حضرت آدم و حوا علیہم السلام کی دعا قرآن کریم میں ارشاد ہے.اور ہم نے کہا اے آدم! تو اور تیری زوجہ جنت میں سکونت اختیار کرو اور تم دونوں اس میں جہاں سے چاہو با فراغت کھاؤ مگر اس مخصوص درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے.پس شیطان نے ان دونوں کو اس ( درخت ) کے معاملے میں پھسلا دیا پس اُس نے انہیں نکال دیا جس میں وہ پہلے تھے اور ہم نے کہا تم نکل جاؤ ( اس حال میں کہ ) تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے اور تمہارے لئے (اس) زمین میں ایک عرصہ تک قیام اور استفادہ (مقدر) ہے.پھر آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے پس وہ اس پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھکا یقیناً وہی بہت توبہ قبول کرنے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.یہاں شجرہ سے مراد وہ احکام شریعت ہیں جو مناہی سے تعلق رکھتے ہیں وہ (2: البقره: 36 تا 38) احکام اگر توڑے جائیں تو پھر دنیا میں انسان کے لئے امن اُٹھ جاتا ہے.ترجمه قرآن مجید از حضرت خلیفۃ اسیح الرابح ص 15 اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو یہ دعا سکھائی اور قبول فرمائی.ا - رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَ إِنْ لَّمْ تَغْفِرُلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ (7: الاعراف : 24) ترجمہ: ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم گھاٹا کھانے والوں میں سے ہو جائیں گے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا آج کل آدم کی دعا پڑھنی چاہیے یہ دعا اول ہی مقبول ہو چکی ہے.( ملفوظات جلد 2 ص 577) حضرت نوح علیہ السلام کی دعائیں حضرت نوح علیہ السلام حضرت آدمؑ کے بعد پہلے تشریعی نبی تھے.نوح کا مطلب ہے کثرت سے آہ و بکا کرنے والا.حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دن رات توحید کی تبلیغ کی مگر آپ پر ایمان لانے والوں کی تعداد بہت کم تھی.آپ نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ سب قوم ایمان لے آئے اور کافر کوئی نہ رہے.”اے میرے رب ! کافروں میں سے کسی کو زمین پر بستا ہوا نہ رہنے دے یقیناً اگر تو ان کو چھوڑ دے گا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور بدکار اور سخت ناشکرے کے سوا کسی کو جنم نہیں دیں گے.(71): سورہ نوح: 28127) حضرت نوح کا اپنی قوم پر جس بد دعا کا ذکر ہے وہ اس بناء پر تھی کہ اللہ
24 23 تعالیٰ نے آپ کو متنبہ فرما دیا تھا کہ اب یہ قوم یا اس کی آئندہ نسلیں کبھی ایمان نہیں لائیں گی.حضرت نوح کو ذاتی طور پر تو اس کا علم نہیں ہو سکتا تھا لازماً اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم پا کر آپ نے یہ بد دعا کی تھی.تفسیری نوٹ از ترجمہ حضرت خلیفة المسیح الرابع ص 1082) حضرت نوح نے خدا تعالیٰ سے رحم کی عاجزانہ دعا.ا - رَبِّ اغْفِرْلِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلْمُؤْمِنَتِ * وَلَا تَزِدِ الظَّلِمِينَ إِلَّا تَبَارًا (71 : نوح : 29) ترجمہ : اے میرے ربّ! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو بھی اور اُسے بھی جو بحیثیت مومن میرے گھر میں داخل ہوا اور سب مومن مردوں اور سب مومن عورتوں کو.اور تو ظالموں کو ہلاکت کے سوا کسی چیز میں نہ بڑھانا.“ حضرت نوح کی قوم نے جب آپ کی تکذیب میں حد کر دی اور آپ کو جھوٹا اور مجنون قرار دیا تو سخت پریشان ہو کر آپ نے اپنے ربّ کو اس دردناک طریق پر پکارا.- اَنِى مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرُ (54) القمر :11) ترجمہ: میں یقیناً مغلوب ہوں.پس میری مدد کر.آپ کی قوم پر پانی کا عذاب نازل ہوا.اللہ تعالیٰ نے الہاماً ایک کشتی بنانے کا حکم دیا جس میں عذاب کے وقت اپنے متبعین اور ضرورت کی اشیاء کے ساتھ سوار ہوئے یہ کشتی جودی مقام پر جا ٹھہری تھی.آپ نے کشتی پر سوار ہوتے وقت دعا کی.بِسمِ اللَّهِ مَجْرِهَا وَ مُرْسَهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رحیم (11: هود : 42) ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ ہی اس کا چلنا اور اس کا لنگر انداز ہونا ہے.یقیناً میرا رب بہت بخشنے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.یہ دعا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی کئی مرتبہ الہام ہوئی.رَبِّ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرُ ترجمہ : میں مغلوب ہوں میری طرف سے مقابلہ کر.( تذکرہ:71) 24 اپریل 1903 کو دوبارہ ان الفاظ میں الہام ہوا.أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرُ.فَسَحِقُهُمْ تَسْحِيقًا ترجمہ: اے میرے رب میں ستم رسیدہ ہوں میری مدد فرما اور انہیں اچھی طرح پیس ڈال.( تذکره : 389) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کو بتوں کی پوجا سے منع کرتے اور ایک خدا کی طرف بلاتے تھے.آپ جب اپنے باپ کو اورلوگوں کو بتوں کی پوجا کرتے ہوئے دیکھتے تو بہت افسوس ہوتا ایک دن آپ نے اپنے باپ آذر کے بت خانہ کے سارے بت توڑ دئے.توحید کی تبلیغ سے بے زار ستارہ پرست اور بت پرست قوم نے آپ کو بھڑکتی آگ میں پھینک کر جلا ڈالنے کی سزا تجویز کی.آگ بھڑکائی گئی مگر اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا.قُلْنَا يَنَارُ كُونِي بَرْدًا وَّ سَلَمًا عَلَى إِبْرَاهِيم
26 25 (21: الانبیاء : 70) ترجمہ: ہم نے کہا اے آگ ! تو ٹھنڈی پڑ جا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر.جب حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا گیا تو آپ نے دعا کی.( بخاری کتاب التفسیر ) ا حَسُبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيل ( 3: ال عمران : 174) ترجمہ: ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے.دعین موقع پر بادل آیا جس نے آگ کو ٹھنڈا کر دیا اور حضرت ابراہیمؑ آگ میں سے صحیح سلامت نکل آئے چونکہ بُت پرست بہت وہمی ہوتے ہیں اس لئے جب ادھر انہوں آگ جلائی اور اُدھر بادل آ گیا.اور آگ بجھ گئی تو انہوں نے سمجھا کہ خدا کی مشیت یہی ہو گی.اس لئے انہوں نے حضرت ابراہیمؑ کو چھوڑ دیا.( تفسیر کبیر جلد پنجم ص 532) یہاں آگ سے مراد مخالفت کی آگ بھی ہے اور حقیقی آگ بھی مراد ہو سکتی ہے چنانچہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا کہ آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی ( تذکره ص 324) غلام ہے.آگ کے ٹھنڈا پڑ جانے سے مراد یہ ہے کہ اس کی تپش کو ہلاک کرنے کی توفیق نہیں ملے گی بلکہ وہ آگ خود ٹھنڈی ہو جائے گی.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا مشن جاری رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور حصول اولاد کے لئے دعائیں کیں.ما - رَبِّ هَبْ لِى مِنَ الصَّلِحِين (37 الصافات: 101) ترجمہ :اے میرے رب ! مجھے صالحین میں سے (وارث) عطا کر.یہ دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی الہام ہوئی.( تذکرہ 626)) قادر خدا نے بڑھاپے میں اولاد عطا فرمائی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا ترجمہ: 'سب حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے مجھے بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق عطا کئے یقیناً میرا رب دعا کو بہت سُننے والا ہے.(14: ابراہیم: 40) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر بیت اللہ کے وقت شہر مکہ کے پُر امن ہونے اور اس کے رہنے والوں کے رزق ملنے اور اولاد کے شرک و بت پرستی سے بچنے کے لئے جو دعائیں کیں وہ سب مقبول ہوئیں.( تفسیر الدر منثور جلد 4 ص 86) آپ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت اللہ کے حضور عاجزانہ دعائیں کرتے ہوئے کی.- رَبِّ اجْعَلُ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَّارُزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمُ بِالله وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (2: البقرة: 127) ترجمہ: اور جب ابراہیم نے کہا کہ اے میرے ربّ! اس کو ایک پُر امن اور امن دینے والا شہر بنا دے اور اس کے بسنے والوں کو جو اُن میں سے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے ہر قسم کے پھلوں میں سے رزق عطا کر.- رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِذِى زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ * رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ لا
28 27 فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمُ وَ ارْزُقُهُمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (14 ابراہیم : 38) ترجمہ: اے ہمارے رب ! یقیناً میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں تیرے معزز گھر کے پاس آباد کر دیا ہے.اے ہمارے ربّ! تاکہ وہ نماز قائم کریں پس لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں میں سے رزق عطا کرتا کہ وہ شکر کریں.- رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَ تَقَبَّلُ دُعَاءِ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ.( 14 ابراہیم : 42'41) ترجمہ: اے میرے رب ! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی.اے ہمارے رب ! اور میری دعا قبول کر.اے ہمارے ربّ! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو بھی اور مومنوں کو بھی جس دن حساب بر پا ہوگا.- رَبِّ هَبْ لِى حُكْمًا وَّ الْحِقْنِي بالصَّلِحِينَ وَاجْعَلُ لِى لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ.وَ اجْعَلْنِي مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ o (26: الشعراء: 84تا86) ترجمہ: اے میرے رب ! مجھے حکمت عطا کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کر.اور میرے لئے آخرین میں سچ کہنے والی زبان مقدر کر دے.اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان باوضو ہو کے اللہ کے نام سے حضرت ابراہیم کی یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اُسے جنت کا کھانا پینا عطا کرتا ہے اُس کی بیماری کو گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے اور اُسے سعادت مندوں والی زندگی اور شہدا والی موت نصیب ہوتی ہے.گناہ خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں بخشے جاتے ہیں اُسے قوت فیصلہ اور صالحیت عطا ہوتی ہے اور دنیا میں اس کا ذکر باقی رکھا جاتا ہے.(تفسیر الدرالمنثور للسيوطى جلد 4 ص89) خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ دعا پڑھ رہے تھے.ا - رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا طَ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (2: البقره : 186) ترجمہ: اے ہمارے رب ہماری طرف سے قبول کر لے یقینا تو بہت ہی سننے والا ( اور ) دائمی علم رکھنے والا ہے.ایک نبی کی عاجزی و انکساری دیکھئے کہ حضرت اسماعیل کو وادی ذی زرع میں چھوڑا.اُنھیں ذبح کرنے کو تیار ہو گئے.پھر خانہ کعبہ کی عمارت بناتے ہوئے ایک طرح یہ فیصلہ فرما رہے تھے کہ حضرت اسماعیل اب دائمی جدائی اختیار کر کے یہیں آباد ہوں گے یہ سب قربانیاں کوئی معمولی بات نہیں تھیں مگر تذلیل کی انتہا ہے عرض کرتے ہیں میں نے اور اسماعیل نے ایک گھر بنایا ہے اسے تو اپنے رحم سے قبول فرما اور سچ مچ اس میں بس جا.اسے بیت اللہ پھر حضرت ابراہیم اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں کہ میں نے اپنی اولاد کو یہاں لا کر بسا دیا.یہاں تیرا گھر بنا دیا جس سے غرض صرف تیرے نام کی بنا دے.
30 29 بلندی ہے اب تو میری نسلوں کو بھی توحید کا علمبردار بنا دے.اور ان میں خیر الرسل خیر البشر رسول پیدا فرما.- رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ایتكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتب وَالْحِكْمَةَ ، إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.(2: البقرہ: 130) ترجمہ: اے ہمارے ربّ! تو ان میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور (اس) کی حکمت بھی سکھائے اور اُن کا تزکیہ کر دے.یقینا تو ہی کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں.(تفسیر قرطبی جلد ثانی ص117) حضرت لوط علیہ السلام کی دعا حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے اور اُن کے ساتھ ہی ترک وطن کر کے فلسطین آئے تھے.یہاں سدوم میں جو لوگ آباد تھے وہ بہت ہی بد اخلاق اور ناپاک عادات میں مبتلا تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی اصلاح کا فریضہ سونپ دیا.آپ نے اپنی قوم کی اصلاح کے لئے بہت کوشش کی بار بار تنبیہ کی اور بُرے کاموں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا مگر وہ اتنے گمراہ تھے کہ بجائے راہِ راست پر آنے کے کہنے لگے کہ تم وہ عذاب لے آؤ جس سے ڈراتے ہو.حضرت لوط علیہ السلام نے مضطرب ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی.رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ (29: العنكبوت:31) ترجمہ :اے میرے ربّ! اس فساد کرنے والی قوم کے خلاف میری مدد کر.اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہاں سے ہجرت کا حکم دیا اور وہ پہاڑ جس پر سدوم واقع تھا آتش فشاں بن کر پھٹا اور اس بستی پر آگ اور پتھروں کی اس قدر بارش ہوئی کہ زمین پھٹ گئی اور وہاں جھیل بن گئی.حضرت یعقوب علیہ السلام کی دعا آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے.آپ کا لقب اسرائیل ہے اس لئے آپ کی نسل بنی اسرائیل کہلائی.ان پر کافی تکالیف آئیں.کنعان میں رہتے تھے آخری عمر میں اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس مصر چلے گئے وہیں وفات پائی.حضرت یوسف علیہ السلام بہت خوبصورت ، ذہین اور دیندار تھے.ان خوبیوں کی وجہ سے اپنے والد کے بہت چہیتے تھے.برادرانِ یوسف والد صاحب پر زور ڈال کر حفاظت کے وعدے کے ساتھ انہیں سیر کرانے کے لئے لے گئے وہاں اندھے کنوئیں میں پھینک کر والد صاحب کو جھوٹی کہانی سُنادی کہ یوسف کو بھیڑکے نے کھا لیا ہے.باپ کے لئے بیٹے کی جدائی انتہائی صدمے
32 31 (12 : یوسف: 87) کا باعث بنی.اس صدمے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی.٣- إِنَّمَا اَشْكُوا بَقِي وَ حُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ترجمہ: اس نے کہا میں تو اپنے رنج والم کی صرف اللہ کے حضور فریاد کرتا ہوں اور اللہ کی طرف سے میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.خدا تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور معجزانہ حالات میں حضرت یوسف کو اپنے والد صاحب سے ملا دیا.حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے.بچپن میں ان کے دوسرے بھائیوں نے حسد کی بنا پر انہیں کنوئیں میں پھینک دیا تھا جہاں سے مسافروں نے نکال لیا اور مصر لے گئے.خدا تعالیٰ نے وہاں قید کے ابتلا کے بعد آپ کو اعلیٰ افسر کا عہدہ دیا اور تعبیر الرؤیاء کا علم بھی دیا.پھر آپ کے بھائی والدین کو لے کر آپ کے پاس آگئے ان غیر معمولی نعماء پر شکرانہ کے لئے مولا کریم کے حضور دعا کرتے.ا - رَبِّ قَدُ اتَيُتَنِى مِنَ الْمُلْكِ وَ عَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ أنتَ وَلِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ، تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَّ قف (12: یوسف: 102) الْحِقْنِي بِالصَّلِحِينَ ) ترجمہ: اے میرے ربّ! تو نے مجھے امور سلطنت میں سے حصہ دیا اور باتوں کی اصلیت سمجھنے کا علم بخشا.اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! تو دنیا اور آخرت میں میرا دوست ہے.مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زمرہ میں شامل کر.حضرت طالوت علیہ السلام کی دعا حضرت داؤد علیہ السلام کے عہد نبوت میں حضرت طالوت علیہ ا ایک علاقہ کے بادشاہ تھے.جالوت ان کا طاقتور دشمن تھا.وہ آمادہ پریکار رہتا.حضرت طالوت کے پاس اُس سے نمٹنے کے لئے طاقت کم تھی.آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی.- رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (2: البقره: 251) ترجمہ :- اے ہمارے رب ! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کا فرقوم کے خلاف ہماری مدد کر.اللہ تعالیٰ رجوع برحمت ہوا قرآنی ارشاد ہے.پس انہوں نے اللہ کے حکم سے انہیں شکست دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے اُسے ملک اور حکمت عطا کئے اور اُسے جو چاہا اُس کی تعلیم دی اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کو ایک دوسرے سے بچانے کا سامان نہ کیا جاتا -
34 33 تو زمین ضرور فساد سے بھر جاتی لیکن اللہ تمام جہانوں پر بہت فضل کرنے والا ہے (2: البقرہ:252) حضرت شعیب علیہ السلام کی دعا حضرت شعیب علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے آپ کی قوم میں یہ بُرائی تھی کہ کاروبار میں بد دیانتی کرتے ، ناپ تول میں کمی کرتے اور اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کرتے تھے.اصلاح کی کوششوں کا اثر نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی.ا - رَبَّنَا افْتَحُ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْفَتِحِينَ.(7: الاعراف : 90) ترجمہ :اے ہمارے ربّ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے.یہ دعا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی الہام ہوئی.( تذکره ص 196 ) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں سے تھے.آپ بہت اعلیٰ روحانی مراتب تک پہنچے.آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر دی.آپ تشریعی نبی تھے.آپ کو تورات عطا کی گئی اور واضح بین نشان عطا کئے گئے.آپ کی وفات 1451 قبل مسیح میں ہوئی.آپ کو فرعون اور اُس کے سرداروں کی طرف مبعوث کیا گیا.اپنی کمزوری اور فرعون کی طاقت کا خیال کر کے آپ نے اپنے رب سے دعا کی.- اَنْتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرُ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الْغَفِرِينَ وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الا خِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ط (7: الاعراف: 157,156) ترجمہ: تو ہی ہمارا ولی ہے پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو بخشنے والوں میں سب سے بہتر ہے.اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی حسنہ لکھ دے اور آخرت میں بھی.یقیناً ہم تیری طرف (توبہ کرتے ہوئے) آگئے ہیں.فرعون ایک سرکش اور مغرور انسان تھا اُس کے دربار میں پیغام تو حید دینے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوت وشوکت بیان طلب کی اور عرض گزار ہوئے.٣- رَبِّ اشْرَحُ لِي صَدْرِي وَيَسِرُ لِي أَمْرِى.وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي (29:26:15:20) ترجمہ : اے میرے ربّ! میرا سینہ میرے لئے کشادہ کر دے.اور میرا معاملہ مجھ پر آسان کر دے.اور میری زبان کی گرہ کھول دے.تاکہ وہ میری بات سمجھ سکیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ایک تکلیف دہ واقعہ قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا ہے.
36 35 وہاں اس نے دو مردوں کو دیکھا جو ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے یہ (ایک ) اس کے قبیلہ کا تھا اور وہ (دوسرا) اس کے دشمن قبیلے کا.پس وہ جو اس کے قبیلے کا تھا اس نے اس کو مخالف قبیلے والے کے خلاف مدد کے لئے آواز دی.پس موسیٰ نے اُسے مکا مارا اور اس کا کام تمام کر دیا اس نے (دل میں ) کہا کہ یہ (جو کچھ ہوا) یہ تو شیطان کا کام تھا یقیناً وہ کھلا کھلا گمراہ کرنے والا دشمن ہے.پس حضرت موسیٰ نے نادم ہو کر خدا تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کی.(28: القصص : 16) - رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ.إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ.(28: القصص: 17) ترجمہ: اے میرے رب !یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا.پس مجھے بخش دے.تو اس نے مجھے بخش دیا.یقیناً وہی ہے جو بہت بخشنے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.ط حضرت موسیٰ علیہ السلام ستر (70) ایمان لانے والوں کو لے کر کوہ طور پر اللہ کے حکم کے تحت گئے.تو وہاں زلزلہ آ گیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت گھبرائے اور خیال کیا شاید قوم کے گناہوں کی سزا ہے.اس پر آپ نے یہ دعا کی.- اَنْتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَيْرُ (7: الاعراف: 156) الْغَفِرِينَ ترجمہ: تو ہی ہمارا ولی ہے پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو بخشنے والوں میں سب سے بہتر ہے.جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو ان کے پیچھے بنی اسرائیل نے بچھڑے کو معبود بنا لیا.جب آپ واپس تشریف لائے تو اپنے جانشین بھائی ہارون سے سخت خفا ہوئے.اسی موقع پر حضرت موسیٰ علیہ نے اپنے بھائی ہارون اور اپنے لئے مغفرت کی یہ دعا کی.- رَبِّ اغْفِرْلِی وَ لَا خِي وَ اَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرَّحِمِينَ (7: الاعراف : 152) ترجمہ: اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور میرے بھائی کو بھی اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر اور تُو رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی سادہ طبیعت کی وجہ سے یہ گمان کرتے تھے کہ اگر اللہ چاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو ظاہری آنکھ سے بھی دیکھ سکیں گے چنانچہ اس مطالبہ پر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان تو بجلی کی کڑک کو بھی برداشت نہیں کر سکتا تو خدا تعالیٰ کا چہرہ کیسے دیکھ سکتا ہے.چنانچہ ایک نشان کے طور پر جب پہاڑ پر بجلی گری تو موسیٰ بیہوش ہو گئے.پھر جب ہوش آئی تو تو بہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف جھکے نوٹ از ترجمه القرآن از حضرت خلیفۃ امسیح الرابع صفحہ 266) - سُبُحْنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ ) 66 (7: الاعراف:144) ترجمہ: اُس نے کہا پاک ہے تو.میں تیری طرف توبہ کرتے ہوئے آتا ہوں اور میں مومنوں میں اول نمبر پر ہوں.حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعائیں حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے.حضرت
38 88 37 سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے نبوت اور وسیع سلطنت سے نوازا تھا.بہت دانا اور فہم و و فراست رکھنے والے نبی تھے.بنی اسرائیل کے زوال کو دیکھ رہے تھے قوم دنیا داری اور عیش وعشرت میں پڑ گئی تھی.آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی.رَبِّ اغْفِرْ لِي وَ هَبْ لِي مُلْكَالًا يَنْبَغِي لَاحَدٍ مِنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (38: ص: 36) ترجمہ: اے میرے ربّ! مجھے بخش دے اور مجھے ایک ایسی سلطنت عطا کر کہ میرے بعد اُس پر اور کوئی نہ بچے.یقیناً تو ہی بے انتہا عطا کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور آپ کی سلطنت کو پہاڑی علاقوں تک وسیع کر دیا.سلطنت کی مضبوطی کے لئے جہاز اور تجارتیں کرنا سکھا دیا.قوی طاقت ور لوگ سلطنت میں شامل کردئے.تا کہ آئندہ اگر لوگ نالائق بھی ہوں تو کچھ عرصہ تک حضرت سلیمان علیہ السلام کا نیک اثر قائم رہے اس پر آپ نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا.جو بجائے خود ایک دعا ہے.- رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَ أَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَ اَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّلِحِينَ.(27: النمل: 20) ترجمہ : اے میرے ربّ! مجھے توفیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کی اور میرے ماں باپ پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جو تجھے پسند ہوں.اور تو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل حضرت یونس علیہ السلام کی دعا آپ کے والد کا نام متی تھا.آپ نینوا ( عراق ) کی طرف مبعوث کئے گئے ایک مدت تک اپنی قوم کو نصائح کرتے رہے مگر انہوں نے شرک اور کفر سے تو بہ کی کی.اس پر آپ نے انہیں عذاب کی خبر دی.جس سے وہ ڈر گئے تو اللہ تعالیٰ نے عذاب ٹال دیا.صرف یہی قوم تھی جو عذاب کے آثار دیکھ کر ایمان لے آئی.حضرت یونس نے جب دیکھا کہ اُن کی انداری پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تو چونکہ ان کو یہ علم نہیں تھا کہ انذار کی پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ گریہ و زاری کے نتیجہ میں ٹال دیا کرتا ہے اس لئے وہ رُوٹھ کر سمندر کی طرف چلے گئے جہاں ان کو وھیل مچھلی نے پہلے نگلا اور پھر زندہ ہی اُگل دیا.اس اندھیرے کے وقت ان کے دل سے یہ دعا نکلی تھی کہ اے اللہ ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں.تو پاک ہے اور میں یقیناً ظلم کرنے والوں میں سے تھا.( ترجمہ ونوٹ حضرت خلیفۃ امسیح الرابع صفحہ 555) ٣- لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ (21: الانبياء: 88) ترجمہ: کوئی معبود نہیں تیرے سوا.تو پاک ہے.یقیناً میں ہی ظالموں میں سے تھا.اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور اُن کو غم سے نجات دی.حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ کر
40 39 علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت یونس نے مچھلی کے پیٹ میں جو دعا کی تھی کوئی بھی مسلمان وہ دعا کرے تو قبولیت کا موجب ہوتی ہے.“ (تفسیر قرطبی جز و 11 صفحہ 334) حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا حضرت ایوب علیہ السلام بہت مالدار تھے.بہت بڑا خاندان تھا.وہ ایک مشرک ملک میں رہتے تھے جس کا بادشاہ طالم تھا.اس کے ظلم کی وجہ سے آپ اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کر سکتے تھے.آپ نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی.مجھے شیطان نے بہت دکھ اور عذاب دیا ہے.(38:ص : 42) اور دعا کی - أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرَّحِمِينَ.(21: الانبياء: 84) ترجمہ: ' مجھے سخت اذیت پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.آپ کو ایک جلدی بیماری بھی تھی مولا کریم نے یہ دعائنی نہ صرف معجزانہ شفا عطا فرمائی بلکہ بادشاہ کے ظلم سے نجات کے لئے ہجرت کا حکم دیا.ہجرت ایسے علاقے کی طرف ہوئی جہاں کے پانی میں جلدی امراض کے لئے شفا تھی اس طرح مشرک بادشاہ سے نجات اور جلدی بیماری سے شفا عطا فرمائی اور مزید فضل بھی عطا کئے قرآنی ارشاد ہے.ترجمہ:.اور پھر ہم نے اُسے اس کے اہل خانہ اور اُن کے علاوہ ان جیسے اور بھی عطا کر دئے اپنی رحمت کے طور پر اور اہل عقل کے لئے ایک سبق آموز ذکر کے طور پر.(12: الانبياء: 85) حضرت زکریا علیہ السلام کی دعائیں حضرت زکریا علیہ السلام متوکل دعا گو نبی تھے.اپنی عاجزانہ حالت کا واسطہ دے کر حصول اولاد کے لئے دعا کی.قرآن پاک نے دعا کے اس انداز کوخوبصورتی سے بیان کیا ہے.یہ ذکر ہے تیرے رب کی رحمت کا اُس کے بندے زکریا پر جب اُس نے اپنے رب کو دھیمی آواز میں پکارا.کہا اے میرے رب! یقیناً میری ہڈیاں کمزور پڑ گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اُٹھا ہے پھر بھی میرے رب میں تجھ سے مانگتے ہوئے کبھی بد نصیب نہیں ہوا.( 19 : مریم : 3 تا 5) رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ (3 : ال عمران : 39) ہے.ترجمہ :اے میرے رب ! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ ذریت عطا کر.یقیناً تُو بہت دعا سننے والا حضرت زکریا علیہ السلام کی ایک اور دعا قرآن پاک میں مذکور ہے.ا رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ (21: الانبياء: 90) ترجمہ :اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب وارثوں سے بہتر ہے.پس ہم نے اس کی دعا کو قبول کیا اور اسے بیٹی عطا کیا اور ہم نے اس
42 41 کی بیوی کو اس کی خاطر تندرست کر دیا یقیناً وہ نیکیوں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے اور ہمیں چاہت اور خوف سے پکارا کرتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی سے جھکنے والے تھے.(21: الانبیا :91) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.میرے ساتھ دنیا میں ایک بھی نہیں تھا.جب کہ خدا نے مجھے یہ دعا سکھائی.(تذکرہ : 196) حضرت عیسی علیہ السلام کی دعا حضرت موسیٰ سے چودہ سو سال بعد پیدا ہوئے.آپ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کئے گئے.آپ کی بعثت کی غرض تو رات کی تعلیمات کو نمایاں کرنا تھا.یہود نے آپ کو بے انتہا دکھ دئے حتی کہ صلیب پر جان سے مارنے کی کوشش کی.جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا.اور آپ بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں سفر کرتے ہوئے کشمیر پہنچے جہاں ایک سو بیس سال کی عمر میں وفات پائی.(کنز العمال جلد 6 ص 120 از علاؤالدین علی متقی دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباد 1312ھ ) اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص طور پر دعائیں کرنے کا ارشاد فرمایا تھا وصانى بالصلواۃ.مجھے دعا کا حکم دیا گیا ہے قرآن کریم میں سورۃ المائدہ آیات 114,113 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام سے اُن کے حواریوں کا یہ مطالبہ درج فرمایا ہے کہ ” کیا تیرے رب کے لئے ممکن ہے کہ ہم پر آسمان سے (نعمتوں ) کا دستر خوان اُتارے؟ اس پر حضرت عیسی علیہ السلام نے دعا کی.که اللَّهُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَيْنَا مَا ئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدَلًا وَّلِنَا وَ آخِرِنَا وَ آيَةً مِّنْكَ ، وَارْزُقْنَا وَ أَنْتَ خَيْرُ الرَّزِقِينَ ) (5:المائدہ:115) ترجمہ:- اے اللہ ہمارے رب! ہم پر آسمان سے (نعمتوں کا ) دستر خوان اُتار جو ہمارے اوّلین اور ہمارے آخرین کے لئے عید بن جائے اور تیری طرف سے ایک عظیم نشان کے طور پر ہو اور ہمیں رزق عطا کر اور تُو رزق دینے والوں میں سب سے بہتر ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی مگر اس شرط کے ساتھ کہ 'جو کوئی تم میں سے ناشکری کرے گا تو میں اسے ضرور ایسا عذاب دوں گا جو تمام جہانوں میں کسی اور کو نہیں دوں گا.“ (المائدہ: 116) حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعائیں الله نور السموات والارض نے جب اہل عالم پر اپنے نور وصفات ظاہر کرنے کا ارادہ فرمایا تو فخر مرسلین رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پیدا فرمایا.آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے خواب میں دیکھا کہ اُن کے جسم سے ایک چراغ طلوع ہوا جس کی روشنی سے شام کے محل تک چمک اُٹھے (الخصائص الکبرئی اردو جلد اول ص 21 571ء میں طلوع ہونے والے اس سراج منیر کو اللہ تعالیٰ نے کامل شریعت قرآن پاک عطا فرمائی اور سب نبیوں سے افضل قرار دیا.آپ کو لولاک لما خلقنا الافلاک کا اعزاز بھی حاصل تھا.اس جلیل القدر نئی کامل کو عالمین کی اصلاح کا فریضہ سونپا گیا.
44 43 بحروبر میں پھیلے ہوئے فساد اور جہالت کو دُور کرنا آسان کام نہ تھا.اس کے لئے آپ کو ارشاد ہوا فَصَلِّ لِرَبِّكَ اپنے رب سے دعا کر اور اس مقصد کے لئے ساری زمین کو آپ کے لئے مسجد بنا دیا گیا.(صحیح بخاری کتاب الادب باب الرحمت) آپ کی دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا عجیب عاشقانہ گداز ملتا ہے تو کل علی اللہ اور ایمان باللہ کے ساتھ ساتھ اُس کا خوف دامن گیر رہتا.آپ کثرت سے دعائیں کرتے حتی کہ کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے.روتے روتے ہچکی بندھ جاتی بے خودی میں کندھوں سے چادر گر جاتی آپ کہیں بھی ہوتے دل خدا تعالیٰ میں اٹکا رہتا.اپنی امت کے لئے دعاؤں کے خزانے چھوڑ گئے.آپ کی زبان مبارک سے نکلا ہوا ہر لفظ وحی الہی پر مبنی ہوتا.اس طرح ہر دعا اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی حامل ہے.چند دعائیں درج ذیل ہیں.- رَبِّ زِدْنِي عِلْماً (115:20) ترجمہ : اے میرے رب ! مجھے علم میں بڑھا دے.ا رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.(2: البقره: 202) ترجمہ : اے ہمارے رب! ہمیں دُنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.1 - حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم یہ دعا کثرت سے پڑھا کرتے تھے.( بخاری کتاب الدعوات ) 2- ایک روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ کو طواف بیت اللہ کے دوران یہ دعا کثرت سے پڑھتے سنا گیا.3 - حج اور عمرہ کے موقع پر خانہ کعبہ کا طواف کرتے وقت حجر اسود سے شروع کرتے ہوئے ہر چکر میں یہ دعا پڑھی جاتی ہے 4-حضرت انس سے کسی نے کہا کہ ہمارے لئے دعا کریں.حضرت انسؓ نے دعا پڑھی.اس نے مزید دعا کا تقاضا کیا تو حضرت انس نے فرمایا تمہیں اور کیا چاہیے.تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی تو مانگ چکا ہوں ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو ہر نماز کی آخری رکعت میں بعد رکوع یہ دعا کثرت سے پڑھنے کا ارشاد فرمایا.(ملفوظات جلد اول ص 6) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کے برگزیدہ بندوں کے لئے سلامتی کی دعا سکھائی گئی.* قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَ سَلَمٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى ط (27: النمل : 60) ترجمہ: کہہ دے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور سلام ہو اس کے بندوں پر جنہیں اس نے چن لیا.ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ یہ کلمات پڑھتے تھے.لَا إِله إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( بخاری کتاب الدعوات ) ترجمہ:- اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں بادشاہت اور تعریف اُسی کی ہے.وہ ہر چیز پر قادر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان کے بیان
46 45 کے مطابق نماز کے بعد رسول کریم تین مرتبہ اَسْتَغْفِرُ اللہ پڑھ کر یہ دعا پڑھتے تھے.* - اَللَّهُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَ مِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكُتَ يَا ذَالْجَلَالِ وَلا كُرَام (مسلم کتاب المساجد) ترجمہ: اے اللہ ! تیرا نام سلام ہے، سلامتی تجھ سے ہی ملتی ہے اے جلال اور عزت والے تو بہت برکت والا درود شریف ہے.درود شریف کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب میں فرمایا.إِنَّ اللَّهَ وَ مَلئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ طَ يَا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 0 (33: احزاب : 57) ترجمہ: یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو.“ حدیث مبارکہ ہے کہ جس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک بار درود بھیجا اس پر اللہ تعالیٰ دس بار رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا ہے.رسول کریم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن تم مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو.اس درود میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ درود مجھ پر پیش کیا جاتا (ابن ماجہ ، ابو داؤد، نسائی) ہے.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا.”حضور " پر درود بھیجنا گناہوں کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جیسے ٹھندا پانی بھڑکتی ہوئی آگ کو.“ پس ہمیں چاہیے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود سلام بھیجیں.درود شریف کا ورد کرنا مشکل کشائی اور رنج وغم کو دُور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے.ایک حدیث کے مطابق جس شخص کو کوئی مشکل آئے یا کوئی حاجت ہو اُس کو چاہیے کہ کثرت سے نبی پاک پر درود پڑھے کیونکہ کثرت درود رنج وغم کو دور کرتا ہے اور رزق کو بڑھاتا ہے.* - اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - اللَّهُمَّ بَارَكُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى ال إبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيد ترجمہ : اے اللہ رحمتیں بھیج محمد ﷺ پر اور آپ کی آل پر جس طرح تو نے ابراہیم اور ان کی آل پر رحمتیں بھیجیں.یقیناً تو تعریف اور بزرگی والا ہے اے اللہ برکتیں بھیج محمد ے پر اور آپ کی آل پر جس طرح تو نے ابراہیم اور ان کی آل پر برکتیں بھیجیں.یقیناً تو تعریف اور بزرگی والا ہے.حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ مصیبت کے عالم میں یہ کلمات دہراتے تھے.- لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ
48 47 لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ ( بخاری کتاب الدعوات ) ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ عظیم اور بڑے حلم والا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ عرش عظیم کا رب ہے.اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ آسمان اور زمین کا رب ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ عرش کریم کا رب ہے.احَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْتُ ( ترمذی کتاب الدعوات) ترجمہ:- اے زندہ قائم خدا تیری رحمت کا واسطہ دے کر ہے.تیری مدد کا طالب ہوں.حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے مجھے فرمایا کہ کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ضرور بتائیں.آپ نے فرمایا جنت کا خزانہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيُّ الْعَظِيمِ ترجمہ: - گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیک کام کرنے کی قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے.جو بلند شان اور عظمت والا ہے.(مسلم کتاب الذکر ) ہیے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نئی کریم علیہ نے فرمایا کہ دو کلمے زبان پر بہت ہلکے اور وزن میں بہت بھاری ہیں وہ یہ ہیں.- سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ o ( بخاری کتاب التوحيد ) ترجمہ:- پاک ہے اللہ اپنی حمد کے ساتھ.پاک ہے اللہ جو بہت عظیم ہے..حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو جب کوئی مصیبت اور بے چینی ہوتی تو یہ دعا پڑھتے تھے.استغفار بندے کا استغفار کرنا بھی ایک دعا ہے جس میں وہ اپنے گناہوں کی سچے دل سے معافی مانگتا ہے اور بخشش طلب کرتا ہے.الله رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا.خدا کی قسم میں دن میں ستر دفعہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ استغفار کرتا ہوں.( صحیح بخاری.معارف الحدیث) حضرت رسول کریم ﷺ نے ایک جگہ فرمایا.گناہ سے تو بہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں.- اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَّ أَتُوبُ إِلَيْهِ ترجمہ: - میں بخشش مانگتا ہوں اللہ سے جو میرا رب ہے ہر گناہ سے اور میں جھکتا ہوں اس کی طرف.اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلهُ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِي وَ أَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطْعَتُ اَعُوذُ بكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنعَتُ ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ وَاَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي ، فَاغْفِرْ لِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا إِنْتَ ترجمہ: اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو
50 49 نے ہی مجھے پیدا کیا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں اپنی توفیق کے مطابق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں.میں اپنے عمل کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں.میں تیری عظمتوں اور احسانوں کا اعتراف کرتا ہوں اور تیرے سامنے اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں پس تو مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں.حضرت بریدہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص صبح یا شام یہ دعا پڑھے اور پھر اس دن یا رات کو فوت ہو جائے تو جنت میں داخل ہوگا.آیت الکرسی (ابو داؤد) آیت الکرسی پڑھنا بھی ایک دعا ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ آیت ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ نازل ہوئی.آیت الکرسی حفاظت کے لئے شیطانی خیالات اور نظر بد سے بچنے کے لئے بہت مؤثر دعا ہے.حدیث مبارکہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کا روزانہ کا معمول تھا کہ رات کو سونے سے پہلے آیت الکرسی اور تینوں قل ایک ایک بار پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونکتے اور ہاتھ سارے جسم پر پھیرتے اور ایسا تین مرتبہ کرتے تھے پھر دائیں طرف منہ کر کے سوتے تھے.اللَّهُ لَا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَلَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَالَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ ، وَلَا يَؤُدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ 0 ترجمہ:- اللہ ! اُس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.ہمیشہ زندہ رہنے والا (اور ) قائم بالذات ہے.اُسے نہ تو اونگھ پکڑتی ہے اور نہ نیند اُسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور (2: البقره: 256) جو زمین میں ہے.کون ہے جو اس کے حضور شفاعت کرے مگر اس کے اذن کے ساتھ.وہ جانتا ہے جو اُن کے سامنے ہے اور جو اُن کے پیچھے ہے.اور وہ اُس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے.اس کی بادشاہت آسمانوں اور زمین پر ممتد ہے اور دونوں کی حفاظت اُسے تھکاتی نہیں.اور وہ بہت بلند شان (اور) بڑی عظمت والا ہے.سورة الاخلاص بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ ه اللهُ الصَّمَدُ ه لَمْ يَلِدُ * وَ لَم يُولَدُه وَ لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (112: الاخلاص ) ترجمہ : اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے ولا بن مانگے دینے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.
52 51 تو کہہ دے کہ وہ اللہ ایک ہی ہے.اللہ بے احتیاج ہے.نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا.اور اُس کا کوئی ہمسر نہیں ہوا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کا ایک نور ہوتا ہے اور قرآن کا نور قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ ہے.ایک جگہ آپ نے فرمایا یہ سورہ اخلاص عذاب قبر اور آگ کے شعلوں سے بچاتی ہے.ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جب یہ سورہ نازل ہوئی تو اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نازل ہوئے.سورہ اخلاص اللہ تعالیٰ کی توحید کی یاد دلاتی ہے.آخری دوسورتوں کو معوذتین کہتے ہیں.سورة الفلق ( تفسیر کبیر جلد دہم ص 519-516) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ 0 مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ O وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَ مِنْ شَرِّ النَّفْتَتِ فِي الْعُقَدِ هِ وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَه (113 : الفلق) ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا بن مانگے دینے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.تو کہہ دے کہ میں (چیزوں کو) پھاڑ کر (نئی چیز ) پیدا کرنے والے رب کی پناہ مانگتا ہوں.اُس کے شر سے جو اُس نے پیدا کیا.اور اندھیرا کرنے والے کے شر سے جب وہ چھا چکا ہو.اور اگر ہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے.اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے.“ سورة الناس بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلهِ النَّاسِ O مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِى يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ (114: سورۃ الناس) ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے ولا بن مانگے دینے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.تو کہہ دے کہ میں انسانوں کے رب کی پناہ مانگتا ہوں.انسانوں کے بادشاہ کی.انسانوں کے معبود کی بکثرت وسوسے پیدا کرنے والے کے شر سے، جو وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹ جاتا ہے.وہ جو انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے.(خواہ) وہ جنوں میں سے ہو ( یعنی بڑے لوگوں میں سے ) یا عوام الناس میں سے.- قرآن کریم کی آخری تین سورتیں اللہ کے پناہ میں آنے اور ہر قسم کی
54 53 شر سے بچنے کی بہترین دُعائیں ہیں.حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کی آخری تین سورتیں رات کو سوتے وقت پڑھ کر سویا کرو.(نسائی) مہ - حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ جب کبھی بیمار ہوتے تو آخری دو سورتیں (معوذتین) پڑھ کر ہاتھوں میں پھونک کر جسم پر مل لیتے.جب آخری بیماری شدید ہوئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک کر آپ کے بدن پر مل دیتی تھی.( بخاری و مسلم) حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مهدی معہود علیہ السلام (1835-1908) کی دعائیں انیسویں صدی کے اواخر میں جس خلیفتہ اللہ ،امام الزماں اور مجدد اعظم کی پیش خبریاں قرآن مجید اور دیگر کتب مقدسہ میں موجود تھیں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے واضح بشارات سنائی تھیں وہ قادیان کی مقدس بستی میں عیسائیوں کا مسیح ، ہندوؤں کا کرشن ، زرتشتیوں کا موسیو در بیمی اور مسلمانوں کا مهدی و مسیح بنا کر مبعوث فرمایا گیا.آپ کو اپنی صداقت اور دین حق کے تمام ادیان باطلہ پر غلبہ کے بین نشانات دئے گئے حقیقی ایمان لانے والے اب وہی شمار ہوں گے جو آپ کی اطاعت اختیار کریں گے.آپ فرماتے ہیں.'جو شخص مجھے قبول کرتا ہے وہ تمام انبیا اور اُن کے معجزات کو ہیں.بھی نئے سرے قبول کرتا ہے اور جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا اس کا پہلا ایمان بھی قائم نہیں رہے گا.کیونکہ اس کے پاس مرے قصے ہیں نہ مشاہدات.خدا نمائی کا آئینہ میں ہوں جو شخص میرے پاس آئے گا اور مجھے قبول کرے گاوہ نئے سرے اُس کو دیکھے لے گا.( نزول اسیح ، روحانی خزائن جلد 18 ص462) ایک تنہا شخص کو خدا نمائی کے لئے جو ہتھیار دیا گیا وہ دعا ہے آپ فرماتے استجابت دعا کا مجھے نشان دیا گیا ہے جو چاہے میرے مقابلہ پر آ جائے.( ملفوظات جلد دوم ص 54) نیز فرمایا.مجھے یہ الہام بار ہا ہو چکا ہے ، اُجیب کل دعائک کہ ہر ایک ایسی دعا جو نقش الامر میں نافع اور مفید ہے قبول کی جائے گی.( ملفوظات جلد اول ص 68 بیماری سے نجات کے لئے دعا 1880 میں ایک مرتبہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سخت بیمار ہو گئے.ورثاء نے آخری وقت سمجھ کر تین مرتبہ سورہ یس سنائی ،ایسے مایوسی کے وقت میں اللہ تبارک تعالیٰ نے جس ہستی سے قوم کی اصلاح کا کام لینا تھا اُسے خود دعا سکھائی.آپ فرماتے ہیں.
56 55 'جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کر کے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے.- سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ اور میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال اور یہ کلمات طیبہ پڑھ اور اپنے سینہ اور پشتِ سینہ اور دونوں ہاتھوں پر اس کو پھیر کہ اس سے تو شفا پائے گا.(تذکره ص26,25) چنانچہ اس کے مطابق عمل کیا گیا اللہ شافی نے معجزانہ شفا عطا فرمائی.آپ نے حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا ہے کہ یہ دعا بہت پڑھنا چاہیے.( تذکره ص 674) نوستمبر 1903 کو ایک وبائی بیماری میں خدا تعالیٰ نے اس کا علاج بتلایا کہ اس کے ناموں کا ورد کیا جاوے.- يَا حَفِيظٌ يَا عَزِيزُ.يَا رَفِيق ترجمہ از مرتب:- اے حفاظت کرنے والے.اے غالب.اے رفیق.رفیق خدا تعالیٰ کا نیا نام ہے جو کہ اس سے پیشتر اسمائے باری تعالیٰ میں ( تذکره ص 404) کبھی نہیں آیا.پھر 27 جنوری 1905 کو حضرت اقدس کے دائیں رخسارِ مبارک پر ایک آماس سا نمودار ہوا جس سے بہت تکلیف ہوئی حضور نے دعا فرمائی تو ذیل کے فقرات الہام ہوئے دَم کرنے سے فوراً صحت حاصل ہو گئی.بِسمِ اللهِ الْكَافِي بِسْمِ اللهِ الشَّافِي بِسْمِ اللهِ الْغَفُورِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الْبَرِ الْكَرِيمِ يَا حَفِيظٌ يَا عَزِيزُ يَا رَفِيقُ يَا وَلِيُّ اشْفِنِي ( تذکره ص 442) ترجمہ از مرتب : - میں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو کافی ہے میں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو شافی ہے.میں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو احسان کرنے والا کریم ہے.اے حفاظت کرنے والے.اے غالب.اے رفیق اے ولی مجھے شفا دے.- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 1906 میں بیماری کی حالت میں یہ دعا الہام ہوئی.اِشْفِنِي مِنْ لَّدُنكَ وَارْحَمُنِي ( تذکره : 523) ترجمہ: اے میرے رب! مجھے اپنی طرف سے شفا بخش اور رحم کر.مشکلات دور کرنے کے لئے دعا حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.رات کو میری ایسی حالت تھی کہ اگر خدا کی وحی نہ ہوتی تو میرے اس خیال میں کوئی شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے.اسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر میں ہوں اور وہ کوچہ سر بستہ سا معلوم ہوتا ہے.کہ تین بھینسے آئے ہیں.ایک اُن میں سے میری طرف آیا تو میں نے اُس کو مار کر ہٹا دیا پھر دوسرا آیا تو اُسے بھی ہٹا دیا پھر تیسرا آیا اور وہ ایسا پُر زور معلوم ہوتا تھا
58 57 کہ میں نے خیال کیا کہ اب اس سے مفر نہیں.خدا تعالیٰ کی قدرت کہ مجھے اندیشہ ہوا تو اُس نے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا میں نے اُس وقت یہ غنیمت سمجھا کہ اُس کے ساتھ رگڑ کر نکل جاؤں میں وہاں سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے خیال آیا کہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا مگر میں نے پھر نہ دیکھا اُس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل پر مندرجہ ذیل دعا القا کی گئی.- رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَ انُصُرْنِي وَارْحَمْنِي.اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے نجات ہو گی.فرمایا اس میں بڑی بات جو سچی توحید سکھاتی ہے.یعنی اللہ جل شانہ کو ہی ضار اور نافع یقین دلاتی ہے، یہ ہے کہ اس میں سکھایا گیا ہے کہ ہر شے تیری خادم ہے یعنی کوئی موذی اور مضر شے تیرے ارادے اور اذن کے بغیر کچھ بھی نقصان نہیں کر سکتی.( تذکره ص 363) ( تذکره ص 556) ترجمہ: اے میرے خدا ہر ایک چیز تیری خادم ہے اے میرے خدا شریر کی شرارت سے مجھے نگہ رکھ اور میری مدد کر اور مجھ پر رحم کرے اس کے بعد حضور علیہ السلام نے اپنے مختلف رفقاء کو اپنے خطوط میں رکوع و سجود اور قیام میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد بتکرار صدق دل تذلل اور مجز سے یہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی.مکتوبات جلد 5 حصہ اول ص 38) ایک استفسار کے جواب میں حضرت اقدس نے اس دعا کو جمع کے صیغے کے ساتھ پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی.رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَ انْصُرُنَا وَارْحَمْنَا.( ملفوظات جلد 4 ص 250) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک دفعہ ایک شخص نے اپنی مشکلات کا ذکر کیا تو آپ نے استغفار کثرت سے پڑھنے اور مندرجہ بالا دعا نمازوں میں پڑھنے کا ارشاد فرمایا.1899 میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رویا میں دیکھا کہ آگ دھواں اور چنگاریاں اُڑ کر آپ کی طرف آتی ہیں مگر ضرر نہیں دیتیں اس حال میں آپ یہ دعا پڑھ رہے ہیں.- يَا حَيُّ يَا قَيُوْمُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْتُ إِنَّ رَبِّي رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ترجمہ:- اے زندہ اور ہمیشہ اور ہمیشہ قائم و دائم رہنے والی ہستی تیری رحمت سے مدد چاہتا ہوں یقیناً میرا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے.ا - وَهُوَ الله حفظًا وَ هُوَ أَرْحَمُ الرَّحِمِينَ (12: يوسف : 65) ترجمہ:.پس اللہ ہی ہے جو بہترین حفاظت کرنے والا اور وہی سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.خدا خیر الحافظین ہے اور وہ ارحم الراحمین ہے.(تذکرہ : 84) - قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ٥ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَ
59 مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَه ( تذکره ص 65) کہہ میں شریر مخلوقات کی شرارتوں سے خدا کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اور اندھیری رات سے خدا کی پناہ میں آتا ہوں.یعنی یہ زمانہ اپنے فساد عظیم کی رو سے اندھیری رات کی مانند ہے سوالہی قوتیں اور طاقتیں اس زمانے کی تنویر کے لئے درکار ہیں انسانی طاقتوں سے یہ کام انجام ہونا محال ہے.( تذکره ص 65) آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دعاؤں کی اہمیت کو بخوبی سمجھنے کی توفیق دے اور ہم ہمیشہ اپنے مقاصد کی کامیابی اور پریشانیوں کو دُور کرنے کے لئے کثرت سے دعائیں کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ ہماری سب حاجات میں خود متکفل ہو.( آمین اللھم آمین) پیشہ ہے رونا ہمارا پیش رب ذوالمنن آخر کبھی اس نہر سے لائیں گے بار عاجزانہ دعا ”اے رب العالمین تیرے احسانوں کا میں شکر ادا نہیں کر سکتا تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں.میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں.میرے دل میں اپنی خاص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے.تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں ے کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو رتم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے آمین ثم آمین.( مکتوبات احمد جلد پنجم ص 5) 6