Language: UR
حضرت سید وامتدائی بیگم صاحبہ
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 1 پیارے بچو! حضرت سیدہ امتہ الحی بیگم صاحبہ ایک زندگی تو یہ ہوتی ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں، چلتے پھرتے ، کھاتے پیتے اور کام کرتے ہیں پھر یہ زندگی ختم ہو جاتی ہے.مگر ایک اور بھی زندگی ہوتی ہے.وہ ہے اچھی یادوں کی زندگی جب کوئی بہت اچھے اچھے کام کرتا ہے تو اس دنیا سے چلا بھی جائے تو اُس کی باتیں اور کام یا د رہتے ہیں.یہ زندگی کبھی ختم نہیں ہوتی ! ہم ایسے لوگوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور اُن کی طرح اچھے اچھے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں.آج ہم آپ کو ایک نیک خاتون کی کہانی سنائیں گے جو صرف تمیس سال چار مہینے زندہ رہیں.اور اتنی سی عمر میں تعلیم حاصل کی ،شادی بھی ہوئی ، تین بچے ہوئے اور صحت کی کمزوری اور بیماری کے باوجود اتنے کام کر گئیں کہ ہم سوچ کے بھی حیران ہو جائیں.وہ ہیں حضرت سیدہ امتہائی بیگم صاحبہ، یہ تو آپ کو پتہ ہے کہ یہ زمانہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی برکتوں سے حضرت مہدی ومسیح علیہ السلام کا
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 2 زمانہ ہے اور اس زمانے میں دینِ اسلام کے سب مذہبوں پر فتح پانے کے وعدے بھی ہیں.فتح حاصل کرنے کے لئے بہت سے سامان ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے فضل سے اُن کو خواتین مبارکہ یعنی نیک اور برکت والی خواتین دے گا.جو نیک نسلوں کی مائیں ہوں گی اور اُن سے نیکی کے بہت سے چراغ روشن ہوں گے ، ہر طرف علم کی روشنی پھیلے گی.سیدہ امتہ الحی بیگم صاحبہ بھی اُن نیک خواتین میں شامل تھیں ، جو اللہ تعالی کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں آئیں.آپ یکم اگست 1901ء کو پیدا ہوئیں.آپ کے والد صاحب حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص پیارے دوست تھے اور آپ کی والدہ سید و صغری بیگم صاحبہ حضرت صوفی احمد جان صاحب کی بیٹی تھیں جو ایک بزرگ تھے.صُغریٰ بیگم صاحبہ نے عورتوں میں سب سے پہلے احمدیت قبول کی تھی.( حضرت اُم المومنین ابتدا ہی سے آپ علیہ السلام کے سبھی دعووں پر ایمان رکھتی تھیں اور شروع ہی سے اپنے آپ کو بیعت میں سمجھتی تھیں اس لئے آپ نے الگ بیعت کی ضرورت نہیں کبھی) (1) آپ کی مادری زبان فارسی تھی اور آپ پڑھی لکھی تھیں ، اس
حضرت سید ہ امتہ الحی صاحبہ 3 لئے بچوں میں بھی تعلیم کا شوق ہوا.ماحول بھی دینی ملا.آپ کے والدین کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بہت قریب رہنے کا موقع ملا یعنی آپ حضرت اقدس علیہ السلام کے گھر الدار ہی میں رہتے تھے.والد محترم کا زیادہ وقت حضور علیہ السلام کی خدمت میں گزرتا یہ بچی بھی ساتھ ساتھ رہتی.اس طرح 1908 ء تک یعنی حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی تک تو آپ علیہ السلام کی تربیت میں رہیں اور پھر 1914 ء تک جب تک آپ کے والد صاحب خلیفہ اسیح الاول تھے خلیفہ وقت کی تربیت میں رہیں.وہ گھر ، وہ ماحول، وہ ملنے جلنے والے ، وہ محفلیں اور صبح شام کی صلى عليسة گفتگو سب کا موضوع قرآن پاک اور حضرت محمد مصطفی منانے کی بابرکت ذات ہوتی.ذکر الہی کی اس فضا میں سیدہ امتہ الحی صاحبہ نے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی بہت کچھ سیکھ لیا تھا.اس کا اندازہ آپ کو اُن کے لکھے ہوئے پہلے مضمون سے ہوگا.آپ ساڑھے پانچ سال کی تھیں لکھنا نہیں جانتی تھیں ، ایک بزرگ سے کہا کہ جو میں بولتی جاؤں آپ لکھتے جائیں.اب دیکھئے آپ کیا لکھواتی ہیں:.اللہ ایک ہے.اللہ بے عیب ہے.اللہ رحمن اور رحیم ہے.ہمارا سب کا مالک ہے.قرآن سیکھنا چاہیئے اس پر چلنا چاہیئے.چوری نہیں
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 4 کرنا.کسی سے مانگنا نہیں اللہ کے سوا.حرص نہیں کرنا.غریبوں کی خبر گیری کرنا اور اُن سے نیک سلوک کرتے رہو.جس مکان پر منڈیر نہ ہو اس پر ہرگز نہ سونا.بھائی بہن نہ لڑیں.‘ (2) کتنا پیارا مضمون ہے.جو بڑے ہو کر بہت نیک ہوتے ہیں اُن کی بنیاد بچپن میں ہی رکھی جاتی ہے.آپ کے کانوں میں ہر وقت قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کی آواز میں پڑتیں.آپ نے قرآن پاک اپنے والد صاحب سے پڑھا جو اُس وقت دنیا میں قرآن مجید سے زیادہ محبت کرنے والے ، اس کلام پاک کا زیادہ علم رکھنے والے اور زیادہ عمل کرنے والے تھے.نو سال کی عمر میں جب آپ نے قرآن مجید مکمل کیا تو جون 1910 ء کو آپ کی آمین ہوئی ، آپ کی والدہ صاحبہ نے مدرسۃ البنات کی بچیوں کو دعوت دی اور شیرینی تقسیم کی.اس وقت کے اخبار الحکام نے 24 جون کو خصوصی پر چہ نکالا پہلے صفحہ پر بڑا بڑا لکھا تھا:.ہے آج ختم قرآں نکلے ہیں دل کے ارماں تو نے دکھایا یہ دن میں تیرے منہ کے قرباں اے میرے رب محسن کیوں کر ہوشکر واحساں سی روز کر مبارک سُبْحانَ مَن يُرَانِي باقی صفح پر خوشی کا اظہار اور سب کو مبارک باد دی گئی تھی.آپ بچپن ہی
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 5 سے بہت سادہ رہنا پسند کرتی تھیں.محترم بزرگ شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے لکھا:.بچپن ہی سے اسے زیب وزینت سے جو نسوانی خاصہ ہے دلچسپی ی تھی بلکہ اس کی خوشی ہمیشہ علمی باتوں سے تھی.عرصہ دراز تک اسے رنگ دار لباس پہننے سے بھی نفرت تھی یہی سفید لباس پہنتی اور طب کا بہت شوق تھا ڈاکٹر کہلانا پسند کرتی تھی.‘ (3) محترمہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے آپ کو آٹھ نو سال کی عمر میں دیکھا تھا.آپ ہر وقت سر پر سفید سکارف پہنے رکھتیں کیونکہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل اُن کو ننگے سر پھرنے سے منع کرتے تھے.اس بات سے ہمیں ایک اور سبق ملا وہ یہ کہ جن کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے دین سے محبت ہوتی ہے وہ وقت ضائع کرنے سے بچتے ہیں.آپ با قاعد و اپنے والد صاحب حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے درس قرآن مجید میں شامل ہوتیں.آپ مساجد کے علاوہ گھر پر بھی عورتوں کو قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے.آپ نے وفات سے پہلے اپنی بیٹی کو ایک نصیحت کی جس کا علم ہمیں آپ کی وفات کے بعد ہوا.جب 14 مارچ 1914 ء کو دوسرے خلیفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب منتخب ہوئے تو انہیں ایک خط ملا.
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 6 سیدی حضرت امیر المومنین صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته گزارش ہے کہ میرے والد صاحب نے مرنے سے 2 دن پہلے مجھے فرمایا کہ ہم تمہیں چند صیحتیں کرتے ہیں.میں نے کہا فرما دیں، میں انشاء اللہ عمل کروں گی تو فرمایا یہ بہت کوشش کرنا کہ قرآن آجائے اور لوگوں کو بھی پہنچے اور میرے بعد اگر میاں صاحب خلیفہ ہوں تو اُن کو میری طرف سے کہہ دینا کہ عورتوں کا درس جاری رہے، اس لئے آپ کو عرض کئے دیتی ہوں اور اُمیدوار ہوں کہ آپ قبول فرما دیں گے.میری بھی یہ خواہش ہے اور کئی عورتوں اور لڑکیوں کی بھی خواہش ہے کہ میاں صاحب درس کرائیں.آپ براہ مہربانی درس صبح ہی شروع کرا دیں.آپ کی نہایت مشکور و ممنون ہوں گی.امته الحی بنت نور الدین مرحوم اللہ آپ سے راضی ہو (4) ایک کم عمر بچی جس کے والد صاحب کی وفات کو دو تین دن ہوئے تھے، ابھی غم سے سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ فرض کا احساس اور قرآن مجید کی محبت اُس سے خلیفہ وقت کے نام یہ خط لکھواتی ہے.یہ خط پڑھ کر آپ نے عورتوں میں درس دینے کا فیصلہ کیا.اس طرح ایک نیکی کے جاری رکھنے کا ثواب سیدہ امتہ الحی بیگم صاحبہ کے حصہ میں آیا صرف یہی
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 7 نہیں حضرت خلیفہ اسیح الثانی و خیال آیا کہ خواتین میں تعلیم دین کے لئے جس جوش، جذبے اور صلاحیت کی ضرورت ہے وہ سب آپ میں موجود ہیں.آپ کی عمر صرف تیرہ سال تھی لیکن علم قرآن مجید نے آپ کی قدر و قیمت بڑھا دی.31 مئی 1914ء کو آپ کی شادی حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے ہوگئی اور آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت سید و نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی بہو بن کر الدار میں آگئیں.(اُس وقت حضرت صاحب کی پہلی بیوی سیدہ ائِم ناصر محمودہ بیگم صاحبہ تھیں ) حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی وفات کو اڑھائی ماہ گزرے تھے کہ حضرت اماں جی نے بڑی سادگی اور وقار سے بیٹی کو رخصت کیا.25 سال کا شہزادہ دولھا سوچ کر حضرت خلیفۃ اسح الاول کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فدائیت کی ایک بات ذہن میں آگئی.ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام نے کسی کو ایک لڑکی کا رشتہ بتایا اُس شخص نے پسند نہ کیا آپ سُن رہے تھے فرمایا:.اگر میری لڑکی ہو اور مرزا صاحب اس کو سو برس کے بڑھے سے بیاہنا چاہیں تو ہرگز عذر نہ ہو (5) آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے
حضرت سید ہ امتہ الحی صاحبہ 8 ارشاد فرمائیں کہ اپنی لڑکی کسی چوہڑے کے ساتھ بیاہ دو تو بخدا مجھے ایک 66 سیکنڈ کے لئے بھی تامل نہ ہو.(6) وو حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے آپ کی تعریف میں اس قدر با تیں ارشاد فرمائیں جو ہر بیوی کے لئے قابلِ رشک ہیں آپ نے ایک دفعہ فرمایا:.صلى رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے اَلْارُوَاحُ جَنُودٌ مُّجندة کہ روحیں ایک دوسرے سے وابستہ اور پیوستہ ہوتیں ہیں یعنی بعض کا بعض سے تعلق ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میری روح کو امتہ الحی کی روح سے ایک پوستگی حاصل تھی.(7) ایک اور موقع پر آپ نے اپنی خوشنودی کا اظہار اس طرح فرمایا:.میں نے عمر بھر کوئی کامیاب اور خوش کرنے والی 66 شادی نہیں دیکھی جیسی میری یہ شادی تھی.‘ (8) آپ نے سیدہ امتہ الحی صاحبہ سے اس قدر خوشی کا اظہار اُن کی شکل کی خوبصورتی یا لباس کے فیشن کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر یقین ، قرآن پاک سے محبت تعلیم کے شوق ، خلافت سے وابستگی اور فرمانبرداری تھی.آپ مضامین لکھا کرتیں جن میں بڑے بڑے مربیوں کی طرح قرآن وحدیث سے حوالے دیتیں آپ شعر بھی کہتی تھیں.شعروں میں جو
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ مطلب ہے اس پر غور کریں.9 کر صاف یہ دل اپنا اصنام پرستی اس ہدیۂ صافی کو پھر پیش خدا کر دے جب تک رہے جاں تن میں مت بھول تو عہد اپنا اسلام کو بالا کر دعوے کو وفا کر دے غفلت میں پڑا کیوں ہے اُٹھ کام سنبھال اپنا دنیا کے کناروں تک اک حشر بپا کر دے جب کوئی کام بہت بڑا ہو جائے اور بہت پھیل جائے اور بہت اچھے اچھے نتیجے نکل رہے ہوں تو مڑ کر یہ دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے کہ اس کی ابتداء کیسے ہوئی اور کس کے ذریعے ہوئی.آئیے ! آپ کو بتاتے ہیں کہ لجنہ اماءاللہ کی ابتداء کیسے ہوئی.اکیس سال کی سیدہ امتہ الٹی صاحبہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے بات کی کہ خواتین کو پڑھانا اور خدمت دین کے لائق بنانا بہت ضروری ہے اس کے لئے کوئی طریق ، کوئی تنظیم بنانی چاہیئے.حضور نے اپنی بیگم کی اس بات پر غور کیا اور با قاعدہ اغراض و مقاصد ترتیب دے کر عورتوں کی تنظیم "الجنہ اماءاللہ کے نام سے بنانے کا 1922ء میں اعلان فرمایا.
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 10 10 لجنہ کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی لونڈیاں.اب یہ تنظیم جو بھی کام کرے گی اللہ تعالی اپنے فضل سے اس کا ثواب سیدہ امتہائی صاحبہ اور فضلے اس سید اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کے نام لکھے گا.آپ کے حسنِ انتظام کا اندازہ رپورٹ کے اس حصے سے لگائیے آپ لکھتی ہیں:.مختصر طور پر یہ بتانا چاہتی ہوں کہ لجنہ کے پانچ رجسٹر ہیں.اول رجسٹر تجویزات.اس رجسٹر میں جو عمدہ تجویز مستورات کے لئے مشورہ سے کی جاتی ہے لکھی جاتی ہے اور حضرت صاحب کے حضور پیش کی جاتی ہے حضور خالی حصے میں اپنی رائے کا اظہار فرماتے ہیں.دوسرا رجسٹر کارگزاری کا ہے.اس میں لجنہ نے جو جو کام کئے مع تاریخ لکھے جاتے ہیں.تیسرا رجسٹر فہرست درخواست ہائے شمولیت لجنہ ہے.ان تمام چھٹیوں کی نقل کی جارہی ہے جس میں داخل ہونے والی ممبر درخواست کرتی ہیں اور اس کو اس لئے رجسٹر پر چڑھا لیا جاتا ہے کہ اس میں داخل ہو کر شراکت لجنہ پر کار بندر ہوں گی.چوتھا رجسٹر اغراض و مقاصد لجنہ کا ہے.پانچواں رجسٹر مضامین ممبرات لجنہ کا ہے.اس میں مضامین کے ہیڈنگ اور سنانے والیوں کے
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 66 نام لکھے جاتے ہیں.“ 11 امتہ الحمی سیکرٹری لجنہ اماءاللہ قادیان (1) حضرت سید و امتہ المی صاحبہ کی سب سے زیادہ نظر آنے والی خوبی پڑھنا اور پڑھانا تھی.اُن کا گھر ایک سکول کی طرح تھا.صرف اُن کا گھر ہی نہیں گھر گھر سکول کھول دیئے تھے.حضرت صاحب نے اُس وقت کی عورتوں کی تعلیم کی حالت کے متعلق فرمایا تھا کہ بعض عورتیں بیعت کرنے آتی ہیں مگر کلمہ تک صحیح نہیں بڑھ سکتیں.یہ اُس وقت کا حال تھا اور اب خواتین میں جو علمی ترقی ہے اُسے دیکھ کر پھر مڑ کر دیکھیں تو ابتداء میں آپا جان امتہ الحی صاحبہ عورتوں کو پڑھانے کے منصوبے بناتی نظر آتی ہیں آپ نے لجنہ کی پہلی رپورٹ مجلس مشاورت منعقد ہ 1924ء میں سنائی.اس میں لکھا تھا کہ قادیان میں چار درسگاہیں کھولی گئیں ہیں.دو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے اندر جہاں حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ اور آپ خود پڑھاتی تھیں.تیسری درسگاه محترمه صالحہ بیگم صاحبہ اہلیہ سید میر محمد الحق صاحب اور چوتھی درس گاہ میں محترمہ مریم صاحبہ اہلیہ حافظ روشن علی صاحب پڑھاتی تھیں.ان میں میسر نا القرآن ، قرآن مجید ترجمہ اور تفسیری نوٹس، احادیث
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 12 کی کتب اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھائی جاتیں اور امتحان بھی لئے جاتے.جو خواتین یہاں سے پڑھیں وہ آگے پڑھانا شروع کر دیتیں.جب یہ رپورٹ مجلس مشاورت میں پڑھی گئی تو حضرت صاحب نے خوشنودی کا اظہار فرمایا.(10) آپ نے فرمایا:.وو لجنہ سے تعلیم حاصل کر کے ستر اسی کے قریب عورتیں ایسی ہیں جو قرآن کے چھ یا سات پارے تک اور فقہ وحدیث کی کتابیں پڑھ رہی ہیں اور ان کا ایسا سٹینڈرڈ ہے کہ باہر کے مرد بھی اسے پورا نہیں کر سکتے.“ (11) لجنہ اماءاللہ کے ذمہ نور ہسپتال قادیان کے زنانہ وارڈ کی تعمیر کی تحریک بھی تھی.یکم اگست 1923 ء میں اس کا سنگ بنیا د حضرت اماں جان نے رکھا.اس کے بعد جلسہ میں سیدہ امتہ الحی صاحبہ نے مختصر رپورٹ پیش کرتے ہوئے چندہ کی تحریک کی جس پر اُسی وقت ڈیڑھ سو کے قریب وعدے لکھوائے گئے.بیسویں صدی کے شروع میں علی گڑھ یونیورسٹی کے ارد گرد بسنے والے بعض مسلمان ملکانہ راجپوتوں کو ہندو پنڈت 'شدھ کر کے واپس اپنے مذہب میں لانے لگے.مسلمان تنظیموں نے بھی ملکانہ جا کر اُن کی
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 13 کوششوں کو نا کام بنانے کا کام شروع کیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خلیفۃالمسیح باقاعدگی سے وفود بھیجنے شروع کئے.احمدی عورتیں بھی سرگرم ہو گئیں.حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ میں تبلیغ کا ایک خاص جوش تھا.آپ خود وہاں جا کر عورتوں کو حوصلہ دینے کے لئے تیار ہو گئیں.ملکا نہ عورتوں کو تحائف بھی بھیجے.آپ کو دین کے پھیلانے کی جولگن تھی اس دعا سے ظاہر ہے جو آپ کے ایک مضمون کا آخری حصہ ہے.الہی تو ہمیں ترقی دے اور باغ احمد کو پھولوں سے بھر اور ہم سب کے دل میں ( دینِ حق ) کا جوش اور پیارے احمد کی محبت ڈال اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اُس کی پاک تعلیم کو دنیا کے کناروں تک پھیلا دیں اور اُس کا نام روشن کر دیں الہی ہمارے ایمانوں میں آپ ترقی دے.الہی ہمیں ایسے مواقع دے کہ ہم اپنی جانیں اور عزتیں اور مال تیری راہ میں قربان کر دیں اور آنحضرت ﷺ کی سچائی ہر ایک فرد بشر کے دل پر محض تیری عطا اور تیری توفیق سے بٹھا دیں.الہی ہمارے علموں میں ترقی ہو اور اس برگزیدہ قوم پر تیرے فضلوں کی موسلا دھار بارشیں آئیں.ہمارے لئے آپ کے جوارِ رحمت میں جگہ اور حشر کے دن ہمیں پیارے احمد علیہ السلام اور پیارے محمد علی کے خادموں میں جگہ ملے آمین یا رب العالمین.“ (12)
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 14 آپ غریبوں ، خادموں اور ضرورت مندوں سے ہمدردی کرنے والی اور اُن کی عزت کا خیال رکھنے والی تھیں.ایک مزے دار واقعہ پڑھئے.آپ کو یہ تو پتہ ہے کہ حضرت سیدہ ہر وقت لجنہ کے کاموں میں مصروف رہتی تھیں.ایک دفعہ اسی طرح بہت سا کام تھا فرش پر کپڑا بچھا کر رجسٹر بکھیر کر کام کر رہی تھیں ، گھر کی خادمہ نے آکر پوچھا سالن پکا دوں آپ نے کہا مائی ! پہلے نماز پڑھ لو پھر سالن پکا لینا.مائی نے گوشت نکال کر رکھا ہوا تھا آپ کے کہنے پر نماز پڑھنے چلی گئی.جب نماز پڑھ کر آئی تو دیکھا گوشت تو بلی کھا گئی.ایسے موقع پر کچھ ڈر تو لگتا ہی ہے فوراً آپ کو بتایا کہ گوشت بلی کھا گئی ہے اب کیا پکاؤں ؟ آپ نے خادمہ کو ڈانٹا نہیں بلکہ ماتھے پر بل ڈالے بغیر جلدی سے اُسے کہا اچھا مونگ کی دال پکا لو اور پھر کام میں لگ گئیں.اتنے میں کیا دیکھتی ہیں کہ حضرت خلیفہ اُسیح الثانی سامنے کھڑے ہیں گوشت کی جگہ مونگ کی دال سُن کر شوہر نے بھی نہیں ڈانٹا بلکہ اس کم عمر دین کی خادمہ کو کہا ” دال پکا لو امتہ الحی کے گھر کی مونگ کی دال بھی مجھے قورمہ پلاؤ سے زیادہ اچھی لگتی ہے.‘ (13) 66 قادیان کے دکاندار عام طور پر دوسرے شہروں سے ہجرت کر کے
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 15 قادیان آئے تھے اور نئے سرے سے کاروبار جمانے کی کوشش کر رہے ہ بات سب کو معلوم تھی حضرت سیدہ کو ان کا بھی احساس تھا اگر کوئی آپ سے کہتا کہ امرتسر یا بٹالہ میں کپڑا ، پھل اور دوسری چیزیں سستی مل جاتی ہیں وہاں سے منگوالیا کریں تو آپ کہتیں:.د پھر قادیان کے مہاجر دکانداروں کا جو اپنے عزیز رشتہ داروں کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں کیا ہوگا.ان کی چیز میں کون خریدے گا.جو چیزیں قادیان سے ملتی ہیں یہیں سے خریدنی چاہئیں.(14) آپ بہت سادگی سے گزارا کرتیں حتی کہ آپ کو جو تحفے تحائف ملتے وہ بھی غریب عورتوں میں تقسیم کر دیتیں.ہر ایک سے ملنساری اور خاکساری سے ملتیں دلداری کرنے اور دل رکھنے کا بہت سلیقہ تھا.آپ نے ایک درویش ،صوفی ،فقیر خاتون کی طرح وقت گزار دیا.گھر میں بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت میں امیر غریب کا فرق نہ کرتیں.بڑی عمر کی خادمات کو بھی عزت سے بُلا تیں وہ بھی حضرت سیدہ سے بہت محبت کرتیں.آپ کی بیٹی صاحبزادی امتہ القیوم صاحب لکھتی ہیں.”ایک دفعہ ہم کسی سفر میں ابا جان کے ساتھ جارہے تھے ہماری
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 16 ایک ذاتی ملازمہ جھٹ سے میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گئی اور کہنے لگی میں یہاں بیٹھوں گی یہ میری بی بی ہیں.اس کی یہ بات سن کر ابا جان کہنے لگے اس کی ماں کے نوکروں کو بھی اُن سے بہت پیار تھا.“ چھوٹی سی بات پر حضور کو حضرت سید ہ کی یاد آئی.اُن کو قادیان میں یتامیٰ اور بیوگان کی دعوتوں کا بھی بہت شوق تھا اور یہ دعوتیں با قاعدہ لجنہ کے انتظام کے تحت ہوتیں.جب آپ فوت ہو گئیں تو آپ کو یاد کر کے آنسو بہانے والوں میں غریب ، خادم ، ضرورت مند لا چار لوگ بہت تھے ، وہ سمجھتے تھے اُن کی ماں فوت ہوگئی ہے.آپ بہت مہمان نواز تھیں، مہمانوں کا خاص خیال رکھتیں ، جب پتہ لگتا کہ کوئی مہمان آیا ہے اور آپ کھانا کھا رہی ہوتیں تو فوراً ہی اپنے آگے کا کھانا اُٹھوا کر کہیں کہ مائی پہلے مہمانوں کو کھانا کھلا او بعد میں ہمیں دینا.محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب لکھتی ہیں کہ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب نے رمضان کے کچھ روزے قادیان میں رکھنے کا ارادہ کیا.ڈاکٹر صاحب کے ایک بھائی، بھابی اور دوسرے بھائی کا بیٹا بھی تیار ہو گئے.حضرت سیدہ نے سُنا تو کہا کہ پٹیالے والی آپا کو تو میں اپنا کمرہ دوں گی.اپنا کمرہ ہمیں دے دیا اور خوب خاطر خدمت
حضرت سیدہ امتہ انکی صاحبہ کی.“ کی.“ (15) 17 حضرت اماں جان کی ایک رشتہ دار جنہیں سب نانی کہتے تھے اجمیر سے قادیان آتیں اور کئی کئی مہینے ٹھہر تیں.ایک دفعہ اُن کے پان ختم ہو گئے حضرت سیدہ کو علم ہوا تو کہا میں ابھی کہیں سے ڈھونڈ کر لاتی ہوں سائیکل لی اور تھوڑی دیر میں کہیں سے پان لا کر دے دیئے.اس وقت آپ چھوٹی عمر کی تھیں.سیدہ امتہائی صاحبہ نے قادیان کے جلسہ سالانہ میں کئی نئی باتوں کی ابتداء کی.سب سے پہلی تقریر جو آپ نے جلسہ سالانہ میں کی تیرہ برس کی عمر میں 1914 ء میں کی.اس جلسے میں چار سو خواتین شامل ہوئی تھیں.اسی عمر میں جلسہ کے مہمانوں کی خدمت میں حضرت اماں جان کا ہاتھ بٹانے لگیں اُس وقت جلسہ کے مہمان زیادہ تر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے گھر پر ٹھہرا کرتے تھے.آپ نے جلسہ سالانہ کے انتظامات کو بہتر بنانے کے لئے مستورات کے جلسہ کا الگ پروگرام رکھنے کی تجویز پیش کی.چنانچہ پہلی دفعہ 1917 ء میں مستورات کے پروگرام کا الگ انتظام کیا گیا.
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 18 19ء کے جلسہ سالانہ میں جو بیت اقصیٰ قادن میں ہوا، مردانہ جلسہ گاہ میں پردہ لگا کر عورتوں کا الگ انتظام کیا گیا ، اس میں خواتین نے بھی تقاریر کیں.29 دسمبر کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے عورتوں میں تقریر کی.1922 ء میں پہلی دفعہ داخلہ ٹکٹ جاری کیا گیا.جلسہ میں خواتین کی طرف حضرت ماریہ اسیح الثانی اور رفقاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقاریر کیں.عورتوں میں سے صرف سید وامتہائی بیگم صاحبہ نے جو سیکرٹری تھیں انتظامی امور کے متعلق ایک مضمون سُنایا.1923 ء میں پہلی بار کا رکنات کا نقشہ چھپوا کر تقسیم کیا گیا اور پہلی بار ڈیوٹی دینے والیوں کی دعوت کی گئی جس میں ساٹھ خواتین شامل ہوئیں.جلسہ سالانہ کی ابتدائی باتیں پڑھ کر اور پھر آج قریباً ہر ملک میں جہاں احمدی آباد ہیں اُسی طریق پر جلسہ سالانہ ہوتے دیکھ کر دل سے دعا ئیں نکلتی ہیں.خاص طور پر خواتین کی ترقی دیکھ کر شروع میں محنت کرنے والیوں کیلئے شکر کے جذبات اُبھرتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مسجد برلن کیلئے چندہ جمع کرنے کا
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 19 ارشاد فرمایا تو آپ میں ایک جوش بھر گیا.تقریروں اور تحریروں سے عورتوں کو مسجد کے لئے چندہ دینے کی اہمیت بتائی.عورتیں آپ کی آواز سُن کر ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتیں.ہر گلی محلہ میں مسجد کیلئے چندہ کا ذکر شروع ہو گیا.عورتوں نے اپنے زیور اور جمع کئے ہوئے پیسے شوق سے لالا 1 کر دیئے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا.صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ 1916ء میں پیدا ہوئیں ، آپ کی شادی حضرت صاحبزادہ مرزا مظفراحمد صاحب ( ایم ایم احمد ) سے ہوئی آر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی بہو بنیں.2 صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ پیدائش 9 نومبر 1918 ء.آپ کی شادی محترم میاں عبدالرحیم احمد صاحب سے ہوئی.3 صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب تاریخ پیدائش 10 نومبر 1924 ، آپ ایک ماہ کے تھے جب آپ کی اُمی کا انتقال ہو گیا.پھر آپ کی نانی اماں ( حضرت اماں جی ) نے آپ کو سنبھالا آپ پیدائشی طور پر بہت کمزور تھے.آپ نے اپنے بچوں کی تربیت کس طرح کی.آپ کی بیٹی محترمہ امتہ الرشید صاحبہ کی زبانی سنئے لکھتی ہیں:.
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 20 میں بہت چھوٹی تھی ، نماز کے الفاظ بھی ابھی ذہن نشین نہ کر پائی تھی مگر امی اپنے ساتھ نماز کے لئے کھڑا کر تیں اور فرماتیں صرف بسم اللہ ہی پڑھتی جاؤ.نہایت پیار سے میرے سر پر دوپٹہ یا سکارف باندھ کر فرماتیں جیسے اگلی صف والے پڑھ رہے ہیں ویسے پڑھتی جاؤ ، اذان دینا وا.بھی سکھایا.پھر صرف بچوں کو ہی نماز کی طرف راغب نہیں کر رہی تھیں بلکہ گھر کی سب خواتین اور خصوصیت سے ملازمین کو پنچ وقتہ نماز با جماعت کی تلقین کر رہی ہوتیں.معلوم یہ ہوتا ہے کہ اپنی بچیوں میں علم کی جوت جگانے اور انہیں علم کی روشنی سے منور کرنے کے لئے انہوں نے کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا.بچیاں سونے لگی ہیں تو ان کو عربی میں دعائیہ لوریاں سنا رہی ہیں.پاس بیٹھی ہیں تو ہاتھوں کی انگلیوں کے عربی نام سکھا رہی ہیں.در شین کے اشعار یاد کروارہی ہیں.پھر انہیں خوش الحانی سے پڑھنے کی تلقین کر رہی ہیں اور پھر جب شعر اُسی انداز میں سُنائے جاتے ہیں تو خوشی کا اظہار کرتی ہیں.میری اُمی مجھے میری دادی حضرت اماں جان کے پاس لے جاتیں اور فرماتیں میری بلبل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا
حضرت سید ہ امتہ الحی صاحبہ 21 کلام مبارک سماعت فرمائیں اس کا لحن بہت اچھا ہے، حافظہ بہت تیز ہے، پوری پوری نظم یاد کر لیتی ہے.حضرت اماں جان خوشی کا اظہار فرماتیں، دعاؤں جیسے انمول تحفے سے نوازتیں اور انعام بھی عنایت فرماتیں.حضرت مصلح موعود 1924 ء میں انگلستان تشریف لے گئے تو قادیان کی یاد میں ایک بڑی پیاری نظم لکھی جو انہوں نے اہل قادیان کو ارسال کی.وہ نظم بھی بچیوں کو یاد کروائی اور باوجود اپنی بیماری کے اُن سے بار بار سنی اور پھر حضرت اماں جان کو بھی سنو اکر خوش ہو ئیں.حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ نے گھر میں تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا.بچیوں کو میسر نا القرآن کا ابتدائی حصہ خود پڑھایا اور پھر ایک محترمہ اُستانی صاحبہ کے گھر لے گئیں مٹھائی بھی ساتھ لے گئیں اور انہیں بچیوں کو قرآن کریم پڑھانے کی درخواست کی.وہ آپ کے خود اُن کے گھر آنے اور پھر درخواست کرنے پر حیران بھی ہوئیں اور پریشان بھی اور کہنے لگیں.آپ مجھے پیغام بھیجتیں تو میں آپ کے گھر آکر انہیں پڑھا دیا کرتی.“ آپ نے فرمایا:." آپ نے انہیں اللہ تعالی کا کلام سکھانا ہے.یہ تو گستاخی ہے کہ آپ خود چل کر ہمارے گھر انہیں پڑھانے کے لئے آئیں طالب علم کو ہی
حضرت سیدہ امتہ انکی صاحبہ 22 اُستاد کے پاس جانا چاہیئے اس لئے آپ وقت کا تعین کر دیں یہ خود آیا 66 کریں گی.“ اُمی کا حکم تھا کہ بڑی عمر کی ملازمہ یا وہ خواتین جن کا ہمارے گھر میں آنا جانا رہتا تھا اُن کا ادب کیا جائے اور نام کے ساتھ آپا کہا جائے.خود بھی بڑی عمر کی خواتین کا احترام کرتی تھیں اور نام لے کر نہ پکارتی تھیں.گھر کے تمام ملازموں سے بھی عزت سے پیش آتیں اور اُن کا بہت خیال رکھتیں.ہمیں ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین کرتیں ، جھوٹ ان کی نگاہوں میں بزدلی،خوف اور گناہ کے سوا کچھ نہ تھا.ہمیں اپنے گھروں میں بھی اُمی کی اجازت کے بغیر جانا نہ ہوتا تھا.‘ (16) 1924ء میں حضرت مصلح موعود یو.کے تشریف لے گئے وہاں ایک مذہبی کا نفرنس تھی اور بیت الفضل کا سنگ بنیا د رکھنا تھا.10 نومبر 1924 ء کو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹا مرز اخلیل احمد عطا فر مایا.مگر حضرت سید و صاحبہ شدید بیمار ہو گئیں.بیماری کی اطلاع سنتے ہی حضور بہت پریشان ہوئے.24 نومبر کو قادیان پہنچے.پہلے بہشتی مقبرے دعا کے لئے تشریف لے گئے پھر حضرت اماں جان کو السلام علیکم کہنے حاضر ہوئے.بیماری سے نڈھال بیوی کی نظریں راستے پر لگی تھیں.ایک کاغذ پر ایک شعر لکھا.
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 23 سر اُٹھانے کی نہ بستر سے جو ہمت پائے کیا کرے آہ وہ مجبور وہ زار و ملین حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے اسی کاغذ پر اپنی بھاوج کو اس طرح تسلی دی ے رکھ تسلی دل بیمار ابھی آتے ہیں درد مزمن کی دوا باعث راح و تسکین حضرت صاحب اپنی چہیتی امتہ السمی کی حالت خوب سمجھتے تھے.اللہ تعالی خوابوں میں بھی بنا چکا تھا کہ زندگی کم رہ گئی ہے.آپ بیت الدعا میں جا کر صحت کی دعا کرتے ،صدقے دیتے اور تیمارداری کرتے.9 دسمبر کو حالت بہت خراب ہوگئی.آپ کلمہ طیبہ کا ورد کرتی رہیں.آہستہ آواز میں کہا:.میں خدا کے مسیح پر ایمان رکھتی ہوں میرا ایمان ایسا ہے جیسا خلیفہ المسیح کا پھر اپنے بھائیوں کو نکلا کر سب کا نام لے کر السلام علیکم کہا.حضرت اماں جان سے اپنی مغفرت کی دعا کی درخواست کی اپنی نند حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے کہا ” میرے اور آپ کے تعلقات خاص تھے اور ہمیشہ اچھے رہے آپ ہمیشہ میرے لئے دعا کرتی
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 24 رہیں اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرے.پھر پیاری جماعت احمدیہ کو سلامتی کا تحفہ دیا.پھر اپنے محبوب شوہر سے درد بھرے لہجے میں کہا ” مجھے آپ کا چہرہ نظر نہیں آرہا میرے سامنے ہو جا ئیں سامنے ہو گئے تو نظریں گویا آپ پر جم گئیں تکلیف میں زیادتی کی وجہ سے بے چینی بھی تھی.حضور نے اپنا سہارا دے کر بٹھا یا بڑے درد سے سیدہ امتہ الہی نے ایک جملہ کہا ”اے خدا ! میں نے سب کچھ تجھے سونیا اب تو مجھے اپنے دامن محبت میں چھپالے میں کچھ بھی نہیں حضور نے آہستہ سے فرمایا تم خدا کے فضل سے بڑی پکی مومنہ ہو اور یہ جملہ کئی بار کہا.(17) 10 دسمبر کی صبح ساری رات تیمارداری میں جاگ کر گزار نے والے شوہر کی ذراسی آنکھ لگتی ہے تو ہلکی سی آہٹ پر چپ کراتی ہیں.تمہیں پتہ نہیں کہ میاں سورہے ہیں“ میاں کی نیند میں ذرا سا خلل برداشت نہ کر سکنے والی کے نا نہ توڑ کر جانے پر میاں کا جو حال ہو گا کون دیکھے گا.صبح اپنے بچوں کو بلایا، پیار، کیا خدا حافظ کہا.حضور بیت الدعا میں مولائے حیی و قیوم کے حضور گڑ گڑا رہے تھے اور سیدہ اپنے اللہ کو اس طرح پکار رہی تھیں کہ اللہ میاں اب جلدی بلا لو ہائے دیر کیوں ہورہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے دیر نہیں کی اپنے
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 25 پاس بلا لیا.10 دسمبر 1924 ء بروز بدھ سوا تین بجے دو پیر صرف تمھیں سال چار ماہ کی عمر میں اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئیں.انا للہ وانا الیہ راجعون حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ آپ سے بے حد خوش تھیں اور آپ سے بے حد شفقت سے پیش آتیں.اپنے چھوٹے چھوٹے کام حضرت سیدہ سے کہتیں تو آپ بخوشی کرتیں.آپ کے خطوط لکھ دیا کرتیں ادبی مزاج کی وجہ سے بھی آپ کو اس گھرانے میں قدر و عزت ملی.حضرت اماں جان نے ایک بات کا کئی دفعہ ذکر فرمایا:.تمہاری ماں کمرے کی کھڑکی سے منہ نکال کر مجھ سے باتیں کیا کرتی تھی.ایک دن آواز نہیں آئی تو میں نے کہا آج میری بلبل کیوں نہیں چہچہائی تو فورا جواب دیا و ”منقار میں چھالے ہیں کیونکہ منہ میں چھالے ہو گئے تھے.اس برجستہ جواب کا ذکر اماں جان کئی دفعہ پیار سے کرتیں.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ تحریر فرماتیں ہیں: امتہائی بہت چاہنے والی ، بہت تابعدار بیوی ثابت ہوئیں ذہانت تو غضب کی پائی تھی.اشارہ بات کا پا جاتی تھیں.اشعار سے بھی دلچسپی تھی.اشعار کو اُن کے اصل معنوں میں خوب سمجھتی تھیں.اُن کی
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 26 وفات کا نقشہ پیشِ نظر ہے وہ ان کا بار بار مجھے بھی مخاطب کر کے کہ ہمیشہ میری مغفرت کی دعا کریں.حضرت اماں جان کو پاس سے نہ اُٹھنے دینا.کی اماں نہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی بیقراری بہت زیادہ تھی پیار سے پکارتے ، 66 سر پر منہ پر ہاتھ پھیرتے اور دعائیں کرتے.(18) حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بھی بہت محبت سے آپ کا ذکر کرتیں.ایک دفعہ بتایا کہ اُس کے بڑے بڑے ارادے تھے.بچوں کے لئے مذہبی اور اخلاقی کتابیں لکھنا چاہتی تھیں.ایک دن کہنے لگیں تمہاری ماں کی آنکھوں میں بہت چک تھی جیسے موتی کوٹ کے بھرے ہوں.مکرمہ صاحبزادی امتہ القیوم بیگم صاحبہ اپنی امی کی یادیں تحریر کرتی ہیں کہ اپنی بیماری کی شدت کو سمجھتے ہوئے امی کو خیال آیا کہ میرے بعد ان معصوم بچوں کا کیا ہوگا.حضرت اماں جان سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو آپ نے اپنی عمر اور کمزوری صحت کی وجہ سے خود کو اتنی بڑی ذمہ داری اُٹھانے کے قابل نہ سمجھا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بیوی کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے یہ ذمہ داری خود اٹھالی فرمایا:.فکر نہ کرومیں وعدہ کرتا ہوں کہ جہاں تک اور جیسے بھی ہوسکا میں اس ذمہ داری کو اُٹھاؤں گا.“
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 27 ماں کے بے قرار دل کو سکون مل گیا.خلیفہ وقت جو بچوں کا باپ بھی ہے اللہ تعالیٰ کی مدد سے بچوں کا خصوصی خیال رکھیں گے.اور آپ نے اس قول کو خوب نبھایا.بچوں کو ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی.اس کام میں حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ نے بھی آپ کا ہاتھ بٹایا اور بچوں کو ماں کی سی شفقت و پیار سے رکھا.آپ ہم کو اپنے ساتھ رکھنا پسند کرتے کسی بیوی کی باری ہوتی ہم کو ساتھ لے جاتے.جب چودہ سال کی عمر میں بیٹی کو صاحبزادہ مرزا مظفر احمد کے ساتھ رخصت کیا تو ایک خط میں لکھا ”میں نے اپنی اس بچی کو چودہ سال تک ہتھیلی کے چھالے کی طرح رکھا اگر کوئی ان کی طرف دیکھتا تو 66 میری نظر فورا اٹھتی کہ اس آنکھ میں پیار کے سوا کچھ اور تو نہیں.“ ایک ماں جو خدمت دین کرتی تھی اُس کے بچوں کو خدا تعالی نے پیار سے محروم نہ رکھا بلکہ زیادہ رحم وکرم سے اُن کے لئے دلوں میں پیار ڈال دیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ زندگی بہت مختصر دی تھی جس میں آپ چلتی پھرتی ، کام کرتی اور سانس لیتی تھیں.لیکن ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی عنایت کر دی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا:.آج تک میں نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 28 جس میں امتہ المی کے لیے دعا نہیں کی.(19) جہاں بھی درس قرآن ہوگا آپ یاد آئیں گی کیونکہ بیچ آپ نے بویا تھا.لجنہ اماءاللہ کے تحت ہونے والی ترقی اور نیک کام کا ثواب آپ کو بھی پہنچے گا.جب بھی جلسہ سالانہ ہوگا ابتدائی طور پر خدمت کے طریق مقرر کرنے پر آپ یاد آئیں گی.خواتین میں پڑھنے پڑھانے کے ہر سلسلے کے پھیلاؤ پر آپ کی کوششوں کی یاد آئے گی.غریب غرباء کی ہمدردی کے ہر قدم کا ثواب آپ کو بھی ہوگا.آپ کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے 17 مارچ 1925 ء کو دار اسی میں مدرستہ الخواتین شروع کیا اور فرمایا کہ یہ سیدہ امتہ الحمی کی یادگار ہے.لجنہ اماءاللہ نے امتہائی لائبریری قائم کی جو آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہے.آپ کی ذات جماعت کے ہر فرد کیلئے اس لحاظ سے بھی باعث رحمت و برکت ہے کہ بحیثیت بیوی آپ نے اخلاص و محبت ، وفا و پیار سے رہنے کا ایک مثالی نمونہ دکھا دیا اور شوہر سے قدر ،عزت، احترام اور پیار حاصل کرنے کے طریق سمجھائے.اللہ تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں ہوں آپ پر.ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اعلی علیین میں جگہ دے.آمین.
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ 29 حوالہ جات 1:.( تاریخ احمدیت جلد دوم ص:173 ) 2:.(سیرت وسوانح سیدہ امتہ الحی بیگم صاحبہ مرتبه نسیم سعید صاحبه الفضل ربوہ 27 اگست 1990 ص: 16) 3 ( تادیب النساء جلد 3 ص : 6 تا 9) 4- ( تاریخ لجنہ جلد اول ص : 22.23) 5:.( تاریخ احمدیت جلد چہارم ص 604) 6 ( تاریخ احمدیت جلد چہارم ص : 614) 7: (الفضل قادیان 18 اپریل 1925 ص: 4) 8:.(الفضل قادیان18اپریل1925 ءص:4.5) 9: ( تاریخ لجنہ جلد اوّل ص: 129.131 ) 10:.( تاریخ لجنہ جلد اوّل ص: 128.129) 11:.( تاریخ لجنہ جلد اوّل ص: 127) 12 اخبار فاروق 13 جنوری 1916ء) 13 استفاده از ہر اول دستہ از ستاره مظفر لاہور ) 14:.(مصباح 1970 نومبر )
حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ -:15 30 ( سیرت وسوانح حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ ص : 94) 16:.(تحریر محترمہ صاحبزادی امتہ الرشید صاحبه ) -:17 سیرت و سوانح حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ ص : 61.62) 18:.(21 دسمبر 1972 ء بدر قادیان) 19 (الفضل 18 اپریل 1925 ء )
حضرت امتہ الحی بیگم صاحبہ (Hadhrat Amtul Hai Begum Sahiba) Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.