Amli Islah

Amli Islah

اِصلاحِ اعمال کے متعلق زرّیں نصائح

خطبات جمعہ کی روشنی میں
Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR

Book Content

Page 1

اصلاح اعمال سے تعلق زریں نصائح حضرت امیر المؤمنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات جمعہ کی روشنی میں شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت صد را مجمن احمد یہ قادیان

Page 2

نام کتاب اصلاح اعمال متعلق زریں نصائح : حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات جمعہ کی روشنی میں دفتر اصلاح وارشاد قادیان مرتبہ اشاعت با راول : فروری 2014 اشاعت بار دوم : مارچ 2014 اشاعت با رسوم : مئی 2014 تعداد ناشر : 2000 : نظارت نشر و اشاعت قادیان - 143516 ضلع : گورداسپور، پنجاب (بھارت) Printed at: Fazle Umar Printing Press Qadian

Page 3

نمبر شمار 1 عبادت کا حقیقی مفہوم فہرست مضامین عناوین 2 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی اور دیانت کی مثالیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی قربانیاں 4 صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی اور دیانت کے واقعات 6 7 عملی حالتوں کی اصلاح کی ضرورت پہلا دوسرا اعمال کی اصلاح میں روکاٹ کے اسباب 8 تیسرا تیسر اسب، چوتھا سبب و پانچواں سبب 10 چھٹا 11 ساتواں سبب، آٹھواں سبب صفحہ نمبر 5 7 9 13 16 22 NNNS 25 28 29 31 2233 12 عملی اصلاح کیلئے تین باتوں کی ضرورت (1) قوت ارادی (2) قوت علمی (3) قوت عملی 33 13 قوت ارادی کا مطلب 14 قوت علمی اور قوت عملی کا مطلب 15 سلسلہ کے مربیان اور واعظین کے فرائض 37 41 42 16 عملی اصلاح کیلئے چار سہاروں کی ضرورت (1) ایمان (2) عمل (3) نگرانی (4) جبر | 48 17 علماء اور مربیان قلوب کی اصلاح کریں 18 بڑا ہتھیار دُعا ہے 19 عملی اصلاح کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصائح 56 57 57 57

Page 4

پیش لفظ سیدنا حضرت اقدس مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 29 نومبر 2013 ء سے 7 فروری 2014 ء تک ارشاد فرمودہ گیارہ خطبات جمعہ میں سے نو خطبات اعمال کی اصلاح کی ضرورت و اہمیت پر ارشاد فرمائے ہیں جن میں حضور انور نے احباب جماعت کے ساتھ ساتھ بالخصوص مربیان و معلمین اور جماعتی عہد یداران کو ان کے فرائض سے آگاہ فرمایا ہے.ان خطبات کے خلاصے منصوبہ بندی کمیٹی کی طرف سے مرتب کر کے شائع کروائے جارہے ہیں.تمام مربیان و عہدیداران خود انہیں بھی پڑھیں اور احباب کو بھی سنانے اور پڑھانے کا انتظام کریں.ان خطبات کو انٹرنیٹ کے ذریعہ ڈاؤن لوڈ کر کے سنا جاسکتا ہے.اس کی سی ڈی دفتر نشر واشاعت سے منگوا کر احباب جماعت کو سُنانے کا اہتمام بھی کریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ان ارشادات پر عمل کرنے اور کرانے اور جماعتی مساعی میں تیزی لانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.ناظر اصلاح و ارشاد قادیان

Page 5

عبادت کا حقیقی مفہوم : خلاصہ خطبہ جمعہ 29 نومبر 2013 تشہد وتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آیت قرآنی وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (التريت : 57) کی تلاوت فرمائی اور انسانی زندگی کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا : ایک حقیقی عابد اُسی وقت عابد کہلا سکتا ہے جب ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی رضا مد نظر ہو اور اپنے دنیاوی فوائد کوئی حیثیت نہ رکھتے ہوں.اس مضمون کو میں اکثر بیان کر کے توجہ دلاتا رہتا ہوں.آج اس مضمون کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبہ سے استفادہ کرتے ہوئے آپ کے سامنے پیش کروں گا.جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طریق تھا کہ واقعات کے ساتھ مضمون کو بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان سے بعض پہلوؤں کی عملی شکل ہمارے سامنے آجاتی ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 57) یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے یا اپنا عبد بنانے کے لئے پیدا کیا ہے، کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ یہ وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کے لئے انسان کی پیدائش ہوئی لیکن بڑے بڑے فلاسفر اور تعلیم یافتہ طبقہ یہ سوال کرتا ہے کہ کیا انسان کی پیدائش کے مقصد میں کامیابی ہوئی ہے اور کیا خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان سے وہ کام لے لیا ہے جسے مد نظر رکھتے ہوئے اُس نے انسان کو پیدا کیا تھا ؟ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا واقعی میں انسان اس مقصد کو پورا کر رہا ہے؟ اور کیا واقعی میں اس نے اس قسم کی ترقی کی ہے کہ خدا تعالیٰ کا عبد کہلانے کا مستحق ہو.تو فرمایا کہ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں.اس لئے وہ سوال کرتے ہیں کہ اگر انسان کوکوئی پیدا کرنے والا ہے تو کیوں اُسے اس

Page 6

مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء اس سوال کا جواب دینے کے لئے آتے ہیں.اور نیکی کی ایسی رو چلاتے ہیں جسے دیکھ کر دشمن کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ مقصد پورا ہو گیا ہے.اس دن کی آمد کے لئے اگر ہزار دن بھی انتظار کرنا پڑے تو گراں نہیں گزرتا.اللہ تعالیٰ نے بھی انبیاء کے زمانے کو لیلتہ القدر قرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شهر ( القدر : 4).یعنی وہ ایک رات ہزار مہینوں سے اچھی ہے.گویا ایک صدی کے انسان بھی اس ایک رات کے لئے قربان کر دیئے جائیں تو یہ قربانی کم ہوگی بمقابلہ اُس نعمت کے جو انبیاء کے ذریعہ دنیا کو حاصل ہوتی ہے.فرمایا: اس سال میں نے کچھ خطبات عملی اصلاح کے لئے دیئے تھے.یہ 1936ء کی بات ہے.آپ نے اس عرصے میں کچھ خطبات دیئے تھے.ان میں توجہ دلائی تھی کہ وہ عظیم الشان مقصد جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت ہوئی اُسے پورا کرنے کے لئے ہمیں بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے.اور یہ صرف اُس زمانے کی بات نہیں تھی ، یہ ایک جاری سلسلہ ہے اور آج بھی اور آئندہ بھی اس کی ضرورت ہے اور ہوتی رہے گی.فرمایا کہ اعتقادی رنگ میں ہم نے دنیا پر اپنا سکہ جمالیا ہے مگر عملی رنگ میں اسلام کا سکہ جمانے کی ابھی ضرورت ہے.کیونکہ اس کے بغیر مخالفوں پر حقیقی اثر نہیں ہو سکتا.پھر آپ نے مثال دی ہے کہ موٹی مثال عملی رنگ میں سچائی کی ہے.یعنی ایک مثال میں سچائی کی دیتا ہوں.اس کو اگر ہم عملی رنگ میں دیکھیں تو کس طرح ہے؟ فرمایا کہ یہ ایسی چیز ہے جسے دشمن بھی محسوس کرتا ہے.دل کا اخلاص اور ایمان دشمن کو نظر نہیں آتا مگر سچائی کو وہ دیکھ سکتا ہے.حقیقت یہی ہے کہ سچائی بہت زیادہ اثر ڈالتی ہے.اُس زمانے میں بھی حضرت مصلح موعود کو فکر ہوتا تھا اور اب اس زمانے میں بھی مجھے بعض غیروں کے خط آتے ہیں جن میں احمدیوں کا سچائی کا جو پراسیس ہوتا ہے اُس کا ذکر کیا ہوتا ہے.اور اس وجہ سے وہ جماعت کی تعریف کرتے ہیں.اور جن احمدیوں سے اُنہیں دھوکہ اور جھوٹ کا واسطہ پڑا ہو تو پھر وہ یہی لکھتے ہیں کہ ہم نے جماعت کی نیک نامی کی وجہ سے اعتبار کر لیا لیکن آپ کے فلاں فلاں فرد جماعت نے ہمیں اس طرح دھو کہ دیا ہے.

Page 7

پس ایسا دھوکہ دینے والے جو بظاہر تو اپنے ذاتی معاملات میں یہ کہتے ہیں کہ ہماری اپنی dealing ہے، بزنس ہے، کاروبار ہے جو ہم کر رہے ہیں، جماعت کا اس سے کیا واسطہ؟ لیکن آخر کار وہ جماعت پر بھی حرف لانے کا مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں.جماعت کو بدنام کرنے کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی اور دیانت کی مثالیں : حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوے سے پہلے کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ خاندانی جائداد کے متعلق ایک مقدمہ تھا.اور جگہ بتائی کہ اس مکان کے چبوترے کے سامنے ایک تھڑا بنا ہوا تھا، جہاں خلافت ثانیہ میں صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہوا کرتے تھے، اب تو قادیان میں کچھ تبدیلیاں ہو گئی ہیں، دفاتر وہاں سے چلے گئے ہیں.فرماتے ہیں کہ اس چبوترے کی زمین دراصل ہمارے خاندان کی تھی ،مگر اس پر دیرینہ قبضہ اُس گھر کے مالکوں کا تھا جن کا ساتھ ہی گھر تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے بھائی نے اسے حاصل کرنے کے لئے مقدمہ چلایا اور جیسا کہ دنیا داروں کا طریق ہے، ایسے مقدموں میں جھوٹی سچی گواہیاں مہیا کرتے ہیں تا کہ جس کو وہ حق سمجھتے ہیں وہ انہیں مل جائے.آپ کے بڑے بھائی نے بھی ایسا ہی کیا اور گواہیاں بہت ساری لے کر آئے.گھر کے مالکوں نے کہا ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، ان کے چھوٹے بھائی کو بلا کر گواہی لی جائے اور جو وہ کہ دیں ہمیں منظور ہوگا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں کہا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عدالت میں بلایا گیا اور آپ سے پوچھا گیا کہ کیا ان لوگوں کو اس راستے سے آتے جاتے اور یہاں بیٹھے آپ عرصے سے دیکھ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں دیکھ رہا ہوں.عدالت نے مخالف فریق کے حق میں فیصلہ دے دیا.آپ کے بھائی آپ پر سخت ناراض ہوئے مگر آپ نے فرمایا کہ جب واقعہ یہ ہے تو میں کیسے انکار کروں.اسی طرح آپ کے خلاف ایک مقدمہ چلا کہ آپ نے ڈاکخانے کو دھوکہ دیا ہے.یہ قانون

Page 8

تھا کہ اگر کوئی شخص کسی پیکٹ میں، پارسل میں کوئی خط ڈال دے، چٹھی ڈال دے تو خیال کیا جاتا تھا کہ اُس نے ڈاکخانہ کو دھوکہ دیا ہے اور پیسے بچائے ہیں.اور یہ ایک فوجداری جرم تھا جس کی سزا قید کی صورت میں دی جا سکتی تھی.آپ نے ایک پیکٹ میں یہ مضمون پریس کی اشاعت کے لئے بھیجا تھا اور اس میں ایک خط بھی ڈال دیا تھا جو اس اشتہار یا مضمون کے متعلق ہی تھا، کچھ ہدایات تھیں اور اسے آپ اُس کا حصہ ہی سمجھتے تھے، نقصان پہنچانا مقصد نہیں تھا.پریس کے مالک نے جو غالباً عیسائی تھے، یہ رپورٹ کر دی.آپ پر مقدمہ چلایا گیا.وکیل نے کہا کہ مقدمہ کرنے والوں کی مخالفت تو واضح ہے اور گواہیوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے.آپ انکار کر دیں کہ میں نے نہیں ڈالا تو کچھ نہیں ہو گا.آپ نے فرمایا کہ یہ نہیں ہوسکتا.جو میں نے بات کی ہے، اُس کا انکار کیسے کر سکتا ہوں.چنانچہ جب عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت نے پوچھا آپ نے کوئی ایسا مضمون ڈالا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں ڈالا تھا لیکن کسی دھو کے کے لئے نہیں بلکہ خط کو مضمون کا حصہ ہی سمجھا تھا.اس سچائی کا عدالت پر اتنا اثر ہوا کہ اُس نے کہا کہ ایک اصطلاحی جرم کے لئے ایک سچے اور راستباز شخص کو سز انہیں دی جاسکتی اور بری کر دیا.آپ فرماتے ہیں کہ انبیاء دنیا میں آ کر راستی اور سچائی کو قائم کرتے ہیں اور ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں آکر کوئی تو ہیں اور مشین گئیں ایجاد نہیں کی تھیں، بینک جاری نہیں کئے تھے یا صنعت و حرفت کی مشینیں ایجاد نہیں کی تھیں.پھر وہ کیا چیز تھی جو آپ نے دنیا کو دی اور جس کی حفاظت آپ کے ماننے والوں کے ذمہ تھی.وہ سچائی کی روح اور اخلاق فاضلہ تھے.یہ پہلے مفقود تھی.آپ نے پہلے اُسے کمایا اور پھر یہ خزانہ دنیا کو دیا.اور صحابہ اور اُن کی اولادوں اور پھر اُن کی اولادوں کے ذمہ یہی کام تھا کہ ان چیزوں کی حفاظت کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ یہ حکم سن کر کہ ساری دنیا کو خدا تعالیٰ کا کلام پہنچا ئیں، کچھ گھبرا گئے.اس لئے کہ آپ اس عظیم الشان ذمہ داری کو کس طرح پورا کریں گے؟ اس گھبراہٹ میں آپ گھر آئے.حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے

Page 9

پاس آئے اور شدت جذبات سے آپ اُس وقت سردی محسوس کر رہے تھے.جب گھر میں داخل ہوئے تو آپ نے کہا مجھے کپڑا پہنا دو، کپڑا اوڑھا دو.حضرت خدیجہ نے دریافت کیا کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ آپ نے سارا واقعہ سنایا.حضرت خدیجہ نے جواب دیا کہ كَلَّا وَاللهِ لَا يُخْزِيكَ الله ابدا.کہ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں.خدا کی قسم ! کبھی خدا آپ کو رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ میں فلاں فلاں خوبیاں ہیں اور ان خوبیوں میں سے ایک یہ بتائی کہ جو اخلاق دنیا سے اُٹھ گئے ہیں آپ نے اپنے وجود میں ان کو دوبارہ پیدا کیا ہے اور بنی نوع انسان کی اس کھوئی ہوئی متاع کو دوبارہ تلاش کیا ہے.پھر بھلا خدا آپ جیسے وجود کو کس طرح ضائع کر سکتا ہے؟ تو انبیاء کی بعثت کی غرض یہی ہوتی ہے اور مومنوں کے سپر دیہی امانت ہوتی ہے جس کی حفاظت کرنا اُن کا فرض ہوتا ہے.محبت کی وجہ سے انبیاء کا وجود مومنوں کو بیشک بہت پیارا ہوتا ہے.مگر حقیقت کے لحاظ سے انبیاء کی عظمت کی وجہ وہی نور ہے جسے دنیا تک پہنچانے کے لئے خدا تعالیٰ انہیں مبعوث کرتا ہے، انہیں خدا تعالیٰ کا وہ پیغام ہی بڑا بنا تا ہے جو وہ لاتے ہیں.پس جب نبی کے اتباع یعنی پیروکار اس وجود کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں تو اس پیغام کی حفاظت کے لئے کیا کچھ نہ کرنے کے لئے تیار ہوں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی قربانیاں : حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کی حفاظت کے لئے صحابہ کرام نے قربانیاں کیں، وہ واقعات پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اُن کی محبت کو دیکھ کر آج بھی دل میں محبت کی لہر پیدا ہو جاتی ہے.اُحد کی جنگ میں ایک ایسا موقع آیا کہ صرف ایک صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ گئے اور دشمن بے تحاشا تیر اور پتھر پھینک رہے تھے.اُس صحابی نے اپنا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف کر دیا اور اُس پر اتنے تیر اور پتھر لگے کہ وہ ہمیشہ کے لئے بیکار ہو گیا.کسی نے صحابی سے پوچھا، یہ کیا ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ اتنے تیر اور پتھر اس پر لگے ہیں کہ ہمیشہ کے لئے شل ہو گیا.اُس نے پوچھا کہ آپ کے

Page 10

منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی.تو انہوں نے کہا اور بڑا لطیف جواب دیا.کہنے لگے کہ اُف نکلنا چاہتی تھی لیکن میں نکلنے نہیں دیتا تھا کیونکہ اگر اُف کرتا تو ہاتھ ہل جاتا اور کوئی تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لگ جاتا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ تم اس قربانی کا اندازہ کرو اور سوچو کہ اگر آج کسی کی انگلی کو زخم آجائے تو وہ کتنا شور مچاتا ہے، مگر اس صحابی نے ہاتھ پر اتنے تیر کھائے کہ وہ ہمیشہ کے لئے شل ہو گیا.پھر ایک اور صحابی کا واقعہ بیان کرتے ہیں، یہ بھی اُحد کا موقع ہے.اُحد کی جنگ میں بعض صحابہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونے کے بعد پھر ا کٹھے ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.صحابہ کو دیکھو کون کون شہید ہوا ہے اور کون کون زخمی ہوا ہے.اس پر بعض صحابہ میدان کا جائزہ لینے کے لئے گئے.ایک صحابی نے دیکھا کہ ایک انصاری صحابی میدان میں زخمی پڑے ہوئے ہیں.وہ اُن کے پاس پہنچے تو پتہ چلا کہ اُن کے بازو اور ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں اور اُن کی زندگی کی آخری گھڑی ہے.اس پر وہ صحابی اُن کے قریب ہوا اور پوچھا کہ اپنے عزیزوں کو کوئی پیغام دینا ہے تو بتادیں، میں اُن کو پہنچا دوں.اُن زخمی صحابی نے کہا کہ میں انتظار ہی کر رہا تھا کہ میرے پاس سے کوئی گزرے تو میں اُسے پیغام دوں.سو تم میرے عزیزوں کو، میرے گھر والوں کو ، بیوی بچوں کو یہ پیغام دے دینا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قیمتی امانت ہیں.جب تک ہم زندہ رہے، ہم نے اپنی جانوں سے اس کی حفاظت کی.اور اب جبکہ کہ ہم رخصت ہو رہے ہیں تو میں امید کرتا ہوں کہ وہ یعنی عزیز رشتہ دار ہم سے بڑھ کر قربانیاں کر کے اس قیمتی امانت کی حفاظت کریں گے.فرماتے ہیں کہ غور کرو، موت کے وقت جبکہ وہ جانتے تھے کہ بیوی بچوں کو کوئی پیغام دینے کے لئے اب اُن کے لئے کوئی اور وقت نہیں ہے.ایسے وقت میں جب انسان کو جائداد اور لین دین کے بارے میں بتانے کا خیال آتا ہے، جب لوگ اپنے پسماندگان کی بہتری کی تشویش اور فکر میں ہوتے ہیں، اُس وقت بھی اس صحابی کو یہی خیال آیا کہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں جان دے رہا ہوں اور عزیزوں کو پیغام دیتے ہیں کہ تم سے بھی یہی امید رکھتا ہوں کہ تم اس پر گامزن رہو گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے مقابلے میں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرو گے.پس جن لوگوں نے آنحضرت

Page 11

صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے یہ قربانیاں کیں، وہ اُس پیغام کے لئے جو آپ لائے ، کیا کچھ قربانیاں نہ کر سکتے ہوں گے.اور انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہوگا ؟ صحابہ نے اس بارے میں جو کچھ کیا، حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ اس کی مثال کے طور پر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا واقعہ پیش کرتا ہوں.دیکھو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت تھی کہ جب انہیں معلوم ہو گیا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں تو بے اختیار ہو کر آپ کے جسم مبارک کو بوسہ دیا، آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے مگر دوسری طرف اُس سچائی سے کتنی محبت تھی جو آپ لائے تھے کہ حضرت عمر جیسا بہا در تلوار لے کر کھڑا ہے کہ جو کہے گا آپ فوت ہو گئے ہیں میں اُسے جان سے مار دوں گا اور بہت سے صحابہ اُن کے ہم خیال ہیں.مگر باوجود اس کے آپ نڈر ہو کر کہتے ہیں کہ جو کہتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں وہ گویا آپ کو خدا سمجھتا ہے.میں اُسے بتا تا ہوں کہ آپ فوت ہو گئے ہیں.مگر وہ خدا جس کی آپ پرستش کرانے آئے تھے وہ زندہ ہے.یہ سچائی کا اثر تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے دلوں میں پیدا کر دی تھی کہ وہ صحابہ جونگی تلوار میں لے کر کھڑے تھے انہوں نے یہ بات سنتے ہی سر جھکائے اور تسلیم کرلیا کہ ٹھیک ہے، آپ واقعہ میں فوت ہو گئے ہیں.پھر حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کو جو بے مثل محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے تھی، وہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ظاہر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل ایک لشکر تیار کیا تھا کہ شام کے بعض مخالفین کو جا کر ان کی شرارتوں کی سزا دے.ابھی ی شکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی.آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ منتخب ہوئے اور اکثر صحابہ نے اتفاق کر کے آپ سے عرض کیا کہ اس لشکر کی روانگی ملتوی کر دی جائے کیونکہ چاروں طرف سے عرب میں بغاوت کی خبریں آ رہی تھیں اور مکہ اور مدینہ اور صرف ایک اور گاؤں تھا جس میں باجماعت نماز ہوتی تھی.لوگوں نے نمازیں پڑھنی بھی چھوڑ دی تھیں اور لوگوں نے یہ مطالبہ شروع کر دیا تھا کہ ہم زکوۃ نہیں دیں گے.صحابہ نے حضرت عمر کو حضرت ابوبکر کے پاس 11

Page 12

بھیجا کہ اس لشکر کو روک لیں.کیونکہ اگر بوڑھے بوڑھے لوگ یا بچے ہی مدینہ میں رہ گئے تو وہ باغی لشکروں کا مقابلہ کس طرح کر سکیں گے.یعنی جو دوسرے باغی لوگ تھے اُن کا مقابلہ مدینہ کے یہ بوڑھے کس طرح کر سکیں گے.مگر حضرت ابوبکر نے اُن کو یہ جواب دیا کہ کیا ابو قحافہ کے بیٹے کو یہ طاقت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے لشکر کو روک لے.خدا کی قسم ! اگر باغی مدینہ میں داخل بھی ہو جائیں اور ہماری عورتوں کی لاشوں کو کتے گھسٹتے پھریں ، تب بھی وہ لشکر ضرور جائے گا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر کو آپ سے کتنا عشق تھا مگر چونکہ آپ صدیقیت کے مقام پر تھے اس لئے جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کی عظمت اس سے بھی زیادہ ہے.پس ان لوگوں نے خدا تعالٰی کی بھیجی ہوئی تعلیم کو لیا اور اسے قائم رکھا.حتی کہ دشمن بھی اقرار کرتے ہیں کہ اُسے ذرہ بھر بھی نہیں بدلا گیا.عیسائی، ہندو، یہودی غرضیکہ سب مخالف قو میں تسلیم کرتی ہیں کہ قرآن کریم کا ایک شعشہ بھی نہیں بدلا.آپ پھر آگے بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانے میں ایک جماعت ایسی موجود تھی.مگر سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ نسلوں میں بھی یہی جذبہ موجود ہے؟ کیا کوئی عقلمند یہ پسند کر سکتا ہے کہ ایک اچھی چیز اُسے تو ملے مگر اُس کی اولا د اُس سے محروم رہے.پھر تم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کی قدر و قیمت جانتا ہے، وہ پسند کرے گا کہ وہ اُس کے ورثاء کو نہ ملے لیکن اُس کی زمین اور اُس کے مکانات اُنہیں مل جائیں.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو دین کو نعمت قرار دیتا ہے، مگر وہ جماعت جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی دعویدار ہے اس میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اول تو اپنی اولاد کو دین سے محروم رکھتے ہیں اور پھر جب وہ شرارت کریں تو اُن کی مدد کرتے ہیں.حالانکہ وہ بعض ایسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں کہ جن پر شرافت اور انسانیت بھی چلا اٹھتی ہے.چہ جائیکہ احمدیت اور ایمان کے متحمل ہوسکیں.مگر ایسے مجرموں کے والدین، بھائی، رشتہ دار بلکہ دوست اُن کی مدد کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ایسا کرنے سے ایمان کہاں باقی رہ جاتا ہے؟ ایسے آدمی کا دین تو آسمان پر اڑ جاتا ہے.آپ نے فرمایا ۱۲

Page 13

که محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو.ایک دفعہ بعض صحابہ نے آپ کے پاس کسی مجرم کی سفارش کی تو آپ نے فرمایا خدا کی قسم ! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو وہ بھی سزا سے نہیں بچ سکے گی.تو تقویٰ اور طہارت ایسی نعمت ہے کہ اس کے حصول کے لئے انسان کو کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو ہمیں دولت ملی ہے وہ اعلیٰ اخلاق ہی ہیں اور اپنی اولادوں کو اُن کا وارث بنانا ہمارا فرض ہے.اور اگر غفلت کی وجہ سے اس میں کوئی کوتا ہی ہو جائے تو مومن کا فرض ہے کہ وہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ نہ دکھائے ، بلکہ اُسی وقت اس سے علیحدہ ہو جائے جس نے جرم کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے اس کی ایسی مثالیں ہمیں دکھائی ہیں کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایسا کرنا ناممکن.ہے.صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی اور دیانت کے واقعات : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی تھے، اُن کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سید حامد شاہ صاحب مرحوم بہت مخلص احمدی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کو اپنے بارہ حواریوں میں سے قرار دیا تھا.چنانچہ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ میرے سامنے بھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے حواریوں کے نام گنے تو ان کا بھی نام لیا تھا.اور پھر ان کے نیک انجام نے اُن کے درجہ کی بلندی پر مہر بھی لگادی.ایک دفعہ اُن کے لڑکے کے ہاتھ سے ایک شخص قتل ہو گیا.مگر یہ قتل ایسے حالات میں ہوا کہ عوام کی ہمدردی اُن کے لڑکے کے ساتھ تھی.یہ جو بزرگ صحابی سید حامد شاہ صاحب تھے، ان کے بیٹے سے قتل ہوا لیکن حالات ایسے تھے کہ اس قتل کے باوجود عوام الناس ان سے، ان کے بیٹے سے ہی ہمدردی کر رہے تھے.کیونکہ مقتول کی زیادتی تھی جس پر لڑائی ہو گئی اور اُن کے لڑکے نے اُسے مکہ مارا اور وہ مر گیا.وہ ایسے ہی واقعہ ہوا جیسے حضرت موسیٰ کے زمانے کا واقعہ ہے.سیا ہے.سیالکوٹ کا ڈپٹی کمشنر جو انگریز تھا، وہ ایسے افسروں میں سے تھا جو جرم ثابت ہو یا نہ ہو، سزا ضرور دینا چاہتے ہیں تا رعب قائم ہو جائے.اُسے خیال آیا کہ میر حامد شاہ صاحب ۱۳

Page 14

میرے دفتر کے سپر نٹنڈنٹ ہیں.اگر میں ان کے لڑکے کو سزا دوں گا تو میرے انصاف کی دھوم مچ جائے گی.اس لئے شاہ صاحب کو بلایا اور پوچھا کہ کیا واقعی آپ کے لڑکے نے قتل کیا ہے.آپ نے فرمایا.میں تو وہاں موجود نہ تھا لیکن سنا ہے کہ کیا ہے.اُس نے کہا کہ آپ اُسے بلا کر کہہ دیں کہ وہ اقرار کر لے تا لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ہم کسی کا لحاظ نہیں کرتے.آپ نے اپنے لڑکے کو بلا کر پوچھا کہ تم نے اس شخص کو مارا ہے.اُس نے کہا ہاں مارا ہے.آپ نے فرمایا پھر سچی بات کا اقرار کر لو.لوگوں نے کہا کیوں اپنے جوان لڑکے کو پھانسی لٹکوانا چاہتے ہو.مگر آپ نے فرمایا کہ اس دنیا کی سزا سے انگلی دنیا کی سزا زیادہ سخت ہے اور اپنے بیٹے کو یہی نصیحت کی کہ اقرار کر لے.لیکن خدا کی قدرت کہ اُس نے اقرار تو کر لیا مگر وہ لڑکا کرکٹ کا کھلاڑی تھا اور وہ مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ تھا، وہ بھی کرکٹ کھیلنے والا تھا، اُسے کرکٹ کلب میں معاملہ کی حقیقت معلوم ہوگئی اور چونکہ قانون ایسا ہے کہ اگر مجسٹریٹ کو کسی بات کا یقین ہو جائے تو ملزم سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہتی.اُس نے خود ہی پولیس کے گواہوں پر ایسی جرح کی کہ اُس لڑکے کی بریت ثابت ہوگئی اور اس نے اس وجہ سے کچھ پوچھے بغیر ہی اُسے رہا کر دیا.تو سچائی کی وجہ سے وہ اس سزا سے بھی چھوٹ گئے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اسی قسم کا ایک مقدمہ پچھلے دنوں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے بھائی پر ہوا.چوہدری صاحب اُس وقت ولایت میں تھے.( یہاں لندن میں تھے ).انہوں نے اپنے بھائی کو لکھا کہ یہ ایمان کی آزمائش کا وقت ہے.اگر تم سے قصور ہوا ہے تو میں تمہارا بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اس دنیا کی سزا سے اگلے جہان کی سزا زیادہ سخت ہے.اس لئے اسے برداشت کر لو اور سچی بات کہہ دو.پھر آپ فرماتے ہیں کہ سیالکوٹ کے رہنے والے ہمارے ایک دوست ہیں جو ابھی زندہ ہیں.احمدی ہونے کے بعد جب انہیں معلوم ہوا کہ رشوت لینا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے تو انہوں نے تمام اُن لوگوں کے گھروں میں جا جا کر جن سے وہ رشوتیں لے چکے تھے، واپس کیں.اس سے وہ بہت زیر بار بھی ہو گئے.مقروض ہو گئے.مگر اس کی انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی.تو حضرت مصلح ۱۴

Page 15

موعود کہتے ہیں ہماری جماعت میں ہر قسم کے اعمال کے لحاظ سے ایسے نمونے ملتے ہیں جن کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ کے نمونے ہیں لیکن ہمیں اس پر خوش نہیں ہونا چاہئے بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ ساری جماعت ایسی ہو جائے.پس جب تو جہ دلائی جائے تو اُس کو غور سے سننے کے بعد پھر اُس کو عملی زندگی کا حصہ بنانا چاہئے اور یہی جماعت کی ترقی کا راز ہے اور یہی چیز جو ہے انسان کو صحیح عبد بناتی ہے.آپ فرماتے ہیں پس ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت محسوس کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے اُن پر بڑی ذمہ داری ڈالی ہے.انسان کے اندر کمزوریاں خواہ پہاڑ کے برابر ہوں، اگر وہ چھوڑنے کا ارادہ کر لے تو کچھ مشکل نہیں.فرمایا کہ اس وقت میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوست اپنی اپنی اولادوں کی اور جماعت کے دوسرے نوجوانوں کی اصلاح کریں.اپنی اصلاح کریں.جھوٹ ، چوری ، دغا، فریب، دھوکہ، بد معاملگی ، غیبت وغیرہ بد عادات ترک کر دیں.حتی کہ اُن کے ساتھ معاملہ کرنے والا محسوس کرے کہ یہ بڑے اچھے لوگ ہیں.اور اچھی طرح یا درکھو کہ اس نعمت کے دوبارہ آنے میں تیرہ سو سال کا عرصہ لگا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہمیں ملی.اگر ہم نے اس کی قدر نہ کی اور پھر تیرہ سوسال پر یہ جا پڑی تو اس وقت تک آنے والی تمام نسلوں کی لعنتیں ہم پر پڑتی رہیں گی.اس لئے کوشش کرو کہ اپنی تمام نیکیاں اپنی اولادوں کو دو اور پھر وہ آگے دیں اور وہ آگے اپنی اولا دوں کو دیں.اور یہ امانت اتنے لمبے عرصے تک محفوظ چلی جائے کہ ہزاروں سالوں تک ہمیں اس کا ثواب ملتا جائے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو نیکی کسی شخص کے ذریعہ سے قائم ہو، وہ جب تک دنیا میں قائم رہے اور جتنے لوگ اُسے اختیار کرتے جائیں اُن سب کا ثواب اُس شخص کے نام لکھا جاتا ہے.پس جو بدلہ ملتا ہے وہ بھی بڑا ہے اور امانت بھی اپنی ذات میں بہت بڑی ہے.اس طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے.الفضل 26 اگست 1936 ء.بحوالہ خطبات محمود.جلد 17 صفحہ 547 تا 559) ۱۵

Page 16

خلاصہ خطبہ جمعہ 6 دسمبر 2013 عملی حالتوں کی اصلاح کی ضرورت : حضور انور نے فرمایا جب ہم اس پہلو کی طرف دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں جو عملی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں، اُس کی حالت کیا ہے؟ تو پھر فکر پیدا ہوتی ہے.سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ہم میں سے ہر ایک معاشرے کی ہر برائی کا مقابلہ کر کے اُسے شکست دے رہا ہے؟ کیا ہم میں سے ہر ایک کے ہر عمل کو دیکھ کر اُس سے تعلق رکھنے والا اور اُس کے دائرے اور ماحول میں رہنے والا اُس سے متاثر ہو رہا ہے، یا پھر ہم ہی معاشرے کے اثر سے متاثر ہو کر اپنی تعلیم اور اپنی روایات کو بھولتے چلے جارہے ہیں.کیا ہم میں سے ہر ایک بھر پور کوشش کرتے ہوئے اپنی اس طرح عملی اصلاح کر رہا ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے جو ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے، یہ پوچھتی ہے کہ کیا ہم نے سچائی کے وہ معیار قائم کر لئے ہیں کہ جھوٹ اور فریب ہمارے قریب بھی نہ پھٹکے؟ کیا ہم نے اپنے دنیاوی معاملات سے واسطہ رکھتے ہوئے آخرت پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے؟ کیا ہم حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہیں؟ کیا ہم ہر ایک بدی سے اور بدعملی سے انتہائی محتاط ہو کر بچنے کی کوشش کرنے والے ہیں؟ کیا ہم کسی کا حق مارنے سے بچنے والے اور ناجائز تصرف سے بچنے والے ہیں؟ کیا ہم پنجگانہ نماز کا التزام کرنے والے ہیں؟ کیا ہم ہمیشہ دعا میں لگے رہنے والے اور خدا تعالیٰ کو انکسار سے یاد کرنے والے ہیں؟ کیا ہم ہر ایسے بدرفیق اور ساتھی کو جو ہم پر بداثر ڈالتا ہے، چھوڑنے والے ہیں؟ کیا ہم اپنے ماں باپ کی خدمت اور اُن کی عزت کرنے والے اور امور معروفہ میں اُن کی بات ماننے والے ہیں؟ کیا ہم اپنی بیوی اور اُس کے رشتہ داروں سے نرمی اور احسان کا سلوک کرنے والے ہیں؟ کیا ہم اپنے ہمسائے کو ۱۶

Page 17

ادنی ادنی خیر سے محروم تو نہیں کر رہے؟ کیا ہم اپنے قصور وار کا گناہ بخشنے والے ہیں؟ کیا ہمارے دل دوسروں کے لئے ہر قسم کے کینے اور بغض سے پاک ہیں؟ کیا ہر خاوند اور ہر بیوی ایک دوسرے کی امانت کا حق ادا کرنے والے ہیں؟ کیا ہم عہد بیعت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی حالتوں کی طرف نظر رکھنے والے ہیں؟ کیا ہماری مجلسیں دوسروں پر تہمتیں لگانے اور چغلیاں کرنے سے پاک ہیں؟ کیا ہماری زیادہ تر مجالس اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کرنے والی ہیں ؟ اگر ان کا جواب نفی میں ہے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے دُور ہیں اور ہمیں اپنی عملی حالتوں کی فکر کرنی چاہئے.اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو ہم میں سے وہ خوش قسمت ہیں جن کو یہ جواب ہاں میں ملتا ہے کہ ہم اپنی عملی حالتوں کی طرف توجہ دے کر بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں.لیکن اگر حقیقت کی آنکھ سے ہم دیکھیں تو ہمیں یہی جواب نظر آتا ہے کہ بسا اوقات معاشرے کی رو سے متاثر ہوتے ہوئے ہم ان باتوں یا ان میں سے اکثر باتوں کا خیال نہیں رکھتے اور معاشرے کی غلطیاں بار بار ہمارے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتی ہیں اور ہم اکثر اوقات بے بس ہو جاتے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے 99.99 فیصد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم عقیدے کے لحاظ سے پختہ ہیں اور کوئی ہمیں ہمارے عقیدے سے متزلزل نہیں کر سکتا، ہٹا نہیں سکتا.لیکن ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ عملی کمزوریاں جب معاشرے کے زور آور حملوں کے بہاؤ میں آتی ہیں تو اعتقاد کی جڑوں کو بھی ہلانا شروع کر دیتی ہیں.شیطان آہستہ آہستہ حملے کرتا ہے.نظامِ جماعت سے دُوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.اور پھر ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو خلافت سے بھی دُوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.پس ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ ایک کمزوری دوسری کمزوری کی جاگ لگاتی ہے اور آخر کا رسب کچھ برباد ہو جاتا ہے.ہم جانتے ہیں کہ احمدیت کی خوبصورتی تو نظامِ جماعت اور نظامِ خلافت کی لڑی میں پرویا جانا ہے.اور یہی ہماری اعتقادی طاقت بھی ہے اور عملی طاقت بھی ہے.اس لئے ۱۷

Page 18

ہمیشہ خلفائے وقت کی طرف سے کمزوریوں کی نشاندہی کر کے جماعت کو توجہ دلائی جاتی رہتی ہے تا کہ اس سے پہلے کہ کوئی احمدی اتنا دور نکل جائے کہ واپسی کا راستہ ملنا مشکل ہو، استغفار کرتے ہوئے اپنی عملی کمزوریوں پر نظر رکھے اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے.اور اللہ تعالیٰ کے احسان کو یادکرے جو اللہ تعالیٰ نے اُس پر کیا ہے.مشرق بعید کے میرے حالیہ دورے کے دوران مجھے انڈونیشیا کے کچھ غیر از جماعت سکالرز اور علماء سے بھی ملنے کا موقع ملا.سنگا پور میں جو reception ہوئی تھی اُس میں آئے ہوئے تھے اور جیسا کہ میں اپنے دورے کے حالات میں بیان کر چکا ہوں کہ اکثر نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمارے علماء کو جماعت احمدیہ کے امام کی باتیں سننی چاہئیں.تو بہر حال اُن کے ایک سوال کے جواب میں میں نے انہیں یہی کہا تھا کہ آج رُوئے زمین پر جماعت احمد یہ ایک واحد جماعت ہے جوملکی یا علاقائی نہیں بلکہ تمام دنیا میں ایک جماعت کے نام سے جانی جاتی ہے.جس کی ایک اکائی ہے، جس میں ایک نظام چلتا ہے اور ایک امام سے منسلک ہے اور دنیا کی ہر قوم اور ہر نسل کا فرد اس میں شامل ہے.پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان اور پیشگوئی کی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ مسلم اُمتہ میں ایک جماعت ہوگی.آپ نے فرمایا تھا ایک جماعت ہوگی جو صحیح رستے پر ہوگی.(سنن الترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فى افتراق هذه الامة حدیث نمبر 2641) اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی صداقت کی دلیل ہے.جو عقل مند اور سعید فطرت مخالفین بھی ہیں اس بات کو سن کر خاموش ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں.لیکن اس دلیل کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنی عملی حالتوں کی طرف ہر وقت نظر رکھنی ہوگی کیونکہ اس زمانے میں شیطان پہلے سے زیادہ منہ زور ہوا ہوا ہے.آجکل جو عملی خطرہ ہے وہ معاشرے کی برائیوں کی بے لگامی اور پھیلاؤ ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ آزادی اظہار اور تقریر کے نام پر بعض برائیوں کو قانونی تحفظ دیا جاتا ہے.اس زمانے سے پہلے برائیاں محدود تھیں.یعنی محلے کی برائی محلے میں یا شہر کی برائی شہر میں یا ملک کی برائی ملک میں ہی تھی.۱۸

Page 19

یا زیادہ سے زیادہ قریبی ہمسائے اُس سے متاثر ہو جاتے تھے.لیکن آج سفروں کی سہولتیں، ٹی وی، انٹرنیٹ اور متفرق میڈیا نے ہر فردی اور مقامی برائی کو بین الاقوامی برائی بنا دیا ہے.انٹرنیٹ کے ذریعہ ہزاروں میلوں کے فاصلے پر رابطے کر کے بے حیائیاں اور برائیاں پھیلائی جاتی ہیں.نوجوان لڑکیوں کو ورغلا کر اُن کی عملی حالتوں کی کمزوری تو ایک طرف رہی ، دین سے بھی دور ہٹا دیا جاتا ہے.گزشتہ دنوں میرے علم میں ایک بات آئی کہ پاکستان میں اور بعض ملکوں میں، وہاں کی یہ خبریں ہیں کہ لڑکیوں کو شادیوں کا جھانسہ دے کر پھر بالکل بازاری بنادیا جاتا ہے.وقتی طور پر شادیاں کی جاتی ہیں پھر طوائف بن جاتی ہیں اور یہ گروہ بین الاقوامی ہیں جو یہ حرکتیں کر رہے ہیں.یقینا یہ خوفناک حالت رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے.اسی طرح نوجوان لڑکوں کو مختلف طریقوں سے نہ صرف عملی بلکہ اعتقادی طور پر بھی بالکل مفلوج کر دیا جاتا ہے.پس جہاں یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان غلاظتوں سے محفوظ رکھے، وہاں ہر احمدی کو بھی اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہوئے ان غلاظتوں سے بچنے کے لئے ایک جہاد کی ضرورت ہے.زمانے کی ایجادات اور سہولتوں سے فائدہ اُٹھانا منع نہیں ہے لیکن ایک احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے زمانے کی سہولتوں سے فائدہ اُٹھا کر تکمیل اشاعت ہدایت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کامددگار بننا ہے نہ کہ بے حیائی، بے دینی اور بے اعتقادی کے زیر اثر آ کر اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کرنا ہے.پس ہر احمدی کے لئے یہ سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے.ہمارے بڑوں کو بھی اپنے نمونے قائم کرنے ہوں گے تا کہ اگلی نسلیں دنیا کے اس فساد اور حملوں سے محفوظ رہیں اور نو جوانوں کو بھی بھر پور کوشش اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اپنے آپ کو دشمن کے حملوں سے بچانا ہوگا.وہ دشمن جو غیر محسوس طریق پر حملے کر رہا ہے ، وہ دشمن جو تفریح اور وقت گزاری کے نام پر ہمارے گھروں میں گھس گھس کر ہماری جماعت کے نوجوانوں اور کمزور طبع لوگوں کو متاثر بھی کر رہا ہے.اُن میں نقص پیدا کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے.بیشک جیسا کہ میں نے کہا، خلفائے احمدیت عملی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ دلاتے رہے ۱۹

Page 20

ہیں.گزشتہ خلفاء بھی اور میں بھی خطبات وغیرہ کے ذریعہ اس نقص کو دور کرنے کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں اور ان ہدایات کی روشنی میں ذیلی تنظیمیں بھی اور جماعتی نظام بھی پروگرام بناتے ہیں تا کہ ہم ہر طبقے اور ہر عمر کے احمدی کو دشمن کے ان حملوں سے بچانے کی کوشش کریں.لیکن اگر ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی اصلاح کی طرف خود توجہ کرے، مخالفین دین کے حملوں کو ناکام بنانے کے لئے کھڑا ہو جاۓ اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ دشمنان دین کی اصلاح کا عزم لے کر کھڑا ہو اور صرف دفاع نہیں کرنا بلکہ حملہ کر کے اُن کی اصلاح بھی کرنی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے اپنا ایک خاص تعلق پیدا کرے تو نہ صرف ہم دین کے دشمنوں کے حملوں کو ناکام بنارہے ہوں گے بلکہ اُن کی اصلاح کر کے اُن کی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بھی ہوں گے.بلکہ اس فتنہ کا خاتمہ کر رہے ہوں گے جو ہماری نئی نسلوں کو اپنے بد اثرات کے زیر اثر لانے کی کوشش کر رہا ہے.اس ذریعہ سے ہم اپنی نئی نسل کو بچانے والے ہوں گے.ہم اپنے کمزوروں کے ایمانوں کے بھی محافظ ہوں گے اور پھر اس عملی اصلاح کی جاگ ایک سے دوسرے کو لگتی چلی جائے گی اور یہ سلسلہ تا قیامت چلے گا.ہماری عملی اصلاح سے تبلیغ کے راستے مزید کھلتے چلے جائیں گے.نئی ایجادات برائیاں پھیلانے کے بجائے ہر ملک اور ہر خطے میں خدا تعالیٰ کے نام کو پھیلانے کا ذریعہ بن جائیں گی.ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ہم حقائق سے کبھی نظریں نہیں پھیر سکتے کیونکہ ترقی کرنے والی قومیں، دنیا کی اصلاح کرنے والی قومیں، دنیا میں انقلاب لانے والی قو میں اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتی ہیں.اگر آنکھیں بند کر کے ہم کہہ دیں کہ سب اچھا ہے تو یہ بات ہمارے کاموں میں روک پیدا کرنے والی ہوگی.ہمیں بہر حال حقائق پر نظر رکھنی چاہئے اور نظر رکھنی ہوگی.ہم اس بات پر خوش نہیں ہو سکتے کہ پچاس فیصد کی اصلاح ہو گئی ہے یا اتنے فیصد کی اصلاح ہوگئی ہے بلکہ اگر ہم نے دنیا میں انقلاب لانا ہے تو سو فیصد کے ٹارگٹ رکھنے ہوں گے.میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اگر عملی اصلاح میں ہم سو فیصد کامیاب ہو جائیں تو ہماری لڑائیاں اور جھگڑے اور مقدمے بازیاں اور ایک دوسرے کو مالی نقصان پہنچانے کی کوششیں ، مال کی ہوس،

Page 21

ٹی وی اور دوسرے ذرائع پر بیہودہ پروگراموں کو دیکھنا، ایک دوسرے کے احترام میں کمی ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش، یہ سب برائیاں ختم ہو جا ئیں.محبت، پیار اور بھائی چارے کی ایسی فضا قائم ہو جو اس دنیا میں بھی جنت دکھا دے.یہ ایسی برائیاں ہیں جو عملاً ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں.جماعت کے اندر بھی بعض معاملات ایسے آتے رہتے ہیں، اس لئے میں نے ان کا ذکر کیا ہے.اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہم میں پیدا ہو جائے تو خدمت دین کے اعلیٰ مقصد کو ہم فضل الہی سمجھ کر کرنے والے ہوں گے.میری اس بات سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم خدمت دین کو تو فضل الہی سمجھ کر ہی کرتے ہیں لیکن سو فیصد عہدیداران اس پر پورا نہیں اترتے.میرے سامنے ایسے معاملات آتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عہدیداروں میں وسعت حوصلہ اور برداشت کی طاقت نہیں ہے.کسی نے اونچی آواز میں کچھ کہ دیا تو اپنی انا اور عزت آڑے آ جاتی ہے.کبھی جھوٹی غیرت کے لبادے اوڑھ لئے جاتے ہیں.پس کسی کام کو فضل الہی سمجھ کر کرنے والا تو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر بات برداشت کرتا ہے.اپنی عزت کے بجائے الْعِزَّةُ لِلہ" کے الفاظ اُسے عاجزی اور انکساری پر مجبور کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں فرمایا کہ میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے احیائے ٹو کے لئے آیا ہوں (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 490.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ تو ہمارے سامنے یہ نمونہ رکھتا ہے کہ آپ کا غلام بھی کہتا ہے کہ مجھ سے کبھی آپ نے سخت الفاظ نہیں کہے، کبھی سخت بات نہیں کہی.اور پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب سے ایک شخص پر کپکپی طاری ہوگئی تو فرمایا.گھبراؤ نہیں ، میں کوئی جابر بادشاہ نہیں.میں تو ایک عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی“.(سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ حدیث نمبر 3312) پس یہ وہ عمل ہے جس کا عملی اظہار ہر عہدیدار کو اپنی عملی زندگیوں میں کرنے کی ضرورت ہے، ہر جماعتی کارکن کو اپنی عملی زندگی میں کرنے کی ضرورت ہے.ہراحمدی کو اپنی عملی زندگیوں میں کرنے ۲۱

Page 22

کی ضرورت ہے.پس اگر کوئی عہدہ ملتا ہے ، کوئی خدمت ملتی ہے تو ہمیشہ مسیح محمدی کے اس فرمان کو سامنے رکھنا چاہئے کہ میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر.(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 20) پس جب ہم اپنی عملی حالتوں میں بیکسی ، غربت اور بے ہنری کے اظہار پیدا کریں گے تو پھر ہی خدمت کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں گے.اور شاید کہ اس سے دخل ہو دار الوصال میں کی امید رکھنے والے بھی ہوں گے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 18 ) اگر یہ نہیں تو ہم دعوے کی حد تک تو بے شک درست ہوں گے کہ زمانے کے امام کو مان لیا لیکن حقیقت میں زبانِ حال سے ہم دعوے کا مذاق اُڑا رہے ہوں گے.کسی غیر کی دشمنی ہمیں نقصان نہیں پہنچا رہی ہو گی بلکہ خود ہمارے نفس کا دوغلا پن ہمیں رسوا کر رہا ہو گا.اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر مستزاد ہے.پس خاص طور پر ہر اُس شخص کو جس کو جماعت کی خدمت پر مامور کیا گیا ہے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور عام طور پر ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کیونکہ حق بیعت زبانی دعووں سے اور صرف ماننے سے ادا نہیں ہوتا بلکہ عمل کی قوت جب تک روشن نہ ہو، کچھ فائدہ نہیں.خلاصہ خطبہ جمعہ 13 دسمبر 2013 اعمال کی اصلاح میں روکاٹ کے اسباب : حضور انور نے فرما یا کسی بھی چیز کی اصلاح تبھی ہوسکتی ہے اور اصلاح کی کوشش کے مختلف ذرائع تبھی اپنائے جا سکتے ہیں جب اس کمی کی وجوہات معلوم ہوں، اسباب معلوم ہوں تا کہ اُن وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے.اگر وجہ قائم رہے تو عارضی اصلاح کے بعد پھر برائی عود ۲۲

Page 23

کرے گی ، واپس آئے گی.اس پہلو سے جب میں نے غور کیا اور مزید پڑھا تو حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک تجزیہ مجھے ملا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریق تحریر اور تقریر کی یہ خوبی ہے کہ ممکنہ سوال اُٹھا کر اُن کا حل بھی مثالوں سے بتاتے ہیں.قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں جس طرح آپ مسئلے کا حل بتاتے ہیں، اس طرح اور کہیں دیکھنے میں نہیں آتا.بہر حال اس وجہ سے میں نے سوچا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبات سے ہی استفادہ کرتے ہوئے اُس کی روشنی میں ان وجوہات کو بھی آپ کے سامنے بیان کروں.اعمال کی اصلاح کے بارے میں جو چیز میں روک بنتی ہیں یا اثر انداز ہوتی ہیں، اُن میں سے سب سے پہلی چیز لوگوں کا یہ احساس ہے کہ کوئی گناہ بڑا ہے اور کوئی گناہ چھوٹا.یعنی لوگوں نے خود ہی یا بعض علماء کی باتوں میں آکر اُن کے زیر اثر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ بعض گناہ چھوٹے ہیں اور بعض گناہ بڑے ہیں اور یہی بات ہے جو عملی اصلاح میں روک بنتی ہے.اس سے انسان میں گناہ کرنے کی دلیری پیدا ہوتی ہے، جرات پیدا ہوتی ہے.برائیوں اور گناہوں کی اہمیت نہیں رہتی.یہ سمجھ لیتے ہیں کہ چھوٹا گناہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے یا اس کی سزا اتنی نہیں ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 339 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 مئی 1936ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی بیمار ہو جاوے خواہ اُس کی بیماری چھوٹی ہو یا بڑی، اگر اس بیماری کے لئے دوانہ کی جاوے اور علاج کے لئے دُکھ نہ اُٹھایا جاوے، بیمار اچھا نہیں ہو سکتا.ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کر دیتا ہے کہ کہیں یہ داغ بڑھتا بڑھتا گل منہ کو کالا نہ کر دے.اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پر ہوتا ہے.صغائر یعنی چھوٹے گناہ سہل انگاری سے کبائر، یعنی بڑے گناہ ہو جاتے ہیں.صغائر وہی داغ چھوٹا ہے جو بڑھ کر آخر کارگل منہ کو سیاہ کر دیتا ہے“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 7.ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پس یہ بات ہمیشہ یادرکھنی چاہئے کہ کسی گناہ کو بھی انسان چھوٹا نہ سمجھے.کیونکہ جب یہ سوچ پیدا ۲۳

Page 24

ہو جائے کہ یہ معمولی گناہ ہے تو پھر بیماری کا پیج ضائع نہیں ہوتا اور حالات کے مطابق یہ چھوٹے گناہ بھی بڑے گناہ بن جاتے ہیں.پس اس لحاظ سے ہم سب کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے تو ہر چھوٹے گناہ کی بھی اور بڑے گناہ کی بھی باز پرس اور سزا رکھی ہے.دیکھتے ہیں کہ غلط کاموں پر روپیہ لگانا ایک برائی ہے جس سے منع فرمایا گیا ہے.آجکل تو جوئے کی مشینیں ہیں، مختلف قسم کے جوئے کی قسمیں ہیں.کئی لوگ ہیں جو لاٹریوں کے بھی بڑے رسیا ہیں.جوئے کی مشینوں پر جاتے ہیں اور ویسے بھی جوا کھیلتے ہیں.لیکن عام زندگی میں جھوٹ نہیں بولتے.عام آدمی کے ساتھ ظلم نہیں کرتے قتل نہیں کرتے.اس لئے کہ یہ لوگ ان برائیوں کو بڑا گناہ سمجھتے ہیں لیکن جوئے اور غلط کاموں میں پیسے لٹانے اور ضائع کرنے کو یہ برا نہیں سمجھتے.تو ایسے شخص کے لئے غلط رنگ میں رقم لٹانا بڑا گناہ ہے.کیونکہ باقی گناہ تو وہ پہلے ہی گناہ سمجھتا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عورت اپنے لباس کو حیا دار نہیں رکھتی.باہر نکلتے ہوئے پردے کا خیال نہیں رکھتی.باوجود احمدی مسلمان ہونے کے اور کہلانے کے ننگے سر، بغیر حجاب کے، بغیر سکارف کے یا چادر کے پھرتی ہے.لباس چست اور جسم کی نمائش کرنے والا ہے.لیکن مالی قربانی کے لئے کہو، کسی چیریٹی میں چندے کے لئے کہو تو کھلا دل ہے، یا جھوٹ سے اُسے نفرت ہے اور برداشت نہیں کرتی کہ اُس کے سامنے کوئی جھوٹ بولے تو اس کے لئے بڑی نیکی چندوں میں بڑھنا یا بڑی نیکی جھوٹ سے نفرت نہیں بلکہ بڑی نیکی قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کرنا ہے کہ اپنے لباس کو حیا دار بناؤ اور پردے کا خیال رکھو.جس کو وہ چھوٹی نیکی سمجھ کر توجہ نہیں کر رہی یہی ایک وقت میں پھر اُس کو بڑی برائی کی طرف بھی دھکیل دے گی.غرض کہ ہر نیکی اور گناہ کا معیار ہر شخص کی حالت کے مطابق ہے اور مختلف حالتوں میں مختلف لوگوں کے عمل نیکی اور بدی کی تعریف اُس کے لئے بدلا دیتے ہیں.پس جب تک یہ خیال رہے کہ فلاں بدی بڑی ہے اور فلاں چھوٹی ہے اور فلاں نیکی بڑی ہے اور فلاں نیکی چھوٹی ہے، اُس وقت تک انسان نہ بدیوں سے بچ سکتا ہے نہ نیکیوں کی توفیق پاسکتا ہے.ہمیشہ ہمارے سامنے یہ بات رہنی چاہئے کہ بڑی بدیاں وہی ہیں جن کے چھوڑنے پر انسان (۲۴)

Page 25

قادر نہ ہو.بہت مشکل پیش آتی ہے اور وہ انسان کی عادت میں داخل ہوگئی ہوں اور بڑی نیکیاں وہی ہیں جن کو کرنا انسان کو مشکل لگتا ہو.یعنی بہت سی بدیاں ایک کے لئے بڑی ہیں اور دوسرے کے لئے چھوٹی اور بہت سی نیکیاں ایک کے لئے بڑی نیکی ہیں اور دوسرے کے لئے چھوٹی.پہلا سب پس اگر ہم نے اپنی عملی اصلاح کرنی ہے تو سب سے پہلے اس خیال کو دل سے نکالنا ہو گا کہ مثلاً زنا ایک بڑا گناہ ہے قبل ایک بڑا گناہ ہے، چوری ایک بڑا گناہ ہے، غیبت ایک بڑا گناہ ہے اور ان کے علاوہ جتنے گناہ ہیں وہ چھوٹے گناہ ہیں.پس اس خیال کو دل سے نکالنا ضروری ہے اور اس خیال کو بھی دل سے نکالنا ہوگا کہ روزہ بڑی نیکی ہے، زکوۃ بڑی نیکی ہے، حج بڑی نیکی ہے اور اس کے علاوہ جتنی نیکیاں ہیں، چھوٹی نیکیاں ہیں جس طرح عام مسلمانوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے.اگر یہ خیال دل سے نہیں نکالتے تو ہمارا عملی حصہ کمزور رہے گا.عملی حصے کی مضبوطی اُس وقت آئے گی جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی اس بات کو سامنے رکھیں گے کہ قرآنِ کریم کے سات سو حکموں پر عمل نہ کرنے والا نجات کا دروازہ اپنے اوپر بند کرتا ہے.پس ہمیں غیروں کی طرح یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ بعض نیکیاں بڑی ہیں اور بعض نیکیاں چھوٹی ہیں.اور اس معاملے میں اُن لوگوں کی جو دوسرے مسلمان ہیں، غکو کی یہ حالت ہے کہ مثلاً وہ سمجھتے ہیں کہ روزہ سب سے بڑی نیکی ہے لیکن نماز با جماعت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، لیکن روزہ بہت ضروری ہے، اس پر بڑی پابندی ہوتی ہے.جس پر زکوۃ فرض ہے ، وہ زکوۃ بچانے کی کوشش تو کرے گا لیکن روزہ ضرور رکھے گا.کیونکہ اگر روزہ نہ رکھے تو اُس کے نزدیک یہ بہت بڑا جرم ہے.پس اگر ہم نے اپنی اصلاح کرنی ہے تو ہمیشہ یہ بات سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر نیکی کو اختیار کرنے اور ہر بدی سے بچنے کی کوشش کرنی ہوگی.دور پھر اعمال کی اصلاح میں روکاوٹ کی جو دوسری وجہ ہے، وہ ماحول ہے یا نقل کا ماڈہ ہے.اللہ (۲۵)

Page 26

تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں نقل کا مادہ رکھا ہوا ہے جو بچپن سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کیونکہ فطرت میں ہے.اس لئے بچہ کی فطرت میں بھی یہ نقل کا مادہ ہے.اور یہ ماڈہ جو ہے یقینا ہمارے فائدے کے لئے ہے لیکن اس کا غلط استعمال انسان کو تباہ بھی کر دیتا ہے یا تباہی کی طرف بھی لے جاتا ہے.یہ نقل اور ماحول کا ہی اثر ہے کہ انسان اپنے ماں باپ سے زبان سیکھتا ہے، یا باقی کام سیکھتا ہے اور اچھی باتیں سیکھتا ہے، اور اچھی باتیں سیکھ کر بچہ اعلیٰ اخلاق والا بنتا ہے.ماں باپ نیک ہیں، نمازی ہیں، قرآن پڑھنے والے ہیں، اُس کی تلاوت کرنے والے ہیں، آپس میں پیار اور محبت سے رہنے والے ہیں، جھوٹ سے نفرت کرنے والے ہیں تو بچے بھی اُن کے زیر اثر نیکیوں کو اختیار کرنے والے ہوں گے.لیکن اگر جھوٹ لڑائی جھگڑا، گھر میں دوسروں کا استہزاء کرنے کی باتیں ، جماعتی وقار کا بھی خیال نہ رکھنا یا اس قسم کی برائیاں جب بچہ دیکھتا ہے تو اس نقل کی فطرت کی وجہ سے یا ماحول کے اثر کی وجہ سے پھر وہ یہی برائیاں سیکھتا ہے.باہر جاتا ہے تو ماحول میں، دوستوں میں جو کچھ دیکھتا ہے، وہ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے.اس لئے بار بار میں والدین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے بچوں کے باہر کے ماحول پر بھی نظر رکھا کریں اور گھر میں بھی بچوں کے جو پروگرام ہیں، جوٹی وی پروگرام وہ دیکھتے ہیں یا انٹر نیٹ وغیرہ استعمال کرتے ہیں اُن پر بھی نظر رکھیں.پھر یہ بات بھی بہت توجہ طلب ہے کہ بچوں کی تربیت کی عمر انتہائی بچپن سے ہی ہے.یہ ہمیشہ یا درکھنا چاہئے.یہ خیال نہ آئے کہ بچہ بڑا ہو گا تو پھر تربیت شروع ہوگی.دوسال، تین سال کی عمر بھی بچے کی تربیت کی عمر ہے.جیسا کہ میں نے کہا، بچہ گھر میں ماں باپ سے اور بڑوں سے سیکھتا ہے اور اُن کو دیکھتا ہے اور اُن کی نقل کرتا ہے.ماں باپ کو کبھی یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ ابھی بچہ چھوٹا ہے، اُسے کیا پتہ؟ اُسے ہر بات پتہ ہوتی ہے اور بچہ ماں باپ کی ہر حرکت دیکھ رہا ہوتا ہے اور لاشعوری طور پر وہ اُس کے ذہن میں بیٹھ رہی ہوتی ہے.اور ایک وقت میں آکے پھر وہ اُن کی نقل کرنا شروع کر دیتا ہے.بچیاں ماؤں کی نقل میں اپنی کھیلوں میں اپنی ماؤں جیسے لباس پہننے کی کوشش کرتی ہیں، اُن کی نقالی کرتی ہیں.لڑکے باپوں کی نقل کرتے ہیں.جو برائیاں یا اچھائیاں ماں باپ میں ہیں، ۲۶

Page 27

اُن کی نقل کریں گے.مثلاً جب یہ بڑے ہوں گے اور ان کو پڑھایا جائے گا کہ یہ برائیاں ہیں اور یہ اچھائیاں ہیں، جیسے مثلاً جھوٹ ہے، یہ بولنا برائی ہے، وعدہ پورا کرنا اچھائی ہے.لیکن ایک بچہ جس نے اپنے ماں باپ کی سچائی کے اعلیٰ معیار نہیں دیکھے، جس نے ماں باپ اور گھر کے بڑوں سے کبھی وعدے پورے ہوتے نہیں دیکھے، وہ تعلیم کے لحاظ سے تو بیشک سمجھیں گے کہ یہ جھوٹ بولنا برائی ہے اور وعدے پورے کرنا نیکی ہے اور اچھائی ہے لیکن عملاً وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اپنے گھر میں اس کے خلاف عمل دیکھتے رہے ہیں.بچوں کی عادتیں بچپن سے ہی پختہ ہو جاتی ہیں، اس لئے وہ بڑے ہو کر اس کو نہیں تسلیم کریں گے.اگر ماں کو بچہ دیکھتا ہے کہ نماز میں سست ہے اور اگر باپ گھر آکر پوچھے کہ نماز پڑھ لی تو کہہ دے کہ ابھی نہیں پڑھی ، پڑھ لوں گی تو بچہ کہتا ہے کہ یہ تو بڑا اچھا جواب ہے.مجھ سے بھی اگر کسی نے پوچھا کہ نماز پڑھ لی تو میں بھی یہی جواب دے دیا کروں گا.ابھی نہیں پڑھی، پڑھ لوں گا.یا یہ جواب سنتا ہے کہ بھول گئی ، یا یہ جواب سنتا ہے کہ پڑھ لی، حالانکہ بچہ سارا دن ماں کے ساتھ رہا اور اُسے پتہ ہے کہ ماں نے نماز نہیں پڑھی.تو بچہ یہ جواب ذہن میں بٹھا لیتا ہے.اسی طرح باپ کی غلط باتیں جو ہیں وہ بچے کے ذہن میں آ جاتی ہیں اور اُن کے جو بھی جواب غلط رنگ میں باپ دیتا ہے، وہ پھر بچہ ذہن میں بٹھا لیتا ہے.تو ماں باپ دونوں بچے کی تربیت کے لحاظ سے اگر غلط تربیت کر رہے ہیں یا غلط عمل کر رہے ہیں تو اُس کو غلط رنگ کی طرف لے جا رہے ہیں.اپنے عمل سے غلط تعلیم اُس کو دے رہے ہیں.اور بچہ پھر بڑے ہو کے یہی کچھ کرتا ہے، عملاً یہی جواب دیتا ہے.اسی طرح ہمسایوں، ماں باپ کی سہیلیوں اور دوستوں کے غلط عمل کا بھی بچے پر اثر پڑ رہا ہوتا ہے.پس اگر اپنی نسل کی ، اپنی اولاد کی حقیقی عملی اصلاح کرنی ہے تا کہ آئندہ عملی اصلاح کا معیار بلند ہو تو ماں باپ کو اپنی حالت کی طرف بھی نظر رکھنی ہوگی.اور اپنی دوستیاں ایسے لوگوں سے بنانے کی ضرورت ہو گی جو عملی لحاظ سے ٹھیک ہوں.حمید (۲۷)

Page 28

خلاصہ خطبہ جمعہ 20 دسمبر 2013 تیر اسبب عملی اصلاح میں روک کا تیسرا سبب فوری یا قریب کے معاملات کو مدنظر رکھنا ہے.جبکہ عقیدے کے معاملات دُور کے معاملات ہیں، ایسے معاملات ہیں جن کا تعلق زیادہ تر بعد کی زندگی سے ہے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ عملی حالت کے معاملات فوری نوعیت کے ہوتے ہیں یا بظاہر انسان سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ ایسی باتیں ہیں جن کا عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے.اگر میں کوئی غلط کام کرلوں تو اس سے خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا جو عقیدہ ہے وہ تو متاثر نہیں ہوتا.مثلاً سنار ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں سونے میں کھوٹ ملا لوں تو اس سے میرے ایک خدا کو ماننے کے عقیدے پہ کوئی حرف نہیں آتا لیکن میری کمائی زیادہ ہو جائے گی.جلد یا زیادہ رقم حاصل کرنے والا میں بن جاؤں گا.چوتھا سبب چوتھا سبب عملی اصلاح کی کمزوری کا یہ ہے کہ عمل کا تعلق عادت سے ہے اور عادت کی وجہ سے کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اور خصوصاً ایسے وقت میں جب مذہب کے ساتھ حکومت نہ ہو.یعنی حکومت کے قوانین کی وجہ سے بعض عملی اصلاحیں ہو جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے اسلام میں جن باتوں کو اخلاقی گراوٹیں کہا جاتا ہے اور اُس کی اصلاح کی طرف اسلام توجہ دلاتا ہے ان میں اسلامی ممالک میں انصاف کا فقدان ہونے کی وجہ سے، دو عملی کی وجہ سے، باوجود اسلامی حکومت ہونے کے اسلامی ممالک میں بھی عملی حالت قابل فکر ہے.اور غیر اسلامی ممالک میں بعض باتیں جن کے لئے اصلاح ضروری ہے، وہ اُنہیں بد عملی اور اخلاقی گراوٹ نہیں سمجھتے ، اس لئے بعض باتوں کی عملی اصلاح نہیں ہوسکتی.پس عملی اصلاح کے لئے حکومت کا ایک کردار ہے.جہاں مذہب اور حکومت کی عملی اصلاح کی تعریف ایک ہے اور عملی اصلاح اُس کے مطابق ہے، وہاں عادتیں قانون کی وجہ سے ختم کی جاسکتی ۲۸

Page 29

ہیں.لیکن جہاں حکومت کا قانون عملی اصلاح کے لئے مددگار نہ ہو، وہاں عادتیں نہیں بدلی جاسکتیں اور عملی کمزوریاں معاشرے کا ناسور بن جاتی ہیں.جیسا کہ آزادی کے نام پر ترقی یافتہ ممالک میں ہم بہت سی عملی کمزوریاں دیکھتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ سے عملی کمزوریاں اب دنیا میں ہر جگہ پھیلائی جارہی ہیں اور ایسے ماحول میں پڑنے والے، ماحول کا حصہ ہونے کی وجہ سے، مستقل ان چیزوں کو دیکھ کر عادتا بعض عملی کمزوریاں اپنا چکے ہیں.اور لاشعوری اور غیر ارادی طور پر بچے اور یا جونو جوان ہیں اُن میں بھی ، لڑکے اور لڑکیوں میں بھی یہ کمزوریاں راہ پکڑ رہی ہیں اور جب عادت پکی ہو جائے تو پھر اُسے چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے.مثلاً نشہ ہے، اس کی عادت پڑ جائے تو چھوڑنا مشکل ہے.ایک شخص یہ قربانی تو کر لیتا ہے کہ تین خداؤں کی جگہ ایک خدا کو مان لے اور یہ تو کبھی نہیں ہوگا کہ جب ایک خدا کو مان لیا تو دوسرے دن اُسے ایک خدا کی جگہ تین خداؤں کا خیال آ جائے.مگر نشہ کرنے والے کے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہوگی کہ نشہ مل جائے.ساری عمر کے عقیدے کو تو ایک شخص چھوڑ سکتا ہے، مگر نشہ کی عادت جو چند مہینوں یا چند سالوں کی عادت ہے اس میں ذراسی نشے کی کمی ہو جائے تو وہ اُسے بے چین کر دیتی ہے.سگریٹ پینے والے بھی بعض ایسے ہی ہیں جو اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر، اپنے بہن بھائیوں کو چھوڑ کر، اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر، اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر جماعت میں بھی داخل ہوئے ، انہوں نے قربانی دی اور احمدی ہو گئے لیکن اگر سگریٹ چھوڑنے کو کہو تو سو بہانے تلاش کریں گے.کسی کا پیٹ پھول جاتا ہے، کسی کو نشہ نہ کرنے سے نیند نہیں آتی ،کسی کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں اُس کے خیال میں ختم ہو جاتی ہیں اور اس کے لئے وہ پھر بے چین رہتے ہیں.اسی طرح یہ صرف اُن کے لئے نہیں جو احمدیت میں داخل ہوئے ہیں، ہر ایک شخص کے لئے ہے.بعض بہت نیک کام کر رہے ہوتے ہیں اور بڑی قربانی کر کے کر رہے ہوتے ہیں لیکن چھوٹی سی عادت نہیں چھوڑ سکتے.پانچواں سبب عملی اصلاح میں روک کا پانچواں سبب بیوی بچے بھی ہیں.یہ عملی اصلاح کی راہ میں حائل ۲۹

Page 30

ہوتے ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 375 خطبہ جمعہ 12 جون 1936ء) بسا اوقات انسان کو بیوی بچوں کی تکالیف عملی طور پر ابتلا میں ڈال دیتی ہیں.مثلاً اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ کسی کا مال نہیں کھانا.اب اگر کسی نے کسی کے پاس کوئی رقم بطور امانت رکھوائی ہو لیکن اُس کا کوئی گواہ نہ ہو، کوئی ثبوت نہ ہو تو جس کے پاس امانت رکھوائی گئی ہے اُس کی نیت میں بعض دفعہ اپنے بیوی بچوں کی ضروریات کی وجہ سے کھوٹ آ جاتا ہے، نیت بد ہو جاتی ہے، اُسے خیال آتا ہے کہ میری بیوی نے کچھ رقم کا مطالبہ مجھ سے کیا تھا اور اس وقت میرے پاس رقم نہیں تھی میں نے مطالبہ پورا نہیں کیا.یا میرے بچے نے فلاں چیز کے لئے مجھ سے رقم مانگی تھی اور میں اُسے دے نہ سکا تھا.اب موقع ہے.یہ رقم مار کر میں اپنے بیوی اور بچے کے مطالبہ کو پورا کر سکتا ہوں یا بچے کی بیماری کی وجہ سے علاج کے لئے رقم کی ضرورت ہے ، رقم نہیں ہے.اس امانت سے فائدہ اُٹھا کر اور یہ رقم خرچ کر کے میں اس کا علاج کروالوں، بعد میں دیکھا جائے گا کہ رقم دینی ہے یا نہیں دینی.یا کسی اور مقصد کے لئے جو بیوی بچوں سے متعلقہ مقصد ہے، انسان کسی دوسرے کی رقم غصب کر لیتا ہے.تو یہ پھر صرف مالی معاملات کی بات نہیں ہے.صرف یہی مثالیں نہیں ہیں.اس آزاد اور ترقی پسند معاشرے میں بعض ماں باپ خاص طور پر اور عموماً یہ بات کرتے ہیں ،لیکن غریب ممالک میں بھی یہ چیزیں سامنے آ جاتی ہیں کہ لاڈ پیار کی وجہ سے بچوں کو اسلامی تعلیم کی پابندی کروانے کی کوشش نہیں کی جاتی.یہ باتیں جو میں کر رہا ہوں، افسوس سے میں کہوں گا کہ یہ ہمارے احمدی معاشرے میں نظر آ جاتی ہیں، وقتا فوقتا سامنے آتی رہتی ہیں.کسی نے کسی کی امانت کھالی.کسی نے کسی کو کسی اور قسم کا مالی دھوکہ دے دیا.کسی نے یتیم کا مال پورا ادا کرنے کا حق ادا نہیں کیا.قضاء میں بعض ایسے معاملات آتے ہیں یا شکایات آتی ہیں کہ کوئی امیر ممالک میں رہنے والا اپنی بیٹی کی شادی پاکستان میں کرتا ہے اور داماد کو پہلے دن ہی کہ دیتا ہے کہ میں نے اپنی بچی بڑے لاڈ پیار سے پالی ہے اور اس کو ہر قسم کی آزادی ہے.اس پر کسی قسم کی پابندی نہ لگانا اور بیٹی کا دماغ باپ کی شہ پر عرش پر پہنچا ہوتا ہے.خاوند کو وہ کوئی چیز نہیں سمجھتی.حالانکہ اسلامی تعلیم ہے کہ بیوی خاوند کے حقوق ادا

Page 31

کرے اور اپنے گھر کی ذمہ داریاں نبھائے ، یہ اُس کے فرائض میں داخل ہے.کبھی لڑ کے پاکستان سے لڑکیاں بیاہ کر لاتے ہیں اور لڑکی کو ظلم کی چکی میں پیتے چلے جاتے ہیں اور لڑکے کے ماں باپ کہتے ہیں کہ لڑکی سب کچھ برداشت کرے، مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں.یہ بچوں کا لاڈ جہاں ماں باپ کی عملی حالت کو برباد کر رہا ہوتا ہے، وہاں گھروں کو بھی برباد کر رہا ہوتا ہے.چھٹا سب چھٹا سبب عملی اصلاح میں روک کا یہ ہے کہ انسان اپنی مستقل نگرانی نہیں رکھتا.یعنی عمل کا خیال ہر وقت رکھنا پڑتا ہے تبھی عملی اصلاح ہو سکتی ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 380 خطبہ جمعہ 12 جون 1936ء) ہر کام کرتے وقت یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس کام کے نتائج نیک ہیں یا نہیں.اس کام کو کرنے کی مجھے اجازت ہے یا نہیں.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس بات پر عمل کر رہا ہوں یا نہیں کہ قرآن کریم کے جو سات سو حکم ہیں اُن پر عمل کرو.کہیں میں ان سے دُور تو نہیں جا رہا.مثلاً دیانت سے کام کرنا ایک اہم حکم ہے.ایک دکاندار کو بھی یہ حکم ہے، ایک کام کرنے والے مزدور کو بھی یہ حکم ہے اور اپنے دائرے میں ہر ایک کو یہ حکم ہے کہ دیانتدار بنو.ایک دکاندار ہے، اُس کے سامنے دیانت سے چلنے کا حکم کئی بار آتا ہے.ایک انجان گا ہک آتا ہے تو اُسے وہ یا کم معیار کی چیز دیتا ہے، یا قیمت زیادہ وصول کرتا ہے، یا اُس مقررہ قیمت پر کم وزن کی چیز دیتا ہے.ایک احمدی دکاندار کا معیار ہمیشہ اچھا ہونا چاہئے ، اُن کا وزن پورا ہونا چاہئے ،کسی چیز میں نقص کی صورت میں گا بک کے علم میں وہ نقص لانا ضروری ہونا چاہئے.منافع مناسب اور کم ہونا چاہئے.اس سے انشاء اللہ تعالیٰ تجارت میں برکت پڑتی ہے، کمی نہیں آتی.اسی طرح ہر میدان کے احمدی کو اپنی دیانت کا حسن ظاہر کرنے کی ضرورت ہے.ساتواں سبب ساتواں سبب اعمال کی اصلاح میں روک کا یہ ہے کہ انسانی تعلقات اور رویے جو ہیں وہ حاوی

Page 32

ہو جاتے ہیں اور خشیت اللہ میں کمی آجاتی ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 383 خطبہ جمعہ 12 جون 1936ء) بسا اوقات لالچ، دوستانہ تعلقات، رشتے داری ، لڑائی ، بغض اور کینے ان اعمال کے اچھے حصوں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے.مثلاً امانت کی جو میں نے مثال دی ہے، دوبارہ دیتا ہوں کہ انسان امانت کو اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھتا کہ خدا تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہوا ہے، بلکہ اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہے کہ اس خاص موقع پر امانت کی وجہ سے اُس کے دوستوں یادشمنوں پر کیا اثر پڑتا ہے.اسی طرح وہ سچ کو اس نقطہ سے نہیں دیکھتا کہ سچ بولنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے بلکہ اس نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے کہ آیا اُسے یا اُس کے دوستوں، عزیزوں کو اس سچ بولنے سے کوئی نقصان تو نہیں پہنچے گا ؟ ایک انسان دوسرے انسان کے خلاف گواہی اس لئے دے دیتا ہے کہ فلاں وقت میں اُس نے مجھے نقصان پہنچایا تھا.پس آج مجھے موقع ملا ہے کہ میں بھی بدلہ لے لوں اور اُس کے خلاف گواہی دے دوں.تو اعمال میں کمزوری اس وجہ سے ہوتی ہے کہ خشیت اللہ کا خانہ خالی ہو جاتا ہے.آٹھواں سبب آٹھواں سبب عملی اصلاح میں روک کا یہ ہے کہ عمل کی اصلاح اُس وقت تک بہت مشکل ہے جب تک خاندان کی اصلاح نہ ہو.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 384 خطبہ جمعہ 12 جون 1936ء) مثلاً دیانتداری اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی یا اُس کا معیار قائم نہیں رہ سکتا، جب تک بیوی بچے بھی پورا تعاون نہیں کرتے.گھر کا سر براہ کتنا ہی حلال مال کمانے والا ہو لیکن اگر اُس کی بیوی کسی ذریعہ سے بھی ہمسایوں کو لوٹتی ہے یا کسی اور ذریعہ سے کسی کو نقصان پہنچاتی ہے، مال غصب کرنے کی کوشش کرتی ہے یا اُس کا بیٹا رشوت کا مال گھر میں لاتا ہے تو اس گھر کی روزی حلال نہیں بن سکتی.خاص طور پر ان گھروں میں جہاں سب گھر والے اکٹھے رہتے ہیں، جوائنٹ فیملی سسٹم ہے اور اُن کے اکٹھے گھر چل رہے ہوتے ہیں.اسی طرح دوسرے اعمال ہیں.جب تک سب گھر والوں کے اعمال میں ایک ہو کر بہتری کی کوشش نہیں ہوگی، کسی نہ کسی وقت ایک دوسرے کو متاثر کر دیں گے.

Page 33

بیوی نیک ہے اور خاوند رزق حلال نہیں کما تا تو تب بھی گھر متاثر ہوگا.نمازوں کی طرف اگر باپ کی توجہ ہے لیکن اپنے بچوں کو تو جہ نہیں دلاتا یا باپ کہتا ہے لیکن ماں توجہ نہیں کر رہی.یا ماں توجہ دلا رہی ہے اور باپ بے نمازی ہے تو بچے اُس کی نقل کریں گے.گزشتہ خطبہ میں بھی میں نے یہ مثالیں دی تھیں.اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے: قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (اتحریم : 66) کہ نہ صرف اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ بلکہ اپنے اہل وعیال کو بھی جہنم کی آگ سے بچاؤ.تمہارا صرف اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچانا کافی نہیں ہے بلکہ دوسروں کو بھی بچانا فرض ہے.اگر دوسروں کو نہیں بچاؤ گے تو وہ تمہیں ایک دن لے ڈوبیں گے.ان آٹھ باتوں کے علاوہ بھی بعض وجوہات عملی اصلاح میں روک کی ہوسکتی ہیں.یہ چند اہم باتیں جیسا کہ میں نے کہی ہیں لیکن اگر ان پر غور کیا جائے تو تقریبا تمام باتیں انہی آٹھ باتوں میں سمٹ بھی جاتی ہیں.حمد خلاصہ خطبہ جمعہ 10 جنوری 2014 عملی اصلاح کے لئے تین باتوں کی ضرورت (1) قوت ارادی (2) قوت علمی (3) قوت عملی حضور نے فرمایا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے عمدہ رنگ میں وضاحت فرمائی ہے کہ اگر عملی اصلاح کے لئے یہ باتیں انسان میں پیدا ہو جا ئیں تو تبھی کامیابی مل سکتی ہے اور یہ تین چیزیں ہیں.نمبر ایک قوت ارادی نمبر دو صحیح اور پورا علم اور نمبر تین قوت عملی، لیکن اصل بنیادی قوتیں دو ہیں، قوت ارادی اور قوت عملی جو درمیان میں ان دونوں کے چیز رکھی گئی ہے، یعنی صحیح اور پور اعلم ہونا، یہ دونوں بنیادی قوتوں پر اثر ڈالتی ہیں.علم کا صحیح ہونا قوت عملی پر بھی اثر ڈالتی ہے اور قوتِ ۳۳

Page 34

ارادی پر بھی اثر ڈالتی ہے.بہر حال پہلے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ قوت ارادی اور قوت عملی ہی دو بنیادی چیزیں ہیں جو عملی اصلاح پر اثر انداز ہوتی ہیں.اس کے لئے ہمیں قوتِ ارادی کو زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے.اور قوت عملی کے نقص کو دور کرنے کی ضرورت ہے.ہمارا ارادہ اگر مضبوط ہو کسی برائی کو روکنے کا تو تبھی وہ برائیاں رک سکتی ہیں اور ارادے کی مضبوطی اُس وقت کام آئے گی جب عمل کی کمزوری کو دور کریں گے، اُس کے نقص کو دور کریں گے.اس کے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی.جب ہم جائزہ لیتے ہیں اس پہلو سے کہ ہماری قوت ارادی کیسی ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جہاں تک ارادے کا تعلق ہے اس میں بہت کم نقص ہے، کیونکہ ارادے کے طور پر جماعت کے تمام یا اکثر افراد ہی تقریباً یہ چاہتے ہیں کہ ان میں تقویٰ اور طہارت پیدا ہو.وہ اسلامی احکام کی اشاعت کر سکیں.اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کا قرب حاصل کر سکیں.حضرت مصلح موعود نے اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے کہ یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ ہماری قوت ارادی تو مضبوط ہے اور طاقتور ہے پھر بھی نتائج صحیح نہیں نکلتے تو پھر یقیناً دو باتوں میں سے ایک بات ہے.یا تو یہ کہ عمل کے لئے حقیقی قوت ارادی جو چاہئے ، اتنی ہمارے اندر نہیں ہے، لیکن عقیدے کی اصلاح کے لئے جتنی قوت ارادی کی ضرورت تھی وہ ہم میں موجود تھی، اس لئے عقیدے کی تو اصلاح ہو گئی لیکن عملی اصلاح کے لئے چونکہ قوت ارادی کی ضرورت تھی، وہ ہم میں موجود نہیں تھی، اس لئے ہم اعمال کی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو سکے.اور پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہماری عبودیت میں بھی کچھ نقص ہے.اور اس وجہ سے قوت عملی مفلوج ہو گئی ہے اور قوت ارادی کے اثر کو قبول نہیں کر رہی.مثلاً ایک طالبعلم ہے، وہ اپنا سبق یاد کرتا ہے مگر یاد نہیں رکھ سکتا.اُس کا جب تک ذہن درست نہیں کر لیا جاتا، اس وقت تک اُسے خواہ کتنا سبق دیا جائے، کتنی بار ہی اُسے یاد کروایا جائے یا کوشش کی جائے یاد کرانے کی ، وہ اُسے یاد نہیں رکھ سکے گا.اس کے لئے ہمیں اپنی عملی اصلاح کی حالتوں کی طرف دیکھنا ہوگا.ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری نیکی کے ارادے سے دماغ کے اس حصے پر ، یا ہماری نیکی کے ارادے دماغ کے اس حصے پر کیوں اثر ۳۴

Page 35

نہیں کرتے جس پر اثر ہونے کے نتیجہ میں عملی اصلاح شروع ہو جاتی ہے.ہمیں ان روکوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اس رستے میں حائل ہوتی ہیں.پھر دیکھنا ہوگا کہ ہمارے عبودیت کے معیار کیا ہیں؟ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری عملی کوشش میں نیک نیتی اور اخلاص و وفا کتنا ہے.پس دو قسم کی روکیں ہیں جو عملی اصلاح کے راستے میں حائل ہوتی ہیں، ایک قوت ارادی میں کمزوری اور دوسرے قوت عملی میں کمزوری.لیکن جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے ان کے درمیان میں ایک اور صورت بھی عملی اصلاح میں کمی کی ہے اور وہ ہے علمی طور پر کمزوری.یہ دونوں طرف اپنا اثر ڈالتی ہے.ہم عملی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ارادہ بھی علم کے مطابق چلتا ہے اور عمل بھی علم کے مطابق چلتا ہے.اس کی مثال یوں ہے کہ اگر کسی انسان کو یہ معلوم نہ ہو کہ ایک ہزار کالشکر اُس کے مکان پر حملہ آور ہونے والا ہے بلکہ صرف اس قدر جانتا ہو کہ کسی نے حملہ کرنا ہے اور ہوسکتا ہے ایک دو آدمی ہوں تو اُس کے مطابق وہ تیاری کرتا ہے.لیکن اگر اسے یہ علم ہو کہ حملہ آور ایک ہزار ہیں تو پھر اس کی تیاری اُس سے مختلف ہوتی ہے.پس علم کی کمی کی وجہ سے نقص پیدا ہو جاتا ہے اور علم کی صحت قوتِ ارادی کو بڑھا دیتی ہے.اسی طرح بعض دفعہ انسان کسی چیز کو اٹھانے کے لئے ، اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور اُسے ہلکی سمجھتا ہے لیکن وہ بھاری ہوتی ہے، اُٹھا نہیں سکتا.لیکن جب ایک دفعہ اندازہ ہو جائے کہ یہ بھاری ہے تو پھر زیادہ قوت صرف کرتا ہے، زیادہ طاقت لگاتا ہے، اُٹھانے کا طریق بدل لیتا ہے تو پھر اُس کو اُٹھا بھی لیتا ہے.پس کوئی زائد طاقت اُس میں دوسری دفعہ نہیں آئی بلکہ علم ہونے کی وجہ سے صحیح علم ہونے کی وجہ سے طاقت اور صحیح طریق پر طاقت کا استعمال اُس نے کیا تو اس میں کامیاب ہو گیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بات یہ بھی بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک انسان میں ایک قوت مواز نہ رکھی ہے جس سے وہ موازنہ کر سکتا ہے دو چیزوں کے درمیان ، جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں کام کرنے کے لئے اتنی طاقت درکار ہے.اور کیونکہ ساری طاقت انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ دماغ میں محفوظ ہوتی ہے.اس لئے پہلی دفعہ جب ایک کام نہ ہو، جیسے وزن اُٹھانے کی مثال دی گئی ہے، وزن نہ اُٹھایا جا سکے تو پھر انسان دماغ کو مزید طاقت بھیجنے کے لئے کہتا

Page 36

ہے اور اس طاقت کے آنے پر چیز اُٹھانے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے.اور یہ قوت مواز نہ بھی علم کے ذریعہ آتی ہے.خواہ اندرونی علم ہو یا بیرونی علم ہو.اندرونی علم سے مراد مشاہدہ اور تجربہ ہے اور بیرونی علم سے مراد باہر کی آوازیں ہیں جو کان میں پڑتی ہیں.جیسے مثال دی گئی تھی باہر کے کسی حملے کی، باہر کے حملے سے ہوشیار کرنے کے لئے باہر کی آواز میں ہوشیار کرتی ہیں انسان کو لیکن یہ جو وزن اُٹھانے کی مثال دی گئی تھی ، اس کے لئے قوت موازنہ نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ پہلے یہ وزن نہیں اُٹھایا گیا کہ تم اسے کم وزن سمجھتے تھے، اگر مثلاً دس کلو تھا تو پانچ کلو سمجھتے تھے اور تھوڑی طاقت لگائی تھی.اب اسے اُٹھانے کے لئے دس کلو کی طاقت لگاؤ تو اُٹھا لو گے.اس اصول کو اگر سامنے رکھا جائے تو جب انسان اس لائحہ عمل کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو قوت موازنہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ مجھے اپنی جدو جہد کے لئے کس قدر طاقت کی ضرورت ہے.بعض دفعہ مسیح علم نہ ہونے کی وجہ سے انسان اعمال کی اصلاح نہیں کر سکتا.اور قوت موازنہ عدم علم کی وجہ سے اُسے صحیح خبر نہیں دیتی کہ اس کی عملی اصلاح کے لئے کس قدر طاقت کی ضرورت ہے.پس قوتِ موازنہ انسان کو ہوشیار کرتی ہے اور یہی ہے جو عدم علم کی وجہ سے اُسے غافل بھی کرتی ہے.گویا اصلاح اعمال کے لئے تین چیزوں کی مضبوطی کی ضرورت ہے.ایک قوتِ ارادی کی مضبوطی کی ضرورت ہے، ایک علم کی زیادتی کی ضرورت ہے اور ایک قوت عملیہ میں طاقت کا پیدا کرنا، یہ بھی ضروری ہے.یہ بھی یادر ہے کہ علم کی زیادتی در حقیقت قوت ارادی کا حصہ ہوتی ہے کیونکہ علم کی زیادتی کے ساتھ قوت ارادی بڑھتی ہے.یا کہہ سکتے ہیں کہ عمل کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے.ان سب باتوں کا خلاصہ یہ بنے گا کہ عملی اصلاح کے لئے ہمیں تین چیزوں کی ضرورت ہے، پہلے قوت ارادی کی طاقت کہ وہ بڑے بڑے کام کرنے کی اہل ہو.علم کی زیادتی کہ ہماری قوتِ ارادی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتی رہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے اور صحیح کی تائید کرنی ہے اور اُس پر عمل کرنے کے لئے پورا زور لگانا ہے.غفلت میں رہ کر انسان مواقع نہ گنوا دے.تیسرے قوت عملیہ کی طاقت کہ ہمارے اعضاء ہمارے ارادے کے تابع چلیں، بد ارادوں کے نہیں، نیک ارادوں کے، اور اُس کا

Page 37

حکم ماننے سے انکار نہ کریں.یہ باتیں گناہوں سے نکالنے اور اعمال کی اصلاح کا بنیادی ذریعہ ہیں.اپنی قوتِ ارادی کو ہمیں اُس زبر دست افسر کی طرح بنانا ہوگا جو اپنے حکم کو اپنی طاقت اور قوت اور اصولوں کے مطابق منواتا ہے اور کسی مصلحت کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دیتا.ہمیں چھوٹے بڑے گناہوں کی اپنی من مانی تعریفیں بنا کر اپنے اوپر غالب آنے سے روکنا ہوگا.پس ہمیں اپنی عملی اصلاح کے لئے ان باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، ان باتوں کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اپنی قوت ارادی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، قوت عملی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں اور ہماری صلاحیتیں جو ہیں اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں طاقتیں دی ہیں وہ زنگ لگ کے ختم نہ ہو جائیں.خلاصہ خطبہ جمعہ 17 جنوری 2014 قوت ارادی کا مطلب : حضور نے فرمایا یہ تو ہم نے دیکھ لیا کہ عملی اصلاح میں جن تین باتوں کی ضرورت ہے اُن میں سب سے پہلی قوت ارادی ہے.یہ قوت ارادی کیا چیز ہے؟ ہم میں سے بعض کے نزدیک یہ عجیب بات ہوگی کہ قوت ارادی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ اکثر یہ کہیں گے کہ قوت ارادی کے جواپنے الفاظ ہیں، اُن سے ہی ظاہر ہے کہ یہ کسی کام کو کرنے کے مضبوط ارادے اور اُسے انجام بجالانے کی ، انجام دینے کی قوت ہے.یہاں یہ سوال اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے کہ یہ قوتِ ارادی کیا چیز ہے؟ تو اس بارے میں واضح ہونا چاہئے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے احسن رنگ میں اس کا بیان فرمایا ہے کہ قوتِ ارادی کا مفہوم عمل کے لحاظ سے ہر جگہ بدل جاتا

Page 38

ہے.پس یہ بنیادی بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے اور جب یہ بات اپنے سامنے رکھیں گے تو پھر ہی اس نج پر سوچ سکتے ہیں کہ دین کے معاملے میں قوت ارادی کیا چیز ہے؟ پس واضح ہو کہ دین کے معاملے میں قوتِ ارادی ایمان کا نام ہے.اور جب ہم اس زاویے سے دیکھتے ہیں تو پھر پتا چلتا ہے کہ عملی قوت ایمان کے بڑھنے سے بڑھتی ہے.اگر پختہ ایمان ہو اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر انسان کے کام خود بخود ہوتے چلے جاتے ہیں.ہر مشکل اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے آسان ہوتی چلی جاتی ہے.عملی مشکلات اس ایمان کی وجہ سے ہوا میں اُڑ جاتی ہیں اور آسانی سے انسان اُن پر قابو پالیتا ہے اور یہ صرف ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ عملاً اس کے نمونے ہم دیکھتے ہیں.جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے پر نظر ڈالتے ہیں تو ایمان سے پہلے کی عملی حالتوں اور ایمان کے بعد کی عملی حالتوں کے ایسے حیرت انگیز نمونے نظر آتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو لوگ ایمان لائے وہ کون لوگ تھے ، ان کی عملی حالت کیا تھی ؟ تاریخ ہمیں اس بارے میں کیا بتاتی ہے؟ اُن ایمان لانے والوں میں چور بھی تھے، اُن میں ڈاکو بھی تھے ، اُن میں فاسق و فاجر بھی تھے، اُن میں ایسے بھی تھے جو ماؤں سے نکاح بھی کر لیتے تھے ، ماؤں کو ورثے میں بانٹنے والے بھی تھے.اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے والے بھی تھے.اُن میں جواری بھی تھے جو ہر وقت جوا کھیلتے رہتے تھے، اُن میں شراب خور بھی تھے اور شراب کے ایسے رسیا کہ اس بارے میں اُن کا مقابلہ کوئی کر ہی نہیں سکتا.شراب پینے کو ہی عزت سمجھتے تھے.ایک دوسرے پر شراب پینے پر فخر کرتے تھے کہ میں نے زیادہ پی ہے یا میں زیادہ پی سکتا ہوں.ایک شاعرا اپنی بڑائی اور فخر اس بات پر ظاہر کرتا ہے کہ میں وہ ہوں جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر بھی شراب پیتا ہوں.پانی کو تو ہاتھ ہی نہیں لگاتا.جواری اپنے جوے پر فخر کرتے ہوئے یہ کہتا تھا کہ میں وہ ہوں جو اپنا تمام مال جوے میں لٹا دیتا ہوں اور پھر مال آتا ہے تو پھر اُسے جوے میں لٹا دیتا ہوں.شاید آج بڑے سے بڑا جواری بھی کھل کر یہ اعلان نہ کرتا ہو.بہر حال یہ حالت اُس وقت اُن کی تھی.پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو اُن کی کس طرح حالت پلٹی، کیسا انقلاب اُن میں پیدا ہوا، کیسی

Page 39

قوت ارادی اس ایمان نے اُن میں پیدا کی؟ اس کے واقعات بھی تاریخ ہمیں بتاتی ہے.تو حیرت ہوتی ہے.کس طرح اتنی جلدی اتنا عظیم انقلاب اُن میں پیدا ہو گیا؟ ایمان لاتے ہی اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب دین کی تعلیم پر عمل کے لئے ہم نے اپنے دل کو قوی اور مضبوط کرنا ہے.انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ خدا تعالیٰ کے احکامات کے خلاف اب ہم نے کوئی قدم نہیں اٹھانا.انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم ہمارے لئے حرف آخر ہے.اُن کا یہ فیصلہ اتنا مضبوط ، اتنا پختہ اور اتنے زور کے ساتھ تھا کہ اُن کے اعمال کی کمزوریاں اُس فیصلے کے آگے ایک لمحے کے لئے بھی نہ ٹھہر سکیں.اُن کے ایسے حالات بدلے کہ وہ خطرناک سے خطرناک مصیبت اپنے پر وارد کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور نہ صرف تیار ہوئے بلکہ اس قوت ارادی نے جو انہوں نے اپنے اندر پیدا کی ، اُن کے اعمال کی کمزوری کو اس طرح پرے پھینک دیا اور اُن سے دور کر دیا ، جس طرح ایک تیز سیلاب کا ریلا ایک تنکے کو بہا کر لے جاتا ہے.پس اگر اس قسم کی قوت ارادی پیدا ہو جائے اور اس حد تک ایمان پیدا ہو جائے تو پھر لوگوں کے اصلاح اعمال کے لئے اور طریق اختیار کرنے کی ضرورت نہیں رہتی.چودہ سو سال پہلے اصلاح کا عمل قوتِ ایمان کی وجہ سے جو انقلاب لایا، اُس کی مثال اس وسیع پیمانے پر دنیا میں اور کہیں نظر نہیں آتی.کس طرح حیرت انگیز طور پر دنیا میں یہ انقلاب بر پا ہوا.لیکن اس سے ملتی جلتی کئی مثالیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ماننے والوں میں ہمیں نظر آتی ہیں.تمباکو نوشی گوحرام تو نہیں، بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو برا فرمایا ، بلکہ ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ شاید یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتی تو منع فرما دیتے.لیکن ایک برائی بہر حال ہے اور اس میں نشہ بھی ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک سفر کے دوران جب حقے سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو آپ کے صحابہ نے جو حقہ پینے کے عادی تھے، اپنے حقے کو توڑ دیا اور پھر تمباکو نوشی کے قریب بھی نہیں پھٹکے.پس یہ نمونے ہیں جو ہمیں قائم کرنے کی ضرورت ہے.کسی قانون سے ڈر کر یا اپنے معاشرے

Page 40

سے ڈر کر ہی برائیاں نہیں چھوڑ نیں یا اُن سے بچنا اس لئے نہیں کہ ماں باپ کا خوف ہے اُن میں یا معاشرے کا خوف ہے.یہ سوچ نہیں ہونی چاہئے بلکہ سوچ یہ ہونی چاہئے ، ہم نے برائی اس لئے چھوڑنی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا.یا اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے منع فرمایا ہے تو ہم نے اس سے رکنا ہے.مسلمان ملکوں میں اگر شراب کھلے عام نہیں ملتی.پاکستان وغیرہ میں تو مجھے پتا ہے، قانون اب اس کی اجازت نہیں دیتا تو چھپ کر ایسی قسم کی شراب بنائی جاتی ہے جو دیسی قسم کی شراب ہے اور پھر پیتے بھی ہیں، اور اس کا نشہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے.امیر طبقہ اور اور بہانوں سے اعلیٰ قسم کی شراب کا بھی انتظام کر لیتا ہے.پھر میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ سٹوڈنٹ، یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ کو میں نے دیکھا ہے کہ ایسے سیرپ یا دوائیاں جن میں الکوحل ملی ہوتی ہے، خاص طور پر کھانسی کے سیرپ، اُس کو نشے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور پھر اس کا نقصان بھی ہوتا ہے، کیونکہ اس میں دوسری دوائیاں بھی ملی ہوتی ہیں.پس ایسے معاشرے میں بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے، اپنی قوتِ ارادی سے ان برائیوں سے بچنے کی ضرورت ہے.آجکل یہاں یورپین ملکوں میں بھی علاوہ ایسے نشوں کے جو زیادہ خطر ناک ہیں ، شیشے کے نام سے بھی ریسٹورانوں میں، خاص طور پر مسلمان ریسٹورانوں میں نشہ ملتا ہے.اسی طرح امریکہ میں حقے کے نام سے نشہ کیا جاتا ہے.وہ خاص قسم کا حقہ ہے، یا کیا کہتے ہیں اُس کو؟ اور یہاں ہمارے مجھے پتا لگا ہے بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یہ شیشہ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس میں نشہ نہیں ہے یا کبھی کبھی استعمال کرنے سے کچھ نہیں ہوتا.کوئی حرج نہیں ہے.یا درکھیں کہ کبھی کبھی کے استعمال سے ہی انسان بڑے نشوں میں ملوث ہو جاتا ہے اور پھر اس سے پیچھے ہٹنا بہت مشکل ہو جاتا ہے.پس ابھی سے اپنی قوت ارادی سے کام لینا ہوگا اور اس برائی سے چھٹکارا پانا ہوگا.اور اس کے لئے اپنے ایمان کو دیکھیں.ایمان کی گرمی ہی قوتِ ارادی پیدا کر سکتی ہے جو فوری طور پر بڑے فیصلے کرواتی ہے جیسا کہ صحابہ کے نمونے میں ہم نے دیکھا.

Page 41

قوت علمی کا مطلب : اس کے ساتھ ہی جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ قوت علمی ہے، اگر قوت علمی کسی میں ہو تو عمل کی جو کمزوری علم کی وجہ سے ہوتی ہے، وہ دور ہو جاتی ہے.جس کے لئے عام دنیاوی مثال یہ ہے کہ بچپن کی بعض عادتیں بچوں میں ہوتی ہیں.کسی کو مٹی کھانے کی عادت ہے تو اس کے نقصان کا جب علم ہوتا ہے تو پھر وہ کوشش کر کے اس کو روکتا ہے، اپنے آپ کو روکتا ہے.اور بہت سی عادتیں ہیں.مثلاً ایک بچی مجھے پتا ہے کہ یہ عادت تھی کہ رات کو اپنے بال نوچتی تھی سوتے ہوئے، تو زخمی کر لیتی تھی.لیکن اب بڑی ہو رہی ہے آہستہ آہستہ تو اُس کو احساس بھی ہو رہا ہے اور کوشش کر کے اس عادت سے چھٹکارا پا رہی ہے.تو بہر حال یہ عادت علم ہونے سے ختم ہو جاتی ہے.پس اسی طرح جس کو کچھ خدا کا خوف ہے، اگر اُسے عمل کے گناہ اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا صحیح احساس دلا دیا جائے اور اسے اس بات پر مضبوط کر دیا جائے کہ گناہ سے اللہ تعالیٰ کس طرح ناراض ہوتا ہے تو پھر وہ گناہ سے بچ جاتا ہے.قوت عملی کا مطلب : پھر تیسری چیز جس سے عملی کمزوری سرزد ہوتی ہے وہ عملی قوت کا فقدان ہے.بہر حال یہ تینوں قسم کے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور دنیا میں یہ بیماریاں بھی موجود ہیں.بعض ایسے لوگ ہیں جن کے عمل کی کمزوری کی وجہ ایمان میں کامل نہ ہونا ہے.بعض لوگ ایسے ہیں جن میں عمل کی کمزوری اس وجہ سے ہے کہ اُن کا علم کامل نہیں ہے، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایمان اور علم رکھتے ہیں لیکن دوسرے ذرائع سے اُن پر ایسا زنگ لگ جاتا ہے کہ دونوں علاج اُن کے لئے کافی نہیں ہوتے اور بیرونی علاج کی ضرورت ہوتی ہے.کسی سہارے کی ضرورت ہے.جیسے کسی کی ہڈی ٹوٹ جائے تو بعض دفعہ بعض پلستر لگا کر باہر سہارا دیا جاتا ہے، ہڈی جوڑنے کے لئے ، بعض دفعہ آپریشن کر کے پلیٹیں ڈالی جاتی ہیں تا کہ ہڈی مضبوط ہو جائے اور پھر آہستہ آہستہ بڑی جڑ جاتی ہے اور وہ سہارے ۴۱

Page 42

دور کر دیئے جاتے ہیں.تو اسی طرح بعض انسانوں کے لئے کچھ عرصے کے لئے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ سہارا اُس میں اتنی طاقت پیدا کر دیتا ہے کہ وہ خود فعال ہو جاتا ہے اور عملی کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں.پس جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ ہمارا نظامِ جماعت، ہمارے عہدے دار، ہماری ذیلی تنظیمیں ان عملی کمزوریوں کو دور کرنے کا ذریعہ بنیں.لیکن اگر خود یہ لوگ جو عہد یدار ہیں ان کی قوت ارادی میں کمی ہے علم میں کمی ہے اور عمل میں کمی ہے تو کسی کا سہارا کس طرح بن سکیں گے.پس جماعتی ترقی کے لئے نظام کے ہر حصے کو ، بلکہ ہر احمدی کو اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھی ضرورت ہے اور اپنے دوستوں اور قریبیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے تا کہ جماعت کا ہر فرد عملی اصلاح کے اعلیٰ معیاروں کو چھونے والا بن جائے اور اس لحاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.خلاصہ خطبہ جمعہ 24 جنوری 2014 لمسلہ کے مربیان اور واعظین کے فرائض : حضور نے فرمایا میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے مربیان ، ہمارے علماء اور ہمارے وہ عہدے داران اور امراء جن کو نصائح کا موقع ملتا ہے یا جن کے فرائض میں یہ داخل ہے اور ان عہدے داروں میں ذیلی تنظیموں کے عہدے دار بھی شامل ہیں، خاص طور پر ان باتوں کو سامنے رکھیں تا کہ جماعت کے افراد کی عملی اصلاح میں اپنا کردار بھر پور طور پر ادا کر سکیں.اس بارے میں بہت سی باتیں میں جماعت کے سامنے وقتا فوقتاً پیش کرتا رہتا ہوں اور اب ایم.ٹی.اے کی نعمت کی وجہ سے جماعت کے افراد جہاں کہیں بھی ہیں اگر وہ ایم.ٹی.اے کے ذریعہ سے رابطہ رکھتے ہیں تو میری باتیں سن لیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن پر اثر بھی ہوتا ہے یا کم از کم اچھی تعداد میں

Page 43

لوگوں پر اثر ہوتا ہے.لیکن مربیان، امراء اور عہدے داران کا کام ہے کہ اپنے پروگرام اس نہج سے رکھیں کہ یہ پیغام اور اس بناء پر بنائے ہوئے پروگرام بار بار جماعت کے سامنے آئیں تا کہ ہر احمدی کے ذہن میں اُس کا دائرہ عمل اچھی طرح واضح اور راسخ ہو جائے.پس یہ بہت اہم چیز ہے جسے اُن سب کو جن کے سپرد ذمہ داریاں ہیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے.اصلاح کے ذرائع کا جوسب سے پہلا حصہ ہے، جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے وہ قوتِ ارادی کی مضبوطی ہے.یا دوسرے لفظوں میں ایمان ہے جس کے پیدا کرنے کے لئے انبیاء دنیا میں آتے ہیں اور تازہ اور زندہ معجزات دکھاتے ہیں وہ انبیاء.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کے پاس تو اللہ تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات کا اتنا وافر حصہ ہے کہ اتنا سامان کیا، اس سامان کے قریب قریب بھی کسی اور کے پاس موجود نہیں.اور اسلام کے باہر کوئی مذہب دنیا میں ایسا نہیں جس کے پاس خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ کلام اُس کے زندہ معجزات اور اُس کی ہستی کا مشاہدہ کرانے والے نشانات موجود ہوں، جو انسانی قلوب کو ہر قسم کی آلائشوں سے صاف کرتے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سے لبریز کر دیتے ہیں.لیکن باوجود اس ایمان کے اور باوجود ان تازہ اور زندہ معجزات کے پھر کیوں ہماری جماعت کے اعمال میں کمزوری ہے؟ اس کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خیال کا اظہار یوں فرمایا ہے کہ وجہ یہ ہے کہ سلسلے کے علماء، مربیان اور واعظین نے اس کو پھیلانے کی طرف خاص توجہ نہیں دی.یہ حضرت مصلح موعود کی بات جس طرح آج سے پچھہتر ، چھہتر سال پہلے صحیح تھی ، آج بھی صحیح ہے اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے.اور جوں جوں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے دور جارہے ہیں ہمیں اس طرف مکمل planning کر کے توجہ کی ضرورت ہے.پس آپ کا یہ فرمانا آج بھی قابل توجہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ وفات مسیح پر جس شد و مد سے تقریریں کرتے ہیں یا معترضین کے اعتراضات پر حوالوں کے حوالے نکال کر جو اُن کے یعنی اُن معترضین کے بزرگوں کے اقوال ہیں ، معترضین کے سامنے ہم پیش کرتے ہیں اور اُن کا منہ بند کر دیتے ہیں.اتنی کوشش جماعت کے افراد کے سامنے جماعت کی ۴۳

Page 44

صحیح تعلیم پیش کرنے کی نہیں ہوئی یا کم از کم علماء کی طرف سے نہیں ہوتی.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے لوگ تو مل جائیں گے جو وفات مسیح کے دلائل جانتے ہوں یا مولوی کے اعتراضات کے منہ توڑ جواب دے سکتے ہوں.یہاں بھی آپ دیکھیں بعض چینلز پر یا انٹرنیٹ پر مولوی جو اعتراض کرتے ہیں اُن کے جواب اور بعض دفعہ بڑے عمدہ اور احسن رنگ میں جواب ایک عام احمدی بھی دے دیتا ہے.مجھے بھی بعض لوگ ٹی وی کے حوالے سے اپنی گفتگو کے بارے میں رپورٹ بھجواتے ہیں اور اپنے جوابات بھی لکھتے ہیں اور جواب بھی اکثر ان کے اچھے اور علمی ہوتے ہیں.پس اس لحاظ سے تو ہم ہتھیاروں سے لیس ہیں مگر ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جنہیں یہ علم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کو کس رنگ میں پیش کیا ؟ آپ نے معرفت اور محبت الہی کے حصول کے کیا طریق بتائے؟ اُس کا قرب حاصل کرنے کی آپ نے کن الفاظ میں تاکید کی.خدا تعالیٰ کے تازہ کلام اور اُس کے معجزات و نشانات آپ پر کس شان سے ظاہر ہوئے.اس لئے بعض دفعہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ ایک شخص وفات مسیح کا تو قائل ہوتا ہے، اُس کی دلیل بھی جانتا ہے.ماں باپ کی وراثت میں اُسے احمدیت بھی مل گئی ہے لیکن ان باتوں کا علم ہونے کے باوجود، کہ یہ سب کچھ جانتا ہے ، دوسری طرف ان باتوں کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ایمانی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے ایمان بھی ڈانواڈول ہونے لگتا ہے اور عملی کمزوریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.پس بیشک وفات مسیح کے مسئلے میں تو ایک شخص بڑا پکا ہوتا ہے لیکن اس مسئلے کے جاننے سے اُس کی عملی اصلاح نہیں ہو سکتی.اس لئے اس پہلو سے جماعت میں بعض جگہ کمزوری نظر آتی ہے.پس جب تک اس طرف ہماری جماعت کے علماء، مربیان اور وہ تمام امراء اور عہدے داران جن کے ذمہ جماعت کے سامنے اپنے نمونے پیش کرنے اور اصلاح کے کام بھی ہیں، اس بات کی طرف ویسی توجہ نہیں کرتے جیسی کرنی چاہئے اور جماعت کے ہر فرد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کے ساتھ جوڑنے کی کوشش نہیں کرتے جو کوشش کرنے کا حق ہے، اُس وقت تک جماعت کا وہ طبقہ جو قوت ارادی کی کمزوری کی وجہ سے عملی اصلاح نہیں کر سکتا، جماعت میں کثرت ۴۴

Page 45

سے موجود رہے گا.ہمیں اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے اور جائزے کی ضرورت ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں یہ شوق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، رمضان میں ایک مہینہ نہیں یا ایک مرتبہ اعتکاف بیٹھ کر پھر سارا سال یا کئی سال اس کا اظہار کر کے نہیں بلکہ مستقل مزاجی سے اس شوق اور لگن کو اپنے اوپر لاگو کر کے، تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب مستقل طور پر حاصل ہو، ہم میں سے کتنے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ پیار کا سلوک کرتے ہوئے دعاؤں کی قبولیت کے نشان دکھاتا ہے، اُن سے بولتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر یہ معیار حاصل کرنا یا حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہر احمدی کا فرض ہے.ہمارے علماء، ہمارے مربیان، ہمارے عہدے داران اپنے اپنے دائرے میں افرادِ جماعت کے سامنے اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کی کوشش کے لئے بار بار ذکر نہیں کرتے ، یا اُس طرح ذکر نہیں کرتے جس طرح ہونا چاہئے ، یا اُن کے اپنے نمونے ایسے نہیں ہوتے جن کو دیکھ کر اُن کی طرف توجہ پیدا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے صحابہ کا بار بار ذکر کر کے اس بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کی نصرت اور نشانات کے واقعات جو اُن بزرگوں کے ساتھ ہوئے شدت سے نہیں دہرائے جاتے اور یہ یقین پیدا نہیں کرواتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کو کسی خاص وقت اور اشخاص کے لئے مخصوص نہیں کر دیا بلکہ آج بھی اللہ تعالیٰ اپنی صفات کا اظہار کرتا ہے.اگر ان باتوں کا بار بار ذکر ہو اور یہ تعلق پیدا کرنے کے طریقے بتائے جائیں اور اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کا ذکر کیا جائے تو پھر دعا کی قبولیت کے فلسفے کی سمجھ بھی آجاتی ہے اور نشانات بھی ظاہر ہوتے ہیں.پس یہ بات عام طور پر بتانے کی ضرورت ہے کہ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق سے جڑ کر اللہ تعالیٰ سے قرب کا تعلق پیدا کیا جاسکتا ہے.نشانات صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات یا زمانے تک محدود نہیں تھے یا مخصوص نہیں تھے بلکہ اب بھی خدا

Page 46

تعالیٰ اپنی تمام تر قدرتوں کے ساتھ جلوہ دکھاتا ہے.پس نیکیوں کو حاصل کرنے کی تڑپ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی تڑپ ہماری جماعت میں عام ہو جائے تو ایک بہت بڑا طبقہ ایسا پیدا ہوسکتا ہے جو گناہ کو بہت حد تک مٹادے گا، گناہ کو مکمل طور پر مٹانا تو مشکل کام ہے، اس کا دعویٰ تو نہیں کیا جاسکتا لیکن بہت حد تک گناہ پر غالب آیا جاسکتا ہے.یا اکثر حصہ جماعت کا ایسے لوگوں پر مشتمل ہوگا اور ہوسکتا ہے جو گناہوں پر غالب آ جائے.پس اس کے لئے ہمارے مربیان اور امراء اور عہدے داران کو اپنے اپنے دائرے میں اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ بتا کر اصلاح کرنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آپ کی کامل پیروی کرنے والے خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے اور ایسے لوگوں کی اکثر دعاؤں کو خدا تعالیٰ سنتا ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت میں ایسے لوگ ہیں اور مجھے لکھتے بھی رہتے ہیں.بعض واقعات کا مختلف وقتوں میں ذکر بھی ہوتا رہتا ہے، میں بیان بھی کرتا رہتا ہوں.پس ایسے واقعات نقل کی تحریک کرنے کے لئے بیان کئے جاتے ہیں.انہیں سُن کر نقل کرنا چاہئے تا کہ خدا تعالیٰ سے قرب کا رشتہ قائم ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ دنیا میں جس قدر قو میں ہیں کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہو اور دعاؤں کو سنتا ہو.کیا کوئی عیسائی یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے یسوع کو خدا مانا ہے.وہ میری دعا کو سنتا اور جواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں.بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے، جس نے کہا اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن : ۶۱) تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا.پس یہ باتیں بار بار جماعت کے سامنے بیان کی جائیں تو یقیناً اس میں طاقت پیدا ہو سکتی ہے.یا جماعت کے ایک بھاری حصے میں یہ طاقت پیدا ہو سکتی ہے اور اُس کی قوتِ ارادی ایسی مضبوط ہو سکتی ہے کہ وہ ہزاروں گناہوں پر غالب آ جائے اور اُن سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے

Page 47

اور اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا تعلق پیدا ہو جائے جو کبھی ڈانوا ڈول ہونے والا نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا یہی مقصد تھا کہ انسانیت کو گناہوں سے بچایا جائے اور اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا تعلق پیدا ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کی رضا ہر چیز پر مقدم ہو جائے.عبادت سے بچنے کے بہانے تلاش کرنے کی بجائے یا فرض سمجھ کر جلدی جلدی ادا کرنے کی بجائے سر سے گلے سے ایک بوجھ ہے جو اتارنا ہوتا ہے جس طرح، اُس طرح اتارنے کی بجائے ایک شوق پیدا ہو.پس اگر ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں کام شروع کر دے تو ایک واضح تبدیلی نظر آسکتی ہے.اس زمانے میں جبکہ علم کے نام پر سکولوں میں مختلف برائیوں کو بھی بچوں کو بتایا جاتا ہے.ہمارے نظام کو بہت بڑھ کر بچوں اور نو جوانوں کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے.ماں باپ کو اپنی حالتوں کی طرف نظر کرتے ہوئے اُس علم کے نقصانات سے اپنے آپ کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے جو بچوں کو علم کی آگاہی کے نام پر بچپن میں سکول میں دیا جاتا ہے.ماں باپ کو بھی پتا ہونا چاہئے تا کہ اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنے بچوں کو بھی بچائیں.یہاں بہت چھوٹی عمر میں بعض غیر ضروری باتیں بچوں کو سکھا دی جاتی ہیں اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اچھے برے کی تمیز ہو جائے.جبکہ حقیقت میں اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی بلکہ بچوں کی اکثریت کے ذہن بچپن سے ہی غلط سوچ رکھنے والے بن جاتے ہیں.کیونکہ اُن کے سامنے اُن کے ماں باپ کے نمونے یا اُس کے ماحول کے نمونے برائی والے زیادہ ہوتے ہیں، اچھائی والے کم ہوتے ہیں.پس مربیان، عہدے داران، ذیلی تنظیموں کے عہدے داران، والدین ان سب کو مل کر مشترکہ کوشش کرنی پڑے گی کہ غلط علم کی جگہ صحیح علم سے آگاہی کا انتظام کریں.سکولوں کے طریق کو ہم روک نہیں سکتے ، وہاں تو ہم دخل اندازی نہیں کر سکتے لیکن گندگی اور بے حیائی کا فرق بتا کر ، بچوں کو اعتماد میں لے کر اپنے عملی نمونے دکھا کر ماحول کے اثر سے بچا سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو احسن رنگ میں اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 48

خلاصہ خطبہ جمعہ 31 جنوری 2014 عملی اصلاح کے لئے چار سہاروں کی ضرورت (1) ایمان (2) عمل (3) نگرانی (4) جبر حضور نے فرمایا گزشتہ خطبہ میں قوت ارادی کے پیدا کرنے اور علمی کمزوری دور کرنے کا ذکر ہو گیا تھا لیکن تیسری بات اس ضمن میں بیان نہیں ہوئی تھی.یعنی عملی کمزوری کو دور کرنے کا طریق کیا ہے یا عملی قوت کو کس طرح بڑھایا جا سکتا ہے.اس بارے میں آج کچھ کہوں گا.اس کے لئے جیسا کہ پہلے خطبات میں ذکر ہو چکا ہے، بیرونی علاج یا مدد کی ضرورت ہے.یا کہہ سکتے ہیں کہ دوسرے کے سہارے کی ضرورت ہے.اور عملی اصلاح کے لئے یہ سہارا دو قسم کا ہوتا ہے یا دو قسم کے سہاروں کی ضرورت ہے.ایک نگرانی کی اور دوسرا جبر.نگرانی یہ ہے کہ مستقل نظر میں رکھا جائے ، زیر نگرانی رکھا جائے کہ کہیں کوئی بد عمل نہ کر لے.اس قسم کی نگرانی دنیاوی معاملات میں بھی ہوتی ہے، گھروں میں ماں باپ بچوں کی نگرانی کرتے ہیں ، سکولوں میں استاد علاوہ پڑھانے کے نگرانی کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں.بعض دفعہ حکومت کے کارندے نگرانی کر رہے ہوتے ہیں اور یہ بتا دیتے ہیں کہ ہم نگرانی کریں گے.سڑکوں پر ٹریفک کے لئے مستقل کیمرے لگائے ہوتے ہیں اور بورڈ لگے ہوتے ہیں کہ کیمرہ لگا ہوا ہے.یہ نگرانی کا ایک عمل ہے.بہر حال اس ساری نگرانی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اُن کاموں سے روکا جائے جن کی وجہ سے فساد پیدا ہوسکتا ہے یا اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اصلاح ہو، تو بہر حال ہر معاشرے کے قانون میں نگرانی ایک ذریعہ ہے اصلاح کا.اور یہ نگرانی عملی اصلاح کے لئے ضروری ہے.اور بہت سے غلط کاموں

Page 49

سے انسان اس وجہ سے بیچ رہا ہوتا ہے کہ معاشرہ اس کی نگرانی کر رہا ہے.ماں باپ اپنے دائرے میں نگرانی کر رہے ہوتے ہیں.مربیان کا یہ نگرانی کرنا اپنے دائرے میں کام ہے.اور باقی نظام کو بھی اپنے اپنے دائرے میں نگران بننا ضروری ہے.اور جب اسلام کی یہ تعلیم بھی سامنے ہو کہ ہر نگران اپنی نگرانی کے بارے میں پوچھا جائے گا تو نہ صرف اُن کی اصلاح ہوگی جن کی نگرانی کی جا رہی ہے بلکہ نگرانوں کی بھی اصلاح ہو رہی ہوگی.تو بہر حال عملی اصلاح کے لئے نگرانی بھی ایک مؤثر ذریعہ ہے.دوسری بات جو اصلاح کے لئے ضروری ہے.جبر ہے.یہاں کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ دین کے معاملے میں جبر نہیں ہے دوسری طرف عملی اصلاح کے لئے جو علاج تجویز کیا جا رہا ہے، وہ جبر ہے.پس واضح ہو کہ یہ جبر دین قبول کرنے یا دین چھوڑنے کے معاملے میں نہیں ہے.ہر ایک آزاد ہے، جس دین کو چاہیے اختیار کرے اور جس دین کو چاہے چھوڑ دے.اسلام تو بڑا واضح طور پر یہ اختیار دیتا ہے.یہاں جبر یہ ہے کہ دین کی طرف منسوب ہو کر پھر اُس کے قواعد پر عمل نہ کرنا اور اُسے توڑنا ، ایک طرف تو اپنے آپ کو نظامِ جماعت کا حصہ کہنا اور پھر نظام کے قواعد کو توڑنا.یہ بات اگر ہو رہی ہے تو پھر بہر حال سختی ہوگی اور یہی یہاں جبر سے مراد ہے.نظام کا حصہ بن کر رہنا ہے تو پھر تعلیم پر بھی عمل کرنا ہوگا.ورنہ سزامل سکتی ہے، جرمانہ بھی ہو سکتا ہے، بعض قسم کی پابندیاں بھی عائد ہوسکتی ہیں.اور ان سب باتوں کا مقصد اصلاح کرنا ہے تا کہ قوت عملی کی کمزوری کو دور کیا جا سکے.جماعت میں بھی جب نظام جماعت سزا دیتا ہے تو اصل مقصد اصلاح ہوتا ہے.کسی کی سبکی یا کسی کو بلا وجہ تکلیف میں ڈالنا نہیں ہوتا.یہ جبر حکومتی قوانین میں بھی لاگو ہے.سزائیں بھی ملتی ہیں، جیلوں میں بھی ڈالا جاتا ہے، جرمانے بھی ہوتے ہیں، بعض دفعہ مارا بھی جاتا ہے.تو مقصد یہی ہوتا ہے کہ معاشرے میں امن رہے اور دوسرے کو نقصان پہنچانے والے جو ہیں وہ نقصان پہنچانے کا کام نہ کر سکیں، بلکہ بعض دفعہ تو اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے کام پر بھی سزامل جاتی ہے.لیکن اس سزا کے دوران اصلاح کرنے کے مختلف ذرائع استعمال کئے ۴۹

Page 50

جاتے ہیں.اگر کسی کو پھانسی بھی دی جاتی ہے تو یہ جبر اس لئے ہوتا ہے کہ قاتل نے ایک جان لی ہے اور اگر قاتلوں کو کھلی چھٹی مل جائے تو پھر معاشرے کا امن برباد ہو جائے اور کئی اور قاتل پیدا ہو جائیں.پس قتل کی سزا قتل دینے سے کئی ایسے لوگوں کی اصلاح ہو جاتی ہے یا وہ اس کام سے رُک جاتے ہیں جو قتل کا رجحان رکھتے ہیں، جو زیادہ جو شیلے ہوتے ہیں.بہر حال یہ جبر اصلاح کا ایک پہلو ہے جو دنیا میں بھی رائج ہے.دنیا دار کی جبر سے یا دنیاوی سزاؤں کے جبر سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں ہے.لیکن ایک دین کی طرف منسوب ہونے والے پر جب جبر کیا جاتا ہے اور دینی نظام کے تحت اُس کو سزا دی جاتی ہے یا کسی بھی قسم کی سزا ہو، جرمانہ یا اور کوئی سزا ہو یا بعض پابندیاں عائد کردی جاتی ہیں.جماعت میں بعض دفعہ بعض چندے لینے پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں تو بیشک جبراً ان کاموں سے روکا جارہا ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی جب وہ باتیں یا اعمال جو صالح اعمال ہیں، اُن کی طرف توجہ دلائی جارہی ہو اور کوئی شخص اس لئے کر رہا ہو کہ سزا سے بچ جاؤں یا خلیفہ وقت کی ناراضگی سے بچ جاؤں یا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جاؤں تو آہستہ آہستہ دل میں ایمان پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور ایسے لوگ برائیوں کو چھوڑ کر خوشی سے نیک اعمال بجالانے والے بننا شروع ہو جاتے ہیں.پس ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ نیک اعمال بجالانے کی عادت ڈالنے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کرنے پڑتے ہیں.بغیر ان ذرائع کو اختیار کئے اصلاح اعمال میں کامیابی نہیں ہو سکتی.پس ان ذرائع کا استعمال انتہائی ضروری ہے.یہ چار چیزیں ہیں جن کے بغیر اصلاح مشکل ہے.جب ہم گہرائی میں جائزہ لیں تو ہمیں پستہ چلتا ہے کہ دنیا میں ایک طبقہ ایسا ہے جو ایمانی قوت اپنے اندر نہیں رکھتا.یعنی وہ معیار نہیں رکھتا جو اصلاح عمل کے لئے ایک انسان میں ہونا ضروری ہے.ایسے لوگوں کے دلوں میں اگر قوت ایمانیہ بھر دی جائے تو ان کے اعمال درست ہو جاتے ہیں.اور ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو عدم علم کی وجہ سے گناہوں کا شکار ہوتا ہے.اس کے لئے صحیح علم کی ضرورت ہوتی ہے.اور ایک طبقہ جو نیک اعمال بجا لانے کے لئے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے.یہ تین قسم کے لوگ ہیں.اور اُن کی احتیاج دو طرح سے

Page 51

پوری کی جاتی ہے.یا اُن کی مدد دو طرح سے ہوگی.ایک تو نگرانی کر کے، جس کی میں نے ابھی تفصیل بیان کی ہے کہ نگرانی کی جائے تو بدیاں چھوٹ جاتی ہیں اور نیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے لیکن وہ طبقہ جو بالکل ہی گرا ہوا ہو، جو گرانی سے بھی باز آنے والا نہ ہو، اُسے جب تک سزا نہ دی جائے، اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی.پس ان چاروں ذرائع کو جماعت کی اصلاح کے لئے بھی اختیار کرنا ضروری ہے.اور ہر ایک کی بیماری کا علاج اُس کی بیماری کی نوعیت کے لحاظ سے کرنا ضروری ہے.یہ بات یا درکھنا ضروری ہے کہ جس زمانے میں مذہب کے پاس نہ حکومت ہو نہ تلوار اُس زمانے میں یہ چاروں علاج ضروری ہوتے ہیں.پہلے علاج کے طور پر تربیت کر کے ایمان میں مضبوطی پیدا کرنا ضروری ہے.اور اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات، آپ کی وحی، آپ کے تعلق باللہ اور آپ کے ذریعہ سے آپ کے ماننے والوں میں روحانی انقلاب کا ذکر کیا جائے.یہ ذکر متواتر اور بار بار ہونا چاہئے.یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت انسان کو کس طرح حاصل ہو سکتی ہے اور اُس کا پیار جب کسی انسان کے شامل حال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس سے کس طرح امتیازی سلوک کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ہمیں اس بارے میں کس طرح بتایا ہے.نئے احمدی جو مختلف قوموں سے ہو رہے ہیں، افریقہ میں سے بھی اور عربوں میں سے بھی زیادہ تر ، اپنے واقعات لکھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھ کر اُن میں تبدیلیاں ہوئیں، اُن کے ایمان میں اضافہ ہوا.بیشک کتب پڑھ کر اُن کی اعتقادی غلط فہمیاں بھی دور ہوئیں اور اعتقادی لحاظ سے اُن کے علم میں اضافہ ہو کر اُن کو ایمان کی نئی راہیں نظر آئیں.لیکن ایمان کی مضبوطی اُن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات کو دیکھنے، آپ کی وحی کی حقیقت کو سمجھنے اور آپ کے تعلق باللہ سے اُن میں پیدا ہوئی، اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بعض نشانات دکھا کر اپنے قرب کا نظارہ دکھا دیا.

Page 52

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات، وحی، الہامات اور تعلق باللہ کی اہمیت جو ہمارے دلوں میں بھی ایمان کی کرنوں کو روشن تر کرے، کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے اپنے انداز میں آپ نے یوں فرمایا کہ حضرت عیسی بیشک زندہ آسمان پر بیٹھے رہیں.اُن کا آسمان پر زندہ بیٹھے رہنا اتنا نقصان دہ نہیں ہے جتنا خدا تعالیٰ کا ہمارے دلوں میں مردہ ہو جانا نقصان دہ ہے.پس کیا فائدہ اس بات کا کہ تم حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات پر زور دیتے رہو جبکہ خدا تعالیٰ کو لوگوں کے دلوں میں تم ماررہے ہو اور اُسے زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے.خدا تعالیٰ تو حی و قیوم ہے اور کبھی نہیں مرتا مگر بعض انسانوں کے لحاظ سے وہ مر بھی جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ نہیں مرتا مگر جب کوئی انسان اُسے بھلا دیتا ہے تو اُس کے لحاظ سے وہ مرجاتا ہے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ عجیب بات ہے کہ ہمارے علماء حضرت عیسی کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کو زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے.وہ روح پیدا نہیں کرتے جس سے اللہ تعالیٰ کا فہم اور ادراک پیدا ہو.ہماری اصل کوشش خدا تعالیٰ کو زندہ کرنے کی اور اُس سے زیادہ تعلق پیدا کرنے کی ہونی چاہئے.اگر خدا سے ہمارا زندہ تعلق ہے تو چاہے عیسی کو زندہ سمجھنے والے جتنا بھی شور مچاتے رہیں، ہمارے ایمانوں میں کبھی بگاڑ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ خدا ہر قدم پر ہمیں سنبھالنے والا ہوگا.پس بیشک وفات مسیح، ختم نبوت یا دوسرے مسائل جو ہیں جن کا اعتقاد سے تعلق ہے اُن کا علم ہونا تو بہت ضروری ہے اور ان پر دلیل کے ساتھ قائم رہنا بھی ضروری ہے، بغیر دلیل کے نہیں، لیکن عملی اصلاح کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ہو گا اور اس کے لئے وہ ذرائع اپنانے ہوں گے جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دکھائے.ہمیں اپنے قول و فعل کے تضاد کو ختم کرنا ہو گا.جو ہم دوسروں کو کہیں، اُس کے بارے میں اپنے بھی جائزے لیں کہ کس حد تک ہم اس پر عمل کر رہے ہیں.مجھے قادیان سے کسی عالم نے لکھا کہ آجکل کھلے جلسے جو مخالفین کے جواب دینے کے لئے پہلے ہندوستان میں منعقد ہوتے تھے، اب نہیں ہوتے.ہم ان جلسوں میں ایسے تابڑ توڑ حملے مخالف علماء ۵۲

Page 53

پر کرتے تھے کہ ایک کے بعد دوسرے حملے نے اُنہیں زچ کر دیا تھا.ٹھیک ہے یہ اچھی بات ہے کہ کرتے تھے، مخالفین کے جواب دینے چاہئیں، بلکہ اُن کی باتوں کے رڈ ہی دلائل کے ساتھ اُن پر پھینکنے چاہئیں لیکن یہ بات اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور ضروری ہے کہ ہمارے معلمین اور مبلغین اور مربیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اپنی روحانی حالت میں بھی وہ ترقی کرتے کہ ہر ایک کا وجود خود ایک نشان بن جاتا.اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے.اور اسی نمونے کو دیکھ کر لوگ جماعت میں داخل ہوں.لیکن یہاں مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ معیار پیدا نہیں ہوا.اسی لئے ہندوستان میں بہت سے معلمین کو فارغ کرنا پڑا.لگتا تھا کہ بعض پر دنیا داری غالب آ گئی ہے.پس یہ خط لکھنے والے بھی اور ہم میں سے ہر ایک اپنے جائزے لے کہ اُس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ معلمین، مبلغین یہ دیکھیں کہ انہوں نے دلوں میں ایمان پیدا کرنے کی کتنی کوشش کی ہے.خشک دلائل سے لوگوں کے دلوں پر اثر ڈالنے اور غیر احمدی مولویوں کو دوڑانے پر ہی ہمیں اکتفا نہیں کر لینا چاہئے اور اسی پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ ہمارے پاس جو خدا تعالیٰ کے زندہ نشانات اور معجزات ہیں، اُس سے خدا تعالیٰ کی ہستی دنیا کو دکھائیں.اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہے، اُس سے لوگوں کے دلوں کو قائل کریں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مثال دی ہے کہ اگر سورج چڑھا ہو اور کوئی کہے کہ تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ سورج چڑھا ہوا ہے تو دوسرا اُسے سورج چڑھنے کی دلیلیں دینی شروع کر دے کہ اتنے بجے وقت ہوتا ہے سورج نکلنے کا ، اتنے بجے غروب ہوتا ہے اور سائنس یہ کہتی ہے.پس یہ دلیلیں دینے والا بھی احمق ہی ہوگا جو دلیلیں دینے بیٹھ گیا، اُس کا سادہ علاج تو یہ تھا کہ سورج کی دلیل پوچھنے والے کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اُس کا منہ اونچا کرتا اور کہتا کہ وہ سورج ہے، دیکھ لو.دلیلیں دینے کی ضرورت نہیں.تمہاری بیوقوفانہ باتوں کا جواب اس وقت سورج کا وجود ہے.پس واعظین کا یہ کام ہے کہ سورج کے وجود کی دلیلیں دینے والے احمق بننے کے بجائے تازہ ۵۳

Page 54

نشانات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ظاہر ہورہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت جو ہر دم ہمارے ساتھ ہے، اُس سے یہ سچائی ثابت کریں.لیکن بات وہی ہے کہ اپنی حالتوں کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق بنائیں.جماعت کی عملی قوت کو مضبوط کریں.جماعت کے بچوں، عورتوں اور مردوں کے سامنے یہ باتیں پیش کریں اور بار بار پیش کریں جیسا کہ میں نے کہا، انہیں بتائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ کس طرح خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہوا، انہیں سمجھا ئیں کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے کیا ذرائع ہیں.اللہ تعالیٰ کی محبت کس طرح حاصل ہوسکتی ہے؟ پھر دیکھیں کہ جو نو جوان دنیا داری کے معاملات میں نقل کی طرف رجحان رکھتے ہیں، خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے بنیں گے.پھر صرف چند مربیان یا علماء غیر از جماعت مولویوں کے چھکے چھڑانے والے نہیں ہوں گے بلکہ یہ نمونے جو ہمارے نوجوان مرد، عورتیں، بچے قائم کر رہے ہوں گے یہ دنیا کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوں گے.پس اپنی عملی حالتوں کی درستی کی طرف توجہ کی سب سے پہلے ضرورت ہے.اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جوڑ کر پھر خلافت سے کامل اطاعت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے.یہی چیز ہے جو جماعت میں مضبوطی اور روحانیت میں ترقی کا باعث بنے گی.خلافت کی پہچان اور اُس کا صحیح علم اور ادراک اس طرح جماعت میں پیدا ہو جانا چاہئے کہ خلیفہ وقت کے ہر فیصلے کو بخوشی قبول کرنے والے ہوں اور کسی قسم کی روک دل میں پیدا نہ ہو، کسی بات کوسن کر انقباض نہ ہو.خلافت کا صحیح فہم و ادراک پیدا کرنا بھی مربیان کے کاموں میں سے اہم کام ہے.اور پھر عہدیداران کا کام ہے کہ وہ بھی اس طرف توجہ دیں.ایسی مثالیں ابھی بعض سامنے آ جاتی ہیں کہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت نے یہ غلط کام کیا اور یہ غلط فیصلہ کیا یا فلاں فیصلے کو اس طرح ہونا چاہئے تھا، بعض قضاء کے فیصلوں پر اعتراض ہوتے رہتے ہیں.یا فلاں شخص کو فلاں کام پر کیوں لگایا گیا؟ اس کی جگہ تو فلاں شخص ہونا چاہئے تھا.خلیفہ وقت کی فلاں فلاں کے بارے میں تو بڑی معلومات ہیں علم ۵۴

Page 55

ہے، اور فلاں شخص کے بارے میں اُس نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں باوجود علم ہونے کے، تو اس قسم کی باتیں کرنے والے چند ایک ہی ہوتے ہیں لیکن ماحول کو خراب کرتے ہیں.اگر مر بیان اور عہدے داران، ہر سطح کے عہدے داران ، پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں، ہر تنظیم کے اور جماعتی عہدیداران اپنی اس ذمہ داری کو بھی سمجھیں تو بعض دلوں میں جو شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں، کبھی پیدا نہ ہوں اور خاص طور پر مربیان کا یہ کام ہے کہ بتائیں کہ تمام برکتیں نظام میں ہیں.اللہ تعالیٰ تو جب کسی قوم پر لعنت ڈالنا چاہتا ہے تو نظام کو اٹھا لیتا ہے.پس جب یہ باتیں ہر ایک کے علم میں آ جائیں گی تو بعض لوگ جن کو ٹھو کر لگتی ہے وہ ٹھوکر کھانے سے بچ جائیں گے.ایسا طبقہ ہمیشہ رہتا ہے چاہے وہ چند ایک ہی ہوں جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے.اور ادھر اُدھر بیٹھ کر باتیں کرتارہتا ہے کہ خلیفہ خدا تو نہیں ہوتا، وہ بھی غلطی کر سکتا ہے، جیسا کہ عام آدمی غلطی کر سکتا ہے، ٹھیک ہے، لیکن حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس کا بڑا اچھا جواب دیا ہے.اگر خلافت برحق ہے یہ جواب جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے دیا، ہر وقت اور ہر دور کے لئے ہے.اگر خلافت پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ انعام دیا گیا ہے، تو آپ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خلفاء جن امور کا فیصلہ کیا کرتے ہیں ہم ان امور کو دنیا میں قائم کر کے رہتے ہیں، وہ فرماتا ہے وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ یعنی وہ دین اور وہ اصول جو خلفاء دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں، ہم اپنی ذات ہی کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم اُسے دنیا میں قائم کر کے رہیں گے.پس یہ باتیں جماعت کے ہر فرد کے دل میں راسخ ہونی چاہئیں اور یہ مربیان اور اہلِ علم کا کام ہے کہ اسے ہر ایک کے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کریں.پس اس ذمہ داری کو سمجھیں ، اس بات کے پیچھے پڑ جائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکات اور آپ کے فیوض لوگوں پر ظاہر کرنے ہیں.خدا تعالیٰ کے زندہ نشانات کا بار بار تذکرہ کرنا ہے ، لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے ذرائع کیا ہیں؟ اور خلیفہ وقت کی ہر صورت میں اطاعت اور نظام کی فرمانبرداری کی کیا اہمیت ہے.۵۵

Page 56

پس جب یہ ہوگا تو دلوں کے وساوس بھی دور ہوں گے.اور اس طریق سے وساوس دور کرنے والوں کی تعداد، یا جن کے دلوں کے وساوس دور ہو جائیں اُن کی تعداد اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ ہر فتنہ اپنی موت آپ مرجائے گا.جماعت میں ہر لحاظ سے عملی اصلاح کا ہر پہلو نظر آ رہا ہو گا اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا بڑا مقصد ہے.یادر ہنا چاہئے کہ ہمیں ختم نبوت اور وفات مسیح کے متعلق مسائل جاننے کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت ہے مخالفین کے جواب دینے کے لئے لیکن عمل اور عرفان کو بھی اپنی جماعت میں رائج کرنے کے لئے ایک کوشش کی ضرورت ہے.پس جتنی توجہ ہم نے باہر کے محاذ پر دینی ہے، اتنی بلکہ اس سے بڑھ کر اندرونی محاذ پر بھی ہمیں توجہ دینی چاہئے.ہماری روحانی پاکیزگی، ہماری عملی اصلاح انشاء اللہ تعالی زیادہ بڑا انقلاب لانے کا باعث بنے گی، بہ نسبت اس تبلیغ کے.علماء اور مربیان قلوب کی اصلاح کریں : حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ارشاد یقیناً بڑا اہم ہے کہ اگر وہ یعنی علماء اور مربیان قلوب کی اصلاح کریں اور لوگوں کے دل میں عرفان اور اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں تو کروڑوں کروڑ لوگ احمدیت میں داخل ہونے لگ جائیں.اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ O وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُه کہ اگر تبلیغ کے ذریعہ تم اپنے مذہب کی اشاعت کرو گے تو ایک ایک دو دو کر کے لوگ تمہاری طرف آئیں گے، لیکن اگر تم استغفار اور تسبیح کرو اور اپنے اندر سے گناہ دور کر دو تو پھر فوج در فوج لوگ آئیں گے اور تمہارے اندر شامل ہو جائیں گے.پس وہ ہمارے عالم جو مجھے لکھتے ہیں کہ ہم غیروں کے چھکے چھڑا دیا کرتے تھے.اس چھکے چھڑانے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہو گا جو اپنی عملی اصلاح سے ہوگا.اس لئے عملی اصلاح کی طرف توجہ دیں اور خلافت کے نائبین بننے کی کوشش کریں، خلیفہ وقت کے مددگاروں میں سے بننے کی ۵۶

Page 57

کوشش کریں.سالوں ہم صرف علمی بحثوں میں نہیں الجھ سکتے بلکہ اگر ہم نے جماعت کو ترقی کی طرف لے جانا ہے اور انشاء اللہ لے جانا ہے تو ہمیں کچھ اور طریق اختیار کرنے ہوں گے اور وہ یہ ہے جیسا کہ میں نے کہا، عملی اصلاح کا.پس ہمیں اپنے اعمال اچھے کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے دیانت اور امانت کے معیاروں کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنی آمد کے حلال ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت ہے.بڑا ہتھیار دُعا ہے : پس جہاں مربیان کو اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے وہاں ہر فردِ جماعت کو اپنے جائزے لے کر اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ سب سے بڑا ہتھیار دعا کا ہے جس کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے صحیح استعمال اور اس سے صحیح فائدہ اٹھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایمان میں ترقی کرو اور میں نے جو نیک اعمال بجالانے کے لئے لائحہ عمل دیا ہے اُس پر عمل کرو.پس یہ عمل اور دعا اور دعا اور عمل ساتھ ساتھ چلیں گے تو حقیقی اصلاح ہوگی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے حصول کی توفیق عطا فرمائے.ہو خلاصہ خطبہ جمعہ 7 فروری 2014 عملی اصلاح سے تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصائح : حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عملی اصلاح کے متعلق اپنے اس بصیرت افروز خطبہ جمعہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی ایک روایت اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اقتباسات پیش فرمائے جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر یہ بھی فضل اور احسان ہے کہ جب خلیفہ وقت کی کسی مضمون کی

Page 58

طرف توجہ ہوتی ہے تو وہ اگر اصلاحی پہلو ہے تو جماعت کا بڑا حصہ اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اس کا اندازہ مجھے خطوط سے بھی ہو رہا ہے اور پھر بعض مددگار جو اللہ تعالیٰ نے خلافت کو عطا فرمائے ہوئے ہیں، وہ بھی بعض حوالے نکال کر بھیج دیتے ہیں، اپنی یادداشت کے مطابق.چاہے حوالے یہ پہلے پڑھے ہوں لیکن نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں.تو سیرت کا حوالہ جو ہے.جب میں پڑھوں گا.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی فکر کا اظہار فرمایا ہے، یہ بھی ہمارے ایک مربی صاحب نے مجھے بھیجا کہ آپ عملی اصلاح کی اہمیت کے بارے میں بتا رہے ہیں، خطبات میں تو ایک حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی پیش ہے جو اس فکر کا اظہار کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے.یہ حوالہ یوں ہے جو سیرت میں بیان کیا گیا ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : بیان کیا مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ کسی کام کے متعلق میر صاحب یعنی میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ مولوی محمد علی صاحب کا اختلاف ہو گیا.میر صاحب نے ناراض ہو کر اندر حضرت صاحب کو جا اطلاع دی.کہ اس طرح اختلاف ہو گیا، غصے کا اظہار کیا.مولوی محمد علی صاحب کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے حضرت صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا کہ ہم لوگ یہاں حضور کی خاطر آئے ہیں تا حضور کی خدمت میں رہ کر کوئی خدمت دین کا موقع مل سکے.لیکن اگر حضور تک ہماری شکایتیں اس طرح پہنچیں گی تو حضور بھی انسان ہیں، ممکن ہے کہ کسی وقت حضور کے دل میں ہماری طرف سے کوئی بات پیدا ہو تو اس صورت میں ہمیں بجائے قادیان آنے کا فائدہ ہونے کے الٹا نقصان ہو جائے گا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ میر صاحب نے مجھ سے کچھ کہا تو تھا مگر میں اُس وقت میں ، میں اُس وقت اپنے فکروں میں اتنا محوتھا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ میر صاحب نے کیا کہا اور کیا نہیں کہا.پھر آپ نے فرمایا کہ چند دن سے ایک خیال میرے دماغ میں اس زور کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے کہ اس نے دوسری باتوں سے مجھے بالکل محو کر دیا ہے.( یہ بڑے غور سے سننے والی بات ہے ) بس ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے وہی

Page 59

خیال میرے سامنے رہتا ہے.میں باہر لوگوں میں بیٹھا ہوتا ہوں اور کوئی شخص مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو اُس وقت بھی میرے دماغ میں وہی خیال چکر لگا رہا ہوتا ہے.وہ شخص سمجھتا ہوگا کہ میں اُس کی بات سن رہا ہوں مگر میں اپنے اس خیال میں محو ہوتا ہوں.جب میں گھر جاتا ہوں تو وہاں بھی وہی خیال میرے ساتھ ہوتا ہے.غرض ان دنوں یہ خیال اس زور کے ساتھ میرے دماغ پر غلبہ پائے ہوئے ہے کہ کسی اور خیال کی گنجائش نہیں رہی.وہ خیال کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ میرے آنے کی اصل غرض کیا ہے؟ کہ ایک ایسی جماعت تیار ہو جاوے، میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت تیار ہو جاوے جو سچی مؤمن ہو اور خدا پر حقیقی ایمان لائے اور اُس کے ساتھ حقیقی تعلق رکھے اور اسلام کو اپنا شعار بنائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر کار بند ہو اور اصلاح و تقویٰ کے راستے پر چلے اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ قائم کرے، تا پھر ایسی جماعت کے ذریعہ دنیا ہدایت پاوے اور خدا کا منشاء پورا ہو.پس اگر یہ غرض پوری نہیں ہوتی تو اگر دلائل و براہین سے ہم نے دشمن پر غلبہ بھی پالیا اور اس کو پوری طرح زیر بھی کر لیا، یعنی فتح کر لیا تو پھر بھی ہماری فتح کوئی فتح نہیں.کیونکہ اگر ہماری بعثت کی اصل غرض پوری نہ ہوئی تو گویا ہمارا سارا کام رائیگاں گیا.مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ دلائل اور براہین کی فتح کے تو نمایاں طور پر نشانات ظاہر ہورہے ہیں اور دشمن بھی اپنی کمزوری محسوس کرنے لگا ہے لیکن جو ہماری بعثت کی اصل غرض ہے، اس کے متعلق ابھی تک جماعت میں بہت کمی ہے اور بڑی توجہ کی ضرورت ہے.پس یہ خیال ہے جو مجھے آجکل کھا رہا ہے اور یہ اس قدر غالب ہو رہا ہے کہ کسی وقت بھی مجھے نہیں چھوڑتا.پس یہ درد ہے جس نے آپ کو بے چین کر دیا تھا، مختلف وقتوں میں آپ نے جماعت کو نصائح فرمائیں کہ احمدی کو کیسا ہونا چاہئے.ملفوظات کی دس جلدیں علاوہ دوسری کتابوں کے، ملفوظات جو آپ کی مجالس کی رپورٹس ہوتی تھیں مختصر تفصیلی نہیں ، اس کی بھی دس جلد میں ہیں.اور کسی جلد، ان دسوں میں سے کسی جلد کو بھی آپ لے لیں، جماعت سے توقعات اور جماعت کو نصائح عملی حالتوں کی تبدیلی کا مضمون یہ مختلف حوالوں اور مختلف زاویوں سے آپ نے بیان فرمایا ہوا ہے، ہر جگہ، ہر (۵۹)

Page 60

: مجلس میں.ان میں سے چند ایک اس وقت میں پیش کرتا ہوں.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجود واحد رکھور نہ ہو انکل جائے گی.نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو.برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی.اگر اختلاف ہو، اتحاد نہ ہو، تو پھر بے نصیب رہو گے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دعا کرو.( اب ہمیں یہ دیکھنے کی ، جائزہ لینے کی ضرورت ہے، کتنے ہیں جو ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرتے ہیں ) اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہی ہو.کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے.اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو، تو فرشتہ کی تو منظور ہوتی ہے.میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو.فرمایا میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں.اول خدا کی توحید اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لیے کرامت ہو.یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوتی تھی.كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ ( آل عمران : ۱۰۴) یا درکھو! تالیف ایک اعجاز ہے.یاد رکھو! جبتک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے، وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.وہ مصیبت اور بلا میں ہے.اس کا انجام اچھا نہیں.پھر آپ فرماتے ہیں : یا درکھو بغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہوگی.وہ ضرور ہوگی.تم کیوں صبر نہیں کرتے.جیسے طبی مسئلہ ہے کہ جبتک بعض امور بعض امراض میں قلع قمع نہ کئے جاویں، مرض دفع نہیں ہوتا.میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیدا ہوگی.باہمی عداوت کا سبب کیا ہے.بخل ہے، رعونت ہے، خود پسندی ہے اور جذبات ہیں.ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوں گا.جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے.جو

Page 61

ایسے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں.جب تک عمدہ نمونہ نہ دکھا ئیں.میں کسی کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا.ایسا شخص جو میری جماعت میں ہوکر میرے منشاء کے موافق نہ ہو، وہ خشک ٹہنی ہے.اُس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے.خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے، مگر وہ اُس کو سر سبز نہیں کر سکتی، بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے.پس ڈرو میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا.یہ حوالہ ہم پہلے بھی کئی دفعہ سنتے ہیں، پڑھتے ہیں لیکن اس حوالے کے ساتھ ملا کر دیکھیں جس میں آپ نے درد کا اظہار کیا ہے کہ کئی دن سے مجھے اور کسی چیز کا ہوش ہی نہیں سوائے اس بات کے کہ عملی اصلاح ہو جائے جماعت کی ، تو پھر ایک خاص فکر پیدا ہوتی ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ کس وقت کوئی آدمی سچا مؤمن کہلا سکتا ہے؟ فرمایا کہ : میں کھول کر کہتا ہوں کہ جب تک ہر بات پر اللہ تعالیٰ مقدم نہ ہو جاوے اور دل پر نظر ڈال کر وہ نہ دیکھ سکے کہ یہ میرا ہی ہے، اس وقت تک کوئی سچا مومن نہیں کہلا سکتا.ایسا آدمی تو عرف عام کے طور پر مؤمن یا مسلمان ہے.جیسے چوہڑے کو بھی مصلی یا مومن کہہ دیتے ہیں.مسلمان وہی ہے جو أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِہ کا مصداق ہو گیا ہو.وجہ منہ کو کہتے ہیں مگر اس کا اطلاق ذات اور وجود پر بھی ہوتا ہے.پس جس نے ساری طاقتیں اللہ کے حضور رکھ دیں ہوں وہ سچا مسلمان کہلانے کا مستحق ہے.مجھے یاد آیا کہ ایک مسلمان نے کسی یہودی کو دعوت اسلام کی تو مسلمان ہو جا.(مسلمان جو تھا وہ دعوت اسلام دینے والا ) خود فسق و فجور میں مبتلا تھا.یہودی نے اس فاسق مسلمان کو کہا کہ تو پہلے اپنے آپ کو دیکھ اور تو اس بات پر مغرور نہ ہو کہ تو مسلمان کہلاتا ہے.خدا تعالیٰ اسلام کا مفہوم چاہتا ہے نہ نام اور لفظ.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : یا درکھو کہ صرف لفاظی اور لسانی کام نہیں آسکتی، جب تک کہ عمل نہ ہو.محض باتیں عند اللہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے: كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا

Page 62

تَفْعَلُونَ پھر اس بات پر ، فرمایا کہ اگر تم اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو.فرماتے ہیں کہ صَابِرُوا وَرَابِطُوا.قرآنِ کریم میں آل عمران کی آیت ہے.جس طرح دشمن کے مقابلہ پر سرحد پر گھوڑا ہونا ضروری ہے تا کہ دشمن حد سے نہ نکلنے پاوے.اسی طرح تم بھی تیار رہو.ایسا نہ ہو کہ دشمن سرحد سے نکل کر اسلام کو صدمہ پہنچائے.میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اگر تم اسلام کی حمایت اور خدمت کرنا چاہتے ہو، تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو جس سے خود تم خدا تعالیٰ کی پناہ کے حصن حصین میں آسکو.اور پھر تم کو اس خدمت کا شرف اور استحقاق حاصل ہو.تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی بیرونی طاقت کیسی کمزور ہوگئی ہے.قومیں ان کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتیں ہیں.( اور آج جب ہم دیکھتے ہیں تو یہ تو پہلے سے بھی بڑھ کر حالت ہوئی ہوئی ہے) فرمایا کہ اگر تمہاری اندرونی اور قلبی طاقت بھی کمزور اور پست ہوگئی ، تو بس پھر تو خاتمہ ہی سمجھو.تم اپنے نفسوں کو ایسے پاک کرو کہ قدسی قوت ان میں سرایت کرے اور وہ سرحد کے گھوڑوں کی طرح مضبوط اور محافظ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ متقیوں اور راستبازوں ہی کے شامل حال ہوا کرتا ہے.اپنے اخلاق اور اطوار ایسے نہ بناؤ جن سے اسلام کو داغ لگ جاوے.بدکاروں اور اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کرنے والے مسلمان سے اسلام کو داغ لگتا ہے.کوئی مسلمان شراب پی لیتا ہے تو کہیں قے کرتا پھرتا ہے.پگڑی گلے میں ہوتی ہے.موریوں اور گندی نالیوں میں گرتا پھرتا ہے.پولیس کے جوتے پڑتے ہیں.ہندو اور عیسائی اس پر بنتے ہیں.اس کا ایسا خلاف شرع فعل اس کی ہی تضحیک کا موجب نہیں ہوتا بلکہ در پردہ اس کا اثر نفس اسلام تک پہنچتا ہے.مجھے ایسی خبریں یا جیل خانوں کی رپورٹیں پڑھ کر سخت رنج ہوتا ہے.جب میں دیکھتا ہوں کہ اس قدر مسلمان بدعملیوں کی وجہ سے مور د عتاب ہوئے.دل بے قرار ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ جو صراط مستقیم رکھتے ہیں.اپنی بداعتدالیوں سے صرف اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچاتے ، بلکہ اسلام پر جنسی کراتے ہیں.میری غرض اس سے یہ ہے کہ مسلمان لوگ مسلمان کہلا کر ان ممنوعات اور منہیات میں مبتلا ہوتے ہیں جو نہ صرف ان کو بلکہ اسلام کو مشکوک کر دیتے ہیں.پس اپنے چال چلن اور اطوار ایسے بنا ۶۲

Page 63

لو کہ کفار کو بھی تم پر جو دراصل اسلام پر ہوتی ہے، نکتہ چینی کرنے کا موقعہ نہ ملے.پس یہ وہ معیار ہے جو ہم سب نے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے.اور کرنی چاہئے.تقویٰ پر چلنا، اپنے اعمال کی اصلاح کرنا، اپنے ایمان کے معیار بلند کرنا، یہ باتیں کوئی معمولی باتیں نہیں ہیں.ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے تو اُس کی توقعات پر پورا اُترنے کے لئے ہمیں پوری طرح سعی و کوشش کرنی چاہئے.ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو میں انجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے.اور ہر بدی سے ہمیں مکمل طور پر نفرت کا اظہار کرنا چاہئے.محبت، پیار اور اخوت کو بڑھانے کی ہمیں ضرورت ہے.ہمیں ایک دوسرے کا مددگار بننے کی ضرورت ہے.تبھی ہم اپنی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.۶۳

Page 64

Page 64