Language: UR
نظارت نشر و اشاعت قادیان نے تبلیغی مقاصد کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آخری تصنیف پیغام صلح سے اقتباسات کاانتخاب کرکے شائع کیا ہے۔ دراصل حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تعلیم اور اصول دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں ان سے نہ صرف ملک کے اندر بسنے والی مختلف اقوام و مذاہب میں صلح و امن کی بنیاد پڑتی ہے اور ملک کی ترقی، استحکام اور سربلندی کےلئے راستے ہموار ہوتے ہیں بلکہ مشرق و مغرب کے متضاد خیالات و نظریات اور مذہب و سائنس کی بظاہر مخالف لہروں کے ملنے کے سامان بھی پیدا ہوتے ہیں۔ الغرض آپ علیہ السلام نے اپنی زندگی میں جو لٹریچر پیدا فرمایا ، تقاریر کے ذریعہ پیغام عام کیا، اس سے لوگوں میں پُرامن رہنے اور ترقی پسندانہ خیالات کی رو پیدا کرنے کا ہی سامان ہوتا ہے۔ کتا ب کے آخر پر 198ممالک کی فہرست بھی دی گئی ہے جن میں اسلام احمدیت کا پودا کتاب کی اشاعت کے وقت تک لگ چکا تھا۔ نیز ایک سن وار فہرست ان 71 زبانوں کی بھی دی گئی ہے جن میں جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت ہوچکی ہے۔
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام الناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان
نام کتاب سن اشاعت : تعداد ناشر مطبع امن کے شہزادہ کا آخری پیغام ( حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی کتاب ”پیغام صلح “ سے ماخوذ ارشادات) $2013 1000 نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان، قادیان 143516 ضلع گورداسپور، پنجاب،انڈیا.فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان ISBN: 978-81-7912-286-0 Aman ke Shehzada Ka Aakhri Paigam (In Urdu)
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ اس زمانہ کے مصلح اور شہزادہ امن حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے جو تعلیم اور اصول دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں اُن سے نہ صرف ملک کے اندر بسنے والی مختلف اقوام و مذاہب میں صلح و امن کی بنیاد پڑتی ہے اور ملک کی ترقی وسربلندی کے لئے رستہ ہموار ہوتا ہے بلکہ مشرق و مغرب کے متضاد خیالات اور مذہب و سائنس کی مخالف لہروں کے ملنے کے سامان بھی پیدا ہوتے ہیں.آپ نے اپنی زندگی میں اسی (۸۰) کے قریب کتابیں لکھیں اور تقاریر کے ذریعہ بھی لوگوں میں پُر امن و ترقی پسندانہ خیالات کا اظہار کیا.جماعت احمد یہ عالمگیر کی ترقی کے ساتھ ساتھ جوں جوں یہ اصول اور عقائد دنیا کے مختلف ملکوں اور علاقوں میں پہنچ رہے ہیں لوگ ان کو ماننے اور قبول کرنے کی طرف متوجہ ہور ہے ہیں.یہ یقینی بات ہے کہ موجودہ زمانہ میں دنیا کی نجات انہی اصولوں پر چلنے سے ہو سکتی ہے.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا اہم کارنامہ اس مادیت اور دہریت کے زمانہ میں زندہ مذہب اور زندہ خدا کو پیش کرنا ہے جواب بھی اپنی ہستی کا ثبوت نہ صرف عقلی دلائل مہیا کر کے بلکہ آسمانی نشانات و معجزات اور اپنے
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : کلام سے دیتا ہے.لاکھوں انسان اس مقدس وجود کی پیروی کر کے روحانی زندگی کے چشمہ سے سیراب اور قادر مطلق خدا سے تعلق پیدا کر کے گناہوں کی زندگی سے پاک ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ جلد از جلد بڑھ رہا ہے اور دنیا کے کناروں تک شہرت حاصل کر رہا ہے.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اپنی وفات سے جو ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو ہوئی صرف ایک دو دن پہلے اپنا مشہور لیکچر ”پیغام صلح تحریر فرمایا جو مورخہ ۲۱ جون ۱۹۰۸ ء کو رائے بہادر پر تول چندر چڑ جی کی صدارت میں آپ کی وفات کے بعد پڑھ کر سنایا گیا.اس پیغام میں اگر چہ ہندوستان میں بسنے والی دو بڑی قوموں ہندو اور مسلمان کو زیادہ تر مخاطب کیا گیا ہے لیکن پیش کردہ اصول ملک کی سب قوموں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کے لئے مفید اور ضروری ہیں.شری برہم دت اخبار فرنٹیئر میل دہرہ دون مورخہ ۱۲؍ دسمبر ۱۹۴۸ء میں اسی پیغام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- احمد یہ جماعت مسلمانوں میں ایک ترقی پسند جماعت ہے، جملہ مذاہب کے ساتھ رواداری اس کی بنیادی تعلیم میں شامل ہے، تمام پیشوایان مذاہب کی عزت و تکریم کرتے ہوئے احمدیوں نے ان کی تعلیمات کو اپنی مذہبی کتب میں شامل کیا ہے.چالیس سال پیشتر یعنی اس وقت جبکہ ابھی مہاتما گاندھی اُفق سیاست پر نمودار نہ ہوئے تھے مرزا غلام احمد صاحب نے ۱۸۹۱ء میں دعویٰ مسیحیت فرما کر اپنی تجاویز رسالہ ”پیغام صلح میں پیش فرمائیں جن پر عمل
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : کرنے سے ملک کی مختلف قوموں کے درمیان اتحاد و اتفاق اور محبت و مفاہمت پیدا ہوتی ہے.آپ کی شدید خواہش تھی کہ لوگوں میں رواداری اور اخوت و محبت کی رُوح پیدا ہو.بے شک آپ کی شخصیت لائق تحسین اور قابل قدر ہے کہ آپ کی نگاہ نے مستقبل کے کثیف پردہ میں سے دیکھا اور صحیح رستہ کی طرف رہنمائی کی.اگر لوگ اپنی خود غرضی اور غلط لیڈرشپ کی وجہ سے اس سیدھے راستہ کو نہ دیکھ سکے تو یہ ان کی اپنی غلطی تھی اور نفرت و حقارت کے جو کھیت اُنہوں نے بوئے تھے ان کی فصل کاٹنے کے وہ ضرور مستحق ہیں.“ اختصار کے پیش نظر اصل رسالہ میں سے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں.جو دوست مکمل رسالہ مطالعہ کرنا چاہیں وہ اس کتاب کے پرنٹ لائن پر مندرج پتہ سے طلب فرمائیں.اللہ تعالیٰ اس اشاعت کو ہر لحاظ سے با برکت بنائے اور دنیا میں امن و سلامتی کو ہمیشہ قائم رکھے.آمین خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر واشاعت قادیان
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ مغا اے میرے قادر خُدا! اے میرے پیارے رہنما! تو ہمیں وہ راہ دکھا جس سے تجھے پاتے ہیں اہلِ صدق وصفا.اور ہمیں اُن راہوں سے بچا جن کا مدعا صرف شہوات ہیں یا کینہ یا بغض یا دنیا کی حرص و ہوا.اما بعد اکے سامعین ! ہم سب کیا مسلمان اور کیا ہند و با وجود صد ہا اختلافات کے اُس خُدا پر ایمان لانے میں شریک ہیں جو دنیا کا خالق اور مالک ہے اور ایسا ہی ہم سب انسان کے نام میں بھی شراکت رکھتے ہیں یعنی ہم سب انسان کہلاتے ہیں.اور ایسا ہی باعث ایک ہی ملک کے باشندہ ہونے کے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ صفائے سینہ اور نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کے رفیق بن جائیں اور دین ودنیا کی مشکلات میں ایک دوسرے کی ہمدردی کریں 1
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : اور ایسی ہمدردی کریں کہ گویا ایک دوسرے کے اعضاء بن جائیں.اے ہم وطنو! وہ دین دین نہیں ہے جس میں عام ہمدردی کی تعلیم نہ ہو.اور نہ وہ انسان انسان ہے جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو.ہمارے خدا نے کسی قوم سے فرق نہیں کیا.مثلاً جو جو انسانی طاقتیں اور قوتیں آریہ ورت کی قوموں کو دی گئی ہیں وہی تمام قو تیں عربوں اور فارسیوں اور شامیوں اور چینیوں اور جاپانیوں اور یورپ اور امریکہ کی قوموں کو بھی عطا کی گئی ہیں.سب کے لئے خدا کی زمین فرش کا کام دیتی ہے اور سب کے لئے اس کا سورج اور چاند اور کئی اور ستارے روشن چراغ کا کام دے رہے ہیں.اور دوسری خدمات بھی بجالاتے ہیں.اُس کے پیدا کردہ عناصر یعنی ہوا اور پانی اور آگ اور خاک اور ایسا ہی اس کی دوسری تمام پیدا کردہ چیزوں اناج اور پھل اور دوا وغیرہ سے تمام قو میں فائدہ اُٹھا رہی ہیں.پس یہ اخلاق ربانی ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہم بھی اپنے بنی نوع انسانوں سے مروت اور سلوک کے ساتھ پیش آویں اور تنگ دل اور تنگ ظرف نہ بنیں.دوستو! یقینا سمجھو کہ اگر ہم دونوں قوموں میں سے کوئی قوم خُدا 2
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : کے اخلاق کی عزت نہیں کرے گی اور اُس کے پاک خُلقوں کے بر خلاف اپنا چال چلن بنائے گی تو وہ قوم جلد ہلاک ہو جائے گی اور نہ صرف اپنے تئیں بلکہ اپنی ڈریت کو بھی تباہی میں ڈالے گی.جب سے کہ دُنیا پیدا ہوئی ہے تمام ملکوں کے راستباز یہ گواہی دیتے آئے ہیں کہ خدا کے اخلاق کا پیر و ہونا انسانی بقاء کے لئے آب حیات ہے.اور انسانوں کی جسمانی اور روحانی زندگی اسی امر سے وابستہ ہے کہ وہ خُدا کے تمام مقدس اخلاق کی پیروی کرے جو سلامتی کا چشمہ ہیں.تمام جہانوں کا رب خدا نے قرآن شریف کو پہلے اسی آیت سے شروع کیا ہے جو سورہ فاتحہ میں ہے کہ اَلحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ یعنی تمام کامل اور پاک صفات خدا سے خاص ہیں جو تمام عالموں کا رب ہے.عالم کے لفظ میں تمام مختلف قو میں اور مختلف زمانے اور مختلف ملک داخل ہیں اور اس آیت سے جو قرآن شریف شروع کیا گیا یہ در حقیقت اُن قوموں کا رڈ ہے جو خُدا تعالیٰ کی عام ربوبیت اور فیض کو اپنی ہی قوم تک محدود رکھتے ہیں.اور دوسری قوموں کو ایسا خیال کرتے ہیں کہ گویا وہ خُدا تعالیٰ 3
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : کے بندے ہی نہیں اور گو یا خُدا نے اُن کو پیدا کر کے پھر رڈی کی طرح پھینک دیا ہے.یا اُن کو بھول گیا ہے اور یا ( نعوذ باللہ ) وہ اُس کے پیدا کردہ ہی نہیں.جیسا کہ مثلاً یہودیوں اور عیسائیوں کا اب تک یہی خیال ہے کہ جس قدر خُدا کے نبی اور رسول آئے ہیں.وہ صرف یہود کے خاندان سے آئے ہیں اور خدا دوسری قوموں سے کچھ ایسا ناراض رہا ہے کہ ان کو گمراہی اور غفلت میں دیکھ کر پھر بھی ان کی کچھ پروا نہیں کی جیسا کہ انجیل میں بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں صرف اسرائیل کی بھیڑوں کے لئے آیا ہوں..غرض یہودیوں اور عیسائیوں کا یہی مذہب ہے کہ تمام نبی اور رسول انہیں کے خاندان سے آتے رہے ہیں اور انہیں کے خاندان میں خدا کی کتابیں اترتی رہی ہیں اور پھر بھو جب عقیدہ عیسائیوں کے وہ سلسلہ الہام اور وحی کا حضرت عیسی علیہ السلام پر ختم ہو گیا اور خُدا کے الہام پر مہر لگ گئی.انہیں خیالات کے پابند آریہ صاحبان بھی پائے جاتے ہیں یعنی جیسے یہود اور عیسائی نبوت اور الہام کو اسرائیلی خاندان تک ہی محدود 4
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : رکھتے ہیں اور دوسری تمام قوموں کو الہام پانے کے فخر سے جواب دے رہے ہیں یہی عقیدہ نوع انسان کی بدقسمتی سے آریہ صاحبان نے بھی اختیار کر رکھا ہے.یعنی وہ بھی یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا کی وحی اور الہام کا سلسلہ آریہ ورت کی چار دیواری سے بھی باہر نہیں گیا.ہمیشہ اسی ملک سے چار رشی منتخب کئے جاتے ہیں اور ہمیشہ وید ہی بار بار نازل ہوتا ہے اور ہمیشہ ویدک سنسکرت ہی اس الہام کے لئے خاص کی گئی ہے.غرض یہ دونوں قو میں خدا کو رب العالمین نہیں سمجھتیں ورنہ کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ جس حالت میں خدا رب العالمین کہلاتا ہے نہ صرف رب اسرائیلیاں یا صرف رب آریاں تو وہ ایک خاص قوم سے کیوں ایسا دائمی تعلق پیدا کرتا ہے جس میں صریح طور پر طرفداری اور پکش پات پائی جاتی ہے پس ان عقائد کے رڈ کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کو اسی آیت سے شروع کیا کہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ اور جابجا اس نے قرآن شریف میں صاف صاف بتلا دیا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ کسی خاص قوم یا خاص ملک میں خدا کے نبی آتے رہتے ہیں.بلکہ خدا نے کسی قوم اور کسی ملک کو فراموش نہیں کیا.اور قرآن 5 =
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : شریف میں طرح طرح کی مثالوں میں بتلایا گیا ہے کہ جیسا کہ خدا ہر ایک ملک کے باشندوں کے لئے ان کے مناسب حال اُن کی جسمانی تربیت کرتا آیا ہے ایسا ہی اُس نے ہر ایک ملک اور ہر ایک قوم کو روحانی تربیت سے بھی فیضیاب کیا ہے جیسا کہ وہ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ (فاطر: ٢٥) کہ کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نبی یا رسول نہیں بھیجا گیا.سو یہ بات بغیر کسی بحث کے قبول کرنے کے لائق ہے کہ وہ سچا اور کامل خدا جس پر ایمان لانا ہر ایک بندہ کا فرض ہے وہ ربّ العالمین ہے اور اُس کی ربوبیت کسی خاص قوم تک محدود نہیں اور نہ کسی خاص زمانہ تک اور نہ کسی خاص ملک تک بلکہ وہ سب قوموں کا رب ہے اور تمام زمانوں کا رب ہے اور تمام مکانوں کا رب ہے اور تمام ملکوں کا وہی رب اور تمام فیوض کا وہی سرچشمہ ہے اور ہر ایک جسمانی اور روحانی طاقت اُسی سے ہے اور اُسی سے تمام موجودات پرورش پاتی ہیں اور ہر ایک وجود کا وہی سہارا ہے.خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زمانوں 6
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : پر محیط ہورہا ہے.یہ اس لئے ہوا کہ تا کسی قوم کو شکایت کرنے کا موقعہ نہ ملے اور یہ نہ کہیں کہ خدا نے فلاں فلاں قوم پر احسان کیا مگر ہم پر نہ کیا یا فلاں قوم کو اس کی طرف سے کتاب ملی تا وہ اس سے ہدایت پاویں مگر ہم کو نہ ملی یا فلاں زمانہ میں وہ اپنی وحی اور الہام اور معجزات کے ساتھ ظاہر ہوا مگر ہمارے زمانہ میں مخفی رہا.پس اُس نے عام فیض دکھلا کر ان تمام اعتراضات کو دفع کر دیا اور اپنے ایسے وسیع اخلاق دکھلائے کہ کسی قوم کو اپنے جسمانی اور روحانی فیضوں سے محروم نہیں رکھا اور نہ کسی زمانہ کو بے نصیب ٹھیرایا.پس جبکہ ہمارے خدا کے یہ اخلاق ہیں تو ہمیں مناسب ہے کہ ہم بھی انہیں اخلاق کی پیروی کریں لہذا اے ہم وطن بھائیو! یہ مختصر رسالہ جس کا نام ہے پیغام صلح بادب تمام آپ صاحبوں کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور بصدق دل دُعا کی جاتی ہے کہ وہ قادر خدا آپ صاحبوں کے دلوں میں خود الہام کرے اور ہماری ہمدردی کا راز آپ کے دلوں پر کھول دے تا آپ اس دوستانہ تحفہ کو کسی خاص مطلب اور نفسانی غرض پر مبنی تصور نہ فرماویں.عزیز و!! آخرت کا معاملہ تو عام لوگوں پر اکثر مخفی رہتا ہے اور 7
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : انہیں پر عالم عقبے کا راز کھلتا ہے جو مرنے سے پہلے مرتے ہیں.مگر دنیا کی نیکی اور بدی کو ہر ایک دُوراندیش منتقل شناخت کر سکتی ہے.اتفاق کی برکت یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ اتفاق ایک ایسی چیز ہے کہ وہ بلائیں جو کسی طرح دُور نہیں ہوسکتیں اور وہ مشکلات جو کسی تدبیر سے حل نہیں ہوسکتیں وہ اتفاق سے حل ہو جاتی ہیں.پس ایک عقلمند سے بعید ہے کہ اتفاق کی برکتوں سے اپنے تئیں محروم رکھے.ہندو اور مسلمان اس ملک میں دو ایسی قومیں ہیں کہ یہ ایک خیال محال ہے کہ کسی وقت مثلاً ہند و جمع ہوکر مسلمانوں کو اس ملک سے باہر نکال دیں گے یا مسلمان اکٹھے ہو کر ہندوؤں کو جلا وطن کر دیں گے...اگر ایک قوم دوسری قوم کو محض اپنے نفسانی تکبر اور مشیت سے حقیر کرنا چاہے گی تو وہ بھی داغ حقارت سے نہیں بچے گی اور اگر کوئی ان میں سے اپنے پڑوسی کی ہمدردی میں قاصر رہے گا تو اُس کا نقصان وہ آپ بھی اٹھائے گا جو شخص تم دونوں قوموں میں سے دوسری قوم کی تباہی کی فکر میں ہے.اس کی اس شخص کی مثال ہے کہ جو ایک شاخ پر بیٹھ کر اسی کو کاتا ہے.آپ لوگ بفضلہ تعالٰی تعلیم 8
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : یا فتہ بھی ہو گئے.اب کینوں کو چھوڑ کر محبت میں ترقی کرنا زیبا ہے اور بے مہری کو چھوڑ کر ہمدردی اختیار کرنا آپ کی عقلمندی کے مناسب حال ہے.دنیا کی مشکلات بھی ایک ریگستان کا سفر ہے کہ جو عین گرمی اور تمازت آفتاب کے وقت کیا جاتا ہے.پس اس دشوار گزار راہ کے لئے باہمی اتفاق کے اس سرد پانی کی ضرورت ہے جو اس جلتی ہوئی آگ کو ٹھنڈی کر دے اور نیز پیاس کے وقت مرنے سے بچاوے.صلح کی دعوت ایسے نازک وقت میں یہ راقم آپ کو صلح کے لئے بلاتا ہے جبکہ دونوں کو صلح کی بہت ضرورت ہے.دنیا پر طرح طرح کے ابتلا نازل ہورہے ہیں.زلزلے آ رہے ہیں قحط پڑ رہا ہے اور طاعون نے بھی ابھی پیچھا نہیں چھوڑا.اور جو کچھ خدا نے مجھے خبر دی ہے وہ بھی یہی ہے کہ اگر دنیا اپنی بد عملی سے باز نہیں آئے گی اور بُرے کاموں سے تو یہ نہیں کرے گی تو دنیا پر سخت سخت بلائیں آئیں گی اور ایک بلا ابھی بس نہیں کرے گی کہ دوسری بلا ظاہر ہو جائے گی آخر انسان نہایت تنگ ہو جائیں گے کہ یہ کیا ہونے والا ہے اور بہتیری مصیبتوں کے بیچ میں آکر دیوانوں کی
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : طرح ہو جائیں گے.سواے ہموطن بھائیو! قبل اس کے کہ وہ دن آویں ہوشیار ہو جاؤ اور چاہئے کہ ہندو مسلمان باہم صلح کرلیں اور جس قوم میں کوئی زیادتی ہے جو وہ صلح کی مانع ہو اس زیادتی کو وہ قوم چھوڑ دے ورنہ با ہم عداوت کا تمام گناہ اسی قوم کی گردن پر ہوگا.اگر کوئی کہے کہ یہ کیونکر وقوع میں آسکتا ہے کہ صلح ہو جائے حالانکہ با ہم مذہبی اختلاف صلح کے لئے ایک ایسا امر مانع ہے جو دن بدن دلوں میں پھوٹ ڈالتا جاتا ہے.میں اس کے جواب میں یہ کہوں گا کہ درحقیقت مذہبی اختلاف صرف اس اختلاف کا نام ہے جس کی دونوں طرف عقل اور انصاف اور امور مشہودہ پر بنا ہو.ورنہ انسان کو اسی بات کے لئے تو عقل دی گئی ہے کہ وہ ایسا پہلو اختیار کرے جو عقل اور انصاف سے بعید نہ ہو اور امور محسوسہ مشہورہ کے مخالف نہ ہو.اور چھوٹے چھوٹے اختلاف صلح کے مانع نہیں ہو سکتے بلکہ وہی اختلاف صلح کا مانع ہوگا.جس میں کسی کے مقبول پیغمبر اور مقبول الہامی کتاب پر تو ہین اور تکذیب کے ساتھ حملہ کیا جائے.10
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : اس ملک کے اوتار ماسوا اس کے صلح پسندوں کے لئے یہ ایک خوشی کا مقام ہے کہ جس قدر اسلام میں تعلیم پائی جاتی ہے وہ تعلیم و یدک تعلیم کی کسی نہ کسی شاخ میں موجود ہے.مثلاً اگر چہ نو خیز مذہب آریہ سماج یہ اصول رکھتا ہے کہ ویدوں.وں کے بعد الہام الہی پر مُہر لگ گئی ہے مگر جو ہندو مذہب میں وقتًا فوقنا اوتار پیدا ہوتے رہے ہیں جن کے تابع کروڑ ہا لوگ اسی ملک میں پائے جاتے ہیں اُنہوں نے اس مہر کو اپنے دعویٰ الہام سے تو ڑ دیا ہے جیسا کہ ایک بزرگ اوتار جو اس ملک اور نیز بنگالہ میں بڑی بزرگی اور عظمت کے ساتھ مانے جاتے ہیں جن کا نام سری کرشن ہے.وہ اپنے ملہم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے پیرو نہ صرف ان کو ملہم ہے پر میشر کر کے مانتے ہیں مگر اس میں شک نہیں کہ سری کرشن اپنے وقت کا نبی اور اوتار تھا اور خدا اُس سے ہمکلام ہوتا تھا.شری گورونانک صاحب ایسا ہی اس آخری زمانہ میں ہندو صاحبوں کی قوم میں سے 11
.امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : بابا نا تک صاحب ہیں جن کی بزرگی کی شہرت اس تمام ملک میں زبان زد عام ہے.اور جن کی پیروی کرنے والی اس ملک میں وہ قوم ہے جو سکھ کہلاتے ہیں جو ہمیں لاکھ سے کم نہیں ہیں.باوا صاحب اپنی جنم ساکھیوں اور گرنتھ میں کھلے کھلے طور پر الہام کا دعوی کرتے ہیں یہاں تک کہ ایک جگہ وہ اپنی ایک جنم ساکھی میں لکھتے ہیں کہ مجھے خدا کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ دین اسلام سچا ہے اسی بناء پر انہوں نے حج بھی کیا اور تمام اسلامی عقائد کی پابندی اختیار کی اور بلا شبہ یہ بات ثابت ہے کہ اُن سے کرامات اور نشان بھی صادر ہوئے ہیں اور اس بات میں کچھ شک نہیں ہوسکتا کہ باوانا نک ایک نیک اور برگزیدہ انسان تھا اور ان لوگوں میں سے تھا جن کو خدائے عز وجل اپنی محبت کا شربت پلاتا ہے.وہ ہندوؤں میں صرف اس بات کی گواہی دینے کے لئے پیدا ہوا تھا کہ اسلام خدا کی طرف سے ہے جو شخص اس کے وہ تبرکات دیکھے جو ڈیرہ نا تک میں موجود ہیں جن میں بڑے زور سے اس نے کلمہ لا الهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کی گواہی دی ہے اور پھر وہ تبرکات دیکھے جو بمقام گرو ہر سہائے ضلع فیروز پور میں موجود ہیں.جن میں ایک 12
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : قرآن شریف بھی ہے.تو کس کو اس بات میں شک ہوسکتا ہے کہ باوا نا تک صاحب نے اپنے پاک دل اور پاک فطرت اور اپنے پاک مجاہدہ سے اس راز کو معلوم کر لیا تھا جو ظاہری پنڈتوں پر پوشیدہ رہا.اور اُنہوں نے الہام کا دعویٰ کر کے اور خدا کی طرف سے نشان اور کرامات دکھلا کر اس عقیدہ کا خوب کھنڈن اور رڈ کر دیا جو کہا جاتا ہے کہ وید کے بعد کوئی الہام نہیں اور نہ نشان ظاہر ہوتے ہیں.بلاشبہ باوانا نک صاحب کا وجود ہندوؤں کے لئے خدا کی طرف سے ایک رحمت تھی اور یوں سمجھو کہ وہ ہندو مذہب کا آخری اوتار تھا.جس نے اس نفرت کو دُور کرنا چاہا تھا جو اسلام کی نسبت ہندوؤں کے دلوں میں تھی.لیکن اس ملک کی یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ہندو مذہب نے باوانا نک صاحب کی تعلیم سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھایا.بلکہ پنڈتوں نے اُن کو دُکھ دیا کہ کیوں وہ اسلام کی تعریف جابجا کرتا ہے.وہ ہندو مذہب اور اسلام میں صلح کرانے آیا تھا.مگر افسوس کہ اسکی تعلیم پر کسی نے توجہ نہیں کی.اگر اس کے وجود اور اس کی پاک تعلیموں سے کچھ فائدہ اُٹھایا جاتا تو آج ہندو اور مسلمان سب ایک ہوتے.ہائے افسوس ہمیں اس تصور سے رونا آتا ہے کہ ایسا نیک آدمی 13
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : دُنیا میں آیا اور گذر بھی گیا.مگر نادان لوگوں نے اس کے نور سے کچھ روشنی حاصل نہیں کی.بہر حال وہ اس بات کو ثابت کر گیا کہ خدا کی وحی اور اس کا الہام کبھی منقطع نہیں ہوتا اور خدا کے نشان اس کے برگزیدوں کے ذریعہ سے ہمیشہ ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور اس بات کی گواہی دے گیا کہ اسلام کی دشمنی نور کی دشمنی ہے.ذاتی تجربہ ایسا ہی میں بھی اس بات میں صاحب تجر بہ ہوں کہ خدا کی وحی اور خدا کا الہام ہرگز اس زمانہ سے منقطع نہیں کیا گیا بلکہ جیسا خدا پہلے ہوتا تھا اب بھی بولتا ہے اور جیسا کہ پہلے سنتا تھا اب بھی سنتا ہے.یہ نہیں کہ اب وہ صفات قدیمہ اس کی معطل ہوگئی ہیں.میں تخمینا تمہیں برس سے خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور میرے ہاتھ پر اس نے اپنے صد ہا نشان دکھائے ہیں جو ہزار ہا گواہوں کے مشاہدہ میں آچکے ہیں اور کتابوں اور اخباروں میں شائع ہو چکے ہیں اور کوئی ایسی قوم نہیں جو کسی نہ کسی نشان کی گواہ نہ ہو.14
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : اب با وجود اس قدر متواتر شہادتوں کے یہ تعلیم آریہ سماج کی جو خواہ مخواہ ویدوں کی طرف منسوب کی جاتی ہے کیونکر قبول کرنے کے لائق ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ تمام سلسلہ خدا کے کلام اور الہام کا ویدوں پر ختم ہو چکا ہے اور پھر بعد اس کے صرف قصوں پر مدار ہے اور اسی اپنے عقیدہ کو ہاتھ میں لیکر وہ لوگ کہتے ہیں کہ ویدوں کے سوا جس قدر دنیا میں کلام الہی کے نام پر کتابیں موجود ہیں وہ سب نعوذ باللہ انسانوں کے افتراء ہیں.حالانکہ وہ کتابیں وید سے بہت زیادہ اپنی سچائی کا ثبوت پیش کرتی ہیں اور خدا کی نصرت اور مدد کا ہاتھ ان کے ساتھ ہے اور خدا کے فوق العادت نشان ان کی سچائی پر گواہی دیتے ہیں پھر کیا وجہ کہ وید تو خدا کا کلام مگر وہ کتابیں خدا کا کلام نہیں ؟ اور چونکہ خدا کی ذات عمیق در عمیق اور نہاں در نہاں ہے.اس لئے عقل بھی اس بات کو چاہتی ہے کہ وہ اپنے وجود کے ثابت کرنے کے لئے صرف ایک کتاب پر کفایت نہ کرے بلکہ مختلف ملکوں میں سے نبی منتخب کر کے اپنا کلام اور الہام ان کو عطا کرے تا انسان ضعیف البنیان جو جلد تر شبہات میں گرفتار ہوسکتا ہے دولت قبول سے محروم نہ رہے.15
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : اور اس بات کو عقلِ سلیم ہرگز قبول کرنے کے لئے طیار نہیں ہے کہ وہ خدا جو تمام دنیا کا خدا ہے جو اپنے آفتاب سے مشرق اور مغرب کو روشن کرتا ہے اور اپنے مینہ سے ہر ایک ملک کو ہر ایک ضرورت کے وقت سیراب فرماتا ہے وہ نعوذ باللہ روحانی تربیت میں ایسا تنگ دل اور بخیل ہے کہ ہمیشہ کے لئے ایک ہی ملک اور ایک ہی قوم اور ایک ہی زبان اس کو پسند آ گئی ہے اور میں سمجھ نہیں سکتا کہ یہ کس قسم کی منطق اور کس نوع کا فلسفہ ہے کہ پر میشر ہر ایک آدمی کی دُعا اور پر ارتھنا کو اس کی زبان میں سمجھ تو سکتا ہے اور نفرت نہیں کرتا مگر اس بات سے سخت نفرت کرتا ہے کہ بجز و یدک سنسکرت کے کسی اور زبان میں دلوں پر الہام کرے.یہ فلاسفی یا ویدوڈ یا اس سر بستہ معما کی طرح ہے جو اب تک کوئی انسان اس کو حل نہیں کر سکا.وید کی صحیح تعلیم میں دید کو اس بات سے متاز و سمجھتا ہوں کہ اس نے کبھی اپنے کسی صفحہ پر ایسی تعلیم شائع کی ہو کہ جو نہ صرف خلاف عقل ہو بلکہ پر میشر کی 16
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : پاک ذات پر نکل اور پاکش پات کا داغ لگاتی ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی الہامی کتاب پر ایک زمانہ دراز گذر جاتا ہے تو اس کے پیرو کچھ تو بباعث نادانی کے اور کچھ باعث اغراض نفسانی کے سہو ایا عمدا اس کتاب پر اپنی طرف سے حاشیے چڑھا دیتے ہیں اور چونکہ حاشیہ چڑھانے والے متفرق خیالات کے لوگ ہوتے ہیں اس لئے ایک مذہب سے صد ہامذ ہب پیدا ہو جاتے ہیں.اور یہ عجیب بات ہے کہ جس طرح آریہ صاحبان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمیشہ آریہ خاندانوں اور آریہ ورت تک ہی الہام الہی کا سلسلہ محدودرہا ہے اور ہمیشہ و یدک مسکرت ہی الہام الہی کے لئے خاص رہی ہے اور وہ پر میشر کی زبان ہے.یہی یہود کا خیال اپنے خاندان اور اپنی کتابوں کی نسبت ہے.ان کے نزدیک بھی خدا کی اصلی زبان عبرانی ہے اور ہمیشہ خدا کے الہام کا سلسلہ بنی اسرائیل اور انہیں کے ملک تک محدود رہا ہے اور جو شخص ان کے خاندان اور ان کی زبان سے الگ ہونے کی حالت میں نبی ہونے کا دعویٰ کرے اس کو وہ نعوذ باللہ جھوٹا خیال کرتے ہیں.17
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : خیالات میں توارد پس کیا یہ توارد تعجب انگیز نہیں ہے کہ ان دونوں قوموں نے اپنے اپنے بیان میں ایک ہی خیال پر قدم مارا ہے اسی طرح دُنیا میں اور بھی کئی فرقے ہیں جو اسی خیال کے پابند ہیں جیسے پارسی جو اپنے مذہب کی بنیاد وید سے کئی ارب سال پہلے بتلاتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیال ( کہ ہمیشہ کے لئے اپنے ملک اور اپنے خاندان اور اپنی کتابوں کی زبان کو ہی خدا کی وحی اور الہام سے مخصوص کیا گیا ہے ) محض تعصب اور کمی معلومات سے پیدا ہوا ہے.چونکہ پہلے زمانے دُنیا پر ایسے گذرے ہیں کہ ایک قوم دوسری قوم کے حالات سے اور ایک ملک دوسرے ممالک کے وجود سے بکلی بے خبر تھا پس ایسی غلطی سے ہر ایک قوم کو جو خدا کی طرف سے کوئی کتاب ملی یا کوئی خدا کا رسول اور نبی اس قوم میں آیا تو اس قوم نے یہی خیال کر لیا کہ جو کچھ خدا کی طرف سے ہدایت ہونی چاہئے تھی وہ یہی ہے اور خدا کی کتاب صرف انہی کے خاندان اور انہی کے ملک کو دی گئی ہے اور باقی تمام دنیا اس سے بے 18
نصیب پڑی ہے.امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : اس خیال نے دنیا کو بہت نقصان پہنچایا.اور دراصل با ہمی کینوں اور بغضوں کا بیج جو قوموں میں بڑھتا گیا یہی خیال تھا ایک مدت تک تو ایک قوم دوسری قوم سے پردہ میں رہی اور ایک ملک دوسرے ملک سے مخفی اور مستور رہا.یہاں تک کہ آریہ ورت کے فاضلوں کا یہ خیال تھا کہ کوہ ہمالہ کے پرے کوئی آبادی نہیں.پھر جبکہ خدا نے درمیان سے پردہ اٹھالیا اور زمین کی آبادی کے متعلق کسی قدر لوگوں کے معلومات وسیع ہو گئے تو وہ ایک ایسا زمانہ تھا کہ وہ تمام غلط خصوصیتیں جو الہامی کتابوں اور اپنے رشیوں اور رسولوں کی نسبت لوگوں نے اپنے ہی والوں سے تراش کر اپنے عقائد میں داخل کرلی تھیں.وہ اُن کے دلوں میں خوب راسخ اور پتھر کے نقش کی طرح ہوگئیں اور ہر ایک قوم یہی خیال کرتی تھی کہ خدا کا صدر مقام ہمیشہ انہیں کے ملک میں رہا ہے اور چونکہ اُن دنوں میں اکثر قوموں پر وحشیانہ حصلتیں غالب تھیں اور ایک پرانی رسم کے مخالف کو تلوار کے ساتھ جواب دیا جاتا تھا اس لئے کس کی مجال تھی کہ ہر ایک قوم کی خودستائی کے جوشوں کو ٹھنڈا 19
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : کر کے ان کے درمیان صلح کراتا.گوتم بدھ نے اس صلح کا ارادہ کیا تھا اور وہ اس بات کا قائل نہ تھا کہ جو کچھ ہے دید ہے آگے کچھ نہیں اور نہ وہ قوم اور ملک اور خاندان کی خصوصیت کا اقراری تھا یعنی یہ مذہب اس کا نہیں تھا کہ گویا وید پر ہی سب کچھ حصر ہے اور یہی زبان اور یہی ملک اور یہی برہمن پرمیشر کے الہام کے لئے ہمیشہ کے لئے اس کی عدالت میں رجسٹر ڈ ہو چکے ہیں.لہذا اس نے اس اختلاف سے بڑا دُکھ اُٹھایا اور اس کا نام ایک دہریہ اور ناستک مت والا رکھا گیا.جیسا کہ آج کل یورپ اور امریکہ کے تمام محقق جو حضرت عیسی کی خدائی کو منظور نہیں کرتے اور ان کے دل اس بات کو نہیں مانتے کہ خدا کو بھی سُولی دے سکتے ہیں.وہ تمام لوگ حضرات پادری صاحبوں کے خیال میں دہر یہ ہیں.مہاتما بدھ سو اسی قسم کا بدھ بھی دہر یہ ٹھہرایا گیا اور جیسا کہ شریر مخالفوں کا دستور ہے عام لوگوں کو نفرت دلانے کے لئے بہت سی تہمتیں اس پر لگائی گئیں.آخر انجام یہ ہوا کہ بدھ آریہ ورت سے جو اس کی زاد و بوم اور وطن تھا نکالا گیا.20
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : گر حسب قول حضرت عیسی علیہ السلام کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں.دوسرے ملک کی طرف بدھ نے ہجرت کر کے بڑی کامیابی حاصل کی.جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ تیسرا حصہ دنیا کا بدھ مذہب سے پُر ہے اور کثرت پیروؤں کے لحاظ سے اس کا اصل مرکز چین اور جاپان ہے اگر چہ وہ جنوبی روس اور امریکہ تک پھیل گیا ہے.صحیح عقائد دوستو! برائے خدا یہ سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ عقائد ایسے ہیں جن کو انسانی فطرت قبول کر سکتی ہے یا کوئی کانشنس ان کو اپنے اندر جگہ دے سکتا ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کس قسم کی عقلمندی ہے کہ ایک طرف خدا کو تمام دنیا کا خدا ماننا اور پھر اُسی منہ سے یہ بھی کہنا کہ وہ تمام دنیا کی ربوبیت کرنے سے دستکش ہے اور صرف ایک خاص قوم اور ایک خاص ملک پر اس کی نظر رحم ہے.عقلمندو! خود انصاف کرو کہ کیا خدا کے جسمانی قانون قدرت میں اس کی کوئی شہادت ملتی ہے.پھر اس کا روحانی قانون کیوں ایسی طرفداری پر مبنی ہے.21
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : نبیوں کی تو ہین اور اگر عقل سے کام لیا جائے تو ہر ایک کام کی بھلائی یا برائی اس کے نتیجہ سے بھی معلوم ہو سکتی ہے.بس مجھے اس بات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ خدا کے ان بزرگ نبیوں کی ہتک اور ان کو گالیاں دینا جن کی غلامی اور اطاعت کے حلقہ میں ہر طبقہ کے کروڑہا انسان داخل ہیں اس کا نتیجہ کیسا ہے اور انجام کار اس کا پھل کیا ہے کیونکہ کوئی ایسی قوم نہیں کہ جو ایسے نتیجہ کو کچھ نہ کچھ دیکھ نہ چکی ہو.اے عزیزو! قدیم تجربہ اور بار بار کی آزمائش نے اس امر کو ثابت کر دیا ہے کہ مختلف قوموں کے نبیوں اور رسولوں کو تو ہین سے یاد کرنا اور ان کو گالیاں دینا ایک ایسی زہر ہے کہ نہ صرف انجام کار جسم کو ہلاک کرتی ہے بلکہ رُوح کو بھی ہلاک کر کے دین اور دُنیا دونوں کو تباہ کرتی ہے.وہ ملک آرام سے زندگی بسر نہیں کر سکتا جس کے باشندے ایک دوسرے کے رہبر دین کی عیب شماری اور ازالہ حیثیت عرفی میں مشغول ہیں.اور ان قوموں میں ہرگز سچا اتفاق نہیں ہو سکتا جن میں سے ایک قوم یا دونوں 22
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : ایک دوسرے کے نبی یا رشی یا او تار کو بدی یا بد زبانی کے ساتھ یاد کرتے رہتے ہیں اپنے نبی یا پیشوا کی ہتک سُن کر کس کو جوش نہیں آتا.خاص کر مسلمان ایک ایسی قوم ہے کہ وہ اگر چہ اپنے نبی کو خدایا خدا کا بیٹا تو نہیں بناتے مگر آنجناب کو ان تمام برگزیدہ انسانوں سے بزرگ تر جانتے ہیں کہ جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے.پس ایک سچے مسلمان سے صلح کرنا کسی حالت میں بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ ان کے پاک نبی کی نسبت جب گفتگو ہو تو بجر تعظیم اور پاک الفاظ کے یاد نہ کیا جائے.سب نبی سچے ہیں اور ہم لوگ دوسری قوموں کے نبیوں کی نسبت ہرگز بد زبانی نہیں کرتے.بلکہ ہم یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس قدر دنیا میں مختلف قوموں کے لئے نبی آئے ہیں اور کروڑ ہا لوگوں نے ان کو مان لیا ہے اور دُنیا کے کسی ایک حصہ میں ان کی محبت اور عظمت جاں گزیں ہوگئی ہے اور ایک زمانہ دراز اس محبت اور اعتقاد پر گذر گیا ہے تو بس یہی ایک دلیل اُن کی سچائی کے لئے کافی ہے.کیونکہ اگر وہ خدا کی طرف سے نہ ہوتے تو یہ 23
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : قبولیت کروڑ ہا لوگوں کے دلوں میں نہ پھیلتی.خدا اپنے مقبول بندوں کی عزت دوسروں کو ہرگز نہیں دیتا اور اگر کوئی کاذب اُن کی کرسی پر بیٹھنا چاہے تو جلد تباہ ہوتا اور ہلاک کیا جاتا ہے.وید اسی بناء پر ہم وید کو بھی خدا کی طرف سے مانتے ہیں اور اس کے رشیوں کو بزرگ اور مقدس سمجھتے ہیں.اگر چہ ہم دیکھتے ہیں کہ وید کی تعلیم پورے طور پر کسی فرقے کو خدا پرست نہیں بنا سکی اور نہ بناسکتی تھی اور جو لوگ اس ملک میں بت پرست یا آتش پرست یا آفتاب پرست یا گنگا کی پوجا کرنے والے یا ہزار ہا دیوتاؤں کے پوجاری یا جین مت یا شاکت مت والے پائے جاتے ہیں وہ تمام لوگ اپنے مذاہب کو وید ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں اور وید ایک ایسی مجمل کتاب ہے کہ یہ تمام فرقے اُسی میں سے اپنے اپنے مطلب نکالتے ہیں.تاہم خدا کی تعلیم کے موافق ہمارا پختہ اعتقاد ہے کہ وید انسان کا افتر نہیں ہے.انسان کے افترا میں یہ قوت نہیں ہوتی کہ کروڑ ہالوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے اور پھر 24
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : ایک دائی سلسلہ قائم کر دے اور اگر چہ ہم نے وید میں پتھر کی پرستش کا ذکر تو کہیں نہ پڑھا لیکن بلا شبہ اتنی والیو اور جل اور چاند اور سورج وغیرہ کی پرستش سے دید بھرا ہوا ہے اور کسی شرقی میں ان چیزوں کی پرستش کے لئے ممانعت نہیں.اب اس کا کون فیصلہ کرے کہ دوسرے تمام قدیم فرقے ہندوؤں کے چھوٹے ہیں اور صرف نیا فرقہ آریوں کا سچا.اور جولوگ وید کے حوالہ سے ان چیزوں کی پرستش کرتے ہیں ان کے ہاتھ میں یہ دلیل پختہ ہے کہ ان چیزوں کی پرستش کا وید میں صریح ذکر ہے اور ممانعت کہیں بھی نہیں.اور یہ کہنا کہ یہ سب پر میشر کے نام ہیں.ہنوز یہ ایک دعوی ہے کہ جو بھی صفائی سے طے نہیں ہوا اور اگر طے ہو جا تا تو کچھ وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ بڑے بڑے پنڈت بنارس اور دوسرے شہروں کے آریوں کے عقیدوں کو قبول نہ کرتے باوجود تمھیں پینتیس برس کی کوششوں کے بہت ہی کم ہندوؤں نے آریہ مذہب اختیار کیا ہے اور بمقابلہ سناتن دھرم اور دوسرے ہندو فرقوں کے آریہ مذہب والے اس قد ر تھوڑے ہیں کہ گویا کچھ بھی نہیں اور نہ ان کا دوسرے ہندو فرقوں پر کوئی وسیع اثر ہے.ایسا ہی جو نیوگ کی تعلیم دید کی طرف منسوب کی جاتی 25
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : ہے یہ بھی وہ امر ہے جو انسانی غیرت اور شرافت اس کو قبول نہیں کرتی.لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے ہم قبول نہیں کر سکتے کہ در حقیقت یہ دیدہی کی تعلیم ہے بلکہ ہماری نیک نیتی بڑے زور سے ہمیں اس بات کی طرف مائل کرتی ہے کہ ایسی تعلیمیں کسی نفسانی غرض سے بعد میں وید کی طرف منسوب کی گئی ہیں اور چونکہ وید پر ہزار ہا برس گذر گئے ہیں.اس لئے ممکن ہے کہ مختلف زمانوں میں بعض وید کے بھاشکاروں نے کئی قسم کی کمی بیشی کی ہوگی.پس ہمارے لئے وید کی سچائی کی یہ ہی ایک دلیل کافی ہے کہ آریہ ورت کے کئی کروڑ آدمی ہزار ہا برسوں سے اس کو خدا کا کلام جانتے ہیں اور ممکن نہیں کہ یہ عزت کسی ایسے کلام کو دی جائے جو کسی مفتری کا کلام ہے.قرآن کی تعلیم اور پھر جبکہ ہم با وجودان تمام مشکلات کے خدا سے ڈر کر وید کوخدا کا کلام جانتے ہیں اور جو کچھ اس کی تعلیم میں غلطیاں ہیں وہ وید کے بھا شکاروں کی غلطیاں سمجھتے ہیں تو پھر قرآن شریف جو اوّل سے آخر تک 26
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : توحید سے بھرا ہوا ہے اور کسی جگہ اس میں سورج اور چاند وغیرہ کی پرستش کی تعلیم نہیں دی بلکہ صاف لفظوں میں فرمایا ہے لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ (حم سجده : ۳۸) یعنی نه سورج کی پرستش کرو اور نہ چاند کی اور نہ کسی اور مخلوق کی اور اس کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا.علاوہ اس کے قرآن شریف خدا کے قدیم نشانوں اور تازہ نشانوں کی گواہی اپنے ساتھ رکھتا ہے اور خدا کا وجود دکھلانے کے لئے ایک آئینہ ہے.پھر کیوں وحشیانہ طور کے اس پر حملے کئے جائیں اور کیوں وہ معاملہ ہم سے نہیں کیا جاتا جو ہم آریہ صاحبوں سے کرتے ہیں.اور کیوں دشمنی اور عداوت کا قتم ملک میں بویا جاتا ہے.کیا اُمید کی جاتی ہے کہ اس کا نتیجہ اچھا ہوگا؟ کیا یہ نیک معاملہ ہے کہ ایک شخص جو پھول دیتا ہے اس پر پتھر پھینکا جائے اور جو دودھ پیش کرتا ہے اس پر پیشاب گرایا جائے.صلح کی تجویز اگر اس قسم کی صلح نام کے لئے ہند و صاحبان اور آر یہ صاحبان 27
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : تیار ہوں کہ وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آئندہ تو ہین اور تکذیب چھوڑ دیں تو میں سب سے پہلے اس اقرار نامہ پر دستخط کرنے پر تیار ہوں کہ ہم احمدی سلسلہ کے لوگ ہمیشہ وید کے مصدق ہوں گے اور وید اور اس کے رشیوں کا تعظیم اور محبت سے نام لیں گے اور اگر ایسا نہ کریں گے تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہوگی.ہند و صاحبوں کی خدمت میں ادا کریں گے اور اگر ہند وصاحبان دل سے ہمارے ساتھ صفائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی ایسا ہی اقرار لکھ کر اس پر دستخط کردیں اور اس کا مضمون بھی یہ ہوگا کہ ہم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور نبوت پر ایمان لاتے ہیں اور آپ کو سچا نبی اور رسول سمجھتے ہیں اور آئندہ آپ کو ادب اور تعظیم کے ساتھ یاد کریں گے جیسا کہ ایک ماننے والے کے مناسب حال ہے اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہوگی احمدی سلسلہ کے پیش رو کی خدمت میں پیش کریں گے لیکن یہ ضروری ہوگا کہ معاہدہ کی تحریر کو پختہ کرنے کے لئے دونوں فریق کے دس دس ہزار سمجھ دارلوگوں کے اس پر دستخط ہوں.28
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : سیار و اصلح جیسی کوئی بھی چیز نہیں.آؤ ہم اس معاہدہ کے ذریعہ پیارو! سے ایک ہو جائیں اور ایک قوم بن جائیں.آپ دیکھتے ہیں کہ باہمی تکذیب سے کس قدر پھوٹ پڑ گئی ہے اور ملک کو کس قدر نقصان پہنچتا ہے آداب یہ بھی آزمالو کہ با ہمی تصدیق کی کس قدر برکات ہیں.بہترین طریق صلح کا یہی ہے.ورنہ کسی دوسرے پہلو سے صلح کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسا کہ ایک پھوڑے کو جو شفاف اور چمکتا ہوا نظر آتا ہے اسی حالت میں چھوڑ دیں اور اس کی ظاہری چمک پر خوش ہو جائیں حالانکہ اس کے اندرسری ہوئی اور بد بودار پیپ موجود ہے.مجھے اس جگہ ان باتوں کے ذکر کرنے سے کچھ غرض نہیں کہ وہ نفاق اور فساد جو ہندو اور مسلمانوں میں آج کل بڑھتا جاتا ہے اس کے وجوہ صرف مذہبی اختلافات تک محدود نہیں ہیں بلکہ دوسری اغراض اس کی وجوہ ہیں جو دنیا کی خواہشوں اور معاملات سے متعلق ہیں.مثلاً ہندوؤں کو ابتداء سے یہ خواہش ہے کہ گورنمنٹ اور ملک کے معاملات میں ان کا دخل ہو یا کم سے کم یہ کہ ملک داری کے معاملات میں ان کی رائے لی جائے اور گورنمنٹ ان کی ہر ایک شکایت کو توجہ سے سنے.اور 29
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : بڑے بڑے گورنمنٹ کے عہدے انگریزوں کی طرح ان کو بھی ملا کریں.مسلمانوں سے یہ غلطی ہوئی کہ ہندوؤں کی ان کوششوں میں شریک نہ ہوئے اور خیال کیا کہ ہم تعداد میں کم ہیں اور یہ سوچا کہ ان تمام کوششوں کا اگر کچھ فائدہ ہے تو وہ ہندوؤں کے لئے ہے نہ کہ مسلمانوں کے لئے اس لئے نہ صرف شراکت سے دستکش رہے.بلکہ مخالفت کر کے ہندوؤں کی کوشش کے سیدِ راہ ہوئے جس سے رنجش بڑھ گئی.میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان وجوہ سے بھی اصل عداوت پر حاشیے چڑھ گئے ہیں.مگر میں ہر گز تسلیم نہیں کروں گا کہ اصل وجوہ یہی ہیں اور مجھے ان صاحبوں سے اتفاق رائے نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ ہندو مسلمانوں کی باہمی عداوت اور نفاق کا باعث مذہبی تنازعات نہیں ہیں اصل تنازعات پولیٹکل ہیں.اختلافات کی اصل وجہ صاحبو! اس کا باعث در اصل مذہب ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں اگر آج وہی ہند و کلمہ طیبہ لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پڑھ کر 30
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : مسلمانوں سے آکر بغلگیر ہو جائیں یا مسلمان ہی ہندو بن کر اگنی وایو وغیرہ کی پرستش وید کے حکم کے موافق شروع کر دیں اور اسلام کو الوداع کہہ دیں تو جن تنازعات کا نام پولیٹکل رکھتے ہیں وہ ایک دم میں ایسے معدوم ہو جا ئیں کہ گو یا کبھی نہ تھے.پس اس سے ظاہر ہے کہ تمام بغضوں اور کینوں کی جڑھ دراصل اختلاف مذہب ہے.یہی اختلاف مذہب قدیم سے جب انتہا تک پہنچتا رہا ہے تو خون کی ندیاں بہاتا رہا ہے.اے مسلمانو! جبکہ ہندو صاحبان تمہیں بوجہ اختلاف مذہب کے ایک غیر قوم جانتے ہیں اور تم بھی اس وجہ سے ان کو ایک غیر قوم خیال کرتے ہو پس جب تک اس سبب کا ازالہ نہ ہوگا.کیونکر تم میں اور ان میں سچی صفائی پیدا ہوسکتی ہے.ہاں ممکن ہے کہ منافقانہ طور پر باہم چند روز کے لئے میل جول بھی ہو جائے.مگر وہ دلی صفائی جس کو درحقیقت صفائی کہنا چاہئے صرف اسی حالت میں پیدا ہوگی جبکہ آپ لوگ وید اور وید کے رشیوں کو بچے دل سے خدا کی طرف سے قبول کر لو گے اور ایسا ہی ہند ولوگ بھی اپنے بخل کو دور کر کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کر لیں گے.31
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : یا د رکھو اور خوب یاد رکھو کہ تم میں اور ہند و صاحبوں میں بچی صلح کرانے والا صرف یہی ایک اصول اور یہی ایک ایسا پانی ہے جو کدورتوں کو دھودے گا اور اگر وہ دن آگئے ہیں کہ یہ دونوں بچھڑی ہوئی قو میں باہم مل جائیں تو خدا ان کے دلوں کو بھی اس بات کے لئے کھول دے گا جس کے لئے ہمارا دل کھول دیا ہے.گئورکشا مگر اس کے ساتھ ضرور ہوگا کہ ہندو صاحبان کے ساتھ کچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ اور سلوک اور مروت اپنی عادت کرو اور ایسے کاموں سے اپنے تئیں باز رکھو جن سے اُن کو دُ کھ پہنچے گروہ کام ہمارے مذہب میں نہ واجبات سے ہوں اور نہ فرائض مذہب سے.پس اگر ہند و صاحبان اپنے صدق دل سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسچا نہی مان لیں اور ان پر ایمان لا دیں تو یہ تفرقہ جو گائے کی وجہ سے ہے اس کو بھی درمیان سے اُٹھا دیا جائے.جس چیز کو ہم حلال جانتے ہیں.ہم پر واجب نہیں کہ ضرور اس کو استعمال بھی کریں.بہتیری ایسی چیزیں ہیں کہ ہم حلال تو جانتے ہیں.مگر کبھی ہم نے استعمال نہیں کیں ان سے 32
.امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : سلوک اور احسان کے ساتھ پیش آنا ہمارے دین کی وصایا میں سے ایک وصیت ہے خدا کو واحد لاشریک جاننا پس ایک ضروری اور مفید کام کیلئے غیر ضروری کو ترک کرنا خدا کی شریعت کے مخالف نہیں.حلال جاننا اور چیز ہے اور استعمال کرنا اور چیز.دین یہ ہے کہ خدا کی منہیات سے پر ہیز کرنا اور اس کی رضامندی کی راہوں کی طرف دوڑ نا اور اس کی تمام مخلوق سے نیکی اور بھلائی کرنا اور ہمدردی سے پیش آنا اور دنیا کے تمام مقدس نبیوں اور رسولوں کو اپنے اپنے وقت میں خدا کی طرف سے نبی اور مصلح ماننا اور اُن میں تفرقہ نہ ڈالنا اور ہر ایک نوع انسان سے خدمت کے ساتھ پیش آنا ہمارے مذہب کا خلاصہ یہی ہے.پاک مذہب میں اس وقت کسی خاص قوم کو بے وجہ ملامت کرنا نہیں چاہتا اور نہ کسی کا دل دکھانا چاہتا ہوں بلکہ نہایت افسوس سے آہ کھینچ کر مجھے یہ کہنا پڑا ہے کہ اسلام وہ پاک اور صلح کار مذہب تھا جس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیا اور قرآن وہ قابل تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی.اور ہر ایک قوم کے نبی کو مان لیا اور تمام دنیا میں یہ فخر 33
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : خاص قرآن شریف کو حاصل ہے جس نے دنیا کی نسبت ہمیں یہ تعلیم دی كم لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُوْنَ یعنی تم اے مسلمانو! یہ کہو کہ ہم دُنیا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں یہ تفرقہ نہیں ڈالتے کہ بعض کو مانیں اور بعض کو رڈ کر دیں.اگر ایسی صلح کار کوئی اور الہامی کتاب ہے تو اس کا نام لو.قرآن شریف نے خدا کی عامہ رحمت کو کسی خاندان کے ساتھ مخصوص نہیں کیا.اسرائیلی خاندان کے جتنے نبی تھے کیا یعقوب اور کیا اسحاق اور کیا موسئے اور کیا داؤڈ اور کیا عیسے سب کی نبوت کو مان لیا اور ہر ایک قوم کے نبی خواہ ہند میں گذرے ہیں اور خواہ فارس میں کسی کو مکار اور کذاب نہیں کہا.بلکہ صاف طور پر کہہ دیا کہ ہر ایک قوم اور بستی میں نبی گذرے ہیں اور تمام قوموں کے لئے صلح کی بنیاد ڈالی مگر افسوس کہ اس صلح کے نبی کو ہر ایک قوم گالی دیتی ہے اور حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے.دشمنی کا بیج کے ہم وطن پیارو ! میں نے یہ بیان آپ کی خدمت میں اس لئے نہیں کیا کہ میں آپ کو ڈکھ دوں یا آپ کی دل شکنی کروں.بلکہ میں 34
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : نہایت نیک نیتی سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جن قوموں نے یہ عادت اختیار کر رکھی ہے اور یہ ناجائز طریق اپنے مذہب میں اختیار کر لیا ہے کہ دوسری قوموں کے نبیوں کو بد گوئی اور دشنام دہی کے ساتھ یاد کریں.وہ نہ صرف بے جا مداخلت سے جسکے ساتھ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں.خدا کے گنہگار ہیں بلکہ وہ اس گناہ کے بھی مر تکب ہیں کہ بنی نوع میں نفاق اور دشمنی کا بیج بوتے ہیں.آپ دل تھام کر اس بات کا مجھے جواب دیں کہ اگر کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دے یا اس کی ماں پر کوئی تہمت لگاہے تو کیا وہ اپنے باپ کی عزت پر آپ حملہ نہیں کرتا اور اگر وہ شخص جس کو ایسی گالی دی گئی ہے جواب میں اسی طرح گالی سنا دے تو کیا یہ کہنا بے محل ہوگا کہ بالمقابل گالی دیئے جانے کا دراصل وہی شخص موجب ہے جس نے گالی دینے میں سبقت کی اور اس صورت میں وہ اپنے باپ اور ماں کی عزت کا خود دشمن ہوگا.بچوں کو بھی گالیاں دینے کی ممانعت خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اس قدر ہمیں طریق ادب اور اخلاق کا سبق سکھلایا ہے کہ وہ فرماتا ہے کہ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ 35
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ (سورہ الانعام :١٠٩) یعنی تم مشرکوں کے بچوں کو بھی گالی مت دو کہ وہ پھر تمہارے خدا کو گالیاں دیں گے کیونکہ وہ اس خدا کو جانتے نہیں.اب دیکھو کہ باوجود یکہ خدا کی تعلیم کی رُو سے بُت کچھ چیز نہیں ہیں مگر پھر بھی خدا مسلمانوں کو یہ اخلاق سکھلاتا ہے کہ بچوں کی بدگوئی سے بھی اپنی زبان بند رکھو اور صرف نرمی سے سمجھاؤ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ مشتعل ہو کر خدا کو گالیاں نکالیں اور ان گالیوں کے تم باعث ٹھہر جاؤ.پس ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اسلام کے اس عظیم الشان نبی کو گالیاں دیتے اور توہین کے الفاظ سے اس کو یاد کرتے اور وحشیانہ طریقوں سے اس کی عزت اور چال چلن پر حملہ کرتے ہیں.وہ بزرگ نبی جس کا نام لینے سے اسلام کے عظیم الشان بادشاہ تخت سے اتر آتے ہیں اور اس کے احکام کے آگے سر جھکاتے اور اپنے تئیں اس کے ادنی غلاموں سے شمار کرتے ہیں کیا یہ عزت خدا کی طرف سے نہیں.خداداد عزت کے مقابل پر تحقیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو خدا سے لڑنا چاہتے ہیں.حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم خدا کے وہ برگزیدہ رسول ہیں جن کی تائید اور عزت ظاہر 36
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : کرنے کے لئے خدا نے دنیا کو بڑے بڑے نمونے دکھائے ہیں کیا یہ خدا کے ہاتھ کا کام نہیں جس نے ہمیں کروڑ انسانوں کا محمدی درگاہ پر سر جھکا رکھا ہے.اگر چہ ہر ایک نبی اپنی نبوت کی سچائی کے لئے کچھ ثبوت رکھتا تھا.لیکن جس قدر ثبوت آنجناب کی نبوت کے بارے میں ہیں جو آج تک ظاہر ہورہے ہیں اُن کی نظیر کسی نبی میں نہیں پائی جاتی.رحمت کا تقاضا آپ لوگ اس دلیل کو نہیں سمجھ سکتے ! کہ جب زمین گناہ اور پاپ سے پلید ہو جاتی ہے اور خدا کے ترازو میں بدکاریاں اور بدچلنیاں اور بے باکیاں نیک کاموں سے بہت بڑھ جاتی ہیں تب خدا کی رحمت تقاضا کرتی ہے کہ ایسے وقت میں کسی اپنے بندے کو بھیج کر زمین کے فسادوں کی اصلاح کی جائے.بیماری طبیب کو چاہتی ہے اور آپ لوگ اس بات کے سمجھنے کے لئے سب سے زیادہ استعداد ر کھتے ہیں.کیونکہ جیسا کہ بقول آپ صاحبوں کے دید ایسے وقت میں نہیں آیا جبکہ گناہ کا طوفان بر پا تھا بلکہ ایسے وقت میں آیا جبکہ زمین پر گناہ کا کوئی سیلاب نہ 37
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : تھا.تو کیا آپ صاحبوں کی نظر میں یہ بات قیاس سے دُور ہے کہ ایسے وقت میں کوئی نبی ظاہر ہو.جبکہ گناہ کا نند سیلاب ہر ایک ملک میں اپنی تیز رفتار کے ساتھ جاری ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی میں نہیں اُمید رکھتا کہ آپ لوگ اس تاریخی واقعہ سے بے خبر ہوں گے کہ جب ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسندِ رسالت کو اپنے وجود سے عزت دی تو وہ زمانہ ایک ایسا تاریک زمانہ تھا کہ کوئی پہلو دنیا کی آبادی کا بدچلنی اور بد عقیدگی سے خالی نہ تھا اور جیسا کہ پنڈت دیانند صاحب اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں لکھتے ہیں.اس زمانہ میں اس ملک آریہ ورت میں بھی بت پرستی نے خدا پرستی کی جگہ لے لی تھی اور ویدک مذہب میں بہت سا بگا ڑ ہو گیا تھا.ایسا ہی پادری فنڈل صاحب مصنف میزان الحق جو عیسائی مذہب کا سخت حامی ایک یورپین انگریز ہے.وہ اپنی کتاب میزان الحق میں لکھتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں سب قوموں سے 38
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : زیادہ بگڑی ہوئی قوم عیسائی قوم تھی اور ان کی بد چلدیاں عیسائی مذہب کی عار اور ننگ کا موجب تھیں اور خود قرآن شریف بھی اپنے نزول کی ضرورت کے لئے یہ آیت پیش کرتا ہے : ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (سوره روم :۴۲) یعنی جنگل بھی بگڑ گئے اور دریا بھی بگڑ گئے اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ کوئی قوم خواہ وحشیانہ حالت رکھتی ہیں اور خواہ نظمندی کا دعوی کرتی ہیں فساد سے خالی نہیں.اب جبکہ تمام شہادتوں سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگ کیا مشرقی اور کیا مغربی اور کیا آریہ ورت کے رہنے والے اور کیا عرب کے ریگستان کے باشندے اور کیا جزیروں میں اپنی سکونت رکھنے والے سب کے سب بگڑ گئے تھے اور ایک بھی نہیں تھا جس کا خدا کے ساتھ تعلق صاف ہو اور بدعملیوں نے زمین کو نا پاک کر دیا تھا تو کیا ایک نظمند کو یہ بات سمجھ نہیں آسکتی کہ یہ وہی وقت اور وہی زمانہ تھا جس کی نسبت عقل تجویز کر سکتی ہے کہ ایسے تاریک زمانہ میں ضرور کوئی عظیم الشان نہیں آنا چاہئے تھا.39
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اصلاح پہلا مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عرب کی اصلاح تھی اور عرب کا ملک اس زمانہ میں ایسی حالت میں تھا کہ بمشکل کہہ سکتے ہیں کہ وہ انسان تھے.کون سی بدی تھی جو ان میں نہ تھی اور کون سا شرک تھا جو ان میں رائج نہ تھا.چوری کرنا ڈا کہ مارنا ان کا کام تھا اور ناحق کا خون کرنا ان کے نزدیک ایک ایسا معمولی کام تھا جیسا کہ ایک چیونٹی کو پیروں کے نیچے کچل دیا جائے.یتیم بچوں کو قتل کر کے ان کا مال کھا لیتے تھے.لڑکیوں کو زندہ بگور کرتے تھے.زنا کاری کے ساتھ فخر کرتے اور علانیہ اپنے قصیدوں میں ان گندی باتوں کا ذکر کرتے تھے.شراب خوری اس قوم میں اس کثرت سے تھی کہ کوئی گھر بھی شراب سے خالی نہ تھا اور قمار بازی میں سب ملکوں سے آگے بڑھے ہوئے تھے.حیوانوں کی عار تھے اور سانپوں اور بھیٹریوں کی ننگ.پھر جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اصلاح کے لئے کھڑے ہوئے اور اپنی باطنی توجہ سے ان کے دلوں کو صاف کرنا چاہا تو 40
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : اُن میں تھوڑے ہی دنوں میں ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی کہ وہ وحشیانہ حالت سے انسان بنے اور پھر انسان سے مہذب انسان اور مہذب انسان سے باخدا انسان اور آخر خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسے محو ہو گئے کہ انہوں نے ایک بے حس عضو کی طرح ہر ایک دُکھ کو برداشت کیا.وہ انواع اقسام کی تکالیف سے عذاب دیئے گئے اور سخت بیدردی سے تازیانوں سے مارے گئے اور جلتی ہوئی ریت پر لٹائے گئے اور قید کئے گئے اور بھوکے اور پیاسے رکھ کر ہلاکت تک پہنچائے گئے مگر انہوں نے ہر ایک مصیبت کے وقت قدم آگے رکھا.اور بہتیرے ان میں ایسے تھے کہ ان کے سامنے ان کے بچے قتل کئے گئے اور بہتیرے ایسے تھے کہ بچوں کے سامنے وہ سولی دیئے گئے اور جس صدق سے انہوں نے خدا کی راہ میں جانیں دیں اس کا تصور کر کے رونا آتا ہے.اگران کے دلوں پر یہ خدا کا تصرف اور اس کے نبی کی توجہ کا اثر نہ تھا تو پھر وہ کیا چیز تھی جس نے ان کو اسلام کی طرف کھینچ لیا اور ایک فوق العادت تبدیلی پیدا کر کے ان کو ایسے شخص کے آستانہ پر گرنے کی رغبت دی کہ جو بے کس اور مسکین اور بے زری کی حالت میں مکہ کی گلیوں میں اکیلا 41
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : اور تنہا پھرتا تھا.آخر کوئی روحانی طاقت تھی جو ان کو سفلی مقام سے اٹھا کر اوپر کو لے گئی اور عجیب تر بات یہ ہے کہ اکثر ان کے ان کی کفر کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن اور آنجناب کے خون کے پیاسے تھے پس میں تو اس سے بڑھ کر کوئی معجزہ نہیں سمجھتا کہ کیونکر ایک غریب مفلس تنہا بے کس نے ان کے دلوں کو ہر ایک کینہ سے پاک کر کے اپنی طرف کھینچ لیا یہاں تک کہ وہ فخر یہ لباس پھینک کر اور ٹاٹ پہن کر خدمت میں حاضر ہو گئے.جہاد کا غلط تصور بعض نا سمجھ جو اسلام پر جہاد کا الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سب لوگ جبر اتلوار سے مسلمان کئے گئے تھے.افسوس ہزار افسوس کہ وہ اپنی بے انصافی اور حق پوشی میں حد سے گذر گئے ہیں.ہائے افسوس ان کو کیا ہو گیا کہ وہ عمد اصیح واقعات سے منہ پھیر لیتے ہیں.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے ملک میں ایک بادشاہ کی حیثیت سے ظہور فرما نہیں ہوئے تھے تا یہ گمان کیا جاتا کہ چونکہ وہ بادشاہی جبروت اور 42
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : شوکت اپنے ساتھ رکھتے تھے اس لئے لوگ جان بچانے کے لئے ان کے جھنڈے کے نیچے آگئے تھے.اس سوال تو یہ ہے کہ جبکہ آپ کے لئے اپنی غریبی اور مسکینی اور تنہائی کی حالت میں خدا کی توحید اور اپنی نبوت کے بارے میں منادی شروع کی تھی تو اس وقت کس تلوار کے خوف سے لوگ آپ پر ایمان لے آئے تھے اور اگر ایمان نہیں لائے تھے تو پھر جبر کرنے کے لئے کس بادشاہ سے کوئی لشکر مانگا گیا تھا اور مدد طلب کی گئی تھی.اسے حق کے طالبو! تم یقیناً سمجھو کہ یہ سب باتیں اُن لوگوں کی افترا ہیں جو اسلام کے سخت دشمن ہیں.سوانح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کو دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہی ایک یتیم لڑکا تھا جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہوگیا اور ماں صرف چند سال کا بچہ چھوڑ کر مرگئی تھی.جب وہ بچہ جس کے ساتھ خدا کا ہاتھ تھا بغیر کسی کے سہارے کے خدا کی پناہ میں پرورش پاتا رہا اور اس مصیبت اور یتیمی کے ایام میں بعض لوگوں کی بکریاں بھی چرائیں اور بجز خدا کے 43
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : کوئی متکفل نہ تھا اور پچیس برس تک پہنچ کر کسی چانے بھی آپ کو اپنی لڑکی نہ دی.کیونکہ جیسا کہ بظاہر نظر آتا تھا.آپ اس لائق نہ تھے کہ خانہ داری کے اخراجات کے متحمل ہو سکیں اور نیز محض اتمی تھے اور کوئی حرفہ اور پیشہ نہیں جانتے تھے.پھر جب آپ چالیس برس کے سن تک پہنچے تو ایک دفعہ آپ کا دل خدا کی طرف کھینچا گیا.ایک غار مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے جس کا نام حرا ہے.آپ اکیلے وہاں جاتے اور غار کے اندر چھپ جاتے اور خدا کو یاد کرتے.ایک دن اُسی غار میں آپ پوشیدہ طور پر عبادت کر رہے تھے تب خدا تعالیٰ آپ پر ظاہر ہوا اور آپ کو حکم ہوا کہ دنیا نے خدا کی راہ کو چھوڑ دیا ہے اور زمین گناہ سے آلودہ ہوگئی ہے اس لئے میں تجھے اپنا رسول بنا کر بھیجتا ہوں.اب تو لوگوں کو متنبہ کر کہ وہ عذاب سے پہلے خدا کی طرف رجوع کریں.اس حکم کے سننے سے آپ ڈرے کہ میں ایک اُمی یعنی ناخواندہ آدمی ہوں اور عرض کیا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا.جب خدا نے آپ کے سینہ میں تمام روحانی علوم بھر دیئے اور آپ کے دل کو روشن کر دیا.آپ کی قوت 44
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : قدسیہ کی تاثیر سے غریب اور عاجز لوگ آپ کے حلقہ اطاعت میں آنے شروع ہو گئے اور جو بڑے بڑے آدمی تھے انہوں نے دشمنی پر کمر باندھ لی.یہاں تک کہ آخر کار آپ کو قتل کرنا چاہا اور کئی مرد اور کئی عورتیں بڑے عذاب کے ساتھ قتل کر دیئے گئے.اور آخری حملہ یہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لئے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا.مگر جس کو خدا بچاوے اس کو کون مارے.خدا نے آپ کو اپنی وحی سے اطلاع دی کہ آپ اس شہر سے نکل جاؤ اور میں ہر قدم میں تمہارے ساتھ ہوں گا.پس آپ شہر مکہ سے ابوبکر کو ساتھ لے کر نکل آئے اور تین رات تک غار ثور میں چھپے رہے.دشمنوں نے تعاقب کیا اور ایک سراغ رساں کو لے کر غار تک پہنچے اس شخص نے غار تک قدم کا نشان پہنچادیا اور کہا کہ اس غار میں تلاش کرو.اس کے آگے قدم نہیں.اور اگر اس کے آگے گیا ہے تو پھر آسمان پر چڑھ گیا ہو گا.مگر خدا کی قدرت کے عجائبات کی کون حد بست کر سکتا ہے.خدا نے ایک ہی رات میں یہ قدرت نمائی کی کہ عنکبوت نے اپنی جالی سے غار کا تمام مُنہ بند کر دیا اور 45
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : ایک کبوتری نے غار کے منہ پر گھونسلا بنا کر انڈے دے دیئے.اور جب سراغ رساں نے لوگوں کو غار کے اندر جانے کی ترغیب دی تو ایک بڑھا آدمی بولا کہ یہ سراغ رساں تو پاگل ہو گیا ہے.میں تو اس جالی کو غار کے منہ پر اُس زمانہ سے دیکھ رہا ہوں جبکہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا.اس بات کوسُن کر سب لوگ منتشر ہو گئے اور غار کا خیال چھوڑ دیا.اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ طور پر مدینہ پہنچے اور مدینہ کے اکثر لوگوں نے آپ کو قبول کر لیا.اس پر مکہ والوں کا تو غضب بھڑ کا اور افسوس کیا کہ ہمارا شکار ہمارے ہاتھ سے نکل گیا.اور پھر کیا تھا دن رات انہیں منصوبوں میں لگے کہ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں.اور کچھ تھوڑا گر وہ مکہ والوں کا کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا تھا وہ بھی مکہ سے ہجرت کر کے مختلف ممالک کی طرف چلے گئے.بعض نے حبشہ کے بادشاہ کی پناہ لے لی تھی اور بعض مکہ میں ہی رہے کیونکہ وہ سفر کرنے کے لئے زاد راہ نہیں رکھتے 46
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : تھے، اور وہ بہت دُکھ دیئے گئے.قرآن شریف میں ان کا ذکر ہے کہ کیونکر وہ دن رات فریاد کرتے تھے.اور جب کفار قریش کا حد سے زیادہ ظلم بڑھ گیا اور اُنہوں نے غریب عورتوں اور یتیم بچوں کو قتل کرنا شروع کیا اور بعض عورتوں کو ایسی بے دردی سے مارا کہ ان کی دونوں ٹانگیں دورتوں سے باندھ کر دو اونٹوں کے ساتھ وہ رستے خوب جکڑ دیئے اور پھر ان اونٹوں کو دو مختلف جہات میں دوڑایا اور اس طرح پر وہ عورتیں دوٹکڑے ہو کر مر گئیں.جب بے رحم کافروں کا ظلم اس حد تک پہنچ گیا.خدا نے جو آخر اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے، اپنے رسول پر وحی نازل کی کہ مظلوموں کی فریاد میرے تک پہنچ گئی.آج میں اجازت دیتا ہوں کہ تم بھی ان کا مقابلہ کرو اور یا درکھو کہ جولوگ بے گناہ لوگوں پر تلوار اُٹھاتے ہیں وہ تلوار سے ہی ہلاک کئے جائیں گے.مگر تم کوئی زیادتی مت کرو کہ خدا از یادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.دین میں جبر نہیں یہ ہے حقیقت اسلام کے جہاد کی.جس کو نہایت ظلم سے بُرے 47
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے.بے شک خدا حلیم ہے مگر جب کسی قوم کی شرارت حد سے گزر جاتی ہے تو وہ ظالم کو بے سزا نہیں چھوڑتا اور آپ ان کے لئے تباہی کے سامان پیدا کر دیتا ہے.میں نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.خدا تو قرآن شریف میں فرماتا ہے : لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقره: ٢٥٧) یعنی دین اسلام میں جبر نہیں تو پھر کس نے جبر کا حکم دیا اور جہر کے کون سے سامان تھے اور کیا وہ لوگ جو جبر سے مسلمان کئے جاتے ہیں ان کا یہی صدق اور یہی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے کے باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں آدمیوں کا مقابلہ کریں.اور جب ہزار تک پہنچ جائیں تو کئی لاکھ دشمن کو شکست دے دیں.اور دین کو دشمن کے حملہ سے بچانے کیلئے بھیٹروں بکریوں کی طرح سر کٹا دیں اور اسلام کی سچائی پر اپنے خون سے مہریں کر دیں اور خدا کی تو حید کے پھیلانے کے لئے ایسے عاشق ہوں کہ درویشانہ طور پر ختی اُٹھا کر افریقہ کے ریگستان تک پہنچیں اور اس ملک میں اسلام کو پھیلا دیں اور پھر ہرا یک 48
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : قسم کی صعوبت اُٹھا کر چین تک پہنچیں.نہ جنگ کے طور پر بلکہ محض درویشانہ طور پر اور اس ملک میں پہنچ کر دعوت اسلام کریں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے بابرکت وعظ سے کئی کروڑ مسلمان اس زمین میں پیدا ہو جائیں.اور پھر ٹاٹ پوش درویشوں کے رنگ میں ہندوستان میں آئیں اور بہت سے حصہ آریہ ورت کو اسلام سے مشرف کر دیں اور یورپ کی حدود تک لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کی آواز پہنچا دیں.تم ایمانا کہو کہ کیا یہ کام ان لوگوں کا ہے جو جبر امسلمان کئے جاتے ہیں جن کا دل کافر اور زبان مومن ہوتی ہے.نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کے کام ہیں جن کے دل نور ایمان سے بھر جاتے ہیں اور جن کے دلوں میں خدا ہی خدا ہوتا ہے.اسلام کی تعلیم پھر ہم اس طرف رجوع کرتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے؟ واضح ہو کہ اسلام کا بڑا بھاری مقصد خدا کی تو حید اور جلال زمین پر قائم کرنا اور شرک کا بکلی استیصال کرنا اور تمام متفرق فرقوں کو ایک کلمہ پر قائم کر کے ان کو ایک قوم بنا دینا ہے.اور پہلے مذاہب جس قدر دنیا میں گزرے ہیں 49
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : اور جس قدر نبی اور رسول آئے ہیں ان کی نظر صرف اپنی قوم اور اپنے ملک تک محدود تھی.اور اگر انہوں نے کچھ اخلاق بھی سکھلائے تھے تو اس اخلاقی تعلیم سے ان کا مقصد اس سے زیادہ نہ تھا کہ اپنی ہی قوم کو ان کے اخلاق سے بہرہ یاب کریں.چنانچہ حضرت مسیح نے صاف صاف کہہ دیا کہ میری تعلیم صرف بنی اسرائیل تک محدود ہے.اور جب ایک عورت نے جو اسرائیلی خاندان میں داخل نہ تھی بڑی عاجزی سے ان سے ہدایت چاہی تو انہوں نے اس کو ردّ کیا.اور پھر وہ غریب عورت کتیا سے اپنے تئیں مشابہت دے کر دوبارہ ہدایت کی مستدعی ہوئی تو وہی جواب اسکو ملا کہ میں صرف اسرائیل کی بھیڑوں کے لئے بھیجا گیا ہوں.آخر وہ چپ رہ گئی.مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں نہیں کہا کہ میں صرف عرب کے لئے بھیجا گیا ہوں بلکہ قرآن شریف میں یہ ہے : قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا (اعراف: ۱۵۹) یعنی لوگوں سے کہہ دے کہ میں تمام دنیا کے لئے بھیجا گیا ہوں.مگر یادر ہے کہ حضرت عیسی کا اس عورت کو صاف جواب دینا یہ ایسا 50
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : امر نہیں ہے کہ اس میں حضرت عیسی کا کوئی گناہ تھا بلکہ عام ہدایت کا ابھی وقت نہیں آیا تھا.اور حضرت عیسی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی حکم تھا کہ تم خاص بنی اسرائیل کے لئے بھیجے گئے ہو.اوروں سے تمہیں کچھ غرض نہیں.پس جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے.حضرت عیسی کی اخلاقی تعلیم بھی محض یہودیوں تک محدود تھی.بات یہ تھی کہ توریت میں یہ احکام تھے کہ دانت کے بدلہ دانت اور آنکھ کے بدلہ آنکھ اور ناک کے بدلہ ناک.اور اس تعلیم سے صرف یہ غرض تھی کہ تا یہودیوں میں عدل کا مسئلہ قائم کیا جائے.اور تعدی اور زیادتی سے روکا جائے.چونکہ باعث اس کے کہ وہ چارسو بر تک غلامی میں رہ چکے تھے ، ان میں ظلم اور سفلہ پن کی خصلتیں بہت پیدا ہو گئی تھیں.پس خدا کی حکمت نے یہ تقاضا کیا کہ جیسا کہ انتقام اور بدلہ لینے میں ان کی فطرتوں میں ایک تشدد تھا اس کے دُور کرنے کے لئے ایک تشدد کے ساتھ اخلاقی تعلیم پیش کی جائے.سو وہ اخلاقی تعلیم انجیل ہے جو صرف یہودیوں کے لئے ہے نہ تمام دنیا کے لئے کیونکہ دوسری قوموں کے لئے حضرت عیسی کو کچھ بھی غرض نہ تھی.51
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : مگر واقعی بات یہ ہے کہ اس تعلیم میں جو حضرت عیسی نے پیش کی صرف یہی نقص نہیں کہ وہ دنیا کی عام ہمدردی پر مبنی نہیں بلکہ ایک یہ بھی نقص ہے کہ جیسا کہ توریت تشدّ دو انتقام کی تعلیم میں افراط کی طرف مائل ہے ایسا انجیل عفو اور در گذر کی تعلیم میں تفریط کی طرف جھک گئی ہے اور ان دونوں کتابوں نے انسانی درخت کی تمام شاخوں کا کچھ لحاظ نہیں کیا بلکہ اس درخت کی ایک شاخ کو تو توریت پیش کرتی ہے اور دوسری شاخ انجیل کے ہاتھ میں ہے اور دونوں تعلیمیں اعتدال سے گری ہوئی ہیں کیونکہ جیسا کہ ہر وقت اور ہر موقعہ پر انتقام لینا اور سزا دینا قرین مصلحت نہیں.ایسا ہی ہر وقت اور ہر موقعہ پر عفو اور درگذر کرنا انسانی تربیت کے مصالح سے بالکل مخالف ہے.اسی وجہ سے قرآن شریف نے ان دونوں تعلیموں کو ر ڈ کر کے یہ فرمایا ہے جَزَ وُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ (الشوری: ۴۱) یعنی بدی کا بدلہ اسی قدر بدی ہے جو کی جائے.جیسا کہ توریت کی تعلیم ہے مگر جو شخص عفو کرے جیسا کہ انجیل کی تعلیم ہے تو اس صورت میں وہ عفو مستحسن اور جائز ہوگی جبکہ کوئی نیک نیتجہ اس کا مرتب ہو اور جس کو معاف کیا گیا کوئی اصلاح اس کی اس عفو سے متصور ہو ورنہ قانون یہی ہے جو توریت میں مذکور ہے.52
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : جماعت احمدیہ کی ترقی کے تمام لوگو سُن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور بُرہان کی رُو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں غایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا.اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور ( تذکرۃ الشہادتیں) کوئی نہیں جو اس کو روک سکے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:- ” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جائے گا.(تجلیات الہیہ ) 53
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : جماعت احمدیہ زمین کے کناروں تک NIGER TOGO 27 GHANA 1 28 GAMBIA GABON 29 BURKINAFASO CHAD 30 IVORY COAST GUINEA KANAKARA 31 SIERRALEONE CAMROON 32 NIGERIA MAURITANIA 33 LIBERIA EQUATORIAL GUINEA 34 SENEGAL CAPE VERDE ISLANDS 35 GUINEA BISSAU 9 KENYA 36 BENIN REUNION ISLANDS 37 TANZANIYA 11 EGYPT 38 UGANDA LESOTHO 39 REPUBLIC OF CONGO LIBYA 40 ZAMBIA MUROCCO 41 ZIMBABWE SADTONE AND PRINCIPE 42 MALAWI NAMIBIA 43 BURUNDI SUDAN 44 MOZAMBIQUE SWAZILAND 45 CONGO (BRAZAVILLE) TUNISIA 46 RWANDA W.SAHARA 47 MAURITIUS USA 48 MADAGASCAR CANADA 49 COMOROS GUATEMALA 50 SOUTH AFRICA BRAZIL 51 ANGOLA SURINAME 52 MALI 234567812-227567222222222 10 19 20 54
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : GUYANA 82 ETHOPIA 53 TRINIDAD 83 SOMALIA 54 JAMAICA 84 ERITREA 55 GRENADA 85 DJIBOUTI 56 ST.LUCIA 86 SEYCHELLES 57 ELOSALVADOR 87 ALGERIA 58 DOMINICAN REPUBLIC 88 BOSTSWANA 59 ITALY 89 CENTRAL AFRICAN REPUBLIC 60 SLOVENIA 90 MEXICO 61 BOSNIA 91 COLUMBIA 62 CROTIA 92 ARGENTINA 63 AUSTRIA 93 NICARAGAUA 64 CZECH REPUBLIC 94 ECUADOOR 65 IRELAND 95 VENEZULLA 66 SERBIA 96 ST.KITTS AND NEVIS 67 FINLAND 97 GERMANY 68 ANDORRA 98 BELGIUM 69 CYPRUS 99 HOLLAND 70 GREECE 100 SWITZERLAND 71 MALTA 101 FRANCE 72 MONACO 102 SPAIN 73 KOSOVA 103 PORTUGAL 74 MOLDOVA 104 DENMARK 75 INDIA 105 SWEDEN 76 PAKISTAN 106 NORWAY 77 BANGLADESH 107 POLAND 78 AFGANISTAN 108 UNITED KINGDOM 79 BHUTAN 109 HUNGARY 80 IRAN 110 ALBANIA 81 55
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : IRAQ 140 BULGARIA 111 BAHRAIN 141 MACEDONIA 112 PALESTINE+KABABIR 142 LUXEMBOURG 113 PHILIPPINES 143 JORDON 114 SINGAPORE 144 KUWAIT 115 SOUTH KOREA 145 LEBANON 116 THAILAND 146 MALDIVES 117 VIETNAM 147 NEPAL 18 MONGOLIA 148 OMAN 119 MARTIMQUE 149 QATAR 120 AUSTRALIA 150 SAUDI ARABIA 121 FIJI 151 SRILANKA 122 KIRBATI 152 SYRIA 123 MARSHAL ISLANDS 153 TURKEY 124 TONGO 154 YEMEN 125 WESTERN SAMA 155 ABU DABI 126 TUVAW 156 DUBAI 127 MICRONESIA 157 SHARJAH 128 NARU 158 BRUNEI 129 UNAUATU 159 MYANMAR 130 TOKELAU 160 CAMBODIA 131 SOLOMON ISLANDS 161 CHINA 132 NEWZEALAND 162 HONGKONG 133 COOK ISLANDS 163 ANDONESIA 134 PHONEIX ISLAND 164 JAPAN 135 NEW CALDONIA 165 LAOS 136 ESTONIA 166 MALAYSIA 137 ANTIGUA 167 GUAM 138 BERMUDA 168 NORFOLKI ISLAND 139 56
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : BOLIVIA GUADELOUPE ST.MARTIN 184 TAHITI 169 185 AZERBAIJAN 170 186 BELARUS 171 FRENCH GUINEA 187 KYRGHSTAN 172 HAITI 188 KAZAKHSTAN 173 TAJKISTAN 189 RUSSIA 174 PALAO 190 TATARISTAN 175 ICELAND 191 UKRAINE 176 LETHWANIA 192 UZBEKISTAN 177 SARBIA 193 MAYON ISLAND 178 LITHOWINIA 194 PERU 179 TURKAMANISTAN 195 GIBRALTER 180 DOMINICA 196 BAHAMAS 181 FAROE ISLAND 197 ST.VINCENT 182 RUMANIA 198 PAPVA NEW GUINEA 183 جماعت احمدیہ کے ذریعہ دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت زبان سن زبان اشاعت شمار سن اشاعت 1987 RUSAIAN 5 1953 DUCH 1 1988 JAPANESE 6 1953 KISWAHILI 2 1988 KIKUYU 7 1954 GERMAN 3 1988 KOREAN 8 1955 ENGLISH 4 57
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : 1988 PORTUGUESE 29 1957 29 URDU (tafseer-e-sagheer) 0 1988 SPANISH 30 1967 DANISH 10 1988 SWEDISH 31 1970 ESPERANTO 11 1989 GREEK 32 1970 INDONESIAN 12 1989 MALAY 33 1976 YORUBA 13 1989 ORIYA 34 1983 GURMUKHI 14 1989 PERSIAN 35 1984 LUGANDA 15 1989 PUNJABI 36 1985 FRENCH 16 1989 TAMIL 37 1986 ITALIAN 17 1989 VEINAMESE 38 1987 FIJIAN 18 1990 BENGALI 39 1987 HINDI 19 2000 URDU 40 1990 CZECH 120 20 (By Khalifatul Masih IVth) 1998 SUNDANESE 41 1990 CHINESE 21 2001 NEPALI 42 1990 GUJRATI 2002 JULA 43 1990 IGBO 22 22 23 2002 KIKAMBA 44 1990 MENDE 2003 CATALAN 45 1990 PASHTU 2004 CREOLE 46 1990 POLISH 222 24 25 26 2004 KANNADA 47 1990 SARAEIKI 27 2005 UZBEK 48 1990 TURKISH 28 888 58
امن کے شہزادہ کا آخری پیغام : زبان سن نمبر زبان سن شمار اشاعت شمار اشاعت | 2006 MOORE 61 1990 TUVALUAN 49 2007 FULA 62 1991 BULGARIAN 2007 MANDINKA 63 1991 MALAYALAM 51 55 50 2007 WOLOF 64 1991 MANIPURI 2008 BOSNIAN 65 1991 SINDHI 2008 KIRGIT 66 1991 TAGALOG SSS 52 53 54 2008 THAI 67 1991 TELUGU 55 2008 BALAGASI 68 1992 HAUSA 56 2009 ASHANTI 69 1992 MARATHI 57 2010 PORTUGUESE KRIOL 70 1996 NORWEGIAN 58 1990 ALBANIAN 71 1998 KASHMIRI 59 1990 ASSAMESE 60 59