Aman Ka Gehwara

Aman Ka Gehwara

امن کا گہوارہ ۔ مکّۃ المکرمہ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

احمدی بچوں کو دنیا کے مقدس شہروں سے روشناس کرنے کے لئے لکھی جانے والی کتب کے سلسلہ کی یہ مختصر کتاب مکہ مکرمہ کے بارہ میں ہے۔امن کا گہوارہ اور ہر  مسلمان کی زندگی اورعبادت کامحور و مرکز  کہلانے والے اس شہر میں سید ولد آدم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ، خیر البشر پیدا ہوئے، جوان ہوئے، یہاں ہی آپ نبوت کے مرتبہ پر فائز ہوئے ، آپ ﷺ کی اس دنیا میں آمد سے ہزاروں سال قبل خدا تعالیٰ نے اپنے خاص پیاروں کے ذریعہ اس مقدس شہر کو آباد کیا، اور آباد رکھا ، اس شہر کی آبادی کےلئے مردوں، عورتوں اور بچوں کے قربانیاں دیں۔ الغرض اس کتاب کا مطالعہ بچوں میں مکہ مکرمہ کا بلند مقام ومرتبہ بھی بتائے گا اور ان کے معصوم دلوں میں اس شہرت کی عظمت و محبت بھی پیدا کرنے والا ہوگا۔


Book Content

Page 1

امن کاگہواره مكة المكرمه شائع کرده نظارت نشر واشاعت قادیان

Page 2

نام کتاب امن کا گہوارہ مکة المکرمة ISBN: 978-81-7912-182-5

Page 3

عرض ناشر لجنہ اماءاللہ نے صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر احباب جماعت کی معلومات اور بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے کم از کم سو کتب شائع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا.جس کے تحت مختلف افراد کی طرف سے مرتب کردہ یا تصنیف کردہ کتب شائع کی گئیں.یہ کتب نہایت آسان اور عام فہم سادہ زبان میں لکھی گئیں تا کہ ہر کوئی آسانی سے اسے سمجھ سکے.ان میں سے کتا بچہ امن کا گہوارہ مکہ مکرمہ سید نا حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے نظارت نشر واشاعت قادیان کے تحت شائع کیا جارہا ہے.والدین اپنے بچوں کو اس کتاب کا مطالعہ کروائیں تا ے بچے دنیا کے مقدس شہر مکہ مکرمہ سے روشناس ہوسکیں.اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے مبارک کرے اور نافع الناس بنائے.ناظر نشر واشاعت قادیان

Page 4

پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے.لجنہ اماء ا لو جشن تشکر کے موقع پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.اس موقع پر جہاں بڑوں کے لئے کتب شائع کی گئی ہیں وہاں ننھے بچوں کے لئے بھی نصاب اور سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر کتابیں شائع کی گئی ہیں.لجنہ کے منصوبہ میں یہ شامل ہے کہ پیارے بچوں کو دُنیا کے مقدس شہروں سے بھی روشناس کرایا جائے.الحمد للہ سب سے پہلے دنیا جہاں کے مقدس ترین شہر امن کا گہوارہ مکہ مکرمہ کے نام سے کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے.بچوں کے علم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو سب سے زیادہ پیار کرنے والا ہے اپنے بندوں کے لئے اپنی صفات کا آئینہ بنا کر سید ولد آدم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر البشر کے مقام پر فائز کر کے دنیا میں مبعوث فرمایا ہے اور یہ حسین و جمیل دُنیا اس مقدس نبی کی خاطر تخلیق کی.لولاك لما خلقت الافلاك یہ ایک ازلی ابدی فیصلہ تھا.اللہ پاک نے یہ احسان کیا کہ اس پاک نبی صلی سیستم کی اس دُنیا میں آمد سے ہزاروں سال پہلے وہ مقدس شہر آباد کیا جس میں اس نبی نے پیدا ہونا تھا.بچو! مکہ مکرمہ کو آباد کرنے کا طریق بھی معجزے سے کم نہیں، یہ ایک بہت دلچسپ اور انوکھا واقعہ ہے.اس مقدس شہر کو آباد کرنے کے لئے قربانیاں پیش کرنے والوں میں

Page 5

حضرت ابراہیم اور اُن کے بیٹے حضرت اسمعیل علیہم السلام شامل ہیں.عورتوں کے لئے باعث فخر حضرت ہاجرہ بھی ہیں.یہ ایک عظیم الشان قربانی تھی.اتنی عظیم اور دلچسپ کہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے.اس میں صرف اور صرف خدا کی قدرت نظر آتی ہے.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اس مقدس شہر اور مقدس پیشوا صلی الیتیم کے ساتھ کچی اور پکی محبت عطا کرے اور اپنی رضا کی جنتوں کا وارث بنائے.وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نورسارا نام اس کا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے اللهُمَّ بَاركَ وَسَلَّم عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ یہ کتاب پیارے بچوں کے ساتھ پیار کرنے والی اور اُن کے لئے کتابیں لکھنے والی عزیزہ بشری داؤد نے تحریر کی تھی.اب وہ اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو چکی ہیں.قارئین دُعا کریں کہ جس پیار کے ساتھ اُس نے اپنے آقا و مولیٰ مقدس نبی کا ذکر کیا ہے.اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اس مقدس نبی کے قرب میں جگہ عطا کرے.

Page 6

پیارے بچو ! یہ تو آپ جانتے ہیں کہ یہ دُنیا اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنائی.اور انسان کو آہستہ آہستہ ترقی دے کر اس قابل بنایا کہ وہ آپ کا استقبال کر سکے اور آپ کی باتیں سمجھ سکے.اب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے کو پیدا کرنے کے لئے جس جگہ اور جس شہر کو چنا وہ بھی برکت والا اور امن والا ہے.(سورۃ التین ) اور یقینا وہ شہر مکہ ہے جس کو پہلے بکۃ کہتے تھے.(آل عمران : ۹۷) یہ ایک وادی ہے.وادی پہاڑوں کے درمیان کے میدانی علاقہ کو کہتے ہیں.مکہ میں دو پہاڑیاں صفا اور مروہ ہیں.آب میں آپ کو اُسی عجیب و غریب شہر کی کہانی سناتی ہوں.آپ خیال کریں گے یہ شہر عجیب و غریب کیسے ہو گیا.وہ اس طرح کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس علاقہ کو پسند کیا اس وقت یہ بالکل ویران صحرا تھا.اس میں پانی تھا نہ گھاس، نہ درخت تھے نہ آبادی تھی.صرف اس وادی میں ہی نہی بلکہ دُور دُور کسی انسان کا نشان تک نہ تھا.اب بچو ! دیکھنا کہ خُدا تعالیٰ کس طرح اس بے آباد علاقے کو ترقی دیتا ہے کیونکہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کوئی بڑا آدمی کسی علاقہ میں جاتا ہے تو اس شہر کو صاف کیا جاتا ہے ،سجایا جاتا ہے اور وہاں انسان جمع ہو کر اس کا استقبال کرتے ہیں.اسی طرح جتنے بڑے رتبے کا آدمی ہوتا ہے تیاریاں بھی اُسی کے مطابق ہوتی ہیں.بڑے بڑے بادشاہ اگر تھوڑی سی دیر کے لئے کسی جگہ پر ٹھہریں تو اس کو بھی کئی کئی دن پہلے سجایا جاتا ہے.پھر بھلا اس دُنیا کا سب سے عظیم انسان ، خُدا کا سب سے پیارا اس کا محبوب بادشاہوں کا بادشاہ نہ صرف دنیا وی بلکہ روحانی بادشاہ نے جس جگہ پر آنا ہو اس کے مطابق تیاری بھی تو کرنی تھی.اور ذرا سوچو تو کیا شان تھی اس انسان کی جس کی آمد کے لئے

Page 7

خود خُدا تیاری کر رہا تھا.اس علاقہ کو آباد کر رہا تھا ،سجارہا تھا اور انسانوں کو جمع کر کے لا رہا تھا کہ وہ دُنیا کے سارے انسانوں سے بڑھ کر اُس کے محبوب سے محبت کریں.اس کی خاطر قربانیاں دیں اور خُدا کے بعد سب سے زیادہ اُسی سے پیار کریں اور ظاہر ہے کہ یہ انوکھے انسان اسی لیے جمع کئے گئے کہ انہوں نے خُدا کے پیارے کا استقبال کرنا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے ہزاروں سال پہلے خُدا تعالیٰ کے ایک پیارے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے تھے آپ کی تین بیویاں تھیں.ایک حضرت سارہ جو ان کی رشتہ دار تھیں اور دوسری بیوی حضرت ہاجرہ پہلے تھیں جو مصر کے بادشاہ کی بیٹی تھیں، تیسری بیوی کا نام قطور ا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام ۸۰ سال سے زیادہ عمر کے ہو گئے تھے لیکن ابھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو کوئی اولاد نہ دی تھی.آپ اللہ تعالیٰ سے نیک اولاد کی دُعائیں کرتے رہے.آپ کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ تھا اس لئے مایوس نہ تھے.آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کی دُعاؤں کو ٹنا اور ایک فرشتے نے حضرت ہاجرہ کو بشارت دی کہ خدا تعالیٰ آپ کو ایک بیٹا عطا کرے گا اور اس بچے کا نام اسمعیل رکھنا.کے اسمعیل کے معنی ہیں ”خدا نے سُن لی.“ ساتھ یہ خوشخبری بھی دی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”میں تیری اولاد کو بڑھاؤں گا کہ وہ گنی نہ جا سکے گی.بچو ! حضرت اسمعیل کی اولاد سے ہمارے نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے.آپ کے بزرگوں کی کیا شان تھی کہ باپ خدا کا نبی ، ماں مصر کی شہزادی اور بیٹا لے بعض پرانے عالموں نے تحقیق کے ذریعہ جس میں ایک یہودی عالم جس کا نام ( ہشام) ہے اس نے توریت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ہاجرہ شاہ مصرکی لڑکی تھیں.(ارض القرآن جلد ۲ صفحہ ۴۱) ۳،۲ دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۶۵ و پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۱،۱۰

Page 8

بھی نبی جو دعاؤں کے طفیل بشارتوں اور پیشگوئیوں کے ساتھ پیدا ہونے والا بابرکت وجود تھا.اب سنئے ان ماں بیٹے کے ساتھ کیا ہوا؟ حضرت سارہ کے کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا کہ ان ماں بیٹے دونوں کو گھر سے نکال دیں.یہ ٹن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت افسردہ ہو گئے.قدرتی امر تھا کہ بڑھاپے میں اتنی دُعاؤں کے بعد پیدا ہونے والا بچہ گھر سے نکالنا آسان نہیں ہوتا دل تو برا ہونا ہی تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی اور کہا کہ پریشان نہ ہو مجھے ہاجرہ کے فرزند سے ایک قوم بنانا ہے.اس لئے کہ وہ تیری نسل ہے یا بچو ! حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خُدا تعالیٰ نے ایسی فطرت دی تھی کہ وہ اپنے مولا کی ہر بات کو خواہ وہ بظاہر کتنی ہی مشکل نظر آئے ضرور مان لیتے تھے.اب بھی ایسا ہی ہوا اور انہوں نے اللہ پاک کی بات مانتے ہوئے کھانے کا کچھ سامان رکھا اور پانی کا چھوٹا سا مشکیزہ لیا.ننھے اسمعیل اور حضرت ہاجرہ کو ساتھ لیا اور خُدا کے بتائے ہوئے راستہ پر چل پڑے.میلوں فاصلہ طے کر کے جب آپ عرب کے علاقے حجاز کے اندر مکہ کی وادی میں پہنچے تو ان کو یقین ہو گیا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں خُدا نے ان کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے.اُس وقت اس ویران جگہ پر نہ پانی تھا نہ گھاس تو بھلا انسان کیسے ہوتا.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بڑے حوصلہ اور ہمت کے ساتھ اُن کو وہاں چھوڑا.کھانے پینے کا سامان رکھا اور واپسی کے لیے مڑے.حضرت ہاجرہ شوہر کو واپس جاتا دیکھ کر بے قرار ہوگئیں.پوچھنے لگیں." آپ ہمیں اس طرح 1 کیلے چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں.ہم سے کیا قصور ہو گیا ہے جس کی ایسی سزا دے رہے ہیں.“ ،، وہ بے چینی کے عالم میں بار بار سوال دہراتی ہو ئیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے.ه پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۰ تا ۱۳

Page 9

پیچھے پیچھے دوڑ رہی تھیں.ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام دکھ کی وجہ سے اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش میں تھے.کوئی جواب نہ دے سکے.آخر بیوی کی بے قراری سے بے چین ہو کر بڑے صبر اور سکون سے بیوی کی طرف دیکھا اور آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی جس سے وہ نیک عورت فور اسمجھ گئیں کہ یہ خدا کا حکم ہے.اس پر اس عظیم عورت نے کہا آپ فکر نہ کریں اگر یہ خدا کا حکم ہے تو وہ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا.دیکھا بچو ! ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی دادی کی خُدا سے محبت اور اس پر یقین کہ اس کی راہ میں دی ہوئی قربانی ضائع نہیں ہوتی.اس راہ ہوئی نہیں پھر حضرت ہاجرہ واپس آگئیں اور متوکل ہو کر بچے کے پاس بیٹھ گئیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دُعا کی.”اے ہمارے رب میں نے اپنی نسل کے ایک حصہ کو اس بنجر اور غیر آبا د وادی میں تیرے عزت والے گھر کے پاس بسایا ہے.اے ہمارے رب میں نے یہ کام اس لیے کیا ہے کہ وہ تیری عبادت کریں اور تیرے لئے ان کی زندگی وقف ہو.تو لوگوں کے دل ان کی طرف جھکا دے اور ان کو اچھے اچھے پھلوں سے رزق دے تا کہ وہ تیرے شکر گزار ہوں،، (ابراہیم : ۳۸) پیارے بچو! اب ہوا یہ کہ کھانے پینے کا سامان تو بہت تھوڑے عرصہ میں ختم ہو گیا.اب اس ننھے بچے کو پیاس لگی.حضرت ہاجرہ پریشان ہو گئیں.ادھر ادھر پانی تلاش کیا لیکن پانی ہوتا تو ملتا.پھر یہ ہوا کہ جیسے جیسے بچے کی پیاس بڑھ رہی تھی.حضرت ہاجرہ کی بے قراری میں بھی اضافہ ہو رہا تھا.آخر نے اسمعیل کی حالت خراب ہونے لگی تو وہ تڑپ اُٹھیں اور بے ساختہ آسمان کی طرف منہ کر کے رو پڑیں گو یا خُدا سے فریاد کر رہی تھیں.پھر پانی کی

Page 10

تلاش میں ادھر ادھر بھا گیں.بھاگتے ہوئے کبھی صفا کی پہاڑی پر چڑھ جاتیں کبھی انترکر بچے کو آکر دیکھتیں اور پھر بے قرار ہو کر مروہ کی پہاڑی پر چڑھ جاتیں اور دُور دُور تک نظر دوڑائیں کہ کہیں پانی نظر آ جائے یا کوئی قافلہ نظر آ جائے جس سے پانی لے کر اپنے معصوم بچے کی پیاس بجھا سکیں.لیکن کوئی ہوتا تو نظر آتا.اس بے چینی اور بے قراری میں انہوں نے دونوں پہاڑیوں کے سات چکر لگائے ساتھ ہی اپنے مولا سے روروکر دُعائیں کرتیں کہ: "خُدایا ہمیں کسی آزمائش میں نہ ڈالنا، ہمیں تیری رضا کی خاطر یہاں چھوڑا گیا ہے.تو ہی ہمارا مددکرنے والا اور پریشانیوں کو دور کرنے والا ہے.“ آخر خُدا کا کرنا کیا ہوا کہ ساتویں چکر میں ان کو ایک آواز آئی.اے ہاجرہ خُدا نے تیری اور تیرے بچے کی سُن لی.“ اس آواز کوشن کر وہ فوراً پلٹیں اور بچے کی طرف دوڑیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں حضرت اسمعیل علیہ السلام روتے ہوئے پاؤں رگڑ رہے تھے وہاں کی زمین گیلی ہے انہوں نے جلدی جلدی ہاتھوں سے مٹی ہٹائی تو پانی پھوٹ پھوٹ کر نکل پڑا.جلدی سے بچے کو پلا یا خود بھی پیا اور خُدا کی حمد اور اس کا شکر بجالائیں اور اس انعام پر حیران رہ گئیں.بار بار اُس جگہ جہاں پانی تھا نظر جاتی جہاں کچھ دیر پہلے کچھ نہ تھا.اب پانی ذرا تیزی سے نکلنے لگا تو بے ساختہ اُن کے منہ سے نکلا زمزم یعنی ٹھہر ٹھہر اور انہی الفاظ پر اس مقدس چشمہ کا نام ” زمزم “ پڑ گیا.حضرت ہاجرہ نے سوچا کہ اگر پانی کوروکا نہ گیا تو یہ بہ کرکہیں ضائع نہ ہو جائے.چنانچہ انہوں نے اس کے گرد پتھر رکھ دیئے.فرمایا: حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 11

جاتا." خد اہاجرہ " پر رحم کرے اگر وہ اس پانی کو نہ روکتیں تو یہ ایک بہنے والا چشمہ بن نیز فرمایا کہ " حج میں صفا و مروہ کے درمیان دوڑ نا حضرت ہاجرہ کی مقدس یادگار ہے.“ (سیرۃ ابن ہشام) پیارے بچو! دیکھا آپ نے ، کس طرح خُد اتعالیٰ نے اپنے پیاروں کے لئے انتظام کیا.صحرا میں پانی مل گیا.کوئی بھی انسان جب اپنے آپ کو خُدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرتا ہے تو خُدا تعالیٰ اس کی ہر حرکت اور ہر حالت کو پسند فرماتا ہے اور دوسرے نیک بندوں کے لئے یادگار بنا دیتا ہے.رہتی دنیا تک اس کے نیک بندے ان پر رحمتیں نازل ہونے کی دُعائیں کرتے رہتے ہیں.ہاں تو بچو ! اب پانی کا انتظام تو ہو گیا مگر کھانے کا کیا ہوا.یہ کام بھی خُدا نے اپنے ذمہ لیا تھا.پھر اس کا کرنا کیا ہوا کہ یمن کا ایک قبیلہ جرہم جو شام کی طرف جارہا تھا ، راستہ بھول گیا.یہ راستہ بھولنے کا واقعہ مکہ کے قریب ہوا.قبیلہ وہیں ٹھہر گیا.ایک دن انہوں نے پانی کا پرندہ فضا میں اُڑتے دیکھا تو حیران رہ گئے کہ صحرا میں پانی کے پرندوں کا کیا کام؟ اُن کے سردار نے کہا کہ اس علاقے سے تو ہم کئی بار گزرے ہیں.یہاں پانی تو نہیں ہے پھر آج پانی کا پرندہ کیسا؟ سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ دیکھا جائے کہ ماجرا کیا ہے.چنانچہ چند آدمی روانہ کئے گئے.وہ کیا دیکھتے ہیں کہ صاف وشفاف پانی کا چشمہ جاری ہے اور ایک تنہا عورت معصوم بچے کے ساتھ اس کے پاس بیٹھی ہے.فوراً وہ لوگ اپنے سردار کے پاس آئے اور سارا واقعہ سنایا.قبیلہ کے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.کیونکہ وہ بھی پانی کے لئے پریشان تھے.پورے قبیلے نے اس جانب کوچ کیا.

Page 12

قبیلہ جرہم کے دل میں حضرت ہاجرہ کے لئے انتہائی احترام کے جذبات تھے کیونکہ وہ اس معجزہ پر حیران تھے آخر ان کے سردار نے بہت عزت کے ساتھ حضرت ہاجرہ کی خدمت میں درخواست کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم یہاں پڑاؤ ڈال لیں.حضرت ہاجرہ اس نئے خُدائی انعام پر حیران رہ گئیں.خُدا کی حمد کرتے ہوئے انہوں نے خوشی سے اجازت دے دی.اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی تنہائی کو بھی دُور کر دیا.اس قبیلہ کے سردار کا نام مضاض بن عمر و جرہمی تھا.اور یہ قبیلہ تھا جو مکہ میں آباد ہوا.میں نے پہلے بتایا تھا کہ صحراؤں میں پانی بہت قیمتی ہوتا ہے اور جو بھی قافلے ادھر سے گزرتے وہ حضرت ہاجرہ کی اجازت سے ٹھہر جاتے.اپنے ساتھ لائی ہوئی کھانے کی چیزوں میں سے اُن کی خدمت میں کچھ پیش کرتے.پانی سے پیاس بجھاتے اور اپنے سفر پر روانہ ہو جاتے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل کے لئے دُور ڈور کے علاقوں سے بہترین کھانے کی چیزوں کا انتظام کر دیا.پھر اس کی قدرت دیکھو کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کو بچپن ہی میں صحرا میں پانی جیسی نعمت چشمہ “ کا مالک بنا کر ایک طرح مکہ کی بادشاہت اُن کے سپر د کر دی.پھر بچو! مکہ میں مسلسل قافلے آتے اور پانی کی وجہ سے حضرت ہاجرہ کے احسان مند ہوتے.اس طرح حضرت ہاجرہ کی عزت و احترام میں برابر اضافہ ہوتا رہا.کچھ لوگ وہاں مستقل رہنے لگے.اپنے اپنے خیمے لگالئے.اس طرح بستی کی شکل ابھر نے لگی.پانی ملا تو صحرا میں کھجور کے درخت اُگ آئے.گویا نخلستان بن گئے.اس طرح مکہ میں قدرتی سبزہ کا بھی انتظام ہو گیا.خُدا کا جو وعدہ تھا کہ میں اس کو شہر بناؤں گا.اس لئے ضروری سامان مہیا کر دیئے.یوں آہستہ آہستہ مکہ آباد ہونے لگا.نئے آنے والے لوگ چشمہ کی مالک حضرت ہاجرہ کی فرمانبرداری کرتے تھے.حضرت اسمعیل کی پرورش قبیلہ جرہم کے افراد میں ہوئی.وہ آپ کی معصوم اداؤں

Page 13

اور فطری نیکیوں سے بہت متاثر تھے.حضرت اسمعیل کی زبان عبرانی تھی.لیکن اس قبیلہ میں رہنے کی وجہ سے عربی بھی سیکھ لی.اس طرح مکہ میں عربی زبان بولی جانے لگی.مکتہ کو جوحقیقی برکت نصیب ہوئی وہ خانہ کعبہ کی وجہ سے تھی.قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبْرَكًا وَهُدًى لِّلْعَلَمِينَ.,, پہلا گھر جولوگوں کے فائدے کی غرض سے خُدا کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ وہی ہے جو وادی مکہ میں برکت دیا گیا ہے.اور ہدایت کا باعث بننے والا ہے.“ ( آل عمران ۹۷) میرے پیارے بچو! میں آپ کو اس وقت صرف مکہ کے بارے میں بتا رہی ہوں.مکہ کو ایک اور فضیلت حاصل ہے.اور وہ حضرت اسمعیل کی قربانی ہے.جب حضرت اسمعیل تقریباً تیرہ سال کے ہوئے تو وہ مشہور واقعہ ہوا جب حضرت ابراہیم نے ان کو خُدا کے حکم سے قربان کرنا چاہا.اور خُد اتعالیٰ نے یہ کہہ کر روک دیا کہ ( سورة صفت ) اسمعیل کی جگہ ایک مینڈھا قربان کر دے.(حج کے موقع پر جو قربانی دی جاتی ہے وہ اسی یاد کو تازہ کرتی ہے.ہر سال لاکھوں مسلمان عید الاضحیٰ کے موقع پر اسی یاد کو مناتے ہیں.) ہاں تو بچو ! جس طرح خُدا نے کہا تھا کہ میں اس کو برکت دوں گا اور اس کی اولا دگنی نہیں جا سکے گی.حضرت اسمعیل جب جوان ہوئے تو ان کی شادی قبیلہ جرہم کے سردار مضاض بن عمرو کی بیٹی سے ہو گئی.اللہ تعالیٰ نے ان کو بارہ بیٹے دیئے.ان میں بڑے بیٹے کا نام ثابت اور چھوٹے کا قیدار تھا.بائیبل میں ان لڑکوں کے نام اس طرح ہیں.ا.بنیت جو نابت کے نام سے مشہور ہوئے.۲.قیدار.۳.اوئیل.۴.مسام.

Page 14

۹ ۵.شماع.۶.دومہ.۷.سا.۸.حدر.۹.تیما.۱۰.بطور.۱۱ نفیس.۱۲.قومہ پیدائش باب ۲۵ آیت ۱۳ تا ۱۶) یعنی ان کی اولاد میں قبیلہ کی شکل اختیار کر لی.ان کے ناموں پر قوموں کے نام تھے.جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ بدل گئے.سارے عرب فلسطین اور یمن کی طرف حضرت اسمعیل کی اولاد پھیلی ہوئی تھی.عرب کے زیادہ تر لوگ جو قریش کہلاتے تھے.وہ قیدار کی نسل سے ہیں.حضرت اسمعیل مکہ کے پہلے بادشاہ تھے.کیونکہ خانہ کعبہ کے وہی متولی تھے.چشمہ زمزم کے مالک تھے.مکہ ان کی وجہ سے آباد ہوا.پھر ان کی زندگی میں ہی ان کی اولاد نے بہت ترقی کی.جو قافلے پانی کی وجہ سے مکہ آتے تھے وہ حضرت اسمعیل اور ان کی اولا د کو ایک مقدس گھر کا طواف کرتے دیکھتے تھے.تو وہ بھی ایسا ہی کرتے تھے.اور اپنی مشکلات اور پریشانیوں سے بچنے کے لئے دُعائیں مانگتے وہ قبول ہو جاتیں.جس کی وجہ سے کعبہ کی شہرت پھیلنے لگی.مکہ ایک شہر بن گیا.پر رونق شہر، (مشہور مصنف بطلیموس با خوت صموری کے حوالہ سے لکھتا ہے کہ مکہ طول بلد ۷۸ درجہ اور عرض بلد ۳ء۰ درجه پر واقع ہے) اس طرح سارا سال ہی عرب کے قبائل کعبہ کا طواف کرتے اور حج کے موسم میں تو میلہ کا سماں ہوتا.نہ صرف عرب بلکہ اس کے قرب و جوار سے بھی لوگ کعبہ کی شہرت سن کر آتے تھے.اس طرح مکہ میں تجارت کی ابتدا ہوئی.حضرت اسمعیل کے زمانہ میں مکہ نے بہت ترقی کر لی تھی.انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی اولا د کو پھلتا پھولتا اور ترقی کرتا ہوا دیکھا.آخر خُدا کا بلاوا آ گیا اور آپ ۱۳۷ سال کی عمر میں اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے لے پیدائش باب ۲۵ آیت ۱۷

Page 15

1.حضرت اسمعیل کے بڑے بیٹے نابت کو آپ کا جانشین مقرر کیا گیا.ان کے زمانہ میں خُدا کے گھر کی عزت و شہرت دور دور تک پھیل گئی.اس کی ایک وجہ تاریخ دان یہ بتاتے ہیں کہ ان کے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام بابل کے شہر دار کے رہنے والے تھے اور دادی مصر کی.اس طرح دونوں علاقوں کے تجارتی قافلے مکہ میں قیام کر کے گزرتے تھے.اس طرح خُدا تعالیٰ نے مکہ کو عالمی شہرت عطا کر دی.قافلے چاہے وہ تجارت کی غرض سے آئیں خواہ کعبہ کے طواف کے لئے لیکن خانہ کعبہ کی عظمت کی وجہ سے اس پر چڑھاوا چڑھاتے.اس طرح کعبہ میں بڑی دولت جمع ہونے لگی.جو حاجیوں کے آرام و آسائش و غرباء کی مدد پر خرچ ہوتی اور یوں ملکہ ایک امیر شہر بن گیا.نابت کے انتقال کے بعد ان کے نانا مضاض بن عمر و جرہمی کو کعبہ کا متولی بنا دیا گیا.اس طرح مکہ کی بادشاہت اب قبیلہ جرہم کے پاس آگئی.تقریباً ۶۶۰ چھ سو ساٹھ سال تک اس قبیلہ کو یہ سعادت حاصل رہی ہے پھر بچو کیا ہوا کہ ایک اور قبیلہ جس کا نام خزاعہ تھا اس کی بھی یہی خواہش تھی کہ وہ مکہ کا سردار ہو.چنانچہ انہوں نے قبیلہ جرہم سے لڑائی کی.ان کا مقصد صرف مکہ کی سرداری نہیں تھا بلکہ ان کی نظر کعبہ کی دولت پر تھی اس لئے اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی.خُدا کا کرنا کیا ہوا کہ قبیلہ جرہم کے سردار نے فیصلہ کیا کہ ہم کعبہ کی دولت اور چشمہ کو ان کے ہاتھ میں نہیں جانے دیں گے.انہوں نے خزانہ چشمہ میں ڈال کر اس چشمہ کو مٹی سے ڈھانپ دیا.اس طرح یہ مقدس چشمہ گم ہو گیا.جو مکہ کی آبادی کا موجب ہوا تھا.جب قبیلہ خزاعہ مکہ میں داخل ہوا تو چشمہ غائب تھا.ان کے سردار کو بڑی حیرت ہوئی.تلاش کیا مگر وہ نہ ملا.اس زمانے میں کنوئیں کھودنے کا رواج تھا.اس طرح کچھ نہ کچھ پانی حاصل ہو جا تا تھا.بروج الذہب جلد دوئم صفحه ۵۱

Page 16

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مکہ کی شہریت اور کعبہ کی عظمت برابر بڑھ رہی تھی.مکہ سارے عرب کا مذہبی مرکز بن چکا تھا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ فیصلہ کیا تھا.وہ برابر اس شہر کو ترقی دینے کے ساتھ اس کی شہرت کو بھی بڑھا رہا تھا.اس قبیلہ نے مکہ پر تقریباً پانچ سو سال حکمرانی کی.لیکن اس قبیلہ کا تعلق حضرت اسمعیل یا اُن کی اولاد سے تو نہیں تھا.اور آپ کو تو معلوم ہے کہ خُدا تعالیٰ نے یہ نعمتیں حضرت اسمعیل یا ان کی اولاد کے لئے دی تھیں.اور پھر خُدا کا سب سے پیارا جس کی خاطر اس شہر کو بسایا تھا.اس کے آنے کا وقت بھی قریب آرہا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ اب یہ انعامات ، یہ دولت، یہ بادشاہت، یہ سعادت جس کا حق ہے اسی کو دی جائے.پھر بچو! قبیلہ قریش میں قصی بن کلاب پیدا ہوا.کہتے ہیں وہ پانچویں صدی عیسوی میں پیدا ہوا.جب یہ بچہ جوان ہوا تو اس نے سوچا کہ یہ حق تو میرے باپ دادا یا ان کی اولا د کا ہے.لیکن وہ غریب تھا.سردار سے ٹکر لینے کی جرأت نہ تھی کیونکہ سارا قبیلہ قریش عرب میں بکھرا ہوا تھا.اس نے ایک ترکیب سوچی.وہ مکہ آیا.اتفاق سے اس کو لیل کی میٹی جیٹی سے شادی کرنے کا موقع مل گیا.جیبی اپنے باپ کی اکلوتی بیٹی تھی.اس لئے باپ کے مرنے کے بعد سرداری اس کو ورثے میں ملی اور آسانی سے قصی بن کلاب کے ہاتھ میں آگئی.اس نے آہستہ آہستہ مکہ کی حکومت پر بھی اپنا حق جمانا شروع کیا جس کی وجہ سے جھگڑا ہوا لیکن اس لڑائی کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا.دونوں فریقوں نے ایک ثالث مقرر کیا.جس نے قصی کو حضرت اسمعیل کی اولاد ہونے کی وجہ سے مکہ کا سردار اور کعبہ کا متولی قرار دیا.ان تمام حقائق کو ہم جیسے انسان حسنِ اتفاق کہتے ہیں.لیکن یہ حسن اتفاق نہیں.سیرت النبی ابن خلدون سیرت النبی شبلی نعمانی صفحه ۱۶۳

Page 17

۱۲ ایسے اہم امور خُدائی تصرف سے ہوا کرتے ہیں.جب خُدا نے دیکھا کہ اب میرے محبوب کے آنے کا وقت کافی قریب آ رہا ہے تو اُس نے بچے وارثوں کو چن کر یہ انعامات اُن کی جھولی میں ڈال دیئے کہ آؤ ! اب ایک نئے عزم کے ساتھ اُس وجود کے استقبال کی تیاریاں شروع کر دو جو میر امحبوب ہے.اس طرح لمبے عرصہ کے بعد مکہ کی حکومت قریش کے ہاتھ آگئی.مکہ یوں تو شہر بن چکا تھا مگر اُس میں سوائے خانہ کعبہ کے کوئی گھر پکا نہیں تھا.جو لوگ بھی یہاں آباد ہوئے وہ اس گھر کی عظمت کی وجہ سے پکا گھر نہیں بناتے تھے.پھر گھر بھی فاصلے فاصلے سے بنائے گئے تھے جو یا تو گھاس پھوس کے تھے یا چھپر تھے.قصی بن کلاب بہت سمجھدار اور منتظم انسان تھا.اُس نے عرب سے قریش کی تمام شاخوں کو جمع کر کے مکہ میں آباد کیا ہے ساتھ ہی کعبہ کی حفاظت کہ پیش نظر اس نے کافی میدان چھوڑ کر قریش کو اُس مقدس گھر کے اردگرد پکے مکانات بنانے پر راضی کر لیا تا کہ پھر کوئی اور قبیلہ اس گھر کہ آس پاس آباد نہ ہو سکے.اس طرح بچو! مستقل طور پر کعبہ کی حفاظت قریش کا مقدر بن گئی.اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولادکو ایک بار پھر مکہ میں کثرت عطا کی.اُن کی حکومت تھی اور وہی خانہ کعبہ کے محافظ بھی تھے.اور جو اُس گھر کا متوتی ہو وہی قبیلہ کا سردار اور مکہ کا حاکم ہوتا.سارے عرب میں اُس کا قبیلہ عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا.قصی بن کلاب نے قریش کو منظم کیا.مکہ میں جمہوری حکومت کی بنیاد ڈالی اور یہ پہلی حکومت تھی جو مکہ میں قائم ہوئی.حکومت کے اہم کام مختلف قبائل کے ذمہ لگائے.ایک کونسل ہال جس کو دار الندوہ کہتے تھے تعمیر کیا.جہاں قریش اپنے قومی کام باہم صلاح مشورے سے کرتے تھے سے سیرت خاتم النبین جلد اوّل کے سیرت النبی مشبلی نعمانی صفحه ۱۶۳

Page 18

۱۳ پیارے بچو ! بیچے وارث یعنی خُدا کے محبوب میرے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے ڈیڑھ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک جمہوری حکومت قائم کی جہاں کسی فرد کی آزادی پر کوئی پابندی نہ تھی مکہ کی تاریخ میں سب سے نمایاں کام کرنے والا شخص یہی قصی بن کلاب نظر آتا ہے.اُس کے چھ بیٹے تھے.سب سے بڑا عبدالدار تھا.اُس کو باپ نے اپنا جانشین مقرر کیا تھا.یعنی کعبہ کی خدمت اُس کے حصہ میں آئی اور ریاست کا سارا انتظام چھوٹے بیٹے مناف کو ملا.عبدالدار اپنے باپ قصی بن کلاب کی طرح انتظامی صلاحیتیں نہ رکھتا تھا اس وجہ سے وہ اس اہم کام کو بہتر طور پر سر انجام نہ دے سکا اس کے بعد اس کے بیٹے یہ خدمات انجام دینے لگے.عبد مناف کو خُدا نے چار بیٹے دیئے تھے اور یہ چاروں ہی اپنے دادا کی طرح قابل تھے.عبد مناف کی وفات کے بعد اُن لڑکوں نے جن کے نام عبد الشمس ، مطلب ، ہاشم اور نوفل تھے اپنے بڑے چا عبدالدار کے بیٹوں سے کعبہ کی خدمت کو حاصل کرنا چاہا اور قریب تھا کہ لڑائی ہو جاتی مگر دوسرے لوگوں نے بیچ بچاؤ کر دیا اور خُدا کی منشاء کے عین مطابق صلح صفائی سے حاجیوں کی خدمت کرنے کا سارا انتظام ان بھائیوں کومل گیا.بھائیوں نے مشورہ کر کے یہ کام اپنے بھائی ہاشم کے سپر د کر دیا.ہاشم نہایت خوبصورت، معاملہ فہم اور قابل آدمی تھے.اُنہوں نے حاجیوں کی بڑی خدمت کی قبیلہ سے اُن کی ضروریات کا سامان جمع کرتے غریب حاجیوں کے کھانے پینے اور ٹھہرانے کا بہت خیال رکھتے تھے.ایک دفعہ کیا ہوا کہ مکہ میں بڑا سخت قحط پڑا اور لوگ فاقے کرنے لگے.ہاشم کو بہت دُکھ ہوا وہ اپنی دولت لے کر شام گئے اور وہاں سے روٹیاں بوریوں اور تھیلوں میں بھر کر اُونٹوں پر لاد کر مکہ لائے اور وہی اونٹ جن پر روٹیاں لدی تھیں ذبح کئے.اُن کا شوربہ سیرت النبيين جلداول

Page 19

۱۴ تیار کیا.اسی شور بہ میں روٹیوں کا چورا کر کے ثرید بنایا اور خوب پیٹ بھر کر لوگوں کو کھلایا اور اس طرح ایک لمبے عرصہ کے بعد اہل مکہ کو فراوانی سے کھانا نصیب ہوا.اُس پر انہوں نے ان کو ہاشم کہنا شروع کر دیا ہے اصل میں اُن کا نام عمر و تھا.عربی میں ہشم چورا کرنے کو کہتے ہیں.یہ فیاض انسان یعنی باشم ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے پڑ دادا تھے یمن اور شام کے ساتھ مکہ کی تجارت اُن کی وجہ سے شروع ہوئی.ہاشم نے مدینہ کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنی نجار کی لڑکی سلمی سے شادی کی.یہ لڑکی اپنی شرافت و فراست اور حسن و جمال میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی.ہاشم اپنی بیوی کے ساتھ شام کے سفر پر روانہ ہوئے مگر زندگی نے ساتھ نہ دیا اور غزہ کے مقام پر ان کا انتقال ہو گیا.ان کی وفات کے بعد ان کا لڑکا پیدا ہوا جس کا نام شیبہ رکھا گیا.شیبہ اپنی ماں کے ساتھ قریبا آٹھ برس مدینہ میں رہے.ہاشم کے بھائی مطلب کو جب اپنے بھائی کے بیٹے کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ مدینہ جا کر ان کو اپنے ساتھ مکہ لے آئے جانتے ہو یہ شیبہ کون تھے؟ یہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے دادا جان تھے.یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ یہ مدینہ میں تھے مگر خُدا ان کو مکہ لایا کہ یہاں پر اس شہر میں خُدا کا محبوب پیدا ہو گا.یہ شہر میں صرف اپنے پیارے کے لئے بنا رہا ہوں.مدینہ میں شیبہ آپ کا کیا کام.میرے بچو!ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہی ملکہ اور مدینہ کے قبائل آپس میں محبت و اخوت کے رشتوں میں جوڑے جارہے تھے ایک بات بتانا تو میں بھول ہی گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تو عبد المطلب کے نام سے مشہور تھے.شیبہ کو تو کوئی جانتا نہ تھا.اصل میں ہوا یوں کہ جب مطلب شیبہ کو لے کر مکہ میں داخل ہوئے تو لوگوں طبقات ابن سعد عنوان باشم

Page 20

۱۵ نے دیکھا کہ ایک انتہائی خوبصورت اور ذہین بچہ مطلب کے ساتھ آیا ہے تو قریش سمجھے کہ مطلب اپنے لئے غلام لے کر آئے ہیں.اس وجہ سے مکہ والے شیبہ کو عبد المطلب یعنی مطلب کا غلام کہنے لگے لے عبد المطلب بچہ تھے.اس وجہ سے خانہ کعبہ کی حفاظت ، حاجیوں کی خدمت کا کام مطلب نے اپنے ذمہ لے لیا.لیکن جب عبد المطلب جوان ہوئے اور اُن کے چچا کی وفات ہوگئی تو اس سعادت کو حاصل کرنا چاہا.مگر دوسرے چچا نوفل نے قبضہ کر لیا.عبدالمطلب کے تین بھائی اور تھے.لیکن وہ اتنے قابل اور لائق نہ تھے کہ بھائی کی مدد کرتے.آپ نے اپنے قبیلہ سے مدد مانگی.جب وہ بھی اس پر آمادہ نہ ہوئے تو انہوں نے اپنے نانا کو کہلا بھیجا کہ میرا چا مجھے ورثہ نہیں دیتا.میرا حق لینے میں میری مدد کی جائے چنانچہ آپ کے نانا نے اسی (۸۰) آدمی مکہ بھجوائے.جو نہی یہ لوگ پہنچے اس وقت نوفل مسجد الحرام میں بیٹھا تھا.خوف زدہ ہو گیا اور عبد المطلب کے حق میں دستبردار ہو گیا.ایک بار پھر بچوغور کرو! کہ جب مکہ والوں نے حقدار کو حق دینے سے گریز کیا تو خُدا نے مدینہ کے لوگوں کو کھڑا کر دیا.اس طرح اللہ تعالیٰ جہاں مکہ کے لوگوں کو سمجھا رہا تھا کہ یہ شہر اور اس کے انعامات میرے محبوب کے لئے ہیں وہاں وہ مدینہ کے لوگوں کو بھی بتا رہا تھا کہ وقت آنے پر تم نے اس مقدس وجود کی مدد کرنی ہے.عبد المطلب بڑے خوبصورت، قد آور تندرست جوان تھے.عربی زبان کی خوبصورت ادائیگی میں مشہور تھے.انتہائی شریف اور حلیم الطبع تھے.جو بھی آپ کو دیکھتا فدا ہو جا تا.آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ایک خُدا کی عبادت کرتے.شراب نوشی اور لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے سے سخت متنفر تھے.اپنی اولاد کوظلم وستم سے باز رہنے کی تلقین کرتے تھے.قریش حضرت عبدالمطلب کی ان خصوصیات کی وجہ سے بڑی عزت کرتے سیرۃ ابن ہشام عنوان عبدالمطلب

Page 21

۱۶ تھے.اور ان کو اپنا سر دار ماننے میں فخر محسوس کرتے تھے.عبدالمطلب کے دس بیٹے تھے.سب سے چھوٹے بیٹے عبداللہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد ماجد تھے.ادھر اللہ تعالیٰ عرب کے لوگوں کو سمجھا رہا تھا کہ اسی خاندان میں میرا پیارا آنے والا ہے.اس لئے اس کی رحمتوں کی بارش اور بڑھ گئی.اور وہ اس طرح کہ چاہ زمزم جو ایک لمبے عرصہ سے گم ہو چکا تھا اب خُدا نے اس کو جاری کرنے کا فیصلہ کیا.حضرت عبد المطلب کو خواب میں وہ جگہ بتائی گئی جہاں چشمہ تھا.جب وہاں کھدائی کی گئی تو چشمہ مل گیا اور ساتھ ہی وہ دولت جو اس میں دفن تھی وہ بھی مل گئی.اس طرح خُد اتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کی عزت کو قریش میں اور بھی بڑھادیا.پھر ایک اور واقعہ ہوا جو اصحاب فیل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.یمن کے گورنر ابرہہ نے خانہ کعبہ پر حملہ کر کے اسے گرانے کا ارادہ کیا.وہ مکہ کے قریب پہنچ گیا.اس کے کچھ سپاہیوں نے حضرت عبد المطلب کے اُونٹ چرا لئے.ادھر ابرہہ نے رعب ڈالنے کے لئے قریش کے سردار کو بلا بھیجا.جانے سے پہلے عبد المطلب نے تمام سرداروں سے مشورہ لیا کہ کیا کیا جائے.سب جانتے تھے کہ اتنی بڑی فوج کا مقابلہ آسان نہیں.طے یہ پایا کہ لڑائی نہیں کرنی چاہئے.عبد المطلب ابرہہ سے ملے.وہ آپ کی ذہانت اور فہم و فراست سے بہت متاثر ہوا.ابرہہ کا خیال تھا کہ یہ ضرور درخواست کریں گے کہ کعبہ کو نہ گرایا جائے.لیکن اس کی توقع کے خلاف آپ نے کہا کہ ”میرے اُونٹ مجھے واپس کر دو.تمہارے سپاہیوں نے میرے اُونٹ پکڑ لئے ہیں.ابرہہ غصہ سے بولا کہ تم کیسے قریش کے سردار ہو.خانہ کعبہ کی کوئی فکر نہیں اپنے اونٹوں کا قصہ لے بیٹھے ہو.عبدالمطلب نے کہا کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں مجھے اونٹوں کی فکر ہے.اس گھر کا بھی ایک مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا.

Page 22

۱۷ یہ بات بچو! اس چیز کی دلیل تھی کہ عبد المطلب کو خدا کی ذات پر پورا بھروسہ تھا.آپ کو یقین تھا کہ خدا اپنے گھر کی خود حفاظت کرے گا.اور خُدا نے حفاظت کی.اس نے اس تمام لشکر کو تباہ کر دیا ہے یہ واقعہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے ہوا.ان تمام واقعات کی وجہ سے آپ کے دادا کی شان میں نمایاں اضافہ ہوا.عرب میں مکہ کی حیثیت اور بلند ہوگئی.اس گھر کی عظمت کو چار چاند لگ گئے.قریش کی شاخ بنو ہاشم سارے علاقے میں سب سے معزز اور قابل احترام گنے جاتے.میرے پیارے بچو! تم جو باغ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تھی کلیاں ہو ذراغور تو کر واپنے خُدا کی شان پر اس کی عظمت پر اور اس کے انتظامات پر کہ حضرت اسمعیل کو جو تین انعامات دیئے گئے یعنی چشمہ زمزم.خانہ کعبہ کی خدمت اور مکہ کی سرداری وہ تینوں آپ کے دادا کے دامن سے وابستہ ہو گئے.اور اس طرح سے خُدا نے دُنیا کو بتا دیا کہ میں نے یہ مکہ.یہ کعبہ.یہ زمزم اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر سنبھال کر رکھے تھے.اب آپ گومل جائیں گے.دنیا کی کوئی طاقت ان انعامات سے آپ کو، آپ کے ماننے والوں کو اور آپ سے سچی محبت رکھنے والوں کو محروم نہیں کر سکتی.یہ ازل سے فیصلہ ہے جو ابد تک جاری رہے گا.بچو! مکہ کو دنیا کی ناف بھی کہا جاتا ہے.یعنی یہ دُنیا کا مرکز ہے اور جب آپ پیدا ہوئے اُس وقت اس کرہ ارض کہ بہت سے حصّے دریافت نہیں ہوئے تھے.لیکن بعد میں جب سارے براعظم دریافت ہو گئے تو حقیقتا مکہ دنیا کی ناف بن گیا پھر جو زبان مکہ میں بولی جاتی ہے یعنی عربی اس کو خُدا نے تمام زبانوں کی ماں قرار دیا.گویا میرے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا شہر دنیا کا مرکز ، خُدا کا گھر آپ کے لئے.آپ کی زبان ساری زبانوں کی سورة الفيل

Page 23

۱۸ جامع.آپ کی ذات کا ئنات کا مقصود.آپ کے اخلاق الہی صفات کا عکس.آپ کا کردار انسانیت کی انتہا.آپ کا حسن خُدائی نور سے سجا ہوا.آپ کا وجود خُدا کا محبوب.یہ ساری باتیں مرکز تھیں.قانون خداوندی ہے کہ ہر شے مرکز کے گرد چکر لگاتی ہے اور مرکز سے طاقت پاتی ہے اور زندہ رہتی ہے گویا ہر حسن، ہر خوبی اور ہر صفت کا مرکز میرے آقا کی ذات ہے جبھی تو خُدا نے آپ کو دنیا کے مرکز مکہ میں پیدا کیا.آپ کی پیدائش سے قبل ہی مکہ کا اپنا ایک مقام تھا مگر آپ کے بعد اس کی عزت و احترام میں نمایاں اضافہ ہوا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری دُعائیں اس شہر کے حق میں قبول ہوئیں.اب میں آپ کو ایسی بات بتاتی ہوں کہ آپ حیران رہ جائیں گے.آپ کو وہ دُعا تو یاد ہے نا جو حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے کی تھی کہ ”اے خُدا اُن کو دُنیا کہ بہترین پھل اور میوے دے.“ اس دُعا کی غرض یہ تھی کہ ایسا نہ ہو کہ یہ اپنے آپ کو دُنیا کی نعمتوں سے محروم سمجھیں کہ ہم جو خُدا کے گھر کی خدمت کے لیے ہیں ہم وہ نعمتیں حاصل نہیں کر سکتے بلکہ تو انہیں ہر قسم کے اعلیٰ درجہ کے پھل کھلا.اور انعامات سے نوازتا کہ اُنہیں معلوم ہو کہ جو اس کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیتا ہے خُد اسب کچھ ان کے قدموں میں لا ڈالتا ہے.چنانچہ حاجی اس معجزہ کے چشم دید گواہ ہیں کہ حضرت ابراہیم نے روٹی نہیں مانگی بلکہ پھل جیسی نازک چیز جو کہ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد سڑنے لگتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ نعمتیں اُس وقت پیدا نہیں ہوئی تھیں.لیکن حج کے موقع پر مکہ میں ہندوستان کے گئے.طائف کے انگور اور انار دیکھے ہیں.سارے یورپ میں اٹلی کے انگور بہت مشہور ہیں.مگر جو مٹھاس لذت مکہ کے انگوروں میں ہے وہ کہیں نہیں اسی طرح کابل اور قندھار کے انار ساری دُنیا میں مانے جاتے ہیں مگر جو انار

Page 24

۱۹ مکہ میں ملتے ہیں ان کی لذت کا جواب نہیں ہے یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اس کائنات کا سب سے خوبصورت اور شیریں محبت اور پیار سے رچا ہو ا وجود اس زمین میں پیدا ہوا.آپ کے نام محمد کا اعلان خانہ کعبہ میں کیا گیا اور آپ کے وجود پر نثار ہونے والے پروانے دیوانہ وار اس گھر کا طواف کرتے ہوئے آج بھی لبيك لبيك اللهم لبيك لا شريك لك لبيك كى صدائیں بلند کرتے ہیں اور اے مکہ تیری فضاؤں کے دوش پر تیرتی ہوئی یہ آوازیں دُنیا میں سنائی دیتی ہیں.اور دیتی رہیں گی.تو عظیم ہے تو مقدس ہے.تیری عظمت کے امین ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے.تیری عظمت تیرے تقدس کو تفسیر کبیر سورة بقره صفحه ۱۷۴ سلام

Page 24