Almubasharat

Almubasharat

المبشرات

حضرت امام جماعت احمدیہ کے پورے ہونے والے کشوف و الہامات کا ایمان افروز مجموعہ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ

مبلغ سلسلہ مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب نے 1956کے آخر میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور رضی اللہ عنہ کے پورے ہونے والے کشوف و الہامات کی یکجا کرکے طبع کروانا مفید رہے گا تا مادہ پرست اہل مغرب  کے سامنے اسلام کےزندہ مذہب ہونے اور سلسلہ الہام کے تسلسل کا واقعاتی ثبوت رکھاجاسکے۔ ادارۃ المصفین کی طرف سے شائع کردہ اورمولانا دوست محمد شاہد صاحب کے مرتب کردہ اس مواد کو مختلف ابواب کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے رویاء و کشوف اور الہامات کا سلسلہ غیر معمولی حد تک وسیع اور حیرت انگیز ہے اور ان پیش خبریوں کی تکمیل کے ایمان افروز واقعات کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔


Book Content

Page 1

ان الَّذِينَ الْوَارتَنَا اللهُ لمَ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عليهم المليكة الاتحافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وابشرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ادام سور ) المُبَشَراَ حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ کے پورے ہونے والے کشوف والہامات کا ایمان افروز مجموعه : Library 28565 4.10.65.Reviews Of Religions 3119.12 ANJUMAN ARKA دوست محمد شاہد ادارة المصنفين ربوہ ضلع جنگ 52525

Page 2

حضرت مرزا بشرالدین محمود احمد صاحب امام جماعت الحديد الا انه تعالى

Page 3

} الرَّحْمنِ الرَّحِيمُ والسلام على عبده السيد الموقود عَبْدِه عرض حال سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایداللہ نصر العزیز کے پورے ہونے والے الہامات رویا اور کشوف کی ترتیب و اشاعت ایک غیبی تحریک کے تحت ہو رہی ہے ہمارے ایک مسلم انگریز بھائی مسٹر بشیر رچرڈ نے جو اسوقت ٹرینیڈا میں فریضہ تبلیغ ادا کر رہے ہیں عشاء کے آخر میں حضرت امام جماعت احمدیہ سید نا میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی ایک الله الودود کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور انور کے پورے ہو نیوالے کشوف و الہامات کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے تا مغرب کی مادہ پرست دنیا کے سامنے اسلام کے زندہ مذہب ہونے اور سلسلہ الہام کے تسلسل کا واقعاتی ثبوت پیش کیا جاسکے.قارئین حیران ہونگے کہ مسٹر بشیر آر چوو صاحب کی درخواست سے قریبا ڈیڑھ برس قبل حضرت امام جماعت احمدیہ ایک اللہ تعالیٰ کو خدا تعالیٰ سے بذریعہ خواب یہ اطلاع مل چکی تھی کہ کسی غیر ملکی دوست کی طرف سے سلسلہ الہام و کلام کے جاری ہونے سے متعلق اشفا ہو گا اور آپ مختلف گذشتہ اولیا ، امت کا تذکرہ کرنے کے بعد اپنے کشوف والہامات بھی پیش فرمائینگے.اس ضمن میں حضرت اقدس نے ۱۸- وارئی شد او کی درمیانی شب رویا میں جو نظارہ دیکھا اس کی تفصیل حضور ہی کے قلم سے درج ذیل کرتا ہوں.سینے دیکھا کہ کوئی شخص غیر ملکی یا مصری ہے یا یورپین وہ مجھے سے کچھ مدیریت یا اسلام کے متعلق دریافت کرتا ہے اور میں اسے یہ بتانا چا اسلام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام سے پہلے بھی ایسے بزرگ ہوتی پہلے آئے ہیں جو صاحب کشف و ر ڈیا اور الہام تھے اس وقت ہمارے خاندان کا ایک لڑکا ہمارے پاس کھڑا ہے میں اسے کہتا ہوں کہ یہ خواجہ میر در مصاحب کی اولاد میں سے ہے خواجہ میر درد ایک مسلمان بزرگ گزرے ہیں خواجہ میر در دصاحب یہ خیال کر کے کہ میرے والد مجھے دنیا میں پھنسانے

Page 4

لگے تھے گھر کے ایک کرو میں گھس گئے اور خوب روئے اور اتنا روئے کہ انکے بروئے اللہ تعالی کے رحم اور محمد رسول اللہ صلعم کی محبت کو جذب کر لیا تب آپ اونگھ آگئی اور محمد رسول ال مالی یہ کام آپ کو نظر آئے اور فرمایا کہ میرور و انتھو میں تم کو طریقہ ناصریہ کی تعلیم دیتا ہوں یہ طریقہ آئندہ کسب طریقوں سب طریقوں سے اونچا رہے گا او قیامت تک چلے گا اور آخر میں یہ مہدی آخر الزماں کے طریقہ میں جذب ہے سو اس پیشگوئی کے مطابق ہوکوئی سو سال پہلے ہوئی تھی اور کتابوں میں شائع ہو گئی ہے حضرت ام المومنین پیدا ہوئیں اور پھر حضر ں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام سے بیاہی گئیں اس طرح خواجہ میر در و صاحب کے منہ سے جو پیشگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کروائی تھی اس کا ایک حصہ حفظ حضرت ام المومنین کے ذریعہ سے پورا ہٹو اس کے بعد آپ کے بطن سے اور حضر مہدی آخرالزمان کی نسل سے میں پیدا ہوا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کا دوسرا حصہ میرے ذریعہ سے پورا ہوا پیس میں اس پیشگوئی.مطابق بھی اللہ تعالے کا ایک نشان ہوں سینے دیکھا کہ میرے اس بیان سے اس مصری یا یورپین کے چہرے پر آثار تعجب و حیرت پیدا ہوئے گویا کہ اس نے معلوم کر لیا کہ اسلام میں اظہار غیب کا ایک لمبا سلسلہ جاری ہے جو سینکروں سال سے چلا آرہا ہے اور ختم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے نشانات متواتر اس کی تائید میں ظاہر ہوتے ہیں.فسبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الأَعَادِي یہ حیرت انگیز رؤیا جماعت احمدیہ مشہور آرگن " الفضل میں ۲۹ سٹی شد کی اشاعت میں منظر عام پر آچکی ہے اور اب اس کا عملی ظہور اس کتاب کی شکل میں میں معزز قارئین کے سامنے ہے اور ہر قلب سلیم کو دعوت فکر دے رہا ہے ے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا ، نور ہی نور اٹھو وکھو سُنایا ہم نے دیکھوٹنا مصطفے پر ترا بیحد ہو سلام اور رحمت + اس سے یہ نور لیا با رخدایا ہم نے اس مجموعہ کی ترتیب کرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد نے دی ہے الہ تعالی انہیں ہوگا میر عطا فرمائے (آمین) خاکسار ابوالمی اور امن پروفیسر جا معاجم یہ مینجنگ ڈائرکٹر ( ادارة المصنفين الوه)

Page 5

فہر مکالمات الہیہ کا عالمگیر سلسلہ کلام اپنی کا اسلامی تصور باب اول رحضرت امام جماعت احمدیہ کے وہ کشوف والہامات جو آپ کے وجود مبارک میں پورے ہوئے والہامات جو کم....باب دوم رحضور کے ان کشوف والہامات کا تذکرہ جو خاندان حضرت مسیح موعود اور حضور کے خاندان کے دوسرے افراد کے ذریعہ سے وقوع پذیر ہوئے).۲۵ "{ 116 باب سوم (جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے معرض ظہور میں آنے والے کے كشوف والہامات ) : باب بهارم دغیر از جماعت مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ذریعہ سے پور ہونے والے رویا و کشوف ).باب پنجم.اندرونی اور بیرونی بتاؤوں کے متعلق انکشافات.2 ۱۳ 126 ۱۸۳ باب خشم دقومی ہلکی یا بین الاقوامی واقعات کے بارے ہیں کی ہو آسمانی خبریں.باب ہفتم.دحضرت امام جماعت کی پسند سین گوئیاں مستقبل کے کی متعلق.باب ہشتم - رحضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے ذاہد سلیم کی کو پر خلوص دعوت خاتمہ ۳۱۵

Page 6

مکالمات الہیہ کا عالمكيله

Page 7

Page 8

b مكالمات الهبية کا عالمی سلسلہ تا تھا نہ ہو پوری کائنات کا خالق و مالک ہے تخلیق عالم کے بعد پر دیتا ہے کہانی میں کہیں کو حصہ نہیں نہیں ہو گیکہ مکہ بھیا کہ مذاہب عالم کی تاریخ بتاتی ہے امانت داری سے اپنے پاک نیلو اور پاک باطن بندوں کو اپنے کنار عاطفت میں مگن رہتا اور انہیں اپنے کو دلر با کلام سے تو انتہا ہا ہے.گو یہ فیضان عام ہے اور حسب تعریف خدائے وارے سے میر تقی کو ملتا ہے مگر انبیاء و حویلیں خدا کی آسمانی بادشاہت کے سفیر ہوتے ہیں جن کھا ہوں.بے خدا کو لتا اور غیبی خبریں ظاہر فرماتا ہے اور دنیا باوجود مخالف یا خیل اور مخالف مالات کے ان خبروں کو جلد یا بدیر اپنی آنکھ سے پورا ہوتے دیکھ لیتی.چنا نچہ حضرت آدم ، حضرت نوح ، حضرت ابرا ہیم ، حضرت لوط عفر کا کا اسمعیل ، حضرت عقب حضرت موسی ، حضرت با زمانی ، حضرت ام سبد بازدان حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ، حضرت حزقی ایل ، حضرت دانیال ہونے حضرت را مجمند حضرت کی ، زرتشت ، حضرت کیا گیا اور دوسری با رحمن کے ناموں سے بھی آنا اہم نا آشنا ہیں آسمان روحانیت پرایس وین پر ہوتے ن پر ملوں کی موت کے اور کلام اللی

Page 9

کی ضیا پاشیوں نے دنیا کے مشرق و مغرب کو بقعہ نور بنا دیا.بائیل ہوگذشتہ جلیل القدر پیغمبروں کے کشورت والعامات سے بھری پڑی ہے فقط ماضی کے دھندلے نقوش ہیں اب اگر نہیں کرتی بلکہ حضرف مٹی کے بعد ایک نئے بیدی سلسلہ نبوت کی طرف بھی راہ نمائی کرتی ہے.وہ بتاتی ہے کہ : 1- حضرت مسیح کے زمانہ رسالت کے بعد ایک جدید دور آنے والا ہے جبکہ دنیا ایک نئی کروٹ لے گی اور آسمانی بادشاہت اسرائیلی قوم سے چھین کر بنوں تحصیل میں منتقل ہو جائیگی.ہ بنوائیل میں سے محمد کے مقدس نام سے ایک روح حق بر پا ہوگا جو فلسطین ایک روج حق پا سے ڈور فاران کی چوٹیوں پر ایک جھنڈا بلند کرے گا اور لوگ اسکی طرف دیوانہ دار پہلے آئینگے.اس خدا نما وجود کو ہجرت کرنا پڑے گی اور ہجرت کے ٹھیک ایک برس بعد قیدار یعنی مکہ والے اس کے سامنے پسپا ہوں گے اور اُن کے بہادر سردار موت کے گھاٹ اتارے جائیں گے.یہ معرکہ نہیں ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ ظلمت وغیرہ کے فرزندوں میں اور بھی کئی خوانی ہے جنگیں ہوں گی مگر خاک و خوں کے ان طوفانوں سے گذرنے کے بعد یہ فرستادہ اپنے نو ہزار دو دسیوں کے ساتھ وادی ناران میں فاتحانہ شان سے جلوہ گر ہو گا.اہم یہ رواع حق حضرت موسی کی مانند صاحب شریعت ہوگا اور اس کی شریعیت....ایک آتشین شریعت ہوگی.یعنی اُس کے نمودار ہوتے ہیں ریگن ہی کتب کی عظمتیں ماند پڑ جائیں گی.یروشلم کے باشندے اس کے مقابلہ پر کمر بستہ ہوں گے اور شکست کھا ئینگے کیونکہ خدا تعالے اس وقت یعقوب کے دونوں گھرانوں سے ناراض ہو چکا ہوگا اور موسوی شریعت کی صنف پیٹی جا چکی ہوگی.مندرجہ بالکل پیشگوئی کی تفصیل بائبل کی ان آیات میں بیان ہوئی اور ان میں سے چند درج ذیل ر آئی کے ماخوذ ہے (مرتب)

Page 10

وه کی جاتی ہیں :.لا تسوج نے انہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو سمالوں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سرا ہوا....اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خلا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کا میوہ لائے دے دی جائے گی.جو اس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا جس پر دو گرے گا اُسے پیس ڈالے گا لے ب میں اُن کے لئے اُن کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا.کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے فرماؤں گا وہ سب ان کو کسے گاہ اور جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کرکے گا نہ سنیگا تو میں اُس کا حساب اُس سے لوں گا.ہے ج- میرا محجوب سرخ و سفید ہے دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے.اس کا منہ شیریں ہے ہاں وہ محمدیم رہے.وہ قوموں کے دور سے ایک جھنڈ اکھٹا کرتا ہے اور دیکھ وے دوڑ کے جلد آتے ہیں.کوئی ان میں نہ تھک جاتا اور نہ پھسل پڑتا ہے وے نہیں اونگھتے اور نہیں ہوتے اُن کا کمربند کھلتا نہیں ہے اور نہ اُن کی جوتیوں کا قسمہ ٹوٹتا ہے اُن کے تیر تیز میں اُن کے گھوڑوں کے سم چقماق کے پتھر کی مانند ٹھرتے ان کے پیسے گردباد کی مانند ہے شیرنی کی ماند رہتے ہیں تالے غراتے اور شکار پکڑتے اور بے روک ٹوک مئی باب ۲۱ آیت ۴۲ - ۴۶ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸-۲۰ ۰۳ غزل الغزلات بات آیت ۱۲-۱۲ ه عبرانی میں اس مقام پر بالصراحت " محمدیم ) کا لفظ مذکور ہے جس کا ترجمہ سراپا عشق انگیز کے الفاظ میں کیا جاتا ہے حالانکہ محمدہ آنے والے نبی کا نام ہے اور یم کے الفاظ عبرانی محاورہ کے مطابق تعظیم کے لئے استعمال ہوتے ہیں.(مرتب) ه غزل الغزلات بات آیت ۱۵-۱۶

Page 11

M لے جاتے ہیں اور کوئی بچانے والا نہیں.اور اُس دن اُن پر ایسا شور مچائینگے میں ؟ اور کیا دیکھتے ہیں کہ اندھیرا اور تنگ والی ہے؟ ے.تقرب کی نہایت المانی کلام.عرب کے صحرا میں تم بات کاٹو گے.خداوند نے - ن کو کیوں فرمایا ہنوز یک برس مرصہ کے پے ایک ٹھیک برس برقی بان کی بھاری حمت جاتی ہوگی اور این شما نیاز ان کے علاوہ جو باقی رہی قید ان کے اساور گھٹ بھائیں گے یہ سن الضاوت سینا سے آیا اور شعر سے اُن پر طلوع اتو بخار لوری کے پہاڑ سے لوہ گر ہوا میں ہزاء قد دسیوں کے ساتھ آیا رووائش کے کام اپنے ہاتھ ایک آتشور شریف نے اُن کے لئے تھی." ہے تھیں.ٹیوب الاخراج جو کے تم اس کی تقدیس کرو اور اُس سے ڈرتے رہواں کا وہ تمھارے لئے ایک مقدس ہوگا.پر اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے مگر بھی پتھر اور ٹھو کہ کھانے کی چٹان اور یروشلم کے بات بھول بن کے لئے پھندا ام خودگان است داروگ ان سے بھو کو کھائیں گے اور یوم میں پھین ہیں.سیائی معہ کے ہیں اُن کا سپہ سالار او مل بھی کام آئے نبرد آزما ہوئے اور پری ۲۰ ( پیدائش بہ سے ثابت ہو کہ خاران موادی مکہ کا نام ہے جہاں صورت میں جمانے انائی تھی خدا نہ کے ذمہر ار قد میں میت آنے کا واقعہ دیر سالانہ ولم چہرت کے دسویں بنان کے کے مطابق اس وقت حضور علیہ اسلام کے ہمرکاب دس ہزار قدیسی ماہر تھے

Page 12

ان ایمان دارای یکی را ایا این که و آباد کے گھر مرنے سے اپنا منہ چھپاتا ہے میں اس کا انتظار کروں گا ہے به کتاب مقدس کی مندرجہ بالا آیات کو سامنے رکھتے ہوئے جنون کی وار بیان کی تعم مت کرنا میں عیسوی میں مصروف با Luft ی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور قرآن مجید کے نزول سے پوری ہو چکی ہیں چین کے ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ سلسلہ مکالمہ مخاطبہ المیہ اب امت محمدیہ میں منتقل.ور علوم مولوی کا دنیا اس قوم کی طرف یہ نکلا ہے جو بیان کی کار ان کے بانی ہر انے والی آواز کی شنوا ہوئی.پھر یہ فیضان اس گھڑت دوست سے جاری ہوا کہ ایک عالم و دنگ رہ گیا.دانه انوار الهی مکه اولیای محبو ب کر تے ہیں دنیا کا ایک ایک گوشہ یہ میسر آن سے خوب سیراب ہوا.ایک طرف انڈو نیشیا اور حمار و استادان کے کناروں اور دوسری عارف چین اور فرانسین کی حدود تک سادی میان جوانی خدا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے با یکشن چہرے سے جگہ کا اٹھی اور انسانیت کور و دالان موال دولت نصیب ہوئی ہو حضرت اسحاق کے لحس زن کھو بیٹھے تھے.چونکہ اسلام میں حکامات الہیہ کا وسیع اور ہمہ گیر سلسلہ ار ہیں بیوہ بہن لئے اولیاء امت کا احصا ممکن نہیں.مثال کے طور پر صرف چند انان کشف و الہام کے نام سورج 3 با سبکتے جاتے ان حضرت ابدار تصديق الحضرت عمر کار حق حضرت علی کرم الله و چهره حضرت اویس قرنی شما حضرت ابراہیم اورہم کا حضرت ذوالنون مصری بصورت ابوالحسن خرقانی ہے حضرت بایزید بسطامی که حضرت ابوار ه يسعياء باب آیت ۱۳

Page 13

ا سید عبد القادر جیلانی حضرت فضیل بن عیاضی گام حضرت خواجہ معین الدین چشتی ، حضرت محی الدین ابن عربی ، حضرت شہاب الدین سهروردی کے حضرت بهاء الدین نقشبندی ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری حضرت مولانا جلال الدی بی حضرت قطب الدین نخست ماری کالی ، حضرت نظام الدین اولیاء ، حضرت شاہ نعمت الله ولی کا حضرت علی الحمیدی عرف داتاگنج بخش ، حضرت فرید الدین عطار بن شیخ جلال الدین بریزی حضرت خواجہ فرید الدین کا حضرت مجدد الف ثانی را با حضرت شاہ ولی اللہ صاحب میشه ای حضرت خواجہ محمد نام کا حضرت نو ابعد یه درد گا حضرت سید احمد صاحب بریلوی حضرت اسمعیل شہید (رحمتہ اللّہ علیہم اجمعین) خدا تعالے سے ہمکلامی کا شرف پانے والوں کی یہ ایک نا تمام سی فہرست ہے جس پر سرسری نگاہ ڈالتے ہی یحقیقت خوب نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ ختام ازل کا امت مصطفی میں جاری کردہ سلسلہ امام و کلام کتنی عظیم وقت کا حامل ہے اور زمین و زماں کی حد بندیوں سے بے نیاز ہو کہ ہر زمانہ ہر ملک اور ہر قوم پر چھایا تھا ہے.انیسویں صدی اسلام کی تاریخ میں ایک زبر دست انقلابی دور کی حیثیت رکھتی ہے.کیونکہ اسی میں اقوام عالم کا عظیم الشان موعود پیدا ہوا جس کے لئے ساری دنیا چشم براہ تھی.یہ موجود پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی خادم حضرت سیدا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام تھے جو بائبل اقرآن مجید احادیث اور اولیائے امت کی بیان کردہ علامتوں کے عین مطابق وقت پر مبعوث ہوئے.گذشته نوشتوں میں آخری زمانے کے موجود کے متعلق بڑی تفصیلی شب میں موجود تھیں.مثلاً بتایا گیا تھا کہ :.ا دائمی قربانی کی موقوفی یعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے ایک ہوا دو سو نوے سال میں خدا کا ایک فرستادہ ظاہر ہوگا.اے ه دانیال باب ۱۲ آیت ۱۱-۱۳ عیسوی سن کے مطابق ۸۷۴ ا بنتا ہے "

Page 14

یہ فرستادہ افق مشرق سے طلوع ہو گا اور کرینہ کی بہن اس کا مولد و سکنی ہوگی صلہ آنے والا موجود فارسی الاصل ہو گا.۵۳ ak لام احمد اور محمد کے ناموں سے یاد کیا جائے گا.اس کا رنگ گندم گوں ہو گا.پیشانی کشادہ اور چمکیلی ، ناک بلند اور بال لیے اور سیدھے.اس موجود کی بعثت پر سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا یا ہے انا جھیل کی اس بیان کہ وہ علامت کی تفصیل حدیث میں بایں الفاظ من درج ہے.انَ لِمَهْدِيْنَا أَيَتَينِ لَمْ تَكُونَا مِنذُ خَلْقِ السَّمواتِ وَالأَرْضِ تَنكَيف 巡 ے منی باہ ہ ہ ہ میں لکھا ہے جیسے بجلی پور کو نہ کر کے دکھائی دیتی ہے ایسے ہی ابن آدم کا آنا ہوگا.بولامر الاسرار (از شیخ محمد بن علی ) كد عد وشارات فریدی حصہ سوم مت ۵۳ بخاری مصری جلد سه ماست اور تفسیر آیت و اخرین منهم تما یلحقوا بھم میں حضرت رسول اکرم صل الله علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی درج ہے لو کان الایمان عندا الثريا لناله رجال اور جل من هؤلاء" که خواہ ایمان ثریا پر بھی پہنچ جائے سلمان فارسی کی قوم سے کئی افراد یا ایک فرد اُسے پھر واپس لے آئے گا.شیعہ لٹریچر کی مشہور کتاب بحار الانوار میں لکھا ہے :- اذا سارت الركبان ببيعة الغلام یعنی سواریاں یہ خبر لیکہ چلیں گی کہ غ نام کی بیعت ہورہی ہے.یاد رہے کہ غلام کا لفظ یہاں لغوی معنوں میں مستعمل قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ فلام عربی زبان میں نوعمریا کے کوکہتے ہیں اور اس کتاب میں امام مہدی کی عمر چالیس سال کی لکھی ہے.(بحار الانوار جلد ۱۳ م) الله له اسمان يخفى و اسم يعلن فاما الذي يخفى فاحمد واما الذي يصلن فمحمد بحار الانوار جلد مثلا) یعنی اس مولود کے دو نام ہو نگے احمد او محمد پہلا مخفی اور دوسرا نمایاں.و بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال وابوداؤد جلد ٢ ٣٠ المطبع التازيد شه متی باب ۲۴ آیت ۲۹

Page 15

۱۰ القَمَر لاوّلِ ليلة من تَرَمَضَان و تنكسف الشمس في النصف منه له یعنی ہمارے مہدی کے لئے دو ایسے زبر دست نشان ظاہر ہوں گے ہو زمین و آسماں کی پیدائش سے لے کر اب تک اس رنگ میں کسی مامور کے وقت ظاہر نہیں ہوئے چاند کو گرین کی مقرہ راتوں میں سے) پہلی رات کو گر اُن ہو گا.اور سورج کو اگر یمن کی مقتررہ تاریخوں میں سے وسطی تاریخ کو.اور یہ دونوں گر من رمضان کے مہینے میں ہونگے.ے.ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی ؟" سے قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی اور بڑے بھونچال آئیں گے اور جا بجا نکال اور مری پڑے گی ؟ س - -A - را اس موعود کے زمانے میں حقیقت محمدی حقیقت احمدی کے نام سے موسوم ہوگی ہے اور تمام جان ایک نور سے روشن ہوگا اور اس نیر اعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گم ہو جائے گی.دار قطنی مطبع فاروقی دلی ۵۲ متنی باب ۲۴ آیت ۲۹ سه لوقا باب ۲۱ آیت ۱۰ - ۱۱ JAA ملاحظہ جو حضرت مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی تالیف مبدا و معاد مطبع کانپور یہ پیشن گوئی حضرت خواجہ میر در در حمتہ اللہ علیہ کی ہے جو دلی کے مشہور صوفی حضرت خواجہ محمد ناصریح کے مالی گہرفہ زند اور اپنے زمانہ میں چوٹی کے بزرگ تھے.یہ دونوں مقدس اور خدا نما وجود ہندوستان کے پائے سلطنت دلی میں آرام فرما رہے ہیں.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ہندوستان کے مشہور ادیب خواجہ سید ناصر نذیر فراق (وفات ۱۸ فروری له ) کی تصنیف میخانه درد، ۱۳۸۰

Page 16

11 وہ موعود کا سر صلیب ہو گا جس کے الہامی معنے گزشتہ بزرگوں نے یہ بتائے کہ عیسائیت کا مضبوط قلعہ مسیح موعود کے زبر دست دلائل کی بے پناہ قوتوں سے مگر اکر پاش پاش ہو جائے گا.اہ سه یہ پیش گوئیاں امام عصر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سر نهایت امام کی میدناحضرت حیرت انگیز رنگ میں پوری ہوئیں.حضرت اقدس ۱۳ فروری مراد کو قادیان (بھارت) میں عالم افروز ہوتے سے یہ المیہ میں آپ کو شرف مکالمہ بخشا گیا ہے آپ تیمور کے چچا حاجی برایس کی نسل میں سے تھے اس لئے آپ کا فارسی الاصل ہونا اپنوں اور بیگانوں کے یہاں مسلم تھا.آپ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے کامل عاشق تھے اسی لئے آپ کو السامرائی میں استعادة " محمد (صلی اللہ علیہ وسلم کہا گیا لیکن آپ کا پیدائشی نام " غلام احمد تھا اللہ گیا " احمد تھا آپ ہی وہ برگزیدہ انسان ہیں جن کی تائید میں سلسلہ میں آفتاب و ماہتاب تاریک ہوئے اور شہاب ثاقب کا سقوط خوا.آپ کے طور کے بعد عالمگیر جنگیں ، قیامت خیز زلازل ، ہوشربا قحط اور طاعون جیسی دبائیں بھی پوری شدت سے اُبھریں.آپ کی تحریک احمدیت کے نام سے اکناف عالم تک چھا رہی ہے اور آپ کے پیسہ واحمدی کہلاتے ہیں.آپ اپنے دعوی ماموریت سے لے کہ زندگی کے آخری سانس تک دنیا بھر میں یہ منادی کرتے رہے کہ دنیا میں آج زندہ مذہب صرف اسلام ہے کیونکہ اس کی بدولت خدا تعالے سے کلام و انعام کا گلشن کھلتا ہے اور خزاں رسیدہ دلوں میں پھر سے بہار آجاتی ہے.آپ نے کم پیش اور کتب تصنیف فرمائیں جن میں بڑی شرح و بسط عمدة القاري في شرح البخاري مجله ۵ ۲۸۳ بحوالہ تفہمات در مایینه ع۶۱۷ ه حقیقة الوحی طبع اول ص19 سر لیپل گریفین کی کتاب " Punjal chiefs آپ کے ایک شدید معاند مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اشاعۃ السنتہ جلدے سرور میں لکھتے ہیں : ول مؤلف براہین احمدیہ قریشی نہیں فارسی الاصل ہیں ؟ "

Page 17

۱۲ سے وقت کے اہم روحانی ، تمدنی ، معیشی اور اخلاقی مسائل پر روشنی ڈالی اور زبر دست دلائل سے دنیا کے ادیان پر اسلامی نظام عمل کا فائق ہونا ثابت کیا.اگر چہ یہ مباحث بھی علم و معرفت کا ایک لازوال خزینہ ہیں جس کی بے مثال عظمتوں اور رفعتوں کا اندازہ لگانا انسانی عقل کی بساط میں نہیں ہے.لیکن حقیقت یہی ہے کہ آپ کا عظیم ترین کارنامہ رجس نے گذشتہ علم کلام کی بساط الٹ دی اور ادیان باطلہ بالخصوص عیسائیت دی اور کو کھلی شکست اٹھانا پڑی) یہ تھا کہ آپ نے الہام الہی کی زندہ برکات و نشانات کے ذریعہ اسلام کی صداقت کو نیر النہار کی طرح روشن اور عیاں کر دکھایا.اس طرح آپ نیر اعظم " بھی ثابت ہوئے اور کا سرا الصلیب بھی.اس تعلق میں حضور کی معرکۃ الآراء تالیف براہین احمدیہ کا ایک اقتباس لکھ دینا کافی ہوگا.دیکھئے خدا کا یہ شیر کس شان سے مذاہب عالم کو چیلنج کر رہا ہے :- اعجاز اثر کلام قرآن کی نسبت ہم یہ ثبوت رکھتے ہیں کہ آج تک کوئی ایسی صدی نہیں گذری جس میں خدا تعالے نے مستعد اور طالب حق لوگوں کو قرآن شریف کی پوری پوری پیروی کرنے سے کامل روشنی تک نہیں پہنچایا اور اب بھی طالبوں کے لئے اس روشنی کا نہایت وسیع دروازہ کھلا ہے یہ نہیں کہ صرف کسی گذشتہ صدی کا حوالہ دیا جائے.جس طرح بچے دین اور ربانی کتاب کے حقیقی تا بعدا روں میں روحانی برکتیں ہونی چاہئیں اور اسرار خاصہ المیہ سے مہم ہونا چاہیے وہی برکتیں اب بھی بوئندوں کے لئے مشہور ہو سکتی ہیں.جس کا جی چاہے صد قدل سے رجوع کرے اور دیکھے اور اپنی عاقبت کو درست کرے انشاء اللہ تعالیٰ ہر ایک طالب صادق اپنے مطلب کو پائے گا اور مہر یک صاحب بصارت اس دین کی عظمت کو دیکھے گا.مگر کون ہمارے سامنے آکر اس بات کا ثبوت

Page 18

۱۳ اہ دے سکتا ہے کہ وہ آسمانی نور ہمارے کسی مخالف میں بھی موجود ہے اور جس نے حضرت محمد مصطفے صل اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور افضلیت اور قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے سے انکار کیا ہے وہ بھی کوئی روحانی برکت اور آسمانی تائیں اپنے شامل حال رکھتا ہے.کیا کوئی زمین کے اس سرے سے اس میرے تک ایسا متنفس ہے کہ قرآن شریف کے ان چمکتے ہوئے نوروں کا مقابلہ کر سکے.کوئی نہیں ایک بھی نہیں.بلکہ وہ لوگ جو اہل کتاب کہلاتے ہیں اُن کے ہاتھوں میں بجز باتوں ہی باتوں کے اور خاک بھی نہیں حضرت مومنی کے پیرو یہ کہتے ہیں کہ جیسے حضرت موسیٰ اس دنیا سے کوچ کر گئے تو ساتھ ہی اُن کا عصا بھی کوچ کر گیا کہ جو سانپ بنا کرتا تھا.اور جو لوگ حضرت عیسی کے اتباع کے مدعی ہیں اُن کا یہ بیان ہے کہ جب حضرت عیسی آسمان پر اٹھائے گئے تو ساتھ ہی وہ برکت بھی اُٹھائی گئی جس سر حضرت ممدوح مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے....ان کا یہ بھی تو قول ہے کہ وہی عیسائی مذہب کے باراں امام آسمانی نوروں اور الیا موں کو اپنے ساتھ لے گئے اور اُن کے بعد آسمان کے دروازوں پر پکے قفل لگ گئے اور پھر کسی عیسائی پر وہ کبوتر نازل نہ ہوا کہ جو اقبل حضرت مسیح پر نازل ہو کر پھر آگ کے شعلوں کا بہروپ کہ بدل کر حواریوں پر نازل ہوا تھا.گویا ایمان کا وہ نورانی دانہ کہ جس کے شوق میں وہ آسمانی کبوتر اترا کرتا تھا انہیں کے ہاتھ میں تھا.اور پھر بجائے اس دانہ کے عیسائیوں کے ہاتھ میں دنیا کمانے کی پھائی رہ گئی جس کو دیکھ کر وہ کبوتر آسمان کی طرف اُڑ گیا.غرض بجہ قرآن شریف کے اور کوئی ذریعہ آسمانی نوروں کی تحصیل کا موجود نہیں" نے براہین احمدیہ حصہ چهارم رفع اول گشته) صفحه ۲۶۲ - ۲۶۳

Page 19

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں اس کثرت و تواتر سے آسمانی نشانات اور وحانی برکات کا مینہ برسایا کہ جھڑیں لگ گئیں.صدیوں کی قحط سامانیاں کا فور ہوئیں.پر ہوں بیابان پمپستانوں میں بدل گئے اور ریگ زاروں کا چپہ چپہ گل و گلزار بن گیا.یہ وہ روحانی تغیر ہے جس کی گذشتہ تیرہ صدیوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی.ان لاکھوں غیبی خبروں میں سے جو اپنے وقت میں کمال آب و تاب کے ساتھ پوری ہوئیں آپ کی شہرہ آفاق پیشگوئی " پسر موعود کے طور سے متعلق ہر جس کا انکشاف حضور یہ ہوشیار پور میں چالیس دن کی شبانہ روز دعاؤں کے نتیجہ میں ہوا.جس پر آپ نے ۲۰.فروری شاه کو مندرجہ ذیل اشتہار شائع فرمایا :- خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے " رجل شانه و عرب اسما مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اُسی کے موافق جو تو نے مجھ پر مانگا.سو میں نے تیسری تفرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بیا یہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو رہو ہوشیار پور او اور میانہ کا سفری تیرے لئے مبارک کر دیا سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید مجھے ملتی ہے.اسے مظفر تجھے پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آدیں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام راشد کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور ناحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تالوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور نا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور نا انہیں جو خدا کے

Page 20

۱۵ و جو د پر ایمان نہیں لاتے اور خلا اور خدا کے دین اور سکی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفے کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو مجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک ز کی غلام (لڑکا) تجھے میگا وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیرہ ہی ہی ذریت ونسل ہوگا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے.اور وہ رجس سے پاک ہر وہ تو راللہ ہے.مبارک وہ بیوی آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اُسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم او عسلوم ظاہری و باطنی سے پیر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا اس کے معنے سمجھے میں نہیں آئے ) دوشنبہ ہے مبارک دو شنیہ - فرزند دلبند گرامی ارجمند - مظهر الاول والآخر مظهر الحق والعلاء كان الله تنزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال اپنی سے ظہور کا موجب ہو گا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے خطر سے مسموح کیا ہم اس میں اپنی روح ڈالینگے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا وہ جلد مجلد بڑھے گا اور اسیروں کی استگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اورر قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھا یا جائیگا؟ ه اشتدار ۲۰ فروری ستشمله ( آئینہ کمالات اسلام)

Page 21

14 اس مقام پر یہ بتانا نہایت ضروری ہے کہ پیسر موعود کے متعلق یہ الہامی الفاظ گو پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوتے مگر اس کا اعلان یسعیاہ نبی نسینہ حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد متعد داولیاء واصفیاء فرماتے رہے ہیں.چنانچہ ظالمود (جوزف بار کلے) میں لکھا ہے :- It is also said that He (The Messiah) shall die and his kingdom descend to his son and grand son In proof of this opinion Isaiah XLII 4 is quoted"He nor be discouraged, till he have shall set judgement in the earth" and the isles shall wait for his law''L not Fail یسعیاہ کی وہ آیت بوط المود میں اس پیش گوئی کے ثبوت میں پیش کی گئی ہے که مسیح موعود کی وفات کے بعد آپ کا فرزند آسمانی بادشاہت کی باگ ڈور سنبھالے گا اپنے ماحول اور سیاق و سباق سمیت درج ذیل کی جاتی ہے." میں نے شمال سے ایک کو بر پا کیا ہے وہ آپہنچا.وہ آفتاب کے مطلع سے آکر میرا نام لے گا اور شہزادوں کو گارے کی طرح لتاڑے گا...میں نے ہی پہلے فیسوں سے کہا کہ دیکھ اُن کو دیکھ اور میں ہی ایک بشیر بخشوں گا.میں دیکھتا ہوں کہ کوئی نہیں ان میں کوئی مشیر نہیں جس سے پوچھوں اور وہ مجھے جواب دے.دیکھو وہ سب کے سب بطالت ہیں اُن کے کام پہنچے ہیں اُن کی ڈھالی ہوئی مورتیں بالکل ناچیز ہیں.دیکھو میں خادم جس کو میں سنبھالتا ہوں.میرا برگزیدہ جس سے میرا دل خوش ہے میں نے اپنی روح اُس میں ڈالی وہ قوموں میں عدالت جاری طالمود جوزف بار کے باب پنجم مع مطبوعہ لنڈن ستائر

Page 22

16 کرے گا.اور نہ بازاروں میں اس کی آواز سنائی دے گی وہ مسلے ہوئے سرکنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹماتی ہوئی بتی کو نہ کھائے گا وہ رہستی سے عدالت کرے گا وہ ماندہ نہ ہو گا جب تک کہ عدالت کو زمین پر قائم کرے.....خداوند یوں فرماتا ہے میں خدا وند نے تجھے صداقت سے بلایا.میں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا.اور تیری حفاظت کروں گا اور لوگوں کے عہد اور قوموں کے نور کے لئے تجھے دوں گا کہ تو اندھوں کی آنکھیں کھوئے اور اسیروں کو قید سے نکالے اور ان کو جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں قید خانے سے چھڑائے لے یسعیاہ کے مندرجہ بالا الفاظ اپنی تشریح آپ ہیں.ان کے ابتداء میں مسیح موعود کی بعثت کا ذکر کیا گیا ہے پھر ایک بشیر" کے دیئے جانے کی پیشگوئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس سے دین اسلام کا برحق اور باقی مذاہب کا باطل ہونا بالکل ثابت ہو جائے گا اس کے بعد بشیر یعنی پسر خود کی اکثر صفات بتائی گئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے خبر پا کر ۲۰ فروری تشہداء کے اشتہار میں شائع فرمائی تھیں مثلاً طالمود اشتهار ۲۰ فروری ششماهه ا "میرا برگزیدہ جس سے میرا دل : " جس کو خدا نے اپنی رعنا مندی کے خطر سے ممسوح کیا.خوش ہے " میں نے اپنی روح اس ۲- ” ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے؟ میں ڈالی" -- " وہ قوموں میں عدالت جاری کرنگا ۳.قومیں اس سے برکت پائینگی " له يحياه باب ۴۲۱

Page 23

۱۸ ۴.اور ٹمٹماتی بتی کو نہ سمجھائے گا وہ نہ چلائے گا وہ مسلے ہوئے ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا.و سرکنڈے کو نہیں توڑے گا دل کا علیم اور ۵ ه وه ماندہ نہ ہوگا اور ہمت اولو العزم له وہ نہ ہارے گا.4 - " قوموں کے لئے نور تجھے دونگا." نور آتا ہے نور " کہ تو اندھوں کی آنکھیں کھوئے" 务 4 "..اور اسیروں کو قید سے نکالے.اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا." خدا تعالیٰ کی تجلیوں کا یہ کتنا شاندار نظارہ ہے کہ جب یسعیاہ نبی پر نازل ہونے والے کلام کے پورا ہونے کا وقت آپہنچا تو خدا تعالے نے ٹھیک اپنی ہوں نے والے کے تو خدا الفاظ میں مسیح موعود کو فرزند موعود کی بشارت دی یسعیاہ کی پیشگوئی درج کرنے کے بعد اب ہم اسلام کے عہد زریں کی طرف آتے ہیں.بانی اسلام حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کی آمد کی تفصیلی خبر دیتے ہوئے آج سے چودہ سو برس پیشتر پیش گوئی فرمائی يتزوج ويولد له یعنی مسیح موعود ایک (خاص) نکاح کرے گا اور اس کے یہاں (موعود فرزند ہوگا "خاص" اور " موعود " کے الفاظ گومتن حدیث کا جڑ نہیں ہیں تا ہم بین السطور خود بخود کہہ رہا ہے کہ یہاں محض عام رنگ میں شادی اور اولاد کا تذکرہ ہرگز مقصود نہیں ورنہ سیح موعود کی علامات میں ان کا ذکر محض عبث قرار ه تبلیغ رسالت جلد اول ص ۱۲۰ مرتب سے مشكوة مجتبائی باب نزول عیسی بن مریم

Page 24

14 پاتا ہے.پس ہے شہ حضور کی زبان فیض ترجمان سے ان الفاظ میں مسیح موعود کی خاص شادی اور موجود اولاد کی خبر دی گئی تھی.در اصل یہی وہ اصولی خبر تھی جس کی تفصیلات بعد کو امت محمدیہ کے متعدد اولیاء پر منکشف کی گئیں.چنانچہ سپین سے حضرت محی الدین ابن عریفی ".روم سے مولانا جلال الدین رومی 7 شام سے حضرت - امام یحیی بن عقب ہے.اور ایران سے حضرت نعمت اللہ ولی اللہ اپنے اپنے زمانہ میں متواتر یہ بھاری بشارت سناتے آئے کہ مسیح موعود کے بعد اس کا ایک صاحب عظمت و شوکت فرزند تخت خلافت پر متمکن ہو گا بعض نوشتوں میں تو پوری ا تا و یا گریات صراحت کے ساتھ اس کا نام (محمودہ بھی ہے 29 یہ تو موعود اولاد کے متعلق اولیاء امت کے کشوف والہامات ہیں.جہاں تک خاص شادی “ سے متعلق خبر کا تعلق ہے یہ راز صدیوں تک سربستہ ہی رہا یہاں تک نے تفسیر محی الدین ابن عربی رحم میں لکھا ہے کہ مقام محمود کی خبر مسیح موعود کے زمانہ میں پوری ہوگی.مولانا رومی اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں سے طفل نو زاده شود جبرو حکمت بالغ بخواند چون مسیح کر ق ر ش ت م ا ا د مطبوعہ کا تہور ترجمہ: ایک نو عمر بچہ عالم وتصیح ہو گا اور مسیح کی طرح اس کی زبان پر حکمت بالغ جاری ہوگی.سے پانچویں صدی ہجری کے یہ عارف باللہ صوفی لکھتے ہیں.و محمود سيظهر بعد هذا ۳۴۰۰ ويملك الشام بلا قتال (شمس العارف الکبری ( مصرفی (1) ترجمه: مسیح موجود کے بعد محمود " جلوہ افروز ہوگا.اور بغیر کسی جنگ کے شام کا (روحانی) فاتح ہوگا.ہ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کی پیشگوئی.2 دور او چون شود تمام بکام { پسرش یادگار ہے یتیم } ( اربعین فی احوال المدین) مسیح موعود کا دور جب ختم ہوگا.تو اس کا فرزند بطور یاد گا ر موجود ہو گا.ش شمس المعارف من ٣٢ و بحار الانوار جلد ۱۳ حت

Page 25

ان بی سیم موعود کی پیدائش سے قریباً ایک صدی پیشتر دلی کے مشہور با کمال بزرگ یشیم حضرت خواجہ محمد ناصر رحمہ اللہ علیہ کو عالم کشف میں بتایا گیا کہ معرفت و ولایت کی ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطہ محفوظ رکھی تھی اس کی ابتدا تجھ پر ہوئی ہے اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ہوگا شه قارئین حیران ہوں گے کہ اس خدائی مکاشفہ کے مطابق حضرت مسیح موعود کو تداء میں الہا کا بتایا گیا کہ اللہ تعالٰی اپنے دست قدرت سے آپ کی ایک سری خادی الہاگا دوسری کا انتظام کرنے والا ہے.چنانچہ چار سال بھی نہ گذرنے پائے تھے کہ باوجود تہذیب و تمدن کی متعدد الجھنوں اور قومیت و عمر کے زبر دست تفاوت کے اللہ تعالیٰ نے نہایت خارق عادت رنگ میں خود ہی نئے رشتہ کا انتظام فرمایا اور یہ انتظام بھی ایسے گھرانے میں جس کا تعلق براہ راست حضرت خواجہ محمد ناصردم کے ساتھ تھا اور وہ اس طرح کہ آپ کی گری کے حقیقی وارث اور نواسے حضر خواجہ میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ نے اپنی دختر نیک اختر (ام المومنین حضرت نصرت جہاں بیگم (رضی اللہ عنہا کو آپ کے عقد زوجیت میں دے دیا اور اس طرح خانوادہ نبوت کی وہ نعمت جس کی ابتدا خواجہ محمد ناصر رحمتہ اللہ علیہ سے ہوئی تھی اس کا انجام حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ذات پر ہوا.حضرت ام المومنین قصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا) کے مقدس بطن سے حجامت احمدیہ کے موجود و امام حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد الصلح الموعود ايده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ے میخانه در و مؤلفه خواجه سید ناصر نذیر صاحب فراق دہلوی مطبوعہ حید ر برقی پریس دتی طيع اول ( مارچ شده ۲۶۰

Page 26

۲۱ وو جو پسر موعود اور گذشتہ انبیاء و صلحاء کی پیش گوئیوں کے مصداق ہیں جنوری لشہداء کو تولد ہوئے آپ اشتہاء میں تحصیل علم کی غرض سے قادیان کی ایک مقامی و درسگاہ میں داخل ہوئے لیکن کسی ایک بھی درسی امتحان میں کامیاب نہ ہو سکے اور محض جذ بہ عقیدتمندی کے باعث اگلی جماعت میں شامل کئے جاتے رہے تھ کی ایک تاریخی شب کو آپ پر خدا تعالیٰ سے محبت و شیفتگی کی عاشقانه کیفیت طاری ہوئی اور آپ نے رات کی خاموش تنہائیوں میں اپنے پیارے خدا سے ہمیشہ پابند صلوۃ رہنے کا عہد کیا.مئی شعراء میں آپ نے حضرت مسیح موعود کی نعش مبارک کے سامنے کھڑے ہو کر ایک دوسرا عہد یہ باندھا کہ اگر سارے لوگ مسیح موعود کو چھوٹر دے تب بھی آپ تنہا ساری دُنیا کا مقابلہ کریں گے.ار مارچ ء کو خلیفة المسیح اول حضرت مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ کی وفات پر جب جماعت احمدیہ کا ایک عنصر جس کی قیادت چند مغربیت زدہ افراد کر رہے تھے لعظام خلافت سے الگ ہوئے تو قدرت کی طرف سے آپ کو قبائے خلافت پہنائی گئی.جنوری ۱۹۳۳ء میں آپ کو عالم کشف میں بتایا گیا کہ آپ ہی پر موعود ہیں.آپ ۱۹۴۷ء کے وسط تک قادیان (بھارت) میں اقامت گزین تھے لیکن بعد کو جب ملک کا سیاسی ماحول سخت مخدوش ہو گیا آپ ہجرت کر کے پاکستان میں تشریف لے آئے.2 اء کے فرقہ وارانہ فسادات جماعتی نظم پر نہایت درجہ اثر انداز ہوئے لیکن آپ نے یہاں پہنچتے ہی مشکلات کے بھرے ہوئے طوفانوں پر قابو پالیا اور چند سالوں کے اندر اندر ربوہ ایسی جدید اور بارونق بستی آباد کر کے ستم رسیدہ جماعت کو پھر سے مرکزیت کی مضبوط چٹانوں سے مربوط کر دیا.حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالٰی کی دلربا اور مقناطیسی شخصیت آج دنیا کی خصوصی توجہ کا مرکز بن چکی ہے.امریکہ یورپ - افریقہ اور ایشیا کے لاکھوں

Page 27

۲۲ بهترین دماغ آپ کی غلامی کو اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ سمجھتے ہیں.آپ کی قوتِ قدسی کا یہ ادنی ترین کرشمہ ہے کہ آپ کے سینکڑوں جانفروش شاگرد دنیا کے گوشہ گوشہ میں قرآنی تعلیمات کی اشاعت میں مصروف ہیں.آپ کو دنیا کے تمام ضروری اور اہم علوم مثلا سیاست فلسفه اقتصادیات.تاریخ.علم النفس تمدن علم الاخلاق اور سائنس وغیرہ میں زبر دست دستگاه حاصل ہے اور مذھبی میدان کے تو آپ موجودہ دنیا میں سب سے بڑے شہسوار میں جس کا معلمی سا اندازہ حضور کی معرکۃ الآرار تصانیف اور علم و عرفاں سے لبریز تقاریر سے لگ سکتا ہے.۲۰ فروری اشیاء اور یسعیاہ نبی کے کلام میں پیر موجود کے متعلق جو خبر ند کور ہے دو در اصل صرف ایک پیشگوئی نہیں بلکہ جب یوں مہتم بالشان پیش گوئیوں کا مجموعہ ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ اس کا ایک ایک لفظ مستقبل پیش گوئی ہے جس کی واقعاتی تشریح کے لئے ایک دفتر چاہیئے.لہذا زیر نظر کتاب فقط اس حصہ کے لئے وقف ہے کہ "ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے" روح ڈالنے کا محاورہ آسمانی صحت میں ہمیشہ کلام الہی کے لئے مستعمل ہے پس ان الفاظ میں بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالی پسر موجود کو الہام و کلام کی برکتوں سے نوازے گا اور کثرت کے ساتھ غیبی خبریں اس پر منکشف ہونگی.چنانچہ حضرت امام جماعت احمد بر ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نہ صرف صاحب کشف و الہام ہیں بلکہ حضور کے کشوف والہامات کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے گویا کلام الہی کا بحر مواج ہے جسکی اتھاہ گہرائیوں تک رسائی عقل انسانی کے لئے ناممکن ہے.یقینا ایک وقت آئے گا کہ دنیا اس آسمانی خوینم سے پوری طرح مالا مال ہوگی اور حضور کے کشوف والہامات کا ایمان افزا مرقع شائع کرنے کی ہم توفیق پائیں گے.لیکن سردست کشوف و الہامات کا صرف وہ حصہ بدیہ قارئین

Page 28

کیا جا رہا ہے جو ہماری نگاہ میں کسی نہ کسی رنگ میں پورا ہو چکا ہے.پورا ہونے کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ کلام اہنی کی سبھی تعبیریں ظاہر ہو چکی ہیں اب ان کے دوبارہ یا سہ بارہ ظہور کا امکان نہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی خبریں اکثر مختلف زمانوں اور گوناگوں رنگ میں پوری ہوتی ہیں اور اس طرح ان کا تکرار کے ساتھ دنیا کے سامنے آنا پیش گوئی کی عظمت میں اضافے کا موجب ہی بنتا ہے.پس ممکن ہے کسی وقت ان پیش گوئیوں کا ظہور کسی اور رنگ میں بھی مقدر ہو اور یہ ظہور پہلے سے بھی زیادہ شاندار ہو.تاہم موجودہ شکل میں پورے ہونے والے کشوف بھی کیفیت و کمیت دونو لحاظ سے خارق عادت پہلو لئے ہوئے ہیں.کمیت کے لحاظ سے ان کی تعداد دو سو سے متجاوز ہے اور کیفیت کے لحاظ سے وہ آپ کی ذات آپ کے خاندان اور جماعت احمدیہ کے علاوہ غیر از جماعت بلکہ غیر مسلم حلقوں سے لے کر دنیا کے بین الاقوامی واقعات پر محیط ہیں.قارئین کرام ! کلام الہی کا تسلسل بتاتے ہوئے ہم انسانیت کے اولین دور تہذیب و تمدن سے گزر کر علمی اکتشافات کے موجودہ زمانہ میں آپہنچے ہیں.ہمیں اعتراف ہے کہ باب کا آخری حصہ کچھ طوالت پکڑ گیا ہے لیکن ایسا ہونا ضروری تھا کیونکہ پسر موعود کے وجود کو بیسویں صدی کے روحانی ماحول میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ورنہ یہ حقیقت اپنی جگہ ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود کی پیدا کردہ جماعت میں خدا کے فضل سے سینکڑوں اہل کشف و الہام بزرگ موجود ہیں اور ہمارا اعتقاد ہے کہ الہام و کلام کا یہ سلسلہ قیامت تک بدستور جاری و ساری رہے گا کیونکہ اب اسلام ہی نوسٹی کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے اور مسیح موعود حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے آفتاب حقیقت سے

Page 29

منور ہونے والا وہ نیر اعظم ہے جس کے طلوع ہوتے ہی دوسرے فرقوں کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ بجھ چکے ہیں.اور لڑکھڑاتی ہوئی شمعیں بے نور ہو گئی ہیں.مسیح وقت اب دنیا میں آیا خدا نے عہد کا دن ہے دکھایا مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی کے ان کو ساقی نے پلادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخَذَ الْاعَادِي

Page 30

۲۵ کلام الہی کا اسلامی تصور

Page 31

کلام الہی کا اسلامی تصور اور اسکی اہمیت ضرورت، اور کیفیت کے متعلق اہم تصریحات دہریت پرستوں سے قطع نظر جو خالص مادی نقطہ نظر سے حقائق اشیاء کا مطالعہ کرنے کے عادی ہیں اور کلام الہی کو محض قوت واہمہ کی شعبدہ گری قرار دیتے ہیں خود ماہی کے پر ستار بھی اس زمانے میں مکالمات الہیہ کے حقیقی تخیل سے بیگانہ ہو چکے ہیں.ان کی کج نگا ہی نے خدا تعالیٰ کی صفت تکلم کے جو خا کے کھینچ رکھتے ہیں وہ بے حد مضحکہ خیز ہیں.ان خاکوں نے کلام الہی کی تعریف میں یا تو اس درجہ وسعت پیدا کر دی ہے کہ انسان کا ہر خیال الہام الہی کی سرحد میں شامل ہو جاتا ہے اور یا پھر اسے ابتدائے آفریش کے دو چار افراد میں ہی محدود کر دیا ہے جو وید لے کر ظا ہر ہوئے تھے.بالفاظ دیگر ایک طرف سراب کو سمندر اور دوسری طرف سمندر کو محض سراب سے تعبیر کیا جا رہا ہے اس چشمک زنی سے کلام الہی کا سارا حسن غارت ہو جاتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ مذہب جو کسی وقت دنیا کی فعال قوت کی حیثیت سے ابھرا تھا کلام الہی کی غلط تعبیروں کے باعث مشین بنکر رہ گیا ہے جس کو حرکت دینے اور رنگا رنگ کے عقائد کی تخلیق کرنے کا فریضہ خود انسان نے سنبھال لیا ہے.دہریت کی یہ وہ بدترین شکل ہے جو ان دنوں خود مذہب کی صفوں میں اس کے تحفظ کی علمبردار بنکہ نمودار ہوئی ہے اور ہفتے کالم کی حیثیت میں لادینیت کی خدمت بجا لا رہی ہے دوسری جانب دنیا کے مذھبی حلقے اپنے بلند بانگ دعاوی کے باوجود عمل و کردار اور اخلاق و انسانیت کی تجربہ گاہوں میں پنا کام نظر آتے ہیں میسجدوں - گرجوں.مندروں اور آتشکروں میں گذشتہ افسانوں کے غلطکے گونج رہے ہیں حالانکہ قلب و نظر يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ" کی بجائے يُؤْمِنُونَ بِالشُّہود کے حامی بن چکے ہیں اور مذہب کا چراغ علوم تهدیدہ کی تیز روشنی میں جھلملاتا دکھائی دیتا ہے.

Page 32

۲۷ به صورت حال دیکھ کر عقل انسانی فطرت کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے کہ اگر خدا ہے اور وہ اپنے بندوں سے ہم کلام ہوتا ہے تو آج جبکہ اس کے گذشتہ کلام کو حقیقت کی دنیا سے الگ کر کے الف لیلہ کے رنگین اور دلنواز طاقچوں کی زینت بنا دیا گیا ہے وطلب کشائی سے آخر گریزاں کیوں ہے ؟ عقل حیران ہے کہ آفاق پر حکمرانی کرنے اور آسماں کی پہنائیوں تک رسائی پانے والی سائنس کلام الہی سے بے خبر کیوں ہے ؟ اور اگر سائنس بوجوہ اس سے آگہی نہیں پا سکتی تو دنیا کا کو نسا روحانی ادارہ ہے جس نے اپنے مشاہدات کی روشنی میں اس کی حقیقت و کیفیت بے نقاب کی ہے ؟ یہ ہے وقت کی اہم ترین لپکا رجس کا جواب حاصل کرنے کے لئے پوری دنیا برسوں سے منتظر ہے.اور زیر نظر باب اسی نوعیت کے مباحث کے لئے مخصوص ہے جو مندرجہ ذیل پہلوؤں پرمشتمل ہیں :.ا سائنس عقل اور کلام الہی.۲.مذہب میں کلام الہی.-۳- اسلامی نقطہ نگاہ سے کلام الہی کی حقیقت.اقسام اور کیفیتیں.اس جہت سے اس باب کو کلام الہی کا تعارف کہنا چاہیئے !! سائنس عقل اور کلام الہی " کلام الہی مذہب کا سرچشمہ ہے اور مذہب کی تعریف یہ ہے کہ " خدا تعالے سے ملنے کا وہ راستہ جو اس نے خود الہام کے ذریعہ سے دنیا کو بتایا ہو لیکن اس کے برعکس سائنس ان علوم سے تعبیر پاتی ہے جو منظم اصولوں کے ماتحت ہوں اور جین میں مادی حقائقی اور ظاہری صداقتوں سے استدلال کیا گیا ہو اور انکی ت کا بنیاد تجربہ اور مشاہدہ پر ہو مذہب و سائنس کے یہ جدا جدا موضوع ہی بتا رہے ہیں کہ دونوں کا کے سائیس و مذهب از حضرت مصلح موعود

Page 33

PA دائرہ عمل الگ الگ ہے.مذہب خدا کا قول ہے اور سائنس اس کا فعل.لہذا سائنس کی گاڑی میں بیٹھ کر خدا اور اس کے قول کی تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص لنڈن کے وکٹوریا اسٹیشن سے بذریعہ سہیل نیو یارک یا دو انگشتن پہنچنے کا قصد کرے.سائنس کی یہ فرمائیگی اور بے نیسی تنہا " قول الہی" کے باب ہی میں نمایاں نہیں " فعل الہی کے لحاظ سے بھی واضح ہے ہے شبیہ بیسویں صدی کے ارتقائی دور میں علوم ارضی و سماوی کی بے شمار راہیں کھلی ہیں اور ہر راہ پر سائنسدان پوری سرگرمی سے محو تحقیقات ہیں لیکن راز کا ئنات کے دریافت کرنے میں ابھی روز اول ہے اور کوئی بڑے سے بڑا سائنسدان بھی یہ دھوئی نہیں کر سکتا کہ قدرت کے سبھی عجائبات منظر عام پر آگئے ہیں اور ایسا ہوتا بھی ناممکن ہے کیونکہ انسان خدا تعالٰی کی معجز نمائیوں کا احاطہ نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے دنیا بھر کے فلاسفروں اور سائنسدانوں کو اسی حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آج سے نصف صدی پیشتر فرمایا تھا کہ : ہم ایسے خدا کو نہیں مانتے جس کی قدرتیں صرف ہماری عقل اور قیاس تک محدود ہیں اور آگے کچھے نہیں بلکہ ہم اس خدا کو مانتے ہیں جسکی قدر نہیں 宾 اس کی ذات کی طرح غیر محدود اور نا پیدا کنار اور غیر متناہی ہیں.یہ ایک فیصلہ شدہ بات ہے کہ اگر علم سائنس یعینی طبیعی خدا تعالیٰ کے تمام عمیق کا موں پر احاطہ کرے تو پھر وہ خدا ہی نہیں جس قدر انسان اسکی بار یک حکمتوں پر اطلاع پاتا ہے وہ انسانی علم اس قدر بھی نہیں کہ جیسے ایک سوئی کو سمندر میں ڈبویا جائے اور اس میں کچھ سمندر کے پانی کی تری باقی رہ جائے " انسان با وجودیکہ ہزارہ ہا برسوں سے اپنے علوم طبیعیہ اور ریاضیہ کے

Page 34

۲۹ ذریعہ سے خدان قدرتوں کے دریافت کے لئے جان توڑ کوششیں کر رہا ہے مگر بھی تک اس قدر اس کے معلومات میں کمی ہے کہ اس کو نام را دارا ناکام ہی کیا سم کہنا چاہیئے کے نه پس جب سائنس اپنے دائرہ عمل میں بھی ناکام ہے وہ ایک دوسرے دائرے میں جو اس کے احاطہ عمل سے خارج ہے کب کوئی راہنمائی کر سکتی ہے.اس بارہ میں تو اُس کی روشن دماغی " کا یہ عالم ہے کہ کلام الہی تو رہا ایک طرف وہ ابھی تک خدا کے وجود کے متعلق بھی اندھیرے میں ہے چنا نچہ کمیسلے نے جو اگناسٹک ازم کا بانی قرار دیا جاتا ہے صاف صاف اعتراف کیا ہے کہ سائنسدانوں کو کسی ما فوق البشر قادر مطلق ہستی کا علم نہیں ہو سکا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب یہ فضا بدل رہی ہے چنانچہ چند سال ہوئے کریسے مورین نے خدا کی ہستی کے ثبوت میں ایک زبر دست مقالہ لکھا اور اس میں کھلے بندوں تسلیم کیا کہ."ہم ابھی سائنس کی ترقی کے ابتدائی دور میں سے ہی گزر رہے ہیں جوں جوں ہمارے علم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ کا ریاست کا کوئی خالق ایسا ضرور ہے جس کی دانائی اور حکمت شک و شبہ سے بالا تر ہے.ڈارون کے وقت سے اب تک ایک صدی ہونے کو آئی اور اس دوران میں ہم نے حیرت انگیز دریافتیں کر ڈالیں لیکن علم نے ہمارے سینوں میں جو ایمان اور انکسار پیدا کر دیا ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے افرانہ کرنا پڑتا ہے کہ ہم خدا سے دور جانے کی بجائے خدا کے وجود کو تسلیم کرنے اور اس پر ایمان لانے کے قریب آرہے ہیں بیٹے ه چشمه معرفت ما جمع اول) ۲ (ترجمت ماہنامہ اسراز حکمت لاہور اگست ۳ شد

Page 35

مسٹر کر ایسے مورین نے اپنے مقالہ میں ذات باری پر متعدد دلائل دیئے اور ثابت کیا ہے کہ ایک علیم وخبیر قادر و توانا اور متصرف بالا رادہ بستی ضرور موجود ہے اس ضمن میں ان کے دکھ دلائل بطور مثال درج ذیل ہیں :- پہلی دلیل :- مسٹر مورین نے حساب کے قاعدوں سے خدا کا ثبوت دیتے ہوئے لکھا ہے کہ :- حساب کے قاعدوں سے ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق ایک ایسی دانا و بینا ہستی کے ہاتھوں ہوئی جو فن تعمیر میں یکتا ہے آئیے میں آپ کو ایک آسان تجربہ بتاؤں دس پیسے لیجئے اور ان پر چاک سے ایک دو تیلین...دس نمبر ڈال دیجئے اب انہیں اپنی جیب میں ڈال کر اچھی طرح ہلائیے اور پھر ایک ایک کر کے پیسے جیب سے یوں نکالنے کی کوشش کیجئے کہ وہ نمبر وا نکلیں اور کہیں غلطی نہ ہو کیا آپ اس کوشش میں کامیاب ہو جائیں گے...اگر آپ دسوں پیسے بغیر کسی غلطی کے نمبردار نکالنا چاہیں تو آپ کی کامیابی کا امکان ایک نبیل مرتبہ میں صرف ایک ہو گا.یہ بات آپ کی سمجھ میں آگئی کہ محض حسن اتفاق پر بھروسہ کرنے سے دس پیسوں کو جیب سے ترتیب وارد کالنے کا امکان اس قدر کم ہے تو پھر ؟ 23 بتائے کہ زمین اور آسمان اور ان پر کی تمام چیزیں جن کا شمار ہی نہیں محض اتفاقی طور پر کس طرح اس نظم و ترتیب کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہیں ؟ زمین ہی کو لیجئے یہ اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے اب اگر اس کی رفتار گھٹ کر صرف سو میل فی گھنٹہ رہ جائے تو ہمارے دن اور ہماری راتیں دس گنا لمبی ہو جائینگی.سورج ہی کو دیکھئے اس کی روشنی اور گرمی نہ ہو تو پودے اور چرند حیوان اور انسان سبھی کے لئے زندہ رہنا نا ممکن ہو جائے.اسکی سطح کا درجہ حرارت ۱۲ ہزار فارن ہیٹ ہے اور ہمارا کرہ ارضی اس سے ٹھیک اتنے فاصلے پر ہے جہاں

Page 36

سورج کی ختم نہ ہونے والی آگ سے فقط اس قدر گرمی پہنچتی ہے جتنی کہ دنیا کی چیزوں کو زندہ ا پنے کے لئے درکار ہے.چاند کی طرف دیکھے اگر یہ ہم سے قریب تر ہوتا تو سمندروں کے پانی کا متے ہو جزر ہلاکت انگیز صورت اختیار کر لیتا.سمندروں میں ہر رونہ دو مرتبہ جوار بھائی کی صورت میں طوفان آیا کرتے جن سے سبھی براعظم دن میں اتنی ہی مرتبہ پانی میں غرق ہو جاتے اور پانی کی لہریں ہمالہ جیسے سر بفلک پہاڑوں کی چوٹیوں کو بھی بہائے جائیں.کیا یہ سب کچھ حسن اتفاق ہے کہ یہ تمام چیزیں ٹھیک اس حالت میں ہیں کہ ہماری خیمن ثابت ہونے کی بجائے ہماری خادم ثابت ہو رہی ہیں محسن اتفاق پر بھروسہ کر کے صرف دس ایک سی چیزوں کو ترتیب وار جیب سے نکالنے کا امکان ایک نبیل مرتبہ کوششوں میں صرف ایک تھا.بتا ئیے پھر زندگی کو ممکن بنانے کا کام جو ان گنت عوام پر منحصر ہے کیونکر کسی دانا و بینا اور علیم وبصیر ذات کے بغیر ممکن ہے.دوسری دلیل.مسٹر مورنین نے دوسری دلیل یہ دی ہے کہ حیوانات کی عقل اس جود و کرم والے خالق کے وجود پر گواہی دیتی ہے جس نے ایک بے یار و مددگار مخلوق کو وجدان کے ذریعہ سے گردویش کے حالات سمجھنے اور اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھالنے کے قابل بنایا.** بسامن مچھلی کو دیکھئے جسامت میں چھوٹی.لیکن عقل میں تیز برسوں دور دراز سمندروں میں رہنے کے بعد جب اس ندی کی طرف لوشتی ہے جس کے کسی پایاب حصے میں اس نے پہلی بار اپنی آنکھ کھولی تو وہ اپنے وطن کی راہ کبھی نہیں بھولتی.ایل مچھلی کی داستان حیات سامن سے بھی حیرت انگیز ہے بلوغت کو پہنچنے

Page 37

۳۲ پر یہ جو مہروں ندیوں اور نالوں سے نکل کر ہزاروں میل دور وسطی امریکہ کے قریب جزائر برمودا کے نواح میں پانی کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف رخ کرتی ہے تا وہ اپنی نسل پھیلائے اور پھر وہاں سے اس کے چھوٹے چھوٹے بچے انڈوں سے نکلتے ہی ان جو ہڑوں اور نالوں کی طرف چل پڑتے ہیں جہاں سے اُن کی مائیں آئی تھیں.حیرت انگیز امر یہ ہے کہ آج تک کبھی کوئی امریکی اہل یورپ کے جوہروں میں نظر نہیں آسکی اور نہ یورپی نسل کی کوئی ایل امریکہ کے جوہڑوں میں پائی گئی غلطی کا اس قدر زیادہ امکان ہو اور پھر کوئی غلطی نہ ہو اس کے بعد بھی کائنات کے حاکم اعلیٰ کے وجود سے انکار کی مجال ہو سکتی ہے ؟ بھڑ کو دیکھے جھینگر سے لڑائی میں ہمیشہ اس پر فتح پاتی ہے پھر زمین میں ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر اسے وہاں رکھ کر ٹھیک ایسے مقام پر ڈنگ مارتی ہے کہ جھینگر مرے نہیں بلکہ اس کے زہر سے بیہوش ہو جائے اور پھر اس پر بس نہیں بیہوش جھینگر کو گڑھے میں ڈال کر اس پر اس طریق سے اپنے انڈے پھیلا دیتی ہے کہ بچے ان میں سے نکلنے کے بعد اس بیہوش شکار کے گوشت کو اپنی خوراک بنائیں مگر قدرت کی تعلیم دیکھئے چونکہ مردہ جھینگر کا گوشت نوزائیدہ بچوں کے لئے مہلک ہوتا ہے اس لئے وہ اس کی بوٹیاں ایسے مقامات سے نوچتے ہیں کہ اس کی جان نکلنے نہ پائے انڈوں سے نکلنے والے بچوں کے لئے رزق فراہم کرنے کے بعد مادہ بھر دور کہیں جا کر دم دے دیتی ہے اور اس کی نسل جوان ہوکرہ ماں کے نقش قدم پر چلتی ہے.بتائیے ان بھڑوں کو ایسا کرنا کس نے سکھایا.کیا تجربہ اُن کا اُستاد بنا ؟ ایسا ہوتا تو غلطی کا بہت زیادہ امکان تھا مگر غلطی کبھی کسی بھڑ سے نہیں ہوئی پھر جو بات نہ تجربہ کا خمر ہے نہ " حسن اتفاق " کا نتیجہ وہ رب کائنات کی تعلیم و تربیت

Page 38

اور اس کی طرف سے انعام و اکرام نہیں تو اور کیا ہے ؟ (شخص) اب جب نظام عالم سے خالق کائنات کا وجود قطعی طور پر ثابت ہوا تولا محالہ عقل کو تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ خدا جس نے انسان کی مادی زندگی کی بقا کے لئے اتنا عظیم الشان انتظام فرمایا اس نے ہماری روحانی تشنگی بجھانے کا بھی ضرور بندو بست کیا ہو گا آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ اُس کی تعلیم و تربیت سے پچھلی اور بھر تو حصہ لے مگر انسان اس سے محروم رہ جائے مفصل کو یہ بھی مانے بغیر چارہ نہیں کہ وہ کامل حکیم و بینا خدا جس نے انسانوں کو زبان بخشی ہے خود قوت گویائی سے محروم نہیں ہو سکتا.اور چونکہ موجودہ سائنس نے یہ بھی ثابت کر دکھایا ہے کہ مادہ (ایٹم) کی کڑیاں جوں جوں لطیف سے لطیف تر ہوتی جاتی ہیں اُن میں بے پناہ قوت کا اضافہ ہوتا جاتا ہے مثلاً ایکٹونز پروٹونز سے زیادہ بنیولا میں اور نیولے کے مقابل اینتھر کی شعاعوں میں طاقت بہت زیادہ ہے.لہذا اس تحقیق کے مطابق ہمیں ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ لطیف ترین اور وراء الورا، وجود ہونا چاہتے جو ماوی ہاتھوں کے بغیر پیدا کرتا مادی آنکھوں کے بغیر دیکھتا اور مادی زبان کے بغیر کلام کرتا ہو عقل کی قوت پر واز جب اس مقام تک پہنچتی ہے تو اسے سب سے آخر میں یہ نظریہ بھی قائم کرنا ضروری ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ کی صفت خالقیت صفت بصیر و خبیر نہایت شان سے ظاہر ہو رہی ہیں اسی طرح صفت تحکیم کا بھی ظہور ہو یعنی وہ محض اشاروں ہی میں اپنی منشا نہ بتائے بلکہ ایسا فصیح و بلیغ کلام فرمائے جو انسانی فصاحتوں اور بلاغتوں کا سحر ختم کر دے اور جس طرح آئی مصنوعات کے مقابلہ میں انسانی عقلیں ناکارہ ہیں اسی طرح اس کا نازل کردہ کلام کبھی انسانی قدرتوں سے بالا اور خارق عادت رنگ رکھنے والا ہو.ه ما خود از رساله اسرار الحکمت لاہور اگست ۵۳نه ۱۳۰

Page 39

1 ۳۴ مذہب میں کلام الہی" اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ عقل و فکر نے جس امر کا امکان ثابت کیا ہے مذہب آسکی عینی شہادت پیش کرتا ہے کیونکہ دنیا میں میں قدر مذاہب ہیں وہ کلام الہی کی بنیا ہی پر قائم ہیں اور جو نبی اور صلحاء بھی آئے وہ سب یہ دھونی لے کر اُٹھے کہ وہ خدا جس نے انسانیت کی مادی ضروریات مہیا فرمائیں اس نے ہمیں اس کے روحانی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہم کلامی کا شرف بخشا.یہ انبیاء و صلحار ابتدا آفرینش سے اب تک مختلف قوموں مختلف زمانوں اور مختلف خطوں میں ظاہر ہوئے.ہزاروں سال سے کلام الہی کے علمبرداروں کی مسلسل آمد اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ موجود ہے اور وہ اپنے راستباز بندوں کو شرف مکالمہ مخاطبہ سے سرفرار فرماتا ہے.دُنیا کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ منفی Negative ) پہلو کی نسبت ترجیح ہمیشہ مثبت ( Positive) کو دی جاتی ہے کیونکہ عدم کی تاریخی وجود کی روشنی میں نہیں ٹھہر سکتی.دنیا کی کوئی بین الاقوامی عدالت مثبت شہادتوں کو نظر اندازہ کر کے منفی شہادتوں کا سہارا نہیں لے سکتی.پس جب لاکھوں نہیں کروڑوں کی تعداد میں ایسے شاہد عادل موجود ہیں جو کلام انہی کے بارہ میں اپنا تجربہ رکھتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اُن پر اعتماد نہ کریں.ہم یہ تو کہہ سکتے کہ ہم اس تجربہ سے محروم ہیں لیکن ان کے تجربہ کو غلط کہنے > 02 کا حق ہمیں حاصل نہیں ہے خصوصاً جبکہ تاریخ شہادت دیتی ہے کہ :.۱.یہ مقدس وجود و جاہت کو شخصیت کے لحاظ سے اس پایہ کے تھے کہ اگر و اپنی ذات سے کوئی بات کہتے تو دنیا کو دم مارنے کی مجال نہ ہوتی.۲.وہ ابتدا ہی سے جلوتوں سے منتظر اور خلوتوں کے والہ وشیدا تھے انکی پاکیزہ

Page 40

۳۵ اور بے لوث زندگی ہر قسم کی دنیوی اور نفسانی آلائشوں سے مقر انھی اور جیا نہیں اہیں کے نمائندوں نے کوئی مادی پیشکش کی تو انہوں نے اسے پائے استحقار سے ٹھکرا دیا.ان کی دماغی صلاحیتوں اور ذہنی رفعتوں کے قائل ان کے بدترین و شمن بھی تھے وہ اپنے اپنے زمانے میں چراغ راہ تھے جس سے انسانیت نے اپنے نظارم روحانیت ہی میں نہیں معیشت و تمدن و سیاست میں بھی روشنی حاصل کی.-۴- ان برگزیدوں نے خدا کی طرف جو پیش گوئیاں منسوب کیں وہ مخالف اور نا موافق حالات کے باوجود پوری ہوئیں بلکہ اُن میں سے ایک حصہ آج بھی پورا ہو رہا ہے..جن عدوان دین نے ان پیغمبروں کا مقابلہ کیا وہ ہمیشہ ناکام و نامراد ہو اور انہیں ہر میدان میں نمایاں فتح نصیب ہوئی..ان قافلہ سالاروں کی مقناطیسی جذب دو کشش اور غیر معمولی اخلاقی اور روحانی قوت قدسی نے بے شمار انسانوں کی گردنیں فرط عقیدت سے جھکا دیں لاکھوں فرزانوں نے اس دیوانگی" کی خاطر اپنی قیمتی جوانیاں نثار کر دیں اور وہ دنیا کے نظام علم د حل پر چھا گئے.۷.یہ خدا نما و جو د عبادت و ریاضت اور ذکر الہی میں تو ہر وقت مصروف پائے گئے مگر وہ سپر بجو لسٹوں اور مسمرائزروں کی طرح کبھی مشق کرتے نہیں دیکھے گئے نہ نجوم اور ہیئت ہی کے آلات ان کا اثاث البیت بنے اور نہ رسل و جفر یا طلسم ہی کی جھلک ان کی زندگی سے ظاہر ہوئی.-A پھر دنیا کی تاریخ میں خدا کے کسی مامور کے متعلق وحی والہام کے دھونی سے دستکشی کی ایک مثال بھی نہیں مل سکتی حالانکہ بڑے بڑے صبر آن ما حالات میں سے انہیں

Page 41

گذرنا پڑا..اس سلسلے میں سب سے عجیب بات ہمارے سامنے یہ آتی ہے کہ حضرت آدم سے لے کر اب تک آنے والے ماموروں کے حالات و تعلیمات میں حیرت انگیز ربط و مناسبت اور مطابقت ہے اس سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیاں ہیں اور یہ امران کے ایک ازلی ابدی کلیم و شیر بہتی کی طرف سے برپا ہونے اور دھونی کلام الہی میں برحق ہونے کی فیصلہ کن پیل ہے.پس مذاہب عالم کی گزشتہ تاریخ اور انبیاء کے حالات من ر ا تعالے کی صفت تعلیم کا نا قابل تردید ثبوت ہیں.اسلامی نقطہ نگاہ سے کلام الہی کی حقیقت اس کی اقسام و کیفیات سائنس عقل اور تاریخ مذاہب کی روشنی میں کلام اپنی کا ثبوت دینے کے بعد اب ہم پیش نظر باب کے اس آخری مگر اہم ترین موضوع کی طرف آتے ہیں کہ کلام الہی کی حقیقت کیا ہے اور اس کی اقسام و کیفیات کیا ؟؟؟ اسلام کے سوا آج میں قدر مذاہب موجود ہیں چونکہ وہ بھی کلام اپنی کی روح سے یکسر خالی اور نہ ندہ نشانات سے محروم ہیں اس لئے اُن کے حسین میمے دنیا کے بھی عجائب گھر میں آثار قدیمہ کے شعبہ کی رونق تو بن سکتے ہیں لیکن اُن سے اسبارو میں کوئی راہنمائی حاصل نہیں ہو سکتی.اُن کی بے بسی کا تو عالم یہ ہے کہ اُن کے ہاں نبی یا نبیتوت کا بھی کوئی جامع مانع تصور نہیں کجا یہ کہ الہام و کلام کی کیفیت کے

Page 42

۳۷ دھندے سے نقوش بھی اُن میں موجود ہوں.یہ خصوصیت صرف اسلام کو حامل ہے کہ وہ ایسا واحد روحانی ادارہ ہے جس کی سمادی تجربہ گاہیں آج تک قائم ہیں اور قیامت تک دعوت نظارہ دیتی رہینگی.قرآن مجید سامری کے بچھڑے کا ذکر کرتے ہوئے کیا لطیف پیرائے میں فرماتا ہے الم يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُم کہ بچھڑے کو خدا سمجھنے والوں نے یہ کیوں نہ دیکھا کہ وہ کلام نہیں کرتا.اگر چھڑا خدا ہوتا تو اسے ضرور بولنا چاہیئے تھا پس اسلام کسی ایسے خدا کا قائل نہیں جو گونگا ہے اس کے نزدیک تو ایسے ضا" کو نذر آتش کر کے سمندر کی لہروں کے سپرد کر دینا چاہیئے وہ چودہ سو سال سے یہ منادی کر رہا ہے.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ لَمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ المَليكة الا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ الشروا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ترجمہ : جو لوگ اللہ کو اپنا رب تسلیم کر کے استقامت دکھاتے ہیں اُن پر خدا کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ خوف و حزن نہ کرو تمہیں اس حیثیت کی بشارت ہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے.اسلام اپنے معتقدین کو فقط گذشته معجزات کا حوالہ نہیں دیتا نہ محض قیامت کا وعدہ کرتا ہے بلکہ عرفان الہی اور دیدار الہی کے دروازہ سے اس دنیا میں بھی کھولتا ہے اس کا صاف صاف اعلان ہے.من كان في هذه أعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى نیز وہ کہتا ہے :- الله كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلَهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا ے اعتراف ع ۱۸ ه حم سجده ۴۶ نه بنی اسرائیل ۸۶

Page 43

٣٨ في السَّمَاءِ تُؤْتِي اخْلَهَا كُلَّ حينٍ بِاِذْنِ رَبِّهَا وسوره ابر ایم ) امام ترجمہ : کلمہ طیبہ یعنی پاک شریعیت پاک درخت کی مانند ہے میں کی جڑ ہیں زمین سے پیوست اور شاخیں آسمان میں ہیں اور جو ہر وقت اذن انہی سے تازہ پھیل پیش کرتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود بیسوی صدی میں شجر اسلام کے وہ شاندار کھیل ہیں جو کلام الہی کی حلاوتوں کا بہترین نمونہ اور ضلاله ہیں.بے شبہ قرآن مجید دینی و دنیاوی علوم کا جامع صحیفہ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ان کی تفصیلات کا انکشاف انہی کے ذریعہ سے ہوا ہے اور اُن پر کلام الہی کے انوار کی بارش اس کثرت سے ہوئی ہے کہ اس کی کیفیات کے سائے تک روشن ہو گئے ہیں قرآن مجید میں کلام الہی کے قرآن مجید جو آخری شریعت ہے کلام الہی تین اصولی ذرائع کا بیان کے اصولی ذرائع بیان کرتے ہوئے کہتا ہے.مَا كَانَ لِبَشَرِ أَنْ يُكَلِمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ اَوْيُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحَى بِاذْنِهِ مَا يَقاوه انه على حکیمه (سوره شوری ترجمہ : اللہ تعالے کسی بیشر سے کلام نہیں کرتا مگر (بلا واسطہ) وحی کے ذریعہ سے یا پس پر وہ وحی کے ذریعہ سے اور یا پھر وہ اپنا فرشتہ بطور رسول بھیجتا ہے پس وہ اپنے اذن سے جو وحی چاہتا ہے نازل فرماتا ہے.کیونکہ وہ بلند شان رکھنے والا اور حکیم ہے.یعنی اس کی بلندشان کا تقاضا ہے کہ تعلیم کے مادی اور سطحی اسالیہ سے ہٹ کر اپنی شان کے مطابق مخصوص رنگ میں گفتگو کرے اور اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے

Page 44

٣٩ کہ وہ محض ایک ہی طرز اور ایک ہی رنگ میں بولنے کا پابند نہ ہو بلکہ اس کے ہاں اپنے منشاء مبارک کے اظہار کے منقد و انداز ہوں جن میں سے اپنی حکمت کے مطابق جیسے اور جس وقت چاہے اختیار فرمائے.غرض کہ قرآن مجید نے وحی یعنی کلام الہی کے تین اصولی ذرائع منکشف فرمائے ہیں.ا حقیقی بلا واسطه وحی ۲- پس پرده یا تاریخ وحی - س حقیقی بالواسطہ وحی وحی کے لغوی معنی وحی کے لغوی معنی ہیں الاشارة السريعة ومفردات راغبة یعنی وہ اشارہ جو نہایت تیزی سے کیا جائے.اصطلاحی معنی | شریعت اسلامیہ میں وحی سے مراد کلام الہی ہے جس کا نزول خدا کے پیغمبروں اور عارفوں پر ہوتا ہے.مفردات راغب میں لکھا ہے يقال للكلمة الالهية التي تلقى الى انبیاء و اولیاء ہ وحی وہ الہی کلمہ جو انبیاء و اولیاء پر نازل ہو دھی کہلاتا ہے.لفظ وحی میں حکمت قرآن مجید نے کلام الہی کے لئے وحی کا لفظ اختیار کر کے منکرین کلام الہلی کے اس سوال کا لطیف جواب دیا ہے کہ خدا اپنے کسی ہندے سے بولتا ہے تو دوسرے بندے اس کی آواز کیوں نہیں سن سکتے فرمایا کلام الہی کے قطعی اور واضح ہونے کے باوصف اس کا نزول اس تیزی سے ہوتا ہے کہ اس کے شنوا وہی ہوتے اور ہو سکتے ہیں جنہیں ہم سنانا چاہتے ہیں دوسرے نہیں ہو سکتے.اس باب میں کلام الہی کی مثال ریڈیو کی نشر گاہ جیسی ہے جس کی آواز افذ ( Catch) کرنے کی صلاحیت ایک خاص ساخت کے آئے کو

Page 45

ہوتی ہے.اس کے مقابل اگر دنیا کے بلند ترین میناروں پر لوہے یا لکڑی کے بڑے بڑے ڈبے بھی نصب کر دیئے جائیں جو ریڈیو کے انتہائی حجم سے سینکڑوں گنا زیادہ اور اس کے وزانا سے ہزار درجہ بھاری ہوں تب بھی وہ نشری پروگرام اخذ نہیں کر سکتے.قریباً یہی تفاوت علیہم اور غیر ملہم کے قلب و دماغ میں سمجھنا چاہیئے کہ یہ صحیح ہے کہ ظلہم یہ نازل ہونے والی وحی میں بعض اوقات ایک غیر علیم بلکہ کا فریک بھی شریک کر دیا جاتا ہے مگر ظاہر ہے کہ یہ ایک انشائی صورت ہے جو مشیت ایزدی کے بغیر واقع نہیں ہو سکتی.کیا لفظی وحی ممکن ہے ؟ دیل واسطہ وحی اور بالواسطہ وحی) پر روشنی ڈالنے سے قبل حضرت امام جماعت احمدیہ کے الفاظ میں اس سوال کا جواب درج کر دیتا مناسب ہوگا کہ " کیا لفظی الہام ممکن ہے." حضور فرماتے ہیں :- الہام کے وجود کو چونکہ طبعی اسباب سے منوانا بیہو دو تھا.اس لئے قرآن کریم وہ ہ جیسا کہ اس باب کے آخر میں بتایا جائے گا ایک حد تک سبب بنی نوع انسان کے لئے کا فرد مومن کی تمیز سے بالا ہو کر ، کلام انہی کی راہیں کھلی رکھی گئی ہیں تا ہر شخص پر اتمام حجت ہو سکے.ٹھیک نہیں طرح ریڈیو کی آوازیں گاہے گا ہے مائیکروفون کی قوت سے لاؤڈ سپیکر کے ڈبوں سے بھی سنائی دیتی ہیں لیکن بہر حال نشری پروگرام سے حقیقی معنوں میں استفادہ تنہا ریڈیو سیٹ ہی سے ممکن ہے

Page 46

۴۱ نے اس کے جواب میں خواب اور ر ویا کو بطور دلیل پیش کیا ہے.الہام اور رویا میں فرق صرف یہ ہے کہ الہام کے کو الفاظ کان سنتے ہیں اور رویائیں آنکے نظار در گیتی ہے.رویا سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ انسان بعض حالتوں میں ایسی آوازیں اور ایسے نظارے دیکھے یا سن سکتا ہے جن کا خارج میں وجود نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ دل کا خیال ہوتے ہیں پس شواہد سے نہ طبعی قانون سے معلوم ہوا کہ ایسا کی ہے کہ بغیر بولنے کے الفاظ پیدا ہو جائیں جو دل کا خیال نہ ہوں ہر شخص نے کبھی نہ کبھی ایسا گا نظاره ضرور دیکھا ہوگیا ہے وہ نظارہ نیند کی حالت میں ہو یا بخار کی حالت میں چاہیے وہ نظارہ جھوٹا ہو یا سچا اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ وہ واقعہ میں نظارہ معلوم ہوتا ہے اور دل کا خیال نہیں ہوتا یہ الگ بحث ہے کہ ایسا نظارہ حقیقی ہوتا ہے یا تخیل کا نتیجہ جھوٹا ہوتا ہے یا بیماری کا نتیجہ.بہر حال اتنا اننا پڑیگا کہ دماغ میں ایسی خاصیت ضرور ہے جس سے انسان کی آنکھ بعض دفعہ ایسے نظارے دیکھ سکتی ہے جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ دل کا خیال ہوتے ہیں پس آنکھ اگر ایسا نظارہ دیکھ سکتی ہے تو کیا کان ہیں آواز نہیں سن سکتے آگے یہ الگ سوال ہے کہ ایسے الفاظ سچے ہوتے ہیں یا جھوٹے دماغی نقص کا نتیجہ ہوتے ہیں یا تخیل.اس قسم کی فرضی آواندوں کا جن کو انگریزی میں ہیلوسی نیشن ) illucination) کہتے ہیں ہر ایک نے مشاہدہ کیا ہو گا.مثلاً الگ الگ کمرے میں بیٹھے ہوئے یا سنسان جنگل میں چلتے ہوئے بعض وقعہ ایسا ہوتا ہے کہ اپنا نام کان میں آجاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ہم کو بلا رہا ہے گو آپ اس کو وہم کا نتیجہ ہی قرار دیں مگر یہ نا مکن نہیں کہ ایسی آواز آئے ہیں ثبوت یہ مانگتا ہو گا کہ ایسی آوازیں و ہم ( دماغی نقص کا نتیجہ ہوتی ہیں یا واقعہ میں خدا کی آواز (الہام) ان آوازوں کے آنے کا سیب خواہ کوئی بھی ہو ا تنا ثابت ہے کہ یہ قلبی خیال نہیں ہوتا ہے را روی آن لاین اردو جوری نشده است

Page 47

۴۲ بلا واسطہ وحی | وحی لفظی میں بلا واسطہ وحی کو اولیت حاصل ہے.بلا واسطہ وجی کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ اس کے ساتھ فرشتوں کا نزول نہیں ہوتا مراد فقط یہ ہے کہ اس ذریعہ کلام میں فرشتوں کا توسط نہیں ہوتا خدا کی قدرت سے آواز پیدا ہوتی ہے ورنہ ہر نوع کا کلام اپنی ملائکہ کی حفاظت ہی میں اُترتا ہے.حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ الحدید کے مشاہدات کے مطابق بلا واسطہ وحی کے چار مراکز ہیں :- اول - کان -: یعنی کانوں سے خدا کی آواز آتی ہے.دوم زبان: یعنی زبان پر کلام الہی جاری ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس وحی کی کیفیت یوں بیان فرمائی ہے.جب خدا وند تعالیٰ کوئی امرغیبی اپنے بندہ پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو کبھی ترمی سے اور کبھی سختی سے بعض کلمات زبان پر کچھ تھوڑی غنودگی کی حالت میں میاری کر دیتا ہے اور جو کلمات سختی اور گرانی سے جاری ہوتے ہیں وہ ایسی میران اور عنیف صورت میں زبان پر وارد ہوتے ہیں جیسے گڑے یعنی اولے یکبارگی ایک سخت زمین پر پڑتے ہیں یا جیسے تیز اور پر زور رفتار میں گھوڑے کا کم زمین پر پڑتا ہے.اس الہام میں ایک عجیب سرعت اور شدت اور ہیبیت ہوتی ہے جس سے تمام بدن متاثر ہو جاتا ہے اور زبان ایسی تیزی اور بارعب آواز میں خود بخود دوڑتی جاتی ہے کہ گویا وہ اپنی زبان ہی نہیں اور ساتھ اس کے جو ایک تھوڑی سی غنودگی اور ربودگی ہوتی ہے وہ الہام کے تمام ہونے کے بعد تی الفور دور ہو جاتی ہے اور جب تک کلمات الہام تمام نہ ہوں تب تک انسان

Page 48

ایک میت کی طرحہ اس کو حرکت پڑا ہوتا ہے یہ الہام اکثر ان صورتوں میں نازل ہوتا ہے کہ جب خدا وند کریم و رحیم اپنی عین حکمت اور مصلحت سے کسی خاص دعا کو منظور کرنا نہیں چاہتا یا کسی عرصہ تک توقف ڈالنا چاہتا ہے یا کوئی اور خبر پہنچانا چاہتا ہے کہ جو بمقتضائے بشریت انسان کی طبیعت پر گراں گزرتی ہو مثلاً جب انسان جلدی سے کسی امر کا حاصل کولیت چاہتا ہو اور وہ حاصل ہوتا حسب مصلحت ربانی اس کے لئے مقدر نہ ہو یا توقف سے منقدر ہو لے نیز فرماتے ہیں :- ہمارا تجربہ ہے کہ تھوڑی سی غنودگی ہو کر اور بعض اوقات بغیر غنودگی کے خدا کا کلام تکڑہ ٹکڑے ہو کر زبان پر جاری ہوتا ہے جب ایک مکڑہ ختم ہو چکتا ہے تو حالت غنودگی جاتی رہتی ہے پھر مہم کے کسی سوال سے یا خود بخود خدا تعالٰی کی طرف سے دوسرا ٹکڑہ الہام ہوتا ہے اور وہ بھی اسی طرح کہ تھوڑی سی غنودگی وارد ہو کر زبان پر جاری ہو جاتا ہے اسی طرح بسا اوقات ایک ہی وقت میں تسبیح کے دانوں کی طرح نہایت بلیغ فصیح لذیذ فقرے غنودگی کی حالت میں زبان پیر سے بری ہوتے جاتے ہیں اور ہر ایک فقرہ کے بعد غنودگی دور ہو جاتی ہے اور وہ فقرے یا تو قرآن شریف کی بعض آیات ہوتی ہیں اور یا اس کے مشاہد ہوتی ہیں اور اکثر علوم غیبیہ پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان میں ایک شوکت ہوتی ہے اور دل پر اثر کرتی ہیں ایک لذت محسوس ہوتی ہے اس وقت دل نور میں عشق ہوتا ہے گویا خدا اس میں نازل ہے اور در اصل اس کو الہام نہیں که برا امین احمدیہ حصہ سوم می ۲۲ ۳۲۲۰ طبع اول حاشیه

Page 49

امام کہنا چاہیئے بلکہ یہ خدا کا کلام ہے کے سوم بلا واسطہ وحی کا تیسرا مرکز آنکھ ہے.کاغذیا پتھر وغیرہ پر کوئی تحریر مشہور ہو جاتی ہے جسے آنکھ دیکھ لیتی ہے ہے وو چہارم براوہ موادی بہی کا حقیقی مرکز دل ہے اس لئے دل پر نازل ہونے والی وحی کی تجلیات بھی کامل درجہ کی ہوتی ہیں چنانچہ حضرت مسیح موعود قلبی وحی کو الہام کامل" کے نام سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.صورت دوم الہام کی جس کا میں باعث بار کثرت عجائبات کے کامل ابہام نام رکھتا ہوں یہ ہے کہ جب خدائے تعالے بندہ کو کسی امر غیبی پر بعد دعا اس بندہ کے یا خود بخود مطلع کرنا چاہتا ہے تو ایک دفعہ ایک بیوشی اور ربودگی اس پر طاری کر دیتا ہے جس سے وہ بالکل اپنی ہستی سے کھویا جاتا ہے اور ایسا اس بے خودی اور ربودگی اور بیہوشی میں ڈوبتا ہے جیسے کوئی پانی میں غوطہ مارتا ہے اور نیچے پانی کے پھیلا جاتا ہے غرض جب بندہ اس حالت رو بودگی سے کہ جو غوطہ سے بہت ہی مشابہ ہے باہر آتا ہے تو اپنے اندر میں کچھ ایسا مشاہدہ کرتا ہے جیسے ایک گونج پڑی ہوئی ہوتی ہے اور جب وہ گونج کچھ فرد ہوتی ہے تو نا گہاں اس کو اپنے اندر سے ایک موزون اور لطیف اور لذید کلام محسوس ہو جاتی ہے اور یہ غوطہ ربودگی کا ایک نہایت عجیب امر ہے جس کے عجائبات بیان کرنے کے لئے الفاظ کفایت نہیں کرتے.یہی حالت ہے جیس سے ایک دریا معرفت کا انسان پر کھل بھاتا ہے.کیونکہ جب بار بار چشمه معرفت طبع اول مت حاشیه ے براہین احمدیہ حصہ سوم طبع اول ۲۲۵

Page 50

۴۵ دعا کرنے کے وقت خداوند تعالٰی اس حالت غوطہ اور ربودگی کو اپنے بندہ پر وارد کر کے اس کی ہر یک دعا کا اس کو ایک لطیف اور لذیذ کلام میں جواب دیتا ہے اور ہر ایک استفسار کی حالت میں وہ حقائق اس پر کھولتا ہے جن کا گھلنا انسان کی طاقت سے باہر ہے تو یہ امر اس کے لئے موجب مزید معرفت اور باعث عرفان کامل ہو جاتا ہے بندہ کا دُعا کرنا اور خدا کا اپنی الوہیت کی تجلی سے ہر یک دعا کا جواب دینا یہ ایک ایسا امر ہے کہگو یا اسی عالم میں بندہ اپنے خدا کو دیکھ لیتا ہے اور دونوں عالم اس کے لئے بلا تفاوت یکساں ہو جاتے ہیں جب بندہ اپنی کسی حاجت کے وقت بار بار اپنے مولیٰ کریم سے جواب پاتا ہے اسی طرح کہ جیسے ایک انسان دوسرے انسان کی بات کا جواب دیتا ہے اور جواب ایسا ہوتا ہے کہ نہایت فصیح اور لطیف الفاظ میں بلکہ کبھی ایسی زبان میں ہوتا ہے کہ جس سے وہ بندہ نا آشنا محض ہے اور کبھی امور غیبیہ پر مشتمل ہوتا ہے کہ جو مخلوق کی طاقتوں سے باہر ہیں اور کبھی اس کے ذریعہ سے مواہب عظیمہ کی بشارت ملتی ہے اور منازل عالیہ کی خوشخبری سنائی جاتی ہے اور قرب حضرت باری کی مبارک بادی دی جاتی ہے اور کبھی دنیوی برکتوں کے بارے میں پیشینگوئی ہوتی ہے تو ان کلمات لطیفہ و بلیغہ کے سننے سے کہ جو مخلوق کی قوتوں سے نہایت بلند اور اعلیٰ ہوتے ہیں جس قدر ذوق اور معرفت حاصل ہوتی ہے اس کو وہی بندہ جانتا ہے جس کو یہ نعمت عطا ہوتی ہے فی الحقیقت وہ خدا کو ایسا ہی شناخت کر لیتا ہے جیسے کوئی شخص تم میں سے اپنے بچے اور پرانے دوست کو شناخت کرتا ہے اور یہ الہام اکثر معظمات

Page 51

ہیں : امور میں ہوتا ہے کبھی اس میں ایسے الفاظ بھی ہوتے ہیں جن کے معنی لغت کی کتابیں دیکھ کر کرنے پڑتے ہیں بلکہ بعض دفعہ یہ الہام کسی اجنبی زبان مثلاً انگریزی یا کسی ایسی دوسری زبان میں ہو اہے میں زبان سے ہم محض نا واقف ہیں" لے قلبی وحی کی کیفیات ایک دوسرے انداز میں یوں بیان فرماتے میں بتیس برس سے اس بات کا مشاہدہ کر رہا ہوں کہ خدا کا الہام جو معارت رومانیہ اور علوم غیبیہ کا ذخیرہ ہے دل پر ہی نازل ہوتا ہے بسا اوقات ایک ایسی آواز سے دل کا سرچشمہ علوم ہونا کھل جاتا ہے کہ وہ آواز دل پر اس طور سے بشدت پڑتی ہے کہ جیسے ایک ڈول زور کے ساتھ ایک ایسے کنوئیں میں پھینکا جاتا ہے جو پانی سے بھرا ہوا ہے.تب وہ دل کا پانی جوش مار کر ایک فنچہ کی شکل میں سربستہ اوپر کو آتا ہے اور دماغ کے قریب ہو کر پھول کی طرح کھل جاتا ہے اور اس میں سے ایک کلام پیدا ہوتا ہے وہی خدا کا کلام ہے ہے یادر ہے یہ ضروری نہیں کہ ایک وقت میں الہام الہی کے نزول کا ایک ہی مرکز ہو بعض اوقات بیک لمحہ دو یا تین مراکز پر بھی الہام الہی کا نزول ہوتا ہے.اس مقام پر یہ بتانا ضروری ہے کہ جس طرح ہمارے آقا سید نا حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اولین و آخرین کے سرتاج تھے اسی طرح آپ پر نازل ہونے براہین احمدیہ حصہ سوم طبع اول در حالی که چشمه معرفت حصہ اشید که چشمه معرفت حصہ دوم طبع اول نظر

Page 52

والی ہر قسم کی وحی اعلیٰ و افضل ہونے کے علاوہ ایک مخصوص رنگ رکھتی تھی.چنانچہ حضرت مسیح موعود محبت الہی کے درجات ثلاثہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- تیسرا درجہ محبت کا وہ ہے جس میں ایک نہایت افروختہ شعلۂ محبت انہی کا انسانی محبت کے مستعد فیصلہ پر پڑ کر اس کو افروختہ کر دیتا ہے اور اس کے تمام اجزاء اور تمام رگ وریشہ پر استیلا پکڑ کر اپنے وجود کا اتم اور اکمل مظہر اس کو بنا دیتا ہے اور اس حالت میں آتش محبت الہی لوح قلب انسان کو نہ صرف ایک چمک بخشتی ہے بلکہ معا اُس چمک کے ساتھ تمام وجود بھڑک اُٹھتا ہے اور اُس کی گوئیں اور شعلے اردگرد کو روز روشن کی طرح روشن کر دیتے ہیں اور کسی قسم کی تاریخی باقی نہیں رہتی اور پورے طور پر اور تمام صفات کاملہ کے ساتھ وہ سارا وجود آگ ہی آگ ہو جاتا ہے اور یہ کیفیت جو ایک آتش افروختہ کی صورت پر دونوں محبتوں کے جوڑ سے پیدا ہو جاتی ہے اس کو روح امین کے نام سے بولتے ہیں کیونکہ یہ ہر یک تاریکی سے امن بخشتی ہے اور ہر ایک غبار سے خالی ہے اور اُس کا نام شدید القویٰ بھی ہے کیونکہ یہ اعلیٰ درجہ کی طاقت وحی ہے جس سے قوی تر وحی متصور نہیں اور اس کا نام ذو الافق الا علی بھی ہے کیونکہ یہ وحی الہی کے انتہائی درجہ کی تجلتی ہے اور رائی مار اسی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے کیونکہ اس کیفیت کا اندازہ تمام مخلوقات سے قیاس اور گمان اور وہم سے باہر ہے اور یہ کیفیت صرف دنیا میں ایک ہی انسان کو ملی ہے جو انسان کامل ہے جس پر تمام سلسلہ انسانیہ کا

Page 53

NA ختم ہو گیا ہے اور دائرہ استعدادات بشریہ کا کمال کو پہنچا ہے اور وہ در حقیقت پیدائش الہی کے خط ممتد کی اعلیٰ طرف کا آخری نقطہ ہے جو ارتفاع کے تمام مراتب کا نتہاء ہے حکمت الہی کے ہاتھ نے اونی اسی اوی خلقت سے اور اسفل سے اسفل مخلوق سے سلسلہ پیدائش کا شروع کر کے اس اعلیٰ درجہ کے نقطہ تک پہنچا دیا ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم جس کے معنے یہ ہیں کہ نہایت تعریف کیا گیا یعنی کمالات تامہ کا مظہر سو جیسا کہ فطرت کی رو سے اس نبی کا اعلیٰ اور ارفع مقام تھا ایسا ہی خارجی طور پر بھی اعلیٰ و ارفع مرتبہ وحی کا اس کو عطا ہوا ہے بالواسطہ وحی بالواسطہ وحی سے مراد فرشتوں کے توسط سے اُترنے والا کلام الہی ہے.دنیا کی تمام فرحیمی کتابوں میں فرشتوں کی آمد اور ان کی ہم کلامی کا تذکرہ موجود ہے.یہاں اس بحث میں الجھنا بے کار ہے کہ فرشتے کوئی مخلوق ہیں یا نہیں نیتر اُن کے منصب اور ذمہ داریاں کیا کیا ہیں یہ امر ہمارے موضوع سے خارج ہے لہذا اس کی تفصیل کے لئے حضرت مسیح موعود کی شہرہ آفاق تصنیفات مثلاً آئینہ کمالات اسلام اور توضیح مرام اور حضرت مصلح موعود کے لیکچر ملائکہ اللہ کی طرف رجوع کیجئے جن میں بڑی شرح وبسط سے ملائکہ کے وجود و صفات پر روشنی ڈالی گئی ہے مختصر طور پر یوں سمجھئے کہ خدا کا کوئی فیضان ہمیں براہ راست عطا نہیں ہوتا.ہمارے ماڈی اور روانی اجسام کے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے خدا تعالیٰ نے بیشمار ملل متوسطہ - اه توضیح مرام طبع اول ص ۲۵ - ۲۸

Page 54

۴۹ پیدا کی ہیں جو مسلسل زنجیر کی شکل میں خدا تعالیٰ تک پہنچتی ہیں اس زنجیر میں آخری لطیف در لطیف کڑی ملائکہ کی ہے جس کے بعد مخلوقات کی دنیا ختم ہو جاتی ہے اور سوائے حضرت احدیت (جل جلالہ و عزاسمہ) کے دجس بعض حرف گن سے ان گنت روحانی اور مادی عالم پیدا کر رکھے ہیں) اور کوئی شے نہیں رہ جاتی.حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالٰی نے اپنے روحانی تجربات کی بنا پر فرشتوں کے ذریعے سے کلام الہی کے نزول کے مندرجہ ذیل سات طریق بیان فرمائے ہیں :- ا قول - کلام با لواسطہ نظر آنے والے فرشتوں کے ذریعہ سے سنایا جاتا ہے.جیسا کہ غارِ حرا میں ہوا.دوم - نظر آنے والے فرشتے کلام الہی سناتے نہیں دکھاتے ہیں جیسے حدیث میں ہے کہ جبریل نے غار حرا میں حضور کو حریر پر لکھی ہوئی ایک تحریر بھی دیکھائی.سوم.غیر مرئی فرشتے کلام اپنی سناتے ہیں.چہارم.غیر مرئی فرشتے کلام اپنی دکھاتے ہیں آنکھوں کے سامنے تختی آتی ہے جس پر کچھ لکھا ہوتا ہے.پنجم.نظر آنے والے فرشتے عالم بیداری میں آتے اور کلام الہی سنتے ہیں لیکن دوسرے افراد نہ کلام سنتے ہیں نہ فرشتوں کو دیکھتے ہیں ششم نظر آنے والے فرشتے کلام اپنی سُناتے ہیں اور دوسرے اس میں سماعاً شریک ہوتے ہیں.روینہ نہیں.بخاری میں آتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو

Page 55

: ۵۰ کسی سے باتیں کرتے سنا حضرت عائشہ نے دریافت کیا یا رسول اللہ آپ کس سے گفتگو فرار ہے ہیں.حضور نے فرمایا جبریل آیا ہے اور تمہیں السلام علیکم کہتا ہے.ہفتم.نظر آنے والے فرشتے کے ذریعہ سے کلام الہی سنایا جاتا ہے اور دوسر لوگ اس میں سمانا و رویتہ شریک ہوتے ہیں جیسے ایک مرتبہ جبریل دحیہ کلبی کی شکل میں حضور کی مجلس میں آئے اور صحابہ نے ان کو اچھی طرح دیکھا.جب وہ چلے گئے تو صحابہ کے استفسار پر حضور نے فرمایا جبریل تمہیں دین کی باتیں سکھانے آئے تھے.تابع وحی کلام الہی کا تیسرا قرآنی ذریعہ تابع وحی کا ہے جو وحی غیر متلو بھی کہلاتا ہے تابع وحی کے کمالات تابع وحی اکثر و بیشتر تصویری زبان میں نازل ہوتی ہے اور اپنی زبان میں متعد د کمالات رکھتی ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :- " ایک فائدہ تو اس وحی میں یہ ہے کہ گو کلام میں بھی اجمال کو مد نظر رکھا سکتا ہے مگر تصویری زبان میں تو بعض دفعہ ایسا اجمال ہوتا ہے جو کسی فقرہ میں بھی نہیں ہو سکتا اس کی مثال یوں سمجھ لو کہ اگر رویا یا کشف کی حالت میں کسی کی صورت آنکھوں کے سامنے پھرا دی جائے اس کے ماتھے پر شکن پڑے ہوئے ہوں اور دس میں مختلف قسم کے جذبات اس کے چہرے سے عیاں ہو رہے ہوں تو یہ نظارہ ایک ساعت میں اسے دکھایا جا سکتا ہے لیکن اگر اپنی جذبات کو الفاظ کی صورت میں ادا کیا جائے تو خواہ کیسے بھی محمل الفاظ ہوں اور کس قدر اختصار کو ملحوظ رکھا گیا ہو پھر بھی دس پندرہ فقروں میں

Page 56

21 و مضمون ادا ہو گا اور ممکن ہے پھر بھی کوئی خامی رہ جائے پس ایسے مواقع پر جب احتمال در اعمال صورت میں اللہ تعالی کوئی بات بتانا چاہتا ہو اور الفاظ سے زیادہ بہتر اور موثر پیرایہ میں قلیل سے قلیل وقت میں کوئی بات اپنے بندہ پر ظاہر کرنا چاہتا ہو تو اس وقت اللہ رقہ تصویری زبان میں وحی نازل کرتا ہے ایک نظارہ آنکھوں کے سامنے پھرا دیتا ہے اور اس طرح وہ باتیں جو دس میں فقروں کی محتاط ہوتی ہیں آن کی آن میں انسان پر منکشف ہو جاتی ہیں.اس طرح تصویری زبان میں وحی نازل کرنے کے اور بھی کئی فوائد ہوتے ہیں مثلاً بعض دفعہ کسی مومن بندے کی استعمالت قلب مد نظر ہوتی ہے جس کے ماتحت اللہ تعالیٰ کلام کی بجائے تصویری بیات اختیار کر لیتا ہے فرض کرو اللہ تعالیٰ یہ مضمون بیان کرنا چاہتا ہے کہ گھبراؤ نہیں دین کو تقویت حاصل ہو جائے گی اور نبی کا ایک مرید ایسا ہے جس کا نام عبد القوی ہے تو اللہ تعالیٰ رویا یا کشف کی سیاست میں عبد القوی اُس کو دکھا دے گا.اب یہ ظاہر ہے کہ عبد القوی کو دکھانے سے گو یہ مضمون بھی بیان ہو گیا کہ دین کو تقویت حاصل ہوگی مگر ساتھ ہی عبد القوی کا دل بھی خوش ہو جائے گا کہ میں بھی اپنے نبی کی خواب میں آگیا ہوں" پس تصویری زبان میں وحی کا نزول ہے فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے کئی اغراض ہوتے ہیں اور کئی فوائد ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ زائد طور پر ظاہر کرنا چاہتا ہے بے شک وہ فوائد مقصود بالذات نہیں ہوتے صرف ضمنی ہوتے ہیں مگر بہر حال وہ ضمنی فوائد تصویری زبان 52525

Page 57

۵۲ کے ذریعہ ہی ظاہر ہوسکتے ہیں لفظی کلام کے ذریعہ ظاہر نہیں ہو سکتے اپنی فوائد کی وجہ سے بعض دفعہ اہم معاملات بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے تصویری زبان میں دکھائے جاتے ہیں مگر اس صورت میں اللہ تعالے کی سنت یہ ہے کہ اسے وحی لطفی میں دوبارہ بیان کر دیا جاتا ہے گویا تصویری زبان میں بھی ایک نظارہ دیکھایا جاتا ہے اور کلامی زبان میں بھی اُس کو بیان کر دیا جاتا اس طرح دونوں فوائد پیدا کر دیئے جاتے ہیں وہ فوائد بھی تو کلام سے وابستہ ہوتے ہیں اور وہ فوائد بھی جو تصویری زبان سے وابستہ ہوتے ہیں.اس کی مثال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ معراج اور واقعہ اسراء ہیں کہ دونوں ذرائع سے اُن کا اظہار کیا گیا واقعہ معراج کا حدیثوں میں بھی تفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے اور قرآن کریم نے بھی سورہ پنجم میں اس کا بیان کر دیا ہے اسی طرح واقعہ اسرا تصویری زبان میں بھی آپ کو دکھایا گیا اور سورہ بنی اسرائیل میں لفظی وحی میں بھی اس کا ذکر و یا گیا قرآن کریم میں تو اس کا ذکر اس لئے کر دیا گیا کہ یہ واقعہ وحی متلو میں آجائے اور نظارہ آپ کو اس لئے دکھایا گیا کہ جو زائد فوائد تصویری زبان کی وحی سے وابستہ ہوتے ہیں وہ بھی حاصل ہو جائیں“ نے تابع وحی کی اقسام | تاریخ وحی کی مندرجہ ذیل تین اصولی اقسام ہیں.خواب - ٣ - القاء - کشف جو نظاره بیداری یا نیم بیداری یعنی عالم ربودگی میں دکھایا جاتا ہے کشف سے موسوم ہوتا ہے.کشف کبھی تعبیر طلب ہوتا ہے اور کبھی نه تغیر کبیر (سوره زلزال) ۲۲۳۵ ۲۲۵

Page 58

۵۳ ظاہری شکل میں پورا ہوتا ہے.تعبیر طلب کشفی نظاروں میں بعض اوقا دوسرے افراد بھی شریک ہو جاتے ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ شق القمر در اصل ایک کشفی نظارہ تھا جسے دوسرے مسلمانوں بلکہ کافروں نے بھی دیکھ لیا.عرب میں چاند مملکت کا نشان سمجھا جاتا تھا اور اس کشفی نظارے کے معنے یہ تھے کہ عرب کی غیر مسلم حکومت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اشارے سے ریزہ ریزہ ہونے والی ہے اور اسکی جگہ اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آنے والا ہے.کشفی نظارے میں شرکت کی ایک دوسری صورت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا کے کامل برگزیدوں کی توجہ اور دعا سے ایک طالب صادق مختلف انبیاء و اولیاء سے کشف میں ملاقات کر سکتا ہے چنانچہ حضور رو نے شصت سال جوبلی پر ملکہ وکٹوریہ کے نام ایک مکتوب میں لکھا.خدا کی عجیب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ایک یہ بھی ہے جوئیں نے عین بیداری میں جو کشفی بیداری کہلاتی ہے بیسوع مسیح سے کئی دفعہ ملاقات کی ہے.یہ مکاشفہ کی شہاد ہے دلیل نہیں بلکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی طالب حق نیت کی صفائی سے ایک مدت تک میرے پاس رہے اور وہ حضرت مسیح کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھے سکتا ہے اُن سے باتیں بھی کر سکتا ہے اور ان کی نسبت اُن سے گواہی بھی لے سکتا ہے کیونکہ میں وہ شخص ہوں میں کی روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے ؟ ہے سے تحفہ قیصریه م (طبع اول )

Page 59

i ۵۴ خواب تابع وحی کی دوسری قسم خواب ہے.خواب کو مذھبی دنیا میں ہمیشہ خاص اہمیت حاصل رہی ہے.اور وہ تاریخ وحی ہونے کے باوصف قطعی اور یقینی طور پر عرفان الہی کا اعلیٰ درجہ رکھتی ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام محض رؤیا کی بنا پر اپنے معصوم بیٹے حضرت اسماعیل کا سر تن سے جدا کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور پھر انہیں اپنی چہیتی ہوں حضرت ہاجرہ کے ہمراہ کنعان سے مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں اکیلا چھونے پر ذرہ قاتل نہ کیا.پھر یہ خواب ہی کا کرشمہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ کی عظیم جمعیت لے کر پیدل ہی مدینے سے کے کی طرف چل دیئے اور ایک طویل اور تھکا دینے والا سفر بخوشی برداشت کر لیا.کشف کی طرح تو اب بھی یا تو اپنی ظاہری شکل میں پورے ہوتے ہیں یا تعبیری رنگ میں اس کا ظہور ہوتا ہے.علم تعبیر الرویا پر ایک ابر تر کشوف ورڈ یا کا ایک حصہ تعبیرطلب ہوتا ہے اجمالی نوٹ اس لئے ایک ربانی انسان کے لئے علم تیار کیا میں دستگاہ حاصل کرنا ضروری ہے.علم التعمیر ایک وبی علم ہے جس کی سرد ہیں علم و عرفاں کی وسعت کے ساتھ ساتھ پھیلتی جاتی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا آغاز رویا صالحہ سے ہو اہے اور حضور نے اس علم کو اپنی اہمیت بخشی کہ آپ نے اپنا معمول بنایا ہوا تھا کہ نماز فجر کے بعد صحابہ سے خوا ہیں سنتے اور تعبیر بیان تواہیں فرماتے تھے.مستند احادیث میں حضور کے متحد و رویا اور ان کی تعبیر ری ہے علماء اسلام نے علم التنبیر کے قواعد و ضوابط مدون کرنے میں بڑی تعمیل سمجھ لئے ملاحظہ ہوں بشارات رحمانیہ 4 بخارى كتاب الرؤيا.

Page 60

جانفشانی سے کام لیا ہے اس سلسلہ میں حضرت ابو الفضل حسین ابن ابراہیم اور حضرت شیخ عبدالغنی نابلیسی رحمتہ اللہ علیہ کا نام ہمیشہ یاد گار رہے گا جنھوں نے "کامل التعبير اور تعطیر الانام " کے نام سے مفصل تصانیف کیں لیکن ر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے سوا ) حضرت مسیح موعود اور حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالٰے نے موجودہ زمانہ میں علم تعبیر الرؤیا کے گوشوں پر جو تیز روشنی ڈالی.اس نے دن ہی چڑھا دیا.علیم تعبیر کے چند اصول درج ذیل ہیں : ا خواب کا ہر حصہ تعبیر طلب نہیں ہوتا بعض نظارے محض تحسین کی فرون سے شامل رویا ہوتے ہیں.- تعبیر رویا میں نام اکثر بھاری عمل دخل رکھتے ہیں.-۳ خوابوں کی تعبیر پرشخص کے مقام اور حالت کے موافق بدل جاتی ہے.ایک دفعہ حضرت ابن سیرین کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے بیان کیا کہ میں گندگی کے ایک ڈھیر پر برہنہ کھڑا ہوں حضرت ابن سیرین گنے کہا کہ اگر کوئی کا فریا فاسق یہ خواب دیکھتا تو اس کی تعبیر اور ہوتی لیکن تیسرے لئے اس کی تعبیر یہ ہے کہ دنیا غلاظت کا ڈھیر ہے جس میں تو موجود ہے اور تیرے برہنہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ تیرے صفات حسنہ سب لوگوں کے کھلیں گے لیے -۴- خواب کی تعبیر کا بہتر طریق خیالات کا معلوم کرنا ہے کہ کسی چیز میں کسی شے کا گمان ہو سکتا ہے.کبھی ایسا ہوا کرتا ہے کہ مسمی سے اسم کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے جیسے ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب ه دالیدر و ر جنوری ) بحوالہ مکاشفات مسیح موجود مؤلفه منظور الى صاحب ۱۲

Page 61

۵۶ میں اپنے آپ کو عقبہ بن رافع کے گھر میں دیکھا اور اسی خواب میں کوئی شخص آپ کے پاس رطب ابن اپنی طاب (ایک خاص قسم کے چھوارے ، تازہ لایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی تعبیر یہ فرمائی کہ ہم دنیا میں رفعت یعنی سرفرازی اور آخرت میں عافیت کے ساتھ رہیں گے اور ہمارا دین طیب یعنی پاکیزہ ہو گا.-۲- کبھی دو چیزوں میں التزام ہوتا ہے اور ملزوم سے لازم کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جیسے کوئی شخص خواب میں اگر تلوار دیکھے تو اس کی تعبیر قتال : ہوگی.(ج) کبھی ایک وصف سے ایک ذات کی طرف جو اس وصف کے مناسب حال ہوتی ہے منتقل ہوتی ہے جس طرح آنحضرت نے دو شخصوں کو جن پر سال کی محبت غالب منی خواب میں سونے کے دو کنگن کی صورت میں دیکھا اسی موجود ان ۵ بعض مرتبہ خواب میں نظر آنے والے شخص سے مراد اس سے تعلق رکھنے والا کوئی رشتہ دار یاد دوست یا فرقہ ہوتا ہے.4- بعض خوابوں کی تعبیر الٹ ہوتی ہے مثلاً خواب میں رونے کی تعبیر اکثر خوشی اور ہنسنے کی تعبیر اکثر غم ہوتی ہے.-A - خدا کی تصویری زبان میں بعض امور کے لئے بعض مخصوص تمثلات ہیں مثلاً علم کے لئے دودھے اولاد کے لئے پھل دنیا کے لئے گوبر وغیرہ.- رویا میں بعض اوقات چھوٹی چیز سے مراد بڑی اور بڑی سے چھوٹی ہے مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام نے سورج چاند اور ستاروں کو اپنے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا اور مراد آپ کے والد اور بھائی تھے که البته د ملی ۱۹ ء بجوار مکاشفات مسیح موعود مولفه منظور الہی ۶۴۶۳ متى ٣-١٩

Page 62

-9 یا خواب میں عصا نظر آئے تو اس کی تعبیر حکومت سے کی جاتی ہے.-۹ کئی دفعہ خواب میں بھی تعبیر بیان کی جاتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ خوابوں میں بتائی ہوئی تعبیر ہی واقعاتی تعبیر ہو بعض اوقات یہ تعبیر بھی تعبیر طلب ہوتی ہے.-۱۰- بعض خواب متحد و تعبیر میں رکھتے ہیں جو اپنے اپنے وقت میں ظاہر ہوتی ہیں.خواب میں بتائی خبر کا فورا پورا ہونا ضروری نہیں.بعض کا ظہور کا ایک ہوتا ہے ، اور بعض کی عملی تعبیر سینکڑوں سال بعد کھلتی ہے.علم تعبیر الرویا کے متعلق یہ چند ہلکے سے اشارے ہیں جن سے عرفان حکمت کے پردہ پر نمودار ہونے والی آسمانی فلم کے سمجھنے میں ابتدائی راہ نمائی ہوتی ہے القاء تابع وحی کی تیسری قسم القا ر ہے جس کی کیفیات کا نقشہ حضرت مسیح موجود نے مندرجہ ذیل الفاظ میں کھینچا ہے : صورت سوم الہام کی یہ ہے کہ نرم اور آہستہ طور پر انسان کے قلب پر القاء ہوتا ہے یعنی یکمرتبہ دل میں کوئی کلمہ گذر جاتا ہے جس میں وہ عجائب یہ تمام و کمال نہیں ہوتے کہ جو دوسری صورت میں بیان کئے گئے ہیں بلکہ اس میں ریودگی اور غنودگی بھی شرط نہیں بسا اوقات عین بیداری میں ہو جاتا ہے اور اس میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا غیب سے کسی نے وہ کلمہ دن میں پھونک دیا ہے یا پھینک دیا ہے.انسان کسی قدر بیداری میں ایک استغراق اور تحویت کی حالت میں ہوں ہے اور کبھی بالکل بیدار ہوتا ہے کہ یکدفعہ دیکھتا ہے کہ ایک نو وارد کلام اس کے سینہ میں داخل ہے یا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ معا وہ

Page 63

۵۸ کلام دل میں داخل ہوتے ہی اپنی کیر زور روشنی ظاہر کر دیتا ہے اور انسان متنبہ ہو جاتا ہے کہ خدا کی طرف سے یہ الفاء ہے اور صاحب ذوق کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جیسے متنفسی ہوا اندر جاتی اور تمام دل وغیرہ اعضا کو راحت پہنچاتی ہے ویسا ہی وہ الہام دل کو تسلی اور سکینت اور آرام بخشتا ہے اور طبیعت مضطرب پر اس کی خوشی اور خنکی ظاہر ہوتی ہے یہ ایک باریک ابھید ہے جو عوام لوگوں سے پوشیدہ ہے مگر عارف اور صاحب معرفت لوگ جن کو حضرت واہب حقیقی نے اسرار ربانی میں صاحب تجربہ کر دیا ہے وہ اس کو خوب سمجھتے ہیں لئے " القاء کے متعلق حضرت امام جماعت احمدیه بیدالله حضرت امام جماعت احمدیه کا ایک اہم وضاحتی بیان ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر الخزينة نے القاء روحی خفی کے متعلق مندرجہ ذیل مزید تصریحات فرمائی ہیں :- اس وحی کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ وہی دوسری ونیوں کے ساتھ مل کر آتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وحی دوسری وجیوں کے بعد آتی ہے تاکہ لوگوں کو کسی قسم کا دھوکہ نہ لگے ہائیوں کو تمامتر دھوکہ اسی...وحی کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لگا ہے" "وہ اپنے دل کے ہر خیال کا نام وحی رکھنے کے عادی ہیں.چنانچہ بہاء اللہ کے دل میں جو خیال آتا تھا وہ کہہ دیتے تھے کہ یہ وحی ہے اسی طرح وہ جو کچھ لکھتے ہیں اسی کو وحی قلبی خفی قرار دیتے ہیں." له برا بین احمدیہ طبع اول ع ۲

Page 64

۵۹ مگر ایک بات ایسی ہے جو اس بحث کے سلسلوسی.یاد رکھنی چاہیئے اور جو بہائیوں کے پھیلا کے ہوئے زہر کے ازالہ میں بہت کام آسکتی ہے اور وہ یہ کہ مامورین کے تجربہ میں یہ بات آئی ہے کہ یہ وحی دوسری وجیوں کے ساتھ مل کر آتی ہے اکیلی نہیں آتی اگر اکیلی آجائے تو ہر آدمی کہہ سکتا ہے کہ مجھے بھی وحی ہوتی ہے اور پھر یہ امتیاز کرنا مشکل ہو جائے کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ سے کام لے رہا ہے اس نقص کے ازالہ کے لئے اللہ تعالٰی نے یہ صورت رکھی ہے کہ وہ پہلے اپنے بندہ پر اور قسموں کی وحی نازل کرتا ہے اور جب اس میں بیان کر وہ واقعات کے پورا ہونے سے لوگوں کو یہ یقین آجاتا ہے کہ فلاش شخص سچ بول رہا ہے تو اس کے بعد اس پر وحی قلبی فضی بھی نازل کر دیتا یہ نہیں ہوتا کہ اسے اپنی سچائی کا اور تو کوئی نشان نہ دیا جائے اور صرف قلبی خفی و جی اس کی طرف نازل کرنی شروع کردی جائے اور یہ فظی وحی کے مقابلہ پر کمیت میں بہت ہی کم ہوتی ہے ؟ " جس شخص پر اللہ تع در جی قلیمی خفی نازل کرتا ہے اسے دوسرے : خوا پر بھی عطا کرتا ہے تاکہ لوگوں کو کوئی دھوکا نہ لگے اور وہ سمجھ لیں کہ جو.شخص پہلی وحی کے بیان کرنے میں راستبازی سے کام لے رہا ہے وہ اس وحی میں بھی ضرور صادق اور راستباز ہے لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ نہ اس پر کثرت سے وحی لفظی نازل ہوتی ہے نہ اس پر وحی جبر یلی نازل ہوتی ہے نہ اس پر تصویری یا تیری زبان میں وحی نازل ہوتی ہے اور وہ ہے تو اس کا یہ دعوی کسی عقلمند کی نگاہ میں قابل قبول نہیں ہو سکتا پر شخص کہے گا کہ وہ پاگل ہے جو اپنے دل کے خیالات کا نام وحی رکھ رہا ہے وجی قلبی خفی ہوتی

Page 65

4.غرض یہ وحی بڑا فتنہ پیدا کرنے والی چیز ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وحی کو کلام لفظی اور جبریلی اور غیر جبریلی وحی کے تابع رکھتا ہے جس شخص پر بکثرت یہ تین و حیاں نازل ہوں وہ اگر کہے کہ مجھے پر وحی قلبی خفی نازل ہوتی ہے تو ہم اسے فریب خوردہ نہیں کہیں گے اور اس کی بات مان لیں گے لیکن جب کوئی دوسرا شخص یہ کہے جس پر کوئی اور وحی نازل نہ ہوتی ہو تو ہم سمجھیں گے وہ پاگل ہے." دوسرے یہ وحی امور غیبیہ کے متعلق ہوتی ہے امور احکامیہ کے بارہ میں نہیں تاکہ دھوکہ نہ لگے لیکن امور غیبیہ میں فتنہ کا اندیشہ نہیں ہوتا ان کی تفسیر بعد میں ہو جاتی ہے مگر امور احکامیہ کے ہوتا کی ہو مگر نزول کی کوئی تفسیر بعد میں نہیں ہوتی ہے وحی کے مراتب ثلاثہ باپ کے آخر میں ایک نہایت ضروری امر کا تذکرہ کیا جاتا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ اختلاف مذہب و عقیدہ کے باوجود مختلف فرقے کے لوگوں کو رویا یا الہام ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو اپنی خوابوں یا الہاموں کے ذریعہ سے چھوٹا بھی قرار دیتے ہیں اور بعض خواہیں وغیرہ اُن کی سچی بھی ہو جاتی ہیں ان حالات میں بالطبع سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر رویا والہام واقعی کلام اپنی کا جز ہیں تو کس مذہب کو سچا اور کیسے غلطی خوردہ قرار دیں ؟ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام نے جہاں کلام الہی کے ہر گوٹے پرتفصیلی روشنی ڈالی ہے وہاں اس اہم ترین سوال کا بھی کافی و شافی اه تفسیر کبیر جلد ششم ناخه د سوره زلزال ۴۵۲۴۲۹۰ از سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی ایده الله تقوم

Page 66

41 جواب دیا ہے.بلکہ حضور کی ایک معرکہ آرا اور ضخیم کتاب حقیقۃ الوحی اس موضوع کے لئے مخصوص ہے.ہر طالب حق کو اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کرنا چاہئے ذیل میں اس کے چند جستہ جستہ مقامات نذر قارئین کئے جاتے ہیں جن سے مندرجہ بالا سوال کی حقیقت واضح ہو جائے گی.حضرت اقدس علیہ السلام کے نزدیک وحی کے تین مراتب ہیں.پہلا مرتبہ عالمگیر وسعت کا حامل ہے اور اس میں مسلم و کافر عالم و جاہل مرد و عورت اور نگ دیر کسی کی تمیز نہیں ہے.دوسرا مرتبہ ناقص معرفت رکھنے والوں کے لئے رتیسرا کامل محبین الہی سے وابستہ ہوتا ہے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں :- پہلا مرتبہ دلی " واضح ہو کہ چونکہ انسان اس مطلب کے لئے پیدا کیا گیا (علم الیقین) لیقین ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے کو شناخت کرے اور اس کی ذات اور صفات پر ایمان لانے کے لئے یقین کے درجہ تک پہنچ سکے اس لئے خدا تعالیٰ نے انسانی دماغ کی بناوٹ کچھ ایسی رکھی ہے کہ ایک طرف تو معقولی طور پر ایسی قوتیں اس کو عطا کی گئی ہیں جن کے ذریعہ سے انسان مصنوعات باری تعالیٰ پر نظر کر کے اور ذرہ ذرہ عالم میں جو جو حکمت کا ملہ حضرت باری عزاسمہ کے نقوش لطیفہ موجود ہیں اور جو کچھ ترکیب ابلغ اور محکم نظام عالم میں پائی جاتی ہے اس کی تہ تک پہنچ کر پوری بصیرت سے اس بات کو سمجھ لیتا ہے کہ یہ اتنا بڑا کارخانہ زمین و آسمان کا بغیر صانع کے خود بخود موجود نہیں ہو سکتا بلکہ مضرر ہے کہ اس کا صانع ہو اور پھر دوسری طرف روحانی تو اس اور روحانی قوتیں بھی اس کو عطا کی گئی ہیں تا وہ قصور اور کمی جو خدا تعالیٰ کی معرفت ے یہ عنوان اصل کتاب کے جبر نہیں محض مضمون کو متباور القسم بنانے کیلئے قائم کئے گئے ہیں.(مؤلف)

Page 67

عث میں معقولی قوتوں سے رہ جاتی ہے روحانی قوتیں اس کو پورا کر دیں.کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ محض معقولی قوتوں کے ذریعہ سے خدا تعالے کی شناخت کامل طور پر نہیں ہو سکتی وجہ یہ کہ معقولی قوتیں جو انسان کو دی گئی ہیں اُن کا تو صرف اس حد تک کام ہے کہ زمین و آسمان کے فرد فرد یا ان کی ترتیب محکم اور ابلاغ پر نظر کر کے یہ حکم دیں کہ اس عالم جامع الحقائق اور پر حکمت کا کوئی اور صانع ہونا چاہئے یہ تو ان کا کام نہیں ہے کہ یہ حکم بھی دیں کہ فی الحقیقت وہ صانع موجود بھی ہے...بہت احق کے طالبوں کو اپنا سلوک تمام کرنے کے لئے اور اس فطرتی تقاضا کو پورا کرنے کے لئے جو معرفت کا ملہ کے لئے اُن کی طبائع میں مرکوز ہے اس بات کی ضرورت ہوئی کہ علاوہ معقولی قوتوں کے روحانی قونی بھی ان کو عطا ہوں ؟ دب" لیکن چونکہ اکثر انسانی فطرتیں حجاب سے خالی نہیں.اس لئے وہ بابات طرح طرح کے جھالوں اور پردوں اور روکوں کے اور نفسانی خواہشوں اور شہوات کے اس لائق نہیں کہ قابل قدر فیضان مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ کا ان پر نازل ہو جس میں قبولیت کے انوار کا کوئی حصہ جو ہاں عنایت ازلی نے جو انسانی فطرت کو ضائع کرنا نہیں چاہتی تخم ریزی کے طور پر اکثر انسانی افراد میں یہ عادت اپنی جاری کر رکھی ہے کہ کبھی کبھی سچی خوا ہیں یا بچے الہام ہو جاتے ہیں تا وہ معلوم کر سکیں کہ ان کے لئے آگے قدم رکھنے کے لئے ایک اللہ کھلی ہے لیکن ان کی خوابوں اور الہاموں میں خدا کی قبولیت اور محبت اور فضل کے کچھ آثار نہیں ہوتے اور نہ ایسے لوگ نفسانی نجاستوں سے پاک ہوتے ہیں اور خواہیں محض اس لئے آتی ہیں کہ تا اُن پر خدا کے پاک نبیوں پر ایمان لانے کے لئے ایک حجت ہو.

Page 68

۶۳ (ج) پس وہ شخص عقلمند نہیں ہے کہ اس قسم کی خوابوں اور الہاموں پر خوش اور فریفتہ ہو جائے اور سخت دھوکا میں پڑا ہوا وہ شخص ہے کہ جو فقط اس درجہ کی خوابوں اور الہاموں کا نمونہ اپنے اندر پا کر اپنے تئیں کچھ چیز مجھے بیٹھے بلکہ یا درکھنا چاہیے کہ اس درجہ کا انسان فقط اُس انسان کی طرح ہے کہ جو ایک اندھیری رات میں دُور سے ایک آگ کا دھواں دیکھتا ہے مگر اس آگ کی روشنی کو نہیں دیکھ سکتا اور نہ اس کی گرمی سے اپنی سروی اور افسردگی دور کر سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاص برکتوں اور نعمتوں سے ایسے لوگوں کو کوئی حصہ نہیں ملتا " دوسرا مرتبہ دنیا میں بعض ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ وہ کسی (عین الیقین حد تک زہد اور عفت کو اختیار کرتے ہیں اور علاوہ اس بات کے کہ ان میں رڈیا اور کشف کے حصول کے لئے ایک فطرتی استعداد ہوتی ہے اور دماغی بناوٹ اس قسم کی واقع ہوتی ہے کہ خواب و کشف کا کسی قدر نمونه ان پر ظاہر ہو جاتا ہے وہ اپنی اصلاح نفس کے لئے بھی کسی قدر کوشش کرتے ہیں اور ایک سطحی نیکی اور راستبازی ان میں پیدا ہو جاتی ہے جس کی آمد سے ایک محدود دائرہ تک رویا صادقہ اور کشوت صحیح کے انوار اُن میں پیدا ہو جاتے ہیں مگر تاریکی سے خالی نہیں ہوتے بلکہ ان کی بعض دعائیں بھی منظور ہو جاتے ہیں.مگر عظیم الشان کاموں میں نہیں کیونکہ انکی راستبازی کامل نہیں ہوتی بلکہ اس شفاف پانی کی طرح ہوتی ہے جو اوپر سے تو شفاف نظر آتا ہو مگر نیچے اُس کے گوبر اور گند ہوا اور چونکہ اُن کا سے سہو کتابت سے لکھا گیا ہے اصل لفظ " جاتی "

Page 69

۶۴ نہ تزکیہ نفس پورا نہیں ہوتا اور اُن کے صدق و صفا میں بہت کچھ نقصان ہوتا ہے اس لئے کسی ابتلاء کے وقت وہ کھو کر کھا جاتے ہیں اور اگر خدا تعالیٰ کا رحم ان کے شامل حال ہو جائے اور اس کی ستاری ان کا پردہ محفوظ رکھے تب تو بغیر کسی ٹھوکر کے دنیا سے گزر جاتے ہیں اور اگر کوئی ابتلا پیش آجاوے تو اندیشہ ہوتا ہے کہ بلغم کی طرح اُن کا انجام بد نہ ہو...وہ دور سے روشنی کو دیکھ لیتے ہیں مگر اس روشنی کے اندر داخل نہیں ہوتے اور نہ اس کی گرمی سے کافی حصہ ان کو ملتا ہے اس لئے اُن کی حالت ایک خطرہ کی حالت ہوتی ہے ؟ تیسرا مرتبہ (1) 1 خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کرنے والے اس شخص (حق الیقین سے مشابہت رکھتے ہیں جو اول دور سے آگ کی روشنی دیکھے اور پھر اس سے نزدیک ہو جائے یہاں تک کہ اُس آگ میں اپنے تیکں داخل کردے اور تمام جسم جل جائے اور صرف آگ ہی باقی رہ جائے اسی طرح کامل تعلق والا دن بدن خدا تعالے کے نزدیک ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ محبت الہی کی آگ میں تمام وجود اس کا پڑ جاتا ہے اور شعلہ نور سے قالب نفسانی جل کر خاک ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ آگ لے لیتی ہے" (ب) اور اس آگ کے غلبہ کے بعد ہزاروں علامتیں کامل محبت کی پیدا ہو جاتی ہیں کوئی ایک علامت نہیں ہے تا وہ ایک زیرک اور طالب حق پرشتہ ہو سکے بلکہ وہ تعلق صد با علامتوں کے ساتھ شناخت کیا جاتا ہے منجملہ ان علامات کے یہ بھی ہے کہ خدا نے کریم اپنا فصیح اور لذیذ کام وقتا فوقتا اس کی زبان پر جاری کرتا رہتا ہے جو اہی شوکت اور غیب گوئی کی کامل طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک نور اس کے ساتھ ہوتا ہے جو بتلاتا ہے

Page 70

" یقینی امر ہے ظنی نہیں ہے اور ایک ربانی چمک اس کے اندر ہوتی ہے اور کدورتوں سے پاک ہوتا ہے اور جیسا اوقات اور اکثر اور اغلب طور پر وہ کلام کسی زبر دست پیشگوئی پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کی پیشگوئیوں کا حلقہ نہایت وسیع اور عالمگیر ہوتا ہے اور وہ پیشگوئیاں کیا باعتبار کمیت اور کیا باعتبار کیفیت سے نظیر ہوتی ہیں کوئی ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتا اور ہیبت اپنی ان میں بھری ہوئی ہوتی ہے اور قدرت تامہ کی وجہ سے خدا کا چہرہ ان میں نظر آتا ہے اور اس کی پیشگوئیاں سنجومیوں کی طرح نہیں ہوتیں بلکہ اُن میں محبوبیت اور قبولیت کے آثار ہوتے ہیں اور ربانی تائید اور نصرت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور بعض پیشگوئیاں اس کے اپنے نفس کے متعلق ہوتی ہیں اور بعض اپنی اولاد کے متعلق اور بعض اس کے دوستوں کے متعلق اور بعض اس کے دشمنوں کے متعلق اور بعض عام طور پر تمام دنیا کے لئے اور بعض اس کی بیویوں اور خویشوں کے متعلق ہوتی ہیں اور وہ امور اس پر ظاہر ہوتے ہیں جو دوسروں پر ظاہر نہیں ہوتے اور وہ غیب کے دروازے اس کی پیشگوئیوں پر کھولے جاتے ہیں جو دوسروں پر نہیں کھولے جاتے " اے ے حقیقۃ الوحی طبع اول ۵-۱۵ 1

Page 71

94 حرف آخر کلام الہی سے متعلق اہم مباحث بیان ہو چکے ہیں امید ہے کہ ان کی روشنی میں قارئین کرام حضرت الصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے کشوف والہامات کا مطالعہ کر کے خاص روحانی لذت محسوس کریں گے نیز بخور دیکھیں گے کہ حضور پر نازل ہونے والا کلام الہی رکن عظمتوں کا حامل ہے.

Page 72

46 باب اول حضرت اقدس المصلح الموجو د ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے وہ کشوف والہامات جو حضور کی ذات سے پورے ہوئے

Page 73

YA باب اول دیباچہ میں سلسلہ الہام و کلام پر اجمالی روشنی ڈالنے کے بعد اب حضرت.امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ میں ہی اُن رویاء کشوف اور الہامات کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو اکثر و بیشتر وقوع پذیر ہونے سے نیوں یا برسوں قبل بتائے یا شائع کئے گئے اور پھر کمال صفائی سے پورے ہوئے.اس تعلق میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اس مجموعہ کی ترتیب میں یہ التزام کیا گیا ہے کہ سوائے ان مقامات کے جو تشریح طلب ہیں یا واقعاتی تعبیر کی تفصیل چاہتے ہیں.مرتب کی طرف سے کسی زائد امر کے بیان سے قطعی گریز کیا جائے نیز.کوئی رویا یا کشف والہام جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے حوالہ دیئے بغیر نہیں درج کیا گیا تا آسمانی خبروں کی عظمت و رفعت میں کسی دغدغہ یا شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے اور ایک حق پسند اور منصف مزاج انسان یقین و عرفان کے بلند مینار سے خدائی بشارتوں اور غیر ما کے پورا ہونے کا نظارہ کرسکے.طاعون کے اثرات سے شفایابی تین یا چار سال ہوگئے ہیں کہ قادیان میں طاعون بڑی سخت پڑی.عصر کے وقت میں نے دیکھا کہ میری ران میں سخت درد ہو رہا ہے اور مجھے بخار بھی تھا.میں کمرہ کے اندر جہلا گیا اور اندر سے دروازہ بند کر کے چار پائی پر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ اللہ تعالے کا تو مسیح موعود سے یہ وعدہ تھا کہ انی احافظ كل من في الدار.تو خدا تعالیٰ تو

Page 74

44.اپنے وعدوں کو جھٹلایا نہیں کرتا.اور اب میں اپنے آپ میں طاعون کے آثار پاتا ہوں.لیکن پھر میں نے اپنے نفس کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ یہ تو خدا تعالیٰ کا وعدہ مسیح موعود کے ساتھ تھا اور یہ فیوض اور برکات اپنی کے زمانہ میں رہیں اب وہ بھی دنیا میں نہیں ہیں نہ ہی وہ برکات ہیں تو میں نے پھر دعا کی.میں جاگتا ہی تھا اور کمرے کی تمام چیزوں کو دیکھ رہا تھا تو میں نے خدا کو دیکھا وہ ایک نور تھا جو میرے کمرے کے نیچے سے نکل رہا تھا اور آسمان کی طرف کمرے کی چھت پھاڑ کر جا رہا تھا اس کا نہ شروع تھا نہ ہی اس کا انتہاء تھا لیکن اس نور میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک سفید اور بالکل سفید چینی کا پیالہ تھا اور اس پیالہ میں دودھ تھا اس نے وہ پیالہ مجھے پکڑا دیا میں نے وہ دودھ پی لیا ئیں جب دودھ پی چکا تو میں نے دیکھا کہ نہ تو مجھے کوئی در دکھا اور نہ بخار بلکہ میں اچھا بھلا تھا اور مجھے کوئی ذرہ بھر بھی تکلیف نہ تھی نے جہازوں کی آمدورفت میں تعطل کی خیر " یکیں جب تعلیم کے لئے مصر گیا تو ارادہ تھا کہ حج بھی کرتا آؤں گا.مگر یہ پختہ ارادہ نہ تھا کہ اسی سال حج کروں گا.یہ بھی خیال آتا تھا کہ واپسی پر حج کر لوں گا.جب میں بمبئی پہنچا تو وہاں نانا جان صاحب مرحوم بیٹی آملے.وہ براہ راست جج کو جا رہے تھے.اس پر میرا بھی ارادہ پختہ ہو گیا کہ اسی سال ان کے ساتھ حج کرلوں.جب پورٹ سعید پہنچے تو میں نے رویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعوظی اس ام ه وخطبه جمعه فرموده ۱۳ مارچ ۱۷ شراء شائع شدہ الفضل مورخہ ۱۸ مارچ 1917 ء مشال کا تم سے ستمبر شہداء کو آپ سفر مصر کے لئے قادیان سے روانہ ہوئے (ناقل)

Page 75

تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر حج کی نیت ہے تو کل ہنی جہاز میں سوار ہو جاؤ.کیونکہ یہ آخری جہاز ہے...چنانچہ ایسا ہی بعد میں ثابت ہوا اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ اس جہاز ران کمپنی سے گورنمنٹ کا کوئی جھگڑا تھا جس نے ایسی صورت اختیار کرلی کہ وہ جہا نہ آخری ثابت ہوا.اور کمپنی والے اس سال اور کوئی جہاز حاجیوں کے نہ لے گئے " ہے تبلیغ و اشاعت اسلام کے عالمگیر نام کا قیام حضرت امام جماعت احمدیہ نے علامہ ء میں جبکہ منصب خلافت پر فائز ہوئے صرف ایک ماہ کا عرصہ گزرا تھا جماعت احمدیہ کے نمائندگان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :- جہاں تک یکں نے غور کیا ہے میں نہیں جانتا کیوں بچپن ہی سے میری طبیعت میں تبلیغ کا شوق رہا ہے اور تبلیغ سے ایسا انس رہا ہے کہ میں سمجھے ہی نہیں سکتا میں چھوٹی سی عمر میں بھی ایسی دعائیں کرتا تھا اور مجھے ایسی حرص تھی کہ اسلام کا جو کام بھی ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو میں اپنی اس خواہش کے زمانہ سے واقف نہیں کہ کب سے ہے میں جب دیکھتا تھا اپنے اندر اس جوش کو پاتا تھا اور دعائیں کرتا تھا کہ اسلام کا جو کام ہو میرے ہی ہاتھے سے ہو پھر اتنا ہو اتنا ہو کہ قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ ہو جس میں اسلام کی خدمت کرنے والے میرے شاگرد نہ ہوں میں نہیں سمجھتا تھا اور نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ جوش انس اسلام کی خدمت کا میری فطرت میں کیوں ڈالا گیا الفضل دار مئی ۲۳ شاء من کالم ٣-٤

Page 76

ہاں اتنا جانتا ہوں کہ یہ جوش بہت میرا نا رہا ہے غرص اسی جوش اور خواہش کی بنا پر میں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ میرے ہاتھ سے تبلیغ اسلام کا کام ہو اور میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے میری ان دعاؤں کے جواب میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں..میرے دل میں تبلیغ کے لئے اتنی ترپ تھی کہ میں حیران تھا اور سامان کے لحاظ سے بالکل قاصر پس میں اس کے حضور ہی جھکا اور دعائیں کیں اور میرے پاس تھا ہی کیا ؟ میں نے بار بار عرض کی کہ میرے پاس نہ علم ہے نہ دولت نہ کوئی جماعت ہے نہ کچھ اور ہے جس سے میں خدمت کر سکوں.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ اس نے میری دعاؤں کو نو کریں یقین رکھتا ہوں کہ باقی ضروری سامان بھی وہ آپ ہی کرے گا اور ان بشارتوں کو عملی رنگ میں دکھا دے گا.اور اب میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کو ہدایت میرے ہی ذریعہ ہوگی اور قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ گزرے گا جس میں میرے شاگرد نہ ہونگے کیونکہ آپ لوگ جو کام کریں گے وہ میرا ہی کام ہو گا کے 2 دو اس تعلق میں یہ بھی بتایا کہ : میں چاہتا ہوں کہ ہم میں ایسے لوگ ہوں جو ہر ایک زبان کے سیکھنے والے اور پھر جاننے والے ہوں تاکہ ہم ہر ایک زبان میں آسانی کے ساتھ تبلیغ کر سکیں.غرض میں تمام زبانوں اور تمام قوموں میں تبلیغ کا ارادہ رکھتا ہوں اس لئے کہ یہ میرا کام ہے کہ تبلیغ کروں میں جانتا ہوں کہ یہ بڑا ارادہ ہے اور بہت کچھ چاہتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا ہی کے حضور سے سب کچھ آوے گا میرا خدا قادر ہے جس نے یہ کام میرے سپرد کیا 1911 منصب خلافت تقریر فرموده ۱۲ اپریل ۱۹۱۷ ء طبع اول 12140 سنا اور آپ ہی سامان کر دئے اور تمہیں کھڑا کر دیا کہ میرے ساتھ ہو جاؤ اس کو دیکھ

Page 77

۷۲ ہے وہی مجھے اس سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق اور طاقت دے گا کیونکہ ساری طاقتوں کا مالک تو وہ آپ ہی ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس مقصد کے لئے بہت یہ وپیہ کی ضرورت ہے بہت آدمیوں کی ضرورت ہے مگر اس کے خانوں میں کس چیز کی کمی ہے.پس میرے دوستو ! روپیہ کے معاملہ میں گھبرانے اور فکر کرنے کی کوئی بات نہیں وہ آپ سامان کرے گا.آپ ان سعادت مند روحوں کو میرے پاس لائے گا جو ان کاموں میں میری مددگار ہونگی " پس خدا آپ ہی ہمارا محاسب اور متصل ہوگا اسی کے پاس ہمارے سب خزانے ہیں مرتبہ یہ عظیم الشان خبریں ان ایام میں دی گئیں جبکہ ہندوستان سے باہر جماعت احمدیہ کا کوئی مستقل مشن موجود نہ تھا.اور مرکزی خزانہ میں صرف چند آنے تھے دوسر طرف پیغامی گروپ جماعت کے افراد کو آپ سے برگشتہ کرنے اور اقتصادی لحاظ سے بے لیس کر دینے کی ہر ممکن تدابیر اختیار کر رہا تھا یقیناً ایسی نازک اور دلخراش صورت حال پر جماعت کا زندہ بچ نکلنا ایک خارق عادت امر تھا کجا یہ کہ دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کا کوئی عالمگیر نظام قائم ہو جائے شہید یہ ایک ناممکن اور محال امر تھا مگر خدا نے اپنے وعدوں کے مطابق ہواؤں کا رخ ہی بدل ڈالا اور غیب سے ہزاروں آپ کے ایسے جان نثار شاگرد پیدا کئے جنہوں نے خالص اعلائے کلمتہ اللہ کی غرض سے اپنی زندگیاں وقف کیں تہی دامن ہونے کے باوجود دنیا کے ہر بر اعظم میں پھیل گئے.ایک زمانہ تھا کہ انگریز کہتے تھے کہ ہم پر سورج غروب نہیں ہوتا مگر ہندوستان کے آزاد ہوتے ہی اُن کا ام صب خلافت تا ته به فرموده ام اپریل 1210 طبع الال ملا - 1

Page 78

۷۳ یہ دعوی بھی ختم ہو چکا ہے لیکن جماعت احمدیہ پر آفتاب غروب نہیں ہوتا اور نہ کبھی ہو گا انشاء اللہ تعالے کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں دنیا کے تمام ممالک میں اسلامی مشنوں کا وسیع جال مجھ چکا ہے اور آپ کے روحانی فرزند دنیا کے گوشہ گوشہ میں خدا کے ازلی کا پیغام پھیلانے میں مصروف ہیں.یورپ امریکہ، افریقہ ایشیا.آسٹریلیا.غرض کہ تمام تر اعظموں میں اسلامی لٹریچر شائع ہو رہا ہے.مساجد تعمیر ہو رہی ہیں اور صداقت پسند ڈو میں اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو رہی ہیں.جماعت کا مرکزی نظام جو سلا لاء میں بالکل تہ و بالا ہو گیا تھا اب مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار ہو چکا ہے.جہاں خزانہ میں پند آنوں کے سوا کچھ موجود نہ تھا وہاں آج لاکھوں روپے ہر وقت جمع رہتے ہیں جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ میں اس وقت جو مرکزی ادارے قائم ہیں ایک صدر انجمن احمدیہ اور دوسرا تحریک جدید.یہ دونوں ادارے اپنا الگ الگ حلقہ عمل رکھتے ہیں ایک جماعت کی عمومی نگرانی اور ترقی کا فریضہ انجام دیتا ہے اور دوسرے کے ذمہ غیر ممالک کی تبلیغ کا کام ہے ان اداروں کی مالی اور اقتصادی حالت کا اندازہ کرنے کے لئے صرف بے معلوم کر لینا ہی کافی ہے کہ دونوں کے سالانہ بجٹ چند آنوں سے نکل کر لاکھوں تک جا پہنچے ہیں اور ان میں ہر سال اضافہ ہوتا جاتا ہے اور وہ دن دور نہیں کہ الہی وعدوں کے مطابق موجودہ بجٹ کروڑوں بلکہ اریوں سے بھی متجاوز ہونگے.آج یہ بات دنیا والوں کی نظر میں بالکل ناممکن نظر آتی ہے مگر کیا وہ قادر و توانا خدا جس نے چند آنوں میں برکت ڈال کر ان کو لاکھوں تک پہنچا دیا ہے وہ ان لاکھوں کو اربوں میں نہیں بدل سکتا ؟

Page 79

دو کمشنر کی ملاقات کے متعلق بیت افرانتا جو بلا کسی ہماری تحریک کے شاء کی ایک عجیب خواب جو نہایت فارق عادت رنگ میں پوری ہوئی :- اسی سال انتہاء میں ناقل) ایک معاملہ کے متعلق جو گورنمنٹ کے تھے تھا ایسا واقعہ ہوا کہ کمشنر صاحب کی چٹھی میرے نام آئی کہ فلاں امر کے متعلق میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن مجھے آجکل اتنا کام ہے کہ میں گورداس پور نہیں آسکتا اور قادیان کے قریب تر جو میرا مقام ہے وہ امرت سر ہے.یہاں اگر آپ آسکیں تو لکھوں اس بھٹی میں معذرت بھی کی گئی کہ اگر مجھے فرصت ہوتی تو میں گورداسپور ہی آتا لیکن مجبور ہوں اس چھٹی کے آنے سے تین دن بعد مجھے رڈیا ہوئی کہ میں کمشنر صاحب کو ملنے کے لئے گورداسپور جا رہا ہوں اور یکوں بغیرہ کا انتظام ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کر رہے ہیں لیکن جس دن میں نے رویا دیکھی اُس دن ڈاکٹر صاحب قادیان میں موجودہ نہیں تھے بلکہ علی گڑھ گئے ہوئے تھے.اسی رات میں تھی کہ مجھے کچھے کام گورداسپور بھی نکل آیا ہے اگر آپ کو امرت سر آنے میں تکلیف ہو تو میں فلاں تاریخ گورو اسپور آرہا ہوں آپ وہاں آجائیں اس چٹھی سے ایک حصہ تو پورا ہوگیا مگر دوسرا حصہ باقی تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب کی موجودگی تھی.ڈاکٹر صاحب ایک جہینہ کے ارادہ سے علی گڑھ اپنی چھوٹی لڑکی کی لات پر اپریشن کرانے کے لئے گئے تھے اور ابھی ان کے آنے کی کوئی امید نہ تھی مگر دوسرے دن ہمیں گورداسپور جانا تھا کہ اتنے میں ڈاکٹر صاحب آگئے اور بیان کیا کہ جس ڈاکٹر نے اپریشن کرتا تھا اس نے ابھی ٹانگ کاٹنے سے انکار کر دیا ہے اور کہتا ہے کہ ایسا کرتا سرجری کی شکست ہے میں پہلے یونہی علاج کروں گا اس لئے میں نے سردست ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا اور واپس آگیا ہوں (گو چند ماہ بعد اس ڈاکٹر کو مجبورا

Page 80

۷۵ ٹانگ کاٹنی پڑی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلی تحریک محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی، غرض اس طرح دوسرا حصہ بھی پورا ہو گیا.کے کشف میں بخار ٹوٹنے کی خبر " مجھے ذاتی طور پر اس بات کا تجربہ ہے کہ ہر چیز پر ملائکہ کا قبضہ ہے اور ان کے ارادے کے ماتحت وہ چیز کام کرتی ہے ایک دفعہ مجھے بخار ہوا ڈاکٹر نے دوائیں دیں مگر کوئی فائدہ نہ ہوا ایک دن چودھری ظفر اللہ خاں صاحب آئے ان کے ساتھ ایک غیر احمدی بھی تھا ان کو میں نے اپنے پاس بلا لیا ان کے آنے سے پہلے مجھے غنودگی آئی اور ایک مچھر میرے سامنے آیا اور کہا آج تپ ٹوٹ جائے گا جب ڈاکٹر صاحب اور چوہدری صاحب اور ان کا غیر احمدی دوست اور بعض اور احباب آئے تو میں نے ان کو وہ کشف بتا دیا چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد جب ڈاکٹر صاحب نے تھرما میٹر لگا کر دیکھا تو اس وقت تنپ نہیں تھا.در اصل وہ مچھر نہیں بولا تھا بلکہ اس کی طرف سے وہ فرشتہ بولا تھا جس کا مچھر پر قبضہ تھا " 191 ے حقیقة الرؤیا فرمودہ دسمبر ماء طبع اول ۹۲۰-۹۳ ملائکہ اللہ تقریر فرموده ۲۸ دسمبر ت ۱۹ طبع اول مشک

Page 81

سفر انگلستان کے متعلق پیش خبری حضرت امام جماعت احمدیہ ویمبلے نمائش کے ارباب بست و کشاد کی دعوت خاص پر شہداء کے آخر میں لنڈن تشریف لے گئے.یه سفر بیرونی ممالک کی طرف پہلا سفر تھا جس کی وجہ سے دنیا بھر میں احمدیت کا کامیاب اور وسیع پراپیگنڈہ ہوا.بالخصوص انگلستان کے طول و عرض میں آپ کو نمایاں شہرت حاصل ہوئی.خصوصاً کا نفرنس مذاہب میں آپ کے زیر دست مضمون نے تمام علمی حلقوں میں دھوم مچا دی اور اسلام کی حقانیت کے عام چرچے ہونے لگے.اسی سفر میں آپ کے ہاتھوں لنڈن کی شہرہ آفاق مفصل - کا سنگ بنیاد رکھا گیا غرضیکہ انگلستان کو روحانی قوتوں سے فتح کرنے کی مہم کا آغاز ہوا.خدا تعالیٰ کی طرف سے ولائت جانے کی تحریک سے بھی تین ماہ قبل بذریعہ رؤیا بشارت دی گئی کہ حضور کے لئے انگلستان کا سفر مقدر ہے جو اپنے جلو میں عظیم برکات لائے کا موجب ہوگا.چنانچہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس کی پہلے سے خبر دیتے ہوئے بتایا :- (یہ) رویا اسی سال کی ہے مگر ولایت جانے کی تحریک سے دو تین ماہ پہلے کی ہے.یہ خواب کبھی میں نے اسی دن دوستوں کو سُنا دی تھی.جن میں سے ایک مفتی محمد صادق صاحب بھی ہیں.میں نے دیکھا کہ میں انگلستان کے ساحل سمندر پر کھڑا ہوں میں طرح کہ کوئی شخص تازہ وارد ہوتا ہے اور میرا لباس مینگی ہے.میں ایک جرنیل کی حیثیت میں ہوں اور میرے پاس ایک اور شخص کھڑا ہے اس وقت میں یہ خیال کرتا ہوں کہ کوئی جنگ ہوئی

Page 82

44 ہے اور اس میں مجھے فتح ہوئی ہے اور میں اس کے بعد میدان کو ایک مدیر جرنیل کی طرح اس نظر سے دیکھ رہا ہوں کہ مجھے اس فتح سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کس طرح حاصل کرنا چاہیئے.ایک لکڑی کا موٹا شہتیر زمین پر کٹا ہوا پڑا ہے ایک پاؤں میں نے اس پر رکھا ہوا ہے اور ایک پاؤں زمین پر ہے.جس طرح کوئی شخص کسی دور کی چیز کو دیکھنا چاہیے تو ایک پاؤں کسی اونچی چیز پر رکھ کر اونچا ہو کر دیکھتا ہے اسی طرح میری حالت ہے اور جسم میں عجیب چیستی ہے اور سبکی پاتا ہوں جس طرح کہ غیر معمولی کامیابی کے وقت ہوا کرتا ہے اور چاروں طرف نگاہ ڈالتا ہوں کہ کیا کوئی جگہ ایسی ہے جس طرف مجھے توجہ کرنی چاہیئے کہ اتنے میں ایک آوازہ آئی جو ایک ایسے شخص کے منہ سے نکل رہی ہے جو مجھے نظر نہیں آتا مگر میں اس کے پاس ہی کھڑا ہوا سمجھتا ہوں اور یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ یہ میری ہی روح ہے گویا میں اور وہ ایک ہی وجود ہیں اور وہ آواز کہتی ہے.ولیم دی کنکر یعنی ولیم فاتح - ولیم ایک کہانا بادشا ہے جس نے انگلستان کو فتح کیا تھا.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی جب میں نے دوستوں کو یہ خواب سنائی تو مفتی صاحب نے ولیم کے معنی لغت انگریزی سے دیکھے اور معلوم ہوا کہ اس کے معنی ہیں پختہ رائے والا پکے ارادہ والا.یا دوسرے لفظوں میں اولوالعرم پس گویا ترجمہ یہ ہوا.اولو العزم فاتح " مرتب یہاں یہ عرض کرنا خالی از دیپسی نہ ہو گا لنڈن کی مذھبی کا نفرنس میں حضور کے پر از علم و عرفاں لیکچر کو خاص مقبولیت حاصل ہوئی اور لنڈن کے تمام ه اخبار الفضل مور خریم در جون راحت کالم ۲-۳

Page 83

مقتدر رسائل و جرائد مثلاً تا کمز، مارننگ پوسٹ ڈیلی ٹیلیگراف.ڈیلی نیوز مانچسٹر گارڈین نے اس کا خلاصہ شائع کرتے ہوئے دل کھول کر خراج تحسین ادا کیا.مانچسٹر گارڈین نے لکھا کہ : اس مضمون کے بعد جس تحسین اور خوشنودی کا اظہار کیا گیا ہے اس سے پیشتر کسی مضمون پر ایسا نہیں کیا گیا.اور منتظمین کا نفرنس اور لنڈن کے مشہور پادری ڈاکٹر والٹر واش نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ تو اس کانفرنس سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اسلام زہزارہ مذہب ہے.اور یہی وہ غرض تھی جس کو لے کر احمد یہ جماعت کے امام یہاں تشریف لائے تھے ؟ دمشق میں غیر معمولی شہرت کی خبر حضرت امام جماعت احمدیہ پہلے سفر یورپ میں لنڈن جاتے ہوئے رستہ میں و مشق ٹھہرے تو اس موقعہ پر خدا تعالیٰ کا بونشان ظاہر ہوا اس کی تفصیل آپ کے الفاظ میں یہ ہے :- "دمشق میں گئے تو اول تو شہر نے کی جگہ ہی نہ ملتی تھی مشکل سے انتظام ہوا بگر دوون تک کسی نے توجہ نہ کی.میں بہت گھبرایا اور دعا کی کہ اے اللہ پیشگوئی جو دمشق کے متعلق ہے کس طرح پوری ہوگی.اس کا یہ مطلب تو ہو نہیں سکتا کہ ہم ہاتھ لگا کر واپس چلے جائیں تو اپنے فضل سے کامیابی عطا فرما.جب میں دُعا کر کے سویا تو رات کو یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہو گئے.عَبْدُ مُكْرَم یعنی ہمارا بندہ میں کو عزت دی گئی.اس سے میں نے سمجھا

Page 84

69 کر تبلیغ کا سلسلہ یہاں کھلنے والا ہے چنانچہ دوسرے ہی دن جب اُٹھے تو لوگ آنے لگے یہاں تک کہ صبح سے رات کے بارہ بجے تک دو سو سے لے کر بارہ ہو تک لوگ ہوٹل کے سامنے کھڑے رہتے.اس سے ہوٹل والا ڈر گیا کہ فساد نہ ہو جا پولیس بھی آگئی اور پولیس افسر کہنے لگا فساد کا خطرہ ہے میں نے یہ دکھانے کے لئے کہ لوگ فساد کی نیت سے نہیں آئے مجمع کے سامنے کھڑا ہو گیا.چند ایک نے گالیاں بھی دیں لیکن اکثر نہایت محبت کا اظہار کرتے.اور ھذا ابن المهاری کہتے اور سلام کرتے مگر باوجود اس کے پولیس والوں نے کہا کہ اندر بیٹھیں ہماری ذمہ داری ہے اور اس طرح نہیں اندر بند کر دیا گیا.اس پر ہم نے برٹش قونصل کو فون کیا ہے (مرتب) عبد محرم کا الہام صرف اس موقعہ پر ہی پورا نہیں ہوا بلکہ اس کے بعد جیسا کہ حضور کو خیر دی گئی تھی کہ اب سلسلہ تبلیغ کھلنے والا ہے خدا تعالیٰ نے مخالف حالات اور شدید مزاحمت کے باوجود ایک سال کے اندر اندر احمد یڈیشن قائم کر دیا مشن کے افتتاح پر مقامی علماء اور دوسرے حلقوں میں سخت مخالفت ہوئی.دمشق کے مبلغ احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس پر خنجر سے قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا.مگر خدا کی تقدیر غالب آئی اور دمشق میں ایک نہایت مخلص جماعت پیدا ہو گئی.جو اپنے اخلاص وللہیت میں بیرون پاکستان کی احمدی جماعتوں میں ایک امتیازی حیثیت کی حامل ہے.السید منیر الحسنی ہو اس زمانہ میں مولانا شمس صاحب کے ذریعہ سے احمدیت میں داخل ہوئے ایک ذی اثر وجاہت خاندان کے چشم و چراغ میں جماعت احمد یہ مشق کی امارت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جب اء میں دوبارہ یورپ تشریف لے گئے تو حضور نے یہاں بھی قیام فرمایا اور اس جماعت کے جذبہ اه اخبار الفضل مورخه مود سمراء صلا کالم ،

Page 85

خلوص و محبت کو بے حد سراہا.اس طرح ۲۷ ۹ راء میں نازل ہونے والا لہام ایک دفعہ پھر 200ء میں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ پورا ہوا.ڈلہوزی میں پولیس کی خلاف قانون حرکات کے متعلق خبر میں نے خواب میں دیکھا.کہ میں مدرسہ احمدیہ کے ایک کمرہ میں ہوں اور وہاں عزیزہ امتہ القیوم سلمہا اللہ تعالٰے اور میری چھوٹی بیوی مریم صدیقہ بیگم سلمہا اللہ تعالے بھی میرے ساتھ ہیں.دروازہ بند ہے مگر دروازہ میں بڑی بڑی دراڑیں ہیں.میری نظر جو پڑی تو میں نے دیکھا کہ آن دراڑوں میں سے پولیس کے کچھ سما ہی جھانک رہے ہیں.میں نے ان دو نو کی چھپا دیا اور با ہر نکل کر ان پولیس والوں سے کہا کہ تم کیوں جھانک رہے تھے اس پر وہ کمرہ کے اندر آ گھسے.اس وقت میں دل میں کہتا ہوں کہ اندر میری بیوی اور لڑکی ہیں ان کی بے پردگی ہوئی مگر پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سب باتوں پر قادر ہے وہ خود اُن کی حفاظت کریگا چنانچہ جب وہ کمرہ میں گھس آئے اور ادھر ادھر تلاش کرنے لگے تو میں نے دیکھا کہ دونوں وہاں سے غائب ہو گئی ہیں اور میں کہتا ہوں کہ دیکھو میرے ریب کا احسان ہے کہ اُس نے اس ذلت سے ہمیں بچا لیا اور خود ان کو غائب کر دیا د مرتب) یہ خواب حیرت انگیز رنگ میں پوری ہوئی.ستمبر ا للہ و ہیں حضرت امام جماعت احمدیہ تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے ڈلہوزی میں مع اہلبیت کے اقامت گزین تھے کہ حضور کے ایک لخت جگر صاحبزادہ مرزا خلیل احمد له الفصل ۴ ستمر الله الحت کالم ۱-۲

Page 86

صاحب جو اس وقت سترہ برس کے تھے اپنے ہاتھ میں ایک بند پیکٹ لائے اور کہا کہ کسی نے مجھے یہ بھیجوایا ہے حضور نے اسے کھولا تو معلوم ہوا کہ انگریزی حکومت کے خلاف اشتہارات ہیں.چونکہ جماعت احمدیہ کے دینی عقائد میں حکومت وقت کی اطاعت ایک لازمی جز ہے اس لئے حضور نے فورا متعلقہ صیغہ کے افسر کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ بلا تاخیر یہ پیکٹ صوبہ کے گورنر کو بلاتا بھیجوا دیں اور لکھیں ممکن ہے بعض اور نوجوانوں کو بھی ایسا قانون شکن لٹریچر موصول ہوا ہو.اس لئے آپ کو بھیجوایا جا رہا ہے جو محکمانہ کاروائی کرنا مناسب سمجھیں کریں حضور ابھی یہ ہدایت دے کر لوٹے ہی تھے کہ چند منٹ کے بعد پولیس آدھمکی اور اس نے پیکٹ کو شاخسانہ بنا کر کو بھٹی کا احاطہ کر کے اس کی نشست گاہ اور برآمدہ پر قبضہ جما لیا تھوڑی دیر بعد بار در پولیس بھی آگئی جو بارہ بجے سے سات بجے شام تک برابر آٹھ گھنٹے رائفلیں لئے کوٹھی کے صحن میں کھڑی رہی.دراصل جدیا کہ بعد کو تحقیقات ہوئی پولیس نے قانون کی میں دفعہ کے ماتحت اس مکروہ برچھا گردی کا مظاہرہ کیا تھا اس کے ماسخت اسے کسی کا روائی کا اختیار ہی میں نہیں تھا.اور پولیس خود پیکٹ کے منصوبہ میں شریک تھی.عجیب بات یہ ہے کہ جس وقت یہ سانحہ پیش آیا خواب کے عین مطابق صاجزادی ازته القیوم صاحب اور حضرت سیده مریم بیگیم رضی اللہ عنہ) بھی موجود تھیں حالا نکہ صاحبزادی صاحبہ چند دن بیشتر سرگودھا میں کہیں اور حضرت مریم بیگم دریایی رضی اللہ عنہا کا ارادہ ڈلہوزی سے واپس جانے کا تھا.

Page 87

علمی طبقہ میں نفوذ کے متعلق خواب ے ار فروری ۳۵؛ ناقل) کے قریب میں نے خواب دیکھا کہ اخبار انقلاب لاہور کا ایک پرچہ میرے ہاتھ میں ہے میں اُسے پڑھتا ہوں اس کے ایک صفحہ پر میری نظر پڑی.تو میں نے دیکھا کہ کچھ سطریں لکھی ہوئی ہیں پھر کچھ سطریں اُڑی ہوئی ہیں.اور پھر ڈیڑھ سطر لکھی ہوئی ہے اِس کے بعد پھر کچھ سطریں ڈی ہوئی ہیں جس طرح کسی مضمون کے بعض حصے سنسر نے کاٹ دیئے ہوں درمیان میں جو سطر لکھی ہے میں اُسے پڑھتا ہوں تو اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اما مر جاتے احمدیہ نے پنجاب یونیورسٹی کا انٹرنس کا امتحان پاس کر لیا ہے.یہ خبر پڑھ کر مجھے اپنے نفس پر بہت غصہ آیا.اور میں نے دل میں کہا کہ سینے یہ امتحان کیوں دیا.جب مجھے اللہ تعالی نے اتنا علم دیا ہے اور اتنا بلند مقام عطا کیا ہے تو مجھے انٹرنس کا امتحان دینے کی ضرورت ہی کیا تھی اور مینے یہ امتحان کیوں دیا.ایک دو منٹ کے بعد میری غصہ اور انقباص کی حالت دور ہوئی تو مینے خیال کیا کہ لینے جب یہ امتحان دیا ہے تو یہ کوئی بیہودہ حرکت نہیں کی اس میں بھی ضرور اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت مخفی ہوگی.اور پھر میں اپنے دل میں کہتا ہوا ، کہ جب انٹرنس کا امتحان پاس کیا ہے تو اب بی اے کا امتحان بھی دے دوں پھر مجھے خیال آتا ہے کہ بی اے کا امتحان تو ایف اے کا امتحان پاس کئے بغیر ہیں دیا جاسکتا.مگر خود ہی دل میں کہتا ہوں کہ یو نیورسٹی مجھے بی اے کا امتحان دینے کی اجازت دے دیگی الفصل ۴ ارسال شده مست کالم مالچ ۲۰۱ ) (مرتب) اس رکیا میں علمی طبقہ میں حضور کے اثر و نفوذ کی خبر دی گئی تھی جو چند دنوں کے بعد پوری ہوئی جس کی اجمالی تفصیل یہ ہے کہ ۲۶ فروری ۱۹۳۵ یم کو اپنے

Page 88

لاہور میں احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کے زیر انتظام اسلام میں اقتصادی نظام" کے عنوان سے ایک معرکۃ الآراء تقریر فرمائی جس نے علمی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا.یہ لیکچر انگریزی - فرانسیسی جرمنی ہسپانوی وغیرہ دنیا کی متعدد مشہور زبانوں میں شائع ہو چکا ہے اور چوٹی کے اہل علم طبقہ سے خراج عقیدت وصول کر رہا ہے.متعدد آراء میں سے صرف ایک رائے ملاحظہ ہو.سپین کی وزارت صنعت و تجارت کا ایک با اثر ترجمان " Information commercial and Industrial: اپنے اکتوبر شملہء کے ایشوع میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے :- کہ کسی قدر جذباتی رنگ سے قطع نظر اس کتاب میں کمیونزم کے مقابلہ میں نہایت شاندار طور پر اسلام کا اقتصادی نظام پیش کیا گیا ہے اور بھاری دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ کمیونزم نہ صرف سیاسی اصولوں اور تحریک است کے خلاف ہے بلکہ مذہبی اقدار کا بھی خیمن ہے کتاب نہایت اعلیٰ معلومات کا مخزن ہے.ترجمان نے اس انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے آخر میں لکھا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ اس لیکچر کے لئے قابل صد مبارک باد ہیں“ ہجرت قادیان سے تعمیر ربوہ تک کے اہم واقعات کی واضح خبریں ۱۹۳۶ء کا وسط آخر بر صغیر ہند و پاکستان کی تاریخ میں قیامت کبری کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس زمانہ میں انتقال اقتدار کے باعث کروڑوں کی آبادی کا وسیع پیمانے پر انحتلاء و مبادلہ ہوا اور خصوصا مشرقی پنجاب کے

Page 89

۴ نہتے مسلمانوں کا نہایت بے دردی سے قتل عام ہوا ان کے گھر نذر آتش ہوئے مسلم خواتین کی آبروریزی ہوئی اور جو مظلوم آگ اور خون کے طوفان سے بچ نکلے وہ مشکل بیان بچا کر پاکستان میں پناہ گزین ہوئے.جماعت احمدیہ کا ابدی مرکز قادیان.ضلع گورداسپور ایسے مسلم اکثریت والے ضلع میں واقع تھا جسے ۳۰ جون ۲ شراء کے برطانوی علان کے مطابق اصولاً پاکستان میں شامل ہونا چاہئے تھا.مگر ریڈ کلف ایوارڈ کے صریح ظالمانہ فیصلہ نے جہاں پاکستان کو اپانچ کرنے کے اور کئی شرمناک ہتھکنڈے استعمال کئے وہاں اس نے انصاف اور انسانیت کا خون کرتے ہوئے شکر گڑھ کی تحصیل کے سوا باقی پور اضلع پاکستان سے کاٹ کر ہندوستان کی جھولی میں ڈال دیا.یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا بلکہ جیسا کہ بعد کے حالات نے بتایا یہ خونی ڈرامہ با قاعدہ ایک سوچی محبی سکیم کا نتیجہ تھا جس سے ہندوستان کے سیاسی زعماء آخر وقت تک بے خبر رہے جب خبر ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ ظلم و ستم کے جیب دیوتا سے وابستہ کر چکے ہیں اور اب پوری طرح بے بس ہیں.ہندوستان کے مطلع سیاست اگر چھ برسوں سے ابر آلود تھے مگر آنا فانا ایک وسیع پیمانے پر یکایک طوفان آنے اور ایک بہت بڑی آبادی کا اسکی زد میں آجانے کا تصور کسی بڑے سے بڑے سیاسی مفکر کے ذہن میں بھی نہ آسکتا تھا.بالخصوص ۳۰ ۳۵ ۶ سے ۱۹۳۰ء تک کے عرصہ میں جبکہ یورپ میں جنگ کے جیب شعلے بلند ہو رہے تھے اور دنیا کی سیاسی قوتوں کی تمام تر توجہ جرمنی اور جاپان اور ایڈونیشیا کی طرف مبذول تھی.ہندوستان میں مقامی

Page 90

۸۵ آبادی کے وسیع انخلاء کا کوئی سان گمان نہ تھا.لیکن ٹھیک ایسے ماحول میں خدائے علیم وخبیر کی طرف سے حضرت امام محجبات احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو ہندوستان پر آنے والی درد انگیز تباہی و بربادی کے کچھ اس رنگ سے تفصیلی نظارے دکھائے گئے کہ آیندہ ہونے والے روح فرسا اور دلخراش واقعات کی پوری فلم آپ کے سامنے آگئی.چنانچہ آپ کو متعد در ویا و کشوف کے ذریعہ بتایا گیا کہ : ا قادیان اور اس کے گرد و نواح میں شمن یکدم حملہ کر کے آئے گا.دشمن کی طرف سے خفیہ رنگ میں جنگ ہوگی.قادیان سے جالندھر تک بڑی خوفناک تباہی آئے گی اور لوگ نیز گنبد یعنی آسمان تلے پناہ لیں گے.-۴- قادیان میں بھی شمن غالب آجائے گا مگر مسجد مبارک کا حلقہ اس مرحلہ میں پامردی سے مقابلہ کرے گا اور آخر محفوظ رہے گا.- تباہی کے اس دور میں حضرت امام جماعت احمدیہ اپنے خاندان کے علاؤ بعض اپنے جانثار خدام کے ساتھ قادیان سے کسی دوسری جگہ مرکز کی تلاش میں ہجرت کر آئیں گے.4 - اُن کی ہجرت پر قادیان کے باشندوں میں ایک عام افسردگی سی طاری ہو گی مگر خدا تعالیٰ قادیان اور دوسری جماعت احمدیہ کو خاص برکتوں سے نوازے گا.اور حضرت امام جماعت احمدیہ کے طفیل وہ صحیح سالم اس طوفان سے پار نکل آئیں گے.- ہجرت کے بعد حضرت امام جماعت احمدیہ ایک پہاڑی کے دامن میں نیا مرکز تعمیر کریں گے

Page 91

^4 A جہاں پہلے فوجی پارکوں کی طرفہ پر مکان بنانے پڑیں گے.اس مرکز کی بنیاد شعراء میں رکھی جائے گی.و یہ ہجرت دوسرے مسلمانوں کی طرح کسی اضمحلال اور کمزوری کا موجب نہ بنے گی بلکہ اس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو ایک خاص عظمت و شوکت نصیب ہوگی اور اس کی شہرت اکناف عالم تک جا پہنچے گی.مستقبل کے یہ اہم انکشافات جن رویا و کشوف میں فرمائے گئے ان میں سے صرف چار درج ذیل ہیں.رویا کے بعض غیر متعلق حصوں کو چھوڑ کر جو فلسفہ رڈیا کے مطابق محض تسلسل اور ربط کے لئے دکھائے جاتے ہیں قارئین بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ آنے والے واقعات کی یہ غیر معمولی تفاصیل کسی انسانی تخیل کا نتیجہ نہیں ہو سکتی یقینا ان کے پیچھے ایک قادر اور علیم و منتصرف ہستی کا فیبی ہاتھ کام کر رہا ہے اور وہ اپنے تصویری زبان کے پیرا یہ میں نہیبی پردوں کا نقاب الٹ رہا ہے.ہم نے مندرجہ بالا نکات کے مطابق خوابوں کے متن پر نشان دہی بھی کر دی ہے تا حقیقت تک پہنچنے میں کوئی ذہنی الجھاؤ حائل نہ ہو سکے.و میں نے دیکھا کہ میں ایک مکان میں ہوں جو ہمارے مکانوں پہلی خواب } سے جنوب کی طرف ہے اور اس میں ایک بڑی بھاری عمارت ہے جو کئی منزلوں میں ہے.اس کئی منزلہ عمارت میں میں بھی ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یکدم تعظیم حملہ کر کے آگیا ہے اور اس تنظیم کے حملہ کے مقابلہ کے لئے ہم سب لوگ تیاری کر رہے ہیں میں اس وقت اپنے آپ کو کوئی کام کرتے نہیں دیکھتا.گر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں بھی لڑائی میں شامل

Page 92

AL ور ہوں.یوں اس وقت کینے نہ تو ہیں دیکھی ہیں نہ کوئی اور سامان جنگ نگر میں سمجھتا رہی ہوں کہ تمام قسم کے آلات حرب استعمال کئے جارہے ہیں.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وضمن غالب آگیا ہے.اور ہمیں وہ جگہ چھوڑنی پڑی ہے باہر نکل کر ہم حیران ہیں کہ کس جگہ جائیں اور کہاں جا کر اپنی حفاظت کا سامان کریں.اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں آپ کو ایک جگہ بتاتا ہوں آپ پہاڑوں پر چلیں.وہاں ایک اٹلی کے پادری نے گر جا بنایا ہوا ہے اور ساتھ ہی اس نے بعض عمارتیں بھی بنائی ہوئی جنہیں وہ کرایہ پر مسافروں کو دے دیتا ہے وہاں چلیں وہ مقام سب سے بہتر رہے گا.میں کہتا ہوں بہت اچھا چنانچہ میں گانڈ کو ساتھ لے کر پیدل چل پڑتا ہوں ایک دو دوست اور بھی میرے ساتھ ہیں چلتے چلتے ہم پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ گئے مگر وہ ایسی چوٹیاں ہیں جو ہموار ہیں.اس طرح نہیں کہ کوئی چوٹی اونچی ہو اور کوئی نیچی.جیسے عام طور پر پہاڑوں کی چوٹیاں ہوتی ہیں بلکہ وہ سب ہموار ہیں جس کے نتیجہ میں پہاڑ پر ایک میدان سا پیدا ہو گیا ہے وہاں دینے دیکھا کہ ایک پادری کالا سا کوٹ پہنے کھڑا ہے اور پاس ہی ایک چھوٹا سا گر جا ہے اس آدمی نے پادری سے کہا کہ باہر سے کچھ مسافر آئے ہیں انہیں ٹھہرنے کے لئے مکان چاہئیے.وہاں ایک مکان بنا ہوا نظر آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ پادری لوگوں کو کرایہ پر جگہ دیتا ہے.اس نے ایک آدمی سے کہا کہ انہیں مکان دکھا دیا جائے وہ مجھے مکان دکھانے کے لئے گیا ایک دو دوست اور بھی ہیں سینے دیکھا کہ وہ کچا مکان ہے.اور جیسے فوجی بار کیں سیدھی چلی جاتی ہیں اسی طرح وہ مکان ایک لائن میں سیدھا بنا ہوا ہے مگر کمرے صاف ہیں میں ابھی خود ہی کر رہا ہوں کہ جو شخص مجھے کمرے دکھا رہا تھا اس نے خیال کیا کہ کہیں

Page 93

میں یہ نہ کہندوں کہ یہ ایک پادری کی جگہ سے ہم اس میں نہیں رہتے ایسا نہ ہو کہ ہماری عبادت میں کوئی روک پیدا ہو.چنانچہ وہ خود ہی کہنے لگا آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی کیونکہ یہاں مسجد بھی ہے سینے اُسے کہا کہ اچھا مجھے مسجد دکھاؤ.اس نے مجھے مسجد دکھائی جو نہایت خوبصورت بنی ہوئی تھی مگر چھوٹی سی تھی ہماری مسجد مبارک سے نصف ہوگی لیکن اس میں چٹائیاں اور دریاں وغیرہ بچھی ہوئی تھیں اسی طرح امام کی جگہ ایک صاف قالینی مصلی بھی سمجھا ہوا تھا مجھے اس مسجد کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی اور سینے کہا.ہمیں یہ جگہ منظور ہے خواب میں مہینے یہ خیال نہیں کیا کہ مسجد وہاں کس طرح بنائی گئی ہے مگر ہر حال مسجد دیکھ کر مجھے مزید تسلی ہوئی اور مینے کہا کہ اچھا ہوا امکان بھی مل گیا اور ساتھ ہی مسجد بھی مل گئی تھوڑی دیر کے بعد میں باہر نکلا اور سینے دیکھا کہ اکا دکا احمدی وہاں آ رہے ہیں خواب میں میں حیران ہوتا ہوں کہ بیلنے تو ان سے یہاں آنے کا ذکر نہیں کیا تھا اُن کو جو میرے یہاں آنے کا پتہ لگ گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ کوئی محفوظ جگہ نہیں.چاہے یہ دوست ہی ہیں لیکن بہر حال اگر دوست کو ایک مقام کا علم ہو سکتا ہے تو دشمن کو بھی ہو سکتا ہے محفوظ مقام تو نہ رہا.چنانچہ خواب میں میں پریشان ہوتا ہوں، اور میں کہتا ہوں کہ ہمیں پہاڑوں میں اور زیادہ دُور کوئی جگہ تلاش کرنی چاہیئے اتنے میں بیتے دیکھا کہ شیخ محمد نصیب صاحب آگئے ہیں میں اس وقت مکان کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوں انہوں نے مجھے سلام کیا کینے اُن سے کہا کہ لڑائی کا کیا حال ہے.انہوں نے کہا دشمن غالب آگیا ہے.میں کہتا ہوں کہ مسجد مبارک کا کیا حال ہے اُنہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے سینے کہا اگر مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے تب تو کامیابی کی امید ہے میں اُس وقت سمجھتا ہوں کہ

Page 94

ہم تنظیم کے لئے وہاں آئے ہیں اور تنظیم کرنے کے بعد ویمن کو پھر شکست دیدیں گے پھر دیدیں اس کے بعد ینے دیکھا کہ کچھ اور دوست بھی وہاں پہنچ گئے ہیں ان کو دیکھ کر مجھے اور پریشانی ہوئی اور سینے کہا کہ یہ تو بالکل عام جنگہ معلوم ہوتی ہے.حفاظت کے لئے یہ کوئی خاص مقام نہیں.ان دوستوں میں ایک حافظ محمد ابراہیم صاحب بھی ہیں اور لوگوں کو نہیں پہچانتا نہیں.صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ احمدی ہیں.حافظ صاحب نے مجھے سے مصافحہ کیا اور کہا کہ بڑی تباہی ہے بڑی تباہی ہے پھر ایک شخص نے کہا کہ نیلے گنبد میں ہم داخل بننے لگے تھے مگر وہاں بھی ہمیں داخل نہیں ہونے دیا گیا.کینے تو نیلا گنید لاہور کا ہی سنا ہوا ہے واللہ اعلم کوئی اور بھی ہو.بہرحال اس وقت میں نہیں کہہ سکتا کہ نیلے گنبد کے لحاظ سے اس کی کیا تعبیر ہو سکتی ہے.اس کے بعد حافظ صاحب نے کوئی واقعہ بیان کرنا شروع کیا.اور اسے بڑی لیسی طرز سے بیان کرنے لگے جس طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بات کو جلدی ختم نہیں کرتے.بلکہ اُسے بلا وجہ طول دیتے پہلے جاتے ہیں اسی طرح حافظ صاحب نے پہلے ایک لمبی تمہید بیان کی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھالندھر کا کوئی واقعہ بیان کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے.اور ایک منشی کی جو غیر احمدی ہے اور پٹواری راگر داور ہے بار بار ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ منشی جی ملے اور انہوں نے بھی اس طرح کہا.میں خواب میں بڑا گھبراتا ہوں کہ یہ موقع تو حفاظت کے لئے انتظام کرنے کا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی مرکز تلاش کیا جائے.انہوں نے منشی جی کی باتیں شروع کر دی ہیں

Page 95

۹۰ چنانچہ میں اُن سے کہتا ہوں کہ آخر ہوا کیا وہ کہنے لگے منشی جی کہتے ہیں کہ ہماری تو آپ کی جماعت پر نظر ہے میں نے کہا بس اتنی ہی بات تھی نہ کہ منشی جی کہتے تھے کہ اب ان کی جماعت احمدیہ پر نظر ہے یہ کہہ کر میں انتظام کرنے کے لئے اُٹھا اور چاہا کہ کوئی مرکز تلاش کروں کہ میری آنکھ کھل گئی ؟ والفضل اد ممبر شده من کالم ۱-۲-۳-۱۴ ول ینے دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں اور دوسری خواب خواب میں میں ہم خواب میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ بعض اور لوگ بھی وہاں ہیں تگو یہ کہ وہ کون ہیں یہ مجھے یاد نہیں رہا.صرف اتنا سمجھتا ہوں کہ اور لوگ بھی ہیں اور ہم ایک کشتی میں بیٹھے ہیں جو سمندر میں ہے اور سمندر بہت وسیع ہے اس کے ایک طرف اٹلی کی مملکت ہے اور دوسری طرف انگریزوں کی.اٹلی کی مملکت شمال مغربی طرف معلوم ہوتی ہے.اور انگریزی علاقہ مشرق کی طرف اور جنوب کی طرف ہٹ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ کشتی اس جانب سے آر ہی ہے جس طرف ہٹ اٹلی کی حکومت ہے اور اُس طرف جا رہی ہے جس طرف انگریزوں کی حکومت ہے اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ یکدم شور اٹھا اور گولہ باری کی آواز آنے لگی اور اتنی کثرت اور شدت سے گولہ باری ہوئی کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا ایک گولے اور دوسرے گولے کے چلتے میں کوئی فرق نہیں ہے اور یکساں شور ہو رہا ہے لینے دیکھا کہ گولے متواتر پڑ رہے ہیں.اور اس کثرت سے پڑ رہے تھے کہ یوں معلوم ہوتا.ان گولوں سے جو بھرا ہوا ہے میں یہ دیکھ کر گولوں سے بچنے کے لئے کشی میں مجھک گیا اِس کے بعد کا نظارہ مجھے یاد نہیں رہا.اسی اثنا میں میں یکدم محسوس کرتا ہوں کہ ایک زیر دست طوفان آیا ہے اور دنیا میں پانی ہی پانی ہو گیا ہے اور میں اُس وقت اپنے آپ کو پانی کے نیچے پاتا ہوں.میری کمر پر

Page 96

او اس وقت پانی کا اتنا بڑا بوجھ ہے کہ میں اُس کی وجہ سے پورے طور پر کھڑا نہیں ہو سکتا.اور ہاتھوں اور پاؤں کے بل چلتا ہوں ساتھ ہی اندھیرا بھی ہے اور مجھے تاریخی کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آتا لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ جیسے پانی کو چادر میں ڈال کر کسی نے میرے اوپر سے اُٹھایا ہوا ہے میں اُس کا بوجھ بھی زیادہ محسوس نہیں کرتا.اور میری کمر پر پانی اس طرح لگ رہا ہے گویا وہ چادر میں ہے اور چادر کو کسی نے اُٹھایا ہوا ہے جیسے پانی کی مشک کسی کی کمر پر رکھ دی جائے اور ساتھ اس کا بو مجھے بھی نہ پڑنے دیا جائے.اسی کی مانند جس تھی.اسی حالت میں جبکہ میں حیران ہوں کہ اب کیا ہو گا میں محسوس کرتا ہوں کہ پانی کم ہونا شروع ہوا ہے.اور کسی نے اس پانی کو جو ہمارے اور پر ہے اُٹھاتا شروع کر دیا ہے یہاں تک کہ تمام بوجھے میری کمر پر سے دور ہو گیا اور میں کھڑا ” مینے بڑے جوش سے اپنی تیسری بیوی سے مخاطب ہو کر کہا.مریم الحمد للہ دیکھو میری خواب پوری ہو گئی وہ دیکھو نور نظر آنے لگ گیا.اُس وقت میں سمجھتا ہوں کہ پینے اس کے متعلق پہلے سے کوئی رؤیا دیکھی ہوئی تھی اسی طرح دو تین دفعہ سینے کہا.پھر و پانی اور زیادہ کم ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ دروازے نصف نصف تک نظر آنے لگ گئے.میں یہ دیکھے کہ پھر اسی جوش میں کہتا ہوں مریم دیکھو پانی اور زیادہ کم ہو گیا.الحمد للہ میری خواب پوری ہو گئی" میں اس وقت دل میں خیال کرتا ہوں کہ گھر کے لوگوں کو ذرا فکر نہیں گیلے کپڑے پہن رکھے ہیں بہتر تھا کہ یہ ٹہلتیں تاکہ اُن کے کپڑے خشک ہو جاتے اور صحت پر کوئی برا اثر نہ پڑتا مگر میں انہیں کہتا کچھے نہیں.اتنے میں میرے دل میں خیال آتا

Page 97

۹۲ ہے کہ یہ جو اس اطمینان سے کھڑی ہیں تو شائد ان کے کپڑے گیلے ہی نہیں ہوئے اور مجھے خیال آتا ہے کہ میں اپنے کپڑے تو دیکھوں وہ خشک ہیں یا گیلے جب میں اپنے کپڑے دیکھتا ہوں تو وہ بالکل خشک معلوم ہوتے ہیں اور میں کہتا ہوں یہ عجیب قسم کا طوفان تھا.کہ با وجود طوفان میں رہنے کے کپڑے بھی سوکھے رہے پھر مجھے شبہ پیدا ہوا.اور میں نے سمجھا شائد یہ طوفان نہیں تھا بلکہ طوفان کا ایک نظارہ تھا جو دکھائی دیا مگر جب حقیقت معلوم کرنے کے لئے ایک کانس پر پڑے ہوئے کپڑے پر میں ہاتھ رکھتا ہوں تو وہ بالکل گیلا نظر آتا ہے.اور میں کہتا یہ کوئی خدائی تصرف ہے کہ میرے کپڑے یا وجود طوفان کے گیلے نہیں ہوئے " یہ اور اس قسم کے اور بہت سے اشارات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی طوفان آنے والے ہیں ممکن ہے بعض طوفان ظاہری شکل میں نہیوں اور بعض طوفان مشکلات و ابتلاؤں کی صورت میں دیہ ظاہر ہوں.والفضل مورخه ۲۹ جولائی شد صوص تم ود یکں نے دیکھا کہ میں ایک ایسی چیز میں ہوں جو جہاز تیسری خواب کی طرح نظر آتی ہے میں جہانہ کی طرح اس لئے کہتا ہوں کہ مجھے اس کے کمرے وغیرہ نظر نہیں آتے وہ چیز ایسی ہے جیسے ٹپ کی شکل ہوتی ہے یعنی بہار کی شکل کی چار دیواری اس میں موجود ہے وہ زمین سے اونچی ہے اور جس طرح پانی میں جہاز کھڑے ہوتے ہیں اسی طرح پانی میں وہ کھڑی ہے اور اس کا رنگ سبز ہے اور اس کی دیواریں جو جینے دیکھیں وہ بھی گہرے سبز رنگ کی ہیں جس میں کچھ نیلاہٹ کی ملاوٹ معلوم ہوتی ہے گویا وہ اتنا تیز سبز رنگ ہے کہ اس میں کچھ نیلاہٹ کا شبہ بھی پیدا ہونے لگا ہے پانی بھی ہے مگر چھوٹا چھوٹا.بعض دفع خواب میں ایسے غیر معمولی نظارہ سے بھی

Page 98

Suit دکھا دئیے جاتے ہیں.اس لئے اس پر تعجب نہیں کرنا چاہیے بہر حال وہ جہاز چھوٹے سے پانی میں کھڑا ہے یا یوں سمجھ لو کہ جب کنارے پر جہازہ آ لگتا ہے تو جس طرح اُس کے آگے چھوٹا چھوٹا پانی ہوتا ہے اسی طرح کردیا میں مجھے وہ پانی نظر آتا ہے جہاں جہاز کھڑا ہے وہاں تو کچھے زیادہ پانی ہوگا.مگر جہاں اس جہاز سے اُترتے ہیں وہاں ٹخنوں ٹخنوں تک پانی ہے چند گز تک تو پانی چلتا چلا جاتا ہے مگر آگے ایک بڑی سی دری بچھی ہے اور وہ دری بھی سہتر کچھ نیلا ہٹ رکھتی ہوئی ہے جیسے نہایت گہر ا سبز رنگ ہوتا ہے اور اس پر ایک نو جوان بیٹھا ہے اس کا لباس بھی سبز ہے جو سوٹ کے مشابہ ہے جیسے انگریزی سوٹ ( ننگا ہوتے ہیں میں یقینی طور پر تو نہیں کہ سکتا مگر بہر حال اس کی شکل یا تو ملک غلام فرید صاحب سے ملتی ہے.یا ڈاکٹر میجر غلام احمد صا ح ہے.میں شبہ اس لئے کرتا ہوں کہ ملک غلام فرید صاحب کی ڈاڑھی بہت سی سفید ہو چکی ہے مگر اُس نوجوان کی ڈاڑھی سیاہ ہے اور جیسے انسان نے جب پتلون پہتی ہوئی ہو تو زمین پر بیٹھنے میں اُسے تکلیف محسوس ہوتی ہے اور وہ ایک طرف ٹانگیں نکال کر بیٹھتا ہے.اسی طرح وہ نوجوان بیٹھا ہوا ہے اُس کے سر پر ترکی ٹوپی ہے.میں جہاز سے اُترا ہوں مجھے وہاں کوئی سیڑھی لگی ہوئی معلوم نہیں ہوتی.ایک اونچی سی دیوار ہے اور جیسے جہاز اونچے ہوتے ہیں.اسی طرح اُس کی دیوار زمین سے جو ہر فٹ اونچی ہے میں نہیں جانتا کہ میں اُس میں کس طرح نیچے اترا.بہر حال میں اُس جہاز پر ہلکے پھلکے طور پر اُترا ہوں اور پانی میں سے جو شخنوں تک ہے چل کر اُس دری کی طرف گیا ہوں جہاں وہ نوجوان بیٹھا ہے اور جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ ملک غلام فرید صاحب ہیں یا ڈاکٹر غلام احمد صاحب ہیں دونوں میں صاحة

Page 99

۹۴ سے کسی ایک کا مجھے شبہ پڑتا ہے وہاں پہنچ کر مجھے اس نوجوان کے چہرے پر بڑی افسردگی نظر آتی ہے جب پینے اُسے افسردہ دیکھا تو مجھے میں ایک جلال سا پیدا ہو گیا ہے اور میں اس نوجوان سے کہتا ہوں تم افسردہ کیوں ہو اُس کے بعد میں بڑے جوش سے کہتا ہوں دیکھو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہماری جماعت کے لئے خصوصاً قادیان کے لئے ایک بڑا بھاری اور عظیم انسان مستقبل مقدر ہے.اس لئے افسردگی کی کوئی وجہ نہیں گویا خواب میں جوئیں اس نوجوان کو اس وجہ سے افسردہ دیکھتا ہوں کہ قادیان سے کچھ لوگ چلے گئے ہیں تو میں اُس کی افسردگی کو دور کرنے کے لئے کہتا ہوں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہماری جماعت کے لئے خصوصا قادیان کے لئے ایک بڑا بھاری مستقبل مقدر ہے.میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں خدا تو قادیان کے لوگوں پر یا جماعت کے لوگوں ریا کا لفظ کینے استعمال کیا ہے کہ مجھے پورا یقین نہیں کہ سینے رویا میں صرف قادیان کے لوگوں کا نام لیا تھا یا ساری جماعت کا ذکر کیا تھا بہر حال ان دونوں میں سے ایک کا ذکر کر کے میں کہتا ہوں کہ خدا تو ان لوگوں پر اس رنگ میں نزول برکات کرنے والا ہے کہ اُن کے دلوں میں خدا کا نور نازل ہوگا.پھر وہ نور بڑھے گا اور بڑھتا چلا جائے گا یہاں تک کہ وہ نور دلوں کے کناروں تک آئے گا.اور پھر کناروں سے بھی بہنا شروع ہو جائے گا.رویا میں جب میں کہتا ہوں کہ خدا کا نور اُن کے ولوں کے کناروں سے بہنا شروع ہو جائے گا تو اس وقت مجھے مومن کے قلب کی شکل دکھائی جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ایک تنور ہے......گویا ایک تنور کی صورت میں میں مومن کے دل کے کنارے دیکھتا

Page 100

۹۵ ہوں اور کہتا ہوں کہ ان کناروں کے اوپر سے خدا تعالیٰ کا نور نکلے گا.اور اُس کا عرفان اور فیضان اس میں سے نکل کر دنیا میں رہے گا.پھر میں اور زیادہ زور دیتا ہوں.اور کہتا ہوں کہ خدا کا فوران کناروں سے ہے گا اور بہہ کر تمام دنیا میں جائے گا یہاں تک کہ دنیا کا ایک انچ حصہ بھی ایسا باقی نہیں رہے گا.یہاں خدا کا یہ نور نہیں پہنچے گا ار لفضل در جون که ورود کالم ۱-۲-۳- حت کالم ۱-۲-۳) چوتھی خواب مہینے ایک رؤیا دیکھا ہے اللہ تعالی اسے برکت والا کرے مگر میں اُس رویا کا اکثر حصہ بھول گیا.صرف میری طبیعت پر اتنا اشرہ گیا کہ کوئی اہم بات مجھے رویا میں بتائی گئی (جو اس کے بعد میرے ذہن سے بالکل گئی، اور اس کے متعلق کہا گیا کہ وہ اس (۱۹۲۳ء سے ناقل) انکشاف (یعنی پسر موعود کے انکشاف) کے پانچ سال کے عرصہ میں ہوگی اور بتایا گیا کہ ازل سے یہی مقدر تھا کہ وہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مڑی ہوئی ہوں جس طرح دو چیزوں کو آپس میں باندھ دیا جاتا ہے کوئی بات تھی جو میرے ذہن سے نکل گئی مگر اس کے متعلق رویا میں بار بار اور تکرار کے ساتھ بتایا گیا کہ اس انکشاف کے پانچ سال کے عرصہ تک وہ ہوگی.یہ نہیں کہ پانچ سال کے مین خاتمہ پر ہوگی.لیکن بہر حال پانچ سال کے ساتھ اس کا تعلق ہے.اور رویا میں مجھے یوں محسوس ہوا کہ گھر یا جس طرح سمندر میں بائے ) ہر دن میں زنجیر کے ساتھ چٹان سے باندھا جانا شاہ فروری ۱۹۳۳ ء میں حضرت امام جماعت پر ایک کشف کے ذریعہ بتایا گیا تھا کہ آپ ہیں حضرت مسیح موعود کی پیش گوئی ۲۰ فروری شو کے مصداق ہیں، اس مقام پر اسی ایک ہے کی طرف اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ عظیم واقعہ ضروری ہوا ء سے پانچ سال میں ہو گا.کے

Page 101

44 ہے.اسی طرح اس اہم امر کو مصلح موعود کی پیش گوئی کے انکشاف کے ساتھ باندھا گیا تھا اور پانچ سال یا اس کے ادھر اُدھر قریب زمانہ میں اس کا ظور ہو گا ہے، د الفضال به د ر ا پریل باشد و من) (مرتب) مندرجہ بالا آسمانی خبروں کا ایک ایک جز عشاء کے ہنگامہ میں اس شان سے پورا ہوا ہے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے مشرقی پنجاب میں زبر دست تباہی بھارتی فوج اور عوام کی طرف سے اسلحہ کا استعمال قادیان پر حملہ اور حلقہ مسجد مبارک کا آج تک محفوظ رہنا حضرت امام جماعت احمدیہ کی اپنے اہل بیت اور اپنے خدا سمیت نہایت محفوظ رنگ میں نہجرت اور پاکستان اگر پہاڑی کے دامن میں ریوہ جیسے عظیم الشان مرکز کا ستمبر تشاء میں افتتاح اور جماعت کی عالمگیر عظمت و شہرت غرضیکہ ان پیشگوئیوں کا کوئی ایک بھی تو پہلو ایسا نہیں تو مخالف حالات کے باوجود غیر معمولی اور خارق عادت رنگ میں پورا نہ ہوا ہو.اقتصادی اعتبارہ ایک نہایت اہم رویا ۶۱۹۳۸ ایک اور تجویز بھی ہے اور وہ میری ایک رؤیا کے ماتحت ہے اس رویا کی میں تفصیل تو نہیں بتا سکتا صرف اتنا کہتا ہوں کہ میں بہتا جا رہا ہوں اس حالت میں میں زمین پر پاؤں لگنے کے لئے دعا کرتا ہوں مگر نہیں لگتے پھر کینے یہ دُعا کی کہ سندھ میں میرے پاؤں لگیں جب میں وہاں لم پہنچا تو وہاں میرے پاؤں لگ گئے " : نہ رپورٹ مجلس شوری ۹۲۵ از مشک

Page 102

36 19 YA (مرتب) ۱۹۳۳ء میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے انفرادی اور جماعتی ضروریات کے پیش نظر سندھ میں ہزاروں ایکڑ پرمشتمل ایک فریح رقبہ گورنمنٹ انڈیا سے قسطوں پر خرید فرمایا تھا چونکہ یہ قطعہ زمین بے آباد اور ویران سا تھا اس لئے ابتدا میں اس پر کافی مصارف ہوئے اور کوئی خاص کامیابی اس سے آمد پیدا کرنے کی نہ ہوئی لیکن جب مشرقی پنجاب کے طوفانوں میں حضرت امام جماعت احمدیہ اور دوسری جماعت کو پاکستان میں آنا پڑا اور مالی بوجھ کی وجہ سے متعدد بیرونی مشن بند کردئے گئے اور خود حضور انور کو سخت اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا تو سندھ کی زمین ہی ان مشکلات کو دور کرنے کا موجب بنی اور جماعت نئے سرے سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو گئی اور اس طرح شملہ کی انہی خبر ربع صدی کے کے عرصہ میں معجزانہ رنگ میں پوری ہوئی.ربوہ میں پانی کی فراوانی کے تعلق خبر انقلاب ہجرت کے بعد پاکستان میں الہی خبروں کے مطابق جب 1ء میں پہاڑی کے دامن میں سیوم کا افتتاح ہوا تو مختلف نوعیت کی بے شمار الجھنیں ، ور مشکلات پیش آئیں جن میں ایک مشکل ایسی تھی جس کا تدارک آپ کے ہاتھوں نا تمکن تھا اور وہ پانی کی کمیابی کا نازک ترین مسئلہ تھا جس کے حل کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی.گورنمنٹ پاکستان کے کاغذو میں یہ زمین ناقابل زراعت بلکہ نا قابل رہائش قرار دی گئی تھی.قبل ازیں بعض ہند و سرمایہ داروں نے پانی کی طرح اپنی دولت بھائی مگر وہ پانی کے

Page 103

۹۸ حصول میں تیری طرح ناکام ہو کہ اس جہان سے چل بسے تھے.ظاہر ہے یہ صورت حال زیادہ وقت تک جاری رہتی تو مرکز کی تعمیر کا سارا خواب دھرے کا دھرا رہ جاتا اور جماعت احمدیہ ایک لیے عرصہ تک اپنی مرکزی خصوصیت سے محروم ہو کر انتشار کا شکار ہو جاتی.حضرت امام جماعت احمدیہ یہ تشویش ناک کیفیت دیکھ کر اللہ کے حضور حسم التجاننے اور دعا کی کہ انہیں جب تیری ہی خبروں کے مطابق یہ اسلامی مرکز تعمیر ہو رہا ہے تو اپنے فضل کے ساتھ پانی کی نعمت بھی عطا فرما اس گریہ وزاری پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو خوشخبری عطا ہوئی وہ حضور ہی کے قلم سے پڑھئے.دو مجھے پر ایک غنودگی سی طاری ہوگئی.اسی نیم غنودگی کی حالت میں پینے دیکھا کہ میں خدا تعالے کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھ رہا ہوں ے جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا " مینے اسی حالت میں سوچنا شروع کیا کہ اس الہام میں جاتے ہوئے " سے کیا مراد ہے اس پر کیسے سمجھا کہ مراد یہ ہے کہ اس وقت تو پانی دستیاب نہیں ہو سکا لیکن میں طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے زمزم پھوٹ پڑا تھا اسی طرح اللہ تعالی کوئی ایسی صورت پیدا کرنے گا کہ جس سے تمہیں پانی بافراط میسر آنے لگے گا.پاؤں کے نیچے سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالے نے مجھے اسماعیل قرار دیا ہے جس طرح وہاں اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے پانی بہہ نکلا تھا اسی طرح یہاں خدا تعالیٰ میری دعاؤں کی وجہ سے پانی بہا دے گا یہ ایک محاورہی ہے جو محنت کرنے اور دعا کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ہم نے اپنا پورا زوریگا

Page 104

٩٩ دیا تا ہمیں پانی مل سکے لیکن ہم اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوئے اب خدا تعالے نے میرے منہ سے یہ کہلوا دیا کہ پانی صرف تیری دعاؤں کی وجہ سے نکلے گا ہم نہیں جانتے کہ یہ پانی کب نکلے گا اور کس طرح نکلے گا لیکن بہر حال یہ الہامی شعر تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرور پیدا کر دے گا جس کی وجہ سے وہاں پانی کی کثرت ہو جائیگی انشاء اللہ تعالے " اے (مرتب) پانی کی فراوانی کی یہ الہی بشارت پوری شان سے پوری ہو چکی ہے جہاں انسان پانی کے ایک قطرہ کے لئے ترستا تھا آج وہاں جگہ جگہ ٹیوب ویل لگے ہوئے ہیں.ویرانے آباد ہو چکے ہیں اور خزاں کی آغوش میں بہاریں رقص کرتی نظر آتی ہیں.مخالفت کے ایک تیز و تند طوفان کی پیشگوئی اء میں حضرت امام جماعت احمدیہ کو پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف اٹھنے والی ایک زبر دست شورش کی صریح خبر دی گئی.چنانچہ آپ نے بتایا :- کیتے دیکھا کہ میں ایک بڑی گیلری میں ہوں جس کے ایک طرف ایک حال میں احمدی عورتیں جمع ہیں اور اس کے ساتھ ایک جگہ میں احمدی مرد جمع ہیں اس گیلری میں میرے ساتھ صرف چند احمدی ہیں اور باقی کچھ لوگ غیر احمدی ہیں جن کو ئیں تبلیغ کر رہا ہوں وہ لوگ شریف معلوم ہوتے ہیں اور میری باتوں الفضل د ا ر ا گست و وحدث

Page 105

کو آرام سے سن رہے ہیں لیکنے چند منٹ ہی تبلیغ کی تھی کہ اس لمبی گیلری کے ایک کنارہ پر سے ایک آواز آئی جو گیلری کے ملحقہ کمرے میں سے آتی ہوئی معلوم ہوتی ہے.چنانچہ میں گیلری کے اس سرے تک گیا جس کے پاس وہ کمرہ تھا جہاں سے آواز آئی تھی میرے ساتھ میرا ایک لڑکا بھی گیا ہے.جو غالبیا ئی کثر مرزا منوارہ ہے جب میں گیلری کے دوسرے سرے تک پہنچا تو اس کے پہلو کے مکرہ میں سے چند مشائخ جنہوں نے مشائخین کا لباس پہنا ہو ا تھا.اور جن کی ساری طریہ وظیفہ پڑھنے والے مشائخین کی سی تھی باہر نکل آئے بڑے بڑے مجھے انہوں نے پہنے ہوئے ہیں اور بڑی بڑی داڑھیاں ہیں ان میں سے جو سردار معلوم ہوتا ہے اس نے میرے ساتھ مصافحہ بھی کیا لیکن مصافحہ کر کے پھر اس نے میرا ہاتھ چھوڑا نہیں بلکہ میرا ہاتھ پکڑے رکھا.سرے علماء جو اس کے ساتھ ہیں انہوں نے میرے گرد گھیرا ڈال لیا اور بعض نے میری کمر کے پیچھے سے ہاتھ ڈال کے اور ہاتھ کو لمبا کر کے مجھے اپنے بازو کی گرفت میں لے لیا اور پھر میری قمیص کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر میرے ننگے جسم کے ساتھ اپنی انگلیاں پیوست کر دیں ان انگلیوں کے ناخن بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اس وقت پینے سمجھا کہ مشائخ کے سردار نے میرا ہا تھے اس لئے پکڑے رکھا تھا کہ میں کہیں چلا نہ جاؤں.اور اس کے دوسرے ساتھیوں نے میری کمر کے گرد اس لئے ہاتھ پیوست کر دیئے ہیں تاکہ مجھے گرفت میں لے آئیں اور مجھے جسمانی وکے پہنچائیں.چنانچہ انہوں نے اس طرح بات شروع کی کہ ہاں بتائیے خدا تعالٰی نے جب موسی کو بھیجا تو ان کو ایک طاقت بخشی اور جب مسیح علیہ السلام کو بھیجا تو ان کو ایک طاقت بخشی اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو ان کو ایک طاقت بخشی.آپ کو خدا تعالے نے کیا طاقت بخشی ہے جب مشائخین کے سردار نے یہ بات کی تو از

Page 106

اس کے ساتھ ہی اس کے ساتھیوں نے بڑے زور شور سے اپنے ناخن میری پسلیوں میں چھونے شروع کئے اور بازووں کو بھینچنا شروع کیا جس سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے زور سے میرے سینہ کی ہاریوں کو توڑنا چاہتے ہیں اور میرے گوشت کو زخمی کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح گویا وہ اپنی دلیل کو مضبوط کر رہے ہیں کہ آپ کو وہ طاقت نہیں ملی ہو نبیوں کو بلا کرتی ہے اسی کے ساتھ اُن میں سے ایک شخص نے زور کے ساتھ مجھے تھپڑ مارا تب میں نے اُن کے جواب میں کہا کہ دیکھو یہ وہی تھپڑ ہے جو موسیٰ کو پڑا تھا یا میں نے کہا عیسی کو پڑا تھا نام کی تعیین مجھے یاد نہیں رہی اور اس کو برداشت کر لینے کی ہی طاقت بنیوں والی طاقت ہوتی ہے.تم نے مجھے بھیج کر اور تھپڑ مارے اور میں نے اُس تھپڑ کو اور اس تکلیف کو صبر اور شکر کے ساتھ برداشت کر کے ثابت کر دیا ہے کہ میں موسی اور میسی اور محمد رسول صلے اللہ وہ علیہ وسلم کا ظل ہوں.وتا اور وہ طاقت جس کا تم مطالبہ کرتے تھے وہ میں نے تم پر ظاہر کر دی ہے.گویا میں ان کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نبیوں کو جو نشان ملتا ہے وہ مار کی طاقت کا نہیں ہوتا صبر اور استقلال کی طاقت کا ہوتا ہے اور وہ صبر اور استقلال کی طاقت خدا تعالے نے مجھ کو بخشی ہے.میں خود نوشی سے ان کے پاس گیا اور ان کی مار کو اور ان کی تکلیف کو برداشت کیا اور یہی وہ نشان ہے جو خدا تعالے کے بندوں کو عطا کیا جاتا ہے.جب میں نے یہ بات کہی.تو یوں معلوم ہوا جیسے آپ ہی آپ اُن کے ہاتھ ڈھیلے ہو گئے اور میں اُن کے پنجہ سے آزاد ہو گیا اور کھڑا ہو گیا اور واپس اپنی جگہ پر گیا ان لوگوں میں سے کسی نے میرا پیچھا نہیں کیا.نہ پھر مجھے پکڑنے یا دکھ دینے کی کوشش کی ہر 5252

Page 107

١٠٢ گیلری میں سے وہ آدمی تو کہیں پہلے گئے ہیں جن کو میں تبلیغ کر رہا تھا لیکن میں سیدھا اس جگہ پر آیا جس کے ایک طرف احمدی عورتیں بیٹھی ہیں اور دوسری طرف مرد بیٹھے ہیں اور جیسے کوئی تقریر کرتا ہے میں نے بلند آواز سے کہا مجھ سے مشائخ نے کہا کہ نبیوں کو تو طاقت کا نشان دیا جاتا ہے تمہیں وہ نشان کہاں ملاہے اور میں نے اس بحث میں نہ پڑنا چاہا کہ میں نے نبوت کا دعوئے کیا ہے یا نہیں.بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کہ نبیوں کے شاگر د بھی تو نبیوں والی برکتیں پاتے ہیں میں اُن کے پاس چلا گیا.اور انھوں نے مجھے پکڑ لیا اور انہوں نے مجھے اور چاہا کہ وہ بالکل ہی مار دیں.اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں موسیٰ اور عیسے مارا اور جو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی طاقتوں کا بھی مظاہرہ کروں تب.میں نے اُن سے کہا کہ موسے اور بیٹے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی طاقت ملی تھی کہ وہ لوگوں کے ظلموں کو برداشت کرتے تھے اور اسی طاقت کا مظاہرہ میں نے تمہارے سامنے کر رہا ہے.تم نے بھی مجھے تھپڑ مارے اور تم مجھ نے مجھ پر جسمانی ظلم کئے جس طست اُن پر کئے گئے تھے.اور جس طرح انہوں نے اس کو خوشی کے ساتھ برداشت کیا اور صبر و استقلال کے ساتھ کام کرتے رہے میں نے بھی وہی نمونہ دکھایا ہے.تب اُن کے ہاتھ ڈھیلے ہو گئے اور لاجواب ہو گئے اور میں اُن کی گرفت سے آزاد ہو گیا.جب میں نے یہ کہا تو تمام سامعین پر ایک مجد وبا نہ کیفیت طاری ہو گئی.اور کیا مرد اور کیا عورت ان سب نے زور سے جیر کا نعرہ بلند کیا گویا وہ خدا تعالے کے اس نشان پر خوش ہوئے کہ وہ مطمئن ہوئے کہ اللہ تعالے نے مجھے وہ جواب سمجھایا جو حقیقی جواب تھا اور ثمین کا منہ اس کی اپنی ہی حرکتوں سے بند کر دیا " والفضل ۲۵ جنوری شاء منه)

Page 108

۱۰۳ حضرت امام جماعیت حدید ید اللہتعالے قاتلانہ جمله گی انہی خبرین ۱۹۳۳ء کا زمانہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں نہایت تکلیف دہ زمانہ ہے کیونکہ بعض بیرونی دشمنوں نے ایک وسیع شورش جماعت کے خلاف برپا کر دی تھی.اور حضور پر حملہ ہونے کا کھٹکا ہر وقت لگا رہتا تھا.یہ دلخراش حالات قائم تھے کہ جماعت کا جلسہ سالانہ آگیا اور اس قسم کے خطرات کو اور بھی زیادہ شدت سے محسوس کیا جانے لگا تب آپ کو یہ رویا دکھایا گیا کہ : ۲۴ یا ۲۵ دسمبر ۱۹۳۵ء کی شب کو میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ جلسہ کے ایام میں مجھ پر حملہ کیا جائے گا اور بعض کہتے ہیں کہ موت انہی دنوں میں ہے.میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ ہے جس سے میں یہ بات پوچھتا ہوں.اُس نے کہا کہ میں نے تمہاری عمر کے متعلق لوح محفوظ دیکھی ہے آگے مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہا.کہ اس نے کہا میں بتانا نہیں چاہتا یا بھول گیا ہوں.زیادہ تر یہی خیال ہے کہ اس نے کہا میں بتانا نہیں چاہتا.لیکن جلسہ کی اور بعد کی دو ایک تاریخیں ملا کہ اس نے کہا کہ ان دنوں میں یہ بات یقینا نہیں ہوگی.اس دن سے میں نے تو بے پرواہی شروع کر دی.اور اگر چہ دوست کئی ہدایتیں دیتے رہے کہ یوں کرنا چاہیے مگر میں نے کہا کوئی حرج نہیں ہے ؟ الفضل ۱۷ جنوری ۳۵اء من کالم (۳) (مرتب) فرشتہ خدا وندی کے جواب سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ حملہ مقدر

Page 109

۱۰۸-۱۰۴ تو ہے لیکن جلسہ کے ایام میں نہیں " میں بتانا نہیں چاہتا؟ اور ان دنوں میں یہ بات یقیناً نہیں ہوگی.ان دونوں فقروں کا بین السطور اس نظریہ کی تائید کہتا ہے.قارئین یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ ۹۳۵لہ سے اس وقت تک جلسہ سالانہ کے ایام میں ہو ہمیشہ کہ سیمس کے آخری ہفتہ میں آتے ہیں آپ حملہ سے محفوظ رہے ہیں اور اگر حملہ کیا گیا تو ۱۹۵۳ء کے وسط میں جبکہ جلسہ سالانہ کے ایام نہیں تھے.بہر حال رویا میں بیان کردہ دونوں پہلو پوری آب و تاب سے پورے ہو چکے ہیں.حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس سے بھی چہار سال قبل اس تعلق میں بعض نظارے دیکھے تھے جن کی تفاصیل بتانے سے گو آپ گریہ فرماتے رہے مگر جماعت کو ایک تقریر میں اشارہ یہ بتا دیا کہ : " پچھلے ہفتہ دو دفعہ میں نے دو رؤیا دیکھے ہیں جن میں ایسے نظارے دکھائے گئے جو مخفی استلام کا پتہ دیتے ہیں.ایک رویا تو میں نے آج سے پانچ دن قبل دیکھا...منذر رویا کا بیان کرنا بعض اوقات اس کے پورا کرنے کا موجب ہو جاتا ہے.لیکن اتنا بتا دیتا ہوں تا کہ دوستوں کی توجہ دعا کی طرف ہو.کہ ایک حملہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کیا گیا اور ایک مجھ پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے مبرم تقریہ بھی ٹل جایا کرتی ہے الفضل یکم جنوری الہ صہ کالم ہے ) قاتلانہ حملہ کی اس صولی شب کے بعد حضور کی مندرجہ ذیل دو رو یا مطالعہ کیجئے :- ا." آج رات میں نے رویا میں دیکھا.ایک خیمہ سا معلوم ہوتا ہے میں اس کے اندر بیٹھا ہوں.اس جگہ میاں بشیر احمد صاحب بھی ہیں.اور ایک باہر سور آئے ہوئے کوئی غیر احمد ی صوفی بھی ہیں.میرا خیال ہے وہ خواجہ حسن نظامی صاحب تھے

Page 110

1-9 -۲ اتنے میں دروازہ کھلا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کچھ سکھ باہر کھڑے ہیں اور وہ دروازہ میں سے اندر جھانک رہے ہیں وہ سکھ کچھ حیران سے معلوم ہوتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں یہ شہر شہ ہور ہوئی تھی کہ مجھ کو سانپ نے ڈس لیا ہے اور اس کے ڈسنے سے میری موت واقع ہو گئی ہے وہ بار بار جھانکتے اور مجھے دیکھتے ہیں اور مجھے دیکھے کہ وہ بڑے حیران ہوتے ہیں کہ میں تو بالکل خیریت سے بیٹھا ہوں.وہ بہت متاثر ہیں لینے ان کو بلایا اور کہا اندر آ جائیں وہ اندر آگئے تو سینے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے.آپ لوگ کیوں یہاں آئے ہیں وہ کہتے ہیں ہم نے سُنا تھا کہ آپ کو سانپ نے ڈس لیا ہے اور ہم نے آپ کے متعلق بری بری باتیں سنی تھیں جس وجہ سے ہم سخت گھبرائے ہوئے تھے مگر آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور اس قسم کے الفا بھی انہوں نے کہے کہ پر میشور کی بڑی دیا ہو گئی ہے سینے ان سے کہا کہ ہاں مجھے سانپ نے تو ڈسا تو تھا مگر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور خیریت رہی “ نے دینے دیکھا کہ میں انکوائری کمیشن کے ہال میں ہوں (گواہی کے بعد کی رؤیا ہے) اس وقت مجھے پر سمجھے سے ایک شخص نے حملہ کیا ہے اور میں گر گیا ہوں مرتب) ان رڈیا کے مطابق - ار مارچ ۵۳ ء کو آپ پر مسجد میں عصر کی نماز کے وقت ایک بد باطن شمن کی طرف سے حملہ کیا گیا اور جیسا کہ بتایا گیا تھا حملہ آور نے پچھلی طرف سے تیز چاقو سے حملہ کیا جس سے آپ شدید زخمی ہوئے اور آپ کے کپڑے خون سے تربتر ہو گئے یہ جملہ جیسا کہ ڈاکٹروں کی رائے میں نہایت الفضل ۱۲ نومبر سر کالم -۱-۲- سلة الفضل با ۲ ستمبر شده ۴۰۳

Page 111

11.شدید حملہ تھا جس سے جانبر ہونا بظاہر نا ممکن تھا.ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب نے جو میو ہسپتال کے مشہور ڈاکٹر ہیں اور لاہور سے خاص پیغام پر معائنہ و علاج کے لئے آئے تھے اپنی طبی رپورٹ میں بتایا کہ زخم کا گھاؤ دو انچ سے بھی زیادہ ہے جو گردن کی اس بڑی رگ تک پہنچ گیا ہے جسے انگریزی میں gular vein مالی ، کہتے ہیں اوسط درجے کی دو شریانیں بھی کٹ گئی ہیں اور ان سے خون نکل رہا ہے اس طرح چاقو کی تیز دھار شاہ رگ سے صرف دو ایک بال کے فاصلہ پر رہ گئی ہے ورنہ اس کا کٹ جانا ضروری تھا.چاقو کا شاہ رگ کے قریب پہنچ کر رک جانا بتاتا ہے کہ عین اس وقت جبکہ شیطان اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کیا ہی چاہتا تھا کہ خدا کے فرشتے درمیان میں حائل ہو گئے.سفر یورپ 1200 کے بارہ میں رویا پہلے سفر یورپ کے تئیس سال بعد د جس کا تذکرہ اوپر آچکا ہے، آپ کو ۱۹۵۵ء میں دوسرا سفر کرنا پڑا.یہ سفر آپ نے از خود اختیار نہیں کیا بلکہ قدرت کی طرف سے ہی ایسے سامان پیدا ہوئے کہ آپ کو اچانک ہی بغیر کسی ذاتی خواہش یا ارادہ کے مجبورا اس طویل سفر پر روانہ ہونا پڑا.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ۲۶ فروری 12 ء کو پونے سات بجے شام آپ کے دائیں جانب فالج کا حملہ ہوا جس کے اکثر وبیشتر انزات اگر چه مچھر نہ رنگ میں صبح تک زائل ہو گئے تاہم باقی ماندہ عوارض کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ آپ بغرض علاج اپنے اہل وعیال اور مختصر دفتری محلہ کو لے کر یورپ تشریف لے جائیں.چنانچہ حضور اپنے اہلبیت اور بعض قدام سمیت

Page 112

اپریل کی درمیانی شب کو بذریعہ ہوائی جہاز سفر یورپ کے لئے روانہ ہوئے اور دمشق بیروت اور جینوا میں قیام کرتے در مئی کو زیورک پہنچے جہاں ڈاکٹر پروفیسر روزئیر نے حضور کا متعدد بار معائنہ کیا اور مشہور معالج ڈاکٹر جو سینو نے اپنی مفصل رپورٹ میں بتایا کہ گذشتہ سال کے حملہ کے نتیجہ میں جو زخم لگا تھا وہ بے حد خطر ناک تھا ایکسرے فوٹو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جانو کی لوک گردن میں ٹوٹ گئی تھی جو اب بھی اندر موجود ہے اور ریڑھ کی ہڈی کے قریب ہے وہ گذشتہ خطرناک حملہ سے محفوظ رہنے پر سخت حیرت زدہ ہونے اور انہوں نے صاف اقرار کیا کہ اس حملہ سے آپ کا بچ نکلنا ایک معجزانہ رنگ رکھتا ہے.زیورک میں ۳۰ روز قیام کے بعد حضور سوئٹزر لینڈ اٹی.ہالینڈ اور جرمنی کی سیر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ۲۹ جون کو لنڈن پہنچے جہاں ایک ماہ چوبیس دن قیام کے بعد واپس زیورک تشریف لائے اور ڈاکٹر روز پیر کے تسلی بخش معائنہ کے بعد ۲۵ ستمبر نشہ کو ریوہ رونق افروز ہوئے اور اس طرح یہ مبارک سفر بصد برکت اختتام پذیر ہوا.ان تفصیلات کو سامنے رکھ کر اب حضرت امام جماعت احمدیہ کی مندرجہ ویل دور ویا کا دجن میں سے ایک شہ ء میں اور دوسری ۱۹۳۹ء میں دکھائی گئی مطالعہ فرمائے.آپ دیکھیں گے کہ ان میں اس سفر کے متعدد پہلو موجود ہیں 1 آج رات یعنی 2014 استمبر ۴۵ کی درمیانی رات کو قریبا دو تین بچے میں نے دیکھا کہ میں ہوائی جہاز پر سوار ہوں.اور انگلستان جا رہا ہوں.رات کو سینے بہت دُعا کی اور جب سویا تو ایک رؤیا دیکھا.سینے دیکھا کہ جیسے میں کسی غیر ملک میں ہوں میرے ساتھ خاندان کی بعض مستورات له الفضل ٢١ ستمبر راء من

Page 113

۱۱۲ بھی ہیں.اور بعض مرد بھی خواب میں میں سمجھتا ہوں جیسا کہ میں انگلستان میں ہوں اور فرانس سے ہو کہ مشرق کی طرف آرہا ہوں.ہم ریل پر سوار ہونے کے لئے پیدل جا رہے ہیں.ریل کے سفر کے بعد جہاد پر چڑھنے کا خیال ہے چلتے ہوئے ہم ایک خوبصورت چوک میں پہنچے.جہاں ایک عالیشان مکان ہے اور اس کا مالک کوئی انگریز ہے مجھے کسی نے آکر کہا کہ اس کا مالک اور اس کی بیوی آپ سے چند منٹ بات کرنا چاہتے ہیں.اگر آپ تھوڑی سی تکلیف فرما کر وہاں چلیں تو بہت اچھا ہو ئی نے اس سے ملنا منظور کر لیا اور میں بھی اور میرے ساتھ کی مستورات بھی اس مکان میں گئیں عورتیں جاکر اس کی بیوی کے پاس بیٹھ گئیں اور باتیں کرنے لگیں اور میں اس آدمی کے ساتھ باتیں کرنے لگا مختلف علمی باتیں ہوتی رہیں گفت کو کوئی مذھبی نہیں تھی بلکہ علمی تھی.مثلاً یہ کہ مستشرقین یعنی عربی دان انگریز کون کون سے ہیں.نیز بعض تمدنی تحقیقاتوں کے متعلق باتیں ہوتی رہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس جگہ کو چھوڑ کر تھوڑے فاصلہ پر ہی دوسری جگہ پر جابیٹے ہیں اُس جگہ کی تبدیلی کی کوئی وجہ مجھے معلوم نہیں.شائد اندھیر تھا.اور ہم روشنی میں آنا چاہتے تھے.اس جگہ اُن لوگوں میں سے ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عربی پر اعتراض کرنے شروع کر دیئے اور نتیجہ یہ نکالا کہ یہ شخص ما مورکس طرح ہو سکتا ہے.اس وقت مجھے یہ احساس ہے کہ اُن میں سے ایک شخص احمدیت سے متاثر ہوچکا ہے اور یہ لوگ اس لئے نہیں آئے کہ خود تحقیق کریں بلکہ اُن کی غرض یہ ہے کہ اسے خراب کریں.

Page 114

١١٣ لیکن لینے دیکھا کہ اُس کے چہرہ پر یقین اور سرور کے آثار ہیں جب اس کی نظر میری نظر سے ملی تو اس نے ہاتھ اکٹھا کر کہا کہ اچھا آپ سورۃ فاتحہ پڑھ کر دعا کریں.اور میں دعا شروع کرتا ہوں وہ لوگ بھی میرے ساتھ دعا میں شریک ہوئے ہیں مگر کچھ دیر کے بعد ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں لینے جب دعا ختم کی.تو وہ شخص میرے سامنے آیا اور اپنا سر زمین پر اس طرح رکھ دیا کہ ایک کلہ نیچے اور دوسرا اوپر کی طرف بے زمین پر لیٹ گیا وہ رو رہا ہے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر پھیرتا ہے گویا برکت حاصل کر رہا ہے اس پر میری آنکھ کھل گئی" الفضل ۶ ارجون ۳۹اء 20-4-2 کالم ) (مرتب) خواب کے آخری حصہ میں بتایا گیا تھا کہ آپ کے سفر سے کئی سعید روحوں کو ہدایت نصیب ہوگی چنانچہ یہ عجیب بات ہے کہ اس مختصر سفر میں جو محض علاج معالجہ کی غرض سے کیا گیا تھا..یوگوسلاویہ.جرمنی.مالٹا اور سوئیٹزر لینڈ کی چار اہم شخصیتیں حضور کے دست مبارک پر بیعت کر کے حلقہ بگوش اسلام ہوئیں.سبعیت کرنے والوں میں کامل یونیورسٹی کے پروفیسر اور مشہور مستشرق ڈاکٹر ز بیر لٹاک خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو عشاء ک سالانہ جلسہ کی تقریب پر ربوہ کی زیارت طور پر جوش کی پر ریوہ کی زیارت بھی کر چکے ہیں.

Page 115

۱۱۴ زیورک میں جماعت ربوہ کی درد انگیز دعاؤں کا نظارہ جب حضور تعداد میں زیورگ میں تشریف فرما تھے تور بوہ میں حضور کی صحتیابی کے کے بڑے سوز و گداز سے دعائیں کی گئیں جن کا نظارہ حضور کو زیورک میں دکھایا گیا.چنانچہ حضور نے سفر یورپ کے دوران ہی میں الفصل" کو یہ رویا و بفرض اشاعت ۲۳ اور ۲۴ مئی کی درمیانی رات کو بیٹے رویا میں دیکھا کہ ہزاروں ہزار آدمی جماعت کے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں اور میرے لئے دعا کر رہے ہیں وہ اتنا دردناک نظارہ تھا کہ اس سے میرا دل ہل گیا اور میری طبیعت پھر خراب ہو گئی.یہی وجہ تھی کہ با وجود ارادہ کے میں عید پڑھانے نہیں جاس کا چونکہ اس رویا کی میرے دل پر ایک دہشت تھی اور اب بھی اس کا نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے میں سفر میں اس رویا کو یکھ کر بھیجوانا پسند نہیں کرتا.اس عرصہ میں جو ربوہ سے خلوط آئے ہیں ان میں بھی یہ لکھا ہوا تھا کہ آخری رمضان کی شام کو جو دعا کی گئی وہ ربوہ میں ایک غیر معمولی دعا تھی اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا عرش بھی مل گیا ہے ان خطوں میں بھی گویا میری رویا کا نقشہ کھینچا گیا تھا.جزى الله ساکنی ربوة خيرا و الفضل ۱۴ جون شاشه حت کالم کا خواب ) صحت کے متعلق الہی خبر 1 نومبر شہء میں فرمایا :- " مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ میری صحت کا دار و مدار دوستوں کی دعاؤں پر ہے الفضل ۱۸ نومبر ہ منہ کالم ۳۰-۳۲ )

Page 116

۱۱۵ (چنانچہ اس خبر کے مطابق آپ کی صحت میں فورا انقلاب پیدا ہوا جس کا اظہار فرماتے ہوئے آپ نے جلسہ سالانہ پر فرمایا :- کئی دفعہ ایسے وقت بھی آتے ہیں کہ نماز بالکل ٹھیک پڑھتا ہوں اور کوئی بات نہیں بھولتی ہیں سمجھتا ہوں کہ یہ محض دعاؤں کا نتیجہ ہے اور دعاؤں کے ساتھ ہی اس کا تعلق ہے مجھے خدا تعالٰی نے خواب میں بھی یہی بتایا ہے.الفضل از فروری شے کا لمن - -۲ ۲۹ جولائی شیاء کو ۵ بجے صبح مری میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الفاظ حضور کی زبان پر جاری ہوئے کہ :- الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے تو مجھے بالکل اچھا کر دیا.مگر میں اپنی بدظنی اور مایوسی کی وجہ سے اپنے آپ کو بیمار سمجھتا الفضل در اگست شش ما ہوں.جن ایام میں یہ الہام نازل ہو ا حضور کی طبیعت سخت مضمحل رہتی تھی جس کی حلفیہ شہادت حضور کے قریب رہنے والے خدام دے سکتے ہیں مگر اس کے بعد جلدی یہ کیفیت زائل ہو گئی.اور مسلسل یہ خبریں آنے لگیں کہ حضور کی طبیعت اچھی ہے جو حضور کی زندگی میں ایک غیر معمولی بات تھی.

Page 117

..All

Page 118

116 باب دوم اس باب میں حضرت المصلح الموعود ید اللہ تعالی نبض الحديد کے وہ کشوف والہامات درج ہونگے جو حضرت مسیح مولد علیہ السلام حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ اور خاندان حضرت مسیح موجود کے افراد کے ذریعہ سے پورے ہوئے.M

Page 119

HA باب دوم حضرت مسیح موعود کے انتقال کی خبر فرمایا " جس رات کو حضرت صاحب کی بیماری میں ترقی ہو کر دوسرے دن آپ نے فوت ہونا تھا میری طبیعت پر کچھ ہو مجھے سا معلوم ہوتا تھا.میرا دل افسردگی کے ایک گہرے گڑھے میں گر گیا اور یہ مصرع میری زبان پر جاری ہو گیا راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو رات کو ہی حضرت صاحب کی بیماری یکدم ترقی کر گئی اور صبح آپ فوت ہو گئے " تقدیر اپنی تقریر فرموده جلسه سالانه شراء طبع اول ص۱۸۹-۱۹۰ حضرت خلیفہ المسیح اول کے انتقال سے متعلق تفصیلی خبریں ای قریبا تین چار سال کا عرصہ ہوا جو سینے دیکھا کہ میں اور حافظ روشن علی صاحب ایک جگہ بیٹھے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھے گورنمنٹ برطانیہ نے افواج کا کمانڈر انچیف مقرر فرمایا ہے اور میں سر او مور کرے سابق کمانڈر انچیف افواج ہند کے بعد مقرر ہوا ہوں اور ان کی طرف سے حافظ صاحب مجھے عہدہ کا چارج دے رہے ہیں چارج لیتے لیتے ایک امر پر مینے کہا

Page 120

١١٩ کہ فلاں چیز میں تو نقص ہے میں چارج میں کیونکرے لوں پینے یہ بات کہی تھی کہ نیچے کی چھت پھٹی دہم چھت پر تھے ) اور حضرت خلیفۃ المسیح اول اس میں سے برآمد ہوئے اور میں خیال کرتا ہوں کہ آپ سرا و مور کرے کمانڈر انچیف افواج ہند میں آپ نے فرمایا کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں بلکہ لارڈ کیچز سے مجھے یہ چیز اسی طرح ملی تھی.اس رویا پر مجھے ہمیشہ تعجب ہوا کرتا تھا کہ اس سے کیا مراد ہے اور میں اپنے دوستوں کو سنا کر حیرت کا اظہار کیا کرتا تھا.کہ اس خواب سے کیا مراد ہو سکتی ہے مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ واقعات کے ظہور پر معلوم ہوا کہ یہ رویا ایک نہایت ہی زبردست شہادت تھی اس بات پر کہ حفتر خلیفہ ایسیح کی وفات کے بعد جو فیصلہ ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کی رضا کے ماتحت ہوا ہے چنانچہ حضرت مولوی صاحب کی وفات پر میری طبیعت اس طرف گئی کہ یہ رویا تو ایک عظیم انسان پیش گوئی تھی اور گے اس میں بتایا گیا تھا کہ مولوی صاحب کے بعد خلافت کا کام میرے سپرد ہوگا اور یہی وجہ تھی کہ حضرت خلیفہ اسیج مجھے بلباس سر او مور کرنے کے دکھائے گئے اور افواج کی کمانڈ سے مراد جماعت کی سرداری تھی کیونکہ انبیاء کی جماعتیں بھی ایک فورج ہوتی ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالٰی دین کو غلبہ دیتا ہے اس رویا کی بنار پر یہ بھی امید ہے کہ انشاء اللہ تعالے تبلیغ کا کام جماعت احمدیہ کے ہاتھ سے ہو گا اور غیر مبائعین احمدیوں کے ذریعہ سے نہ ہو گا.الا ماشاء اللہ برکت مبائعین کے کام میں ہی ہوگی.اس رویا کا جب غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہ ایک ایسی زبردست شہادت معلوم ہوتی ہے کہ جس قدر غور کریں اسی قدر عظمت الہی کا اظہار ہوتا ہے اور وہ اس طرح

Page 121

١٢٠ کہ اس رویا میں حضرت مسیح موعود کو لارڈ کچز کے نام سے ظاہر کیا گیا ہے اور حضرت خلیفہ اول کو سر او مور کرے کے نام سے.اور جب ہم دونوں افسروں کے عہدہ کو دیکھتے ہیں تو جس سال حضرت مسیح موعود نے وفات پائی تھی اسی سال لارڈ کچز ہندوستان سے رخصت ہوئے تھے اور سر او مور کرے کمانڈر مقرر ہوئے مگر یہ بات تو پھیلی تھی مجیب بات یہ ہے کہ میں سال اور جس مہینہ میں سر او مور کرے ہندوستان سے روانہ ہوئے ہیں اسی سال اور اسی مہینہ یعنی مارچ 191 ء میں حضرت خلیفہ اسیح فوت ہوئے اور مجھے اللہ تعالٰی نے اس کام پر مقرر فرمایا.کیا کوئی سعید الخطرات انسان کہہ سکتا ہے کہ یہ رویا شیطانی ہوسکتی تھی یا کوئی انسان اس طرح دو تین سال قبل از وقوع ایک بات اپنے دل سے بنا کر بتا سکتا ہے ؟ کیا یہ ممکن تھا کہ میں دو سال پہلے یہ سب واقعات اپنے دل سے گھڑ کر لوگوں کو شنا دنیا اور پھر وہ صحیح بھی ہو جاتے ؟ یہ کون تھا جس نے مجھے بتا دیا کہ حضرت مولوی صفا مارچ میں فوت ہو نگے 11 ء میں ہونگے اور آپ کے بعد آپ کا جانشین میں ہونگا کیا خدا تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی ایسا کر سکتا ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں.اس رویا میں یہ جو دکھایا گیا کہ چارج میں ایک نقص ہے اور میں اس کے لینے سے انکار کرتا ہوں تو وہ ان چند آدمیوں کی طرف اشارہ تھا کہ جنہوں نے اس وقت فساد کھڑا کیا.اور اللہ تعالے نے اس رویا کے ذریعہ سے حضرت مولوی صاحب پر سے یہ اعتراض دور کیا ہے جو بعض لوگ آپ پر کرتے ہیں کہ اگر حضرت مولوی صاحب اپنے زمانہ میں ان لوگوں کے اندرونہ سے لوگوں کو علی الاعلان آگاہ کر دیتے اور اشارات پر بھی بات

Page 122

IM نہ رکھتے یا جماعت سے خارج کر دیتے تو آج یہ فتنہ نہ ہوتا اور مولوی صاحب کی طرف سے قبل از وقت یہ جواب دے دیا کہ یہ نقص میرے زمانہ کا نہیں بلکہ پہلے کا ہی ہے اور یہ لوگ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہی بگڑ چکے تھے ان کے بگڑنے میں میرے کسی سلوک کا دخل نہیں مجھ سے پہلے ہی ایسے تھے ( برکات خلافت طبع اول ۲۵ ۲۶ ) شوراء میں میں ستمبر کے مہینہ میں چند دن کے لئے شملہ گیا تھا جب میں وہاں سے چلا ہوں تو حضرت خلیفہ اسیح کی طبیعت اچھی تھی لیکن وہاں پہنچ کر لینے پہلی یا دوسری رات دیکھا کہ رات کا وقت ہے اور قریبا دو بجے ہیں ہیں اپنے کمرہ میں (قادیان میں بیٹھا ہوں مرزاعبدالغفور صاحب دیو کلانور کے رہنے والے ہیں، میرے پاس آئے اور نیچے سے آواز دی میں نے ار کر ان سے پوچھا کہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ حضرت خلیفہ ایسیح کو سخت تکلیف ہے تب کی شکایت ہے ایک سو دو کے قریب تب ہو گیا تھا آپ نے مجھے بھیجا ہے کہ میاں صاحب کو جا کر کہہ دو کہ ہم نے اپنی وصیت شائع کردی ہے مارچ کے مہینہ کے بدر میں دیکھ لیں جب سینے یہ رؤیا دیکھی تو سخت گھبرایا اور میرا دل چاہا کہ واپس لوٹ جاؤں لیکن لینے مناسب خیال کیا کہ پہلے دریافت کرلوں کہ کیا آپ واقع میں بیمار ہیں سوئینے وہاں سے تار دیا کہ حضور کا کیا حال ہے جس کے جواب میں حضر نے لکھا کہ اچھے ہیں یہ سکیا کہنے اسی وقت نواب محمد علی خاں صاحب انہیں مالیر کوٹلہ کو اور مولوی سید سرور شاہ صاحب سنادی تھی اور غالباً نواب صاحب کے صاحبزادگان میاں عبید الرحمن خاں صاحب میاں عبداللہ خاں صاحب میاں عبد الرحیم خان صاحب میں سے بھی کسی نے وہ رویا سنی ہوگی

Page 123

۱۲۲ کیونکہ وہاں ایک مجلس میں سینے اس رویا کو بیان کر دیا تھا.اب دیکھنا چاہیئے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت مجھے حضرت کی وفات کی خبر دی اور چار باتیں ایسی بتائیں کہ جنہیں کوئی شخص اپنے خیال اور اندازہ سے دریافت نہیں کر سکتا.اول تو یہ کہ حضور کی وفات آپ سے ہوگی.دوم یہ کہ آپ وفات سے پہلے وصیت کر جائیں گے.سوم.یہ کہ وہ وصیت مارچ کے مہینہ میں شائع ہوگی.چہارم.یہ کہ اس وصیت کا تعلق بدر کے ساتھ ہوگا.اگر ان چہار باتوں کے ساتھ میں یہ پانچویں بات بھی شامل کر دوں تو نا مناسب نہ ہوگا کہ اس رویا سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس وصیت کا تعلق مجھ سے بھی ہوگا.کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو میری طرف آدمی بھیج کر مجھے اطلاع دینے سے کیا مطلب ہو سکتا تھا یہ ایک ایسی بات تھی کہ جیسے قبل از وقت کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا تھا لیکن جب واقعات اپنے اصل رنگ میں پورے ہو گئے تو اب یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ اس رویا میں میری خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا لیکن چونکہ یہ بات وہم و گمان میں بھی نہ تھی.اس لئے اس وقت جبکہ یہ رویا دکھلائی گئی تھی اس طرف خیال بھی نہیں جا سکتا تھا دبر كانت خلافت طبع اول ۶۹۱۷ - " اس بات کو قریباً تین چار سال کا عرصہ ہوا یا کچھ کم کہ کیسے رویا میں دیکھا کہ میں گاڑی میں سوار ہوں اور گاڑی ہمارے گھر کی طرف جا رہی ہے کہ راستہ میں کسی نے مجھے حضرت خلیفہ اسیج کی وفات کی خبر دی تو میں نے گاڑی والے کو کہا کہ جلدی دوڑاؤ تائیں جلدی پہنچوں یہ رویا بھی کہنے حضرت کی وفات سے

Page 124

۱۲۳ پہلے ہی بہت سے دوستوں کو سُنادی تھی جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:- تو آب محمد علی خان صاحب مولوی سید سرور شاہ صاحب شیخ یعقوب علینا حافظ روشن علی صاحب اور غالباً ماسٹر محمد شریف صاحب کی اے پلیڈ ر چیف کورٹ لاہور کہ مجھے ایک ضروری امر کے لئے حضرت کی بیماری میں لاہور جانے کی ضرورت ہوئی اور چونکہ حضرت کی حالت نازک تھی سینے جانا مناسب نہ سمجھا اور دوستوں سے مشورہ کیا کہ میں کیا کروں اور ان کو بتایا کہ میں جانے سے اس لئے ڈرتا ہوں کہ سینے رویا میں گاڑی میں سواری کی حالت میں حضرت کی وفات دیکھی ہے پیس ایسا نہ ہو کہ یہ واقعہ ابھی ہو جائے نہیں لیتے یہ تجویز کی کہ ایک خاص آدمی بھیجبکہ اس ضرورت کو رفع کیا.لیکن منشائے الہی کو کون روک سکتا ہے چونکہ حضرت نواب صاحب کے مکان پر رہتے تھے میں بھی وہیں رہتا تھا اور وہیں سے جمیعہ کے لئے قادیان آتا تھا جس دن حضور فوت ہوئے میں حسب معمول جمعہ پڑھانے قادیان آیا اور جیسا کہ میری عادت تھی نماز کے بعد بازار کے راستہ سے واپس جانے کے تیار ہوا کہ اتنے میں نواب صاحب کی طرف سے پیغام آیا کہ وہ احمدیہ محلہ میں میرے منتظر ہیں اور مجھے بلاتے ہیں کیونکہ انہوں نے مجھے سے کچھ بات کرنی ہے میں وہاں گیا تو ان کی گاڑی تیار تھی اس میں وہ بھی بیٹھ گئے اور میں بھی اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسسٹنٹ سرجن بھی ہمارے ساتھ تھے گاڑی آپ کی کوٹھی کی طرف روانہ ہوئی اور میں وقت اس سڑک پر چڑھی جو مدرسہ تعلیم الاسلام کی گراؤنڈز میں تیار کی گئی ہے تو آپ کا ایک ملازم دوڑتا ہوا آیا کہ حضور فوت ہو گئے اس وقت میں بے اختیا ہو کر آگے بڑھا اور گاڑی والے کو کہا کہ گاڑی دوڑاؤ اور جلد پہنچاؤ اسی وقت نواب صاحب کو وہ رویا یاد آئی اور آپ نے کہا کہ وہ رویا پوری ہو گئی.

Page 125

۱۲۴ یہ رویا ہستی باری کا ایک ایسا نہ بر دست ثبوت ہے کہ سوائے کسی ایسے انسان کے جو شقاوت کی وجہ سے صداقت ماننے سے بالکل انکار کر دے ایک حق پسند کے لئے نہایت رشد اور ہدایت کا موجب ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان خدا تعالے کے فیصلہ سے بچنے کی لاکھ کوشش کرے تقدیر پوری ہو کر ہی رہتی ہے پینے جس خوف سے لاہور کا سفر ملتوی کرنے کا ارادہ کیا تھا وہ امر قادیان ہی میں پورا ہوا برکات خلافت سلام طبع اول ۴۵۳۲۰ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی ولادت کی خبر حضرت امام جماعت احمدیہ نے ۲۶ ستمبر شاء کو ایک احمدی کے نام ایک مکتوب میں لکھا کہ : " مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گا.....والسلام خاکسار مرزا محمو و احمد اله اس پیشگوئی کے مطابق آپ کے ہاں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب تولد ہوئے اور جیسا کہ حضور کو خبردی گئی تھی آپ ہوش سنبھالتے ہی اپنے تئیں مدیریت اسلام کے لئے وقف ہو گئے.آپ نے جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کی بین الاقوامی تنظیم مجلس خدام الاحمدیہ کی برسوں تک کامیاب قیادت کی.اور ہر نے اس خط کا عکس الفصل" "مرا اپریل 2 پر شائع ہوا.

Page 126

۱۲۵ اہم دینی تحریک میں قوم کا ہاتھ بٹاتے ہوئے اسلامی روح کا شاندار نمونہ پیش کیا جو احمدی نوجوانوں کے لئے ہمیشہ مشعل راہ کا کام دے گا.آپ نے ایم اے کی ڈگری آکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی ہے اور اقتصادیات میں بڑی باریک نظر رکھتے ہیں.علوم اسلامیہ کے ماہر ہونے کے علاوہ قرآن مجید کے حافظ بھی ہیں لیکن آپ کی شخصیت میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے تو وہ خدمتِ دیں کا پاکیزہ جذبہ ہے.صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی پیدائیش کے متعلق رویا فرمایا : جب میرا لڑکا منور احمد پیدا ہوا.سینے رویا میں دیکھا کہ منارہ پہلا ہے اور اس کی اوپر کی منزل اُتر کر ہمارے گھر میں آگئی ہے اور بغیر کسی نقص کے سیدھی کھڑی ہو گئی ہے.پہلے تو مجھے تشویش پیدا ہوئی.مگر اس رویا کے بعد میرے گھر یہ لڑکا پیدا ہوا اور اسی لئے لیکنے اُس کا نام منور احمد رکھا.کہ اس کی پیدائیش سے پہلے کتنے دیکھا تھا کہ منارہ اسیج کے اوپر کی منزل اڈہ کر ہمارے گھر میں آکھڑی ہوئی ہے.(الفضل اور اپریل ۱۹۲۳ء سے کالم ۳-۲) صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب کی ولادت کی خبر فرما با میں نے سیدہ امتہ ابھی صاحب کہا گہ جانے دو.یہ بلا وجہ ہے اور یہ خوشخبری سن لو.بریکوٹ کے اندر تین الفاظ کا جز نہیں.اندرین)

Page 127

١٢٩ کہ تمہارے ہاں لڑکا پیدا ہوگا جو بہت با اقبال ہو گا.پہلے ان سے لڑکیاں ہوئی تھیں.مگر اسی ماہ میں جس میں یہ گفتگو ہوئی حل ہوا اور لڑکا پیدا ہو اجس کا نام خلیل احمد رکھا گیا ہے.واختبار الفصل مورخه ۸ در ایریل شا و ست کالم (۲) ۱۹۲۵ حرم ثانی حضرت سید امتہ الحی حضرت میر ناصر نوا ہے اور اپنے ایک بچے کی وفات کے متعلق رویا ا پیشہ اس کے کہ میں سفر یورپ کے لئے رخصت ہوتا.سینے دیا اور آخارہ کیا جس میں مجھے بتلایا گیا کہ میری دو بیویوں کو بعض صدمات پہنچنے والے ہیں چنانچہ استخارہ کے دنوں میں بھی سینے رویا دیکھیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ کچھ ابتدار اور مصائب پیش آنے والے ہیں.استخارہ کے ایام میں لینے دیکھا کہ مکان گر رہے ہیں بڑا سخت و حتما کہ ہوا اور بجلی کی طرح آواز آئی.جب سینے دیکھا تو وہ میری پہلی اور دوسری بیوی کے مکان تھے جو دھڑا دھڑ گر رہے تھے اور ابھی یہ نظارہ میں دیکھ رہا تھا کہ یک لخت وہ مکان بننے بھی شروع ہو گئے اور پہلے سے بہت زیادہ عمدہ اور اعلیٰ بنے ہیں.ایک مکان کی تیاری میں تو کچھ آدمی کام کرتے نظر آتے ہیں اور ایک بغیر آدمیوں کی مدد کے بنا ہے وہ میری دوسری بیوی کا مکان تھا اور اس میں اس کی وفات کی خبر دی گئی تھی.اور جس میں آدمی کام کر رہے تھے جن میں ایک شیخ عبد الرحمن صاحب قادیانی تھے اور ایک شیخ فضل الہی.وہ میری پہلی بیوی کا مکان تھا یہ نام بھی بہت عمدہ ہیں جو ندا کے فضل اور رحم پر دلالت ۱۹۲۲ء کا پہلا سفر یورپ مراد ہے (مرتب)

Page 128

۱۲۷ کرتے ہیں اس میں کسی ایسی تکلیف کی طرف اشارہ تھا جس کے ازالہ کے لئے انسانی کوشش اور سعی کو دخل ہے.چنانچہ کل میری پہلی بیوی کا لڑکا فوت ہو گیا اور لڑکوں کی قائمقام مائیں ہو سکتی ہیں لیکن ماؤں کے قائمقام بچے نہیں ہو سکتے.اس لئے مجھے دوسری بیوی کے مکان کی تیاری میں آدمیوں کو کام کر نہیں دکھایا گیا.اس کی تیاری محض خدا کے فضل پر منحصر ہے.یہ رویا جس دن کتنے دیکھی اسی روز مینے اپنی دوسری بیوی کوشنا بھی دی اور اسی کے گھر میں سینے یہ خواب دیکھی تھی اور بھی کئی رؤیا ان مصائب اور مشکلات کے متعلق ہوئیں " اخبار الفضل مورخه ۲۵ دسمبر ۱۹۳۷ء ص ۶۰ کالم ۱۳۴).اور پھر راستہ میں بھی متواتر کینے ایسی خواہیں دیکھیں.میر صاحب کو تند دست دیکھا جس کے معنے موت کے ہیں کیونکہ بڑھاپے سے تندرستی بعد الموت ہی حاصل ہو سکتی ہے پھر جب واپس آیا اس وقت سینے دیکھا کہ میری ایک بائیں ڈاڑھ ہل گئی اور تعبیر میں ڈاڑھ سے مراد عورت ہوتی ہے.پھر جہاز میں جاگتے ہوئے ایک عورت کی زور زور کے ساتھ چیخوں کی آواز سنی اور وہ تاریخ رہی تھی جس میں میری دوسری بیوی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا پینے جہاز کے سوراخوں سے دیکھا کہ کیا کوئی جہاز آ رہا ہے جس سے یہ آواز آئی یا کوئی خشکی قریب ہے لیکن سمندرمیں بالکل خموشی تھی.اور سینکڑوں میل تک اس تاریخ کو کوئی جہاز نہ تھا اور خشکی بھی ایک طرف تو سینکڑوں میل اور دوسری طرف ہزاروی میل دور تھی تب کیسے سمجھا کہ کوئی حادثہ ہوا ہے یا ہونے والا ہے.بیتے حافظ روشن علی صاحب سے بھی اس واقعہ کا ذکر کیا کہ اس طرح تین چار دفعہ سینے سے چیخوں کی آواز شنی ہے اور یہ بھی حافظ صاحب سے سینے کہا کہ آواز عورت کی تھی.ا پہلے سفر یورپ کی اشارہ ہے (مرتب) اخبار الفضل مورخه ۲۵ دسمبر سا عمل کالم )

Page 129

۱۲۸ حضرت سید عبدالستار شاہ صاحبت کے انتقال کی خیر (حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب کی وفات سے دو اڑھائی مہینے پہلے کی بات ہے سینے ڈلہوزی میں ایک رویا دیکھا کہ کوئی شخص نہایت گھیرائے ہوئے الفاظ میں کہتا ہے دورو دور و قادیان میں ایک ایسا شخص فوت ہوا ہے جس کے فوت ہونے نے سے زمین اور آسمان ہل گئے.جب میری نظر اٹھی تو سینے دیکھا کہ واقعی آسمان بل رہا ہے اور مکان بھی چل رہے ہیں گویا ایک زلزلہ آیا ہے میرے قلب پر اس کا بیڑا اثر ہوا میں گھبرا کر پوچھتا ہوں کہ کون فوت ہوا ہے تو کوئی شخص تسلی دینے کے لئے کہتا ہے ہندوؤں میں سے کوئی قوت ہوا ہو گا سینے کہا.ہندوؤں میں سے کسی سے فوت ہونے کے ساتھ زمین اور آسمان کے ہلنے کا کیا تعلق.وہ کہنے لگا کہ ہندوؤں کا زمین و آسمان بل گیا ہو گا.اس وقت جیسے کوئی شخص کی حاصل کرنے کے لئے " ایسے الفاظ پر مطمئن ہونا چاہتا ہے.میں بھی ممکن ہونا چاہتا ہوں مگر پھر گھبراہٹ میں کہتا ہوں چلو دیکھیں تو سہی.اسی گھراہٹ میں تھا کہ آنکھ کھل گئی.چند ہی دنوں بعد مولوی عبداستار صاحب بیمار ہوگئے اور اب جبکہ وہ فوت ہو چکے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ رویا ہے حرم ثالث حضرت سید مریم بنیم کی وفات کے متعلق رؤيا حضور کے حرم ثالث حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ کا ہار جنوری ۱۹۲۰ء کو پریشی ہوا جو ہر لحاظ سے کامیاب تھا لیکن مشیت ایزدی انہیں اپنے پاس بلا لینے کا فیصلہ کر چکی تھی اس لئے آپ در مارچ ء کو حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے انتقابل فرما گئیں.الفضل ٣ / نومبر ۳۳ م )

Page 130

۱۳۹ اس حادثہ عظیمہ کے متعلق بھی آپ کو بذریعہ رویا خبر دی گئی جو من وعن پوری ہوئی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں..آج سے بارہ سال پہلے پینے دیکھا کہ اقم ظاہر احمد کا اپریشن ہوا ہے.اور مجھے اطلاع ملی ہے کہ اُن کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے.رافضل میں راج کی ہے حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے انتقال کی خیر حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ جو حضور کے چھوٹے ماموں اور جماعت میں چوٹی کے مفکر اور صاحب علم و فراست بزرگ تھے ، اور مارچ ۱۳ کو اچانک رحلت فرما گئے آپ کی وفات کے متعلق بھی حضور کو قبل از وقت خبر دی گئی چنا نچہ فرماتے ہیں ابھی میر محمد اسحاق صاحب کی وفات سے پہلے جب میں لاہور گیا ہوا تھا تو بدھ کے دن کینے ایک رؤیا دیکھا.جو اسی دن کتنے لاہور کے بعض دوستوں کو سنا دیا.دوسرے دن جمعرات کو ہم واپس آگئے تھے اور اُسی شام کو بیمار ہو کر وہ دوسروں وفات پاگئے.میں اس روز کھانا کھا کر لیٹا ہی تھا کہ نیم غنودگی کی سی کیفیت مجھ پر طاری ہو گئی.اور سینے دیکھا کہ حضرت ام المومنین کہہ رہی ہیں تالے کیوں نہ کھول لئے.اور میں اُن کو جواب دیتے ہوئے کہتا ہوں کس کی طاقت ہے کہ خدا تعالیٰ کی اجازت کے بغیر تالے کھول کے چنانچہ آتے ہی میر محمد اسحاق صاحب بیمار ہوئے اور وفات پاگئے.حضرت ام المومنین کا یہ فرمانا کہ تالے کیوں نہ کھول لئے یہ بتاتا تھا کہ کوئی ایسا واقعہ ہوگا جس کا ان کے ساتھ تعلق ہوگا.اور جس میں ہمیں ناکامی ہوگی ہو چنانچہ دعاؤں اور علاج سے کوئی فائدہ نہ ہوا اور میر صاحب انتقال کر گئے.الفضل ۲۵ جون ۱۹۴۲ مٹ کالم ۳-۳۴۰

Page 131

۱۳۰ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے انتقال کے متعلق رویا حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب حضور کی ایک حرم کے چچپ تھے اور جماعت احمدیہ کے ایک علمی ادارہ کے نگران اعلیٰ کے فرائض نہایت کامیابی کے ساتھ سرانجام دے رہے تھے کہ ۵ار دسمبر 190 ء کو اچانک انتقال فرما گئے.مندرجہ ذیل رویا میں ان کی وفات کی پہلے سے خبر دی گئی جو تین دن کے اندر پوری ہوئی." پانچ دن کی بات ہے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات رات دیعنی ۱۲ اور ۱۳ دسمبر شهرء کی درمیانی شب) سینے دیکھا کہ سید محمود اللہ شاہ صاحب مجھے ملنے آئے ہیں.میں اور وہ بیٹھے ہیں پاس ہی غالباً میری و بیوی بھی ہیں جو محمود اللہ شاہ صاحب کی بھتیجی ہیں یعنی مہر آیا.انہوں نے مجھے سے مخاطب ہو کر کہا کہ میری طبیعت آج اتنی خراب ہو گئی ہے کہ لینے سکول کے لڑکوں سے کہہ دیا ہے کہ ادھر اُدھر دور نہ جایا کرو.کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے پیچھے کوئی واقعہ ہو جائے اس طرح میں آپ سے بھی کہتا ہوں کہ اگر آپ کا کہیں باہر جانے کا ارادہ ہو تو مجھے رخصت کر کے جائیں اور رخصت کے معنی میں اس وقت رویا میں جنازہ کے سمجھتا ہوں “ کینے آنکھ کھلتے ہی اس رؤیا کا آخری حصہ اہم متین کو بتا دیا

Page 132

۱۳۱ جن کی باری اس رات تھی.لڑکوں والے حصہ کا لینے ان سے ذکر نہیں کیا جس وقت یہ رویا ہوا اس وقت خیال بھی نہیں تھا کہ ان کی موت اتنی قریب ہے.اس رؤیا کے تیسرے دن ان کو (تصر مباسر THROM Bogi8) کا حملہ ہوا جو ان کی موت کا باعث ہو گیا " و الفضل ۲۲ دسمبر بشه ۶ ) حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی وفا کے بارہ میں رویا فرمایا سندھ جانے سے پہلے پینے رویا میں دیکھا کہ : میری ایک داڑھ گر گئی ہے مگر وہ میرے ہاتھ میں ہے اور میں اسے دیکھ کر تعجب کرتا ہوں کہ وہ اتنی بڑی جسامت کی ہے کہ دو بڑی داڑھوں کے برابر معلوم ہوتی ہے میں خواب میں بہت حیران ہوتا ہوں کہ اتنی بڑی داڑھ ہے اسے دیکھتے دیکھتے میری آنکھ کھل گئی چونکہ ڈاڑھ کے گرنے کی تعبیر کسی بزرگ کی وفات ہوتی ہے اور چونکہ منذر خواب کا بیان کرنا منع آیا ہے سینے یہ رو یا بیان نہیں کی لیکن جب سندھ کے سفر میں حضرت اُم المؤمنین کی بیماری کی خبریں آنی شروع ہوئیں تو اس رویا کی وجہ سے مجھے زیادہ تشویش ہوئی اور گو ابتدا ان کی بیماری کی خبریں ایسی تشویشناک نہیں تھیں لیکن اس رویا کی وجہ سے چونکہ مجھے تشویش تھی سینے انتظام کیا.کہ روزانہ ان کی بیماری کے متعلق نظارت علیا کی طرف سے بھی اور میرے --

Page 133

١٣٢ گھر کی طرف سے بھی الگ الگ تاریں پہنچ جایا کریں چنانچہ آخر میں وہی بات ثابت ہوئی کہ وہ مرض جیسے پہلے معمولی ملیر یا سمجھا گیا تھا آخر ان کے لئے مہلک ثابت ہوا ہے خواب میں جو ڈاڑھ کو دھو ڈاڑھوں کے برابر دکھایا گیا اس سے اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام المومنین ہمارے اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی قائم مقام تھی اور اپنی بھی قائم مقام تھیں اور گو بظاہر وہ ایک نظر آتی تھیں لیکن در حقیقت ان کا وجود دو کا قائم مقام تھا.ا اللہ تعالیٰ اس خلا کو جو پیدا ہو گیا ہے اسے اپنی رحمت اور فضل سے پر الفضل و ر جولائی شد ۳ ) کرے.ه حضرت ام المومنین نور اللہ مرقدها ۱۲۰ اپریل ۵۷ ما سوا بارہ بجے شب کو مولائے حقیقی کے دربار میں پہنچی تھیں.(مرتب)

Page 134

باب سوم زیر نظر باب میں حضرت مصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ کے ان آسمانی نشانوں کا ذکر ہے جو جماعت احمدیہ کے متعلق ظاہر ہوئے

Page 135

۱۳ مقدمہ مارٹن کلارک کے متعلق خبر فرمایا.جہاں پر حضرت مسیح موعود نے اور دوستوں کو ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ کے دوران میں دعا کے لئے فرمایا.وہاں مجھے بھی دعا کے لئے ارشاد فرمایا اس وقت میری عمر دس سال تھی اور یہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ مذہب کا بھی کوئی ایسا احساس نہیں ہوتا.مینے اس وقت رویا میں دیکھا کہ ہمارے گھر میں پولیس کے لوگ جمع ہیں اور دوسرے لوگ بھی ہیں.پاتھیوں کا (اوپلوں کا ڈھیر ہے جس کو وہ آگ لگانا چاہتے ہیں.لیکن جب بھی وہ آگ لگاتے آگ بجھ جاتی ہے تب انہوں نے کہا کہ آؤ تیل ڈال کر پھر آگ لگائیں.تب انہوں نے تیل ڈالا لیکن پھر آگ نہ لگی.اس وقت میری نظر اوپر کی طرف گئی اور سینے دیکھا کہ ایک لکڑی پر موٹے الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ خدا کے بندوں کو کوئی نہیں جلا سکتا.پس اگر خدا ہمارا ہو جائے اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہو جائے تو دنیا ہزار روکیں ہماری راہ میں پیدا کرے ہمارا کچھ نقصان نہیں کر سکتی.اور اگر خدا تعالے ہمارے ساتھ ہے تو دنیا کی بادث بنتیں بھی ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں." اخبار الفضل.مورخه ۳ جنوری ۱۹۲۵ م کالم ) د مرتب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتدائے دعوئی سے عیسائیت کے خلاف جو زبر دست مہم جاری کر رکھی تھی اس سے عیسائی بوکھلا اُٹھے اور انہوں نے دلائل و براہین کے میدان میں آپ کے ہاتھوں شکست کھا کر عدالت کی طرف رجوع کیا اور آپ پر پادری ہنری مارٹن کلارک کے خلاف اقدام قتل کا سراسر جعلی

Page 136

۱۳۵ مقدمہ دائر کروا دیا جس پر امرت سر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اے.ای مارٹینو نے یکم اگست شششاء کو دفعہ ۱۱۴ فوجداری کے ماتحت جھٹ حضرت اقدس کی گرفتاری کا وارنٹ لکھ دیا لیکن چونکہ امرت سر کی عدالت قانونا کسی دوسرے ضلع کے مقدمہ کی سماعت نہ کر سکتی تھی اس لئے وارنٹ منسوخ کر کے مقدمہ گورداسپور میں منتقل ہو گیا جہاں صرف چند پیشیوں پر ہی کپتان ڈگلس کے سامنے (جو اس وقت گورداسپور کے ڈی سی تھے اور اب لنڈن میں مقیم ہیں اور حضرت مسیح موعود کی شخصیت اور جماعت احمدیہ کے کارناموں کے مداح اور رطب اللسان میں ہے پادری نارٹن اور ان کے لگے بندھوں کے دجل و فریب کی قلعی کھل گئی اور انہوں نے ۲۳ اگست ۹۷ شراء کو مقدمہ کا فیصد ایسناتے ہوئے حضور کو صاف بری قرار دے دیا.یہ ہے وہ سنگین مقدمہ جس سے رہائی کے متعلق حضرت امام جماعت احمدیہ کو دس سال کی عمر میں اطلاع دی گئی ہجو چند دنوں بعد پوری شان کے ساتھ پوری ہو گئی.مقدمہ دیوار کے فیصلے کی خبر دو ینے خواب میں دیکھا.کہ دیوار گرائی جارہی ہے اور لوگ ایک ایک اینٹ اُٹھا کر پھینک رہے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کچھ بارش بھی ہو چکی ہے اسی حالت میں لینے دیکھا کہ مسجد کی طرف حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ تشریف لا رہے ہیں.جب مقدمہ کا فیصلہ ہوا.اور دیوار گرائی گئی تو بعینہ ایسا ہی ہوا.اس روز کچھ بارش بھی ہوئی اور دریس کے بعد حضرت خلیفہ اول جب واپس آئے تو آگے دیوار توڑی جارہی تھی میں که به سطور شہ کے آغاز میں لکھی گئیں تھیں.جبکہ ڈیکس ابھی زندہ تھے (مرتب)

Page 137

بھی کھڑا تھا.چونکہ اس خواب کا میں آپ سے پہلے ذکر کر چکا تھا.اس لئے مجھے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا.دیکھو میاں آج تمہارا خواب پورا ہو گیا؟ والفضل ۵ را گست دو کالم ) (مرتب) قارئین کو بظاہر یہ ایک معمولی خبر دکھائی دیگی مگر جب آپ اس پر واقعات کے ماحول میں نگاہ ڈالیں گے تو اسے بہت بڑا نشان قرار دینے پر مجبور ہوں گے.مقدمہ دیوار جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے جس کا ذکر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے مندرجہ ذیل الفاظ میں فرمایا ہے." تشاء میں ایسا اتفاق ہوا کہ میرے چچا زاد بھائیوں میں سے امام الدین نام ایک سخت مخالف تھا اس نے یہ فتنہ برپا کیا کہ ہمارے گھر کے آگے ایک دیوار کھینچ دی اور ایسے موقعہ پر دیوار کھینچی کہ مسجد میں آنے جانے کا رستہ رک گیا اور جو مہمان میری نشست کی جگہ پر میسر پاس آتے تھے یا مسجد میں آتے تھے وہ بھی آنے سے رُک گئے او مجھے اور میری جماعت کو سخت تکلیف پہنچی گویا ہم محاصرہ میں آگئے نا چار دیوانی میں نشی خدا بخش صاحب ڈسٹرکٹ جج کے محکمہ میں تالش کی گئی جب نالش ہو چکی تو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مقدمہ نا قابل منتقی ہے اور اس میں مشکلات یہ ہیں کہ جس زمین پر دیوار کھینچی گئی ہے اسکی نسبت کسی پہلے وقت کی مسل کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ مدعا علیہ یعنی ایام الدین ے قدیم سے اس کا قابض ہے ہے حقیقۃ الوحی حضور نے اس مقام پر خدا تعالٰی کے وہ الہامات بھی درج فرمائے ہیں جو قدر یہ دیوار کے متعلق پہلے سے نازل ہوئے اور پورے ہوئے.(مرتب)

Page 138

۱۳۷ میرا امام الدین نے کے جنوری نشہ کو یہ دیوار کھینچی تھی اور اس کے انہدام کا فیصلہ ایک سال اور آٹھ ماہ کی درد انگیز اور طویل کشمکش کے بعد ۱۲ را گست ر ۲۰/ کو منایا گیا جس پر دیوار ۲۰ اگست نشہ ہو کو گرا دی گئی.اور اس طرح حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالی کی خواب حرف بحرف پوری ہوئی ہے یا در ہے حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا سن مبارک موقت صرف ۱۰ سال کا تھا.صغر سنی کے عالم میں اتنی عظیم الشان خبر کا پانا یقینا کسی غیبی طاقت کا پتہ دیتا ہے.قادیان میں شدید وبائی تپ کی خبر "گذشتہ ستمبر میں سینے ایک رویا دیکھی تھی جو یہاں کے لوگوں کو اسی وقت بتا دی گئی تھی کہ قادیان میں سخت تپ ہو گا جو اپنے اندر طاعون کی طرح کا زہر رکھتا ہوگا چونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کے متعلق طاعون سے حفاظت کرنے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے اس لئے اس کو تپ سے بدل دے گا....یہ رویا ئینے انہی دنوں لوگوں کو سنادی تھی اس کے بعد ایسا تپ آیا کہ قریباً بر ایک مرد و عورت پر اس کا حملہ ہوا اور جس گھر کے آٹھ آدمی تھے آٹھوں ہی بیمار ہو گئے اور اس قدر شدید بخار ہوتا کہ ایک سوسات درجہ تک پہنچ جاتا ان دنوں ہر گھر میں بیماری پڑ گئی اور اس مرض کی وجہ سے کام کرنے والے لوگ بھی یا تو خود بیمار رہے یا بیماروں کے تیمار دار بنے رہے " " ذکر الہی" فرموده ۲۷ دسمبر الله طبع اول صلاب) 44-48* نے مجدد اعظم حصہ اول ص ۲۹

Page 139

۱۳ ڈاکٹر مطلوب خاں کے زندہ وسلامت ہونے کے متعلق اہم خبر رمایا : ابھی تھوڑا عرصہ ہوا.ایک ڈاکٹر مطلوب خاں جو کالج سے عراق میں اور بھیجے گئے تھے ان کے متعلق ان کے ساتھیوں کی طرف سرکاری طور پر خبر آئی کہ وہ فوت ہو گیا ہے.ان کے والد اس خبر سے تھوڑا عرصہ پہلے قادیان آئے تھے جو بہت بوڑھے تھے مجھے خیال تھا کہ مطلوب خال اپنے باپ کا اکیلا بیٹا ہے.بعد میں معلوم ہوا وہ سات بھائی ہیں.ماں باپ کا ایک بیٹا ہونے کے خیال سے اور اس کے باپ کے بوڑھا ہونے پر مجھے قلق ہوا.اِدھر ہمارے میڈیکل سکول کے لڑکوں کو جب اس کی موت کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے کہا وہ مری خدمات کرنے سے انکار کر دیں گے مجھے لڑکوں میں بے ہمتی پیدا ہونے کے خیال سے بھی قلق ہوا اس پر سینے دُعا کی اور مجھے رویا میں بتایا گیا کہ گھبراؤ نہیں وہ زندہ ہے.سینے صبح کے وقت اپنے بھائی کو یہ بتایا اور انہوں نے اس کے رشتہ دار کو بتایا اور یہ خبر عام ہو گئی.اس سے کچھ دنوں کے بعد خبر آئی کہ وہ زندہ ہے شمن کے قبضہ میں آگیا تھا غلطی سے مردہ سمجھ لیا گیا کیا ، انسانی دماغ اس خبر کو وضع کر سکتا تھا.a اختبار الفصل مورخہ ۴ از مادر سر امد و مالک کا لم ح )

Page 140

۱۳۹ جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ کے متعلق ایک شیر فرمایا : بیتے دیکھا میں بیٹھا ہوا ہوں اور ڈاکٹر بر سم اسماعیل صاحب جو میرے ماموں ہیں وہ آئے ہیں سینے ایک لیے تجربہ کے بعد یہ بات معلوم کی ہے کہ اسماء کے ساتھ رویا اور کشوت کا خاص تعلق ہوتا ہے اور مجھے جو خدا تعالیٰ سے قبولیت کا تعلق ہے اس کے متعلق سینے دیکھا ہے کہ ۹۸ (اٹھانوے فیصدی انہیں کو دیکھتا ہوں ان کا نام ہے اسماعیل جس کے معنی ہیں خدا نے سُن لی.جب میں کوئی دُعا کرتا ہوں تو یہی مجھے دکھائے جاتے ہیں ہاں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا کسی ملک کے ذریعہ بتا دیتا ہے اور کبھی خود جلوہ نمائی کرتا ہے.تو سینے دیکھا کہ وہ آئے ہیں اور ہشاش بشاش ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ آ رہے ہیں.اور آنے والوں کا ایمان اتنا ترقی یافتہ ہے کہ انہوں نے ان کے چہروں سے دیکھ لیا ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ نور اُن کے چہروں سے ٹپکتا ہے جب انہوں نے یہ کہا کہ لوگ آرہے ہیں اور ایمان اور اخلاص کے ساتھ آ رہے ہیں تو اسی وقت جوش سے میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے کہ : اللهم زد فزد على نهج الصلاح والحقة اے اللہ ان کو زیادہ کر ایمان اور اخلاص ہیں.پھر زیادہ کر ایمان اور اخلاص ہیں.اور یہ پھر آویں مگر مٹی کے رستوں پر چل کر نہیں بلکہ نیکی اور اخلاص اور ترقی کے راستہ پر چل کر آئیں اس کے بعد آنکھ کھل گئی.

Page 141

۱۴۰ خدا تعالیٰ نے مجھے تسلی دی تو میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ جماعت کے کثیر حصہ کو اور ایسے کثیر حصہ کو کہ شاذ ہی کوئی رہ جائے اور ممکن ہے کہ کوئی بھی نہ رہے اس خطرناک وقت میں جبکہ بڑے بڑوں کے قدم لڑکھڑا رہے ہیں محفوظ رکھے گا.اور تقویٰ اور صلاحیت پر ہی چلائے گا گمراہی کے رستہ پر نہیں چلائی گا انشاء الله لیکچر " ملا نکتہ اللہ " فرموده دارد دسمبرت ساده طبع اول مطب (مرتب) ۱۹۲۰ء سے لے کر اس وقت تک جماعت کو متعد د ابتلاؤں آزمائیشوں اور فتنوں کی دہکتی ہوئی آگ بلکہ اُٹھتے ہوئے تیز شعلوں میں سے گذرنا پڑا ہے (جیسا کہ آئیندہ ابواب سے معلوم ہوگا) مگر خدا کی قدرت نمائی کا جلوہ دیکھئے کہ جماعت احمدیہ کا سالانہ مقدس مذھبی اجتماع ہر سال ایک نئی اور دلکش رونق اور بہار لانے کا موجب ہوتا ہے مثال کے طور پر ست شہداء کے جلسہ سال کو دیکھئے یہ جلسہ فتنہ کے خطرناک ایام میں آیا مگر خدا کے فضل سے شہداء کے مقابل اس سال زائرین جلسہ کی تعداد میں کم و بیش دس پندرہ ہزار نفوس کا اضافہ ہوا.انتظامات جلسہ سالانہ کے مرکزی شعبہ کی رپورٹ کے مطابق جلسہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد ساٹھ ہزار کے لگ بھگ تھی اس کے مقابل ۱۹۳۰ء میں جبکہ حضور نے اس اجتماع کے بارونق ہونے کے متعلق پیش گوئی فرمائی تھی بیرونی جمان تعداد میں صرف سات ہزار کے قریب تھے.(ملاحظہ ہو الفضل سر جنوری 19 م ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صادر ہے کے انتقال کی خبر د اخبار الفضل میں شائع شدہ ایک کے پورٹ کا اقتباس) ور تاریخ صبح کے وقت جب حضرت خلیفہ اسی ڈاکٹرصاحب محمد اسماعیل خافضا

Page 142

۱۴۱ به موطن گور یانی نام مرحوم کو رکھنے کیلئے تشریف لے گئے تو فرمایا :- آج صبح مینے رویا میں دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں ڈاکٹر صاحب کے آنے سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور کینے ان کو اپنے مکان میں سے 14 مرلہ زمین دی ہے اس سے تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب دنیا کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود کے پاس چلے گئے.راختبار الفصل مورخہ ہوں عورت کالم بس چوہدری فتح محمد صاحب سیال موسس احمدیش بنن کی آنکھوں کے متعلق ایک رویا (ڈائری حضرت خلیفتہ المسیح نے فرمایا.دعا کے اوقات ہوتے ہیں جب چوہدری منانا (چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناقل) ولایت سے آئے تو ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے ان کی آنکھوں کو دیکھا اور مجھ کو بتایا کہ چوہدری صاحب کی ایک دبائیں ، آنکھ کا بچنا تو قریبا نا ممکن ہے اور دوسری بھی بہت خراب ہو رہی ہے مجھے اس سے قلق پیدا ہوا کہ چوہدری صاحب کےکام کے آدمی ہیں مگر ان کی آنکھوں کے متعلق ڈاکٹر صاحب ایسا خیال کرنے ہیں.مینے دعا کی تو رات کو خواب میں ایک شخص نے کہا کہ انکی آنکھ تو اچھی ہے صبیح کو سکینے ڈاکٹر صاحب کو یہ نواب بتایا اور انھوں نے پھر آنکھ کو دیکھا اور کہا کہ اب مرض کا ایک بٹا تین حصہ باقی رہ گیا ہے.چوہدری صاحب نے عرض کیا اس وقت میری آنکھ میں چنے کے برابر زخم ہو گیا تھا.اور چھ انچ کے فاصلہ تک رہاتھ کو آنکھ کے سامنے کر کے عرض کیا ، بیان سے ہاتھ نظر نہیں آتا تھا بلکہ پانی سا سامنے نظر آتا تھا.اور اس سے پہلے یہ بات

Page 143

۱۴۲ تھی کہ ہر ایک دوائی مضر پڑتی تھی.پھر ہر ایک دوائی مفید ہونے لگی.اب میری طرف سے ہی سستی ہے کہ میں دوائی کا استعمال نہیں کرتا.اس آنکھ کی نظر دوسری سے تیز ہو گئی ہے" (اخبار افضل مورخه ۱۹ اکتوبر ۳ ا حت کالم عملت ۳م (مرتب) چوہدری فتح محمد صاحب سیال خدا کے فضل سے اس وقت زندہ موجود ہیں اور جماعت احمد یہ مرکزی شعبه اصلاح و ارشاد کی نگرانی کے اہم فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور باوجود پیرانہ سالی اور مسلسل علمی مشاغل کے آپ کی آنکھیں حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے کی تیس سالہ دعا کی برکت سے نہایت اچھی حالت میں ہیں بلکہ بعض ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ آپ کی بینائی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے.دفتری تحقیقات سے گلو خلاصی کی بشارت ایک شخص نے مجھے لکھا کہ میرے حساب کی پڑتال ہونے والی ہے اور کچھ ایسی فرو گذاشتیں ہوگئی ہیں کہ ان کی وجہ سے مجھے بہت سا روپیہ پھرنا پڑیگا حالانکہ واجب الاد نہیں ہے آپ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے بچائے.لینے اس کے لئے دعا کی اور مجھے معلوم ہوا کہ دعا قبول ہوگئی ہے اور کینے اس کو لکھ دیا کہ مایوس نہ ہو خدا تعالیٰ تمہیں بچائے گا پھر جب تحقیقات مکمل ہو چکی اور اس کے ذمہ روپیہ نکالا گیا تو اعلیٰ افسر نے بلا کا غذات کے دیکھنے کے لکھ دیا کہ اس تحقیقات کو داخل دفتر کردو " نجات" لیکچر فرموده دسمبر ۱۹۲۳ء طبع ثانی ص۳۲۷-۳۲۵

Page 144

پہلے سفر یوروپ ا کے دوران میں جماعتی تو است کی خبر میں نے پہلنے سے پہلے کہا تھا کہ آپ لوگوں کو وہ کچھ معلوم نہیں جو مجھے معلوم ہے اگر آپ لوگوں کو معلوم ہوتا تو آپ مجھ پر رحم کرتے سو آپ نے اب دیکھ لیا ہے کہ برابر افسردہ کرنے والی خبریں چلی آرہی ہیں.میں دیکھ رہا تھا کہ افسردگی اور غم کے دن آگئے ہیں اور ان دنوں میں قادیان سے باہر جانا مجھے پر سخت دو بھر تھا کیسے بعض ایسے نظارے دیکھے تھے جن کی تعبیر یہ تھی کہ عموم پیش آنے والے ہیں.دو تین دفعہ ایسی خواہیں دیکھ ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا تھا کہ میر صاحب جلد فوت ہونے والے ہیں.اسی طرح بعض اور امور بھی رؤیا میں دیکھے.خدا تعالیٰ کرے بغیر اخبار غم خوشی سے مبدل ہو جائیں اور یہ اس کی طاقت سے بعید نہیں.قادیان میں ہمیشہ کی شکایت بھیرہ کا واقعہ.قادیان کے بعض دوستوں پر مقدمہ نعمت اللہ خان صاحب شہید کا واقعہ.مرکزی مالی حالت کی خرابی میر صاحب کی وفات.بابو فضل کریم صاحب کی وفات قادیان کے کئی دوستوں اور بعض عزیز بچوں کی وفات کی خبریں.ان دنوں بارش کی طرح پہنچی ہیں.اوپر سے اپنی طبیعت کی بیماری.اور کام کی کثرت نے ان کے اثر کو اور بھی زیاد کر دیا ہے." اخبار الفضل مورخہ ۱٫۱۶ اکتوبر ماء صدا کالم ش) نیز هر نومبر ۲۶۹۲۳

Page 145

امریکہ میں احمدیہ کا مشن کے قیام کی زبردست یشگوئی امریکہ میں احمدیہ مشن کا قیام حضر المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالی کی ایک پیشنگوئی کا نہایت شاندار ظہور اور اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ایک چمکتا نشان ہے جو رہتی دنیا تک یادگار رہے گا.آج سے اڑتیس برس پیشتر حضرت امیرالمومنین خلیفة المسیح الثانی ایده الله تعالی بنصرہ العزیز کی ہدایت پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ مشن کا افتتاح کرنے کی غرض سے امریکہ کے ساحل پر اُترے تو امریکی گورنمنٹ نے ان پر اس بنا پر پابندی عائد کردی کہ آپ اس مذہب کے پیرو ہیں جس میں ایک سے زیادہ بیویاں جائز ہیں.جب یہ خبر مهند وستان پہنچی تو بعض متعصب فرقہ پرستوں نے اس پر خوشی کے شادیانے بجائے لیکن حضور اقدس نے سیالکوٹ میں ایک پبلک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے نہایت واشگاف لفظوں میں یہ پیشگوئی فرمائی کہ : ہم نے اپنے ایک مبلغ کو امریکہ بھی بھیج دیا ہے جسے تا حال تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور اسے روک دیا گیا ہے لیکن ہم امریکہ کی رکاوٹ ا سے ترک نہیں جائیں گے امریکہ جیسے طاقتور ہونے کا دعونی ہے اس قیمت تک اس نے مادی سلطنتوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی ہوگی روحانی سلطنت سے اس نے مقابلہ کر کے نہیں دیکھا.اب اگر اس نے اگست 191 ء سے قبل کا ہندوستان مراد ہے.(مرتب)

Page 146

۱۴۵ ہم سے مقابلہ کیا تو اسے معلوم ہو جائے گا.کہ ہمیں وہ ہر گز شکست نہیں دے سکتا کیونکہ خدا ہمارے ساتھ ہے.ہم امریکہ کے ارد گرد کے علاقوں میں تبلیغ کریں گے اور وہاں کے لوگوں کو مسلمان بنا کر امریکہ بھیجیں گے اور ان کو امریکہ نہیں روک سکے گا اور ہم امید رکھتے ہیں کہ امریکہ میں ایک دن لا اله الا الله محمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کی صدا گونجے گی اور ضرور گونجے گی لیے اس پر شوکت اور عظیم الشان پیش گوئی پر صرف چند ماہ ہی گذر نے پائی تھے کہ امریکہ گورنمنٹ کو خدا کی روحانی حکومت کے سامنے جھکنا پڑا اور شکاگو میں احمدیہ مسلم مشن کا قیام عمل میں آگیا.اس وقت امریکہ مشن میں پانچ مبلغ کام کر رہے ہیں اور بوسٹن فلاڈ لیفیا نیو یارک، بالٹی موریس برگ.بنگس ٹاؤن، کلیولینڈ.انڈیا پولیس.شکاگو ملوا کی سینٹ لوئس لاس انجلز اور واشنگٹی نے غرضکہ ملک کے تمام اہم شہروں میں جماعت کی شاخیں قائم ہو چکی ہیں اور متعدد مساجد اورشن ہاؤس بھی موجود ہیں میشن کی طرف سے مسلم سن رائز کے نام سے ایک مقتدر جریدہ بھی شائع ہوتا ہے جو ملک بھر میں وسیع اثر رکھتا ہے.اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے چالیس کے قریب انگریزی مطبوعات بھی شائع ہو چکی ہیں.امریکہ مشن کی شاندار کامیابیوں کا یہ مختصر سا خاکہ پیش کرنے کے بعد ذیل میں له الفضل ۵ار اپریل به م کالم سے یہ تفصیلات وکالت تبشیر ربوہ کے ایک کتابچہ سے ماخود ہیں جو تحریک جدید کے بیرونی میشن کے نام سے شائع شدہ ہیں.سے امریکہ مشن کا موجودہ مرکز واشنگٹن میں قائم ہے (مرتب)

Page 147

PANORAMA کا ۱۴۶ پاکستان میں امریکی سفارت کے ترجمان ) مندرجہ ذیل انکشاف ملاحظہ فرمائیے: about 12,000 Muslims live in the United State , including 1,200 Paki st ani s, 10,000 from ot her eascin countries, and 3,000 American converstoisiam by Ahmadiya یعنی ریاستہائے متحد ورامریکہ میں ۱۲ ہزار مسلمان آباد ہیں جن میں بارہ سو پاکستانی ہیں دس ہے ہزار دوسرے مشرقی ممالک سے آئے ہیں اور ایک سزار تو مسلم ہیں جو جماعت احمدیہ کی تبلیغ سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں.چند خاص کی ایک تحریک میں کامیابی کی خبر فروری 2 ناقل) مہینہ میں اس تحریک کے شائع کرنے کے چند دن بعد جب کہ میں تبدیلی آب و ہوا کے لئے دریا پر گیا ہوا تھا.سینے خواب میں دیکھا کہ میں چند دوستوں کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہوں جب میں سلام پھیر کر بیٹھا ہوں تو ئینے دیکھا کہ جبی فی اللہ اخویم مکرم ڈاکٹر قاضی کرم الہی صاحب امرتسری جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے احباب میں سے ہیں وہ آگے بڑھے 'Panorama Vol.III No.20, Junvary 3 1952, p b.اه حضرت امام جماعت احمدیہ نے ۱۲؍ فروری ۱۹۲۵ء کو ایک لاکھ روپیہ کے چندہ خاص کی ایک اہم تحریک جماعت کے سامنے فرمائی تھی اور ہدایت فرمائی تھی کہ جماعت تین ماہ کے اندر اندر مطلوبہ رقم جمع کردے.(الفضل ، ار فروری ۱۹۳۵ء) اس مقام پر اسی کی طرف اشارہ ہے.(مرتب)

Page 148

! ۱۴۷ ہیں اور مصافحہ کرتے ہوئے کہتے چلے جاتے ہیں.مبارک ہو.مبارک ہو.مبارک ہو.اللہ تعالیٰ نے آپ کی بات میں بڑی برکت رکھی ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ انہوں نے چندہ خاص کے متعلق یہ فقرات فرمائے ہیں.اس کے بعد مجھے ایک کاغذدکھایا گیا جس پر ایک سو دس ہزار لکھا ہوا ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ چندہ کی مقدار ہے مینے اسی دن صبح کی نماز کے بعد یہ خواب اپنے دوستوں کو سنا دی جن میں سے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی اور صوفی عبدالقدیر صاحب بی.اے کے نام مجھے یاد ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کتنا بڑا نشان ہے کہ دشمنوں کے طعنوں کے باوجود اور دوستوں کی گھبراہٹ کے باوجود جب اس چندہ کی آخری تاریخ ختم ہوئی ہے تو اس تاریخ تک ایک لاکھ دس ہزار روپیہ آچکا تھا جس کی کہ خواب میں بشارت دی گئی تھی.دالفضل به اریولائی نہ مٹہ کالم علیہ ۱۲ جنا میلہ جان صاحب نون کے ہاں سنجیہ کی ولادت کی خبر داء میں دعا کی یاد دہانی کرانے پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم صاحب خاں صاحب نون ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر کو لکھا کہ :- آپ کے لئے دعا بھی کی ہے اور استخارہ بھی.اللہ تعالے آپ کو لڑکا دے گا." چنا نچہ اس خبر کے مطابق کے بعد یکم مئی ۲۹ ا ء کو....اللہ تعالے نے ان کو

Page 149

۱۴۸ لڑکا دیا جس کا نام احمد خاں ہے.لے لے حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دن صد کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کے متعلق خبر وہ اپنی احمدی نہیں ہوئے تھے کہ انہوں نے خط میں لکھا احمدیت کے متعلق فلا فلاں بات میری سمجھ میں نہیں آتی.اس کے بعد کتنے رویا میں دیکھا ایک تخت بچھا ہوا ہے جس پر کتنے ایک میٹھے ہوئے دیکھا پھر دیکھا کہ آسمان سے ایک نور ان کے قلب پر گر رہا ہے اور وہ ذکر الہی کر رہے ہیں یہ اس وقت کا خواب ہے جبکہ وہ ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے اور سلسلہ کے کاموں میں ان کو حصہ لینے کا موقعہ نہیں ملا تھا.اس کے بعد خدا نے انہیں سلسلہ میں داخل ہونے کی توفیق بخشی اور ان کو سلسلہ کے کاموں میں حصہ لینے کے بہت سے موقع ملے " ا د اخبار الفضل مورخہ اور دسمبر اور کالم ) (مرتب) حضرت سیٹھ صاحب آف سکندر آباد دکن جماعت احمدیہ کے اُن مخیر بزرگوں میں سے ہیں جنہیں خدا تعالے نے جماعت احمدیہ کی مالی اور تبلیغی خدمت کی بڑی توفیق بخشی ہے آپ نے احمدی ہونے کے بعد اسلام اور احمدیت کی حمائیت و تائید میں تنہا اپنے خرچ پر متحد و زبانوں میں جس قدر لٹریچر شائع کر کے مفت اه حیات الآخرہ مصنفہ جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب ١٣٥ طبع اول ماشابق پروفیسر تاریخ ادیان کلیه صلاح الدین ایوبی بیت المقدس حال ناظر امور خارجه صدر انجمن احمدیہ یوہ ه صاحب خاں صاحب نون ضلع سرگودہ کے نہیں اور ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر ہیں جناب فیروز نہاں نوں آپ کے بھتیجے ہیں..

Page 150

۱۴۹ تقسیم کیا ہے شائد جماعت احمدیہ بھی اُن کے عرصہ بیعت میں اس قدر لٹر پر مفت تقسیم نہیں کر سکی حضرت سیٹھ صاحب اپنے سوانح حیات میں خدا تعالے کے انہیں افضال کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک مقام پر لکھتے ہیں:." مجھے احمدی ہو کر ۲۴ سال کا عرصہ ہوتا ہے (یہ 129ء کی تحریر ہے ناقل) اس عرصہ میں خاکسار نے ساڑھے تین لاکھ روپیہ سکہ عثمانیہ جس کے انگریزی تین لاکھ ہوتے ہیں وہ تمام خد اتعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیا.میرا ایمان ہے کہ خدا تعالے نے خاکسار کو اس قدرر و پیر محض اپنے دین کی خدمت کے لئے عطا فرمایا اس لئے میرا فرض تھا کہ میں اس کی امانت اس کی راہ میں خرچ کروں وہ ہمیں کرتا رہا اور انشاء اللہ کرتا رہوں گا.اس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے مطابق مجھے دینی اور دنیاوی دونوں نعمتوں سے سرفراز فرما کر میری تقدیر عجیب طور سے چپکا دی یہ احمدیت کی صداقت کا آفتاب کی مانند روشن نشان ہے.الحمد اللہ نظم الحمد لله به سرکاری مشکلات سے رہائی کی خیر " ایک دفعہ ایک دوست نے مجھے مجملاً ایک مصبیت کی اطلاع دی اور دعا کنے لئے کہا.مجھے اس نے یہ نہیں بتایا تھا کہ فلاں مصیبت ہے اور حالات نہیں لکھنے تھے.ان دنوں ان کی ہمشیرہ بھی بیمار رہتی تھیں اس لئے لینے خیال کیا کہ ان کی ہمشیرہ زیادہ بیمار ہوگی.مینے دُعائیں کیں تو مجھے رویا میں معلوم ہوا کہ کوئی کہتا ہے کہ قانونی غلطی کی وجہ سے تمام حقوق ضائع ہو گئے اور گورنٹ کی گرفت کے نیچے آگئے لیکن اگر وہ تو حل کریں گے اور گھبرائیں گے نہیں تو بشارات رحمانیہ طبع اول ص ۱۸۸۰۱۸ ا

Page 151

۱۵۰ اللہ تعالیٰ ان کے ان معاملات کو بالکل الٹ دیگا.اور ان کے حق میں بہتر حالات پیدا کر دیگا.سینے ان کو یہی لکھ دیا تھوڑے ہی دنوں بعد ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ قریب تھا کہ واقع میں ان کے حقوق ضائع ہو جائیں.اور گرفت کے نیچے آئیں میری طرف انہوں نے لکھا کہ اس قسم کے حالات پیدا ہو رہے ہیں کہ مجھے خطرہ ہے کہ میرے پہلے تمام حقوق تباہ ہو جائیں.کہنے انہیں لکھا کہ آپ تو تکل کریں اور گھبرائیں نہیں اور اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ ان کے ید مقابل انگریز تھا یہ حالات بالکل بدل گئے.مٹی کہ اس انگریز نے میری طرف لکھا کہ مجھے مصیبت سے بچائیے.جب ہم روزانہ دعاؤں کی قبولیت کے نمونوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم کیسے ان کے اثرات سے انکار کریں.“ د اختبار الفصل مورخہ ۲۱ر میشوری کا اشارہ ملک کا لمٹ) عزت قلب پویای ما نصابیج انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی والدہ محترمہ کے انتقال کی خبر (۳۷ - ۱۹۳۷ء کا ایک خواب " ایک دو سال ہوئے ہیں نے خواب میں دیکھا ئیں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوں اور میرے سامنے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب لیٹے ہوئے ہیں اور ۱۱- ۱۲ سال کی عمر کے معلوم ہوتے ہیں کہنی پر ٹیک لگا کر ہاتھ کھڑا کیا ہوا ہے اور اس پر سر رکھا ہوا ہے.انکے دائیں بائیں عز بیدم چو ہدری عبداللہ خاں صاحب اور چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بیٹھے ہیں ان کی عمر میں آٹھ آٹھ نو نو سال کے بچوں کی سی معلوم ہوتی ہیں تینوں کے

Page 152

۱۵۱ منہ میری طرف ہیں اور تینوں مجھ سے باتیں کر رہے ہیں اور بہت محبت سے میری باتیں سُن رہے ہیں اور اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں اور جس طرح گھر میں فراغت کے وقت ماں باپ اپنے بچوں سے باتیں کرتے ہیں اسی طرح میں ان سے باتیں کرتا ہوں.شاید اس کی تعبیر بھی مرحومہ کی وفات ہی تھی کہ الہی قانون کے مطابق ایک قسم کی ابوست یا مامتا جگہ خالی کرتی ہے.تو دوسری قسم کی ابوت یا مامتا اس کی جگہ لے لیتی ہے.والفضل ۲۲ مئی ۱۹۳۶ء حت کالم عند) (مرتب) خدائی باتیں بعض اوقات کئی رنگ ہیں پوری ہوتی اور از دریا د ایسان کا موجب بنتی ہیں یہی صورت اس خواب کی ہے.چنانچہ حضرت کی مندرجہ رویا کی ایک تعبیر تو اوپر درج ہے اب اس کا ایک دوسرا پہلو اگلی سطور میں حضور ہی کے الفاظ میں پڑھئے.میری بیماری کے موقعہ پر تو اللہ تعالیٰ نے (نہ) صرف ان کو اپنے بیٹا ہونے کو ثابت کرنیکا موقع دیا بلکہ میرے لئے فرشتہ رحمت بنا دیا وہ میری محبت میں پور ہے چل کر کراچی آئے اور میرے ساتھ چلنے اور میری صحت کا خیال رکھنے کے ارادہ سے آئے.چنانچہ ان کی وجہ سے سفر بہت اچھی طرح کیا اور بہت سی باتوں میں آرام رہا.آخر کوئی انسان پندرہ ہیں سال پہلے تین نوجوانوں کے متعلق اپنے پاس سے کس طرح ایسی خبر دے سکتا تھا.دنیا کا کونسا ایسا مذھبی انسان ہے جس کے ساتھ محض مذہبی تعلق کی وجہ سے کسی شخص نے جو اتنی بڑی پوزیشن رکھتا ہو جو چو ہدری ظفر اللہ خان صاحب رکھتے ہیں اس اخلاص کا ثبوت دیا ہو کیا یہ نشان نہیں ؟ انہ مخالف مولوی اور پیر گالیاں تو مجھے دیتے ہیں.مگر کیا وہ اس قسم کے زیران اہ نہ کا لفظ متن سے سہوا رہ گیا ہے.(مرتب)

Page 153

.۱۵۲ کی مثال بھی پیش کر سکتے ہیں کیا کسی مخالف اور پیر نے ۲۰ سال پہلے کسی نوجوان کے متعلق ایسی خبر دی اور بیس سال تک وہ شہر پوری ہوتی رہی اور کیا کسی ایسے مولوسی اور پیر کی خدمت کا موقع خدا تعالیٰ نے کسی ایسے شخص کو دیا جو جو اداری ظفر اللہ خان صاحب کی پوزیشن رکھتا تھا.اللہ تعالیٰ ان کی خدمت کو بغیر مو جود کے نہیں چھوڑے گا.اور ان کی محبت کو قبول کرے گا.اور اس دنیا اور اگلی دنیا میں اس کا ایسا معاوضہ دے گا کہ پچھلے ہزار سال کے بڑے آدمی اس پر رشک کریں گے کیونکہ وہ خدا شکور ہے اور کسی کا احسان نہیں اُٹھاتا.و الفضل ۲۹ مئی ۱۶۵) پیغام حضور ایدہ اللہ تعالے مورخہ ۲۲ مئی شش و مقام زیورچ ) ۱۹۴۵ میں ریت کی ترقی احمدیت کی ترقی کے خاص ظہور کی خبر حضرت امام جماعت احمدیہ نے فروری ۱۹۳۳ء کو جبکہ جنگ عظیم ثانی کے شعلے پوری شدت سے بلند ہورہے تھے اور یورپ میں اسلامی تبلیغ فریب معطل ہو کر رہ گئی تھی خدا تعالیٰ کے خطا کر وہ علم کی بنا پر یہ خبر دی کہ و عد یہ علم تو خدا تعالیٰ کو ہی ہے کہ کب اور کس کس رنگ میں اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے پستے کھلیں گے.اس بات کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانت البتہ ایک اور مضمون ہے جس کو میں ابھی بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا.اور جس کی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ غالب سے کہو اسلام اور احمدیت کے لئے کسی خاص ظہور کا سال ہو گا.(الفضل بر فروری سعداء منہ کالم ملات

Page 154

م ها د مرتب حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالٰی کی یہ پیشنگوئی آئیندہ واقعات نے حرف بحرف صحیح ثابت کردی.جنگ عظیم ثانی شکر کے اوائل میں ختم ہوئی ۷ ار اگست ۳۵ قراء کو حضور نے اعلان فرمایا کہ مادی جنگ کے خاتمہ کے بعد اب روحانی جنگ کا آغاز ہو گا.چنانچہ.اوسنمبر ۱۹۳۵ء کو قادیان سے و مبلغین اسلام پر مشتمل اور اپنی نوعیت میں پہلا قافلہ یورپ روانہ ہوا جس نے لنڈن میں مختصر قیام کے بعد چند پیسوں کے اندر اندر سپین فرانس سوئٹزرلینڈ ہالینڈ اور جرمنی میں نئے مشن کھول دیئے.نیبر و بی کا مشہور با اثر اخبار ڈیلی کرانیکل ۱۵ جولائی 12 ء کی اشاعت میں اپنی مبلغین کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے :- جہاں تک مبلغین کی آمد ورفت کا تعلق ہے امام جماعت احمدیہ کے مبلغین نے ہوا کا رخ بالکل پھیر کر رکھ دیا ہے پہلے عیسائی مشنری مغرب سے مشرق کی طرف آتے تھے اب مبلغین اسلام مشرق سے مغرب کی طرف جارہے ہیں.اسلام کے یہ متا و آجکل یورپ میں اسلامی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت کے وسیع انتظامات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ہمہ تن مصروف ہیں" شیخ نیاز محمد صاحب کیل مرحوم کی ذات کے متعلق رویا پنے ایک رویا دیکھیں کہ ایک بہت بڑا اثر عام ہے جس میں انکور نی نیاز میر صاحب کو با قل کو ایک ہاتھی پر چڑھا کر لوگ جلوس کی صورت میں شہر کی طرف لار ہے ہیں.بہت سے مسلمان جمع ہیں اور لوگوں کا بہت بڑا ہجوم ہے اور وہ بہت خوش ہیں کہ اُن کو کوئی عزت ملی ہے یا ملنے والی ہے.میں رویا میں کہتا ہوں کہ جلوس مفتی محمد صادق صاحب کے گھر کی طرف آرہا ہے میں اُن کے گھر

Page 155

۱۵۴ کے قریب جو موڑ ہے وہاں کھڑا ہو گیا.اور جلوس نے اس طرف بڑھنا شروع کر دیا.جس وقت وہ عین منزل مقصود پر پہنچ گئے.جہاں اُن کا اعزاز ہونا تھا تو یکدم آسمان سے ایک ہاتھ آیا.اور وہ انہیں اٹھا کر لے گیا.اس رویا کے مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے بعد وہ فوت ہو گئے.بعد میں معلوم ہوا کہ ہائی کورٹ کی ججی کے لئے اُن کا نام گیا ہوا تھا.اور منظوری آنے ہی والی تھی کہ وہ فوت ہو گئے.یہ رویا تھی جو سینے اُن کے متعلق دیکھی حالانکہ میرے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہ تھا.“ والفضل ۶ ار فروری دو کالم ) صوبائی الیکشن جس کے نتائج کے متعلق جزوی خبر ینے چار اور پانچ فروری کی درمیانی رات جبکہ چوہدری فتح محمد صاحب ووٹوں میں پیچھے جارہے تھے.اُن کے لئے اور نواب محمد الدین صاحب کے لئے دعا کی.ینے خواب میں دیکھا کہ دن چڑھا ہے اور بارش شروع ہو گئی ہے اور سارادن بارش ہوتی رہی ہے.پھر دیکھا نواب محمد الدین صاحب میرے سامنے کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام چل رہا ہے.لیکن ان کا جسم پہلے سے چھوٹا ہے.ینے اس خواب کی تعبیر کی کہ چو ہدری صاحب کو اب کامیابی شروع ہو جائینگی چنانچہ پاریخ تاریخ کو انہیں سولہ سو سے زائد ووٹ لے اور جو کمی تھی پوری ہو کہ ہزار کے قریب ان کے ووٹ اپنے حریف سے زیادہ ہو گئے.نواب صاحب کے متعلق کہتے یہ تعبیر کی کہ ایک پہلو منذر اور ایک منتشر ہے.اور نواب صاحب کو یہ خواب لکھ دی اور لکھا کہ خدا کرے مندر پہلو پورا ہو جائے اور بشر بعد میں ہو مگر جیسا کہ خواب میں دکھایا گیا تھا اسی طرح ہوا نواب صاحب خطوں میں لکھتے

Page 156

۱۵۵ رہے کہ کام ٹھیک ہو رہا ہے مگر آخر نتیجہ امید کے خلاف نکلا اور وہ ناکام رہے خواب بعض دفعہ لفظا پوری ہوتی ہے.چنانچہ تو اب صاحب نے جو کچھ شروع میں اندازہ کیا تھا اس کے مطابق ان کے منہ سے یہ نکلا کہ الحمد للہ کام ٹھیک ہو رہا ہے مگر تو جسم اُن کا چھوٹا کیا گیا تھا اس کے مطابق وہ ناکام رہے.اس بارہ میں ایک خواب مجھے سال ہوا.جبکہ نواب صاحب کا ارادہ کھڑے ہونے کا تھا کبھی آئی تھی.غالبا وہ خواب شائع ہو چکی ہے مگر اُس میں بوجہ انذاری پہلو کے نام ظاہر نہ کیا تھا.الفضیل اور مارچ 9 ووٹ کا لمر ع سلام تعلیم الاسلام کالج کے نتائج کے متعلق رویا سینے شروع جولائی میں رویا میں دیکھا کہ کوئی شخص تعلیم الاسلام کا نیم کے نتیجہ کا اعلان کر رہا ہے اور جو نتیجہ اس نے سنایا ہے اس کے لئے طبیعت میں افسوس پیدا ہوا کہ جو امید تھی اس سے کم نتیجہ نکلا یہ رویا نتیجہ نکلنے سے کوئی پانچ چھ دن پہلے کی ہے میں ڈلہوزی میں یہ رویا دیکھی اور دیکھنے کے بعد میں بھول گیا اتفاقاً ایک دن میں اور دو سر دوست سیر کر رہے تھے کہ ڈاکٹر عبدالاحد صاحب جو کالج کی سائنس کے شعبہ کے انچارج بھی ہیں ان دنوں ڈلہوزی آئے ہوئے تھے میری ان پر نظر پڑی اور معا مجھے وہ خواب یاد آگئی اور کمینے ان سے کہا کہ سینے ایسی ایسی خواب دیکھی ہے اور نتیجہ کے متعلق پوچھا کہ کب نکلتا ہے.انہوں نے بتایا کہ کل نکلے گا پھر انہو نے خیال ظاہر کیا کہ غالبا آلٹ میں تیجہ کے جماعت احمدیہ کا ایک مرکزی تعلیمی ادارہ جس میں مغربی علوم اور سائنس کے ساتھ اسلامی تعلیم است سے بھی روشناس کرایا جاتا ہے (مرتب)

Page 157

104 اچھا نہیں کھلے گا سائنس کے نتیجہ کے متعلق انہوں نے کہا کہ ستر انٹی فیصدی کے قریب نکلے گا جب نتیجہ نکلا تو معلوم ہوا کہ سائنس کانتیجہ صرف اہم فیصدی تھا اور آرٹ کا نتیجہ بھی ایسا اچھا نہیں کیا مگر بہر حال سائنس کے نتیجہ سے اچھا تھا نتیجہ نکلنے کے بعد نہ صرف یہ خبر ہو اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی تھی پوری ہوئی بلکہ اس کا یہ پہلو بھی ایک عجیب شکست رکھتا ہے جوما ہر ین تعبیر کے نزدیک خود خواب کی نسبت کم اہم نہیں ہوتا اور وہ یہ کہ پہلے مجھے خواب بھول گئی پھر ڈاکٹر عبد الاحد صاحب کو دیکھ کہ جو سائنس کے انچارج تھے یاد آئی اور انہی سے بنے یہ خواب بیان کی.یہ بھی خوابوں کا ایک پہلو ہوتا ہے کہ بعض دفعہ جس شخص کو دیکھ کر خواب یاد آئے وہ اس سے کسی رنگ میں تعلق رکھتی ہے.چنانچہ نتیجہ میں یہی ہوا کہ سائنس جس کے متعلق خیال تھا کہ اس کا بہت اعلی نتیجہ نکلے گا اس کا نتیجہ ہی خراب نکلا.اور امید سے بہت کم نکلا.خیال کیا جاتا تھا کہ اس سال ہمارے کالج کا لڑکا سانس میں فسٹ یا سیکنڈ آئے گا.اور اسی طرح ایک دوسرا لڑکا بارھویں تیرھویں نمبر تک آجائے گا.لیکن جس کی نسبت یہ خیال تھا کہ فسٹ آئے گا وہ کہیں مجھے پرہا اور جس کی نسبت خیال تھا کہ وہ بار خویں یا تیرھویں نمبر پر آئے گا وہ تو بہت ہی نیچے چلا گیا ہے و الفضل ۲۳ اگست اشیاء مٹ کا طر است ۳ جماعت احمدیہ پر ستقبل قریب میں خطرناک حالات آنے کی پیشگوئی (جولائی شاہ کا ایک خطر حملات جو جماء کے مستقبل کے متعلق مجھے نظر آ رہے ہیں وہ ایسے ہیں کہ ان کا اظہار بھی مشکل ہے اور اُن کا اٹھانا بھی کسی انسان کی طاقت

Page 158

۱۵۷ میں نہیں محض اللہ تعالٰی کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہیں اس بوجھ کو اُٹھائے ہوئے ہوں.ورنہ کوئی انسان ایسا نہیں ہو سکتا جس کے کندھے اتنے مضبوط ہوں کہ وہ اس بوجھ کو سہار سکیں اور اُن تفکرات کا مقابلہ کر سکیں.الفضل ۲۱ جولائی و ملا کالم ہے) (مرتب) ہمیں خوب یاد ہے کہ حضرت اقدس امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے جب مسجد اقصٰی کے منبر سے یہ الفاظ فرمائے تو اکثر سننے والے ان اشاروں کو سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ اگلے ہی..ما مسلمانوں کی جدید مملکت پاکستان مطلع سیاست پر ابھرنے والی تھی اور غلامی کی زنجیریں کٹنے والی تھیں اور اُن کی نگاہ میں قادیان کے بھا رتی حدود میں شامل ہونے کا کوئی امکان نہ تھا لیکن اس کے بعد جب ریڈ کلف ایوارڈ نے آئین و انعا کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے قادیان اور اس کا ماحول پاکستان سے کاٹ کر سہندوستان میں شامل کر دیا اور ضلع گورداسپور کے مسلمانوں کے انخلاء کے بعد قادیان پر لرزہ خیز حملہ ہوا اور وہ بالآخر نہایت بے بسی اور بے کسی کے عالم میں اپنا مرکز چھوڑ کر پاکستان میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوئے تب وہ سمجھے کہ ہمارے محبوب آقا نے کتنی زبر دست خبر ہمیں دی تھی.قادیان کے ہندستان میں شامل ہونیکے متعلق الہام حضرت امام جماعت احمدیہ نے وسط اگست سلسلہ میں جبکہ ابھی ریڈ کلف ایوارڈ کا فیصلہ نشر نہیں ہوا تھا ایک مجلس میں بتایا کہ :-

Page 159

۱۵۸ آج عصر کے بعد مجھے الہام ہوا کہ : اينما تكونوا يَأْتِ بِكُمُ اللهُ جَمِيعًا اس الہام میں تبشیر کا پہلو بھی ہے اور انذار کا بھی.تفرقہ تو ایک رنگ میں پہلے ہو گیا ہے یعنی ہماری کچھ جماعتیں پاکستان کی طرف چلی گئی ہیں.اور کچھ بند سوتان کی طرف ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کے اکٹھا ہونے کی کوئی صورت پیدا کر دے اگر ہمارا قادیان ہندوستان کی طرف چلا جاوے تو اکثر جماعتیں ہم سے کٹ جاتی ہیں.کیونکہ ہماری جماعتوں کی اکثریت مغربی پنجاب میں ہے.اس لئے دوستوں کو اس معاملہ میں خاص طور پر دُعاؤں سے کام لینا چاہیے.الفضل ۱۸ اگست ۶۹۴۷ م کالم علا) (مرتب) اس الہام کے بعد، در اگست کو ریڈکلف ایوارڈ نے اپنے فیصلہ کا اعلان کر دیا اور قادیان کی بستی بھارت کے علاقہ میں شامل کر دی گئی اور یہی الہام الہی کی تعبیر تھی جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جماعت کا عام رنگ میں دو ملکوں میں بٹ جانا کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی کہ اس کی خبر دی جاتی یقیناً ان الفاظ میں قادیان کے بھارتی الحاق کی طرف اشارہ تھا جس سے جماعت کی مرکزی تنظیم خوفنگ جیک متاثر ہوئی اور مشرقی پنجاب کی احمدی جماعتوں کو دوسرے مسلمانوں کی طرح تارک وطن بن کر پاکستان آ جانا پڑا.جناب تید ولی اللہ شاہ صاحب کی رہائی کے متعلق رویا ینے دیکھا کہ سید ولی امر شاخیانت 2

Page 160

۱۵۹ آئے ہیں اور میرے پاس آکر بیٹھ گئے ہیں انہوں نے صرف قمیص پہنی ہوئی ہے تھوڑی دیر تک انہوں نے مجھ سے باتیں کیں اور پھر یہ نظارہ غائب ہو گیا.و شخص قید میں ہو اس کے رہا ہونے کی دو ہی تعبیریں ہوتی ہیں.یا وفات اور یا پھر واقعہ میں رہا ہو جانا، گویا اس رویا کی ایک تعبیر تو اچھی ہے اور ایک مندر.دوستوں کو دعا کرنی چاہیے کہ اس رویا کی اچھی تعبیر ظاہر ہو اور اللہ تعالے ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے" الفضل ، اکتوبر ۶ (۳) د مرتب) جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب جماعت احمدیہ کی ایک نامور شخصیت ہیں.آپ ۱۹۴۷ء کے فسادات میں دفعہ ۳۰۲ کے تحت تمبر ۱۹۴۶ء کو نظر بند ہوئے اور کئی ماہ تک گورداسپور اور جالندھر کی جیل میں المملكتي صبر آنه ما مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد اپریل لاء میں بین معاہدہ کے مطابق جالندھر سے پاکستان منتقل ہوئے اور رہا کر دئے گئے.یا در ہے حضرت اقدس نے یہ خواب اکتو بر عملہ کے ان ایام میں دیکھا جبکہ حضرت شاہ صاحب گورداسپور جیل میں اسیر تھے اور قادیان پر سخت حملہ ہو رہا تھا ایسے نازک وقت میں جبکہ قادیان کے باشندوں پر قیامت ٹوٹ رہی تھی اور صبح شام جان کے لالے پڑے ہوئے تھے قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والے ایک شخص کی رہائی کی خبر دینا اور پھر چند ماہ بعد اس کا پورا ہو جانا کرامت نہیں تو اور کیا ہے ؟

Page 161

14° میاں محمد اسماعیل معلومہ کام نا جب لائل پور کی دوج کے متعلق رویا ینے دیکھا جبکہ میں کوئٹہ واپس آچکا تھا کہ میاں محمد اسماعیل میا جب تاجر لائل پور مجھے ملے ہیں وہ نسبتا کم عمر ہیں بلکہ ادھیڑ عمر سے بھی کم ہیں حالانکہ ان کی عمر اصل میں منتر پچھتر سال کی تھی اور ان کے دائیں بائیں ان کے دو لڑکے کھڑے ہیں.لینے دوسرے دن ڈاکٹر عبدالحمید صاحب ڈویژنل آفیسر ریلوے کوئٹہ سے اس خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے بتایا کہ محمد اسماعیل صاحب واقع میں آئے ہوئے ہیں اور ایک لڑکا بھی ان کے ساتھ ہے اور انہوں نے کہا کہ غالباً ایک اور لڑکا بھی آیا تھا جو واپس چلا گیا ہے مگر انہوں نے بتایا کہ وہ بیمار ہیں.بیمار کو تندرست اور جوان دیکھنے کی تعبیر اکثر موت ہوتی ہے.چنانچہ کچھ دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ وہ فوت ہو گئے ہیں.والفضل وارد سمبر شکر ۳۰ کالم ہے.میجر محمود شہید کے مقدمہ شہادت کے متعلق ایک دیا جب عزیزم میجر صورت پید ہوئے تو نینے دیکھا جیسے ہمارے گھر کے پاسس ایک مشتبہ شخص کو پکڑے ہوئے پولیس سوال کر رہی ہے اور شائد کچھ سختی بھی کر رہی ہے اور اس شخص کی آواز آرہی ہے ” قاضی" " قاضی اور رمضان" "رمضان" دوسرے دن پولیس کے کچھ افسر مجھے ملے جن میں سے دو کے نام سے پہلے قاضی آتا تھا تب میرے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا

Page 162

141 کہ خدا تعالیٰ ہی رحم کرے شائد اس طرف اشارہ ہے کہ بعض پولیس کے فہر ہی اس کہیں کو دبانے کی کوشش کریں گے اور اس طرح اس تکریم میں شریک کار ہو جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اب تک اس کہیں کے متعلق کوئی تحقیق نہیں ہوئی اور نہ ہی سراخوں کا پیچھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے؟ ر القتل و ار و میر شکم ۲۰ کالم نظام (مرتب) ڈاکٹر میجر محمود احمد ایک اعلیٰ فوجی افسر تھے جنہیں محض احمدی ہونے کی وجہ سے کوئٹہ میں ۲۰ اگست شاہ کو شہید کر دیا گیا مرحوم کی درد انگیز شہادت پر اگرچہ پاکستانی پریس نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ قاتلوں کو جلد سے جلد کیفر کردار تک پہنچائے مگر افسوس یہ کیس ہمیشہ کے لئے داخل دفتر ہو گیا.چنانچہ فسادات پنجاب سه ء کی تحقیقاتی عدالت نے اپنی رپورٹ میں لکھا: مرزا بشیر الدین محمود احمد لاء کے موسم گرما میں بمقام کوئٹہ مقیم تھے ان کی موجودگی میں ایک نوجوان فوجی افسر میجر محمود جو احمدی تھا نہایت وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا....ان کی نعش کے پوسٹ مارٹم معائنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جسم پر گند اور تیز دھار والے ہتھیاروں سے لگائے ہوئے چھبیس زخم تھے بے شمار عینی شاہدوں میں ایک بھی ایسا نہ نکلا جو ان فازیوں کی نشان دہی کر سکتا یا کرنے کا خواہشمند ہوتا جن سے یہ بہادرانہ فعل صادر ہوا تھا ہذا اصل مجرم شناخت نہ کئے جاسکے اور مقدمہ بے سراغ ہی داخل دفتر کر دیا گیا ہے ملا ۱۴

Page 163

۱۶۲ سرگودہا کے ایک احمدی خاندان کے تعلق منذر کیا سید ا د ناقل) کی بات ہے کہ کتنے رویا میں دیکھا کہ ایک احمدی زمیندار سرگودھا کے میرے سامنے آئے اور ساتھ ہی ان کے کوئی ان کے خاندان کا نوجوان بھی ہے وہ ان کا بیٹا ہے یا چھوٹا بھائی ہے خواب میں میں پورا امتیازہ نہیں کر سکا اس کے بعد کہنے کچھ نظارہ دیکھا تو مجھے بھول گیا لیکن آنکھ کھلنے پر یہ اثر رہا کہ یہ خواب اس خاندان کے لئے مندر ہے.اس جلسہ پر جب سرگودہا کی جماعت ملاقات کر رہی تھی اور امیر ضلع سرگود اور ان کے ساتھ ان کے کچھ اور کارکن بیٹے ہوئے مجھے جماعت کے افراد سے روشناس کرا رہے تھے تو ایک دوست جو مصافحہ کر کے گزرے تو ان کے کچھ دور آگے چلے جانے کے بعد مجھے یاد آیا کہ اپنی کے خاندان کے متعلق میری یہ رویا تھی اس پر لینے مرزا عبدالحق امیر جماعت سرگودها در مرزا عبدالحق امیر جماعت صوبہ پنجاب بھی ہیں مگر اس وقت بحیثیت امیر جماعت ضلع سرگودہا بیٹھے ہوئے تھے) سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے ان کا نام کیا بتایا ہے.کیا آپ نے ان کا نام چوہدری ہدایت اللہ بتایا ہے انہوں نے کہا ہاں یہی تھا.سینے ان کو کہا کہ سینے ان کے فلاں بھائی کے متعلق ایک رؤیا دیکھی ہے کہ اس کے ساتھ اس کا بیٹا یا کوئی چھوٹا بھائی کھڑا ہے اور وہ نظارہ تو مجھے بھول گیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ لارڈ یا ان دونوں کے متعلق منذر ہے اس لئے آپ ان کو کہدیں کہ وہ کچھ صدقہ کر دیں.شائد اس طرح وہ ابتدائل جائے.دوسرے دن شام کے قریب سیالکوٹ کی جماعت کی ملاقات ہو رہی تھی تو چو ہدری غلام محمد صاحب پوہلہ امیر جماعت حلقہ نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کل کوئی خواب مرزا عبدالحق صاحب کو

Page 164

14 سنائی تھی سینے کہا ہاں.انہوں نے کہا وہ پوری ہوگئی ہے اور آج ہی ایک واقعہ چوہدری ہدایت اللہ صاحب کے بھائی اور بھتیجہ سے انسیا پیش آیا ہے جس سے وہ خاندان سخت ابتلا میں پڑ گیا ہے.ان کو پورا واقعہ یا د نہیں تھا.دوسرے دن یعنی جلسہ کے آخری دن جمعہ کو مرزا عبد الحق صاحب نے مجھے بتایا کہ سینے چوہدری ہدایت اللہ صاحب کو بلا کر آپ کی خواب بھی سنادی اور کہہ دیا کہ اس کے متعلق آپ لوگ کچھ صدقہ کر دیں انہوں نے اسی وقت ایک آدمی اپنے بھائی کی طرف دوڑایا کہ تم کوئی بکرا ذبح کر دو.شائد کہ اس خواب کے اثر سے بچ جاؤ جب وہ شخص ان کو شیر دینے کیلئے پہنچا تو ایک ایسا واقعہ ہوا ( چونکہ مقدمہ عدالت میں ہے اس لئے تفصیل لکھے کی ضرورت نہیں جس کی وجہ سے چوہدری ہدایت اللہ صاحب کے وہ بھائی بھی اور ان کا بیٹا بھی ایک سنگین جرم میں ماخوذ ہوگئے جس جرم کا الزام ایک ایسے واقعہ کی بنا پر لگا یا گیا جو اس خواب کے سنائے جانے کے سولہ سترہ گھنٹہ بعد ظور میں آیا.اس طرح چوبیس گھنٹہ کے اندر اندر اس رؤیا کا ایسی شان سے پورا ہونا ان لوگوں کے ایمان کی بہت بڑی زیادتی کا موجب ہوا جنہوں نے وہ رؤیا مجھے سے شنی تھی یا مجھ سے سننے والوں سے خشنی تھی.الفضل ۲۷ جنوری شد ۶ ۳۰ کالم عشت (۲) خدائی نصرت و تائید کے متعلق حیرت انگیز پیشگوئی 2 ء میں سے تحریک دیکھے کہ بعض غیر مسلم اخبارات امام جماعت احمدیدی اسانی نامید کہ احمدی اس وقت تو پاکستان کی پر

Page 165

4 147 کر رہے ہیں مگر انہیں یاد نہیں رہا کہ افغانستان کی اسلامی ملکت نے کس طرح احمد یوں کو احمدیت کے جرم میں سنگسار کروا دیا تھا.جب حضور کی خدمت میں یہ اطلاع پہنچی تو حضور نے اس طعن آمیز پراپیگنڈہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے نہایت پر شوکت لہجہ میں فرمایا : اگر ہم انصاف کا پہلو اختیار کریں گے اور اس کے باوجود ہم پر ظلم کیا جائے گا تو ظالموں کا وہی حشر کرے گا جو امان اللہ کا ہوا تھا.اگر ہم پہلے خدا پر یقین رکھتے تھے تو کیا اب چھوڑ دیں گے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین ہے.وہ انصاف کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے اور ظالموں کو سزا دیتا ہے وہ اب بھی اسی طرح کرے گا جس طرح اس سے پیشتر وہ ہر موقعہ پر ہماری نصرت اور اعانت فرماتا رہا.اس کی پکڑ اس کی گرفت اور اس کی معلش اب بھی شدید ہے جس طرح کہ پہلے شدید تھی.کیا اب ہم نعوذ باشد یہ سمجھ لیں گے کہ ہمارے انصاف پر قائم ہو جانے سے وہ ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہرگز نہیں.یہ احمدیت کا پودا کوئی معمولی پودا نہیں یہ اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اور وہ خود اس کی حفاظت کرے گا اور مخالف حالات کے باوجود کرے گا دشمن پہلے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے مگر یہ پودا ان کی حسرت بھری نگاہوں کے سامنے بڑھتا رہا تاریکی کے فرزندوں نے پہلے بھی حق کو دبانے کی کوشش کی نگر حق ہمیشہ ہی ابھرتا رہا اور اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی طرح ہوگا یہ چراغ وہ نہیں جسے شمن کی چھونکیں بجھا سکیں یہ درخت وہ نہیں جسے عداوت کی آندھیاں اکھاڑ سکیں.مخالف ہوائیں چلین کی طوفان آئیں گے مخالفت کا لے سابق شہنشاہ افغانستان جو نہایت گمنامی کی حالت میں ان دنوں اٹلی میں اپنی زندگی کے آخرمی دن بسر کر رہے ہیں (مرتب).

Page 166

140 سمندر ٹھاٹھیں مارے گا اور لہریں اُچھالے گا مگر یہ جہاز جس کا ناخدا خود خدا ہے پار لگ کر ہی رہے گا.ر الفضل اور مئی مث ) (مرتب) حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہ پیش گوئی کس شان سے 142ء میں پوری ہوئی.اس کے متعلق ہمیں یہاں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں باب دوم میں ہم پاکستان اور جماعت احمدیہ کے خلاف منظم شورش کا پوری تفصیل سے ذکر کر آئے ہیں.سنها لیسنر زبان کی ترقی اور اس میں احمد یہ لٹریچر کی اشاعت کے بارہ میں ایک عظیم استان خبر ینے رویا میں دیکھا کہ کوئی تحریر میرے سامنے پیش کی گئی ہے اور اس میں یہ ذکر ہے کہ ہمارے سلسلہ کا لٹریچر سنہا لی زبان میں بھی شائع ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس کے نتائج اچھے نکلیں گے.میں خواب میں کہتا ہوں کہ سنگھالینز زبان تو ہے یہ سنہا لیتر کیوں لکھا ہے پھر میں سوچتا ہوں کہ سنہالینر زبان کونسی ہے تو میرا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ شائد یہ ملائی زبان کی کوئی قسم ہے اس کے بعد آنکھ کھل گئی.عجیب بات یہ ہے کہ دوسرے ہی دن سیلون کے کسی نوجوان کا خط آیا کہ ہمارے ملک میں جو مبلغ آتے ہیں وہ انگریزی دان ہونے چاہئیں کیونکہ یہاں انگریزی کا زیادہ رواج ہے حتی کہ گو نام کے طور پر ہماری زبان سنگھالی کہلاتی ہے لیکن در حقیقت انگریزی زبان کو سمجھنے والے زیادہ لوگ ہیں اور ہمارے مبلغ

Page 167

144 سنگھائی سیکھ کر آتے ہیں انگریزی اچھی نہیں جانتے اور اسی زبان میں لٹریچر شائع ہوتا ہے کیسے سمجھے لیا کہ وہی خواب والا مضمون اس میں آیا ہے چنا نچہ کہنے ان کو لکھا کہ اب انگریزی کی وسعت کو آپ ختم سمجھئے سنگھالی ترقی کریگی اور اسی میں ہمارا لٹریچر مفید ہوگا.کیونکہ یہی مجھے آج رویا میں بتایا گیا ہے اور آپ کے خط نے وہ مضمون میرے سامنے کر دیا ہے؟ الفضل ۲۲ دسمبر شد ۶ ۳۰ خواب) (مرتب) اگر قلب و نظر میں بصیرت کی روشنی ہو تو تنہا یہ ایک رویا ہی اللہ تعالٰی کی حقانیت اسلام کے دین حق ہونے اور حضرت الصلح الموعو د ایدہ اللہ نبصر العزیز کے منجانب اللہ ہونے کا یقین دلانے کے لئے کافی ہے کیونکہ ان میں تین اہم خبریں دی گئی ہیں اور یہ تینوں خبریں نہایت شاندار رنگ میں پوری ہو چکی ہیں.اول :- بتایا گیا تھا کہ سنہالینر زبان کو عروج و اقتدار حاصل ہو گیا.چنانچہ اس پیش گوئی کے چار سال بعد سیلون کی نئی بر سر اقتدار حکومت نے ملک کی تہائی آبادی کے شدید احتجاج کو ٹھکراتے ہوئے ملک کی واحد سرکاری زبان سنہا لیز کو قرار دے دیا یہ غیر متوقع انقلاب یقینا خدائی تصرف کا نتیجہ تھا.دوم.بتایا گیا تھا کہ سنہا لینر زبان میں جماعت احمدیہ کا لٹریچر شائع ہونا شروع ہو گیا.یہ پہلو بھی غیر معمولی رنگ میں پورا ہوا.جب یہ خبر دی گئی اس وقت خود حضرت امام جماعت اس زبان کا صحیح تلفظ بھی نہ جانتے تھے اور افراد حساسات میں کوئی ایک شخص بھی اس زبان سے آشنا نہیں تھا.بایں ہمہ خدا تعالٰی نے

Page 168

142 جماعت احمدیہ کو ہی یہ اولیت بخشی کہ وہ سنہا لینز میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت کا آغاز کریس کے سوخدا کے فضل سے چند سالوں کے اندر اندر سیرت رسول الله صلے اللہ علیہ وسلم (مولفہ حضرت امام جماعت احمدیہ) سورہ فاتحہ اور حضرت مسیح موجود کی شہرہ آفاق تصنیف اسلامی اصول کی فلاسفی “ کے تراجم من سمائی میں شائع ہو چکے ہیں.سوروین اور جہل حدیث کے تراجم بھی طبع ہو چکے ہیں قرآن مجید کا اس زبان میں ترجمہ زیر نظر ہے.:- علاوہ ازیں ایک نہلیز اخبار "دونیا" جنوری شہہ سے جاری ہے غرضکہ ملک میں سہیلیز لٹریچر کی اشاعت با قاعدہ ایک مستقل ادارہ قائم ہو چکا ہے.اس ادارہ کی بنیاد کا سہرا مبلغ سیلون مولانا محمد اسماعیل صاحب منیر کے سر ہے اور اسکی مالی ذمہ داری سیلون کے مخلص فرد جناب ڈاکٹر سلیمان صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ نے اٹھا رکھی ہے فجر اہم اللہ احسن الجزاء سوم : حضرت کو خبر دی گئی تھی کہ جماعت کا سنما لیز لٹریچر بہت مقبول ہوگا سوخدا کے فضل سیلون کے ہر طبقہ میں ہمارے شائع شدہ اسلامی لٹریچر کو خاص قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا.خصوصا ترجمہ اسلامی اصول کی فلاسفی" کی اشاعت نے تو ملک بھر میں تہلکہ ہی مچا دیا.اس شہرہ آفاق کتاب کے ترجمہ کی اشاعت پر سیلون احمد یہ مشن ہاؤس میں ایک شاندار تقریب منعقد کی گئی جس میں وزیر حکومت کے علاوہ ممبر آف پارلیمینٹ مسلمانوں کے عظیم لیڈر اور دیگر معززین ملک بھاری تعداد میں شریک ہوئے اور جماعت احمدیہ کے اس دینی کا رنا منہ کی دل کھول کر داد دی اور اقرار کیا کہ جماعت احمدیہ اور اسکی مبلغین نے یہ کام سرانجام دے کر ملک کی اہم خدمت سر انجام دی ہے اور اسلامی تعلیم کو پھیلانے اور اسلام کی ترقی کے راستے کھول دیئے ہیں وزیر اعظم

Page 169

14^ سیلون نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا :- بدھسٹ اور نہلیز ہونے کے لحاظ سے میں اس کتاب ISLAM DHARMAYA کے لئے مختصر پیغام بھیجنے میں فخر محسوس کرتا ہوں.اس کو ملک کی تاریخ کے اس اہم دور میں سنہالی زبان میں اسلامی کتاب کا شائع ہوتا باعث اطمینان ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے ایک دوسرے سے تعلقات بڑھیں گے یہ کتاب جو عام فہم زبان میں تیار کی گئی ہے یقینا سہلی زبان میں اسلامی لٹریچر کی ضرورت کو پورا کرنے والی ہوگی اور مجھے امید ہے کہ یہ بہت سے لوگوں تک پہنچے گی.کتاب کے مترجم مسٹر بی.ایچ.دیدیگے نے اپنے خطاب میں مختصراً بتایا کہ جب وہ ترجمہ کر رہے تھے تو کئی غیر مسلموں نے ان کی شدید مخالفت کی مگر انہوں نے اس قومی اور مذھبی خدمت کو تکمیل تک پہنچانا ضروری سمجھا.اور اس کتاب کے مطالعہ کے بعد انہیں اس سے عقیدت ہو گئی جس کی وجہ سے اس کا ترجمہ بہت کم وقت میں ختم ہوا.اسی طرح سیلون ریڈیو سے بھی مسلسل کئی ایام تک جماعت احمدیہ کی اس عظیم الشان خدمت کے عام چرچے رہے حالانکہ چند دن قبل اس پر جماعت احمدیہ کے خلاف زبر دست پراپیگنڈہ جاری تھا.بہر صورت جس پہلو سے بھی دیکھا جائے خدا کی بتائی ہوئی خبر غیر معمولی اور خارق عادت رنگ میں منصہ شہود پر ظاہر ہوئی.فَالْحَمْدُ لله على ذلك

Page 170

149 جماعت احمدیہ کے ہاتھوں عیسائی مشنوں کے ناکام رہنے کی عظیم الشان پیشگوئی حضرت امام جماعت احمدیہ کی ہو کی ایک رؤیا ) 19 ۱۹۲۱ لینے دیکھا کہ میں لنڈن میں ہوں اور ایک ایسے جلسہ میں ہوں جس میں پارلیمنٹ کے بڑے بڑے ممبر اور نواب اور وزراء اور دو کھر بڑے آدمی ہیں.ایک دعوتی قسم کا جلسہ ہے اس میں میں بھی شامل ہوں میٹر لائنڈ جارج سابق وزیر اعظم اس میں تقریر کر رہے ہیں.تقریر کرتے کرتے ان کی حالت بدل گئی.اور انہوں نے ہال میں ٹہلنا شروع کر دیا اور ایسی گھبراہٹ ان کی حرکات سے ظاہر ہوئی کہ سب لوگوں نے یہ سمجھا کہ ان کو جنون ہو گیا ہے سب لوگ قطاریں باندھ کر کھڑے ہو گئے ہیں اور وہ جلد جلد ادھر اُدھر ٹہلتے ہیں.اتنے میں لارڈ کرزن صاحب نے آگے بڑھ کر ان کے کان میں کچھ کہا اور وہ ٹھہر گئے اور آہستہ سے لارڈ کرزن صاحب کو کچھ کہا انہوں نے باقی لوگوں سے جو ان کے گرد تھے وہی بات کہی اور سب لوگ دوڑ کر ہال کے دروازے کی طرف چلے گئے اور باہر سٹرک کی مشرقی جانب جھانکنا شروع کیا.ان کے اس طریق پر مجھے اور بھی حیرت ہوئی قاضی عبداللہ صاحب میرے پاس کھڑے ہیں.کیلئے ان سے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا ہے اور یہ لوگ درو تونے کی طرف کیوں دوڑے اور کیا دیکھتے ہیں.قاضی صاحب نے مجھے جواب دیا کہ مسٹرلائڈ جارج نے لارڈ کرزن سے یہ کہا ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں بلکہ میں اس وجہ سے ٹیل

Page 171

16.رہا ہوں کہ مجھے ابھی خبر آئی ہے کہ مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ کی ٹو میں عیسائی لشکر کو دہائی چلی آتی ہیں اور سیمی لشکر شکست کھا رہا ہے اور وہ ہٹتے ہٹتے اس جگہ کے قریب آگیا ہے.اور یہ لوگ اس بات کوئن کر دردانہ ے کی طرف اس لئے دوڑے تھے کہ تا دیکھیں کہ لڑائی کا کیا حال ہے جب کیسے یہ بات ان سے مشتی تو یکی دل میں کہتا ہوں کہ ان کو اس قدر گھبراہٹ ہے.اگر ان کو معلوم ہو کہ میں خود ان کے اندر موجود ہوں تو یہ مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کریں گے یہ خیال کر کے میں بھی دروازے کی طرف اسی طرح بڑھا جس طرح وہ لوگ دیکھنے کے لئے گئے تھے اور وہاں سے خاموشی سے سرک کی طرف مکمل گیا.اس پر میری آنکھ کھل گئی.اخبار الفضل مورخه ۲۴ تون ۲۳ شد و مت کا بم بیا (۲) (مرتب) جماعت احمدیہ کے مقابل عیسائی مغلوں کے پسپا ہونے کی یہ خبر آج سے چھتیس سال قبل کی ہے جبکہ بیرونی ممالک میں جماعت احمدیہ کے صرف گفتی کے چندشن موجود تھے یا ابھی نئے نئے قائم ہوئے تھے اور غیر ملکی دنیا میں جمعیت احمدیہ کی کوئی آواز نہ تھی اس کے برعکس کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے مشن پوری دنیا پر چھائے ہوئے تھے اور عیسائیت کے حلقہ اثر واقتدار میں ہر لحظہ اضافہ ہو رہا تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا دنیا کی تمام عیسائی حکومتیں پشت پناہ تھیں اور مسیحیت کی تبلیغ و اشاعت پر بے دریغ روپیہ صرف کیا جا رہا تھا تثلیث کی جنگ لڑنے والی ان عالمگیر سیمی افواج کے برعکس توحید کے پرستار ہر طرح بے دست و یا.تھے.اُن کی حکومتیں سسک رہی تھیں، اور ترکی میں پر پورے عالم اسلام کو ناز تھا خود اتحادیوں کے ہاتھوں حصے بخرے ہو چکا تھا اور مسلمانوں کی واحد تبلیغی جماعت جماعت احمدیہ کو اپنے ملک میں بھی کوئی خاص اہمیت حاصل نہ تھی

Page 172

141 مادیت پرست اور اس کے جو چند ایک مشن بیرون ہند میں تھے وہ بھی انتہا درجہ کی ابتدائی حالت میں تھے ایسے ناموافق بلکہ سراسر مخالف حالات میں کون کہہ سکتا تھا کہ حضر خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی قیادت میں قادیان ایسی گمنام بستی سے دین خدا کے وہ جانباز سپاہی نکلیں گے جو عیسائیت کے نظام تبلیغ واشاعت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور اس کے مناد پسپا ہونے پر بھی مجبور ہونگے اور اپنی بہیت و شکست کا اقرار کرنے پر بھی.خدائی پیشگوئی کے اس اعلان کو دیوانوں کی بڑ قرار دے کر مسکرا دیے اور غرور کے عالم میں اپنی کوششوں کو تیز سے تیز کر دیا مگر خدائی تقدیروں کو بدلنا دنیا کی کسی بڑی سی بڑی قوت کی بساط میں نہیں چنا نچہ آج دولت و ثروت اور اقتدار کی بے پناہ قوتوں کے باوجو و آج تک کئی مقامات پر عیسائی مشن مبلغین احمدیت کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر بند ہو چکے ہیں اور قائم شدہ مشنوں میں بھی انتشار وتشتت آثار نمایاں ہو رہے ہیں اور بعض جگہ تو وہ اپنی شکست کا کھلے بندوں اقرار کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں.کتاب کی ضخامت کے پیش نظر سینکڑوں اقتباسات میں سے سیجی دنیا کے صرف چند تاثرات ذیل میں درج کرتا ہوں.قارئین ان کا ایک ایک لفظ پڑھیں اور اندازہ لگائیں کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی چھتیس سالہ لہ ڈیا کا عملی ظہور کسی حیرت انگیز رنگ میں ہوا ہے.ا امریکہ کا مشہور بین الاقوامی حیثیت رکھنے والا مقتدر اور با اثر رسالہ لائف راگست 200 ء کی اشاعت میں رقم طراز ہے.حال ہی میں کچھ عرصہ قبل دنیا میں تبلیغ اسلام کی کوئی منظم تحریک موجود نہ تھی...لیکن موجودہ زمانے میں اب مسلمانوں کے اندر ایسے آثار ظاہر ہوتے ہیں کہ جن سے ایک خاص رجحان کی نشان وہی ہوتی ہے اور وہ رجحان یہ ہے

Page 173

14F کہ مسلمانوں نے بھی اب عیسائیوں کی تبلیغی تنظیم اور اُن کے فنکارانہ اسلوب میں پیچسپی لینی شروع کر دی ہے...ان میں سب سے زیادہ پیش پیش ایک نیا فرقہ ہے جو جماعت احمدیہ کے نام سے موسوم ہے اس کا صدر مقام پاکستان میں ہے اور یورپ افریقہ امریکہ اور مشرقی ممالک میں اس کے باقاعدہ تبلیغی مشن قائم ہیں......قادیانی جماعت کا جس نے افریقہ کو خاص طور پر اتنی توجہ اور جدو جہد کا مرکز بنا رکھا ہے دعوی ہے کہ وہ اب تک وہاں ساٹھ ہزار حبشی باشندوں کو اسلام میں داخل کر چکی ہے....بعض علاقوں میں یہاں عیسائی مشنری اور مسلمان مبلغ آجکلی ایک دوسرے کے بالمقابل اپنے اپنے مذہب کی اشاعت میں مصروف ہیں حالت یہ ہے کہ عیسائیت قبول کرنے والے ایک شخص کے مقابلے میں دس مبشی اسلام قبول کرتے ہیں.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ مغربی افریقہ میں اب اسلام کو واضح طور پر صیغیوں کا مذہب قرار دیا جاتا ہے جبکہ عیسائیت وہاں صرف سفید فام لوگوں کا مذہب بن کر رہ گئی ہے." نائجیریا کا مشہور روز نامہ ٹائمز اپنی ۲۳ فروری عھد کی اشاعت میں بشپ کا کیلیا کو اسلام کے خلاف زیر دست اشتہار کے عنوان سے رقمطراز ہے:.

Page 174

ترے “El shop A.B.Akinyele, who is Incharge Ibadan Diocese, has warned the Anglican churches in his diocese against allowing the religion of Islam to appear asthetruefui fi Iment of African religion.The Bishop wa s delivering his annual charge to the third session of the first Synod of the Angli can Churches of the Ibadan Diocese which has just ended here… ….He said that Islam was making a strong bid to be re- garded as the recognized re- ligion of West Africa and that He had heard from more than one of the Diocese in the provi n- ces that I sI am was making great advance”.

Page 175

✓ Herald · 16F.نائیجیریا کے چوٹی کے اخبار افتتاحیه “If past attempts at reform have misfired, what of the Ocular demonst ration the changed position of our Muslim count rymen.They were the most Backward community up to some thi sty years ago, but since the Ahmadis start ed their pro- gressive campaign wonderful changes have been wrought among them?, 19 Aug.1955

Page 176

16A ام ایک عیسائی مبصر اور سیرالیون امریکن مشن کے پادری مسٹر ویورڈ گار رالیون میں عیسائی مشنوں کی کس مپرسی کا مندر بعد ذیل الفاظ میں نقشہ بھیجتے ہیں." پورٹ لوکو میں انگریزی چرچ کے پیرو بہت کم ہیں حالانکہ یہ چورج اس علاقہ میں بیسیوں سال سے کام کر رہا ہے اور امریکن مشن نے بھی لوگوں کو عیسائی بنانے کی بے جد کوشش کی ہے مگر جب ہم اس مشن کا معائنہ کرنے کے لئے گئے تو ہم نے دیکھا کہ یہ سفن اپنا کاروبار بند کر رہا تھا...اسلام کی شریعت بہت اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ مسیحیت اس کے مقابلہ پر شکست کھانے کے باوجو لڑتی رہے لڑائی ابھی تک جاری ہے لیکن حال میں احمدیہ تحریک کی طرف سے جو مک اسلام کو پہنچی ہے اور جورو کو پر کے علاقہ میں کافی مضبوطی سے قائم ہو چکی ہے.وہ اسلام کے لئے بہت مفید ثابت ہوئی ہے.شہر کا ہمیہ میں امریکن مشن کا بند ہو جانا بھی اسی کشمکش کا نتیجہ ہے".-۵ چرچ مشنری سوسائیٹی کے جنرل سکوٹری کا اقرار : ر" -: اب کلیسا کو فتح نصیب شکر یا نو آبادیاتی قوت سے تشبیہ دینے کی بجائے ایک ایسی مدافعانہ تحریک سے تعبیر کرنا زیادہ مناسب ہے جو دشمن کے علاقہ میں اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہو ؟ The Christran atitude to other religione By Mr.E C.Dewich

Page 177

144

Page 178

186 باب چهارم حضر امیر المومنین خلیفة المسح الثانی اید اللّہ تعالی کے شوف البنات جو غیر احمدیوں اور غیر مسلموں کے ذریعہ سے پورے ہوئے

Page 179

آریہ سماج لاہوں کے مقابل کامیابی کی خبر فرمایا : " رات کینے ایک رؤیا دیکھی ہے اور اس کا سلسلہ قریباً ساری رات ہی قائم رہا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وفد گاڑی سے رہ گیا.میں حیران ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ وفد ۲۱ نومبر دو پہر کو گیا ہے پھر کیسے گاڑی سے رہ گیا.اس سے بہت پریشانی سی معلوم ہوئی چونکہ میاں عبد السلام دین حضرت خلیفہ اسبح اول بھی ساتھ ہے وہ سامنے آتا ہے جب یہ نظارہ دیکھتا ہوں تو آخر میں زور سے کہتا ہوں "سلام" اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.اس کا کیا مطلب ہے کہیں خدا نخواستہ آپس ہی میں کوئی اختلاف نہ ہو گیا ہومگر انجام خیر ہی ہے.اس کے بعد شیخ صاحب (نواب دین صاحب افسر ڈاک ناقل نے ڈاک کے خطوط پیش کرنے شروع کئے کوئی دس پندرہ خطوط کا جواب لکھوایا جا چکا تھا کہ لاہور سے ایک صاحب آئے اور انہوں نے وہاں کے حالات کے متعلق ایک تحریر حضور خلیفہ المسیح میں پیش کی اور کہا آریوں نے تمام مسلّمہ فریقین شرائط کو توڑ دیا اور ان کے ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ شیخ نواب الدین صاحب کہاں ہیں جنہوں نے شرائط طے کی تھیں آخر بڑی ردو کر کے بعد جب معلوم ہوا کہ آریہ صاحبان مسلمہ اور فیصل کردہ نمائندگان جانبین کی شرائط کو ماننے سے صاف منکر ہیں تو ہماری طرف سے اعلان کر دیا گیا کہ جن شرائط پر بھی آریہ صاحبان بحث کرنا چاہیں ہم بحث کریں گے.پہلی بحث ہوئی جس میں تمام مسلمانوں نے بڑے اللہ اکبر کے نعرے لگائے" راخبار الفضل مورد در جنوری ۱۹۲۳ درصد کالم ۲) (مرتب) یہ رویا آریہ سماج لاہور سے جماعت احمدیہ کے ایک مباحثہ سے تعلق

Page 180

169 رکھتی ہے جو لاہور میں نومبر کے آخری ہفتہ میں ہوا.اگرچہ آریوں نے طے شدہ شرائط پر جھگڑا پیدا کر کے یہ کوشش کی کہ مناظرہ رُک جائے لیکن مبلغین سیلیلہ نے اُن کی نئے سرے سے پیش کی ہوئی شرائط کو منظور کر لیا اور میدان مناظرہ میں نمایاں فتح حاصل کی.کانوائے پر حملہ کی خبر ۱۹۴۷ء میں جب قادیان کی آبادی محصور ہو گئی تو حضرت امام جماعت احمدیہ کی جد و جہد سے پاکستان سے نکڑوں ٹرک بھجوائے گئے تا مسلمان باشندوں کو پاکستان منتقل کر دیں اس سلسلہ میں اکتوبر کے ابتدائی ہفتہ میں بھی ۳۲ لڑکوں پرمشتمل ایک کا نوائے بھجوایا گیا جسے قادیان سے میل کے فاصلہ پر بٹالہ شہر میں روک لیا گیا اور اس پر گولیوں کی بارش ہوئی جس سے متعدد پناہ گزین شہید اور بے شمار مجروح ہوئے.ایک رویا میں حضرت امام جماعت احمدیہ کو بھی اس حملہ کی خبر دی گئی تھی.چنا نچہ آپ فرماتے ہیں : در آن صبح کمینے خواب میں دیکھا کہ میاں بغیر احمد صاحب آئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ بٹالہ کے پاس ان ٹرکوں پر جو آئے تھے حملہ ہوا ہے وہاں سے آدمی آیا ہے اور اس نے کہا ہے کہ وہ کپڑے مانگتے ہیں اور شائد چار سو کے قریب کپڑے تھے.تھوڑی ہی دیر میں اس رویا کی تصدیق ہو گئی اور خبر آئی کہ بٹالہ میں شرکوں پر حملہ ہو گیا ہے اور وہاں سو آدمی سے زیادہ مارا گیا ہے کچھ ٹرکوں ۴۵ اکتوبر شارد

Page 181

١٨٠ میں اور کچھ ٹرکوں پر چڑھنے کی کوشش میں؟ ا الفضل ، اکتوبر تو ۳ ) ( پاکستان کے یک سابق گوید کی مار کے متعلق رویا انہی ایام میں بینے دیکھا کہ پاکستان کے ایک صوبہ کے گورنر میرے گھر آئے میں اگر تعبیر نام سے لی جائے تو پھر تو خیر مبارک ہے لیکن اگر ظاہر سے تعبیر لی جائے تو علم تعبیر الرؤیا کے مطابق ایک غیر اور صاحب اقتدار شخص حب کسی کے گھر پر آئے تو اس کی دونوں تعبیریں ہوتی ہیں یعنی یا اس سے کوئی بڑا خیر ملتا ہے اور یا کسی شر کا وہ موجب ہو جاتا ہے.چنانچہ اس کریا کے کوئی مہینہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ صاحب جن کو کھے اپنے گھر پر آتے دیکھا تھا انہوں نے کسی موقعہ پر احمدیت کے خلاف بعض نا واجب کلمات کہے اور اس طرح وہ کر دیا انہوں نے پوری کر دی.و الفضل ۲۳ نومبر ۶۸۹۵) پاکستان ایسے جمہوری ملک میں کسی صوبہ کے گورنر کو کھلے طور پر فرقہ وارانہ مباحث میں حصہ لینا ایک نجیب سا امر معلوم ہوتا تھا جو غیر معمولی طور پر وقوع آگیا.مولوی ظفر علی خاں صاحب کے متعلق ایک رویا ۵ ار اکتوبر کی رات کو لینے دیکھا کہ میں گویا کسی پہاڑ پر ہوں اور وہاں لوی ظفر علی صاحب اور مولوی اختر علی صاحب بھی ہیں انہوں نے بھی وہاں پر

Page 182

IM کوئی مکان کرایہ پر لیا ہوا ہے اور مولوی اختر علی صاحب نے میری دعوت کی ہے.کچھ اور لوگوں کی بھی انہوں نے دعوت کی ہے.میں حیران ہوتا ہوں کہ ایسے شدید و شمن کا دعوت کرنا کیا معنی رکھتا ہے.مگر میں نے دعوت قبول کرلی.اور اُن کے گھر پر چلا گیا.وہاں میں نے دیکھا کہ ایک کرسی پر مولوی ظفر علی صاحب بیٹھے ہیں لیکن کمزور معلوم ہوتے ہیں اور بڑھانے کے شدید استار اُن پر تک ہر ہیں.دونوں باپ بیٹا مجھ سے لے اور پھر انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہمارا مکان چھوٹا ہے اگر آپ کہیں تو آپ کی کوٹھی میں ہی دعوت ہو جائے.میں نے خوشی سے اس کو منظور کر لیا.چنانچہ میں بھی اور دوسرے مہمان بھی اور مولوی ظفر علی صاحب بھی اور مولوی اختر علی صاحب ہماری کوٹھی پر آگئے.وہاں ایک بڑا کمرہ ہے اس میں سارے بیٹھ گئے کہ یہیں کھانا کھایا جائے گا.اس کے بعد میں نہیں کہہ سکتا کہ میری آنکھ کھل گئی یا بعد کا نظارہ مجھے یاد نہیں رہا.بہر حال خواب اسی حد تک مجھے یاد ہے." والفضل ۳۰ اکتو بر مصرف کالم ۴۳) (مرتب) مولوی ظفر علی صاحب جن کا انتقال دو ایک سال پیشتر ہوا ہے بر صغیر ہندو پاکستان کے مشہور صحافی ادیب طناز اور نغز گوشاعرتھے.آپ کے والد صاحب مرحوم حضرت مسیح موجود علیہ السلام کے بہت بڑے مداح تھے بلکہ خود آپ بھی اوائل میں احمدیت کی اسلامی خدمات کے معترف تھے.لیکن ماہ میں آپ نے بعض.....مصلحتوں کی بناء پر جماعت احمدیہ کے ۳ء خلاف......محاذ قائم کر لیا اور پھر جب تک یا ہوش و حواس رہے احمدیت کی مخالفت کو فرض اولین سمجھتے رہے.سے وفات کے چند ماہ پیشتر آپ جب مری میں اپنی زندگی کے آخری دن گزار

Page 183

JAY رہے تھے تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے کو تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے طبی مشورہ کے تحت کئی ماہ وہاں تقسیم رہنا پڑا.دوران قیام میں حضرت نے یہ د یک گرگ های انفرعلی صاحب سخت کی مپرسی کے عالم میں میں اُن کے علاج معالجہ کے لئے اپنے ایک خصوصی ڈاکٹر کو مقرر فرما دیا اور ادویہ اور انجکشن کے اخراجات اپنی گرہ سے ادا کئے.اس طرح اہلیہ کا خواب ۱۹۵۶ء میں پوری شان سے پورا ہوا.وہ لوگ جنہیں ان ایام میں یہ نظارہ دیکھنے کا موقعہ ملا ہے شہادت دیتے میں کہ حضور کو خواب میں مولوی ظفر علی صاحب کی ہیئت کذائی بلکہ مکان تک کا جو نقشہ بتایا گیا تھا انہوں نے بغیر کسی ادنی ترین تفاوت کے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور بعد کو جب حضرت کی رؤیا کے الفاظ پڑھے تو بے حد تعجب ہوا.اے نے مرتب بھی اس خواب کے پورا ہو نے کا عینی گواہ ہے.

Page 184

.۱۸۳ باب پنجم جماء جمیت دیہ کے بعض اپرونی اور بیرونی ابتلادی تعلق اسمانی انکشافات

Page 185

IAASIAN باب پنجم جناب جلوی محمد علی صنا مرحوم وفی کے متعلق سویا اور السات " صبح کے قریب میں نے دیکھا کہ ایک بڑا محل ہے اور اس کا ایک حصہ پہلی خبر گرا رہے ہیں.اور اس محل کے پاس ایک میدان ہے اور اس میں امر ہزاروں آدمی پتھیروں کا کام کر رہے ہیں اور بڑی سرعت سے اینٹیں ہاتھتے ہیں.میں نے پوچھا کہ یہ کیسا مکان ہے اور یہ کون لوگ ہیں اور اس مکان کو کیوں گرا رہے ہیں.تو ایک شخص نے جواب دیا کہ یہ جماعت احمدیہ ہے اور اس کا ایک حصہ اس لئے گیا رہے ہیں تا پرانی اینٹیں خارج کی جائیں.اللہ رحم کرے اور بعض کچھی اینٹیں بچی کی جائیں.اور یہ لوگ اینٹیں اس لئے پاتھتے ہیں تا اس مکان کو بڑھایا جاوے اور وسیع کیا جائے.یہ ایک عجیب بات تھی کہ سب پتھروں کا منہ مشرق کی طرف تھا در ساله تشید الا زبان ماه منی انه طلا) اس رڈیا کے مطابق مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء ۴۱۹۱۴ میں کھلم کھلا جماعت احمدیہ سے الگ ہو گئے." در مارچ عشہ کی بات ہے کہ رات کے وقت دوسری خبر کی تقضیاء میں مجھے ایک کاپی الماموں کی دکھائی گئی اس کی نسبت کسی نے کہا کہ یہ حضرت صاحب کے الہاموں کی کاپی ہے اور اس میں موٹا لکھا ہوا ہے عکسی اَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَ هُوَ خَيْرَ

Page 186

١٨٩ تکفر یعنی کچھ بعید نہیں کہ تم ایک بات کو نا پسند کرو لیکن وہ تمہارے لئے خیر کا موجب ہو.اس کے بعد نظارہ بدل گیا اور دیکھا کہ ایک مسجد ہے اس کے متولی کے برخلاف لوگوں نے ہنگامہ کیا ہے اور میں ہنگامہ کرنے والوں میں سے ایک شخص کے ساتھ باتیں کرتا ہوں باتیں کرتے کرتے اس سے بھاگ کر الگ ہو گیا ہوں اور یہ کہا کہ اگر میں تمہارے ساتھ ملوں گا تو مجھ سے شہزادہ خفا ہو جائے گا.اتنے میں ایک شخص سفید رنگ آیا ہے اور اس نے مجھے کہا کہ مسجد کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے تین درجے ہیں ایک وہ جو صرف نماز پڑھے ہیں.یہ لوگ بھی اچھے ہیں.دوسرے وہ جو مسجد کی انجمن میں داخل ہو جائیں.تیسرا متوتی اس کے ساتھ ایک اور خواب بھی دیکھی.لیکن اس کے یہاں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.ان دونوں رویا پر اگر کوئی شخص غور کرے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود کی وفات سے بھی ایک سال اور چند ماہ پہلے اللہ تعالے نے مجھے اس فتنہ خلافت کے متعلق خبر دے دی تھی اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب خلافت کا سوال ہی کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا.اور انجمن کا کاروبار بھی بھی نہیں چلا تھا.بہت تھوڑی مدت اس کے قیام کو ہوئی تھی اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن یہ نوزائیدہ انجمن مسیح موعود کی جانشین ہونے کا دھولی کرے گی بلکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ احمدیوں کے دماغ میں ہم کے طور پر بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ حضرت صاحب فوت ہو نگے بلکہ ہر ایک

Page 187

19- شخص یا وجود اشاعت وصیت کے غالباً یہ خیال کرتا تھا کہ یہ واقعہ ہماری وفات کے بعد ہی ہوگا اور اس میں شک ہی کیا ہے کہ عاشق اپنے معشوق کی موت کا وہم بھی نہیں کر سکتا اور یہی حال جماعت احمدیہ کا تھا پس ایسے وقت میں خلافت کے جھگڑے کا اس وضاحت سے بتا دینا اور اس خبر کا حرف بحرف پورا ہونا ایک ایسا زبردست نشان ہے کہ جس کے بعد متقی انسان کبھی بھی خلافت کا انکار نہیں کر سکتا کیا کوئی انسان ایسا کر سکتا ہے؟ کہ ایک واقعہ سے دو سال پہلے اس کی خبر دے اور ایسے حالات میں دے کہ جب کوئی سامان موجود نہ ہو اور وہ خبر دو سال بعد بالکل حرف بحرف پوری ہو اور خبر بھی ایسی ہو جو ایک قوم کے ساتھ تعلق رکھتی ہو.دیکھو ان دونوں رویا سے کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ کوئی واقعہ ہوگا جو بظاہر خطرناک معلوم ہوگا لیکن در حقیقت نہایت نیک نتائج کا پیدا کرنے والا ہو گا چنانچہ خلافت کا جھگڑا جوش لہو میں برپا ہوا گو نہایت خطرناک معلوم ہوتا تھا مگر اس کا یہ عظیم الشان فائدہ ہوا کہ آیندہ کے لئے جماعت کو خلافت کی حقیقت معلوم ہوگئی اور حضرت خلیفہ اسیح کو اس بات کا علم ہو گیا کہ کچھ لوگ خلافت کے منکر ہیں اور آپ اپنی زندگی میں برابر اس امر پر زور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور خلافت جماعت کے قیام کیلئے ضروری ہے اور اُن نصائح سے گو بانیان فساد کو فائدہ نہ ہوا ہو لیکن اس وقت سینکڑوں ایسے آدمی ہیں جن کو ان وعظوں سے فائدہ ہوا اور وہ اس وقت ٹھوکر سے اس لئے بچ گئے کہ انہوں نے مختلف فیہا مسائل کے متعلق بہت کچھ خلیفہ اول سے سنا ہوا تھا.پھر دوسری رڈیا سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسجد ہے اور اس کے متولی

Page 188

141 کے خلاف کچھ لوگوں نے بغاوت کی ہے.اب مسجد کی تعمیر جماعت لکھی ہے ہیں اس رؤیا سے معلوم ہوا کہ ایک جماعت کا ایک متولی ہوگا و متولی اور خلیفہ بالکل ہم معنی الفاظ ہیں، اور اس کے خلاف کچھ لوگ بغاوت کریں گے اوران میں سے کوئی مجھے بھی ورغلانے کی کوشش کرے گا نگر میں ان کے پھندے میں نہیں آؤں گا اور ان کو صاف کہدوں گا کہ اگر میں تمہارے ساتھ ملوں گا تو شہزادہ مجھ سے ناراض ہو جائے گا اور جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے الہامات دیکھتے ہیں تو آپ کا نام شہزادہ بھی رکھا گیا ہے پس اس کے معنے یہ ہوئے کہ جو لوگ ان باغیوں کے ساتھ شامل ہوں گے ان سے حضرت مسیح موعود ناراض ہوں گے دیعنی اُن کا یہ فعل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے خلاف ہوگا ، یہ تو اس فتنہ کی کیفیت ہے جو ہونے والا تھا لیکن ساتھ ہی بتا دیا کہ یہ فتنہ کون کرے گا اور وہ اس طرح کہ اس امر سے کہ متولی کے خلاف بغاوت کر نیوالوں سے مشہزادہ ناراض ہو جائے گا.یہ بتایا گیا ہے کہ متولی حق پر ہے اور باطی ناحق پر اور پھر یہ بتا کر کہ مسجد کے ساتھ تعلق رکھنے والے دوسرے دوگرو ہوں یعنی عام نمازیوں اور انجمن والوں میں سے عام نمازی اچھے ہیں، بتا دیا کہ یہ فتنہ عام جماعت کی طرف سے نہ ہو گا اب ایک ہی گروہ رہ گیا یعنی انہین.پس وہی باغی ہوئی.لیکن میری ملیں گی سے یہ بتا دیا کہ میں باوجود ممبر انجمن ہونے کے ان فتنہ پروازوں سے الگ رہوں گا.یہ رؤیا ایسی کھلی اور صاف ہے کہ جس قدر غور کرو اس سے اللہ تعالٰی کی عظمت اور خلافت کی صداقت کا ثبوت ایسے کھلے طور پر ملتا ہے کہ کوئی شقی ہی انکار کرے تو کرے کی برکات حتلاقت تقریر فرموده دسمبر ۱۹۱۷ء طبع اول ۳۲۰ - ۳۵

Page 189

1.۱۹۲ تیسری خبر کم شاہ کی بات ہے ابھی مجھے خلافت کے متعلق کسی جھگڑے کا علم نہ تھا صرف ایک صاحب نے مجھ سے حضرت خلیفہ اسے اول کی خلافت کے قریب پندرھویں دن کہا تھا کہ میاں صاحب اب خلیفہ کے اختیارات کے متعلق کچھ غور کرنا چاہیے جس کے جواب میں پینے ان سے کہا کہ یہ وقت وہ تھا کہ سلسلہ خلافت قائم نہ ہوا تھا جبکہ ہونے بیعت کرلی تو ایک خادم مخدوم کے اختیارات کیا مقرر کرین گے جسکی بیعت کی اس کے اختیارات ہم کیونکر مقرر کر سکتے ہیں اس واقعہ کے بعد کبھی مجھ سے اس معاملہ کے متعلق کسی نے گفتگو نہ کی تھی اور میرے ذہن سے یہ واقعہ اُتر چکا تھا کہ جنوری ملہ میں کینے یہ رویا دیکھی.کہ ایک مکان ہے بڑا عالیشان سب تیار ہے لیکن اس کی چھت بھی پڑتی بانی ہے کڑیاں پڑ چکی ہیں ان پر اینٹیں رکھ کر مٹی ڈال کر کوٹنی باقی ہے ان کڑیوں پر کچھ پھونس پڑا ہے اور اس کے پاس میر محمد الحق صاحب کھڑے ہیں اور ان کے پاس میاں بشیر احمد اور نشار احمد مرحوم دجو پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی کا صاحبزادہ تھا، کھڑے ہیں میر محمد اسحق صاحب کے ہاتھ میں ایک ڈبیہ دیا سلائیوں کی ہے اور وہ اس پھونس کو آگ لگائی چاہتے ہیں میں انہیں منع کرتا ہوں کہ ابھی آگ نہ لگائیں انہیں تو کڑیوں کو آگ لگنے کا خطرہ ہے ایک دن اس پھونس کو جلایا تو جائیگا ہی لیکن ابھی وقت نہیں بڑے زور سے منع کر کے اور اپنی تسلی کر کے میں وہاں سے لوٹا ہوں لیکن تھوڑی دور جا کر مینے پیچھے سے کچھ آہٹ سنی اور منہ پھیر کر کیا دیکھتا ہوں کہ میر محمد اسحق صاحب دیا سلائی کی تیلیاں نکال کر اس کی وجیہ سے جلدی جلدی رگڑتے ہیں وہ نہیں جلتیں پھر اور نکال کر ایسا ہی کرتے

Page 190

۱۹۳ ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد اس پھونس کو آگ لگا دیں میں اس بات کو دیکھ کر واپس بھاگا کہ ان کو روکوں لیکن میرے پہنچتے پہنچتے انہوں نے آگ لگا دی تھی میں اس آگ میں کو دپڑا اور اُسے میں نے بجھا دیا لیکن تین کٹڑیوں کے سرے مبل گئے.یہ خواب میں نے اُسی دن دوپہر کے وقت مولوی سید سرور شاہ صاحب کو سرورشاہ سنائی بوٹن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ یہ خواب تو پوری ہو گئی ہے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میر محمد اسحق صاحب نے چند سوالات لکھ کر حضرت خلیفہ اسی کو دیئے ہیں جن سے ایک شوری گیا ہے.اس کے بعد میں نے حضرت خلیفہ اسی کو روتا لکھ کر دی اور آپ نے وہ رقعہ پڑھے کہ فرمایا کہ خواب پوری ہو گئی ہے اور ایک کاغذ پر مفصل واقعہ لکھ کر مجھے دیا کہ پڑھ لو.جب میں نے پڑھ لیا تو لے کر پھاڑ دیا....چنانچہ یو رو یا حرف بحرف پوری ہوئی.اور ان سوالات کے جواب میں بعض آدمیوں کا نفاق ظاہر ہو گیا اور ایک خطر ناک آگ لگنے والی تھی لیکن اللہ تعالے نے اُس وقت اپنے فضل سے سمجھا دی.ہاں کچھ کٹڑیوں کے سرے جیل گئے اور ان کے اندر ہی اندر یہ آگ دہکتی رہی.اس خواب میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ یہ پھونس آخر جلا ہی دیا جائے گا اور بعد میں ایسا ہی ہوا.د برکات خلافت طبع اول من (۳۹) ابھی کسی جلسہ وغیرہ کی تجویز نہ تھی ہاں خلافت کے تعلق فتنہ ہو چکا تھا کہ میں نے " رویا میں دیکھا کہ ایک جلسہ ہے اور اس میں حضرت خلیفہ اول کھڑے تقریر کر رہے نہیں اور تقریر مسئلہ خلافت پر ہے اور جو لوگ آپ کے سامنے بیٹھے ہیں.اُن میں سے کچھ مخالف بھی ہیں.میں آیا اور آپ کے رہنے کھڑا ہو گیا اور کہا کہ حضور کوئی فکر نہ کریں ہم لوگ پہلے مارے جائیں گے تو پھر کوئی شخص حضور تک پہنچ سکے گا ہم آپ کے خادم ہیں.چنانچہ یہ خواب حضرت خلیفہ اول کو سنائی.جب جلسہ کی تجویز ہوئی اور

Page 191

۱۹۴ احباب بیرونجات ہے مسئلہ خلافت پر مشورہ کے لئے جمع ہوئے اور چھوٹی مسجد کے صحن میں حضرت خلیفہ اول کھڑے ہوئے کہ تقریر فرمائیں تو میں آپ کے بائیں طرف بیٹھا تھا.آپ نے اس رویا کی بنا پر مجھے وہاں سے اُٹھا کہ دوسری طرف کا حکم دیا اور اپنی تقریر کے بعد مجھے بھی کچھ بولنے کے لئے فرمایا اور میں نے بھی ایک مضمون جس کا مطلب اس قسم کا تھا کہ ہم تو آپکے بائکل فرمانبردار ہیں بیان کیا.ز برکات خلافت طبع اول منه ) ایک سال کا عرصہ ہوا مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک شخص محمد احسن نامی چوتھی خبر نے قطع تعلق کر لیا ہے.پھر بھی چند دن ہی ہوئے جگہ مولوی محمد اس ابھی امروہہ ہی میں تھے اور میری طرف فضل عمر فضل عمر کر کے اس کی طرف سے منہا آپ ہے تھے اور مجھے لکھتے تھے کہ مجھ میں اور آپ میں جو اختلاف ہے وہ ایسا ہی ہو جیسا کہ صحابہ میں ہوتا تھا اور پھر یہ بھی لکھا تھا کہ خدا تعالے نے آپ کا نام اولوا العزم رکھا ہر امید نام اولوالعزم رکھا ہر دو ہے کہ آپ مجھ سے اس اختلاف کی وجہ سے ناراض نہیں ہوں گے.انہی دنوں میں میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ مولوی محمد حسن صاحب کی نسبت خط آیا ہے کہ مر گئے ہیں اور مرنے کی ایک تعبیر مرید ہونا بھی ہے " میں نے یہ رویا نوگوں کو سنادی تھی اور اس بات کے ایک گواہ اس وقت بھی موجود ہوں گے ؟ ) ذکر انہی 14 طبع اول ) ۱۵- " میں نے متواتر رویا میں دیکھا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب میرے نہیں کیا پاس آئے ہیں اور وہ نہایت محبت اور اخلاص سے مجھے ملے ہیں.اس خواب کے مطابق ظاہری رنگ میں مولوی محمد علی صاحب آئیں یا نہ آئیں اس کی یہ تعبیر تو ظاہر ہی ہے کہ اللہ تعالے اُن کے ہمراہیوں یا اُن کے خاندان کے لوگوں میں سے بعض کو کھینچ کر ہماری طرف لائے گا.اور وہ خواہ کتنا ہی شور مچائیں

Page 192

۱۹۵ فتح ہماری ہی ہوگی." والفضل در اپریل منتشله من کالم مش (مرتب) اس رویا کے بعد خدا تعالیٰ نے چند سالوں کے اندر اندر مولوی محمد علی صاحب کے مندرجہ ذیل رفقاء کو حضرت کے قدموں میں ڈال دیا.ا.میاں محمد صادق صاحب سابق جنرل سیکریڑی انجمن اشاعت اسلام لاہور - ماسٹر فقیر اللہ صاحب سابق مستم اشاعت انجمن اشاعت اسلام لاہور - سید امجد علی شاہ صاحب چھٹی خبر کی اپنی کامی بھی کی جب جو کئی پیش گوئیوں پر عمل ہے.ا فرمایا خدا نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ میں - الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۱۷ کالم (۳) کامیاب کروں گا ہو قبا مجھے خدا تعالے نے پہنائی ہے وہ میں کبھی نہیں اتاروں گا خواہ ساری دنیا اس کے چھیننے کے درپے ہو جائے پس میں اب آگے ہی بڑھونگا خواہ کوئی میرے ساتھ آئے نہ آئے مجھے خدا تعالے نے بتایا ہے کہ ابتلاء آئیں گے مگر انجام اچھا ہو گا.پس کوئی میرا مقابلہ کر کے دیکھ لے خواہ وہ کوئی ہو انشاء اللہ تعالے میں کامیاب رہوں گا اور مجھے کسی کے مقابلہ کی خدا کے فضل سے کچھ بھی پروا نہیں ہے برکات خلافت ر تقریر و موده جلسه سالانه ۱۹۱۳ طبع اول ملا) " تم مجھے گند تلوار خیال کر لو مگر میں جس کے ہاتھ میں ہوں وہ بہت بڑا مشیرزن ہے اور اس کے ہاتھ میں میں وہ کام دے سکتا ہوں جو نہایت تیز تلوار کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں دے سکتی.....خدا کا عضویت وسیع ہے اور اس کا رحم بے اندازہ پیپس اس کے جسم سے فائدہ اُٹھاؤ اور اس کے غضب کے بھڑکانے کی جرات نہ کر وسیح موعود کا کام ہو کر رہے گا کوئی ر ضمیمہ الفضل مورخہ ۲۵ مارچ ۹۱۷ۂ صدا.اشتہار "کوئی ہے جو خدا کے کام کو روکنے سکے) }

Page 193

194 طاقت اس کو روک نہیں سکتی مگر تم کیوں ثواب سے محروم رہتے ہو؟ ر القول الفصل طبع اول من مطبوعه ۳۰ جنوری ۹۱ (مرتب) ۹۱۳ہ شانہ کی یہ خبریں کسی طرح حیرت انگیز رنگ میں پوری ہوئیں.اس کا اعتراف کا برفیہ مبایعین کے قلم سے پڑھئے :- " میاں صاحب اگر حضرت مسیح موعود کے بیٹے نہ ہوتے اور قادیان مرکز نہ ہوتا اور کوئی مہم پیش گوئی جس سے لوگوں کی آنکھوں پر پردہ ڈالا جاسکے اور انصار اللہ پارٹی اُن کی پشت پر نہ ہوتی تو پھر ہم دیکھ لیتے کہ میاں صاحب اپنے عقائد باطلہ کے ساتھ کس طرح کامیاب ہو جاتے یا پیام صلح و راپریل سیم کرو کل میں نے اپنے رکے حضور میں نہایت گھبرا کہ شکایت کی کہ مولا میں ساتھ ہیں خبر ان غلط بیانیوں کا کیا جواب دوں جو میرے برخلافت کی جاتی ہیں اور عرض کی کہ ہر ایک بات حضور ہی کے اختیار میں ہے اگر آپ چاہیں تو اس فتنہ کو دور کرسکتے ہیں تو مجھے ایک جماعت کی نسبت بتایا گیا کہ لیمر منهم یعنی اللہ تعالے مزور اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتلاء میں لیکن انجام بخیہ ہو گا یہ د ضمیمه الفضل مورخه ۲۵ مارچ ساله منا و اشتہار کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے ؟ ابت لاؤں میں کا میں بی کے متعلق ایک پرانا رویا ۱۹۱۳ء میں حضور کو آئندہ آنے والے ابتلاؤں کے متعلق شملہ میں مندرجہ ذیل رویا دکھایا گیا :- " مجھے شملہ میں رویا میں دکھایا گیا کہ ہم کچھ آدمی ہیں جنہیں پھاڑ پر جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راستہ میں جنات ہیں جو نظر تو نہیں آتے لیکن ہمارے راستہ میں زیاران

Page 194

196 ڈالنا چاہتے ہیں.میں اپنے ساتھیوں کو کہتا ہوں کہ وہ تم کو راستہ سے ہٹائیں گے لیکن تم ہر گز نہ ہٹنا اور یہ کہتے آگے بڑھتے جانا کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ " چنانچہ جس وقت ہم پہلے ہیں تو انہوں نے روک ڈالنی شروع کردی ہو مگر نظر نہیں آتے.جب ہم نے کہا کہ خدا کے فضل اور رسم کے ساتھ تو وہ بھاگ گئے اور ہمارے راستہ سے روک نہٹ گئی.اس رڈیا کے بعد جب میں شملہ سے آیا تو اس ٹریکٹ کے ذریعہ سے حملہ ہوا.اور حملہ کرنے والے پوشیدہ رہے.اس کے جواب میں جو ٹریکٹ لکھا گیا اسکے ٹائٹل پر یہی الفاظ لکھوائے گئے کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ شائع ہوتا ہے ؟ ر اخبار الفضل مورخہ ہم جولائی الہ ص کا لم ) ۴ سے (مرتب) یہ رویا ۱۳ ۹ہ کی ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہو تائید و نصرت فرمائی اس کی طرح اشارہ کرتے ہوئے حضور نے فروری ۱۹۵۳ء میں فرمایا تھا :- " آپ بھی دعا کرتے رہیں.میں بھی دعا کرتا ہوں.انشاء الله فتح ہماری ہے کیا آپ نے گذشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالے نے مجھے چھوڑ دیا تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دیگا.ساری دنیا چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا.سمجھ لو کہ نہ و میری مدد کے لئے دوڑا آرہا ہے وہ میرے پاس ہے وہ مجھ میں ہے.خطرات میں اور بہت ہیں مگر اس کی مدد سے سب دور ہو جائینگے تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو.سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا " ( sigor دالفاروق لاہور مهر مارچ ۱۹۵۳ء )

Page 195

انگریزی من تمام کی اٹھائی ہوئی تحریر کے متعلق ۱۹۳۴۰۳۵ء کی خبریں (1) "باوجودیکہ ہم تشدد نہ کریں گے اور نہ سول نافرمانی.باوجودیکہ ہم گوینٹ کے قانون کا احترام کریں گے.باوجود اس کے ہم ان تمام ذمہ واریوں کو ادا کر ینگے ہو ا حمدیت نے ہم پر عائد کی ہیں اور باوجود اس کے ہم ان تمام فرائض کو پورا کریں گے ہو خدا اور اس کے رسول نے ہمارے لئے مقرر کئے ہیں.پھر بھی ہماری دتحریک جدید کی.ناقل ) سیکیم کامیاب ہو کہ رہے گی گیشتی احمدیت کا کپتان اس مقدس کشتی کو پُر خطر چٹانوں میں سے گزارتے ہوئے سلامتی - م کے ساتھ اُسے ساحل پر پہنچا دے گا.بهر حال جماعت احمد یہ جلد یا بدیہ اس معاملہ میں غالب آکر رہے گی اور اپنی صداقت دنیا سے منوا کر رہے گی.(الفضل اور نو بر شاء منہ کالم ۳) (۲) میں نے ایک دن خاص طور پر دعا کی تو میں نے دیکھا کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب آئے ہیں (وہ اس وقت تک انگلستان سے واپس نہیں آئے تھے) اور میں قادیان سے باہر پانی سڑک پر اُن سے ملا ہوں وہ ملتے ہی پہلے مجھے سے بغلگیر ہو گئے.اس کے بعد نہایت جوش سے انہوں نے میرے کندھوں اور سینہ کے اوپر کے حصے پر بوسے دینے شروع کئے ہیں اور نہایت رقت کی حالت اُن پر طاری ہے اور وہ بو سے بھی دیتے جاتے ہیں اور یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ میرے آقا میرا جسم اور روح آپ پر قربان ہوں کیا آپ نے خاص میری ذات سے قربانی چا ہی ہے یا کہا کہ خاص میری ذاتی قربانی چاہتی ہے

Page 196

١٩٩ اور میں نے دیکھا کہ اُن کے چہرہ پر اخلاص اور رنج دونوں قسم کے جذبات کا اظہار ہورہا ہے.میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ اول تو اس میں چوہدری صاحب کے اخلاص کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے کہ انشاء اللہ میں قربانی کا اُن سے مطالبہ کیا گیا خواہ کوئی ہی حالات ہوں وہ اس قربانی سر دریغ نہیں کرینگے.دو کر یہ کہ ظفر اللہ خاں سے مراد اللہ تعالے کی طرف سے آنیوالی فتح ہے اور ذات سے قربانی کی اپیل سے متى نصر اللہ کی آیت مراد ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے اپیل کی گئی تو وہ آگئی اور سینہ اور کندھوں کو بوسہ دینے سے مراد علم اور یقین کی زیادتی اور طاقت کی زیادتی ہے اور آقا کے لفظ سے یہ مراد ہے کہ فتح اور ظفر مومن کے غلام ہوتے ہیں.اور اُسے کوئی شکست نہیں دے سکتا.اور جسم اور روح کی قربانی سے مراد جسمانی قربانیاں اور دعاؤں کے ذریعہ سے نصرت ہے جو اللہ تعالے کے بندوں اور اس کے فرشتوں کی طرف سے ہمیں حاصل ہونگی ؟ (الفضل اور نومبر سٹہ مٹ) مل) اللہ تعالے نے مجھے بتایا ہے کہ اس فتنہ کے نتائج جماعت کے لئے بہت زیادہ کامیابی اور ترقیات کا موجب ہونگے افضل ، ار فروری اور منہ کالم ) (لم) " خدا مجھے اور میری جماعت کو فتح دے گا.کیونکہ خدا نے جس راستہ پر مجھے کھڑا کیا ہے وہ فتح کا راستہ ہے.جو تعلیم مجھے دی ہے.وہ کامیابی تک پہنچانے والی ہے اور جن ذرائع کے اختیار کرنے کی اُس نے مجھے توفیق دی ہے وہ کامیاب و با مراد کرنے والے میں اس کے مقابلہ میں زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں سے نکل رہی ہے اور میں اُن کی شکست کو اُن کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں وہ جتنے زیادہ منصوبے کرتے اور اپنی کامیابی کے نعرے لگاتے ہیں.اُتنی ہی.

Page 197

۲۰۸ ۲۰۰ نمایاں مجھے اُن کی موت دکھائی دیتی ہے ؟ (افضل یہ مئی ۱۳ م کالم ) (مرتب) یادر ہے کہ اکتو بر سیر میں جبکہ قادیان میں ایک مخصوص جماعت کی کانفرنس منعقد ہوئی ) پنجاب کی انگریزی حکومت نے حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ کے نام پنجاب کر یمنل لاءا منٹ منٹ ایکٹے سسلر دفعہ ۳ (۱) 2 کے تحت رجوسول نافرمانی اور حکومت کو تہ و بالا کر دینے والی تحریکات کے سدباب کے لئے بنایا گیا تھا، ایک سراسر نا جائتہ اور ظالمانہ حکم جاری کیا.یہ تھی وہ انتہائی خلاف عقل و فہم کا روائی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالی کیفر کے حضور پر نور مندرجہ بالا طبر یا دی گئیں.چنانچہ ان آسمانی اطلاعات کے مطابق انگریزی حکومت کو نہ صرف جنگ عظیم ثانی کی شکل میں اسکا شمارہ بھگتنا پڑا بلکہ اس کے معا بعدا انہیں اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے سرزمین ہند ہمیشہ کیلئے چھوڑ دینا پڑی اور اس طرح زمین فی الحقیقت اُن کے پاؤں سے نکل گئی.اس شاندار عملی تعبیر کے علاوہ آجنگ متعدد واقعات وشواہد اسکی تصدیق میں ایسے پیدا ہوئے کہ یہ حیرت انگیز الفاظ اسلام کی سچائی کا چمکتا ہوا نشان بن گئے.تحریک بعدیڈ کی سیم جس کا ذکر تصور نے مندرجہ الفاظ میں فرمایا ہے انگریزی حکومت کے پیدا کردہ مخالف ماحول کے اطلاقی اور روحانی مقابلہ کے لئے حضور پر انتقاد ہوئی تھی اُس سکیم میں جماعت سے سادہ زندگی.دعا - وقعت زندگی بیرونی ممالک میں تبلینی و غیرہ امور مشتمل انیں اہم مطالبات کئے گئے تھے.یہ وہی تحریک ہے جس کا ذکر باب دوم میں کیا جا چکا ہے اور جوال اسے نقل عظیمی، تربیتی او تعلیمی ادارہ کی شکل میں قائم ہے اور دنیا بھر میں تبلیغ واشاعت اسلام کا بھاری فریضہ سر انجام دے رہی ہے.خدا تعالے کی نصرتوں کا یہ نشان کتنا ایمان افروز ہے کہ جہاں ۱۹۳۳ء سے قبل جماعت احمد کی صرف چند مشن تھے وہاں اب تحریک جدید کے ذریعہ سے دنیا بھر میں درجنوں مشن کھل چکے ہیں.۱۹۳۷ء کے دور ابتلاء کی قبل از وقت اطلاع " میں نے آج رویا میں دیکھا ہے کہ میں ایک گھر میں ہوں جو قادیان کا ہی ہے وہاں

Page 198

٣٠٩ بہت سے احمدی مرد اور محور میں جمع ہیں جو رتیں ایک طرف ہیں غالبا بر رفع وغیرہ پہن کر بیٹھی ہیں یا راوٹ ہے سینے اُس طرف دیکھا نہیں لیکن ایک طرف مرد ہیں اور ایک طرف عورتیں.چوہدری ظفر الدین صاحب جو کچھ عرصہ پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے ہیں اور اب بنگال میں مبلغ ہو کر گئے ہیں وہ اور ایک اور آدمی گھبرا کر کھڑے ہوئے جلدی جداری بلند آواز سے میری توجہ کو ایک طرف پھرانا چاہتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ دیکھیئے کیا ہے.وہ دیکھئے کیا ہے وہاں ایک چوہیا دوڑی جارہی ہے لوگ اُسے..مارہے ہیں اور میری توجہ اس طرف ہے لیکن چوہدری صاحب اور ان کا ایک ساتھی مجھے دوسری طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں اور آوازیں دے رہے ہیں ان کے توجہ دلانے پر لینے اس طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ ایک جگہ سے دیوار شق ہے اور ایک پوسیا وہاں سر کے بل لٹکی ہوئی ہے" " چوہدری صاحب جب مجھے وہ مری ہوئی چو میاد کھا رہے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اور بھی بہت سے چوہے مرے پڑے میں چوہے سے مراد منافق بھی ہوتا ہے اور طاعون بھی.بس اس خواب کا اشار کسی ایسے فتنہ کی طرف بھی ہو سکتا ہے جو گھبراہٹ کا موجب ہو یا منافقوں سے ہمارا مقابلہ آپڑے اور اللہ تعالیٰ ان کو بلاک کردیے ہے ابتلاء کے متعلق بذریعہ رویا اطلاع آٹھ نو سال ہوئے پینے رویا دیکھی کہ مصری صاحب پر کوئی ابتدار آیا ہے اور اُن کے دل میں بہت سے شکوک پیدا ہو گئے ہیں اور بعض دفعہ انہیں یہ بھی خیال آتا ہے کہ وہ قادیان سے پہلے جائیں لینے اس پر رویا میں اسکی دعوت کی اور انہیں نصیحت کی کہ ان باتوں کا نتیجہ اچھا نہیں اس سے ایمان بالکل جاتا ہے ہے گا.چنانچہ رویا.میں انہوں نے اقرار کیا کہ ہاں واقعہ میں میرے دل میں وساوس پیدا ہو گئے تھے اور میں ه الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۳۶ و ۱۳۰ کالم عاد ۱۳۹۲

Page 199

٢١٠ چاہتا تھا کہ قادیان سے چلا جاؤں" نے مصری تحریک کے انجام کے متعلق خبر (1) زمین بدل سکتی ہے.آسمان بدل سکتا ہے سمندر خشک ہو سکتے ہیں.پہاڑا ڈر سکتے ہیں مگر جو بات نہیں مل سکتی اور کبھی نہیں مل سکتی وہ یہ ہے کہ ہم ہی کامیاب ہونگے بظاہر حالات حملے کتنے ہی سخت ہوں بظاہر حالات....طاقتیں کتنی ہی دیر روی کیوں نہ ہوں یہ خدا کی تقدیر ہے جو پوری ہو کر رہے گی.(۲) قضائے آسمان است این بہر حالت شود پیدا ئه خدا تعالٰی مجھے تسلی دیتا ہے ان چند روز میں اس کثرت سے مجھے اتہام اور رویا ہوئے.ابھی چند روز ہوئے کہ مجھے الہام ہوا جو اپنے اندر دعا کا رنگ رکھتا ہے اور وہ یہ کہ سے خدا میں چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہوا ہوں تو میری مرد فرما " اور پھر اسکے تین چار روز بعد الہام ہوا جو گویا اسکا جواب ہے کہ میں تیری مشکلات کو دور کر دون کا ۱۹۵۶ء کی تحریک کے متعلق رویا و کشوف 1904.دینے رویا میں دیکھا کہ امر طاہر اور امتہ ائی مرحومہ دونوں گھر میں آئی ہیں اورام اومنین کے پاس بیٹھی ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی وجہ سے حیا کی وجہ سے یا کسی اور وجہ ہے.دونوں مجھ سے کچھ جھینپتی ہیں امتہ الحی مرحومہ تو اتنے میں کھسک کر کسی اور طرف چلی گئیں سینے غالباً ان کو دیکھا نہیں مگر اہم طاہر کو دیکھا ہے اسپر کینے ان سے پوچھا کہ امتہ الحی کہاں ہے انہوں نے کچھ ایسا جواب دیا کہ پتہ نہیں کہاں ہے یا نہیں ہونگی اسی قسم کا مشتبہ سا جواب ہے میں امتدائی کی تلاش میں گھر کے دوسرے کمروں کی طرف چل پڑا ہوں.آخر امتہ الھی کو ڈھونڈ لیا.اتنے عرصہ میں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ امیر کی وہاں سے اٹھ کر پھر کہیں ادھر ادھر ہو گئی ہیں.اسپر مینے کہا اب امتدائی کہاں گئی ہیں تو الفضل ۲۰ تومیری ۹۳ ع متہ کالم ۲-۳۳ المفصل اور جولائی و من کالم ٣ الفصل ۳ جولائی شید ما کا مرت ہیں کہ گذشتہ دو سال میں نہ ہوئے ہونگے.

Page 200

نہ معلوم اقم طاہر نے یا کسی اور نے جواب دیا کہ وہ اپنی اماں کے ہاں ملنے گئی ہیں کسی کو ان کے پاس بھیجا کہ آیا میں وہاں ملنے کے لئے آجاؤں یا تم یہاں ملنے کے لئے ہوگی اس شخص نے واپس آکر جواب کہ امتہائی کی طبیعت بیمار ہو گئی ہے اور کچھ دمہ یاد کرکشی کی سی شکایت بتائی کہ ایسی آنکی حالت ہے سانس کچھ رکھتا ہے اس وقت مجھے یہ خیال آیا دو کہ میں ان کو دیکھ بھی آؤں اور کوئی ہو میو پیتھک دو ابھی ان کے لئے لے جاؤں جب میں اٹھا تو اس وقت بلند آواز سے میری زبان پر قرآن کریم کی یہ دعا جاری ہوئی دوائی کی پڑیا میرے ہاتھ میں تھی اور میں گھر کی طرف جارہا تھا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور میری زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ : رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَابَ بار بار اور متواتر باشیم گریاں نہایت بلند آواز سے میں یہ پڑھتا چلا جاتا تھا اے " فرمایا ۲۶ مارچ دست اء ناقل کو بیٹے ایک عجیب خواب دیکھا جو کسی آئیندہ زمانہ میں آنیوالے بڑے انقلاب پر دلالت کرتا ہے.نے دیکھا کہ یں گھوڑے پر سوار ہوں چھ سات اور آدمی بھی گھوڑوں پر سوار ہیں وہ جرنیل معلوم ہوتے ہیں او کسی احمدی لشکر کی کمان کرتے معلوم ہوتے ہیں مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ صداقت کے راستہ سے بھٹک گئے ہیں اور ان راہوں سے دور جاپڑے ہیں جس پر بننے جماعت کو پختہ کیا ہے اور جماعت کو غلط راستہ پر چلا ہے ہیں لینے ان کو نصیحت کی وہ مجھے پہچان گئے ہیں لیکن میری دخل اندازی کو نا پسند کرتے ہیں دیوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی آئندہ زمانہ ہے صدیوں بعد کا میں گویا دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آیا ہوں) اسی بحث مباحثہ میں انہوں نے مجھ پر حملہ کردیا ہے اور چاہتے ہیں کہ مجھے قتل کر دیں تاکہ لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ میری تعلیم کیا تھی اور وہ لوگوں کو کدھرے گئے ہیں اس وقت میرے ہاتھ میں ایک تلوار ہے جو بہت لمبی ہے عام تلواروں سے دو تین گئے لیبی.مگر میں اُسے نہایت آسانی سے چلا رہا ہوں ہم سب ایک خاص بہت کی طرف گھوڑے بھی دوڑائے جاتے ہیں اور لڑتے بھی جاتے ہیں گو وہ کئی ہیں لیکن اُن کا مقابلہ خوب کر رہا ہوں اور ان کے کندھوں پر پینے کئی کاری الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۴۶ ص۲

Page 201

ضرب لگائی ہیں بعض کیچپھاتی ہوئی ضر میں میرے جسم پر بھی لگی ہیں لیکن مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی اسی طرح لڑتے ہوئے ہم ایک مکان کے پاس پہنچے اور گھوڑوں سے اتر اس کے اندر داخل ہو گئے اس مکان کے باہر احمدی لشکر کا ایک حصہ کھڑا معلوم ہوتا ہے بینے اس مکان میں پہنچ کر ان لوگوں کو پھر سمجھانا شروع کیا اور بتایا کہ اسلام کی صحیح تعبیر وہ نہیں جو وہ کرر ہے ہیں اور یہ کہ وہ اس راہ سے دور چلے گئے ہیں جسپر مینے انہیں ڈالا تھا اور چونکہ تشریح کرنے کا اختیار اللہ تعالے نے مجھے دیا تھا ان کا رویہ نا درست ہے اور اُن کو توجہ کرنی چاہئے مگر اس تمام تقریکان پر کچھ اتر نہیں ہوا.اور وہ اپنی ضد پر مصر رہنے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ میری بات مانتے ہیں اپنی لیڈری کو خطرہ میں پاتے ہیں اور اس لئے اپنی ضد پر پختہ ہیں بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ اب جبکہ وہ ایک نئے طریق پر جماعت کو ڈال چکے ہیں مجھے بھی ان کی بات مان کر اُس کی تصدیق کر دینی چاہئیے جب میں سمجھا کر تھک گیا تو مینے ایک دروازہ جو صحن کی طرف کھلتا ہے اور اس بہت کے مخالف ہے جس طرف وہ لوگ بیٹھے ہیں کھولا اور اس ارادہ سے باہر نکلا کہ اب میں خود جماعت سے خطاب کروں گا جب مینے وہ دروازہ کھولا تو اپنی طرف کا دروازہ جلدی سے اُن لوگوں نے کھول دیا اور باہر کھڑی ہوئی فوج کو حکم دیا کہ مجھے قتل کر دیں جب میں دروازہ کھول کر نکلا تو سینے دیکھا کہ مکان کی گریسی اونچی ہے اور صحن تک چار پانچ سیڑھیاں اتر کر جانا پڑتا ہے اور سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی پردہ کی دیوار ہے جس کے ساتھ فوج قطار در قطار صحن میں کھڑی ہے اور اُن کا سینہ تک کا جسم دیوار سے باہر نظر آتا ہے اور پوری طرح مسلح ہے جس وقت میں نکلا تو اس وقت یوں معلوم ہوا کہ تین چار آدمی میرے ساتھ بھی ہیں لینے ایک سیٹرھی اُتر کر فوج کی طرف منہ کیا اس وقت دیوار کے ساتھ کی قطار نے بھی میری نظر منہ کیا اور ان جرنیلوں کے حکم کے ماتحت مجھ پر حملہ کرنا چاہا اس وقت بھنے سینہ تان دیا اور ان لوگوں سے کہا سپا ہیں تمہارا اصل کما نڈر میں ہوں زمیں خواب میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ میں دوبارہ دنیا میں آیا ہوں یہ لوگ مجھے پہچانتے نہیں اس لئے میں اپنا تعارف اُن سے کرا دوں تو وہ سمجھے جائیں کہ میں کون ہوں ) کیا تم اپنے کما نڈر پر کلک کرنے کی جرات کرو گے ؟ اس سے سپاہی کچھ گھر سے گئے اور حملہ میں متردد ہو گئے مگر دوسری میر

Page 202

۲۱۳ سے اُن کے جرنیل ان کو انگیخت کرتے چلے گئے تب مینے اپنے دو تین ساتھیوں سے کہا کہ وہ نعرہ تکبیر بلند کریں.انہوں نے تکبیر کا نعرہ لگایا لیکن فوج کے ہجوم اور اوزاروں کی بھنبھناہٹ کی وجہ سے آواز میں گونج نہیں پیدا ہوئی پھر بھی کچھ لوگ متاثر ہوئے اسپر پھر مینے کہا کہ سپا ہیو! میں تمہارا کما نڈر ہوں تمہارا فرض ہے کہ میری اطاعت کرو اور میرے تجھے چلو تب کہنے ان میں سے کچھ اور چہروں پر شناخت اور اطاعت کا اثر دیکھا اور اُن سے کہا کہ بلند آواز سے نعرہ تکبیر لگاؤ اور پھر اپنی عادت کے خلاف نہایت بلند آواز سے پکارا اللہ اکبر جب بنے یہ نعرہ لگایا تو گویا ساری فوج کے دل ہل گئے اور سر نے نہایت زور سے گرجتے ہوئے بادلوں کی طرح اللہ اکبر کہا اور ساری فضا ان نعروں سے گونج گئی تب مینے انہیں کہا میرے پیچھے چلے آؤ اور خود آگے کو چل پڑا.اس وقت سینے دیکھا کہ تمام فوج میرے پیچھے قطاریں باندھ کر چل پڑی اس وقت ان میں جوانی اور رعنائی اپنی پوری طاقت پر معلوم ہوتی ہے ان کے بھاری قدم جو وہ جوش سے زمین پر مارتے تھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ زمین کو ہلا رہے ہیں اور زمین پر ایک کامل سکو کیسے درمیان اس فوج کے قدموں کی آواز جو میرے پیچھے چلی آرہی تھی عجیب موسیقی سی پیدا کر رہی تھی میں سڑک پر ان کو ساتھ لئے ہوئے چلا گیا یہ سڑک ایک ٹیلے کے گروخم کھا کر گزرتی تھی جب اس ٹیلہ کے پاس سے وہ سٹرک مڑی تو پینے دیکھا کہ کوئی ڈیڑھ منزل کے قریب بلندی پر ایک وسیع کمرہ ہے اور اس کے اندر بہت سے لوگوں کا ہجوم ہے اور وہ بھی احمدی فوج کے آدمی ہیں اور گویا اس جھگڑے کے فیصلہ کا انتظار کر رہے ہیں میرے ہمرا ہوں میں سے ایک شخص دوڑ کر اوپر چڑھ گیا اور اوپر جا کر جو ان کا افسر دروازہ پر کھڑا تھا اسے اس نے سمجھانا شروع کردیا کہ یہ جماعت کے کمانڈر ہیں اور انہوں نے جرنیلوں کی غلطی کی وجہ سے خود کسان سنبھال لی ہے اور گویا دوبارہ دنیا میں آگئے ہیں وہ شخص جسے بنے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ چوہدری مولا بخش صاحب مرحوم سیالکوٹی ہیں (ڈاکٹر میجر شاہ نواز صاحب کے والد) اس سے کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ درست ہے تو ہمیں پہلے کیوں اطلاع نہیں دی گئی منے اپنے ساتھی کو روکا اور چوہدری صاحب سے کہا کہ افسر میں ہوں یہ میرا کام ہے کہ میں بتاؤں کہ کب اور کس طرح اطلاع دی جائے داس وقت سینے جرنیلوں سے کہ اس مضمون کی اشاعت کے وقت ڈاکٹر صاحب کیپٹن.بیٹن تھے مگر اس کے بعد میجر ہو گئے...

Page 203

۲۱۴ جھگڑے کی تفصیل سے بچنے کے لئے مختصر جواب دیا ہے، پھر کہا کہ میں سیالکوٹ جارہا ہوں وہاں ہمارے کچھ دوست میں آپ لوگ بھی اس فوج میں آملیں چو ہدری سینا مرحوم نے اس پر فوری رضا مندی کا اظہار کیا اور کمرہ میں ٹھہری ہوئی فوج کو ملنے کا حکم دیا تب میں اس فوج کے پیچھے چل پڑا جو میرے ساتھ تھی اور جسے بینے گفتگو کے وقت آگے چلنے کا حکم دے دیا تھا.اس وقت سینے دیکھا کہ ایک اور فوج بھی مجھے سے آملی ہے اور پہلی فوج اور اس کے بعد آنے والی فوج کے درمیان میں چلا جا رہا ہوں اور سیالکوٹ کی فوج کا انتظار کرتا جاتا ہوں اس وقت میرے دل میں خیال ہے کہ اس فتنہ و فسا سے محفوظ ہونے یا ہو جانے کی صلاحیت سیالکوٹ کی اس احمدی فوج میں ہر تو سیالکوٹ میں اور میں جب وہاں پہنچ جاؤں گا تو انکی مدد سے اس فتنہ کو دور کر دوں گا یہ ہے (مرتب) اس خواب میں اس تحریک کی متعدد تفصیلات موجود ہیں بالخصوص دو باتیں تو ایسی واضح ہیں کہ ان سے اس کی تعیین کرنے میں کوئی الجھاؤ نہیں رہ جاتا.اول - خواب میں بتایا گیا ہے کہ اس کے اُٹھنے اور فرو ہونے کا سیالکوٹ سے گہرا تعلق ہوگا.دوم حضرت اقدس نے یکم اپریل س لو کو اس خواب کی تعبیر میں یہ تحریر فرمایا کہ : عجیب بات ہے کہ کوئی پندرہ سولہ سال یا زیادہ کا عرصہ گزرا ہے کہ سینے ایک فقیہ پہلے بھی دیکھا تھا کہ دنیا میں فتنہ پیدا ہو گیا ہے اور میں اُسے دور کرنے کیلئے دوبارہ دنیا میں آیا ہوں اور توحید پر تقریر کر رہا ہوں اور لوگ میری بات کسان رہے ہیں اس وقت خواب ہی میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ واقعہ ایک سو ستائیس کا ہے.اس کی تشریح معین نہیں اللہ تعالے اسے اپنے وقت پر ظاہر کردے گا ؟ " یہ خدائی تفہیم ایک کلید ہے جس سے اس تحریک کی پوری طرح نشان دہی ہو جاتی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود کی پیدایش ن احمد مطابق ۱۸۳۵ء میں ہوئی جس کے ٹھیک ۲۶ ۱ سال بعد کے سلام مطابق عشاء میں یہ تحریک اٹھی اور 20 ء میں اس نے بالکل دم توڑ دیا.چند دن ہوئے کہنے ایک اڈیا اور دیکھا جس کا مجھے پر اثر ہے اور اس سے مجھے خیال ہ آیا کہ جماعت کے دوستوں کو تو جہ دلاؤں کہ وہ ہمیشہ اصل مقصود کو مد نظر رکھیں.الفضل یکم اپریل ۶۹۴۶

Page 204

۲۱۵ یکھنے دیکھا کہ ایک پہاڑی کی چوٹی ہے جس پر جماعت کے کچھ لوگ ہیں میری ایک بیوی اور بعض بچے بھی ہیں وہاں جماعت کے سرکردہ لوگوں کی ایک جماعت ہے جو آپس میں کبڈی کھیلنے لگے ہیں جب وہ کھیلنے لگے تو کسی نے مجھے کہا یا یونہی علم ہوا کہ انہوں نے شرط یہ باندی ہے کہ جو جیت جائے گا خلافت کے متعلق اس کا خیال قائم کیا جائے گا.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس فقرہ کا مطلب یہ تھا کہ جیتنے والے جسے پیش کریں گے وہ خلیفہ ہوگا یا یہ کہ اگر وہ کہیں گے کہ کوئی خلیفہ نہ ہو تو کوئی بھی نہ ہو گا.بہر حال جب مہینے یہ بات سنی تو میں اُن لوگوں کی طرف گیا اور مینے اُن نشانوں کو جو کبڑی کھیلنے کے لئے بنائے جاتے ہیں مٹا دیا.اور کہا کہ میری اجازت کے بغیر کون یہ طریق اختیار کر سکتا ہے یہ بالکل نا جائز ہے اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا اس پر کچھ لوگ مجھ سے بحث کرنے لگے اور الیسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ اکثریت پہلے صرف ایک تلعب کے طور پر یہ دیکھنا چاہتی کلی کہ کون جیتتا ہے اور خلیفہ کی تعیین کرتا ہے اور کم لوگ تھے جو خلافت کے ہی تھا تھے مگر میرے دخل دینے پر جو لوگ پہلے خلافت کے موید تھے وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے گویا میرے روکنے کو انہوں نے اپنی ہتک سمجھا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے ساتھ صرف تین چار آدمی رہ گئے اور دوسری طرف ڈیڑھ وسو.اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ گویا احمدیوں کی حکومت ہے اور میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے خونریزی کے ڈر سے بھی میں پیچھے قدم نہیں ہٹا سکتا اس لئے آؤ ہم ان پر حملہ کرتے ہیں وہ مخلصین میرے ساتھ شامل ہوئے مجھے یاد نہیں کہ ہمارے پاس کوئی ہتھیار تھے یا نہیں مگر بہر حال ہم نے اُن پر حملہ کیا اور فریق مخالف کے کئی آدمی نوخمی ہو گئے اور باقی بھاگ کر نہ خانوں میں چھپ گئے اب مجھے ڈر پیدا ہوا کہ یہ لوگ تو تہ خانوں میں چھپ گئے ہیں ہم ان کا تعاقب بھی نہیں کر سکتے اور اگر یہاں کھڑے پہنتے ہیں تو یہ لوگ کسی وقت موقع پا کر ہم کرے

Page 205

حملہ کر دیں گے اور چونکہ ہم تعدا د میں بالکل تھوڑے ہیں ہمیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اگر ہم یہاں سے جائیں تو یہ لوگ گشت پر سے آکر حملہ کر دیتے ہیں میں حیران ہوا کہ اب ہم کیا کریں.میری ایک بیوی بھی ساتھ ہیں اگر چہ یہ یاد نہیں که کونسی.اور ایک چھوٹا لڑکا انور احمد بھی یاد ہے کہ ساتھ ہے میرے ساتھی ایک زخمی کو پکڑ کرلائے ہیں جسے میں پہچانتا ہوں اور جو اس وقت وفات یا فتہ ہے اور با اثر لوگوں میں سے تھا میں اسے کہتا ہوں کہ تم نے کیا یہ غلط طریق اختیار کیا اور اپنی عاقبت خراب کرلی مگر وہ ایسا زخمی ہے کہ مر رہا ہے مجھے یہ درد اور گھبراہٹ ہے کہ اس نے یہ طریق کیوں اختیار کیا مگر جواب میں اس کی زبان لڑکھڑائی اور وہ گر گیا.اتنے میں پہاڑی کے نیچے سے ایک شور کی آواز پیدا ہوئی اور ایسا معلوم ہوا کہ تکبیر کے نعرے بلند کئے جارہے ہیں لینے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا شور ہے تو اس نے بتایا کہ یہ جماعت کے غربار ہیں ان کو جب خبر ہوئی کہ آپ سے لڑائی ہو رہی ہے تو وہ آپ کی مدد کے لئے آئے ہیں ہمیں خیال کرتا ہوں کہ جماعت تو ہمیشہ غرباء سے ہی ترقی کیا کرتی ہے یہ خدا کا فضل ہے کہ غرباء میرے ساتھے ہیں مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ تکبیر کے نعرے خاموش ہو گئے اور مجھے بتایا گیا کہ آنے والوں سے قریب کیا گیا ہے انہیں کسی نے ایسا اشارہ کر دیا ہے کہ اب خطرہ نہیں اور وہ چلے گئے ہیں کوئی مجھے مشورہ دیتا ہے کہ ہمارے سے ساتھ بچے ہیں اس لئے ہم تیز نہیں چل سکیں گے آپ نیچے جائیں آپ کو دیکھ کر لوگ اکٹھے ہو جائیں گے اور آپ اس قابل ہونگے کہ ہماری مدد کر سکیں.چنانچہ میں نیچے اترا ہوں اور غرباء میں سے مخلصین کی ایک جماعت کو دیکھتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ میں یہاں اس لئے آیا ہوں کہ تا مخلصین اکٹھے ہو جاویں تم اوپر جاؤ اور عورتوں اور بچوں کو بہ حفاظت لے آؤ اس پر وہ جاتے ہیں اتنے میں میں

Page 206

۲۱۷ دیکھتا ہوں کہ پہلے مرد اُترتے ہیں اور پھر عورتیں لیکن میرا لڑکا انور احمد نہیں آیا پھر ایک شخص آیا اور سینے اس کو کہا کہ انور احمد کہاں ہے اس نے کہا کہ وہ بھی آگیا ہے پھر جماعت میں ایک بیداری اور جوش پیدا ہوتا ہے.چاروں طرف سے لوگ آتے ہیں اُن جمع ہونے والوں میں سے سینے شہر سیالکوٹ کے کچھ لوگوں کو پہنچانا ہے.اُن لوگوں کے ساتھ کچھے وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو باغی تھے اور میں انہیں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتحاد کے ذریعہ طاقت دی تھی اگر تم ایسے فتنوں میں پڑے.تو کمزور ہو کر ذلیل ہو جاؤ گے کچھ لوگ مجھے سے بحث کرتے ہیں ہیں انہیں دلائل کی طرف لاتا ہوں اور یہ بھی کہتا ہوں کہ اس سے جماعت کا تو کچھ نہیں بگڑے گا.البتہ اُس کے وقار کو تو صدمہ پہنچے گا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور تم ذمہ دار ہوگے.اس پر بعض لوگ کچھ نرم ہوئے ہیں لیکن دوسرے اُنہیں پھر ور غلا دیتے ہیں.اور اسی بحث مباحثہ میں میری آنکھ کھل جاتی ہے.راس رویا کے کئی حصوں سے معلوم ہوتا ہے یہ واقعات میری وفات کے بعد کے ہیں.واللہ اعلم بالصواب.اور اس موقعہ پر اس رؤیا کا آنا شائد اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مجھے جماعت کو آئندہ کے لئے ہو شیار کر چھوڑنا چاہیے کیونکہ زندگی کوئی اعتبار نہیں تو اس روڈیا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ میرے ساتھ تعلق رکھنے والے خواہ غالب آئیں گے انشاء الله نے تھوڑے ہوں (مرتب) ۱۹۳۵ء کی اس حیرت انگیز رویا میں مندر جہ ذیل امور کی واضح اطلاعات دی گئی تھیں دا) حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ ایک پہاڑی کی چوٹی پر مقیم ہو نگے کہ آپ پر جانگ له نار جنوری الفضل ٣٥اء من کالم - ٢-٣ -

Page 207

PIA ایک تحریک کا انکشاف ہوگا.(۳) یہ تحریک آئیندہ خلافت کے متعلق ہوگی.ابند از خلافت سے متعلق یہ کشمکش محض کھیل قرار دی جائے گی.اور جماعت کے افراد اسے کوئی خاص اہمیت نہ دیں گے لیکن حضور اپنی خدا داد فراست کی ہدایت اسے نورا بھانپ لیں گے.(۴) اللہ تعالٰی حضور کو نظام حق کے استحیلہ کی توفیق بخشے گا.(۵) جماعت حضور کے اشارہ پر مجتمع ہو جائے گی.(4) جماعت محفوظ رہے گی.(2) ایک رویا میں چھ عظیم انسان خبروں کا اجتماع خدا تعالیٰ کی صفت علیم و خبیر کا ایک عظیم معجزہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ کمرے میں دو چار پائیاں بچھی ہوئی چوتھی خبر کے ہیں جن میں سے ایک پر میں بیٹھا ہوں اور مسجد کی کھڑکی میں سے مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم آئے ہیں لیکن بڑھاپے کی شکل میں نہیں بلکہ جوانی کی شکل میں ہیں اور داڑھی مونچھیں منڈی ہوئی ہیں.اور سر پر پگڑی کی بجائے ٹوٹی ہے خواب میں میں مولوی صاحب کے آنے پر تعجب نہیں کرتا کہ وہ تو فوت ہوچکے ہیں اور اب کیسے آگئے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ مولوی صاحب قادیان سے چلے گئے تھے اور اب واپس آگئے ہیں یا اے مرتب، حضرت اقدس نے اس خواب کی تعبیر کرتے ہوئے اور جون ۶۹۴۷ کے الفضل میں ہی تحریر فرمایا :- له والفضل ۲۱ جون شده ست کالم شد ۲-۳- بم و متحد ۲ کالم ) '

Page 208

PIA مولوی صاحب کی جوانی کی شکل دکھانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواب ان کے کسی بچے کے متعلق ہے ممکن ہے کہ انکے کسی بچے میں کمزوری پیدا ہو اور اسکی اصلاح ہو جائے حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب نے سلسلہ کے نہایت عالی مرتبہ بزرگ اور مقصد عالم تھے مگر افسوس خواب کے مطابق اس تحریک میں انکے ایک عزیز بھی موث ہو گئے جس کا تشاء میں جبکہ یہ رویا دکھایا گیا ہر گز کوئی امکان نہ تھا.نے باوجو د سفر اور بیماری کے یا چوں کہ بعض اشخاص سے بیرون سے پر ہیز نہیں کیا.لیکن تھوڑے بہت تو ساری قوم میں ہی مجرم ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے مخلص گروہ ہی جیتے گا.اور وہ لوگ ہو سمجھتے ہیں کہ میری بیماری کی وجہ سے اُنہیں سر اٹھانے کا موقع مل گیا ہے ناکام و نامراد ہوں گے اور خدا تعالیٰ مخلص حصہ کا ساتھ دے گا.اور دن اور رات کے کسی حصہ میں بھی اُن کا ساتھ نہ چھوڑے گا.(مرتب) یہ پیش گوئی بھی جو حضور نے سفر یورپ کے دوران میں فرمائی تھی بعد کو نہایت شان سے پوری ہوئی.- چھٹی خبر دینے دیکھا کہ ایک اشتہارہے جوکسی شخص نے لکھا ہے جو مجھے خواب کے بعد یا د رہا ہے مگر میں اس کا نام نہیں لینا چاہتا صرف اتنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ اشتہار ہمارے کسی رشتہ دار نے دیا ہے مگر اس کی رشتہ داری میری بیویوں کے ذریعہ سے سے اس اشتہاء میں میرے بعض بچوں کے متعلق تعریفی الفاظ ہیں اور اُن کی بڑائی کا اس میں ذکر کیا گیا ہے میں رویا میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض ایک چالاکی ہے در حقیقت لله (الفصل یکم مئی داء صد کا لم ل )

Page 209

۲۲۰ اس کی غرض جماعت میں ایک ختنہ پیدا کرنا ہے اگر کوئی غیر کی تعریف کرے تو وہ سمجھتا ہے کہ جماعت میں بیداری پیدا ہو جائے گی یا مجھے خیال آجائے گا ر اس ذریعہ سے جماعت میں فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے اور میں اس کو روکنے کی کوشش کروں گا لیکن اگر میرے بعض بچوں کا نام لے کر ان کی تعریف کی جائے تو تعریف کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح میری توجہ اس کے فتنہ کی طرف نہیں پھرے گی اور میں یہ کہوں گا کہ اس میں تو میرے بیٹیوں کی تعریف کی گئی ہے اس میں ختنہ کی کونسی بات ہے اسی نقطہ نگاہ سے اس نے اشتہار میں میرے بیٹوں کی تعریف کی ہے لیکن رویا میں ہمیں کہتا ہوں کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا چاہیے تم کتنے ہی چکر دیکر بات کرو ظاہر ہے کہ تم جماعت میں اس سے فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہو اور تمہاری بغرض یہ ہے کہ میں بھی دنیا داروں کی طرح اپنے بیٹوں کی تعریف شنکر خوش ہو جاؤں گا اور اصل بات کی طرف میری توجہ نہیں پھرے گی پس رویا میں لینے اس اشتہار پر اظہار نفرت کیا اور مینے کہا کہ میں اس قسم کی باتوں کو پسند نہیں کرتا مجھے وہ بیٹے بھی معلوم ہیں جن کی نام لے کر اس نے تعریف کی ہے اور وہ مجھے لکھنے والا بھی معلوم ہے لیکن میں کسی کا نام نہیں لیتا ہے یہ شیر بھی پوری ہوئی کیونکہ بعض لوگوں کے ظہر نے جو اس تحریک سے متاثر تھے حضور کے بعض صاحبزادگان کی تعریف کر کے اُسے سردار پینے کی کوشش بھی کی گئی تھی.ینے دیکھا کہ ایک مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں میں ساتویں شیر کم ہوں اور کچھا اور دوست ہیں میں، اور حضت میں موجود الاسلام خبر علیہ آمنے سامنے دو زانو بیٹھے ہیں.اتنے میں ایک شخص آیا جو ہندوستانی معلوم ہوتا لة والفضن ۲۲ جولائی شام ؟

Page 210

۲۲۱ ہے اُس نے آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت لی کہ میں کچھ سُنانا چاہتا ہوں آپ کی اجازت سے اس نے اپنے فارسی اشعار سنانے شروع کئے ؟ " پھر ایک فارسی نظم پڑھنی شروع کی جس میں احمدیہ جماعت مخاطب تھی.اشعار کا مطلب یہ تھا کہ اے احمد یو! اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور تقویٰ طہار اور پرہیز گاری کا مادہ اس میں رکھا اور اگر وہ غلطی کر بیٹھے تو تو بہ اور استغفار اور خدا سے معافی مانگنے کی طاقت اور رغبت اس میں پیدا کی.لیکن تو مری میں اس نے یہ خصلتیں نہیں رکھیں میں دیکھتا ہوں کہ ایک لومڑی تمہارے اندر داخل ہو گئی ہے اور بہت ہی تو بہ.استغفار اور اثابت الی اللہ کا اظہار کرتے ہوئے تمہارے اندر رسوخ پیدا کر رہی ہے اور تم اس کے اظہار خیالات پر خوش ہو.حالانکہ تم نہیں سوچتے کہ جو مادہ خدا تعالیٰ نے اس میں پیدا ہی نہیں کیا اس کا اظہار اس سے کس طرح ہو سکتا ہے یہ مادہ تو انسانوں میں پیدا کیا گیا ہے اگر انسان ایسی باتیں ظاہر کریں تو تم دھوکے میں آسکتے ہو کہ شاید یہ وہی ہو لیکن اگر ایک لومڑی ایسی باتیں کرے تو پھر دھوکا لگتا مکن ہی کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ جو چیز خدا تعالٰی نے پیدا ہی نہیں کی وہ اس سے کس طرح ظاہر ہوسکتی ہے.اس وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشیلی زبان میں جماعت میں پیدا ہو نیوالے کسی فتنہ کا ذکر کر رہا ہے اور بتاتا ہے کہ عارضی طور پر تبدیلی ظاہر کرنے والوں کو مستقل، اور مجرب لوگوں پر ترجیح کس طرح دی جاسکتی ہے وہ تبدیلی کتنی بھی شاندار نظر آئے.بہر حال اس میں منافقت کا امکان موجود ہے لیکن ایک مستقل وفاداری اور میکی خوا و بظاہر چھوٹی ہی نظر آئے وہ نیا دو قابل اعتبار ه الفضل در اکتوبر سال او مست خواب شد

Page 211

۲۲۲ آٹھویں خبر کی.میں صرف خلیفہ ہی نہیں بلکہ پسر موعود بھی ہوں میرے کے ساتھ معاملات الہام کے مطابق ہونگے نہ کہ تاریخ کے مطابق.گو ممکن ہے آپس میں تھوڑی بہت مشابہت باقی رہے راہ (مرتب) حضور کی یہ پیش گوئی ۱۹۵۶ء میں جس شاندار طریق سے پوری ہوئی.آج اس کے متعلق کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے.ئینے خواب میں ایک عورت کے متعلق دیکھا کہ اس نے مجھ پر سمریزم نویں خبر کا عمل کیا ہے اور اس کا اثر مجھے پر ہو گیا لیکن جب میں اس کی اس حرکت سے واقف ہو جاتا ہوں تو میں اُسے کہتا ہوں کہ تو نے میری بے خبری کے عالم میں مجھ پر سمریزم کا عمل کیا تھا اب مجھے خبر ہو چکی ہے اور اب میں تیرا مقابلہ کروں گا.اب تو مجھ پر عمل کر کے دیکھ لے.پھر میں اسے خواب میں ہی کہتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ کھانا کھاتے اور بھول جاتے کہ آپ نے کھانا کھایا ہے یا نماز پڑھتے تو بھول جاتے کہ آپ نے نماز پڑھی ہے یا انہیں پڑھی.حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اس جادو کا اثر تھا جو یہودیوں نے آپ پر کیا تھا ہم جادو کے تو قائل نہیں ہاں یہ ایک تدبیر تھی جو کی گئی اور مکر التشبیہ بھی ایک قسم کا جادو ہی ہوتا ہے.خواب میں سینے اس عورت سے یہی کہا کہ تو مجھے پر اب جادو کر لے تو جانوں، چنانچہ اس نے مجھ پر توجہ کی تو اس کا کوئی اثر نہ ہوا اس کے بعد کینے اس کی انگلی پر توجہ کی تو وہ اکرا گئی پھر ایک مرد له الفضل ۳۰ ر جولائی 22 ا ء کالم ع ص -

Page 212

۲۲۳ آیا اور اس نے اس کی انگلی کو ٹھیک کرنا چاہا لیکن وہ ٹھیک نہ ہوئی کہنے اس مرد سے خواب میں کہا کہ اب یہ انگلی ٹھیک نہیں ہوگی اس عورت نے بے خبری کے عالم میں مجھے پر توجہ کرلی تھی اب مجھے علم ہو گیا ہے.اب کینے بھی اس پر توجہ کی ہے اور تم میں یہ طاقت نہیں کہ میری توجہ کے اثر کو زائل کر سکو یہ ان (مرتب) یہ رڈیا اس تحریک کے بالکل ابتدائی ایام میں شائع ہوئی جبکہ یہ اصحاب حضور کی علالت طبیع کی وجہ سے اپنی کامیابی کا پورا پورا یقین رکھتے تھے لیکن اللہ تعالی نے حضور کو نئی قوت و شوکت عطا فرمائی دسویں خبر میں کمزور اور بوڑھا ہوں لیکن میراندا کرزور اور بڑھ جانیں }...پہلے بھی اس کی مدد مجھے حاصل تھی اب بھی اس کی مدد مجھے حاصل رہے گی...خدا تعالیٰ ہزاروں آدمی مجھے دے گا.اور مجھے توفیق بخشے گا کہ میرے ذریعہ سے پھر سے جماعت جوان سال ہو جائے آپ میں سے ہر مخلص کے لئے دُعا اور کمزور کے لئے رخصتی سلام کیا ہے (مرتب) یا در ہے ابتدا تعالیٰ نے اس ہنگامے کے بعد جماعت کو حیرت انگیز ترقی بخشی ہے چنانچہ اس برصغیر میں سینکڑوں افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے غیر ممالک میں چارٹی جماعتیں قائم ہوئیں.دو جرمنی میں.ایک سکینڈے نیویا میں اور ایک فلپائن میں مجلپائن میں خدا تعالیٰ کے فضل سے درجنوں افراد سلسلہ احمدیہ میں اخل ہو چکے ہیں اور ایک معقول طبقہ احمدیت میں خاص دلچسپی لے رہا ہے.اسی طرح ڈر گی آنا میں بھی بیسیوں افراد نے احمدیت قبول کی.ه الفضل در اگست شده صدا کالم ۳ - ۵۲ الفضل هم را گست اشد ما کالم "

Page 213

A ۲۲۴ علاوہ ازیں جنوبی روڈیشیا - نیا سالینڈ بلجیم کا نگو.جنوبی ہندوستان اور جزائر ل کا دیب اور مالدیب میں اسلام کی ترقی کے روشن امکانات پیدا ہو گئے ہیں.م دینے دیکھا کہ اماں جی بھی اس دنیا میں آئی ہوئی ہیں اور فرشتے سارے گیارھویں تیرا تو میں وہ آیتیں پڑھ پڑھ کر سنار ہے ہیں جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لئے آئی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ ما سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ سے نکل بھائیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے لیکن قرآن کریم منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو گے یہ دونوں جھوٹے وعد سے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لئے اور فساد پر آمادہ کرنے کے لئے ہیں اس آخری حصہ پر فرشتے زیادہ زور دیتے ہیں کے (مرتب) یہ رویا بھی واضح شکل میں پوری ہوئی جس کی تصدیق بالآخر لاہور کے ایک اخبار نے اپنے ار جنوری حصہ کے الشیوع میں بھی کر دی تھی.11 له الفضل ، ستمبر 7 م

Page 214

۲۲۵

Page 215

۲۲۶

Page 216

۲۲۷ حرب الصلح حضرار صلح الموعود الد اللہ تعالیٰ کے وہ کشوف والہانا جو بعض ملکی قومی یا بین الاقوامی واقعات کے ذریعہ سے پورے ہوئے

Page 217

۲۲۸ 19 جنگ عظیم اول کے تعلق ہویا (1) دین کی ایک رویا ) فرمایا " مجھے ایک اور سویا دکھایا گیا...کوئی میرے کان میں کہتا ہے :- Hearken I tell thee in thy ears that the earth would be shaken for thee to one they donot care for me for a thread."Three to one"......ولایت میں گھوڑوں پر شرط لگاتے ہیں کہ اگر ہمار سے گھوڑے سے فلاں گھوڑا جیت گیا تو ہم ایک کے مقابلہ میں تین دیں گے یا اس طرح کچھ اور غرض اس رویا کا مطلب یہ کہ میرے کان میں آواز آئی کہ سُن میں تیرے کان میں تجھے ایک بات بتاؤں اور وہ یہ کہ نہ مین ہلائی جائے گی.....کیونکہ لوگ میرے کلام کو بالکل چھوڑ چکے ہیں اور میں اس بات پر شرط لگانے کے لئے بھی تیار ہوں کہ اگر کوئی میرے مقابلہ میں ایک چیز پیش کرے تو میں اس سے لگنی پیش کردوں گا کہ لوگ میری اتنی بھی پرواہ نہیں کرتے جتنی تاگے کیا راس خواب کا اولین ظہور پہلی جنگ عظیم کے رنگ میں ہوا.جسے بلا مبالغہ زبردست سیاسی زلزلے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے) لیکچر ذکر اپنی فرموده ۲۷ دسمبر ت شده طبع اول ص ۵

Page 218

۲۲۹ (۲) جب گزشتہ جنگ ہوئی اور بلجیم پر حملہ ہوا.تو مجھے یاد ہے اس وقت بھی الشر تقالی نے مجھ پر بعض غیب کی خبروں کا انکشاف کیا تھا.مثلاً پینے دیکھا کہ ایک طرف انگریز اور فرانسیسی ہیں اور دوسری طرف جرمن اور دونوں میں فٹ بال کا میچ ہو رہا ہے جرمن فٹ بال کو لاتے لاتے گول کے قریب پہنچ گئے مگر گوں ہو نہیں سکا اتنے میں پھر اتحادی ٹیم نے طاقت پکڑ لی اور انہوں نے فٹ بال کو دوسری طرح دھکیل دیا.جرمن یہ دیکھ کر واپس دوڑے اور انگریز بھی فٹ بال کو لیکر دوڑے لگے مگر جب وہ گول کے قریب پہنچ گئے.تو وہاں انہوں نے کچھ گول گول کی چیزیں بنا لیں.جس کے اندر وہ بیٹھ گئے اور باہر یہ بیٹھ گئے.بعینہ اسی طرح جر من لشکر نے جب حملہ کیا.تو وہ پیرس تک پہنچ گیا.مگر پھر اُسے واپس لوٹنا پڑا.اور جب سرحد پر واپس لوٹ آیا تو وہاں اُس نے برانچز thenches بنائیں.اور اُس کے اندر بیٹھ گئے اور اس طرح چار پانچ سال تک وہاں لڑائی ہوتی رہی ہے ہندوستان پر طاعون کے حملے کی خبر ینے جو آرجہ یہ خطبہ پڑھا.یہ ایک لڈیا کی بناء پر پڑھتا ہے ہو کہنے پر یسوں دیکھی ہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پر کوئی اور عذاب آنے والا ہے اور قریب کے زمانہ میں آنے والا ہے سینے : و نظارے دیکھے ہیں.اول بینے ایک مریض کو دیکھا جس کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ طاعون کا مریض ہے.پھر ایسا معلوم ہوا کہ ہم کچھ آدمی ایک گلی میں سے گزر رہے ہیں ہمیں ایک شخص کہتا ہے پرے ہٹ جاؤ یہاں کھینیں گذرنے والی ہیں.ایسا معلوم ہوا کہ گو یا گلی کے پاس ایک کھلا میدان ہے جس کے الفضل در ماه چون شده بیت کا مرت

Page 219

٢٣٠ اردگرد احاطہ کے طور پر دیوار ہے اور ایک طرف دروازہ بھی ہے جس کو کو اڑ نہیں ہیں اور میں اور میرے ساتھی اس دروازہ میں داخل ہو گئے ہم نے گئی میں سے گذرنے والی بھینسوں کو دیکھا کہ وہ مارنے والی بھینسوں کی طرح گردن اُٹھا کر دوڑتی چلی آتی ہیں.کینے انتظار کیا کہ وہ گذر جائیں.لیکن اتنے میں ہمیں بتایا گیا کہ وہ اس گلی سے نہیں دوسری سے گزر گئیں.تعبیر الرویا میں بھینس کی تعبیر و با یا بیماری ہوتی ہے اور طاعون سے مراد بھی کام بیماری یا کوئی و بار ہوتی ہے اور طاعون بھی ہوسکتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عنقریب اس رنگ میں کوئی اور نشان ظاہر ہوگا است مرتب ، جس وقت یہ رویا دیکھی گئی حکومت ہند نے اپنے ماہرین فن کی رپورٹوں کی بناء پر اعلان کیا کہ امسال طاعون کا کوئی اندیشہ نہیں لیکن اس کے بعد یہ وبا اس شدت سے ملک بھر میں پھیلی کہ گذشتہ دس پندرہ سالوں کے ریکار ڈمات ہو گئے.رہیں تحریک حریت کشمیر کے متعلق رو یا وکشوف خطہ کشمیر جو اس وقت بین الاقوامی سیاست کی توجہ کا خصوصی مرکز بن چکا ہے قدرت کی دلفریب رعنائیوں کے باعث فردوس ارضی کہلاتا ہے لیکن قسام ازل کی بے پناہ فیاضی کے باوجود ایک لمبے عرصہ سے انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنا ہوا ہے.انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں جب ہندوستان پر برطانوی تسلط ہوا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے مخصوص سیاسی مصالح کی بناء پر کشمیر کی حسین وادی ه د اخبار الفضل مورخہ ۳۵ اپریل ۲۷ شراء ص۱۳ کالم ۲-۳ 141 د نیز الفضل ۱۳۰ نومبر ۶۸ ک کالم ایضاً الفضل ار ستمبر نساء مست کالم ٢ '

Page 220

۲۳۱ ایک ڈوگرہ سردار راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کر دی اور چالیس لاکھ نفوس بھیڑ بکریوں کی طرح غلام بننے پر مجبور ہو گئے.انسانیت کی اس شرمناک تجارت کی توثیق کے لئے ایک تحریری معاہدہ نامہ بھی ہوا جسے "میثاق امرت سرکے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت امام جماعت احمدیہ کو مظلوموں اور بے کسوں کے لئے ایک مضطرب اور حساس دل عطا فرمایا ہے.حضور اوائل خلافت میں کئی بار کشمیر تشریف لے گئے اور ہر دفعہ کشمیریوں کی اندوہناک حالت پر افسردہ خاطر ہو کر لوٹے حزن و غم کا ہے طوفان حضور کے دل و دماغ میں پوری طرح موجزن تھا کہ اپر مال ۱۹۳۰ء میں ریاستی جبر و تشدد کا ایک نہایت تاریک دور شروع ہوا جبکہ کشمیر کے ڈوگرہ حکام نے ریاست کے بتیس لاکھ مسلمانوں کو بالکل بے دست و پا کر کے ان کے دین و مذہب میں صریح مداخلت شروع کردی ڈوگرہ راج کی ان چیرہ دستیوں کا بے نقاب ہونا ہی تھا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ( جو پہلے سے کشمیریوں کی غلامانہ کیفیت کو بدلنے اور ان کو انسانی حقوق دلانے کا پختہ عزم کر چکے تھے.اور مناسب موقعہ کی انتظار میں تھے یکا یک میدان عمل میں آگئے اور مسلم زعما کو ایک زور دار مضمون کے ذریعہ سے توجہ دلائی کہ وہ فورا ایک کا نفرنس بلا کر اس سوال پر غور کریں کہ کشمیر کے باشندوں کو جائز حقوق کیسے دلائے جاسکتے ہیں کہ اس مخلصانہ اپیل نے ملک کے طول و عرض میں زلزلہ پیدا کر دیا اور مسلمانوں کے مشہور لیڈر جن میں شاعر مشرق سر محمد اقبال.نواب صاحب کنج پوره سر ذوالفقار علی خان خان بہادر شیخ رحیم بخش صاحب ریٹائر ڈش بھی.سید بھی شاہ ایڈوکیٹ خواجہ حسن نظامی سید حبیب مدیر اخبار سیاست مولنا حسرت موہانی له انقلاب ۶ ارجون السه ۶ و الفضل و ارجون را

Page 221

۲۳۲ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۲۵ جولائی ۱۹۳ ء کو شملہ میں جمع ہوئے اور ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا.اور علامہ مشرق کی تجویز پر آپ سے اس کی زمامی قیادت تھے میں لینے کی درخواست کی گئی جسے آپ نے داس مخصوص روحانی مقام کے باوجود جو لاکھوں کی جماعت کے دینی پیشوا ہونے کی حیثیت سے آپ کو حاصل تھا) محض اخوت اسلامی کے تقاضوں کے پیش نظر قبول فرمائی.جس وقت آپنے یہ کٹھن کام اپنے ذمہ لیا اس وقت کشمیری با سخندوں کی لاحات کی قدر درد انگیز تھی اس کا نقشہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اجلاس اتول کی روداد میں بایں الفاظ کھینچا گیا.ریاست میں اس وقت تک نہ پریس کی اجازت ہے نہ تقریر کی اجازت ہے اجتماع کی ہے اور کوئی ایسی صورت نہیں کہ جس سے پُر امن طریق سے رعایا حکومت تک اپنے خیالات پہنچا سکے.اسی طرح مذہبی آزادی ہو کہ تہذیب کا پہلا رکن ہے اس سے بھی کشمیر محروم ہے چنانچہ اگر کوئی شخص مسلمان ہو جائے تو اس کی جائندہ ضبط کر لی جاتی ہے اور بیوی بچوں سے اسے علیحدہ کر دیا جاتا ہے نیز زمین کے مالکا حقوق سے بھی وہ لوگ محروم ہیں کیونکہ زمینداروں کو خود اپنی زمین پر مالکانہ حقوق نہیں دئیے جاتے اور ریاست اپنے آپ کو پورے کشمیر کی زمین کی مالک سمجھتی ہے اسی طرح با وجود تعلیم یافتہ ہونے کے مسلمانوں کو ملازمت میں نہایت ہی قلیل حصہ دیا جاتا ہے جو تین فیصدی ہے.اس افسوسناک صورت حال کے مقابل حکومت ہند ( ۱۹۲۷ء سے قبل کی حکومت ہند مراد ہے، ریاستی معاملات میں دخل دینے کے لئے تیار نہ تھی اور مہاراجہ کے

Page 222

appp مقرر کئے ہوئے ہند و افسر چھوٹے سے بڑے طبقہ تک ملک کی عظیم اکثریت کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے تھے اور خود ہندوستانی مسلمان ایک دوسری حکومت کے ماتحت اقلیت کی صورت میں زندگی بسر کر رہے تھے اور بظاہر کامیابی کی کوئی کردن نظر نہ آتی تھی اور مسلمان بے حد بایوس اور نا امید نظر آتے تھے.یہ وہ حالات تھے جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو متعدد رڈیا کے ذریعہ سے متواتر تیر دی کہ اس تحریک میں خدائی مشیت کام کر رہی ہے اس لئے ریاست کا تشد و برطانوی حکومت کی بے نیازی اور ہند و سرمایہ کی فراوانی اس کے شاندار نتائج میں حائل نہیں ہو سکتی.اس تعلق میں چندر کویا درج ذیل کی جاتی ہیں : ینے خود بھی خواب دیکھا ہے کہ ایک مجلس ہے میں میں بہت سے پہلا رویائے مقررین جمع میں میں ان کے سامنے کشمیر کے حالات بیان کر رہا ہوں اور کہتا ہوں کہ حالات امید افزا ہیں اور درمیانی روکیں کوئی ایسی رکھیں نہیں.اور انہیں تحریک کرتا ہوں کہ آپ لوگ اگر کچھ رقم خرچ کریں تو آستانی سے یہ کام ہو سکتا ہے.پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس تحریک کے ساتھ ہی اُن لوگوں میں حرکت شروع ہوئی اور حاضرین ایک دوسرے کے کان میں باتیں کرنے لگے.اس کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک کاغذ پھرایا جائے رکھا گویا وہ چندہ کرنے لگتے ہیں کیئے اس کی تعبیر یہ سمجھی ہے کہ بعض اوقات جو مایوسی کی گھڑیاں آتی ہیں.وہ حقیقی نہیں بلکہ درمیانی روکیں ہیں اور مسلمان اگر عالی قربانی کریں تو یہ کام ہو سکتا ہے ؟ ! دوسرا رویا کی " میں جمعہ کے بعد رات کو بستر پر لیٹا ہوا تھا.اور غالباً نصف شب کے بعد کا وقت تھا والفضل ۳۰ جنوری ۱۹۳۳ م کالم ۰۲۱۶

Page 223

۲۳۴ کمزوری اور کمردرد کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی.اور میں جاگ رہا تھا کہ جاگتے ہوئے کیتنے یہ نظارہ دیکھا کہ میری کوئی بیوی والدہ ناصر احمد یا والدہ طاہر احمد غالباً والده ناظر حمد میں کسی شخص نے اگر دستک دی ہے انہوں نے دریافت حال کیا تو اس شخص نے ایک چیزا نہیں دی کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب نے بھجوائی ہے انہوں نے لاکپر مجھے دی کہ غلام نبی صاحب گل کار جو کشمیر کی جماعت کے پریزیڈنٹ ہیں یہ قدر يرف لائے ہیں کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب نے دی ہے وہ برف ایک سفید تو میں لپٹی ہوئی ہے اور دوسیر کے قریب ہے اور اُس کی شکل ایک بڑی اینٹ ا کے مشابہ ہے میں کشف کی حالت میں اُس برف کو پکڑتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں کہ اتنی دور سے اتنی برف کس طرح محفوظ پہنچ گئی تو یہ بھی بالکل خشک ہے اور اس میں برف پگھلنے کی وجہ سے نمی تک نہیں آئی.اس کے بعد یکدم حالت بدل گئی.میں سمجھتا ہوں.اس کشف کی تعبیر یہ ہے کہ ہمارے قلوب کو اللہ تعالیٰ کسی اپنے پیارے بندے کی قربانی کو قبول کرتے ہوئے ٹھنڈک پہنچائے گا.ولی اللہ کا بھیجنا غلام نبی صاحب کا لانا.رشید و بیگم (جو میری بڑی بیوی کا نام ہے ) کا پکڑنا اور محمود کے ہاتھ میں دینا ایک عجیب پر معنی سلسلہ ہے جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں قدرتی برف سے یہ مراد ہے کہ یہ سامان تسکین کے غیب سے پیدا ہونگے ؟ اے (مرتب) مندرجہ بالا انہی خبروں میں بتایا گیا تھا کہ حالات امید افزاء ہیں اور یہ کہ تحریک حریت کشمیر میں خدا کی مشیت کام کر رہی ہے جو پردہ غیب سے کامیابی کے سامان پیدا کرے گی.چنا نچہ غیر آئینی ذرائع سے نہیں بلکہ ملکی اور ریاستی قوانین کی حدود میں رہتے له الفضل دار نومبر نے سے یا د ر ہے حکومت وقت کے قانون کی پابندی جماعت احمدیہ کے نزدیک اسلام کا اساسی عقیدہ دیا وہ کے قانون کی پانی احمدیہ ہے جس کی سختی سے پابندی کرنا ہر احمدی اپنا اولین فرض سمجھتا ہے.منہ

Page 224

۲۳۵ ہوئے صرف چند سالوں میں ہی فضا یکسر بدل گئی.کشمیر میں محبوس انسانیت نے آزادی کا سانس لینا شروع کر دیا.اہل کشمیر کو شہریت کے اکثر ابتدائی حقوق دئے گئے یعنی تعلیمی مراعات فصلوں پر قبضہ اور اپنے تناسب کے مطابق ملازمتیں اور تقریر و تحریر میں آزادی وغيره.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسمبلی قائم ہوئی اور مسلمانوں کے لئے ریاستی سیاست میں حصہ لینے کی راہیں کھل گئیں.دوسری عالمگیر جنگ عظیم کے متعلق حیرت انگیز خبریں اللہ تعالیٰ نے حضرت امام جماعت احمدیہ پر دوسری عالمگیر جنگ عظیم کے متعلق اس درجہ کثرت سے تفصیلی انکشافات فرمائے کہ اپنے ہی نہیں بیگانے بھی حیران رہ گئے بلکہ کئی برطانوی افسروں نے اعتراف کیا کہ ان امور کا قبل از وقت بتا دینا یقیناً ایک غیر معمولی بات اور خارق عادت امر ہے.دوسری عالمگیر جنگ سے متعلق اپنی خبروں کی تفصیل بیان کرنے سے پیشتر اس ہولناک جنگ کے اہم واقعات کی تاریخیں درج کرنا ضروری ہے تاآئیندہ اوراق میں بیان شده رویا و کشوف کی واقعاتی ترتیب مستحضر ہو جائے اور اس باب کی افادیت میں اضافے کا باعث بن سکے.دوسری عالمگیر جنگ کے اہم واقعات ء دیم سمیر، جرمنی کا پولینڈ پر حملہ.۴۰۹۲۰۳ مولفه حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) لہ تفصیل کیلئے ملاخطہ ہو سلسلہ احمدیہ، ۴۹۴۰۳) مولفہ حضر ه 2

Page 225

۲۳۶ ۱۹۳۹ می شود 19۳۹ ء ) ستمبیر) برطانیہ اور فرانس کا جرمنی کے خلاف اعلان جنگ.لہ ۶ ۲۸ مارچ، اتحادی ملکوں کی سپریم دار کونسل کا فیصلہ کہ ایک دوسرے کی رضامندی کے بغیر دشمن سے صلح نہیں کریں گے." " ور اپریل، ڈنمارک اور ناروے پر جرمن کی چڑھائی.۱۵ اپریل برطانوی فوجیں ناروک کے پاس اُتریں.ہ دار ملکی جرمنی نے ہالینڈ بلجیم اور لکسمبرگ پر چڑھائی کر دی برطانوی مئی، نے او اور فرانسیسی دستے بلجیم میں داخل ہو گئے مسٹر چمبرلین کے مستعفی ہونے پر مسٹر چھ چہل وزیر اعظم مقرر ہوئے.پھل وز ۲۰ مئی) بلجیم دوستوں نے ہھتیار ڈال دیئے.ڈنکرک سیجر طانوی سپاہیوں کی پسپائی ۳ جون) پیرس پر بمباری ار جون) اٹلی کا اعلان جنگ برطانیہ اور فرانس کے خلا (۲ در چون) جرمن کا پیرس میں واحسلہ 14 جون) حکومت فرانس نے متحدہ قومیت کے حقوق کی برطانوی پیشکش مسترد کردی.(۲۵ جون) فرانس اور جرمنی میں صلح (2) جولائی) فرانس کی پٹیان گورنمنٹ نے انگریزوں سے تعلقات منقطع گست ار ممبر) کرلئے.انگریزوں نے برطانوی شمالی لینڈ خالی کر دیا.ہندوستانی فوجیں مصر پہونچیں.(۵ در تمیر لنڈن پر پہلا ہوائی جملہ -.

Page 226

۲۳۷ ۱۳۹۴ (۲۲) جنوری) جنرل دیول نے طبروق پر قبضہ کر لیا.ر فروری الا غالیہ تک پیش قدمی ".ده فروری) بن غازی پر قبضہ (۳) را پریل، انگریزوں نے بن غازی خالی کر دیا.(اپریل) عدیس ابابا پر انگریزی فوج کا قیصہ.۱۳ اپریل) طبروق کا محاضرہ : (سرمئی، عراق میں رشید علی کی بغاوت.(ارمئی روڈولف ہمیں سکاٹ لینڈ میں اُترا.(۲۰) مئی) بحیرہ روم میں جرمنوں کا کریٹ پر حملہ.ربی جرمن کا ایتھر پر قبضہ.(ارجون) انگریزی فوج گریٹ سے واپس بلائی گئی.دار است مسٹر چرچل اور مسٹر روز ویلٹ کے میثاق اوقیانوس پر دستخط (۲۰ور اکتوبی جرمن کے ہر اول دستے ماسکو سے بجھے میل دور رہ گئے.د و سمبر جاپان نے پرل ہاربر میں امریکی بحری بیڑے اور ہوائی اڈوں پر بم برسائے..ده رو سمیر برطانیہ اور برطانوی نو آبادیات اور امریکہ کا جاپان کے قلات اعلان جنگ.چین نے جرمنی، جاپان اور اٹلی کے خلاف اعلان جنگ کردیا.(اردو میں امریکہ نے جرمنی اور اٹلی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا.اردو میں انگریزوں کا بن غازی پر دوبارہ قبضہ ۱۹۳۲ء (۳) جنوری) ۲۶ قوموں نے محوری طاقت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا.

Page 227

۱۹۲۲ء (در جنوری، جرمن جنرل کی ، دومیل تک الا غیلہ کی طرف پسپائی.(۲۳ جنوری) جاپانیوں نے رنگوں پر ہوائی حملے کئے.(۲۱) چون جرمنوں کا ٹو برگ دشمالی افریقہ پر قبضہ.ریکم جولائی ، جرمن العالمین پہنچ گئے.(۳) نومیں مصر میں محوری طاقتوں کی پسپائی شروع ہو گئی.(۳وار تو میں برطانیہ کا طبروق پر قبضہ.۲۰۱ نومبر) انگریزی فوج نے بن غازی پر قبضہ کر لیا.۵ اردو سمبر برطانیہ نے الاغیلہ پر قبضہ کر لیا.۲۰۰ دسمبر کلکتہ پر پہلا جاپانی ہوائی حملہ ۶۹۳۳ (۲۹ مارچ برطانیہ نے گا بند اور الحمامہ پر قبضہ کر لیا.ار مئی، محوری طاقتوں کی شمالی افریقہ میں منظم مزاحمت کا خاتمہ جرمن کمانڈر کو ہندوستانی فوج نے پکڑ لیا.10-9 جولائی) جزیرہ سسلی پر حملہ ار اگست مینا پر قبضہ سسلی میں لڑائی بالکل بند ہو گئی.دم رستمبر، اٹلی کے بلا شرط ہتھیار ڈالنے کا اعلان.۹۳۳اء دار نومبر، مسٹر چر پھل کا انسلان - جرمن چند ہفتوں سے برطانیہ پر راکٹ نام گرا رہے ہیں.(۲۲ نومبر، اتحادی فوجیں جرمنی میں دریائے اور کے کنارے پہنچ گئیں.۱۹۲۵ء ۲۵ اپریل، ہما کی طرفے مہتھیار ڈالنے کی پیشکش.(۲۹ (اپریل) ہٹلر کے مرنے کی خبر مسولینی کو اطالوی عدالت کے حکم سے گولی کا نشانہ بنا کر پھانسی پر لٹکا دیا گیا.

Page 228

و ت۲۳ ۱۹۳۵ء دے مٹی) اتحادیوں کے آگے جرمنوں نے ہتھیار ڈال دیئے.اور دوسری عالمگیر جنگ کا خاتمہ ہوا.پہلی خیر " چند سال ہوئے کینے رویا میں دیکھا تھا کہ میں گھر کے اُس حصہ میں ہوں جو مسجد مبارک کے اوپر کے صحن کے ساتھ ہے کیلئے مسجد میں شورشنا اور با ہر نکل کر دیکھا کہ لوگ اکٹھے ہیں.اُن میں سے ایک میرے استاد بھائی شیخ عبدالرحیم صاحب بھی ہیں سب لوگ مغرب کی طرف انگلیاں اٹھا اٹھا کر کہہ رہے ہیں کہ دیکھ لو مغرب سے سورج نکل آیا اور وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب قیامت آگئی میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ اس وقت پہاڑیاں گر رہی ہیں درخت ٹوٹ رہے ہیں اور شہر ویران ہو رہے ہیں اور ہر ایک کی زبان پر یہ جاری ہے کہ تباہی آگئی قیامت آگئی میں بھی یہ نظارہ دیکھتا ہوں تو کچھ گھر ا سا جاتا ہوں مگر پھر میں کہتا ہوں مجھے اچھی طرح سورج دیکھ تو لینے دو.میں خواب میں خیال کرتا ہوں کہ قیامت کی علامت صرف مغرب سے سورج کا طلوع نہیں بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور علامات کا پایا جانا بھی ضروری ہے چنانچہ ان دوسری علامات کو دیکھنے کے لئے میں مغرب کی طرف نگاہ کرتا ہوں تو وہاں بعض ایسی علامتیں دیکھتا ہوں جو قیامت کے خلاف ہیں اور غالیا سورج کے پاس چاند ستارے یا تو ر دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں یہ قیامت کی علامت نہیں دیکھو فلاں فلاں علامتیں اس کے خلاف ہیں.میرا یہ کہنا ہی تھا کہ لینے دیکھا سورج غائب ہو گیا اور دنیا پھر اپنی اصلی حالت پر آگئی؟ (مرتب) یہ رویا دوسری عالمگیر جنگ سے تین برس پہلے کی ہے بغور فرمائیے اس میں جنگ کی قیامت خیز تباہ کاریوں کا کتنا جامع نقشہ کھینچا گیا ہے.ے ماخوذ از الفصل 14 مئی ۹۳۵اء - سے و الفضل ۱۷ام فروری ۳۵ نداء منا کالم عشب ۲ - طرب

Page 229

د۲۴-۲۵ مئی سند کا کشفی نظاره) دوسری شیر آپ بھی میں سفر سے واپسی پر ریل میں آرہا تھا کہ میرے وو د جنگ کے سید میں.ناقل ) پھر دعا کرنی شروع کر دی.دُعا کرتے کرتے چند سیکنڈ کیلئے غنودگی کا ایک جھٹکا آیا.جیسا کہ الہام کے وقت غنودگی آتی ہے کشفی ملت میں ایک بادشاہ میرے سامنے سے گزارا گیا.پھر الہام ہوا ایب ڈی کیٹڈ "Abdicated میں اس کی تعبیر یہ سمجھتا ہوں کہ یا تو کوئی بادشاہ ہے جو اس جنگ میں معزول میں کیا جائے گا یا کسی معزول بادشاہ کے ذریعہ اللہ تعالے دوبارہ دنیا میں کوئی تغییر پیدا کرے گا " کے (مرتب) انگریزی میں (dicated) کا لفظ ابتدا فقط اصولی یا باقاعدہ دستبرداری کے معنوں میں مستعمل تھا لیکن بعد کو اس کا اطلاق فرائض منصبی سے عملا محرومی پر بھی کیا جانے لگا.لہ سید تا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ الہام اپنے دونوں معنوں میں ایک بار نہیں متعدد بار پورا ہوا.چنانچہ لیوپولڈ (شاہ پنجم) کیرون دشاه رومانیہ ) بورس (شاہ بلغاریہ) اور رضا شاہ پہلوی (شاہ ایران) کی دستبرداری الہام الہی کی صداقت کے ناقابل تردید شواہد ہیں.رویا میں دیکھا کہ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوں اور منہ مشرق تیسری خبر کی کی طرف ہے.میرے سامنے حکومت برطانیہ کی خفی خط وکتابت صدام على له الفضل آرجون ره صد کالم Websiers New Inter کے ملاخطہ ہو.و national Dielionary, A New English- 6 Dictionary on Historical Principals»

Page 230

۲۴۱ پیش کی جارہی ہے.ایک کے بعد دوسری میٹھی میرے سامنے آتی ہے.یہ چٹھیاں انگریزی حکومت کی طرف سے فرانسیسی حکومت کے نام یہ ہیں.ایک چٹھی میرے سامنے آئی جس میں حکومت برطانیہ نے فرانسیسی حکومت کو لکھا ہے کہ ہمارا ملک سخت خطرہ میں پڑ گیا ہے جرمن اُس پر حملہ آور ہونے والا ہے اور قریب ہے کہ اُسے مغلوب کرلے.اس لئے ہم آپ سے چاہتے ہیں کہ انگریزی حکومت اور ہم فرانسیسی حکومت کا الحاق کر دیا جائے.یہ چپٹی پڑھ کر میں بہت گھبرایا اور قریب تھا کہ میری آنکھ کھل جاتی کہ یکدم ایک آواز آئی کہ یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے.(مرتب) یہ رویا جنگ کے اعلان سے ایک ماہ قبل کی ہے جس میں مندرجہ ذیل نہایت عظیم الشان خبریں بتائی گئی تھیں.(1) جرمن اور انگریزوں میں نہایت خونریز جنگ ہوگی.(۲) فرانس اس جنگ میں انگریزوں کا حلیف ہوگا.اور شکست کھائے گا.(۳) وہ شکست اس نوعیت کی ہوگی کہ وہ انگریزوں سے قطع تعلق کر کے علیم سے صلح کا معاہدہ کرنے پر تیار ہو جائے گا.(لم) اس وقت برطانیہ جرمنی کی وجہ سے سخت خطرہ میں گھرا ہوا ہوگا.(۵) اس نازک موقعہ پر طانیہ فرانس کو حکومتی الحاق کی پیشکش کرنے پر عبور ہو گا.(4) اس پیشکش کے پورے چھ ماہ بعد برطانوی حکومت کی حالت بدل جائیگی.یر دریا کے یہ سبھی پہلو نہایت حیرت انگیز رنگ میں پورے ہوئے.(1) ہٹلر کے بیانات سے معلوم ہوتا تھا کہ جرمنی برطانیہ سے الجھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ برطانیہ یورپین ریاستوں کے بارہ میں کوئی وخیل نہ دے اور اب تک عملاً یہی کچھ ہوا.جرمنی نے آسٹریا سوڈٹین لینڈ اور طة القضان ام چون شک سا منہ کالم نور ۲۳

Page 231

۲۴۲ پھر پورے چیکوسلواکیہ کو ہڑپ کر لیا لیکن محوری اور اتحادی طاقتوں میں کوئی کشمکش نہ ہوئی مگر جب جرمنی یکم ستمبر شہء کو پولینڈ پر حملہ آور ہوا تو پولینڈ سے معاہدہ کی وجہ سے برطانیہ کو مجبوراً جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنا پڑا حالا کہ برطانوی وزراء یہ اظہار کر چکے تھے کہ برطانیہ پر جرمن حملے کا کوئی امکان نہیں اور اسی لئے وہ کچھ تیاری نہ کر پائے تھے کہ دھر لئے گئے چنانچہ مسٹر چرچل نے کنیڈین پارلیمینٹ میں تقریر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ : ہمیں جنگ میں بالکل عدم تیاری کی حالت میں شامل ہونا پڑا.کیونکہ ہم پولینڈ سے یہ کہہ چکے تھے کہ اگر اس پر حملہ ہوا تو ہم اس کا ساتھ دیں گئے دلنڈن ٹائمز ۳۱ دسمبر ۱۶ پس انگریزوں کا جرمن کے خلاف اعلان جنگ ایک غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے جس کی بیشتر ازیں کوئی توقع نہ تھی.(۲) جرمنی کے حملہ پولینڈ نے خود فرانس کو بھی چوکنا کر دیا چنانچہ وہ اپنے حالات کا جائز لینے کے بعد برطانیہ کا حلیف بن گیا اور دونوں حکومتوں نے سرستمبر کو متحدہ نعرہ جنگ بلند کر دیا.در مارچ نشاء کو فرانس اور برطانیہ کی حکومتوں نے یہ معاہدہ کیا کہ وہ ایک دوسرے سے دوستانہ منظوری حاصل کئے بغیر حملہ آور سے مصالحت کی کوئی گفت گو نہ کریں گے.اس معاہدے پر چند دن گزرے تھے کہ حالات نے یکدم پلٹا کھایا.نازی فوجیں نہایت برق رفتاری سے آگے بڑھیں اور انہوں نے اپریل کے پہلے ہفتہ میں ڈنمارک اور ناروے پر قبضہ کر لیا اور پھر چند دن بعد ہالینڈ اور بلجیم بھی نازیت کی آغوش میں آگئے اور تقر بیگ ساڑھے تین لاکھ اتحادی فوجیں بلیجیم سے ملحق فرانسیسی بندرگاہ ڈنکرک کے مقام پر اپنے پورے فوجی سامان کے

Page 232

۲۴۳ ساتھ محاصرہ میں آگئیں.برطانیہ اور فرانس کی یہ نازک حالت دیکھی تو اٹلی نے بھی ان کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اس طرح یہ دونوں ملک بیک وقت دو اطراف سے گھر گئے فرانس کو شکست ہوئی اور اس کا ایک بڑا حصہ جرمنوں کے قبضہ میں آگیا.(۳) لیکن ابھی فرانس میں زندگی کی رمق باقی تھی اس لئے ارجون نر کو جب فرانس موسیور بینو نے تورس ( Tours) سے ملاقات کی تو دوران گفتگو میں اگر چہ صلح کا ذکر بھی آیا لیکن اس وقت تک عام تاثر یہی تھا کہ فرانسیسی بہر حال جنگ جاری رکھیں گے خواہ انھیں شمالی افریقہ کے مقبوضات سے جاری رکھنی پڑے.اس ملاقات میں امریکہ سے استمداد کا فیصلہ بھی ہوا لیکن اس فیصلہ کے تیسرے ہی دن وزیر اعظم فرانس نے برطانوی حکومت کو پیغام بھیجا کہ امریکہ کی طرف سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں پہنچا اس لئے اسے دور مارچ م یو کے میثاق سے آزاد کر دیا جائے.چونکہ فرانسیسی دارالحکومت اس وقت بورڈو منتقل ہو چکا تھا اس لئے یہ پیغام بھیجو اگر موسیور یو بورڈو کے لئے روانہ ہونے والے تھے کہ نہیں اطلاع ملی کہ فرانس کی حکومت تبدیل ہو گئی ہے اور نئی حکومت کا صدر مارشل پٹیان کو تجویز کیا گیا ہے اور اس کا بڑا مقصد صلح ہے" ٹائمز ۲۶ جون ۶ غرضکہ فرانسیسی حکومت چاہتی تو امریکہ سے دوبارہ گفت و شنید کر سکتی تھی اور شمالی افریقہ سے جنگ جاری رکھنا تو اس کے لئے ہر طرح ممکن تھا لیکن اس نے ایسا نہ کیا اور مصلح کرلی جو سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز کی رؤیا کے عین مطابق تھا.(۴) فرانس کا یوں جرمنی سے مصالحت کر لینا برطانیہ پر پھیلی بن کر گرا کیونکہ

Page 233

اب وہ میدان جنگ میں یکہ و تنہا رہ گیا.ڈنکرک کے مقام پر اس کی فوجیں جنگی پسلحہ چھوڑ کر بڑی مشکل سے بھاگ کر لندن پہنچی انہیں اور حالت اس درجہ نازک ہو گئی تھی کہ جرمنی کو یقین تھا کہ برطانیہ کو صلح کی درخواست کئے بغیر اب کوئی چارہ کار نہیں.اسی لئے جرمنی نے دوماہ تک برطانیہ پر حملہ کی دھمکیوں پر ہی اکتفا کرتے ہوئے کوئی عملی اقدام کرنے سے عمدا گریز کیا.(۵) جب حالات اس درجہ تنازک ہو گئے تو خواب کے عین مطابق برطانوی حکومت نے ارجون ہو گی شام کو فرانسیسی حکومت کو الحاق کی تجویز بھیجی کہ ان الفاظ میں اعلان کیا جائے کہ :- މލ موجودہ دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک حالات کے وقت دولت مشترکہ اور جمہوریت فرانس کی حکومتیں حریت و انصاف سے مدافعت کے لئے ایک مشترکہ محاذ کی خاطر اس ظالمانہ نظام کے خلاف جو بنی نوع کو ذلت اور غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتا ہے نا قابل تعریق اتحاد اور ناقابل تسخیر عزم کا اعلان کرتی ہیں یونین کے متعلق الفاظ کا متن یہ تھا."The two Governaments declare that France and Great Britain shall no longer be two nations, but one Prance British Union.” The consititutioner the union will provide for joint orgons of defence, forcign, financial and ecnomic policies.Every citizen of

Page 234

۲۴۵ France will enjoy immediately citizenship of Great Britain every British subject will become a citizen of france." یعنی دونوں حکومتیں یہ اعلان کرتی ہیں کہ فرانس اور برطانیہ اب سے دو قومیں نہیں بلکہ ایک ہی قوم ” فرینکو برٹش یونین “ کے نام سے ہو گی اور یونین کا دستور دفاع - امور خارجہ مالی اور اقتصادی پالیسی کے مشترکہ وسائل و ذرائع مہیا کرے گی ہر ایک فرانسیسی شہری فورا برطانوی شہریت کا حقدار ہو جائے گا او ہر ایک برطانوی رعیت فرانس کا شہری بن جائے گا.پھر درجون کو وزیر اعظم بر طانیہ نے دارالعوام میں کہا :- نہ ممبروں نے وہ تاریخی اعلان پڑھ لیا ہوگا جس میں بہت سے فرانسیسیوں کی نیز ہمارے دلوں کی خواہش پر ہم نے اس خواہش کا اظہارہ کیا ہے کہ فرانس کی تاریخ میں سب سے زیادہ تاریک گھڑی کے وقت ایک مشترک شہریت کی یونین بنا دی جائے کہیے (لنڈن ٹائمز وارجون شد ۶ ) غرضکہ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت جو کچھ بتایا تھا وہ لفظاً لفظ پورا ہوا.فالحمد لله على ذالك.اس مقام پر خدائی نشان کی عظمت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ :- ا، برطانیہ جیسی عظیم الشان حکومت کے لیئے میں کے مقبوضات اس وقت تک دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تھے اور ہندوستان کی چالیس کروڑ آبادی اس کی حکوم تھی ایسا اعلان ایک پست ذہنیت کا آئینہ وار تھا جسکی ہرگز توقع نہ کی جاسکتی تھی.

Page 235

۲۴۶ (ب) برطانیہ نے ایک ایسی قوم سے الحاق کی اپیل کی جس میں پہلی عالمگیر جنگ کے بعد انگریزوں سے شدید نفرت کے جذبات ابھر آئے تھے.وو چنانچہ مولف کتاب ” پیرس کے آخری ایام نے بالوضاحت لکھا ہے کہ فرانسیسیوں کے بعض طبقات میں تو ہمیشہ انگلینڈ کے متعلق نفرت پائی جاتی تھی جس پر پہلی جنگ عظیم کے بعد تخفیف اسلحہ کی برطانوی پالیسی نے جلتی آگ پر تیل کا کام دیا.اکتوبر سفہ ء میں ایک مشہور فرانسیسی ہنری بیر ود نے لکھا کہ انگلستان کو غلام بننے پر مجبور کرنا چاہئے نیز لکھا.I hate England by instinct and by tradation.یعنی میں قطر می دروایتی دونوں اعتبار سے انگلستان سے متنفر ہوں.منبfast day of pa ) ( پیرس کے آخری ایام ۱۳ - ۱۳۸) (ج) یہ اپیل ایک ایسے وقت میں کی گئی جبکہ پولینڈ اور پھر بلجیم کے معاملہ میں برطانیہ کو سخت ہزیمت اٹھانا پڑی تھی اور فرانسیسی دماغ میں یہ احساس عام تھا کہ انگریزی فوجیں میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئی ہیں اور انہیں ایک خونخوار دشمن کے منہ میں چھوڑ دیا گیا ہے.برطانوی الحاق کی اپیل کا تجزیہ اگر اس ماحول کی روشنی میں کیا جائے تو بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں برطانوی پیشکش اپنی نوعیت میں واحد مثال ہے جس کی نظیر تلاش کرنا بے سود ہے.خواب سے مترشح ہوتا ہے کہ الحاق کی خواہش کا اظہار برطانوی حکومت کی طرف سے فرانسیسی مشورہ یا منظوری کے بغیر ہو گا حالانکہ ایسے اہم معاملات میں کوئی بڑی سے بڑی حکومت بھی از خود اعلان کرنے کی جرات نہیں کر سکتی لیکن برطانوی

Page 236

۲۴۷ حکومت نے فرانسیسی حکومت کی منظوری کے بغیر یونین کا اعلان شائع کر دیا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہر رنگ میں فرانس کو اپنے ساتھ چمٹائے رکھنا چاہتی تھی کیونکہ یورپ میں اس کا کوئی حلیف نہ تھا اور اس کی حالت اس حد تک کمزور ہو چکی تھی کہ مسٹر چرچل کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ اگر ہمیں انگلستان چھوڑنا پڑا تو ہم کینیڈا سے اپنی جنگی مہم کا آغاز کریں گے.اس لئے خلاف دستور اور خلاف توقع برطانوی حکومت نے فرانس سے پیشکش کی لیکن فرانس نے اسے پائے استحقار سے ٹھکرا دیا کیونکہ اس کے خیال میں دونوں متحد ہو کر بھی جنگ جاری نہ رکھ سکتے تھے اور اس قسم کی یونین کا قیام سرے سے ہی محبت و فضول تھا لہذا ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ محض خواب پورا کرنے کے لئے واقع ہوا.(6) خواب میں آپ پر انکشاف فرمایا گیا تھا کہ یہ چھے ماہ پہلے کی بات ہے یعنی اس کے بعد برطانیہ کی حالت سدھر جائے گی.چنانچہ حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ نے رؤیا بیان کرتے ہوئے اس فقرہ کے متعلق فرمایا :- " اس میں بتایا گیا ہے کہ چھے ماہ کے بعد تک یہ مصیبت ٹل جائے گی.لہ خدا کی شان دیکھیو ٹھیک چھ ماہ بعد 14 دسمبر کے دور کو مسٹر چھ میل نے دارالعوام میں یہ اعلان کیا " اگر ہم اپنی اس حالت پر نگاہ ڈالیں جو مئی اور جون میں تھی تو ہم میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہو سکتا جو کرسمس منانے کے لئے شکریہ کے جذبا کے ساتھ نہ جائے اب ہم پہلے سے محفوظ ہو گئے ہیں اور ہم نے ایک ایسی حالت سے ترقی کی جبکہ دنیا میں بہت سے لوگوں کے علاوہ ہمارے بہت سے بہترین دوست بھی اس بات سے مایوس ہو چکے تھے کہ ہم مقابلہ جاری رکھ سکیں گے لیکن ہم نے اپنے تئیں بچالیا اور ہمارے مقابلہ کی طاقت بھی بڑھ گئی اور ہم نے نہ صرت اپنے آپ کو اپنے جزیرے میں محفوظ کر لیا بلکہ اُن ذمہ داریوں پورا کرنے کیلئے له الفضل ارجون ۶۹ A

Page 237

۲۴۸ بھی اپنا ہاتھ بڑھایا تو ہم پر سمندر پار ممالک کی نسبت جو ہم پر اعتما در کھتے ہیں عائد ہوتی ہیں لنڈن ٹائمز وارد سمبر ۶۹۴۵ مسٹر چرچل کے اس اعلان کی مزید وضاحت کے لئے لارڈ ہالی فاکس کا وہ بیان قابل مطالعہ ہے جو انہوں نے امریکہ کے سکرٹری آف سٹیٹ ڈسٹر کارڈل ہل سے پہلی ملاقات کے بعد برطانوی قونصل کی حیثیت سے پریس کے سامنے دیا.یادر ہے لارڈ ہالی فاکس ڈنکرک اور سقوط فرانس کے وقت برطانیہ کے فارن سکرٹری تھے.آپ نے بتایا :- در انگلستان میں کسی کو اس امر میں شک نہیں تھا کہ جرمن موسم بہار میں سخت حملہ کریں گے.ہمیں جرمنی کی طاقت اور تجاویز کے متعلق کوئی دھوکہ نہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ کامیاب نہیں ہونگے اس کے متعلق کوئی غلطی نہیں کھائی.چاہیئے.اب انگلستان نہایت اچھی حالت میں ہے اور خاص طور پر ڈنکرک کے بعد کی حالت کے مقابلہ میں ہم خوب تیار ہو چکے ہیں جب تاریخ لکھی جائینگی تو اس وقت یہ معلوم ہوگا کہ ہٹلر نے جون منگلا ء میں جنگ کو ہار دیا تھا جبکہ وہ فرانس کی شکست کے بعد کی ہماری حالت سے فائدہ نہ اُٹھا اس کا.انگلستان اس وقت انتہائی درجہ کمزور تھا.اور جرمنی اگر جلدی سے حملہ کر دیتا تو وہ انگلستان میں داخل ہو سکتا تھا؟" (سنڈے ٹائمز ۲۶ جنوری ۱۹۴۶) ی ید تو انگلستان کے مر ترین کی رائے ہے فرانس کے جنگی افسر تو مٹی جھا ہیں بر علانیہ اظہار کر چکے تھے کہ و انگلستان کی تین ہفتوں کے اندر اندر مرغی کی طرح گردن مروڑ دنی رنا ئمر اسم و سمبر المی) جائے گی ؟ وہ لوگ ہو خدا اور اس کی صفت تنظیم کے ظہور سے بیگانہ محض ہیں خدائے قادر کے

Page 238

۲۴۹ اُس بھاری نشان پر غور کرتے ہوئے پوری سنجیدگی سے سوچنا چاہیئے کہ اگر ہم پر کوئی علیم و خبیر اور متصرف بالا رادہ ہستی موجود نہیں تو ہندوستان کی ایک مختصر سی بستی میں رہنے والے انسان کو کس نے بتا دیا کہ معرکہ جنگ کے دوران میں انگلستان نہایت درجہ نازک حالت میں مبتلا ہو جائے گا لیکن چھ ماہ کے بعد اس کے قدم مضبوطی سے تھم جائیں گے اور وہ دشمن کے مقابلہ میں پیٹھ ٹھونک کر کھڑا ہو جائے گا اور پھر کو نسی قوت تھی جس نے چھے ماہ کے بعد حالات کا نقشہ بدل ڈالا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب انگلستان اس خطر ناک سیاسی بحران سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو چکا تھا تو کس نے چرچل اور لارڈ ہالی فاکس جیسے عظیم سیاسی لیڈروں کو مجبور کیا کہ وہ ٹھیک چھے ماہ کے بعد اس جنگی راز کا افشا کر کے پیش گوئی پر مہر تصدیق ثبت کر دیں لگنے رویا دیکھا میرے سامنے کچھ کا غذات پیش کئے گئے وو چوتھی خبر ک ہیں جو پٹیان گورنمنٹ کے متعلق ہیں، اور اُن کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ حرکات انگریزوں کے خلاف کر رہی ہے، اور انگریز پہلی دوستی کے لحاظ کی وجہ سے کچھ کر نہیں سکتے اور میں خواب میں ہی گھبراتا ہوں کہ اب کیا بنے گا تو میر دل میں ڈالا جاتا ہے کہ یہ صرف ایک سال کی بات ہے سال کے اندر اندر یہ حالت بدلی بھائے گی.(مرتب) یہ رویا کس شان سے پوری ہوئی اس کی تفصیل حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العریز کے فلم ہی سے پڑھنے.فرماتے ہیں:.فرانس کی شکست سے (جو اسے پٹیان گورنمنٹ کی انگریزی معاہدہ کے خلاف ے جنگ عظیم ثانی سے متعلق حضرت کے الہامات و کشوف کی تشریح اکثر و بیشتر مولانا جلال الدین مباحث تحس سابق امام مسجد لنڈن مبلغ میلاد عربیہ.اور مولانا محمد یعقوب صاحب فاضل طاہر کی تالیف گذشته مو بوده جنگ کے متعلق پیش گوئیاں کسے ماخوذ ہے.

Page 239

۲۵۰ جرم سے مصالحت کر لینے کے باعث ہوئی.ناقل ، ٹھیک ایک سال کے بعد عراق میں جرمنوں نے بغاوت کرائی اور ایسے نازک حالات پیدا ہو گئے کہ خطرہ تھا کہ ہفتہ عشرہ میں ہی جنگ ہندوستان آپہنچے گی اور اس بغاوت کے سلسلہ میں شام میں کی فرانسیسی حکومت نے جرمنوں کو مدد دی اور اس طرح انگریزوں کے لئے جو پہلے فرانس کے ساتھ اس وجہ سے جنگ نہ کرنا چاہتے تھے کہ دنیا میں ان کی بدنامی.ہوگی اور لوگ کہیں گے کہ اپنے سابق طیف کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں اس کا مقابلہ کرنے کا موقعہ خود بخود پیدا ہو گیا اور انہیں فرانس کو نوٹس دینا پڑا اور جب پھر بھی فرانس کے رویہ میں تبدیلی نہ ہوئی تو انہوں نے اس کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دی.دیکھو کس طرح یہ رویا ایک سال کے اندر اندر پورا ہو گیا ور نہ اُس وقت دونوں کی طرف سے اعلان ہوتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا نہیں چاہتے لے وو پانچویں خیر کی جب پر میں انگلستان اترا میں سندھ میں تھا.رات کو خیری مہینے ریڈیو پر خبریں سنیں.اُن میں اُس کے اُترنے کا کوئی ذکر نہ تھا یوں وہ اُتر چکا تھا.رات کو سینے خواب دیکھا کہ ایک بڑا جرمن لیڈر ہوائی جہاز سے انگلستان میں اترا ہے.صبح کیئے بعض دوستوں کو خطوط لکھے تو ان میں اس کا ذکر کر دیا کیونکہ صبح کی خبروں میں ریڈیو پر یہ خبر بھی آگئی تھی." ہے (مرتب) روڈلف ہیں Road Hens ، جو ارمٹی کہ یہ کو انگلستان کے ساحل پر پیرا شوٹ کے ذریعہ اُترا اور اُترتے ہی گرفتار کر لیا گیا مشہور نازی لیڈر اور ہٹلر کا دست راست تھا جو مدتوں ہٹالہ کا پرائیویٹ سیکرٹری اور محافظ خصوصی بھی رہا اور نازی پارٹی کے سیاسی محکمے کا افسر اعلیٰ بھی.الفضل و نومبر ۶ م کالم ۱-۳)

Page 240

۲۵۱ چھٹی خبر کے جس دن جنگ کا آغاز ہوا.اور ہم کواس کی اطلاع آئی.اس نے پہلی خبر کان رات مجھے جنگ کا نظارہ خواب میں دکھایا گیا.مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے.اس نے خواب کا نظارہ مجھے مقامی ماحول میں دکھلایا.اسی رنگ کے نظارے مجھے پہلے بھی دکھائے جاچکے ہیں مجھے دکھایا گیا کہ ہمارے باغ اور قادیان کے درمیان جو تالاب ہے.اس میں قوموں کی لڑائی ہو رہی ہے مگر دنیا پر چند آدمی رسہ کشی کرتے نظر آتے ہیں.کوئی شخص کہتا ہے کہ اگر یہ جنگ یونان تک پہنچ گئی تو اس کے بعد یکدم حالات متغیر ہونگے اور جنگ بہت اہم ہوتی گی اس کے بعد ینے دیکھا کہ یکدم اعلان ہوا ہے کہ امریکہ کی فوج ملک میں داخل ہو گئی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ امریکہ کی فوج بعض علاقوں میں پھیل گئی ہے مگر وہ انگریزی حلقہ اثر میں آنے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی " ! (مرتب) یہ رویا دوز بر دست غیبی خبروں پرمشتمل ہے: اول :- یونان کے میدان جنگ بننے کے بعد نہایت اہم تغیرات ہونگے.جن سے لڑائی نئی کروٹ بدلے گی چنا نچہ یونان تک جنگ پہنچنے کے بعد ہی جرمنی نے اُس کے خلاف اعلان جنگ کیا (۲۲ جون سلکی اور پھر دسمبر کہ میں ۶) جاپان اور امریکہ بھی میدان کارزار میں کو دپڑے اس طرح جنگ کے شعلے مشرق سے لے کر مغرب تک اور نئی دنیا سے پرانی دنیا تک پہنچ گئے اور جنگ ہر بہت سے عالمگیر صورت اختیار کرگئی.دوم: اس رویا میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ کی فوج بعض علاقوں میں پھیل گئی ہے مگر وہ انگریزی حلقہ اثر میں آنے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی " 止 ۲۱ دسمبر ۱۹ ۲۰ کالم ۳۶) نا نا نا شریک سے امریکہ کی جنگ میں شمولیت کا فوری سیب یہ پیدا ہوا کہ جاپان نے ، دسمبر ا ا ء کو بحر الکاہل میں اس کے مقبوضہ جزائر پرل ہاربر پر ہلہ بول دیا اس لئے امریکہ جو اس وقت تک نہ جنگ ہو گیا.

Page 241

۲۵۲ حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دسمبر ۱۹ ء کے جلسہ سالانہ پر رڈیا کے اس حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :- اس خواب کا ایک پہلو تو وہ تھا کہ بعض انگریزی جزیروں میں امریکنوں نے اپنے لئے فوجی اڈے حاصل کئے تھے مگر ایک پہلو اس کا اب ظاہر ہو رہا ہے کہ امریکن حکومت بھی انگریزوں کے ساتھ مل کر بر سر جنگ ہے اور اب ایسے سامان پیدا رہے ہیں ہے کہ قو سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ بالکل ممکن ہے کہ امریکن قوتوں کو ہندوستان میں بھی لانا پڑے چنانچہ حالات نے جلد ہی ایسا پلٹا کھایا کہ خود انگریز ہی امریکی فوجوں کو ہندوستان میں آنے کی دعوت دینے پر مجبور ہوئے.ایک اور خواب کیسے پچھلے سال دستمبرت ا ء کو ناقل رکھا ساتویں خبر کے تھا.میں عمل میں چوہدری ظفر الہ خاں صاح کے مکان پر تھا کہ کینے خواب میں دیکھا کہ میں ایک جگہ ہوں اور وہاں ایک بڑا ٹال ہے جسکی سیڑھیاں بھی ہیں مگر یں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا ملک ہے مگر نظر ہاں آتا ہے.ہمیں دیکھتا ہوں کہ سیڑھیوں میں سے اٹلی کی فوج لڑتی آرہی ہے اور انگریزی فوج دہتی چلی جارہی ہے یہاں تک کہ اطالوی فوج ہال کے کنارے تک پہنچ گئی جس سے میں سمجھتا ہوں کہ انگریزی علاقہ شروع ہوتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ قادیان نزدیک ہی ہے اور میں بھاگ کر یہاں آیا ہوں مجھے میاں بشیر احمد صاحب ملے ہیں میں اُن سے اور بعض اور دوستوں سے کہتا ہوں کہ اٹلی کی فوج انگریزی فوج کو دباتی میلی آرہی ہے اگر پھر ہماری صحت اور بینائی وغیرہ ایسی تو نہیں کہ فوج میں باقاعدہ بھرتی ہو سکیں مگر بندوقیں ہمارے پاس ہیں آؤ ہم لے کر چلیں.ڈور کھڑے ہو کر ہی فائر کریں گے.چنانچہ ہم جانے کے الفضل دار جنوری ۱۹۲۳ء

Page 242

۲۵۳ ہیں، اور دُور کھڑے ہو کر ہی فائر کرتے ہیں اتنے میں بکنے دیکھا کہ انگریزی فوج ہلی والوں کو دبانے لگی ہے اور اُس نے پھر اپنی سیڑھیوں پر واپس چڑھنا شروع کر دیا ہے جن پر سے وہ اتری تھی اس وقت میں دل میں سمجھتا ہوں کہ دو تین بار اسی طرح ہوا ہے.چنانچہ یہ خواب لیبیا میں پورا ہو چکا ہے یہاں پہلے ڈیمن مصر کی سرحد تک پہنچ گیا تھا مگر انگریزوں نے پھر اُسے پیچھے بنا دیا پھر دشمن نے انگریزوں کو پیچھے ہٹا دیا.اور اب پھر انگریزوں نے اُن کو پیچھے بیٹا دیا ہے اور یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی مثال کہیں تاریخ میں نہیں پڑتی کہ چار دفعہ ایسا ہوا ہو کہ پہلے ایک قوم دوسری کو ایک سرے سے دباتی ہوئی دوسرے مرے تک جا پہنچی ہو اور پھر وہ اُسے دبا کر اُسی سرے تک لے گئی ہو اور ایک مرتبہ پھر وہ اُسے دبا کرہ ہیں پہنچا آئی ہو.اور چوتھی دفعہ پھر وہ اُسے دبا کر واپس لے گئی ہو نے (مرتب)، لیبیا کے محاذ جنگ کا یہ نقشہ ایسا مکمل اور بعد کو پیش آنے والے واقعات سے اس درجہ مطابقت رکھتا ہے کہ عقل ورطہ حیرت میں پڑ جاتی ہے.سید نا حضرت اقدس المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہر نومبر 20 ء کو اس عظی ایشان رویا کی واقعاتی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرمایا : تاریخ میں اس بات کی کوئی مثال نہیں مل سکتی کہ کوئی دشمن کسی ملک میں تنی دُور تک آگیا ہو اور پھر دوسری فوج نے اسے مجھے دھکیل دیا ہو گر لیبیا کی لڑائی میں تین دفعہ ایسا ہو چکا ہے اور تینوں دفعہ ایک فریق نے یہی سمجھا کہ اس نے دوسرے کو تباہ کر دیا ہے پہلے ۱۹۲۰ء میں اطالوی فوجیں آگے بڑھیں اور انہوں نے انگریزی فوجوں کو پیچھے ہٹا دیا تا ء کے آخر میں پھر الفضل ار جنوری ۱۹۳۳ء ص کالم ۲- ۳

Page 243

۲۵۴ انگریزی فوجیں آگے بڑھیں اور اطالوی فوجیں شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئیں لام میں نشیمن پھر آگے بڑھا اور انگریزی فوجوں کو دھکیلتا ہوا مصر کی سرحد پر لے آیا ہو کے آخر میں انگریز پھر آگے بڑھے اور یمن کی فوجوں کو شکست دیتے ہوئے کئی سو میل تک لے گئے یون ۳۲ء میں پھر دشمن کی فوجیں انگریزی فوجوں کو دھکیل کر مصر کی سرحد پر لے آئیں اور ہے کہ و کے آخر میں پھر انگریزوں نے بڑھنا شروع کر دیا ہے ان تینوں دفعہ قیمن کو شکست میں ایسی خطرناک ہوئی ہے کہ یہ خیال نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ دوبارہ حملہ کر کے کامیاب ہو جائے گا مگر اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی خبر کے مطابق ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا کہ وہ دوبارہ آگے بڑھا اور اس نے انگریزوں کی سمجھے ہٹا دیا.گویا اللہ تعالی کی طرف سے جو رڈیا مجھے دکھایا گیا تھا وہ متواتر پورا ہوا لڑائی کا میدان مجھے دکھایا گیا تھا اس کا محل وقوع مجھے دکھایا گیا تھا اسکی شکل وصورت مجھے بتا ی گئی تھی اوریہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اس جگہ اس قسم کی جنگ ہو گی کہ کبھی تو انگریزی فوج یمن کو دھکیلتی ہوئی دُور تک لے جائے گی اور کبھی دشمن اسے دھکیل کر اس کے ملک میں گھس آئے گا چنانچہ یہ تمام باتیں پوری ہو چکی ہیں کیا ہے دوران جنگ میں حضور کو دکھایا گیا کہ انگلستان کی حفاظت آٹھویں خیر کا انتظام میرے شہر کیا گیا ہے اور اس کے لئے امریکہ سے ۲۸۰۰ جہاز آ رہے ہیں اور میں اُن کی وجہ سے دیکھتا ہوں کہ اب برطانیہ کے لئے خطرہ نہیں.چنانچہ جس قدر جہازوں کا آپ کو رویا میں علم دیا گیا بالکل اسی قدر مینی ۲۸۰۰ جہازوں کے بھیجے جانے کا امریکہ سے تار آیا تھا.(مرتب) یہ خبر بجون شعر میں ہو بہو پوری ہوئی.الفضل تو میرا نسل ۲ نومبر سال ۲۲۵۲ الفضل ۵ ماه فروری ۱۹۳ م کالم الحمر

Page 244

۲۵۵ دو دو نویں خبر کی فرمایا اسی طرح بھی گذشتہ دنوں میں سندھ میں تھا.کہ } تجھے انگریزی میں ایک الہام ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ انگریزی فوج کی صف توڑ کر جرمن فوج اندر داخل ہو گئی ہے.دوسرے ہی دن میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو بھی ایک خطہ میں اس خواب کی اطلاع دے دی اور غالباً چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بھی خواب لکھے دی.اس کے بعد یہ خبر آ گئی جو ریڈیو پر ہم نے خود بھی سن لی کہ طبری کے مقام پر انگریزی صفوں کو چیر کر جرمن فوج آگے بڑھ گئی ہے.دسویں خبر کی جاپان کی جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی کہ جیسے گزشتہ ہفتہ میں جمعرات یا جمعہ کی رات کو ایک رویا دیکھا جسکی تعبیر میں تو کچھ اور کرتا رہا.مگر بعد میں جب اُس جنگ کا آغاز ہوا.تو معلوم ہوا کہ اس کی تعبیر اور تھی.کینے رڈیا میں دیکھا کہ ایک کو شٹری میں ایک شخص بیٹھا ہے اور وہ کچھ کا غذات جلا رہا ہے اور میں رویا میں ہی ایک اور شخص سے کہتا ہوں کہ یہ شخص نہایت ضروری کاغذات جلا رہا ہے.ہے " جب بھی حکومتوں کی آپس میں جنگ چھڑتی ہے تو چونکہ ہر ملک میں دوسرے ملک کے سفیر ہوتے ہیں.اس لئے وہ سفیر اس وقت ضروری کا غذات جلا دیتے ہیں تاکہ وہ کا غذات دوسری حکومت کے قبضہ میں نہ آئیں.........چنا نچہ پہلے دن جب جنگ کی خبر شائع ہوئی تو ساتھ ہی یہ خبر آئی کہ جاپانی سفارت خانہ میں جاپانیوں کو کاغذ جلاتے دیکھا گیا ہے.بہر حال اس جنگ کے شروع میں اللہ تعالی نے یہ نظارہ دیکھا کر مجھے بتایا کہ اب کوئی نئی حکومت جنگ میں شامل ہونے والی ہے اور اس کے سفارت خانوں میں ضروری له الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۴۷ ۶ صب کا لم ۲.۲ الفضل اور دسمبر ر ا د م کالم ہے.

Page 245

۲۵۶ کا غذات جلائے جائیں گے سپنا نچہ ایسا ہی ہوا لے کر آپ بھی اٹلی پر جب انگریزی حملہ ہوا تو اس سے ایک دن پہلے گیارھویں خبر کے رویا میں مہینے دکھا کہ میں اک جگہ کھڑا ہوں اور وہاں ہاں ہی ایک دوسرا ملک نظر آتا ہے جو بہت لمبا سا ہے وہاں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کھڑے ہیں اور بڑے زور شور سے انگریزوں کی مدد کے لئے فوج میں بھرتی ہونے کے متعلق تقریر کر رہے ہیں خواب میں میں کہتا ہوں کہ مولوی عبد الکریم صاحب تو فوت ہو چکے ہیں معلوم ہوتا ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لی ہوگی کہ میں لوگوں کے سامنے بھرتی کے متعلق تقریر کروں.اور اس اجازت کے بعد وہ تقریر کررہے ہیں غرض وہ بڑے زور شور سے تقریر کر رہے ہیں اتنے میں میں کھی دیکھتا ہوں کہ اس علاقہ کی ایک لوک سے فوج سے بھری ہوئی لاریاں اپنی کثرت سے دوسرے ملک میں داخل ہونی شروع ہو گئیں کہ کیوں معلوم ہوتا تھا کہ ان لاریوں سے تمام جو بھر گیا ہے بے تحاشا ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری موٹر دوڑی چلی جاتی تھی اس خواب کے دوسرے دن ہی اخبارا میں یہ اطلاع شائع ہو گئی کہ انگریزوں نے اٹلی پر حملہ کر دیا ہے.اور مجیب بات یہ ہے کہ تین چار دن کے بعد انگلستان کے اخبار ٹائمز کا ایک فقرہ سول وغیرہ انگریزی اخبارات میں نقل کیا گیا کہ جس طرح فوجوں سے بھری ہوئی لاریاں اٹلی میں داخل ہوئی ہیں اس کا اگر کسی نے اندازہ لگانا ہو تو وہ لنڈن کے کسی چوک کا اندازہ لگا لے جب وہاں موٹرس اور لاریاں کسی وجہ سے رک جاتی ہیں تو اجازت ملنے پر کس طرح ایک دوسری کے پیچھے بھاگتی چلی جاتی ہیں جو حالت ایسے موقعہ پر لنڈن کے کسی چوک میں موٹروں اور لاریوں کی کثرت اور ان کے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنے کی ہوتی ہے اس کو اگر کئی سو گنا بڑھا کر سوچے تو وہ اندازہ لگا سکتا له الضيا

Page 246

۲۵۷ ہے کہ اٹلی میں ہماری فوجوں سے بھری ہوئی لاریاں کس کثرت اور کتنی بڑی تیزی کے ساتھ داخل ہوئیں...یہی نقشہ لینے اپنے دوستوں کے سامنے کھینچا تھا حالانکہ اس وقت تک ابھی یہ خبر شائع نہیں ہوئی تھی کہ اتحادیوں نے اٹلی پر حملہ کر لہ دیا ہے." شرہ میں حضور نے رویا میں سیمن کی فوجیں سمجھے ہنستی ہوئی بارھویں خبر } اور اٹلی کی شکست دیکھی تھی جو لفظاً لفظاً پوری ہو گئی.له اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو تیرھویں خبر کے جہاں اس عالمگیر جنگ کے متعدد پہلوؤں کی خبر دی وہاں یہ بھی بتایا گیا کہ اتحادی جیتیں گے اور توری طاقتیں شکست کھا جائینگی.چنانچہ حضور نے اپریل کہ میں اپنی ایک مفصل رؤیا کے آخری حصہ کی تفصیل ان الفاظ میں بیان فرمائی : ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خبر ایک بجلی کی طرح ساری برٹش ایمپائر میں پھیل گئی ہے کہ ملکہ دریا کے پار ہو گئی ہے اور حرمین سپا ہی اس کو پکڑ نہیں سکے.اور اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ میں سب ملکوں کی آوازشن سکتا ہوں اور سینے سُنا، انگلستان - آسٹریلیا کینیڈا - افریقہ سب جگہ کے - برطانوی باشندے خوشی سے تالیاں پیٹ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب انگریزی قوم جیت گئی اور جرمن ہار گئے اُس وقت خواب میں مجمد پر ایسا اثر ہوا کہ اس احسان ہیں سے کہ میری طاقت سے یہ تغیر پیدا ہوا ہے کینے بھی بے تحاشا تالی پیٹ دی مرتب ، محوری طاقتوں کی ناکامی اور اتحادیوں کی کامیابی کے متعلق یہ رویا اتنے له الفضل ، اکتوبر ۱۹۳۳ ۶ م کالم کے الفصل الدار اکتوبر سے ہر و وصیت کالم را العقیق ۲۳۰ اپریل ہے.فرحت کالم ۳۲

Page 247

۲۵۸ واضح اور نمایاں ہیں کہ ہمیں مزید تشریح کرنے ضرورت نہیں.دوسری جنگ عظیم سے متعلق متعد د خدائی نشانوں کا تذکرہ چودھویں خبر کرنے کے بعد بالآخر ہمیں یہ بتانا ہے کہ جنگ عین اسی سال اسی مہینہ اور اسی تاریخ کو ختم ہوئی جس کی حضور اقدس نے القاء انہی کے مطابق ہ ء اور ان میں تعیین فرما دی تھی.چنانچہ حضور نے ارٹی شہ کو خطبہ جمعہ میں فرمایا : اس ہفتے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت کا نشان اس رنگ میں دکھایا ہے کہ یورپ کی جو ابتدائی اور اصلی جنگ تھی وہ ختم ہو چکی ہے اس جنگ کے متعلق بینے بارہا بیان کیا تھا کہ قرآن مجید سے اور خدا تعالیٰ کے فعل سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ جنگ شہداء کے شروع میں ختم ہو جائیگی یعنی اپریل شده یا جون شی ء تک یہ بات خدا تعالیٰ نے ایسے عجیب رنگ میں پوری فرمائی ہے کہ اس پر حیرت آتی ہے.آج ہی لاہور سے ایک طالب علم نے لکھا ہے کہ گزشتہ سال میڈیکل کالج لا ہو نے کچھ طالب علم جب آپ سے ملنے آئے تھے تو ان میں سے ایک نے آپ سے یہ سوال کیا تھا کہ جنگ کب ختم ہوگی.اور آپ نے اسے یہ جواب دیا تھا کہ جو کچھ میں قرآن مجید سے اور خدا تعالے کے کلام اور اس کے فعل سے سمجھتا ہوں یہ جنگ اپریل شہء میں ختم ہو جائے گی وہ کہتے ہیں کہ لینے یہ بات اسی وقت نوٹ کرلی تھی اور اب لینے وہ تحریہ اس لڑکے کو جس نے یہ سوال کیا تھا دکھا دی ہے کہ تمہارے ساتھ یہ گفتگو ہوئی تھی دیکھے تو اب وہ بات پوری ہو گئی ہے عجیب بات یہ ہے جو نہایت حیرت انگیز ہے کہ گذشتہ الہامات تو الگ رہے میرے اس استدال کی بنیاد کہ جنگ اپریل 19 ء میں ختم ہو جائے گی.اس بات پر تھی کہ اللہ تعال

Page 248

۲۵۹ کی طرف سے تحریک جدید کے بواعث کے نتیجہ میں یہ جنگ پیدا کی گئی ہے چنانچہ اس مضمون کے متعلق کثرت سے میرے خطبات موجود ہیں کہ گورنمنٹ کی طرف سے ہماری جماعت کو جو تکالیف دی گئی ہیں ان کے نتیجہ میں اسے یہ استلار پیش آیا ہے اور تحریک جدید کے ساتھ اس کی وابستگی تحریک جدید کے قیام و آغاز کے بواعث کے متعلق قبل ازیں بتایا جا چکا ہے کہ اکتوبر سے میں جب انگریزی حکومت نے احرار کو آلہ کار بنا کو جماعت احمدیہ کا قافیہ حیات تنگ کر دیا تب اللہ تعالے کی طرف سے یہ تحریک القا ہوئی جس کے دور اول میں حضور نے مخلصین جماعت سے دس سال قربانیوں کا مطالب فرمایا.یہ دعوی کہ گورمنٹ انگریزی کی ایذا رسانیوں کے نتیجہ میں جنگ عظیم کا ظہور ہو ابظا ہر محض ایک بے جا تعلی یا خوش فہمی نظر آتی ہے لیکن ہمارا یقین ہے کہ اگر قارئین حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعلی کی مندرجہ ذیل پیشگوئی کور یو حضور نے جنگ عظیم کے آغاز سے چار سال قبل فرمائی، مطالعہ فرمائیں گے تو انہیں بھی لاز کا اس دھوئی کی تائید میں ہمارا ہم نوا بننا پڑے گا.ے حضور ایدہ الہ تعالی نے اور بھر کو قادیان کے بے سالانہ میں تقریر کرتے ہوئے پیر کوک پیش گوئی فرمائی حکومت کے افسروں کو پولیس اور سول کے حکام کو.معلوم ہونا چاہیئے ہیں جوش آتا ہے اور آئے گا مگر وہ دل میں رہے گا.ہمیں غیرت آئے گی مگر وہ ظاہر نہ ہوگی.ہمارے قلوب ٹکڑے ٹکڑے ہونگے مگر زبا نہیں خاموش رہیگی.ہاں ایک اور مہستی ہے جو خاموش نہ رہے گی وہ بدلہ لے گی.حکومتوں سے بھی.اور افراد سے بھی کوئی بڑے سے بڑا افسر کوئی بڑے سے بڑا لیڈر کوئی بڑے سے بڑا جتھا اور کوئی بڑی سے بڑی حکومت اسکی گرفت سے بچ نہ سکے گی.حکومت انگریزی بہت بڑی اور بہت طاقتور حکومت ہے مگر جو اس کے غدار اور فرض ناشناس حاکم ہیں انہیں وہ خدا کی گرفت سے نہیں بچا سکتی.وہ ایسے حکام کو کم کے گولوں سے بچانے کا انتظام

Page 249

ہے.چنانچہ لینے جو یہ کہا تھا کہ جنگ اپریل شاہ کے آخر میں ختم ہو جائے گی یہ اسی بنا پر کہا تھا کہ تحریک جدید کا آخری سال وعدوں کے لحاظ سے تو ۱۹۲۳ء میں ختم ہوتا ہے لیکن جہاں تک سارے ہندوستان کے لئے چندوں کی ادائیگی کر سکتی ہے اور وہ احمدیوں نے چلانے نہیں.مگر ہیضہ.قولنج اور طاعون کے حملہ سے وہ کسی کو نہیں بچا سکتی اور نہ کوئی اور طاقت ہے جو خدا کی گرفت سے بچا سکے.اگر یہی حالت جاری رہی اور کسی دن بد دعا مل گئی تو حکومت دیکھ لے گی کہ اپنے تمام سامانوں اور اپنی تمام حفاظتوں کے باوجود ان کو بچا نہ سکے گی.ہمارا خدا ظلم اور نا انصافی کرنے والوں کو دیکھ رہا ہے.وہ ہمارے زخمی قلوب اور اُن میں جو جذبات ہیں اُن کو دیکھتا ہے.پھر ہمارے صبر کو دیکھتا ہے.آخر وہ ایک دن اپنا فیصلہ نافذ کرے گا.اور پھر دنیا دیکھے لے گی.کہ کیا کچھ رونما ہوتا ہے “ ( الفضل ۲۰ جنوری قیمت) حضرت اقدس یہی مضمون ایک دوسرے انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں :- " جب یہ جنگ شروع ہوئی تو میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی کہ یہ جنگ تحریک جدید کا ایک ظہور ہے اور اس کے خاتمہ سے تعلق رکھتی ہے اور یہ خیال ایسا میسج کی طرح گڑا ہوا تھا کہ متعدد دفعہ اس کے متعلق بیان کر چکا ہوں ( الفضل دار مٹی شه ) اس تعلق میں ۶۲ - 2ء اور ۱۹۲۳ء کے تین بیانات درج ذیل کئے جاتے ہیں :- (1) " میرا اپنا خیال بھی بعض پیش گوئیوں کے مطابق یہی ہے کہ سماء میں جنگ ختم ہو جائیگی اور شعراء میں ہی تحریک جدید ختم ہوتی ہے اور چونکہ بعض دفعہ جزو بھی ساتھ ہی شامل ہوتا ہے اس لئے یہ بھی ممکن ہے کہ شاء میں بھی چند ماہ تک یہ جنگ چلی جائے ؟ الفضل بورد سم راکه م (۲) اب تحریک جدید کا نواں سال ہے کہ تحریک بعدیہ کا دسواں سال ہوگا اور ۳۵ اس کا خاتمہ ہے جو ایسا ہی ہوگا جیسے رمضان کے بعد عید آتی ہے پس میں سمجھتا ہوں کہ وہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک خاص سال ہوگا.( الفضل ، ضروری ۱۹۲۳ء ص۳) (۳) " آج سے دو تین سال پہلے جبکہ جنگ کا پہلو انگریزوں کے خلاف تھا اسی وقت سیکھنے اس بات کا اظہار کیا تھا اور بتایا تھا کہ میری رائے میں جنگ ۱۹۳۷ء کے آخر یا ۱۹۲۵ء

Page 250

کا تعلق ہے اس لحاظ سے یہ مدت اپریل شہر میں ختم ہوتی ہے اور جون یا جولائی اس لحاظ سے کہا تھا کہ بیر و نجات کے چندوں کی ادائیگی کی آخری میعاد جون یا جولائی میں جاکر ختم ہوتی ہے اب یہ عجیب بات ہے کہ چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ جو مقرر ہے وہ سات ہوتی ہے یعنی اگر ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اُردو بولی اور سمجھی جاتی ہے.اس جنوری مقرر ہے تو یہ میعاد سات فروری کو جا کر ختم ہوتی ہے اور اگر ہندوستان کے اُن علاقوں کے لئے یہاں اُردو بولی اور سمجھی نہیں جاتی ۳۰ ر اپریل مقرر ہے تو یہ میعاد سات بیٹی کو جاکر ختم ہوتی ہے کیونکہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر وعدہ لکھوانے کی تاریخ مور اپریل تک رکھی جائے تو چونکہ بعض جگہ ہفتہ میں ایک دفعہ ڈاک آتی ہے اس وعدہ کے روانہ ہونے کی آخری تاریخ اگلے مہینہ کی سات ہونی چاہئیے اس اصل کے مطابق ہندوستان کے اُن علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سہی جاتی ہے آخری میعاد سات ضروری مقرر ہے اور ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے یہاں اردو بولی اور سمجھی نہیں جاتی وعدوں کی ادائیگی کی آخری میعاد ستات مٹی مقرر ہے اب یہ عجیب بات ہے کہ جس دلیل پر میری بنیاد تھی کہ تحریک جدید کے آخری سال کے اختتام پر یہ جنگ ختم ہوگی میری وہ بات اسی رنگ میں پوری ہوئی کہ جنگ نہ صرف اسی سال اور اسی مہینہ میں ختم ہوئی جو ئی نے بتایا تھا بلکہ کے شروع میں ختم ہو جائیگی..تحریک جدید کا اجرا جن اغراض کے ماتحت اہلی تصرف سے ہوا تھا ان کی وجہ سے میں سمجھتا تھا کہ تحریک جدید کا پہلا جب ختم ہوگا تو خداتعالی ایسے سامان بہم پہنچائے گا کہ تحریک جدید کی اغراض کو پورا کرنے میں جو روکیں اور موانع ہیں خدا تعالیٰ ان کودور کردے گا اور تبلیغ کو وسیع کرنے کے سامان بہم پہنچا دے گا اور چونکہ تبلیغ کے لئے یہ سامان بغیر جنگ کے خاتمہ کے بغیر نہیں آسکتے اس لئے میں سمجھتا تھا کہ سو کے آخر یا شک ہو کے شروع تک یہ جنگ ختم ہو جائے گی الفضل و اندر اگست دارد هرات به

Page 251

۲۶۲ عین سات مئی کو آکر سپردگی کے کاغذات پر دستخط ہوئے" نے حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالے نے جنگ کے خالہ کے متعلق ہو تعیین فرمائی وہ صرف جماعت احمدیہ کے اخبارات میں ہی درج نہیں ہوئی بلکہ حکومت ہند کے بعض افسروں نے بھی حضور کی زبان مبارک سے اسے شنا چنانچہ حضور فرماتے ہیں: ء میں جب میں گھر کی بعض مریضہ عورتوں کے علاج کے لئے دہلی گیا تو وہاں چوہدری بشیر احمد صاحب نے ایک رات دعوت دی اس دعوت میں بہت سے غیر احمدی افسر بھی مدعو تھے.اور بعض ایسے تھے جو سلسلہ کے متعلق تنقیدی نگاہ رکھتے تھے اس وقت میرے دائیں پہلو پر چیز Purchase ) کے بڑے افسر غلام مرشد صاحب 9.2.5 بیٹھے ہوئے تھے.اور میرے بائیں طرف فنانس کے تین افسر تھے جن میں سے ایک مرکزی سپلائی کے دفتر کے ایڈوائزر مسٹر ز بیری تھے اور باقی دو دوسرے دفاتر کے تھے.ان میں سے ایک دوست شاید مسٹر اظہر تھے اب وہ پنجاب میں ایڈوائزر کے طور پر لگے ہوئے ہیں اور دوسرے غالبا مسٹر ممتاز حسین صاحب تھے جو پنجاب ہی کے رہنے والے ہیں اور ڈاکٹرا قبال صاحب کے بارہ میں کئی مضامین لکھ چکے ہیں شروع میں مذہب کے متعلق مختلف با تیں ہوتی رہیں آخر سلسلہ کلام جنگ کی طرف پھرا.اس وقت ایک صاحب نے سوال کیا کہ جنگ کا خاتمہ کب ہوگا سینے ان کو بتایا مجھے یقین ہے کہ لینے جو تحر یک جدید جاری کی ہے اس کا جنگ کے ساتھ تعلق ہے اس کا دس سال تسلسل ہندوستان کے لحاظ سے اپریل سطام ہو میں ختم ہوتا ہے اور بیرونی ممالک کے لحاظ سے جون شالہ میں کیونکہ چندہ کے وعدوں کی میعاد ہندوستان کے لئے بنگال وغیرہ کو ملاکر اپریل کا آخر ہوتی ہے اور لفضل ۱۴ مئی ۵ در حرمت ۱۲

Page 252

۲۶۳ بیرونی ممالک کیلئے جون کے آخر تک کی میعاد ہے اللہ تعالی کی جو قدرتیں ظاہر ہو رہی ہیں ان کے لحاظ سے مجھے یقین ہے کہ تحریک جدید کے ساتھ جنگ کا گہرا تعلق ہے اور دیر سے میں اس کو محسوس کر رہا ہوں اس بناء پر مجھے یقین ہے کہ اس جنگ کا خاتمہ اس دور کے خاتمہ کے ساتھ اپریل یا جون تک ہو جائے گا ؟ لے برطانوی پریس میں حضرت کشوف الہامات تذکرہ برطانیہ کے دو مشہور اخبارات." یوشم جوئل اینڈ برونیوز " اور " گزٹ اینڈ برونیوز نے ۲۸ ستمبر شد کی اشاعتوں میں لکھا :- اگست شاء میں جنگ شروع ہونے سے قبل امام جماعت احمدیہ نے ایک رؤیا دیکھا کہ گویا جنگ چھڑ چکی ہے اور آپ کو جنگ کے متعلق بعض اہم مسودات دکھائے جا رہے ہیں.ان میں سے ایک مسودہ یہ تھا کہ برطانیہ کی طرف سے فرانس کو یہ پیشکش کی جارہی ہے کہ دونوں ممالک متحد ہو جائیں اور دونوں ایک قوم بنگر جنگ جاری رکھیں.آپ اس مسودہ کو پڑھے پر بہت پریشان ہوئے لیکن آپ کو رویا میں ہی یقین دلایا گیا کہ چھ ماہ بعد حالات سدھرنے شروع ہو جائیں گے.اس رؤیا کا پہلا حصہ جون شاء میں حرف بحرف پورا ہوا.اور دوسرا حصہ اس کے چھ ما بعد جبکہ لیبیا میں پہلی پیشقدمی شروع ہوئی.اسی طرح آپ کو نہ کیا میں قبل از وقت بلیجیم کے بادشاہ پیو پونڈ کا ہتھیار ڈال دینا الفضل ۲۴ منى شلدء

Page 253

۲۶۴ اور تخت سے دست بردار ہونا دکھلا دیا گیا تھا ن شا ء میں آپ نے اپنا منشاء ایک رویا بھی شائع کیا تھا کہ امریکہ کی فوجیں ہندوستان میں اترینگی، اور بیکہ یونان بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آجائے گا.وسط جون میں آپ کو کشف ہوا کہ برطانیہ کی ہوائی مدافعت مستحکم کرنے کے لئے امریکہ نے ۲۸۰۰ ہوائی بہانہ برطانیہ کو بھیجے ہیں یہ الہام بھی تین ہفتہ بعد لفظاً لفظاً پورا ہوا.پھر آپ نے یہ پیش گوئی بھی کی کہ شمالی افریقہ میں انگریزی فوجوں کو ایک لمبی ہم جاری رکھنا پڑے گی جس میں پیش قدمیوں اور پسپائیوں کا سلسلہ جاری رہیگا لیکن آخر کار برطانیہ کو مکمل فتح ہوگی.ستمبر د میں امام جماعت احمدیہ کو اتحادی فوجوں کے سفلی اور اطالیہ احمدیہ اور او پر اترنے کا علم دیا گیا لیکن ساتھ ہی آپ کو یہ بھی بہت لا دیا گیا کہ ابتدائی کامیابیوں کے سلسلہ کے بعد یہ مہم طول کھینچ لے گی.یہ تمام کشوف قبل از وقت شائع کر دیئے گئے.اور ان میں سے بعض بہندر سواہی کے بعض اعلیٰ حکام تک پہنچا بھی دیئے گئے جن میں اس وقت کے وائسرائے ہند لارڈ لنلتھگو بھی تھے یہ جنگ کے بعد برطانیہ کی اقتصادی پالی کے متعلق پیشگوئی حضرت امام جماعت احمد به ایدہ اللہ تعالٰی نے اگست ۲۴ ء میں ایک خطبہ جمعہ کے ضمن میں ارشاد فرمایا :- جس وقت نے تحریک جدید شروع کی تھی اس وقت کینے بتایا تھا کہ چونکہ حکومت کے بعض افسروں نے ہم پر ظلم گئے ہیں اس لئے ان کو ضرور اس ظلم کی

Page 254

۲۶۵ • سزا ملے گی اور جینے بیان کیا تھا کہ ہمارے پاس تو ایسے سامان نہیں کہ ہم ان کو سزا دے سکیں لیکن خدا کے پاس ہر قسم کے سامان ہیں وہ ضرور اُن کو ان کے ظلم کی سزا دے گا.یہ بات میرے سے قیام اور اس کے بعد کے خطبات میں موجود ہے جس کے ماتحت انگریزوں کا جنگ میں حصہ لینا مقدر تھا لینے قبل از وقت کہہ دیا تھا کہ گو آخرین فستح انگریزوں کے لئے مقدر ہے مگر حکومت کی طرف سے ہمارے ساتھ انصاف کرنے میں جو کوتاہیاں ہوئی میں اُن کی سنرا ان کو ضرور ڈینگی چنانچہ جنگ میں بیشک ان کو فتح تو ہو جائے گی لیکن ان کے لاکھوں آدمی مارے گئے ہیں اور کروڑوں کروڑ روپیہ خرچ ہو گیا ہے پس انگریزوں کو فتح کو حاصل ہو جائے گی مگر مالی لحاظ سے وہ کچلے جائیں گے اور ان کے لئے جنگ کے بعد بسر اُٹھا نا مشکل ہوگا در اصل جنگ کے بعد مالی لحاظ سے انگریز امریکیوں کے ہاتھ میں ہیں اور ان کی حالت اقتصادی طور پر جنگ کے بعد کے چند سالوں تک امریکہ کے مقابل ایک ماتحت کی سی رہ جائے گی یہ تے (مرتب) جنگ کے بھاری اخراجات ملکی عمارتوں کی قیامت خیز تباہی اور بیشما نفوس کی اموات نے برطانیہ کا پہلے ہی کچومر نکال دیا تھا لیکن جنگ کے خاتمہ کے بعد تو اس کی اقتصادیات کا جنازہ ہی اُٹھ گیا.برطانوی اقتدار کو ہندوستان - بریا اور لنکا جیسے عظیم ستونوں کا جو سہارا تھا وہ نہ رہا.ایرانی تیل کے چشموں پر اس کی بالا دستی ختم ہو گئی سوڈان نے اسکی فولادی زنجیریں ریزہ ریزہ کر ڈالیں او بر طانیہ کی رہی سہی ساکھ بھی بگڑ گئی اور وہ نڈال ہو کر رہ گیا یہ زخم ابھی تازہ تھے کہ سویز نے اس کی کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا.ان مسلسل اور پیہم آفات و تواوٹ کی روشنی میں سوچئے کہ برطانیہ کی " محکومیت" ہ اس ضمن میں ایک اہم حوالہ گذشتہ اوراق میں درج ہو چکا ہے.منہ که الفضل ۲۹ اگست ۶۲۲

Page 255

اور امریکہ کی حاکمیت نے کیا کیا رنگ نہ دکھائے ہوں گے اس ضمن میں ادار کا اقوام متحدہ کی شہء کی ایک رپورٹ ملاحظہ ہو.14 مارچ شام میں برطانیہ مالی اعتبار سے یونان کی مدد جاری رکھنے کے لائق نہیں تھا اس لئے ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے یہ ذمہ داری اپنے سر لے لی.اور اپنے اس اقدام کی اطلاع سلامتی کونسل کو دے دی.اقوام متحدہ اور اس کا طریق کار انہ ڈیوڈ کشمن کویل ) ترجمہ فضل حق قریشی کمیونزم کے خلاف نظم تحریک کے بارہ میں پیشگوئی کمیونسٹ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ آجکل اس تحریک کے خلاف کسی ملک میں پوش نہیں ہے اور وہ اس پر بہت خوش ہیں حالانکہ اس وقت کی خاموشی کی وجہ یہ ہے کہ غیر ممالک اس وقت روس کی مدد کے محتاج ہیں اس وقت انگلستان کوئی بات روس کے خلاف سننے کے لئے تیار نہیں اس وقت امریکہ کوئی بات روس کے خلاف سننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ امریکہ اور انگلستان دونوں اس وقت روس کی مدد کے محتاج ہیں اور لوگ اس وجہ سے خاموش بیٹھے ہیں میں دن لڑائی ختم ہوئی اور لوگوں کی آواز پر حکومت کی گرفت نہ رہی اسی دن وہ لوگ جو آج مصلحت کے ماتحت خاموش بیٹھے ہیں روس کے خلاف سازشیں شروع کردیں گے اور اس تحریک کو مٹانے کی کوشش کریں گے" اسلام کا اقتصادی نظام فرموده ۲۶ فروری شاء طبع اول

Page 256

(مرتب) حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ الہ تعالیٰ کی یہ عظیم الشان پینگوئی جو ۲۶ فروری شہہ ء کو بیان کی گئی تھی نہایت غیر معمولی حالات اور حیرت انگیز رنگ میں پوری ہوئی.چنانچہ جنگ کے نقوش ابھی ذہنوں پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ جنرل مارشل نے جون ۶ء میں یہ ہنگامہ خیز تقریر کی کہ یورپ کو کمیونزم کے نرغے سے بچانا.امریکہ کی خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھر ہے اس لئے ہم نے یورپ کی بحالی کے لئے ایک کثیر رقم بطور قرض دینا طے کیا ہے.اس تقریر کے نتیجے میں برطانیہ اور فرانس نے امریکہ کی قیادت میں چار سال کی امداد کا ایک مشترک پروگرام بنایا روس نے اسے ماننے سے انکار کیا اور اپنے زیر اثر ممالک کو بھی روکا تاہم اٹلی نلجیم ڈنمارک ناروے اور آسٹریا اس سے فائدہ اُٹھانے پر تیار ہو گئے.اپریل شہداء میں امریکی کانگرس نے جنرل مارشل کے اس اعلان کو قانونی مشکل دے دی اور اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا قانون یہ بھی پاس کیا کہ فرانس اٹلی اور آسٹریا کو خصوصیت کے ساتھ امداد دی جائے تاکہ ان ممالک کو کمیونزم کے بڑھتے ہوئے نرغے سے بچایا جاسکے؟ اے at' انگلستان کی سیاست میں غیر معمولی انقلاب اور مسٹر مارٹین کی پارٹی کے برسراقتدار آئی کی زیر سیست پیشگوئی امام جو نے کی حضرت امام جماعت احمدیہ کا رویا جو حضور نے مئی ۳۵ہ ہمیں ڈلہوزی کی چوٹیوں پر دیکھا.سیمین دن کی بات ہے.ڈلہوزی میں بینے ایک رؤیا دیکھا.کہ کوئی شخص ارمین ے یہ حصہ کتاب انقلابات عالم کا حصہ دوم (مولفہ ابو سعید بزمی سے ماخوذ ہے.

Page 257

نامی انگریز ہیں وہ کہتے ہیں کہ چالیس سال کے عرصہ تک کا گڑھ کے ضلع میں میرے جیسا اور عقلمند آدمی پیدا نہیں ہوگا.یا شاید یہ کہا ہے کہ پا یا نہیں چائے گا میں اس وقت رویا میں سمجھتا ہوں کہ مارین سے وہ وزیر مراد ہے جو لیبر پارٹی کی طرف سے وزارت میں شامل ہیں.یہ فقرہ شنکر میرے دل میں فورا یہ بات گزری کہ انشاء اللہ انہوں نے نہیں کہا.اگر یہ انشاء اللہ کہہ لیتے تو اچھا ہوتا پھر ساتھ ہی میرے دل میں یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کانگڑے کے ساتھے اُن کا کیا تعلق ہے.کانگڑہ ہندوستان کا علاقہ ہے اور یہ انگلستان کے رہنے والے ہیں اس سوال کے پیدا ہوتے ہی میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ کانگڑے کا لفظ استعارہ انگلستان کے لئے بولا گیا ہے.اور کانگڑے میں چونکہ آتش فشاں پہاڑ ہیں اس لفظ میں انگلستان کی آئیندہ حالت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ انگلستان میں بھی بہت کچھے رد و بدل اور اُتار چڑھاؤ کا زمانہ آرہا ہے اور جس طرح آتش فشاں علاقے میں زلزلے آتے رہتے ہیں.اسی طرح انگلستان میں بھی سیاسی اور اقتصادی اُتار چڑھاؤ رونما ہونے والے ہیں اور مسٹر مارلین کے قول کا مطلب یہ معلوم ہو ہے کہ ایسے تغیرات اور فساد کے وقت میں سب سے اچھا کام کرنے والا ثابت ہوں گا“ د(مرتب) اس رویا میں حضرت امام جماعت احمدیہ کو یہ حیرت انگیز خبر دی گئی تھی کہ انگلستان کی سیاسیات میں زلزلہ انگن انقلاب برپا ہونے والا ہے اور یہ کہ مسٹر ماریس کی شخصیت اس انقلاب میں نہایت اہم پارٹ ادا کرنے والی ہے اور چونکہ جمہوری ممالک میں کوئی شخص پارٹی سسٹم سے الگ ہو کر تنہا اپنی ذات میں کوئی سیاسی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتا.اس لئے خواب میں یہ اشارہ پہلی تھا کہ عنقریب مسٹر مارین کی لیبر پارٹی برسراقتدار آنے والی ہے.له الفضل اار مئی ۲۵اء مٹہ کالم ۱-۲-۳

Page 258

حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالی نے یہ نظارہ دیکھتے ہی چوہدری ظفر الدین صاحب (حال بیج انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس ، اور سابق امام مسجد لنڈن موللنا جلال الدین صاحب شمس کے ذریعہ سے مسٹر مارین کو بھی اس سے مطلع فرما دیا.مئی ۲۵ ء میں جبکہ یہ خبر دی گئی.پارلیمنٹ ٹوٹنے کا ہرگز کوئی امکان نہ تھا.کیونکہ شہداء کے پارلیمنٹ ایکٹ کی وجہ سے پہلی پارلیمنٹ کی میعاد میں نو می شود تک توسیع ہو چکی تھی لیکن چند روز بعد ہی کنز روٹیو پارٹی نے جنرل الیکشن کا فیصلہ کر دیا.چونکہ جنگ عظیم کی فتح کا تمام تر سہرا مسٹر چرچل کے سر تھا اس لئے مسٹر چرچل اور ان کی پارٹی کی کامیابی یقینی تھی.بلکہ خود لیبر پارٹی کے لیڈر مسٹرائیلی اور مسٹر ماریس بھی جو انتخابی کمیٹی کے چیئر مین تھے.یہی رائے رکھتے تھے حتی کہ خود انتخاب کے دوران میں پھر ہر چیاں ڈالے جانے کے بعد بھی قریباً تمام اندازے اس امر پر متفق تھے کہ کثرت قدامت پسندوں کی ہوگی بلکہ ڈیلی ہیرلڈ نے نتیجے کا اعلان ہونے سے صرف ایک دن قبل کی اشاعت میں ادارتی نوٹوں میں لکھا کہ بیبر پارٹی نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ یہ الیکشن بہت جلدی میں کیا جارہا ہے لیکن کئزر وٹو نے مسٹر چپ چل کی شہرت سے جو انہیں سب پارٹیوں کی گورنمنٹ کے لیڈر ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی فائدہ اُٹھانا چاہا ہے.ڈیلی میل نے لکھا ” ان لوگوں کے علاوہ جو اپنے یقین پر مصر ہیں کہ مسٹر چہ جیل کو تعی نیز بڑی اکثریت حاصل ہو گی کنری وٹو اور لیبر پارٹی کے ہیڈ کوارٹرز میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں اس خوف سے پریشانی ہے کہ کسی ایک کو بھی کھلی بیچارٹی نہیں ملے گی.اور جولائی مگر ۲۶ جولائی (س) کو دنیا یہ خبر سنکر دنگ رہ گئی کہ کنز رو ٹو پارٹی کے مقابل لیبر پارٹی ۲۰۴ ووٹوں کی بھاری اکثریت سے جیت گئی ہے چنانچہ برطانیہ کے مقتدر اخبار ے مختلف پارٹیوں کا نتیجہ پر پارٹی ۳۹۳ ) مؤیدین، لبرل ۱۲- انڈنیڈنٹ بیرل ۳.کمیونسٹ ہو.کامن ویلتے آئرش نیشلسٹ - کنزرو ٹو ۱۸۹ (مؤیدین) ایسٹر یونینٹ 9.نیشنل کا برلی نیشنل ۱۲ (انڈیپنڈنٹ ۱۴)

Page 259

۲۷۰ ڈیلی ٹیلیگراف (۲۷) جولائی) نے اسے سوشلسٹ کی بے مثال فتح سے تعبیر کیا اور ڈیلی میل (۲۷ جولائی نے لکھا کہ جنرل الیکشن کے نتیجہ کو شاندار Bemarkable کی بجائے حیران کن یا لرزادینے والا ( ltanging) کہنا چاہئیے.ڈیلی ٹیلیگراف (م ۱۲ جولائی، کے امریکہ میں مقیم نامہ نگار نے امریکی عوام کے متعلق اطلاع دی کہ انہیں سوشلسٹ پارٹی کو نا قابل یقین درجہ تک حیرانی ہوئی ہے کیونکہ مسٹر چرچل کے متعلق یہ سمجھا جاتا تھا کہ جب تک جنگ جاری ہے اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا اسی طرح روس میں مقیم خصوصی نامہ نگار نے کھا کہ ایکشن کے نتیجہ کی خبر شنکر اکثر روسی صفطے میں آگئے نے یہی رو حمل آسٹریلیا.نیوزی لینڈ سپین بہندوستان اور دوسرے ممالک کے عوام میں ہوا.حقیقت یہ ہے کہ لیبر پارٹی کا برسر اقتدار آ جانا اس خواب کی صداقت کے لئے کافی تھا لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جیسا کہ خواب میں دکھایا گیا تھا یہ عظیم انقلاب 85 مسٹر موریس کا ہی رہین منت تھا چنانچہ برطانوی اخبارات کی چند آرا ملاحظہ ہوں.را ) (ڈیلی ہیٹ ٹو) ” مسٹر ہربرٹ موریسی لینڈن کی عظیم الشان فتح کا بانی مبانی ہے.(۲۷ جولائی ، وڈیلی میل "مسٹر ہربرٹ مورنین کو اور ڈپریذیڈنٹ آف دی کونسل کا عہدہ دینا ذرا تعجب خیز ہی ہے نیز یہ کہ وہی اندرون اور بیرون ہاؤس آف کامنز میں بیبر پارٹی کے کاموں اور مساعی کے انچارچ ہونگے وہی الیکشن کی فتح کے سب کے سب سے بڑے آرگنائزر تھے.اور اس وقت وہ پارٹی کے پولیسمین کی طرح ہیں دور جولائی ہے (۳) (ٹائمز ہ لیبر پارٹی کے سب سے زیادہ قابل اور تجربہ کار پارلیمنٹ ہیں، غلب اد مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مولانا جلال الدین صاحب سمس کا مضمون ( مطبوعه الفضل ۱۲ نومبر ۶)

Page 260

......نارین ہی ہیں وہ لیبر پارٹی کی الیکشن کمیٹی کے چیز میں تھے اور اس پروگرام کے تیار کرتے ہیں جس کے مطابق ملک کو اپیل کی گئی مسٹر مورین نے غالب حصہ لیا.غرض کہ حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم انسان رویا ہر پہلو سے کمال آب و تاب سے پورا ہوا.مسٹر مورین کا سکویا میں یہ کہنا کہ آئیندہ چالیس سال کے عرصہ تک میرے جیسا کوئی اور عقلمند آدمی پیدا نہیں ہوگا ایک معنی خیز فقرہ ہے جس کی تعبیر کے لئے مسٹر کولن آرکوٹ ر Colin R.Coote) کا وہ تبصرہ جو انہوں نے انتخاب کے نتیجہ پر ڈیلی ٹیلیگراف (۲۷ جولائی میں شائع کیا.مطالعہ کے لئے کافی ہو گا.انہوں نے لکھا: ر برطانیہ کی کابینہ کی تاریخ میں رائے عامہ کی اس قسم کی نیروی انتالیس سال) قبل ان شاء میں ہوئی تھی :- مولانا ابوالکلام آزاد کے متعلق ایک اہم خبر ر حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالے کا رویا ہے اپریل مشکی) فرمایا ابو الکلام صاحب آزاد کے متعلق بتایا گیا ک قریب عرصہ میں اُن کی ذات کے متعلق ایک عظیم الشان واقعہ ہونے والا ہے یہ نہ (مرتب) حضور نے اس رویا کی تعبیر میں بتایا :- انسانی زندگی میں دو ہی واقعات عظم الشان ہوتے ہیں یا تو اسکا مر جانا اور یا جس کام میں وہ مشغول ہوا.اس میں اسے کسی عظیم الشان خدمت کا موقعہ مل جانا " ہیں صاحب کس کا مضمون مطبوعه الفضل ۱۳ نومبر لهم ھ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مولانا جلال هد الفصل ۲۳ جون ۶۲۵ ه القيا

Page 261

یہ شہر بھی حرف بحرف پوری ہوئی کیونکہ انہیں شکر اور سہ ء میں مقتدر کانگرسی لیٹ کی حیثیت سے شملہ کا نفرنس اور پارلیمنٹری مشن میں شرکت کا موقعہ ملا جس میں انہوں نے مسلم لیگ کے مقابل کانگریس کی اس درجہ کامیاب وکالت کی کہ سوار والجھے بھائی پٹیل جیسے متعصب کا نگریسی کو بھی آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں اقرار کرنا پڑا کہ: انہوں نے کسی موقعہ پر بھی کانگرس کی عزت پر بیشہ نہ لگنے دیا اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شائد اتنی دلیری اور جرات کا ثبوت نہ دے سکتا.ہندوستان کو آزادی کے مندر کی دہلیز پر پہنچانے کا کریڈٹ مولانا آزا د کو ہی ملتا ہے؟ ہے موسیوسٹالن کے متعلق ایک عظیم الشان ویا فرمایا : " خواب میں میں سو گیا ہوں لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے کسی نے گھبرا کر جگایا او اور کہا کہ موسیوسٹالن کو جسے سب روس کی ملکہ ہی خیال کرتے ہیں اور اُس وقت تک عورت ہی کی شکل ہے خون کی قے آئی ہے اور حالت خراب ہے.میں گھبرا کر اٹھا تو دیکھا کہ ملکہ سٹالن نڈھال ہو کر بے ہوشی کی حالت میں پڑی ہے.اس کے سرہانے اور پائنتی ہمارے گھر کی دو عور میں بیٹھی ہیں اور ملکہ کا سانس اکھڑا ہوا ہے.اور لیات خطرہ والی معلوم ہوتی ہے میں اس فکر میں ہوں کہ کیا علاج کیا جائے ہے (مرتب) اس رویا کی اشاعت پر مشکل تین ہفتے گزرے تھے کہ اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ : زپارٹیوں سے آزاد اخبار پاری پریس نامی رقمطراز ہے کہ جنرل سمو سٹائین غالباً آنے والی سردیوں میں رہیں کی پارلیمنٹ کی پریزیڈنسی سے الگ ہو جائیں گے کیونکہ ان کی صحت خراب ہو ه روز نامہ پر بھارت لاہورے جولائی جواز الفضل هر ستمبر : له له الفضل لكم مستمر ۱۹ ء مٹہ کالم ۱-۲ وصہ کالم کا ہے ٢٠١

Page 262

۲۷۳ گئی ہے.انہیں علماء میں سٹالن گریڈ کے محاصرہ کے وقت ایک بیماری لگ گئی تھی میں نے خطر ناک صورت اختیار کرلی ہے اس سنسنی خیز انکشاف کے منظر عام آنے پر حضور نے ایک دوسرے مضمون میں یکھا کہ ممکن ہے کہ سیاسی مصالح کے ماتحت اس خبر کی تردید کردی جائے لیکن واقعات میری رؤیا کی لفظ لفظ تائید کریں گے.چنانچہ بعد کو ایسا ہی ہوا اس خبر کی ماسکو سے تردید ہوئی اور لنڈن کے اخبار نیوز کرانیکل کے نامہ نگار ماسکو کے ذریعہ سے یہ اعلان کر دیا گیا کہ اس قسم کی افواہوں کے بعد کہ مارشل سٹالن کی صحت خراب رہی ہے اب اس قسم کی افواہیں پھیلائی جانے لگی ہیں کہ وہ ریٹائرڈ ہونے لگے ہیں حالانکہ روس میں تو لوگ اس وقت تک کام کرتے ہیں جب تک کہ خرابی صحت اُن کو کام بند کرنے پر مجبور نہ کرنے ہے.لیکن یہ اعلان اخبارات میں چھپا ہی تھا کہ ماسکور یڈیو نے یہ اطلاع نشر کر دی کہ جنرل سموٹالن کل ماسکو سے آرام حاصل کرنے کے لئے چھٹی پر چلے گئے ہیں یہی نہیں.عالمی پریس میں سٹالن کے جانشین کا موضوع کبھی بڑی مشتر و مدر سے زیر بیت گیا گیا چنا نچہ اسٹیشین (۳ نومبر کہ) کے کالموں میں اخبار نیو یارک ٹائمز کا ایک مفصل مضمون شائع ہوا جس میں سٹالن کی پر اسرار بیماری کے متعلق آزادانہ رائے لکھتے ہوئے بتایا کہ سٹالن کے بعد کن لوگوں کے برسراقتدار آنے کی توقع کی جاتی ہے.مسلمانان ہند کی سیاسی جد جہد کے متعلق رویا مارچ ملکہ کے آغازہ میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لے سول ملٹری اینڈ گزٹ ۲۰ ستمبر ۶۴۵ تھے بحواله الفضل ۱۳ اکتوبر محمد ع سول اینڈ ملٹری گزٹ ۱۲ اکتوبر ۶۲۵ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الفضل 4 نومبر کہ لہ سے قبل کا ہندوستان مراد ہے.."

Page 263

۲۷۴ مسلمانان ہند کی سیاسی جدو جہد کے متعلق عالم رویا میں ایک نظارہ دیکھا جس کی تعبیر بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :-...راض خواب کی رات کو پینے پنجاب کے سیاسی حالات کے بڑے پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر دعا کی تھی کہ اللہ تعالی کوئی ایسی صورت پیدا کرنے کہ جماعت احمد یہ خصوصاً اور دوسر مسلمانان عموما ان حالات کے بڑے اثر سے محفوظ رہیں.پس میں سمجھتا ہوں کہ تے انشاء اللہ ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ مسلمانوں کے لئے کوئی نیک راہ نکل آئیں گا (مرتب) یہ رویا بھی کہاں صفائی سے پورا ہوا.وزیر اعظم برطانیہ مسٹر بیٹی اگر چہ ه ر مایع شاہ کو دارالعوام میں یہ اعلان کر چکے تھے کہ ہم ہندوستان کو خود مختار بنانا چاہتے ہیں اور اب یہ ہر گز گوارا نہ کریں گے کہ کسی بھی اقلیت (مراد مسلمان کی وجہ سے معاملے کو کھٹائی میں والدین اگر اکثریت کسی نتیجے پر پہنچ گئی تو ہم انتقال اقتدار کر دیں گے.(رائٹر) لیکن خدا نے پر وہ عیب سے یہ سامان کیا کہ حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالے کی کامیاب مساعی کی بدولت مسلم لیگ بھی عبوری حکومت میں شامل ہو گئی.اور پھر ایسی مبارک اور نیک راہ کھلی کہ پاکستان کا جہاز برسوں کی مسافت صیتوں میں طے کرتا ہوا ۱۳ اگست شک کو ساحل مراد تک آپہنچا.مسلم لیگ کی سیاسی فتح کے متعلق ٹھیا سینے رویا میں دیکھا کہ میں دلی نہیں ہوں.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسمبلی اجلاس ہو رہا ہے اس جگہ تو نہیں.جہاں میں ہوں بلکہ اس سے کچھ فاصلے پر وہ سمجھلی نال ہے یا وایسر ایگل لاج.اس کے متعلق کوئی وضاحت نہیں.وہاں ه الفضل و مارچ شاء من کالم ن-۲

Page 264

۲۷۵ کانگرس اور مسلم لیگ کے ممبر جمع ہیں.میں اس وقت مشرق میں ہوں.اور وہ مقام یہاں مسلم لیگ اور کانگریس کے ممبر جمع ہیں مغرب کی طرف ہے بکنے دیکھا کہ بعض اور لوگ بھی اس طرف گئے ہیں اور وہ یہ ذکر کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ نے کوئی تیاری نہیں کی.ان کے پاس نہ لاٹھیاں ہیں نہ تلواریں اور نہ کوئی دوسرا سامان - اگر کانگریس نے حملہ کر دیا تو کیا کریں گے.وہ لوگ جہاں جمع ہو رہے ہیں مجھے سے کوئی نصف میل کے فاصلے پر ہے مگر مجھے کشفی طور پر تمام واقعات دور بیٹھے ہی نظر آ رہے ہیں.اس کے بعد مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کانگریس نے مسلم لیگ پر حملہ کر دیا ہے اور مسلم لیگ والے گھبراگئے ہیں ایک شخص بلند آواز سے پکار رہا ہے.مسلمانو! مدد کے لئے پہنچو اس کے بعد وہ نظارہ تو اُسی طرح قائم رہا.مگر بجائے لڑائی دنگہ فساد لاٹھی او تلوار وغیرہ کے معلوم ہوا کہ ورزش کا مقابلہ ہو رہا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کانگریس والے اپنا ہنر دکھا چکے ہیں.اب مسلمان اپنا ہنر دکھانے لگے ہیں.ورزش شروع ہوئی اور سب سے پہلے ہی چھلانگیں لگائی جانے لگیں" میرے ساتھ میاں بشیر احمد صاحب ہیں.یا کوئی اور آدمی.یہ اچھی طرح یاد نہیں رہا.بہر حال میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ چھلانگ لگانے والا کہاں گیا انہوں نے کہا چھت پر پہنچ گیا ہے.اس کے بعد لوگوں نے بڑی بلند آواز سے نعرہ لگایا میں کے معنی یہ تھے کہ وہ جیت گئے ہیں پھر بنے دیکھا کہ وہ بھارت والا چھت پر سے اُتر رہا ہے اس کی لاتیں مجھے چھت سے شکستی نظر آئیں ہیں کے بعد یہ نعرہ لگا کہ مسلمان جیت گئے نے (مرتب) مسلم لیگ نہایت درجہ بے دلی کے ساتھ جنوری حکومت له الفضل ۴ ر تو میرا شاء ۲-۳ کالم ۱-۲-

Page 265

۲۷۶ دستمبر کہرام میں شامل ہوئی تھی کیونکہ اُسے محسوس ہو رہا تھا کہ اُس کا متفقہ مطالبہ شرمندہ تکمیل نہیں ہوا.اور مشترکہ حکومت کے قیام نے پاکستان کے نقوش مرہم کردئے ہیں.یا کم از کم اس کے حصول میں کچھ عرصہ کے لئے تاخیر ڈال دی ہے ان دنوں ہندوستان سے مسلم عوامی حلقے بھی اکثر یہی سمجھنے لگے تھے کہ کانگرس جیت گئی اور مسلم لیگ ہارگئی ہے لیکن خدا نے اس وقت حضور کو خبر دی کہ بساط سیاست اُلٹنے والی ہے کانگریس کی تمام کوششیں تمام جملے اور تمام سازشیں ناکام ہوگی اور پاکستان مل کے رہے گا چنانچہ خدا کے فضل سے عہد ء سے پاکستان کی سب سے بڑی اسلامی مملکت معرض ظہور میں آچکی ہے جو رویا کی صداقت کا منہ بولتا نشان ہے.متحدہ پنجاب میں آگ کی خوفناک لڑائی کے متعلق سویا ۲۸ر ضروری ہ ء کو حضور نے اپنا تازہ رڈیا بیان کرتے ہوئے فرمایا :- ینے دیکھا کہ میں سفر کر رہا ہوں اور مجھے سفر میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں.کہیں دریا اور نالے رہتے ہیں آجاتے ہیں کہیں پہاڑیاں رستہ میں آجاتی ہیں بعض پہاڑیاں خوشنما ہیں اور بعض بالکل پھسلنی اور سخت ہیں کسی جگہ گھاس اور سبزہ ہے اور بعض جگہ بالکل ننگی پہاڑیاں ہیں ان پر کوئی درخت وغیرہ نہیں اور بعض میلوں میں نیچے کھنڈ وغیرہ دکھائی دیتی ہے جس کو دیکھ کر دل سخت گھیل جاتا ہے.ان میں سے گزرتے ہوئے ہیں اس ایک عجیب جگہ پر پہنچا ہوں جہاں سے نظارے کی شکل بدلتی ہے خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ یہ دنیا ختم ہو گئی ہے اور اگلا جہاں شروع ہو گیا ہے اس میں سینے ایک نظارہ دوزخ کا دیکھا کہ دوزخ میں بچھو میں لیکن دو بچھو اس دنیا کی طرح کے نہیں یہاں تو بچھو عام طور پر انگلی سے چھوٹے ہوتے ہیں لیکن وہاں جو کچھو دیکھتے ہیں وہ چھ سات گز کے قریب ایسے ہیں پہلے مجھے

Page 266

۲۷۷ صرف دو بچھو نظر آئے جو علاوہ سات آٹھ گز ایسے ہونے کے موٹے بھی بہت ہیں جیسے ہوائی جہاز ہوتا ہے ایسے لگتے ہیں مگر ہوائی جہاز جتنے جسم نہیں جو کہ ایک دوسر کے قریب ہوتے جارہے ہیں ان میں سے ایک دوسرے پر اس طرح گرا ہے جس طرح کہ جانور جفتی کے لئے جمع ہوتے ہیں جب ایک دوسرے پر کودنے کی کوشش کرتا ہے تو لینے دیکھا کہ دوسرے نے اوپر گرنے والے بچھو کو زور سے ڈنگ مارا اور وہ اچھل کر سامنے جا پڑا پھر اس نے دوسرے کی طرف منہ کر کے آگ کا شعلہ نکالنا شروع کیا جو کہ دُور اوپر تک جاتا ہے اور دوسرے نے بھی اس کے جواب میں آگ کا شعلہ نکالنا شروع کر دیا اور وہ دونوں شعلوں کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی کرتے ہیں.اس کے بعد کچھے اور کچھو پیدا ہو گئے.ان کے قدیمی اسی طرح سات آٹھ گز کے قریب ہیں پھر انہوں نے بھی آگ کے شعلوں سے لڑائی شروع کر دی اور ان کے شعلوں کا نظارہ نہایت ہیبت ناک تھا لیتے دیکھا کہ یکدم ایک بچھو نے پلٹا کھایا اور آدمی کی شکل اختیار کر لی اور اس نے ہی کمرہ کی طرف بڑھنا شروع کیا جہاں میں بیٹھا تھا میں گھیرا کر وہاں سے چل پڑا ہوں اس وقت مجھے سمجھے کی طرف سے آواز آئی ہے.معلوم نہیں کہ وہ فرشتے کی آواز ہے یا کسی کی قرآن پڑھو قرآن پڑھو.اس آواز کے آتے ہی بنے قرآن شریف بلند اور سریلی آواز سے پڑھنا شروع کر دیا سینے محسوس کیا کہ میری آواز بہت شریلی اور بلند ہے اور میں جس طرف سے گذرتا ہوں میری آواز پہاڑوں اور میدانوں میں گونج پیدا کر دیتی ہے گویا ساری دنیا میں پھیل رہی ہے اور جس کے کانوں میں وہ آواز پڑتی ہے وہ بھی قرآن کریم پڑھنے لگ جاتا ہے میں چلتا جا رہا ہوں ، قرآن کریم پڑھتا جا رہا ہوں چاروں طرف سے قرآن کریم پڑھنے کی صدائیں میرے کانوں میں آرہی ہیں ؟ اے له الفضل ۲۰ ر تاریخ ۱۹۳۶ مات ۲

Page 267

(مرتب) اس رؤیا کے بیان کے وقت متحدہ پنجاب میں بالکل امن تھا اور کسی جگہ اپنی کے آثار نہ تھے لیکن اس کے بیان فرمانے کے صرف دو دن بعد خضر حیات وزارت نے استعفا دے دیا اور فرقہ وارانہ کشیدگی نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوفناک شکل اختیار کرلی اور صوبہ کے طول و عرض میں فتنہ و فساد کی وسیع آگ پھیل گئی اور آتشزدگی کی واردات نے صوبہ بھر میں ایسی خوفناک تباہی اور بربادی مچائی کہ دوزخ کا سماں بندھ گیا.بلوائیوں نے ہزاروں عمارتیں خاکستر کر دیں.اور سینکڑوں جیتی جاگتی جانوں کو آگ کی نذر ہونا پڑا.بچھوؤں کی اس مہیب جنگ کا حقیقی اندازہ تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے اسے بخشیم خود مشاہدہ کیا اور جو اس کا تصور کر کے آج بھی اشکبار ہو جاتے ہیں تاہم یہ بتانے کے لئے کہ خدا کی بات کس شان سے پوری ہوئی.لاہور امرتسر اور گوڑ گاواں یعنی صرف تین شہروں کا نقشہ اخبارات سے پیش کرتا ہوں.لاہور : لاہور کے متعلق ۱۲۱ جون کہو کی خبر ہے کہ : شام کے پانچ بجے شہر کے مضافات میں چالیس سے زائد جگہ آگ لگی ہوئی تھی سب سے زیادہ شدید آگ مزنگ میں لگی ہوئی ہے اس جگہ صرف ایک گلی میں آٹھ مکان جل رہے ہیں اور نصف درجن مزید مکانوں سے شعلے نکل رہے ہیں....آگ کا سیاہ اور تاریک دھواں شہر کے زیادہ تر حصے پر چھایا ہوا ہے.آگ پر قابو پانے کے لئے کارپوریشن فائر بریگیڈ کے علاوہ ملٹری کے دو فائر بریگیڈوں سے بھی امداد طلب کی گئی ہے رات کے آٹھ بجے مزنگ کوچہ ہواگراں اندرون شاہ عالمی گیٹ پیپل ویڑہ اندرون موچی گیٹ کٹڑہ پور بیاں بھاٹی گیٹ اور برانڈرتھ روڈ پر جملے ہوئے مکانوں سے دھوئیں کے بڑے بڑے بادل نکل رہے ہیں." روزنامه پرتاب " لاہور (۲۱ جون شده)

Page 268

۲۷۹ امرت سر : ایک انگریزی افسر نے جو لڑائی کے دوران میں لنڈن مقیم تھا.بیان کیا کہ اس علاقہ کی حالت لنڈن کے ہر اس حصہ کی نسبت جس پر جنگ میں بمباروں کا مجموعی جملہ کیا گیا ہو بد تر ہے ؟ ملہ پنجاب کے اس عظیم ترین تجارتی مرکز کا جو حشر ہوا ہے وہ محتاج بیان نہیں ه ر مارچ کو یہاں ایک بھی بیکار نظر نہ آتا تھا.لیکن آج شہر کا کوئی حصہ آبا د نظر نہیں آتا.....سب سے زیادہ تباہی آگ نے مچائی ہے" سے مسٹر بھنڈاری ایگزیکٹو آفیسر نے کہا اب تک مجھے اس قسم کی خوفناک آتشزدگی کا کبھی بھی سامنا نہیں ہوا سے گوڑ گاؤں : کے متعلق تازہ ترین اطلاع دے ارجون ، مظہر ہے کہ سنیچر کی صبح کو ۲ ہزار اشخاص کے مسلح ہجوم نے موضع تکڑی پر حملہ کر دیا تو گاؤں مذکور کے تمام مرکان جن کی تعداد ، سو کے لگ بھگ ہے جلا کر راکھ کا ڈھیر کر دئیے گئے.گلیوں میں لاشوں کے انبار پڑے ہیں اور گاؤں کے سارے مکان راکھ کا ڈھیر ہو گئے ہیں ہے رویا میں آپ کو جو یہ نظارہ بھی دکھایا گیا کہ ایک بچھونے دوسرے بچھو کو زور سے ڈنگ مارا اور وہ اچھل کر سامنے جاپڑا.تو اس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ لڑائی کرنے والی دو قوموں میں سے ایک قوم بالآخر ناکام ہو جائے گی چنانچہ ایسا ہی عمل میں آیا.سکھ لیڈروں نے مارچ میں ہی اپنے جنگی عزائم کا اظہار کرتے اور مسلمانوں کو لڑائی کی دھمکی دیتے ہوئے کہہ دیا تھا.نیشلسٹ فوجیں پاکستان کے خیال کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہیں ھے پاکستان صرف ہماری راکھ پر بنایا جا سکتا ہے؟ 1 یه روز نامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور ہم رجون ۶۴ + من اختبار ملاپ ۲۰ رجون شکر و اخبار پرتاب لاہور ۲۶ / جون شد و مت که روزه نامه پرتاب لاہور مورخ ۸ ارجون شاکیه ے سول اینڈ ملٹری گزٹ ۴ مارچ شہ سے سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور ۵ ر ما رفع سے

Page 269

۲۸۰ لیکن جب آگ اور خون کے اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہوا تو خو د سکھ لینڈ ریکار وو برطانوی گورنمنٹ کی نئی سکیم کے ماتحت سکھوں کی مکمل تباہی یا فرقہ وارانہ غلامی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے.مسلمانوں نے ویج کی نسبت پاکستان کو ترجیح دی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے جو کچھ مانگا انہیں مل گیا.لیکن نئے انتظام میں سکھوں کی پوزیشن بدتر ہو جائے گی یہ تھے رویا کے آخر میں قرآن پڑھو " " قرآن پڑھو کے الفاظ میں بتایا گیا تھا کہ قرآن مجید پر عمل کئے بغیر دنیا سے جنگوں کا خاتمہ نہیں ہو سکتا.مشرقی پنجاب کی شورش ء میں ملکی فوج کے ملوث ہونے کی خبر حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپریل ہے.ہمیں ملکی شورش کے متعلق ایک اور رویا دیکھا جسکی حضور نے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا :- معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس شورش میں جو آجکل ہندوستان میں ہے خدا نخواستہ فوج کے کسی حصہ میں بھی گڑ بڑ پیدا ہو یہ فساد زیادہ پھیل جانے کا اندیشہ ہے ہمیشہ پہلے تو فسادات ایک محدود حد تک ہوتے ہیں لیکن پھیلتے پھیلتے وہ فوجوں میں پہلے جاتے ہیں اور یہ حالت ملک کے لئے نہایت خطرناک ہوتی ہے.یہ پہلی دفعہ ہے کہ کینے فوج کو بھی فسادات میں ملوث دیکھا اللہ تعا رحم فرمائے تھ ه روز نامر پر تاب لاہور ۲۰ ربون عه له الفضل ۱۱۲ اپریل ۱۴۷ء ص۲

Page 270

۲۸۱ ๆ (مرتب) یہ رویاء کے فسادات میں اتنی وسعت و کثرت سے پوری ہوئی کہ بیان سے باہر ہے بطور مثال سابق مغربی پنجاب حکومت کے مرتبہ مستند اور عینی شہادتوں پرمشتمل ریکارڈ سے صرف قادیان کے کوائف درج کئے جاتے ہیں.قادیان کے نواحی دیہات سے کوئی ایک لاکھ مسلمان خاص قادیان میں جمع ہو گئے تھے کیونکہ سکھوں نے ہندو فوج اور ہندو اور سکھر پولیس کی امداد سے ان پر حملے کر کے انہیں گھروں سے نکال دیا گیا." ۱۵ یا ۶ استمبر کو قصبے پر کرفیو لگا دیا گیا.اس کے ساتھ ہی سکھوں نے ہندو فوجیوں اور غیر مسلم پولیس کی مدد سے انوار الانوار، دار السعد، دار الفکر اور اسلام آباد کے مسلم محلوں پر حملہ کر دیا." ۲۵ ستمبر کو سر ظفر الدخان کی کوئی بیت الظفر کی باری آگئی جس میں موضوع تشکیل کے مسلمان پناہ گیر جمع تھے.ہندو فوجیوں نے اس کو ٹھی کی تلاشی لی اور پناہ گیر ہے سے ان کے زیورات اور نقدی چھین لی؟ ور اصل ملٹری اور پولیس خود مسلمانوں کو لوٹتی تھی اور سکھ لٹیروں کی مدد بھی کرتی تھی یہ تقسیم پنجاب کے متعلق ابہام فرمایا : کوئی دس بارہ دن کی بات ہے کہ القار ہوا.گیارہ اگست تک یا گیارہ اگست کو “ نہ معلوم کسی امر کے متعلق ہے.بہر حال ذات یا خاندان یا جماعت یا ملک یا قوم لئے سکھے میدان کارزار میں ہے

Page 271

۲۸۲ کے کسی اہم تخییر کی طرف اشارہ ہے.اگست میں ہونے والے ایک تغییر کی نسبت اخباروں میں خبریں چھپ رہی ہیں مگر وہ پندرہ اگست کے ساتھ راستہ ہیں اگر اسی کی طرف اشارہ ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ پندرہ اگست سے پہلے ہی وہ تغیر ہو جائے گا اور کوئی معاملہ ہے تو وقت پر انشاء اللہ ظا ہر ہو جائیگا (مرتب) الہام الہی کی اشاعت کے صرف دو دن بعد پنجاب کی تقسیم کا اہم فیصلہ ہوا جس نے آیندہ چل کر ملکی سیاست کا رخ ہی بدل دیا.اسلامی حکومتوں کے قیام کے متعلق الہام الہی اپریل سالہ میں فرمایا : "خلافت ترکیہ کے گو ہم قائل نہیں.مگر اسلامی حکومتوں کی ترقی کی ہنگیں ہمارے دلوں میں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ ہیں بلکہ ہم نے تو کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ اسلامی حکومت کے قیام کے سب سے زیادہ خواب ہمیں ہی آتے ہیں.اور خواب آنا تو لوگ وہم سمجھتے ہیں ہمیں تو الہام ہوتے ہیں کہ اسلامی حکومتیں دنیا میں قائم کی جائینگی ۲ (مرتب) اس پیشگوئی کے بعد پاکستان اور ایڈونیشیا ملایا الجزائر سوڈان ٹیونس کی اسلامی حکومتیں معرض وجود میں آئیں اور خدا کی بات پھر پوری ہوئی.ها الفصل الارجون ۱۹۳۷ اء ما الفضل ۳ اپریل ۱۹۳۷ اور وہ ایک کالم ہے.

Page 272

۲۸۳ مسلمانوں کے لئے مزید سیاسی مشکلات کی خبر جون طلہ کے آخر میں حضور کو عالم رویا میں ایک تفصیلی نظارہ دکھایا گیا سیکی روشنی میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- مسلمانوں کے لئے ابھی کچھ مزید ابتلا باقی ہیں یوں تو اُن کی تسلی ہو چکی ہے کہ اُن کے مطالبات مان لئے گئے ہیں اور گورنمنٹ نے اُن کا حق انہیں دلا دیا ہے مگر میرے نزدیک ابھی کچھ ابتلا اُن کے لئے مقرر ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ برطانوی افسر ابھی تک مسلمانوں کے خلاف نہیں اور ہندوؤں کے حق میں ہیں اور یہ جو سمجھا جا رہا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو جھگڑے تھے اُن کا فیصلہ ہو گیا ہے میرے نزدیک ابھی پوری طرح اس کا فیصلہ نہیں ہوا ابھی مسلمانوں کے لئے کچھ اورمشکلات بھی ہیں " اے (مرتب) یہ آسمانی خبری ار اگست شکم کو ریڈ کلف ایوارڈ کے انسانیت سوز اعلان سے پوری ہوئی مسلمانوں پرمشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور وہ ابتلاؤں کے ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں ڈال دیئے گئے.گاندھی جی پر قاتلانہ حملہ کے متعلق واضح خبر اگست منہ میں فرمایا : دیکھا کہ ایک جگہ مسٹر گاندھی ہیں.اور اخباروں کے خائیندے ان سے انٹرویو کے لئے جا رہے ہیں اور ایک الگ جگہ پر جہاں عام طور پر لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں.وہ اُن لوگوں سے مل رہے ہیں سینے پہرہ داروں له الفضل ۲۵ جون شد او جٹ کا لم ۲ وصہ کالم ۲۱

Page 273

....۲۸۴ میں سے ایک صاحب جن کا نام محمد النطق ہے سے کہا کہ جاؤ اور اس قسمی انتظامیہ کرو کہ میں کیسی وہاں اس طرح جا سکوں کہ کسی کو میر اعلم نہ ہو محمد الحق نے تھوڑی ویر میں آکر کہا کہ سینے انتظام کر دیا ہے آپ چلے جائیں.میں ایک بند کمرہ میں سے ہو کر اس جگہ گیا ہوں جہاں مسٹر گاندہی میں راستہ میں کچھے پہرہ دار ہیں.اُن میں سے ایک نے مجھے روکا لیکن محمد اسحق نے انہیں یہ کہکو ہٹا دیا.اُن کے لئے اجازت لی ہوئی ہے.اس کے بعد میں اندر داخل ہوا یہ ایک صحن ہے.اس میں گاندھی جی تکیہ کا سہار الگائے اپنے معروف لباس میں مغرب کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہیں.سامنے ایک صف اخباری نمائنڈں کی ہے ہیں ان میں جا کر بیٹھے گی مگر میرے بیٹھتے ہی وہ لوگ ، اُٹھ کر مجھے سے مصافح کرنے لگ گئے.اور میں خواب میں حیران ہوں کہ میں تو پوشیدہ آیا تھا پھر یہ لوگ مجھے سے اُٹھ کر کیوں مصافحہ کرنے لگ گئے.جب سب نمائیندے مجھے سے مصافحہ کر چکے تو ایک شخص اُٹھا اور اُس نے بھی مصافحہ کیا.مگر ساتھ ساتھ ایک طویل گفتگو شروع کر دی.سینے خیال کیا یہ دیوانہ ہے اس سے کسی طرح پیچھا چھڑانا چاہئیے آخر سوچ کر لینے اسے کہا کہ یہ تو گاندھی جی کی ملاقات کا وقت ہے ان سے بات کرو.اسپر وہ مجھے چھوڑ کر گاندھی جی کی طرف متوجہ ہوا اور بات کرتے کرتے اُن پر جھکتا چلا گیا.یہاں تک کہ اسکی دباؤ کی وجہ سے گاندھی جی ایسی حالت میں ہو گئے کہ گو یا لیٹے ہوئے ہیں وہ اُن کے اوپر دراز ہو گیا اور اپنی بات جاری رکھی.میں حیران ہوں کہ اُن کے ملاقاتی ان کو چھڑاتے کیوں نہیں.اسی حالت میں گاندھی جی نے انگلیاں پلائی شروع کر دیں جیسے کوئی شخص دل میں باتیں کرتے ہوئے انگلیاں بلاتا ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ اس طرح اس سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں پہلے له الفضل ا ر ا گست که ما کالم ہے

Page 274

۲۸۵ (مرتب حضور نے اس رویا کی تعبیر یہ فرمائی کہ گاندھی جی اپنے قدیم طریق کے مطابق کوئی ایسا قدم اُٹھانے والے ہونگے جو شور پیدا کرنے والا ہوگا تبھی اختر کار نمائندوں کا اجتماع دیکھا....اور میرے وہاں جانے کی تعبیر بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اُن کے اس اقدام کا اثر مسلمانوں پر بھی پڑے گا.یا گل کا ان پر اثر ڈالنا بتاتا ہے کہ ان پر کوئی مخالف اثر ڈالے گا.گاندھی جی کا معروف قدیم طریق“ یقیناً بہت ہی تھا جو ان کے زندگی بھر کے سیاسی اقدامات میں ہمیشہ ممتاز رنگ میں قائم رہا.لہذا اس خواب میں یہ عظیم الشان خبر دی گئی تھی کہ دی، گاندی جی برت رکھیں گے جس پر ملک میں عام ہلچل پیدا ہو جائے گی.(ب) مسلمانوں کے مفاد سے اس پرت کا گہرا تعلق ہوگا.(ج) گاندھی جی برت رکھنے کے بعد ایک دیوانے کی دراز دستی کا شکار ہو جائیں گے.چنانچہ خواب کے یہ تینوں پہلو کمال صفائی سے پورے ہوئے.گاندھی جی نے ۱۲ جنوری شکر و کود یعنی رویا کی اشاعت سے قریبا ڈیڑھ سال بعد اپنی شام کی پرارتھنا کے بعد مہند و مسلم اتحاد کی خاطر برت رکھنے کا اعلان کیا.۱۴ جنوری کو مغربی پنجاب کے شرنارتھیوں کے ہجوم نے کانگریسی زعماء کی میٹنگ کے بعد گاندھی جی کے خلاف زیر دست مظا ہو گیا اور گاندھی کو مرنے دو کے نعرے لگائے اور ۳۰ ر جنوری کو گوڈا نامی ایک ہندو دیوانے کے ہاتھوں وہ گولی کا نشانہ بنے اور دائمی نیند سو گئے عجیب بات یہ ہے کہ : رو اب نے گاندھی جی پر قاتلانہ حملہ کی جن لفظوں میں خبر دی وہ رویا کے بعض پہلوؤں سے لفظا لفظا ملتے ہیں.خبر :

Page 275

و نئی دہلی ۱۳۰ جنوری آج مغرب کے وقت پرارتھنا کے لئے گاندھی جی بر لا ہاؤس سے پانچ بجے آپ اپنی دو نو پوتیوں کے کاندھوں پر سہا رائے چل رہے تھے جب آپ سٹیج کے قریب پہنچے تو پیسے سال کی عمر کے ایک شخص نے بھیڑ میں سے صرف دو گز کے فاصلہ سے پستول کے چار فائر کئے گولی گاندھی جی کے پیٹ میں لگی اور آپ اسی وقت بے ہوش ہو گئے...گاندھی جی کو فورا بولا ہاوس کے اندر پہنچا دیا گیا اور پانچ بجکر چالیس منٹ پر گاندھی بھی فوت ہوگئے ہو.ب) امی شب قاتل کے متعلق سروال لے بھائی پٹیل نے ریڈیو سے تقریر نشر کرتے ہوئے کہا.قاتل ایک دیوانہ تھا مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے درد انگیر قتل عام اور خوفناک تباہی کے متعلق رویا (مرتب) حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۵ را گست سلالہ کو مسلمانان ہند کے مستقبل کے متعلق ایک اہم رؤیا دیکھا جس کی تعبیر میں حضور نے فرمایا :- اس رویا نے ہمیں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اسلام کے لئے ایک نہایت ہی نازک دور آرہا ہے اور مسلمانوں کو دنیوی اور سیاسی معاملات میں اپنے آپ کو متحد کر لینا چاہیئے.نیز ہر احمدی کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- میں اس خواب کو ظاہر کرتے ہوئے ہر احمدی کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے حلقہ اثر میں مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائے کہ تمہاری پھوٹ تمہاری تباہی کا موجب ہوگی اس وقت تمہیں اپنی ذاتوں اور اپنے خیالوں اور اپنی پارٹیوں کو

Page 276

۲۸۷ بھول جانا چاہئے...میں یقین کرتا ہوں کہ اگر اب بھی مسلمان اختلاف پر زور دینے کی بجائے استاد کے پہلوؤں پر جمع ہو جائیں تو اسلام کا مستقبل تاریک نہیں ا رہے گا ورنہ افق سما پر مجھے سپین کا لفظ لکھا ہوا نظر آتا ہے ! سپین کا خونی ڈرامہ مشرقی پنجاب کے چپہ چپہ میں کس بے دردی سے کھیلا گیا قلم و زبان اپنی سحر بیانیوں اور تخیلات کی ناقابل تسخیر قوتوں کے باوجود اس کا کھینچنے سے عاجز ہیں.اردو کے مشہور صاحب قلم مولنا رشید اختر ندوی سقوط غرناطہ کے درد ناک حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- جولائی کہ ایک منحوس رات تھی جب فلپ سوئم نے بلنیہ میں بسنے والی اس يد نصیب قوم کی موت کے پروانے پر دستخط کئے.دستخطوں کی سیاہی ابھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ شاہی فوجیں ملک کے طول و عرض میں پھیل گئیں ہر سیتی اور ہر قریبے کو گھیر لیا اور ث ہی منادی ڈھول پیٹ کر چیچنے لگے بدنصیب بوتین دن کے اندر اندر اس ملک کو خالی کر دو تم اپنے ساتھ صرف انتا سامان سے جا سکتے ہوں جتنا کہ تم اٹھا سکوں تین دن ابھی ختم نہ ہوئے تھے کہ ان بدنصیبوں کو ان کے گھروں سے جبرا جانے کا کام شروع ہوا جور تین بچے اور مرد اپنے گھروں کی دیواروں اور دروازوں سے لپٹ لپٹ کر رو ر ہے تھے اور سپاہی ان کی پیٹھوں پر کوڑے برسا رہے تھے...جنہوں نے گھر چھوڑے ساحل کو جانے والی سڑکوں پر ہوئے وہ روتے گئے جن کے پاؤں تھک گئے فوج نے ان کی بیٹھوں پر کوڑوں کی بارش کی.نازک بدن عورتوں کی حالت سب سے تباہ تھی.انہوں نے آجتک کبھی اس طرح پیدل سفر نہ کیا تھا وہ ناز و نعم میں پلی تھیں چلتے چلتے اُن کے پاؤں سوچ گئے تھے وہ قدم قدم پر رک رک جائیں.بد معاش پہرہ دار پہلے تو اُن کی پیٹھیں کوڑوں سے سہلاتے پھر اُن کی عریانی کا سامان کرتے عین سڑک پر اُس بدنصیب قافلے کی آنکھوں کے سامنے له الفضل ۲۸ ر ا گست سلاله ۶ 7

Page 277

۲۸۸ ان کی آبرو لوٹ لیتے.ساحل تک پہنچتے پہنچتے کئی ہزار عورتیں اپنی عصمتیں کھو چکی تھیں.ہزاروں مصائب برداشت کرنے کے بعد جب یہ لوگ ساحل پر ائے گئے تو ان میں سے دو تہائی بھوک بے عزتی اور سفر کی صعوبت کی نذر ہو چکے تھے بے سرزمین اسپین کا یہ قیامت خیز سانحہ پڑھئے اور پھر مشرقی پنجاب کے مسلمانوں پر بینا ہونے والے حشر کا تصور کیجئے یقیناً آپ کی روح بھی فوراً پکار اٹھے گی کہ د چند مخصوص ناموں کی خفیف سی تبدیلی کے سوا) سپین اور مشرقی پنجاب کے واقعات میں ذرہ بھر تفاوت نہیں.8 وہی ختنہ ہے لیکوریاں فدا سانچے میں ڈھلتا ہے مشرقی پنجاب میں طوفان ابر و باراں کے متعلق الہام جب میں قادیان سے آیا.تو اس سے ایک دن پہلے جبکہ میں دعائیں کر رہا تھا میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ آغر قناهم یعنی ہم نے ان کو غرق کر دیا ہے (تب) اس الہام کے بعد مشرقی پنجاب کے مظلوم مسلمانوں کی حفاظت اور بچاؤ کے لئے غیر معمولی بارشوں کا سلسلہ جاری ہوا اور بالخصوص قادیان کی حدود میں اٹھنے والا طوفان ایمر و باراں تو خالص الہی تدبیروں کا کرشمہ تھا جو حملہ آور یہاں کے اکثر و بیشتر ناپاک عزائم و مقاصد کی غرقابی کا باعث بنا.ے مسلمان اندیس میں اور الفضل یکم اکتوبر دو منہ کالم ہے

Page 278

٢٨٩ قائد اعظم کی دردناک وفات اور سقوط حید آباد کے متعلق رویا فرمایا : " گیارہ اور بارہ ستمبر شہداء کی درمیانی رات مینے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں جو نہ قادیان معلوم ہوتی ہے اور نہ لاہور کا موجودہ مکان بلکہ کوئی نئی جگہ معلوم ہوتی ہے ایک کھلا مکان ہے جس کے آگے وسیع صحن معلوم ہوتا ہے میں اس کے صحن میں کھڑا کچھ لوگوں سے باتیں کر رہا ہوں باتوں کا مفہوم کچھ اس قسم کا ہے کہ قریب زمانہ میں مسلمانوں پر ایک بڑی آفت آئی ہے اور عنقریب کچھ اور حوادث ظاہر ہونے والے ہیں جو پہلی مصیبت سے بھی زیادہ سخت ہونگے اور مسلمانوں کی آنکھوں کے آگے قیامت کا نظارہ آ جائے گا یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ دُور افق میں مجھے ایک چیز اڑتی ہوئی نظر آئی یہ چیز ابوالہول کی شکل کی سی تھی اور اسی کی طرح عظیم الجسہ معلوم ہوتی تھی.ابوالہول کی طرح اس کی بنیاد بہت چوڑی تھی اور اوپر آ کے اس کا جسم نسبتاً چھوٹا ہو جاتا تھا سینے دیکھا کہ اوپر کے حصہ میں بجائے ایک سرکے اس کے دوسر لگے ہوئے ہیں.ایک سر ایک کو نہ پر ہے اور دوسرا سر دوسرے کو نہ پر اور درمیان میں کچھ جگہ خالی تھی اس چیز کی جسامت اور مہیبت کو دیکھ کر لکھنے قیاس کیا کہ یہی وہ بلا ہے جس کے متعلق خبر پائی جاتی ہے اور مہینے ان لوگوں سے جن سے میں باتیں کر رہا تھا کہا دیکھو وہ چیز آگئی ہے میرے دیکھتے دیکھتے وہ بلا عظیم اڑتی ہوئی ہمارے پاس سے آگے کی طرف گزرگئی اور تمام علاقہ کے لوگوں میں نشور پڑ گیا کہ اب کیا ہو گا وہ قیامت خیز تو آگئی.

Page 279

٢٩٠ اس کے تھوڑی دیر بعد گو مجھے وہ بڑا نظر تو نہیں آتی ہو اڑتی ہوئی آئی تھی اور جس کے دوسر تھے لیکن کہنے یوں محسوس کیا کہ گویا وہ بلا آپ ہی آپ سکڑنے لگ گئی اور چھوٹی ہونی شروع ہو گئی اس وقت کسی شخص نے مجھے آکر مبارک باد دی اور کہا کہ آپ نے اللہ تعالی پر تو مل گیا تھا اللہ تعالی نے اس بلا کا اثر مٹ دیا ہے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی." وقت کے لحاظ سے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ رویا قائد اعظم کی وفات کے بعد آئی ہے کیونکہ ان کی وفات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ساڑھے دس بجے ہوئی ہے اور میں بالعموم سوتا ہی گیارہ بجے کے بعد ہوں.غالباً صبح کے قریب یہ رویا ہوئی ہے لیکن مجھے صبح نو بجے قائد اعظم کی وفات کا علم ہوا اس لئے یہاں تک اس رویا کا تعلق ہے یہ اس علم کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اس علم سے پہلے کی ہے اس رویا میں یہ بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں پر قریب زمانہ میں اور ایک دوسرے سے پیوستہ دو مصیبتیں آنے والی ہیں اور بظاہر یوں نظر آئیں گی کہ گویا مسلمانوں کو تباہ کر دینگی لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اور ان لوگوں کے طفیل جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کے عادی ہیں ان مصیبتوں کے بد نتائج کو مٹادے گا اور اس خطرہ عظیم سے مسلمان محفوظ ہو جائیں گے.جب مجھے قائد اعظم کی وفات کا علم ہوا تو ئینے سمجھا کہ ایک مصیبت تو ان کی وفات ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ مصیبت مسلمانوں کے لئے در حقیقت ہے کے واقعات سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ گوٹ لہو میں لاکھوں مسلمان مارا گیا لیکن اس وقت ان کے حوصلے توڑنے والی کوئی چیز نہیں تھی لیکن ایک ایسے لیڈر کا جس سے قوم کی امیدیں وابستہ ہوں ایسے وقت میں جدا ہونا جبکہ خطرات بھی بڑھ رہے ہوں اور امید کے پہلو بھی منکشف ہو رہے ہوں له الفضل الان اگست کمه

Page 280

۲۹۱ نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے پس یہ دھاگا ایسا تھا کہ جس نے شکلیہ کے واقعا سے بھی زیادہ مسلمانوں کے دلوں کو دہلا دیا.مجھے اللہ تعالیٰ نے اس رویا کے ذریعہ سے یہ علم بخشا کہ مسلمان اس صدمہ کی برداشت کی طاقت پا جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان کر دیگا کہ اس نقصان سے پاکستان کی بنیاد ہلے گی نہیں بلکہ انہی تدبیر سے محفوظ رہے گا مگر مجھے اس وقت یہ خیال آنا تھا کہ یہ جو خواب میں بینے بلاد بھی ہے اس کے دو سر تھے ایک سر سے تو اس ابتلا کی طرف اشارہ ہوا جو قائد اعظم کی وفات کی وجہ سے لوگوں کو پہنچا لیکن دوسرا سر جو دکھایا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے دوسر دن یہ خبر شائع ہوئی کہ ہندوستانی فوجوں نے حیدر آباد پر حملہ کر دیا ہے تب ینے قیاس کیا کہ دوسرے سر سے مراد حیدر آباد پر حملہ ہے اور چونکہ خواب میں کسی مصیبت کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اس لئے میرے دل میں خیال گزرا کہ کہیں یہ حیدر آباد کا حملہ بھی ایک مصیبت نہ بن جائے آخر کل کی خبروں سے معلوم ہوا کہ حیدر آباد نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ نظام نے ہتھیار ڈالدیئے ہیں اور یہ واقعہ تمام باشندگان پاکستان کے لئے نہایت ہی غم و اندوہ کا موجب ثابت ہوا ہے یہ لے (مرتب) قائد اعظم کی دردناک وفات اور ریاست حیدر آباد دکن کے سقوط کے بعد پاکستان کے مخالفین کے حوصلے بڑھ گئے لیکن خدا نے پہلے سے وی ہوئی خبر کے مطابق اس نوزائیدہ مملکت کی خود حفاظت فرمائی.فالحمد للہ علی ذالک.تقسیم فلسطین کے بارہ میں خبر مئی شاہ کو فرمایا.پرسوں یا انترسوں رات کے وقت جب میری آنکھ کھلی الفضل الاستمبر سال ۳۵۶

Page 281

٢٩٢ تو بڑے زور کے ساتھ میرے قلب پر یہ مضمون نازل ہو رہا تھا کہ برطانیہ اور روس کے درمیان ایک و hodilhied Tay) ہو گئی ہے جس کی وجہ سے مشرق وسطی کے اسلامی ممالک میں بڑی بے چینی او تشویش پھیل گئی ہے.فرمایا ماڈیفائڈ کے معنے ہوتے ہیں سمویا ہوا وسطی.میں سمجھتا ہوں کہ یہ الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ غالباً بیرونی دباؤ اور بعض خطرات کی وجہ سے برطانیہ مخفی طور پر روس کے ساتھ کوئی ایسا سمجھوتہ کرلے گا جس کی وجہ سے روسی دباؤ مشرق وسطی پر بڑھ جائے گا.اس وقت میرے ذہن میں عراق فلسطین اور شام کے ممالک آئے ہیں یعنی ان ممالک کے اندر رویس اور انگریزوں کے سمجھوتہ کر لینے کی وجہ سے گھبراہٹ اور تشویش پیدا ہوگی کہ انگریز جو سختی کے ساتھ روس کی مخالفت کر رہے تھے.انہوں نے یہ سمجھوتہ اس سے کس بنا پر کیا ہے.جہاں تک مستقل اور آخری مرحلہ کا سوال ہے قرآن کریم اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اقوام میں جنگ ضرور ہوگی.لیکن بعض اوقات سیاسی اغراض کے ماتحت دشمن کے دباؤ کو کم کرنے کے لئے یا اس کے حملہ سے بچنے کے لئے حکومتیں وقتی طور پر صلح کر لیتی ہیں تا کوئی خطرہ نہ رہے.معلوم ہوتا ہے کہ انگریز روس کے خیال سے اپنا حفاظتی پہلو مضبوط کرنے کے لئے مجھوڑا کوئی سمجھوتہ روس کے ساتھ کرلیں گے سیاسی دباؤ بعض اوقات بڑے بڑے نتائج پیدا کر دیا کرتے ہیں اور حکومتیں اس دباؤ کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ جو ہمیشہ روس کے مفاد کے رستہ میں حائل رہتے تھے.اب بعض سیاسی حالات یا اغراض کے ماتحت اس کی مخالفت کو چھوڑ دیں گے اور ادھر روس بھی ہو بعض

Page 282

۲۹۳ باتوں میں برطانیہ اور امریکہ سے چپقلش رکھتا تھا اب اس کی مخالفت کو ترک کر دے گا ی من (مرتب) اس الہا اپنی پر ابھی مشکل چھے ماہ ہی گذرنے پائے تھے کہ عالم اسلام کے جسم میں ”اسرائیل“ کا خنجر پیوست کر دیا گیا.روس جو قبل ازیں برطانیہ اور امریکہ سے باہمی مخالفت میں گوئے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا تھا کا ایک فلسطین کی تقسیم کے معاملہ میں اپنے حریفوں کا گہرا حلیف بن گیا اور ۲۹ ر تو میر شکلہ کو جنرل اسمبلی میں یہ روسی امریکی تجویز بھی منظور کرلی گئی کہ یکم اگست شکل تک فلسطین میں برطانوی انتداب بیسر ختم کر دیا جائے اور زیاد ۶ سے زیادہ یکم اکتو بر شد و تک فلسطین میں الگ الگ دو حکومتیں قائم ہو جائیں ایک عرب کی اور دوسری اسرائیل کی.واضح رہے کہ برطانیہ اس قرار داد سے دو ماہ قبل (۲۶ ستمبر ہ کو یہ اعلان کر چکا تھا کہ مسئلہ فلسطین طے نہ ہوا تو برطانیہ اپنی فوج اور اپنا نظم و نسق وہاں سے ہٹالے گا.یہ صورت حال صاف غیانہ تھی کہ دنیا کی تینوں طاقتیں فلسطین کے بارہ میں خفیہ طور پر ایک وسطی معاہدہ کر چکی ہیں صرف برطانوی انتداب کے انتظار کا بے تابی سے انتظار کر رہی ہیں چنانچہ جو ہی انگریز کے فوجوں کے اخراج کے بعد قتل بیب کے مقام پر فلسطین کے یہودیوں کی جنرل کونسل سپیکر نے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تو دنیاکی تینوں عظیم طاقتیں فرط مسرت سے جھوم گئیں.سندھ سابق پنجاب تک متوازی نشان کے ظہور کی پیشگوئی ار یا هر از مانده داش) کی شب کو حضور پر یہ الہام نازل ہوا کہ سندھ سے پنجاب تک دونوں طرف متوازی نشان دیکھاؤں گا سے ۶۸ ۳۰۶۸۵۱ له الفضل ۳۰ مئی ۱۹۴۷ ۶ با کالم ۱-۳۲ الفصل ۲۹در مارچ شده و ے برطانیہ نے اپنی اپنی ابی ذمہ داری ختم کر دی تھی.

Page 283

۲۹۴ (مرتب) چنانچہ دو سال بعد به نشان پوری شان کے ساتھ وقوع پذیر ہوا.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ سفراء میں پاکستان میں پاکستان کے خلاف بعض مخصوص طبقوں کی طرف سے ایجی ٹیشن اٹھی تو (سابق) مغربی پنجاب کی کا مبیند بھی اس میں شامل ہو گئی.جس پر مرکز کی طرف سے پہلے تو امن و دفاع کے فرائض فوج کے سپرد کر دیئے گئے اور پھر اس صوبائی کا بینہ کو ہی برطرف کر دیا گیا لیکن اس برفی کے چند ماہ بعد فتنے نے ایک نئی سیاسی شکل بدل لی اور فتنے کی چنگاریاں خود مرکز میں پھیلنے لگیں اور ملکی فضا کے پوری طرح مسموم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا تب پاکستان کے مرحوم گورنر جنرل غلام محمد نے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مرکزی وزارت بھی توڑ دی اور مسٹر محمد علی بوگرا ملک کے تیسرے وزیرا عظم بنے ہیں طرح بہایت قلیل عرصہ میں پنجاب سے سندھ تک خدا کے متوازی نشانوں کا ظہور ہوا جو دنیا کی تاریخ میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے نہایت درجہ حیرت افزا اور عدیم النظیر قرار دیے جائیں تو مبالغہ نہ ہوگا.پاکستان کے بین الاقوامی سیاست کی صف اول میں آنے کے متعلق ایک رویا فرمایا ، کتنے رویا میں دیکھا کہ پاکستان کی حکومت نے ایک اعلان شائع کیا ہے جس میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی بہت ہی تعریف کی گئی ہے اتنی له الفضل ۲۹ ماروح ۶۵۱ تقدیم

Page 284

۲۹۵ تعریف ہے کہ اس کو پڑھ کر حیرت آتی ہے اور یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ چوہدری صاحب نے اپنے اس کام سے پاکستان کی جڑیں مضبوط کر دی ہیں اور اس کی بین الاقوامی صف اول میں لاکھڑا کر دیا ہے میں اس وقت سمجھتا ہوں کہ یو این.اور میں یا برطانوی یا امریکی حلقوں میں چین کے متعلق دروس کے بڑھتے اثر کو روکنے کے لئے ) کوئی خدمت ہندوستان کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوا تھا اور اس خدمت کے نتیجہ میں ہندوستان کی بہت بڑی اہمیت حاصل ہو جاتی تھی اور پاکستان کی حیثیت گر جانے والی تھی.لیکن چوہدری صاحب نے معاملہ کی اہمیت کو بھانپ کر ہو.این.او.یا امریکن اور برطانوی حکومتوں پر (یہ تعین میں یاد نہیں رہی کہ آیا ہو.این.او مراد تھی یا برطانوی اور امریکن حکومتیں اس سے مراد تھیں، واضح کیا کہ پاکستان اس خدمت میں بہت بڑا حصہ لے سکتا ہے اور یہ کہ کم سے کم ایک حصہ خدمت کا ایسا ہے جسے صرف پاکستان ہی بجالا سکتا ہے.اور ایسے زور سے اس معاملے کو پیش کیا اور اتنے زبر دست دلائل دیئے کہ حکومتوں کو ان کے دعوی کی صداقت تسلیم کرنی پڑی اور بجائے اس کی کہ وہ خدمت کلی طور پر ہندوستان کے سپرد کی جاتی.اس کا ایک حصہ پاکستان کے بھی سپرد کیا گیا جسے کامیاب طور پر پورا کرنے کی صورت میں پاکستان بہت بڑی اہمیت حاصل کرلے گا اور دنیا کی سیاست میں صف اول پر آجائے گا.منہ (مریب) اس رویا کا ایک پہلوے ا ر اکتوبر کو پورا ہو چکا ہے جبکہ عزت مآب چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب عالمی عدالت کے جج منتخب ہوئے.یاد رہے.جناب چودھری صاحب موصوف جس نشست سے خب ہوئے وہ بند د روان الفضل ۲۵ جنوری شد

Page 285

۲۹۶ کے سر بینگل نرسنگ راؤ کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی تھی اور اس کے لئے بھارت نے اپنے نمائندہ مسٹر گوپال کو منتخب کرانے کی زبر دست کوشش کی تھی لیکن سلامتی کونسل کی خفیہ رائے شماری میں بھارتی نمائندہ کو شکست ہوئی اور جناب چوہدری صاحب کامیاب ہو گئے اس طرح دنیا بین الاقوامی ادارہ میں مندا کے ایک عظیم الشان نشان کا ظہور ہوا.طوفان نوح “ کی خبر رویا میں دسمبر ۱۹۱۳ء میں فرمایا قطر ر اس سے ٹھوڑی دیر بعد پینے ایک اور کیا دیکھی اور وہ یہ کہ جیسی اس مسجد مسجد است) ایک کہ میں بیچوں بیچ ایک نالی جاتی ہے اسی طرح کی ایک نہر ہے اور وہ بہت دُور تک چلی جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بڑا پانی ہے مگر بندوں کی وجہ سے اس گندر ہی بند ہے اس کے ارد گرد ایک نہایت خوبصورت باغ ہے.میں اس میں مہل رہا ہوں اور ایک اور آدمی بھی میرے ساتھ ہے.ٹہلتے ٹہلتے نہر کی پرلی طرف کہنے چوہدری فتح محمد صاحب کو دیکھا ہے، اتنے میں ایک شخص آیا بمیرے ساتھ گھر کی مستورات بھی ہیں اس نے مجھے کہا کہ مستورات کو پردہ کی تکلیف ہوتی ہے انہیں کہدیں صرف باغ میں نہیں.میں جب اس جگہ سے ہٹ کر دوسری طرف گیا ہوں تو مجھے بڑے زور سے پانی کے بہنے کی سر سر آواز آئی.اس وقت میں میں طرح پرانے مقبرے بنے ہوتے ہیں ایسے مکان میں کھڑا ہوں وہ مقبرہ اس طرح کا ہے جس طرح بادشاہوں کی قبروں پر بنے ہوئے ہوتے ہیں ہیں اس کی چھت پر چڑھ گیا ہوں اور اس کی کئی چھتیں اونچی نیچی ایک دوسری کے ساتھ ساتھ بینی ہوئی ہیں مجھے پانی کی سرسر کی جو آواز آئی تو مینے اس پہر کی طرف دیکھایا تو وہ الیسا خوبصورت نظارہ تھا کہ پرستان نظر آنا تھا یا ہر جگہ پانی پھرتا جاتا تھا عمارتیں

Page 286

۲۹۷ گرتی جاتی تھیں.درخت دیے جاتے تھے.گاؤں اور شہر تباہ ہوئے جاتے تھے پانی میں لوگ ڈوب رہے تھے کسی کے گلے گھلے کسی کے منہ تک کسی کے سر کے اوپر پائی پڑھا جاتا تھا اور ڈوبنے والوں کا بڑا دردناک نظاڑ تھا یکلخت وہ پانی اس مکان کے بھی قریب آگیا.میں پر میں کھڑا تھا اور اس کی دیواروں سے ٹکرانا شروع ہو گیا آگے پیچھے کی آبادی کو تباہ و برباد ہوتا دیکھ کر بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا." نوح کا طوفان " پھر پانی اس مکان کی چھت پر پڑھنا شروع ہوا.اس کے ارد گرد جو دیوار تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پانی اسے توڑ کر اندر آنا چاہتا ہے اور لہریں دیوار کے اوپر سے نظر آتی تھیں اس وقت مینے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا مجھے کہیں آبادی نظر نہیں آتی تھی اور پانی ہی پانی نظر آتا تھا جب پانی چھت پر بھی آنے لگا تو مینے گھبراہٹ میں پکا رہکار کے اس طرح کہنا شروع کیا.G اللَّهُمَّ اهْتَدَيْتُ بِهَديكَ وَأَمَنْتُ بِمَسِينِيكَ اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موجود علیہ السّلام دوڑے چلے آتے ہیں اور گویا لوگوں سے فرماتے ہیں کہ یہی فقرہ پڑھو تب تم اس غذاب سے بچ جاؤ گے.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نظر آئے لیکن یہ میرا خیال تھا کہ آپ لوگوں کو یہ فرما رہے ہیں اتنے میں مینے دیکھا کہ پانی کم ہونا ہوا اسی شروع ہوا اور چھت گیلی گیلی نظر آنے لگی.اسی گھبراہٹ میں میری آنکھ کھل گئی".(مرتب) دنیا کے مختلف ممالک جن میں امریکہ بھی شامل ہے، اس وقت تک متعدد بار طوفان نوح کے ہولناک نظارے دیکھ چکے ہیں خصوصاً بر صغیر ہندو لے کر اخبار الفضل مورخه ۱۳ ز دسمبر د ۶ متر کالم ۲ ه د نیز الفضل ۱۲ نومبر تا در صد کام مکہ میں وہا شام سے اس کا تعلق ہے،

Page 287

۲۹۸ : ' پاکستان کی حدود میں تو یہ عبرتناک نشان بڑی کثرت و وسعت سے ظاہر ہوا ہے شش میں ابھرنے والے خوفناک سیلاب کے متعلق مغربی پاکستان کے مشہور جریدہ چٹان کی رائے ملاحظہ ہو.اخبار چٹان ۷ار اکتوبر سے یو کے ایشوع میں طوفان نوح " کے ہی عنوان سے رقمطراز ہے :- قرآن مجید میں طوفان نوح کا ذکر پڑھئے تو عقل کو نا اندیش کو حیرت ہوتی لیکن پنجاب کو طغیائی کے جن تھپیڑوں نے ہلاک کیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوقان کیا تھالا ہور کے طوفان نوح کو ہم نے اپنی آنکھوں دیکھا ہے؟؟ پاکستان میں ایک عظیم الشان سیاسی انقلا کی پیشگوئی مملکت پاکستان کو اکتوبرش شیر میں ایک شدید سیاسی بحران سے دو چاہو پڑا جبکہ دستور ساز اسمبلی جیسا ادارہ جسے سب سے زیادہ سنجیدہ اور باوقار اور رقابتوں اور رنجشوں سے بالا رہنا چاہیے تھا خود ارباب اقتدار کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گیا اور ملک کی سالمیت معرض خطر میں پڑگئی.میں اس وقت حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ربوہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے ایک عظیم الشان خبر دی جو تین دن کے اندر اندر پوری ہوئی جس کی تفصیل حضور کے الفاظ میں درج کی جاتی ہے :- فرمایا :.کینے کہا تھا کہ "اگر تمہارا خدا چاہیے تو تین دن کے اندر اندر ان لوگوں کی طاقت توڑ دے اور برسر اقتدار لوگ جو اس وقت شرارت کر رہے ہیں اُن کے فتنہ سے ملک کو بچالے.خدا کی قدرت دیکھو جمعہ کو پہنے یہ الفاظ کہے اور اتوار کو گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی اور نئی وزارت بنانے کے لئے منسٹر محمد علی کو دعوت دے دی گویا خطبہ پر پورے تین دن بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ

Page 288

خطرات جو پاکستان کو پیش آرہے تھے عارضی طور پر ٹل گئے یہ نہ ملک میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کرنے اور دستور ساز اسمبلی توڑنے کے سلسلہ میں ملک بھر میں گورنر جنرل (مسٹر غلام محمد مرحوم) کے اقدام کا گرمجوفی سے خیر مقدم کیا گیا، اور سیاسی لیڈروں نے یہ رائے ظاہر کی کہ : گورنر جنرل نے مالک کو تباہی سے بچا لیا ہے لہ پاکستان میں ایل کے خوفناک حادثہ مجھمپیر) کے متعلق حیران کن رویا ار جنوری تشدد کو پاکستان میں جھمپیر کے قریب ریل کا ایک خوفناک حادثہ پیش آیا جس نے ملک بھرمیں صف ماتم بچھا دی.جس گاڑی کو یہ حادثہ ہ پیش آیا اس میں چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی تھے جو حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کی ایک گذشتہ دو یا کے مطابق خارق عادت طور پر محفوظ رہے.یہ رویا مع اس کی تشریح کے حضور کے الفاظ میں درج ذیل ہے ے لڑنا ۱۸ نومبر سے ہو کی بات ہے کہ سینے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں میاں بشیر احمد صاحب اور درد صاحب میرے ساتھ ہیں کسی شخص نے مجھے ایک لفافہ نہ کر دیا اور کہا کہ یہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کا ہے لینے اس لفافہ کو کھولے بغیر یہ محسوس کیا کہ اس میں کسی عظیم الشان حادثہ کی خبر ہے جو جو د نصری منا کی موت کی شکل میں ہمیشں آیا ہے یا کوئی اور بڑا حادثہ ہے سینے در و صاحب سے کہا.لفافہ کو جلدی کھولو اور اس میں سے کا نتخذ نکالو ورو صاحب نے لفافہ کھولا.له الفضل در نومبر ششه ما کالم سے اخبار نوائے وقت ۲۶ اکتوبر است

Page 289

اس میں بہت سے کاغذ نکلتے آتے تھے لیکن اصل بات جس کی خبر دی گئی تھی نظر نہیں آتی تھی آخر کا ر لفافہ میں صرف ایک دو کاغذ رہ گئے لیکن اصل کا خیر کا پتہ نہ لگا.میاں بشیر احمد صاحب نے کہا پتہ نہیں چودھری صاحب کے دماغ کو کیا ہو گیا ہے وہ ایک اہم شیر لکھتے ہیں لیکن اچھی طرح بیان نہیں کرتے لینے کہا گھبراہٹ میں ایسا ہو ہی جاتا ہے اسپر لفافہ میں جو دو کاغذ باقی رہ گئے تھے ان میں سے ایک کاغذ کو بینے باہر کھینچا تو وہ ایک فہرست تھی لیکن اصل واقعہ کا امن سے پتہ نہیں لگتا تھا اس فہرست میں ایک نام سے پہلے ملک لکھا تھا اور آخریں محمد لکھا تھا درمیانی لفظ پڑھا نہیں جاتا تھا اس سے اتنا تو پتہ لگتا تھا واقع میں کوئی اہم خبر ہے لیکن اصل واقعہ کا پتہ نہیں لگتا تھا پھر لفافہ میں سے ایک اور شفاف کاغذ نکلا جو hacing naser تھا میں اسے دیکھنے لگا اور کمینے کہا یہ خبر ہے جو چودھری صاحب نے ہم تک پہنچانی چاہی ہے مگر بیچائے کوئی واقعہ لکھنے کے اس کا غذ پر ایک لکیر کھینچی ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ہوائی جہاز ہے جو مشرق سے مغرب کی طرف جا رہا ہے آگے جا کر وہ لکیر یکدم اریبوی صورت میں نیچے آجاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جہاز یکدم نیچے آگیا ہے اس جگہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہ کا ہے اور معا Crashed کا لفظ میرے سامنے آتا ہے تو معا سمندر میرے سامنے آجاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ نیچے کچھے جنہ بہرے ہیں مجھے نیچے کی طرف عملاً سمندر نظر آتا ہے اس میں ہلکی ہلکی لہریں ہیں میں خواب میں کہتا ہوں خدا کرے کہ نہ معلوم چودھری صاحب کو تیرنا آتا ہے خدا کرے اس حاولہ کی غیر معلوم کر کے سی حکومت نے ہوائی جہاز یا کشتیاں بچانے کے لئے بھیج دی ہوں تاکہ چودھری صاحب اور دوسرے لوگ بچ جائیں

Page 290

٣٠١ جب کہتے یہ رویا دیکھی اس وقت قریبا دو بجے رات کا وقت تھا اس دن میری بیوی مریم صدیقہ کی باری تھی اور وہ میرے پاس ہی دوسری جا نہ پائی پر سوئی ہوئی تھیں جیسے انہیں جگایا اور کہا جلدی سے ایک خط لکھو بچنا نچہ کینے اسی وقت چودھری صاحب کو خط لکھوایا اور تحریر کیا کہ وہ کچھ صدقہ دیدیں فورا ابھی اور آتے ہوئے بھی.اور اس مضمون کی ایک تاریھی دے دی.بیٹے جب یہ کہ کیا دیکھی تو چودھری صاحب امریکہ پہنچ چکے تھے اور سینے رویا میں یہ نظارہ دیکھا تھا کہ چودھری صاحب مشرق سے مغرب کو جا رہے ہیں اگر وہ امریکہ سے پاکستان آ رہے ہوتے تو یہ سفر مشرق سے مغرب کو نہ ہوتا بلکہ مغرب سے مشرق کو ہوگا.پھر مینے رویا میں یہ دیکھا تھا کہ چودھری صاحب خود ہی اس حاجو شہ کی خیر دے رہے ہیں اور یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ اگر اس حادثہ میں ان کی جان کا نقصان ہے تو وہ اس کی خبر کیسے دے رہے ہیں.بہر حال مینے اس خواب کی تین تعبیر میں کہیں اول یہ کہ کوئی حادثہ سخت مہلک چودھری صاحب کو پیش آنے والا ہے اور خدا تعالے انہیں اس سے بچالے گا کیونکہ وہ خود اس حادثہ سے متعلق تھی خبر دے سکتے ہیں جب وہ محفوظ ہوں.دوسر سے لینے یہ تعبیر کی کہ اس دن ملک غلام محمد صاحب گورنر جنرل سفر پر روانہ ہو رہے تھے شائدا نہیں کوئی حادثہ پیش آجائے بیٹے ملک اور محمد کے الفاظ دیکھے تھے بیچ میں ایک لفظ اور بھی تھا جو پڑھا نہیں گیا.مینے خیال کیا کہ شائد اس سے ملک غلام محمد صاحب ہی مراد ہوں کیونکہ ان کے نام سے پہلے بھی ملک اور آخر میں محمد کا لفظ آتا ہے اور وہ چودھری صاحب کے دوست بھی ہیں اور دوست کا صدمہ خود انسان کا اپنا صدمہ کہلاتا ہے چنانچہ پینے صبح نہیں نار دے دی چونکہ وہ احمدی نہیں ہے اس لئے بنے یہ نہ لکھا کہ سینے رویا دیکھی ہے

Page 291

بلکہ صرف یہ لکھا کہ آپ سفر پر جا رہے ہیں میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس سفر کے دوران میں آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے لیکن میرا تار پہنچنے سے پہلے ملنگ صاحب سفر پر روانہ ہو چکے تھے وہ تار قائم مقام گورنر جنرل کو ملا.اور انہوں نے خیال کیا کہ یہ مبارک بادی کا تارہے.چنانچہ ان کی طرف سے شکریہ کی چھٹی آگئی حالانکہ وہ تار اس رویا کی بناء پر اصل گور تر جنرل صاحب کو دی گئی تھی لیکن وہ ملی قائم مقام گورنر جنرل کو.تیس سے چونکہ چودھری صاحب مغرب میں پہنچ چکے تھے اور پاکستان کی طرف سفر کرتے ہوئے انہوں نے مغرب سے مشرق کو آنا تھا اور پھر اس حادثہ کی خبر بھی انہوں نے خود ہی دی تھی اس لئے کتنے خیال کیا کہ شائد اس سے یہ مراد ہو کہ جو خاص کام مراکو وغیرہ کی خدمت کا وہ کر رہے ہیں اس میں انہیں ناکامی ہو بہر حال بینے ایک بکر ابطور صدقہ فریج کروا دیا اور چودھری صاحب کو بھی خط لکھا کہ وہ خود بھی صدقہ دے دیں.چنانچہ انہوں نے بھی صدقہ دے دیا اور ہم نے دعائیں جاری رکھیں.میں لاہور گیا تو چودھری صاحب کی بیوی مجھے میں لینے انہیں بھی بتایا کہ مینے اس قسم کی رؤیا دیکھتی ہے چونکہ چودھری صاحب کی لڑکی بھی اس سفر میں ان کے ہمراہ تھی اس لئے ان کے لئے دہرا صدمہ تھا اس لئے انہوں نے بھی اس عرصہ میں روزانہ ایک ایک کر کے یا بعض دنوں میں دو دو کر کے اکسا تھے بکرے صدقہ دیئے.چودھری صاحب خیریت سے کراچی پہنچ گئے اور اس قسم کا کوئی حادثہ انہیں پیش نہ آیا.کراچی سے پنجاب آئے تو ہ سفر بھی خیریت سے گزر گیا لیکن جب کراچی واپس گئے تو راستہ میں اس گاڑی کو جس میں چودھری صاحب سفر کر رہے تھے خطرناک حادثہ پیش آیا اور انڈ میں ریڈیو پر جب یہ خبر نشر ہوئی تو اس کے متعلق iranfed کا لفظ

Page 292

٣٠٣.....ہی استعمال کیا گیا.جس جگہ پر یہ واقعہ ہوا چودھری صاحب کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے دنس دنس میں دُور تک کوئی پکی سڑک نہیں ہے.صرف ریل کی پٹڑی گزرتی ہے اس لئے اعداد کے لئے اس جگہ تک کوئی موثر نہیں آسکتی تھی اس طرح وہ جگہ جزیرے کی طرح تھی میں سمجھتا ہوں کہ رویا میں ہوائی جہاز کا دکھایا جانا اور واقعہ ریل میں ہونا اور پھر یہ گاڑی بھی مشرق سے مغرب کو جا رہی تھی.اس طرح دوسری سب باتوں کا ہونا بتاتا ہے کہ یہ ایک تقدیر مہم تھی لیکن خدا تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کو منکر اس حادثہ کو سجائے ہوائی جہاز کے ریل میں بال دیا ہوائی جہاز میں ایسا حادثہ پیش آجائے تو اس سے بچنا مشکل ہوتا ہے شاذ ہی کوئی شخص اس قسم کے حادثہ سے بچتا ہے لیکن یہی حادثہ ریل میں پیش آجائے تو اس سے کسی انسان کا بچ جانا ممکن ہے اور پھر وہ ریل مشرق سے مغرب کو جا رہی تھی جب پینے اخبار میں وہ واقعہ پڑھا تو مینے محسوس کیا کہ میری وہ خواب پوری ہو گئی ہے لینے میاں بشیر احمد صاحب سے اس کا ذکر کیا جن کو میں یہ خواب اسی وقت بتا چکا تھا جب یہ آئی تھی انہوں نے بھی کہا کہ واقعہ میں وہ خواب پوری ہوئی اہے لیکن بینے اخبار میں یہ واقعہ پڑھ کر چودھری صاحب کو یہ لکھنا پسند نہ کیا کہ میری رویا پوری ہوگئی ہے کیونکہ رویا میں انہوں نے پہلے اطلاع دی تھی اس لئے مینے یہی پسند کیا کہ وہ اضلاع دینگے تومیں لکھوں گا چنانچہ دوسرے دن چودھری صاحب کی تار آگئی کہ آپ کی رؤیا پوری ہو گئی ہے اور خدا تعالے نے مجھے اس حادثہ سے بچا لیا ہے.یہاں صرف رڈیا کا سوال نہیں کہ وہ پوری ہو گئی بلکہ یہ ایک تقدیر مبرم تھی جو دعاؤں سے بدل گئی رویا میں خدا تعالیٰ نے مجھے ہوائی جہاز دکھایا تھا لیکن وہ واقعہ اسی بہت میں اور اسی شکل میں ریل میں پورا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہونا تقدیر مبرم تھا لیکن خدا تعا نے کہا چلو ان کی بات بھی پوری ہو جائے اور اپنی بات بھی پوری ہو EX

Page 293

۳۰۴ جائے یہی واقعہ ہم ریل میں کرا دیتے ہیں اس سے ہماری بات بھی پوری ہو جائے گی اور ان کی دُعا بھی قبول ہو جائینگی.پس یہ واقعہ ہمارے لئے زائد یقین اور ایمان کا موجب ہے.نئی روسی نسل میں بغاوت کی حیرت انگیز پیش گوئی بالشوزم کے موجودہ نظام پر نہیں جانا چاہئیے وہ اس وقت زار کے ظلموں کو یاد رکھے ہوئے ہے میں دن یہ خیال ان کے دل سے بھولا پھر یہ طبعی احساس کہ مہاری خدمات کا ہم کو صلہ ملنا چاہئیے ان کے دلوں میں پیدا ہو جائے گا نئی پود بغاوت کریگی اور اس تعلیم کی ایسی شناعت ظاہر ہوگی کہ ساری دنیا حیران رہ جائینگی ہو.(مرتب) اشتراکیت کا خاکہ کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز نے تیار کیا لینن نے اس خاکہ کو دنیا کے نقشہ میں جگہ دی اور سٹالن نے اپنے ہیں سالہ زمانہ اقتدار میں اسے ایک عالیشان عمارت بنا ڈالا.اس بنا پر سٹالن کی زندگی میں سٹالن ازم اور بالشوزم ہم معنی لفظ بن گئے لیکن ابھی سالن کا کفن میلا بھی نہ ہوا تھا کہ اس کے پہلے جانشین مسٹر مالنکوف نے سٹالن کے خلاف ایک زبردست با خیانه تحریک بلند کردی بوس رہی تک کے طول و عرض میں آگ کی طرح پھیل گئی.چنانچہ وہ روس جو کبھی سٹالن کی فولادی شخصیت کو بالشوزم کی مجسم تصویر قرار دیتا تھا آج ستالینی نظریات کے بجے اور بھیڑ رہا ہے.ة المصلح دار ضروری ششده ملت ۲ ۳ نظام توطیع ثانی ۲۰۶۱۹۳

Page 294

حضرت امام جماعت احمدیہ لی اللہ تعالیٰ کی چند پش گوئیاں مستقبل کے متعلق

Page 295

وہ معزز قارئیں! موجودہ زمانہ میں کلام الہی کے زندہ انوار و برکات کے نزول کا ایک پر کیف منظر آپ کے سامنے ہے ماضی کے واقعات غیب کے پردوں میں ہمیشہ کے لئے اوجھل ہو گئے لیکن ان کی آسمانی تاریخ ابد تک فراموش نہیں کی جاسکے گی.اور ہم زمین و آسمان کو گواہ رکھ کر اقرار کرتے ہیں کہ خدا نے جو کچھ فرمایا تھا پوری شان سے پورا ہو چکا.لیکن آئیے حال کے آئینہ میں مستقبل کی ایک جھلک بھی دیکھتے جائیں تا زمین پر رہنے کے باوجود عرش بریں کے راز دانوں میں شمار ہوں اور ہمارے عزائم و مقاصد خدائی تقدیروں سے پوری طرح ہم آہنگ ہو سکیں.مبارک وہ جو خالق کائنات کی آواز کا شنوا ہوتا ہے.

Page 296

قیامت خیز آفات ارضی و سماوی کے متعلق پیشنگوئی " خدا تعالیٰ نے مجھے متعدد بار متحد کردیا اور کشوف کے ذریعہ ان حالات کی خبر دی ہوئی ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے بھی تمام باتیں ظاہر ہوتی ہیں تم اس بات کو معمولی نہ سمجھو.بلکہ یقیناً یا د رکھو کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بارہا بتایا.دنیا میں ایسی ایسی آفات آنے والی ہیں کہ وہ قیامت کا نمونہ ہونگی.اور بسا اوقات اُن آفات کو دیکھ کر انسان یہ خیال کرے گا کہ اب دنیا میں شائد کوئی انسان بھی باقی نہیں رہے گا.قادیان کی واپسی کے متعلق پیشگوئی و گو آج ہم قادیان نہیں جاسکتے.گو آج ہم اس سے محروم کر دیئے گئے ہیں لیکن ہمارا ایمان اور یقین ہمیں بار بار کہتا ہے کہ قادیان ہمارا ہے وہ احمدیت کا مرکز ہے اور ہمیشہ احمدیت کا مرکز رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ حکومت خواہ بڑی ہو یا چھوٹی بلکہ حکومتوں کا کوئی مجموعہ بھی ہمیں مستقل طور پر قادیان سے محروم نہیں کر سکتا اگر زمین ہمیں قادیان لے کر نہ دے گی تو ہمارے خدا کے فرشتے آسمان سے اُتریں گے اور ہمیں قادیان لے کر دیں گے : قادیان خدا نے ہمارے ساتھ مخصوص کر دیا ہے اس لئے وہ ہمیں آپ قادیان لیکر دے گا.ہے الفضل ٦ اكتوبر ۳ ۶ مه کالم له الفضل ۲۰ دسمبر و ما کالم ۲۱ تقریر عالی سال ۲۷ دیمیر

Page 297

سپین میں اسلامی پر حم لہرانے کی پیش گوئی " وہ دن دور نہیں جب اس جرنیل عہد العربی نائل کے خون کے قطروں کی پکا اس کی جنگوں میں چلانے والی روح اپنی کشش دکھائے گی اور سچے مسلمان پھر سپین پہنچیں گے اور وہاں اسلام کا جھنڈا گاڑ دیں گے اس کی روح آج بھی ہمیں بلا رہی ہے.اور ہماری روحیں بھی یہ پکار رہی ہیں کہ اے شہید وفا! تم اکیلے نہیں ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے بچے خادم منتظر ہیں جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی اور پروانوں کی طرح اس ملک میں داخل ہوں گے اور اللہ تعالے کے نور کو وہاں پھیلائیں گے یہ سوال نہیں کہ ہم امن پسند جماعت ہیں.مخالف امن پسندوں پر بھی تلوار کھینچ کر آن کو مقابلہ کی اجازت دلوا دیا کرتے ہیں.کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امن پند نہ تھے مگر مخالفین کے ظلموں کی وجہ سے آخر اللہ تعالیٰ نے اُن کو مقابلہ کی اجازت دے دی.جیسا کہ فرمایا أذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرِهِ بین لوگوں کو خواہ مخواہ نشانہ مظالم بنایا گیا.اب ان کو بھی اجازت ہے کہ مقابلہ کریں پر سپین کے لوگ اگر اللہ تعالے کے نزدیک یوں مقدر ہے تو ہماری تبلیغ و تعلیم سے ہی کفروشرک کو چھوڑ دیں گے اور یا پھر ہم پر اتنا ظلم کریں کہ اللہ تعالے کی طرف سے مقابلہ کی اجازت ہو جائے گی اور وہ جنہوں نے کان پکڑ کر مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکالا تھا.کان پکڑ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پر حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ حضور کے غلام حاضر ہیں یا اے الفضل درمی لاء کالم ۳-۴-

Page 298

٠٩ ہندوؤں کے حلقہ بگوش اسلام ہو سکے تعلق جنگوئی "کیا سپین میں سے نکل جانے کی وجہ سے ہم اسے بھول گئے ہیں ہم یقیناً اُسے نہیں بھولے.ہم یقیناً ایک دفعہ پھر سپین کو لینگے اسی طرح ہم ہندوستان کو نہیں چھوڑ سکتے.یہ ملک ہمارا ہندویوں سے زیادہ ہے.ہماری سستی اور غفلت سے عارضی طور پر یہ ملک ہمارے ہاتھ سے گیا ہے.ہماری تلواریں جس مقام پر جا کر گند ہو گئیں وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہوگا اور اسلام کے خوبصورت اصول کو پیش کر کے ہم اپنے ہندو بھائیوں کو خود اپنا جزو بنائینگے کے خطہ کشمیر کی آزادی کے متعلق پیش گوئی کشمیر کے مسلمان یقینا غلام ہیں اور ان کی حالت دیکھنے کے بعد بھی جوید کہتا ہے کہ ان کو کس قسم کے انسانی حقوق حاصل ہیں وہ یا تو پاگل ہے اوریا اول درجہ کا جھوٹا اور مکار ان لوگوں کو خدا تعالیٰ نے بہترین دماغ دئے ہیں جانوروں سے بدتر اور انسانی ہاتھوں نے اس بہشت کو دوزخ بنا دیا ہے لیکن خدا تعالے کی غیرت نہیں چاہتی کہ خوبصورت پھول کو کانٹا بنا دیا جائے اس لئے وہ اب چاہتا ہے کہ جسے اس نے پھول بنایا ہے وہ پھول ہی رہے اور کوئی ریاست اور حکومت اسے کانٹا نہیں بنا سکتی.روپید چالا کی مخفی تدبیریں اور پروپیگنڈا کسی ذریعہ سے بھی اسے کانٹا نہیں بنایا جا سکتا.چونکہ خدا تعالیٰ کا منشایہ ہے اس لئے کشمیر ضرور آزاد ہوگا اور اس کے رہنے والوں کو ضرور ترقی کا موقع دیا جائے گا."کے ا الفضل ۶۱ را پریل اللہ اسے کالم له الفضل اس جنوری سے اور اُن کے ملک کو دنیا کی جنت بنایا ہے مگر ظالموں نے بہترین دماغوں کو

Page 299

٣١٠ ربوہ کی عظمت کے متعلق پیشگوئی پنے دل و دماغ میں کبھی یہ و ہم بھی نہ آنے دو کہ قادیان جانے کی وجہ سے ربوہ اُجڑ جائے گا ربوہ کے چپے چپے پر اللہ اکبر کے نعرے لگ چکے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جاتا ہے یہ بستی انشاء الله تعالیٰ قیامت تک خدا کی محبوب بستنی رہے گی یہ بستی انشاء اللہ تعالے کبھی نہیں اُجڑے گی بلکہ قادیان کی اتباع میں اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو بلند سے بلند تر کرتی رہے گی یا سے مصر کے ہاتھوں یورپین تہذی کے خاتمہ کی پیشگوئی میرے نزدیک مصر مسلمانوں کا بچہ ہے جسے یورپ نے اپنے گھر میں پالا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے بلاد اسلامیہ کے اخلاق کو خراب کرے مگر میرا دل کہتا ہے اور جب سے لینے قرآن کریم کو سمجھا ہے میں برابر اسکی بعض سورتوں سے استدلال کرتا ہوں اور اپنے شاگردوں کو کہتا چلا آیا ہوں کہ یورپین فوقیت کی تباہی مصر سے وابستہ ہے اور اب میں اسی بنا پر کہتا ہوں کہ مگر یورپ نے اس امر میں ایسا ہی دھوکا کھایا ہے جیسا کہ فرعون نے مصرجب خدا تعالیٰ کی تربیت میں آجائے گا تو وہ اسی طرح یورپین تہذیب کے مخرب اخلاق حصوں کو توڑنے میں کامیاب ہوگا جس طرح حضرت موسی فرعون کی تباہی میں" بے شک اس وقت یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے مگر جو زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے تے له است سله ۱۲ الفضل اور جنوری شود و کالم سے سے افضل ار ستمبر ۲۴ ۲۳ کالم ہو

Page 300

کمیونزم کی تباہی کے متعلق پیش گوئی لوگ سمجھتے ہیں کہ کمیونزم کامیاب ہو گیا حالانکہ اس وقت کمیونزم کی کامیابی محض زار کے مظالم کی وجہ سے ہے جب پچاس ساٹھ سال کا زمانہ گذر گیا جب زار کے ظلموں کی یاد دلوں سے مٹ گئی جب اس کے نقوش دھندلے پڑ گئے اگر اس وقت بھی یہ نظام کامیاب رہا تو ہم سمجھیں گے کہ کمیونزم واقعہ میں ماں کی محبت اور باپ کے پیار اور بہن کی ہمدردی کو کچلنے میں کامیاب ہو گیا ہے.لیکن دنیا یاد رکھے یہ محبتیں کبھی کچھی نہیں جاسکتیں.ایک دن آئیگا کہ پھر یہ محبتیں اپنا رنگ لائینگی.پھر دنیا میں ماں کو ماں ہونے کا حق دیا جائیگا اور پھر یہ گم گشتہ محبتیں واپس آئینگی لیکن اس وقت یہ حالت ہے کہ کمیونزم انسان کو انسان نہیں بلکہ ایک مشین سمجھتا ہے نہ وہ بچہ کے متعلق ماں کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے نہ وہ باپ کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے نعم وہ اور رشتہ داروں کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے وہ انسان کو انسان نہیں بلکہ ایک مشینری کی حیثیت دے رہا ہے مگر یہ مشینری زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی وقت آئے گا کہ انسان اس مشینری کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گا اور اس نظام کو اپنے لئے قائم کرے گا جس میں عائلی جذبات کو اپنی پوری شان کے ساتھ بر قرار رکھا جائے گا.اے سہی اس داشترا کی تحریک ناقل) کا زوال نہایت خطرناک ہوگا.دوسری تحریکات میں تو یہ ہوتا ہے کہ ایک بادشاہ مرتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا بادشاہ تخت حکومت پر بیٹھ جاتا ہے.ایک پارلیمنٹ ٹوٹتی ہے تو دوسری پارلیمنٹ لے اسلام کا اقتصادی نظام لیکچر فرموده ۲۶ فروری شهداء طبع اول میشه

Page 301

٣١٢ بن جاتی ہے لیکن با لغو یک تحریک میں اگر کبھی کمزوری آئی تو یہ بیکارم تباہ ہوگی اور اس کی جگہ زار ہی آئے گا کوئی دوسری حکومت نہیں آئے گی کیونکہ اس میں نیابت کی کوئی صورت نہیں...پس جب یہ تحریک گرینگی تو کلی طور پر ریگی جیسا کہ فرانس میں ہوا جب فرانس کے باغیوں میں تنزل پیدا ہوا اُن کی جگہ نپولین جیسے کامل الاقتدار آدمی نے لی.خود جمہور میں سے جمہوریت کا ه کوئی دلدادہ جگہ نہ لے سکا ہے ہے یا جوج و ماجوج کی شکست کے متعلق پیشگوئی مینے ایک رڈیا دیکھی اور آج تک جب یاد آتی ہے اس کی لذت محسوس کرتا ہوں لینے دیکھا کہ ایک اثر دھا ہے اور ایک سڑک ہے کچھ آدمی آگے بڑھے ہوئے ہیں اور ایک جماعت میرے ساتھ ہے جو لوگ آگے ہیں ان کے متعلق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہی ساتھ ہے.الگ ہوئے ہیں اس کا شائد یہ مطلب ہو کہ بظاہر تو ساتھ ہیں مگر اطاعت میں تقدم کرتے ہیں.چلتے چلتے کسی کے چیخنے کی آواز آئی ہے اور میں اس کی طرف دوڑتا ہوا گیا.کہ اسے مصیبت سے بچاؤں دیکھا کہ ایک اثر دھا ہے جو لوگوں پر حملہ کر رہا تھا اور کوئی انسان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا جب وہ ساس ه نظام تو طبع دوم ۳۹ (تقریر فرموده و سمبر (۶۹) ,

Page 302

٣١٣ لیتا تھا تو بے اختیار لوگ اس کی طرف کھینچتے چلے جاتے.اور کوئی ان کو تو کی روک نہ سکتا.انسانوں پر ہی کیا موقوف ہے ہر ایک چیز درخت وغیرہ تک اس کی طرف کھینچنے لگتے.اور جب وہ سانس باہر نکالتا جہاں تک پہنچتا وہاں تکب کی ہر ایک چیز کو جلا کر راکھ کر دیتا.اس وقت لینے اپنے دوستوں میں سے ایک کو دیکھا جس پر وہ حملہ آور ہو رہا تھا.میں بھاگ کر گیا کہ اس کی مددکروں لیکن وہ ادھا اس سے ہٹ کر مجھے پر حملہ کرنے لگا.اس وقت مجھے کو وہ اثر وھا یا جوج ماجوج ہی معلوم ہونے لگا اور خیال آیا کہ اس کا سامنے ہو کر تو مقابلہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ لا يدانِ لاَحَدٍ لِقِتالِهِمَا ؟ کی اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکے گا اور یہ حدیث یا جوج ماجوج کے متعلق ہے.اس سے مجھے کچھ گھڑا ہٹ سی پیدا ہوئی لیکن معا یہ بات مجھے بجھائی گئی کہ اس حدیث کا تو یہ مطلب ہے کہ اس کے سامنے ہو کر کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا.اگر کسی اور طریق سے حملہ کیا جائے تو ضرور کامیابی ہوگی اس کے بعد تینے دیکھا کہ ایک چارپائی پیدا ہوئی ہے جو بنی ہوئی نہیں صرف کیوں ہے اور وہ اس اثر دمے کی پیٹھ پر رکھی گئی ہے میں اس پر کھڑا ہو گیا اور ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنی شروع کر دی ہے جس سے وہ پگھلنا شروع ہو گیا اور آخر کار مرگیید یہ سینے اس کے سامنے ہو کر مقابلہ نہیں کیا بلکہ اوپر ہو کر کیا تھا اس لئے کامیاب ہو گیا." له اخبار الفضل مورخہ ۲۶ مئی شده ۵۰ کالم ۲۷ - ۳ نیز الفضل ، ارمئی دو منہ کالم کے

Page 303

۳۱۴ عالمگیر اسلامی حکومت کے قیام کی پیشگوئی ن ایم سمجھتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں بلکہ ہم سمجھتے اور یقین ہی نہیں رکھتے ہم اپنی کر و ھانی آنکھوں سے وہ چیز دیکھ رہے ہیں جو دنیا کو نظر نہیں آتی ہم اپنی کمزوریوں کو بھی جانتے ہیں ہم مشکلات بھی جانتے ہیں جو ہمارے رستہ میں حائل ہیں ہم مخالفت کے ایس اُتار چڑھاؤ کو بھی جانتے ہیں جو ہمارے سامنے آنے والا ہے ہم ان قتلوں مان اور اور خارتوں کو بھی دیکھے سر سے ہیں جو ہمیں پیش آنے والے ہیں ہم ان ہجرتوں کو بھی دیکھ رہے ہیں جو ہماری جماعت کو ایک دن پیش آنے والی ہیں ہم ان جسمانی اور عالی اور سیاسی مشکلات کو بھی دیکھتے ہیں جو ہمارے سامنے رونما ہونے والی ہیں مگر ان نسب و صندلکوں میں سے پار ہوتی ہوئی اور ان سب تاریکیوں کے پیچھے ہماری نگاہ اس اونچے اور بلند تر جھنڈے کو بھی انتہائی شان و شوکت کے پیا تھے لہراتا ہوا دیکھ رہی ہے جس کے نیچے ایک دن ساری دنیا پناہ لینے پر مجبور ہوگی سے جھنڈا خدا کا ہوگا یہ جھنڈا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوگا اں سے یہ سب کچھ ایک دن ضرور ہو کر رہے گا بیشک دنیوی مصائب کے وقت کئی اپنے بھی کہہ اٹھیں گے کہ ہم نے کیا سمجھا تھا اور ہ کیا ہو گیا مگر یہ سب چیزیں مٹتی چلی جائینگی مٹتی چلی جائینگی آسمان کا نور ظاہر ہوتا چلا جائے گا.اور زمین کی تاریخی دُور ہوتی چلی جائے گی اور آخر وہی ہوگا ان کو خدا نے چاہا وہ نہیں ہوگا جو دنیا نے چاہا ہے له الفضل ۱۲ مئی ۶۹۴۹ ۵ کالم ۳-۳-۵

Page 304

i ۳۱۵ باشتم تعالے اسلام کے زندہ مذہب ہونے کے باری مصر ام ام ام ای یا یہ تھی نے کی مذاہب عالم کو پر خلوص دعوت

Page 305

A

Page 306

پیش نظر مجموعہ کے اختتام سے قبل سید نا حضرت خلیفہ البیع الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالے کا ایک چالیس سالہ پر خلوص دعوت درج کرنا ضروری ہے ؟ حضور نے 1914ء سے عیسائیت، یہودیت - یدھ ازم ہندوست چینی ازم زرتشت ازم سنٹو ازم با بیت.برہمو سماج اور تھیو سوئی اور دیگر تمام مذاہب عالم کو دے رکھی ہے لیکن افسوس با وجود ایک طویل زمانہ گزرنے کے کسی کو یہ دعوت قبول کرنے کی توفیق نہیں مل سکی..حضور نے سر ستمبر شاہ کو فرمایا.اگر کوئی شخص ایسا ہے جسے اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کے سچا ہونے کا یقین ہے تو آئے اور آکر ہم سے مقابلہ کرے مجھے تجربہ کے ذریعہ ثابت ہو گیا ہے کہ اسلام ہی نہ ندہ مذہب ہے اور کوئی مذہب اس کے مقابلہ پر نہیں ٹھہر سکتا.کیونکہ خدا تعالیٰ ہماری دعائیں سُنتا اور قبول کرتا ہے اور ایسے حالات میں قبول کرتا ہے جبکہ ظاہری سامان بالکل مخالف ہوں ہیں اور یہی اسلام کے زندہ مذہب ہونے کی بہت بڑی علامت ہے اگر کسی کو شک و شبہ ہے تو آئے اور آزمائے ہاتھ کنگن کو آرسی کیا اگر کوئی ایسے لوگ ہیں جنہیں یقین ہے کہ ہمارا مذہب زندہ ہے تو آئیں اُن کے ساتھ جو خدا کا تعلق اور محبت ہے اس کا ثبوت دیں اگر خدا کو ان سے محبت ہوگی تو وہ مقابلہ میں ضرور اُن کی مدد اور تائید کرے گا ایک کمزور اور ناتوان انسان اپنے پیاروں کو دکھ اور تکلیف میں دیکھ کر جس قدر اسکی طاقت اور ہمت ہوتی ہے مدد کرتا ہے تو کیا انہوں نے اپنے خدا کو ایک کمزور انسان سے بھی کمزور سمجھنے رکھا ہے جو ان کی مدد نہیں کرے گا.اگر نہیں آئیں تاکہ ثابت ہو کہ خدا کس کی مدد کرتا ہے اور کس تو.

Page 307

: PIA کی دُعا سنتا ہے آپ لوگوں کو چاہیئے کہ اپنی طرف سے لوگوں کو اس مقابلہ کے لئے کھڑا کریں لیکن اس کے لئے یہ نہیں ہے کہ ہر ایک کھڑا ہو کر کہہ دے کہ میں مقابلہ کرتا ہوں بلکہ ان کو مقابلہ پر آنا چاہیے جو کسی مذہب یا فرقہ کے کے قائمقام ہوں اس وقت دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا کس کی دُعا قبول کرتا ہے میں دعوئی سے کہتا ہوں کہ ہماری ہی دُعا قبول ہوگی.افسوس ہے کہ مختلف مذاہب کے بڑے لوگ اس مقابلہ پر آنے سے ڈرتے ہیں اگر وہ مقابلہ کے لئے نکلیں تو ان کو ایسی شکست نصیب ہوگی کہ پھر مقابلہ کرنے کی انہیں جرات ہی نہ رہے گی.ہمارا دھوئی ہے کہ اسلام سچا ہے اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب سچے ہیں اس کے فیصلے کا آسان طریق یہ ہے کہ مشاہد کر لیا جائے کہ کونساند مہیب سچا ہے اور جب مشاہدہ ہو سکتا ہے تو پھر کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے لیکن اس میدان میں صرف اسلام ہی کھڑا رہے گا اور ہم اس کا ثبوت دینے کے لئے آج بھی تیار ہیں اور چھوٹی کرتے ہیں کہ خدا تعالے اسلام ہی کی تائید کرے گا.زندہ مذہب فرموده ۳۰ ستمبر شد طبع اول -

Page 308

٣١٩ خاتم بالآخر خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے محبوب قائد سید نا حضرت اقدس المصلح الموعود ميرزا بشرال دين محمود احم لي السيح الثانی ایڈ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو جو خدا تعالی کے ہزاروں نشانوں کا نفیس ترین مرقع اور دورِ حاضر کے عظیم ترین روحانی پیشوا ہیں.بے شمار کامرانیوں اور ظفر مندیوں کے ساتھ اور صحت و توانائی کی لازوال برکتوں سے معمور ایک لمبی عمر عطا فرمائے تا آپ کے مقدس ہاتھوں سے خدا کی آسمانی بادشاہت ہر بیرہ اعظم ہر ملک ہر قوم بلکہ ہر دل و دماغ پر قائم ہو جائے اور دنیا بھر کی حکومتیں کچھ اس شان سے حضرت محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم کو اپنا گورنر جنرل تسلیم کرنے کا اعلان کریں کہ زمین کے ذروں سے لے کر آسمان کے چاند ستاروں تک قرآنی نغموں سے گونج اٹھیں.اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على ابراهيم وعلى آل ابراهيم انك حميد مجيد مختارج دعا خاکسار عبدال)

Page 309

٣٢٠٠ مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ ضلع جھنگ میں ا زیر اہتمام ابو المنیر مولوی نورائی صفا مینجنگ ڈائرکٹر ادارۃ المصنفین طیع ہوا تعداد اشاعت

Page 309