Almehrab1989

Almehrab1989

المحراب

برموقع صد سالہ احمدیہ جشن تشکر 1989ء - 1889ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

ـراب

Page 2

WWW آج سے سو سال قبل حضرت اقدس کے دست مبارک سے تحریر فرمودہ الفاظ بیعت سم اس لحصر الهم محمد رشد ع من الہ کے ان پر اپنے ان نام نامت اور خواب مار روانی سے ان کاری ماواں جنین من شدید تھا.اور امینی اچھی دل او ریکی مادہ سے مہم کا م رہیں کر تبانی که یافته در کجھر ہے اپنی عمر کا اخری دون تک تمام گیامیں ہے بچتا رہوں گا اور یہیں کو دنیا کے اریتموں اور معنی کے لفات پر مستقیم ر گیہوں گا اور میں اپنی گذشتہ کی سنوں کے خداتعالی سے معافی چاہتا ہوں استور اللہ ر ہے استفا اللہ ہے استخف اللہ ہی ان کی نسب و اتوب الیہ رب کی ظلمت جیسے دانترنت بدین کا نور ہے اور اشتہار کے دس سوتان پر مستے الموسع کاربند رہوں گا ونو به خانه الاليف التبويب الد انت.بسم الله الرحمن الرحيم حمدہ ونصلی آج میں احمد کے ہاتھ پہ اپنے ان تمام گنا ہوں اور خراب عادتوں سے تو بہ کرتا ہوں جن میں مبہ تھا اور اپنے بیچے دل اور بچے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے، اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گنا ہوں سے بچھتار ہوں گا اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کے بذات پر مقدم رکھوں گا اور است تہار کی دس شرطوں پر دستی ابوسیع کار بند رہوں گا اور ہمیں اپنے گزشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں."استغفر الله ربي استغفر الله ربي استغفر الله ربي من كل ذنب واتوب اليه..اشهد ان لا اله الا الله وحده تو شريك له و اشهد ان محمد عبده و رسول رب الى ظلمت نفسی و اعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي فانه لا يغفر الذنوب الا انت -

Page 3

اس مجلے میں قال الله قال الرسول اور فرمان حضرت بانی سلسلہ احمدیہ شرائط بیعت سلك عالیه احمدیه عهد لجنہ اماء الله ارشادات حضرت مسیح موعود ارشادات خلفا حضرت مسیح موعود خواتین کو نصائح پیغامات روحانی خزائن ہماری وزیٹر ز بک سے کلام الامام الہامات حضرت مسیح موعود منظومات نامہ ہائے نورانی حضور کے دن رات کی ایک جھلک نئی صدی نئی ذمہ داریاں آٹوگراف بک حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم صاحبہ دخت گرام نواب السته الحفیظ بیگم صاحبہ اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا لجنہ اماع اللہ (ایک تعارف) تاریخ لجنہ اماء اللہ کراچی صدور لجنہ اماءاللہ کراچی یاد رفتگاں قسمت کے شمار خوش نصیب کہ ہم میزبان تھے ان کے عہدیداران لحت کراچی محسنات ناصرات کراچی ماضی، حال تصاویر اور بہت کچھ 4-6 19 ۲۰۰ ۲۵ MY Fr ** لري.46-60 61-63 63-63 A.A 41 1-9-11 111-116 ۱۱۸ - ۱۳۸ ۱۳۷ - ۱۳۹ ۱۴۷۰ - ۱۴۱ ۱۴۴۰۱۵۲ سياس تشكر اداريه اہی سلسلوں کی تقویم شب و روز، قوت کارا رفت را ترقی اور پھیلاؤ کے انداز مرج حابی قاعدوں سے مختلف ہوا کرتے ہیں.انہیں ناپنا یا سیٹنا انسانی قولی سے بالاتر ہوتا ہے.اس حقیقت کو سامنے رکھے کہ ہمارے کام کی نوعیت کا اندازہ کرناممکن ہوگا.جماعت کی بھر پور زندگی کے سوسال اور لجنہ کراچی کے پچاس سال کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالتا کار دارد متھا.جس صورت میں اس وقت (المحراب آپ کے ہا تھوں میں موجو د ہے اس کی تدوین کے پیچھے کتنی مشقت اور معرق ریزی ہے.اس کو تصور میں لاتے ہوئے اس کی کمزوریوں سے صرف نظر کرنے کی درخواست ہے.حسن تو بہر حال آپ کا حسن نظر ہے.کراچی کے مخصوص حالات کی وجیسے مجھے کی تیاری میں قباحتیں آڑے آتی رہیں اور کئی دفعہ ایک ہی قدم پر کھڑے کھڑے دیکھتے کہ کب حالات سازگار ہوں تو اگلا قدم رکھا جائے اور ہی امر باعث تاخیر بھی ہوا.لجنہ کراچی کی تاریخ کا پہلا سود نمیٹر تیار کرنے میں نئی دنیا دریافت کرنے کے مترادف متجر لوں سے گزرنا پڑا.کیونکہ سامنے کوئی مثال موجود نہیں تھی.اب یہ ارادہ ہے کہ توفیق ایزدی لجنہ کراچی کی مغفضل تاریخ مرتب کی جائے تاکہ حین تفصیلات کو بدقت مختصر کر کے پیش کیا ہے اُسے قدرے تفصیل سے سامنے لا کہ آئندہ آنے والوں کے لئے سہولت پیدا کی جائے.وما توفيقي الا با الله العلى العظيم صد ساله احمدیه جشن تشکر پر ہم اپنے قارئین کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتے ہیں اور اپنی اہل قلم معاونات کے تہہ دل سے ممنون ہیں جن کے نتیجہ ہائے فکر ہمارے سود نیمیٹر کی زینت ہیں.خدا تعالیٰ ہماری اس کوشش کو پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھے.(آمین) اس مجلہ کی اشاعت کے مسلہ میں مرزا عبدالکریم بیگ صاحب ، عبیداللہ علیم صاحب ہیں جن معززین کا تعاون حاصل رہا.ان کے داؤد احمد قرشي صاحب : سلطان احمد طاہر صاحب اسمائے گرامی بغرض د عا تحریرہ ہیں جلیب اللہ بٹ صاحب ' طارق محمود بدر صاحب ۴

Page 4

وجب الشكر علينا مادعا لله داع اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ جشن تشکر کے موقع پر اس نے ہمیں تین نوع کی خوشیاں عطا فرمائی ہیں اور ایک کی بجائے تین جو بلیاں نصیب ہوئی ہیں.پہلی خوشی تو یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے قیام پر سو سال گزر چکے ہیں.دوسری خوشی یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی یتزوج وَيُولد له کے سخت حضرت مسیح موعود کے ہاں اس موعود فرزند کی پیدائش پر سو سال پورے ہو گئے ہیں جو مصلح موعود بن کر آسمان احمدیت پر چمکا اور مسیح وقت کی صداقت کا نشان بنا حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا نے بیعت کے لئے جو پہلا اشتہار دیا تھا اس کی تاریخ ۱۲ جنوری شاد ہے.اُسی روز حضرت مصلح موعود کی پیدائش ہوئی گویا کہ سید احمد بہ اور حضرت مصلح موعود کی پیدائش توام ہے تیری خوشی یہ ہے کہ لجنہ اما ر اللہ ضلع کراچی کے قیام پر پچاس سال پورے ہو گئے ہیں.کراچی میں بجز کا قیام تو میں ہوا تھا.اس موقع پر ینہ کراچی کو اپنی پچاس سالہ زندگی میں پی مرتبہ اپنا مجد المحراب شائع کرنے کی توفیق ملی ہے.الحمد لله اللہ تعالے نے نہیں ایک با صلاحیت خاتون امتہ الباری ناصر صاحبہ سیکرٹری اشاعت لجنہ اماء اللہ کراچی کی صورت میں عطا کی ہے.اس مجلہ کی اشاعت کے لئے انہوں نے بہت محنت کی ہے.اللہ تعالیٰ نہیں، ان کی معاونات اور لجنہ کراچی کی تمام کارکنات کی خدمت کو قبول کرے اور خود ان کی جزا ء بن جائے.آئیے ان احسانات خداوندی کا شکر اس رنگ میں کریں کہ نئی صدی کی محراب میں سے گزرنے کا حق ادا کرنے کے لئے جہاں بچوں کی بیح رنگ میں تربیت کریں وہاں خود کو بھی نمونہ بنا ئیں اور خاص طور پر اپنی ان روحانی بیماریوں سے کلی طور پر کنارہ کشی کر لیں جن کی نشاندہی انحصرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے یعنی ناشکری اور نیت - صدسالہ تشکر کے موقع پر اننا شکر کریں کہ ناشکری کے لئے کوئی خلاء ز چھوڑیں کیونکہ جہاں شکر آگیا وہاں ناشکری کا کوئی مقام نہیں.اور غیبت اور پانی کے متعلق حضرت مسیح موعود ( آپ پر رہتی ہو) نے ملفوظات میں فرمایا ہے.ول تو اللہ تعالیٰ کی صندوقچی ہوتا ہے اور اس کی گنجی اس کے پاس ہوتی ہے کسی کو کیا خبر کہ اس کے اندر کیا ہے.تو خوامخواہ اپنے آپ کو گناہ میں ڈالنے کا کیا فائدہ ؟؟؟ آخر میں اس موقع پر میں حضرت مسیح موعود در آپ سلامتی ہوا کا ایک پیغام حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی زبانی پیش کرتی ہوں.آپ فرماتی ہیں.دو میں نے ایک خواب کافی عرصہ پہلے دیکھا تھا...چونکہ وہ خواب ایک پیغام تھا حضرت مسیح موعود را آپ پر سلامتی ہو گا.اس لئے تحریر کرتی ہوں ہیں نے دیکھا کہ گویا میں حضرت اقدس سے مل کر آرہی ہوں.اور آپ نے جو فرمایا ہے چاہتی ہوں کہ مسنا دوں.آگے بڑھ کر دیکھا کہ ایک خاتون کھٹڑی نہیں ہیں پاس گئی اور ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ حضرت مسیح موعودار آپ پر سلامتی ہو نے فرمایا کہ اگر کسی فرد میں ذاتی کمزوریاں ہوں اور کوئی غلطی بھی اس سے ہو جائے تو اگر اس میں ایمان اخلاص اور محبت ہے تو پھر خدا اپنا موتی کیچڑ میں پڑا نہیں رہنے دے گا.یہ کہ کرمیں دیکھتی ہوں کہ جہاں درد خانون کھڑی ہیں ان کے سامنے ہی بالکل قریب کیچڑ پڑا ہے میں نے جھک کر اس کیچڑ میں ایک موتی چپک دیکھا اور اٹھالیا.بالکل صاف ستخصہ انہایت چمکدار مچا موتی تھا.میرے ہاتھ کو مئی تک نہیں لگی میں نے وہ موٹی تھیلی پر رکھ کر ان کی طرف بڑھایا اور کہا اس طرح یعنی غلطی اور کمزوری کے با وجود اگر ایمان و اخلاص و محبت ہے تو اللہ تعالی کا موتی کیچڑ میں پڑا نہیں رہ سکتا ہیں نے سوچا اچھا ہوائیں نے یہ بات ان تک پہنچا دی.اور حقیقت یہ ہے کہ ایمان حقیقی سے محبت پیدا ہوتی ہے اخلاص پیدا ہوتا ہے.مگر ایمان کی جڑی بھی محبت کے پانی سے بھی مضبوط ہوتی ہیں اور ایمان اور اخلاص سے بھی نیچے ایمان کا درخت بچھونا پھلتا ہے اخلاص اور محبت کی پختہ زنجیردہ زنجیر ہے جو ایمان سے مل کر ایسا بندھن بن جاتی ہے کہ کوئی شیطانی طاقت کسی رنگ میں آئے کسی صورت میں آئے پورا زور لگے لے مگر اس بندھن کو نہیں توڑ سکتی ہرگز ہرگز نہیں توڑ سکتی." تاریخ لجنہ اماء الله جلد سوم ) اللہ تعالٰی جماعت احمد کے تمام افراد کو جوالہ تعالی کے انمول موتی ہیں.اپنی حفاظت میں رکھے ایمان اخلاص اور حبت میں ترقی دے اور اپنی رضا کی نیتوں کا دار بنائے.آمین والسلام

Page 5

قال الله تعالى حيوانات بسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمُ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُتِينَ رَسُوْلًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِه ويزيهمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والحكمة نَوَ إِن كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَالِ تيْنِ وَأَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.ترجمه ( سورۃ جمیعہ آیت ۴۰۳ ) وہی خدا ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اسی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا رجو با وجود ان پڑھ ہونے کے) اُن کو خدا کے احکام سُناتا ہے اور اُن کو پاک کرتا ہے.اور اُن کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے.گو وہ اس سے پہلے بڑی بھول میں تھے.اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ اس کو بھیجے گا جو ابھی تک اُن سے ملی نہیں اور وہ غالب را در حکمت والا ہے.

Page 6

501- قَالَ الرَّسُول الالم وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكُنَّ أَنْ يَنزِلَ فِيْكُمْ إِبْنُ مَرْيَمَ حَكَما عَدْلًا فَيَكْسِرُ الصليب ويقتل الخنزير ويضع العرب اسے بخاری مطبع مجتبائی کتاب ید الخلق باب نزول عیسی بن مریم) ترجمہ ، مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں ضرور مضر در سیح ابن مریم نازل ہوگا جو حکم د عدل ہن کر تمہارے اختلافات کا فیصد کریگا اور وہ صلیب کو توڑ کے رکھ دیگا اور خنزیر کو قتل کرے گا اور جنگ کو موقوف کردے گا.فرمان حضرت مسیح موعود نوراله مرقده " قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں.کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں.میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میکہ لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے اور آسمان پر ایک جوش اور اُبال پیدا ہوا ہے جس نے ایک متلی کی طرح اس مُشتِ خاک کو کھڑا کر دیا ہے.سر یک وہ شخص جس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں عنقریب دیکھ لے گا کہ میں اپنی طرف سے نہیں ہوں.کیا وہ آنکھیں بینا ہیں جو صادق کو شناخت نہیں کر سکتیں.کیا وہ بھی زندہ ہے جس کو اس آسمانی صدا کا احساس نہیں “ (ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد ۳ ص ۴۰۳)

Page 7

سوم رسے گا.شرائط بیعت سلسلہ عالیہ احمدیہ اشتهار تکمیل تبلیغ وار جنوری ۶۱۹۸ تحریر فرموده حضرت مسیح موعود و مہدی معہود اول بیعت کننده سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت ہیں کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب دوم یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بد نظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بنادت کے طریقوں سے بچتا رہے گا.اور نفانی ہوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہو گا.اگر چہ کیا ہی جذبہ پیش آئے.یه که بلاناغ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا.اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا سر روزہ در دنیا ئے گا.چهار در یہ کہ عام خلق اللہ کو عموما او مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.پنجم یہ کہ ہر حال رنج و راحت اور غیر اور ٹیسر اور نعمت اور بلاہ میں خدا تعالے کے ساتھ وفاداری کرے گا.اور بہر حالت راضی بقضاء ہوگا.اور ہریک ذلت اور ڈکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا.اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اُس سے منہ نہیں میرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.شتم یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو ابھی اپنے سر پر قبول کر لے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے سر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.ہفتم یہ کہ تکبر اور نخوت کو لیکلی چھوڑ دے گا اور فروشنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور سکینی سے زندگی بسر کرے گا.هشتم یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر کر یہ سمجھے گا.نہم یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.دھم یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض الله با قرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا.اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی منظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.

Page 8

عهد لجنہ اماء الله اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.تیں اقرار کرتی ہوں کہ اپنے مذہب اور قوم کی خاطر اپنی جان و مال، وقت اور اولاد کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گی اور سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی اور خلافتِ احمدیہ کے قائم رکھنے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہوں گی.“

Page 9

ارشادات عالیہ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ہمارا مذہب زعشاق فرقان د پیغمبریم بدین آمدیم و بدین و بگذریم ، ہمارا " ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله.اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں، جس کے ساتھ ہم لفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالمی گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولنا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے ، اور ہم نچت یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سمادی ہے ، اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام در احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور نہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہوسکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تیغ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغیر کر سکتا ہو.اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملجد اور کافر ہے ، اور سمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنیٰ درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بیجز اقبت راہ اس امام الرسل کے حاصل ہوسکیں، کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے." (ازالہ اوہام حصہ اول ص ۱۳، ۱۳۵)

Page 10

میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اہم حضرت کی موجود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مهدی معبود نورالله مرقده

Page 11

-1 ہمارا مذہب کیا ہے حضرت خلیفة المسیح الاول نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں : ہمارا مذہب کیا ہے ؟ مختصر عرض ہے.اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و اشهدان محمد أعبده ورسوله.للہ تعالی تمام صفات کا ملہ سے موصوف اور ہرقسم کے عیب و نقص سے منزہ ہے.اپنی ذات میں یکتا اور صفات میں بے ہمتا ، اپنے افعال میں لیس کمثل اور اپنے تمام عبادات میں وحده لا شريك د.لانکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور ان پر ایمان لاہد ہے.تمام کتب الہیہ تمام رسولوں اور نبیوں حضرت محمد صل اللہ علیہ و ستم الکی والمدنی محمد بن عبد الله ابن آمنہ خاتم النبین رسول رب العالمین میں اور آپ پر جو کتاب نازل ہوئی.کیا معنی اس پر اور ان تمام چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے.قرآن کریم بلا تختلف و تبدیل دکھی و زیادتی کے اسی ترتیب موجودہ پر ہم کو حضرت نبی کریم سے پہنچا.تقدیر کا مسئلہ حق ہے کہ اللہ تعالی کو تمام اشیاء جو ہیں اور ہو ہوں گی اور جو ہو چکیں سب کا اتم و اکمل طور پر علیم ہے جزئیات کا بھی وہ عالم ہے.نیکی کا ثمر ہ نیک اور بدی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے.جیسا کوئی کرتا ہے ویسا ہی پاتا ہے.يعفو عن كثیر لبعد الموت نفس کو بقا ہے.قبر سے لے کرحشر ، نشر، صراط جہنم ، ہشت کے واقعات جو کچھ قرآنِ کریم اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ، سب صحیح ہیں.صحابہ کرام کو ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے معاویہ ومغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ تک کسی کو بڑا نہیں کہتے اور نہ دل میں ان کی نسبت بد اعتقاد ہیں.اہل بیت کو بدل اپنا محبوب و پیارا یقین کرتے ہیں.تمام بیدیاں حضرت نبی کریم کی حضرت عائشہ ندیم سے لے کر اور تمام خاندان نبوت علی نبی اللہ تعالی عند اور ایم حسن سبط اکبر اور اور اہم حسین سبط اصغر شہید کربلا اور ان کی والدہ بتول زمبر اسیده النساء اہل الجنتہ سب کو اللہ تعالی کا برگزید گردہ بدل یقین کرتے ہیں.صلواة الله وسلام عليهم اجمعين د اقتباس از مکتوب بنام ایڈیٹر رسالہ البیان ماہ ستمبر) ۱۲

Page 12

چه خوش بودے اگر ہر یک ترامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقین بودے الحاج حضرت حکیم مولوی نور الدین بھیروی خلیفہ المسیح الاول نور الہ مرقده

Page 13

دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا ہی ہے حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں سب سے پہلے اس ازلی ابدی ماخذ علوم کا شکریہ ادا کر تا ہوں جس سے سب علوم رکھتے ہیں اور جس کے باہر کوئی علم نہیں.وہ علیم وہ نور ہی سب علم بخشتا ہے.اُس نے اپنے فضل سے مجھے قرآن کریم کی سمجھ دی اور اس کے بہت سے علوم مجھے پر کھولے اور کھولتا رہتا ہے.سبحان الله والحمد لله ولا حول ولا قوة الا بالله دوسرا ماخذ قرآنی علوم کا حضرت محمد مصطفے صلی الہ علیہ وسلم کی ذات ہے.آپ پر قرآن نازل ہوا اور آپ نے قرآن کواپنے نفس پر دارد کیا جتنی کہ آپ قرآن مجسم ہو گئے.آپ کی ہر حرکت اور آپ کا ہر سکون قرآن کی تفسیر تھے.آپ کا ہر خیال اور مر ارادہ قرآن کی تفسیر تھا.آپ کا ہر احساس اور ہر مرد یہ قرآن کی تفسیر تھا.آپ کی آنکھوں کی چمک میں قرآنی نور کی بلیاں تھیں اور آپ کے کلمات قرآن کے باغ کے پھل ہوتے تھے.ہم نے اس سے مانگا اور اس نے دیا.اس کے احسان کے آگے ہماری گر نہیں خم ہیں.اللهم صل علی محمد وعلى آل محمد وبارك وسلم انك حميد مجيد پھر اس زمانے کے لئے علوم قرآن کا ماند حضرت مرزا غلام احمد سیح موعود اور مہدی مسٹو کی ذات ہے میں نے قرآن کے بلند و بالا وخت کے گردے جھوٹی روایات کی اکاس بیل کو کاٹ کر پھینکا اور خدا سے مدد پا کر اسی منبتی درخت کو سینچا اور پھر سرسبز و شاداب کرنے کا موقع دیا.الحمد یہ ہم نے اس کی رونق کو دوبارہ دیکھا اور اس کے پھل کھائے اور اس کے سائے کے نیچے بیٹھے مبارک وہ جو قرآنی باغ کا پانیاں بنا.مبارک و جیں نے اسے پھر سے زندہ کیا اور اس کی خوبیوں کو ظاہر کیا.مبارک وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا اور خدا تعالیٰ کی طرف چلا گیا.اس کا نام زندہ ہے اور زندہ رہے گا.مجھے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علوم سے بہت کچھ دیا اور حق یہ ہے کہ اس میں میری فکر یا میری کوشش کا دخل نہیں وہ صرف اس کے فضل سے ہے مگر اس قتل کے جذب کرنے میں استاذی المکرم مولوی تورالدین صاحب خلیفہ المسیح الاوّل کا بہت حصہ ہے پھر اے پڑھنے والو میں آپ کہتا ہوں قرآن پڑھنے پڑھانے اور عمل کرنے کے لئے ہے ایس ان نوٹوں میں اگر کوئی خوبی پاؤ تو نہیں پڑھو، پڑھاؤ اور پھیلاؤ عمل کرد عمل کراؤ اور عمل کرنے کی ترغیب دو یہی اور یہی ایک سیلو دین حق ناقل کئے وہاڑا جیاء کا ہے.احیاء کا ہے.اسے اپنی فانی اولاد سے محبت کرنیوالواو خدا سے ان کی زندگی چاہنے والوکی ان تعالی کی اس ادگار اور اس حصہ کی روحانی زندگی کی کشش میں حصہ نہ لو گے تم اس کو زندہ کر دو ہم کو اور ہماری نسلوں کو ہمیشہ کی زندگی بنے گا.اٹھو کہ ابھی وقت ہے.دوڑو کہ خدا کی رحمت کا دروازہ ابھی کھلا ہے.اللہ تعالی آپ لوگوں پر بھی رحم فرمائے اور مجھے پر بھی کہ ہر طرح بے کی ہے ہیں اور پر سکتہ ہوں.اگر مجرم بنے بغیر اس کے دین کی خدمت کا کام کر سکوں تو اس کا بڑا احسان ہوگا.یاستار با غفار ارمنی با ارحم الراحمین بر مشک استلغیت مرزا محمد احمد (دسمبر ۱۹۴۰ء) (دیباچه تفسیر کبیر جلد سوم ) ۱۴

Page 14

فرزند دلبند گرامی ارجمند اینگونی صله مورد الحاج حضرت مرزا بشیر الدین محمداحمد خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقده

Page 15

اعلان جهاد حضرت خلیفہ السبیع الثالث نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں.میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑا ہو کر اور ہر گھرانے کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا کرتا ہوں اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پرہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوششوں کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہو گا، وہ یہ یاد رکھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے.وہ اس طرح جماعت سے نکال کہ باہر پھینک دیا جائے گا جس طرح دودھ سے لکھی.پس قبل اس کے خدا کا عذاب کسی قہری رنگ میں آپ پر وارد ہو یا اس کا قہر جماعتی نظام کی تعزیر کے رنگ میں آپ پر وارد ہو اپنی اصلاح کی فکر کرو اور خدا سے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کے ایک لحظہ کا عذاب بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ نہیں اور عمریں قربان کر دی جائیں اور انسان اس سے بچ سکے تو تب بھی وہ سودا مہنگا سودا نہیں ستا سودا ہے.میں ہر احمدی کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے اللہ تعالے کے منشاء کے مطابق اور جماعت احمدیہ میں اس پاکیزگی کو قائم کرنے کے لئے جس پاکیزگی کے قیام کے لئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے، ہر باعت اور بد رسم کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ سب میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہوں گے اور اپنے گھروں کو پاک کرنے کے لئے شیطانی وسوسوں کی سب راہوں کو اپنے گھروں پر بند کر دیں گے.“ (خطبه جمعه ۲۳ جون شاه) 14

Page 16

محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفہ ایسیح الثالث نور اللہ مرقده

Page 17

ہم فیصلہ کر چکے ہیں حضرت خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.یہ بات جانتی چاہیے کہ اسلام کی ابتداء کلمہ طیبہ سے ہوئی اور اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ دوستم نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور آپ نے کلمہ طیبہ کی خاطر اور آپ پر ایمان لانے والوں نے ان گنت قربانیاں دیں اسی راہ ہیں.اور اس کلمہ طیبہ کی خاطر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے پر خطر قربانیاں پیش کیں اور نکالیف اُٹھائیں.اسلامی دنیا کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ کلمہ طیبہ کی توہین کا منظر ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھتی رہے گی ؟ یہ اتنا خطرناک جرم ہو گا کہ اگر انہوں نے اس کے خلاف اپنی آواز بلند نہ کی اور کلمہ طیبہ کی توہین کرنے والوں پر برملا علامت کا اظہار نہ کی خواہ کلمہ کے دشمن پاکستان میں یا کسی دوسری جگہ پر ہوں تو وہ خدا کی سزا سے ہرگز نہیں بچ سکیں گے.“ ا خصوصی پیغام تحریر فرموده به ر جنوری ۹۵ ) " آج خدا کی تقدیر نے کلمہ کی حفاظت کا کام ہمارے سپرد کر دیا ہے ، ہمارے سپرد کر دیا ہے اور ہمارے سپرد کر دیا ہے.اور کلمہ کو مثانے کی ناپاک اور منغوس ذمہ داری تمھارے اوپر (پاکستان میں دشمنان احمدیت.نافل) ڈالی گئی.لیکن ہم فیصلہ کر چکے ہیں.خدا کی قسم ہمارا بوڑھا اور بچہ اور ہماری عورت ہیں اور جوان اور کسن سارے ہی اس عہد پر ہمیشہ قائم رہیں گے.کلمہ توحید کی ہم حفاظت کریں گے اور کلمہ توحید کو نہیں ملنے دیں گے، نہ ظاہر میں نہ باطن ہیں.کوئی نہیں ہے جو کھے سے وابستگی کا حق ہم سے چھین سکتا ہو.ہم یہ پسند کریں گے کہ ہمارے وجود مٹا دیئے جائیں لیکن یہ نہیں پسند کریں گے کہ کلمہ توحید کو دنیا سے نا پید کیا جائے.ر خطبه جمعه فرموده ار جنوری ۱۹۹) (A

Page 18

قدرت ثانی کے مظہر رابع حضرت مرزا طاہر احمد خليفة اسم الرابع ايده ال تعالى بنصره العزيز

Page 19

خواتین کو نصائح از حضرت مسیح موعود و مہدی معہود عورتوں کی خراب عادت ہے کہ وہ بات بات میں مردوں کی نافرمانی کرتی ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر اُن کا مال خرچ کر دیتی ہیں اور ناراض ہونے کی حالت میں بہت کچھ بُرا بھلا اُن کے حق میں کہہ دیتی ہیں ایسی عورت میں اللہ اور رسول کے نزدیک لعنتی ہیں ان کی نماز روزہ اور کوئی عمل منظور نہیں.اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہوسکتی جب تک پوری پوری اپنے خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے اور دلی محبت سے اس کی تعظیم نہ سجا لائے اور لیس پشت یعنی اس کے پیچھے اس کی خیر خواہ نہ ہو اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار رہیں ورنہ اُن کا کوئی عمل منظور نہیں اور نیز فرمایا ہے کہ اگر غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں حکم کرتا کہ عور نہیں اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بد زبانی کرتی ہے یا اہانت کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے اور حکم ربانی سن کر پھر بھی باز نہیں آتی تو وہ لعنتی ہے.خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں.عورتوں کو چاہیے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چھکرا دیں اور نامحرم سے اپنے تئیں بچا دیں اور یاد رکھنا چاہیے کہ بغیر خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور جیتنے مرد ہیں ان سے پردہ کرنا ضروری ہے جو عورت میں نامحرم لوگوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ساتھ ہے.خاکسار غلام احمد از قادیان منقول از الحکم جلد ۴ نمبر ۲۲ مورخه دار جولائی سنشده

Page 20

په پیغام حضرت صاحبزادہ مرزا طاهر احمر دماب خلیفة المسیح الرابع امام جماعت احمدیہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ اللہ تعالیٰ آپ سب کے اخلاص کو بڑھائے اور جس عمل کے لحاظ سے آپ کے قدم تیزی سے آگے بڑھیں.صد سالہ جشن تشکر اور احمدیت کی نئی صدی مبارک ہو.اللہ کرے کہ آنہ نسلیں آج کی ماؤں پر ان کی اچھی تربیت کی وجہ سے فخر کریں اور آج کی بچیاں کل کامیاب مائیں بن کہ آپ کے لئے مزید روحانی بلندیاں حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں تمہیں اولاد کے سلسلہ میں جہاں آپ یہ کوشش کریں کہ آپ کی نسل کی ساری نیکیاں اگلی نسل میں پیوستہ ہوں اور آگے چلیں، وہاں وقتاً فوقتاً جو بکریاں لوٹ آتی ہیں، ان پر ہمیشہ کڑی نظر رکھیں اور وقتاً فوقتاً ان کی بیخ کنی کا پورا انتظام ہونا چاہیئے.ایک عورت بہتر جانتی ہے کہ گھر کی ایک دن بھی صفائی نہ کی جائے تو گھر کا حلیہ بوگانا شروع ہو جاتا ہے.پاکستان میں تہذیب الیسا رخ اختیار کر رہی ہے کہ عورت کی حیاء پر حملہ ہو رہا ہے.اور بالعموم عورتیں کہ دو سے باہر ہی نہیں نکل رہیں بلکہ اسلامی پردے کی رُوح سے بھی تعلق توڑ رہی ہیں.اگر نصیحت کریں تو آگے سے جواب دیتی ہیں کہ چادر اوڑھی ہوئی ہے اور اپنا خیال رکھ رہے ہیں.ایسے موقعہ پر نصیحت کرنے والا بھی خواہ مخواہ ضرورت سے زیادہ دل برداشتہ ہو جاتا ہے اور نصیحت سے ہاتھ اُٹھا لیتا ہے.یہ رد عمل بھی درست نہیں.کوئی بات مانے یا نہ مانے، آپ ہمدردی اور پیار و محنت سے سمجھاتی چلی جائیں، سمجھاتی چلی جائیں.یہاں تک کہ خدا کی تقدیر نصیحت کا اجتماعی اثر ظاہر فرمادے جو بعض دفعہ مہینوں کی نصیحت کے بعد یکدم غالب آجایا کرتا ہے اور یہی.فَذَكِرْ اِن نَفَعَتِ الذِّكرى - کا مضمون ہے.اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ پاک باطن دلوں نے ادھر بنا اور ادھر قبول کیا.لیکن مزاج مزاج میں فرق ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کی بعض نصائح جو گرد و پیش پر فورم اثر اندازہ نہ ہو سکیں انہوں نے بعد میں دل کی کایا پلٹ دی.یقیناً احمدی خواتین پر آئندہ نسلوں کی زندگی کا انحصار ہے اور خاندانوں کی تخمین کا تحفظ ہے.اگر یہ نہ ہوا تو جگراتے ہوئے معاشرہ کے بہاؤ میں خدانخو است بعضی احمدی عورتیں بھی بہر جائیں گی اور ان کی تمام نیک صفات اس تہذیب نو کے سیلاب میں غرق ہو جائیں گی.ہیں توازن قائم رکھتے ہوئے، انکسار و محبت اور دعاؤں سے نہ کہ طعنہ آمیزی کرتے ہوئے، اس ہم کو ہمیشہ جاری رکھیں اور جب بدلیوں کو واپس آنا دیکھیں تو ہرگز ایوس نہ ہوں.کبھی اپنے گھر میں بھی آپ نے ایسا کیا ہے کہ گند کو دوبارہ پیدا ہوتے دیکھ کر صفائی سے ہاتھ کھینچ لیا ہو.اللہ تعالے بینہ کراچی کو دنیا و آخرت، ہر لحاظ سے سنوار سے رکھے اور دونوں جہاں کی نعمتوں سے نوازے.بہنوں کو سلام اور بچیوں کو پیار دیں.سب کوئی صدی مبارک ہو.والسلام خانکار خليفة الي الرابع

Page 21

به پیغام حضرت مریم صدیقہ صاحبہ مدظلها العالی صد الجنہ اماءاللہ پاکستان لجنہ اماءاللہ کراچی صد سالہ جین تنش کر کے موقع پر ایک مجلد شائع کر رہی ہے جس کا نام المحا سے رکھا گیا ہے.عربی میں محراب گھر کے بہترین حصہ کو کہتے ہیں.محل ہے" کے نام سے مجلہ شائع کرنے کا مطلب ہے کہ آپ بہترین دور میں داخل ہو ر ہی ہیں.اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان اور فضل ہے کہ اس نے ہمیں یہ مبارک دن دکھایا کہ جماعت پہلی صدی ختم کر کے دوسری صدی بعد انشاء اللہ خلیہ کی صدی ہوگی میں داخل ہو چکی ہے.سے کیا ر فتح السلام ) سلام ان عظیم ہستیوں پر جنہوں نے پہلی صدی میں مہدی کو پہچان لینے کی وجہ سے ہر قسم کی سختی ہیں.دکھ اور آزار اٹھائے.انواع و اقسام کے مصائب کا سامنا کرنا پڑا.آزمائشیں آئیں مگر وہ اللہ تعالے کے وفادار بندے ثابت ہوئے اور خدا تعالی کی نگاہ میں صادق اور راست باز مظہر ہے.آنے والی نسلیں ان پر کہ شک کریں گی.اب آپ دوسری صدی میں داخل ہو چکی ہیں حضرت بانی امسال احمدیہ نے خدا تعالے سے بشارت پا کر جماعت کو بشارت دی تھی.سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اسی نازندگی اور رینی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ چڑھے گا، جیسا کہ پہلے پڑھے چکا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کر لیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک ندیہ مانگتا ہے وہ کیا ہے ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور نہ ندہ خدا کی تیلی موقوف ہے ، پس میری بہنور بنی صدری ہمارے لئے بھاری ذمہ داریاں لارہی ہے للہ تعالی کا بھی ارشاد ہے کہ انسان کو چاہئیے دیکھتار ہے کہ اس نے کل کے لئے کیا تیاری کی ہے لیس ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہم نے اپنے آپ کو اپنی اولاد کو یہ ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے تیار کیا ہے یا نہیں.اگر نہیں تو آپ کے لئے لمحہ فکریہ ہے.دہی اہم زندہ رہ سنتی ہے جس کی انگلی نسل پہلی نسل کے کام کے تسلسل کو جاری رکھ سکتے ہیں ہمارے قدم رکیں نہیں چلتے جائیں بڑھتے جائیں اور اپنے ساتھ اگلی نسل کو بھی لے کر چلیں.ان کے دلوں میں دین کے لئے غیرت اللہ تعالے سے پایہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق پیدا کریں.دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جدہ یہ پیدا کریں.للہ تعالے کا بے حد شکر ادا کریں کہ اسنے یہ مبارک دن دکھائے خوشی ہم پر نیند طاری نہ کر دے بلکہ زیادہ چست کر دے.یہاں تک کہ محنت در جانفشانی سے ہمارے جگہ خون ہو جائیں.دعائیں کر یں کثرت سے کہ قربانیوں کی توفیق بھی اس کے فضل کے بغیر نہیں ملتی.دعائیں کریں کہ ختراں کا دور بہار سے بدل جائے او نسیم عنایات یاد سے پھر چلنے لگ جائے.آمین اللهم آمینے.ریم والقه صور بند لائم فکر به

Page 22

پ پیغام حضرت سیدہ بشری بیگم مہر یا صاحب مد ظله العالی مجھے یہ پڑھ کر انتہائی خوش ہوئے کہ میں اس مبارک موقع صدسالہ پر کراچی لجنہ کی برداری دوان ساعت آج پچاس سالہ جو بھی کا حین عکس لے کہ تمام مخلصین کو اپنے عظیم الشارت جدوجہد کا صلہ ابدی جنتو اس کی دعوت و بشارت کا مخلصانہ اشارہ دے رہتے ہے.اَلحَمدُ لِله عَلى ذالك.خدا کرے آپ کی تمام مشات تگ ورد است سے بھی بڑھ کر روان دوات رہے اور آنے والی نسلیت اس سے ڈگر یہ سمر چلے کہ ابدی اور لازوال نعمتورت کی وارث نہی ہے.تا قیامت بسلسلہ چلتا ر ہے.آمین استے مبارک صد سالہ تقریب پر آپ کو اپنا مجلہ " " ہر جہت سے باعث برکت اور حقیقی معنوان میں مثمر بہ ثمرات محسنہ بنائے.یہ ایک ایسی روش مشعل ہو جو گرا ہوات کو صراط مستقیم کھائے ہو بھٹکے ہوڈ کیسے رہنمائی کرے تو روحانی جسمانی دُکھ درد کا مداوا بن جائے."المحارب" اپنے اندر وہ روحانی طاقت رکھے کہ ارض عقلمندوت کو جو خدا تعالیٰ کی ذات باریت پر بھی ایمان نہیں رکھتے.الہ سے زندہ خدا اور پھر خدا تعالے کی عظمت کا اعتراف بیانگ رہاہے کہ رائے.میری ھے کہ عا ہے کہ اللہ تعالی کرے آپ کی یہ تخلیق سب سے بلا امتیازہ اپنا لوہا منوائے اور ہماری لجنہ کو ہر عمبر اپنی پیدائش کھتے عرض و غایت اور اس راہ کی جدوجہد کو اپنا شعار بنائے ہوئے رات داخے اپنے مقصدیہ اعلان کے حصوات کی فکر میں کو شات رہے.اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہے.آمین ۲۳

Page 23

پیغام مکرم محترم مر چودھری احمد مختار صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی اللہ تعالی کا کس قدر فضل و کرم ہے کہ ہم نے ایک ایسا زمانہ پایا ہے جس میں اخلاق و اقدار اسلامی کے اجاگر ہونے کا دور پھر سے شروع ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے پیدائش انسانی کو مرد و عورت میں تقسیم کر کے مختلف قومی اور استعدادیں عطا فرمائیں لیکن مقصد حیات دونوں کا ایک ہی قرار پایا یعنی مقام عبودیت کا حصول اور اس کی رضا پر راضی رہنے کی جنت.ان دونوں کو اس کام کے لئے تیار کیا کہ ابتدائی طور پر دنیاوی زندگی میں ایک اعلیٰ معاشرے کو قائم کریں جو اس حیات میں ایک جنت کا نمونہ ہو.دور انسانی کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا یا آدم اسکن انت و زو جک الجنته یعنی تم دونوں اس جنت میں اکھٹے رہو یا اکھٹے رہو گے تو یہ جنت جنت رہے گی.ان اقدار کو قائم کرنے کے لئے فرمایا کہ هن لباس لكم و انتم لباس لهن جس طرح لباس انسانی بر جنگی کی پردہ پوشی کرتا ہے بدن کی کمزوریوں اور عیوب کو چھپاتا ہے سردی و گرمی کے اثرات یعنی افراط و تفریط سے محفوظ رکھتا ہے اور زیبائش کا موجب ہوتا ہے اسی طرح تم ایک دوسرے کے لئے لباس بنو گے تو وہ جنت پیدا ہوگی جس کو رہائش و آسائش کے لئے اللہ تعالٰی نے ودیعت کیا ہے اور جب یہ ماحول پیدا ہوتا ہے تو ہر گھر ارد گرد کی آلائشوں سے پاک ایک جنت کا نمونہ بن جاتا ہے.اس زندگی میں بقائے اقدار انسانی کے لئے بڑی ذمہ داری مشیت الہیہ نے عورت پر ڈالی ہے جو تقویٰ کی راہوں پر چل کر اپنی اولاد کو لانکہ اللہ بنادیتی ہے اور ان کے گرد و پیش ایک جنت بنا کر دکھا دیتی ہے.جب ہی تو محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے.بہت بڑی ذمہ داری ہے اپنے ماحول کو جنت نما بنانے کی لیکن جب تک اولاد اس جنت کو دیکھ نہیں پائے گی اپنی ماں کے قدم بوس نہیں ہوگی.اے پیاری عزیز بھٹو.آؤ ہم اپنے آقا سید و مولی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم سے عہد وفا کی تجدید کریں اس عزم کے ساتھ کہ ہمیں اس ماحول میں اس جنت کو پیدا کرتا ہے جس سے انسانیت پھر کبھی باہر نہ نکالی جائے اور اس کے قیام سے ہم نے اخروی حیات کی جنت کا انعام پانا ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ.این است کار دل اگر آید میترم خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین یا رب العالمین.خاکسار شار ۲۴

Page 24

پیغام السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاته مکرم محترم جناب عبد الرحیم بیگ حساب نائب امیر جما الحبة ضلع کراچی یہ امر خوش آئند ہے کہ لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی صد سالہ جنین تشکر کے موقع پر ایک سو دیر " المحر اب شائع کر رہی ہے.اس طرح ایک نئی روایت کی طرح ڈالی ہے نقوش ثانی کتنے بھی حسین ہوں نقش اول کی اہمیت اپنی جگہ مسلم رہتی ہے.حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ اور حضرت آ ، اسمعیل علیہ السلام کی والدہ ماجدہ تھیں.ایک تنہا عورت مکہ کی غیر ذی زرع بے آب و گیاہ وادی میں جہاں کوئی متنفس بحیثیت مددگار موجود نہ تھا اپنے ننھے معصوم بچے کو گودر میں لئے ہوئے، تو کل علی اللہ کی مجسم تصویر بن کہ اپنے شوہر نامدار کہ طمانیت سے دلاسہ دیا.اگر خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر چھوڑ کر جارہے ہیں تو گھبرائیے نہیں وہ ہمیں ضائع نہ کرے گا ؟ تاریخ گواہ ہے کہ اس جرات مندانہ سوچ کو خدا تعالے نے پسند فرمایا.مگر اور تاریخ اسلام اس پیج کا در خدمت اور پھل میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کی تربیت کا فرض ایک تنہا عورت نے ادا کیا.مرد کی سرپرستی میٹری بھی یہ بچہ نبی بنا اور عدیم المثال نبی کا جد امجد بنا.حضرت مریم معنی اللہ تعالی عنہا والدہ مکرمہ حضرت عیسی علیہ السلام ہمت اولو العربی اور اخلاق وکردار کے تیورات سے آراستہ خدا رسیدہ خاتون تھیں.اپنے پرائے کی نظروں میں مشکوک کردار واخلاق کا بارہ اُٹھائے ہوئے محض اللہ تعالے پر توکل کے سہارے اپنے معصوم بے گناہ بیچنے کی تربیت میں مصروف رہیں.اُن کو اعلیٰ کردارہ کے جواہرات سے سجایا.اُن کو ایسے یقین سے نوازا جو قدم قدم پر اُن کا رہنا رہا.حضرت مریم رضی اللہ تعالی عنہا کو بچے کی تعلیم و تربیت میں کسی مرد کی سرپرستی حاصل یہ بھتی.یہ بچہ بڑا ہوکر بنی بنا مسیحا بنا.حضرت خدیجتہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا زوجہ محترمہ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ایک برد بار فہمیدہ خاتون تھیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غار حرا سے واپسی پر شکستہ اور ماندہ دیکھا تو بڑے یقین سے حوصلہ دیا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں.کسی کا حق نہیں مارتے خدا آپ کو ضائع نہیں کرے گا.خدا تعالے کے پاک نبی کو نئی توانائی کا احساس ہوا.اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ ریل استعالی تنہا اور دوسری ازواج مطہرات نے بڑی ذمہ داری اور پیار سے گھر یلو سکون کی فضا قائم رکھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت کی تربیت و اصلاح اور اسلام کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتے رہے.اسلام جب حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کے دور میں داخل ہوا تو خواتین کا کر دار قرون ادی کی خواتین ہے کسی طرح کم نہ تھا.حضرت نصرت جہاں بیگم نور اله مرقد ا حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو، کی صحیح معنوں میں بہترین ہمد رد ساختی ثابت ہوئیں.صاحبزادہ عبد اللطیف شہید نور اللہ مرقدہ کی بیگم صاحبہ نے شوہر کو طمانیت کے احساس سے جام شہادت پہیلینے کا حوصلہ دیا آج احمدیت ایک آزمائش سے گزر رہ ہی ہے.خواتین کئی مواقع پر مردوں کا دست راست بن رہی ہیں.انہیں بشاشت سے قربانی کرنے کا جذبہ و ولولہ دے رہی ہیں.شوہروں کی شہادت اور اسیری کا دُکھ سہہ کر حوصلے سے بچوں کی تربیت کہ رہی ہیں.تاریخ ان زہریں مثالوں کو بڑے پیالہ سے چن چن کر اپنے ماتھے کی زینت بنائے گی.کراچی لجنہ کی میرات بھی ایک نئی تاریخ لکھ رہی ہیں نامساعد حالات اور محدود وسائل کے باوجو د مستقل مزاجی حوصلہ اور غرورم ہمت کے ساتھ اپنے مشن کو منزل مقصود بناتے ہوئے جو انقلابی کام شروع کر رکھے ہیں وہ بلاشبہ قابل مبارک بار ہیں.یہ شالیں آنے والی نسلوں کو قرون اولیٰ کی باہمت خواتین کی یاد دلاتی رہیں گی.اللہ تعالے ان کوششوں کو ثمر بار کرے.آمین یا رب العالمین عدد (عبد الرحم ہیں) الرمس ۲۵

Page 25

روحانی خزائن ۳۴ آرید دهرم ام برامین احمد به حضه اول برا این احمد به حصہ دوم ۳۵ است بین اسلامی اصول کی فلسفی انجام انظم ۳۸ سراج منیر برا بین احمد به حصه سوم برا این احمدیه حقمه چهارمه ۲۹ روئیداد جلسه جشن دیلی استفاد شمن حق حقه فی تقریره با سیز اشتباه ایک عیسائی کے تین سوالوں کے جواب فتح اسلام توضیح مراح الحق مباحث الدحية ازاله او نامه جنده اول اد انزال او نامه حقه و دید الحق سیاحت شد ا آئینہ کمالات اسلام اسم في فيصل 1 بركات الدعا ۱ محمد الاسلام 19 -** جنگ مقدس سچائی کا اظہار تحفہ بغداد کرامات الساد فین شہادت القرآن حمامة البشری م حجة الله ۲۳ محمود کی آمین م سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ۲۵ کتاب البرية ۲۰ فریاد درد ( البلاغ) ہ ضرورت الام ۲۸ محيم اللهمى.3.۲۹ را از حقیقت کشف الغطاء اه ایام الصلح (فارسی) ایام الصلح (اردو) ۵۳ حقیقت المهدی ۵۲ ۵۴ مسیح ہندوستان میں دد.ستاره قیصریه رویداد جل دعا گورنمنٹ اور جہاد اربعین حصہ اول.21 تحفه نغزنویه متحف الله مدريد ۷۳ خطبه الهاميه کشتی نوح ۵ تریاق القلوب -29 ٠٠ -Al ٠٨٣ AP ۸۵ ایاز احمدی دیویو بر مباحثه بیالوی و چکڑالوی مواسبب الرحمن نسیم دعوت سناتن دھرم التذكرة الشهادتين سيرة الابدال سب کچھ لاہور لیکچر سیالکوٹ الوصيت معه ضمیمه تجلیات الهیه احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے قادیان کے آریہ اور ہم ۹ حقیقة الوحی چشمه معرفت ۹۲ پیام صلح ۰۹۲ برا بین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن نور الحق حصہ اول اربعین حصہ دوم نور الحق حصہ دوم ۶۲ اربعین حصہ سوم البین حقه چهارم انجاز المسیح ایک غلطی کا ازالہ بشیر احمد شریف احمد کی آمین واقع البلاء البدي نزول أسبح محقه گواردیه ٢٥ -4^ ٢٥- -14 ۲۷ امام الحجية متر الخلاق انوار الاسلام.متن الرحمن ضياء الحق نور القرآن حصہ اول ۳۳ نور القرآن حصہ دوم My

Page 26

ہماری وزیٹر ز تک سے خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ صوا ناصر الحمد للہ آج 19 ستمبر 1955 افتتاح ہوا ہے نام مجربات کو صحیح رنگ میں کام کرنے کے لئے زیر ترقیات لجنہ اماء اللہ کراچی کے مرکزی دفتر کا اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ بندہ واللہ کراچی کی عہدہ داروں اور کی توفیق سے اسے دفتر کا قیام ان دن رونی رات مر گنی ترقی کریں اور نظام احمدیت کی عمارت کی مقصد ان کے ذریعہ ہوا کہو.آمین نے اللہ کے قیام کا جو صحیح مقصد ہے کہ سے عورت ایک خطبہ انیٹ بنے رسم زمین ره 1) مرزا ناوی.آمنہ طیبہ استابیل مریم اعر المتن خیلی مملکت الکند اما مع الله 19.9.55 بو یه کانه و خدا تعالٰی کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھو بالا ہے حساب دو کارگزاری کار می رود که دیگر خوشی برای پرایک ماورائی بات تحریر مین ایک آئندہ آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے لہذا موجودہ کام ایا ہے.آئندہ کسی سے بھی زیادہ خوبصورتی سے ریوئین سماج کی جایا کریں.وجہ پوسٹ پر براہ مائیکے سرخ لائن سے بنائے جائیں.ہر ایک مشرکی ریعت کے پر گرا کر کیا جائے.اللہ تعالی سے کہا ہے کہ وہ مر کی کرسی ساعی کو قبول فرما کر شرات هند بیا نواز سے اپنی اٹھم آمین.کرکزی رہوں.۲۷

Page 27

FA ہینے پہلی مرتبہ مخبر اناء اللہ کراچی کے مدعو کر نہیں مسجد محمدیہ میں.کہ اما رحلہ کر اگا کا اجتماع دیکھنا انس مختصر وقت میں کسی عملی کا روڈو う اور انکی تعداد دکھکر مجھے دلی خوبه که ما تحت بخش انبیش فرمت دن کی توفیق مطار بار کوئی اثر شرع اپنی صحیح تون الله الحسنا 30/10/12 خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ الحمدللہ مجھے سالہا سال سے قادیان میں خدمت دین کا موقع مل لائے اور مجھے یقین ہے کہ دین کی خدمت کرنے میں انسان کو دلی" سکون حاصل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کراچی کی جماعت کی ستورات میں خدمت دینے کا جذبہ بہت ہے.خدایت کے انکے اس جذبہ کو بڑھائے اور انکی اگلی نسل اس سے بڑھکر خدمت دین کرنے والی ہو.آمین ثم آمین.وال نے کی.انه القدوس بیگم میزاریم احمد دار التسلیم قادیان حال مرامی 23.1 11.کراچی کا ہمہ کو یہ موصیب مال دی ہے کہ وہ ہم حقیقی مسئول میں فعال می رون - فدا ہے کہ اپ بہتر رہی معنوں میں رہیں.دین اپنی سریز تین پر نامی - 4.4.76

Page 28

گذشتند جولائی سے کراچی کبیر احمد اللہ کا انتظام تبدیل کیا گیا ہے.جھے قہار میں بنیادی سٹی.میں ، اس کی فرضی کراچی کی بند کے انتظام کو.بہتر بنانا در کام کی ذمہ داری زیادہ خواتین کے کندھوں پر ڈالتا ہے.ھے گذشتہ چند سال کے محمد کے بعد الحدائے قدرے بیداری کے آثار نظر آر ہےاس خدا کرے اس کے نتائج اچھے لیکن گذشتہ سالوں میں کارکنات دکترہ کے.سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی ہے کے اپنے ساتھ نائبات نہیں شائیں جرات کیسے کام سیکھتی.اب میری ہدایت ہے کے اس انتظام ، ایک سال تو اب انت عاصم سو جائیگا دو سال کے بعد عیده داران اور پر نگران قارت اور مرکزی حلقہ کے نمیره دارت کا ضرور لیزر رکن کے توجہ دلائے انتخاب کیا جائے.میری ماتھے اللہ کا کی کار کنات - صبح زنگ اس خدمت دین کرنے کی توش عطا کرے اور موت خلیفہ المسم الثالث اللہ اللہ تعالی سیرہ العریف کی مراعات کی تحمل ہے کہنے کا شرفتق ہے.آمین یہ ہیں hi صوالحه اما عانه ترکیه 23.5 74 Dress yourself with the mantle of righteous, of you cet Allah's protection Amtul Hafiz.Maurities cher Soeur, je suis the contente votre acuille de carati J.Lootorge

Page 29

تین سال کے عرصہ کے بعد کام تو نے ار برای مانے کراچی کی چند تقریبات میں حقہ پینے کا موقع ملا.اللہ شمالی مبینہ کراچی کے لئے نئی قیادت مبارک کرے.اس سلسلے میں چند برایات تحریر کر دی ہے.۲ ا صدر کا فرض ہے کہ تم ایک فرض شناسی حال کی طرح مجرات اور عہدہ داروں سے محبت اور بار کا سکون کرے وہاں جس جگہ میں کوئی غلطی محسوس کرکے سختی سے کام ہے جس نمبر صدر محسنہ کے لیے فی الحال یہ قانون ہے کہ تین سال اللہ ثبات کا نگران با انتخاب میں سر سیف انتخاب کیا جائے کس طرح سال بید ہے اور پیشین دینہ کے بس اس کا نام پیش نہ کیا جائے.اگر پر تین سال نگران کا مقام ایک سفر کی نج کے برابر ہے اس لیئے اس کی گرفت نے تمام ملتے جاتے کی عہدہ داران.نبوی نگران منتخب ہوتی ہیں تو اور بھی بہتر ہے مجله عامله میں ایک سیکٹر شابا اور مطالبات کا اضافہ کیا جائے.جس کا کام یہ کانٹا لیٹ ایسوسی ایشن کے کام کی نگرانی کرتا ہے.اور ان کے حقرت ومطالبات کو جلس عاملہ دکھائی کے اہم ہیں نہیں کرنا ہے.پروگرام طالبات خود بنائی لیکن سیکری اس اس کی نگرانی کرتی کہ ان کے سو گرام بجز کا روایات دیا تو نے اف دی طالبات نے کی ہر کسی کی منظوری کے فارغ شده عالیہ کا نام کے مطابق ہیں.انڈ کا بجٹ.تیسم میں نگاریا ٹے کے وہ میر رانی داخل کی جائیں اور فارغ سنت نیریت سے کاٹا طالبات کو بخدایاد اللہ کے کی سروے پر نہیں یہ نہ کھا ان کی تقر بات کہ جو فوج رہتے ہیں یہ ہے : کھر خود طالبات میں برداشت دلنے یا شہادت میں.دینہ کر کرنے جائیں لیکن رات کی نگرانی کی بہت ضرورت ہے.کیا کہ جہاں اس عمر میں جوش تحت ترتی ہے کام کرنے اور انبر نے میں وہ دور میں بھی توڑائے جاتے.میں محبوں کی نگرانی کے قانونا تو ا جا تا ہے وہاں میں جن پر عمل کرنا بہت ضروری حبت اور ہار سے ان سے کام لیا جائیے 1.

Page 30

M بند کر کرتی رہنے کے لئے بہت فریدی ہے کہ تمام عہدہ داران میں ہار محبت ہے خوش اسلوبی.اثنان مورسیاہ ہے.طے کرنے اطاعت جس کے اور اس کی تعلیم گھومتی رہ صور اور سمارت میں بلوت کے پورے طور پر سطیح پہلے گئے ره ہے ہے اس کے علاوہ جلسوں میں جو ہدایات دی ہیں ان کے عمل کیا جا اللہ تعالٰی میں توفیق عطا زمانے کے زیادہ سے زیادہ فونت کی برکات ہے فائدہ اٹھائیں.مریم طولية مركبة الله 28.8.81.اس کے لیہ 2018 کو قوت خلفہ المسیح الثالث اید هم ایسے نائی عطره الرز نے کرا چی لی نجہ کے نہ نظام کو تبدیل کردیا ہے اس نئے اور ملکی ہوتی ہدایات خود بخود کنسل نہ جاتی میں اتے سنائی اس تبدیلی کو آپ سب کے لئے inan با مارک کرنا.یاد رکھیں سب کہیں خلافت کے قوموں میں میں نفرت خلیفہ المسیح الثالث ایدھے رہے شاکی کی کتنی طاعت سے آپ اپنی اصلاح کر سکتی ہیں اور ترقی ہیں اتے سنائی آپ کے ساتھ ہے.As 1.9.81

Page 31

کلام ان حضرت بانی سلسله احمدیه کے شکر رب عزو قبل خارج از بیان جس کے کلام سے ہمیں اس کا ملا نشاں اس نے درخت دل کو معارف کا پھیل دیا ہر سینہ شک سے دھو دیا ہر دل بدل دیا دیکھو خُدا نے ایک جاں کو مجھکا دیا ! گمنام پا کے شہرہ عالم بتا دیا ! جو کچھ مری مراد تھی سب کچھ دکھا دیا میں اک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا میں خاک تھا اسی نے شریا بنا دیا تئیں تھا غریب و بیکس و گمنام دبے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر ؟ لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی اب دیکھتے ہو! کیسارہ جوع جہاں ہوا اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا !! ۳۲

Page 32

از اعلانات أرادَا عَاتْ میں اس شخص کی مدد کروں گا ، جو تیری مدد کا ارادہ کرے گا ، اور اني من اراد اهانتك میں اس شخص کی اہانت کروں گا، جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا الهام حضته مسیح موعود ۳۳

Page 33

کلام حضرت مرزا بشیرالدین محمداحمدخلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقده دشمن کو ظلم کی برچھی سے تم سیند و دل برمانے دو یہ درد رہے گا بن کے دوائم صبر کرد وقت آنے دو یہ عشق و وفا کے کھیت کبھی نوں پہنچے بغیر نہ پہنیں گے ! اس راہ میں جان کی کیا پروا جاتی ہے اگر تو جانے دو تم دیکھو گے کہ انہی میں سے قطرات محبت ٹپکیں گے بادل آفات و مصائب کے چھاتے ہیں اگر تو چھانے دو صادق ہے اگر تو صدق دیکھا، قربانی کر ہر خواہش کی ہیں جنس وفا کے ناپنے کے دُنیا میں میں پیمانے دو جب سونا آگ میں پڑتا ہے تو کندن بن کے نکلتا ہے پھر گالیوں سے کیوں ڈرتے ہو دل جلتے ہیں جل جانے دو عاقل کا یہاں پر کام نہیں، وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں مقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو یہ زخم تمھارے سینوں کے بن جائیں گے رشک چمن اس دن ہے قادر مطلق یار مرا تم میرے یار کو آنے دو جو پیتے مومن بن جاتے ہیں ، موت بھی ان سے ڈرتی ہے تم پیچھے مومن بن جاؤ اور خوف کو پاس نہ آنے دو یا صدق محمد عربی ہے یا احمد ہندی کی ہے وفا باقی تو پرانے قصتے ہیں تازہ ہمیں یہی افسانے دو ! وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں ! یہ کیا ہی بتا سودا ہے ، دشمن کو تیر چلانے دو محمود اگر منزل ہے کٹھن تو راہنما بھی کامل ہے تم اس پر بھروسہ کر کے چلو آفات کا خیال ہی جانے دو ۲۳

Page 34

۲۵ صبر جمیل حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ شان دکھلا گئے جس صبر کی مردان جلیل سن کے بہتان دکھا تو بھی وہی صبر جمیل لوگ سمجھیں گے تو سمجھیں یہ خطا کا بے ثبوت تم سمجھ لو کہ ہے سو بات کی اک بات سکوت شعلہ جو دل میں بھڑکتا ہے دبا دو اس کو جھوٹ پر آگ جو لگتی ہے بجھا دوائس کو صبر کی شان کچھ اس طرح نمایاں ہو جاتے.آپ سے آپکے ہی دوشمن بھی ہراساں ہو جائے آج جو تلخ ہے بیشک وہی کل شیریں ہے یچ کسی نے نئے کہ صبر کا چکل شیریں ہے کیا یہ بہتر نہیں ، مولا ترا ناصر ہو جاتے نامرادی عدد خلق پہ ظاہر ہو جاتے ہو جاتے صبر کر صبر کہ اللہ کی نصرت آتے تیری کچلی ہوئی غیرت پہ وہ غیرت کھاتے وہ لڑے تیر کے لیے اور تو آزاد رہی ہے خوب نکتہ ہے یہ اللہ کر کے یاد رکہ ہے کب خاموش کی خاطر وہی لب کھولتا ہے جب نہیں بولتا بندہ تو خدا بولتا ہے

Page 35

دین احمد پھر سے زن 3 ہوگیا دنیں ہمیں آج ! صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ.ربوہ آج پھر تثلیث نے توحید سے کھائی ہے، مار رفتہ رفتہ پھٹ رہا ہے شرک و بدعت کا غبار اُٹھ رہی ہے آج پھر دنیا سے رہ رہ کے بیکار " اے خدا اے کارساز و عیب پوش و کردگار اے میرے پیارے، میرے مشن میرے پروردگار" ایک جانہ یں ہیں اور اُن کے قاسم ہیں مستان ہیں ، الزام ہیں سے عام ہیں ا عجائب کام ہیں دیتا ہے قسمت کے نماز دین احمد پھر سے زندہ ہو گیا دنیا میں آج اُس کے دشمن خوار ، وہ ہے کامیاب دارجمند احمد ثانی نے رکھ لی احمد اول کی لاج" پستیاں پہنچا سکیں کیا اہل رفعت کو فرزند علم قرآن کا ہوا پھر قرآن انسانی پہ راج حسن دین سے منحرف ، آلائش دنیا پسند آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج مسیر پہ اک سورج چمکتا ہے مگر آنکھیں ہیں بند نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناکہ زندہ وار مرتے نہیں بے آب وہ اور دیر یہ نہر خوش گوار معتبر ہونے لگی پھر زندگانی کی اساس مردہ کو جوں میں جنم لینے لگی جینے کی آس پاگئے پھر گوہر تابندہ کو جو ہر شناس ور کس طرح تیرا گھروں کے زوال من شکر و سیاس وہ زباں لاؤں کہاں سے میں سے ہو یہ کاروبار دیکھتے ہو تم ہمارے ساتھ کیا نفرت نہیں ؟ ہم یہ کیا فصل خُدا ، یا سایہ رحمت نہیں ؟ ہو ہمیں ایسی کوئی نعمت نہیں ! صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار بڑھ کے پھر اہل جہاں کو دعوت اسلام دو چش : صافی رواں ہے، کر بھی لے آپ ال کو منات تشنہ روحوں کو شراب معرفت کے جام دو عجز کی راہوں کو اپنا، چھوڑ دے لاف و گزاف نفرتوں کی محفلوں میں پیار کے پیغام دو پہنچ ہیں ورنہ نماز و روزه و حج و طواف ! گالیاں سُن کے دُعا دو یا کے دکھ آرام دو یہ کمال مت کر کہ یہ سب بد گمانی ہے معاف کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا اُدھار آج بھی دکھلا رہا ہے وہ صراط مستقیم رحمتیں برسا رہا ہے آج بھی رب رحیم فضل اپنے کر رہا ہے ہر گھڑی مولا کریم وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے میم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار اے خُدا ہر چیز میں جلوہ تیرا موجود ہے ! تو ہے لامحدود میں باقی سبھی محدود ہے تیری چاہت تیری خوش نودی میرا مقصود ہے " اس جہاں میں خواہش آزادگی بے سود ہے پاک تری قب محبت ہے جو کر دے رستگار ۳۶

Page 36

۳۷ کیا کروں! محترمہ طاہرہ صدیقیہ ناصر صاحبہ چاہوں بھی گر تو شکر کا اظہار کیا کروں مجھ میں نہیں ہے طاقت گفتار کیا کروں جب دل کے تو قریب ہے اور اس قدر قریب ظاہر میں پھر وصال پر اصرار کیا کروں ٹھہری ہے شرط پیار کی جب راز داریاں پھر غیر کو میں شامل استوار کیا کروں جو تھے الاؤ نار حسد کے بجھا دیے ان نیکی بارشوں کا میں اقرار کیا کروں جب دل کی کیفیت کا زباں ساتھ ہی نہ دے احسان و حسن یار کے اذکار کیا کروں ہر موتے تن کو عشق میں اک آنکھ چاہے ہیسے شوق تھا میں نہین ہی گلزار کیا کروں

Page 37

ماے جان تمنا ابھی جیا اصغری بیگم نورالحوسے آقا نے میرے اک خوش خبری آج ان لفظوں میں سناتی ہے ہم اُن میں کے متوالو ! بس دیر کے کل یا پرسوں کی ! آواز مرے آقا کی جب ان کانوں میں رس گھولے گی آنکھیں برکھا برسائیں گی بن آتے گی پیار کے نرسوں کی ! رونق افروز وہ جب ہوں گے ہر شام عرفان کی مجلس میں بھر بھر کر جام لنڈھائیں گے اور پیاس بجھے گی برسوں کی ! اک نور کی چادرتان کے جب وہ تجمع محط محفل آئیں گے پروانوں کی بھی بن آئے گی نکلے گی قمت برسوں کی ! میرے من مندر کی بگیا میں جب پیار کی کلیاں چٹکیں گی پھر اور بہاریں آئیں گی پھولیں گی فصلیں سرسوں کی برسوں کے پیاسے راہی جب اس گھاٹ سے پینے آئیں گے جس گھاٹ پہ ہر سو پہنچی ہیں دھاریں قرآن کے درسوں کی ! یہ بھولے بھالے غلام اپنے آقا سے یہ کہت چاہتے ہیں اک اک پل ہم پر بھاری ہے تم بات کرو ہو عرصوں کی ! اے جان تمنا آ بھی جا اسکے اور نہ ہیم کو تڑپانا ہم ہار گئے اور مار گئی ہم کو یہ جدائی برسوں کی!

Page 38

مدحت مهدی دوران امتہ الباری ناصر کہیں رانچ نہیں وہ لفظ دنیا کی زبانوں میں جو مدحت مہدی دوراں کی خوبی سے بیاں کر دیں سلام اس فارسی الاصل مہندی شاہزادے پر شریا سے جو ایماں لائیں منشور زماں کر دیں سلام اس ساقی کوثر کے روحانی تسلسل پر عیاں جس کی صداقت یہ زمین و آسماں کر دیں سلام أن عجز کی راہوں ، تو کل اور تقویٰ پر جو اک خلوت نشیں کو مہدی آخر زماں کر دیں سلام ان نیم وا آنکھوں پر رحمت بار نظروں پر کبھی دل کو کریں گھائل کبھی تخلیلِ جاں کر دیں وہ سلطان العلم ، معجز بیاں، انفاس قدوسی مسیحائی سے جو مردوں کو زندہ جاوداں کر دیں وہ برکت جس کے کپڑوں سے ملے شاہانِ عالم کو وہ جس بستی میں رہتے ہوں اسے دارالاماں کر دیں وہ جس دل میں بھی دیکھیں پیار سے سب خار غم چن لیں جو گل ہوں اپنے دامن میں وہ نذر دوستاں کر دیں ہوا ہو منعکس نور محمد جن کے پیکر میں زمیں کو برکتیں دیں اس قدر تک جناں کر دیں کبھی آدم کبھی خوشی کبھی یعقوب و ابراہیم کے تصور میں بھی وہ مہتاب آکر شادماں کردیں نہایت صبر سے دل پر سہیں ہر وار دشمن کا یہی دُھن تھی نمایاں دین حق کی عزو شاں کر دیں یہ دی تعلیم ہم کو گالیاں سن کر دعائیں دیں جو دُکھ سے چور ہو جائیں خدا کو درمیاں کر دیں کوئی بد بخت ارادہ بھی کرے ان کی اہانت کا قضاد قدر بل کہ اس کو رسوائے جہاں کردیں خدا جس کو کچل ڈالے اسے ہم یاد کیوں رکھیں جو مرفوع القلم ہو اس کو خارج از بیان کر دیں دُعا دے تخم ریزی کرنے والے باغ کے مالی تمنا ہے جہاں کا ذرہ ذرہ گلستاں کر دیں بس اک رستہ ہے جو بندے کو آقا سے ملاتا ہے بس اک دھن ہے کہ سر کو وقت سنگ آستاں کر دیں ۳۹

Page 39

بخند اماءاللہ کراچی کے رسالہ کے لئے سالہ پر خلوص دعاؤں کے ساتھ! د اسلام خواطال الله بندان 19.8.1989

Page 40

عزیزہ امتہ الباری ناصر صاحبہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ آپ نے لجنہ اماءاللہ کراچی کی طرف سے صد سالہ جشن شکر کے آغاز پر شائع ہونے والے سووینٹر کے لئے غیر مطبوعہ نظم بھجوانے کی درخواست کی تھی.آپ کی خواہش پر ایک نظم اور قطعہ ارسال کر رہا ہوں.تمام بہنوں اور بچوں کو میری طرف سے اس موقع پر مبارکباد اور محبت بھرا سلام پہنچا دیں.والسلام خاکسار لا افلام خلیفه اسبع الرابع ہر طرف آپ کی یادوں پر لگا کر پیرے جی کڑا کر کے میں بیٹھا تھا کہ مت یاد آئے ناگہاں اور کسی بات پر دل ایسا دکھا میں بہت رویا مجھے آپ بہت یاد آئے

Page 41

کلام حضرت مرزا طاهر احمد لیفة المسیح الرابع ايد و اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تو مرے دل کی شش جہات بنے نتی میری کائنات بنے سب جو تیرا ہے ہو میرا تو ہو نچ ہے تجھ سے منقطع عالم رنگ و بُو کے گل بوٹے خوار بنے تو بات بنے ذات بنے سرے، تو تہمات بنے سادہ باتوں کا بھی ملا نہ جواب سوالات مظلمات بنے یہ شب و روز و ماه و سال تمام کیسے ہمیانہ صفات بنے ! ہوئی میزان ہفتہ کب آغاز؟ کیسے دن رات سات سات بنے عالم حیرتی کے مندر میں کبھی بہت مظهر صفات بنے کبھی مخلوق ہو گئی ہمہ اوست آتش کتنے منصور چڑھ گئے سیر کتنے نعرے تعلیار آب عین ذات بنے کتنے عدی بنے ؟ مٹے گئے بار ؟ بنے کتنے رات اُجڑے کتنے لات بنے کتنے محمود آئے کتنی دفعہ سومنات اُجڑے سومنات بنے جو کھنڈر تھے محل بنائے گئے کتنے محلوں کے کھنڈرات بنے عالم بے ثبات میں شب و روز آج کی جیت کل کی بات بنے تیرے منہ کی سبک سبک بائیں دل کے بھاری معاملات بنے دن بہت بے قرار گزرا ہے آ مرے چاند میری رات بنے

Page 42

e ORESSENHALL ROAD LONDON SW18 SOL بسم الله الرحمن الرحيم The London Mosque TEL:24 1590 1:01-874 8296 01-874 7590 CABLES: ISLAMABAD LONDON TELEK 38504 MON REF.G1292TED: 7.1363.1954 ہمشیرہ محترمہ آیا سلیم میں السلام علیکم و رشته الله وبركاته آپ کی طرف سے کہہ کراچی کی رپوریٹ اور الیایت پر فلومی جذبات ہوتی ہے.میں آپ سب کے غربات علیہ سے وافلاس کی دل کی گہرائیوں سے قدر کرتا ہوں اور اپنے رب سے آپ کے لئے بہیتہ علم کی کا طالب اہتا ہوں اور یہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ وہ دن ساتھ کرتا رہے جن کی یاد مل پہلے سے بڑھ کر شان مجھے بہت مزنیں ہیں سب ہندی در بچیوں کو میرا محبت بھرا سلام پہنچا دیں.جو نام مجھے یاد ہیں دو بھی اتنے ہیں کہ نام بنام سلام پھاؤں تو طویل فہرست بن جائے گی خداحافظ في امان الله فی امان الله فی امان الله و مسلم خاندار نافلہ اسم الله الوان اللي ونحن من رسول الكريم الي لندن پیاری محترمہ آپا سلیمہ میر اسر عشیر و رشته اند و بركاته آپ کا ہر فلوس خوف کئی لحاظ سے میرے لئے رومانی ترت کا سامان دو یا اس آپ کے لئے اور رول سے دیر کی توفیق ملی.معین الحمد لله ثم الحمد للہ کہ اس وقت خزان میں گلشن مسیح موعود علیہ اللہ پر بہار آئی ہوئی ہے ابد فلوس انه بعدی ان اعمال مائع اور مالی را به جانی قربانیوں کے نئے نئے پھولی ہی مقدمی گلستان کی کیلتے چلے جارہے ہیں.اتمم زرد بارٹ ینہ کراچی کی مخلص کارکنا ہے اور مالی امو جانی قریم نمی کرنے والی فرائی بیوی اور بچیوں کو میرا نہایت محبت اور اسلام ٹھیکہ رہیں.اللہ آپ کے حق میں میری عاجزانہ دعاؤں کو قبول فرمائے اور نسل بعد نسل آپ کے گھروں کو برکندی سے بھرتا رہے اور دائمی خوشیاں لغیب فرمائے اور حسن می برد بالین اسلام مربا کے اسر.اپنا لا نرال بیار مہینوں میں سیارے.خدامات دہم فائدہ M

Page 43

الملولي من لانك بالتالي يرا منوع اللي الأخرى الجنين ، او اقل من مينا الكران بار مولان قوال خدا کے فضل اور جیم کے ماتھے پر 7.9.1364 1985 پیاری محترم آیا سیر میر السلام علیکم و رحمته الله وبركاته آپ کے عمل کا حسن ہمیشہ ہوئے فلوس و ایمان سے مہکتا رہے اس دل کے نیکی مرادیں پوری ہوں اور کامیابی اور بھر پور مقبول بارگاہ الہی خدمت رین کی توفیق پیتر بیش از پیش نصیب ہوتی رہے بینہ کراچی کو میرا محبت بر اسلام نہیں رہیں.تمام حلقوں کی کار کردگی سے میں باخبر رہتا ہوں ار قربانی کرنے والیوں اوران مرد میں دینے کو کرام اور اپنے پیاروں کے آرام کو قربان کرنے والیوں کے ذکر پڑھتے ہوئے میری آنکھیں جذبات شکریہ میں جاتی ہیں اسعودی کی گہرائیوں سے کون لئے دعائیں نکلتی ہیں.اپنی حفاظت میں رکھتے اللہ کی رحمت سب اللہ کیوں کے سفر میں آپ کھلیوں پر میں میں پرانی آپ کے ساتھ چلے.اللہ اپنے فعل ہے ے حال پر نظر رکہتے اور میں قسم کی بھی اور اجتماعی شکلات ان مصائب کو دور فرمائے.ثبات قدم الغیب مرہ گئے.سب پر محمد نور اٹھائے جب گھتیاں خورسی رہے.نقد بعد نسل یہ آپ کے کمروں پر برکتیں نازی ہوتی رہیں الله کی دائمی محبت کی جنت نصیب رہی ہے.بعضی اوقات جب پاکستان کے پیارے احمد بیوی کی یاد میں دل و گداز ہوتا ہے تو کچھ دعائیں تو لفظوں میں ڈمل جاتی ہیں.کچھ غیر معین درد دل کی صورت میں اپنے رب شور پیشینی کرد نیلا ہوں کہ جو معانی ان کو بنا نے ہمیں تمہارے شہر میں ان کی خوشالی امر ہے.دیکھنے سے محروم اسد بے نصیب نہ اٹھا یا جاؤں.اللہ آپ کے ساتھ ہو.اللہ آپ کے ساتھ لیے.اللہ آپ کے ساتھ ہے اور کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی تنہا نہ چھوڑے آپا سیلہ میر کے وجود میں اللہ تعالی نے آپ کو ایک نیک بوت متوازن شخصیت والی سب کا بیار چاہنے والی قیادت عطاء فرمائی ہے.اس کی دل سے قدر کریں.امداینی یا ہمیں محبت اور یکجہتی کو ہمیشہ قائم رکھیں اگر میرا کوئی پیغام پہچانا ہے تو پیغام کا یہ کٹری حصہ بھی کرایہ پڑھ کر سنا رہیں.دا حافظ مجھے ڈر ہے کہ آپ جیب سی آئی کی تو میں تقریر ہونگے.اس سے اس مسلہ کے موجو شیعہ ہیں خوامان د امر اسلام علیکم استان بوان د اسلم خاک مزہ علیہ

Page 44

انشون النصر الله الرحمن المين محمده وتصل على رسوله الكريم السلام عليكم و رحمة العود رام اند.ند بار اور ضلع کراچی کی طرف سے تعزیتی قرار داد موصول ہوئی.جزاکم اللہ الموتعالی آپ سب کے اجلاس میں برکت ڈالے ار حسنات دارین سے نواز سے اور سب کو کامیاب واعیان الی اللہ بجا ہے.دوار سلام سب بستہ کراچی کو میرا مجھے میرا سلام پہنچا رہیں.دنیا بھر حالی کی نجات میں جو چند بحنات صف اول کی لوا علیہ ہیں ان میں مبینہ کراچی خلا سیسی کرج نمایاں ہے.نیم ورک ار تک کا سوں میں استقلال.حسب سابق میں آپ کے سواروں اللہ مجالس سوال و جواب میں شریک ہوئی.جماعت کراچی میں جو چند دن " گزارنے کا موقع ملتا تھا شہر یہ معروضیت کے باوجود بڑے ہی طمانیت نمش دن ہوتے تھے.ساب جمب مصروفیات چند ممموں کے لئے یادوں کی کھل جانے کی فرصت دیتی ہیں تو بالخصوص ایده - لاہور - اسلام آباد پنڈی اور کراچی کی جماعتوں کی یاد مجھے جذباتی کر رہتا ہے.پھر آپ سب کے لئے میری دعاؤں میں کچھ دلیا سی زنگ آجاتا ہے جیسے بچوں کے لئے ماؤں کی دعائیں ہیں.پھر بعین اوقات جذبات الفاظ میں ڈھالنے کی مقدرت بھی نہیں رکھتے اور بذات خود سلیمی دعا ر بن جاتے ہیں اللہ مجھے ہمیشہ آپ سب کی طرف سے خوشیاں رکھا ہے.اللہ کی نظر کے سامنے پھر میں پھیلیں اور پروان چڑ ھیں.خالد کے دو سے محفوظ رہیں جب وہ محمد کریں.اللہ دین و دنیا صدر لانہ بنیاد اللہ صلع کی حالت کی بارشیں آپ پر برساتا رہے اور منظور سبط اس مجتہ کی خاصی خوبیاں ہیں جو مجھے بطور خاص پسند کی اس مندر اوہ وقت جلد لائے کہ آپ کی اچھی اچھی قبر میں تھے ملتی رہیں میری آنکھیں جھنڈی خدا حافظ نہ ہوئی میرا دلی بڑھے.میرا سارا وجود شکر میں ڈھل جائے.۴۵

Page 45

حضور کے دن رات کی ایک جھلک چاند کو قریب سے دیکھنے کے خواہشوں میں زہر میں اٹھنے والے سوالات حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحب حریم خلیفہ اس الرابع کو لکھ بھیجے.بیگم صاحبہ نے ازراہ کرم بڑا حسین نے جواب مرحمت فرمایا تاریخ کہ جوابات سے سوالات کا اندازہ ہو جائے گا اس سے لئے تمہید کو تنفر کر تے ہوئے بیگم صاحب کا جواب حاضر ہے.اگر سیون ہال روڈ اندار تھے.ساؤتھ ویسٹ ۱۸ 919 محترمہ امتہ الباری صاحبہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ سب سے پہلے تو لجنہ کراچی کو پچاس سال مکمل ہونے پر مبارک باد دیں.اللہ تعالیٰ آپ کے کام میں برکت ڈالے اور آپ کے مجھے کو کامیاب کرتے ہوئے سب ارکا وہیں دور فرمائے.آمین.آپ نے جو سوال لکھے ہیں.یہ تو ہر احمدی کے ذہن میں آتے ہیں، چاہے وہ قریب رہتا ہو یا دور.دراصل اللہ تعالے کا فضل ہی ہے میں سے سارے کام ہو رہے ہیں.خلافت پیسا یہ باری تعالے ہے جو انسانی ہمت سے بڑھ کر کام لے چاہتے ہیں.حضور ایدہ اللہ تعالی کی ڈاک مختلف نوعیت کی ہوتی ہے.اور اسی نسبت سے جواب بھی دیتے ہیں.مختصر یہ کہ ڈاک ذاتی، جماعتی ، مشورے اور دعائیہ نوعیت کی ہوتی ہے.ایک بات میں خاص طور پر لکھوں گی کہ حضور پر آنے والے خط کو ضرور پڑھتے ہیں چاہے وہ کسی نوعیت کا ہو اور ہم حیران ہو جاتے ہیں کہ بہا چھوڑا خط ہے لیکن حضور کی نظر صرف اسی لائن پر رکی ہے جو لکھنے والے کا منشاء تھی کہ حضور ایدہ اللہ تعالے کو معلوم ہو جائے اور ایک نظر ہی کرانی ہوتی ہے.جہاں تک ذاتی مخطوط کا تعلق ہے اُن کا جواب اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور جماعتی خطوط متعلقہ شعبہ کو ہدایات کے ساتھ بعض دفعہ لفظاً لفظاً جواب لکھواتے ہیں اور بعض اوقات صرف ہدایات ہی دیتے ہیں.جماعتی ایڈ منسٹریشن کے خطوط اور اہم فیصلوں کے تخطو ط لفظا لفظ لکھواتے ہیں.ایسے خطوط جن میں مشورے کے لئے لکھا ہو یا دوائی کے متعلق تحریرے ہو اُن کا جواب بھی خود لکھواتے ہیں.ان کے علاوہ کہ عائیہ خطوط سب سے زیادہ ہوتے ہیں.ان کو پڑھ کہ اگر فقاص ہدایت دینی ہو تو خط کے کنارے پر لکھ دیتے ہیں اور دعائیہ خطوط کے جواب کے لئے کئی لوگ مقرر ہیں.ربوہ میں یہ کام دفتری طور پر ہوتا تھا لیکن یہاں والنظر نہ ہیں جو جواب دیتے ہیں.۴۶

Page 46

ان سب خطوط کا پڑھنا واقعی ایک اہم کام ہے.اللہ تعالے کا فضل ہے کہ وہ وقت میں برکت ڈالتا ہے.ویسے جب بھی میں نے دیکھا، صبح شام اور دوپہر ہر وقت حضور کے ہاتھ میں خطوط کا پلندہ ہوتا ہے.سفر میں کار میں بیٹھے ہوئے یا ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہوں خطوط ساتھ ہوتے ہیں لنڈن سے اسلام آباد (للغور ٹما آتے جاتے خطوط اور سیکرٹری ساتھ ہوتے ہیں اور جواب بھی ساتھ ساتھ لکھواتے جاتے ہیں.اس کے علاوہ شام کو سونے سے قبل اہم خطوط پڑھتے ہیں.سوال نبریہ کے سلسلہ میں اتنا ہی کافی ہے کہ ہر اچھی بچی ہوئی چیز پسند ہے.خوش ذائقہ ہوئیں.کبھی کبھار پچھلی پکڑا نے کے لئے کہ دیتے ہیں صبح ناشتہ خود تیار کرتے ہیں.یہ عادت حضور کی ہمیشہ سے ہے اور خلافت کے بعد بھیجا قائم ہے.کھانا پکواتے اور گھریلو کاموں میں پوری پوچپ چاہیتے ہیں بکہ اگر یوں کہوں ہر بات کا خیال رکھتے ہیں تو زیادہ صحیح ہوگا اور کپڑے اپنے لئے خود ہی پسند فرماتے ہیں.آپ کا سوال نمیر اور ے تو آپس میں مربوط ہیں.کیونکہ مطالعہ ہی در حقیقت حضور کے لئے RELE XATION کا دوسرا نام ہے علمی اور مانی رسالے مطالعے میں رہتے ہیں.اور رہا یہ سوال کہ جماعتی طور پر ہر ذرہ میں اُٹھنے والے سوالوں کا جواب کیسے خطبہ جمعہ میں آجاتا ہے، یہ تو عزیزہ ایسے ہے کہ روزانہ ایسے خطوط آتے ہیں جن میں سارے مسائل اور سوالات کا ذکرہ ہوتا ہے.اس کے علاوہ روزانہ ملاقاتی بھی ان باتوں کا ذکر کر دیتے ہیں.اس طرح حضور ہماری مشکلات اور مسائل سے باہر رہتے ہیں.ویسے مربیان سلسلہ بھی جماعت کے احباب کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات ومسائل سے حضور کو باخبر رکھتے ہیں.اللہ تعالے آپ کا مدد گانہ ہو اور دین متین کی خدمت کی اعلیٰ سے اعلیٰ توفیق عطا فرمائے.جماعت احمدیہ ایمان لاقیت رکھتا ہے کہ آ تمام اقوام عالم کو اک ہاتھ پیش کرے اور توحید کی ٹیمیں پر دورے پر ہیں اس اہم اور مبارک موقع پر بحیثیت امام جماعت احمدیہ امی پر روئے زمین پر بنے والے اپنے تمام انسان بھائیوں کو ہی دین مین اور دین توحید کیطرف دل کی گہائی اور پرخلوص جذبہ اخوت کے ساتھ ہوتا ہوں ہر چند کہا امنیت بادی النظر میں ابھی ایک ایسی قوت کے طور پر نہیں بھری جو ایک عالی انقلاب برپا کرنے کی قدرت رکھتی ہو لیکن ہر صاحب بصیرت ی تسلیم کرنے پر جو ہو گا گزشتہ ایک سوسال میں شدید مخالفتوں کے باوجود اس جماعت کی حیرت انگیز عالمی ترقی کوئی ایسا معمولی واقعہ نہیں جسے نظر انداز کیا جا سکے.اس عرصہ میں جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ۱۲۰ مالک میں قائم اور حکم ہوچکی ہے اور اس کی ترقی کی رفتار حل بہ لحظہ ہی سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے.اور اس جماعت کے حق میں وہ سب کچھ رونما ہو رہا ہے میں کا ایک سو سال پہلے انسانی تینوں کے لحاظ سے کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا.پس یقینا وہ خدا کی کی آواز بھی ہیں نے اس جماعت کے مستقبل کے بار میں پانی مسلسل حمیہ کو ان الفاظ میں خبر دی :- ی این پیکار دکھلاوں گا.اپنی قدرت نمائی ہے وہ کو اٹھاؤں گا.دنیاں ایک نذیر آیا پروین نے اس کو بول نہ کیا لیکن خدا سے قبول کرے گا اور بڑے زور آور ملوں سے اُس کی پچائی ظاہر کر دے گا." میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا یا حضرت خلیفة المسیح الرابع L

Page 47

نئی صدی نئی ذمہ داریاں محترمه لتونی دارد حضرت بانی سلسلہ عالیہ فرماتے ہیں.اگر کوئی مر کر واپس آسک تو وہ دور تین صدیوں کے بارہ دیکھ لینا کہ سا کیا دنیا احمدی قوم سے اس پیشہ ہے جس طرح سمندر قطرات سے پر ہوتا بة التشجيد الاذہان جلد نمبر ایک) حضرت خلیفہ المسیح الا قول فرماتے ہیں.مامور من اللہ کا ربود ایک حجتہ اللہ ہوتا ہے اس کی جماعت بڑھتی جاتی ہے اور اس کے مخالف کے دن کم ہوتے جاتے ہیں (خطبہ قلعہ ۲۹ مارچ ۱۹۰۱ء) حضرت فضل عمر فرماتے ہیں.جب سو سال کا نہ مارہ پورا ہو جائے گا اس وقت جماعت کا فرض ہوگا کہ عظیم الشان جوبلی منائے اس کے بعد جو لوگ نہ معدہ رہیں گے وہ انشاء اللہ وہ دن بھی دیکھ لیں گے جب ساری دنیا میں احمد سی ہی احمدی ہوں گے.خطبه جمعه ۱۶ جنوری ۱۹۵۸ء قدرت ثانیہ کے منتظر ثالث فرماتے ہیں.احمدیت کی اگلی صدی غلبہ دین حن.قلم کی میری ہوگی.قدرت مثانیہ کے مظہر رابع کا ارشاد ہے.میں خوش خبری دیتا ہوں کہ انگلی صدمی میں تم یہ نظارہ دیکھو گے کہ عظیم انسان طاقتوں کے پیارے ریزہ ریزہ کر کے ہموار میدانوں کی طرح تمھارے سامنے بچھا دیئے جائیں گے وجہ احمدیت کی فتح کے گھوڑسے دندناتے ہوئے ان کی چھاتی کے اوپر سے گزبر تے پیچھے جائیں گے.خطبہ جمعہ ۷ در مار و والد ۴۸

Page 48

ماری ترقیات کے لحاظ سے آج کا دورہ انتہائی سروج کا زمانہ ہے شاخسانے ہیں جس سے اتحاد و یک جہتی پر کاری ضرب لگتی ہے.افتراق سائنس وٹیکنا لوجی میں ترقی کر نے والوں نے بزعم خود، خود کو وقت کا خدا اور منافقت جنم لیتے ہیں.کردار کی بیماریوں میں بڑا ہاتھ دور حاضرک اسی سمجھ لیا ہے.بے تحاشا تسخیر کے عمل نے ایک طرف دہریت کی دلدل پیدا قباحتوں کا بھی ہے جن سے خیالات گندے ہوتے ہیں.فحش لٹر پیکر محرب کر دی اور دوسری طرف شرک کے گرداب بنا دیے.جس کا لازمی نتیجه شین اخلاق فلمیں ، بڑی محبت اور آوارگی زہر کی طرح لگ دیتے ہیں اُترتی کی حکمرانی اور انسانیت کی تذلیل کی صورت میں ظاہر ہوا.تہذیب و تمدن ہے جس سے نفر، قمار بازی، چوری ڈاکے، اغوا، قتل اور دوسرے کی کا مفہوم بدل گیا صنعتی انقلابات جنم لینے لگے.بشریت کی قدر و منزلت کم محنت کی کمائی پر نا جائز طریقوں سے قابض ہو جاتے میں کوئی شرم نہیں ہوتی گئی.چونکہ ترقیات کے مفہوم کو غلط سمجھا گیا.اس لئے انسانی اقدامہ کی رہتی.بیمار اور مسموم ذہن و جسم قوم میں مبزدلی، مایوسی اور ناامیدی پیدا کرتے ہیں.اور ان کی افزائش سے قومی خود کشی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے.ایک پیچھے اور کھرے احمدی کا فرض ہے کہ معاشرے سے ان برائیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے شدید دفاع کرے.قوتِ حفاظت کی اہمیت معدوم ہوتی گئی.انسانی پیدائش کی عرض کیا ہے اور کسی قسم کی ترقی کو انسانی معراج کہا جا سکتا ہے.قرآن پاک کا فیصلہ ہے.وَمَا خَلَقْتُ الجن والإنس إلا ليعبدود.مدافعت نیک پاک افراد کی صحبت سے حاصل ہوتی ہے.سین کے بینے جاگتے یعنی انسانی ترقی اس میں ہے کہ وہ عبادت کرے اپنے معبود نمونے خدا تعالے سے تعلق استوار کرنے میں معادن بنتے ہیں.عبادات کو پہنچانے اُس کا ہر فعل خدا تعالے کی رضا چاہنے کے لئے ہو.وہ کائنات روح کی غذا کا کام کرتی ہیں.نماز سیکھنے سمجھنے اور قائم رکھنے کی طرف پہ تدبیر کرے اور اس کے سربستہ رازوں کا انکشاف اُسے خالق حقیقی توجہ رہتی ہے.نمانہ کے قیام سے اس احساس میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے سے متعارف کروانا چلا جائے.اور اس کی بے کراں قدر توں کا مطالعہ و کہ خدا تعالے ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہم خدا کو دیکھ رہے ہیں.یہ احساس مشاہدہ حمد وشکر کے جذبات پیدا کر ہے.یہ مقصد تخلیق انس و جاں میجود ہر برائی سے ڈھال بن جاتا ہے.برائی سے نفرت اور توبہ و استغفار سے دور کے مشرکانہ ملحدانہ اور کافرانہ نظریہ ہائے فکر کے لئے اس وجہ سے قابل گناہ کی گرد جھڑتی ہے اور آئینہ دل اس قدر بھلا ہو جاتا ہے جو قرآنی قبول نہیں ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے سامنے قرآنی سچائیوں کا مظہر کوئی مثالی سمجھ سکے.اُسوہ حسنہ منعکس کر سکے اور خدائی انوار سے روشن تر معاشرہ بطور نمونہ موجود نہیں.خدا تعالے اپنے بندوں کو گمراہی میں بھٹکتا ہوا ہو سکے.ہمارے پاس امام ہائے وقت نعمت غیر مترقبہ ہیں جن کے.درح نہیں چھوڑتا.اس نے اپنی مدت بِكُلِّ قَومِ عاد کے مطابق زمانہ حال پیر در خطبے بر وقت حالات وضروریات کے مطابق ٹھوس معلومات نہیا کے لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند ند کو نشارة دین حق کے لئے کرتے ہیں اور بیماریوں سے مدافعت کے طریقے سمجھا سمجھا کہ یہ وحانی ترقیات بھیجا.اس توسط سے ہر احمدی کا یہ فرض اولین ہو جاتا ہے کہ وہ انسانیت کے سامان پیدا کرتے ہیں.ایسی شمعیں خود بھی روشن رہتی ہیں اور اپنے کو طاغوتی قوتوں کے جال سے نکال کر توحید خالص کے دامن سے وابستہ ماحول کو بھی منور کرتی ہیں.کر دے.اس کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اپنے گردوپیش کی اخلاقی کمزوریوں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم زندہ خدا کے ترندہ تعلق کا زندہ نمونہ اور روحانی بیماریوں سے ہوشیار رہیں تاکہ ان سے اپنا دامن بھی محفوظ رکھ بنیں.حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے فرمایا کہ کامل عشق سی کامل محبت سکیں اور معاشرے کو بھی ان سے پاک کرنے کی تدا پر کریں.اور کامل خوف سے پیدا ہوتا ہے.کامل محبت کے حصول کے لئے ضروری خدائے واحد و توانا سے ناواقفیت خود سری کو جنم دیتی ہے.ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا بغور مطالعہ کریں.پھر ان رنگوں سے اپنی جس سے تجبر خود پسندی اور جاہ طلبی وجود میں آکر انسانوں کو چھو ٹے ٹیڑے نہ زندگی کو رنگین کریں.کی تباہ کن تقسیم میں بانٹ دیتے ہیں.ایک فرد دوسرے فرد کو کمتر جانتا ہے جیسے اللہ تعالی رحمن ہے.بن مانگے دینے والا.اسی طرح ہم کبھی اور تمسخر و تضحیک کا نشانہ بناتا ہے.ایک کی ترقی دوسرے کے لئے دُکھ انسانیت کے کامل نمونہ حضرت نبی اکرم کی نہ ندگی سے سبق لیتے ہوئے ضرور تند کا باعث ہو جاتی ہے.عداوت حدا غیبت، چغلی، الزام تراشی اسی کے کو مانگنے کی مہلت نہ دیں.اس سے پہلے ہی اس کا حق ادا کر دیا.اگر اس طرح ۴۹

Page 49

ضرور ہیں پوری ہونے لگیں اور معاشرے میں لینے والوں کے بجائے دینے والے اعمال سے پتہ چلے درہم ہر لمح عشق خداوندی میں آگے بڑھے.کوئی مہیب سے حبیب پیدا ہونے لگیں.تو لوٹ کھسوٹ کا بازار خود بخود ٹھنڈا پڑ جائے گا.طوفان بھی ہمیں سرویہ دو جہاں کی محبت سے یانہ نہ رکھے.گھروں کو چلنے ہمارا خدا رحیم ہے.سچی محنت کو ضائع نہ کرنے والا.اگر ہم یہ مہنگ لٹنے تباہ ہونے دیں، اولاد کو قربان کر دیں.نوکریاں ملانہ منتیں تجارتیں مالی اختیار کر لیں.تو عدل کا وہ نظام قائم ہو گا.جو فردین اولی کے دور کی داستانوں فوائد سب تیج دیں.اسیری مقدر ہے تو اسی کو انعام سمجھیں کیونکہ یہ کمزوری کو زندگی دے گا.مزدور کی مزدوری.محنت کش کی جفا کشی.دہقان کی اور بے بسی ہم ہیں.قوم ، قناعت، حوصله ایثار و قربانی استقلال ۱ عرق ریزی کا اجر ضائع نہ ہوگا.اور یوں استحصال کرنے والے نا پیدہ اور جرات پیدا کرے گی.یہ د10 یہ دہ اوصاف ہیں جو قوموں کی سربلندی کی ضمانت حقوق غصب کر نے والے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے.اور معاشرتی سکون ہوتے ہیں اور چیچی میں پیسے جانے کے بعد ہی حاصل ہوتے ہیں.جوئر جھے کا نا سیکھ جاتے ہیں اُنہیں خدا تعالے لانہ ما سر بلند کرتا ہے.یہ سر بلندی قائم ہو گا.اور میرا آقاد مولا رب العالمین ہے.اگر ہم صفت ربوبیت سے چٹانوں کی مضبوطی عطا کرتی ہے مگر رحم دلی میجر انحسار ہمدردی اور فروتنی حصہ لیتے ہوئے ہر اس انسان کو جو ہمار ے نہ یہ سایہ ہے.مثلا اولاد بہن بھائی خدا تعالے کے عرش سے رحمت کے فرشتوں کو مدد گار بنا دیتی ہے.ہم سے مز در رشتہ دار، پڑوسی ملازم معاشرے کے غریب افراد ان کی جائ پہلوں کے ساتھ بھی یہ ہوتا آیا ہے مگر ہر حالت میں مخلوق خدا کے لئے ضروریات کو اپنی حیثیت کے مطابق پورا کر نے کی کوشش کریں.ساتھ ہی ماؤں سے بڑھ کر شفقت کا سلوک کیا ہے.ہم نے بھی یہ ورثہ آئندہ نسلوں تربیت.اچھے کاموں پر انعام - النا پیر احسان کا سلوک روا رکھیں یکمزوروں میں منتقل کرنا ہے.تاکہ ہماری اولاد اس نیک ورثہ کی وجہ سے سادہ زندگی پر مہربانی کر یں.تو یقیناً ہم اپنے گردو پیش کو جنت بنائیں گے.سادہ غذا سادہ طرفہ معاشرت کی عادی ہو.ہماری مالی قربانیاں.ہمارے اسی غرض کے لئے ہمارے آقا سیدنا و امامنا حضرت محمد مصطفے جذبات، احساسات و خواہشات کی قربانیوں سے رنگین ہوں.مبعوث ہوئے اور آپ کے اخلاق ستو الہی صفات سے رنگین تھے.آج انی الہی صفات کو احمدیت زندہ کر رہی ہے.ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو قرآنی علوم کا محافظ.اس کی پیشگوئیوں پر صداقت کی مہر ثبت کرنے والے.اس کے ذریعہ دنیا دی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا وی نظام انتساب کی جگہ الہی ترقیات کے زینے طے کرنے والے وجود بنائیں.ہو نہ صرف خدا تعالے کی نظام انتساب کو انسانی ذہنوں اور دلوں میں تقائم کر دیں.اور یہی وہ کامل عظمت کے پاسبان ہوں.بلکہ آنحضرت کی امت ہونے کا بھی حق ادا کرسکیں.خوف ہے جو کامل عشق کو جنم دیتا ہے.اگر ہم عالم الغیب اور علیمہ خدا کے ہماری ذمہ داری ہے کہ آج کے دور کے انسان کو مادیت کے کرب بندے نہیں تو نیتوں کا فساد پیدا ہی نہ ہو.اگر ہم اپنے خدا کو تقدیر و بصیر سے نکال کر روحانیت کی جنت میں بسا دیں.اس کے لئے ہم میں سے ہر جائیں تو غلطیاں ہی سر یہد نہ ہوں.گناہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.غفور و فرد کو تبلیغ کے میدان میں نکلنا ہو گا.زمین کو ہموار.چٹانوں کو نرم کرنا ہوگا.سمیع یقین کریں.تو دعاؤں اور التجاؤں سے اس کے آستانے کو ہلا دیں.ان تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لئے ہمیں اپنے وجود اگر مالک یوم الدین تصور کریں.تو ہماری ہستی آنسوؤں کے سیلاب میں پر ایک مورت وارد دکر تی ہو گی.ایسی موت جس سے اسلام کو زندگی ملے.اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے بہہ جائے.ہمیں اپنی ہستی کو نیستی میں بدلنا ہو گا.حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہونے ہم یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم جس پاک اور توحید خالص کے کیا خوب فرمایا.جو خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا.اے آنزمانے والے معاشرے کی بنیاد حضرت محمد مصطفی نے ڈالی اور آپ کے بعد جسے آپ کے یہ نسخہ بھی آزما.اونہ اسی سے ہمیں ہمارے خدا اور آفس کے غلام کا پیار روحانی فرنہ ند نے دوبارہ نہ ندہ کیا.جس کو قائم رکھنے کے لئے آپ کے نصیب ہو گا.اے خدا تو ایسا ہی کر.اصحاب اور آپ کے مقدس جانشین اور موجودہ امام حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے بیش بہا قربانیاں دیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں.مشکلات اور مصائب کے طوفان ہمارے عزائم کو اور مستحکم کریں.بجائے آمین یا رب العالمین.۵۰

Page 50

الا یہ ہال کراچی مينارة البيج ۱۹۶۵ میں، قومی دفاعی فنڈ میں محترمہ جمیلہ عرفانی اور بیگم امیر اسے خود بید اسٹیٹ بنک کے مینجر کو چیک پیش کرتے ہوئے.

Page 51

لا اله الا الله في مدرسول الله بیت الهدى سیدنی آسٹریلیا اس کا افتتاح حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالٰی نے جولائی ۱۹۸۹ ء میں فرمایا.اس بیت الہدی کا گنبد فائبر گلاس کے کام سے لجنہ اماء الله آسٹریلیا نے تیار کیا.امنے لاتے رہے جیسے بوائے کا بيت الفضل ، لندن حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ صد سالہ احمدیہ جشن کے موقعہ پر ۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء کو بیت الفضل لندن میں لوائے احمدیت بہرا ر ہے ہیں.

Page 52

بیت نصرت جہاں کوپن ہیگن (ڈنمارک ) بیت المبارک ، بیگ (ہالینڈ) لجنہ کے چندہ سے تعمیر شدہ بیوت

Page 53

جلسه سالانه کراچی منعقده ۲۹ دسمبر ۱۹۸۹ء کے چند دلکش مناظر

Page 54

Page 55

کراچی میں حضور مجلس عرفان سے خطاب فرما رہے ہیں محترم چودھری احمد محنت رصاحب ساتھ میٹھے ہوئے ہیں.مقام قبور قدرت ثانيه مقام ظهور قدرت ثانیہ ، قادیان

Page 56

دار الصدر کراچی چراغات به موقع صد ساله حسین تشکر fororA بیت الحمد مارٹن روڈ

Page 57

ملفوظات مطبوعات شعبہ اشاعت لجنه کراچی

Page 58

دفتر لجنہ کے دو مناظر

Page 59

لجنه گیلری احمد یہ ہال HRS.SALINA MIR HEAD OF LAINAA KANAL 7 SADE SALLAH JASHAN-E-TASHAKKUR 1889-1989 5 2 نقشہ قیادت ہائے ضلع کراچی 10 PRESENTED BY MRS.BUSHRA MAHMOOD

Page 60

آٹوگراف تک AUTOGRAPH BOOK چند اکابرین سلسلہ کے دستخط حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مهدی معهود تراوین حضرت حکیم نور الدین خلیفة المسیح الاول Hazrat Hakim Nooruddin Khalifatul Masih I Hazrat Mirza Ghulam Ahmed The Promised Messiah کرار شود نظر 23.1.58 حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد خلیفة المسیح الثانی 44.1.58 حضرت مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث Hazrat Mirza Nasir Ahmed Khalifatul Masih III Hazrat Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmed Khalifatul Masih II خواطال الله Intahmed حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع والله مرزا محمود احمد خلیفہ ثانی 669 قادیان حضرت نصرت جہاں بیگم Hazrat Nusrat Jahan Begum Hazrat Mirza Tahir Ahmed Khalifatul Masih IV مرزا بشد احد 241 یم این حضرت مرتبا بشیر احمد نها ترین احمد حضرت مرزا شریف احمد Hazrat Mirza Sharif Ahmed Hazrat Mirza Bashir Ahmed 42

Page 61

میداد که هنگام امور اداری نبشی ۲۲ جنوری حضرت نواب مبارکہ بیگم الله الحفيظ بیگم ام مرزا نا ولله حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم حضرت محمودہ بیگم ام ناصر Hazrat Mehmooda Begum Ume Nasir Hazrat Nawab Amtul Hafiz Begum Hazrat Nawab Mubarika Begum مصاق عالم المراة حضرت مفتی محمد صادق برهان حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل سید در اسان حضرت میر محمد اسحاق Hazrat Meer Mohammad Ishaq Hazrat Dr.Meer Mohammad Ismail Hazrat Mufti Mohammad Sadiq حضرت مولانا محمد سر در شاه ملی نمی هفته 120° حضرت مولوی شیر علی 2.غلام رسول کرا چکے اور بوه 2637-58 حضرت مولانا غلام رسول را جنیکی Hazrat Molana Ghulam Rasool Rajeki Hazrat Molvi Sher Ali Hazrat Molana Mohammad Sarwar Shah حضرت مولانا محمد دین هری t 1212158 حواء الله حضرت شیخ صاحب دین حضرت حکیم کرم الہی Hazrat Hakim Karam Ilahi Hazrat Sheikh Sahib Din Hazrat Molana Mohammad Din HA سم

Page 62

Zafrullakhan طور السرقات 23.1.58.حضرت سر چو ہدری ظفر اللہ خاں محمد حسین مربی بیت ۱۹۰۲ گوفرا ندارد 5-04 حضرت مولوی محمد حسین تتلو ٥-٣-١ حضرت ولی اللہ شاہ Hazrat Wali Ullah Shah Hazrat Molvi Mohammad Hussain Hazral Sir Choudhary Zafarullah Khan عبد القی بیان کر کے خاکسار مختار اسمه على الرعشه ۲۰ فرور یا شته اگر غریب وہ ہم بھی پوروں کے و 29.4.60 حضرت عبد الغنی خان کنید که حضرت حافظ مختار احمد شاہجہانپوری 1.3.58 حضرت محمد ابراہیم بقا پوری Hazrat Mohammad Ibrahim Baqapuri Hazrat Hafiz Mukhtar Ahmed Shah Jahanpuri Hazrat Abdul Ghani Khan Karrak یا کے دور کے عد المحمد 24 حضرت بابو تاج دین Hazrat Babu Taj Din عبداللہ الہ دین حضرت عبد اللہ الہ دین حضرت حکیم عبد الصمد شاء الله حضرت ثناء اللہ Hazrat Sana Ullah Hazrat Hakim Abdul Samad حضرت عبد الرحیم درد 11 مال کورد بوزینه حضرت عبد الرحمان جٹ Hazrat Abdur Rehman Jat Hazrat Abdur Raheem Dard Hazrat Abdullah Allah Din 49

Page 63

بقیه محسنات فراد کے لیے دار گیج - قاریان حال کراچی 23/4/71 صاحبزادہ مرزا وسیم احمد سته يف اعلی حضرت محمد ظہور الدین اکمل Hazrat Mohammad Zahoor uddin Akmal.Sahibzada Mirza Wasim Ahmed حضرت ماسٹر عطا محمد Master Ata Mohammad رتوپدری عسکر که از نویری والی حضرت چوہدری عبد الحمید Hazrat Choudhary Abdul Hameed خواجه می شریف 295 خواجہ محمد شریف صاحب Khuaja Mohammad Sharif عندهم محمد 9.3.57 78 حضرت غلام محمد Hazrat Ghulam Mohammad احمد ندر کابل غلام رسول افغان حضرت احمد نور کابلی حضرت غلام رسول افغان Hazrat Ghulam Rasool Afghan Hazrat Ahmed Noor Kabuli نور جہاں بیگ صاحبہ مسعوده خانم صاحبه امت المحئی والدہ امننه الرب صاحبہ بشری محمد صاحبه شوکت سلطان محمد انور صاحبہ صفیہ سیال صاحبہ فهمیده بیگم صاحبہ ممتاز حکیم صاحبہ نسیم سعید صاحبه سیدہ بیگم عمر علی صاحبہ زبیدہ بیگم خلیل احمد مونگیری کلثوم بیگم عبدالر سیم مد ہوش رحمانی مسعود نبی احمد صاحبه صاد قد شر ما صاحبه محفوظه و قارصاحبه جیه قدسیه صاحیه گلزار بیگم آفتاب بسمل امته الهادی رشیدالدین صاحبہ بیگم عبدالحمید صاحبه حمیدہ اختر بیگم اے آر سلیم امتہ اللہ اشرف صاحبہ امته الوحيد خالدہ صاحبہ ناصره مختار صاحبه سعیده ہاشمی صاحیه امتہ النعیم را نا صاحبه برکت نا صر صاحیه صغری بیگم تدکسیه صاحبه ڈاکٹر محمودہ نذیر صاحبہ امنه الدستيد عزبیر صاحبه امته الرشید فاروقی صاحبہ آمنہ بائی سر در جان معصوم بیگیم روفه میگیم ، حمید النساء بیگم مولوی عبدالمجید مریم عثمان صاحبه املہ اللہ مرزا رفیق احمد صاحبہ

Page 64

حضرت اماں جان محترمه طاهری بیگم شرف ناصر صاحب چن لیا تو نے مجھے اپنے مستیا کے لئے سب سے پہلے یہ کرم ہے مرے جاناں تیرا دنیا میں عالمگیر روحانی نظام کے قیام اور امام آخر الزماں کے لائے جیب حضرت میر صاحب کا یہ خط پہنچا تو حضور نے خدا مداد ہوئے انو یہ آسمانی کو جہاں بھر میں پھیلانے کے لئے یہ تقدیر خداوندی تھی فراست سے درخواست دعا کو خدائی اشارہ پاکر انہیں جواب دیا کہ ہندوستان کے صوفی مرتاض اور ولی کامل خواهید محمد نا صرفا (۲۰۱۲۹۳ ۱۵) کہ تعلق میرا اپنی پہلی بیوی سے عملاً منقطع ہے اور کہیں دوسرا نکاح کرنا چاہتا کی نسل سے ایک پاک خاتون مہدی موعود کے مقدر و حجیت میں آئے گیا.آپ ہوں اور مجھے اللہ تعالے نے الہام فرمایا ہے کہ جیسا کہ تمہارا معمرہ خاندان ہے نے ایک مکاشفہ میں دیکھا تھا کہ درج جس نے فرمایا.ایسا ہی تم کو سادات کے معززہ خاندان میں سے نہ دیجہ عطا کروں گا.رو نانا جان نے مجھے خاص اس لئے تیرے پاس بھیجا تھا کہ ہمیں تجھے حضرت میر صاحب کمر کے قضاوت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود معرفت اور ولایت سے مالا مال کردوں یہ ایک نعمت تھی جو کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہے اور ان کی بیٹی کی عمر سترہ اٹھارہ سال گہرے خانوادہ نبوت نے میرے واسطے محفوظ رکھی تھی اس کی ابتدا تجھے فکر میں پڑ گئے اور کچھ تامل کیا.بایں ہمہ خدا نے یہ تصرف کیا کہ حضرت کی نیکی پر ہوئی ہے اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلاة والسلام پر ہو گا اور نیک مزاجی کے سبب آپ نے دل میں یہ پختہ فیصلہ کر لیا کہ اسی نیک رمیخانه درد ص۳) مرد سے اپنی دختر نیک اختر کا رشتہ کروں گا.چنانچہ آپ نے حضرت نانی اماں سے سو جب اس موعود نعمت کے عطا ہونے کا وقت قریب آیا تو مشورہ کے بعد رضا مندی ظاہر کر دی.خالہ قومی اے کو خواجہ میر درد صاحب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہیں) کو بار بار اطلاع دی کہ کی مسجد میں عصر و مغرب کے درمیان مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی ہم تیرے آباؤ اجداد کے سلسلے کو منقطع کمر کے تجھ سے ایک نئی نسل اور نئے نے گیارہ صد روپیہ حق مہر پر نکاح پڑھا یہ تقریب اسلامی تمدن و معاشرت خاندان کی ابتدا کرنے والے ہیں نیز آپ کو قبل ان وقت یہ بھی بتا دیا گیا کہ آپ کی روشنی میں نہایت سادہ اور کچھ وقانہ طریق پر انجام دی گئی.آپ کوئی زیور کی یہ دوسری شادی دلی کے ایک مشہور سادات خاندان میں مقدر ہے.کپڑا ساتھ لے کر نہیں گئے.حضرت مسیح موعود در آپ پر سلامتی ہو ) کی اس دوسری شادی کا خدائی صرف اڑھائی سو کی رقم حضرت میر صاحب کے حوالہ کردی کہ جو نکاح کے بعد خصمانہ کی تقریب عمل میں آئی.قادیان میں دلہن سامان اس طرح ہوا.کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب اللہ سے حضرت چاہیں بنوالیں.مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے ارادتمندوں میں شامل اور آپ کی خدا نما شخصیت کے مداح تھے.ایک دفعہ جذبات عقیدت میں چند امور کے لئے کے لئے زبان، طرفہ معاشرت اور ماحول بالکل نئے تھے پھر کجا دتی جیا (آپ پر سلامتی ہو) کی خدمت میں دعا کی غرض سے بارونتا شاندار وسیع اور تاریخی شہر اور کجا دنیا کی آبادی سے دور ایک ایک خط لکھا جس میں ایک امر یہ بھی تھا کہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے نیک گنام سا گاؤں.اور صالح داماد عطا فرمائے.حضرت نواب میانہ کہ بیگم صاحبہ کا بیان ہے کہ رات کے وقت 21

Page 65

قادریان آئیں.کمرے میں ایک کھری چارپائی پڑی تھی جس کی پائنتی پر ایک کیلا یا تخلہ اس پڑھی ہماری جو پڑیں تو صبح ہوگئی.میں استقلال سے آپ کی ہمدم و رفیق رہیں.حضرت کے ہر دعوی اور ہر بات پر غیر متر منزل ایمان لائیں سخت بیماریوں 11 بر اضطراب کے وقتوں میں جیسا اور یہ اس زمانہ کی ملکہ دو جہان کا بستر عروسی تھا اور سران کے گھر اعتماد انہیں حضرت میں موجود کی دعا یہ تھا کسی چیز پر ہ تھا وہ ہر بات میں میں پہلی رات تھی.مگر خدا کی رحمت کے فرشتے پکار پکار کر کہ رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود کو صادق و مصدوق مانتی تھیں.آپ کا نمایاں ترین دصف اے کھری چارپائی پر سونے والی پہلے دن کی کو بہن ! دیکھو تو سہی! دو جہاں کی عبادت میں شغف تھا.نما نہ تہجد اور نماز ضعفی کی پابندی کے ساتھ کثرت نعمتیں ہونگی اور تو ہوگی بلکہ ایک دن تاج شاہی تیرے قدموں سے لگے ہوں گے انشاء اللہ سے نوافل ادا فرمائیں جماعت اور دین حق کی سر بلندی کے لئے سہ نہ و گداز سے دعائیں کرتیں.اواخر عمر میں آپ نے فرمایا " اب اُمن نہور کی دعا کرزوری کے سبب سے مجھ سے نہیں ہو سکتی جس میں میری طاقت بہت خریج ہوتی تھی کہ نمازنہ آپ بے حد خشوع در خضوع سے ادا فرماتی تھیں اور اس کمزوری کے عالم میں اللہ تعالے نے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) میں آپ کے سجدوں کی طوالت دیکھ کر بعض وقت اپنی حالت پر سخت افسوس کو یہ جانفزا بشارت دی کہ تیرا گھر برکت سے بھر دوں گا اور اپنی نعمتیں تجھے اور شرم معلوم ہوتی ہے.پر پوری کروں گا.میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت پر برکت اگلی صبح منصور نے ایک خادمہ کو بلوایا اور گھر میں سب آرام کا بند و بست کر دیا.دوں گا اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی.اور تیری دعوت کو روایت حضرت نواب میاد که بیگم صاحبه ) دنیا کے کناروں تک پہنچائوں گا.آپ نے اپنی ساری اولاد کی نہایت اعلی در جنگ میں تربیت فرمائی.حضرت نواب عمار کہ بیگم فرماتی ہیں.اصول تربیت میں میکن نے اس چنانچہ اس وعدہ کے مطابق حضرت سید ہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ تحریک بہت مطالعہ خاص و عام لوگوں کا کر کے بھی حضرت والدہ صاحبہ سے کے ذریعہ سے ایک مبارک نسل کا آغاز ہوا اور آپ کے بطن مبارک.بہتر کسی کو نہیں پایا.آپ نے دنیوی تعلیم نہیں پائی ( بحجر معمولی اردو خواندگی ) پانچ صاجزادے اور پانچ صاحبزادیاں پیدا ہوئیں.حضرت کیا موعد در آپ مگر جو آپ کے اصول اخلاق و تربیت کے ہیں ان کو دیکھے کہ یہی سمجھا کہ خاص خدا پر ساہتی ہو، حضرت بیگم صاحبہ کو شعائر اللہ میں سے سمجھ کران کی بڑی خاطر داری کے فضل اور خدا کے سیج کی تربیت کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سب کرتے پسند نا پسند کا خیال رکھتے.تحائف دیتے.آپ فرماتے ہیں، چونکہ خدا تعالئے کہاں سے سیکھا.کا وعدہ ہے کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت دین حق نافل کی ڈائے گا بچے پر ہمیشہ اعتبار اور بہت پختہ اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دنیا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہو گا.یہ آپ کا بیڑا اصول تربیت ہے.اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان در خواجہ میر در قوم کی لڑکی میرے نکاح میں جھوٹ سے نفرت اور غیرت و غنا آپ کا اول سبق ہوتا تھا ہم لوگوں لائے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو ان لویدوں کو جن کی میرے ہاتھ سے سے بھی آپ ہمیشہ یہی فرماتی ہیں کہ بچے میں یہ عادت ڈالو کہ یہ کہنا مان ہے پھر تخم ریزی ہوئی ہے.دنیا میں پھیلائے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح بے شک بچپن کی شرارت بھی آئے تو کوئی ڈر نہیں.میں وقت بھی روکا جائے گا سادات کی دادی کا نام شہر یا تو تھا.اسی طرح میری بیوی جو آئندہ خاندانوں کی باز آجائے گا.اور اصلاح ہو جائے گی.فرمائیں کہ اگر ایک بار تم سے کہنا مانتے ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی کی پختہ عادت ڈال دی تو پھر ہمیشہ اصلاح کی امید ہے - طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہاں کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے.یہ اللہ تعالے کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس بھی نہیں آسکتا تھا کہ ہم والدین کی عدم موجودگی......میں بھی اُن کی نشاہ کے یہی آپ نے ہم لوگوں کو سکھا رکھا تھا اور کبھی ہمارے وہم وگمان میں خلاف کر سکتے ہیں.کی پیشگوئی منفی ہوتی ہے.(تریاق القلوب نمبر ۶۴۷۶۵) حضرت اماں جان ۱۸ سال کی عمر میں - - - - - - قادیان حضرت اماں جان ہمیشہ فرماتی تھیں کہ میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے آئیں.انہی ایام میں حضرت مسیح موخو د ر آپ پر سلامتی ہو) کو ماموریت کے اور یہی اقتباہ تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچاتا تھا.بلکہ زیادہ متنفر کرتا تھا مجھے آپ کا تھی کر نا بھی یاد نہیں.پھر بھی آپ کا ایک خاص رعب تھا.ہم بہ نسبت الہام ہوئے تھے.اس طرح تمام ندمانه ماموریت کے نشیب و خرانہ اور سرد و گرم ۷۲

Page 66

آپ کے حضرت مسیح موعود سے دنیا کے عام قاعدہ کے خلاف بہت زیادہ بے تکلف تھے.حقیقی مہمان نوازی کے لئے قطری طور پر مہمان تو از خانوں کا آپ کا شریک بچوں کی تربیت کے بارہ میں آپ یہ بھی بیان فرمایا کرتی تھیں کہ پہلے زندگی بنایا.آپ کا خوان نعمت اور خوان مجرت بجماعت کے ہر فرد کے بچے کی تربیت پر اپنا پوران دیر لگا یہ دوسرے اس کا نمونہ دیکھ کر خود ہی ٹھیک لئے کشادہ تھا اس طر یہ عمل سے جماعت کا ہر فرد خود کہ آپ کے خاندان کا ایک حقہ تصویر کرتا آپ بے تکلفی سے بغیر کسی امتیاز کے اپنے روحانی ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود نے اپنے بعض اقرباء پر اتمام حجت کی غرض سے فرزندوں کے گھروں میں تشریف لے جاتیں.اور اُن کے دکھ سکھ میں شرکت خدا تعالے سے علم پاکر محمدی بیگم والی پیشگوئی فرمائی تو ایک دن حضرت مسیح موعود کو نہیں.آپ کا گھر ہمیشہ بتائی، ساکین اور بیوگان کی پناہ گاہ رہا.آپ نے دیکھا کہ حضرت اماں جان علیحدگی میں نماز پڑھ کر بڑی گریہ و زاری سے ان کی عزت نفس کا خیال رکھتیں اور عزیزوں کی طرح شین سلوک کرتیں.تیم بچوں سے اپنے بچوں کی طرح پیش آئیں انہیں جیب خرچ کے عا فرما رہی ہیں کہ خدایا اس پیشگوئی کو اپنے فضل اور قدرت نمائی سے پورا فرما.پیسے دیتیں.اپنے بچوں کے برا یہ کھانا کھائیں اور خود لباس تیار کر کے جب دعا سے فارغ ہو ئیں تو حضور نے دریافت فرمایا کہ تم یہ دعا دیتیں موسم سرمامیں لحاف تیار کر وا کے ضرورت مندوں کو دیتیں.کریہ ہی تھیں اور تم کو معلوم ہے کہ اس کے نتیجہ میں تم پر سوسنی آتی ہے.حضرت حضرت اماں جان کا لیا کس نہایت نفیس اور سادہ اور پردے کے اماں جان نے بے ساختہ فرمایا خواہ کچھ ہو.مجھے اپنی تکلیف کی پرواہ نہیں.میری لحاظ سے بہت مناسب ہو تا لمبی آستین کی قمیض پہنا کرتیں.آپ کا تب خوشی ہی میں ہے کہ خدا کے منہ کی بات پوری ہو.اور آپ کی پیشگوئی پوری ہو.غیر معمولی طور پر صاف اور وسیع تھا کسی کے لئے خواہ اس سے کتنی تکلیف پہنچی ہو صاجزادہ مریا بانک احمدکی وفات پر آپ نے کمال صب کا نمونہ دکھایا آپ کے دل پر میں آتا تھا.کان میں رینجرہ بات کہ اس صبر سے پی جاتی تنقیں کر حیرت ہوتی تھی اور ایسا بتا کر ان کی کسی دوسرے کو بھی کی بات کے جس پر حضرت اندکس کو الہام ہوا.دہرانے کی جرائت نہ ہوتی تھی.تیسکی ، چغلی، غیبت کسی بھی رنگ میں نہ کبھی آپ کہ خدا خوش ہو گیا " جب یہ الہام حضرت سیدہ کو سنایا گیا.تو آپ نے فرمایا مجھے اس نے کیا نہ اس کو پسند کیا.دیر دایت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) الہام سے اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ دو ہزارہ مبارک احمد بھی مر جاتا تو میں شو میں جب حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوں کا وصال ہوا.تو توکل علی اللہ، ایمان اور میر کا اعلی نمونہ دکھایا.اس وقت آپ کی زبان مبارک پروا نہ کرتی.بیمار دل کی عیادت کرنا اپنا فرض سمجھتیں.صدقہ وخیرات کبھی سے ادا ہونے والا جملہ ان سے دلیہ تونہیں چھوڑ چلے ہیں پر تو ہیں چھولینا عیاں اور کبھی نہاں ہر طرح سے کرتیں جماعت کے پروگراموں کے لئے مال کی بعد میں جب آپ کو کسی واقعہ یا ذکر سے حضرت مسیح پاک کی یاد آتی تو آپ فورا ضرورت ہوتی تو بے دریغ چندہ دیتیں.ہاتھ سے محنت کر کے بھی پھندہ زیا قرآن پاک پڑھنے لگتیں.اور قادیان کی خواتین میں محنت کی عظمت کا احساس پیدا کیا.مینارہ اسیح کے رد و امیت حضرت مولوی غلام نبی صاحب / کتاب عرفانی کبیر ۵۳) لئے تحریک ہوئی تو اپنی جائیداد فروخت کر کے کل ضرورت کا بڑا ادا کر دیا تحریک آپ اللہ اپریل ۱۹۵۲ء ساڑھے گیارہ بجے شب ربوہ نہیں انٹی سال کی جدید کا چندہ اڈل وقت ادا فرما دیا کہ نہیں.عمر میں اس جہان فانی سے رحلت فرما گئیں.خدا رحمت کنند این عاشقان حضرت اماں جان بڑی مہمان نوا نہ نفیس اپنے عزیزوں اور دوسرے ، پاک طینت را P لوگوں کو اکثر کھانے پر ہلاتی رہتی تھیں اگر گھر میں کوئی خاص چیز یکی تو عز بندوں میرے لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لئے کے گھروں میں بھجواتی تھیں.سب سے پہلے یہ کریم ہے میرے جانا ہے تیرا عید کے دن اپنے سارے خاندان کو اپنے پاس کھانے کی دعوت کوئی ضائع نہیں ہوتا جو تترا طالب ہے دیتی تھیں اور سہر ایک کی پسند کا خیال رکھتیں.کوئی رسوا نہیں ہوتا جو ہے جو یار تیرا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود (ر آپ پر سلامتی ہو) کو جہانوں کی آسماری پر سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیے کثرت کی بشار نہیں دی تھیں اور ان کی ضرور بات کے تشکفل ہونے کا ذمہ لیا تھا.کوٹھے ہو جائے اگر بندہ ذرات تیرا

Page 67

خورتوں کو ھمارے ملک میں کوئی تعلیم نہیں دیتا.مناظر قدرت میں ان کو جانے کی اجازت نہیں میرے نزدیک به گندہ طریق ہے.انسان اگر غور سے دیکھے اس قدر موقع تعلیم کا اس کو حاصل ہے عورتوں کو کہاں مگر بعض نادان چاہتے ہیں کہ ہمارے ہی جیسی عارات او عقل رکھنے والی عور تیں ہوں بھلا بلا تعلیم ہے نہیا ہے.وہ اعضاء میں بہت نازک ہوتی ہیں ، مانع ان کا بہت چھوٹا ہوتا ہے.اس لیے جو بہت نازک چیز ہوتی ہے اس کے محفوظ رکھنے کے لیے بھی رحمت اور دعا و احتیاط کی نہایت ضرورت ہے.خطبہ نکاح فرموده ۲۸ اکتوبر ۱۹۱۲ء 129 16 / خطبات نور مجلد دوم صف ۱۷۹۶۱۷۸ حضرت اماں جان کی سیرت پر بہت کچھ کھا جا چکا ہے اور آنے والے مورخ اس عظیم اور مقدس خاتون کی سیرت سوارخ پر لکھنا بڑی سعادت تصور کریں گے لیکن حضرت اسماعیل صاحب نے جو آپ کے چھوٹے بھاں تھے چند فقرات میں جو آپ کی سیرت بیان کی ہے ہے وہ حقیقتا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے اور ہر احمدی خاتون کے لیے مشعل راہ ہے.ا بہت صدقہ خیرات کرنے والی..ہر چندہ میں شریک ہونے والی.اول وقت اور پوری تو تب و انہماک سے پنجوقتہ نماز ادا کرنے والی.ت اور وقت کے ان میں تبد کاخاص التزام چاہیے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو بچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے.انسان کے اخلاق فاصلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں اگر ان ہی سے تعلقات اچھے نہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو.رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.خَيْركم خيركم لأهله تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے اچھا ہے.( ملفوظات جلد ہی جم صف ۲۴۱۸) عورت اور مرد کے جوہر میں کوئی فرق نہیں جیسی عورت کی فطرت اور خواہشات میں ایسے ہی مرد کی.اس لیے جیسے حقوق مرد سکتے ہیں ویسے عورت کو ملنے چاہئیں.ازہار لذوات الخمار صو (۴۵) رکھنے والی.۵.خدا کے خوف سے معمور صفائی پسند شاعر با نداق سخن فهم - مخصوص زمانہ جہالت کی باتوں سے دُور.گھر کی عمدہ منتظم ۱۰ اولاد کے لیے از حد معین ار خاوند کی بے حد مطیع و فرمانبردار ۱۲.کینہ نہ رکھنے والی ہ عورتوں کا خاص وصف کریا بہت ہے مگر میں نے حضرت محمد وتر کو اس عیب سے ہمیشہ پاک اور بری پایا.ا سیرت حضرت ام ای جلد دوم صفر )

Page 68

وخت کرام محترمه امته الرفيق ظفر صاحبه اک طرف وخت مبارک اک طرف دخت کرام تیرے گلشن میں لگے ہیں کس قدر شیرین شد حضرت سیدہ تو اب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ حضرت والله مخرج ما كنت تكتمون حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ( اللہ تعالے کی مرزا غلام احمد قادیانی بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بستر اولاد میں سے آخری اور سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں.آپ ۲۵ جون 9 : آپ پر بے شمار رحمتیں ہوں ) کا بابرکت وجود حضرت مسیح موعود ( آپ کو حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ (اللہ تعالے کی آپ سر پر سلامتی ہو) کی صداقت کا زندہ نشان تھا جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ بے حد رحمتیں نانول ہوں، کے بطن مبارک سے تولد ہوئیں.آپ عالیہ احمدیہ حقیقت الوحی صفحہ ۲۱۸ میں فرماتے ہیں.گلشن احمد کا وہ حسین پھول تھیں جس کی ولادت با سعادت اور چالیسواں نشان یہ ہے کہ اس لڑکی کے بعد ایک حیات طیبہ کے متعلق مامویہ نہ مانه حضرت مسیح پاک کو بشارات اور لڑکی کی بشارت دی گئی جس کے الفاظ یہ تھے کہ دخت کرائم دی گئی تھیں.جیسا کہ حضرت اقدس ر آپ پر سلامتی ہو) نے آپ کی پیدائش چنا نچہ وہ الہام الحکم اور البدر اخباروں میں اور شائد ران دونوں میں سے ایک میں شائع کیا گیا اور پھر اس کے بعد لڑکی کے تذکرہ میں فرمایا.۲۵ جون شاء ، و زشنبہ آج ہر جون 19 اور یہ پیدا ہوئی جس کا نام "امتہ الحفیظ " رکھا گیا اور وہ اب تک کو یعنی اس رات کو جو جمعہ کا دن گزرنے کے بعد آتی ہے مطابق زار ربیع الثانی ۱۳۳ م اور دہم ہار 19 نہ میر زندہ ہے.حقیقت یہ ہے کہ آپ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ گھر میں لڑکی پیدا ہوئی ہے اور اس کا نام " امتہ الحفیظ رکھا اور حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے صبر جمیل کا وہ شیریں گیا.یہی وہ لڑکی ہے میں کی نسبت الہام ہوا تھا پھل تھیں جس کا مظاہرہ انہوں نے اپنی بیٹی امتہ النصیر کی وفات خالی جوش اس وقت تک فائدہ نہیں دیتا جب تک انسان جو کے اس پر عمل نہ کرے.دیکھو اگر ایک شخص بھوکا ہو اور بھوک سے اس کی جان نکل رہی ہو اس سے کہو کہ کھانا کھالو لیکن کھانا نہ دیا جائے تو اس کا پیٹ نہیں بھر جائے گا..اس طرح وہ عورتیں جو دین کی باتیں سنتی ہیں اور ان پر عمل نہیں کرتیں ان کو بھی کچھ فائدہ نہیں ہو تا بلکہ ان عورتوں کی نسبت جن کو دین کی باتیں سننے کا موقع نہیں ملتا ان کے لئے زیادہ خوف اور ڈر کا مقام ہے کیونکہ جو نہیں سنتیں وہ معذور کبھی جاسکتی ہیں لیکن جو سنتی ہیں اور پھر ان پر عمل نہیں کرتیں وہ زیادہ مجرم اور گناہ گار ہیں." حضرت خلیفۃ المسیح الثاني نور اللہ مرقدة

Page 69

پر پیش کیا تھا.آپ کو الہامی نام اور آسمانی تحفہ "ڈخت کرام کے ہو گئے.آپ کی اس بھی بیماری میں حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بابرکت الفاظ سے سرفراز کیا جانا ایک خاص انعام کے طور پر تھا.نے خدمت کا وہ نمونہ دکھایا جس کی مثال ملنا محال ہے.مئی 119ء میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو اللہ تعالے قدر شناس خاوند نے بھی اس بے مثال خدمت کو سراہتے نے آپ کی بابرکت ولادت سے مطلع فرماتے ہوئے البہانا بتایا.ہوئے تحریر فرمایا.وخت کیام" یعنی ایک لڑکی ہوگی جو ہر جہت سے کریموں کی ونعت ہوگی.( تذکره شمالی) یہاں اگر اپنی حضرت دُخت کرام امتہ الحفیظ بیگم کا ذکر نہ کروں تو نہایت ناشکری اور ظلم ہوگا.یہ نور کا میڈیا خت کرام کے آسمانی نام سے آپ کے تمام حنات جمیلہ حضرت صاحب کا جگر گوشہ کسی خدمت اور کسی نیکی کے عوض اور اوصاف حمیدہ سے متصف ہونے کی بشارت دی گئی وہاں مجھے حاصل ہوا ہے اس بات کو سوچ کر میں ورطہ حیرت میں آپ کے اوصاف حمیدہ اور شمائل جمیلہ کا مشاہدہ کرتے ہوئے یہ ان الفاظ میں آپ کی درازی عمر کی پیشگوئی بھی مضمر تھی کہ ڈنی پڑ جاتا ہوں...اس اللہ تعالیٰ کی بندی نے اپنے اوپر آرام کو حرام کر لیا.رات دن جاگتے ہوئے کاٹتی تھیں...اعتراف کرے گی کہ حقیقت میں آپ دخت کرام ، تھیں اور خدا تعالی کی محبت اور صفت حفیظ کا مظہر تھیں.یہ ناز و نعمت کی پلی جو کہ ریشم و اطلس کے لحافوں میں آرام کی عادی تھی زمین پر چند منٹ کے لئے کسر ٹیک کر آرام آپ جب چار سال کی ہوئیں تو آپ کے والد ماجد حضرت لے لیتی تھیں.چند منٹ کا آرام اگر میسر آجائے تو آ جائے ورنہ بانی سلسلہ احمدیہ وفات پا گئے.چنانچہ آپ کی پرورش حضرت ہر وقت چوکس ہو شیار میرے کام کے لئے مستعد ہوتی تھیں....اماں جان اور آپ کے بڑے بھائی حضرت مصلح موعود نے اپنی بچیوں میری با وفا پیاری بیوی نے کسی کی امداد پر بھروسہ نہیں کی طرح بے پایاں شفقت و محبت سے کی.آپ کی تربیت میں بلکہ ان کی یہی خواہش اور آہ زور سہتی تھی کہ خود ہی میرا کام کریں توفیق ایزدی جس مثالی وجود کی پرورش مقصود بھی اُس کا اندازہ آپ اگر کسی دوسرے کو کام کہتا تاکہ ان کہ آمرام ملے تو اس سے خوش کی تنظیم آمین سے ہوتا ہے جو صاحبزادی صاحبہ کے سات سال کی عمر ہونے کی بجائے ناراض ہو ہیں...میں ناظرہ قرآن مجید مکمل پڑھ لینے پر آپ نے کہی.اب دیکھو اللہ تعالی کا کس قدر احسان ہے کہ اس گیارہ سال کی عمر میں آپ کا نکاح حضرت نواب محمد عبداللہ نے صرف مجھے دنیا ہی نہیں دی بلکہ اپنے بے شمار رحم اور خان صاحب سے ، جون 1910ء کو پڑھا گیا.آپ کے نکاح کے خطبہ کریم فرما کر حقیقی معنوں میں مجھے عبد اللہ بنا دیا...میں اپنے آپ اور اعلان کا شرف حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی (مرحوم) کو حضرت...کی دو بیٹیوں کا خادم سمجھتا ہوں.میری ساری کوشش اور محنت صرف اس لئے ہے کہ اس پاک وجود کے کو حاصل ہوا.حضرت مولانا صاحب کو قبل از وقت اس خطبہ نکاح کی سعادت کے متعلق ایک رڈیا کے ذریعہ بشارت دے دی گئی تھی.آپ کے گر خصانہ کی تقریب سعید ۲۳ فروری ۱۹۱۶ م کو عمل میں آئی.آپ کے شوہر گرامی حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی پہلی بیگم سے دوسرے صاحبزادے تھے.اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بیچے جانثار اور نوابی میں بھی درویشی کا اعلیٰ نمونہ تھے.آپ دونوں کی زندگی حقیقت میں قدر شناسی وفا شعاری اور خدمت ومحبت کا ایک حسین نمونہ تھی.ہگہ بارے آرام پائیں جن میں سے اللہ تعالے نے ایک کو میرے والد اور ایک کو میرے سپرد کیا ہے؟ دسیرت تواب عبد اللہ خان من اصحاب احمد ۲۵ اگست ۱۹ ء کا دن احمدیت کی تاریخ میں ایک یادگار دن ہے.جب عظیم الشان الہی نشانوں کی مظہر حضرت سیے پاک کی لخت جگہ حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کو اللہ تعالے نے یہ عظیم سعادت عطا فرمائی کہ آپ کے مقدس ہاتھوں سے عیسائیت کے گڑھ سوئٹزر لینڈ فروری ۱۹۴۷ء کو حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب میں بیت الذکر کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور آپ نے اس موقعہ پر پر دل کی بیاری کا شدید حملہ ہوا آپ مستقل طور پر صاحب فراش Swiss لوگوں کو جو بیت آریار پیغام کہ 24

Page 70

دین حق کو بغیر کسی تعصب کے پڑھیں اور اس کی تلاوت فرمائیں.یہاں تک کہ اپنی وفات کے دن بھی تلاوت کی کی دعوت پر غور کریں “ آپ قرآن مجید کے ہر حکم پر عمل پیرا ہونے کو سعادت سمجھتی تھیں.جہاں آپ کی دین حق سے سچی اور دلی محبت ظاہر و بچپن سے آپ نہایت ذہین وتعین تھیں.علم دوست تھیں ہے وہاں آپ کی اس شدید ترپ کا اظہار بھی ہے کہ کاش یہ تھیں.بہت بیدار مغر تھیں.اور بہت سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک لوگ دین اسلام قبول کر لیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تھیں.معاملہ فہم تھیں.تلے پناہ لے لیں.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اپنی درخت کرام کے آپ وہ بابرکت ہستی تھیں جنہیں چاروں خلفاء کے ادوارہ متعلق ایک مضمون میں فرمایا دیکھنے نصیب ہوئے.آپ نے خدائی نصرت کے نظارے دیکھے اور کہ فہد کا زمانہ جو ہے یہ ضروری نہیں کہ پہلے چھ مہینے حضرت مہدی مسعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی روز روشن کی طرح پوری کا ہو یہ تو دودھ کا نہ مانہ کہلاتا ہے.جہد کا زمانہ تو تین چاریال ہونے والی پیش گوئیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.پر ممتد ہوتا ہے اور اس عمر میں بعض بچے بہت باتیں کرتے آپ کو یہ سعادت عظمی بھی حاصل ہوئی کہ حضرت خلیفہ آج ہیں چنانچہ میری بیٹی امتہ الحفیظ بیگم تھی جو کم و بیش اسی عمر الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب خلیفہ منتخب ہوئے تو آپ کی ہے بہت باتیں کرنے والی ہے اور بڑی ذہین بچی ہے.نے اپنے مشترک ہاتھوں سے سیدنا حضرت بانی سلسلہ حالیہ احمدیہ کی مبارک انگوٹھی جس پر الیس الله بکاف عبدہ کے الفاظ کنندہ ہیں آپ کو پہنائی.ر مفهوم از ملفوظات جلد نهم مه ۲۳۵) حصول علم کا آپ کو بے حد شوق تھا.آپ نے شادی کے بعد میٹرک، ادیب عالم اور انگریزی میں ایفدا سے کیا.اردو ادب آپ منتجاب الدعوات تھیں.آپ کے لب کبھی دُعائیں کرتے کے علاوہ انگریزی ادب بھی کافی پڑھا ہوا تھا، تفسیر کبیر کا بہت گہرا مطالعہ تھا.ایک انگریز عورت نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی نہ تھکتے تھے.لاریب.آپ تو دعاؤں کا انمول خزانہ تھیں.آپ کی دُعاؤں کی برکت سے لوگوں کی نہ ندگیاں بدل جاتی تھیں.آپ نے کامیاب زندگی گزارنے کے لئے کتنا اعلیٰ اور ارفع گر بتایا ہے کہ غیر معمولی ذہانت کا اعتراف اپنے خط میں آپ کی صاحبزادیوں سے "بس دُعا نہ چھوڑو.اللہ سے رشتہ جوڑ لو.سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، یوں کیا کہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب امیر قوم ) قم فرماتے تھے.و ئیں ان سے مل کر اس قدر متاثر ہوئی تھی کہ ایک چھوٹے میں نے اکثر اوقات دیکھا ہے کہ ان کو کسی چیز کی خواہش سے قصبے میں رہنے والی بزرگ خاتون دنیا کے حالات سے پیدا ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو آنا جانا مہیا کرنے کے کس قدر ENLIGHTENED ہیں.سامان پیدا کر دیتے.میرے پر جو بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانیاں اور ده ساله مصباح جنوری فروری ۱۹۸۷ء ص ۱۶۴ عنایات ہیں وہ اسی کے طفیل ہیں.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ چار سال کی عمر میں اس کے سامنے بھی اپنا چہرہ ڈھانپ لیتیں اور فرماتی تھیں کہ کو اپنے موئی کے سپرد کر گئے تھے جب سے ہی وہ اپنے مولی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے عورت بغیر مرد سے پردہ کرے کی گود میں نہایت پیار سے رہتی ہیں..وہ میرے لئے اللہ تعالیٰ اس لئے میں کیوں اللہ تعالی کے حکم کی نافرمانی کروں کی طرف سے جرنہ کا کام دیتی ہیں.ر اصحاب احمد جلد دوانه دهم صفحه ۸۴ تا ۸۲) قرآنی حکم پردہ کی بڑی سختی سے پابند تھیں.یہاں بیک کر ڈاکٹروں در رساله مصباح جنوری فروری ۱۹ م ۱۲۵) قدرت ثانیہ سے آپ کو بے حد مخلصانہ تعلق تھا اور بے حد آپ روزانہ فجر کی نماز کے بعد التزام کے ساتھ تلاوت قرآن پاک دالبتگی تھی.آر آپ حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ کا بے حد عزت و فرمائیں.باوجود ضعف اور بیماری کے آپ تکیہ کے سہارے بیٹھ کر قرآن مجید احترام فرماتی تھیں.بچپن میں آپ کو طاری " کہتی تھیں.لیکن جب

Page 71

آپ قدرت ثانیہ کے چوتھے منظر نے تو ہمیشہ پیار و عزت کے ساتھ تھی.بہت ہی پیار کرنے والی طبیعت تھی.عمر کے ہر طبقہ کے لوگوں "میاں طاہر بلائیں آپ ملنے آتے تو ادب کے ساتھ اُٹھ کر بیٹھ جائیں سے آپ کے حسن سلوک کا دائرہ آپ کی محبت اور رحمت اور اپنے پاس بٹھاتیں.آپ کی اجازت اور مشورہ کے بغیر کوئی اہم کام شفقت کے نتیجہ میں بہت ہی وسیع تھا.“ سر انجام نہ دیتی تھیں.اور انے سیج پاک کی لخت جگر ! اے حضرت اماں جان حضرت امام وقت بھی آپ کا بے حد عزت و احترام کہ تھے اور کی تو یہ نظر ! اے ہمارے دلوں کی رونق اور روحوں کی تسکین؟ خدا تعالی کی مجھے یہ ان گنت رحمتیں ، برکتیں اور ٹورنازل اپنی والدہ کی طرح ان سے پیار و مجزرت کرتے.جیسا کہ آپ نے اپنے جذبات کا اظہار آپ کی وفات کے بعد یوں گیا.ہوں.اس کے پیاروں کا قرب تجھے نصیب ہو.خدا کی رھنا کی حضرت پھوپھی جان کے ساتھ میرا ایک اور تعلق یہ بھی ابدی جنتوں میں تیرا بسیرا ہو.تھا کہ میری والدہ کو ان سے بہت پیار تھا.بچپن سے آنکھ کھلتے ہی جب سے ہوش آئی ہے ہم نے اپنی والدہ کو پھوپھی جان کے اے آسمانی لقب پانے والی درخت کرام.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے آپ کی صفات حمیدہ لئے غیر معمولی محبت کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے پایا اور کا حامل بنائے.اور آپ کے نیک نقوش پر ہمیں چلنے کی پھوپھی جان کو بھی جوابا آپ سے تعلق تھا اس لئے حضرت پھو بھی ہوں توفیق دے.آمین! میرے لئے تو ایک طرح سے والدہ ہی تھیں جو فوت ہوگئیں.آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا تو آپ کو ور ترمین ملا تھا.آپ اپنے والد ماجد حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح یہ کامل ر تعطیه جمعه ۸ مئی شان بمقام بیت الفضل لندن) آپ حلوا باخلاق اللہ کی جیتی جاگتی تصور تھیں یقین رکھتی تھیں کہ ہر برکت کا منبع حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود آپ کا وجود سراپا حسن و احسان تھا، آپ پاک طینت، پاک خو سعید ہے.اور تمام رحمتیں اور برکتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے اور پاک سیرت تھیں.آپ کا مزاج نہایت پاکیزہ تھا.شرم و حیا آپ سے حاصل ہوتی ہیں.آپ کثرت سے درود شریف پڑھتی رہتی تھیں اور کا نہ یوہ تھی.آپ اپنے آسمانی نام " دخت کرام کے مطابق بہت زیادہ اپنی اولاد اور اپنے ملنے جلنے والوں سے بھی کیا کرتی تھیں کہ وہ کثرت فیاض اور مہربان اور مہمان تو نہیں.یہ بات آپ کی طبیعت کا حصہ سے درود پڑھا کریں اور خدا تعالے سے دعائیں کیا کریں.تھی کہ اگر کھانے سے بت کوئی مہمان آجاتا تو اُسے کھانا کھائے بغیر جانے آپ کی صاحبزادی محترمہ فوزیہ بیگم صاحبہ آپ کی سیرت کے کی اجازت نہ دی تھیں.آپ متفقیق ماں کی طرح سب احمدی بھائی بہنوں بیان میں فرماتی ہیں.کے لئے تڑپ تڑپ کر دعائیں کرتیں." خدا اور رسول سے بے انتہا محبت تھی.ایک دفعہ یہ نافع الناس اور بزرگ ہستی مٹی شاد بروز بدھ قریباً میں نے کہہ دیا کہ آج کل کے لوگوں نے رسول اللہ کی محبت کو ۸۳ سال کی عمر میں اس عالم فانی سے رحلت کر کے اپنے مولائے حقیقی بھی کد سے متجاوز کر دیا ہے.یہ سُن کر آبدیدہ ہو گئیں.کہنے لگیں سے جاملی.اس طرح اس ارمین خاک سے سیے پاک کے خا کی جسم کا رابطہ یہ نہ کہو.بعض وقت رسول کی محبت بھی خدا کے برابر لگنے لگتی ہے جو لہو سے شروع ہو اتھا اور میں ایک سو باون سال کے بعد ختم ہوگیا اس دن مجھے پتہ چلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بھی ستید تا محضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ تعالے نے آپ کی وفات آپ کتنی سرشار تھیں.خدا کی ذات پر بے انتہا توکل تھا.دعاؤں ساله مصباح جنوری فروری شد ۶ ۶۵) کے بعد مٹی 19 ء کے خطبہ جمعہ میں آپ کی سیرت طیبہ کی ایک جھلک پر بے حد یقین.ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحہ بھی بہت پاک خو خدا تعالی اور اس کے رسول کی محبت کے ساتھ ساتھ آپ کو اور پاک شکل تھیں اور حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی اولاد میں کلام اللہ سے بے حد عشق تھا.قرآن مجید آپ کی روح کی غذا تھی.سے آپ کو ایک رنگ عطا ہوا تھا جس میں بہت ہی جاذبیت ZA

Page 72

اسم گرامی ابتدائی مار السمان حضرت صاحبزادی نواب امان که نیم ست شارات سیمان مرد و هم بیشتری ایک بیت کوینی ماست شیخ عبده چمن میں ا ا ا ا ا ا ا ایرانیان با این همه این اشتراکی بات ان فله ای زنانه ای دیدن این نامه به خانه ای نشانی میموز خاتون کو فی الیه موادی خدوم شاکر صاحب وم بانو امیر قاضی محمد عبدالله عبد الستار م تعلیم اسلام قبول ری بیگم ایستادگی در صاحب

Page 73

اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا رلجنہ اماء اللہ کی چودہ ابتدائی عمیرات کا ذکر خیر) محترمه امته الشافي سیال صاحبه - حضرت خلیفہ المسیح الثانی مصلح موعود صاجزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ۲۵ دسمبر ہ کو احمدی ، خواتین کھے تنظیم بجنہ اماءاللہ کی بنیاد رکھی.لجنہ اماء اللہ کی ابتدائے ممبرات کی تعداد چودہ بھی ھے اور یہیں روز بروز بلند و بالا ہونے والی عمارت کے بنیادی اینٹیں ہیں.بنیاد کی مضبوطی عمارت کی بقاء کی ضامن ہوتی ہے.ہم اپنے اپنے قابل فخر اور قابل ہے قدر محسنات کے تذکرہ کو جذب سعادت و رحمت کا ذریعہ خیال کرتے ہیں.استیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ آپ کے اعزازات میں حضرت مسیح موعود کی حرم مبارک ہوتا صرف ہوتا.مدرسہ البنات کے لئے آپ نے گھر کا ایک حصہ پیش کر دیا.اور حضرت مصلح موعود کی والدہ ہوتا ہی نہیں تابندگی کا وہ توڑ بھی شامل یتیم بچیوں کو اپنے ہاتھ سے نہلاتی ڈھلاتی نظر آتیں تو کہیں بڑے بڑے جلسوں ہے جو کبھی خلیفتہ امی کے الثالث نور اللہ مرقدہ اور کبھی خلیفتہ المسی کی صدارت کرتی نظر آتی ہیں.آپ سرا پا شفقت وجود نھیں ، ملاقات کرنے الرابع ایدہ اللہ تعالے بن کر چمکا.جماعت کا ہر فرد آپ کا ممنون احسان ہے والی خواتین کی الجھنوں کو دور فرمائیں حتی الامکان ہر ضرورت مند کی ضرورت اور رہے گا.آپ کے والد محترم میر ناصہ نواب صاحب دہلی کے معروف کو پورا فرمائیں.قادیان میں اکثر گھرانے اس لحاظ سے بڑے خوش نصیب خاندان سعادت میں سے تھے.آپ کی پیدائش شہداء میں ہوئی.آپ تھے کہ آپ بڑی بے تکلفی سے ان کے گھروں میں تشریف لے جایا کرتیں.کے متعلق حضرت کی موعود ( آپ پر سلامتی ہو، کو شادی سے اٹھارہ سال بیماری ہو خوشی ہو غم ہو اپنوں سے بڑھ کر ہمدردی سے پیش آتی تھیں بلا تفریق ہر ضرورت مند کی مدد اور خدمت کرنے میں مستعد ر نہیں.بلا شبہ آپ اسر نِعْمَتِي رَيْتَ خَدِيجي رده م تنظیم کے قیام کی اغراض کا ایک مکمل نمونہ تھیں.جالب لانہ کے موقع پر ہزارمیں الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصِهْرَ لوگوں کی مہمان نوازی کرتیں.ان کے مسائل حل کرتیں.کہیں کوئی مرتبی میدان جہاد میں جارہے ہیں ان کو الوداع کہتیں اُن کی کامیابی کے لئے دعائیں کریں وَالشَّبَ - (تذکره م ٣) قبل الہام ہوا.کبھی نور ہسپتال کے زنانہ وارڈ کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے تو کبھی باہر سے ترجمہ : میرات کر کہ تو نے میری خدیجہ کو پایا.خدا تعالیٰ کی ذات کا شکر ادا کرو کہ اس نے تم کو سید اور شریف داعیان الی اللہ کی واپسی پر ان کی دعوت کے انتظامات ہو رہے ہیں.آپ کی قربانیوں کو دیکھتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے.بیت المحمد بنانے کی خاندان سے دامادی کا تعلق عطا فرمایا اور تجھ کو بھی اعلی خاندان سے پیدا فرمایا.تحریک ہو یا کہیں مربی سلسلہ کی ضروریات کو پورا کرنے کا مشود در پیش بولٹریچر پھر آپ کے متعلق خوش خبری دی کہ " وہ مبارک نسل کی ماں ہوگی " کے لئے رقم کی ضرورت ہو یا تحریک جدید نے پکارا ہو.آپ ہر تحریک میں بڑی لجنہ اماء اللہ کا پہلا جان نشانه وجود یہی مقدس و مبارک بستی فراخدلی سے حصہ لیتی تھیں اور سب سے پہلے اپنا چندہ ادا فرماتی تھیں.بعض دفعہ اپنے زیورات اور جائیداد فروخت کر کے خوشی سے خلیفہ وقت کے ہے.آپ کے وجود میں قدرت نے وہ صلاحیتیں رکھی تھیں کہ آپ بجاطور پر اس اعرانہ کی حقدار تھیں.آپ کی زندگی کا ہر لمہ خواتین کی بہبود میں قدموں میں پیش کردی.

Page 74

سیدہ اماں جان نصرت جہاں بیگم نے سر میں لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کے ساتھ جو بیجا عہد وفا باندھا تھا اس کو پورے خلوص اور کمال حلاوت کے ساتھ نبھایا.شب و روز لجنہ اماء اللہ کی ترقی و بہبود میں گزارتے ہوئے ۱۲۰ اپریل ۱۹۵۷ء کو ہم سے رخصت ہو کہ مالک حقیقی کے حضور حاضر ہوگئیں.صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب حضرت صاحبزادی نواب مباره که بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادی نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ - رندا تعالے لجنہ اماءاللہ کی ہر ممبر کے لئے جب تک سورج چاند باقی آپ سب سے راضی ہو، سب نے ہی اپنی مثالی ماں کی طرح اپنے اپنے ہ جنگ میں دین کی بے مثال خدمات سر انجام دہی ہیں اور اب ان کی انگلی ہیں آپ کی ہستی احمدی خواتین کے لئے روشنی کا مینار شایت ہوگی.خدا تعالیٰ نے آپ کو اپنے وعدے کے مطابق ایک بہت بڑی نسلیں بھی نمایاں خدمات بجا لالہ ہی ہیں.اللہ تعالیٰ اس سعادت کو تاقیامت آپ کی مبارک نسل میں جاری و ساری رکھے.آمین.اور مبارک نسل کی ماں بھی بنا دیا.الحمد للہ.آپ کے صاحبزادگان میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی P صاحبزادی بیده نواب مبارکه بیگم صاحبہ مالی قربانیوں میں بھی آپ پیش پیش رہتیں.خدا تعالیٰ کی راہ میں آپ حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو) کی بہت سی بشارتوں کے تحت آرمانی ( ۲۷ رمضان المبارک کو پیدا ہوئیں.زیور.جائیدادا در نقد رقوم جو کچھ ممکن ہو تا خرچ کرنا سعادت سمجھتیں، آپ آپ کی شادی مسیح پاک کے ایک مخلص رفیق نواب محمد علی خان صاحب کے نز دیک دین کی خاطر نہ ندگی وقف کرنے کی بہت اہمیت تھی اگر کوئی آف مالیر کوٹلہ سے ہوئی.ابتداء میں آپ کا قیام زیادہ تر مالیر کوٹہ میں رہا خانوں بتاتی کہ میں نے اپنے بیٹے کی زندگی وقف کی ہے تو آپ بہت خوشی مگر جب بھی قادیان تشریف لائیں.اجلاسوں میں ضرورہ شامل ہوئیں اور محسوس کرتیں اور باقی حاضر بہنوں سے فرمائیں کہ تم بھی اپنی اولاد کو دین کی خدمت لجنہ کی بہبود کے لئے مفید مشوروں سے نوازا کرتیں.بعد میں سیدہ موصوفہ کے لئے وقف کرو خواہ اکلوتا بیٹا ہی کیوں نہ ہو.مستقل طور پر قادریان دارالامان تشریف لے آئیں اور خدمات در ینید دین کی سر بلندی کا اتنا احساس تھا کہ جس وقت آپ کے محبوب کے لئے وقف ہو گئیں.آپ بہت صائب الرائے تھیں.حضرت بھائی حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کی وفات کا وقت قریب تھا آپ نے سیده امتد الحی صاحبہ جو کہ لجنہ اماء اللہ کی پہلی سیکر یٹری تھیں آپ سے شورے اور رائے لیا کرتی تھیں، تقسیم ملک کے بعد 1990ء سے 19 اپنی اولادہ کوٹری کی تلقین کی.اس موقع پر ایک پیغام جماعت کے نام تحریر فرمایا جو بیوت الصلوۃ میں پڑھ کر سنایا گیا.اس کا خلاصہ یہ تھا کہ احباب ینک لا ہور کی لجنہ اماء اللہ کی صدر نہ ہیں.آپ کی صدارت کے زمانہ میں جماعت بہت دعا کریں خدا تعالے سے دعاؤں کے ذریعہ مدد چا ہیں.عبادت کا ذوق فطرت میں شامل تھا چار سال کی ھر سے تہجد پڑھنی لاہور کے حلقہ جات کی تنظیم ہوئی.جلسہ سالانہ سالانہ اجتماع جامعہ نصرت اور نصرت گرلز ہائی شروع کی.آپ کی تربیت کے انداز میں نرمی تھی اپنی گفتگو اور تقاریر اسکول کی تقریبات میں ذکر حبیب اور دوسرے موضوعات پر زریں خطابات میں تربیتی امور کے مشعل راہ گر بیان فرمائیں ایک مقدس ماں کی طرح سے نوازا کر ہیں.لاہور کے شعبہ خدمت خلق کے لئے آپ نے بہت ہی سکون و قرار دینے والی یہ ہستی سرمئی ۱۹۷۷ء کو ہمیں داغ مفارقت اہم اور مفید مشورے دیئے.آپ ادبی ذوق کی مالک تھیں.آپ نے دے گئی اُن کی دُعائیں ہمارے ساتھ ہیں.فضل خدا کا ما یہ تم پر رہے ہمیشہ ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گزارے اپنی اس استعداد کو بھی جماعت کی خدمت کے لئے وقف رکھا، آپ کی نظم و نثر دونوں آپ کے تجر علمی و دینی پر دال ہیں.آپ کی تحریر است خواتین کے حساس اندازہ فکر کی عکاس ہیں.آپ کی صاحبزادیوں میں سید منصورہ بیگم صاحبہ حرم خلیفتہ ایج

Page 75

الثالث (نور اللہ مرقدہ ) لاہور میں صد له لجند ہ ہیں بستیده محمودہ بیگم صاحبہ مسعود احمد خان صاحب مرحوم اپنے اپنے وقت میں سلسلہ کی خدمات بجا لاتے صاحبزادہ ڈاکٹر منور احمد صاحب، عرصہ درانه تک لجنه اما بد الله مرکز به بیلیں رہے.آپ کے پوتے نواب منصور احمد خان صاحب واقف زندگی ہیں.خدمات سر انجام دیتی رہیں، آپ کی تیسری صاحبزادی سیدہ آصفہ بیگم مغربی جرمنی اور نائیجریا میں اہم خدمات انجام دیتے رہے اور اس وقت صاحبزادہ کرنل مبشر احمد ہیں.وکیل التبستر کے عہدہ پر فائز ہیں.خدا تعالی کی راہ میں وقف ہونے والوں کی آپ کے صاحبزادے نواب محمد احمد نمان صاحب مرحوم - تواب نسلیں بھی برکت پاتی ہیں.صاحبزادی سیدہ محمودہ بیگم صاحبه سید صاحبه آپ حضرت خلیفتہ اینچ الثانی اللہ آپ سے راضی ہو ، کی حرم اول کے لئے چندہ دیں تو آپ نے ادویہ بناکر فروخت کیں اور حاصل ہونے تھیں.آپ محترم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب لاہور ثم قادیان کی صاحبزادی والی آمدنی سے چندہ ادا فرمایا.تھیں.اکتوبر 19 ء میں حضرت کے موعود (آپ پر سلامتی ہو ) کی بابرکت زندگی آپ نہایت محبت کرنے والی اور ملنسار ہستی تھیں.جماعت کی میں آپ کی بہو بن کہ دارا میچ میں تشریف لائیں.خدا تعالیٰ نے آپ کو خواتین آپ سے ملاقات کر کے بہت سکون پاتی تھیں.خدا تعالے نے آپ کو حضرت کیا موعود در آپ پر سلامتی ہو ) کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع اولاد بھی ایسی عطا فرمائی جن کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن ہے.آپ کی عطا فرمایا.آپ نے تربیت کو جذب کیا اور کمال محبت و فدائیت سے نیک صحبت اچھی تربیت اور دعاؤں کا ثمرہ ہے کہ خدا تعالے نے آپ کے خدمت کا موقع پایا.جماعت کا ہر کام بڑے ذوق و شوق سے کر نہیں.اخبار بڑے صاحبزادے حضرت میاں ناصر احمد صاحب کو امامت کی ضلعت سے و الفضل" کے اجراء کے لئے آپ نے اپنا اور اپنی بچی کا نہ یور دے کر حضرت نواندا.آپ کی صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ صاحبزاده مزدا منصور احمد خلیفتہ آنے کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے کی سعادت پائی.جس سے سالہا سال صاحب بہت چھوٹی عمر میں لجنہ اماء اللہ کی خدمت میں مصروف ہوگئیں.اور اب تیک تعدا تعالیٰ کے فضل سے بجنہ اماء اللہ ہ بوہ کی صد یہ ہیں.سے جماعت مستفیض ہو رہی ہے.لجنہ کی تشکیل کے بعد اتفاق رائے سے حضرت سیدہ اماں جان صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد نے خود آپ کو کرسی صدارت پہ بٹھایا.اس طرح سے آپ لجنہ اماء اللہ کی صاحب، صاحبزادہ انور احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب صاجزادہ پہلی صدر نامزد ہوئیں.اور خدا تعالیٰ کے فضل وکریم سے ۳۶ سال کا لمبا مرزا رفیق احمد صاحب سب دین کی خدمت میں مصروف ہیں.آپ کی چھوٹی معرصہ صدر رہیں.ابتداء میں نظم ونسق کے اصول واضح کر دیں.بچیوں کو قرآن کریم صاحبزادی محترمه سیده امتہ العربیہ بیگم اہلیہ صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب عرشیانه پڑھائیں اُن سے نماز سنتیں اور ان کی تعلیم و تربیت کرتیں.جو بھی حضرت تک لاہور میں بحثیت صدر لجنہ اماء اللہ کی خدمات انجام دیتی نہ ہیں اور خلیفہ ایک اللہ آپ پر راضی ہوں محکم صادر فرماتے اس پر پہلے خود عمل کرتیں آپ کی نواسی صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی نائب اور پھر لجنہ اماء اللہ کی میرات کو عمل کرنے کی تلقین فرمائیں.آپ اپنا پورا صدر کے عہدہ پر فائمہ ہیں اور بہت اعلی پایہ کی شاعرہ ہیں.جیب خروج چندہ میں دے دیتیں.آپ ابتدائی موصیات میں سے تھیں.انیس سالہ تحریک بدید کا دور ختم ہوا تو آپ کا چندہ مبلغ ۰۰-۲۷۳۲ روپیہ خدا تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی نسل کو ہمیشہ ہمیشہ تھا.ریہ بہت سستے نہ مانہ کی بات ہے جبکہ روپیہ کی قیمت بہت زیاد تھی.دین کی توفیق بخشتا ر ہے.آمین ثم آمین.حضور نے حکم دیا کہ عورت میں اپنے ہاتھ کی کمائی سے اشاعت دین آپ نے اس جولائی 190 ء میں بمقام مری وفات پائی.دعا ہے

Page 76

فرماتے ہیں.حضرت سیڈامتہ الحی صاحبہ مرحومہ علاوہ اس کے کہ حضرت استاذی المکرم و استفاد کم حضرت مولوی نور الدین صاحب کی صاحبزادی تھیں.دین حق کی اس قدر محبت بنت حضرت حليفته المسيح الا والے (خدا آپ پر راضی ہوں یکھتی تھیں اور سلسلہ کی عورتوں کی علمی ترقی کی ان کے دل میں اس قدر تڑپ وحرم الثاني حضرت مصلح موعود (خدا آپ پر راضی ہیں.تھی کہ میرے نزدیک ساری جماعت میں اس قسم کی کوئی عورت موجود نہیں ؟ "الفضل نے لکھا وخطبات محمود صا) الله سیده امتد ابھی صاحبہ بنت حضرت خلیفتہ ربیع الاول حرم شانی سیدہ امتہ الجی کی موت ایک عالم کی موت ہے " حضرت خلیفہ ایکہ الثانی رخدا آپ پر راضی ہو) کو ایک لحاظ سے لجنہ امام آپ کو خدا تعالے نے دو بیٹیاں عطا فرمائیں.صاجزادی القیوم کے قیام کی اولین محرک کہا جاسکتا ہے کیونکہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول (خدا صاحبہ بیگم صاجزادہ مرزا مظفر احمد صاحب آپ لاہور اور راولپنڈی میں آپ پر راضی ہو) کی وفات کے تیسرے دن ہی جب کہ عظیم باپ کی وفات کا صدمہ نائبہ صدر کے عہدہ پر لجنہ کی خدمات انجام دیتی ہیں.امریکہ میں بھی آپ بالکل تازہ تھا آپ نے حضرت خلیفتہ اسے الثانی ر خدا آپ پر راضی ہو ) کی لجنہ اماءاللہ کی بہبود کے لئے کام کرتی ہیں اور بہت دلچسپی سے ہر کام انجام قدمت اقدس میں غلط لکھا کہ آپ بھی حضرت خلیفتہ ایچ الاول (خدا آپ دیتی ہیں.آپ کی دوسری صاجزادی امتہ الرشید بیگم صاحبہ جناب میاں پر راضی ہو) کی طرح عورتوں میں درس دیا کریں.چنانچہ اسی خط کی وجہ سے عبد الرحیم احمد صاحب بھی اوائل عمر سے بھنہ کی خدمات سر انجام دے عورتوں میں درس کا سلسلہ چلا.اور اسی خط سے حضور کو آپ کی باکمال زمینی رہی ہیں.اسی طرح آپ کی نواسیاں مکرمہ امتہ البصیر صاحبہ ، مکہ مہر استعداد کا اندازہ ہوا.شادی کے بعد حضور نے آپ کی تعلیم و تربیت اس امتہ النور اور مکرمہ اللہ الحی صاحبہ خدمت دین میں مصروف ہیں.مرنگ میں کی کہ آپ کا وجود سعید احمدی خواتین کی دینی تعلیم کی مدد گار ثابت ہو.آپ کی علم دوستی اور شوق مطالعہ کے پیش نظر سیدہ ام داؤد صاحبہ لجنہ اماءاللہ کے قیام کے بعد آپ لجنہ کی پہلی سیکرٹری مقرد ہوئیں.نے ایک لائیر یہ ہی کھولنے کی تجویز پیش کی جس کو حضرت خلیفتہ ایسے اللہ تعالے ہر ہفتہ لجنہ کا اجلاس کر وائیں.آپ خود پروگرام مرتب کرتیں پورٹیں کھتیں.آپ سے راضی ہو نے پسند فرمایا اور لائبریری کا نام امتہ الحی لائبریری تجویز درس القرآن کا بندو لیست کرواتیں.مالی قربانیوں کے لئے اکثر تحریک قربانی ہوا جس کا باقاعدہ افتتاح 14 ستمبر ۱۹۲۷ یہ کہ ہوا.اور اس لائبریری سے آپ کے زمانہ میں حضور نے برلن کی بہت الحمد کے لئے عورتوں کو تحریک فرمائی آج تک احمدی مستورات فیض حاصل کر رہی ہیں.تو اس کے لئے جماعت میں پہلا سر کلر آپ نے بھجوایا.یہ سرکلر آپ نے بڑے موثر انداز میں تحریر فرمایا.آپ کی تحریک پر خواتین نے بے مثال قربانیاں دیں بعض خواتین نے تو اپنے زیورات کے علاوہ اپنے قیمتی کپڑے بھی اس مد میں دے دیئے حضور کی تحریکات کی روح کو سمجھ کر عمل کرتیں حضور نے ایک دفعہ فرمایا کہ غرباء تنامی اور بیواؤں کو اپنے گھروں سپر دعوت دیں چنا نچہ آپ نے فورہ ار اس تحریک پر عمل کیا اور کروایا.اور پہنچاس افراد کی دعوت کا انتظام سیده مریم بیگم صاحبہ کیا.اس مال کو دیکھ کر اکثر دور میں ہونے لگیں.آپ نے بڑے چند ہے اور حررحمت خلیفتہ آج الثانی التاں آپے رانی ولولہ کے ساتھ خواتین کی دینی و دنیاوی بھلائی کی خاطر کام شروع کیا.مگر افسوس آپ کی با عزیم نہ بدگی نے وفا نہ کی لجنہ کی سیکرٹری مقرر ہونے حضرت شید مریم بیگم صاحت قادیان کی میو ہستی جناب سید عبداستار شاہ صاحب ہا کے دو سال بعد آپ ارد کیر 1 کواپنے مولائے حقیقی سے جاملیں آپ کی کی صاجزادی تھیں آپ کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی اللہ تعالیٰ آپ پر اتنی ہو وفات پر جو پیغام حضرت خلیفتہ ایسیح الثانی (خدا آپ سے راضی ہوا نے جماعت کے حرم میں شامل ہونے کی سعادت ۱۹ ء میں حاصل ہوئی.کے نام تحریر فرمایا اس سے بہتر خراج تحسین پیش کرناممکن نہیں.حضرت مصلح موعود آپ لجنہ کے قیام سے ہی لجنہ اماء اللہ کے بہبود کے لئے بڑے شوق Ar

Page 77

سے کام کیا کرتی تھیں سو دو میں سیکرٹری منتخب ہوئیں.آپ میں ایک رہے، حضرت خلیفتہ اسیح الثانی (خدا آپ پر راضی ہو) نے آپ کے لئے صدقہ بڑی خصوصیت یہ تھی کہ ہر کام بڑے انہماک سے کیا کرتی تھیں.آپ بجنہ کے جاریہ کے طور پر صورہ سناؤ کی تفسیر کے لئے مبلغ دس ہزار روپیہ کاموں کے علاوہ خدمت خلق کے لئے خاص پذیہ رکھتی تھیں.موبار کے لئے دیئے اور اس کے منافع کی تمام قم آپ کے نام کر دی خدا تعالے آپ کو اس کے آپ کے دل میں بہت درد تھا.آپ کی وفات پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی آجر سے نواز تار ہے.امین اللهم آمینے.د اللہ آپ پر راضی ہوں نے فرمایا یہ مکی نے محسوس کیا ہے کہ غریب عورتوں نے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک عظیم الشان سعادت سے نوازا وہ آپ کے دُکھ کو بہت محسوس کیا ہے.ان کے دلوں میں بہت درد ہے اور اس سے ہے کہ آپ کے لخت جگر ہمارے پیار سے آقا حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی وجہ یہ ہے کہ سیدہ امیر طاہر کے دل میں فریاد کی بہبود کا بہت زیادہ مادہ اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العربیہ امام وقت ہیں اللہ تعالے آپ کا یا برکت پایا جاتا تھا.اور یہ تمام کام لبعض دفعہ وہ اس حالت میں کیا کرتی تھیں کہ بستر سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم رکھے.آمین پر پڑی ہیں مانگیں سوجی ہوئی ہیں اور گرم پانی کی بوتلیں محصور کے لئے بستر نہیں آپ کی صاحبزادی سیدہ امتہ الباسط صاحبہ عرصہ دراز سے دیدہ رکھی ہیں.آپ سپر کام کو بڑے جوش اور حرم کے ساتھ سرانجام دریا کرتی تھیں ناصرات الاحمدیہ کی سیکر یٹری ہیں اور بڑے موثر رنگ میں نئی نسل کیسے آپ کی زندگی کا ایک اور نمایاں کارنامہ ہے.جو آپ نے سلور جوبلی کے تعلیم و تربیت کا کام کر یہ ہی نہیں اور آپ کا نواسہ صاجزادہ مکرم سید تم سلطان موقع پر با وجود تنگی وقت اور نا مساعد حالات کے، لجنہ اماء اللہ کا جھنڈا صاحب واقف زندگی ہیں.تیار کروایا.اس کا ڈیزائن حضور سے منظور کروایا اور پھر جوبلی کے جلسہ سالانہ آپ کی صاجزادی سیدہ امت الحکیم صاحبہ بڑی دعاگو اور درویش پر حضور اقدس کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور اپنے مبارک با عقوں سے صفت اور خدمت دین کی تڑپ رکھنے والی ہیں ان کے دونوں صاجزاد سے اس جھنڈا کو لہرا دیں اور پھر حضور کے ساتھ ہرانے میں مد کیا اس طرح یہ ایک محترم سید قاسم صاحب اور سید محمود احمد صاحب واقف نہ زندگی ہیں.آپ نہایت اہم اور تاریخی کام انجام کو پہنچا.ذلك فضل الله يوتيه کی صاحبزادی امتہ الجمیل صاحبہ بھی حتی المقدور خدمت دین میں مصروف رہتی ہیں.دعا ہے اللہ تعالے آپ کی نسل کو نسلاً بعد نسل ہمیشہ اپنے فضلوں من يشاء.پھر اس موقع پر لجنہ اماء اللہ کی طرف سے پیش کر وہ ایدہ ہیں میں پیشگوئی کے سایہ تلے رکھے اور دین حق کی خدمت کی توفیق دیار ہے.آمین! ور مصلح موعود کا خاص طور پر ذکر کیا اور ساتھ اپنی اور پوری دنیا کی بجنات اماد اللہ کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے عرض کیا ، کہ ہم اپنی نا اہلی کے باوجود حضور کو یقین دلاتی ہیں کہ اگر حضور کو ہماری یا ہماری اولاد کی یا ہمارہ سے اموال کی کسی بھی دینی مہم کے لئے ضرورت ہو تو حضور ہمیں ہر طرح کی جانثاری اور قربانی کے لئے تیار پائیں گئے ، اس کے علاوہ آپ کے عہد میں قادیان میں محلہ وار لجنہ اماء اللہ کی تنظیم قائم کی گئی گویا کام میں خاصا پھیلاؤ پیدا ہو گیا.قادیان کے علاوہ نواحی گاؤں مثلا بھینی منگل اور قادر آباد میں بھی تعلیم و تہ بہت سے سلام کی نگرانی فرماتی تھیں.محمد مد ہاجرہ بیگم صاحبہ اهلیه حضن چوری فتح محمد سیال آپ حضرت خلیفتہ ایسے الاول کی نواسی اور حکم مفتی فضل الرحمن صاحب کی بیٹی اور حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال کی اہلیہ تھیں خدا تعالے نے آپ کو دینی تعلیم و تربیت سے فیضیابی کے مواقع فراہم کئے تھے.آپ نے قرآن کریم اپنے عاشق قرآن نانا جان حضرت اید میں حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ منتخب ہوئیں خلیفتہ ایسے الاول سے پڑھا تھا.آپ نہایت محبت سے فرمایا کرتے تھے کہ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل ایک برابر اس عہدہ پر جلیل القدر خدمات میری یہ بچی عورتوں میں قرآن کریم پڑھانے کا میرا کام جاری رکھے گی.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں عورتوں نے آپ کے درسیس سر انجام دیتی ہیں.مارچ ایک آپ اپنے ملانے حقیقی سے جا میں خدا تعالی میش آپ کو عظیم قرآن سے فیض حاصل کیا.تقویٰ ، پرہیز گاری حین اخلاق اور عمل و فضل میں سے نوازتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی (خدا آپ پر راضی ہو نے آپ کیلئے صدقہ آپ کا نمایاں مقام تھا.لجنہ اماء اللہ کے قیام کے بعد اشاعت دینا کے لئے AM

Page 78

قرآن سے فیض حاصل کیا تقوی پرہیز گاری حسن اخلاق اور فضل سیدہ اماں جان کے صاحب علم اور محدث بھائی حضرت میر محمد اسحق صاحب میں آپ کاف یاں مقام تھا ، شاعت دینا کے لئے عورتوں کو چند ہے کی بیگم ہونے کی حیثیت سے آپ سے علم حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.دینے کی تلقین کیا کرتی تھیں.سب سے پہلے آپ نے اپنے ہاتھ سے کام کر اس لئے آپ علم و فضل میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں.قرآن کریم علم حدیث کے دین کی خاطر چندہ دینے کی تحریک کی تھی.خدا تعالے کے فضل سے اور فقہ پر عبور حاصل تھا.بڑے بڑے باریک لکھتے حل کر لیا کرتی تھیں، بہت اب یہ تحریک تحریب پھل پھول رہی ہے.لجنہ کے کام بڑی تندی اور سے لوگوں کو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہوا.مولوی فاضل تھیں.عربی اور لگن کے ساتھ کیا کرتی تھیں.لجنہ کی ایک تحریک میں اپنا دلاور فروخت کر کے فارسی کا اچھا علم رکھتی تھیں.چندہ دیا مہنگا نے وا نہ کی اور منہ کے ایم کے پانچ سال بعد ا ا ا ا ا ۱۹۳۳ د سے تو دیک نائب صدر نہ ہیں.منتظم جلسہ سالانہ کا عہدہ کو وفات پاگئیں.ابھی آپ کے سپرد تھا ہزاروں مہمان خواتین کی مہمان نوازی اور میزبانی کا شرف آپ کے بچوں کو خدا تعالے نے بڑے فضلوں سے نوازا.آپ کی بڑی بیٹی محترمہ حاصل ہوتا رہا.ہمیشہ سب کارکنان سے پہلے ڈیوٹی روم میں پہنچ جاتیں اور آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری عبداللہ خان صاحب مدرستہ الخواتین کی اولین طالبات آخر میں واپس جاتی تھیں.کھانا کھلانے کے تمام انتظامات کی نگرانی مفقود ہیں سے ہیں.آپ نے جمشید پور میں لجنہ قائم کی اور وہاں کی صدر ہیں.جمشید پور کرتیں ایک ایک بیرک میں خود جا کر مہمان خواتین سے خیریت دریافت کرتیں اور پھر کراچی میں قیام کے دوران آپ نے درس القرآن کا سلسلہ جاری رکھا.حضرت مسیح پاک کے مہمانوں کا ہر طرح سے خیال رکھتیں.اکرام ضیف کی اہمیت اسی طرح آپ کی چھوٹی بیٹی منیرہ بیگم اہلیہ چودھری مقبول احمد پر وقت پیش نظر یہ بہتی ، صحت کی خرابی میں بھی کام سے غفلت نہ ہوتیں.دینی صاحب بحثیت صدر شیخو پورہ ملیے عرصہ سے لیجنہ اماءاللہ کی حدت و علمی موضوعات پر بڑے محمد، مدال مضامین تحریہ فما نہیں، تقاریر بھی کرتیں.سر انجام دے رہی ہیں.آپ کے بیٹے محترم ناصر محمد سیال صاحب جو بہت موثر ہوتیں نے زندگی وقف کی اور حضرت مصلح موعود ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو).ت ادیان اور نواحی دیہات کی خواتین کو دامادی کا شرف بھی حاصل ہوا.آ محترم چو ہدری محمید نصر اللہ خان پڑھنا لکھنا سکھانے کا کام آپ کی عمرانی میں ہوتا.تھوڑے ہی صاحب تو محترمہ آمنہ بگیر صاحبہ ند نہیں لاہور کی جماعت میں امیر جماعت عرصہ میں سینکڑوں خواتین لکھنے پڑھنے اور دس لفظ کرنے کے قابل ہو گئیں.ہیں اور سلسلہ کی خدمات بیجا لا ر ہے ہیں.اس کے علاوہ بھی سب بچے دین الیکشن کے کام کے لئے آپنے نادریان اور دیہاتوں کے متعدد دورے کئے.کی محبت اور تڑپ رکھتے ہیں.دعا ہے.خدا تعالے ہمیشہ اپنے فضلوں سے نوازتا ر تین باغ فرقان فورس کے لئے اشیاء جمع کرنے اور ان کو قابلیت رہے اور دین کی خدمت کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے.آمین اللهم آمین استعمال بنانے میں آپ بڑی مدد فرمایا کرتی تھیں.آپ کی زندگی کا مقصد خدا تعالے کی محبت اور اس کے بندوں کی قدمت و اصلاح تھا.یہ شفیق ہستی ، ستمبر سر کو ہم سے جدا ہو گئیں.حضرت سیدہ صالحہ بیگم صاحبہ آپ کے سب بچے خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے دین کے خادم ہیں آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی سیدہ نصیر بیگم مرحومہ اہلیہ صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب مرحوم محتر مکیدہ بشری بیگم اہلیہ میرسید سعید احمد نے تمام اهليه حمير محمد الحق المرحوم زندگی خدا تعالے کے دینا کی خدمت میں گزاری بسیده سعیدہ بیگم ملک محمد علی آپ حضرت مسیح موجود در آپ پر سلامتی ہوں کے نہایت مقرب رفیق خان صاحب مرحو کر سلسلہ کی خادمہ نہ ہیں.آپ کے تینوں صاحزاد سے جناب حضرت پیر منظو را صاحب (مصنف قاعدہ لیترنا القرآن) کی صاحبزادی اور میر داؤد احمد صاحب مرحوم محترم میرمحمود احمد صاحب، میر مسعود احمد صاحب ایک بہت بڑے بزرگ صوفی حضرت احمد جان صاحب آف گرد بیا نیہ کی پوتی سب ہی واقف زندگی ہیں.اپنے ملک میں اور بیرون ملک ہر محاذ پر دین کی تھیں.چھوٹی عمر میں شادی ہوگئی اور حضرت مسیح پاک اور خلیفتہ اسی الاول جیسے خدمت کر رہے ہیں.میر داد و احمد صاحب مرحوم اور میر محمود احمد صاحب دو نوں صاحب علم بزرگوں سے شاگردی کا شرف حاصل ہوا.اس کے ساتھ ہی حضرت نے جامعہ احمدیہ کے پرنسپل کے عہدوں پر کام کیا.ان دونوں بیٹوں کو حضرت ۸۵

Page 79

خلیفہ ایسی الثنی کی دامادی کا شرف بھی حاصل ہوا.ذلك فضل اللہ سے اپنا رہائشی مکان اور ساری مملوکہ زمین وقف کردی.گویا جان مال اور وقت سب کچھ خدا تعالے کی رضا کے لئے قربان کر دیا.خدا تعالی آپ کو اپنے يونيه من يشاء آپ کی اگلی نسل بھی خادم دین ہے.سیدہ آپا نصیرہ بیگم صاحبہ پیالہ کی چادر میں ڈھانپ لے.آئیے.کے دونوں صاحبزاد سے مرزا غلام احمد صاحب، جناب مرزدا خورشید احمد صاحب محترمہ آپ سیدو شری بیگم صاحبہ کے صاحبزادے مکرم حسین احمد پاشا صاحب واقف زندگی ہیں اور دین کی خدمت پر مامور ہیں.محترمہ سیدہ کل تنوم با نو صاحبہ مدعا ہے خدا تعالے آئندہ بھی آپ کی نسلوں کو اپنے فضلوں سے نوانہ نار ہے اور آپ کو اپنے قرب خاص میں جگر دے.آمین اللهم آمین.بریلی کے سید عزیز الرحمن صاحب کی دوسری بیٹی تھیں.پہلی بیٹی سیدہ عائشہ بانو صاحبہ حضرت عبد الرحیم صاحب نیر کی اہلیہ تھیں.سیدہ کا ثوم بانو صاحبہ کی شادی حضرت قاضی مجد عبد اللہ صاحب بھٹی سے ہوئی اس رشتہ کی محترمہ مریم بیگم صاحبہ تحریک کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود نے تحریر فرمایا " قاضی صاحب ایک صالح نوجوان ہیں " قاضی صاحب انگلستان میں داعی الی اللہ ہے.سیده معلقوم بانو صاحبہ دیندار مخلص خاتون تھیں.قدمت دین کا یہ عالم تھا کہ اهلي فطار وش على حما مرت مع موجد کی عدت میں امر ہوکر عرض کی کہ بے اولاد ہونے کی وجہ سے ضروریات محدود ہیں.اس لئے میرے وظیفہ میں کمی کر کے یہی آپ حضرت سیے پاک کے بہت پرانے رفیق جناب منشی شادی زمان رقم اشاعت دین کے مصرف میں لے آئیں.آپ نے فرمایا جزات اللہ صاحب کی صاحبزادی تھیں اور معزز عالم دین حیساب حافظ روشن علی صاحب اور وظیفہ بھی بحال رکھا.بیت الفضل لندن کے لئے چندہ کی تحریک ہوئی کی اہلیہ تھیں.لجنہ کے قیام کے بعد آپ مختلف وقتوں میں عہدوں پر دین کی خدمت تو ایک انگوٹی کے سوا سارا زیور چندہ میں دے دیا.بے اولادی کے دیکھے کرتی ہیں.جلسہ سالانہ پر تقاریر کر ہیں.الفضل.مصباح - احمدی فانون کے ساتھ قاضی صاحب کی دوسری شادی کا فطری غم بھی صبر سے برداشت تادیب النساء میں آپ کے مضامین شائع ہوا کرتے.الفضل کے خاتم النبین کیا.اولاد کے لئے مرحا کی درد انگیز درخواست کرتیں.حضرت مصلح موعود نمبروں میں آپ کی قلمی کاوشیں جنگہ یا تیں.آپ بہت ہی بزرگ اور بلند پایہ نے خاص طور پہ دعا فرمائی.قاضی صاحب کی دوسری شادی کے ایک سال عالم دین خاتون تھیں.آپ سے ہزاروں بچوں اور عور توں نے قرآن کریم بعد نہیں سال کی دعاؤں کا ثمر واحد اولا د کلتوم بانو کے بطن سے ایک ناظرہ اور با ترجمہ پڑھنے کی سعادت حاصل کی ، حضرت مصلح موعود (اللہ آپ بیٹی امتہ الوہاب پیدا ہوئیں.کلثوم بانو صاحبہ نے سیدہ ام ناصر صاحبہ سے سے راضی ہو) درس القرآن دیا کرتے تھے.اس کا تمام انتظام آپ کے قرآن پاک با ترجمہ پڑھا.علمی مشاغل سے دلچسپی تھی.حضرت سیدہ سارہ میگیم ذمہ ہونا تھا.اس طرح خدا تعالے نے آپ کو بہت لمبا عرصہ خدمت دین کی صاحبہ، حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ اور حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ سے توفیق عطا فرمائی.۱۲ ۱۳ جولائی کی درمیانی رات شاء میں وفات پائی ہم عمری اور ہم خیالی کی وجہ سے بے تکلفانہ دوستی کے تعلقات تھے.اس وقت آپ کی عمر ۸۶ سال تھی.دعا ہے خدا تعالے آپ کو اپنی رضا اور جلس الانہ سر ذوق و شوق سے ڈیوٹی ادا کرتیں.آپ کو بچوں کو بہلانے محبت کی محنت عطا فرمائے.آمین.اور خاموش رکھنے کا کام دیا جاتا.تہجد گزار، رفیقہ میسیج اور موجبہ تھیں.آپ نے نہ صرف یہ کہ جسمانی خدمات ہی میں حصہ لیا.بلکہ ملی قربانیوں ۱۹۷۲ ء میں وفات پا کر ربوہ میں مدفون ہیں.میں بھی آپ صنب اڈل میں نظر آتی ہیں.حضرت مصلح موجو د ر خدا آپ سے راضی ہو) کی طرف سے جو سختہ ہیک ہوتی اس میں بساط سے بڑھ کر حصہ نہیں سے ہوئی جو واقف زندگی تھے.ربوہ میں بمنہ کے کاموں میں حصہ لیتی حضور نے جائیداد وقف کرنے کی تحریک فرمائی تو آپ نے بڑے اخلاص ہیں اب ڈیوس برگ مغربی جرمنی میں مقیم ہیں.امتہ الوہاب صاحب کی شادی محترم عبداللطیف قال صاحب ۸۶

Page 80

ساتھ پاس کیا.ایک دفعہ ہیں اور دوسری باسی سے میرے کہ کلاس میں دو مرتبہ دوم آئیں) مدرستہ الخواتین میں تقریروں کی مشق کروانے کے محترمہ حمیده خاتون صاحبه لئے ہر ہفتہ ایک اجلاس ہوتا.اس مجلس کی آپ پہلی سیکر بڑی مقرر ہوئیں.جلسہ سالانہ کا انتظام پہلی دفعہ لجنہ اماءاللہ کے سپردہ ہوا تو عورتوں سے بنت شيخ يعقوب لي عرفاني صاحب بیعت کروانے کا کام آپ کے ذقے تھا رستگار میں زمانہ دستکاری کی نمائش ہوئی تو آپ اس کی پہلی سکہ بیٹری ہونے کا اعزازہ آپ کو حاصل ہوا کہ میں قادیان اور لجنہ کے قیام کے بعد جا سالانہ میں چھوٹے بچوں کو سنبھالنے کی ڈیوٹی گردو نواح کے دسیات کا دورہ کیا عورتوں اور بچیوں سے نانا اور کام طبیب بنا در رکھا ایا سپرد ہوئی پھر اپنی والدہ محترمہ بیگم یعقوب علی معرقانی کے ساتھ بطور نائبہ درس گاہ کھولنے کی تجویز پیش کی.درس گاں گھنے پر بتیس لڑکیاں زیر تعلیم ہیں.سیکریٹری کے لجنہ اماء اللہ کی خدمات سر انجام دیتی رہیں.آپ کی شادی محترم بیماری میں پہلی سیکریٹری تعلیم لجنہ اماء اللہ کی طرف سے مقرر ہوئیں.اچھی مقرر اور اچھی مضمون نویس تھیں.احمدی خاتون - الفضل مصباح میں آپ کے مضامین صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی کے ساتھ ہو گئی تو آپ گھٹا یہاں چلی گئیں جہاں محترم ھوئی صاحب میڈ ماسٹر تھے وہاں جا کر آپ دین کی خودیت میں مصروف آیا کرتے تھے.حضرت مصلح موعود (خدا آپ پر راضی ہوں کے درس القرآن کے ہو گئیں کچھ عرصہ بعد محترم صوفی صاحب کو امر که مبلغ بناکر بیچ دیا گیا، آپ اور جولائی 19ء میں وفات پا گئیں.نوٹ لیا کرتی تھیں.پاکستان بننے کے بعد ماڈل ٹاؤن لاہور اور پھیر رہاوہ میں بھی لیتہ کے کاموں میں حصہ لیتیں ، گویا انہوں نے اپنی ساری زندگی علم سیکھنے سکھانے کے لئے وقف رکھی.مار دھرو میں آپ نے وفات پائی.خدا تعالیٰ آپ آپ کی ایک بیٹی محترمہ امتر النصیر صاحبہ اہلیہ منفیض المعارف لاند منفی کراچی میں صدر اور سیکرٹیری مال کے طور پر خدمت دین کر رہی ہیں.آپ کے بیٹے الطاف اختر وفات پاگئے ہیں.ان کے بیٹے اور بیگم محترمہ نسیم عرفانی پرخدا تعالے سے راضی ہو اور اپنے قرب میں جگا دے.آمین.اپنے فضلوں کا سایہ رکھے.آمین اللهم آمینے.۱۲ مکرمہ استانی میمو په وفی بگم صاحبہ محترمہ عزیزہ رضیہ بیگم صاحبہ اهلية مولوى في المحمدا اهیک هر زاگال محمد صاحب لجنہ اماءاللہ کے قیام کے قومہ بعد فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہو گئیں لہذا آپ کو پہلے جانے امانہ پر نائی منتظمہ پیج بنایا گیا اور پھر ہر سال آپ آپ جماعت کے معرز نہ رکن اور حضرت مسیح موعود آپ پر سلامتی ہوں کے انٹیج کی ذمہ داری بڑی خوش اسلوبی سے نبھاتی رہیں سب سیکرٹری مال منتظم درسند کاری انتہائی قریبی دوست جناب خلیفہ رشید الدین صاحب کی صاحبزادی تھیں.آپ کے ساتھے محاسبہ بھی رہیں، اپنے محلہ میں صدر اور سکریٹری مال کے فرائض بھی ادا کرتی کی پیدائش شاہ کی ہے.آپ پیدائشی احمدی اور رفیقہ تھیں.لجنہ اماءاللہ رہیں.19ء میں مولوی کا امتحان پاس کیارست ۱۹۳ ء میں حفاظت کا انتظام اور نائیہ کے قیام سے قبل ہی آپ محترمہ سیدہ امتہ الحی صاحبہ کے پاس قرآن کریم کا ترجمہ منتقلہ بیعت رہیں.لجنہ اماءاللہ کے قیام کے لیے قادیان کے گھروں....پڑھا کرتی تھیں، علم حدیث اور حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا کی کتب اور لجنہ کے حلقے قائم کئے تحریک جدید کے اجراء پر بھی تمام گھروں میں جا کہ فہرستیں پر آپ کو عبور حاصل تھا.مدرستہ الخواتین سے مولہ ہی کا امتحان اعزانہ کے بنائیں اور محنت سے وصولی کی.ماہ نمبر ۱۹۲۹ء میں امرتسر میں لجنہ کا جلسہ سالانہ AZ

Page 81

ہوا تو آپ کو وہاں بھیجا گیا آپ نے جلسہ میں تقریر کیا، تقادیان کے جا سیالان عبد الرحیم در دنا جب انگلستان سے واپس تشریف لائے تو آپ کی خدمت میں آپ کی تقاریہ ہوا کرتی تھیں اور آپ تنظمیں بھی پڑھا کرتی تھیں براسا میں جو ایڈریس پیش کیاگیا اس میں آپ کی خدمات کو سراہا گیا.آپ نے شو ہر کی میں لاہور کے سیرت النبی کے جلسہ پر تشریف لے گئیں اور سیرت پاک پر تقریر کی.غیر موجودگی کا عرصہ انتہائی صبر وتحمل سے گزارا.آپ نے ان گفت احمدی بچوں کی نصرت گولز ہائی اسکول میں آپ نے تدریس کے فرائض سر انجام دیئے.تربیت فرمائی.آپ کو خدا تعالے نے نیک اور خادم دین اولاد سے نوازا ۱۹۳۹ ء میں مشوری میں عورتوں کی نمائندگی کے حق کے بارہ سے ہیں آپ آپ کیا ایک بیٹی رضیہ دور د ساجر مجلس عاملہ مرکزیہ کی میر ہیں اور لیے ترمہ سے نے تقریر کی.قاریان یا.یوں میں ہو بھی مالی قربانی کی تحریک ہوتی اس میں حصہ بحنہ کی خدمت کر رہی ہیں.خدا تعالی ، مہ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی اولاد کو نہیں وقف جائیداد کی حرکہ کے وقت بھی آپ نے اپنے مکان کا پر حصہ کا وقف لا بعد نسل اپنی رضاکی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.کیا.اسی طرح الیکشن کے کام میں بھی پیش پیش رہیں.نواحی در ات میں تدریس کام بھی آپ نے کیا.آپ بڑی اچھی منتظمہ اور سادہ طبیعت کی مالک تھیں.ربوہ میں تدریس القرآن کلاس کا اجراء ہو تو کئی سال تک تدریس کے فرائض انجام دیں رہیں.اله صاحبہ نفرت گرلز اسکول ربوہ سے یہ ٹائر ڈ ہوگئیں تو آپ کو بیرونی لینات کے محترمہ بشریٰ بیگم صا دورہ جات کا کام سپرد ہوا.اس کا میں کم وبیش 4 دفعہ پشاور - کراچی لاہور.ملتان مشرقی بنگال اور مختلف دیہاتوں کے در، جات کئے ہیں بنتے کرم ماسٹر شیخ عبد الحمر صاحب آپ خلیفہ نورالدین آف جموں کی نواسی تھیں.آپ کی شادی جناب کافی عرصہ لجنہ کے اسٹور کا کام کیا.۱۹۳۳ٹہ میں کئے ہوئے عہد وفا کو بڑے خلوی محبت و محبت سے نبھایا.جولائی 19 میں وفات پاگئیں اللہ تعالئے اپنی محبت سے نوانہ ہے.آمین ماسٹر محمد حسن تاج صاحب سے ہوئی تھی.آپ بہت ذہین اور تحصیل علم کا شوق آپ کے پوتے حترم ڈاکٹر خالد احمد صاحب، نصرت جہاں کے تحت افریقہ یکم رکھنے والی خاتون تھیں.لجنہ اماء اللہ کے کاموں میں پیش پیش رہتی تھیں مدرسہ کام کر چکے ہیں.آپ کی شادی حضرت مصلح موعود د آپ پر خدا راضی ہو، کی نواسی سے انخواتین میں داخلہ لیلہ بہت اچھی مقربہ بھی تھیں.جو کام بھی آپ کے سپرد کیا جاتا عربیہ امتر الی صاحبہ سے ہوئی ہے.خدا تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو اپنے حفظ وامان اس کو بڑی تندہی سے کرتی تھیں.جلاس سالانہ پر نائبر منتظر بیعت کا کام کرتی رہیں آپ ا وہیں بیمار ہوگئیں اور پھر بستر سے اٹھ نہ سکیں.اورستمبر کو وفات پا گئیں آپ موصیبہ تھیں.میں رکھے اور خادم دین بنائے.آمین.۱۳ محترمہ سارہ در و صاحبه دیگر مالی قربانیوں میں بھی حصہ لیتی ہیں.آپ کی ایک ہی بیٹی محترمہ عزیزه خورشید بیگم محمود احمد خان لودھی مرحوم ہیں.انہوں نے ساری زندگی لجنہ اماءاللہ کی خدمت میں گزاری جہاں بھی راہیں مثلاً لاہور، منڈی بہاء الدین میں مختلف عہدوں پر کام کیا.دیدہ میں امتہ الحمی لائبریری میں کام کیا.اور اب کراچی میں حلقہ لیاقت آباد اهلية مولانا عبد الرحيم در دما کی صدر ہیں اور ضلع کراچی کے دفتر میں کام کرتی ہیں.آپ کے بیٹے منور احمد اور منصور احمد دونوں جماعت کا کام کرتے ہیں.منصور احمد حافظ قرآن بھی ہیں آپ آپ حضرت میاں محمد اسمعیل صاحب تاجر کتب آکی مالیر کوٹلہ کی بیڑی کی بیٹیاں امتہ النور، امتہ القدير، امتہ المتین تینوں ناصرات الاحمدیہ کی صاجزادی تھیں اپر کی موصیہ تھیں.نہایت صابرہ شاکرہ اور متوکل علی الله قانون سیکرٹری کے طور پر کام کرتی ہیں.دعا ہے خدا تعالے آئندہ نسلوں کو بھی خدمت تھیں.خاندان حضرت مسیح موجود آپ پر سلامتی ہوا سے بہت پیار کرتیں.قرآن پاک دین کی توفیق عطا فرماتا رہے.آمینے.سے عشق تھا.قرآن کریم حضرت خلیفہ اول سے پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی.اللہ تعالی ان نیک دپاک خادم دین ہستیوں کو ہمیشہ آئیں گے.آن گفت بچوں کو قرآن کریم پڑھا یا سی ۱۹ ء میں جب آپ کے شوم محترم مولانا لیے اپنی محبت کی چادر میں ڈھانپ لے اور اپنی رضا کے پانی سے سیراب فرمائے اور قیامت تک جماعت احمدیہ کی نسلوں کو ان کے نیک نمونہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.^^

Page 82

امر یہ ہالی کو اچی مينارة المبيع ۱۹۵ میں قومی دفاعی فنڈ میں محترمہ جمیلہ عرفانی اور بیگم ایم ہے خود شید اسٹیٹ بنک کے مینجر کو چیک پیش کرتے ہوئے.

Page 83

بیت الاقصی قادیان کا بیرونی منظر لنگر خانہ حضرت مسیح موعود قادیان

Page 84

لجنہ اماء الله ہزاروں درود و سلام ہوں اس مین الی اللہ علیہ تم پر تمام باتوں کے لئے کی خدمت میں میرات لجنہ اماء اللہ نے صدارت کی درخواست کی چنانچہ پہلا اجلاس رات لجسم بن کر آیا جس نے عورت کو اس کے پامال شدہ حقوق واپس دلوائے.اور معاشرہ آپ کی صدارت میں شروع مہوا مگر دوران اجلاس ہی آپ نے میں اس کی معینی عزت کو قائم کیا.لیکن مرور زمانہ کے بعد جب دنیا ایک بار پھر اس سین حضرت سیده ایم ناصراحه یک صدر نامزد فرما دیان تعلیم کو بھول گئی تب اللہ تعالی نے آپ ہی کے روحانی فرزند جلیل حضرت میں موجود آپ پر ، حضرت سیده ایم ناصراحمد ۱۹۱۲ تا سر جولائی سلامتی ہوم کو احیائے دین او قیام شریعیت کے لئے مبعوث فرمایا.آپ نے جہاں عورت کو ۱۹۵۸ در تک صدر رہیں.لیکن ۱۹۴۲ء نام ۱۹۴ ء ان کی بیماری کے دوران حضرت سیدہ اُس کے حقیقی منصب و مقام اور ذمہ داریوں سے روشناس کیا وہاں مردوں کے حقوق اتم طاہر احمد چندر رہیں.اس کے بعد ماہ اگست ۱۹۵۸ ء سے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صہ کی ادائیگی اور بیان می شین سلوک کی تلقین فرمائی.اللہ تعالی کے فضل سے آپ کے زمانہ میں حرم سیدنا حضرت مصلح موعود صدر لجنه اما وا شدم مرکزیتی ہیں جو انتھک محنت سے تمام دنیا کی بجنات ہی ایک خاصی تعداد ایسی خواتین کی پیدا ہوچکی تھی جن کے دلوں میں علم فضل کی شمعیں روشن کی رہنمائی فرما رہی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کی صحت اور عمر میں برکت دے تا آپ کی قیادت میں الجنات کے قدم مزید تیز ہوں.آمین بجنا را مرکزی کی ایک سیکرٹری سیده است الی صاحب تیم منتشر حضرت لی یا ان اصلی اور کا ایالات مصرف خواتین کے لئے نہاتے مصلح موجود تھیں.ان کے بعد حضرت صالحہ بیگم صاحب الی حضرت میر محمد عنق صاحب حضرت ہی مبارک ثابت ہوا.آپ نے مسند خلافت پر متمکن ہوتے کہا اس ضرورت کو شدت بیده او بیگم صاحب حرم حضرت مصلح موجود اور حضرت سیده ایم طاہر حضرت سیده ام متین صاحبہ ے محسوس کیا کہ جماعت کی ترقی عورتوں کی مجمع تعلیم و تربیت سے ہی ممکن ہو سکتی ہے چنانچہ نے بھی جنرل سیکرٹری کے فرائض ادا کئے.اس اہم مقصد کی تکمیل کے لئے آپ نے ۲۵ دسمبر ۱۹۲۷ء کو احمدی مستورات کی مانگیر ہو چکی تھیں !! نا اللہ کے ہمہ گیر پروگراموں کوعلی جامہ پہنانے کے لئے درج ذیل تشبہ بابات تنظیم کی بنیاد رکھی.حضور نے فرمایا : قائم کئے گئے ہیں :.شعبہ اعتماد شعبہ تجنید شعبه تربیت تعلیم شعبه تبلیغ شعبه مال یاد رکھو ! کوئی دین ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ عورتیں ترقی نہ کریں میں اسلام شعبی قدم متسلق شعر صحت جسمانی - شعبه ضیافت شعب تحریک جدید - شعبہ وصیت اور شعبہ کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ میں ترقی کر و عورتیں کمرے کی چار دیواری میں سے دو دیواریں کیٹ پروگرام حجه الا اللہ کی تنظیم کے تحت خلفائے سلسلہ نے احمدی خواتین میں قربانی کا ہیں ، اگر کرے کی دیواریں گر جائیں تو کیا اس کمرے کی چھت قائم رہ سکتی ہے ؟ نہیں! ایانه پیداکردی که آن اندی خواتین مالی قربانی کے میدان میں صف اول میں نظر آتی ہیں بیان فصل ہرگز نہیں !! اخطاب حضرت مصلح موعود بر موقعه حیات الانه ۶۱۹۲۲ لندن بیت محمود این بیت نصرت جہاں ڈنمارک اور ہیں جنہ اماءاللہ کے مرکزی دفتر اسہال کی نیز فرمایا " ہماری پیدائش کی جو فرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کیلئے پر شوکت عمارت اور بیت النصرت لائبریری قادیان کی غیر احمدی مستورات کی بے دریغ مالیئے عورتوں کی کوشش کی بھی اسی طرح ضرورت ہے میں طرح مردوں کی ہے.جہاں تک میرا قربانیوں کا نہ بولتا ثبوت ہے.ان کے علاوہ بھی لائے سلسلہ کی طرف سے جاری ہونے والی ہر بارت خیال ہے عورتوں میں اب تک اس کا احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے؟؟ مالی تحریک میں بی احدی خواتین نے ہمیشہ نمایاں حصہ لیانگ ۱۹۳۵ء میں مجنہ اماء اللہ کے ایک ہماری زندگی کی طرح صرف ہونی چاہئیے جس سے ہم بھی للہ تعال کی رضا حاصل کر کے مرنے شبه ناصر المحمدیہ کا قیام مل میں آیاجس کے تحت ٹھ سے پندرہ سال تک کی ٹھرکی احمدی چوں کا این تیم تری کی بات ہے یا یکی یکی یکی میری یہ نیا خان سودام کے بعد بلکہ اس دنیا میں الہ تعالی کے فضلوں کے وارث ہوسکیں " اری خواتین کی تعظیم و صرف چودہ مبرات سے شروع ہوئی تھی آنا بفضلہ تعالی یک خان صاحب مقرر کی گئیں.مانگیر تنظیم بن چکی ہے.ابتدا مصرف قادیان میں جنہ اماء الہ کاقیام عمل میں آیاتھا.اس کے بعد ۱۹۲۲ء سے آہستہ آہستہ ہندوستان کے مختلف شہروں اور دیہات اور پھر بیرونی ممالک میں بھی ان کی شاخیں قائم ہونی شروع ہو گئیں تقسیم ک تک اس تنظیم کا مرکزی دفتر بھی قادیان میں رہا.جوتی کےبعد انتقال ہوگیا جس کے تحت بشمول پاکستان دنیا کے مال میں بند او الہ گرم عمل ہے.لجنہ اماءاللہ کی پلی صدر حضرت سیدہ ام ناصر حم صاحبہ تھیں.(سید امیری خلیفہ میں ثانی نے دار دسمبر ۱۹۳۲ و وب تنظیم قائم فرائی تو حضرت امان نصرت جہاں میرم ٩١

Page 85

تاریخ لجنہ اماءاللہ کراچی مرتبه : نگار علیم کراچی میں جماعت احمدیہ کا پہلا مرکز ۱۹۳۷ ء میں احمدخان بلڈنگ ماہ رمضان المبارک کا اختتام تھا.خبروں میں یہ سن کر کہ ہمارا پیارا واقع سولجر بازار میں قائم ہوا.حضرت خلیفہ اسی الثانی کراچی تشریف مرکه تاریان ہندوستان میں رہ گیا ہے.میں تقریبا نیم بیہوش ہوگئی.لاتے تو اپنے دو اڑھائی سو احباب کے ساتھ یہیں مقیم ہوتے.اس وقت کی دلی کیفیت کا اظہار الفاظ میں ناممکن ہے لجنہ کی باقاعدہ تنظیم نہ تھی.خواتین خانہ بڑے شوق اور اہتمام سے معزز اگلے دن عید کا چاند نظر آیا اپنے مہربان میزبان کے ذریعہ پتہ کیا مہمانوں کے لئے خود کھانا تیار کرتیں اور دیگر خدمات سر انجام دیتے ہیں کہ عید کی نمازہ کہاں ہوگی.غرضیکہ ہم لوگ غمزدہ دلوں کے ساتھ اللہ تعالی فخر محسوس کر نہیں.اس نہ مانہ ہیں یہ سعادت محترمہ امینہ کی اہلیہ ایوب خان کی رضا کی خاطر فریضہ نماز عید الفطر کی ادائیگی کی غرض سے زولوجیکل صاموب المحترمہ حمیدہ فی اہلیہ حاجی خان صاحب اہلیہ صاحب عبداله زاق تمان صاحب، ان کی بیٹیوں اور دیگر اہل خانہ نے حاصل کی.لجنہ اماءاللہ کراچی با قاعدہ طور پر ایک تنظیم کی حثیت سے ۱۹۳۸ء میں قائم ہوئی.۱۹۳۸ سے تقسیم پاک و ہند تک بیشتر ریکارڈ تلف ہو چکا ہے اس لئے کوئی تفصیلی معلومات تو حاصل نہ ہو سکیں.تاہم اتنا معلوم ہو سکا ہے کہ محترمہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ محموت مبین صاحب نے یہاں لجنہ اماء اللہ کی شاخ قائم کی تھی.گویا لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کی گارڈن پہنچے.نماز کے بعد جماعت احمدیہ کے زن و مرد بچے بوڑھے متفرق مقامات سے آئے ہوئے عجیب جذبات لئے ایک دوسرے کی تلاش میں سرگرداں و پریشان نظر آئے.ہم دہلی سے آئی ہوئی مستورات بھی انہیں کوششوں میں لگی ہوئی تھیں.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری خواہش پر عزیزہ ناهره نسرین بنت شیخ عبد الحق صاحب نے مجھے لجنہ کراچی کی صدر محترمہ امتہ التصیر صاحبہ اہلیہ چودھری احمد جان شاب کے پاس لے جاکر تعارف کرایا.اس کے بعد لجنہ کراچی کے چندا جلاسات تاریخ ۱۹۳۸ تہ سے شروع ہوتی ہے.اس زمانہ میں لجنہ کے اجلاسات میں جو صدر لجنہ کے گھر پر ہی منعقد ہوتے تھے شرکت نصیب ہوئی.پندرہ روزہ ہوتے تھے.نمبرات کی تعداد پیکھیں اور تیس کے درمیان پارٹیشن کی وجہ سے مختلف مقامات سے آئے ہوئے احمد ہی گھرانوں تھی.عہدیداران میں محترمہ امتہ النصیر اہلیہ صاحبہ چودھری احم دجان کی کثرت کی وجہ سے بند کراچی کی نمبرات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا.صاحب.محترمہ عائشہ بیگم عیسی خان صاحب اور محترمہ بلقیس خانم بنت صدر الجہ کراچی نے اپنی بعض گھر یلو مصروفیات اور معذور بچوں کی محدود است حاجی عبدالکریم صاحب شامل تھیں.کے پیش نظر مزید کام جاری رکھنے سے معذوری کا اظہار کیا اور خواہش قیام پاکستان کے وقت محترمہ امتہ النصیر صاحبہ اہلیہ محترم بیجو دھری احمد جان صاحب لجنہ کراچی کی صدر تھیں.ظاہر کی کہ لجنہ کراچی کی میرات میں اب اضافہ ہو چکا ہے اس لئے از سر نو تنظیم کی جائے اور نئی عہدیداران مقرر کی جائیں.کثرت رائے 19 ء میں نوواردان کراچی نے تنظیم میں کس طرح شمولیت سے یہ طے پایا کہ انتخاب کی غرض سے ایک جلسہ میرے غریب خانہ کی اور کارواں کی طرح آگے بڑھایا یہ دلچسپ، عہد آفرین اورایمان فروز یعنی نمبر با بندر روڈ ایکسٹینشن پر منعقد کیا جائے.چنانچہ استمبر علماء حالات محترمہ احمدہ بیگم صاحبہ اہلیہ چودھری بشیر احمد صاحب نے کر یہ جلسہ وقت مقررہ پر محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کی صدارت حضرت سیدہ ام منین صاحبہ کے نام ایک مکتوب میں تحریہ فرماتے ہیں.میں منعقد ہوا.احمدی مستورات کی اکثریت محترمہ انسانی صاحبہ کو پارٹیشن کے وقت غالباً پندرہ اگست ۱۹۴۶ یو کی شام کو صد البتہ کراچی کے فرائض سپرد کرنے کے حق میں تھی جس پر محترمہ استانی ہم لوگ بذریعہ ریل گاڑی دہلی سے روانہ ہو کر سترہ اگست کو کراچی پہنچے.صاحبہ نے اپنی کراچی میں عارضی رہائش کے مد نظر فرمایا کہ صدارت ۹۲

Page 86

کی رشتہ داری کراچی میں مستقل مقیم مہرات میں سے ہی کسی کو دی جا سے ہے مجھے ان کے کہے ہوئے الفاظ اور وہ نظارہ ہو آج بھی آنکھوں کے ہے؟ بعد ازاں خاکسارہ کا نام پیش ہو کہ منظور ہوا.یہ بات قابل امنے ہے کبھی نہیں بھول سکتے.فرمایا مگر وعدہ کرو کہ اب لجنہ آئندہ ذکر ہے کہ جتنا عرصہ استانی صاحبہ کراچی میں رونق افروز رہیں.نہ کسی کمرے کا تقاضا نہیں کرے گی ؟ جوابا خاکسارہ نے عرض کی " آپ صرف ہماری سر مستی کرتی رہیں.بلکہ ہم بھولی بھٹکی احمدی متورات کی بھی کمال کرتے ہیں بھائی جان جو یہ شرط لگاتے ہیں.میرا تو دل چاہتا از سرنو تربیت اور تنظیم میں بھی کوشاں رہیں.خاکسارہ کو ان کے ساتھ ہے لجنہ کراچی اتنی ترقی کرے کہ ایک دن یہ تقاضا ہو کہ لجنہ کراچی کی ایک معادنہ کی حیثیت سے کو کچھ بھی خدمت دین کا موقع ملا وہ ایک ضروریات کے مد نظر جماعت احمدیہ ہال کو مکمل طور پر لجنہ کے حوالہ کر کے خود کوئی اور مقام حاصل کر لے ہی میرے منہ سے نکلے ہوئے یہ غیر مترقیہ نعمت بنا.احمدہ بیگم صاحبہ چودھری بشیر احمد صاحب کے زمانہ صدارت محترمہ مذکورہ کی پر خلوص نگرانی کا نتیجہ کا میاب بجز کہلانے کی بے ساختہ الفاظ ان کی بے حد خوشنودی کا باعث بنے.الحمد الله صورت میں اور میں پر بارہ با مرکز سے تعریفی ریمارکس ملتے رہے.محترمہ بیگم صاحبہ کے ساتھ سفر کر تے ہوئے ہم کہیں اور نکل لجنہ اماءاللہ کراچی کو محض اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے ایسی آئے ہیں.لہذا اس زمانہ کی طرف مراجعت کرتے ہیں.مبارک بستیوں کا قرب نصیب ہوا جو خلوص دل سے بمعہ کراچی کی کامیابی کی خواہاں اور کوشاں رہیا.میں صغری بیگم قدسیہ صاحبہ سیکریٹری اور سیکریٹری مال مقر کی گئی تھیں.سیده محترمه صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ صاحزاد برزان و وحید وہ لجنہ کا سارا یہ ایک امڈ اور حساب کتاب رکھتیں.جب لجنہ اماء اللہ کا صاحب نے اپنے چند ماہ کے عامر منی قیام میں لجنہ کراچی کی خاصی تربیت دوسرا اجلاس ہوا تو حاضری ۵ نمبرات پر مشتمل تھی.اس وقت یہی حلقہ فرمائی.ماہ رمضان المبارک میں قرآن کریم کا درس نہ ہونا نہ میرے عین جاند مرکزی حلقہ تھا اور سولجر بازار کے نام سے موسوم تھا.(بعد میں یہ حلقہ پر شروع کیا جس کی برکت سے آج تک لجنہ کہ اچی کے زیر انتظام پی سلسلہ جیکب لائنز کہلانے لگا ، لجہ کراچی کا دوسرا حلقہ سعید منزل کے قائم کیا گیا.اس رامسوامی کا علاقہ بھی شامل تھا اس کی صدر محترمہ خضر سلطانہ جاری و ساری ہے کیا ان دونوں پر اجلاس میں اگلے اجلاس کا پروگرام بنا لیا جاتا تھا صاحبہ دہلوی منتخب ہوئیں.جبکہ سیکریٹری جمیلہ عرفانی صاحب نہیں محترمہ اور تمام چندہ جات بھی دوران اجلاس بھی جمع کئے جاتے تھے.نماز جمعہ خضر سلطانہ نے کہا جوری شاہ تک یہاں صدارت کے فرائض چونکہ احمدیہ ہال کراچی کی تعمیل کے بعد یہیں ہونے لگی تھی اور ستورات انجام دیئے اس کے بعد محترمہ بیگم احمد جان صاحبہ صدر منتخب ہوئیں.کو یہاں آنے میں سہولت رہتی تھی اس لئے دفتر لجنہ کی ضرورت محسوس ہوتے جمیلہ عرفانی نائب صدر سکریٹری صفیہ اللہ دار صاحبہ اور محترمہ کلثوم رحمانی ہی اس جگہ کو موزوں خیال کیا گیا.اس موقع پر ایک الماری دفتر بجنہ صاحبہ سکریٹری مال سعیدہ بیگم صاحبہ.دیگر قابل ذکر اور سعد کارکنات کے لیئے سید شرافت حسین صاحب مالک نیو حمدیہ فرینچر مارٹ نے لجنہ میں فضیلت بیگم صاحبہ معصومہ بیگم صاحبہ، سیدہ صالحہ بانو صاحبہ اور کو پیش کی ، جو لجہ کراچی کا چھوٹا سا دفتر بنی.(اس میں متعلقہ کا غذات ممتاز بیگم صاحبہ شامل ہیں.ہر فروری ۱۹۴۷ء کو ایک شاندار جلسہ فائلیں نیز کھانہ جات وغیرہ رکھے گئے) احمدیہ ہال کی تکمیل کے بعد مصلح الموعود منعقد کیا گیا.جس کی صدارت محترمہ استانی میمونہ صوفیہ محترم امیر صاحب نے لجن گیری کا ایک کمرہ از راہ شفقت لجنہ کو مرحمت صاحبہ نے فرمائی.فرما دیا.ضرورت کا تمام سامان گریسی میرا قلم دوات وغیرہ سب احمدی ر مارچ ۹ہ کو حضور خلیفہ اسیح الثانی کراچی میں رونق افروز بھائی بہنوں کا عطیہ ہیں.اب یہ ننھا سا دفتر جمعہ کے علاوہ ہفتہ میں ہوئے اور ۱۸ مارچ کو الہ بجے دن تھیں سوفیکل ہال میں کراچی لجند دو دن چائے پانچ گھنٹوں کے لئے کھولا جانے لگا.چونکہ کام کافی پھیل سے تاریخی خطاب فرمایا.اس دن ہال میں حضور کی تقریر سننے کے لئے چکا تھا اس لئے بعد میں مزید بیجگہ کی ضرورت محسوس ہونے لگی.امیر جماعت بعض معزز مہمان خواتین بھی تشریف لائیں مشکل لیڈی عبداللہ ہارون احمد یہ جناب چودھری عبداللہ خان صاحب سے دفتر لجنہ کہ اچھی سے مع اپنی بہو بیٹیوں کے.محترمہ بیگم توزین فریدی صاحبہ محترمہ بیگم شبان ملحقہ کمرے کا تقاضا کیا گیا.رشتہ داری کے لحاظ سے بے تکلفی بھی تھی صاحبہ ممبر جی اے خان اور سر آغا ہلالی صاحبہ حضور نے اپنے ۹۲

Page 87

تخطاب میں سورۃ کو نہ کی نہایت لطیف تغیر فرمائی.احمدی مستورات پیدائش کی معرض وغایت بیان کرتے ہوئے احمدی عورتوں کو ان کی بنیادی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.کی تعداد ساڑھے چھ سوکھتی.۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۰ہ تک لیاقت آباد گولیمار، فیڈرل ایریا 19 ء میں حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ نے ملیر کینٹ ہیں لارنس روڈ، مارٹن روڈ اور ناظم آباد کے حلقہ جات قائم ہو چکے تھے.ایک حلقہ کا قیام فرمایا ان دنوں آپ اور حضرت سیدہ ام متین صاحبہ لہ اور ۷ار اپریل ۹ہ کو لجنہ کراچی کی نمائندگان نے پہلی کراچی میں رونق افروز تھیں محترمہ باجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد حنیف صاحب مرتبہ پہلے جلسہ سالانہ کے موقع پر منعقد ہونے والی مجلس مشاورت صدر منتخب کی گئیں.اور فہمیدہ لطیف صاحبہ سیکرٹری مقر کیا گیا.ابتداء میں مارٹن روڈ اور جہانگیر روڈ ایک ہی حلقہ تھا.میں شرکت فرمائی.۱۹۴۸ء سے ۹۵ نہ تک قائم ہونے والے حلقہ جات مگر بعد میں جہانگیر روڈمیں الگ حلقہ قائم کر دیا گیا.یہاں کی نمایاں میں تین خواتین نے نمایاں کام کیا.ان میں محترمہ و زہیر بنیم بٹ صاحبہ.کارکنات میں محترمہ امتہ الہادی رشیدالدین صاحبہ محترمہ نسیم خدیجہ صاحبہ محترمہ جیب ہاشمی صاحبہ محترمہ عائشہ خادم حسین ، محترمہ مسعودہ ہٹ محترمہ گلزار بیگم صاحبہ آفتاب بسمل محترم سلمی آفتاب محترمہ حمیدہ سلیم مارادور محترمہ ذکیہ میں محترمہ سرور جان صاحبہ محترمہ بلقیس صادقہ.محترمہ محترمہ محمودہ احمد صاحبہ شامل ہیں.خیر النساء خالدہ محترمہ رونہ بیگم محترمہ فاطمہ بیگے.محترمہ کفیلہ کو ثر محترمہ ۲۷ دسمبر ۱۹ ء کو لجنہ اماءاللہ کی پانچویں مجلس شوری کے موقع بیگم صاحبه مولوی مجید صاح ترمہ بیگم لیلین صاحبہ - محترمه شهریار انجها پر بھہ کراچی کی نمائندگان نے تجویز پیش کی کہ ہر لجنہ کی طرف سے سال محترمہ فاطمہ احسان الہی صاحبہ اور محترمہ ہمشیرہ صاحبہ خالد لطیف شامل میں کچھ ایسے جیسے منعقد کئے جائیں جن میں غیر احمدی مہمانوں کو مدعو ہیں.لجنہ اماء اللہ کراچی کی جنرل سیکر یٹری محترمہ صغری بنگر قدسیہ صاحبہ کیا جائے تاکہ احمدیت کی طرف سے ان کے دل میں ہو شکوک اور کچھ عرصہ بعد بوجود صحت کی خرابی مستعفی ہو گئیں تو ان کی جگہ محترمہ مجیدہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں انہیں دور کیا جائے.نیز ان جلسوں میں بیگم شاہنواز صاحبہ جنرل سیکریٹری منتخب ہوئیں اور محرمہ جمیلہ عرفانی صاحبہ معمولی تواضع کا انتظام بھی کیا جائے " کو نائبہ جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا.محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبد الحمید ی تجویز اس شکل میں منظور کرلی گئی.کہ ایسے جلسہ جات لازمی نہ سیکرٹری مال چنی گئیں.کئے جائیں تاہم جو لجنہ ایسے جلسے منعقد کرنا چاہیے اور خرج برداشت کر سکے ۲۷ ۲۸ دیمر انہ کو جلسہ سالانہ میں شمولیت کے علاوہ وہ ضرور کرے : لجنہ اماء اللہ مرکتہیہ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی مجلس شوری میں بھی یہ تجویز ملیر کینٹ کی تھی لہذا جون ۱۹۵ یہ میں انہوں نے ایک جدہ کراچی کی عہدیداران نے شرکت فرمائی.لجنہ کراچی کا پانچواں حلقہ چکا ہے بڑا تبلیغی جلسہ منعقد کیا اور غیر ز جماعت بہنوں سے گفتگو کے علاہ کافی لڑی پر کے نام سے قائم کیا گیا.تو اس کی صدر رست در رشیدہ بیگم اہلیہ شیخ عبدالحق صاحب بھی تقسیم کیا گیا.مقرر کی گئیں.جن کے بیرون شہر تشریف لے جانے کے بعد محترمہ فاطر بیگم صاحبہ ڈاکٹر عبد الرحمان کا مٹی کو صدارت کے فرائض سونپے گئے.عمر فہمیدہ بیگم نے سوئم پوزیشن حاصل کی.بیگم صاحبہ میر امان اللہ صاحب نائب صدر مقرر کی گئیں.ان کے علاوہ لجنہ کے امتحانات منعقدہ مٹی ۱۹۵۷ ء میں کراچی کے حلقہ ملیر کی ار تو میران شاہ کو ایک بڑا جلسہ سیرت النبی منعقد کیا گیا جس میں اس حلقہ میں محترمہ احمدی بیگم زہرہ - محترمہ ذکیہ بشری صاحہ - نعی ملک بعضی معتز یہ میر احمدی خواتین بھی شامل ہوئیں.صاحبہ - حفیظہ قیض عالم صاحبہ فرخندہ اختر صاحبہ اور نواب بیگم صاحبہ نے بہت اچھا کام کیا.19 ء میں حلقہ ایسے مینیا لائنز کا قیام عمل میں آیا.اس حلقہ میں بیگم صاحبہ جیب بخش.محترمہ بیگم صاحبه ذکر محمدحسین نصاب محترمه امته الرشید ماہ ستمبرت 190 ء میں حضور خلیفہ اسیح الثانی کراچی تشریف بیگم صوفی مبارک صاحب بیگم صدیق شاہ صاحب اور بیگم مولوی اسماعیل لائے تو، ارتمرین شاہ کو لجنہ اماءاللہ کراچی کو احمد یہ ہال میں ان کے ایک اہم تخطاب سے تفیض ہونے کا موقع ملا.جس میں حضور نے انسانی بقا لپوری صاحب نے قابل قدر خدمات انجام دیں.سینٹرل کمیٹی لجنہ کا چھ کے تحت دور میں قرآن کا سلسلہ بھی شروع ۹۴

Page 88

کیا گیا.سب سے پہلا درس محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ صاحزان مرنا منصور احمد ہوتی رہیں.کیونکہ اس وقت اسے جماعت احمدیہ کے واحد رحمان کے صاحب نے دیا.اس کے علاوہ محترمہ آمنہ بیگم چودھری عبد اللہ خان صاحب.حیثیت حاصل تھی.جیکب لائنز ہیں اور محترمہ خضر سلطانہ صاحبہ حلقہ سعید منزل میں درکس دیتی رہیں.1900 ۱۹۵۵ ء میں جو حلقہ جات کام کر رہے تھے.ان میں کام کرنے والی نمایاں نمبرات کے نام یہ ہیں محترمہ آمنہ بائی صاحبہ سیدہ جمیلہ خاتون صاحبہ صاحبه ناظم آباد میں حلقہ 19 میں قائم ہو چکا تھا جس کی صدر محترمہ محترمہ انور بیگم صاحبہ ، عائشہ بٹ صاحبہ ہاجرہ بیگم صاحبہ.فہمیدہ بخاری عائشہ بیگم عیسی خان بھاگلپوری صاحب تھیں.ان کی مسلسل علالت کی وجہ صاحبہ بیگم مفتی محمد حسین صاحب امتہ القدير فرحت صاحہ - امتہ الحن طلعت سے ۱۹۵۲ء میں نئے انتخابات عمل میں آئے.اور عائشہ بیگم صاحبہ انتظار حسین بیگیم اشرف صاحبہ بیگم تمتاز اسلم صاحبہ بیگیم طاہرہ ناصر شاہ صاحبہ صاحب کونی صدر منتخب کیا گیا محترمہ نامہ دیگر ایم اے خورشید صاحبہ نائب صدور ساده نیم صاحبہ محترمہ امته الطیف بشیر صاحبہ ، اور امت اسلام بیگم صاحبہ اور بیگم شریف و رایج صاحب کیریٹری مقرر کی گئیں.بعد میں اس میں کچھ ترسیم ۱۹ء میں لجنہ کراچی کو ایک منظم اور تربیت یافتہ جماعت کی ہوئی اور محترمہ ظفر جہاں بھٹی صاحبہ اہلیہ بیگیر عبد المجید بھٹی صاحب کو نائب صدر حیثیت حاصل ہو چکی تھی.اور اب کام بھی کافی پھیل گیا تھا.سینٹرل کمیٹی اور بیگم خورشید صاحبہ کو سیکریٹری بنا دیا گیا.سیے بڑی مال محرم میاد خورشید ماہ اور کا حلقہ جات پر مکمل کنٹرول تھا.ہر شعبہ کے لئے علیوں اکسیر بڑی مقولہ تھی.ہر ماہ عاملہ عامہ کا ایک جلسہ ہوتا تھا جس میں تمام حلقہ جات کی کار کردگی ا نائب سیکرٹری و سیمہ اختر صاحبہ مقررہ ہوئیں.۲۶ اگست ۱۹۵۳ء کو حضرت خلیفہ ربیع الثانی نے احمد یہ ہال کی رپورٹ کی جاتی تھی.سنٹرل کمیٹی کے عہدیدار حلقہ جات کا دورہ کر کے میں لجنہ اماء اللہ سے اہم ترین خطاب فرمایا جس میں احمدیت کے خلاف ان کی مستعدی کا جائزہ لیتے رہتے تھے.مخالفت کے طوفان کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے مستورات پر زور دیا کہ لجنہ کراچی کے کام میں وسعت کے پیش نظر اب ایک کلرک مردوں کے دوش بدوش وہ بھی احمدیت کے متعلق پھیلائی گئی غلط فہمیوں کی ضرورت محسوس کی جانے لگی تھی جو حابات اور ریکارڈ رکھ سکے چنانچہ کو دور کرنے کی کوشش کریں.کیونکہ سوسائٹی میں ظاہر طور پر عورتوں کا محترمہ حفیظ الرحمان صاحبہ نے کچھ عرصہ یہ ذمہ داری سنبھالی اور دفتر کی اثر و رسوخ کافی بڑھ چکا ہے.آپس میں میل جول اور تعلقات کا فائلوں کو با قاعدہ ترتیب دیا.احمدیہ ہال کی تکمیل سے قبل تمام بڑے دائرہ وسیع کرنے سے غیروں کو ہمارے عقائد کا بخوبی علم ہو سکے گا 19 جلسه جات بیگم صاحبہ چودھری بشیر احمد صاحب کی قیام گاہ پر ہوتے تھے.میں لمعہ کراچی کی طرف سے بیگم رعنا لیاقت علی صاحبہ کو بالینڈ میں سفیر بعد میں سارے اہم جلسہ جات اور تقریبات احمدیہ ہال میں منعقد کی مقرر ہونے پر عصرانہ دیا گیا اور سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے لجنہ اماء اللہ کے جانے لگیں.مقاصد اور مسائی سے آگاہ کیا گیا.اپنے جوابی خطاب میں انہوں نے لجنہ اماءاللہ دفتر لجنہ جمعہ کے علاوہ ہفتہ کے اور دودنوں میں بھی کھولا جانے جیسی تنظیم سے تعارف حاصل ہونے پر بڑی مسرت کا اظہار کیا.لگا.اپریل ۱۹۵۵ ء میں محترمہ جلیبہ بیگم ہاشمی صاحبہ کو تنخواہ دار سکوٹیری نومبر کو لجنہ اماءاللہ کراچی کے زیر اہتمام احمد یہ بال ہیں مقرر کیا گیا.جنہوں نے روزانہ آفس کھولنا شروع کیا اور تاحیات بڑے ایک بڑا جلہ سیرت النبی منعقد کیا گیا.جس کی مہمان خصوصی محترمہ بیگم صاحبہ خلوص و جانفشانی سے اپنے فرائض انجام دیئے.دفتر کو اگست 1990ء خان عبدالقیوم خان صاحب سابق وزیر اعلیٰ صوبہ سرحد تھیں.جلسہ میں کافی میں انہ مصر و ترتیب دیا گیا اور مہرات نے باہمی چندہ سے اس کی تزئین و غیر از جماعت مہمان خواتین شامل ہوئیں.آرائش کی.دفتر کے باقاعدہ افتتاح کی ریم 19 ستمبر ۱۵ء کو محترمہ صدر 195 ء میں حضور ایدہ اللہ پر قاتلانہ حملہ کے مزموم ارتکاب کے صاحبه لجنه مرکز یہ حضرت ام ناصر صاحبہ حرم محترم حضرت خلیفتہ اسیح الثانی سلسلہ میں لجنہ کراچی کی طرف سے ایک قرار داد منظور کر کے بلند مرکز یہ دیوہ اور کے دست مبارک و دعا سے انجام پائی.اس موقع پر وزیر نہ یک کا حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری کو بھجوائی گئی.احمدیوں کے خلاف فسادات آغاز بھی کیا گیا.چنانچہ اس پر سب سے پہلی عبادت حضرت سیدہ کے نتیجہ میں الفضل “ کی اشاعت بھی حکومت کی طرف سے ایک سال صدر صاحبہ کے محکم پر حضرت سیدہ اہم متین صاحبہ نے تحریر فرمائی جس کے کے لئے روک دی گئی پانامہ کی اور میں بات المصلح ، کراچی میں شائع نیچے حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ، حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صاجزادی ۹۵

Page 89

امته الجمیل صاحبہ صاحبزادی آمنہ طیبہ صاحبہ اور صاحبزادی محمود صاحبہ اس ادارہ کی نگران محترمہ سیمہ بیگم اہلیہ جناب سیٹھ عورت علی صاحب مقر ہوئیں جنہوں نے تاحیات انتہائی دیکھتی اور جانفشانی - نے دستخط فرمائے.سے اس وقت تک کراچی میں لجنہ کے ۱۵ حلقہ جات قائم ہو چکے تھے اس ادارہ کی توسیع و بہتری کے لئے کام کیا.احمدی مستورات کی سہولت کے پیش نظر 1900 ء میں ہی چھوٹے اگست 1954 بو میں سلائی وکٹنگ سکھانے کے لئے کلا میں بھی شروع پیمانہ پر ایک پر ویشن اسٹور کھولا گیا.جس میں خواتین کے روزمرہ استعمال کی کر دی گئیں.اور ایک تربیت یافتہ استانی اس مقصد کے لئے ملازم رکھی بعض اشیاء ایک مصد روپیہ سے خرید کر رکھی گئیں.محترمہ رشیدہ بیگم قاضی گئی.ادارہ کے کاموں میں محترمہ امتہ اللہ صاحبہ آپا سلیمہ کی درست راست محمد اسلم صاحب کو انچارج اسٹور مقرر کیا گیا.انڈونیشیا سے آئی ہوئی خواتین کے ایک وفد سے لجنہ اماء الله ۱۹۵۶ء میں محترمہ استانی صاحبہ میمونہ صوفیہ کراچی تشریف لائیں.کراچی کی عہدیداران نے ملاقات کی انہیں لجنہ کے اعراض و مقاصد سے تو حلقہ سعید منزل اور رامسوامی کو علیحدہ علیحدہ علقہ جات میں تقسیم آگاہ کرتے ہوئے قرآن پاک کا ڈچ اور دیباچہ تفسیر القرآن یہ نہ بان کر دیا گیا.حلقہ سعید منزل کی صدر محتر در سلیمہ بیگم صاحبہ سیٹھ عورت علی صاحب اور رامسوامی کی محترمہ نور جہاں بیگ صاحب مقرر ہوئیں جو انگریزی پیش کئے.اور معاویہ تھیں.بیرونی ممالک میں مبلغین کے اخراجات کے بجٹ میں کمی بفضلہ تا حال اس حلقہ اس حلقہ کی صدر ہیں.واقع ہو جانے کی وجہ سے ایک خصوصی تحریک کی گئی.جس میں بجھہ کراچی ۱۹۵۶ء کی تعلیم القرآن کلاس میں کراچی کی دو نمبرات نے اول نے ڈیڑھ ہزارہ روپیہ پیش کیا.اس کے علاوہ مستحقین اور متاثر کیا سیلاب دوئم پوزیشن حاصل کی اس سال بھن کے امتحانات میں بھی کراچی کی ہی کے لئے خصوصی طور پر بستر اور پارچہ جات تیار کر کے ربوہ بھیجے گئے.ایک بہن محمودہ احمد صاحبہ اول آئیں.اس سال بلجنہ کراچی کے زیرا ایتام ۲۵ اکتوبر ۱۹۵۵ء میں احمدیہ ہال میں ایک بڑا جلسہ سیرت پہلی بار ایک تربیتی کلا اس کا اہتمام کیا گیا.یہ کلاس بارہ روز لگائی جاتی النبی منعقد ہوا جس کی صدارت محترمہ بیگم خورشید نواب صدیق علی خان رہی اور اس میں محترم و مکرم عبد المالک خان صاحب اور مریدا صاحب نے فرمائی.نیز کافی مہمان خواتین بھی شامل ہوگئیں.عبد اللطیف صاحب نے بھی لیکچرنے دیئے.جلسہ سالانہ ۱۹۵۵ ء میں لجنہ کے ایک اجلاس کی صدارت محترمہ احمد بیگم چودهری بشیر احمد صاحب صدر لجنہ کراچی نے فرمائی.اسی جلسہ ہیں کی صدارت محتر رسیده ام متین صاحبہ نے فرمائی.لجنہ کی دسویں مجلس شوری کے موقع پر جو کی درمیانی شب کو منعقد ہوئی.لجنہ کراچی کی پیش کرده در تجاویز زیر بحث آئیں.پہلی تجویز بلند النبی منعقد کیا.جس کی صدارت اپرا کی ایک اہم کا م کن محترمہ بیگم صوفی ۱۹۵۶ء میں ہر فروری کو منعقد کئے جانے والے جلسہ مصلح الموجود ماہ اگست 1954ء میں لجنہ کراچی نے ایک شاندار جلسہ سیرت کراچی کے اخراجات سے متعلق تھی کہ انہیں اخراجات زیادہ ہونے کی نے فرمائی.وجہ سے کل نمبری چندہ کا ہر حصہ مقامی ضروریات کے لئے رکھنے کی اسی سال نائب صدر لجنز کراچی محترمہ امتہ السلام بیگم صاحبہ اجازت دی جائے یہ تجویز منظور کر لی گئی.دوسری تجویہ مرکز میں قوافین لاہور تشریف لے گئیں لجنہ نے اُن کے لئے ایک الوداعی پارٹی کا اہتمام زندگی کے بیٹوں کے لئے ایک اعلیٰ درجہ کا اسکول کھولنے سے متعلق تھی جس کے لئے ایک تربیت یافتہ استانی کی تنخواہ ہر ماہ لجنہ کراچی نے دینے کا وعدہ کیا.کیا.اور ایڈریس کے علاوہ ایک قیمتی تحفہ بھی ان کی خدمت میں پیش کیا گیا.اب محترمہ امتہ السلام بیگم صاحبہ کی جگہ محترمہ فاطمہ بیگم عبد الرحمان کا مٹی صاحبہ کو نئی نائب صدر منتخب کیا گیا.دیں بیگم صاحبہ چودھری بشر احمد صاحب کی تجویز پر 1900 میں بند کراچی کے کاموں کو شعبہ وار تقسیم کردیا گیا.اور ہر شعبہ عاملہ کے مشورہ سے ایک زنانہ دستکاری اسکول کھولا گیا.جس کی ابتدائی کے انتظام و نگرانی کے لئے ایک علیحدہ سیکریٹری مقرر کر دی گئی کہ اس انتظام پونجی چند بچے کچھے رنگین کوڑے اور کتر نیں تھیں.بعد میں ایک سنگر کے تحت ہجو کارکنات مقرر ہوئیں.ان میں صدر محترمہ بیگم صاحبہ بشیر احمد سلائی مشین بیگم مجیدہ شاہنواز صاحبہ کی طرف سے تھے میں دی گئی.جنرل سیکرٹری محترمہ مجیدہ بیگم شاہنواز سیکریٹری مال ڈاکٹر عبد الحمید صاحبہ ۹۶

Page 90

تائبہ سیکریٹری جمیلہ عرفانی صاحبہ سیکریٹری اصلاح و ارشاد محمود خاتون صلاحه صاحب.بیگم میجر نصیر شاہ صاحب.وزیر بیگم صاحبہ اور کے صوفی سیکریٹری خدمت خلق آیا مسلیمہ بیگم صاحبہ سیکرٹیری نمائش محرمیم آمد کروا الله ای صاحب شامل ہیں.اور نگران ناصرات محترمہ سرور تیم مولوی عبد المالک صاح صاحبہ خاص طور پر ترین صدر البتہ مرکزیہ کی ہدایت کے تحت تعلیم القرآن کلاس قابل ذکر ہیں.۲ مارچ ۱۹۵۸ء کو حضرت مصلح الموعود کے کراچی میں آٹھ مراکز میں لگائی گئیں.جلسہ سیرت النبی.جامہ ایم سیخ موجود - جلسه حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی کراچی میں تشریف آوری کے رونق افرد نہ ہونے کی وجہ سے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی صدارت یوم مصلح موعود اور یوم خلافت بھی شاندار طریقہ پر منائے گئے.میں تمام عہدیداران کا اجلاس ہوا جس میں کیا چی لجنہ کے مسائل پر گفتگو ہوئی.یہ مجلس جو کہ گھنٹہ جاری رہی لجنہ کراچی کی یاد گار تقاریب موقع پر ایک خصوصی تقریب میں انہیں سپاسنامہ پیش کیا گیا.اس تقریب میں محترمہ بیگم صاحبہ نے لجنہ کو انتہائی قیمتی نصائح سے نوازا.نیز صاجزادی میں سے ایک ہے.194 ء میں بہنوں کو تقریر کی تربیت دینے کے لئے ایک کلاس ماد لوی او میں محترمہ استانی میمونہ صوفی صاب نے مرکز کی نمائندہ کے آمنہ طیبہ صاحبہ نے بیرونی لجنات کی مساعی پر روشنی ڈالی.طور پر کراچی لجنہ کے زیر اہتمام منعقد کئے جانے والے جلسہ سالانہ میں شرکت اس سال انڈسٹریل ہوم کو رجسٹرڈ کرایا گیا.عید کے موقع پر سیتی کارڈ کی.دفاتر لجنہ کا معائنہ کیا.نیز حسابات اور یہ یہ کارڈ کے رجسٹر چیک کئے.چھپوا کر غیر احمدی احباب کو بھیجے گئے.اس کے علاوہ ایک میٹنگ میں شعبہ بھائی سیکریٹر یان کو کام کرنے کا صحیح طریقہ بتایا.جنوری 1984 ء میں احمدیہ ہال میں ایک بڑے جلسہ میں محترمہ لگائی گئی جو دس روز جاری رہی.بیگم صاحبہ لین لکھنوی صاحب.احمدہ بیگم بشیر احمد صاحب کو الوداعی سپاسنامہ پیش کیا گیا اور بیگم صاحبہ محترمہ مریم عثمان صاحبہ اور جمیلہ عرفانی صاحبہ نے یہ کلاس لی.کی ۱۲ سالہ صدارت کے دوران لجنہ کراچی نے جس تیزی اور مستعدی سے اس سال پہلی مرتبہ پور سے ضلع کا ناصرات الاحمدیہ کا استماع کبھی ترقی کے مراحل طے کئے اس کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے بیگم صاحبہ کی منعقد کیا گیا جس میں دستکاری کی نمائش بھی لگائی گئی.خدمات کو سراہا گیا.۱۹۶ء میں جلسہ سالانہ میں حسب روایت بطور مرکزی نمائندہ محترمہ بیگم صاحبہ کی لاہورہ روانگی کے بعد محترمہ محمد بیگی شاہنواز ماہیے محترمہ استانی صاحبہ میمونہ صوفیہ شامل ہوئیں.ینہ کراچی کی سی صدر منتخب کی گئیں اور محترمہ جملہ عربانی صاحب نے سر کیری کے فرائض سنبھا لیے.ہ میں حلقہ جہانگیر روڈ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں جہانگیر روڈ ایسٹ ویسٹ کا نام دیا گیا.اس سال بھی حسب روایت جلسه یوم سیه مو نخود - یوم خلافت 1909 ء میں ہی کراچی کے پسماندہ علاقوں کی نمبرات کی دینی و علمی استعداد بڑھانے کے لئے ایک خصوصی دینیات کو اس کا اجراء کیا گیا.جلسه پیشگوئی مصلح موجود شاندار طریقہ پر منعقد کئے گئے.ایک بڑا جلسہ اکتوری 190 ء میں ایک بڑا جلسہ سیرت النبی منعقد کیا گیا جس کی سیرت النبی بھی ہوا.جس میں متعدد غیر از جماعت مہمان خواتین نے صدارت محترمه خوبه شید آرا بیگم تو اب صدیق علی خان صاحب نے شرکت فرمائی.فرمائی.بعد ازاں انہوں نے اپنے خطاب میں جیسے کے پروگرام اور احمدی کتابچہ معراج دین عیسائی کے چار سوالات کی ضبطی پر ایک بہنوں کے نظم وضبط کی بڑی تعریف کی - 1909ء میں تین نئے احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا اور صد یہ پاکستان کو ایک احتجاجی مراسلہ بھی حلقہ جات محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ کے ہاتھوں قائم ہوئے حلقہ ارسال کیا گیا.پی ای سی ایچ ایس.حلقہ کورنگی اور حلقہ شیر شاہ.اس طرح اب کل اس سال مجمعہ کراچی کی کارکردگی بہت نمایاں رہی اور تمام شہروں ۱۵ حلقہ جات ہو گئے.ان حلقہ جات میں نمایاں کام کرنے والوں میں کے درمیان ہونے والے بیشتر مقابلہ جات میں جو اجتماع کے موقع پر منعقد کئے گئے کراچی کی شر کا دنے متعد د انعامات حاصل کئے.محترمه عزیزه بیگم صاحبه خود هری سردار احمد صاحب سیدہ جمیلہ بیگم کا ہے.بیگم مسعود احمد خود کشیده محترمہ بیگم عبد المالک خان صاحب اس سال مرکز سے کراچی کی چند بہنوں کو اسناد خوشنودی بھی عطا فاطمہ احسان الہی صاحبہ نصیرہ انور بیگم تشریف ڈرائی.انور بیگم فضل حق کی گئیں.چین کے نام یہ ہیں.محترمہ امتہ اللہ بیگم.محترمہ ! به حبیبه باشی صاحبہ 92

Page 91

محترمه گلزار بیگم آفتاب بسمل صاحب محترمہ مقصود، اختر صاحبہ محترمہ بیگم های بور اکتوبر کو ایک خصوصی جلسہ کی صدارت فرمائی اور سفر یورپ کا حال صوفی مبارک احمد صاحب.عائشہ بیگم خادم حسین صاحبہ محترمہ سیدہ بھی سنایا.بعد ازاں تمام جمہرات لجنہ نے مصافحہ کا شرف حاصل کیا.بیگم عمر علی صاحبہ.اور آپا سلیمہ بیگم سیٹھی خوت الہی صاحب.اس سے قبل اار اگست کو لینہ نے ایک بڑا جلسہ سیرت النبی منعقد سال ۱۹۶۲ ء میں بیگم شاہنواز صاحبہ اپنے بھائی کی مسلسل کیا جس کی صدارت حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے فرمائی.اس علالت کی وجہ سے تقریباً 4 ماہ باہر یہ ہیں.اس لئے کام کی رفتار پر کافی جلسہ میں لجنہ کراچی کی ریکار ڈھاضری رہی.جلسہ میں حضرت بیگم صاحبہ اللہ پڑا.اس کے علاوہ اب حلقہ جات کی تعداد بھی یہ ہو چکی تھی اس لئے کی تقریر اتنی موٹر اور دلپذیرفتی کہ سامعین دم بخود آپ کے ارشادات براہ راست تمام حلقہ جات سے رابطہ رکھنے میں دشواری ہو رہی تھی.چنانچہ سنتی رہی تھیں.فاطمہ بیگم صاحبہ کے علاوہ ایک اور نئی انسپکٹڑیں محترمہ فہمیدہ بیگم کو مقر کیا گیا.سار اگست کو ایک خصوصی تبلیغی جلسہ بھی کیا گیا.جس میں محترم مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری اور محترم شیخ مبارک احمد صاحب کو ہو گا گیا.اس سال دس روزہ تعلیمی کلاس کے علاوہ ہفتے میں تین دن اس سال حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ حضرت نواب میار که بیگم صاحبہ محترمہ صدرها جه لجنه مرکز به حضرت سیده مرم متین ترجمہ قرآن کی کلاس بھی ضلعی سطح پر لگائی جاتی رہی.اور احمدہ بیگم صاحبہ سابقہ صدر لجنہ کراچی تشریف لائیں اور لجنہ کراچی کے سہ روزہ سالانہ پروگرام میں شرکت فرمائی.۱۸- نومبر ۱۹۶۳ کو سالانہ حلقہ جات کی تعداد ۲۱, ہو گئی.194 ء میں ایک نیا حلقہ دستگیر قائم ہو جانے کے بعد کراچی میں اجتماع ناصرات الاحمدیہ منعقد ہوا.هار دسمبر ۱۹۶۲ء کو لجنہ اماء اللہ کا سالانہ اجتماع احمد یہ ہال میں منعقد ۱۹ نومبر کو جلسہ سیرت النبی منعقد کیا گیا جس میں حضرت سیدہ ہوا.جس میں پورے ضلع کی عمیرات نے شامل ہو کر علمی و تربیتی پروگراموں ام متین صاحب نے رحمت اللعالمین" کے موضوع پر بہنوں سے میں حصہ لیا.اس سے قبل ۲۲ جولائی 19 کو ایک بڑے جلسہ سیرت النبی کی صدارت محترمہ بیگم صاحبه صاجزادہ مبارک احمد صاحب خطاب فرمایا.بر نومبر کو حسب روایت جلسہ سالانہ منعقد کیا گیا.جس میں نے فرمائی.نیز حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے بھی سیرت پاک مقابلہ جات کے انعامات اور اجتماع ربوہ ۶-۹۶۲اء کے موقع پر حاصل کے حسین پہلوؤں پر روشنی ڈالی.ہونے والی اسناد خوشنودی میده صدر صاحبہ نے اپنے دست مبارک سے مرحمت فرمائیں.به ۲ جون کو لجنہ اماءاللہ نے ایک خصوصی جلسہ میں صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کو مدعو کیا.محترم صاجزادہ صاحب نے بی لطیف جن بہنوں کو مرکز سے اسناد خوشنودی عطا کی گئیں ان کے پیرا یہ میں لجنہ سے نخطاب کیا.نام یہ ہیں.ماہ نومبر میں ماریشس کی دو بہنیں جو مرکز سے دوبارہ وطن محترمہ مجیدہ بیگم شاہنواز صاحبہ - جمیلہ عرفانی صاحبہ میسر نصیرہ بھانے کے لئے حازم کراچی ہوئی تھیں.لجنہ کراچی کی مہمان نہیں.اس موقع انور شریف وڑائچ صاحبہ محترمہ سرور بیگم عبد المالک خان صاحب پہ نہ صرف انہیں عمرانہ دیا گیا بلکہ دو حسین مخالف ان کے لئے اور ایک شرکت گوہر صاحبہ بیگم ایم اے خورشید صاحبہ بیگم مولوی عبد الحمیراج تحفہ لجنہ ماریشس کے لئے بھی دیئے گئے.1947 میں مرکز نے درج ذیل سعیدہ بیگم صاحبہ.امتہ الحئی صاحبہ.فاطمہ احسان الہی صاحبہ اور محترمہ بہنوں کو اسناد خوشنودی سے نوازا.رضیہ رفیع الدین صاحبہ محترمہ فاطر بیگم صاحبہ محترمہ مسعوده خانم برسانی محترمہ جیبه قد صاحیہ - ۲۶ اکتوبر کو حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ محترمہ امته الرشیده حمان صاحیہ - محترمہ امتہ الودر مواردی محترمہ سلمی آفتا با حمید محم یورپ سے تشریف لائیں، لجنہ کراچی کی عہدیداران نے ائیر پورٹ پر آپ کا فہمیدہ اختر قادر محترمہ حمور جہاں مشرقی صاحب استقبال کیا.لجنہ کے اصرار پر آپ نے تکان اور نا سازی طبع کے باوجود اُس سال کراچی لجنہ کی جانب سے مصباح میں آٹھ صفحات کا اضافہ ۹۸

Page 92

کیا گیا جس کا کل خرج بلحت کراچی نے برداشت کرنے کا وعدہ کیا.اپریل 19 میں تعلیم القرآن کا کام حضرت خلیفہ اسیح الثالث ۱۹۶۵ء میں دو مرتبہ حلقہ جات کا اضافہ ہوا.جولانڈھی اور محمود آباد نے بجنہ کے سپرد فرمایا کراچی میں اس سلسلہ میں بہت توجہ دی گئی.اور میں قائم کئے گئے.اس سال شعبہ اصلاح و ارشاد نے حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کا مضمون ہمارا دستور العمل کتابی صورت میں شائع کیا.دفاعی فنڈ میں ۲۱۸۱۱ روپیہ اسٹیٹ بنک میں جمع کرایا گیا اور لا متعدد ایسے مراکز کھولے گئے جن میں قرآنی تدریس کا انتظام کیا گیا.باری ۹۶ نر کو حضرت سیدہ ام متین صاحبه حضرت سیدہ مہر آیا صاحبہ کی معیت میں کراچی کے دس روزہ دورہ کے لئے تشریف لائیں اور درج ذیل پروگراموں میں شرکت کی.۳ مارچ کو ایک سالم تولہ سونا بھی دیا گیا.صدر مملکت کی جانب سے لجنہ کراچی کی اس قربانی اجلاس میں صدر اور جنرل سیکریٹری کا انتخاب کر دیا گیا.محترمہ مجیدہ گی شاہنواز پر شکریہ کا خط موصول ہوا.صدر اور جملہ عرفانی صاحبہ بلا مقابلہ جنرل سیکرٹری منتخب ہوئیں اسی شام بڑے پارسل ربوہ میں آکر آباد ہونے والے بے خانماں برباد آپ نے حلقہ ناظم آباد کا دورہ فرمایا اور رجسٹر وغیرہ بھی چیک کئے.۴ مارچ کو حلقہ سوسائٹی کی مہدیداران سے ملاقات فرمائی اور نہ ہیٹروں کا معائنہ کیا.اسی دن دوپہر کو سالانہ جلسہ کے افتتاحی اجلاس میں شرکت افراد کے لئے اور ۷۰۲ کپڑے مع ۱۰۰۰ ہر امر ، و پیر نقدا در اسی مالیت کے بستر مہاجرین کشمیر کے لئے بھیجے گئے.اپورا کی جانب سے بیگم ڈاکٹر منور علی صاحبہ اور بیگم توزین فریدنی فرمائی در مارچ کو جلسہ سالانہ کے دوسرے روز علمی مقابلہ جات میں صاحبہ نے شہری دفاع کے سلسلہ میں احمدیہ ہال میں لیکچر دیئے.ہم خواتین تقسیم انعامات فرمائی.نے شہری دفاع کی تربیت حاصل کر کے اسناد لیں، ۱۴ سه وزه نرسنگ مارچ کو حلقہ لیاقت آباد کے دور میں عہدیداران کو کام کرنے کورس ۵، مبرات نے پاس کیا.اہم طالبات نے رائفل ڈر بیگ حاصل کی.کا صحیح طریقہ بتایا اور رجسٹروں کا معائنہ کیا.نیز حلقے لیاقت آباد میں ایک تغیر بیت النصرت کوپن ہیگن کے لئے نمبرات لبعنہ کراچی نے ۲۰۱۹ روپیہ مختصر یہ دگرام لکھصدارت بھی کی.بھیجوایا.اس سال ناصرات کے جلسہ سیرت النبی میں نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے اند راہ شفقت شرکت فرمائی.ہر مئی کو لجنہ کے جلسہ سیرت النبی کی دیا گیا.اس موقع پر سپاسنامہ کا جواب دیتے ہوئے آپ نے خلافت صدارت بھی حضرت بیگم صاحبہ نے فرمائی.اس جلسہ میں حضرت صاحبزادہ سے وابستگی اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی.مرتا رفیع احمد صاحب نے بھی انتہائی روح پرور تقریر فرمائی.مارچ کو حلقہ عزیز آباد اور دستگیر کے معائنہ کے لئے تشریف اگر ان میں بیگم صاحبہ یہ فیع احمد صاحب کو ایک عصرانہ لے گئی اور ایک مشترکہ پروگرام میں شرکت فرمائی.اسی د اسی دن سنیے مارچ کو ہی احمدیہ ہال میں دونوں معرکہ مہمانوں کو استقبالیہ بینہ کراچی کی جانب سے دیا گیا.سہ پہر احمد یہ بال میں عظیم الشان جلسہ سیرت النبی کی صدار صدارت کی نوار کو حضرت سید نا خلیفہ اسیح الثانی کے سانحہ ارتحال ۵ از غیر از جماعت مہمان بہنوں کے دل موہ لئے.کے موقع پر ایک ہنگامی اجلاس ہوا.اور قرامہ دار تعربیت منظوبہ کر کے بلند مرکز یه حضرت سیدہ اہم متین صاحبہ اور خاندان کے دیگر افراد کو میں شرکت کی.پہنچائی گئی.اور مارچ کو لجنہ کراچی کے زیر اہتمام ایک سائنسی میلہ اور بینا بازار مارچ کو ناصرات الاحمدیہ کے علمی پروگراموں اور اجتماع میں مارچ کو حلقہ سعید منزل کا دورہ کیا.ایک بڑے جلسہ یوم سیح موعود کے علاوہ ۳ حلقہ جات میں شرکت کی.تبلیغی جلسہ جات بھی منعقد ہوئے.۲۰ فروری کو حسب روایت جلسہ پیشگوئی مصلح موعود ار مارچ کو ایک جلسہ سیرت النبی محترمہ بیگم صاحبہ شاہندوانہ کے گھر شاندار طریق سے منایا گیا.جس میں جناب احمد مختار صاحب امیر جماعت منعقد ہوا جس میں لیڈی ہارون - بیگم دولت ہدایت اللہ بیگم نواب احمدیہ اور حضرت مولانا ابو العطاء جالندھری صاحبان نے بھی خطاب کیا.صدیق علی خان.ڈاکٹر شرکت بارون کے علاوہ ایوا کی دیگر مہبرات بھی 40

Page 93

شامل ہوئیں.حضرت چھوٹی آپا نے حسب روایت سادہ مگر دینش خطاب حلقہ جات جہانگیر روڈولیسٹ.لارنس روڈ.شیر شاہ نہیں.اس سال ایک نیا صلہ جو ڈرگ روڈ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے بنایا گیا ڈرگ کالونی کے فرمایا جس نے حاضرین پر انتہائی پھر لو یہ تاثر تھوڑا..ما مر چ کو آپ خیبر میل سے واپس تشریف لے گئیں.اس طرح نام سے قائم کیا گیا.نفیسہ بیگم اس کی پہلی صدر منتخب ہوئیں.دیگر حلقہ جات یہ چند دن لجنہ کے لئے یاد گار ہو گئے اور انمٹ نقوش چھوڑ گئے.جو بڑی خوش اسلوبی سے قائم ہیں اور مستعد و فعال ہیں یہ ہیں.پی سی سی ایچ ایں گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی بینہ کراچی کی کار کردگی سرفر مست محمد علی سوسائٹی ، سعید منزل جیکب لانسر پیر کالونی - رامسوامی ناظم آباد - رہی اس سال حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کا مضمون پڑے میں پے پردگی لیاقت آباد عزیز آباد دستگیر.ماری پور - مارٹن روڈ.جہانگیر روڈالیٹ.شائع کہ دایا گیا.ناظرہ کے علاوہ ترجمہ سکھانے کی طرف خصوصی توجہ دی گئی.اور کو رنگی.لانڈھی.حلقہ شرقی.ڈرگ روڈ ملیر کینٹ مسعود آباد حق بات میںتعلیم اور تربیتی کلاس لگانے کا انتظام کیاگیا.اس کے علی الجنہ کے کاموں کو بڑے شعبہ جات میں تمیم کر دیاگیا اور پر تھے ایک کلاس تیرہ روز کے لئے ضلعی سطح پر لگائی گئی.جس میں امیر صاحب کی ایک سیکریٹری حلقہ جات میں اپنے شعبہ جاتی کاموں کی توسیع و بہتری کے جماعت احمدیہ مشرقی پاکستان - جناب مولوی عبدالمالک خان صاحب.لئے کوشاں و ذمہ دار ٹھہری.جناب چودھری احمد مختار صاحب جناب سید احمد علی صاحب جناب میر1940ء میں لجنہ کی مہرات کی کل تعداد ۵۰۰ ہو چکی بھتی محمد اجمل شاہد صاحب.اور جناب ابو اللہ دار صاحب کے علاوہ جناب اور ۲۵ حلقہ جات قائم ہو چکے تھے تاہم ہوا کہ حلقہ جات نمبرات عبدالرحیم بیگ نے بھی لیکچرز دیئے.حلقہ جات میں تبلیغی جلسے منعقد کئے گئے.ماہ اگست میں حضرت نوار امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے حلقہ کی کمی کے پیش نظر دوسرے حلقہ جات میں ضم کر دیئے گئے اس سال جو حلقہ جات ہو خوش اسلوبی سے چل رہے تھے ان کے نام یہ ہیں.سعید منزل، جیکب لائنز پیر کالونی.رامسوامی ناظم آباد بیا تایید سوسائٹی میں ایک بڑے جلسہ سیرت النبی کی صدارت فرمائی جس میں عزیز آباد دستگیر.مارٹن روڈ.جہانگیر ایسٹ کو رنگی.لانڈھی یا کینٹ به غیر از جماعت مهمان خواتین بھی شامل تھیں.نومبر 19 میں حضور سعود آباد.ڈرگ کالونی.ڈرگ روڈ.پی ای سی ایچ ایں.محمد علی خلیفہ اسیح الثالث کراچی میں قیام فرما ہوئے تو محترمہ بیگم صاحبہ بھی ہمراہ سوسائٹی.حلقہ شرقی دوران سال جماعت احمدیہ کی جانب سے سیرت النبی کی تھیں.حضور ایدہ اللہ نے ایک خصوصی جلسہ میں لجنہ سے خطاب فرمایا.آپ کی تقریہ احمدی مستورات میں قرآنی تعلیم کا شوق اور اس پر عمل پیرا کتب کی نمائش احمدیہ لائبریری بندر روڈ میں لگائی گئی.لجنہ نے بعض غیر از جماعت مہمانوں کو اس نمائش میں مدعو کیا.حضور صلیفہ آسیج ہونے کے فوائد سے متعلق تھی.حضرت بیگم صاحبہ کو علیحدہ سے ایک عصرانہ پر مدعوکیا گیا.جس میں انہوں نے احمدی عورت کے لباس سے تعلق الثانی کا مضمون رحمت العالمین ، طبع کرا کے مہمانوں میں تقسیم کیا گیا.ماہ جون میں ایک بڑا جلسہ سیرت النبی منعقد کیا گیا.حاضری ی بڑی مفید تصالح فرمائیں.دفتر لجہ کیلئے محترم حبیبہ ہاشمی صاحبہ الجنہ اسٹور کے لئے محترمہ بے حد خوش کن تھی.خصوصاً مہمان خواتین کثیر تعداد میں شامل ہوئیں ناصرہ حافظ بشیر صاحبہ اور انڈسٹریل ہوم کے لئے محترمہ مسلیمہ بیگم صاحبہ اس جلسہ کی خاص بات محترم مولانا عبدالمالک خان صاحب کا اپر تاثیر کی خدمات کا تذکرہ کراچی لجنہ کی تاریخ کا ایک ضروری جزو ہے کیونکہ خطاب تھا.جس نے مہمانوں پر بے حد اچھا تاثر چھوڑا.ماہ جولائی میں ان خواتین نے جس خلوص اور جانفشانی سے اپنے فرائض سنبھالے حضرت سیده ایم متین صاحبہ کراچی تشریف لائیں.آپ کے ہمرا صباح بادی وہ اپنی مثال آپ ہیں اور دیگر عہدیداران کے لئے مینارہ کہ چینی ہیں.امتہ المتین اور صاجزادی امتہ الباسط بھی تھیں.آپ نے اپنے قیام 194 میں لعنتہ کی مہرات کی تعداد ۵۰۰ ہو چکی تھی اور کراچی کے دوران لجنہ کے بعض پروگراموں میں شرکت کی.عہدیداران عاملہ کی میٹنگ میں صدارت فرماتے ہوئے ان کی مشکلات اور مسائل کل ۲۵ حلقہ جات بن چکے تھے.تاہم تین چار حلقہ جات ممبرات کی کمی کی وجہ سے دوسرے حلقہ جات میں صنم بھی کرنے پڑے.یہ سنے اور انہیں مفید مشورے دیئے.ایک بڑے جلسہ عام سے

Page 94

خطاب کرتے ہوئے میرات لجنہ پر تعلیم القرآن اور ترجمہ سکھنے پر زور دیا.سالانہ اجتماع میں شرکت کی گئی.اس سال صنعتی نمائش منعقدہ جولائی کو حضور ایدہ اللہ کراچی تشریف لائے.۸ جولائی ربوہ میں کراچی کی کئی بہنوں نے انعامات حاصل کئے.کو حضور نے تعظیموں کے لئے بعض مفید اور زمین مشورے اور نصائح فرمائے.اسی دن حضرت سیدہ بیگم صاحبہ نے عاملہ کی عہدیداران سے ملاقات فرمائی.مشرقی پاکستان ریلیف فنڈ کے لئے چندہ جمع کیا گیا.م 194 ء کی جنگ اور سقوط ڈھاکہ جیسے دلخراش واقعہ کی وجہ سے ملکی حالات میں جو افراتفری رہی وہ لجنہ کے کاموں پر بھی اثر امان ہوئی.194ء میں حضور ایدہ الله مع بیگم صاحبہ کراچی تشریفا تاہم دفاعی فنڈ کے لئے ۵۵۶۵ روپیہ کا چیک محترمہ جمیلہ عرفانی صاحبہ نے لائے اور تقریباً ایک ماہ قیام فرمایا.9 ستمبر کو آپ نے لجنہ کے ایک بجھہ کراچی کی جانب سے محترم منیجر صاحب اسٹیٹ بنک کو پیش کیا.لجنہ کی بڑے جلسہ سے خطاب فرمایا جس میں کراچی کی جملہ جمعرات شریک ہوئیں.خدمات کے سلسلہ میں وزارت دفاع پاکستان اور محترمہ بیگم رعنا لیاقت علی اس سے قبل لجنہ کی میرات کی جانب سے حضرت سیدہ بیگم صاحبہ کو خان کی جانب سے شکریہ کے خطوط بھی موصول ہوئے.استقبالیہ دیا گیا جس کے بعد سیدہ بیگم صاحبہ نے جملہ عہدیداران کو شرف مصافحہ بنختا ترکی ریلیف فنڈ میں بھی شرکت کی گئی.بچوں کو ناظرہ قرآن شریف پڑھانے کے لئے یہ مراکز قائم کئے گئے اس سال حضرت سیدہ نواب میار کہ بیگم صاحبہ بھی تشریف لائیں اور اور ترجمہ پڑھانے کے لئے خصوصی کوششیں کی گئیں.کئی بھی محفلوں میں شرکت فرمائی.تاہم طبیعت کی خرابی کے پیش نظر کسی بڑے جلسہ سے خطاب نہ فرما سکیں.حسب روایت دس روزہ تربیتی کلاس بھی لگائی گئی.تمام حلقہ جات کا از سر نو جائزہ مرتب کیا گیا.تاکہ بڑھتی ہوئی سنتی اور عدم تعاون کا سد باب کیا جائے.انڈسٹریل ہوم اور لجنہ اسٹور بھی عدم تعاون کا شکار تھے ان کی توسیع کے لئے پر وگرام بنایا گیا.دو حلقہ جات حضور ایدہ اللہ خلیفہ اسیج الثالث کی یا برکت تحریک ابتدائی نے عربی گرامر در ترجمہ کی باقاعدہ کلاسیں لگانا شروع کیں تربیتی کلاس بھی حسب معمول لگائی گئی.حلقہ سوسائٹی نے ہفتہ تعلیم القرآن کے میں تین نئے حلقہ جات کا اضافہ کیا گیا.کھوکھرا پار.ماڈل کالونی اور حلقہ النور.انڈسٹریل ہوم میں بہتری اور توسیع کے امکانات سترہ آیات سورۃ بقرہ کی حفظ کی جائیں پر لطحنہ کراچی کے زور وشور سے عمل کیا.جس کے نتیجہ میں ۳۷۲ حمیرات نے یہ آیات حفظ کیں.رانا ۱۹۷۰ء علاوہ ایک بڑا حملہ تعلیم القرآن منعقد کیا.میں جنگ کی صورتحال نے لجنہ کے کاموں پر خاصا اثر ڈالا.اور اکثر جوگر تعطل پیدا ہوا.۱۹۷۲ء میں کام کی رفتار بے حدت ہو گئی لہذا دوران سال صرف 19.حلقہ جات کی رپورٹ ملتی ہے.نظر نہ آئے تو اس سال اسے بند کر دیا گیا.البتہ محترمہ ناصرہ بشیر کی محنت اس میں سے بھی صرف گیارہ حلقہ جات میں احسن طریق پر تمام شعبہ جات اور پر خلوص کاوشوں کی وسیہ سے لجنہ اسٹوبہ قائم رہا.میں کام ہوا.سالانہ اجتماع کے موقع پر بیرونی نمائندگان اور واپسی کے وقت ار اپریل ان کو حضور ایدہ اللہ بیرون ملک روانگی کے لئے اند میشن اور امریکن مہمان نمبرات کے قیام اور طعام کا بہت اچھا نڈ بست کیا گیا.مع حضرت صاجزاد، مبارک احمد صاحب حضرت سیدہ بیگم صاحبہ اور دیگر ہمسفر ساتھیوں کے لاہور سے کراچی پہنچے.جہاں جماعت کے سرکردہ احباب اس سال تمام حلقہ جات میں درس القرآن ہوا.شعبہ اشاعت کی کارکر دگی مثالی رہی جس کے لئے مرکز سے خصوصی ہوں 19ء میں ضلع کراچی اب اتنی وسعت اختیار کر چکا تھا کہ کے علاوہ نجنہ کی متعد د میرات بھی اپنے آقا کے استقبال کے لئے والہانہ سند اور انعام بھی ملا.شعیہ مال میں بھی کراچی سر فہرست رہا.اندانہ میں چشم براہ تھیں.حضور اگلے روز جب زیورچ کے لئے روانہ ہوئے تو لجنہ کی عہدیداران بھی حضور اور بیگم صاحبہ کو رخصت کرتے ہوائی اڈہ حلقہ جات سے جلد جلد رابطہ کرنا مشکل ہو گیا تھا.چنانچہ پھندوں کی وصولی کے علاوہ تربیتی اور تنظیمی امور میں تعطل پیدا ہونا شروع ہو گیا.پر موجود تھیں.حسب روایت اس سال بھی پندرہ روزہ تربیتی کلاس لگائی گئی.صدر بلجنه محترمه ایم شاہنواز صاحبہ اپنی نجی مصروفیات کی بناء پر 101

Page 95

کر ملک سے باہر رہنے لگی تھیں اور دونوں نائب صد در اپنی کمزور صحت حسب ذیل ہے.کی ناو یہ حلقہ جات میں دورے کرنے کے قابل نہ نھیں لہذا ایک جمود صدر الجنه : محترمہ بیگم مجیدہ شاہندوانہ صاحیه کی سی کیفیت طاری ہونے لگی اور وہ لجنہ جس کا ماضی نہایت ہی فعال اور مستعد تھا اب شست اور مز در شمار ہونے لگی.اس موقع پر حضور ایدہ اللہ کی فراست نے بھانپ لیا کہ اب بجھہ کراچی کو تازہ خون درکار ہے.اس کے علاوہ محترمہ صدر صاحبه لجنه مرکز ی کی ہدایت پر ۳ نائب صدور منتخب کی گئیں.تاکہ دورہ جات میں زیادہ وقت نہ ہو.چن اپنے نائب صدر میرا محترمہ نصیرہ بیگم صاجزادہ ظفر احمد صاحب.نائب صد نمبرا چنانچہ انہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العربیہ کے ارشاد کے مطابق خدام محترمہ بیگم ایم اے خورشید صاحیہ اور نائب صدر نمبر ۳ محترمہ آمین کرام الله اور انصارہ اللہ کے نمونہ پر حضرت سیدہ صدر صاحبه لجنہ مرکزیہ نے لجنہ اماء الله صاحبہ مقرر ہوئیں.ضلع کراچی کو کبھی 4 بڑی شاخوں میں تقسیم کر دیا.ہر شاخ کو ایک قیادت جنرل سیکریٹری محترمہ نسیم سعید صاحبه کا نام دیا گیا اور اس کی ایک علیحدہ نگران مقرر کی گئی ہر نگر ان کے تحت نائبات : ۱- بشری سعادت صاحبه اس کی ایک علیحدہ عامہ بنائی گئی.جب کہ ہر قیادت چند حلقہ جات پر مشتمل ایک یونٹ کی حیثیت رکھتی ہے.چنانچہ ایک طرف نگران اپنے علاقہ کی سربراہ ہونے کے علاوہ ضلع کی انتظامیہ کی ایک ممبر بھی ہوتی ہے اور اس کا تعلق براہ راست ضلعی صدر سے ہوتا ہے.اور دوسری طرف وہ اپنے دائرہ کار میں مکمل اختیار اور کنٹرول بھی رکھتی ہے.صدر ضلع اور سیکریٹر یان شعبہ ہر ماہ با قاعدہ ہو ہدایات مقامی اور مرکزی کاموں کے سلسلہ میں جاری کرتی ہیں وہ وصول کر کے اپنے ماتحت علاقہ میں ان پر عمل کروانا اور اپنی رپورٹ ماہانہ کارکردگی کے جائزہ کی شکل میں دفتر ضلع تک پہنچا نا نگر ان کا کام ہے.جو ضروری پڑتال کے بعد مرکز بھیجوا دی جاتی ہیں.جون 1943 ء میں یہ تنظیم تو عمل میں آئی تو بعض ضلعی عہدیداران میں بھی کچھ تبدیلی کی گئی.جمیلہ عرفانی صاحبہ کی جگہ محترمہ نسیم سعید صاحب نئی جنرل سیکریٹری مقرر کی گئیں.اس کے علاوہ ایک نئی نائب صدر محترمہ نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ ظفر احمد صاحب منتخب کی گئیں تنظیم تو کے بعد اللہ کے فضل وکرم سے لجنہ میں ایک نئی زندگی اور شیر درج نظر آنے لگی.اب ہر ماہ ایک میٹنگ نگرانات منعقد کی جانے لگی جس میں نظرانات شائستہ بیگم بنت فضل حق صاحب.سیکریٹری مال سیدہ ہادی لطیف صاحبہ نائبه - محترمہ محمودہ بٹ صاحبہ بحران قیادت نمیرا اور محترمہ بیگم سید مسعید قالد صاحب قیادت میرا اور محترمہ امتہ الحفیظ بھٹی صاحب قیادت قبر محترمہ ظفر جہاں بیگم عبد الجبد بھٹی صاحب.قیادت نمبر کی محترمہ بیگم سلطان طاہر صاحب قیادت نبره در محترمه گلزار بیگم آفتاب الجمل قیادت نمیر بار محترمہ امنه القدير فروت صاحبه سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظر جماعتی تحریک پر بلند کراچی نے بھی حسب روایت لبیک کہا اور انتہائی مختصر وقت میں گیارہ ہزار ایک سے روپیہ جمع کیا.ساڑھے پانچ ہزار گرم اور ٹھنڈے مستعملہ پارچہ جات.بستر برتن جوتے اور ادویات کے علاوہ اجناس علیحدہ جمع کئے گئے.ہو لجنہ مرکز یہ کی وساطت سے جماعتی متاثرین کے لئے پیش کئے گئے.حسب وامیت جلسہ جات اور جلسہ ہائے سیرت النبی منعقد کئے گئے.ماریشس سے تشریف لانے والی ایک احمدی خاتون بیگم قیادت شامل ہو کہ ہدایات حاصل کرتیں اور اسی میٹنگ میں اپنی رپوڑیں ہدایت سوفیہ کو استقبالیہ دیا گیا.4 قیادتیں منظر ہو جانے سے مسابقت کی بھی ہمراہ لائیں.مرکز سے آنے والے خطوط اور دیگر مواد کبھی انہیں اسی میٹنگ میں دے دیئے جاتے.اس کے علاوہ ہر تیسری جمعرات کو ایک اجلاس عاملہ و عامہ بھی منعقد کیا جانے لگا.جس میں تربیتی امور پر گفتگو کے علاوہ سیر بیریان کو کام سیکھنے کا موقع بھی ملنے لگا.اء میں قیادتوں کے قیام کے علاوہ جو تبدیلی عاملہ میں کی گئی دہ روح بیدار ہوئی اور تمام شعبہ جات میں نمایاں بہتری کے آثار پیدا ہونے لگے.سیده نسیم سعید صاحبہ صرف دس ما د کام کر سکیں اور انہیں اپنے شوہر کے تبادلہ کی وجہ سے کراچی سے باہر جانا پڑ گیا.لبنانی جنرال سیکو میری محترمہ امتہ الحفیظ بھٹی صاحبہ کو مقرر کیا گیا.بیگم مجیدہ شاہنوا نہ اس دفعہ ہے عرصہ کے لئے باہر تشریف لے جارہی تھیں.محترمہ نصیرہ بیگم اہلیہ صاجزادہ ۱۰۲

Page 96

خلہ احمد صاحب کو قائم مقام صدرہ چنا گیا.انہیں بنہ کی طرف سے ایک تحفہ بھی پیش کیا گیا.شام کو انہوں نے کلفٹن اور ری میں ور و تنگ کراچی میں بجھنہ کی میرات کی تعداد ایک ہزار کیماڑی کی سیر کی اور رات کی پرواز سے واپس امریکہ کے لئے روانہ ہوگئیں.اس سال محترمہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بھی کراچی میں عنق افروز تک پہنچ گئی.متر دستیدہ بادی لطیف کی جگہ محترمہ بی شریف و انچ کو سی ایرانی ہوئیں ان کی آمد یہ بھنہ کراچی کی طرف سے ایک استقبالیہ دیا گیا.آپ نے مقرر کیا گیا.نیز قیادت نمبرہ کی سابقہ نگران کی ایک دوسرے حلقہ میں جملہ عہدیداران سے مصافحہ کیا اور ان سارو نوازش بجنرل سیکریٹری کو بعض مشورے رہائشی تبدیلی کی وجہ سے محترمہ فہمیدہ اختر صاحبہ کونتی نگران مقرر کیا گیا.اور ہدایات بھی دیں.قیادت نمبر ۳۰۲، اور نمبر لہ کی جانب سے بھی بیٹی کومحترمہ صدر صاحبہ بلحه مرکز بہ کراچی کے طویل دور پر نیائیں آپ کو استقبالیے دیئے گئے.جبکہ ضلعی لجنہ اور قیادت نمبرا کی جانب لجنہ اماءاللہ کراچی نے ایک وسیع پروگرام بنایا ہوا تھا.تاہم ملکی حالات سے منعقد ہونے والے جلسہ ہائے یوم خلافت میں آپ نے صدارت فرمائی.کے پیش نظر سب پر عمل نہ ہو سہ کا.صدر الجنہ کراچی اپوا کی ایک سرگرم رکن بھی ہیں.خواتین کے عالمی آپ نے ہمیں مٹی سے ۲۱ مٹی ایک تقریبا ہر قیادت میں دور سے کیسے ان کے جلسوں سال کے سلسلہ میں انہوں نے صدر لجنہ مرکزہ یہ کے مشورے سے ایک با صفحاتی مضمون میں میں بھنہ کے نقطہ نظر کی وضاحت کی گئی تھی.صدر الو کوپیش کیا.آنے والی خواتین اور وفود پہلے یہاں آتے ہیں.اس لئے ان کے قیام العام میں شرکت کی اور ہدایات دیں.صدر صاحبہ نے کراچی میں قیام کے دنوں میں مرکز ہی دفتر لجنہ کراچی ۳ اگست کو ناصرابت الاحمدیہ کا اجتماع زیر صدارت سیدہ کے تمام رجسٹر چیک کر کے صحیح طریقہ پر کام کرنے کے سلسلہ میں ہدایات بھی نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ منعقد ہوا جس میں آپ نے اپنے درس شفقت دیں.خصوصا لجنہ کراچی کو ہدایت کی کہ کراچی بندرگاہ ہے.بغیر ممالک سے سے انعامات بھی تقسیم کئے اور بچیوں سے مصافحہ کے علاوہ مفید نصائح بھی فرمائیں.قیادتوں کو کار کردگی کے انعامات بھی دیئے گئے.رمنی سند کہ انڈسٹریل ہوم (جو) ناگزیر وجوہ کی بناء پر ستی یہ کہ دیا گیا تھا دوبارہ قائم کر دیا گیا.بلند کی طرف سے ایک میرا ہوا ہے کی مالیت کی گئی.جس سے بعض بنیادی ضرورت کا سامان خمر بدا گیا.بادر بانوں سے آرڈر سے کہ مال تیار کیا گیا.جس کی فروخت سے خاص بیت ہوئی تمام قیاد نہیں اپنے طور پر تربیتی کلاسیں لگاتی ہیں.اس مرتبہ بھی کا بہتر بند دبہت کرنے کے لئے ایک سیکہ بڑی ضیافت ضرور مقرر کریں.194ء میں جماعت احمدیہ پر آنے والے ابتلا کے ضمن میں بے گھر افراد کی آبادکاری اور بہبود کے لئے بھتہ کراچی نے خصوصیت سے ہم ہزار کی نقد رقم پارچہ جات اور گرم چادریں وکپڑے بھجوائے.ده به این سال مجلس عاملہ و عامہ کے ۳.اجلاس منعقد کئے گئے.کم جنوری ۱۹۷۵ به در هفته امریکہ کی عہدیداران لجنہ کے پہلے وفد تمام قیادتوں نے پندرہ روزہ تربیتی کلاس لگائی جن میں خواتین اساتذ: نے جلسہ سالانہ سے واپسی پر امریکہ روانہ ہونے سے پہلے چند گھنٹے کراچی میں کے علاوہ مربیان کرام نے بھی درس دیا.قیام کیا.احمدیہ ہال میں انہوں نے لجنہ کراچی کی عہدیداران کے ساتھ عصر ۱۹۷۵ء میں کراچی کی قیادت نمبرا سوم اور قیادت نمیرہ چہارم و اقارب کی نماز ہیں ادا کیں.ان کے اعزا نہ میں ایک استقبالیہ امیر صاحب آئیں.ناصرات الاحمدیہ قیادت نمبرا دوم ، قیادت تمبر ام سوئم اور قیادت نمیز کی جانب سے دیا گیا جس میں لینہ کراچی کی ضلعی عہدیداران بھی شامل ہوئیں.چہارم رہیں.رات کی پروانہ سے یہ وقد واپس روانہ ہو گیا.19 میں لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی کی نائب صدمہ اور قائم مقام ۱۷ جنوری برای کو امریکہ کی صدر صاحبہ محترمہ نسیمہ امین جب سالانہ صدر محترمہ نصیرہ بیگم صاحبہ کی زیر صدارت ہر ماہ کے پہلے جمعہ کو جلس عاملہ سے واپسی پر کراچی مہریں.عہدیداران لیجنڈ نے ائیر پورٹ پر ان کا استقبال کا اجلاس ہوتا کہ ہا جس میں قیادت کی نگرا نات بھی اپنی ماہانہ رپورٹوں کے کیا.جہاں سے انہیں صدر صاحیہ لجنہ کراچی کی قیام گاہ لے جایا گیا.یہاں ساتھ حاضر ہوئیں.لجنہ کی بہبودی اور کام کو بہتر طریق پر چلانے کے لئے باہم ان کے قیام کا انتظام کیا گیا تھا.کھانے کے بعد وہ جمعہ کی نماز کے لئے مشورے ہوتے اور نت نئی تجاویز پیش کی جاتی رہیں.مرکز سے آنے احمدیہ بال تشریف لائیں.بعد نماز جمعہ لجنہ کراچی نے ان کی خدمت والی ہدایات اور مواد بھی اسی اجلاس میں دیئے جانئے.اس کے علاوہ میں استقبالیہ پیش کیا.جس میں سپاسنامے کے علاوہ عصرانہ کا انتظام کیا گیا تھا ہرماہ کی تیسری جمعرات کو مجلس عاملہ و عامہ کا اجلاس منعقد کیا جاتا.١٠٣

Page 97

اس سال محترمہ امتہ الحفیظ بھٹی صاحبہ بیرون ملک تشریف لے کی گئی جس میں مرتبی صاحب عبد السلام طاہر کے علاوہ، محترم امیر صاحب گئیں.ان کے جانے کے بعد جون ۹ در یک بشری سعادت صاحبہ نے بھی لیکچر دیے.اس کے علاوہ ابتدائی طبی امداد کے ضمن میں بھی کئی اسباق اور امتہ الرشید شائستہ صاحبہ کام سنبھالا تاہم ۱۸ جون کو بھنول سیر کیری کے پڑھائے گئے جو ڈاکٹر محمودہ نذیر اور ڈاکٹر زبیدہ طاہر صاحبہ نے فرائض و اختیارات محترمہ امته الشاقی سیال صاحبہ کے حوالے کئے گئے.پڑھائے.حاضری ۴۰.اور ۴۵ کے درمیان رہی.جلسہ سالانہ سے واپسی کے بعد ماریشس افریقہ اور امریکہ کے ری کا انتظام دامی بعد کی جانب سےکیا گیا جس میں مہانوں نے اپنے نام منافات اور یوم ملا محمد تمام باتوں میں منعقد کئے گئے.وفود نے مختصر عرصہ کے لئے کراچی میں قیام کیا ان کی خدمت میں ایک قیادتوں نے اپنے طور پر بھی تربیتی کلاسیں لگائیں اور ماہ رمضان میں حسب روایت جلسہ ہائے سیرت النبی.یوم مسیح موجود تاثرات بنائے اور دورہ مرکز کا احوال سنایا.ان کی رہائش اور طعام و درس کا انتقاد کیا.مرد کے تخت مضمون نگاری کے ایک مقابلے میں قیام کے بندوبست کے سلسلہ میں ممیرات و عہدیداران بھہ نے ہر طرح سے لجنتہ کراچی کی ایک میر ذکیہ اللہ داد صاحبہ نے سوم انعام حاصل کیا.مقامی جماعت کے ساتھ تعاون کیا.چنانچہ مہمان بڑے خوشگوار ماحول میں قیادت نمبر ہ کی نگران کے رخصت ہوئے.اس سال گرمیوں میں محرمہ صاجزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ قادیان سے تشریف لائیں.آپ ایک طویل عرصہ کے بعد پاکستان آئی نھیں لہذا فطری طور پر سب کو بے حد خوشی ہوئی.لجنہ کی مجلس عاملہ کی.جانب سے ایک شاندار استقبالیہ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا.یہ چوری 194 کو ایک دن کے لئے محضور ایدہ اللہ محترمہ بیگم صاحب کی بیرون ملک روانگی کے باعث محترمہ سلیمہ میر صاحبہ نی نگران منتخب ہوئیں قیادت غیرہ میں بیگم سلطان طاہر کی جگہ محترمہ امتہ الہادی کو مقرر کیا گیا.قیادت نمبر ۵ نمبر ہ میں نگران محترمه گلزار بیگم آفتاب بسمل صاحبه کی جگہ فہمیدہ اختر بیگم مشتاق مقریر کی گئیں.194 ء میں حضرت سیدہ صدر صاحبہ کراچی تشریف لائیں معیت میں دورہ مغرب کے لئے جاتے ہوئے کراچی میں رونق افروز اور دوران قیام قیادتوں کے دورہ جات کے علاوہ لجنہ کراچی کا انتخاب بھی کر دیا.ہوئے اور اس کو روانہ ہو گئے.مختصر قیام کی وجہ سے کوئی پروگرام تو مرتب نہ کیا جاسکا تاہم قیام گاہ پر عہد یداران لجنہ نے حضرت بیگم صاحبہ سے شرف ملاقات حاصل کیا.ستمبر یار کو لجنہ کراچی کی صدارت کے لئے انتخاب محترمہ نصیر بیگم صاحبہ کثرت رائے سے صدر منتخب ہوئیں.اس سال خدا کے فضل وکرم سے دو اور بزرگ مبارک حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے ڈرگ روڈ کے درس القرآن ہستیاں کھلی عازم کراچی ہو ئیں یعنی نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور میں شرکت فرمائی اور افطاری دنماز کے بعد بہنوں کو شرف مصافحہ حضرت سیدہ مہر آیا صاحبہ.ان کے اعرانہ میں ایک جلسہ کا انتظام کیا گیا اور ملاقات بخشا.نیز حلقہ ڈیفنس اور حلقہ النور میں اجتماعی دعا میں جس میں شہر بھر کی نمرات شامل ہوئیں اور مبارک مہنیوں کی زیارت شامل ہوئیں اور بہتوں سے ملاقات کی.۸ ستمبر کی صبح 4 بجے آپ دفتر کی سعادت حاصل کی.تلاوت کلام پاک اور نظم خوانی کے بعد مہمانوں لجنہ تشریف لائیں.رجسٹروں کی چیکنگ فرمائی اور مفید ہدایات دیں کو سپاسنامہ پیش کیا گیا.بعد انہاں سیدہ مہر آپا نے خطاب کیا اور حاضرات بعض نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے کام کرنے کا صحیح طریقہ سمجھایا اور کام کو احسن طریقہ یہ انجام دینے کے لئے لمبی اور پرسونہ دعا بھی کر دائی.۱۹۷ کو مفید نصائح سے توا ندا.مرکز می تربیتی کلاس سے واپس آنے والی بچیتوں کو بھی ایک جنوری کو کراچی کے حلقہ جات کے دوروں کا آغاز کیا پارٹی دی گئی جس میں انہوں نے دوبارہ مرکز اور کلاس کے بارے میں گیا ، حلقہ جات کے دورے مارچ میں مکمل ہو سکے.یہ دور جلالی اللہ اپنے تاثرات پیش کئے اور بتایا کہ حضرت سیدہ صدر صاحبه الجنه مرکزید کی بنیادی اراکین نے قیادتوں میں بیداری پیدا کرنے کی غرض سے کیا.نے کراچی کی طالبات کے نظم وضبط اور تعلیمی معیار کی خصوصیت جہیز فنڈ کا با قاعدہ قیام عمل میں لایا گیا.ایک کتا بچہ بعض تربیتی امور کے بارے میں شائع کیا گیا.جس میں ہر قیادت نے ایک سے تعریف کی.اس سال ضلعی سطح پر ایک بامدہ روزہ تربیتی کلا س بھی منعقد تربیتی مسئلہ پر معمور ایک کا بھی اہا.یہ مصر کتابچہ ہماری تربیت اور Jon

Page 98

اس کے تقاضے" کے عنوان سے لجنہ کراچی کی طرف سے شائع کیا گیا.اس محترمہ امتہ الثانی سیال صاحبہ جنرل سیکریٹری کے ہمراہ کے علاوہ دو پمفلٹ آداب بیوت - آداب نماز جمع بھی شائع کئے گئے.دوشی نائبات محترمہ بشری حمید صاحبہ اور محترمہ آنسہ منصور صاحبہ نے لجنہ کی گیلری کے لئے تمام قیادتوں نے دریاں ، صفیں اور کام سنبھاں سیکریٹری مال با قاعدہ طور پر بیگم شریف احمد وڑائچ کر ہیں اور بر متن خریدنے کے لئے تعاون کیا.نیز مہمانوں کے لئے ہر قیادت نے حمیرا منصور ان کی تائبہ مقرر کی گئیں سیری برای خدمت خلق محترمہ امتہ الکریم دو عمدہ بستر بھی بنوا کر دیئے جو شعبہ ضیافت کے حوالہ کر دیے گئے.بیگم بی مبارک احمد صاحب کو بنایاگیا.ممتاز فروز کو بطور ایرانی سکریٹری مقرر کیا گیا.چونکہ مہمانوں کی آمدو رفت کا سلسلہ مستقل جاری رہتا تھا کرام نے بھی پڑھایا.قیادتوں نے بھی اپنے اپنے طور پر دریں قرآن کریم ضلعی سطح پر ایک پندرہ روزہ کلاس لگائی گئی میں ہی میاں اس لئے صدر صاحب بلند مرکزی کی ہدایت کے مطابق بشری محمود کو اور تربیتی کلاسوں کا انعقاد کیا.سیکریٹری ضیافت بنا یا گیا.اس مجلس عاملہ میں خدمت خلق کی سیکریٹری کے طور پر محمودہ الیاس اس سال ضلع میں کام کی زیادتی کی وجہ سے ہر قیادت کے صاحبہ اور نائیر جنرل سیکہ بیڑی کے طور پر بیشتری محمود صاحبہ کا اضافہ ہوا.لئے علیحدہ سیکریٹری مال بھی مقدر کی گئی.حضور ایدہ اللہ کے ارشاد کے بشری سعادت سیکریٹری ناصرات الاحمدیہ مقرر کی گئیں.مطابق اس سال کراچی میں طالبات کی فہرست تجنید بھی تیار کی گئی اور پہلی ضلع کی عاملہ کے تحت ایک بڑا جلسہ سیرت النبی سومر فرو ہی کو مرتبہ پہلی سے لے کر پی ایچ ڈی تک کی طالبات کے نام رجسٹر کئے گئے.اب منعقد کیا گیا.جس میں امیر صاحب کے علاوہ مرتی عبد السلام طاہر صاحب تک ہر سال کراچی لجنہ ضلعی سطح پہ سالانہ اجتماع کا اہتمام کرتی تھی اس مرتبہ پہلی دفعہ جلسہ سالانہ منعقد کیا گیا.نے بھی خطاب کیا.لمجنہ امریکہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر لجنہ کراچی نے مبارک باد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کراچی کے ایک ماہ کے دوران کا خصوصی پیغام بھیجوایا.جلسہ سالانہ سے قبل ایک انگریز بہن جو مرکز دیکھنے لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی سے خطاب فرمایا.اس عند عظیم الشان جلسہ میں بند کراچی کی خواہشمند تھیں.کراچی میں قیام پذیر ہو ہیں.لجنہ کراچی کی طرف سے انہیں کی بیشتر ممرات نے شرکت فرمائی.خطاب کے بعد حضور کی خدمت میں ٹی پارٹی دی گئی اور انگلش کی 4 کتب تحفتاً پیش کی گئیں بیجو انہوں انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کی چیر مین محترمہ ثمر یہ ہاشمی نے طلائی تاروں سے نے بخوشی قبول کیں اور بلجنہ کراچی کو شکر گزاری کے جذبات سے نوازا.بنا ہوا مینارہ مسیح کا خوبصورت ماڈل پیش کیا.اس کے علاوہ آپے کا چیک لجنہ کراچی کی طرف سے روسی سے روسی زبان میں ترجمہ القرآن کے لئے اس شکرانے کے تحت حضور کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ حضور کراچی تشریف خدمت خلق کے لئے حضرت سیدہ صدر صاحبہ کے تاثرات خوشنودی موصول ہوئے جو جہیز فنڈ اور ہنگامی کاموں میں پیش پیش رہنے کے سلسلہ میں ان کی طرف سے دیئے گئے.قیادت میرا کی دو بہنوں کو قرآن کریم پڑھانے کے مسلہ میں لائے اور بجھہ کراچی کی میرات نے آپ سے فیض حاصل کیا.ماہ اپریل میں محترمہ صاحبزادی امتہ الباسط بیگم صاحبہ علاج کی مرکز سے سندات خوشنودی عطا کی گئیں جن کے نام یہ ہیں.کلثوم بیگم عرض سے تشریف لائیں.چنانچہ ضلع کراچی نے انہیں بھی مدعو کیا تا کہ میرات مولوی حمید صاحب ۲ صبیحہ نصیر راجپوت صاحبہ اد ۹۵ اید یک لجنه کرا چی کی تعداد - ۱۲۵ سٹیک ہو چکی تھی جبکہ ۱۹۷ ء میں یہ تعداد 14 ہو گئی.1949ء میں عہدیداران ضلع میں کچھ تبدیلی ہوئی.اور محترمہ زینت ابوبکر صاحبہ اور بیشتری اکرم صاحبہ بطور نائب صدر منتخب کی گئیں.ہیگیم خورشید پہلے ہی نائب صدر کے طور پر کام کہ رہی تھیں اس طرح کل ۳ نائبات صدر صاحبہ محترمہ نصیب مرزا ظفر احمد صاحب کی معیت میں کام کرنے لگیں.لجنہ ان کی پیاری اور محترم شخصیت سے کچھ فیض اٹھا سکیں.درمان سال حضرت سیدہ مہر آیا بھی کراچی تشریف لائیں اور کراچی لجنہ کے جلسہ سالانہ کی صدارت فرمائی.اس سال مرکز میں تعلیم القرآن فضل عمر میں کراچی سے تمام تیار توں کی 24 طالبات شامل ہوئیں.قیادت نمبر کی وسعت کے پیش نظر فیصلہ کیاگیا کہ اسے دوستوں میں تقسیم کر دیا جائے کیونکہ مختلف سمات میں پھیلے ہوئے گیارہ حلقہ جات پر کسی ایک فرد کا کنٹرول بہت مشکل ہو رہا تھا.لہذا اس قیادت کا ایک ۱۰۵

Page 99

اگست رات کو پی ای سی ایچ ایس کے ایک جلسہ میں حصہ قیادت تیرے بنا دیا گیا.جو نارتھ ناظم آباد کے علاقے اور شیر شاہ سائٹ کے علاوہ اورنگی ٹاؤن پر مشتمل تھا.اس کی نگران محترمہ بشری محمود صاحبہ کو قیادت نمبر کی نمبرات سے خطاب کے علاوہ معصرانہ میں شرکت فرمائی.مقرر کیا گیا.باقی حصے کی نگران پرتور محترمہ ظفر جہاں بھیٹی ہی ہیں.14 اگست کو تیسرے سالانہ جلسہ میں شرکت فرمائی اور بہنوں اس سال حضرت میده صدر حاجه لجنہ مرکزیہ کے دورہ کراچی پر سے خطاب کے علاوہ انہیں شرف مصافحہ بھی بخشا.مشتمل تقاریر کا مجمو عہ بھی شائع کیا گیا.اس کے علاوہ ایک ٹریکٹ اسلامی پڑے " ار اگست کو مزید آباد اور گوہر آباد میں بحثہ کے فری ٹیوشن استرانہ کا معائنہ فرمایا اور اس کی اہمیت کے نام سے طبع کر دیا گیا.انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کے نام سے ایک ذیلی تنظیم بھی قائم کی ۱۸ اگست یہ کو صدرجمہ کراچی کے انتخابی جلسہ کی صدارت گئی.جس کی چیر مین محترمہ قمریہ ہائشی مقرر کی گئیں.اس تنظیم کا مقصد کالج فرمائی.اس انتخاب میں محترمہ سلیمہ میر صاحب بطور صدر لجنہ ضلع کراچی میں پڑ ھنے والی طالبات میں دینی کاموں کا شوق پید اکرنا اور ان کے تخب کی گئیں.توسط سے تعلیم یافت بستے میں حمدیہ جماعت کے بارے میں پھیلی ہو نگے غلط فہمیاں دور کرنا ہے.۱۹ اگست شش کو حضرت سیدہ صدمہ صاحبہ نے احمد یا نٹ کا بلیٹ الیسوسی ایشن کی عہدیداران سے ملاقات کے علاوہ ان کے ایک جلسہ 19ء میں مرکز سے نمایاں رابطہ یہ کھنے پر محترمہ اقبال بیگم صاحیہ کی صدارت فرمائی.یہ پوری شام آپ سے طالبات کے ساتھ گزاری نگران قیادت میرا ، محترمہ امتہ الہادی صاحبہ نگران قیادت نمبر.محترمہ اور ان کے مسائل سنے اور مفید مشورے دیئے.بیگیم را جه ناصر احمد صاحب نگران قیادت نمبر 4 اور بشری محمود صاحبه مکران قیادت نمبرے کو سندات خوشنودی کا حقدار قرار دیاگیا.جن دیگر بہنوں جلسہ کی صدارت فرمائی اور حاضرین کو زرین نصائح سے نواندا.کو اچھا کام کر نے پر مرکز سے سند ملی ان کے نام یہ ہیں.۲۴ اگست کو آپ نے قیادت نمبر 4 میں منعقد کئے گئے ایک ۲۷ اگست کو ناصرات الاحمدیہ ضلع کراچی کے جلسہ کی صدارت محترمہ ڈاکٹر بیدہ طاہر باشمی صاحبہ محترمه خورشید عطا صاحبہ.فرمائی اور انہیں انعامات بھی دیئے.۲۹ اگست کو لبتہ کراچی نے لجنہ بعد در آبا د سند کی عہدیداران کو محترمہ صادقہ قمر صاحبہ محترمہ بشری ابراہیم صاحبہ محترمہ عارفہ نصیر صاحبہ - محترمہ ساجدہ اسماعیل صاحبہ محترمہ امتہ الرشید مبارک صاحبہ ایک ایک عصرانہ پر مدعو کیا جس میں حضرت سیدہ صدر صاحبہ بھی شامل ہوئیں.خاص بات یہ تھی کہ یہ سب ممبرات قیادت غیر اہ سے تعلق رکھتی تھیں.یہ اگست کو حضور ایدہ اللہ تعالی نے مارٹن روڈ کی مسجد میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشاد کے تحت کہ پندرہویں گیارہ بجے نمبرات لجنہ کراچی سے اپنا اہم ترین خطاب فرمایا.جامعہ ہذا صدی کے آغاز پر سجرے صدقہ کئے جائیں.کراچی ضلع کی طرف سے ایک میں حضور نے لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی کا الحاق لجنہ مرکز یہ سے ختم کر سکے بحرا چودہویں صدی کے اختتام کے دن اور ایک بکر اپندرہویں صدی کے ایک دور کنی منتظمہ کمیٹی کا قیام فرمایا.اور اس کمیٹی کی صدر محترمہ سلیمہ میر آغاز کے دن صدقہ کیاگیا.قیادتوں نے بطور مجمو عی ۵ انجرے صدقہ کئے صاحبہ کو نامزد کیا.اور نقد رقم بھی دی گئی.کمائی کی دیگر میرات یہ تھیں.محترمہ نصیرہ بیگم اہلیہ ظفر احمد صاحب اس سال حضور ایدہ اللہ نے دارالضیافت کیلئے یہودیوں محترمہ امته الرفیق ظفر صاحبه محترمه بهتری داور صاحبہ اور حرم شرین عبد الحمید کی تحریک بھی فرمائی.لہذا کراچی کی تمام قیادتوں نے ایک ایک دیگ صاحبہ حضور نے اس کمیٹی کو پندرہ روزہ رپورٹیں بھیجوانے کی تاکید کا تحفہ حضور کی خدمت میں پیش گیا.کرتے ہوئے پی بھی فرمایا کہ یہ رپورٹیں آئندہ حضور کی خدمت پیش کی جائینگی سمبر راء کو حضرت بندہ منصورہ بیگم صاحبہ نے حلقہ ڈینٹس میں این سال گرمیوں میں حضرت سیدہ صدر صاحبہ لبتہ مرکزہ یہ تقریب ایک ماہ کے لئے کراچی تشریف لائیں اور تیسرے سالانہ جلسہ میں ایک جلسہ کی صدارت فرمائی اور نمبرات کو ترترین نصائح سے نوازا.شرکت کے علاوہ قیادتوں میں بھی تشریف لے گئیں.جس کی تفصیل حسب ذیل ہے.سے ایک منتظمہ کمیٹی کی کارکردگی کا طائرانہ جائزہ قسمت کے شمارہ میں پیش کیا جا رہا ہے.1.4

Page 100

احمديه طالبات نے مختلف قیادتوں میں وفات مسیح ناصری کے موضوع پر تقریری مقابلہ.تاریخ پاکستان اور تاریخ احمدیت کے موضوع پر مقابلہ اور اسپین میں مسجد کے پر شوکت قیام پہ یوم تشکر اور سیرۃ النبی کے موضوع پر تقریری مقابلے کروائے.سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کر کئی یونٹ محترم خلفائے وقت کی کراچی تشریف آوری کے بابرکت مواقع پر طالبات نے خصوصی ملاقاتوں میں اپنے مسائل پر رہنمائی حاصل کی.اپنے حضرت سید ہ مریم صدیقہ صاحبہ نے ۲۲ ستمبر کو احمدیہ حلقہ اشر کی طالبات کی ملاقاتیں کر وائیں اور محافل سوال و جواب میں سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے قیام کے اعلان کے ساتھ تین اہم فرائض کی شرکت کے لئے مدعو کیا جس کا بہت اچھا اثر ہوا.طرف توجہ دلائی.طالبات اپنے حلقہ اثر میں اپنے عمل اور کردار کے ذریعے جماعت کا تعارف کروائیں اور غلط فہمیوں کو دور کریں.پروگراموں کو دلچسپ بنائیں تاکہ وہ طالبات جو یکسانیت کے خیال سے جماعتی پر دگرموں الجنة مركزية میں حصہ نہیں لیتیں بڑھ چڑھ کر آگے آئیں اور اپنی ہم عمروں کی تربیت کی ضلعی دوڑ میں مال کرده امتیازات کا کام کریں.۱۹۵۹ء +194--41 تمرینہ ہاشمی صاحبہ، ثمینہ چغتائی صاحبہ، امتہ الباسط بیگ صاحبہ عظمی مومن صاحبه، بلشره قادر صاحبہ، سعدیہ بٹ صاحبہ.ناصرہ نظیف صاحبہ، نشست مسعود صاحبہ ، نصرت تورین راجہ صاحبہ نے سرگرمی سے کام ۶۲ - ۱۹۶۱ء.کیا.ایک کے جی مسکول، کوچنگ سنٹر اور لینڈنگ لائبریری قائم کی گئی نومبر شاد میں احمدیہ ہال میں کا لجنہ میں آنے والی طالبات کو استقبالیہ دیا گیا.۲۶ جنوری شا کو اردو مباحثہ منعقد کیا گیا جس کا عنوان اس ایوان کی رائے میں خواتین کے لئے اعلیٰ تعلیم ضروری ہے؛ ۱۴ جون 199 کو سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر معلوماتی مقابلہ ہوا.قیادت غیر لہ کی ٹیم اول رہی.4 دسمبر 1960 کو آرٹ اینڈ ہینڈی کرافٹ نمائش مرتب کی گئی جس میں آرائش گل.کڑہائی.کہ وشیا، دال بینگنگر.پیٹنگ.فوٹو گرافی اور ہینڈی کرافٹ کی اشیاء کی نمائش ہوئی.مارچ سالہ کو حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی خدمت میں N A THREADرم کے سیام سے تیار شدہ مینارہ ایسیج پیش کیا گیا.۲۱ اگست شاید عید ملن کے ساتھ انڈور گیمز کا پروگرام رکھا گیا اس کی محترم مہمان حضرت سر آیا صاحب منظلہ العالی تھیں.استمبر کو سالانہ کھیل کروائے گئے.اس کی مہمان خصوصی بھی حضرت مہر آیا صاحبہ تھیں.دیسی نشہ میں مشاعرہ اور نعت خوانی کا مقابلہ ہوا.اس کے علاوہ حسن کارکردگی کی سند دوم اول اول دوم ربوہ کی معیت میں اول اول میوہ کی محبت میں دوم x >1940-44 1944-42 >1946-47 +1941-49 71949-20 >196--21 >1941 - 2 ۶۱۹۷۲ - ۷۳ 1920-CM # چہارم سوم x قیادت نمبر کے سوم قیادت نمبر 4 چهارم 10

Page 101

1-A لجنہ اماءاللہ کراچی کی اہم مالی خدمات "بيت النصرت کو بین سنگین و بیت الهدی آسٹریلیا خلیفہ المسیح الثالث کو برائے تعمیر بیت بیرونی مالک مربیان کر اس کے بجٹ میں.11-12- 14 ۱۹۶۵ء میں قومی دفاعی فنڈ میں ۲۱۸۱۱۰۰ نقد، ۴۳ تولہ سونا اور اشیائے ضرورت کے ۱۲ر میڈل مع..اصدریاں.۱۹۷۱ ء میں قومی دفاعی فنڈ کے لیے اسٹیٹ بینک کو بذریعہ چیک ادائیگی ۵۵۶۵-۰۰ مہاجرین کشمیر کے لیے ربوہ بھیجے.۱۱۰۰۰۰ نقد اسات بڑے ارسل استفہائے ضرورت بیرونی مراکز ( احمد یہ مشن ) تعمیر ہال لجنہ ممبرات کراچی.محترمہ بیگم شاہ نواز ۷۱۱۵۵۳۰۰ 1409-9 محترمہ ناصرہ بیگم حافظ بشیر دوباره نگر پارکر اسپتال ابھی جاری ہے.17 اس کے علاوہ بیت خطر سلطان ربوہ کی مکمل تعمیر محترم حضر سلطانہ نے کروائی.

Page 102

صدور لجنہ اماءاللہ کراچی مح مرامة النصرمة احمدی گھرانے اس قدر نہ تھے.خواتین کی تعداد بمشکل پندر ہیں تھی.اهلیه چودھری اححاصباء آپ نے انہیں قریب لانے کے لئے گھر گھر جا کر ان کو یکجا کیا اور اپنے عهد صدارت ۹ تا ۱۹۴۷ گھر میں اجلاس بلانے شروع کئے.مختلف قسم کی پارٹیوں اور دعوتوں کے بہانے ان کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہیں.آخر دن رات کی محنت رنگ لائی اور یوں 19 ء میں کراچی لجنہ کا قیام عمل میں آیا.(تاریخ الجن امید محترمہ استہ النصیر صاحبه ند و حجه هجمه دهری احمد جان صاحب امر متین ماہ میں مرقوم سے محترمہ امت اللہ ماہ اہلیہ ڈاکٹر میں اتنے بند کراچی کی بنیاد رکھیں مرحوم کو یہ فخر حاصل ہے کہ لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی کی بنیاد ان کے ہاتھوں آپ لجنہ کراچی کی پہلی صدر منتخب ہوئیں.آپ نے اپنی جماعتی ذمہ داریاں رکھی گئی.اور نہ لجنہ کراچی کی پہلی صدر منتخب ہوئیں.آپ کی پیدائش ہمیشہ بڑی جانفشانی اور خلوص سے بجھائیں.آپ کی اولاد میں سے ضلع سانگھڑ کے ایک گاؤں میں ہوئی.آپ صغرستی ہی میں والد صاحب تین بچے بالکل معدود تھے جو آپ کی پوری اور ہمہ وقتی توجہ کے محتاج کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئیں.اور آپ کے چچا حضرت حافظہ روشن علی تھے.اس کے باوجود آپ جماعتی کاموں کے لئے ہمیشہ مستعد رہتیں.صاحب مرحوم ان کو اپنے ساتھ قادیان دارالامان لے آئے اور یوں آپ کافی شورصہ تک صدارت کے فرائض انجام دینے کے بعد آپ کی پرورش ایک خالصتنا دینی اور علمی ماحول میں ہو جائے نے محض اپنے معذور بچوں کی دیکھ بھال کی مجبوری کی وجہ سے اس قادیان چونکہ جماعت کا مرکز تھا لہذا یہاں مختلف علاقوں سے عہدہ سے سبکدوشی اختیار کی.لوگ دینی تعلیم حاصل کرنے آتے تھے.حافظ روشن علی صاحب کے قیام پاکستان کے وقت مختلف علاقوں سے لوگ ہجرت گھر بھی دینی درس و تدریس کا سلسلہ قائم رہتا تھا.اور بہت سے شاگرد کر کے آرہے تھے آپ نے اپنے شوہر اور والد محترم کے ساتھ مل کران ہمہ وقت موجود رہتے تھے.محترمہ موصوفہ بھی یہ دہ میں رہ کر اس روحانی کی آبادکاری، رہائش اور ملازمت کے لئے بہت کوششیں کیں.چشمہ سے فیضیاب ہوتی رہیں.یوں بھی حافظ صاحب کا گھر حضرت محترمہ امتہ التصير مصباحیہ جماعتی فرائض کے علاوہ خاندانی امور بانی سلسلہ کے گھر کے بالکل قریب تھا.اس لئے کافی آنا جانا تھا.چنا نچہ کی انجام دہی میں بھی کسی سے پیچھے نہ تھیں.پور سے خاندان میں نہایت وہاں کا ماحول بھی آپ پر اثر اندانہ ہوا.آپ ہر قسم کا جماعتی مسئلہ بڑی ہر دلعزیزہ تھیں، ہر چھوٹا بیٹا اپنا مسئلہ اور دکھ دردان کے سامنے پیش خوش اسلوبی سے حل فرمالیتیں.در خمین کلام محمود - مدیر عدن کے بیشتر کرتا.سر بیاد کی مدد ہمیشہ اس یہ جنگ میں کرتیں اور خاندان کے نسبتاً کم مایہ افراد کی اس طرح خیال رکھیں کہ کسی کو کانوں کان خیر بھی نہ ہوتی.اکتوبر میں دماغ کی شریان پھٹ جانے کی وجہ اشعار آپ کو انہ بر تھے.آپ کی بچھی محترمہ استانی مریم صاحبہ علاقہ کی عورتوں اور بچوں کو قرآنی تعلیم دیتی تھیں.چنانچہ آپ نے مسن سن کر ہی بہت سا قرآن سے یہ پیاری ہستی اپنے خالق کے حضور حاضر ہوگئی ہو یہ ہونے کے سیدب ربوہ میں مدفون ہیں.آپ نے اپنے پیچھے دیئے اور کہ بیٹیاں چھوڑیں جن میں سے شریف حفظ کرلیا.آپ کی شادی ۱۹۲۹ میں قادیان میں ہوئی اور حضرت اماں جان نے ازراہ شفقت اپنی دعاؤں سے خود انہیں رخصت کیا.اکثر جماعتی خدمات انجام دے رہے ہیں.بیاہ کہ آپ ۱۹ میں ہی سندھ آگئیں.جہاں مختلف شہروں کے قیام اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں اپنے جوا بہ رحمت میں جگہ کے بعد مستقل طور پر کراچی آکر آباد ہوگئیں.اس وقت تک کراچی میں عطا فرمائے لہجہ کراچی کا جو پودا انہوں نے لگا یا تھا وہ اب تناور درخت 1.4

Page 103

بن چکا ہے.اللہ کرے کہ اس کی شاخیں ہمیشہ سرسید احمد تو دامہ رہیں.اجلاس شروع کر دائے ینگ احمد یہ ویمن ایسوسی ایشن قائم کی احمدی لڑکیوں کو خاتون انسٹرکٹرنہ سے سیلف ڈیفنس کی تربیت دلانے کا اہتمام (آمین ثم آتین) - کیا.ناظم آب دیں جو اس وقت شہر سے دور سمجھا جاتا تھا.پرائمری اسکول محترمہ احمد دیگر جماع کھولا جو بہت جلد اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے مقبول ہوگیا.احمدی بینکوں کو ہرمند بنانے اور کچھ ذریعہ آمد پیدا کرنے کے قابل بنانے کے لئے انڈسٹریل ہوم کھولا.جس کا کام بہت عمدہ ہوتا گا ہے گاہے نمائش بھی بیگم چوهدی بشیر ده کا هاور انہیں ان کے کاموں میں اس کی وجہ سے ان کی کیاری میں کی عهد صدارت ۱۹۴ تا ۱۹۵۹ محترمہ احمدہ بیگم صاحبہ کا تعلق ایک دیندار، تعلیم یافته، معزز زمیندار گھرانے سے تھا.والد صاحب اعلی پائے کے وکیل تھے.اسلامی حساب کتاب کا شعبہ قائم کیا.سالانہ رپورٹ شائع ہونے لگی.لجنہ کی عمیرات کا لائحہ عمل مرتب کیا.قطری مہمان نوازی اور منتظم مزاج کی وجہ سے مہمانوں کو حفظ مراتب کے لحاظ سے اہمیت دیتیں اور دعوتیں.میں.احکام کی سختی سے پابندی کرتے اور کرواتے تھے سلسلہ سے متاثر تھے محترمہ مجیدہ میم جنگ مگر عہد بیعت نہیں باندھا تھا کیونکہ اس کو نبھانا بہت مشکل تصور کرتے این یکی یار یاری یا ان میں کیا سوال میں دریا میری بیگم چوری شاہ نواز صاحب پر قبول احمدیت کے لئے کوئی دباؤ نہ ڈالا گیا.راوحق کی پہچان کے لئے دعا کر ہیں اور دینی کتب کا مطالعہ کرتیں ایک خواب میں حضرت بانی سلسلہ کی زیارت ہوئی آپ نے فرمایا وقت آنے پر بیعت کر لو گی چنانچہ حسب بشارت ۱۹۲۵ میں باقاعدہ سلسلہ میں شامل ہونے کی عهد صدارت ۱۹۵۹ء تا ۶۱۹۷۲ آپ کا نام مجیدہ بیگم ہے.والد صا حب کا نام نواب محمد دین آپ نے ایف اے تک لاہور میں تعلیم حاصل کی.آپ سعادت حاصل ہوئی.شوہر کی سرکاری ملانہ مت میں شہر شہر تبدیلیوں کی صاحب اندر والدہ محترمہ کا نام سکینہ بی بی صاحبہ ہے.وجہ سے کئی جگہ رہنے کا موقع ملا ہر جگہ احمدی خاندانوں سے رابطہ کرتیں اور نماز جمعہ و اجلاسوں میں شامل ہوئیں.جلسہ ہائے شبیر النبی صل اللہ کی یتیم کے والدین سیالکوٹ میں رہتے تھے.وہاں سے بیاہ کہ کراچی آگئیں اور رشتہ منعقد کروانے کا خاص شوق تھا.معززین شہر سے ذاتی تعلقات کی وجہ سے محترمہ احمدہ بیگم صاحبہ چودھری بشیر احمد کے صاحب کے ساتھ کام شریع سے حاضری کافی ہوتی جو حلقہ احباب میں آپ کے دینی متوقف کے کیا.پہلے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے کام کیا.پھر 1900ء میں صدر منتخب ہوئیں.لجنہ کراچی کی عہد آفریں شخصیت ہیں.پہلی سالانہ رپورٹ ہو ۱۹۹۵۰ء تعارف کا ذریعہ نیتی.آپ ایک شعلہ بیان مغفرتہ تھیں.19 ء میں دہلی میں حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ کی زیر نگرانی کی ہے آپ کے ہاتھ کی تحریر کردہ ہے.لجنہ کی سالانہ اجتماعات میں جو قبل انہیں ہونے والے انتخاب میں آپ دہلی لجنہ کی صدر منتخب ہوئیں.آپ اپنے ایک دن پرمشتمل ہوتے تھے دو دن کا اضافہ کیا اس طرح تین دن کے مفوضہ فرائض بڑی جانفشانی سے ادا کرتیں.تقسیم برصغیر کے بعد کو اچی اجتماعات میں ناصرات الاحمدیہ کی بھر پو ہ نمائندگی ہونے لگی.ان پروگراموں آکر خدمت میں مستعد ہو گئیں محترمہ بیگم احمد جان صاحب کے ساتھ کام میں مرکزی نمائندوں کو دعوت دی جاتی چنا نچہ حضرت سید ہ نواب بہانہ کہ بیگم شروع کیا ۱۹۴ ء میں کراچی لجنہ کی صدر منتخب ہوئیں تقسیم کے معا بعد صاحبہ - حضرت سیدہ تواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور حضرت سید مریم صدیقہ کے ناگفتہ بہ حالات میں احمدی خاندانوں سے رابطہ کیا اپنی قیام گاہ پر صاحبہ جیسی موقر و محترم ہستیاں ان اجتماعات ہمیں رونق افروز ہوئیں.آپ ١١٠

Page 104

مرا با خدمت خلق کی رسیا ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہو نیوالی دینی تعلیم حاصل کی.بالی کے نئش اعلانیہ اور خفیہ دل کھول کر دیا کرتی ہیں.آپ کے نیک ارنہ سالہ ۱۹ ء میں شادی کے بعد کوئٹ چلی گئیں.کراچی لجنہ میں خدمات سے دیگر خواتین بھی پیش پیش رہتیں مسجد کوپن ہیگن میں چندہ دہندگان کے کا 190 ء سے شروع ہوتا ہے.حلقہ ناظم آباد سے کام کا آغازہ کیا لگن اور مام ابعرض دا ہور ڈنگہ پر کھا کر منہ کی گیلری میں آویزاں کر دانے.لجنہ تند ہی سے کام کر نے کی عادی ہیں.حسن کارکردگی کے متعدد انعامات کی تزینی کلاسز کا اجراء کیا.تعلیمی ترقی کے لئے لجنہ کراچی اسکالر شپ جاری لئے 194 ء میں ہاؤسنگ سوسائٹی میں منتقل ہونے سے پہلے بحثیت کئے میور یو د بھیجے جاتے.رمضان المبارک میں درس القرآن کا خاص اہتمام سیکریڑی حلقہ اور پھر صدر حلقہ کام کرنے کی توفیق ملی ۱۹۶۵ م کی جنگ کہ دائیں بر ۱۹۶۵ء کی جنگ میں ملکی ضرورت کے پیش نظر احمد یہ ہاں میں کے وقت سیکریٹری مال تھیں.دفاعی فنڈ جمع کرنے میں سخت محنت سے عمیرات کو جمع کر کے اُونی سویٹر اور ٹوپیاں بنوائیں اور دوسری اشیائے کام کیا نہ میں نائب صدر موصیات منتخب ہوئیں.موصیات کی فہرستیں مزدورت جمع کر کے گفٹ پیک بنوائے.ایک جلسہ میں دفاعی ضرورت مرتب کیں اور متنفر کرنی موصیات بنائیں.کئی مرتبہ بیرون کراچی اور کراچی کے لئے چندہ کی تحریک کی گئی جس کے نتیجہ میں دائم تولے سونے کے زیورات میں وقف عارضی کیا.اور 4 ہزار روپے نقد رقم جمع ہوئی ہو صدر کے دفاعی فنڈہ میں جمع کرادی محترمہ بیگم مجیدہ شاہنوا نہ صاحبہ کے لندن منتقل ہو جانے کی وجہ سے لجنہ کے کاموں پر اثر پڑتا تھا.اس لئے انہوں نے محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ گئی.اس وقت کے صدمہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب نے لجنہ کراچی کے نام خصوصی تشکر نامہ بھیجوایا.اس کے علاوہ بے شمار کپڑے اپوا کے کو قائم مقام صدر مقرر کیا.تین سال بیک - درایتی حسن کارکردگی کے ساتھ اس عہدہ پر عملاً صدر کا کام کرتی رہیں یہ میں حضرت چھوٹی آپا صاحبہ ذریعے بھجوائے گئے میرا 196 ء کی جنگ میں بھی کثیر سامان بھیجا گیا.کراچی میں خواتین کی دوسری انجمنیں بھی ہیں مگر ان خدمات کی وجہ سے لجنہ کراچی کی نے ان کی خرابی صحت کی وجہ سے محترمہ آپا نصیرہ بیگم صاحبہ کو صدر مقریر حیثیت ممتاز رہی.احمدی خواتین کو لیڈی ڈفرن ہسپتال میں فرسٹ ایڈ فرما دیا.آپا نصیرہ بیگم صاحبہ کے ساتھ نومبر 19ٹ سے نائب صدر کے عبدہ پر کام کرتی رہ ہیں یا میں قیادت میرا کی نگران مقررہ ہوئیں.اور نرسنگ کی تربیت دلائی.آپ اپنی خوش اخلاقی، خندہ پیشانی اور تحمل طبیعت کی وجہ سے اپنے ملنے والوں پر بہت خوشگوار اثر ڈالتی ہیں.نافع الناس دیجو د ہیں محمة الصيرة تم صباح خدا تعالے آپ کی قربانیوں کوکئی گنا اجر سے نوازے اور تاحیات مقبول فورمات دینیہ کی توفیق عطا کرتا چلا جائے.آمین.اَهله البزاره مرز اظفر احمد منا ۱۹۸۱ (8196 حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بڑے صاحبزادے مرزدا بیگم ایم اے خورشید احک سلطان احمد صاحب کے بڑے صاحرارے مرتد عن بیز احمد کی صاحبزادی ہیں.سات سال کی عمر میں والدہ مخزیمہ شریفہ بیگم صاحبہ کے انتقال کی قائم مقام صد ۱۹۷ء تا ۱۹۷۲ء جہ سے پر درش و تربیت کی ذمہ داری نانی اماں محترمہ رضیہ بیگم مرزا اسلم میک صاحب اور نیچی محترمہ امتہ السلام بیگم صاحبہ نے ادا کی.قرآن پاک ناصرہ بیگم صاحبہ اکوڑہ خٹک میں محترمہ نویر بی بی صاحبہ اور محترم عبد الغفور صاحب کے ہاں پیدا ہوئیں.ایبٹ آباد ہاسٹل میں رہ کر ناظره درجمه محترمه استانی مریم بیگم صاحبہ اور حضرت حافظ روشن علی صاحب مڈل تک تعلیم حاصل کی پھر قادیان کی دینیات کلاستر میں تین سال سے پڑھا والد صاحب ہیجسٹریٹ درجہ اول تھے.سرکاری تبادلوں کی دیہ

Page 105

سے مسلسل تعلیم جو سیالکوٹ کانونٹ اسکول سے شروع ہوا تھا قصور، قادیان ضلع گجرات کے ہاں مٹی کو پیدا ہوئیں آپ کی والدہ محترمہ مرد جنگی جہ نھیں اور لاہور جاری رہا.میراک میں تعلیم پائی.ابتدائی تربیت میں تھا وہ مدرس الخواتین قادیان کی تعلیم یافتہ تھیں.قرآن پاک کی درس دندہیں دادا مرحوم کی خاص توجہ شامل رہی پھر حضرت اماں جان، نصرت جہاں بیگم سے خاص شغف تھا.کوئٹہ میں قرآن پاک کا درس دیتے ہوئے اچانک کا ہر سال اوسط تین، چار ماہ ان کے گھر قیام.خصوصی تربیت کا باعث دل کا دورہ پڑنے سے وفات پائی.والد صاحب کی وفات کے بعد بنا.حضرت امال جان مرحومہ آپ ہی کے کمرہ میں قیام فرمائیں اور نماند و پرورش و تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بڑے بھائی میر حمید اللہ صاحب روندہ کے ساتھ نشست دیر خواست تک سب آداب سکھائیں.محترمہ (برج انسپکڑا اور باجی نعیمہ بیگم صاحبہ نے ادا کی.بھابی نے قادیان نصیرہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر اسحق صاحب دوسری والدہ کی شکل میں میں تعلیم حاصل کی تھی بڑی توجہ اور شوق سے محترمہ سلیمہ صاحبہ کونڈل ہمدرد شفق رہنما ثابت ہوئیں.گیارہ اپریل ۱۹: حضرت مصلح موجود تک پڑھا کرو دینی مدرسہ میں داخل کروایا.جہاں آپ نے عالمہ تنگ نے حضرت صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب کے ساتھ نکاح پڑھایا او بیش تیمی تعلیم حاصل کی.تعلیمی سہولت مہیا کر نے اور دینی تربیت میں انجاک نصائح کے ساتھ ڈھا کہ رخصت فرمایا.کی وجہ سے بھائی بھائی، ماں باپ کا درجہ حاصل کر گئے جو ہم اللہ تعالی مٹی سرا ماہ سے لجنہ کا کام شروع کیا.کلکتہ میں قحط زدہ 194ء میں شادی ہوئی شوہر واقف زندگی تھے تقسیم بیغیر لوگوں کی امداد میں دن رات ایک کرد بیٹھے بر 19 میں سابق مشرقی کے بعد کراچی آکر جیکب لائنز میں مقیم ہوئے برا 194 ء میں ایران گئے.پاکستان تبادلہ ہوا تو لجنہ کے عمومی کاموں کے علاوہ سیلاب زدگان اور تقسیم وہاں تین چار احمدی گھرانے تھے اُن کے نماز جمعہ و اجلاس وغیرہ کا اپنے کے متاثرین کی ہر طرح داد رسی کی توفیق ملی ب 19ء میں کراچی آئیں تو مکان پر انتظام کیا.۱۹۶۲ میں شوہر کی وفات کے بعد اپنے بھائی حضرت سیدہ دارم متین صاحبہ نے صدر مقررہ فرمایا.میرامان اللہ صاحب کے پاس کراچی آگئیں اور آٹھ نو عمر بچوں کی تمرا چی بھنہ میں زندگی کی نئی لہر پیدا کرنے کے لئے پورے کراچی کے دور و نزدیک علاقوں کے دور سے گئے.اصلاحی تقاریر کیں جن میں پرورش کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور بی اے تک تعلیم پائی.ساتھ ہی ساتھ لجنہ کے دفتر اگر ڈاک کا جواب دیتے کا کام شروع کیا.وقت کی پابندی پر زور دیا.لجنہ کے اجتماعات میں وقت کی پابندی پر حلقہ پی ای سی ایچ ایس میں خدمت کا موقع ملا بعد انہاں وہاں کی صد عمل کر وایا.جس کا اثر اب تک موجود ہے.جہیز فنڈ علیحدہ کیا.بڑی منتخب ہو گئیں.قیادتوں کی تشکیل ہوئی تو یہ علاقہ قیادت نمرہ میں یا زرداری سے عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے اپنے سامنے ضرورت کے شامل ہو گیا اور آپ کو قیادت کی نگران کے فرائض سے برا 190 ء میں مطابق جہیز تالہ کروا کے پہنچاتیں.مہاجرین بہار کے لئے وظائف مقرر کئے جب منتظر کیٹی کا قیام عمل میں آیا تو آپ کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث تعلیم کے فروغ کے لئے فنڈ جمع کر کے یونیفارم تب ہوتے، سویٹر یا نے منتظمہ کمیٹی کی صدیر نامند فرمایا ہے یا ہو میں جب لجعہ کراچی کا مرکزی لجنہ کرتیں.حلقہ احباب وسیع ہونے کی وجہ سے غیر از جماعت بہنیں بھی اس سے دوبارہ الحاق ہوا تو حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے آپ کو صدر لجنہ کراچی فنڈ میں حصہ لیا محترم سلیم رضا نامرہ دفرمایا.آپ کے عہد صدارت کا سب سے بڑا استرانہ دو خلفاء کی شفقتوں اور مجنوں سے بھر پور رہنمائی ہے.ہمارے مجلہ الحراب میں اهلیه مکرم عایق در جن ادار محترمہ آپا سلیم میر صاحبہ کے عہدِ صدارت کی کار کردگی کا بھر پور اظہار ملتا عہد صدارت ۱۹۸ سے تا حال 19 کے بیعت کننده میر الہی بخش صاحب آف شیخ پور ہے.تعدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری محبوب صدر کو اپنی رضا کی راہوں پر چلاتے ہوئے تادیر صحت و تندرستی کے ساتھ قدمت سلسلہ کی توفیق بیتا چلا جائے.آمین.۱۱۲

Page 106

یادرفتگاں متر در سیلم بیگم صاحبہ گر آپ ذرا نہ گھبرائیں اور اسی سکون سے تقریر جاری رکھی.مگر اهلیه سیٹھ محبوب الہی حصه مجمع اکھڑ چکا تھا.اور عورتیں ان پر چڑھ دوڑی تھیں مگر بعض مہران خواتین نے انہیں بچا کر اسٹیج سے اتار لیا.دوسرے دن اخبار میں اس بیوشیمی خاتون کے بارے میں خوب گرما گرم خبریں لگیں.متر یک سیر میگیم حیدر آباد دکن کے ایک معونہ تاجر سیٹھ آپا سلیمہ بیگم کے شوہر اپنے خاندان کے اکیلے احمدی تھے اور خاندان محمد غوث صاحب کی بیٹی تھیں.ان کا اصلی نام تو احمدی بیگم رکھا گیا تھا والوں سے ان کی مخالفت ملتی رہتی تھی مگر آپا سلیم بیگ کی خوش اخلاقی مگر سلیمہ پکارے جانے کی وجہ سے یہی نام مشہور ہوا.اور احباب جماعت نرم رویے اور ہمدردانہ سلوک نے بہت جلدار سسرال بھر کو ان کا گرویدہ انہیں سلیمہ بیگم حیدر آبادی کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں.بنا دیا اور وہ آہستہ آہستہ انہیں اپنی تمام تقریبات میں شامل کرنے ان کے بچپن میں لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی تصور نہ تھا مگر آپا سلیم لگے.مگر آپا سلیمہ بیگم سختی سے کہہ دیتیں کہ دیکھو میں تمہاری رسومات کو لکھنے پڑھنے کا جنون کی مدت تک شوق تھا.والدہ صاحبہ کی نیم رضامندی میں شامل نہیں ہوں گی.بعد میں شکایت نہ کرنا.یہانتک کہ ان میں اور والد صاحب کی طرفداری کی بناء پر گھر میں پانی بھرنے والے پرانے سے اکثر خواتین خود بھی ان بدعات اور رسومات سے گریز کرنے ننھے سے قرآن مجید ناظره بعمر ۸ سال ختم کیا.اور فطری شوق کی بنیاد پر گیں.دراصل ان کا لہجہ ہی اس قدر پر متقین اور موثر ہوتا تھا کہ بہت جلد لکھنا بھی سیکھ لیا.اور روانی سے اُردو لکھنے پڑھنے لگیں.سننے والا غیر محسوس طریق پہ قائل ہوتا چلا جاتا تھا.حیدر آباد دکن کی آپ کے والد احمدیت قبول کر چکے تھے.اس نہ مانے میں مولانا منیر صاب لجنہ کی سرگرم رکن ہونے کی بنا و پر دیسے بھی لوگ ان کی بہت مونت تبلیغی جلسوں میں آیا کرتے تھے.چونکہ آپا سلیمہ کو جلسوں میں جانا بہت کرتے تھے.ایک مرتبہ سخت بیمار پڑیں حالت اتنی زیادہ خراب ہو گئی کہ چلنے پھرنے سے قاصر ہوگئیں.مگر ڈاکٹر حیران تھے کہ اس پسند تھا اس لئے والد صاحب اکثر انہیں ساتھ لے جاتے یہانتک کہ وہ خود تقریریں کرنے کے قابل ہوگئیں.حیدر آباد میں پڑھی لکھی عورت کی قوت ارادی کس قدر مضبوط ہے کہ یہ پھر اٹھ کھڑی ہو ئیں خواتین نے ایک ادارہ قائم کر رکھا تھا "حقوق نسواں، آپ بھی اور قیام پاکستان کے بعد حسب عادت یہاں آکر اپنی سرگرمیوں میں اس کی ممبر بن گئیں اور عورتوں کے حقوق دفلاح و بہبود کے سلسلہ لگ گئیں.ہمیشہ سے بہت ہمدرد اور ملنسار غریب پرور اور سخنی میں کام شروع کر دیا.ایک مرتبہ اس ادارے نے مذہبی نوعیت خاتون تھیں.جب میگم بشیر احمد صاحب صدر لجنہ کراچی کے انڈسٹریل ہوم کا ایک جلسہ منعقد کیا.آیا جان نے بھی اس جاسہ میں اپنا موقف بیان کے لئے ان کا نام تجویز کیا تو اس لئے فوراً کر ضامندہ ہو گئیں کہ اس طرح کرنے کی اجازت حاصل کرلی.بعض ہمدردہ خواتین نے انہیں بانہ غریب عورتوں کی کچھ دار رہی ہو سکے گی.اس زمانے میں انڈسٹریل ہوم رکھنے کی کوشش کی.مگر یہ نہ مانیں.دوران تقریر اچانک خواتین میں بعض بغیر از جماعت نہیں بھی کام کرتی تھیں.ایک عورت جو بے اولاد نے مشوب مجانا شروع کر دیا کہ یہ تو قادیانیت کی تبلیغ کہ رہی ہے تھی اس نے بطور خاص آیا جان سے دعا کے لئے کہا.آپا جان نے حضور یہ ض بخوشیلی خواتین اسٹیج پر چڑھ آئیں اور انہیں مارنے کیلئے بڑھیں کو دعا کے لئے خط لکھا.اور محمود بھی بہت مدعا کی.اللہ کی قدرت کہ ۱۱۳

Page 107

وہ صاحب اولاد ہوئی اور ہمیشہ کہتی تھی کہ محض آپ کی دعا کا تیج ہے ورنہ نہیں تو مایوس ہو چکی تھی.اس طرح مالی استعانت کے علاو: محترمہ عائشہ خادم حسین حیبه یہ انڈسٹریل ہوم ایک طرح سے تعارف کا ذریعہ بھی تھا.خاندان والوں اور خلافت سے عشق تھا.محترمہ اماں جان برایر محترمہ عائشہ بیگم اہلیہ شیخ نادم حسین صاحب قیام پاکستان رہیں.حلقہ لالو کھیت میں تا حیاتی کیوریٹری مال اور حزب انچارج کے انہیں خط لکھتی تھیں.آپا امتہ الحئی صاحبہ سے تو بے حد پہنایا اور کے وقت ہی کراچی تشریف لائیں اور ابتداء سے ہی بھن کراچی سے منسلک دوستی تھی.آپا سلیم بیگم کی صاحبزادی کا بیان ہے کہ " حضور خلیفہ مسیح الرابع کی والدہ صاحبہ آپا مریم کے تو ہم طور پر کام کی.گھر گھر جا کر چندہ اور صدقہ جمع کرتیں.اور ہمیشہ بجٹ سے مستقل مہمان ہوتے تھے.ان کی بیماری میں لاہور میں ان کی تیمار داری زیادہ چندہ اکٹھا کر کے دیتیں.مرکز سے دو مرتبہ سندات خوشنودی حاصل بھی کی حضور اب بھی جب امی جان کو یاد کرتے ہیں تو آواز بھرا جاتی کیں.جشن پنجاه سالہ لجنہ مرکزہ یہ کے موقع پر سیدہ صدر صاحبہ بینہ مرکزیہ نے ہے.آتے تو امی کو فون کرتے آیا میں آرہا ہوں لیکن خدا را رو دیں بھی سند امتیاز سے نوازا.نہیں میں پان کھانے آرہا ہوں.اتنی حضورہ کی آمرانہ سن کر ہمیشہ رو دیتی چندہ خور جا کرے آئیں مگر ناخواندہ ہونے کی وجہ سے بعد ازاں میں انہیں غالباً آیا مریم یاد آجائیں اور یہ کہ ان کی حیات نے وفانہ کی رسیدیں کسی پڑھی لکھی ممبر سے کوالیتیں.ور وہ حضور کا یہ عروج نہ دیکھ سکیں ؟ کوئی اجلاس یا بجاہ ہوتا تو گھر گھر جا کہ اطلاع پہنچائیں.اور اکثر چودہ سال صاحب فراش رہیں مگر لجنہ کی قدمت اس حال کمز در بہنوں کو خود بعد اصرارہ جلسوں میں لے کر جائیں.ہر گھر سے رابطہ میں بھی کرتی رہیں.ہر حالت میں نمازہ کی ضرور پابندی کرتیں.روزہ اگر چہ رہتا.متعدد لڑکے لڑکیوں کے رشتے کروائے.اگر کسی احمدی بہن کو ان بعد میں نہ رکھ سکتی تھیں مگر دوسروں کو باقاعدہ اٹھا کر روزہ رکھواتیں کی مدد کی ضرورت ہوتی بخوشی کرتیں.سودا سلف لانے ، کھانا پکانے اور نہ رکھنے والوں سے ناراض ہوتیں خاموشی سے لوگوں کی مدد کرنا ان دوالا نے بچے سنبھالنے اور بعض اوقات ہسپتال میں رہ کر تیجار داری کا شیوہ تھا.کسی کو پنڈ بھی نہ چلتا اور آنے والی کی ضرورت پوری ہو جاتی کرنے تک میں کبھی عار محسوس نہ کیا.اسی طرح ہر آنے جانے والی حسب توفیق تواضع کر نہیں.تمام لڑکیوں کو احمد یہ ہال میں مددگارہ کارکن کے طور پر سالہا سال کام کیا.اجلاس والے دن تاکید کرہ کے اجلاس میں بھیجو انہیں اور آخر وقت تک دریاں اور صفیں بچھانا اور پھر اٹھا کہ بحفاظت رکھنا.انہیں دھونا اور موقع محل سے گھر والوں کی تربیت کا خاص خیال رکھتی رہیں.یہی وجہ محفوظ رکھنا.میٹنگوں اور جلسہ جات میں سامان لگوانا اور پھر اٹھوا کہ ہے کہ ان کے تربیت یافتہ گھرانے کی تمام خواتین بھنہ کی فعال حمبرات رکھنا یہ سب ذمہ داریاں آپ نے اپنے سرے رکھی تھیں اور دال جان ہیں اور اپنی بزرگ کے نقش قدم پر چلنے کی سعادت حاصل کر رہی ہیں.سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی عادی تھیں.آپا سلیمہ نے انڈسٹریل ہوم کی نگراں کی حیثیت سے اس کے وفات سے دو سال قبل کمزوری اور نظر کی خرابی کی وجہ قیام کے وقت سے بندش تک خدمت کی.نیز ۶۳ - ۱۹۶۲ سے سے ڈاکٹروں نے باہر نکلنے کو منع کر دیا تھا جس کا انہیں بڑا فلق تھا.۷۰ ۱۹۶۹ م تک نائب صدر لجنہ رہیں اور جب تک جہات رہیں اکثر کہتیں کہ شہرے مجھ سے کیا غلطی ہوگئی کہ اللہ نے دینی کاموں سے ایک فعال اور سرگرم نمبر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں انجام دیتی ہیں.روک دیا.انتقال اچانک ہارٹ فیل کے سبب ہوا.اور یوجہ موصیہ ہونے کے ربوہ میں تدفین عمل میں آئی.بہت عبادت گزار اور دعا گو خاتون کبھی کسی کی غیبت یا آپ کی بیوی تھی کہ اپنے بعد خدمت کا جذبہ رکھنے والی مہرات کو کام کے لئے تیار کر گئیں.آپ کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کی شکوہ نہ کرتیں.جب موقع ملا اعتکاف بیٹھتیں.اور درس یا بڑے درخواست ہے.جلسہ جات میں بہت دور دور جا کر شامل ہو تیں یا کہ اپنے حلقہ کی دیگر خواتین ۱۱۴

Page 108

کو بھی باعراہ سے جاتیں.پوری زندگی میں شاید ہی کسی اجلاس کا نا فذ کیا ہوگا.پھوڑ نہیں.ان تعمیرات کے لئے جو ہمیشہ عذر تلاش کرتیں اور گھر کی کیونکہ اجلاسوں میں شامل ہونے کو وہ ہمیشہ احمدی عورت کا دینی و اخلاقی معدنیات کو اجلا سات ہمیں نہ آنے کا بہانہ بناتی ہیں خصوصا مجھی تھی فریضہ بجھتی نہیں.بعض حلقہ کی ان ممبرات میں سے تھیں جن کی وجہ سے صاحبہ کی شخصیت مشعل راہ ہے.جب میں سوسائٹی سے لیاقت آباد حلقہ میں زندگی ہوتی ہے.خدا تعالے اپنی مغفرت کی چادریں ڈھانپ ہے.آئی تو پھر ان سے بہت قربت رہی اب وہ ذرا فراغت میں تھیں بڑی بیٹی کی شادی کر دی تھی.بڑے بیٹے نے پھولوں کا کام شروع کر دیا تھا.اور دو کرے بھی بیچے بن گئے تھے وہ آہستہ آہستہ گھر بھی بناتی جا رہی تھیں.چھوٹے بیٹے کو تعلیم بھی دلا رہی تھیں.(بعد میں وہ ماڈرت موٹرز میں ملازم ہو گیا ، بڑی بیٹی کے یہاں بچی کی ولادت ہوئی تو وہ به بیگم ہاتھی اداء محترم حبیب بیگی باشی بند اما د الر کا ریکی پیلی با داده اس سیکریٹری تھیں.محترمہ بیگیم شریف وڑائچ کراتی ہیں جو ان کی دیرینہ فیق کار زچگی میں ہی فوت ہو گئی جس کا انہیں بڑا دھکا لگا.مگر باوجود رہی ہیں.ان سے تعارف کرواتی ہیں.اتنے بڑے صدمہ کے، تین چار دن ہی رخصت کی اور بغیر کام پر محترم حبیبہ بیگم ہاشمی اپریل دو میں لجنہ کے دفائنہ کی پہلی حاضر ہو گئیں.کام پوری دلجھی اور لگن سے کر ہمیں ، احمد میت کی خاطر آفس سیکریٹری مقرر ہوئیں اور تاحیات ایک حباب نار اور مخلص خادمہ جان دینے کو بھی کم سمجھتیں.بہت خود دار اور محتاط کارکن تھیں اگر کبھی دین کی حیثیت سے بلعہ کراچی کی خدمت کرتی رہیں.اس قدر محنتی اور کوئی کڑا وقت آجاتا اور بطور قرض کچھ لیتیں تو بہت جلد تنخواہ سے انتھک کام کرنے والی میرات انگلیوں پر گنتی جاسکتی ہیں اور مجھے کٹوا کر رقم واپس کر نہیں اور کبھی کسی کی مدد کی طلبگار نہ ہوتیں.بچے بڑے فخر ہے کہ بھتہ کے کاموں میں ان کے ساتھ عرصہ دررا نہ تنگ رفاقت حاصل ہو گئے اور زندگی میں ذرا سہولت ہوئی تو کام کا دورانیہ مزید بڑھ گیا.رہی اور ان جیبی سرگرم اور بے لوث خادمہ دین سے میں نے اور چھوٹے بیٹے کی شادی بڑے ارمان سے کی اس سے پیار بھی بہت تھا بھتہ کی دوسری کارکنان نے بہت کچھ سیکھا خصوصا دین کو دنیا پر مقدم مگر وہ بہت جلد بیوی کو لے کر الگ ہو گیا اور بعد میں پنجاب جا بسا.رکھنے کا جذبہ گھر میں دینی کاموں کے لئے باہر نکلنے کے باوجود ایک اس کا بھی سخت صدر تھا مگر منہ سے کبھی نہ کہتیں اس کے جانے کے توازن اور سلیقہ قائم کر کھند اور غربت میں بھی بے حد وقار اور خود داری بعد اکثر بیمار رہنے لگیں.ہماری بڑھی تو لوگوں نے منت سماجت کر کے کی آن بان قائم رکھنا وغیرہ وغیرہ بیٹے کو واپس بلایا.میں دانا وہ واپس آیا اس کے اگلے روز ان کی وفات میں جب پہلے پہل کراچی آئی تو سب سے پہلا تعارف انہی ہو گئی.شائد اسی میں دم انکا تھا.سے ہوا.تین ہٹی میل کے پاس پہاڑی کے قریب چٹائیوں سے گھیرا سوا وصیت کی ادائیگی وہ زندگی میں کر چکی تھیں اس لئے بہشتی نفر تین کمروں کا ایک کچا مکان حسین کا صرف ایک کمرہ پکا تھا.نہایت میں تدفین عمل میں آئی.مختصر ضروریات زندگی.دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں.خاوند سے بھتہ کراچی کو فخر ہے کہ اُسے جیبہ ہاشمی صیبی ہے دوست اور مخلص ان کے تعلقات صحیح نہ تھے اس لئے گھر کی اقتصادی ذمہ داری بھی ادر میسر آئی اور بعد کراچی کو اس مقام تک پہنچانے میں جو کہ دار انہوں اپنی کو پوری کرنی پڑتی تھی.سلائی کڑھائی کے کاموں سے جو آمدنی اصل نے ادا کیا ہے وہ اسے کبھی فراموش نہ کر سکے گی.خدا تعالے سے دعا ہے کہ اپنی خاص نعمتوں سے حصہ عطا ہوتی اسی میں گزر بسر کرتی تھیں.اس زمانے میں مجتہ کا دفتر روزانہ کھاتا تھا.چھوٹے چھوٹے 4 بچوں کا ساتھ.تنہا.گھر کی تمام ذمہ داریاں.فرمائے آمین.صفائی پکا نا ریندھنا.گھر کے دوسرے کام.پھر سلائی کو تاہ اور روزانہ لجنہ آفس جا کہ اپنے دینی فرائض ادا کرتا.احمدیہ ہال سے اگر کپڑے میتیں اور اس عالم میں بھی کہ تھکان سے برا حال ہوتا اجلاس کبھی نہ

Page 109

علاوہ کوئی احمدیت سے متعارف نہ تھا اس لیئے ہم نے راتوں کو ٹھ اٹھ کر نوافل اور دعاؤں سے اپنے جاء نماز تر کر دیے اور مسلسل احمدیہ محترمہ سید خضر سلطانه هلوی کی کتابیں دور دو تین، تین لالٹین جلا کر پڑھا کرتے یہاں تک کہ ہم نے حق کو پالیا اور دسمبر 1ء میں باقاعدہ بیعت کر لی.آپ اپنے ریدہ کے ریلوے اسٹیشن سے جنوب کی طرف دار الرحمت وسطی حال میں بے حد قانع اور مطمئن تھیں اور خدا کے سوا کسی پر انحصار کی جانب دیکھیں تو ایک چھوٹی سی زرد رنگ کی پر وقاری بیت الذکر کی تامل نہ تھیں.تبلیغ کا بے حد شوق تھا.اللہ تعالی نے اولاد جیبی ہے.جس پر بیت الذ کو خضر سلطانہ بہت نمایاں طور پر لکھا ہوا نظر آتا نعمت سے محروم رکھا.مگر کبھی شکوہ زبان پر نہ لائیں.نہایت دعا گو ہے.یہ خضر سلطانہ کون تھیں جنہیں اتنے اہم مقام پر خدا کا گھر عمیر کرنے تھیں میری درخواست پر میرے لئے اولاد نرینہ کے لئے دعا کی اور کی سعادت نصیب ہوئی.ان سے مکمل تعارف محترمہ ظفر جہاں بیگم بھٹی خواب کی بناء پر دو بیٹوں کی خوشخبری دی.خدا تعالے نے مجھے جڑواں بیٹوں سے نوازا.کہ واتی ہیں.1903ء میں آپ کے بھائیوں نے کاروبار میں لگانے کے عاجزہ نومبر میں کراچی آئی اور تھیو سیفیہ کل ہال بند روڈ لئے آپ کا زیر گروی رکھ کر روپیہ حاصل کیا.انہوں نے زیور کے قریب ہی ایک فلیٹ میں رہائش پذ یہ ہوئی.دو تین روز کے تو دے دیا مگر ہمہ وقت یہ احساس رہتا کہ زیور کسی دینی مصرف میں بعد خضر سلطانہ (مرحومہ) جو چوتھی منزل پر مقیم تھیں ملنے آئیں اور اپنا خرچ ہو تا 14 ء میں بہت منت سماجت سے زیور واپس ملا تو تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ محمد یونس صاحب مرحوم کی اہلیہ ہیں جو بہت دعا کہ نہیں کہ اس کا بہترین مصرف نکل آئے.خدا تعالے نے اُن محترم بایو نذیر احمد صاحب مرحوم امیر جماعت احمدیہ دہلی کے برادر نسبتی کی رہنمائی کی اور خیال آیا کہ دار الرحمت وسطی ربوہ میں حضرت مصلح موعود تھے جو ۱۹۴۷نہ کے فسادات میں غالباً شہید ہو گئے تھے.(غالباً یوں کہ کے عطا کردہ پلاٹ پر جو مکان بنوایا ہے اُس کے ایک حصہ میں خدا کا کسی کام سے باہر گئے تھے اور پھر واپس نہ آئے باوجود تلاش کے کچھ گھر بنوادوں اور مکان کے کرایہ سے بہت اللہ ہی کا خرچ نکالتا رہے.پتہ نہ لگ سکا تو قیاس کر لیاگیا کہ ہنگامے میں کام آگئے.وہ خود چندماہ وفات سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنا مکان وقف کرنے اور پیشتر اپنی والدہ اور بھائیوں کے ہمراہ پاکستان آئی تھیں.انہوں نے اس کے ایک حصہ میں بیرت الذکر بنوانے کی خواہش ظاہر کی.صدر انجین مجھے بتایا کہ وہ اپنے خاندان کی اکیلی احمدی ہیں جب کہ ان کی والدہ احمدیہ نے اسے منظور کر لیا.پہلے ایک کچھا کمرہ بنا یا گیا ، جب اسے بچنہ اور بھائی صددرجہ مخالف ہیں.شوہر بھی احمدی تھے.مگر ان کی وفات کرنے کا موقع آیا تو مرحومہ کی خواہش کا علم ہونے پر حضرت سیدہ کے بعد وہ تنہا رہ گئی ہیں.فطری طور پر مجھ سے مل کر انہیں بہت امر متین صاحہ صدر الحنه مرکز یہ نے 1999ء میں حضرت حلیفہ اسیح الثالث تقویت ہوئی.کہیں نے محسوس کیا کہ وہ مزا جا بہت سادہ اور علیم ہیں.کے ارشاد پر اس کی بنیاد رکھی.یہ چھوٹی سی سادہ مگر یہ وقار بیت الذکر انہوں نے میرے بچوں کو قرآن شریف پڑھانے کی پیشکش کی مجھ میں ریلوے اسٹیشن کے بالکل قریب ہر آنے جانے والے کو یہ یاد دلاتی ہے نے قومہ ا قبول کر لی.اور پھر جتنا عرصہ میں وہاں رہی وہ یہ خدمت کہ ایک فنانی اللہ خاتون اپنے زیورات کا استعمال اس طرح بھی کر سکتی.بخوشی انجام دیتی رہیں.4 ماہ بعد میں نے سرہائش گاہ تبدیل کر لی مگر ہے کہ زمین پر خدا کا گھر تعمیر کر وا کے تواب دارین حاصل کرے.ہماری محنتیں اور اپنائیت قائم کر ہی اور وہ با وجود کمزوری صحت بھنہ کراچی کو آپ کی خدمات بلیے معرصہ تک حاصل رہیں.حلقہ کے مجھ سے ملنے ہر تیسرے چوتھے ماہ پابندی سے آتی رہیں.اپنی اور سعید منزل جس میں اُس وقت رامسوامی کا علاقہ بھی شامل تھا) کی منتخب اپنے میاں کی قبولیت احمدیت کا واقعہ سناتے ہوئے بہت جذباتی صدر تھیں.وفات تک جماعتی کاموں کی انجام دہی احسن طریق پر کورتی یہ ہیں.ہو جاتیں.انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے گھر میں چونکہ ہم دونوں کے ۲۲ جولائی کو وفات پائی مرحومہ کے بھائیوں نے کراچی 114

Page 110

میں دفن کرنے پر اصرار کیا مگرہ محترمہ مولوی عبد المجید صاحب محترم مولانا عبیدالک حضرت صاحب زادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے پڑھائی.خدا تعالٰی اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ کر جنت میں جگہ دے.(آمین) خان صاحب نے بڑی حکمت سے معاملات کو سلجھایا اور تکفین و تدفین کا کام سر انجام دیا.مرحومہ موجود تھیں ربوہ کی سرزمین پر آخری آرام گاہ نصیب محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ ہوئی.خدا تعالیٰ آپ کو مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے اور بیت الذکر خضر سلطانہ کی صورت میں چھوڑا ہوا اور شہ درجات کی بلندی کرتا ہے آئیں.اجیہ ڈاکٹر عبدالرحمن کا مٹی صاحب انتقائے حضرت مسیح موعود حضرت مریم بی بی صاحبہ اور حضرت حافظ فیض الدین صاحب کی دختر تھیں.سر سیالکوٹ کی مشہور کبوتروں والی بہیت کے مالک تھے اپنی ساری جائیدا و جماعت کیلئے وقف کرنے کی سعادت حاصل کی گھر کے محترمہ ڈاکٹر زبیدہ طاہر صاحبہ اکثر افراد مرد و زن حفاظ قرآن پاک تھے.یہ خود بھی خوش الحانی اور صحت تلفظ اہلیہ طاہر ہاشمی صاحب محترمہ بی بی جان صاحبہ اور محترم سید میر مہدی حسن کے ہاں ۱۹۳۶ میں کے ساتھ کثرت سے قرآن پاک کی بلند آواز سے تلاوت کرتیں.کراچی لجند کو ۱۹۴۷ سے ۱۹۷۱ تک ان کی خدمات حاصل رہیں.حلقہ جیکب لائنز کی صدور ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو اس طرح نبھایا کہ ان سے بالا عہدیدار ان کی رفقائے کار اور ان کی تربیت یافتہ آنے والی نسل انہیں عزت واحترام ہے یاد کرتی ہے.غریب پروری اس خاندان کا طرہ امتیاز رہا.آپ بھی بڑی خاموشی سے خدمت خلق کی عادی تھیں.خاندان حضرت مسیح موعود سے گہری محبت و عقیدت تھی اور یہ ناعت پسند پیدا ہوئیں.دہلی میں احمد یہ فرنیچر ز کے نام سے برکت والا کاروبار تھا.۱۹۴۴ء وصف دریہ میں چھوڑا ہے اپنے بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھتیں اور ایمان میں جلسہ حضرت مصلح مسعود کے مہمان ان کے کارخانے میں ٹھہرے تھے.افروز واقعات سناتی رہتیں.بیگم خان عبد القیوم انتظام مہاجرین کی زبیدہ صاحبہ نے ان مہمانوں کو پانی پلانے کی ڈیوٹی کے ساتھ بچپن ہی سے خدمت آباد کاری کی عاملہ کی ممبر تھیں.حضرت خلیفہ ہال انی نے ان کی خدمات کو سلسلہ کا آغاز کیا.۱۹۵۷ء میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے تیسری پوزیشن لے میرا ہا تھا.احمد لت نے حد و مجید غیر.کر ایم بی بی ایس کیا اور وہیں سے پوسٹ گر یجویشن کی ۱۹۵۹ء میں شادی ہوئی.تھیں.۱/۳ کی موصیہ تھیں.خدا.اوم دین اولاد سے نوازا.ان کی بڑی بیٹی زندگی کی جدوجہد میں عزم و ہمت کا ثبوت النور سوسائٹی میں اسپتال کا قیام و محترمہ ڈاکٹر امتہ اللطیف اریتیم بچوں کی کفالت کی.محترمہ ڈاکٹر انصرام ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس اسپتال کو فو را سپتال کا نام دیا.ڈاکٹر صاحبہ کی خدمت خلق کا فیض ان گنت نادار مریضوں کو پہنچا.اور اب کو کہ میں بعدہ کی عہدیدار ہیں.خدا تعالیٰ ان کی اولاد کو اپنی امان میں رکھے اور بزرگوں کی قربانیوں کا سلسلہ آگے بڑھانے کی توفیق دے.(آمین) مفت مشور ہے اور دوائیں دینا سعادت سمجھتی تھیں.۱۹۷۷ء سے اپنی بیٹیوں تمرینہ اور مسلمی کے ساتھ جلسہ ہائے سالانہ پر طبی امداد کا کیمپ سنبھالنا شروع ر محترمہ تیا ر شید صاحب پہلے حیدر آباد کر دیا.۸۲ ۱۹۸۱ میں احمدیہ ویمن ایسوسی الما قائم ہوئی.آپ اس کی صدر احمدی خواتین کے لئے پیغام تھیں ۱۹۷۶ ۱۹۷۸ تک حلقہ النور کی نائب صدر اور پھر صد ر فتخب ہو ئیں.اس کے ساتھ آپ نائب نگراں لجنہ قیادت نمبر ۳ بھی رہیں.۱۹۸۲ء میں حضرت بانی سلسلہ کے مبعوث ہونے کی غرض اللہ تعالی نے آپ کمیٹی ضلع کراچی کی نگران کا عہدہ دیا گیا.آپ نہ صرف خودا یک کے الہام میں یہ بتائی ہے.اچھی منتظم تھیں بلکہ اپنے ساتھ فعال کارکنوں کی ٹیم تیار کرلی اور ہر جلسہ ان یحی الدین و بقسم الشریعه کے زیر انتظام ہوئی لگا.۱۹۸۳ ء میں جلسہ سالانہ ربوہ پر طبی امداد کی ڈیوٹی کے ساتھ کہ آپ دین کا احیاء کریں گے اور شریعت کو قائم کریں گے.ہم حلقہ خاص کی انتظامی ڈیوٹی حسن و خوبی سے ادا کی ۱۹۸۳ میں سارے جلسہ گاہ کی ڈیوٹی ان کے سپرد کی گئی.باوجودا ایک ڈاکٹر کی شدید مصروفیات کے آپ نے دیکھتے ہیں کہ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت اماں جان سختی سے پردہ کی پابند بڑی تندہی سے جلسہ گاہ کا نقشہ بنایا.جگ ، گلاس رسی پولی تھین کے تھیلے تھیں.گو وہ گھر سے باہر بھی تشریف لے جاتی تھیں اور بعض افراد کو ساتھ لے کر گئیں.اس حسن انتظام کی داد حضرت خلیفہ المسیح الرابع بلا کر کام کے لئے بھی کہتی تھیں سو آپ کی تقلید میں احمد ہی خواتین اور حضرت چھوٹی آیا صاحبہ نے بھی دی ۱۹۸۷ء سے صحت خراب ، سنے تھی.بھی پردے کی پوری پابندی کریں.عدم پابندی کے شدید نقصانات کے بارے میں حضرت مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ نے جماعت کو متنبہ فرما دیا ہے.پیغام حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب آپریشن کے بعد کمزوری کے باوجو د ۱۹۸۸ کے جلسہ سالانہ لندن میں ڈیوٹی دی.کھڑی نہیں ہو سکتی تھیں، کرسی پر بیٹھ کر سب کام کروائے کہ فروری 1960 کی صبح کراچی لجنہ کی یہ منفر و خصوصیات کی حامل خاتون اپال نوار ان اور سب نمبرات لجنہ کو حزیں بنا کر خالق حقیقی سے جاملیں بنا نمازہ جنازہ بحوالہ انصار اللہ نومبر دسمبر ۶۸۵ 116

Page 111

قسمت کے شمار حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے لجنہ اماءاللہ کہراپی کو ایک مثالی تنظیم بنانے کے لیے لبینہ مرکز پہ سے اس کا الحاق ختم کر کے براہ راست اپنی نگرانی میں لے لیا.آپ نے مجلس عاملہ ختم کروں اور پانچ ارکان پر تشتمل ایک کمیٹی تشکیل فرمائی.اس متفق اور مہربان قیادت کا پانچ سالہ دور کراچی لجنہ کا شہری دور ہے.۳۰ اگست ۱۹۸۱ء کو بیت الحمد مارٹن روڈ میں کراچی کی ممبرات چین سے خطاب کرتے ہوئے..آپ نے فرمایا کے انتخاب کے لئے محترمہ حضرت مریم صدیقہ صاحیہ صدر به مرکز ی کرانی تال چونکہ کچھ کر دریاں میں نے یہاں دیکھیں اور ٹینیں.اس لئے لائیں تو بہت دعا کی اور بہت سوچا کہ اب یہ اہم فریضہ کون ادا کر سکے عارضی طور پر کہیں بھنہ کا جو یہاں نظام ہے اُسے اس وقت بدل رہا ہوں گا.آپا نصیرہ صاحبہ کے ساتھ تو خاندانی وجاہت اور پرانا تجربہ تھا میں لجنہ کا جو یہاں نظام تھا اس میں لجنہ کی صدر اور مجلس عاملہ ہوا کرتی نے اس گھراہٹ کا اظہار حضرت چھوٹی آپا صاحبہ کے سامنے بھی کیا آپ تھی یہی قاعدہ ہے لیکن اس وقت وہ سب ختم کر کے میں ایک کمیٹی نے دعا کی تلقین فرمائی.انتخاب ہوا.میرا نام بھی اس میں شامل فضلہ دوٹ بنا تا ہوں جو لجنہ مرکزیہ کے سامنے جواب دہ نہیں ہوگی اور تفصیلی رپورٹ بھی کافی ملے تھے مگر تیجہ کی منظوری نہیں آئی تھی.حضرت خلیفہ آج الثالث سامہ سے حالات گرحجانات اور عادات اور بدعات اگر کوئی آجائیں نے مجھے کیٹی کا صدر مقریہ فرمانے کا اعلان کیا تو میری نجیب کیفیت تھی اللہ پناہ میں رکھے ہم سب کو) اس کی رپورٹ پندرہ روز مجھ پہنچا ئیں گی سکتہ کا عالم تھا اور پسینہ پسنہ ہو رہی تھی.حضرت چھوٹی آپا صاحبہ تاکہ میں تجس کی ذمہ داری ہے جماعت کو بلند مقام پر رکھنا اس سلسلہ میرے قریب سے گزر رہیں اور فرمایا آمنا و صدقنا.اب ایک میں باخبر رہوں..حرف اطاعت امام اور دوسری طرف اپنی کم مائگی اور وسیع پیمانے پر اس کے بعد مندرجہ ذیل پانچ رکنی منتظر کمیٹی نامزد فرمائی.کام کرنے کا تجریہ نہ ہونے کا احساس تھا میں کھاؤں میں لگ گئی گڑ گڑا محترم سلیمہ میر صاحیہ اہلیہ محترم عبد القادر صاحب دار مرحوم کر خدا تعالے سے مدد مانگی اور کام شروع کیا.جلدی جلدی مجالس عاملہ محترمہ نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مرز اظفر احمد صاحب مرحوم کے اجلاس بلائے قیادتوں اور حلقوں میں دورے کئے اور ان کے محترمہ امته الرفیق صاحبہ اہلیہ جاوید ظفر اللہ صاحب سامنے بھی اطاعت ، تنظیم سے وابستگی ، اسلامی اخلاق اپنا نئے بدعات محترمه شیرین حمید صاحبہ اہلیہ چو ہدری عبدالحمید صاحب کے خلاف جہاد کرے ناجائز اعتراضات سے لیکلی پر ہیز کرنے اور محترمہ خود جہاں بت کی صاحبہ اہلیہ قریشی داؤ د احمد صاحب کثرت سے استغفار کرنے کی طرف توجہ دلائی.بار بار حضرت ادریس کی خدمت اس کمیٹی کی صدر محترم سلیمہ میر صاحبہ کو مقرر فرمایا.بحریہ موصوفہ میں جا کے لئے خطوط لکھے یہ انہیں کی دُعاؤں سے الہلی تصرف تھا کہ لیجند سے کمیٹی کے قیام کے متعلق گفتگو کی تو آپ نے بتایا کہ بھتہ کراچی کی صدارت کراچی میں خصوصی بیداری پیدا ہوئی حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی رہنمائی کے فرائض ایک طویل عرصہ تک محترمہ نصیرہ بیگم صاحبہ ادا کر رہی تھیں.ہمیں بہت کم عرصہ میسر آسکی پھر ہمارے کبھی دلوں کو حضرت خلیفہ ایج اب اُن کا عرصہ صدارت مکمل ہو چکا تھا.19 یو میں جب نئی صدر الرابع کی شفقت اور دعاؤں نے دلاسہ دیا یہ با برکت وجود ایسے کیا گہر

Page 112

ہیں جو مٹی کو سونا بناتے ہیں ماہر ہیں.میں کوشش بھی کروں تو الفاظ میں ان کی غیر حاضری میں آپ نے احسن اہنگ میں فرائض کو سر انجام دیا.اپنے جذبات کا عالم بیان نہیں کر سکتی.میں تو ایک عاجہ ناکارہ اور اللہ تعالے مقبول بارگاہ میں خدمت کی توفیق عطافرماتا رہ ہے ؟ کم ہمت بندی تھی.اس مسیحا نے میری ہستی بدل ڈالی.ان ہی کی دعاؤں ہر پندرہ دن کے بعد حضور پر نور کی خدمت میں کارگزاری رپورٹ اور رہنمائی کے طفیل مجلس عاملہ اور نمبرات کا مکمل تعاون حاصل رہا.کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا رہا.جلدی ہی اندانہ ہو گیا کہ حضور پیری با یک بینی خاص طور پر مترمہ نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مرتنا ظفر احمد صاحب مرحوم سے رپورٹوں کا مطالعہ فرماتے ہیں اس لئے رپورٹ لکھنے والوں کو بہت کی خدمت میں بدیہ تشکر پیش کروں گی جو ایک لمبے عرصے تک کراچی کی محتاط رہنے کے بعد بھی احساس رہتا کہ کوئی نادانستہ کو تا ہی حضور کی طبیعت صدر رہ ہیں مگر جب خاکسارہ کو صدر بتا دیا گیا تو کمال بشاشت سے ہر طرح پر گراں نہ گزرے ہر یہ پورٹ پر حضرت صاحب کی طرف سے وصولی کا خط تعاون کیا خدا تعالے ان کو جزائے خیر سے نواہ سے ملتانہ رہا.جیسن میں قیمتی در عائیں ہمارا حوصلہ بڑھاتی ہیں.ان خطوط کی شکل پانچ رکنی کمیٹی میں سے مشفق دخترم صاحب الرائے اور ذہین و فطین نمبر میں پیالیہ دلجوئی، رہنمائی اور شفقت کا ایک قیمتی خزانہ ہمارے ہاتھ لگا.مرمر تیری حمید صاحبہ لاہور منتقل ہو گئیں ان کی جگہ ختمہ محمودہ امتہ السمیع لجنہ کراچی اس خزانہ پر جتنا بھی خدا تعالے کا نشہ کرے کم ہے.وہاب صاحبہ کی تقریری کی.۲۱ دسمبر ۱۹ء کو منظوری آگئی.عہدیدار وں قسمت کے ان شمار کی لذت اور مخود انبساط کا اندازہ چمکن نہیں کی تقریری اور منظور کی حضرت خلیفہ اسیح الثالث اور بعد ازاں حضرت جو پیارے آقا کے ہر خط کے ساتھ محسوس کی جاتی.حضرت خلیفہ ایسے الثالث خلیفہ مسیح الرابع کی طرف سے ہوتی رہی.محترمہ بشری حمید صاحہ سیکو بڑی کا لجنہ کراچی کے نام ان کا خطبوں کی زندگی کا آخری خط ثابت ہوا موصول ہوا.مال اور محترمہ صادقہ قمر صا حیر سیکر ٹڈی ناصرات الاحمدیہ اور ان کی شادی ماه جون ۱۹ ء میں حضور کا مکتوب موصول ہوا.کے بعد محترمہ ناصرہ لطیف بیگم بامردن صاحبہ کی منظوری بھی حضرت صاحب آپ کی طرف سے پندرہ روزہ رپورٹ حضور اقدس کی سے لی گئی.آفس سیکرٹری نگرانات اور حلقہ جات کی عہدیداروں کے خدمت میں موصول ہوئی.حضور نے بعد ملاحظہ فرمایا ہے.انتخاب کے بعد منظوری لی جاتی رہی.اس ہدایت کو مد نظر رکھتے ہوئے بتدا کم اللہ احسن الجزاء صلح کی عہدیداران نے بڑی محنت اور جرات سے کام شروع کیا.جہاں تھی کسی تقریب کا علم ہوتا پہلے سے جا کر بڑے پیار سے ناجائز رسوم و رواج ڈالے اور مقبول خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.آمین.سے روک دیا جاتا.یا خطوط کے ذریعے سمجھا دیا جاتا اگر خدا نخواستہ کوئی بے قاعدگی ہوتی تو اس کی مکمل رپورٹ صدر کمیٹی لجنہ اماءاللہ کو پیش کریں مفارقت دے کر مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گیا.اس جانے والی منفدک ہو حضور کی خدمت اقدس میں بھیجوائی جاتی رہیں.روح کے لئے رحمتوں اور برکتوں کی دعاؤں کے ساتھ ہم نے قدرت ی لجنہ اماءاللہ ضلع کو اچی کی خوش نصیبی ہے کہ اس طرح خلیفہ ثانیہ کے منظر رائع کا استقبال کیا اور تجدید عہد وفا کے ساتھ ایک نئے وقت ہر ممز دری اور خامی پر ان کی نشاندہی فرماتے رہے اور ساتھ ہی دور میں داخل ہو گئے.آپ نے ہماری رپورٹوں کے جواب میں یہ کچھ پر درد دعائیں بھی ان کا مقصد نہ بنتی رہیں انتظامی معاملات میں استفسارات فرمائے.اس طرح نئے قافلہ سالانہ کی ماہ جنوری میں مکہ مکر سلیم میر صاحبہ صدر کیٹی بیرون ملک تشریف رہنمائی میں نے عزم و حو صار سے سفر شروع ہوا خلافت سے محبت عقیدت لے گئیں.آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشاد پر محکمہ آپا نمیره کو حضور کے کراچی کے دوروں نے وسعت اور گہرائی عطا کی.فروری بیگم صاحبہ کو قائمقام صدر منتظمہ کینی کا چارج ۱۴ جنوری ۹۳ ریڈ کو سونیا.آپ ۱۹۸۳ء ، اگست ۱۹۸۳ء اور فروری ۱۹۸۴ء میں مجالس عرفاں اور لجنہ گیارہ ماہ تک نہایت خوش اسلونی اور ذمہ داری کے ساتھ لجنہ کے کام سرانجام کی محافل سوال دیجواب میں بنفس نفیس حضور کے دیدار سے فیضیابی نے دیتی رہیں.مورخہ 14 دسمبر 19 ء کے خط میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع بعد یہ عمل کو مہمیز کیا.حضور نے لجنہ کی مجالس عاملہ کی صدارت بھی فرمائی.آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے نام خط میں ارشاد فرمایا کسینا کہ اللہ احن الجزار کی ہدایات نے البتہ کراچی کو ایک تھی راہ عمل پر گامزن کیا.اور دعا فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی میں برکت ماہ جون نہ ہی وہ مہینہ تھا.جب ہمارا محسن آقا ہمیں داغ 119

Page 113

آپ نے ہدایت فرمائی کہ کراچی لجنہ سیرت پاک کے جلسے منعقد بہتوں کے میلادوں میں شرکت کا موقع ملا جہاں تقاریر کیں.ایسے جلسے کرے.لجنہ نے لبیک کہا تین سود میں جلسے ہوئے.ہر جلسے میں منتظر کمیٹی بھی ہوئے جو متعقد تو غیرانہ جماعت بہتوں نے کئے تھے مگر پوری غیر احمدی میں سے ایک یا ایک سے زائد نمائندے شرکت کرتے.محترمہ بشری دارد خواتین کی گئی اور سارا پروگرام پیش کیا.معیاری تقاریر پر غیر از جماعت پہلے سے سلسلہ میں پی پی لے رہی تھیں.جلسہ میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم صالحہ نے اکثر وبیشتر جنسوں میں خوش را در بر مغز تقاریر کیں.حضرت صاحب بہنوں نے شدید حیرت کا اظہارہ کیا کہ ایسی عمدہ تقریریں تو ہم نے کبھی نے اس کام کو سراہا.نہ سنیں تھیں.بعض جگہ مضامین کے فوٹو اسٹیٹ حاصل کئے گئے ایک خاتون آپ کا مکتوب موصول ہوا.اللہ تعالیٰ آپ کو خوشیوں سے معمور خدمت دین والی کا دا ہان اندانه در کچھ کر سلسلہ میں شامل ہو گئیں.خلیفہ وقت کی دعاؤں میں ملی کا میاب زندگی عطا کرے.آپ کی تبلیغی کوششوں میں حقہ ملنے کی خوشی میں کارکردگی میں ذوق و شوق پیدا ہوتا رہا اور ہم جمعہ برکت ڈالے اور سعید کہ وحوں کو ہدایت نصیب کرے.آپ کی جمعہ شادابی حاصل کرتے رہے.نہ بان میں ایسا اثر پیدا کرے جو دوسروں کو متاثر کرنے والا ہو؟ دستخط خاکسار مرزا طاہر احمد اپریل ۱۹۸ میں تحریر فرمایا آپ کے خط کے ساتھ منسلکہ کارگزاری رپوٹ ہیں.میں نے ڈی سی سے پڑھیں اور دل کی گہرائی سے ان سب کے لئے خلیفة المسیح الرابع فرعا نکلی جنہوں نے خدمت دین میں کسی نہ کسی رنگ میں حصہ لیا.اللہ تعالے آپ سب کو خوشیوں سے مالا مال کردے ایسی خوشیاں آپ کی دعائیں اور شفقتیں یاران رحمت کی طرح ہمارے دے جو لانہ دال ہوں اپنا سچا پیار عطا کرے اور خود ہی آپ کی دجور دل کو سیراب کرتی رہیں.ساتھ ہی ساتھ قصاص نکات پر آپ کی رہنمائی جز اولین جائے اپنی سب ساتھیوں کو محبت پھر اسلام اور دیا." ہمارے لئے عمل کی نئی راہیں متعین کرتی رہتی.جلسہ ہائے سیرت النبی میں بغیر از جماعت مہمان بہنوں کی حاضری میں کمی کی طرف توجہ دلائی کہ انز کی تعداد زیادہ ہونی چاہیئے." آپ کی طرف سے رپورٹ مار جنوری ۱۹۹۳ء قیادت نمبر کراچی دستخط والسلام فاکسان مریندا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع کم مئی ماہ سے ۸ جون سو تک تربیتی کلاس لگائی گئی حضور اقدس کی خدمت میں موصول ہوئی حضور نے بعد ملاحظہ فرمایا ترجمه قرآن پاک، درس مدیت، کشتی نوح، نفسیاتی پیکچرز، تاریخ احمدیت تاریخ اسلام فقہی مسائل ، نماز کا ترجمہ نصاب میں شامل تھے پھول بنانے جزاکم اللہ احسن البینہ او بہت دلچسپ اور خوش گئی رپورٹ میں ہیں ان پروگراموں کی کامیابی کی عملی تربیت دی گئی.قیادت نمبر سے سب سے زیادہ تعدادی طالبات پیر حمد بہت کریں اور آئندہ کامیابی کے لئے دعاؤں سے مدد مانگنی نہ نے شمولیت کی.محترم امیر جماعت صاحب ضلع کر اچا نے لیکچر دیا.تدریس بھولیں.سیرت کے جلسوں میں سوائے چند کے غیر از جماعت خواتین کی کے فرائض محترم حسین احمد پاشا صاحب محترم لئیق احمد صاحب، محترمہ تعداد بہت کم شریک ہوئی ہے میں کا مطلب ہے کہ لجنہ کی اکثر مرات طلعت منصور صاحیه، محترمه خورشید عطا صاحبه، محترمہ ناهره لطیف صاحبها کے تعلقات کا دائرہ یا محدود ہے یا پھیر اپنی ملنے جلنے والیوں سے مذہبی محرمه صادقه کرامت صاحبه محترمه بشری داؤد صاحیه، امتہ الباری ناصر صاحیه گفتگو نہیں کر نہیں.واللہ اعلم محترمہ تو بہت آراء صاحبه محتریک سلیمہ میر صاحبہ محترمہ امتہ الحلیم ترا بده صاحبر کراچی لجنہ میں اس خاص امر کی طرف توجہ دینے کی تحریک کی اور محترمہ امتہ اسمیع وہاب صاحبہ نے سر انجام دیئے.اس کلاس کی رپورٹ گئی تو حاضری کی رفتار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تا حتی کہ ڈرگ کالونی کے ایک روزانہ حضرت اقدری کی خدمت میں بھیجی جاتی رہی.ان رپورٹوں کے جلسہ میں دو سو پچاس بغیر از جماعت خواتین تھیں.نمبرات کو غیر از جماعت جواب میں مئی ۱۹۹۳ء میں شفقت نامہ موصول ہوا.جس میں دست مبارک ۱۲۰

Page 114

سے رقم فرمایا تھا.اہمیت کا حامل ہے نیک خواتین سے دریں قرآن میں صرف ہو رہا ہے اپنی تمام مخلص ساتھیوں کو میرا سلام کہہ رہیں.ماشاء اللہ سینکڑوں بچے جن کا تعلق ہر مسلک و فرقہ سے ہے.لجنہ کے زیر اہتمام کراچی کو دین کی خدمت کرنے والیوں کی ایک بہت اچھی ٹیم) چلائے جانے والے سینٹرز میں میسرنا القرآن سے ابتدائی اسباق پڑھ رہے ہیں.انفرادی طور پر تعلیم دینے والی ممبرات کی کوئی بھی فہرست کافی میسر ہے الحمد للہ چشم بد دور جون ۱۹۸۳ کا نامہ تھا دستخط وال لام نہیں ہو سکتی صرف مثال کے طور پر ام حبیبہ صاحبہ، امتد الرفیق ظفر صاحبہ مرزا طاہر احمد عامر لطیف صاحبہ امتہ الحی صاحبہ ، ناصر عصمت اللہ صاحبه ممتاز عطاء اللہ صاحب، خورشید عطا صاحبه کشیده منصور گرین صاحبه، صوفیه اکرم خلیفہ ایسیع المرابع چٹھہ صاحب نے تعلیم قرآن میں دقت دے کر اپنے وقت کی قدر و قیمت بڑھائی ہے.کو رنگی میں حافظ محمد اعظم صاحب بلجنہ و ناصرات کی نمبرات کو تربیتی کلاس کی رپورٹ اور پندرہ روزہ کارکردگی رپورٹ موصول ہوئیں.جند او کم اللہ حن الجزاء ساری رپورٹ خوش کن زیور تعلیم قرآن سے آراستہ کر ر ہے ہیں.اجلاسوں میں نصاب میں شامل پڑھایا جاتا ہے.ترجمہ و تفسیر می نوش فوٹوسٹیٹ کروا کے اعلیٰ تعلیم یافتہ میرات کو ترجمہ قرآن پاک پڑھنے کی ترغیب ہے لیکن بطو بر خاص نہینب بیانی کا واقعہ پڑھ کر تو بہت خوشی دلانے کے لئے ذاتی خطوط لکھے گئے جس کے نتیجے میں ہم ارخواتین نے لفظی ہوئی اور دل کی گہرائیوں سے اُن سب خواتین کے لئے دعائیں نکلیں ترجمہ پڑھنے کا عزم کیا رمضان المبارک میں درس کا اہتمام کیا جاتا ہے.جنہوں نے اپنے مولا کی خاطر اس کا خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.امته الرفیق ظفر صاحب ویزه خورشید صاحبه صادقه و سیم صاحبہ عائشہ عیسی خان صاحبه، خورشید بیگم اقبال صاحبہ اور سعیدہ بٹ صاحبہ کو درس دینے کی سعادت حاصل ہوئی.درس قرآن کے بارے میں ہماری نجز من احسن الجزاء والسلام ناکا دستخط مرزا طاہر احمد رپورٹوں کے جواب میں حضور پیر نور سے تحریر فرمایا.متی اء " آپ کی ریوڑ میں باہت درس قرآن خلیفة المسیح الرابع مورہ ۲۲ ۲۱ موصول ہوئیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء اللہ تعالی واقعہ یوں تھا کہ ایک بین زینب بی بی کی بیٹی کی شادی میں ضرورت آپ کی قلیمی اور فکر می صلاحیتوں میں برکت دے.علوم قرآنی ہیں محسوس کی گی کہ جہیز تحفہ میں دیا جائے.حلقہ ڈیفنس، کمنٹن کی تعمیرات نے معرفت عطا فرمائے خدمت دین کی توفیق ملتی رہے.درس بڑی ریسپی اور من سے چھوٹی سے چھوٹی جزئیات کے ساتھ بہیر مکمل کیا.میں شامل ہونے والی سب مستورات اور ناصرات کو پاکیزہ اور یرپورٹ غور سے پڑھنے والوں کی نگاہوں سے یہ واقعہ اوتھل نہ رہا اور خوشحال زندگی سے نوازے اور ہمیشہ اپنی رضا اور تقوی کی راہوں پر چلنے کی توفیق بخشے.آمین.انہ سراہ نورہ تو انہی دعاؤں سے نوازا.لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کی تعلیم القرآن کے سلسلے میں مسائی کو بھی سند خوشنودی حاصل ہوئی کل میرات کی تقریب کا نصف تعداد نے خدا کی خوشنودی اور محبت کلام الہی میں رضا کارانہ طور پر یہ ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے کہ اپنے گھروں پہ احمدی و غیر احمدی بیجوں کو قرآن پاک ناظرہ و ترجمہ پڑھائیں.ایک بہت بڑی قومی ضرورت خواتین خوش اسلوبی سے دستخط والسلام ناکار مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع اہری پوری کر رہی ہیں.بچوں کا وہ حصہ عمر جو شخصیت کی تعمیر میں بنیادی اکتوبر سواء میں بھتہ کراچی نے بیت د آسٹریلیا ۱۲۱

Page 115

کے لئے حضور مچہ نور کی خدمت میں / ۱۳۷۰۰۰ روپے کی رقم پیش کرنے حضرت صاحب نے میں انگریزی کیکٹ کا ذکر فرمایا ہے وہ کی توفیق پائی.خواتین نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر مالی قربانی پیش کی دینا پور ضلع ملتان میں سوال و جواب کے انگریز میں ترجمہ سے متعلق اور بے نظیر روح پرور واقعات دیکھنے میں آئے.ایک نمبر نے چنر ہے.امتہ السمیع صاحبہ نے حضور سے اجازت طلب کی تھی کہ انگریزی یانی تا باب کے پیش کئے جن کو بیچ کر خطر رقم حاصل ہوئی.اس کے علاوہ اپنے طبقہ تک حضور کے ارشادات پہنچائے جاسکیں.حضور نے پسند فرما یہ اجانی ہاتھ سے شربت کی بوتلیں تیار کر کے رقم چندہ ہیں دی.ایک خاتون بجھ مرحمت فرمائی اور دست مبارک سے رہنما اصول رقم فرمائے.دفتر لینہ ملیر ندی کا بند ٹوٹ جانے کی وجہ سے اپنے سے گھرمیں بیٹھی تھیں جس کا اثر میں تعلیمی اور تربیتی کیٹس کی ایک سینٹرل لائبریری موجود ہے سب سامان بہہ گیا تھا.جب ان کے پاس ممبرات مدد کے لئے ہی ہیں تو اپنے تیار ہیں کے تلعب حلقوں میں.کیکٹس لائیر یہ یاں قائم کی گئی ہیں.روپٹے کے پلو سے بندھا ہوا منظور وپے کا نوٹ نکال کر دیا کہ میری سمانی طور پر نو (۹) کیٹس تیارہ کر کے مرکز بھیجی گئی ہیں.طرف سے آقا کو پیش کر دیں.بیت الصلوۃ آسٹریلیا جب تک قائم رہے کی حضر به ایده الودود کی طرف سے تحفہ موصول ہوا ہر ۰۰۰ رو پہلے ایسی قربانیوں کوہ مہندہ رکھے گی.حضور ایدہ الودود نے ریکار ڈنگ ڈیک کراچی بعنہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سب سے پہلے مربوط منظم خریدنے کے لئے عنایت فرمائے.محترمہ ناصرہ بشیر صاحبہ کی اعانت مرسلہ وار منصوبہ بندی کے ساتھ کیسٹ پر موگرام شروع کیا.محترمہ امتہ السمیع وہاب نے محنت اور لگن کے ساتھ خود اپنے لئے راہیں تلاش کیں.بار بار مجالس عاملہ کے اجلاس بلائے دورے کئے یہ پورٹ فارم سکھ لکھ کر بانٹے اور بہت موٹر تحریک چلائی کہ کیسٹ تمرید نے کے لئے اپنے ہاتھ سے قیادت نمبر ۳ قیادت نمیبرا ۱۳ روپے ۵۰۰۰ روپے ۱۰۰ روپے انئے کیسٹ اور ۲۶۰ روپے سے تک ۲۹۰۷ کیسٹ فروخت کر کے ۲۴ نومبر ۱۹۸۳ احمد یہ ہال میں اسٹوڈنٹس کا بین الکلیاتی محنت کر کے رقم جمع کریں چنانچہ بہت سی نمبرات نے سو میٹر بنا کر سلائی /۳۹۴۰۵۰ - ۵ روپے کی رقم جمع کرائی گئی.کر کے ٹیوشن پڑھا کے کیسٹ خریدے حضرت صاحب کو نہ پور نہیں بھیجی جاتی رہیں جن پر حضور پر اور اپنی ہدایات سے نوا نہ تے رہے.کوثر پروگرام کردیا گیا.محتر مسلی ہاشمی صاحبہ نے اس پہ دوگرام کو کامیاب بنانے کے لئے بہت محنت کی.قیادت نمبرس کی طالبات اول سہ ہیں مگر اکستریر ساء میں تحریر فرمایا آپ سب ماشاء اللہ بہت محنت سے کام کر رہی ہیں.اصول کے مطابق ٹرافی سرسید کالج کو دی گئی موضوع سیرت پاک آنحضرت مال جان اور وقت کی قربانی میں پیش پیش ہیں.اللهم زدمو د انگریزی صلی اللہ علیہ وسلم تھا ہر مہمان کو شان رسول عربی کی کیسٹ اور اسلامی کیٹ کا انتظار کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے جلد مکمل اصول کی فلاسفی تحفہ میں دی گئی.کرنے کی توفیق دے.جس جس نے بھی اس پروگرام میں حصہ لیا ہے پر رپورٹ کے جواب میں تحسین و آخرین حوصلہ افزائی اور دعاوں اللہ تعالے اسے دنیا و آخرت کی حسنات عطا فرمائے اور اپنی کے عادی ہو کر جب اپنے منیر کا نہ واں کا مجنوری 19ء کا خط پڑھا تو اپنی کوتاہ دامنی پر افسوس ہوا.رضا سے نوازے.آمین اپنی طرف سے ذاتی طور پر اس پروگرام کے لئے ایک ہزار روپے بھیجوا لہ ہا ہوں.دستخط لام ۲۳ جنوری ۱۹۸ء حضور نے تحریر فرمایا تھا.آپ کی طرف سے کارگزاری بابت ماہ دسمبر وصول ہوئی جزاكم الله الحسن المجند او فى الدنيا والآخرة.جہاں دیگر بعض لجنات کام کراچی کے مقابل پر کم نظر آتا ہے.وہاں یہ امتیاز انہیں ضرور حاصل ہے کہ بیعتوں کے لحاظ سے ان کے کام میں بڑی برکت خليفة أسبح الرابع ہے جبکہ کراچی لجنہ اس پہلو سے بے ثمر ہے اس طرف توجہ کریں مرزا طاہر احمد ۱۲۲

Page 116

اور فکر کریں اور گرما کبھی بہت کریں.آپ سب کارکنان کو الہ تعالے تعویزوں کی طرف سے آپ کی آنکھیں ہمیشہ ٹھنڈی رکھے قیارت اس خدمت پہ بہترین جزا عطا فرمائے اور پیش انہ پیش خدمت غمبرا کی تمام مرات لجنہ کو خصوصاً اُن کو جو اصلاح و ارشاد کے دین کی توفیق عطاء فرماتا رہے.آمین کام میں آپ کا ہاتھ بہار ہی میں میرا محبت بھر اسلام دعائیں والسلام خاکسار دستخط مرتبا طاہر احمد خليفة اسيح الرابع اللہ تعالے کا احسان دیکھئے جس روز ہمیں یہ خط موصول ہوا ایک مخلص خاتون تشریف لائیں اور جماعت میں شامل ہو گئیں یہ پہلے سے مناتی تھیں مگر گھر یلو حالات آڑے آر ہے تھے.دعوت الی اللہ والسلام پہنچادیں.خدا حافظ.خاکسار دستخط مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع اپریل ۱۹۸ ء نے ہمارے اور ہمارے آقا کے درمیان جسمانی کے اہم کام کی طرف توجہ کی گئی اور ڈھاکی گئی یہ صرف اللہ تعالے کا بعد ڈال دیا مگر یہ جسمانی دوری تکلیف اور دعاؤں کے نتیجے میں فضل اور خلیفہ وقت کی کہ مائیں تھیں کہ ہماری لجنہ کوبھی ثمر عطا روحانی قرب میں بدل گئی.ہوئے اس ضمن میں سب سے موثر کوشش انتہائی حلیم یه حکمت دعوت جولائی ء میں بہت افضل لندن کے لیٹر پیڈ پر حضور کا الی اللہ دینے والی بہن محترمہ سلمی صاحیہ اہلیہ شمیم خالد صاحب کی بھی دست مبارک سے تحریر کردہ مکتوب آنکھوں سے لگایا اور عقیدت.خدا تعالے نے جنہیں ۵۵ افراد کی جماعت میں شمولیت کا ذریعہ بنایا سے چوما گیا.السلام عليكم ورحمته الله وبركاته اس شعبہ میں محترمہ سلمی صاحبہ کی خدمات قابل تحسین ہیں.آپ راستے ہمشیرہ محترمہ آپا سلیمہ میر صاحبہ کی صعوبتیں برداشت کر کے نگر پارک گرگئیں اور وہاں کے لوگوں سے گھل مل کر تہ بیت و اصلاح کا کام کیا ان کے نام اکتوبر یاد میں آپ کی طرف سے بلجنہ کراچی کی رپورٹ اور نہایت حضور نے دست مبارک سے ایک مکتوب ارسال فرمایا.میر خلوص جذبات عقیدت پہنچے یہیں آپ سب کے جذبات و آپ کا بہت گیر خلوص اور بہت دردناک خط ملا.عقیدت و اخلاص کی دل کی گہرائیوں سے قدر کرتا ہوں اور اللہ تعالے کی راہ میں بہنے والے یہ آنسو ہر گز ضائع نہیں جائینگے اپنے رب سے آپ کے لئے ہمیشہ بھلائی کا طالب رہتا ہوں اور گلشن احمد کی سیرابی اور شادابی کا باعث نہیں گئے.زیادہ اور یہ عرض کرتا ہوں کہ وہ دن پہلے سے بڑھ کر شان کے دیر یہ حالات نہیں چلیں گے اور ان بد کرداروں کے پیڑ کے ساتھ لوٹا دے جن کی یادیں مجھے بہت عربیہ ہیں.فیصلہ کا انتظار کریں.جو نام مجھے یاد ہیں وہ بھی اتنے ہیں کہ نام بنام سلام پہنچاؤں تو دن آرہے ہیں.میر اور توکل کے ساتھ خدا تعالے کے سب بہنوں اور بچیوں کو میرا محبت بھر اسلام پہنچا دیں آپ کو اللہ تعالے نے جو کامیاب دعوت الی اللہ کی طویل فہرست بن جائے گی.توفیق بخشتی ہے اس کی رپورٹ پڑھ کر دل حمد اور شکر سے خدا حافظ ! تی امان اللہ فی امان اللہ فی امان الله پھر گیا.الحمد لله ثم الحمد لله بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں اللہ تعالے آپ کو بیش از پیش مثمر به ثمرات حسنہ خدمت کی توفیق عطا فرماتا رہے.آپ کا حامی وناصر ہوا اور سب والسلام دستخط مرزا طاہر احمد خليقة اسبح الرابع ۱۲۴

Page 117

جب یہ خط مجلس عاملہ میں شنایا گیا تو ہم میں سے ہر ایک والده مرحومه کلتوم بیگم صاحبه کو یقین تھا کہ حضور کو جو نام باد تھے ان میں میرا نام بھی شامل تھا اور خود بیگم حمید احمد رانا صاحبہ یہ دُعائیں میرے لئے بھی ہیں.یہ دو طرفہ محبت کا جادو تھا جس نے جذبہ عشق کے سوا سب جذبے سرد کر دیتے تھے.آقا کی طرف سے 79-- **** محصور ابد الودود نے ان کے اس انداز کو سرا ہا تھو ستر کھر یورپین مراکز کے پھندے کی تحریک ہوئی تو لجنہ کراچی نے بڑھ چڑھے قابل تقلید قرار دیا اور دین و دنیا کی نعمتوں کے حصول کے لئے کر حصہ لیا.دعاؤں سے سرفراز فرمایا.قربانی کا معیار انسان نہیں مقرہ کر سکتے.خدا تعالے نے میرات کی قربانیاں حضور انور سے دُعاؤں کا ثمر لائیں.میں متعدد خطوط میں سے دور کا لنلف پیجئے.کسی کی ایک پائی اور کسی کے ایک لاکھ کو کیا درجہ دیا ہمیں معلوم نہیں ہماری آنکھوں نے جو نظارے دیکھے اس میں ایک ایک خلوص کے اکتوبر کشور اختیار سے انتہائی ایمان افروز ہے.کچھ بچے اپنے غلے توڑ کر پانچ پیاری محترمہ آیا سلیمہ میر صاحبہ پانچ پائی، دس دس پانی کے جمع کئے ہوئے سکتے باندھ کر لے آئے.السلام عليكم ورحمة الله وبركاته کچھ خواتین نے اپنا تمام تر زیور پیش کر دیا.بعض نے تو اندازہ بھی آپ کی نہایت خوش کن رپورٹ کارگزاری مورخه نہیں رکھا کہ کتنے تو لے اور کتنی مالیت کا زیور ہے.ایک بچی کو ہ ۲۶ موصول ہوئی.جزاکم اللہ تعالے احسن الجزاء.اللہ تعالے تعلیم جاری رکھنے کے لئے تعلیمی وظیفہ دیا تو اس نے یہ وظیفہ فنڈ آپ اور آپ کے رفقائے کار کو اجر عظیم عطا کرے اور ان میں دے دیا.ایک خاتون نے اپنی سلائی کی مشین دے دی جس کے مالوں اور جانوں اور اولادوں میں برکت ڈالے اور سے کپڑے سی کروہ گذر بسر کر تی تھی.ایک خاتون نے وہ گائے نور احمدیت کو پھیلانے میں اپنی تائید و نصرت سے مدد فرمائے پیش کر دی جس کا دودھ فروخت کر کے گزارہ کرتی تھی.ایک یورپین مراکز میں مالی قربانی کرنے والیوں کو علیحہ : اپنے دستخطوں خاتون نے کپڑوں کی سلائی کر کے پیسے جمع کر کے اپنا اکلوتا زیویر سے خط بھیجوا رہا ہوں سب کو میرا محبت بھرا سلام پہنچی ہیں.ناک کی کیل بنوائی ابھی پہنتی نہ تھی کہ آقا کی آوازہ کان میں پڑی اللہ تعالے سب کو اپنی استعداد کے مطابق قربانیاں پیش کرتے لا کر چندے میں دے دی.ایک خاتون کے متعلق علم ہوا ہے کہ کی توفیق دے.تین کر دیے چندے کا یہ عمرہ رے کا وہ عمدہ لکھوا کر آٹھ آٹھ آنے کی قسط میں آپ کی خدمت دین کے مشوق اور ولولہ کو دیکھ کر میرا ادا کیا.اس قسم کے بے شمار واقعات تاریخ کا حصہ ہیں اور حجامت دل خوش ہو جاتا ہے اور دل سے دعا نکلتی ہے.اللہ تعالے اپنے فضلوں کا وارث بنائے اور خدمات کو قبول فرمائے.کے بتہ بے ایمانی کی دلیل ہیں.ایک بہن نے ایک نیک مثال پیش کی اور اپنا پھندہ تفصیل ذیل ادا کر دیا.از طرف حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم 4 H کرالی سیح موعود خليفة أسبح اول الثانی " " H الثالث والد مرحوم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب....فروری ۵۸۵ والسلام تاکان دستخط مرزا طاہر احمد پیاری محترمہ آپا سلیمہ میر صاحبه السلام عليكم ورحمته الله بركاته خليفة اسح الرابع آپ کا خط ، پڑھ کر دل خدا تعالے کی حمد و ستائش ۱۲۲

Page 118

سے لبریز ہو گیا.اللہ تعالے نے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو گئے.وہاں کے حالات کے مطابق نوری ضرورت پوری کرنے کے لئے کی جماعت کو حیرت انگیز جند یہ قربانی سے نوازا ہے.الحمد للہ.برتن اور چو ہے نہیں گئے.امداد کا باقی سامان خدام کی مدد سے براہ راست جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء في الدنيا والآخرة.تمام ممبرات پہنچایا گیا.نقد رقم 1946 روپے جمع ہوئے ۵۰۰ پہلے ہوئے کپڑے لجنہ اور جانی و مالی قربانی میں سابقات الا و لات کو میرا محبت بھرا برتن اور راشن کا سامان پہنچایا گیا.سلام اور منہ اکم اللہ احسن الجتہاد ڈاکٹر آصفہ نعیم صاحبہ کی زیر نگرانی ۲۰ مکمل بیگ ابتدائی طبی امداد کے تیارہ کر کے مکرمه عزیزه حمید صاحبه، امانت خاتون صاحبہ بھجوائے گئے اس خدمت کی سعادت بیگم میار کہ ملک صاحبہ بشری الیاس اور عزیزہ پر وین کو میرا خصوصی سلام.اللہ تعالے محمود، امتد السمیع و باب صاحبه، بیگم نصرت دین صاحبہ محترمہ شہناز مظفر ان کی قربانیوں کا بہتر بدلہ دے اور اپنے فضلوں کا وارث بناتے.والسلام خاکسار صاحبہ بیگم بریگیڈیر متان صاحبہ بیگیر ایم اے خورشید صاحبہ کہ حاصل ہوئی.ہونہار طلباء کو وظائف مستحق طلباء کو یونیفارم ، نصابی کتب کے سیسٹ اورر اسکول بیگ در لیے گئے جن پر سالانہ ۳۶۰۰۰ روپے کی رقم خرچ ہوئی.اس سلسلہ میں میں محترمہ امتہ الرفیق پاشا کی کوششیں قابل تحسین دستخط مرتبا طا ہر احمد خلیفہ اسیح الرابع ہیں جنھوں نے تعلیمی امداد کے اس شعیہ کو منظم اور مربوط خطوط پر چلایا.گرم بستروں کی تیاری پر ۲۷۵۰۸ روپے خرچ کئے گئے.ضرورت مندوں چادریں پیش کی گئیں.حضور ایدہ الودود نے سب چندہ دینے والی بہنوں کے کی خدمت میں ۷۳۲ گرے ۷۴۵ رضائیاں ، آئیے اور ۱۳۲ بستر کی نام اپنے دستخطوں کے ساتھ خطوط بھیجوائے جن میں بیش قیمت دعا میں تھیں.کراچی کی خواتین خدمت خلق میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں کہ ہو بیوگان کی خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے ماہانہ وظائف کے موسم گرمامیں ملیر ندی کا بندا اچانک ٹوٹ گیا جس کے نتیجے میں وسیع کے طور پر ۲۶۷۸۰ روپے نقد پیش کئے گئے.علاقے میں تباہی پھیل گئی سیلاب کے متاثرین کی فوری مدد کی ضرورت دیگر مستحقین میں تقسیم کی جانے والی رقم ۴۳ ۳۹ کم روپے تھی.محسوس کر کے بستر کپڑے دوائیں اور نقد امداد کا انتظام کیا گیا.محترمہ اللہ اسمہینے وہاب صاحبہ اور بیگم کرنل منور صاحب نے بلا اتنیانہ مذہب، ملت، خدمت کا موقع پایا.ڈاکٹر سکندر فرحت صاحبہ بینہ کراچی کی لائبر میری کے لئے ۱۴ سٹیل کی الماریاں بنائی گئیں جن پر ۱۸۹۰۰ روپے صرف ہوئے.بدین صوبہ سندھ کا ایک پسماندہ علاقہ ہے.احمدی ڈاکٹر وہاں نے متاثرہ علاقے میں رضا کارانہ طور پر مریضوں کا معائنہ کیا اور متوقع ہیضے تقدمت کے لئے جاتے رہتے ہیں.لیڈی ڈاکٹر نہ کو بھی خدمت کی کے خطرے کے پیش نظر بشری داور صاحبہ نے بیضے سے بچاؤ کے لئے کثر مقدار سعادت ملی.چنانچہ ڈاکٹر آصفہ نعیم صاحیہ، ڈاکٹر سکنہ صاحبہ ڈاکٹر میں دو ایک تیار کر کے تقسیم کرنے کے لئے بھیجیں.ہماری خوش قسمتی ہے امتہ النیت ید صاحبہ اور ڈاکٹر ناصرہ ملک صاحبہ وند کے ساتھ تشریف کہ حضور ایدہ الورور نے ایک خطبہ جمعہ میں کراچی لجنہ کی ان خدمات کی نے گئیں.محترمہ ڈاکٹر ناصرہ ملک صاحبہ اور ڈاکٹر منور ملک صاحب نے تعریف کی.اورنگی ٹاؤن میں بے گناہ انسانوں کے بے دریغ م روپے کی ضروری ادویہ فراہم کیں.محترمہ مبارکہ ما صاحب اور بیگم حمید دانا صاحبہ ۷۵ تھا کیڑا مالیتی ۱۲۴۸۷ روپے لے کر گئیں اور وہاں کے مستحقین کو تحفہ دیا.کہیں کا نہایت اچھا اثر ہوا.کپڑے کی خریداری میں محترم ملک مبارک احمد صاحب کا تعاون حاصل رہا.ان خدمات کا ذکر تحدیث قتل و غارت کا اندو ناک حادثہ ہو اس کو میری خدمت خلق حزنه بار که لک صاحبہ نے عباسی شہید ہسپتال میں نہ ضمیوں کی حالت زار دیکھی اور مرگ یہ عمل ہو گئیں.شدید سردی میں آسمان تلے پڑے ہوئے گھائل بے گھر غمزدہ لوگوں نعمت کے طور پر کیا گیا ہے.کے لئے بستر اور کپڑے نہیں گئے.ایدھی ٹرسٹ کے ذریعے پچاس بستر پہنچائے حضرت سلطان القلم کی جماعت پر جب اصحاب الکہف الرقیم ۱۲۵

Page 119

جیسا زمانہ آگیا تو بھنہ کی ایک ممبر امتہ الباری ناصرکو خدمت کی یہ راہ نصیب لجنہ کراچی کو یہ استرانہ بھی حاصل ہے کہ اس نے سب سے ہوئی کہ انہوں نے مقامی اخبارات و رسائل میں دین حق کے لئے مثبت پہلے اصلاح معاشرہ کمیٹی بنائی حضور ایدہ المردود کی خدمت میں شد تعمیری سوچ پیدا کرنے کے لئے مضامین لکھے.پیوست کا احترام، دشمنان اسلام میں یہ تجویز بھیجی گئی کہ آپس کے جھگڑے پٹانے کے لئے ایک کمیٹی ہونی سے جنگ کا قرآنی طریق ، قادیانیوں کا تعاقب کس طرح کیا جائے.یہ چاہیے.حضور نے ارشاد فرمایا کہ یہ تجویز بن امام ال مرکز یہ کوبھجوائیں حضرت چھوٹی آیا صاحبہ نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور اس کمیٹی کا نام دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے.عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارا تو نہیں صرف مسلم کا محمد یہ اجارا تو نہیں تجویز فرمایا محترمہ امتہ السمیع وہاب صاحبہ اس کی محرک اور ردرج کرواں شریعت ہل، بے وقت اور ہے جواز بحث اور دیگر موضوعات ہیں.اصلاح معاشرہ کے لئے کتا بچے چھپوانے کا سلسلہ شروع ہے.ایک پر مضامین اور مکاتیب لکھے.متعد ونظمیں شائع ہوئیں.حضور کے خطے خلاصہ کتابچہ اصلاح معاشرہ قسط اول طبع ہو چکا ہے.یہ کیسٹی عائلی جھگڑوں میں ایک مضمون استحاد بین السلمین شائع کروایا.مناسب طریق پر صلح کرواتی ہے اور رشتے ناتے کی سہولتیں بھی بہم پہنچاتی حضرت صاحب نے ان کے نزاشوں کو ملاحظہ فرما کر حوصلہ افزائی ہے.اصلاح معاشرہ کمیٹی نے کراچی کی بیوت المحمد میں مربیان سے اس موضوع پر خطبات دینے کی درخواست کی جس کے نتیجے میں اصلاح معاشرہ کی اور خوشنودی کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا." آپ کو اللہ تعالے نے بہت صلاحیتیں عطا کی ہیں کے لئے موضوعات پر خطیات دیے گئے.اپنا پیغام زیادہ خواتین تک اور استعمال بھی اچھا ہے.اللہ تعالے اس کا اجر دے اور پہنچانے کے لئے مصباح میں مضامین پھپوانے کا اہتمام کیا گیا.کام میں اپنے فضلوں سے نوازے ، سہولت پیدا کرنے کے لئے درخواست کی گئی کہ مردوں میں بھی ایک اواخر شاد کے ایک خط نے ہماری بہت ہمت بڑھائی.اصلاح معاشرہ کمیٹی تشکیل دی جائے.جس کے نتیجے میں مردوں کی کیٹی بنائی گئی.نومبر کہ آپ کی سالانہ رپورٹ ماشاء اللہ بہت حضرت اقدس کی خدمت میں ایک مجلس عاملہ میں تعلیمی تصویر خوش کن ہر حلقے کی رپورٹ بڑی دلچسپی سے میں نے دیکھی پیش کیا گیا جس پر حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا.ہے.ماشاء اللہ ہر شعبے میں نئی زندگی پائی جاتی ہے الحمد لله اللہ تعالے آپ کو آپ کی رفقائے کار کو اجر عظیم عط " آپ لوگ اپنے طور پر اس کا مکمل پائلٹ پروگرام فرمائے.اور اپنے لیے حساب فضلوں سے نوازے اور طے کریں.نظارت تعلیم جامعہ احمدیہ اور اسی قبیل کے دوسرے سلسلہ کے لئے محنت مشرق اور ولولہ سے کام کرنے کی اداروں کے نصاب کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا کورس از خود توفیق دے.سب لعنہ کو میری طرف سے بہت بہت مرتب کریں جو آپ کے شہر کی دینی اور علمی ضروریات کا احاطہ محبت بھر اسلام.میرا دل آپ سب کے کام سے بہت کرتا ہو...اس شہر میں کامیابی ہوئی تو دوسرے شہروں میں بھی اسے رائج کیا جا سکتا ہے.ایسے مربی کا انتظام کیا جا سکتا خوش ہے.اللہ آپ کے ساتھ ہو.واله خاک سلام دستخط مرزا طاہر احمد آپ نے فر مایل ہے جو تعلیم کی جملہ ضروریات پر حاوی ہو.یکم مارچ ۱۹۸۴ و کلاس کا آغا نہ ہوا.بعض طالبات نے تعلیمی اداروں سے نام کٹوا کہ داعیہ الی اللہ کی کلاس میں داخلہ لیا.دو خواتین اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ آتی رہیں.یہ انتہائی مفید کلاس خليفة السيح الرابع حالات کا شکار ہو گئی.لگن سے پڑھانے ریجھی سے پڑھنے اور جانثاری سے انتظامات کرنے والی نمبرات کو شدید دھوکا لگا مگر خدا تعالے سے امید ۱۲۶

Page 120

ہے کہ وہ آئندہ بہتر حالات میں بہترین کام کرنے کا موقع عطا فرمائے گا.انشاء اللہ العزیز محتر مہر سلیمہ میر صاحبہ صد در لجنہ اماءاللہ کراچی نے اس ارشاد کے مطابق کیٹی ممبران کے مشورے سے مجلس عاملہ ترتیب دی اور حضور لجنہ کی عہدے داروں کی تربیت اور قریبی رابطے کے لئے ہر ایدہ الودود سے منظوری کے بعد مرکز کو مطلع کیا.حضرت سیدہ ام متین صاحبہ پیر کو صبح سے شام تک دفتر میں انتظامی کمیٹی کی ارکان موجود رہتیں.پیر صدر الہ الا الله مرکزیہ کراچی تشریف لائیں تو مجلس عاملے خطاب کے دوران فرمایا.کا دن دفتر میں چہل پہل اور مصروفیت کا دن ہو گیا.مصروفیت کا از نکاتہ حضور ایدہ الورود نے فیصلہ فرمایا ہے کہ کراچی لجنہ کا مرکزی کم کرنے کے لئے تقسیم کار اس طرح کی گئی کہ مہینے کی ہر پیر الگ الگ شعبوں لجنہ سے رابطہ ہو گا.صدر سلیم میں ہوں گی شاہد میں حضرت خلیفہ کی یک ریان کے اجلاس طلب کئے گئے اس طرح شعبہ وار کا مربوط و منضبط المسیح الثالث خدا تعالے آپ کے درجات بلند فرمائے کراچی بعنہ کا مرکزی بند ہو گیا.سب سے زیادہ فائدہ شعر تعلم میں ہوا جس کے تحت ہر ماہ کی تعین سے الحاق ختم کر کے بڑی بہترین دم اٹھایا.الا اور نقصان دہ نہیں ہوا پیر کو کوٹڑیاں تعلیم کو نصاب کی مکمل تیاری کروائی جاتی رہی تاکہ وہ اپنے کہتا کبھی بھی ان کو سزا نہ مجھیں اس طرح تو آپ کی تربیت کی گئی ہے..اپنے حلقوں میں جا کر بہتر طریق پر تعلیم دے سکیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے پانچ سال دونوں خلفاء نے آپ پر بہت زیادہ میں حلقہ خاص میں اور سارے میں لمعہ کراچی کو اے سالانہ شفقت کی ہے.میں سمجھتی ہوں کہ اس پانچ سالہ نہ مانے کو آپ کے اندر ربوہ میں خاموشی اور صفائی کا فریضہ ادا کرنے کی سعادت علی ٹڈاکٹر زبیدہ طاہر ایک منٹ کے لئے بھی یہ احساس نہیں ہونا چاہیئے.مجھے تو کر انہ کا احساس صاحبہ منتظمہ انتظامیہ کمیٹی کراچی نے مجاہدانہ سرگرمی سے اپنی ٹیم تیار کی.نہیں ہوا اس بات کا.کہیں خوش تھی کہ ایک بجنہ کی براہ راست، دونوں خلفاء مستورات کو بیٹھانے، خاموش رکھنے پانی کی سپلائی ، صفائی کا انتظام محنت یہ نمائی فرماتے رہے اب دوبارہ الحاق کیا ہے جب بھی میں خوش ہوں اور سلیقہ سے کیا گیا جیسے حضور ایدہ الی دور نے ایک ملاقات کے خلیفہ وقت کا فیصلہ صحیح ہوتا ہے اس فیصلہ پر عمل کرنا ہی ہمارے لئے دوران سراہا.آپ نے فرمایا یہ میری تقریر میں بھی خاموشی تھی بابرکت ہوتا ہے.مرکزی بعنہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہوئے اپنی کراچی کی تاریخ انتظام اچھا تھا اور جلسہ گاہ خوب پیک تھا یا میں ایک نیا قدم اٹھائیں بہت دعاؤں کے ساتھ اور بہت خوف کے تنجنہ اماء الله مرکز یہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۸۵ء میں کراچی لجنہ کو ساتھ اللہ تعالے کے سامنے گریہ وزاری کرتے ہوئے کہ کوئی وقت ایسا نہ ایک سعادت حسنہ عطا ہوئی.حضور ایدہ الودود کے ارشاد کے مطابق آئے کہ ہم پر خلیفہ وقت ناراض ہوں بلکہ محبت ہی محبت ملے.ہر اح کراچی کی منتظر کیٹی کی نمبر بیشتری داؤد صاحبہ نے صد ر لجنہ مرکز یہ کا انتخاب کی رہنمائی نصیب ہو کہ کوئی قدم بھی ابتداء اور تکلیف کا باعث نہ ہو.کروایا جس کے نتیجے میں ۱۳۵ار نمائندگان سے ۱۱۱۴ ووٹ لے کر حضرت کراچی بلند کی تاریخ میں یہی پانچ سال کا زمانہ ہے جس کو گولڈن ایج کہا سیده ام امنه المتین مریم صدیقہ صاحبہ خدا تعالے کے فضل سے پھر صدر جاسکتا ہے شہری زمانہ : ریو میں تعمیر دفتر بلجنہ اماءاللہ کراچی نے بھر پور حصہ لیا.محترمہ ناصر البشیر صاحبہ نے دفتر لجنہ کے میٹنگ مریم کامع ساز و سامان پورا خرچ ادا کیا.مجلس عرفان کے حوالے سے حضور ایدہ اللہ کا یا مکتوب ۱۹۸۶ء میں محترمہ آپا سلیمہ میر صاحبہ لندن میں محضور ایدہ الودود سے ملاقات کے لئے گئیں تو حضور نے فرمایا.د مئی ۱۹۸۳ء عربیده امتہ الکریم کہ اب پھر پہلے کی طرح بحنہ ربوہ سے منسلک ہو جائیں السلام عليكم ورحمة الله اپنی مجلس عاملہ بنائیں مجھ سے منظوری لیں.اس مضمون کا خط آپ کا خط ملے ہوئے دیر ہوگئی میں اتنا مصروف تھا بھی آپ کو بھیج دیا جائے گا.اتنی دور بیٹھے کہ اور ان حالات میں کہ اس سے پہلے جواب نہیں دے سکا.آپ نے جس واقعہ یہاں سے یہ کام بہت مشکل ہو گیا ہے.کا ذکر کیا ہے کہ آپ نے سوال کیا تھا کہ کیا بھونیں بنانا جائز ہے ۱۲۷

Page 121

کہ نہیں اور میں نے جواب دیا تھا کہ بھٹو میں بنانا جائز ہے لیکن ہیں.وہ ان پر حرام ہیں والطيبت من الرزق خواہ اچھی باتیں بنانا جائز نہیں.یہ شاید آپ سمجھی نہیں اس وقت ہر گنہ چیزیں عام ہوں یا رزق میں سے اچھی چیزیں ہوں کوئی بھی حرام نہیں.بھی للذین امنوانی الحياة الدنيا خالصة میرا مقصد کوئی دکھ دنیا یا سختی کرنا نہیں تھا.میں نے تو اس وقت ماحول چونکہ سنجیدہ ہوا ہوا تھا.اس کو ذرا سا ہلکا کرنے کے لئے یوم القیامہ.یہ ہمارے مومن بندوں کے لئے اس دنیں ہیں ایک بے مزد تطبیقہ کے طور پر بات کی تھی اگر آپ کو اس سے بھی جائز ہیں اور اس دنیا میں یعنی قیامت کے بعد تو خالصہ تکلیف پہنی ہوتو میں معذرت خواہ ہوں میری ہرگز میرا نہیں تھیں ان کو ملیں گی اور دوسروں کو ہیں لیں گی.بات یہ ہے کہ یہ جو نہ مانہ جاہلیت کے رواج تھے اس کے پس منظر به دو بنیادی آئیں جن کی روشنی میں ہی مسئلہ حل ہوگا ئیں کو سمجھے بغیر بعض احادیث کو آپ نہیں سمجھ سکتیں.یہ سمجھتا ہوں کہ اس حدیث سے لازما وہ رواج مراد ہیں جوت بوج اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کی روشنی میں الجاهلیہ کے تابع مشرک عرب میں جاری تھے اور جیسا کہ تاریخ احادیث کو حاصل کیا جائے تب تو بات کھل جاتی ہے ورنہ ان سے ثابت ہے مشرک معرب میں جو ہوا جات جاری تھے ان کا لانگا چھوٹی چھوٹی باتوں میں اتنی غلط فہمیاں پیدا ہو جائیں گی اور دین اتنا شرک سے کوئی نہ کوئی تعلق تھا جس طرح آجکل کوئی لٹیں بنالیتا ہے مشکل ہو جائے گا کہ دن بدن اس پر عمل اور زیادہ مشکل ہوتا چلا کوئی چوٹی رکھ لیتا ہے یہ ہمارے اس علاقے میں بھی رواج ہے جائے گا کیونکہ زمانے کے لحاظ سے انسان کا مزاج بدل رہا ہے جہاں شرک ہے اور پیروں کے نام پر شکلیں بگاڑتے ہیں.بالکل اس قسم کے یہ واج بلکہ اس سے بڑھ کر نعربوں میں تھے اور جہالت اور فطرت کی باتوں پر تو انسان لانہ کا اطاعت پر پابند ہے لیکن اگر انسانی فطرت یہ سمجھے کہ غیر ضروری اور غیر حلقہ پابندیاں ہیں تو کے مشرک عرب کے معاشرے میں شرک کے عناصر مل جل گئے تھے لانہ کا انسانی فطرت پھر اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے اور اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس چیز کو منع فرما دیا تو شرک ایسے احکامات قرآن کریم اور احادیث میں نہیں ہو سکتے جن سے کی پیدوار تی بنگن جہاں یہ تعلق نہ ہو یعنی شرک کا کسی عادت انسانی فطرت بغاوت کرتی ہو.یہ بات مسلم ہے اور بنیادی اصول سے یا کسی رواج سے یا کسی تمدن اور تہذیب کے حصہ بلکہ خالصتنا انسانی فطرت پر نبی کوئی ذریعہ نہیت اختیار کیا جارہا ہے اس لئے اسے بھی پیش نظر رکھنا ہوگا.سے میں نے جو غور کیا ہے میرے نزدیک اصولی آیت جو ہو.اس کو آپ ہرگیز نا جائزہ نہیں کہہ سکتیں ورنہ عجیب و غریب اس مسئلہ پر روشنی ڈالتی ہے وہ ہے ولا تبرج الجاهلية باتیں اور بھی سامنے آئیں گی ماہ بعد کی عام ایجادات اور زینت الاولی.آنحضرت صلی اللہ علیہ علم کی نظر قرآن کریم کی اس آیت کے وہ سب ذرائع جو اس زمانہ میں نہیں تھے مشلاپ مشک روز پر ہی بھی کہ نہ مانہ جاہلیت کے سنگھا نہ بناؤ نہیں کرنے وہ حرام ہیں نیل پالش اور بہت سالم ہی چیزیں تو سب جائزہ ہو جائیں گی ہاں صرف بھونیں ٹھیک کرنا اور ان کو سلیقے سے براسیہ کرنا نا جائز سمجھا اور دوسری طرف مختلف جگہ پر یہ بھی فرمایا کہ اپنی زینتیں غیروں پر نہ ظاہر کرو.کوئی زینت عورت کرتی ہے تو ظاہر نہیں کرے گی جائے گا.اس لئے میرے نزدیک تو ہرگز یہ مراد نہیں ہے بلکہ لا قبر جن تبرج الجاهلية کے تابع ہو جہالت کے تصورات بطور در ته نیت ظاہر نہ کرنے حکم بے معنی ہو گا.سوال یہ ہے کہ کونسی زیست تمدن میں راہ پاگئے تھے انہی سے منع فرمایا گیا ہے.زینت ہے.صرف اعضاء کی زینت مراد نہیں بلکہ دوسری زینتیں بھی ہیں.چنانچہ قرآن کریم اس زینت کے لفظ کو خود واضح فرما رہا ہے ایک اور آیت میں ہے قل من حرم زینة التي اخرج لعباده والطيبت من الرزق.رکيو كون فاکر کہتا ہے کہ خدا نے جو رہتیں اپنے بندوں کی خاطر پیدا کی ل الله في الي مراجع ۱۲۸

Page 122

خوشا نصیب کہ ہم میزبان تھے ان کے لجنہ اماء اللہ کراچی بڑی خوش نصیب ہے کہ اُسے خدا تعالی کے فضل عزباء سے حسن سلوک سے پیش آئیں.احسان سے حضرت خلیفہ ابن الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العربیہ کے منصب خلافت GRASS Poors میں اتریں حکمت اور سنجیدگی سے کام کریں پر متمکن ہونے کے بعد سفر لندن تیک متعدد بار حضور کی روح پر در مجالس عرفان عمال فیلڈ میں مت کرو جو تجربات ہوں ان سے آگاہی حاصل کیں وہ طبقہ جو تمدنی حساب سے اور خواتین سے اجتماعی ملاقات سے متمتع ہونے کی توفیق ملی.ایمان افروز سہانی یادوں احمدیت سے کٹ رہا ہے، اس میں بھی کام آگے بڑھائیں ان کا حلقہ احباب کے نتیجہ آباد رکھنے کے لئے ان زندگی بخش صحبتوں کا ذکر کرتے ہیں.حضور پر نور نے ۲۹ جولائی سالہ بیت الذکر مارٹن روڈ میں خواتین سے خطاب فرمایا.بہیت کے آخری سرے نیک بچیاں اور خواتین بیٹھی ایک اور پانچ سو سے زیادہ کی نسیدت بنتی ہے اس لحاظ سے آپ کی تعداد تھیں.ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس دن کراچی شہر میں کوئی احمدی عورت حاضر ہونے بہت کم ہے.وسیع ہوتا ہے انہیں بھی آہستہ آہستہ مکام میں آگے لائیں.کراچی کی احمدی خواتین کراچی کی کل خوانین تک پیغام پہنچانا چاہیں تو سے پیچھے نہیں رہی ہوگی.حضور کی خدمت اقدس میں کراچی کے شعبہ اصلاح الرشاد کا تیار کردہ حضور ایدہ الو دو ر نے روح میں اتر جانے والی آواز میں تلاوت ایک تعلیمی منصوبہ بھی پیش کیا گیا.جیسے حضور نے پسند فرمایا منظوری دی اور سورہ فاتحہ کے بعد خطاب فرمایا جس کا تور میں ڈھلا ایک ایک لفظ قلوب تدریس کے لئے ایک مربی صاحب کے تعین کا فیصلہ فرمایا اور تلقین فرمائی کہ میں اتر گیا.نخطاب کے بعد خواتین کی طرف سے تجدید بیعت کی درخواست کی قرآن پاک ناظرہ اور با ترجمه تلفظ کی درستی کے ساتھ ضرور پڑھایا جائے.آپ گئی.حضور نے اس استدعا کو قبول فرمایا اور بیعت لی جس میں آپ نے خدا تعالیٰ نے ایک لائیر یہ ہی کے قیام کی اجازت بھی مرحمت فرمائی اور دیر تک سیرۃ النبی کے حضورہ عاجترانہ طریق پر آنسوؤں کے ساتھ بیعت کے الفاظ دہرائے حاضرات کے جلسوں کے اثرات کے متعلق گفتگو فرماتے رہے.قیام کراچی کے دوران حضور بھی آب دیدہ ہو رہی تھیں.ممبرات کی کثیر تعداد نے براہ راست خلیفہ وقت ایده الورد ودر شام کو مجالس عرفان میں رونق افروز ہوتے تو آئین کے لئے پر دے کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی سعادت پہلی دفعہ حاصل کی تھی.بھیگی آنکھوں کے ساتھ کا انتظام ہوتا.اس طرح وہ عینی حضور کے گھر معارف جوابات سے ملقبض ہوتیں.خدا تعالیٰ کے حضورہ کہ حاکم نے کا منظر اور نطف ہمیشہ یاد رہے گا.کیف و سرور عمر تین کے شوق نہ یارت و ملاقات کے لئے یہ انتظام کیا گیا کہ نماز عشاء کی ادائیچی کے یہ لمحات قدرت ثانیہ کی برکات کا اعجاز تھے ان فیوض و برکات کو بہتی دنیا تک کے بعد خواتین گیسٹ ہاؤس کے سبزہ زار تنظیم سے بیٹھ جائیں میں قیادت کی قائم رکھنے کے لئے دعائیں کی گئیں.انتظام کر نے کی ڈیوٹی ہوتی اُسے اگلی صفوں پہ بٹھا دیا جاتا اور محترمہ صدر صاحبہ یا موجود اس کے بعد حضورہ کے دیدار کی سعادت فروری سادیہ میں حاصل عہدے دار حضور سے ان کا تعارف کرواتیں حضورہ بڑی بشاشت سے خواتین سے ہوئی جب ۱۲ فروری کو کراچی تشریف لانے کے بعد سر فروری تذہ کو لجند گون بھیجو فرماتے اور ان کے سوالات کے جوابات مرحمت فرمانے نماز عشاء کے بعد کی ملاقاتیں کراچی کی مجلس عاملہ کے عہد یداران کے ساتھ گیارہ بجے شب تک رونق افروز ہلکے پھلکے نوشگوار طریق پر ہوتیں ماضی میں خواتین سے ملاقات کا دستور یہ ہوا کہ نا تھا کہ مر ہے اور اپنے عقدہ کشاندیر سے ہمارے مسائل کے حل کے لئے یہ نمائی فرماتے باری باری ایک ایک خاندان کمرہ ملاقات میں جا کہ چند منٹ حضور کی قدمت ہیں رہے آپ نے ارشاد فرمایا اپنے ماحول کے تعلق سے اپنے ملنے والوں خصوصاً حاضر ہو سکتا تھا اس طرح حضو ایده الودود کا کثیر وقت صرف ہو جاتا حضورہ نے اپنا یہ وقت ۱۲۹

Page 123

4 انفرادی ملاقاتوں کی بجائے اجتماعی طور پر سب خواتین کو دے دیا.یہ طالق ہے حد نہ جائیں تو غیر از جماعت لوگ کہتے ہیں ان کا قرآن اور ہے.پن کیاگیا اور زیادہ فائدہ مند ثابت ہوا کراچی کی تنظیم لجنہ اماءاللہ کے تحت اس وقت سات تیار نہیں تھیں.پہلی چار قیادتوں کی ملاقات پچودہ فروری اور گیسٹ بادیس حضور نے جوا با فرمایا جو لوگ کہتے ہیں کہ ان کا قرآن پاک اور ہے ان کو اپنے گھر بلا کر پڑھ کر کے بہنزہ نام پہ ہونا قرار پائی.سنا دیا کریں اس میں کون سی مشکل ہے.باقی رہا دفات شدہ پر قرآن خوانی کرنا تو جس طرح دل کی ایک دھڑا ان کے ساتھ حرکت کرتا ہوا اخون رگ وپے ہم اس لئے اس میں شامل نہیں ہوتے کہ یہ ایک بدعت ہے اور یاد رکھیں ہمیشہ کے آخری سروں تک پہنچ کر وائیں سمٹ آتا ہے.اسی طرح صد یہ صاحبہ لجنہ کیا چی کی بد عنوں نے ہی مذاہب کو تباہ کیا ہے.جماعت احمد یہ اس اصل چشمه رشد و ہدایت طرف سے جاری ہونے والا اعلان قیادتوں کی نگرانوں سے حلقوں کی صدر وں تک کی طرف لوٹ رہی ہے جو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب صافی سے اور پھر سب ممبرات تک پہنچ گیا اور وقت مقررہ پر میرات ذوق نہ مشرق کے ساتھ چھوٹا تھا وہی ہدایت کا سرچشمہ ہے باقی ساری بعد کی ملا دیں ہیں.مقام عقور ہے ہوتی در یون گیسٹ ہاؤس پہنچنے لگیں.حسین انتظام سے زیادہ اس ہستی کی کشش آنحضرت کے وصال پر نہ فاتحہ پڑھی گئی ہ قرآن خوانی ہوئی نہ چالیسواں ہوا اور بینم کا دخل تھا.جس کے دیدار کی خواہش ہر دل میں موجنون رہتی ہے.کچھ اور اگر ان باتوں میں کوئی حقیقت ہوتی تو ان کے سب سے زیادہ حقدار آنحضر حقہیہ کی آمد سے پہلے سوالات جمع کر لئے گئے تھے.یہ سوال زیادہ تر تھے.غیر از جماعت سوسائٹی میں معاشرتی حسن کم ہو چکا ہے.اور تم قرآن فاتحہ زندگی میں پیش آنے والے عمومی مسائل کے متعلق تھے.مگر جب مقبوبہ نے منہم تخوانی گیارہواں ، چالیسواں اور نہ جانے کیا کیا چیز یں مذہب بن گئی ہیں.جن کا قرآن شفیق چہرے کے ساتھ سمجھا سمجھا کہ جواب دینے شروع کئے تو خواتین کا حوصلہ حدیث سنت اور اسوہ رسول اور اسوہ صحابہ سے اشارہ تک نہیں ملتا حضرت بڑھا جس طرح بچہ اپنی ماں کا اچھا موڈ دیکھ کہ اگلی پچھلی فرمائشیں کرنے لگتا ہے اور مسیح موعود نے اگر حقیقی دین پیش کیا ہے اور رسم ورواج کی لعنتوں سے اپنے چھوٹے چھوٹے دُکھ بیان کرنے لگتا ہے اور اچھے موڈ سے چھڑوایا ہے اور آنحضرت کے اسوہ کو دوبارہ زندہ کیا ہے.اس لئے لومتر لائم جرات پا کر اپنی ہر بات کہہ ڈالنے کا لطف لیتا ہے.بالکل اسی طرح بعد میں کی پر داہ کئے بغیر اپنی اقدامہ کی حفاظت کریں.سوال بالکل ذاتی اور گھر یلو مسائل کے متعلق آنے لگے ساڑھ سے دس بجے سوال و جواب آپ نے فرمایا.سوالات کے جوابات دیتے دیتے ڈیڑھ بج گیا ابھی سوال ختم نہیں کا سلسلہ شروع ہوا سب سے پہلے حضور نے ایک خاص امر کی طرف توجہ دلائیے ہوئے تھے نماز ظہر کا وقت ہو گیا اس لئے یہ دلچہ پے سلسلہ ختم کرنا پڑا.غیر معمولی داغتری کی وجہ سے منتظم خواتین کی دوڑ دھوپ کی.آقا نے قدر دانی فرماتے ہوئے ایک بات میرے علم میں آتی ہے کہ منظمات نے ایسی خواتین کو مجلس میں آنے انہیں دوپہر کے کھاتے میں شریک کیا.حضور اپنے ہاتھ سے روٹی توڑ کر تقسیم فرماتے نہیں دیا جنہوں نے چادر اور دو رکھی تھی فرمایا الاِمَامُ جَنَّةٌ يُقَاتَك ر ہے.خواتین نے درخواست کی ہم آپ کی دعوت کرنا چاہتے ہیں فردا فردا تو میں کور آیه امام ڈھال ہوتا ہے اس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے آگے نہیں ممکن نہیں ہم سب کھانا پکا کہ یہاں لے آئیں گے اور مل کر کھائیں گے بحضور نے میں نے پردہ کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں ان کی روح کو سمجھ کر میرے پیچھے منظور فرمایا.اور فرمایا کہ کھانا ز یادہ HEAVY نہ ہو اور یہ کہ اپنے خاوندوں کو پیچھے چلنا چاہیئے جذبہ شوق میں آگے نہیں بڑھنا چاہیئے اس سے بعض دفعہ فائدہ بھی ساتھ لائیں.اس پر عہد سے داران میں سے بعض نے پو چھا کہ آپ ہی بتائیں ہم کی بجائے نقصان پہنچ جاتا ہے.میرے ذہن میں ایک ترتیب ہے کہ حکمت عملی کیا پکا کر لی ہیں.خورشید عطاء صاحبہ سے مخاطب ہو کہ فرمایا آپ تو ماش کی دال محبت اور پیار کے ذریعہ قرآن اور احادیث کی تشریحات کے ذریعہ احمدی خواتین لائیں آپ کی امی دال بہت اچھی پکاتی تھیں.کو جو ماشاء اللہ یری بالغ نظراور سمجھ دار ہیں ان کوسمجھ کر واپس لایا جائے اور وہ مجلس عرفان اور نماز عشاء کے بعد خواتین سے ملاقات کا سلسلہ جاری بطیب خاطر پر دہ کرنے لگیں ورنہ نظام کے خوف سے بنو تبدیلی آتی ہے وہ بسا اوقات رہنا خواتین جی بھر کے اپنے آقا کی زیارت کرتی اور تعارف و سوالات کا سلسلہ مشکلات کا موجب بن جاتی ہے.اس لئے میں چاہتا ہوں رفتہ رفتہ تبدیلی آئے.تیاری ہو جاتا.ایک بہن نے یہ سوال کیا کہ کوئی غیر از جماعت شخص فوت ہو جاتا ہے تو جنہیں حضور کے بہت قریب کچھ پڑھنے یا کہنے کا موقع ملتا ہے وہ لوگ قرآن شریف پڑھنے کے لئے بلاتے ہیں کیا وہاں جا کر قرآن خوانی جائز ہے اگر مخوبی جانتی ہیں کہ حضوبہ کی شفقتوں کے احساس کے باوجود ایک رجب کی کیفیت

Page 124

سے گھبراہٹ طاری رہتی ہے کہ کوئی غلطی نہ ہو جائے.اس غلطی نہ کرنے کی شعوری عمدگی اور وضاحت سے دیئے.کوشش سے بہت سی دلچسپ غلطیاں بلکہ یک سلو میاں سرزد ہو جاتی ہیں.حضور سے ایک سوال نظار روحانی پاکیزگی حاصل کرنے کی ابتداء کہاں سے ہوتی ہے.حضور نے فرمایا اس کی ابتداد وہ ہمیں سے ہوتی ہے جہاں سے قرآن کی ابتداء تعارف کروانے میں ایک عہدے دار کہ ایک نمبرسے کہنا تھا کہ اپنے باپ کا پورا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى نام تباد ، مگر وہ جلدی جلدی کہہ رہی تھیں وہ اپنے پور سے باپ کا نام تناؤ ایک ممبر تے ایجنڈا پڑھا حضور تھے الفاظ کا تلفظ درست کروایا حتی الوسع تسقيت منقبوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے گویا ہر نیکی اور ہر ہدایت بر رشد اور ہر پاکیزگی کا دارو دار تقویمی پر ہے.تقوی کے بہت سے معنی ہیں اور جدو جہد ان الفاظ کا تلفظ تو درست ہو گیا مگر اب حتى الامكان درست پڑھنے کی کوشش میں یہ محترمہ ہر دفعہ جلسہ کو جائکہ پڑھنے لگیں حضورمسکرائے آغاز میں تقوی کا معنی یہ ہو گا کہ ایک ایسا شخص جو سچائی کو اختیار کر تے میں کوئی اور فرمایا " اب میں کوئی غلطی نہیں نکالوں گا پاک نہ رکھتا ہو جس کی فطرت میں اتنی صفائی ہو کہ وہ ضد اور تعصب کے نتیجے میں ایک خاتون اپنی عرضداشت پیش کر تی ہوئی کہ رہی تھیں.یہ یکھیں اس سچائی کو جھٹلایا نہ کرتا ہو ایسا شخص دنیا میں جہاں کہیں ہوگا اسے ہدایت ملے گی.لئے ڈیرا نہ ہی ہوں تاکہ آپ کو یادر ہے.حضور نے اُن کے الفاظ یاد یہ ہے شلاً مغرب نے سائنس میں جب سچائی کو اختیا کیا خدا کی قدرت کا مشاہدہ ان کو دہرائے اور مسکرا دیے.منظم خواتین کی بوکھلاہٹ دیکھ کر حضور محفوظ ہوتے اور جس طرف لے گیا ان کے تجربات اور مشاہدات کا رخ بھی اسی طرف پلٹ گیا نتیجتاً دلچسپ جملوں سے حوصلہ افزائی فرماتے.ایک لڑکی نے اپنا نام حمیرا بتایا تو آپ نے اللہ تعالی کے فضل سے ان کی کوششوں کو بڑے بیٹھے پھل لگے پس جو تعدا د نیا فرمایا جانتی ہو اگر تم اپنا نام گولہ سے لکھو حمیرہ تو اس کا کیا مطلب ہوگا ؟ اس کا مطلب میں سچائی کی جزا نہ دیتا ہے وہ دین میں تبہ اس سے بڑھ کر جزاء دیتے والا ہے.اُن لئے دین کی ہر ترقی کے لئے تقوی کی چاہی رکھ دی گئی.حضرت مسیح موعود نے اس ہو گا چھوٹی سی گدھی.ایک خاتون نے اپنی بچی کا نام رکھوایا.آپ نے فرمایا عطیہ المتین رکھے لیں مگر اس خاتون کے چہرے پر صوم ما استعجاب دیکھ کر فرمایا " مشکل لگتا ہے مضمون کو بڑے پیار سے انداز میں یوں بیان فرمایا ہے.امتہ المتین رکھ رہیں یا ایک خاتون نے اٹھ کر کہا حضور آپ نے میرے خط کا جواب نہیں رہا.حضور نے فرمایا آپ نے خط کیسے لکھنا شروع کیا تھا یا اُس میں کیا لکھا ہر اک نیکی کی جٹہ یہ انتقام ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ : رہا ہے.اس لئے اگر انسان اپنی تربیت کی خاطر سچائی کو پکڑے سچائی جہاں سے تھا.اس نے چند مجھے بولے تو حضور نے فرمایا نہ ایسا خط مجھے نہیں ملا ہ ندا تعالی حضور کی جاتی ہے.خواہ کتنی ہی تلخ حقیقتوں کی طرف لے کہ جائے وہ ساتھ پھلنے کے لئے آمادہ یا دراشت میں کروڑوں گنا برکت ڈالے اس وقت سب حیرت زدہ رہ گئے عالمگیر ہو جائے.سچائی ہیو قربانی مانگے وہ قربانی دینے کے لئے تیار ہو جائے تو اسی کا ہم جیھانی جماعت کا اما سینکڑوں خطو ر روزانہ پڑھنے والا اور ایک خاتون سے چند جملے پاکیزگی ہے پھر اس پاکیزگی پر مزید خوبصورت جگ چڑھتے جاتے ہیں اور انسان ایمانیت سن کہ علم ہو گیا کہ اس قسم کا خط آپ کو نہیں ملالہ سبحان اللہ خدا تعالے جب کسی نہیں ترقی کرتا چلا جاتا ہے.خرد کو کوئی کام سونپتا ہے تو صلاحیتیں بھی عنایت فرماتا ہے.نمبرات نے شادی بیاہ میں رسوم وغیرہ کے متعلق کئی سوالات کئے جن میں سے حسب پروگرام ۱۹ فروری لجنہ اماءاللہ کراچی کی قیادت نمبر 4 ایک سوال یہ تھا کہ کیا لڑکی کی رخصتی پر حقیقہ کے نام سے بڑے پیمانے پر دعوت کو ملاقات کا موقع دیا گیا.حاضری اندائرے سے بہت زیادہ رہی.کار فروری کرنا جائز ہے ؟ حضور نے فرمایا بات یہ ہے کہ احکامات کی روح کو دھو کہ باڑی اورہ کی ملاقات میں جو نمبرات کسی وجہ سے حاضر نہ ہوسکی تھیں اور جو ایک دفعہ کی ملاقات ہو زیارت کے بعد تشنہ واپس گئی تھیں اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائیں.کچھ مرات غیر از جهات حیلے بہانے سے ناکام کرنے کی کوشش فی قامت ہے ایک بڑا مکروہ فعل ہے اصل بات بہنوں کو ہمراہ لائیں اس طرح 19 فروری کو گیسٹ ہاؤس کے سبزہ زار میں تل دھرنے یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ چاہتے تو یہ ہیں کہ بیٹی کی شادی پر کی جگہ نہ رہی ملاقات کے کروں یہ آمدہ اور اندرونی گزر گاہوں میں خواتین کے بیٹھنے کھانا کھلائیں لیکن نظام جماعت کی صرف گیری سے بچنے کے لئے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حقیقے اور لاوڈ سپیکروں سے آواز پہنچانے کا اہتمام کیا گیا.حضور کے تشریف لانے سے قبل کے نام پر بہترین بہا نہ ہاتھ آگیا ہے اب اگر اعتراض ہو گا تو کہ دیں گے یہ تو بچوں سوالات جمع کر لئے گئے تھے.حضور تے ان دو مینوں سوالات کے جواب بڑی بجنگی کا عقیقہ ہے.یہ نفس کا محض دھوکہ ہے یہ اسی قسم کا بہانہ ہے جس کے متعلق قرآن ۱۳۱

Page 125

کریم میں تنبیہہ موجود ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بل الانساب عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَة وَلَوْ القَى ز القیامه آیت ۱۵ ۱۱۶) مَعَاذِيره و یعنی ہر انسان خواہ کتنے ہی عذر پیش کرے وہ اپنی نیتوں اور اپنے اعمال کی کنہ کو جانتا ہے.سے توانا.مکتوب شامل اشاعت ہے یہ دلچسپ محفل کا ا سے کہ انکے دوپہر تک جاری رہی ابیا در چنوں سوالات باقی تھے جو وقت کی تنگی کی وجہ سے تشنہ جواب رہے.فروری دوپہر کے کھانے کے وقت گیسٹ ہاؤس میں ایک دعوت طعام کا انتظام کیاگیا لجنہ کمیٹی کی صدر صاحبہ اور ممبرات اور ان یلہ سازی کا طریقہ تقوی کے خلاف اور موجب ہلاکت ہے؟ کے خاوند ارجن کے خا ن نہیں تھے ان کے مدا قار لجنہ کراچی کی ساست پھر حضور نے یہود کی آرائش کے لئے سبت کے دن کے احترام میں قیادتوں کی نگران اور ان کے علاوہ چند دیگر خواتین جوسلسل کے کاموں میں پیش پیش رہتی ہیں حیلہ سازی اور حضرت طالوت کے شکر کہ پانی پینے سے مناہی کے باوجود پانی پیش رہتی ہیں وہ اور اُن کے میاں کھانے کی دعوت پر اکٹھے ہوئے حضرت سیدہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی کی یہ خواہش اس دعوت کا سبب بنی ارجن رام الله پی لینے کی مثال دے کر فرمایا.پس احکام خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے ان کے پس پردہ جو روح کا فرار کراچی کی عہدے داران ان دنوں جماعت کی تبلیغی اور تر مینی امور سے تعلق حضور ہوتی ہے اس کے بگاڑ سکے نتیجہ میں خطرناک نتائج یہ آمد ہوتے ہیں یا ایدہ اللہ تعالے کی ہدایات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ان تھک محنت کر رہی ایک خاتون نے پوچھا اگر عورت برقع پہننا چاہیے اور شوہر ا جازت ہیں ان کی حوصلہ افزائی کے لئے کوئی دعوت ہونی چاہیے چنا نچہ لجنہ کراچی کی نہر سے تو کیا کرے حضور نے جواب دیا ایسے شوہر کے متعلق مجھے چھٹی لکھیں اب عید بیداران نے ایک ایک خوش تیار کی.وہ کہاں گی کہ اگر چھٹی دیکھنے کی اجازت دے اگر ایسا ہے تو پھر خدا سے شکایت کریں اور کیا کیا جاسکتا ہے.ایک سوال تھا کہ میک آپ میں نماز جائز ہے.مردوں کے ساتھ حضور نے کھانا تناول فرمایا اور نمرات بحسنہ کے ساتھ حضرت سیدہ بیگم صاحبہ نے اس طرح جہاں اس موقع پر بھی جنات کی مخلصانہ جدو جہد کو سراہنے کا بہترین رنگ میں اظہار ہوا وہاں کھڑا جمیعا کی ایک منفرد مگر دلچسپ جواب تھا اللہ تعالئے نا محرم نہیں سیک آپ میں نمازہ جائز ہے.بڑی دلچسپ اور بائیہ کت تقریب ثابت ہوئی.) ایک بہن کو یہ میری بھی کہ کہیں نیل پالش سے نو نہ ٹوٹ جاتا ہو.حضور نے فرمایا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نیل پالش سے وضو نہیں ہوتا غلط راسی دن سوا پانچ بجے شام گیسٹ ہاؤس کے سبزہ زار میں خواتین کی کہتے ہیں ان کو خیال ہے کہ ناخن کو پانی نہیں لگتا یہ محض لغو باتیں ہیں جو لوگ یہ ایک مجلس سوال وجواب منعقد ہوئی جس میں سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے غیر از جماعت خواتین کے متعد د سوالوں کے جواب دیئے سوالات کہتے ہیں ان میں سے بعض اپنے گندے رہتے ہیں کہ ان کے اوپر نیل پالش سے کرنے والی مہمان توانین میں کالجوں کی چند پر و فیسرز اور سیر طالبات بھی شامل موٹی نہ خلافت کی بڑھی ہوتی ہے ان کا وضو بھی ہو جاتا ہے غسل بھی ہو جاتا تھیں.اس مجلس میں بڑی دلچسپ اور پر مغز گفتگو ہوئی جو سات بجے شام تک ہے پھر یہ بے چاری نیل پالش ہی ہے جو ان کا حصہ نہیں ہونے دیتی یہ سب جارہی رہی.اس کے بعد مہمان خواتین کو چائے پیش کی گئی.اس دوران بھی بعض قدمات ہیں.سنجیدہ مسائل پر گفتگو کے دوران ایک بچی نے پوچھا.حضور بھنویں بنانا جائز ہیں ؟ حضور نے برجستہ ڈرایا بھنویں بنائیں لیکن باتیں نہ بنائیں.خوانین گیسٹ ہاؤس کے اندر جا کہ حضورہ سے مزید سوالات کرتی رہیں چنانچہ ایک کے بعد دوسرے سوال کا جواب دیتے دیتے رات کے آٹھ بج گئے.ایک خاتون نے بیعت کی خواہش بھی ظاہر کی.اس مجلس کی ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی تھی کہ ان دنوں کرا چیا کے اس ہلکے پھلکے سوال جواب سے خوشگوار کیفیت پیدا ہو گئی.بعد میں بعض علاقوں میں رات کو کرفیو لگ جاتا تھا چنانچہ دوران گفتگو حضور نے جب اس بچی نے حضور کی خدمت میں خط لکھا کہ میرے سوال کا جواب سن کر سب نہیں یہ اعلان فرمایا کہ جن خواتین نے ایسے علاقوں میں جاتا ہے.جہاں کرفیو لگنے کا وقت دیئے اس طرح مجھے خفت اٹھانی پڑی مشفق آقا نے اس بچی کو بعد میں بہت قریب ہے وہ بے ٹھیک تشریف لے جائیں تو بعض خواتین بادل نخواستند مجلاس سے طویل مکتوب تحریر فرمایا اور مسئلے پر علمی بحث کے ساتھ ہے حمد بہایہ بھری دعاؤں اٹھ کر چلی گئیں لیکن اکثریت بیٹھی رہی اور ان کی طرف سے ڈھیروں سوالات ۱۳۲

Page 126

پیش ہوئے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے بعض سوالات کے جوابات دیئے جانئے.بعض خواتین کرفیو کے بارے میں اعلان کے باوجود جانے پر آمادہ حضور آٹھ بجے کے بعد جب مغرب اور عشاء کی نماندیں پڑھانے کے یہ تھیں.وہ مجلس کے اختتام ایک شہر نے کا ارادہ رکھتی تھیں مگر جب حضور لئے لان میں تشریف لائے تو فرمایا آخری مہمان خواتین نے اتنے زیادہ سوال کئے اور ایدہ اللہ تعالے تھے انہیں جانے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ تشریف اس گفتو میں اتنی گہری تو پی لی کہ دو سوا دو گھنٹے کا وقت جب گزر گیا اور مجلس لے جائیں احتیاط ہی مناسب ہے تو اس پر ایک بہن کی آواز آئی ہم رات برخواست ہوئی تب بھی بعض خواتین کا اصرار تھا کہ انہیں مزید سوال کرنے کا موقع اپنے رشتہ داروں کے ہاں ٹھہر جائیں گے چنانچہ چند خواتین نے اس پر دیا جائے.بھٹی کہ نمازوں میں تاخیر بھی ہوگئی کہ عمل بھی کیا.لیکن ایک بہن روتی ہوئی اٹھیں اور یہ کہتے ہوئے باہر نکلیں کہ یہ مجلس خدا تعالے کے فضل سے بڑی کامیاب اور ٹوثر ثابت ہوئی.اگر بچے گھر پر اکیلے نہ ہوتے تو کرفیو کے باوجود میں پورا پروگرام شن کر ہی جاتی حضور ایدہ اللہ تعالے نے مہمان خواتین کے سوالوں کے بڑے جامع اور مدال رنگ کیونکہ اسلام کی ایسی پر حکمت باتیں تو میں نے زندگی میں پہلی دفع مستی ہیں.میں جواب دیئے جن سے معہ انتین بہت متاثر ہوئیں.چنانچہ اس مجلس نے خوانین ہمیں تو کبھی یہ باتیں بنائی ہی نہیں گئیں.بیشتر خواتین نے آئندہ بھی مرشد کے ذہن پر کتنا گہرا اور انمٹ نقش چھوڑا اس کا اندازہ ان تاثرات سے ہوتا کئے جانے کی خواہش ظاہر کی.بعض خواتین تھوڑی دیر کے دعد نے پھر ہے جو غیر از جماعت خواتین کی میزبان مرات لجنہ نے بعد میں اراکین کمیٹی بنر آئی تھیں مگر مجلس ختم ہونے تک بیٹھی ہیں.چند کالجیٹ لڑکیاں اس بات اماء اللہ کراچی کے سامنے بیان کئے.حیران تھیں کہ اتنے پر دو قالہ اور منظم جلسے تو کالجوں میں بھی منعقد نہیں ہوسکتے.ایک مہمان خاتون نے بیان کیا کہ ان کے خیال میں خواتین کے لئے ترتیب جہاں رضا کار طالبات کثرت سے موجود ہوتی ہیں.دیا جانے والا ایسا جلسہ ہم نے پہلے کبھی دیکھا تھا نہ گنا تھا.آئندہ بھی جب آپ ایک گھر میلو خاتون نے بڑے دلچسپ پیرائے میں بتایا کہ ہمیں تو بہت لوگ کوئی ایسی محفل منعقد کریں تو ہمیں ضرور بلائیں.ایک خاتون حضور ایدہ الہیئے ڈرایا گیا تھا کہ ان سے ملنا جلنا مت رکھو.کتابیں مدت پڑھنا اور زیادہ باتیں نہ کرنا کے فہم وفراست آپ کے تحیر علمی اور زویہ خطابت سے متاثر ہو کر ہے اختیار کیو نکہ یہ لوگ جادو کر دیتے ہیں لیکن آج اس جادو کی حقیقت کھل گئی ہے کہنے لگیں.کاش ایسے مذہبی رہنما دوسرے فرقوں کو بھی نصیب ہوں.ایک کچھ خواتین نے مختلف موضوعات کے بارے میں تفصیلی علم حاصل کرنے کے لئے بہن نے اپنا میزبان سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا.آپ کے خلیفہ صاحب لٹریچر مانگا.ایک صاحبہ نے مجلس سوال و جواب سے متاثر ہو کر ہے اختیار کہا کہ اگر بڑے عالم آدمی ہیں ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی مذہبی شخصیت آنی وسیع النظر میں اس مجلس میں نہ آتی تو اتنے اچھے پروگرام سے محروم رہ جاتی، ایک بہن کو شکوہ اور گہری بصیرت رکھنے والی اس تہ مانہ میں موجود بھی ہو سکتی ہے.فیضانِ نبوت تھا کہ تو یہ تو یہ مولوی کس قدر غلط بیانیاں کرتے ہیں.بھلا ان میں غیر مسلموں والی محمدیہ پر جماعت احمدیہ کے نقطہ نگاہ سے سیر حاصل بحث اور پُر مغز اور کونسی بات ہے ایک اور مہمان خاتون نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں آپ مدال گفتگو سننے پر وہ بہت ہی مطمئن تھیں.ایک اور محترمہ نے بڑی بے تکلفی لوگوں کو تبلیغی جماعت والوں کی طرح سمجھتی تھی مگر آپ کا آؤٹ لک تو بہت سے کہا اتنی اچھی اور معلوماتی محفل تھی کہ ہمیں رشک آیا می کاش ایسی محفلیں وسیع اور نہ مانہ کے مطابق ہے.ایک خاصی معقول اور پڑھی لکھی مہمان خانوں نے ہم لوگ بھی منعقد کر سکتے.ایک پٹھان خاتون نے اپنے مخصوص لہجہ میں بے حد جو رائے دی وہ سب آراء پر بھاری ہے.انہوں نے کہا انفرادی اصلاح محبت سے کہا " آپ لوگ کا اخلاق بہت اچھا ہے آپ لوگ نے ہمارا اور قومی ترقی کا اتنا جامع اور منضبط پروگرام اور کسی کے پاس نہیں.آپ لوگ دل جیت لیا ہم تو ڈنہ نا ڈینہ نا آیا تھا جب کہ ایک اور مہمان خاتون نے یہ بہت بھلد اپنا مقصد حاصل کرلیں گے.انکشاف کیا کہ وہ تو گھر والوں سے چھپ کر آئی تھی اور بے حد خوفزدہ تھی کہ احمدیوں ۲۳ اگست ۱۹ ء کو حضور کی آمد سے سال میں دوسری دفعہ دینی بہار کا جادو نہ چل جائے مگر یہاں اگر سارا خوف دور ہو گیا.اسی قسم کی گفتگو ایک کا موسم آیا.لجنہ کراچی کی عہدے داروں نے ایر پورٹ پر حضور کو خوش آمدید کہا اور مہمان خاتون کی زبان سے سنی گئی وہ کہہ رہی تھیں کہ مکیں تو مروت کے مارے ہر چہرہ اس تصور سے یار وفق ہو گیا کہ ھر مجالس عرفان ہوں گی.پھر نور کی جہاں کیش آگئی تھی اور سمجھ رہی تھی کہ میرا وقت ضائع ہو گا.لیکن یہاں آکر مجھے پتہ لگا جاں فرا بارش ہوگی.ایک ممبر نے سب کے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا.کہ میرے خدشات کسی قدر بے معنی تھے.اب تو میں ہر جلسے میں آیا کروں گی.خوش ہیں احمد کے خدائی کر حضور آئے ہیں ۱۳۳

Page 127

عبد و معبود میں پھر ہونے لگے راز و نیاز ایسا لگتا ہے کہ موسیٰ سرطہ یہ آئے ہیں حمد باندی میں منگنی پیکر نور آئے ہیں کے منافی قرار دیا بحضور نے فرمایا کہ ہم وہ عمل کر تے ہیں جس کی سندہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ملتی ہو.جس کی سند نہ ہو اس پر عمل کرنا کوئی احترام نہیں.بھلا یہ کیسے ممکن ہے خواتین کی محفل ہو اور جنوں کے متعلق سوال نہ ہو ایک ایسے استفسار پر حضور پر نور نے فرمایا کہ جن کا لفظ انسانوں پر بھی استعمال ہوا ہے اور دوسری مخلوق پر نجی جیسے بالوں سے استخا نہ کرو یہ جنوں کی خوراس ہے.ہڈیوں میں بیکٹیریا ہوتا ہے.جو آنکھ سے نظر نہیں آتا جن کا لفظ عربی میں ایسی مخلوق کے لئے بولا جاتا ہے جو نظر نہیں آئیں مثلاً سانپ ، پہاڑی قومیں وغیرہ ہر اشارے پر فدا کر تے ہیں مال و اولاد نقد جاں لے کے براہیمی طیبونہ آئے ہیں سے سوفان کی لذت کی کشش ہی پیا سے پیتے آئے ہیں پٹے کیف شٹریہ آئے ہیں حضرت سلیمان کے زیر تصرف جن کی بنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے جن پانی میں غوطے ایک دفعہ پھر گہما گہمی اور چہل پہل کا مرکز گیسٹ ہاؤس بن گیا اور لگاتے تھے.سورہ رحمن میں اے بڑے لوگوں کے معشر اور اے چھوٹے لوگوں کے منتظر انتظامیہ کمیٹی کی نگران محترمہ ڈاکٹر زبیدہ طاہر صاحبہ اپنی مستعد اور چاقی منتشر کہ کر واضح ہو گیا کہ سب انسان ہیں.سورہ الناس میں بھی ناس در قسموں وہ ہند در کر نہ کے ساتھ میدان میں آگئیں.آنے والی تھوانین کی روندا نہ فہرست کے بیان کئے ہیں.بڑے لوگ بھی اور عوامی طاقتیں بھی.اس طرح بہن کوئی غیر مرئی بنانا، جگہ پر خاموش بٹھانا، پانی کا انتظام، ملاقات کا انتظام غرضیکہ ہر طرح مخلوق نہیں.کے کام کی تمام تر ذمہ داری نخوش اسلوبی سے سنبھال لینا.ڈاکٹر صاحبہ کا خصوصی امتیاز تھا.خواتین کی محفل کا اگلا سوال جادو کی حقیقت کے متعلق تھا.آپ نے سمجھایا کہ محضرت موسی کے جادو والے واقعہ میں سحر و العينَ النَّاسُ سے حقیقت واضح ہو جاتی ہے ۲۴ اگست ۱۹۹۳ء کو شام تا ۵ بجے حضور ایدہ الودود سے تمام میں نہیں تھا لوگوں کی آنکھوں پر تھا پروفیشنل، خواتین اور اُن کی مہمانان گرامی کی ملاقات ہوئی.جگہ کی قلت کے جسے جدید زبان میں مسمریزم کہتے ہیں.اس طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ باتیں پیش نظر ملے پایا کہ چونکہ پورے ضلع کی خواتین ایک دن جمع نہیں ہو سکتیں اس بھول جاتے تھے یہودیوں نے اس سے فائدہ اٹھا کر کنویں میں کچھ چیزیں ڈالیں اور مشہور کر دیا کہ جادو کا اثر ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو سمجھا دیا.آپ کچھ صحابہ کو لے کر گئے اور وہ چیز ہیں نکلوا دیں.لئے دو دن ملاقات ہوگئی.پہلے دن جماعت کی ذیلی تنظیمات ڈاکٹرز الیوی ایشن، ٹیچرنہ ایسوسی ایشن، احمد یہ گرلز اسٹو ڈنٹس فیڈریشن اور دیگر کا ر کن خواتین آپ حج کیوں نہیں کہ تھے ؟ یہ سوال بہت سی بہنوں کی طرف سے اپنی مہمانوں کے ساتھ تشریف لائیں.ریحانہ یاسمہ صاحبہ کی سورہ رحمن کے تلاوت سے محفل کا آغاز ہوا.اس محفل میں غیرانہ جماعت خواتین کو اولیت تھا آپ نے بنایا کہ حج پہلے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بند ہوا تھا مگر قرآن پاک دی گئی تھی.مہمان خواتین کو ایسے مواقع میسر نہیں ہوتے جہاں وہ جماعتی سطح پہ سر شاہد ہے کہ قبول ہوا تھا کیونکہ تو اب محمد اتعالیٰ کے ارشاد پر تعمیل میں ہے آداب و حفظ مراتب کا طریق سیکھ سکیں.پھر کچھ بزعم خود کی کم علم کے بحث برخود اگر وہ حکم دے حج کرو تو تعمیل فرض ہے اگر راستے کا ان مہیا نہ ہو تو خدا کا حکم ہے غلط ملاں سے خوب تعرب بحث کر کے لاجواب کرنے کے موڈ میں آئی ہیں.انہیں حج فرض نہیں آپ سمجھتے تھے آپ رک گئے.ہجو زبر دستی روکا جائے رک جائے خبر نہیں ہو تی کہ وہ مہدی دوراں کے عالم بے بدل پوتے اور احیائے دین کیے تعمیل حکم خداوندی فرض ہے.جو حکومتیں اعتراض نہیں کرتیں وہاں سے بیسیوں احمدی نمائندہ جماعت کے محترم امام سے گفتگو کرنے آئی ہیں.اس لئے ہم میرات کو حج کرتے ہیں سعودی عرب اُن سے تعرض نہیں کرتا ہماری حکومت منع کرتی ہے اس بعض اوقات ان کا لہجہ نا مانوس لگتا حضور انتہائی تحمیل خندہ پیشانی کے ساتھ لئے حج کی شرائط پوری نہیں ہوتیں.سادہ اور سہل اندا نہ میں نظریں منطقی جواب دیتے.جس سے متاثر ہوئے بغیر چارہ نہ رہتا.خواتین نے نمازنہ کے بعد ہاتھہ اٹھا کر دعا نہ مانگنے پر اعتراض کیا اور سلاد سوال وجواب کی اس دلچسپ محفل میں ایک خاتون جو سوالات کرنے میں تیزی کا مظاہرہ کہ رہی تھیں اگلے دن تشریف لائیں اور خاص طور پر معذرت کی.اگلے دن ۲۸ اگست کو بھی خواتین کی ایک محفل میں جس میں غیر ز جماعت کے آخر میں سلام کے موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ سلم کے نام پر کھڑا نہ ہوتے کو احترام بہنیں بھی شامل تھیں حضور نے سوالوں کے جواب دیئے.اس سوال کے جواب ۱۳۴

Page 128

میں کہ احمد یہ مسلک میں شادی کرنے کے لئے کیا بیعت ضروری ہے آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ کس نے پڑھایا تھا؟ سمجھایا کہ ایسی شادی شرعا منع نہیں ہے احمدی مسلک یہ ہے کہ مسلمان کہلانے کیا اسلام میں اور لے بالے کی شادی منع ہے قرآن وسنت سے بنائیے؟ احمدی خواتین پابند شریعت اور با اخلاق ہوتی ہیں پھر ہمارے بیان آپ لوگ سوئم چالیسواں ختم قرآن آیت کریمہ شمارے پڑھنا کیوں والے کسی بھی شخص سے شادی جائز ہے تاہم نظام جماعت کے تحت ایک تلخ تجربے کے بعد ایسا حکم دیا گیا ہے کہ احمدی لڑکی کی شادی غیرانہ جماعت سنے ہو.اتنا ئیبرا اختلاف کیوں ہے ؟ بقیه سوالات نہ بادہ نہ وفات مسیح اور کہ فع عیسی جیسے مسائل کے بارے میں تھے جنہیں تفصیلاً سمجھاتے ہوئے محضور نے کہا کہ ہمارہ سے بار بار دریافت نہیں مانتے؟ کرنے کے باوجود آج تک علماء کوئی حدیث مسیح کی زندگی کے ثبوت میں نہیں پیش ملاقاتیں مجموعی طور پہ مجالس عرفان کے بعد ہو تیں اور دلچسپ سوال و کرکے گویا حیات بیج کے بارے میں احادیث کا فقدان حیات سیچے کا بطلمان کرتا ہے.جواب اور حضور کی یاد گار باتیں سینوں میں اتر کی ہمیشہ کے لئے گھر بنائیں.حضور کا کراچی کا قیام مختصر تھا مگر آپ کے زریں ارشادات بیش قیمیت ڈیوٹی دینے والی نمبرات کے فرائض میں بیگم صاحبہ و حضور پر توبہ نصائح اور پیر حکمت کلمات نے نیا جوش و جذبہ پیدا کیا اور خواتین اپنی مفروضہ سے ملاقات کرنے والی عمیرات کا نہ بیکا نہ ڈ رکھنے کے علاوہ بڑے گیٹ سے اند در آنیوالی ہر عمیر کی آمد کا روزانہ یہ بیکار ڈرکھنا شامل تھا.ایک کاپی میں نام * زمتر دار بلوں میں زیادہ مستعد ہو گئیں.گیسٹ ہاؤس کراچی کی رونقیں فروری شاید میں پھر عود کر آئیں.ولدیت یا شوہر کا نام اور قیادت نمبر لکھا جاتا تھا.شام کے وقت آنے والی نہاں خانہ دل کا موسم اچھا ہو تو ہر موسم اچھا لگتا ہے کراچی کی خوشگوار شنکی اور نمبرات کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہو جاتا کہ ہر ایک کا نام تیزی سے لکھنا پڑتا آمد بہار کا کہ تنگ بدلتے موسم کے حسن میں حضور ایدہ اور دور کی آمد سے بے اندازہ ایک دن چند خواتین آئیں.ہماری ڈیوٹی پر متعین مستعد مبر نے پہلی خاتون اضافہ ہو گیا.۵ فروری کو حضور تشریف لائے اور فروری کو گیارہ بجے سے سے تیزی سے پوچھا.دو بجے تک غیر از جماعت مہمان بہنوں کے سوالات کے جواب دیئے.بہت جلدی شرکائے مجلس کو اندازہ ہو گیا کہ اُن کے سامنے جدید ترین معلومات سے بہرہ ور اور الہی تائید و نصرت کی حامل دور رس نظر رکھنے والی باتیں فطرت ہستی موجودہ ہے.غلط رسومات، تمباکو نوشی اور اسی نوعیت کے سوالات کے جواب مرحمت فرمانے کے ساتھ آپ نے ایک رہنما اصول بھی سکھا دیا.جو بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو اس سے بچو آپ کا نام ؟ آصفر شوہر کا نام ہے مرزا طاہر احمد قیادت ؟ قیادت تو مجھے معلوم نہیں ہم تو یہ بوہ سے آئے ہیں.اتنے میں بیگم صاحبہ کے لئے ڈیوٹی پر تعین نمبر آگے بڑھی اور بیگم صاحبہ وہ دین میں اضافہ ہے اور جو بات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے کو پورے احترام کے ساتھ اُن کے کمرے تک پہنچایا مگر یہ واقعہ بہت دن نیک ثابت ہو اس کے دائرے سے ذرہ باہر نہ جاؤ وہ نہ ہلاکت کو دعورت دو گے یاد آئے مکلف دیتا رہا یقینا بیگم صاحبہ بھی کرا چی لجنہ کی اس معصوم مستعدی پر کبھی کبھی نہیں دیتی ہوں گی.بائیں کی شام کمیٹی میران که از راہ شفقت محضیر نے اپنی جانب سے ۲۳ فروری ۱۹۸۷ء کا دن کراچی لجنہ کی تاریخ میں ایک یادگارہ تاریخی امن کا حصار اور چار دیواری قرآن اور سنت ہے یہ حضور ایدہ الودود کے تنجر علمی اور اندانہ استدلال سے اچھی طرح واقف قارئین کرام اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ نے غیر از جماعت شرائین کے کیک سخنہ میں دیئے.درج ذیل سوالات کے کس قدر کافی وشافی جواب مرحمت فرمائے ہوں گے.ان کے علاوہ بہت سے سوالات وقت کی کمی کی وجہ سے تش پہ جواب رہ گئے.اہمیت کا دن تھا.حضور اپنا دورہ کراچی مکمل کر کے واپس جا ر ہے تھے اور اسی آپ کی نمانہ اور روزہ الگ نہیں ہے تو آپ کو کافر کیوں قرار دیا دن ہماری داعیہ الی اللہ کی کل کس کا افتتاح کر نا بھی منظور فرمالیا تھا.ہشاش بشاش طالبات ٹیچرز ، منتظمات گیسٹ ہاؤس کے سبزہ زار پر اپنے گیا ہے ؟ ۱۳۵

Page 129

آقا اور بیگم صاحبہ کے ساتھ موجو د تھیں.تلاوت کلام پاک آپا امتہ الہادی صاحبہ نے اس طرح کی کہ حضور سورۃ التین کی آیت پڑھتے اور آپا بادی اُسے ہر انہیں اس کے بعد امہ تعلیم قاہدہ صاحبہ نے کلاس منعقد کرانے کی کوششوں کا تعارف کروایا.پھر حضور نے انتشاحی خطاب سے نواندا.سورۃ فاتحہ کی دلنشیں تفسیر فرمائی اور اس کی یہ حکمت واضح فرمائی کہ چونکہ قرآن کر یہ کا افتتاح اس سورہ سے ہوتا ہے اس لئے افتتاح کو باہر کٹ بنانے کے لئے اس سورہ سے افتتاح کرنا چاہیئے.حضور علم و عرفان کے موتی بکھیر رہے تھے اور حاضرات دم بخود اس مقدس پہ پہرے کو دیکھ رہی تھیں.وہ نہیں جانتی تھیں کہ عنقریب 190 ء کا ظالمانہ آرڈینینس اس پاک تورانی وجود کو کچھ عرصہ کے لئے ہم سے دور لے جائے گا.اور حسین مجالس ایک یاد بن جائیں گی.رایک یا خیاں کی یاد میں سرد مسمن ادامس اہل حین فسردہ ہیں گلشن اداس ہے بس یاد دوست اور نہ کر فرش دل پر رقص من کتنی تیرے پاؤں کی جھانجن اداس ہے لہ تعالی نے قرآن کریم اور حضرت عل اللہ یہ کام کی نشانیوں کے مابین اس زمین میں حضرت بی مورد و میانی بارود کے نیند کی دن اور انگری امام مقتدر کر رکھی ہے.اس اہم مقصد کی تکمیل کے لئے الہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مصلح مورد خلیفہ پالیسی حالات میں آیا تنظیم الشان کے بیل ہیں ۱۹۱۴ء کے انتہائی نامساء الثانی آسانی نظام التقاء فرمایا جوجماعت احمدیہ کی ترقی اور استحکام کے لئے نہایت با برکت ثابت ہوا ہے.یہ بابرکت نظام " تحریک جدید " کے نام سے موسوم ہے.تحریک جدید کے کچھ مطالبات ہیں جو جماعت کی تربیت تنظیم اور تبلیغ سے تعلق رکھتے ہیں.ان سب کاموں کو پھلانے کیلئے ایک خاص چندے کی تحریک کی گئی جو چندہ تحریک جدیدہ کہلاتا ہے.اس چندہ سے جمائی ترقی اور استحکام کے لئے بہت سے کام کئے جارہے ہیں.لیکن اس چندے کا سب سے بڑا مصرف بیرونی مالک میں اسلام کی تبلیغ ہے.اور آج الہ تعالی کے فضل سے یہ تبلیغ اتنی وسیع ہوچکی ہے رعماد دنیا کا کوئی مستہ اس سے خالی نہیں.اسلام کے فدائی مجاہد جنہوں نے اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر رکھی ہیں تحریک جدید کے ذریعہ دنیا کے ہر منہ میں دن رات تبلیغ اسلام اے رحیم و کریم خدا تو جلد ایسے دن لا کہ آقا پھر ہمارے درمیان کی مخلصانہ خدمت بجالار ہے ہیں.دنیا کی متعلقہ اہم زبانوں ہی قرآن کریم کے تراجم اور دیگر بنفس نفیس موجود ہوں اور ہم بلا واسط ان کی دلنشیں آواز میں آمین بالم آمین.اسلامی لٹریچر کی کثیر اشاعت ہوچکی ہے.دنیا بھرمیں سینکڑوں مساجد کی تعمیر ہو چکی ہے.ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کرتی ہے.ہم تا ہے.ہم نے جیتہ پتہ پر حضرت محمد رسول اللہ کی حکومت قائم کرنی ہے.اب ایک یا دو ملکوں کا سوال نہیں ، اب سر دھڑ کی بازی لگانے کا سوال ہے.یا کفر جیتے گا اور ہم میں گئے.یا گھر مرے گا اور ہم جیتیں گے.درمیان میں اب بات نہیں رہ سکتی یا سیدنا حضرت مصلح موعود اور دریوں تعلیمی طبی اور رفاہی اداروں کا قیام عمل میں آپ کا ہے.تحریک جدید کی ان ہمہ گیر مخلصانہ مسائی کے نتیہ میں دنیا کے ہر صافہ میں سعید اور نیک فطرت لوگ حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کام شدید ترین مخالفت کے باوجود روز بروز وسعت پذیر ہے.جسے دیکھتے ہوئے آج ہم اللہ تعالی کے فضل سے برمل طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ جماعت ہوتا.یہ سب برکات یقینا اللہ تعالی کے خاص فضل و رحمت کا ثمرہ ہیں مگر ظاہر میں اس کا ذریعہ تحریک تجدید ہے میں کا سارا نظام اسی مقصد کے حصول کے گرد چکر لگاتا ہے.تحریک جدید کے بارہ میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں :.یاد رکھو ! یہ تحریک خدا تعالی کی طرف سے ہے.اس لئے وہ اسے ضرور ترقی دینا.اور اس کی راہ میں جو روکیں ہوں گی اُن کو بھی دور کر دے گا.اور اگر زمین سے اس کے سامان پیدا نہ ہوں گے تو آسمان سے خدا تعالیٰ اس کو برکت دے گا.پس مُبارک ہیں وہ جو بڑھ چڑھ کہ اس تحریک میں حصہ لیتے ہیں.کیونکہ اُن کا نام ادب واحترام سے اسلام کی تاریخ نہیں پیشہ زندہ رہے گا.اور خدا تعالیٰ کے دربارمیں یہ لوگ خاص عزت کا مقام پائیں گے کیونکہ انہوں نے خود تکلیف انشا کر دین کی مضبوطی کے لئے کوشش کی اور ان کی اولادوں کا خدا تعال تو تشکیل ہوگا اور آسمانی نور ان کے سینوں سے ابل کر نکلتا رہے گا اور دنیا کو روشن کر تا رہے گا.

Page 130

عہدیداران لمنه کراچی سال به سال ۷ ار ستمبر ۱۹۴۷ کو محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے کراچی لجنہ کی از سر نو بنیاد رکھی اور کچھ عرصہ تک صدارت کے فرائض بھی سنبھالے جبکہ بیگم صاحبہ بشیر احمد معاونت فرماتی رہیں.تاہم کراچی میں عارضی قیام کی وجہ سے انہوں نے کچھ ہی عرصہ بعد اپنی جگہ بیگم بشیر احمد صاحبہ کو صدارت کے فرائض سونپ دیئے.بیگم صاحبہ بشیر احمد ۱۹۵۷۵۸ تک صدر رہیں جبکہ امته الاسلام بیگم صاحبہ نائب صدر اور محترمہ صغری قدسیہ جنرل سیکریٹری تھیں.۱۹۵۳ میں مجیدہ بیگم شاہنوا ز صاحبہ نائب صد راور محترمہ حفیظته الرحمن صاحبہ جنرل سکریٹری مقرر ہوئیں جبکہ احمدی بیگم کو سکریٹری تعلیم کے فرائض سونپے گئے.بعد ازاں شعبہ جات میں توسیع کی گئی.اس کے بعد سے عہدیداران کی تفصیل کچھ یوں ہے.نائب صدر جنرل کیریری سیکرٹری تعلیم سیکرٹری سیکرٹری سیکرٹری سیکرٹری نگران سیکرٹری مطابق سال صدر خدمت خلق صلاح و ارشاد نمائش تربیت ناصرات مالح ۱۹۵۰ بیگم بشیر احمد امت اسلم بیگم بیگم مجیدہ بیگم مرار احمد بیگم سیٹھ محمودہ بیگم آمنه کرامت اله بیگم ڈاکٹر بیگم چودھری 1900-04 ست ہنواز محبوب علی عبد الرحمن عبد اللہ خان " H بیگم مولوی بگیم ڈاکٹر عبد المالک فنان عبد الحمید را بیگم ڈاکٹر عبد الرحمان ناشیه امته الرشید امته الرشید نامه مسعودہ بیٹ ۱۳۷ " 1 4 ང 1904-82 " ۵۸ - ۱۹۵۷ بیگم چودھری بیگم لوگو بشیر احمد عبد الرحمان جمیله عرفانی ۵۹ - ۱۹۵۸ بیگم شاهنوانه جمیله عرفانی محمودہ تھاتون 1909-4- جمیله عرفانی ناشیه ثریا جبین سلیمہ بیگم

Page 131

# پر بیگم سعید ملک H " ناسیم شرکت گوہر بیگم ایران خورشید مرکز وست گوہر اپنی ایران خورشید نائیه شرکت گوہر بیگم این اسے خورشید بیگم امتها الورود بیگم خورشید جمید عرفانی نور جہاں بیگ آفتاب بسمل کھوکھر ایم اے " خورشید عطاء همراه " 21 جمیله عرفانی نائبه شهر یا جبین اویر نامیه شریا جبین ور بیگم عبدالرحمان لا مومی 4 باشید اسلیمہ بیگم شریا جبین جمیل عرفانی وریز عمرال دانا سلیمر پیشگیر پر ر بیگم عبد الرحمان جمله عرفانی بیگم دین محمد ابه عربیده سردار احمد $7 سرحد عبد المالک آمنہ کر بیت الله آپا سلیمہ بیگم بیگم سرا ر احمد H " H بیگم عبد المالک بیگم که اسمت الله خان صاحب 194-41 1941-47 1941-44 B ۱۹۶۴-۶۵ 1940-44 1949-42 1941-47 " 1947-49 4 1949-2- ۱ - ۱۹۷۰ بیگم شاہنواز آپا سلیمہ بیگم جمیله عرفانی بیگم مرار احمد جمید عرفانی بیگم عبدالمالک بیگم کرامت اللہ بیگم خان صاحب آفتاب سمل خورشید عطا بیگم ایم اے خورشید امته الردود کھوکھر 17 بیده بادی تکلیف 11 بشری سعادت ہادی ناصر دیگر شریف احمد در این ( محمودہ بیگم (۲) بیم ملک مبارک " 1 4 V 4 b 4 " " "1 # بیگم گر است الله وی دیگر ایم اے خورشید نصیرہ بیگم نسیم سعید صاحبه مرزا ظفر احمد بشری سعاد ماست ۱۹۷۱ - ۲ ۷۴ - ۱۹۷۳ قائم مقام نصیرہ بیگم بیگم محمد بھٹی بیگم خورشید بیگم خورشید ۷۵ - ۱۹۷۴ قائم مقام قائمہ نام نسیرہ بیگم سیم ابراے خورشید ۷۶ - ۱۹۷۵ قائم مقام قائم مقام بستری سعادت امعتہ الثانی سیال نمیره بیگم بیگم ایم اے خورشید امستر الرشید

Page 132

۷۷ - ۱۹۷۶ قائم مقام قائم مقام نصیره بگم بگم ایران خورشید بگیر خورشید ۷۸ - ۱۹۷۷ محتر مد نصیر بیگم معاون 4 194-29 1969-A- کتر علی محمود امتہ الثانی بیال امته الرشید محموده الماس نام ناصرہ بیگی (۳) زینت البوجہ نائبہ (۳) بیشتری اکرام انسه منصور ناصره خورشید زینت الوند تا سیر بیشتری اگرم نه با گستری مجید مشائستہ ܀ امتہ الکریم 17 " عمرم b ارگری بیگم شریف احمد وڑائچ 4 حمیرا منصور صدر ضلع کراچی محترمہ سلیمہ میر نائب صدر جنرل سکر بڑی محترمہ امتد الرفیق پاشار محترمہ نگار علیم سکریٹری مال محترمہ بشری حمید سکر بیٹری خدمت خلق محترمہ مبارکہ ملک سکریٹری تعلیم سکریٹری تربیت پا پانچ رکنی منتظمہ کمیٹی کا دور ار محترمه سلیمہ میر اہلیہ عبد القادر صاحب محترمه المتر الرقیق پاشا نائبه امته الرفيق ظفر محترمہ نصیر بیگم اہلیہ مرزا ظفر احمد صاحب ( بعد میں امتہ الہ فیق ظفر صاحبہ ) محترمہ امتہ الحمى يجيبى صاحبه سکریٹری اصلاح و ارشاد محترمہ بشری داد در صاحبه ) سکریٹری شعبہ کی بھری محترمه السميع وہاب صاحبه سکریٹری ریشتہ ناطہ محترمہ امتہ النعیم را تا سکر میری صحت جسمانی محترمه انیسه رشید صاحبه سکریٹری وقف جدید تحریک جدید - محترمه رضیه مومن صاحبه سکہ میری ناصرات الاحمدیہ محترمہ ناصره بارون صاحبه سکریٹری اشاعت محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ سکر میری وصیت معتہ یہ امتہ الثانی محمود صاحیہ ایڈیشنل سکریٹری برائے صد سالہ.حش تشکر محترمہ طاہر ناصر شاہ ر محترمہ شیر میں حمید.جن کے لاہور تشریف کے جانے کے بعد ان کی جگہ محمودہ بیگیر امتہ السمیع اہلیہ وہاب احمد صاحب منتخب ہوئیں.م محترمہ امتہ الرفیق ظفر اہلیہ جاوید ظفر اللہ صاحب محترمہ بشری داؤد اہلیہ قریشی داد و احمد صاحب.اس کے علاوہ بشری حمید صاحبہ سکریٹری مال اور مبارکہ ملک صدائیہ سکر میری خدمت خلق کے فرائض انجام دیتی رہیں.۵ حضرت خلیفتہ المسیح الرابع نے منتظمہ کمیٹی ختم کر کے کواچی لجنہ کو دوبارہ لجنہ مرکزیہ کے ماتحت کر دیار اور محترمہ سلیمہ میر کو صدر نامزد کیا.دیگر عاملہ جو منتخب ہوئی یہ ہے.۱۳۹

Page 133

محسنات گرچہ حقیقی قبولیت تو وہی ہے جو خدائے بزرگ وبرتر کی طرف سے عطا ہوتی ہے.لیکن بندوں کو بھی یہ حکم دیا گیا کہ وہ شکر کے ساتھ ایک دوسرے کے کاموں کو سراہا کریں اور ایک دوسر کے مشکور ہوا کریں.لہذا ذیل میں مجاہدانہ تندہی کے ساتھ اپنے فرائض اور ذمے داریاں نباہنے والی کارکنات کے ہیں.بقول حضرت خلیفہ المسیح الثالث اُن کے نام کسی پر احسان رکھنے کی خاطر نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی دُعاؤں کے حصول کے لیے شایع کیے جارہے ہیں.اس کے ساتھ یہ دُعا بھی ہے کہ " اللہ تعالٰی اپنے سا متظام پہ جس پر تاریخ احمدیت پر نیچی ہے.اور اُن اہم تبدیلیوں کو جو اسلام کے عالم گیر غلبہ کے حق میں دنیا میں رونما ہونے والی میں سمجھنے اور ان کے مطابق اپنی ذمے داریوں کو نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.آپ اللہ تعالی کے فضلوں کے وارث نہیں.فرشتے آپ کے کام میں شن پیدا کر نے والے ہوں اور آپ اللہ تعالیٰ کی فوج میں اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق بہترین خدمات بجا لانے والے ہوں.خدا کر ہے کہ ایسا ہی ہو.آمین یا رب العالمین.اس فہرست میں کچھ ایسی خواتین کے نام بھی شامل ہیں جن کے کام کا دورانیہ طویل نہیں مگر ان کی مقتصر خدمات بھی گراں قدر ہیں.اسدالرشید شاسته امتہ السلام شیخ آصفہ اسلم آنسه منصور احمدی بیگم استه الحفیظ بیگم اختر نصیر بیگم مقبول یم خواجہ عبد الکریم بگیم شیخ افتخار رسول ر شیده بینم عبد الحق سلیم بشیر عطیہ محمود رشیدہ ہٹ سلیم شوکت عقیدہ صادق دیشیده نذیر سلیم مبارک بٹ فاخرہ رشید انستر النساء بیگم امته الحفظ اصغر کی بیگم امته الرشید عنتی بیم یاسین انتظار حسین رمنیبہ ا قبال سیده جمیله خاتون فاطمه احسان الهی رضیہ رفیع سیده یادی لطیف فاطمه فاضل اقبال بیگم استه الحنی خالد یم امتہ الحفیظ بھٹی رضیه مومن سیده محموده فرخنده اختر امتہ الحمی سیلی امته الرشید گریم امته الرفيق ظفر امته الثانی سیال استه الموسمن مودود امته المسنين عمیر امینه علوی استرا الجمیل کھوکھر انور بیگم مبارک ارشاد امته الرشید اشرف انور جہاں امته الرشید نسیم انورسلطان امتہ القدیر فرحت انور بیگم ملک فضل حق انیسه محمود استہ العزیز حکیم امته الودود شفیع انیه شیخ امتہ العزیز کم ملک نذیر بشری سعادت بشری فیاض بشری ظفر امتہ العزیز سیف اللہ بشری چغتائی یم میر امان الله رفعت جاوید فهمیده بخاری بیم ڈاکٹر محمد حسین رضوانہ شاہد فهميده مشتاق سیم ممتاز اسلم رفیه محمد سیم اسمان فوزی بیشتر بگم محجبه د شمیم احمد رفیه اقبال فوزیہ منان بیگم سلطان طاہر رو باید منم صادقة شهریا را بجنا ریکا نه باسمه منصوره عزیز حسین صادقہ طاہرہ شریا سیم زاہدہ اکبر صادقه طاهره بیشتر مبارکه انوار نشریه ہاشمی زاہدہ صادق صاد قد کرامت مبارکہ بشیر ثمینہ شکور مبارکه تبسم چراغ بی بی زیده ابراهیم صالحہ صوات سیار که قامتی حامده میشرہ زسیره فاطمه صنه ی رشید حفیظ فیض عالم زیب النساء ملك صفیه مهر امتہ العزیز منیر الدین ام القيوم حمیده راحت تغیره منصور ساره نیم بشارت سونیہ چیر سیار که ملک مجیدہ بقا پوری مجیده کھوکھر ساره نسیم طاہرہ ناصر شاہ محمود احمد استه الرحمن خور جہاں بشری ستاره ممتاز انور طاہرہ وحید محمودہ ادیب امته العليم امنہ الحئی سیٹ بشری سلیم بشر کا رشید خورشید بیگم سعیدہ بیگم عبد الرحیم طیبہ بانو محموده الماس خورشید خانم سیده رفیق طبیب حبیب محمودہ امتہ السمیع امستر الکریم مبارک بشری ریاض خورشید عنایت الله سعيدة سعيار عائشہ امتہ الباری محمودہ بیٹ امتہ المتین کھوکھر بشری چوہدری ڈاکٹر صفیہ خانم سعیده شریف عائشه کشور محمودہ بشیر امتہ الممالک بشری حمید سعيدة معاهد العربية عزیز بیگم محمودہ چو ہدری استه القيوم كبير بلقیس صادقہ استه الرشید قبیل سیم اختر انیر راست ما شاهد رشیده امیر عالم سعیدہ نصیر را جوت عزیزہ بیگم سردار احمد محموده شرکت سامی باشی عزیزه خورشید مرنا جهان سینگ

Page 134

ناصره بگیم را جد بشیر مریم انیسه مریم قادری کے صوفی سیارک مقبول سلیم ہے مقصوره سیم تریشی ممتاز شاه ممتاز فیروزه منصور عزیز منور جہاں بیگم ذکیہ خانم ظفر جہاں بیگم بھٹی منور جہاں بیگ حفيظة الرحمن تالپور امته الشكورا مجد بشارت بیگم ناصر ناصرہ بیگم حافظ بشیر ناصرہ عصمت الله آمته کرامت الله ناصره نسرین ناظره مسعود نز بہت آرا نزہت نازلی انی رشید بیگم انصاری نسیم سرویس در بوش نسیم عنتی نیم ماحد نصیرہ مبارک نسیم استه پر دین مبارک خسرت عابد علی طلعت منصور نفرت نورین ستگیری نیمه پراچہ نیمه فرحت عانه بگیم علی خان بھا کیوی نیمه قدسیه المحسنات إِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْصَنَاتِ مكن أجْرا عظيما.(سورۃ احزاب) جو تم میں سے پوری طرح اخلاص کے ساتھ اور حسن عمل سے نیک اعمال خود اتعالیٰ کے کہنے اور اسوۂ رسول کے مطابق سجالا نہیں گی اللہ تعالیٰ تعمیر قادر نیمه باید نقيب بكم سعيد والده عبد الحم ت بشارت نصورت بیگ نصرت حبي مریم صدیقہ امتہ الہ فیق پاشا بشرى الشمس محمودہ احمد نے ایسا اجران کیلئے مقرر کیا ہے جو عظیم ہے جس نصرت میشید بقیہ صبح پر نصرت رفیق سے بڑھ کر کوئی اجر ہمارے تصور میں نہیں آسکتا.نصرت زین (المصابيح من (۱۳) نضرت الاسلام محسنات محسنہ کی جمع ہے جس کے ایک معنی نصرت جهان مهر وزیر بشیم و سیمه قدسیه دسیمه باشی باجرہ بیگم امتہ الحئی شرافت بگیر منص منصور حضرت مصلح موعود نے یہ بھی تحریرہ کیسے ہیں کہ جو عور تیں اپنے فرائض کو احسن طور پر ادا کرنے والی ہوں.۱۴۱

Page 135

قدمت دین کو اک فضل اللہی جانو کیا اور پیا کرنا اور کا میں لگی پیدا کرنا ہے.یہی سوالن جب جیلی اے سے پوچھا تو آپ نے جواب دیا.اپنے بارے میں سب سے زیادہ بڑا اعزاز مجھے حضرت جمیلہ عرفانی صاحبہ نواب مبارہ کہ بیگم صاحبہ نے دیا.سیرت النبی کا جلسہ تھا.حضرت بیگم درنایہ کی تقریر بھی تھی جب میری تقریر ختم ہوئی تو خود میرے آنسو بہہ رہے تھے ناصرات الاحمدیہ کے قیام کے وقت نصرت گرلز ہائی اسکول میں موجود جب میں بیگم صاحبہ کے پاس گئی تو ان کی آنکھوں سے بھی آنسو بہر رہے ایک نھی بیچی سرخ رنگ کا ناصرات الاحمدیہ کا بیج ملنے پر مسرور ہو کر دن جبان تھے انہوں نے فرمایا.سے ناصرات اور پھر لجنہ کی تنظیم کے ہر پروگرام میں حصہ لینے گیا.سب سے پہلے ظالم تو نے غصب کر دیا تمہارے بعد تو بولنے کو دل نہیں امتہ الھی لائبریری کی سیکر ٹری کا عہدہ ملا.لجنہ مرکز ی کی سب سے کم عمر مبر کو چاہتا، یہ سب سے بڑا خراج تحسین تھا جو مجھے حاصل ہوا.اس کے کونے میں دبے ہوئے دیکھ کر حضرت اللہ ناصر نور اللہ مرقدہ نے دیکھا ہاتھ بعد مجھے کبھی تعریف کی حاجت نہیں ہوئی.پکڑ کر کھڑا کیا اور فرمایا خوب تن کر بیٹھا کر و چھپ کے کیوں بیٹھتی ہو...کراچی لجنہ کی ابتدائی سرگرم کامہ کنات میں آپ کا نام نمایاں ہے.قدرتی طور پر قیادت کا ملکہ پایا تھا.چنانچہ لجنہ کے حلقوں کے قیام انتخابات عاملہ کے محترمہ نصیرہ انور صاحبہ اہلیہ محترم شریف احمد درانی صاحب 194 ء سے خدمات کا آغانہ کیا.کراچی بھتہ کی عمارت کی بنیادی اجلاس بروقت کروا کے ہر حلقہ کو ساتھ لے کہ تیزی سے چلتیں سالانہ ولپور میں لکھ کر طبع کر وا کے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں اور مرکز کے اہم دخانہ میں ارسال کر نہیں.نوجوان تعلیم یافتہ لڑکیوں کی ایک تنظیم جنگ دین الیسوسی ایشن قائم کی میں کا مطمح نظر تر بیت واصلاح اور خدمت خلق تھا.تقریر کی مشق کرانے کے لئے پندرہ روزہ تربیتی کلاس لگائی میں سے کافی ممبرات اینٹوں میں سے ہیں.ناظم آباد، پی ای سی ایچ ایس، اور ماڈل کالونی میں نے استفادہ کیا اور لجنہ کراچی کو تربیت یافتہ مقررات ملتی رہیں شاد کی حلقے قائم کئے.تربیتی کلاسوں اور درس کے استمام اپنے مکان پر کئے ہی نہ جنگ کے دوران ہنگامی طور پر انتھک کام کیا.لیڈی ڈفرن ہسپتال اور میں مرکز سے سند خوشنودی ملی اس کے علاوہ حسن کارکر دگی کے میں نزیر جنگ کی تربیت کا انتظام کیا فوجیوں کے لئے سویٹر، ٹوپیاں اور ان گنت انعامات حاصل کئے سر 1947 ء میں ضلع کراچی کی سیکرٹری مال کی دیگر تخالف جمع کر کے پھیٹ بنائے ایک جلسہ منعقد کروا کے اس اہم ملکی ضرورت کے پیش نظر اپنی خدمات پیش کیں.اور مال کے سارے کام کو ضرورت کے لئے چندہ کی تحریک اس موثر اندانہ میں کی کہ خواتین نے باضابطہ بنایا.ہر نومبر کو بلیک میں اکاؤنٹ پہلا کھلوایا ، ہر حلقے زیورات اور نوٹوں کی بارش کر دی.سٹیٹ بنک کے منیجر صاحب نے میں سیکرٹری مقرر کی.کچھ رقم جمع ہوئی تو دس دس ہزار کے دو فکس ڈپارٹ کہا کہ پہلی مرتبہ اتنا سونا ہمارے پاس آیا ہے.۱۹۷۲ میں سیرۃ النبی کے سرٹیفکیٹ خریدے جو شاہ میں کیش کروا کے نہیں ہزار روپے کی رقم کے جلسہ کا پروگرام کراچی ریڈیو نے ریکار ڈ کیا اور بعد میں جمیل عرفانی صاحبہ حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی خدمت میں برائے اشاعت قرآن پیش کی گئی کی تقریر کا کچھ حصہ نشر کیا.1970ء کی جنگ کے دوران افریقہ سے ایک مال کے علاوہ خدمت خلق کا بہت کام کیا جس میں حمیرات کے عطیات پرانے خط موصول ہوا کہ ریڈیو پاکستان سے سواحیلی میں پروگرام نہیں ہوتا جس کی کپڑوں کو دھو کر مبین وغیرہ ٹانک کہ استری کر کے پیکٹ بنانا بھی شامل ہے.وجہ سے بی بی سی پر انحصار کرنا پڑتا ہے.جمیلہ عرفانی صاحبہ کی تحریک پر میں کیسٹ پروگرام کے کسیلا سیکشن کی انچارج نہیں ان میں شعیر ریڈیو پاکستان نے سوا خیلی پر وگرام شروع کر دیا جو اب بھی جاری ہے.ان اشاعت کا سیلہ سیکشن سنبھالا ہوا ہے.اس فقال عہدے دالہ کی صحت کے کارناموں کی فہرست طویل ہے.سب سے اہم بات کراچی لجن میں پتھر رک - طمانیت کے لئے دل سے دعا نکاتی ہے.۱۴۲

Page 136

وقف جدید وقف جدید حضرت خلیفہ المسح الثالثت رحمہ اللہ تعالٰی نے بچوں اور بچیوں کو بھی اس بالی جہاد میں شریک فرمایا ہے.پاکستان کے طول عرض میں بھی بفضلہ تعالی ۱۹۵۸ء سے ہی وقف جدید کے ذریعہ دیہی جماعتوں کی تعلیم و تربیت کا عظیم کام جاری ہے اور خلافت رابعہ کے بابرکت انقلابی دور میں ایک کام میں غیر معمولی دست پیدا ہوئی ہے.اور اس کے خدمت کی نشانی یہ آمد ہوا ہے ہیں مانیں اور مالی وسائل کی کی کو پورا کرنے اور کام میں تیزی پیداکرنے کے لئے سیدنا کی بابرکت تحریک سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی حضرت خلف ابي الرابع ايده الشر تعالی بصرہ العزیز نے ۱۹۸۶ء میں اس تحریک کو نے ۱۹۵۷ء میں دیہی جماعتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے جاری فرمائی.سید تا حضرت اقدس مسیح موعود عالمگیر دست عطا فرمائی الان کار حین کےلئے اپنے اب ان میں ہو یا ایک انتہا کرتے ہوے رات یہی ہے محض اللہ تعالی کا فل ہے کہ وقف جدید کے ذریعہ سعید روحوں کو قبول احمدیت کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ چندہ دہندگان لین اشاعت دین کے لئے..ہر جگہ واعظ ، مناظر مقرر ہوں اور (وہ) بندگان خدا کو دعوت حق کریں.نشان آسمانی ها و تبلیغ رسالت جلد دوم متا) وقف جدید کی تحریک میں حضور کی اسی خواہش کی تکمیل کار فرما ہے.جیسا کہ سیدنا حضرت مصلح موجود تے اس یا برکت تحریک کے اجراء کے سلاد میں فریا.تو جوان اپنی زندگیاں وقف جدید کے لئے وقف کریں.اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مشابہت حاصل کریں اور حضرت معین الدین چشتی حضرت شہاب الدین سہروردی اور حضرت افعیل شہید رحمہ اللہ علیہم اجمین جیسے اولیاء و صوفیاء کے نقش قدم پر چلیں اور روحانی طور پر ویرانوں کو آباد کریں مسلمانوں کو تعلیم دیں.قرآن کریم اور حدیث پڑھائیں.اور اپنے شاگرد تیار کر کے دور مقامات پر پھیلائیں اور نوکر اسلام پھیلائیں.د افضل بر فروری ۶۱۹۵۸ ) تحریک وقف جدید کی اہمیت واضح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہوکر رہے گا میرے دل میں چونکہ خدا تعال نے یہ تحریک ڈالی ہے اس لئے خواہ مجھے اپنے میکان بیچنے پڑیں کپڑے بیچنے پڑیں نہیں اس فرض کوتب بھی پورا کروں گا مخداتعالی ان لوگوں کو الگ کر دے گا جو میرا ساتھ نہیں دے رہے.اور میری مدد کے لئے فرشتے آسمان سے اتارے گا " (الفضل ، جنوری ۶۱۹۵۸) یہ با برکت تحریک افراد جماعت احمدیہ سے دواہم مطالبے کرتی ہے را قول یہ کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی دیہی جماعتوں کی بہترین جنگ میں تعلیم و تربیت کرنے کے لیے خدمت دین کا بے لوث جذبہ رکھنے والے زیادہ سے زیادہ معلمین فراہم کیے جائیں.دوئم یہ کہ تعلیم و تربیت کے اس عظیم مشن کو جاری و ساری رکھنے کے لیے وقف جدید کو مالی اعتبار سے مضبوط کیا جائے.اول الذکر مطالبہ تو جماعت کے صرف بالغ افراد سے تعلق رکھتا تھا جبکہ موتر الد کہ مطالبہ کو پورا کرنے کے لیے اور کارکنان کو اس کی جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود فرماتے ہیں."اسلام اس بات کو کہتے ہیں کہ کلی خدا کے لئے ہو جاتا اور اپنا کچھ باقی نہ رکھتا." ( اسلامی اصول کی فلاسفی ) اسلام نام ہے خدا کے آگے گردن جھکا دینے کا." ( ملفوظات جلد ششم) اسلام اس بات کا نام ہے کہ قرآن شریف کی اتباع سے خدا کو راضی کیا (ملفوظات جلد خشم) بارے." اسلام بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو اور شکر کرو." ( ملفوظات جلد سوم ) فی الحقیقت اسلام ہی ایک زندہ نہ ہب ہے." ( ملفوظات جلد سوم ) " اسلام ایک ایسامذہب ہے جو اپنی اشاعت میں تلوار کی مدد کا ہر گز محتاج نہیں." ( ملفوظات جلد سوم ) ۱۴۳

Page 137

ناصرات کراچی ماضی حال سید نا حضرت مصلح موعود کی دعا بچوں کے لئے (بحوالہ الفضلی سالانہ نمبر ۱۹۷۰ء) "اے ہمارے پیارے پیدا کرنے والے خدا ہم اقرار کرتے ہیں کہ تو ایک ہے.تیرے سوا کوئی خدا نہیں.ہم تیرے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے اور تیرے مامور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام احمد قادیانی آپ پر سلامتی ہو) پر یقین رکھتے ہیں.تو ہمارے دل میں اپنی محبت پیدا کر اور اپنے مکموں پر چلنے کی ہمیں توفیق دے.ہمیں دین کا علم سکھا اور قرآن جو تیری کتاب ہے پڑھا.ہمارے دل میں ماں باپ کا ادب ڈال.ہم اپنے بہن بھائیوں اور دوسرے رشتے داروں سے پیار کریں اور ہمیں گالیاں دینے لڑنے ، بے وجہ غصہ کرنے چوری کرنے جھوٹ بولنے ، بے شرمی کی باتیں کرنے سے بچا.ہم دلیر ہوں ڈرپوک نہ ہوں.ہمیں علم سیکھنے کی توفیق دے.ہم لکھے اور ست نہ ہوں.ہم اپنے سے غریبوں اور کمزوروں پر رحم کرنے والے ہوں.ہم حریص اور لالچی نہ ہوں.اے اللہ ہمارے بزرگوں پر رحم کر - احمدی جماعت کے امام پر اپنا فضل کر اور ان حاکموں کے ماتحت ہمیں بھی دین کے کام کرنے کی توفیق دے اور اسلام کو دوسرے دینوں پر غالب کر.اے اللہ ہماری عمروں اور محنتوں میں برکت دے اور تو ہمیشہ ہم سے محبت کیا کر.آمین تاریخ ناصرات الاحمدیہ کراچی میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں.حضرت مصلح موعود کی بیدار مغز امامت میں ۱۹۲۸ء میں احمدی بچیوں کی تنظیم ناصرات الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا.یکیں افراد کہتی ہوں کہ اپنے مذہب قوم اور وطن کی خدمت کے کراچی میں ناصرات کی ابتدا ۱۹۵۵ ء سے ہوئی.بیگم چوہدری محمد عبد اللہ خان صاحب اور بیگم مولانا عبد المالک خانصاحب نے یہ بنیادیں لئے ہر وقت تیار رہوں گی نیز سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی.مندرجہ بالا عہد ہے احمدی بیچیتوں کا ہجو ایک زندہ اور فعال حمامات رکھیں.ناصرات لجنہ کے اجلاسوں میں ہر جگہ شامل ہوتی تھیں مگر حالتوں میں کی ابتدائی تربیت گاہ سے صحیح معنوں میں احمدیت کی ناصرات بنتی ہیں.علیحدہ اجلاسوں اور باقاعدہ ریکارڈ رکھنے کا کام ابتدائی طور پر سعید منزل بلاشک وشبہ احمدی ماں کی گود تربیت کا اولین سکول ہے.سات سے لالوکھیت اور جیکب لائن میں شروع ہوا.پندرہ سال تک کے بچوں کی تربیت میں والدین کے ساتھ جماعت کی تنظیم ۸۹ - ۱۹۵۸ء میں ناصرات کے پہنچا اس اجلاس ہوئے.اور بھی شامل ہو جاتی ہے.۱۳۷ بیچیوں نے امتحان میں شرکت کی.

Page 138

+1909-4.اء میں بیگم مولانا عبد المالک خانصاحب نے مرکزی امتحان میں ، بچیاں شامل ہوئیں.معیار اول میں راشدہ تنویر متعدد دورے کئے ! اور پندرہ حلقوں میں ناصرات کے باقاعدہ اجلاس اڈل اور مسرت کلتوم سوئم رہیں.بچیوں نے لٹریچر تقسیم کیا.۱۰۸ را جلاس ہونے لگے.اس سال انصار اللہ کے اجتماع کے موقع پر ناصرات کے لئے ہوئے.مضمون نگاری کا مقابلہ ہوا.سالانہ اجتماع جلسہ سیرت النبی منعقد ایک مقابلے کا امتحان رکھا گیا تھا.اس میں 19 ناصرات شریک ہوئیں.ہوئے.حلقہ رامسوامی ، جیکب لائن.جہانگیر روڈالیٹ اور سعید منزل دو بچیوں نے وظیفہ حاصل کیا اور چار بچیوں نے انعامات حاصل کئے.کا کام بہتر رہا.نماز با ترجمہ کا امتحان لیا گیا.مرکز کے امتحان ہمارا آقا میں ناصرات نے پیشگوئی مصلح موعود، سیرت حضرت مسیح موعود کے امتحان دیئے.بیچناں شامل ہوئیں.موخرالذکر امتحان میں زاہدہ نے پاکستان بھر میں دوم پوزیشن حاصل کی.پاکستان بھر میں دوم پوزیشن رہی.معیارہ دوم میں سلمی آفتاب نے تیسری پوزیشن کی کل ۱۵۰، اجلاس ہوئے.۶۶ ۱۹۶۵ء کار کردگی کے لحاظ سے عزیز آباد اول.ناظم آباد ۶۱ - ۱۹۶۰ ء میں محترمہ شوکت گوہر صاحب کیک برای ناصرات مغرد ہوئیں، بجرود دوم.اور سعود آباد دردستگیر سوم ہے.حضرت نواب میاد کہ بیگم صاحبہ محنت سے ہر شعبہ میں کام شروع کیا.گیارہ حلقوں میں ۱۵۰ر ناصرات جیسڈ کی نے ناظم آباد کے جلسہ سیرت النبی کی صدارت فرمائی تمام حلقہ جات میں گئیں.علقوں کے اجلاسوں کے علاوہ اجتماعی طور پر چار جیسے کئے.۶۵ ناصرت در اجلاس ہوئے.مضمون نگاری کا مقابلہ ہوا.نماز باترجمہ جاتی تھیں اور ہو سکے یہ ہی تھیں.قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے والی ۱۹۶۷-۶۸ء تیجنید ۱۵۰ متقی اجلاس ۱۴۶ ہوئے حلقہ عربیہ آباد چار تھیں.اس سال نصاب چھپوایا.خدمت خلق اور دستکاری کی عملی اول، لیاقت آباد دوم اور دستگیر کالونی سوم رہا.قرآن پاک سکھانے کے لئے ساس لگائی گئی یہ کتب سلسلہ احادیث اور دعائیں سکھائی گئیں.احادیث نما نہ سالانہ اجتماع منعقد ہوا مرکز کی طرف سے سیرہ حضرت مسیح موعود ۷۱ - ۱۹۷۰ ء دوران سال گیارہ حلقہ جات میں کام ہوتا ، با تجدید تربیت دی گئی.۶۳ ۱۹۶۲ء میں اجلاس ہوئے ایک جلسہ سیرت النبی اور سالانہ اور دینی معلومات کے مقابلے ہوئے.اجتماع منعقد ہوا.اس میں مضامین رکھنے کی تربیت دی گئی.جس میں ۳۹ بچوں نے حصہ لیا.کتب حضرت مسیح مود کے نام کھلے، الہامات ، در نمین اسلام محمود اور راہ ایمان کے امتحان میں منصورہ انجم اور بشری قادر اول آئیں.سے نظمیں یاد کروائی گئیں.مرکز کی طرف سے منعقدہ امتحان میں معیار اول میں نمبر ۱۰۰ ، اور معیار دوم میں بر ۹۹ طالبات کامیاب ہوئیں.ایک بچی ۲۲۴ ہوگئی.سیرۃ النبی کے جلسے ہوئے.نے اپنی استانی صاحبہ کو احمدیت سے روشناس کرایا.ایک بچی نے ایک ۷۲ - ۱۹۷۱ء تجنید ۲۶۸ ہوگئی.سیلاب نہ دگان کی مدد کے شیعہ بچی کو قرآن پاک پڑھایا.کئی بیٹیوں نے اپنی ہم عمروں کے اعتراضات لئے پیکٹ بنائے گئے.خانہ داری دستکاری اور ابتدائی طبی امداد کی کھائیں کے جواب دیئے.خوبصورت چیز یں تیارہ کر کے نمائش لگائی گئی.سغرباء کی لگائی گئیں.سالانہ اجتماع نہ بوہ میں تین بچھیاں شامل ہوئیں.کراچی کی دوئم مدد کرنے کے علاوہ فری ٹیوشن دی گئی.چار ناخواندہ بچوں کو پڑھایا گیا.پوزیشن رہی.اوپر جس اجتماع کا ذکر ہے اس میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ ۱۹۷۲۷۳ء ۱۰۶ اجلاس ہوئے سختید ۲۲۴ تھی.سالانہ صاحبہ نے شرکت فرمائی.اس میں جمیلہ عرفانی صاحب کا تیارہ کر وایا ہوا پرو گرام اجتماع میں حضرت سیدہ ہر آیا صاحبہ نے شرکت فرمائی.ناصرات کو چڑیا گھر دھنگ پیش کیا گیا.سات رنگوں کے دوپٹوں میں سات اخلاق پر تقاریر اور دوسرے تفریحی مقامات کی سیر کرائی گئی.دست کاری کی نمائش میں تیار شد شامل تھیں.ایک غیر از جماعت سوسائٹی کے مرتب کردہ تقریری مقابلے میں اشیاء کے معیار کو حضرت سیدہ ام متین صاحبہ اور حضرت سیدہ قہر آیا صاحبہ نصرت عبد المالک اور امتہ الرشید نے انعامات کئے.اس سال ناصرات نے سراہا اور سیکرٹری نمائش متوبر جہاں کو تعریفی ریمارکس عطا فرمائے.جلسہ نے پاکستان بھر میں اول پوزیشن حاصل کی.سیرة النبی کی صدارت حضرت سیدہ تو اب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے فرمائی.۷۵ ۱۹۷۴ و ضلع کراچی کو 4 قیادتوں میں تقسیم کیا گیا.ہر ۶۴ ۱۹۶۳ ء میں خوبصورت سر جھنڈ تیار کیا گیا جس پر ستارہ اسی کے ساتھ قوموں کی زندگی آئندہ نسلوں کی صحیح تربیت پر منبی ہے، تحریر تھا.قیادت کے لئے ایک نگران ناصرات مقرر ہوئیں.۱۴۵

Page 139

اس سال سجنید ۳۹۰ رہی.نصاب اور معلومات دینیہ طبع شامل ہوئیں.تعطیلات میں تربیتی کلاسز لگائی گئیں.تحریک ہوت الحمد کروائی گئیں.تین بڑے جلسے ہوئے، سالانہ اجتماع کراچی کے موقع پر میں کراچی کی بچیوں نے ۳۷۲۴ روپے چندہ دیا.ہر ماہ کی تیسری جمعرات قیادت نمبر ایک، دو، تین علی الترتیب اول، دوم، اور سوم یہ ہیں.کو ضلع کراچی کی نگرانات ناصرات کی میٹنگ احمدیہ ہال میں جلائی گئی.قیادت نمبر ایک نے دیوہ سے اقول انعام لیا.اجتماع کی مہمان خصوصی ۱۹۸۳۸۴ء میں تجنید ۶۷۰ ریکارڈ کی گئی مرکزی امتحان حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ تھیں.علیحدہ علیحدہ ہر قیادت نے میں کراچی کے حالات خراب رہنے کی بناء پر بہت کم ناصرات شامل مفصل رپورٹ دی.جس میں سب سے خوشکن حصہ خدمت خلق بچتوں نے سودا سلف لا کر دیا.کپڑوں پر تر پانی کی گئی گوٹا لگا کر دیا.عین ہو سکیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے تھی مجاہدات کی تعداد بڑھ کر سود ہوگئی یا.غیر احمدی اور بجٹ / ۸۳۰۰ روپے ہو گیا.فالحمد للہ.قیادت تمیرام کی اصرات بچوں کو پڑھایا.بیماروں کی تیمار داری کی.راستوں کی صفائی کی بارش نے مسجد بیت الہدی میں ایک ہزار روپے پیش کئے.بیرونی مراکز سکا پانی گلیوں سے ہٹایا.زخمیوں کی مرہم پٹی کی.کتب دوسروں کو کی تحریک میں ناصرات نے تقریباً دو ہزار چندہ دیا.ایک بچی عزیز آباد استفادہ کے لئے دیا.بسوں میں دوسرے مسافروں کو جگادی پڑھیوں کی امت العربیہ نے اپنی طلائی بالیاں اورنگی ٹاؤن کی خود نیتہ الاسلام نے.ابر د ہے کے پرائز بانڈ چندہ میں دیئے.ہر ماہ کی تیسری پیر کو نگران ناصرات ضلع کراچی کی میٹنگ احمدیہ ہال میں بلائی جاتی ہے.ضلع کراچی کو بہترین کارکردگی کی بسته خوشنه دی ملی.کو خطوط لکھ کر دیئے اور پانی بھرنے میں مدد دی.۷۶ ۱۹۷۵ء میں کل تجدید - ہ تھی مراکز تعلیم القرآن ۱۵۰ تھے.زیر تعلیم بچے ۳۴۸ تھے.ہر ماہ کے دوسرے جمعہ مجلس عاملہ کی میٹنگ بلائی گئی.۲۶۷ بچیاں امتحان میں شریک ہوئیں.نماز کی ڈائریاں چیک کی گئیں.دوسکتا بچے طبع کر وائے گئے.جیسے اور اجتماعات منعقد کئے گئے.ضلع کراچی کی ایک بچی نے مرکزی مقابلہ مقالہ نویسی میں دوم دوسری بیٹی نے چہارم پوزیشن حاصل کی.۱۹۸۴-۸۵ء تجنید ۳.تھی ضلع کراچی کے حالات خراب ۸۰ - ۱۹۷۹ء میں تخلیہ ۵۳۵ ہوگئی.۱۸۵مرکز تعلیم القرآن ہونے کی بناء پر صرف ۳۷۰ بچیاں مرکزی امتحان دے سکیں.ضلع بھر میں میں ۶۳۳ بچے قرآن مجید پڑھ رہے تھے.مرکزی امتحان میں ۲۳۰ بچتیاں ۵۰ جلسہ ہائے سیرت النبی ناصرات کے منعقد ہوئے ضلع میں بعض قیادتوں شامل ہوئیں.مرکز میں فضل محمر تعلیم القرآن کلاس کے لئے کراچی سے میں پندرہ روزہ اور بعض میں ہفتہ وار اجلاس ہوئے.جینے کی تیری جملات ۲۵ بیچتیاں شریک ہوئیں.ہر قیادت میں سالانہ اجتماعات منعقد ہوئے.کو نگرانات - ناصرات کی میٹنگ احمدیہ ہال میں بلائی جاتی رہی.شعبہ ۱۹۸۰-۸۱ء میں تجنید - ۵۵ تھی.ضلع میں قیادتوں کا نظام اور قیادتوں سے بڑھ کر سات قید توں میں تقسیم کر دیا گیا.تعلیم القرآن میں خدا کے فضل سے تقریب ۱۹۰، مراکز میں بچیاں قرآن شریف کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں.تعطیلات میں ضلع بھر کے لئے اپنی اپنی قیادتوں ۸۲ - ۱۹۸۱ء میں تجنید ۵۸۷ ناصرات تھی.مرکزی امتحان میں تربیتی کلاسیں لگائی گئیں.سختی مجاہدات کی تعداد خدا کے فضل سے میں ۴۳۷، ناصرات نے شرکت کی.سالانہ اجتماع ناصرات الاحمد مبین عقد سے بڑھ کر ۶۲ تک پہنچ گئی.الحمد للہ.ہوا جس میں.ہم بیٹوں نے شرکت کی.ہر ماہ کے دوسرے جمعہ کو احمدیاں میں نگرانات اور ناصرات کی میٹنگ بلائی گئی اور مرکز سے آمدہ ہدایات پہنچائی گئی.۸۶ - ۱۹۸۵ء میں تنجنید ۱۰ ہوگئی.مرکز کی ہدایت پر قیادتوں کی سطح پر امتحان لیا گیا.اور سندات بھی ضلع نے ہی چھپوا کر تقسیم کیں.ناصرات کو انعام تقسیم کئے گئے.ضلع میں کم از کم - 4ر جلسہ ہائے سیرت النبی منعقد ہوئے ۱۹۸۲۸۳ء میں تجنید ۶۱۰ ہوگئی.مرکزی امتحان میں ۵۲۰.ضلع میں کراچی کا سالانہ اجتماع احمدیہ ہال میں صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ ضلع بچیاں شامل ہوئیں.جماعت کی طرف سے وقف جدید کے لئے ۱۰۰ کراچی نے بے حد سراہا پوری قیادتوں میں مرکزی لائحہ عمل کے مطابق اجتماع یا نداند چندہ دینے والے احمدی بیچوں اور بچیوں کی بابرکت تحریک منعقد ہوئے.جن میں نگران ناصرات شامل ہو کہ ہدایات دیتی رہیں.نتھی مجاہدات کے نام سے شروع ہوئی.جس میں خدا کے فضل سے ،، ناطرت شخصی مجاہدات کی تعداد ۲۶۰، ہو گئی.104

Page 140

جشن صد سالہ کے سلسلہ میں مرکز میں منعقد ہونے والی نمائش کے ۸۷ - ۱۹۸۶ء میں تجنید ۲۰ تھی.شہر بھر میں شدید مخدوش اُن تک پہنچاتی ہیں.حالات کی بناء پر بعض علاقہ جات میں بچیوں کو اکٹھا نہیں کیا جاسکا.تاہم ۵.بچیاں امتحان میں شامل ہوئیں.ہر ماہ کی پہلی پیر کو ضلع بھر کی نگرانات لئے ضلع کراچی کی قیادت نمبر ۱ ۲ ۱۰۰۶۰۴ کی طرف سے مختلف اشیاء دیوہ کی میٹنگ ہوتی رہی تمام قیادتوں میں سالانہ اجتماعات مرکزی لائحہ عمل بھیجوائی گئیں.کے مطابق ہوئے.نفتی مجاہدات خدا کے فضل سے ۳۰۰ تک پہنچ گئیں سالانہ امتحان ضلع کراچی نے خود پر چہ جات مرتب کر کے لیا.جلسہ ہائے سیرت النبی ۶۵، ہوئے.ربوہ میں تعلیم القرآن کلاس میں بیچتیاں امتحان میں شامل ہوئیں.میٹرک کی فارغ شدہ طالبات نے شرکت کی.کراچی میں سات قیادتوں کو مزید تقسیم کر کے گیارہ قیادتیں بنائی گئیں اس کے ساتھ ہی ناصرات الاحمدیہ کا کام اسی تناسب سے پھیل گیا.۱۹۸۷-۸۸ء میں تختید 10 نمبرات تھی.کراچی میں پرچہ جات تمام ضلع میں دوا دو مرتبہ تربیتی کلاسز لگائی گئی ۵۲۵ مختلف قیادتوں میں سالانہ اجتماعات منعقد ہوئے بعض قیادتوں میں حالات کی خراب کی بناء پہ اجازت نہیں مل سکی.دوران سال ضلعی نگران نے کم از کم ۲۰ دورہ جات کئے.تیار کر کے امتحان لیا گیا اور نتایج مرکزہ کو ارسال کئے گئے نا سندات وہاں سے ۲۸ بجنوری نشده کو سالانہ جلسه لجنہ اماء الله و ناصرات الاحمدیہ (احمدیہ پال آسکیں سالانہ امتحان میں ۵۲۰ بچیاں شامل ہوئیں تمام قیادتوں نے سالانہ میں منعقد ہوا.بہترین کار کردگی پر عاملہ ناصرات الاحمدیہ کو انعامات دیئے اجتماع مرکزی لائحہ عمل کے مطابق منعقد کروائے اور تمام اجتماعات میں گئے جس میں امہات سے تعاون کی اپیل کی گئی.ضلعی نگران نے شمولیت کی.قیادت نمبر ۲ میں جہاں کام کی رفتار کانی نشست تھی.تسلی بخش ترقی ہوئی اور سالانہ اجتماع خاصا اچھا رہا.سختی مجاہدات ۳۲۵ ہو گئیں.فالحمد للہ علی ذالك ضلع بھر میں کم از کم دو مرتبہ مرکزی نصاب یاد کر وایا گیا.شخصی مجاہدات کی تعداد اللہ تعالے کے فضل و کرم کے ساتھ بڑھتے ہوئے.۳۵ور تک پہنچ گئی.سالانہ اجتماع مرکز بر ۱۹ ء میں خدا تعالے کے خاص فضل و کرم سے اب صرف ننھی مجاہدات کا بجٹ ہی ۳۰,۰۰۰ سے بڑھ گیا....نگران ناصرات المحمدیہ ضلع کرا چی سید ناصرہ لطیف کو بہترین کارکردگی اپیل دیا گیا.جب کہ پہلے پورے ضلع کا وقف جدید کا بجٹ ۱۰۰۰ ۵ تک تھا.۸۹ - ۶۱۹۸۸ تجنید ۰۷۹۰ صو۲ ۲۴۰ مارچ ۱۹۸۹ ء کو ضلع کراچی نے احمدیہ صد سالہ جشن شکر منایا اور اس کے بعد گویا پورے ضلع میں جشن ہائے تشکر کا بھر پور سلہ شروع ہو گیا.تمام قیادتوں میں ناصرات الاحمدیہ نے علیحدہ یا لمجنہ اماء اللہ کے ساتھ مل کر بہترین اور خوبصورت رنگ میں بجشن تشکر منایا.ضلع کی سطح پر ناصرات الاحمدیہ کا عظیم الشان جشن نشتر ۱۳ بیوائی ۱۹۸ء کو منایا گیا جو انتظامی لحاظ سے اور معیار کے اعتبار سے انہی ٹی کامیاب تھا.صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی محتر یک سلیمہ میر صاحبہ نے انتہائی خوبصورت الفاظ میں جلسہ کو سراہا بنی نوع سے سچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ ہر ایک راہ یکی کی اختیار کرو.نہ معلوم کس راہ سے تم مقبول کئے جاؤ.تمہیں خوشخبری ہو کہ قریب پانے کا میدان خالی ہے.ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات ہیں سے محمد راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں.وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازے میں داخل ہونا ہرماہ کی پہلی پیر کو نگرانات ناصرات ضلع کراچی کی میٹنگ منعی نگران چاہتے ہیں اُن کے لئے موقع ہے کہ اپنے بوم دکھلائیں اور منڈا سے انعام پاویں " کے ساتھ احمدیہ ہال میں 11 بجے ہوتی ہے مرکز سے آمدہ ہدایات نگرا نات کو پہنچائی جاتی ہیں جو اپنی اپنی قیادت میں سیکر ٹرینہ کی میٹنگ بلا کہ یہ ہدایات ( الوميت ما ) ۱۴۷

Page 141

قرآن پا ک کم از کم ایک پارہ حفظ کرنے والی غیر نصابی سرگرمیوں میں امتیاز ۵ ار L A خوش نصیب ناصرات و جیبہ طاہر بہت ڈاکٹر داؤ د احمد طاہر قیادت نمبر ۲ بشری پروین بنت فضل احمد صاحب راسته الروف سینه چوبدر می نور مستجاب احمد صاحب احمد العزيز ابر لجنہ میں ہیں لیکن ناصرات میں کی عمر میں حفظ کیا) بشر کی رشید بنت چوہدری عبدالرشید انور صاحب لراب لجنہ میں نہیں لیکن ناصرات کی عمر میں حفظ کیا) شیده ارم بنت حمید احمد صاحب صائمہ کنول بنت چوہدری عبد الرشید انور صاحب ساجدہ پروین بنت فضل احمد صاحب ور عطینہ العلیم بنت محمد ابراہیم تمس صاحب مصباح اشفاق بنت اشفاق احمد صاحب ۱۲ غزالہ گل بنت چوہدری نصیر الدین صاحب خالدہ اسحق صاحبہ بنت محمد اسحق صاحب منصورہ غنی بنت ڈاکٹر عبد الغنی صاحب ۱۳ امتہ القدیر مالک بنت عبد المالک صاحب بورڈ کے امتحانات میں امتیاز امته الصبور قریشی بنت قریشی ناصر احمد صاحب قیادت نمبر ا میٹرک بورڈ میں اول پوزیشین - ۲ گولڈ میڈل حوله خضر بنت سید سیلی خضر صاحب قیادت نمبر ا میٹرک میں تیسری پوزیشن عابدہ پروین بنت فضل احمد میٹرک میں دوسری پوزیشن قیادت نمیبرا لم P ار صائمہ مبشری بنت شیخ شریف احمد صاحب قیادت نمبر ۴ آل پاکستان پوسٹ کر مقابلہ میں اسلام آباد سے پہلا انعام اور صدارتی ٹیلنٹ اسکالرشپ) مریم باسط بنت عبد الباسط صاحب - آل کراچی پینٹنگ مقابلہ میں گولڈ میڈل.قراة العین بڑا بنت مبارک احمد بٹ صاحب، قیادت نمبر مقابلہ تقریر حضرت رسول گریم بحیثیت سیاستدان او ۱۳۱ اسکولوں کے درمیان مقابلہ میں.دوسرا انعام حاصل کیا.ٹیبلو میں خصوصی انعام اور سر ٹیفکیٹ سمیرا حبیب بنت حبیب اللہ صادق صاحب قیادت نمبر 1 اد بین الکلیاتی مباحثہ لعنوان را آن کا نوجوان ہے قصور ہے! موافقت میں تیسرا العام.(ب) تقید سوفیکل ہال میں مقابہ تقاریبہ.بعنوان " السلام نے نادہ ہوتا ہے ہر کو بلے کے بعد دوسرا العام (ج) یوم آزادی پر تقریری مقابلہ - بعنوان " صد شکر که هم آزاد ہیں پہلا نعام.IPA

Page 142

11934-06 ۵۸ - ۱۹۵۷ء ۶۱۹۵۸ - ۵۹ 1909-4.+1940141 فهرست عهد داران ناصرات الاحمد کراچی محترمہ بیگم چوہدری عبد اللہ خانصاحب محترمہ بیگم مولانا عبد المالک خانصاحب 4 " 11 محتربه شرکت گوہر صاحبہ 4 4 " 4 4 V است الودود کھو کھر صاحبہ محترمه خود شهید عطاء صاحبه محترمہ البتہ الودود کھوکھر صاحبہ 4 *1941-47 ۶۱۹۶۲۶۳ +1945-40 >1940-44 +1944-46 41946-47 >1945-49 ١ - ١٩٤٠ء ۶۱۹۷۱-۷۲ مطابق سال نگران ضلع نگر ان قیادت مکران گران نگران نگران نگران نگرات نمبر تے قیادت نمبر ۲ قیادت نمبر ۳ قیادت نمبر ۲ قیادت نمبر ۵ قیادت نمبر 4 قیادت نمبر ۷۷ - ۶۱۹۷۳ بشری سعاد های بشری سعادت صاحبه مریم ناز صاحبہ بیگم ملک بارک حمد صادق قمر صاحبه محموده بست های تازه فیروزه مصاحبه اس وقت آ ہی قیاد نہیں ۱۴۹ فهمیده اختر صاحبه را در شہوارہ صاحبہ V جامده مبشر صاحبه مبشره قادر صاحبه بستری محمود صاحبه 1960-60 4 1960-64 +1964-66

Page 143

مطابق سال نگران ضلع نگران نگران نگران نگران نگران نگران نگران قیادت نمبرا قیادت نمبر ۲ قیادت نمبر ۳ قیادت نمبر ۴ قیادت نمبر ۵ قیادت نمبر قیادت نمبر 6 ۱۸ - ۱۹۷۷ و بشری سعاد صاحبه حامده بیشر مصاحبه مبشره قادر صاحبه بشری محمود صاحیہ صادقہ قمر صاحبہ در شہوار صاحبہ ممتاز فیروزہ صاحبہ اس وقت 4 ہی 196A-29 " ۸۰ - ۱۹۷۹ء صادق قمر صاحبه غزاله پروین صاحبه مبشره تا در صاحبہ حامد میشره صاحبه نعیمه قادر صاحبه " لا قیادتیں تھیں " محموده امتها سمیع صاب موکو امته الجمیل کھو کھر منان 4 بہت یا همین مناسب سعدیہ حفیظ صاحبه محموده ادبیر صاحبہ تمرینه با شمی مصاحبه میبارد که بیشیر صاحبه بشری چغتائی صاحبہ امتہ الرشید صاحبه مبارکه بشیر صاحبه امته الحنان صاحبها میشه لطیف صاحبه مرار " المحين صاحبہ " 4 محترمہ عامر فرمتان اور اب آفر صاحبہ کام کر رہی ہیں.4 " نصرت نورین و به نام بیگم مبارک احمد هاب مستانه فیروزه صاحیه بیگ مبارک احمد به هنا نصرت نورین صاحیم امنه القدير فرحت صلحية محترمہ فریده حسن صاحبہ محترمہ فرمانا ہم صاحبه " محترمہ بلقین گرم مسالہ محترمہ سامی حمید صاحبه محترمه بخشنده انیس " محترمہ شاہانہ وقار " ۶۱۹۸۱ ۸۲ ۶۱۹۸۲ ۸۳ ۸۴ - ۱۹۸۳ ۶ متر ناصره لطیف ها مرید ۱۶۱۹۸۴-۸۵ ۶۱۹۸۵-۸۶ 11 1914-AL $1916-^^ ۶۱۹۸۸-۸۹ مطابق سال نگراتی قیادت نمبر ۸ نگر ان قیادت نمبر ۹ نگرانی قیادت نمبر را نگرارتی قیادت نمبر 11 ۸۵ - ۱۹۸۴ و امتہ المومن کھو کھر صاحبہ بشری بٹ صاحبہ تمانه فیردنده صاحبه بیگم مبارک احمد بٹ صاحب فوزیہ منان صاحبہ محترمہ امتہ الثانی صاحبہ اهواز راضیه سر فرانه صاحبه عالیہ بٹ صاحبہ " را " منزہ نوید " ۶۱۹۸۵-۸۶ # 17 H " ۶۱۹۸۷-۸۸ H ۶۱۹۸۸-۸۹ 10.

Page 144

محترمہ سرور عبدالمالک صاحبه محترمہ امتہ الودود کھوکھر صاحبہ صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ حصد الجنہ دیں تحریر فرماتی ہیں.عرصۂ خدمت ۱۹۶۴ء سے ۱۹۶۸ء دوبارہ اے ۱۹ء سے ۱۹۷۲ء اہلیہ صاحبہ مولوی عبدالمالک صاحب نے اپنے قیام کراچی کے ره محدوده ای ما برادر محترم صدر الدین کھوکھر صاحب کی نا بہزادی ہیں.والدہ دوران یو لجنہ کا کام کیا ہے وہ لکھ کر دریا ہے اپنے حلقہ دار الصدر شرقی نمبر خداست معلوم کی دادی بھتیں گھر کی تربیت نے خدمت دین کا جذبہ پیدا کیا اور پوری تندی سے فوضہ میں بھی انہوں نے بہت محنت جانفشانی اور حقیقی جذبہ سے کام کیا ہے فرائض سر انجام دیتی رہیں.محترم عبد الحفیظ کھو کھر صاحب واقف زندگی آپ نے خوابیدہ محلے کو بیدار کر دیا ہے.اس محلے نے قابل تعریف مربی سلسلہ سے منادی کے بعد مغربی مشرقی افریقہ بریڈ فورڈ لندن اور کینیڈا ترقی کی ہے اب یہ محلہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بیدار اور فعال فلقوں میں لینہ کی خدمت کی توفیق ملی بعد اتعالیٰ نافع الناس زندگی سے نوازے.میں شمار ہوتا ہے.خدا تعالی انہیں آئندہ بھی اس سے زیادہ ہمت شوق اور ولولے سے کام کر نے کی توفیق دے.آمین مندرجہ بالا خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ روشن شمعیں جہاں بھی ہوں اپنے ماحول کو روشن رکھتی ہیں.کراچی لجنہ اماء الہ کو اس شمع کی روشنی سے 19ء سے 19 ڈیک متمتع ہونے کی سعادت ملی.آپ کو جو عہدہ مکرمه خورشید عطا صاحبه رفیق این رفیق حضرت مسیح موعود حضرت مرزا صالح علی صاحب این بھی دیا گیا بشاشت قلب سے اپنے فطری حسین انتظام کی وجہ سے بہترین مکریم مرزا صفدر علی صاحب کی دختر ہیں - ۱۹۴۸ء میں قادیان سے ہجرت طریق سے گیا.آپ ایسی عہدے دار ہیں جو نئی عہدیدار وں کو جنم دیتی ہیں کی کندی ضلع نظر یا نہ کر سندھ میں نصرت گرلز سکول کا قیام عمل میں ہوا تو اور تربیت و اصلاح کے بعد ایسی لیڈر نہ نباید کرتی ہیں جو ان کی روشنی اولین مدرسہ کا کام کیا.ان کی والدہ مکرمہ امتہ اللہ صالحہ صاحبہ صدر لے کو خدمت کے میدان میں نکل آتی ہیں.خلفائے وقت کی خوشنودی لجنہ کنٹری کے ساتھ دینی کاموں میں معاونت کی یہ ابتدائی تربیت ساری حاصل کی.اپنے بچوں کی مثالی رنگ میں تربیت کی.انتہائی کفایت عمر کام آرہی ہے.گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۶۲ء میں ایمر اسے سائیکالوجی سلیقہ سے بچت کر کے جماعتی ضروریات کے لئے ہر چندہ ہیں حصہ لیتی ہیں.کیا.1942ء میں شادی کے بعد کراچی آئیں اور لجنہ میں مختلف عہدوں پر موصیبہ ہیں.آپ کی روحانی اولاد میں ایک (سابق عیسائی خاتون ہیں مستعدی سے کام کرنے لگیں.۱۹۸ وہ میں نگران قیادت نمبر کم مقرر کی گئیں.جو سلسلہ میں شامل ہوئیں.خدا تعالے قبول فرمائے اور ہر آن حافظ ناصر ہیں آئیں.اور اب تک بہت خوش اسلوبی سے کام کر رہی ہیں ان کا نمایاں چیف اپنے ساتھ فعال ٹیم تیار کرنا ہے.محترمہ شوکت گوہر صاحبہ محترمہ سیدہ بشری سعادت صاحبہ بنت محرمه هم سید سعید خالد صاحب مرحوم ۱۹۶۴ء سے ناصرات کی خدمت مبحثیت جزل سیکرٹری نامرات محترم مولانا عبد المالک خاں صاحب کی دختر ہیں بشیر در کے ساتھ خدمت دین کا جذبہ لوگوں میں اتنہا.ناصرات الاحمدیہ حلقہ سعید منزل شروع کی حسن کارکردگی کے پیش نظر تو میں پورے کراچی کراچی کی محسن ہیں.محسن کارکر دگی کے متعدد انعامات وسندات کی جنرل سیکریٹری ناصرات بنادیا گیا.تم ان کی ڈائٹہ یاں توانا.اجلاسوں میں با قاعدگی حاصل کئے.نصاب کی سبھا سیتھا تیاری اور پُر جوش بھر پوپر تیاری سے بارونق اجتماعات ان کی قیادت میں ہوئے.محنت سے جھنڈا تیار کر وایا جو اول رہا.بچیوں سے مدد لے کر سیلاب زدگان کے لئے سامان جمع کر کے پیکٹ بنوائے.متعدد اسناد خوشنودی حاصل کیں.۱۵۱

Page 145

محترمہ صادقہ قمر صاحبہ حضرت پیر محمد صاحب رفیق مسیح کی پڑ ہوتی ہیں.والدین نے اس رنگہ میں تربیت کی کہ خدمت دین کو ہر کام پر اولیت دینے کا جذبہ پیدا ہوا.بہت چھوٹی عمر سے ناصرات کا کام سنبھالا.پہلے اپنے حلقہ دستگیر اور پھر قیادت ہم میں سیکریٹری ناصرات کی سیکریٹری منتخب ہوئیں.انکے زمانے میں ناصرات الاحمدیہ کراچی بے حد مستند اور فعال ناصرات میں شمار ہونے لگی.شادی کے بعد کندی چلی گئیں اور اب وہاں کی لجنہ کی ایک فعال مدیدار ہیں.ناصرات الاحمدیہ کے لیے ایک پیغام تمہ نہ خالق سے وفاداری کی کھائی ہے قسم اپنے اللہ سے کیا قول نبھانا ہے تمھیں! سیدہ ناصرہ لطیف اہلیہ مرزا ہارون علی پھر سے دنیا میں محمد کی حکومت کے لیے کفر و بدعت کو جہاں بھر سے مٹانا ہے تمھیں! حضرت صاحب زادہ سید عبداللطیف شہید کے صاحب زادے محترم صاحب زادہ محمد طیب صاحب کی دختر ہیں.جامعہ نصرت سے گریجویشن کیا اور حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے خصوصی دینی نصاب کے امتحان میں اول شفقت و پیار کی تعلیم کی ہے تم کو سے کام شروع کیا.موصیہ ہونے کی سعادت کی وجہ سے پابندی سے بچوں کو نظرت و غیض و غضب جنگ سے مٹاتا ہے تمھیں رہیں.1966ء میں شادی کے بعد حلقہ عزیز آباد کی سیکریٹری ناصرات کی حیثیت قرآن پاک کی تعلیم دیتی ہیں.شاعرہ ہیں اور حضور ایدہ ولو د و ر نے ذاتی قلم دے کر مستند اہل قلم کا اعزا ز بجنا مقررہ ہیں.جلسہ سالانہ ۸۳ء میں خواتین میں تقریر کی.۱۹۸۳ء میں ضلع کراچی کی ناصرات الاحمدیہ کی نگران مقرر کی تم دریا بن کے چمکتی رہو اندھیاروں میں میں ملا.عزیز آباد میں دو سال سے درس قرآن دے رہی ہیں.تعلیمی و تربیتی تھام کر ہاتھ زمانے کو چلانا ہے تمھیں گئیں اور اسی سال ربوہ سے سند خوشنودی حاصل ہوئی.یہی اعزا ز ۱۹۸۹٬۱۹۸۸ کلاسز میں لیکچر زدیئے.ان کے عہد نگرانی میں سب سے نمایاں وقف جدید کے پاندا میں اضافہ ہے جو ۴۰۰۰۰ تک پہنچ گیا ہے.خدا تعالیٰ مقبول خدمت کی توفیق دیتا چلا جائے.(آمین) جان ہو مال ہو اولاد ہو یا وقت سنو سب ہیں اللہ کے ، دنیا کو سکھاتا ہے تھیں ہم تو جس طرح نے کام کیے جاتے ہیں تم سے وابستہ ہے اب قوم کی تقدیر لطیف آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو در خالق پہ زمانے کو ٹھکانا ہے تمھیں سیدہ ناصرہ لطیف ( مسکہ بیٹری ناصرات الاحمدی با ضلع کراچی ) lor

Page 146

۱۵۳ وہ پیشیوا ہمارا جس سے ہے نور سارا عقیدہ کی روح سے جو خدا تم سے چاہتا ہے.وہ نہیں ہے کہ خدا ایک ہے اور محمد صلی اللہ علی مسلم اس کائی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ آگرا ہے اب بعد اس کے کوئی نہیں نہیں، مگر وہی جس پر پیروزی طور پر جمیعت کی اور ساسانی گئی." (کشتی نوح) مارا صرف ایک یہ رسول ہے اور صرف ایک یہ قرآن شریف اس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پا سکتے ہیں.( ملفوظات جلد پنجم) ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نبی مانتے ہیں اور سب سے اشرف جانتے ہیں." ( ملفوظات جلد ہفتم) آنحضرت صلی اللہ علی وسلم جو سب انبیاء علیہم السلام سے افضل اور بہتر تھے." ( ملفوظات جلد ہشتم) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ پا یا جناب الہی سے (نجم الهدى) پایا." پس ہمارا نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم زمین و آسمان میں تعریف کیا گیا." (مجم الهدى ) "میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیار بنا دیتا ہے." (حقيقه الوحي) ابتدائے اسلام میں جو کچھ ہواوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا نتیجہ تھا جو کہ مکہ کی گلیوں میں خدائے تعالی کے آگے رو رو کر آپ نے مانگیں.جس قدر عظیم الشان فتوحات ہوئیں کہ تمام دنیا کے رنگ ڈھنگ کو بدل دیا.وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا اثر تھا.ورنہ صحابہ کی قوت کا تو یہ حال تھا کہ جنگ بدر میں صحابہ کے پاس صرف تین تلوار میں تھیں اور وہ بھی لکڑی کی بنی ہوئی تھیں." ( ملفوظات جلد نہم ) جس قدر اخلاق اور خوبیاں کل انبیاء میں تمھیں دو سب کی سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع تھیں.( ملفوظات چند هفتم) اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نہیں اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نہوں نے اتم اور اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں.(براہین احمدیہ حصہ چهارم) ہم یقینا جانتے ہیں کہ خدا تعالٰی کا سب سے بڑائی اور سب سے زیادہ پیارا جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے.".(کتاب البريه ) پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھکر اور کوئی معزز و گرم نہیں ہے." ( ملونات جلد دوم) ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے." ( تریاق القلوب ) ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نہیں اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار رسولوں کا نظر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے اوہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزاروں برسن تک نہیں مل سکتی تھی." (سراج منین)

Page 147

" تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے ، اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکسیت تم پر اترے گی اور روح القدس سے مد د دیئے جاؤ گے اور خدا ہر قدم میں تمہارے ساتھ ہو گا اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا.خدا کے فضل کاصبر سے انتظار کرو - گالیاں سنو اور چپ رہو.ماریں کھاؤ اور سبر کرو اور حتی المقدور بدی کے مقابلہ سے پر ہیز کرو تاکہ آسمان پر تمہاری مقبولیت لکھی جاوے.بقین یا د رکھو کہ جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور دل ان کے خدا کے خوف سے پکھل جاتے ہیں انہی کے ساتھ خدا ہوتا ہے.اور وہ ان کے دشمنوں کا دشمن ہو جاتا ہے.دنیا صادق کو نہیں دیکھتی پر خدا جو علیم و خبیر ہے وہ صادق کو دیکھ لیتا ہے.پس اپنے ہاتھ سے اس کو بچاتا ہے.کیا وہ شخص جو کچے دل سے تم سے پیار کرتا ہے اور سچ سچ تمہارے لئے مرنے کو بھی تیار ہوتا ہے اور تمہارے منشا کے موافق تمہاری اطاعت کرتا ہے اور تمہارے لئے سب کو چھوڑتا ہے، کیا تم اس سے پیار نہیں کرتے ؟ اور کیا تم اس کو سب سے عزیز نہیں سمجھتے ؟ پس جبکہ تم انسان ہو کر پیار کے بدلہ میں پیار کرتے ہو پھر کیونکر خدا نہیں کرے گا.خدا خوب جانتا ہے کہ واقعی اس کا وفادار دوست کون ہے اور کون غدا را اور دنیا کو مقدم رکھنے والا ہے.سو تم اگر ایسے وفادار ہو جاؤ گے تو تم میں اور تمہارے غیروں میں خدا کا ہاتھ ایک فرق قائم کر کے دکھلائے گا.ا تذكرة الشهادتين ) ۱۵۴

Page 148

الرحمن بسم الله Al Mehrab Ahmadiyya Centenary Thanksgiving Celebrations 1889 1989 LAJNA IMAILLAH KARACHI Patron...Advisor......Editors...Publisher..Editorail Board Mrs.Saleema Meer (President Lajna Karachi) Mrs Amtul Rafique Pasha.Mrs Amtul Bari Nasir Mrs.Nigar Aleem Sultan Ahmed Tahir 23-E PECHS Karachi For Members of Jama'at Ahmadiyya Only)

Page 149

Hazrat Mohammad (peace be upon him) Translation of Urdu poetry of Hazrat Mirza Ghulam Ahmad, The Promised Messiah.ھے نور سارا سے وه پیشوا هارا جس نام اس کا ھے محمد دلبر مرا یهی هے سب پاک میں پیمبر اک دوسرے سے بہتر نیک از خدائے برتر خير الورى یهی هے پھلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اک قمر ھے اس پر هر اک نظر ہے بدر الدجى یهی هے پہلے تو راہ میں ھارے پار اس نے ھیں اتارے میں جاؤں اس کے وارے بس نا خدا یهی هے PSALMS OF ANDMAD Translation of (DURRESAMEEN) SAQ Niaz (PS4) That blessed and great Leader, from whom proceeds All the light-his name Is Mohammad, and he alone Is my friend, my dearest Well Beloved! All the Prophets Are faultless and holy, Each better than the other: But coming from the Lord God, The highest, and the best Among them all, without doubt, Is Mohammad himself! He is better far than all Have gone before! In excellence like the moon : Every discerning eye To him is turned, since He alone has the light And the splendour Of the full moon! Those that had gone Before from weariness, They milapsed on the way: He alone con steer across To the other shore! For him, let my life Be suificed for he alone Is the caption and master Of the boat

Page 150

2 The Promised Messiah, peace be on him, wrote: "Harken, all ye people.This is a prophecy of Him Who had created heaven and earth.He will spread this Community of His in all countries and will make it supreme over all, through reason and arguments.The days are coming, indeed they are near, when this will be the only religion which will be held in honour.God will bestow extraordinary blessings on this religion and Movement.He will frustrate everyone who seeks to destroy it.This supremacy will last till the Judgment Day."Remember that no one will descend from heaven.All our opponents who are alive will pass away and no one will see Jesus son of Mary descending from heaven.Then their next generation will pass away and no one of them will see this spectacle.Then the generation next after that will pass away without seeing the son of Mary descending from heaven.Then God will make them anxious that though the time of the supremacy of the cross had passed away and the world had undergone great changes, yet the son of Mary had not descended from heaven.Then the wise people will suddenly discard this belief.The third century after today will not yet have come to a close when those who hold this belief, whether Muslims or Christians, will lose all hope and will give up this belief in disgust.There will then be only one religion that will prevail in the world and only one leader.I have come only to sow the seed, which has been sown by my hand.Now it will sprout and grow and flourish and no one can arrest its growth." (Tazkaratush Shahadatain, pp.64-65)

Page 151

Hazrat Mirza Ghulam Ahmed Qadiani The Promised Messiah.

Page 152

Lines from "Dur-e-Sameen" Translation of Urdu poetry of Hazrat Mirza Ghulam Ahmad, The Promised Messiah How very clearly manifest Is the light of that Source Of all kinds of light, That the entire universe Has turned into a mirror, For the eyes to catch The fullest reflection Of the Divine Being, The Lord God Himself! Looking at the moon, Last night, I was thrown Into a great agitation, And a restlessness of the mind: For, to a certain extent, It carried a suggestion Of the beauty and charm Of my Beloved! Wonderful, indeed, Is the manifestation Of Thy power, on all sides: It does not matter, In the least, which way I turn to look; for even That way, in itself, turns out To be the right path For obtaining a vision Of Thee ! Waves of Thy beauty Are to be seen In the effulgence Of the sun; and every star Carries a beam Of Thy flash! With Thine own hands Hast Thou sprinkled biting salt On the wounded souls: So, naturally therefore, On every side, now, Is raging a tumult Of the waxing cries of love, Wrung from the desolate heart Of the disconsolate lovers! How marvellous, Indeed, are the qualities Thou hast made inherent In every particle, In every grain of sand: And who is there Can read the immense Meaning of these profound Mysteries! The human mind Fails, absoultely, to fathom The immensity of Thy powers: And who is there can unravel These difficult knots! That I be able to meet Thee, I have mingled With the dust, hoping, thereby, To find some remedy, would put An end to this torture Of separation ! For a single moment, Do I find any rest, Any peace, without Thee: My life is sinking, As sinks the heart Of a patient, stricken down By some mortal disease! What is the meaning Of these cries, this noise, This tumult, in Thy lane? Turn Thy attention, immediately, Lest a poor mortal, Caught in the violent throes Of love, should finally come To lose his life! Not even

Page 153

STATUS OF WOMEN IN ISLAM Translated and adapted from an address of Hazrat Khalifatul Masth IV to Lajna Imaillah on August 1, 1987 By Sureayya Hamza مِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بعضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا الفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فالصلحت فنِيتُ حَفِظَتُ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ والتي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ لَهِ فَرُهُنَّ وَالْبُرُوهُنَّ فِي بُوهُنَّ فَاتُ أَطَعْنَكُمْ فَلَا المَضاجِعِ وَاضْرِبُوه عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْا كَبيراه Sura Al Nisa Verse 35 Europeans object that according to the Quran God has created man superior to woman and therefore he has every right to order about woman as he likes.Now let us analyse the verses:- The word means something which has the correcting or reforming quality.Thus would be used for a person who carries the responsibility of the reformation of society.The primary responsibility of the social reformation of women rests on men.If there is a de- terioration in the social behaviour of women and if this leads to liberties that run against the principles of Islam and disorientates family life, men are to be held primarily responsible for such be- cause God has given this responsibility to men.This responsibility has been placed on the shoulders of men God بما فضل الله بعضهم على بعض because has endowed certain inborn faculties exclusive to each of His creations.As a corollary thereof some of His creations are selectively superior to others in certain ways.O describes only one aspect of superiority of men over women.This does not mean that men are superior to women in all other aspects, too.Now another meaning of the word is 'strong.And, the Fair Sex' is accepted to be delicate even in the West.There is no doubt that man is physically stronger than woman.If this is not so, why then, are sports and games held, even on international level, sepa- rately for men and women.If they desire.to believe the Holy Quran, they should do so practically and not verbally alone.This is a fact which even the collected efforts of all women liberation movements, the world over, cannot belie.Under the economic والفقو من اموالهم system of Islam, man is responsible for providing necessities of life to his family.Now this is clear that a giving-hand is always the upper one and thus has certain superiority over the receiving one.Don't we see this in the attitude of donor nations as against the acceptors.The so-called developed nations of Europe and America cannot comprehend this because their woman is obliged to work in order to share the economic burden with her man and call this equality of sexes.She works in the house, she gives birth to children, she earns and if they are separated, their possessions are equally divided between husband and wife, even if all of it is on the other hand, earned by the wife.In the economic system of Islam, women 5

Page 154

carry no such responsibility.She is free to earn if she so likes and has the right to spend her earnings as she likes.قا الصلحت قننت حفظت للغيب بما حفظ الله The above verse highlights the dignifying virtues of faithful women folk condescending attitude towards them in acknowledging their selective virtues.Quran gives cover to isolated instances of possible hostilities on the part of a woman tending to physical violence that a man may occasion to encounter.Pro- pounders of law of equality may advocate retaliation to balance the action.How- ever in an exceptional situation such as this.Quran appeals to the faculties of manhood and expects the matter to be resolved through principles of rational- ity.It is because the word "Qawwam" can not be equated with imprudence or ignominy.The belief of the people of the West that the Quran teaches inequality is proved to be a wrong and baseless accusation with this verse.There are other verses of the Holy Quran which also prove this statement to be wrong.ولهن مثل الذي عليهن با المعروف tal والرجال عليهن درجه 'Men are superior to women in certain ways but in spite of that they enjoy equal rights.' The Holy Quran also says: هن لباس فهم و انتم لباس لهن (b) meaning that 'they enjoy equal rights and responsibilities in such a manner as if 'you are a cover unto them and they are a cover unto you' 1.e.all the functions of cover/dress, in every respect, are to be fulfilled by men and women for each other.Now let us see what those nations and religions, who criticise the teachings of Islam, have to say about the status of women.Here there is a misconception.The western civilisation is compared with Islam as a religion.Although the comparison should be between the teachings of Islam and the teachings of other religions i.e.Christianity, Juda- ism, Hinduism.In other words the teach- ings of the Bible, Torah, Vedas be proved superior to the teachings of the Holy Quran.When we examine the other religions we find that either no mention is made of the position of women in them or if it is made, it is in such a degrading and disgraceful manner that the ungodly features seem to wash the sublimeness of religion in one stroke, and if one is to judge these religions on this basis alone, one would not only turn against those religions but would doubt the very existence of God.Torah and Bible say that women are under total subjugation of their men.They should suffer beating and humili- ation as they have no right to question the actions of their men.They are not allowed to ask any questions in the church.They are only to obey and to keep silent.They are not to give orders or to teach anything to others.As a symbol of their obedience they must keep their heads covered.The teaching of Hinduism is even worse.It would have been much better if no position was given to women in it at all.The very existence of a woman is considered to be a misfortune and an evil omen.Just as the Arabs used to kill their daughters soon after their birth in the pre-Islamic period.From the religious point of view, women are sometimes to be treated as worse than animals.The Hindu history tells us that all this was practically done.Her only duty is to obey and serve man or to worship God all alone.She is not permitted even to read their religious books.There is no need to consult the Hindu girls concerning their marriage.A widow is not expected to remarry.She is to wear white clothes all her life, shave off her head, not to attend any wedding, cook her own food.etc.A Hindu woman connot own or inherit any property in her own name.As a result of these cruelties she became forced to

Page 155

burn herself alive along with her dead husband, which she found better than passing through the tortures her religion forced her to go through.The so-called western civilisation is very proud of itself and considers itself to be much superior to Islamic civilisa- tion in the case of women.They try to compare the western civilisation of today with the teachings of Islam revealed to the Holy Prophet fourteen hundred years ago and base their objections on that.When we examine these objections we find that the western civilisation cannot come even near about the teachings of Islam about women, taught fourteen hundred years ago, even today.Just examine their laws and reports printed in recent years and they show that a very large percentage of women and children is the victim of the cruelties of men, and there is no protection against this in their law.The statistics are not accurate because a large number of women feel ashamed to report such cases.This number is frightfully increasing.One book alone."Scream Quietly or the Neighbours will hear" printed by 'Pen- guins in 1947, proves the horrible tales of woe and suffering of women at the hands of men, as late as the last quarter of the 20th century.Even today several stories of cruelty to women and children are being printed in the newspapers of Europe and America.The rate of divorce has reached a dangerous point in these countries.As against this.the religion of the Holy Prophet, which is being spoken of with sarcasm and ridicule may be viewed on the basis of its teachings, his own practice and that of his followers.The Holy Prophet himself could not bear the least inconvenience to women.Once he saw a camel, with women sitting on its back, being made to run and said, "they are like delicate glass, handle them with care".How cruel it is to call such teach- ings cruel.The whole concept of the status of women is based upon this belief.In fact the Holy Prophet lifted women from a very low position to a very high and dignified position.As a result, many basic changes took place in the Arab society.He himself acted according to the sublime teachings of Islam and the social pattern around him changed in such a way that women enjoyed equal rights with men, which was unthought of before his advent.The woman who used to have been inherited as a piece of property now stood up against her father, her brother or her husband for the rights.given to her by Islam and the Holy Prophet.They used to ask any question freely from the Holy Prophet.They were given the rights to go to the courts, to pray to God.It was declared a sin to bury new born baby-daughters.Mothers were given such exalted position that the children were asked to look for Paradise under their feet.Hazrat Ayesha (the Holy Prophet's wife) taught half of the Islamic teachings to women and men alike during the life of the Holy Prophet and afterwards.Two of the noblest women Pharoah's wife and Mariam Binte-Imran are presented as models of piety for all men and women.The Promised Messiah says, "The Holy Prophet is the perfect example for every thing.Just see how he treated women.Any man who treats women cruelly is a coward and is unmanly" Now let us examine the objections one by one:- As for PURDAH, the point behind it is that purdah means to 'keep one's eyes downcast' and men and women both are asked to observe it.Woman is given special orders about it because she is pretty and attractive and if she is not careful, she may become the cause of leading men astray.So she is asked not to make her beauty public and to save men from this.The Promised Messiah says "It doesn't mean that women are to be imprisoned inside their houses.They are free to lead normal lives.Old women and working women are permitted to move about freely and go to their places of work".He also says, "Today's society is not such in which a woman is safe without purdah.We must wait for better days".We can see how true it is.In today's filthy 7

Page 156

society where even three to four year old girls are not safe, how can grown up girls go about unprotected.Another accusation of the West on Islam is 'POLYGAMY'.They think this to be sheer cruelty when a man is allowed to have more than one wife at a time; secondly why man only is given this per- mission and woman is not allowed to have more than one husband.If we read the verse: ما طاب لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَتُلْكَ وَ رُبع فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِ لُوَافَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ ايمانكم ذلِكَ أَدْنَى أَلا تَعُودُوا هُ وَأَتُوا النِّسَاءِ مِّنْهُ نَفْسًا فَهُوَهُ هَنيئًا مَّرِياً.Sura Al Nisa Verse 4 & 5 We understand why this permission was granted, on what conditions was it given and how far is it right or wrong.First of all it is conditional: man is allowed to remarry only under certain circumstances and that too, if he finds himself strong enough to maintain jus- tice between his wives.He is reminded again that in case he feels that he cannot do so then he should not attempt it at all.If one tries to maintain the high standard set by the Holy Prophet then he would be a very bold man who would go for a second marriage.Secondly one is allowed a second wife only under certain circumstances e.g.at the time of war, when most of the men die and women.are left alone, unprotected.It becomes a social duty to give such women pro- tection and the only proper way of doing so is to marry them, otherwise it will give rise to widespread sin, which is so apparent Another objection which is often raised is why women are not allowed to have more than one husband at a time.Just think of it! what would be the situation if it was done.There is already a shortage of men, if a woman wants more than one husband, what about the others? Many would be left without even one husband.To whom would the children belong? Who would be responsible in the case of a di- vorce? If every man married more than one wife and every woman married more than one husband, then there would be no single family and there would be total chaos all around.There is no running away from the teachings of Islam which are based on human nature, on the needs of human beings and not on emotions alone.It is for the days of peace and of war, it is for all times and all places.Those who object to the permission granted by Islam to man to marry four wives at a time must be told, "O Phy- sician! heal thyself".Their attention must be drawn to their own religions, where we find just the opposite situation.Torah and Bible give total freedom to marry without any restrictions, without any conditions to maintain justice which are explained in detail in the Holy Quran.The Prophet whom they themselves give so much respect, with whom Prophethood started, continued and ultimately, ac- cording to them, the Saviour was born: Hazrat Yaqub had more than one wife.Hazrat Dawood was supposed to have 99 wives and the desire for one more was still there.Then those who follow the Bible and have reverence for it, have no right to object.In Hinduism Hazrat Krishna is stated to have many wives.Islam allows it only under certain conditions and orders men to maintain justice and treat each wife equally, if they don't, they are warned of being punished in life after death.Islam is the only religion in which woman was given the right to choose her

Page 157

QURANIC PURDAH Commentary (tafseer) on the Holy Quran Translation And say to the believing women that they restrain their eyes and guard their private parts, and that they disclose not their natural and artificial beauty except that which is apparent thereof, and that they draw their head-coverings over their bos- oms, and that they disclose not their beauty save to their husbands, or to their fathers, or the fathers of their husbands or their sons or the sons of their husbands or their brothers, or the sons of their brothers, or the sons of their sisters, or their women, or what their right hands possess, or such of male attendants as have no sexual appetite, or young children who have no knowledge of the hidden parts of women.And they strike not their feet so that what they hide of their ornaments may become known.And turn ye to Allah all together, O believers, that you may succeed.Commentary: AL-NUR: 32 As a good deal of misunderstanding and lack of proper knowledge as to what constitutes Islamic "purdah" prevails even among Muslims, a somewhat detailed note on this much-vexed question is called for.Here are the relevant Quranic verses that embody necessary commandments about "purdah".(1) O Prophet, tell thy wives and thy daughters and the women of the believers that they should let down over them their loose outer garments.It is more likely that they will thus be distinguished and not molested (33: 60).بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وَقُل لِّلْمُؤْمِتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِ بْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبَا بِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أو ابنَا بِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَا بِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّبِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاء وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ The Arabic word used in this verse جلباب of which the singular is جلابیب is meaning, an outer or wrapping garm- ent; a head-covering; the garment with which a woman covers her head and bosom.(it) And say to the believing women that they restrain their eyes and guard their private parts and that they disclose not their natural and artificial beauty except that which is apparent thereof, and that they cast their head-coverings over their bosoms, and that they disclose not their beauty....(2432 Le the verse under comment.) 9

Page 158

(111) O wives of the Prophet, you are not like any other women if you are right- eous.So be not soft in speech, lest he in whose heart is a disease should feel tempted; and speak a decent speech.And stay in your houses with dignity and do not show off yourselves like the showing off of the former days of ignorance (33 : 33-34).(iv) O ye who believe, let those whom your right hands possess, and those of you who have not attained to puberty, ask permission of you three times before coming into your presence: before the morning Prayer, and when you take off clothes at noon in summer and after the night Prayer (24: 59).The following inferences are clearly deducible from the verses quoted above: (i) When they go out, Muslim women are to wear an outer and wrapping garment which should cover their heads and bosoms in such a manner that the garment should come down from the head to the bosom covering the whole body including the face.This is the significance of the Quranic words The.(60 : 33 يدنين عليهن من جلابيبهن outer garment is intended to make known the fact that while a Muslim woman goes about her business she may be spared the mental anguish of being stared at by persons of questionable character.(ii) Muslim men and women are to restrain their eyes when they happen to face each other.(iii) The third commandment though apparently applying to the wives of the Prophet, includes, as is the practice of the Qur'an, other Muslim women also.The words "And stay in your houses" imply that whereas women may go out when necessary, the principal and pri- mary sphere of their activities is inside the house.(iv) At three stated hours, even children are not allowed to enter the private apartments of their parents nor are 10 domestic servants or female slaves al- lowed to enter the sleeping room of their masters.The first commandment applies to women when they go out.Then they are to use an outer garment which should cover their whole body including the face.The second commandment relates to "pur- dah" primarily inside the four walls of the house when near male relatives fre- quently come and go.In that case men and women are only to restrain their looks and as an additional precaution women are to take care that their a i.e.beauty of person, dress and orna- ments, is not displayed.They are not required to use (outer garment) because that would be very irksome and even impracticable in view of the free and frequent visits of near blood rela- tions such as cousins, brothers-in-law, sisters-in-law, etc.The context shows that this commandment relates to "purdah" inside the four walls of the house, because all the persons mentioned in the verse are very near relations who generally visit the houses of their rela- tives.The special mention in it of four categories of persons besides near rela- tives, viz., decent women, old servants, female slaves and minor boys, lends additional weight to the inference that the commandment in this verse relates to "purdah" within the four walls of the house.The fact that the first command- ment refers to "purdah" outside the house and the second commandment basically refers to "purdah" within the four walls of the house is also apparent from the different words that have been used to express the two forms of "purdah" in the relevant verses i.e.33: 60, and the verse under comment.Whereas in 33: 60 the garment which a woman is to use when she goes out is the garment which she has to use inside the house when relatives visit is Moreover, whereas in 3360 the words used are over them their outer garments (for a e they should let down.عليهن من جلابيهن see يدنين and جلباب detailed discussion of

Page 159

3360); in the verse under comment يضربن بخمر من على the words used are te.they should cast their head-coverings over their bosoms.It is clear that in the former case the garment will cover the head, the face and the bosom while in the latter case only the head and the bosom will become covered and the face may remain uncovered.It may also be noted in passing that the shape and form of the outer-garment which, as mentioned above, a woman must wear when she goes out and which coers her whole body including the face will vary according to the cust- oms, habits, social status, family tradi- tions and usages of various classes of the Muslim community.The command- ment with regard to "purdah" within the four walls of the house will also apply to shops, fields, etc., where women of certain sections of Muslim society have to work to earn their living.There a woman will not be required to veil her face.She will have only to restrain her eyes and to cover her L.e.her ornaments and other embellishments, as women within the house have to do when their relatives visit them.The third commandment requires women to behave with dignity bordering on austerity when talking to stranger men; and they are also required to give their full attention to the discharge of their serious and important duties in regard to the affairs connected with the well-being of their own sex and the man- agement of the house hold affairs and to looking after and bringing up of children and kindred matters.The fourth com- mandment enjoins husband and wife to have, as far as possible, sleeping apart- ments separate from those of other members of the family which even minor boys are not allowed to enter at stated hours.لا يبدين زينتهن In the expression i.e.they display not their (beauty).the word includes both natural and artificial beauty.It signifies the beauty of person, and includes the beauty of dress and ornaments which women wear on their hands, feet, ears, arms, necks, bosoms, etc.The expres- sion, "except that which is apparent thereof," contains all those things which it is not possible for a woman to cover such as her voice, gait or stature and also certain parts of her body which remain uncovered according to her social status, her family traditions, her avocation and the customs of the society.The permission to keep certain parts of the body uncovered will be subject to certain variations.Thus the words, "they display not their beauty "will have different connotations with regard to women belonging to different sections and grades of society and the connotation will change with the change in the cutoms and modes of living and professions of the people.The words "and let them not strike their feet so that what they hide of their ornaments may become known," show that public dancing which is so much in vogue in certain countries is definitely not allowed by Islam.This is the Islamic conception of "purdah".According to it Muslim women may go out as often as it is legitimately necessary for them to do so, but their primary and principal functions are con- fined to their homes which are as impor- tant and serious, if not more, as the avocations of men are.If women take to men's avocations they seek to defy nature and nature does not allow its laws.to be defied with impunity.If would be noticed that the inci- dent about Aisha which forms one of the principal subjects of this Sura sheds a flood of light on the form of "purdah" which Islam enjoins its followers to observe.According to tradition when Safwan came to the place where Aisha was lying asleep with her face uncovered, he recognized her because he had seen her, as he himself afterwards said, be- fore the verse about "purdah" was re- vealed (Bukhari, Kitab al-Tafsir).11

Page 160

3360); in the verse under comment يضربن بخمر من على the words used are te.they should cast their head-coverings over their bosoms.It is clear that in the former case the garment will cover the head, the face and the bosom while in the latter case only the head and the bosom will become covered and the face may remain uncovered.It may also be noted in passing that the shape and form of the outer-garment which, as mentioned above, a woman must wear when she goes out and which coers her whole body including the face will vary according to the cust- oms, habits, social status, family tradi- tions and usages of various classes of the Muslim community.The command- ment with regard to "purdah" within the four walls of the house will also apply to shops, fields, etc., where women of certain sections of Muslim society have to work to earn their living.There a woman will not be required to veil her face.She will have only to restrain her eyes and to cover her L.e.her ornaments and other embellishments, as women within the house have to do when their relatives visit them.The third commandment requires women to behave with dignity bordering on austerity when talking to stranger men; and they are also required to give their full attention to the discharge of their serious and important duties in regard to the affairs connected with the well-being of their own sex and the man- agement of the house hold affairs and to looking after and bringing up of children and kindred matters.The fourth com- mandment enjoins husband and wife to have, as far as possible, sleeping apart- ments separate from those of other members of the family which even minor boys are not allowed to enter at stated hours.لا يبدين زينتهن In the expression i.e.they display not their (beauty).the word includes both natural and artificial beauty.It signifies the beauty of person, and includes the beauty of dress and ornaments which women wear on their hands, feet, ears, arms, necks, bosoms, etc.The expres- sion, "except that which is apparent thereof," contains all those things which it is not possible for a woman to cover such as her voice, gait or stature and also certain parts of her body which remain uncovered according to her social status, her family traditions, her avocation and the customs of the society.The permission to keep certain parts of the body uncovered will be subject to certain variations.Thus the words, "they display not their beauty "will have different connotations with regard to women belonging to different sections and grades of society and the connotation will change with the change in the cutoms and modes of living and professions of the people.The words "and let them not strike their feet so that what they hide of their ornaments may become known," show that public dancing which is so much in vogue in certain countries is definitely not allowed by Islam.This is the Islamic conception of "purdah".According to it Muslim women may go out as often as it is legitimately necessary for them to do so, but their primary and principal functions are con- fined to their homes which are as impor- tant and serious, if not more, as the avocations of men are.If women take to men's avocations they seek to defy nature and nature does not allow its laws.to be defied with impunity.If would be noticed that the inci- dent about Aisha which forms one of the principal subjects of this Sura sheds a flood of light on the form of "purdah" which Islam enjoins its followers to observe.According to tradition when Safwan came to the place where Aisha was lying asleep with her face uncovered, he recognized her because he had seen her, as he himself afterwards said, be- fore the verse about "purdah" was re- vealed (Bukhari, Kitab al-Tafsir).11

Page 161

THE SPIRITUAL AND HISTORICAL SIGNIFICANCE OF 23RD MARCH 1889 By Mahmuda Amat-us-Sami Wahab March 23, 1889 marked the most important event in the history of the Ahmadiyya Movement.The importance.and significance of March 23, 1889 can only be fathomed if we see it in its his- torical back-ground by peeping into the early nineteenth century which was a period of utmost decline for Islam and its followers.The British Empire had spread far and wide in many parts of the world.Its tentacles had reached the East, bringing the entire Sub-Continent under British subjugation.The state of the Muslims was deplorable: they did not practise the precepts of Islam any longer.Taking advantage of this prevailing weakness of the Muslims, East India Company with the backing of the British government, decided to propagate Chris- tianity in the Sub-Continent in 1813.A priest, Father Henry Martin, was sent to Agra who translated the Bible into Urdu.(History of Protestant Missions in India page 89 written by Reverend M.A.Shepring London 1875).In 1835 the renowned clergyman C.G.P.Fender wrote a book against Islam known as "Mizan-ul-Haq" in Persian which was translated into many languages.The first mission house in the Punjab was opened at Ludhiana with the consultation of the then Governor General Lord William Benting.In 1837 the first church was constructed.A mission and St.John's Divinity School for training the missionaries were established at Lahore in 1849.Thus missions started operating through out the Sub-Continent with the Punjab as their centre.(Punjab and Sind Missions by Robert Clark London 1885, pages 161 to 164, 17, 245 and 294).12 In 1860, the British Prime Minis- ter Lord Pamerston and the Minister for India Sir Charleswood expressed the view that every convert to Christianity in the Sub-Continent would serve the cause of strengthening and stabilizing the rule of the British Empire there.So a whole network of missions was spread all over.with the result that Muslims belonging to affluent families started accepting Christianity.Abdullah Aatham and the Priest Amaad-ud-Din were amongst those, who were converted to the Christian faith and proved to be the worst enemies of Islam.The Christians had designs and intentions of engulfing the Holy City of Makkah also into the Christian faith.This intention was expressed in one of the lectures of the renowned American priest Henry Beroz.(Lecture Beroz 1896- 1897 page 42).During the same period literature against Islam was published abundantly.Samuel Noëls wrote "Aina Islam".Abdullah Aatham wrote "Al- Maseehiat Wala Islam", E.M.Wherry wrote a comprehensive commentary on the Holy Quran and various other books.G.M.Rouse and the priest Amaad-ud-Din wrote numerous books & magazines thus harming Islam at large.At the same time the Arya Samaj rose and started spitting venom against Islam.Its founder Pandat Dayanund Sarsoti (1820 to 1883) used abusive language in the 14th Chapter of his book "Sathyartha Parakash" Islam was being attacked from all sides and the state of the Muslims was such that they indulged in all kinds of evils and vices.As a matter of fact this decline of Islam and its followers was taking place precisely according to the

Page 162

prophecies of the Holy Prophet Moham- mad (peace & blessings of God be upon him).There are numerous prophecies about the deterioration of the state of the Muslims.In one of the prophecies, the Holy Prophet Mohammad (peace & bless- ings of God be upon him) said that there will be a time when Islam will remain in name only, and the Quran-mere words.(Mishkat Kitabul Ilm page 38).It was under these adverse con- ditions that Hazrat Mirza Ghulam Ahmed of Qadian who held Allah, His prophet and the Holy Quran most sacred and high, launched a campaign against the onslaught of Christianity.He prayed to God fervently.The Almighty heard his prayers and taught him arguments in defence of Islam.He published four volumes of his book "Braheen-e-Ah- madiyya" from 1880 to 1884, which caused a stir and panic in the religious world.The arguments were so strong that they repulsed all Christiain attacks.He sin- gularly carried on his defence of Islam until God commanded him to take the Bai'at (Pledge).In the beginning of the year 1889 Hazrat Mirza Ghulam Ahmed of Qadian (peace be upon him) received the follow- ing revelation from Allah in connection with the foundation of the community and initiating believers into it: "When thou hast determined, put thy trust in Allah, and build the Ark under Our eyes as commanded by Our revelation.Verily those who swear their allegiance to thee, indeed swear allegiance to Allah.The hand of Allah is over their hands" After receiving this command of Allah the Promised Messiah Hazrat Mirza Ghulam Ahmed of Qadian published a hand bill, dated March 4, 1889 for those who wanted to be initiated as disciples.He wrote: "This humble servant shall stay in Mohalla Jadid, Ludhiana, from today, the 4th of March, 1889 to 25th of March.Those who wish to come should be in Ludhiana after the 20th instant.I have been ordained to announce that those who are seekers of truth should swear allegiance to me, so that they may be able to find a way to true faith, true purity and love of Allah and give up impure, idle and traitorous ways of life.Hence those who feel that they can bear the burden of this responsibility, should hasten to answer my call so that I can lighten their burden.God will bless them through my prayers and spiritual attention.provided they are sincerely willing to abide by the ten conditions of Bai'at (Pledge).This is divine command that I have conveyed today." On 23rd March, 1889, Hazrat Al- Haj Maulvi Hakim Noor-ud-Din was the first to swear his allegiance at the hand of the 'Imam' of our age.On that blessed day a group of 40 plous and righteous persons joined the Ahmadiyya Jama'at.Thus our Centenary celebrtions today are not worldly but spiritual in nature, because for a hundred years God gave us the opportunity for working sincerely with perseverance in bringing about an international spiritual revolu- tion.Thousands of people have been successful in having an intimate knowl- edge of God by treading the path of virtue and piety after swearing allegi- ance to Hazrat Mirza Ghulam Ahmed, who claimed to be the Promised Reformer whose advent was awaited under differ- ent titles (Promised Messiah, Al-Mahdi) by the adherents of various religious faiths.He declared his advent in com- plete subordination to the Holy Prophet Mohammad (peace & blessings of God be upon him) and in accordance with the prophecies of the Holy Quran and Holy Scriptures of other faiths, which would finally usher Islam as the one universal religion through persuasion.love and logic.The Ahmadiyya movement now organised in more than 125 countries of the world, is not only fulfilling the spiritual needs of the people (through (continued to page 17) 13

Page 163

THE SALIENT FEATURES OF AHMADIYYA THANKSGIVING CENTENARY CELEBRATIONS By Farhana Pasha The object of Ahmadiyya thanks giving celebrations was to extol the name of Allah and sing His praises for his innumerable bounties.Our celebrations began by extend- ing the message of Hazrat Khalifatul Masih IV to the entire world.In this message he presented Deen-Haque's central features as religion of peace which does away with all discrimination between man and man, believes in complete freedom of conscience and no compulsion in matters of faith.Islam liberates man from the the bondage of sin and strengthens his ties with his Creator.Islam seeks to establish a New World Order guaranteeing salvation from all maladies and ailments of suffering humanity.Though Ahmadiyyat has not yet emerged as a potent force to bring about a global moral and spiritual revolution yet God has graciously chosen us as His instruments to bring about this glorious revolution.The members of Jama'at all the world over offered special prayers.Most of us performed Namaz-e-Tahajjud, offered gifts and meals to the poor and needy, distributed sweets, arranged community dinners, illuminated our houses and mosques, sacrificed animals and invoked the blessings of Almighty, paid special visits to friends and relatives and exchanged gifts and greetings.The Jama'at under the loving leader ship of its Imam completed the transla- tion of the Holy Quran in fifty leading and important languages of the world.published the writings of the Promised Messiah, Hazrat Mirza Ghulam Ahmed Qadiani in beautiful editions, built several mosques established more than 300 missions in 120 countries.The Jama'at held its annual.Convention in London to celebrate the Thanksgiving Centenary in which more than sixty countries of the world participated.As a result of the big leap generated by the centenary programs the total number of languages in which the Holy Quran would be translated and published would reach a figure of 117, selections of the Sayings of the Holy Prophet Mohammed (peace be upon him) will be published in 46 languages.So far 1245 mosques have been constructed in different countries of the world.Another 481 mosques are under construction as part of our centenary programe.Literature produced by the companions of the Promised Messiah and leading luminaries of the Jama'at is being extensively published.In celebrating the centenary we were reminded of the innumerable bounties of Almighty Allah.The Jama'at was subjected to extreme persecution.They were deprived of religious freedom and fundamental human rights.Even laws were enacted in some countries to render us liable to severe punishment and prosecution for the mere act of professing and practising our faith.But the help.and succour of Allah was with us and all the scheming and evil designs of the enemies were frustrated.The sappling of Ahmadiyyat has now grown to be a blooming tree with its roots deep in the soil and branches overflow- ing with delicious fruits, out streching to the skies and providing shade to the weary.The Jama'at is marching forward with faith in its hearts, unity in its ranks, and discipline as its motto.Its clarion call to humanity to surrender to the will of Allah and be at complete peace with him.The centenary has high- lighted our earnest and sincere slogan "Love for All Hatred for None." 14

Page 164

LAJNA FROM HEARTH TO HAVEN By Talat Mansoor Before I come to the ojectives and achievements of the Lajna during its short history, I would dwell upon the depres- sive and dismal picture of the status of women in those days in the Sub-Conti- nent irrespective of religious or regional consideration.The influences of the at- mosphere all around played a negative role to restrict any radical reformation.Traditionally they remained dubbed as a down cast other half of the human race.Male domination with an index of supe- riority had given rise to a hardened stigma against all logics of human values.To extricate them from the state of affairs and exhilarate to the expectations of a reformed religious society 'Ahmadiyyat' asked for an institutionalised organisa- tion.So, as an answer to the challenge, there appeared 'Lajna Imaillah' under the guidance and blessings of its founder, Hazrat Khalifatul Masih II, Mirza Bashi- ruddin Mahmud Ahmed.Thus, the Lajna marched ahead culturing, educat- ing and excelling through a systematic process.Having imbibed collectively the spiritual and moral values and having in- culcated a spirit for sacrifice, they proved their worth by subscribing to many schemes announced by the Heads of the Jama'at from period to period, of which the most significant being the construction of mosques in various countries during the decades gone by.To limit the subject to a permissible length, I venture to give an account of this very item in some detail.In 1916 Ahmadi women made their first financial sacrifice by generously con- tributing cash and jewellery for the construction of the London Mission.In 1920 the Ahmadi ladies partici- pated financially in the construction of the London mosque which was proposed to be built with the contributions of the entire Jama'at at a cost of Rs.30,000.And in 1923 our ladies played an important role in raising funds for the Berlin mosque.The estimated cost was Rs.50,000 but in response to the call of Hazrat Khalifatul Masih II, ever obe- dient Ahmadi women.ended up by contributing Rs.72,761, much more than the asked amount.However due to unavoidable circumstances the Berlin mosque could not be built, so the money was spent in building Bait-ul-Fazal London.Its foundation stone was laid on October 10, 1924 by Hazrat Musleh Mauood Khalifatul Masih II and the inauguration ceremony was performed on 13th Oct.1926 by Khan Bahadur Sir Abdul Qadir, representative of the League of Nations.The Lajna Imaillah also contributed a sum of Rs.10,000 for the repairs of its dome.By the grace of God the Ahmadi women contributed a total sum of Rs.83.000, raised entirely from the Sub-Continent.In 1950 the Ahmadi ladies of Pak- istan contributed Rs.143,664 for the construction of Bait-ul-Mubarak in the Hague, Holland.Hazrat Sir Mohammad Zafarullah Khan laid the foundation stone on May 20, 1955.He also had the opportunity to inaugurate the mosque on December 9, 1955.On the fiftieth anniversary of suc- cessful Khilafat of beloved Hazrat Musleh Maud, the International President of the Lajna Imaillah suggested that the members should build a mosque at Copenhagen in Denmark in order to commemorate the auspicious occaison.The proposal was kindly approved by Hazrat Musleh Mauood 15

Page 165

at the Annual Jalsa in Rabwah Pakistan in December 1964.As soon as the approval was given a large number of Ahmadi ladies donated their jewellery and a sum of Rs.8,000 was collected at the spot.The total contribution for the Copenhagen Nusrat Jehan mosque was Rs.606,000.Sahib- zada Mirza Mubarak Ahmed laid the foun- dation stone of this mosque on the 6th of May 1966 and Hazrat Khalifatul Masth III performed the opening ceremony on 21st July 1967.Almighty Allah bestowed the Ahmadi ladies again with a chance to offer finan- cial sacrifices by contributing for the mosques built at Hamburg and Frank- furt.Hazrat Syeda Nawab Amtul Hafeez Begum, daughter of the Promised Mes- siah, was bestowed with the honour of laying the foundation stone of the mosque at Zurich, Switzerland in 1962.Al Hajia Fatima Ali and Al Hajia Ilarga built two mosques in Ijebu Ode, Lagos, Nigeria.Al Hajia Fatima Ali con- structed a mosque on the main road in Lagos and later on she donated it to the Ahmadiyya mission Nigeria.Hazrat Khal- iftul Masih III inaugurated this mosque on 12th April 1970 during his historic tour of West African countries.In spite of strong opposition from her sons.Mrs.Mohina Shah a Hindu convert, donated a large piece of land to the Jama'at for the Sarwanga mosque in the Island of Lambasa.Ahmadi ladies donated carpets and books worth 157 dollars for the Mahmood mosque at Maro.Madam Billies Okenlade built a mosque as a token of gratitude to the Almighty for saving her son from a disaster during a sea voyage.She built the mosque with her hard earned money and donated it to the Jama'at..Al Hajia Skhefia Tu Bakare of Okela Quarters Ikara built a beautiful large mosque near her home costing £1504.Then she presented the mosque to the 16 Ahmadiyya mission.A widow from Karachi, Khizer Sultana, gave away her entire jewellery for building a mosque at Rabwah in Pakistan.The mosque Khizer Sultana was built near the Railway Station and a house was also built adjoining the mosque so that the rent received from the house should be used for the main- tenance of the mosque.The dedicated services and sacri- fices which the members of the Lajna Imaillah have rendered in the way of Almighty Allah and the cause of Ah- madiyyat are most commendable.It is quite obvious that in the last hundred years Ahmadi ladies have responded to every call for sacrifice with dauntless courage.As we celebrate the 100 years of Ahmadiyyat we congratulate the members of the Lajna Imaillah for enter- ing the second century holding the torch of numerous sacrifices in every respect in the way of the one and only God.In the second century every step entails heavier responsibilities, harder work and greater sacrifices.We do hope that our younger generation will be brave enough to shoulder these responsibilities with much more vigour, enthusiasm and courage, taking guidance from the laud- able heritage of their older members.(continued from page 8 companion in life and that too 1400 years ago, at a time when daughters were buried alive as soon as they were born.As a mother, paradise is promised to be under her feet.While in European society parents don't have even the right to live with their children.All this was not in theory but was carried out in practice by the Holy Prophet himself and by his companions.It was a pattern of life which could be truely called PARADISE ON EARTH.

Page 166

TRANSLATIONS OF THE HOLY QURAN EXTRACTS OF THE HOLY QURAN Selected verses from the Holy Quran have been translated in 115 languages.Below is the list of these languages 1.Afrikaan (S.Africa) 2.Armanian (Russia) 3.Ashanti (Ghana) 4.Asami (India) 5.Albanian 59.Kanada (India) 60.Kikongo (Zaire) 61.Korean 62.Kikuyu (Kenya) 63.Kikamba (Kenya) 64.Kinyaja (Zambia) 65.Lingala (Zaire) HOLY QURAN TRANSLATIONS The list of languages in which the whole of the Holy Quran has been completely translated.1.Asami 2.Albanian 3.Bangla 4.Bulgarian 5.Burmese 6.Czech.7.Chinese 6.Bangali 7.Bali (Indonesia) 8.Bate (Ivory Coast) 66.Loganda (Uganda) 8.Dutch 9.Baluchi (Pak) 10.Bulgarian 11.Butki (Indonesia) 12.Bassa (Liberia) 13.Bhutani (India) 14.Baoule (Ivory Coast) 15.Burmese 16.Chichiwa (Mauritius) 17.Chiyowa (Zambia) 18.Chiluba (Zaire) 19.Czech.20.Croatian-Serbo (Yougoslavia) 21.Chinese 22.Creole (Mauritius) 23.Doghri (India) 24.Dusun (Malaysia) 25.Dutch 26.Dagbani (Ghana) 28.English 29.Espranto 67.Lithonian (USSR) 68.Latavian (USSR) 69.Mangolian (China) 70.Malai 71.Malyalum (India) 72.Marathi (India) 73.Madingo (Gambia) 74.Многі 75.Manda (Sieraleone) 76.Nepali 77.Norvegian 78.Orriya 79.Oromo (Kenya) 80.OyGhur 81.Portugese 82.Persian 83.Polish 84.Punjabi 85.Pushto 86.Qazaq 87.Rumanian 30.Emharic (Ethopia) 88.Russian 89.Swahili 90.Spanish 9.Danish 10.English 11.Espranto 12.French 13.Figian 14.Fanti 28.Karomo 29.Kurdi 30.Logunda 31.Malayee 32.Malyalum 33.Manday 34.Marathi 35.Norvegian 36.Orria 37.Ooee Ghur 38.Portugese 39.Persian 40.Polish 41.Punjabi 42.Pushto 15.German 16.Greek 43.Russian 17.Gujrati 18.Gurumukhi 19.Hindi 20.Housa 21.Hungarian 22.Indonesian 23.Italian 24.Japanese 25.Korean 26.Kikuyu 27.Kuntri 44.Swahili 45.Spanish 46.Swedish 47.Sindhi 48.Saraeki 49.Tuvalu 50.Turkish 51.Talegu 52.Urdu 53.Veitnamese 54.Yoruba 31.Egbo (Nigeria) 32.Ewe (Ghana) 33.Estonian (USSR) 34.French.35.Fulani (Gambia) 36.Fijian 37.Fanti 38.Ga (Ghana) 39.Georgian (USSR) 40.German 41.Greek 42.Gujrati (India) 43.Gurumukhi (India) 44.Hebrew (Israel) 45.Hindi (India) 46.Housa (Nigeria) 47.Hungarian 48.Indonesian 19.Irish (Ireland) 50.Italian 51.Japanese 52.Javanese (Indonesia) 53.Jula (Ivory Coast) 54.Kiribas (fiji) 55.Kashmiri (India) 56.Katlan (Spain) 57.Kurdi (Iran) 58.Kpelle (Libia) 91.Swedish 92.Sindhi 93.Saraeki 94.Samoan (Fiji) 95.Sinhala (Sri Lanka) 96.Suranan (Suriname) 97.Tamil (India) 98.Timni (Seiraleone] 99.Thai (Thailand) 100.Tagalog (Malaysia) 101.Tongan (Fiji) 102.Tuvalu 103.Turkish 104.Talegu (India) 105.Urdu (Pak) 106.Ukranian (USSR) 107.Vai (Liberia) 108.Veitnamese 109.Wolof (Gambia) 110.Wali (Ghana) 111.Welsh (Wales) 112.Xcoza (South Africa) 113.Yoruba (Nigeria) 114.Yao (Tanzania) 115.Yiddish (Israel) (continued from page 13 building of mosques and translation of the Holy Quran and other literature in various languages) but is also dedicated to providing services in the fields of education and health, despite severe.persecution and trials.The Ahmadiyya movement holds great spiritual and historical significance in the 125 countries of the world where it has created a bond of universal love and fellowship by demolishing barriers of colour,race and nationality, and seeks to unite all human beings with the Creator and to establish peace and order throughout the world.17

Page 167

احمدیہ صد سالہ جشرہ تشکر ۱۸۸۹ تا ۱۹۸۹ قاریر نے کرام کی خدمت میں جماعت احمدیہ کے صد سالہ جنین تشکر اور لجنہ کر اچھی کے پچاس سال مکمن ہونے پر نمبرات لجنہ ضلع کرا چھ مبارک باد پیش کرتی ہیں.

Page 167