Language: UR
مارچ 1983 میں طبع ہونے والی اس کتاب میں مولانا موصوف نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق اسلامی تصور کا تعارف کروانے کے لئے خاطر خواہ مواد جمع کردیا ہے۔ قرآن کریم کی آیات، صحف سابقہ سے متعلقہ مواد، احادیث مبارکہ، امت کی گزشتہ 13 صدیوں کے علماء و صوفیاء کے واقعات، عصر جدید کے مغربی محققین اور سائنسدانوں کے اقتباسات سے مزین یہ 120 صفحات کی کتاب عنوانِ کتاب کو واضح اور عام فہم کرنے کے لئے ایک عمدہ ترین کاوش ہے۔ کاتب کی لکھائی میں تیار کی گئی اس دیدہ زیب کتاب کے حوالہ جات فٹ نوٹ میں درج کئے گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا اسلامی تصور
اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا اور اسلامی تصویر مولانا دوست ما شاهد تخرا حمديت بفرمائش جناب چوہدری رحمت علی النا ان مشروعه کا شانہ رحمت را دارا العلوم شرقی ریو
۱۶ A 14 ۲۱ ۲۲ ٢٣ الفهرسة عنوان مضمون کی اہمیت الکوں کے شہنشاہ (صلی للہ علیہ وسلم) خالق کائنات تک پہنچانے کی خوشخبری ذات باری کا اسلامی تصور عرب کا ایک بڈھ اور دھریہ و چرخہ کاتنے والی بڑھیا کا واقعہ حضرت امام شافعی به ادر و مهر به حضرت امام ابو حنیفہ کا مناظرہ ایک ملحد سے محضر امام احمد بین جنگی کا لطیف استدلال وجود باری پر امریکی سائنسدان کی ایک عجیب مثال الله - اسم اعظم السلام کا فخرد امتیاز یہودہ کے نام پر تشدد
۲۷ ۲۹ " لمسلم ۴۴ ۵۶ عنوان اسلام میں اللہ کے پیار سے نام کی پنجوقتہ منادی ۱۵ سورہ اخلاص - توحید اسلامی کا چارٹر | دوسرے مذاہد کے باطل نظریات تین اقا نیم کے فوٹو پر دلچسپ تبصرہ حضرت مصلح موعود کی پا درمی فرگوسن سے لا جواب گفتگو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا دلچسپ واقعہ اسلام کا خدا 14 1 A 14 ۲۱ صفات باری کا اسلامی تصویر صفات الہیہ کسے تکرار کی اہمیت ۲۳ قرآن کے تین لفظوں سے مذاہب عالم کا مقابلہ اسلام میں صفات الہیہ کا انقلاب انگیز تفتور ۲۵ صفات الہیہ کے عرفان میں تفاوت وجود باری کی نسبت پر شوکت اعلان E i اللہ تعالٰی سے ذاتی تعلق کے انقلابی اثرات صفات الہیہ کی تفاصیل اسلامی نقطہ نگاہ سے صفات الہیہ کی جلوہ گری دو رنگ میں بظاہر مکی تر صفات میں پر اسرار فرق
۶۲ ۶۴ * * E ۷۴ 5 ? Ap AD 40 } عنوان اللہ کی تشبیہی صفات سے متعلق مغالطہ صانع حقیقی اور ایک موجد میں واضح فرق لطیف و خبیر خُدا خدا دکھانے کا مطالبہ اور اس کا پر لطف جواب ۳۵ عرش کی اصطلاح اور اس کا مطلب بعض مغربی مفکرین کی ناپاک جسارت امریکی افکار و خیالات میں نمایاں تبدیلی صفات باری غیر محدود ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ نمائی اور دعائیں.حضرت مصلح موعود اور ایک جھوٹا صوفی الم خواص اشیاء بھی ختم نہیں ہو سکتے م سیکل اور سر فرانسیس بینگ کا اعتراف حق م صفات الہیہ کا لطیف خلاصہ سورہ فاتحہ میں ۴۳ ام الصفات کی تشریح حدیث قدسی میں ۴۵ اتم الصفات کا شاندار ظہور عہد نبوی میں م عید حافہ کے ایک امریکی ریسرچ سکالر کا آنحضرت) امریکی کا ) صلی اللہ علیہ وسلم کو زبر دست خراج عقیدت
46 = 1 عنوان م السلام کے زندہ خدا کا عظیم الشان معجزہ ضرورت الہام اور اس کی حقانیت ۴۹ نزول الہام روحانی تجربات و مشاہدات کی روشنی میں) ۵۰ منکرین الہام کو دعوت مقابلہ دنیا بھر کے غیر مسلم مذہبی راہنماؤں کو چیلنج قیام توحید کی پر شوکت نپیش گوئی.قادر توانا کی حمد ( نظم از در نمین مصنف کی دوسری تصانیف ربع صدی ہیں.شیر تا تشاء (مجموعی تعداد ۴۲) 114
تجھے سب زور و قدرت ہے خدایا تجھے پایا ہر اک مطلب کو پایا ہر اک عاشق نے ہے اِک ثبت بنایا ہمارے دل میں یہ دلبر سما وری آرام جاں اور دل کو بھایا وہی جس کو کہیں رب البرایا ہوا ظا ہر وہ مجھ پر بالا یا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْذَى الْأَعَادِي (حضرت بانی سلسلہ احمد ید )
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمة غمرة ونصلى عَلَى رَسُولِهِ الكريم اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا اسلامی تصور مضمون کی اہمیتے ذات باری اور صفات باری کا مضمون ایک ایسا اہم ترین مضمون ہے کہ پوری کائنات کے تمام مضامین ازل سے اسی کے گرد چکر لگا ہے ہیں اور ابد تک لگاتے رہیں گے.خُدا وند کریم کی ہستی کے ثبوت و دلائل تو کروڑوں سورجوں سے بھی بڑھ کر روشن ہیں مگر اس کا مقدس وجود ایسا غیب الغیب، دقیق در د تحقیق عمیق در عمیق ، وراء الوراء لطیف ترین اور نہایت درجہ مخفی ہے کہ کوئی انسان اسے اپنی جسمانی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا اور نہ اپنی نا تمام عقل سے پاسکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ وہ محسن خدا رجل شانه و عزائمہ ، اپنے عاجز بندوں پر رحم کرتے ہوئے ہر زمانہ میں اپنے برگزیدہ رسولوں اور نبیوں پر ظاہر ہوا.انہیں اپنی زیر دست قدرتوں کے لیے شمارہ آسمانی نشانات اور عجائب دکھلائے اور انا الموجود کی پیاری آواز سے اُن کو یقین اور بصیرت کے بلند مینار تک پہنچا دیا.
۱۰ سالکوں کے شہنشاہ حق یہ ہے کہ اُس زندہ خُدا کا انا الموجود کہنا معرفت کا وہ مرتبہ عطا کرتا ہے کہ اگر دنیا کے تمام فلاسفروں کی خود تراشیدہ کتابیں ایک طرف رکھیں اور دوسری طرف انا الموجود خدا کا کہنا تو اس کے مقابل فلسفہ کے تمام دفتر سراسر بے حقیقت اور بالکل پہنچے ہیں.خواہ ان کی ضخامت کوہ ہمالیہ جیسے کئی پہاڑوں کے موافق ہی کیوں نہ ہو.الغرض خدا بر حق ہے لیکن اس کا چہرہ دیکھنے کا آئینہ وہ پاک منہ ہیں جن پر عشق انہی کی بارش ہوتی ہے اور بارگاہ حضرت احدیت کے ان سب عاشقوں اور محبوبوں اور سالکوں کی جماعت کے شہنشاہ اور ارمن بطحا کے آسمانی تاجدار ہمارے سید و مولا سید المطر بن شفیع المذنبين ، خاتم النبيين حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ سلسلہ انبیاء میں واحد زندہ نبی ہیں جن کی روحانی آنکھوں کو وہ نور بخشا گیا جوخدا تعالیٰ کی کامل تجلی کا مشاہدہ کر سکے.اور وہ نورانی دلی اور نورانی سینہ عطا ہوا جو اس کا مکمل عکس بن سکے.جیسا کہ حضرت اقدس بانی جماعت احمدیہ علیہ الف تحیتہ.فرماتے ہیں :- (خدا تعالیٰ ایک نور ہے اس لئے نور نے نور کو قبول کر لیا.وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو.وہ ملائک میں نہیں تھا یہ نجوم میں نہیں تھا.قمر میں نہیں تھا.آفتاب میں بھی
نہیں تھا.وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز اراضی اور سمادی میں نہیں تھا.صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولی سیدالانبیا سید الاحياء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ربوبیت الہیہ اور تجلیات ربانیہ کا ایسا بے مثال انعکاس ہوا کہ آپ کے وجود کا ذرہ ذرہ خُدائے ذو العرش کا تخت گاہ بن گیا اور آپ کا دل عرش عظیم قرار پایا اور جس طرح آپ سب انبیاء سے افضل و اعلیٰ اور اکمل دار فع اور اجلی و اصفیٰ تھے.اسی طرح آپ کو قرآن کی شکل میں اسلام جیسا کامل ومکمل دین بھی عطا کیا گیا جو آج خدادانی کا عدیم المثال اور واحد ذریعہ ہے.وہ خُدا جو دنیا کی نظر سے ہزاروں پردوں میں ہے انسان فقط اس بابرکت مذہب کی بیچے طور پر پابندی اختیار کر کے اور اس کی تعلیموں پر کاربند ہو کر اسی جہان میں اس خُدا کو دیکھ لیتا ہے اور یقین کی آنکھ سے مشاہدہ کر لیتا ہے کہ فی الواقع وہ موجود ہے اور زمین و آسمان اور دنیا اور عقبی پر اس قادر توانا خدا کی بادشاہت قائم ہے.آئینہ کمالات اسلام ف طبع اول- (روحانی خزائن جلده من ) :
خالق کائنات تک پہنچانے کی خوشخبری وہ انسان جو قریب چھ ہزار سال قبل غاروں کی اتھاہ اور تاریک گہرائیوں میں رہتا تھا اب راز کائنات دریافت کرنے کے لئے آسمان کی پہنائیوں میں محو پروانہ ہے اور سالہا سال تک اعلی ترین دماغوں کی عرق ریزی اور بے شمار ڈالر صرف کر کے اربوں اور کھربوں تاروں میں سے ہمارے قریب ترین سیار سے اور زمین سے قریب دو لاکھ چالیس ہزار میل پر واقع چاند پر کمند ڈالنے کے بعد مریخ تک پہنچ چکا ہے.جس کا فاصلہ ہم سے تقریبا ساڑھے تین کروڑ میل اور سورج سے تقریباً چودہ کر دڑ بیس لاکھ میں ہے یہ بلا شبہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی یہ حیرت انگیز کامیابی ہے.مگر اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل اسی بڑھ کر ہر فرد بشر کو یہ خوشخبری سنائی کہ ہم تمہیں چاند ، مریخ اور سورج بلکہ ہر دو جہان کے خالق و مالک تک پہنچا سکتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم کا یہ خارق عادت کمال اور علمی معجزہ ہے کہ اُس نے جہاں جہاں کائنات عالم کی وسیع سرحدوں ، اس کی تسخیر کی جدو جہد اور اس سلسلہ میں آخری نہ مانہ کی ایجادات کی خبریں دی ہیں ، وہاں نہایت بلیغ اور پر حکمت اشاروں ے معلوات کا انسائکلو پیڈیاری ناری پروفیسر پاکستان کی است، نارگیری ابری لاہور
۱۳ اور کنایوں اور پیرایوں میں اس بنیادی حقیقت کی طرف بھی ضرور توجہ دلائی ہے کہ دنیا محض کمرہ امتحان اور عارضی اور وقتی اور طفیلی چیز ہے اور شمس قمر اور دوسرے اجرام بالا خر فنا ہونے والے ہیں اور ازلی اور ابدی اور جیتی و قیوم ذات صرف خدا تعالیٰ کی ہے.اور یہ کہ انہی انسانی روح اور فطرت میں ازل سے تسخیر کائنات کا جو بے پناہ دلولہ اور جوش رکھا ہے.وہ محبوب حقیقی کی تلاش و جستجو کی طرف راہنمائی کے لئے ہی رکھا ہے.اس لئے بنی نوع انسان کا واحد نصب العین یہ ہونا چاہیئے کہ وہ کسی طرح اس پوری کائنات کے خالق و مالک خُدا کی عالی باند گاہ تک رسائی حاصل کر ہیں.اور اس دنیا میں ہی اس کے عرفان اور لقاء اور رویت کا شرف انہیں میتر آجائے تا ابدی زندگی پاسکیں.چنانچہ سورہ کہف کے آخر میں مغربی اقوام کی ایجادات کی خبر دینے کے بعد اسی دنیا میں دیدا یا اہلی کی واضح بشارت دی گئی ہے.چنانچہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے :.تَمَن كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا.سورہ کہف آیت : ۱۱۱) تغییر حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ الفہ برکت نے اس آیت کی ایسی وجد آخر کی ہے کہ اسلام کے حقیقی تصوف کے پورے خدو خال ہی نہیں ، اس کی روح بھی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے.چنانچہ فرماتے ہیں :- " یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اسی دنیا میں خدا کا دیدار نصیب ہو جائے
۱۴ جو حقیقی خُدا اور پیدا کنندہ ہے.پس چاہیئے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جن میں کسی قسم کا فساد نہ ہو یعنی عمل اس کے ن لوگوں کو دکھلانے کے لئے ہوں.نہ ان کی وجہ سے دل میں تکبیر پیدا ہو کر میں ایسا ہوں اور ایسائیوں اور نہ وہ عمل ناقص اور نا تمام ہوں نہ ان میں کوئی ایسی بدبو ہو جو محبت ذاتی کے بر خلاف ہو بلکہ چاہیے کہ صدق اور وفاداری سے بھرے ہوئے ہوں اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی چاہئیے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پر ہیز ہونہ سورج ، نہ چاند ، نہ آسمان کے ستارے ، نہ ہوا ، نہ آگ، نہ پانی نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عربت دی جائے اور الیسا ان پر بھر دسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کو کچھ چیز سمجھ جائے کہ یہ بھی شرک کی قسموں میں سے ایک قسم ہے بلکہ سب کچھ کر کے یہ مجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا اور نہ اپنے علم پر کوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھیں اور کابل سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت روح گری رہے اور دعاؤں کے ساتھ اس کے فیض کو اپنی طرف کھینچا جائے اور اس شخص کی طرح ہو جائیں کہ جو سخت پیاسا اور بے دست و پا بھی ہے اور اس کے سامنے ایک چشمہ نمودار ہوا ہے نہایت صافی اور شیریں.پس انسی افتان
۱۵ خیزاں بہر حال اپنے تئیں اس چشمہ تک پہنچا دیا اور اپنے لبوں کو اس چشمہ پر رکھ دیا اور علیحدہ نہ ہوا جب تک سیراب نہ ہوا بر کسے چوں مہربانی سے گئنی از زمینی آسمانی می کنی قرآن مجید کی سورۃ انشقاق میں صاف طور پر نظام ارضی کے پھیل جانے کی پیشگوئی کر کے راکٹ اور خلائی جہازوں اور قمری گاڑیوں کی عظیم الشان خبر دی گئی ہے جسکے بعد ارشاد ہوتا ہے :.- لا تُهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْ حَا فَمُلقِيهِ هُ رسوره انشقاق آیت : 4 ) اسے انسان تو اپنے رب کی طرف پورا زور لگا کر جانے والا ہے اور پھر اُس سے ملنے والا ہے.اس آیت میں عہد حاضر کے سائنسدانوں ، خلانوردوں ، معن کروں ، دانشوروں اور باقی سب لوگوں کو نہایت لطیف رنگ میں پیغام دیا گیا ہے کہ اُس خُدا تک پہنچنے کے لئے اپنی ساری مادی ، ذہنی ، اخلاقی اور روحانی طاقتیں اور قوتیں صرف کر دو جو سب غیر محدود ارضی و شمسی نظاموں کا رب ہے اور اپنے فیض تربیت سے ہر شخص کی استعدادوں کو نقطہ کمال تک لیکچرا ہور من طبع اول - د روحانی خزائن جلد ۲۰ منٹ)
14 پہنچانے کا فیصلہ فرما چکا ہے.خدا تک پہنچنے کے لئے جو اہم اور ضروری وسائل و ذرائع ناگزیر ہیں.ان میں اولین وسیلہ خدا تعالیٰ کی ذات و صفات کا صحیح تصور ہے.ذات باری کا اسلامی تصور اسلام نے ذاتِ باری کی حیرت انگیز تفصیلات پر ایسی شرح وبسط سے روشنی ڈالی ہے کہ گویا دن ہی چڑھا دیا ہے جس کی نظیر دوسرے مذاہب عالم کی تاریخ میں نہیں مل سکتی.اور قرآن کریم وہ منفرد اہلی کتاب ہے جس نے خدا کی ہستی کے بے شمار دلائل بیان فرمائے ہیں مگر ساتھ ہی اظہارِ تعجب بھی کیا ہے کہ کارخانہ عالم کے وسیع و عریض اور محیر العقول نظام دیکھنے والا کوئی شخص اس کے صانع حقیقی سے منکر کیسے ہو سکتا ہے چنانچہ فرماتا ہے :- آ فِي اللَّهِ شَكُ فَاطِرِ السّمواتِ وَالْأَرْضِ ( ابراهیم (1) تمہیں اللہ کے بارے میں بھی کوئی شبہ ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے.حتی یہ ہے کہ یہ ایسی بدیہی صداقت ہے کہ عرب کے بدوؤں اور چرخد کاتنے والی عورتوں سے لے کر اٹالک دور کے موجودہ فلاسفروں اور سائنسدانوں کو بھی اسکی سامنے سرتسلیم خم کر نا پڑتا ہے.اس سلسلہ میں بطور نمونہ بعض نہایت دلچسپ واقعات بیان کئے جاتے ہیں :.
عرب کا ایک بدو عرب کے ایک بڈو سے کسی نے پوچھا کہ تیرے پاس خدا کی کیا دلیں ہے ؟ اس نے جواب دیا.البقرة تدل عَلَى الْبَعِيرِ وَاثَرُ الْقَدَمِ عَلَى السَّفِيرِ فالسَّمَاء ذَاتَ الْبُرُوج وَالْأَرْضُ ذَاتَ الْفِجَاج ا مَا تَدُلُّ عَلى قَدِيرِ ؟ یعنی جب کوئی شخص جنگل میں سے گزرتا ہوا ایک اونٹ کی مینگنی دیکھتا ہے تو یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس جگہ سے کسی اونٹ کا گزر ہوا ہے اور جب وہ صحرا کی ریت پر کسی آدمی کے پاؤں کا نشان پاتا ہے تو یقین کر لیتا ہے کہ یہاں سے کوئی مسافر گزرا ہے تو کیا تمہیں یہ زمین مع اپنے وسیع راستوں کے اور یہ آسمان مع اپنے سورج اور چاند اور ستاروں کے دیکھ کر خیال نہیں جاتا کہ ان کا بھی کوئی بنانے والا ہو گا ؟.اے * چرخہ کاتنے والی بڑھیا ایک بڑھیا چرخا کات رہی تھی.ایک دہر یہ عورت نے اسی خُدا له : "ہمارا خُدا از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ملت ( اشاعت سوم ه را بپریل شام)
IA کے متعلق کوئی معقول ثبوت مانگا.بڑھیا نے چرخا چلانا چھوڑ دیا اور پوچھا کہ اب یہ چر خاکیوں نہیں چلتا ؟ انسی فورا کہا کہ تم نے پر خا چلانا چھوڑ دیا ہے.بڑھیا نے جواب دیا جب ایک چرخا بھی بغیر کسی چلانے والے کے نہیں چل سکتا تو اس قدر عظیم نظام قدرت زمین و آسمان ، سوج چاند ستارے وغیرہ بغیر کسی چلانے والے کے کس طرح چل سکتے ہیں؟ حضرت امام شافعی اور دہریہ حضرت امام شافعی سے کسی ملحد نے سوال کیا کہ خُدا کے وجود کی دلیل کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا.یہ سامنے والا شہتوت کا درخت ، وہ حیران ہو کر بولا.کس طرح بہا حضرت امام نے کہا اس کے پتے دیکھو بظاہر کتنے حقیر نظر آتے ہیں لیکن ان کی گوناگوں خاصیتوں پر نگاہ ڈالی جائے تو انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے.ان پتوں کو بہرن کھاتا ہے تو مشک بن جاتے ہیں.مکھی کھاتی ہے تو شہد بن جاتے ہیں.کیڑا کھانا ہے تو ریشیم بن جاتے ہیں.مگر جب بکری کھاتی ہے تو یہ مینگنیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں.کیا یہ بات عقل میں آسکتی ہے کہ ان حقیر نیتوں میں یہ متنوع خصوصیات آپسے آپ آگئی ہیں اور کوئی انکا پیدا کر نیواں نہیں ہے ؟ سکے ه - مخزن اخلاق ملت (رحمت الله سبحانی لدھیانوی) " سه : ان دیکھی حقیقتیں - ۲۶ (مصنف کوثر نیانه ی )
19 حضرت امام ابوحنیفہ کا مناظرہ ایک ملحد سے عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دورِ حکومت کی بات ہے کہ ایک مادہ پرست نے حضرت امام ابو حنیفہ کو خدا کی ہستی پر مناظرہ کی دعوت دی.ہارون الرشید نے حضرت امام کو پیغام بھجوایا لیکن حضرت امام کچھ دیر سے پہنچے.ملحد نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی.امام صاحب نے جواب دیا.میرا گھر دریائے دجلہ کے اُس پار ہے ہمیں اپنے گھر سے نکلا.اور دریا کے کنار سے پہنچا.جہاں ایک پرانی اور شکستہ کشتی دیکھی جسکسی تختے بکھر چکے تھے مگر جونہی میری نگاہ اس پر پڑی ، تختوں میں اضطراب پیدا ہوا.پھر انہوں نے حرکت کی اور اکٹھے ہو گئے.ایک حصہ دوسرے حصہ کے ساتھ پیوست ہو گیا اور بغیر کسی بھٹی کے سالم کشتی تیار ہو گئی.میں اس کشتی پر بیٹھا.پانی کو عبور کیا اور یہاں آگیا.ملحد نے کہا."اے رنگیسو ! جو کچھ تمہارا پیشوا اور امام اور تمہارے عہد کا افضل انسان کہ رہا ہے.اسے سنو ! کیا تم نے ا زیادہ جھوٹی بات کبھی شنی ہے ؟ شکستہ کشتی بڑھٹی کے بغیر کس طرح بن گئی ہے اور بغیر ملاح کے کسی طرح چل پڑی ؟ یہ تو خالص جھوٹ ہے جو تمہارے فاضل ترین عالم سے ظاہر ہوا ہے.امام صاحب نے فرمایا " اگر کسی کارندے اور بڑھٹی کے بغیر کشتی حاصل نہیں ہو سکتی تو یہ کیسے ممکن ہوسکتے ہے کہ اس قدر عظیم نظام دنیا، بغیر کسی چلانے والے کے چل سکے ؟ تو صانع کی نفی کا کیسے قائل ہو گیا ہے؟؟ مخزون اخلاق " ملا) 2.
حضرت امام احمد بن حنبل کا لطیف استدلال حضرت امام احمد بن حنبل نے ایک مرتبہ فرمایا.میں نے ایک مضبوط قلعہ دیکھا.جو صاف اور چکنا بنا ہوا تھا.اس میں کوئی شگاف نہ تھا.باہر سے اس کی شکل ایسی تھی جیسے گھلی ہوئی چاندی ہوتی ہے اور اندر سے اس کی صورت سونے کی مانند تھی.اسی قلعہ کی دیواریں پھٹ گئیں.اس سے ایک جانور نکل پڑا.جس کی آنکھ ، کان سب موجود تھے.یہ قلعہ انڈہ ہے جس کا خول چاندی کی مانند ہے.اسی جو زرد می نمودار ہوتی ہے.وہ سونے کی مانند ہے.اس سے بچہ پیدا ہو جاتا ہے.اس کا خالق بجز خدا اور کون ہے ؟ نه امریکی سائنسدان کی ایک عجیب مثال امریکہ کے ماہر حیاتیات پروفیسر ایڈون کا نکن پروفیسر نسیشن یونیوسٹی (Professor Edwin Conklin, the Princetown (University, biologist سکھتے ہیں:- The probability of life originating by accident is comparable to the probability of the complete dictionary resulting from an اه سان الاخلاق " ص ) از محمد بخش صاحب سلم ) :
explosion in a printing factory." (Quoted in Cincinnati Times Stat); ✓ یعنی یہ خیال که زندگی کا آغاز محض کسی اتفاقی حادثہ کے نتیجہ میں ہوا ہے بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ لغت کی ایک مکمل کتاب کسی چھاپہ خانہ کے اتفاقی دھماکے کے نتیجہ میں خود بخود چھپ گئی تھی.اللہ اسم اعظم قرآن عظیم کا لفظ لفظ چو نکہ کلام اللہ ہے، اس لئے جس طرح صحیفہ نظرت کے پتہ پتہ سے خدا کا ثبوت ملتا ہے اسی طرح اس پاک اور رہبانی کتاب کی ہر آیت بسم اللہ کی ب سے لے کر والناس کی س تک خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کے لئے آئینہ حق نما ہے اور اسی میں زبر دست اقتداری اور آفاقی اور انفسی نشانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ذات کی واضح اور نمایاں تصویر ملتی ہے اور اگر کوئی شخص معرفت کی آنکھ اور ایمان کے نور ہے اس کو نظر غائی مشاہدہ کرے تو اس کی روح پکار اٹھے گی کہ اس کی ہر آیت میں خدائے قادر وتوانا کا ذکر موجود ہے اور یہ کمال السلام کے سواکسی اور مذہب کی الہامی کتاب کو حاصل نہیں.اسلام جس زندہ اور از لی اور ابدی اور کامل خُدا کو پیش کرتا ہے.اسکا ذاتی اور مخصوص نام اللہ ہے.جو اسم اعظم کہلاتا ہے جو قرآن مجید میں ، ۴۶۹ بار “Reader's Digest” May 1956 Page 87) -
استعمال ہوا ہے.اے اسلام کا فخر و امتیاز رو حضرت مصلح موعود نے اپنے شہرہ آفاق لیکچر ہستی باری تعالیٰ حث میں اور اپنی معرکۃ الاراء اور لاجواب " تفسیر کبیر ( جلد چہارم ، میں یہ انکشاف فرمایا ہے کہ اسلام کے سوا کسی اور مذہب میں خدا کا ذاتی نام کوئی نہیں.نہ یہودیوں میں نہ عیسائیوں میں ، نہ بدھوں میں ، نہ ہندوؤں میں ، نہ زرتشتیوں میں نہ کسی اور مذہب میں صرف صفاتی نام ہیں.جیسے ہندوؤں میں پرماتما کا لفظ ہے یعنی بڑی آتما - پرھم الینور معنی بڑا المینور اسی طرح زرتشتیوں میں اہرمن اور پیزوان نام ہیں جو دونوں صفاتی ہیں.مسیحیوں میں بھی کوئی مخصوص نام نہیں.البتہ اناجیل میں خداتعالی کو خاص طور پر جس لفظ سے یاد کیا گیا ہے وہ باپ ہے جو صفاتی نام ہی ہے.یہودیوں میں خدا کو یہودہ کہتے ہیں جس کے متعلق تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ یہ بھی اسم ذات نہیں بلکہ اسم صفت ہے جو " یا ھو " سے مرکب ہے.یعنی اسے وہ جو ہے.گویا خُدا کیسے نام کا پتہ ہی نہیں.اسکی ایسی ہی مثال ہے کہ کوئی شخص دور فاصلہ پر جا رہا ہو جس کا نام معلوم نہ ہو مگر اُسے بلانے کی ضرورت ہو تو کہا جاتا ہے کہ ایسے ٹھہر جاؤ اسی طرح یہودہ نام ه : " اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۳ حصہ اصل - دانش گاہ پنجاب لاہور ::
۲۳ ارنے کا قائم مقام ہے.در اصل بات یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کسی قوم کو خُدا کے اس ذات کا کامل عرفان ہی نہیں دیا گیا.اور اس میں ایک بھاری حکمت ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا اسم ذات اس کی ساری صفات کا جامع ہے اور ساری صفات تاریخ عالم میں پہلی اور آخری بار صرف تھی مصطفے احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ظاہر ہوئیں اور چونکہ پوری دنیا کو اللہ کے اسم ذات کی طرف سب سے پہلی عالمگیر دعوت دینے والے وجود بھی آپ ہی ہیں اس لئے کلمہ توحید میں لا الهَ إِلَّا الله کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله کا پیارا نام بھی ہمیشہ کے لئے لازم و ملزوم اور وابستہ کر دیا گیا تا فضا ، بقاء اور لقاء کی ہر منزل کا مالک اور عالم ناہوت الاہوت اور جبروت کا ہر جادہ پیما اور دنیائے معرفت کا ہر مسافر اس حقیقت کو دل پر نقش کرنے کہ وہ ان اللہ پر ایمان لاتا ہے جو اس کے مظہر اہم حضرت محمد رسول اللہ پر اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ افرد نہ ہوا ہے وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دبر مرا یہی ہے سب ہم نے اسکی پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جی نے حق دکھایا وہ مہ لقا ء یہی ہے یہودہ کے نام پر تشدد یہاں یہ بنانا بھی ضروری ہے کہ یہودیوں کے ہاں یہودہ کے نام کا غیر معمولی
۳۴ ادب کیا جاتا ہے.یہ بنی اسرائیل میں خُدا کا خاص نام ہے جو اُسے دنیا کی دوسری اقوام کے معبودوں اور خداؤں سے ممتاز کہتا ہے.یہودی علماء کا یہ عقیدہ تھا کہ خدا کا یہ خاص نام ہر وقت نہیں لیا جا سکتا کیونکہ اس میں اس کی بے ادبی ہے.صرف ان کے علماء ہی نام لے سکتے تھے.اور انہی کو اس کا مجھے تلفظ آتا تھا.دستور یہ تھا کہ یہودیوں کا سب سے مقدس پیشوا سان میں ایک بار ایک مذہبی تہوار میں سب سے پاک جگہ یعنی بیت المقدس کے اندر صرف ایک بار یہ نام لے سکتا تھا.سب لوگ خاموشی کے ساتھ اسے سنتے اور کسی کو اس کے دہرانے کی بھی اجازت نہیں تھی.یہودی اخبار اگر یہ نام پبلک میں لیتے تو بگاڑ کر لیتے تاکہ گناہ نہ ہو.اس درجہ اخفاء کے باوجود مصریوں سے بڑی کوشش سے اس نام کو دریافت کیا اور یہ خیال کر کسے کہ اس نام نی برکت سے یہودیوں نے ہم پر فتح پائی تھی اس نام کو اپنے جادوں میں داخل کر نیا چنانچہ مصری جادو گر بہنو واہ کا نام ضرور لیتے تھے.اس سلسلہ میں یہوی علماء ایسے متشدد واقع ہوئے تھے کہ ان کے سوا الہ کوئی اور شخص یہ خاص نام لینے کی جسارت کر تا تو وہ یقین رکھتے تھے کہ اس پر خدا تعالیٰ کا منصب ضرور نازل ہوتا ہے اور وہ اس کے مرنے پر نہ کوئی مذہبی رسوم ادا کرتے تھے اور نہ اسے "برکت دیتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس کی نجات نہ ہوگی اس بڑھ کر یہ کہ بائیل کی تلاوت کرتے وقت یہود کے لئے بھی اس نام کی تلاوت منع تھی.اور خلاف ورزی کرنے والے کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا.بلکہ شارحین بائیبل نے تو یہانتک لکھا ہے کہ غیر یہودی بھی اگر یہ نام
۲۵ لے تو اس کی سزا بھی قتل ہے.اس ظالمانہ اور بہیمانہ قانون کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہود میں سے خداوند کے مخصوص نام کا صحیح تلفظ جاتا کہ ہا چنانچہ اس میں شدید اختلاف ہے کہ اصل لفظ یہودہ ، کینو - کہو ہے یا کیا ہے یہ لفظ بائیبل.میں ۶۸۳۳ مرتبہ استعمال ہوا ہے مگر اس میں اب خدا کا خاص نام صحیح تلفظ سے موجود نہیں.انسائیکلو پیڈیا سیلیکا " (ENCYCLOPEDIA ( B1BLICA میں اس نام کا مجھے تلفظ کو لکھا ہے.لفظ يهو الوالد ( E WALD ) کے خیال میں یا ٹھو کی مختصر شکل ہے یعنی اسے وہ (جو ہے ، اور خروج ۳ : ۱۴ میں یہی حضرت موسی کو بتایا گیا تھا.لے اسلام میں اللہ کی پنجوقتہ منادی یہودی ندی کے مقابل پر اسلام نے اللہ کے قرب اور اظہایہ محبت کی راہیں بالکل وسیع اور کشادہ کر دیں اور اسکیسی پیار سے بندوں پہ پہلی بار یہ برا نہ کھلا که الا بذكرِ اللهِ تَعْمَينُ الْقُلُوبُ (رعد: ۲۹) اللہ کے ذکر ہی سے دلوں میں اطمینان پیدا ہو سکتا ہے.پھر فرمایا : واذكروني اذركم (البقره ۱۹۳۱) یعنی تم اللہ کو یاد کرو وہ تمہیں یاد کرے گا.نیستی باری تعالی " من حضرت صلح خود میثاق النبیین حصر دوم ما ، ما از جناب عبد الحق صاحب ودیا ر تھی ) :
اسلام نے نہ صرف یہ کہ ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی کھلی اجازت دی بلکہ حکم دیا کہ آسمانی نوبت خانوں کے ذریعہ مکہ کے بیت اللہ شریف ہی میں نہیں دنیا کے ہر ملک، ہر شہر، ہر گاؤں، ہر بستی ، ہر پہاڑی، ہر میدان اور ہر گلی کوچہ کی مسجد میں روزانہ پانچ وقت اللہ کے ذاتی نام کی بلند آواز سے یہ پر شوکت منادی کی جائے کہ الله اكبر الله اكبرَ اشْهَدَانْ لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ سنو میں تمہیں الہ کی طرف لاتا ہوں جور سے بڑا ہے اور بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اس کی مقابل میں بالکل پہنچ ہو جاتا ہے.کسی کی مجال نہیں کہ اس کی طاقت کے سامنے دم مار سکے.اور سند میں یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ کے سوا آج کے احکام دنیا کو کوئی نہیں سنا سکتا.تم خواہ کسی کے پیچھے چلوئیں اللہ کے سوا کسی کے پیچھے نہیں چل سکتا.اور اس کے پیچھے چلنے کا رستہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بنا سکتے ہیں.کیونکہ وہی خُدا کے زندہ رسول ہیں.آسمانی نوبت خان کی بہ ترکیف اور روح پر در تشریح میں نے خلاصتاً حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ میں پیش کی ہے.اب میں آپ کو امام الزمان مجدّد الف آخر سید نا حضرت اقدس عليه العن الف ہو کتے کی رقم فرمودہ ایک عارفانہ تحریر قلمبند کرتا ہوں.فرماتے ہیں :.
ر نہ توریت نے سکھلایا اور نہ انجیل نے.صرف قرآن نے سکھلایا اور یہ کلمہ اسلام سے ایسا تعلق رکھتا ہے کہ گویا اسلام کا تمغہ ہے.یہی کلمہ پانچ وقت مساجد کے مناروں میں بلند آواز سے کہا جاتا ہے جب عیسائی اور ہند و سب چڑتے ہیں.جیسے معلوم ہوتا ہے کہ خُدا کو محبت کے ساتھ یاد کرنا ان کے نہ دیاک گناہ ہے.یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے.کہ صبح ہوتے ہی اسلامی موزن بلند آواز سے کہنا ہے کہ اشْهَدُ اَن لَّا اِلهَ إِلَّا اللهُ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی ہمارا پیارا اور محبوب اور معبود بجز اللہ کے نہیں.پھر دوپہر کے بعد یہی آوانہ اسلامی مساجد سے آتی ہے.پھر عص کو بھی یہی اداز ، پھر مغرب کو بھی یہی آواز اور پھر عشاء کو بھی یہی آواز گونجتی ہوئی آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہے.کیا دنیا میں کسی اور مذہب میں بھی یہ نظارہ دکھائی دیتا ہے ؟! سورۂ اخلاص - توحید اسلامی کا چارٹر صحابی رسول عربی حضرت ابی ابن کعب سے مروی ہے کہ متحد کے مشرکوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنے رب کا نسب نامہ بیان کر د ے: سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب" من ام طبع اول +
اس پر سورۃ اخلاص نازل ہوئی جو توحید اسلامی کا مکمل چارٹر ہے.چنانخواستہ حقانی نے فرمایا :- قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدُه حضرت اقدس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :.یعنی یہ تمہارا خدا وہ خُدا ہے جو اپنے ذات اور صفات میں واحد ہے.نہ کوئی ذات اس کی ذات جیسی ازلی اور ابدی یعینی انادی اور اکال ہے.نہ کسی چیز کے صفات اس کی صفات کے مانند ہیں.انسان کا علم کسی معلم کا محتاج ہے اور پھر محمد ہے مگر اس کا علم کسی علم کا محتاج نہیں.اور بایں ہمہ غیر محدود ہے انسان کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے اور محدود ہے مگر خدا کی شنوائی ذاتی طاقت سے ہے اور محدود نہیں.اور انسان کی بینائی سورج یا کسی دوسری روشنی کی محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر خدا کی بنیائی ذاتی روشنی سے ہے اور غیر محدود ہے.ایسا ہی انسان کی پیدا کر نے کی قدرت کسی مادہ کی محتاج ہے اور نیز وقت کی محتاج اور پھر محدود ہے لیکن خدا کی پیدا کرنے کی قدرت نہ کسی مادہ کی محتاج ہے ، نہ کسی وقت کی محتاج اور بغیر محدود ہے.کیونکہ اس کی تمام صفات بے مثل دمانند : الدر المنثور للسيوطى ج - ص ۴۱۰ ::
۲۹ ہیں اور جیسے کہ اس کی کوئی مثل نہیں اس کی صفات کی بھی کوئی مثل نہیں.اگر ایک صفت میں وہ ناقص ہو تو پھر تمام صفات میں ناقص ہوگا اس لئے اس کی توحید قائم نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اپنی ذات کی طرح اپنے تمام صفات میں بے مثل و " گا مانند نہ ہو نے دوسرے مذاہب کے باطل نظریات سورۃ اخلاص سے زرتشتیوں کے اہرمن ویزدان ، سہندوؤں کے دیوی دیوتوں اور بگڑی ہوئی عیسائیت کے عقیدہ تثلیث فی التوحید کے سب باطل نظریے پاش پاش ہو جاتے ہیں.ان اجمالی اشارات کی مزید تفصیل حضرت اقدس کے الفاظ میں ملاحظہ ہو.فرماتے ہیں:.افسوس که تمام مخالف مذہب والوں نے خدا تعالیٰ کے وسیع دریائے قدرت اور رحمت اور تقدس کو اپنی تنگ دلی کی وجہ سے زبر دستی روکنا چاہا ہے اور انہی وجوہ سے ان کے فرضی خداؤں پر کمزوری اور ناپاکی اور بناوٹ اور بے جا غضب اور بے جا حکومت کے طرح طرح کے داغ لگ گئے ہیں.لیکن اسلام نے خدا تعالیٰ کی صفات کا ملہ کی تیز ید و دھاروں کو کہیں نہیں روکا وہ آریوں کی طرح اس عقیدہ کی تعلیم نہیں دیتا کہ ٥٠: ليسكر لاہور ص ١٣
زمین و آسمان کی رو میں اور ذرات اجسام اپنے اپنے وجود کے آپ ہی خدا ہیں اور جس کا پر میشر نام ہے وہ کسی نامعلوم سبب محض ایک راجہ کے طور پر ان پر حکمران ہے اور نہ عیسائی مذہب کی طرح یہ سکھلاتا ہے کہ خدا نے ایک انسان کی طرح ایک عورت کے پیٹ سے جنم لیا اور نہ صرف نو مہینہ تک خون حیض کھا کہ ایک نکار جسم سے جو بہت سبع اور تمر اور راحاب جیسی حرام کا لہ عورتوں کے خمیر سے اپنی فطرت میں اہلیت کا حصہ رکھتا تھا.خون اور بڑی اور گوشت کو حاصل کیا بلکہ بچپن کے زمانہ میں جو جوہ بیماریوں کی صعوبتیں ہیں جیسے خسرہ چیچک دانتوں کی تکالیف وغیرہ تکلیفیں وہ سب اٹھائیں.اور بہت ساحقہ عمر کا معمولی انسانوں کی طرح کھو کہ آخر موت کے قریب پہنچ کر خدائی یاد آگئی.مگر چونکہ صرف دعوی ہی دعویٰ تھا اور خدائی طاقتیں ساتھ نہیں تھیں.اس لئے دعویٰ کے ساتھ ہی پکڑا گیا.بلکہ ان سب نقصانوں اور ناپاک حالتوں سے خُدائے حقیقی ذوالجلال کو مننہ اور پاک سمجھتا ہے.اور اس وحشیانہ غصہ سے بھی اس کی ذات کو یز نہ قرار دیتا ہے.کہ جب تک کسی کے گلے میں پھانسی کا رستہ نہ ڈالے تب تک اپنے بندوں کے بخشنے کے لئے کوئی سہیل اس کو یاد نہ آوے اور خدا تعالی کے وجود اور صفات کے بارے میں قرآن کریم یہ بیچی اور پاک اور کامل معرفت سکھاتا ہے.کہ اس کی قدرت اور رحمت
اور عظمت اور تقدس بے انتہا ہے.اور یہ کہنات آنی تعلیم کی رو سے سخت مکر وہ گناہ ہے.کہ خدا تعالیٰ کی قدرتیں اورعظمتیں اور رحمتیں ایک حد یہ جا کر ٹھہر جاتی ہیں.یا کسی موقعہ پر پہنچ کر اس کا ضعف اُسے مانع آجاتا ہے بلکہ اس کی تمام قدرتیں اسی مستحکم قاعدہ پر چل رہی ہیں کہ باستثناان امور کے تو اس کے تقدس اور کمال اور صفات کا ملہ کے مخالف ہیں یا اسکی مواعید غیر متبدلہ کے منافی ہیں باقی جو چاہتا ہے کہ سکتا ہے مثلاً یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنی قدرت کاملہ سے اپنے تئیں ہلاک کر سکتا ہے.کیونکہ یہ بات اس کی صفت قدیم، حتی و قیوم ہونے کے مخالف ہے.وجہ یہ کہ وہ پہلے ہی اپنے فعل اور قوں میں ظاہر کر چکا ہے کہ وہ انزلی ابدی اور غیر فانی ہے.اور موت اس پر جائزہ نہیں.ایسا ہی یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی عورت کے رحم میں داخل ہوتا اور خون حیض کھانا اور قریباً نو ماہ پورے کر کے سیر ڈیڑھ سیر کے وزن پر عورتوں کی پیشاب گاہ سے روتا چلاتا پیدا ہو جاتا ہے.اور روٹی کھانا اور پاخانہ جاتا اور پیشاب کرتا اور تمام دکھ اس فانی زندگی کے اٹھاتا ہے اور آخر چند ساعت جان کندنی کا عذاب اٹھا کہ اس جہان فانی سے رخصت ہو جاتا ہے کیونکہ یہ تمام امور نقصان اور منقصت میں داخل ہیں اور اس کے - جلالی قدیم اور کمال نام کے برخلاف ہیں.نور القرآن حصہ دوم مادر وحانی خزائن جلد - ۴۸۹
۳۲ تین اقانیم کے فوٹو پر دلچسپ تبصره حضرت اقدس بانی سلسلہ احدی نے انجام انھم حصے میں عیسائیوں کی شائع کرد تصویروں سے عیسائیوں کے مثلت خُدا اور اس کے تین ممبران کمیٹی یعنی تین اقا نیم کا فوٹوت مع فرمایا اور پھر لکھا :.اقانیم یہ تینوں مستیم خدا عیسائیوں کے زعم میں ہمیشہ کے لئے جسم اور ہمیشہ کے لئے علیحدہ علیحدہ وجود رکھتے ہیں اور پھر بھی یہ تینوں مل کر ایک خُدا ہے لیکن اگر کوئی بتلا سکتا ہے تو ہمیں بتلا دے که با وجود اس دائی تقسیم اور تغیر کے یہ تینوں ایک کیونکہ ہیں بھلا ہمیں کوئی ڈاکٹر مارٹن کلارک اور پادری عمادالدین اور پادری ٹھا کر دانش کو باوجود ان کے علیحدہ علیحدہ جسم کے ایک کر کے تو دکھلا دے ہم دعوی سے کہتے ہیں کہ اگر تینوں کو کوٹ کر بھی بعض کا گوشت بعض کے ساتھ ملا دیا جائے پھر بھی جن کو خدا نے تین بنایا تھا ہر گز ایک نہیں ہوسکیں گے پھر جبکہ اس فانی جسم کے حیوان با وجود امکان تحلیل اور تفرق جسم ایک نہیں ہو سکتے پھر ایسے تین بجستم جن میں بموجب عقیدہ عیسائیاں تحلیل اور تفریق جائز نہیں کیونکہ ایک ہو سکتے ہیں ؟ شد روحانی خزائن جلد ا ا ص :
۳۳ حضرت مصلح موجود کی پادری فرگوسن سے لاجواب گفتگو حضرت مصلح موعود کی عمر مبارک قریب ہیں برس ہوگی کہ ڈلہوزی میں آپ کی ایک مشہور پادری (غائیا، فرگوسن سے مسئلہ تثلیث پر گفتگو ہوئی.سامنے میز پر ایک ہنس پڑی ہوئی تھی.حضور نے پادری صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ پیس اٹھانے کی ضرورت ہو اور آپ اس وقت مجھے بھی اور اپنے ساتھیوں اور اپنے بیر سے یا اپنے باورچی اور اپنے ارد گرد کے ہمسایوں کو بھی آوازیں دیں کہ آؤ اور میری مدد کرو اور جب سارا محلہ اکٹھا ہو جائے تو آپ یہ کہیں کہ یہ نہیں میز پر سے اٹھا کر میرے ہاتھ میں رکھ دو تو وہ آپ کے متعلق کیا خیال کریں گے ؟.پادری صاحب کہنے لگے.پاگل سمجھیں گے.حضور نے فرمایا.جب باپ بیٹا اور روح القدس میں سے ہر ایک کامل ہے اور نہر ایک اکیلے اکیلے دنیا پیدا کرنے پر قادر تھے تو تینوں کا مل کر یہ کام کرنا ان کے جنون کی علامت نہیں تو اور کیا ہے ؟ پادری فرگوسن اس پر لا جواب ہو گئے " اے حضرت مفتی محمد صادق صاحب دلچسپ واقعہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب بانی احمدیہ مسلم مشن امریکہ ایک دفعہ لندن کے کسی پادری کے کتب خانہ جس پر SHOP TRINITY Book - ایمنی کتب خانہ تفسیر کبیر جلد چهارم ۲۳:۳۰ به
تثلیث مقدرش کا سائن بورڈ نصب تھا ، تشریف لے گئے.پادری صاحب نے حضرت مفتی صاحب کو بتایا کہ ہمارے نزدیک باپ، بیٹیا اور شرح القدس تینوں خدا ہیں مگر پھر بھی خدا تین نہیں بلکہ صرف ایک ہے.یہ روحانی را نہ ہے کہ تین ایک ہیں.حضرت مفتی صاحب نے بہت سمجھایا کہ یہ فارمولا بالکل غلط ہے کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ تین ایک ہوں اور ایک تین مگر پادری صاحب اپنی بات پر مصر رہے.جب گفتگو لمبی ہونے لگی تو حضرت مفتی صاحب نے قریب کی میز سے ایک کتاب لی جس کی قیمت تین شلنگ تھی.حضرت مفتی صاحب نے مسکراتے ہوئے جدید سے ایک شلنگ نکالا اور پادری صاحب کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے فرمایا لیجئے اس کی قیمت.پادری صاحب نے کہا اس کتاب کی قیمت تین شلنگ ہے.حضرت مفتی صاحب نے بے ساختہ جواب دیا کہ تین ایک ہیں اور ایک تین ہیں.اس کو قبول فرمائیں پادری صاحب بولے جناب معاملہ کی بات اور ہے اور مذہب کی اور.حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ یہ عجیب مذہب ہے کہ معاملہ کے وقت اور ہو جاتا ہے.پادری صاحب اگر آپ اسلام کا مطالعہ فرمائیں تو دیکھیں گے کہ دہ ہر حالت میں ایک جیسا رہتا ہے.خواہ ہم بازار میں ہوں یا مسجد میں.اے اسلام کا خدا اسلام نے خدائے عزوجل کی وحدانیت کا جو عظیم تصویر پیش کیا ہے الطائف صادق مرتبہ حضرت یخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی من :
۳۵ وہ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں یہ ہے کہ : ا." حقیقی توحید جس کا اقرارہ خُدا ہم سے چاہتا ہے اور جب کے اقرائد سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالٰی کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بت ہو خواہ انسان ہو خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر و فریب ہو مننہ سمجھنا اور اس کے مقابل پیر کوئی قادر تجویز نہ کرنا.کوئی رازق نہ ماننا.کوئی معتر اور بذل خیال نہ کرنا.کوئی ناصر اور مددگارہ قرار نہ دینا اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اُسی سے خاص کرنا.اپنی عبادت اسی سے خاص کرنا.اپنا تذلل اسی سے خاص کرنا.اپنی امیدیں اُسی سے خاص کرنا.اپنا خوف اُسی سے خاص کرنا.پس کوئی تو حید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہو سکتی.اول ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اسکی وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو مسلم کی طرح سمجھنا اور تمام کو ہانکتہ اعذات اور باطلتہ الحقیقت خیال کرنا.دوم صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں فراہ نہ دینا اور جو بیک پر رب الانواع یا فیض رساں نظر آتے ہیں.یہ اُسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا.تلبیس اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید بینی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خداتعالی کا شریک نہ گردانا اور اسی میں کھوئے جانا " لے : سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب" ص ۲۴ :
یچھے مذہب کا خُدا ای مطابق عقل اور نور فطرت چاہیئے کہ جس کا وجود ان لوگوں پر بھی محبت ہو سکے جو عقل تو رکھتے ہیں مگر ان کو کتاب نہیں ملی.غرض وہ خُدا ایسا ہونا چاہیئے جس میں کسی زیرہ دستی اور بناوٹ کی بو نہ پائی جائے.سو یاد رہے کہ یہ کمال اس خُدا میں ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا ہے اور تمام دنیا کے مذہب والوں نے یا تو اصل خدا کو بالکل چھوڑ دیا ہے جیسا کہ عیسائی اور یا نا واجب صفات اور اخلاق ذمیمہ اسی کی طرف منسوب کہ ادئے ہیں جیسا کہ یہودی اور یا واجب صفات سے اس کو علیحدہ کر دیا ہے جیسا کہ مشرکین اور آریہ مگر اسلام کا خدا وہی سچا خدا ہے جو آئینہ قانون قدرت اور صحیفۂ فطرت سے نظر آرہا ہے.اسلام نے کوئی نیا نھدا پیش نہیں کیا بلکہ وہی خدا پیش کیا ہے جو انسان کا نور قلب اور انسان کا کا مشمس اور زمین و آسمان پیش کر رہا ہے " ہے.ہم دعوی سے کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالٰی کی بہتی اور وجود پر ستستلم اٹھائیگا.اسکو آخر کا راسی خدا کی طرف آنا پڑیگا جو اسلام نے پیش کیا ہے کیونکہ صحیفۂ فطرت کے ایک ایک پتے میں اس کا پتہ ملتا ہے اور بالطبع انسان اُسی خدا کا نقش اپنے اندر رکھتا ہے " ۵۲ ه جلد ها تبلیغ رسالت جلد ششم مات سے ملفوظات جلد اول ملت به ص
صفات باری کا اسلامی تصویر ذات باری کا ذکر کرنے کے بعد اب میں صفات باری کی طرف آتا ہوں.اللہ تعالیٰ کی صفات کا بکثرت دہرانا اسلامی تصوف کی روح اور جان ہے اور میں طرح خلائی جہاز میں سیرافلاک کرنے والا ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے لباس اور خوراک سے بے نیاز ہو کہ زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح جب بندہ مومن خالق کائنات کی طرف آسمانی سفر اختیار کرتا ہے تو اس کا ذکر الہی کئے بغیر ایک لمحہ بھی عبسر کہ نا روحانی مدت کو دعوت دینا ہے.خود اس کو بھی یقین ہوتا ہے کہ اگر طرفتہ العین کے لئے بھی یاد الہی سے غافل رہا تو میری ہلاکت یقینی ہے حضرت مصلح موعود نے ایک دفعہ ذکر الہی کی نہایت لطیف مثال سوچ اون (SWITCH ON ) کرنے سے دی اور فرمایا کہ اگر بجلی کا مین دبا دیا جائے تو روشنی پیدا ہو جاتی ہے ورنہ اندھیرا ہی رہتا ہے لیے حضرت اقدس بانی جماعت احمدیہ علی الف الف برکت کا عینی مشاہدہ و تجربہ ہے کہ عشق اور محبت کے ہوش میں ہو یاد الہی کی جاتی ہے اسی مومن کی روحانی قوتیں ترقی کرتی ہیں.آنکھ میں قوت کشف نہایت صاف اور لطیف طور پر پیدا ہو جاتی ہے.تکان ندا کے کلام کو سنتے ہیں اور زبان پر وہ کلام نہایت لذیذ اور اعلیٰ اور اصفی طور پر جاری ہو جاتا ہے اور رویائے صادقہ بکثرت ہوتے ہیں.جو فلق کی طرح ظہور میں آجاتے ہیں کیے له الفضل ، جولائی شاره ت به بینیم با این مدیر حه نیم نفت طبع اول - د روحانی خزائن جلد ۲۱ ۲۱۲-۲۱۵)
صفات الہیہ کے تکرار کی اہمیت ذکر اللہ کی یہ آسمانی تاثیرات و عجائبات صفات الہیہ کے کثرت تکرار اور زبان سے دہرانے اور قلب میں نقش کرنے کے سوا ہر گز پیدا ہی نہیں ہو سکتے کیونکہ کسی وجود سے عشق و محبت یا حسن سے پیدا ہوتا ہے یا احسان سے اور یہ دونوں امویہ صفایت اللہ کے دردہی سے حاصل ہو سکتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کے حسن و احسان کا صحیح تصور نہ ہو تو اسکی ذاتی تعلق کیسے ہو سکتا ہے ؟ حاجی الحرمین الشریفین حضرت حافظ مولانا نور الدین بھیری خلیفہ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ اُن کے ایک استاد نے جو بھوپال میں رہا کرتے تھے ، ایک دفعہ ردیاء میں دیکھا کہ بھوپال سے باہر ایک ملی ہے وہاں ایک مجذوم یعنی کو بھی پڑا ہوا ہے جو آنکھوں سے اندھا ہے ، ناک اُس کا کٹا ہوا ہے.انگلیاں جھڑ چکی ہیں اور تمام جسم میں پیپ پڑی ہوئی ہے اور لکھیاں اس پر بھنبھنا رہی ہیں.فرمایا.مجھے یہ دیکھ کر سخت کراہت آئی اور میں نے پوچھا بابا تو کون ہے ، وہ کہنے لگا.میں اللہ میاں ہوں.مجھ پر سخت دہشت طاری ہوئی اور میں نے کہا تم اللہ میاں ہو ؟ آج تک تو سارے انبیاء یہی کہتے چلے آئے کہ اللہ سب سے زیادہ خوبصورت ہے اور اسکی بڑھ کر اور کوئی حسین نہیں ہم جو اللہ تعالیٰ سے عشق اور محبت کر تے ہیں تو کیا اسی شکل پر ؟ اس نے کہا انبیا جو کچھ کہتے آئے ہیں وہ بالکل ٹھیک اور
۳۹ درست ہے نہ ہیں اصل اللہ میاں نہیں ، میں بھوپال کے لوگوں کا اللہ میاں ہوں.یعنی بھوپال کے لوگوں کی نظروں میں میں ایسا ہی سمجھا جاتا ہوں تے حضرت مصلح موعود مقربان درگاہ الہی میں ایک موعود مقام رکھتے تھے.حضور نے ۲۰ اپریل شاہ کو خاص اسی موضوع پر خطبہ ارشاد فرمایا کہ خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے حسن پر اطلاع ہو اور یہ امر خدا تعالیٰ کی صفات کو بار بارہ دہرانے سے حاصل ہوتا ہے.چنانچہ فرمایا :- " خُدا تعالیٰ کی ہستی وراء الورٹی ہے اور ظاہری آنکھ سے وہ پوشیدہ ہے.اسے دل کی آنکھ سے دیکھا جائے گا اور اس کی آوازہ کو دل کے کان سے سُنا جائے گا.شریعت نے اسی کے لئے یہ طریق بیان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا حسن الفاظ میں بیان کیا جائے.اسے بار بار دھرایا جائے اور آنکھوں کے سامنے اسکی تصویر لائی جائے تا انسان مجبور ہو جائے کہ اسکی پیار کرے.اور اس کا نام قرآن کریم میں ذکر الہی رکھا گیا ہے.تہ پھر فرماتے ہیں :." " خدا تعالیٰ کی رب ، رحمن ، رحیم، مالک یوم الدین ، ستار ، قدوس، مومن ہمین ، اسلام ، جبابر اور قہار اور دوسری صفات 41-47 تعلیم العقائد والاعمال پر خطبات " من لا د حضرت مصلح موعود : " تعلیم العقائد والاعمال پر خطبات " صنا
الہیہ.یہ نقشے میں جو ذہن میں کھینچے جاتے ہیں.جب متواتر ان صفات کو ہم ذہن میں لاتے ہیں اور ان کے معنوں کو ترجمہ کر کے ذہن میں بٹھا لیتے ہیں تو کوئی صفت خدا تعالی کا کان بن جاتی ہے.کوئی صفت آنکھ بن جاتی ہے اور کوئی صفت دھڑ بن جاتی ہے اور یہ سب مل کر ایک مکمل تصویر بن جاتی ہے.یہ تصویر الفاظ سے نہیں بنتی بلکہ اس حقیقت سے بنتی ہے جو اس کے پیچھے ہے ان صفات کی تشریح کو دماغ میں لانے سے یہ دماغ کے اندر خمینی جاتی ہیں.اور آہستہ آہستہ محبت الہی پیدا ہو جاتی ہے.یہ کوشش کرنا کہ تصویر کو سامنے لائے بغیر محبت ہو جائے یہ ایک حماقت ہے اللہ تعالٰی کی تصویر کو سامنے لانے کا ذریعہ ذکر الہی ہے اور یہ قرآن کریم میں مذکور ہے.اب اگر کوئی کہے کہ محبت الہی کا کوئی اور گر بتاؤ تو یہ بے وقوفی ہوگی کسی شخص کو یہ بتایا جائے کہ تم ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کہ فلاں صاحب کا اتنی وفود ذکر کیا کرو تو وہ کہے گا سبحان الله ! کیا ہی عمدہ گئی ہے محبت الہی پیدا کرنے کا.لیکن اگر کہا جائے کہ ذکر الہی کیا کہ و تو وہ کہے گا.یہ بھی کوئی گر ہے یا اگر کسی کو کہا جاے کہ سر کے بل لٹک کر فلاں ورد کیا کرو تو وہ خوش ہو جائیگا لیکن اگر ستاد غفار رحمن اور رحیم کا ورد کرو تو وہ کہے گا.یہ تو پرانی بات ہے.غرض لوگ سیدھا رستہ چھوڑ کر بُرا رستہ چلیں گے.ان کی
مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی منہ کی بجائے کان میں روئی ٹھونس لے اور کہے کہ یہ پیٹ میں کیوں نہیں جاتی.کان میں رٹی ٹھونسنے سے وہ پیٹ میں نہیں جائے گی بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مر جائے گا.اسی طرح محبت الہی بھی تصویرہ کو دیکھنے سے ہوتی ہے اور جو شخص یہ کوشش کرتا ہے کہ بغیر تصویر کے محبت اپنی پیدا ہو جائے، وہ بے وقوف ہے ، ہزار دی بار دیکھنے پڑھنے اور سُننے میں آیا ہے کوئی شخص گار ہو یا کسی اور ایکٹرس پر عاشق ہو گیا.حالانکہ گاربو یا وہ ایکٹرس اس نے دیکھی بھی نہ ہو گی بیسکرین پر شکل دیکھی اور اس پر لٹو ہو گیا.اسے معلوم ہو گیا کہ محبت صرت دیکھنے سے ہی پیدا نہیں ہوتی، سننے اور تصویر دیکھنے سے بھی پیدا ہو جاتی ہے اور غیر مرئی چیز کی تصویر اس کی صفات ہوتی ہیں.اگر کوئی خدا تعالیٰ کی صفات کو بار بار ذہن میں لائے تو آہستہ آہستہ اس کا نقشہ بن جائے گا.تم پانی یا ملائی کے برف بناتے ہو تو اس کو بار بار ہلاتے ہو.کیا پہلے جھٹکے میں ہی برف بن جاتی ہے ؟ یہ اس پر بہر حال وقت لگتا ہے اور بار بار ہلانے سے برف بنتی ہے.اسی طرح محبت الہی بادہ بارہ ذکر الہی کرنے سے پیدا ہوتی ہے.ایک ایک دو دو دفعہ ذکر الہی کرو گے تو انجام کار تمہاری کوشش ضائع ہو جائے گی.لیکن تم اگر ٹھیک طور پر ذکر الہی کرو گے تو اسے محبت الہی پیدا ہوگی.صفات الہیہ کا
بار بار دھرانا اور تواتر سے دہرانا، اسی خدا تعالیٰ کی تصویر بنتی ہے اور اس تصویر کی وجہ سے محبت پیدا ہوتی ہے " کے صفات الہیہ کے ذکر کی ضرورت او بر اس کے فلسفہ پر روشنی ڈالنے کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید نے اللہ تعالے کی صفات کے لئے الاسماء الحسنى" کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے.چنانچہ سورہ حشر میں فرمایا لَهُ الأَسماء الحسنى (الحشر: ۲۵) یعنی خدا ہی کے سب اچھے نام ہیں.قرآن کے تین لفظوں سے مذا ہر عالم کا مقابلہ حضرت مولانا نورالدین خلیفہ مسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ :- بعض وقت میں نے قرآن کے تین تین لفظوں کو علمیہ چھانٹ کہ دیکھا کہ انہیں تین الفاظ سے میں دنیا کے تمام مذاہب کا مقابلہ کر سکتا ہوں کا ہے میں سمجھتا ہوں کہ " لَهُ الاَسماء الحسنیٰ کے تین معرکة الآراء الفاظ کو بھی یقینا یہ خصوصیت حاصل ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے ، اپریل شاہ • کو سورہ حشر کی اسی آیت کا درس دیتے ہوئے فرمایا :- یہ ایک ایسی آیت ہے جس سے مقابلہ میں دنیا کا کوئی مذہب اپنی ۱۱۲۰ ۱۱۰ تعلیم العقائد والاعمال پر خطبات“ ص ۱۳ : ه : - اختیار "بدر" قادیان - ۲ مارچ ا حت کالم ۲ در تاریخ احمدیت جلد هم منه : -:
کتا ہے پیش نہیں کر سکتا.سب مذاہب نے کسی نہ کسی کمزوری کو خدا کی طرف منسوب کیا ہے اس لئے ایک اسلام ہی ہے جس نے اس کو ہر طرح سے پاک مانا ہے.عیسائی کہتے ہیں کہ ہم رحم کر سکتے ہیں لیکن خدا کسی پر رحم کر نے کی طاقت نہیں رکھتا.اسی وجہ سے اتنی اپنے بیٹے کو لوگوں کے گناہوں کے بدلے ہلاک کیا.اگر یہ کہتے ہیں کہ ہم خود بخود ہیں.خُدا مادہ اور روح کا خالق نہیں.اس طرح گویا وہ خدا تعالے کو ظالم کہتے ہیں کہ نہ بر دستی ان پر حکومت کر رہا ہے.(۲) خُدا کو ظالمہ ٹھہراتے ہیں کہ وہ کسی کے گناہ نہیں بخش سکتا اور نجات نہیں دے سکتا.اگر لوگ نجات حاصل بھی کر لیں توبھی ضرور ایک آدھے گناہ رکھ ہی لینا ہے اور دوسری جون میں بھیج دیتا ہے.اگر ایسا نہ کرے تو کیا وہ ہے کار بیٹھا رہے.سنانتی بے چارے خود پتھر بنوا کر ان کے آگے سجدہ کرتے ہیں.بنارس میں بت بنے ہوئے دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ ان تینوں کی نسبت تو یہ ثبت گر زیادہ قابل تعظیم ہونے چاہئیں کیونکہ یہ تو مچھروں کے " خدا بناتے ہیں " کے اسلام میں صفات الہیہ کا انقلاب انگیز تصور دیگر مذاہب عالم کے برعکس اسلام نے خدا تعالیٰ کی صفات کا ایسا حسین ، له : "حقائق القرآن تفسیر حضرت مصلح موعود پاره مرتبه منشی غلام نبی صاحب منه
۴۴ دلکش اور انقلاب آخرین تصور پیش کیا ہے کہ انسان وجد میں آگرا در بیتاب ہو کر آستانہ الوہیت پر اپنا سر رکھ دیتا ہے.اور اپنے گناہوں اور تقصیری کی معافی کا خواستگار ہونے کے بعد صرف ایک ہی التجا کرتا ہے اور وہ یہ کہ تو میرا ہو جائے اور میں تیرا ہو جاؤں.جیسا کہ حضرت اقدس بانی جماعت احمدیہ اپنی ایک مناجات میں اللہ تعالی کی درگاہ میں عرض کرتے ہیں :.اسے خدا وند من گناهم بخش پر سوئے درگاه خویش را هم بخش روشنی بخش در دل و جانم و پاک کن زگناه پنب تم دل ستانی و دربائی کن + بہ نگا ہے گرہ کشائی کن دو عالم مرا عزیہ توئی : آنچه می خواهم از تو نیز توئی ہے اسے میرے خدا وند ! میرے گناہ بخش دے اور اپنی درگاہ کی طرف مجھے رستہ دکھا ، میری جان اور میرے دل میں روشنی دے اور مجھے میرے مخفی گناہوں سے پاک کر.دل ستانی کو اور دل پر بائی دیکھا اور اپنی ایک نظر کرم سے میری مشکل کشائی فرما.دونوں عالم میں تو ہی میرا پیارا ہے اور جو چیز میں تجھ سے چاہتا ہوں ، وہ بھی تو ہی ہے.در دو صفات الہیہ کے عرفان میں تفاوت (۱۸۱: اسلام کا حکم ہے کہ لِلهِ الأَسماء الحسنى فَادْعُوهُ بِهَا ( اعراف :(۱) د کی بہت سی اچھی صفات ہیں پس تم ان کے ذریعہ سے اسکی دکھا کیا کرو.ه درشین فارسی مترجم ص وطبع دوم ) :
۴۵ کسی شخص کو جس قدر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت سے بھری ہوئی صفات کا عرفان حاصل ہو اسی قدر محبت الہی کی مقنا طیسی کشش سے اسے فیضان عطا ہوتا ہے.حضرت مولانا روم نے اپنی مشغوی کے دفتر دوم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد کے ایک گڈریا کی حکایت بھی ہے کہ وہ سیر راہ یہ مناجات کر رہا تھا کہ اسے خدا تو کہاں ہے کہ میں تیرا خادم ہو جاؤں.تیری جوتی سیا کروں.تیرے سر میں کنگھی کیا کروں.اسے میرے خدا ! میری جان تجھ پر خدا ہو اور میرے تمام فرزند اور گھر بار بھی.تو کہاں ہے ؟ میں تیرے کپڑے سیوں.تیری جوئیں ماروں.تیرے ساتھ دودھ لاؤں.تو بیمار ہو تو تیری عیادت کروں.تیرے پیارے ہاتھ چوموں اور تیرے نرم و نازک پاؤں ملوں.جب سونے کا وقت آئے تو تیرے بستر کو صاف کروں اگر مجھے تیر گھر نظر آئے تو ہمیشہ تیرے لئے صبح و شام دونوں وقت گھی و دودھ حاضر کیا کروں.ساتھ ہی پیر اور روغنی روٹیاں اور مختلف قسم کی شراب اور طرح طرح کی عمدہ مری بھی مہیا کروں اور صبح و شام تیرے سامنے حاضر ہوں.میرا کام ان اشیاء کو حاضر کرنا اور تیرا کام کھانا ہو.اسے ذات پاک میری تمام بکریاں تجھ پر فدا ہوں.دور موسوی کے اس طالب حق کی بنا جا سکے بعد اب انحضرت صلی اللہ علیہ لم کے فرزند جلیل اور رب العزت کے عاشق صادق حضرت اقدس علیہ الف الف تحیر کے دعائیہ اشعار پڑھیے ! آپ اللہ جل شانہ کے حضور عرض کرتے ہیں سے مجھے اس یار سے پیوند جاں ہے وہی جنت وہی دار الاماں ہے
الم بیاں اس کا کیوں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے یہ کیا احسان ترے ہیں میرے ہادی نسبحان الذي اخرى الاعادي تیری رحمت کی کچھ قلت نہیں ہے تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے شمار فضل اور رحمت نہیں ہے مجھے اب سفر کی طاقت نہیں ہے یہ کیا احسان ہیں تیرے میرے ھادی نسبحان الذي اخرى الاعادي ترسے کوچہ میں کن راہوں سے آؤں خدمت کیا ہے جسے تجھ کو پادری محبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں خدائی ہے خودی جس سے جلاؤں محبت چیز کیا کسی کو بتاؤں وفا کیسا لا نہ ہے کیس کو سناؤں میں اس آندھی کو اب کیونکر چھیاؤں یہی بہتر کہ خاک اپنی اڑاؤں کہاں ہم اور کہاں دنیا ئے بادی سبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعادِي
ایک اور دعائیہ نظم کے چند پر معارف دعائیہ اشعار ملاحظہ ہوں :- اسے خدا سے کار رسانه و عیب پوش و کردگار اسے میرے پیاسے مرے محسن مرسے پروردگار اے فدا ہو تیری رہ میں میرا جسم و جانی دل میں نہیں پاتا کہ تجھ سے کوئی کرتا ہو پیار نسل انسان میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یاد غمگسار اس قدر مجھ پہ ہوئیں تیری عنایات و کرم جن کا مشکل ہے کہ تا روز قیامت ہو شمار ہاتھ میں تیرے ہے ہر خسران نفع و عسر و شیر تو ہی کرتا ہے کسی کو بے نوا یا بختیار جس کو چاہیے تخت شاہی پر بٹھا دیتا ہے تو جس کو چاہتے تخت سے نیچے گرادے کر کے خوار میں بھی ہوں تیرے نشانوں سےجہاں میں اک نشاں جس کو تو نے کر دیا ہے قوم و دیں کا افتخار فانیوں کی جاہ و حشمت پر بلا د سے ہزار سلطنت تیری ہے جو رہتی ہے دائم پر قراللہ وجود باری کی نسبت پر شوکت اعلان جناب الہی کی آسمانی عنایات وبرکات جب بارش کی طرح حضرت اقدش پر
منم نازل ہوئیں تو آپنے پوری قوت و شوکت سے دنیا بھر میں اعلان فرمایا کہ :- " میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک پر اور چکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اس کان سے ملا ہے.اور اسن.ا کی اسقدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص.زیادہ دولتمند ہو جائیں گے جس کے پاس آج دنیا میں سر ہے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے وہ ہیرا کیا ہے ؟ ستیجا خدا اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچاننا اور سنچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اسی تعلق پیدا کرنا اور بیچتی برکات اس سے پانا پس اس قدر دولت پا کر سخت ظلم ہے کہ میں بنی نوع کو اسی محروم رکھوں اور وہ تھو کے مریں اور میں عیش کروں یہ مجھ سے ہر گز نہیں ہوگا.میرا دل ان کے فقرو فاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے.ان کی تاریکی اور تنگ گذرانی پر میری جان گھٹتی جاتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے ان کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جواہر اُن کو اتنے ملیں کہ اُن کے دامن استعدا دیر ہو جائیں " سے ه اربعین نمبر صفحه ۳۲ وارد خانی خزائن جلد ۷ صفحه ۳۴۴، ۳۴۵) بیت پیشه
نیز فرمایا :- " ہمارا بہشت ہمارا خُدا ہے.ہماری لذات ہمارے بھدا میں ہیں.کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ہلے.اور یہ لعمل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اسے محرو مو ! اس چشمہ کی طرف دوڑو کر وہ تمہیں سیراب کر ے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں کس دت بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کہ وہ تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں لے اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق کے انقلابی اثرات خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق کے بعد انسان میں کتنی زبر دست قوت ایمانی پیدا ہو جاتی ہے ؟ اس پر کتنے ولولہ انگیز پیرایہ میں روشنی ڈالتے ہیں :- " جب کسی بندہ کے دل میں خدا کی عظمت اور اس کی محبت بیٹھ جاتی ہے اور خدا اس پر محیط ہو جاتا ہے جیسا کہ وہ صدیقوں پر محیط ہوتا ہے.اور اپنی رحمت له : " کشتی نوح " مثل :
اور خاص عنایت کے اندر اس کو لے لیتا ہے اور ابرار کی طرح اس کو غیروں کے تعلقات سے چھڑا دیتا ہے.تو ایسا بندہ کسی کو ایسا نہیں پاتا کہ اپنی عظمت یا وجاہت یا خوبی کے ساتھ اس کے دل کو پکڑ لے کیونکہ اسی پر ثابت ہو جاتا ہے کہ تمام عظمت اور وجاہت اور خوبی خُدا میں ہی ہے پس کسی کی عظمت اور جلال اور قدرت اس کو تعجب میں نہیں ڈالتی اور نہ اپنی طرف جھکا سکتی ہے سو اس کو دوسروں پر صرف رحم باقی رہ جاتا ہے.خواہ بادشاہ ہوں یا شہنشاہ ہوں کیونکہ اس کو ان چیزوں کی طمع باقی نہیں رہتی جو اُن کے ہاتھ میں ہیں جنسی اس حقیقی شہنشاہ کے دربار میں یار پا یا جب کسی ہا تھے میں ملکوت السموات والارض ہے.پھر فانی اور چھوٹی بادث ہی کی عظمت اُس کے دل میں کیونکر بیٹھ سکے.میں جو اُس ملیک مقتدر کو پہچانتا ہوں تو اب میری روح اُس کو چھوڑ کر کہاں اور کدھر جائے.یہ روح تو ہر وقت یہی جوش مار رہی ہے کہ اسے شاہ ذوالجلان ابدی سلطنت کے مالک.سب ملک اور ملکوت تیرے لئے ہی مسلم ہے.تیرے سو اس عاجز بندے ہیں بلکہ کچھ بھی نہیں سے آنکس که بورس درشهای را چه کند.چون بنده شناختت برای عز وجلال با فستو تو فر خسروان را چه کند بعد از تو جلال دیگران را چه کند
۵۱ دیوانه کنی هر دو جهانش بخشی دیوانہ تو ہر دو جہاں را چه کنند؟ صفات الہیہ کی تفاصیل اسلامی نقطہ نگاہ سے جہاں تک صفات الہیہ کی تفصیلات کے بیان کا تعلق ہے ، اسلام کو دوسرے مذاہب پر ایک زیر دست امتیازی فوقیت حاصل ہے.اسلام جہاں اللہ تعالیٰ کو ایک کامل نہستی بیان فرماتا ہے جس میں سب خوبیاں جمع ہیں.وہاں اُس نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا بھی ایک مکمل نقشہ پیش کیا ہے.اور انسی انسان سے تعلق رکھنے والی تمام خدائی صفات کا تذکرہ اس شان جامعیت اور ایسے روح پرور انداز میں فرمایا ہے کہ گویا خدائے عز و جل کے آسمانی محکمہ DIVINE DEPARTMENT کا ہو بہو نظارہ دکھلا دیا ہے.صفات الہیہ کی جلوہ گری دو رنگے ہیں اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اسلام بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات دو قسم میں جلوہ گری کرتی ہیں.ان کا ایک جلوہ تو صفات تنزیہی کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے جو اس کو اُن تمام قسم کی کثافتوں سے جو مادیات میں پائی جاتی ہیںاور مخلوقات میں دکھائی دیتی ہے.منزہ اور پاک ٹھہراتا ہے اور ایک جلوہ صفات تشبیہی کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے جو مخلوق کی مجموعہ اشتہارات" جلد ۲ ص ۳۲ :
Ar صفات سے مشابہہ نظر آتی ہیں.صفات تنزیہی میں سے شلاً احد ہے یعنی اپنی ذات میں اکیلا اور منفرد - الصمد یعنی ایسی ہستی جس کی سب محتاج ہیں مگر وہ کسی کا محتاج نہیں.القیوم ہے یعنی اپنی ذات میں قائم اور سب کو قائم رکھنے والا.بعض تشبیہی صفات یہ ہیں.نے السميع - ہر آواز سننے والا - الْبَصِيرُ ہر چیز دیکھنے والا - الْحَلِيمُ تحمل والا - المتعلم کلام کر دینے والا - الْمُؤْمِنُ - امن دینے والا.المصور - صورت گر - قرآن مجد شعیبی صفات بیان کرتے ہوئے یہ اصل بیان کرتا ہے کہ لا شريكَ لَهُ (انعام: ۱۶۴).اللہ تعالے کی ذات وصفات دونوں میں اُس کا کوئی شریک نہیں اور جس طرح اس مادی عالم کے تمام نظام شمسی کا ایک مرکز فرض کیا جاتا ہے.اسی طرح روحانی دنیا کا مرکز محیط خدا تعالئے ہے.کوئی چیز ایسی نہیں جو اس مرکز کے تعریف اور اختیار اور قبضہ سے باہر ہو.وہ بہتی آپ ہی آپ موجود ہے.اور وہ ہر اعتبار سے ایک منفرد اور بے مثال ہستی ہے اور گو دوسری چیزوں کی صفات اور اس کی بعض صفات میں ظاہری مشابہت نظر آتی ہے مگر جیسا کہ حضرت مصلح موعود نے دیباچہ تفسیر القرآن میں ثابت کیا ہے کہ :- حقیقتاً خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو مشابہت نہیں.مثلاً ظاہر میں خدا تعالی بھی موجود ہے اور انسان بھی موجود ہے.مگر انسان اور حیوان اور دوسری چیزوں کا وجود با وجود اس کے کہ لفظ خدا تعالیٰ کے وجود کے ساتھ اشتراک رکھتا ہے.
۵۳ حقیقتاً دونوں ایک چیز نہیں.خدا تعالیٰ کے متعلق جب ہم کہتے ہیں کہ وہ موجود ہے تو اس کے معنے یہ ہو ا کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذات میں کامل وجود ہے.اور جب ہم انسان یا حیوان یا دوسری چیزوں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ موجود ہیں تو ہمارا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ جب تک وہ اسباب اور وہ علیتیں موجود ہیں.جن کے تغیرات کے نتیجہ میں یہ انسان با حیوان یا دوسری اشیاء پیدا ہوئی ہیں اُس وقت تک اس انسان یا حیوان یا موجودات کا وجود قائم رہے گا اگر وہ اسباب اور وہ ملتیں پیچھے سے ہٹائی جائیں تو اُس کا وجود بھی فنا ہو جائے.یادہ اسباب و علل جتنے جتنے ہٹائے جائیں گے.اتنا اتنا ہی وہ فنا ہوتا جائے گا مثلاً ایک نہ زندہ انسان کی زندگی کا موجب اس کی روح کا جسم سے تعلق ہے.انسان کا زندہ ہونا ایک عارضی تعلق کی وجہ سے ہے.جب وہ عارضی تعلق قطع ہو جاتا ہے تو انسان رہتا تو ہے مگر زندہ نہیں رہتا.انسانی جسم موجود تو ہوتا ہے مگر انسانی جسم نام ہے، چند عارضی اسباب کی وجہ سے چند ذرات کے ایک خاص شکل میں جمع ہو جانے کا.اُن ذرات کو جب الگ کر دیا جائے تو انسانی جسم باقی نہیں رہتا.رجب انسان مر جاتا ہے اور اس کو مٹی میں دفن کرتے ہیں تو مٹی کی رطوبت اور دوسرے کیمیاوی اثرات اس کے جسم تو
۵۴ خاک بنا کر رکھ دیتے ہیں.وہ ذرے جن سے انسانی جسم بنا تھا وہ تو اب بھی موجود ہوتے ہیں مگر عملت کے بدل جانے کی وجہ سے انسانی جسم موجود نہیں رہتا.جب اسی انسانی جسم کو آگ میں جلا دیا جاتا ہے یا پانی میں گلا دیا جاتا ہے یا بجلی سے راکھ کر دیا جاتا ہے تو جن چیزوں سے انسان بنا تھا وہ تو پھر بھی موجود رہتی ہیں مگر آگ یا بجلی یا پانی کے اثرات سے ان کی شکل بدل جاتی ہے اور انسانی جسم کو اس کی موجودہ شکل میں قائم رکھنے کی جو علت تھی.اس کے مٹتے ہی انسانی جسم بھی مٹ جاتا ہے مگر خدا کے لئے یہ بات نہیں.اُسے کوئی خارجی سبب جود نہیں دے رہا ہے یا اس کے وجود کو قائم نہیں رکھ رہا بلکہ وہ خود کامل ہستی ہونے کی وجہ سے موجود ہے اور وقت کی قید سے آزاد ہے.گو انسانی دماغ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ کیونکہ وقت کی قید سے آزاد ہے جبکہ سب مادہ وقت کی قید میں مبتلا ہے.اس کا جواب در حقیقت یہی ہے کہ خُدا کا وجود اور طرح کا ہے اور انسان کا وجود اور طرح کا.انسان کے وجود یا مادی وجود پیر خدا تعالیٰ کا قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ هُوَ اَحَدٌ وہ ہر چیز میں منفرد ہے.اسی مضمون کو قرآن کریم ایک دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ خَاطِرُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَكُم مِّن أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجَاوَ مِنَ الأَنْعَامِ
۵۵ ار راجاج يَدْرَؤُكُمْ فِيْهِ وَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيج وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُه (شورى ) مجھے وہ آسمان اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے.ارنی ہر چینہ کی جنس میں سے بھی اس کا جوڑا بنایا ہے.چارپایوں کی جنس میں سے بھی اُن کا جوڑا بنایا ہے اور وہ ان جوڑوں کے ذریعہ سے مادی دنیا کو ترقی دیتا چلا جاتا ہے یعنی تمام دنیا میں خواہ وہ حیوان ہوں یا نباتات یا جمادات جوڑوں کا سلسلہ چل رہا ہے.خواہ اس کو نر و مادہ کہ لو خواہ اسے مثبت و منفی کہ لو خواہ اس کا کوئی اور نام رکھ لو بہر حال یہ ساری دنیا جوڑوں کے اصول پر چل رہی ہے.ایک اور جگہ قرآن شریف میں اللہ تعالے فرماتا ہے.وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تذكرون : (الذاریات تھی، اور ہم نے ہر چیز کو جوڑے جوڑے میں بنایا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کر یعنی تا یہ تم مجھ سو کہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے سوا خُدا نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ ایک جوڑے کی محتاج ہے اور اس کا قیام اور اس کی زندگی دوسری چیزدی کے ساتھ وابستہ ہے.مغرض قرآن کریم ایک ایسی ہستی کو تمام موجودات کا مرکز قرار دیتا ہے جو اپنی ذات میں منفرد ہے اور جب کسی ساتھ کسی اور چیز کو مشابہت نہیں دی جا سکتی.اس کی سو جتنی موجود است ہیں.وہ سب اپنی ذات کے قیام کے لئے دوسروں کی محتاج ہیں.
مگر وہ ہستی جو تمام کائنات کا نقطہ مرکزی ہے.وہ اپنے کاموں کے لئے کسی کی محتاج نہیں کہ کے بظاہر محمد رصفات میں پراسرار فرق بعض صفات الہیہ بظاہر مکرر نظر آتی ہیں لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے اندر ایک نہایت لطیف اور باریک اور میر اسدانہ فرق ہے اور سیدنا حضرت مصلح موعود نے " دیباچہ تفسیر القرآن میں اس پر نہایت ایمان افروز رنگ میں روشنی ڈالی ہے.فرماتے ہیں :- پیدائش کے متعلق اللہ تعالٰی کی کئی صفات بیان ہوئی ہیں.جیسے خالق کل شیءٍ - اَلْبَدِيعَ - اَلْفَاطِرَ الْخَالِقُ.الْبَارِى - الْمُعِيدُ - الْمُصَوِّرُ الرَّب - یہ صفات بظاہر - ملتی جلتی نظر آتی ہیں.لیکن در حقیقت یہ مختلف ممتاز معنوں پر دلالت کرتی ہیں.خالق کل شیئی رو سے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی روح اور مادہ کا بھی پیدا کر نیوالا ہے.کیونکہ بعض قومیں خدا تعالیٰ کو صرف جوڑنے جاڑنے کا موجب سمجھتی ہیں.بسیط مادے کا خالق نہیں سمجھتیں.ان کا خیال ہے کہ مادہ اور روح بھی خدا تعالی کی طرح ازلی اور انادی ہیں.اگر خالی لفظ خالق ہوتا تو لوگ یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم بھی خدا تعالے کو ه دیباچر تفسیر القرآن اگر دو م ۴۷۰ از حضرت مصلح موعود کو
خالق مانتے ہیں مگر ہمارے نزدیک خالق کے معنے یہ ہیں کہ وہ ان چیزوں کو جوڑ جاڑ کر ایک نئی شکل دے دیتا ہے.ان لوگوں کو اس تاویل کی وجہ سے قرآن کریم کا حقیقی منشاء واضح اور روشن طور پر ثابت نہ ہو سکتا.پس خالق کل شیء کی صفت نے محض خلق کی صفت سے ایک زائد مضمون بیان کیا ہے.بدیع کا مفہوم یہ ہے کہ نظام عالم کا ڈیزائن اور نقشہ خدا تعالیٰ نے بنایا ہے.گویا یہ اتفاقی نہیں یا موجودات میں سے کسی کی نقل نہیں.قطر کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کو پھاڑ کر اس میں سے مادہ کو نکالنا.پس فاطر کی صفت سے اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مادہ پیدا کیا ہے.اس کے اندرا نے مخفی ارتقاء کی طاقتیں رکھیں اور اپنے وقت پر وہ پر دے جو ان طاقتوں کو دبائے ہوئے تھے اُن کو اس نے پھاڑ دیا جیسے بیج کے اندر درخت یا پودہ بننے کی خاصیت ہوتی ہے.مگر وہ ایک خاص حالات کا منتظر رہتا ہے اس وقت اور اس موسم میں وہ اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے.غرض فاطر کے لفظ نے بتادیا کہ خدا تعالٰی نے سب کچھ یکدم نہیں کر دیا.بلکہ دنیا کو ایک قانون کے مطابق پیدا کیا ہے.ہر ایک درجہ کے متعلق ایک قانون کام کر رہا ہے.ایک اندرونی تیاری دنیا میں ہوتی رہتی ہے.اور ایک خاص وقت پر جا کر بعض مخفی
طاقیتں اپنے آپ کو ظاہر کر دیتی ہیں.اور ایک نئی چیز بننے لگ جاتی ہے.خالق کے معنی وہ بھی ہیں جو خان كُل شي میں بیان ہو چکے ہیں لیکن ان کے علاوہ خالق کے ایک اور منے بھی ہیں.اور وہ تجویز کرنے والے کے ہیں.پس خالق کے معنی یہ ہیں کہ مختلف چیزوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھا.یہ بھی خداتعالی کا ہی کام ہے.اس دنیا کو ایک خاص نظام کے مابخت خداتعالئے نے رکھا ہے اور اس پر خالق کا لفظ دلالت کرتا ہے.باری کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کے مختلف ظہور شروع کرتا ہے اور پھر وہ ایک ایسا قانون مقریہ کر دیتا ہے کہ وہ چیز اپنی نسل کی تکرار کرتی چلی جاتی ہے.اور اس پر خدا تعالیٰ کا نام المُعِيْدُ دلالت کرتا ہے.الْمُصَورُ کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک خاص شکل دی ہے جو اس کے مناسب حال ہے.صرف کسی چیز کے اندر کسی خاصیت کا پیدا کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اُسے مناسب حال شکل دینا بھی ضروری ہوتا ہے اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا.اسی طرح کسی چیز کا محض پیدا ہو جانا کافی نہیں بلکہ اس کا ایسی شکل میں پیدا ہونا بھی کہ وہ اپنے کام کو سرانجام دے سکے ضروری ہوتا ہے.پس اس صفت کے اظہار کے لئے خدا تعالیٰ کا ایک نام المصور ہے.السراب کی صفت
۵۹ ان معنوں پر دلالت کرتی ہے کہ پیدا کرنے کے بعد اس کی طاقتوں کو تدریجی طور پر بڑھاتے چلے جانا اور کمال تک پہنچانا.ظاہر ہے کہ پہلی صفات اس مضمون کو ادا نہیں کرتیں.انسی طرح اور کئی صفات ہیں جو بظاہر مکرر نظر آتی ہیں مگر در حقیقت ان کے اندر باریک فرق ہے اور اس فرق کے سمجھ لینے کے بعد وہ روحانی نظام جس کو قرآن کریم پیش کرتا ہے نہایت ہی شیاندا را در خوبصورت طور پر انسان کی آنکھوں کے آگے آجاتا ہے.اللہ کی تشبیہی صفا سے متعلق مغالطہ دنیا کا ایک اکثر طبقہ خداتعالی کی تشبیہی صفات کو نہ سمجھنے کے باعث ہمیشہ ٹھوکریں کھاتا رہا ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی عارفانہ تحقیق اس سلسلہ میں حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے.فرماتے ہیں :- اس میں کلام کی جگہ نہیں کہ جو کچھ اجرام فلکی اور عناصر میں جسمانی اور فانی طور پر صفات پائی جاتی ہیں، وہ روحانی اور ابدی طور پر خدا تعالیٰ میں موجود ہیں.اور خدا تعالٰی نے یہ بھی ہم پر کھول دیا ہے کہ سورج وغیرہ بذات خود کچھ چیز نہیں ہیں.یہ اسی کی طاقت زبر دست ہے ، جو پردہ میں ہر ایک کام کر رہی ہے.وہی ہے جو چاند کو پردہ پوشش اپنی ذات کا بنا کہ اندھیری ے: دیباچہ تفسیر القرآن اگر دو مام - ۴۷۹ :
راتوں کو روشنی بخشتا ہے.جیسا کہ وہ تاریک دلوں میں خود داخل ہو کر اُن کو منور کر دیتا ہے.اور آپ انسان کے اندر بولتا ہے.وہی ہے جو اپنی طاقتوں پر سورج کا پردہ ڈال کر دن کو ایک عظیم الشان روشنی کا مظہر بنا دیتا ہے اور مختلف فصلوں میں مختلف اپنے کام ظاہر کرتا ہے.اسی کی طاقت آسمان سے برستی ہے جو مہینہ کہلاتی ہے اور خشک زمین کو سر سبنر کر دیتی ہے اور پیاسوں کو سیراب کر دیتی ہے.اسی کی طاقت آگ میں ہو کہ جلاتی ہے.اور ہوا میں ہو کر دم کو تازہ کرتی ہے اور پھول کو شگفتہ کرتی اور بادلوں کو اٹھاتی اور آواز کو کانوں تک پہنچاتی ہے.یہ اسی کی طاقت ہے کہ زمین کی شکل میں مجسم نوع انسان اور حیوانات کو اپنی پشت پر اٹھا رہی ہے.مگر کیا یہ چیزیں خدا ہیں ؟.نہیں بلکہ مخلوق.مگران اجرام میں خدا کی طاقت ایسے طور پر پیوست ہو رہی ہے کہ جیسے قلم کے ساتھ ہاتھ ملا ہوا ہے.اگر چہ ہم کہ سکتے ہیں کہ قلم کھتی ہے مگر قلم نہیں کھتی بلکہ ہاتھ کھتا ہے یا مثلاً ایک لوہے کا ٹکڑا جو اگ میں پڑ کر آگ کی شکل میں بن گیا ہے.ہم کہ سکتے ہیں کہ وہ جلاتا ہے اور روشنی بھی دیتا ہے مگر دراصل وہ صفات اس کی نہیں بلکہ آگ کی ہیں.اسی طرح تحقیق کی نظر سے یہ بھی سچ ہے کہ جس قدر اجرام فلکی و عناصر ارضی بلکه ذره ذره عالم
บ سفلی اور علوی کا مشہود اور محسوس ہے.یہ سب باعتباء اپنی مختلف خاصیتوں کے جوائن میں پائی جاتی ہیں خدا کے نام ہیں اور خدا کی صفات ہیں.اور خُدا کی طاقت ہے جو اُن کے اندر پوشیدہ طور پر جلوہ گر ہے.اور یہ سب ابتداء میں اسی کے کلمے تھے.جو اس کی قدرت نے ان کو مختلف رنگوں میں ظاہر کر دیا.نادان سوال کرے گا کہ خدا کے کلمے کیونکر محبتم ہوئے.کیا خُدا اُن کے علیحدہ ہونے سے کم ہو گیا مگر اس کو سوچنا چاہیئے کہ آفتا ہے جو ایک آتشی شیشی آگ حاصل کرتی ہے.وہ آگ آفتاب میں کچھ کم نہیں کرتی.ایسا ہی جو کچھ چاند کی تاثیر سے پھلوں میں فربہی آتی ہے.وہ چاند کو ڈیلا نہیں کر دیتی.یہی خُدا کی معرفت کا ایک بھید اور تمام روحانی امور کا مرکز ہے کہ خدا کے کلمات سے ہی دنیا کی پیدائش ہے " له نیز واضح فرمایا کہ: خدا زمین و آسمان کا نور ہے.یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے خواہ وہ ارواح میں ہے خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی رہے اور خواہ عرضی اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ ذہنی ہے اور خواہ خارجی اسی کے فیض کا عطیہ ہے نسیم دعوت من د روحانی خزائن جلد ۱۹ ص ۴۲۳ - ۴۲۴ ) به
۶۲ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العالمیہ ہر چیز پر محیط ہو رہا ہے اور کوئی اسکی فیض سے خالی نہیں وہی تمام فیوض کا میدو ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سر چشمہ ہے.اسی کی ہستی حقیقی، تمام عالم کی قیوم اور تمام زیر وزیر کی پناہ ہے.وہی ہے جنسی ہر ایک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا - اور خلعت وجود بخشا - بجز اسکی کوئی ایسا وجود نہیں ہے کہ جو فی حد ذاتہ واجب اور قدیم ہو یا اسے مستفیض نہ ہو بلکہ خاک اور افلاک اور انسان اور حیوان اور حجراد رشجر اور روح اور جسم سب اسی کے فیضان طه سے وجود پذیر ہیں " اے صانع حقیقی اور موجد میں واضح فرق بعض عناصر ایجادات کو دیکھ کر اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے تھے کہ صانع حقیقی اور عہد حاضر کے موجد دونوں ہی ایک جیسی قدرت رکھتے ہیں حضرت اقدس نے اس مغالطہ کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ :- " اصل بات یہ ہے کہ خُدا کی قدرت میں جو ایک خصوصیت ہے.جیسی وہ خدا کہلاتا ہے.وہ روحانی اور جسمانی قوتوں کے پیدا کرنے کی خاصیت ہے مثلاً جانداروں کے جسم کو جو "" له : " براہین احمدیہ ملتا حاشیه د روحانی خزائن جلد ۱ ص ۱۹۱ - ۱۹۲ به
استی آنکھیں عطا کی ہیں.اس کام میں اس کا اصل کمال یہ نہیں ہے کہ اس نے یہ آنکھیں بنائی ہیں بلکہ کمال یہ ہے کہ اس نے ذرات جسم میں پہلے سے یہ پوشیدہ طاقتیں پیدا کر رکھی تھیں جن میں بینائی کا نور ہو سکتے.پس اگر وہ طاقتیں خود بخود ہیں تو پھر خدا کچھ بھی چیز نہیں کیونکہ بقول شخصے کہ گھی سنوار سے سالن بڑی ہو کا نام اُنسی بنیائی کو وہ طاقتیں پیدا کرتی ہیں.خُدا کو اس میں کچھ دخل نہیں اور اگر ذرات عالم میں وہ طاقتیں نہ ہوئیں تو خدائی ہے کا بہ رہ جاتی.پس ظاہر ہے کہ خدائی کا تمام مدار اس پر ہے کہ اس تھی روحوں اور ذرات عالم کی تمام قوتیں خود پیدا کی ہیں اور کرتا ہے اور خود ان میں طرح طرح کے خواص رکھتے ہیں اور رکھتا ہے.پس وہی خواص جوڑنے کے وقت اپنا کرشمہ دکھلاتے ہیں اور اسی وجہ سے خُدا کے ساتھ کوئی موجد برابر نہیں ہو سکتا کیونکہ گو کوئی شخص ریل کا موجد ہویا تارہ کا یا فوٹو گران کا یا پریس کا یا کسی اور صنعت کا اس کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ ان قوتوں کا موجد نہیں جن قوتوں کے استعمال سے وہ کسی صنعت کو تیارہ کرتا ہے بلکہ یہ تمام موجد بنی بنائی قوتوں سے کام لیتے ہیں جیسا کہ انجن چلانے میں بھاپ کی طاقتوں سے کام لیا جاتا ہے.پس فرق یہی ہے کہ خدا نے عنصر وغیرہ میں یہ طاقیقی خود پیدا کی ہیں.مگر یہ لوگ خود
۶۴ طاقیتی اور قوتیں پیدا نہیں کر سکتے.پس جب تک خدا کو ذرات عالم اور ارواح کی تمام قوتوں کا موجد نہ ٹھہرایا جائے تب تک خدائی اس کی ہر گنہ ثابت نہیں ہو سکتی.اور اس صورت میں اس کا درجہ ایک معمار یا نجار یا حداد یا گلکر سے ہرگز زیادہ نہیں ہوگا.یہ ایک بدیہی بات ہے بورڈ کے قابل نہیں " لے لطیف خبر خدا اسلامی تصور کے مطابق اللہ جل شانہ خدا تعالیٰ ہر جگہ حاضر ناظر ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے :.وَهُوَ مَتَكُمْ أَيْنَمَا كُنتُمْ (الحديد : ) یعنی جہاں کہیں تم ہو اسی جگہ خدا تمہارے ساتھ ہے.اسی طرح قرآن شریف میں فرمایا : سیر هُوَ الاول والآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ (الحديد : ٤) یعنی خدا سے پہلے ہے اور باوجود پہلے ہونے کے پھر سب سے آخر ہے اور وہ سر سے زیادہ ظاہر ہے اور پھر باوجود سب سے زیادہ ظاہر ہونے کے سب سے پوشیدہ ہے اور پھر فرمایا : - اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ٣٦) تورا یعنی خدا ہر ایک چیز کا نور ہے ، اسی کی چک ہر چیز میں ہے خواہ دہ : - "نسیم دعوت " ص ۱۳۰۲ در روحانی خزائن جلد ۱۹ ص ۳-۲۸۴ $ (.
وہ چیز آسمان میں ہے اور خواہ وہ زمین میں.اور پھر فرمایا :- كَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطَاه النساء : ١٣٤) یعنی خدا ہر ایک چیز پر احاطہ کرنے والا ہے.اور پھر فرمایا :- وَنَحنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِهِ (ق : ۱) یعنی ہم انسان کی رگِ جان سے بھی اسی نزدیک تر ہیں.اور پھر فرمایا :- وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ اللهُ ۖ وَفِي الْأَرْضِ اللَّهُ والزخرف : ٢) یعنی مرسی خُدا نہ مین میں ہے اور وہی خُدا آسمان میں ہے " لے قرآن شریف نے خُدائے عز وجل کے غیر محدود ہونے پر علاوہ اور دلائل کے ایک یہ دلیل بھی دی ہے کہ :.لا ندرك الأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الأَبْصارَة وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبيرُه (انعام : ۱۰۴) نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتیں لیکن وہ نظروں تک پہنچتا ہے.دیعنی انسان اپنے علم کے زور سے اُسے نہیں دیکھ سکتا مگر خدا اپنے فضل سے اس کے پاس آکر جلوہ گر ہوتا ہے اور اس طرح انسان کو اسکی رویت نصیب ہوتی ہے.نظریں کیوں نہیں پہنچے ه: «چشمه معرفت هلال ۱۱۳ د روحانی خزائن جلد ۲۳ مثلا ۱۲۰) +
سکتیں.اسکی دلیل یہ دی ہے کہ وہ لطیف چیز ہے.عصرحا کے سائنسی اکتشافات اور ایجادات نے ثابت کر دکھایا ہے کہ اس کائنات کی تخلیقی کڑیاں جوں جوں لطیف سے لطیف تر ہوتی جاتی ہیں.ان میں بے پناہ قوت کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے.مثلاً مادہ ( ATOM) ہے جسے ذرہ کہتے ہیں.ایٹم کیا ہے ؟ اور اس کے نیو کلیٹس ( NUCLEUS ).پروٹونز (PRO TONS ) الیکٹرونز (ELECTRONS) اور نیوٹرونز (NEUTRONS) اور دوسرے بنیادی ذرات FUNDAMENTAL PARTICLES) OF ATOM کی ساخت کیا ہے اور کس طرح ان کو توڑ کر ایٹی توانائی حاصل کی جاتی ہے ؟ مجھے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.مجھے صرف یہ بتانا ہے کہ وہ ایٹم جس کی بے پناہ اور خوفناک قوت و طاقت نے دنیا میں زبر دست تہلکہ مچا دیا ہے اور سائنسدان اس کی ہلاکت آفرینیوں اور بربادیوں کے تصور سے لرز رہے ہیں.کسی نے آج تک اس کو نہیں دیکھا اور آپ یہ معلوم کر کے یقینا حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ آکسیجن (OXYGEN) کے کہا اربوا، گھر یوں ایٹم کی ضخامت بال کے ایک ٹکڑے کے برابر بھی نہیں ہوتی.ایک انچ میں ۱۲ کروڑ 2 لاکھ ایٹم در کاغذ کے پن کے سرپر ایک ہی لائن میں تقریب میں لکھ ایٹم رکھے
46 جا سکتے ہیں " اے اس انکشاف کے پیش نظر ہر انسان کو بالآخر یہ قرآنی صداقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ وہ لطیف خدا جو سب لطیف اشیاء سے بھی لطیف تر ہے اور کسی قسم کے مادہ سے بھی نہیں بنا خواہ وہ کتنا ہی لطیف ہو اور مخلوق بھی نہیں بلکہ ایٹم کا بھی خالق ہے اور اس کی تمام خصوصیات بلکہ تمام کائنات کے ذرہ ذرہ سے بھی باخبر ہے وہ کیونکر محدود ہو سکتا ہے.؟؟ اور مادی اور محدود آنکھ اسے کیسے دیکھ سکتی ہے ؟ خُدا دکھانے کا مطالبہ اور اسکا پُر لطف جواب حضرت مصلح موعود نے لاء میں اپنے معرکہ آراہ لیکچر ہستی باری تعالی کے دوران به پُر لطف واقعہ سنایا کہ ایک شخص نے جو جرمنی سے ہو کر آیا تھا.ایک احمدی دوست سے گفتگو کے دوران کہا کہ اگر خدا ہے تو دکھاؤ.حسین تو اپنے تو آپ کو دکھاتے ہیں.اگر خُدا اس سے زیادہ حسین ہے تو کیوں چھپا ہوا ہے ؟ احمدی دوست نے کاغذ پر لفظ الله از لکھکہ دور سے دکھایا.اُس نے کہا " ۱۳۹ له : سائنس شاہراہ ترقی پر من و علی ناصر زیدی کتاب منزل کشمیری با نهار لاہور.INORGANIC CHEMISTRY (FOR B.S.C STUDENT) BY BADRUDDIN AND MARGHOOB ALI PAGE: 3 PUBLISHERS.FEROZ SONS LTD LAHORE (EDITTION SEPT.1970 )
۶۸ کچھ نظر نہیں آتا.پھر اسی کہا کہ اللہ تعالٰی قرآن شریف میں یہ بھی فرماتا ہے کہ بس انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں.یہ کہہ کر یہی کا غزہ اس کی آنکھوں کے بالکل قریب رکھ دیا اور کہا بتاؤ اب تمہیں کیا نظر آتا ہے ؟.اس نے کہا اب تو کچھ نہیں نظر آتا.اس پر احمدی دوست کے کہا کہ جب خدا اسے بھی زیادہ شہ رگ کے قریب ہے تو وہ تمہیں ان آنکھوں سے کس طرح نظر آ جائے ؟ ! عرش کی اصطلاح اور اس کا مطلب جیسا کہ حضرت اقدر نے لکھا ہے کہ : - " قرآن شریف میں ایک طرف تو یہ بیان کیا ہے کہ خُدا کا اپنی مخلوق سے شدید تعلق ہے اور ہر ایک جان کی جان ہے اور ہر ایک بستی اسی کے سہارے سے ہے پھر دوسری طرف اس غلطی سے محفوظ رکھنے کے لئے کہ تا اسکی تعلق سے جو انسان کے ساتھ ہے، کوئی شخص انسان کو اس کا مین ہی نہ سمجھ بیٹھے جیسا کہ دیدانت والے سمجھتے ہیں.یہ بھی فرما دیا کہ وہ سب سے برتر اور تمام مخلوقات سے وراء الوراء مقام یہ ہے جس کو شریعت کی اصطلاح میں عرش کہتے ہیں.اور عرش کوئی مخلوق چیز نہیں ہے.صرف درا و الوراء مرتبہ کا نام ہے نہ یہ کہ کوئی ایسا تخت ہے جس پر ٢١٠١ : "بستی باری تعالیٰ " ص ۲۱ :
44 خدا تعالی کو انسان کی طرح بیٹھا ہوا تصور کیا جائے یہ لے آپ عرش کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.ور مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ عرش کوئی جسمانی اور مفلوق چیز ہے میں پر خدا بیٹھا ہوا ہے تمام قرآن شریف کو اول سے آخر تک پڑھو اس میں ہرگز نہیں پاؤ گے کہ عرش بھی کوئی چیز محدود اور مخلوق ہے.خدا نے بار بار قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ہر ایک چیز جو کوئی وجود رکھتی ہے اس کا میں ہی پیدا کر نے والا ہوں.میں ہی زمین و آسمان اور روحوں اور ان کی تمام قوتوں کا خالق ہوں.میں اپنی ذات میں آپ قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ قائم ہے.ہر ایک ذرہ اور ہر ایک چیز جو موجود ہے وہ میری ہی پیدائش ہے مگر کہیں نہیں فرمایا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے جس کا میں پیدا کر نیوالا ہوں قرآن شریف میں لفظ عرش کا جہاں جہاں ستعمال ہوا ہے.اس سے مراد خدا کی عظمت اور جبروت اور بلندی ہے اسی وجہ سے اس کو مخلوق چیزوں میں داخل نہیں کیا ہے نیز فرماتے ہیں :.عرش سے مراد قرآن شریف میں وہ مقام ہے جو تشبیہی مرتبہ سے بالا تر اور ہر ایک عالم سے بر تر اور نہاں در یہاں اور تقدس اور تنزہ کا مقام ہے.وہ کوئی ایسی جگہ نہیں کہ پھر یا اینٹ یا کسی :- چشمه معرفت من در هانی خزائن جلد ۲۲ منشان که نسیم دعوت فشت ہو
،، اور چیز سے بنائی گئی ہو اور خُدا اس پر بیٹھا ہوا ہے.اس لئے عرش کو غیر مخلوق کہتے ہیں اور خدا تعالٰی جیسا کہ یہ فرماتا ہے کہ کبھی وہ مومن کے دل پر اپنی تجلی کرتا ہے.ایسا ہی وہ فرماتا ہے کہ عرش پر اُس کی تجلی ہوتی ہے اور صاف طور پر فرماتا ہے کہ ہر ایک چیز کوئیں نے اُٹھایا ہوا ہے.یہ کہیں نہیں کہا کہ کسی چیز نے مجھے بھی اٹھایا ہوا ہے اور عرش جو ہر ایک عالم سے برتر مقام ہے.وہ اُس کی تنزیہی صفت کا مظہر ہے اور ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ ازل سے اور قدیم سے خدا میں دو صفتیں ہیں.ایک تشبیہی.دوسری صفت تنزیہی اور چونکہ خدا ے کلام میں دونوں صفات کا بیان کرنا ضروری تھا یعنی ایک تشبیبی صفت اور دوسری تنزیہی صفت.اس لئے خدا نے تنبیہی صفات کے اظہار کے لئے اپنے ہا تھے ، انکھ، محبت، غضب وغیرہ صفات قرآن شریف میں بیان فرمائے.اور پھر جبکہ احتمال تشبیہہ کا پیدا ہوا تو بعض جگہ ليْسَ كَمِثْلِہ کہہ دیا اور بعض جگہ شم استَوى عَلَى الْمَعَرش کہہ دیا له چشمه معرفت ۲۷۵۰۲۶۴
41 بعض مغربی مفکرین کی ناپاک جسارت عرش سے متعلق اس اسلامی تھیوری پر جسے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے انیسویں صدی میں کمالی صراحت سے پیش فرمایا ہے، کوئی غیر مسلم اعتراض نہیں کر سکتا.جہاں تک مغرب کے نام نہاد مفکروں اور دانشوروں کا تعلق ہے وہ دراصل عرش کی ایک خود ساختہ فرضی اور افسانوی تعبیر اسلام کی طرف منسوب کر رہے ہیں.ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر ۹۸۱-۱۸۸۷) (JOHN WILLIAM DRAPER ) نیو یارک یونیورسٹی کے مشہور کیمیادان اور پروفیسر تھے.ان کی بہت سی تصانیف علم البرق اور کیمیا پری ہیں.وہ ان فنون میں بہت سی اختراعات کے موجد بھی تھے.ان کی سب سے مشہور کتاب " معرکہ مذہب و سائنس کی تاریخ CON FLICK RILIGION AND SCIENCE) (HISTORY OF BETWEEN ہے.اس کتاب میں ڈریپر نے اسلام کے خدا کا یہ تخیل پیش کیا کہ :- $6 According to the Koran, the earth is a square plane.edged with which serve it in its seat.vast mountains, the double purpose of balancing and of sustaining the dome of Our devout admiration of the power the sky.and wisdom of God should be excited by the spectacle of this vast crystalline brittle expanse; which has been safely set in its position without so much as a crack or any other injury.Above
the sky, and resting on it, is heaven, built in seven stories, the uppermost being the habitation of God, who.man, sits on from of under the on throne, having a a gigantic either side winged bulls, like those in the palaces of old Assyrian kings ("History of the conflict between Religion and Science") by John William Draper, M.D., LL.D.(London) Kegan Paul, Trench.& Co., | Paternoster Squares 1885) یعنی قرآن کی رو سے زمین ایک سطح مرتفع ہے جس کے کناروں پر بڑے بڑے پہاڑ واقع ہیں.جود و مقاصد کو پورا کرتے ہیں.وہ زمین کو اپنے مقام پر متوازن بھی رکھتے ہیں.اور آسمان کے گنبد کو اُٹھائے ہوئے بھی ہیں.خدا کی حکمت و طاقت اس زاویہ نگاہ سے قابل صد تعریف ہے کہ اس نے زمین کو اپنے مقام پر بغیر کسی نقص کے محفوظ رنگ پر میں اپنی جگہ پر رکھ دیا ہے.آسمان کے اوپر بہشت کی بنیاد ہے جس کی سات منزلیں ہیں.سب سے اونچی منزل خدا کا مسکن ہے.جہاں وہ دیو سپیکر انسان کی شکل میں ایک تخت پر بیٹھا ہے اور اس تخت کے دونوں طرف اس طرح کے ذوالجناح بیل ہیں جیسے قدیم سریانی بادشاہوں کے محل میں ہوتے تھے.اے پاپوش سے لگائی کرتی آفتاب کی جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
" سرے امریکی افکار و خیالات میں نمایاں تبدیلی یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر ۱۸۸۲ء میں یعنی ٹھیک ایک صدی قبل فوت ہوئے.اسی سال اسلام کے خُدا نے آنحضرت کے فرزند جلیل بانی جماعت احمدیہ کو قیام توحید کے لئے کھڑا کیا اور اپنے پاک وعدوں کے مطابق خدمت اسلام کے لئے ایک بین الاقوامی جماعت بخشی.اس کا نتیجہ ہے کہ اب اسلام کے خلاف امریکہ کے منفی رحجانات نہایت تیزی سے بدل رہے ہیں اور افکار و خیالات میں نمایاں تبدیلی آچکی ہے.چنانچہ امریکہ سے عیسائی سکالر نہ کی طرف سے COLLIER'S" ENCYCLOPEDIA شائع ہوا ہے جس میں لفظ اللہ کے ماتحت اسلامی نقط نگاه پر غیر جانبدارانہ نوٹ شائع ہوا ہے اور جس میں ڈاکٹرڈ ریپر کے مضحکہ خیز خیال کا ذکر ہی نہیں کیا گیا.2 آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگاہ زندہ وار آسماں پر دعوت حق کے لئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار صفات باری غیر محدود ہیں اسلام کا خُدا چونکہ زمان و مکان کی حد بندیوں سے بالا اور انسانی عقل و
فکر سے وراء الوراء اور غیر محدود ہے.اس لئے اس کی تنزیہی اور تشبیہی بلالی اور جمالی صفات بھی بے شمار ہیں.بلاشہ بعض احادیث نبوی کی بناء پر اللہ تعالیٰ کے ننانو سے نام مشہور ہیں جو قرآن مجید ہی سے ماخوذ ہیں مگر یہ صرف وہ صفات ہیں جن کا انسان کے ساتھ تعلق ہے.ورنہ اگر بابر یک نظری سے کتاب اللہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں ننانوے سے بہت زیادہ اسماء اہی موجود ہیں.قرآن مجید واضح لفظوں میں فرماتا ہے :- كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ : (الرحمن:۳۰) ہر وقت اس کی نئی شان ہے.حضرت اقدس اس آیت کی پُر معارف تفسیر بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :- اس کی قدر نہیں غیر محدود ہیں اور اس کے عجائب کام نا پیدا کنار ہیں اور وہ اپنے خاص بندوں کے لئے اپنا قانون بھی بدل لیتا ہے مگر وہ بدلنا بھی اسکے قانون میں ہی داخل ہے.جب ایک شخص اس کے آستانے پہ ایک نئی روح لے کر حاضر ہوتا ہے اور اپنے اندر ایک خاص تبدیلی محض اس کی رضا مندی کے لئے پیدا کر لیتا ہے.تب خدا بھی اس کے لئے ایک تبدیلی پیدا کر لیتا ہے کہ گویا اس بند سے پر جو خدا ظاہر ہوا ہے وہ اور ہی خدا ہے.نہ وہ خدا جس کو عام لوگ جانتے ہیں.وہ ایسے آدمی کے
مقابل پر جس کا ایمان کمزور ہے ، کمزور کی طرح ظاہر ہوتا ہے لیکن جو اس کی جناب میں ایک نہایت قوی ایمان کے ساتھ آتا ہے.وہ اس کو دکھلا دیا ہے کہ تیری مدد کے لئے میں بھی قوی ہوں.اسی طرح انسانی تبدیلیوں کے متقابل سیر اس کی صفات میں بھی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں.جو شخص ایمانی حالت میں ایسا مفقود الطاقت ہے کہ گویا میت ہے.خدا بھی اس کی تائید اور نصرت سے دستکش ہو کہ ایسا خاموش ہو جاتا ہے کہ گویا نعوذ باللہ وہ مرگیا ہے.مگر یہ تمام تبدیلیاں وہ اپنے قانون کے اندر اپنے تقدس کے موافق کرتا ہے“ نے راسی طرح اللہ جل شانہ فرماتا ہے : قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادَ الكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قبل أن تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مُدَدًاه ركيف : ۱۱۰ ، یارسول الله ساری دنیا میں اعلان کر دے کہ اگر ہر ایک سمندر میرے رب کے کلمات لکھنے کے لئے روشنائی بن جائے تو اُن کا پانی ختم ہو جائے گا مگر میرے رب کے کلمات ختم نہ ہوسکیں گے.خواہ ہم اتنے ہی سمندروں کے پانی اور لے آئیں.: "چشمه معرفت من در دهانی خزائن جلد ۲۳ ص ۱۰۴ - ۱۰۵
44 آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی راہنمائی اور دعائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وتم عرفان باری کے آخری بلند مقام پر فائز تھے.اس کائنات میں صفات الہیہ کا آپ سے بڑھ کر اور کسی کو کیا علم ہو سکتا ہے.بایں ہمہ آپ کی زبان ہی نہیں روح مبارک بھی جناب الہی کے آستانہ پر اس کی ربانی صفات کے انکشاف کی غرض سے احمدنا پکارتے ہوئے ہمیشہ سجدہ ریز رہی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار حضرت عبد اللہ بن مسعود کو یہ دعا سکھلائی کہ :- د کرو اللهُم إلى أسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمي بِهِ نَفْسَكَ اَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ في كتابك أو استأثرت بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عندك - الخ - و اے اللہ ! میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں ان ناموں کے ذریعہ سے جو تیرے ساتھ مخصوص اور تو نے آپ اپنے لئے تجویز فرمائے ہیں یا جو نام تو نے اپنے کلام میں نازل فرمائے ہیں یا اپنی کسی مخلوق کو سکھائے ہیں یا اپنی ذرات میں ہی مخفی نہ کھتے ہیں اور کسی فردِ عبشر کو ان کا علم نہیں دیا.F41 : "مسند احمد بن حنبل، جلد ا ص :
ایک اور موقعہ پر آنحضور نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ دعا بتلائی :- اللهمَّ إنِّي أَسْتَألُكَ بِجَمِيعِ أَسْمَاءِكَ الْحُسْنى كلِهَا مَا عَلِمْنَا مِنْهَا وَمَالَمْ تَعْلَمُ : له اہی ! میں تجھ سے تیرے تمام اسماء حسنی کے وسیلہ سے درخواست کہتی ہوں.ان اسماء کے وسیلہ سے بھی جن کو ہم جانتے ہیں اور جن کو ہم نہیں جانتے.تاریخ اسلام میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ دلچسپ واقعہ بھی ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا میں تمہیں خدا تعالیٰ کا وہ نام نہ بتاؤں جو دعاؤں کی قبولیت کا موجب ہوتا ہے.عرض کیا یا رول الله ! میرے ماں باپ آپ پہ قربان ہوں ، ضرور بتائیے مگر حضور نے فرمایا کہ عائشہ تجھے یہ نام معلوم نہیں کرنا چاہیئے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں.لیکن ایک کو نہ میں کچھ دیر بیٹھی رہی ، پھر کھڑی ہوئی اور آنحضرت کے سر مبارک کو چوما اور پھر نام سکھلانے کی درخواست کی.اس پر حضور نے دوبارہ یہی جواب ارشاد فرمایا کہ تمہارے لئے اس کا دریافت کر نا مناسب نہیں ہے.اس پر حضرت عائشہ نہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور وضو کر کے دو رکعتیں پڑھیں اور خدا کے حضور دعا کی کہ : - اللهمَّ إِنِّي ادْعُوكَ اللَّهَ وَادْعُوكَ الرَّحْمَنَ له : الدر المنثور" جلد ٣ من ١٣ للسيوطى.
LA وَاَدْعُوكَ البر الرَّحِيمَ وَادْعُوكَ بِأَسْمَائِكَ الحسنى كُلِّهَا مَا عَلِمْتُ مِنْهَا وَ مَا لَمْ أَعْلَم ان تَغْفِرْلَى وَتَرْحَمْنِي له خُداوندا ئیں تجھے اللہ الرحمن - البر الرحیم اور ان تمام اسماء حسنیٰ سے پکارتی ہوں جن کو میں جانتی ہوں اور ان سے بھی جن کو نہیں جانتی - تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما.یہ دُعاسُن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ.عائشہ خدا کا وہ خاص نام تمہاری اس دُعا کے ناموں میں موجود ہے.احادیث نبوی سے ننانو سے ناموں کے علاوہ جن اسمای الہی کا پتہ چلت ہے.ان میں سے بعض یہ ہیں :- ابد - البرهان - الدهر - القسط - المولى.الخليفه - الرقيق - الفاتن - الجميل - الدائم.الناظر القديم - الوتر المقوم - الجواد.له آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ ند جلیل سید نا حضرت اقدس کو الہا ما للہ تعالیٰ کے دو نام تبلائے گئے.یعنی عالج اور الصاعقة (عاج یعنی مجیب اور پرورش کرنے دال.تذکرہ طبع سوم ما ، حا ) - مشة : - الدعاء المستجاب من 24 واحمد عبد الجواد ) - ته : " المعجم المفرس " من زیر لفظ الله انتخاب حدیث از محمد جعفر شاہ پھلواری - "المسند احمد بن حنبل" الجزء الأول منه ( شائع کرده ادارۃ المصنفین رتبوه ).
الغرض اسماء الہی کی کوئی مدد نہایت نہیں ہے اور بڑے بڑے آئمہ اور محدثین مثلاً حضرت عبد العزیز بن یحیی ".حضرت ابو بکر بن عربی.حضرت امام نودی حضرت حافظ ابن حجرہ حضرت امام خطابی حضرت ابن تیمیه دار حضرت قرطبی نے بھی تصریح فرمائی ہے کہ اسمائے اہلی نشانو سے میں محصور نہیں.لہ مورخ اسلام حضرت علی علی بن برہان الدین الحلبی نے " سیرت جلیہ " جلد علی ! مثلا میں اللہ تعالیٰ کے ایک ہزار نام اور خاتمته المفسرین حضرت علامہ الشیخ " اسماعیل حقی البروسوی نے روح البیان جلد ہ ماہ میں چار ہزار نام تبلائے ہیں اور سیدنا حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ : - خدا تعالی کے ننانوے نام نہیں بلکہ اسکی نام نانو سے ہزار میں بھی ختم نہیں ہوتے عدد محض تقریبی ہے.یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں صوفیاء یا گذشتہ انبیاء نے ذہن نشین کرنے کے لئے یہ اصطلاح وضع کر دی کیونکہ ان ناموں کا ذکر یہودیوں کی کتابوں میں بھی آتا ہے.خدا تعالیٰ کے اگر موٹے موٹے نام بھی کئے جائیں، تو بھی ننانوے سے بڑھ جاتے ہیں پھر نام در نام آجاتے ہیں.پھر ان کی تشریح آجاتی ہے اور اس طرح یہ نام کئی ہزارہ یا کئی لاکھ تک جا پہنچتے ہیں " کے ۲۰۲۰ له : سیرت النبي "مجلد چہارم ص " الفولوم والمهرجان ش محمد فوادعبدالباقی).سے " تعليم العقائد والا اعمال پر خطبات صنا:
A.حضر مصلح موعود اور ایک جھوٹا صوفی موعود اور جھوٹے ایک دفعہ حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ایک شخص نے سوال کیا.کہ کشتی کا سوال جب کنارہ پر پہنچے تو کشتی میں بیٹھا ر ہے یا اتر آئے.یہ شخص ایک جھوٹا صوفی تھا اور سمجھتا تھا کہ جب تک خُدا کا یقین حاصل نہ ہو.عبادت فرض ہے.لیکن جب حاصل ہو جائے تو اسے ترک کر دینا چاہیئے.حضرت مصلح موعود نے آسمانی فراست کے نور سے اُس کے سوال کا پس منظر معلوم کر لیا اور فرمایا کہ : اگر در یا محدود ہے اور اس کا کنارہ ہے تو کنارے پر اتر آئے لیکن اگر دریا ہے کنارہ ہے تو جس کو وہ کنارہ سمجھتا ہے وہ اس کی عقل کا دھوکا ہے.اسلئے وہ جہاں اترے گا ، وہیں ڈوبے گا ، اس پر وہ سخت شرمندہ ہوا.اسے خواص اشیاء بھی ختم نہیں ہو سکتے اللہ جل شانہ کی صفات غیر محدود اور اس کی قرب کی راہ میں بے شمارہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حق تعالٰی کے ایک ہی جلوہ سے دنیا کی ہر ایک چیز میں ایک ایسی خاصیت پیدا ہو گئی ہے جسکی وہ خدا تعالیٰ کی غیر متناہی قدرتوں له : " تفسیر کبیر جلد سوم ص :
سے اثر پذیر ہوتی رہتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ خواص اشیاء ختم نہیں ہو سکتیں.چنانچہ حضرت اقدس فرماتے ہیں :- اگر چه نادان فلاسفروں نے بہت ہی زور لگایا کہ زمین و آسمان کے احترام و اجسام کی پیدائش کو اپنے سائنس یعنی طبیعی قواعد کے اندر داخل کر لیں اور ہر ایک پیدائش کے اسباب قائم کریں مگر سچ یہی ہے کہ وہ اس میں ناکام اور نامراد رہے ہیں اور جو کچھ ذخیرہ اپنی طبعی تحقیقات کا انہوں نے جمع کیا ہے وہ بالکل نا تمام اور نامکمل ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی اپنے خیالات پر قائم نہیں رہ سکے.اور ہمیشہ ان کے خود تراشیدہ خیالات میں تغیر و تبدل ہوتا رہا ہے اور معلوم نہیں کہ آگے کس قدر ہوگا.اور چوں کہ ان کی تحقیقاتوں کی یہ حالت ہے کہ تمام مدار ان کا صرف اپنی عقل اور قیاس پر ہے اور خدا سے کوئی مدر ان کو نہیں ملتی اس لئے وہ تاریکی سے باہر نہیں آسکتے ہے یہ نہایت محقق صداقت ہے کہ ہر ایک چیز اپنے اندر ایک او ایسی خاصیت رکھتی ہے جسکی وہ خدائے تعالی کی غیر متناہی قدرتوں سے اثر پذیر ہوتی رہی.سو اسکی ثابت ہوتا ہے کہ خواص اشیاء ختم نہیں ہو سکتیں کو ہم ان پر اطلاع پائیں نہ پائیں.اگر ایک دانہ خشخاص کے خواص تحقیق کرنے کے لئے تمام فلاسفر اولین و آخرین ه : چشمه معرفت "ص" (روحانی خزائن جلد ۲۳ ص۲۵ ) :
AY قیامت تک اپنی دماغی قومیں خرچ کریں تو کوئی عقلمند ہر گنہ باور نہیں کر سکتا کہ وہ ان خواص پر احاطہ تام کرلیں سو یہ خیال کہ اجرام علوی یا اجسام سفلی کے خواص جس قدر بذریعہ علم ہیئت یا طبعی دریافت ہو چکے ہیں ، اسی قدر پر ختم ہیں.اس سے زیادہ کوئی ہے مجھی کی بات نہیں یا اے کیا کوئی عقلمند خیال کر سکتا ہے کہ انسان دنیا کے مکتب خانہ مین یاد بود اپنی اس قدر عمر قلیل کے تحصیل اسرار ازلی و ابدی سے بکلی فراغت پا چکا ہے.اور اب اس کا تجربہ عجائبات الہیہ پر ایسا محیط ہو گیا ہے کہ جو کچھ اس کے تجربہ سے باہر ہو وہ فی الحقیقت خدا تعالے کی قدرت سے باہر ہو.میں جانتا ہوں کہ ایسا خیال بجز ایک بے شرم اور اہلہ آدمی کے کوئی دانشمند نہیں کر سکتا.فلاسفروں میں سے جو واقعی نیک، دانا اور بیچے روحانی آدمی گزرے ہیں انہوں نے خود تسلیم کر لیا کہ ہمارے خیالات جو محدود اور منقبض ہیں ، خدا اور اس کے بے انتہا بھیدوں اور حکمتوں کی شناخت کا ذریعہ نہیں ہو سکتے " ہے " ۵۳ سرمه چشم آريه ص (روحانی خزائن جلد ۲ ص ) : سرمه چشم آریز" ص (روحانی خزائن جلد ۲ ص ) به
نیز فرماتے ہیں:.و یاد رکھو کہ انسان کی ہرگز یہ طاقت نہیں ہے کہ ان تمام دقیق در دقیق خدا کے کاموں کو دریافت کر سکے بلکہ خدا کے کا م عقل اور فہم اور قیاس سے بہتر ہیں اور انسان کو صرف اپنے اس قدر علم پر مغرور نہیں ہونا چاہیئے کہ اس کو کسی منہ تک سید علل ومعلولات کا معلوم ہو گیا ہے کیونکہ انسان کا وہ علم نہایت ہی محدود ہے جیسا کہ سمندر کے ایک قطرہ میں سے کر دورم حصہ قطرہ کا.اور حق بات یہ ہے کہ جب کہ خداتعالی خود نا پیدا کنار ہے ایسا ہی اس کے کام بھی نا پیدا کنارہ ہیں.اور اس کے ہر ایک کام کی اصلیت تک پہنچنا انسانی طاقت سے برتر اور بلندتر ہے کالے کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دختران اسرالہ کا ہیکل اور سر فرانسیس بنگ کا اعتراف حق یہ ایسی بنیادی صداقت ہے کہ کسی بڑے سے بڑے سائنسدان کو دم بہانے کی مجال نہیں.بہیکل (HAECK EL) لکھتا ہے : - ور ہمیں اس امر کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ نیر کی کنہ و حقیقت سے ه : چشمه معرفت من د روحانی خزائن جلد ۲۳ صن ) :
ہم آج بھی اسی قدر بے خبر ہیں جس قدر آج سے ۲۴۰۰ (دو سبز اللہ چار سو سال بیشتر حکمائے یونان.یا دو سو سال پہلے نیوٹن اور اسپینوزا یا سو سال پہلے کانٹ اور گوئیلٹے بے خبر تھے.ہمیں تو بلکہ اس امر کا بھی اعتراف کر لینا چاہیئے کہ ہم جس قدر اس جو ہر کی گہرائیوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جیسی یہ کائنات مرکب ہے.مادہ اور توانائی جیسی خصائص ہیں.وہ اور معمہ بنتا جا رہا ہے.ہم اس کی محسوس شکلوں کا اور ان کی ارتقائی منازل کا علم تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن ان محسوس شکلوں کے پیچھے جواصل حقیقت ہے اس کے متعلق ہم کچھ بھی نہیں جان سکتے " اے ر اسی طرح سر فرانس بینگ ہینڈ - CSIR FRANCIS YOUNG (HUSBAND نے اپنے ایک مقالہ میں واضح اقرار کیا ہے کہ : - وو ہم سے جو سائنس سے جو کچھ معلوم کر سکے ہیں وہ اتنا ہی ہے کہ علم کا سمند رہے کنا ر ہے.ہم یہی معلوم کر سکتے ہیں کہ فطرت کے متعلق ہم کبھی بھی سب کچھ جان نہیں سکتے " ہے √ "THE RIDDLE OF THE UNIVERSE" PAGE 310, ERNST.NAECKEL) بحوالہ انسان نے کیا سوچا " از جناب غلام احمد پر دیره ناشر ادارہ طلوع اسلام - کراچی - GREAT DESIGN" PAGE 254.< THE بحوالہ انسان نے کیا سوچا از جناب غلام احمد پر ونیز هم ناشر اداره طلوع اسلام کراچی به
صفات اللہ کا لطیف خلاصہ سورہ فاتحہ میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب صفات الہیہ بے شمار ہیں تو خدا کا ایک عاشق جو سیر الی اللہ کی منازل طے کر رہا ہو ، خاص طور پر کن صفات کے ذکر وفکر میں مشغول رہے کہ ہر محہ خدا تعالیٰ کا پاک چہرہ اُس کے قلب پر منعکس رہے اور اس کے آسمانی سفر کی ہر دوسری منزل پہلی منزل سے زیادہ آسان ہو جائے اور وہ خُدا کے دربار شاہی میں باریابی کا شرف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے ؟ اس مقالہ کے اخت تمامی حصہ میں خاکسالہ اس اہم ترین سوال کے بارہ میں ہی مختصراً عرض کرنا چاہتا ہے.سو واضح ہو کہ دوسرے مذاہب عالم تو اس کے جواب میں بالکل گنگ اور ساکت و صامت ہیں مگر اسلام نے سائنٹیفک اندان اور عملی طریق پر اس کو حل فرما دیا ہے اور وہ اس طرح کہ قرآن عظیم کے ابتداء میں سورۃ فاتحہ رکھدی جس کی نسبت انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : - وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا نَزَلَ اللَّهُ فِي التَّورِيةِ وَلَا في الأنجيلِ وَلَا فِى الزَّبُورِ وَلَا فِي الفُرْقَانِ مِثْلَهَا : له کہ مجھے اس خدا کی قسم ہے کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تورات، انجیل ، نہ پور بلکہ فرقان میں بھی ایسی عظیم الشان سورت نازل نہیں فرمائی.ه : سیرت حلبیہ جلد ا ص :
AY نحضور نے ایک موقعہ پر ارشاد فرمایا :.انَّ اللهَ اعْطَانِي فِيْهَا مَنْ بِهِ عَلَى فَائِحَةَ الْكِتَابِ وَقَالَ هِيَ كَنَرُ مِنْ كُنُوزِ عَرْشِي : له البيهقي في الشعب) خد اتعالیٰ نے جو احسان فرما کر مجھے انعام دئے ہیں ان میں سے ایک ، فاتحۃ الکتاب بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ سورۃ میرے عرش کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے.پھر یہی وہ عظیم الشان سورت ہے جس کی پیشگوئی صدیوں قبل فتوح کے نام سے مکاشفات باب ۱۰ آیت ۲ - ۵ میں پہلے سے موجود ہے اور جسے ہر سلمان کے لئے ہر نماز بلکہ ہر رکعت میں پڑھنالان می قرار دیا گیا.بید حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں کہ :.سورۃ فاتحہ میں اُس خُدا کا نقشہ دکھایا گیا ہے جو قرآن شریف منوانا چاہتا ہے اور جس کو وہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.چنانچہ اس کی چار صفات کو ترتیب وار بیان کیا ہے.جو أمهات الصفات کہلاتی ہیں جیسے سورۃ الفاتحہ ام الکتاب ہے.ویسے ہی جو صفات اللہ تعالیٰ کی اس میں بیان کی گئی ہیں وہ بھی ام الصفات ہی ہیں.اور وہ یہ ہیں.رب العالمین : تفسير فتح البیان جلد مش مؤلفه مولا نا نواب صدیق حسن قنوجی) : - اردو بائیبل میں فتوحہ کی بجائے کھلی ہوئی کتاب لکھ دیا گیا ہے جیسے ہے اصل پیش گوئی پر پردہ ڈالنا مقصود ہے :
AL الرحمن الرحيم مالك يوم الدين - ان صفات اربعہ پر غور کر نے سے خدا تعالیٰ کا گویا چہرہ نظر آ جاتا ہے.ربوبیت کا فیضان بہت ہی وسیع اور عام ہے اور اس میں کل مخلوق کی گل حالتوں میں تربیت اور اسکی تکمیل کے تکفل کی طرف اشارہ ہے.غور تو کرو جب انسان اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر سوچتا ہے تو اس کی اُمید کس قدر وسیع ہو جاتی ہے.اور پھر رحمانیت یہ ہے کہ بدوں کسی عمل عامل کے ان اسباب کو مہیا کرتا ہے جو بقائے وجود کے لئے ضروری ہیں.دیکھو چاند سورج ، ہوا ، پانی وغیرہ بڑی ہماری دعا اور التجا کے اور بغیر ہمارے کسی عمل اور فعل کے اُس نے ہمارے وجود کے بقا کے لئے کام میں لگا رکھے ہیں اور پھر رحیمیت یہ ہے کہ اعمال کو ضائع نہ کرے اور مالکیت یوم الدین........با مراد کرتی ہے.دنیا کی گورنمنٹ کبھی اس امر کا ٹھیکہ نہیں لے سکتی کہ ہر ایک بی اسے پاس کرنے والے کو ضرور نوکری دے گی مگر خدا تعالی کی گورنمنٹ کامل گورنمنٹ اور لا انتہا خزائن کی مالک ہے.انکی حضور کوئی کمی نہیں.کوئی عمل کرنے والا ہو.وہ سب کو فائز الحرام کرتا ہے......پس خوب یاد رکھو کہ یہ امہات الصفات روحانی طور پر خدا نما تصویر ہیں.ان پر غور کرتے ہی معا خد ا سامنے ہو جاتا ہے اور روح ایک لذت کے ساتھ اچھل کر اسکے سامنے سر سجود ہو جاتی ہے " ہے ه : " تفسیر درة فاتحہ " طلا ۱۲ دالحکم او را گست شله ملت ) :
AA اقم الصفات کی تشریح حدیث قدسی میں رب العالمین ، یمن ، رحیم اور مالک یوم الدین کی صفات کسی شان سے اولین و آخرین پر جلوہ گر ہیں اس کی شاندار تشریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک میں ملتی ہے جو بہت ہی رح پر در ہے:.وَعَنِ أبِي ذَرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا عِبَادِي كُتُكُمْ مذنب الا مَنْ عَافَيْتُ فَاسْتَغْفِرُونِي اغْفِرْ لَكُمْ وَمَنْ عَلِمَ انِي اقْدِرُ عَلَى الْمَغْفِرَةِ فَاسْتَغْفِرَنِي بِقُدْرَتِي غَفَرْتُ لَهُ وَلَا بَالِي وَكُنْ كَمْ ضَالَ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُ فَاسْتَحْدُولَى اهْدِكُمْ وَكُتُكُمْ فَقِير الا من أغنيتُ فَاسْأَلُونِي أَغْنِكُمْ وَلَوْ أَنَّ اد لكم و أخركم وفي رِوَايَةٍ وَإِنسَكُمْ وَجَنَّكُمْ وَصَغِيرَكُمْ وَكَبِيرَكُمْ وَذَكَرَكُمْ وَانْتَاكُمْ) وحَيَّكم وميتكُم وَرَطْبَكُمْ وَيَا بِسَكُمْ جتَمَعُوا عَلَى اشْقَى قَلْبِ مِن تُلُوبِ عِبَادِى مَا نَقَصَ فِى مُنكَى جَنَاحَ بَعُوضَةٍ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى اتَّقَى قَلْبِ عَبْدِ مِنْ عِبَادِى مَا زَادَ فِي مُتكِن مِنْ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ وَلَوْانَّ اَوَّلَكُمْ وَأَخَرَكُمْ
*4.( وَفِي رِوَايَةٍ - وَإِنسَكُمْ وَجِنَّكُمْ وَصَغِيرَكُمْ وكبير كمْ وَذَكَرَكُمْ وأَنْهَاكُمْ وَحَيَّكُمْ وَهَيْتَكُمْ وَتَطْبَكُمْ وَيَا بِسَكُمْ اجْتَمَعُوا فَسَأَلَنِي كُلَّ سَائِلِ منهم ما بلغتْ أمْنِيَّتُهُ فَاعْطَيْتُ كُلَّ سَائِلٍ مِنْهُمْ مَا سَأَلَ مَا نَقَصَى كَمَا لَوْانَ أَحَدَ كيم مَرَّ شَفَيا الْبَحْرِ فَغَمَسَ فِيْهَا إِبْرَةً ثُمَّ انْتَزَعَهَا كَذلِكَ لَا يَنْقُصُ مِنْ مُلكِى ، ذُبِكَ جَوَادُ مَا جِدٌ صَمَدُ عَطَائِي كَلَامُ وَعَدَانِي كلام وَفي رِوَايَة عَطَائِي كَلامِي وَعَذَابِي كَلَا فِي) إذا اردت شَيْئًا فَإِنَّمَا أَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ : درواه احمد ومسلم والترمذی) حضرت ابو ذر شب سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے.اسے میرے بندو تم سب قصور وار ہو مگر وہ جسے میں بچالوں، تم مجھ سے بخشش طلب کیا کرو.میں تمہیں بخش دوں گا.جو شخص یہ جانتا ہے کہ مجھے بخشش کی طاقت ہے پھر مجھ سے بخشش مانگتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور کوئی پروا نہیں کرتا ، تم سب گم کردہ راہ ہومگر وہ : ترجمان السنه جلد اول ۲۹ ۳۰ مؤلفہ مولانا محمد بدر عالم صاحب ناشر ندوۃ المصنفين وعلى شكله :
جس کو میں راہ دکھلاؤں.تم مجھ سے ہدایت مانگا کرو میں تمہیں ہدایت دوں گا.تم سب محتاج ہو مگر وہ جس کو میں بے نیازہ کردوں.تم مجھ سے مانگو.میں تمہیں بے نیاز کروں گا.اگر تمہارے اگلے پچھلے راور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ انسان اور جن چھوٹے اور بڑے ، مرد اور عورتیں زندہ اور مردہ.تہ اور خشک سب مل کر میرے بندوں میں سب سے زیادہ شقی القلب بندہ کی طرح ہو جائیں تو میری سلطنت میں مچھر کے تہ کی برابر کوئی کمی نہیں آسکتی اور اگر سب کا دل متقی سے مشفقی انسان کی طرح ہو جائے تو میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر کی برا بر زیادتی نہیں ہو سکتی.اگر تمہا ر سے اول و آخر د اور ایک روایت میں انسان وجن، چھوٹے اور بڑے ، مرد وزن ) زندہ اور مردہ ، ترا در خشک سب جمع ہوں اور ان میں سے ہر سائل کو میں اس کی منہ مانگی مراد و سے دوں تو بھی میرے خزانہ میں کچھ کمی نہ آئے گی.جیسا کہ تم میں کوئی شخص سمندر کے کنارے گذرے اور اس میں سوئی ڈبو کر نکال سے تو سمندر میں کوئی کمی نہیں آتی ، اسی طرح میری سلطنت میں بھی کچھ کمی نہیں آئے گی یہ اس لئے کہ میں سخی ہوں ، بزرگی والا ہوں ، بے نیاز ہوں.بات میری بخشش اور بات میرا عذاب ہے اور ایک اور روایت میں ہے ، میری بات رہیں، میری بخشش ہے).
41 اور میری بات رہیں ، میرا عذاب ہے کچھ کرنا نہیں پیتا ، اور جب میں کسی چیز کے کرنے کا ارادہ کرتا ہوں تو صرف یہ کہ دنیا ہوں کہ موجود ہو جا، وہ موجود ہو جاتی ہے.اس حدیث کو امام احمد اور مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے.أقم الصفات کا شاندار ظہور عہد نبوی میں اسلام کے کامل اور زندہ خُدا نے اپنی ام الصفات کا اس دنیا میں اکمل د اتم ظہور ہمارے آقا و مولا خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ فرمایا.چنانچہ ایک انقلاب عظیم دنیا میں آیا اور تھوڑے ہی دنوں میں وہ جزیرہ عرب جو مجر بت پرستی کے اور کچھ بھی نہیں جانتا تھا، ایک سمندر کی طرح خدا تعالیٰ کی توحید سے بھر گیا.حیوانوں سے انسان اور انسانوں با خُدا اور پھر ایسے خدا نما انسان بن گئے کہ اُن کو دیکھنے کے عرش کا جندا یاد آجاتا تھا.اور لاکھوں سینوں پر لا اله الا اللہ کا نقش ہمیشہ کے لئے قائم ہو گیا اور رحمانیت اور رحیمیت کے نور سے زمین جگمگا اُٹھی اور کفر کی منظم مخالفت اور خطرناک سازشوں کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا جب تک کہ خدائے واحد کی حکومت قائم نہیں ہوگئی.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مجد والف آخر فرماتے ہیں :- آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی جماعت نے اپنے رسول مقبول کی راہ میں ایسا اتحاد اور ایسی روحانی یگانگت پیدا کر لی تھی کہ اسلامی
۹۲ اخوت کی رحہ سے سچ مچ عضو واحد کی طرح ہو گئی تھی اور ان کے روزانہ برتاؤ اور زندگی اور ظاہر و باطن میں انوار نبوت ایسے کہچ گئے تھے کہ گویا وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عکسی تصویر تھے.سو یہ بھاری معجزہ اندرونی تبدیلی کا جب کسی ذریعہ سے فحش ثبت پرستی کرنے والے کامل خدا پرستی تک پہنچے گئے اور ہردم دنیا میں غرق رہنے والے محبوب حقیقی سے ایسا تعلق کیے گئے کہ اس کی راہ میں پانی کی طرح اپنے خونوں کو بہا دیا.یہ دراصل ایک صادق اور کامل نبی کی محبت میں مخلصانہ قدم سے عمر بسر کرنے کا نتیجہ تھا لے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کسی طرح خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت کا ظہور ہوا ؟ حضرت اقدس نے اس کا ذکر نہایت عاشقانہ اور والہانہ انداز میں کیا ہے.فرماتے ہیں :- ہم اس خدا کو سچا خدا جانتے ہیں جنسی ایک مکہ کے غریب بے کس کو اپنا نبی بنا کر اپنی قدرت اور غلبہ کا جلوہ اسی زمانہ میں تمام جہاں کو دکھا دیا.یہاں تک کہ جب شاہ ایران نے ہمارے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے اپنے سپاہی بھیجے تو اس قادر نخدا نے اپنے رسول کو فرمایا کہ سپاہیوں کو کہد سے کہ آج رات کو میرے خُدا نے تمہارے خدا وند : فتح اسلام ۳۷ - دروحانی خزائن جلد ۳ حالت ۳۳) :
۹۳..کو قتل کر دیا ہے.اب دیکھنا چا ہیئے کہ ایک طرف خدائی کا دعوی کرتا ہے اور آخیر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گورنمنٹ رومی کا ایک سپاہی اس کو گرفتار کر کے ایک دو گھنٹہ میں جیل خان ڈال دیتا ہے اور تمام رات کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں اور دوسری طرف وہ مرد ہے کہ صرف رسالت کا دعوی کرتا ہے اور خدا اس کے مقابل پر بادشاہوں کو ہلاک کرتا ہے " پھر فرماتے ہیں :.کیا یہ حیرت انگیز ماجرا نہیں کہ ایک بے زور ہے زور بکیں اتی یتیم.تنہا.غریب.ایسے زمانہ میں کہ جس میں کہ ہر ایک قوم پوری پوری طاقت مالی اور فوجی اور علمی رکھتی تھی.ایسی روشن تعلیم دیا کہ اپنی براہین قاطعہ اور حج واضحہ سے سب کی زبان بند کر دی اور بڑے بڑے لوگوں کو جو حکیم بنے پھرتے تھے اور فیلسوف کہلاتے تھے فاش غلطیاں نکالیں اور پھر با وجود ہے کسی اور غریبی کے نور بھی الیسا دکھایا کہ بادشاہوں کو تختوں سے گرا دیا اور انہیں تختوں پہ غریبوں کو بٹھایا اگر یہ خدا کی تائید نہیں تھی تو اور کیا تھی؟ کیا تمام دنیا پہ عقل اور علم اور طاقت اور زور میں غالب آجانا بغیر تائید اپنی کے بھی ہوا کرتا ہے ؟ خیال کرنا چاہیئے کہ جب آنحضرت نے پہلے " ه : " چشم سیمی ۲۲-۲۳ طبع اول :
پہل لوگوں میں منادی کی کہ میں نبی ہوں.اس وقت ان کے ہمراہ کون تھا اور کس بادشاہ کا خزانہ ان کے قبضے میں آگیا تھا کہ جس پر اعتماد کر کے ساری دنیا سے مقابلہ کیہ نے کی ٹھہر گئی ؟ یا کونسی فوج اکٹھی کر لی تھی کہ جس پر بھروسہ کر کے تمام بادشاہوں کے حملوں سے امن ہو گیا تھا؟ ہمارے مخالف بھی جانتے ہیں کہ اس وقت آنحضرت زمین پر اکیلے اور بے کس اور بے سانان تھے.صرف اُن کے ساتھ خدا تھا جنسی ان کو ایک بڑے مطلب کے لئے پیدا کیا تھا " لے اللہ تعالی نے اپنے نبی کو سکینی اور غریبی اور تیمی اور تنہائی اور بے کسی کی حالت میں مبعوث کر کے پھر ایک نہایت قلیل عرصہ میں جو تین برس سے بھی کم تھا.ایک عالم پر فتح یاب کیا اور شہنشاہ قسطنطنیه و بادشایان دیار شام و مصره ممالک ما بین دجلد و فرات وغیرہ پر غلبہ بخشا اور اس پھوڑ سے ہی عرصہ میں فتوحات کو جزیرہ عرب سے لے کر دریائے جیحون تک پھیلایا.اور ان ممالک کے اسلام قبول کرنے کی بطور پیشنگوئی قرآن شریف میں خبر دی.اس حالت ہے سامانی اور پھر ایسی عجیب غریب فنخوں پر نظر ڈال کر بڑے بڑے دانشمند اور فاضل انگریزوں نے بھی شہادت دی ہے کہ جس جلدی سے اسلامی ه : "برا همین احمد به " ۱۲۰۰۲ یه ۱۳۰۰۱۲ دبر وحانی خزائن جلد اصل ۱۳۰ )
۹۵ اسلام دنیا میں پھیلا ہے.اس کی نظیر صفحه تواریخ دنیا میں کسی جگہ نہیں پائی جاتی یہ ہے حضرت اقدس نے اس تاریخی حقیقت پر روشنی ڈالنے کے علاوہ زمانہ حال کا ذکر کر کے فرمایا :- رجوع خلائق اور قبولیت کا یہ عالم ہے کہ آج کم سے کم ہیں کروڑ ہر طبقہ کے مسلمان آپ کی غلامی میں کمر بستہ کھڑے ہیں اور جب سے خدا نے آپ کو پیدا کیا ہے.بڑے بڑے زبر دست بادشاہ جو ایک دنیا کو فتح کرنے والے تھے.آپ کے قدموں پر اونی غلاموں کی طرح گیر سے رہے ہیں.اور اس وقت اسلامی بادشاہ بھی ذلیل چاکر وں کی طرح آنجناب کی خدمت میں اپنے تئیں سمجھتے ہیں اور نام لینے سے تخت سے نیچے انہ آتے ہیں " سے عہد حاضر کے ایک امریکی ریسرچ سکالر کا زبردست خراج نوین ۱۹۷۸ میں ایک امریکی فاضل میکائل ایسے ہارٹ MEL تریجی (H.HART کے قلم سے ڈی ہنڈرڈ (THE HUNDERED) نام سے ایک کتاب شائع ہوئی جس میں اُس نے تاریخ انسانی کے نواستہ ہے سرمه چشم آمریه م حاشیه د روحانی خزائن جلد ۲ مثل : مضمون جلسه یاہو رمت که چشمه معرفت حث :
۹۶ زیادہ با اثر افراد کی زندگی اور کا نہ ناموں کا جائزہ پیش کیا.مصنف نے تاریخ کی سب سے زیادہ با اثر شخصیات کے اس تذکر سے نہیں سر فہرست میں ہستی کو جگہ دی اور جیسے اس نے تمام مشاہیر عالم میں سب سے بڑھ کر اپنے مشن میں کامیاب قرار دیا وہ ہمارے پیار سے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کی ذات بابرکات ہے.چنانچہ مسٹر میکائل ایچ ہارٹ لکھتے ہیں :- "Furthermore, Mohammad (unlike Jesus) was a secular as well as a religious leader.In fact as the driving force behind the Arab conquests, he may well rank as the most influential political leader of all time.Of many important historical events, one might say that they were inevitable and would have occurred even without the particular political lea- der who guided them.For example, the South American Colonies would probably have won their independence from Spain even if Simon Bolivar had never lived.But this cannot be said of the Arab conquests.Nothing similar had occured be- to be fore Muhammad, and there is no reason lieve that the conquests would have achieved with- out him." (“The 100” By Michael H.Hari Page 39-40¥*
46 یعنی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کے برعکس مغربی پیشوا ہونیکے ساتھ ساتھ دنیوی راہنما بھی تھے بلکہ حقیقت میں عرب فتوحات کے پس پردہ اصل جذبہ محرکہ ہونے کی حیثیت میں وہ ہمہ وقت دنیا کے سب سے زیادہ با اثر سیاسی راہنما کا درجہ رکھتے ہیں.بہت سے تاریخی واقعات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ناگزیر تھے وہ کسی خاص سیاسی لیڈر کی قیادت فراہم ہونے کے بغیر بھی وقوع پذیر ہو کر رہتے.مثال کے طور پر جنوبی امریکہ کی نو آبادیاں شاید اسپین سے اسائمن پولیور کے بغیر بھی آزادی حاصل کر لیتیں لیکن معرب فتوحات کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا.وجہ یہ کہ اسی ملتا جلتا کوئی واقعہ حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت کے ظہور پذیر ہوئے بغیر ممکن ہی نہیں تھا.اسلام کے زندہ خُدا کا عظیم الشان معجزه اب آخر میں مجھے اسلام کے زندہ خدا کا یہ عظیم الشان معجز و بیان کرتا ہے کہ ارتی اپنے سر سے محبوب خاتم الانبیاء حمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم کو چودہ سو سال قبل کی سائنسی ترقی اور خلائی راکٹوں کا نظارہ دکھاتے ہوئے ایک طرف تو یہ انکشاف فرمایا کہ یا جوج ماجوج آسمانوں پہ تیر چھینکیں گے.
۹۸ " رفَيَرْمُونَ بِتَابِهِمْ إِلَى السَّمَاء له نیز یہ کہ وہ خُدا کی ہستی کا کھلم کھلی انکار کریں گے.لا تَقومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَكْفُرُوا بِاللهِ جهرا اور دوسری طرف اپنے پاک کلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وستم کی زبان مبارک سے یہ ولولہ انگیز پیغام دیا؟ قل هذه سبيلي اَدْعُوا إِلَى اللهِ قَف عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبعنى.ریوسف : ۱۰۹) (1.9:2 دیارسول اللہ کا اعلان کر دے کہ میں اور میرے بچے متبعین ی ای ایمان کی طرف علی وجہ البصیرت ہمیشہ ہی اللہ تعالی کی طرف علی وجہ البصیرت دعوت دیتے چلے جائیں گے.اس پیشگوئی کے عین مطابق ہمارے سید و مولا آنحضرت صلی اللہ علیہ وستم کے زمانہ سے آج تک ہر ایک صدی میں ایسے باخدا بزرگ ہوتے رہے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوتا اور غیر قوموں کو آسمانی نشان دکھل کر ہدایت دنیا رہا ہے جیسا کہ حضرت سید عبد القادر جیلانی ، حضرت ابوالحسن خرقانی حضرت ابو یزید بسطامی حضرت جنید بغدادی حضرت محی الدین ابن عربی حضرت ذوالنون مصری ، حضرت معین الدین شیتی اجمیری حضرت قطب الدین بختیار کاکی حضرت فرید الدین پاک پٹنی ، حضرت نظام الدین اولیاء دبلوی ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور حضرت شیخ احمد سر ہندی رضی اللہ عنہم N حالیہ ه : ترمذی ابواب الفتن جلد ۲ صاله مطبع علمی.دہلی.: کنتر العمال جلد ا ص ) مکتبہ اثمرات الاسلامی حلب) ر
44 ورضوا عنہ اسلام میں گزرے ہیں اور ان صلحائے امت محمدیہ کی تعداد ہزاروں سے بھی متجاوز ہے.اور دریائے عظیم کی طرح ہے.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنی ہستی کا ثبوت دینے اور دہریت کو پاش پاش کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور ہما ر سے امام مہدی امت و مسیح دوراں کو کھڑا کیا.آپ نے کھلے الفاظ میں علی وجہ البصیرت اسلام کے پیش کردہ خدا کی طرف دعوت دی.چنانچہ فرمایا : - ا "ہر یک قوم نے اپنا اپنا مصنوعی خدا بنالیا اور مسلمانوں کا وہی خدا ہے جو قدیم سے لازوال اور غیر مبدل اور اپنی ازلی صفتوں میں ایسا ہی ہے جو پہلے تھا کہ ایک اسلام ہی ہے جس میں خدا بندہ سے قریب ہو کہ اس سے باتیں کرتا ہے.وہ اس کے اندر بولتا ہے اور اس کے دل میں اپنا تخت بناتا اور اس کے اندر سے اُسے آسمان کی طرف کھینچتا ہے اور اس کو وہ سب نعمتیں عطا فرماتا ہے جو پہلوں کو سب دی گئی تے ہمارا خدا وہ خدا ہے جو اب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ پہلے بولتا تھا اور اب بھی وہ سُنتا ہے جیسا کہ پہلے سنتا تھا.یہ خیال خام ہے کہ اس زمانہ ه بر این احمدیہ جلد ۲ ص۱۲۶ (روحانی خزائن جیلدا مثا) از ے : " اسلامی اصول کی فلاسفی صد روحانی خزائن جلد ۱ سا
+ میں وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں بلکہ وہ سنتا اور بولتا بھی ہے اس کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں.کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نہ کبھی ہوگیا ہے ضرورت الہام اور اس کی حقانیت اس سلسلہ میں حضور نے ضرورت الہام اور اس کی حقانیت پر روشنی ڈالتے ہوئے منکرین الہام کی نسبت اس رائے کا اظہالہ فرمایا کہ : - جو لوگ الہام سے انکاری ہیں.وہ بھی بت پرستوں کی طرح خُدا کی صفتوں سے مخلوق کا متصف ہونا اعتقاد رکھتے ہیں.......اور اس قادر مطلق کی طاقتوں کا بندوں میں پایا جانا مانتے ہیں کیونکہ ان کا یہ خیال ہے کہ ہم نے اپنی ہی عقل کے زور سے خدا کا پتہ لگایا ہے اور ہمیں انسانوں کو ابتداء میں یہ خیال آیا تھا کہ کوئی خدا مقرر کرنا چاہیئے اور ہماری ہی کوششوں سے وہ گوشہ گمنامی سے باہر نکلا.شناخت کیا گیا معبود خلائق ہوا.قابل پرستش ٹھہرا.ورنہ پہلے اسے کون جانتا تھا؟ اس کے وجود گی کے خبر تھی ؟ ہم عقل مند لوگ پیدا ہوئے تب اس کے بھی نصیب جاگے.کیا یہ اعتقاد بُت پرستوں کے اعتقاد سے کچھ کم ہے ؟ ہرگز نہیں.اگر کچھ فرق ہے تو صرف الوصیت" حث دروحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳ +
اتنا که ثبت پرست لوگ اور اور چیزوں کو اپنا معظم اور محسن قرار دیتے ہیں اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر اپنی ہی دود آمیز عقل کو اپنی ہا دی اور محسن جانتے ہیں بلکہ اگر غور کیجئے تو بت پرستوں سے بھی ان کا پتہ کچھ بھاری معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگرچہ بت پرست اس بات کے تو قائل ہیں کہ خُدا نے ہمارے دیوتاؤں کو بڑی بڑی طاقیقی ہے رکھی ہیں.اور وہ کچھ نذر نیاز لے کر اپنے پجاریوں کو مرادیں دے دیا کرتے ہیں.لیکن اب تک انہوں نے یہ رائے ظاہر نہیں کی کہ جدا کا پتہ انہیں دیوتاؤں نے لگایا ہے اور یہ نعمت عظمی وجود حضرت باری کی انہیں کے زور بازو سے معلوم ہوئی ہے.یہ بات تو انہی حضرات (منکرین الہام) کو سو بھی جنہوں نے خدا کو بھی اپنی ایجادات کی فہرست میں درج کر لیا یہ لے مزید فر مایا کہ : - الہام کے بغیر نہ یقین کامل ممکن ہے نہ غلطی سے بچنا ممکن.نہ نہ توحید خالص پر قائم مونا لگن.نہ جذبات نفسانیہ پر غالب آنا چیز امکان میں داخل ہے.وہ الہام ہی ہے جس کسی ذریعہ سے خدا کی نسبت ہے " کی دھوم مچی ہوتی ہے اور تمام دنیا است بست کرکے اس کو پکار رہی ہے.وہ الہام ہی ہے جو ابتداء سے دلوں میں جوش ڈالنا آیا کہ خدا موجود ہے.وہی ہے جس سے ها براہین احمدیہ " مش حاشیہ علا :
پرستاروں کو پرستش کی لذت آتی ہے.ایمان داروں کو خدا کے وجود اور عالم آخرت پر تسلی ملتی ہے.وہی ہے جسے کروڑہا عارفوں نے بڑی استقامت اور جوش محبت الہیہ سے اس مسافرخانہ کو چھوڑا ہے.وہی ہے جس کی صداقت پر ہزار ہا شہیدوں نے اپنے خون سے مہریں کہ دیں.ہاں وہی ہے جس کی قوت جاذبہ سے بادشاہوں نے فقر کا جامہ پہن لیا.بڑے بڑے مالداروں نے دولتمندی پر درویشی اختیا نہ کر لی.اسی کی برکت سے لاکھوں امی اور ناخواندہ اور بوڑھی عور توں نے بڑے پُر جوش ایمان سے کوچ کیا.وہی ایک کشتی ہے جینے بار ہا یہ کام کر دکھایا کہ بے شمار لوگوں کو ورطہ مخلوق پرستی اور بدگمانی سے نکال کر ساحل توحید اور یقین کامل تک پہنچا دیا ہے ہے نزول الہام روحانی تجربات و مشاہدات کی روشنی میں دہریت میں ڈوبی ہوئی دنیا کے لئے چونکہ الہام کا نظریہ ایک فرسودہ نفقہ یا فسانہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا اس لئے حضرت اقدس نے اپنے تجربات و مشاہدات کی بناء پر نزول الہام کی مختلف کیفیات بے نقاب فرمائیں.صورت اول الہام کی منجملہ ان کئی صورتوں کے جن پر خدا نے مجھ کو اطلاع دی ہے یہ ہے کہ جب خدا وند تعالٰی کوئی امر غیبی له -: - براہین احمدیہ حنا حاشیہ علا د روحانی خزائن جلد ا ص ۱۹۲۱ ) :
اپنے بندے پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو کبھی نرمی سے، کبھی سختی سے بعض کلمات زبان پر کچھ تھوڑی غنودگی کی حالت میں جاری کر دیتا ہے اور جو کلمات سختی اور گرانی سے جاری ہوتے ہیں وہ ایسی پر شدت اور عنیف صورت میں زبان پر وارد ہوتے ہیں.جیسے گڑے یعنی اولے بیک بارگی ایک سخت زمین پر گرتے ہیں یا جیسے تیز اور پیچ زور رفتار میں گھوڑے کا کم زمین پر پڑتا ہے.اور اس الہام میں ایک عجیب سرعت اور شدت اور ہیبت ہوتی ہے جسے تمام بدن متاثر ہو جاتا ہے.اور زبان ایسی تیزی اور بار رعب آواز میں خود بخود دوڑتی جاتی ہے کہ گویا وہ اپنی زبان ہی نہیں اور ساتھ اسکی جو ایک تھوڑی سی غنودگی اور ربودگی ہوتی ہے.وہ الہام کے تمام ہونے کے بعد فی الفور دُور ہو جاتی ہے اور جب تک کلمات الہام تمام نہ ہوں تب تک انسان ایک میت کی طرح بے حس و حرکت پڑا ہوتا ہے.اے صورت دوقم الہام کی جس کا ئیں با عتبار کثرت عجائبات کے کامل الہام نام رکھتا ہوں ، یہ ہے کہ جب خدا تعالی بندہ کو کسی امر غیبی پہ بعدہ دعا اس بندہ کے یا خود بخود مطلع کرنا چاہتا ہے تو ایک دفعہ ایک بے ہوشی اور ربودگی اس پر طاری کر دیا ہے جسے وہ بالکل اپنی بہتی سے کھویا جاتا ہے اور ایسا اس ه: ابراہین احمدیہ جلد سوم مشت ۲۳- ۲۳۹ حاشیه در حاشیه را (طبع بول)
۱۰۴ بے خودی اور ربودگی اور بے ہوشی میں ڈوبتا ہے جیسے کوئی پانی میں غونہ مارتا ہے اور نیچے پانی کے چلا جاتا ہے.غرض جب بندہ اس حالت ربودگی سے کہ جو شخوصہ سے بہت ہی مشابہ ہے.باہر آتا ہے تو اپنے اندر میں کچھ ایسا مشاہدہ کرتا ہے جیسے ایک گونج پڑی ہوئی ہوتی ہے.اور جب وہ گونج کچھ فرد ہوتی ہے تو ناگہاں اس کو اپنے اندر سے ایک موزوں اور لطیف اور لذیذ کلام محسوس ہو جاتی ہے.اور یہ غوطہ ربودگی کا ایک نہایت مجیب امر ہے.جس کے عجائبات بیان کرنے کے لئے الفاظ کفایت نہیں کرتے.یہی حالت ہے جیسی ایک دریا معرفت کا انسان پر کھل جاتا ہے یا اے صورت سوم الہام کی یہ ہے کہ نرم اور آہستہ طور پر انسان کے قلب پر اتقاء ہوتا ہے یعنی ایک مرتبہ دل میں کوئی کلمہ گذر جاتا ہے جس میں وہ عجائبات بہ تمام دکھاں نہیں ہوتے کہ جو د دسری صورت میں بیان کئے گئے ہیں.بلکہ اس میں ربودگی اور غنودگی بھی شرط نہیں.بسا اوقات عین بیداری میں ہو جاتا ہے اور اس میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا غیب سے کسی نے وہ کلمہ دل میں پھونک دیا ہے یا پھینک دیا ہے.انسان کسی قدر بیداری میں ایک استغراق اور محویت کی حالت میں ہوتا ہے اور کبھی بالکل بیدار تیرا بین احمدیه ۳۳-۲۳۷ حاشیه در حاشیه ملا :
۱۰۵ ہوتا ہے کہ ایک دفعہ دیکھتا ہے کہ ایک نووارد کلام اُس کے سینہ میں داخل ہے اے صورت چہار تیم الہام کی یہ ہے کہ سویاء صادقہ میں کوئی امر خُدائے تعالیٰ کی طرف سے منکشف ہو جاتا ہے یا کبھی کوئی فرشتہ انسان کی شکل میں متشکل ہو کہ کوئی غیبی بات بتلاتا ہے یا کوئی یہ کاغذ یا بمقر وغیرہ پر مشہور ہو جاتی ہے جسے کچھ اسرا " ظاہر ہوتے ہیں وغیرہا من الصور" کے صورت پنجہ الہام کی وہ ہے جس کا انسان کے قلب سے کچھ تعلق نہیں.بلکہ ایک خارج سے آواز آتی ہے اور یہ آواز ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے ایک پردہ کے پیچھے سے کوئی آدمی بولتا ہے مگر یہ آواز نہایت لذیذ اور شگفتہ اور کسی قدر سرعت کے ساتھ ہوتی ہے اور دل کو اسکی ایک لذت پہنچتی ہے.انسان کسی قدر استغراق میں ہوتا ہے کہ یکد فعہ یہ ادانہ آجاتی ہے اور آوانہ سن کر وہ حیران رہ جاتا ہے کہ کہاں سے یہ آواز آئی اور کرسینی مجھ سے یہ کلام کی اور حیرت زدہ کی طرح آگے پیچھے دیکھتا ہے.پھر سمجھ جاتا ہے کہ کسی فرشتہ نے یہ آوازہ دیا ہے براہین احمدیه من حاشیه در حاشیه : بر ارمین احمدیہ ص حاشیه در حاشیه را طبع اول : ے براہین احمدیہ ص ۲۵ حاشیه در حاشیه عنه :
1.4 ممنکرین الہام کو دعوت مقابلہ خدا تعالی سے ہمکلامی کا شرف آپ کو اس درجہ کثرت سے حاصل ہوا کہ خُدا کے شیر نے ایشیا سے روس اور یورپ سے امریکہ تک کے منکرین الہام که انکارا اور انہیں دعوت مقابلہ دیتے ہوئے فرمایا کہ:.مجھو آؤ ائیں نہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ تعلیم ہے کیونکہ میں ایک انسان ہونے کی وجہ سے علم کامل نہیں رکھتا لیکن خُدا مجھے کہتا ہے کہ یہ چیز یوں ظاہر ہوگی اور پھر با وجود ہزاروں پر دوں کے پیچھے مستور ہونے کے بالآخر وہ چیز اسی طرح ظاہر ہوتی ہے جس طرح خُدا نے کہا تھا.آؤ اور اس کا امتحان کر لو میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ قدیم ہے.کیونکہ میں بوجہ بشر ہوتے کے قدرت کاملہ نہیں رکھتا لیکن خُدا مجھے کہتا ہے کہ میں فلاں کام اس طرح پر کروں گا اور وہ کام انسانی طاقت سے اس طرح یہ نہیں ہوسکتا اور اسکی راستہ میں ہزاروں روکیں حائل ہوتی ہیں مگر پھر بھی وہ اسی طرح ہو جاتا ہے جس طرح خدا فرماتا ہے.آؤ اور اس کا امتحان کر تو میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ سمیع ہے اور اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے کیونکہ میں خدا سے ایسے کاموں کے متعلق دعا مانگتا ہوں جو ظاہر میں بالکل انہو نے نظر آتے ہیں مگر خدا میری دُعا سے ان کاموں کو پورا
1-6 کر دیتا ہے.آوا اور اس کا امتحان کر لو.میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ نصیر ہے کیونکہ جب اس کی نیک بند سے چائیں طرف سے مصائب اور عداوت کی آگ میں گھر جاتے ہیں تو وہ اپنی نصرت سے خود ان کے لئے مخلصی کا رستہ کھولتا ہے.آڈیا اور انس کا امتحان کر لو میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خُدا ہے اور وہ خالق ہے.کیونکہ میں بوجہ بشر ہونے کے خلق کی طاقت نہیں رکھتا مگر وہ میرے ذریعہ اپنی خالقیت کے جلوے دکھاتا ہے جیسا کہ اس نے بغیر کسی مادہ کئے اور بغیر کسی آلہ کے میرے کرتے پر اپنی روشنائی کے چھینٹے ڈالے.آؤ اور اس کا امتحان کر لو.میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ مکلم ہے اور اپنے خاص بندوں سے محبت اور شفقت کا کام کرتا ہے جیسا کہ اسی مجھ سے کیا.آؤ اور اس کا امتحان کر لو.میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خُدا ہے.اور وہ رب العالمین ہے اور کوئی چیز اس کی ربوبیت سے باہر نہیں کیونکہ جب وہ کسی چیز کی یہ بوبیت کو چھوڑتا ہے تو پھر وہ چیز خواہ وہ کوئی ہو قائم نہیں رہ سکتی.آؤ ! اور اس کا امتحان کر لو.پھر یں دیکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ مالک ہے.کیونکہ مخلوقات میں سے کوئی چیز اس کی حکم عدولی نہیں کر سکتی.اور وہ جس چیز پر جو تصرف بھی کرنا چا ہے کر سکتا ہے.پس آؤ کہ میں تمہیں آسمان پر اس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ میں تمہیں زمین پر اس کے
1.A تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ میں تمہیں ہوا پر اس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ میں تمہیں پانیوں پر اس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ میں تمہیں پہاڑوں پر اس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ یکی تمہیں قوموں پر اس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ میں تمہیں حکومتوں پر اس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ میں تمہیں دلوں پر اسکسی تصرفات دکھاؤں.پس آؤ! اور امتحان کر لو.لے دنیا بھر کے مذہبی راہ نماؤں کو چیلنج مندرجہ بالا عالمی دعوت مقابلہ کی زبر دست قوت و عظمت کا اندازہ کرنے کے لئے حضرت مجد والف آخرا علیہ الف الف رحمة وبركة ) کے تسلیم مبارک سے نکلی ہوئی درج ذیل پانچ تحریرات کا مطالعہ از بس ضروری ہے.حضور تحریر فرماتے ہیں کہ :.1 میں بار بار کہتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھنا اور بچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنا دیتا ہے اور اسی کامل انسان پر علوم غیبیہ کے در دانے کھولے جاتے ہیں اور دنیا میں کسی مذہب والا لہ حانی برکات میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا چنانچہ میں اس میں صاحب تجربہ و الیف خود از اور حضرت بی مولود بالاحرار الشرا مت مارا انا اطلع سوم بارد
١٠٩ ہوں.میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مُردے ان کے خُدا مردے اور خود وہ تمام پیر و مردے ہیں اور خدا تعالی کے ساتھ زندہ تعلق ہو جانا بجر، اسلام قبول کرنے کے ہر گتہ ممکن نہیں.ہرگز ممکن نہیں.اسے نادانو ! تمہیں میرہ پرستی میں کیا مزہ ہے اور مردار کھانے میں کیا لذت !!! آدیں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے.وہ اسلام کے ساتھ ہے.اسلام اس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے.وہ خُدا جو نبیلوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہو گیا.آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کر رہا ہے.کیا تم میں سے کسی کو شوق نہیں کہ اس بات کو.پر رکھے.پھرا اگر حق کو پادے تو قبول کر لیوے.تمہارے ہاتھ میں کیا ہے ؟ کیا ایک مردہ کفن میں لیٹا ہوا ؟ پھر کیا ہے ؟ کیا ایک مشت خاک ؟ - کیا یہ نہیں کچھ جواب دے سکتا ہے ؟ ذرا آؤ ! ہاں ! لعنت ہے تم تیر اگر نہ آؤ اور اس سڑے گلے مُردہ کا میرے خدا کے ساتھ مقابلہ نہ کر والے." مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کی ہاتھ میں میری جان ہے کہ وہ نشان جو میرے لئے ظاہر کئے گئے اور میری تائید میں ظہور میں آئے اگر ان کے گواہ ایک جگہ کھڑے کئے جائیں ه : انجام انهم ما ضمیمه در دهانی خزائن جلد ۱ ۶ ۵ ۳۲ تا ۳۲۷ ) : ۱۱
تو دنیا میں کوئی بادشاہ ایسا نہ ہو گیا جو اس کی فوج ان گواہوں سے زیادہ ہو یا لے.دنیا بھر میں بذریعہ اشتہارات منادی فرمائی کہ : - و دیکھو ئیں گواہی دیتا ہوں کہ وہ روشن مذہب اسلام ہے جس کے ساتھ خُدا کی تائیدیں ہر وقت شامل ہیں.کیا ہی بزرگ قدر وہ رسول ہے جیسی ہم ہمیشہ تازہ بتازہ روشنی پاتے ہیں اور کیا ہی برگزیدہ وہ نبی ہے جس کی محبت سے روح القدس ہمارے اندر سکونت کرتی ہے تب ہماری دعائیں قبول ہوتی ہیں اور عجائب کام ہم سے صادر ہوتے ہیں.زندہ خدا کا مزہ ہم اسی راہ میں دیکھتے ہیں باقی سب مُردہ پرستیاں ہیں کہاں ہیں مردہ پرست ؟ کیا وہ بول سکتے ہیں.کہاں ہیں مخلوق پرست؟ کیا وہ ہمارے آگے ٹھہر سکتے ہیں.کہاں ہیں وہ لوگ جو شرارت سے کہتے تھے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی پیش گوئی نہیں ہوئی اور نہ کوئی نشان ظاہر ہوا.دیکھو میں کہتا ہوں کہ وہ شرمندہ ہوں گے اور عنقریب وہ چھپتے پھریں گے اور وہ وقت آیا ہے بلکہ آگیا کہ اسلام کی سچائی کا نور منکروں کے منہ پر طمانچے مارے : اعجاز احمدی " ص (روحانی خزائن جلد ۱۹ مشت ) :
گا اور انہیں نہیں دکھائی دے گا کہ کہاں تھیں ؟ " ہے ۴." زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ سے زندہ خدا ہے.زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلا واسطہ ملہم کر سکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلا واسطہ بگم کو دیکھ سکیں سوئیں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے.وہ مرد سے ہیں نہ خدا جن سے اب کوئی ہمکلام نہیں ہو سکتا.اسکی نشان نہیں دیکھ سکتا......سچا مذہب کبھی خشک قصہ نہیں بن سکتا.سو اسلام سچا ہے میں ہر ایک کو کیا عیسائی کیا آریہ کیا یہودی اور کیا یہ ہو.اس سچائی کے دکھلانے کے لئے بلاتا ہوں کیا کوئی ہے جو زندہ خدا کا طالب ہے.ہم مردوں کی پرستش نہیں کرتے.ہمارا زندہ خدا ہے جو ہماری مدد کرتا ہے.وہ اپنے الہام اور کلام اور آسمانی نشانوں سے نہیں مدد دیتا ہے.اگر دنیا کے اس سرے سے اس سرے تک کوئی عیسائی طالب حق ہے تو ہمارے زندہ خُدا اور اپنے مردہ خدا کا مقابلہ کر کے دیکھ لے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس باہم امتحان کے لئے چالیس دن کافی ہیں.......اگر میں جھوٹا نکلوں تو ہر ایک سزا کا مستوجب ہوں لیکن دُعا کے ذریعہ سے مقابلہ ہو گا.جس کا سچا خُدا ہے بلاشبہ وہ سچا رہے گا.اس باہمی مقابلہ میں بے شک خدا مجھے غالب کرے گا...ا مجموعہ اشتہارات جلد ۲ ۳ :
جو معقول شرط چاہیں مجھ سے کر لیں میں میدان میں کھڑا ہوں اور صاف صاف کہتا ہوں کہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے.عیسائیوں کے ہاتھ میں ایک مردہ ہے جس کو امتحان کرنا ہو میرے مقابلہ میں آو سے لے ۵ - " حقیقۃ الوحی نہیں سکھا : - " " اسلام تو ایک زندہ مذہب ہے جو شخص زندہ اور مردہ میں فرق کر سکتا ہے وہ کیوں اسلام کو ترک کرتا اور مردہ مذہب کو قبول کرتا ہے.خدا تعالٰی اس زمانہ میں بھی اسلام کی تائید میں بڑے بڑے نشان ظاہر کرتا ہے اور جیسا کہ اس بارہ میں میں خود صاحب تجربہ ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اگر میرے مقابل پر تمام دنیا کی قو میں جمع ہو جائیں اور اس بات کا بالمقابل امتحان ہو کہ کس کو خدا غیب کی خبریں دیتا ہے اور کس کی دعائیں متبوں کرتا ہے اور کس کی مدد کرتا ہے اور کس کے لئے بڑے بڑے نشان دکھاتا ہے تو میں خُدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی غالب رہوں گا.کیا کوئی ہے ؟ کہ اس امتحان میں میرے مقابل پر آد ہے.ہزار ہا نشان بھڈا نے محض اسلئے مجھے دئے ہیں کہ تا دشمن معلوم کرے کہ دین اسلام سچا ہے.یکی اپنی کوئی عربت نہیں چاہتا بلکہ اس کی غربت چاہتا مجموعہ اشتہارات جلد ۲ ۳۱۱
ہوں جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں " نے توحید کے قیام کی پر شوکت پیشگوئی اسلام کے فتح نصیب جرنیل اور آنحضرت کے بطل جلیل کی اس دعوت نشان نمائی نے دہریہ اور غیرمسلم دنیا پر اسلام اور اس کے پیر جلال خُدا کی ہیبت و شوکت کا سکہ بٹھا دیا اور ان سے ہمیشہ کے لئے یہ توفیق چھن گئی کہ ان میں سے کوئی بہا در کلیجے والا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے سامنے مرد میدان بننے کی جرات کر سکے مگر اللہ تعالیٰ اسی پر نہیں نہیں کرے گا اور ان کو نہیں چھوڑے گا جب تک ایک بار پھر دنیا کے چپہ چپہ پر توحید کو ہ قائم کر دے جس طرح اس نے اپنی صفت مالکیت کے مظہرا تم حضرت محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسم کے زمانہ میں کیا تھا.اسے پڑھنے والو ! یاد رکھو اور مسیح محمدی کی یہ پیشن گوئی اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو کہ : - میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہے اور اسکی بڑھ کہ اور کونسا درد کا مقام ہوگا کہ ایک عاجبہ انسان کو خدا بنایا گیا ہے اور ایک مشت خاک کو رب العالمین سمجھا گیا ہے.میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے :- " حقیقة الوحی" قت" (روحانی خزائن جلد ۲۲ طشت ۱۲ ) : )
۱۱۴ غیر معبود ہلاک ہوں گے.اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گئے......نٹی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہو گا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو پیچھے خُدا کا پتہ لگے گا....قریب ہے کہ سب ملتیں بلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حسر یہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کہند ہوگا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی بچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیمیوں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں، ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا اور خدا کا ایک ہی ہا تھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اتا ر نے سے یہ تب یہ باتیں جوئیں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی یا لے اشتهار جنوری شاه بجوار مجموعه شمار حضرت سیح موعود جلد دوم من ۳۵ ناشر الشركة الاسلامیہ لمیٹیڈ
116 شنواب وقت توحید اتم ہے ستم اب مائل ملک عدم ہے خُدا نے روک ظلمت کی اٹھادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أخْرَى الْأَعادِي د درثمین و آخر د مولنا ان الحمد لله رب العالمين
قادر تو انا کی حمد کس قدر ظاہر ہے اور اس مبرر الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ البہار کا چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ نقاشاں اس میں جمال یار کا اس بہار حسن کا دل میں تمہارے جوش ہے مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تا تارہ کا ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیاسے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے تیر سے دیدار کا چشمه خورشید میں موجیں تیری مشہور ہیں ہرست ہے میں تماشہ ہے تری چمکار کا تو نے خود روحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑ کا نمک اسی ہے شور محبت عاشقان زالہ کا کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دختران اسرار کا تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں کسی سے کھل سکتا ہے پہنچے اس عقدہ دشوار کا
114 خوبر ولیوں میں ملاحت ہے تب سے اس حسن کی هر گل و گلشن میں ہے رنگ اس تری گلزار کا چشم مست ہر حسین مردم دکھاتی ہے مجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا آنکھ کے اندھوں کو حائل ہوگئے سوسو حجاب.در نہ تھا قبلہ تراریخ کا فرو دیندار کا ہیں تری پیاری نگاہیں دہرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑ انظیم اغیار کا تیرے ملنے کیلئے ہم مل گئے ہیں خاک میں تا مگر درماں ہو کچھ اس ہجر کے آنداہ کا ایک دم بھی کل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا جہاں گھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں والہ کا حضرت بانی سلسله احدی
۱۱۸ لم A مصنف کی دیگر تصانیف بربع صدی میں 14 و از مارچ شده تا مارچ شاهی تاریخ احمدیت جلد ۱ تا ۱۵ و جلد ۱۷ دنا شر ادارة المصنفين بده) ، ۲ - المبشرات الهامات كشوف حضر بمصلح موعوداً - خلافت حضرت ابو بکر صدیق رض " ).تحریک پاکستان میں جماعت احمدیہ کا کر دالہ „ " ، 11 د ناشر نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف.ریوہ.اس کا انگریزی ترجمہ رسالہ مسلم ہیرالڈ " لنڈن میں چھپا ، + - تحریک پاکستان کا روحانی پس منظر ناشر.نظار اشاعت لٹریچر و تصنیف بوه) خلافت احمدیہ.مغربان اہنی کی سرخروئی ) ") 1 " (انگریزی ایڈیشن مسجد افضل لندن سے چھپا اور انڈونیشی ترجمه رسالہ انار اسلام جا کر ترکی چا تو میں کتاب اللہ کا فیصلہ ناشر نظار اشاعت لٹریچر و تصنیف بوده) ۹ - شانِ قرآن مجید ۱۰ - تفی خاتم النبیین اور بزرگان سلف " > د " // " لوگ (فارسی ترجمہ ہو چکا ہے جو بغیر مطبوعہ ہے)
119 11 - وفات مسیح اور احیائے اسلام د ا شر فطانت اشاعت لٹریچر تصنیف بوه ) داسی کا بھی انگریزی توجہ مسلم ہیرالڈ میں چھپ چکا ہے.-۱ جماعت اسلامی پر تبصره (صیغه نشر و اشاعت ربوده) ۱۳ - جماعت اسلامی کا ماضی اور حال د ناشر مجلس خدام الاحمدیہ مقامی ربوه) تحریک احمدیت اور اس سے نقاد (ناشر 10 تفسیر صغیر کے کمالات ناشتر ملی خدام الاحمدیہ فیصل آباد ولاہور ) خاتم الانبیاء د ناشر حبیب احمد یا گنج معنی پورہ.لاہور ) علم تعبیر اور یہ اور ایسی عجائبات (ناشر - احمد اکیڈیمی ربوہ ۱۸ - جماعت احمدیہ کی امتیازی شان ۱۹ - جماعت احمدیہ کی کئی خدمات ۲۰۰ - چودھویں صدی کی غیر معمولی اہمیت د را را (" " (" N 4 {" " " ا کلام الله کا مرتب اور حضرت صلح موعود حضرت خلیفة المسیح الرابع دیده شده تعالی ) ۲۳ - حضرت خلیفتہ ایسیح الثالث ، " د " ۲۴ - حضرت قسمت اللہ ولی اور انکا ملی قصیده دنا شر یکتب پاکستان چوک انار کلی از موس کا ۲ - مولانامودودی کی سیاسی شخصیت حمید نظامی کی نظر میں).دناشر- انجمن فروغ ادب اردو پاکستان) مودودی شہ پارے - دنا شرادا تحفظ پاکستان پشاور، کراچی.ڈھاکہ، اس کتاب کا سندھی ایڈیشن بھی شائع شدہ ہے ) ؟ د کل تعداد : ۴۲)
14.طبع اول :- ما رچ ره زامان ۱۳۶۲ش) ناشران - جمال الدین انجم ، غلام مرتضی نقفر مطبوع