Allah Tala

Allah Tala

اللہ تعالیٰ

<span class="quranic">جَلَّ شَانُہٗ وَ عَزَّاِسْمُہٗ</span>
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
اللہ تعالیٰ

یہ کتابچہ محترم سید میر داؤد احمد صاحب کی تالیف ’’حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ اپنی تحریروں کی رو سے ‘‘ میں مذکور مختلف عناوین میں سے صرف ایک عنوان’’اللہ تعالیٰ جل شانہ و عز اسمہ‘‘ پر مشتمل ہے۔ جسے منصوبہ بندی کمیٹی بھارت، قادیان نے 2015ء میں دیدہ زیب ٹائپ کرواکر قریبا ڈیڑھ سو صفحات پر شائع کیا ہے۔


Book Content

Page 1

اللہ تعالیٰ جلّ شانه و عزّ اسمه ماخوذ از کتاب ' حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریروں کی رو سے جلد اول ناشر منصو به بندی کمیٹی بھارت ( قادیان.پنجاب)

Page 2

اللہ تعالیٰ جَلَّ شَانُهُ وَعَزَّ اسْمُهُ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے.“ الناشر منصو به بندی کمیٹی بھارت ( قادیان.پنجاب)

Page 3

نام کتاب اللہ تعالٰى جَلَّ شَانُهُ وَعَزَ اسْمُهُ (ماخوذ از کتاب حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریروں کی روسے) سن اشاعت : 2015ء (باراوّل.انڈیا) تعداد ناشر : 1000 : منصو بہ بندی کمیٹی بھارت ، قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب (انڈیا)-143516 زیراہتمام : نظارت نشر و اشاعت قادیان فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان مطبع ISBN:978-93-83882-58-8

Page 4

پیش لفظ سلطان القلم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اسی سے زائد کتب اور ملفوظات کی صورت میں علم و عرفان اور حکمت سے پر وہ علمی خزانہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ جس سے استفادہ کیے بغیر اب کوئی شخص صحیح معنوں میں ہستی باری تعالیٰ کا عرفان ، حضرت خاتم الانبیاء سلیم کا عالی مقام اور قرآن مجید کے حقائق و معارف اور دقائق پر اطلاع نہیں پاسکتا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد مصطفے سلائی یتیم اور اس کی پاک کتاب قرآن مجید کی محبت حقیقی معنوں میں دل میں راہ پاسکتی ہے.لہذا ان مقاصد کے حصول کے لیے آپ کی کتب کا تفصیلی مطالعہ از بس ضروری ہے.کتا بچہ اللہ تعالیٰ جل شانہ و ع اسمه محترم سید داؤد احمد صاحب مرحوم کی تالیف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریروں کی رو سے میں مذکور مختلف عناوین میں سے ایک عنوان پر مشتمل ہے جس کو موصوف نے انتہائی محنت اور کاوش سے پر حضرت مسیح موعود کی مختلف الموضوع کتب میں سے اقتباسات اخذ کر کے مرتب کیا ہے جس میں اہم موضوعات پر حضرت اقدس مسیح موعود کے بصیرت افروز اقتباسات اکٹھے کئے گئے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی صفات ، اسکی کامل قدرتیں ، اسکی ذات پر کامل ایمان، اسلام کا پیش کردہ زندہ خدا وغیرہ جو نہ صرف حضرت مسیح موعود کی اللہ تعالیٰ سے انتہائی محبت اور ذاتی تعلق کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ اسے پڑھ کر ہر صاحب بصیرت کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے اور اس سے ذاتی تعلق استوار کرنے کی ترغیب ملتی ہے.اس مادہ پرستی اور دہریت کے ہولناک زمانے میں جبکہ

Page 5

خدا سے دوری اور اس کی ہستی کا انکار عام ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل ذات اور ہستی سے مخلوق کو متعارف کرنے کے لئے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود کو مبعوث فرمایا.آپ نے دنیا کو روز روشن کی طرح ایک واحد لا شریک زندہ خدا کی طرف بلا کر اُس کی معرفت کے گر بتاتے ہوئے اس کی ذات پر کامل یقین پیدا کرنے کی خاطر زندہ نشانات دکھلائے جن کے غیر بھی شاہد ہیں.حضور نے اس امر کے لئے کثیر تعداد میں معرکۃ الآراء کتب تصنیف فرما ئیں.چناچہ ہستی باری تعالیٰ کے موضوع کو جاننے ، سمجھنے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین وایمان پیدا کرنے کے لئے آپ کی کتب کا مطالعہ لازمی ہے.منصوبہ بندی کمیٹی انڈ یا کتابچہ ہذا کواسی غرض کے مد نظر مجلس شورٹی بھارت 2015ء کی تجویز پر حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے شائع کروارہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کو تمام قارئین کے لیے ہر جہت سے مفید اور بابرکت فرمائے.آمین! خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر واشاعت قادیان

Page 6

1 اللہ تعالیٰ جل شانہ و عزاسمہ وہ خدا جو تمام نبیوں پر ظاہر ہوتارہا اور حضرت موسی کلیم اللہ پر بمقام طور ظاہر ہوا اور حضرت مسیح پر شعیر کے پہاڑ پر طلوع فرمایا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر فاران کے پہاڑ پر چمکا وہی قادر قدوس خدا میرے پر تجلی فرما ہوا ہے.اُس نے مجھ سے باتیں کیں اور مجھے فرمایا کہ وہ اعلیٰ وجود جس کی پرستش کے لئے تمام نبی بھیجے گئے میں ہوں.میں اکیلا خالق اور مالک ہوں اور کوئی میرا شریک نہیں.اور میں پیدا ہونے اور مرنے سے پاک (ضمیمہ رسالہ جہاد.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۹) ہوں.وہ پاک زندگی جو گناہ سے بچ کر ملتی ہے وہ ایک لعلِ تاباں ہے جو کسی کے پاس نہیں ہے ہاں خدا تعالیٰ نے وہ لعل تاباں مجھے دیا ہے اور مجھے اُس نے مامور کیا ہے کہ میں دنیا کو اس لعلِ تاباں کے حصول کی راہ بتا دوں.اس راہ پر چل کر میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہر ایک شخص یقینا یقینا اس کو حاصل کرلے گا اور وہ ذریعہ اور وہ راہ جس سے یہ ملتا ہے ایک ہی ہے جس کو خدا کی سچی معرفت کہتے ہیں.در حقیقت یہ مسئلہ بڑا مشکل اور نازک مسئلہ ہے.کیونکہ ایک مشکل امر پر موقوف ہے.فلاسفر جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے آسمان اور زمین کو دیکھ کر اور دوسرے مصنوعات کی ترتیب ابلغ ومحکم پر نظر کر کے صرف اتنا بتا تا ہے کہ کوئی صانع ہونا چاہئے مگر میں اس سے بلند تر مقام پر لے جاتا ہوں اور اپنے ذاتی تجربوں کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا ہے.الحکم مورخہ ۱۷ دسمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۳، ۴.ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف

Page 7

جل شانہ و عزاسمہ سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تاسُننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱، ۲۲) خدا آسمان وزمین کا نور ہے.یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے خواہ وہ ارواح میں ہے خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ ذہنی ہے خواہ خارجی اُسی کے فیض کا عطیہ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العالمین کا فیض عام ہر چیز پر محیط ہورہا ہے اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں.وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے.اُسی کی ہستی حقیقی تمام عالم کی قیوم اور تمام زیر وزبر کی پناہ ہے.وہی ہے جس نے ہر یک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا اور خلعت وجود بخشا.بجز اس کے کوئی ایسا وجود نہیں ہے کہ جو فی حد ذاتہ واجب اور قدیم ہو.یا اس سے مستفیض نہ ہو بلکہ خاک اور افلاک اور انسان اور حیوان اور حجر اور شجر اور روح اور جسم سب اُسی کے فیضان سے وجود پذیر ہیں.( براہین احمدیہ ہر چہار قصص - روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۹۱ ۱۹۲ حاشیہ نمبر۱۱) اسلام کا خدا وہی سچا خدا ہے جو آئینہ قانون قدرت اور صحیفہ فطرت سے نظر آ رہا ہے.اسلام نے کوئی نیا خدا پیش نہیں کیا بلکہ وہی خدا پیش کیا ہے جو انسان کا نور قلب اور انسان کا کانشنس اور زمین و آسمان پیش کر رہا ہے.تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۴.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۲ بار دوم ) اس قادر اور نیچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک رُوح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قومی کے ظہور پذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے.اور کوئی چیز نہ اوس کے علم سے باہر ہے اور نہ اس کے تصرف سے نہ اس کے خلق سے.اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں

Page 8

جل شانہ و عزاسمہ اس پاک نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے.سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا اور ایسے خدا کو پایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا.اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجود نہیں پکڑا.اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی.وہ ہمارا سچا خدا بے شمار برکتوں والا ہے اور بے شمار قدرتوں والا اور بے شمار حسن والا اور بے شمار احسان والا اوس کے سوا کوئی اور خدا نہیں.نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۶۳) خدا کی ذات غیب الغیب اور وراء الوراء اور نہایت مخفی واقع ہوئی ہے جس کو عقول انسانیہ محض اپنی طاقت سے دریافت نہیں کر سکتیں اور کوئی برہان عقلی اُس کے وجود پر قطعی دلیل نہیں ہو سکتی.کیونکہ عقل کی دوڑ اور سعی صرف اس حد تک ہے کہ اس عالم کی صنعتوں پر نظر کر کے صانع کی ضرورت محسوس کرے.مگر ضرورت کا محسوس کرنا اور شے ہے.اور اس درجہ عین الیقین تک پہنچنا کہ جس خدا کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے وہ در حقیقت موجود بھی ہے یہ اور بات ہے.اور چونکہ عقل کا طریق ناقص اور نا تمام اور مشتبہ ہے اس لئے ہر ایک فلسفی محض عقل کے ذریعہ سے خدا کو شناخت نہیں کر سکتا.بلکہ اکثر ایسے لوگ جو محض عقل کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا پتہ لگانا چاہتے ہیں آخر کار دہریہ بن جاتے ہیں.اور مصنوعات زمین و آسمان پر غور کرنا کچھ بھی اُن کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا.اور خدا تعالیٰ کے کاملوں پر ٹھٹھا اور ہنسی کرتے ہیں اور اُن کی یہ حجت ہے کہ دنیا میں ہزار ہا ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جن کے وجود کا ہم کوئی فائدہ نہیں دیکھتے.اور جن میں ہماری عقلی تحقیق سے کوئی ایسی صنعت ثابت نہیں ہوتی جو صانع پر دلالت کرے بلکہ محض لغو اور باطل طور پر ان چیزوں کا وجود پایا جاتا ہے.افسوس وہ نادان نہیں جانتے کہ عدم علم سے عدمِ شے لازم نہیں آتا.اس قسم

Page 9

جل شانہ و عزاسمہ کے لوگ کئی لاکھ اس زمانہ میں پائے جاتے ہیں.جو اپنے تئیں اوّل درجہ کے عقلمند اور فلسفی سمجھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود سے سخت منکر ہیں.اب ظاہر ہے کہ اگر کوئی عقلی دلیل زبردست ان کو ملتی تو وہ خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار نہ کرتے اور اگر وجود باری جل شانہ پر کوئی برہان یقینی عقلی اُن کو ملزم کرتی تو وہ سخت بے حیائی اور ٹھیٹھے اور جنسی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر نہ ہو جاتے.پس کوئی شخص فلسفیوں کی کشتی پر بیٹھ کر طوفان شبہات سے نجات نہیں پاسکتا بلکہ ضرور غرق ہو گا.اور ہرگز ہرگز شربت توحید خالص اوس کو میسر نہیں آئے گا.اب سوچو کہ یہ خیال کس قدر باطل اور بد بودار ہے کہ بغیر وسیلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے توحید میسر آ سکتی ہے.اور اس سے انسان نجات پاسکتا ہے.اے نادانو ! جب تک خدا کی ہستی پر یقین کامل نہ ہو اس کی توحید پر کیونکر یقین ہو سکے.پس یقینا سمجھو کہ توحید یقینی محض نبی کے ذریعہ سے ہی مل سکتی ہے جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے دہریوں اور بدمذہبوں کو ہزار ہا آسمانی نشان دکھلا کر خدا تعالیٰ کے وجود کا قائل کر دیا اور اب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور کامل پیروی کرنے والے اُن نشانوں کو دہریوں کے سامنے پیش کرتے ہیں.بات یہی سچ ہے کہ جب تک زندہ خدا کی زندہ طاقتیں انسان مشاہدہ نہیں کرتا شیطان اس کے دل میں سے نہیں نکلتا اور نہ سچی توحید اُس کے دل میں داخل ہوتی ہے اور نہ یقینی طور پر خدا کی ہستی کا قائل ہو سکتا ہے اور یہ پاک اور کامل توحید صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ملتی ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۲۱،۱۲۰) یا درکھو کہ انسان کی ہرگز یہ طاقت نہیں ہے کہ ان تمام دقیق در دقیق خدا کے کاموں کو دریافت کر سکے بلکہ خدا کے کام عقل اور فہم اور قیاس سے برتر ہیں اور انسان کو صرف اپنے اس قدر علم پر مغرور نہیں ہونا چاہئے کہ اس کو کسی حد تک سلسلہ علل و معلولات کا معلوم ہو گیا ہے کیونکہ انسان کا وہ علم نہایت ہی محدود ہے جیسا کہ سمندر کے ایک قطرہ میں سے کروڑم

Page 10

جل شانہ و عزاسمہ حصہ قطرہ کا.اور حق بات یہ ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ خود نا پیدا کنار ہے ایسا ہی اس کے کام بھی نا پیدا کنار ہیں.اور اس کے ہر ایک کام کی اصلیت تک پہنچنا انسانی طاقت سے برتر اور بلند تر ہے.ہاں ہم اس کی صفات قدیمہ پر نظر کر کے یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ خدا تعالیٰ کی صفات کبھی معطل نہیں رہتیں اس لئے خدا تعالیٰ کی مخلوق میں قدامت نوعی پائی جاتی ہے.یعنی مخلوق کی انواع میں سے کوئی نہ کوئی نوع قدیم سے موجود چلی آئی ہے.مگر شخصی قدامت باطل ہے.اور باوجود اس کے خدا کی صفت افناء اور اہلاک بھی ہمیشہ اپنا کام کرتی چلی آتی ہے وہ بھی کبھی معطل نہیں ہوئی.اور اگر چہ نادان فلاسفروں نے بہت ہی زور لگا یا که زمین و آسمان کے اجرام و اجسام کی پیدائش کو اپنے سائینس یعنی طبعی قواعد کے اندر داخل کر لیں اور ہر ایک پیدائش کے اسباب قائم کریں مگر سچ یہی ہے کہ وہ اس میں ناکام اور نامراد ر ہے ہیں اور جو کچھ ذخیرہ اپنی طبعی تحقیقات کا انہوں نے جمع کیا ہے وہ بالکل نا تمام اور نامکمل ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی اپنے خیالات پر قائم نہیں رہ سکے اور ہمیشہ ان کے خود تراشیدہ خیالات میں تغیر تبدل ہوتا رہا ہے اور معلوم نہیں کہ آگے کس قدر ہوگا.اور چونکہ ان کی تحقیقاتوں کی یہ حالت ہے کہ تمام مداران کا صرف اپنی عقل اور قیاس پر ہے اور خدا سے کوئی مدد اُن کو نہیں ملتی اس لئے وہ تاریکی سے باہر نہیں آسکتے.اور درحقیقت کوئی شخص خدا کو شناخت نہیں کر سکتا جب تک اس حد تک اس کی معرفت نہ پہنچ جائے کہ وہ اس بات کو سمجھ لے کہ خدا کے بے شمار کام ایسے ہیں کہ جو انسانی طاقت اور عقل اور فہم سے بالاتر اور بلند تر ہیں اور اس مرتبہ معرفت سے پہلے یا تو انسان محض دہر یہ ہوتا ہے اور خدا کے وجود پر ایمان ہی نہیں رکھتا اور یا اگر خدا کو مانتا ہے تو صرف اس خدا کو مانتا ہے کہ جو اس کے خود تراشیدہ دلائل کا ایک نتیجہ ہے نہ اس خدا کو جو اپنی تجلی سے اپنے تئیں آپ ظاہر کرتا ہے اور جس کی قدرتوں کے اسرار اس قدر ہیں کہ انسانی عقل ان کا احاطہ نہیں کر سکتی.جب سے خدا نے مجھے یہ علم دیا ہے کہ خدا کی قدرتیں عجیب در عجیب اور عمیق در عمیق اور وراء الوراء

Page 11

۶ جل شانہ و عزاسمہ اور لاید رک ہیں تب سے میں ان لوگوں کو جو فلسفی کہلاتے ہیں پکے کا فر سمجھتا ہوں اور چھپے ہوئے دہر یہ خیال کرتا ہوں.میرا خود ذاتی مشاہدہ ہے کہ کئی عجائب قدرتیں خدا تعالیٰ کی ایسے طور پر میرے دیکھنے میں آئی ہیں کہ بجز اس کے کہ اُن کو نیستی سے ہستی کہیں اور کوئی نام ان کا ہم رکھ نہیں سکتے جیسا کہ ان نشانوں کی بعض مثالیں بعض موقعہ پر میں نے لکھ دی ہیں.جس نے یہ کرشمہ قدرت نہیں دیکھا اُس نے کیا دیکھا؟ ہم ایسے خدا کو نہیں مانتے جس کی قدرتیں صرف ہماری عقل اور قیاس تک محدود ہیں اور آگے کچھ نہیں.بلکہ ہم اس خدا کو مانتے ہیں جس کی قدرتیں اس کی ذات کی طرح غیر محدود اور نا پیدا کنار اور غیر متناہی ہیں.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۸۰ تا ۲۸۲) قرآن شریف میں ایسی تعلیمیں ہیں کہ جوخدا کو پیارا بنانے کے لئے کوشش کر رہی ہیں.کہیں اس کے حسن و جمال کو دکھاتی ہیں اور کہیں اُس کے احسانوں کو یاد دلاتی ہیں کیونکہ کسی کی محبت یا تو حسن کے ذریعہ سے دل میں بیٹھتی ہے اور یا احسان کے ذریعہ سے.چنانچہ لکھا ہے کہ خدا اپنی تمام خوبیوں کے لحاظ سے واحد لاشریک ہے.کوئی بھی اس میں نقص نہیں.وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہے تمام پاک قدرتوں کا اور مبدا ہے تمام مخلوق کا اور سرچشمہ ہے تمام فیضوں کا اور مالک ہے تمام جزا سزا کا اور مرجع ہے تمام امور کا.اور نزدیک ہے باوجود ڈوری کے اور دُور ہے باوجود نزدیکی کے.وہ سب سے او پر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے.اور وہ سب چیزوں سے زیادہ پوشیدہ ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس سے کوئی زیادہ ظاہر ہے.وہ زندہ ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ زندہ ہے.وہ قائم ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ قائم ہے.اُس نے ہر یک چیز کو اٹھا رکھا ہے اور کوئی چیز نہیں جس نے اُس کو اٹھا رکھا ہو.کوئی چیز نہیں جو اُس کے بغیر خود بخود پیدا ہوئی ہے یا اس کے بغیر خود بخود جی سکتی ہے.وہ ہر یک چیز پر محیط ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ کیسا احاطہ ہے.وہ آسمان اور زمین کی ہر یک

Page 12

جل شانہ و عزاسمہ چیز کا نور ہے اور ہر یک نور اُسی کے ہاتھ سے چمکا اور اُسی کی ذات کا پر توہ ہے.وہ تمام عالموں کا پروردگار ہے کوئی روح نہیں جو اس سے پرورش نہ پاتی ہو اور خود بخود ہو.کسی رُوح کی کوئی قوت نہیں جو اُس سے نہ ملی ہو اور خود بخود ہو.اور اُس کی رحمتیں دو قسم کی ہیں.(۱) ایک وہ جو بغیر سبقت عمل کسی عامل کے قدیم سے ظہور پذیر ہیں.جیسا کہ زمین اور آسمان اور سورج اور چاند اور ستارے اور پانی اور آگ اور ہوا اور تمام ذرات اس عالم کے جو ہمارے آرام کے لئے بنائے گئے.ایسا ہی جن جن چیزوں کی ہمیں ضرورت تھی وہ تمام چیزیں ہماری پیدائش سے پہلے ہی ہمارے لئے مہیا کی گئیں اور یہ سب اُس وقت کیا گیا جب کہ ہم خود موجود نہ تھے نہ ہمارا کوئی عمل تھا.کون کہہ سکتا ہے کہ سورج میرے عمل کی وجہ سے پیدا کیا گیا یا زمین میرے کسی شدھ کرم کے سبب سے بنائی گئی.غرض یہ وہ رحمت ہے جو انسان اور اس کے عملوں سے پہلے ظاہر ہو چکی ہے جو کسی کے عمل کا نتیجہ نہیں.(۲) دوسری رحمت وہ ہے جو اعمال پر مترتب ہوتی ہے اور اس کی تصریح کی کچھ ضرورت نہیں.ایسا ہی قرآن شریف میں وارد ہے کہ خدا کی ذات ہر ایک عیب سے پاک ہے اور ہر ایک نقصان سے مبرا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان بھی اس کی تعلیم کی پیروی کر کے عیبوں سے پاک ہو.اور وہ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِيْ هَذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِيلا یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا رہے گا اور اس ذاتِ بے چوں کا اس کو دیدار نہیں ہو گا وہ مرنے کے بعد بھی اندھا ہی ہوگا اور تاریکی اُس سے جدا نہیں ہوگی کیونکہ خدا کے دیکھنے کے لئے اسی دنیا میں حواس ملتے ہیں.اور جو شخص ان حواس کو دنیا سے ساتھ نہیں لے جائے گا وہ آخرت میں بھی خدا کو دیکھ نہیں سکے گا.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے صاف سمجھا دیا ہے کہ وہ انسان سے کس ترقی کا طالب ہے اور انسان اس کی تعلیم کی پیروی سے کہاں تک پہنچ سکتا ہے.پھر اس کے بعد وہ قرآن شریف میں اس تعلیم کو بنی اسرآئیل : ۷۳

Page 13

Λ جل شانہ و عزاسمہ پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اور جس پر عمل کرنے سے اسی دنیا میں دیدار الہی میتر آسکتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.مَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكَ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا لا یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اسی دنیا میں اس خدا کا دیدار نصیب ہو جائے جو حقیقی خدا اور پیدا کنندہ ہے پس چاہئے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جن میں کسی قسم کا فساد نہ ہو یعنی عمل اس کے نہ لوگوں کے دکھلانے کے لئے ہوں.نہ ان کی وجہ سے دل میں تکبر پیدا ہو کہ میں ایسا ہوں اور ایسا ہوں.اور نہ وہ عمل ناقص اور نا تمام ہوں اور نہ اُن میں کوئی ایسی بدبو ہو جو محبت ذاتی کے برخلاف ہو بلکہ چاہئے کہ صدق اور وفاداری سے بھرے ہوئے ہوں اور ساتھ اس کے یہ بھی چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پر ہیز ہو.نہ سورج نہ چاند نہ آسمان کے ستارے، نہ ہوا نہ آگ نہ پانی نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عزت دی جائے اور ایسا اُن پر بھروسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کو کچھ چیز سمجھا جائے کہ یہ بھی شرک کی قسموں میں سے ایک قسم ہے بلکہ سب کچھ کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا اور نہ اپنے علم پر کوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز.بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھیں اور کاہل سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت رُوح گری رہے اور دعاؤں کے ساتھ اُس کے فیض کو اپنی طرف کھینچا جائے اور اس شخص کی طرح ہو جائیں کہ جو سخت پیاسا اور بے دست و پا بھی ہے اور اُس کے سامنے ایک چشمہ نمودار ہوا ہے نہایت صافی اور شیریں.پس اُس نے افتاں و خیزاں بہر حال اپنے تئیں اس چشمہ تک پہنچا دیا اور اپنی لبوں کو اس چشمہ پر رکھ دیا اور علیحدہ نہ ہوا جب تک سیراب نہ ہوا اور پھر قرآن میں ہمارا خدا اپنی خوبیوں کے بارے میں فرماتا ہے.قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أحذ یعنی تمہارا خداوہ خدا ہے جو اپنی الكهف : ۱۱۱ ۳ الاخلاص : ۲ تا ۵

Page 14

۹ جل شانہ و عزاسمہ ذات اور صفات میں واحد ہے نہ کوئی ذات اُس کی ذات جیسی از لی اور ابدی یعنی انادی اور ا کال ہے.نہ کسی چیز کے صفات اس کی صفات کے مانند ہیں.انسان کا علم کسی معلم کا محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر اس کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں اور بائیں ہمہ غیر محدود ہے.انسان کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے اور محدود ہے مگر خدا کی شنوائی ذاتی طاقت سے ہے اور محدود نہیں.اور انسان کی بینائی سورج یا کسی دوسری روشنی کی محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر خدا کی بینائی ذاتی روشنی سے ہے اور غیر محدود ہے.ایسا ہی انسان کی پیدا کرنے کی قدرت کسی مادہ کی محتاج ہے اور نیز وقت کی محتاج اور پھر محدود ہے لیکن خدا کی پیدا کرنے کی قدرت نہ کسی مادہ کی محتاج ہے نہ کسی وقت کی محتاج اور غیر محدود ہے کیونکہ اس کی تمام صفات بے مثل و مانند ہیں اور جیسے کہ اس کی کوئی مثل نہیں اس کی صفات کی بھی کوئی مثل نہیں.اگر ایک صفت میں وہ ناقص ہو تو پھر تمام صفات میں ناقص ہوگا.اس لئے اس کی توحید قائم نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اپنی ذات کی طرح اپنے تمام صفات میں بے مثل و مانند نہ ہو.پھر اس سے آگے آیت مدوحہ بالا کے یہ معنے ہیں کہ خدا نہ کسی کا بیٹا ہے نہ کوئی اس کا بیٹا ہے.کیونکہ وہ فنی بالذات ہے.اس کو نہ باپ کی حاجت ہے اور نہ بیٹے کی.یہ توحید ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی ہے جو مدارا ایمان ہے.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۵۲ تا ۱۵۵) خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بز دلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں.ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے.اے سُننے والوسنو!! کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے.بس یہی کہ تم اُسی کے ہو جاؤ اُس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو نہ آسمان میں نہ زمین میں.ہمارا خدا وہ خدا ہے جواب

Page 15

1.جل شانہ و عزاسمہ بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ وہ پہلے بولتا تھا اور اب بھی وہ سنتا ہے جیسا کہ پہلے سنتا تھا.یہ خیال خام ہے کہ اس زمانہ میں وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں.بلکہ وہ سنتا اور بولتا بھی ہے.اُس کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نہ کبھی ہوگی.وہ وہی واحد لا شریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں.وہ وہی بے مثل ہے جس کا کوئی ثانی نہیں اور جس کی طرح کوئی فرد کسی خاص صفت سے مخصوص نہیں اور جس کا کوئی ہمتا نہیں جس کا کوئی ہم صفات نہیں اور جس کی کوئی طاقت کم نہیں.وہ قریب ہے باوجود ڈور ہونے کے اور دُور ہے باوجود نزدیک ہونے کے.وہ تمثل کے طور پر اہل کشف پر اپنے تئیں ظاہر کر سکتا ہے مگر اس کے لئے نہ کوئی جسم ہے اور نہ کوئی شکل ہے اور وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے اور وہ عرش پر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ زمین پر نہیں.وہ مجمع ہے تمام صفات کا ملہ کا اور مظہر ہے تمام محکمہ حقہ کا اور سر چشمہ ہے تمام خوبیوں کا اور جامع ہے تمام طاقتوں کا اور مبدء ہے تمام فیضوں کا اور مرجع ہے ہر ایک شے کا.اور مالک ہے ہر ایک ملک کا اور متصف ہے ہر ایک کمال سے اور منزہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے.اور مخصوص ہے اس امر میں کہ زمین والے اور آسمان والے اسی کی عبادت کریں اور اس کے آگے کوئی بات بھی آن ہونی نہیں.اور تمام روح اور ان کی طاقتیں اور تمام ذرات اور ان کی طاقتیں اُسی کی پیدائش ہیں.اس کے بغیر کوئی چیز ظاہر نہیں ہوتی.وہ اپنی طاقتوں اور اپنی قدرتوں اور اپنے نشانوں سے اپنے تئیں آپ ظاہر کرتا ہے اور اس کو اُسی کے ذریعہ سے ہم پا سکتے ہیں.اور وہ راستبازوں پر ہمیشہ اپنا وجود ظاہر کرتا رہتا ہے اور اپنی قدرتیں ان کو دکھلاتا ہے.اسی سے وہ شناخت کیا جاتا اور اُسی سے اس کی پسندیدہ راہ شناخت کی جاتی ہے.وہ دیکھتا ہے بغیر جسمانی آنکھوں کے.اور سنتا ہے بغیر جسمانی کانوں کے اور بولتا

Page 16

نے کھولا ہے.11 جل شانہ و عزاسمہ ہے بغیر جسمانی زبان کے.اسی طرح نیستی سے ہستی کرنا.اس کا کام ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ خواب کے نظارہ میں بغیر کسی مادہ کے ایک عالم پیدا کر دیتا ہے اور ہر ایک فانی اور معدوم کو موجود دکھلا دیتا ہے.پس اسی طرح اس کی تمام قدرتیں ہیں.نادان ہے وہ جو اس کی قدرتوں سے انکار کرے.اندھا ہے وہ جو اس کی عمیق طاقتوں سے بے خبر ہے.وہ سب کچھ کرتا ہے اور کر سکتا ہے بغیر ان امور کے جو اُس کی شان کے مخالف ہیں یا اس کے مواعید کے برخلاف ہیں.اور وہ واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور افعال میں اور قدرتوں میں اور اس تک پہنچنے کے لئے تمام دروازے بند ہیں مگر ایک دروازہ جو فرقان مجید (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۹ تا ۳۱۱) اَلْحَمْدُ لِلَّهِ - تمام محامد اس ذات معبود برحق مستجمع جمیع صفات کا ملہ کو ثابت ہیں جس کا نام اللہ ہے.ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق اور متجمع جمیع صفات کا ملہ اور تمام رزائل سے منز ہ اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قرآن شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء وصفات کا موصوف ٹھہرایا ہے اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رتبہ نہیں دیا.پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ان تمام صفتوں پر دلالت ہے جن کا وہ موصوف ہے.اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لئے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کا ملہ پر مشتمل ہے.پس خلاصہ مطلب الْحَمْ اللہ کا یہ نکلا کہ تمام اقسام محمد کے کیا باعتبار ظاہر کے اور کیا باعتبار باطن کے اور کیا باعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے اللہ سے مخصوص ہیں.اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں.اور نیز جس قدر محامد صحیحہ اور کمالاتِ تامہ کو عقل کسی عاقل کی سوچ سکتی ہے یا فکر کسی متفکر کا ذہن میں لاسکتا ہے وہ سب خوبیاں میں موجود ہیں اور کوئی ایسی خوبی نہیں کہ عقل اس خوبی کے امکان پر شہادت دے مگر اللہ ،

Page 17

۱۲ جل شانہ و عزاسمہ تعالیٰ بدقسمت انسان کی طرح اُس خوبی سے محروم ہو بلکہ کسی عاقل کی عقل ایسی خوبی پیش ہی نہیں کر سکتی کہ جو خدا میں نہ پائی جائے جہاں تک انسان زیادہ سے زیادہ خوبیاں سوچ سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہیں اور اس کو اپنی ذات اور صفات اور محامد میں من کل الوجوہ کمال حاصل ہے اور رذائل سے بکلی منز ہ ہے.اب دیکھو یہ ایسی صداقت ہے جس سے سچا اور جھوٹا مذہب ظاہر ہو جاتا ہے کیونکہ تمام مذہبوں پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ بجز اسلام دنیا میں کوئی بھی ایسا مذہب نہیں ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کو جمیع رذائل سے منزہ اور تمام محامد کا ملہ سے متصف سمجھتا ہو.عام ہندو اپنے دیوتاؤں کو کارخانہ ربوبیت میں شریک سمجھتے ہیں اور خدا کے کاموں میں ان کو مستقل طور پر دخیل قرار دیتے ہیں بلکہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ خدا کے ارادوں کو بدلنے والے اور اس کی تقدیروں کو زیرو زبر کرنے والے ہیں اور نیز ہندو لوگ کئی انسانوں اور دوسرے جانوروں کی نسبت بلکہ بعض نا پاک اور نجاست خوار حیوانات یعنی خنزیز وغیرہ کی نسبت یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی زمانہ میں اُن کا پر میشر ایسی ایسی جونوں میں تولد پاکر ان تمام آلائشوں اور آلودگیوں سے ملوث ہوتا رہا ہے کہ جو ان چیزوں کے عائد حال ہیں اور نیز انہیں چیزوں کی طرح بھوک اور پیاس اور درد اور دکھ اور خوف اور غم اور بیماری اور موت اور ذلت اور رسوائی اور عاجزی اور ناتوانی کی آفات میں گرفتار ہوتا رہا ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ تمام اعتقادات خدائے تعالیٰ کی خوبیوں میں بٹہ لگاتے ہیں اور اس کے ازلی و ابدی جاہ و جلال کو گھٹاتے ہیں.اور آریہ سماج والے جو اُن کے مہذب بھائی نکلے ہیں جن کا یہ گمان ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک وید کی لکیر پر چلتے ہیں وہ خدائے تعالیٰ کو خالقیت سے ہی جواب دیتے ہیں اور تمام رُوحوں کو اُس کی ذات کامل کی طرح غیر مخلوق اور واجب الوجود اور موجود بوجود حقیقی قرار دیتے ہیں.حالانکہ عقلِ سلیم خدائے تعالیٰ کی نسبت صریح یہ نقص سمجھتی ہے کہ وہ دنیا کا مالک کہلا کر پھر کسی چیز کا رب اور خالق نہ ہو اور دنیا کی زندگی اس

Page 18

۱۳ جل شانہ و عزاسمہ کے سہارے سے نہیں بلکہ اپنے ذاتی وجوب کے رو سے ہو.اور جب عقل سلیم کے آگے یہ دونوں سوال پیش کئے جائیں کہ آیا خداوند قادر مطلق کے محامد تامہ کے لئے یہ بات اصلح اور انسب ہے کہ وہ آپ ہی اپنی قدرت کا ملہ سے تمام موجودات کو منصہ ظہور میں لا کر ان سب کا رب اور خالق ہو اور تمام کائنات کا سلسلہ اسی کی ربوبیت تک ختم ہوتا ہو اور خالقیت کی صفت اور قدرت اُس کی ذات کامل میں موجود ہو اور پیدائش اور موت کے نقصان سے پاک ہو یا یہ باتیں اُس کی شان کے لائق ہیں کہ جس قدر مخلوقات اس کے قبضہ تصرف میں ہیں یہ چیزیں اس کی مخلوق نہیں ہیں اور نہ اس کے سہارے سے اپنا وجود رکھتی ہیں اور نہ اپنے وجود اور بقا میں اس کی محتاج ہیں اور نہ وہ اُن کا خالق اور رب ہے اور نہ خالقیت کی صفت اور قدرت اُس میں پائی جاتی ہے اور نہ پیدائش اور موت کے نقصان سے پاک ہے تو ہر گز عقل یہ فتویٰ نہیں دیتی کہ وہ جو دنیا کا مالک ہے وہ دنیا کا پیدا کنندہ نہیں اور ہزاروں پر حکمت صفتیں کہ جوڑ وحوں اور جسموں میں پائی جاتی ہیں وہ خود بخو د ہیں اور ان کا بنانے والا کوئی نہیں اور خدا جو ان سب چیزوں کا مالک کہلاتا ہے وہ فرضی طور پر مالک ہے.اور نہ یہ فتویٰ دیتی ہے کہ اُس کو پیدا کرنے سے عاجز سمجھا جاوے یا ناطاقت اور ناقص ٹھہرا یا جاوے یا پلیدی اور نجاست خواری کی نالائق اور فتیح عادت کو اس کی طرف منسوب کیا جائے یا موت اور در داور دکھ اور بے علمی اور جہالت کو اُس پر روا رکھا جائے بلکہ صاف یہ شہادت دیتی ہے کہ خدائے تعالیٰ ان تمام رذیلتوں اور نقصانوں سے پاک ہونا چاہئے اور اُس میں کمالِ تام چاہئے.اور کمالِ تام قدرت تام سے مشروط ہے اور جب خدائے تعالیٰ میں قدرت تام نہ رہی اور نہ وہ کسی دوسری چیز کو پیدا کر سکا اور نہ اپنی ذات کو ہر یک قسم کے نقصان اور عیب سے بچا سکا تو اُس میں کمال تام بھی نہ رہا.اور جب کمال تام نہ رہا تو محامد کا ملہ سے وہ بے نصیب رہا.یہ ہندؤں اور آریوں کا حال ہے اور جو کچھ عیسائی لوگ خدائے تعالیٰ کا جلال ظاہر

Page 19

۱۴ جل شانہ و عزاسمہ کر رہے ہیں وہ ایک ایسا امر ہے کہ صرف ایک ہی سوال سے دانا انسان سمجھ سکتا ہے یعنی اگر کسی دانا سے پوچھا جائے کہ کیا اس ذات کامل اور قدیم اور غنی اور بے نیاز کی نسبت جائز ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ اپنے تمام عظیم الشان کاموں میں جو قدیم سے وہ کرتا رہا ہے آپ ہی کافی ہو آپ ہی بغیر حاجت کسی باپ یا بیٹے کے تمام دنیا کو پیدا کیا ہو اور آپ ہی تمام روحوں اور جسموں کو وہ قوتیں بخشی ہوں جن کی انہیں حاجت ہے اور آپ ہی تمام کائنات کا حافظ اور قیوم اور مدبر ہو بلکہ ان کے وجود سے پہلے جو کچھ اُن کو زندگی کے لئے ا درکار تھاوہ سب اپنی صفت رحمانیت سے ظہور میں لا یا اور بغیر انتظار عمل کسی عامل کے سورج اور چاند اور بے شمار ستارے اور زمین اور ہزار ہا نعمتیں جو زمین پر پائی جاتی ہیں محض اپنے فضل و کرم سے انسانوں کے لئے پیدا کی ہوں اور ان سب کاموں میں کسی بیٹے کا محتاج نہ ہوا ہو لیکن پھر وہی کامل خدا آخری زمانہ میں اپنا تمام جلال اور اقتدار کالعدم کر کے مغفرت اور نجات دینے کے لئے بیٹے کا محتاج ہو جائے اور پھر بیٹا بھی ایسا ناقص بیٹا جس کو باپ سے کچھ بھی مناسبت نہیں جس نے باپ کی طرح نہ کوئی گوشہ آسمان کا اور نہ کوئی قطعہ زمین کا پیدا کیا جس سے اس کی الوہیت ثابت ہو بلکہ مرقس کے ۸ باب ۱۲ آیت میں اس کی عاجزانہ حالت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ اُس نے اپنے دل سے آہ کھینچ کر کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جائے گا اور اس کے مصلوب ہونے کے وقت بھی یہودیوں نے کہا کہ اگر وہ اب ہمارے رو برو زندہ ہو جائے تو ہم ایمان لائیں گے.لیکن اس نے اُن کو زندہ ہو کر نہ دکھلایا.اور اپنی خدائی اور قدرت کاملہ کا ایک ذرہ ثبوت نہ دیا.اور اگر بعض معجزات بھی دکھلائے تو وہ دکھلائے کہ اُس سے پہلے اور نبی بکثرت دکھلا چکے تھے.بلکہ اُسی زمانہ میں ایک حوض کے پانی سے بھی ایسے ہی عجائبات ظہور میں آتے تھے (دیکھو باب پنجم انجیل یوحنا) غرض وہ اپنے خدا ہونے کا کوئی نشان دکھلا نہ سکا.جیسا کہ آیت مذکورہ بالا میں خود اس

Page 20

۱۵ جل شانہ و عزاسمہ کا اقرار موجود ہے بلکہ ایک ضعیفہ عاجزہ کے پیٹ سے تولد پاکر (بقول عیسائیوں ) وہ ذلّت اور رسوائی اور ناتوانی اور خواری عمر بھر دیکھی کہ جو انسانوں میں سے وہ انسان دیکھتے ہیں کہ جو بدقسمت اور بے نصیب کہلاتے ہیں.اور پھر مدت تک ظلمت خانہ رحم میں قید رہ کر اور اُس ناپاک راہ سے کہ جو پیشاب کی بدر رو ہے پیدا ہو کر ہر ایک قسم کی آلودہ حالت کو اپنے او پر وار د کر لیا اور بشری آلودگیوں اور نقصانوں میں سے کوئی ایسی آلودگی باقی نہ رہی جس سے وہ بیٹا باپ کا بد نام کنندہ ملوث نہ ہوا اور پھر اس نے اپنی جہالت اور بے علمی اور بے قدرتی اور نیز اپنے نیک نہ ہونے کا اپنی کتاب میں آپ ہی اقرار کر لیا.اور پھر درصورتیکہ وہ عاجز بنده که خواہ نخواہ خدا کا بیٹا قرار دیا گیا بعض بزرگ نبیوں سے فضائل علمی اور عملی میں کم بھی تھا اور اُس کی تعلیم بھی ایک ناقص تعلیم تھی کہ جو موسیٰ کی شریعت کی ایک فرع تھی تو پھر کیونکر جائز ہے کہ خداوند قادر مطلق اور ازلی اور ابدی پر یہ بہتان باندھا جاوے کہ وہ ہمیشہ اپنی ذات میں کامل اور غنی اور قادر مطلق رہ کر آخر کار ایسے ناقص بیٹے کا محتاج ہو گیا اور اپنے سارے جلال اور بزرگی کو بیکبارگی کھو دیا.میں ہرگز باور نہیں کرتا کہ کوئی دانا اس ذاتِ کامل کی نسبت کہ جو تجمع جمیع صفات کا ملہ ہے ایسی ایسی ذلتیں جائز رکھے.(براہین احمدیہ ہر چہار ص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۳۵ تا ۴۴۱ حاشیہ نمبر ۱۱) یہ بات بغیر کسی بحث کے قبول کرنے کے لائق ہے کہ وہ سچا اور کامل خدا جس پر ایمان لا ناہر ایک بندہ کا فرض ہے وہ رب العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کسی خاص قوم تک محدود نہیں اور نہ کسی خاص زمانہ تک اور نہ کسی خاص ملک تک بلکہ وہ سب قوموں کا رب ہے اور تمام زمانوں کا رب ہے اور تمام مکانوں کا رب ہے.اور تمام ملکوں کا وہی رب ہے اور تمام فیضوں کا وہی سر چشمہ ہے اور ہر ایک جسمانی اور روحانی طاقت اُسی سے ہے اور اُسی سے تمام موجودات پرورش پاتی ہیں اور ہر ایک وجود کا وہی سہارا ہے.خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زمانوں پر محیط ہورہا ہے.

Page 21

۱۶ جل شانہ و عزاسمہ یہ اس لئے ہوا کہ تا کسی قوم کو شکایت کرنے کا موقعہ نہ ملے اور یہ نہ کہیں کہ خدا نے فلاں فلاں قوم پر احسان کیا مگر ہم پر نہ کیا.یا فلاں قوم کو اس کی طرف سے کتاب ملی تا وہ اس سے ہدایت پاویں مگر ہم کو نہ ملی.یا فلاں زمانہ میں وہ اپنی وحی اور الہام اور معجزات کے ساتھ ظاہر ہوا مگر ہمارے زمانہ میں مخفی رہا.پس اس نے عام فیض دکھلا کر ان تمام اعتراضات کو دفع کر دیا اور اپنے ایسے وسیع اخلاق دکھلائے کہ کسی قوم کو اپنے جسمانی اور روحانی فیضوں سے محروم نہیں رکھا.اور نہ کسی زمانہ کو بے نصیب ٹھہرایا.پیغام صلح.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۴۲) اے خدا اے کارساز و عیب پوش و کردگار اے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار یہ سراسر فضل و احسان ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گذار دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے پر نہ چھوڑ ا ساتھ تونے اے میرے حاجت برار اے مرے یار یگانہ اے مری جاں کی پسند بس ہے تو میرے لئے مجھ کو نہیں تجھ بن بکار میں تو مر کر خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا لطف پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار اے فدا ہو تیری رہ میں میرا جسم و جان و دل میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار نسلِ انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یارِ غمگسار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگہ میں بار اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم جن کا مشکل ہے کہ تا روز قیامت ہو شمار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحہ ۱۲۷) خدا تعالیٰ نے عاجز انسانوں کو اپنی کامل معرفت کا علم دینے کے لئے اپنی صفات کو قرآن شریف میں دورنگ پر ظاہر کیا ہے.(۱) اوّل اس طور پر بیان کیا ہے جس سے اس کی

Page 22

۱۷ جل شانہ و عزاسمہ صفات استعارہ کے طریق پر مخلوق کی صفات کی ہم شکل ہیں.جیسا کہ وہ کریم رحیم ہے.محسن ہے اور وہ غضب بھی رکھتا ہے اور اُس میں محبت بھی ہے اور اس کے ہاتھ بھی ہیں اور اس کی آنکھیں بھی ہیں اور اس کی ساقین بھی ہیں اور اُس کے کان بھی ہیں اور نیز یہ کہ قدیم سے سلسلہ مخلوق کا اس کے ساتھ چلا آیا ہے مگر کسی چیز کو اس کے مقابل پر قدامت شخصی نہیں ہاں قدامت نوعی ہے اور وہ بھی خدا کی صفت خلق کے لئے ایک لازمی امر نہیں کیونکہ جیسا کہ خلق یعنی پیدا کرنا اس کی صفات میں سے ہے ایسا ہی کبھی اور کسی زمانہ میں تجلی وحدت اور تجر داس کی صفات میں سے ہے اور کسی صفت کے لئے تعطل دائمی جائز نہیں ہاں تعطل میعادی جائز ہے.غرض چونکہ خدا نے انسان کو پیدا کر کے اپنی ان تشیبی صفات کو اُس پر ظاہر کیا جن صفات کے ساتھ انسان بظاہر شراکت رکھتا ہے.جیسے خالق ہونا کیونکہ انسان بھی اپنی حد تک بعض چیزوں کا خالق یعنی موجد ہے.ایسا ہی انسان کو کریم بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی حد تک کرم کی صفت بھی اپنے اندر رکھتا اور اسی طرح انسان کو رحیم بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی حد تک قوتِ رحم بھی اپنے اندر رکھتا ہے اور قوتِ غضب بھی اس میں ہے.اور ایسا ہی آنکھ کان وغیرہ سب انسان میں موجود ہیں.پس ان تشبیہی صفات سے کسی کے دل میں شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ گویا انسان ان صفات میں خدا سے مشابہہ ہے اور خدا انسان سے مشابہہ ہے اس لئے خدا نے ان صفات کے مقابل پر قرآن شریف میں اپنی تنزیہی صفات کا بھی ذکر کر دیا یعنی ایسی صفات کا ذکر کیا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا کو اپنی ذات اور صفات میں کچھ بھی شراکت انسان کے ساتھ نہیں اور نہ انسان کو اس کے ساتھ کچھ مشارکت ہے.نہ اُس کا خلق یعنی پیدا کرنا انسان کی خلق کی طرح ہے.نہ اس کا رحم انسان کے رحم کی طرح ہے.نہ اس کا غضب انسان کے غضب کی طرح ہے.نہ اس کی محبت انسان کی محبت کی طرح ہے.نہ وہ انسان کی طرح کسی مکان کا محتاج ہے.

Page 23

۱۸ جل شانہ و عزاسمہ اور یہ ذکر یعنی خدا کا اپنی صفات میں انسان سے بالکل علیحدہ ہونا قرآن شریف کی کئی آیات میں تصریح کے ساتھ کیا گیا ہے.جیسا کہ ایک یہ آیت ہے لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍج وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ( یعنی کوئی چیز اپنی ذات اور صفات میں خدا کی شریک نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے.اور پھر ایک جگہ فرمایا.اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمَ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمْ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ) ترجمه حقیقی وجود اور حقیقی بقا اور تمام صفات حقیقیہ خاص خدا کے لئے ہیں اور کوئی ان میں اس کا شریک نہیں.وہی بذاتہ زندہ ہے اور باقی تمام زندے اُس کے ذریعے سے ہیں.اور وہی اپنی ذات سے آپ قائم ہے اور باقی تمام چیزوں کا قیام اس کے سہارے سے ہے اور جیسا کہ موت اس پر جائز نہیں ایسا ہی ادنی درجہ کا تعطل حواس بھی جو نیند اور اونگھ سے ہے وہ بھی اس پر جائز نہیں مگر دوسروں پر جیسا کہ موت وارد ہوتی ہے نیند اور اونگھ بھی وارد ہوتی ہے.جو کچھ تم زمین میں دیکھتے ہو یا آسمان میں وہ سب اُسی کا ہے اور اُسی سے ظہور پذیر اور قیام پذیر ہے.کون ہے جو بغیر اس کے حکم کے اس کے آگے شفاعت کر سکتا ہے.وہ جانتا ہے جو لوگوں کے آگے ہے اور جو پیچھے ہے یعنی اس کا علم حاضر اور غائب پر محیط ہے.اور کوئی اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتا لیکن جس قدر وہ چاہے.اس کی قدرت اور علم کا تمام زمین و آسمان پر تسلط ہے.وہ سب کو اٹھائے ہوئے ہے.یہ نہیں کہ کسی چیز نے اس کو اُٹھا رکھا ہے.اور وہ آسمان و زمین اور ان کی تمام چیزوں کے اٹھانے سے تھکتا نہیں اور وہ اس بات سے بزرگ تر ہے کہ ضعف و ناتوانی اور کم قدرتی اس کی طرف منسوب کی جائے.اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي الشورى: ۱۲ البقرة: ۲۵۶

Page 24

۱۹ جل شانہ و عزاسمہ سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوى عَلَى الْعَرْشِ (ترجمہ) تمہارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا.پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا یعنی اُس نے زمین و آسمان اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کر کے اور تشبیہی صفات کا ظہور فرما کر پھر تنز یہی صفات کے ثابت کرنے کے لئے مقام تنزہ اور تجرد کی طرف رُخ کیا جو وراء الوراء مقام اور مخلوق کے قرب و جوار سے دُور تر ہے.وہی بلند تر مقام ہے جس کو عرش کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.تشریح اس کی یہ ہے کہ پہلے تو تمام مخلوق حتیز عدم میں تھی اور خدا تعالیٰ وراء الوراء مقام میں اپنی تجلیات ظاہر کر رہا تھا جس کا نام عرش ہے.یعنی وہ مقام جو ہر ایک عالم سے بلند تر اور برتر ہے اور اُسی کا ظہور اور پر تو تھا اور اس کی ذات کے سوا کچھ نہ تھا.پھر اس نے زمین و آسمان اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کیا.اور جب مخلوق ظاہر ہوئی تو پھر اس نے اپنے تئیں مخفی کر لیا اور چاہا کہ وہ ان مصنوعات کے ذریعہ سے شناخت کیا جائے.مگر یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ دائمی طور پر تعطل صفات الہیہ کبھی نہیں ہوتا اور بجز خدا کے کسی چیز کے لئے قدامت شخصی تو نہیں مگر قدامت نوعی ضروری ہے اور خدا کی کسی صفت کے لئے تعطل دائمی تو نہیں مگر تعطل میعادی کا ہونا ضروری ہے.اور چونکہ صفت ایجاد اور صفت افتا باہم متضاد ہیں.اس لئے جب افتا کی صفت کا ایک کامل دور آ جاتا ہے تو صفت ایجاد ایک معیاد تک معطل رہتی ہے.غرض ابتدا میں خدا کی صفت وحدت کا دور تھا.اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس دور نے کتنی دفعہ ظہور کیا.بلکہ یہ دور قدیم اور غیر متناہی ہے.بہر حال صفت وحدت کے دور کو دوسری صفات پر تقدم زمانی ہے.پس اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں خدا اکیلا تھا اور اس کے ساتھ کوئی نہ تھا اور پھر خدا نے زمین و آسمان کو اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کیا.اور اسی تعلق کی وجہ سے اس نے اپنے یہ اسماء ظاہر کئے کہ وہ کریم اور رحیم ہے اور غفور اور تو بہ قبول کرنے والا ہے.مگر جو شخص گناہ پر اصرار کرے اور باز نہ آوے اس کو وہ بے سزا نہیں چھوڑتا اور الاعراف: ۵۵

Page 25

۲۰ جل شانہ و عزاسمہ اُس نے اپنا یہ اسم بھی ظاہر کیا کہ وہ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے اور اس کا غضب صرف انہی لوگوں پر بھڑکتا ہے جو ظلم اور شرارت اور معصیت سے باز نہیں آتے...اس کی تمام صفات اس کی ذات کے مناسب حال ہیں.انسان کی صفات کی مانند نہیں.اور اس کی آنکھ وغیرہ جسم اور جسمانی نہیں اور اس کی کسی صفت کو انسان کی کسی صفت سے مشابہت نہیں.مثلاً انسان اپنے غضب کے وقت پہلے غضب کی تکلیف آپ اُٹھاتا ہے اور جوش و غضب میں فوراً اس کا سرور دُور ہو کر ایک جلن سی اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور ایک مادہ سوداوی اُس کے دماغ میں چڑھ جاتا ہے اور ایک تغیر اس کی حالت میں پیدا ہو جاتا ہے.مگر خدا ان تغیرات سے پاک ہے.اور اس کا غضب ان معنوں سے ہے کہ وہ اس شخص سے جو شرارت سے باز نہ آوے اپنا سایہ حمایت اٹھا لیتا ہے اور اپنے قدیم قانون قدرت کے موافق اس سے ایسا معاملہ کرتا ہے جیسا کہ ایک غضبناک انسان کرتا ہے.لہذا استعارہ کے رنگ میں وہ معاملہ اس کا غضب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.ایسا ہی اس کی محبت انسان کی محبت کی طرح نہیں کیونکہ انسان غلبہ محبت میں بھی دُکھ اٹھاتا ہے اور محبوب کے علیحدہ اور جُدا ہونے سے اس کی جان کو تکلیف پہنچتی ہے مگر خدا ان تکالیف سے پاک ہے.ایسا ہی اس کا قرب بھی انسان کے قرب کی طرح نہیں کیونکہ انسان جب ایک کے قریب ہوتا ہے تو اپنے پہلے مرکز کو چھوڑ دیتا ہے.مگر وہ با وجود قریب ہونے کے دُور ہوتا ہے اور باوجود دُور ہونے کے قریب ہوتا ہے.غرض خدا تعالیٰ کی ہر ایک صفت انسانی صفات سے الگ ہے اور صرف اشتراک لفظی ہے اس سے زیادہ نہیں.اسی لئے خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ ءٍ T یعنی کوئی چیز اپنی ذات یا صفات میں خدا تعالیٰ کے برابر نہیں.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۲ تا ۲۷۶) خدا کبھی معطل نہیں ہوگا.ہمیشہ خالق ، ہمیشہ رازق ، ہمیشہ رب ، ہمیشہ رحمان ، الشورى: ۱۲

Page 26

۲۱ جل شانہ و عزاسمہ ہمیشہ رحیم ہے اور رہے گا.میرے نزدیک ایسے عظیم الشان جبروت والے کی نسبت بحث کرنا گناہ میں داخل ہے.خدا نے کوئی چیز منوانی نہیں چاہی جس کا نمونہ یہاں نہیں دیا.البدر مورخه ۱۶ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۱ کالم نمبر ا.ملفوظات جلد دوم صفحہ ۷ ۶۳ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) یادر ہے کہ جس طرح ستارے ہمیشہ نوبت به نوبت طلوع کرتے رہتے ہیں اسی طرح خدا کے صفات بھی طلوع کرتے رہتے ہیں.کبھی انسان خدا کے صفات جلالیہ اور استغنائے ذاتی کے پر توہ کے نیچے ہوتا ہے.اور کبھی صفات جمالیہ کا پرتو ہ اس پر پڑتا ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو فرماتا ہے کُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنِ پس یہ سخت نادانی کا خیال ہے کہ ایسا گمان کیا جائے کہ بعد اس کے کہ مجرم لوگ دوزخ میں ڈالے جائیں گے.پھر صفات کرم اور رحم ہمیشہ کے لئے معطل ہو جائیں گی اور کبھی ان کی تجلی نہیں ہوگی کیونکہ صفات الہیہ کا تعطل ممتنع ہے بلکہ حقیقی صفت خدا تعالیٰ کی محبت اور رحم ہے اور وہی ائم الصفات ہے اور وہی کبھی انسانی اصلاح کے لئے صفات جلالیہ اور عصبیہ کے رنگ میں جوش مارتی ہے اور جب اصلاح ہو جاتی ہے تو محبت اپنے رنگ میں ظاہر ہو جاتی ہے اور پھر بطور موہبت ہمیشہ کے لئے رہتی ہے.خدا ایک چڑ چڑہ انسان کی طرح نہیں ہے جو خواہ مخواہ عذاب دینے کا شائق ہو اور وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ اپنے پر آپ ظلم کرتے ہیں.اس کی محبت میں تمام نجات اور اس کو چھوڑنے میں تمام عذاب ہے.(چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۷۰،۳۶۹) جاننا چاہئے کہ جس خدا کی طرف ہمیں قرآن شریف نے بلایا ہے اُس کی اُس نے یہ صفات لکھی ہیں.هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَجٍ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ جِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرحمن: ٣٠

Page 27

۲۲ جل شانہ و عزاسمہ الرَّحِيمُ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِر هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ ☑ ج ។ قَدِيرٌ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ أجِيبُ دَعْوَةَ الداع اَلْحَيُّ الْقَيُّوْمَ قُلْ هُوَ اللَّهُ اَحَدَ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدْ _ یعنی وہ خدا جو واحد لا شریک ہے جس کے سوا کوئی بھی پرستش اور فرمانبرداری کے لائق نہیں.یہ اس لئے فرمایا کہ اگر وہ لاشریک نہ ہو تو شائد اس کی طاقت پر دشمن کی طاقت غالب آ جائے.اس صورت میں خدائی معرض خطرہ میں رہے گی.اور یہ جو فرمایا کہ اس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ ایسا کامل خدا ہے جس کی صفات اور خوبیاں اور کمالات ایسے اعلیٰ اور بلند ہیں کہ اگر موجودات میں سے بوجہ صفات کا ملہ کے ایک خدا انتخاب کرنا چاہیں یا دل میں عمدہ سے عمدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ خدا کی صفات فرض کریں تو سب سے اعلیٰ جس سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ نہیں ہو سکتا وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنی کو شریک کر ناظلم ہے.پھر فرمایا کہ عالم الغیب ہے یعنی اپنی ذات کو آپ ہی جانتا ہے اُس کی ذات پر کوئی احاطہ نہیں کرسکتا.ہم آفتاب اور ماہتاب اور ہر ایک مخلوق کا سرا پا دیکھ سکتے ہیں مگر خدا کا سرا پا دیکھنے سے قاصر ہیں.پھر فرمایا کہ وہ عالم الشہادۃ ہے یعنی کوئی چیز اس کی نظر سے پردہ میں نہیں ہے.یہ جائز نہیں کہ وہ خدا کہلا کر پھر علم اشیاء سے غافل ہو.وہ اس عالم کے ذرہ ذرہ پر اپنی نظر رکھتا ہے لیکن انسان نہیں رکھ سکتا وہ جانتا ہے کہ کب اس نظام کو توڑ دے گا اور قیامت برپا کر دے گا.اور اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہوگا.سو وہی خدا الحشر: ٢٣ ☑ ☑ الفاتحة: الحشر : ۲۴ الحشر: ۲۵ البقرة:۲۱ الفاتحة: ۲ تا ۴ البقرة: ١٨٧ البقرة: ۲۵۶ الاخلاص : ۲تا ۵

Page 28

۲۳ جل شانہ و عزاسمہ ہے جو ان تمام وقتوں کو جانتا ہے.پھر فرمایا کہ هُوَ الرَّحْمٰنُ یعنی وہ جانداروں کی ہستی اور ان کے اعمال سے پہلے محض اپنے لطف سے نہ کسی غرض سے اور نہ کسی عمل کی پاداش میں اُن کے لئے سامان راحت میتر کرتا ہے جیسا کہ آفتاب اور زمین اور دوسری تمام چیزوں کو ہمارے وجود اور ہمارے اعمال کے وجود سے پہلے ہمارے لئے بنادیا.اس عطیہ کا نام خدا کی کتاب میں رحمانیت ہے اور اس کام کے لحاظ سے خدا تعالیٰ رحمن کہلاتا ہے اور پھر فرمایا کہ الرَّحِیمُ یعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزا دیتا ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے اور یہ صفت رحیمیت کے نام سے موسوم ہے.اور پھر فرما یا مالِكِ يَوْمِ الدِّینِ یعنی وہ خدا ہر ایک کی جزا اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے.اس کا کوئی ایسا کار پرداز نہیں جس کو اس نے زمین و آسمان کی حکومت سونپ دی ہو اور آپ الگ ہو بیٹھا ہو.اور آپ کچھ نہ کرتا ہو.وہی کار پرداز سب کچھ جزا سزا دیتا ہو یا آئندہ دینے والا ہو.اور پھر فرمایا الْمَلِكُ القُدُّوسُ یعنی وہ خدا بادشاہ ہے جس پر کوئی داغ عیب نہیں.یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں.اگر مثلاً تمام رعیت جلا وطن ہو کر دوسرے ملک کی طرف بھاگ جاوے تو پھر بادشاہی قائم نہیں رہ سکتی.یا اگر مثلاً تمام رعیت قحط زدہ ہو جائے تو پھر خراج شاہی کہاں سے آئے.اور اگر رعیت کے لوگ اس سے بحث شروع کر دیں کہ تجھ میں ہم سے زیادہ کیا ہے تو وہ کونسی لیاقت اپنی ثابت کرے.پس خدا تعالیٰ کی بادشاہی ایسی نہیں ہے.وہ ایک دم میں تمام ملک کو فنا کر کے اور مخلوقات پیدا کر سکتا ہے.اگر وہ ایسا خالق اور قادر نہ ہوتا تو پھر بجر ظلم کے اس کی بادشاہت چل نہ سکتی کیونکہ وہ دنیا کو ایک مرتبہ معافی اور نجات دے کر پھر دوسری دنیا کہاں سے لاتا.کیا نجات یافتہ لوگوں کو دنیا میں بھیجنے کے لئے پھر پکڑتا اور ظلم کی راہ سے اپنی معافی اور نجات دہی کو واپس لیتا؟ تو اس صورت میں اس کی خدائی میں فرق آتا.اور دنیا کے بادشاہوں کی طرح داغدار بادشاہ ہوتا.جو دنیا کے لئے قانون بناتے ہیں.بات بات میں بگڑتے ہیں اور اپنی

Page 29

۲۴ جل شانہ و عزاسمہ خود غرضی کے وقتوں پر جب دیکھتے ہیں کہ ظلم کے بغیر چارہ نہیں تو ظلم کو شیر مادر سمجھ لیتے ہیں مثلاً قانون شاہی جائز رکھتا ہے کہ ایک جہاز کو بچانے کے لئے ایک کشتی کے سواروں کو تباہی میں ڈال دیا جائے اور ہلاک کیا جائے مگر خدا کو تو یہ اضطرار پیش نہیں آنا چاہئے.پس اگر خدا پورا قادر اور عدم سے پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو یا تو وہ کمزور راجوں کی طرح قدرت کی جگہ ظلم سے کام لیتا اور یا عادل بن کر خدائی ہی کو الوداع کہتا.بلکہ خدا کا جہاز تمام قدرتوں کے ساتھ بچے انصاف پر چل رہا ہے.پھر فرمایا السلام یعنی وہ خدا جو تمام عیبوں اور مصائب اور سختیوں سے محفوظ ہے بلکہ سلامتی دینے والا ہے.اس کے معنی بھی ظاہر ہیں کیونکہ اگر وہ آپ ہی مصیبتوں میں پڑتا.لوگوں کے ہاتھ سے مارا جاتا اور اپنے ارادوں میں ناکام رہتا تو پھر اس بدنمونہ کو دیکھ کر کس طرح دل تسلی پکڑتے کہ ایسا خدا ہمیں ضرور مصیبتوں سے چھڑ اوے گا.چنانچہ باطل معبودوں کے بارہ میں فرماتا ہے.إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابِ شَيْئًا لَا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ضَعْفَ الطَّالِب وَالْمَطْلُوب - مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ سورہ حج.جن لوگوں کو تم خدا بنائے بیٹھے ہو وہ تو ایسے ہیں کہ اگر سب مل کر ایک مکھی پیدا کرنا چاہیں تو کبھی پیدا نہ کر سکیں.اگر چہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں بلکہ اگر مکھی اُن کی چیز چھین کر لے جائے تو انہیں طاقت نہیں ہوگی کہ وہ کبھی سے چیز واپس لے سکیں.اُن کے پرستار عقل کے کمزور اور وہ طاقت کے کمزور ہیں.کیا خدا ایسے ہوا کرتے ہیں؟ خدا تو وہ ہے کہ سب قوتوں والوں سے زیادہ قوت والا اور سب پر غالب آنے والا ہے.نہ اس کو کوئی پکڑ سکے اور نہ مار سکے.ایسی غلطیوں میں جو لوگ پڑتے ہیں وہ خدا کی قدر نہیں پہچانتے اور نہیں جانتے خدا کیسا ہونا چاہئے اور پھر فرمایا کہ خدا امن کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بچے خدا عَزِيزٌ الحج : ۷۴۷۳

Page 30

۲۵ جل شانہ و عزاسمہ کا ماننے والا کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہوسکتا اور نہ خدا کے سامنے شرمندہ ہو گا.کیونکہ اس کے پاس زبردست دلائل ہوتے ہیں لیکن بناوٹی خدا کا ماننے والا بڑی مصیبت میں ہوتا ہے.وہ بجائے دلائل بیان کرنے کے ہر ایک بے ہودہ بات کو راز میں داخل کرتا ہے تا ہنسی نہ ہو.اور ثابت شدہ غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے.اور پھر فرمایا کہ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِرُ یعنی وہ سب کا محافظ ہے اور سب پر غالب اور بگڑے ہوئے کاموں کا بنانے والا ہے اور اس کی ذات نہایت ہی مستغنی ہے.اور فرما یا هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى _ یعنی وہ ایسا خدا ہے کہ جسموں کا بھی پیدا کرنے والا اور روحوں کا بھی پیدا کرنے والا.رحم میں تصویر کھینچنے والا ہے.تمام نیک نام جہاں تک خیال میں آ سکیں سب اُسی کے نام ہیں اور پھر فرما یا يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوَتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.یعنی آسمان کے لوگ بھی اس کے نام کو پاکی سے یاد کرتے ہیں اور زمین کے لوگ بھی.اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ آسمانی اجرام میں آبادی ہے اور وہ لوگ بھی پابند خدا کی ہدایتوں کے ہیں اور پھر فرمایا.عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيز.یعنی خدا بڑا قادر ہے.یہ پرستاروں کے لئے تسلی ہے کیونکہ اگر خدا عاجز ہو اور قادر نہ ہو تو ایسے خدا سے کیا اُمید رکھیں اور پھر فرمایا.ربّ الْعَلَمِيْنَ الرَحْمنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ - أَجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ یعنی وہی خدا ہے جو تمام عالموں کا پرورش کرنے والا.رحمن رحیم اور جزا کے دن کا آپ مالک ہے.اس اختیار کو کسی کے ہاتھ میں نہیں دیا.ہر ایک پکارنے والے کی پکار کوسنے والا اور جواب دینے والا یعنی دعاؤں کا قبول کرنے والا.اور پھر فرمایا.اَلْحَيُّ الْقَيُّومُ یعنی ہمیشہ رہنے والا اور تمام جانوں کی جان اور سب کے وجود کا سہارا.یہ اس لئے کہا کہ وہ ازلی ابدی نہ ہو تو اس زندگی کے بارے میں بھی دھڑکا رہے گا کہ شاید ہم سے پہلے فوت نہ ہو جائے اور پھر فرمایا کہ وہ خدا کیلا خدا ہے.نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی س کا بیٹا اور نہ کوئی اس

Page 31

کے برابر اور نہ کوئی اس کا ہم جنس.۲۶ جل شانہ و عزاسمہ اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۲ تا ۳۷۶) خدا تعالیٰ کی چار اعلیٰ درجہ کی صفتیں ہیں جو اُم االصفات ہیں اور ہر ایک صفت ہماری بشریت سے ایک امر مانگتی ہے.اور وہ چار صفتیں ایہ ہیں.ربوبیت ، رحمانیت ، رحیمیت ، مالکیت یوم الدین.(۱) ربوبیت.اپنے فیضان کے لئے عدم محض یا مشابہ بالعدم کو چاہتی ہے اور تمام انواع مخلوق کی جاندار ہوں یا غیر جاندار اسی سے پیرایۂ وجود پہنتے ہیں.(۲) رحمانیت اپنے فیضان کے لئے صرف عدم کو ہی چاہتی ہے یعنی اس عدم محض کو جس کے وقت میں وجود کا کوئی اثر اور ظہور نہ ہو اور صرف جانداروں سے تعلق رکھتی ہے اور چیزوں سے نہیں.(۳) رحیمیت اپنے فیضان کے لئے موجود ذوالعقل کے منہ سے نیستی اور عدم کا اقرار چاہتی ہے اور صرف نوع انسان سے تعلق رکھتی ہے.(۴) مالکیت یوم الدین اپنے فیضان کے لئے فقیرانہ تضرع اور الحاح کو چاہتی ہے اور صرف اُن انسانوں سے تعلق رکھتی ہے جو گداؤں کی طرح حضرت احدیت کے آستانہ پر گرتے ہیں اور فیض پانے کے لئے دامنِ افلاس پھیلاتے ہیں اور سچ مچ اپنے تئیں تہی دست پا کر خدا تعالیٰ کی مالکیت پر ایمان لاتے ہیں.یہ چارالہی صفتیں ہیں جو دنیا میں کام کر رہی ہیں اور ان میں سے جو رحیمیت کی صفت ہے وہ دُعا کی تحریک کرتی ہے اور مالکیت کی صفت خوف اور قلق کی آگ سے گداز کر کے سچا خشوع اور خضوع پیدا کرتی ہے کیونکہ اس صفت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مالک جزا ہے کسی کا حق نہیں جو دعوے سے کچھ طلب کرے اور مغفرت اور نجات محض فضل پر ہے.ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۲، ۲۴۳)

Page 32

۲۷ جل شانہ و عزاسمہ سورۃ فاتحہ میں نے اپنی چار صفتیں بیان فرمائیں.یعنی رب العالمین.رحمن ".رحیم.مالک یوم الدین اور ان چہار صفتوں میں سے رب العالمین کو سب سے مقدم رکھا اور پھر بعد اس کے صفت رحمن کو ذکر کیا.پھر صفت رحیم کو بیان فرمایا.پھر سب سے اخیر صفت مالک یوم الدین کو لائے.پس سمجھنا چاہئے کہ یہ ترتیب خدائے تعالیٰ نے کیوں اختیار کی.اس میں نکتہ یہ ہے کہ ان صفات اربعہ کی ترتیب طبعی یہی ہے اور اپنی واقعی صورت میں اسی ترتیب سے یہ صفتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں.اس کی تفصیل یہ ہے کہ دنیا پر خدا کا چار طور پر فیضان پایا جاتا ہے جو غور کرنے سے ہر یک عاقل اس کو سمجھ سکتا ہے.پہلا فیضان فیضانِ اعم ہے.یہ وہ فیضانِ مطلق ہے کہ جو بلاتمیز ذی روح وغیر ذی روح افلاک سے لے کر خاک تک تمام چیزوں پر عَلَی الْاِتصال جاری ہے اور ہر یک چیز کا عدم سے صورت وجود پکڑنا اور پھر وجود کا حد کمال تک پہنچنا اسی فیضان کے ذریعہ سے ہے.اور کوئی چیز جاندار ہو یا غیر جاندار اس سے باہر نہیں.اسی سے وجود تمام ارواح و اجسام ظہور پذیر ہوا اور ہوتا ہے اور ہر یک چیز نے پرورش پائی اور پاتی ہے.یہی فیضان تمام کائنات کی جان ہے.اگر ایک لمحہ منقطع ہو جائے تو تمام عالم نابود ہو جائے اور اگر نہ ہوتا تو مخلوقات میں سے کچھ بھی نہ ہوتا.اس کا نام قرآن شریف میں ربوبیت ہے اور اسی کے رو سے خدا کا نام رَبُّ الْعَلَمِینَ ہے جیسا کہ اس نے دوسری جگہ بھی فرمایا ہے.وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ الجز ونمبر ۸ یعنی خدا ہر یک چیز کا رب ہے اور کوئی چیز عالم کی چیزوں میں سے اس کی ربوبیت میں سے باہر نہیں.سوخدا نے سورۃ فاتحہ میں سب صفات فیضانی میں سے پہلے صفت رب العالمین کو بیان فرمایا.اور کہا اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ.یہ اس لئے کہا کہ سب فیضانی صفتوں میں سے تقدم طبعی صفت ربوبیت کو حاصل ہے.یعنی ظہور کے رُو سے یہی صفت مقدم الظہو ر اور تمام صفات فیضانی سے اہم ہے.کیونکہ ہر یک چیز پر خواہ جاندار ہو الانعام : ۱۶۵

Page 33

۲۸ جل شانہ و عزاسمہ خواہ غیر جاندارمشتمل ہے.پھر دوسراقم فیضان کا جو دوسرے مرتبہ پر واقعہ ہے فیضان عام ہے.اس میں اور فیضانِ اعم میں یہ فرق ہے کہ فیضان اعم تو ایک عام ربوبیت ہے جس کے ذریعہ سے کل کائنات کا ظہور اور وجود ہے اور یہ فیضان جس کا نام فیضانِ عام ہے.یہ ایک خاص عنایت از لیہ ہے جو جانداروں کے حال پر مبذول ہے.یعنی ذی روح چیزوں کی طرف حضرت باری کی جو ایک خاص توجہ ہے.اس کا نام فیضان عام ہے اور اس فیضان کی یہ تعریف ہے کہ یہ بلا استحقاق اور بغیر اس کے کہ کسی کا کچھ حق ہو سب ذی روحوں پر حسب حاجت ان کے جاری ہے.کسی کے عمل کا پاداش نہیں اور اسی فیضان کی برکت سے ہر یک جاندار جیتا، جاگتا، کھاتا، پیتا اور آفات سے محفوظ اور ضروریات سے متمتع نظر آتا ہے.اور ہر یک ذی روح کے لئے تمام اسباب زندگی کے جو اس کے لئے یا اُس کے نوع کے بقا کے لئے مطلوب ہیں میٹر نظر آتے ہیں اور یہ سب آثار اسی فیضان کے ہیں کہ جو کچھ رُوحوں کو جسمانی تربیت کے لئے درکار ہے.سب کچھ دیا گیا ہے.اور ایسا ہی جن روحوں کو علاوہ جسمانی تربیت کے روحانی تربیت کی بھی ضرورت ہے یعنی روحانی ترقی کی استعد ادرکھتے ہیں.اُن کے لئے قدیم سے عین ضرورتوں کے وقتوں میں کلام الہی نازل ہوتا رہا ہے.غرض اسی فیضان رحمانیت کے ذریعہ سے انسان اپنی کروڑ ہا ضروریات پر کامیاب ہے.سکونت کے لئے سطح زمین، روشنی کے لئے چاند اور سورج ، دم لینے کے لئے ہوا، پینے کے لئے پانی، کھانے کے لئے انواع اقسام کے رزق اور علاج امراض کے لئے لاکھوں طرح کی ادویہ.اور پوشاک کے لئے طرح طرح کی پوشیدنی چیزیں اور ہدایت پانے کے لئے صحف ربانی موجود ہیں.اور کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ یہ تمام چیزیں میرے عملوں کی برکت سے پیدا ہو گئی ہیں اور میں نے ہی کسی پہلے جنم میں کوئی نیک عمل کیا تھا جس کی پاداش میں یہ بے شمار نعمتیں خدا نے بنی آدم کو عنایت کیں.پس ثابت ہے کہ یہ فیضان جو ہزار با

Page 34

۲۹ جل شانہ و عزاسمہ طور پر ذی روحوں کے آرام کے لئے ظہور پذیر ہورہا ہے یہ عطیہ بلا استحقاق ہے جو کسی عمل کے عوض میں نہیں فقط ربانی رحمت کا ایک جوش ہے تاہر یک جاندار اپنے فطرتی مطلوب کو پہنچ جائے اور جو کچھ اس کی فطرت میں حاجتیں ڈالی گئیں وہ پوری ہو جائیں.پس اس فیضان میں عنایت ازلیہ کا کام یہ ہے کہ انسان اور جمیع حیوانات کی ضروریات کا تعہد کرے اور ان کی بائستیت اور نا بائستیت کی خبر رکھے تا وہ ضائع نہ ہو جا ئیں اور ان کی استعدادیں حیز کتمان میں نہ رہیں.اور اس صفت فیضانی کا خدائے تعالیٰ کی ذات میں پایا جانا قانون قدرت کے ملاحظہ سے نہایت بدیہی طور پر ثابت ہو رہا ہے کیونکہ کسی عاقل کو اس میں کلام نہیں کہ جو کچھ چاند اور سورج اور زمین اور عناصر وغیرہ ضروریات دنیا میں پائی جاتی ہیں جن پر تمام ذی روحوں کی زندگی کا مدار ہے اسی فیضان کے اثر سے ظہور پذیر ہیں اور ہر یک متنفس بلا تمیز انسان و حیوان و مومن و کافرونیک و بد حسب حاجت اپنے ان فیوض مذکورہ بالا سے مستفیض ہو رہا ہے اور کوئی ذی روح اس سے محروم نہیں.اور اس فیضان کا نام قرآن شریف میں رحمانیت ہے اور اسی کے رُو سے خدا کا نام سورۃ فاتحہ میں بعد صفت ربّ العالمین رحمن آیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ.اسی صفت کی طرف قرآن شریف کے کئی ایک اور مقامات میں بھی اشارہ فرمایا گیا ہے.چنانچہ منجملہ ان کے یہ ہے:.وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا - تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوْجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًا - وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَكَرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا.وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوْا سَلَامًا لا یعنی جب کافروں اور بے دینوں اور دہریوں کو کہا جاتا ہے کہ تم رحمن کو سجدہ کرو تو وہ رحمن کے نام سے متنفر ہو کر بطور انکار سوال کرتے ہیں کہ رحمن کیا چیز ہے؟ (پھر بطور الفرقان : ۶۱ تا ۶۴

Page 35

جل شانہ و عزاسمہ جواب فرمایا ) رحمن وہ ذات کثیر البرکت اور مصدر خیرات دائمی ہے جس نے آسمان میں برج بنائے.برجوں میں آفتاب اور چاند کو رکھا جو کہ عامہ مخلوقات کو بغیر تفریق کا فرو مومن کے روشنی پہنچاتے ہیں.اُسی رحمن نے تمہارے لئے یعنی تمام بنی آدم کے لئے دن اور رات بنائے جو کہ ایک دوسرے کے بعد دورہ کرتے رہتے ہیں تا جو شخص طالب معرفت ہو وہ ان دقائق حکمت سے فائدہ اٹھا دے اور جہل اور غفلت کے پردہ سے خلاصی پاوے اور جو شخص شکر نعمت کرنے پر مستعد ہو وہ شکر کرے.رحمن کے حقیقی پرستار وہ لوگ ہیں کہ جو زمین پر بُردباری سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ اُن سے سخت کلامی سے پیش آئیں تو سلامتی اور رحمت کے لفظوں سے ان کا معاوضہ کرتے ہیں یعنی بجائے سختی کے نرمی اور بجائے گالی کے دعا دیتے ہیں اور تشبہ باخلاق رحمانی کرتے ہیں کیونکہ رحمن بھی بغیر تفریق نیک و بد کے اپنے سب بندوں کو سورج اور چاند اور زمین اور دوسری بے شمار نعمتوں سے فائدہ پہنچاتا ہے.پس ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے اچھی طرح کھول دیا کہ رحمن کا لفظ ان معنوں کر کے خدا پر بولا جاتا ہے کہ اس کی رحمت وسیع عام طور پر ہر یک بُرے بھلے پر محیط ہو رہی ہے.جیسا ایک جگہ اور بھی اسی رحمت عام کی طرف اشارہ فرمایا ہے.عَذَابِع أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَى و لا یعنی میں اپنا عذاب جس کو لائق اس کے دیکھتا ہوں پہنچا تا ہوں اور میری رحمت نے ہر یک چیز کوگھیر رکھا ہے اور پھر ایک اور موقع پر فرمایا قُلْ مَنْ يَكْلَؤُكُمْ بِالَّيلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَنِ.یعنی ان کا فروں اور نافرمانوں کو کہہ کہ اگر خدا میں صفت رحمانیت کی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ تم اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے.یعنی اسی کی رحمانیت کا اثر ہے کہ وہ کافروں اور بے ایمانوں کو مہلت دیتا ہے اور جلد تر نہیں پکڑتا.پھر ایک اور جگہ اسی رحمانیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَاتٍ وَيَقْبِضْنَ ط مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَنُ لَنَا الجزو نمبر الاعراف: ۱۵۷ ۳ الانبیاء : ۴۳ لا الملک : ۲۰

Page 36

٣١ جل شانہ و عزاسمہ ۲۹.یعنی کیا ان لوگوں نے اپنے سروں پر پرندوں کو اُڑتے ہوئے نہیں دیکھا کہ کبھی وہ باز و کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی سمیٹ لیتے ہیں.رحمن ہی ہے کہ ان کو گرنے سے تھام رکھتا ہے.یعنی فیضانِ رحمانیت ایسا تمام ذی روحوں پر محیط ہورہا ہے کہ پرندے بھی جو ایک پیسہ کے دو تین مل سکتے ہیں وہ بھی اس فیضان کے وسیع دریا میں خوشی اور سرور سے تیر رہے ہیں.اور چونکہ ربوبیت کے بعد اسی فیضان کا مرتبہ ہے اس جہت سے نے سورۃ فاتحہ میں رب العالمین کی صفت بیان فرما کر پھر اس کے رحمن ہونے کی صفت بیان فرمائی تا ترتیب طبیعی ان کی ملحوظ رہے.تیسری قسم فیضان کی فیضانِ خاص ہے.اس میں اور فیضان عام میں یہ فرق ہے کہ فیضان عام میں مستفیض پر لازم نہیں کہ حصول فیض کے لئے اپنی حالت کو نیک بناوے اور اپنے نفس کو حجب ظلمانیہ سے باہر نکالے یا کسی قسم کا مجاہدہ اور کوشش کرے.بلکہ اس فیضان میں جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں خدائے تعالیٰ آپ ہی ہر ایک ذی روح کو اُس کی ضروریات جن کا وہ حسب فطرت محتاج ہے عنایت فرماتا ہے اور بن مانگے اور بغیر کسی کوشش کے مہیا کر دیتا ہے لیکن فیضان خاص میں جہد اور کوشش اور تزکیۂ قلب اور دُعا اور تضرع اور توجہ الی اللہ اور دوسرا ہر طرح کا مجاہدہ جیسا کہ موقع ہو شرط ہے.اور اس فیضان کو وہی پاتا ہے جو ڈھونڈتا ہے.اور اُسی پر وارد ہوتا ہے جو اس کے لئے محنت کرتا ہے.اور اس فیضان کا وجود بھی ملاحظہ قانون قدرت سے ثابت ہے کیونکہ یہ بات نہایت بد یہی ہے کہ خدا کی راہ میں سعی کرنے والے اور غافل رہنے والے دونوں برابر نہیں ہو سکتے.بلا شبہ جولوگ دل کی سچائی سے خدا کی راہ میں کوشش کرتے ہیں.اور ہر یک تاریکی اور فساد سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں ایک خاص رحمت ان کے شامل حال ہو جاتی ہے.اس فیضان کے رُو سے خدائے تعالیٰ کا نام قرآن شریف میں رحیم ہے اور یہ مرتبہ صفت رحیمیت کا بوجہ خاص ہونے اور مشروط بشرائط ہونے کے مرتبہ صفت رحمانیت سے مؤخر ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ کی

Page 37

جل شانہ و عزاسمہ طرف سے اول صفت رحمانیت ظہور میں آئی ہے.پھر بعد اس کے صفت رحیمیت ظہور پذیر ہوئی.پس اسی ترتیب طبعی کے لحاظ سے سورۃ فاتحہ میں صفت رحیمیت کو صفت رحمانیت کے بعد میں ذکر فرمایا اور کہا الرحمن الرحیم.اور صفت رحیمیت کے بیان میں کئی مقامات قرآن شریف میں ذکر موجود ہے.جیسا ایک جگہ فرمایا ہے.وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيمًا - تا یعنی خدا کی رحیمیت صرف ایمان داروں سے خاص ہے جس سے کافر کو یعنی بے ایمان اور سرکش کو حصہ نہیں.اس جگہ دیکھنا چاہئے کہ خدا نے کیسی صفت رحیمیت کو مومن کے ساتھ خاص کر دیا.لیکن رحمانیت کو کسی جگہ مومنین کے ساتھ خاص نہیں کیا اور کسی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ گان بِالْمُؤْمِنِينَ رَحْمَانًا.بلکہ جو مومنین سے رحمت خاص متعلق ہے.ہر جگہ اس کو رحیمیت کی صفت سے ذکر کیا ہے.پھر دوسری جگہ فرمایا ہے إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ.لتا یعنی رحیمیت الہی انہیں لوگوں سے قریب ہے جو نیکو کار ہیں پھر ایک اور جگہ فرمایا ہے اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَبِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللهِ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِیمُ یعنی جو لوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطنوں سے یا نفس پرستیوں سے جدائی اختیار کی اور خدا کی راہ میں کوشش کی وہ خدا کی رحیمیت کے امیدوار ہیں اور خدا غفور اور رحیم ہے.یعنی اس کا فیضان رحیمیت ضرور اُن لوگوں کے شامل حال ہو جاتا ہے کہ جو اس کے مستحق ہیں.کوئی ایسا نہیں جس نے اس کو طلب کیا اور نہ پایا.عاشق که شد که یار بحالش نظر نہ کر اے خواجہ در دنیست و گرنه طبیب ہست [۳] چوتھا قسم فیضان کا فیضانِ اخص ہے.یہ وہ فیضان ہے کہ جو صرف محنت اور سعی پر الاحزاب: ۴۴ تا الاعراف: ۵۷ تا البقرة :۲۱۹ کون عاشق بنا کہ محبوب نے اس کے حال پر توجہ نہ کی ہو.حضرت در دہی نہیں ورنہ طبیب تو موجود ہے.

Page 38

٣٣ جل شانہ و عزاسمہ مترتب نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے ظہور اور بروز کے لئے اول شرط یہ ہے کہ یہ عالم اسباب کہ جو ایک تنگ و تاریک جگہ ہے بکلی معدوم اور منہدم ہو جائے اور قدرت کاملہ حضرت احدیت کے بغیر آمیزش اسباب معتادہ کے برہنہ طور پر اپنا کامل چمکا را دکھلاوے.کیونکہ اس آخری فیضان میں کہ جو تمام فیوض کا خاتمہ ہے جو کچھ پہلے فیضانوں کی نسبت عند العقل زیادتی اور کمالیت متصور ہو سکتی ہے وہ یہی ہے کہ یہ فیضان نہایت منکشف اور صاف طور پر ہو اور کوئی اشتباہ اور خفا اور نقص باقی نہ رہے.یعنی نہ مفیض کے بالا رادہ فیضان میں کوئی شبہ رہ جائے اور نہ فیضان کے حقیقی فیضان اور رحمت خالصہ اور کاملہ ہونے میں کچھ جائے کلام ہو بلکہ جس مالک قدیم کی طرف سے فیض ہوا ہے اس کی فیاضی اور جزا دہی روز روشن کی طرح کھل جائے.اور شخص فیضیاب کو بطور حق الیقین یہ امر مشہود اور محسوس ہو کہ حقیقت میں وہ مالک الملک ہی اپنے ارادہ اور توجہ اور قدرت خاص سے ایک نعمت عظمیٰ اور لذت گبرای اُس کو عطا کر رہا ہے اور حقیقت میں اس کو اپنے اعمال صالحہ کی ایک کامل اور دائمی جزا کہ جو نہایت اصفی اور نہایت اعلیٰ اور نہایت مرغوب اور نہایت محبوب ہے مل رہی ہے.کسی قسم کا امتحان اور ابتلا نہیں ہے اور ایسے فیضان اکمل اور اتم اور ابھی اور اعلیٰ اور اجلی سے متمتع ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ بندہ اس عالم ناقص اور مکۃ ر اور کثیف اور تنگ اور منقبض اور نا پائیدار اور مشتبہ الحال سے دوسرے عالم کی طرف انتقال کرے.کیونکہ یہ فیضان تجلیات عظمیٰ کا مظہر ہے جن میں شرط ہے کہ محسن حقیقی کا جمال بطور عریاں اور بمرتبہ حق الیقین مشہور ہو اور کوئی مرتبہ شہود اور ظہور اور یقین کا باقی نہ رہ جائے اور کوئی پردہ اسباب معتادہ کا درمیان نہ ہو.اور ہر یک دقیقہ معرفتِ تامہ کا مُكَمَن قُوَّت سے حَيْزِ فعل میں آ جائے اور نیز فیضان بھی ایسا منکشف اور معلوم الحقیقت ہو کہ اُس کی نسبت آپ خدا نے یہ ظاہر کر دیا ہو کہ وہ ہر یک امتحان اور ابتلا کی کدورت سے پاک ہے اور نیز اس فیضان میں وہ اعلیٰ اور اکمل درجہ کی لذتیں ہوں جن کی پاک اور کامل کیفیت انسان کے دل اور روح اور ظاہر اور باطن اور جسم

Page 39

۳۴ جل شانہ و عزاسمہ اور جان اور ہر یک روحانی اور بدنی قوت پر ایسا اکمل اور اپنی احاطہ رکھتی ہو کہ جس پر عقلاً اور خیالاً اور وہما زیادت متصور نہ ہو.اور یہ عالم کہ جو ناقص الحقیقت اور مکمڈ رالصورت اور ہالکۃ الذات اور مشتبہ الکیفیت اور ضیق الظرف ہے ان تحبلیات عظمی اور انوار اصفی اور عطیات دائمی کی برداشت نہیں کر سکتا اور وہ آشِعَه تَامَه كَامِلہ دَائِمہ اس میں سانہیں سکتے.بلکہ اس کے ظہور کے لئے ایک دوسرا عالم درکار ہے جو اسباب معتادہ کی ظلمت سے بکلی پاک اور منزہ اور ذات واحد قہار کی اقتدار کامل اور خالص کا مظہر ہے.ہاں اس فیضانِ اخص سے ان کامل انسانوں کو اسی زندگی میں کچھ حظ پہنچتا ہے کہ جو سچائی کی راہ پر کامل طور پر قدم مارتے ہیں.اور اپنے نفس کے ارادوں اور خواہشوں سے الگ ہو کر بکلی خدا کی طرف جھک جاتے ہیں.کیونکہ مرنے سے پہلے مرتے ہیں اور اگر چہ بظا ہر صورت اس عالم میں ہیں لیکن درحقیقت وہ دوسرے عالم میں سکونت رکھتے ہیں.پس چونکہ وہ اپنے دل کو اس دنیا کے اسباب سے منقطع کر لیتے ہیں اور عادات بشریت کو توڑ کر اور بیکبارگی غیر اللہ سے منہ پھیر کر وہ طریق جو خارق عادت ہے اختیار کر لیتے ہیں اس لئے خداوند کریم بھی اُن کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتا ہے اور بطور خارق عادت ان پر اپنے وہ انوار خاصہ ظاہر کرتا ہے کہ جو دوسروں پر بجز موت کے ظاہر نہیں ہو سکتے.غرض بباعث امور متذکرہ بالا وہ اس عالم میں بھی فیضانِ آخص کے نور سے کچھ حصہ پالیتے ہیں.اور یہ فیضان ہر یک فیض سے خاص تر اور خاتمہ تمام فیضانوں کا ہے اور اس کو پانے والا سعادت عظمی کو پہنچ جاتا ہے اور خوشحالی ، دائی کو پالیتا ہے کہ جو تمام خوشیوں کا سر چشمہ ہے اور جو شخص اس سے محروم رہاوہ ہمیشہ کے دوزخ میں پڑا.اس فیضان کے رو سے خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں اپنا نام مَالِكِ يَوْمِ الدِّيین بیان فرمایا ہے.دین کے لفظ پر الف لام لانے سے یہ غرض ہے کہ تا یہ معنے ظاہر ہوں کہ جزا سے مراد وہ کامل جزا ہے جس کی تفصیل فرقان مجید میں مندرج ہے.اور وہ کامل جزا بجر بجتی مالکیت تامہ کے کہ جو ہدم بنیان اسباب کو مستلزم ہے ظہور میں نہیں آ سکتی.

Page 40

۳۵ جل شانہ و عزاسمہ چنانچہ اسی کی طرف دوسری جگہ بھی اشارہ فرما کر کہا ہے لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ لا یعنی اس دن ربوبیت الہیہ بغیر توسط اسباب عادیہ کے اپنی تحلبی آپ دکھلائے گی اور یہی مشہود اور محسوس ہوگا کہ بجر قوت عظمیٰ اور قدرت کاملہ حضرت باری تعالیٰ کے اور سب بیچ ہیں.تب سارا آرام و سرور اور سب جزا اور پاداش بنظر صاف و صریح خدا ہی کی طرف سے دکھلائی دے گا اور کوئی پردہ اور حجاب درمیان میں نہیں رہے گا اور کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہے گی.تب جنہوں نے اس کے لئے اپنے تئیں منقطع کر لیا تھا وہ اپنے تئیں ایک کامل سعادت میں دیکھیں گے کہ جو ان کے جسم اور جان اور ظاہر اور باطن پر محیط ہو جائے گی اور کوئی حصہ وجود ان کے کا ایسا نہیں ہو گا کہ جو اس سعادت عظمی کے پانے سے بے نصیب رہا ہو اور اس جگہ مالک یوم الدین کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس روز راحت یا عذاب اور لذت یا درد جو کچھ بنی آدم کو پہنچے گا اس کا اصل موجب خدائے تعالیٰ کی ذات ہوگی اور مالک امر مجازات کا حقیقی طور پر وہی ہوگا یعنی اسی کا وصل یا فصل سعادت ابدی یا شقاوت ابدی کا موجب ٹھہرے گا.اس طرح پر کہ جولوگ اس کی ذات پر ایمان لائے تھے اور توحید اختیار کی تھی اور اس کی خالص محبت سے اپنے دلوں کو رنگین کر لیا تھا اُن پر انوار رحمت اُس ذاتِ کامل کے صاف اور آشکار ا طور پر نازل ہوں گے اور جن کو ایمان اور محبت الہیہ حاصل نہیں ہوئی وہ اس لذت اور راحت سے محروم رہیں گے اور عذاب آلیم میں مبتلا ہو جا ئیں گے.یہ فیوض اربعہ ہیں جن کو ہم نے تفصیل وار لکھ دیا ہے.اب ظاہر ہے کہ صفت رحمن کو صفت رحیم پر مقدم رکھنا نہایت ضروری اور مقتضائے بلاغت کا ملہ ہے کیونکہ صحیفۂ قدرت پر جب نظر ڈالی جائے تو پہلے پہل خدائے تعالیٰ کی عام ربوبیت پر نظر پڑتی ہے.پھر اس کی رحمانیت پر.پھر اس کی رحیمیت پر.پھر اُس کے مالک یوم الدین ہونے پر اور کمال بلاغت المؤمن : ۱۷

Page 41

۳۶ جل شانہ و عزاسمہ اسی کا نام ہے کہ جو صحیفہ فطرت میں ترتیب ہو وہی ترتیب صحیفہ الہام میں بھی ملحوظ رہے کیونکہ کلام میں ترتیب قدرتی کو منقلب کرنا گویا قانون قدرت کو منقلب کرنا ہے اور نظام طبعی کو الٹا دینا ہے.کلام بلیغ کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ نظام کلام کا نظام طبعی کے ایسا مطابق ہو کہ گویا اُسی کی عکسی تصویر ہو اور جو امر طبعاً اور وقوعاً مقدم ہو اس کو وضعاً بھی مقدم رکھا جائے.سو آیت موصوفہ میں یہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت ہے کہ باوجود کمال فصاحت اور خوش بیانی کے واقعی ترتیب کا نقشہ کھینچ کر دکھلا دیا ہے اور وہی طرز بیان اختیار کی ہے جو کہ ہر یک صاحب نظر کو نظام عالم میں بدیہی طور پر نظر آ رہی ہے کیا یہ نہایت سیدھا راستہ نہیں ہے کہ جس ترتیب سے نعماء الہی صحیفۂ فطرت میں واقعہ ہیں اُسی ترتیب سے صحیفہ الہام میں بھی واقع ہوں.سوایسی عمدہ اور پر حکمت ترتیب پر اعتراض کرنا حقیقت میں انہی اندھوں کا کام ہے جن کی بصیرت اور بصارت دونوں یکبارگی جاتی رہی ہیں.چشم بد اندیش که برکنده باد عیب نماید هنرش در نظر اب ہم پھر تقریر کو دوہرا کر اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ نے سورة ممدوحہ میں رَبُّ العَالَمِین کی صفت سے لے کر مَالِكِ يَومِ الدّین تک بیان فرمایا ہے.یہ حسب تصریحات قرآن شریف چار عالی شان صداقتیں ہیں جن کا اس جگہ کھول کر بیان کرنا قرین مصلحت ہے.پہلی صداقت یہ کہ خدائے تعالیٰ رب العالمین ہے یعنی عالم کے اشیاء میں سے جو کچھ موجود ہے سب کا رب اور مالک خدا ہے.اور جو کچھ عالم میں نمودار ہو چکا ہے اور دیکھا جاتا ہے یا ٹولا جاتا ہے یا عقل اس پر محیط ہوسکتی ہے وہ سب چیزیں مخلوق ہی ہیں اور ہستی حقیقی بجز ایک ذات حضرت باری تعالیٰ کے اور کسی چیز کے لئے حاصل نہیں.غرض عالم بجميع اجزائہ مخلوق اور خدا کی پیدائش ہے.اور کوئی چیز اجزائے عالم میں سے ایسی نہیں کہ جو خدا کی پیدائش نہ ہو اور خدائے تعالیٰ اپنی ربوبیت تامہ کے بدخواہ کی آنکھ کہ خدا کرے پھوٹ جائے اسے ہنر بھی عیب دکھائی دیتا ہے.

Page 42

۳۷ جل شانہ و عزاسمہ ساتھ عالم کے ذرہ ذرہ پر متصرف اور حکمران ہے اور اس کی ربوبیت ہر وقت کام میں لگی ہوئی ہے.یہ نہیں کہ خدائے تعالیٰ دنیا کو بنا کر اس کے انتظام سے الگ ہو بیٹھا ہے اور اُسے نیچر کے قاعدہ کے ایسا سپر د کیا ہے کہ خود کسی کام میں دخل بھی نہیں دیتا.اور جیسے کوئی گل بعد بنائے جانے کے پھر بنانے والے سے بے علاقہ ہو جاتی ہے ایسا ہی مصنوعات صانع حقیقی سے بے علاقہ ہیں بلکہ وہ رب العالمین اپنی ربوبیت تامہ کی آبپاشی ہر وقت برابر تمام عالم پر کر رہا ہے اور اس کی ربوبیت کا مینہ بالا تصال تمام عالم پر نازل ہو رہا ہے اور کوئی ایسا وقت نہیں کہ اس کے رفح فیض سے خالی ہو بلکہ عالم کے بنانے کے بعد بھی اُس مبدء فیوض کی فی الحقیقت بلا ایک ذرہ تفاوت کے ایسی ہی حاجت ہے کہ گویا ابھی تک اُس نے کچھ بھی نہیں بنایا اور جیسا دنیا اپنے وجود اور نمود کے لئے اُس کی ربوبیت کی محتاج تھی ایسا ہی اپنے بقا اور قیام کے لئے اس کی ربوبیت کی حاجت مند ہے.وہی ہے جو ہر دم دنیا کو سنبھالے ہوئے ہے اور دنیا کا ہر ذرہ اُسی سے تروتازہ ہے اور وہ اپنی مرضی اور ارادہ کے موافق ہر چیز کی ربوبیت کر رہا ہے.یہ نہیں کہ بلا ارادہ کسی شے کے ربوبیت کا موجب ہو.غرض آیات قرآنی کی رُو سے جن کا خلاصہ ہم بیان کر رہے ہیں اس صداقت کا یہ منشا ہے کہ ہر یک چیز کہ جو عالم میں پائی جاتی ہے وہ مخلوق ہے اور اپنے تمام کمالات اور تمام حالات اور اپنے تمام اوقات میں خدائے تعالیٰ کی ربوبیت کی محتاج ہے اور کوئی روحانی یا جسمانی ایسا کمال نہیں ہے جس کو کوئی مخلوق خود بخود اور بغیر ارادہ خاص اُس متصرف مطلق کے حاصل کر سکتا ہواور نیز حسب توضیح اسی کلام پاک کے اس صداقت اور ایسا ہی دوسری صداقتوں میں یہ معنے بھی ملحوظ ہیں کہ رب العالمین وغیرہ صفتیں جو خدائے تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں یہ اُسی کی ذات واحد لاشریک سے خاص ہیں اور دوسرا کوئی ان میں شریک نہیں جیسا کہ اس سورۃ کے پہلے فقرہ میں یعنی اَلْحَمْدُ لِلہ میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ تمام محامد خدا ہی سے خاص ہیں.دوسری صداقت رحمن ہے کہ جو بعد رب العالمین بیان فرمایا گیا.اور رحمن کے

Page 43

۳۸ جل شانہ و عزاسمہ معنے جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں یہ ہیں کہ جس قدر جاندار ہیں خواہ ذی شعور اور خواہ غیر ذی شعور اور خواہ نیک اور خواہ بداُن سب کے قیام اور بقاء وجود اور بقائے نوع کے لئے ان کی تکمیل کے لئے خدائے تعالیٰ نے اپنی رحمت عامہ کے رُو سے ہر یک قسم کے اسباب مطلوبہ میٹر کر دیئے ہیں اور ہمیشہ میٹر کرتا رہتا ہے.اور یہ عطیہ محض ہے کہ جو کسی عامل کے عمل پر موقوف نہیں.تیسری صداقت رحیم ہے کہ جو بعد رحمن کے مذکور ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ خدائے تعالیٰ سعی کرنے والوں کی سعی پر بمقتضائے رحمت خاصہ ثمراتِ حسنہ مترتب کرتا ہے.تو بہ کرنے والوں کے گناہ بخشتا ہے.مانگنے والوں کو دیتا ہے.کھٹکھٹانے والوں کے لئے کھولتا ہے.چوتھی صداقت جو سورۃ فاتحہ میں مندرج ہے مالک یوم الدین ہے یعنی با کمال و کامل جزا سزا کہ جو ہر یک قسم کے امتحان و ابتلا اور توسط اسباب غفلت افتر ا سے منزہ ہے اور ہر یک کدورت اور کثافت اور شک اور شبہ اور نقصان سے پاک ہے اور تجلیات عظمی کا مظہر ہے اس کا مالک بھی وہی اللہ قادر مطلق ہے اور وہ اس بات سے ہرگز عاجز نہیں کہ اپنی کامل جزا کو جو دن کی طرح روشن ہے ظہور میں لاوے اور اس صداقت عظمی کے ظاہر کرنے سے حضرت احدیت کا یہ مطلب ہے کہ تاہر یک نفس پر بطور حق الیقین امور مفصلہ ذیل کھل جائیں.اول یہ امر کہ جزا سزا ایک واقعی اور یقینی امر ہے کہ جو مالک حقیقی کی طرف سے اور اُسی کے ارادہ خاص سے بندوں پر وارد ہوتا ہے.اور ایسا کھل جانا دنیا میں ممکن نہیں کیونکہ اس عالم میں یہ بات عام لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتی کہ جو کچھ خیر وشر وراحت و رنج پہنچ رہا ہے وہ کیوں پہنچ رہا ہے اور کس کے حکم اور اختیار سے پہنچ رہا ہے اور کسی کو ان میں سے یہ آواز نہیں آتی کہ وہ اپنی جزا پا رہا ہے اور کسی پر بطور مشہود ومحسوس منکشف نہیں ہوتا کہ جو کچھ وہ بھگت رہا ہے حقیقت میں وہ اس کے عملوں کا بدلہ ہے.

Page 44

۳۹ جل شانہ و عزاسمہ دوسرے اس صداقت میں اس امر کا کھلنا مطلوب ہے کہ اسباب عادیہ کچھ چیز نہیں ہیں اور فاعل حقیقی خدا ہے اور وہی ایک ذات عظمی ہے کہ جو جمیع فیوض کا مبدء اور ہر یک جزا سزا کا مالک ہے.تیسرے اس صداقت میں اس بات کا ظاہر کرنا مطلوب ہے کہ سعادت عظمی اور شقاوتِ عظمی کیا چیز ہے.یعنی سعادت عظمیٰ وہ فوز عظیم کی حالت ہے کہ جب نور اور سرور اور لذت اور راحت انسان کے تمام ظاہر و باطن اور تن اور جان پر محیط ہو جائے اور کوئی عضو اور قوت اس سے باہر نہ رہے.اور شقاوت عظمیٰ وہ عذاب الیم ہے کہ جو باعث نافرمانی اور ناپاکی اور بعد اور ڈوری کے دلوں سے مشتعل ہو کر بدنوں پر مستولی ہو جائے اور تمام وجود فی النَّارِ وَالسَّقَر معلوم ہو اور یہ تجلیات عظمیٰ اس عالم میں ظاہر نہیں ہوسکتیں کیونکہ اس تنگ اور منقبض اور مکدر عالم کو جور و پوش اسباب ہو کر ایک ناقص حالت میں پڑا ہے ان کے ظہور کی برداشت نہیں بلکہ اس عالم پر ابتلا اور آزمائش غالب ہے.اور اس کی راحت اور رنج دونوں نا پائیدار اور ناقص ہیں اور نیز اس عالم میں جو کچھ انسان پر وارد ہوتا ہے وہ زیر پردہ اسباب ہے جس سے مالک الجزاء کا چہرہ مجوب اور مکتوم ہورہا ہے اس لئے یہ خالص اور کامل اور منکشف طور پر یوم الجزاء نہیں ہوسکتا بلکہ خالص اور کامل اور منکشف طور پر یوم الدین یعنی یوم الجزاء وہ عالم ہو گا کہ جو اس عالم کے ختم ہونے کے بعد آوے گا.اور وہی عالمِ تجلیاتِ عظمی کا مظہر اور جلال اور جمال کے پوری ظہور کی جگہ ہے.اور چونکہ یہ عالم دنیوی اپنی اصل وضع کی رُو سے دار الجزاء نہیں بلکہ دارالا بتلاء ہے اس لئے جو کچھ ٹھسر وئیسر وراحت و تکلیف اور غم اور خوشی اس عالم میں لوگوں پر وارد ہوتی ہے اُس کو خدائے تعالیٰ کے لطف یا قہر پر دلالت قطعی نہیں.مثلاً کسی کا دولت مند ہو جانا اس بات پر دلالت قطعی نہیں کرتا کہ خدائے تعالیٰ اس پر خوش ہے اور نہ کسی کا مفلس اور نادار ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدائے تعالیٰ اُس پر ناراض ہے.بلکہ یہ دونوں طور کے ابتلاء ہیں تا دولتمند کو

Page 45

۴۰ جل شانہ و عزاسمہ اس کی دولت میں اور مفلس کو اُس کی مفلسی میں جانچا جائے.یہ چارصداقتیں ہیں جن کا قرآن شریف میں مفصل بیان موجود ہے.براہین احمدیہ ہر چہار ص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۴۴ تا ۴۶۱ حاشیہ نمبر ۱۱) یہ بات به بداہت ثابت ہے کہ عالم کے اشیاء میں سے ہر یک موجود جو نظر آتا ہے اُس کا وجود اور قیام نظراً على ذاته ضروری نہیں مثلاً زمین کروی الشکل ہے اور قطر اس کا بعض کے گمان کے موافق تخمیناً چار ہزار کوس پختہ ہے مگر اس بات پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکتی کہ کیوں یہی شکل اور یہی مقدار اس کے لئے ضروری ہے اور کیوں جائز نہیں کہ اس سے زیادہ یا اس سے کم ہو یا برخلاف شکل حاصل کے کسی اور شکل سے متشکل ہو اور جب اس پر کوئی دلیل قائم نہ ہوئی تو یہ شکل اور یہ مقدار جس کے مجموعہ کا نام وجود ہے زمین کے لئے ضروری نہ ہوا اور علی ہذا القیاس عالم کی تمام اشیاء کا وجود اور قیام غیر ضروری ٹھہرا.اور صرف یہی بات نہیں کہ وجود ہر یک ممکن کانَظرًا عَلَى ذَاتِه غیر ضروری ہے بلکہ بعض صورتیں ایسی نظر آتی ہیں کہ اکثر چیزوں کے معدوم ہونے کے اسباب بھی قائم ہو جاتے ہیں.پھر وہ چیزیں معدوم نہیں ہوتیں.مثلاً با وجود اس کے کہ سخت سخت قحط اور وبا پڑتی ہیں مگر پھر بھی ابتدا زمانہ سے تخم ہر یک چیز کا بچتا چلا آیا ہے حالانکہ عند العقل جائز بلکہ واجب تھا کہ ہزار ہا شدائد اور حوادث میں سے جو ابتدا سے دنیا پر نازل ہوتی رہی کبھی کسی دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ شدت قحط کے وقت غلہ جو کہ خوراک انسان کی ہے بالکل مفقود ہو جاتا یا کوئی قسم غلہ کی مفقود ہو جاتی یا کبھی شدت وبا کے وقت نوع انسان کا نام و نشان باقی نہ رہتا یا کوئی اور انواع حیوانات میں سے مفقود ہو جاتے یا کبھی اتفاقی طور پر سورج یا چاند کی کل بگڑ جاتی یا دوسری بے شمار چیزوں سے جو عالم کی درستی نظام کے لئے ضروری ہیں کسی چیز کے وجود میں خلل راہ پا جاتا کیونکہ کروڑہا چیزوں کا اختلال اور فساد سے سالم رہنا اور کبھی اُن پر آفت نازل نہ ہونا قیاس سے بعید ہے.پس جو چیز میں نہ ضروری الوجود ہیں نہ ضروری القیام بلکہ ان کا کبھی نہ کبھی بگڑ

Page 46

۴۱ جل شانہ و عزاسمہ جانا ان کے باقی رہنے سے زیادہ تر قرین قیاس ہے.ان پر کبھی زوال نہ آنا اور احسن طور پر به ترتیب محکم اور ترکیب ابلغ ان کا وجود اور قیام پایا جانا اور کروڑ ہا ضروریاتِ عالم میں سے کبھی کسی چیز کا مفقود نہ ہونا صریح اس بات پر نشان ہے کہ ان سب کے لئے ایک محی اور محافظ اور قیوم ہے جو جامع صفات کا ملہ یعنی مدبر اور حکیم اور رحمان اور رحیم اور اپنی ذات میں ازلی ابدی اور ہر یک نقصان سے پاک ہے جس پر کبھی موت اور فنا طاری نہیں ہوتی بلکہ اونگھ اور نیند سے بھی جو فی الجملہ موت سے مشابہ ہے پاک ہے.سو وہی ذات جامع صفاتِ کاملہ ہے جس نے اس عالم امکانی کو برعایت کمال حکمت و موز و نیت وجود عطا کیا اور ہستی کو نیستی پر ترجیح بخشی اور وہی بوجہ اپنی کمالیت اور خالقیت اور ربوبیت اور قیومیت کے مستحق عبادت ہے.یہاں تک تو ترجمہ اس آیت کا ہوا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ اب بنظرِ انصاف دیکھنا چاہئے کہ کس بلاغت اور لطافت اور متانت اور حکمت سے اس آیت میں وجود صانع عالم پر دلیل بیان فرمائی ہے اور کس قدر تھوڑے لفظوں میں معانی کثیرہ اور لطائف حکمیہ کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے اور تما في السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ کے لئے ایسی محکم دلیل سے وجود ایک خالقِ کامل الصفات کا ثابت کر دکھایا ہے جس کے کامل اور محیط بیان کے برابر کسی حکیم نے آج تک کوئی تقریر بیان نہیں کی بلکہ حکماء ناقص الفہم نے ارواح اور اجسام کو حادث بھی نہیں سمجھا اور اس راز دقیق سے بے خبر رہے کہ حیات حقیقی اور ہستی حقیقی اور قیام حقیقی صرف خدا ہی کے لئے مسلم ہے.یہ عمیق معرفت اسی آیت سے انسان کو حاصل ہوتی ہے جس میں خدا نے فرمایا کہ حقیقی طور پر زندگی اور بقاء زندگی صرف اللہ کے لئے حاصل ہے جو جامع صفات کا ملہ ہے.اس کے بغیر کسی دوسری چیز کو وجود حقیقی اور قیام حقیقی حاصل نہیں اور اسی بات کو صانع عالم کی ضرورت کے لئے دلیل ٹھہرایا اور البقرة: ۲۵۶

Page 47

۴۲ جل شانہ و عزاسمہ فرمایا.لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ یعنی جبکہ عالم کے لئے نہ حیات حقیقی حاصل ہے نہ قیام حقیقی تو بالضرور اس کو ایک علت موجبہ کی حاجت ہے جس کے ذریعہ سے اس کو حیات اور قیام حاصل ہوا اور ضرور ہے کہ ایسی علت موجبہ جامع صفات کا ملہ اور مدبر بالا رادہ اور حکیم اور عالم الغیب ہو.سو وہی اللہ ہے کیونکہ اللہ بموجب اصطلاح قرآن شریف کے اس ذات کا نام ہے جو تجمع کمالاتِ تامہ ہے.اسی وجہ سے قرآن شریف میں اللہ کے اسم کو جمیع صفات کا ملہ کا موصوف ٹھہرایا ہے اور جابجا فرمایا ہے کہ اللہ وہ ہے جو کہ رب العالمین ہے.رحمن ہے.رحیم ہے مدبر بالا رادہ ہے.حکیم ہے.عالم الغیب ہے.قادر مطلق ہے.ازلی ابدی ہے وغیرہ وغیرہ.سو یہ قرآن شریف کی ایک اصطلاح ٹھہر گئی ہے کہ اللہ ایک ذات جامع جمیع صفات کا ملہ کا نام ہے.اسی جہت سے اس آیت کے سر پر بھی اللہ کا اسم لائے اور فرمایا اللهُ لا إلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ.یعنی اس عالم بے ثبات کا قیوم ذات جامع الکمالات ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ عالم جس ترتیب محکم اور ترکیب ابلغ سے موجود اور مترتب ہے اس کے لئے یہ گمان کرنا باطل ہے کہ انہی چیزوں میں سے بعض چیزیں بعض کے لئے علت موجبہ ہوسکتی ہیں.بلکہ اس حکیمانہ کام کے لئے جو سراسر حکمت سے بھرا ہوا ہے ایک ایسے صانع کی ضرورت ہے جو اپنی ذات میں مدتر بالا رادہ اور حکیم اور علیم اور رحیم اور غیر فانی اور تمام صفات کا ملہ سے متصف ہو.سو وہی اللہ ہے جس کو اپنی ذات میں کمال تام حاصل ہے.پھر بعد ثبوت وجود صانع عالم کے طالب حق کو اس بات کا سمجھانا ضروری تھا کہ وہ صانع ہر یک طور کی شرکت سے پاک ہے.سواس کی طرف اشارہ فرما یا قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ.الخ.اس اقل عبارت کو جو بقدر ایک سطر بھی نہیں دیکھنا چاہئے کہ کس لطافت اور عمدگی سے ہر ایک قسم کی شراکت سے وجود حضرت باری کا منزہ ہونا بیان فرمایا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ شرکت از روئے حصر الاخلاص : ۲

Page 48

۴۳ جل شانہ و عزاسمہ عقلی چار قسم پر ہے.کبھی شرکت عدد میں ہوتی ہے اور کبھی مرتبہ میں اور کبھی نسب میں اور کبھی فعل اور تاثیر میں.سو اس سورۃ میں ان چاروں قسموں کی شرکت سے خدا کا پاک ہونا بیان فرمایا اور کھول کر بتلا دیا کہ وہ اپنے عدد میں ایک ہے دو یا تین نہیں اور وہ صمد ہے یعنی اپنے مرتبہ ء وجوب اور محتاج الیہ ہونے میں منفرد اور یگانہ ہے اور بجز اس کے تمام چیزیں ممکن الوجود اور بالک الذات ہیں جو اس کی طرف ہر دم محتاج ہیں اور وہ لعم يلد ہے یعنی اُس کا کوئی بیٹا نہیں تا بوجہ بیٹا ہونے کے اس کا شریک ٹھہر جائے اور وہ لم یولد ت ہے یعنی اس کا کوئی باپ نہیں تا بوجہ باپ ہونے کے اس کا شریک بن جائے اور وہ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوا تا ہے یعنی اس کے کاموں میں کوئی اس سے برابری کرنے والا نہیں تا باعتبار فعل کے اس کا شریک قرار پاوے.سو اس طور سے ظاہر فرما دیا کہ خدائے تعالیٰ چاروں قسم کی شرکت سے پاک اور منزہ ہے اور وحدہ لاشریک ہے.پھر بعد اس کے اُس کے وحدہ لاشریک ہونے پر ایک عقلی دلیل بیان فرمائی اور کہا.لَوْ كَانَ فِيْهِمَا أَلِهَةٌ إِلَّا اللهُ لَفَسَدَنَا وَمَا كَانَ مَعَهُ مِن إله الخ لقا یعنی اگر زمین آسمان میں بجز اس ایک ذات جامع صفات کا ملہ کے کوئی اور بھی خدا ہوتا تو وہ دونوں بگڑ جاتے کیونکہ ضرور تھا کہ کبھی وہ جماعت خدائیوں کی ایک دوسرے کے برخلاف کام کرتے.پس اسی پھوٹ اور اختلاف سے عالم میں فساد راہ پاتا اور نیز اگر الگ الگ خالق ہوتے تو ہر واحد اُن میں سے اپنی ہی مخلوق کی بھلائی چاہتا اور اُن کے آرام کے لئے دوسروں کا بر باد کرنا روا رکھتا پس یہ بھی موجب فساد عالم ٹھہرتا.یہاں تک تو دلیل لِمّی سے خدا کا واحد لا شریک ہونا ثابت کیا.پھر بعد اس کے خدا کے وحدہ لاشریک ہونے پر دلیل انی بیان فرمائی اور کہا قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُوْنِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا الخ یعنی مشرکین اور منکرین وجود حضرت باری کو کہہ کہ اگر خدا کے کارخانہ میں کوئی اور لوگ بھی الاخلاص : ۳ تا ۵ تا الانبياء : ۲۳ قا المؤمنون: ۹۲ تا بنی اسرائیل: ۵۷

Page 49

.۴۴ جل شانہ و عزاسمہ شریک ہیں یا اسباب موجودہ ہی کافی ہیں تو اس وقت کہ تم اسلام کے دلائلِ حقیت اور اس کی شوکت اور قوت کے مقابلہ پر مقہور ہور ہے ہو ان اپنے شرکاء کو مدد کے لئے بلاؤ اور یا درکھو کہ وہ ہرگز تمہاری مشکل کشائی نہ کریں گے اور نہ بلا کو تمہارے سر پر سے ٹال سکیں گے.اے رسول ! ان مشرکین کو کہہ کہ تم اپنے شرکاء کو جن کی پرستش کرتے ہو میرے مقابلہ پر بلاؤ اور جو تدبیر میرے مغلوب کرنے کے لئے کر سکتے ہو وہ سب تدبیریں کرو اور مجھے ذرا مہلت مت دو اور یہ بات سمجھ رکھو کہ میرا حامی اور ناصر اور کارساز وہ خدا ہے جس نے قرآن کو نازل کیا ہے اور وہ اپنے سچے اور صالح رسولوں کی آپ کارسازی کرتا ہے مگر جن چیزوں کو تم لوگ اپنی مدد کے لئے پکارتے ہو وہ ممکن نہیں ہے جو تمہاری مدد کر سکیں اور نہ کچھ اپنی مدد کر سکتے ہیں.پھر بعد اس کے خدا کا ہر یک نقصان اور عیب سے پاک ہونا قانون قدرت ! کے رُو سے ثابت کیا اور فرمایا تُسَبِّحُ لَهُ السَّموتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ الخ یعنی ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے خدا کی تقدیس کرتے ہیں اور کوئی چیز نہیں جو اُس کی تقدیں نہیں کرتی.پر تم اُن کی تقدیسوں کو سمجھتے نہیں.یعنی زمین آسمان پر نظر غور کرنے سے خدا کا کامل اور مقدس ہونا اور بیٹیوں اور شریکوں سے پاک ہونا ثابت ہو رہا ہے.مگر ان کے لئے جو سمجھ رکھتے ہیں.پھر بعد اس کے جزئی طور پر مخلوق پرستوں کو ملزم کیا اور اُن کا خطا پر ہونا ظاہر فرمایا اور کہا قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبُحْنَهُ هُوَ الْغَنِيُّ الخ_ یعنی بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا بیٹا رکھتا ہے.حالانکہ بیٹے کا محتاج ہونا ایک نقصان ہے اور خدا ہر یک نقصان سے پاک ہے وہ تو غنی اور بے نیاز ہے جس کو کسی کی حاجت نہیں.جو کچھ آسمان وزمین میں ہے سب اُسی کا ہے.کیا تم خدا پر ایسا بہتان لگاتے ہو جس کی تائید میں تمہارے پاس کسی نوع کا علم نہیں.خدا کیوں بیٹوں کا محتاج ہونے لگا.وہ کامل ہے اور فرائضِ الوہیت کے ادا کرنے کے لئے وہ ہی اکیلا کافی ہے کسی اور منصوبہ کی حاجت نہیں.بنی اسرآئیل : ۴۵ تقا یونس : ۹

Page 50

۴۵ جل شانہ و عزاسمہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا بیٹیاں رکھتا ہے حالانکہ وہ ان سب نقصانوں سے پاک ہے.کیا تمہارے لئے بیٹے اور اس کے لئے بیٹیاں؟ یہ تو ٹھیک ٹھیک تقسیم نہ ہوئی.اے لوگو! تم اس خدائے واحد لاشریک کی پرستش کرو جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا.چاہئے کہ تم اس قادر توانا سے ڈرو جس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا اور آسمان کو تمہارے لئے چھت بنایا.اور آسمان سے پانی اُتار کر طرح طرح کے رزق تمہارے لئے پھلوں میں سے پیدا کئے.سو تم دیدہ و دانستہ انہیں چیزوں کو خدا کا شریک مت ٹھہراؤ جو تمہارے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہیں.خدا ایک ہے جس کا کوئی شریک نہیں.وہی آسمان میں خدا ہے اور وہی زمین میں خدا.وہی اول ہے اور وہی آخر وہی ظاہر ہے وہی باطن.آنکھیں اُس کی گنه در یافت کرنے سے عاجز ہیں اور اس کو آنکھوں کی گنہ معلوم ہے.وہ سب کا خالق ہے اور کوئی چیز اس کی مانند نہیں.اور اُس کے خالق ہونے پر یہ دلیل واضح ہے کہ ہر یک چیز کو ایک اندازه مقرری میں محصور اور محدود پیدا کیا ہے.جس سے وجود اس ایک حاصر اور محدّد کا ثابت ہوتا ہے.اس کے لئے تمام محامد ثابت ہیں اور دنیا و آخرت میں وہی منعم حقیقی ہے.اور اسی کے ہاتھ میں ہر یک حکم ہے اور وہی تمام چیزوں کا مرجع و مآب ہے.خدا ہر یک گناہ کو بخش دے گا جس کے لئے چاہے گا پر شرک کو ہرگز نہیں بخشے گا.سو جو شخص خدا کی ملاقات کا طالب ہے اُسے لازم ہے کہ ایسا عمل اختیار کرے جس میں کسی نوع کا فسادنہ ہو اور کسی چیز کو خدا کی بندگی میں شریک نہ کرے.تو خدا کے ساتھ کسی دوسری چیز کو ہرگز شریک مت ٹھہراؤ.خدا کا شریک ٹھہرانا سخت ظلم ہے.تو بجز خدا کے کسی اور سے مُراد یں مت مانگ ، سب ہلاک ہو جائیں گے.ایک اسی کی ذات باقی رہ جاوے گی.اُسی کے ہاتھ میں حکم ہے اور وہی تمہارا مرجع ہے.(براہین احمدیہ ہر چہار حص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۱۵ تا ۵۲۱ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) خدا کا قانونِ قدرت اور ایسا ہی صحیفہ فطرت جس کا سلسلہ قدیم سے اور انسان کی

Page 51

۴۶ جل شانہ و عزاسمہ بنیاد کے وقت سے چلا آتا ہے.وہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ خدا کے ساتھ تعلق شدید پیدا ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے احسان اور حسن سے تمتع اٹھایا ہو اور ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ احسان سے مراد خدا تعالیٰ کے وہ اخلاقی نمونے ہیں جو کسی انسان نے اپنی ذات کی نسبت بچشم خود دیکھے ہوں مثلاً بیکسی اور عاجزی اور کمزوری اور یتیمی کے وقت میں خدا اس کا متوتی ہوا ہو.اور حاجتوں اور ضرورتوں کے وقت میں خدا نے خود اس کی حاجت براری کی ہو اور سخت اور کمر شکن غموں کے وقت میں خدا نے خود اس کو مدد کی ہو اور خدا کی طلبی کے وقت میں بغیر توسط کسی مرشد اور ہادی کے خود خدا نے اس کو رہنمائی کی ہو اور حسن سے مراد بھی وہی خدا کی صفاتِ حسنہ ہیں جو احسان کے رنگ میں بھی ملاحظہ ہوتی ہیں مثلاً خدا کی قدرت کا ملہ اور وہ رفق اور وہ لطف اور وہ ربوبیت اور وہ رحم جو خدا میں پایا جاتا ہے اور وہ عام ربوبیت اس کی جو مشاہدہ ہو رہی ہے اور وہ عام نعمتیں اس کی جو انسانوں کے آرام کے لئے بکثرت موجود ہیں اور وہ علم اس کا جس کو انسان نبیوں کے ذریعہ سے حاصل کرتا اور اس کے ذریعہ سے موت اور تباہی سے بچتا ہے اور اس کی یہ صفت کہ وہ بے قراروں در ماندوں کی دعائیں قبول کرتا ہے.اور اُس کی یہ خوبی کہ جولوگ اس کی طرف جھکتے ہیں وہ اُن سے زیادہ ان کی طرف جھکتا ہے یہ تمام صفات خدا کی اس کے حسن میں داخل ہیں اور پھر وہی صفات ہیں کہ جب ایک شخص خاص طور پر اُن سے فیضیاب بھی ہو جاتا ہے تو وہ اس کی نسبت احسان بھی کہلاتی ہیں گو دوسرے کی نسبت فقط حسن میں داخل ہیں.اور جو شخص خدا تعالیٰ کی ان صفات کو جو در حقیقت اس کا حسن اور جمال ہے احسان کے رنگ میں بھی دیکھ لیتا ہے تو اس کا ایمان نہایت درجہ قوی ہو جاتا ہے اور وہ خدا کی طرف ایسا کھنچا جاتا ہے جیسا کہ ایک لوہا آہن ربا کی طرف کھنچا جاتا ہے.اس کی محبت خدا سے بہت بڑھ جاتی ہے اور اس کا بھروسہ خدا پر بہت قوی ہو جاتا ہے اور چونکہ وہ اس بات کو آزما لیتا ہے جو اس کی تمام بھلائی خدا میں ہے اس لئے اُس کی اُمید میں خدا پر نہایت مضبوط ہو جاتی ہیں اور وہ طبعاً نہ

Page 52

۴۷ جل شانہ و عزاسمہ کسی تکلف اور بناوٹ سے خدا کی طرف جھکا رہتا ہے اور اپنے تئیں ہر دم خدا سے مدد پانے کا محتاج دیکھتا ہے اور اس کی ان صفات کاملہ کے تصور سے یقین رکھتا ہے کہ وہ ضرور کامیاب ہوگا کیونکہ خدا کے فیض اور کرم اور جود کے بہت سے نمونے اس کا چشم دید مشاہدہ ہوتا ہے.اس لئے اس کی دعا ئیں قوت اور یقین کے چشمہ سے نکلتی ہیں اور اس کا عقدِ ہمت نہایت مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے اور آخر کار بمشاہدہ آلاء اور نعماء الہی کے نوریقین بہت زور کے ساتھ اس کے اندر داخل ہو جاتا ہے اور اس کی ہستی بکلی جل جاتی ہے اور باعث کثرت تصور عظمت اور قدرت الہی کے اُس کا دل خدا کا گھر ہو جاتا ہے اور جس طرح انسان کی رُوح اس کے زندہ ہونے کی حالت میں کبھی اُس کے جسم سے جدا نہیں ہوتی اسی طرح خدائے قادر ذوالجلال کی طرف سے جو یقین اس کے اندر داخل ہوا ہے وہ کبھی اس سے علیحدہ نہیں ہوتا اور ہر وقت پاک رُوح اس کے اندر جوش مارتی رہتی ہے اور اسی پاک رُوح کی تعلیم سے وہ بولتا اور حقائق اور معارف اس کے اندر سے نکلتے ہیں اور خدائے ذُو العِزّت والجبروت کی عظمت کا خیمہ ہر وقت اس کے دل میں لگا رہتا ہے اور یقین اور صدق اور محبت کی لذت ہر وقت پانی کی طرح اس کے اندر بہتی رہتی ہے جس کی آبپاشی سے ہر یک عضو اس کا سیراب نظر آتا ہے.آنکھوں میں ایک جُدا سیرابی مشہور ہوتی ہے.پیشانی پر الگ ایک نور اُس سیرابی کا لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور چہرہ پر محبت الہی کی ایک بارش برستی ہوئی محسوس ہوتی ہے.اور زبان بھی اس نور کی سیرابی سے پورا حصہ لیتی ہے.اسی طرح تمام اعضا پر ایک ایسی شگفتگی نظر آتی ہے جیسا کہ ابر بہار کے برسنے کے بعد موسم بہار میں ایک دلکش تازگی درختوں کی ٹہنیوں اور پتوں اور پھولوں اور پھلوں میں محسوس ہوتی ہے.لیکن جس شخص میں یہ روح نہیں اتری اور یہ سیرابی اس کو حاصل نہیں ہوئی.اس کا تمام جسم مردار کی طرح ہوتا ہے اور یہ سیرابی اور تازگی اور شگفتگی جس کی قلم تشریح نہیں کر سکتی یہ اُس مردار دل کومل ہی نہیں سکتی جس کو نوریقین کے چشمہ نے شاداب نہیں کیا بلکہ ایک طرح

Page 53

۴۸ جل شانہ و عزاسمہ سکتا.کی سڑی ہوئی بد بو اس سے آتی ہے.مگر وہ شخص جس کو یہ نور دیا گیا ہے اور جس کے اندر یہ چشمہ پھوٹ نکلا ہے اس کی علامات سے یہ ایک علامت ہے کہ اس کا جی ہر وقت یہی چاہتا ہے کہ ہر یک بات میں اور ہر یک قول میں اور ہر یک فعل میں خدا سے قوت پاوے اِسی میں اس کی لذت ہوتی ہے اور اسی میں اس کی راحت ہوتی ہے.وہ اس کے بغیر جی ہی نہیں ( عصمت انبیاء علیہم السلام.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۶۸ تا ۶۷۱ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن) کامل تعریف دو قسم کی خوبیوں کے لئے ہوتی ہے ایک کمال حسن اور ایک کمال احسان اور اگر کسی میں دونوں خوبیاں جمع ہوں تو پھر اس کے لئے دل فدا اور شیدا ہو جاتا ہے اور قرآن شریف کا بڑا مطلب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دونوں قسم کی خوبیاں حق کے طالبوں پر ظاہر کرے تا اُس بے مثل و مانند ذات کی طرف لوگ کھینچے جائیں.اور روح کے جوش اور کشش سے اس کی بندگی کریں.اس لئے پہلی سورۃ میں ہی یہ نہایت لطیف نقشہ دکھلانا چاہا ہے کہ وہ خدا جس کی طرف قرآن بلاتا ہے وہ کیسی خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے.سواسی غرض سے اس سورۃ کو اَلْحَمْدُ لِلہ سے شروع کیا گیا جس کے یہ معنے ہیں کہ سب تعریفیں اس کی ذات کے لئے لائق ہیں جس کا نام اللہ ہے.اور قرآن کی اصطلاح کی رُو سے اللہ اس ذات کا نام ہے جس کی تمام خوبیاں حسن و احسان کے کمال کے نقطہ پر پہنچی ہوئی ہوں اور کوئی منقصت اس کی ذات میں نہ ہو.قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب متحقق ہوتا ہے کہ جب تمام صفات کا ملہ اس میں پائی جائیں.پس جبکہ ہر ایک قسم کی خوبی اس میں پائی گئی تو حسن اس کا ظاہر ہے.اسی حسن کے لحاظ سے قرآن شریف میں کا نام نور ہے.جیسا کہ فرمایا ہے.اللهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ یعنی زمین و آسمان کا نور ہے ہر ایک نور اُسی کے نور کا پر توہ ہے.النور : ٣٦

Page 54

۴۹ جل شانہ و عزاسمہ اور احسان کی خوبیاں میں بہت ہیں.جن میں سے چار بطور اصل الاصول ہیں.اور اُن کی ترتیب طبعی کے لحاظ سے پہلی خوبی وہ ہے جس کو سورہ فاتحہ میں رب العالمین کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت یعنی پیدا کرنا اور کمال مطلوب تک پہونچانا تمام عالموں میں جاری وساری ہے یعنی عالم سماوی اور عالم ارضی اور عالم اجسام اور عالم ارواح اور عالم جواہر اور عالم اعراض اور عالم حیوانات اور عالم نباتات اور عالم جمادات اور دوسرے تمام قسم کے عالم اس کی ربوبیت سے پرورش پارہے ہیں.یہاں تک که خودانسان پر ابتدا نطفہ ہونے کی حالت سے یا اس سے پہلے بھی جو جو عالم موت تک یا دوسری زندگی کے زمانہ تک آتے ہیں وہ سب چشمہء ربوبیت سے فیض یافتہ ہیں.پس ربوبیت الہی بوجہ اس کے کہ وہ تمام ارواح و اجسام و حیوانات و نباتات و جمادات وغیرہ پر مشتمل ہے فیضانِ اعم سے موسوم ہے کیونکہ ہر ایک موجود اس سے فیض پاتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہر ایک چیز وجود پذیر ہے.ہاں البتہ ربوبیت الہی اگرچہ ہر ایک موجود کی موجد اور ہر ایک ظہور پذیر چیز کی مربی ہے لیکن بحیثیت احسان کے سب سے زیادہ فائدہ اس کا انسان کو پہونچتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی تمام مخلوقات سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے.اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ تمہارا خدا رب العالمین ہے تا انسان کی امید زیادہ ہو اور یقین کرے کہ ہمارے فائدہ کے لئے خدا تعالیٰ کی قدرتیں وسیع ہیں اور طرح طرح کے عالم اسباب ظہور میں لاسکتا ہے.دوسری خوبی خدا تعالیٰ کی جو دوسرے درجہ کا احسان ہے جس کو فیضانِ عام سے موسوم کر سکتے ہیں رحمانیت ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں الرحمن کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور قرآن شریف کی اصطلاح کی رو سے خدا تعالیٰ کا نام رحمن اس وجہ سے ہے کہ اس نے ہر ایک جاندار کو جن میں انسان بھی داخل ہے.اس کے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی یعنی جس طرز کی زندگی اس کے لئے ارادہ کی گئی اس زندگی کے مناسب حال جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی یا جس قسم کی بناوٹ جسم اور اعضاء کی حاجت تھی وہ سب

Page 55

۵۰ جل شانہ و عزاسمہ اس کو عطا کئے اور پھر اس کی بقاء کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اس کے لئے مہیا کیں.پرندوں کے لئے پرندوں کے مناسب حال اور چرندوں کے لئے چرندوں کے مناسب حال اور انسان کے لئے انسان کے مناسب حال طاقتیں عنایت کیں.اور صرف یہی نہیں بلکہ ان چیزوں کے وجود سے ہزار ہا برس پہلے بوجہ اپنی صفت رحمانیت کے اجرامِ سماوی وارضی کو پیدا کیا تاوہ ان چیزوں کے وجود کی محافظ ہوں.پس اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت میں کسی کے عمل کا دخل نہیں بلکہ وہ رحمت محض ہے جس کی بنیاد ان چیزوں کے وجود سے پہلے ڈالی گئی.ہاں انسان کو خدا تعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ہے کیونکہ ہر ایک چیز اس کی کامیابی کے لئے قربان ہو رہی ہے.اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا کہ تمہارا خدا رحمن ہے.تیسری خوبی خدا تعالیٰ کی جو تیسرے درجے کا احسان ہے رحیمیت ہے.جس کو سورہ فاتحہ میں الرحیم کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے.اور قرآن شریف کی اصطلاح کے رُو سے خدا تعالیٰ رحیم اس حالت میں کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دُعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں اور تضییع اعمال سے اُن کو محفوظ رکھتا ہے.یہ احسان دوسرے لفظوں میں فیض خاص سے موسوم ہے اور صرف انسان کی نوع سے مخصوص ہے.دوسری چیزوں کو خدا نے دُعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کا ملکہ نہیں دیا مگر انسان کو دیا ہے.انسان حیوان ناطق ہے اور اپنی نطق کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا فیض پا سکتا ہے.دوسری چیزوں کو نطق عطا نہیں ہوا.پس اس جگہ سے ظاہر ہے کہ انسان کا دُعا کرنا اُس کی انسانیت کا ایک خاصہ ہے جو اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ کی صفات ربوبیت اور رحمانیت سے فیض حاصل ہوتا ہے.اسی طرح صفت رحیمیت سے بھی ایک فیض حاصل ہوتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ ربوبیت اور رحمانیت کی صفتیں دعا کو نہیں چاہتیں کیونکہ وہ دونوں صفات انسان سے خصوصیت نہیں رکھتیں اور تمام پرند چرند کو اپنے فیض سے مستفیض کر رہی ہیں بلکہ صفت ربوبیت تو تمام حیوانات اور نباتات اور

Page 56

۵۱ جل شانہ و عزاسمہ جمادات اور اجرام ارضی اور سماوی کو فیض رسان ہے اور کوئی چیز اس کے فیض سے باہر نہیں برخلاف صفت رحیمیت کے کہ وہ انسان کے لئے ایک خلعتِ خاصہ ہے اور اگر انسان ہو کر اس صفت سے فائدہ نہ اٹھا وے تو گویا ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے فیض رسانی کی چار صفت اپنی ذات میں رکھی ہیں اور رحیمیت کو جو انسان کی دعا کو چاہتی ہے خاص انسان کے لئے مقرر فرمایا ہے پس اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ میں ایک قسم کا وہ فیض ہے جودُعا کرنے سے وابستہ ہے اور بغیر دعا کے کسی طرح مل نہیں سکتا.یہ سنت اللہ اور قانون الہی ہے جس میں تختلف جائز نہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی امتوں کے لئے ہمیشہ دُعائیں مانگتے رہے.توریت میں دیکھو کہ کتنی دفعہ بنی اسرائیل خدا تعالیٰ کو ناراض کر کے عذاب کے قریب پہونچ گئے اور پھر کیونکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا اور تضرع اور سجدہ سے وہ عذاب ٹل گیا حالانکہ بار بار وعدہ بھی ہوتا رہا کہ میں ان کو ہلاک کروں گا.اب ان تمام واقعات سے ظاہر ہے کہ دُعا محض لغو امر نہیں ہے اور نہ صرف ایسی عبادت جس پر کسی قسم کا فیض نازل نہیں ہوتا.یہ ان لوگوں کے خیال ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کا وہ قدر نہیں کرتے جو حق قدر کرنے کا ہے اور نہ خدا کی کلام کو نظر عمیق سے سوچتے ہیں اور نہ قانونِ قدرت پر نظر ڈالتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ دُعا پر ضرور فیض نازل ہوتا ہے جو ہمیں نجات بخشتا ہے اسی کا نام فیض رحیمیت ہے جس سے انسان ترقی کرتا جاتا ہے.اسی فیض سے انسان ولایت کے مقامات تک پہنچتا ہے اور خدا تعالیٰ پر ایسا یقین لاتا ہے کہ گویا آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے مسئلہ شفاعت بھی صفت رحیمیت کی بناء پر ہے.خدا تعالیٰ کی رحیمیت نے ہی تقاضا کیا کہ اچھے آدمی بُرے آدمیوں کی شفاعت کریں.چوتھا احسان خدا تعالیٰ کا جو قسم چہارم کی خوبی ہے جس کو فیضانِ اَحَص سے موسوم کر سکتے ہیں مالکیت یوم الدین ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں فقرہ مالک یوم الدین میں

Page 57

۵۲ جل شانہ و عزاسمہ بیان فرمایا گیا ہے اور اس میں اور صفت رحیمیت میں یہ فرق ہے کہ رحیمیت میں دعا اور عبادت کے ذریعہ سے کامیابی کا استحقاق قائم ہوتا ہے اور صفت مالکیت یوم الدین کے ذریعہ سے وہ ثمرہ عطا کیا جاتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک انسان گورنمنٹ کا ایک قانون یاد کرنے میں محنت اور جد و جہد کر کے امتحان دے اور پھر اس میں پاس ہو جائے.پس رحیمیت کے اثر سے کسی کامیابی کے لئے استحقاق پیدا ہو جانا پاس ہو جانے سے مشابہ ہے اور پھر وہ چیز یاوہ مرتبہ میسر آ جانا جس کے لئے پاس ہوا تھا اس حالت سے مشابہ انسان کے فیض پانے کی وہ حالت ہے جو پر توہ صفت مالکیت یوم الدین سے حاصل ہوتی ہے.ان دونوں صفتوں رحیمیت اور مالکیت یوم الدین میں یہ اشارہ ہے کہ فیض رحیمیت خدا تعالیٰ کے رحم سے حاصل ہوتا ہے اور فیضِ مالکیت یوم الدین خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتا ہے اور مالکیت یوم الدین اگر چه وسیع اور کامل طور پر عالم معاد میں متجلی ہو گی مگر اس عالم میں بھی اس عالم کے دائرہ کے موافق یہ چاروں صفتیں مجتبی کر رہی ہیں.ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۷ ۲۴ تا ۲۵۱) خدا تعالیٰ دنیا میں تین قسم کے کام کیا کرتا ہے.(۱) خدائی کی حیثیت سے (۲) دوسری دوست کی حیثیت سے (۳) تیسرے دشمن کی حیثیت سے.جو کام عام مخلوقات سے ہوتے ہیں وہ محض خدائی حیثیت سے ہوتے ہیں.اور جو کام محبین اور محبوبین سے ہوتے ہیں وہ نہ صرف خدائی حیثیت سے بلکہ دوستی کی حیثیت کا رنگ ان پر غالب ہوتا ہے.اور صریح دنیا کومحسوس ہوتا ہے کہ خدا اوس شخص کی دوستانہ طور پر حمایت کر رہا ہے.اور جو کام دشمنوں کی حیثیت سے ہوتے ہیں اُن کے ساتھ ایک موذی عذاب ہوتا ہے اور ایسے نشان ظاہر ہوتے ہیں جن سے صریح دکھائی دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس قوم یا اس شخص سے دشمنی کر رہا ہے اور خدا جو اپنے دوست کے ساتھ کبھی یہ معاملہ کرتا ہے جو تمام دنیا کو اس کا دشمن بنا دیتا ہے اور کچھ مدت کے لئے ان کی زبانوں یا اُن کے ہاتھوں کو اُس پر مسلط کر دیتا ہے یہ اس

Page 58

۵۳ جل شانہ و عزاسمہ لئے خدائے غیور نہیں کرتا کہ اس اپنے دوست کو ہلاک کرنا چاہتا ہے یا بے عزت اور ذلیل کرنا چاہتا ہے بلکہ اس لئے کرتا ہے کہ تا دنیا کو اپنے نشان دکھاوے اور تا شوخ دیدہ مخالفوں کو معلوم ہو کہ انہوں نے دشمنی میں ناخنوں تک زور لگا کر نقصان کیا پہنچایا.نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۱۸،۵۱۷) قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کے اسماء مفعول کے لفظ میں نہیں جیسے قدو س تو ہے مگر معصوم نہیں لکھا کیونکہ پھر بچانے والا اور ہوگا.(الحکم، مورخہ ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵ کالم نمبر ۳.ملفوظات جلد دوم صفحه ۷ ۱۴۴ یڈیشن ۲۰۰۳ء) ہمارا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے.جھوٹے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ نہ اس نے رُوح پیدا کی اور نہ ذرات اجسام وہ خدا سے غافل ہیں ہم ہر روز اُس کی نئی پیدائش دیکھتے ہیں اور ترقیات سے نئی نئی روح وہ ہم میں پھونکتا ہے اگر وہ نیست سے ہست کرنے والا نہ ہوتا تو ہم تو زندہ ہی مرجاتے.عجیب ہے وہ خدا جو ہمارا خدا ہے کون ہے جو اس کی مانند ہے؟ اور عجیب ہیں اس کے کام.کون ہے جس کے کام اس کی مانند ہیں.وہ قادر مطلق ہے.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۳۵) در حقیقت نفی صفات الہی کی کرنا اور خدا تعالیٰ کو قادرانہ تصرف سے معطل سمجھنا یہی اصل موجب دیوتا پرستی اور تناسخ کا ہے کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ اپنے مدبرانہ کاموں سے معطل خیال کیا گیا تو حاجت براری کے لئے دیو تے گھڑے گئے اور تقدیری تغیرات اور انقلابات کو گذشتہ عملوں کا نتیجہ ٹھہرایا گیا سو اس ایک ہی خیال سے یہ دونوں خرابیاں پیدا ہو گئیں یعنی اوا گون اور دیوتا پرستی.هحبه حق - روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۰۸،۴۰۷) قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے در ثمین متفرق اشعار صفحه ۱۵۸ شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمد یہ ربوہ)

Page 59

۵۴ جل شانہ و عزاسمہ ہمارے خدا میں بے شمار عجائبات ہیں مگر وہی دیکھتے ہیں جو صدق اور وفا سے اُس کے ہو گئے ہیں وہ غیروں پر جو اس کی قدرتوں پر یقین نہیں رکھتے اور اس کے صادق و فادار نہیں ہیں وہ عجائبات ظاہر نہیں کرتا.کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اُس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱) اُس کی قدرتیں غیر محدود ہیں اور اس کے عجائب کام نا پیدا کنار ہیں اور وہ اپنے خاص بندوں کے لئے اپنا قانون بھی بدل لیتا ہے مگر وہ بدلنا بھی اس کے قانون میں ہی داخل ہے.جب ایک شخص اس کے آستانہ پر ایک نئی روح لے کر حاضر ہوتا ہے اور اپنے اندر ایک خاص تبدیلی محض اس کی رضا مندی کے لئے پیدا کرتا ہے تب خدا بھی اس کے لئے ایک تبدیلی پیدا کر لیتا ہے کہ گویا اس بندے پر جو خدا ظاہر ہوا ہے وہ اور ہی خدا ہے.نہ وہ خدا جس کو عام لوگ جانتے ہیں.وہ ایسے آدمی کے مقابل پر جس کا ایمان کمزور ہے کمزور کی طرح ظاہر ہوتا ہے لیکن جو اس کی جناب میں ایک نہایت قوی ایمان کے ساتھ آتا ہے وہ اس کو دکھلا دیتا ہے کہ تیری مدد کے لئے میں بھی قوی ہوں.اس طرح انسانی تبدیلیوں کے مقابل پر اُس کی صفات میں بھی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں.جو شخص ایمانی حالت میں ایسا مفقود الطاقت ہے کہ گویا میت ہے.خدا بھی اس کی تائید اور نصرت سے دستکش ہو کر ایسا خاموش ہو جاتا ہے کہ گویا نعوذ باللہ وہ مر گیا ہے مگر یہ تمام تبدیلیاں وہ اپنے قانون کے اندر اپنے تقدس کے موافق کرتا ہے اور چونکہ کوئی شخص اس کے قانون کی حد بست نہیں کر سکتا اس لئے جلدی سے بغیر کسی قطعی دلیل کے جو روشن اور بد یہی ہو یہ اعتراض کرنا کہ فلاں امر قانونِ قدرت کے مخالف ہے محض حماقت ہے کیونکہ جس چیز کی ابھی حد بست نہیں ہوئی اور نہ اس پر کوئی قطعی دلیل قائم ہے اس کی نسبت کون رائے زنی کر سکتا ہے؟ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۰۵،۱۰۴) اگر خدا کو قادر نہ مانا جاوے تو پھر اس سے ساری اُمیدیں باطل ہو جاتی ہیں.کیونکہ

Page 60

جل شانہ و عزاسمہ ہماری دعاؤں کی قبولیت اس بات پر موقوف ہے کہ خدا تعالیٰ جب چاہے ذرات اجسام میں یا ارواح میں وہ قوتیں پیدا کر دے جو اُن میں موجود نہ ہوں مثلاً ہم ایک بیمار کے لئے دُعا کرتے ہیں اور بظاہر مرنے والے آثار اس میں ہوتے ہیں تب ہماری درخواست ہوتی ہے کہ خدا اس کے ذرات جسم میں ایک ایسی قوت پیدا کر دے جو اس کے وجود کوموت سے بچالے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر وہ دُعا قبول ہوتی ہے اور بسا اوقات اول ہمیں علم دیا جاتا ہے کہ یہ شخص مرنے کو ہے اور اس کی زندگی کی قوتوں کا خاتمہ ہے لیکن جب دعا بہت کی جاتی ہے اور انتہا تک پہنچ جاتی ہے اور شدت دعا اور قلق اور کرب سے ہماری حالت ایک موت کی سی ہو جاتی ہے تب ہمیں خدا سے وحی ہوتی ہے کہ اس شخص میں زندگی کی طاقتیں پھر پیدا کی گئیں تب وہ ایک دفعہ صحت کے آثار ظاہر کرنے لگتا ہے گویا مردہ سے زندہ ہو گیا.ایسا ہی مجھے یاد ہے کہ جب میں نے طاعون کے وقت میں دُعا کی کہ اے خدائے قادر ! ہمیں اس بلا سے بچا اور ہمارے جسم میں وہ ایک تریاقی خاصیت پیدا کر دے جس سے ہم طاعون کی زہر سے بچ جائیں تب وہ خاصیت خدا نے ہم میں پیدا کر دی اور فرمایا کہ میں طاعون کی موت سے تمہیں بچاؤں گا اور فرمایا کہ تیرے گھر کی چار دیواری کے لوگ جو تکبر نہیں کرتے یعنی خدا کی اطاعت سے سرکش نہیں اور پر ہیز گار ہیں میں اُن سب کو بچاؤں گا اور نیز میں قادیان کو طاعون کے سخت غلبہ اور عام ہلاکت سے محفوظ رکھوں گا یعنی وہ سخت تباہی جو دوسرے دیہات کو فنا کر دے گی اس قدر قادیان میں تباہی نہیں ہوگی.سو ہم نے دیکھا اور خدا تعالیٰ کی ان تمام باتوں کو مشاہدہ کیا.پس ہمارا خدا یہی خدا ہے جونئی نئی قوتیں اور گن اور خاصیتیں ذرات عالم میں پیدا کرتا ہے.ہم نے اس کامل خدا سے خبر پاکر ٹیکہ کے انسانی حیلہ سے دست کشی کی اور بہت سے لوگ ٹیکہ کرانے والے اس جہاں سے گذر گئے اور ہم اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ موجود ہیں.پس اسی طرح خدا تعالیٰ ذرات پیدا کرتا ہے جس طرح اوس نے ہمارے لئے ہمارے جسم میں تریاقی ذرات پیدا کر دیئے

Page 61

جل شانہ و عزاسمہ اور اسی طرح وہ خدا رُوح پیدا کرتا ہے جس طرح مجھ میں اُس نے وہ پاک رُوح پھونک دی جس سے میں زندہ ہو گیا.ہم صرف اس بات کے محتاج نہیں کہ وہ رُوح پیدا کر کے ہمارے جسم کو زندہ کرے بلکہ خود ہماری روح بھی ایک اور روح کی محتاج ہے جس سے وہ مُردہ رُوح زندہ ہو.پس ان دونوں روحوں کو خدا ہی پیدا کرتا ہے جس نے اس راز کو نہیں سمجھا وہ خدا کی قدرتوں سے بے خبر اور خدا سے غافل ہے.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۹۱٬۳۹۰) خدائے تعالیٰ کی خدائی اور الوہیت اس کی قدرت غیر محدودہ اور اسرار نامعدودہ سے وابستہ ہے جس کو قانون کے طور پر کسی حد کے اندر گھیر لینا انسان کا کام نہیں ہے.خدا شناسی کے لئے یہ بڑا بھاری بنیادی مسئلہ ہے کہ خدائے ذوالجلال کی قدرتیں اور حکمتیں بے انتہا ہیں.اس مسئلہ کی حقیقت سمجھنے اور اس پر عمیق غور کرنے سے سب الجھاؤ اور پیچ خیالات کا رفع ہو جاتا ہے اور سیدھا راہ حق شناسی اور حق پرستی کا نظر آنے لگتا ہے ہم اس جگہ اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ خدائے تعالیٰ ہمیشہ اپنی ازلی ابدی صفات کے موافق کام کرتا ہے اور اگر ہم دوسرے لفظوں میں انہی ازلی ابدی صفات پر چلنے کا نام قانون الہی رکھیں تو بے جانہیں مگر ہمارا کلام اور بحث اس میں ہے کہ وہ آثار صفات ازلی ابدی یا یوں کہو کہ وہ قانون قدیم الہی محدود یا معدود کیوں مانا جائے.ہاں بے شک یہ تو ہم مانتے ہیں اور مان لینا چاہئے کہ جو کچھ صفتیں جناب الہی کی ذات میں موجود ہیں انہیں صفات غیر محدود کے آثار اپنے اپنے وقتوں میں ظہور میں آتے ہیں نہ کوئی امراُن کا غیر.اور وہ صفات ہر یک مخلوق ارضی و سماوی پر مؤثر ہو رہی ہیں اور انہی آثار الصفات کا نام سنّت اللہ یا قانون قدرت ہے مگر چونکہ خدائے تعالیٰ معہ اپنی صفات کاملہ کے غیر محدود اور غیر متناہی ہے اس لئے ہماری بڑی نادانی ہو گی اگر ہم یہ دعوی کریں کہ اس کے آثار الصفات یعنی قوانین قدرت باندازہ ہمارے تجربہ یا فہم یا مشاہدہ کے ہیں اس سے بڑھ کر نہیں.آج کل کے

Page 62

جل شانہ و عزاسمہ فلسفی الطبع لوگوں کی یہ بڑی بھاری غلطی ہے کہ اؤل وہ قانونِ قدرت کو ایسا سمجھ بیٹھے ہیں جس کی من کل الوجوہ حد بست ہو چکی ہے اور پھر بعد اس کے جو امر نیا پیش آئے اس کو ہر گز نہیں مانتے.اور ظاہر ہے کہ اس خیال کی بنا راستی پر نہیں ہے.اور اگر یہی سچ ہوتا تو پھر کسی نئی بات کے ماننے کے لئے کوئی سبیل باقی نہ رہتا.اور امور جدیدہ کا دریافت کرنا غیر ممکن ہو جاتا.کیونکہ اس صورت میں ہر یک نیا فعل بصورت نقص قوانین طبعی نظر آئے گا.اور اس کے ترک کرنے سے ناحق ایک جدید صداقت کو ترک کرنا پڑے گا.....اگر کوئی صفحات تاریخ زمانہ میں واقعات سوانح عمری حکماء پر غور کرے تو اس کو معلوم ہو جائے گا کہ اُن کے خیالات کی ٹرین کتنی مختلف سڑکوں یا یہ کہ کس قدر متناقص چالوں پر چلی ہے اور کیسے داغ خجالت اور ندامت کے ساتھ ایک رائے کو دوسری رائے سے تبدیل کرتے آئے ہیں اور کیونکر انہوں نے ایک مدت دراز تک کسی بات کا انکار کر کے اور قانون قدرت سے اس کو باہر سمجھ کر آخر نہایت متند مانہ حالت میں اسی بات کو قبول کر لیا ہے سو اس تبدیل آراء کا کیا سبب تھا؟ یہی تو تھا کہ جو کچھ انہوں نے سمجھ رکھا تھا وہ ایک ظنی بات تھی جس کی مشاہدات جدیدہ نے تکذیب کی.سوجن شکلوں اور حالتوں میں وہ مشاہدات جدیدہ جلوہ گر ہوئے انہی کے موافق اُن کی راؤں کی پڑی بدلتی اور الٹتی پلٹتی رہی.اور جدھر تجارب جدیدہ کا رُخ پلٹتا رہا اُدھر ہی ان کے خیالات کی ہوائیں پلٹا کھاتی رہیں.غرض فلسفیوں کے خیالات کی لگام ہمیشہ امورجدید الظہو ر کے ہاتھ میں رہی ہے اور اب بھی بہت کچھ اُن کی نظروں سے چھپا ہوا ہے جس کی نسبت اُمید کی جاتی ہے کہ وہ آئندہ ٹھوکریں کھا کھا کر اور طرح طرح کی رسوائیاں اٹھا اٹھا کر کسی نہ کسی وقت قبول کریں گے.کیونکہ قوانین قدرت انسانی عقل کے دفتر میں ابھی تک ایسے منضبط نہیں اور نہ ہو سکتے ہیں جن پر نظر کر کے نئی تحقیقاتوں سے نو امیدی ہو.کیا کوئی عقلمند خیال کر سکتا ہے کہ انسان دنیا کے مکتب خانہ میں باوجودا اپنی اس قدر عمر قلیل کے تحصیل اسرار ازلی ابدی سے بکلی فراغت پاچکا ہے اور اب اس کا تجربہ عجائبات

Page 63

۵۸ جل شانہ و عزاسمہ الہیہ پر ایسا محیط ہو گیا ہے کہ جو کچھ اس کے تجربہ سے باہر ہو وہ فی الحقیقت خدائے تعالیٰ کی قدرت سے باہر ہے.میں جانتا ہوں کہ ایسا خیال بجز ایک بے شرم اور ابلہ آدمی کے کوئی دانشمند نہیں کرسکتا.فلاسفروں میں سے جو واقعی نیک دانا اور بچے روحانی آدمی گذرے ہیں انہوں نے خود تسلیم کر لیا کہ ہمارے خیالات جو محدود اور منقبض ہیں خدا اور اس کے بے انتہا بھیدوں اور حکمتوں کی شناخت کا ذریعہ نہیں ہو سکتے.یہ نہایت محقق صداقت ہے کہ ہر یک چیز اپنے اندر ایک ایسی خاصیت رکھتی ہے جس سے وہ خدائے تعالیٰ کی غیر متناہی قدرتوں سے اثر پذیر ہوتی رہی.سواس سے ثابت ہوتا ہے کہ خواص اشیاء ختم نہیں ہوسکتی گو ہم ان پر اطلاع پائیں یا نہ پائیں.اگر ایک دانہ خشخاش کے خواص تحقیق کرنے کے لئے تمام فلاسفر اولین و آخرین قیامت تک اپنی دماغی قوتیں خرچ کریں تو کوئی عظمند ہرگز باور نہیں کر سکتا کہ وہ ان خواص پر احاطہ تام کر لیں.سو یہ خیال کہ اجرام علوی یا اجسام سفلی کے خواص جس قدر بذریعہ علم ہیئت یا طبعی دریافت ہو چکے ہیں اُسی قدر پر ختم ہیں.اس سے زیادہ کوئی بے سمجھی کی بات نہیں.اب خلاصہ اس تمام مقدمہ کا یہ ہے کہ قانون قدرت کوئی ایسی شے نہیں ہے کہ ایک حقیقت ثابت شدہ کے آگے ٹھہر سکے کیونکہ قانون قدرت خدائے تعالیٰ کے ان افعال سے مراد ہے جو قدرتی طور پر ظہور میں آئے یا آئندہ آئیں گے لیکن چونکہ ابھی خدائے تعالیٰ اپنی قدرتوں کے دکھلانے سے تھک نہیں گیا ہے اور نہ یہ کہ اب قدرت نمائی سے بے زور ہو گیا ہے یا سو گیا ہے یا کسی طرف کو کھسک گیا ہے یا کسی خارجی قاسر سے مجبور کیا گیا ہے اور مجبوراً آئندہ کے عجائب کاموں سے دستکش ہو گیا ہے اور ہمارے لئے وہی چندصدیوں کی کارگذاری (یا اس سے کچھ زیادہ سمجھ لو ) چھوڑ گیا ہے.اس لئے ساری عقلمندی اور حکمت اور فلسفیت اور ادب اور تعلیم اسی میں ہے کہ ہم چند موجودہ مشہودہ قدرتوں کو جن میں ابھی صد ہا طور کا اجمال باقی ہے مجموعہ قوانین قدرت خیال نہ کر بیٹھیں اور اس پر نادان لوگوں کی

Page 64

۵۹ جل شانہ و عزاسمہ طرح ضد نہ کریں کہ ہمارے مشاہدات سے خدائے تعالیٰ کا فعل ہر گز تجاوز نہیں کر سکتا.میں سوچ میں ہوں کہ کیونکر ایسی چیزیں کامل اور قطعی طور پر مقیاس الصداقت یا میزان الحق ٹھہر سکتے ہیں جن کے اپنے ہی پورے طور کے انکشاف میں ابھی بہت سی منازل باقی ہیں اور اس پیچ در پیچ معمانے یاں تک حکماء کو حیران اور سرگردان کر رکھا ہے کہ بعض اُن میں سے حقائق اشیاء کے منکر ہی ہو گئے (منکرین حقائق کا وہی گروہ ہے جس کو سوفسطائی کہتے.ہیں ) اور بعض اُن میں سے یہ بھی کہہ گئے کہ اگر چہ خواص اشیاء ثابت ہیں تا ہم دائمی طور پر ان کا ثبوت نہیں پایا جا تا.پانی آگ کو بجھا دیتا ہے.مگرممکن ہے کہ کسی ارضی یا سماوی تاثیر سے کوئی چشمہ پانی کا اس خاصیت سے باہر آ جائے.آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے.مگر ممکن ہے کہ ایک آگ بعض موجبات اندرونی یا بیرونی سے اس خاصیت کو ظاہر نہ کر سکے کیونکہ ایسی عجائب باتیں ہمیشہ ظہور میں آتی رہتی ہیں.حکماء کا یہ بھی قول ہے کہ بعض تاثیرات ارضی یا سماوی ہزاروں بلکہ لاکھوں برسوں کے بعد ظہور میں آتی ہیں جو نا واقف اور بے خبر لوگوں کو بطور خارق عادت معلوم دیتی ہیں اور کبھی کبھی کسی کسی زمانہ میں ایسا کچھ ہوتارہتا ہے کہ کچھ عجائبات آسمان میں یا زمین میں ظاہر ہوتے ہیں جو بڑے بڑے فیلسوفوں کو حیرت میں ڈالتے ہیں.اور پھر فلسفی لوگ اُن کے قطعی ثبوت اور مشاہدہ سے خیرہ اور متندم ہو کر کچھ نہ کچھ تکلفات کر کے طبعی یا ہیئت میں اُن کو گھسیڑ دیتے ہیں تا ان کے قانون قدرت میں کچھ فرق نہ آ جائے.ایسا ہی یہ لوگ ادھر کے اُدھر لگا کر اور نئی باتوں کو کسی علمی قاعدہ میں جبراً دھنسا کر گزارہ کر لیتے ہیں.جب تک پر دار مچھلی نہیں دیکھی گئی تھی تب تک کوئی فلسفی اس کا قائل نہ تھا اور جب تک متواتر دُم کے کٹنے سے دم کٹے کٹے پیدا نہ ہونے لگے تب تک اس خاصیت کا کوئی فلاسفر اقراری نہ ہوا اور جب تک بعض زمینوں میں کسی سخت زلزلہ کی وجہ سے کوئی ایسی آگ نہ نکلی کہ وہ پتھروں کو پگھلا دیتی تھی مگر لکڑی کو جلا نہیں سکتی تھی تب تک فلسفی لوگ ایسی خاصیت کا آگ میں ہونا خلاف قانون قدرت سمجھتے رہے.جب تک

Page 65

۶۰ جل شانہ و عزاسمہ ایسی ریر کا آلہ نہیں نکلا تھا کسی فلسفی کو معلوم تھا کہ عمل ٹرینس فیوژن آف بلڈ ( یعنی ایک انسان کا خون دوسرے انسان میں داخل کرنا ) قانون فطرت میں داخل ہے؟ بھلا اس فلاسفر کا نام لینا چاہئے جو الیکٹرک مشین یعنی بجلی کی کل نکلنے سے پہلے اس بجلی لگانے کے عمل کا قائل تھا ؟.علامہ شارح قانون جو طبیب حاذق اور بڑا بھاری فلسفی ہے ایک جگہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے جو یونانیوں میں یہ قصے بہت مشہور ہیں جو بعض عورتوں کو جو اپنے وقت میں عفیفہ اور صالح تھیں بغیر صحبت مرد کے حمل ہو کر اولا د ہوئی ہے.پھر علامہ موصوف بطور رائے کے لکھتا ہے کہ یہ سب قصے افتراء پر محمول نہیں ہو سکتے کیونکہ بغیر کسی اصل صحیح کے مختلف افراد اور مہذب قوموں میں ایسے دعاوی ہرگز فروغ نہیں پاسکتے.ان سب قصوں کی نسبت گو کسی منکر کی کیسی ہی رائے ہو مگر صرف ان کے نادر الوقوع ہونے کی وجہ سے وہ سب کی سب رہ نہیں کی جاسکتی اور ان کے ابطال پر کوئی دلیل فلسفی قائم نہیں ہو سکتی....اور علامہ موصوف نے اس مقام میں ایک تقریر بہت ہی عمدہ لکھی ہے.وہ لکھتے ہیں کہ اگر چہ سب انسان ایک نوع میں ہونے کی وجہ سے باہم مناسب الطبع واقعہ ہیں مگر پھر بھی اُن میں سے بعض کو نا در طور پر کبھی کبھی کسی کسی زمانہ میں خاص خاص طاقتیں یا کسی اعلیٰ درجہ کی قوتیں عطا ہوتی ہیں جو عام طور پر دوسروں میں نہیں پائی جاتیں جیسے مشاہدہ سے ثابت ہوا ہے کہ بعض نے حال کے زمانہ میں تین سو برس سے زیادہ عمر پائی ہے جو بطور خارق عادت ہے اور بعض کی قوت حافظہ یا قوت نظر ایسے کمال درجہ کو پہنچی ہے جو اس کی نظیر نہیں پائی گئی اور اس قسم کے لوگ بہت نادر الوجود ہوتے ہیں جو صد ہایا ہزاروں برسوں کے بعد کوئی فردان میں سے ظہور میں آتا ہے اور چونکہ عوام الناس کی نظر اکثر امور کثیر الوقوع اور متواتر الظہور پر ہوا کرتی ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ عام لوگوں کی نگاہ میں جو باتیں کثیر الوقوع اور متواتر الظہور ہوں وہ بطور قاعدہ یا قانون قدرت کے مانی جاتی ہیں اور انہی کی سچائی پر انہیں اعتماد ہوتا

Page 66

บ جل شانہ و عزاسمہ ہے اس لئے دوسرے امور جو نادر الوقوع ہوتے ہیں وہ بمقابل امور کثیر الوقوع کے نہایت مضمحل اور مشتبہ بلکہ باطل کے رنگ میں دکھائی دیتے ہیں.اسی وجہ سے عوام کیا بلکہ خواص کو بھی اُن کے وجود میں شکوک اور شبہات پیدا ہو جاتے ہیں.سو بڑی غلطی جو حکماء کو پیش آتی ہے اور بڑی بھاری ٹھو کر جو اُن کو آگے قدم رکھنے سے روکتی ہے یہ ہے کہ وہ امور کثیر الوقوع کے لحاظ سے نادر الوقوع کی تحقیق کے در پے نہیں ہوتے اور جو کچھ اُن کے آثار چلے آتے ہیں اُن کو صرف قصے اور کہانیاں خیال کر کے اپنے سر پر سے ٹال دیتے ہیں.حالانکہ یہ قدیم سے عادت اللہ ہے جو امور کثیر الوقوع کے ساتھ نادر الوقوع عجائبات بھی کبھی کبھی ظہور میں آتے رہتے ہیں.اس کی نظیریں بہت ہیں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے.اور حکیم بقراط نے اپنی ایک طبی کتاب میں چند چشم دید بیماروں کا بھی حال لکھا ہے جو قواعد طبی اور تجربہ اطباء کی رو سے وہ ہرگز قابل علاج نہیں تھے مگر ان بیماروں نے عجیب طور پر شفا پائی جس کی نسبت اُن کا خیال ہے کہ یہ شفا بعض نادر تاثیرات ارضی یا سماوی سے ہے.اس جگہ ہم اس قدر اور لکھنا چاہتے ہیں کہ یہ بات صرف نوع انسان میں محدود نہیں کہ کثیر الوقوع اور نادر الوقوع خواص کا اس میں سلسلہ چلا آتا ہے بلکہ اگر غور کر کے دیکھیں تو یہ دوہرا سلسلہ ہر یک نوع میں پایا جاتا ہے مثلاً نباتات میں سے آک کے درخت کو دیکھو کہ کیسا تلخ اور زہر ناک ہوتا ہے مگر کبھی مدتوں اور برسوں کے بعد ایک قسم کی نبات اس میں پیدا ہو جاتی ہے جو نہایت شیریں اور لذیذ ہوتی ہے.اب جس شخص نے اس نبات کو بھی نہ دیکھا ہو اور معمولی قدیمی تلخی کو دیکھتا آیا ہو بے شک وہ اس نبات کو ایک امر طبعی کی نقیض سمجھے گا.ایسا ہی بعض دوسری نوع کی چیزوں میں بھی دُور دراز عرصہ کے بعد کوئی نہ کوئی خاصہ نادر ظہور میں آ جاتا ہے.کچھ تھوڑا عرصہ گذرا ہے کہ مظفر گڑھ میں ایک ایسا بکرا پیدا ہوا کہ جو بکریوں کی طرح دودھ دیتا تھا.جب اس کا شہر میں بہت چرچا پھیلا تو میکالف صاحب ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ کو بھی اطلاع ہوئی تو انہوں نے یہ ایک عجیب امر قانون قدرت کے برخلاف سمجھ کر وہ بکرا

Page 67

۶۲ جل شانہ و عزاسمہ اپنے روبرو منگوایا.چنانچہ وہ بکر اجب اُن کے رو برو دوہا گیا تو شاید قریب ڈیڑھ سیر دودھ کے اُس نے دیا.....اس کے بعد تین معتبر اور ثقہ اور معزز آدمی نے میرے پاس بیان کیا کہ ہم نے بچشم خود چند مردوں کو عورتوں کی طرح دودھ دیتے دیکھا ہے.ایسا ہی بعض لوگوں کا تجربہ ہے کہ کبھی ریشم کے کیڑے کی مادہ بے نر کے انڈے دے دیتی ہیں اور اُن میں سے بچے نکلتے ہیں.بعض نے یہ بھی دیکھا کہ چوہا مٹی خشک سے پیدا ہوا جس کا آدھا دھڑ تو مٹی تھا اور آدھا چوہا بن گیا.حکیم فاضل قرشی یا شائد علامہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک بیمار ہم نے دیکھا جس کا کان ماؤف ہو کر بہرہ ہو گیا تھا.پھر کان کے نیچے ایک ناسور سا پیدا ہو گیا جو آخر وہ سوراخ سے ہو گئے.اس سوراخ کی راہ سے وہ برا برشن لیتا تھا گویا خدا نے اس کے لئے دوسرا کان عطا کیا....جالینوس سے سوال کیا گیا کہ کیا انسان آنکھوں کی راہ سے ئن سکتا تھا ؟ اُس نے جواب دیا کہ ہنوز تجر بہ شہادت نہیں دیتا لیکن ممکن ہے کہ کوئی ایسی مشارکت کانوں اور آنکھوں کی مخفی ہو جو کسی ہاتھ کے عمل سے یا کسی سماوی موجب سے ظہور پذیر ہو کر اس خاصیت کے ظہور کا موجب ہو جائے.کیونکہ ابھی علم استدراک خواص متن نہیں.ڈاکٹر برنی آرنے اپنے سفر نامہ کشمیر میں پیر پنجال کی چڑھائی کی تقریب بیان پر بطور ایک عجیب حکایت کے لکھا ہے کہ جو تر جمہ کتاب مذکور کے صفحہ ۸۰ میں درج ہے کہ ایک جگہ پتھروں کے ہلانے جلانے سے ہم کو ایک بڑا سیاہ بچھو نظر پڑا جس کو ایک نوجوان مغل نے جو میری جان پہچان والوں میں سے تھا اٹھا کر اپنی مٹھی میں دبا لیا اور پھر میرے نوکر کے اور میرے ہاتھ میں دے دیا.مگر اُس نے ہم میں سے کسی کو بھی نہ کاٹا.اس نوجوان سوار نے اس کا باعث یہ بیان کیا کہ میں نے اس پر قرآن کی ایک آیت پڑھ کر پھونک دی ہے اور اسی عمل سے اکثر بچھوؤں کو پکڑ لیتا ہوں.اور صاحب کتاب فتوحات و فصوص جو ایک بڑا بھارا نامی فاضل اور علوم فلسفہ و تصوف میں بڑا ماہر ہے.وہ اپنی کتاب

Page 68

۶۳ جل شانہ و عزاسمہ فتوحات میں لکھتا ہے کہ ہمارے مکان پر ایک فلسفی اور کسی دوسرے کی خاصیت احراق آگ میں کچھ بحث ہو کر اس دوسرے شخص نے یہ عجیب بات دکھلائی کہ فلسفی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کوئلوں کی آگ میں جو ہمارے سامنے محجر میں پڑی ہوئی تھی ڈال دیا اور کچھ عرصہ اپنا اور فلسفی کا ہاتھ آگ پر رہنے دیا مگر آگ نے اُن دونوں ہاتھوں میں سے کسی پر ایک ذرا بھی اثر نہ کیا.اور راقم اس رسالہ نے ایک درویش کو دیکھا کہ وہ سخت گرمی کے موسم میں یہ آیت قرآنی پڑھ کر وَإِذَا بَطَشُتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ ] زنبور کو پکڑ لیتا تھا اور اُس کی نیش زنی سے بکلی محفوظ رہتا تھا اور خود اس راقم کے تجربہ میں بعض تاثیرات عجیبہ آیت قرآنی کی آچکی ہیں جن سے عجائبات قدرت حضرت باری جلشانہ معلوم ہوتے ہیں.غرض یہ عجائب خانہ دنیا کا بے شمار عجائبات سے بھرا ہوا ہے.جو دانا اور شریف حکیم گذرے ہیں انہوں نے اپنی چند معدود معلومات پر ہرگز ناز نہیں کیا اور وہ اس بات کو بہت بے شرمی اور گستاخی سمجھتے رہے ہیں کہ اپنے محدود تجربہ کا نام خدائے تعالیٰ کا قانون قدرت رکھیں.کیا جس نے یہ پُر بہار آسمان جو مہروماہ اور ستاروں کے چراغوں سے سج رہا ہے اور یہ رشک گلزار زمین جو رنگا رنگ مخلوقات سے آباد ہو رہی ہے بغیر ایک ذرہ مشقت اٹھانے کے صرف اپنے ارادہ سے پیدا کر دیا اس کی قدرتوں کا کوئی انتہا پاسکتا ہے؟ سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۹۰ تا ۱۰۱) یہ ایک ستر ربوبیت ہے جو کلمات اللہ سے مخلوقات الہی پیدا ہو جاتی ہے اس کو اپنی اپنی سمجھ کے موافق ہر ایک شخص ذہن نشین کر سکتا ہے.چاہے اس طرح سمجھ لے کہ مخلوقات کلمات الہی کے اظلال و آثار ہیں یا ایسا سمجھ سکتا ہے کہ خود کلمات الہی ہی ہیں جو بقدرت الہی مخلوقیت کے رنگ میں آجاتے ہیں.کلام الہی کی عبارت ان دونوں معنوں کے سمجھنے کے لئے وسیع ہے اور بعض مواضع قرآن کی ظاہر عبارت میں مخلوقات کا نام کلمات اللہ رکھا گیا الشعراء: ۱۳۱

Page 69

۶۴ جل شانہ و عزاسمہ ہے جو تجلیات ربوبیت سے بقدرت الہبی لوازم و خواص جدیدہ حاصل کر کے حدوث کے کامل رنگ سے رنگین ہو گئے ہیں اور در حقیقت یہ ایک ستر اُن اسرار خالقیت میں سے ہے جو عقل کے چرخ پر چڑھا کر اچھی طرح سمجھ میں نہیں آ سکتے اور عوام کے لئے سیدھا راہ سمجھنے کا یہی ہے کہ خدائے تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کرنا چاہا وہ ہو گیا اور سب کچھ اسی کا پیدا کردہ اور اُسی کی مخلوق اور اُسی کے دست قدرت سے نکلا ہوا ہے.لیکن عارفوں پر کشفی طور سے بعد مجاہدات یہ کیفیت حدوث کھل جاتی ہے اور نظر کشفی میں کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام ارواح و اجسام کلمات اللہ ہی ہیں.جو بحکمت کا ملہ الہی پیرایۂ حدوث ومخلوقیت سے متلبس ہو گئے ہیں.مگر اصل محکم جس پر قدم مارنا اور قائم رہنا ضروری ہے یہ ہے کہ ان کشفیات و معقولات سے قدر مشترک لیا جائے یعنی یہ کہ خدائے تعالیٰ ہر یک چیز کا خالق اور محدث ہے اور کوئی چیز کیا ارواح اور کیا اجسام بغیر اس کے ظہور پذیر نہیں ہوئے اور نہ ہو سکتی ہے کیونکہ کلام الہی کی عبارت اس جگہ در حقیقت زوالوجوہ ہے اور جس قدر قطع اور یقین کے طور پر قرآن شریف ہدایت کرتا ہے وہ یہی ہے کہ ہر یک چیز خدائے تعالیٰ سے ظہور پذیر و وجود پذیر ہوئی ہے اور کوئی چیز بغیر اس کے پیدا نہیں ہوئی اور نہ خود بخود ہے.سواس قدر اعتقاد ابتدائی حالت کے لئے کافی ہے.پھر آگے معرفت کے میدانوں میں سیر کرنا جس کو نصیب ہو گا اس پر بعد مجاہدات خود وہ کیفیت کھل جائے گی.جیسا کہ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۷۳ تا ۱۷۵ حاشیه ) اس جگہ اس نکتہ کا بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ خدائے تعالیٰ جو علت العلل ہے جس کے وجود کے ساتھ تمام وجودوں کا سلسلہ وابستہ ہے جب وہ کبھی مربیانہ یا قاہرانہ طور پر کوئی جنبش اور حرکت ارادی کسی امر کے پیدا کرنے کے لئے کرتا ہے تو وہ حرکت اگر اتم اور اکمل العنكبوت:۷۰

Page 70

جل شانہ و عزاسمہ طور پر ہو تو جمیع موجودات کی حرکت کو مستلزم ہوتی ہے اور اگر بعض شیون کے لحاظ سے یعنی مجو ئی حرکت ہو تو اُسی کے موافق عالم کے بعض اجزاء میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ خدائے عز و جل کے ساتھ اُس کی تمام مخلوقات اور جمیع عالموں کا جو علاقہ ہے وہ اُس علاقہ سے مشابہ ہے جو جسم کو جان سے ہوتا ہے اور جیسے جسم کے تمام اعضاء رُوح کے ارادوں کے تابع ہوتے ہیں اور جس طرف رُوح جھکتی ہے اسی طرف وہ جھک جاتے ہیں.یہی نسبت خدائے تعالیٰ اور اس کی مخلوقات میں پائی جاتی ہے.اگر چہ میں صاحب فصوص کی طرح حضرت واجب الوجود کی نسبت یہ تو نہیں کہتا کہ خَلَقَ الْأَشْيَاءَ وَهُوَ عَيْنُهَا نگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ خَلَقَ الْأَشْيَاءَ وَهُوَ كَعَيْنِهَا هُذَا الْعَالَمُ كَصَرْحِ ثُمَرَّدٍ مِنْ قَوَارِيرَ وَمَا الطاقةُ العُظمى يَجْرِى تَحْتَهَا وَيَفْعَلُ مَا يُرِيدُ يُخَيَّلُ فِي عُيُوْنٍ قَاصِرَةٍ كَأَنَّهَا هُوَ - يَحْسَبُونَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُؤَتِرَاتٍ بِذَاتِهَا وَلَا مُؤَثِرَ إِلَّا هُوَ - حکیم مطلق نے میرے پر یہ راز سر بستہ کھول دیا ہے کہ یہ تمام عالم معہ اپنے جمیع اجزا کے اس علت العلل کے کاموں اور ارادوں کی انجام دہی کے لئے سچ مچ اس اعضاء کی طرح واقع ہے جو خود بخود قائم نہیں بلکہ ہر وقت اس روح اعظم سے قوت پاتا ہے.جیسے جسم کی تمام قو تیں جان کی طفیل سے ہی ہوتی ہیں اور یہ عالم جو اس وجود اعظم کے لئے قائم مقام اعضاء کا ہے.بعض چیزیں اس میں ایسی ہیں کہ گویا اس کے چہرہ کا نور ہیں جو ظاہری یا باطنی طور پر اس کے ارادوں کے موافق روشنی کا کام دیتی ہیں اور بعض ایسی چیزیں ہیں کہ گویا اس کے ہاتھ ہیں اور بعض ایسی ہیں کہ گویا اُس کے پیر ہیں اور بعض اس کے سانس کی طرح ہیں.غرض یہ مجموعہ عالم خدائے تعالیٰ کے لئے بطور ایک اندام کے واقعہ ہے.اور تمام آب و تاب اس اندام کی اور ساری زندگی اس کی اسی رُوح اعظم سے ہے جو اس کی قیوم ہے.اور جو کچھ اس قیوم کی ذات میں ارادی حرکت پیدا ہوتی ہے وہی حرکت اس اندام کے کل اعضاء یا بعض میں جیسا کہ اُس قیوم کی ذات کا تقاضا ہو پیدا ہو جاتی ہے.

Page 71

۶۶ جل شانہ و عزاسمہ اس بیان مذکورہ بالا کی تصویر دکھلانے کے لئے تخیلی طور پر ہم فرض کر سکتے ہیں کہ قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے بے شمار ہاتھ بے شمار پیر اور ہر یک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لا انتہا عرض اور طول رکھتا ہے اور تندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں اور کشش کا کام دے رہی ہے یہ وہی اعضاء ہیں جن کا دوسرے لفظوں میں عالم نام ہے.جب قيوم عالم کوئی حرکت جزوی یا کلی کرے گا تو اس کی حرکت کے ساتھ اس کے اعضاء میں حرکت پیدا ہو جانا ایک لازمی امر ہو گا اور وہ اپنے تمام ارادوں کو انہیں اعضاء کے ذریعہ سے ظہور میں لائے گا نہ کسی اور طرح سے.پس یہی ایک عام فہم مثال اس روحانی امر کی ہے کہ جو کہا گیا ہے کہ مخلوقات کی ہر یک جزو خدائے تعالیٰ کے ارادوں کی تابع اور اُس کے مقاصد مخفیہ کو اپنے خادمانہ چہرہ میں ظاہر کر رہی ہے.اور کمال درجہ کی اطاعت سے اُس کے ارادوں کی راہ میں محو ہورہی ہے.اور یہ اطاعت اس قسم کی ہرگز نہیں ہے جس کی صرف حکومت اور زبردستی پر بنا ہو بلکہ ہر یک چیز کو خدائے تعالیٰ کی طرف ایک مقناطیسی کشش پائی جاتی ہے اور ہر ایک ذرہ ایسا بالطبع اس کی طرف جھکا ہوا معلوم ہوتا ہے جیسے ایک وجود کے متفرق اعضاء اُس وجود کی طرف جھکے ہوئے ہوتے ہیں.پس درحقیقت یہی سچ ہے اور بالکل سچ ہے کہ یہ تمام عالم اُس وجود اعظم کے لئے بطور اعضاء کے واقعہ ہے اور اسی وجہ سے وہ قیوم العالمین کہلاتا ہے کیونکہ جیسی جان اپنے بدن کی قیوم ہوتی ہے ایسا ہی وہ تمام مخلوقات کا قیوم ہے.اگر ایسانہ ہوتا تو نظام عالم کا بالکل بگڑ جاتا.ہر یک ارادہ اس قیوم کا خواہ وہ ظاہری ہے یا باطنی.دینی ہے یا دنیوی اسی مخلوقات کے توسط سے ظہور پذیر ہوتا ہے اور کوئی ایسا ارادہ نہیں کہ بغیر ان وسائط کے زمین پر ظاہر ہوتا ہو.یہی قدیمی قانونِ قدرت ہے کہ جوابتداء سے بندھا ہوا چلا آتا ہے.توضیح مرام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۸۸ تا ۹۱)

Page 72

۶۷ جل شانہ و عزاسمہ اس میں کلام کی جگہ نہیں کہ جو کچھ اجرام فلکی اور عناصر میں جسمانی اور فانی طور پر صفات پائی جاتی ہیں وہ روحانی اور ابدی طور پر خدا تعالیٰ میں موجود ہیں.اور خدا تعالیٰ نے یہ بھی ہم پر کھول دیا ہے کہ سورج وغیرہ بذات خود کچھ چیز نہیں ہیں.یہ اسی کی طاقت زبردست ہے جو پردہ میں ہر ایک کام کر رہی ہے.وہی ہے جو چاند کو پردہ پوش اپنی ذات کا بنا کر اندھیری راتوں کو روشنی بخشتا ہے جیسا کہ وہ تاریک دلوں میں خود داخل ہو کر اُن کو منور کر دیتا ہے اور آپ انسان کے اندر بولتا ہے.وہی ہے جو اپنی طاقتوں پر سورج کا پردہ ڈال کر دن کو ایک عظیم الشان روشنی کا مظہر بنادیتا ہے اور مختلف فصلوں میں مختلف اپنے کام ظاہر کرتا ہے.اُسی کی طاقت آسمان سے برستی ہے جو مینہ کہلاتی ہے اور خشک زمین کو سرسبز کر دیتی ہے اور پیاسوں کو سیراب کر دیتی ہے.اُسی کی طاقت آگ میں ہو کر جلاتی ہے اور ہوا میں ہو کر دم کو تازہ کرتی اور پھولوں کو شگفتہ کرتی اور بادلوں کو اٹھاتی اور آواز کو کانوں تک پہنچاتی ہے.یہ اُسی کی طاقت ہے کہ زمین کی شکل میں مجسم ہو کر نوع انسان اور حیوانات کو اپنی پشت پر اٹھا رہی ہے.مگر کیا یہ چیزیں خدا ہیں؟ نہیں بلکہ مخلوق مگر ان کے اجرام میں خدا کی طاقت ایسے طور سے پیوست ہو رہی ہے کہ جیسے قلم کے ساتھ ہاتھ ملا ہوا ہے.اگر چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قلم لکھتی ہے مگر قلم نہیں لکھتی بلکہ ہاتھ لکھتا ہے یا مثلاً ایک لوہے کاٹکڑا جو آگ میں پڑ کر آگ کی شکل میں بن گیا ہے.ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ جلاتا ہے اور روشنی بھی دیتا ہے.مگر دراصل وہ صفات اس کی نہیں بلکہ آگ کی ہیں.اسی طرح تحقیق کی نظر سے یہ بھی سچ ہے کہ جس قدر اجرام فلکی و عناصر ارضی بلکہ ذرہ ذرہ عالم سفلی اور علوی کا مشہود اور محسوس ہے یہ سب باعتبار اپنی مختلف خاصیتوں کے جو اُن میں پائی جاتی ہیں خدا کے نام ہیں اور خدا کی صفات ہیں اور خدا کی طاقت ہے جو ان کے اندر پوشیدہ طور پر جلوہ گر ہے اور یہ سب ابتدا میں اس کے کلمے تھے جو اس کی قدرت نے ان کو مختلف رنگوں میں ظاہر کر دیا.نادان سوال کرے گا کہ خدا کے کلمے کیونکر مجسم ہوئے.کیا خدا ان کے علیحدہ ہونے سے کم ہو گیا.

Page 73

۶۸ جل شانہ و عزاسمہ مگر اس کو سوچنا چاہئے کہ آفتاب سے جو ایک آتشی شیشی آگ حاصل کرتی ہے وہ آگ کچھ آفتاب میں سے کم نہیں کرتی.ایسا ہی جو کچھ چاند کی تاثیر سے پھلوں میں فربہی آتی ہے وہ چاند کو بلا نہیں کر دیتی.یہی خدا کی معرفت کا ایک بھید اور تمام نظام روحانی کا مرکز ہے کہ خدا کے کلمات سے ہی دنیا کی پیدائش ہے.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۲۳، ۴۲۴) جب میں ان بڑے بڑے اجرام کو دیکھتا ہوں اور اُن کی عظمت اور عجائبات پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ صرف ارادہ الہی سے اور اس کے اشارہ سے ہی سب کچھ ہو گیا تو میری رُوح بے اختیار بول اُٹھتی ہے کہ اے ہمارے قادر خدا تو کیا ہی بزرگ قدرتوں والا ہے.تیرے کام کیسے عجیب اور وراء العقل ہیں.نادان ہے وہ جو تیری قدرتوں سے انکار کرے اور احمق ہے وہ جو تیری نسبت یہ اعتراض پیش کرے کہ اس نے ان چیزوں کو کس مادہ سے بنایا؟ (نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۲۵ حاشیه) خدا تعالیٰ جو ہمارا خدا کہلاتا ہے اُس کی خُدائی کی اصل حقیقت ہی یہی ہے کہ وہ ایک مبدء فیض وجود ہے جس کے ہاتھ سے سب وجودوں کا نمود ہے.اُسی سے اس کا استحقاق معبودیت پیدا ہوتا ہے اور اسی سے ہم بخوشی دل قبول کرتے ہیں کہ اس کا ہمارے بدن و دل و جان پر قبضہ استحقاقی قبضہ ہے.کیونکہ ہم کچھ بھی نہ تھے اسی نے ہم کو وجود بخشا.پس جس نے عدم سے ہمیں موجود کیا وہ کامل استحقاق سے ہمارا مالک ہے.شحنه حق.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۲۹،۴۲۸) اصل بات یہ ہے کہ خدا کی قدرت میں جو ایک خصوصیت ہے جس سے وہ خدا کہلاتا ہے وہ روحانی اور جسمانی قوتوں کے پیدا کرنے کی خاصیت ہے.مثلاً جانداروں کے جسم کو جو اوس نے آنکھیں عطا کی ہیں اس کام میں اوس کا اصل کمال یہ نہیں ہے کہ اُس نے یہ آنکھیں بنا ئیں بلکہ کمال یہ ہے کہ اُس نے ذرّات جسم میں پہلے سے یہ پوشیدہ طاقتیں پیدا

Page 74

۶۹ جل شانہ و عزاسمہ کر رکھی تھیں جن میں بینائی کا نور پیدا ہو سکے.پس اگر وہ طاقتیں خود بخود ہیں تو پھر خدا کچھ بھی چیز نہیں.کیونکہ بقول شخصے کہ گھی سنوارے سالنا بڑی بہو کا نام“.اس بینائی کو وہ طاقتیں پیدا کرتی ہیں خدا کو اس میں کچھ دخل نہیں اور اگر ذرات عالم میں وہ طاقتیں نہ ہوتیں تو خدائی بے کا ررہ جاتی.پس ظاہر ہے کہ خدائی کا تمام مدار اس پر ہے کہ اوس نے روحوں اور ذرات عالم کی تمام قوتیں خود پیدا کی ہیں اور کرتا ہے اور خود اُن میں طرح طرح کے خواص رکھے ہیں اور رکھتا ہے.پس وہی خواص جوڑنے کے وقت اپنا کرشمہ دکھلاتے ہیں.اور اسی وجہ سے خدا کے ساتھ کوئی موجد برابر نہیں ہوسکتا کیونکہ گوگوئی شخص ریل کا موجد ہو یا تار کا یا فوٹو گراف کا یا پریس کا یا کسی اور صنعت کا اس کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ ان قوتوں کا موجد نہیں جن قوتوں کے استعمال سے وہ کسی صنعت کو طیار کرتا ہے.بلکہ یہ تمام موجد بنی بنائی قوتوں سے کام لیتے ہیں جیسا کہ انجن چلانے میں بھاپ کی طاقتوں سے کام لیا جاتا ہے.پس فرق یہی ہے کہ خدا نے عصر وغیرہ میں یہ طاقتیں خود پیدا کی ہیں.مگر یہ لوگ خود طاقتیں اور قوتیں پیدا نہیں کر سکتے.پس جب تک خدا کو ذرات عالم اور ارواح کی تمام قوتوں کا موجد نہ ٹھہرایا جائے تب تک خدائی اُس کی ہر گز ثابت نہیں ہو سکتی اور اس صورت میں اس کا درجہ ایک معمار یا نجار یا حداد یا گلگو سے ہرگز زیادہ نہیں ہوگا.یہ ایک بدیہی بات ہے جورڈ کے قابل (نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۸۳، ۳۸۴) نہیں.ہم اپنے کامل ایمان اور پوری معرفت سے یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ اصول آریہ سماجیوں کا ہرگز درست نہیں کہ ارواح اور ذرات اپنی تمام قوتوں کے ساتھ قدیم اور ا نادی اور غیر مخلوق ہیں.اس سے تمام وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے جو خدا میں اور اوس کے بندوں میں ہے.یہ ایک نیا اور مکروہ مذہب ہے جو پنڈت دیا نند نے پیش کیا ہے.ہم نہیں جانتے کہ وید سے کہاں تک اس مذہب کا تعلق ہے لیکن ہم اس پر بحث کرتے ہیں کہ یہ اصول جو آریہ سماجیوں نے اپنے ہاتھ سے شائع کیا ہے یہ عقل سلیم کے نزدیک کامل معرفت اور کامل غور

Page 75

۷۰ جل شانہ و عزاسمہ اور کامل سوچ کے بعد ہرگز درست نہیں.سناتن دھرم کا اصول جو اس کے مقابل پر پڑا ہوا ہے اس کو اگر چہ ویدانت کے بے جا مبالغہ نے بدشکل کر دیا ہے اور ویدانتیوں کی افراط نے بہت سے اعتراضات کا موقعہ دے دیا ہے تاہم اس میں سچائی کی ایک چمک ہے.اگر اس عقیدے کو زوائد سے الگ کر دیا جائے تو ماحصل اس کا یہی ہوتا ہے کہ ہر ایک چیز پرمیشر کے ہی ہاتھ سے نکلی ہے.پس اس صورت میں تمام شبہات دور ہو جاتے ہیں اور ماننا پڑتا ہے کہ بموجب اصول سناتن دھرم کے وید کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ یہ تمام ارواح اور ذرات اجسام اور ان کی قوتیں اور طاقتیں اور گن اور خاصیتیں خدا کی طرف سے ہیں.نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۸۷) قرآن شریف نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ انسان مع اپنی رُوح اور تمام قوتوں اور ذرہ ذرہ وجود کے خدا کی مخلوق ہے.جس کو اُس نے پیدا کیا.لہذا قرآن شریف کی تعلیم کی رُو سے ہم خدا تعالیٰ کے خالص ملک ہیں اور اُس پر ہمارا کوئی بھی حق نہیں ہے جس کا ہم اُس سے مطالبہ کریں.یا جس کے ادا نہ کرنے کی وجہ سے وہ ملزم ٹھہر سکے.اس لئے ہم اپنے مقابل پر خدا کا نام منصف نہیں رکھ سکتے بلکہ ہم بالکل تہی دست ہونے کی وجہ سے اُس کا نام رحیم رکھتے ہیں.غرض منصف کہنے کے اندر یہ شرارت مخفی ہے کہ گویا ہم اس کے مقابل پر کوئی حقوق رکھتے ہیں اور اُس حق کے ادا نہ کرنے کی صورت میں اس کو حق تلفی کی طرف منسوب کر سکتے ہیں.لیکن قرآن شریف نے وید کی طرح بے وجہ اور محض زبردستی کے طور پر اللہ جلت (چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۶) شانہ کو تمام ارواح اور ہر ایک ذرہ ذرہ اجسام کا مالک نہیں ٹھہرایا.بلکہ اُس کی ایک وجہ بیان کی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرا ۳ ( ترجمہ ) یعنی زمین اور آسمان اور جو کچھ اُن میں ہے سب خدا تعالیٰ کی الحديد : ٣ ٣ الفرقان : ٣

Page 76

اے جل شانہ و عزاسمہ ملکیت ہے کیونکہ وہ سب چیزیں اسی نے پیدا کی ہیں اور پھر ہر ایک مخلوق کی طاقت اور کام کی ایک حد مقرر کر دی ہے تا محدود چیزیں ایک محدو پر دلالت کریں جو خدا تعالیٰ ہے.سو ہم دیکھتے ہیں کہ جیسا کہ اجسام اپنے اپنے حدود میں مقید ہیں اور اس حد سے باہر نہیں ہو سکتے.اسی طرح ارواح بھی مقید ہیں اور اپنی مقررہ طاقتوں سے زیادہ کوئی طاقت پیدا نہیں کر سکتے.اب پہلے ہم اجسام کے محدود ہونے کے بارہ میں بعض مثالیں پیش کرتے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ مثلاً چاند ایک مہینہ میں اپنا دورہ ختم کر لیتا ہے یعنی انتیس ۲۹ یا تیں ۰ ۳ دن تک مگر سورج تین سو چوسٹھ دن میں اپنے دورہ کو پورا کرتا ہے.اور سورج کو یہ طاقت نہیں ہے کہ اپنے دورہ کو اس قدر کم کر دے جیسا کہ چاند کے دورہ کا مقدار ہے.اور نہ چاند کی یہ طاقت ہے کہ اس قدر اپنے دورہ کے دن بڑھا دے کہ جس قدر سورج کے لئے دن مقرر ہیں.اور اگر تمام دنیا اس بات کے لئے اتفاق بھی کر لے کہ ان دونوں نیر وں کے دوروں میں کچھ کمی بیشی کر دیں تو یہ ہرگز اُن کے لئے ممکن نہیں ہوگا اور نہ خود سورج اور چاند میں یہ طاقت ہے کہ اپنے اپنے دوروں میں کچھ تغیر ، تبدل کر ڈالیں.پس وہ ذات جس نے ان ستاروں کو اپنی اپنی حد پر ٹھہرا رکھا ہے.یعنی جوان کا محمد داور حد باندھنے والا ہے وہی خدا ہے.ایسا ہی انسان کے جسم اور ہاتھی کے جسم میں بڑا فرق ہے.اگر تمام ڈاکٹر اس بات کے لئے اکٹھے ہوں کہ انسان اپنی جسمانی طاقتوں اور جسم کی ضخامت میں ہاتھی کے برابر ہو جاوے تو یہ اُن کے لئے غیر ممکن ہے.اور اگر یہ چاہیں کہ ہاتھی محض انسان کے قد تک محدود ہے تو یہ بھی اُن کے لئے غیر ممکن ہے.پس اس جگہ بھی ایک تحدید ہے یعنی حد باندھنا.جیسا کہ سورج اور چاند میں ایک تحدید ہے اور وہی تحدید ایک محمد دیعنی حد باندھنے والے پر دلالت کرتی ہے یعنی اس ذات پر دلالت کرتی ہے جس نے ہاتھی کو وہ مقدار بخشا اور انسان کے لئے وہ مقدار مقرر کیا.اور اگر غور کر کے دیکھا جائے تو ان تمام جسمانی چیزوں میں عجیب طور سے خدا تعالیٰ کا ایک پوشیدہ تصرف نظر

Page 77

۷۲ جل شانہ و عزاسمہ آتا ہے اور عجیب طور پر اس کی حد بندی مشاہدہ ہوتی ہے.ان کیڑوں کی مقدار سے لے کر جو بغیر دور بین کے دکھائی نہیں دے سکتے ان بڑی بڑی مچھلیوں کی مقدار تک جو ایک بڑے جہاز کو بھی چھوٹے سے لقمہ کی طرح نگل سکتی ہیں حیوانی اجسام میں ایک عجیب نظارہ حد بندی کا نظر آتا ہے.کوئی جانور اپنے جسم کی رُو سے اپنی حد سے باہر نہیں جاسکتا ایسا ہی وہ تمام ستارے جو آسمان پر نظر آتے ہیں اپنی اپنی حد سے باہر نہیں جا سکتے.پس یہ حد بندی دلالت کر رہی ہے کہ در پردہ کوئی حد باندھنے والا ہے.یہی معنی اس مذکورہ بالا آیت کے ہیں کہ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا.اب واضح ہو کہ جیسا کہ یہ حد بندی اجسام میں پائی جاتی ہے.ایسا ہی یہ حد بندی ارواح میں بھی ثابت ہے.تم سمجھ سکتے ہو کہ جس قدر انسانی روح اپنے کمالات ظاہر کر سکتا ہے.یا یوں کہو کہ جس قدر کمالات کی طرف ترقی کر سکتا ہے وہ کمالات ایک ہاتھی کی روح کو با وجود ضخیم اور جسیم ہونے کے حاصل نہیں ہو سکتے.اسی طرح ہر ایک حیوان کی رُوح بلحاظ اپنی قوتوں اور طاقتوں کے اپنے نوع کے دائرہ کے اندر محدود ہے اور وہی کمالات حاصل کر سکتے ہیں کہ جو اس کے نوع کے لئے مقرر اور مقدر ہیں.پس جس طرح اجسام کی حد بندی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اُن کا کوئی حد باندھنے والا اور خالق ہے اسی طرح ارواح کی طاقتوں کی حد بندی اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ ان کا بھی کوئی خالق اور حد باندھنے والا ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۷ تا ۱۹) اگر دل میں یہ وہم گذرتا ہو کہ خدا نے مختلف طبائع کیوں پیدا کیں اور کیوں سب کو ایسی قوتیں عنایت نہ فرمائیں جن سے وہ معرفتِ کاملہ اور محبت کاملہ کے درجہ تک پہنچ جاتے.تو یہ سوال بھی خدا کے کاموں میں ایک فضول دخل ہے جو ہرگز جائز نہیں.ہر یک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ تمام مخلوقات کو ایک ہی درجہ پر رکھنا اور سب کو اعلی کمالات کی قوتیں بخشنا الفرقان : ۳

Page 78

۷۳ جل شانہ و عزاسمہ خدا پر حق واجب نہیں.یہ تو صرف اس کا فضل ہے.اسے اختیار ہے جس پر چاہے کرے اور جس پر چاہے نہ کرے.مثلاً تم کو خدا نے آدمی بنایا اور گدھے کو آدمی نہ بنایا.تم کو عقل دی اور اس کو نہ دی یا تمہارے لئے علم حاصل ہوا اور اس کو نہ ہوا.یہ سب مالک کی مرضی کی بات ہے کوئی ایسا حق نہیں کہ تمہارا تھا اور اُس کا نہ تھا.غرض جس حالت میں خدا کی مخلوقات میں صریح تفاوت مراتب پایا جاتا ہے جس کے تسلیم کرنے سے کسی عاقل کو چارہ نہیں تو کیا مالک با اختیار کے سامنے ایسی مخلوقات جن کا موجود ہونے میں بھی کوئی حق نہیں چہ جائیکہ بڑا بنے میں کوئی حق ہو کچھ دم مارسکتی ہے.خدائے تعالیٰ کا بندوں کو خلعت وجود بخشنا ایک عطا اور احسان ہے اور ظاہر ہے کہ معطی وحسن اپنی عطا اور احسان میں کمی بیشی کا اختیار رکھتا ہے اور اگر اس کو کم دینے کا اختیار نہ ہو تو پھر زیادہ دینے کا بھی اختیار نہ ہو.تو اس صورت میں وہ مالکانہ اختیارات کے نافذ کرنے سے بالکل قاصر رہ جائے اور خود ظاہر ہے کہ اگر مخلوق کا خالق پر خواہ نخواہ کوئی حق قرار دیا جائے تو اس سے تسلسل لازم آتا ہے کیونکہ جس درجہ پر خالق کسی مخلوق کو بنائے گا اسی درجہ پر وہ مخلوق کہہ سکتا ہے کہ میر احق اس سے زیادہ ہے.اور چونکہ خدائے تعالیٰ غیر متناہی مراتب پر بنا سکتا ہے.اور اس کی لا انتہا قدرت کے آگے صرف آدمی بنانے پر فضیلت پیدائش ختم نہیں تو اس صورت میں سلسلۂ سوالات مخلوق کبھی ختم نہ ہوگا اور ہر یک مرتبہ پیدائش پر الی غیر النھایت اس کو اپنے حق کے مطالبہ کا استحقاق حاصل ہوگا اور یہی تسلسل ہے.ہاں اگر یہ جستجو ہے کہ اس تفاوت مراتب رکھنے میں حکمت کیا ہے توسمجھنا چاہئے کہ اس بارہ میں قرآن شریف نے تین حکمتیں بیان فرمائی ہیں.جو عند العقل نہایت بدیہی اور روشن ہیں جن سے کوئی عاقل انکار نہیں کر سکتا.اور وہ یہ تفصیل ذیل ہیں.اول یہ کہ تا مہمات دنیا یعنی امور معاشرت با حسن وجہ صورت پذیر ہوں جیسا فرمایا ہے.وَقَالُوا لَوْلَا نُزِلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ أَهُمْ

Page 79

۷۴ جل شانہ و عزاسمہ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمُنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبَّكَ خَيْرٌ مِّهَا يَجْمَعُونَ - الجزو نمبر ۲۵.یعنی کفار کہتے ہیں کہ یہ قرآن مکہ اور طائف کے بڑے بڑے مال داروں اور رئیسوں میں سے کسی بھاری رئیس اور دولتمند پر کیوں نازل نہ ہوا تا اس کی رئیسانہ شان کے شایان ہوتا.اور نیز اس کے رعب اور سیاست اور مال خرچ کرنے سے جلد تر دین پھیل جاتا.ایک غریب آدمی جس کے پاس دنیا کی جائیداد میں سے کچھ بھی نہیں کیوں اس عہدہ سے ممتاز کیا گیا؟ ( پھر آگے بطور جواب فرمایا ) آهُمْ يَقْسِمُونَ رحمت ربك.کیا قسام ازل کی رحمتوں کا تقسیم کرنا ان کا اختیار ہے یعنی یہ خداوند حکیم مطلق کا فعل ہے کہ بعضوں کی استعدادیں اور ہمتیں پست رکھیں اور وہ زخارف دنیا میں پھنسے رہے.اور رئیس اور امیر اور دولتمند کہلانے پر پھولتے رہے اور اصل مقصود کو بھول گئے اور بعض کو فضائل روحانیت اور کمالات قدسیہ عنایت فرمائے اور وہ اس محبوب حقیقی کی محبت میں محو ہو کر مقرب بن گئے اور مقبولانِ حضرت احدیت ہو گئے.( پھر بعد اس کے اس حکمت کی طرف اشارہ فرمایا کہ جو اس اختلاف استعدادات اور تباین خیالات میں مخفی ہے ) تخرج قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ الخ.یعنی ہم نے اس لئے بعض کو دولتمند اور بعض کو درویش اور بعض کو لطیف طبع اور بعض کو کثیف طبع اور بعض طبیعتوں کو کسی پیشہ کی طرف مائل اور بعض کو کسی پیشہ کی طرف مائل رکھا ہے تا اُن کو یہ آسانی پیدا ہو جائے کہ بعض کے لئے بعض کار برار اور خادم ہوں اور صرف ایک پر بھار نہ پڑے.اور اس طور پر مہمات بنی آدم بآسانی تمام چلتے رہیں.اور پھر فرمایا کہ اس سلسلہ میں دنیا کے مال و متاع کی نسبت خدا کی کتاب کا وجود زیادہ تر نفع رساں ہے.یہ ایک لطیف اشارہ ہے جو ضرورتِ الہام کی طرف فرمایا.تفصیل اس کی یہ ہے کہ انسان مدنی الطبع ہے اور بجز ایک دوسرے کی مدد کے کوئی امراس کا الزخرف : ۳۲، ۳۳

Page 80

۷۵ جل شانہ و عزاسمہ انجام پذیر نہیں ہوسکتا.مثلاً ایک روٹی کو دیکھئے جس پر زندگانی کا مدار ہے.اس کے طیار ہونے کے لئے کس قدر تمدن و تعاون درکار ہے.زراعت کے تر ڈر سے لے کر اس وقت تک کہ روٹی پک کر کھانے کے لائق ہو جائے بیبیوں پیشہ وروں کی اعانت کی ضرورت ہے.پس اس سے ظاہر ہے کہ عام امور معاشرت میں کس قدر تعاون اور باہمی مدد کی ضرورت ہوگی.اسی ضرورت کے انصرام کے لئے حکیم مطلق نے بنی آدم کو مختلف طبیعتوں اور استعدادوں پر پیدا کیا تاہر ایک شخص اپنی استعداد اور میل طبع کے موافق کسی کام میں بہ طبیب خاطر مصروف ہو کوئی کھیتی کرے.کوئی آلات زراعت بناوے.کوئی آٹا پیسے.کوئی پانی لاوے.کوئی روٹی پکا وے کوئی سوت کاتے.کوئی کپڑا بنے.کوئی دوکان کھولے.کوئی تجارت کا اسباب لاوے.کوئی نوکری کرے اور اس طرح پر ایک دوسرے کے معاون بن جائیں.اور بعض کو بعض مدد پہنچاتے رہیں.پس جب ایک دوسرے کی معاونت ضروری ہوئی تو ان کا ایک دوسرے سے معاملہ پڑنا بھی ضروری ہو گیا.اور جب معاملہ اور معاوضہ میں پڑ گئے اور اس پر غفلت بھی جو استغراق امور دنیا کا خاصہ ہے عائد حال ہو گئی تو اُن کے لئے ایک ایسے قانونِ عدل کی ضرورت پڑی جو اُن کو ظلم اور تعدی اور بغض اور فساد اور غفلت من اللہ سے روکتا رہے تا نظام عالم میں ابتری واقع نہ ہو.کیونکہ معاش و معاد کا تمام مدارانصاف اور خداشناسی پر ہے.اور التزام انصاف و خدا ترسی ایک قانون پر موقوف ہے جس میں دقائق معدلت وحقائق معرفت الہی بدرستی تمام درج ہوں اور سہواً یا عمداً کسی نوع کا ظلم یا کسی نوع کی غلطی نہ پائی جاوے.اور ایسا قانون اسی کی طرف سے صادر ہوسکتا ہے جس کی ذات سہو و خطا و ظلم و تعدی سے بکی پاک ہو.اور نیز اپنی ذات میں واجب الانقیاد اور واجب التعظیم بھی ہو.کیونکہ گو کوئی قانون عمدہ ہو مگر قانون کا جاری کرنے والا اگر ایسا نہ ہو جس کو باعتبار مرتبہ اپنے کے سب پر فوقیت اور حکمرانی کا حق ہو یا اگر ایسا نہ ہو جس کا وجود لوگوں کی نظر میں ہر یک طور کے ظلم و خبث اور خطا اور غلطی سے پاک ہو تو ایسا قانون اول تو

Page 81

2Y جل شانہ و عزاسمہ چل ہی نہیں سکتا.اور اگر کچھ دن چلے بھی تو چند ہی روز میں طرح طرح کے مفاسد پیدا ہو جاتے ہیں.اور بجائے خیر کے شر کا موجب ہو جاتا ہے.ان تمام وجوہ سے کتاب الہی کی حاجت ہوئی کیونکہ ساری نیک صفتیں اور ہر ایک طور کی کمالیت و خوبی صرف خدا ہی کی کتاب میں پائی جاتی ہے وبس.دوم حکمت تفاوت مراتب رکھنے میں یہ ہے کہ تا نیک اور پاک لوگوں کی خوبی ظاہر ہو.کیونکہ ہر ایک خوبی مقابلہ ہی سے معلوم ہوتی ہے.جیسے فرمایا ہے إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا - الجزو نمبر ۱۵.یعنی ہم نے ہر یک چیز کو جو زمین پر ہے زمین کی زینت بنادیا ہے.تا جولوگ صالح آدمی ہیں بمقابلہ بڑے آدمیوں کے اُن کی صلاحیت آشکارا ہو جائے.اور کثیف کے دیکھنے سے لطیف کی لطافت کھل جائے.کیونکہ ضد کی حقیقت ضد ہی سے شناخت کی جاتی ہے اور نیکوں کا قدر و منزلت بدوں ہی سے معلوم ہوتا ہے.سوم حکمت تفاوت مراتب رکھنے میں انواع و اقسام کی قدرتوں کا ظاہر کرنا.اور اپنی عظمت کی طرف توجہ دلانا ہے.جیسا فرما یا ما لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا - وَقَدْ خَلَقَكُمْ أطوارا.لتا نمبر ۲۹.یعنی تم کو کیا ہو گیا کہ تم خدا کی عظمت کے قائل نہیں ہوتے.حالانکہ اُس نے اپنی عظمت ظاہر کرنے کے لئے تم کو مختلف صورتوں اور سیرتوں پر پیدا کیا یعنی اختلاف استعدادات و طبائع اسی غرض سے حکیم مطلق نے کیا تا اُس کی عظمت و قدرت شناخت کی جائے.جیسا دوسری جگہ بھی فرمایا ہے.وَاللهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِّن مَّاءٍ فَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَى بَطْنِهِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَى رِجْلَيْنِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَى أَرْبَعٍ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قدير لنا الجز نمبر ۱۸.یعنی خدا نے ہر یک جاندار کو پانی سے پیدا کیا.سو بعض جاندار پیٹ پر چلتے ہیں اور بعض دو پانوں پر.بعض چار الكهف : انوح: ۱۵،۱۴ ۳ النور ۴۶

Page 82

LL جل شانہ و عزاسمہ پائوں پر.خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے.خدا ہر چیز پر قادر ہے.یہ بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا نے یہ مختلف چیزیں اس لئے بنا ئیں کہ تا مختلف قدرتیں اس کی ظاہر ہوں.غرض اختلاف طبائع جو فطرت مخلوقات میں واقع ہے اس میں حکمتِ الہیہ انہیں امور ثلاثہ میں منحصر ہے جن کو خدائے تعالیٰ نے آیات ممدوحہ میں بیان کر دیا.فتدبر.براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۰۳ تا ۲۰۷ حاشیہ نمبر ۱۱) پنڈت دیا نند کی ستیارتھ پر کاش اردو کے صفحہ ۵۰۱ میں لکھا ہے کہ پرمیشر کسی کا گناہ بخش نہیں سکتا ایسا کرے تو بے انصاف ٹھہرتا ہے پس اس نے مان لیا ہے کہ پر میشر محض ایک حج کی طرح ہے مالکانہ حیثیت اس کو حاصل نہیں.ایسا ہی پنڈت دیانند نے اپنی کتاب ترجمہ شدہ کے صفحہ ۵۰۱ میں لکھا ہے کہ پر میشر محدود افعال کا ثمرہ غیر محدود نہیں دے سکتا پس ظاہر ہے کہ اگر وہ مالکانہ اختیار رکھتا ہے تو محمد ود خدمت کے عوض میں غیر محدو دشمرہ دینے میں اس کا کیا حرج ہے کیونکہ مالک کے کاموں کے ساتھ انصاف کو کچھ تعلق نہیں.ہم بھی اگر کسی مال کے مالک ہو کر سوالیوں کو کچھ دینا چاہیں تو کسی سوالی کا حق نہیں کہ یہ شکایت کرے کہ فلاں شخص کو زیادہ دیا اور مجھے کم دیا.اسی طرح کسی بندہ کا خدا تعالیٰ کے مقابل پر حق نہیں کہ اس سے انصاف کا مطالبہ کرے.کیونکہ جس حالت میں جو کچھ بندہ کا ہے وہ سب کچھ خدا کا ہے.تو نہ تو یہ بندہ کا حق ہے کہ انصاف کی رو سے اس سے فیصلہ چاہے اور نہ خدا کی یہ شان ہے کہ اپنی مخلوق کا یہ مرتبہ تسلیم کر لے کہ وہ لوگ اس سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے لئے مجاز ہیں.پس در حقیقت جو کچھ خدا تعالیٰ بندہ کو اس کی اعمال کی جزائیں دیتا ہے وہ اس کا محض انعام اکرام ہے ورنہ اعمال کچھ چیز نہیں بغیر خدا کی تائید اور فضل کے اعمال کب ہو سکتے ہیں.پھر ماسوا اس کے جب ہم خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ اپنے بندوں کے لئے مہیا کیا ہے یا کرتا ہے وہ دو قسم کی بخشش ہے.

Page 83

ZA جل شانہ و عزاسمہ ایک تو اس کے وہ انعام اکرام ہیں جو انسانوں کے وجود سے بھی پہلے ہیں اور ایک ذرہ انسانوں کے عمل کا اُن میں دخل نہیں جیسا کہ اوس نے انسانوں کے آرام کے لئے سورج چاند ستارے زمین پانی ہوا آگ وغیرہ چیزیں پیدا کی ہیں اور کچھ شک نہیں کہ ان چیزوں کو انسانوں کے وجود اور اُن کے عملوں پر تقدم ہے اور انسان کا وجود اُن کے وجود کے بعد ہے.یہ خدا تعالیٰ کی وہ رحمت کی قسم ہے جس کو قرآنی اصطلاح کی رو سے رحمانیت کہتے ہیں.یعنی ایسی جود وعطا جو بندہ کے اعمال کی پاداش میں نہیں بلکہ محض فضل کی راہ سے ہے.دوسری قسم رحمت کی وہ ہے جس کو قرآنی اصطلاح میں رحیمیت کہتے ہیں یعنے وہ انعام اکرام جو بنام نہاد پاداش اعمال حسنہ انسان کو عطا ہوتا ہے.پس جس خدا نے اپنی فیاضانہ مالکیت کا وہ نمونہ دکھلایا کہ عاجز بندوں کے لئے زمین و آسمان اور چاند سورج وغیرہ بنا دیے اس وقت میں جبکہ بندوں اور اُن کے اعمال کا نام ونشان نہ تھا کیا اس کی نسبت یہ گمان کر سکتے ہیں کہ وہ بندوں کا مدیون ہو کر صرف اُن کے حقوق ادا کرتا ہے اس سے بڑھ کر نہیں ؟ کیا بندوں کا کوئی حق تھا کہ وہ اُن کے لئے زمین و آسمان بناتا اور ہزاروں چمکتے ہوئے اجرام آسمان پر اور ہزار ہا آرام اور راحت کی چیزیں زمین پر مہیا کرتا.پس اُس فیاض مطلق کو محض ایک حج کی طرح فقط انصاف کرنے والا قرار دینا اور اس کے مالکانہ مرتبہ اور شان سے انکار کرنا کس قدر کفرانِ نعمت ہے.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۶ تا ۲۸) یادر ہے کہ مالک ایک ایسا لفظ ہے جس کے مقابل پر تمام حقوق مسلوب ہو جاتے ہیں.اور کامل طور پر اطلاق اس لفظ کا صرف خدا پر ہی آتا ہے کیونکہ کامل مالک وہی ہے جو شخص کسی کو اپنی جان وغیرہ کا مالک ٹھہراتا ہے تو وہ اقرار کرتا ہے کہ اپنی جان اور مال وغیرہ پر میرا کوئی حق نہیں اور میرا کچھ بھی نہیں سب مالک کا ہے اس صورت میں اپنے مالک کو یہ کہنا اس کے لئے ناجائز ہو جاتا ہے کہ فلاں مالی یا جانی معاملہ میں میرے ساتھ انصاف کر

Page 84

۷۹ جل شانہ و عزاسمہ کیونکہ انصاف حق کو چاہتا ہے اور وہ اپنے حقوق سے دستبردار ہو چکا ہے.اسی طرح انسان نے جو اپنے مالک حقیقی کے مقابل پر اپنا نام بندہ رکھا یا اور اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ.کا اقرار کیا.یعنی ہمارا مال ، جان، بدن ، اولا دسب خدا کی ملک ہے تو اس اقرار کے بعد اس کا کوئی حق نہ رہا جس کا وہ خدا سے مطالبہ کرے اسی وجہ سے وہ لوگ جو درحقیقت عارف ہیں باوجود صدہا مجاہدات اور عبادات اور خیرات کے اپنے تئیں خدا تعالیٰ کے رحم پر چھوڑتے ہیں اور اپنے اعمال کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتے اور کوئی دعوی نہیں کرتے کہ ہمارا کوئی حق ہے یا ہم کوئی حق بجالائے ہیں کیونکہ در حقیقت نیک وہی ہے جس کی توفیق سے کوئی انسان نیکی کر سکتا ہے اور وہ صرف خدا ہے.پس انسان کسی اپنی ذاتی لیاقت اور ہنر کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے انصاف کا مطالبہ ہر گز نہیں کر سکتا.قرآن شریف کی رو سے خدا کے کام سب مالکانہ ہیں جس طرح کبھی وہ گناہ کی سزا دیتا ہے.ایسا ہی وہ کبھی گناہ کو بخش بھی دیتا ہے.یعنی دونوں پہلوؤں پر اس کی قدرت نافذ ہے.جیسا کہ مقتضائے مالکیت ہونا چاہئے اور اگر وہ ہمیشہ گناہ کی سزا دے تو پھر انسان کا کیا ٹھکانہ ہے بلکہ اکثر وہ گناہ بخش دیتا ہے اور تنبیہ کی غرض سے کسی گناہ کی سزا بھی دیتا ہے تا غافل انسان متنبہ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہو جیسا کہ قرآن شریف میں یہ آیت ہے.وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عن كثير لتا دیکھو سورۃ الشوریٰ ( ترجمہ ) اور جو کچھ تمہیں کچھ مصیبت پہنچتی ہے پس تمہاری كَثِيرٍ بداعمالی کے سبب سے ہے اور خدا بہت سے گناہ بخش دیتا ہے اور کسی گناہ کی سزا دیتا ہے.اور پھر اسی سورۃ میں یہ آیت بھی ہے وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُوا عَنِ السیات لایعنی تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی بدیاں اُن کو معاف کر دیتا ہے.کسی کو یہ دھوکا نہ لگے کہ قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے.وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ لا یعنی جو شخص ایک ذرہ بھی شرارت کرے گا وہ اس کی سزا البقره: ۱۵۷ تا الشوری: ۳۱ تا الشورای : ۲۶ تنقا الزلزال : ۹

Page 85

۸۰ جل شانہ و عزاسمہ پائے گا.پس یادر ہے کہ اس میں اور دوسری آیات میں کچھ تناقض نہیں.کیونکہ اس شر سے وہ شتر مراد ہے جس پر انسان اصرار کرے اور اس کے ارتکاب سے باز نہ آوے اور تو بہ نہ کرے.اسی غرض سے اس جگہ شر کا لفظ استعمال کیا ہے.نہ ذنب کا تا معلوم ہو کہ اس جگہ کوئی شرارت کا فعل مراد ہے جس سے شریر آدمی باز آنا نہیں چاہتا.ورنہ سارا قرآن شریف اس بارہ میں بھرا پڑا ہے کہ ندامت اور تو بہ اور ترک اصرار اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں.بلکہ خدا تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے.جیسا کہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ لا یعنی تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے اور نیز ان لوگوں سے پیار کرتا ہے کہ جو اس بات پر زور لگاتے ہیں کہ کسی طرح گناہ سے پاک ہو جائیں.غرض ہر ایک بدی کی سزا دینا خدا کے اخلاق عفو اور درگذر کے برخلاف ہے کیونکہ وہ مالک ہے نہ صرف ایک مجسٹریٹ کی طرح جیسا کہ اُس نے قرآن شریف کی پہلی سورۃ میں ہی اپنا نام مالک رکھا ہے.اور فرمایا کہ ملِكِ يَوْمِ الدین لا یعنی خدا جزا سزا دینے کا مالک ہے.اور ظاہر ہے کہ کوئی مالک مالک نہیں کہلا سکتا جب تک دونوں پہلوؤں پر اس کو اختیار نہ ہو.یعنی چاہے تو پکڑے اور چاہے تو چھوڑ دے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳، ۲۴) پھر ہم اصل بحث کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ آریوں کے اصول کی رُو سے اُن کے پرمیشر کا نام مالک ٹھہر نہیں سکتا کیونکہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ قدرت نہیں رکھتا کہ بغیر کسی کے حق واجب کے اس کو بطور ا کرام انعام کچھ دے سکے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو شخص کسی مال کا مالک ہوتا ہے وہ اختیار رکھتا ہے کہ جس قدر اپنے پاس سے چاہے کسی کو دے دے.مگر پر میشر کی نسبت آریوں کا یہ اصول ہے کہ نہ وہ گناہ بخش سکتا ہے اور نہ جو دو عطا کے طور پر کسی کو وہ کچھ دے سکتا ہے اور اگر وہ ایسا کرے تو اس سے بے انصافی لازم البقرة : ۲۲۳ ٣ الفاتحة : ۴

Page 86

ΔΙ جل شانہ و عزاسمہ آتی ہے.لہذا تناسخ کے ماننے والے کسی طرح کہہ نہیں سکتے کہ پر میشر مخلوقات کا مالک ہے.یہ تو ہم کئی دفعہ لکھ چکے ہیں کہ مالک کی نسبت انصاف کی پابندی کی شرط لگانا بالکل بے جا ہے.ہاں ہم مالک کی صفاتِ حسنہ میں سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ رحیم ہے وہ جواد ہے وہ فیاض ہے وہ گنہ بخشنے والا ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے زرخرید غلاموں اور گھوڑوں اور گائیوں کی نسبت منصف مزاج ہے کیونکہ انصاف کا لفظ وہاں بولا جاتا ہے جبکہ دونوں طرف ایک قسم کی آزادی حاصل ہو مثلاً ہم مجازی سلاطین کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ وہ منصف ہیں اور رعایا کے ساتھ انصاف کا سلوک کرتے ہیں اور جب تک رعا یا اُن کی اطاعت کرے اُن پر بھی انصاف کا قانون یہ واجب کرتا ہے کہ وہ بھی رعایا کی اطاعت اور خراج گذاری کے عوض میں اُن کے مال و جان کی پوری نگہبانی کریں اور ضرورتوں کے وقت اپنے مال میں سے اُن کی مدد کریں.پس ایک پہلو سے سلاطین رعایا پر حکم چلاتے ہیں اور دوسرے پہلو سے رعیت سلاطین پر حکم چلاتی ہے.اور جب تک یہ دونوں پہلو اعتدال سے چلتے ہیں تب تک اس ملک میں امن رہتا ہے اور جب کوئی بے اعتدالی رعایا کی طرف سے یا بادشاہوں کی طرف سے ظہور میں آتی ہے تبھی ملک میں سے امن اُٹھ جاتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ ہم بادشاہوں کو حقیقی طور پر مالک نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کو رعایا کے ساتھ اور رعایا کو اُن کے ساتھ انصاف کا پابند رہنا پڑتا ہے.مگر ہم خدا کو اُس کی مالکیت کے لحاظ سے رحیم تو کہہ سکتے ہیں مگر منصف نہیں کہہ سکتے.کوئی شخص مملوک ہوکر مالک سے انصاف کا مطالبہ نہیں کر سکتا.ہاں تضرع اور انکسار سے رحم کی درخواست کر سکتا ہے.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے تمام قرآن شریف میں اپنا نام منصف نہیں رکھا کیونکہ انصاف دوطرفہ برابری اور مساوات کو چاہتا ہے.ہاں اس طرح پر خدا تعالیٰ منصف ہے کہ بندوں کے باہمی حقوق میں انصاف کرتا ہے لیکن اس طرح منصف نہیں کہ کوئی بندہ شریک کی طرح اس سے کوئی حق طلب کر سکے کہ کیونکہ بندہ خدا کی ملک ہے اور اس کو اختیار ہے کہ اپنی ملک کے ساتھ

Page 87

۸۲ جل شانہ و عزاسمہ جس طرح چاہے معاملہ کرے.جس کو چاہے بادشاہ بنا وے.اور جس کو چاہے فقیر بنا وے.اور جس کو چاہے چھوٹی عمر میں وفات دے اور جس کو چاہے لمبی عمر عطا کرے.اور ہم بھی تو جب کسی مال کے مالک ہوتے ہیں تو اس کی نسبت پوری آزادی رکھتے ہیں ہاں خدا رحیم ہے بلکہ اَرْحَمُ الرَّاحِمِین ہے وہ اپنے رحم کے تقاضا سے نہ کسی انصاف کی پابندی سے اپنی مخلوقات کی پرورش کرتا ہے.کیونکہ ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ مالک کا مفہوم منصف کے مفہوم سے بالکل ضد پڑا ہوا ہے.جبکہ ہم اس کے پیدا کردہ ہیں تو ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہم اس سے انصاف کا مطالبہ کریں.ہاں نہایت عاجزی سے اس کے رحم کی ضرور درخواست کرتے ہیں اور اس بندہ کی نہایت بدذاتی ہے جو خدا سے اُس کے کاروبار کے متعلق جو اس بندہ کی نسبت خدا تعالیٰ کرتا ہے انصاف کا مطالبہ کرے.جبکہ انسانی فطرت کا سب تار و پود خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور تمام قومی روحانی جسمانی اُسی کی عطا کردہ ہیں اور اُسی کی توفیق اور تائید سے ہر ایک اچھا عمل ظہور میں آ سکتا ہے تو اپنے اعمال پر بھروسہ کر کے اُس سے انصاف کا مطالبہ کرنا سخت بے ایمانی اور جہالت ہے.اور ایسی تعلیم کو ہم وڈیا کی تعلیم نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ تعلیم بچے گیان سے بالکل محروم اور سراسر حماقت سے بھری ہوئی تعلیم ہے سو ہمیں خدا تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں جو قرآن شریف ہے یہی سکھایا ہے کہ بندہ کے مقابل پر خدا کا نام منصف رکھنا نہ صرف گناہ بلکہ کفر صریح ہے.(چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۲ تا ۳۴) یہ وسوسہ کہ عدل اور رحم دونوں خدا تعالیٰ کی ذات میں جمع نہیں ہو سکتے کیونکہ عدل کا تقاضا ہے کہ سزادی جائے اور رحم کا تقاضا ہے کہ در گذر کی جائے یہ ایک ایسا دھوکا ہے کہ جس میں قلتِ تدبر سے کو نہ اندیش عیسائی گرفتار ہیں.وہ غور نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ کا عدل بھی تو ایک رحم ہے.وجہ یہ کہ وہ سراسر انسانوں کے فائدہ کے لئے ہے.مثلاً اگر خدا تعالیٰ ایک خونی کی نسبت باعتبار اپنے عدل کے حکم فرماتا ہے کہ وہ مارا جائے.تو اس سے اس کی

Page 88

۸۳ جل شانہ و عزاسمہ الوہیت کو کچھ فائدہ نہیں بلکہ اس لئے چاہتا ہے کہ تا نوع انسان ایک دوسرے کو مار کرنا بودنہ ہو جائیں سو یہ نوع انسان کے حق میں رحم ہے اور یہ تمام حقوق عباد خدا تعالیٰ نے اسی لئے قائم کئے ہیں کہ تا امن قائم رہے اور ایک گروہ دوسرے گروہ پر ظلم کر کے دنیا میں فساد نہ ڈالیں.سو وہ تمام حقوق اور سزائیں جو مال اور جان اور آبرو کے متعلق ہیں در حقیقت نوع انسان کے لئے ایک رحم ہے...پس عدل اور رحم میں کوئی جھگڑا نہیں گویا وہ دو ۲ نہریں ہیں جوا اپنی اپنی جگہ پر چل رہی ہیں.ایک نہر دوسرے کی ہرگز مزاحم نہیں ہے.دنیا کی سلطنتوں میں بھی یہی دیکھتے ہیں کہ جرائم پیشہ کو سزا ملتی ہے لیکن جو لوگ اچھے کاموں سے گورنمنٹ کو خوش کرتے ہیں وہ مورد انعام واکرام ہو جاتے ہیں.یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی اصل صفت رحم ہے اور عدل عقل اور قانون عطا کرنے کے بعد پیدا ہوتا ہے اور حقیقت میں وہ بھی ایک رحم ہے جو اور رنگ میں ظاہر ہوتا ہے.جب کسی انسان کو عقل عطا ہوتی ہے اور بذریعہ عقل وہ خدا تعالیٰ کے حدود اور قوانین سے واقف ہوتا ہے تب اس حالت میں وہ عدل کے مؤاخذہ کے نیچے آتا ہے.لیکن رحم کے لئے عقل اور قانون کی شرط نہیں.اور چونکہ خدا تعالیٰ نے رحم کر کے انسانوں کو سب سے زیادہ فضیلت دینی چاہی اس لئے اس نے انسانوں کے لئے عدل کے قواعد اور حد ودمرتب گئے.سوعدل اور رحم میں تناقض سمجھنا جہالت ہے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۷۳، ۷۴ ) یہ ایک نہایت بار یک صداقت ہے کہ علم باری تعالیٰ جس کی کاملیت کی وجہ سے وہ ذرہ ذرہ کے ظاہر و باطن پر اطلاع رکھتا ہے کیونکر اور کس طور سے ہے.اگر چہ اس کی اصل کیفیت پر کوئی عقل محیط نہیں ہو سکتی مگر پھر بھی اتنا کہنا سراسر سچائی پر مبنی ہے کہ وہ تمام علم کے قسموں میں سے جو ذہن میں آ سکتے ہیں اشد و اقوی واتم و اکمل قسم ہے.جب ہم اپنے حصول علم کے طریقوں کو دیکھتے ہیں اور اس کے اقسام پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اپنے سب

Page 89

۸۴ جل شانہ و عزاسمہ معمولی علموں میں سے بڑا یقینی اور قطعی وہی علم معلوم ہوتا ہے جو ہم کو اپنی ہستی کی نسبت ہے.کیونکہ ہم اور ایسا ہی ہر ایک انسان کسی حالت میں اپنی ہستی کو فراموش نہیں کر سکتا اور نہ اس میں کوئی شک کر سکتا ہے سو جہاں تک ہماری عقل کی رسائی ہے ہم اس قسم کے علم کو اشد و اقوی واتم واکمل پاتے ہیں اور یہ بات ہم سراسر خدائے تعالیٰ کی ذات کامل سے بعید دیکھتے ہیں کہ جو اس درجہ اور اس قسم کے علم سے اس کا علم اپنے بندوں کے بارہ میں کمتر ہو.کیونکہ یہ بڑے نقص کی بات ہے کہ جو اعلیٰ قسم علم کی ذہن میں آسکتی ہے وہ خدائے تعالیٰ میں نہ پائی جائے.اور اعتراض ہو سکتا ہے کہ کس وجہ سے خدائے تعالیٰ کا علم اعلیٰ درجہ کے علم سے متنزل رہا.آیا اس کے اپنے ہی ارادہ سے یا کسی قاسر کے قسر سے.اگر کہو کہ اس کے اپنے ہی ارادہ سے تو یہ جائز نہیں کیونکہ کوئی شخص اپنے لئے بالا رادہ نقصان روا نہیں رکھتا تو پھر کیونکر خدائے تعالیٰ جو بذات خود کمالات کو دوست رکھتا ہے ایسے ایسے نقصان اپنی نسبت روار کھے اور اگر کہو کہ کسی قاسر کے قسر سے یہ نقصان اس کو پیش آیا تو چاہئے کہ ایسا قاسر اپنی طاقتوں اور قوتوں میں خدائے تعالیٰ پر غالب ہو.تا وہ زیادت قوت کی وجہ سے اس کو اس کے ارادوں سے روک سکے اور یہ خود ممتنع اور محال ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ پر اور کوئی قاسر نہیں جس کی مزاحمت سے اس کو کوئی مجبوری پیش آوے.پس ثابت ہوا کہ ضرور خدائے تعالیٰ کا علم کامل تام ہے.اور پہلے ہم ابھی ثابت کر چکے ہیں کہ علم کی تمام قسموں میں سے کامل و تام وہ علم ہے کہ جو ایسا ہو جیسے ایک انسان کو اپنی ہستی کی نسبت علم ہوتا ہے.سوماننا پڑا کہ خدائے تعالیٰ کا علم اپنی مخلوقات کے بارہ میں اسی علم کی مانند اور اس کے مشابہ ہے گو ہم اس کی اصل کیفیت پر محیط نہیں ہو سکتے لیکن ہم اپنی عقل سے جس کی رو سے ہم مکلف ہیں یہ سمجھ سکتے ہیں کہ بڑا اقطعی اور یقینی علم یہی ہے جو عالم اور معلوم میں کسی نوع کا بعد اور حجاب نہ ہو سو وہ قسم علم کی یہی ہے.اور جس طرح ایک انسان کو اپنی ہستی پر مطلع ہونے کے لئے کسی دوسرے وسائل کی ضرورت نہیں بلکہ جاندار ہونا اور اپنے تئیں جاندار سمجھنا دونوں

Page 90

۸۵ جل شانہ و عزاسمہ باتیں ایسی باہم قریب واقع ہیں کہ ان میں ایک بال کا فرق نہیں.سو ایسا ہی جمیع موجودات کے بارہ میں خدا تعالیٰ کا علم ہونا ضروری ہے.یعنی اس جگہ بھی عالم اور معلوم میں ایک ذرہ فرق اور فاصلہ نہیں چاہئے.اور یہ اعلیٰ درجہ علم کا جو باری تعالیٰ کو اپنے تحقق الوہیت کے لئے اس کی ضرورت ہے اسی حالت میں اس کے لئے مسلم ہوسکتا ہے کہ جب پہلے اُس کی نسبت یہ مان لیا جائے کہ اس میں اور اس کے معلومات میں اس قدر قرب اور تعلق واقع ہے جس سے بڑھ کر تجویز کرنا ممکن ہی نہیں اور یہ کامل تعلق معلومات سے اسی صورت میں اس کو ہو سکتا ہے کہ جب عالم کی سب چیزیں جو اس کی معلومات ہیں اس کے دست قدرت سے نکلی ہوں اور اس کی پیدا کردہ اور مخلوق ہوں اور اُس کی ہستی سے اُن کی ہستی ہو.یعنی جب ایسی صورت ہو کہ موجود حقیقی وہی ایک ہو اور دوسرے سب وجود اس سے پیدا ہوئے ہوں.اور اس کے ساتھ قائم ہوں.یعنی پیدا ہو کر بھی اپنے وجود میں اس سے بے نیاز اور اس سے الگ نہ ہوں بلکہ در حقیقت سب چیزوں کے پیدا ہونے کے بعد بھی زندہ حقیقی وہی ہو.اور دوسری ہر ایک زندگی اسی سے پیدا ہوئی ہو.اور اس کے ساتھ قائم ہو.اور بے قید حقیقی وہی ایک ہو اور دوسری سب چیزیں کیا ارواح اور کیا اجسام اُس کی لگائی ہوئی قیدوں میں مقید اور اس کے ہاتھ کے بندوں سے بندھے ہوئے اور اس کی مقرر کردہ حدوں میں محدود ہوں اور وہ ہر چیز پر محیط ہو اور دوسری سب چیزیں اس کی ربوبیت کے نیچے احاطہ کی گئی ہوں اور کوئی ایسی چیز نہ ہو جو اس کے ہاتھ سے نہ نکلی ہو.اور اس کی ربوبیت کا اس پر احاطہ نہ ہو.یا اُس کے سہارے سے وہ چیز قائم نہ ہو.غرض اگر ایسی صورت ہو تب خدائے تعالیٰ کا تعلق تام جو علم تام کے لئے شرط ہے اپنے معلومات سے ہو گا.اسی تعلق تام کی طرف نے ایک جگہ قرآن شریف میں اشارہ فرمایا جیسے وہ فرماتا ہے.وَنَحْنُ أَقْرَبُ TATTOON AND AND ANWALA یعنی ہم انسان کی جان سے اس کی رگِ جان سے بھی ق:۱۷

Page 91

۸۶ جل شانہ و عزاسمہ زیادہ تر نزدیک ہیں ایسا ہی اس نے قرآن شریف میں ایک دوسری جگہ فرمایا ہے.هُوَ الْحَی الْقَيُّومُ یعنی حقیقی حیات اسی کو ہے اور دوسری سب چیزیں اس سے پیدا اور اُس کے ساتھ زندہ ہیں.یعنی در حقیقت سب جانوں کی جان اور سب طاقتوں کی طاقت وہی ہے..اگر رُوح کومخلوق اور حادث تسلیم نہ کیا جائے تو اس بات کے تسلیم کرنے کے لئے کوئی وجہ نہیں کہ ایک بے تعلق شخص جو فرضی طور پر پر میشر کے نام سے موسوم ہے رُوح کی حقیقت سے کچھ اطلاع رکھتا ہے اور اس کا علم اس کی تہ تک پہنچا ہوا ہے کیونکہ جوشخص کسی چیز کی نسبت پورا پورا علم رکھتا ہے تو البتہ اس کے بنانے پر بھی قادر ہوتا ہے اور اگر قادر نہیں ہو سکتا تو اس کے علم میں ضرور کوئی نہ کوئی نقص ہوتا ہے اور اگر پور اعلم نہ ہو توقطع نظر بنانے سے متشابہ چیزوں میں باہم امتیاز کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے.سواگر خدائے تعالی خالق الاشیاء نہیں تو اس میں صرف یہی نقص نہیں ہے کہ اس صورت میں وہ ناقص العلم ٹھہرا بلکہ اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ کروڑ ہا روحوں کے امتیاز اور تمیز اور شناخت میں روز بروز دھو کے بھی کھایا کرے اور بسا اوقات زید کی رُوح کو بکر کی رُوح سمجھ بیٹھے کیونکہ ادھورے علم کو ایسے دھو کے ضرور لگ جایا کرتے ہیں اور اگر کہو کہ نہیں لگتے تو اس پر کوئی دلیل پیش کرنی چاہئے.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۱ ۲ تا ۲۲۶ حاشیه ) شائد کسی دل کو اس جگہ یہ وسوسہ پکڑے کہ اگر کسی شے پر پورا پورا علمی احاطہ ہونے سے وہ شے مخلوق ہو جاتی ہے تو علم حق سبحانہ تعالیٰ جو اپنی ذات سے متعلق ہے وہ بھی بہر حال کامل ہے.تو کیا خدائے تعالیٰ اپنی ذات کا آپ خالق ہے یا اپنی مثل بنانے پر قادر ہے؟ اس میں اعتراض کے پہلے ٹکڑے کا تو یہ جواب ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ اپنے وجود کا آپ خالق ہو تو اس سے لازم آتا ہے کہ اپنے وجود سے پہلے موجود ہو.اور ظاہر ہے کہ کوئی شے البقرة : ۲۵۶

Page 92

۸۷ جل شانہ و عزاسمہ اپنے وجود سے پہلے موجود نہیں ہوسکتی.ورنہ تقدم الشئ على نفسہ لازم آتا ہے.بلکہ خدائے تعالیٰ جو اپنی ذات کا علم کامل رکھتا ہے تو اس جگہ عالم اور علم اور معلوم ایک ہی شے ہے جس میں علیحدگی اور دوئی کی گنجائش نہیں تو پھر اس جگہ وہ الگ چیز کون سی ہے جس کو مخلوق ٹھہرایا جائے سوذاتی علم خدائے تعالیٰ کا جو اس کی ذات سے تعلق رکھتا ہے دوسری چیزوں پر اس کا قیاس نہیں کر سکتے.غرض علم ذاتی باری تعالیٰ میں جو اس کی ذات سے متعلق ہے عالم اپنے معلوم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے تا ایک خالق اور مخلوق قرار دیا جاوے.ہاں اس کے وجود میں بجائے مخلوق کہنے کے یہ کہنا چاہئے کہ وہ وجود کسی دوسرے کی طرف سے مخلوق نہیں بلکہ ازلی ابدی طور پر اپنی طرف سے آپ ہی ظہور پذیر ہے اور خدا ہونے کے بھی یہی معنے ہیں کہ خود آئندہ ہے.دوسرا ٹکڑا اعتراض کا کہ تقریر مذکورہ بالا سے خدائے تعالیٰ کا اپنی مثل بنانے پر قادر ہونا لازم آتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ قدرت الہی صرف اُن چیزوں کی طرف رجوع کرتی ہے جو اس کی صفات از لیہ ابدیہ کی منافی اور مخالف نہ ہوں بے شک یہ بات تو صحیح اور ہر طرح سے مدلل اور معقول ہے کہ جس چیز کا علم خدائے تعالیٰ کو کامل ہو اس چیز کو اگر چاہے تو پیدا بھی کر سکتا ہے لیکن یہ بات ہرگز صحیح اور ضروری نہیں کہ جن باتوں کے کرنے پر وہ قادر ہو اُن سب باتوں کو بلا لحاظ اپنی صفات کمالیہ کے کر کے بھی دکھاوے بلکہ وہ اپنی ہر ایک قدرت کے اجراء اور نفاذ میں اپنی صفات کمالیہ کا ضرور لحاظ رکھتا ہے کہ آیا وہ امر جس کو وہ اپنی قدرت سے کرنا چاہتا ہے اُس کی صفات کا ملہ سے منافی و مبائن تو نہیں.مثلاً وہ قادر ہے کہ ایک بڑے پر ہیز گار صالح کو دوزخ کی آگ میں جلا وے.لیکن اس کے رحم اور عدل اور مجازات کی صفت اس بات کی منافی پڑی ہوئی ہے کہ وہ ایسا کرے.اس لئے وہ ایسا کام کبھی نہیں کرتا.ایسا ہی اس کی قدرت اس طرف میں رجوع نہیں کرتی کہ وہ اپنے تیں ہلاک کرے.کیونکہ یہ فعل اس کی صفت حیات ازلی ابدی کی منافی ہے.پس اسی

Page 93

۸۸ جل شانہ و عزاسمہ طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اپنے جیسا خدا بھی نہیں بناتا کیونکہ اُس کی صفت احدیت اور بے مثل اور مانند ہونے کی جو ازلی ابدی طور پر اس میں پائی جاتی ہے اس طرف توجہ کرنے سے اس کو روکتی ہے.پس ذرہ آنکھ کھول کر سمجھ لینا چاہئے کہ ایک کام کرنے سے عاجز ہونا اور بات ہے لیکن باوجود قدرت کے بلحاظ صفات کمالیہ امر منافی صفات کی طرف توجہ نہ کرنا یہ اور بات ہے.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۳۰ تا ۲۳۳ حاشیه ) اپنے ذاتی اقتدار اور اپنی ذاتی خاصیت سے عالم الغیب ہونا خدائے تعالیٰ کی ذات کا ہی خاصہ ہے.قدیم سے اہلِ حق حضرت واجب الوجود کے علم غیب کی نسبت وجوب ذاتی کا عقیدہ رکھتے ہیں اور دوسرے تمام ممکنات کی نسبت امتناع ذاتی اور امکان بالواجب عزاسمہ کا عقیدہ ہے.یعنی یہ عقیدہ کہ خدائے تعالیٰ کی ذات کے لئے عالم الغیب ہونا واجب ہے اور اس کے ہویت حقہ کی یہ ذاتی خاصیت ہے کہ عالم الغیب ہو.مگر ممکنات جو هَالِكَةُ الذَّات اور بَاطِلَةُ الْحَقِيقَت ہیں اس صفت میں اور ایسا ہی دوسری صفات میں شراکت بحضرت باری عزاسمہ جائز نہیں.اور جیسا ذات کی رو سے شریک الباری ممتنع ہے ایسا ہی صفات کی رو سے بھی ممتنع ہے.پس ممکنات کے لئے نَظرًا عَلیٰ ذَاتِهم عالم الغیب ہونا ممتنعات میں سے ہے.خواہ نبی ہوں یا محدث ہوں یا ولی ہوں.ہاں الہام الہی سے اسرار غیبیہ کو معلوم کرنا یہ ہمیشہ خاص اور برگزیدہ کو حصہ ملتا رہا ہے.اور اب بھی ملتا ہے جس کو ہم صرف تا بعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں پاتے ہیں.(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۵۴،۴۵۳) ہمارا زندہ حتی وقیوم خدا ہم سے انسان کی طرح باتیں کرتا ہے.ہم ایک بات پوچھتے اور دُعا کرتے ہیں تو وہ قدرت کے بھرے ہوئے الفاظ کے ساتھ جواب دیتا ہے.اگر یہ سلسلہ ہزار مرتبہ تک بھی جاری رہے تب بھی وہ جواب دینے سے اعراض نہیں کرتا.وہ اپنے کلام میں عجیب در عجیب غیب کی باتیں ظاہر کرتا ہے اور خارق عادت قدرتوں کے

Page 94

۸۹ جل شانہ و عزاسمہ نظارے دکھلاتا ہے.یہاں تک کہ وہ یقین کر دیتا ہے کہ وہ وہی ہے جس کو خدا کہنا چاہئے.دعائیں قبول کرتا ہے اور قبول کرنے کی اطلاع دیتا ہے.وہ بڑی بڑی مشکلات حل کرتا ہے اور جو مُردوں کی طرح بیمار ہوں اُن کو بھی کثرت دُعا سے زندہ کر دیتا ہے اور یہ سب ارادے اپنے قبل از وقت اپنے کلام سے بتلا دیتا ہے.خدا وہی خدا ہے جو ہمارا خدا ہے.وہ اپنے کلام سے جو آئندہ کے واقعات پر مشتمل ہوتا ہے ہم پر ثابت کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا وہی خدا ہے.وہی ہے جس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے طاعون کی موت سے بچاؤں گا اور نیز ان سب کو جو تیرے گھر میں نیکی اور پر ہیز گاری کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں بچاؤں گا.اس زمانہ میں کون ہے جس نے میرے سوا ایسا الہام شائع کیا اور اپنے نفس اور اپنی بیوی اور اپنے بچوں اور دوسرے نیک انسانوں کے لئے جو اس کی چار دیوار کے اندر رہتے ہیں خدا کی ذمہ داری ظاہر کی.(نیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۴۹،۴۴۸) منجملہ انسان کی طبعی حالتوں کے جو اس کی فطرت کو لازم پڑی ہوئی ہیں ایک برتر ہستی کی تلاش ہے جس کے لئے اندر ہی اندر انسان کے دل میں ایک کشش موجود ہے اور اس تلاش کا اثر اسی وقت سے ہونے لگتا ہے جب کہ بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آ تا ہے.کیونکہ بچہ پیدا ہوتے ہی پہلے روحانی خاصیت اپنی جو دکھاتا ہے وہ یہی ہے کہ ماں کی طرف جھکا جاتا ہے اور طبعاً اپنی ماں کی محبت رکھتا ہے.اور پھر جیسے جیسے حواس اس کے کھلتے جاتے ہیں اور شگوفہ فطرت اس کا کھلتا جاتا ہے یہ کشش محبت جو اس کے اندر چھپی ہوئی تھی اپنا رنگ روپ نمایاں طور پر دکھاتی چلی جاتی ہے پھر تو یہ ہوتا ہے کہ بجز اپنی ماں کی گود کے کسی جگہ آرام نہیں پاتا.اور پورا آرام اس کا اسی کے کنارِ عاطفت میں ہوتا ہے.اور اگر ماں سے علیحدہ کر دیا جائے اور ڈور ڈال دیا جائے تو تمام عیش اس کا تلخ ہو جاتا ہے اور اگر چہ اس کے آگے نعمتوں کا ایک ڈھیر ڈال دیا جاوے تب بھی وہ اپنی سچی خوشحالی ماں کی گود میں ہی دیکھتا ہے اور اس کے بغیر کسی طرح آرام نہیں پاتا.سو وہ کشش محبت جو اس کو اپنی ماں

Page 95

۹۰ جل شانہ و عزاسمہ کی طرف پیدا ہوتی ہے وہ کیا چیز ہے؟ در حقیقت یہ وہی کشش ہے جو معبود حقیقی کے لئے بچہ کی فطرت میں رکھی گئی ہے بلکہ ہر ایک جگہ جو انسان تعلق محبت پیدا کرتا ہے درحقیقت وہی کشش کام کر رہی ہے.اور ہر ایک جگہ جو یہ عاشقانہ جوش دکھلاتا ہے درحقیقت اسی محبت کا وہ ایک عکس ہے.گویا دوسری چیزوں کو اٹھا اٹھا کر ایک گم شدہ چیز کی تلاش کر رہا ہے.جس کا اب نام بھول گیا ہے سوانسان کامال یا اولا دیا بیوی سے محبت کرنا یا کسی خوش آواز کے گیت کی طرف اس کی رُوح کا کھینچے جانا درحقیقت اسی گمشدہ محبوب کی تلاش ہے اور چونکہ انسان اس دقیق در دقیق ہستی کو جو آگ کی طرح ہر ایک میں مخفی اور سب پر پوشیدہ ہے اپنی جسمانی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا اور نہ اپنی نا تمام عقل سے اس کو پاسکتا ہے.اس لئے اس کی معرفت کے بارے میں انسان کو بڑی بڑی غلطیاں لگی ہیں اور سہو کاریوں سے اس کا حق دوسرے کو دیا گیا ہے.خدا نے قرآن شریف میں یہ خوب مثال دی ہے کہ دنیا ایک ایسے شیش محل کی طرح ہے جس کی زمین کا فرش نہایت مصفی شیشوں سے کیا گیا ہے اور پھر ان شیشوں کے نیچے پانی چھوڑا گیا ہے جو نہایت تیزی سے چل رہا ہے.اب ہر ایک نظر جوشیشوں پر پڑتی ہے وہ اپنی غلطی سے ان شیشوں کو بھی پانی سمجھ لیتی ہے.اور پھر انسان ان شیشوں پر چلنے سے ایسا ڈرتا ہے جیسا کہ پانی سے ڈرنا چاہئے حالانکہ وہ درحقیقت شیشے ہیں مگر صاف شفاف.سو یہ بڑے بڑے اجرام جو نظر آتے ہیں جیسے آفتاب و ماہتاب وغیرہ یہ وہی صاف شیشے ہیں جن کی غلطی سے پرستش کی گئی اور ان کے نیچے ایک اعلیٰ طاقت کام کر رہی ہے جو ان شیشوں کے پردہ میں پانی کی طرح بڑی تیزی سے چل رہی ہے اور مخلوق پرستوں کی نظر کی یہ غلطی ہے کہ انہی شیشوں کی طرف کام کو منسوب کر رہے ہیں جو ان کے نیچے کی طاقت دکھلا رہی ہے یہی تفسیر اس آیت کریمہ کی ہے.إِنَّهُ صَرْحُ تُمرِّدُ مِنْ قَوَارِيرَ - النمل: ۴۵ ☐

Page 96

۹۱ جل شانہ و عزاسمہ غرض چونکہ خدا تعالیٰ کی ذات باوجود نہایت روشن ہونے کے پھر بھی نہایت مخفی ہوتی ہے اس لئے اس کی شناخت کے لئے صرف یہ نظام جسمانی جو ہماری نظروں کے سامنے ہے کافی نہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ ایسے نظام پر مدار رکھنے والے باوجود یکہ اس ترتیب ابلغ اور محکم کو جو صد ہا عجائبات پر مشتمل ہے نہایت غور کی نظر سے دیکھتے رہے بلکہ ہیئت اور جوصد طبعی اور فلسفہ میں وہ مہارتیں پیدا کیں کہ گویا زمین و آسمان کے اندر دھنس گئے مگر پھر بھی شکوک اور شبہات کی تاریکی سے نجات نہ پاسکے اور اکثر اُن کے طرح طرح کی خطاؤں میں مبتلا ہو گئے اور بے ہودہ اوہام میں پڑ کر کہیں کے کہیں چلے گئے اور اگر ان کو اس صانع کے وجود کی طرف کچھ خیال بھی آیا تو بس اسی قدر کہ اس اعلیٰ اور عمدہ نظام کو دیکھ کر یہ اُن کے دل میں پڑا کہ اس عظیم الشان سلسلہ کا جو پر حکمت نظام اپنے ساتھ رکھتا ہے کوئی پیدا کرنے والا ضرور چاہئے مگر ظاہر ہے کہ یہ خیال نا تمام اور یہ معرفت ناقص ہے کیونکہ یہ کہنا کہ اس سلسلہ کے لئے ایک خدا کی ضرورت ہے اس دوسرے کلام سے ہرگز مساوی نہیں کہ وہ خدا در حقیقت ہے بھی.غرض یہ اُن کی صرف قیاسی معرفت تھی جو دل کو اطمینان اور سکینت نہیں بخش سکتی اور نہ شکوک کو بکلی دل پر سے اٹھا سکتی ہے اور نہ یہ ایسا پیالہ ہے جس سے وہ پیاس معرفت تامہ کی بجھ سکے جو انسان کی فطرت کو لگائی گئی ہے.بلکہ ایسی معرفت نا قصہ نہایت پر خطر ہوتی ہے.کیونکہ بہت شور ڈالنے کے بعد پھر آخر پیچ اور نتیجہ ندارد ہے.غرض جب تک خود خدا تعالیٰ اپنے موجود ہونے کو اپنے کلام سے ظاہر نہ کرے جیسا کہ اُس نے اپنے کام سے ظاہر کیا تب تک صرف کام کا ملاحظہ تسلی بخش نہیں ہے.مثلاً اگر ہم ایک ایسی کوٹھڑی کو دیکھیں جس میں یہ بات عجیب ہو کہ اندر سے کنڈیاں لگائی گئی ہیں تو اس فعل سے ہم ضرور اول یہ خیال کریں گے کہ کوئی انسان اندر ہے جس نے اندر سے زنجیر کو لگایا ہے.کیونکہ باہر سے اندر کی زنجیروں کو لگانا غیر ممکن ہے.لیکن جب ایک مدت تک بلکہ برسوں تک باوجود بار بار آواز دینے کے اس انسان کی طرف سے کوئی آواز نہ آوے تو

Page 97

۹۲ جل شانہ و عزاسمہ آخر یہ رائے ہماری کہ کوئی اندر ہے بدل جائے گی اور یہ خیال کریں گے کہ اندر کوئی نہیں بلکہ کسی حکمت عملی سے اندر کی کنڈیاں لگائی گئی ہیں.یہی حال ان فلاسفروں کا ہے جنہوں نے صرف فعل کے مشاہدہ پر اپنی معرفت کو ختم کر دیا ہے یا بڑی غلطی ہے جو خدا کو ایک مُردہ کی طرح جس کو قبر سے نکالنا صرف انسان کا کام ہے.اگر خدا ایسا ہے جو صرف انسانی کوشش نے اُس کا پتہ لگایا ہے تو ایسے خدا کی نسبت ہماری سب اُمیدیں عبث ہیں.بلکہ خدا تو وہی ہے جو ہمیشہ سے اور قدیم سے آپ اَنَا المَوجود کہہ کر لوگوں کو اپنی طرف بلاتا رہا ہے.یہ بڑی گستاخی ہوگی کہ ہم ایسا خیال کریں کہ اس کی معرفت میں انسان کا احسان اس پر ہے.اور اگر فلاسفر نہ ہوتے تو گویا وہ گم کا گم ہی رہتا.اور یہ کہنا کہ خدا کیونکر بول سکتا ہے.کیا اس کی زبان ہے؟ یہ بھی ایک بڑی بے باکی ہے.کیا اُس نے جسمانی ہاتھوں کے بغیر تمام آسمانی اجرام اور زمین کو نہیں بنایا.کیا وہ جسمانی آنکھوں کے بغیر تمام دنیا کو نہیں دیکھتا.کیا وہ جسمانی کانوں کے بغیر ہماری آوازیں نہیں سنتا.پس کیا یہ ضروری نہ تھا کہ اسی طرح وہ کلام بھی کرے.یہ بات بھی ہر گز صحیح نہیں ہے کہ خدا کا کلام کرنا آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گیا ہے.ہم اس کے کلام اور مخاطبات پر کسی زمانہ تک مہر نہیں لگاتے.بے شک وہ اب بھی ڈھونڈنے والوں کو الہامی چشمہ سے مالا مال کرنے کو طیار ہے جیسا کہ پہلے تھا.اور اب بھی اس کے فیضان کے ایسے دروازے کھلے ہیں جیسے کہ پہلے تھے.ہاں ضرورتوں کے ختم ہونے پر شریعتیں اور حدود ختم ہو گئیں اور تمام رسالتیں اور نبوتیں اپنے آخری نقطہ پر آ کر جو ہمارے سید ومولی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تھا کمال کو پہونچ گئیں.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۳ تا ۳۶۷) حقیقی خدا دانی تمام اسی میں منحصر ہے کہ اُس زندہ خدا تک رسائی ہو جائے کہ جو اپنے مقرب انسانوں سے نہایت صفائی سے ہم کلام ہوتا ہے اور اپنی پر شوکت اور لذیذ کلام سے اُن کو تسلی اور سکینت بخشتا ہے.اور جس طرح ایک انسان دوسرے انسان سے بولتا

Page 98

۹۳ جل شانہ و عزاسمہ ہے ایسا ہی یقینی طور پر جو بکتی شک و شبہ سے پاک ہے اُن سے باتیں کرتا ہے اُن کی بات سنتا ہے اور اُس کا جواب دیتا ہے اور اُن کی دعاؤں کوشن کر دُعا کے قبول کرنے سے ان کو اطلاع بخشتا ہے اور ایک طرف لذیذ اور پر شوکت قول سے اور دوسری طرف معجزانہ فعل سے اور اپنے قوی اور زبردست نشانوں سے اُن پر ثابت کر دیتا ہے کہ میں ہی خدا ہوں.وہ اوّل پیشگوئی کے طور پر اُن سے اپنی حمایت اور نصرت اور خاص طور کی دستگیری کے وعدے کرتا ہے اور پھر دوسری طرف اپنے وعدوں کی عظمت بڑھانے کے لئے ایک دنیا کو اُن کے مخالف کر دیتا ہے اور وہ لوگ اپنی تمام طاقت اور تمام مکر وفریب اور ہر ایک قسم کے منصوبوں سے کوشش کرتے ہیں کہ خدا کے اُن وعدوں کو ٹال دیں جو اس کے اُن مقبول بندوں کی حمایت اور نصرت اور غلبہ کے بارے میں ہیں اور خدا ان تمام کوششوں کو برباد کرتا ہے.وہ شرارت کی تخم ریزی کرتے ہیں اور خدا اس کی جڑ باہر پھینکتا ہے.وہ آگ لگاتے ہیں اور خدا اس کو بجھا دیتا ہے.وہ ناخنوں تک زور لگاتے ہیں.آخر خدا ان کے منصوبوں کو اُنہی پر اُلٹا کر مارتا ہے.خدا کے مقبول اور راستباز نہایت سید ھے اور سادہ طبع اور خدا تعالیٰ کے سامنے اُن بچوں کی طرح ہوتے ہیں جو ماں کی گود میں ہوں اور دنیا اُن سے دشمنی کرتی ہے کیونکہ وہ دنیا میں سے نہیں ہوتے.اور طرح طرح کے مکر اور فریب اُن کی بیخ کنی کے لئے کئے جاتے ہیں.قومیں اُن کے ایذا دینے کے لئے متفق ہو جاتی ہیں.اور تمام نا اہل لوگ.ایک ہی کمان سے ان کی طرف تیر چلاتے ہیں اور طرح طرح کے افترا اور تہمتیں لگائی جاتی ہیں تاکسی طرح وہ ہلاک ہو جائیں اور ان کا نشان نہ رہے مگر آخر خدائے تعالیٰ اپنی باتوں کو پوری کر کے دکھلا دیتا ہے.اسی طرح اُن کی زندگی میں یہ معاملہ اُن سے جاری رہتا ہے کہ ایک طرف وہ مکالمات صحیحہ واضحہ یقینیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں اور امور غیبیہ جن کا علم انسانوں کی طاقت سے باہر ہے اُن پر خدائے کریم و قدیر اپنے صریح کلام کے ذریعہ سے منکشف کرتا رہتا ہے اور دوسری طرف معجزانہ افعال سے جو اُن اقوال کو سچ کر کے دکھلاتے

Page 99

۹۴ جل شانہ و عزاسمہ ہیں اُن کے یقین کو نو ز علی نور کیا جاتا ہے.اور جس قدر انسان کی طبیعت تقاضا کرتی ہے کہ خدا کی یقینی شاعت کے لئے اس قدر معرفت چاہئے وہ معرفت قولی اور فعلی تحیلی سے پوری کی جاتی ہے.یہاں تک کہ ایک ذرہ کے برابر بھی تاریکی درمیان نہیں رہتی.یہ خدا ہے جس کے ان قولی فعلی تجلیات کے بعد جو ہزاروں انعامات اپنے اندر رکھتی ہیں اور نہایت قومی اثر دل پر کرتی ہیں انسان کو سچا اور زندہ ایمان نصیب ہوتا ہے اور ایک سچا اور پاک تعلق خدا سے ہو کر نفسانی غلاظتیں دُور ہو جاتی ہیں.اور تمام کمزوریاں دُور ہو کر آسمانی روشنی کی تیز شعاعوں سے اندرونی تاریکی الوداع ہوتی ہے اور ایک عجیب تبدیلی ظہور میں آتی ہے.پس جو مذہب اس خدا کو جس کا ان صفات سے متصف ہونا ثابت ہے پیش نہیں کرتا اور ایمان کو صرف گذشتہ قصوں کہانیوں اور ایسی باتوں تک محدود رکھتا ہے جو د یکھنے اور کہنے میں نہیں آئی ہیں وہ مذہب ہر گز سچا مذ ہب نہیں ہے.اور ایسے فرضی خدا کی پیروی ایسی ہے کہ جیسے ایک مردہ سے توقع رکھنا کہ وہ زندوں جیسے کام کرے گا.ایسے خدا کا ہونا نہ ہونا برابر ہے جو ہمیشہ تازہ طور پر اپنے وجود کو آپ ثابت نہیں کرتا گویاوہ ایک بت ہے جو نہ بولتا ہے اور نہ سنتا ہے اور نہ سوال کا جواب دیتا ہے اور نہ اپنی قادرانہ قوت کو ایسے طور پر دکھا سکتا ہے جو ایک پکار ہر یہ بھی اس میں شک نہ کر سکے.( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۱، ۳۲) وسوسہ ہشتم.انسان کوخدا کا ہم کلام تجویز کرنا ادب سے دُور ہے.فانی کو ذات از لی ابدی سے کیا نسبت.اور مشتِ خاک کو نور وجوب سے کیا مشابہت؟ جواب.یہ وہم بھی سراسر بے اصل اور پوچ ہے.اور اس کے قلع وقمع کے لئے انسان کو اسی بات کا سمجھنا کافی ہے کہ جس کریم اور رحمن نے افراد کا ملہء بنی آدم کے دل میں اپنی معرفت کے لئے بے انتہا جوش ڈال دیا اور ایسا اپنی محبت اور اپنی اُنس اور اپنے شوق

Page 100

۹۵ جل شانہ و عزاسمہ کی طرف کھینچا کہ وہ بالکل اپنی ہستی سے کھوئے گئے تو اس صورت میں یہ تجویز کرنا کہ خدا ان کا ہم کلام ہونا نہیں چاہتا اس قول کے مساوی ہے کہ گویا اُن کا تمام عشق اور محبت ہی عبث ہے اور اُن کے سارے جوش یک طرفہ خیالات ہیں.لیکن خیال کرنا چاہئے کہ ایسا خیال کس قدر بے ہودہ ہے.کیا جس نے انسان کو اپنے تقرب کی استعداد بخشی اور اپنی محبت اور عشق کے جذبات سے بے قرار کر دیا اس کے کلام کے فیضان سے اس کا طالب محروم رہ سکتا ہے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ خدا کا عشق اور خدا کی محبت اور خدا کے لئے بے خود اور محو ہو جانا یہ سب ممکن اور جائز ہے اور خدا کی شان میں کچھ حارج نہیں.مگر اپنے محب صادق کے دل پر خدا کا الہام نازل ہونا غیر ممکن اور ناجائز ہے اور خدا کی شان میں حارج ہے.انسان کا خدا کی محبت کے بے انتہا دریا میں ڈو بنا اور پھر کسی مقام میں بس نہ کرنا اس بات پر شہادت قاطع ہے کہ اس کی عجیب الخلقت روح خدا کی معرفت کے لئے بنائی گئی ہے.پس جو چیز خدا کی معرفت کے لئے بنائی گئی ہے اگر اس کو وسیلہ معرفت کامل کا جو الہام ہے عطا نہ ہو تو یہ کہنا پڑے گا کہ خدا نے اس کو اپنی معرفت کے لئے نہیں بنایا حالانکہ اس بات سے برہمو سماج والوں کو بھی انکار نہیں کہ انسان سلیم الفطرت کی روح خدا کی معرفت کی بھوکی اور پیاسی ہے.بس اب ان کو آپ ہی سمجھنا چاہئے کہ جس حالت میں انسان صحیح الفطرت خود فطر ما خدا کی معرفت کا طالب ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ معرفت الہی کا ذریعہ کامل بجز الہام الہی اور کوئی دوسرا امر نہیں تو اس صورت میں اگر وہ معرفت کامل کا ذریعہ غیر ممکن الحصول بلکہ اس کا تلاش کرنا دُور از ادب ہے تو خدا کی حکمت پر بڑا اعتراض ہوگا کہ اُس نے انسان کو اپنی معرفت کے لئے جوش تو دیا پر ذریعہ معرفت عطا نہ کیا گویا جس قدر بھوک تھی اُس قدر روٹی دینا نہ چاہا.اور جس قدر پیاس لگا دی اس قدر پانی دینا منظور نہ ہوا.مگر دانشمند لوگ اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ ایسا خیال سراسر خدا کی عظیم الشان رحمتوں کی نا قدر شناسی ہے.جس حکیم مطلق نے انسان کی ساری سعادت اس میں رکھی ہے کہ وہ اسی دنیا میں الوہیت کی

Page 101

۹۶ جل شانہ و عزاسمہ شعاعوں کو کامل طور پر دیکھے تا اس زبر دست کشش سے خدا کی طرف کھینچا جائے پھر ایسے کریم اور رحیم کی نسبت یہ گمان کرنا کہ وہ انسان کو اپنی سعادت مطلوبہ اور اپنے مرتبہ فطرتیہ تک پہنچانا نہیں چاہتا یہ حضرات برہمو کی عجب عظمندی ہے.( براہین احمدیہ ہر چہار ص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۳۰ تا ۲۳۲ حاشیہ نمبر ۱۱) خدا نے انسانوں میں جس مطلب کا ارادہ کیا ہے پہلے سے اس مطلب کی تکمیل کے 6* لئے تمام قو تیں خود پیدا کر رکھی ہیں مثلاً انسانی روحوں میں ایک قوت عشقی موجود ہے اور گو کوئی انسان اپنی غلطی سے دوسرے سے محبت کرے اور اپنے عشق کا محل کسی اور کو ٹھہر اوے لیکن عقل سلیم بڑی آسانی سے سمجھ سکتی ہے کہ یہ قوت عشقی اس لئے رُوح میں رکھی گئی ہے کہ تا وہ اپنے محبوب حقیقی سے جو اس کا خدا ہے اپنے سارے دل اور ساری طاقت اور سارے جوش سے پیار کرے.پس کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ قوت عشقی جو انسانی روح میں موجود ہے جس کی موجیں نا پیدا کنار ہیں اور جس کے کمال تموج کے وقت انسان اپنی جان سے بھی دستبردار ہونے کو طیار ہوتا ہے.یہ خود بخو د روح میں قدیم سے ہے ہرگز نہیں.اگر خدا نے انسان اور اپنی ذات میں عاشقانہ رشتہ قائم کرنے کے لئے رُوح میں خود قوت عشقی پیدا کر کے یہ رشتہ آپ پیدا نہیں کیا تو گویا یہ امر اتفاقی ہے کہ پر میشر کی خوش قسمتی سے روحوں میں قوت عشقی پائی گئی اور اگر اس کے مخالف کوئی اتفاق ہوتا یعنی قوت عشقی روحوں میں نہ پائی جاتی تو کبھی لوگوں کو پر میشر کی طرف خیال بھی نہ آتا اور نہ پر میشر اس میں کوئی تدبیر کر سکتا کیونکہ نیستی سے ہستی نہیں ہوسکتی لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی سوچنا چاہئے کہ پرمیشر کا بھگتی اور عبادت اور نیک اعمال کے لئے مؤاخذہ کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ اُس نے خود محبت اور اطاعت کی قوتیں انسان کی رُوح کے اندر رکھی ہیں.لہذاوہ چاہتا ہے کہ انسان جس میں خود اوس نے یہ قو تیں رکھی ہیں اس کی محبت اور اطاعت میں محو ہو جائے ورنہ پر میشر میں یہ خواہش پیدا کیوں ہوئی

Page 102

۹۷ جل شانہ و عزاسمہ کہ لوگ اس سے محبت کریں اس کی اطاعت کریں اور اس کی مرضی کے موافق رفتار اور گفتار بناویں.(نیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۸۶،۳۸۵) قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكُهَا کوئی اُس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اُس کو پاوے یہ تو ہر ایک قوم کا دعویٰ ہے کہ بہتیرے ہم میں ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہیں مگر ثبوت طلب یہ بات ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اُن سے محبت رکھتا ہے یا نہیں.اور خدا تعالیٰ کی محبت یہ ہے کہ پہلے تو اُن کے دلوں پر سے پردہ اٹھاوے جس پردہ کی وجہ سے اچھی طرح انسان خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں رکھتا اور ایک دھندلی سی اور تاریک معرفت کے ساتھ اس کے وجود کا قائل ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات امتحان کے وقت اس کے وجود سے ہی انکار کر بیٹھتا ہے.اور یہ پردہ اٹھایا جانا بجز مکالمہ الہیہ کے اور کسی صورت سے میسر نہیں آ سکتا پس انسان حقیقی معرفت کے چشمہ میں اس دن غوطہ مارتا ہے جس دن خدا تعالیٰ اس کو مخاطب کر کے آنا الموجود کی اس کو آپ بشارت دیتا ہے.تب انسان کی معرفت صرف اپنے قیاسی ڈھکوسلے یا محض منقولی خیالات تک محدود نہیں رہتی بلکہ خدا تعالیٰ سے ایسا قریب ہو جاتا ہے کہ گویا اس کو دیکھتا ہے اور یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان اُسی دن انسان کو نصیب ہوتا ہے کہ جب اللہ جلشانہ اپنے وجود سے آپ خبر دیتا ہے.اور پھر دوسری علامت خدا تعالیٰ کی محبت کی یہ ہے کہ اپنے پیارے بندوں کو صرف اپنے وجود کی خبر ہی نہیں دیتا بلکہ اپنی رحمت اور فضل کے آثار بھی خاص طور پر اُن پر ظاہر کرتا ہے اور وہ اس طرح پر کہ اُن کی دعائیں جو ظاہری امیدوں سے زیادہ ہوں قبول فرما کر اپنے الہام اور کلام کے ذریعہ سے اُن کو اطلاع دے دیتا ہے.تب اُن کے دل تسلی پکڑ جاتے ہیں کہ یہ ہمارا قادر خدا ہے جو ہماری دعائیں سنتا اور ہم کو اطلاع دیتا اور مشکلات سے ہمیں الشمس

Page 103

۹۸ جل شانہ و عزاسمہ نجات بخشتا ہے.اُسی روز سے نجات کا مسئلہ بھی سمجھ آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی پتہ لگتا ہے.اگر چہ جگانے اور متنبہ کرنے کے لئے کبھی کبھی غیروں کو بھی سچی خواب آ سکتی ہے مگر اس طریق کا مرتبہ اور شان اور رنگ اور ہے.یہ خدا تعالیٰ کا مکالمہ ہے جو خاص مقربوں سے ہی ہوتا ہے اور جب مقرب انسان دعا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنی خدائی کے جلال کے ساتھ اس پر مجتبی فرماتا ہے اور اپنی رُوح اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی محبت سے بھرے ہوئے لفظوں کے ساتھ اس کو قبول دعا کی بشارت دیتا ہے اور جس کسی سے یہ مکالمہ کثرت سے وقوع میں آتا ہے اُس کو نبی یا محدث کہتے ہیں.حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴۲، ۴۳) یا در ہے کہ بندہ توحسن معاملہ دکھلا کر اپنے صدق سے بھری ہوئی محبت ظاہر کرتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس کے مقابلہ پر حد ہی کر دیتا ہے.اس کی تیز رفتار کے مقابل پر برق کی طرح اس کی طرف دوڑتا چلا آتا ہے.اور زمین و آسمان سے اس کے لئے نشان ظاہر کرتا ہے اور اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن بن جاتا ہے اور اگر پچاس کروڑ انسان بھی اس کی مخالفت پر کھڑا ہو تو اُن کو ایسا ذلیل اور بے دست و پا کر دیتا ہے جیسا کہ ایک مرا ہوا کیڑا اور محض ایک شخص کی خاطر کے لئے ایک دنیا کو ہلاک کر دیتا ہے اور اپنی زمین و آسمان کو اس کے خادم بنادیتا ہے.اور اس کی کلام میں برکت ڈال دیتا ہے اور اس کے تمام درو دیوار پر نور کی بارش کرتا ہے اور اس کی پوشاک میں اور اس کی خوراک میں اور اس مٹی میں بھی جس پر اس کا قدم پڑتا ہے ایک برکت رکھ دیتا ہے اور اس کو نامراد ہلاک نہیں کرتا اور ہر ایک اعتراض جو اُس پر ہو اس کا آپ جواب دیتا ہے.اور اس کی آنکھیں ہو جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے پائوں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے.وہ اس کے دشمنوں کے مقابل.

Page 104

۹۹ جل شانہ و عزاسمہ پر آپ نکلتا ہے.اور شریروں پر جو اس کو دُکھ دیتے ہیں آپ تلوار کھینچتا ہے ہر میدان میں اوس کو فتح دیتا ہے اور اپنی قضاء وقدر کے پوشیدہ راز اوس کو بتلاتا ہے.غرض پہلا خریداراس کے روحانی حسن و جمال کا جوحسن معاملہ اور محبت ذاتیہ کے بعد پیدا ہوتا ہے خدا ہی ہے.پس کیا ہی بدقسمت وہ لوگ ہیں جو ایسا زمانہ پاویں اور ایسا سورج ان پر طلوع کرے اور وہ تاریکی میں بیٹھے رہیں.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۲۵) روحانی قالب کے کامل ہونے کے بعد محبت ذاتیہ الہیہ کا شعلہ انسان کے دل پر ایک رُوح کی طرح پڑتا ہے اور دائمی حضور کی حالت اس کو بخش دیتا ہے کمال کو پہنچتا ہے اور تبھی روحانی حسن اپنا پورا جلوہ دکھاتا ہے لیکن یہ حسن جو روحانی حسن ہے جس کو حسن معاملہ کے ساتھ موسوم کر سکتے ہیں یہ وہ حسن ہے جو اپنی قوی کششوں کے ساتھ حسنِ بشرہ سے بہت بڑھ کر ہے کیونکہ حسن بشرہ صرف ایک یا دو شخص کے فانی عشق کا موجب ہو گا جو جلد زوال پذیر ہو جائے گا اور اس کی کشش نہایت کمزور ہو گی لیکن وہ روحانی حسن جس کو حسن معاملہ سے موسوم کیا گیا ہے وہ اپنی کششوں میں ایسا سخت اور زبردست ہے کہ ایک دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ اس کی طرف کھنچا جاتا ہے اور قبولیت دُعا کی بھی درحقیقت فلاسفی یہی ہے کہ جب ایسا روحانی حسن والا انسان جس میں محبت الہیہ کی رُوح داخل ہو جاتی ہے جب کسی غیر ممکن اور نہایت مشکل امر کے لئے دعا کرتا ہے اور اس دعا پر پورا پور از ور دیتا ہے تو چونکہ وہ اپنی ذات میں حسن روحانی رکھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے امر اور اذن سے اس عالم کا ذرہ ذرہ اس کی طرف کھینچا جاتا ہے.پس ایسے اسباب جمع ہو جاتے ہیں جو اس کی کامیابی کے لئے کافی ہوں.تجربہ اور خدا تعالیٰ کی پاک کتاب سے ثابت ہے کہ دنیا کے ہر ایک ذرہ کو طبعاً ایسے شخص کے ساتھ ایک عشق ہوتا ہے اور اس کی دُعائیں ان تمام ذرات کو ایسا اپنی طرف کھینچتی ہیں جیسا کہ آہن ربالو ہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے.پس غیر معمولی باتیں جن کا ذکر کسی علم طبعی اور فلسفہ میں نہیں اس کشش کی باعث ظاہر ہو

Page 105

1++ جل شانہ و عزاسمہ جاتی ہیں اور وہ کشش طبعی ہوتی ہے.جب سے کہ صانع مطلق نے عالم اجسام کو ذرات سے ترکیب دی ہے ہر ایک ذرے میں وہ کشش رکھی ہے اور ہر ایک ذرہ روحانی حسن کا عاشق صادق ہے.اور ایسا ہی ہر ایک سعید روح بھی کیونکہ وہ حسنِ تجلی گاہ حق ہے.وہی حسن تھا جس کے لئے فرمایا گیا اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ اور اب بھی بہتیرے ابلیس ہیں جو اس حسن کو شناخت نہیں کرتے مگر وہ حسن بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے.نوح میں وہی حسن تھا جس کی پاس خاطر حضرت عزّت جل شانہ کو منظور ہوئی اور تمام منکروں کو پانی کے عذاب سے ہلاک کیا گیا.پھر اس کے بعد موسی بھی وہی حسن روحانی لے کر آیا جس نے چند روز تکلیفیں اٹھا کر آخر فرعون کا بیڑا غرق کیا.پھر سب کے بعد سید الأنبياء و خَيرُ الوَرى مولا نا وسید نا حضرت محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم ایک عظیم الشان روحانی حسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیت کریمہ کافی ہے.دَنَا فَتَدَتی.فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ آؤ آدنی.لتا یعنی وہ نبی جناب الہی سے بہت نزدیک چلا گیا اور پھر مخلوق کی طرف جھکا اور اس طرح پر دونوں حقوق کو جو حق اللہ اور حق العباد ہے ادا کر دیا اور دونوں قسم کا حسن روحانی ظاہر کیا.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۱۹ تا ۲۲۱) اسی مضمون میں جو جلسہ میں پڑھا گیا مضمون کے پڑھنے والے نے یہ بیان کیا کہ پر میشر غضب اور کینہ اور بغض اور حسد سے الگ ہے.شاید اس تقریر سے اس کا یہ مطلب ہے کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کی نسبت غضب کا لفظ آیا ہے تو گویا وہ اپنے اس مضمون میں قرآن شریف کے مقابل پر وید کو اس تعلیم سے مبرا کرتا ہے کہ خدا غضب بھی کیا کرتا ہے مگر یہ اس کی سراسر غلطی ہے.یادر ہے کہ قرآن شریف میں کسی بے جا اور ظالمانہ غضب البقرة: ۳۵ تا النجم : ۱۰۹

Page 106

1+1 جل شانہ و عزاسمہ کی طرف خدا تعالیٰ کو منسوب نہیں کیا گیا بلکہ مطلب صرف اس قدر ہے کہ بوجہ نہایت پاکیزگی اور تقدس کے خدا تعالیٰ میں ہم رنگ غضب ایک صفت ہے اور وہ صفت تقاضا کرتی ہے کہ نافرمان کو جو سرکشی سے باز نہیں آتا اس کی سزا دی جائے اور ایک دوسری صفت ہم رنگ محبت ہے اور وہ تقاضا کرتی ہے کہ فرمانبردار کو اس کی اطاعت کی جزا دی جائے.پس سمجھانے کے لئے پہلی صفت کا نام غضب اور دوسری صفت کا نام محبت رکھا گیا ہے.لیکن نہ وہ غضب انسانی غضب کی طرح ہے اور نہ وہ محبت انسانی محبت کی طرح جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے.لیس گیفلِه شی.یعنی خدا کی ذات اور صفات کی مانند کوئی چیز نہیں.بھلا ہم پوچھتے ہیں کہ آریوں کے وید کی رو سے ان کا پرمیشر کیوں گنہگاروں کو سزا دیتا ہے.یہاں تک کہ انسانی جون سے بہت نیچے پھینک کر گتا، سور، بندر، بلا بنا دیتا ہے آخر اس میں ایک ایسی صفت ماننی پڑتی ہے کہ جو اس فعل کے لئے وہ محرک ہو جاتی ہے.اسی صفت کا نام قرآن شریف میں غضب ہے....اگر اس میں اس قسم کی صفت موجود نہیں کہ وہ تقاضا کرتی ہے کہ پر میشر گنہگاروں کو سزا دے تو پھر کیوں پر میشر کی طبیعت سزا دینے کی طرف متوجہ ہوتی ہے؟ آخر اس میں ایک صفت ہے جو بدلہ دینے کے لئے توجہ دلاتی ہے.پس اسی صفت کا نام غضب ہے.لیکن وہ غضب نہ انسان کے غضب کی مانند ہے بلکہ خدا کی شان کی مانند.اسی غضب کا ذکر قرآن شریف میں موجود ہے.جب وہ ایک اچھے عمل کرنے والے پر اپنا انعام واکرام وارد کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اُس نے اس سے محبت کی اور جب وہ ایک برا عمل کرنے والے کو سزا دیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اُس نے اُس پر غضب کیا غرض جیسا کہ ویدوں میں غضب کا ذکر ہے ایسا ہی قرآن شریف میں بھی ذکر ہے.صرف یہ فرق ہے کہ ویدوں نے خدا کے غضب کو اس حد تک پہنچا دیا کہ یہ تجویز کیا کہ وہ شدت غضب کی وجہ سے انسانوں کو گنہ کی وجہ سے کیڑے الشورای : ۱۲

Page 107

۱۰۲ جل شانہ و عزاسمہ مکوڑے بنا دیتا ہے مگر قرآن شریف نے خدا تعالیٰ کے غضب کو اس حد تک نہیں پہنچایا بلکہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا باوجو د سزا دینے کے پھر بھی انسان کو انسان ہی رکھتا ہے کسی اور جون میں نہیں ڈالتا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن شریف کی رو سے خدا تعالیٰ کی محبت اور رحمت اس کے غضب سے بڑھ کر ہے.اور وید کی رو سے گنہگاروں کی سزا نا پیدا کنار ہے اور پر میشر میں غضب ہی غضب ہے رحمت کا نام ونشان نہیں مگر قرآن شریف سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ انجام کار دوزخیوں پر ایسا زمانہ آوے گا کہ خدا سب پر رحم فرمائے گا.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۶ تا ۵۰) انجیل میں ہے کہ تم اس طرح دعا کرو کہ اے ہمارے باپ کہ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو.تیری بادشاہت آوے تیری مرضی جیسی آسمان پر ہے زمین پر آوے.ہماری روزانہ روٹی آج ہمیں بخش اور جس طرح ہم اپنے قرضداروں کو بخشتے ہیں تو اپنے قرض کو ہمیں بخش دے اور ہمیں آزمائش میں نہ ڈال بلکہ برائی سے بچا کیونکہ بادشاہت اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں.مگر قرآن کہتا ہے کہ یہ نہیں کہ زمین تقدیس سے خالی ہے بلکہ زمین پر بھی خدا کی تقدیس ہو رہی ہے نہ صرف آسمان پر جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ الْايُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ یعنی ذرّہ ذرّہ زمین کا اور آسمان کا خدا کی تحمید اور تقدیس کر رہا ہے اور جو کچھ اُن میں ہے وہ تحمید اور تقدیس میں مشغول ہے، پہاڑ اس کے ذکر میں مشغول ہیں ، در یا اس کے ذکر میں مشغول ہیں.درخت اس کے ذکر میں مشغول ہیں.اور بہت سے راستباز اس کے ذکر میں مشغول ہیں اور جو شخص دل اور زبان کے ساتھ اس کے ذکر میں مشغول نہیں اور خدا کے آگے فروتنی نہیں کرتا اس سے طرح طرح کے شکنجوں اور عذابوں سے قضا و قدر الہی فروتنی کرا رہی ہے اور جو کچھ فرشتوں کے بارے میں خدا کی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ نہایت بنی اسرآئیل : ۴۵ تا الجمعة : ۲

Page 108

۱۰۳ جل شانہ و عزاسمہ درجہ اطاعت کر رہے ہیں یہی تعریف زمین کے پات پات اور ذرہ ذرہ کی نسبت قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہر ایک چیز اس کی اطاعت کر رہی ہے.ایک پتہ بھی بجز اس کے امر کے گر نہیں سکتا اور بجز اس کے حکم کے نہ کوئی دو اشفادے سکتی ہے اور نہ کوئی غذا موافق ہو سکتی ہے اور ہر ایک چیز غایت درجہ کے تذلل اور عبودیت سے خدا کے آستانہ پر گری ہوئی ہے اور اس کی فرمانبرداری میں مستغرق ہے.پہاڑوں اور زمین کا ذرہ ذرہ اور دریاؤں اور سمندروں کا قطرہ قطرہ اور درختوں اور بوٹیوں کا پات پات اور ہر ایک جز اُن کا اور انسان اور حیوانات کے کل ذرات خدا کو پہچانتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کی تحمید و تقدیس میں مشغول ہیں اسی واسطے نے فرمایا - يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ " یعنی جیسے آسمان پر ہر یک چیز خدا کی تسبیح و تقدیس کر رہی ہے ویسے زمین پر بھی ہر ایک چیز اس کی تسبیح و تقدیس کرتی ہے.پس کیا زمین پر خدا کی تحمید و تقدیس نہیں ہوتی ؟ ایسا کلمہ ایک کامل عارف کے منہ سے نہیں نکل سکتا بلکہ زمین کی چیزوں میں سے کوئی چیز تو شریعت کے احکام کی اطاعت کر رہی ہے اور کوئی چیز قضا و قدر کے احکام کے تابع ہے اور کوئی دونوں کی اطاعت میں کمر بستہ ہے.کیا بادل ، کیا ہوا، کیا آگ، کیا زمین سب خدا کی اطاعت اور تقدیس میں محو ہیں.اگر کوئی انسان الہی شریعت کے احکام کا سرکش ہے تو الہی قضا و قدر کے حکم کا تابع ہے.ان دونوں حکومتوں سے باہر کوئی نہیں.کسی نہ کسی آسمانی حکومت کا خواہر ایک کی گردن پر ہے.ہاں البتہ انسانی دلوں کی صلاح اور فساد کے لحاظ سے غفلت اور ذکر الہی نوبت به نوبت زمین پر اپنا غلبہ کرتے ہیں مگر بغیر خدا کی حکمت اور مصلحت کے یہ مدوجزر خود بخود نہیں.خدا نے چاہا کہ زمین میں ایسا ہو سو ہو گیا.سو ہدایت اور ضلالت کا دور بھی دن رات کے دور کی طرح خدا کے قانون اور اذن کے موافق چل رہا ہے نہ خود بخودباوجود اس کے ہر ایک چیز اس کی آواز سنتی ہے اور اس کی پا کی یاد کرتی ہے مگر الجمعة :٢

Page 109

۱۰۴ جل شانہ و عزاسمہ انجیل کہتی ہے کہ زمین خدا کی تقدیس سے خالی ہے.اس کا سبب اس انجیلی دُعا کے اگلے فقرہ میں بطور اشارہ بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ ابھی اس میں خدا کی بادشاہت نہیں آئی.اس لئے حکومت نہ ہونے کی وجہ سے نہ کسی اور وجہ سے خدا کی مرضی ایسے طور سے زمین پر نافذ نہیں ہو سکی جیسا کہ آسمان پر نافذ ہے مگر قرآن کی تعلیم سراسر اس کے برخلاف ہے وہ تو صاف لفظوں میں کہتا ہے کہ کوئی چور، خونی ، زانی، کافر، فاسق ، سرکش، جرائم پیشہ کسی قسم کی بدی زمین پر نہیں کر سکتا جب تک کہ آسمان پر سے اس کو اختیار نہ دیا جائے.پس کیونکر کہا جائے کہ آسمانی بادشاہت زمین پر نہیں.کیا کوئی مخالف قبضہ زمین پر خدا کے احکام کے جاری ہونے سے مزاحم ہے.سبحان اللہ! ایسا ہر گز نہیں بلکہ خدا نے خود آسمان پر فرشتوں کے لئے جدا قانون بنایا اور زمین پر انسانوں کے لئے جدا اور خدا نے اپنی آسمانی بادشاہت میں فرشتوں کو کوئی اختیار نہیں دیا بلکہ اون کی فطرت میں ہی اطاعت کا مادہ رکھ دیا ہے وہ مخالفت کر ہی نہیں سکتے اور سہو اور نسیان ان پر وارد نہیں ہوسکتا لیکن انسانی فطرت کو قبول، عدم قبول کا اختیار دیا گیا ہے اور چونکہ یہ اختیار اوپر سے دیا گیا ہے اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ فاسق انسان کے وجود سے خدا کی بادشاہت زمین سے جاتی رہی بلکہ ہر رنگ میں خدا کی ہی بادشاہت ہے.ہاں صرف قانون دو ہیں ایک آسمانی فرشتوں کے لئے قضا و قدر کا قانون ہے کہ وہ بدی کر ہی نہیں سکتے اور ایک زمین پر انسانوں کے لئے خدا کے قضا و قدر کے متعلق ہے اور وہ یہ کہ آسمان سے اون کو بدی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے مگر جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو روح القدس کی تائید سے ان کی کمزوری دور ہو سکتی ہے اور وہ گناہ کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بچتے ہیں اور اگر ایسے لوگ ہیں کہ گنہ گار ہو چکے ہیں تو استغفار ان کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی.اور جرائم پیشہ جو استغفار نہیں کرتے یعنی خدا سے طاقت نہیں مانگتے وہ اپنے جرائم کی سزا پاتے رہتے ہیں.

Page 110

۱۰۵ جل شانہ و عزاسمہ دیکھو آج کل طاعون بھی بطور سزا کے زمین پر اتری ہے اور خدا کے سرکش اوس سے ہلاک ہوتے جاتے ہیں پھر کیونکر کہا جائے کہ خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں یہ خیال مت کرو کہ اگر زمین پر خدا کی بادشاہت ہے تو پھر لوگوں سے جرائم کیوں ظہور میں آتے ہیں کیونکہ جرائم بھی خدا کے قانون قضاء وقد ر کے نیچے ہیں سو اگر چہ وہ لوگ قانون شریعت سے باہر ہو جاتے ہیں مگر قانون تکوین یعنی قضاء و قدر سے وہ باہر نہیں ہو سکتے.پس کیونکر کہا جائے کہ جرائم پیشہ لوگ الہی سلطنت کا جوا اپنی گردن پر نہیں رکھتے...اگر خدا کا قانون ابھی سخت ہو جائے اور ہر یک زنا کرنے والے پر بجلی پڑے اور ہر یک چورکو یہ بیماری پیدا ہو کہ ہاتھ گل سڑ کر گر جائیں اور ہر یک سرکش خدا کا منکر اس کے دین کا منکر طاعون سے مرے تو ایک ہفتہ گذرنے سے پہلے ہی تمام دنیا راستبازی اور نیک بختی کی چادر پہن سکتی ہے.پس خدا کی زمین پر بادشاہت تو ہے لیکن آسمانی قانون کی نرمی نے اس قدر آزادی دے رکھی ہے کہ جرائم پیشہ جلدی نہیں پکڑے جاتے ہاں سزائیں بھی ملتی رہتی ہیں.زلزلے آتے ہیں.بجلیاں پڑتی ہیں.کوہ آتش فشاں آتش بازی کی طرح مشتعل ہو کر ہزاروں جانوں کا نقصان کرتے جاتے ہیں.جہاز غرق ہوتے ہیں.ریل گاڑیوں کے ذریعہ سے صد ہا جانیں تلف ہوتی ہیں.طوفان آتے ہیں.مکانات گرتے ہیں.سانپ کاٹتے ہیں.درندے پھاڑتے ہیں.وبائیں پڑتی ہیں.اور فنا کرنے کا نہ ایک دروازہ بلکہ ہزارہا دروازے کھلے ہیں جو مجرمین کی پاداش کے لئے خدا کے قانون قدرت نے مقرر کر رکھے ہیں.پھر کیونکر کہا جائے کہ خدا کی زمین پر بادشاہت نہیں.سچ یہی ہے کہ بادشاہت تو ہے.ہر ایک مجرم کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں پڑی ہیں اور پاؤں میں زنجیر ہیں مگر حکمت الہی نے اس قدر اپنے قانون کو نرم کر دیا ہے کہ وہ ہتکڑیاں اور وہ زنجیریں فی الفور اپنا اثر نہیں دکھاتی ہیں اور آخر اگر انسان باز نہ آوے تو دائمی جہنم تک پہنچاتی ہیں اور اس عذاب میں ڈالتی ہیں جس سے ایک مجرم نہ زندہ رہے اور نہ مرے.غرض قانون دو ۲ ہیں.ایک وہ

Page 111

1+4 جل شانہ و عزاسمہ قانون جو فرشتوں کے متعلق ہے یعنی یہ کہ وہ محض اطاعت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور اُن کی اطاعت محض فطرت روشن کا ایک خاصہ ہے.وہ گناہ نہیں کر سکتے مگر نیکی میں ترقی بھی نہیں کر سکتے.(۲) دوسرا قانون وہ ہے جو انسانوں کے متعلق ہے.یعنی یہ کہ انسانوں کی فطرت میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ گنہ کر سکتے ہیں مگر نیکی میں ترقی بھی کر سکتے ہیں.یہ دونوں فطرتی قانون غیر متبدل ہیں اور جیسا کہ فرشتہ انسان نہیں بن سکتا ہے ایسا ہی انسان بھی فرشتہ نہیں ہو سکتا ہے یہ دونوں قانون بدل نہیں سکتے ازلی اور اٹل ہیں.اس لئے آسمان کا قانون زمین پر نہیں آسکتا اور نہ زمین کا قانون فرشتوں کے متعلق ہوسکتا ہے.انسانی خطا کاریاں اگر تو بہ کے ساتھ ختم ہوں تو وہ انسان کو فرشتوں سے بہت اچھا بنا سکتی ہیں.کیونکہ فرشتوں میں ترقی کا مادہ نہیں انسان کے گنہ تو بہ سے بخشے جاتے ہیں.اور حکمت الہی نے بعض افراد میں سلسلہ خطا کاریوں کا باقی رکھا ہے تا وہ گناہ کر کے اپنی کمزوری پر اطلاع پاویں اور پھر تو بہ کر کے بخشے جاویں.یہی قانون ہے جو انسان کے لئے مقرر کیا گیا ہے اور اسی کو انسانوں کی فطرت چاہتی ہے.سہو و نسیان انسانی فطرت کا خاصہ ہے فرشتہ کا خاصہ نہیں پھر وہ قانون جو فرشتوں کے متعلق ہے انسانوں میں کیونکر نافذ ہو سکے.یہ خطا کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف کمزوری منسوب کی جاوے.صرف قانون کے نتائج ہیں جو زمین پر جاری ہو رہے ہیں.نعوذ باللہ کیا خدا ایسا کمزور ہے جس کی بادشاہت اور قدرت اور جلال صرف آسمان تک ہی محدود ہے یا زمین کا کوئی اور خدا ہے جو زمین پر مخالفانہ قبضہ رکھتا ہے.اور عیسائیوں کو اس بات پر زور دینا اچھا نہیں کہ صرف آسمان میں ہی خدا کی بادشاہت ہے جو ابھی زمین پر نہیں آئی کیونکہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ آسمان کچھ چیز نہیں اب ظاہر ہے کہ جبکہ آسمان کچھ چیز نہیں جس پر خدا کی بادشاہت ہو اور زمین پر ابھی خدا کی بادشاہت آئی نہیں تو گویا خدا کی بادشاہت کسی جگہ بھی نہیں.ماسوا اس کے ہم خدا کی زمینی بادشاہت کو بچشم خود دیکھ رہے ہیں.اُس کے قانون کے موافق ہماری عمریں ختم ہو جاتی ہیں اور ہماری

Page 112

۱۰۷ جل شانہ و عزاسمہ حالتیں بدلتی رہتی ہیں اور صد بارنگ کے راحت اور رنج ہم دیکھتے ہیں.ہزار ہا لوگ خدا کے حکم سے مرتے ہیں اور ہزار ہا پیدا ہوتے ہیں.دعا ئیں قبول ہوتی ہیں.نشان ظاہر ہوتے ہیں.زمین ہزار ہا قسم کے نباتات اور پھل اور پھول اس کے حکم سے پیدا کرتی ہے تو کیا یہ سب کچھ خدا کی بادشاہت کے بغیر ہو رہا ہے بلکہ آسمانی اجرام تو ایک ہی صورت اور منوال پر چلے آتے ہیں.اور ان میں تغییر تبدیل جس سے ایک مغیر مبدل کا پتہ ملتا ہو کچھ محسوس نہیں ہوتی مگر زمین ہزار ہا تغیرات اور انقلابات اور تبدلات کا نشانہ ہورہی ہے.ہر روز کروڑ ہا انسان دنیا سے گذرتے ہیں اور کروڑہا پیدا ہوتے ہیں اور ہر ایک پہلو اور ہر ایک طور سے ایک مقتدر صانع کا تصرف محسوس ہورہا ہے تو کیا ابھی تک خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں اور انجیل نے اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی کہ کیوں ابھی تک خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں آئی.البتہ مسیح کا باغ میں اپنے بچ جانے کے لئے ساری رات دعا کرنا اور دُعا قبول بھی ہو جانا جیسا کہ عبرانیاں ۵ آیت ۷ میں لکھا ہے.مگر پھر بھی خدا کا اس کے چھڑانے پر قادر نہ ہونا یہ بزعم عیسائیاں ایک دلیل ہوسکتی ہے کہ اس زمانہ میں خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں تھی.مگر ہم نے اس سے بڑھ کر ابتلا دیکھے ہیں اور اُن سے نجات پائی ہے ہم کیونکر خدا کی بادشاہت کا انکار کر سکتے ہیں.کیا وہ خون کا مقدمہ جو میرے قتل کرنے کے لئے مارٹن کلارک کی طرف سے عدالت کپتان ڈگلس میں پیش ہوا تھا.وہ اوس مقدمہ سے کچھ خفیف تھا جو محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے نہ کسی خون کے اتہام سے یہودیوں کی طرف سے عدالت پیلاطوس میں دائر کیا گیا تھا مگر چونکہ خدا زمین کا بھی بادشاہ ہے جیسا کہ آسمان کا اس لئے اس نے اس مقدمہ کی پہلے سے مجھے خبر دیدی کہ یہ ابتلا آنے والا ہے اور پھر خبر دے دی کہ میں تم کو بری کروں گا اور وہ خبر صد با انسانوں کو قبل از وقت سنائی گئی.اور آخر مجھے بری کیا گیا.پس یہ خدا کی بادشاہت تھی جس نے اس مقدمہ سے مجھے بچالیا جو مسلمانوں اور ہندوؤں اور عیسائیوں کے اتفاق سے مجھ پر کھڑا کیا گیا تھا.ایسا ہی نہ ایک دفعہ بلکہ بیسیوں

Page 113

۱۰۸ جل شانہ و عزاسمہ دفعہ میں نے خدا کی بادشاہت کو زمین پر دیکھا اور مجھے خدا کی اس آیت پر ایمان لانا پڑا کہ لهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ لا یعنی زمین پر بھی خدا کی بادشاہت ہے اور آسمان پر بھی اور پھر اس آیت پر ایمان لانا پڑا کہ إِثْمَا اَمْرُةٌ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ لا یعنی تمام زمین و آسمان اس کی اطاعت کر رہی ہیں.جب ایک کام کو چاہتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا تو فی الفور وہ کام ہو جاتا ہے اور پھر فرماتا ہے وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ ولكن أكثرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ) یعنی خدا اپنے ارادہ پر غالب ہے مگر اکثر لوگ خدا کے قہر اور جبروت سے بے خبر ہیں.غرض یہ تو انجیل کی دُعا ہے جو انسانوں کو خدا کی رحمت سے نومید کرتی ہے اور اس کی ربوبیت اور افاضہ اور جزا سزا سے عیسائیوں کو بے باک کرتی ہے اور اس کوز مین پر مدد دینے کے قابل نہیں جانتی جب تک اس کی بادشاہت زمین پر نہ آوے لیکن اس کے مقابل پر جو دُعا خدا نے مسلمانوں کو قرآن میں سکھلائی ہے وہ اس بات کو پیش کرتی ہے کہ زمین پر خُدا مسلوب السلطنت لوگوں کی طرح بے کار نہیں ہے بلکہ اس کا سلسلہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور مجازات زمین پر جاری ہے اور وہ اپنے عابدوں کو مدد دینے کی طاقت رکھتا ہے اور مجرموں کو اپنے غضب سے ہلاک کر سکتا ہے.وہ دعا یہ ہے.الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) آمين ترجمہ: وہ خدا ہی ہے جو تمام تعریفوں کا مستحق ہے یعنی اس کی بادشاہت میں کوئی نقص نہیں اور اس کی خوبیوں کے لئے کوئی ایسی حالت منتظرہ باقی نہیں جو آج نہیں مگر کل حاصل ہوگی اور اس کی بادشاہت کے لوازم میں سے کوئی چیز بے کار نہیں تمام عالموں کی الحديد : ٣ لايس : ۸۳ تا یوسف : ۲۲ الفاتحة : ۲ تا ۷ ۳

Page 114

1+9 جل شانہ و عزاسمہ پرورش کر رہا ہے.بغیر عوض اعمال کے رحمت کرتا ہے اور نیز بعوض اعمال رحمت کرتا ہے.جز اسز ا وقت مقررہ پر دیتا ہے.اُسی کی ہم عبادت کرتے ہیں اور اسی سے ہم مدد چاہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ہمیں تمام نعمتوں کی راہیں دکھلا اور غضب کی راہوں اور ضلالت کی راہوں سے دُور رکھ.یہ دُعا جو سورۃ فاتحہ میں ہے انجیل کی دُعا سے بالکل نقیض ہے کیونکہ انجیل میں زمین پر خدا کی موجودہ بادشاہت ہونے سے انکار کیا گیا ہے.پس انجیل کے رو سے نہ زمین پر خدا کی ربوبیت کچھ کام کر رہی ہے نہ رحمانیت نہ رحیمیت نہ قدرت جزا سزا کیونکہ ابھی زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں آئی.مگر سورۃ فاتحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت موجود ہے.اسی لئے سورۃ فاتحہ میں تمام لوازم بادشاہت کے بیان کئے گئے ہیں.ظاہر ہے کہ بادشاہ میں یہ صفات ہونی چاہئیں کہ وہ لوگوں کی پرورش پر قدرت رکھتا ہو.سوسورۃ فاتحہ میں رب العالمین کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کیا گیا ہے.پھر دوسری صفت بادشاہ کی یہ چاہئے کہ جو کچھ اس کی رعایا کو اپنی آبادی کے لئے ضروری سامان کی حاجت ہے وہ بغیر عوض ان کی خدمات کے خود رحم خسروانہ سے بجالا وےسوالرحمن کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کر دیا ہے.تیسری صفت بادشاہ میں یہ چاہئے کہ جن کاموں کو اپنی کوشش سے رعایا انجام تک نہ پہنچا سکے ان کے انجام کے لئے مناسب طور پر مدد دے.سو الرحیم کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کیا ہے.چوتھی صفت بادشاہ میں یہ چاہئے کہ جزا وسزا پر قادر ہوتا سیاست مدنی کے کام میں خلل نہ پڑے.سو مالک یوم الدین کے لفظ سے اس صفت کو ظاہر کر دیا ہے.خلاصہ کلام یہ کہ سورۃ موصوفہ بالا نے تمام وہ لوازم بادشاہت پیش کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت اور بادشاہی تصرفات موجود ہیں.سنو اور سمجھو کہ بڑی معرفت یہی ہے کہ زمین کا ذرہ ذرہ بھی ایسا ہی خدا کے قبضہ اقتدار میں ہے جیسا کہ آسمان کا ذرہ ذرہ خدا کی

Page 115

11 + جل شانہ و عزاسمہ بادشاہت میں ہے.اور جیسا کہ آسمان پر ایک عظیم الشان تجلی ہے زمین پر بھی ایک عظیم الشان حجتی ہے بلکہ آسمان کی تجلی تو ایک ایمانی امر ہے.عام انسان نہ آسمان پر گئے نہ اوس کا مشاہدہ کیا مگر زمین پر جو خدا کی بادشاہت کی تجلتی ہے وہ تو صریح ہر ایک شخص کو آنکھوں سے نظر آ رہی ہے.ہر ایک انسان خواہ کیسا ہی دولت مند ہوا اپنی خواہش کے مخالف موت کا پیالہ پیتا ہے.پس دیکھو اس شاہ حقیقی کے حکم کی کیسی زمین پر تجلی ہے کہ جب حکم آ جاتا ہے تو کوئی اپنی موت کو ایک سیکنڈ بھی روک نہیں سکتا.ہر ایک خبیث اور نا قابل علاج مرض جب دامن گیر ہوتی ہے تو کوئی طبیب ڈاکٹر اس کو دُور نہیں کر سکتا.پس غور کرو یہ کیسی خدا کی بادشاہت کی زمین پر تجلتی ہے جو اس کے حکم رد نہیں ہو سکتے.پھر کیونکر کہا جائے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں بلکہ آئندہ کسی زمانہ میں آئے گی.دیکھو اسی زمانہ میں خدا کے آسمانی حکم نے طاعون کے ساتھ زمین کو ہلا دیا تا اس کے مسیح موعود کے لئے ایک نشان ہو پس کون ہے جو اس کی مرضی کے سوا اس کو دور کر سکے پس کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ابھی زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں.ہاں ایک بدکار قیدیوں کی طرح اس کی زمین میں زندگی بسر کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کبھی نہ مرے لیکن خدا کی سچی بادشاہت اس کو ہلاک کر دیتی ہے اور وہ آخر پنجہ ملک الموت میں گرفتار ہو جاتا ہے.پھر کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک خدا کی زمین پر بادشاہت نہیں.دیکھو زمین پر ہر روز خدا کے حکم سے ایک ساعت میں کروڑ ہا انسان مر جاتے ہیں اور کروڑہا اوس کے ارادہ سے پیدا ہو جاتے ہیں اور کروڑہا اُس کی مرضی سے فقیر سے امیر اور امیر سے فقیر ہو جاتے ہیں پھر کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں.آسمانوں پر تو صرف فرشتے رہتے ہیں مگر زمین پر آدمی بھی ہیں اور فرشتے بھی جو خدا کے کارکن ہیں اور اس کی سلطنت کے خادم ہیں جو انسانوں کے مختلف کاموں کے محافظ چھوڑے گئے ہیں اور وہ ہر وقت خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور اپنی رپورٹیں بھیجتے رہتے ہیں.پس کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں بلکہ خدا سب سے زیادہ

Page 116

جل شانہ و عزاسمہ اپنی زمینی بادشاہت سے پہچانا گیا ہے کیونکہ ہر ایک شخص خیال کرتا ہے کہ آسمان کا راز مخفی اور غیر مشہود ہے.بلکہ حال کے زمانہ میں قریباً تمام عیسائی اور ان کے فلاسفر آسمانوں کے وجود کے ہی قائل نہیں جن پر خدا کی بادشاہت کا انجیلوں میں سارا مدار رکھا گیا ہے مگر زمین تو فی الواقع ایک کرہ ہمارے پاؤں کے نیچے ہے.اور ہزار ہا قضا وقدر کے امور اس پر ظاہر ہو رہے ہیں جو خود سمجھ آتا ہے کہ یہ سب کچھ تغیر و تبدل اور حدوث اور فن کسی خاص مالک کے حکم سے ہو رہا ہے پھر کیونکر کہا جائے کہ زمین پر ابھی خدا کی بادشاہت نہیں...ہمارے خدا عزوجل نے سورۃ فاتحہ میں نہ آسمان کا نام لیا نہ زمین کا.اور یہ کہہ کر حقیقت سے ہمیں خبر دے دی کہ وہ رب العالمین ہے یعنی جہاں تک آبادیاں ہیں اور جہاں تک کسی قسم کی مخلوق کا وجود موجود ہے.خواہ اجسام خواہ ارواح ان سب کا پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا خدا ہے جو ہر وقت ان کی پرورش کرتا ہے اور ان کے مناسب حال ان کا انتظام کر رہا ہے.اور تمام عالموں پر ہر وقت ہر دم اس کا سلسلہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور جزا سزا کا جاری ہے.اور یادر ہے کہ سورۃ فاتحہ میں فقرہ مالک یوم الدین سےصرف یہ مراد نہیں ہے کہ قیامت کو جزا سزا ہوگی بلکہ قرآن شریف میں بار بار اور صاف صاف بیان کیا گیا ہے کہ قیامت تو مجازات گبری کا وقت ہے.مگر ایک قسم کی مجازات اسی دنیا میں شروع ہے جس کی طرف آیت يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا اشارہ کرتی ہے.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۲ تا ۴۲) واضح ہو کہ قرآن شریف کی تعلیم کی رُو سے خدا جیسا کہ آسمان پر ہے زمین پر بھی.ہے جیسا کہ اوس نے فرما یا هُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ الهُ وَ فِي الْأَرْضِ الهُ - لا یعنی زمین میں وہی خدا ہے اور وہی آسمان میں خدا.اور فرمایا کہ کسی پوشیدہ مشورہ میں تین آدمی نہیں ہوتے جن کے ساتھ چوتھا خدا نہیں ہوتا اور فرمایا کہ وہ غیر محدود ہے جیسا کہ اس آیت میں لکھا الانفال:۳۰ تا الزخرف : ۸۵

Page 117

١١٢ جل شانہ و عزاسمہ ہے لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ لا یعنی آنکھیں اس کے انتہا کو نہیں پا سکتیں اور وہ آنکھوں کے انتہا تک پہنچتا ہے.ایسا ہی خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ تا یعنی ہم انسان کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اس سے نزدیک ہیں.اور یہ بھی ایک جگہ فرمایا کہ خدا ہر ایک چیز پر محیط ہے اور یہ بھی فرمایا.کہ اَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ - لا یعنی خدا وہ ہے جو انسان اور اُس کے دل میں حائل ہو جاتا ہے.اور یہ بھی فرمایا کہ اللهُ نُورُ السّمواتِ وَالْأَرْضِ لا یعنی خدا وہ ہے جو زمین اور آسمان میں اسی کے چہرہ کی چمک ہے اور اس کے بغیر سب تاریکی ہے اور یہ بھی فرمایا کہ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ قا یعنی ہر ایک وجود ہلاک ہونے والا اور تغیر پذیر ہے اور وہ جو باقی رہنے والا ہے وہی خدا ہے یعنی ہر ایک چیز فنا قبول کرتی ہے اور تغیر قبول کرتی ہے مگر انسانی فطرت اس بات کے ماننے کے لئے مجبور ہے کہ اس تمام عالم ارضی اور سماوی میں ایک ایسی ذات بھی ہے کہ جب سب پر فنا اور تغیر وارد ہو اس پر تغیر اور فنا وارد نہیں ہوگی.وہ اپنے حال پر باقی رہتا ہے وہی خدا ہے لیکن چونکہ زمین پر گناہ اور معصیت اور ناپاک کام بھی ظاہر ہوتے ہیں اور خدا کوصرف زمین تک محدود رکھنے والے آخر کا ر بت پرست اور مخلوق پرست ہو جاتے ہیں.جیسا کہ تمام ہندو ہو گئے.اس لئے قرآن شریف میں ایک طرف تو یہ بیان کیا کہ خدا کا اپنی مخلوق سے شدید تعلق ہے اور وہ ہر ایک جان کی جان ہے اور ہر ایک ہستی اُسی کے سہارے سے ہے.پھر دوسری طرف اس غلطی سے محفوظ رکھنے کے لئے کہ تا اس کے تعلق سے جو انسان کے ساتھ ہے کوئی شخص انسان کو اس کا عین ہی نہ سمجھ بیٹھے جیسا کہ ویدانت والے سمجھتے ہیں.یہ بھی فرما دیا کہ وہ سب سے برتر اور تمام مخلوقات سے وراء الوراء مقام پر ہے جس کو شریعت کی اصطلاح میں عرش کہتے ہیں.اور عرش کوئی مخلوق چیز نہیں ہے الانعام: ۱۰۴ تاق : ۱۷ تا الانفال : ۲۵ تا النور : ۳۶ قا الرحمن : ۲۸،۲۷

Page 118

۱۱۳ جل شانہ و عزاسمہ صرف وراء الوراء مرتبہ کا نام ہے نہ یہ کہ کوئی ایسا تخت ہے جس پر خدا تعالیٰ کو انسان کی طرح بیٹھا ہوا تصور کیا جائے بلکہ جو مخلوق سے بہت دور اور تنزہ اور تقدس کا مقام ہے اس کو عرش کہتے ہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ سب کے ساتھ خالقیت اور مخلوقیت کا تعلق قائم کر کے پھر عرش پر قائم ہو گیا یعنی تمام تعلقات کے بعد ا الگ کا الگ رہا اور مخلوق کے ساتھ مخلوط نہیں ہوا.غرض خدا کا انسان کے ساتھ ہونا اور ہر ایک چیز پر محیط ہونا یہ خدا کی تشبیہی صفت ہے.اور خدا نے قرآن شریف میں اس لئے اس صفت کا ذکر کیا ہے کہ تا وہ انسان پر اپنا قرب ثابت کرے اور خدا کا تمام مخلوقات سے وراء الوراء ہونا اور سب سے برتر اور اعلیٰ اور دور تر ہونا اور اس تنزہ اور تقدس کے مقام پر ہونا جومخلوقیت سے دُور ہے جو عرش کے نام سے پکارا جاتا ہے اس صفت کا نام تنزیہی صفت ہے اور خدا نے قرآن شریف میں اس لئے اس صفت کا ذکر کیا تا وہ اس سے اپنی توحید اور اپنا وحدہ لاشریک ہونا اور مخلوق کی صفات سے اپنی ذات کا منزہ ہونا ثابت کرے.دوسری قوموں نے خدا تعالیٰ کی ذات کی نسبت یا تو تنزیہی صفت اختیار کی ہے یعنی نرگن کے نام سے پکارا ہے اور یا اس کو سر گن مان کر ایسی تشبیہ قرار دی ہے کہ گویا وہ عین مخلوقات ہے اور ان دونوں صفات کو جمع نہیں کیا.مگر خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ان دونوں صفات کے آئینہ میں اپنا چہرہ دکھلایا ہے اور یہی کمال توحید ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۷ تا۹۹) مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے تمام قرآن شریف کو اوّل سے آخر تک پڑھو اوس میں ہرگز نہیں پاؤ گے کہ عرش بھی کوئی چیز محدود اور مخلوق ہے.خدا نے بار بار قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ہر ایک چیز جو کوئی وجود رکھتی ہے اس کا میں ہی پیدا کرنے والا ہوں.میں ہی زمین آسمان اور روحوں اور اُن کی تمام قوتوں کا خالق ہوں.میں اپنی ذات میں آپ قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ

Page 119

۱۱۴ جل شانہ و عزاسمہ قائم ہے.ہر ایک ذرہ اور ہر ایک چیز جو موجود ہے وہ میری ہی پیدائش ہے مگر کہیں نہیں فرمایا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے جس کا میں پیدا کرنے والا ہوں...قرآن شریف میں لفظ عرش کا جہاں جہاں استعمال ہوا ہے.اُس سے مراد خدا کی عظمت اور جبروت اور بلندی ہے.اسی وجہ سے اس کو مخلوق چیزوں میں داخل نہیں کیا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مظہر چار ہیں جو وید کے رُو سے چار دیوتے کہلاتے ہیں مگر قرآنی اصطلاح کی رُو سے اون کا نام فرشتے بھی ہے.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۵۳ تا ۴۵۶) عرش سے مراد قرآن شریف میں وہ مقام ہے جو شیہی مرتبہ سے بالا تر اور ہر ایک عالم سے برتر اور نہاں در نہاں اور تقدس اور تنزہ کا مقام ہے وہ کوئی ایسی جگہ نہیں کہ پتھر یا اینٹ یا کسی اور چیز سے بنائی گئی ہو اور خدا اُس پر بیٹھا ہوا ہے.اسی لئے عرش کو غیر مخلوق کہتے ہیں اور خدا تعالیٰ جیسا کہ یہ فرماتا ہے کہ کبھی وہ مومن کے دل پر اپنی تجلی کرتا ہے ایسا ہی وہ فرماتا ہے کہ عرش پر اُس کی تحلی ہوتی ہے اور صاف طور پر فرماتا ہے کہ ہر ایک چیز کو میں نے اٹھایا ہوا ہے.یہ کہیں نہیں کہا کہ کسی چیز نے مجھے بھی اٹھایا ہوا ہے اور عرش جو ہر ایک عالم سے برتر مقام ہے وہ اُس کی تنزیہی صفت کا مظہر ہے اور ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ ازل سے اور قدیم سے خدا میں دوصفتیں ہیں.ایک صفت تشبیہی دوسری صفت تنزیہی اور چونکہ خدا کے کلام میں دونوں صفات کا بیان کرنا ضروری تھا یعنی ایک تشبیہی صفت اور دوسری تنزیہی صفت.اس لئے خدا نے تشیبی صفات کے اظہار کے لئے اپنے ہاتھ ، آنکھ، محبت، غضب وغیرہ صفات قرآن شریف میں بیان فرمائے اور پھر جبکہ احتمال تشبیہ کا پیدا ہوا تو بعض جگہ لیس كَمِثْلِهِ کہہ دیا اور بعض جگہ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِش کہہ دیا جیسا کہ سورة رعد جز و نمبر 11 میں بھی یہ آیت ہے.الله الذي رَفَعَ السَّمَوتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ( ترجمہ ) تمہارا خدا وہ خدا ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے الرعد : ٣

Page 120

۱۱۵ جل شانہ و عزاسمہ بلند کیا جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو اور پھر اُس نے عرش پر قرار پکڑا.اس آیت کے ظاہری معنی کی رو سے اس جگہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پہلے خدا کا عرش پر قرار نہ تھا؟ اس کا یہی جواب ہے کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے بلکہ وراء الوراء ہونے کی ایک حالت ہے جو اس کی صفت ہے پس جبکہ خدا نے زمین و آسمان اور ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور ظلی طور پر اپنے نور سے سورج چاند اور ستاروں کو نور بخشا اور انسان کو بھی استعارہ کے طور پر اپنی شکل پر پیدا کیا اور اپنے اخلاق کریمہ اُس میں پھونک دیئے تو اس طور سے خدا نے اپنے لئے ایک تشبیہہ قائم کی مگر چونکہ وہ ہر ایک تشبیہہ سے پاک ہے اس لئے عرش پر قرار پکڑنے سے اپنے تنزہ کا ذکر کر دیا.خلاصہ یہ کہ وہ سب کچھ پیدا کر کے پھر مخلوق کا عین نہیں ہے بلکہ سب سے الگ اور وراء الوراء مقام پر ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۷،۲۷۶) ایک اور اعتراض مخالف لوگ پیش کرتے ہیں.اور وہ یہ کہ قرآن شریف کے بعض مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھا ئیں گے.جس سے اشارۃ النص کے طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں چار فرشتے عرش کو اٹھاتے ہیں.اور اب اس جگہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ تو اس بات سے پاک اور برتر ہے کہ کوئی اُس کے عرش کو اٹھاوے.اس کا جواب یہ ہے کہ ابھی تم من چکے ہو کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے جو اٹھائی جائے یا اٹھانے کے لائق ہو بلکہ صرف تنزہ اور نقدس کے مقام کا نام عرش ہے.اسی لئے اس کو غیر مخلوق کہتے ہیں.ورنہ ایک مجسم چیز خدا کی خالقیت سے کیونکر باہر رہ سکتی ہے.اور عرش کی نسبت جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ سب استعارات ہیں.پس اسی سے ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ایسا اعتراض محض حماقت ہے.اب ہم فرشتوں کے اٹھانے کا اصل نکتہ ناظرین کو سناتے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے تنزہ کے مقام میں یعنی اس مقام میں جبکہ اس کی صفت تنزہ اس کی تمام صفات کو روپوش کر کے اس کو وراء الوراء اور نہاں در نہاں کر دیتی ہے جس مقام کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں عرش ہے تب خدا عقولِ انسانیہ

Page 121

١١٦ جل شانہ و عزاسمہ سے بالا تر ہو جاتا ہے اور عقل کو طاقت نہیں رہتی کہ اس کو دریافت کر سکے تب اس کی چار صفتیں جن کو چار فرشتوں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.جو دنیا میں ظاہر ہو چکی ہیں اس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہیں.(۱) اول ربوبیت جس کے ذریعہ سے وہ انسان کی روحانی اور جسمانی تکمیل کرتا ہے چنانچہ روح اور جسم کا ظہور ربوبیت کے تقاضا سے ہے.اور اسی طرح خدا کا کلام نازل ہونا اور اس کے خارق عادت نشان ظہور میں آنار بوبیت کے تقاضا سے ہے.(۲) دوم خدا کی رحمانیت جو ظہور میں آچکی ہے.یعنی جو کچھ اس نے بغیر پاداش اعمال بے شمار نعمتیں انسان کے لئے میسر کی ہیں.یہ صفت بھی اس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے.(۳) تیسری خدا کی رحیمیت ہے اور وہ یہ کہ نیک عمل کرنے والوں کو اول تو صفت رحمانیت کے تقاضا سے نیک اعمال کی طاقتیں بخشتا ہے اور پھر صفت رحیمیت کے تقاضا سے نیک اعمال اُن سے ظہور میں لاتا ہے اور اس طرح پر ان کو آفات سے بچاتا ہے.یہ صفت بھی اس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے.(۴) چوتھی صفت مَالِكِ يَوْمِ الدِّین ہے.یہ بھی اس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا دیتا ہے.یہ چاروں صفتیں ہیں جو اس کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں یعنی اس کے پوشیدہ وجود کا ان صفات کے ذریعہ سے اس دنیا میں پتہ لگتا ہے.اور یہ معرفت عالم آخرت میں دو چند ہو جائے گی گویا بجائے چار کے آٹھ فرشتے ہو جائیں گے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۹،۲۷۸) تو حید ایک نور ہے جو آفاقی و انفسی معبودوں کی نفی کے بعد دل میں پیدا ہوتا ہے اور وجود کے ذرہ ذرہ میں سرایت کر جاتا ہے پس وہ بجز خدا اور اس کے رسول کے ذریعہ کے

Page 122

112 جل شانہ و عزاسمہ محض اپنی طاقت سے کیونکر حاصل ہو سکتا ہے.انسان کا فقط یہ کام ہے کہ اپنی خودی پر موت وارد کرے اور اس شیطانی نخوت کو چھوڑ دے کہ میں علوم میں پرورش یافتہ ہوں اور ایک جاہل کی طرح اپنے تئیں تصور کرے اور دعا میں لگا رہے تب توحید کا نور خدا کی طرف سے اس پر نازل ہوگا.اور ایک نئی زندگی اس کو بخشے گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۴۸) پس چونکہ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے خدا کا شناخت کرنا نبی کے شناخت کرنے سے وابستہ ہے.اس لئے یہ خود غیر ممکن اور محال ہے کہ بجز ذریعہ نبی کے توحید مل سکے.نبی خدا کی صورت دیکھنے کا آئینہ ہوتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے خدا کا چہرہ نظر آتا ہے جب خدا تعالیٰ اپنے تئیں دنیا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو نبی کو جو اس کی قدرتوں کا مظہر ہے دنیا میں بھیجتا ہے اور اپنی وحی اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی ربوبیت کی طاقتیں اس کے ذریعہ سے دکھلاتا ہے.تب دنیا کو پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے.پس جن لوگوں کا وجودضروری طور پر خدا کے قدیم قانون از لی کے رو سے خداشناسی کے لئے ذریعہ مقرر ہو چکا ہے اُن پر ایمان لانا توحید کی ایک جزو ہے اور بجز اس ایمان کے توحید کامل نہیں ہوسکتی کیونکہ ممکن نہیں کہ بغیر اُن آسمانی نشانوں اور قدرت نما عجائبات کے جو نبی دکھلاتے ہیں اور معرفت تک پہنچاتے ہیں وہ خالص تو حید جو چشمہ یقین کامل سے پیدا ہوتی ہے میسر آ سکے.وہی ایک قوم ہے جو خدا نما ہے جن کے ذریعہ سے وہ خدا جس کا وجود دقیق در دقیق اور مخفی در مخفی اور غیب الغیب ہے ظاہر ہوتا ہے.اور ہمیشہ سے وہ کنز مخفی جس کا نام خدا ہے نبیوں کے ذریعہ سے ہی شناخت کیا گیا ہے.ورنہ وہ توحید جو خدا کے نزدیک تو حید کہلاتی ہے جس پر عملی رنگ کامل طور پر چڑھا ہوا ہوتا ہے اس کا حاصل ہونا بغیر ذریعہ نبی کے جیسا کہ خلاف عقل ہے ویساہی خلاف تجارب سالکین ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۶،۱۱۵)

Page 123

۱۱۸ جل شانہ و عزاسمہ یادر ہے کہ حقیقی توحید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بُت ہو خواہ انسان ہو خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو منزہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا.کوئی رازق نہ ماننا.کوئی معزز اور مذلّ خیال نہ کرنا.کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اُسی سے خاص کرنا.اپنی عبادت اُسی سے خاص کرنا.اپنا تذلل اُسی سے خاص کرنا.اپنی اُمیدیں اُسی سے خاص کرنا.اپنا خوف اُسی سے خاص کرنا.پس کوئی تو حید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہو سکتی.اوّل ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا اور تمام کو ہالکتہ الذات اور باطلۃ الحقیقت خیال کرنا.دوم صفات کے لحاظ سے توحید.یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذاتِ باری کسی میں قرار نہ دینا اور جو بظاہر رب الانواع یا فیض رساں نظر آتے ہیں یہ اُسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا.تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے تو حید.یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گردانا اور اُسی میں کھوئے جانا.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۵۰،۳۴۹) آج کل توحید اور ہستی الہی پر بہت زور آور حملے ہورہے ہیں.عیسائیوں نے بھی بہت کچھ زور مارا اور لکھا ہے.لیکن جو کچھ کہا اور لکھا وہ اسلام کے خدا کی بابت ہی لکھا ہے نہ کہ ایک مردہ مصلوب اور عاجز خدا کی بابت.ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جو شخص کی ہستی اور وجود پر قلم اٹھائے گا اس کو آخر کا ر اُسی خدا کی طرف آنا پڑے گا جو اسلام نے پیش کیا ہے.کیونکہ صحیفہ فطرت کے ایک ایک پتے میں اس کا پتہ ملتا ہے.اور بالطبع انسان اُسی خدا کا نقش اپنے اندر رکھتا ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۵۲ایڈیشن ۲۰۰۳ء) حضرات عیسائی خوب یاد رکھیں کہ مسیح علیہ السلام کا نمونہ قیامت ہونا سرمو ثابت

Page 124

119 جل شانہ و عزاسمہ نہیں اور نہ عیسائی جی اُٹھے بلکہ مردہ اور سب مردوں سے اول درجہ پر اور تنگ و تاریک قبروں میں پڑے ہوئے اور شرک کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں.نہ ایمانی رُوح اُن میں ہے نہ ایمانی رُوح کی برکت.بلکہ ادنیٰ سے ادنی درجہ توحید کا جو مخلوق پرستی سے پر ہیز کرنا ہے وہ بھی اُن کو نصیب نہیں ہوا اور ایک اپنے جیسے عاجز اور نا تو ان کو خالق سمجھ کر اس کی پرستش کر رہے ہیں.یادر ہے کہ توحید کے تین درجے ہیں.سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ اپنے جیسی مخلوق کی پرستش نہ کریں.نہ پتھر کی.نہ آگ کی.نہ آدمی کی.نہ کسی ستارہ کی.دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسباب پر بھی ایسے نہ گریں کہ گویا ایک قسم کا اُن کو ربوبیت کے کارخانہ میں مستقل دخیل قرار دیں.بلکہ ہمیشہ مسبب پر نظر رہے نہ اسباب پر.تیسرا (۳) درجہ توحید کا یہ ہے کہ تجلیات الہیہ کا کامل مشاہدہ کر کے ہر یک غیر کے وجود کو کالعدم قرار دیں اور ایسا ہی اپنے وجود کو بھی.غرض ہر یک چیز نظر میں فانی دکھائی دے بجز کی ذات کامل الصفات کے.یہی روحانی زندگی ہے کہ یہ مراتب ثلاثہ توحید کے حاصل ہو جا ئیں.اب غور کر کے دیکھ لو کہ روحانی زندگی کے تمام جاودانی چشمے محض حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طفیل دنیا میں آئے ہیں.یہی اُمت ہے کہ اگر چہ نبی تو نہیں مگر نبیوں کی مانند خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہو جاتی ہے.اور اگر چہ رسول نہیں مگر رسولوں کی مانند خدا تعالیٰ کے روشن نشان اس کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں اور روحانی زندگی کے دریا اس میں بہتے ہیں اور کوئی نہیں کہ اس کا مقابلہ کر سکے.کوئی ہے کہ جو برکات اور نشانوں کے دکھلانے کے لئے مقابل میں کھڑا ہو کر ہمارے اس دعوی کا جواب دے!!! ( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۳ - ۲۲۴) افسوس ہے کہ مجھے وہ لفظ نہیں ملے جس میں غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے کی برائیاں بیان کرسکوں.لوگوں کے پاس جا کر منت خوشامد کرتے ہیں.یہ بات خدا تعالیٰ کی غیرت کو جوش میں لاتی ہے کیونکہ یہ تو لوگوں کی نماز ہے پس وہ اس سے ہٹتا اور اسے دُور

Page 125

۱۲۰ جل شانہ و عزاسمہ پھینک دیتا ہے میں موٹے الفاظ میں اس کو بیان کرتا ہوں.گو یہ امر اس طرح پر نہیں ہے مگر سمجھ میں خوب آ سکتا ہے کہ جیسے ایک مرد غیور کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ وہ اپنی بیوی کو کسی غیر کے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہوئے دیکھ سکے اور جس طرح پر وہ مرد ایسی حالت میں اس نابکار عورت کو واجب القتل سمجھتا بلکہ بسا اوقات ایسی وارد تیں ہو جاتی ہیں ایسا ہی جوش اور غیرت الوہیت کا ہے.عبودیت اور دعا خاص اُسی ذات کے مد مقابل ہیں.وہ پسند نہیں کر سکتا کہ کسی اور کو معبود قرار دیا جاوے یا پکارا جاوے.پس خوب یاد رکھو! اور پھر یا درکھو! کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے نماز اور تو حید کچھ ہی کہو کیونکہ تو حید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے، اس وقت بے برکت اور بے سود ہوتی ہے جب اس میں نیستی اور تذلیل کی روح اور حنیف دل نہ ہو!!! الحکم مورخه ۱۲ ۱٫ پریل ۱۸۹۹ء صفحہ ۶ - ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۰۶، ۱۰۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) شرک کی کئی قسم ہیں ایک تو وہ موٹا اور صریح شرک ہے جس میں ہندو عیسائی یہود اور دوسرے بت پرست لوگ گرفتار ہیں.جس میں کسی انسان یا پتھر یا اور بے جان چیزوں یا قوتوں یا خیالی دیویوں اور دیوتاؤں کو خدا بنالیا گیا ہے.اگر چہ یہ شرک ابھی تک دنیا میں موجود ہے لیکن یہ زمانہ روشنی اور تعلیم کا کچھ ایسا زمانہ ہے کہ عقلیں اس قسم کے شرک کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئی ہیں.یہ جدا امر ہے کہ وہ قومی مذہب کی حیثیت سے بظاہر ان بے ہودگیوں کا اقرار کریں لیکن دراصل بالطبع لوگ ان سے متنفر ہوتے جاتے ہیں.مگر ایک اور قسم کا شرک ہے جو مخفی طور پر زہر کی طرح اثر کر رہا ہے اور وہ اس زمانہ میں بہت بڑھتا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ اور اعتماد بالکل نہیں رہا.ہم یہ ہرگز نہیں کہتے اور نہ ہمارا یہ مذہب ہے کہ اسباب کی رعایت بالکل نہ کی جاوے کیونکہ خدا تعالیٰ نے رعایت اسباب کی ترغیب دی ہے اور اس حد تک جہاں تک یہ رعایت ضروری ہے.اگر رعایت اسباب نہ کی جاوے تو انسانی قوتوں کی بے حرمتی کرنا اور

Page 126

۱۲۱ جل شانہ و عزاسمہ خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان فعل کی توہین کرنا ہے.کیونکہ ایسی حالت میں جبکہ بالکل رعایت اسباب کی نہ کی جاوے ضروری ہوگا کہ تمام قوتوں کو جو نے انسان کو عطا کی ہیں بالکل بے کار چھوڑ دیا جاوے اور ان سے کام نہ لیا جاوے اور ان سے کام نہ لینا اور ان کو بے کار چھوڑ دینا خدا تعالیٰ کے فعل کو لغو اور عبث قرار دینا ہے.جو بہت بڑا گناہ ہے.پس ہمارا یہ منشا اور مذہب ہر گز نہیں کہ اسباب کی رعایت بالکل ہی نہ کی جاوے بلکہ رعایت اسباب اپنی حد تک ضروری ہے آخرت کے لئے بھی اسباب ہی ہیں.خدا تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور بدیوں سے بچنا اور دوسری نیکیوں کو اختیار کرنا اس لئے ہے کہ اس عالم اور دوسرے عالم میں سکھ ملے تو گویا یہ نیکیاں اسباب کے قائم مقام ہیں.اسی طرح پر یہ بھی خدا تعالیٰ نے منع نہیں کیا کہ دنیوی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لئے اسباب کو اختیار کیا جاوے.نوکری والا نوکری کرے.زمیندارا اپنی زمینداری کے متعلقین کاموں میں رہے.مزدور مزدوریاں کریں تا وہ اپنے عیال و اطفال اور دوسرے تے اور اپنے نفس کے حقوق کو ادا کر سکیں.پس ایک جائز حد تک یہ سب درست ہے اور اس کو منع نہیں کیا جاتا.لیکن جب انسان حد سے تجاوز کر کے اسباب ہی پر پورا بھروسہ کرے اور سارا دارو مدار اسباب پر ہی جا ٹھہرے تو یہ وہ شرک ہے جو انسان کو اس کے اصل مقصد سے دور پھینک دیتا ہے.مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں سبب نہ ہوتا تو میں بھوکا مر جاتا.یا اگر یہ جائیداد یا فلاں کام نہ ہوتا تو میرا بُرا حال ہو جا تا.فلاں دوست نہ ہوتا تو تکلیف ہوتی.یہ امور اس قسم کے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ جائیداد یا اور اور اسباب و احباب پر اس قدر بھروسہ کیا جاوے کہ خدا تعالیٰ سے بکلی دُور جا پڑے.یہ خطر ناک شرک ہے جو قرآن شریف کی تعلیم کے صریح خلاف ہے جیسا کہ نے فرمایا وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ ) اور فرما يَ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ] الذريات: ۲۳ تا الطلاق : ۴

Page 127

١٢٢ جل شانہ و عزاسمہ اور فرمایا وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ) اور فرمایا وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّلِحِينَ.تا قرآن شریف اس قسم کی آیتوں سے بھرا پڑا ہے کہ وہ متقیوں کا متولی اور متکفل ہوتا ہے تو پھر جب انسان اسباب پر تکیہ اور توکل کرتا ہے تو گویا خدا تعالیٰ کی ان صفات کا انکار کرنا ہے اور ان اسباب کو ان صفات سے حصہ دینا ہے.اور ایک اور خدا اپنے لئے ان اسباب کا تجویز کرتا ہے.چونکہ وہ ایک پہلو کی طرف جھکتا ہے.اس سے شرک کی طرف گویا قدم اٹھاتا ہے.جو لوگ حکام کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور اُن سے انعام یا خطاب پاتے ہیں اُن کے دل میں ان کی عظمت خدا کی سی عظمت داخل ہو جاتی ہے وہ ان کے پرستار ہو جاتے ہیں اور یہی ایک امر ہے جو تو حید کا استیصال کرتا ہے اور انسان کو اس کے اصل مرکز سے ہٹا کر دور پھینک دیتا ہے.پس انبیاء علیہم السلام یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب اور توحید میں تناقض نہ ہونے پاوے بلکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر رہے.اور مال کارتوحید پر جا ٹھہرے.وہ انسان کو یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ ساری عزتیں سارے آرام اور حاجات براری کا متکفل خدا ہی ہے.پس اگر اس کے مقابل میں کسی اور کو بھی قائم کیا جاوے تو صاف ظاہر ہے کہ دوضر وں کے تقابل سے ایک ہلاک ہو جاتی ہے.اس لئے مقدم ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید ہو.رعایت اسباب کی جاوے.اسباب کو خدا نہ بنایا جاوے.اسی توحید سے ایک محبت خدا تعالیٰ سے پیدا ہوتی ہے جبکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ نفع ونقصان اُسی کے ہاتھ میں ہے.محسن حقیقی وہی ہے.ذرہ ذرہ اُسی سے ہے.کوئی دوسرا درمیان نہیں آتا.جب انسان اس پاک حالت کو حاصل کر لے تو وہ موحد کہلاتا ہے.غرض ایک حالت توحید کی یہ ہے کہ انسان پتھروں یا انسانوں یا اور کسی چیز کو خدا نہ بناوے بلکہ ان کو خدا بنانے سے بیزاری اور نفرت ظاہر کرے اور دوسری حالت یہ ہے کہ رعایتِ اسباب سے نہ گذرے.تیسری قسم یہ ہے کہ اپنے نفس اور وجود کے اغراض کو بھی درمیان الطلاق: ۳، ۴ الاعراف: ۱۹۷

Page 128

۱۲۳ جل شانہ و عزاسمہ سے اٹھا دیا جاوے اور اس کی نفی کی جاوے.بسا اوقات انسان کے زیر نظرا اپنی خوبی اور طاقت بھی ہوتی ہے کہ فلاں نیکی میں نے اپنی طاقت سے کی ہے.انسان اپنی طاقت پر ایسا بھروسہ کرتا ہے کہ ہر کام کو اپنی ہی قوت سے منسوب کرتا ہے.انسان موحد تب ہوتا ہے کہ جب اپنی طاقتوں کی بھی نفی کر دے.الحکم مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۶،۵ - ملفوظات جلد دوم صفحه ۵۶ تا ۱۵۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) عیسائی صاحبوں کا یہ اعتقاد ہے کہ جو لوگ تثلیث کا عقیدہ اور یسوع کا کفارہ نہیں مانتے وہ ہمیشہ کے جہنم میں ڈالے جائیں گے.غیر محدود خدا کو تین اقنوم میں یا چار اقنوم میں محدود کرنا اور پھر ہر ایک اقنوم کو کامل بھی سمجھنا اور ترکیب کا محتاج بھی اور پھر خدا پر یہ روا رکھنا کہ وہ ابتدا میں کلمہ تھا.پھر وہی کلمہ جو خدا تھا مریم کے پیٹ میں پڑا اور اس کے خون سے مجسم ہوا اور معمولی راہ سے پیدا ہوا اور سارے دکھ خسرہ چیچک دانتوں کی تکلیف جو انسان کو ہوتی ہیں سب اٹھائے.آخر کو جوان ہو کر پکڑا گیا اور صلیب پر چڑھایا گیا.یہ نهایت گندہ شرک ہے جس میں انسان کو خدا ٹھہرایا گیا ہے خدا اس سے پاک ہے کہ وہ کسی کے پیٹ میں پڑے اور مجسم ہو اور دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار ہو.انسانی فطرت اس کو قبول نہیں کر سکتی کہ خدا پر ایسے دُکھ کی مار اور یہ مصیبتیں پڑیں اور وہ جو تمام عظمتوں کا مالک اور تمام عزتوں کا سرچشمہ ہے اپنے لئے یہ تمام ذلتیں روا رکھے.عیسائی اس بات کو مانتے ہیں کہ خدا کی اس رسوائی کا یہ پہلا ہی موقعہ ہے اور اس سے پہلے اس قسم کی ذلتیں خدا نے کبھی نہیں اٹھا ئیں.کبھی یہ امر وقوع میں نہیں آیا کہ خدا بھی انسان کی طرح کسی عورت کے رحم میں نطفہ میں مخلوط ہو کر قرار پکڑ گیا ہو.جب سے کہ لوگوں نے خدا کا نام سنا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ بھی انسان کی طرح کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو.یہ تمام وہ باتیں ہیں جن کا عیسائیوں کو خود اقرار ہے اور اس بات کا بھی اقرار ہے کہ گو پہلے یہ تین اقنوم تین جسم علیحدہ علیحدہ نہیں رکھتے تھے مگر اب اس خاص زمانہ سے جس کو اب ۱۸۹۶ برس جاتا ہے تینوں

Page 129

۱۲۴ جل شانہ و عزاسمہ اقنوم کے لئے تین علیحدہ علیحدہ جسم مقرر ہو گئے.باپ کی وہ شکل ہے جو آدم کی کیونکہ اس نے آدم کو اپنی شکل پر بنایا دیکھو تو ریت پیدائش باب ۱ آیت ۲۷.اور بیٹا یسوع کی شکل پر مجسم ہوا دیکھو یوحنا باب ۱ آیت ا ، اور روح القدس کبوتر کی شکل پر متشکل ہوا.دیکھومتی باب ۳ آیت ۱ یہ تینوں مجسم خدا عیسائیوں کے زعم میں ہمیشہ کے لئے مجسم اور ہمیشہ کے لئے علیحدہ علیحدہ وجود رکھتے ہیں.اور پھر بھی یہ تینوں مل کر ایک خدا ہے لیکن اگر کوئی بتلا سکتا ہے تو ہمیں بتلاوے کہ باوجود اس دائی تجسم اور تغیر کے یہ تینوں ایک کیونکر ہیں.بھلا ہمیں کوئی ڈاکٹر مارٹن کلارک اور پادری عماد الدین اور پادری ٹھا کر داس کو با وجود ان کے علیحدہ علیحدہ جسم کے ایک کر کے تو دکھلاوے ہم دعوی سے کہتے ہیں کہ اگر تینوں کو کوٹ کر بھی بعض کا گوشت بعض کے ساتھ ملا دیا جاوے پھر بھی جن کو خدا نے تین بنا یا تھا ہر گز ایک نہیں ہوسکیں گے.پھر جبکہ اس فانی جسم کے حیوان باوجود امکان تحلیل اور تفرق جسم کے ایک نہیں ہو سکتے پھر ایسے تین مجسم جن میں بموجب عقیدہ عیسائیاں تحلیل اور تفریق جائز نہیں کیونکر ایک ہو سکتے ہیں؟ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ عیسائیوں کے یہ تین خدا لبطور تین ممبر کمیٹی کے ہیں اور بزعم ان کے تینوں کی اتفاق رائے سے ہر ایک حکم نافذ ہوتا ہے یا کثرت رائے پر فیصلہ ہو جاتا ہے.گویا خدا کا کارخانہ بھی جمہوری سلطنت ہے اور گویا اُن کے گاڈ صاحب کو بھی شخصی سلطنت کی لیاقت نہیں.تمام مدار کونسل پر ہے.غرض عیسائیوں کا یہ مرکب خدا ہے جس نے دیکھنا ہو دیکھ لے.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۳۴ تا ۳۶) عیسائی مذہب توحید سے تہی دست اور محروم ہے بلکہ ان لوگوں نے بچے خدا سے منہ پھیر کر ایک نیا خدا اپنے لئے بنایا ہے جو ایک اسرائیلی عورت کا بیٹا ہے مگر کیا یہ نیا خدا ان کا قادر ہے.جیسا کہ اصلی خدا قادر ہے؟ اس بات کے فیصلہ کے لئے خود اس کی سرگذشت گواہ ہے کیونکہ اگر وہ قادر ہوتا تو یہودیوں کے ہاتھ سے ماریں نہ کھاتا.رومی سلطنت کی حوالات

Page 130

۱۲۵ جل شانہ و عزاسمہ میں نہ دیا جاتا اور صلیب پر کھینچا نہ جاتا.اور جب یہودیوں نے کہا تھا کہ صلیب پر سے خود بخو دا تر آ ہم ابھی ایمان لے آئیں گے.اُس وقت اُتر آتا لیکن اس نے کسی موقعہ پر اپنی قدرت نہیں دکھلائی.رہے اُس کے معجزات سو واضح ہو کہ اُس کے معجزات دوسرے اکثر نبیوں کی نسبت بہت ہی کم ہیں مثلاً اگر کوئی عیسائی ایلیا نبی کے معجزات سے جو بائیبل میں مفصل مذکور ہیں جن میں سے مُردوں کا زندہ کرنا بھی ہے مسیح ابن مریم کے معجزات کا مقابلہ کرے تو اس کو ضرور اقرار کرنا پڑے گا کہ ایلیا نبی کے معجزات شان اور شوکت اور کثرت میں مسیح ابن مریم کے معجزات سے بہت بڑھ کر ہیں.ہاں انجیلوں میں بار بار اس معجزہ کا ذکر ہے کہ یسوع مسیح مصر وعوں یعنی مرگی زدہ لوگوں میں سے جن نکالا کرتا تھا اور یہ بڑا معجزہ اس کا شمار کیا گیا ہے جو محققین کے نزدیک ایک ہنسی کی جگہ ہے.آج کل کی تحقیقات سے ثابت ہے کہ مرض صرع ضعف دماغ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے یا بعض اوقات کوئی رسولی دماغ میں پیدا ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ کسی اور مرض کا یہ عرض ہوتی ہے لیکن ان تمام محققین نے کہیں نہیں لکھا کہ اس مرض کا سبب جن بھی ہوا کرتے ہیں...مسیح کے کسی معجزہ یا طر ز ولادت میں کوئی ایسا عجوبہ نہیں کہ وہ اس کی خدائی پر دلالت کرے.اسی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مسیح کی ولادت کے ذکر کے ساتھ بیٹی کی ولادت کا ذکر کر دیا تا معلوم ہو کہ جیسا کہ یحیی کی خارق عادت ولادت ان کو انسان ہونے سے باہر نہیں لے جاتی.ایسا ہی مسیح ابن مریم کی ولادت اس کو خدا نہیں بناتی ہ ہرگز کسی بات پر قادر نہیں تھا.صرف ایک عاجز انسان تھا.اور انسانی ضعف اور لاعلمی اپنے اندر رکھتا تھا.اور انجیل سے ظاہر ہے کہ اس کو غیب کا علم ہرگز نہیں تھا کیونکہ وہ ایک انجیر کے درخت کی طرف پھل کھانے گیا.اور اُس کو معلوم نہ ہوا کہ اُس پر کوئی پھل نہیں ہے اور وہ خود اقرار کرتا ہے کہ قیامت کی خبر مجھے معلوم نہیں.پس اگر وہ خدا ہوتا تو ضرور قیامت کا علم اوس کو ہونا چاہئے تھا.اسی طرح کوئی صفت الوہیت اوس میں موجود نہیں

Page 131

۱۲۶ جل شانہ و عزاسمہ تھی اور کوئی ایسی بات اس میں نہیں تھی کہ دوسروں میں نہ پائی جائے.عیسائیوں کو اقرار ہے کہ وہ مر بھی گیا.پس کیسا بد قسمت وہ فرقہ ہے جس کا خدا مر جائے.یہ کہنا کہ پھر وہ زندہ ہو گیا تھا کوئی تسلی کی بات نہیں.جس نے مرکز ثابت کر دیا کہ وہ مر بھی سکتا ہے اُس کی زندگی کا کیا اعتبار ؟ (نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۷۸ ۳ تا ۳۸۲) ایسا خدا کس کام کا جو ایک انسان کی طرح جو بڑھا ہو کر بعض قومی اُس کے بیکار ہو جاتے ہیں.امتداد زمانہ کی وجہ سے بعض قومی اُس کے بھی بیکار ہو گئے.اور نیز ایسا خدا کس کام کا کہ جب تک ٹکٹکی سے باندھ کر اُس کو کوڑے نہ لگیں اور اس کے منہ پر نہ تھو کا جائے اور چند روز اُس کو حوالات میں نہ رکھا جائے اور آخر اُس کو صلیب پر نہ کھینچا جائے تب تک وہ اپنے بندوں کے گناہ نہیں بخش سکتا.ہم تو ایسے خدا سے سخت بیزار ہیں جس پر ایک ذلیل قوم یہودیوں کی جو اپنی حکومت بھی کھو بیٹھی تھی غالب آ گئی.ہم اس خدا کوسچا خدا جانتے ہیں جس نے ایک مکہ کے غریب بے کس کو اپنا نبی بنا کر اپنی قدرت اور غلبہ کا جلوہ اُسی زمانہ میں تمام جہان کو دکھا دیا.یہاں تک کہ جب شاہ ایران نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے اپنے سپاہی بھیجے تو اُس قادر خدا نے اپنے رسول کو فرمایا کہ سپاہیوں کو کہہ دے کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خداوند کو قتل کر دیا ہے.اب دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف ایک شخص خدائی کا دعویٰ کرتا ہے اور اخیر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گورنمنٹ رومی کا ایک سپاہی اس کو گرفتار کر کے ایک دو گھنٹہ میں جیل خانہ میں ڈال دیتا ہے اور تمام رات کی دُعا ئیں بھی قبول نہیں ہوتیں.اور دوسری طرف وہ مرد ہے کہ صرف رسالت کا دعویٰ کرتا ہے اور خدا اس کے مقابلہ پر بادشاہوں کو ہلاک کرتا ہے.یہ مقولہ طالب حق کے لئے نہایت نافع ہے کہ یار غالب شوکہ تا غالب شوی“ ہم ایسے مذہب کو کیا کریں جو مُردہ مذہب ہے.ہم ایسی کتاب سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو مُردہ کتاب ہے.اور ہمیں ایسا خدا تو زبر دست کا ساتھی بن تا تو بھی غالب بن جائے.

Page 132

۱۲۷ جل شانہ و عزاسمہ کیا فیض پہنچا سکتا ہے جو مردہ خدا ہے.(چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۰ ۲ صفحہ ۳۵۳) پہنچاسکتا جس بات کی طرف وہ بلاتے ہیں وہ نہایت ذلیل خیال اور قابل شرم عقیدہ ہے.کیا یہ بات عند العقل قبول کرنے کے لائق ہے کہ ایک عاجز مخلوق جو تمام لوازم انسانیت کے اپنے اندر رکھتا ہے خدا کہلاوے؟ کیا عقل اس بات کو مان سکتی ہے کہ مخلوق اپنے خالق کو کوڑے مارے اور خدا کے بندے اپنے قادر خدا کے منہ پر تھوکیں اور اُس کو پکڑیں اور اُس کو سولی دیں اور وہ خدا ہو کر اُن کے مقابلہ سے عاجز ہو؟ کیا یہ بات کسی کو سمجھ آ سکتی ہے کہ ایک شخص خدا کہلا کر تمام رات دُعا کرے اور پھر اُس کی دعا قبول نہ ہو؟ کیا کوئی دل اس بات پر اطمینان پکڑ سکتا ہے کہ خدا بھی عاجز بچوں کی طرح نو مہینے تک پیٹ میں رہے.اور خون حیض کھاوے اور آخر چیختا ہوا عورتوں کی شرمگاہ سے پیدا ہو؟ کیا کوئی عظمند اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ خدا بے شمار اور بے ابتدا زمانہ کے بعد مجسم ہو جائے.اور ایک ٹکڑا اس کا انسان کی صورت بنے اور دوسرا کبوتر کی اور یہ جسم ہمیشہ کے لئے اُن کے گلے کا ہار ہو (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۸۷،۸۶) رکس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا اُس بہار محسن کا دل میں ہمارے جوش ہے مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تا تار کا ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی راہ ہے ترے دیدار کا چشمہ خورشید میں موجیں تری مشہور ہیں ہر ستارے میں تماشہ ہے تری چمکار کا تو نے خودروحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑ کا نمک اُس سے ہے شور محبت عاشقانِ زار کا کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھیں ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں کس سے کھل سکتا ہے بیچ اس عقدہ دشوار کا خوب رویوں میں ملاحت ہے ترے اس حسن کی ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس تری گلزار کا جائے.

Page 133

۱۲۸ جل شانہ و عزاسمہ چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سو سو حجاب ور نہ تھا قبلہ ترا رُخ کافر و دیندار کا ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑ اغم اغیار کا تیرے ملنے کے لئے ہم مل گئے ہیں خاک میں تا مگر درماں ہو کچھ اس ہجر کے آزار کا ایک دم بھی کل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا جان گھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه (۵۲) جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا شکر اللہ مل گیا ہم کو وہ لعلِ بے بدل کیا ہوا گر قوم کا دل سنگ خارا ہو گیا (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۹) حمد و ثنا اُسی کو جو ذات جاودانی ہم سر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ غیر اس کے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی سب غیر ہیں وہی ہے اک دل کا یارجانی دل میں میرے یہی ہے سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي ہے پاک پاک قدرت عظمت ہے اس کی عظمت لرزاں ہیں اہل قربت کروبیوں پہ ہیبت ہے عام اس کی رحمت کیونکر ہو شکر نعمت ہم سب ہیں اُس کی صنعت اُس سے کرو محبت غیروں سے کرنا اُلفت کب چاہے اُس کی غیرت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي

Page 134

۱۲۹ جل شانہ و عزاسمہ جو کچھ ہمیں ہے راحت سب اُس کی جود و منت اُس سے ہے دل کی بیعت دل میں ہے اس کی عظمت بہتر ہے اس کی طاعت طاعت میں ہے سعادت روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي سب کا وہی سہارا رحمت ہے آشکارا ہم کو وہی پیارا دلبر وہی ہمارا اُس بن نہیں گزارا غیر اس کے جھوٹ سارا روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي یارب ہے تیرا احساں میں تیرے در پہ قرباں تو نے دیا ہے ایمان تو ہر زماں نگہباں تیرا کرم ہے ہر آں تو ہے رحیم رحماں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي کیونکر ہو شکر تیرا، تیرا ہے جو ہے میرا تو نے ہر اک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا جب تیرا نور آیا جاتا رہا اندھیرا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي ( محمود کی آمین.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۲۰،۳۱۹) جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر کہا کہ آئی ہے نیند مجھ کو یہی تھا آخر کا قول لیکن کچھ ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے تھکے بھی ہم پھر جگا جگا کر برس تھے آٹھے اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اُسے بلایا بلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پر اے دل تو جاں فدا کر لوح مزار مرزا مبارک احمد صاحب - در ثمین اردو صفحه ۱۰۰ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ) وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو جو کچھ بیٹوں میں پاتے ہو اُس میں وہ کیا نہیں سورج پر غور کر کے نہ پائی وہ روشنی جب چاند کو بھی دیکھا تو اس یار سا نہیں

Page 135

۱۳۰ جل شانہ و عزاسمہ واحد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے سب موت کا شکار ہیں اُس کو فنا نہیں سب خیر ہے اسی میں کہ اس سے لگاؤ دل ڈھونڈو اُسی کو یارو! بُتوں میں وفا نہیں اس جائے پر عذاب سے کیوں دل لگاتے ہو دوزخ ہے یہ مقام یہ بستاں سرا نہیں ( تفخیذ الا ذبان ماہ دسمبر ۱۹۰۸ صفحه ۴۸۵- در ثمین صفحه ۱۵۲) دلبر سمایا تجھے سب زور و قدرت ہے خدایا تجھے پایا ہر اک مطلب کو پایا ہر اک عاشق نے ہے اک بت بنایا ہمارے دل میں وہی آرام جاں اور دل کو بھایا وہی جس کو کہیں رَبُّ البرایا ہوا ظاہر وہ مجھ پر پالا یادی بالآیادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي مجھے اس یار سے پیوند جاں ہے وہی جنت وہی دارالاماں ہے بیاں اس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے یہ کیا احساں ہیں تیرے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْأَعَادِي تری نعمت کی کچھ قلت نہیں ہے تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے شمار فضل اور رحمت نہیں ہے مجھے اب شکر کی طاقت نہیں ہے یہ کیا احساں ترے ہیں میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي ترے کوچہ میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں محبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں خدائی ہے خودی جس سے جلاؤں محبت چیز کیا ، کس کو بتاؤں وفا کیا راز ہے کس کو سناؤں

Page 136

۱۳۱ جل شانہ و عزاسمہ میں اس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں یہی بہتر کہ خاک اپنی اڑاؤں کہاں ہم اور کہاں دنیائے مادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي (بشیر احمد ، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین مطبوعه ۱۹۰۱ء ، در ثمین صفحه ۵۴، شائع کردہ نظارت اشاعت ربوه) حمد و شکر آن خدائے کردگار کز وجودش هر وجودے آشکار این جهان آئینہ دار روئے او ذره کرد در آئینه ارض و سما ہر گیا ہے عارف بنگاه او نورِ مهر و مه ز فیض نور اوست ذره ره نماید سوئے او آن رخ بے مثل خود جلوہ نما ہر لے دست شاف نماید راه او ظہورے تابع منشور اوست ه ہر ہر سرے سرے ز خلوت گاہ او ہر قدم جوید ہر قدم جوید در با جاه او مطلب ہر دل جمالِ روئے اوست گمرہی گر ہست بہر کوئے اوست مهر و ماه و انجم و خاک آفرید صد ہزاران کرد صنعت با پدید این ہمہ صنعش کتاب کار اوست بے نہایت اندرین اسرار اوست لے اس خدائے کردگار کی حمد اور شکر واجب ہے جس کے وجود سے ہر چیز کا وجود ظاہر ہوا.یہ جہاں اس کے چہرے کے لئے آئینہ کی طرح ہے ذرہ ذرہ اسی کی طرف راستہ دکھاتا ہے.سے اس نے زمین و آسمان کے آئینہ میں اپنا بے مثل چہرہ دکھلا دیا.، گھاس کا ہر پتہ اس کے کون و مکان کی معرفت رکھتا ہے اور درختوں کی ہر شاخ اسی کا راستہ دکھاتی ہے.۵، چاند اور سورج کی روشنی اسی کے نور کا فیضان ہے ہر چیز کا ظہور اسی کے شاہی فرمان کے ماتحت ہوتا ہے.ہر سر اس کے اسرار خانہ کا ایک بھید ہے اور ہر قدم اسی کا با عظمت دروازہ تلاش کرتا ہے.کہ اسی کے منہ کا جمال ہر ایک دل کا مقصود ہے اور کوئی گمراہ بھی ہے تو وہ بھی اسی کے کوچہ کی تلاش میں ہے.اس نے چاند سورج ستارے اور زمین کو پیدا کیا اور لاکھوں صنعتیں ظاہر کر دیں.اس کی یہ تمام صناعیاں اس کی کاریگری کا دفتر ہیں اور ان میں اس کے بے انتہا اسرار ہیں.Pn 스

Page 137

۱۳۲ جل شانہ و عزاسمہ این کتابے پیش چشم ما نهاد تا از و راه بدی داریم یاد تا شناسی آن خدائے پاک را کو نماند خاکیان و خاک را تا شود معیار بهیر وحی دوست تا شناسی از هزاران آنچه زوست تا خیانت را نماند هیچ راه تا جدا گردد سفیدی از سیاه بس ہماں شد آنچه آن دادار خواست کار دستش شاید گفتار خاست مشرکان وانچه پوزش می کنند این گواہان تیر دوزش مے کنند گر بگوئی غیر را رحمان خدا تف زند بر روئے تو ارض و سما در تراشی بهر آن یکتا پسر تو بر بارد لعنت زیر و زبر کو 스 با زبان حال گوید این جهان کال خدا فردست و قیوم و یگان نے پدر دارد نه فرزند و نه زن نے مبدل شد ز ایام یک دمے گر رشح فیضش کم شود این همه علق و جهان برہم شود اله یک نظر قانونِ قدرت را ببین تا شناسی شان رب العالمین (ضیاء الحق.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۵۲،۲۵۱) لے یہ نیچر کی کتاب اس نے ہماری آنکھوں کے سامنے رکھ دی تا کہ اس کی وجہ سے ہم ہدایت کاراستہ یا درکھیں.ے تا کہ تو اس خدائے پاک کو پہچانے جود نیا والوں اور دنیا سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا.سے تا کہ خدا کی وحی کے لئے یہ بطور معیار کے ہوتا کہ تو ہزاروں کلاموں میں سے پہچان لے کہ کونسا اس کی طرف سے ہے.ہے تا کہ خیانت کا کوئی راستہ کھلا نہ رہے اور نور تاریکی سے الگ ہو جائے.۵ بس وہی ہوا جو اس خدا کا منشا تھا اور اس کا کام اس کے کلام کا گواہ قرار پایا.مشرک لوگ جو بہانے کرتے ہیں یہ گواہ ( قول خدا اور فعل خدا ) ان عذرات کو تیروں سے چھلنی کر دیتے ہیں.کے اگر تو کسی اور کو خدائے رحمان کر دے تو تیرے منہ پر زمین و آسمان تھوکیں.اور اگر اس یکتا کے لیے تو کوئی بیٹا تجویز کرے تو نیچے اور اوپر سے تجھ پر لعنتیں برسنے لگیں.2 یہ جہان زبانِ حال سے یہ کہ رہا ہے کہ وہ خدا یکتا قیوم اور واحد ہے.ا نہ اس کا کوئی باپ ہے نہ بیٹا اور نہ بیوی اور نہ ازل سے اس میں کوئی تغیر آیا.الے اگر ایک لحظہ کے لیے بھی اس کے فیض کی بارش کم ہو جائے تو یہ سب مخلوقات اور جہان درہم برہم ہو جائیں.۱۲ قانونِ قدرت پر ایک نظر ڈال تا کہ تو رب العالمین کی شان کو پہچانے.

Page 138

جل شانہ و عزاسمہ ↓ اے خالق ارض و سما بر من در رحمت کشا دانی تو آن درد مراکز دیگراں پنہاں کنم از بس لطبیعی ولیبرا در هر رگ و تارم در آ تا چوں بخود یا بم ترا دل خوشتر از بستاں کنم در سرکشی اے پاک خوجاں بر کنم در بجر تو ز انساں ہمی گریم کز و یک عالمے گریاں کنم خواہی بقہرم کن جدا خواہی بلطفم رونما خواہی بکش یا کن رہا کے ترک آن دامان کنم (براہین احمدیہ ہر چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۳ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) اے خدا اے چارہ آزار ما اے علاج گریہ ہائے زار ما اے تو مرہم بخش جان ریش ما اے تو دلدارِ دل غم کیش از کرم برداشتی هر ه ہر بار ما و از تو ہر بار و اشجار ما کو حافظ و ستاری از جود و کرم بے کسان را یاری از لطف اتم بنده درمانده باشد دل طپان نا گہان درمان برآرے از میان عاجزی را ظلمت گیرد براه نا گہان آری برو صد مهر و ماه خلق دلبری بر تو تمام صحبتی حسن و بعد از لقائے تو حرام لے اے خالق ارض و سما ! مجھے پر دور رحمت کھول تو میرے اس درد کو جانتا ہے جسے میں اوروں سے چھپاتا ہوں.ے اے دلبر تو بیحد لطیف ہے میرے ہر رگ وریشہ میں داخل ہو جا تا کہ جب تجھے اپنے اندر پاؤں تو اپنا دل چمن سے بھی زیادہ خوشتر کروں.سے اور اے نیک صفات اگر تو انکار کرے تو تیرے فراق میں جان دے دوں گا اور اتنا روؤں گا کہ ایک عالم کو رلا دوں گا.ہے خواہ تو تو مجھے ناراض ہوکر جدا کر دے خواہ لطف فرما کر اپنا چہرہ دکھا دے خواہ ماریا چھوڑ میں تیرے دامن کو نہیں چھوڑ سکتا.اے خدا ! اے ہمارے دکھوں کی دوا.اور اے ہماری گریہ وزاری کا علاج.تو ہماری زخمی جان پر مرہم رکھنے والا ہے.اور تو ہمارے غمزدہ دل کی دلداری کرنے والا ہے.کے تو نے اپنی مہربانی سے ہمارے سب بوجھ اٹھا لیے ہیں اور ہمارے درختوں پر میوہ اور پھل تیرے فضل سے ہے.تو ہی مہربانی اور عنایت سے ہمار امحافظ اور پردہ پوش ہے اور کمال مہربانی سے بے کسوں کا ہمدرد ہے.جب بندہ مغموم اور درماندہ ہو جاتا ہے تو تو وہیں سے اس کا علاج پیدا کر دیتا ہے.ا جب کسی عاجز کو رستے میں اندھیر اگھیر لیتا ہے تو تو یکدم اس کے لیے سینکڑوں سورج اور چاند پیدا کر دیتا ہے.لا حسن و اخلاق اور دلبری تجھ پر ختم ہیں تیری ملاقات کے بعد پھر کسی سے تعلق رکھنا حرام ہے.

Page 139

۱۳۴ جل شانہ و عزاسمہ آن خرد مندے که او دیوانه ات شمع بزم است آنکه او پروانه ات ہر کہ عشقت در دل و جانش فتد ناگهان جانے در ایمانش فتد عشق تو گردد عیاں ہر روئے او ہوئے تو آید ز بام و کوئے او بر صد هزاران نعمتش بخشی از جود مهر و مه را پیشش آری در سجود خود نشینی از پئے تائید او روئے تو یاد اوفتد از دید او بس نمایان کا رہا کاندر جہان می نمائی بہر اکرامش عیان خود کنی ↓ کو و خود کنانی کار را خود وہی رونق تو آن بازار را خاک را در یک دمے چیزے کنی کز ظهورش خلق گیرد روشنی کے بر کسی چوں مہربانی ے کنی از زمینی آسمانی کنی براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۲۶، ۶۲۷ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) محبت تو دوائے ہزار بیماری است بروئے تو کہ رہائی درین گرفتاری است ا پناہ روئے تو جستن نه طور مستان است که آمدن به پناهت کمال ہشیاری است لے وہ عقلمند ہے جو تر ادیوانہ ہے اور وہ شمع بزم ہے جو تیرا پروانہ ہے.ہر وہ شخص جس کے جان و دل میں تیرا عشق داخل ہو جائے تو اس کے ایمان میں فورا جان پڑ جاتی ہے.ے تیرا عشق اس کے چہرہ پر ظاہر ہوجاتا ہے اور اس کے درودیوار سے تیری خوشبو آتی ہے.ہے تو اس کو اپنے کرم سے لاکھوں نعمتیں بخشتا ہے سورج اور چاند کو اس کےسامنے سجدہ کرواتا ہے.، تو اس کی نصرت کے لیے خود تیار ہو جاتا ہے اور اس کے دیدار سے تیرا چہرہ یاد آتا ہے.اس جہاں میں بہت سے نمایاں کام تو اس کی عزت کے لیے ظاہر کرتا ہے.کے تو آپ ہی کام کرتا ہے اور آپ ہی کرواتا ہے اور آپ ہی اس بازار کو رونق دیتا ہے.مٹی کو تو یکدم ایک ( قیمتی ) چیز بنادیتا ہے تاکہ اس کے ظہور سے مخلوقات روشنی حاصل کرے.2 جب تو کسی پر مہربانی کرتا ہے تو اسے زمینی سے آسمانی بنا دیتا ہے.تیری محبت ہزار بیماریوں کی دوا ہے تیرے منہ کی قسم کہ اس گرفتاری ہی میں اصل آزادی ہے.الے تیری پناہ ڈھونڈ نا دیوانوں کا طریقہ نہیں ہے بلکہ تیری پناہ میں آنا ہی تو کمال درجہ کی عقلمندی ہے.

Page 140

۱۳۵ جل شانہ و عزاسمہ متاع مہر رخ تو نہان نخواهم داشت که خفیه داشتن عشق تو از غداری است که بر آن سرم که سر و جان فدائے تو بکنم که جان بسیار سپردن حقیقت یاری است آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱) سخن نزدم مران از شہر یاری که هستم بر درے اُمید وارے بدیع و خالق و پروردگارے کو ه خداوندے کہ جان بخش جهان است بدیع کریم و قادر و مشکل کشائے رحیم و محسن و حاجت برارے فتادم بر درش زیر آنکه گویند برآید در جهان کاری ز کارے کو چو آن یار وفادار آیدم یاد فراموشم شود هر خویش و یارے بغیر او چسان بندم دل خویش کہ بے رویش نمے آید قرارے سینه ریشم مجوئید که بستیمش بدامان نگارے دلم در دل من دلبری را تخت گا ہے سر من در رہِ یارے شارے چگویم فضل او برمن چگون سرت که فضل اوست نا پیدا کنارے لے میں تیری محبت کی دولت کو ہرگز نہیں چھپاؤں گا.کہ تیرے عشق کا مخفی رکھنا بھی ایک غداری ہے.میں تیار ہوں کہ جان و دل تجھ پر قربان کردوں کیونکہ جان کو محبوب کے سپر دکر دینا ہی اصل دوستی ہے.سے میرے سامنے کسی بادشاہ کا ذکر نہ کر کیونکہ میں تو ایک اور دروازہ پر امیدوار پڑا ہوں.وہ خدا جو دنیا کو زندگی بخشنے والا ہے اور بدیع اور خالق اور پروردگار ہے.۵ کریم و قادر ہے اور مشکل کشا ہے.رحیم ہے، محسن ہے اور حاجت روا ہے.میں اس کے دروازہ پر آپڑا ہوں کیونکہ مثل مشہور ہے کہ دنیا میں ایک کام میں سے دوسرا کام نکل آتا ہے.کے جب وہ یار وفادار مجھے یاد آتا ہے تو ہر رشتہ دار اور دوست مجھے بھول جاتا ہے.میں اسے چھوڑ کر کسی اور سے کس طرح دل لگاؤں کہ بغیر اس کے مجھے چین نہیں آتا.دل کو مرے زخمی سینے میں نہ ڈھونڈو کہ ہم نے اسے ایک محبوب کے دامن سے باندھ دیا ہے.نا میرا دل دلبر کا تخت ہے اور میر اسر یار کی راہ میں قربان ہے.11 میں کیا بتاؤں کہ مجھ پر اس کا فضل کس طرح کا ہے کیونکہ اس کا فضل تو ایک نا پیدا کنارسمندر ہے.P = Po Po (>

Page 141

۱۳۶ جل شانہ و عزاسمہ عنایت ہائے او را چون شمارم که لطف اوست بیرون از شماری مرا کاریست با آن داستانی ندارد کس خبر زان کاروبارے بر درش ز انسان که نالد بوقت وضع حمل بار دارے بنالم مرا با عشق او وقتے ست مامور چه خوش وقتے چه خرم روزگارے トビ گویمت اے گلشن یار که فارغ کر دی از باغ و بہارے تے ه حمۃ اللہ.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۱۴۹) چہ شیریں منظری اے دلستانم چہ شیریں خصلتی اے جانِ جانم كم چو دیدم روئے تو دل در تو بستم نمانده غیر تو اندر جہانم توان برداشتن دست از دو عالم عالم مگر ہجرت بسوزد استخوانم 스 9܂ در آتش تن بآسانی توان داد ز ہجرت جان رود باصد فغانم (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵۶،۳۵۵) لے میں اس کی مہر بانیوں کو کیونکر گنوں کہ اس کی مہربانیاں تو حد شمار سے باہر ہیں مجھے اس دلبر سے ایسا تعلق ہے کہ کسی کو بھی اس معاملہ کی خبر نہیں.سے میں اس کے دروازے پر اس طرح روتا ہوں جس طرح بچہ پیدا ہوتے وقت حاملہ عورت روتی ہے.میرا وقت اسی کے عشق سے بھر پور ہے واہ کیا اچھا وقت ہے اور کیا عمدہ زمانہ ہے.اے یار کے گلزار تیرے کیا کہنے.تو نے تو مجھے دنیا کے باغ و بہار سے بے پروا کر دیا.اے میرے محبوب تو کیسا خوبصورت ہے اور اے میرے خدا تو کیسا شیریں خصلت ہے.کے جب میں نے تیرا منہ دیکھا تو تجھ سے دل لگا لیا اور دنیا میں تیرے سوا میرا کوئی نہ رہا.دونوں جہان سے دست برداری ممکن ہے مگر تیرا فراق میری ہڈیاں تک جلا دیتا ہے.آگ کے اندر بدن آسانی سے ڈالا جا سکتا ہے مگر تیری جدائی سے میری جان آہ وفغاں کرتی ہوئی نکلتی ہے.

Page 142

۱۳۷ جل شانہ و عزاسمہ مرا اے یار ازل بس است روئے تو مرا بہتر ز ہزار خلد کوئے تو از مصلحتة دگر طرف بینم ایک ہر لحظہ نگاہ ہست سوئے تو مرا بر عزت من اگر کسے حملہ کند صبر است طریق ہمچو خوئے تو مرا چیستم و چه عرب تم هست مگر جنگ است ز بیر آبروئے تو مرا ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۵۳) من لے اے خدائے لم یزل میرے لئے تیرا چہرہ کافی ہے اور تیری گلی میرے لئے ہزار جنتوں سے بڑھ کر ہے.ے میں کسی مصلحت کی وجہ سے اور طرف دیکھ لیتا ہوں.ورنہ ہر وقت میری نظر تو تیری ہی جانب لگی ہوئی ہے.سے اگر کوئی میری عزت پر حملہ کرتا ہے تو تیری عادت کی طرح میر اطریقہ بھی صبر ہے.ے میں کون ہوں اور میری کیا عزت ہے لیکن تیری عزت کی خاطر یہ میری جنگ ہے.

Page 142