Language: UR
حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ نے پہلی دفعہ 1917ء کو عالم نوجوانی میں کالج کی تعلیم سے فراغت کے بعد یہ رسالہ تصنیف فرمایا تھا، اور پھر دوبارہ قریبا ساڑھے 38 سال کے بعد 1955ء میں دوسرا ایڈیشن شائع کیا گیاجس کے آخر پر ایک تتمہ شامل کیا گیا تھا، بعد میں بھی اس کتاب کی متعدد دفعہ اشاعت ہوتی رہی کیونکہ وفات مسیح کا مسئلہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے دعویٰ کے ساتھ بھی بنیادی تعلق رکھتا ہے اور مسیحیت کے دجالی فتنہ سے بھی براہ راست متعلق ہے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کی نوجوانی کی یادگار اس کتاب میں عقیدہ وفات مسیح کی اہمیت، دعویٰ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام، رفع الی السماء، معراج، واقعہ صلیب کے اصل اور درست حالات، نزول کی حقیقت، وفات مسیح پر اجماع صحابہ ، رجوع موتیٰ وغیرہ کے متعلق قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے دلائل سے سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اور مخالفین کے بعض اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ موجودہ ایڈیشن نظارت نشر واشاعت قادیان دارالامان نے 2016ء میں شائع کیا تھا۔
الحية البالغة نَةُ في وَفَاتِ الَّذِي ظَهَرَ فِي نَاصِرَه حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے
الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فِي وَفَاتِ الَّذِي ظَهَرَ فِي نَاصِرَه تصنیف حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان
نام کتاب الحجة البالغة صنفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے رض سابقہ ایڈیشنر 2002ء ،2003ء حالیہ طباعت فروری 2016 ء تعداد 1000 شائع کرده نظارت نشر و اشاعت صدرانجمن احمد یہ قادیان، مطبع ضلع گورداسپور ، صوبہ: پنجاب (انڈیا) پن : 143516 فضل عمر پر نٹنگ پریس ہر چووال روڈ قادیان ISBN:978-93-83882-79-3 га AL-HUJJATUL BALIGHAH (POWERFUL ARGUMENT) BY Hazrat Mirza Bashir Ahmad Sahib
بسم الله الرحم الرحم عرض حال ایڈیشن دوم میرا یہ مختصر سا رسالہ الحجہ البالغہ پہلی دفعہ ۱۹۱۷ء میں شائع ہوا تھا جبکہ میں ابھی بالکل نو جوانی کی عمر میں تھا.اور کالج کی تعلیم سے تازہ تازہ فارغ ہوا تھا.آج قریباً ساڑھے اڑتیس سال کے طویل عرصہ کے بعد محترمی ملک فضل حسین صاحب کی تحریک پر اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہورہا ہے.میں نے ایڈیشن دوم کے وقت اس رسالہ کے مضمون میں جو میری نو جوانی کے زمانہ کی یادگار ہے کوئی خاص تبدیلی نہیں کی بلکہ صرف کہیں کہیں معمولی لفظی تبدیلی اور آخر میں ایک ضروری تتمہ بڑھانے کے بعد کا تب کے سپر دکر رہا ہوں.وفات مسیح ناصری کے مسئلہ کو اس لحاظ سے تو جو اہمیت حاصل ہے وہ ظاہر ہے کہ اس مسئلہ کو حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ کے ساتھ ایک بنیادی تعلق ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر اس کی اہمیت کا وہ پہلو ہے جو مسیحیت کے دجالی فتنہ سے تعلق رکھتا ہے.موجودہ زمانہ میں اسلام کے مقابلہ پر مسیحیت کو جو عارضی اور ظاہری سا غلبہ حاصل ہوا ہے اس کی تہ میں یہی جھوٹا عقیدہ کارفرما رہا ہے کہ جہاں سرور کائنات فخرِ موجودات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا کر زیر زمین دفن ہو چکے ہیں وہاں نعوذ باللہ سیح ناصری اب تک آسمان پر خدا کے پہلو میں بیٹھا ہوا دُنیا میں دوبارہ نازل ہونے کا انتظار کر رہا ہے.اب وقت ہے کہ اس بے بنیا د عقیدہ کا بطلان ثابت کر کے اسلام کو ہر جہت سے مسیحیت پر غالب کیا جائے.حق یہ ہے کہ اگر کوئی نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے تو وہ صرف ہمارے آقا (فداہ نفسی) محمد عربی ہیں اور باقی سب اپنا اپنا وقت پورا کر کے وفات پاچکے ہیں.اللهم صل علی محمد و بارک وسلم ويا ايها الذين أمنواصلوا عليه وسلموا تسليما.فروری ۱۹۵۵ء خاکسار مرزا بشیر احمد
بسم الله الرحم الراحة وفات وحیات مسیح ناصری کے عقیدہ کی اہمیت الحجة البالغة حضرت عیسی علیہ السلام یعنی حضرت مسیح ناصری کے وفات وحیات کے عقیدہ کو تین لحاظ سے خاص اہمیت حاصل ہے.اول اس لحاظ سے کہ اس وقت دنیا کا بیشتر حصہ عیسائی مذہب کا پیرو ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح ناصری کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہوئے اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ وہ اس دنیا میں چند سال زندگی گزارنے کے بعد پھر آسمان پر واپس چلے گئے اور وہاں زندہ موجود ہیں اور نعوذ باللہ خدا کی ازلی حکومت کے حصہ دار ہیں.دوسرے اس لحاظ سے کہ عیسائیوں کے اس عقیدہ سے خاموش طور پر متاثر ہوکر اور بعض قرآنی آیات اور احادیث کی غلط تشریح کر کے اس زمانے کے جمہور مسلمان بھی اس خیال پر قائم ہو گئے ہیں کہ گو حضرت عیسی خدا یا خدا کا بیٹا تو نہیں تھے بلکہ صرف خدا کے ایک نبی تھے مگر صلیب کے واقعہ پر خدا نے انہیں بجسم عنصری زندہ آسمان پر اُٹھا لیا تھا اور وہ اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں پھر دوبارہ زمین پر نازل ہو کر امت محمدیہ کی اصلاح کریں گے.تیسرے اس لحاظ سے کہ چونکہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا ہے اس لئے جب تک حضرت مسیح ناصری کی وفات وحیات کے عقیدے کا فیصلہ نہ ہوکوئی مسلمان حضرت
الحُجَّةُ البَالِغَةُ مرزا صاحب کے دعوی مسیحیت کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں کر سکتا.ان تین وجوہات کی وجہ سے ضروری ہے کہ قرآن وحدیث اور عقل خدا داد کی روشنی میں اس مسئلہ کو صاف کر کے مخلوق خدا کی ہدایت کا سامان مہیا کیا جائے اور عیسائیت کے مقابلے میں اسلام کا بول بالا ہو.حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ اور وفات مسیح ناصری جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بانی سلسہ احمدیہ کے دعوئی مسیحیت کے راستے میں سب سے پہلا سوال حضرت مسیح ناصری کی وفات کا ہے کیونکہ جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ پہلا مسیح فوت ہو چکا اس وقت تک خواہ حضرت مرزا صاحب کے دعوے کی صداقت پر ہزار سورج چڑھا دیا جائے طبیعت میں ایک گونہ خلجان ضرور رہتا ہے.جس منصب کا حضرت مرزا صاحب کو دعوئی ہے، یعنی مسیحیت، جب تک اس کی کرسی خالی نہ ہو حضرت مرزا صاحب کی سچائی کے متعلق دل اطمینان نہیں پکڑ سکتا.لہذا ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس روک کو دور کیا جائے.سو واضح ہو کہ قرآن شریف اور احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ آخری زمانے میں جب کہ مسلمان کمزور حالت میں ہوں گے اور مسیحی عقائد کا زور ہوگا اور لا مذہبی ہر طرف اپنا دامن پھیلا رہی ہوگی، اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں ایک میسج بھیجے گا جو کہ نہ صرف مسلمانوں میں اصلاح کا کام کرے گا بلکہ غیر مذاہب کے مقابلے میں بھی کھڑا ہوگا اور براہین قاطعہ کے ذریعے اسلام کا غلبہ تمام دوسرے ادیان پر ثابت کر دے گا.یہاں
الحُجَّةُ البَالِغَةُ تک تو سب مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے مگر اس کے آگے اختلاف شروع ہو جاتا ہے.حضرت مرزا صاحب کے مخالف علماء کا یہ مذہب ہے کہ موعود مسیح حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں جو واقعہ صلیب کے موقع پر آسمان کی طرف اٹھا لئے گئے تھے اور اب تک آسمان پر زندہ بجسم عنصری موجود ہیں اور آخری زمانے میں دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے.اس کے مقابل پر حضرت مرزا صاحب اور آپ کی جماعت کی یہ تعلیم ہے کہ حضرت مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں اس لئے آنے والا مسیح کوئی اور شخص ہونا چاہئے جو حضرت مسیح ناصری کا مثیل بن کر آئے گا.ہر چند کہ حضرت مرزا صاحب کا فرض نہ تھا کہ وہ وفات مسیح ثابت کرتے بلکہ مرزا صاحب کے مخالفین کا یہ فرض ہے کہ وہ قرآن اور احادیث صحیحہ سے حضرت مسیح کی حیات ثابت کریں کیونکہ حیات مسیح کا دعوی ایک ایسا دعویٰ ہے جو عام مشاہدہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے کسی بین دلیل کے بغیر ہرگز مانا نہیں جا سکتا بمقابلہ موت کے دعوی کے جس کے لئے کسی بیرونی دلیل کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ عام فطری قاعدہ کے مطابق ہے.مگر باوجود اس کے حضرت مرزا صاحب نے اصلاح خلق اللہ کی نیت سے اس کام کو اپنے ذمہ لیا اور پھر اس خیر و خوبی سے اس کو نبابا کہ آج اور تو اور بڑے بڑے غیر احمدی علماء بھی اس مسئلے پر کسی احمدی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سخت گھبراتے ہیں بلکہ بعض دفعہ تو بات کرنے سے صاف انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مسئلے کو حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کے ساتھ کیا تعلق ہے.حالانکہ موٹی عقل رکھنے والا انسان بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے متعلق تحقیقات کے رستے میں وفات وحیات مسیح ناصری کا مسئلہ سب
الحجة البالغة سے پہلا سوال ہے جوصل ہونا چاہئے.باب اول (رفع الى الشماء کا مسئلہ ) اس مختصر تمہید کے بعد میں چند موٹی موٹی عام فہم باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں جن سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری ہرگز آسمان پر بجسم عصری نہیں اُٹھائے گئے بلکہ انہوں نے زمین پر ہی اپنی زندگی کے دن کاٹے اور زمین پر ہی فوت ہوئے.انسان کی زندگی اور موت اسی دُنیا کے ساتھ وابستہ ہے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے فرماتا ہے :- فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ (سورہ اعراف رکوع ۲) و یعنی تم اپنی زندگی کے دن زمین پر ہی کاٹو گے اور زمین پر ہی تمہیں موت آئے گی.“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ وضاحت کے ساتھ فرماتا ہے کہ تمام انسانوں کے لئے یہ مقدر ہو چکا ہے کہ وہ زمین پر ہی زندگی کے دن گزاریں گے اور زندگی کے دن گزارنے کے بعد جب موت کا وقت آئے گا تو ان کی موت بھی زمین پر ہی ہوگی.ظاہر ہے کہ دنیا میں انسان پر دو ہی زمانے آتے ہیں ایک زندگی کا زمانہ ہے اور ایک موت کا زمانہ.ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے زمین کے ساتھ مخصوص کر دیا ہے.اب سوال
الحُجَّةُ البَالِغَةُ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام با وجود ایک انسان ہونے کے کس طرح بجسم عصری آسمان پر جا بیٹھے ؟ کیا مسیح علیہ السلام کو زندہ آسمان پر لے جاتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنے اس فیصلہ کو بھول گیا کہ انسان اپنی زندگی کے دن زمین پر ہی کالے گا اور زمین پر ہی فوت ہوگا ؟ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا - أَحْيَاء وَأَمْوَاتاً ( سوره مرسلات رکوع ۱) د یعنی ہم نے اس زمین کو ایسا بنایا ہے کہ وہ انسان کو اپنی طرف کھینچنے والی اور اس کو اپنے پاس روکنے والی ہے خواہ انسان زندگی کی حالت میں ہو یا کہ مُردہ ہو.66 اس آیت نے گویا پہلی آیت کی تشریح کر دی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے زمین کے اندر یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ زندوں اور مردوں کو اپنے ساتھ لگائے رکھتی ہے اور انسانی جسم کو اپنے سے باہر نہیں جانے دیتی.یہ آیت بھی مسیح کے آسمان پر جانے کو غلط ثابت کر رہی ہے.نبی کریم سال یا اینم اپنی بشریت کو آسمان پر زندہ بجسم عصری جانے کے رستہ میں روک بیان فرماتے ہیں پھر اس سے بھی بڑھ کر لیجئے کہ جب کفار نے نبی کریم مال کی تم سے کہا کہ اگر آپ بچے ہیں تو ہمیں آسمان پر چڑھ کر دکھا ئیں پھر ہم مان لیں گے.تو اس کے جواب میں
اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ اے رسول تو ان کو جواب دے کہ :- سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرَ ارَّسُوْلًا الحجة البالغة (سورۃ بنی اسرائیل رکوع ۱۰) دو یعنی پاک ہے میرا رب میں تو صرف ایک انسان رسول ہوں.“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا ہے کہ ایک بشر کا زندہ آسمان پر جانا خدا کی سنت اور وعدہ کے خلاف ہے اور خدا اس بات سے پاک ہے کہ خود اپنے فیصلوں کو توڑے.غور کا مقام ہے کہ کفارِ عرب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عظیم الشان انسان سے آسمان پر جانے کا معجزہ طلب کرتے ہیں اور اس قسم کا معجزہ دیکھنے پر ایمان لانے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صاف جواب دیتے ہیں کہ میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں اور کوئی بشر آسمان پر زندہ نہیں جاسکتا.اس آیت کے ہوتے ہوئے ایک عیسائی اگر اس بات کے کہنے کی جرات کرے تو کرے کہ مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا مگر ایک مسلمان کہلانے والا انسان جو مسیح کو ایک انسان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درجہ میں بہت چھوٹا انسان یقین کرتا ہے وہ ایک لمحہ کے لئے بھی اس بات کو قبول نہیں کر سکتا کہ حضرت مسیح ناصری اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر جا بیٹھے ہوں.غضب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو کفار کو یہ جواب دیتے ہیں کہ میں صرف ایک انسان ہوں اور انسان کا آسمان پر زندہ چلے جانا خلاف سنت و خلاف فیصلہ الہی ہے مگر مسلمان ہیں کہ مسیح کو انسان مانتے ہوئے پھر بھی اُس کو آسمان پر بٹھا رہے ہیں.کیا اگر واقعی مسیح آسمان پر زندہ بیٹھا ہے تو وہ اس آیت کی رو سے انسان سے بالا
الحُجَّةُ البَالِغَةُ ہستی نہیں ثابت ہوتا؟ کیا ایک عیسائی مسلمانوں کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب قرآن میں تمہارے نبی آسمان پر زندہ جانے کے راستہ میں صرف اپنی بشریت کو بطور روک کے بیان کرتے ہیں تو کیا مسیح “ جو تمہارے نزد یک آسمان پر زندہ بجسم عنصری جا پہنچا وہ تمہارے نبی سے افضل بلکہ انسان سے کوئی بالا ہستی نہ ثابت ہوا؟ اس کا جواب مسلمانوں کے پاس سوائے شرمندگی کے اور کیا ہے؟ افسوس مسلمانوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اسلام میں ارتداد کا رستہ کھولا اور اپنے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت پر خود اپنے ہاتھ سے تبر چلا یا کسی نے سچ کہا ہے کہ ؎ من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم که با من هر چه کرد آں آشنا کرد یعنی میں دوسروں کا گلا نہیں کرتا مجھ سے تو جو کچھ کیا ہے میرے اپنے دوستوں نے ہی کیا ہے.“ معراج کی حقیقت اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آسمان پر زندہ جسم عنصری جانے کو بوجہ آپ کے ایک بشر ہونے کے ممتنع قرار دیتا ہے تو پھر معراج کے موقع پر نبی کریم کس طرح آسمان پر جا پہنچے؟ اس کے جواب میں اچھی طرح یا درکھنا چاہیے کہ حضرت نبی کریم کا معراج جسم عصری کے ساتھ نہیں ہوا تھا بلکہ وہ ایک نہایت لطیف قسم کا کشف تھا جو نبی کریم کو دکھایا گیا اور جس طرح خواب میں بعض وقت انسان باوجود اپنی چار پائی پر لیٹا ہونے کے دور دراز ملکوں کی سیر کر لیتا ہے اسی طرح اس کشف کی حالت میں ہوا.خود سلف صالحین
الحُجَّةُ البَالِغَةُ میں سے ایک گروہ اسی طرف گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج جسم عصری کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ وہ ایک لطیف کشف تھا جس میں آپ کی اور آپ کی اُمت کی آئندہ ترقیات کے نظارہ کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی.ہاں بعض مسلمانوں نے بے شک معراج کو جسم عنصری کے ساتھ مانا ہے مگر قرآن شریف اور احادیث صحیحہ اس خیال کی بڑی صفائی کے ساتھ تردید کرتی ہیں.اول تو مندرجہ بالا آیت ہی ( یعنی آیت هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا ) اس خیال کو دھکے دے رہی ہے.اگر بجسم عصری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر جا سکتے تھے تو آپ نے کیوں کفار مکہ کونفی میں جواب دے کر اسلام لانے سے محروم کر دیا ؟ اگر معراج جسم عصری کے ساتھ ہوا تھا تو معمولی بات تھی کفار کے مطالبہ پر ان کو یہ معجزہ دکھایا جاتا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بوجہ بشر ہونے کے اپنا آسمان پر جسم عنصری کے ساتھ جانا متنع قرار دیا.اس سے ظاہر ہے کہ معراج جسم عصری نہیں ہوا.علاوہ اس کے قرآنِ شریف میں معراج کو رؤیا کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا:- وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ (سورہ بنی اسرائیل رکوع ۶ ) یعنی ہم نے جو رؤیا تجھے دکھائی ہے وہ لوگوں کے لئے ایک امتحان کے طور پر ہے.“ پھر حضرت عائشہ سے روایت آتی ہے کہ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک زمین سے جدا نہیں ہوا ( سیرۃ ابن ہشام جلد ۱) جس سے ثابت ہوتا ہے کہ معراج جسم عصری نہ تھا بلکہ آپ کوکوئی اور لطیف جسم عطا کیا گیا تھا جیسا کہ کشف
الحُجَّةُ البالغة میں ہوتا ہے پھر بخاری جو حدیث کی کتابوں میں مسلمہ طور پر صحت کے لحاظ سے اول نمبر پر ہے اس میں لکھا ہے کہ :- ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ( بخاری کتاب التوحید) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں یہ سب نظارے دیکھنے کے بعد بیدار ہو گئے اور اس وقت آپ مسجد حرام میں تھے.“ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ معراج ایک لطیف رؤیا تھا جو بصورت کشف دکھایا گیا نہ کہ بصورت جسم عنصری وھوالمراد.رفع الی اللہ کی صحیح تشریح غرض قرآن شریف اس بات کا ہرگز متحمل نہیں ہے کہ کوئی بشر جسم عصری کے ساتھ آسمان پر زندہ چلا جاوے بلکہ صاف الفاظ میں اس کے خلاف اعلان فرماتا ہے.مگر حضرت مرزا صاحب کے مخالفین قرآن شریف کی ایک آیت سے استدلال کیا کرتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھالیا تھا اور وہ آیت یہ ہے:.وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ...وَمَا قَتَلُوهُ يَقِيْنا بَلْ ( سورة النساء رکوع ۲۲) رفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ یعنی یہود نے نہ تو مسیح کو قتل کیا اور نہ ہی صلیب پر لٹکا کر مارا بلکہ اصل میں واقعہ یہ ہوا کہ مسیح علیہ السلام ان کی نظروں میں مشابه بالمقتول والمصلوب بنادیا گیا...مگر وہ ہرگز ہرگز مسیح “ کے مارنے پر قادر نہیں ہوئے بلکہ مسیح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اُٹھا لیا.“
الحُجَّةُ البَالِغَةُ اس آیت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ مسیح کو اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف اُٹھالیا تھا لیکن اگر غور وفکر سے کام لیا جاوے تو استدلال کی کمزوری صاف عیاں ہو جاتی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کا بے شک رفع ہوا کیونکہ رفع کے متعلق قرآن کریم کے الفاظ صاف ہیں اور ان کا انکار نہیں کیا جاسکتا.مگر سوال تو یہ ہے کہ کس طرح اور کس طرف رفع ہوا ؟ قرآن شریف کے الفاظ یہ ہیں:.بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ ".د یعنی اللہ نے مسیح کو اپنی طرف اُٹھا لیا.“ اب اگر خدا کی طرف اُٹھائے جانے کے معنی آسمان کی طرف اُٹھائے جانے کے لئے جاویں تو سوال ہوتا ہے کہ کیا خدا آسمان تک محدود ہے؟ کیا وہ زمین پر موجود نہیں؟ کیا اسلامی تعلیم کی رو سے خدا ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں؟ ہے اور ضرور ہے.تو پھر ان الفاظ کے کیا معنی ہوئے کہ خدا نے مسیح کو اپنی طرف اُٹھا لیا ؟ اس سوال کا تسلی بخش جواب پانے کے لئے ہمیں چاہئے کہ آیت کے سیاق وسباق پر نظر ڈالیں.یہود کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکا کر ماردیا اور اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے تھے کہ نعوذ باللہ مسیح ایک لعنتی موت مرا کیونکہ توریت کی تعلیم کے مطابق صلیب پر مرنا ایک ملعون موت ہے.(استثناء باب ۲۱ آیت ۲۳) اس طرح گویا یہود مسیح کا نعوذ باللہ ملعون اور کا ذب ہونا ثابت کرتے تھے ان کے اس دعوے کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مسیح ہرگز صلیب پر نہیں مرا بلکہ اُس کا تو اللہ تعالیٰ کی طرف رفع ہوا.یعنی تم نے کوشش کی تھی کہ مسیح کو ملعون موت کا شکار بناؤ مگر تمہاری کوششوں کو اللہ
الحُجَّةُ البَالِغَةُ تعالیٰ نے نا کام کیا اور بجائے اس کے کہ مسیح ایک ملعون موت مرکز ہاویہ میں گرتا اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف بلند کیا اور اس کو خدا کی طرف روحانی رفع حاصل ہوا.ایسا روحانی رفع اللہ تعالیٰ کے تمام مقربین کو حاصل ہوتا ہے جیسا کہ قرآنِ مجید فرماتا ہے:.يَأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةٌ- فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي - (سوره فجر رکوع ۱) یعنی اے اطمینان یافتہ نفس لوٹ آ اپنے رب کی طرف اس حالت میں کہ تو خود بھی راضی ہو اور اللہ کو بھی راضی کر رہا ہو اور میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں ٹھکانا بنا.“ اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ تمام مقربین بارگاہ الہی کا اللہ کی طرف ہی رفع ہوا کرتا ہے.پھر رفع کے معنی اس آیت سے بھی بالکل واضح ہو جاتے ہیں کہ : وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلَكِنَّةَ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ ( سورۃ اعراف رکوع ۲۲) خدا حضرت موسیٰ" کے ایک مخالف کے متعلق جو پہلے نیک ہوتا تھا اور جس کا نام روایتوں میں بلعم باعور بیان ہوا ہے فرماتا ہے کہ ”اگر ہم چاہتے تو اپنے نشانوں کے ذریعہ اس کا رفع کرتے لیکن وہ خود زمین کی طرف جھک گیا.“ اس جگہ مسلمہ طور پر رفع سے رفع روحانی مراد لیا جاتا ہے نہ کہ رفع جسمانی.حالانکہ یہاں تو زمین کا مخالف قرینہ بھی موجود ہے تو پھر کیوں خواہ مخواہ حضرت مسیح ناصری کے بارے میں رفع سے رفع جسمانی مراد لیا جاوے خصوصاً جب کہ ہم دیکھتے
۱۲ الحُجَّةُ البَالِغَةُ ہیں کہ یہود کا یہ اعتراض تھا کہ مسیح صلیبی یعنی لعنتی موت مرا ہے اور اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے تھے کہ اس کا روحانی رفع نہیں ہوا.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مسیح صلیب پر ہر گز نہیں مرا بلکہ اس کے مقابل پر اسے روحانی رفع حاصل ہوا.اگر اس جگہ رفع سے جسمانی رفع مراد لیا جاوے تو آیت کے کچھ معنی ہی نہیں بنتے.یہود اعتراض کرتے ہیں کہ مسیح مصلوب ہونے کی وجہ سے روحانی رفع سے محروم رہا بلکہ نعوذ باللہ ایک لعنتی موت مرا.اس پر ان کو جواب ملتا ہے کہ نہیں مسیح کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان کی طرف اُٹھا لیا.سوال کچھ اور ہے اور جواب کچھ اور.ایک موٹی سے موٹی عقل رکھنے والا انسان بھی جواب دیتے ہوئے یہ سوچ لیتا ہے کہ کیا میں اصل اعتراض کا جواب دے رہا ہوں یا کوئی غیر متعلق بات کہہ رہا ہوں مگر نعوذ باللہ ہمارے مخالفوں کا خدا عجیب ہے کہ اعتراض تو رفع روحانی کی نسبت ہے اور جواب میں رفع جسمانی پیش کیا جا رہا ہے.پس یہ بات یقینی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق رفع الی اللہ سے مرا در فع روحانی ہے جو تمام مقر بین الہی کا ہوا کرتا ہے نہ کہ رفع جسمانی.خلاصہ کلام یہ کہ اول تو اللہ کی ذات صرف آسمان کے اندر محدود نہیں بلکہ خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے پس اللہ کی طرف رفع ہونے کے معنی رفع روحانی کے سوا اور کوئی اور نہیں لئے جاسکتے دوسرے یہ کہ یہود کا اعتراض رفع روحانی کے متعلق تھا نہ کہ رفع جسمانی کے متعلق.سو اس کے جواب میں رفع جسمانی پیش کرنا بے سود ہے اور ایسا جواب خدا جیسی حکیم ہستی کی طرف ہرگز منسوب نہیں کیا جاسکتا.تیسرے یہ کہ اگر اللہ کی طرف اٹھائے جانے کے معنی جسم عنصری کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھائے جانے
۱۳ الحُجَّةُ البَالِغَةُ کے ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ تمام مقر بین الہی زندہ آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں کیونکہ خدا فرماتا ہے :.يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً یعنی اے اطمینان یافتہ نفس تو اپنے خدا کی طرف لوٹ آ.“ چوتھے یہ کہ خود قرآن کریم میں رفع کے معنی رفع روحانی کے آئے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں بلعم باعور کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلَكِنَّةً أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ یعنی اگر ہم چاہتے تو ان نشانوں کے ذریعہ اس کا رفع کرتے لیکن وہ تو خود زمین کی طرف جھک گیا.“ ایک اور آیت ہے جو رفع کے معنوں کو بالکل واضح کر دیتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى (سوره آل عمران رکوع ۶) یعنی خدا فرماتا ہے کہ اے عیسی میں تجھے تیری طبعی موت سے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا.“ اس آیت میں ترتیب کے لحاظ سے رفع کو وفات کے بعد رکھا گیا ہے جس سے رفع کے معنی صاف طور پر گھل جاتے ہیں.موت کے بعد نیک لوگوں کی ارواح کا خدا کی طرف رفع ہوا کرتا ہے اور ان کو جنت کی طرف اٹھا کر بلند مقام میں جگہ دی جاتی ہے.لیکن بد ارواح کا کسی بلند مقام کی طرف رفع نہیں ہوتا بلکہ وہ جہنم کی طرف گرادی جاتی ہیں.سو اسی مفہوم کے مطابق خدا نے مسیح ناصری کو گرنے سے بچا کر اپنی طرف
۱۴ الحُجَّةُ البالغة اُٹھا لیا وھوالمراد بل رفعہ اللہ الیہ والی آیت جس کی بحث او پر گزری ہے اسی آیت کے جواب میں واقع ہوئی ہے.اس میں اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ اے عیسی میں تجھے وفات دے کر اپنی طرف اٹھاؤں گا اور آیت رفعہ اللہ الیہ میں اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کے پورا ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہم نے حسب وعدہ مسیح کو اپنی طرف اُٹھالیا.اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات اور احادیث ہیں جو ہمارے معنوں کی تائید کرتی ہیں مثلاً ملاحظہ ہو قرآنی آیت: إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (سوره فاطر رکوع ۲) یعنی اللہ ہی کی طرف طیب کلمات چڑھتے ہیں اور نیک اعمال ہی انسان کے رفع کا باعث ہوتے ہیں“.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر ایک نیک انسان کو اس کے نیک اعمال کی وجہ سے خدا کی طرف رفع حاصل ہوتا ہے تو اب کیا سارے نیک انسان آسمان پر زندہ اُٹھائے جاتے ہیں؟ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے معنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول سے بھی ظاہر ہیں کہ : إنِّي ذَاهِب إلى ربي (سوره الصافات رکوع ۳) یعنی میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں.پھر اس قرآنی آیت سے تو سب مسلمان واقف ہیں کہ : انَا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (سوره بقره رکوع ۱۹)
۱۵ یعنی ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہم جائیں گئے.الحُجَّةُ البَالِغَةُ تو کیا اس جگہ اللہ کی طرف جانے سے یہ مراد ہے کہ ہم آسمان کی طرف زندہ اُٹھائے جائیں گے؟ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ.پھر حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس کو مخاطب کر کے فرمایا: رَفَعَكَ اللهُ يَا عَم (دیکھو کنز العمال) یعنی اے چا! خدا آپ کا رفع کرے“.اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چا کے لئے رفع کی دُعا کی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ رفع سے مراد رفع رُوحانی ہے نہ کہ جسمانی کیونکہ حضرت عباس کو کبھی رفع جسمانی حاصل نہیں ہوا.پھر اور لیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز میں پڑھنے کے لئے دعا سکھلائی ہے کہ :- اللهُمَّ ارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي وَارْفَعْنِي دد یعنی اے میرے پروردگار مجھ پر رحم کر اور مجھے ہدایت کر اور مجھے رزق ،، دے اور مجھے رفع عطا کر “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ہمیشہ یہ دعا پڑھا کرتے تھے.اب اگر رفع کے معنی رفع جسمانی کے لئے جاویں تو بڑی مشکل کا سامنا ہے اور وہ یہ کہ نبی کریم ساری عمر رفع کے لئے دعا کرتے رہے مگر آپ کی دعا قبول نہ ہوئی اور آپ کو جسمانی رفع نصیب نہ ہوا نعوذ بالله من هذه الهفوات.علاوہ اس کے مفردات راغب جو قرآن شریف کی مشہور اور مستند لغت ہے اس میں رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ کے معنی یہ لکھتے ہیں کہ :
۱۶ الحُجَّةُ البَالِغَةُ رَفَعَهُ مِنْ حَيْثُ التَّشْرِيفِ د یعنی امام راغب صاحب فرماتے ہیں کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے مسیح علیہ السلام کا درجہ بلند کیا.“ اور لغت کی مشہور کتاب لسان العرب میں لکھا ہے کہ رافع نام اللہ تعالیٰ کا اس لئے ہے کہ: هُوَ الَّذِي يَرْفَعُ الْمُؤْمِنَ بِالْإِسْعَادِ وَ أَوْلِيَاءَهُ بِالتَّقَرُبِ دیعنی وہ مومنوں کو سعادت کے ذریعے اور اولیاء کو قربت کے ذریعے اپنی طرف اُٹھاتا ہے.“ الغرض یہ بات یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں اور نبیوں کی اصطلاح میں رفع سے مرادرفع روحانی ہوتا ہے نہ کہ رفع جسمانی.ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جہاں کہیں بھی خدا کے کلام میں جب بندے کے متعلق رفع کا لفظ استعمال کیا گیا ہو تو اس کے معنی سوائے رفع روحانی کے اور کچھ نہیں لئے گئے اور ظاہر ہے کہ رفع روحانی میں مسیح ناصری کی قطعاً کوئی خصوصیت نہیں بلکہ تمام نیک لوگوں کا اللہ تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا رہا ہے.ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا.مَا صَلَبُوهُ اور شُبِّهَ لَهُمْ کے معنی اور واقعہ صلیب کے اصل حالات اگلا مضمون بیان کرنے سے پہلے ایک ضمنی نوٹ آیت مَا صَلَبُوہ کی تشریح اور واقعہ صلیب کے متعلق درج کرنا ضروری ہے.اوپر والے نوٹ میں ہم نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح ناصری صلیب پر لٹکائے تو گئے مگر وہ صلیب پر مرے نہیں لیکن ہمارے مخالف مولویوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر مطلقاً چڑھائے ہی نہیں گئے بلکہ ان کی جگہ کوئی اور آدمی چڑھا دیا گیا جو ان کے ساتھ کامل مشابہت رکھتا
الحُجَّةُ البَالِغَةُ تھا اور خود ان کو خدا نے آسمان پر اٹھا لیا.اس بحث کو مسیح کی وفات حیات سے تو کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر چڑھے یا نہ چڑھے اس سے ہم کو کام نہیں بلکہ ہماری غرض تو صرف اس سے ہے کہ وہ آسمان کی طرف زندہ اٹھائے گئے یا نہیں.لیکن پھر بھی چونکہ بعض مولوی صاحبان خواہ مخواہ اس بحث کو درمیان میں لے آتے ہیں اس لئے اس کے متعلق کچھ لکھنا خالی از فائدہ نہ ہوگا.سو واضح ہو کہ صلب کے معنی سمجھنے میں ہمارے مولویوں نے سخت دھوکا کھایا ہے اور وہ یہ کہ وہ اس کے معنی محض صلیب پر چڑھانے کے کرتے ہیں حالانکہ یہ معنی درست نہیں ہیں.لغت کی کتابوں میں لکھا ہے.الصَّليب : القِتلَةُ المَعْرُوفَةُ (ملاحظہ ہولسان العرب و تاج العروس) یعنی صلیب دینے کے معنی معروف طریقے پر مارنے کے ہیں یعنی کسی کو صلیب پر لٹکا کر مارنا.خود لفظ صلیب کی رُوٹ میں مارنے کا مفہوم موجود ہے.کیونکہ صلب اور صلیب کے اصل معنی ہڈی کے گودے کے ہیں.(ملاحظہ ہو تاج العروس ولسان العرب واقرب الموارد) اس لئے صلب کے معنی یہ ہوئے کہ کسی آدمی کو اس طرح مارنا کہ اس کے جسم سے ہڈیوں کا گودا بہہ نکلے اور یہی صلیبی موت ہے.کیونکہ صلیب کا طریق یہ ہوتا تھا کہ صلیب کی لکڑی سے مجرم کو میخوں سے لٹکا دیا جاتا تھا جہاں وہ بھوک ، تکان وغیرہ سے لٹکا لٹکا مر جاتا تھا اور اس کا جسم سڑ جاتا تھا اس لئے ما صَلَبُوہ کے یہ معنی کرنا کہ انہوں نے مسیح کو صلیب کی لکڑی پر لٹکا یا تک نہیں صریحاً غلط ہے بلکہ اس کے معنی صلیب پر لٹکا کر مارنے کے ہیں.ہمارے مخالف بعض وقت کہتے ہیں کہ اگر یہ معنی درست ہیں تو آیت میں مَا قَتَلُوهُ کا لفظ زائد
۱۸ الحُجَّةُ البَالِغَةُ کرنے کی کیا ضرورت تھی صرف ما صَلَبُوهُ کہنا کافی تھا.لیکن یہ اعتراض بھی ان کی تاریخی ناواقفیت سے پیدا ہوا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے مخالفوں نے سمجھ رکھا ہے کہ یہود کا صرف یہی دعوی تھا کہ ہم نے مسیح کو صلیب پر چڑھا کر ماردیا ہے جس کے جواب میں خدا نے فرمایا کہ یہود نے مسیح کو ہرگز نہیں مارا بلکہ صلیب پر چڑھایا تک نہیں.مگر یہ غلط ہے.یہود میں اس عقیدے کے متعلق دو گروہ ہیں.ایک گروہ کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے پہلے مسیح علیہ السلام کو قتل کر دیا پھر ذلت کے لئے صلیب پر مسیح علیہ السلام کا جسم لٹکا دیا.کیونکہ ان کے ہاں یہ بھی ایک طریقہ ہوتا تھا کہ مجرم مقتول کا جسم عبرت کے لئے کسی اونچی جگہ لٹکا دیتے تھے.دوسرا گروہ ان میں یہ کہتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کو صلیب پر ہی لٹکا کر مارا گیا اور صلیب پر ہی اس کی موت ہوئی.ان دونوں کے رڈ میں خدا فرماتا ہے کہ نہ تو مسیح علیہ السلام کو یہود نے قتل کیا اور نہ ہی صلیب پر لٹکا کر مارا.قرآن شریف میں جہاں یہود کے دونوں گروہوں کا دعوی بیان کیا ہے وہاں صرف قتل کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ قتل کا لفظ ایک تو عام معنوں میں آتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح مار ڈالنا اور دوسرےخصوصیت کے ساتھ تلوار وغیرہ کے ساتھ مارنے پر بولا جاتا ہے.(ملاحظہ ہو تاج العروس ولسان العرب ) پس جہاں یہود کا دعوی بیان ہوا ہے وہاں قتل کو عام معنوں میں رکھا ہے جو مار دینے کے سب طریقوں پر حاوی ہے.لیکن جواب دیتے ہوئے چونکہ تصریح کی ضرورت تھی اس لئے قتل کے مقابل میں صلب کا لفظ رکھ کر قتل کو اس کے خاص معنوں میں محدود کر کے دونوں دعووں کی تردید کر دی گئی ہے.
۱۹ الحُجَّةُ البَالِغَةُ یہ اعتراض کہ خدا کا مسیح علیہ السلام کو یہ کہنا کہ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَاءِ يُلَ عَنْكَ (سورۃ مائدہ رکوع ۱۵) یعنی ہم نے تجھے بنی اسرائیل کے شر سے محفوظ رکھا.‘ ظاہر کرتا ہے کہ یہود مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکانے ہی پر قادر نہیں ہو سکے ایک نہایت بودا اعتراض ہے جو محض قلتِ تدبر سے پیدا ہوا ہے.كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَاء يُلَ عنك کے صرف یہ معنی ہیں کہ خدا نے مسیح علیہ السلام کو ان کے شر سے محفوظ رکھا.یعنی یہود نے جو یہ ارادہ کیا تھا کہ اسے صلیب کے ذریعے مار ڈالیں اس میں ان کو نا مراد کیا.اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہود کوئی چھوٹی موٹی تکلیف بھی مسیح علیہ السلام کونہیں پہنچا سکے ایک اہلہانہ بات ہے جس کی نہ تو الفاظ اجازت دیتے ہیں اور نہ ہی تاریخ سے اس کی کوئی شہادت ملتی ہے.علاوہ اس کے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خدا کا وعدہ تھا کہ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس ( سورۃ مائدہ رکوع ۱۰) یعنی اللہ تجھے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا.لیکن باوجود اس کے آپ کو کفار کے ہاتھوں اتنی تکالیف پہنچیں کہ بقول آپ کے اس قدر تکالیف کسی اور نبی کو نہیں پہنچیں.آپ کے دو دانت ایک لڑائی کے موقع پر ٹوٹ گئے اور طائف اور اُحد کے موقع پر زخم بھی آئے اور کئی اور طریق سے بھی تکلیف دی گئی تو کیا خدا کا وعدہ غلط نکلا؟ ہرگز نہیں.لہذا گففت بنی اسراءیل عَنكَ کے صرف یہی معنی ہیں کہ یہود کی شرارتوں سے مسیح علیہ السلام کو محفوظ رکھا اور یہ جو انہوں نے ارادہ کیا تھا کہ اسے صلیب پر مار کر نعوذ باللہ ایک ملعون موت مرنے والا ثابت کریں اس ارادہ میں ان کو نامراد کیا کیونکہ تورات
الحُجَّةُ البالغة میں یہ لکھا ہے کہ جھوٹا نبی قتل کیا جائے گا اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ جو صلیب پر لٹکا کر مارا جاتا ہے وہ خدا کا ملعون ہے.پھر یہود اور عیسائیوں کی متفقہ شہادت موجود ہے کہ بہر حال مسیح کو صلیب پر لٹکایا ضرور گیا اور یہی دو قومیں ہیں جو اس معاملے میں اصل شاہد ہوسکتی ہیں.آگے اس بات کے فیصلہ میں کہ مسیح صلیب پر مرا یا کہ نہیں مرا قرآن شریف کی صاف گواہی موجود ہے کہ وہ نہیں مرا اور خود انجیل سے بھی بغور مطالعہ کے نتیجہ میں یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مرا مگر اس تفصیل کی گنجائش نہیں ہے صرف مختصر طور پر اتنا یاد رکھنا چاہئے کہ (۱) مسیح علیہ السلام کا صلیب پر صرف دو چار گھنٹے رہنا جو عام حالات میں ایک تندرست اور جوان انسان کے مرنے کے لئے کافی نہیں تھا (۲) صلیب پر سے اترنے کے بعد اس کی حسب دستور ہڈیاں نہ توڑی جانا جب کہ اس کے ساتھ کے دو مصلوب مجرموں کی ہڈیاں توڑی گئیں (۳) اس وقت روئے زمین پر سخت اندھیرا چھا جانا اور خطرناک زلزلہ کا آنا (۴) پلاطوس رومی حاکم کی بیوی کی خواب کہ مسیح علیہ السلام بے گناہ ہے اسے چھوڑ دیا جاوے (۵) اگلا دن سبت کا دن ہونا جب کہ شریعت کی رو سے صلیب پر کوئی مجرم نہ رکھا جا سکتا تھا (۶) پلاطوس کی مسیح علیہ السلام کو چھوڑ دینے کی خواہش (۷) خود مسیح کی عاجزی اور تضرع سے خدا کے حضور دعائیں کرنا کہ یہ پیالہ اس سے مل جاوے (۸) پلاطوس کا مسیح علیہ السلام کی مزعومہ وفات کے متعلق شبہ کرنا (۹) مسیح علیہ السلام کا اپنے آپ کو یونس نبی کے ساتھ مشابہ قرار دینا جو تین دن مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہ کر آخر زندہ ہی باہر نکل آیا تھا (۱۰) مسیح
۲۱ الحُجَّةُ البَالِغَةُ علیہ السلام کے ہمدردوں اور دوستوں کی کوشش کہ مسیح علیہ السلام کسی طرح بچ جاوے(۱۱) ان کا اسے صلیب پر سے اُتارنے کے بعد اس کے جسم کو حکومت سے مانگنا اور اسے ایک ہوادار اور غار نما کھلی قبر میں رکھنا (۱۲) اس کے جسم سے برچھی مارنے پر خون کا نکلنا (۱۳) مسیح علیہ السلام کے متعلق راز داری کے لئے پہرہ داروں کو رشوت دیا جانا (۱۴) مسیح علیہ السلام کا واقعہ صلیب کے بعد خفیہ طور پر قبر سے غائب ہونا اور اپنے بعض حواریوں سے ملنا اور انہیں اپنے زخم دکھانا اور ادھر ادھر آتے جاتے دیکھا جانا (۱۵) ایک مرہم کا موجود ہونا جو صدیوں سے طب کی کتابوں میں مرہم عیسی کے نام سے مشہور چلی آتی ہے اور جو اس کے زخموں کو لگائی گئی تھی (۱۶) اور پھر مسیح علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لئے بھیجا گیا ہوں جس کی وجہ سے اس کا افغانستان اور کشمیر کی طرف جانا ضروری تھا جہاں بنی اسرائیل کے بہت سے قبیلے آباد تھے وغیرہ وغیرہ.یہ سب باتیں صاف صاف بتارہی ہیں کہ انجیل کی رو سے بھی ہرگز یہ نہیں ثابت ہوتا کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر مرا ہو بلکہ حق یہی ہے کہ وہ زخموں کی شدید تکلیف کی وجہ سے ایک گہری غشی کی حالت میں تھا لیکن جب اس کی اچھی طرح خبر گیری کی گئی تو وہ صحت یاب ہو گیا اور خفیہ طور پر اپنے ملک سے ہجرت کر کے بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش میں دوسرے ملک کی طرف نکل گیا.آیت زیر بحث میں جو شُبَهَ لَهُمْ کے الفاظ ہیں ان کے یہ معنی کرنا کہ کوئی اور شخص مسیح کے ہم شکل بنادیا گیا تھا بالکل غلط بلکہ مضحکہ خیز ہے.اول تو یہ صریح ظلم ہے کہ
۲۲ الحُجَّةُ البَالِغَةُ ایک شخص کی جگہ دوسرے بے گناہ شخص کو صلیب پر چڑھادیا جاوے.دوسرے یہ کہ ان الفاظ کے کسی قاعدہ کے ماتحت یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ مسیح کی مثل کوئی اور شخص بنا دیا گیا کیونکہ شُبہ کا لفظ ماضی مجہول کا صیغہ ہے اور اس کی ضمیر واحد غائب مستلتر ہے لے اور اس لفظ کے معنی یہ ہیں کہ مشابہ بنادیا گیا اور یہی معنی ہمارے مخالف بھی قبول کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کون مشابہ بنادیا گیا ہے اور کس کے مشابہ بنا دیا گیا ؟ ہمارے مخالف مولوی صاحبان اس موقع پر ایک بیرونی شخص کو خواہ مخواہ درمیان میں لے آتے ہیں کہ اسے مسیح کے مشابہ بنادیا گیا حالانکہ کسی بیرونی شخص کا اس آیت میں کیا اس کے قریب قریب بھی کوئی ذکر نہیں ہے.ظاہر ہے کہ جو مشابہ بنایا گیا اور جس کے مشابہ بنایا گیا ان دونوں کا آیت کے اندر یا اس کے قریب ذکر ہونا چاہئے کسی کو کوئی اختیار نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی چیز قرآن شریف کے اندر ڈال دے، یہ تو یہودیوں والی تحریف ہو جائے گی.آیت میں صرف مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے یا اس بات کا ذکر ہے یہود نے دعویٰ کیا کہ مسیح علیہ السلام مقتول و مصلوب ہو گیا ہے.اب ضروری ہے کہ انہی میں سے کوئی مشابہ بنا اور انہی میں سے کسی کے مشابہ بنا.اب غور کیجئے کہ آیت کے معنی کیسے صاف ہو گئے.وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبَّهَ لَهُمْ یعنی یہود نے مسیح علیہ السلام کو مقتول اور مصلوب ہرگز نہیں کیا لیکن مسیح علیہ السلام ان کی نظروں میں مشابه بالمقتول والمصلوب ضرور عربی زبان کے محاورہ کے مطابق یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ مشتہ میں کوئی ضمیر مستتر نہ مانی جاوے بلکہ لھم کو ہی نائب فاعل قرار دیا جاوے.اس صورت میں وَلكِن شُيْءَ لَهُمْ کے یہ معنی ہوں گے کہ یہود پر معاملہ مشتبہ ہو گیا.یہ معنی بھی عربی محاورہ کے مطابق بالکل درست اور صحیح ہیں.
۲۳ الحُجَّةُ البَالِغَةُ ہو گیا اور یہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ یہود کو مسیح علیہ السلام کے معاملے میں دھوکا لگا رہا.لوگوں نے سمجھا کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر مر گیا ہے حالانکہ وہ صرف غشی کی حالت میں تھا جو بعد میں جاتی رہی اور علاج کے ساتھ مسیح علیہ السلام اچھا ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو یہود کے شر سے بچانے کی یہ تدبیر فرمائی کہ ان کی نظروں میں مسیح علیہ السلام مشابه بالمصلوب کر دیا گیا.لیکن خدا فرماتا ہے کہ اگر وہ غور کرتے اور اس معاملے میں صرف ظن کی پیروی نہ کرتے اور پوری تحقیقات سے کام لیتے تو ان کو پتہ لگ جاتا کہ وہ مسیح کو صلیب پر مار ڈالنے پر قادر نہیں ہو سکے بلکہ كَفَّ اللهُ عَنْهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ اب یہ تو فیصلہ ہوا کہ مسیح صلیب پر لٹکایا تو گیا مگر وہ صلیب پر مرا نہیں بلکہ خدا نے اسے یہود کے فاسد ارادوں سے محفوظ رکھا.لیکن اس جگہ طبیعت میں یہ خیال ضرور اٹھتا ہے کہ مسیح علیہ السلام اس کے بعد گیا کہاں؟ شاید ناظرین کا خیال ہو کہ اس مسئلہ میں قرآن شریف خاموش ہوگا مگر نہیں جب وہ کسی مسئلے کو لیتا ہے تو پھر اس کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتا ہے چنانچہ اس مسئلہ پر بھی وہ خاموش نہیں ہے.ملاحظہ ہو.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:.وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّةٌ آيَةً وَأَوَيْنَهُمَا إِلَى رَبِّوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ ومَعِين (المؤمنون:۵۱) یعنی ہم نے مسیح علیہ السلام اور اس کی ماں کو ایک نشان بنایا اور ان دونوں کو ہم نے ایک ایسی جگہ کی طرف پناہ دی جو بلند تھی اور جس میں چشمے 66 جاری تھے.“
۲۴ الحُجَّةُ البَالِغَةُ اس آیت میں جو آوٹی یعنی پناہ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ صاف طور پر اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ یہ صلیب والے واقعہ کے بعد کا موقع ہے جب مسیح علیہ السلام یہود کے شر سے بال بال بچا.دیکھئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ کیسے صاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کو ایک بلند جگہ کی طرف پناہ دی گئی جو چشموں والی تھی.اب ہم دیکھتے ہیں تو کشمیر کا خطہ اس بیان کے ٹھیک مطابق اُترتا ہے.اسی لئے جب حضرت مرزا صاحب کو اس معاملے کی طرف توجہ ہوئی تو ایک عرصہ کی تحقیقات کے بعد یہ صاف پتہ پتہ چل گیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب سے بچ کر افغانستان وکشمیر کی طرف ہجرت کر کے آگئے تھے.وجہ اس کی یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کی بعثت بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لئے تھی جیسا کہ خود مسیح علیہ السلام کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف بھیجا گیا ہوں.اب تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ بنی اسرائیل کی بعض قو میں مسیح علیہ السلام سے پہلے افغانستان وکشمیر کے علاقوں میں آکر آباد ہوگئی تھیں.دیکھ لیجئے کشمیر کا لفظ ہی اس طرف اشارہ کر رہا ہے.یہ مرکب ہے کاف اور شمیر سے جو اصل میں اشیر تھا اور بگڑ کر شیر اور پھر ثقل تلفظ کی وجہ سے شمیر بن گیا.تو گویا کشمیر کے معنی ہوئے کاشیر یعنی اشیر کی طرح کا ملک.اور دنیا جانتی ہے کہ اشیر عبرانی زبان میں اسیر یا یعنی شام کے ملک کو کہتے ہیں.یہ نام کشمیر کا بنی اسرائیل ہی نے آکر رکھا تھا کیونکہ قاعدہ ہے کہ اپنے اصلی وطن کے نام پر لوگ اپنے نئے وطنوں کے نام رکھ لیا کرتے ہیں.اتنی تحقیقات کے بعد حضرت مرزا صاحب نے کشمیر کی تاریخ تلاش کی تو پرانے واقعات میں مل گیا
۲۵ الحُجَّةُ البَالِغَةُ کہ قریباً انیس سو سال ہوئے کہ کسی باہر کے ملک سے یہاں ایک شہزادہ نبی آیا تھا جس کا نام یوز آسف تھا جو صاف طور پر یسوع سے بگڑا ہوا معلوم ہوتا ہے.آخر کار مسیح علیہ السلام کی قبر بھی محلہ خانیارسری نگر میں مل گئی.اس قبر کے متعلق بھی موقع کی شہادت اور تاریخ سے پتہ لیا گیا تو یہی معلوم ہوا کہ یہ اسی یوز آسف کی قبر ہے جو انہیں سوسال ہوئے کشمیر میں آیا تھا.مزید ثبوت یہ ملا کہ وہ قبر اور اس کے ساتھ والی مسیح علیہ السلام کی ماں کی قبر ٹھیک اسی طرز پر بنی ہوئی ہیں جس طرح بنی اسرائیل کی قبریں ہوتی تھیں.علاوہ اس کے مسیح علیہ السلام کی ہجرت کا ایک ثبوت یہ ہے کہ لفظ مسیح کے معنی سفر کرنے والے کے ہیں اور ظاہر ہے کہ مسیح علیہ السلام کے سوا اور کسی نبی نے اتنے لمبے سفر نہیں کئے.پھر ایک حدیث میں بھی آتا ہے کہ :- أَوْحَى اللهُ تَعَالَى إِلى عِيسَى أَنْ يَا عِيسَى انْتَقِلُ مِنْ مَكَانٍ إِلَى مَكَانٍ لِئَلَّا تُعْرَفَ فَتُؤذى ( کنزل العمال جلد دوم صفحه ۳۳۴) یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو وحی کی کہ اے عیسی تو ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف نکل جاتا ایسا نہ ہو کہ تو پہچانا جاوے اور تجھے تکلیف میں ڈالا جاوے.“ یہ حدیث صراحت کے ساتھ صلیب کے بعد والے حالات کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ اسی وقت یہ ڈر پیدا ہوا تھا کہ اگر یہود مسیح علیہ السلام کو دوبارہ دیکھ لیں گے تو پھر دوبارہ شرارت کریں گے.یہ ہوا لکھا گیا ہے.اصل میں ان کے ساتھ والی قبر ایک اور بزرگ کی ہے.ناشر
۲۶ الحُجَّةُ البَالِغَةُ نزول کی اصل حقیقت اس کے بعد ہم پھر اپنے اصل مضمون کی طرف رجوع کرتے ہیں جو حضرت عیسی کے رفع اور نزول کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.ہمارے مخالف مولوی صاحبان مسیح علیہ السلام کے آسمان پر زندہ جانے کے ثبوت میں ایک دلیل یہ دیا کرتے ہیں کہ احادیث میں آنے والے مسیح کے متعلق نزول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو اُترنے کے معنوں میں آتا ہے.اس سے ثابت ہوا کہ مسیح ناصری آسمان سے نازل ہوں گے اور ظاہر ہے کہ آسمان سے وہ صرف اس صورت میں ہی نازل ہو سکتے ہیں جب کہ وہ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے ہوں.اس کے جواب میں اچھی طرح یا درکھنا چاہئے که اول تو کسی صحیح حدیث میں مسیح کے متعلق نزول کے ساتھ سماء کا لفظ استعمال نہیں ہوا تا آسمان سے اترنے کے معنی لئے جاویں.حضرت مرزا صاحب نے کئی ہزار روپیہ انعام اس شخص کے لئے مقررکیا جو کوئی مرفوع متصل صحیح حدیث ایسی پیش کرے جس میں مسیح علیہ السلام کے متعلق زندہ آسمان پر جانے اور پھر آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے ہوں مگر آج تک کوئی مخالف ایسی حدیث پیش نہیں کر سکا.اس سے ناظرین نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ کوئی ایسی حدیث موجود ہی نہیں.علاوہ اس کے نزول کے معنوں پر بھی غور نہیں کیا گیا.عربی زبان میں نزول کے معنی ظاہر ہونے اور آنے کے بھی ہیں جیسا کہ لغت کی کتب سے ظاہر ہے.خود قرآن
۲۷ الحجة البالغة شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قَدْ أَنزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُوْلًا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آيَتِ اللهِ (سوره طلاق رکوع ۲) یعنی اللہ نے تمہاری طرف یاد کرانے والا رسول بھیجا ہے جو تم پر اللہ کی آیات پڑھتا ہے.“ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نزول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ نبی کریم آسمان سے نہیں اترے تھے بلکہ عربوں میں ہی پیدا ہوکر مبعوث کئے گئے تھے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: قَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ رسول تم میں تمہیں میں سے ظاہر کیا ہے.“ پھر قرآن شریف فرماتا ہے :- وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سوره حدید رکوع ۳) یعنی ہم نے لوہا اُتارا ہے جس میں لڑائی کا ساز وسامان ہے اور لوگوں کے لئے اور بھی بہت سے فوائد ہیں.“ لیجئے لوہا بھی آسمان سے اُتر رہا ہے حالانکہ سب اسے زمین سے ہی کھود کر نکالا جاتا دیکھتے ہیں.پھر فرمایا :- يُبَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَواتِكُمْ (اعراف رکوع ۳) یعنی اے بنی آدم ہم نے تم پر لباس اُتارا ہے جو تمہارے برہنہ پن کو ڈھانپتا ہے.“
۲۸ الحُجَّةُ البَالِغَةُ اس آیت میں لباس کے لئے بھی نزول کا لفظ بیان ہوا ہے، حالانکہ لباس تو روئی وغیرہ سے زمین پر ہی تیار کیا جاتا ہے.اسی طرح قرآن شریف فرماتا ہے: وَانْزَلْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ 66 (زمررکوع ۱) د یعنی خدا نے تم پر چار پائے اُتارے ہیں.حالانکہ گھوڑے گدھے اور بیل ا سب زمین پر ہی پیدا ہوتے ہیں.ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ نزول کے معنی ہمیشہ لفظی طور پر اترنے کے ہی نہیں ہوتے بلکہ اکثر دفعہ نزول کا لفظ اس چیز کے متعلق استعمال کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی نوع انسان کو بطور ایک انعام کے دی جاتی ہے اور چونکہ ایسی نعمت خدا کی طرف سے آتی ہے اس لئے اس کے متعلق نزول کا لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات عربی محاورہ میں نزول کا لفظ مطلق ظاہر ہونے کے معنے بھی دیتا ہے.اور یہ تو خیر سب لوگ جانتے ہیں کہ نزیل کا لفظ مسافر پر بھی بولا جاتا ہے اور جس جگہ سفر کے بعد قیام کیا جاوے اس کو منزل کہتے ہیں.علاوہ اس کے بعض احادیث میں مسیح کے متعلق بعث اور خروج کے الفاظ بھی آئے ہیں ( کنز العمال) جو نزول کے معنوں کی بڑی صراحت کے ساتھ تعیین کر دیتے ہیں کیونکہ اس صورت میں جو مفہوم بعث اور خروج اور نزول میں مشترک ہے ( یعنی ظاہر ہونے کا ) وہی درست اور صحیح مانا جائے گا.پس لفظ نزول سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مسیح آسمان سے نازل ہوگا ایک سخت غلط راہ ہے جس سے ہر عقلمند کو پر ہیز لازم ہے.قرآن کریم کسی بشر کے آسمان پر بجسم عنصری جانے کو صاف الفاظ میں ممتنع قرار دیتا ہے.حدیث مسیح کے آسمان پر زندہ جا بیٹھنے پر کوئی گواہی نہیں دیتی بلکہ مخالف ہے اور عقلِ انسانی اس عقیدے کو دور سے ہی دھکے دیتی ہے تو پھر خواہ مخواہ حضرت مسیح علیہ السلام کو کیوں آسمان پر بیٹھا ہوا تصور کیا جاوے.
۲۹ الحجة البالغة باب دوم (وفات مسیح کے مسئلے کی بحث ) دوسرا حصہ اس مضمون کا مخصوص طور پر وفات مسیح “ کے متعلق ہے.اب تک میں نے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح آسمان پر زندہ بجسم عنصری تشریف نہیں لے گئے اور اس کی تائید میں بہت سی آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ پیش کی ہیں.اگر کوئی صاحب ٹھنڈے دل سے غور فرماویں تو اُن پر روز روشن کی طرح ظاہر ہو جائے گا کہ اسلامی تعلیم کے مطابق یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ مسیح ناصری کو بجسم عنصری آسمان کی طرف اُٹھا لیا گیا.اب میں بتاتا ہوں کہ مسیح وفات بھی پاچکا ہے.نبی کریم سے پہلے جتنے رسول گزرے ہیں وہ سب وفات پاچکے ہیں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (سوره آل عمران رکوع ۱۵) د یعنی محمد صلی ا یہ تم اللہ کے صرف ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے جتنے رسول ہوئے ہیں وہ سب گزر گئے تو کیا اگر محمد سلیم بھی طبعی موت سے فوت ہو جاویں یا قتل کر دئے جاویں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟“ یہ آیت صاف طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی موت کی خبر دیتی ہے اور ان کی نسبت بتاتی ہے کہ وہ سب کے سب وفات پاچکے ہیں.
الحُجَّةُ البَالِغَةُ اور ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ناصری بھی ایک رسول تھے جو چھ سوسال نبی کریم مایا یہ کیم سے پہلے مبعوث کئے گئے تھے.پس لا محالہ ماننا پڑا کہ وہ بھی فوت ہو چکے ہیں.اگر اس آیت پر یہ اعتراض کیا جائے کہ خلا کے معنی صرف گزر جانے کے ہیں لہذا اس آیت سے یقینی طور پر موت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اگر ایک شخص زندہ آسمان پر اُٹھا لیا جاوے تو اس کی نسبت بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ نہیں رہا اور گزر گیا ہے تو اس اعتراض کے جواب میں دو باتیں یاد رکھنی چاہئیں.اول یہ کہ عربی زبان میں خلا کے معنی مات ( یعنی وہ مر گیا ) کے بھی آتے ہیں.چنانچہ تاج العروس جو لغت عربی کی سب سے بڑی اور نہایت مستند کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ :- خَلَافُلَانٌ : إِذَا مَاتَ و یعنی جب کوئی شخص مرجاوے تو کہتے ہیں کہ خلا فلان یعنی فلاں شخص دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ خود اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خلا کے معنوں کی تعیین کر دی ہے جیسا کہ فرمایا :- أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ یعنی اگر محمد رسول اللہ طبعی موت سے مر جاویں یا قتل کر دیئے جاویں.“ تو گویا اس جگہ لفظ خلت کے معنی لازمی طور پر ان دوصورتوں میں سے ایک کے ہونے چاہئیں یعنی یا تو یہ کہ وہ طبعی موت سے مر گئے اور یا وہ قتل ہوئے.یہ الفاظ کہ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ صاف بتا رہے ہیں کہ گزشتہ انبیاء کا گزر جانا انہی دوصورتوں میں سے کسی ایک میں ہوا تھا.یعنی یا تو وہ طبعی موت سے وفات پاتے رہے اور یا پھر قتل
۳۱ الحُجَّةُ العالقة ہو جاتے رہے.اگر گزشتہ نبیوں سے کوئی نبی آسمان کی طرف اُٹھایا گیا ہوتا یا مذکورہ دو طریقوں کے سوا کسی اور طریق سے کسی گزشتہ نبی کا گزر جانا واقع ہوا ہوتا تو لازماً اس جگہ اُس صورت کا ذکر ہونا چاہئے تھا یا کم از کم مسیح کی استثنائی صورت ہی بیان کردی جاتی مگر ایسا نہیں کیا گیا.اس سے ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں خلا کے معنی یا تو طبعی موت سے مرنے کے لئے جاویں گے اور یا قتل کے ذریعے اس جہانِ فانی کو چھوڑ جانے کے لیکن چونکہ مسیح کے متعلق اللہ تعالیٰ کی صاف گواہی موجود ہے کہ مَا قَتَلُوهُ یعنی مسیح کے مخالف اس کے قتل پر قادر نہیں ہوئے اس لئے لامحالہ دوسری صورت ہی تسلیم کرنی ہوگی یعنی یہ ماننا پڑے گا کہ مسیح “ نے موت کے ذریعے سے اس جہان کو چھوڑا ہے.وھو المراد.آیت زیر بحث کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین بھی عموماً اس آیت کے ساتھ یہ الفاظ لگا دیتے ہیں کہ :- وَسَيَخْلُوا كَمَا خَلَوْا بِالْمَوْتِ أَوِ الْقَتْلِ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح دنیا کو چھوڑ جائیں گے جس طرح گزشتہ انبیاء بھی موت کے ذریعے یاقتل کے ذریعے دنیا کو چھوڑتے رہے ہیں.وفات مسیح پر صحابہ کا اجماع اس آیت کے معنی اور بھی زیادہ واضح ہو جاتے ہیں جب ہم اس کو ایک مشہور تاریخی واقعہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں حدیث میں لکھا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو ایسا اتفاق ہوا کہ حضرت عمر ابھی تک آپ سایتم کو زندہ ہی سمجھ رہے تھے اور کہتے تھے کہ آپ پھر واپس آجائیں گے اور کفار اور منافقوں کا قلع قمع
۳۲ الحُجَّةُ البَالِغَةُ کریں گے وہ اپنے اس خیال پر اس قدر جمے ہوئے تھے کہ انہوں نے تلوار کھینچ کر اعلان کرنا شروع کیا کہ جو کوئی بھی نبی کریم کو فوت شدہ کہے گا میں اس کی گردن اڑا دوں گا.اس وقت حضرت ابو بکر کھڑے ہوئے اور صحابہ کے سامنے یہی آیت پڑھی که وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُوْلُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ د یعنی محمد توصرف ایک رسول تھے ان سے پہلے جو رسول گزرے ہیں وہ سب فوت ہو چکے ہیں.الخ لکھا ہے کہ حضرت عمر پر اس بات کے سننے سے اس قدر غم طاری ہوا کہ وہ زمین پر گر گئے کیونکہ انہوں نے اس وقت محسوس کر لیا جسے وہ اپنے غم کے وقتی جوش میں نہیں محسوس کر رہے تھے کہ ان کا پیارا آقا بھی اللہ کا صرف ایک رسول تھا جس نے گزشتہ انبیاء کی طرح موت کے دروازے سے گزرنا تھا.( بخاری کتاب المناقب) اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی گزشتہ نبی اس وقت تک زندہ ہوتا تو حضرت ابوبکر کے اس استدلال پر کہ چونکہ پہلے سب نبی فوت ہو چکے ہیں اس لئے طبعاً سید نامحمد رسول اللہ کو بھی فوت ہونا چاہئے صحابہ کرام ضرور اعتراض کرتے اور خصوصاً حضرت عمرؓ اور ان کے ہم خیال لوگ جو پہلے ہی سے آنحضرت کو ابھی تک زندہ تصور کر رہے تھے وہ ضرور چلا اٹھتے کہ یہ کیا بات کہہ رہے ہو؟ مگر سب صحابہ نے حضرت ابوبکر کے ساتھ اتفاق کر کے اس استدلال پر مہر لگادی کہ رسول اللہ سے پہلے سب نبی فوت ہو چکے ہیں.گویا آنحضرت کے بعد صحابہ کا سب سے پہلا اجماع ( بلکہ حق یہ ہے کہ اسلام کا واحد اجماع ) یہی تھا کہ گزشتہ انبیاء تمام کے تمام فوت ہو چکے ہیں.غور کا مقام ہے کہ
۳۳ الحُجَّةُ البَالِغَةُ مسیح ناصری کی وفات پر یہ کیسی صاف اور واضح دلیل ہے مگر افسوس حضرت مرزا صاحب کے مخالفین اس قسم کی صاف اور قطعی دلیل کی طرف بھی توجہ نہیں کرتے اور یہی کہے جاتے ہیں کہ بَلْ نَتَّبِعُ مَا الْفَيْنَا عَلَيْهِ ابائنا.مگر حل طلب امر یہ ہے کہ اَوَلَوْ كَانَ ابَاعُهُمْ لا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ.اچھا اب آگے چلئے.مسیح ناصری کا رفع وفات کے بعد ہوا قرآن مجید فرماتا ہے:.يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ( سوره آل عمران رکوع ۶) یعنی اے عیسی میں تجھے تیری طبعی موت سے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور تجھے پاک کروں گا ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا اور تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکرین پر غالب رکھوں گا.“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح ناصری سے چار وعدے فرمائے ہیں جو ایک خاص ترتیب میں واقع ہوئے ہیں.یعنی (۱) وفات اور (۲) رفع اور (۳) تطہیر اور (۴) غلبہ.اب یہ خیال کرنا کہ پچھلے تین وعدے تو پورے ہو چکے ہیں مگر پہلا وعدہ ابھی تک پورا ہونے میں نہیں آیا صریح ہٹ دھرمی ہے.قرآن شریف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کے الفاظ موتیوں کی طرح اپنی اپنی جگہ پر جڑے گئے ہیں.کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ قرآن کے الفاظ کو اُلٹ پلٹ دے.اگر اس طرح ہونے لگے تو امان اُٹھ جاوے.یہود کو اسی واسطے اللہ تعالیٰ لعنت ملامت کرتا ہے کہ
۳۴ الحُجَّةُ البالغة يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهِ د یعنی وہ بد بخت لوگ الہی کلام میں دست برد کرتے اور الفاظ کو اپنی جگہ سے الٹ پلٹ کر دیتے تھے.“ مگر ہائے افسوس کہ آج مسلمانوں نے بھی وہی کیا جو یہودی لوگ کیا کرتے تھے اور صرف حضرت مرزا صاحب کی مخالفت کی وجہ سے کہہ دیا کہ دراصل اس آیت میں رَافِعُكَ پہلے رکھنا چاہئے اور مُتَوَفِّيكَ بعد میں رکھنا چاہئے تا کہ کسی طرح مسیح زندہ ثابت ہو جائے لیکن کم از کم بعض مفسرین نے اور آج کل کے مولویوں کی اس کوشش نے ہم کو یہ واضح طور پر بتا دیا کہ مُتَوَفِّيكَ کے معنی دراصل ان کے نزدیک بھی وفات دینے کے ہی ہیں ورنہ تقدیم تاخیر کی کوشش کے کیا معنی؟ چونکہ ان کا دل کہتا ہے که مُتَوَفِّيكَ کے معنی مارنے کے ہی ہیں اس لئے وہ تقدیم تاخیر کی آڑ لے کر تاویل کرنا چاہتے ہیں.بہر حال اب معاملہ بالکل صاف ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی سے وعدہ کیا کہ وہ اس کو وفات دے گا اور اس کو اپنی طرف اٹھائے گا اور اس کو کافروں کے الزامات سے پاک کرے گا اور اس کے متبعین کو قیامت کے دن تک اس کے منکرین پر غالب رکھے گا.ہمارے مخالف یہ مانتے ہیں کہ دوسرا وعدہ جو مسیح کے رفع سے تعلق رکھتا ہے وہ پورا ہو چکا اور خدا نے مسیح کو اپنی طرف اٹھا لیا اور تیسرے وعدے کے مطابق قرآن شریف کے ذریعے اللہ نے یہود کے الزامات سے میسیج کو پاک بھی ثابت کر دیا اور بالآخر چوتھے وعدے کے مطابق مسیح کے متبعین کو اس کے منکرین پر غلبہ بھی حاصل ہو گیا مگر تعجب ہے کہ تا حال سب سے پہلا وعدہ یعنی وفات والا وعدہ پورا نہیں ہوا.لیکن لطف یہ ہے کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جاوے کہ پہلا وعدہ ابھی پورا
۳۵ الحُجَّةُ البَالِغَةُ نہیں ہوا تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ اس صورت میں اس وعدے کے ایفا کا وقت بہر حال آخری وعدے کے بعد آئے گا کیونکہ آخری تین وعدے پورے ہو چکے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ آخری وعدہ کا دامن قیامت تک پھیلا ہوا ہے جیسا کہ إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ کے الفاظ سے ظاہر ہے.تو گویا قیامت تک تو حضرت مسیح پر موت آتی نہیں اور جب قیامت آئے گی اور دنیا بھر کے مُردے قبروں سے اُٹھائے جائیں گے اُس وقت مسیح کی روح قبض کی جائے گی.مگر اس میں ایک اور مشکل کا سامنا ہے اور وہ یہ کہ قیامت کا دن تو زندہ کرنے کا دن ہے نہ کہ مارنے کا تو گویا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت مسیح موت کے پنجے سے بالکل ہی چھوٹ گئے.چلو فیصلہ ہوا.اس مضمون پر حضرت مرزا صاحب" تحریر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : توفی کا لفظ اگر آیت کے سر پر سے اٹھا دیا جاوے تو اس کو کسی دوسرے مقام میں قیامت سے پہلے رکھنے کی کوئی جگہ نہیں.سو اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیامت کے بعد مریں گے اور پہلے مرنے سے یہ ترتیب مانع ہے.اب دیکھنا چاہئے کہ قرآن شریف کی یہ کرامت ہے کہ ہمارے مخالف یہودیوں کی طرح قرآن شریف کی تحریف پر آمادہ تو ہوئے مگر قادر نہیں ہو سکے اور کوئی جگہ نظر نہیں آتی جہاں فقرہ رَافِعُكَ کو اپنے مقام سے اُٹھا کر اس جگہ رکھا جاوے.ہر ایک جگہ کی خانہ پری ایسے طور ،، سے ہو چکی ہے کہ دست اندازی کی گنجائش نہیں.“ ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ) الغرض ہم مجبور ہیں کہ جو ترتیب اللہ تعالیٰ نے جو حکیم اور علیم ہے قرآنی الفاظ کی
الحُجَّةُ البَالِغَةُ رکھی ہے اس کو قبول کریں اور اپنی طرف سے ایک نیا قرآن نہ بنا ئیں.پس چونکہ پچھلے تین وعدے مسلمہ طور پر پورے ہو چکے ہیں اس لئے لامحالہ ماننا پڑا کہ پہلا وعدہ جو مسیح کی وفات کے متعلق ہے وہ بھی پورا ہو چکا ہوگا.ضمناً یہ آیت رفع کے معنی بھی واضح کر رہی ہے کیونکہ رفع کا وعدہ وفات کے وعدے کے بعد اللہ نے رکھا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ اس جگہ رفع انہی معنوں میں ہے جو آیت يَا يَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ میں بیان کئے گئے ہیں.یعنی جس طرح موت کے بعد نیک ارواح کا اللہ کی طرف رفع ہوا کرتا ہے بد ارواح کا اللہ کی طرف رفع نہیں ہوتا.انہی معنوں میں مسیح کا رفع ہوا.لفظ مُتَوَفِّيكَ کے معنی اس آیت کے متعلق بعض مخالف کہا کرتے ہیں کہ اس میں جو لفظ مُتَوَفِّيكَ واقع ہوا ہے اس کے معنی قبض روح یعنی وفات دینے کے نہیں ہیں بلکہ سارے کا سارا اُٹھا لینے کے ہیں.اس کے جواب میں پیشتر اس کے کہ میں لغت کے حوالے سے توفی کے معنی ظاہر کروں حضرت مرزا صاحب کی ایک تحریر نقل کئے دیتا ہوں جس میں اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کے تیئیس (۲۳) مقامات میں لفظ توفی کو قبض روح کے موقع پر استعمال کیا ہے.اوّل سے آخر تک قرآن شریف میں کسی جگہ لفظ توفی کا ایسا نہیں جس کے بجر قبض روح اور مارنے کے اور معنی ہوں اور پھر ثبوت پر ثبوت یہ کہ صحیح بخاری میں ابن عباس سے مُتَوَفِّيكَ کے معنی ممی لکھتے ہیں.ایسا ہی تفسیر فوز الکبیر میں بھی یہی معنی مندرج ہیں
۳۷ الحُجَّةُ البَالِغَةُ اور کتاب عینی تفسیر بخاری میں اس قول کا اسناد بیان کیا ہے.....احادیث میں جہاں کہیں تو فی کا لفظ کسی صیغہ میں آیا ہے اس کے معنی مارنا ہی آیا ہے جیسا کہ محدثین پر پوشیدہ نہیں اورعلم لغت میں یہ مسلم اور مقبول اور متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول یہ ہے وہاں بجز مارنے کے اور کوئی معنی توفی کے نہیں آتے.تمام دواوین عرب اس پر گواہ ہیں.اب اس سے زیادہ ترک انصاف کیا ہوگا کہ قرآن بلند آواز سے فرمارہا ہے کوئی نہیں سنتا.حدیث گواہی دے رہی ہے کوئی پروا نہیں کرتا.علم لغت عرب شہادت ادا کر رہا ہے کوئی اس کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا.دواوین عرب اس لفظ کے محاورات بتلا ر ہے ہیں کسی کے کان کھڑے نہیں ہوتے.(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۴) مزید تسلی کے لئے لغت ملاحظہ ہو، چھوٹی موٹی لغت کی گواہی تو ہمارے مولوی صاحبان شاید ٹال دیں اس لئے ہم سب سے بڑی اور مشہور و مستند کتاب تاج العروس کو شہادت میں پیش کرتے ہیں.تاج العروس میں لکھا ہے:." تَوَفَّاهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا قَبَضَ نَفْسَهُ.یعنی توفاه اللہ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ نے اس کی روح قبض کر لی.“ اور یہ بھی لکھا ہے:.تُوفِّي فُلَانٌ: إِذَا مَاتَ یعنی توی فُلان کے یہ معنی ہیں کہ فلاں شخص مر گیا.“ پھر علامہ زمخشری مصنف تفسیر کشاف متوفيك كے معنی لکھتے ہیں :
۳۸ الحُجَّةُ البالغة مُمِيتُكَ حَتْفَ أَنْفِكَ د یعنی میں تجھے تیری طبعی موت سے وفات دوں گا.“ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ مُتَوَفِّيكَ کے معنی حمیت کے ہیں یعنی میں تمہیں وفات دوں گا.( بخاری کتاب التفسیر ) پس یہ بات یقینی ہے کہ آیت زیر بحث میں إِنِّي مُتَوَفِّيكَ کے معنی صرف یہی ہیں کہ میں تجھ کو وفات دوں گا.اس میں شک نہیں کہ چونکہ توفی کے اصل معنی قبض روح کے ہیں جو ایک حد تک نیند میں بھی ہوتا ہے اس لئے تو قی کا لفظ بعض اوقات صرف نیند کے وقت قبض روح کرنے کے معنی بھی دیتا ہے مگر ان معنوں کے لئے کسی قرینہ کا ہونا لازمی ہوتا ہے ورنہ جب یہ لفظ بغیر قرینہ کے استعمال ہو اور خدا فاعل ہو اور انسان مفعول یہ ہو تو لا محالہ اس کے معنی وفات دینے کے ہی ہوتے ہیں.حضرت مرزا صاحب بانی سلسلہ احمدیہ نے مخالف مولویوں کو چیلنج دیا تھا کہ وہ قرآن شریف یا حدیث یا عرب کی کسی مستند کتاب میں یہ دکھا دیں کہ جب خدا فاعل ہو اور کوئی مذکور انسان مفعول یہ ہو تو توقی کے معنی قبض روح کے سوا کوئی اور مراد ہوں مگر آج تک کوئی مخالف مولوی اس کا جواب نہیں دے سکا.علاوہ ازیں خود آیت زیر بحث بھی مُتوفِّيكَ کے معنی صاف بتا رہی ہے کیونکہ اگر مُتَوَفِّيكَ کے معنی یہ ہیں کہ پورا اُٹھا لینا تو رافِعُكَ کا لفظ الگ ذکر کرنے سے کیا
۳۹ الحُجَّةُ البَالِغَةُ فائدہ تھا؟ اس آیت میں رافِعُكَ کا لفظ اس بات پر یقینی شہادت ہے کہ مُتَوَفِّيت کا لفظ رافِعُكَ سے الگ مفہوم رکھتا ہے.پھر خدا تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفر ما تا ہے:.إِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ (یونس رکوع ۵) در یعنی ہم جو کفار کو عذاب کے وعید دے رہے ہیں ان میں یا تو بعض تجھے دکھا دیں گے اور یا تجھے وفات دے دیں گے.“ پھر قرآن میں لکھا ہے:.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ (اعراف رکوع ۱۴) یعنی اے ہمارے رب ہم کو صبر کی کامل توفیق عطا کر اور ہمیں اس حالت میں وفات دے کہ ہم تیرے فرمانبردار ہوں.“ غرض تو قی کے لفظ پر اڑ نا پرلے درجے کی ہٹ دھرمی ہے اور پھر تعجب یہ کہ جب کسی اور شخص کے لئے یہی لفظ تو قی کا استعمال ہو تو اس کے معنی وفات دینے کے کئے جاتے ہیں لیکن جہاں یہ حضرت عیسی کے متعلق استعمال ہوا فوراً اس کے معنی آسمان کی طرف اٹھا لینے کے کر دئے جاتے ہیں! افضل الرسل حضرت محمد رسول صلی ایتم کے متعلق تو وفات دینے کے معنی رہے لیکن حضرت عیسی کے متعلق آسمان پر لے جانے کے معنی پیدا ہو گئے.یہ کیسا انصاف ہے اور کیسی غیرت ہے؟ نعوذباللہ من ذلك!
مسیح کا اپنی وفات کے متعلق خود اپنا اقرار الحجة البالغة یہاں تک جو آیات میں نے وفات مسیح کے متعلق لکھی ہیں ان سے بڑی وضاحت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے کہ مسیح ناصری وفات پاچکا ہے اور اس بارے میں خود خدا کی شہادت او پر درج ہو چکی ہے.دراصل اگر تعصب کی پٹی آنکھوں سے اُتار کر دیکھا جاوے تو مسیح کی وفات کا مسئلہ ایسا صاف ہے کہ کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں مگر جنہوں نے نہیں ماننا وہ نہیں مانتے.اچھا اب میں مسیح کی خود اپنی وفات کے متعلق شہادت پیش کرتا ہوں.شاید اگر اللہ تعالیٰ کی گواہی پر پوری تسلی نہ ہوئی ہو تو مسیح کا اپنا بیان ہی کسی گم کردہ راہ کی تشقی کا موجب ہو جاوے قرآن شریف فرماتا ہے:.وَإِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمّي الْهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللهِ قَالَ سُبْحَنَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقِّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ، إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ آنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّي وَرَبِّكُمْ = وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شهید ( سورة المائده رکوع ۱۶) ط ج د یعنی خدا ( قیامت کے دن ) کہے گا کہ اے عیسی بیٹے مریم کے کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ تم مجھے اور میری ماں کو دو خدا مان لو اللہ کے سوا.تو اس پر حضرت عیسی جواب دیں گے پاک ہے تیری ذات مجھے زیبا نہیں کہ کہوں وہ بات جس کا مجھے کوئی حق نہیں.اگر میں نے کوئی ایسی بات کہی ہے تو تو اسے جانتا ہے.تو جانتا ہے جو میرے
الحُجَّةُ البَالِغَةُ جی میں ہے لیکن میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے.تو بے شک سب نبیوں کا جاننے والا ہے.میں نے ان کو اس بات کے سوا جس کا تو نے مجھ کو حکم دیا تھا اور کچھ نہیں کہا اور وہ یہ کہ عبادت کرو اللہ کی جو میرا اور تمہارا دونوں کا پروردگار ہے.اور میں ان پر نگران رہا جب تک کہ میں ان کے درمیان رہا.لیکن جب اے خدا تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو تو ہی ان کو دیکھنے والا تھا اور تو ہر ایک چیز پر نگران ہے.“ یہ آیت مسیح علیہ السلام کی وفات پر دلیل کا ایک سورج چڑھا دیتی ہے.كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمُ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي کے الفاظ میں مسیح صرف دو زمانوں کا ذکر کرتا ہے جن میں سے وہ یکے بعد دیگرے گزرا.پہلا زمانہ وہ ہے جب مسیح" اپنے متبعین کے اندرموجود تھا اور دوسرا زمانہ جو پہلے کے ساتھ ملحق اور متصل ہے وہ مسیح کی وفات کا زمانہ ہے.اب اگر مسیح" واقعی آسمان پر گیا ہوتا تو اس کا جواب یہ ہونا چاہئے تھا کہ :- مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا رَفَعْتَنِي إِلَى السَّمَاءِ حَيًّا دو یعنی میں اپنے متبعین پر نگرانِ حال رہا جب تک میں ان میں رہا پھر جب تو نے مجھے زندہ آسمان کی طرف اُٹھا لیا“.الخ.مگر مسیح کا جواب یہ نہیں بلکہ مسیح نے اپنے متبعین کے درمیان رہنے والے زمانے کے بعد دوسرا زمانہ جس کا ذکر کیا ہے وہ صرف اپنی وفات کا زمانہ ہے.پس ثابت ہوا کہ مسیح آسمان پر نہیں اُٹھایا گیا بلکہ جس طرح دوسرے انسان فوت ہو چکے ہیں اسی طرح وہ بھی فوت ہو گیا.آیت زیر بحث ہم کو صاف الفاظ میں بتاتی ہے کہ وہ چیز جو سیح" کے پہلے زمانہ یعنی تبعین کے درمیان رہنے والے زمانے کو کاٹنے
۴۲ الحُجَّةُ البالغة والی اور ایک نیا دور شروع کرنے والی ہے وہ مسیح کی وفات ہے جیسا کہ مادمت فِيهِمُ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي کے الفاظ سے ظاہر ہے.اگر پہلے زمانے کو کاٹنے والی چیز آسمان پر جانا ہوتا تو مسیح" کا یہ جواب بالکل غلط ٹھہرتا ہے.پھر یہی نہیں بلکہ اس آیت میں حضرت مسیح “ اپنی وفات کا وقت بھی ہم کو بتاتے ہیں کیونکہ فرماتے ہیں کہ ”میں نے اپنی قوم کو یہی تعلیم دی تھی کہ خدا کی پرستش کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے اور میں جب تک ان کے درمیان رہا ان پر نگران رہا.جس کے یہ معنی ہیں کہ جب تک میں ان میں رہا میں نے ان کو سیدھے راستے سے بھٹکنے نہیں دیا.اس طرح گویا مسیح" اپنے متبعین کے گمراہ ہو جانے کے متعلق اپنی لاعلمی ظاہر کرتے ہیں.اس کا یہ مطلب ہے کہ مسیحی لوگ حضرت مسیح کی وفات کے بعد گمراہ ہوئے تھے.مگر قرآن ہم کو بتا رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی مسیحی لوگ راہ راست چھوڑ بیٹھے تھے اور گمراہ ہو چکے تھے جیسا کہ فرمایا :- لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللهَ ثَالِثُ ثَلقَة (سورة المائده رکوع ۱۰) یعنی ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ خدا تین میں سے ایک ہے.“ پس ثابت ہوا کہ کم از کم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک سے پہلے پہلے مسیح وفات پاچکا تھا.خوب غور کرو کہ مسیح کا یہ جواب صاف شہادت دے رہا ہے کہ عیسائی لوگ مسیح کی وفات کے بعد بگڑے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ کیا عیسائی بگڑ چکے ہیں یا نہیں ؟ اگر نہیں بگڑے تو خیر مسیح بھی شاید زندہ ہو گا.لیکن اگر وہ بگڑ چکے ہیں اور ضرور بگڑ چکے ہیں تو پھر اس بات کے ماننے کے بغیر چارہ نہیں کہ مسیح" فوت ہو چکا ہے.علاوہ ازیں اگر یہ مان لیا جاوے کہ مسیح اب تک آسمان پر زندہ موجود ہے اور
۴۳ الحُجَّةُ البَالِغَةُ آخری زمانے میں قیامت سے پہلے نازل ہوگا تو پھر اس کے ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ قیامت سے پہلے ہی اپنی امت کے بگڑ جانے سے واقف ہو جائے گا اور اسے معلوم ہو جائے گا کہ میری امت مجھ کو خدا بنارہی ہے تو اس صورت میں وہ کس طرح اپنی ناواقفیت کا اظہار کر سکتا ہے.یقیناً مسیح کی طرف سے یہ نعوذ باللہ ایک سیاہ جھوٹ ہوگا اگر وہ باوجود علم رکھنے کے پھر لاعلمی کا اظہار کرے.ایک گندے سے گندہ آدمی بھی خدا کے حضور ایسے صریح جھوٹ کی جرات نہیں کر سکتا تو پھر مسیح“ جو ایک خدا کا پیارا بندہ اور اس کا رسول تھا وہ کس طرح ایسا صریح جھوٹ بولے گا.فافهم وتدبّر ولا تكن من الممترين.حدیث میں اس آیت کی تفسیر ایک حدیث بھی اس آیت کے معنوں کو روز روشن کی طرح ظاہر کر دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں حوض کوثر پر کھڑا ہوں گا اور اپنے متبعین کو اس مبارک چشمے کا پانی تقسیم کر رہا ہوں گا اچانک لوگوں کا ایک گروہ میرے سامنے آئے گا جن کو فرشتے دوسری طرف دھکیلے لئے جارہے ہوں گے میں ان کو دیکھ کر چلا اٹھوں گا.اصیحابی اصیحابی یعنی یہ تو میرے صحابہ ہیں، یہ تو میرے صحابہ ہیں.اس پر فرشتے کہیں گے:.إِنَّكَ لَا تَدْرِى مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمُ - یعنی آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کچھ کیا.یہ تو آپ کے بعد اپنی ایڑیوں کے بل پھر گئے تھے.“
۴۴ الحُجَّةُ البَالِغَةُ نبی کریم صلی یتم فرماتے ہیں کہ یہ سن کر میں وہی کہوں گا جو ایک نیک بندہ عیسی بن مریم نے کہا کہ :- كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنْتَ الرَّقِيبٌ عَلَيْهِمُ یعنی جب تک میں ان کے درمیان رہا میں ان کی نگرانی کرتا رہا.لیکن پھر جب اے خدا تو نے مجھ کو وفات دے دی تو پھر تو ہی ان کو دیکھنے والا تھا.( بخاری کتاب التفسیر ) دیکھئے ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی الفاظ اپنے متعلق استعمال کئے جو حضرت عیسی نے کئے.اب یہ ظاہر ہے کہ نبی کریم آسمان پر نہیں اُٹھائے گئے بلکہ موت نے ہی آپ کو آپ کے متبعین سے الگ کیا تھا.یہی معنی عیسی کے متعلق لینے چاہئیں.نیز غور کرو کہ کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حال عیسی ابن مریم کے حال سے مشابہ قرار دیا ہے.آپ نے فرمایا کہ جس طرح عیسی بن مریم اپنی لا علمی ظاہر کرے گا اسی طرح میں بھی اپنی لاعلمی ظاہر کروں گا.اور یہ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ اگر مسیح ناصری آخری زمانے میں نازل ہو تو پھر وہ ضرور اپنی اُمت کے بگڑ جانے سے قیامت سے پہلے ہی واقف ہو جائے گا اس لئے اس کے لئے قیامت کے دن اپنی لاعلمی ظاہر کرنا ایک سیاہ جھوٹ ہے.کیا مسیح کے متبعین میں سے کوئی شخص اس وقت اُٹھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ ”اے خدا تیرے اس پیغامبر نے ایک ایسا جھوٹ بولنے کی جرات کی ہے جس پر قریب ہے کہ زمین و آسمان پھٹ جاویں.یہ آخری زمانے میں دوبارہ دُنیا میں آیا اور اس نے ہم کو اس کی خدائی مانتے اور لوگوں سے منواتے دیکھا جس کی وجہ سے اس نے ہمارے خلاف جنگ کی اور چالیس سال تک اس نے زمین
۴۵ الحُجَّةُ البَالِغَةُ میں ایک شور مچائے رکھا اور اس نے اس وقت تک اپنی تلوار نیام میں نہیں کی جب تک اس نے ان تمام لوگوں کو تلوار کی گھاٹ نہیں اُتار لیا جنہوں نے اس کی بات کا انکار کیا مگر اب خداوند یہ اپنی لاعلمی ظاہر کرتا ہے.افسوس حضرت مرزا صاحب کی مخالفت میں لوگ اس قدر اندھے ہو گئے ہیں کہ خدا کے ایک عظیم الشان نبی پر الزام لگانے سے بھی نہیں رُکے مگر مرزا صاحب کو سچا ماننا گوارا نہ کیا.قرآن مجید کیا خوب فرماتا ہے:.يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ (سوره یین رکوع ۲) یعنی افسوس لوگوں پر کہ وہ ہر رسول کے ساتھ ٹھٹھا ہی کرتے آئے ہیں.“ آیت زیر بحث توفی کے معنی بھی واضح کر رہی ہے کیونکہ نبی کریم نے اپنے متعلق یہی الفاظ استعمال کئے ہیں کہ فَلَمَّا تَوَفَّيَتَنِی یعنی جب تو نے مجھے وفات دے دی.اگر توفی کے معنی وفات دینے کے نہ ہوتے بلکہ اٹھا لینے کے ہوتے جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ الفاظ اپنے متعلق ہرگز استعمال نہ کرتے کیونکہ آپ تو آسمان کی طرف نہیں اُٹھائے گئے بلکہ دوسرے لوگوں کی طرح زمین پر ہی فوت ہوئے تھے.اگر مسیح کو خدا فرض کر لیا جاوے تو پھر بھی وہ موت سے نہیں بچتا یہاں تک تو مسیح کا بحیثیت انسان کے ذکر ہوا ہے لیکن چونکہ قرآن مجید ایک ایسی جامع کتاب ہے جو کسی پہلو کو نہیں چھوڑتی اور آج کل دنیا کا ایک بڑا حصہ مسیح" کو خدا مانتا ہے اس لئے اس حیثیت میں بھی قرآن مجید اس کی وفات کا ذکر کرتا ہے تا کہ ہر طرح حجت پوری ہو.فرماتا ہے: وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ
۴۶ الحجة البالغة أَمْوَاتُ غَيْرُ أَحْيَاءِ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ) ( سوره محل رکوع ۲) یعنی جن معبودوں کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ( یعنی ان کی عبادت کرتے ہیں) وہ کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں.وہ مُردہ ہیں زندہ نہیں ہیں اور وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ وہ کب اُٹھائے جائیں گے.یہ آیت اُن تمام اشخاص کی موت کی خبر دیتی ہے جو بطور معبود نبی کریم سال یہ تم کے زمانے میں پوجے جاتے تھے.اور ظاہر ہے کہ مسیح “ انہی میں سے ایک ہے.اگر بعض لوگ اس آیت کے متعلق یہ اعتراض کریں کہ اس میں بنوں وغیرہ کا ذکر ہے نہ کہ ان انسانوں کا جو بطور خدا کے پوجے جاتے ہیں تو یہ ایک صریح غلطی ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں صاف فرماتا ہے: وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ یعنی جو لوگ پوجے جاتے ہیں وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ ان کا بعث کب ہوگا.اب ظاہر ہے کہ بعث پتھر کے بتوں وغیرہ کا تو نہیں ہوا کرتا بلکہ انسان کا ہی موت کے بعد بعث ہوگا.علاوہ اس کے آیت میں الَّذِینَ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو عربی قواعد کی رو سے بے جان کے لئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ جاندار اور ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتا ہے اس لئے بھی یہاں پتھر وغیرہ مراد نہیں ہو سکتے.اب جبکہ یہ ثابت ہو گیا کہ یہ آیت ان انسانوں ہی کے متعلق ہے جو بطور معبود نبی کریم کے زمانے میں پوجے جاتے تھے تو
۴۷ الحُجَّةُ البالغة لا محالہ حضرت مسیح ناصری بھی اس فہرست میں داخل ماننے پڑیں گے.بلکہ کیا بلحاظ اس کے کہ وہ زمانے کے لحاظ سے نبی کریم سالی یا ستم کے سب سے زیادہ قریب تھے اور کیا بلحاظ اس کے کہ انسانی خداؤں میں سے سب سے زیادہ مسیح کی پرستش کی جاتی ہے سب سے پہلا شخص جو اس فہرست کی ذیل میں آتا ہے وہ مسیح ہی ہے.پس ثابت ہوا که مسیح خصوصیت کے ساتھ ان لوگوں میں داخل ہیں جن کی نسبت خدا فرماتا ہے کہ :- أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ یعنی وہ مردہ ہیں نہ کہ زندہ اور وہ نہیں جانتے کہ ان کا بعث کب ہو گا.“ آیت وَإِنْ مِّنْ أَهلِ الكتب کی صحیح تفسیر مندرجہ بالا قرآنی آیات سے اچھی طرح واضح ہو چکا ہوگا کہ حضرت مسیح" آسمان پر تشریف نہیں لے گئے.بلکہ عام آدمیوں کی طرح اپنی زندگی کے دن کاٹ کر زمین پر ہی وفات پاگئے.مگر اس جگہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مخالف جس آیت سے مسیح کی حیات ثابت کرتے ہیں اس کی مختصر تشریح کر دی جاوے تا ہر طرح سے یہ مسئلہ صاف ہو جاوے.قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَإِن مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ (سورة النساء رکوع ۲۲) اس آیت کے معنی غیر احمدی علماء عام طور پر اس طرح کرتے ہیں کہ : کوئی اہل کتاب میں سے نہیں مگر ایمان لائے گا مسیح پر مسیح کی موت سے پہلے جس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسیح " اب تک زندہ ہے اور آخری دنوں میں
۴۸ الحُجَّةُ البَالِغَةُ آسمان سے نازل ہوگا اور اُس وقت سب کے سب اہل کتاب اُس پر ایمان لانے پر مجبور کئے جاویں گے لے لیکن اگر ہم ذرا غور سے کام لیں تو اس دلیل کا تمام پول کھل جاتا ہے.قرآنِ شریف کے الفاظ ہیں إِن مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ جس کے معنی ہیں ”تمام کے تمام اہلِ کتاب بغیر استثناء کے.اب اگر یہ فرض بھی کر لیا جاوے کہ جس وقت مسیح نازل ہوں گے اس وقت جتنے یہودی ہوں گے سب کے سب مسیح" پر ایمان لے آئیں گے تب بھی إِن مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ کا مفہوم پورا نہیں ہوتا.کیونکہ وہ لاکھوں کروڑوں یہودی جو اس آیت کے نزول اور مسیح کی آمد کے درمیان فوت ہو گئے ہوں گے وہ کس طرح ایمان لائیں گے؟ وہ تو بہر حال مستثنیٰ ہی رہیں گے مگر آیت کے الفاظ کسی استثناء کے متحمل نہیں ہیں.لہذا معلوم ہوا کہ جو معنی اس آیت کے کئے جاتے ہیں وہ غلط ہیں.علاوہ اس کے ہم قرآنِ مجید میں پڑھتے ہیں کہ :- فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ (سوره مائده رکوع ۳) یعنی ہم نے یہود اور نصاری میں دشمنی اور بغض ڈال دیا ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہے گا.66 اس سے ثابت ہوا کہ ایسا کوئی وقت نہیں آئے گا کہ جب یہود اور نصاریٰ بالکل معدوم ہو جائیں گے بلکہ وہ قیامت تک رہیں گے.علاوہ اس آیت کے اور بھی بہت سی قرآنی آیات ہیں جو ہم کو صاف طور پر بتاتی ہیں کہ یہود قیامت تک رہیں گے اور بالکل معدوم کبھی نہیں ہوں گے.پس آیت زیر بحث کے یہ معنی کرنا کہ کوئی ایسا وقت کے یہ معنی کرتے ہوئے ہمارے مخالف اتنا نہیں سوچتے کہ انہی یہود کے متعلق اس آیت سے چند آیات اوپر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا یؤمنون الا قليلا ” یعنی ان میں سے بہت کم ایمان لائیں گے.پس اس محکم آیت کے ہوتے ہوئے آیت زیر بحث کے دوسرے معنی کس طرح کئے جاسکتے ہیں؟
۴۹ الحُجَّةُ البَالِغَةُ آئے گا جب تمام کے تمام یہود حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے قرآنِ مجید کی صریح تعلیم کے خلاف ہے.تو پھر آیت کے صحیح معنی کیا ہوئے؟ اس سوال کے جواب سے پہلے میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جو معنی ہمارے مخالف کرتے ہیں ان پرگزشتہ بزرگوں کا بھی ہرگز اتفاق نہیں ہے بلکہ اس آیت کی تفسیر میں گزشتہ علماء میں بھی بہت اختلاف ہوا ہے کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ.ظاہر ہے کہ صحیح معنی اس آیت کے وہی ہوں گے جو قرآن کی محکم آیات کے مخالف نہ ہوں اور آیت کا سیاق و سباق بھی ان کا متحمل ہو.اب ہم سیاق و سباق پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے پہلے یہود کے اس دعوی کا ذکر ہے کہ انہوں نے مسیح علیہ السلام کو مصلوب کر دیا جس کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اصل میں مسیح" صلیب پر نہیں مرا بلکہ یہود کو غلطی لگی ہے ہاں مسیح" بوجہ زخموں کی تکلیف کے ایسی غشی کی حالت میں ضرور ہو گیا تھا کہ جس سے وہ مشابہ بالمصلوب ہو گیا.اور اسی لئے یہود کو یہ دھوکا لگا کہ مسیح" واقعی صلیب پر مر گیا ہے مگر یہود نے اس معاملہ میں پوری تحقیقات سے کام نہیں لیا.بلکہ صرف ایک ظن کی پیروی کرتے رہے.اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيَؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ یعنی تمام کے تمام اہل کتاب اپنی موت سے پہلے اسی بات پر ایمان رکھیں گے ( کہ مسیح “ واقعی مصلوب ہو گیا ) لیکن ان کا یہ ایمان صرف ان کی موت تک رہے گا اور موت کے بعد ان پر اصل حقیقت آشکار ہوجائے گی کیونکہ موت کے بعد حقیقت کھل جایا کرتی ہے اور انسان کو اپنی غلطیوں کا علم ہو جاتا ہے.دیکھئے ! یہ معنی کیسے صاف ہیں اور سیاق و سباق کے کس طرح مطابق ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا
الحُجَّةُ البَالِغَةُ ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں تو بیشک تمام اہلِ کتاب کا یہی خیال رہے گا کہ مسیح" صلیب پر مر گیا تھا لیکن یہ ایمان صرف ان کی موت تک ہے.موت کے بعد ان کو پتہ لگ جائے گا کہ ان کا خیال غلط تھا اور مسیح" در حقیقت صلیب پر نہ مرا تھا.علاوہ ازیں جو معنی اس آیت کے ہمارے مخالف کرتے ہیں اس کے ماتحت یہ آیت یہود کے لئے ایک بڑی برکت کا موجب بنتی ہے کہ گویا وہ سب کے سب ایک دن مومن بن جائیں گے حالانکہ اس آیت سے پہلی اور پچھلی آیات یہود کی شرارتوں اور بدبختیوں پر مشتمل ہیں.پس اس درمیانی آیت کو کس طرح مبشر سمجھا جاسکتا ہے.ہمارے معنوں کی مزید تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ آیت میں جو لفظ موتہ واقع ہوا ہے اس کی دوسری قرآت موتهم آئی ہے جیسے تفسیر بیضاوی وکشاف وغیرہ میں درج ہے، اس سے ظاہر ہے کہ موتہ کی ضمیر ہر گز حضرت عیسی“ کی طرف نہیں جاتی بلکہ اہل کتاب کی طرف جاتی ہے اور بہ کے لفظ میں جو ضمیر ہے وہ اہل کتاب کے اس قول کی طرف جاتی ہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا کیونکہ اس آیت سے پہلے قرآن کریم میں اسی بات کا ذکر کیا گیا ہے.یہ معنی جو ہم نے اس جگہ اس آیت کے کئے ہیں ان کی آیت زیر بحث کا آخری حصہ بھی بڑے زور سے تائید کر رہا ہے.خدا فرماتا ہے وَيَوْمَ القِيمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِم شَهِيدًا له یعنی اہلِ کتاب اسی خیال پر جمے رہیں گے کہ مسیح در حقیقت صلیب پر مرگیا تھا لیکن قیامت کے دن جب تمام مُردے اٹھائے جائیں گے تو مسیح “ اُن کے خلاف بطور ایک گواہ کے کھڑا ہوگا اور ان کو بتا دے گا کہ اس کی صلیبی موت کے متعلق ان کا خیال غلط تھا.الغرض آیت زیر بحث کا سیاق وسباق اور موتہ کی جگہ موتِھم کی دوسری قرأت اور پھر قرآن شریف کی محکم آیات ہم کو مجبور کرتی ہیں کہ ہم غیر احمدی مولویوں کے معنوں کو غلط قرار دیں.لاعیه آیت خود وفات مسیح پر دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ مسیح کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ اہل کتاب پر قیامت ہی کے دن بطور شہید کے ہوگا.اگر مسیح نے قیامت سے پہلے بھی اترنا تھا تو یہ مفہوم باطل ٹھہرتا ہے.
۵۱ الحُجَّةُ البَالِغَةُ قرآن مجید کی تفسیر کا گر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: b هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ أَيْتُ مُّحَكَمْتُ هُنَّ أُمُّ الْكِتَبِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهتْ ، فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ ( سوره آل عمران رکوع ۱) مولوی نذیر احمد صاحب دہلوی اس آیت کے یوں معنی کرتے ہیں کہ : ”اے پیغمبر وہی ذات پاک ہے جس نے تم پر یہ کتاب اُتاری جس میں بعض آیات پی یعنی صاف اور صریح ہیں کہ وہی اصل کتاب ہیں اور بعض دوسری مبہم آیات ہیں کہ ان کے معنوں میں کئی پہلونکل سکتے ہیں.تو جن لوگوں کے دلوں میں کبھی ہے وہ تو قرآن کی انہیں مہم آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تا کہ فساد پیدا کریں.“ دیکھو اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآنی آیات کی تفسیر کرنے کا کیسا گر بتایا ہے کہ جس سے سب جھگڑے کی جڑ کٹ جاتی ہے.فرماتا ہے کہ بعض ایسی آیات ہیں کہ جن کے معنوں میں کئی پہلو نکل سکتے ہیں مثلاً یہی کہ کوئی ضمیر بیان کی گئی ہو جس کے لئے ممکن ہے کہ وہ ایک شے کی طرف پھرتی ہوا اور ممکن ہے کہ دوسری کی طرف پھرتی ہو یا اور کسی قسم کا تشابہ واقع ہو جاوے تو اس صورت میں ہمیں خدا ہدایت فرماتا ہے کہ ایسی آیات کے وہی معنی کریں کہ جو قرآن مجید کی محکم آیات کے خلاف نہ ہوں.اب دیکھو کہ یہ کیسی محکم اور قطبیعۃ الدلالت آیت ہے کہ :- فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ
۵۲ یعنی یہود اور نصاریٰ میں قیامت تک دشمنی رہے گی.“ الحُجَّةُ البَالِغَةُ اب انصاف کا مقام ہے کہ ہم آیت زیر بحث کا کس طرح یہ ترجمہ قبول کر لیں کہ کوئی وقت ایسا آنے والا ہے کہ تمام کے تمام یہودی مسیح پر ایمان لے آئیں گے اور وہ اور نصاری ایک ہو جائیں گے.بعض علماء اس آیت کے متعلق کہا کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ نے بھی اس کے وہی معنی کئے ہیں جو آج کل کے مولوی کرتے ہیں.اس کے جواب میں حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:.موتہ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے نہ کہ حضرت عیسی کی طرف اسی وجہ سے اس آیت کی دوسری قرأت میں موتهم واقع ہے.اگر حضرت عیسی کی طرف یہ ضمیر پھرتی تو دوسری قرأت میں موتھم کیوں آتا؟ دیکھو تفسیر ثنائی کہ اس میں بڑے زور سے ہمارے اس بیان کی تصدیق موجود ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہی معنی ہیں مگر صاحب تفسیر لکھتا ہے کہ ابو ہریرہ فہم قرآن میں ناقص ہے اور اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے.ابو ہریرہ میں نقل کرنے کا ماڈہ تھا اور درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا.اور میں کہتا ہوں کہ اگر ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایسے معنی کئے ہیں تو یہ اُس کی غلطی ہے جیسا کہ اور کئی مقام میں محدثین نے ثابت کیا ہے کہ جو امور فہم اور درایت کے متعلق ہیں اکثر ابو ہریرہ اُن کے سمجھنے میں ٹھوکر کھاتا ہے اور غلطی کرتا ہے.یہ مسلم امر ہے کہ ایک صحابی کی رائے شرعی حجت نہیں ہو سکتی.شرعی حجت صرف اجماع صحابہ ہے.سو ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس بات پر اجماع صحابہ ہو چکا ہے کہ تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں اور یاد رکھنا چاہئے کہ جبکہ آیت قَبْلَ مَوْتِهِ کی دوسری قرأت قبل
۵۳ الحُجَّةُ البَالِغَةُ موتھ موجود ہے جو بموجب اصول محدثین کے حکم صحیح حدیث کا رکھتی ہے یعنی ایسی حدیث جو آنحضرت صلی ای ایم سے ثابت ہے تو اس صورت میں محض ابو ہریرہ کا اپنا قول رڈ کرنے کے لائق ہے کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کے مقابل پیچ اور لغو ہے اور اس پر اصرار کرنا کفر تک پہنچا سکتا ہے.اور پھر صرف اسی قدر نہیں بلکہ ابو ہریرہ کے قول سے قرآن شریف کا باطل ہونا لازم آتا ہے کیونکہ قرآن شریف تو جا بجا فرما تا ہے کہ یہود و نصاریٰ قیامت تک رہیں گے ان کا بکلی استیصال نہیں ہوگا اور ابو ہریرہ کہتا ہے کہ یہود کا استیصال بکلی ہو جائے گا اور یہ سراسر مخالف قرآن شریف ہے جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے اُس کو چاہئے کہ ابو ہریرہ کے قول کو ایک رڈی متاع کی طرح پھینک دے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۲۳۴ صفحه ۲۳۵) پس یہ یقینی امر ہے کہ آیت زیر بحث میں موتہ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے نہ کہ عیسی کی طرف.اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ موتہ کی ضمیر عیسی" کی طرف راجع نہیں ہوتی تو خواہ بالفرض یہ کی ضمیر عیسی “ ہی کی طرف پھیر دی جاوے اور آیت کے کوئی سے بھی معنی کر لئے جاویں تو بھی اس آیت سے یہ ہرگز نہیں ثابت ہوسکتا کہ مسیح زندہ ہے.وھو المراد.تعجب ہے کہ جن آیتوں کو خود ہمارے مخالف متشابہات میں مانتے ہیں اور گزشتہ مفسرین نے بھی ان کے معنوں میں ایک دوسرے سے بڑا اختلاف کیا ہے ان پر ایسے مہتم بالشان مسائل کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور محکمات کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے.مگر معلوم رہے کہ یہ کن لوگوں کا کام ہے.سنئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ (سوره آل عمران آیت : 8)
۵۴ الحُجَّةُ البَالِغَةُ یعنی جن لوگوں کے دل میں کبھی ہے وہی متشابہ آیات کے پیچھے لگتے ہیں.مگر آپ نے دیکھا کہ ہم نے تو بفضل خدا اس کے تشابہ کو بھی ایسا اُڑا دیا ہے کہ اب یہ آیت بھی محکمات میں سے نظر آتی ہے.جس کی آنکھ ہود یکھے.حدیث سے وفات مسیح کا ثبوت مندرجہ بالا بیان سے ناظرین نے یہ بخوبی سمجھ لیا ہوگا کہ قرآن شریف عیسی علیہ السلام کی حیات کے مسئلے کو دُور سے ہی دھکے دے رہا ہے.اور گو آیت مَن أَصْدَقُ من الله قبلاً اس بات کی ضرورت باقی نہیں چھوڑتی کہ اس مسئلے کے متعلق حدیث سے بھی گواہی تلاش کی جاوے لیکن ناظرین کی مزید تسلی کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حدیث سے بھی مسیح کی وفات کا کچھ ثبوت دے دیا جاوے تا شک کی کوئی گنجائش نہ رہے.سو واضح ہو کہ حدیث میں نبی کر یم سلیم فرماتے ہیں کہ :- مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ الْيَوْمَ يَأْتِي عَلَيْهَا مِائَةُ سَنَةٍ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ حَيَّةٌ (صحیح مسلم) یعنی تمام وہ لوگ جو آج زندہ ہیں وہ ایک سو سال گزرنے کے بعد زندہ نہ رہیں گے.“ یہ حدیث بڑی صفائی کے ساتھ مسیح" پر فاتحہ خوانی کر رہی ہے.ظاہر ہے کہ اگر مسیح اب بھی زندہ ہے تو ضرور ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بھی زندہ ہوگا اور اگر وہ اس وقت زندہ تھا تو یقینا وہ سو سال کے اندر اندر فوت ہو گیا ہوگا.پھر اسی پر بس نہیں اور لیجئے.ایک اور حدیث میں نبی کریم سالی پیام فرماتے ہیں کہ :- إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِينَ وَمِائَةَ سَنَةٍ
الحُجَّةُ البَالِغَةُ یعنی عیسی بن مریم “ ایک سو بیس سال زندہ رہے تھے.(طبرانی و مستدرک حاکم) یہ حدیث تو کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی بلکہ مسیح" کی عمر کی تعین کر کے صاف طور پر ان کی موت پر دلالت کر رہی ہے اور اس بحث کو آگے چلانے کی ضرورت باقی نہیں رہنے دیتی مگر ہمارا مطلب تو حتی الوسع تسلی کرانا ہے اس لئے اور لیجئے.آنحضرت فرماتے ہیں:- لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيْسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِى ( تفسیر ابن کثیر جلد ۲ ص۲۴۶) و یعنی اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اطاعت کے بغیر چارہ نہ ہوتا.سبحان اللہ اس حدیث نے تو حد ہی کر دی.مسیح کی وفات پر ہزار سورج چڑھا دیا اور اس مسئلے کے کسی دور سے دور گوشہ میں بھی تاریکی نہیں رہنے دی لیکن اسی پر بس نہیں معراج کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ جب میں دوسرے آسمان پر گیا تو میں نے وہاں بیچی اور عیسی علیہ السلام کو دیکھا.(بخاری ومسلم ) اب یہ سب کے نزدیک مسلم امر ہے کہ حضرت یحیی فوت ہو چکے ہیں اور ان کی روح اس جسم عنصری سے الگ ہو چکی ہے اس لئے ثابت ہوا کہ مسیح بھی فوت شدہ ہیں کیونکہ مردوں میں وہی شخص رہتا ہے جو کہ خود فوت شدہ ہو ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ مردوں کے اندر ایک زندہ کو رکھ دیا جاوے.اب آپ نے دیکھا کہ کسی وضاحت کے ساتھ قرآن شریف اور احادیث صحیحہ مسیح کو مُردہ ثابت کر رہے ہیں.اس سے زیادہ اور کیا ہوگا کہ قرآن شریف نے صاف الفاظ میں بتادیا کہ مسیح آسمان پر نہیں اُٹھایا گیا بلکہ اس کا رفع انہی معنوں میں ہوا جن معنوں میں کہ
۵۶ الحُجَّةُ البَالِغَةُ تمام نیکوکاروں کا وفات کے بعد رفع ہوا کرتا ہے.پھر یہی نہیں بلکہ مسیح کے اپنے منہ سے اقرار کروا دیا کہ بھائیو مجھے خواہ خواہ زندہ کیوں مان رہے ہو میں تو اپنی امت کے بگڑنے سے پہلے کا فوت ہو چکا ہوں.پھر اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ بھی فرما دیا کہ دیکھو جتنے نبی آنحضرت سے پہلے گزرے ہیں وہ سب فوت ہو چکے ہیں.پھر رسول اللہ صلی یتیم کی حدیث مسیح" کی عمر بھی بتا رہی ہے کہ ایک سو بیس سال ہوئی اور پھر صاف الفاظ میں کہہ رہی ہے کہ اگر عیسی “ اور موسیٰ “ زندہ ہوتے تو وہ بھی نبی کریم کی اتباع کرنے پر مجبور ہوتے.ان صاف دلیلوں کے ہوتے ہوئے پھر بھی اگر کوئی شخص اپنی ضد کو نہیں چھوڑتا تو اسے اختیار ہے ہم نے اپنی طرف سے اتمام حجت کر دیا اب ایسے لوگوں کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.باب سوئم فوت شدہ لوگ دوبارہ زندہ ہو کر اس دنیا میں واپس نہیں آتے ) بعض لوگ جب مسیح کی وفات کا ذکر گھلا گھلا قرآن شریف اور احادیث میں پاتے ہیں تو پھر وہ یہ پہلو اختیار کرتے ہیں کہ کیا ہوا اگر مسیح فوت ہو گیا خدا اسے زندہ کر کے دنیا میں دوبارہ لے آئے گا.اس کے جواب میں یا درکھنا چاہئے کہ مُردوں کا دوبارہ زندہ ہو کر اس دنیا میں آجانا اسلامی تعلیم اور سنت الہیہ کے سراسر خلاف ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے فرماتا ہے :- ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ تُبْعَثُونَ (سوره مومنون رکوع اول)
۵۷ الحُجَّةُ البَالِغَةُ یعنی تم پیدا کئے جانے کے بعد فوت ہو گے اور پھر قیامت کے دن ہی دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے.“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کا وقت قیامت کا ہی دن ہے اور اس سے پہلے ہر گز نہیں.پھر فرمایا :- وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (سوره مومنون رکوع ۶ ) یعنی جو لوگ مر جاتے ہیں ان کے اور اس دنیا کے درمیان ایک روک ہو جاتی 66 ہے جو قیامت کے دن تک رہے گی.“ اس آیت نے وضاحت کے ساتھ اس امر کا فیصلہ کر دیا کہ جو شخص مرجاوے وہ قیامت کو ہی زندہ کیا جائے گا.قیامت کے پہلے اس کے اور اس دنیا کے درمیان اللہ تعالیٰ نے ایک روک رکھ دی ہے جو صرف قیامت کے دن اُٹھائی جاوے گی.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- وَحَرُمُ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (سوره انبیاء رکوع ) یعنی جن لوگوں کو ہم مار دیتے ہیں اُن پر حرام ہے کہ وہ اس دنیا کی طرف واپس لوٹیں.66 پھر نبی کریم سالی ایم کی ایک حدیث ہے جو اس مسئلہ کو بالکل ہی صاف کر دیتی ہے.آپ صلیم فرماتے ہیں کہ جنگ اُحد میں جب جابر کے والد شہید ہوئے تو اُن سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ جو مانگو گے میں تم کو دوں گا.انہوں نے عرض کیا کہ خدایا مجھے پھر زندہ کیا جاوے تا میں اسلام کے راستے میں پھر لڑوں اور پھر اپنی جان دوں.خدا تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ:-
۵۸ الحُجَّةُ البَالِغَةُ سَبَقَ الْقَوْلُ مِي أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ( ترمذی عن جابر ) یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ میں پہلے سے اصولی فیصلہ کر چکا ہوں کہ جو لوگ مرجاتے ہیں وہ پھر اس دنیا میں واپس نہیں آئیں گے.لے اس حدیث کے بعد میرے خیال میں کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں رہتی.مگر نب ہے کہ ہمارے بعض مولوی صاحبان نہ صرف مسیح ناصری کو فوت شدہ تسلیم کر کے پھر اس کے دوبارہ دنیا میں آنے کے متمنی ہیں بلکہ خود مسیح کی طرف حقیقی مردوں کا اسی دنیا میں زندہ کرنا منسوب کر رہے ہیں حالانکہ جن معنوں میں مسیح نے مُردے زندہ کئے ان معنوں میں تو سب نبی مُردے زندہ کرتے آئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ مردے زندہ کئے.دراصل مشکل یہ ہوتی ہے کہ کم علمی کی وجہ سے لوگ ہر لفظ کے ظاہری معنوں پر جم جاتے ہیں حالانکہ بعض وقت ایک لفظ استعارہ اور مجاز کے طور پر استعمال ہوتا ہے.مثلاً قرآن شریف میں آیا ہے کہ :- مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى (سورۃ بنی اسرائیل رکوع ۸) د یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہوگا.“ اس جگہ سب کو اتفاق ہے کہ یہاں اندھے سے روحانی اندھا مراد ہے نہ کہ جسمانی اندھا.مگر معلوم نہیں مسیح کے معاملے میں مُردہ سے کیوں روحانی مُردہ مُراد نہیں لیا جاتا.نبی کریم کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.ے اس میں غور طلب امر یہ ہے کہ خدا نے خود کہا کہ کچھ مانگو اور پھر مانگنے والا شہید اور عالی مرتبہ صحابی تھا.مگر چونکہ یہ سوال خدا کے صریح فیصلہ اور سنت کے خلاف تھا اس لئے نفی میں جواب ملا.منہ
۵۹ الحصة البالغة يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (سوره انفال رکوع ۳) یعنی اے مومنو! تم اللہ کی بات مان لیا کرو اور رسول کی آواز پر بھی کان دھرا کرو جب کہ وہ تمہیں بلائے کیونکہ وہ تمہیں زندہ کرتا ہے.“ دیکھو نبی کریم کے متعلق کس وضاحت کے ساتھ زندہ کرنے کا لفظ آیا ہے.مگر یہاں ہمارے مخالف بھی رُوحانی زندگی مراد لیتے ہیں لیکن جب حضرت عیسی کے متعلق اسی قسم کے الفاظ آتے ہیں تو وہاں حقیقی مردوں کا زندہ کرنا مراد لے لیا جاتا ہے افسوس صد افسوس کہ ہمارے مولوی صاحبان نے مسیح ناصری کی عزت کو شرک کی حد تک پہنچارکھا ہے اور اس کے مقابلے پر اپنے آقا کی عزت کی بھی پروا نہیں کی.ہمارے مخالف جب اس بات میں بھی تنگ آجاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ قرآن شریف مردوں کا اسی دنیا میں زندہ ہو جانا ممتنع قرار دے دیتا ہے تو پھر کہتے ہیں کہ بے شک خدا کی عام سنت یہی ہے کہ مُردے دوبارہ زندہ ہو کر اس دنیا میں نہیں آتے لیکن کیا خدا قادر نہیں کہ مسیح " اگر مر بھی گیا ہے تو اس کو زندہ کر کے اس دنیا میں لے آوے؟ اب دیکھو کہ یہ بھی کوئی دلیل ہے؟ کون انکار کرتا ہے کہ خدا قادر نہیں ہے.مگر سوال تو یہ ہے کہ کسی امر میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ واقعی وہ بات وقوع میں بھی آگئی ہے.غور کرو کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ کر کے دوبارہ دنیا میں لے آوے تو کیا اس سے ثابت ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہوکر آجائیں گے؟ پھر کیا خدا قادر نہیں کہ اسی وقت قیامت آجاوے تو کیا اس سے ثابت ہو گیا کہ اس وقت قیامت آ بھی گئی؟ ایسی
۶۰ الحُجَّةُ البَالِغَةُ دلیلیں سُن کر اس زمانے کے مولویوں کی عقل و خرد پر رونا آتا ہے کہ ان کی حالت کیسی گر چکی ہے.بھائیو! خدا کی قدرت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ جس چیز پر اس کو قدرت ہے وہ واقعہ میں ہو بھی گئی.اس کا وقوع توتب ثابت ہو کہ تم اس بات کی دلیل دو کہ بعد میں خدا نے اس معاملے میں اپنی سنت کو ترک کر کے اپنی خاص استثنائی قدرت کو استعمال کیا.ہم اسی بات کو تو ثابت کر رہے ہیں کہ باوجود اس کے کہ خدا مردوں کو زندہ کر کے اس دنیا میں واپس لانے پر قادر ہے پھر بھی اس نے اپنی یہ سنت مقرر کر رکھی ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتا.پھر یہ بھی غور کرو کہ اگر خدا کی قدرت پر ہی فیصلہ کرنا ہے تو کیا خدا اس بات پر قادر نہیں کہ اسی اُمت میں سے مسیح کو پیدا کر دے.بلکہ غور کرو تو خدا کی قدرت کا زیادہ جلوہ اس بات میں ہے کہ اسی امت میں سے مسیح موعود پیدا کرے نہ کہ پہلے مسیح کو دوبارہ لائے.ایک چیز کو سنبھال سنبھال کر رکھنے کی صرف اس شخص کو ضرورت پیش آتی ہے جو ڈرتا ہے کہ اگر یہ چیز ضائع ہوگئی تو پھر میسر آنی مشکل ہو جائے گی اور میں اس کی مثل نہیں بنا سکوں گا لیکن جو شخص قادر ہوتا ہے وہ اپنی سنت کے خلاف چیزوں کو سنبھال سنبھال کر نہیں رکھتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب ضرورت ہوگی میں ایسی بیسیوں چیزیں پیدا کرلوں گا.غرض خدا کی قدرت کا جلوہ تو زیادہ اس بات میں ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کوئی نیا مسیح بنا کر اس اُمت میں بھیجے نہ کہ پہلے مسیح کو ہی دو ہزار سال محفوظ رکھ کر واپس بھیج دے.پھر میں کہتا ہوں کہ اگر خدا نے کسی فوت شدہ کو ہی زندہ کر کے دوبارہ بھیجنا تھا تو پھر نبی کریم کو ہی کیوں نہ بھیجا جاوے.کیا مسیح" ناصری ہمارے نبی کریم صلی یتیم کی نسبت زیادہ اصلاح کرلے گا.افسوس صد افسوس.كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ اِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا
۶۱ الحُجَّةُ البَالِغَةُ باب چهارم ( قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ آنے والا اسی اور ہے جوای امت میں سے ہوگا ) اب جبکہ یہ ثابت ہو چکا کہ قرآن شریف اور احادیث اس بات پر متفقہ شہادت دے رہے ہیں کہ مسیح ناصری آسمان کی طرف بجسم عصری نہیں اُٹھایا گیا بلکہ فوت ہو گیا ہے اور یہ کہ جو شخص فوت ہو جاتا ہے وہ دوبارہ اس دنیا میں نہیں لایا جاتا تو اس سے لازمی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ آنے والا مسیح اسی امت میں سے ہوگا لیکن مزید تسلی کے لئے میں اس اصولی نتیجہ پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنے ناظرین کو بتا تا ہوں کہ قرآن شریف اور احادیث میں وضاحت سے لکھا ہے کہ آنے والا مسیح اور ہے جو اسی اُمت میں سے ہوگا.نبی کریم سی ایم کے تمام خلفاء آپ ہی کی اُمت میں سے ہوں گے قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے کہ :- وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ( سوره نور رکوع ۷) یعنی اے مسلمانو! اللہ تعالٰی وعدہ کرتا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے اعلیٰ درجہ کا ایمان لائے اور انہوں نے اعلیٰ اعمال کا نمونہ دکھایا کہ اللہ ضرور ضروران کو زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح کہ اس نے خلیفہ بنایا ان لوگوں کو جو اُن سے پہلے گزر چکے.“
۶۲ الحُجَّةُ البَالِغَةُ اس آیت میں اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں میں سے اسی طرح نبی کریم صل الی السلام کے خلفاء بنائے گا جس طرح کہ اس نے موسوی سلسلہ میں بنی اسرائیل سے موسیٰ کے خلیفے بنائے.اب یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں بہت سے خلفاء بھیجے جو توریت کی خدمت کرتے تھے اور بنی اسرائیل کو سچائی کے راستوں میں قائم رکھتے تھے.موسوی خلفاء کا یہ سلسلہ مسیح ناصری کے وجود میں اپنے کمال اور انتہا کو پہنچا.اور اس کے بعد مسلمانوں کے ساتھ بھی اسی قسم کے خلفاء کے سلسلے کا وعدہ دیا گیا اور ٹھیک جس طرح موسوی سلسلے کا آخری خلیفہ اسرائیلی مسیح “ ہوا اسی طرح یہ الہی فیصلہ تھا کہ آخری ایام میں مسلمانوں میں بھی ایک مسیح بھیجا جاوے گا جو اسلامی سلسلۂ خلفاء کے دائرہ کو پورا کرنے والا اور کمال تک پہنچانے والا ہوگا.آیت مندرجہ بالا ہمیں بتاتی ہے کہ موسوی سلسلہ اور محمدی سلسلہ میں نمایاں مشابہت ہے جیسا کہ گما کے لفظ سے ظاہر ہے.اب اگر محمدی سلسلہ کا مسیح موسوی سلسلہ کے مسیح سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتا بلکہ وہی ہے جو حضرت موسیٰ کے سلسلہ کے آخر میں ظاہر ہوا تو مشابہت باطل ٹھہرتی ہے کیونکہ مشابہت مغائرت کو چاہتی ہے.یعنی یہ ضروری ہوتا ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہ دو مختلف وجود ہوں.پس ثابت ہوا کہ محمدی مسیح موسوی مسیح سے الگ شخصیت رکھتا ہے.اس بات کو اچھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ گودونوں سلسلوں میں عمومی مشابہت بھی ہونی ضروری ہے مگر ان دونوں کے اول اور آخر میں تو خاص اور واضح مشابہت کا ہونا ضروری ہے کیونکہ اول اور آخر ہی کسی سلسلے کی تعیین اور حد بندی کرنے والے ہوتے ہیں.جب ہم قرآنی ہدایت کے ماتحت دونوں سلسلوں کے اول یعنی موسی اور آنحضرت ملالہ کی تم کے درمیان مشابہت کو قبول کرتے ہیں تو ان کے آخر میں بھی مشابہت ضرور ماننی پڑے گی.اور جب مشابہت ہوئی تو مغائرت لازمی طور پر مانی جائے گی.
۶۳ الحُجَّةُ البَالِغَةُ علاوہ اس کے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مِنكُمْ ( یعنی تم میں سے ) کا لفظ رکھ کر سارے جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے اور صاف طور پر بتا دیا ہے کہ محمدی سلسلہ کے خلفاء مسلمانوں میں سے ہی ہوں گے.یہ مقام آنکھیں بند کر کے گزر جانے والا نہیں.ناظرین کرام اچھی طرح غور فرمائیں کہ مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ کا حتمی وعدہ ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ کے بعد توریت کی خدمت کے لئے خلفاء مبعوث کئے گئے اسی طرح نبی کریم صلی ایام کے بعد قرآن اور اسلام کی خدمت کے لئے بھی خلفاء بھیجے جائیں گے اور یہ خلفاء مسلمانوں میں سے ہی ہوں گے تو اب پھر یہ کس قدر ظلم ہے کہ اپنی ضد پوری کرنے کے لئے محمدی تسلسلہ کا آخری اور سب سے عالی شان خلیفہ بنی اسرائیل میں سے تصور کیا جاوے اور اس طرح خدا کے وعدے کو جو اس نے مِنكُمْ کے لفظ میں کیا ہے رڈی کی طرح پھینک دیا جاوے اور امت محمدیہ کو امت موسویہ کا دست نگر بنایا جائے ؟ جس شخص کے دل میں ذرا بھر بھی ایمان اور غیرت ہو وہ کبھی بھی اس بات کی جرات نہیں کر سکتا کہ خیر امت کو موسی کی امت کا سوالی بنائے.خدا تو صاف الفاظ میں فرمارہا ہے کہ دیکھو مسلمانو! میں تمہارے اندر اسلام کی خدمت کے لئے جوخلیفے بھیجوں گا وہ تم میں سے ہی ہوں گے لیکن ہمارے مولویوں کے دل میح“ ناصری کی محبت میں ایسے شرک کے مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ خدا کے صریح وعدے کے خلاف خواہ مخواہ اپنی اصلاح کے لئے بنی اسرائیل کے قدموں پر گر رہے ہیں.خدا اُن کو اُٹھانا چاہتا ہے اور ان کی عزت قائم کرنا چاہتا ہے اور ان پر انعام کرنا چاہتا ہے مگر وہ اپنی ذلت چاہ رہے ہیں.خدا کہتا ہے کہ دیکھو میں تم پر انعام کرتا ہوں کہ تمہارے اندر خلفاء تم میں سے ہی بھیجے جائیں گے مگر مسلمان ہیں کہ چھوٹے موٹے خلفاء کی نسبت تو مانتے ہیں کہ اسی اُمت میں سے ہی ہوں گے مگر جب آخری اور عظیم الشان خلیفہ کا سوال آتا ہے تو اس وقت بنی اسرائیل کی
۶۴ الحُجَّةُ البَالِغَةُ طرف دیکھنے لگ جاتے ہیں.خدا اس قوم پر رحم کرے.یہ کہاں آکر گری! قرآن خیر الامم مسلمانوں کو قرار دے رہا ہے مگر مسلمان یہ تو ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی ا یہ تم کے فرمان کے مطابق یہودی بننے کے لئے ہم ہی میں سے مفسد لوگ پیدا ہوں گے مگر جہاں ترقی کا سوال آتا ہے وہاں محمدی مسیح علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں سے لانے کے متمنی ہیں ! ہائے افسوس کیا مسلمانوں کے حصے میں فساد ہی رہ گیا ہے اور مصلح باہر سے آئے گا؟ مسیح" ناصری دوبارہ نازل نہیں ہوں گے پھر آیت فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي (سورۃ مائده رکوع ۱۶) جو وفات مسیح کے ثبوت میں اوپر درج کی جاچکی ہے وہ اس مسئلے میں بھی بطور ثبوت پیش کی جاسکتی ہے کیونکہ بفرض محال اگر یہ مان بھی لیا جاوے کہ فَلَمَّا تَوَ فَيْتَنِی کے یہ معنی ہیں کہ ” جب تو نے مجھے پورا اُٹھا لیا اور پھر ہم بفرض محال یہ بھی مان لیں کہ اُٹھا لینے سے آسمان ہی کی طرف اُٹھا لینا مراد ہے پھر بھی یہ آیت اس بات پر تو قطعی ثبوت ہے کہ مسیح آسمان سے نازل نہیں ہوگا کیونکہ یہ بہر حال مسلم ہے کہ حضرت عیسی قیامت کے دن اپنی اُمت کے بگڑ جانے کے متعلق اپنی لاعلمی ظاہر کریں گے.لہذا ثابت ہوا کہ قیامت کے دن سے پہلے وہ اپنی اُمت کو فساد کی حالت میں کبھی نہیں دیکھیں گے یعنی انہیں قیامت سے قبل یہ علم کبھی حاصل نہیں ہوگا کہ میری اُمت نے مجھے معبود بنالیا ہے.لیکن ہم اوپر بتا آئے ہیں کہ اگر خود مسیح ناصری ہی آخری دنوں میں نازل ہوں گے تو یہ یقینی ہے کہ انہیں اپنی امت کے بگڑ جانے کا علم ہو جائے گا خصوصاً جب کہ مسیح موعود کا بڑا کام ہی کسر صلیب ہے تو اس صورت میں لاعلمی کا اظہار کیسا؟ لہذا یہ بات یقینی ہے کہ اگر بفرض محال مسیح آسمان پر تشریف بھی لے گئے ہیں تو پھر بھی آنے والا مسیح یقیناً اور ہے ، اور سیح ناصری وہیں آسمان پر کسی جگہ فوت ہوکر دفن کر دیئے گئے ہوں گے.کیونکہ بہر حال ان کا آسمان پر ہونا ان کو موت سے تو نہیں
الحجة البالغة بچا سکتا.ملاحظہ ہو آیت :- كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ نیز ملاحظہ ہو يُدْرِكُكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ حدیث صاف طور پر بتا رہی ہے کہ مسیح موعود اسی اُمت میں سے ہوگا پھر قرآن شریف ہی نہیں بلکہ حدیث بھی صاف الفاظ میں بتارہی ہے کہ مسیح موعود اسی امت میں سے ہوگا.نبی کریم فرماتے ہیں :- كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ ( بخاری کتاب بدء الخلق ) یعنی کیا ہی اچھا حال ہوگا تمہارا اے مسلمانو جب مسیح ابن مریم تم میں نازل ہوں گے اور وہ امام ہوں گے تمہارے تمہیں لے میں سے.“ لے بعض لوگ اس حدیث کے یہ معنی کرتے ہیں کہ الفاظ امامکم منکم مسیح کے متعلق نہیں ہیں بلکہ مہدی کے متعلق ہیں جو مسیح کے زمانے میں مبعوث ہوگا اور مسلمانوں کا امام ہوگا مگر لطیفہ یہ ہے کہ ہم نے حدیث صحیح بخاری سے لی ہے جس میں مہدی کے ظہور کا کوئی باب ہی نہیں باندھا گیا.جس کی وجہ یہ ہے کہ مہدی کے متعلق احادیث میں ایسی گڑبڑ اور ایسا اختلاف ہے کہ کسی حدیث کے متعلق کامل یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ صحیح ہے.تو اب اگر اس حدیث میں امامکم منکم کے الفاظ مہدی کے متعلق ہوتے تو ضروری تھا کہ امام بخاریؒ جو محدثین کے سب سے بڑے امام ہیں وہ مہدی کا باب باندھ کر اس حدیث کو مہدی کے نزول کے ضمن میں بھی بیان کرتے لیکن وہ یہ حدیث صرف مسیح کے متعلق لائے ہیں اور مہدی کا ذکر تک نہیں کیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ امام صاحب نے کبھی امامکم منکم کے الفاظ کا اشارہ مہدی کی طرف نہیں سمجھا کیونکہ اگر وہ ایسا سمجھتے تو وہ اس حدیث کو مہدی کے نزول کے ثبوت میں پیش کرتے.یہی حال امام مسلم کا ہے بلکہ امام مسلم نے تو امامکم کی جگہ امکم کی روایت بیان کر کے فیصلہ ہی کر دیا ہے.
۶۶ الحُجَّةُ البَالِغَةُ یہ حدیث صاف اور غیر تاویل طلب الفاظ میں بتا رہی ہے کہ مسیح موعود مسلمانوں میں سے ہی ایک فرد ہو گا جو مسلمانوں کا امام ہوگا جیسا کہ امامُكُم مِنكُم کے الفاظ قطعی طور پر ظاہر کر رہے ہیں.بے شک آنے والے کو ابن مریم کے نام سے یاد کیا گیا ہے مگر منگم کا لفظ بلند آواز سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ ابن مریم وہ نہیں جو پہلے گذر چکا بلکہ اے مسلمانو یہ تم میں سے ہی ایک شخص ہوگا.اگر موعود مسیح گزشتہ مسیح ناصری ہی ہے تو منگم کے کیا معنی ہوئے؟ خدا ر ا ٹھنڈے دل سے غور کرو کہ کیا منگم کا لفظ مسیح ناصری کے متعلق ساری امیدوں پر پانی نہیں پھیر دیتا؟ یہ میں آگے چل کر بتاؤں گا کہ مسیح ابن مریم کے الفاظ استعمال کرنے میں کیا حکمت تھی مگر فی الحال ناظرین اتنا دیکھیں کہ کیا منگم کے لفظ نے اسرائیلی مسیح کی آمد کے عقیدہ کو جڑ سے کاٹ کر نہیں رکھ دیا ؟ میں تعجب اور حیرت کے دریا میں غرق ہو جاتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ لوگ تو بھلائی کو اپنی طرف منسوب کرنے کے اس قدر شائق ہوتے ہیں کہ جس چیز کا ان کو حق نہیں پہنچتا اسے بھی اپنی طرف منسوب کرنے سے نہیں رکتے مگر یہ وہ قوم ہے کہ جو نعمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے عطا ہوئی ہے اس کو بھی اپنی طرف منسوب کرنا نہیں چاہتی ! ہمارا آقانبیوں کا سردار خاتم النبیین مخبر دے رہا ہے کہ اے مسلمانو ! تم میں ایک مسیح ظاہر ہوگا جو تمہیں میں سے تمہارا ایک امام ہوگا مگر مسلمان کہتے ہیں کہ بھلا یہ نعمت اس امت کو کہاں نصیب ہوگی.اس اُمت کی قسمت میں تو مسیح ناصری ہی کا آنا لکھا ہے! میں ناظرین کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ وہ پھر اس حدیث کے الفاظ پر نظر ڈالیں جو یہ ہیں:.
الحجة البالغة كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ دو یعنی کیا ہی اچھا حال ہوگا تمہارا اے مسلما نو جب مسیح ابن مریم تم میں ظاہر ہوگا اور وہ تمہیں میں سے تمہارا امام ہوگا.“ غور کرو کہ کس طرح نبی کریم اس خیال سے خوش ہورہے ہیں کہ میری اُمت میں سے ایک اتنا عظیم الشان انسان ظاہر ہوگا جو میری امت کی خوش بختی کا علم بردار ہوگا ! انصاف کا مقام ہے کہ اسرائیلی مسیح کے آنے میں اِس اُمت مرحومہ کے لئے کون سی خوشی ہے؟ وہ تو اس امت کے لئے ماتم کا دن ہوگا جبکہ اس کی اصلاح کے لئے کسی بیرونی آدمی کی ضرورت ہوگی کیونکہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہمارے آقا افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اس امت میں سے کسی مصلح کو پیدا نہیں کر سکی.کیا نبی کریم اس بات پر خوشی منا رہے ہیں کہ جب میری امت میں فساد برپا ہوگا تو میری امت کے اندر کوئی شخص اس قابل نہ ہوگا کہ اصلاح کا کام کر سکے بلکہ خدا کو ضرورت پیش آئے گی کہ اسرائیلی مسیح کو نازل کرے؟ لاحول ولا قوة الا بالله العظيم حدیث میں دونوں مسیحوں کے الگ الگ فوٹو موجود ہیں الغرض مسیح موعود کے متعلق اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ کے الفاظ فرما کر نبی کریم صلی ہی ہم نے سارے جھگڑے کا فیصلہ کر دیا ہے اور شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی مگر آپ کی شفقت کو دیکھئے کہ باوجود صاف لفظوں میں بتا دینے کے کہ مسیح موعود میری اُمت میں سے ہوگا آپ اس مسئلے پر صرف یہی بات فرما کر خاموش نہیں ہو گئے بلکہ مزید تشریح فرمائی ہے تا مسیح ناصری کے متعلق مسلمانوں کے دلوں سے اس کی دوبارہ آمد کا خیال بالکل نکال دیا جاوے.آپ فرماتے ہیں:
۶۸ الحُجَّةُ البَالِغَةُ رَأَيْتُ عِيسَى وَمُوسَى وَإِبْرَاهِيمَ فاما عِيسَى فَأَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيضُ الصَّدْرِ وَأَمَّا مُوسَى فَأَدَهُ جَسِيمٌ سَبْطُ الشَّعْرِ كَأَنَّهُ مِنْ رِّجَالِ الرُّطِ وَأَمَّا إِبْرَاهِيمُ فَانْظُرُوا إِلَى صَاحِبِكُمْ ( صحیح بخاری کتاب بدء الخلق ) یعنی میں نے رویا میں عیسی اور موسی اور ابراہیم کو دیکھا.عیسی سرخ رنگ کے تھے اور ان کے بال گھنگھرالے تھے اور ان کا سینہ چوڑا تھا.موسیٰ گندم گوں رنگ کے تھے اور ان کا جسم بھاری تھا.اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے قبیلہ زط کا کوئی شخص ہے اور ابراہیم کو دیکھنا ہو تو بس مجھے دیکھ لو“ اس حدیث میں نبی کریم نے عیسی بن مریم “ کا حلیہ یہ بیان کیا ہے کہ عیسی بن مریم سُرخ رنگ کے تھے اور ان کے بال گھنگھرالے تھے.اس بات کا ثبوت کہ یہاں عیسی سے گزشتہ عیسی مراد ہے خود اس حدیث میں موجود ہے اور وہ یہ کہ ان کو گزشتہ انبیاء حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ ملا کر بیان کیا گیا ہے.ناظرین حضرت عیسی کے اس خلیہ کو خوب یاد رکھیں اس کے مقابل پر ایک دوسری حدیث میں نبی کریم فرماتے ہیں:.بَيْنَمَا أَنَا نَائِمُ أَطُوْفُ بِالْكَعْبَةِ فَإِذَا رَجُلٌ سَبْطُ الشَّعْرِ فَقُلْتُ مَنْ هذَا قَالُوا هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ( صحیح بخاری باب ذکر الدجال ) در یعنی میں نے خواب میں کعبہ کا طواف کیا.اچانک میں نے ایک آدمی دیکھا جس کا رنگ گندم گوں تھا اور اس کے بال سیدھے اور لمبے تھے.میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ جس پر مجھے جواب دیا گیا کہ یہ مسیح ابن مریم ہے.“
۶۹ الحُجَّةُ البَالِغَةُ اس حدیث میں نبی کریم آنے والے مسیح کا خلیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ گندم گوں ہے اور اس کے بال سیدھے اور لمبے ہیں.اس بات کا ثبوت کہ یہاں مسیح سے مراد آنے والا مسیح ہے خود اسی حدیث میں موجود ہے کیونکہ اسی حدیث میں آگے چل کر نبی کریم فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت دجال کو بھی دیکھا جس سے ظاہر ہے کہ یہ مسیح وہ ہے جو دجال کے مقابل پر ظاہر ہوگا.اب معاملہ بالکل صاف ہے.حضرت عیسی علیہ السلام جو بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے ان کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان کا رنگ سرخ تھا اور بال گھنگھرالے تھے لیکن آنے والا مسیح جو دجال کے زمانہ میں ظاہر ہوگا اس کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ اس کا رنگ گندم گوں ہے اور اس کے بال سیدھے اور لمبے ہوں گے.دونوں خلیوں میں فرق ظاہر و بقین ہے کسی تشریح کی ضرورت نہیں.کہاں سرخ رنگ اور کہاں گندم گوں رنگ.پھر کہاں گھنگھرالے بال اور کہاں سیدھے بال ! دیکھئے کس طرح نبی کریم نے صفائی کے ساتھ بتادیا کہ اے مسلمانو! ابن مریم کے لفظ سے یہ نہ سمجھ لینا کہ اسرائیلی مسیح ہی تم میں نازل ہوں گے کیونکہ اُن کا رنگ سرخ تھا اور بال گھنگھرالے تھے لیکن آنے والے مسیح کا رنگ گندم گوں ہوگا اور بال سید ھے اور لمبے ہوں گے.اس سے زیادہ وضاحت کیا ہوگی؟ دونوں مسیحوں کی تصویر ناظرین کے سامنے رکھ دی گئی ہے اور تصویر بھی خود نبی کریم کے ہاتھ کی کھینچی ہوئی ہے.اب ناظرین خود فیصلہ کریں کہ کیا دونوں تصویروں میں ایک شخص کی صورت نظر آ رہی ہے؟ جس کو خدا نے آنکھیں دی ہیں وہ تو دونوں کو ایک نہیں کہہ سکتا.حضرت مرزا صاحب کیا خوب فرماتے ہیں.
موعودم , الحُجَّةُ البَالِغَةُ بجلیہ ماثور آمدم حیف است گر بدیده نه بینند منظرم رنگم چون گندم است و بمو فرق بین است زانسان که آمد است در اخبار سرورم ایس مقدمم نہ جائے شکوک است والتباس سید جدا کند ز مسیحائے احمرم دو یعنی میں ہی موعود مسیح ہوں اور میں حدیثوں میں بیان شدہ خلیہ کے مطابق آیا ہوں.حیف ہے کہ اگر لوگ آنکھ رکھتے ہوئے مجھے نہ دیکھیں.میرا رنگ گندم گوں ہے اور میرے بالوں میں بھی اس شخص کے بالوں سے فرق ہے جس کا ذکر میرے آقا کے اقوال میں آتا ہے.میرے اس مقام کے متعلق کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کیونکہ سرور کائنات نے مجھے خود سُرخ رنگ والے مسیح ناصری سے جُدا قرار دیا ہے.“ آیت اللَّه لَعِلمُ لِلسَّاعَةِ پر ایک سرسری نظر اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے ایک مختصر سا نوٹ آیت إِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ فَلا تَمتَرن بها ( سورۃ زخرف: آیت (62) کے متعلق درج کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا کیونکہ اور سب طرف سے اُمید منقطع دیکھ کر بعض اوقات ہمارے مخالف مولوی صاحبان اس آیت سے مسیح ناصری کے قرب قیامت کے زمانے میں نزول کا استدلال کیا کرتے ہیں.مگر ناظرین ابھی دیکھیں گے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کچھ ہو تو ہومگر یہ آیت ان کے مطلب کے لئے اتنا کام بھی نہیں دیتی.اوّل تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس آیت کے معنوں پر سب مفسرین کو اتفاق ہے؟ کیا سب لازماً اس سے یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسیح" قرب قیامت میں نازل ہوگا ؟ سنئے اس آیت میں بہت سے مفترین اس طرف گئے ہیں کہ ان کی ضمیر قرآن شریف کی طرف جاتی ہے نہ کہ عیسی کی طرف.یعنی آیت کے اصل معنی یہ ہیں کہ قرآن شریف میں قیامت کی دلیل موجود ہے
اے الحُجَّةُ البَالِغَةُ کیونکہ جس سورۃ میں یہ آیت واقع ہوئی ہے یعنی سورۃ زخرف اس میں قرآن شریف کا بتکرار ذکر ہے اور کئی دفعہ انہ کا لفظ استعمال کر کے قرآن شریف کی طرف ضمیر پھیری گئی ہے اسی واسطے بہت سے مفسرین نے اس ضمیر کو قرآن شریف ہی کی طرف راجع مانا ہے.ہاں بعض نے اللہ کی ضمیر بے شک عیسی کی طرف پھیری ہے لیکن ایسے مفسرین کے بھی آگے دو گروہ ہو جاتے ہیں.بعض تو آیت کے یہ معنی کرتے ہیں کہ عیسی قیامت کی نشانی ہیں یعنی وہ قیامت کے قریب نازل ہوں گے مگر بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ عیسی قیامت کی ایک دلیل ہیں بلکہ گزشتہ مفسرین تو الگ رہے خود اس زمانے کے بعض غیر احمدی علماء بھی اس آیت کے یہی معنی کرتے ہیں کہ حضرت عیسی کا وجود قیامت کی ایک دلیل ہے.چنانچہ مولوی نذیر احمد صاحب دہلوی ہی کا ترجمہ لے لیجئے مولوی صاحب اس آیت کے ٹھیک وہی معنی کرتے ہیں جو اوپر درج کئے گئے ہیں یعنی د عیسی بھی قیامت کی ایک دلیل ہیں.اور پھر اس پر مولوی صاحب موصوف ایک نوٹ لکھتے ہیں جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے.فرماتے ہیں کہ:- ” جو خدا عیسی علیہ السلام کے بے باپ پیدا کرنے پر قادر ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ قیامت میں مُردوں کو جلا اُٹھائے یا یہ مطلب ہے کہ حضرت عیسی کا دوبارہ دنیا میں آنا قرب قیامت کی دلیل ہے جیسا کہ احادیث میں آیا ہے.“ دیکھئے اس جگہ مولوی نذیر احمد صاحب دہلوی آیت کے اصل معنی یہی لکھتے ہیں کہ مسیح کی معجزانہ پیدائش قیامت پر ایک دلیل ہے اور گو انہوں نے دوسرے معنی بھی بیان کئے ہیں مگر مقدم انہی معنوں کو رکھا ہے کہ مسیح ناصری کا وجود قیامت کی ایک دلیل ہے.جس سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک زیادہ قابل قبول یہی معنی تھے.پھر بعض مفسرین نے انہ کی ضمیر کومحمد رسول اللہ کی طرف بھی پھیرا ہے.
۷۲ الحُجَّةُ البالغة ان حالات میں ناظرین خود غور فرمائیں کہ کیا یہ آیت ایسے عظیم الشان مسئلے کے لئے بنیادی پتھر تصور کی جاسکتی ہے؟ کیا آپ کا نُور قلب اس بات کے قبول کرنے کو تیار ہے کہ مسیح کی آمد ثانی کے مسئلے کا ایک ایسی آیت پر دارو مدار ہو جس میں اکثر مفسرین کے نزد یک مسیح کا کوئی ذکر تک نہیں بلکہ ضمیر قرآن شریف کی طرف پھرتی ہو؟ اور پھر ایک دوسرے گروہ کے نزدیک بھی آیت میں مسیح کا ذکر تک نہ ہو بلکہ ضمیر محمد رسول اللہ کی طرف راجع ہوتی ہو اور صرف ایک قلیل گروہ کے خیال میں ضمیر عیسی کی طرف پھرتی سمجھی جاوے لیکن اس خیال کے مفسرین بھی آپس میں دست بگر یہاں ہوں.کوئی کہتا ہو کہ آیت کے یہ معنی ہیں کہ حضرت مسیح بوجہ اپنی معجزانہ اور خارق عادت پیدائش کے قیامت پر ایک دلیل تھے اور کوئی کہے کہ نہیں بلکہ چونکہ وہ قرب قیامت میں نازل ہوں گے اس لئے ان کو قیامت کی دلیل قرار دیا گیا ہے.ایک دفعہ دہلی میں مولوی محمد بشیر صاحب بھو پالوی نے حضرت مرزا صاحب کے سامنے مسیح “ ناصری کے نزول کے متعلق یہی آیت پیش کی تھی.اس پر حضرت مرزا صاحب نے جو جواب دیا وہ یہ ہے:.چوتھی دلیل آپ نے یہ پیش کی ہے کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَإِنَّهُ لَعِلم للسَّاعَةِ فَلا تَمْتَرْنَ بِهَا اس جگہ بھی آپ مان گئے ہیں کہ یہ آیت آپ کے مطلب پر قطیعۃ الدلالت نہیں ہے لیکن میں آپ کو محض اللہ یاد دلاتا ہوں کہ اس آیت کو حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ نزول سے شنکی طور پر بھی کچھ تعلق نہیں.بات یہ ہے کہ حضرت مسیح کے وقت میں یہودیوں میں ایک فرقہ صدوقی نام تھا جو قیامت سے منکر تھا.پہلی کتابوں میں بطور پیشن گوئی کے لکھا گیا تھا کہ ان کو سمجھانے کے لئے مسیح کی ولادت بغیر باپ کے ہوگی اور یہ ان کے لئے ایک نشان قرار دیا گیا تھا جیسا کہ اللہ جل شانہ دوسری آیت میں فرماتا
۷۳ الحُجَّةُ البَالِغَةُ ہے وَ لِنَجْعلہ آیۃ للناس اس جگہ الناس سے مراد وہی صدوقی فرقہ ہے جواس زمانے میں بکثرت موجود تھا.کیونکہ توریت میں قیامت کا ذکر بظاہر کسی جگہ معلوم نہیں ہوتا اس لئے یہ فرقہ مردوں کے جی اٹھنے سے بکلی منکر ہوگیا تھا.اب تک بائیبل کے بعض صحیفوں میں موجود ہے کہ مسیح " اپنی ولادت کی رُو سے بطور عِلمُ السَّاعَةِ کے ان کے لئے آیا تھا اب دیکھئے اس آیت کو نزول مسیح سے تعلق کیا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ مفسرین نے کس قدر جدا جدا طور پر اس کے معنی لکھے ہیں.ایک جماعت نے قرآن کریم کی طرف ضمیر انه کی پھیر دی ہے کیونکہ قرآن شریف سے رُوحانی طور پر مردے زندہ ہوتے ہیں اور اگر خواہ نخواہ تحکم کے طور پر اس جگہ نزول مسیح مراد لیا جائے اور وہی نزول ان لوگوں کے لئے جو آنحضرت کے عہد میں تھے نشانِ قیامت ٹھہرایا جائے تو یہ استدلال وجود قیامت تک ہنسی کے لائق ہوگا اور جن کو یہ خطاب کیا گیا کہ مسیح آخری زمانے میں نزول کر کے قیامت کا نشان ٹھہرے گا.تم باوجود اتنے بڑے نشان کے قیامت سے کیوں انکاری ہوئے.وہ عذر پیش کر سکتے ہیں کہ دلیل تو ابھی موجود نہیں.پھر یہ کہنا کس قدر عبث ہے کہ اب قیامت کے وجود پر ایمان لے آؤشک مت کرو ہم نے دلیل قیامت کے آنے کی بیان کر دی.(الحق دہلی صفحہ ۳۸-۳۹) ناظرین غور فرمائیں کہ واقعی یہ کس قدر ہنسی کے قابل بات ہے کہ جو چیز آئندہ کسی زمانے میں ہونی ہے اس کو ان لوگوں کے لئے دلیل ٹھہرایا جاوے جواب موجود ہیں.مسیح نے تو کسی آئندہ زمانے میں جا کر نازل ہونا تھا لیکن اس کے نزول کو نبی کریم کے زمانے کے منکرین کے سامنے بطور دلیل کے پیش کیا جا رہا ہے.نعوذ بالله من ذلک.اگر ہمارے مخالف مولویوں کے معنی قبول کئے جائیں تو نعوذ باللہ قرآنِ شریف دلائل کی رو سے ایک نہایت بودی کتاب نظر آتی ہے.غور تو کیجئے کہ نبی کریم
۷۴ الحُجَّةُ البَالِغَةُ کے زمانے کے مخالفوں کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ دیکھو مسیح علیہ السلام کا دوبارہ قرب قیامت میں نازل ہونا قیامت کی ایک دلیل ہے پس تم قیامت کے متعلق کسی شک میں نہ پڑو! کیا اس سے بھی زیادہ کوئی کمزور دلیل ہوگی؟ موجودہ لوگوں کے لئے تو جو چیز واقع ہوچکی ہو یا ان کی زندگی میں واقع ہو جانے والی ہو اس کو کسی آئندہ واقع ہونے والی چیز کے ثبوت میں پیش کیا جاسکتا ہے مگر یہ دلیل عجیب ہے کہ دیکھو تمہارے مرنے کے بعد آخری زمانے میں مسیح" نازل ہوگا اس لئے تم قیامت کے وجود میں کوئی شک و شبہ نہ کرو! خدا تعالیٰ کی طرف ایسے لغو اور بیہودہ دلائل منسوب کرنا سراسر معصیت میں داخل ہے مگر چودھویں صدی کے مولویوں کو کون سمجھا وے؟ باب پنجم ( بعض متفرق شبہات کا ازالہ ) اس قدر لکھنے کے بعد میں ناظرین کرام سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ از راہ مہربانی غور کریں کہ کس طرح ہم نے قرآن شریف اور احادیث صحیحہ سے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح ناصری آسمان کی طرف زندہ نہیں اُٹھائے گئے بلکہ ان کا انہی معنوں میں رفع ہوا جن معنوں میں کہ تمام مقربین بارگاہ الہی کا رفع ہوا کرتا ہے.پھر یہی نہیں بلکہ یہ بھی روز روشن کی طرح ثابت کر دیا کہ قرآن شریف اور احادیث پکار پکار کر گواہی دے رہے ہیں کہ مسیح ناصری فوت ہو چکا ہے اور جو شخص وفات پا جاتا ہے سنت اللہ اس کے زندہ ہو کر دنیا میں واپس آنے کو ممتنع قرار دیتی ہے پھر اسی پر بس نہیں بلکہ کلام اللہ اور اقوال الرسول سے صاف صاف آپ کو دکھا دیا گیا کہ نبی کریم کے تمام خلفاء اسی امت
۷۵ الحُجَّةُ البَالِغَةُ مرحومہ میں سے ہوں گے بلکہ مسیح موعود کے لئے خصوصیت کے ساتھ آپ کے سامنے الفاظ امامُكُمْ مِنْكُمْ نکال کر رکھ دیئے گئے اور بالآخر آپ کی کامل تسلی کے لئے ہم نے خاتم النبیین کے ہاتھ کے کھینچے ہوئے دونوں مسیحوں کے الگ الگ فوٹو بھی آپ کے سامنے رکھ دیئے اس سے زیادہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ میں اپنے عقلمند ناظرین پر صریح ظلم کرنے والا ہوں گا اگر میں یہ خیال کروں کہ ان عظیم الشان شہادتوں کے ہوتے ہوئے ان کے دل میں ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال آسکتا ہے کہ مسیح ناصری زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں اور کسی زمانے میں دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے؟ ہاں اب ان کے دل میں یہ خلجان پیدا ہونا ایک حد تک طبعی امر ہے کہ جب قرآن شریف اور احادیث اور صحابہ کے اقوال اس صفائی سے مسیح پر فاتحہ خوانی کر رہے ہیں تو تمام امت اتنی صدیوں سے مسیح علیہ السلام کو کیوں زندہ مانتی چلی آئی ہے؟ حیات مسیح کے عقیدہ پر امت محمدیہ کا اجماع کبھی نہیں ہوا اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بالکل غلط ہے کہ تمام امت کا اس عقیدہ پرا جماع رہا ہے.سلف صالحین میں سے بہت لوگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے مسیح ناصری کی وفات کا اقرار کیا ہے.کیا آپ کو یاد نہیں رہا کہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے سب سے پہلا اجماع جو آنحضرت کی وفات کے بعد صحابہ کا ہوا وہ اسی بات پر تھا کہ آنحضرت سے پہلے جتنے نبی ہوئے وہ سب فوت ہو چکے ہیں.پھر حضرت ابن عباس نے مُتَوَفِّيكَ کے معنی ممینگ بیان کر کے اپنے عقیدہ کا اظہار کر دیا اور امام بخاری نے اس کو اپنی صحیح میں درج کر کے اس پر اپنی مہر کر دی.پھر مجمع الجار میں لکھا ہے:
الحُجَّةُ البَالِغَةُ وَالْأَكْثَرُ انَّ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمْ يَمُتُ وَقَالَ مَالِكَ مَاتَ یعنی اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت عیسی قوت نہیں ہوئے لیکن امام مالک فرماتے ہیں کہ وہ فوت ہو گئے ہیں.“ پھر امام ابن حزم کی نسبت لکھا ہے کہ :- وَتَمَسَّكَ ابْنُ حَزَمَ بِظَاهِرِ الْآيَةِ وَقَالَ مَوْتِهِ یعنی ابن حزم نے ظاہر آیت پر تمشک پکڑ کر مسیح علیہ السلام کی وفات بیان کی ہے.پھر حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں کہ مسیح کا دوسرا نزول بروزی طور پر ہوگا است یعنی مسیح خود نہیں آئیں گے بلکہ ان کا کوئی بروز آئے گا جو ان کی خوبو پر ظاہر ہوگا..ان مثالوں سے ظاہر ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ امت محمدیہ کا اس باطل مسئلے پر اجماع رہا ہے بلکہ خلاف اس کے اگر کوئی بات ثابت ہوتی ہے تو وہ یہ ہے کہ اگر امت کا کسی مسئلے پر کبھی اجماع ہوا ہے تو وہ وفات مسیح “ ہی کا مسئلہ ہے جیسا کہ آنحضرت کی وفات کے بعد صحابہ کا اجماع ہوا اور صحابہ کے زمانے کے بعد تو امت محمدیہ کثرت کے ساتھ دور دراز ملکوں میں پھیل گئی اور منتشر ہوگئی اس لئے صحابہ کے بعد کے زمانے میں کسی مسئلے کے متعلق اجماع کا دعوی کر دینا تو آسان ہے لیکن اس کو ثابت کرنا ناممکنات سے ہے اسی لئے امام احمد بن حنبل سفر ماتے ہیں کہ جوا جماع کا دعوی کرے وہ جھوٹا ہے.ہاں یہ بات بے شک درست ہے کہ کئی صدیوں سے مسیح کی حیات کا مسئلہ عام طور پر لوگوں میں پھیلا ہوا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ کسی غلط عقیدے کا عام طور پر رائج ہو جانا بعید از قیاس نہیں ہے.دیکھئے آج کل مسلمانوں کے کم از کم بہتر فرقے ہورہے ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ وہ ا.یہ چند مثالیں صرف بڑے بڑے اماموں کی بیان کی گئی ہیں ان کے متبعین الگ رہے جو انہی کے تابع سمجھے جائیں گے.منہ
الحُجَّةُ البَالِغَةُ سب اپنے عقائد میں درست ہوں.اگر درست ہیں تو اختلاف کیسا.یہ اختلاف ظاہر کرتا ہے کہ بعض غلط عقائد مسلمانوں کے اندر آگئے ہیں.اب ناظرین بتا ئیں کہ وہ غلط عقائد کہاں سے آگئے؟ قرآن شریف اور حدیث نے تو یقینا صحیح عقائد ہی بیان کئے ہوں گے پھر ان کے ہوتے ہوئے غلط عقائد کیسے داخل ہو گئے ؟ جو جواب آپ دیں گے وہی ہماری طرف سے سمجھ لیجئے.مگر میں صرف الزامی جواب دے کر آپ کو خاموش نہیں کرنا چاہتا بلکہ میرا منشا تو یہ ہے کہ کسی طرح آپ کی تسلی ہو اس لئے سنئے ! حیات مسیح کا عقیدہ کس طرح مسلمانوں کے اندر داخل ہو گیا ؟ ناظرین کو معلوم ہوگا کہ جب اسلام کی فتوحات کا زمانہ تھا اس وقت عیسائی لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اور یہ ایک فطری امر ہے کہ انسان اپنے پرانے خیالات کو آہستہ آہستہ چھوڑتا ہے.ہمارے ملک میں ایک مثل مشہور ہے کہ رام کا نام نکلتے نکلتے ہی نکلے گا اور اللہ کا نام داخل ہوتے ہوتے ہی ہوگا.اسی پر قیاس کرلو کہ یہ لوگ جو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں جوق در جوق اسلام میں داخل ہوتے تھے وہ گو اسلام کی صداقت کو مان کر ہی مسلمان ہوتے تھے لیکن طبعاً خیالات میں یکلخت پورا انقلاب نہ ہونے کی وجہ سے وہ تفصیلی امور میں بعض عیسائی خیالات اپنے ساتھ لاتے تھے جن کا ایک دن میں دل سے نکل جانا ممکن نہ ہوتا تھا.ان لوگوں کے دلوں سے مسیح ناصری کی بے جا محبت شرک کے مقام سے تو بے شک نیچے گر گئی تھی لیکن ابھی کلی طور پر دل سے نہیں نکلی تھی.اس لئے قرآن شریف اور احادیث میں جہاں کہیں مسیح“ کا ذکر
ZA الحُجَّةُ البَالِغَةُ آتا ہے وہاں طبعاً ان لوگوں نے کچھ حاشیے چڑھائے اور مسلمان آہستہ آہستہ خاموش طریق پر ان کے خیالات سے متاثر ہوتے گئے عجب تک صحابہ کا ایک کثیر حصہ زندہ رہا اس وقت تک تو ایسا اثر قطعا ممکن نہ تھا لیکن صحابہ کے زمانے کے بعد خود نسلی مسلمان بھی ایک حد تک ان نو مسلموں کے اثر کے نیچے آگئے اور اس طرح آہستہ آہستہ بعض غلط عقائد مسلمانوں کے اندر رائج ہو گئے.بھلا آپ غور فرمائیں کہ قرآن شریف میں مسیح ناصری کے متعلق آتا ہے کہ اس نے مردے زندہ کئے اس کے صاف یہ معنی تھے کہ وہ لوگ جو روحانی طور پر مردہ تھے ان کے اندر اس نے زندگی کی روح پھونکی جس طرح کہ تمام نبیوں کا کام ہے.خود محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں کہ اے لوگو جب تم کو خدا کا رسول زندہ کرنے کے لئے بلائے تو اس کی بات پر لبیک کہا کرو.مگر باوجود اس کے مسیح کے لئے جب زندہ کرنے کے الفاظ آئے تو وہاں ان لوگوں نے حقیقی مردوں کو زندہ کرنا سمجھ لیا.اسی طرح قرآن میں جہاں کہیں مسیح علیہ السلام کے متعلق خلق کا لفظ آگیا تو اس کو نعوذ باللہ حقیقی طور پر خالق ہی مان لیا گیا حالانکہ ایسے الفاظ بطور استعارہ کے ہوتے ہیں.یہی حال اس مسئلہ میں ہوا.عیسائی مذہب میں پہلے سے ہی مسیح علیہ السلام کی دوبارہ آمد کی خبر موجود تھی جسے تمام عیسائی لوگ خود مسیح کا دوبارہ آنا سمجھتے تھے جب یہ لوگ جوق در جوق مسلمان ہو کر اسلام کے اندر آئے تو انہوں نے اسلام میں بھی مسیح کی آمد کی خبر پائی جس سے فوراً انہوں نے یہ خیال کرلیا کہ یہ وہی خبر ہے جو عیسائیت میں بھی موجود ہے کہ مسیح علیہ السلام دوبارہ آئے گا.خیر آگے عربی محاورہ کے مطابق لفظ نزول کا بھی مل گیا.بس پھر کیا تھا اس خیال پر پختہ طور پر جم گئے کہ اسرائیلی مسیح بذات خود آخری ایام میں نازل ہوں گے.مسیح کی لے یہی وجہ ہے کہ ہمارے گزشتہ مفترین قرآن شریف کی تفسیر کرتے ہوئے خواہ مخواہ اسرائیلی کہانیاں بیان کرنے لگ جاتے ہیں.
۷۹ الحُجَّةُ البَالِغَةُ محبت نے اس بات کی اجازت ہی نہیں دی کہ قرآن کھول کر غور کریں کہ یہ عقیدہ قرآن کے مطابق بھی ہے یا نہیں.بعد میں جو لوگ آئے ان کو اتنی جرات کہاں کہ اسلاف کے خلاف کوئی کلمہ منہ پر لائیں اندھا دھند اس عقیدہ کی تلقین کرتے آئے.صرف کوئی کوئی ایسے بہادر نکلے جنہوں نے اس باطل عقیدہ کے خلاف جرات کر کے قرآن اور احادیث صحیحہ پر نظر غائر ڈالی تو دیکھا کہ معاملہ تو کچھ اور ہے.عوام الناس کی مخالفت کی تاب ہوئی تو بر ملا کہا کہ عیسی فوت ہو گئے ہیں ورنہ سینے میں ہی اپنی تحقیقات کو دبائے ہوئے اس جہان سے سُدھار گئے.بڑی مشکل یہ ہے کہ باپ دادا کے عقیدوں کو چھوڑ نا عوام کے لئے نہایت مشکل ہوتا ہے.قرآن کھول کر دیکھو شروع سے ہی عوام کی یہ آواز رہی ہے کہ :- بَلْ نَتَّبِعُ مَا الْفَيْنَا عَلَيْهِ ابَاتَنَا یعنی ہم تو اسی بات پر ہی قائم رہیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا مگر خدا نے بھی خوب جواب دیا کہ اَوَلَوْ كَانَ أَبَائُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ ہمارا بھی یہی جواب ہے.مگر نہ سننے والوں نے خدا کی نہیں سنی تو ہم کس حساب میں ہیں ! عیسی ابن مریم کا نام استعمال کرنے میں حکمت یہ مضمون نامکمل رہے گا اگر میں آخر میں وہ وجہ نہ بتاؤں جس کی بناء پر نبی کریم نے آنے والے کو مسیح ابن مریم کے نام سے یاد کیا.اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ آئندہ مبعوث ہونے والے مامورین کے نام جو کسی نبی کے ذریعے بتائے جاتے ہیں وہ عام طور پر کسی باطنی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والے ہوتے ہیں
۸۰ الحُجَّةُ البَالِغَةُ اس لئے ان کو ظاہر پر حمل کرنا درست نہیں ہوتا.عام طور پر ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ آنے والے اور اس نام کے درمیان کسی گہرے صفاتی تعلق کو ظاہر کریں.مثلاً بنی اسرائیل کو یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ مسیح کے ظہور سے پہلے الیاس یعنی ایلیا نبی کا دوبارہ نزول ہوگا ( ملا کی باب ۱۴ آیت (۵) جن کی نسبت یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے ہیں.( سلاطین باب ۲ آیت ۱۱) ان حالات میں ظاہر پرست یہود نے ایلیا نبی کے نزول سے یہ سمجھا کہ وہ ایلیا جو پہلے گزر چکا وہی بذاتِ خود نازل ہوگا اور اس کے بعد موسوی سلسلہ کا مسیح آئے گا.اس لئے جب حضرت عیسی نے مسیحیت کا دعویٰ کیا تو یہود نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ ہماری کتابوں میں تو لکھا ہے کہ مسیح سے پہلے ایلیا نبی آسمان سے نازل ہوگا.لیکن چونکہ ابھی تک ایلیا نہیں آیا اس لئے عیسی کا دعوی سچا نہیں ہو سکتا.اس کا جواب عیسی علیہ السلام نے سنت اللہ کے مطابق یہ دیا کہ ایلیا کی جو پیشگوئی کی گئی تھی اس سے خود ایلیا کا آنا مراد نہیں تھا.بلکہ وہ استعارہ کے رنگ میں ایسے نبی کی خبر تھی جو ایلیا کی خُوبو پر آئے گا اور وہ آچکا ہے اور وہی بیتی ہے جس کی آنکھیں ہوں دیکھے (متی باب ۱۱، آیت ۱۳ و ۱۴) لیکن ظاہر پرست یہودی اسی بات پر جمے رہے کہ خود ایلیا کا دوبارہ آنا لکھا ہے اس لئے بیٹی کا آنا اس کا آنا نہیں ہوسکتا.اور اس طرح وہ نجات سے محروم ہو گئے.اس مثال سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ پیشگوئیوں میں آئندہ آنے والے مصلحوں کے جو نام بتائے جاتے ہیں ان کو ہمیشہ ظاہر پر حمل کرنا سخت ہلاکت کی راہ ہے جس سے ہر مومن کو پر ہیز لازم ہے.دیکھئے کجا ایلیا نبی کا آنا اور کجا یحیی " کا ؟ مگر مسیح، یحیی کو ہی ایلیا قرار دے رہے ہیں.کیونکہ وہ ایلیا کی خوبو پر اور اس کی صفات کا حامل ہوکر ظاہر ہوا تھا.اسی طرح قرآن شریف میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح “ نے ایک رسول کی
ΔΙ الحُجَّةُ البَالِغَةُ آمد کی خبر دی تھی جس کا نام احمد ہو گا.اب ہمارے تمام مخالفین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ پیشگوئی نبی کریم کے آنے سے پوری ہوچکی ہے لیکن کیا نبی کریم کا نام احمد تھا ؟ یہ درست ہے کہ نبی کریم نے نبوت کے دعوئی کے بعد یہ فرمایا کہ میں احمد بھی ہوں لیکن دعوے کے بعد اس نام کو اپنی طرف منسوب کرنا مخالف پر کسی طرح حجت نہیں ہوسکتا.مخالف پر تو تب ہی حجت ہو جب کہ یہ ثابت کیا جاوے کہ آپ کے بزرگوں کی طرف سے آپ کا یہ نام رکھا گیا تھا یا یہ کہ دعوے سے پہلے آپ کبھی اس نام سے پکارے گئے لیکن احادیث صحیحہ سے یہ ہرگز ثابت نہیں اس لئے سوائے اس کے اس کا اور کیا جواب ہو سکتا ہے کہ آسمان پر آپ کا نام احمد تھا جس طرح کہ آسمان پر بیبی کا نام ایلیا تھا.ان دو مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ پیشگوئیوں میں جو نام بتائے جاتے ہیں وہ لازماً ظاہر میں پائے جانے ضروری نہیں ہوتے بلکہ بسا اوقات وہ کسی باطنی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والے ہوتے ہیں.اب سوال ہوتا ہے کہ آنے والے مصلح کے متعلق مسیح ابن مریم وغیرہ نام استعمال کرنے میں کون سی مخفی حکمت لے اس جگہ بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ مسیح ابن مریم کا نام جو نبی کریم نے لیا تو اب یہ اس وقت تک اپنے اصل مفہوم میں سمجھا جائے گا جب تک اس کے خلاف کوئی قرینہ صارفہ نہ ثابت کیا جائے اس کا اصل اور موٹا جواب تو یہی ہے کہ جب قرآن شریف صفائی کے ساتھ پہلے مسیح کو وفات یافتہ کہتا ہے اور مردوں کا زندہ ہو کر اس دنیا میں آجانا بھی اسلامی تعلیم کی رُو سے ممتنع ہے تو پھر اس سے بڑھ کر قرینہ صارفہ کیا ہوگا؟ اس سے واضح تر قرینہ صارفہ تو خیال میں نہیں آسکتا لیکن سوال یہ ہے کہ قرینہ صارفہ ہم سے کیوں پوچھا جاتا ہے؟ قرینہ صارفہ نکالنا تو غیر احمد یوں کا فرض ہے کیونکہ خدا کو توحقیقت اشیاء سے تعلق ہے ان کے ظاہری ناموں سے تعلق نہیں ہے ہم بے شک عرف کی خاطر ظاہری ناموں کا لحاظ رکھتے ہیں مگر خدا تعالیٰ اشیاء کی اصل حقیقت کو مدنظر رکھتا ہے اور اس کی نظر میں اصل نام صفتی نام ہی ہوتا ہے نہ کہ ظاہری نام مثلاً اگر ایک غلام رسول نامی مسلمان عیسائی ہو جائے تو گو ہم تو عرف کی (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
۸۲.الحُجَّةُ البالغة ہے؟ اس کے جواب میں کئی باتیں پیش کی جاسکتی ہیں مگر اس جگہ سب کا درج کرنا موجب طوالت ہوگا اس لئے چند موٹی موٹی حکمتوں کے بیان کرنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں.اول یہ کہ آنے والا مسیح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خُو بو پر آنا تھا جس طرح ایلیا نبی کی خوبو پریٹی نبی آیا.حضرت عیسی صلح اور امن کے شہزادے تھے انہوں نے تمام عمر جمال کے رنگ میں صلح اور نرمی کے ساتھ اپنی رسالت کی تبلیغ کی اور اگر مخالفوں نے کبھی سختی بھی کی تو انہوں نے صبر سے کام لیا اور مقابلہ نہیں کیا اسی طرح امت محمدیہ کے مسیح موعود نے آنا تھا جیسا کہ خود نبی کریم نے مسیح موعود کے متعلق فرمایا ہے کہ يَضَعُ الحرب ( بخاری کتاب الانبیاء ) یعنی جب مسیح موعود ظاہر ہوگا تو وہ تلوار کے جہاد کو ملتوی کر دے گا کیونکہ وہ جہاد بالسیف کا زمانہ نہیں ہوگا.دوسری حکمت اس میں یہ تھی کہ جس طرح مسیح ناصری موسوی سلسلے کا خاتم الخلفاء تھا اسی طرح یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ آنے والا مسیح نبی کریم کا آخری خلیفہ ہوگا اور خاتم الخلفاء کہلائے گا.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ آخری خلیفے سے (بقیہ حاشیہ ) وجہ سے اسے اسی نام سے پکاریں گے مگر خدا کی نظروں میں وہ اب بجائے غلام رسول کے عدو الرسول ہو چکا ہے.اس لئے خدا اسے عدو الرسول ہی کہے گا.اس لئے خدا نے جب آنے والے کے متعلق ابن مریم کا نام استعمال کیا تو وہ ظاہری طور پر اس نام سے کوئی غرض نہیں رکھتا بلکہ چونکہ گزشتہ ابن مریم کے حالات اور صفات نے اس نام کے ایک خاص معنی مخصوص کر دیئے ہوئے ہیں یعنی جمالی رنگ میں صلح سے کام کرنے والا اور ایک سلسلہ کا آخری خلیفہ.اس لئے خدا نے اس نام کو اسی حقیقت کے ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا ورنہ صرف ابن مریم کا عرفی نام خدا کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا.لہذا خدا کے کلام میں یقینی طور پر ابن مریم سے مراد گزشتہ ابن مریم کی خُو بو پر آنے والا انسان ہونا چاہئے.اور جب یہ ثابت ہے تو ہم سے قرینہ صارفہ کا تقاضا کیسا ؟ ہمارا دعوی سنت اللہ کے مطابق ہے کہ اس نے اپنے اصول کے مطابق اس نام کو اپنے حقیقی مفہوم میں استعمال کیا ہے.ہاں جولوگ اس نام کو اس کی قائم شدہ حقیقت سے ہٹا کر صرف ایک عرفی اور رسمی نام تجویز کرتے ہیں وہ بے شک اسے حقیقت سے ہٹا کر مجاز کے رنگ میں لیتے ہیں اس لئے ان پر واجب ہے کہ اپنے معنوں کی تائید میں کوئی دلیل پیش کریں.
ᎪᎨ الحُجَّةُ البَالِغَةُ آخری مستقل خلیفہ مراد ہے نہ کہ مطلقاً ہر قسم کا خلیفہ.یعنی مراد یہ ہے کہ مسیح موعود خود تو نبی کریم کا مستقل خلیفہ ہو گا مگر مسیح موعود کے بعد جو خلیفے ہوں گے وہ دراصل مسیح موعود کے خلیفے ہوں گے اور اس کی وساطت سے نبی کریم کے بھی خلیفے کہلائیں گے کیونکہ محمدی سلسلہ قیامت تک چلے گا.تیسری اور بڑی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری دنوں میں عیسائیت بہت زور پکڑے گی اور صلیبی مذہب بڑے غلبہ کی حالت میں ہوگا اس لئے آنے والے مصلح کا ایک بڑا کام یہ بھی رکھا گیا کہ يَكْسِرُ الصَّلِيْب یعنی مسیح موعود صلیبی مذہب کا زور توڑ دے گا.اس میں حکمت یہ ہے کہ جب کسی نبی کی امت میں فساد برپا ہوتا ہے تو پھر روحانی طور پر اس نبی کا ہی یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اس فساد کو دور کرے جس طرح اگر کسی حکومت میں فساد ہو تو باہر کی حکومتوں کا فرض نہیں ہوتا کہ اس فساد کو دور کریں بلکہ خود اسی حکومت کا یہ فرض ہوتا ہے.اب ایک طرف تو آخری زمانے کے لئے مقدر تھا کہ وہ عالم گیر فساد کا زمانہ ہوگا اور تمام امتوں میں فساد برپا ہو جائے گا.ایسے وقت کے لئے ضرورت تھی کہ تمام امتوں کے بانیوں کے بروز ظاہر ہوتے جو ان کے مثیل بن کر اصلاح کا کام کرتے لیکن دوسری طرف اسلام کی آمد اور خاتم النبیین کے ظہور نے تمام روحانی پانی اپنے اندر کھینچ لیا ہے اور اب کوئی مصلح اسلام کے باہر کسی اور اُمت میں ظاہر نہیں ہو سکتا اس لئے تمام نبیوں کا بروز ایک ہی وجود میں اسلام میں پیدا کیا جانا ضروری تھا.اس آنے والے مصلح کا کام یہ رکھا گیا کہ تمام امتوں کی اصلاح کرے.اس طرح اس موعود مصلح کا کام دو حصوں میں تقسیم ہو گیا.ایک خود امت محمدیہ کی اصلاح اور دوسرے باقی امتوں کی اصلاح لیکن چونکہ باقی امتوں کی اصلاح کے کام میں سب سے بڑا کام حضرت عیسی کی امت کی اصلاح تھی جیسا کہ حدیث کے الفاظ يَكْسِرُ الصَّلیب سے ظاہر ہے اس لئے اس پہلو کے
۸۴ الحُجَّةُ البَالِغَةُ لحاظ سے آنے والے کو خصوصیت کے ساتھ عیسی ابن مریم کا خطاب دیا گیا اور دیگر امتوں کی اصلاح کے لحاظ سے صرف مجملاً وَإِذَا الرُّسُلُ أَقتَت ( مرسلات رکوع ۱ ) کے الفاظ استعمال کئے گئے." یعنی آخری زمانے میں تمام رسولوں کے بروز جمع کئے جائیں گے.اس کے مقابل میں امت محمدیہ کی اصلاح کا کام بھی ایک خصوصیت کا کام تھا اس لئے اس پہلو کے لحاظ سے آنے والے کا نام مہدی رکھا گیا جو اس ارشاد نبوی کے مطابق تھا کہ اَلخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ المَهدِتين یعنی میرے خلفاء سیدھے رستہ پر چلنے والے مہدی ہوں گے.اور ظاہر ہے کہ موعود امام نے مسلمانوں کی اصلاح کے کام میں نبی کریم کا سب سے بڑا خلیفہ ہونا تھا.عیسی بن مریم کے نام میں اور بھی بعض حکمتیں ہیں مگر ایک صاف دل کی تسلی کے لئے اسی قدر کافی ہے.رسالہ ہذا کا اختتام اور مصنف کی دلی دُعا اب میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے ناظرین کرام کے سینوں کو فراخ کرے تاوہ اپنی غلطی کے اعتراف کرنے میں ضد سے کام نہ لیں بلکہ حق گھل جانے پر اسے قبول کر لینے کو تیار ہوں.میں تو جب اس مسئلے ا ہم نے لکھا ہے کہ مہدی اور مسیح ایک شخص کے ہی دو نام ہیں.اس پر طبعا ناظرین کو خیال پیدا ہوگا کہ ہم تو ان دونوں کو دو مختلف وجود سنتے اور سمجھتے چلے آئے ہیں یہ ایک کس طرح ہو سکتے ہیں.سو اس کے جواب میں یا درکھنا چاہئے کہ آخری زمانے کے موعود کو دو مختلف حیثیتوں کی وجہ سے یہ دو مختلف نام دیئے گئے ہیں اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ ایک ہی وقت میں دو مختلف مشخص ظاہر ہوں گے.مگر عام مسلمانوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ ایک ہی وقت میں دو مصلحوں کے ظہور کی خبر دی گئی ہے.نبی کریم نے تو اس خیال سے کہ مسلمان مہدی اور مسیح کو الگ الگ نہ سمجھنے لگ جائیں یہاں تک احتیاط فرمائی تھی کہ فرما یا لا المهدئ الا عيسى (ابن ماجہ وحاکم یعنی عیسی کے وقت میں عیسی کے سوا کوئی اور مہدی موعود نہیں ہو گا مگر افسوس کہ ہمارے مسلمان بھائی باوجود اس کے ٹھوکر کھانے سے نہ بچے.
۸۵ الحُجَّةُ البالغة پر نظر ڈالتا ہوں تو محو حیرت ہو جاتا ہوں کہ ایسا بودہ مسئلہ کس طرح مسلمانوں کے دلوں میں راسخ ہو گیا.مگر اب وقت ہے کہ ایسی باتوں سے اسلام کا دامن پاک کیا جاوے جو صریح اسلامی تعلیم کے خلاف ہونے کے علاوہ ہمارے آقا سید الاولین والآخرین کی ہتک کا موجب ہو رہی ہیں.خدا مسلمانوں کی آنکھوں کو کھولے تا وہ دیکھیں کہ ان غلط اور فاسد عقائد نے اسلام کو کتنا نقصان پہنچایا ہے.صرف ہندوستان میں ہی پچھلے چند سالوں میں لاکھوں کلمہ گو مسلمان عیسائی ہو چکے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ان سب کا گناہ مولویوں کی گردن پر ہے.عیسائی مشنری بھولی بھالی صورت بنا کر مسلمانوں کے پاس جاتے ہیں اور بڑی نرمی کے ساتھ کہتے ہیں کہ دیکھو تمہارے نبی تو مر گئے اور مدینے میں زیر خاک مدفون ہیں لیکن ہمارا مسیح دو ہزار سال سے اب تک نہ صرف زندہ ہے بلکہ آسمان پر خدا کے پاس بیٹھا ہے بتاؤ کون افضل ہوا اور کون زندہ نبی ثابت ہوا اور کون مردہ نبی نکلا؟ مسلمانوں کے لئے مسیح علیہ السلام کی وفات کا کلمہ تو منہ پر لانا کفر ہوا نا چار دبی زبان سے یہی قبول کر لیتے ہیں کہ اس بات میں تو مسیح ہی افضل ہے.اس کے بعد پادری صاحب کہتے ہیں کہ دیکھو آخری زمانے میں جب امت محمدیہ میں فساد اور گمراہی پھیلے گی تو اس کی اصلاح کے لئے خدا ہمارے مسیح علیہ السلام کو آسمان پر سے بھیجے گا.معلوم ہوتا ہے وہ کوئی ایسا فساد ہوگا کہ اس کی اصلاح ( نعوذ باللہ ) اسلام کے نبی کی روحانی طاقت سے بالا ہوگی ورنہ خدا نے اگر کسی کو زندہ رکھ کر ہی آخری زمانے میں امت محمدیہ کی اصلاح کروانی تھی تو خود محمد صاحب کو زندہ رکھا جا تا مگر اس اہم کام کے لئے محمد صاحب کی بجائے ہمارے مسیح کو زندہ رکھا گیا.یہاں تک تو مسیح کی افضلیت منوائی جاتی ہے اس کے بعد اگلا قدم اُٹھایا جاتا ہے.
۸۶ الحُجَّةُ البَالِغَةُ پادری صاحب نہایت سادگی سے بولتے ہیں کہ محمد صاحب سے جب ان کے مخالفوں نے آسمان پر جانے کا معجزہ طلب کیا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کہا.میں تو صرف ایک انسان ہوں اور انسان کا آسمان پر جانا منع ہے مگر دیکھو تم بھی مانتے ہو کہ مسیح زندہ آسمان پر جا پہنچا.ان باتوں کا جواب کون دے؟ اگر عوام مولویوں کے پاس جائیں تو ان کے ایمانوں کی بودی چٹانوں پر پہلے سے ہی ان باتوں نے زلزلہ ڈال رکھا ہوتا ہے.ادھر ادھر کی باتیں کر کے ٹال دیتے ہیں.یہ بے چارے جب مولویوں کی طرف سے تسلی بخش جواب نہیں پاتے تو چاروناچار گر جا کی طرف رُخ کرتے ہیں.آہ افسوس ! وہ مذہب جو کسی زمانے میں يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا کا مصداق تھا آج يَخْرُجُونَ مِن دِینِ اللهِ أَفْوَاجاً کا تماشہ گاہ بن رہا ہے ، کیا کوئی مسلمان کہلانے والا انسان ہے جس کے دل میں یہ باتیں درد پیدا کریں؟ آہ ! بہت تھوڑے ہیں جو صحت نیت کے ساتھ ان مسائل پر غور کرتے ہیں ورنہ معاملہ تو بالکل صاف ہے.وہ جس کی آمد ثانی کا انتظار کیا جارہا ہے وہ خود پکار پکار کر اپنی دوسری آمد کی حقیقت بیان کر رہا ہے.کیونکہ ایلیا نبی جس کی نسبت خیال تھا کہ مسیح سے پہلے آسمان سے اترے گا اس کی آمد ثانی کو مسیح نے اس کے کسی مثیل کی آمد قرار دیا ہے.(متی باب ۱۱ آیت ۱۳ و ۱۴) ے یہ عبارت ملکی تقسیم سے بہت قبل یعنی ۱۹۱۷ میں لکھی گئی تھی جبکہ ملک میں مسیحیت کے فتنہ کا زور تھا.اب خدا کے فضل سے مسلمانوں کے دل میں سیاسی شعور پیدا ہو جانے کی بناء پر اسلام سے ظاہری ارتداد کا منظر تو کم نظر آتا ہے اور قومی نعرے زور شور سے لگائے جاتے ہیں مگر حقیقت اور عمل کے لحاظ سے اسلام اب بھی ویسا ہی کمزور ہے اور دنیا میں دجالی اثرات اسی طرح زور آزما ہیں.حق یہ ہے کہ ملک سے انگریز تو بے شک چلا گیا مگر مغربیت اور مادیت اسی طرح قائم ہے اور دین کی سچی روح مفقود نظر آتی ہے.
AL الحُجَّةُ البَالِغَةُ تعجب ہے باوجود ایک کھلی نظیر سامنے ہونے کے پھر بھی مسلمان اس مسئلے میں ٹھوکر کھا رہے ہیں.بعینہ جس طرح مسیح ناصری کی نسبت کہا گیا کہ وہ آخری دنوں میں نازل ہوگا اس سے بڑھ کر وضاحت کے ساتھ ایلیا کی نسبت کہا گیا تھا کہ وہ مسیح سے پہلے نازل ہوگا.لیکن حیرت کا مقام ہے کہ ایلیا کے وعدے کو تو ایک مثیل کے ذریعے پورا شدہ مان لیا جاتا ہے لیکن مسیح کے بذات خوداُتارے جانے پر اصرار ہے! افسوس جس جگہ یہود نے ٹھوکر کھائی اسی جگہ مسلمانوں نے بھی ٹھوکر کھائی.مگر یہود ایسی گرفت کے نیچے نہیں ہیں جیسے کہ مسلمان ہیں کیونکہ یہود کے سامنے کوئی سابقہ نظیر موجود نہیں تھی لیکن مسلمانوں کے لئے اس قسم کے وعدہ کی نظیر موجود ہے اور وہ دیکھ چکے ہیں کہ کسی گزشتہ نبی کے آنے سے اس کے مثیل کا آنا مُراد ہوتا ہے نہ کہ خود اُسی کا آنا.آہ سچ فرمایا تھا نبی کریم نے کہ میری اُمت کے لوگ یہود کے قدم بہ قدم چلیں گے( بخاری جلد اول صفحہ ۴۹۱) یعنی جس طرح یہود نے ایک گزشتہ نبی کی آمد کے وعدہ کو خود اُسی نبی کی آمد سمجھ لیا تھا اسی طرح میری امت کے لوگ بھی کریں گے لیکن مسلمانوں نے اس تنبیہہ سے بھی کوئی فائدہ نہ اُٹھایا اور صرف اس وجہ سے آنے والے کا انکار کر دیا کہ مسیح ناصری کے آنے میں نہ صرف محمد کی ہی سخت ہتک ہے بلکہ خود مسیح کی بھی ہتک ہے.کیونکہ مسیح ناصرئی خواہ نبی کریم سے درجہ میں کتنا ہی چھوٹا ہو پھر بھی وہ خدا کا ایک برگزیدہ رسول تھا جس نے نبوت کا مقام نبی کریم کی اتباع کی وجہ سے نہیں پایا بلکہ اُسے یہ انعام مستقل حیثیت میں براہِ راست خدا کی طرف سے ملا تھا.اب اُسے دوبارہ اُتارنے کے یہ معنی ہیں کہ اُسے نعوذ باللہ اس کی مستقل نبوت کے مقام سے معزول کر دیا جاوے اور صرف ایک امتی کی حیثیت دی جاوے.کیونکہ اگر وہ
۸۸ الحُجَّةُ البَالِغَةُ دوبارہ نازل ہو کر بھی مستقل حیثیت میں نبی ہی رہے گا تو یہ بات صریحاً ختم نبوت کے منافی ہے.خاتم النبیین کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا خواہ نیا ہو یا پرانا جس نے نبوت کا مقام مستقل حیثیت میں براہ راست بغیر کامل اتباع نبی کریم کے پایا ہو.آپ کے بعد صرف ایسی نبوت کا دروازہ کھلا ہے جسے ظلی نبوت کے نام سے تعبیر کر سکتے ہیں یعنی ایسی نبوت جو نبی کریم کی نبوت کا ظل ہے نہ کہ مستقل نبوت.پس اس صورت میں جب کہ آیت خاتم النبیین نبوت مستقلہ کے دروازے کو بڑے زور سے بند کر رہی ہے تو مسیح ناصری کا اُترنا صرف ایسی صورت میں ہی ہوسکتا ہے کہ اسے نعوذ باللہ نبوتِ مستقلہ کے مقام سے ہٹا کر صرف ایک امتی کی حیثیت دی جاوے مگر یہ بات اللہ تعالیٰ کی صریح سنت کے خلاف ہے جو اس نے ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ :- بِأَنَّ اللهَ لَمْ يَكُ مُغَيّراً نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (سوره انفال آیت : 54) یعنی اللہ تعالیٰ کسی کو کوئی انعام دے کر اس سے یہ انعام ہرگز واپس نہیں لیتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدل لے“.تو اب اس صریح اور واضح آیت کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح مان لیا جاوے کہ مسیح ناصری بذات خود آخری دنوں میں نازل ہوگا.کیونکہ اس کے نازل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس سے نعوذ باللہ خواہ مخواہ اس کی مستقل نبوت کا مقام چھین لیا جاوے گا.پھر یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ مسیح ناصری کے متعلق فرماتا ہے:.رَسُولًا إِلى بَنِي إِسْرَاءيل ( سورة آل عمران رکوع ۵) یعنی مسیح" ناصری بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا تھا.
۸۹ الحُجَّةُ البَالِغَةُ اب اگر وہی مسیح نازل ہو تو اس کی بعثت بجائے صرف بنی اسرائیل کے ساری دُنیا کے لئے ماننی پڑے گی مگر یہ مندرجہ بالا آیت کے صریح خلاف ہے.پس اب جس شخص کو قرآنی آیات کے منسوخ اور باطل ثابت کرنے کی خواہش اور جرات ہو وہ بے شک مسیح " ناصری کا منتظر رہے ہم تو اُس خدا سے ڈرتے ہیں جس نے یہود پر کلام الہی میں دست اندازی کرنے کی وجہ سے لعنت کی.خدا شاہد ہے کہ ہمارا دل کس طرح اس بات کو دیکھ دیکھ کر کڑھتا ہے کہ مسلمان ایک ایسے عقیدے پر جمے ہوئے ہیں جو سنت اللہ کے خلاف ہونے کے علاوہ ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح ناصری دونوں کی سخت ہتک کا موجب ہے.مگر وقت آتا ہے کہ جب ہمارے بھائی مسلمان اپنی غلطی کو محسوس کریں گے اور مسیح کی آمد کے لئے آسمان کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے پیچھے نظر ڈالیں گے.اس وقت محمدی مسیح علیہ السلام کا یہ قول پورا ہوگا کہ ے امروز قومِ من نه شناسد مقامِ من روزے بگر یہ یاد کند وقت خوشترم د یعنی آج میری قوم نے میرے خدا داد مقام کو نہیں پہچانا مگر ایک دن آتا ہے کہ وہ میرے با برکت وقت کو یاد کر کے روئے گی“.بالآخر حضرت مرزا صاحب کی ایک تحریر پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں :- ”اے تمام لو گوئن رکھو کہ یہ اس کی پیش گوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور بُرہان کے رُو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر
الحُجَّةُ البَالِغَةُ ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نا مرا در کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا.پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھیٹھا کیا جاتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُوْنَ پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے روبرو آسمان سے اترے اور فرشتے بھی اس کے ساتھ ہوں اس سے کون ٹھٹھا کرے گا.پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اترنا محض جھوٹا خیال ہے.یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اُن کی اولا د جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولا د کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اُترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ ختم بویا گیا اور اب وہ بڑھے
۹۱ الحُجَّةُ البَالِغَةُ گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۶-۶۷) تمہ رسالہ ہذا ! حضرت مرزا غلام احمد صاحب بانی سلسلہ احمدیہ کی جو شاندار پیشگوئی او پر کی عبارت میں درج ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس اعلان سے تین سوسال کے اندراندر کیا مسلمان اور کیا عیسائی حضرت مسیح" ناصری کے جسمانی نزول کے متعلق مایوس ہوکر اس جھوٹے عقیدے کو چھوڑ دیں گے اور دنیا دوسرے رنگ میں پلٹا کھا جائے گی اس کے ابتدائی آثار ابھی سے ظاہر ہورہے ہیں.چنانچہ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس خیال کی طرف مائل ہو رہا ہے کہ کسی مسیح کے آسمان سے نازل ہونے کا خیال غلط ہے.چنانچہ علامہ اقبال مرحوم نے بھی اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک مضمون میں اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ہمارے مولویوں سے سخت غلطی ہوئی کہ انہوں نے مسیح کے نزول کے عقیدے کو صحیح تسلیم کر کے جماعت احمدیہ کے ساتھ بحث کا دروازہ کھولا اور اس بحث میں شکست کھائی.انہیں چاہئے تھا کہ سرے سے مسیح “ کے نزول سے ہی منکر ہو کر احمدیت کا مقابلہ کرتے اور اس طرح مسیح کے نزول سے انکار پر ہی اس ساری بحث کا خاتمہ کر دیتے تا کہ بقول شخصے نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری اس قسم کے خیالات کا قریب کے زمانے میں بعض دوسرے مسلمان افراد نے بھی اظہار کرنا شروع کر دیا ہے اور یقیناً یہ احمدیت کی ایک عظیم الشان فتح اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی مندرجہ بالا لے یہ تمہ رسالہ ہذا کے دوسرے ایڈیشن کے وقت لکھا جا کر رسالہ ہذامیں شامل کیا جارہا ہے.خاکسار مصنف رسالہ الحجۃ البالغہ )
۹۲ الحُجَّةُ البَالِغَةُ پیشگوئی کے پورا ہونے کے ابتدائی آثار ہیں جو خدا کے فضل وکرم سے اس اعلان کے پچاس ساٹھ سال کے اندر اندر ہی ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں.یہ درست ہے کہ ابھی یہ طبقہ اس مسئلے کو دوسرے رنگ میں پیش کر رہا ہے یعنی یہ کہ اسلام میں کسی مسیح کے نزول یا ظہور کی پیشگوئی ہی نہیں پائی جاتی اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے لئے کسی روحانی مصلح کی ضرورت ہے.لیکن عظمند انسان جسے اسلامی صحائف کا تھوڑا بہت مطالعہ ہے آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ یہ خیال کہ آنحضرت کے بعد کسی روحانی مصلح کی ضرورت نہیں خدا تعالیٰ کے ازلی اصلاحی نظام کے خلاف ہے جو یہ ہے کہ جب بھی دنیا میں عقائد اور اعمال کا غیر معمولی فساد برپا ہوتا ہے تو خدا اسے اپنے کسی خاص تربیت یافتہ مصلح کے ذریعہ دور فرماتا ہے.روحانی مصلحوں کا مبعوث ہونا صرف نئی شریعت لانے کی غرض سے نہیں ہوا کرتا بلکہ خالق ہستی پر بندوں کے ایمان کو تازہ کرنے اور لوگوں کے نفوس کی اصلاح اور اخلاق کی درستی اور باطل خیالات کی سرکوبی کے لئے بھی ہوتا ہے اور یہ غرض قرآن شریف کے مکمل ہو جانے کے بعد بھی قائم رہتی ہے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت کے بعد مسلمانوں میں کئی مجد دمبعوث ہوتے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ“ کے بعد بھی ان کی شریعت کی اتباع میں کئی روحانی مصلح آتے رہے جنہیں کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ وہ صرف موسوی شریعت کی خدمت کے لئے ہی مبعوث ہوتے تھے.باقی رہا یہ مخصوص اعتراض کہ اسلام میں کسی مسیح کے نزول کی پیشگوئی نہیں پائی جاتی سو یہ خیال بھی بالبداہت باطل ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اس زمانے میں اس خیال کا پیدا
۹۳ الحُجَّةُ البَالِغَةُ ہونا احمدیت کے متعلق ایک سرا سر شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ور نہ کون مسلمان نہیں جانتا کہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے کس شد و مد اور کس تکرار کے ساتھ آخری زمانے میں ایک مثیل مسیح کی پیشگوئی فرمائی ہے.چنانچہ مثال کے طور پر صحیح بخاری کی یہی ایک حدیث کافی ہے جس میں رسول اکرم فرماتے ہیں:- وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوَ شِكَنَ أَنْ يَنْزِلَ فِيْكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ ( صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب نزول عیسی ابن مریم ) یعنی مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں ضرور ضرور مسیح ابن مریم نازل ہوگا.وہ دینی اختلافات میں حکم بن کر فیصلہ کرے گا اور اس کا فیصلہ حق و انصاف کا فیصلہ ہوگا.وہ صلیبی فتنہ کے زور کے وقت میں ظاہر ہوگا اور اس فتنہ کو پاش پاش کر دے گا.اور اس وقت دنیا میں خنزیری پلیدیوں کا بھی زور ہوگا اور مسیح ان پلیدیوں کو ملیا میٹ کر کے رکھ دے گا.مگر یہ سب کام دلائل اور براہین اور روحانی نشانوں کے ذریعہ ہوگا کیونکہ وہ زمانہ امن کا ہوگا اور مذہبی جنگ اور جزیہ اس زمانے میں موقوف ہو جائے گا“.کیا اس قسم کی زبر دست پیشگوئیوں کے ہوتے ہوئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی قسم کھا کر بیان فرمائی ہیں اور جو احادیث کی عام کتابوں میں ہی نہیں بلکہ حدیث کی چوٹی کی کتاب تک میں بھی جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ شمار ہوتی ہے پائی جاتی ہیں اور قرآن مجید میں بھی اس کی طرف صریح اشارات ملتے ہیں اور تمام مسلمان صحابہؓ کے زمانے سے لے کر اس وقت تک ان پیشگوئیوں پر ایمان لاتے چلے
۹۴ الحُجَّةُ البَالِغَةُ آئے ہیں.کوئی شخص مطلقاً مسیح علیہ السلام کے نزول کے عقیدے سے انکار کر سکتا ہے؟ ہاں مسیح" ناصری کا آسمان پر زندہ جانا اور پھر آسمان سے اتر نا بے شک ایک باطل عقیدہ ہے جس کی قرآن وحدیث میں کوئی سند نہیں ملتی.اور صحیح عقیدہ یہی ہے کہ ان پیشگوئیوں میں ایک مثیل مسیح کی خبر دی گئی تھی جس نے حضرت مسیح ناصری کی طرح محمدی سلسلہ کے آخر میں مسیح کی خُو بو پر ظاہر ہوکر اسلام کی خدمت بجالانی تھی اور وہ خدا کے فضل سے ظاہر ہو چکا ہے جس کی آنکھیں ہوں دیکھے.خلاصہ یہ کہ جو پیشگوئی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے فرمائی تھی کہ حضرت عیسی کا انتظار کرنے والے تین سو سال کے اندر اندر اس انتظار سے مایوس ہو کر مسیح ناصری کے جسمانی نزول کے عقیدے کو ترک کر دیں گے اس کے آثار ابھی سے شروع ہیں اور گو اس وقت اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لئے صرف ایک حصے کا انکار کیا جا رہا ہے مگر وہ وقت دور نہیں کہ کیا مسلمان اور کیا عیسائی اس بحث کے اصلی نقطہ پر آکر یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوں گے کہ جس مسیح کا آسمان سے انتظار کیا جارہا تھاوہ سرور کائنات حضرت خاتم النبین سید الاولین والآخرین کے انفاس قدسیہ کے طفیل اسی زمین میں سے ظاہر ہوکر امامکم منکم کا وعدہ پورا کر چکا ہے.حضرت مرزا صاحب نے اپنے عشق رسول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے کہ ؎ آں مسیحا که بر افلاک مقامش گویند لطف کردی کہ ازیں خاک نمایاں کر دی