Al Haqq-ul-Mubeen_Fi_Tafseer-eKhatam An Nabiyyin

Al Haqq-ul-Mubeen_Fi_Tafseer-eKhatam An Nabiyyin

الحقّ المُبین فی تفسیر خاتم النبیین

مفتی محمد شفیع دیوبندی کی کتاب "ختم نبوت کامل" پر تبصرہ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات
فیضان ختم نبوت

یہ کتاب دراصل مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کی کتاب ’’ختم نبوت کامل ہر سہ‘‘ پرایک مختصر ناقدانہ تبصرہ ہے۔ اس تنقیدی مضمون میں آیت خاتم النبیین کی تفسیر، سیاق آیت، لغت عربی، آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کی روشنی میں پیش کی گئی ہے اور مفتی محمد شفیع صاحب کے پیش کردہ معنی کی کہ آنحضور ﷺ وصف نبوت سے متصف ہونے کے لحاظ سے آخری نبی ہیں، کی قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی روشنی میں بڑی متانت سے تردید کی گئی ہے۔ اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جو منصب مفتی صاحب نے آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے تسلیم کیا ہے کہ وہ نبی بھی ہونگے اور امتی بھی ہونگے۔ جماعت احمدیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ ماننے کی وجہ سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اسی مذکورمنصب پر مامور من اللہ اور مجدد اسلام تسلیم کرتی ہے اورحضرت مرزا صاحب کو امتی نبی ہی مانتی ہے نہ کہ نئی شریعت لانے والا یا مستقل نبی۔ تشریعی اور مستقل انبیاء میں آنحضورﷺ آخری فرد ہیں۔ تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس تحقیقی جواب کو محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری نومبر 1971ء میں بڑی محنت اور عرق ریزی سے مرتب کیا تھا تا پڑھنے والوں کو جماعت احمدیہ کا موقف سمجھنے میں آسانی ہوجائے اور انہیں ہدائیت کی راہوں کی طرف آنا نصیب ہوجائے۔


Book Content

Page 1

مفتی محمد شفیع صاحب یو بندی کی کتاب ختم نبوت کال پر تبصرہ احق آمین في تضی خاتم النبيين قاضی محمد نذیر لائیوی

Page 2

9 ۱۵ D 14 19 ۲۵ ۲۶ ۳۰ معرض حال دل فهرست مضامین عنوان مفتی صاحب کی طرف سے آئت خاتم النبین کی تفسیر ہماری تنقید جماعت احمدیہ اور علما نے اہل سنت مسیح موعود کے) امتی نبی ہونے پر متفق ہیں.وفات مسیح کا ثبوت علماء محققین کا مذہب {actions مفتی صاحب خاتم النبیین کے معنے مطلق آخر می بینی قرار نہیں دے سکتے.خاتم النبین کے مثبت اور حقیقی معنی کو ) از مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی ) مفتی محمد شفیع صاحب کے معنی کی خرابی خاتم النبیین کے دونوں معنوی (خانمیت بالذات اور کی خاتمیت زمانی میں علاقہ کی نوعیت خانم بالذات کا مفہوم کیسے استنباط کیا.

Page 3

(ب) عنوان مفتی محمد شفیع صاحب کے معنی.لغت عربی میں ختم کے حقیقی معنی تاثیر الشی ہیں.) ختم کرنا اور آخر کو پہنچنا مجازی معنی ہیں.مفتی صاحب کی علمی غلطی.امام راغب کے نزدیک اتنی بی کا امکان.مفتی صاحب کا حضرت علئے علیہ السلام کی اصالتا آمدم کے لئے جواز کا میلہ.ہماری تنقید مفتی صاحب کی بے نتیجہ مبحث حضرت عیسی علیہ السلام کی اصالتا آمر ثانیم نفق قرآن کے خلاف ہے.نارسیس والی مرحضرت عیسی علیہ السلام کی کو احالا آمد میں مانع ہے.صفحه PP ۳۸ 3 ۲۴ ۴۵ ۴۹ خاتم النبین کے الف لام تعریف کی حقیقت - ۵۳ ہماری تنقید مفتی صاحب کے معنوں سے حضرت علی علیہ السلام: ڈیل خاتم النبین بن جاتے ہیں.مفتی صاحب کے لئے لمحہ فکریہ ۵۵

Page 4

صفحة ۶۶ ۷۲ ۷۳ ۷۴ 20 AP AY 49 91 ۹۲ ۹۲ (ج) عنوان مفتی صاحب کی پیش کردہ نظائر متعلق معنی خاتم النبیین الجواب (نظائر کے متعلق ) خاتم المهاجرین والی حدیثت کی وضاحت خاتم المساجد کے سنی حدیث نبوی ختم مساجد الانبیاء کی تشریحکم رمفتی صاحب کے نزدیک ا الجواب (حدیث کی صحیح تشریح ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ام دو خیار توں میں تطبیق.الجواب (دونوں عبارتوں میں کوئی تناقض نہیں ) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بیعت } احاديث لا نبی بعدی کی صحیح تشریح.قصر نبوت والی حدیث.با احادیث نبویہ سے امت میں نبوت غیر تشریعی کا امکان ) حدیث اول.حدیث دوم حدیث سوم

Page 5

>> عنوان حدیث چہارم صفحه ۹۴ ۹۴ حدیث ششم - لو عاش لكان صديقا نبیا کا مفہوم 96 حديث لديبق من النبوة الا المبشرات ) (الا المبشرات ) کی تشریح.مفتی صاحب کی خطر ناک تحریفت امام غزالی کے کلام ہیں.جماعت احمد یہ خاتم النبین کی تاویل نہیں کرتی.معنی اول (خاتمیت بالذات مرتبی ) معنی دوم (خاتمیت زمانی) ضروری نوٹ (خاتم النبین میں پیشگوئی کے متعلق) مفتی صاحب کا چیلنج چیلنج کا جواب مر سے بنی بلینے کے معنی کی ٹھوس بنیاد - مفتی صاحب پر اقبالی ڈگری کا پر ان کے معنی کے غلط ہونے کے متعلق } قرآن کریم سے اتنی بنی کی آمد کا جوانہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اثر اثر حضرت علی رضی اللہ عنہ 1-9 114 114 114 HA ۱۲۷ ۱۲۹ ۱۴۰

Page 6

صفحه ۱۴۹ 10.۱۵۶ ۱۵۹ ۱۶۳ 14 141 ۱۷۳ isp ۱۷۴ (Q) ہمارا چیلنج عنوان تفسیر آیت وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ مفتی صاحب سے ایک ضروری سوال مفتی صاحب کے ایک سوال کا جواب - مفتی صاحب کے مرے نبی بننے پر اعتراضات کے جوابات ) مفتی صاحب کا حیلہ رحضرت جیسے خلیہ السلام کر کی نبوت کے متعلق ) ) جمیلہ سازی کا جواب مفتی صاحب سے ایک ضروری سوال میثاق النبیین کے متعلق امت میں امکان نبوت کا ثبوت مفتی صاحب کا ہماری تفسیر پر اعتراض الجواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تفسیر القرآن سے متعلق ت ام معیارہ درست اور ضروری ہیں.چھٹا معیار اور اس کی صحت کا ثبوت.

Page 7

عنوان (و) ساتواں معیار (اور اس کی صحت کا ثبوت ) خاتمة الكتاب.تدریجی انکشات قابل اعتراف نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی شان کے متعلق تدریمی انخاف علم پر اپنی شان کو مفتی صاحب کی کتب مسیح موجود سے لاعلمی مہدی کا دعوی مجدد کا دعوی ختم نبوت کے متعلق حوالہ جات کا مفہوم 101 اصطلاحی تعریفت نبوت مفتی صاحب مزعوم پہلے دور میں ) اتنی نبوت کا دعوئی خلاصه بحث متعلق تبدیلی تعریف نبوت مدعی نبوت کے متعلق ایک استفسار کا جواب ر از مولوی عبدالحی صاحب لکھنوی) حضرت مسیح موعود کا تمام مراتب کے حصول میں اخلیت کا دعونی ) مفتی صاحب کا مزعوم دوسرا اور تیسرا دور صفحه 1^f 194 ٢٠٢ ۲۰۵ ۲۱۶ ۲۱۷ ۲۲۲ ۲۳۴ ۲۴۲ ۲۴۴

Page 8

(منی) صفحه عنوان مفتی صاحب کی تلبیس مفتی صاحب کو ایک ہزار روپے کا انعامی چیلنج مفتی صاحب کی ایک اور غلطی ۲۴۵ ۲۵۱ ۲۵۲ مفتی صاحب کا حضرت مسیح موعود پر کو ۲۵۵ تشریعی نبی ہونے کے دعوی کا بہتان مفتی صاحب کی بناوٹ مفتی صاحب کا مسیح موعود علیہ السلام کے) انبیاء سے افضلیت کے دھوئی کا الزام ) اور اس کا رہ ) مفتی صاحب کا مسیح موعود علیہ السلام پر تو بین انبیاء کا الزام اور اس کا رد علماء اسلام میں الزامی جواب کا طریق.مفتی صاحب کا مسیح موعود علیہ السلام پر آنحضرت سلے اللہ علیہ وسلم سے افضلیت کے دعوی کے متعلق بہتان الجواب مفتی صاحب کا مسیح موعود علیہ السلام پر تو ہیں حدیث کا الزام کم ۲۵۹ ۲۶۲ ۲۶۵ M49 ۲۶۹ ۲۷۰

Page 9

الجواب عنوان ( ح ) احادیث کے بارہ میں مسیح موعود علیہ السلام کا اصولی بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام گالیوں کا اللہ ام تكفير المسلمین کا الزام اور اس کا جواب.مفتی صاحب سے اپیل نالو لا صفحه ۲۷۹ FAI ۲۶۳ ٢٨٩ ٣٠١٥

Page 10

عرض حال یه کتاب در اصل مفتی محد شفیع صاحب دیوبندی کی کتاب ختم نبوت کامل ہر سہ حصہ کچھ ایک مختصر تا خدا نہ تبصرہ ہے.اس تنقیدی مضمون میں آیت خاتم النبیین کی تفسیر سیاق آیت لغت عربی- آیات قرآنید در احادیث نبویہ کی روشنی میں پیش کی گئی ہے اور وقتی محمد شفیع صاحب کے بیان کردہ معنی کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وصف نبوت میں متصف ہونے کے لحاظ سے آخری نبی ہیں قرآن مجید اور احادیث نبویہ کے ذریعہ بڑی متانت سے تردید کی گئی ہے ! اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جو منصب من مفتی صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علیے علیہ السلام کے لئے تسلیم کیا ہے کہ وہ نبی بھی ہوں گے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے امتی بھنی ہوں گے.جماعت احمدیہ حضرت عیسے علیہ السلام کو وفا یافتہ ماننے کی وجہ سے حضرت بانی اسلام مدیہ مرزا ا اغلام احمد علیہ السلام کو اسی منہ بے پر ا صور من اللہ اور محمد و اسلامہ تسلیم کرتی ہے اور آپ کو امتی بھی بھی مانتی ہے نہ کہ ئی شریعیت مانیہ والا یا مستقل نبی تشریحی اور مستقل انبیاء میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وہ ہے آخری فرد ہیں.اس مضمون میں بعض باتیں مگر رسہ کر ر بیان ہوتی ہیں من یہ تکرار میرے نزدیاک جواب میں ضروری تھا تا حقیقت اور صداقت زمینوں میں اس تکرار سے راسخ ہو سکے تاہم قارئین کرام اگر غور سے میری کتاب پڑھیں گے تو ہر تکرار میں کسی نئے نکتہ کا اضافہ بھی پائیں گے.الا ماشاء اللہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالے اس کتاب کے پڑھنے والوں پر اپنا بے حد فضل نازل کرے انہیں جماعت احمدیہ کے مسلک کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں ناسور اپنی رضا کی راہ پر چلائے.اللهم آمین.قی منشی محمد نذیر لائلپوری قاضی ناظر اشاعت لڑکھر و تصنیف.

Page 11

Page 12

بسم الله الرحمن الرحيم الازالة الكر تعمير ہر سہ مولوی مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی نے اپنی کتاب ختم نبوت کامل مواد میں ختم نبوت کے موضوع پر قرآن و حدیث اور آثار کے بھا جو اسے سمت کی ہے.اس مختصہ مضمون میں ان کی اس محبت پر ایک اجمالی ناقدانہ نظر ڈالنا مقصود ہے.مفتی صاحب نے ابتداء میں حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ کے خلاف تمہیں میں جو کچھ لکھا ہے اس پر تبصرہ کتاب کے آخر میں کیا جائے گا.انشاء اللہ تعال مفتی صاحب نے سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کا خود مطالعہ نہیں کیا.اور ا د مصر دھر کی کتابوں سے حوالہ جات اختذ کر کے ان کے سیاق کو نظر انداز کرتے ہوئے نکتہ چینی کر دی ہے.مفتی صاحب نے اپنی بحث کے آغاز میں یہ بتایا ہے کہ آیت مسا كان مُحمَّد أبا أحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولُ الله وخاتم النبيين (سورۃ احزاب : ۳۲) میں سیاق آیت کے لحاظ سے خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ ابوت تا قیامت چلنے والا ہے اور کوئی نبی آپ کے بعد پیدا ہونے والا نہیں چنانچہ آپ لکھتے ہیں:.

Page 13

ابوت دو قسم پہ ہے ایک ابوت جسمانیہ (سمیه درضا عید) جس پر احکام حرمت وصلت کے دائر ہوتے ہیں.جس کی وجہ سے بیٹے کی بی بی حرام ہو جاتی ہے وغیرہ ذلک اور دوسری ابوت روحانیہ جس پر احکام حرصت و حالت دائر نہیں ہوتے البتہ اولاد کی جانب سے تنظیم اور باپ کی جانب سے شفقت کی مثل مصلبی اویسی ہی باپ کے ملکہ اس سے میں کہیں زائد میں ا ضروری کے لئے یا پسر کی مرید کے لئے ہے جیسے استاد کی ابوت کے لئے.پس آیہ کریمیہ ما کات یارسوں کی اپنی ساری محمد أبا أَحَدٍ مِنْ رِجَال تر میں پہلے معنوں سے ابوت کی نفی کی گئی ہے اور ولکن رسول اللہ میں دوسری منے سے تو بندہ کا اثبات کیا گیا ہے" (ص) اس سے پہلے یہ سمجھتے ہیں :- پہلے جملہ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی مرد کے باپ نہیں اس پر سرسری نظر میں چند شبہات پیدا سو سکتے نے ہیں ان کے ازالہ کے لئے یہ دوسرا جملہ لفظ لکین لفظ لغت عرب میں اسی لئے وضع کے ساتھ فرمایا ہے کیونکہ یہ کیا گیا ہے کہ پہلے کلام میں جو شیعہ ہوتا.ہوتا ہے اس کو دفع کرتے آگے تین شبہات لکھتے ہیں :- پیر

Page 14

اول جب آپ کے لئے ابوت ثابت نہیں تو شفقت پدری جو لازمہ ابوت ہے وہ بھی آپ میں موجود نہ ہوگی.جب ابوت نہیں جو کہ لازم نبوت ہے تو شائد نبوت بھی نہ ہوگی.جب آپ کی نبوت کی نفی کی گئی تو اس میں بظا ہر آپ کی ایک قسم کی تنقیص لازم آتی ہے کہ آپ کے کوئی نرینہ اولاد نہیں نیزان کفار کو مہینے کا موقعہ ملتا ہے جو آپ پر ابتر ( لا ولد) or ہونے کا آگے لکھتے ہیں :.لفظ نحن سے ان ادغام مذکورہ اس گیا کہ اگر چہ آپ کے کوئی صلیبی فرزند نہیں اور آپ اس اعتبار سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن آپ خدا کے برگزیدہ رسول ہیں.اور رسول اپنی امت کا باپ ہوتا ہے " (ص ) ان نے اس طرح کیا گیا اور آخر میں یہ لکھا ہے :- 4 اس اعتبار سے آپ کے کروڑوں فرزند ہیں آپ کروڑوں مردوں کے باپ ہیں.اس ایک جملہ رولکن رسول الله ناقل) میں تینوں شبہات کو اٹھا دیانا (ص) ا.اس سے معلوم ہو گیا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے روحانی باپ ہیں اور روحانی باپ یعنی رسول کی شفقت اور عنایت اپنی اولاد پر نسبت انسیسی باپ کے بہت زائد ہوتی

Page 15

در ہے اس لئے آپ کے نسیبی باپ نہ ہونے سے آپ کی شفقت اور رارت میں کمی آنا لازم نہیں آتا.ہے اور بھی ثابت ہو گیا کہ نبی کے لئے میں قسم کا باپ ہونا لازم ہے اس کی نفی آیت میں نہیں کی گئی بلکہ صرف نسبی اور رضاعی باپ کی نفی کی گئی ہے اس لئے دوسرا شبہ بھی زائل ہو گیا..یہ بھی بخوبی معلوم ہو گیا کہ آپ لاول مقطوع النسل رابتر، نہیں جب کہ کفار کہتے ہیں ملیکہ آپ کے اتنی اولاد ہے کہ دنیا ہیں نہ آج تک کسی کے لئے ہوتی اور نہ آئندہ ہو گی کیونکہ آپ امت کے فی ھو افراد کے باپ ہیں اس سے تیسرا مشیہ بھی اٹھ گیا ولله الحمد - یہ تینوں شبهات جملہ مذکورہ سے اٹھ چکے ہیں لیکن خدائے عز وجھیل چاہتا ہے کہ اپنے پیارے رسول کی برادت خوب آشکار افرا کران کے فضائل و کمالات اور اعلیٰ درجہ کے شفیق و مہربان ہونے پر قوموں کو مطلع فرمائے تا کہ غافل لوگ ہوش میں آجائیں اور خدا کے آخری رسول کے قدمہ میں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے، وخاتم النبيين اور آپ تمام انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں.رفت ملک پر تحریر فرماتے ہیں:.خلاصه مقطوع لا لفظ رسول اے کہ آیت سے تو صرف یہی معلوم ہوا تھا کہ آپ نہیں بلکہ آپ کی کثیر التعداد اولا د رکھتے ہیں.پھر لفظ خاتم النبیین بڑھا کر کفتار

Page 16

کو اچھی طرح ذلیل کرنے اور آپ کے کامل ہونے کو خوب روشن کرنے کے لئے گویا یہ دعوی کیا گیا کہ یہی نہیں کہ آپ کثیر الاولاد میں بلکہ اس نیلے سائیان اور حنا کی فرش کے درمیان پیدا ہونے والی تمام ہستیاں اس کثرت میں آپ کے ہم پلہ نہیں ہو سکتیں کیونکہ آپکا سلسلہ ابوت تا قیامت چلنے والا ہے کوئی بنی آپ کے بعد پیدا ہونے والا نہیں.اور ا د مغرب سمجھا وعدہ ہے کہ دین متین متحرف نہ ہو گا." عَلَيْكُمْ نِعمتی تحریر کر کے لکھتے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ شرائع سابقہ کی تکمیل ابدی اور علی الاطلاق تکمیل نہ بھٹی اگر چہ اپنے اوقات کے لحاظ سے وہ سب کامل مکمل تھیں جیسا کہ امام رازی اپنی تفسیر کبیر میں اس کی تصریح فرماتے ہیں ولكِن رَّسُولَ اللہ کے جار میں رسول اللہ کا مرکب ہماری مفید رمضانی جو مثبت منے رکھتا ہے لا کر بے شک اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو اقت کا باپ قرار دیا ہے اور مقطوع النسل ہونے کے شبہ کو رد فرمایا ہے مگر آئے اسی رسول اللہ کے مرکب اضافی پر خاتم النبیین کے مرکب اضافی کا عطف کیا گیا ہے.ہو میں یہ بر مثبت مفہوم رکھتا ہے اور میں میں یہ بتانا مقصود ہے کہ آنحصر تصل اله جو

Page 17

علیہ وسلم صرت عام امت کے ہی باپ نہیں بلکہ انبیاء کے بھی باپ ہیں.ہاں ان معنی کو یہ منفی مفہوم بھی لازم ہے کہ کوئی ایسائی آپ کے بعد ظاہر نہیں ہو سکتا ہو انتصارات صلے اللہ علیہ وسلم سے فیض پانے اور آپ کو روحانی باپ جاننے کا معترف نہ ہو خاتم الند بین کے بھی مثبت معنے سیاق کلام کے لحاظ سے آیت میں موزون ہیں محض آخری نبی کے معنی ایک منفی مفہوم ہے.مگر آیت مثبت مفہوم کو چاہتی ہے کیونکہ قائدہ یہ ہے کہ اگر ول کن سے پہلے جملہ منفی ہو جیسا کہ آیت زیر بحث میں مَا كَانَ مُحمد آبا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکھ کا حملہ ہے تو ولکن کے بعد آنے والے جملہ کا مفہوم مثبت ہونا چاہیئے یہ بات مفتی صاحب کو بھی مسلم ہے چنانچہ انہوں نے لکھا ہے ولکن رسول اللہ میں دوسرے معنی سے ابوت کا اثبات کیا گیا ہے.مگر آخری بنی کے معنی منفی معصوم پوستمل ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا.اور یہ معنی خود مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کو بھی مسلم نہیں کیونکہ وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی علی الاطلاق نہیں مانتے بلکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام نبی اللہ کی آمد کے قائل ہیں.مفتی صاحب موصوف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی آخر میں وصف نبوت کے پانے کے لحاظ سے قرار دیتے ہیں.حالانکہ حسب حدیث نبوى كُنتُ نَدِيَّا وَاد مربينَ الْمَاءِ و الحسین رئیں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ آدم پانی اور مٹی کے درمیاں تھا، بتاتی ہے وصف نبوت آپ کو تمام انبیاء سے پہلے ملا ہے.جب مفتی صاحب موصوف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی نبی الله

Page 18

کی آمد کے قائل ہیں تو پھر وہ یہ کیسے کہ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ علم علی الاطلاق آخری نبی ہیں اور کوئی نہی آپ کے بعد حیثیت روحانی باپ کے نہیں ہو سکتا حالا کہ خاتم النبین سے بلحاظ سیاق آیت مقصودان کا یہ ثابت کرنا تھا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کے لئے کوئی اور روحانی باپ معینی نبی نہیں ہو گا.جماعت احمدیہ اور علمائے اہلسنت سو اس محل پر اگر مفتی صاحب خاتم النبیین کا مفہوم آخری نبی مسیح وجود کے امتی بنی ہے متفق ہیں علی الاطلاق لیتے تو وہ بھی یہ عقیدہ نہیں رکھ سکتے تھے کہ حضرت علیہ السلام بنی اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تشریف لا کر اہل عالمہ کی تربیت کریں گے.پھر یہ عقیدہ صرف معنی میں ہے! کا ہی نہیں بلکہ اکثر علماء اہلسنت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت پیسے نبی اللہ کی اصالتاً بہشت ثانیہ کے قائل ہیں اور اس طرح خاتم النبیین کے بعد ایک نبی کا آنا ضروری قرار دیتے ہیں.مگر اس شرط کے ساتھ وہ بنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بھی ہوگا.خلاصہ کلام یہ ہوا کہ علماء اہل سنت کے نزدیک حضرت صلی علیہ السلام دوبارہ مبعوث ہو کر نبی اور رسول تو ہوں گے مگر ساتھ ہی حضرت رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے امتی بھی ہوں گے.پس ایک پہلو سے بنی اور ایک پہلو سے امتی کا نصیب جو بقول ان علماء کے حضرت عیسی علیہ السلام کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد مسیح موعود ہو کر ملے گا.پی نصب آیت

Page 19

1 خاتم النبیین کے منافی نہیں.واضح رہے.جماعت احمدیہ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد آخری زمانہ میں اسی حیثیت کو مسیح موجود کے لئے پانا ضروری کھیتی ہے کہ وہ امتی نبی ہے.اور حضرت میرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام کو اتنی بنی کی حیثیت میں ہی مسیح موعود یقین کرتی ہے اور آپ کی نبوت کو علماء البات کی طرح آیت کر یہ خاتم النبیین کے منائی نہیں جانتی کیونکہ علماء اہل سنت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شریعت لانے والے بنی ہیں.نہ یہ کہ ان کے بعد مجرد کوئی نبی نہیں آئے گا.پتا نچہ یا یا یا مالکان یا وانا الاساس وی از این سیاست ہیں بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے با زمانے میں آنحضرت لا اللہ کی شہریت وسلم کے میجر کسی بی کا ہونا محال نہیں.لانے والا البتہ ممتنع ہے.نیز تخریہ فرماتے ہیں :.ر دافع الوسواس نیا ایڈیشن من علمائے اہل سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے عصر میں کوئی نبی صاحب شرح جدید نہیں ہو سکتا.اور بوت آپ کی تمام محققین کو شامل ہے جو نبی آپ کے ہمعصر ہوگا وہ مقبح شریعت محمدیہ ہو گا روافع الوسواس ها دنیا ایڈیشن)

Page 20

11 علاقہ حکیم ہوئی مگر حسین صاحب مصنعت غایہ البرہان سکھتے ہیں:.الخرص اصطلاح میں نبوت مخصو میت النبیہ خبر دینے سے عبارت ہے وہ دو قسم پر ہے.ایک ثبوت تشریعی جو ختم ہو گئی.دوسری نبوت نمعنی خبر دادن وه غیر منقطع ہے ہیں اس کو مبشرات کہتے ہیں اپنے اقسام کے ساتھ اس میں رویاء بھی ہیں." (الکواکب الدریه ها ۱۳-۱۳۷) پس آی خانمانی تین کامنفی معلوم یہ ہوا کہ حضت رسول کریم لے لے علیہ وسلم تمام تشریعی اور مستقل انبیاء میں سے علی الاطلاق آخری فرد ہیں.اور کوئی مستقل اور تشریعی نبی آپ کے بعد نہیں آسکتا.جو بھی آئے اس کا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا انتی بھی ہونا ضروری ہے.لندا آ نحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اس کے لئے آخری سند ہوں گے.اس طرح استی نبی کی نبوت متافی خاتم النبیین نہ ہوتی.لہذا جو شیت علماء اہلسنت نبوت میں اپنے مزعوم مسیح موعود کی مانتے ہیں وہی نیشیت جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام کی انہیں مسیح موجود مانتے ہوئے تسلیم کرتی ہے میں جماعت احمدیہ اور علماء اہل سنت میں مسیح موعود کی نبوت کی قسم میں کوئی اصولی اختلاف نہیں.اختلاف صرف مسیح موعود کی شخصیت میں ہے کہ وہ کون ہے؟ حضرت عیسی علیہ السلام اصالتا مسیح موجود ہیں یا ان کا کوئی مثیل مسیح موعود ہے.وفات مسیح کا ثبوت -:- چونکہ جماعت احمدیہ علی و جالبشیر آیات قهرمانه

Page 21

دها بسنت نبوی کی بناء پر یقین رکھتی ہے کہ جس عیسی بن مریم کی آمدثانی کا اتر احادیت مفتی محمد شفیع صاحب کا عقیدہ ہے وہ وفات پاچکے ہیں.اس لئے مولوی محمد شفیع صاحب کو ختم نبوت پر محبت کرنے کی بجائے احمدیوں کو حیات مسیح کا مسئلہ سمجھانا چاہیئے تھا کیونکہ وہ حیات مسیح مان کر ہی آپ کے پورے عقیدہ ہو سکتے ہیں.جب قرآن مجید کی آیت كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا ما دمت فيهمْ فَلَمَّا تَوَنَيْتَنِي كُنْتَ اَنتَ الرقيب عليهم نے سمات فیصلہ دے دیا ہے کہ حضرت ملیئے علیہ السّلام وفات پاچکے ہیں.اور وہ اصالتاً دوبارہ نہیں آئیں گے تو د دوئی سیح کی احادیث کی تطبیق اس آیت سے اسی طرح ہو سکتی ہے کہ پیشگوئیوں میں مثیل مسیح کا نزول مراد ہے اور میلے یا این مریم کا لفظ ان پیش گوئیوں میں بلیو استفادہ استعمال ہوا ہے حدیث نبوی مندر جو تصیح بخاری گیف انتم اذا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَ إِمَامُكُمْ مِشاهد باب نزول عینی کے الفاظ واما ماتم مشکور بھی اس بات کے لئے قرنیہ ہیں کہ میلے بن مریم کا اصالتہ نزول مراد نہیں بلکہ تمثیلی صورت میں نزول مراد ہے کیونکہ د اما مگر منکر کا جملہ اس بات پر شاہد ناطق ہے کہ میں شخص کا نزول حدیث میں بیان ہو رہا ہے وہ امت محمدیہ میں سے امت کا امام ہونے والا ہے امت سے باہر کا کوئی آدمی یا اسرائیلی مسیح مراد نہیں.اس امر کی تائید صحیح مسلم کی حدیث کی انتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ فاسلم مینگو سے بھی بخوبی ہو رہی ہے.جس میں صاف لفظوں میں

Page 22

۱۳ تھا مگر کا مرجع ابن مریم ہے.اس ابن مریم کو اقت میں سے امت کا ہونے والا امام قرار دیا گیا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کا ایک سو میں سال عمر يانا حدیث نبوى ان عيسى بن مَرْيَمَ عَاشَ مِائَةً وَ عِشْرِينَ سنة اور حدیث نبوی عمر مائة وعشرین سے مخصوص ہے.اور کوئی ایسی حدیث نبوسی موجود نہیں کہ جس میں یہ ستبلایا گیا ہو کہ وہ دو ہزار سال یا اس سے زیادہ عمر پائیں گے.آیت فَلَمَّا تَوَتَنِی اس بات پر نص صریح ہے کہ حضرت عیسے علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.اور وہ قیامت تک دو یا.اپنی قوم میں نہیں آئیں گے مضمون اس اس آیت کا یوں ہے کہ :.کہے گا.اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حضرت علی علیہ سے ا انت قلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَاتِي الْمَيِّنِ مِنْ دُونِ الله کہ کیا تو نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دو عیبو با تو تو حضرت جیسے علیہ السلام قیامت کے دن جواب میں کہیں گے.اے اللہ تو پاک ہے یہ میری شان نہ تھی کہ کہیں وہ بات جس کا مجھے سبق نہ تھا.کتا.اگر میں نے ان کو ایسا کیا ہے تو تو جانتا ہے تو میرے نفس کی باتیت جانتا ہے اور میں تیرے نفس کی بات نہیں جانتا تو نہ ہیوں کا خواب جاننے والا ہے میں نے ان کو وہی کچھ کہا تھا نہیں کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ تعالے کی عبادت کرو.جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا ابھی رب ہے اور میں قروم

Page 23

نما ۱۴ کے ان لوگوں کا شاہد رہا جب تک میں ان میں موجود رہا.پس جب تو نے مجھے کو وفات دے دی تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا.یعنی وفات سے پہلے یکن اپنی قوم میں موجود رہا.اور میں نے انہیں ایسا حکم نہیں دیا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بھانو سو جب تو نے مجھے کو وفات دے دی، تو میری نگرانی ختم ہو اور پھر اس قوم تیری میں قوم میں دوبارہ جائے کا موقعہ ہی نہیں ملا کہ جا کر ان کی اصلاح کرتا.ذمہ داری کے اس کو مجھ امت سے اسے بعدا میری اب اگر کوئی شخص تو نیکی کے معروف معافی کو چھوڑ کر اس جگہ یہ معنی کرے کہ جب تو نے مجھے کو آسمان پر اعمالیا تو پھر تو ہی نگران تھا تو یہ معنی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا فائدہ نہیں دیتے.کیونکہ اس صورت میں آیت کا مفاد یہ بن جاتا ہے کہ آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد قیامت کے دن تک ان کی قوم غذا کی نگرانی میں رہی ہے نہ ان کی اپنی نگرانی ہیں.پس یہ آیت مسیح کی دوبارہ آمد میں روگ ہے.خواہ ان کو وفات یافتہ قرار دیا جائے یا زندہ سمجھا جائے.لیکن زندہ سمجھتے ہیں یہ قباحت ہے کہ پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ قیامت تک انہیں موت والی کوئی نہیں ہوگی اور وہ قیامت کے دن مرنے کے بعد زندہ ہونے کے بغیر ہی خدا کے حضور پیش ہو جائیں گے حالانکہ خدا واتب كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ المَوت ( آل عمران : ۱۸۵) کہ نفس کے لئے موت کا ذائقہ منہ دری ہے.

Page 24

پھر توئی کا حفظ زندہ اٹھانے کے معنے میں کسی عربی زبان میں استعمال نہیں ہوا تو مسیح کے لئے کیوں نئی لغت بنائی جائے اور میں لفظ کے معنے محاورہ عرب میں وفات دینا میں اس کے معنے کیوں زندہ خاکی جسم کے ساتھ اٹھاتے کے کئے جائیں.اگر یہ کہا جائے کہ ان کے لئے رفع الی اللہ کے الفاظ قران میں آئے ہیں تو یہ رفع کا لفظ توئی کے بعد با عزت وفات کے ذریعہ بلند درجات عطا کرنے کے لئے آیا ہے اور یہی خدا تعالے کا وعدہ تھا.جیسا کہ آل عمران کی آیت کریمہ میں اللہ تعالے نے فرمایا ہے.يجيلى إلى توقيت وَرَافِعُكَ الى - اسے عیسی میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں.میں مسیح کا جو رفع بل رفعه الله میں مذکور ہے وہ وفات کے بعد ہوا ہے.جیسا کہ تمام انبیاء کا رفع وفات کے بعد ہوا ہے اور وہ سب کے سب بعد از وفات اپنے اپنے درجہ میں مرفوع ہیں.اور سب سے بلند مقام رفع کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا ہے.حضرت انس کی حدیث میں رفعہ اللہ کے الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے انہیں معنوں میں استعمال ہوئے ہیں کہ اللہ تعالے نے آپ کو با عزت وفات دیگر آپ کے درجات کو بند کیا.علیم اور محقیقین میں سے حضرت امام مالک علیہ علماء مخفقین کا مذہب الرحمہ نے فرمایا.انه مات کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے.رمبو لین میں عافیہ آیت فلما توفیتنی

Page 25

امام ابن حزام کے متعلق لکھا ہے.تمسك ابن حزم يضاهي الآية وقال بصوته كه امام ابن مردم وَقَالَ نے آمیتہ کے ظاہری معنی لئے ہیں یعنی ان کی تبدیل نہیں کی اور وہ حضرت علینی علیہ السلام کی موت کے قائل ہوئے.زمانہ حال کے علم ابو مصر کے مفتی علامہ رشید رضا لکھتے؟ عقلا ونقلا و المنار جلده اصلته مینی حضرت سے علیہ السلام کا ہندوستان کی طرف ہجرت کر جانا اور جان کشمیر کے شہر میں وفات پاچھا نا عقل و نقل کے خلامت نہیں.شہرمیں پا جانا و سفتی مصلہ علامہ محمود شلفوت لکھتے ہیں :- ؛ ليسَ ب فِي الْقُرْآنِ وَلَا فِي السُّنَّةِ المطهرة مُسْتَنَد لتكوين عَقِيدَة يَطْمَئِنُّ ابْنَهَا الْقَلْبُ بِأَنَّ يصلح مبنى رفع بجسمه إلى السَّمَاءِ وَإِنَّهُ الآن فِيهَا وَانَّهُ دانة سينزل في اخر الزمان إلى الارتين - (الفتادی مطبوعہ تا بر مصر بنی قرآن مجید اور سنت مطہرہ ہوتیہ میں کوئی سند موجود نہیں جس سے ! عقیدہ پر دل مطمئن ہو سکے کہ حضرت عیسی اپنے جسم کے ساتھ آسمان پراٹھائے گئے اور اب تک وہ آسمان پر زندہ ہیں اور یہ کہ وہی آخری زمانہ میں آسمان سے زمین کی طرف نازل ہوں گے.پس جب سیج کا زندہ آسمان پر جانا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں

Page 26

مفتی صاحب خاتم النبيين کے معنے تو مسیح کا نزول جو حدیشیوں میں مذکور ہے اس سے یہی مراد ہو سکتا ہے کہ مطلق آخری نبی قرار نہیں دے سکتے حضرت عیسی علیہ السلام کا کوئی مشیل حسب حدیث اما مكم منکور امت محمدیہ میں سے پیدا ہو اور امتی نبوت کا امت مقام حاصل کرے.مگر مفتی صاحب چور کو حضرت علی علیہ السلام کے انصافاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے کے قائل ہیں.امندا وہ خاتم النبیین کے معنے آیت زیر بحث میں مطلق آخری نبی مراد نہیں لے سکتے.کیو نکہ یعنی مسیح موعود کے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد ظہور میں مانع ہیں.خواہ وہ مسیح موعود امت سے پیدا ہونے والا ہو یا بقول مفتی صاحب خود حضرت عیسی علیہ السلام صالنا مراد ہوں.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ہے موعود کو احادیث نبویہ میں نبی اللہ کا نام دیا ہے میں قبل ازیں بیان کر چکا ہوں کہ سیاق آیت میں مطلق آخری نبی کا مفہوم کوئی چوٹے اور علاقہ نہیں رکے اور علاقہ نہیں رکھتا، کیونکہ مطلق سمرینی کے معنی منفی مفہوم پر مشتمل ہیں.اور آیت کا تقاضا بلحاظ سیان کلام ایک ) مثبت مفہوم کا ہے سو جیسے رسول اللہ کے الفاظ ایک مثبت مفہوم رکھتے ہیں ایسے ہی خاتم النبیین کے الفاظ ایک مثبت محموم مشتمل ہیں.جہاں جب کوئی چیز ثابت اور متحقق ہو تو وہ چونکہ اپنے سارے لوازم کے ساتھ ہوتی ہے.لہذا خاتم النبی تین کے مثبت معنی کو جو آگے تفصیل سے بیان کئے جائیں گے.افضل النبیین ہوتا میں لازم ہے.بوراز نمور اخری شایع

Page 27

MA بیٹی ہونے کا مفہوم بھی لازم ہے.آخری شارع بنی ہونے کا مفہوم لازم ہوں پر جب بیان مفتی محمد شفیع صاحب آيت اليَوْمَ أَعْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُو واتممت عليكم نعمانی شاہد ہے.اس میں اسلام کا انتہائی کال عَلَيْدٌ ہونا ثابت ہے.اسلام پنا کچھ مفتی صاحب نے امام رازی کی تفسیر کی رو سے اس آیت کی تفسیریں لکھا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ شرائع سابقہ کی تکمیل اہری اور علی الاطلاق تکمیل یتھی.اگر چہ اپنے اوقات کے لحاظ سے وہ سب کا مل د محمل منتیں ہی آیت کی مراد ہے جیسا کہ امام رازی اپنی تغییر کبیر میں اس کی تصریح فرماتے ہیں.ختم نبوت کا مل ) گویا اس آیت سے یہ ظاہر ہوا کہ شریعت محمدیہ کے ذریعہ شریعت کی تکمیل بھی ہوئی اور وہ تکمیل بھی علی الاطلاق ہوئی اور یہ مفہوم تکمیل شریعیت کا ب خاتم النبیین کو لازم ہے.اس لئے اس آیت کی روشنی میں آنحضرت اللہ علیہ وسلم على الاطلاق مکمل ابدی شریعیت لانے کے لحاظ سے تمام انبیاء میں سے آخری تشریعی نبی قرارہ پاتے.خواہ وہ انبیاء سائنگین ہوں یا آنحضرت جیسے اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی شریعیت کے ماتحت آنے والے ہوں.جو نبی بھیا آپ کے ماخت آئے گا.وہ آپ کا فرزند روحانی ہی ہوگا.پس خاتم النبیین کے حقیقی مثبت معنی کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا علی ناضلات اور آخری نشہ یعی بنی ہونا لازم ہوگا.پس یہ معنی بھی آیت خاتم النبیین کے تصدیقی معنی کے لوازم میں سے ہیں.صد

Page 28

14 واضح رہے کہ خاتم النبیین کے معنے کا منفی پہلو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کے مثبت معنی کو نظر انداز کر کے اختیار نہیں کیا جا سکتا.جب آنحضرت کامل اور ابدی شریعیت لانے والے نبی ہیں تو اسی حیثیت سے آپ آخری نبی ہوئے.نہ کہ اس حیثیت کو الگ کر کے آخری نبی خاتم النبیین کے آیت مَا كَانَ محمد ابا احد من أَحَدٍ رجالِكُمْ وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَفَانم الحميد ا حقیقی معنی البین.میں خاتم النبیین کے مثبت سنے سیاق آیت کے رو سے مفتی محمد شفیع صاحب کے قلم بزرگ حضرت مولوی محمد تام صاحب نانوتوی پانی دارالعلوم دیوبند یہ بیان فرماتے ہیں.جیسے خاتم بفتح التاء کا اثر منتوم علیہ میں ہوتا ہے.ایسے موصوف بالذات کا اثر موصوعت بالعرض میں ہو گا.فصل مطلب آیت کریمه (ولكن رسول الله وعالم النبيين ، ناقل) رَّسُولَ اس صورت میں یہ ہوگا کہ ابوت معروفہ رحمانی - ناتل ، توردل الله صلعم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر الوت معنوی (روحانی باپ ہونا.ناقل ) امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انہیاء کی نسبت بھی حاصل ہے.انبیاء کی نسبت تو فقط آیت خاتم النبیستین شاہد ہے کیونکہ اورسات معروض اور مومون با لعرض موصوت با ازات کے ذریعے ہوتے ہیں.اور موصوفت بالذات او ممات عریبیہ کا اصل ہوتا ہے.اور وہ اس کی نسل

Page 29

او رامتیوں کی نسبت لفظ رسول اللہ میں خود کیجئے.تحذیر الناس منٹ) ی حضرت مولانا کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ لفظ رسول اللہ کے ذریعہ آنحضرت کو امت محمدیہ کا باپ قرار دیا گیا ہے اور لفظ خاتم النبیین کے ذریعہ آنحضرت کو تمام انبیاء کا باپ قرار دیا گیا ہے اور اس طرح آنحضرت کی نیونت بوجہ خاتم النبیین ہونے کے بالذات ہے.سرا آپ اور سب نبیوں کی نبوت آپ کی نبوت کا اثر اور فیض ہے جیس طرح خاتم النبیین ریعنی مہر ناقل) کا اثر مختوم علیہ پر ہوتا ہے چنانچہ دہ تتخذیر الناس میں ہی خاتم النبیین کے معانی ہیں یہ لکھتے ہیں کہ :.آنحضرت موصوت بوسعت نبوت بالذات ہیں اور سوا آپ کے اور نبی مرسوفت بوصف نبوت بالعرض - اوروں کی نبوت آپ کا فین ہے مگر آپ کی نبوت کسی اور کا نبض نہیں اس طرح آپ پر سلسلہ نبوت ختم ہو جاتا ہے.غرض جیسے آپ نبی اللہ ہیں.ویسم یانبی الأنبياء بي (ه) اس سے پہلے مولانا موصوف یہ تحریر فرماتے ہیں:.عوام کے خیال میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں ملتے ہے کہ آپ سب میں آخری بنی ہیں.مگر اہل نہم پر روشن

Page 30

ہوگا.کہ تقدم اور تاخر زبانی میں بالذات کچھ فضلیت نہیں پھر متقام مدح میں وَلكِن رَّسُولُ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين A W فرمانا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ؟ رفت) مولانا موصوف کے اس بیان سے یہ ہے کہ خاتم النبیت مین کے الفاظ قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محل مدح میں دارد ہیں.اس لئے اس کے معنے محض آخرمی بنی درست نہیں.کیونکہ اس سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نہ کوئی مدرج ہوتی ہے.اور نہ کوئی ذاتی فضیلت ثابت ہوتی ہے.کیونکہ تقدم اور تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.چنانچہ آپ مناظرہ مجیبہ کے مسئلہ پر بھی سکھتے ہیں: تاخیر زمانی افضلیت کے لئے موضوع نہیں.افضلیت کو استلام نہیں.افضلیت سے بالذات اس کو کچھ علاقہ نہیں.ر مناظره مجربه ملام پس مولانا محمد قاسم علیہ الرحمتہ کے نزدیک خاتم النبیین کے اصل اور متقدم معنی یہ ہیں کہ آنحضرت مسلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت بالذات ہے.ان سنی کوده حاکمیت مرتبی بھی قرار دیتے ہیں اور ان معنی کے رو سے تمام انبیاء کی نبوت کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزر چکے ہیں یا بالعرض بعد آئیں.آنحضرت سے اللہ علیہ وسلم کی نبوت بالذات کا فیض اور فرح قرار دیتے ہیں.اور جسمانی آیت خاتم النبیین کے مطابق ان انبیاء کو آپ کی نسل اور آپ کو ابوالانبیاء یعنی نبی الانبیاء جانتے ہیں.پھر انہی معنی کو آپ

Page 31

۳۳ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل النبیین ہونے کا مستلزم بتاتے ہیں چنانچہ تحریر فرماتے ہیں: اگر خاتمیت معنی اتصاف ذاتی بوصف بہوت لیجئے.جیسا کہ اس پیچدان نے عرض کیا ہے.تو پھر سوائے رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے کسی اور کو افراد مقصود بالخلق میں مماثل نبوتی نہیں کہہ سکتے.بلکہ اس صورت میں انبیاء کے افراد نائیجی را جہیاء سابقین - ناقل ہی پر آپ کی افضلیت ثابت نہ ہو گی.افراد مقدره و جن انبیاء کا آئندہ بھیجا جانا مقدر ہے.ناقل پر بھی آپ کی افضلیت ثابت ہو جائے گی.بلکہ بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خامیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا : و تحذير الناس ۲۹ ۲۸ ممالا ایڈیشن مختلفی) مولانا محمد قاسم صاحب النحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عالمیت یعنی اتصاف ذاتی بوصف نبوت قرار دینے کے ساتھ ہی یہ بھی انتے ہیں کہ یہ معنی خاتمیت زمانی کو بھی مستسلام ہیں.مگر خاتمیت زمانی کا مفہوم آپ کے نزدیک یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شریعیت کا ملہ نانیوالے بنی ہیں جو تاقیامت قائم رہے گی.اور آپ سے بعد آنے والے نہیوں کے لئے آپ آخری سند ہیں.وہ آپ کی شریعیت کے کسی حکم کو نسونج نہیں کر سکتے.اس طرح بالفرض جو نبی آپ کے بعد پیدا ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 32

۲۳ کی خاتم بالذات کے فیض سے ہی نبوت کا مقام پائے گا.اور چونکہ وہ اختر صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت ہوگا.اور کوئی نئی شریعت نہیں لائے گا اور نہ آپ کی شریعیت کے کسی حکم کو منوع کرے گا.اس لئے اس کی نبوت سے غائیت محمدی میں بینی آنحضرت مسلے اللہ علیہ وسلم کی خائیت بالذات اور خاتمیت زمانی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.خاتمیت بالذات مرتی بنت زمانی کے اثبات میں مولانا موصوف تحریر فرماتے ہیں:.کا اور سب سے اوپر عہدہ گورنری یا وزارت ہے.اور سوائے اس کے سب عہدے اس کے ماتحت ہوتے ہیں اور دن کے احکام کو وہ توڑ سکتا ہے اس کے احکام کو اور کوئی توڑ نہیں سکتا.وجہ اس کی یہی ہوتی ہے کہ اس پر ھرا سب عہدہ جات ختم ہو جاتے ہیں.ایسے ہی خاتم مراتب کے اوپر اور کوئی عمدہ ہوتا ہی نہیں.جو ہوتا ہے اس کے ماتحت ہوتا ہے اس لیئے اس کے احکام اور وں کے لئے ناسخ ہوں گئے.اوروں کے احکام اس کے احکام کے ناسخ نہ ہوں گے.اس لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خاتم زمانی بھی ہو کیونکہ اوپر کے حاکم تک نوبت سب حکام ہتوت کے بعد آتی ہے.اس لئے اس کا حکم آخر میں حکم ہوتا ہے چنانچہ ظاہر ہے.پارلیمینٹ تک مرافعہ کی نوبت سب کے بعد ہی آتی ہے.یہی وجہ معلوم ہوتی ہے.کسی اور نبی نے

Page 33

۲۴ دخوئی خانیت نہ کیا.کیا تو معضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ کلام نے کیا.چنانچہ قرآن و حدیث میں مضمون میتریج موجو د ہے.ر مباحثه شاهجهانپور ۲۲-۲۵) گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہونے والے انبیاء اگر بالفرعنی ہوں تو موں نا موصوف کے نزدیک ان کے لئے آنحضرت ملے اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی کا یہ مفہوم ہو گا.کہ وہ ناسخ شریعت محمد یہ نہیں ہوں گے.بلکہ تابع شریعیت محمدیہ ہوں گے.اور ان کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود آخری سند ہوگا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا فیصلہ ان کے لئے آخری فیصلہ ہوگا.جیسے پارلیمنٹوں کا فیصلہ ماتحت حکام کے لئے آخری سند اور آخری فیصلہ ہوتا ہے.اس لحاظ سے ان کی بعثت شریعت محمدیہ کے احکام کی اشاعت کے لئے ہوگی.خاتمیت زمانی کو اپنی معنوں میں تسلیم کرنے کی صورت میں مولانا موصوف کا یہ بیان خاتمیت بالذات کے ساتھ در سمت قرار پا سکتا ہے کے بالفرض اگر بعد زمانہ ہوگی مسلے اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو فاقعیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا " التحذير الناس مثل : مولانا موصوف خاتمیت زمانی کی خرم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.ہ عرض خاتمیت زمانی سے یہ ہے کہ دین محمدی بعد ظهور منسوج نہ ہوگا ر مناظره عجیبه مشکسته ام

Page 34

۲۵ یہ فرض رکھنے والی خانیت زمانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسے بنی کے آنے میں مانع نہیں ہو سکتی جو آپ کا امتی بھی ہو اور اس طرح آپ کی شریعیت کا تابع ہو اور کسی نئی شریعیت لانے کا مدعی نہ ہو بلکہ اس کی حیثیت کی غرض اشاعت دین محمد ہی ہو.غرض مولانا محمد قاسم صاحب کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی امتی بنی کا پیدا ہونا خاتمیت بالذات مرتبی کا ہی فیض ہوگا.اور خانمیست زبانی کے بھی خلاف نہ ہو گا.مفتی محمد نہ مح شفیع کیا مگر اس سے کالا با ما در اتم النبيين کے معنے خانمیت بالذات مرتبی کر طرف نظرانداز کے کے مرن معنی کی خرابی خاقیت زمانی قرار دیتے ہیں اور یہ معنی بتاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وصف نبوت پانے میں تمام نبیوں سے آخری بٹی ہیں ان معنی کو درست قرار دینے کی صورت میں اگر بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی استی بنبی بھی پیدا ہو.تو خاتمیت زمانی میں فرق آجاتا ہے.حالا نکہ مولانا محمد قاسم صا حبہ خاتم النبیین کے معنے کے لحاظ سے فرما ہیں.اس سے خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا یہ پس مولانا محمد قاسم صاحبت کے نزدیک مفتی محمد شفیع صاحب کے فائیت زمانی کے معنی درست قرار نہیں پاتے.کیونکہ ان معنی سے مولانا محمد قاسم صاحب کا یہ بیان کہ خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا سراسر غلط اور جھوٹ قرار پاتا ہے.صرف خانیت زمانی کو تسلیم کرنے اور خاتمیت

Page 35

بالذات کو نہ ماننے سے مولوی محمد قاسم صاحبہ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بالذات افضلیت تمام نبیوں پر ثابت نہیں ہوتی.کیونکہ آخر کا لفظ بقبول مولانا محمد قائم افضلیت کے لئے موضوع نہیں اور نہ افضلیت کو سلام ہے اور یہ انفلبیت سے اس کا کچھ علاقہ ہے" ر مناظرہ عجیبہ علم اور خاتمیت زمانی کے معنی آخری نبی اسے فضیلیت کو استنباط کرنا مولانا محمد قاسم صاحب کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی شریف کا باعث نہیں.چنانچہ وہ تقریر فرماتے ہیں:.سوفا نیست زمانی یا اولیت زمانی میں کچھ کمالی نہیں دونہ زمانہ سے افضلیت کا استفاضہ مانا پڑے گا." اور ہمارا اعتقاد تو یہ ہے کہ زمین و زمان اور کون و مکانی آپ سے مشرف ہے آپ کو ان سے شرک نہیں ا و مناظرہ مجیبہ فت) پس جب آخری بیٹی کے معنی سے مولانا محمد قاسم صاحب کے نزدیک حضرت سلئے اللہ علیہ وسلم کی دیگر انبیاء پر بالذات افضلیت ثابت نہیں ہوتی تو خاتم النبیین کے معنی خاتمیت زمانی لے کر ان کے ساتھ خاتمیت بالات مرانی کے معنی تسلیم کرنا بھی ضروری ہوں گے.تا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم بالذات انفضل النبیین قرار پائیں.خاتم النبیین کے دونوں معقول اواضح رہے خاتم النبیین کے یہ دونوں معنی میں قبول کئے جائیں تو ان میں میں علاقہ کی نوعیت کوئی جوڑا ور علاقہ ہونا چاہیئے.اور

Page 36

۲۷ دہ علاقہ یا اشتراک معنوی کا ہو سکتا ہے یا لازم وملز وہم کا.اگر خشا تم کو علی الاطلاق ہے کہ اس میں ان دونوں معنوں کا اشتراک تسلیم کیا جائے تو یہ دونوں مینے بیک وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے شیب مانے اللہ وسلم کے.جا سکتے ہیں جبکہ ان میں تناقض نہ پایا جائے.کیو نکہ دو معنے جو ایک دوسرے کے نقیض ہوں وہ بیک وقت ایک ذات ہمیں صادق نہیں آسکتے.اسی طرح اگر ایک معنی ملزوم قرار دیئے جائیں اور دوسرے معنوں کو ان ملزوم معنے کا لازم قرار دیا جائے تو اس صورت میں میں رہ دونوں معنی آئیں میں ایک دوسرے کی نقیض نہ ہونے چاہئیں.کیو نکہ ایک ذات میں دو متناقض معنوں کا پایا جاتا محال ہے.پس خاتم النبیین کے یہ دونوں معنے ایک دوسر سے تبائن کلی یا تناقض نہیں رکھ سکتے.سو ظاہر ہے کہ خاتم کا اگر خانمیت بالذات مرتبی اور فانیت زمانی کے معنوں میں اشتراک قرار دیا جائے یا انہیں باہم ملزوم و لازم قرار دیا جائے.ان دونوں صورتوں میں ان دونوں معنوں کو ایک دوسرے کا نقیض قرار نہیں دیا جا سکتا.کیونکہ ایک ذات میں اجتماع النقیضین محال ہے.مولانا محمد قاسم صاحب خاتم بالذات کے معنوں کو صفر در جانتے ہیں اور انہی معنوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالذات افضل النبيين ہونے کی دلیل قرار دیتے ہیں.وہ اوپر کی دو صورتوں میں سے کسی نہ کسی صورت میں خاتمیت زمانی کا خاتم بالذات سے علاقہ ضروری قرار دیتے ہیں بالصورت اخلاق و عموم معنی خانم یا بصورت ملزوم و لازم چنانچه

Page 37

۲۸ وہ تحریر فرماتے ہیں :- سواگر اطلاق و محموم ہے تو تب تو خاتمیت زمانی ظاہر ہے ورنہ تسلیم از دوم خانیت زمانی بدلالت التزامی ظاہر ہے.دستخذیر الناس صاف افسوس کی بات ہے کہ مولوی محمد شفیع خاتمیت زمانی کے یہ معنی لیتے ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا خواہ ہ ایک پہلو سے امتی بھی ہو.یہ معنی خاتمیت بالذات مرتبی کے صریح منافی اور متناقض ہیں.کیونکہ خاتمیت بالذات یہ قرار دیتی ہے.کہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلے اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو اس سے خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.با اتخذیر الناس ۲۵ ۲۸ بلحاظ ایڈیشن مختلف اور مولوی محمد شفیع خانیت محمدی کے یہ معنے لیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا.خواہ وہ آپ کا اتنی ہی ہو.اب ظاہر ہے اس معنی میں خاتمیت زمانی خاتمیت بالذات کی نقیض ہوئی.اور لفظ خاتم ان دونوں معنوں میں نہ ایسا اشتراک ثابت ہوتا ہے کہ دونوں معنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات میں صادق ہوں اور نہ ملزوم ولازم کا علاقہ پایا جاتا ہے کہ یہ دونوں معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں صادق ہوں میں مفتی صاحب کا خانیت زمانی کا مفہوم غلط ہوا کیونکہ اس سے اجتماع نقیضین لازم آرہا ہے جو محال ہے.لہذا جو عقید استلا مال

Page 38

۲۹ ہو وہ محال ہے لہذا مفتی صاحب کا خاتمیت زمانی کا مزعوم مفهوم محال ملنا کا مزعوم موم ثابت ہوا.علاوہ ازیں مولانا محمد قاسم صاحبات ان دونوں معنوں میں علت محلول کا علاقہ قرار دیتے ہیں.چنانچہ آپ مناظرہ عجیبہ میں مولوی عبد العزیز نما کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:.مولانا خاتمیت زمانی کی تو میں نے تو جید اور تائید کی ہے تخلیط نہیں کی.مگر آپ گوشہ عنایت و توجہ دیتے ہی نہیں تو میں کیا کروں.اخبار بالعلت مكذب، اخبار بالمحلول نہیں ہوتا.بلکہ اس کا مصدق اور مرید ہوتا ہے.اوروں نے فقط خالی چھی زمانی اگر بیان کی تھی تو میں نے اس کی حکمت یعنی ماتیست مرتبی کا به نسبت خاتمیت زمانی ذکر کیا.(مناظره عجیبه ۳۲۰) پس مولانا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمہ کے نزدیک خاتم النبیین کی خاتمیت بالذات مرتبی خامیت زمانی کی علت اور ملزوم ہے اور قائمیت زمانی ان معنی کا محلول اور لازم المعنی ہے.اور محلول کا ملت سے اور لازم کا ملز دم سے ہے تعلق ہونا محال ہے.لہذا خاتم النبیت تین کے ہر دو معنی خاتم بالذات اور خاتم زمانی تسلیم کرنے پر دونوں میں علمت وعلول اور ملزوم ولازم کے علاقہ ہونے کی وجہ سے انہیں ایک دوسرے کی نقیض نہیں ہوتا چاہیے.تبھی تو مولانا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمتہ کا یہ بیان درست لانامحمد بیان قرار پاسکتا ہے کہ :.

Page 39

بالفرض اگر بعد زمانہ نیوی سیلے اللہ علیہ وسلم میں کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.وشمند سید الناس ح۲۵ و ۲۵ ملیا کا ایڈیشن مختلفہ واضح ہو خاتم بالذات مرتینی کا مفہوم مولتا کیسے استنباط کیا محمد قاسم صاحب نے آیت خاتم النبیین کے اسیاق سے اس طرح استنباط کیا ہے کہ اس جگہ خانم بالذات مفہوم میری خام بالا کا نوم وانا ماكان محمد آبا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ابوت جسمانی کی مردوں کی نسبت نفی کے بعد ولیکن رَسُولَ اللهِ وَتَعَالم النبین میں آپ کی ابونت معنوی بیان کی تے گئی ہے یعنی رسول اللہ کے الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کا روحانی باپ قرار دیا گیا ہے.اور خاتم النبیین کے الفاظ میں آپ کو تمام انبیاء کا پاس بیان کیا گیا ہے.لہذا آپ کی نبوت بالذات ہے اور تمام نبیوں کے لئے ملت ہے.لہذا سوا آپ کے اور نبیوں کی نبوتت تو آپ کا فیض ہے مگر آپ کی نبوت کسی اور نبی کا فیض نہیں.ہونا نا محمد قاسم صاحیت کو اپنے ان مختار معنی کی تائید افت سے.مولانا بھی حاصل ہے.چنانچہ آپ نے از روئے لغت تحریر فرمایا.جیسے خاتم بلغ ناد کا اثر مختوم علیہ پر ہوتا ہے.ایسے ہی مرصوت بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہو گا.(تعزیر الفاسي منا

Page 40

Fl شفيع کے منے مفتی محد شیفی منا مفتی محمد شفیع صاحب ان معنی کو اپنی کتاب میں بابل نظر اندازہ کر کے اور ان کا ذکر تک نہ کر کے آیت ا خاتم النبیین کے صرف آخر التبیین معنی قرار دیتے ہیں.اوسان معنوں کے سوا خاتم النبیین کے کوئی اور معنی ہونے سے انکار کرتے ہیں.چنانچہ انہوں نے خاتم النبیین کی دو قرآ توں خاتم بچہ زنا او خار بفع تار کا ذکر کرنے کے بعد از روئے لفات عربی خاتم کے سات معنی سکھے ہیں.جو یہ ہیں :- اقل نگینہ.ہر جس پر نام وغیرہ کنندہ کئے جاتے ہیں.دوم - انگشتری یا انگوٹی.مثلاً خاتم ذهب یعنی سونے کی انگوٹی.سومر آخر قوم به چھا رھے گھوڑے کے پاؤں میں جو تھوڑی سی سفید سی ہو، پنجم - گڈی کے نیچے جو گڑھا ہے.شهر به خاتم با کسر یعنی اسم فاعل ختم کرنے والا..هفت خاتم بالفتح - مہر کا جو نقش کا غذ وغیرہ پر اتر آتا ہے.هفتم:- ر ختم نبوت کامل منش یہ معنے درج کر کے لکھتے ہیں:.پہلے اور دوسرے معنی معینی نگینہ اور مرا در انگشتری آسیست میں کسی طرح حقیقت کے اعتبار سے مراد نہیں ہوسکتی.اور

Page 41

۳۲ یا جماع علمائے لغت و با اتفاق عضلائے دنیا جب تک حقیقی معنی درست ہو سکیں.اس وقت تک مجازی معنی کا اختیار کرنا باطل ہے.لہذا پہلے اور دوسرے معنی ہر گز مراد نہیں ہو سکتے پوچھتے پانچویں معانی کا تو آیت میں کسی انسان کو دہم بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اس آیت میں نہ حقیقہ درست ہیں نہ مجازا.انس طرح ساتویں معنی بعینی مر کا نقش یہ بھی حقیقی معنی کے لحاظ سے آیت میں مراد نہیں ہو سکتے اور میرے معنی بینی آخر قوم اور چھٹے معنی یعنی ختم کرنے والا.یہ دونوں معنی آیت میں.حقیقت کے اعتبار سے درست ہیں.صرف اتنا فرق ہے کہ ان میں پہلے دونوں قراتوں یعنی خاتم بالکسرا اور خاتم بالفتح یہ درست ہیں.اور دوسرے معنی ظرفیت خاتم بالکہ کے ساتھ مخصوص ہیں ! آگے لکھتے ہیں:.حاصل معنی پہ غور کیا جائے تو دونوں کا خلاصہ صرف ایک بنی کھلتا ہے اور پنجا ظ مراد کہا جا سکتا ہے کہ دونوں قرآنوں پر آیت کے معنی نفتا یہی ہیں کہ آپ سب انبیاء علیہم السلام کے آخر ہیں.آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا: (ختم بوت کامل ص) مفتی محمد شفیع صاحب نے لکھا تم النبین ببر تاء ہماری تنقید کے لئے چھٹے ملنے نبیوں کو ختم کرنے والا حقیقی معنے

Page 42

۳۳ قرار دیتے ہیں.اگر خاتم النبیین کے معنی نبیوں کو ختم کرنے والا لئے جائیں تو ان معنوں میں خانہ کا استاد تقیقی خدا تعالیٰ کی طرف ہوگا کیونکہ جو ہستی نہیوں کو بیعتی رہی ہے کو ہی انہیں ختم کرنے والی ہو سکتی ہے لہذا ان معنوں میں خانہ کا استاد انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مجاندی ہی ہو سکتا ہے نہ کہ حقیقی.ماسوا اس کے خود خانیہ کے لفظ کے معنی ختم کرنے والا مجازی معنی ہیں نہ کہ حقیقی جیسے آگے معلوم ہوگا.ها تعریف تاء کی قرآت خاتم النبیین کے معنی من الاخلاق اخیر النبیین کئے جائیں تو یہ بھی مجازی معنے میں نہ کہ حقیقی منی ، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مفردات القرآن اللہ عام الراغب میں جس کی تعریف میں مفتی صاحب نے لکھا ہے :- مسیح جلال الدین سیوطی الے انسان میں فرمایا ہے بذات قرآن میں سے اس سے بہتر کتاب آنے تک تصنیف نہیں ہوئی.رختم نبوت کامل بلاگ یت قرات میں امام راغب لکھتے ہیں : تاثیر شٹی ختم کرنا اور آخری پہنچا اختم و الله يقال مجازی معنے ہیں.على وجهان مدار عمْتُ وَطَبَعتُ وَهُوَ القاتم والطابع و الثاني الاقر الحامل

Page 43

۳۴ عَنِ النَّقش.ترجمہ: کہ ختم اور جمع کی دو صورتیں ہیں.پہلی صورت یہ ہے کہ یہ دونوں لفظ حکمت اور طبعت کا مصدر ہیں اور ان کے معنی خاتم رقس کے نقش پیدا کرنے کی طرح کسی نے کا دوسری میں اثر پیدا کرنا ہیں اور دوسری صورت حقیقی معنوں کی نقش کی طرح کی تاثیر کا اثر حا صل ہیں.ختم اور طبع کے یہ دو حقیقی معنی بیان کرنے کے بعد امام را خب آگئے ختم کے مجازی معنیٰ یوں بیان کرتے ہیں.ريجو زبذَالِكَ تَارَةً فِي الْاسْتِيثَاقِ مِنَ التي ووالمَنْعَ مِنْهُ إِعْتِبَارً ا بِمَا فَصَلَ مِنَ المنعم بالخثم عَلَى الْكُتُبِ وَالْأَبْوَابِ تَمْرُ ختم الله عَلَى قُلُوبِهِمْ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وقلبه وتارةً فِي تَحْصِيلِ أَثَرِ عَنْ شَيْ وَاعْتَبَارًا بالنَّقْشِ الْحَاصيل وتارة يعتَبَرُ مِنْهُ بلوغ الأخرة مِنْهُ قِيلَ خَمْتُ القران الى الميت إلى الخيرة : المفردات فی غریب القرآن زیر لفظ ختم ترجمہ اور حقیقی معنوں سے تجوز اختیار کر کے لینی مجاز کے طور پر کبھی ختم کے معنی کتابوں اور با ایران پر مہر لگانے کے لحاظ سے خوب

Page 44

۳۵ بند کر دینے اور روکنے کے ہوتے ہیں.ختم الله علی تلوبِهِمْ وَخَمَ عَلى سَمْعِه وقلبه میں ہی مجازی معنی مراد ہیں.اور کبھی اس کے مجازی معنی تقسیل حاصل کے لحاظ سے کسی لٹے سے اثر پیدا کرانا ہوتے ہیں اور کبھی اس کے مجازی معنی آخر کو پہنچنا ہوتے ہیں اور انہیں معنوں میر معتمدی القران کہا گیا ہے.کہ میں تلاوت میں قرآن کے آخر تک اس بیان سے ظاہر ہے کہ ختم اور طبع کے حقیقی معنی دو ہیں یعنی تاثیر اشتی اور اثر حاصل تاثیر الشی اس کے مصدری معنی ہیں اور اثر حاصل حاصل مصدر کے معنی ہیں.مفردات القرآن میں یہ دونوں معنی حقیقی قرار دئیے گئے ہیں ان معنوں کے علاوہ بندش.روک اور تحصیل اثر من شئی اور آخر کو پنچنا مجازی معنی قرار دیئے گئے ہیں.آیت خَتَمَ اللهُ عَلى قُلُو كي تفسير من تفسير بنیادی کے حاشیہ پر بھی لکھا ہے.فإطلاق الْخَيْم عَلَى الْبُلُوغِ وَالاسْتِيثَانِ مفتى مجازي : یعنی خستم کا آخر کو پہنچنے اور بند کرنے کے معنوں میں استعمال مجازی معنی میں ہے.اس لحاظ سے خاتم النبین بفتح تا ء کی قرآت کے لحاظ سے خاتم النبین کے معنی حقیقی مصدری معنوں کے لحاظ سے نبیوں کے لئے ذریعہ تاثیر ہوئے کے لئے زرعی

Page 45

کیونکہ خاتم بفتح تار آلہ تاثیر ہے.اور تھا تم النبین بکسرتاو کے لحاظ سے تھا تم اللہ تین کے معنے نبیوں کے لئے موثر نبی کے ہوئے.پس تمام انبیاء کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان نبیوں کے لئے ذریعہ تاثیر یا ان نبیوں کے لئے موثرینی کے ہوئے اور یہی معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین بالذات ثابت کرتے ہیں جس سے یہ مراد ہے کہ سب انبیاء آپ کی خاتم اقرا کے فیض سے نبوت پاتے ہیں.اور آپ کا خاتم النبین ہونا تمام انبیاء کے لئے ملت ہے اور سب انبیاء آپ کی خاتم بالذات کا محلول ہیں.اپنی حقیقی معنوی کو موٹا تا محمد قاسم صاحب نانوتوی علیہ الرحمہ نے اختیار کیا ہے اور اپنی معنی کو خاتمیت زمانی کا زوم اور خاتمیت زبانی کی علت قرار دیا ہے.پس مفتی محمد شفیع صاحب کا خاتم بکسر تا د اور خاتم بفتح تا مکا خاتم النبیین کی آیت میں نبیوں کو ختم کرنے والا یا آخر انیشتین معنی کرنا کو مجازی معنی ہوئے نہ حقیقی موتیا لیکن عجیب بات ہے کہ مفتی صاحب ختم کرنے والا یا آخر النبین کے معنی کو جو مجازی معنی ہیں حقیقی معنی اقرار دے رہے ہیں.اور دونوں کا مفاد یہی قرار دے رہے ہیں کہ آپ سب انبیاء میں سے آخری نبی ہیں.اس کے سوا مفتی صاحب کے نزدیک خاتم النبیین کے کوئی اور مینی ہی نہیں ہیں.مگر حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مفتی صاحب کے ان مصریہ معنوں کو عوام کے لکھنے قرار دیتے ہیں نہ کہ اہل قسم کے معنی چنانچہ وہ

Page 46

تحریر فرماتے ہیں:.عوام کے خیال میں تو آنحضرت سے اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری بنی ہیں.مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم و تاخر زمانی میں بالذات کی فضیلت نہیں.پھر مقام مدرج میں ولکن رسول اللہ وخاتم النبتين فرمانا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے.(تحذیر الناس مسلے) اس سے ظاہر ہے کہ مفتی صاحب کے خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کے سوا کوئی اور معنی جو مدح پر دلالت کرتے ہوئی تہ تسلیم کرنا اور صرف آخری بنی کے معنوں پر حصہ کرنا حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کے نزدیک انہیں عوام میں داخل کرتا ہے نہ کہ اہل قسم ہیں.اہل فہم کے معنے ان کے نزدیک یہ ہیں :- کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور سوا آپ کے اور یہی موصوف بوصف نبوت بالعرض ہیں.اوروں کی نبوت تو آپ کا فیض ہے مگر آپ کی نبوت کسی اور کا فیض نہیں.ر تحذیر الناس ملا مفتی صاحب نے اہل قسم کے معنی کو اپنی کتاب ختم نبوت میں کہیں ذکر نہیں کیا اور صرف عوام کے معنوں پر ہی زور دیا ہے.حالانکہ مقدم و تحقیقی معنی خاتم النبین کے خاتم بالذات نہیں ہیں.نہ کہ آخری نبی.آخری نبی کے

Page 47

PA معنی تر آخری تشریعی نبی بشریعه تا مہ کا ملا مستقلہ الی یوم القیمۃ کے معنوں میں ان معنی کو لازم ہیں نہ یہ کہ خاتم النہین کے صرف یہی ایک معنی ہیں ان کے سوا کوئی اور معنی نہیں.مفتی فضا کی علمی غلطی پر جناب مفتی محمدشفیع صاحب نے اپنے اس بیان میں سخت علی غلطی کا ارتکاب کیا ہے کہ خاتم النبیین کی دونوں قراء توں میں تمام نبیوں کو ختم کرنے والا بنی یا آخر نیستین حقیقی معنی ہیں.حالانکہ مفردات القرآن کے بیان اور حاشیہ بیضاوی سے یہ ظاہر ہے کہ ختم کرنا اور آخر کو پہنچنا ختم مصدر کے مجازی سنی ہیں حقیقی معنی اس کے تاثیر الشی اور اثر حاصل ہیں.اپنی حقیقی معنوں کو مولانا محمد قام صاحب نے اختیار کیا ہے اور انہی معنی سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت بالذات اور دوسرے انبیاء کی نبوتیں آپ کی خاتم روحانی کا نین اور تاثیر کا اثر حاصل قرار پاتی ہیں.مفتی محمد شفیع صاحب نے آگے چل کر رکھا ہے :- خاتم بالفتح اور بالکسر کے حقیقی معنے صرف دو ہو سکتے ہیں اور اگر بالفرض مجازی معنے بھی لئے جائیں تو اگر چہ اس جگہ حقیقی معنی کے درست ہوتے ہوئے اس کی ضرورت نہیں لیکن بالفرض اگر ہوں تب بھی خاتم کے معنے قہر ہوں گے.جیسا کہ خود مرزا صاحب قادیانی حقیقة الوحی حاشیہ منہ میں تصریح کرتے ہیں.اور نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے تو حقیقۃ الوحی مثہ کے حاشیہ پرانا منہ کال والی

Page 48

اس وقت آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ آپ انبیاء پر کر کہ نیا لے ہیں میں کا خاصہ بھی پہلے معنے کے علاوہ کچھ نہیں.کیونکہ محاورہ میں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے فلاں چیز پر مر کر دی یعنی اب اس میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی.قرآن عزرویہ میں فرمایا ہے.عم الله على لانی کی دو مر تعالے نے ان سیتی رختم نبوت کامل مشتته کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مفتی صاحب کے نزدیک خاتم کے مزعوم منیٰ حقیقی کا مفاد آخری بنی ہے پھر وہی مفاد وہ خاتم کے مخاطر لیک اس کے مجاز ہی معنی سے بھی اخذ کر رہے ہیں.حالانکہ حقیقت اور حجاز کا اجتماع مطابق بیان مفتی صاحب علمائے لغت اور عقلمندوں کے نزدیک محال ہے پس جب خاتم النبیین کے حقیقی معنے بھی مفتی صا کے نزدیک آخری نبی ہوئے اور خاتم معنی شہر کے مجازی معنی کا مفاد بھی کسی بچی کا آئندہ نہ پیدا ہو سکتا ہوا.اور مفہوم اس کا بھی آخری نبی نکلا.تو اس طرح حقیقت اور مجازہ کا اجتماع لازم آیا.اس سے تو مفتی صاحب کو خود ہی سمجھے جانا چاہیئے تھا کہ ان کے معنی ختم کرنے والا اور آخری بھی بی : نبی تراش مر کا ذکر کیا ہے نہ کہ سن کر نیوالی مر کا.سو اس کے ذکر کا اس جگہ کیا تعلق مفتی صاحب تو بند کر یوالی شہر مراد لے رہے ہیں بنے

Page 49

۴۰ L مجازی معنی ہیں نہ کہ حقیقی معنی.پس تقسیم کرنے والا اور آخری کو عربی زبان کے لحاظ سے خاتم اور خاتم کے حقیقی معنی قرار دینا محض مفتی صاحب کا اور.کا حکم اور مغالطہ ہے حقیقی معنی خاتم بفتح تار کے تاثیر کا ذریعہ اور خاتیم اور بکسر تاء کے موثر ذریعہ ہیں.پس خاتم النبین کے حقیقی معنی ہوئے جیوں کے لئے موثر ذریعہ ر خاتم فتح تا ء کی قرآت اور نبیوں کے لئے موثر نبی.رضا تیم بکسرتاء کی قرآت میں) اور خاتم النبیین کے معنی مطلق آخری نبی یا وصف نبوت کے ساتھ سب سے آخر میں منصف ہونے والا نبی مجازی معنی قرار پائے اور جب حقیقی معنی خاتم النبیین کے خاتمیت بالذات مرتبی میں آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بالذات ثابت کرتے ہیں اور باقی انڈیاء کی نبوتوں کو آپ کا فیض قرار دیتے ہیں اور یہ معنی اس جگہ محال نہیں اور نہ مولانا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمہ جیسا فاضل اجل انہیں اختیا کرتا.لندا مطلق آخری نبی یا آخری نبی معنی سب سے آخر میں وصعت نبوت سے متصف ہونے والا نبی مجازی معنی اقرار پاتے.اور مجازی و حقیقی دونوا معنیٰ ایک ذات میں صادق نہیں آسکتے.کیونکہ ان میں ایسا تیائین اور منافات ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کا اجتماع ایک لفظ میں ایک محل پر بحال ہوتا ہے.لہذا یہ امر مفتی صاحب کی علمی لغزش ہے کہ ہ سب نبیوں کو ختم کرنے والا یا آخری نبی یا وسعت نبوت پانے میں سب سے آخری بیٹی کے معنوں کو جو مجازی معنی میں حقیقی معنی قرار دے رہے ہیں.ان کے یہ سینے خاتم بالذبات کے معنی کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتے.جنہیں

Page 50

M مرادی محمد قاسم صاحب نے اختیار کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی تسلیم کرنے کے باوجود یہ لکھا ہے کہ :.بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمہ بھی کوئی نہیں پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا یہ ر تحذیر الناس مارا بلحاظ ایڈیشن مختلفی مفتی صاحب کے معنوں سے تو آئندہ ہنی پیدا ہونے سے خالیت محمدی میں فرق آجاتا ہے.پس مفتی صاحب کے حتی قائم بالذات کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتے.خاتم بالذات کے ساتھ خاتمیت زمانی صرف اپنی معنوں میں جمع ہو سکتی ہے کہ مالیت زمانی کا یہ معصوم ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری تشریعی نبی ہیں جن کی شریعیت تا قیامت قائم رہے گی.ان معنوں کی موجودگی میں امت محمدیہ میں غیر تشریعی امتی نبی کے پیدا ہونے سکا امکان رہتا ہے جس کا کام تجدید دین اور اشاعت اسلام ہو.مفردات القرآن میں ختم کے مصدری معنی تاثیر الشی اور اثر حاصل دیکھنے کے بعد امام را غوری نے خاتم النبین کے معنوں میں لکھا ہے.خاتم النبين لأنَّه خَمَ النُّبوة أن تَتَمَهَا (مفردات القرآن زیر لفظ ختم مجید جون کو امام را غیبت امت محمدیہ میں آنحضرت تابع اما مر را شب کے نزدیک اسے اللہ علیہ وسے کے لئے امتی نبی کا آنا صل امتی نبی کا امکان خاتم النبیین کے منافی نہیں جانتے

Page 51

۴۲ اس لئے اس فقرہ کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خا لم خاتم النبتين اس لئے ہیں کہ آپ نے نبوت پر تاثیر الشی والی مہر لگائی ہے.اس قہر لگانے کا اثر یہ ہے کہ آپ نے آکر نبوت کو انتہائی کمال پر پہنچا دیا ہے یعنی آپ شریعت تامہ کا ملا مستقله الى يوم القيامة کے ساتھ تشریف لائے ہیں.اس طرح مہر لگانے کا اثر ایسی شریعیت لانا بھی ہے جو کوئی بنی نہیں لایا.امام راغی کا یہ مذہب ہرگز نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی پیروی میں بھی کوئی نبی نہیں آسکتا.کیونکہ وہ قرآن مجید کی آیت مَن يطع الله وَالرَّسُولَ فَاوَليكَ مَعَ الَّذِينَ الله لهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِّيقين والشهد والصراحین سے اتنی نبی کی آمد کا امکان مانتے ہیں.چنانچہ تفسیر بحر المحیط میں زیر آیت ہلا لکھا ہے:.وَ الظَّاهِرُ انَّ قَوْلَهُ مِنَ النَّبِيِّنَ تَفْسِيرُ للدين العَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ فَكَانَّهُ قِيلَ من يطع الله والرسول الله الله بالدين تقد موهُم مِّمَّنْ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ قَالَ الراغب مِمَّنْ الْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم مِّنَ الْفِرقِ الأربع فى المنزلَة وَالثَّوَابِ النَّبي بالنتي الصديق بالصديق وَالشَّهِيدَ بِالشَّهِيدِ والصّالح بالصالحوت و تفسیر بحر المحیط جلد۳ ۲۸ مطبوعہ مصرع سان

Page 52

۴۳ ترجمہ.یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول من اللبين انعم الله علي مر کی تفسیر ہے.پس گویا یہ کہا گیا ہے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کر سے اُسے اللہ نے ان لوگوں سے بلا دیا ہے جو مشعر علیم ہیں اور پہلے گزر چکے ہیں دنیاں تک قبول مفسر سحر المحیط کا ہے.آگے وہ امام راغب کا قول پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں) راغب نے کیا ہے.انعم الله عليكم کے چارہ گروہوں سے مرتبہ اور ثواب میں ملا دیا ہے.اللہ اور رسول کی پیروی سے بنی بننے والے کو کسی پہلے نبی کے ساتھ مرتبا دور ثواب میں طادیا ہے.اور صدیق بننے والے کو کسی پہلے گذرے ہوئے صدیق سے مرتبہ اور ثواب میں ملا دیا ہے اور شہید بننے والے کو کسی پہلے گزرے ہوئے تشہیر سے مرتبہ اور ثواب میں ملا دیا ہے.اور صالح نجنے والے کو کسی پہلے گزرے ہوئے صالح سے مرتبہ اور ثواب میں ملا دیا ہے.پس امام را حب امت محمدیہ میں نبی پیدا ہونے کو خاتم النبین کے سنائی نہیں جانتے بلکہ اوپر کی آیت سے اس کا امکان ثابت کر رہے ہیں.پس مفتی صاحب کے بارہ میں یہ بات خدا کے فضل سے واضح ہو چکی ہے کہ وہ خاتم اور خاتم کے مجازی معنوں کو حقیقی معنی قرار دینے میں اور ان کے حقیقی معنی خاتم بالذات کو ترک کرنے میں سخت غلطی میں مبتلا ہیں.

Page 53

۴۴ مفتی دنیا کا حضرت علی علیہ السلام کی اصالت کیلیے جواز کامیلہ مفتی صاحب اپنی کتاب کے مشت پر ایک شبہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:.ید اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین میں اد یہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا تو آخر زمانہ میں مبینی علیہ سلام جو متفق علیہ نبی ہیں کیسے آسکتے ہیں.اس شبہ کے جواب میں جناب مفتی صاحب لکھتے ہیں :- جواب شبه را، اول خاتم النبیین اور آخر النبیین کے اشد ادا، سینے از روئے لغت و محاورات عرب یہ ہوتے ہیں کہ آپ وضعت نبوت کے ساتھ (اس عالم میں سب سے آخر میں منصف ہوئے جن کا حاصل صرف یہ ہے کہ آپ کے بعد کسی شخص کو ثبوت نہ دی بھائے گی اور اس وصعت نبوت کے ساتھ آئندہ کوئی شخص متصفت نہ ہو سکے گا نہ پھر منگ پر لکھتے ہیں:.رختم نبوت کا مل من ) ظاہر ہے کہ عیسی علیہ السلام کو آپ کے بعد حمدہ نبوت نہیں ملا بلکہ آپ سے پہلے مل چکا ہے کیا پھر مال پر یہ نتیجہ نکالتے ہیں:.

Page 54

لہذا ہوا علیہ کیا آپ کا خاتم النبیین ہونا کسی وجہ سے نزول مسیح علیہ السّلام کا معارض نہیں ہو سکتا.ایه تاویل مفتی صاحب نے بلا سوچے سمجھے بعض ایسے مغترین ہماری تقید سے لے لی ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصاله نز دل کا جواز ثابت کرنا چاہتے تھے.ہماری تنقیب اس پر یہ ہے.وصفت ہوتا سے سب سے آخر میں منصف ہوتے کی تا دیل بھی خاتم کے مجازی معنی ہیں.جس طرح علی الاطلاق آخری نبی بھی خاتم کے مجازی معنی ہیں جیسا کہ قبل ازیں واضح کیا جا چکا ہے مفتی صاحب نے آغضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے علی الاطلاق آخری نبی ہونے کے معنی ترک کر کے حضرت عینی بنی اللہ علی السلام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امد کا جواز ثابت کرنے کے لئے آخرالنبیین کے معنی آخری نبی کی یہ تاویل کردیا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم وصف نبوت سے متصف ہوتے ہیں آخری بنی ہیں.حالانکہ یہ بات احادیث نبویہ کے خلافت ہے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسب احادیث كُنتُ نَيَّا و ادم بين القاء وانطین وغیرہ اس وقت بھی نبی تھے جب ادھر ابھی پانی اور مٹی میں تھا پھر آپ نے یہ بھی فرمایا ہے آنا اول الانبياء خلفا رمیں پیدا ہونے میں سب سے پہلا بنی ہوں ، اور یہ بھی فرمایا ، اول ما علق الله نوری رسب سے پہلے خدا نے میرا اور پیدا کیا مفتی صاحبہ اس نیت کو جانتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے خیال کو سہارا دینے کے لئے سب

Page 55

نبیوں سے آخر میں وضعت نبوت سے متصف ہونے کے لئے ساتھ ہی اس عالمہ کی قید بھی لگا دی.گویا آخر الستين على الاطلاق کو دو قیدوں سے مقید کر دیا.ایک یہ کہ آپ وصف نبوت پانے میں آخری ہیں.دوسری یہ کہ اس عالم میں وصیت نبوت پانے میں آخری ہیں.حالانکہ اصل حقیقت یہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمہ وصیت نبوت پانے میں سب سے پہلے بنی ہیں.اور اس عالم میں آپ تشریعی بنی یہ شریعت قامتہ کا ملہ مستقبلہ الى يوم القيامة لانے میں آخری نبی ہیں.مفتی صاحب ان معنوں میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے سے انکار نہیں کر سکتے.یہوہ خاتمیت زمانی ہے جو ہمیں اور مولوی محمد قاسم صاحب کو مسلم ہے.اور خالقیت زمانی اس مفہوم میں غائیت بالذات مرتبی کو بد نالت التزامی لازم ہے.اور اس فانیت زمانی کی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت کسی غیر تشریعی اتنی بی کا پیدا ہونا خاتمیت بالذات کا نین ہوگا.اور اس خاتمیت زمانی کے منانی بھی نہ ہوگا، کیونکہ ایسا بنی آپ کی شریعت کی اساسات کے لئے آنے والا ہو گا.نہ کہ شریعیت جدیدہ لانے والا یا مستقل نبی شریعیت جديده تنامه كامل الى يوم القيامة لانے والے بنی صرف آنحضرت مسلے اللہ علیہ وسلم ہیا نہ ہیں گئے.اس طرح کسی امتی بنی کا آپ کے بعد پیدا ہونا ان خاتمیت زمانی کے معارض نہیں ہوگا.مفتی صاحب نے اپنے مذکورہ مشبہ کے جواب میں کہ جب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم آخر انہین ہیں توحضرت مینے دیا اسلام آپ کے بعد کیسے آسکتے ہیں؟

Page 56

بعض مفترین کے آخر الان بسیار کے بہ تا دیلی معنی اختیار کرلئے ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم وضعت نبوت پانے میں آخری ہیں.لہذا حضرت میلے علا السلام ان معنوں میں چونکہ آخری نبی نہیں اس لئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آسکتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ انہوں نے یہ نہ سوچا کہ اس جواب سے شبہ رفع نہیں ہوگا بلکہ اس خطرناک نتیجہ پر نتیج ہو گا کہ حضرت عیسے علیہ السلام جو ایک مستقبل اور بقول مفتی خلاف حدیث لا نبق بعد وجہ یا شریعی بنی ہے ہے اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر یا تشریعی ہونے کے آنحضرت على الاطلاق آخر النبيين بن جائیں گئے.جو مفتی صاحب کے نزدیک خاتم النبین کے حقیقی معنے ہیں.علی اللہ طلاق آثر النبیین اس لئے بن جائیں گے کہ مفتی صاحب ان کے بعد تا قیامت کسی اور نجی کے آنے کے قائل نہیں پس اس طرح حضرت جیسے علیہ اسلام تو علی الاطلاق آخری بنی بن جائیں گے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اس تقید صورت میں آخری بنی رہ جائیں گے کہ آپ نے وصف نبوت سب نبیوں سے آخر میں پایا.پیس مفتی صاحب کے اس جواب سے شبہ نے حل کیا ہونا تھا وہ پہلے سے بھی زیادہ قوی اور خطرناک صورت اختیار کر رہا ہے.جو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ یہ لمحل الاطلات آخری بنی نہیں رہتے بلکہ علی الاطلاق آخری نبی حضرت عیلئے علیہ السلام بن کر على الاطلاق خاتم النبین بن جاتے ہیں.اور خاتم النبین بھی حقیقی کیونکے مفتی صاحب نے تحاشہ کے معنی آخری کو حقیقی معنی قرار دیا ہے پس انحضرت

Page 57

صلے اللہ علیہ وسلم اس لحاظ سے معاذ اللہ ادھور نے خاتم النبیین ہوگئے اور حضرت جیسے علیہ السلام پورے خاتم النبیین بن گئے.حالانکہ خدا ہے نے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی خاتم النبیین قرار دیا ہے نہ کسی اور نبی کو.مفتی صاحب کی واضح رہے مفتی صاحب کی یہ بھوت ہمارے لئے کوئی تیجہ غیر نہیں.ہم تو مولانا محمد قاسم صاحب کی طرح بے نتیجہ بحث تو خاتم النبیین کے معنی قائم بالذات میں مانتے ہیں.یعنی نبیوں کے لئے نبوت پانے میں موثر ذریعہ بصورت قرآت خاتم بفتح تار اور نبیوں کے لئے ثبوت پانے میں موثر بی بصورت قرآت خاتم بحر تاؤ.یہ خاتم النبیین کے معنی ہمارے نزدیک بدلالت مطابقی ہیں.اور ان معنی کو آخری تشریعی نبی ہونے کا مفہوم بدلالت التزامی نازم ہے ان سنی نبی کا لہذا ان معنوں کی موجودگی میں آنحضرت مصلے اللہ علیہ وسلم کے جہ آپ کے نی سے غیر تشریعی نبی اُمتی ہونے کی صورت میں آسکتا ہے اس طرح وہ اقتی بھی ہو گا.اور بنی بھی.وہ کوئی نئی شریعیت نہیں لائے گا.بنکہ شریعت اسلام کی تبلیغ وستجدید کے لئے آئے گا.اور حسب حدیث نبوی متعلق نزول مسیح الا اللهُ خَلِيفَن في أمين (الطبرانی) وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں آپ کا خلیفہ ہوگا اور اسے اعترت لینے ابن مریم سے شدید مشابہت رکھنے کی وجہ سے استعار کا لینے ابن مریم کا نام دیا جائیگا وہی امام معادی ہوگا.جیسا کہ مسند احمد بن طبق کی حدیث میں آیا ہے کہ ہوگا.صنف (

Page 58

۴۹ قریب ہے کہ جو تم میں سے زندہ ہودہ پہلے ابن مریم کو امام مہدی کی حالت مریم میں پائے.رمسند احمد بن عقیل جلد ۲ صلاح بروایت حضرت ابو بريدة یہ حدیث بتاتی ہے کہ امام مہدی جس کا امت میں سے ہونا متفق علیہ ہے وہ اور جیسے ابن مریم ایک ہی وجود ہوگا گویا نزدن بیٹے سے مراد یہ ہوگی کہ امام حمدی حضرت جیسے علیہ السلام کا بروز ہوگا.جب کہ اقتباس الانوار منانے میں مروز کا مفہوم بیان کرنے کے بعد حدیث لَا الْمَهْدِى الاعينى بْنَ مریمہ (ابن ماجہ، کے پیش نظر کہ نہیں ہے مودی مگر جیسے ابن مریم.دیکھا ہے کہ مسیح کی رُوحانیت محمدی میں بروز کرے گی اور نزول مسیح سے مراد ابن مریم کے.یہ بہروز ہی ہے مطابق حدیث لا مهدی اقتاس الانوار مثلث ماسوا حضرت عیسی علیہ اسلام کی اصالتا اور اس کے بیج کی انسانی آریانی قرآن کریم کی نقص کے بھی خلاف ہے.آمدشا کی نص قرآنی کے خلاف بنا ظلم است تا نے نے سورہ نور کی آیت شاکی استخلاف میں فرمایا ہے :- وعَدَ اللهُ الذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصلحت ليَسْتَخْلِ فَتَهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِهم (سورة النور آيت (۵۵) یعنی اللہ تعالے کئے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے امیان دا کر جمال صالحہ بجا لائے کہ انہیں نر در زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ خلیفہ مہینہ ایا

Page 59

اُن لوگوں کو جو اُن سے پہلے گزر چکے ہیں.یہ آیت واضح طور پر باقی ہے کہ امت محمدیہ میں خلفاء امت میں سے ہی ہوں گے جو ایمان لا کر اعمال صالحہ سبجا لانے پہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے خلیفے ہوں گے.جیسے کہ ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ خلیفہ ہوئے کے خلفاء کو پنی پہلے گزرے ہوئے خلفاء کے مشابہ یا ان کا مثیل قرار دیتی ہے.اور پہلے گزرے ہوئے خلفاء کو مشتبہ ہر قرار دیتی ہے چونکہ مشتبہ مشبہ یہ کا غیر ہوتا ہے.اس لئے اس امت میں سے حضرت کیلئے علیہ السلام کا جو خلیفتہ اللہ تھے کوئی منشا بر او مثیل ہو کر تو خلیفہ ہو سکتا ہے مگر خود حضرت خلیئے علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ نہیں ہو سکتے کیونکہ اس صورت میں مشتبہ اور کشتہ یہ کا تعین ہونا لازم آتا ہے اور یہ محال ہے.کیونکہ مشتبہ مشبہ یہ کا غیر ہوتا ہے.خود حضرت عیسی علیہ اسلام کا ملبہ بھی ہونا اور شبہ یہ بھی ہونے کا یہ ضحکہ خیز جاتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام حضرت علی علیہ اسلام کے مشاء ہوں گے.میں مفتی صاحب کو ان حقائق کی موجودگی میں اپنی اصلاح کرنی چاہئیے اور خاتم النبین کی ایسی تفسیر نہیں کرنی چاہیئے.جس سے حضرت لیے علیہ السلام تو علی الاطلاق خاتم اللبن بن جائیں.اوس انحل سے اللہ علیہ وسلم بعید صورت میں ادھورے خاتم النبین رہ جائیں.

Page 60

حضرت بندش والی مر حضرت عیسے علیہ السلام) پھر یہ بھی یاد رہے کہ منزت لیے علیہ السلام مستقل نبی تھے اور کی اصالتاً آمدمیں مانع ہے.مفتی صاحب کے نزدیک تشریعی بنی تھے اور مفتی صاحب نے خاتم النبیین کے مروالے منے تسلیم کر کے اس کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ نشے اس طرح بند ہو کہ کوئی پیز اس میں داخل نہ ہو سکے.پس جب حضرت عیسی علیہ السلام پر دوسرے انبیاء سابقین کے ساتھ نندش والی فرنگ گئی تو پھر حضرت عیلئے علیہ السلام وہ گھر توڑے بغیر باہر نہیں آسکتے.اور قہر ٹوٹنے سے خاتم النبین کا ابطال لازم آتا ہے جو کفر ہے.لہندا وہ بندش والی مہر لگ جانے کی وجہ سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتے.جناب مفتی صاحب ! جب مسنئے مہر سے اس طرح بند ہو کہ اس میں کوئی چیز داخل نہ ہو سکے تو ٹھر ٹوٹے بغیر اس میں سے کوئی چیز شکل بھی نہیں سکتی.پس جیسا انبیاء سابقین پر بندش والی مہر لگ گئی تو اس شہر کو توڑے بغیر حضرت علی علیہ السلام با ہر نہیں آسکتے.اور ٹھہر کے ٹوٹنے سے ختم نبوت کا ابطال لازم آتا ہے جو کفر ہے لہذا حضرت سہیلئے علیہ السلام بندش والی مہر لگ جانے کی وجہ سے بھی آنحضرت سلے اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتے جیسا کہ آیت استخطان بھی اُن کے آنے میں مانع ہے.اگر مفتی صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علی الاطلاق خاتم النبین مانتے ہیں تو پھر انہیں حضرت پہلے علیہ اسلام کی اصالتا وہ بارہ آمد کا خیال

Page 61

۵۲ ترکی کر دینا چاہئیے.کیونکہ اس سے ختم نبوت پر زد پڑتی ہے.اس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علی الاطلاق آخر المبین نہیں رہتے ہو مفتی منا کے نزدیک خاتم النبیین کے حقیقی معنے ہیں.لیکن نزول بیٹے سے مراد امام مہدی کا پہلے علیہ السلام کا بروز ہونا ایک ایسا امر ہے جس سے ختم نبوت پر کوئی دو نہیں پڑتی کیونکہ امام مہدی آنحضرت صلی اللہ علیہ ولم کا کامل فعل اور عکس ہے لہذا اُس کے اُمتنی بنی ہونے میں بوجہ طلبیت کوئی روک نہیں.کیونکہ ظل اپنے اصل کا غیر نہیں ہوتا.اور اتنی اپنے متبوع ان کا قتل ہی ہوتا ہے.کیو نکو اتی کا مفہوم ہی یہ ہے کہ ہر روحانی کمال اس کا اپنے متبوع نبی سے مستقام ہوتا ہے.پر جب انبیاء سابقین کے نہ اُس الاولیاء یا خاتم الاولیاء ہونے کی وجہ سے ان کی خلقت میں اولیاء اللہ پیدا ہوتے رہے تو اختی نبی کے پیدا ہو نے سے تو خاتم البین صلے اللہ علیہ وسلم کا تمام انبیاء پر شاندار امتیاز قائم ہوتا ہے کیونکہ دوسرے انبیاء کو یہ قوت قدسیہ حاصل نہیں تھی.اُن کے ذریعہ تو ترقی کا آخری مقام صرف ولایت ہی تھا.مگر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آپ کے امتی کے لئے ترقی کا مقام درایت کے علاوہ نبوت بھی ہے.اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امتی نبی کے لئے خاتم النبین ہونے کی صورت میں آخری مستند رہتے ہیں.اور روحانی لحاظ سے صرف بادشاہ ہی نہیں عملی شہنشاہ بھی قرار پاتے ہیں.اور آپ کا یہ دعونی سچا ٹھہرتا ہے که تو كَانَ مُوسى حَيَّا لما رسمه الا اتباعی - کہ اگر مول

Page 62

At زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا.مرقاۃ جلدی اے اور یہ بھی حدیث میں وارد ہے کہ لَو كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيْنِ فَمَا وَسِعَهُما الا البانی که اگر مو نیستے اور میٹی دونوں زندہ ہوتے تو انہیں میری پیردی کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تا رفتح البیان حاشیه جلد ۲ ص ۲۲ ) ( یہ حدیثیں میں بتاتی ہیں کہ اتنی نبی کے آپ کی پیروی میں آنے سے آپ کی خان میں کمی نہیں آتی جبکہ اس سے آپ کی شان بڑھتی ہے اور آپ تمام انبیاء سے اپنے فیوض کے لحاظ سے انتہازی شان رکھنے والے وجود قرار پاتے ہیں.ری بیان مفتی محمد شفیع صاحب الف لام تعریف میں لفظ پر داخل ہو اس کی چند صورت میں تعریف کی حقیقت ہیں.یا تو اس کے افراد میں سے کچھ مراد نہیں بلکہ نفس ما بتربیت مراد ہے تو اس الف لام کو جنسی کہتے ہیں.اور اگر افراد مراد ہیں تو یا تمام افراد مراد ہوں گے یا لبعض اگر تمام ہیں تو استغراقی ہے.اور اگر معنی ہیں تو پھر معین ہوں گے یا غیر معین.اگر معتین ہیں تو صد خارجی ورنہ ذہنی رختم نبوت کامل منش حاشیه اب یہ امر قابل غور ہے کہ خاتم النبیین میں الف لام تعریف کیا ہے؟ سود اصح ہو کہ خاتم النبیین کے اصل معنے جو مولانامحمد قاسم صاحبہ نے بیان فرمائے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے لئے خاتم بالذات ہیں اور تمام انبیاء کی نہرو میں آپ کا فیض ہیں.ان معنوں میں الف لامر استغراق حقیقی کا پایا جارہتا ہے.کیونکہ کوئی بھی آپ سے فیض پانے سے باہر نہیں سیپ

Page 63

۵۴ انبیاء کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم الی سکیم میں بطور ملت ٹائیہ کے موثر ہیں ملت نائیہ ناصل کی فاصلیت کے لئے محرک ہوتی ہے اور میز کہ اب کے ہوتی ہے.مفتی محمد شفیع صاحب خاتم النبیین کے ان حقیقی معنوں کا انکار کر کے اس کے معنے محض تمام نبیوں کو ختم کرنے والا اور تمام نبیوں میں آخری قرار دے کر الف لامر استغراق حقیقی کا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور دلیل اس کی یہ دیتے ہیں کہ :.اگر الف لام کو قصد خارجی یا ذہنی کا قرار دے کر کلام کی بیمراد ا بنائی جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض انبیاء کے خاتم ہیں تو کلام بالکل معمل اور بے معنی ہو جاتا ہے.اور خاتم النبیین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی امتیازی صفت نہیں رہتی جو آپ کے فضائل میں ذکر کی جائے.کیونکہ آدم علیہ السلام کے علاوہ ہر نبی اپنے سے پہلے انبیاء کا خاتم اور آخر ہے ، اور ہرنبی پران معنی ہیں خاتم النبین صادق ہے.(ختم نبوت کامل متنا) پھر مفتی صاحب یہ بھی لکھتے ہیں:.اگر استغراق عرفی مراد ہو تو جس طرح محمد خارجی یا ذہنی کی صورت میں کام ہے معنی رہ جاتا ہے اور خاتم النبیین آنحضرت لی اللہ علیہ وسلم کی مخصوص فضیلت نہیں رہتی اسی طرح استفراق رقی میں بھی اشکال درپیش ہے کیونکہ اس صورت میں بھی آیت کے

Page 64

۵۵ یہی معنے ہوں گے کہ آپ بعض انبیا کے مخصوص کے خاتم ، اور آخر ہیں.اور یہ محلے سوا سکے حضرت آدم کے سب انبیاء پر صادق رختم نبوت کامل معنا انا نوٹ :.واضح رہے کہ استغراق عرفی میں معروف افراد مراد ہوتے ہیں.نه که نام افراد بین کرام با مفتی صاحب کی مندرجہ بالا دونون مبارز نو ہماری مقید سے ظاہر ہے کہ مفتی صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ کام کو خاتم النبیین کے مجازی معنوں کے ساتھ جنہیں وہ حقیقی معنے قرار دیتے ہیں ان کا الف لام تعریف استغراق حقیقی کا قرار دینے کے لئے اپنے تیں ایسا مجبور ظاہر کرتے ہیں کہ ان معنے کے ساتھ اگر استغراق حقیقی نہ مانا جائے تو کلام یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبین ہونا بالعمل صل اور بے معنی رہ جاتا ہے کیونکہ آدم علیہ سلام کے سوا ہر نبی کسی نہ کسی نی کا خاتم اور آخر ہے.اور اس طرح ہر نبی پر سوائے آدم علیہ السلام کے ان معنی میں خاتم النبیین صادق ہے.قارئین کرام با خود فرمائیں.بظاہر تو مفتی صاحب اپنے معنوں کے ساتھ الف لام استغراق حقیقی کا ظاہر کر کے آنحضرت صلی اللہ علہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب نیوں سے امتیاز اور سب نبیوں پر آپ کی مخصوص فضیلت ظاہر کرنا چاہتے ہیں مگر در پردہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی اصالتی آمد ثانی کا جواز نکالنا کی چاہتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی انتی بنی کا پیدا ہونا

Page 65

04 نا مکن دکھانا چاہتے ہیں لہذا استغراق حقیقی کے پردہ ہیں وہ در اصل اپنے اس مخصوص عقیدہ کو سہارا دینا چاہتے ہیں.ملکہ یہ سمارا بہت کمزور ہے کیونکر بنی کریم سلئے اللہ علیہ وسلم کی مخصوص فضیلت تو انبیاء پر آپ کا خاتم بالذات ہوتا ہے جس میں الف لامر استغراق حقیقی کا پایا جانا ظاہر ہے مگر چونکہ ان معنے سے اتنی بیٹی کے پیدا ہونے کا جواز کتنا تھا.اور یہ مفتی صاحب کو منظور نہیں اس لئے وہ اپنے مزعومہ معنوں کے ساتھ الف لامر استغراق حقیقی کا ثابت کرنے کے درپے ہیں.مگر وہ دوسرے اقتباس میں بتاتے صرف یہیں ہیں کہ وہ بنی کریم پہلے اللہ علیہ وسلم کی مخصوص فصیلات کی ہ خاطر الف لام استغراق حقیقی کا ماننے کے لئے مجبو رہیں حالا کے مخصوص فضیلت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی اس عالم میں نبوت حاقہ سے تقصف ہونا نہیں بلکہ اصل فضیلت خاتم بالذات ہونے میں ہے.ہاں اس عالم میں آپ نبوت تشریعیہ خاصہ کا لحد نامہ مستقل إلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لانے کی فضیلت میں بھی تمام انبیاء سے امتیاز رکھتے ہیں.خواہ وہ انکیسا سابقین ہوں یا لا حقین - جب یہ مخصوص فضیلت آپ کو حاصل ہے تو خاتم بالذات ہونا آپ کی اخص فضیلت ہوگا.پس شریعت تامہ کام منتقد إلى يوم القيامة لانا بھی آپ کی ایک ایسی فضیلت ہے جو تمام انبیاء پر آپ کی امتیازی شان کو ظاہر کرتی ہے.اس لئے تمام انبیا کے سابقین کے بالمقابل آپ استغراق عرفی یا محمد خارجی کے ساتھ بھی ایک محصور من فضیلت اور امتیاز رکھتے ہیں.اور مفتی صاحب والا اشکال اور خطرہ پیدا نہیں ہوتا

Page 66

که استغراق عرفی یا عمد خانگی کی صورت میں آدم کے سوا تمام انبیاء سے ہو خاتم النبيين باستغراق عرفی یا حمد خارجی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیان قائم نہیں رہتا.کیونکہ الف لام باستغراق حقیقی لئے بغیر بھی ان با بنیاد پر آپ کا اختیار شریعت نامرہ کا ماہ مستقل الى يوم القيامة لانے کی وجہ سے قائم رہتا ہے اور کلام معمل اور بے معنی نہیں ہو جاتا.اور چونکہ آپ تشریعیت کامل تامہ مستقلہ الی یوم القیامتہ لانے والے نبی ہیں اس لئے بعد والے انبیاء سے بھی آپ کا امتیاز قائم رہے گا.کیونکہ وہ غیر تشریعی اتنی نبی ہوں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بلحاظ شریعیت تا تمہ کا استقلہ الی یوم القیامہ لانے کے ان کے لئے آخری سندہ ہوگا جیسا کہ سپریم کورٹ اپنی اتحت عدالتوں کے لئے آخری سند کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ماتحت عدالتیں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تابع ہوتی ہیں.وہ پریم کورٹ کے کسی فیصلہ کو منسوخ نہیں کر سکتیں خواہ وہ ہائیکورٹ کی عدالت میں ہی ہوں.اب دیکھ لیجئے آنحضرت سے لے اللہ علیہ وسلم آخر النبيين بلحاظ شریعت تامہ کا مسلمہ مستقلہ الی یوم القیا منہ نہانے کے انبیاء سابقین سے بھی آخری ہیں اور بعد والوں کے لئے بھی آخری سند ہونے کے لحاظ سے آخری تشریعی نہیں اس طرح آخری تشریعی نبی کے معنوں کے ساتھ استغراق حقیقی بھی ثابت ہوجاتا ہے اور اقتی بھی کی آمد کا جواز بھی یہ بنتا ہے.مولانا محمد قاسم صاحب تحریر فرماتے ہیں :.خانم مراتب کے اوپر کوئی اور محمدہ یا مرتبہ ہوتا ہی نہیں جو ہوا ہے

Page 67

اس کے ماتحت ہوتا ہے اس لئے اس کے احکام اور وں کے احکام کے تاریخ ہوں گے اوروں کے احکام اس کے احکام کے تابع نہ ہوتے اس لئے یہ ضرور ہے کہ وہ خاتم زمانی بھی ہو کیونکہ اوپر کے حاکم پیک نوبت سب حکام با تخت کے بعد آتی ہے اس لئے اس کا حکم آخر حکم ہوتا ہے چنانچہ ظاہر ہے پارلیمنٹ تک مرافعہ کی نوبت سب ہی کے بعد آتی ہے ہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ کسی اور اپنی نے دعوای طاقیت نہ کیا.کیا تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا چنانچہ قرآن و حدیث میں یہ مضمون تفریح موجود ہے.(مباحثہ شاہجہانپور ۲۴ ۲۵ ) مولانا محمد قاسم صاحب کی اس عبارت سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ماتحت کسی نبی کا آنا جس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعیت آخری فیصلہ اور آخری محکم دسند ہو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی کے خلاف نہیں بلکہ مطابق ہے.تیز مولانا محمد قاسم صاحب تحریر فرماتے ہیں :- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام مراتب کمال اسی طرح ختم ہو گئے جیسے بادشاہ پر مراتب حکومت ختم ہو جاتے ہیں اس لئے بادشاہ کو خاتم استحکام کر سکتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الملاطین و خاتم النبیین کہہ سکتے ہیں: رحمہ اللہ ۳۵۳)

Page 68

اس عبارت سے ظاہر ہے بادشاہ یعنی خاتم الحکام کے مائت حاکموں کا ہونا بادشاہ کے خاتمہ احکام ہونے کے خلاف نہیں.پھر مولا نا محمد قاسم کیا ہے کے اس بیان سے یہ بھی ظاہر ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم صرف خاتم النبیین ہی نہیں بلکہ خاتم الکاملین بھی ہیں.پس جس طرح خاتم الکاملین کے وست کے فیض سے کامل لوگ امت میں پیدا ہو سکتے ہیں اسی طرح قائم نیستین کے وصف کے فیض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں غیر تشریعی امتی نبی بھی پیدا ہو سکتے ہیں.ہاں جس طرح خاتم انکا ملین ہونے کی وجہ سے ان سب کا ملوں سے جو آپ کے فیمن سے پیدا ہوں آپ انتہائی کمال پر پہنچے ہوئے قرار پاتے ہیں.اسی طرح آپ کے وصفت خاتم النبین کے فیض سے اتنی نبی پیدا ہونے پر آپ اپنی نبوت میں انتہائی کمال پر پہنچے ہوئے قرار پاتے ہیں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شریعیت نامه کامله مستقله الی یوم القیامہ لانے کی وجہ سے سب پہلے پہیوں اور کھلنے نہیوں کے مقابلہ میں آخری تشریعی نبی قرار پاتے ہیں.پہلوں سے آخری تو ظاہر ہے پچھلوں سے آخری لحاظ شریعیت مستقلہ ان کے لئے آخری سند ہونے کی وجہ سے ہیں.اس طرح النبیین کا الف لام خاتم النبین کے معنی آخر النبیین لے کر بھی استغراق حقیقی کا رہتا ہے اور یہ معنی خاتمیت مرتبی کے اور عالیت زمانی کے بھی خلاف قرار نہیں پاتے.لیکن مفتی محمد شفیع صاحب کے عقید کے مطابق کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ کم

Page 69

خاتم النبتين ممن و صنعت نوبت پاتے ہیں آخری مفتی صاد کے معنوں سلام ڈبل بنی ہونے کے لحاظ سے ہیں جب حضرت لیے علیہ السلام با لفرض آئیں تو چونکہ ان ت على علا بی علیان بن بن جاتے ہیں کے نزدیک حضرت عیسی علیہ اسلام کے بعد قیامت تک کوئی اور بنی نہیں آئے گا.اس لئے حضرت علی علیہ اسلام على الاخلاق اثر النبيين بالف لام استغراق حقیقی بن کر خاتم النبيين حقیقی بن جاتے ہیں.کیونکہ ان کے نزدیک خاتم المقوم کا محاورہ قوم کا آخر فرد خاتمہ کے حقیقی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اسی محاورہ کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حقیقی معنوں میں آخر النبین ہیں.پھر حضرت عیسے عدیلہ اسلام حضن آخر النبتين على الاطلاق باستغراق حقیقی بن کر صرت حقیقی خاتم النبیین ہی قرار نہیں پاتے ملکر دہ ڈیل حقیقی خاتم النبین بن جاتے ہیں.کیونکہ مفتی صاحب نے آدم علیہ السلام کے علاوہ ہر بھی کو پہلے آنے والے کے مقابلہ میں آخر قرار دے کر ان پرخاتم النبین کا صادق آنا تحریر کیا ہے.پس حضرت کیلئے علیہ السلام اپنے سے پے تمام نبیوں سے آخر میں آنے کی وجہ سے مفتی صاحب کے نزدیک حقیقی اتم النبتين بمعنى آخر البيتين باستغراق عرفی : الف لام عهد خارجی تھے تو نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آگرا فرانسین علی الاطلاق باستغراق حقیقی ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بامتناہی ڈیل حقیقی خاتم النبین بن جائیں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسر مفتی منا سے

Page 70

کے عقیدہ کے رو سے محض ایک مدرد اور تیکہ سورت میں خاتم النبیین قرا پائیں گے نہ کہ علی الاطلاق حقیقی خاتم النبيين معنى آخر النبيين بالف لام استغراق حقیقی.چونکہ مفتی صاحب کے نزدیک خاتم کے حقیقی معنی صرف H آخری ہیں لہذا حضرت نیلئے علیہ اسلام دو دو حقیقی معنوںمیں خاتم الانتين بن جائیں گے یہ نتیجہ ہے مفتی صاحب کے معنی کو حقیقی تسلیم کرنے کا اور جان بالذات مرتب کے معنوں سے انکار کا.پہنچ ہے.ہے خشت اول چوں نہر معمار کو کچ تا ثریا می رود دیوار کی سے اب ہم دیکھیں گے کہ مفتی صاحب اپنے مسلک پر قائم رہ کر اس اشکال کا کیا جواب دیتے ہیں ؟ جہ اُٹھے گا نہ تلوار اُن سے یہ بارہ وہ میرے آزمائے ہوئے ہیں مفتی صاحب ہمیں الزامی جواب دینے کی کوشش نہ کریں.کیونکہ ہم خاتم النبیین کے حقیقی معنی خانہ بالذات مرتبی مانتے ہیں.اور خانیت زمانی کو آخری تشریعی نبی الی یوم القیامہ کے منوں کو ان مدنی کا لازم المعنی تسلیم کرتے ہیں.ہماری تحقیق میں محض احر التهين خاتم النبین کے حقیقی معنی نہیں.بلکہ تمہاری معنی ہیں.اس لئے ہمارے نزدیک آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والا آخری نبی حقیقی خاتم النبین نہیں قرار پاتا ہے ہمارے نزدیک خاصیت بالذات مرضی کے معنوں کو جو خا نیست زمانی لازم

Page 71

۶۲ اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم آخری شره معیت منقطه لانے والے نبی ہیں جو تا قیامت جاری رہے گی.کارش مفتی محمد شفیع صاحب نے مفردات القرآن کو جو قرآن مجید کی مستند گفت ہے اچھی طرح پڑھ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہو رہا تا کہ ختم کے مصدری معنی تاثیر الٹی اور اس کا اثر حاصل ہی ہیں اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ان معنوں میں قرار پاتے ہیں کہ آپ انبیاء کے ظہور میں بطور سبب و علت ایک موثر واسطہ ہیں.اور تمام انبیاء کی نبوتیں آپ کی خاتم روحانی کا اثر حاصل ہیں.مفردات القرآن کے مطالعہ سے آپ کو بھی معلوم ہو جاتا کہ شہر کے ذریعہ بند کرنا اور آخر کو پہنچنا عربی زبان میں لفظ ختم کے مجازی معنی ہیں نہ کہ حقیقی معنی.ہم مغرمات کی عبارت قبل از میں پیشین کر چکے ہیں اس کے اعادہ کی اس جیگہ ضرورت نہیں.خاتم کا استعمال محش آخری کے معنوں میں مجازی استعمال ہے لہذا خاتم القوم کے معنی آخر القوم بھی خاتم کے حقیقی معنی نہیں بلکہ مجازی معنی ہیں.معن آخر النبیین کو خا تم النبی کی حقیقی معنے قرار دینے کا نتیجہ اب مفتی صاحب کے سامنے ہے کہ ان معنے کے لحاظ سے ان کے عقائد کے مطابق ان کی نادانستگی میں حضرت عیسی علیہ السلام آخر النبتين على الاطلاق باستغراق حقیقی قرار پا کر مفتی صاحب کے مرحوم محقیقی معنی میں قیمتی خاتم النبین بن رہے ہیں او آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے وصف غانم البسی کی چھین لینے والا قرار پا رہے ہیں.مفتی صاحب سے تین اہم سوال :.پھلا سوال ایمفتی صاحب نے

Page 72

خاتم النبیین کے معنے شئی کو بند کرنے والی شہر لے کر اس کا مفہوم بنایا ہے کہ ڈر کے اندر کوئی چیز باہر سے واصل نہیں ہوسکتی.لیکن آپ نے یہ نہ سوچا کہ شہر سے جو چیزیں بند کر دی جائیں ان میں سے کوئی چیز ٹھر توڑے بغیر باہر بھی نہیں نکل سکتی.جب خاتم النبیین کی مہر نے سب انبیاء سابقین کو بند کر دیا تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت میلے علیہ السلام مر توڑے بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کیسے آسکتے ہیں ؟ چونکہ ٹر ٹوٹنے سے ختم نبوت با اطل ہوتی ہے اس لئے حضرت عیلئے علیہ السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنا محال قرار پاتا ہے اس سوال کا مفتی صاحب کے پاس کیا جواب ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ الغرض حضرت علی سے علیہ اسلام کسی طرح کمر توڑے بغیر کراماتی اور معجزانہ طور پر یا ہر آنھا ئیں تو باہر سے کراماتی اور مجھولانہ طور پر کیوں کوئی بینی اندر داخل نہیں ہو سکتا ؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر حضرت میلے علیہ السلام مہر توڑے بغیر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد آجائیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی نبوت مستقلہ تشریعیہ کے ساتھ آئیں گے.اور اپنی شریعیت کی طرحت دنیا کو دعوت دیں گے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہو کر آئیں گے اور نبی ہی ہوں گے اور شریعت اسلامیہ پر خود بھی عمل کریں گے اور لوگوں کو بھی اسی طرف دعوت دیں گئے.پہلی بات کا تو مفتی صاحب انکار کریں گے وہ صرف اسی صورت میں ان کا آنا قرار دے سکتے ہیں کہ دھرنی ہی ہوں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 73

۶۴ کے امتی بھی.لیکن یہ صورت ہو تو پھر ان کی مستقلہ اور تشریعیہ خوت میں تغیر آجائے گا.اور ایک نئی قسم کی نبوت ان کے ذریعہ حادث ہو جائیگی جس کا حامل، ایک پہلو سے نہی ہوگا اور ایک پہلو سے امتی.لہذا اس نئی قسم ثبوت کا صدرت کیوں کہ ہو سکتا ہے.مفتی صاحب کے خاتم النبیین کے یہ معنی حدیث میں لوک ہو سکتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وصفت نبوت پانے میں سب سے آخری ہیں لیکن حضرت میسے علیہ السلام کے دوسری بار آنے سے وہ ایک نئی قسم کی نبوت کے وصف سے متصف ہو جائیں گے ، اس مینی مفتی صاحب کے یعنی باطل ہو گئے کہ بنی کریم صلے اللہ علیہ وسلم وصف نبوت پانے میں آخری نبی ہیں.اگر مفتی صاحب خاتم النبین کے لازم المعنی آخری مبنی بلحاظ شریعت تامہ کا ملہ مستقلہ الی یوم القیامہ قرار دیتے تو پھر ان کی ساری مشکلات حل ہو جائیں.کیونکہ اگر بالفرض حضرت میلے زندہ ہوتے تو امتی نبی کی صورت میں آسکتے تھے.اور اگر وہ وفات پاچکے ہوں جیسا کہ وہ در حقیقت وفات پاچکے ہیں تو امتی کے لئے نبوت پانے کا دروازہ کھلا رہتا ہے اس طرح کہ وہ ایک پہلو سے نہی ہو اور دوسرے پہلو سے اتنی بھی.اور وہ نزول مسیح کی پینگوئی کا ہی بروزی طور پر مسلمان ہو.مفتی صاحب سے مل کر یہ بنا یہ مفتی صاحب لکھتے ہیں ان یا در ہے کہ اس رسالہ میں ہی ہے کہیں ہم نے تشریعی نبی اور غیر تشریعی نبی کے الفاظ لکھے ہیں.ان سے مراد یہ ہے کہ شریعیت مدیدہ لائے ہوں یا پہلی ہی +

Page 74

۶۵ கூடு شریعیت کے متبع ہوں، ورنہ انبیاء سب کے سب تشریحی نہیں اور شریعت نازمہ نبوت ہے مرزا صاحب نے جس کا نامہ غیر تشریعی نبوت رکھتا ہے وہ نبوت کی کوئی قسم ہی نہیں ہے رختم نبوت کامل مشت جناب مفتی صاحب! اگر آپ کی یہ بات درست ہے تو پھر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے خلاف آپ نے ختم نبوت کامل ۳۰۰ صفحات کی کتاب لکھنے کی کیوں رحمت گوارا کی.اور کیوں آپ ان کی تکفیر کے درپے ہیں.آپ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ جس امر کا نام حضرت باقی تسلسلہ احمد علیہ السلام غیر تشریعی نبوت رکھتے ہیں وہ آپ کے نزدیک نبوت کی کوئی قسم ہی نہیں جب یہ بات ہے تو پھر آپ کو حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ علیہ اسلام کو ختم نبوت کا منکر قرار دینے کا کیا حق ہے ؟ مفتی صاحب کو چاہیے کہ صاف اعلان کر دیں کہ حضرت بانی تسلسلہ احمدیہ کو ان کی اصطلاح شہوت کے مطابق ہوت کا کوئی دعوی نہیں لہذا ان کی تکفیر جائز نہیں اس سے احتراز کیا جائے.پس اگر پہلے مفتی صاحب سے بھول ہو گئی ہے تو اب ایسا اعلان کریں اور ایک مسلمان کی تکفیر سے باز آجائیں.کیونکہ حضرت ابن نظر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا.ايما رجل مسلم أكْفَرَ رَجُلًا مُسْلِمًا فَإِنْ كَانَ كَافِرادَ إِلا كَانَ هُوَ الْكَافِر را بود او د باب الدليل على الزيادة والنقصان كتاب السنة جو شخص کسی مسلمان کو کافر قرار دے اگر وہ کا فر ہے تو خیر دیرنہ وہ خود کافر ہو جائیگا.

Page 75

44 پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید شدید سے خوف کھا نہیں اور اللہ تعالے کے حضور استغفار و توبہ کریں.مفتی مناسکی پیش کردہ نظائر مفتی صاحب نے خاتم النبین کے منی بیف پوست سے متصف ہونے میں آخری نبی متعلق معنی خاتم النبین بات کرنے کے لئے بعض املہ اور نظائر ہمیش کی ہیں.وہ لکھتے ہیں..ه آخر انا ولاد یا خاتم الاولاد تو باتفاق عربیت و اجماع مقلاد و نیا اس کے بیہی معنے سمجھے جاتے ہیں کہ یہ بچہ سب سے آخر میں پیدا ہوتات رختم نبوت کامل مالت ٹھیک ہے مگر خاتم الاولاد کا یہ استعمال مجازی ہے اور مقدار کو ایسا ہی سمجھنا چاہیئے.لیکن اگر آخری بچہ وفات پا جائے تو پھر اس سے پنچا اگر زندہ ہو تو وہ سب بچوں سے آخری قرانہ پا جاتا ہے.اس طرح اگر حضرت علی علی السلام زندہ ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات پا جانے کے بعد وہ آخر النبین قرار پا جاتے ہیں.کیوں مفتی صاحب ! ہماری یہ بات ٹھیک ہے یا نہیں سوچا کہ جواب دیں.پھر سنتی صاحب لکھتے ہیں :.خاتم المها بین ترکسی عقلمند انسان کے نزدیک اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ پہلے تمام مہا بین مر سکے.ختم نبوت کامل مش۱۳) آگے لکھتے ہیں :-

Page 76

اسی طرح آخر الجانسین - آخر الرا ملین - آخر الراكبين آخر القادمين آخر الفاتحین آخرا المساجد وغیرہ کلمات میں کسی کو یہ وہم بھی نہیں گزرتا که جو لوگ وصف مضاف الیہ کے ساتھ متصف ہو چکے ہیں وہ آخرا در خاتم کے آئنے سے قبل لقمہ اجل بن گئے.ملیکہ ان سب کلمات اور ان کی امثال میں ہمیشہ آئندہ کے لئے صیف مضاف الیہ کا انقطاع مراد ہے.رختم نبوت کامل (111) اس کے بعد مفتی صاحب نتیجہ نکالتے ہوئے لکھتے ہیں:.پھر ختم نبوت اور خاتم النبین میں ہی نہ معلوم کسی را از کی بنیاد پر یہ معنی لئے جاتے ہیں اور خواہ مخواہ اس کو حیات پہلے علیہ السلام کا مخالف بتایا جاتا ہے" (ختم بنوتت کامل ) جناب مفتی صاحب پر واضح ہو کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ آخرالیا اسیں.الجواب آخر الراحلين - آخر الراکبین - آخر الذا جبین آخر انقاد میں کی آخرالذا انفارمیں مثالوں میں سے کسی کو یہ شک نہیں گزرتا کہ وصف مضاف الیہ سے متصف سب پہلے لوگ لقمہ اجل بن گئے.مگر آپ نے غور نہیں فرمایا کہ ان مثالوں میں مضاف الیہ گروہوں کا سلسلہ کسی لمبے اور غیر معمولی زمانہ اور صدیوں پر مند نہیں.لیکن آخر انہین کا زمانہ چونکہ اتنا رائے آدم علیہ السلام تا ظور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منہ ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء میں سے کسی کے زندہ رہنے کا ثبوت ان محمود زمانہ سے تعلق رکھنے والی مشانوں سے حاصل نہیں کیا جاسکتا.امرا مفتی صاحب

Page 77

YA کی پیش کردہ یہ مثالیں حیات مسیح علیہ السلام کے ثبوت میں ان کے لئے سہارا نہیں بن سکتیں پس ان کا اس وقت تک زندہ ہونا جس طرح قرآن مجید کی دیگر آپ کے خلاف ہے دیسے ہی ان کا زندہ رہنا اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد مبعوث ہونا آیت خاتم النبیین کے صریح خلاف ہے خواہ خاتم النبیین کے معنی علی الاطلاق آخر النبین لئے جائیں.خواہ بقول مفتی صاحب منصب نبوت پالنے میں آخر البس تین اور خواہ امام علی القاری غیره علماء کے نقطہ نگاہ کے مطابق تشریعی اور مستقل انبیاء میں سے آخری بنی سمجھے جائیں.قرآن مجید نے تو سورہ آل عمران کی آیت دما محمد إِلَّا رَسُول قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ تَاتَ او قتل القلم على أعقاب كم میں مات فیصلہ فرما دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تمام رسول اس جہان سے گذر چکے ہیں.طبعی موت سے یا مقتول ہو کہ جب قرینہ انسان مات أن قيد التحقیق سے معلوم ہوتا ہے حضرت علی علیہ السلام حب آیت مَا قَتَلُوه يقينا بذریعہ قتل اس جہان سے نہیں گری ہے.لہذا ان کا طبعی موت سے گزرنا متعین ہو گیا.اور آیت بَل رفعه الله السہ میں ان کی باعزت موت طبعی کے علاوہ ان کے لئے بلند مدارج پانا بھی مذکور ہے کیونکہ رفع الی الله على وجه الكمال بعد از وفات مدارج عالیہ پالنے سے حاصل ہوتا ہے.یہ ہے وہ رانہ جس سے ظاہر ہے کہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 78

14 ظہور سے پہلے کا کوئی نبی زندہ نہیں.لندا تحضرت عیسی علیہ السلام کا آ غضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد آنا ان امثلہ کے مخالف ہے.ماسوا اس کے خدا تعالے کی سنت جاریہ یہ ہے کہ وہ تشریعی نبی بھیجتا ہی اس وقت رہا ہے.جبکہ پہلا تشریعی نبی وفات پا چکا ہوا ہو.چونکہ سنتی صاحب کے نزدیک حضرت جیسے علیہ السلام تشریعی نبی تھے.اس لئے آغضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے ان کا وفات پا جانا یقینی امر تھا.آیت قرآنیہ كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَعَنِى كُنتَ أنتَ الرقيب عَلَيْم اسی امر پر شاہد ناطق ہے کہ حضرت عیسی علیہ اسلام اپنی قوم کے بگڑنے سے پہلے وفات پاچکے ہیں.اور تا قیامت قوم کے بگاڑ کے متعلق وہ عینی شاہے نہیں ہوں گے.لہذا نہ وہ زندہ ہیں نہ انہوں نے قیامت سے پہلے اپنی قوم میں آتا ہے.ان کی قوم چونکہ نزول قرآن سے پہلے گذر چکی اس لئے خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زبانی ان کے دوبارہ مبعوث ہونے میں صریح ارک ہے.اس راز کی وجہ سے مفتی صاحب کو ہمارے سامنے اپنی یہ مثالیں پیش کرنے کا کوئی حق نہیں.علاوہ ازیں یہ سب مثالیں آخر المجالسین وغیرہ جو قبل ازیں مذکور میں اگر خاتم الجالسین وغیرہ کا ترجمہ ہوں تو پھر یہ کہ خاتم کا مجازی معنوں میں ہوگا.کیونکہ آخر کو پہچنا خاتم کے مجازی معنی ہیں حقیقی مصدری معنی خاتم کے موثر ذریعہ ہیں.ہم آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو چونکہ ان حقیقی معنوں

Page 79

میں نہیں خاتم النبین مانتے ہیں اور آخری شارع بنی ہونے کو اس کا لازم المعنی جانتے ہیں.اس لئے خاتم النبین کو تو ان دو معنوں مشتمل ہے ہم ایک ہی منے رکھنے والی اور مجازی معنیٰ میں استعمال ہونے والی مثالوں پر قیاس نہیں کر سکتے.آیت قرآئنیہ خاتم النبین کا سیمان آپ کو ابو الا نبیاء قرار دیتا ہے او رافت غربی ان معنی کی مؤید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کے ظہور میں بطور علت موثر ذریعہ ہیں مفتی صاحب کی پیشی کردو مثالوں میں خاتم کے موثر ذریعہ ہونے کے معنی نہیں لگ سکتے.لہذا خاتم النبین کا ان امثلہ پر قیاس نہیں ہو سکتا.یہ قیاس اس لئے بھی قیاس مع الفارق ہے کہ اوپر کی مثالوں میں مضاف الیہ گروہ سوائے خاتم المساجد کے ایسے افعال پر مشتمل ہے جو کوئی دائی دوست نہیں.چنانچہ فعل معلو - رحلت کوب - ذاب ، قدوم کے محض وقتی اور عارضی افعالی ہیں.اور خاتم النبیین میں نبوت کا وصف دوام رکھتا ہے.لہذا ان عارضی اور دقتی افعال پر یشتمل امثلہ پر خاتم النبین کا قیاس نہیں کیا جا سکتا.ماسوا اس کے ان امثلہ میں مضاف الیہ گروہ کا الفت نام صد خارجی یا استغراق عرفی کا ہے لیکن خاتم البين کا العث قام بالحاظ ابو الا نبیاء ہونے کے استغراق حقیقی کا ہے.یہ بات می دوسری باتوں کے ساتھ مل کر خاتم النبین کا ان مثالوں پر قیاس کرنے میں مانع ہے.خاتم الفاتحین کی مثال اگر غیر معمولی لیے زمانہ سے تعلق رکھتی ہو تو اس پر

Page 80

بھی خاتم النبیین کا قیاس نہیں ہوسکتا.کیونکہ خاتم الفاتحین کا مفہوم ابوالفاتحین نہیں ہے اور خاتم النبین بلحاظ سیاق آیت ابو الانبیاء کے مظوم مشتمل ہے.اب رہ گیا خاتم المہاجرین اور خاتم المساعد والی حدیثوں میں خاتم البيتين کا استعمال سو اس کی وضاحت اور تشریح ذیل میں درج ہے.خاتم المہا جرین والی حضرت عباسی سے متعلق حدیث نبوی المهاجرین حد اطْمَعَنَ يَا عَةِ فَإِنَّكَ عام المادين حدیث کی مصاحت فِي الهِجْرَة كَمَا أَنَا مَا فَعَ النَّبِيِّينَ آنَاهَا في التبوية ركنز العمال جلدي مشكلة کہ اسے چاہا آپ مطمئن ہو جائیں آپ ہجرت جاریہ از مکہ کے آخری جابر ہیں میں طرح میں نبوة تجاریہ کا آخری بنی ہوں.اس حدیث میں ہے تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خانیت زمانی سے حضرت عباس کی خاتمیت ہجرت کو تشبیہ دی ہے.لیکن حضرت عبائی کے خاتم المہا جرین ہونے سے یہ مراد ہے کہ وہ مکہ سے مدینہ والی ہجرت جاریہ کے لحاظ سے آخری فرد ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آدم علیہ اسلام سے اس وقت ناک کی نبوت جاریہ تشریعیہ و مستقلہ کے لحاظ سے آخری فرد نہیں.اس حدیث کے رو سے حضرت عباس کو خاتم المہاجرین قرار دینے سے آئندہ شرعی ہجرت کا دروازہ بند نہیں ہوا.صرف مکہ سے مدینہ کی طرفت بیرت بند ہوئی ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری تشریعی دوستقل نہی ہونے کی وجہ سے صرف تشریعی اور مستقلہ نبوت منقطع ہوئی ہے کہ غیر تشریعی

Page 81

اصلی نبوت.چنا نچہ دیکھ لیجئے ہجرت مکہ کے بعد مہندی مسلمانوں کو تند سنتان سے ہجرت کرنا پڑی ہے اور فلسطینی مسلمانوں کو فلسطین سے ہجرت کرنا پڑی ہے اور خود مفتی محمد شفیع صاحب ہندوستان سے مباہلہ ہو کہ پاکستان میں دارد ہوئے تھے.اس خاتم المہاجرین کے ساتھ فی المجرة کے الفاظ اور خاتم النبین کے ساتھ فی الشہوت کے الفاظ ہجرت مخصوصہ اور بوت مخصوصہ کے انقطاع کے لئے قوی ترمینہ ہیں.اس سے ہجرت مطلقہ اور نبوت مطلقہ کا جواز قائم رہتا ہے.دھمذا هو المراهرة جناب مفتی صاحب پر واضح ہو کہ بے شک مجید خاتم المساجد کے مینی ہوئی خاتم المساجد یا آخر المساجد ہے.مگر یہ نئے طریق عبادت کے لحاظ سے سب مساجد سے آخری ہے اور اس کے بعد کسی نئے طریق عبادت کے لئے کسی مسجد کا بنانا نا جائز ہے نہ کہ ایسی مساجد کا بنانا بھی نا جائز ہے جن میں مسجد بلبری والا طریق عبادت جاری ہو.میں مسجد نبوی آخر المساجد ان معنوں میں نہیں کہ اس کے بعد اسلامی طریق عبادت کے لئے کسی مسجد کا بنانا جائز نہیں.لہذا تمام مساجد جو اس کے بعد اسلامی طریق عیادت کے لئے بنائی گئی ہیں وہ مسجد نبوی کا خلق ہیں.اسی طرح خاتم النبین کے بعد مطلق نبوت منقطع نہیں ہوئی بلکہ صرف تشریعی اور مستقلہ نبوت منقطع ہوتی ہے نہ کہ غیر تشریعی منی نبوست یا بالفاظ دیگر علی نبوت چنانچو شیخ اکبر حضرت تھی الدین ابن عربی اور امام شعرانی لکھتے ہیں:- فما ارتفعت الشبوة بالكلية ويهد اللنَا إِنَّمَا

Page 82

۷۳ P افتوحات مکیہ جلد ۲ باب ۷۳ سوال ۱۵ (۲۲) ترجمہ :.نبوت کلی طور پر بند نہیں ہوئی.اس لئے ہم نے کہا صرف تشریعی نبوت مند ہوتی ہے یہی معنی لا نبی بعد کا کے ہیں.اور امام شعرانی علیہ رحمہ لکھتے ہیں :- اعلم ان مطلق النبوة لم ترتفع وَإِنَّمَا ارتفعت نبرة التشنيع - والیواقیت والجواہر علیه ۲ ) جان لو کہ مطلق نبوت بند نہیں ہوئی صرف تشریعی نبوت بند ہوتی ہے.پس مسجد نبوی کے خاتم المساجد ہونے سے مسجدوں کا علی الاطلاق عدم جواز مراد نہیں.بے شک اس سے پہلی مسجدوں کا تباہ ہو جانا مراد نہیں لیکن یہ ضرور ہے پہلی مساجد جن میں طریق عبادت اسلامی طریق سے مختلف تھا وہ عبادت کی مقبولیت کے لحاظ سے کالعدم ہو گئی ہیں.حدیث نبوی خاتم مساجد الفتی صاحب نے اس کی خاتم المساجد تشریح اس جگہ کی الانبیاء کی تشریح سے متعلق ہمارے استدلال کو ناقص طور پر کی یہ حدیث پیش کی ہے.پیش کر سکے یہ تم خود اس کی تردید یں کنز العمال الى خَاتَمُ الأَنْبِيَاء وَمَسْجِدِى خَاتَم مَسَاجِدِ الأنبياء مفتی صاحب اس حدیث کا ماحصل یہ بتاتے ہیں کہ :.

Page 83

۷۴ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا اور نہ کسی بنی کی اور مسجد بنے گی : رختم نبوت کامل ۳ ، پھر بڑی تحلی سے لکھتے ہیں:.مرزائی دنیا میں صحیح مسلم کے الفاظ دیکھ کر بڑی خوشیاں منائی جاتی ہیں......کیونکہ خاتم المساجد کے معنی بالاتفاق نہیں ہو سکتے کہ آپ کے بعد کوئی مسجد نہیں بنے گی کیونکہ یہ واقعات کے خلاف ہے.اسی طرح قائم الاخیار کے معنی لیکن یہ نہیں ہوں گے کہ کہ آیت کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا.لیکن دیمی این نجار اور بزاز کے حوالہ سے حضرت عائشہ کی جو حد میں ابھی پیش کی گئی ہے کہ خاتم المساجد کے معنی ماتم مساجد ان بنیاد ہیں اس نے ان کے قائم نلسو ہے خاک میں ملا دیتے ہیں.رختم نبوت کامل د۳۵) مفق صاحب پر واضح رہے کہ یہ حدیث ہمارے مسلک اور موقف کے الجواب خلاف نہیں بلکہ ہمارے ملک اور موقف کی پوری وضاحت کر رہی ہے لہذا اس کے پیش کرنے پر ہم مفتی صاحب کے شکر گزار ہیں.اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کو اپنے سے پہلے گذرے ہوئے تمام انبیاء کی مساجد سے آخری مسجد قرار دیا ہے اور مسجد نبوی کو آخری مسجد قرار دینے کا مفہوم یہ ہے کہ اب کسی نبی کے ذریعہ سے لئے طریق عبادت کے لئے کوئی مسجد تا قیامت نہیں بن سکتی بلکہ مسجد نبوی کے بعد جو مسجد یا میشائی جا سکتی ہیں وہ مسجد نبوی کے طریق عبادت کو اختیار کرنے کے لئے بنائی جائیں

Page 84

تو ان کا بنا نا جائز ہوگا.کیونکہ وہ سب ساتید مجد نبوی کا خلق ہوں گی.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم المساجد کے تقابل میں خاتم الا نبیند قرار دینے کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نئی شریعت مائے والے بنی ہیں ان کے بعد کوئی نئی شریعیت لانے والا نہیں نہیں آسکتا جو آئیگا وہ آپ کا اتنی ہونے کی وجہ سے آپ کا حل ہو گا.اور آپ کی تشریعیت کے تابع ہوگا.پس جس طرح مسجد نبوی کے بعد اس کی طل مساجد کا بنانا جائز ہے اسی طرح خاتم الانبیاء کے بعد فعلی نبی کا آنا منقطع نہیں.آئندہ جو مسجد بنانا جائز ہوگی وہ وہی ہوگی جو مسجد نبوی کے طریق عبادت کے لئے بنائی گئی ہو خواہ اس کا بنانے والا کوئی اتنی نہی ہو یا اس کے بنانے والے عامر متی افراد ہوں.اب مفتی صاحب غور فرما لیں اُن کی تعلی خاک میں مل گئی ہے یا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت مسیح موعود الاسلام عند الله میں لکھا ہے :- دو عبارتوں میں تطبیق اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنا یا بینی آپ کو نافہ کمال کے لئے گروی ہو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبین ٹھہرا.یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوست بخشی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی نمائش ہے.(حقیقۃ الوحی حاشیہ ملت) نیز تعریہ فرماتے ہیں:.ایک وہی ہے جس کی حر سے ایسی نبوت بجو مل سکتی ہے جس کے

Page 85

لئے امتی ہونا لازمی ہے کہ (حقیقۃ الوحی شل) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ بیان مولانا محمد قاسم صاحب کے اس بیان کے مطابق ہے جس میں خاتم النبین کے معنی خاتمہ بالذات لے کر اس کا اثر یہ بتایا گیا ہے کہ تمام انبیاء کی تو میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا فیض ہیں.اور یہ بھی لکھا ہے کہ بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی مسلے اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی نیا قیمت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا یہ ر تحذیر الناس وخت بلحاظ ایڈیشن مختلفه) اسی طرح حقیقۃ الوحی کے لکھنے سے سات سال پہلے آپ نے اشتہار ایک خلفی کا ازالہ میں آیت خاتم النبیین کے معنی میں لکھا:.ليس له ابا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِ الدُّنْيَا وَلكن الحمل هو اب رِجَالِ الْآخِرَةِ وَلا سَبِيلَ إِلى فُيُؤْمِ اللهِ مِنْ غَيْرِ تَوسطه.یعنی محمد صلے اللہ علیہ وسلم دنیا کے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ آخرت کے مردوں کے باپ ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فیوض حاصل کرنے کے لئے آپ کے توسط کے بغیر کوئی راہ نہیں.یہ بیان بھی حقیقۃ الوحی کے مندرجہ بالا بیان کے مطابق ہے کیونکہ اس میں ہر فیض خاتم النبیین کے واسطہ سے ملنے کا بیان ہے.بچون کو سلاتی صبا دینے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا خو مال نہیں کیا اور ادھر ادھر

Page 86

22 سے دوسرے لوگوں کی کتابوں میں مذکور اقتباسات سے کام عید یا ہے اس لئے انہیں یہ معلوم نہیں کہ کونسی کتاب پہلے کی ہے اور کونسی بعد کی.چنانچہ وہ اشتہار ایک غلطی کا ازالہ کی ڈیل کی عبارت درج کرتے ہیں:.لیکن اگر کوئی شخص اس خاتم اللبین میں ایسا گم ہو کہ باعث نهایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پا لیا ہو اسی کا نام با لیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مر توڑنے کے نی کہ سلائے گا کیونکہ وہ محمد ہے گوشتی طور پر.پس با وجود اس شخص کے دعوی نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا پھر بھی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم اللبی ہی رہا کیونکہ محمد ثانی اسی محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی تصویر اور اسی کا نام ہے اور اس پر مفتی صاحب لکھتے ہیں :.پر اشتہار ایک فلسطی کا ازالہ کی نئی تحقیق پر کسی شخص کا دعونی نبوت خاتم النبین کی کمر توڑنے کے متراد تسلیم کیا گیا ہے.یعنی خاتم النبین کے دہی معنے لئے گئے ہو تمام امت نے لئے ہیں لیکن نبی اپنے کے شوق کو تناسخ اور حلول کے ہندوانہ عقیدہ کی پناہ لے کہ پورا کیا جارہا ہے کہ جو شخص بر و زین جائے وہ عین محمد رسصلی اللہ علیہ وسلم ہے اس کے آنے سے خاتم النبین کی مر نہیں ٹوٹتی کیونکہ اس کا آٹا آپ کے سوا کسی اور بنی کا آنا نہیں خود آپ میں کیا آتا ہے اب پہلے تو مرزا صاحب اور ان کی امت سے پوچھٹے کہ ان

Page 87

دونوں باتوں میں سے کونسی صحیح اور کونسی غلط ہے اور خاتم النبین کے معنی حقیقۃ الوحی کے بیان کے مطابق یہ ہیں کہ آپ کی مرے انبیاء بنتے ہیں.یا غلطی کے ازالہ کی تحریر کے مطابق یہ ہیں کہ آپ پر نبوت ختم ہو چکی ہے مگر خود آپ کا دنیا میں دوبارہ آتا اس کے کو کامل اس کے منافی نہیں رختم نبوت کامل خنت اے اے) مفتی صاحب اشتہار ایک غلطی کے ازالہ کو نئی تحقیق قرار دے الجواب رہے ہیں.حالا کو حقیقت الوحی اس سے کئی سال بعد کی تصنیف ہے یہ تو ہے حضرت سیح موعود علیہ السلام کی تصانیف کے متعلق مفتی صاحب اب ان کے سوال کا جواب ملاحظہ ہو.اگر مفتی صاحب نے حقیقۃ الو کو خود پڑھا ہوتا اور اوپر کی عبارتیں کسی جگہ سے نقل نہ کی ہوتیں تو انہیں معلوم ہوتا کہ ان کے پیش کردہ حقیقۃ الوحی عشا کی عبادت کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جگہ وہ بات بھی لکھی ہے جو اشتہانہ ایک فلسفی کے ازالہ سے مفتی صاحب نے پیش کی ہے.چنانچہ آپ حقیقۃ الوحی میں آگئے تحریر فرماتے ہیں:.اس کی ہمت اور ہمدردی نے امت کو ناقص حالت پر چھوڑنا نہیں چاہا.اور ان پر ترکی کو دروازہ جو حصول معرفت کی اصل پیڑھ ہے بندر بنا گوارا نہیں کیا.ہاں اپنی ختم رسالت کا نشان قائم رکھنے کے لئے یہ چاہا کہ فیض وھی آپ کی پیردی کے رسیا ہے

Page 88

69 ملے اور جو شخص اتنی نہ ہو.اس پر وحی الہی کا دروازہ بند ہو ئیو خدا نے ان معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا.لہذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص بھی پیروی سے اپنا امتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجود محونہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پا سکتا ہے اور نہ کامل علیم ہو سکتا ہے کیونکہ مستقل نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی ہے.مگر فضلی نبوت نہیں کے معنی میں نیین محمدی سے وحی پانا وہ قیامت تک باقی رہے گی.تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بند نہ ہو.تا یہ نشان دنیا سے مٹ نہ جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت نے قیامت تک یہی چاہتا ہے کہ مکالمات اور مخاطبات الہیہ کے دروازے کھلے ہیں اور معرفت النيه جو مدار نجات ہے مفقود نہ ہو جائے.کسی حدیث نیچ سے اس بات کا پتہ نہیں ملے گا کہ آنحضرت صل للہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی آنے والا ہے جو امتی نہیں بینی آپ کی پیروی سے فیضیاب نہیں.(حقیقۃ الوحی مش۲) پھر ملے پر لکھتے ہیں :- ہی کوئی عقل تجویز کر سکتی ہے کہ اسلام کے لئے یہ مصیبت کا دن بھی باقی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی الیسانی بھی آئے کہا کہ جو ستفضل بنبوت کی وجہ سے آپ کی ختم نبوت

Page 89

Ax اور کی کہ کو تو نا دے گا.اور آپ کی تحصیلت خاتم الا نبیاء ہونے کی چھین لے گا.اور آپ کی پیروی سے نہیں بلکہ براہ راست مقام نبوت کامل رکھنا ہوگا.اور اس کی عملی حالتیں شریعت محمدیہ کے مخالف ہونگی اور قرآن شریف کی صریح مخالفت کر کے لوگوں کو فلسفہ میں ڈالیگا اور اسلام کی تنگ ملات کا موجب ہوگا.یقینا سمجھو کہ خدا ہرگز ایسا نہیں کرے گا.بے شک صدیوں میں مسیح موعود کے ساتھ بیٹی کا نام موجو د ہے مگر ساتھ اس کے اتنی کا نام بھی تو موجود ہے اگر موجو د بھی نہ ہوتا تو مفاسد د کورہ بالا پر نظر کر کے ماننا پڑتا کہ ہرگز ایسا ہونہیں سکتا کہ کوئی مستقل نبی انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آو ہے.کیونکہ ایسے شخص کا آنا ہر مسیح طور پر ختم نبوت کے منافی ہے.اور یہ تاویل کہ پھر اس کو امتی بنایا جائے گا اور و ہی تو مسلم بینی مسیح موعود کہلائے گا.یہ طریق عربیت اسلام سے بہت بعید ہے جس حالت میں حدیثوں سے ثابت ہے کہ اسی است میں سے یہود پیدا ہوں گے تو افسوس کی بات ہے کہ یہود تو پیدا ہوں اس امت میں سے اور مسیح باہر سے آدے.کیا ضرورت ہے کہ حضرت پیلے کو آسمان سے اتارا جائے اور اس کی مستقل نبوت کا جامہ اتار کر امتی بنایا جائے : (حقیقة الوحی (۳) ان اقتباسوں سے ظاہر ہے کہ خاتم النبیین کے دونوں معنی حقیقت الوحی میں بھی مذکور ہیں.مریعنی اقامہ رومانیہ سے آئندہ اتنی کے فصلی بنی بننے کا ذکر میبی

Page 90

M حقیقۃ الوحی میں موجود ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کا مستقلہ نبوت کی عمر کو شہر توڑ کر آنے کو ختم نبوت کا منافی قرار دینا بھی حقیقت الوحی میں موجود ہے.اسی طرح اشتہار ایک خلفی کا ازالہ سے خاتم النبین کے توسط سے فیوض اللی پانے کا ذکر بھی اس اشتہار میں موجود ہے.اور حضرت عیسی علیہ السلام کے جو مستقل بنی تھے ثبوت مستقلہ کی مہر توڑ کر آنے کو بھی خاتم الہی تین کے منافی قرار دیا گیا ہے خاتم النبیین کے یہ دونوں معنی درست ہیں اور ان دونوں کا آپس میں کوئی مخالفت اور تضاد نہیں.کیونکہ ہے دونوں معنی لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں.خاتم النبیین کی خاتم روحانی کے افاضہ سے حضرت میلے علیہ السلام دیگر انبیاء کی طرح مستقل نہیں بنائے گئے تھے.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم بالذات کے معنوں کے ساتھ خاتمیت زمانی بھی ان معنوں میں رکھتے ہیں کہ آپ آخری شاریع اور مستقل بنی ہیں جو شریعیت تامہ کا ملہ سے قبلہ الی یوم القیامہ لائے.اس لئے آپ کے بعد کوئی مستقل نہیں نہیں آسکتا لہذا حضرت جیسے علیہ السلام تو ستقل بنی تھے وہ بھی آپ کے بعد نہیں آسکتے جیب تک وہ مر نہ ٹوٹ جائے جو ان کی نبوت مستقلہ کی تصدیق اور اس کو مستند بنانے کے لئے لگی تھی.البتہ جو شخص اپنے تئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں محو کر دے اسے ملی ثبوت مل سکتی ہے (بالفاظ حقیقۃ الوحی) یا خاتم النبین میں ایسا گم ہو کہ بیا حث استحاد اور نفی غیریت اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح اس میں محمدی چہرہ کا انعکاس ہو گیا ہو وہ بغیر

Page 91

مر توڑنے کے نبی کہلائے گا رہا لفاظ اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ہا سے محصورت صلے اللہ علیہ وسلم کی را خاصہ والی مہر سے امتی نبوت مل سکتی ہے جو علی نور ہے، پس حقیقت الوحی اور اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ہمیں دونوں جگہ ایک ہی مضمون بیان ہوا ہے.ان دونوں میں کوئی تضاد اور تخالف نہیں.بلکہ علاوہم و لازم کا علاقہ ہے ادا ایک غلطی کا ازالہ ہیں حسب خیال مفتی صاحب حقیقة الوحی سے مختلف مضمون بیان نہیں کیا گیا.اشتہان ایک لعلی کا از آء تو پہلے کا رسالہ ہے اور حقیقۃ الوحی بعد کی کتاب ہے.حقیقۃ الوحی میں اتنا ایک غلطی کا ازالہ کی ہی تائید ہے نہ کہ حقیقة الوحی سے منات کوئی نئی تحقیق ان دونوں کتابوں میں نبوت ملنے کے لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو واسطہ بھی قرار دیا گیا ہے جو خاتم النب تین کے حقیقی معنی ہیں اور آپ کی خاتمیت زمانی کا بھی ان معنوں میں بیان ہے کہ آپ آخری شارع اور مستقل بنی ہیں اور دونوں معنوں کے لحاظ سے ظلی نبوت ملنے کا دروازہ کھلا قرار دیا گیا ہے.مسیح موعود کے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ صاحب مجبور سری و از دیم تخریہ فرماتے ہیں.شكل فِيهِ الْوَارُ سيد المرسلين والخير الكثير کہ اس میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے انوالہ کا انعکاس ہوگا.گویا دہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس سینی عمل ہوگا.پھر آئے منظر یہ فرماتے ہیں:

Page 92

AY هو شرح للاسمِ الجَامِعِ المُحمَّدى وتيرة مُنْتَ فَةً مِنْهُ هُوَ شَرْم الخير الكثيرت کہ وہ اسم جامع محمدی کی شرح اور اسی کا نسخہ ہوگا.ان مرد وعبارتوں میں کیسے موعود کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل نکش حمل اور یہ دو ہی قرار دیا گیا ہے.بات دراصل یہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی ہے کہ آپ سب آیت اخَرِينَ بينهم لما يلحقوا به هم رسوة مجمع بردنی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعیت ثانیہ ہیں.بہروزہ کو تاریخ حلول.کا ہندو باند عقیدہ قرار دیا مفتی صاحب کی بہت بڑی غلط بیانی ہے.حضرت شاہ ولی اللہ صاحبیت نے امام مہدی کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا بروز حقیقی قرار دیا ہے ما ملاحظہ ہو تفہیمات الیہ جلد دوم منشا) اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحبت آنحضرت مسلے اللہ علیہ وسلم کی دو عیشتوں کے بھی قائل ہیں.پہلا دوسری بہشت بروزی ہی ہو سکتی ہے نہ اصالتا.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں.تر شاہ ولی اله مان کے اعظم الانيا و شانا مَنْ لَهُ نُوعٌ أَخَرُ مِنَ نزدیک حضرت روبوت البعث ايضا و ذلك أن ا وَذَلِكَ تَيَكونَ مُرَادُ اللهِ فِيهِ سَبَمَا لِخُرُوجِ النَّاسِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى التَّوْرِ وَ اَنْ تَكُونَ قَومَةً خير امة اخرجَتْ لِلنَّاسِ وَبَعْتُهُ يَتَنَاوَل بعاً اخر رحمة اللہ البالغہ جلد اول باب حقيقة النبوة وخوانها)

Page 93

ترجمہ :.انبیاء میں سے شان کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر عظمت والانی دی ہے میں کے لئے ایک دوسری قسم کا بحث بھی ہوا اور یہ دوسرا بعث اس طرح ہے کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ دوسرا بعث لوگوں کے معلمات سے نور کی طرف نکالنے کا سبب ہو اور اس بحث ثانی کی وجہ سے آپ کی قوم خیر امت ہو جائے.جو لوگوں کے لئے نکالی گئی.پس اس طرح آپ کا بہت ایک دو سر بعث ری مشتمل ہوگا.دیکھئے یہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی امتیازی شان بیان ہو رہی ہے پس پہلا بوث دوسرے بحث کو متلی اور بروزی طور پر بھی شامل ہوسکتا ہے نہ کہ اصالتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت نانی کا دھونی کر کے ہی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے خود کو علی نبی قرار دیا ہے پس آپ کا بعثت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بحث اول سے متنا نفض قرار نہیں دیا جا سکتا.انقطاع نبوت والی اس بیان سے وہ حدیث بھی حل ہوگئی جس میں نفرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :.احادیث کی تشریح إلا أنَا أَوَّلَ الْأَنْبِيَاءِ خَلَقَا وَ أَجْرُهُمْ بَنَّاء پس حضرت علی سلسلہ احمدیہ کی بعثت سے کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بحث خانی کی ہی ایک تحقیقی ہے جس پر جہت اول مشتمل ہے.کی حدیث ہوئی انا أول الأنبياء خَلَقَاء أَجْرُهُمْ بَعْثًا

Page 94

ΑΔ بھی ہمارے موقف کے خلاف نہیں البتہ یہ مفتی صاحب کے موقف کے قلات ہے.کیونکہ انہوں نے اس عالم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وضعیت بوت سے سب نبیوں سے آخر میں منصف قرار دیا ہے.اور رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخرهم بخشا کے الفاظ کی موجودگی میں پھر وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت ثانیہ کے قائل ہیں جو مستقل بنی تھے.اس طرح تو آخر الانبیاء بعثا حضرت عیسی علیہ السلام بن جاتے ہیں.لیکن ہمارے مسلک کے مطابق امت میں سے خلقی طور پر مقام نبوت پانے والا چونکہ بجا اقلیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر نہیں ہوتا.اس لئے اس کا بہت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا ہی بحث ثانی قرار پاتا ہے اور اگر وہ مسیح موعود کبھی ہو تو حضرت کیلئے علیہ سلام کے کمالات بھی وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی عقلیت میں ہی حاصل کرتا ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے کمالات کے جامع ہیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عقلیت میں وہ امتی مسیح بنی اللہ کے کمالات حاصل کر سکے اور علی علیہ السلام کا بروز ہو کر نزول عیسی علیہ السلام کی پیشگوئی کا مصداق ہو جاتا ہے.نزول کا لفظ حدیثہ میں اکراٹا استعمال ہوا ہے جیسے اللہ تعالے نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا ہے.قد انزل الله الشكم ذِكْرًا رَ ذكرا ر سو لا يتلوا عَلَيْكُمْ آيَاتِ الله بنت کہ خدا نے تم میں ذکر رسول یعینی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نازل کیا ہے جو تم پراللہ کی واضح آیات پڑھتا ہے.(سورۃ الطلاق آیت (۱۲)

Page 95

AY.اسی طرح حدیت ہوتی ال أخر الانبياء و أنتم أحد الأمم بھی ہمارے موقف کے خلاف نہیں کیونکہ ظلی نبی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چا کہ آخری سند ہیں اور وہ خود ایک پہلو سے بہی اور دوسرے پہلو سے اقتی بھی ہے اس لئے وہ نہ نئی امت بنائے گا اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قل ہونے کی وجہ سے کوئی نیا نہی ہوگا.نئی است و ہی نبی بناتا ہے جو کوئی نئی شریعیت لائے یا مستقل نبی ہو.البتہ حضرت علئے علیہ السلام جو قبول مفتی عنات تشریعی نبی تھے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنی نبوت میں کسی تغیر کے بغیر آجائیں.تو وہ نئی امت بنانے والے نبی بن جائیں گے اور یہ دھر اس حدیث نبوی کے خلاف ہے.احادیث الانبي بعدِینی ۳- احادیث نبویہ جو لا نبی بعدی کے لصحيح تشریح الفاظ پر شامل ہیں وہ ہمارے موقف کے خلاف انہیں کیونکہ علماء امت نے ان الفاظ کی تشریح کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شارع نبی پیدا نہیں ہوسکتا جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے چنانچہ امام علی القاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:.حديث لأوفى بعدى باطل لا أصل له نعم ورد لاني بندِى مَعْنَاهُ عِنْدَ العُلَمَاءِ لاحد بعدة نبي بشرح يَنْسِخُ شَرْعَهُ : الاشاعة في واشرها المشرب الور دهانی قریب المهدی ملک بکتاب رحمانی مهدی مولوی حافظ عبد الرحمن ماڈل ٹاؤن لاہور (

Page 96

ne ترجمہ : یہ حدیث کہ میرے بعد کوئی وحی نہیں باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں.ہاں حدیث میں لانبی بعدی آیا ہے میں کے معنے علماء کے نزدیک یہ میں کہا نحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نی پیدا نہیں ہوگا جو آپ کی شریعیت کو منسوخ کرے.اس سے ظاہر ہے کہ حضرت ملا علی قاری علیہ الرحمہ کے نزدیک لا نبی یگ پانی کے معنے مفتی صاحب والے درست نہیں کہ آئندہ کوئی شخص عید نبوت کے ساتھ نہیں آئے گا.بلکہ ان کے نزدیک اس کے یہ معنی ہیں کہ آئندہ کوئی شخص تشریعی صدہ نبوت کے ساتھ نہیں آئے گا نہ یہ کہ نبوت مطلقہ کا عہد بھی نہیں پاسکتا.alis اقتراب الساخر میں بھی لکھا ہے:.حدیث لا وحی بعد موتی ہے اصل ہے البتہ لا نبی بعدی آیا ہے جس کے معنی نز دیک اہل علم کے یہ ہیں کہ کوئی نہی شرع ناسخ لے کر نہیں آئے گا.(م) حضرت مولوی عبدالحی فرنگی محلی کھنڈ بھی اپنی کتاب وافع الوسواس فی اثر ابن عباس " میں تحریر فرماتے ہیں :- بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں البته شرح جدید لانا منع ہے.(صلا) پس لانبی بعدی کے یہ معنی کہ آئندہ کسی کو حمدہ نبوت نہ ملے گا مفتی صا کے ایجاد کردہ معنی ہیں تا دہ حضرت علئے علیہ السلام کی اصالتا آمد کے جواز کو

Page 97

AA حديث لا نبی بعدی کی موجودگی میں ثابت کر سکیں.پس انقطاع نبوت پر مشتمل تمام احادیث کا مفاد علماء محققین نے یہی سمجھیا ہے کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری تشریعی نبی ہونا بیان ہوا ہے اور ان میں مجر دینی کا انقطاع بیان کرنا مقصود نہیں.قصر نموت والی حدی چنانچہ قصی صورت کے تنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یمت ذریعہ بطور آخری اینٹ کے نکیل کے ذکر پیشامل میں بھی ہے از حدیث میں بھی نبوت سے مراد تشریعی نبوت ہے اور تکمیل قصر سے مراد شریعیت کا قصر ہے جس کی تکمیل شریعت محمدیہ نامہ کا ملا مستقلہ الی یوم القیامہ کے زریعہ ہوئی یا جو امام ابن حجر فتح الباری شرح صحیح بخاری میں اس حدیث کی تشریح ائے میں تحریر فرماتے ہیں:.المراد هنا النظرُ إِلَى الْأَعْمَلِ بِالنِّسبة إلى الشريعة المعدية مَعْ مَا مَضَى مِنَ الشرائع انگا ملتو رفتح الباری جلد منت یعنی مراد تکمیل عمارت سے یہ ہے کہ شریعت محمدیہ پہلے گزری ہوئی کامل ترمینوں کے مقابلہ میں اکمل سمجھی جائے.- حديث إن الرسالة والنبوة قد انقطعت فَلا رَسُول تبدي ولا نیت کا مفہوم بھی نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد تشریعی نبوت منقطع ہو گئی ہے اور کوئی تشریعی نبی آپ کے بعد نہیں آئے گا اس حدیث کے یہ معنی نہیں کہ کوئی غیر تشریعی امتی نبی بھی نہیں آسکتا.چنا نچہ

Page 98

^9 اس حدیث کی تشریح میں شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : ان النبوة التى الْقَطَعَتْ بِوُجُودِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هِيَ نبوة التشريع لمَقَامُهَا فَلَا شَرعَ يَكُونُ تاسعًا لِشَرعه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلا يزيد في تريم كلما أخر و هذَا حَى قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسلم إلى الرسالة والنُّبُوةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُول بعدني ولا سبق أن لا نبى يكون على شرح يُخالف شرعي بل إذا كان يكون تحت حكم شريعتي و فتوحات مکیہ جلد ۲ مس) ترجمہ.وہ نبوت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے منقطع ہوئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام ہوت.بس اب کوئی شرع نہ ہوگی جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی ناسخ ہو اور نہ آپ کی شرح میں کوئی حکم پڑھانے والی شروع ہوئی.یہی معنی ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے کہ رسالت اور نبوت منقطع ہو گئی ہے پس میرے بعد نہ رسول ہوگا نہ کوئی نینی یعنی مراد آغضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی اپنے اس قول سے یہ ہے کہ اب کوئی ایسانی پیدا نہیں ہو گا جو میری شریعت کے مخالف شریعت پر ہو بلکہ جب کبھی پیدا ہو گا تو وہ میری شریعیت کے حکم کے ماتحت ہوگا.

Page 99

9- پھر لکھتے ہیں :.، كما ارتفعت الخبرة الكلية ولهذ الحلنا إنما ارتفعتَ نُبُوَّةُ النشر تيعِ فَهَذَا مَعْنى لا ني بعد فتوحات مکیہ جلد م ) رجمہ - تثبوت کلی طور پر بند نہیں ہوتی اس لئے ہم نے کہا صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے.پس لا نبی بغربانی کے بہی معنی ہیں.مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں.براین خاتم شد او که بخود مثل اوئے بود کے خواہبند بود یعنی آنحضرت سے اللہ علیہ وسلم اس لئے خاتم ہوتے ہیں کہ فیمن روحانی پہنچانے میں نہ آپ کی مثل کوئی ہوا ہے نہ ہوگا.اس شعر میں آپ کی خامیت بالذات مرضی کا بیان ہوا ہے کہ آپ خاتم بمعنی فیض پہنچانے والا وجود ہیں.اگلے شعر میں فرماتے ہیں : چونکه در صنعت برد استادات نے تو گوئی ختم صنعت بر توست ر مثنوی میله به صت مطبوعه نول کشور) کہ جب کاریگر ہی میں کوئی استاد دوسروں سے بڑھ جاتا ہے تو کیا تو نہیں کہنا تجھے پر کا ریگری کمال کو پہنچ گئی ہے بینی تجھ جیسا کوئی صنعت گر نہیں.اس شعری مولانا موصوف آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو انتہائی کمال رکھنے والا صانع قرار دیا ہے.ان معنوں میں نہیں کہ آئندہ کوئی نبی نہیں ہوگا

Page 100

91 کیونکہ وہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کے مفیض وجو د ہونے کے لحاظ سے ہی تحریر فرماتے ہیں:-.مرکن در را و نیکو خدمتے تا نبوت یا بی اندر اتنے ر دفتر اول مساله شائع کردہ فیروز دین اینڈ سنتر کہ خدا کی راہ میں یعنی شریعت محمدیہ پر چلنے میں ایسی تدبیر اختیار کر کہ تجھے اقت میں ثبوت مل جائے.پس مفتی صاحب نے انقطاع نبوت کے مضمون پشتمل جو احادیث اپنی کتاب میں پیش کی ہیں ان سب احادیث کا مطلب یہی ہے کہ آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا بنی نہیں.اُمتی نبی کی آمد کے امتناع پر جناب مفتی صاحب کوئی حدیث پیش نہیں کر سکتے.ذیل کی امداد میں نبویر امت میں نبوت کے امکان پہ روشن دلیل ہیں.احادیث نبویہ سے ر ہیں حدیث اول: آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.نبوت غیر تشریعی کا امکان ، ابو بكر أَفْضَلُ هَذِهِ اليوم الْأُمَّةِ الا أن تَكُونَ نَبِى - اكنوز الحقائق في حديث غير الخطائق (جامع الصغير للسيوطى ماشيه) یعنی ابو یکی ار اس امت میں افضل ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نہیں آئندہ پیدا ہو.اس حدیث میں يكون فعل مضارع کا مصدر کون ہے میں کے معنی ہیں نیست سے بہت ہونا یا عدم سے وجود میں آنا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.

Page 101

۹۳ إنَّما أمره إذا أَرَادَ شَيْئًا ان يَقُولُ لَهُ كُن نیکون - رسوره لین : ۸۳) کہ خدا کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے کسی عدم سے وجود میں آ نیکون - تو وہ پیدا ہو جاتی ہے.اگر آیت خاتم النبین کے رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے.بعد کوئی نبی پیدا نہ تا تو آنحضرت صلے اللہ کا مردم را کہا ہم نے ان سے افضل نہیں رہتی کنکر یہ ہ فرماتے کہ ابو یکہ امت سے افضل الا ان کوئی تو مفتی صاحب نے اس حدیث کو اپنی کتاب میں درج نہیں کیا.البتہ اس مضمون سے ملتی جلتی دو حدیثیں اپنی کتاب کے منہ پڑا ہو کر کے ان کا ترجمہ بگاڑ کی پیٹیں کیا ہے.وہ دو حدیثیں درج ذیل ہیں :- حدیث دوم ان میں پہلی کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہ ابو بَكْرٍ خَيْرُ النَّاسِ إِلَّا أَن تَكُونَ نَبِى - یعنی بود یک سب لوگوں میں سے بہتر ہیں سوائے اس کے کہ کوئی بھی پیدا ہو.(تو اس سے بہتر نہیں حدی سوم اے اور دریا میں اور ہے کہ سول للہ صلی الہ علیہ سم نے فرمایا: ابو بكر خَيرُ النَّاسِ بَعْدِى إِلَّا أَن يَكُونَ نَبِيُّ.

Page 102

۹۳ بینی ابو بکر میرے بعد سب لوگوں سے بہتر ہیں سوائے اسکے کہ کوئی بنی پیدا ہو.مفتی صاحب نے حدیث نمبر دوم وسوم کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے اوران کا ترجمہ گول مول کر گئے ہیں.چنانچہ حدیث دوم کا تر جب انہوں نے یہ کیا ہے:.ابو کر انتہاء کے سوالنام انسانوں سے بہتر ہیں.حدیث سوم کا ترجمہ کیا ہے :.ابو بکر الہ سوائے بنی کے میرے بعد سب انسانوں سے افضل ہیں.مفتی صاحب نے حدیث دوم میں سکون کا ترجمہ چھوڑ کرینی کا ترجمہ انبیاء کر دیا ہے.اور حدیث سم میں بنی کا ترجمہ تو بن ہی کی ہے مگر سیکون کا ترجمہ اس میں بھی چھوڑ دیا ہے.اور اس طرح بات کچھ کی کچھ بنیادی ہے حالا دیکھ ان دونوں حدیثوں کا مفاد بھی یہی ہے.کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہوں کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لہ علیہ وسلم کے بعد سب لوگوں سے افضل ہیں سوائے اس کے کہ کوئی بنی آئندہ پیدا ہو.تو اس سے افضل نہیں.پس ان دونوں مرتیوں کے رو سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امکان نبوت ثابت ہے ان مرثیوں میں سکون میں کان نامہ استعمال ہوا ہے اس لئے نبی کا لفظ، فورع ہے جس کا استثنا کیا گیا ہے.وہ آئندہ ہونے والا نہیں ہے اگر نیکون کا لفظ نہ ہوتا اور صرف الا الانبیاء کے الفاظ ہوتے تو مفتی صاحب کا ترجمہ صحیح ہوتا.مگر سکون کے الفاظ کا تہ جمعہ بالکل غلط ہے.ایسے غلط ترجمہ کی وجیہ بھر مخالط رہی ہے اور کیا ہوسکتی ہے.

Page 103

۹۴ قال رسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَبَّاسِ حدیث چهار فيكم النبوة والمملكة: ترجمہ :.رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائش سے فرمایا کہ تم لوگوں میں نبوت بھی ہوگی اور سلطنت بھی.پس میں طرح سلطنت دیئے جانے کا ذکر فرمایا ہے اسی طرح نبوت دیتے جانے کا امکان بھی بنایا ہے.پنجه انفتی صاحب نے اپنی کتاب ختم نبوت کامل ہم پر حدیث اما حدیث ہے اور حضرت انس کے ساتھ یوں پیش کی ہے: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ دَعَا اللهُ تَعَالَى إِجْعَلَنِى ني تلك الأُمَّةِ قَالَ نَبِيُّهَا مِنْهَا قَالَ اجعلين من أنه ذلِكَ النَّبِيِّ قَالَ اسْتَقَدمت وَاسْتَاخر ولكن سَاجْمَعُ بَيْنَكُمْ فِي دَارٍ الجلال در راه ابونعيم في الحليه كذا في الخصائص ميلدا من: اس کا ترجمہ یہ ہے:.رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا مانگی کہ مجھے اس امت کا بنی بنیاد سے تو ارشاد ہوا اس امت کا بنی اسی میں سے ہوگا.پھر موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا.مجھے اس بنی کی آمت میں سے بنا دیا جائے توارشاد ہوا کہ آپ ان سے پہلے آئے ہیں اور وہ آپکے ن پر جو دیا ہے اختصار

Page 104

94 بعد تشریف لائیں گے البتہ دارالا میں ہم مر دونوں کوجمع کردینگے اس پوری حدیث کے سیاق کو مد نظر ر کھا جائے تو اس میں یہ مذکور ہے کہ خدا تعالٰی نے موسی علیہ السلام سے کہا تھا کہ بنی اسرائیل کو مطلع کرد و کریم شخص مجھ سے اس حالت میں ملے گا کہ وہ احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا منکر ہوگا تو میں اس کو وزخ میں داخل کرونگا.خواہ کوئی ہور موسی علیہ السلام نے عرض کیا.احمد کون ہیں ؟ ارشاد ہوا.اسے موسی ہے قسم ہے مجھے تو و جلال کی میں نے کوئی مخلوق ایسی پیدا نہیں کی جو ان سے زیادہ میرٹی مکرم ہو.میں نے ان کا نام عرش پر اپنے نام کے ساتھ زمین و آسمان کے پیدا کرنے سے پہلے لکھ دیا تھا.اور حقبت میری تمام مخلوق پر حرام ہے جب تک وہ بنی اور اس کی امت اس میں داخل نہ ہوں.حضرت موسی نے کہا.آپ کی امت کون لوگ ہیں.خدا نے فرمایا.وہ بہت محمد کرنے والے ہیں.چڑھائی اور اترائی میں حمد کریں گے.اپنی کمریں باندھیں گے اور اپنے اعضاء کو پاک رکھیں گے.دن کو روزہ رکھنے والے ہوں گے.اور رات کو تارک دنیا.میں ان کا تھوڑا عمل بھی قبول کر لوں گا اور نہیں کر لا إله إلا الله کی شہادت دینے سے حقیقت میں داخل کروں گا.اس پر حضرت موسیٰ نے خدا سے مومن کیا.اجْعَلْنِي نَبِيَّ تِلكَ الأُمَّةِ قَالَ نَبِيُّهَا مِنْهَا کہ مجھے اس امت کا نبی بنا دیا جائے.تو خدا نے فرمایا اس امت کا بنی اسی امت میں سے ہوگا.اس پر موسی آنے کہا مجھے اس نبی کی امت ہی بنیا دیا جائے تو خدا نے یہ جواب دیا استقدمت وَاسْتَاخَرَ وَ لكِن سَاجْمَعُ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ فِي دَارِ الْجَلَالِ

Page 105

کہ تو پہلے ہو گیا ہے اور وہ بنی پیچھے آئیگا.لیکن میں تم دونوں کو دارالجلال ہیں جمع کر دوں گا.اس سے ظاہر ہے کہ حضرت موسی کی اس خواہش سے کہ مجھے اس امت کا بنی بنادیا جائے سے یہ مراد نہیں ہو سکتی ملتی یہ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم تو اس امت کے نبی نہ رہیں اوران کی جگہ میں بھی بنا دیا جاؤں.ایسا کہنا گستاخی تھا کیونکہ خدا تعالے نے انہیں بتا دیا تھا کہ وہ میرے رہے مکرم شہید سے ہیں اور میں نے ان کا نام عرش پر اپنے نام کے ساتھ زمین و آسمان کی پیدائش سے بھی پہلے لکھ رکھا ہے.اور جو انہیں قبول نہیں کرے گا میں اُسے جہنم میں داخل کروں گا.پس موسی علیہ السلام کی یہی مراد ہو سکتی ہے کہ مجھے رسول کریم صلعم کی است میں نبی بنا کر بھیجا جائے نہ یہ کہ ان کی نبوت چھین لی جائے اور مجھے ان کی جگہ بھی بنا کر بھیج دیا جائے.یہ تو ایک گستاخانہ بات ہوتی میں کا کہنا موسیٰ علیہ السلام جیسے معرفت الہی رکھنے والے انسان کی شان سے بعید ہے پس ان کی یہی مراد ہو سکتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے تحت مجھے ان کی امت میں بنی بنا دیا جائے مگر خدا نے بيها منها کہہ کر ان کی اس خواہش کو رد کر دیا اور تبادیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مقامہ نبوت پانے کا حق صرف آپ کے امتی کو ہے نہ کسی اور کو نہیں نبتها منھا کے معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالے نے چونکہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی امت میں ایک امتی کا بنی ہونا مقدر کریں کھا

Page 106

تھا اس لئے موسی علیہ السلام کی یہ خواہش کہ مجھے اس امت کے اندر بنی بنا دیا ہے یہ کے اندر بناد قبول نہ کی گئی اس پر انہوں نے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنایا جائے کی خواہش کر دی اسے بھی اللہ تعالے نے قبول نہ کیا.جناب مفتی صاحب ! اس حدیث سے الٹا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں بدیں وجیہ کہ نیا کا لفظ آیا ہے.انبیا تھا کا لفظ نہیں آیا.اس کا جواب یہ ہے بياتها چونکہ حضرت موسی امت میں خود ایک بیٹی بننے کی خواہش رکھتے تھے اس لئے خدا سیاق کا نے ان کی خواہش کے رد میں انبیا منها كا مفرد لفظ استعمال فرمایا.گویا امت میں ایک بنی ہو سکے ذکر سے سی علیہ السلام کے امت میں بنی نہ ہونے کے پیشگوئی فرما دی اور اس کے ضمن میں امتی نبی کی آمد کا علمی الما طلاق امکان بیان فرما دیا.مفتی صاحب کے ذہن میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ موسی علیہ السلام نے بہ خوامیش کی منتی کہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو بوریت سے مٹا کر مجھے ان کی جگہ بنی بنا دیا جائے.اگر مفتی صاحب کا ایسا بیالی ہو تو اس قسم کا گستاخانہ لقماش لكان کلام حضرت موسی کی طرف منسوب کرنا کسی عالم کو زیب نہیں دیتا.حدیث ششم ایک اور حدیث اس بات پر روشن دلیل ہے کہ خاتم النتین کی آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں اشتی نبی کے آنے کے مثالی نہیں چنانچہ حضرت ابن عباس سے روایت ہے.کما ما سر بر اسلام ابن رَسُول مقال الله

Page 107

ولو عاش لكان صديقا نيا (ابن ماجہ کتاب الجنائز) ترجمہ : حضرت ابن عباس سے روائت ہے کہ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا فرزند ابراہیم وفات پا گیا تو آنحضرت مصلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں اس کے لئے ایک دودھ پلانے والی مقرر ہے اور اگر وہ زندہ رہتا تو ضرور صدیق بنی ہوتا.اس حدیث سے ظاہر ہے کہ صاحبزادہ ابراہیم کے بالفصل بھی بنایا جائے میں آیت خاتم النبیین روک نہ تھی.بلکہ ان کی وفات روگ ہوتی ہے.کیونکہ آیت خاتم النبیین شستہ میں نازل ہوئی تھی اور صاحبزادہ ابراہیم نے شد خاتم میں وفات پائی.امام علی القاری جو فقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام اور محدث اور ہیں.اس حدیث کے خلاف علامہ عبد البر اور امام نووسی کے اس خیال کو گہ یہ حدیث ضعیعت ہے، یہ کہ کر رد کرتے ہیں :.له طُرُق ثلاث يُقَوَى بَعْضَهَا بِبَعْضٍ در موضوعا كبير شد کہ یہ حدیث تین سندوں سے ثابت ہے جو آپس میں ایک دوسری کو قوت دیتی ہیں.اور پھر یہ بھی لکھا ہے کہ ويُقَدِيْهِ حَدِيثُ لَوْ كَانَ مُوسى حيا لما وسعة الا اتباعی - (ایسا مت کہ یہ حدیث بھی اس حدیث کو قوت دے رہی ہے.علامہ شوکانی نے بھی لووتی کے خیال کو رد کرتے ہوئے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے لکھا ہے : هو عيب من النووي مَعَ وَرُوحِهِ عَنْ ثَلاثَةٍ

Page 108

٩٩ من الصَّحَابَةِ وَكَانَّهُ لَمْ يَظْهَرُنَهُ تَأْوِيلُهُ ( الفوائد المجموعه ها) ترجمہ : - نودی کا اس سے انکار قابل تعیب ہے.باوجود یکہ اس حدیث کو تین صحابہ نے روایت کیا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لودی پر اس کے صحیح ا معنے نہیں کھلے.شہاب علی البیضاوی میں اس حدیث کے متعلق لکھا ہے : آقا محمد الحديث فَلا شبهة فيهِ لأَنه رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَغيره کہ اس حدیث کی صحت کے بارہ میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ اسے ابن ماجہ وغیرہ حضرت امام ملا علی القاری نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے.لَوْعَاشَ إِبْرَاهِيمَ وَصَارَ نَبِيًّا وَكَذَ الوَصَارَ عمرُ الكَانَا مِنْ أَنْبَاعِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ یعنی اگر ابراہیم زندہ رہتا اور نبی ہو جاتا اور اسی طرح اگر عمرہ بھی ہو جاتے تو دہ دو دنوں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں سے ہوتے.پھر اسی پر کو آگے خود ہی واضح کر دیا ہے.فلا ينا من قوله تَعَالَى عَالَمَ البَنِي إِذِ الْمَعْلَى أَنَّهُ لَا يأتي بعدة نبي يُلسَخُ مِلتَهُ وَلَمْ يَكُن من أميه کہ ان دونوں کا بنی ہوجانا آیت خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا کیو نکہ خام بستن

Page 109

7-- کے معنی یہ ہیں کہ آپؐ کے بعد کوئی ایسا بنی نہ ہوگا جو آپ کی شریعیت کو منسوخ.کرے اور آپ کی امت میں سے نہ ہو..ہیں حضرت امام ملاعلی قاری نے خاتم النبیین کے معنوں کی وضاحت میں صاف فریاد یا ہے کہ ان بزرگوں کا استی بنی ہونا آیت خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا میں آمیت نام النبین اتنی نہی کے آنے میں مانع ہیں اگر رسول کریم نے للہ علیہ وسلم آیت خاتم النبیین کو استی نبی کے آنے میں بھی مانع سمجھتے توپھر یہ فرماتے کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم دہندہ رہا تو سیدین نی یعنی اتنی ہی ہوتا بلکہ اسکی بجائے زمانے کہ اگر ایرانی زندہ میں بہتا تو یہی نہ ہوتا نہیں کیونکہ میں خاتم النبین ہوں.اسلامی شریعیت کے آجانے کے بعد صدیق کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہو نا ضروری ہے لہذا صدیق بنی سے مراد یہ ہے کہ کامل اتنی ہو کہ بالفعل نبی ہوتا.امام ابن حجر المیثمی نے اپنی کتاب الفتاوی الحدیثیہ میں ذیل کی حدیث نبوسی درج کی ہے جو صاحبزادہ ابراہیم کے نبی با لقوہ ہونے پر روشن دلیل ہے.حدیث کے الفاظ یہ ہیں :- عن علي ابن ابي طَالِب لَمَّاتُونِي إِبْرَاهِيمُ اَرْسَلَ النَّبِيُّ عَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى اله مادية وجاءته ونسلته وكفنته فخرج رسول الله صلى الله عليهِ وساد وخرج معه النَّاسِ قدفته وادخل النبى صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَل في قبر قالَ آمَا وَ اللَّهِ إِنَّهُ لَى ابْنُ نَبِي وکنز العمال هند به متخلف

Page 110

[ * ترجمہ : حضرت علی ابن ابی طالب سے روایت ہے کہ جب ابراہیم فرزند رسول وفات پا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی والدہ ماریہ کو بلا بھیجا وہ آئیں اور اسے غسل دیا اور کفن پہنایا.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے لے کر نکلے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ نکلے اور آپ نے اسے دفن کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس کی قبر میں داخل کیا.پس گیا.خدا کی قسم یہ ضرور بنی ہے لینی کا بیٹا ہے ؟ افسوس ہے کہ یہ حدیثیں مفتی صاحب نے اپنے عقیدہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے اپنی کتاب میں درج نہیں کیں.حديث لم يبقَ مِنَ النُّبوة ) ایک حدیث ہوئی ہیں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.إلا المبشرات کی تشریح يَايُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ تَعَينَ مِنَ التَّبوة إلا المبشرات - درواه البخاري في كتاب التعبير یعنی اے لوگو ! نبوت میں سے المبشرات کے سوا کچھ باقی نہیں رہا.اس حدیث کو جب مذکورہ احادیث ابو بكراً فَضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إلا أن يَكُونَ نَبِيُّ - نَبِيُّهَا مِنْهَا.اور لو قابل لحاد صدیق انبیا کی روشنی میں پڑھا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں میں قسم کے نبی کا امکان ہے.وہ صرف المبشرات پانے کی وجہ سے نبی کہلانے کا مستحق ہوگا.کیونکہ المبشرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نبوت میں سے قرار دیا ہے.اور اسے امت

Page 111

I+M میں باقی قرار دیا ہے.اس سے نظاہر ہے کہ المبشرات نبوت کی جودو ذاتی ہیں.اور امت میں جس نبی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک امکان ہے وہ میں اسی جو فرائی کے پانے کی وجہ سے نبی کہلائے گا.نئی شریعیت جب نبوت کی اس چیز و ڈائی کو لاحق اور فارم ہو تو ایسی کا حامل بوجہ شریعیت جدیدہ تشریحی مصلے نبی قرار پاتا ہے.چونکہ امام عصر علیه و سلم شریعت جدیده نام کامل مستقاد الی یوم القیامہ لانے والے بنی ہیں.اس لئے آپ کے بعد کوئی تشریحی.کے بعد بنی نہیں آسکتا.تشریحی نبوت حدیث بنا کے الفاظ لم يبق کے ذیل میں آکر منقطع ہو گئی ہے.چونکہ اس حدیث میں المبشرات کے اتنی کو ملنے کا وعدہ ہے اس لئے یہ امر بھی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی مستقل نبی بھی نہیں آسکتا.چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : امتنع أن تَكُونَ بَعْدَهُ نَبِى مُسْتَقِل بالتلقي والخیر تکثیر مست میوه بجنون کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی مستقل شریعیت پانیوالا اپنی نہیں آئے گا.نیروه مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں فرماتے ہیں :.لاَنَّ النبوَةُ تَتَجَرى وَجَزْهُ مِنْهَا بَات بَعْدَ خَاتَم الانبياء و الموی شرح موطا جلد ۲ ۲۱۶۵ مطبوعہ دہلی) مل کہ نبوت قابل انقسام ہے اور اس کی ایک جید وخاتم الانبیاء کے بعد باقی ہے.امت محمدیہ کے مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی اللہ

Page 112

قرار دیا ہے.لہذ اسیح موعود بھی اس حدیث کی روشنی میں المیشی شد والی دھی پانے کی وجہ سے ہی نبی اللہ کہنا سکتا ہے.مسیح موعود مستقل نبی یا تشریعی نہی کی حیثیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ کو علم کے بعد نہیں آسکتا.بلکہ نبی اللہ ہونے کے ساتھ اس کا آنحضرت سلے اللہ علیہ وسلم کا اتنی ہونا بھی ضروری ہے اور اس کے لئے رسول کریم مسلے اللہ علیہ وسلم کا وجود محافظ شریعت مع عفونیہ آخری مستند ہو گا.پس اس حدیث کی ترکیب ليَبنَ مِنَ الطَّعَامِ إِلَّا الخبر کی طرح ہے.کھانے میں سے روٹی کے سوا کچھ باقی نہیں رہا.ظاہر ہے کہ روٹی کھانے کا حصہ بھی ہے اور خود کھانا بھی ہے کیونکہ یہ کھانے کا جزر و ذاتی ہے.اسی طرح المبشرات بنوت تشریعیہ کا حصہ بھی ہیں اور نبوت کا جز و ذاتی ہونے کی وجہ سے خود بنبوت بھی ہیں.تمام غیر تشریعی انبیاء المعشرات یعنی امور غیبیہ پر اطلاع پانے کی وجہ سے ہی نبی کہلاتے رہے.اس سے معلوم ہوا کہ نبوت کی جود ذاتی یا بالفاظ دیگر نبوت مطلقہ المبشرات ہی ہیں.بے شک المبشرات سے حصہ میجر جب حدیث نبوی بصورت رویا صالحہ مومنین کو بھی ملتا ہے.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ کسی امتی کو بھی مشرف مکالمہ مخاطبه الیه و کشت و الہام سے مشرف نہیں کیا جاتا.امت محمدیہ کے مسیح موجود مسیح مسلم کی حدیث میں جو تو اس میں سموات سے باب ذکر الدجال میں مذکور ہے وحی کے نازل ہونے کا سافت ذکر موجود ہے اور علماء امت نے یہ تسلیم کیا ہے.

Page 113

۱۰۴ نعم يوى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَحَى حَقِيقِي كَمَا فِي حدت مسلم وروح المعانی جلده مثلا) صحیح مسلم کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:- آدمی الله تعالى إلى عيسى إني قَدْ أَخْرَجَتْ عَبَادًا تى لا يدانِ لأَحَدٍ بِقَتَالِهِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِى إلى الطور ومسلم عید ۲ باب ذكر الد جمال ملت) یعنی اللہ تعالے موعود خلیلی کی طرف وحی کرے گا کہ میں نے اپنے بندے نکالے ہیں جن سے لڑنے کی کسی میں طاقت نہیں.پس میرے بندوں کو پہاڑ کی طرف سے جار امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے بھی اپنی کتاب الاسلام میں لکھا ہے اته (عيني بعد نزوله يوحى اليه بجبريل وحيا حقيقيًا - یعنی جیسے علیہ اسلام پر بعد نزول حضرت جبریل دمی حقیقی لائیں گے.امام علی القاری جو فقہ حنفی کے جلیل القدر امام اور محترت ہیں صافت لکھتے ہیں :- لا منافاة بين أن تَكُونَ نَبِيًّا وان تكون متابعًا لنبينا صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيَانِ أَحْكامِ شريعته والفنان طريقته ولو بالوحى إليه - (مرقاة جلده عند لایه ) یعنی حضرت پیسنے کے بنی ہونے اور ساتھ ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع

Page 114

1-8 ہوتے ہیں کوئی منافات نہیں اس صورت میں کہ وہ آپ کی شریعیت کے احکام جمانی کریں.اور آپ کی طریقت کو پختہ کریں خواہ وہ ایسا اپنی دھی کے ذریعہ ہی کریں.حديث لم يبق من العبوة إلا المبتورات کی تشریح میں جو رو یاد صالحہ کے الفاظ دوسری حدیث میں والہ د ہیں اس کی تشریح میں حاشیہ ابن ماجد پر لکھا ہے.المراد انها تمثيقَ عَلَى الْعُمُومِ الا الاتهام انَّهَا والكشف للاولياء موجود ہوگئے یعنی مراد یہ ہے علی العموم نبوت میں سے صرف اچھے خواب باقی رگئے ہیں.ورنہ اولیاء کے لئے کشف والہام کا پا نا میں وقوع میں آچکا ہے.اللہ شعرانی لکھتے ہیں.قد يكون دمى البَشَائِرِ يَواسِطَةِ مَلك الا الينا والجواب اعلام یعنی کبھی بشارتوں والی وحی فرشتہ کے واسطہ سے ہوتی ہے.حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:.اللہ تعالے کا بیٹر سے کام کرنا کبھی بالمشافہ ہوتا ہے، در یک کلام انبیاء کے ساتھ ہوتا ہے.اور کبھی انبیاء کے بعض کامل متبعین سے یہی بطو را تباع اور وراثت بالمشافہ کلام کرتا ہے اور جب بھی کسی سے بکثرت ایسا کام ہو تو وہ محدث کہلاتا ہے کہ (مکتوبات میلاد ۲ مکتوب ۵۳ ۹)

Page 115

1-4 علامه حکیم صوفی محمدحسن ریاحب مصنعت غایۃ المریان لکھتے ہیں.الغرض اسطلاح میں نبوت بخصوصیت المیہ خبر دینے سے عبارت ہے.وہ دو قسم ہے ایک نبوت تشریعی جو ختم ہو گئی.دوسری بنوت لمعنی خبر دادن وہ نو منقطع ہے.پس اس کو مبشرات کہتے ہیں.اپنے اقسام کے ساتھ اس میں ادبالہ سبھی ہیں.(الکواکب الدریۃ نے اسے ۱۳) حضرت بھی الدین ابن العربی اسی حدیث کے پیش نظر فرماتے ہیں :.فَالتبرة سَارِيَة إِلى يَوْمِ القِيَامَةِ فِي الخَلْقِ وَ إن كان التشريع لَعَ فَالتَّثَة اجزاء الشبورة کہ نبوت مخلوق میں قیا منت بیت کا لانا منقطع ہے ہیں ہے گوئی شریعیت کا لانا نہرت کے اجزاء میں سے ایک جز رہے.پھر وہ لکھتے ہیں کہ شریعیت کا لانا نبوت کی جیز و عارض ہے یعنی نبوت کی جز وفاتی نہیں.چنانچہ سخریہ فرماتے ہیں :- علمنا أن التشريح امر عَارِضُ بِكَوْنَ عِيسَى عَلَيْهِ عليه السَّلامُ يَنْزِلُ فِيْنَا حَكَما مِنْ غَيْرِ تفريع وهو نبي بلا شاب : (فتوحات مكتبة جلد اول شد نبوت کے متعلق لکھتے ہیں: ليست البة بامرِ ذَائِم عَلَى الانبار الا لعي رنتوهات مکیه میله ۲ ممالک سوال عششا

Page 116

بینی نبوت اختبار الہی سے زائد کوئی امر نہیں.پس اس سے ظاہر ہے کہ المبشرات یعنی انجبار غیبیہ البته نبوت مطلقة ہیں.اور جب شریعت کا لانا اسے ناحق ہو تو شریعیت نبوت کی تیز و عارض ہوتی ہے نہ کہ جود ذاتی.جزو ذاتی اختیار اللہ پر اطلاع ہی کا نام ہے یہی امر نبوت مطلقہ ہے.حضرت محی الدین المبشرات والی نبوت کے جاری ہونے کے متعلق یہ دلیل دیتے ہیں فَإِنَّهُ يَسْتَجِيلُ أَنْ يَنْقَطَعَ خَبُرُ اللَّهِ وَإِخْبَارُهُ عن العالم اذ لو انقَطَعَ لَمْ يَبْقَ لِلْعَالمِ غداء یعنی یہی حال ہے کہ اللہ تعالے کی طرف اخبار غیبیا ر حقائق و معارف کا علم دیا جانا بند ہو جائے.کیونکہ اگر یہ بند ہو جائے تو پھر دنیا کے لئے کوئی رجائی فضا باقی نہ رہے گی جس سے وہ اپنے روحانی وجود کو باقی رکھ سکے.حضرت بر انتقی میانِ جاناں فرماتے ہیں:.اینچ کمالی غیر از نبوت بالاصاله ختم نه گردیده و در مبدا فیاض بخل و دریغ ممکن نیست لا (مقامات منظری مشت یعنی ثبوت بالاصاله رخوت مستقلہ کے سوا کوئی کمال ختم نہیں ہوا.اور مبدأ قیام یعنی خدا تعالے سے سنجل دوریغ ممکن نہیں.میں نہ اتنی کے مقام نبوت پانے کا دروازہ بند ہے اور نہ اس پر بھی اول

Page 117

ہونے کا دروازہ بند ہے.پس حدیث لم يبق من السبورة الا المبشر صرف صوت مستقلہ یا نبوت تشریعیہ کا انقطاع قرار دیتی ہے.اور امتی نبی پر المبشرات والی وحی کا نزول جائز رکھتی ہے اور اس کی تشریح میں حدیث نبوی میں المبشرات کو رویا کے مصالحہ عام مومن کے لحاظ سے قرار دیا گیا ہے مسیح موعود پر جو وحی نازل ہونے والی تھی وہ المبشرات والی وحی ہے.لہذا انمیش است نبوت تشریعیہ کی جیز و ذاتی ہے اور ثبوت تشریعیہ اس کی جنہ و عارض ہے.اس ساری بحث سے مفتی صاحب کی وہ مثالیں پادر ہوا ہو جاتی ہیں جوانہوں نے اس حدیث کے رو سے نیوست کا کلی انقطاع ثابت کرنے کے لئے بڑی تعلی سے پیش کی ہیں اس حدیث میں کل اور بہو کی نیت مکان اور اینٹ والی نہیں اور نہ پلاؤ اور نمک والی ہے اور نہ کپڑے اور ناگا والی اور نہ چار پائی اور رستی والی اور نہ پانی اور ہائیڈروجن یا آکسیجن والی کیونکہ المبشرات نبوت کی جو ذاتی یعنی نبوت مطلقہ ہیں اور نبوت کے ساتھ جب شریعت جدیدہ لاحق ہو تو شریعیت نبوت کی جدو عارض ہوتی ہے.اسی نبوت مطلقہ کے ساتھ مسیح موعود کے امت محمدیہ میں آنے پر دوسری حدیث نبوی میں اسے بنی اللہ قرار دیا گیا ہے اور اس پہ نزول وحی بھی مصدومیت میں مذکور ہے جو نبوت باقی نہیں رہی اس کے ساتھ مسیح موعود نہیں آسکتا نبوت کی ہر جز رباتی ہے وہ از روئے حدیث نبوی المبشرات ہیں اپنی کا حامل ہونے کی وجہ سے میسیج موجود بنی اللہ ہے جو ہو.نبوت باقی نہیں رہی

Page 118

1-9 دہ شریعیت جدیدہ کا لانا ہے.فافهم وتدیر.مفتی صفات فی من کی خطرناک تحریف امفتی محم شایع صاحب نے جماعت احمدیہ کو کافر قرار دینے کے لئے ایک عبارت بحوالہ امام غزالی کے کلام میں الاقتصاد امام عالی کی طرف منسوب کر کے اپنی کتاب ختم نبوت کا مل کے ص۱۳۶ اور پھر ما پر درج کی ہے.کامل اور اس میں خطرناک تحریف سے کام لیا ہے.اس کا پہلا حصہ سیاق بریدہ ہے اور آخری حصہ محرف ہے وہ عبارت یہ ہے:.انَّ الأُمَّةَ فَهَمَتْ مِنْ هَدَ اللَّفْطِ انَّهُ انْهَمَ عدم نبي بعده ابدا وَعَدَمَ رَسُولِ بعده ابدا وانهُ لَيْسَ فِيهِ تَأْوِينَ وَلَا تَخصيص وَ مَنْ أوله تخصيص كلامِيهِ مِنْ انواع الهذي لا يمنع الحكم تكفيره لانه مُكَذِّب لهدا النقلِ الَّذِي أَجْمَعَتِ الْأُمَّةٌ عَلَى انَّهُ غَيْرُ ماول ولا مخصوص.د جواله الاقتصاد في الاعتقاد صفحہ نمبر دیئے بغیر اس عبارت سے پہلے مفتی صاحب اپنی کتاب کے ص۱۳۵) پر لکھتے ہیں.حجة الاسلام امام خود الی قدس سترہ جو علوم باطنها در نظاہرہ کے مسلم امام میں اس آیت رقائم الطب تین - ناقل کی تعبیریں ایک ایسا مضمون تحریر فرماتے ہیں کہ کھو یا نماد بانی فتنہ ان پر منکشف

Page 119

11- ہو گیا تھا.اسی کے روکنے کے لئے یہ الفاظ لکھتے ہیں.اب واضح ہو کہ اس عبارت کے خط کشیدہ الفاظ و من اولۂ سے لیکر آخری الفاظ ولا مخصوص تک سرا سر ایک خود ساختہ عبادت ہے جو مفتی کی ہیں نے اپنے پاس سے گھڑ کر امام غزالی علیہ الرحمتہ کی طرف منسوب کی ہے تا اُسے کا فتونی ظاہر کر کے اما مرد اس عبارت کا پہلا مردانی دیول کو کافر قرار دیا جائے." ا حذف کر دیا ہے.تا اس کا سیاق ظاہر نہ ہونے پائے.ان الامة کے الفاظ سے لے کر دلا تخصیص تک کی عبارت تو الاقتصاد ملک پر موجود ہے اس کے بعد یہ فقرہ ہے.فَمَنْكِرُ هذا لا يكون الأمنكر الاجماع - یہ فقرہ مفتی صاحب نے حدت کر کے اس کے بعد کی عبادت خود گھڑ کر امام غزالی علیہ الرحمتہ کی طرف منسوب کر دی ہے کیا اس قسم کی خطرناک تحریف کرنے والے عالم اور مفتی سے کسی نفرات کی توقع ہو سکتی ہے.ہم مفتی صاحب کو پانچصد روپیہ انجام دیں گے اگر وہ یہ عبارت الاقتصا سے دکھا دیں میں پر ہم نے خط کھینچ دیا ہے.مگر وہ نہ دکھا سکیں.اور وہ ہرگز نہیں دکھا سکیں گے لہذا ظاہر ہے کہ انہوں نے اس عبارت کو امام خوابی علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کر کے ان پر افتراء کیا ہے.اس عبارت کا ترجمہ مفتی صاحب نے یہ درج کیا ہے:.غرب کجھ لو کہ تمام است نے آیت خاتم النبیین کے الفاظ سے یہی سمجھا ہے کہ یہ آیت مبتلا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 120

(11 کے بعد نہ کوئی بنی ہے نہ رسول.اور اس پر بھی اجتماع واتفاق ہے کرنہ اس آیت میں کوئی تاویل ہے اور نہ تخصیص.اور میں مشخص نے اس آیت میں کسی قسم کی تخصیص کے ساتھ کوئی تاویل کی اس میں کا کلام ایک بکو اس رہندیان ہے.یہ تاویل اس کے اوپر کفر کا حکم کرنے سے روک نہیں سکتی کیونکہ وہ اس نص صریح کی تکذیب کرتا ہے جس کے متعلق است محمدیہ کا اتفاق ہے کہ اس میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں ہے (ختم نبوت کا مل مل ۱۳) خط کشیدہ ترجمہ ایسی عبارت کا ہے جو الا اقتصاد میں موجود نہیں، یہ عبارت مفتی صاحب نے احمدیوں کو کا قریبتانے کے لئے خود گھڑی ہے اور الاقتصاد کی عیادت کے پہلے حصے کے ساتھ ملا کر اپنی کتاب میں کر دی ہے.پھر ختم جبورت کامل کے ملک پر مفتی صاد بنے یہ عبارت لیس فیہ تاویل ولا تخصیص سے آخر تک درج کی ہے.اس میں لیس فیہ تاویل ولا تخصیص کے بعد کی ساری عبادت الاقتصاد میں موجود نہیں اور یہ سراسر محرف عبارت ہے.الاقتصاد میں حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ نے مسلمانوں کی تکفیر کے رجحان کو مٹانے کی کوشش کی ہے نہ کہ انہیں کافر قرار دینے کی.وہ معتزلہ اور مشبہ فرقوں کو رسول کا مکذب نہیں جانتے اور تاویل کی بناء پر کافر قرار نہیں دیتے چنانچہ وہ فرماتے ہیں ؟.تدليل المنع مِنْ تَكْفِيرِهِمْ أَنَّ الثَّابِتَ عِندنا கும்

Page 121

نسون المُكَذِبِ لِلرَّسُولِ وَهُوَ تلد بين أصلاً و لَمْ يَقبَتْ لنا أن القطاء في القاوِيلِ مُوجِبْ لِتَلْفِيرِ فَلا بد من كليل عَلَيْهِ وَثَبَتَ أنَّ الْعِصْمَةَ مُسْتَفَادَةٌ مِنْ قويه لا إله إِلَّا اللهُ قَطَعًا فَلَا يُدْفَعُ ذَلِكَ الا بقا طع وهذَا الْقَدَرُ كَاتٍ فِي التَّنْبِيهِ عَلَى آن استرات من بالغ فِي التَّكْفِيرِ لَيْسَ مَنْ بُرْهَانٍ فَاِنَّ البُرْهَانَ إِمَّا أَصْكَ أَوْ قِيَاس على الأصل والأصل هو التكذيب الصريح وَمَن لَّيْسَ بِمُكَذِّبِ فَلَيْسَ فِي مَعْنَى المَكَذِّبِ اصلا فيبقى تحتَ عُمُومِ العِصمَة بِكَلِمَةِ الشهادة الاقتصاد مثلا) " یعنی اس امر کی دلیل کہ انہیں کا فرنہیں کرنا چاہیئے.یہ ہے کہ ہمارے نزدیک نعت (سرعی) سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھیلانے والا ہو وہ کافر ہوتا ہے اور یہ فرقے (معتزلہ وشیہ) ہرگز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکذب نہیں اور ہمارے نزدیک یہ ثابت نہیں کہ تاویل میں غلطی کھانا موجب تکفیر ہے اور یہ امر ثابت شدہ ہے کہ کلم فیب ا الہ اللہ کہنے سے انسان کو جان ومال کی حفاظت حاصل ہو جاتی ہے اور جب تک اس کے خلاف کوئی یقینی دلیل نہ ہو یہ حفاظت قائم رہے گی اور ہمارا

Page 122

اس قدر کہنا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ تکفیر میں حد سے تجاوز کرنے والے کا فعل کسی دلیل پر مبنی نہیں کیونکہ دلیل یا اصل ہوگی یا کسی اصل پر قیاس ہو گی.اور اصل اس بارہ میں مریخ تکذیب (رسول) ہے اور ہر نکل رہے نہ ہو وہ مکتب کے معنوں حکم میں قرار نہیں دیا جاسکتا.لہذا کی شہادت کی وجہ سے ایسے شخص کو عام صحت حاصل ہو گی یعنی اسے کافر قرار دینا جائز نہ ہوگا.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تکذیب نہ ہو اور نصوص قرآنیہ کو صحیح مانتا ہو اور کسی نص کی تاویل کرتا ہو تو وہ حضرت امام غزالی کے نزدیک نعت کا مکذب قرار نہیں دیا جاسکتا.وہ فضا چکے ہیں کہ اس بات کا ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملا کہ نادیل میں غلطی تکفیر کا موجب ہے اندریں حالات وہ کیسے لکھ سکتے تھے کہ خاتم النبین کی نفق کی تاویل کرنے والا نفس کی دریج تکذیب کرتا ہے اور یہ تادیل اس کے اوپر کفر کا حکم کرنے سے روک نہیں سکتی.آخری فقرہ جو امام غزالی کیوت تحریف کرتے ہوئے منسوب کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ : اجمعت الأمة على انه غير ما ول ول مخصوص : اس میں امام غزالی کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ خاتم النبیین کی میں امام کہ تاویل کرنے والا اس لئے مکتب قرار دیا جائے گا کہ امت نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ اس آیت کی نہ کوئی تا بدیل ہونی چاہئیے اور نہ کوئی تخصیص.

Page 123

۱۱۴ حضرت امام غزالی علیہ الرحمتہ یہ بات بھی نہیں کہہ سکتے تھے اس لئے کہ اجتماع امت بھی ان کے نزدیک تکفیر کا موجب نہیں ہو سکتا.چنانچہ وہ الاقتصاد ملا اور ملا پر سکھتے ہیں :- من الكر وجُودَ أَبِي بَكْرٍ وَ خِلَافَتَهُ لَمْ يَوْمَ تَكْفِيرُة لأنَّهُ لَيْسَ تَكْذِيْبًا فِي أَصْلٍ مِّنْ اُصولِ الدِّينِ مِمَّا يَجِبُ التَّصَدِيقُ لَهُ بِخِلَانِ الحج والصلوة وَأَرْكَانِ الْإِسْلَامِ وَ لَسْنَا تَلَفرَة لِمُخَالُنَةِ الْإِجْمَاعِ فَإِنَّ لَنَا نَظرًا فِي تَكْبِيرِ النظام المُنكَرِ لاصل الإجتماع لان الشبهة كَثِيرَة فِي كَوْنِ الْإِجْمَاعِ حَجَبَةٌ قَاطِعَةٌ : الاقتصاد موما) یعنی جو شخص حضرت ابو بکر کے وجود اور ان کی خلافت کا انکار کرے اس کی تکفیر لازم نہیں ہوگی کیونکہ یہ امر اصول دین میں سے کوئی اصل نہیں جس کی تصدیق واجب ہو نخیلات بی، نماز اور ارکان اسلام کے اور ہم ایسے نفس کی تکفیر اور اور ہم اسے اجماع کا مخالف ہونے کی بناء پر بھی نہیں کرینگے.کیونکہ ہمیں نظام کو کافر ٹھیرانے میں بھی اعتراض ہے جو سرے سے اجماع کے وجود کا ہی منکر ہے کیونکہ اجماع کے قطعی محبت ہونے میں بہت سے شبہات ہیں.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ صرف اصول دین کی تکذیب کو امام غزالی موجب کفر قرار دیتے ہیں.لیکن اجماع امت کی بناء پر وہ کسی کی تکفیر کرنے کو

Page 124

110 جائز نہیں سمجھتے.چنانچہ انہوں نے نظام معترالی کو جو سرے سے اجتماع کا منکر ہے کا فر قرار دینے کو قابل اعتراض جانا ہے.اور دلیل اس کی یہ دیس ہے کہ اجماع کے حجت قطعی ہونے میں بہت سے شبہات ہیں.ایسی عبارت کی موجودگی میں وہ خاتم النبیین کی نص کو مان کر اس کی تاویل کرنے والے کو اجماع امت کی بناء پر کس طرح کا فر قرار دے سکتے ہیں جبکہ خورا جماع اقت کے قطعی ہونے میں ان کے نزدیک کئی شہیہات ہیں اور نقص کو مان کر اس کی تادیل ان کے نزدیک تکذیب نفس نہیں کہ موجب تکفیر ہو.اس سیاق سے ظاہر ہے کہ جناب مفتی صاحب نے اپنی محولہ عبارت کے پہلے حصے کو سیاق سے الگ کر کے پیش کر کے مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے.اور حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ پر افتراء سے کام لیا ہے.حضرت امام غزالی کا مذہب یہ ہے کہ کاموں الہ الا اللہ پڑھنے والا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا.اس کے بعد وہ یہ لکھتے ہیں کہ اگر ہم کلم لا الہ الا اللہ پڑھنے والے کے لئے تکفیر جائز رکھیں تو پھر تو ایسے شخص کو جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد رسول کے آنے کو جائز رکھے فورا کا ترقرار دینا ہوگا.اور اس شخص کو کافر قرار دینے کے لئے دلیل صرف یہی پیش ہو سکے گی کہ وہ اجماع کا منکر ہے کیونکہ عقل نہیں اور رسول کے آنے کو محال قرار نہیں دیتی اور تاویل کرنے والے کو اس کی تاویل میں عاجز نہیں کیا جاسکتا.بندا قام البان کی تاویل کرنے والے کو صرف اجماع کا شکر قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ وہ پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اجماع کا مسکران کے نزدیک کافر نہیں.پیر مفتی صاحب کا

Page 125

ان کی طرف یہ خہارت منسوب کرنا کہ وہ خاتم النبین کی تاویل کرنے والے کہ کا فر جانتے ہیں.امام غزالی کے کلام کی سراسر تخریف ہونے کی وجہ سے ان پر افتراء عظیم ہے میں حیران ہوں کہ مفتی صاحب جیسے عالم نے ایسی خطرناک شریف کی جرات کیسے کی ہے؟ جماعت احمد خاتم النب ) حقیقت یہ ہے کہ جماعت احمدیہ خاتم النبیین آپ نہ اس جماعت احمد خاتم النبین کسی نقص کی تاویل نہیں کرتی اور نہ اس میں نفی کی تاویل نہیں کرتی کی تخصیص کی قائل ہے.جماعت احمدیہ کے نزدیک تو خاتم النبیین کے وہی دو منے مسلم ہیں جو مولانا محمد قائم آنے بیان کئے ہیں.اول معنی مصدری ہیں دوم لازم المعنی - خاتمیت بالذات مرتبی ہیں جس کے فیض سے تمام انبیاء ظہور معنی اول پذیر ہوئے اور بالعرض آئندہ اتنی نبی پیدا ہو سکتا ہے میں سے خاتمیت محمد سی یعنی خاتمیت مرتی اور حقیقت زمانی میں کوئی فرق نہیں آئیگا.خاتمیت زمانی جس کا مفہوم علماء اسلام کے نزدیک ۲ معنی دوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شریعت لانے والے بنی ہیں.ان معنی سے علم بی بی ال کی آمد کا جواز نکالتے ہیں یہی وجہ کہ ہانی اگر یہ تاویل ہے تو پھر یہ علماء تاویل کرنے والے ہیں.اگر تخصیص ہے.تو یہ علماء تخصیص کرنے والے ہیں لہذا سب پر کفر کا فتویٰ لگنا چاہئیے کیونکہ مفتی صاحب کی شرفہ عبارت کے مطابق خاتم النبین کی تادیل تا تخصیص کرنے والا کا فر ہے پھر اس صورت میں مفتی محمد شفیع صاحب کو اپنا بھی ذکر کر

Page 126

112 ے کیونکہ وہ خاتم النبیین کے معنی میں تخصیص کر رہے ہیں کہ آنحضرت سلے اللہ علیہ وسلم وضعت نبوت پانے میں آخری نبی ہیں.یا مر علی الاطلاق آخر النبتین کے معنوں کو چھوڑ کر ایک تا ویل اور تخصیص ہی ہے اگر مفتی احساسی اپنے معنوں کو غیر ماحول قرار دیں تو اپنے نفس کو قریب دے رہے ہوں گئے.کیونکہ ان کے معنے آخر النب تین علی الاطلاق کے خلاف ہیں.ماسوائے اس کے قارئین کرام پر واضح رہے کہ خاتم النبیین کے معنوں میں امت کا اتفاق صرف اس بات پر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و ہم آخری تشریعی نبی آخری مستقل نبی ہیں.استخابی کے انقطاع پر علما ءداقت کا کبھی اجماع نہیں ہوا.خود مفتی محمد شفیع صاحب کے نزدیک میں قسم کی نبوت کا حضرت مرزا صاحب کو دعوئی ہے وہ نبوت کی کوئی قسم ہی نہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں :- مرنا صاحب نے جس کا نام غیر تشریعی رکھا ہے وہ نبوت کی کوئی قسم نہیں رختم نبوت کامل مثه حاشید لندا مفتی صاحب کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تکفیر کا کوئی حق نہیں پہنچتا.کیونکہ ان کے نزدیکت انبیاء علیہم السلام سب کے سب تشریعی ہیں.اور شریعت لازمہ نبوت ہے.(ملاحظہ ہو ختم نبوت کامل حاشیہ مشد) اب ایک عالم کی حیثیت میں مفتی صاحب کو اپنی تعریفیت نبوت کے پیش نظر یہ لازم ہے کہ وہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی پیش کر وہ غیر تشریعی نبوت کو جو ان کے نزدیک قسم نبوت نہیں ہے مجازی نیوت قرار دیں کیونکہ ن کی تربیت

Page 127

ورت کے مطابق حضرت بانی تسلسلہ احمدیہ نے دعوی نبوت کیا ہی نہیں.اور جس قسم بوست کا آپ کو داری ہے وہ مفتی صاحب کے نزدیک نبوت ہے ہی نہیں ہیں اس تقسیم نبوت پر مفتی صاحب کی اصطلاح کے مطابق نبوت کے لفظ کا اطلاق مجازی بی قرار پائے گا.لہذا مفتی صاحب کے لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کالنے کا ہرگز کوئی جواز نہیں.اگر وہ تکفیر پر قائم رہیں تو وہ قیامت کے ن اس بارہ میں قابل مواخذہ ہوں گے.حضرت امام علی القاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:.ذا المنزلة التجارية لا تُوجِبُ الكفر ولا البدعة : (شرح شفا قاضی عیاض جلد ملاك ) کہ نبوت کا مجازی مرتب نہ کفر ہے نہ ہدفت.پس مفتی صاحب کی ساری کوشش حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی تکفیر میں فقہ حنفی کے خلاف ہے.اور ان کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا ہے.فاعتبروا یا اولی الابصار ضروری نوٹ یہ واضح رہے کہ خاتم النبین کی آیت میں آئندہ کے متعلق یا سے نگوئی ہے مفتی صاحب کے نزدیک اس پیشگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ہوائے حضرت میے علیہ السلام کے اور بعض مسلمان اس بات کے قابل چلے آئے ہیں انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والا پہلے در اصل امام مہدی ہے جو حضرت پیسے کا بروز ہوگا اور وہ جینے کے بروز کے ظہور میں آیت خاتم النبین کو روک نہیں جانتے.پس جیب خاتم النبین آئندہ کے متعلق پیشگوئی ہے اور اس کے مفہوم میں اختلاف بھی موجود ہے.تو پھر یہ دعوی کرنا کہ فلان معنوں

Page 128

114 پر امت کا اجماع ہے ایک باطل دخوئی ہے کیونکہ فقہ حنفی کی کہو سے تو آئند کے متعلق پیش گوئیوں کے مفہوم کے بارے میں اجماع ہو ہی نہیں سکتا.چنانچہ مسلم الثبوت مع شرح میں لکھا ہے :.واما في المستقبلات مَا شَرَاءِ السَّاعَةِ وَ أُمُورِ الْآخِرَةِ فلا راي الإجماع، عِنْدَ الْحَنْفِيَّةِ لان الغيب لا مَدْخَلَ فِيهِ الاجتهاد : اسلم الثبوت مع شرح ) یعنی جو باتیں مستقبل سے تعلق رکھتی ہیں جیسے اشراط ساختہ اور امور آثرت میں ان میں مفیوں کے نزدیک اجماع نہیں ہے کیونکہ امور غیبیہ میں اجتہاد اور چونکہ آیت خاتم النبین سے آئندہ نبی کا آنا یا نہ آنا مستنبط کرنا بھی امور مستقبلہ میں سے ہے اس لیے مفتی صاحب کے اجتہادی معنی کسی پر محبت نہیں ہو سکتے.اور نہ وہ ان معنوں کو اجتماعی معنی قرار دینے کا ستی رکھتے ہیں.مفتی صاحب کے خاتم النبیین کے یہ اجتہادی معنی کہ آنحضرت صل اللہ علیہ کم وصف نبوت پانے میں سب سے آخری نبی ہیں.ان احادیث نبویہ کے رو سے باطل ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو اس وقت نیومت علی جیب آدم علیہ السلام ابھی پیدا بھی نہیں ہوتے تھے.پس مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کی طرح جماعت احمدیہ بھی خاتم النبین کے معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبیوں کے لئے روحانی خاتم دھری) قرار دے کر سیح موعود کی نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم روحانی کا فیض

Page 129

جانتی ہے اور آپ کے تابع امتی نبی کی حیثیت میں مانتی ہے نہ کہ شارع یا مستقل بنی کی حیثیت میں.مگر مفتی محمد شفیع صاحب کو چونکہ ہمارست مینی مسلم نہیں اس لئے وہ ہمیں چلیچ کرتے ہوئے سکھتے ہیں :- اے مرزائی جماعت اور اس کے مقتدر ارکان ! سی ما کا بیج اگر تمہار سے دھونی میں کوئی صداقت کی ہو اور قلوب میں کوئی غیرت ہے تو اپنی ایجاد کردہ تفسیر کا کوئی شاہد ماجد ساری تیس پاروں میں پیش کرده است مل کو قرآن وقتہ میں سے کوئی سے کسی ایک آیت میں احادیث کے غیر ایک حدیث میں اگر چہ ضعیف ہی ہو.صحابہ وتابعین کے لیے شمار آثار میں سے کسی ایک قول میں یہ دکھلاوہ ہے کہ خاتم النبین کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی مہر سے انبیاء بنتے ہیں تو ہم سے پانسور دی نقد انعام وصول کر سکتے ہیں.سلائے عام ہے یاران کشتہ اس سال ہے.رشتہ نبوت کامل مش ) + مفتی صاحب موصوف کے اس چیلنج کے جواب میں ہماری چیلنج کا جواب گذارش ہے کہ بہتر ہوتا کہ پی لینی آپ علمائے دیوبند کو دیتے کیونکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی فر سے نبی بننے کے معنی اتول تو موادی محمد قاسم صاحب کو ستم میں چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلم تم کی خاتمیت بالذات مرتبی کو بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:.ا جیسے خا تم بفتح تا کا اثر مختوم علیہ پر ہوتا ہے ایسے ہی موصوف

Page 130

۱۲۱ بالذات کا اثر مو صوت بالعرض میں ہو گا " تحذیر الناس (٣) خاتم کے ان معنی کے لحاظ سے مولانا محمد قاسم صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو آیت خاتم النبین کے پیش نظر بالذات قرار دیتے ہوئے باقی تمام انبیاء کی نبوتوں کو بالعرعن قرار دیتے ہیں اور خاتم النبیین کا مفہوم یہ بتاتے ہیں کہ اوروں کی نبوت تو آپ کی نبوت کا فیض ہے.پر آپ کی نبوت کسی اور نبی کی نبوت کا فیض نہیں، (تحذیر الناس قدم ) انی معنے کے رو سے مولانامحمد قاسم صاحدی نے آئندہ کے متعلق یہ لکھا ہے کہ بالفرض اگر بعد نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئیگا : التحذیر الناس منت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بھی خاتم النبین کی تر کو افاضہ کمال کے لیئے قرار دیا ہے اور اس کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی تو یہ روحانی بنی اتراش ہے.یہ قوت قدسیہ کسی اور نی گوندیں ملی حقیقة الوحی حاشیه شش گویا آنحضرت صلے اللہ عید یکم کی خاتم روحانی کا اثر آنحضرت صلی اللہ علیہ کم کے ظہور کے بعد بھی کسی بنا کے پیدا ہونے میں مائع نہیں یہ اثر ہونا بھی وائٹی چاہیئے کیونکہ آنجہ سے علی الہ علیہ و سلم دائما خاتم النبین ہیں.علمائے دیوبند میں سے مولانا محمد قاسم صاحب کے علاوہ مولوی منو اکسین صاحب کو بھی خاتم النی تین کے معنی انبیاء مسابقین کے لئے مر سے نہیں بننے کے

Page 131

مکم ہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں :.جس طرح روشنی کے تمام مراتب آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں.اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب کمالات کا سلسلہ الح محمدی پر ختم ہو جاتا ہے.بدین لحاظ کہ سکتے ہیں کہ آپ مرتبی اور زمانی لحاظ سے خاتم النبین ہیں.اور جیس کو ثبوت ملی ہے آپ کی لگ کر ملی ہے.ر تفسیر شیخ العقد مولوی محمود الحسن صاحب دیوبندی مشده شائع کرده اداره اسلامیات) اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ خاتم النبیین کی مر لگ کر بنی بجنے کے معنی مولوی محمود الحسن صاحب دیو بندی کو بھی مسلم ہیں.دیوبندیوں کے یہ دونوں ستم یہ بزرگ مولانامحمد قاسم صاحبت اور مولوی محمود الحسن صاحب خاتم النبيين کے معنوں میں مر کی طرح کا اثر ان معنوں میں قرار دے رہے ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے فیض سے تمام انبیاء کو نبوت ملی.لہذا اب مفتی محمد شفیع صاحب بتائیں کہ مولانا محمد قاسم صاحبین اور مولوی محمود حسن صاحب کے جو علماء دیوبند میں سے سرکردہ عالم ہیں خاتم النبین کے معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم دگر، کی تاثیر سے نہیں بیلنے کے کس آنت قرآنیہ اور کسی حدیث نبوی کی رو سے بیان کئے گئے ہیں یا ان کے یہ منے آثار صحابہ میں سے کسی اثر کے مطابق ہیں.مفتی محمد شفیع صاحب کو مبات احمدیہ کو پانچ صد روپیہ کا انعامی چیلنج دینے سے پہلے اپنے ان پور گوا ہے

Page 132

۱۳۳ پیش کردہ معنوں کا ثبوت آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ میں تلاش کرنا چاہیے تھا.کیونکہ یہ معنی ان کے مسلمہ بزرگوں کی طرف سے بھی بیان شده موجو د ہیں.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہ معنی جب ان کے ہاں بھی مسلم ہیں تو پھر وہ خود ان کی تائید کیوں نہیں کرتے اور الٹا قرآن و حدیث اور صحابہ سے ان معنوں کی صحت کا ثبوت جماعت احمدیہ سے کیوں مانگتے ہیں؟ پر مفتی صاحب کو یا تو یہ پانچ واپس لے لینا چاہیئے.اور مولوی محمد قاسم صاحب اور مولوی محمود الحسن صاحب کے ان معنیٰ کا ثبوت خود قرآن مجید ا در احادیث نبویہ اور آثار صحابہ سے تلاش کر کے دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے.یا پھر انہیں چاہئیے کہ واشگاف الفاظ میں اپنے ان بزرگوں کو مہر سے بنی بننے کے معنی بیان کرنے میں فلسطی خوردہ قرار دیں.لیکن اگر مفتی صاحب ان دونوں دیوبندی عالموں کے معنوں کو غلط قرار دیں تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مفتی صاحب موصوف کا ان سنتوں سے انکار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام انبیاء پر افضلیت بالذات مرتبی کے امکان کو مستلزم ہوگا.کیونکہ مولانا محمد قاسم صاحب نے مولوی عبد العزیز صاحب کے ان معنی کے انکار پر لکھا ہے :- آپ خاتمیت تیجا کو مانتے ہی نہیں خاتمیت زمانی کو ہی آپ تسلیم کرتے ہیں خیرا گرچہ اس میں درپردہ انگارا فضلیت نامہ بلوی صلے اللہ علیہ وسلم لازم آتا ہے.لیکن خاتمیت زمانی کو آپ اتنا عام نہیں کر سکتے جتنا ہم نے خاتمیت مرتبی کو عام کر دیا تھا.و من خره مجيبه منه

Page 133

۱۲۴ مہر سے نبی بننے کے معنی مفتی محمد شفیع صاحب پر واضح ہو کہ حضرت کی ٹھوس بنیاد مولانا محمد قاسم صاحب کے معنی ایک ٹھوس بنیاد پر مبنی ہیں اور وہ ٹھوس بنیاد آیت خاتم النبین کا سیاق کلام ہے.اس بارہ میں مولانامحمد قاسم صاحب کے بیان کا حوالہ ہم پہلے دے چکے ہیں.انہوں نے بتایا ہے کہ آیت تما کان محمد أبا أَحَدٍ مِنْ رِجَ الكُمْ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ابوت جسمانی کی کسی مرد کی نسبت سے نفی کی گئی ہے اور کک مان رسولی الله وعالم اللبن کے الفاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کا روحانی باپ قرار دیا گیا ہے اور خاتم النبین کے الفاظ سے آپ کو انجیار کا باپ قرار دیا گیا ہے.اب کے معنی از روئے لغت عربی مفردات القرآن خود مفتی صاحب نے کسی شئی کی ایجاد و ظہور کا سبب تحریر کئے ہیں.چنانچہ وہ اپنی کتاب ختم نبوت کامل کے مارنے کے پر حوالہ کے دن ہے مفروات القرآن سیکھتے ہیں:.ريمى كلاً مَنْ كَانَ سَبَبًا فِي الْهَادِشَى او ظهور آیات یعنی ہر اس شخص کو باپ کہا جاتا ہے جو ایک شئی کی ایجاد اور اس کے ظہور کا سبب ہو.آیت ہذا کے سیاق سے ظاہر ہے کہ خاتم النبین کے الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبیوں کا خاتم کا انبیاء کے لئے آپ کی

Page 134

۱۲۵ ابوت معنوی رروحانی ثابت کرنا مقصود ہے لہذا آپ کی نبوت تمام انبیاء کے مقابل بالذات قرار پائی.اور تمام انبیاء کی قوتیں بالعرض معینی آپ کے واسطہ سے قرار پائیں.لغت عربی ان معنوں کی موید ہے جیسا کہ مفروت القرآن کے حوالہ سے جو قرآن مجید کی لغت کے لئے سب سے مستند کتاب ہے ہم ثابت کر چکے ہیں کہ تم مصدر کے ایک معنی تاثیر الشی ہیں.دوسرے معنی اس تاثیر کا اثر حاصل نہیں پپس خاتم اور خاتم ہر دو قراتوں کے معنی ہوئے نبیوں کے ظہور کے لئے موثر ذریعہ یا موثر نہیں.اور یہ مصدری معنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو ابو الانبیاء ثابت کرتے ہیں.اور سیاق آیت کے عین مطابق ہیں.لہذا تمام انبیاء آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی خدا تم کا اثر حاصل قرار پائے.مفتی محمد شفیع صاحب پر یہ بھی واضح ہو کہ مولانامحمد قاسم صاحب نے انخصیت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین معنی خاتم بالذات مرتبی کے ثبوت میں احادیث کی بھی نشان دہی کی ہے آپ نے اپنی کتاب تحذیر الناس کے شروع میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے پیش نظر خاتم النبیین کے یہ مینے اختیار کئے ہیں.اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مختلف طبقات ارض میں ہمارے طبقہ کی طرح آدم - نوح- موسی جیسے علیہ السلام کی طرح نبی ہیں اور تمہارے نبی کی طرح بھی نبی ہیں گویا انبیاء بھی ہیں اور خواتیم الانبیاء بھی.مولانا محمد قاسم صاحب جے نے اس حدیث کی تشریح میں اپنی کتاب سخریہ الناس کی ساری محبت تحریر فرمائی ہے اور ثابت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 135

کے خاتم النبین ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی نبوت بالذات ہے اور سوا آپ کے تمام انبیاء اور خواتیم انبیاء کی نتونین بالعرض ہیں.یعنی اُن سب کی نہوئیں آپ کی خاصیت بالذات کا فیض ہیں اور آپ کی نبوت کسی اور نیا یا خاتم کا فیض نہیں.پھر آپ نے خاتم النبیین کے ان معنوں کا اثر یہ بتایا ہے کہ ان معنی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت نہ صرف انبیاء کے افراد خارجی (انبیائے سابقین ، پر ثابت ہوتی ہے بلکہ افراد متقدره یعنی جن کا آنا اللہ تعالے کے نزدیک مقدر ہے پر بھی ثابت ہو جاتی ہے.اور اس طرح ان معنوں کا اثر یہاں تک تقسیم کیا ہے کہ بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.د تحذیر الناس مش ۲۵ بنحاظ ایڈیشن مختلف) پھر مولانا محمد قائم صبا دیتے نے ان معنی کے ثبوت میں ایک دوسری حدیث نوسی تحزیر الناس میں گشت نبياء المبينَ المَاءِة الطين كُنتُ نَبِيَّادَ پیش کی ہے.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی پانی اور گیلی مٹی کی حالت میں تھے.علیہ مولانا محمد قاسم سا ہے نے اس حدیث سے یہ استنباط کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت بالذات ہے جو شہر کی طرح تاثیر رکھتی ہے.وجہ اس کی یہ ہے کہ اتنا ضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب آدم سے پہلے نبی تھے تو خاتم النبین کی حیثیت سے نبی تھے معمولی نبی نہ تھے چنانچہ حدیث راقی

Page 136

عِنْدَ اللهِ لَخَاتَمُ النَّبِينَ وَانِ أَدَم لَنْجِدِل فِي طِينِهِ الى معنی کی مٹوید ہے.(ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر بر حاشیه فتح البیان جلده ملك بحوالہ مسند احمد بن صفیق) الی سکیم میں خدا تعالے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو احادیث نبویہ کے مطابق اس وقت نبی اور خاتم النبین قرار دیا.جب آدم ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے.پس الی سکیم میں آپ نے صرف بطو ر نہیں ہیں علمی وجود نہیں پا یا ملکہ آپ کی نبوت وصف خاتم النبین کی جامعہ قرار دے دی گئی تھی.خاتم النبین ہی کا یہ علمی وجود و تمام انبیاء کے ظہور میں ابوالا انبیاء ہو کہ بطور سبب وعلت مؤثر رہا ہے الا میرا جناب مفتی صاحب نے اپنی کتاب ختم نبوت مفتی حنا پر اقبالی ڈگری استامل کے مال پر ابن کثیر رشته فتح البان 1990 کے حوالہ سے حضرت ابو ہریرہ سے مرفوعا یہ حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.آنا اول الانبياء خلقا وأخرهم بثاً اس کا ترجمہ مفتی صاحب کے یہ لکھا ہے.میں پیدائش میں تمام انبیاء علیہ السلام سے پہلے تھا اور بہشت میں سب سے آخر میں نے پھر اس پر حاشیہ میں لکھا ہے کہ :- اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ عالم ارواح میں سب سے پہلے منصب نبوت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو ملا جس کے لحاظ سے آپ جس طرح خاتم النبیین ہیں اسی طرح اول النبتين بھی ہیں.

Page 137

IP^ مگر اس جگہ کلام اس دنیا کی زندگی کے متعلق ہے اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء کے آخر میں منصب زیریت پر فائزہ ہوئے ہیں.واضح ہو کہ اس حاشیہ کا پہلا حصہ درست ہے اور شکر ہے کہ مفتی صاحب نے اس حدیث کی رو سے آخر تسلیم کر لیا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو منصب نبوت سب انبیا ء سے پہلے ملا تھا.اور اسی وقت سے آیا تم النبین ہو کر ا ول النبین بھی ہیں.یہ اعتراف کرنے کے باوجود مفتی صاحب اپنے ڈگر پر قائم رہنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی بیچی ہے ہوہ بات لکھ رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخر میں منصب نبوت پر فائز ہوئے ہیں.منصب نبوت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے ملے اور سب سے آخر میں منصب نبوت او پر فائز ہوتے ہیں تنا فق ہے.دونوں میں سے ایک ہی بات درست ہوسکتی ہے.پس صحیح بات مفتی صاحب کی نمو حبیب الفاظ حديث أنا اول الانبياء خدتا پہلی ہی ہے کہ آپ کو منصب نبوت سب انبیاء سے پہلے ملا.اور حدیث کے الفاظ اخرهم بعشا کا صرف یہ مضموم نبتا ہے کہ اپنے پیسے نصب خاتم النبین کے ساتھ مبعوث ہو کر آپ آخری تشریعی اور مستقل بجا ہیں.أخرهم آخر هم بعثا کے الفاظ سے مسیح موعود نبی اللہ کا امت محمدیہ میں آپ کے بعد سکوت ہونے سے انکار مقصود نہیں ورنہ اس حدیث اور نزول مسیح کی عادت میں تضاد پایا جائے گا.کیونکہ نبوت عامہ کے ساتھ مسیح موعود علیہ السلام حب

Page 138

۱۲۹ چاہئے.پیشنگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعیت میں آپ کے بعد مبعوث ہونا کی ما وليكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَيب کی آمد کا جواز من اللين والعديد يقين والشهداء ـا مِّنَ والصلعین سے ثابت ہے کہ نزول قرآن مجید کے بعد نبیوں اللہ بقول شہر راء اور صالحین میں شامل ہونے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت شرط ہے.پس یہ آیت آئندہ زمانہ کے لحاظ سے آنحضرت سلے اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف خاتم النبین بالذات ثابت کرتی ہے بلکہ خاتم المندر فین بالذات، خاتم الشهداء بالذات اور خاتم السائحين بالذات بھی ثابت کرتی ہے ابھی یعنی میں مولانا محمد قاسم صاحب نے آنحضرت سے اللہ علیہ وسلم کو خاتم کا ملین بھی قرار دیا ہے.مراد یہ ہے کہ آئندہ سب مختلف مداری کے روحانی کمال رکھنے والے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے پیدا ہوں گے.آپ خاتم الکاملین ان معنوں میں قرار نہیں دیئے گئے کہ آپ کے بعد روحانی کمالات رکھنے والے لوگ پیدا نہیں ہوں گے.مفتی محمد شفیع صاحب نے اس آیت کو بھی خاتم النہ تین کے معنی بجھانے کے لئے تفسیر القرآن بالقرآن کے طور پر اپنی کتاب ختم نبوت کا مال کے قاب کچھ پر آیت ہونے کے طور پر درج کیا ہے.ہمارے نزدیک بھی یہ آیت آئند زنم کے لئے خاتم النبین کی تفسیر ہے اور خاتم کے معنے لغت عربی کے لحاظ سے فیر کا ہونا مولوی محمد شفیع صاحب کو بھی سلم ہے گو وہ آپ کو نبیوں کو مینہ کرتے

Page 139

والی شهر قرار دیتے ہیں مگر موں نا محمد قاسم صاحب نے خاتم النبیین کی تفسیر میں خاتم کو اس کے لغوی مصدری معنوں میں لے کر آپ کو خاتم بالذات قرا نہ دیا ہے اس مفہوم میں کہ تمام نبیوں نے آپ کے خاتم بالذات ہونے کے واسطہ سے نبوت کا نیین پایا ہے گویا ان کے ظہور میں آپ بالواسطہ موثر ہیں اب جبکہ شریعت محمدیہ نامہ کا مستقله إلى يوم القيامة آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آگئی تو آپ سے علیہ وسلم کی اطاعت شرط ہوگئی.لہذا کوئی مستقل نبی اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا.ان امتی کو نسلی طور پر مقام نبوت بل کھتا ہے نوس نقل نبی نہیں ہوگا.بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ہوگا.کیونکہ انتی نبی اور نطقی بنی ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں.البتہ مقام نبوت پانے کی وجہ سے وہ انبیاء کے زمرہ میں شامل ہوگا جس طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے بعض لوگ اس آیت کی روشنی میں صدیقوں ایہ نامہ کالم الا فیض پانے کے لئے آنحضرت صلے اللہ میں شامل ہوں گے اور حج شہیدوں میں اور بعض صالحین ہیں.پس یہ آیت خاتم النبیین کی خاتم بالذات کے فیض سے آئندہ انتی بی کے پیدا ہونے کے لئے روشن دلیل ہے یعنی صاحب نے اس آیت کی تفسیر اپنے مطلب کے مطابق یوں بیان کی ہے کہ : اس آیت میں در حیات بات اور ملزبین خداوندی کے ساتھ ہونے کا وعدہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر کیا گیا جو اس کا صاف اعلان ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گیا.وگرنہ قرین

Page 140

خدا وندی کے ساتھ ہونے کے لئے اس کی اطاعت بھی لازمی ہوتی رختم نبوت کامل منت گویا مفتی صاحب آیت فاو ليك مع الذين انعم الله عليهم من النبین کے قبلہ اسمیہ کے معنی جو استمرالہ پر دلالت کرتا ہے آخرت میں در حیات ملنے سے متعلق قرار دے رہے ہیں.ہم مانتے ہیں کہ قیامت کو بھی اطاعت کرنے والے اپنے اپنے درجہ کے مطابق نبیوں یا صدیقیوں یا شہداء یا صالحین میں شمار ہوں گے مگر یہ آیت ان درجات کا پانا قیامت سے وابستہ نہیں کرتی.جملہ اسمیہ چونکہ استمرار کا فائدہ دنیا ہے اس لئے جو لوگ اس دنیا میں نبوت یا صدیقیت یا شہادت یا صالحیت کا مرتبہ پائیں گے.وہ آخرت میں بھی ان مدارج پر ثواب پانے ہیں ان گروہوں میں شامل ہونگے.پھر مفتی صاحب نے جب جنت میں آمنیوں کا بلیوں کے درجات پاتا مان لیا.تو خاتم النبیین کے ان کے معنے کیسے درست رہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص دست نبوت سے متصف نہیں ہو سکتا ، جب خاتم النبیین کے بعد میت میں درجہ نبوت مل سکتا ہے تو یہ لوگ آخرت میں وسطی نبوت سے متصف ہو جائیں گے اور مفتی صاحب کے خاتم النبین کے یہ معنی غلط قرار پا چیا ئیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وصعت نبوت پانے میں سب سے آخری بنی ہیں.مفتی کا یہ بیان فرماتے ہیں کہ قرآن مجید نے کسی اور بنی کی اطاقت کا حکم نہیں دیا اس لئے کوئی نبی نہیں آسکتا ورنہ اسکی اطاعت بھی لازمی ہوتی.مفتی صاحب پر واضح ہو کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے

Page 141

۱۳ سینی مَا كَانَ اللهُ لِيَدَى الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَّا انتم عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيرُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِن يَجْتَبِي مِنْ رُّسُلِهِ مَنْ يَشَاء نَامِنُوا بِاللَّهِ وَ رسله (آل عمران : ۱۷۹) ا ایسا نہیں کہ مومنوں کو اس حالت پر چھوڑ دے جین پر تم ہو یہانتک کہ خبیث و طیب میں تمیز کری سے اور خدا ایسا نہیں کہ تمھیں خالص غیب پر براہ راست اطلاع دے لیکن اس غرض کے لئے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے گا.برگزیدہ کرتا رہے گا.پس تم الشرادر اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ.اس آیت میں چھوٹی بات یہ بیان ہوئی ہے کہ مسلمان اس حالت پر رہنے والے نہ تھے جس حالت پر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشت میں تھے اور خدا کے مدنظر تھا کہ وہ آئندہ خبیعت و طیب میں امتیاز کرے گا.دوسری بات یہ بیان ہوئی ہے کہ آئندہ خدا کے خالص غیب پر اطلاع مرت رسولوں کو دی جائے گی اور تمہارا ان پیمانیان لانا ضروری ہے.تیسری بات اس آیت سے یہ علوم ہوتی ہے کہ آئندہ ایسا رسول ہی آسکتا ہے جس پر صرف امور غیبیہ ظاہر کئے جائیں.وہ کوئی نئی شریعیت لانے والا نہ ہو.

Page 142

۱۳۳ پس جب ان رسولوں پرامیان مضروری ہوا تو ان کی اطاعت فرض ہوگئی اور مفتی صاحب کی تفسیر غلط قرار پائی.بلکہ اس آیت کی رو سے اسی دنیا ہیں اللہ اور رسول صل اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے نبیوں، صدیقوں شہیدوں اور صالحین میں شامل ہونا ضروری قرار پایا.اگر اس آیت کے صرف یہ معنی کئے جائیں کہ آئندہ قیامت کو ہی یہ دور جاہت ملیں گے نہ دنیا ہیں.تو آیت کا یہ معصوم بن جائے گا کہ اس دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے نہ کوئی بنی بن سکتا ہے اور نہ صدیق.شہید اور صالح کا درجہ پاسکتا ہے.یہ معنی سرا سر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی شان کے خلاف ہیں.کیونکہ حسب آیت اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِي دوايات هم الصديقون والقمد اور سورۃ الحدید : ۲۰) صدیق اور تمهید کا مرتبہ تو پہلے نبیوں پر ایمان لانے سے بھی لوگوں کو بتا رہا ہے اور اسی دنیا میں ملتا رہا ہے.لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی شان کا تصادف ہے کہ اسی دنیا میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں سدیق شہید اور صالح کے درجہ کے علاوہ نبوت کا مقام بھی آپ کے انتی کو مل سکے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بوت و رسات بالذات ہے اور امنیوں کو نبوت.صدیقیت و شہادت اور صالحیت کے مدارج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے یعنی آپ کی عقلیت ہیں ملتے ہیں.حضرت باقی مسلسل احمد رتی نے فرمایا ہے:.

Page 143

۱۳۴ کوئی مرتبہ مشرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت و قرب کا بھر سچی اور کامل مشابہت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ ملتا ہے بھلی اور تفصیلی طور پر ملتا ہے (ازالہ اورام ، تمام کمالات چونکہ آنحضرت علیہ وسلم کی عقلیت میں حاصل ہوتے ہیں اس لئے اتنی ب سب نبیوں سے پہلے آپ کو نبی اور خاتم النبین بنا یا جیسا کہ احادیث نبویہ سے ظاہر ہے تو اس کا مطلب بجز اس کے کچھ نہیں ہو سکتا.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالذات خاتم النبیین ہیں اور آدم علیہ السلام سے لیکہ تا قیامت جو نہی آپ کو خاتم النبیین کا مقام سنے کے بعد آئے اُن کی نیویں آپ کی نبوت کا فیض ہیں.فَتَدَبَّرُوا يَا أُولِي الابصار - خانم بالذات مربی کا ثبوت اب سنتے ایک اورحدیث نبوئی جس میں تم کے معنی تاثیر اور اثرت اصل ہی لئے جا سکتے ناسی و تالف منافی نہیں خدا تقات نبوی سے ایک اور حدیث ہوتی ہے میں نہ ک علی الاطلاق نہیں کو ختم کرنا.نہ کہ ا علی الاطلاق آخری بنی ہونا.یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے جس میں مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.تصلت على الأنبياء بِسِتٌ أعطيتُ جَوَامِعَ الكَلِم وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ فِي الغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ فِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَ طُهُورًا وَأُرْسِلْتُ

Page 144

۱۳۵ إلَى الْخَليَ كَانَةً وَخُتِمَ في النَّبِيُّونَ.( رواه مسلم في الفضائل ترجمہ.مجھے بجھے باتوں میں نبیوں پر فضیلت دی گئی ہے مجھے کلمات جامہ عطا کئے گئے ہیں.رجب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے.اموال غنیمت میز لئے حلال کئے گئے ہیں.تمام زمین میرے لئے نماز پڑھنے کی جگہ اور تقسیم کے ذریعہ پاک کرنے والی بنائی گئی.میں ساری خلقت کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں.سب انبیاء میرے ذریعہ خاتم دکتر لگائے گئے ہیں.دینی سب انبیاء کی نبوتیں میری خاتم روحانی کا فیض ہیں اور میری خاتم روحانی ان کی مصدق اور ان کو مستند کرنے والی ہے، ہم پہلے مفردات القرآن کے حوالہ سے بتا چکے ہیں کو ختم مصدر کے منے تاثیر الٹی اور اس کا اثر حاصل ہیں.مادی خاتم (صر، اپنے اندر کند و نقش کے ذریعہ آگے نقش پیدا کرتی ہے، یہ نقوش بواسطہ اس قہر کے پیدا ہوتے ہیں اور ان کا اثر حاصل اس مضمون کا مستند ہو جاتا ہوتا ہے جس پر پر لگائی جاتی ہے جیسے تنادی پر علماء کی مریں فتویٰ کے مضمون کو مستند بنانے کا اثر رکھتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی مادی خاتم نہیں بلکہ ہر دھانی خاتم ہیں.لہذا آپ کے خاتم النبین ہونے کی وجہ سے فائم.خاتم پر قرآنوں کے لحاظ سے آپ کی ختم کی تاثیر سے المیار ظہور میں آتے رہے اور آسکتے ہیں.اور ان سب کی نبوتیں اس خاتم روحانی یا صاحب خاتم روحانی کی تاثیر کا اثر حاصل یعنی فیض ہیں اور اس خاتم برو بھائی سے تصدیق داستناد پاتی ہیں.

Page 145

تی محمد شفیع صاحب نے اس حدیث کو اپنی کتا ہے ختم نبوت کا مل کے پر نقل کیا ہے اور تقسیم کی الیون کے معنی یہ لکھا ہیے ہیں کہ میرے ساتھ تمام نبیوں کو ختم کیا گیا ہے.مگر ختم کرنا بمعنی بندر کنا یا آخر کو مینا ختم مادر کے مجازی معنے ہیں جیسے مفردات القرآن کے حوالہ سے ہم پہلے تنا نیچے ہیں اس جگہ ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں.پھر علی الاطلاق نہ کرنا بالسلی الاطلاق آخری ہوتا کے الفاظ افضلیت کے لئے موضوع ہی نہیں.دیا کہ مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے فرمایا ہے.اور یہ بھی سکھا دیتے.تا زمانی انفیت کے لئے موضوع نہیں افضلیت کور ستلام نہیں.افضلیت سے بالذات اس کو کچھ علاقہ نہیں کہ ز که تقدم و تا تو زمانی میں بالذات.( مناظره عجیبه مشت اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ اس حدیث کے الفاظ ختم بی النبیون کے جرمنی مفتی صاحب نے کئے ہیں وہ اس جگر منطبق نہیں ہو سکتے کیونکہ اس حدیث میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء پر اپنے کچھ فضائل بیان کئے ہیں.جن میں چھٹی فضیلت خستم بی النبیون ہے اس لئے ختم بی النبیون کے ایسے معنی لینا نہ دوری ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام انبیاء پر افضلیت ذاتیہ پر روشن دلیل ہوں.ختم کرنے اور آخری کے معنی کا افضلیت سے بالذات کوئی علاقہ میں

Page 146

مگر آغضرت سے اللہ علیہ وسلم ختم بی التبیون کے الفاظ سے تمام انبیاء پر اپنی افضلیت ذاتی ثابت کرنا چاہتے ہیں اور یہ افضلیت آپ کو ختم کے معنی تاثیر انٹی لے کر ہی حاصل ہوتی ہے.پس خستم بی النبیوں سے مراد اس جگہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا انبیاء کے ظہور کے لئے بطور رومانی خاتم تاثیر کا ذریعہ ہونا یا موثر بنی ہوتا مراد ہے.اور اس اثر حاصل ان سے ہونا ہے، اس میرے ذریعہ انبیاء مرلگائے گئے ختم بی انتسبتوں کے نقره کا حقیقی معنوں کے لحاظ سے لفظی تر تمیہ ہے.اس حدیث سے لفظ لفظ مولانا محمد قاسم صاحب کا یہ بیان سنچا قرابه پاتا ہے.کہ خاتم النبین کے اصل معنی کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی یوت بالذات ہے اور سوا آپ کے اور نبیوں کی نبوت با لعرض ہے یعنی اوری کی نبوت تو آپ کا نبی ہے اور آپ کی نبوت کسی اور بنی کا فیض نہیں.اور اس حدیث کی رو سے مولانا محمد قاسم صاحبت کا یہ بیان بھی سچا قرار پاتا ہے کہ ان معنوں کے رو سے آنحضرت کی افضلیت انبیاء کے افراد حنا جی (انبیا کے سابقین) پرسی ثابت نہیں ہوتی ملیکہ افراد مقتدرہ پر بھی ثابت ہو جاتی ہے اور بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.عالم روحانی ہوتوں کا اس تاثیر رفت ر مدیر الناس مش ۲ و ۲۸ بلحاظ ایڈیشن مختلف شد پس میرے ساتھ تمام نبیوں کو ختم کیا گیا ختم بی النبیون کے حقیقی

Page 147

معنی نہیں بلکہ مجازی معنی ہیں جو افضلیت کے لئے موضوع نہیں اور افضلیت سے بالذات کوئی علاقہ نہیں رکھتے.اس حدیث کا مقصد انبیاء پر آنحضرت میں للہ علیہ وسلم کی افضلیت ذاتی ثابت کرتا ہے.اور یہ فضلیت تاثیر اور اثر مصل مصدری معنی لے کر یہی ثابت ہوتی ہے.البتہ بلیوں کو ختم کرنے یا آخری نہیں ہونے کے معنی بعینی حاشیت زمانی ان معنوں کو اس مفہوم میں لازم ہے کہ آمریت صلے اللہ علیہ وسلم آخری شارع بنی ہیں.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب مجددصدی دوازدہم نے انہیں لازم معنے کو ختم بی اکتیون کی تشریح میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے.ختم به النبيون أي لا يُوجد مَنْ يَا مُرُهُ الله سبحانه تعالى بالشَّرِيعَ عَلَى النَّاسِ : رتقيمات الليه جده یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کے یہ معنے ہیں کہ انند کوئی ایسا شخص نہیں پایا جائے گا، جسے اللہ تعالے نئی شریعت دے کر لوگوں پر مامور کرے.یہ معنی خاتم النبین کے حقیقی معنی کے لوازہم میں سے ہیں جس طری خاتم النبیین کے حقیقی معنوں کو افضل النبین ہونا لازم ہے پیس لا نبی بعدی کے مضمون پر مشتمل احادیث میں بھی خاتم النبین کے حقیقی معنے کے لازم معنی ہی بیان کئے گئے ہیں.چنانچہ امام علی القاری علیہ الرحمہ نے حدیث لا نبق بعدی کے یہ معنے لکھے ہیں کہ :.لا يحدث بعدهُ نَى بِشَرْعَ يَنْهُمْ شَرَعَهُ رالاشاعة فى اشراط الساعة صلا و الشرب الوردي في مذهب المهدي منت

Page 148

یعنی آپ کے بعد کوئی ایسانی پیدا نہیں ہوگا جو شریعت محمدیہ کو سوتے ہو.پس انقطاع نبوت بیان کرنے والی تمام حدیثیوں سے جو آن فرستند صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں چونکہ صرف لازمر المعنی پر ہی روشنی پڑتی تھی.نہ کہ حقیقی معنی پر اس لئے حدیث فضلت على الانمياء میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فضیلت تختم بی النبتون بیان فرما کر نبیوں کے لئے اپنا خاتم النبین ہونا بیان فرما کہ افضل النبتين ہونے پر مستدل قرار دیا ہے.اور یہ استند نال خاتم النبین کے حقیقی معنی نیوں کے ظہور کے لئے موثر ذریعہ کو مان کہ درست ثابت ہو سکتا ہے.افضلیت کے مفہوم کا استدلال آپ نے اس لئے فرمایا ہے تانا حقیقت زمانی کے لازم معنے کے علاوہ جو احادیث میں بیان ہوئے ہیں ان کے ملزوم معنی کا ثبوت بھی آپ کی زبانی مبارک سے ہو جائے اور کوئی شخص خاتم النبین کے معنی علی الاطلاق آخری بنی کے مجازی معنی مراد نہ لے سکے.کینو کے ایوازی معنی کا حقیقی معنی کے ساتھ اجتماع محال ہے.کیونکہ علم لفقت کے رو سے ایک ذات میں حقیقی معنی اور مجازی معنی اکٹھے نہیں ہو سکتے.پس انقطاع نبوت کے مضمون پرمشتمل احادیث کے صرف یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیه و سلم آخری شارع اور مست نقل نئی ہیں.اور آپ کی شریعت نا قیامت قائم رہے گی.(فائدہ) اس حدیث زیر کمیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء پر اپنے بچے فضائل بیان فرمائے ہیں.ان سب فضائل کا فیض آپ کے واسطہ ہے

Page 149

Im آپ کی اُمت کو بھی حاصل ہے.چنانچہ ا.آپ کے راسطہ سے آپ کی امت کو بھی ہوا مع الکلم ملے ہیں.آپ کے طفیل آپ کی امت کی بھی رجب کے ساتھ نصرت کی گئی..آپ کے واسطہ سے آپ کی امت کے لئے غنیمتوں کے اموال حلال ہوتے ہ آپ کے واسطہ سے آپ کی امت کے لئے بھی ساری زمین مسجد اور طور بتائی گئی.۵.آپ کے واسطہ سے ہی امت کا میسیج موجود در مهدی محمود ساری خلقت کی طرف مبعوث ہو کر محکم و عدل نینے والا تھا.4- آپ کے واسطہ سے ہی چونکہ انہار کا ظہور ہوتا رہا.الفا مسیح موعود کا نبی الله ا ما مکھ منگھر ہونا بھی آپ کے خاتم النبین ہونے کے نین سے ہے.اما مکوہ سکندر کے لحاظ سے وہ آپ کا انتی بھی ہے صحابہ کرام کے اقوال و آثار سے بھی اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ آنحضت صلے اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین محق آخری نور کے معنوں میں قرار نہیں دیا گیا.حضرت عائشة الصديقه چنانچه حضرت ام المومنين عائشة الصديق الخالد فضا کا ایک قول تفسیر در منشور میں زیر آیت صني مینی اللہ عنہا کا اشما خاتم النبین ہوں مروی ہے قولوا خاتم النبين ولا تقولوا لا نبي بعده ور مننور زیر آیت خاتم النبيين)

Page 150

یعنی لوگو یہ تو کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں.مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.اس سے ظاہر ہے کہ حضرت ام المؤمنین عائشتہ الصدیقہ رضی الله عنها نے مسلمانوں کو لانبی بعدہ کہنے سے اس کے ان عام معنوں سے کہ ہ میر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا ، غلط فہمی پیدا ہونے سے بچانے کے لئے روکا ہے کیونکہ پیمضموم ان کے نزدیک خاتم النبین کے اصل معنی کے منافی ہے کیونکہ لانبی بعادلے کا مفہوم عام اور ظاہر کی معنوں میں اتم النبین کے حقیقی معنی نبیوں کی خاتم سے تضاد اور تناقض رکھتا ہے کیونکہ لانبی بعد کہنا اپنے عام معنوں میں آئندہ بی کے آنے میں مانع ہے اور خاتم النبین کی خاتم روحانی کے فیض سے آئندہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے مقام نبوت پانا ان کے نزدیک متنع نہ تھا اور وہ خاتم النبین کے ان تاویلی معنوں کی قائل نہ تھیں جن کے مفتی صاحب قائل ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم وصیت نبوت سے متصف ہوتے ہیں آخری بنی ہیں.اور نہ وہ لانبی بعدی کے مفتی صاحب والے ان بعنوں کی قاتل تختیں کہ آئندہ کسی کو خندہ نبوت نہیں مل سکے گا.ورنہ وہ لانبی بعدی کتنے سے منع نہ فرمائیں.حضرت ام المومنین رضی الله عنها حديث لا نبی بعدی کو جانتی تھیں 21.اس کی ان معنوں کے لحاظ سے منکر نہ تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اپنے اس قول سے یہ ہے کہ آئندہ کوئی ایسا نبی سپیدا

Page 151

۱۴۲ نہیں ہو گا ہو شرح ناسخ لائے.پس آپ کا خاتم النبیین کہنے کی اجازت دنیا اور لانبی بعدہ کہنے سے امت کو روکنا اس بات کی روشن لیل ہے کہ آپ کے نزدیک آیت خاتم النبیین کا معصوم لا نبی بعدان کے عام معنوں سے جو نبوت کے بجلی انقطاع کا دہم پیدا کر سکتے ہیں.مختلف ہے.ان کے نزدیک خاتم النبیین کا مفہوم نبوت کے سنگی انتطاع انہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو نبیوں کے لئے خاتم روحانی ہیں الز سے امت محمدیہ میں مسیح بنی اللہ کا مظہور ہونے والا تھا.چنانچہ امام محمدطاہر محکمہ مجمع کا ڈالا نوارہ میں اس حدیث کو تولوا کے الفاظ میں درج کر کے اس کی تشریح میں لکھتے ہیں.مهم هذا ناظر إلى نُزُولِ عِيسَى وَهَذَا ايضا لا ينا في حديث لَا نَبِي بَعْدِي لا تَهُ أَرَادَ لانه لا نبى بندِي يَنْسَخ شرعي - احمد مجمع البحار یعنی حضرت ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول نزول پیلے کے پیش نظر ہے.اور یہ قول حدیث لا نبی بعدی کے بھی بنات نہیں.کیونکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے یہ ماد لی ہے کہ آپ کے بعد کوئی ایسا ہی نہیں ہوگا جو آپ کی شریعت کو شوخ کر ہے.

Page 152

۱۴۳ یہ واضح رہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت عیسے علیہ السلام کی وفات کی قائل تھیں کیونکہ وہ حدیث ان عیسی ابن مريم عاش مائة و مشرين سنة رکہ لینے ابن مریم ایک سوئیس برس زندہ رہے) کے مضمون سے واقف تھیں اور اس کی وہ خود روایت بھی کرتی ہیں.پس موعود میلے سے مراد جس کے نزول کے پیش نظر انہوں نے لانبی بعد کا کے ان عام معنوں کو کہ آپ کے بعد کوئی نہیں ہوگا.خاتم النبین سے منافی جانا اور لانبی بعدہ کہنے سے غلط فہمی سے بچانے کے لئے امت کو منع فرما دیا.امت محمدیہ میں سے مقام نبوت پر فائز ہو کر مثیل مسیح بننے والا فرد ہی مراد ہو سکتا ہے ن اصالتا حضرت عیسی علیہ السلام کا آنا جو ان کے نزدیک صرف ایک سو میں برکس زندہ رہے.اس جگر یہ بات واضح رہے کہ ایسی روایات وفات مسیح پر اجماع صحابہ جن سے کسی بھائی کے حیات مسیح علیہ اسلام جن سے کے قائل ہونے کا شبہ ہوتا ہو علی العموم ایسی روایت ہی ہو سکتی ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وفات پانے سے پہلے زمانہ سے تعلق رکھتی ہے.ورنہ صحابہ رضوان اللہ علیہم کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضرت ابوبکر رضی اللہ علیہ وسلم کے اپنے خطبہ میں آیت دعا محمد إلا رَسُول قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ پیش کرنے پر اس بات پر اجماع ہو گیا تھا کہ آنحضرت سے اللہ علیہ وسلم

Page 153

۱۴۴ سے پہلے کے تمام انبیاء وفات پاچکے ہیں.لہذا آپ بھی غیر معمولی زندگی نہیں پاسکتے تھے.بلکہ واقعی وفات پاچکے ہیں.اس وقت حضرت ابو یکی ریعنی اللہ عنہ کو خطبہ دینے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات پانے سے انکار کیا اور تلوار نکال کر کہا کہ میں نے کہا کہ آپ وفات پاگئے ہیں اسے قتل کر دوں گا اور کہا کہ انمَا رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ كَمَا رُفِعَ عَلَى ابن مريم رمج الكرامه ملك ) آپ نے اس وقت صرف آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں جیسے کہ حضرت علیمی علیہ السلام اٹھائے گئے تھے.گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک کو دیکھ کر یہ خیال کیا کہ اس وقت آپ زندہ ہیں مرفوع الی السماء ہونے کی حالت میں ہیں.جیسے ان کے نزدیک صلیب سے انا را جانے کے وقت حضرت عیسی علیہ السلام پر جو بیہوشی کی حالت طاری بنتی.وہ گویا اس وقت حضرت عیسے علیہ اسلام کے مرفوع الی السماء ہونے کی حالت تھی چنانچہ حضرت مگر یعنی اللہ عنہ کا خیال تھا جس طرح اس زمین پر موجود رہتے ہوئے مرفوع الی السماء ہونے کی حالت کے بعد جو کہ ایک روحانی کینیت متی حضرت کیلئے علیہ السلام زندہ پائے گئے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ ہیں اور مرفوع الی السماء ہونے کی حالت میں ہیں احمد البلد اُٹھ کھڑے ہوں گے مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کی غلطی کو دور کرنے کے لئے یہ خطبہ دیا اور کہا کہ جو شخص محمد مسلے اللہ علیہ وسلم کی زیارت

Page 154

۱۴۵ کرتا تھا اُسے علوم ہو جانا چاہیئے کہ آپ وفات پاچکے ہیں اور جو اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے اُسے معلوم ہونا چاہیئے.کہ خدا زندہ ہے اسے کبھی موت نہیں آئے گی.پھر آپ نے یہ آیت پڑھی.وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولُ قد خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل.یہ آیت سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قدم ایڈ کھڑا گئے اور تلوار ہاتھ سے گر گئی.اور صحابہ رضوان در صحابه رضوان الله علیهم اجمعین میں سے کسی نے یہ نہ کہا کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو آنحضرت صلی اشہ لیہ وسلم کیسے وفات پاسکتے ہیں.پس یہ واقعہ صحابہ کرام کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تمام انبیاء کی وفات پر اجماع کی روشن دلیل ہے.اور وہ ضر در یہ بھی بجھ گئے ہوں گے کہ حسب آیت فمسك التي قضى عَلَيْهَا المَوت - رسورہ زمرہ جیسے علیہ اسلام دوبارہ زندہ ہو کر نہیں آسکتے.کیونکہ یہ آمیت وفات پانے والے کے دوبارہ دنیا میں بھیجا جانے میں روگ ہے.کیونکہ اللہ تعالے نے اس میں فرمایا ہے جیس کے لئے وہ موت کا فیصلہ کر دے اسے روکے رکھتا ہے.یعنی اسے دوبارہ دنیا میں نہیں بھیجتا.پس لازنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس اجماع کے بعد نزول عیسی یا ابن مریم کی بعد تاہوں کا یہ مطلب بھی نہیں لے سکتے تھے کہ وہ دوبارہ نہ مادہ ہو کر دنیا میں آنے اللہ علیہ وسلم کے بعد تشریف لاکر دنیا کی اصلاح کریں گئے.بلکہ وہ ان پیش گوئیوں کو کسی امتی فرد کے متعلق ہی یقین کر سکتے تھے.پس ذاتم الانبیاء کے حقیقی معنی ان کے نزدیک یہی ہو سکتے تھے کہ موجو دینی انحصرت

Page 155

۱۴۶ صلے اللہ علیہ وسلم کی خاتم روحانی کے فیض سے ہی امت میں سے مبعوث ہوگا.اور بنی اللہ اور امام اقامت ہوگا.چنانچہ ایک گردہ مسلمانوں میں سے اسی بات کا قائل رہا ہے کہ میلے کے نزول سے مراد یہ ہے کہ امام صمدی جیسے علیہ السلام کے بروز ہوں گے جب حدیث لا مهدی الا عیسی ابن.من گویا یہ امام محمدی کو ملا جو اقتباس الا و بروز کو بعینہ صاحت کالا جاتا ہے.انتے تھے.کیونکہ سمجھا پس اُن علماء امت کا خیال جو حیات مسیح کا قائل رہ کر حضرت عیسی علیہ السلام کی افعاللہ آمید ثانی کو مانتے ہیں درست نہیں کیونکہ یہ امر نصوص قرآنیه و هدیه و صحابه کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کے خلاف ہے.اثر حضر علی رضی اللہ عنہ حضرت امیرالمؤمنین علی کرم اللہ وجبہ آنحضرت عنها صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل میں لیے فرماتے ہیں ت بين كتفيه خاتم النبوة وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِينِ.كَسَفَيْهِ خَاتُمُ اررواه الترمذي في الشمائل اس قول کو مفتی محمد شفیع صاحب نے اپنی کتاب کے ہم پر درج کیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھول کے درمیان خاتم (قمر) بوت ہے اور آپ سب نبیوں میں مہر والے ہی ہیں ن اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان تھا تم وہرہ پایا جانا آپ کے خاتم النیستین بیانی مہر والا نبی ہونے کی علامت بھی اس جگہ

Page 156

۱۳۷ خاتم النبین کے معنے شر و الاسنی کے سوا کوئی اور معنی لگ ہی نہیں سکتے ہے علی کے اس قول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان کی عمر کو آپ کے نبیوں کے لئے روحانی خاتم ہونے کی ایک علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے.یہی خاتم النبین کے معنی نبیوں کی عمر ہونے پر تصویر صلے اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان والی مہر ایک زبر دست شهاد ہے.اس مہر سے آپ کے روحانی خاتم ہونے کی تصدیق ہوتی ہے.اور آپ نلیوں کے لئے روحانی خانم بن کر مر کی طرح موثر ہو کر ان کی نبوتوں کو مستند کرنے والے قرار پاتے ہیں.حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول میں بَيْنَ كَتَفَيْهِ خَاتم النبوة کے الفاظ مر کے معنوں کے لئے ایسا واضح قرینہ ہیں کہ خود مفتی محمد شفیع صا نے بھی اس قول کو درج کر کے اس کے ترجمہ میں لکھا آپ کے دونوں شانوں میں مہر نبوت ہے" مگر آگے انہوں نے وھو خاتم النہ تین کا یہ بے جوڑ ترتبہ کہ آپ هُوَ انبیاء کے ختم کرنے والے میں محض حق کو چھپانے کے لئے کر دیا ہے.خاتم النبوة یعنی مہر نبوت کے ساتھ دھو خاتم النبین کا ہوڑانی معروف میں ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تمام انبیاء کے لئے روحانی خاتم قرار دیا ہے.پس وھو خاتم النبین کے معنی آپ نبیوں کوختم کرنے والے ہیں بالکل ہے جو ڑ معنی ہیں میرے معنی ہی ہیں کہ آپ نبیوں کے لئے خاتم رہی ہیں گویا آپ خاتم رو مانتی ہو کر انبیاء صحیح

Page 157

۱۴۸ کے طور میں موثر ذریعہ ہیں.حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک ایج قرأت خاتم النبین کی ت کی زہر سے ہے.چنانچه تغییر در منشور بلده عنکنا پر زیر آیت خاتم النبین به روایت دراج ہے کہ ابن الانباری نے کتاب المصاحت میں لکھا ہے کہ عبد الرحمن مسلمی کہتے ہیں کہ مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنھا کو قرآن مجید پڑھانے پر مقرر کیا ہوا تھا.اور میں قرآن مجید پڑھا رہاتھا علی میں خاتم النبیین کی اس پر آپ نے فرمایا اللہ کریں کھا ا ا ا شر فتنہ پاس سے گزرے.اس مجھے توفیق دے.میرے بچوں اس سے ظاہر ہے سالی زبیر سے پڑھا - شب خاتم النبیین خاتم میں ت کی زیر سے پیدا ہوسکتا تھا کہ سب قسم کے بنی ختم ہو گئے.پیس گو یہ قرآن بھی موجود ہے اور اس کے حقیقی معنے بھی مہر لگانے والا ہیں لیکن اس قرآت سے ہر قسم کی نبوت کے مند ہونے کی طرف بھی ذہین منتقل ہو سکتا تھا.جیسے کہ مفتی صاحب کا زمین اپنی مجازی معنوں کی طرف منتقل ہوا ہے اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پسند نہ کیا کہ ان کے بیٹے اس دھوکے میں پڑ جائیں کہ رسول کریم صلی شد علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا یہی بنی نہیں آئے گا.لغت کی رو سے خاتم النبین کے حقیقی معنی نہیوں کے لئے روحانی خاتم کے ہی ہو سکتے ہیں.خاتم النبین کے اللہ وانیوں کے لئے موثر ذریعہ کے معنوں میں حضرت علی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بالذات اور باقی تمام انبیاء کی

Page 158

۱۳۹ نبوتوں کو آپ کی ذاتی نبوت کا فیض ثابت کرتے ہیں.اس لئے تحذیر الناس میں مولانا محمد قاسم صاحب نے اپنی معنوں کو خاتیت بالذات قرار دیا ہے اور خاتمیت زمانی کسے معنوں کو بدلالت التزامی ان معنیٰ کا لازم المعنى اقرار دیا ہے.اس جگہ ہم نے جو احادیث اور آثار صحابہ مفتی صاحب کے چیلیچی کے جواب میں پیش کئے ہیں وہ سب قوی ہیں.کوئی ان میں سے ضعیف نہیں حالانکہ مفتی صاحب نے بڑی تعلی سے ہمیں ضعیف روائیت تک پیش کرنے کی اجازت دی تھی.اب ہم دیکھیں گے کہ مفتی صاحب ہمارے پیش کردہ شواہد کو مان کر میں انجام دیتے ہیں یا تاویلات کے چکور ہیں پڑ کر ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں.ہر حال اگر وہ کسی حیلہ سازی سے کام لینا چاہیں تو ہمارا بھی انہیں چلینی ہے کہ وہ کسی آیت قرائنہ کسی حدیث ہمارا یا یا اسمارا لنج صحیح نبوتی با آثار صحابہ قویہ کے کسی اثر کو بطور شاہد پیش کر کے مولانا محمد قاسم صاحب کے خاتم النبیین کے معنی خاتمیت بالذات مرتجا کے بوتگیں پیش کریں میں سے بلاتا دیں خاتم النبیین کے معنی خاتم بالذات مرتبی ثابت ہوں.اگر وہ ایسا کریں تو میں شکر گزاری کے ساتھ ان کی اس کاوش کے نتیجہ میں ان کی خدمت میں یکصد روپیہ انعام پیشی کر دوں گا.انشاء اللہ اب ہم دیکھیں گے کہ وہ اپنی غیرت کا کس طرح مظاہرہ کرتے ہیں.آیا سرے سے مولانا محمد قاسم صاحب کے معنی کو بھی جھٹلاتے ہیں یا انکے ثبوت

Page 159

میں قرآن وحدیث و آثار صحابہ میں سے شواہد پیش کرتے ہیں.یہ واضح رہے کہ مولانا محمد قاسم صاحب کے نزدیک خاتم النبیین کی خاتمیت بالذات مرتضی کے فیض سے ہی تمام بنی وجود پذیر ہوئے ہیں.اور بالفرض آئندہ بھی کوئی پنی پیدا ہو.توان کے نزدیک خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.تفسير آيت ما ارسلتكَ آيت قرآنيهِ مَا أَرْسَلَتْكَ الأَرَحمهُ الْعَلِينَ الأرحمَة لِلعالَمينَ فى القرآن يفسر بعضه بعضا کے مطابق بھی تم النبیین کی ایک لطیہ ہے جو مولانا محمد قاسم صاحب کے خاتمہ الیہ تین کے معنوں خاتم بالذات مرتبجی کی مؤید ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے رحمت قرار دیا ہے.العالمین کا الف لام بھی استغراق حقیقی کا ہے جس طرح مولانا محمد قاسم صاحب کے معنوں کے لحاظ سے تم النبین میں النبیین کا الف نام بھی استغراق حقیقی کا ہے اور ثبوت کے رحمت ہونے سے تو مولوی محمد شفیع صاحب کو انکار نہیں مگر افسوس ہے وہ اس رحمت کے نزول کا دروازہ بند مانتے ہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں امر اول کے متعلق گزارش ہے کہ نبوت کا رحمت ہونا تو مسلم ہے اور یہ بھی تسلیم کہ آپ رحمت کے ظالم ہیں.اس سے یہ کھنا کہ دنیا اب رحمت سے مالی رہ جائے گی اور رحمۃ للعلمین کا وجود دنیا کے لئے (معاذ اللہ ا زحمت بن جائے گا.صرف مرزا کی قسم اور مرزائیت کی برکات میں سے ہے رختم نبوت کامل مش۳ )

Page 160

ادا معاذ اللہ.ہم احمدی کب کہتے ہیں کہ رَحْمَةٌ لِلعالمین کا وجود دنیا کے لئے زحمت بن جائے گا.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین ہیں اور نبوت بھی رحمت ہے تو آنحضرت رحمة للعالمین کے طور پر خاتم النبیین کے الفاظ کو نبوت کی رحمت کے لئے علی الاطلاق بند قرار دینے والے گھنا اور امتیوں کو جو عالمین میں سے اس عالم کے رہنے والے میں نبوت سے محروم قرارہ دنیا ہر گز جائز نہیں کیونکہ یہ رحمت کے بند ہو جانے کے مترادف ہے.ہاں اگر نبوت رحمت کی بجائے زحمت ہوتی تو پھر اس کا بند کرنا ضروری تھا.بہ مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین ہیں.مفتی محمد شفیع صاحب نے رحمتہ للعالمین کی آیت کے رو سے نبوت کا رحمت ہونا بھی تسلیم کر لیا ہے اور یہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ آپ رحمت کے خاتم ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت کا خاتم مانتے ہوئے دو یہ بھی آ رہے ہیں.کہ یہ سمجھنا درست نہیں کہ دنیا اسب رحمت سے خالی رہ جھینگی اور رحمتہ للعالمین کا وجود دنیا کے لئے (معاذ اللہ رحمت ہے تو ان دوروں نفروں کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے رحمت کا خاتم ہونے سے جو خاتم النب تین کا مفہو کر مفتی صاحب بہ نتیجہ نہیں نکال رہے کہ دنیا اب رحمت سے خالی ہوگئی ہے لہذا جب نبوت آپ کے نزدیک رحمت ہے اور حضرت بنی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے رحمت کا خاتم ہونے کے آپ کے نزدیک یعنی نہیں که رحمت علی الاطلاق یا کلی بند ہوگئی تو پھر مفتی صاحب مولانا محم قاسم ماست

Page 161

۱۵۲ کی طرح اس صورت میں یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ حضرت مسلے اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کے بعد بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ و سلمہ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.ر تحذیر الناس و ۱۲ ۲۸ بلحاظ ایڈیشن مختلفه نه مفتی صاحب ! اب تو یہ محض آپ کی مقدر معلوم ہوتی ہے کہ رحمہ العالمین کے وضعت نبوی سے ہمارے اس استدلال کو رقہ کرنے کے لئے آپ یہ لکھ رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں اگر رحمت کے مختلف چھوٹے چھوٹے در دورانا بینہ کر کے ایک اتنا بڑا پھاٹک کھول دیا جائے جس سے سارے عالم کی تربیت اور پیر درش ہو سکے تو کیا اس کو زحمت کہا جائیگا یا انتہائی درجہ کی عظیم الشان رحمت اور کیا یہ دنیا سے رحمت کا انقطاع سمجھا جائے کجا یا ساری دنیا کا سی رحمت لبریز ہو جاتا.اگر کچھوٹی چھوٹی گولوں اور تالیوں کو بند کر کے ایک عظیم ان ان شهر یامه ولی وقتی اور مقامی بارشوں کو بند کر کے ایک عالمگیر بھٹی لگادی جائے تو اس کو دنیا کے لئے خشک سالی کہا جائے گا.یا حیات دائم کا پیغام - ٹمٹماتے ہوئے بے شمار چراغوں کو اٹھا کر اگر اتنا بڑا برقی میں قائم کردیا جائے جس کی روشنی تمام چراخوں کے مجموعہ سے کہیں زائد ہو تو ان چراغوں کا ختم ہونا ان چیر

Page 162

۱۵۳ کا باعث ہوگا یا پہلے سے زیادہ روشنی کا یا ان گشت ستارے غائب ہو کر آفتاب عالمتاب سامنے آجائے تو یہ ظلمت کا سبب ہوگا یا پہلے سے کہیں زائد نور کا یہ عالمگیر رحمت بنی الانبیاء سید الاولین والآخرين خاتم النبتين صلے اللہ علیہ وسلم کی صورت مبارکہ میں ظاہر ہوتی جو تمام انبیاء ڈرسل کے کمالات کے جامع اور اس کی مصداق ہے.حسن یوسف دم جیسے ید بیضا داری آنچه کو ہاں ہمہ دارند تو تنها داری انبیاء سابقین اپنی اپنی حد میں سب شیع ہدایت تھے لیکن جب یہ ماہتاب روشن ہو گیا تو سب کی روشنی اس کی روشنی میں مغلوب ہو گئی.اور اب سارے عالم کی تنویر کے لئے تنا ہی کافی ہوگیا.آفتاب نبوت جلوہ آرا ہو گیا اور وہ ستارے اپنی اپنی جگہ پریسی آب و تاب کے ساتھ ہونے کے باوجود آفتاب کی روشنی میں طاہر نہیں ہوسکتے اور اب سارے عالم کی نظریں اس کرہ نور کو کھیتی اور اسی کی نیا گستری پر عالم کے ظلمت ولوں کا مدار ظھر گیا.مفتی صاحب نے اس جگہ نبوت کی رحمت کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل چھوٹی چھوٹی نالیوں اور معمولی بارش سے تعبیر کیا ہے اور آپ کے مقابلہ میں تمام انبیاء کو بطور ستاروں کے ماند قرار دیا ہے.لہذا

Page 163

۱۵۴ ساق مفتی صاحب کے نزدیک ستاروں جیسی نبوت جو پہلے انبیاء کو حاصل تھی.رحمت کا پھاٹک کھل جانے کی وجہ سے اس کی ضرورت نہیں رہی مگر مفتح صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ رحمت کے جس بڑے پھا کے کھل جانے کا ذکر کیا ہے.وہ پھاٹک تو از روئے قرآن مجید آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے واسطہ سے کہا لات روحانیہ ملنے کا ہی پھاٹک ہے.جن کے چار مدارج حسب آیت مَنْ تُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ تاد المالك مع الذِينَ انْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّنَ لِيَاكَ مَعَ والصديقين والشُّهَدَاءِ وَ الصَّالِحِينَ (سورة الناع) نبوت.صدیقیت - شہادت اور صالحیت کے مدارج ہیں.اور آیت میں مع کا لفظ اس بات کے لئے اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی امت میں آپ کے امتی کو جامعیت کے ساتھ تمام پہلے انبیاء کے مکافات تمام پہلے صدیقوں کے کمالات اور تمام پہلے شہداء کے کمالات اور تمام پہلے گزرے ہوئے صالحین کے کمالات حاصل ہو سکتے ہیں.یہ پھاٹک تو واقعی کھلا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب جامع جمیع کمالات انبیاء ہیں تو آپ کے فیض رحمۃ للعالمین کا اثر بھی جامعیت کے رنگ میں ظاہر ہونا چاہیئے.جب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی رسالت بمنزلہ آفتاب عالمتاب ہے.تو اس کی ضیا گستری اور تجلیات کے یہ چار نمونے ہیں جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں.آفتاب عالمتاب رات کی تاریخی کے زمانہ میں مستیاروں کے ذریعہ اپنی تھیلی کو ظا ہر کرتا ہے.اسی طرح الحصر

Page 164

100 صلے اللہ علیہ وسلم بعد مرفوع الی اللہ ہونے کے لوگوں کی نظر سے جسمانی طور پر او جھیل ہو جانے کے بعد اپنے افاضہ روحانیہ سے اپنے نور کی دنیا گستری عالم پر اپنے خلفاء اور محمد دین کے ذریعہ ہی کرتے ہیں.اور آپ کے ہی نور کی منیا گستری کے لئے اقت میں مسیح موعود نبی اللہ کے بھیجے جانے کی آپ کی طرف سے پیش گوئی موجود ہے.مفتی صاحب سے اس جگہ مفتی صاحب سے مہمارا ایک ضروری سوال ہے ایک ضروری سوال تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ رحمت کا بھا نمک کھل جانے پر وہ حضرت کیلئے عالیہ اسلام نی اللہ کی آمد کے کیوں قائل میں کیونکہ بقول ان کے کسی ستارے اور چراغ کی ضرورت نہیں ؟ جب بقول مفتی صاحب رحمتہ للعا مابین کے ذریعہ رحمت کا پھاٹک کھل جانے کے بعد اب کسی نبی کی ضرورت نہیں تو پھر تاریکی کے دور آخر الزمان میں مسیح موعود نبی اللہ کا بھیجا جانا کیوں مقدر ہوا.اگر آخری زمانہ میں کسر صلیب اور قتل خنزیہ کاکام جو سیع موجود کا کام ہے اور اسی فرح تحکم کا فرض ایک بنی کے بغیر ادا ہو سکتا ہے تو ہمارا سوال ہے کہ پھر ایک نبی کا بھیجا جانا کیوں مقدر ہوا جس کی انتظار میں مفتی صاحب بھی عظیم بیاہ ہیں ؟ اگر آغضرت سلے اللہ علیہ وسلم کے ماتحت صدیقین، شہداء اور صالحین اولیاء کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان نور گستر او را فاطمه روحانیہ کو صلی اللہ ظاہر کرتا ہے تو ایک آنتی کا آپ کے لین ہے آپ کے بخت مقام نبوت پاتا تو اس سے زیادہ شدت کے ساتھ آپ کی نورگستری اور افاضہ روحانیہ کی را کو

Page 165

۱۵۶ بلند ترین شان کو ظاہر کرتا ہے.خاتم الانبیاء کو نبی الاولیا د سید المرسلین جب آپ نے مان لیا.تو آپ کا اس کی سیادت اور روحانی بہت ہی کا ثبوت دینے کے لئے آپ کے فیضن روحانی سے کوئی انتی نہی تمام انبیار کا منظر ہو گر روحانی بادشاہ بننے اور آپ کی شریعت کی اشاعت کے الٹے مبعوث ہو تو اس کے ذریعہ جو نیا گستری ہوگی وہ در حقیقت آفتاب عالمتاب سالت محمدیہ کی ہی ضیا گستری ہوگی.مفتی صاحب کیلیئے ، آفتاب عالمتاب آسمان پر موجود ہوتا ہے لیکن جب وہ لوگوں کی نگاہ سے اوجھل ہو جاتا ہے تو اس وقت چاند ستارپ شمعوں اور چراغوں کی ضرورت پیش آجاتی ہے لہذا آفتاب رسالت " محمد یہ تو آسمان پر اپنی پوری شان میں جلوہ گر ہے لیکن اس کی تجلیات کو قبول کرنے کے لئے لوگ جب دل کی کھڑکیاں بند کر لیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے نزدیک ضروری ہو جاتا ہے کہ اس آفتاب عالمتاب سے طقی طور پر منور ہونے والے کسی شخص کو مامور کیا جائے جو لوگوں کو جھنجوڑ جھوڑ کر ہی گائے تا مسلمان قوم جو پارہ پارہ ہو چکی ہو اس کے ہاتھ پر وحدت پا کر تعلیم ایرانی کو اکتشاف عالم میں پھیلانے کی طرف پوری طرح متوجہ ہو.صرف آپس میں فرقے بنا کر ایک دوسرے سے جھنگ جھگڑا کر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف سے غافل نہ رہیں مسیح موعود اور مہدی محمود کا شکی نبوت کے ساتھ بھیجا جانا اسی لئے مقدر تھا.مفتی صاحب کے ایک سوال کا جواب مفتی صاحب موصوف لکھتے ہیں :-

Page 166

اس کے بعد میں خود مرزائیوں سے دریافت کرتا ہوں جس طرح آپ کی مزعومہ غیر تشریعی نبوت ایک رحمت ہے اسی طرح تشریعی بلوت اور شریعیت مستقل اور کتب سماوی کانز دل و هی ملکی وغیرہ کو غالبا آپ بھی زحمت نہیں کر سکیں گے بلکہ چار و ناچا رحمت ہی کہنا پڑے گا اور ساتھ ہی آپ کو اقرارہ ہے کہ خانم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تشریعی نبوت شریعت جدید کتب سماوی کے نزول کا انقطاع بکتی ہو چکا ہے تو کیا ہو الزام آپ ہم پر لگاتے تھے وہی آپ پر نہیں لوٹ آیا کہ حسن رحمہ الو میں مصلے اللہ علیہ وسلم دنیا کے لئے (معاذ اللہ، انقطاع رحمت کے سبب ہو گئے.اگر رحمت شریعت کے انقطاع سے اعمال بنیاد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان میں فرق نہیں آنا تو غیر تشریعی نبوت کے انقطاع سے بھی نہیں آسکتا.الغرض جبوت تشریعی کی رحمت و برکت کا انقطاع (تو) آپ کو بھی مسلم ہے جو آپ ( اس ) کا جواب دیں گے.وہی جواب ہماری طرف سے اپنی مزعومہ غیر تشریعی نبوت کے لئے بھی خیال فرمالیں اور بیس رم ۲۶۱) مفتی صاحب کا یہ جواب محض معلمانہ ہے.ہمارا جواب بہت مختر الجواب / ہے سنیے! خدا تعالی بلا ضرورت کام نہیں کرتا.نئی شریعت خدا تب بھیجتا ہے جب پہلی شریعت میں بوجہ تعریف وغیرہ لگاڑ پیدا ہو جائے یادہ

Page 167

۱۵۸ زمانہ کے لئے ناکافی ہو جائے مگر غیر تشریعی بنی اس وقت آتا ہے جو تشریعی بنی کی اقت میں خرابی پیدا ہو جائے شریعت محمدیہ حسب آیت اليوم الملت لكم دينكم (سورۃ المائدہ) کا مل بھی ہے اور حسب آیت إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرُوَ إِنا له لجا نمون سو ا مجد ) محفوظ بھی رہے گی.لیکن امت کے محفوظ رہنے کا کہیں وعدہ نہیں ہیکہ اس کے لئے تو پیش گوئی ہے کہ وہ بالشت در بالشت یهود و نصاری کی طرح ہو جائے گی.پس بنی بصورت منذریب آتا رہا ہے جب قوم کی اکثریت گمراہ ہو جائے.اللہ تعالی فرماتا ہے وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الأَوَّلِينَ الأولين وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيهِمْ مُنْذِرِينَ الصفت : یعنی جب بہنوں کی اکثریت گمراہ ہوئی تو خدا فرماتا ہے ہم نے ان میں اندر سٹول بنا کر بھیجے.پس امت کے بگاڑ کی پیشگویوں کی وجہ سے بنی کا آنا تو ضروری ہے لیکن شریعیت تامہ کا ملہ مستقلہ الی یوم القیامہ کی موجودگی یوم میں کسی نئی شریعت کا آنا تحصیل حاصل اور ایک لغو فعل ہے جو خدا تعالیٰ اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شان کے منافی ہے.جناب مفتی صاحب آپ خود مانتے ہیں کہ : نی کی ضرورت جیب ہوتی ہے کہ خدا کے بندے اس سنتی صراط مستقیم کو چھوڑ دیں کا رختم نبوت کامل ص۲۳) اب دیکھئے مسلمانوں کا تنتشر فرقوں میں بموجب حدیث نبوی منقسم ہو جانا آیا صراط مستقیم پر قائم رہنے پر دلیل ہے یا صراط مستقیم سے بھٹک جانے پر.

Page 168

۱۵۹ جبکہ خدا تعالے کی مسلمانوں کو ہدایت تھی کہ لا تَكُونُوا كَالَّذِين نروا واخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَ هم البينت - (آل عمران (۱۵) کہ ان لوگوں کی طرح ہوجاتا جو فرقہ فرقہ ہوگئے اور انہوں نے اختلاف کیا بعد اس کے کہ ان کے پاس کھلے کھلے دلائل آگئے.کتے ہیں :- مفتی صاحب کے مر سے نبی مفتی صاحب نے خاتم النبین کی خاتم روحانی ننے پر اعتراضات کے جوابات کے فیض سے اتنی کے نبی نے پر بعض اعتراضات پہلا اعتراض ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی کو نبی بنانا رسول الله صل الله علیہ وسلم کے اختیار میں ہے کہ میں پر آپ چاہیں نبوت کی مہر لگا دیں.حالانکہ ارسال رسل والعبادصرف حق تعالیٰ ہی کا کام ہے.رختم نبوت کامل مشت) الجواب :.اس کے جواب میں واضح ہو کہ مفتی صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے.ہم بھی یہی مانتے ہیں کہ نبی خدا ہی بناتا ہے.مگر خدا تعالے نے آپ کی عظمت روحانیہ کو قائم کرنے کے لئے آپ کو سب انبیاء اور مخلوق سے پہلے خاتم النبین بنا کر بطور نا تم روحانی کے انبیاء کے ظہور میں واسطہ قرار دیدیا ہے اور خدا تعالے کا کئی دوسرے کلام ملائکہ کے واسطہ سے کرنا مسلم.ہے پس بنی خدا ہی بناتا ہے لیکن بنی بینے میں سبب اور واسطہ خاتم النبین ملا لیے علیہ وسلم ہوتے ہیں.یہی مفہوم ہے مہرلگ کہ بنی بنے کا یہی معصوم مولانا مد قاسم صاحب اور مولوی محمود الحسن صاحب کے نزدیک آنحضرت صلے اللہ علیہ کہ تم کی کمرنگ کر نبی بننے سے ہے.

Page 169

14- دوسرا اعتراض: مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ اس سے نبوت اکتسابی بن جاتی ہے کہ ہو کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیروی کرے وہ نبی بن جائے.الجواب : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بادی عالم میں طور پر شرابیت اللہ بادی عالم میں طور پر قامہ کاملہ مستقلہ الی یوم القیامہ لانے کی وجہ سے اس شریعت کی پیروی کے بعد نبوت کا ملنا اسے اکتنا ہی نہیں نیا دنیا.بلکہ پیروی صرف نبوت پانے کے لئے شرط ہے نبوت خدا کے فضل اور ضرورت کے وقت انتخاب سے ہی گر منتخب دہ ہوتا ہے جو نبوت کی ضرورت کے وقت خدا کی نگاہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل پیروی کرنے والا ہوتا ہے یہ بات نہیں کہ ہر شخص جو پیروی کرے وہ خاتم النبین کی مہر لگ کر نبی بن جاتا ہے.تیسرا اعتراض: ان کی وآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ رومانی بقول مرزا نجا تراشی ہے.اس کی توجہ روحانی اپنے ایک لاکھ سے زائد جاں نثار صحابہ میں سے کسی کو بنی نہ بنا سکی پھر ان لوگوں کے بعد جن لوگوں کو آپ نے خیر القرون فرمایا اس میں بھی کوئی ایسا نہ نکلا.جو آپ کی پیروی کر کے آپ کی توجیہ روحانی سے بنی بن سکتا " رختم نبوت کامل 110 الجواب : بے شک خاتم النبیین کے یہ معنی درست ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ روحانی بنی نمائش ہے.دیگر کسی کے بنی ہفتے میں واسطہ یہ توجہ روحانی خدا کے اس احساس پر نیتی ہے کہ اس وقت دنیا میں بھی بھیجا جانے کی تزورت ہو گئی صحابہ کرام نے بڑے مارج حاصل کئے وہ انبیاء کے کمالات کے جامع تھے مگر ان میں سے کسی کو نبی کا نام اس لئے نہ دیا گیا کہ

Page 170

141 خاتم النبیین کے ظہور کے قریب زمانہ میں اللہ تعالے کے نزدیک کسی نبی کے پیسے جانے کی ضرورت نہ تھی.البتہ یہ بزرگان دین حب حديث العلماء ورثة - الانبیاء کے کمالات سے حصہ دافر رکھتے تھے.اور ان میں مبعض قیاست کے دن انبیاء کے درجات بھی پائیں گے.چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے متعلق تو اپنے مکتوبات میں صارف لکھا ہے.ه این هر دو بزرگوار از بزرگی و کلانی در انبیاء معدود داند و یکال ایشان محفوت و مکتوبات جلد اول ما ۲۵ مکتوب عل۳ ) کہ یہ ہر دو بزرگ ہستیاں اپنی بزرگی اور بڑائی کی وجہ سے انبیاء میں شمار ہوتی ہیں اور ان کے کمالات کی جاہتے ہیں.پس یہ بزرگ بھی ان صحابہ میں سے ہیں جن کے متعلق آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : كَادُ ذَا إِن تَيَكونوا انها و رختم نبوت کامل شام بحوالہ کنز العمال مرفوعا) کہ یہ لوگ باختہار کمال است انبیاء ہونے کے قریب ہیں.مفتی صاحب کو اس جگہ خود رستم ہے.وقت کمالات نبوی میں تمام پہلی امتوں سے بھی بہت آگے ہے اور حملہ نبوت نہ منا چونکہ آپ کی نبوت کے بقاء و قیام کی وجہ ہے ہے اس لئے یہ بھی درحقیقت اس امت کے لئے انکیت کی دلیل ہے نہ کہ مردی یا نقصان کانه ارختم نبوت کامل ص۳) جب مفتی صاحب کو یہ سلم ہے کہ احمت کمالات نبوت حاصل کرنے میں رہیے

Page 171

آگے ہے تو نبوت بھی نبی کا ایک کنال ہے اس سے امت محمدیہ کو حصہ ملتے ہیں مفتی صاحب کو کیوں کہ ہے.جبکہ آیت استخلاف الفاظ كما استَخْلَفَ.الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ اس بات پر روشن دلیل ہیں کہ امت تحریر کے خلفاء پہلے گزرے ہوئے خلفاء یعنی انبیاید ہی دوسری کے قابل ہیں لہذا اس آیت کے رو سے کوئی خلیفہ پہلے انبیاء کی طرح مقامہ نبوت پر بھی سرفراز ہو سکتا ہے اور کسی نہ کسی کو ان خلفاء میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بود کہ مقام نبوت ضرور ملنا چاہیے تھا تا انبیائے بنی اسرائیل سے جو خلفاء موشی تھے اس اہمت کی خلافت کی مشابہت نار متحقق ہو جائے.شروع سلسلہ خلافت میں تو خلفاء کو نبی کا نام آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے قرب عہد کی وجہ سے نہ دیا گیا کیونکہ خاتم مراتب انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور پر فورا اکسی نی پر کی ضرورت نہیں تھی.لیکن آخری زمانہ میں چونکہ اس کی ضرورت تھی اس لیئے مسیح مو خود کو احادیث ہوتیہ اور ان کے اپنے الہامات میں بنی کا نام دیا گیا.اس سے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کو نبوت کے قیام دلبقاء میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا میکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض نے مسیح موعود کے مقام نبوت پانے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ نبوت تشریعیہ کی تمام انبیاء میں سے بلند اور امتیازی شان ظاہر ہوتی ہے.کیونکر انبیاء سابقین کی پیروی سے صرف دل بیت کا مقام حاصل ہو سکتا تھا.میگا اللہ تعالے نے ہمیں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے ذریعہ وہ نبی دیا جس کی پیروی سے نہ صرف دوسرے کمالات نبوت بھی حاصل ہو سکتے ہیں جبکہ خود

Page 172

١٩٣ مقام نبوت بھی حاصل ہو سکتا ہے.یہ نوبت قدسیہ کسی اور بنی کو نہیں دی گئی چونکہ مسیح موعود کو عمدہ نبوت غیرت بھی حاصل ہے اور ساتھ ہی عدم انحصارات صلے اللہ علیہ وسلم کا امتی بھی ہے اس لئے اس کا عہدہ نبوت غیر تشریعی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صدہ نبوت تشریعیہ کے بقاء اور استحکام پر روشن دلیل ہے.حيله مفتی صاحب لکھتے ہیں:.مفتی صاحیا میلاد را عیسی علیہ اسلام کا آخر زمانہ میں ازل ہونا سو اس پراختر امن نہیں ہوسکتا.کیونکہ اگر چہ وہ بعد نزول بھی ویسے ہی خدا کے اولوالعرم بنی ہوں گے جیسے قبل رفع اور قبل نزدل تھے.لیکن چونکہ ان کی بہشت اپنے زمانہ میں بھی صرف بنی امرائیل کی طرف تھی نہ تمام عالم کی طرف جیسا کہ آیت کر یہ رسولاً إلى تب است ارتبل سے معلوم ہوتا ہے اس لئے وہ بعد نزولی بھی اس امت کی طرف بحیثیت نبوت مبعوث ہو کہ نہیں آئیں گے بلکہ بحیثیت امامت تشریف لائیں گے جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث سے ثابت ہے.رختم نبوت کامل آن ) اسی جگہ حاشیہ میں لکھتے ہیں :- لیکن یہ بات اچھی طرح یاد رہے کہ اس کے یہ معنی نہیں کہ العیاذ باللہ آپ اس وقت نبوت سے معزولی ہو جائیں گے بلکہ آپ کے اس وقت اقمت میں تشریف لانا بالکل ایسا ہوگا جیسے صوبہ پنجاب کا L

Page 173

۱۶۴ گورنر صوبہ بہار میں کسی ذاتی ضرورت سے چلا جائے تو اگر چہ وہ اس وقت بحیثیت گورنزی نہیں ہوتا لیکن یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ گورنری سے معزول ہو گیا.ختم نبوت کا مل ماشیہ شنت) هم تو مفتی صاحب کے اس سارے بیان کو فلسط جبار سازی کا جواب جانتے ہیں کیونکہ ہم علی وجہ البصیرت وفات سے علیہ السلام کے ازروئے قرآن مجید و احادیث نبویہ قائل ہیں اور سیم موجود کے نز دل کو بروزی صورت میں مانتے ہیں لیکن اس سے قطع نظر مفتی صاحب کا یہ حیلہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام جب آئیں گے وہ نبوت سے معزول بھی گے اور امت صرف نہیں ہوا کو ماں کے نہ کہ یہی بھی ان کے نبوت سے معزول ہونے کے مترادف ہے جب بنی قوم میں موجود ہو.اور فرائض نبوت کی بجا آوری اس کے نامہ نہ ہو تو عمارہ نبوت سے معزول ہوگا.نی جب زندہ ہوا اور اپنی قوم میں موجود بھی ہو تو وہ ( on c اون رک the ڈیوٹی قرار پائے گا اور فرائض نجوت بجالائے گا.مفتی صاحب نے اس جگہ گورنر کی جو مثال دی ہے.وہ اس جگہ بدیں وجوہ منطبق نہیں ہوتی.اول ممثل له یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی دونوں بہشتوں کا زمانہ مختلف ہے ان دونوں بہشتوں کے درمیان کئی صدیاں پائی جاتی ہیں لیکن صوبہ پنجاب کے گورنر کے صوبہ بہار میں جانے کے زمانہ کا حال اس طرح نہیں دوره ممثل لہ اور مثال میں یہ میں اختلاف ہے کہ گورنرپنجاب بے شک

Page 174

144 گورنر ہی رہتا ہے جب کہ وہ عارضی طور پر اپنے ذاتی کام کے لئے کسی دوسر صوبہ میں جائے.لیکن اگر وہ مستقل طور پر صوبہ پنجاب کو چھوڑ کر صوبہ بہار میں خیار ہے تو دنیا ٹر ہونے کی وجہ سے یا معزول ہونے کی وجہ سے وہ اپنے عہدہ گورنری پر قائم نہیں سمجھا جائے گا.اس وقت وہ گورنر نہیں رہے گا.پس اگر حضرت عیسی علیہ سلام کا امت محمدیہ میں مستقل طور پر آنا فرض کیا جائے جیسا کہ مفتی صاحب کا عقیدہ ہے تو پھر اگر وہ دنیا کے لئے بہی نہ ہوں تو انہیں نبوت سے معدول ماننا پڑے گا.اور بنی جب تک زندہ ہر مفتی حجاب بھی اسے معزول نہیں مانتے.اور نبی کا اپنی زندگی میںاور قوم میں موجود کیا ہی تھا میں نو سے ریٹائرڈ ہونا بھی متصور نہیں ہو سکتا.تیسری وجہ مثل از اور مثال میں اختلاف کی یہ ہے کہ مفتی صاحب کی مثال میں صوبہ پنجاب کے گورنر کا حکم صوبہ پنجاب میں نا فنر ر ہے گا.کیونکہ وہ عارضی طور پر اپنے کسی ذاتی کام کے لئے صوبہ بہار میں گیا ہو گا.یہ مثال حضرت جیسے علیہ السلام کے بارہ میں تب صادق آسکتی ہے کہ بالفرض جب وہ نازل ہوں تو بنی اسرائیل میں ان کا حکم نبوت اپنی مترادیت کے مطابق نافذ ہو لعینی بنی اسرائیل میں وہ تورات و انجیل کو ہی نافذ کریں.مگر یہ صورت اس جگہ مفتی صاحب کو مسلم نہ ہوگی کیونکہ قرآن مجید نے تورات وانجیل کو منسوخ کر دیا ہوا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعد از نزول ان کے نزدیک شریعت اسلامیہ کے پابند ہوں گے اور اسی کا نفاذ کریں گے.اس لحاظ سے بیجا نہ مثال حضرت عیسی علیہ السلام کی دوبارہ آمد پر منطبق نہیں ہو سکتی.

Page 175

194 چوستی وجہ عدم انطباق کی یہ ہے کہ گورنر پنجاب کے صوبہ بہار میں جانے کی شال میں گورنر پنجا سکے صوبہ بہار میں اپنے کسی ذاتی کام میں جانے کا ذکر ہے مگر خدا کا یک نبی قوم میں اپنے کسی ذاتی کام کے لئے نہیں آتا ، بلکہ خدا کی طرف سے سپرد کردہ بوت کا فریضہ ادا کرنے کے لئے آتا ہے جو تبلیغ واشاعت دین ہے اس لیئے اس کی نبوت ہر حال نافذ ہوگی اسے احمت کے لئے غیر نبی امام تصور نہیں کیا جا سکتا.بلکہ اس کی مامت جامع نبوت ہوگی.پس حضرت عیسی علیہ السلام اگر بفرض محال امت محمدیہ میں آجائیں.اور بقول مفتی صاحب بنی بھی ہوں اور بہوت سے معزول نہ ہوں تو اس صو ر نہیں ان کی اپنی شریعیت کا نفاذ ضروری ہے اور چونکہ یہ محال ہے لہذا حضرت عیسے علیہ السلام کا امت محمدیہ میں آنا بھی محال ہے کیونکہ یہ عقیدہ مستلزم محال ہے کہ نبی قوم میں موجود بھی ہو اور اپنی نبوت کا نفاذ قوم میں نہ کرے.ایرانی میں اگر مفتی صاحب اس جگہ یہ کہیں کہ وہ شریعیت محمد یہ کے تابع غیر تشریعی اتی نبی ہو جائیں گے اس لئے اپنی شریعیت کا نفاذ نہیں کریں گے بلکہ محمدی شرقیت کا ہی نفاذ کریں گے.تو انہیں ماننا پڑا کہ حضرت عیلے علا السلام کی نبوت میں ایک تغیر آجائے گا اور ایک نئی قسم کی نبوت ان کی آمد سے وجود میں آجائیگی پس جب نئی قسم کی نبوت حادث ہوگی اور اس کا حوت نافی خاتم النبین نہیں ہے تو پھر کسی امتی کا اس مقام نبوت کو پا لینا کیوں کر خاتم النبین کے منافی ہو سکتا ہے.اگر مفتی صاحب کہیں کہ رہیں گے تو وہ تشریعی نبی اور شریعیت اُن کی

Page 176

145 نافذ نہیں ہوگی جبکہ وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شریعیت پر ہی خود بھی چلیں گے اور بنی اسرائیل جبکہ تمام امت محمدیہ کو بھی چلائیں گے.تو ان کا سابقہ نبوت تشریعی سے معزول ہونا لازم آیا کیونکہ یہ محال ہے کہ ایک تشریعی بنی قوم میں موجود بھی ہوا درہ اپنی نبوت تشریعیہ کا نفاذ نہ کرے.کیونکہ یہ امر نبوت سے معزول ہونے کے مترادف ہے.اور نبی کا اپنی نبوت سے معزول ہونا محال ہے.صحیح مسلم کی حدیث نبوی میں مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چار دفعہ بنی اللہ قرار دیا ہے اور ان پر وحی نازل ہونے کا بھی ذکر فرمایا ہے اور کیونکہ وہ بقول سختی صاحب بنی ہوں گے لہذا ان کی اپنی دھی کا بھی امت میں نفاذ ہو گا اس لئے وہ امت میں اون ڈیوٹی بنی قرار پائیں گے نہ کہ غیرینی امام ! مسیح موعود علیہ السلام بے شک امت محمدیہ میں امام بھی ہیں جیسے کہ ہر بنی امام ہوتا ہے.وہ غیر بنی امام کی حیثیت میں امام نہیں.کیونکہ وہ نبی ہیں.اور ان کا بعد نزول بنی ہوتا مفتی صاحب کو مسلم ہے.اس مفتی صاحب کا زیر بحیث بیانی بالکل غلط اور ایک دور از کار حیلہ ہے.ا سوا اس کے حدیث لا نبی بعدی یہ نہیں بتاتی کہ پہلا بنی تو آپ کے بعد اس صورت میں آسکتا ہے کہ وہ بنی تو ہو.نبوت سے معمول بھی نہ ہو.اور نبوت کے فرائض بھی ادا نہ کرے.ایسے بنی کا بھیجنا خندا کی شان کے منافی ہے.اگر آئندہ سنی کی ضرورت نہیں تھی تو خدا تعالئے ایک غیر بنی امتی سے بھی اہمت کی امامت کا کام کے سکتا تھا.پس بفرض محال اگر حضرت کیلئے

Page 177

علیہ السلام کا اقمت محمد یہ میں آنا مانا جائے تو انہیں بہر حال نبی ماننا پڑے گا اور حدیث لا نبی بعدی میں چونکہ لا نفی جنس کا ہے جو ذات نبی کی نفی کتا ہے.اس لئے حدیث کے ان عام معنوں کے لحاظ سے کسی عہدہ نبوت پر ہونے کی نفی نہیں ہوتی بلکہ نبی کے وجود کی ہی نفی ہوتی ہے.پس اس حدیث کے عام معنوں کے لحاظ سے نہ کوئی پیلانی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد آسکتا ہے نہ ہی نیا نہی پیدا ہو سکتا ہے.پس ا البتہ امام علی القاری اس خدمت کے یعنی بیان کرتے ہیں کہ : معناه عند العلماء لا يحدث بعد لاني بقرع يُنْسَخُ شَرعَهُ (الاشاعه فی اشراط الساعر منت والمشرب الموردي في مذهب المهدى 12 یعنی علماء کے نزدیک اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی پیدا نہیں ہوگا جو ایسی شریعیت کے ساتھ آئے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شرع کو منسوخ کرے.پس لا نبی بعدی میں علماء امت نے بنی کا لفظ عام معنوں میں مراد نہیں کیا بلکہ بعض دوسری حدیثوں کے پیش نظر جن میں ایک بنی کے مخص صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ظہور کی خبر دی گئی ہے اس لفظ نسبی کو تھوریں معنوں میں مراد لیا ہے.اور اس طرح یہ حدیث عام مخصوص با لبعض قرار پاتی ہے اس صورت میں جو بنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آئے.وہ تی بھی ہوگا.خواہ رہ با لعرض حضرت سیئے علیہ السلام ہوں یا کوئی اور انتی

Page 178

140 بنی پیدا ہو.ہرحال حدیث بتاتی ہے کہ نبوت اس نبی کی امت محمدیہ میں نافذ ہوگی.اگر با نظر من حضرت پیسے علیہ سلام آئیں تو ان کی سابقہ نبوت تو میں تغیر اگر ان کے ذریعہ ایک نئی قسم نبوت کا حرورت ہو گیا.جس کے لئے المتقی ہونا بھی ضروری ہے یہ نبوت آیت خاتم النب تین کے منافی نہ ہو گی.اللہ لہذا اس تقسیم نبوت کا اتنی بنی کو ملنا بھی آیت خاتم النبین کے منافی نہ ہوگا.تشریعی نبی کے عمدہ نبوت میں شرعیت جدیدہ کا لانا.اور جیسے الفان دیا جانا اور منصب قضاد حکمیت و اتاقت و نفاذ شریعیت کا رکھنا یب امور ضروری ہیں.اور غیر تشریعی بنی کے عہدہ میں شریعیت بدیدہ کا لانا پایا نہیں جاتا لیکن باقی امور ضرور یہ اس کے عہدہ میں پائے جاتے ہیں میتر موسی علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں کئی بنی آئے ہو شریعیت جہد پیرو نہیں بعد ہتے تھے بلکہ تاریخ تو رات تھے.اور تورات کی اشاعت و حفاظت اور نفاذ کے لئے مامور تھے.اور یہودیوں کے لئے تورات کے ذریعہ حکم تھے چنانچہ اللہ تعالے قرآن مجید میں فرماتا ہے.إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا.اهُدًى وَنُور يَكُم بهَا النَّونَ الَّذِينَ اسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا والرَّبَّانِيُّونَ بِمَا اسْتَحْفِظُوا مِنْ كِتَبِ اللهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ مُهَدَاء - ( ماندو ع - آیت ۴۲) تر گیا.ہم نے یقینا تو رات کو نازل کیا جس میں ہدایت اور نور تھا اس کے ذریعہ سے کئی انبیاء جو ہمارے فرمانبرواں تھے یہودیوں کے لئے محکم ملتے اور مارت

Page 179

لوگ بھی اس وجہ سے کہ کتاب اللہ کی حفاظت کا کام ان کے سپرد کیا گیا تھا اور وہ اس کے نگران تھے یسی عمدہ اور منصب سیج موجود کا ہے.آپ شریعت محمدیہ کی تجدید اور اشاعت کے لئے مامور ہیں اور احادیث نبویہ میں آپ کو نبی اللہ اور محکم عدل بنا کہ امت کا امام مقرر کیا گیا ہے جیسے کہ انبیاء بنی اسرائیل اقمت موسوی کے مجدد اور امام اور تحکم تھے.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب مجددصدی دوازدہم نے حضرت مولے علیہ السلام کی شریعت کی حفاظت کے لئے آنے والے انبیاء کو محمد دین موسوی ہی قرار دیا ہے.چنانچہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کتاب شریعیت لانے کے ذکر کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنے والے انبیاء کا ذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :.اوْ يَكُونُ نَظمَ مَا تَعَى لِقَوْمٍ مِنْ إستمرار دولة الدين يَقْتَضِى بَعْتَ مُحبَةٍ كَدَاود وَسُلَيْمَانَ وَجَمْع مِنْ أَشْيَا وَ بَنِي إِسْرَاءِيلَ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ قَدْ قَضَى اللَّهُ لِنَصْرِهِمْ عَلَى اعد ابو هیتر را حجۃ اللہ البالغہ جواد اولی عملا مطبوعہ مصر) ترجمہ.یا بنی اس نظام کے قیام کی خاطر یہ جا جاتا ہے جو خدا نے کسی قوم کی نسلت یا دین کو جاری رکھنے کے لئے مقرر کیا ہو یہ نظام ایک مجدد کی بہشت کو چاہتا ہے جیسے عورت دارد د اور سلمان اور بنی اسرائیل کے انبیاء علیہم السلام کی ایک

Page 180

141 جماعت کا حال ہے اور عبدالعالے نے ان کے پشتوں کے خلاف ان کی نصرت کا وعدہ فرمایا ہے.پس مسیح موعود کا امت محمدیہ میں عمدہ نبوت تشریعی نہیں بلکہ جرد نبوت غیر تشریعیہ ہے.غیر مفتی صاحب اپنی کتاب نختم نبوت کامل کے صفح ۲۰۰ پرلکھتے ہیں :.، یہی رمز ہے اس میثیات میں جو تمام انبیاء اور رسل سے لیا گیا کہ اگر وہ آپ کا زمانہ پائیں تو آپ پر امیان کائیں اور آپ کی مدد کریں ارشاد ہے تو منن یه دلتنصرته - غرور آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی مدد کریں.اور اس میثاق کی تصدیق اور سیادت کو ثابت کرنے کے لئے خدا وند عالم نے دو مرتبہ دنیوی حیات میں آپ کو تمام انبیاء علیہ السلام کے ساتھ جمع کیا.میں کا مفصل واقعہ اسراء و معراج کے تحت تمام کتب حدیث میں صحیح اور معتبر یہ دایات سے منقول ہے.پھر آخر زمانہ میں انبیاء سابقین میں سے سب سے آخری نبی حضرت جیسے کو آپ کی شریعت کا صریح طور پر مشبع بناگر بھیج دیا تا کہ اس میثاق پر صاف طور پر شل ہو جائے" مفتی صاحہ سے ایک ضروری سوال اس جگہ میثاق النبیین کے متعلق مفتی صاحب سے ایک ضروری سوال پیدا میثاق النبیین کے متعلق.ہوتا ہے.ان کے بیان سے ظاہر ہے کہ اسراء اور معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف دودفعہ تمام انبیا رے

Page 181

isp اجتماع ہوا ہے.ان سب نے آپ کی اس وقت کوئی نصرت اور مدد نہیں کی.حالاکہ رحمہ سب انبیاء کا میثاق النبین میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے ساتھ آپ کی نصرت کرنے کا تھا.پھر کیا وجہ ہے.کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نصرت کے لئے مرن حضرت کیلئے علیہ اسلام کو آخری زمانہ میں بھیجنے کے لئے زندہ رکھا گیا.اور باقی تمام انبیائے سابقین کو وفات دے دی.اور انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کا موقعہ نہ دیا گیا.صاف ظاہر ہے کہ انبیاء سے یہ وعدہ ان کی قوم کے لئے کمیٹیت نمائندہ الیا گیا تھا تا کہ سب بنی اپنی قوم کو ہدایت کر جائیں کہ وہ ایسا ونڈ خدا سے کہ چکے ہیں.لہذا جب سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو ان کی آنتیں ان پر ایمان لائیں اور ان کی نصرت کریں.اسی طرح کا دورہ حضرت جیسے علیہ السلام سے لیا گیا تھا.پس اگر اس وعدہ سے مقصد انبیاء کی طرف سے اصالت حاضر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کرنا ہوتا تو پھر سب انبیاء کو زندہ رکھا جاتا.لیکن جب باقی انبیاء کو زندہ نہیں رکھا گیا اور میثاق النبین اس سے نہیں ٹوٹتا.تو حضرت اپنے علیہ السلام کو بالخصوص زندہ رکھنے کی کیا ضرورت تھی.قرآن کریم میں تو خدا تعالے کا یہ ناطق فیصلہ موجود ہے.وما محمد إِلَّا رَسُول قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے تمام رسول گزر چکے ہیں خلا کلات کے سنی عربی زبان میں میں آئی مات.

Page 182

یعنی وہ وفات پا گیا.معقدة الفات پس حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت سے لے اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تمام رسول معہ حضرت جیسے علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.لندائیں میلے کے آنے کی پیشگوئی احادیث نبویہ میں کی گئی ہے.وہ اثرت محمدیہ کا ایک فرد ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ سے مثیل مسیح ابن مریم کا مقام پا کر امت محمدیہ کا اقمت میں سے امام بننے والا تھا.آیت اهدِنَا الصراط المستقيم سے انت ہیں امکان نبوت کا بَرتَ صِيرًا ا الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اسی تفسیر میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کوع میں فرمایا - وَمَنْ تُطيع الله وَالرَّسُول لأوليات مع AGEN DAWLAN اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِينَ وَالصَّدِيقِينَ وَ الشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ.ان مردو آیتوں میں کپہلی آیت میں منعم علیہ لوگوں کی راہ طلب کرنے کی ہدایت ہے تا کہ امت محمدیہ بھی منعم علیہ لوگوں میں داخل ہو.اور دوسری آیت میں منعم علیہم کی تفسیر بیان ہوئی ہے کہ یہ لوگ بہنی.صدیق اور شہداء اور صالح ہیں.جماعت احمدیہ ان دنوں آیتوں سے استد عال کرتی ہے کہ جس طرح صدیقیت شہادت اور صالحیت کے مدارج پانے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے پر امت کو امید دلائی گئی ہے اسی طرح الہ دینا

Page 183

۱۷۴ الصِّراط المستقیم کی دعا میں بھی مطابق آیت ثانیہ منْ تُطِعِ الله والرسول کے ذریعہ است محمد میں کسی مقام نبوت صدیفیت شهادت اور صالحیت پانے کی امید دلائی گئی ہے.مفتی صاحب کا ہماری جناب مفتی صاحب ہماری اس تفسیر کو منی نیز قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :.نیر پر اعتراض کیا خوب استدلالی ہے اس کا م ہیں تو یہ ہوا کہ جو شخص نہیں کے راستہ پر چلتا ہے وہ وہی بن جاتا ہے نیتین کے راستہ پر چلنے والا بنی.صدیقوں کے راستہ پر چیتے والا صدیق اور شہداء کے استہ پر چلنے والا شہید بن جاتا ہے.یں کہتا ہوں کہ پھر تو یہ ترقی کا بہت اچھا ذریعہ ہے کلکٹڑ کے ہ استہ پر چلنے والا کلکٹر اور وائسرائے کے راستند پر چلتے والا وائسرائے اور بادشاہ کے واستہ پر پھیلنے والا بادشاہ ہو جایا کرے گا.جبکہ اس زمینہ سے ترقی کر کے تو شاید خدائی کا مرتبہ بھی حاصل ہو سکے.کیونکہ ندا وند عالم فرماتا ہے متراط الله العزيز الآلية تو مرزا صاحب کے تجویز کردہ قانون کے مطابق جوشن الشر فعالے کے راستہ پر چلے گا وہ معاذ الله خدا بن اللہ جائے گا.نعوذ بالله من اليمن الرحيم رختم نبوت کا مل من الجواب مفتی صاحب کو تو ہمارا استند بال مضحکہ خیز معلوم ہوا ہے.مگر

Page 184

ICA ہمیں ان کا جواب محض طفلانہ محسوس ہو رہا ہے.کیونکہ اِهْدِنَا الصّراط المُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں انعام یافتہ لواری کی راہ طلب کرنے کے لئے جو دعا سکھائی گئی ہے وہ اسی لئے سکھائی گئی ہے کہ خدا تعالے امت کو اس دعا کے ذریعہ وہ نعمتیں دینا چاہتا ہے، جو اس نے پہلوں کو دیں.تا کہ وہ بھی وہ انعامات پائیں جو پہلے لوگ پا سکے وہ سری آیت میں یہ انعام یافتہ پچار گروہ بیان ہوئے ہیں.نیتن دری یقین شہداء اور صالحین.سو اگر انعام یافتہ لوگوں کی راہ پر چلنے سے یہ انعامات خدا تعالئے لینے دینے ہی نہ ہوتے تو یہ دعا کیوں سکھاتا کہ انعام یافتہ لوگوں کی راہ طلب کرو.اور دوسری آیت میں یہ کیوں فرماتا ہے کہ اللہ رسول کی اطاعت سے تم لوگ انعام یافتہ گروہوں میں سے کسی رکسی گروہ کے فرد بن جاؤ گے.امام راغب علیہ الرحمة مفردات القرآن میں زیر لفظ کتب آیت قرآنی قالتنا مع الشهیدین کی دعا لکھ کر آگئے اس کی تشریح میں لکھتے ہیں.اني جعلت في أَمَرَتِهِمْ إِشَارَها إلى قَوْلِهِ مَعَ الذِيْنَ اَنْعَمَ الذین انعم الله عليهم اللہ یعنی میں شاہدین کے ساتھ لکھ لو کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ان کے زمرہ میں داخل کردو.اس آیت کا اشارہ فارليكَ مَعَ الَّذِينَ انعم الله علیہم کی طرف ہے.پس جب فاكتبنا مع الشهدتین کی دعا کرنے والے بموجب آیت

Page 185

144 أولاعَ الذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم شاہدین کے زمرہ میں داخل ہو جاتے ہیں تو اهدنا الصراط المستقیم کی جامع دعا کرنے والے کیوں انعام یافتہ گروہوں نبی تین صدیقین اور صالحین کے زمرہ میں داخل نہیں ہو سکتے.صاف ظاہر ہے ضرور داخل ہو سکتے ہیں.چنانچہ دوسری آیت کی تفسیر میں امام راحو ہے فرماتے ہیں:.منَ الْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ الْفِرق الأربع في ANWALAN والنواب الليبي بالنبي والصين في المنزلة بالصديق والشَّهِيدَ بِالشَّهِيرِ وَالصَّالِحَ بِالصَّالِحِ تفسير بحر المحيط سورة النساء ع (9) یعنی اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے والوں کو پھچار گروہوں میں مر تبادر ثواب کے لحاظ سے داخل کر دیتا ہے اس امت کے نبی کو کسی بیٹی سے مرتبہ اور ثواب میں ملا دیتا ہے اور اس امت کے صدیق شہید اور صالح کوکسی پہلے گزرے ہوئے صدیقی، شہید اور صالح سے مرتبہ اور ثواب کے لحاظ ملا دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تفسیر القرآن سے تعلق تمام یا برکات الدعاء میں غیر عمران کے درست اور ضروری ہیں.اوک.شواہد قرآنی سات معیار بیان فرماتے ہیں.دوھرا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تفسیر.

Page 186

تغیر صحابه یہ تینوں معیار مفتی محمد شفیع صاحب کو مسلم ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان کردہ پانچویں معیار سے بھی جو لغت عرب کی تفتیش سے تعلق رکھتا ہے مفتی صاحب کو انکو رنہیں.لیکن چوتھے مجھے اور ساتویں معیار سے جو نقش شعرہ لیکر قرآن میں غور کرنے اور روحانی سلسلہ کو سمجھنے کے لئے جسمانی سلسلہ سے تقابل اور وحی ولایت اور مکاشفات محدثین سے متعلقہ معیاروں کو مفتی صاحبیت کی نہیں کرتے جبکہ ان کی تردید پر کمر بستہ ہیں.ہم نے ان کے چار سے بیماروں کی بناء پر آیت خاتم البین کی تقصیر ان کے سامنے پیش کر دی ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ مفتی صاحب کے یعنی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وسعت نبوت پانے میں سب سے آخرمی نبی ہیں.قرآن کریم - احادیث نبویہ اور آثار صحابہ اور لغت عرب کے مطابق درست نہیں.اور علماء امت نے مسیح بنی اللہ کی امت محمدیہ میں آمد کو مان کر اس کو حیثیت میں کہ وہ اتنی بھی ہوں گے اصولی طور پر اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف تشریعی اور مستقل نبی کا آنا منتفع ہوتا ہے اور انتی بینی کی آمد کا جواز قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے ثابت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان کردہ تفسیر القرآن کے وہ تینوں معیار تو مفتی صاحب کو مسلم نہیں اپنی جگہ بالکل درست اور قرآنی تعلیم کے مطابق ہیں.

Page 187

KA r چوتھا معیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمایا خود اپنا نفس مطہرہ لیکر قرآن کریم میں غور کرنا ہے کیونجے نفس مطہرہ سے قرآن کریم کو مناسبت ہے اللہ جل شانہ فرماتا ہے لي المارُونَ (الو اقتصر میں قرآن کریم کے حقائق صرف ان پر کھلتے ہیں جو پاک دل ہوں کیونکہ مطر القلب انسان پہ قرآن کریم کے پاک معارف بوجہ مناسب کھل جاتے ہیں اور وہ ان کو شناخت کر لیتا ہے اور سونگھ لیتا ہے! در اس کا دل بول اُٹھتا ہے کہ ہاں میں راہ سچی ہے اور اس کا نور قلب سچائی کی پر لکھ کے لئے ایک عمدہ معیار ہوتا ہے.پس جب تک انسان صاخب حال نہ ہو اور اس تنگ راہ سے گزرنے والا نہ ہو جس سے انبیاء علیهم السلام گزرے ہیں.تب تک مناسب ہے اورگستاخی اور تکبر کی جہت سے مفسر قرآن نہ بن بیٹھے ورنہ وہ تفسیر بالرائے ہو گی جس سے بنی علیہ اسلام نے منع فرمایا ہے اور کہا ہے.مَن فَشَرَ القُرانَ بَرَأَيْهِ نَاصَابَ فَقَدْ اعْطَاء یعنی میں نے اپنی رائے سے مشرآن کی تغییر کی اور اپنے خیال میں اچھی کی تب بھی اس نے برسی تفسیر کی نہ زبركات الدعاء م) واضح ہو کہ یہ معیار تمامیت قیمتی اور مشر وہ ہی ہے اور اس کا استنباط آیت قران لا يمته الا المتظاهرون سے کیا گیا ہے کہ قرآن کریم سے مست

Page 188

189 صرف وہی لوگ رکھتے ہیں جو پاک دل میں وہ جو پاک ولی کی مناسبت کی وجہ سے اچھی نیت کے ساتھ جب وہ قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو اُن پر قرآن کریم کے حقائق کھلتے ہیں کیونکہ وہ قلبی نور سے انوالہ قرآنیہ سے رابطہ رکھتے ہیں.ظلمالی قلب انوار قرآنیہ کی شناخت نہیں کر سکتا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے - يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْقِينَ الذِيْنَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الار اولولك هُمُ الخَسِرُونَ.یعنی خدا تعالے اس قرآن کے ذریعہ بہت سوں کو گمراہ کرتا اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے اور وہ اس سے صرف انہی لوگوں کو گراہ کرتاہے جو نا فرمان ہوتے ہیں جو اللہ کے عہد کو اس کے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور قطع تعلقاً کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور وہ لوگ خسارہ پانیوائے ہیں.اس آیت سے ظاہر ہے کہ ہو لوگ باغی اور نافرمان قاطع تعلقات مفسد ہوں یعنی پاک دل اور نیک نیت نہ رکھتے ہوں.وہ قرآن کریم سے بہایات پانے سے محروم ہو جاتے ہیں اور سجائے ہدایت پانے کے وہ گمراہی کا راستہ اختیار کرتے ہیں مبانی اعات و ساخت شد نیز فرمایا.لَنَهْدِدَام وَالذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْـ سبلنا - (العنکبوت آیت (٤) بینی جو لوگ ہم میں ہوکر رینی پاک ولی سے اللہ سے تعلق پیدا کر کے میں ہدہ

Page 189

A کرتے ہیں.ہم انہیں اپنے.اسنے دکھا دیتے ہیں.یہ آیت بھی پاک دل کے ساتھ قرآن کریم میں غور کرنے کا معیار بیان کرتی ہے.اس آیت کے گرد سے بھی مجاہدہ نفس کے بغیر حقائق و معارف قرآنیہ کا علم حاصل نہیں ہوتا.ورنہ ہر شخص اپنے اجتہاد کو تفسیر القرآن قرار دے نے گا.خواہ وہ تفسیر بالرائے ہی ہو.دیکھئے مفتی صاحب : آپ نے کیا کام کیا ہے.آپ نے صراط الله العزیز کی ختم نبوت کامل کے منہ پر جو تفسیر کی ہے وہ آپ کی نیت تغیر نہ ہونے کی وجہ سے کس قدر غلط ہے.آپ نے سراط اللہ العزیز سے مراد صراط مستقیم نہیں کیا بلکہ وہ راہ مراد لی ہے گویا جس پر خدا چلتا ہے.وال تو یہ آیت اس طرح نہیں میں طرح مفتی صاحب نے لکھی ہے قرآن کریم میں اس مضمون کو رد و آیتیں یوں ہیں.اول سورۃ ابراہیم میں وارد ہے كتب إلى النور الريناة إِلَيْكَ لِتُخْرِينَ النّاسَ مِنَ اللّا باقات وتهم إلى ميرا في المدير تحميل.یعنی یہ کتا ہے جیسے ہم نے تیری طرف آتارا ہم ہے تا کہ تو تمام لوگوں کو اپنے رب کے حکم سے ظلمات سے نکال کر اپنے رب کی طرحت لے آئے.یعنی غالب اور تعریفوں والے خدا کے راستہ کی دارت.س آیت سے ظاہر ہے کہ عزیز اور حمید خدا کے راستہ سے مراد کتابد یعنی قرآن سید کا راستہ ہے جو لوگوں کو ظلمات سے نور کی حرمت بیجا نے کے لئے تجویزہ ہوا ہے.نہیں مراد اس سے صراط مستقیم ہی ہے.دوسری آیت سورہ نساء میں وارد ہے.وتیری الذين أوتوا العلم

Page 190

1^1 الذي أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ مَرَ الْحَقَّ وَيَهْدِي الى مراء العزيز المبيد.اسیاء ، یعنی وہ لوگ بین کو علم دیا گیا ہے اس چیز کو جو تیری طرف تیرے رب کی طرف سے نازلی ہوئی ہے حق جانتے ہیں اور وہ تعلیم غالب محمد دا نے خدا کی راہ کی طرف راہنمائی کرتی ہے.اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ خدا کے راہ سے مراد قرآن ہے.جو صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے.نہ کہ وہ راہ جس پر خدا چلتا ہے پس اگر مفتی صاحب کی نیست بخیر ہوتی اور وہ اس آیت میں نیک نیتی کے ساتھ غور کرتے تو وہ حقیقت سے سراسر اور معنی نہ لیتے.اب مفتی صاحب کو یہ احساس ہو جانا چاہیئے.کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا بیان کردہ معیار که نفس معتر نیکر قرآن کریم میں غور کرنا چاہیتے با لکل درست معیار ہے کیونکہ اس کو میر نظر نہ رکھ کر مفتی صاحب غلط راستہ پر جا پڑے اور سچائی کی راہ ے دور جا پڑے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ بیان فرمایا ہے.چھٹا معیار ، کرمانی سلاد کے سمجھنے کے لئے سلسلہ مہمانی ہے | سلسلہ کیونکہ خدا وند تعالئے کے دونوں سلسلوں میں نکلی تطابق ہے نا رير كانت الدعاء ما یہ معیار بھی درست اور ضروری ہے اور اس کے ہیچ ہونے کے متعلق قرآن کریم سے روشنی ملتی ہے کیو نکہ خود اللہ تھا لئے نے قرآن مجید میں

Page 191

جسمانی اور مادی امور کو روحانی امور کے سمجھنے کے لئے بطور شواہد اور لائل استعمال فرمایا ہے.چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالے لئے بہت سماری امور کی قسمیں کھا کر ان کو رومانی امور پر مشاہد قرار دیا ہے.اگر جہانی اور روحانی امور میں تطابق نہ ہوتا تو کبھی اللہ تعالے مادی امور کور چانی امور کے شواہد کے طور پر پیش نہ کرتا.مزید برآں اللہ تعالے نے سورہ مومنون کے شروع میں کچھ جانی امور سیلان فرماتے ہیں:.نماز میں خشوع کرنا ۲ نفر امور سے اعراض کرنا ول لكرة ادا کرنا.alisl شرمگاہوں کی حفاظت کرنا امانتوں اور محمد کا خیال رکھنا.نمازوں کی حفاظت کرتا ان چھ روحانی تبدیلیوں کے بعد انسانی پیدائش کی چھے مادی تبدیلیوں کو بالمقابل بیان کیا ہے اور انسان کے خلق آخر کا ذکر کیا ہے اور اسے احسن الخالقین ہونے پر دلیل ٹھمرا یا ہے.پھر اس کے بعد بادی نعمتوں ٹھٹھرایا کا ذکر کیا ہے تا انسان روحانی ترقیات کی طرف متوقہ ہو.پھر ایک مقام پر اعقد تعا لیٰ فرماتا ہے : ون في خلق السموات والأَرْضِ وَاخْتِلَاتِ البَلِ

Page 192

وَالنَّهَارِ لايت لأدنى الْأَلْبَابِ الذِينَ يَذْكُرُونَ الله قياماً وقُعُودًا وَعَلَى جُنوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ في خلق السموتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتُ هذا باطلا، سُبحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.ر آل عمران : ۱۹۱ ۱۹۲) ترجمہ: بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آنے میں عقلمندوں کے لئے بہت سے نشان ہیں.وہ (عقلمند) جو کھڑے بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اپنے اللہ کو یاد کرتے ہیں.اور زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے رب تو نے اسے بے فائدہ پیدا نہیں کیا.تو پاک ہے ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.یعنی ہماری زندگی کو بے مقصد ہلنے سے بچا دے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ کائنات کے مادی انقلابات اور تخلیق میں غور کرنے سے مومنوں کو روحانی انقلابات کے برحق ہونے پر بہت سے لائل ملتے ہیں.چونکہ دلائل اور مدلولات میں تطابق بھی ضروری ہوتا ہے.لہذا اس آیت میں کائنات کے انقلابات اور تخلیق کو روحانی انقلابات اور روحانی تخلیق پر نشان قرار دیا گیا ہے.اگر ان میں تطابق کتی نہ ہوتا تو ایک دوستر پر دلیل کیسے ہو سکتا.اور روحانی امور کو سمجھنے کے لئے مادی امور میں فکر کرنے کی کیوں ہدایت کی جاتی.صاف ظاہر ہے کہ مادی مور اور روحانی امور میں ضرور گھرار البطہ ہے جس پر غور کرنے سے بہت سے رجانی امو کھیل جائیں.

Page 193

ساتواں معیار حضرت با یا مدیر تدریہ نے ساتواں سیار یوں بیان قرباط د ساتواں معیار رتی ولایت اور مکاشفات محدثین ہے.اور یہ بیا گویا مقام معیار دل پر حاوی ہے کیونکہ صاحب ولی محدثیت اپنے بینی متبوع کا پورا ہم رنگ ہوتا ہے اور بغیر نبوت اور تجدید احکام کے وہ سب باتیں اس کو دی جاتی ہیں جو نبی کر دی جاتی ہیں اور اس پر یقینی طور پر سبھی تسلیم طاہر پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے اور نہ صرف اس قدر میکہ امور بطور انعام واکرام کے وارد ہو جاتے ہیں." جو نبی متبوع پر وارد ہوتے ہیں سو اس کا بیان محض اُکھلیں نہیں ہو تیں ملیکہ وہ دیکھے کہ کہنا ہے اور سُن کر بولتا ہے اور یہ راہ اس اقت کے لئے کھلی ہے.ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ زارت حقیقی کوئی نور ہے، اور ایک شخص جو دنیا کا کیڑا اور دنیا کے جاہ رسہلائی اور انگ و ناموس میں منبط ہے وہی دارت علیم نبوت ہو.کیونکہ خدا و مقالے وعدہ کر چکا ہے کہ غیر معتمرین کے علم نبوت کسی کو نہیں دیا جائے گا بلکہ یہ تو اس پاک علم سے باز ی کرنا ہے کہ ہر ایک شخص باوجود اپنی آلودہ حالت کے وارث النبی ہونے کا دعوی کرے اور یہ بھی ایک سخت جہالت ہے کہ ان وارثوں کے وجود سے انکار کیا جائے اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اسرایہ نبوت کو اب صرف بطور ایک گذشتہ قصہ کے تسلیم کرنا چاہیئے جن کا وجود

Page 194

AD ہماری نظر کے سامنے نہیں ، اور نہ ہونا ممکن ہے.اور نہ ان کا کوئی نمونہ موجو د ہے ، بات یوں نہیں ہے کیونکہ اگر اسیا ہوتا می سلام زندہ مذہب نہ کھلا سکتا بلکہ اور مذہبوں کی طرح.میں مردہ مذہب ہوتا.اور اس صورت میں اعتقاد مسئلہ نبوت بھی صرف ایک قصہ ہوتا نہیں کا گر رشتہ قرنوں کی طرف حوالہ دیا جاتا.مگر خدا تعالے نے ایسا نہیں چاہا.کیونکہ وہ خوب جانتا تھا کہ اسلام کے زندہ ہونے کا ثبوت اور بلوت کی نفی حقیقت جو ہمیشہ ہر ایک زمانہ میں منکرین و ہی کو ساکت کر سکے اسی حالت میں قائم رہ سکتی ہے کہ سلسلہ وی برنگ محدثیت ہدیہ کے لئے جاری رہے.سو اس نے ایسا ہی کیا.محدث وہ لوگ ہیں.جو شرف مکالمہ انہی سے مشرف ہوتے ہیں.اور ان کا جو نپرس انبیاء کے جو ہر نفس سے اللہ مشابہت رکھتا ہے.اور وہ خواب نجیبہ نبوت کے لئے بطور آیات باقیہ کے ہوتے ہیں.نا یہ قیق مسئلہ نزول وحی کا اسی زمانہ میں ہے ثبوت ہو کر صرف بطور قعہ کے نہ ہو جائے.اور یہ خیال ہرگز درست نہیں کہ انبیاء علیہ السلام دنیا سے بے وارث ہی گزر گئے اور اب ان کی نسبت کچھ رائے ظاہر کرنا بھر قصہ خوانی کے اور کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتا.بلکہ ہر ایک صدی میں ضرورت کے وقت ان کے دارش پیدا ہوتے رہے ہیں.اور اس صدی میں یہ عاجزہ ہے.قد افعانی

Page 195

TAY نے مجھے کو اس زمانہ کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے.تا وہ غلطیاں جو بجز ضد اتنا لنے کی خاص تائید کے مکمل نہیں سکتی تھیں.مسلمانوں کے بیانات سے نکالی جائیں.اور شکرین کو بیچتے اور زیادہ خدا کا ثبوت دیا جائے.اور اسلام کی عظمت اور حقیقت تازہ نشانوں سے ثابت کی جائے.سو یہی ہو رہا ہے.(برکات الدعامة انا ) جناب مفتی صاحب نے اس معیار کو بدیں وجہ رہ گیا ہے کہ ان کے نزدیک دیہ ایک اللہ غریب اور خوشنما تدبیر ہے کیونکہ اولیاء و محدثین کے مکاشفات و شل نفس و شیطان سے معصوم نہیں تخیلات وی رسول اور قرآن مجید کے کہ وہ اس سے بالکل پاک اور معصوم ہیں میں کے ساتھ خدا کی پولیس رفرشتے آگے پیچھے حفاظت کے لئے آتے ہیں چنانچہ ارشاد ہے ومن خلفه رصدا.ایک رصد پیش بھیجتا ہے پس ایک معصوم کلام کی مراد غیر معصوم کشف پر موقوف نہیں ہوسکتی تمام معیار دن کا لب لباب اور ملالہ یہ ساتواں معیار ٹھٹھرا اور اس کا محاصل یہ ہوا کہ تفسیر قرآن دو معتبر ہے جو مرزا صاحب فرمائیں نے ختم نبوت کامل کا 120 واضح ہو کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا مومی مسیح موعود کا ہے.الجواب اور مسیح موعود رسول اور مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی میں اس کی شان میں حلماً عدلا کے الفاظ دارد ہیں پس اگر اس کی تغیر قوم کے لئے محبت نہیں زدہ حکم دعدل کیسے ہوسکتا ہے

Page 196

Inc حضرت رسول کریم سے اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کے مسیح موعود کی شان میں نبی اللہ کے الفاظ اسی لئے ارشاد فرمائے ہیں کہ اس کے فصیلوں کو دخل شیطان سے منزہ کیا جائے اور بلا حیل و محبت قبول کیا جائے جمعیت رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالے نئے اسلام کی تازگی اور اس کی سنجیدیہ کے لئے مجددین کا سلسلہ شروع کیا جو محدث ہونے کی وجہ سے خدا کی ہمکلامی سے مشرف ہوتے ہیں.چنانچہ حدیث نبوی میں آیا ہے إنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأسِ كُل مانة سَنَةٍ عَنْ يُجَل دُ لهَا دِينَهَا - ر رواه ابوداؤد) کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سرے پر ایسے شخص کو مبعوث کرتا رہے گا جو اس امت کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا.پس اگر ایسے مجددین کے الہامات دخل نفس و شیطان سے منزہ نہ ہوں تو نبی اور رسول کی ہوگی سے بھی امان اُٹھ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شیطان کو مخاطب کر کے فرمایا ہے.ان عِبَادِي لَيسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلطن - وسورة الحجر :۳۳) کہ میرے بندوں پر تجھے غلبہ حاصل نہیں ہو گا.پس اگر شیعان خدا کے ان پیارے بندوں پر وحی نازل ہونے کے وقت دخل اندازی کرے تو وہ دخل اندازی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ خدا تعال کا حتمی فیصلہ ہے کہ شیطان اس کے فرمانبرداروں پر غالب نہیں آسکتا.اللہ تعالی قرآن مجید

Page 197

میں فرماتا ہے :.IAA ما او سلنا مِن قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِي إِلَّا إذا تمنى القى الشيطن في أمنيته فينصح الله ما ينقي الشيطن - سورة البر (٥٣) ترجمہ : ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول ، در بنی نہیں بھیجا ملا جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس تمنا میں دخل اندازی کی کوشش کی.پی خدا شیطان کی دخل اندازی کو مٹا ڈالتا ہے.صحیح بخاری کی ایک حدیث ہیں اس آیت کی دوسری قرات میں درد نبی کے بعد ولا محدیث کے الفاظ بھی وارد میں پس محترت جو سردین میں سے ہو اس کی دمی کو بھی دخل شیطان سے انبیاء اور رسل کی طرح منزہ کر دیا جاتا ہے گویا ان کی دھی بھی یقینی ہوتی ہے مشکوک نہیں ہوتی.مجتہدین کے علاوہ جو اولیاء اللہ ہیں ان کے دلدامات وکشون کو بھی معنی اس وجہ سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ غیر معصوم ہیں.اصطلاحی طور پر گو وہ نبیوں کی طرح معصوم نہ ہوں لیکن قرب الہی پانے کے بعد وہ ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جس سے وہ شیطان کا غلبہ پان سے محفوظ ہو جائی یں ان کے الات سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے اور ان کے الات و کشوف کو بھی خالی از افاده قرار نہیں دیا جا سکتا.جبکہ وہ صریح پر کسی نفس کے خالت نہ ہوں.اور نصوص قرآنیہ م دینیہ اور لعنت عرب ان کی تقسیمات کی مویدہ ہوں لیکن حکم و عدل کے انعامات اور کشوف قرآن و حدیث کے خلاف ہو ہی نہیں سکتے.شیطان صرف اپنے

Page 198

دوستوں کود می کرتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وإِنَّ الشَّيْطين ليوحون إلى أولياءهم - (سوره انعام (۱۳۳) دان کر شیطان اپنے دوستوں کی طرف وحی کرتے ہیں.پس خدا کے پیاروں کے متعلق یہ خیال نہیں کیا جا سکتا.کہ ان پر شیطانی العام اس طرح دارد ہو سکتا ہے کہ وہ اُسے خدا کا العام سمجھ لیں.اگر ایسا ہو جاتا تو یہ امر تو شیطان کے اولیاء اللہ پر غلبہ پانے کے مترادف ہوگا.حالانکہ اولیاء اللہ پر غلبہ پانے سے شیاطین کو محروم رکھا گیا ہے شیطان کی دھی صرف جھوٹے اور گناہ گاروں پر بھی نازل ہوتی ہے، چنانچہ اللہ تعا نے فرمایا ہے.هل أنيتُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيطين تَنَزَّل عَلى كُل آناك اشيم - سورة الشعراء: ۲۲۲ ۲۲۳) یعنی کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں (سنو) و بیت جھوٹے اور گناہگار پر نازل ہوتے ہیں.افسوس ہے کہ مفتی صاحب نے اولیاء اللہ اور مسجد دین و محدثین کی وحی کو دخل شیطان سے آلودہ قرار دے کر اس وحی کی افادیت سے انکار کر دیا ہے جو اس بات کے مترادف ہے کہ گویا خدا تعالے کا کلام جوان پر نازل ہوتا ہے وہ محض ایک لغو کام ہوتا ہے.منحبك ما هذا الابْتَانَ عَظِير - محمد دین جو ثبوت الولایت سے ایک حصہ رکھتے ہیں ان پیندا اپنے

Page 199

۱۹۰ مکاشفات اور الہامات کے ذریعہ اپنے کلام معنی اپنی کتاب قرآن مجید اور اپنے رسول حضرت محمد مصطفے سے اللہ علیہ وسلم کے کلام کے حقائق اور معاد ظاہر کرتا چلا آیا ہے.جو اپنے اندر معارف قرآنیہ اور حد یہ کا ایک انے وال خودانہ رکھتے ہیں.حضرت شیخ عبد القادر جیلانی جو اپنی صدی کے مجدد تھے فرماتے ہیں.يخبرنا إلى سرايرنَا مَعَاني كلام وكلام رَسُولِهِ وَصاحِبٌ هَذَا الْمَقَامِ مِنْ أَنْبِيَاءِ الأولياء - اليوانيت والجواہر کہ اللہ ہمارے باطن میں ہمیں اپنے کلام اور اپنے رسول کے کلام سے آگاہ کرتا رہتا ہے اور یہ مقام نہ کھنے والا شخص انبیا ءالاولیاء میں سے یہ نہ و ہوتا ہے.حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ تحریہ فرماتے ہیں :.این همچنانکه بنی علیہ الصلوة والسلام آل علوم را از دهی حاصل نے کرد بطریق الهام را از اصل انفذ می کنند.علماء این علوم را از شرائع اخذ کرده بدین اجمال آورده اند یہاں علوم چنانچہ انبیاء علیهم الصلوة والسلام را حاصل بود تفصیلاً كشفاً ایشان را نیز بیمان وجوه حاصل می شود اصالت و تبعیت در میان است.بایی قسم کمال ادنیا ئے مکمل بعضی ازیشان را از قرون متطاوله و از منه متساعده انتخاب

Page 200

191 سے فرمائندہ (مکتوبات جلدا هست) یعنی جیسے حضرت نبی کریم نسلی اللہ علیہ وسلم نے وہ علوم وھی سے حاصل کرتے تھے یہ بزرگان ملت الہام کے ذریعہ وہی علوم اصل یعنی خدا تعالیٰ سے حاصل کرتے ہیں اور عام علماء ان علوم کو سر میتونی سے اختہ کر کے بطریق اجمال پیش کرتے ہیں وہی علوم میں طرح انبیاء کو تفصیلاً اور کشفا حاصل ہوں ہیں.ان بزرگوں کو بھی اسی طرح حاصل ہوتے ہیں.صرف اصالت اور تحقیت یعنی اصل اور تحمل کا فرق در میان ہوتا ہے.ایسے بزرگ لوگوں کو لیے زمانہ کے نہ کیا جاتا ہے.است سید اسمعیل بشیر منصب امامت راست پر تحر یہ فرماتے ہیں.باید دانست از انجمله العام است همین الهام که با نبیاء الله ثابت است آنرا در حی گوشند و اگر بغیر ایشان ثابت میشود اور استحدیث مے گولنار نکا ہے در کتاب الله مطلق الله السامرا خواه با نبیاء ثابت می شود خواه با دلیاء اللہ وحی نامند یا یعنی خدا تعالے کی نعمتوں میں سے ایک انعام کسی ہے.یہیں انعام ہو انبیاء کو ہوتا ہے اس کو دھی کہتے ہیں اور جو انبیاء کے غیر کو ہوتا ہے تو اس کو تحدیث کتنے میں کبھی مطلق العام کو خوا و انبسیار کو ہو یا اولیاء کو قرآن سپید کے رو سے وحی کہتے ہیں.پس جب بقول مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کاس اولیاء اللہ پہ قرآن کے علوم تفسیل اور کشفا کھولے جاتے ہیں اور بقول سید الکفیل کیا شہید

Page 201

195 تحدیث کا منبع بھی وحی الہی ہے تو اس کی اس افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا.اس محدثین پر جو وحی نازل ہوتی ہے وہ قابل اعتماد ہوتی ہے نہ مشکوک - محمد ثین تو وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالئے انبیاء کی طرح بالمشافہ کلام کرتا ہے.بیچنا نچہ حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ تحریہ فرماتے ہیں :- إن كلام قد تكون شَفَاهَا وَذالك الأَفْرَادُ مِن الاستياء وقد يكون لبعض الكميل من متابعيهم واة اكثر هذا القسم مع واحد منهم حتى لحد ما کتر بافت مجددالف ثانی له شه مکتوب (2) یعنی یقیناً خدا تعالے کیسی بالمثانہ کلام کرتا ہے اور یہ افراد میں سے ایسا کلام کرتا ہے انبیاء ہوتے ہیں اور کبھی انبیاء کے بعض کامل متبعین سے بھی ایسا کام کرتا ہے اور جب کسی کے ساتہ ان میں سے اس قسم کا کلام بکثرت کرتا ہے تو اس کا نام کسر مت رکھا جاتا ہے.پیر میں بنی سے خدا کا بالمشافہ کلام شک دست بہ کے مقام سے بالا ہوتا ہے از محنت کفر کا بالمش و کلام بھی شک و سفیہ اور حدیث النفس اور دور شد.سے مبرا اور منزہ ہو گا.کیونکہ اس کا نازل کرنے والا خدا تعالئے ہے.خدا تعالے نے تو دین میں استقامت اختیار کرنے والوں کی شادی میں فرمایا إن الذين نالوا رَبَّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تتنزل عليهم المليكة الا انوا ولا تا نوار الشر وا

Page 202

۱۹۳ بالجنة الاني كُنْتُمْ تُوعَهُ وَن - تحد اولياءكم في الحيرة الدنياء في الأخيرة ومكم فيها ما وَتَكُمْ الفتح الفُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مادة لون مره من غَفُورٍ رحيم وحم سجده : ۳۲۳۱) ترجمہ.بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر استقامت اختیار کی ان پر خدا کے فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ تم کوئی خوف نہ کرو اور ننگین ہو اور اس جنت کی بشارت پاؤ جس کا تم دغدہ دیئے گئے ہو.ہم دنیا اور آخرت میں تمہارے مدد گار ہیں اور تمہارے لئے اس میں ہے جو کچھ تم چاہو اور تمہارے لئے اس میں ہے جو کچھ تم مانگو.اس مال میں کہ وہ جسمانی ہو گی مخفور اور رحیم خدا کی طرف سے.ملائکہ کے ذریعہ یہ کلام جو دین میں استقامت اختیار کرنے والوں پریان ہوتا ہے اسے وخل نفس اور دخل شیطان سے اس لئے پاک سمجھنا ضروری ہے کہ خدا تھا لئے اس آیت کے مضمون کو ان کے لفظ سے شروع فرماتا ہے ہو مضمون حملہ کے یقینی ہونے کے متعلق استعمال ہوتا ہے.حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ ملائکہ کی اس تنزیل کو نبوت عامہ یعنی نبوت الولایت قرار دیتے ہیں.چنانچہ وہ اس آیت کی تفسیر میں باب معرفة الاستقامتہ کے ذیل میں لکھتے ہیں :.هذا التَّنْزِيلُ هُوَ التَّبوة العامة لأسرة التشريع.ر فتوحات میکنه جلد ۲ ۲ باب معرفة الاستقام

Page 203

۱۹۴ یعنی یه تنزیل ملائکہ نبوت عامہ ہے نہ تشریعی نبوت.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی المبشرات کو حدیث کمربن من النبوة إلا المبرات میں نبوت کا حصہ قرار دیا ہے پس جو امر نبوت کا حصہ ہو وہ مشکوک اور جھوٹ نہیں ہو سکتا.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ریعنی اللہ عنہ انہیں مبشرات کے متعلق فرماتے ہیں :- ما كانَ مِنَ التَّبو يكذب.کہ جو امر نبوت کا حصہ ہو وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی عورتوں پر جب یقینی وحی نازل فرمائی تو است محمدیہ کے محدثین کو یقینی دگی سے محروم قرار نہیں دیا جاسکتا.دیکھئے حضرت مریم علیہا السلام کو جبریل نے مسیح کی ولادت کی بشارت دی تو یقینی رھی تھی.اسی طرح اللہ تعالے نے حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کو وحی کی کہ اس بچہ کو صندوق میں ڈال کر دریا میں پھینک دو.اور نسلی دی کہ خدا تعالئے اس کی حفاظت کا سامان کرے گا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر یہ نازل ہونے والی بھی یقینی ملتی جس پر ان کی والدہ نے یقین کرتے ہوئے اپنے بچہ کو صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا.اور پھر خدا تعالے نے دشمن کے ہاتھوں اس کی حفاظت فرمائی اور اس کی تربیت کا سامان کر دیا.پس جب بنی اسرائیل کے اولیاء پر خدا کا یقینی کلام نازل ہوتا رہا ہے تو امت محمدیہ کے محدثین پر نازل ہونے والے کلام میں شک نہیں کیا جاسکتا مشہور حدیث ہے علماء امتي مَا نَبِيَاء بَنِي إِسْرَاءِيلَ

Page 204

140 کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں.اس حدیث کا منشا بھی یہی ہے کہ اس امت کے علما ء ربانی پر انبیاء بنی اسرائیل کی طرح خدا کا یقینی کلامہ نانزال ہوگا.اسی مضمون کی حدیث العلماء ورثۃ الانبیاء ہے کہ علماء ربانی انبیاء کے وارث ہیں.پس اگر تسلیم کیا جائے کہ اس امت کے علمائے ربانی کو خدا تعالے کے یقینی مکالمہ مخاطبہ سے حصہ نہیں ملتا.اور جو کچھ انہیں الہام ہوتا وہ مشکوک اور معنی ہی ہوتا ہے تو انبیاء کے وارث کیا ہوئے.مفتی صاحب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس امت کو کمالات نبوت سے حصہ ملتا ہے پس اگر کمال نے نبوت پانے والوں پر نازل ہونے والے الہامات کو مشکوک سمجھا جائے تو ایسے الہامات کو کمالات نبوت قرار دینے میں خود انبیاء کی جنگ ہے کہ وہ اپنے متبعین کو خدا تعالے کا ایسا مقرب نہ بنا سکے کہ وہ خدا کے یقینی کلام سے صحت پائیں.جو اُن کے مقرب الہی ہونے پر روشن دلیل ہو.چونکہ مفتی صاحب خدا کے یقینی الہام سے خود محروم ہیں.اس لئے وہ محدثین امت کے الہامات کو بھی غیر یقینی قرار دے کر رد کرنا چاہتے ہیں.مگر مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہونے والے الہامات بر حکم و عدل ہیں.اور جنہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی اللہ قرار دیا ہے.دکرنے کا کسی امری کو حق نہیں قرآن کریم میں ہی تھی فیصلہ موجود ہے کہ ملائکہ کے مومنوں پر نزول کی غرض یہ ہے کہ خدا تعالے سے وحی حاصل کرنے کے بعد وہ مومنوں کی دھاریں بندھا نہیں.

Page 205

194 چنانچہ فرماتا ہے.اذبيتوني ربكَ إِلَى المَليكة انّي مَعَكُمْ إِلى فتوا الذين امنوا سَألْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ - (انفال : ١٣) عینی تیرا رب ملائکہ کی طرف وحی کر رہا تھا کہ یقینا میں تمہارے ساتھ ہوں.اس تم مومنوں کے دلوں کو مضبوط کرو.میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ ملائکہ کے ذریعہ مومنوں کے دلوں میں جو القاء موادہ ان کے دلوں کو یہ یقین دلانے کے لئے تھا کہ گھبراؤ نہیں تم یقینا فتح پاؤ گے ہیں مفتی صاحب کا یہ خیال کو لینا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو انعام ہوتا ہے وہ محض مشکی اور مطلقی ہوتا ہے اس قرآنی نص تطعیہ کے خلاف ہے.H قرآن کریم کی وحی کو یقینی قرار دینے کے لئے فرمایا گیا ہے.دينبت الله الذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ في الحيوة الدُّنْيَاء فِي الْآخِرَةِ (ابراهيم : ۲۸) یعنی اللہ تعالے مرضوں کو قول ثابت یعنی قرآن مجید کے ذریعہ دلی کی مصیبوں عطا کرتا ہے.پس جس طرح اس آیت میں قرآن مجید کے متعلق یہ بتایا ہے کہ اس سے مومنوں کے دلوں میں یقین پیدا ہو کہ ان کے دل مضبوط ہوتے ہیں اسی طرح پہلی آیت میں یہ بتا یا گیا ہے کہ مومنوں پر مائکہ کا التقاء بھی ان کے دلوں کو

Page 206

198 مضبوط کرنے کے لئے ہوتا ہے.پس میں طرح قرآن مجید سے ثبات قلبی حاصل ہوتا ہے کیونکہ قرآن مجید خدا کا قطعی اور یقینی کی یہ ہے اسی طرتا لائکہ کے ذریعہ مومنوں کے قلوب میں جو العام ہوتا ہے وہ شہارت قلبی کا محجوب دہ ہونے کی وجہ سے یقینی کلام ہوتا ہے نہ کہ مشکوک اور طنی.اس مفتی صانی کو اپنے اس غلط عقیدہ کی جلد اصلاح کر لینی چاہیئے.کہ محنت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر یقین پیدا کرنے والا العام نازل نہیں ہو سکتا.حضرت امام جعفر صادق عینی اللہ عنہ فرماتے ہیں : العام از او سات مقبولان است و استدلال ساختن که به الهام بود از علامت را ندگان است.(تذکرة الاولیاء فارسی یعنی فرمایا.المام مقبوں کا وصف ہے اور بغیر العام استند حال کرنا مردود کا کام ہے.(تذکرۃ الاولیاء اردو ص۳۲) حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے بھی محدثین کے العامہ کو یقینی قرار HE دیا ہے اور جن لوگوں نے تمام الہامات کو جو نبی کے سوا ہوں منی ٹھہرایا ہے ان کی تردید فرمائی ہے.اور استدلال کے لئے اسے اصول فقہ میں سے ایک اصل قرار دیا ہے.خاتمة الكتاب مفتی محمدشفیع صاحب دیوبندی نے اپنی کتاب ختم نبوت کامل کے شروع میں اصل بحث سے پہلے جو خاتم النبین کے منی اور مظلوم کے متعلق کرنا چاہتے تھے

Page 207

19^ ایک مقدمہ لکھا ہے جس میں انہوں نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر متعدد الزامات لگا کر آپ کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.تا اس مقدمہ کے ذریعہ اصل بحث کے پڑھنے سے پہلے ہی آپ کے خلاف اپنی کتاب پڑھنے دانوں کے ذہنوں کو اس طرح مسموم کردیا جائے کہ خاتم النبتین کے اصل مبحث کی گہرائی میں نہ جا سکیں.اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے لئے تیار ہو سکیں.مگر ساری دنیا ایسی نہیں ہو سکتی کہ وہ اصل حقیقت کو سمجھنے سے آنکھیں بند کرلے اور اندھا دھند مفتی صاحب کے خیال کی یں کیا کیا اور دادا دادن منی صاحب کے خیال تائید میں لگ جائے.ہم نے ان میں سے ایمان کے مقدمہ کے متعلق اپنی محبت کو تنقید کتاب کے آخر میں بطور خاتمة الکتاب کے پیش کر رہے ہیں.مفتی صاحب کے مقدمہ کو پڑھنے والا ہر شخص جو کتب مسیح موعود علیہ السلام سے واقفیت رکھتا ہے ادنی قاتل سے اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ مفتی صاحب نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ان کتب کا کبھی مطالعہ نہیں کیا جن کے حوالہ جات انہوں نے اپنے مقدمہ میں پیش کئے ہیں.اور انہوں نے مخالفین اور بعض موافقین کی کتب سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سے درج شدہ حوالہ جات کو اخذ کر کے اپنے مقدمہ کی عمارت قائم کی ہے چنانچہ انہوں نے حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ کی زندگی کے تین دور بیان کئے ہیں ان ادوار کے بیان سے پہلے ان کے مضمون کی مفید یوں ہے:.ختم نبوت کے اقرابہ دانشکانہ اور ختم نبوت کے معنی اور نبوت اور وجی

Page 208

199 کے دعووں سے متعلق مرزا صاحب کے تعداد میں اگر کوئی معقولیت اور تطبیق پیدا کی جاسکتی ہے تو صرف اس طرح کہ ان کو مختلف ادوار عمر اور مختلف زمانوں سے متعلق قرار دیا جائے.جس میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں مرزا صاحب پر تین دور گزرے ہیں.اس تمہید کے بعد تین ادوار کا ذکر یوں کرتے ہیں :- اس تمہید سے نتھا جب مرزا صاحب سب مسلمانوں کی طرح مسلمان تھے پہلا دور اور امت کے اجماعی عقائد و نظریات کو جلا کسی تاویل و تحریف کے تسلیم کرتے تھے.اور ایک مبلغ اسلام کی حیثیت سے کچھ نہیں کھتے تھے.دوسرا دور وہ تھا جس میں انہوں نے کچھ دھوے شروع کئے اور ” ان میں تدریج سے کام لیا.مجرد ہوئے.مہدی نے یہانتک کہ سیح موعود ہے.یہاں پہنچ کہ یہ خیال آنا ناگزیر تھا کہ مسیح موعود تو اللہ کے اولو العزم رسول دینی اور صاحب وحی تھے.عقیدہ ختم نبوت کے ہوتے ہوئے کسی نئے شخص کا مسیح موعود بنا تو ختم نبوت کے خلاف ہے اس وقت انہوں نے ختم نبوت کے معنی میں تخریف میں شروع کیں نبوت کی خود ساختہ چند تمہیں تشریعی غیرہ ہیں.علی بروزی - نقومی اور مجازی بنا کر ختم نبوت کے عموم و اطلاق کو توڑنا چاہا.اور اپنے مرحومہ اقامہ نبوت میں سے بعض قسموں کا بعد وفات

Page 209

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلہ بھی جاری رہنا بلایا اور اپنے حق ہیں اسی جباری نہ جینے والی نبوت کے مدعی بن گئے.تمیرا دور وہ تھا جس میں تاویل و تعریف سے بے نیاز ہو کہ کھلے طور پر ہر قسم کی نبوت کا جا تعریق تشریعی دغیر تشریعی کے سلسلے ارت فرانہ دیتے اور خود کو صاحب شریعت بنی ستیلا یا ت رختم نبوت کامل ) یہ امر واضح رہے کہ مفتی صاحب کا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر یہ الزام کہانی عمر کے کسی حصہ میں آپ نے ختم نبوت کا انکار کیا ہے سراسر افتراء ہے جن تین ادوار کا مفتی صاحب نے بزعم خود ذکر کیا ہے اس سارے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین یقین کرتے رہے ہیں اور شروع سے لے کرتا وفات آپ کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ آشخصیت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہونے کی وجہ سے آخری نشریعی اور آخری منتقل بنی ہیں.اور کوئی شریعیت جدیدہ لانے والا بنی یا مستقل بنی آپ کے بعد نہیں آسکتا.ہاں آپ کی پیروی اور آپ کے افاضہ روحانیہ سے فیض پا کر اور آپ کی مشکوۃ رسالت سے نور حاصل کر کے ملی طور پر آپ کا ایک اہمتی مقام نبوت کو اس طرح حاصل کر سکتا ہے کہ وہ ایک پہلو سے بنی ہوا در ایک پہلو سے امتی.آپ نے مصروف اصطلاحی تعریف نبوت کے بالمقابل جس میں بنی کے لئے یا شریعت لانا ضروری کیا جاتا تھا.یا بلا استفادہ بنی سابق کے مقام نبوت پر سرفراز ہونا یعنی مستقل نہی ہوتا اپنی نبوت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 210

۲۰۱ کی پیروی کے واسطہ سے حاصل شدہ ہونے کی وجہ سے مجاز کے طریق پر حاصل شدہ بھی قرار دیا ہے.البتہ ایک تبدیلی ہو آپ کے عقیدہ میں ہوئی وہ یہ ہے کہ پہلے زمانہ میں آپ اپنی بوقت کو نامور محدث کے مترادف خیال کرتے تھے اور محدثیت کی نبوت سے اللہ مشابہت قرار دیتے تھے لیکن انوالہ سے آپ نے یہ تاویل ترک فرما دی کہ آپ کی نبوت محدثیت تک محدود ہے بلکہ آپ نے یہ علوم کرلینے کے بعد کہ الہامات متواترہ میں آپ کو سریع طور پر بنی کا خطاب دیا گیا ہے اپنی نبوت کی یہ تا دیل ترک کر کے کہ آپ بنی معنی محدث ہیں اپنا مقاسم محدث سے بالا قرار دیا.اس تبدیلی کے سوا اپنی نبوت کے بارہ میں آپ کے عقب میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.اور یہ تبدیلی بھی الہامی انکشاف کے را ستحت ہوتی ہے.لیکن ان ملالہ سے لے کرتا زندگی آپ نے یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ آپ تشریعی نبی یا مستقل بنی ہیں.ملکہ اپنی نبوت کے متعلق یہی وضاحت فرماتے رہے کہ آپ ایک پہلو سے بنتی ہیں اور ایک پہلو سے اتنی.اور انحصار صلے اللہ علیہ وسلم نبوت میں اصل ہیں اور آپ کی نبوت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی فرع اور حل ہے.چنانچہ اپنے اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں ابو سن شاہ کا ہے تحریہ فرماتے ہیں :- جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعیت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر بنی ہوں مگر ان معنوں سے

Page 211

کہ میں نے اپنے رسول دختدار سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطے سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے.رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعیت کے اس طور کا نبی کہا ہے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا.بلکہ اپنی معنوں سے خدا نے مجھے بنی اور رسول کر کے پکارا ہے.سو اب بھی میں ان معنوں سے بنی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.راشتہار ایک غلطی کا ازالہ مفتی محمد شفیع صاحب نے خود یہ عبارت اپنی کتاب ختم نبوت کامل کے مال پر درج کی ہے اس سے ظاہر ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ آپ مستقل شریعیت لانے والے یا ستنقل نبی ہیں.آپ کا دعوی ہمشیران معنوں میں نبی اور رسول ہونے کا رہا ہے.آپ نے اپنے رسول مقتدا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے علم غیب پایا ہے.آپ کے بنی اور رسول ہونے کی یہ کیفیت اور حقیقت ایک ایسا امر ہے جس میں شروع دعوئی سے لے کر آخر زندگی تک کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی.العینہ جو تبدیلی واقع ہوتی وہ صرف اس تاویل میں ہے کہ پہلے آپ نے اپنی نبوت کو مامور محدث کے مقابک محد دو جاتا اور بعد میں الہامات کے رو سے جب آپ پر اپنی نبوت کے متعلق تصریح ہو گئی کہ آپ کی نبوت کا مقام محدث کی نبوت کے مقام سے بالا ہے تو آپ نے اپنی نبوت کی تاویل محد ثیت ترک فرما دی.اگر اس امر کا نام دعوئی میں تدریجی کا پایا ندیمی الختان قابل اعتراض نہیں جانا کہا جائے تویہ امر ہرگز قابل احترام

Page 212

کسی نہیں کیونکہ کسی شخص پر اپنے تحقیقی مقام کے متعلق تدریجا انکشاف ہرگز محل اعتراض نہیں ہوتا.کیونکہ بہت سے انبیاء نے پہلے ولایت کا مقام حاصل کیا ہے اور پھر وہ ولایت کے مقام سے ترقی کر کے مقام نبوت پر سر فراز ہوتے چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نبوت کے حصول کے دو طریق بیان کرتے ہیں.پہلا طریق یہ ہے کہ ایک شخص کو براہ راست نبی بنا دیا جائے اور دوسرا طریق یہ ہے کہ پہلے کوئی شخص مقام ولایت حاصل کرے اور پھر اس مقام ولایت کے واسطہ سے کمال نبوت پر سر فرانہ ہو.اس دوسرے طریق کا ا سرفراز ذکر آپ ان الفاظ میں فرماتے ہیں :- راه دیگر آنست که توسط حصول این کمالات و نایت محصول به کمالات نبوت میشه گرد و را و دوم شاهراه است و اقرب است به حصول که به کمالات نبوت رست الا ماشاء الله - این راه رفتند است از انبیاء کرام و اصحاب ایشان به تبعیت و دراشت" ر مکتوبات مجدد الف ثانی جلد اول مکتوب ۳۲ ۳۳۵) ترجمہ: نبوت ملنے کی دوسری راہ یہ ہے کہ کمالات ولایت کے حصول کے واسطہ سے کمالات نبوت کا حاصل ہونا میتر ہو.یہ دوسری راہ شاہراہ ہے اور کمالات نبوت تک پہنچنے میں قریب ترین راہ ہے.الا ماشاء اللہ.اسی راہ پر انبیائے کرام میں سے بھی اور ان کے اصحاب میں ان کی پیروی اور وراثت میں چلے ہیں.

Page 213

۲۰۴ پس جب دلایت و نبوت کے مقامات روحانیہ کے حصول میں تدریج بھی پائی گئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اپنی شان کے متعلق تدریجی انکشاف کسی طرح قابل اعتراض ہو سکتا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ اگر تدریجی انکشاف کسی روحانی مرتبہ اپنی شان کے متعلق تاریخی اور روحانی شان کے متعلق قابل اعتراض انکشاف امر ہوتا.تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم متعلق اپنی شان کے انکشاف کے بارہ میں تدریجی انکشاف نہ پایا جاتا.حقیقت یہ ہے اور انبیاء تو کجا خود سرور انبسیار حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اپنی شان اور مرتبہ کے متعلق تدریجی انا ثات ہوا ہے.چنانچہ ایک زمانہ میں آپ نے یہ فرما یا :.لا تخبروني على موسى - صحیح بخاری جلد ۲ ۲۹ کہ مجھے موئے پر ترجیح اور فضیلت نہ دو.اور جب کسی شخص نے آپ کو سب لوگوں سے افضل کہا.تو آپ نے فرمایا.ذاك ابراهيم صحیح مسلم) که به مرتبه توحضرت ابراهیم علی السلام کا ہے.لیکن دوسرا وہ نت آپ کی زندگی میں ایسا آیا کہ آپ پینکشف ہو گیا کہ کہ آپ تمام انبیا سے افضل ہیں.چنانچہ اس وقت آپ نے فرمایا.فصلت على الأنبياء بست.(صحیح مسلم میں تمام انبیاء پر کچھ باتوں میں فضیلت دیا گیا ہوں.نیز یہ بھی فرمایا : - لو كان مُوسى حَيًّا لَمَا وَسِعَهُ إلا اتباعى - مرقاة جلده ست که اگر موسی زنده

Page 214

۲۰۵ ہوتا تو اسے میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا.نیز فرمایا.آنا سید النَّبِيِّنَ مِنَ الأولين والاخرني - (فردوس دیکھی ) کہ میں سب پہلے آنے والے اور پیچھے آنے والے انبیاء کا سردار ہوں.تمام انبیاء سے افضل ہونے کا اظہار آپ نے اس وقت کیا جب آپ پر آیت خاتم النبی نازل ہو گئی.کیونکہ آپ نے نسلت على الانبياء بيست والی حدیث میں چھٹی دعہ اپنی افضلیت کی اپنا خاتم النبین ہونا بیان فرمائی ہے.مفتی صاحب کی کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اپنا شان نبوت سیح موعود سے لاعلمی کے بارہ میں تدریجی انکشاف کی یہ حقیقت بیان کرنے کے بعد اب ہم مفتی صاحب کے پیش کردہ خیالی تین ادوار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ مفتی نیست نے حضرت مسیح موجود و علیہ السلام کی زندگی کے جو تین دو ر بیان کئے ہیں اور ان سے جو نتا ئج نکالے ہیں یہ ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے ناواقفی کا ثبوت ہے.ان کا بیان پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے ، گوتی صاحب نے کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو پڑھا ہی نہیں.جن کی وہ بعض عبارتیں صرف موافقین اور مخالفین کی کتب سے اخذ کر کے تحقیق حقیقت پیش کر رہے ہیں.اس امر کا قطعی اور حتمی ثبوت یہ ہے کہ جناب مفتی صاحب نے ہو تین دوا قرار دیتے ہیں ان میں سے پہلا دو سالہ سے قرار دیا ہے (ملاحظہ ہو ختم نبوت کا مل ہے کیونکہ انہوں نے سب سے پہلی مہارت اپہلا دور کے

Page 215

۲۰۶ عنوان کے ماتحت مسیح موعود کے خط سے ار ا گست ماہ کی پیش کی ہے.پھر اس دور کے ذکر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ریویو پر مباحثہ ازالہ اوہام جامہ البشری ایام الصلح - کتاب البریہ - آئینہ کمالات اسلام وغیرہ کی بعض عبارات ختم نبوت کے مضمون کے متعلق پیش کی ہیں.اور پھر دوسرا اور راہ سے شروع قرار دیا ہے.پہلے دور کے متعلق مفتی حنات نے لکھا ہے:.پیکا اور وہ تھا جب مرنا ما احب سب مسلمانوں کی طرح مسلمان تھے اور امت کے اجماعی عقائد و نظریات کو بلا کسی جدید تا دیل و تحریف کے تسلیم کرتے تھے اور ایک میلے اسلام کی حیثیت سے کچھ چیزیں لکھتے تھے.دوسرا دور وہ تھا جس میں انہوں نے کچھ دھوے شروع کئے اور ان میں تدر یھی سے کام لیا.میرد ہوئے.مہدی ہوئے یہانتک کہ مسیح موعود ہے کہ ختم نبوت کامل سلام مفتی صاحب کی اس عبارت سے ظاہر ہے کہ مفتی صاحب کے مزعومہ دور کے زمانہ میں جو اللہ سے شروع ہو کر حصہ تک رہا.حضرت بانی سلسلہ احمد یہ علیہ السلام کا اس دور میں نہ مجدد کا دعوی تھا نہ تہدی کا اور نہ مسیح موجود کا وہ صرف ایک مبلغ اسلام کی حیثیت سے کچھ چیزیں لکھتے تھے اور مسلمانوں کی طرح مسلمان تھے.اور امت کے اجماعی عقائد اور نظریات بنا کسی تاویل در تحریف کے تسلیم کرتے تھے گویا مجد د معدی اور میں موجود کے دعوے آپ نے اور مسیح تدریجا دوسرے دور میں کئے ہیں.

Page 216

ہم بڑے وثوق سے جناب مفتی صاحب کے اس بیان کو غلط قرار دیتے ہیں که مجدد- مهدی اور مسیح موعود کا دعوی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے شملہ کے بعد مفتی صاحب کے مزعومہ دوسرے دور میں کیا.یہ تمام دعاوی حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ کے شاہ سے لے کر 13 ماہ تک موجود تھے اور اپنی کتب میں موجود تھے جن کی عبارتیں مفتی صاحب نے پہلے دور کی مزعومہ کتب سے پیش کی ہیں.مفتی صاحب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ریویو یہ مباحثہ اللہ سے بعد کی کتاب ہے اس لئے انہوں نے اس کا حوالہ اپنے لئے نے کا حوالہ مزعومہ دور اقوال کی کتب میں دے دیا.جو دور ان کے نزدیک اللہ سے شاد تک ہے یانہ ہو یہ مباحثہ کے بعد دوسری کتاب کا نام جناب مفتی صاحب نے ازالہ اونام درج کیا ہے.اس کتاب میں حضرت بائی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ مسیح موجود ہونے کا مندرجہ ذیل الفاظ میں موجود ہے اور مجد ہونے کا دھوٹی بھی موجود ہے اور مہدی ہونے کا دعویٰ بھی موجود ہے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.بعض حدیثوں میں جو استعامات سے پر ہیں مسیح کے دوبارہ دنیا میں آنے کے لئے بطور پیش گوئی بیان کیا گیا ہے سو ان حدیثیوں کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے کہ اس جگہ در حقیقت مسیح ابن مریم کا ہی دوبارہ دنیا میں آجانا ہرگز مراد نہیں بلکہ یہ ایک لطیف استعارہ ہے تین سے مراد یہ ہے کہ کسی ایسے زمانہ میں جو مسیح ابن مریم کے زمانہ کے ہمرنگ ہو گا.ایک شخص اصلاح خلق کے لئے دنیا

Page 217

or میں آئے گا جو طبع اور قوت اور اپنے منصبی کام میں کیسے ابن مریم کا ہرنگ ہو گا.اور عبیا کہ مسیح ابن مریم نے حضرت موسیٰ کے دین کی تجدید کی اور وہ حقیقت اور مغز، تو رات کا میں کو نیو دی لوگ بھول گئے تھے ان پر دوبارہ کھول دیا.ایسا ہی درسی شانی شیل مونے کے دین کی جو جناب ختم الانبیاء صلے اللہ علیہ وسلم ہیں.تجدید کرے گا.اور یہ مثیل موسے کا مسیح اپنی سوانح میں اور دیگر نتائج میں جو قوم پر ان کی سرکشی کی حالت میں ٹوٹر ہوں گے اس سیح سے بالکل مشابہ ہوگا.جو موسے کو دیا گیا تھا.اب جو امر کہ خدا تعالے نے مجھ پر منکشف کیا ہے.وہ یہ ہے کہ دہ مسیح موجود ہیں ہی ہوں.(ازالہ اوہام حصہ اول ملت) اس عبارت میں تجدید دین محمدی یعنی مجدد ہونے کا دعوی بھی موجود ہے اور مسیح موعود ہونے کا دعوی بھی موجود ہے.پھر ان الله او نام حد اقل منہ پر تقریر فرماتے ہیں کہ آپ کا مسیح موعود کا دعونی ازالہ اوہام سے پہلی کتابوں فتح اسملالہ تو تین مرام میں بھی موجود؟ چنا نچہ آپ نے اس جگہ تحریر فرمایا ہے :- ہم نے جو رسالہ فتح اسلام اور توضیح مرام میں اپنے اس کشفی اور الهای امرکو شائع کیا ہے کہ مسیح موعود سے مراد کسی عاجز ہے میں نے سنا ہے کہ بعض ہمارے علماء اس پر برا فروختہ ہوئے ہیں نہ مجید کے دھونی کے متعلق ازالہ اور اس کا ایک اور واضح حوالہ ملاحظہ ہوں.

Page 218

آپ مسیح موعود کے تین کاموں کے ذکر میں تحریر فرماتے ہیں:.ہ حقیقت میں ابتدا سے یہی مقرر ہے کہ مسیح اپنے وقت کا مجتہد ہوگا اور اعلی درجہ کی تجدید کی خدمت خدا تعالے اس سے لے گا اور تینوں امور وہ ہیں تو خدا تھا لے نے ارادہ فرمایا ہے جو اس علاج کے ذریعہ سے ظہور میں آئیں.سو وہ اپنے ارادہ کو پورا کریگا.اور اپنے بندہ کا مددگار ہوگا زانا لهاد عام حصہ اول مشت ادی ہونے کا دعوئی ہو جب حدیث لا مهدی الا عیسی بھی ازالہ اورام مسیح در شخص ظاہر ہوں میں موجود ہے.آپ کا یہ مذہب نہیں کہ دی.آپ تحریر فرماتے ہیں:- یہ خیال بالکل فضول اور مہمل معلوم شان کا آدمی مکہ میں کو باعتبار باطنی رنگ اور معاصیت اس کی کے مسیح ابن مریم کہنا چاہیے دنیا میں ظہور کرے اور بعد اس کے ساتھ کسی دوسرے مہدی کا آنا بھی ہو رہی ہو.کیا وہ خود ماری نہیں.کیا وہ خدا تعالے کی طرف سے ہدایت پا کر نہیں آیا.کیا اس کے پاس اس قدر جواہرات وخزائن و اقوال معامات وقائق نہیں ہیں کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں اور اس قدر ان کا دامن بعد جائے جو قبول کرنے کی جگہ نہ رہے.پس اگر یہ سچ ہے تو اس وقت دوسرے مودی کی ضرورت ہی کیا ہے اور یہ صرف ان امین موسولین امام باری یا اما ما ای این نی نی بان اور حاکم کے

Page 219

بھی اپنی صحیح میں لکھا ہے.لامھدی الا عیسی یعنی کھولنے کے اس وقت کوئی مھدی نہ ہوگا کے راز الراو نام مداد رواه پر مفتی صاحب کا یہ خیال باطل ثابت ہو گیا کہ ملالہ سے میر شماره یک مبرد مهدی اور مسیح موعود کا دھوئی نہیں کیا گیا ہم نے مفتی صاحب کی طرت کے مش کہ وہ ان کے مزعوم دور اول کی کتاب ازالہ اوہام مطبوعہ شاہ سے ہی ان کے اس خیال کی تردید ہو کھاری ہے.اگر مفتی صاحب نے اس کتاب کو پڑھا ہوتا تو کبھی 10 ہ سے مر تک آپ دور اول قرار دیکر یہ نہ لکھتے کہ مجدد- مہدی اور مسیح موعود کا زرعونی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ان کے مزعومہ دور دوم میں کیا ہے جو مفتی صاحب کے خیال کے مطابق خالص ۱۸۹ سے شروع ہوتا ہے.دوسری کتاب اپنے مزعوم دور اول کی قرار دیتے ہوئے مفتی صاحب نے ایام الصلح پیش کی ہے.اس میں بھی مجدد مسیح موعود اور نمدی کا دعوے وجود نانچہ آپ ایام الصلح میں تحریر فرماتے ہیں:.چودھویں صدی کے عبدو کا کام صلیبی فتنوں کا توڑنا اور اس کے حامیوں کے جملوں کا جواب دینا ہے.تو اب طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان مجدد کا یہ کام ہو کہ وہ صلیبی نقشوں کو توڑے اور کسر مطیب کا منصب اپنے ہاتھ میں لے کر حقیقی نجات کی رہا دکھلا دے اور وہ بات جو صلیب کی طرف منسوب کی گئی ہے.اس کا اتطبوان ثابت کرے اس مجدد کا کیا نام ہونا چاہیئے کیا ہے

Page 220

بیچ نہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے محدود کا نام مسیح موعود رکھا ہے.پس جبکہ زمانہ کی حالت موجودہ میں مبتلا رہی ہے کہ چودھری صدی کے مندر کا نام سیخ موجود ہونا چاہیے.یا یہ تبدیل الفاظ یوں کہو کہ ایسی صدی کا مسیح موجود ہی مجدد ہو گا جس میں فتنہ صلیبہ کا ہوش و خروش ہو تو پھر کیوں اسمور ہے.(ایام الصلح ۲۷۰) حاشیہ میں اس جگہ یہ نوٹ تحریر فرماتے ہیں کہ :.ہم کئی دفعہ لے چکے ہیں کہ چودھویں صدی کا مجدد بوسیح موعود اہے اس کا منصب یہ نہیں کہ ختیوں اور مہنگا کر پیا زیوں سے کام نے، بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے علم اور مو کے موافق بردباری اور نرمی سے اتمام محبت کرے اور اس کے ساتھ حتی کو پھیلاد ہے.ز حاشید ایام صلح ہے؟ ہے..حمدی سے وصولی کے متعلق تحریر فرماتے ہیں.ان ما خدا تعالے کی مصلحت اور حکمت کے رو سے ایک ایسے انسان کا آخری زمانہ میں آنا ضروری تھا جو برکات عیسویہ اور پر امت محمدیہ البات ہو اور اسی کے یہ دو نام احمد صدی اور میلے مسیح ہیں.الرمل میں نے نصوص کے ڈر سے خدا تعالے کی حجت اس زمانہ کے لوگوں پر پوری کردی ہے" (ایام الصلح منشا) اد ہر حال امام الصلح میں مجدد کا دھونی بھی موجود ہے مسیح موعود کا د عریضی مینی موجود کا بھی اور مودی ہوائے کار موسی بھی موجود ہے.

Page 221

۲۱۲ ما سوا اس کے اس امر کا بیان بھی ویسی سے خالی نہ ہوگا.کہ ایام الصلح کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیکم جنوری سال کی تاریخ درست کی ہے پس یہ کتاب شاہ کی ہے.مگر مفتی صاحب کا مبلغ علم یہ ہے کہ وہ اس کتاب کو بھی اپنے مزعوم دویہ اول کی کتاب قرار دے کر ختم نبوت کے متعلق اس کی معنی عبارتیں اپنے مسالک کے مطابق سمجھ کر پیش کر رہے ہیں.حالانکہ سلام سے دوسرا دورہ قرار دے کہ وہ اپنی کی تعریف میں تبدیلی ہوجانے کا ذکر کر رہے ہیں.گو یا مفتی صاحب کے نزدیک با المصلح کی اشاعت کے وقت تربیت نبوت میں کوئی تبدیلی در ہوئی تھی اس سے صاف ظاہر ہے کہ تبدیلی تعریف نبوت کا زمانہ سر قرار دینا ان کے مسیح موعود علیہ السلام کے لڑ پچر سے صریح نادائی کا ثبوت ہے کیونکہ ایام الصلح میں کسی تبدیلی عقیدہ کا ذکر نہیں.پس نہ بنو نبوت میں تبدیلی کا زمانہ شملہ نہیں.اس بارہ میں ہماری تحقیق بھی درست ہے کہ تعریفی نبوت میں تبدیل نٹ میں ہوئی ہے.پھر مفتی صاحب چونکہ امام الصالح کی کتاب کو بھی سلسلہ سے پہلے کی سمجھتے تھے.اس لئے ان کے نزدیک اس میں دلوی محمد دیت.دھونی مسیح مورود اور جلدی ہونے کا دعوکہ موجود نہیں.حالانکہ ہم انزالہ او نام کی طرح ہے ر ان کی کتاب ہے الامر الصالح میں بھی تینوں دھووں کا موجود ہونا دکھا چکے ہیں.تیری ی کتاب منی صاحب نے مزعوم و دیر اول کی حامر البشہ کی قرار دگی

Page 222

۲۱۳ اور ا سے ان کتابوں میں شمار کیا ہے جن میں بقول ان کے مجد در مسیح موعود او صدی کا دعوی موجود نہیں.مگر اس کتاب میں بھی حیات مسیح موعود کا دعوئی موجود ہے.چنانچہ تحر یہ فرماتے ہیں.سمالي دل عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ فِي الْهَا مِ مِنْ عِنْدِة تقال يا ميلى الى معوقيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُعَمرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَامِلُ الَّذِينَ البعوك فوق الذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ.إنا جعلناك المسلم ابن مريم بمو سم من البشري شد ترجمہ :.میرے رب نے میرا نام اپنے الہام میں عیسی ابن مریم رکھا اور کہا اسے عیسی میں تجھے وفات دونگا اور تجھے اپنی طرفت اُٹھاؤنگا اور تجھے لوگوں کے الزامات سے پاک کر دونگا.اور تیرے ماننے والوں کو تیرے منکروں پر قیامت کے دن تک غالب رکھونگا.ہم نے تمھیں کیسیح بن مریم بنا دیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ جماعتہ البشری میں بھی مسیح موعود کا دعوی موجود ہے پوستی کتاب مفتی صاحب نے اپنے مزعوم و در اول کی آئینہ کمالات الام قرار دی ہے.مگر اس میں سبھی مسیح موعود کا دعوی بھی موجود مہدی اور مجرد ہونے کا دعوی بھی موجود ہے.چنانچہ آپ آئینہ کمالات اسلام کے مقدمہ میں تھر یہ فرماتے ہیں:.بی کریم کیلے اللہ علیہ وسلم نے نہ ایک دلیل.بلکہ بارہ مستحکم دلیلوں اور قرآنین تلقیہ سے ہم کو سمجھا دیا تھا کہ کیسے ابن مریم

Page 223

۲۱۴ علیہ اسلام فوت ہو چکا ہے اور آنے والا ہی موجود اور امت میں سے ہے لیکن زمانہ خان کے علما نے ایک ذرہ اس طرف توجہ نہ کی.اور بہت سی خرابیوں کو اسلام کے لئے قبول کر لیا ہے از آنانہ کمالات اسلام ملت طرح نقد میں ہے.اسی طرح نجد کا دعوی بھی آئینہ کمالات اسلام میں موجود ہے.چنانچہ آپ ا اور ایریا ایک کمالات میں موجود.تحریر فرماتے ہیں:.السكنى على رأس هذه المادة لأشد قوما ما أنذر أبَا هُمْ وَلِيَسْتَبِينَ سَيلُ الْمُجْرِمِينَ.یعنی خدا نے مجھے اس صدی کے سر پہیا ہے تاکہ میں اس قوم کو انذار کروں جن کے باپ دادا اندار نہیں کئے گئے اور تاکہ مجرموں کی راہ طاہر ہو جائے.آئینہ کمالات اسلام د ۳۶ ) ر من یہ دعوی حدیث نبوی کے مطابق ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یقینا اللہ تعالے ہر صدی کے سر پر ایک ایسے شخص کو مبعوث کرتا رہے گا ہو اس امت کے لئے اس کے دین کی تجدید کرتا رہے گا.درواہ ابوداؤں اسی طرح مہدی کا دعوی میٹھی آئینہ کمالات اسلام میں موجود ہے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں :.حدیث صحیح میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اخبرنين منهم ما يلحقوا بهم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی

Page 224

۲۱۵ کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا توسحَانَ الْإِيْمَانُ عِندَ الدُّيَّا لَنَا لَهُ رَجُل مَنْ فَارِسَ أَوْ رِجَالُ مِنْ فارش پس اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آخری زمانہ میں فارسی الاصل لوگوں میں سے ایک آدمی پیدا ہو گا.کہ وہ ایمان میں ایسا مضبوط ہوگا کہ اگرایان تریا میں ہوتا تو وہیں سے اس کو لے آتا اور ایک دوسری حدیث میں اسی شخص کو مندی کے لفظ سے موسوم کیا گیاہے اور اس کا ظہور آخری زمانہ میں بلا مشرقیہ سے قرار دیا گیا ہے اور اقبال کا ظہور بھی آخری زمانہ میں بلا دستر فیہ سے قرار دیا گیا ہے.ان دونوں حدیثیوں کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص معلوم د قبال کے مقابل پر آنے والا ہے وہ ہی شخص ہے.اور نہ اللہ بھی اسی بات کو چاہتی ہے کہ جس ملک میں دجالی جیسا خبیث پیدا ہوا.اسی ملک میں وہ لیب بھی پیدا ہو.آئینہ کمالات اسلام مام) آگے صفحہ ۲۱۹ پر منظر یہ فرماتے ہیں :- اس آیت و اخرينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَقُوا بِهِمْ کے تمام حروف کے اعداد جو ۱۲۷۵ ہیں.اس بات کی طرف اشارہ کر دیا جو اخرين منهم کا مصداق بنارسی الاصل ہے اپنے نشاء ظاہر کا بلوغ اس سین میں پورا کر کے صحابہ سے مناسبت پیدا کر گئے سویسی سن ۱۲۷۵ هجری جوایت و اخرين منهم لما يلحقوا پوستم کے حروف کے اعداد سے ظاہر ہوتا ہے اس معاینہ کی میلون بلوغ

Page 225

اور پیدائش ثانی اور تولد روحانی کی تاریخ ہے جو آج کے دن تک چونتیس برس ہوتے ہیں.آئینہ کمالات اسلام ۲۳۰۳) پس آئینہ کمالات اسلام میں بھی تینوں دعوے مسیح موعود مجددا در مہدی کے مزعوم دورا قول کی ایک کتاب منتقی ما مینے کتاب البریہ قرار موجود ہیں.دی ہے.مگر اس میں بھی یہ تینوں دعوے موجود ہیں چنانچہ صفحہ ۲۰۵ و ۱۲۵۴ ۳۱۹ پر مسیح موعود کا دو عونی موجو د ہے.چنا نچہ تحریر فرماتے ہیں:.دل میرا یہ دعوی که مین مسیح موجود ہوں ایک ایسا دعوی ہے جس شكرية ما کا قبول کریں (۲۵۳) (ج) در مسیح موخور فارسی الاصل ہو گا سو توبہ کرلے والے کے لئے اس مقام میں نہایت بصیرت حاصل ہوتی ہے.رمنس مہدی کا دعوی ولی ظاہر ہے کہ اب ایسا کوئی گاؤں رکوعہ.ناقل الگ ہیں میں آباد نہیں اور نہ اس سر زمین میں کسی نے ایسا دعوی کیا.مگر قادیان اس وقت موجود ہے.وزیر بیحیت اور مہدویت کا مرغی بھی موجود تا رطب اب وہ شخص جس کے ہاتھ سے ہر ایک قسم کے ظلم اور فسبق زوال پذیر ہوں گے وہی مہدی موعود ہے اور حدیث لا مهدی الا عیلی سے

Page 226

۲۱۷ ثابت ہوتا ہے کہ وہی مسیح موجود ہے.(۳) مجدد کا دعوی.تحریر فرماتے ہیں :.چودھویں صدی مجدد کا کام کسر صلیب سے ہار چونکہ یہا ہی کام ہے تو کام شیخ مولود سے مخصوص ہے اس لئے بالضرورت نہ نتیجہ نکلتا ہے کہ چودھویں صدی کا مجد و مسیح موعود چاہیئے (ص۳) اس سے پہلے ملات پر تحریر فرماتے ہیں :- وجب تیرھویں صدی کا خیر ہوا اور چودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالے نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس مدی کا مجدد ہے" پس کتاب ، ہر یہ جو سنت کی کتاب ہے اس میں بھی تینوں دھرے سیمیت صدومیت اور مجددیت کے موجود ہیں.لہذا مفتی صاحب کا یہ بیان غلط ثابت ہو گیا کہ دوسرا دور ہ کے بعد ہے ورختم نبوت کامل مشاع اور یہ کہ : دوسرا دور وہ تھا جس میں انہوں نے رحضرت ہائی سلسلہ احمدیہ ناقل کچھ دعوے شروع کئے اور ان میں تدریجی سے کام لیا اور مجتہ د ہوئے.مہدی بنے یہاں تک کہ مسیح موعود بنے " ر ختم نبوت کا مل ما ۱۳) ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ مفتی صاحب کے مرحوم دورا قول میں مجدد مہدی اور سیح موعود کے تینوں دعا دی موجو دتھے.میں نرم سے نرم الفاظ میں مفتی صاحب کے متعلق ہمہ صرف یہی کہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مرحوم دور اول

Page 227

MA کی جن کتابوں کا بوسنشلیہ سے لے کر سکتے ہیں خود کبھی مطالعہ نہیں کیا اور محض مباحثہ راولپنڈی سے بعینی حوالہ جات اخذ کر کے ان کے بارہ میں اپنے دل سے یہ بات گھڑی ہے کہ ملالہ سے لے کرین تک کی کتابوں میں مجود سیح موعود اور احمد کی ہونے کا دعوی موجود نہیں بلکہ یہ دعادی آپ نے شاہ کے بعد کئے.ہم نے ارم کی پیش کردہ سر سے لیکر ائے کی کتابوں سے جن کے ختم نبوت کے متعلق حوالہ جات خود مفتی صاحب نے پیش کئے ہیں ثابت کر دکھایا ہے کہ ان کتابوں میں مجددیت مسیحیت اور صدریت کے تینوں عادی موجود ہیں.پس پر مفتی صاحب جیسے مشہور عالم کی کیسی نامناسب کارروائی ہے کہ انہیں نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کے متعلق قلم اٹھاتے ہوئے ایک شقق عالم کا فرض ادا نہیں کیا جو یہ تھا کہ وہ آپ کی اصل کتابوں کو پڑھ لینے کے بعد یہ بحث اُٹھاتے جس کے ایک حصہ کی ہم نے مشرح وبسط سے پر زور تردید کردی ہے اور مفتی صاحب کو ہر گز جرات نہیں ہو سکے گی.کہ وہ ہمارے اس بیان کو یہ ذکر سکیں اشارے سے لے کر شاہ تک کی مفتی صاحب کی طرف سے پیش کردہ مسیح موعود علیہ سلام کی کتب میں مجد کا کوئی بھی موجود ہے.در سیح موعود کا دعوی بھی موجود ہے اور حمدی ہونے کا دعوی بھی موجود ہے.ختم نبوت کے متعلق اب ہم مفتی صاحب کے مرحوم دو را دل کی کتب سے ختم نبوت کے متعلق پیش کردہ حوالوں کی طرف حوالہ جات کا مفہوم ہو نے کراتے ہیں بی زمان مفتی صاحب کے نزدیک ہے یہ

Page 228

۲۱۹ کی جب حضرت بائی سلسلہ احمدیہ ان کے نزدیک سب مسلمانوں طرح مسلمان تھے.....اور امت کے اجماعی عقائد و نظریات کو بلا کسی جدید تا ویل و تعریف کے تسلیم کرتے تھے اور ایک مبلغ اسلام کی حیثیت سے کچھ چیزیں لکھتے تھے.ختم نبوت کامل ہے مفتی صاحب نے دور اول کے متعلق ختم نبوت کے جو توالہ جات پیش کئے ہیں ان میں سے یہ حوالہ قابل غور ہے جس کی طرف میں مفتی صاحب کو توجہ دلاتا ہوں.یہ حوالہ مفتی صاحب نے اپنی کتاب کے مڑا پر یوں درج کیا ہے قرآن شریعت میں ختم نبوت کا کمال تصریح ذکر ہے اور پرانے یا نے نجی کی تفریق کرنا مشرارت ہے.حدیث لا نبی بعدی میں نفی عام ہے.ایام الصلح ملی) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک آیت خاتم النبین اور حدیث لا نبی بعدی کے رو سے نہ کوئی پرانا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آسکتا ہے اور نہ نہا نبی پیدا ہو سکتا ہے مفتی صاحب نے اس عبارت کو مسلمانوں کے اجتماعی عقیدہ اور نظریے کے مطابق درست مان لیا ہے.اما احضرت علی بنی الہ علیہ السلام جو پرانے نبی ہیں کی اصالت آمدثانی آیت خاتم النبین اور حدیث لا نبی بعدی کے رو سے غلط قرار پاتی ہے.اور مفتی صاحب نے گویا نا دانستہ اس حوالہ کو تسلیم کر کے قبول کر لیا ہے کہ پرانے نبی کی آمد کے متبع ہونے کا عقیدہ بھی درست ہے جس طرح نئے بنی کے پیدا نہ ہونے کا عقیدہ درست ہے.

Page 229

اب اگر مفتی صاحب یہ تاویل کریں کہ حضرت یلئے علیہ السلام جو پرانے نی میں مستقل بنی کی حیثیت میں نہیں آئیں گے بلکہ وہ بنی ہونے کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتی بھی ہوں گے تو اس طرح انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایک نبی کی بحیثیت آنحضرت مسلے اللہ علیہ وسلم کے اتنی کی آمد نہ آیت خاتم النبین کے مناتی ہے اور نہ حدیث لا نبی بعدی کے خلاف ہے.اور لائیتی بعد می میں نقی عام تشریعی یا ستقل بنی کے لحاظ سے ہے.اس صورت میں ظاہر ہے کہ ایک امتی بھی اس طرح مقامم نبوت پاسکتا ہے.کہ وہ ایک پہلو سے امتی ہو اور ایک پہلو سے بھی بھی.گو اس جگہ اس بحث کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ حضرت علی علیہ اسلام جو مستقل بھی ہیں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے کامل اتنی کیسے بن سکتے ہیں جبکہ مفتی صاحب کے ریویو پر مباحثہ کے حوالہ اور ازالہ او نام کی عبارت میں آنتی کا مفہومہ بنی کے معصوم سے متناقض اور مقیائی قرار دیا گیا ہے اور مفتی صاحب ان عبارتوں کو بھی اسلامی نظریہ اور مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ قرار دے چکے ہیں.یہ ہر دو عبارتیں مفتی صاحیے پہلا دوڑ کے عنوان کے ماتحت اپنی کتاب کے وکلا پر یوں درج کی ہیں.(1) یہ دونوں حقیقتیں رنبوت اور امنیت - ناقل متنا محض ہیں.ریویو به مباحثه مش (۲) رسول اور راستی کا مفہوم مشہائن ہے (ازالہ اوہام علی کے حوالہ مباحثہ راولپنڈی جنگل

Page 230

٢٢١ پس جب نبی اور رسول ہر دو کے مفہوم کو مفتی صاحب نے اتنی کے تصویم کے متناقض اور متبائن مان لیا تو پھر حضرت کیلئے علیہ السلام مفتی صاحب کے اس عقیدہ کے رو سے نبوت سے معزول ہوئے بغیر امتی کیسے ہو سکتے ہیں ؟ غالبا مفتی صاحب کو علم نہ تھا کہ یہ دونوں عبارتیں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے حضرت مہینے علیہ السلام کی اصالتا آمدثانی کو مالی ثابت کرنے کے لئے پیش کی ہیں کیونکہ اصل کتا ہیں تو انہوں نے پڑھی نہ تھیں.اس لئے مباحثہ راولپنڈی سے غیر مائع مناظر کی یہ پیش کر وہ سیاق بریده عبارتیں انہوں نے اس مطلب کے مفید سمجھے کہ تو پیش کر دیں کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دھونی اس زمانہ میں نبوت کا نہ تھا.اور ان عبارتوں کو سلامی عقائد کے مطابق درست نظریہ قرار دے گمانوں نے یہ غور نہ فرمایا کہ یہ عبانہ نہیں تو جنات کیلئے علیہ السلام کی اصالتا آمدثانی میں سہی روک ہیں.حمامتہ البشرکی کی عمارتیں مندرجہ ختم نبوت کامل مشار ۱۵ دور از الدها درام کی عبارتیں مندر جہ ختم نبوت کامل ماء ۱۷ در اصل اسی مقصد کے پیش نظر ہیں کہ حضرت عیسی علیہالسلام اصالتاً بحیثیت بنی اور رسول کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوبارہ نہیں آسکتے.یہی مقصد کتاب البریہ پیش کردہ عبارت کا ہے.چنانچہ آپ کتاب البریہ میں تحریر فرماتے ہیں.قرآن شریعیت صناعت فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ اسم اعظم کا خیال ہیں مگر ہمارے مخالف حضرت عیسی علیہ السلام کو خانم اما بسیار ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو میں مسلم وغیرہ میں آنے والے مسیح کو بھی اللہ

Page 231

کے نام سے یاد کیا ہے وہاں متقیقی ثبوت مراد ہے.اب ظاہر ہے کہ جب وہ اپنی نبوت کے ساتھ دنیا میں آتے تو سہار سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیونکر فن تم انا جہاد ٹھر سکتے ہیں نبی ہونے کی حالت میں ہوتا خاتم لے لیا شاہ نبوت کے لوازم سے کیونکر محروم رہ سکتے ہیں : رکتاب البریہ مال ۰۲ ۲۰۷ جواله در مانی شیر آن جلد ۳ ماردین or اصطلاحی تعریف بہوت جناب مفتی صاحب نے پہلا دور کے عنوان کی بات پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوب را گست اللہ سے ذیل کی تعریف نبوت پیش کی ہے ؟ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شرعیت لاتے ہیں یا بعض احکام شرعیت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں.یا بنی سابق کی اقت نہیں کہلانے اور براہ راست بغیر استفاده کسی نبی کے خدا تعالے سے تعلق رکھتے ہیں تا رخ مسیح موعود ، ارا گیم اس اصطلاح کے پیش نظر اسی جگہ حضرت مسیح موعود علی السلام اپنی نبوت کی حیثیت کے متعلق تحریمہ فرماتے ہیں:.ہوشیار رہنا چاہئیے کہ اس جگہ یہی معنی نہ مجھ لیں کیونکہ ہماری کتاب بھر قرآن کریم کے نہیں ہے اور کوئی دین پور اسلام کے نہیں.اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ بہار ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قائم الا بہار ہیں اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے یہ اوپر کی اصطلاح کے رو سے بنی اور رسول یا تو کامل شریعیت لاتا ہے یا سجن

Page 232

۲۲۳ احکام شریعیت سابقہ منسوخ کرتا ہے گویا وہ بھی تشریعی نبی ہوتا ہے یا نجی اور رسول کے لئے کم از کم یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا اشتی نہیں ہوتا اور بلا استفادہ کسی بنی کے خدا تعالے سے تعلق رکھتا ہے.گویا اپنے نبی کے لئے مستقل نبی ہونا ضروری ہے.خدا تعالے سے بنی کا نام پاکر ساتھ ہی امتی کہلانے والا اس اصطلاح کے رو سے ہی نہیں ہوتا.اس تعریف کے رو سے حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ نے اپنے آپ کو نہ سنتی صاحب کے معلومہ پہلے دور میں کبھی نبی قرار دیا ہے اور نہ ہی اپنی ساری زندگی میں اس کے بعد کبھی اس اصطلاح اور ان معنی میں نبی قرار دیا ہے.آپ نے ہمیشہ اپنے نیں ایک پہلو سے بنی اور ایک پہلو سے اتنی ہی قرار دیا ہے کی اصطلاح کے مقابلہ میں اپنے تئیں مجازی بنی ہی لکھا ہے.پس اس تعریف نبوت کر دو دست اتنے کی صورت میں خاتم النبیین کے یہ معنی ہوئے کہ تختی سلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی نبی یا مستقل نبی نہیں آسکتا.اور جس کو ضائعا لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی اور رسول قرار دے وہ اس اصطلاح کے پشین نظر حقیقی بنی نہیں ہوگا بلکہ اس پر مجاز ہی بینی اور رسول کے لفظ کا اطلاق ہو سکے گا.لہذا یہ تعریف نبوت حضرت پہلے علیہ السلام کے لئے جو مستقل نہیں تھے انحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے میں روک ہے کیونکہ اس آمریعنی کے لحاظ سے کوئی نتی آتی نہیں کہلاتا.اور منفرت کیلئے علیہ السلام جو کہ مستقل بنی ہیں اس لئے اس تعریف کو صحیح سمجھتے ہوئے ان کا آنحضرت مسیلے اللہ علیہ وسلم کا کامل اتی ہو کر انا

Page 233

۲۲۴ محال ہے کیونکہ انتی اور نبی کا مفہوم یا ہم تہائن اور تناقض رکھتا ہے اور یہ محال ہے کہ آمدثانی میں حضرت جھیلئے علیہ السلام نبوت سے معزول بھی نہ ہوں اور کامل امتی بھی ہوں جیسا کہ مفتی صاحب کا خیال ہے جو ان کی کتاب ختم نبوت کامل کے ۳.ظاہر ہے جس کا ذکر تیل ازیں کر کے ہم ان کے اس خیال کی تردید کر چکے ہیں.پس حضرت میلے علیہ السلام تشریعی نبی یا مستقل نبی کی حیثیت میں اور اسلامی تعریف نبوت کو درست ماننے کی صورت میں نہیں آسکتے.لہذا یہ تعریف ہونے ان کے نزدیک جامع نہ ہوئی اس صورت میں اگر مفتی صاحب اس تعریف عبرت کا استقرائی ہونا مان لیں اور تسلیم کرلیں کہ یہ تعریف نبوت الهامی نہیں جبکہ انبیائے سابقین کے افراد کو مد نظر ر کھنگر ان میں امور مشترکہ کے تتبع سے اختیار کی گئی ہے.تو پھر انہیں یہ حق پہنچتا ہے کہ خاتم النبین کے امام علی القاری صیہ الرحمتہ کے معنے درست مان ہیں کہ خاتم الفتین کے مینی ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا.جو آپ کی شریعت کو خشوع کرے.اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.(موضوعات کبیر ۵۹) اس صورت میں عورت تشریعی یا مستقلہ نبوت اور امنیت میں تناقض اور تبائن ہو گا.لیکن نبوت مطلقہ اور امنیت میں تناقض نہ ہوگا.اور منتی نی کی کو ختم نبوت کے منافی ہو کر ممتنع نہ ہوگی.اس صورت میں اگر بالفرضن حضرت بیٹے علیہ السلام زندہ ہوں تو اس نئی قسیم بوت کے ساتھ جس کا کوئی فرد انبیائے سابقین میں نہیں ایا گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آسکتے ہیں.مگر اس صورت میں نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک انتی کو بھی یہ حق پہنچ جاتا ہے کہ وہ بوت

Page 234

مطلقہ کا امتی ہونے اور انتی رہنے کی صورت میں حاصل ہو سکے.اس صورت میں ذکورہ استقرائی تعریف ثبوت میں تبدیلی کرنا ضروری ہوگی.یہی تبدیلی تعریف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلامیہ نے شادی کی ہے اور اسنی کا نبی ہونا ممکن قرابہ دیا ہے اور اپنے آپ کو نفس نبوت میں بنی قرار دینے کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بھی قرار دیا ہے.اور محنت سے اپنا مقام بالا قرار دیا ہے چنانچہ اشتہارہ ایک غلطی کا ازالہ معصومہ سلسلہ میں تحریر فرماتے ہیں :- اگر بروہی معنوں کے رو سے بھی کوئی شخص نہیں اور رسول نہیں ہوتا تو پھر اس کے کیا معنے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میتراط الذینَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - سویاد رکھنا چاہئیے کہ ان معنوں کے رو سے مجھے نبوت اور رسالت سے انکار نہیں کی اللہ اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نہی رکھا گیا.اگر خدا راستے سانے سے غیب کی خبریں پانے والانی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو اس کا نامہ معارت رکھنا چاہیئے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتابیں میں اظہار غیب نہیں ہے مگر نبوت کے معنی اظہا را مر غیب ہے.راشتہار ایک غلطی کا ازالہ مت مطبوعه مینو نشر و اشاعت نظارت اصلاح وارشاده دیده) الہ سے پہلے آپ اپنے نہیں ایک پہلو سے بھی اور ایک پہلو سے اتنی تو قرار دیتے تھے لیکن اسے مجدانیت تک محدود جانتے تھے.اور اپنے اوپر نبی کا

Page 235

۲۲۶ اطلاق مجازی قرار دیتے تھے کیو نکہ حدث نبوت مطلقہ کو کامل طور پر نہیں پاتا بلکہ جزوی طور پر اس کا حامل ہوتا ہے لیکن سالانہ میں فرماتے ہیں:." جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرور اس پر مطابق آیت لا يظهر على غنیم کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا نا ر اشتہار ایک غلطی کا ازالہ مت مطبوعہ صیغہ نشر و اشاعت ربوده) مفتی صاح دینے اپنے مزعومہ میلاد دور کے عنوان میں اتنی نبوت کا دعوے مفتی صاحب کے مزعوم پہلے دور سے ہفت جن کتب کا ذکر کیا ہے.وہ کتب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی نیتونت کے ذکر سے خالی نہیں بلکہ ان میں صاف طور پر یہ ذکر موجود ہے کہ آپ اتمی کیا ہیں اور بیٹی بھی.مگر بیٹی کا اطلاق آپ کے لئے مجازی ہے.پنا سنچہ آپ ازالہ اوہامہ میں منتظر یہ فرماتے ہیں:.میں موجود جو آنیوالا ہے اس کی علامت یہ بھی ہے کہ وہ نی اللہ ہو گا یعنی خدا تعالے سے کوریا نے والا لیکن اس جگہ نبوت تامہ کا ملہ مراد نہیں کیونکہ نبوت نامہ کا ملہ پر مہر لگ چکی ہے.بینکہ وہ نبوت مراد ہے جو محدثیت کے معلوم تک محدود ہے.نیز ازالہ او نام میں تخریہ فرماتے ہیں :- راد العداد نام : نت اس جگہ بڑے بے شبہات یہ پیش آتے ہیں کہ جس حالت میں مسیح ابن مریم

Page 236

pre اپنے نزول کے وقت کامل طور پر اتنی ہو گا تو پیر با وجود آنتی ہونے کے کسی طرح رسول نہیں جونکتا ہو کیونکہ رسول اور ر اقتی کا مفہوم متبات ہے اور نیز خاتم النبین ہونا ہما ر سے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کا کسی دوسرے بیٹی کے آنے سے مانع ہے.ہارا لیا نی جو مشکوۃ نبوت محمد سے اور حاصل کرتا ہے اور نبوت نامری ہیں رکھتا جس کو دوسرے لفظوں میں محترمت بھی کہتے ہیں وہ اس سے باہر ہے.کیونکہ وہ بباعث اتباع اور فنانی ، ریسول ہونے کے جناب ختم المرسلین کے وجود میں بیا داخل ہے ہے جیسے جرا کل میں داخل ہوتی ہے" (ازالہ اونام ۵۷۶۵ پھڑایام الصلح میں جہاں آپ نے یہ لکھا ہے کہ :.قرآن شریعت میں ختم نبوت کا ایمان تصریح ذکر ہے اور پرانے اور نے نبی کی تفریق کرنا شرارت ہے.حدیث لا نبی بعدی میں نقی نام ہے؟ رایام الصلح ( بحوالہ کتاب مفتی صاحب اس کتاب میں اپنے آپ کو مسیح موجود بھی کیا ہے اور س ع موجود کی نبوت کے پیش نظر یہ بھی سکتا ہے:.قرآن شریف میں ہے فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدٌ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُول یعنی کامل طور پر منیب کا بیان کرنا صرف رسولوں کا کام ہے دوسرے کہ یہ مرتبہ عطا نہیں ہوتا.رسولوں سے مراد وہ لوگ ہیں تو خدا تعالے کی طرف سے بھیجے

Page 237

جاتے ہیں خواہ وہ نبی ہوں یا رسول با محدت اور مجید مون که رایم اصلی انیم اسی طرح حمامہ انشرکی میں بھی ہیں کا حوالہ مفتی صاحب نے القصارع نبوت کے متعلق دیا ہے.تحریر فرماتے ہیں :- r و اي والله أو مِن بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ رَاوَمِن بِانَّهُ امُ النَّبِيِّينَ نَعَمْ تُلْتُ إِنَّ أَجْزَاء التَّبَوَةِ تُوجد في التَّحْدِيثِ كُلَّمَاءَ لَكِن بِالقُوي لا بالفعل فالمحدث نَبِيُّ بِالقوة ولو لم كن سد باب اللبوة لكانَ نَبِيًّا بالفعل وجاز على عدا أن نقول التي تحدث عَلَى وجه الكمال لانه جامع لجميع كما لايم على الوجه الاسم : ابلغ بِالْفِعْلِ وَكَذَالك جاز أن نقول إنَّ الْمُثَ نَبِيَّ بِنَاءِ عَلَى يَخْدَادِهِ الباحتِي اَغْنِى أَنَّ الـ المُحد ثاني بالقوة وحماته العشرى علام ترجمہ یقینا میں اللہ کی تسم.اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں ارسانیان بکتے ہوں کہ وہ خاتم النہیں ہیں.شمال میں نے کہا ہے کہ اجزا د نبوت رکھتا تمام کے تمام تحدیث میں پائے جاتے ہیں لیکن با لفوظ نہ کہ بالفعل اور محبت با تقوہ نہیں ہے اور اگر سورت کا دروازہ بند نہ ہوتا تو وہ بالفعل نہیں ہوتا اورے اس بناء کچھ جائز ہے کہ ہم یہ کہیں کہ نبی علی وجہ العمال محدث ہوتا

Page 238

۲۲۹ کیونکہ وہ اپنے تمام کمالات کا اتم اور اپنے طور پر یا اعتمل جامع ہوتا ہے اور اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ ہر کہیں بے شک محنت اپنی استعداد باطنی یہ کہ کے لحاظ سے بنی ہے.آگے چل کر اسی صفحہ پر تحریر فرماتے ہیں:.ولا شك أن التَّحْدِيث مَوْهَبَةً مجردة لا تُنَالُ تنال يكتب البقةَ كَمَا هُوَ شان البرة وم الله المحدثين كما يعلمُ النَّبين ديرسل المُحَدٍ ثِينَ كَمَا يُرْسِلُ الرُّسُلَ وَيَشْرَبُ المُعَدَّتُ مَن عَيْنٍ يَشْرَبُ فِيْهَا رحمامة البشرى منت ترجمہ : اس میں شک نہیں کہ تحدیث محض موہت ہے وہ کب سے بالکل حاصل نہیں ہوتی جیسے نبوت کا حالی اور اللہ تعالے محدثین سے اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح نبیوں سے کلام کرتا ہے اور وہ محدثین کو اسی طرح بھیجتا ہے جس طرح رسولوں کو بھیجتا ہے اور محدث بھی اسی چشمہ سے پیتا ہے جس سے بنی پیتا ہے پس بلاشک وہ بنی ہے اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہو.اصطلاحی تعریف نبوت سے ظاہر ہے کہ صرف تشریعی اور سنت نبوت کا دروازہ بند ہے.غیر تشریعی اتنی نہی کے لئے دروازہ بند نہیں.گوڑہ

Page 239

اصطلاحی تعریف کے رو سے حقیقی نبی نہ ہو گا.اس زمانہ میں آپ مامور محدث نے لئے اس کی استعداد باطنی کے لحاظ سے بنی کا اطلاق جائزہ قرار دیتے ہیں.کتاب ازالہ اوہام سے پہلے تو مسیح مرام لکھی گئی.اس میں آپ تحسر فرماتے ہیں:.اس جگہ اگر یہ اختر امن کمیشن کیا جائے کہ مسیح کا مٹیل بھی نبی چاہیئے.کیونکہ مسیح نبی تھا تو اس کا اول جواب تو یہی ہے کہ آنیوالے مسیح کے لئے ہمارے سید و مولی نے نبوت ریعنے نبوت نامہ مناقل شرط نہیں ٹھہراتی بلکہ مسافت طور پر یہی لکھا ہے کہ وہ ایک مسلمان ہوگا اور عام مسلمانوں کے موافق شریعت فرقانی کا پابند ہو گا.اور اس سے زیادہ کچھ بھی ظاہر نہیں کریگا.کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمانوں کا نام ہے ماسوا اس کے اس میں کچھ اک نہیں کہ یہ عاجز خدا تعالی کی طرف سے اس امت کے لئے محدث ہو کر آیا ہے اور محدت میں ایک معنی سے نبی ہی ہوتا ہے.گو اس کے لئے نبوت نامہ نہیں مگر تا ہم جزوی طور پر وہ ایک بنی ہی ہے.کیونکہ ڈھ خدا اجالے سے ہم کلام ہونے کا ایک شرفت رکھتا ہے.امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جاتے ہیں.اور رسولوں اور بچیوں کی وحی کی طرح اس کی دھی کو بھی دخل شیطان سے منزہ کیا جاتا ہے.اور سفر شریعیت اس پر کھولا جاتا ہے اور بعینہ انبیاء کی طرت نامور ہو کہ آتا ہے.اور انبیاء کی طرح اس پر فرض ہوتا ہے

Page 240

PM کہ اپنے تئیں بآواز بلند ظاہر کر ہے.اور اس سے انکار کرنے وال ایک حد تک منقووب مرا ٹھہرتا ہے.اور نبوت کے معنی پھر اس کے اور کچھ نہیں کہ امور منند کرہ بالا اس میں پائے جائیں.ر توضیح مرام الش) اس مہارت سے ظاہر ہے مفتی صاحب کے مزعوم دو یا قتل میں محضرت بانی مسلہ احمدیہ علیہ اسلام اپنے آپ کو بنی بمعنی مامور محدث قرار دیتے تھے، اور معنوی طور پر اسے نبوت ہی قرار دیتے تھے گو اصطلاحی تعریف نبوت کے مطابق اسے اسے ہی دیتے محقیقی نبوت نہیں جانتے تھے.ندرجہ بالا عبارت کے آگے لکھتے ہیں:.اگر یہ مدرکیش ہو کہ باب نبوت مسدود ہے اور وھی جو انبیاء پر نازل ہوتی ہے اس پر مہر لگ چکی ہے.میں آتا ہوں کہ میں کل الوجود باب نبوت مسدود ہوا ہے کہ نہ ہر ایک طور سے وحی پر تیرا کھا ئی گئی گئی ہے بلکہ جزئی طور پہ دھی اور نبوت کا اس امت مرحومہ کے لئے ہمیشہ دروازہ کھلا ہے.مگر اس بات کو بحضور دل با درکھنا چاہیئے کہ یہ نبوت جس کا ہمیشہ کے لئے سلسلہ جاری رہے گا.وست نامه نی بلکہ جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں وہ صرف ایک جزئی نبوت ہے جو دوسرے لفظوں میں محدثیت کے اسم سے موسوم ہے.جو انسان کامل کے اقتدار سے ملتی ہے جو تجمع جمیع کمالات نبوت تامہ ہے یعنی ذات ستودہ صفات حضرت سیدنا

Page 241

و مولانا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ( توضیح مرام اس کے بعد عربی زبان میں شھر یہ فرماتے ہیں: فَاعْلَمْ رُشَدَكَ اللهُ تَعَالَى أَنَّ النَّبِي مُحَدَّثُ والمحدث بي باعتبارِ حُصُولِ نَوْعٍ مِنْ أَنْوَاعِ النَّبرة وقد قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لمينَ مِنَ النبوة إلا المسيرات ان لم لَمْ يَبْقَ مِنْ انْوَاعِ النُّبوة الا نوح وَاحِدُ وَهِيَ المبشرات من اقسام الرؤْيَا الصَّادِقَة و المكاشفات الصَّحِيحَة و الوحي الذي ينزل على نوا مِ الْأَوْلِيَاء وَ النُّورِ الَّذِي يَتَعَلَى اس على قلوب قوم مُوجَع الفُرَ ايُّهَا النَّاقِدُ البصير الفهم مِنْ هَذَا سَدَّبَابِ النُّبوة على وجه كلي بَلِ الْحَدِيثُ يَدُل على أن التُّبُوةُ التّامَّةُ الْحَامِلَة لِوَفِي الشَّرِيعَةِ قد القطعَتْ وَ لكِن النبوة التي ليس فيها إلا المبيرَاتُ نَهِىَ بَاقِيَةَ إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ لا انقطاع لها ابداً وَأمَّا السبق الَّتِي تَامَّةٌ كَامِلَةً جَامِعَةُ الجَميعَ كَمَالَاتِ الوخي فقد امَنَّا بِانْقِطَاعِهَا مِنْ يَوْمِ نَزَلَ فِيهِ

Page 242

ما كان محمد ابا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِن رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبين ترجمہ : جان سے خدا تجھے مجھ عطا کی ہے کہ بے شک نبی محمدت ہوتا ہے اور محمدت نبوت کی قسموں میں سے ایک قسم حاصل ہونے کے لحاظ سے بنی ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے نعوت میں سے صرف المبشرات ہاتی ہیں.یعنی نبوت کی اقسام میں سے صرف ایک قسم جو المبشرات ہے باقی ہے از قسم رویا، صادقہ اور مکاشفات صحیحہ اور از روتے وحی ہو خاص الخاص اولیاء پر نازل ہوتی ہے اور از قسم نور جو درد مندوں پر تجلی کرتا ہے.اسے ناقد بصیر غور کر لے کیا اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ نبوت کا دروازہ کلی طور پر بند ہو گیا ہے.نہیں بلکہ عد میشہ دلالت کرتی ہے کہ نبوت قامہ کا ملہ وحی شریعیت والی منقطع ہو گئی ہے.اور وہ نبوت جس میں صرفتہ المبشرات ہوتی ہیں.وہ قیامت دن تک باقی ہے وہ ہرگز منقطع نہیں......لیکن نبوست تامہ کا ملہ جو تمام کیا است وحی کی حامل ہوتی ہے اس کے اس دن سے منقطع ہو جانے کو ہم مانتے ہیں جس دن آیت مَا كَانَ محمد أبا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَالَمَ النَّبِيِّين نازل ہوئی.ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مفتی صاحب کے مزعومہ کو یہ اول میں جس میں وہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو مسلمانوں کی طرح ایک کے سلمان جانتے ہیں.آپ اپنے تیلین مسیح موجود قرار دیتے ہوئے بڑائی نبی بھی فرامہ دیتے تھے اور اس طرح

Page 243

۲۳۴ نبوت کا دروازہ کلی طور پر بند نہیں جانتے تھے.بنکہ حدیث نبوی کے رویے نبوت کی اقسام میں سے ایک قسم کی نبوت کو یعنی نبوت المبشرات کو قیاسیان تک جاری مانتے تھے.خلاصہ بحث متعلق اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ تبدیلی تعریف نبوت احمدیہ کا مفتی صاحب کے مزعوم پہلے دور میں معتدد.مسیح موخود اور مہندی کے دخوشی کے علاوہ یہ دخویی بھی موجود تھا کہ آپ کی خدا تعالے نے اپنے الہامات میں نہیں اور رسول معنی کما ہے اور امتی بھی قرار دیا ہے.لہذا آپ ایک پہلو سے بنی ہیں اور ایک پہلو سے امتی.لیکن آپ معروف اصطلاح کے مطابق بنی نہیں کیونکہ شعر در اصطلاح میں نبی وہ ہوتا ہے جو شریعیت یا احکام جدیدہ لائے یا مستقل طور پرشی پروتینی کسی بھی سابق کا امتی نہ کہلاتا ہو ہو کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ آنحضرت سلی شد علیہ وسلم کے اتنی بھی تھے.اور خدا نے آپ کو نبی اور رسول کا نام بھی دیا تھا اس لئے آپ نے اپنی نبوت کی یہ ترجمہ کی کہ آپ نبوت تامہ کے حاصل نہیں جزئی نبوت کے حامل ہیں جس کو دوسرے لفظوں میں محمد ثیت کہتے ہیں.شعری اصطلاح کے مقابل آپ نے اپنی نبوت کو مجازی بھی قرار دیا.چونکہ آپ کا میسج موجود کا بھی دھو سی تھا.اور مسیح مو خود کو حدیث نبوی میں نبی اللہ بھی قرار دیا گیا ہے اور راکتی ہیں.ہندا آپ نے حدیث کے الفاظ نبی اللہ کی نہیں یہی توجیہ کی کہ اس میں نبی اللہ سے مراد العطل بھی بنی نہیں جو حقیقی بنی ہوتا ہے بلکہ مجازی بیٹی مراد ہے.کیونکہ جب ایک حقیقت حال اور متعذر ہو تو پھر

Page 244

۲۳۵ انے کا اطلاق مجاز کی ہی قرار دیا جا سکتا تھا.لیکن مفتی صاحب کے نزدیک حضرت سلئے علیہ السلام اصالتا اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بن کر یا مووی ہے اور نبوت سے معزول بھی نہیں ہوں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنی بن کر اقت کے امام بھی ہونگے لیکن مفتی صاحب نے جب اصطلاحی نبوت کو درست قرار دے دیا ہوا ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی بنی سابق کا اتنی نہ ہو کیونکہ نبی اور امتی کے مفہوم میں تناقض اور تیائن ہے جو مفتی صاحب کو مسلم ہے تو امتی ہو جانے کی صورت میں حضرت ا کس و کون این دورانی کا اجتماع بوجہ تناقض محال ہے.اب اگر مفتی صاحب حضرت علی سے علیہ السلام کو آمد شافی میں در حقیقت نہی جائیں اور اتنی بھی قرار دیا تو انہیں اصطلاحی تعریف میں ضرور تبدیلی کرنا پڑے گا اور اس اصطلاحی تعریف کو صرف استقرائی جان کر انتظامہ ناقص پر مبنی قرار دے کہ غیر جامع قرانہ دینا پڑے گا.اور تعریف نبوت میں یہ شق بھی پڑھانا پڑے گی کہ البتہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا اتنی بھی نبی ہو سکتا ؟ اس طرح تعریف نبوت دیا میں مانع ہو جائے گی.اور مسیح موعود کا فی الواقع سنی ہونا ممکن ہو جائے گا.مجال نہ رہے گا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام بھی اللہ تعالے کی طرف سے متوا نہ دھی کے ذریعہ یہ انکشاف ہو گیا کہ آپ کو صریح طور پر نبی کا خطاب دیا گیا ہے.مثل اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو ہے اتنی اور

Page 245

ب حضرت جیسے علیہ السّلام سے بوجہ محمد فی مسیح ہونے کے افضل ہیں اس سے آپ یہ سمجھ گئے.اصطلاحی تعریفت نبوت جامع نہیں.لہذا تعریف میں اس تبدیلی کی ضرورت ہے کہ البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بھی ہوسکتا ہے.چنانچہ آپ نے تعریف نبوت میں اس طرح تبدیلی کرلی.اور اپنا تعام المبشرات والی نبوت میں آئندہ محدث سے بالا قرار دیا.اور اپنے تئیں ہوتی نی گنا بھی ترک کر دیا.نفیس نبوت یعنی نبوت مطلقہ کے لحاظ سے نہیں قرار دیا.اور امنیت کے پہلو کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان پرولین ٹھہرایا.اور اپنی نبوت اور دیگر انبیاء کی نبوت میں صرف ذریعہ حصول نبوت کا یہ فرق بتایا کہ آپ نے مقام نبوت فنا فی الرسول کے دروازہ سے حاصل کیا ہے اور یہ کہ میں وقت سے خدا تعالے نے آپ کو نبی اور رسول کہا ہے اس وقت سے ہی آپ ایک پہلو سے بنی اور ایک پہلو سے امتی ہیں.پس اپنی نبوت کے متعلق اعلان میں سابق اصطلاحی تعریف نبوت کی وجہ سے صرف در دور قرار دیئے جا سکتے ہیں.اور دوسرے دور میں تعریفی نبوت میں سے اس سے تبدیلی فرمائی ہے اور اس تبدیلی کو منشاء قرآن مجید کے مطابق قرار دیا ہے.چنا نچہ اسی کے بنی ہو سکنے پر سورۃ نساء رکوع 4 کی آیت من يطع الله الرسول فأدليكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِينَ البين والصديقين والشهداء والصَّلِحِينَ روشن بيل ہے اور آیت لا يظهر على غيبه أحدا إلا من الأعلى من رسول کے رو سے بتایا ہے کہ میں پا مور یہ بکثرت ظاہر ہوں جو عظیم الشان ہوں

Page 246

اس پر مفہوم نبی کا صادق آتا ہے.اس وقت سے آپ نے نبوت کی یہ تعریف قرار دی که: میرے نزدیک بنی اسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی رقمی وا ا کرات نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو.اس لئے خدا نے میرا نام بنی رکھا مگر بغیر شرعیت کے تجلیات المیہ ) مگر اس امزید آپ نے پھر بھی ہمیشہ یہ احتیاط کی کہ معروف اصطلاحی تعریف کی وجہ سے کوئی شخص غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو.اور آپ کو تشریعی در ستنقل بینی کا مرحمی نہ سمجھ لے اس لئے آپ نے یا تو اپنے تئیں ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی کہا.یا یہ کہا کہ آپ خلقی اور بروز می نہیں ہیں.تا کہ تشریعی انبیاء اور مستقل انبیاء کی نبوت سے آپ کی نبوت کا انتباہ نہ ہو اور ذریعہ حصول نیوست کا یہ فرق بھی واضح ہوتا رہ ہے کہ آپ نے آ خضر وسلم میں فنا ہو کر فنا فی الریسول کا مقام حاصل کرنے کے بعد آنحضرت صلے ہے علیہ وسلم کے افاضیہ روحانیہ سے مقامہ نبوت پایا ہے.نیز عرفی تعریعت نبوت کے پیش نظر اہل قریب کو بھی اس القباس اور غلط فہمی سے کھانے کے " لئے آپ نے اپنی کتاب الاستفه تقیقة الوحمہ میں جو عربی نہ بات ہے ایسی تحریر فرمایا ہے.معهتر لبيا من اللي على طريق المال لا على نَبِيًّا رجه العريقة.ہیں میں اللہ کی طرف سے بی کا نام مجاز کے طریق پر دیا گیا ہوں حقیقت کے طریق پر

Page 247

اور مراد اس سے صرف یہ لی ہے کہ آپ نے بنی کریمہ سے اللہ علیہ وسلم کی بیڑی لی کہ آپ کی او را خاصہ روحانیہ سے مقام نبوت حاصل کیا ہے نہ کہ براہ راست چنانچه آگے تحریر فرماتے ہیں :- فلا تهيج هُنَا غَيْرَةُ اللهِ وَلَا غَيرَةُ رَسُولِهِ قاتي أربى تَحْتَ جَنَاحَ النَّبِيِّ وَقَدَمِ هَذِهِ تخت اقد امر النبوية الاستفتا ضمير حقيقة الوالى ا ترجمہ :.اس سے اللہ اور جوش میں نہیں آتی کیونکہ میں کی بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بادو کے نیچے تربیت پارہا ہوں اور میرا یہ قدم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نیچے ہے.پس اصطلاحی تعریف نبوت میں تبدیلی کرنے سے مفتی صاحب کو بھی کوئی چہار غیر اسلئے تعریف نبوت میں تبدیلی پر مفتی صاحب کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ اس تعریف میں یہ تبدیلی ان کے مزعوم مسیح موجود نبی اللہ کی آمد کے لئے ان کے نزدیک بھی ضروری ہوگی کیونکہ حدیث لا نبی بعدی کی موجودگی میں کوئی مستقل یا تشریعی نبی آنحضرت مصلے اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا.صرف ایسا نیا ہی آسکتا ہے ہو آپ کا امتی بھی ہو.فقہار مولائے اہل استنت میں امام ملا علی القاری علیہ الرحمتہ کو یہ تصور تھا کہ امت کے اندرینی کا ہونا منافی خاتم النبین نہیں.اسی لئے انہوں نے خاتم المنبر تین کے یہ معنی لکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعیت کو منسوخ کر نیوان بنی اور ساقت سے باہر کوئی نبی نہیں ہو سکتا.موضوعات کبیر نہ ان ہی

Page 248

۲۳۹ معنی کی روشنی میں امام موصوف نے صاحبزادہ ابراہیمہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نقاش لَكَانَ صِدِّيقًا نَیا کی یہ تشریح کی.اگر صاحبزادہ ابراہیم زندہ رہتے اور بنی ہو جاتے تو وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے تابعین میں سے ہوتے.اور ان کا بنی ہوتا خاتم النبین کے خلاف نہ ہوتا.آمد ثانی پر حضرت میلے علیہ السلام کی نبوت کے پیش نظر بھی انہوں نے تحریر فرمایا ہے :.لا منافاة بين ان تكونَ نَبِيًّا وان تكون متابعًا ينتنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيَانِ احکام شریعتِهِ وَ اثْنَانِ طَرِيقَتِهِ وَلَوْ بِالْوَتِي اليه امرقاۃ شرح مشکواة ) جلد ۵ ۵۶۲۰ یعنی حضرت عیسے کے بنی ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے میں کوئی منافات نہیں بدین صورت کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے احکام بیان کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طریقی کو پختہ کریں.خواہ وہ یہ کام اپنی وحی سے کریں.اسی طرح علمائے اہل السنت میں سے مولوی عبدالحی صاحب لکھنوی اپنی کتاب دافع الوسواس فی اثر ابن عباس میں تحریر فرماتے ہیں.بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یا زمانے میں آنحضرت صلے الہ علیہ وسلم کے مجرد کسی بہنی کا آنا محال نہیں بلکہ نھی شریعیت الا

Page 249

۲۴۰ البتہ ممتنع ہے.روافع الوسواس فی اثر ابن عباس نیا ایڈیشن حکیم صوفی محمد حسین صاحب مصنف نمایة الرمان لکھتے ہیں.الغرض اصطلاح میں نبوت بخصو میت اللہ خبر دینے سے ابیات ہے دو قسم پر ہے ایک نبوت تشریعی ہے جو ختم ہو گئی.دوسری نبوت معنی خبر دادن وه غیر منقطع ہے.پس اس کو مبشرات کہتے ہیں اپنے اقسام کے ساتھ اس میں پید یاد بھی ہیں نے مسلم پس جو نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مشبع شرع محمدی ہو یا بالفا بیا برگر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا اتنی ہو اس کا آنا ممتنع نہیں.لہذا ایک قسم کی نبوت ایسی ثابت ہوئی جو نہ تشریعی ہے نہ مستقلہ بلکہ وہ امنی کی نبوت ہے لندا تعریف نبوت میں تبدیلی از بس ضروری ثابت ہوئی اور نبوت اور امنیت میں علی الاطلاق منافات نہ پائی گئی.البتہ تشریعی نبوت اور ست قلعہ نبوت اور امنیت میں منا خواستند را در تناقض پایا جاتا ہے.لعنوا اہل السنت کے علماء کا اتفاق اس بات پر ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی شریعت میدیدہ کے ساتھ یا با استقلال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بال کے بعد نہیں آسکتا.امتی بنی ہونے کا بوجہ مشرع شریعت محمدیہ ہونے کے مکان ہے.میں تعریف مذکور کے جامع ہونے پر اجماع امت ثابت نہیں.اور نہ کیا اسی کو بنی ہو سکتا اس صورت میں علمائے اہل السنت کے جوع کے سلامت ہے.نہیں مفتی صاحب کو حضرت بانیا سلسلہ احمدیہ کے اس دعوی کی بناء پر کہ آپ ایک پہلو سے بنی ہیں.اور ایک پہلو سے اتنی غیر تشر بھی اپنی ہونے.

Page 250

اور مستقلہ نبوت کا دعوی نہ کرنے کی وجہ سے ہر گز تکفیر کا حق نہیں پہنچتا.مولوی عبد الھی صاحب لکھنوی سے ایک فتوئی پوچھا عبد الحی صاحب کا ایک استفتاء کا جواب امیر ای استان کا مضمون یہ ہے :- گیا.ما تو حکم حضرات علمائے خفیہ سے صورت مسئلہ کی پوچھی جاتی ہے کہ اگر کوئی شخص مراد مهندی با خوردنده قوم افغان و لوطی نبوت کا اس پر دے میں گرے کہ میں وکیل پیغمبر آخرالزمان کا ہوں اور ان واسطے تردید نصاری کے پیغمبر خدا کو بھیجا ہوا آیا ہوں کہ ایک مطبع محمدی قائم کر کے کتب تردید دین نصاری تصنیف کر کے 4 چھپوا دوں.تادین نصاری باطل اور دو ہو جاوے.نہیں اس قول کو زبان مرد هندی ناخواندہ سے یا دور کرنا اور اس پرانتقاد کانا کہ بے شبہ یہ وکیل مختارہ استفادہ نبی آخر الزمان کا ہے اس کی مدد خرچ کرنا بنام مطبع دینا ر د ا ستے یا نہیں.هو المحوب اگر وہ شخص اپنی وکالت پر اس امر کو سند گرد اتنا ہے کہ میں نے آنحضرت پہلے اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے پس بعد تحقیق و تفتیش اس کے خواب کے تصدیق اس کی ہو سکتی ہے در نہ قول اس کا کا یہ اعتبار سے ساقط ہے.واللہ علم حوره محمد محمد الحلم عفا عنه عبد.ر مجموعه فناوری حضرت مولا الحاج محافظ لحم عبر الم المنشوری مطبوع مطبع بود فی لکھنور ۳۳ م ١٠ جلد اول)

Page 251

یہ فتوئی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضرت مولانا عبد الحی صاحب ہمار ٹیکس زمین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضور کے طفیل نہیں ہو سننے کو منع نہیں جانتے تھے تھی انہوں نے مندرجہ ہاں فتوی دیا.لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان کے وفات پا جانے کے بعد مجموعہ تضادی مولوی عبد الحی صاحب کے گئی ایڈیشن شائع کئے گئے ہیں ان میں سے یہ فتوی نکال دیا گیا ہے.غالباً احمدیت کی مخالفت میں ایسا کیا گیا ہے.ہیں بعد دالوں کا یہ فصل قابل شرم بات ہے.ہمارے پاس یہ مجموعہ فتاری موجود ہے.اگر مفتی محمد شفیع ساحمہ دیکھنا چاہیں تو انہیں دیکھا یا جا سکتا ہے.تمام مراتب کے حصول میں مفتی محمد شفیع مناسب کے بیان کردہ دو جہ اقال قلیت کا دعوی میں مجود بسیج موجود اور ایک پہلو سے نبی ہیں تعبد سے اور ایک پہلو سے امنی کے دعا دی کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ یہ تمام مراتب آپ کو آنحضرت مسلے اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے خلی اور تفصیلی طور پر ملے ہیں نہ کہ براه راست، چنانچه آب از الدار ناسم میں تحریر فرماتے ہیں:.ا ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنی درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی مصلی اللہ علیہ وسلم کے ہر گز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج پھر اقتدا اس امام الرسل کے حاصل ہو کہیں کوئی مرتبہ شرف کمال کا اور کوئی مقام مو انتها در رب کا بجنو بیچی اور کامل متابعت

Page 252

۲۲۳ اپنے پنی سیلہ اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے ہم میں جو کچھ ملتا ہے علی اور فضیل طور پر ملتا ہے.راز الها و ناهم عشا اس بیان سے ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک علی مراتب جو انبات نبوی سے میل ہوتے ہیں ان کے حصول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غیرت نہیں ہوتی انداختی نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو اسلی نہی ہیں عقلیت کے پہلو صلی اللہ کا جوا میں قیر نہیں کہ اس سے کسی نئے نبی کا پیدا ہونا لازمہ آنے بار خیلی سنی کی نسبت اصل کی ذریع اور شاخ کی ہوتی ہے جو اصل کے تابع اور اس کے حکم میں ہوتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کشتی نوح مطبوعہ منہ میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.عقیدہ کے رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خانم کا زیاد ہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نہیں نہیں مگر وہی ہیں پر بروزی طور سے محمد یت کی چادر پہنائی گئی.کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شارع اپنی ایز سے جدا ہے.پس جو کامل اور پیت دم میں فنا ہو کہ بندا ہے نین کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا حلل انداز نہیں جیسا کا قیم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی بود گر چہ بظاہر دو نظر آتے ہیں صرف ظل اور اس کا فرق ہے

Page 253

۲۴۴ سوا ایسا ہی خدا نے مسیح موعود میں چاہا.رکشتی نوح ۲ مطبوعه نظارت اصلاح دارشاد مفتی فضا کا مر وہ دوسرا مفتی یہ اس نے اپنے ز عرم دوسرے دور کے متعلق حوم ایمان لکھا ہے کہ وہ ۱۹۹۹ء کے بعد شروع ہوا لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس کی آخر می صدر کونسی تاریخ ہے اس دوسرے دور کے متعلق انہوں نے لکھا ہے : در سرار وردہ تھا جس میں انہوں نے کچھ دھرنے شروع کئے اور ان میں تدریج سے کام لیا.مجدد ہوئے.مہدی نے یہاں تک کہ مسیح موعود نے " رختم نبوت کاس ما (۱۳) پہلے دور کا آغاز مفتی صاحب نے ملالہ سے قرار دیا ہے.ہم نے مفتی صاحب کے اس خیالی دور کی نہ دیا میں ثابت کر دیا ہے کہ مجدد - مہدی اور مسیح موجود کے تینوں دعادی سالہ کی کتابوں سے لیکر ۱۸۹لہ کی کتابوں تک موجود ہیں.مفتی صاحب لئے دوسرے دور کے ذکر میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق لکھا ہے:.نبوت کی خود ساخته چین میں تشریعی و غیرانت یعی تلقی و برزی قومی اور مجازی بلا کر ختم نبوت کے عموم را طلاق کو تو کرنا چاہا اس کے بر خلاف ہم یہ ثابت کر کہتے ہیں کہ غیر تشریعی اور طلقی مجازی نبوت کا دھوتی ہیں پہلے دو رہیں موجود تھا.البتہ اس وقت آپ اپنی نبوت کو خرس

Page 254

۲۴۵ تک محدود قرار دیتے تھے.ہماری تحقیق یہ ہے کہ دوسری تعریف نبوت آپ کی ملالہ کی ہے اور اسے تا زندگی بیان فرماتے رہے ہیں.اس دوسری تعریف کی موجودگی میں بھی آپ کا دعوئی اپنی کیفیت اور معنویت کے لحاظ سے پہلے دور کے دعوئی سے مختلف نہ تھا.البتہ آپ نے اس کی شان اس باز میں محدث سے بالا قرابدی اور محدث کی تاویل ترک فرما دی ہے.مفتی شاب نبی کی تعریف کی تبدیلی کا تخیلی عنوان بڑے عنوان دوسرا دور ان کے بعد دمت کر کے تعریف نبوت میں تبدیلی کے ثبوت میں کوئی عبارت نتاشہ کی پیش نہیں کر سکے.بلکہ اس بارہ میں جو عبارت انہوں نے سب سے پہلے پیش کی ہے و تجلیات الہیہ کی ہے جو شے کی کتاب ہے.ہاں اپنے اس مزعوم دو سگر دور کے ذکر کے خاتمہ پر مفتی صاحب نے اشتہار ایک غلطی کا ازالہ مطبوعہ ہ سے ایک عبارت پیش کی ہے.پس ہمار سی تحقیق ہی اس بارہ میں ہے کہ تعریف نبوت میں تبدیلی کا زمانہ 19الہ ہے.مفتی حباب کی تلبیس اب مفتی صاحب کی تمہیں ملاحظہ ہو.وہ دوسرے عوم دور کے ذکر میں اپنی کتاب ختم نبوت کامل کے صفحه ۲ پر بدر هر بار پچ ماہ کی ایک عبارت پیش کرتے ہیں تو یہ ہے:.ہما را دعوی ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں اور دراصل یہ نزاع لفظی ہے.خدا تعالے جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کر سے جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہوا اور اس میں پیش گوئیاں بھی کثرت سے ہوں.اسے بنی کہتے ہیں اور یہ تعریف

Page 255

۲۴۶ ہم پر صادق آتی ہے میں ہم بنی ہیں ا ا ا ا یه عبارت ده رباری مسئلہ کی ہے اس سے ظاہر ہوا کہ مفتی صاحب کے نزدیک گویا دوسرے دور کا زمانہ مارچ سالہ تک ممند ہے.اس کے بعد ۲۶ اسٹیشن 19 شہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات پائی اس لحاظ سے مفتی صاحب کا مزعوم تیسرا دور هر بار اس سے صرف ۷۲ دن سولہ دورہ را معینی دو ماہ ۱۲ یوم کا بنتا ہے.اب تیسرے دور کے ذکر کے تحت چاہیئے تو یہ تھا اگر کوئی واقعی تیسرا دور ہوتا تو مفتی صاحب ان اے ایام کی مہارتیں پیش کرتے ہو دوسرے دورہ کی عبارتوں سے مختلف ہو تیں لیکن ان کی تلبیس ملاحظہ ہو کہ دوسرے دور کے ذکر میں انہوں نے جن کتابوں یعنی حقیقۃ الوحی تتمہ حقیقۃ الوحی - براہین احمدیہ حصہ میم اور نزول مسیح کی عبارتیں پیش کی ہیں جو شاہ تک کی ہیں.اپنی کتابوں کی عبارتیں پھر تیسرے دور میں بھی پیش کر دی ہیں اور انہی کتابوں کی بعض عبارتوں سے جو ان کے نزدیک دوسرے دور کی کتابیں تھیں.تیسرے دور میں پیش کر کے آپ کے دھوئی کی حیثیت کو دوسرے دور سے بڑی دکھانے کی کوشش کی ہے چنانچہ دوسرے دور کے ذکر کے تحت انہوں نے نزول مسیح کی ذیل کی دو مہارتیں پیش کی تھیں :- ران میں رسول اور نہیں ہوں معینی با عتبار علمیت کا ملہ کے ہیں ، آئینہ ہوں میں میں محمد بی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے یہ يات ( نزول ایج سے حاشیہ)

Page 256

۲۴۷ (۲) میں مسیح موجود ہوں اور وہی ہوں میں کا نام سرور انبیاء نے نبی اللہ ر کھا ( نزول مسیح مش ) اور تیر سے دور میں اس کتاب نزول المسیح کے بعض اشعار ان کی ترتیب بدل کر یوں کوشیش کئے ہیں :- آنچه من بشنوم زوحی خدا بخدا پاک دامنش زخطا ہنچہ قرآن منزه اش دانم از خطا یا ہمیں است ایمانم ر نزول المسیح من التا اور نہ یہ دوسرے دور کی کسی ان کوئی بات اعتراض کسی عبادت سے اختلاف رکھتی ہے امنہ دوسرے دور کے دغا دی سے کسی بڑے دعوئی پر مشتمل ہے.ان اشعار میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ اپنی وحی کو یقینی طور پر خدا کی طرف سے ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کی دھی کی طرح خطا سے پاک جانتے ہیں اور ظاہر ہے کہ خدا تعالئے کی دھی کو جو کسی بنی پہ اترے خطا سے پاک ہی ہونا چاہیئے.مفتی صاحب آگے نزول مسیح سے ذیل کے اشعار لکھتے ہیں :- انبیاء گر چه بوده اند یسے من بعرفاں نہ کمتر به زکیسے کم تیم زاں ہمہ ہر دئے یقیں ہر کہ گوید و روغ نیست امین آنچه دا دست برینی را حمام داد آن جام بر امرا بتمام ان نے بدل دی ہے اس حوالہ کا دوسرا شعر پہلے حواله ی این ترکیب مفتی صاحب مضمون بیان ہو رہا ہے کہ آپ پر انبیاء کی شعروں سے متعلق تھا جس

Page 257

۲۳۸ طرح یقینی وحی نازل ہوئی ہے.اس دوسرے شعر میں آپ یہ بیان کر رہے ہیں.کہ آپ اپنی وحی پر یقین رکھنے میں انبیا ر سے کم نہیں ہو جھوٹ کے وہ لعین ہوتا ہے.دوسرے حوالہ کے پہلے شعر میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ انبیاء اگر بچہ بہت ہوئے ہیں لیکن آپ معرفت الہی کے حصول میں کسی سے کم نہیں اور مسیح موخود کو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا.کیونکہ وہ حسب بیان حضرت شاہ ولی اشتر صاحب مجد دسدی دو از دهم آنحضرت سے اللہ علیہ وسلم اسم محمد کی شرح ادران به صورت کا ذکر ہے اس کے آگے چل کر آپ استری اور اس کا دوسرا نسخہ ہے.میں فرماتے ہیں.شعر نیک آئینه ام دریت خستی از پئے صورت هر مد کہ میں رہت فنی کی طرف او مدتی بینی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صرف ایک آئینہ کی حیثیت رکھتا ہوں.یعنی مجھ میں جو تجلیات ہیں وہ صدرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہے.میرا کوئی ذاتی کمال نہیں ہیں ان اشعار سے آپ کا اپنی دھی پر انبیاء کی طرح یقین اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خلقیت میں عرفان الہی کا انبیاء کی طرح پانے کا دعوی ہے اور یہ دخونی مفتی صاحب کے مزعومہ دوسرے دور کی عبارتوں سے کوئی تستفاد نہیں رکھتا.پس حق بات یہ ہے کہ دور صرف دو ہی ہیں اور دوسرے اور میرے دور کے عنوان کے تحت مفتی صاحب کے پیش کردہ حوالہ جات میں کوئی

Page 258

۲۴۹ اختلاف نہیں.اور نہ دعوئی میں مفتی صاحب کے مزعو مرد دوسرے دور کے شریان سے کچھ زیادتی ہے ، جبکہ میں طرح دوسرے دور کے مفتی صاحب کے چیش کہ دجالہ تجليات المیہ عثہ میں آپ نے تحریر فرمایا ہے :- اب پھر محمدی نبوت کے سب نبوتیں بنار میں شریت دانہ نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعیت کے نبی ہو سکتا ہے مگر رہی ہجر پہلے امتی ہوتے اسی طرح سب سے آخری بڑی کتاب چشمہ معرفت میں بھی لکھا ہے؟ ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی ثبوت نہیں اور نہ کوئی شریعیت ہے.اگر کوئی ایسا دعوی کرے تو جاستیہ وہ بے دین ومردود ہے تاری شیر بیشتر معرفت ۳۲۳ ) پھر آگے فرماتے ہیں: خدا اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منشوع کی طرح قرار دیتا ہے اور محمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے اور اپنی شریعیت چلانا چاہتا ہے" رحمه معرفت ۱۳۳۳ (۳۲۵ ) پس تجلیات الہیہ کی عبارت ہے مفتی صاحبنے دوسرے دور کے بیان کے آغاز میں درج کیا ہے اور چشمہ معرفت کی مندرجہ بالا عتبار نہیں جو حضرت سیع موجود علیہ السلام کی آخری زمانہ کی کتاب کی ہیں اس ایک ہی مضمون پر

Page 259

۲۵۰ مشتمل ہیں کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی نبی نہیں آسکتا.اور نہ مستقل نہیں آسکتا ہے یعنی ایسا نہی جو براہ راست مقام نبوت حاصل کرے.چشمہ معرفت ۳۲۵۰ پر آپ یہ بھی لکھتے ہیں :- لعنت ہے اس شخص پر جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے فیمین سے نفت نہ ہو کہ نبوت کا دعوی کرے مگر یہ نبوت آنہ کھلے اللہ اسلام کی حقانت اس کا مقصد بھی یہی ہے نا علیہ سلم کی بو سے نہ کوئی نئی نبوت پر نظام کی جائے.اور آنحضرت علیہ وسلم کی سچائی دکھلائی جائے.یسی مضمون اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں مذکور ہے جو اللہ کا ہے.پس مفتی صاحب کے مزعومہ دوسرے دور اور تیسرے دور کی عبارتیں ایک ہی قسم کی نبوت کے ذکر پر مشتمل ہیں.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک امتی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے ملتی ہے.اس نیوت کا حامل نہ تشریعی نبی ہوتا ہے نہ مستقل نہیں.بلکہ وہ ایک پہلو سے نہیں اور ایک پہلو سے اتنی بھی ہوتا ہے اور اس کی نبوت نئی نہیں ہوتی بلکہ آنحضرت کا ظل ہوتی ہے.پس مفتی صاحب کی یہ غلط بیانی ہے کہ وہ اپنے مزعوم تعبیر سے دور کے بارہ میں لکھتے ہیں :- تیرا دور وہ تھا جس میں تاویل و تحریف سے بے نیاز ہو ر کھنے

Page 260

۲۵۱ طور پر ہر قسم کی نبوت کا بلا تفریق تشریعی و غیر تشریعی کے سلسلے جاری قرار دیئے.اور خود کو صاحب شرعیت بنی ہلایا کہ رختم نبوت کا مل ما مقدمه ) مفتی صاحب نے اس عبارت میں دو باتیں بیان کی ہیں.اول یہ کہ نبوت کے بانه این تشریعی و غیر تشر یعنی سلسلے جاری قرار دیئے.حالانکہ چشمہ معرفت میں جو آخری زمانہ کی کتاب ہے آپ نے صاحف تحریر فرما دیا ہوا ہے کہ تشریعی نبوت کا مدعی مردود اور بے دین ہے اور آنسرت صلے اللّہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں.اور آنجنائی کے بعد نہ مستقل طور یہ کوئی نبوت ہے اور نہ کوئی شریعت ہے.جیسا کہ اوپر کی پیش کردہ عبارتوں سے ظاہر ہے.مگر مفتی صاحب، یہ لکھتے یہ لکھتے ہیں :.انہوں (مرزا صاحب.ناقل) نے بہت سی تصانیف میں نبوت تشریعی اور صاحب شریعت ہونے کا دعوی کیا ہے.رختم نبوت کامل منها حاشیه) فتی حنا کو ایک ہزار روسی اگر جناب مفتی صاحب حضرت بانی سلسلہ حمید مسیح موعود علیہ السلام کی سلن شاہ سے کا انعامی پیلینچ لے کر ۲ ۲ رستی 19 ء کے یوم وفات تک ۲۶ شاہ کی کوئی عبارت اس مضمون کی پیشیں کردیں میں میں یہ لکھا ہو کہ ہر قسم کی نبوت کا بلا تفریق تشریعی و غیر تشریعی سلسلہ جاری ہے تو انہیں ایک ہزار روپیہ نقد انعام دیا جائے گا.پھر اگر وہ یہ بھی دیکھا دیں کہ آپ نے کرنا ہو کہ نہیں

Page 261

۲۵۳ تشریعی نبی ہوں تب بھی انہیں ایک ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا.اگر وہ یہ بھی دکھا دیں کہ آپ نے لکھا ہو میں مستقل نبی ہوں.پائیں مستقل صاحیہ شریعیت ہوں تو اس صورت میں بھی انہیں ایک ہزار رہ پید انعام دیا جائے گا.اور ساتھ ہی میں اپنی اس کتاب کے تمام نسخے جلا دوں گا لیکن اگر ر ایسا نہ دکھا سکیں اور وہ ہر گز نہ دکھا سکیں گے تو پھر انہیں اس بات کا نیک علماء کی طرح اقرار کرنا چاہیئے.کہ آپ سے اس بیان میں غلطی ہو گئی ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور اس وجہ سے استغفار کریں کیونکہ اپنے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی پہ یہ انسامہ باندھا ہے کہ آپ نے تشریعی نبی کا دعوی کیا ہے.اور آپ نے ہر قسم کی نبوت کو بلا تفریق تشریعی وغیر تشریعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جاری قرار دیا ہے مفتی صاحب کی جانی فی مکعب کی ایک اور غلطی طاحظہ ہو جو اس بات ایک اور غلطی روشن دلیل ہے کہ مفتی تو سب حضرت مسیح موعود علیہ سلام کی کتب سے ناواقف ہیں آپنے آپ کی کتب کا خود مطالعہ نہیں کیا.وہ غلطی یہ ہے کہ آپ کھلے طور پر نبوت در سالت کا دھونی کے بغلی عنوان کے ماتحت مزعوم تیسرے دور کے ضمن میں برا بین احمدیہ مشہ کا یہ حوالہ پیش کرتے ہیں کہ :.حق یہ ہے کہ خدا کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ ملکہ ہزار دفعہ کے

Page 262

YAY اس کے آگے مفتی صاحب لکھتے ہیں :- نیز این مضمون اربعین کا صلہ اور نزول مسیح من حقیقتہ الودگی ا اور انجام آتھم صل وحقيقة النبوة مرز امحمود ا حد و وغیرہ وغیرہ کتابوں میں بکثرت موجود ہے.ر ختم نبوت کامل مشت واضح ہو کہ اربعین نہ اللہ کی کتاب ہے نزول مسیح نشہ کی حقیقۃ الوحی کی اور انجام انتظم شاہ کی کتاب ہے.مگر انجام منظم کو مفتی مگر صاحب نے تیر سے دور کی کتاب قرار دیا ہے اور دوسرے دور کو ء کے بعد قرار دیا ہے.گویا انجام انتقم کی کتاب کو مفتی صاحب کو بجائے بیشتر دور کی کتاب کے پہلے دور کی کتاب قرار دینا چاہئے تھا کیونکہ دوسرا دور انکے بیان کے مطابق 199ء کے بعد شروع ہوتا ہے.اور انجام تنظم سلسلہ کی کتاب ہے اس سے معلوم ہوا کہ مفتی صاحب کو نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کے زمانہ کا کوئی علم ہے نہ ان کے مضمون سے صحیح واقفیت ہے اس لئے وہ پہلے دور کی کتاب انجام آتھم میں ہی نبوت کا ذکر کھلے طور پر قرار دے رہے ہیں.انجام آتھم کے صفحہ ۶۲ کا صرف انہوں نے سوالہ اپنی کتاب ختم نبوت کامل مشت پر دیا ہے اور اس صفحہ کی کوئی ایسی عبارت وہ دری نہیں کرسکے جس میں کھلے طور پر نبوت کے دعوی کا ذکر موجو د ہو بلکہ انجام آتھم شام کے حاشیہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام معروف تعریف نبوت کے پیش نظر جس میں نبی کے لئے شریعیت کا لانا یا مستقل بنی ہونا بیان کیا گیا تھا

Page 263

صاف لکھتے ہیں For.اس عاجہ نے کبھی اور کسی دقت تحقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعوی نہیں کیا اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے نام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزمہ کفر نہیں مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا.کہ اس میں عام مسلمانوں کو میں ہے جانے کا استعمال ہے.لیکن وہ مکانات اور مخاطبات جو اللہ جل شانہ کی طرف سے مجھ کو ملے ہیں جوں ہی ہے لفظ نبوت اور رسالت کا بکثرت آیا ہے ان کو میں بوجہ مامور ہونے کے مختفی نہیں لکھ سکتا.لیکن بار بار کہتا ہوں کہ ان العلامات میں جو لفظ مرسل یا رسول یا نبی کا میری نسبت آیا ہے وہ اپنے حقیقی معنوں پرست عمل نہیں ہے اور اصل حقیقت جس کی ہیں علی عدس الاشتماد گواہی دیتا ہوں یہی ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء میں ملاپ کے بعد کوئی بھی نہیں کیا نہ کوئی پرانا اور نہ کوئی نیا وَمَنْ قَالَ بَعْدَ رَسُولنا و سيدنا إلي نبي او رسول على وجه الحقيقة والانتراء وَتَرْكِ الْقُرآنِ واحكام الشربية القراء فهو فرصة اب.غرض جہاں مذہب یہی ہے که تو شخص حقیقی طور پر نبوت کا دعوی کرے اور آنحضرت علی باشد علیہ وسلم کے دامین فیوض سے اپنے تئیں الگ کر کے اور اس

Page 264

۲۵۵ پاک ترشی سے جدا ہو کہ آپ ہی براہ راست نبی اللہ بنا چاہتا ہے تو وہ ملحد و بے دین ہے اور غالبا ایسا شخص اپنا کوئی نیا کلمہ نیا ہے کا اور عبادت میں کوئی نئی طرز پیدا کرے گا.اور احکام میں کچھ تغیر و تبدل کر دے گا پس بلا شبہ وہ سید کذاب کا بھائی ہے اس کے کا فر ہونے میں کچھ شک نہیں ایسے خبیث کی نسبت کیونکر کہ سکتے ہیں کہ وہ قرآن شریف کو مانتا ہے یا اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ اصطلاحی تعریفت نبوت میں آپکے نزدیک بی کے لئے تشریعی با براہ راست یعنی مستقل بنی ہونا ضروری تھا اس قسم کی نبوت کو آپنے اس وقت حقیقی نبوت قرار دیا تھا اور اس قسم نبوت کا آپ کو انجام آنختم میں ہرگز دھوئی نہ تھا.اور نہ ہی اپنی عمر کی آخری تحریر تک جو آپ نے اپنی نبوت کے متعلق لکھی کی بھی آپ نے تشریعی یا مستقل بنی ہونے کا دعوی کیا ہے جس کے دعوئی کے ساتھ نیا کلمہ یا دین میں کچھ تغیر و تبادل لازم آتا ہے اور قرآن شریعت کی پیروی کی حاجت نہیں رہتی.ایسے دعوتی نبوت کو آپ نے ہمیشہ کفر قرار دیا ہے.البتہ انجام آعظم دورہ اول کی کتاب ہے نہ تیسرے دور کی کیونکہ یہ اشارہ میں طبع ہوئی اور مفتی صاحب سلا است تنگ پہلا دور قرار دے چکے ہیں.پس صاف ظاہر ہے کہ مفتی صاحب نے حضرت سیح موعود علیہ السلام کی دیگر کتب کے علاوہ کبھی انجام آنیم کا بھی خود موال بعد نہیں کیا.ورنہ وہ اسے تیسرے دور کی کتاب قرار نہ دیتے.مفتی صاحب کا تشریعی نبی ہو سکے دھونی کا بستان پھر میرے دورہ کے بیان

Page 265

PAY کے ذیل میں مفتی صاحب نے تشریعی نبوت اور صاحب شریعیت نبی ہونے کا دعوی " کے عنوان کے ذیل میں سن 19ء کی کتاب اربعین کی ایک عبارت پیش کر دی ہے.حالانکہ اس زمانہ میں تعریف نبوت میں تبدیلی کا کوئی ثبوت اس کتاب میں موجود نہیں.بینکہ اس کتاب میں آپ نے معروف تعریف نبوت کے بالمقابل اپنے تئیں محض مجازی نبی ہی قرار دیا ہے.مفتی صاحب نے اربعین کی عبارت اس لئے پیش کی ہے کہ اس میں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اوپر اوامر و نواہی کے نزول کا ذکر ایسی ہے کے زمانہ سے کیا ہے جو ململانے کی کتاب ہے.پس اگر او امر و نواہی کے نزول کی وجہ سے مفتی صاحب کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو تشریعی نبی کا مری قرار دینے کا حق پہنچتا ہے تو پھر تو انہیں چاہیئے تھا کہ نشانہ سے آپ کو تشریعی نبوت کا مدعی قرار دیتے نہ کہ مشتملت کے بعد اپنے مزعوم تیرے دور ہیں.بہر حال مفتی صاحب کی اربعین سے پیش کردہ عبادت یہ ہے.اگر کسو صاحب الشرعیت افتراء کر کے ہلاک ہوتا ہے نہ مراد کیک مفتری اند اول تو یہ و قوسی ہے دلیل ہے.خدا نے افتراء کے ساتھ شریعیت کی کوئی قید نہیں لگائی کا سوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعیت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریہ چند امر و نہی بیان کئے اور اپنی امت کیلئے ایک قانون مقررہ کیا وہی صاحب الشر یحیت ہوگیا پس اس تعریف کی رو سے ہمارے مخالف سلام میں

Page 266

۲۵۷....کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی.....مش قل للمومنين ينسوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَاتقوا رجم لك أڈ کی تقسیم به بن امین احمدیہ میں درجع ہے اور اس میں امر ہی ہے اور بیٹی بھی اور اس پیئیں.اتنا کی تی سی گور گئی.اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں رہ نہیں ہوتے ہیں اور نبی بھی.الا افسوس ہے کہ مفتی صاحب نے کسی مخالف کی کتاب سے حوالہ لے کہ یہ عبارت تو درج گردی ہے اور اصل کتاب اربعین ملاحظہ نہیں کی جس میں آگے صاف ہے -15 ہمارا بان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانہاد ہے.اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے.تا ہم خداتعالی نے اپنے ضائع یہ حرام نہیں گیا کہ تجدید کے طور پر کسی اور نامور کے ذریعہ یہ احکام ہے اور کرے کہ جھوٹ نہ بولور کجھوٹی گواہی نہ دو.زنا نہ کرو.نون زکرو اور ظاہر ہے کہ ایسا بیان کرنا بیان شریعت ہے جوسیع موتور کا بھی کام ہے.اربعین کے وارے اس سے ظاہر ہے کہ آپ پر جو اوامر و نواہی نازل ہوئے وہ بطور تجدید دین اور بیان شریعیت کے ہیں نہ اس لئے کہ آپ مستقل طور پر صاحب الشریعیت بنی ہیں.عجیب بات ہے کہ ذیل کی عبارت مفتی صاحب خود اپنی کتاب میں ذرج کرتے ہیں کہ :.

Page 267

یونکہ میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی تھیں اور شریعیت کے ضروری احکام کی تجدید ہے.اس لئے خدا تعالے نے میری تعلیم کو اور اس دمی کو ہو میرے پر ہوتی ہے فلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیا ہے" (حاشیہ اربعین ) ط اس عبارت سے ہی مفتی صاحب کو آسانی سے کچھ آجانا چاہئے تھا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا اربعین میں صاحب شریعیت مستحصلہ کا کوئی دعوی نہیں.اور آپ پر ہو او ا مر جو نوا ہی نازل ہوئے.وہ آپ کے بیان کے مطابق تجدید دین کے طور پہ ہیں شدہ اصل دین اور اعمل شریعیت کے طور پر.اگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا مستقل صاحب الشریعیت نبی کا دعوی ہوتا تو پھر تا ہے کی اس کتاب کے بعد سن ایڈ کئے اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں آپ کبھی یہ نہ لکھتے ہو.جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے گیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعیت کا خیوان نہیں ہوں.اور نہ یکی مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر ان کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اس طورہ کا نبی کہلانے سے لیکں نے کبھی انکار نہیں کیا.بلکہ انسٹی جنون سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی ہیں

Page 268

۲۵۹ ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا " داشتہار ایک غلطی کا ازالہ) یہ عبارت شاہ کی مفتی صاحب کی نظر سے گزری ہے کیونکہ خود انہوں نے اس عبارت کو اپنی کتاب ختم نبوت کامل کے یہ مجھے دوسرے مزعومہ دور کے بیان کے ذیل میں درج کیا ہے.پس جب ساتہ کی یہ عبارت مفتی صاحب کے نزدیک دوسرے دور کی ہے تو پھر کتاب اربعین کی نتاشہ کی عبارت کو آپ کو تیسرے دور کی عبارت قرار دینے کا کیا حق رہا.اور اس سے آپ یہ نتیجہ اخذ کرنے کا کیا حق رکھتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے تشریعی نبی ہونے کا دعوی کیا ہے.مفتی تصیح کی بنے بات دراصل یہ ہے کہ مفتی صاحب نہا رٹے سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو مستقل صاحب الشره بنی ہونے کے مدعی ثابت کرنا چاہتے تھے.اس لئے اشتہار ایک غلطی کا ازالہ کی عبارت تو انہوں نے دوسرے دور میں یہ ظاہر کرنے کے لئے درج کی ہے کہ گویا پہلے حضرت بانی سلسلہ ریہ اپنے آپ کو صاحب شریعت جدیدہ بنی نہیں قرار دیتے تھے.لیکن تیسرے دور میں اپنے آپ کو تشریعی.نبی قرار دینے لگ گئے.اس لئے تیسرے دور کے ذکر میں انہوں نے کتاب اربعین کی طباعت کے سن کو ملحوظ رکھے بغیر اس میں صاحب شریعت کا لفظ پا کر بنیادٹ کی راہ اختیار کی اور اسے تیسرے دور کی کتاب قرارہ ہے دیا.حالانکہ یہ کتاب شائر سے پہلے کی ہے اور سلالہ میں اشتہار

Page 269

۲۶۰ ایک غلطی کا ازالہ میں آپ صاف فرما چکے ہیں کہ آپ کا نہ مستقل طور پر کسی شریعت لانے کا دعوئی ہے اور نہ شریعت جدیدہ جانے کا دھونی ہے میں مفتی صاحب کو چیلینج کر چکا ہوں کہ وہ سلات سے لے کر ۲۶ مئی انتشار تک جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا دن ہے آپ کی کوئی تحریر اس مضمون کی پیش کریں کہ آپ کو شریعیت جدیدہ یا مستقل شریعیت کانے کا دعوی ہے تو میں انہیں ایک ہزار روپیہ نقد انعام دوں گا اور اپنی یہ کتاب جنا دوں گا، اور اپنی تحقیق کو اس طرح غلط قرار دید و هنگا.مگر میرا دعوی ہے کہ مفتی صاحب نشانہ کی کتاب اربعین سے بعد کی کسی کتاب میں ہرگز یہ مضمون نہیں دکھا سکتے.رہا اربعین کا حوالہ سواس کے متعلق حضرت مسیح موعودستشانہ کی اسی کتاب میں خود وضاحت فرما چکے ہیں کہ آپ پر او امر و نواہی پیشتمل العامات تو تیئیس سال سے نازل ہو رہے ہیں مگر یہ سب المابات بطور تجدید دین اور بیان شریعیت کے ہیں.اور آپ در اصل قرآن مجید کو رہبانی کتابوں کی خاتم یقین کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے ہیں.اپنی آخری بڑی کتاب چشمه معرفت میں آپ فرماتے ہیں :.اہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ کوئی شریعت ہے.(حاشیہ چشمہ معرفت ص۳۲۲ )

Page 270

پھر فرماتے ہیں :- خدا اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریعت کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے اور محمد بی شریعیت کے بر خلاف چلتا ہے اور اپنی شرعیت چلانا چاہتا ہے.چشمہ معرفت ۳۲۳۵ (۳۲۵) اور اربعین کے بعد کے رسالہ الوصیة میں تحریر فرماتے ہیں :.یہ خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ نبوت تشریعی کا دروازہ بعد آخریت صلے اللہ علیہ وسلم کے بالکل مسدود ہے.اور قرآن مجید کے بعد کوئی اور کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطل کرے جبکہ اس کا عمل قیامت تک ہے تم الوصیت صلا) پھر اپنے آخری خط مینی اخبار عام ۲۳ ملتی ۱۹ع کو آپ کی وفات سے تین ۱ دن پہلے شائع ہوا تحریر فرماتے ہیں :.یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا وخونی کرتا ہوں میں سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا بنی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبیلہ بناتا ہوں اور شریعیت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور مشابہت سے باہر جاتا ہوں.یہ الزام صحیح نہیں

Page 271

۲۶۲ بلکہ ایسا دعوی نبوت کا میرے نزدیک کفر اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر ایک کتاب میں ہمیشہ میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی وخونی شین و اخبار نام ۲۰ مئی شاد یہ تحریر ۲۳ مئی ۱۹ء کو لکھی گئی تھی اور ۲۶ مئی شنواری کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے دن اخبار عام میں شائع ہو گئی.پیس مفتی صاحب کا آپ پر تشریعی بنی ہونے کے دعوئی کا الزام سراسر افترا ہے.انبیاء سے فضلیت مفتی صاحب بحوالہ حقیقة الوحی صدا و نزول مسیح ہے ایک عبارت درج کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تمام انیل یار سے افضل ہونے کے دعوئی کا الزام کے دعوی کا الزام لگا تے ہو.وہ عبارت یہ ہے:.تیں اور جوں نہیں بیٹھے ہوں میں توقع ہوں نیا با تیم میوں میں اگتی ہوں میں انہیں ہے میں بیغریب ہوں میں یوسف ہوں اور میں موٹے ہوں.میں داؤد ہوں.میں بیٹی ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کائیں ظہر ائم ہوں یعنی نسلی طور پر میں محمد اور احمد ہوں " الوحی واضح ہو کہ یہ عبارت در اصل بہت ابتدائی زمانہ کی ہے اور ی ہونے و نزول مسیح میں اس کا صرت تکرار ہوا ہے.یہ انبیاء سے افضل ہونے کے دعوئی پر مشتمل نہیں.کیونکہ جس زمانہ میں پہلے یہ عبارت آپ نے لکھی.اس میں آپ نے اپنی نبوت کو محدثیت کے مترادف قرار دیا تھا.اس عباد کا مقصد صرف یہ بیان کرتا ہے کہ آپ ان انبیاء کی صفات خاصہ کے مظہر ہیں.

Page 272

۲۷۳ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے کمالات کے جامع تھے اس لئے سیح موعود کے لئے بھی ہوشی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منظر آئم ہے ختی خلی طور پر ان انبیاء کا منظر ہونا ضروری تھا.چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ یاب مجدد صدی دوازدهم مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں تقریر فرماتے ہیں:.هو شرح الاسم الجامع المحمدي وتسعة " منشيخة منه والخير الكثير من مطبوعه بجنور) مِّنْهُ : سینی مسیح موعود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے محمد جامع نام کی شرح ہے.اور اسی کا دوسرا نسخہ ہے.پس جب مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا ظلی کامل ہے تو اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کے واسطہ سے ضرور تمام انیار کا مظہر بھی ہونا چاہیئے تھا.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مقام انبیاء کے کمالات کے جامع ہیں.مفتی صاحب نے اس جگہ یہ عبارت بھی درج کی ہے :- خدا نے اس امت میں گھر سے موعود بھیجا ہو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام سے شان میں بہت بڑھ کر ہے.(حقیقة الوحی من) اس بارہ میں واضح ہو کہ اس میں شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ دخوئی ضرور ہے کہ آپ حضرت جیسے علیہ السلام سے افضل ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ عمومی سامنہ کے مسیح موعود ہیں.چونکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم جومشیل موسی ہیں.موسلئے علیہ السلام سے افضل ہیں..

Page 273

اس لئے ضروری تھا کوشیں میں جو امت محمدیہ کا مسیح موجود ہے مسیح نام کی الیا سلام سے افضل ہوتا.اس سے ایسا محمدی کی سلسلہ موسوی پر فوقیت ثابت ہوتی ہے رت شاہ ولی اللہ صاحب مسیح موعود کر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے جامع نام محمد کی شرح اور اس کا دوسرا نسخہ قرار دیتے ہیں.افضلیت کے دعوی سے حضرت عیسے علیہ اسلام کی تو ہین مقصود نہیں بلکہ اظہار حقیقت ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.تِلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضُهُمْ علی بعضی.کہ ہم نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت دی ہے مسیح موعود کو جو در حقیقت مہدی معہور بھی ہے.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن مریم سے افضل قرار دیا ہے.چنانچہ حدیث ہوگی میں امام مہدی کی شان میں وارد ہے.مُرَ الَّذِي يَتَقَدَّمُ عِنى ابن مریم - دمج الكرامه موسقہ نواب صدیق حسن خان صاحب (۲) کہ وہ جیسے ابن مریمت تقدیم رکھے گا.غالباً اسی حدیث کی بناء پر ابن سیرین نے فرمایا ہے.قد كَادَ يَفْضُلُ عَلَى بَعْضٍ الأنبياء - ان جیج الکرامہ ملا کہ قریب ہے کہ وہ بعض انبیاء سے افضل ہو.علامہ عبد الرزاق کاشانی شرح فصوص الحکم میں لکھتے ہیں :- الْمَهْدِى الَّذِي يَجِيُّ فِي أَخِرِ الزَّمَانِ فَإِنَّهُ يَكون في الأحكام الشَّرْعِيَّةِ تَابِعًا بِمُحَمَّدٍ صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْمَعَارِبِ وَالْعِلْمِ والحقيقة تكون جميع الأنبياء والأولياء

Page 274

۲۲۵ تابعين نه كتُهُمْ وَلا يَنَاقِشُ مَا ذَكَرْنَا الان تباينة باطن محمد صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.شرح فصوص الحکم مطبوعه مسی به ۵۳۰) ترجمه مهدی جو آخری زمانہ میں آئے گا سو دہ احکا بہ شرعیہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع ہو گا.اور مہارت اور علم اور حقیقت کے امالا سے شام انبیاء اور اولیاء سب کے سب اس کے تابع ہوں گئے اور یہ بات ہمارے پہلے مذکور بیان کے خلافت نہیں کیونکہ اس کا با طن محمد صلے اللہ علیہ وسلم کا باطن ہو شیار معینی دور کا مضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز کامل ہو گو ) مفتی صاحب نے اس کے بعد حاشیہ انجام تم رو توبین انبیاء کا الزام کے در سے حضرت مسیح موعود نیا ساس پایان نام لگا یا ہے کہ آپنے حضرت نیسے علیہ السلام کی دادیوں نانیوں، کرن نا کار قرار دیا ہے اور آپ کا نام نادان اسرائیلی رکھا ہے اور آپ کی نبوت بولنے کی عادت قرار دی ہے.اس کے بارہ میں تو اسنح ہو کہ یہ سب عبارتیں بطور اعزام خصم کے علیا تیروں کے اس ستر میوے کے متعلق عیسائیوں کے مسلمات کی رو سے بیان ہوئی ہیں جس میں میسوع کے متعلق وہ مانتے ہیں کہ وہ خدائی کا دعویدار تھا اور میں نے تمام پہلے نبیوں کو چور اور بیمار کیا.اس یہ دع کا قرآن مجید ہیں کوئی ذکر نہیں.قرآن مجید کے حضرت کیلئے ابن مریم ایسے دلادی سے پاک ہیں.اس امر کی وضاحت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے خود اپنی کتاب

Page 275

PAY انجام انتم میں کردی ہوتی ہے.اگر مفتی صاحب نے خود یہ کتاب پڑھی ہوتی اور ادھر اُدھر سے حوالہ جات نہ لئے ہوتے تو شاید وہ ایسا اعتراض نہ اٹھانے کی کیا بنی آیتم میں آپ نے صاف لکھ دیا ہوا ہے:.یہ ہماری رائے اس میسوع کی نسبت ہے جس نے خدائی کا دعوی کیا اور پہلے نبیوں کو چور اور بشمار کہا.اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بجز اس کے کچھ نہ کہا کہ میرے بعد جھوٹے نبی آئیں گے.ایسے یسوع کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں.میمہ انجام انتم من و پر تحریر فرماتے ہیں:.ہمیں پادریوں کے میسون اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی انہوں نے ناحق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیا دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے میسوع کا کچھ تھوڑ اسا حال ان پر ظاہر کریں اور مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالے نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ کون تھا اور یادری اس بات کے قائل ہیں کہ میون وہ شخص تھا جس نے خدائی کا دعوی کیا.الخ " پر تحریر فرماتے ہیں:.جس حالت میں مجھے دھوئی ہے کہ میں مسیح موعود ہوں، اور میرات

Page 276

pyc میلے علیہ السلام سے مجھے مشابہت ہے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ میں اگر نعوذ باشد حضرت عیسی علیہ السلام کو برا کہتا تو اپنی مشابہت ان سے کیوں بتلاتا، کیونکہ اس سے تو خود سے بتلاتا میرا بڑا ہونا لازم آتا." داشتهار نه باد نمبر حاشیه مندرجه تبلیغ رسالت جلد حاشیه فت) پھر آپ کشتی نوح میں تحریر فرماتے ہیں :- پھر د کو خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ ہم یہ محمدی مسیح موسوی سے فضل ہے لیکن تاہم میں مسیح ابن مریم کی بہت عزت کرتا ہوں کہو چکے میں روحانیت کے رُو سے اسلام میں خاتم الخلفاء ہوں جیسا کہ مسیح ابن مریم اسرائیلی سلسلہ کے لئے خاتم الخلفاء تھا جونی کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں نہیں مسیح موعود ہوں.سوئیں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہمنام ہوں اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہنا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا : دکشتی نوح صدا شائع کرده نظارت اصلاح و ارشاد) پھر تریاق القلوب میں نظریہ فرماتے ہیں:.حضرت مسیح کے حق میں کوئی بے ادبی کا کلمہ میرے منہ بنتے ہیں مکل یہ سب مخالفوں کا افتراء ہے.ہاں چونکہ در حقیقت کوئی ایسا یسوع مسیح نہیں گزرا جس نے خدائی کا دعوی کیا اور

Page 277

PYA آنے والے نبی خاتم الانبیاء کو جھوٹا قرار دیا ہو.اور حضرت موسے کو ڈاکو کیا ہو اسلئے میں نے فرض محال کے طور پر اس کی نسبت ضرور بیان کیا ہے کہ ایسا مسیح جس کے یہ کلمات ہوں راستباز نہیں ٹھہر سکتا.لیکن جہارا امسیح بن مریوانے س بندہ اور رسول کہلاتا ہے.اور خاتم الانبیاء کا محترق ہے.اس پر ہم ایمان لاتے ہیں یا و تریاق القلوب حاشیه شت واضح ہو کہ پادری فتح میسیج نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور آپکے آباد و امداد کے خلاف گند اچھالا تھا.اور آپ کے خاندان پر نا پاک حملے کئے تھے.اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الزامی جواب کے طور پر از روئے بائیبل لکھا تھا کہ یسوع کے خاندان میں تین ایسی صورتیں تھیں جو آپ کی دادیاں نانیاں قرار پاتی ہیں زنا کار او کیسی تھیں اس طرح آپ نے ہمیشہ کے لئے عیسائیوں کا منہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کے خلاف بند کر دیا.آپ نے تمر راحاب اور نبت سید کو جو یسوع کی ایک لحاظ سے وادیاں اور ایک لحاظ سے نانیاں تھیں.بد کار ثابت کر دیا.چنانچہ راحاب کی نسبت بائیبل سے بتایا کہ رہی تھی.ریشوع ہے) تمر کے متعلق بتایا کہ حرامکار تھی ( پیدائش پر اس نیت سبع کے متعلق بتا یا کہ بد کارتی - ( ۲ سمو ایل با سب ۱۱) پادری عماد الدین انجیل متی کی تفسیر میں اپنی بد کار عورتوں کے نام سے کے شجرہ نسب میں پا کر لکھتے ہیں :.وات

Page 278

۲۷۹ کہاں سے ظاہر ہے کہ مسیح خداوند نے گنہ گاروں کے سلسلہ میں آنے سے نفرت نہیں کی.(تفسیر متنی پادری عماد الدین صاحب مت) علماء اسلام میں الزامی جواب کا یہ طریق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے علاوہ دیگر علماء اسلام نے بھی اختیار کیا الزامی جواب کا طریق ہے.مولوی ابو محمود صاحب سوہدروی اپنی کتابت اسلام اور عیسائیت کے رسالے پر لکھتے ہیں :.اور کے دستے ہے حضرت مسیح علیہ السلام کی تین نانیاں.دادیاں کسبی زانی اور بدکار تھیں اور چار نا ننے دادے بھی بد تھے.پھر لکھتے ہیں ہیں : زانی اور زانیہ کے اتنے طویل سلسلہ میں آنے والے شخص کا اپنا کیریکٹر یا اپنی پوزیشن کیا رہے گی : و اسلام او عیسائیت گشت اسی طرح مولوی رحمت اللہ صاحب نہا جو منگی نے اپنی کنار اظہار الحق میں میقات کے رد میں اسی قسم کے بہت سے الزامی جوابات دیتے ہیں اخبار المحدیث بھی میں کے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری ایڈیٹر تھے.عیسائیت کے بالمقابل الزامی جوابات سے بھرا پڑا ہے.نمونہ کے لئے ملاحظہ ہو پر چہ المحدیث ۳۱ مارچ ۶۱۹۳۹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مفتی صاحب نے اپنی تمہید کے صد پر افضلیت کے دعوی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یه بهستان مفتی صاحب کا بہتان عظیم بھی باندھا ہے کہ آپ نے خانہ النتین

Page 279

۲۷۰ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضلیت کا دعویٰ کیاست مفتی صاحب نہایت غیر ذمہ دارانہ طور پر سوچ اور فکر کو بالائے طاق رکھ کر بزعم خود اپنے بستان کے شہت میں پیش کرتے ہیں کہ :.ہمارے نبی اکرم سلے اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی تعداد صرت کی تین ہزا ر کھی ہے (تحفہ گولڑویہ) اور اپنے معجزات کی تعداد برا همین احمدیہ نے دس لاکھ تہائی ہے.کہ خست الْتَمَرُ السمو السير و إن لى هما القمران المُشْرِقَان اسنجر - اس کے لئے ربیعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چاند کے خسوف کا نشان خاماہر ہوگا.اور میرے لئے چاند.اور سورج دونوں کا اب کیا تو انکار کرے گا." (اعجاز احمدی طب) الجواب اوس بہتان کے جواب میں واضح ہو کہ تحفہ گولڑویہ میں نبی کریم اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی تعداد اس لحاظ سے بیان کی گئی ہے کہ اتنے معجزات احادیث نبویہ سے ثابت ہیں.ورنہ اخوات مصلے اللہ علیہ وسلم کے نشانات کی تعداد تو آپ کے نزدیک حدو شمار سے باہر ہے چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں :- احضرت مسلے اللہ علیہ وسلم کئے جوزات تو چاروں طرف سے چمک رہے ہیں وہ کیونکر چھپ سکتے ہیں.صرف وہ معجزات ہو صحابہ کی شہادتوں سے ثابت ہیں وہ تین ہزار معجزہ ہے.اور پیشگوئیاں تو دس ہزار سے بھی زیادہ ہوں گی جو اپنے وقتوں پر

Page 280

پوری ہوگئیں اور ہوتی جاتی ہیں.با صدا اس کے بعض معجزات اور پیشگوئیاں قرآن شریف کی ایسی ہیں کہ ہمارے لئے بھی اس زبان میں محسوس دمش بود کا حکم رکھتی ہیں.اور کوئی اس سے کر نہیں کر سکتا وتصديق النبي ٣٠) پھر تحریر فرماتے ہیں:.کسی نبی سے اس قدر معجزات ظاہر نہیں ہوئے جس قدر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے.....ہمار سے بنی صلے اللہ سے.علیہ وسلم کے معجزات اب تک ظہور میں آرہے ہیں.اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے.ہر کچھ ہماری تائید میں ظاہر ہوتا ہے در اصل وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہیں.تمر حقيقة الموحى م۳۵) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات اگر دس لاکھ سے بھی زیادہ ہوں تو وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی معجزات ہیں.وا نا ئی نبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:.کرامات اولیا.سب محمد سلے اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہیں : کو ر کشف المحجوب مترجم اردو شائع کہ وہ برکت علی اینڈ سنز علمی پیس قلب کسی نے سچ کہا ہے ک شاگرد نے جو پا یا استناد کی دولت ہے.باقی رہا سیم موجود کے زمانہ میں چاند و سورج کے گرین کے دو نشان.

Page 281

۲۷۲ سو یہ نشان میں امام صدی کے لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے منیجر ہیں.لہذا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشان بدر ہمار لی ہوئے.کیونکہ ان سے استاد اور شاگرد دونوں کی صداقت ظاہر ہوتی ہے.بعزت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے.كَلَّ بَرَكَةٍ مِنْ هُ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم تمام بہ کنت ہو آپ کو حاصل ہے وہ محمد سلے اللہ علیہ وسلم سے ہے.پس انسل مرجع ان تمام نشانات کا در اصل آخرت مسلے اللہ علیہ وسلم ہیں.اورافضلیت النی کو حاصل ہے.حضرت سیه موعود اصیل اسلام سورج چاند گرہن کے ذکر والے شہر کے آگے بحریہ فرماتے ہیں:.والى ديرك المال مان محمد أما أنا لا اله الخير پس خلفائے اسلام اور مجتہدین عظام اور اولیاء کرام اور سیح موعود علیه اسلام کے ذریعہ تو کھو کھا نشانات اسلام و آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت میں ظاہر ہوئے حقیقت میں ان کو ابات و مجزات نور نشانات و فتوحات کا مرجع سرور کائنات حضرت محمد مصطلق الا اللہ میہ وسلم کی خوات یا بر کارت ہے.اور ان بزرگوں کے ہاتھ پر جو کچھ ظاہر ہوا.وہ آنحضرت لحظہ اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ظاہر ہوا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قیصر و کسریٹی کی سلط نہیں مفتوح نہیں ہوئی تھیں مگران کی اتے نبی در اصل آنضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اعجازی قوت کا اثر ہے.اس لئے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے تھیٹر کرنی

Page 282

٢٤٣ کے خزانوں کی چابیاں اپنے ہاتھ یں دیکھی تھیں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فتوحات کا آغاز ہوا لیکن خلفائے راشدین کے ذریعہ یہ خصوصیات کمال کو پہنچیں.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ خلفائے کرام آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے انسل تھے.کیونکہ انہیں جو کچھ ملا تھا.حضرت مصلے! علیہ وسلم کے طفیل سلا تھا.پس مسیح موعود کے زمانہ میں شمس و قمر کا کس وشنو خسوف بھی در اصل آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلمہ کے ہی نشانات ہیں.مفتی صاحب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر افضلیت کے دھونی کا الزام تراشنے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کر لینا چاہیئے.تھا.اگر وہ ایسا کرتے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یہ لکھا پا سکے میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے رہزار ہڑا نہ درود اور سلام اس پہ یہ کس عالی مرتبہ کا بنی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا ہے اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے.اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی.دہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی در پیر پر بنی نوع انسان کی ہمدردی ہیں اس کی جان گرانہ ہوئی.اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقعت تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین نینی نمیشی اور اس کی مرادی

Page 283

اس کی زندگی میں اس کو دیں.وہی ہے جو سرمشتبہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرارا نامہ اس کے کسی فضیلت کا دعوئی کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریت شیطان ہے.کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے اور جو اس کے ذریعہ نہیں پاتا وہ محروم از لی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فر نعمت ہوں گے.اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ہی ملی.اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں.اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میستر آیا اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم مستور رہ سکتے ہیں جب تک ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں.(حقیقۃ الوحی شا (114) ہ تو ہے آخری زمانہ کی تحریر.اب پڑھنٹے پہلے زمانہ کی ایک تحریر جو آنحضرت یٹے جو یہ صلے اللہ علیہ وسلم کی شان میں وارد آیت کر یہ دلی فَتَدَلَّى فَكَانَ قاب قوسی از آدمی کی تفسیر ہے ، یہ آیت در اصل آیت خاطر النبیین کی قرآنی تفسیر ہے، حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سب سے پہلے قاب قوسین کو ایک دائرہ قرار دے کر اس کا مرکزی نقطہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

Page 284

۲۷۵ بجز ایک نقطہ مرکز کے اور جس قدر نقا یا دتہ ہیں اُن میں دوسرے انبیاء و رسل و ارباب صدق و صفا بھی شریک ہیں.اور نقطہ مرکہ اس کمال کی صورت ہے جو صاحب و تریکو به سیدت جميع دور کر کے کمالات کے اعلیٰ وارفع واخص د ممتاز طور پر حاصل ہے جس میں حقیقی طور پر مخلوق میں کوئی اس کا شریک نہیں.ہاں اتباع و پیروی سے خلقی طور پر شریک ہو سکتا ہے.اب جانتا جچا ہیئے کہ در اصل اسی نقطه وسطی کا نام حقیقت محمدیہ ہے.جو اچھا را طور چہ جمیع حقائق عالم کا منبع وحاصل ہے.اور در حقیقت اسی ایک نقطہ سے خط و تر انبساط و امتداد پذیر ہوا ہے.اور اسی نقطہ کی روحانیت تمام خط وتر میں ایک ہوتیت ساریہ ہے جس کا نبض اقدیس اس سارے خط کو تعین بخش ہو گیا ہے عرض سرچشمہ رموز غیبی اور مفتاح کنوز لارہی اور انسان کامل دکھلانے کا آئینہ یہی نقطہ ہے اور تمام امرا یہ میداد و معاد کی ملت ٹائی اور ہر ایک زیر و بالا کی پیدائش کی نیت نہیں ہے جس کے تصویر بالکنہ و تصور بکنم سے تمام مقبول و افہام بشریت عاجز ہیں.اور جس طرح ہر ایک حیات خندہ اتنا لئے کی حیات سے متفائ اور ہر نیک وجود اس کے وجود سے ظہور پذیر اور سر ہر ایک تحسین اس کی تعین سے خلعت پوش ہے.ایسا ہی محمد در جمیع مراتب اکوان اور حفاریہ امکان میں باذنہ تعالے

Page 285

حب استعدادات مختلف وطبائع متفاوتہ موثر ہے.اسر مریم آریہ متا تا حثہ ایڈیشن جدید وخت تا ایڈیشن قدیم ) اس بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو ساری کائنات میں ایسا ارفع، بلند اور ممتاز مقام طور پر آپ کا کوئی شریک نہیں علیہ السلام کے نزدیک تمام انبیاء اور صدق و کا وجود حضرت کے صدفا رکھنے والے لوگوں بلکہ کائنات کے ذرہ ذرہ میں باز نہ بطور علت فائی کیا ہے جس میں کرار کے جد استعدادات مختلفہ و متفاوتہ موڑ ہے.ہے ہے خانم انیسین کی آیت کی قرآن مجید کی روشنی میں تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں جس سے ظاہر ہے کہ قر آن مجید میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو ایسا ارفع اور بلند اور ممتاز مقام دیا گیا ہے جو حقیقی لحاظ سے مخلوق میں سے کسی کو حاصل نہیں.پس جس شخص کے نزدیک آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی یہ امتیازی شان ہو اس کی نسبت یہ کہنا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہونے کا دعوی کرتا ہے بستان عظیم اور افتراء اور انصاف کا خون نہیں تو اور کیا ہے؟ مطمن صاحب الزام تراشی کے لئے ڈیل کا شعر بھی پیش کرتے ہیں ہم قاضی اکمل صاحبت کا ہے محمد پھر اُتر آتے ہیں ہم ہیں دہ آگے سے ہیں.بڑھ کر اپنی شان ہیں

Page 286

۲۷۷ اس شعر میں اکمل صاحب کی مراد در اصل محمد سے اطلال محمد یعینی مجددین امت محمدیہ ہیں.ان مجددین میں سے وہ مسیح موعود کو شاہ محمدیت میں بڑھکرہ قرار دیتے ہیں.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام خود فرماتے ہیں.بوز ترگمان و ہ ہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے اس لئے جماعت احمدیہ کا عقب وہ یہی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شان انسان کے وہم دونگان سے بھی بالا ہے.اور مسیح موعود علیہ السلام آپ کے ایک خادم اور غلام کی حیثیت رکھتے ہیں.اکمل صاحب کے شعر سے چونکہ وہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی جو مفتی صاحب نے پیدا کرنا چاہتی ہے.اس لئے اگست ۱۹۳۴ء کو میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں یہ شعر میں کیا.چونکہ بظاہر یہ شعر بے ادبی پرشتمل نظر آتا تھا.اس لئے حضور نے اسے ناپسند کیا اور بے ادبی قرار دیا.ملاحظہ ہو الفضل ۱۹ اگست ۱۹۳۲ء.اس کے بعد مفتی صاحب نے نزول مسیح منہ کا حوالہ دے کہ ذیل کی عبارت بھی پیش کی ہے :- محمد میں اور تمہارے میں بڑا فرق ہے کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے " رختم نبوت کامل نیا ایڈیشن من) ختم نبوت کامل کے نئے ایڈیشن سے پہلے ایڈیشن کے مسہ میں اس عبارت کا پہلا فقرہ یوں درج ہے :-

Page 287

Pen د محمد میں اور تمہارے بڑا فرق ہے.مفتی صاحب نے اس کے لئے حوالہ مودودی صاحب کے بیان کا دیا ہے.مگر یہ عبارت سراسر افتراء ہے.یہ عبارت نزول مسیح (قصیدہ احجازیہ ) کے ملالہ پر موجود نہیں البتہ مثلہ پر ایک شعر یوں درج ہے:.وشتان ما بینی بین حسینكم or فاني او بيد كل آن وانصر یہ ہے کہ مجھ میں اور تمہارے حسین میں بہت فرق ہے.کیونکہ ترجمہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید ا در مدد مل رہی ہے.محنتی مصاحبہ نے یا مودودی صاحب نے مجھے" کے لفظ کو محمد بنا دیا ہے.اور تمہارے کو ہمارے بنا دیا ہے اور حسین " کا لفظ درمیان سے حذف کر دیا ہے.اور عبارت میں تحریف و نصرت کر کے وہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر معترض ہیں کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے افضل ہونے کا دعوی کر دیا ہے.انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - کیا اس تحقیق پر فتی صاحب کو فخر ہے.مفتی صاحب نے یہ بہتان بھی باندھا ہے کہ حضر تو بین حدیث کا الزام ان اسکا احمدیہ نے حدیث نبوی کی توہین کی ہے بانی سلسلہ اس سلسلہ میں وہ ڈیل کی عبارت میں کرتے ہیں:.ہم اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ میرے اس خوشی کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وحی ہے جو میرے

Page 288

۲۷۹ پر نازل ہوئی.ہاں تائیدی طور پیم وہ حدیثیں بھی نہیں کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری صدیوں کو ہم روسی کی طرح پھینک دیتے ہیں.د اعجاز احمدی ۳ و ۳۱ وصل ۲ و تحفہ گولڑو یہ مت راقت محمدیہ میں جو شخص خدا تعالے کی طرف سے اصلاح خلق کے الجواب است تمدید یا اس کے دعوی کی بنیاد قرآن مجید اور اپنی وحی ہیں ہونی چاہیئے.اور اپنے دعوی کے متعلق وہ انہیں حدیثوں کو قبول کر لکھتا ہے جو قرآن مجید کی وحی کے مطابق اس کے دھوئی کی مؤید ہوں اور جو حدیثیں قرآن دوھی کی موتیا نہ ہوں بلکہ مخالف ہوں انہیں وہ احادیث صحیحہ نبویہ قرابه نہیں دے سکتا.انہیں وہ مردود ہی قرار دے سکتا ہے.احادیث کا علم ظنی ہے جیسا کہ اصول حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے حدیث دلیل سے یقین کا مرتبہ حاصل کرتی ہے.چنانچہ حدیث کی بہت سی اقسام ہیں.حدیث کی ایک تقسیم مقبول اور مردود بھی کی گئی ہے.اس تقسیم سے احادیث نبویہ کی تو ہیں نہیں ہوتی.بلکہ جو عدشیں مردود قرار پاتی ہیں وہ آنحضرت مسلے اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہی نہیں کبھی جدا ہیں موضوع احادیث کا یہی حال ہے جو ہزاروں کی تعداد میں مذکور ہوتیں.لہذا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے اس قول میں احادیث صحیحہ نبویہ کی کوئی تو ہیں نہیں کی گئی.توہین کا الزام مفتی صاحب کا بستان اور افتراء ہے حضور خود اعجاز احمدی مت پر تحریر فرماتے ہیں :-

Page 289

۲۸۰ ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام حدیشیوں کو ردی کی طرح پھینک دو بینکہ یہ کہتے ہیں کہ ان میں سے وہ قبول کرو جو قرآن کے منافی ادعائیں نہ ہوں تا ہلاک نہ ہو جاؤ.کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ میلے کی عمر دو سبزار پرس یا تین ہزار برس ہو گی.ملکہ ایک سو بیس برس کی عمر لکھی ہے.اب تبلا گیا ایک سو میں پریس اب تک ختم ہوئے یا نہیں.پھر اس پر لکھتے ہیں : پھر وہ حکم کا لفظ بروسیح موعود کی نسبت صحیح بخاری میں آیا ہے اس کے ذرا معنی تو کریں.ہم تو اب تک میں سمجھتے تھے کہ محکم اس کو کہتے ہیں کہ اختلاف رفع کرنے کے لئے اس کا حکم قبول کیا جائے اور اس کا فیصلہ گو وہ ہزار حدیث کو بھی موضوع قرار د سے ناطق سمجھا جائے......جس شخص کو خدا نے کشف اور انعام عطا کیا اور بڑے بڑے نشان اس کے ہاتھ پر ظاہر فرمائے اور قرآن کے مطابق ایک راہ اس کو دکھلا دی تو پھڑے بعضی طی حدیثوں کے لئے اس روشن اور یقینی راہ کو کیوں چھوڑیگا کیا اس پر واجب نہیں ہے کہ جو کچھ خدا نے اس کو دیا ہے اس پر عمل کرنے اور اگر خدا کی پاک وحی سے حدیثیوں کا کوئی مضمون مخالف ہاد سے اور اپنی دھی کو قرآن سے مطابق یاد ہے.او بعض حدیثوں کو بھی اس کی موید دیکھے تو ایسی حدیثوں کو چھوڑ دے

Page 290

اور ان حدیثوں کو قبول کرے جو قرآن کے مطابق ہیں اور اس کی وحی کی مخالفت نہیں.اس محولہ انقیاس کے آگے وہ عبارت ہے جسے مفتی صا دئیے ہوا لہ اعجاز احمد یتی ہے پیش کیا ہے اب اسے اس عبارت سے ملا کر پڑھیں تو اس میں کوئی بات نہیں نہیں جو احادیث صحیحہ نبویہ کی توہین پشتمل ہو.پھر تحریر فرماتے ہیں:.یہ کمال درجہ کی بے نصیبی اور بھاری غلطی ہے کہ مکلفت تمام حدثون کو ساقط الاعتبار سمجھ لیں......یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح بن مریم کے آنے کی پیشگوئی ایک اول درجہ کی پیش گوئی ہے جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے.( از امداد ام عبد ال احادیث نبویہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام احادیث بار میں کا اصولی بیان جس کی جماعت کو تلقین کرتے ہیں ہے، کہ.اصولی بیان تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے کیونکہ بہت سے اسلام کے تاریخی اور اخلاقی اور فقہ کے امور کو مد یہیں کھونکر بیان کرتی ہیں.نیز بڑا فائدہ حدیث کا یہ ہے کہ وہ قرآن کی خادم اور سنت کی خادم ہے........سنت اس عملی نمونہ کا نام ہے جو ایک مسلمانوں کی عملی حالت میں ابتداء سے چلا آیا ہے جس پر ہزار ہا مسلمانوں کو لگایا گیا.ہاں حدیث بھی اگرچہ اکثر حصہ اس کا طن کے مرتبہ پر ہے مگر بشرط عدم تعارض قرآن و

Page 291

اور ان حدیثوں کو قبول کرے جو قرآن کے مطابق ہیں اور اس کی وحی کی مخالفت نہیں.اس محولہ انقیاس کے آگے وہ عبارت ہے جسے مفتی صا دئیے ہوا لہ اعجاز احمد یتی ہے پیش کیا ہے اب اسے اس عبارت سے ملا کر پڑھیں تو اس میں کوئی بات نہیں نہیں جو احادیث صحیحہ نبویہ کی توہین پشتمل ہو.پھر تحریر فرماتے ہیں:.یہ کمال درجہ کی بے نصیبی اور بھاری غلطی ہے کہ مکلفت تمام حدثون کو ساقط الاعتبار سمجھ لیں......یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح بن مریم کے آنے کی پیشگوئی ایک اول درجہ کی پیش گوئی ہے جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے.( از امداد ام عبد ال احادیث نبویہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام احادیث بار میں کا اصولی بیان جس کی جماعت کو تلقین کرتے ہیں ہے، کہ.اصولی بیان تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے کیونکہ بہت سے اسلام کے تاریخی اور اخلاقی اور فقہ کے امور کو مد یہیں کھونکر بیان کرتی ہیں.نیز بڑا فائدہ حدیث کا یہ ہے کہ وہ قرآن کی خادم اور سنت کی خادم ہے........سنت اس عملی نمونہ کا نام ہے جو ایک مسلمانوں کی عملی حالت میں ابتداء سے چلا آیا ہے جس پر ہزار ہا مسلمانوں کو لگایا گیا.ہاں حدیث بھی اگرچہ اکثر حصہ اس کا طن کے مرتبہ پر ہے مگر بشرط عدم تعارض قرآن و

Page 292

PAY سنت تک کے لائق ہے.اور موید قرآن وسنت ہے.اور بہت سے اسلامی مسائل کا ذخیرہ اس کے اندر موجود ہے.پس حدیث کا قدر نہ کرنا گویا ایک عضو اسلام کا کاٹ دینا ہے.ہاں اگر ایک ایسی حدیث جو قرآن وسنت کے نقیض ہو.اور نیز ایسی حدیث کی تقسیم ہو جو قرآن کے مطابق ہے.یا مثلا ایک ایسی حدیث ہو جو صحیح بخاری کے مخالفت ہے تو وہ حدیث قبول کے لائق نہیں ہوگی.کیونکہ اس کے قبول کرنے سے قرآن کو اوران تمام احادیث کو جو قرآن کے موافق ہیں رو کرنا پڑتا ہے.اور یں جانتا ہوں کہ کوئی پر سہیز گار اس پر جرات نہیں کرے گا.کہ ایسی حدیث پر عقیدہ رکھے کہ وہ قرآن اور سنت کے برخلاف اور ایسی حدیثیوں کے مخالف ہے.جو قرآن کے مطابق ہیں.ہر حال احادیث کا قدر کرو.اور ان سے فائدہ اٹھائے کہ وہ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں.اور جب تک قرآن اور سنت ان کی تکذیب نہ کرے تم بھی ان کی تکذیب نہ کرو.بلکہ چاہیئے کہ احادیث نبویہ پر ایسے کاربند ہو کہ کوئی حرکت نہ کرتہ اور نہ سکون اور نہ کوئی فعل کرو اور نہ ترک فعل مگر اس کی تائید میں تمہارے پاس کوئی حدیث ہو.لیکن اگر کوئی ایسی حدیث ہو جو قرآن شریف کے بیان کردہ قصص سے صریح مخالف ہے تو اس کی تطبیق کے لئے فکر کرو.شاید

Page 293

٢٨٣ وه تعارض تومان ارسی غلطی ہوادر اگر کسی طرح وہ تعارض دُور نہ ہو.تو ایسی حدیث کو پھینک دو.کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نہیں ہے اور اگر کوئی حدیث ضعیف ہے مگر قرآن " سے مطابقت رکھتی ہے تو اس حدیث کو قبول کر لو.کیونکہ قرآن اس کا مصدق ہے.اور اگر کوئی ایسی حدیث ہے جو کسی پیشنگوئی پرمشتمل ہے.مگر محدثین کے نزدیک وہ ضعیت ہے.اور تمہارے زمانہ میں اپہلے اس سے اس حدیث کی پیش گوئی سچی نکلی ہے تو اس حدیث کو سمی سمجھو اور ایسے محمدتوں اور رادیوں کو مخفی اور کاذب خیال کرو جنہوں نے اس حدیث کو ضعیف اور موضوع قرار دیا ہو (کشتی نوح من (۵۸) احادیث نبویہ کی قدر عظمت اور تائید کے بارہ میں اس سے بہتر بیان کیا ہوتا ہے.پس مفتی صاحب کا یہ بہتان ہے کہ آپ نے احادیث کی توہین کی ہے.مفتی صاحب کا یہ اعتراض عالمانہ نہیں محض طفلانہ ہے.گالیوں کا الزام کا الزام قائم کرنے کے لئے جناب مفتی جی سینے گالیوں کا الزام صاحب کے بیان جنگ پیش کی ہیں.جنہیں مفتی صاحب نے اصل کتابوں سے دیکھے بغیر تحقیق کا فرض نوادا کرتے ہوئے مودودی صاحب کے بیان پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں درج کر دیا ہے الی بین عبارت پہلی عبارت یہ ہے :- سل مسلمانوں نے مجھے قبول کر لیا ہے.اور میری دعوت کی تصدیق

Page 294

کرلی ہے مگر کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا یہ یہ ر آئینہ کمالات اسلام جنگ و بیان مودودی جنگه واضح ہو کہ آئینہ کمالات اسلام صدات پر جو عربی عبارت درج ہے مردودی صاحب نے اس کا صحیح ترجمہ درج نہیں کیا.اس کے الفاظ یہ ہیں :.سال مسلم....يقبلني وتصدي دعوتى الا ذرية البغايا الذين ختم الله على قلوبهم " کہ ہر مسلمان مجھے قبول کرے گا اور میری دعوت و دعوت اسلام کی تصدیق کرے گا بجز رشد و ہدایت سے دور اور سرکش لوگوں کے جن کے دلوں پر اللہ نے مہر کر دی ہے.یہ عبارت آریوں اور عیسائیوں کے مقابل نے اس بعبارت میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ وہ زمانہ آرہا ہے کہ جب سب سلمان مجھے قبول کر لیں گے اور میری دعوت اسلام کے مصدق ہوں گے اور اس وقت اریوں اور عیسائیوں سے بھی صرف سرکش لوگ جن کے دلوں پر مہر کر دی گئی سے ہے مجھے قبول نہیں کریں گے.زمونۃ البغایا کے معنی کنجریوں کی اولاد نہیں اور باد کاروں کی اولاد کے ہیں بعد اس میں جو عربی لغت کی مشہور کتاب ہے اللہ ہے : البغية في الولد نقيض الرشد يقال هوابي بغية.یعنی البغیہ کا لفظ اولاد کے تعلق میں رشد یعنی سمجھے و ہدایت کی نقیض ہے

Page 295

۲۸۵ انی معنوں میں اپنی بخت کیا جاتا ہے.پس اس جگہ کنجریوں کی اولاد تر جم کرنا محض مودودی صاحب کی زیادتی ہے اور بدکاروں کی اولاد ترجمہ میں لکھنا تلبیس در تبلیس ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک سرکش کو اپنے ایک عربی شعر میں ابن بجا لکھ سکہ اس کا ترجمہ اسے سرکش انسان کیا ہے.ملاحظہ ہو اختبار الحکم جلد کے بابت ۲۴ فروری سنشاه صفحه ۲ کالم ۲ - اس امر کا ثبوت کہ یہ الفاظ سرکش آریوں اور نیسائیوں کے لئے استعمال ہوئے ہیں.یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں میں شامل کیا ہے چنانچہ آپ نظریہ فرماتے ہیں :- بر مولوی لوگ اپنے نفسا نی جھگڑوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور دعوتی اسلام کی نہ لیاقت رکھتے ہیں نہ اس کا کچھ جوسش نہ اس کی کچھ پرواہ.اگر ان سے کچھ ہو سکتا ہے تو صرف اسی قدر کہ اپنی ہی قوم اور اپنے ہی بھائیوں اور اپنے جیسے مسلمانوں اور اپنے جیسے کلمہ گویوں اور اپنے جیسے اہل قبلہ ریعنی بانی سلسلہ احمد ہے اور آپ کی جماعت - ناقل) کو کافر قرالہ دیں.اقبال کہیں اور بے ایمان نام رکھیں اور تنولی لکھیں کہ ان سے ملنا جیسا بند نہیں اور ان کا جنازہ پڑھنا روا نہیں.آئینہ کمالات اسلام ۲۶۵ ۲۶۶ حاشیه)

Page 296

٢٨٦ مفتی صاحب مودودی صاحب کے بیان کے صلے سے نجم الدہ کی حفا کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں :.بلاشبہ ہمارے دشمن بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں گنتیوں سے بھی بڑھ گئیں.چونکہ یہ ایک عربی شعر کا ترجمہ ہے اور مفتی صاحب نے اصل کتاب کو نہیں دیکھا اس لئے انہوں نے مودودی صاحب کے بیان پر اعتماد کر لیا کہ اس شعر کا تعلق مسلمانوں سے ہے.ہم پر زور الفاظ میں اس خیال کی تردید ہتے ہیں.کیونکہ اس شعر سے اگلا شعر اس خیال کی تردید کہ رہا ہے.یہ دونوں شعر اس طرح ہیں :- اِنَّ العِدَى صَارُهُ اخَنَا دِيرَ الْفَلَا ونِسَاءهُمْ مِنْ دُونِهِنَّ الأكلب سَبُوا وَمَا اذرِى لِاَتِ جَرِيمَةٍ سَبُوا أَنعصي الحِب أَو نَتَجنَّب یہ شعر ان عیسائی مناد مردوں اور عورتوں سے متعلق ہیں جو اسلام دشمنی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے تھے اور آپ پر گند اچھالتے تھے اور ناپاک ملے گرتے تھے.ان دشمنان اسلام کے متعلق ان نظروں میں کہا گیا ہے کہ دشمن جنگل کے خنزیر بن گئے ہیں اور ان کی عورتیں کیتیوں سے میں بڑھ گئی ہیں.یعنی بکواس کرنے میں اور گند اچھالتے ہیں، انہوں نے گالیا دی ہیں.اور ہم نہیں جانتے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے کس جرم کی

Page 297

بنار پر گالیاں دی ہیں.انہوں نے گالیاں تو دی ہیں لیکن کیا ہم اس کی وجہ سے اپنے محبوب حضرت محمد مصطلے سلے اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کریں گے اور ان سے کنارہ کش ہو جائیں گے ؟ یعنی ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا ، پس ان شعروں کا تعلق تو مسلمانوں سے ہرگز نہیں.ہاں مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے آپ کے خلات عناد کی راہ سے گندا چھالا ہے ان کے خلفات آپ نے مظلوم ہونے کے بعد سخت الفاظ میں بعض تلخ حقائق کا انک است کیا ہے.اور مامورین اس کے لئے عبد الله معذور ہوتے ہیں.اور بعض اوقات انہیں جزاء سيئة سيئة مثلما کے ماتحت میں حقائق کو تلخ الفاظ میں بیان کرنا پڑتا ہے.مگر ان کے یہ الفاظ صرف معاندین کے متعلق ہوتے ہیں اور مشر قائد اس سے مستنی ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے صاف طور پر اپنی کتاب مجتہ النور میں تحریر فرمایا ہے کہ ہم علماء کی بہتناک اور شر خار کی خدمت سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں.خواہ وہ مسلمانوں میں سے ہوں یا آریہ یا عیسائیوں میں سے (ص) قرآن کریم کو بھی بعض معاند بود مشرکین کے متعلق سخت الفاظ استعمال کرنا پڑے ہیں.چنانچہ ایک آیت کریمہ میں وارد ہے إن الذينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ والمشركين في نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُولَيكَ هُم شر البرية (سورة البين) کہ بے شک جن لوگوں نے اہل کتاب میں سے اور مشرکین میں سے انکار کیا ہے

Page 298

YAA وہ جہنم کی آگ میں پڑنے والے ہیں.اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ لوگ مخلوق میں سے بہترین لوگ ہیں.اور بیورو کے متعلق جَعَل مِنْهُمُ القردة والخنازير و عَبْدَ الطَّالوت (المائدہ آیت ۶۱ ) کے الفاظ بھی وارد ہیں.کہ انہیں پندر اور سور بنا دیا ہے اور وہ شیطان کے پجاری ہیں اور ان کے متعلق یہ بھی کہا ہے:..مَثَلُ الذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يُنيلُ اسْفَارًا (جمعه) کہ ان لوگوں کی مثال جو حاملین تو رات تھے مگر اس پر عامل نہیں مینی بود گدھے کی مثال ہیں جوں پر کتابیں لدی ہوئی ہوں.یہودیوں کے لئے سور - بندر اور گدھے کے الفاظ مجازا ان کی معائداً حالت کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوئے ہیں.خواہ وہ اس سے خوش نہ ہوں.مگر مجازی طور پر سخت الفافا کا استعمال کرنا مامورین کے لئے بعض حالات میں ناگزیر ہو جاتا ہے.چونکہ معیض مسلمانوں نے از راجہ عناد حضرت مسیح موظو و علیہ السلام کو گالیاں دیں اور اپنے انتہائی عناد کا عیسائیوں اور یہود کی طرح اظہار کیا.اس لئے قرآن و حدیت کی پیش گوئیوں کے مطابق آپ کو ایسے لوگوں کے لئے مشرکی.عیسائی اور یہود کے الفاظ استعمال کرنا پڑے.اور ایک معاند شخص کے متعلق جو آپ کے خلاف عیسائیوں کی تائید میں کمربستہ تھا.اور آپ کی پیشگوئی کو مبینہ نے میں عیسائیوں کی مدد کر رہا تھا ولد الحرام لینے کا

Page 299

۲۸۹ شوق رکھنے والا قرار دیا.ان الفاظ سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا.کہ وہ اسلام کا فرزند نہیں.اس کے نسب پر کوئی طعن مقصود نہ تھا.اسی مضمون میں مفتی صاحب نے بعض عبارتیں میں تکفیر اسلمین کا الزام بات کے ثبوت میں پیش کی ہیں کہ حضرت پائی اللہ احمدیہ اور خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی تکفیر کی ہے.اس کے جواب میں واضح ہو کہ تکفیر کی ابتداء حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ کی طرف سے نہیں ہوئی.بلکہ تکفیریں ابتداء آپ کے مخالف علماء نے کی ہے اور ان کے مقابلہ میں رد عمل کے طور پر موجب حدیث نبوی ايما رَجُلٍ مُسَامٍ أَكْفَرَ رَجُلًا مُسْلِمًا فَإِنْ كَانَ كَافِرًا وَإِلَّا كَانَ هُوَ الْكَافِرُ.(ابو داؤد جلد مل کتاب السنة باب آپ الدليل على الزيادة والنقصان وكنز العمال جلد مثلا ) جدا وسنة سنة مثلما کے مطابق کفر کا فتونی ان پر داس لوٹایا.اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان کو کافر قرا نہ دے اگر وہ کا فر ہے تو خیر درنہ وہ خود کا فر ہو جائے گا.تاہم حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کے خلفاء نے تکفیر میں نہیں تشدد کی راہ اختیار نہیں کی جو معاند علماء اسلام نے آپ کے تسلامت اختیار کی تھی.معاندین نے تو آپ کو مرند - زندیق - ضال مضل.وقال وسواس شناس بھی قرار دیار ملاحظہ ہو نتونی مولوی عبدالحق غزنوی شاد مطبوعہ رسالہ اشاعه السنته ملدا ما)

Page 300

٢٩٠ اتنا حالات میں اگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ بھی ان لوگوں کے متعلق صرف یہ کہیں کہ وہ کا فرمی تو تموجب حدیث نبوی یہ امر قابل اعتراض نہیں کیونکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسلمان ہیں اور ارکان اسلام کے پابند ہیں اور اسلام کے اوامر کو اوامر اور منہیات کو منہیات سمجھ کر ان پر عامل ہیں.اور اسی امر کی آپ نے اپنی جماعت کو ہدایت فرمائی ہے.لیکن اس کے با وجود معاند علماء مئے آپ کے خلاف نہ صرف کنار کا ننوسی و یا بلکہ آپ کو مرتد اور زندیق تک قرار دیا.مگر آپ کے ماننے والوں نے کبھی غیر احمدی مسلمانوں کو مرتد اور زندیق قرار نہیں دیا.اور نہ غیر مسلم ٹھہرایا ہے.آپ کے فتوی میں مسلمان نہ ہونے کے الفاظ نفی کمال کے لئے آتے ہیں یعنی ان سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ وہ کا مال مسلمان نہیں نہ یہ کہ وہ مرے سے مسلمان ہی نہیں.چنانچہ آپ کا ایک الهام مسلمان را مسلمان باز گردند اس بات پر نقص صریح ہے کہ آپ نے اپنے مخالفین و معاندین کے کامل الامیان ہونے کی نفی کی ہے.نہ علی الاطلاق البیان و اسلام کی نفی.مفتی صاحب نے خود لکھا ہے کہ حضرت بانی اسلسلہ احمدیہ کے نزدیک کفر کی دو قسمیں ہیں.اول یہ کفر کہ ایک شخص اسلام ہی سے انکار کرتا ہے.اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا.دو تھم.دوسرے یہ کفر کہ مسلم مسیح موجود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام محبت کے جہڑا جاتا ہے جس کو ماننے اور سنیچا

Page 301

۲۹۱ جاننے کی خدا اور اس کے رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نہیں کی کتابوں میں اس کی تاکید ہے.پس اس لئے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کے فرمان کا منکر ہے.وہ کافر ہے نا رحقیقة الوحی منکا ختم نبوت کامل کلاس ( ۳۵ ) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ پہلی قسم کا کفر ہی اگر کوئی مسلمان اختیار کیسے تو مرتد اور غیر مسلم قرار پاتا ہے.لیکن دوسری قسم کا کفر جو بیان ہوا ہے اس سے کوئی مسلمان مرتد اور غیر مسلم قرار نہیں پاتا.پس دوسری قسم کا کفر اختیار کرنے سے کوئی شخص محبت اسلام سے خارج نہیں ہو جاتا.اگر ایسے شخص کے لئے خارج از اسلام کے الفاظ استوان بھی کئے جائیں تو وہ تغلیظ ہوں گے نہ کہ ملت اسلام سے خارج اور غیر مسلم اور مرتد ہو جانے کے معنوں میں.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.مَنْ مَشَى مَعْ ظَالِمٍ لِيُنَوِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ إِنَّهُ ظالم فقد خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَام (مشكوة ) یعنی جو کہ مفتی صاحب نے اپنی کتاب ختم نبوت کا مل کے منہ کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ :.حقیقۃ الوحی کی عبادت ملک اور تریاق القلوب کی عبارت فصل کا مجموعہ آپ کی تشریعی نبوت کا حیات شاہد ہے.ہمارے اس بیان سے ان کے اس شعبہ کا ازالہ بھی ہو جانا چاہیے.کیونکہ تریاق القلوب میں حضور نے کھا ہے کہ کافر قرار دینا ان نبیوں کا کام ہے جو احکام جدیدہ لہ نے والے

Page 302

۲۹۲ شخص ظالم کے ساتھ اسے قوت دینے کے لئے اسے ظالم جانتا ہوا چل پڑا تو وہ اسلام سے نکل گیا.مراد یہ ہے کہ اس کا یہ فعل نہایت گھناؤنا ہے.اور ایسے شخص نے حقیقت اسلام کو نہیں سمجھا ت یا شد واضح جو تکفیر المسلمین ایک بہت بڑا جرم ہے جس کا از تکاب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کی جماعت کے خلاف بعض معاندین علماء نے کیا.حالانکہ فقہ اسلامی کی رو سے انہیں تکفیر کا حق نہیں پہنچتا تھا.کیونکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : 10 من صلى صلوتنَا وَاسْتَقَبل قِبْلَتَنَادَ اكل ذبِيحتَنَا فَذلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةٌ القوة وقة تسويه للا اتخيرُوا الله في وتيه درواہ البخاری - مشکوۃ المصابيح كتاب الايمان الفصل الاول كلب) یہ روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے.انہوں نے کہا کہ رسول کریم بقیه حاشیه : - صاحب شریعت ہوں، اور آپ نے مسیح موعود کے انکار کو شرعیت محمد یہ سکے دو سے لاونا کفر قرار دیا ہے نہ کہ اپنی کسی شریعیت کے روتے.لہذا آپ کی طرف تشریعی نبوت کا دعوی منسوب کرنا محض افتراء ہے.آپ نے ہمیشہ تشریعی نبی ہونے کے دعوی سے انکار کیا ہے.مفتی صاحب حضرت مسیح موبور علیہ السلام کی کسی کتاب سے یہ نہیں دکھا سکتے کہ آپ نے یہ کہا ہو کہ ایک تشریعی نبی ہوں.میں نے ایسا دیکھا پر مفتی صاحب کو ایک ہزار روپیہ انعام دینے کا وعدہ کیا ہے.منہ

Page 303

۲۹۳ صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جو شخص ہماری نماز پڑھے اور ہمارے قبیلہ کی طرف منہ کر کے نما نہ پڑھے اور ہمارا ذبیحہ کھالے تو وہ مسلمان ہے.جس کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول پر ہے.پس تم لوگ اللہ کے خوب کی خلاف ورزی نہ کرنا.پس یہ امر سخت قابل افسوس ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری کو منظر علماء نے حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ اور آپ کی جماعت کو کا فرادر غیر مسلم قرار دے کہ توڑا ہے.اور ایک نئی شریعیت بنانے کی کوشش کی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :- ثَلاثَ مِنْ أَصْلِ الْأَيْمَانِ الْكَتْ عَمَّن قَالَ لا إله إلا الله لا نكرة بكلب ولا تخرجه مِنَ الاسلام (الحمد اللہ البالغہ جلد م م 1 ) اس حدیث میں ہدایت کی گئی ہے کہ جو شخص کلمہ لا اله إلا الله کہیے اس کو دکھ دینے سے رک جانا چاہیئے.اس کی کسی گناہ کی وجہ سے تکفیر نہیں کرنی چاہیئے.اور اسے اسلام سے خارج نہیں قرار دینا چاہیئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کی جماعت کلمہ لا إله إلا الله محمد رسول اللہ کی دل سے قائل اور ارکان اسلام کی پاسین ہے لیکن معاند علماء نے آپ کو کا فر قرار دینے میں ظلم کی راہ اختیار کی ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ صاف لکھتے ہیں : امنْتُ بِاللهِ وَمَلَكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسلام

Page 304

۲۹۴ وَالْبَعْثِ بَعْدَ المَوْتِ وَ أَمَنْتُ بِكِتاب الله العظيمِ القُرآنِ الكَرِيمِ وَاتَّبَعْتُ السل رُسُلِ اللهِ وَعالَمَ انْبِيَاءِ اللَّهِ محمدا الْمُصْعَلَى وَانَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ...- وَاشْهَدُ أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له و اشهد ان محمدا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رَبِّ اخينِي مُسْلِمًا وَتَوَفَّنِي مُسْلِها وَاحْتُرني في عبادك المُسْلِمِينَ أَنتَ تَعْلَمُ مَا فِي الفن ولا ينكه غيرُكَ وَانْتَ خَيْرُ الشَّاهِدِينَ رت تبلیغ رسالت الجزء الثاني ملت ) ترجمہ: میں ایمان لایا اللہ پر اس کے فرشتوں اس کی کتابوں اس کے رسولوں اور بعث بعد الموت پر اور میں ایمان لایا ہوں اللہ عظیم کی کتاب قرآن کریم پر اور میں نے اتباع کیا ہے تمام رسولوں میں سے افضل اور خاتم الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا.اور میں مسلمانوں میں سے ہوں.اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا جو یگانہ ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور کوئی عبادت کے لائق نہیں.اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلے اللہ علیہ وسلم اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے.اے رب ! مجھے مسلمان کی حالت میں زندہ رکھیوا در مسلمان کی حالت میں وفات دیجیو.

Page 305

۲۹۵ اور اپنے مسلمان بندوں میں میرا حشر کیجیو.جو کچھ میرے نفس میں ہے تو جانتا ہے اور تیرے سوا اور کوئی نہیں جانتا.اور تو بہتر گواہوں میں سے ہے.مفتی محمد شفیع صاحب کا یہ مشکوہ بیجا ہے کہ حضرت بائی سلسلہ احمدیہ یا آپ کے کسی خلیفہ نے مسلمانوں کی تکفیر کی ہے.جن عبارتوں کے متعلق انہیں شکایت ہے وہ صرف علمی علماء کے فتاوی کا رد عمل ہیں.جناب مفتی صاحب کے نزدیک حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ مفتی صاحب کی اصطلاح کے مطابق مدعی نبوت ہی نہیں.جیسا کہ انہوں نے تحریر فرمایا ہے :- مرزا صاحب نے میں کا نام غیر تشریعی رکھا ہے وہ نبوت کی کوئی قسم نہیں کہ ختم نبوت کامل مش حاشیه پس جب مفتی صاحب کے نزدیک ان کی مسلمہ نبوت کی اصطلاح میں دعوئی نبوت ہی موجود نہیں تو وہ علماء امت پر احسان کریں گے کہ ان میں تحریک کریں کہ احمدیوں پر سے فتوی کفر واپس لے لیا جائے.جناب مفتی صاحب حنفی المذہب ہیں اور احتیات کا یہ فتوٹی ہے کہ کوئی شخص ایمان سے نہیں نکل سکتا.جب تک کہ وہ اس چیز کا انکار نہ کرے جس نے اسے اسلام میں داخل کیا ہے.چنانچہ کتاب معين الحمام لمؤلفه الشيخ انا نام علا والدين الامام بن ابى احسن على بن خليل الطرابلسی الحنفی قاضی القدس الشریف نے اپنی کتاب مطبوعہ مصر کے منہ پر لکھا ہے :- روى الطَّعَادِي عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَاصْحَابَنَا لا يخرج الرحيل من الإِيمَانِ إِلَّا مُحُودُ مَا أَدْخَلَهُ فِيْهِ.

Page 306

۲۹۶ ترجم را امام طحاوی اور بہار سے اصحاب نے امام ابو حنیفہ سے روایت - کی ہے کہ کسی آدمی کو ایمان سے صرف اس چیز کا انکار ہی خارج کر سکتا ہے جس نے اسے اسلام میں داخل کیا تھا.ہے واضح ہو کہ اسلام میں داخل کرنیوالا امر کلا شهادت اشهد ان لا إله إلا الله وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّد عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ہی ہے.جس کا خلاصہ کلمہ طیبہ لا إله إلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ہے.اسی کلمہ کے پڑھنے سے ایک غیر مسلم مثلاً یہودی.عیسائی یا ہندو اسلام میں داخل ہو جاتا ہے.لہذا امام ابو حنیفہ کے فتوئی کے مطابق اس کلمہ کے اقرار کے بعد اس کے صریح انکار سے ہی کوئی شخص کا فر یعنی خیر سلم یا مرند یا خارج از ملت اسلامیہ قرار پا سکتا ہے.ہیں جب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کی جماعت کلمہ شہادت اور کلمہ طیبہ پر نہ صرف صدق دل سے ایمان رکھتی ہے بلکہ تمام ارکان اسلام کی پابند ہے جو کلمہ شہادت کے علاوہ نمازہ روزہ بیج اور ترکو تاہیں تو علماء کی طرف سے آپ کی اور آپ کی جماعت کی تکفیر ظلم عظیم ہے.اور انصاف کا خون کرنے کے مترادت ہے.فقہ حنفیہ میں کے ماننے والے پاکستان میں سب سے زیادہ ہیں.تو ایسی محتاط فقہ ہے کہ اس میں یہ بھی مسلم ہے:.رد كانت في المسلة وجوية توجب التكفير روبه وَاحِدٌ يَعْلَمُ فَعَلَى الْمُفْنِى ان يميل

Page 307

۲۹۷ إلى ذالك الوجه - انسان احکام بر حاشیه معین الحکام ۲۳۹ موتلفه الشيخ الانام الی الولید ابراہیم الحنفی علیہ الرحمت ) ترجمہ وہ جب ایک مسئلہ میں کئی ایک وجوہ کفر کی ہوں اور ایک وجہ اسلام کی بھی ہو جو مانع کفر ہے تو مفتی کا میلان اس اسلام کی دوہ کی طرف ہو رہا ہے.ردیعنی اسے کفر کا فتوئی نہیں دینا چاہئیے؟ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ میں تمام وجوہات اسلامہ موجود ہیں اور کوئی وجہ کفر موجود نہیں اور یہی حال آپ کی جماعت کا ہے لہذا علماء احات کو اپنے مذہب کی پابندی میں احمدیوں سے فتوی تکفیر کو واپس لینا چاہیئے.اور خواہ مخواہ وجوہ کفر احمدیوں کے سر تھوپنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے.مولوی محمد منظور صاحب دیوبندی علماء بریلی کے دیو بندیوں پر فتوٹی کفر کی تردید میں لکھتے ہیں :.خواہ مخواہ کسی کے سر تو ہین کا الزام تھوپنا گناہ کبیرہ ہے ہمارے فقہاء کرام تو بیا تک فرمانتے ہیں کہ اگر کسی عبارت میں ہزار ہا احتمالات ایسے ہوں جو مغضی الی الکفر ہوں اور ایک ضعیف سا احتمال ایسا ہو جس کی وجہ سے اس کے قائل کو مسلمان کہا جاسکے تو اس کو کیا فرمت کو چہ جائیکہ کسی کی عبارت میں گوروں تک تو مین کا شائبہ نہ ہو تے سب رصافه آسمانی بر فرقه رضا خانی صلا شوية ريف

Page 308

جناب مفتی صاحب نے اپنی کتاب کے حصے پر حقیقۃ الوحی سے یہ حوالہ بھی درج کیا ہے جو ہمارے نزدیک اصولی ہے.حوالہ کی عبارت یوں ہے:.ہر حال کسی کے کفر اور اس پر اتمام محبت کے بارے میں فرد فرد کا حالی دریافت کرنا ہمارا کام نہیں یہ اس کا کام ہے جو عالم الغیب ہے.ہاں چونکہ شریعت کی بنیاد ظاہر پر ہے اس لئے ہم منکر کو مومن نہیں کہہ سکتے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ 19 مواخذہ سے بری ہے.(حقیقۃ الوحی ) پس جماعت احمد یہ مسیح موعود کے انکار کی بناء پر کسی فرد کے جتنی جیتی ہونے کا فتوی نہیں دیتی.کیونکہ اس عبارت کی روشنی میں کسی کے کفراد راس پر مواخذہ کے بارے میں فرد فرد کا حال دریافت کرنا ہمارا کام نہیں.یہ کام عالم الغیب خدا کیا ہے.شریعیت کی بنیاد ظاہر پر ہے.جو کہ طیبہ کا اقرار کرتا ہے.وہ مسلمان کہلائے گا خواہ اس کے المیان میں کتنا بڑا نقص ہو یہی جماعت احمدیہ کا مذآب ہے اور جو اس کے خلاف الزام دیتا ہے.اس نے حقیقت کو نہیں سمجھا.یہ ہوا کہ تکفیر کی ابتداء حضرت باقی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام محمد خلاصہ کلام علی اسلام کی طرف سے نہیں ہوئی.بلکہ آپ کے بعض معاند اور مخالف علماء نے آپ پر کفر کا فتوسنی لگایا.اور آپ کے خلاف سخت تشدد کی راہ اختیار کی اور آپ کو مزناہ اور زندیق تک قرار دیا.اور آپ نے اس پر بھی صبر کیا اور مسلمانوں سے مصالحت چاہی.جسے ٹھکرا یا گیا تو آپ

Page 309

۲۹۹ بھی مجبور ہوئے کہ احادیث نبویہ کی روشنی میں ان لوگوں کا فنوں اپنی لوگوں پر الٹا دیں.لیکن پھر بھی آپ نے تشدد کی راہ اختیار نہیں کی.اور کسی مسلمانوں کو کا فرقم اول قرار نہیں دیا.کوئی شخص آپ کے شہارات اور کتابوں میں سے نہیں دکھا سکتا.کہ آپ نے مسلمانوں کی تکفیر میں ابتداء کی.پس وقت تکفیر خود علماء کی پیدا کردہ ہے.انہیں چاہیے کہ وہ اپنا فتونی واپس لے لیں.کیونکہ ان کا فتوی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور فقہ حنفیہ کے خلاف ہے.حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ علماء کے فتوئی کے ذکر میں تحریر فرماتے ہیں.در اصل یہ بیچارے ہمیشہ اسی تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی سبب ایسا پیدا ہو جاوے جس سے میری ذلت و اہانت ہو مگر اپنی قسمتی سے آخر نا مراد ہی رہتے ہیں.پہلے ان لوگوں نے میرے پر کفر کا فتونی تیار کیا اور قریبا دو سو مولوی نے اس پر خبریں لگائیں اور ہمیں کافر ٹھرایا گیا.اور ان فتووں میں بیانتاک تشدد کیا گیا کہ بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لوگ یہود و نصاری سے بھی بدتر ہیں.اور عام طور پر یہ بھی فتوے دیتے کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کرنا چاہیئے اور ان لوگوں کے ساتھ سلام اور مصافحہ نہیں کرنا چاہیئے.ان کے پیچھے نماز درست نہیں.کافر جو ہوئے ، بلکہ چاہیئے کہ یہ لوگ مساجد میں داخل نہ ہونے پادیں.کیونکہ کافر ہیں.مسجدیں ان سے

Page 310

پلید ہو جاتی ہیں.اگر داخل ہو جائیں تو مسجد کو دھوڑا انسانی ہے اور ان کا مال چرانا درست ہے.اور یہ لوگ واجب القتل ہیں.کیونکہ مہدی خونی کے آنے سے انکاری اور جہاد کے منکر ہیں.مگر با وجود ان فتووں کے ہمارا کیا بگاڑا.جن دنوں یہ فتوئی ملک میں شائع کیا گیا.ان دنوں میں دس آدمی بھی میری سویت میں نہ تھے.مگر آج خدا کے فضل سے تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اورحق کے طالب بڑے زور سے اس حالت میں داخل ہو رہے ہیں.کیا مومنوں کے مقابل پر کافروں کی مدد خدا ایسی ہی کیا کرتا ہے.پھر اس جھوٹ کو تو دیکھو کہ ہمارے ذمہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم نے نہیں کروڑ مسلمان اور کلمہ گو کو کافر ٹھہرا یا حالانکہ ہماری طرف سے کوئی سبقت نہیں ہوئی.خود ہی ان کے علماء نے ہم پر کفر کے فتوے کے اور تمام پنجاب اور مید دستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں.اور نادان لوگ ان فتووں سے ایسے ہم سے منتظر ہو گئے کہ ہم سے سیدھے منہ کوئی ترم بات کرتا بھی ان کے نزدیا کے گناہ ہو گیا.کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالفت یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا.اگر کوئی ایسا کا غذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتوی کفر سے پہلے شائع ہوا ہو جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں

Page 311

کو کافر ٹہرایا ہو.تو وہ پیشیں کریں.ورنہ وہ خود سوچ نہیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹھہرا دیں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگا دیں.کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے اس قدر خیانت اور جھوٹ اور خلاف واقعہ ہمت کس قدر دل آزار ہے.ہر ایک عقلمند سوچ سکتا ہے اور پھر جبکہ ہیں اپنے فتووں کے ذریعہ سے کافر ٹھہر اچکے اور آپ ہی اس بات کے قاتل بھی ہو گئے.کہ جو شخص مسلمان کو کافر کے تو کفر کٹ کر اسی پر پڑتا ہے.تو اس صورت میں کیا ہمارا حق نہ تھا.کہ موجب انہیں کے اقرار کے ہم ان کو کا فرکھتے " (حقیقة الوحی صلا ١٢١ منا (۱۲) مفتی صاحب سے اپیل جناب مفتی صاحب ! الحمدللہ کہ مشان ختم نبوت طے ہو چکا.اور آپ اپنی کتاب ختم نبوت کائی میں اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ آپ کی تعریف نبوت یا اصطلاح نبوت میں مدعی نبوت نہیں کیونکہ آپ کے نزدیک جس امر کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ غیر تشریعی نبوت قرار دیتے ہیں وہ نبوت کی کوئی قسم ہی نہیں.چنانچہ آپ صاف لکھتے ہیں : آپ اس است شما انبیا علیہ السلام سب کے سب تشریحی ہیں اور شریعیت کا منہ نبوت ہے مرزا صاحب ہی کا نام غیر تشریعی رکھا ہے وہ نبوت کی کوئی قسم نہیں.رختم نبوت کا امل مشاه را شبیه)

Page 312

P-P حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ہمیشہ تشریعی نبی یا ستقل شریعت لانے کے دھونی سے انکار کیا ہے.وہ صرف غیر تشریعی نبی ہونے کے ماضی ہیں وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ آپ ایک پہلو سے بنی ہیں اور ایک پہلو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتی بھی ہیں.اور آپ نے یہ مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افامدہ روحانیہ کے واسطہ سے حاصل کیا ہے، چونکہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ اسلام قرآن کریم کے رُو سے وفات پاچکے ہوتے ہیں اور احادیث نہوتہ کے رو سے واضح ہے.کہ آپ نے صرف ۱۲۰ سال عمر پائی اور کوئی حدیث اس مضمون کی موجود نہیں کہ وہ دو اڑھائی ہزار سال یا اس سے زیادہ عمر پائینگے اس لئے اسے مفتی صاحب آپ کو اب حضرت عیسے علیہ السلام کی اصالتاً آمدثانی کا انتظار ترک کر دینا چاہیئے.اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے اس دعوئی کو تسلیم کر لینا چاہیے.کہ نزول مسیح کی پیش گوئی کے مثیل مسیح ہو کہ آپ ہی مصداق ہیں.اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی نزول مسیح کی احادیث کے متعلق تشریح قبول کر لینی چاہئیے.کہ امت میں سے آنے والے عہد کی آخر الزمان کو سہی احادیث نبویہ میں استعارہ کے طور پر مینے یا ابن مریم کا نام دیا گیا ہے.کیونکہ نہ دل مسیح کی احادیث مندرجہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ناول ہونے والے ابن مریم کو اما مکنم مشکم اور فائکم منکم قرار دے کر امت محمدیہ میں سے امت کا امام قرار دیا گیا ہے اور مسند احمد بن طفیلی کی حدیث میں آئندہ آنے والے خلیسی کو صاف طور پر امام مہدی قرار دیا گیا ہے.اور اس کے حق میں اماما محمد یا حكماً عدلا کے الفاظ مستعمل

Page 313

٣٠٣ فرمائے گئے ہیں.جناب مفتی حب ! آپ نہیں کر سکتے کہ امت کا اس بات پر اجماع ہے.کہ حضرت عیسی علیہ السلام اصالتا نازل ہونگے کیونکہ ایسا اجماع ہرگز ثابت نہیں ہیکہ ایک گروہ مسلمانوں کا بموجب حدیث لا محمدی الا عیسی ابن مریم و ابن ماجه یہ مانتا چلا آیا ہے کہ نزول مسیح سے یہ مراد ہے کہ امام مہدی حضرت عیسی علیہ السلام کا ہوا ہوگا.ملاحظہ ہو اقتباس الانوار ملا اور مسلم الثبوت مع شرح منہ میں شیخ محب اللہ بن عبد الشکور لکھتے ہیں:.اما في المستقبلات كا شَرَاطِ السَّاعَةِ وَأمُورِ الْأَخِرَةِ فلا در جماع ناقل عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ لأَنَّ الْغَيْبَ لاستكمل فيه للاجتهاد - یعنی جو باتیں مستقبل سے تعلق رکھتی ہیں جیسے علامات قیامت رہن میں لز دل ابن مریم بھی شامل ہے.ناقل ) اور امور آخرت میں خفیوں کے نزدیک اجماع نہیں ہو سکتا.کیونکہ اور غیبی ہیں اعتماد کا کوئی دخل نہیں.حضرت مسیح موعود علی اسلام نے پیشگوئی فرائی ہے.مسیح موعود کا آسمان سے اترنا محض چھوٹا خیال ہے.یادرکھو کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جو آپ زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے پلیٹی ابن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا پھر ان کی اولاد جو باقی رہینگی وہ بھی مرے گی اومان میں سے کوئی آدمی بیٹے ابن مریم کو آسمان سے اتر تے میں رکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی تب خدا ان کے دلوں میں گھر میٹ ڈالے گا.کہ زمانہ صلیب کا بھی گزر گیا

Page 314

اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسے آسمان سے اب تک نہ اترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آپ کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ میلے کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا نعیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کہ اس بھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے اور دنیا میں ایک ہیا ذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا ہیں تو تخم ریزی کرنے آیا ہوں سومیر سے ہاتھ سے آیا و تخم بویا گیا اور وہ پڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو رک سکے یہ ا تذكرة الشهادتين ) H علامہ رشیار رہنا.علامہ مفتی محمد شیده - علامہ محمود شلتوت مفتیان صاف الفاظ میں وفات مسیح کا اقرار کر چکے ہیں.ان کے علاده الاستاذ احمد العجوز الاستاذ مصطفة المراغى - الاستاذ عبد الكريم الشريف الاستاذ عبد الاياب النجار - علامہ ڈاکٹر احمدن کی ابو شادی بھی کھلے لفظوں میں وفات مسیح کا اقرار کر چکے ہیں.نیز ہزار ہا عیسائی حیات مسیح کے عقیدہ سے انکار کر کے اوران کی اصالتاً آمار ثانی کے یزار ہو کر جات المیہ کی تبلیغ کے زریعہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں الحمد موٹا ہونے کے آثار شروع ہو گئے ہیں چنانچہ علماء مصر میں سے بله على والك میں سے مفتی صاحب ! آپ کو بھی اپنی نہ چھوڑ کر بھائی کو قبول کر لینا چاہیئے.مراد ما نصیحت بود کردیم حوالت با خدا کردیم در فستیم واخر دعوانا أن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قاضی محمد نذیر لائلپوری از دیوه

Page 315

صفحہ سطر صحیح عبارت صحت نا صفحہ سطر صحیح عبارت 1 رحمت میں کمی الوفا تو آپ کی سیادت 17 بجد الی السماء وان الى الآن روحانی بادشاہ بنے हूँ ۲۱ A علی الاطلاق آخری تشریعی نہیں ۱۶ ۳ انبیاء کے کمالات سے حصہ وافر 14 صدیقین - شهداء اس بیان سے ظاہر ہے ۲۳ میر ۲ قرآن و حدیث میں یہ مضمون کے X ۵۱۰۰ نفیس معترہ لے کر A 14 ۱۰ایک دوسر سے تباین کلی ۱۹۰ ۱۳ بطريق العام آن را ر خاتم بفتح تا ء کی قرأت ہیں ، ۶۱۹ ۱۶ پیدا ہونا ان کی یا بالیت لام ۳۶ 14 ۶۰ الو C ) فلا يكذب ۱۹۴ ۱۱ دی جو یقینی رھی تھی ۵ اس اصطلاح کی رو سے نبی نہیں ہوتا ۳۳۲ ۱۳ ان النبوة کے معنوں میں ان معنی کی ۲۳۵ ۴ اصطلاحی تعریف نبوت A AY IA ۹۳ JA مگر انہوں نے الا ان تكون نبي فَالْمَنْزِلَةُ 1 ار تحذير الناس من و اجتماع بوجہ اتنا فف ۲۳۶ ۱۲ پس آپ کی نبوت کے متعلق اعلان ۱۳ دو سرست دور میں آپ نے A ۱۲۲ جن کو نبوت ملی ہے آپ کی ہر ۲۳۲ ۱۹ کا دھونی بھی پہلے دور ہیں.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ٢٠، غا القمران اور مفتی محمد شفیع صاحب ۸۲۷۵ منبع داصل ۱۱۵۲ ۱۸ بیان ہوئے پائے جانے چاہئیں ۱۲۹۲۱ و و انذالك المعلم لة مة الله

Page 315