Language: UR
مجلس اطفال الاحمدیہ بھارت نے افادہ عام کے لئے اس کتابچہ کو ٹائپ کرواکر شائع کروایا ہے ، جودراصل 1943ء میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کے دور صدارت میں پہلی دفعہ شائع کیا گیا تھا۔ تب آپ نے اس کتاب کے دیباچہ میں ’’ہمیں کیا بننا ہے؟‘‘ کے عنوان سے ہدائیت ارشاد فرمائی تھیں، جنہیں شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں احمدی بچوں کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پاکیزہ اخلاق و اطوار کی جھلکیاں پیش کرنےکی کوشش کی گئی ہے تا بچوں کو اپنے آقا کے احوال سے اطلاع پاکر ان اخلاق کریمہ کو اپنانے اور اس ھادی کے نقش قدم پر چل کر دین و دنیا کی فلاح کا وارث بننے کی تو فیق مل سکے۔ اس تالیف میں زیادہ تر حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمدصاحبؓ اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی تصنیفات سے مذکورہ بالا عنوان کے حوالہ سے اقتباسات لئے گئے ہیں۔
العلية الا اخلاق احمد شائع كرد.مجلس اطفال الاحمديه بهارت
پیش لفظ شعبہ اطفال الاحمد یہ بھارت کی طرف سے اخلاق احمد کے نام سے یہ کتا بچہ شائع کیا جارہا ہے.یہ کتا بچہ در اصل 1943ء میں مجلس اطفال الاحمد یہ مرکز یہ قادیان کی طرف سے پہلی بار شائع کیا گیا تھا.اُس وقت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ ) صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے عہدہ پر فائز تھے.اس کتابچہ کے پہلے ایڈیشن کے موقعہ پر تعارف کے طور پر ہمیں کیا بننا ہے“ کے عنوان سے جو ہدایات آپ نے تحریر فرمائی ہیں وہ بھی از سر نو شامل اشاعت کر دی گئی ہیں.اخلاق احمد میں احمدی بچوں کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاکیزہ اخلاق واطوار کی ایک جھلک پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے تا انہیں معلوم ہو کہ ان کے آقا کیسی خوبیوں کے مالک تھے اور پھر حضرت بانی تنظیم مجلس خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کی تعمیل میں کہ جس قدر اچھے اخلاق ہیں وہ سب اپنے اندر پیدا کرو.“ یہ بچے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے اور اپنے اندر یہی اوصاف پیدا کرنے کی کوشش (فرموده ۱۷ فروری ۱۹۳۹ء) کریں.اس تألیف میں زیادہ تر حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ کی تصنیفات سیرت المہدی و سلسلہ احمدیہ کے اقتباسات نیز حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کی تصنیف 'ذکر حبیب سے بھی اقتباسات درج کر دیئے گئے ہیں.اس کتابچہ کی تیاری، کمپوزنگ و دیگر کاموں میں مکرم رفیق احمد صاحب بیگ مہتم اطفال و مکرم شاہد احمد صاحب بٹ معاون صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کو خصوصی تعاون کی توفیق ملی.تمام قائدین، ناظمین اطفال و عہدیداران مجالس سے توقع کی جاتی ہے کہ اس کتابچہ میں بیان فرمودہ اخلاق احمد علیہ السلام کو خدام واطفال کو بار بار سنانے کا اہتمام کریں گے اور اسے اپنانے اور عملی زندگی میں اسکی ترویج واشاعت میں بھر پور کوشش کریں گے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کی اشاعت بے حد مبارک فرمائے اور خدام و اطفال کو خصوصاً اور تمام احباب جماعت کو عموماً اس کتا بچہ سے بھر پور توفیق وسعادت بخشے.آمین والسلام محمد نسیم خان ۹ ر اپریل ۲۰۰۴ ء بروز جمعۃ المبارک قادیان دارالامان صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھارت
ہمیں کیا بنتا ہے احمدی اخلاق فهرست 1 بدظنی سے بچو 2 عام مخلوق پر رحم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حلیہ مبارک 3 اپنے ہاتھ سے کام کرنا لباس 3 صفائی خوراک سادگی حضرت مسیح موعود کے پاکیزہ اخلاق واطوار 3 مزاح 15 15 16 16 17 18 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور 3 دوسروں کی انتہائی دلداری اور ان کی 20 حضور ﷺ کے طریق عمل کا احترام قرآن کریم کا احترام اور اس سے محبت 5 اطاعت وفرمانبردار حضور کے اعلیٰ نمونے 5 شکنی سے بچنا تعلیم وتعلم السلام علیکم کہنا حضور کے صحابہ کے شاندار نمونے 6 دین کی راہ میں تکالیف دینی غیرت استقلال اور صدق وصفا 7 غض بصر مهمان نوازی دوستوں سے سلوک 9 9 شیر خدا وقار تحفہ کا شکریہ دشمنوں سے سلوک خیرات دیانت داری جامع اخلاق 12 تنگ نہ پڑنا 13 کسی کو تو نہ کہنا 13 دعا کا طریق 22 23 24 222 26 27 29 2288222 20 29 14 گاڑیوں میں مسافروں کیلئے جگہ خالی کر دینا 29 14 قادیان میں بار بار آنے کی تاکید 29
اخلاق بِسْمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ہمیں کیا بننا ہے رم صـ خدام الاحمديه......حضرت مسیح موعود علیہ السلام اخلاق محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے کامل حامل اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بعد بہترین اخلاق کے مالک ہیں.آپ کے اخلاق ہمارے لئے نمونہ ہیں جنہیں بڑے اختصار کے ساتھ اس رسالہ میں احمدی بچوں کے سامنے رکھا جا رہا ہے.تا اس نمونہ کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے بچے حقیقی معنی میں اطفال احمدیت بن سکیں اور تا دُنیا اُن کے نمونہ سے سبق لے.اور تا اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں کو بہتر سے بہتر نشو ونما دیکر ہمارے بچے اس کی خوشنودی حاصل کرسکیں.(اللهم آمین) اس میں ذرا بھی شک نہیں انسان کی حقیقی اور کامیاب ترقی کا راز عقل کی پیروی میں ہے نہ جذبات کی پیروی میں.حقیقی ترقی تبھی حاصل ہوتی ہے جب روحانیت کا سورج طلوع ہو کر عقل و جذبات کے حدود کو نمایاں کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ان حدود میں رہنے کی توفیق عطا فرماتا ہے.عقل اور جذبات کے اس صحیح استعمال کے بعد انسان جن عمدہ اخلاق کو اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے.اس کی بہترین مثال انبیاء علیہم السلام کے اخلاق ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق کا نمونہ اپنے بچوں کے سامنے رکھنے سے ہماری یہی غرض ہے تا انہیں معلوم ہو سکے کہ انہیں کیا بننا ہے اور کس راہ پر چل کر وہ ایسا بن سکتے ہیں.وبالله التوفيق خاکسار مرزا ناصر احمد صدر مجلس خدام الاحمديه
اخلاق ا احمدی اخلاق در مسکینوں کی ، ”غریبوں کرو.نہ صرف اپنے مذہب کے غریبوں اور مسکینوں کی.بلکہ ہر قوم کے غریبوں اور بیکسوں کی تا دُنیا کو معلوم ہو.کہ احمد کی اخلاق کتنے بلند ہوتے ہیں.“ ارشاد حضرت بانی تنظیم مجلس اطفال الحمد یہ حضرت مصلح الموعود رضی اللہ عنہ فرموده ۱۳ را پریل ۱۹۳۸ء له
اخلاق ا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حلیہ مبارک 3......حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قد درمیانہ سے ذرا اونچا.بدن کسی قدر بھاری آنکھیں بڑی بڑی.مگر ہمیشہ خفض بصر کی صورت میں رہنے کے سبب باریک سی معلوم ہوتی تھیں.چہرہ چمکدار- چھاتی کشادہ - کمر سیدھی.جسم کا گوشت مضبوط تھا.جسم اور چہرے پر جھریاں نہ تھیں.رنگ سفید و سرخ گندمی تھا.جب آپ ہنستے تھے تو چہرہ سرخ ہو جاتا تھا.سر کے بال سیدھے کانوں تک لٹکتے ہوئے ملائم اور چمکدار تھے.ریش مبارک کھنی ایک مشت سے کچھ زیادہ لمبی رہتی تھی.(ذکر حبیب ص ۳۱) اکثر اوقات آنکھیں نیم بند اور نیچے کی طرف جھکی رہتی تھیں.“ (سلسلہ احمدیہ ص ۱۹۴) لباس عموماًبند گلے کا کوٹ یا جبہ.دیسی کاٹ کا کرتہ یا قمیص اور معروف شرعی ساخت کا پاجامہ جو آخری عمر میں عموماً گرم ہوتا تھا.جوتا ہمیشہ دیسی پہنا کرتے تھے اور ہاتھ میں عصا ر کھنے کی عادت تھی.سر پر اکثر سفید ململ کی پگڑی باندھتے تھے.جس کے نیچے عموما نرم قسم کی رومی ٹوپی ہوتی تھی.خوراک (سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱۹۵) " کھانے میں نہایت درجہ سادہ مزاج تھے اور کسی چیز سے شغف نہیں تھا بلکہ جو چیز بھی میتر آتی تھی بے تکلف تناول فرماتے تھے اور عموما سادہ غذا کو پسند فرماتے تھے.غذا بہت کم تھی.اور جسم اس بات کا عادی تھا کہ ہر قسم کی مشقت برداشت کر سکے.“ (سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱۹۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاکیزہ اخلاق و اطوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور حضور کے طریق عمل کا احترام (۱) مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ ایک دفعہ دو پہر کے وقت میں مسجد مبارک میں داخل ہوا تو اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکیلے گنگناتے ہوئے حضرت حستان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا یہ شعر ( جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں ہے.ناقل ) پڑھ رہے تھے.اور ساتھ ساتھ ٹہلتے بھی جاتے تھے
اخلاق ا كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِئُ فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أُحَاذِرُ (ترجمہ) تو میری آنکھ کی پتلی تھا.پس تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہوگئی.اپ تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے پروا نہیں کیونکہ مجھے تو بس صرف تیری ہی موت کا ڈر تھا جو واقع ہو چکی.“ (سیرت المہدی دوم ۳۳۳) میری آہٹ سن کر حضرت صاحب نے چہرے پر رومال والا ہاتھ اُٹھالیا تو میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے.“ (۲) ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے بیان کیا کہ ”جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کسی تقریر یا مجلس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرماتے تو بسا اوقات ان محبت بھرے الفاظ میں ذکر فرماتے کہ ”ہمارے آنحضرت “ نے یوں فرمایا ہے.اسی طرح تحریر میں آ آنحضرت صلعم کے نام کے بعد صرف یا صلعم نہیں لکھتے تھے بلکہ پورا درود یعنی صلی اللہ علیہ وسلم لکھا کرتے تھے.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۵۴۷) (۳) مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگر وال نے بیان کیا کہ ”جب میں حضرت صاحب کے پاس سوتا تھا تو آپ صبح کی نماز کے لیے ضرور جگاتے تھے اور جگاتے اس طرح تھے کہ پانی میں انگلیاں ڈبو کر اُس کا ہلکا سا چھینٹا پھوار کی طرح پھینکتے تھے مینے ایک دفعہ عرض کیا کہ آپ آواز دے کر کیوں نہیں جگاتے اور پانی سے کیوں جگاتے ہیں.اس پر فر مایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس طرح کرتے تھے اور فرمایا کہ آواز دینے سے بعض اوقات آدمی دھڑک جاتا (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۴۹۲) (۴) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ چھوٹی سی چھوٹی بات میں بھی آنحضرت صلعم کی اتباع کرتے تھے.“ (سیرت المہدی حصہ سوئم صفحه ۴۹۲) (۵) ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صدقہ میں جانور کی قربانی بہت کیا کرتے تھے گھر میں کوئی بیمار ہو یا کوئی مشکل در پیش ہوئی یا خود یا کسی اور نے کوئی منذر خواب دیکھا تو فوراً بکرے یا مینڈے کی قربانی کرا دیتے تھے...اور فرماتے تھے کہ یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی تھی.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۵۵۷)
اخلاق قرآن کریم کا احترام اور اس سے محبت (۱) حضرت ام المؤمنین نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ...مبارک احمد مرحوم سے بچپن کی بے پروائی میں قرآن شریف کی کوئی بے حرمتی ہو گئی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اتنا غصہ آیا کہ آپ کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور آپ نے بڑے غصہ میں مبارک احمد کے شانہ پر ایک طمانچہ مارا جس سے اس کے نازک بدن پر آپ کی انگلیوں کا نشان اُٹھ آیا اور آپ نے اُس غصہ کی حالت میں فرمایا کہ اس کو اس وقت میرے سامنے سے لے جاؤ.(سیرت المہدی حصہ دوم صفی ۳۳۳) (۲) مرزا سلطان احمد صاحب (مرحوم) نے بیان کیا کہ والد صاحب تین کتابیں بہت کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے یعنی قرآن مجید - مثنوی رومی اور دلائل الخیرات اور کچھ نوٹ بھی لیا کرتے تھے اور قرآن شریف بہت کثرت سے پڑھا کرتے تھے.(سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۱۹) (۳) حافظ نور محمد صاحب نے بیان کیا کہ حافظ نبی بخش صاحب نے (حضور سے ) ہنسکر عرض کیا کہ یہ (یعنی خاکسار نور محمد ) بہت وظیفہ پڑھتے رہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ حضور میں تو وظیفہ نہیں کرتا صرف قرآن شریف ہی پڑھتا ہوں.آپ مسکرا کر فرمانے لگے کہ تمہاری تو یہ مثال ہے کہ کسی شخص نے کسی کو کہا کہ یہ شخص بہت عمدہ کھانا کھایا کرتا ہے تو اس نے جواب میں کہا کہ میں تو کوئی اعلیٰ کھانا نہیں کھاتا صرف پلا ؤ کھایا کرتا ہوں.پھر آپ نے فرمایا کہ قرآن شریف سے بڑھ کر اور کونسا وظیفہ ہے.یہی بڑا اعلیٰ وظیفہ ہے.“ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۳۳) اطاعت وفرمانبرداری حضور کے اعلیٰ نمونے (۱) مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ والد صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام) دادا صاحب کی کمال تابعداری کرتے تھے.“ (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه ۱۹۵) (۲) میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ ”جب حضور کو وَسِعُ مَكَانَكَ (یعنی اپنا مکان وسیع کر ) کا الہام ہوا تو حضور نے مجھ سے فرمایا کہ مکانات بنوانے کے لیے تو ہمارے پاس روپیہ ہے نہیں.اس حکم الہی کی اس طرح تعمیل کر دیتے ہیں کہ دو تین چھپر بنوا لیتے ہیں چنانچہ حضور نے مجھے اس کام کے واسطے امرتسر بھیجا اور چھپر کا سامان لے آیا اور حضرت صاحب نے اپنے مکان میں تین چھپر تیار کروائے یہ چھپر کئی سال تک رہے پھر ٹوٹ پھوٹ گئے.(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه ۱۴۱)
اخلاق احمد 6....(۳) میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضرت صاحب کے پاس آیا اُسے اُس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصہ گزر چکا تھا.حضرت صاحب نے فرمایا آپ روزہ کھول دیں اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سا دن رہ گیا ہے اب کیا کھولنا ہے.حضور نے فرمایا کہ آپ سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے چاہتے ہیں.خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے جب اُس نے فرمایا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہیئے.اس پر اس نے روزہ کھول دیا.“ حضور کے صحابہ کے شاندار نمونے (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ ۱۱۷) (۱) بابا کریم بخش صاحب سیالکوٹی نے بیان کیا کہ ۰۶-۱۹۰۵ء کے جلسہ کا واقعہ ہے کہ میں مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے لیے آیا اس وقت مسجد اقصی چھوٹی تھی میں نے جو تیوں پر اپنی لوئی بچھادی اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آگئے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے نماز سے فارغ ہونے کے بعد قریب کے مکان والے آریہ نے گالیاں دینا شروع کر دیں.کیونکہ اس کے مکان کی چھت پر بعض اور دوست نماز پڑھ رہے تھے جب وہ گالیاں دے رہا تھا.حضور منبر پر تشریف لے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے حالات اور لوگوں کے مظالم بیان کرنے شروع کیے جس پر اکثر دوست رونے لگے اسی اثنا میں میں کسی کام کے لیے بازار میں اترا.واپسی پر دیکھا کہ بھیڑ زیادہ ہے اتنے میں حضور کے یہ الفاظ میرے کان میں پڑے کہ ”بیٹھ جاؤ جو حضور لوگوں کو مخاطب کر کے فرمارہے تھے میں یہ الفاظ سنتے ہی وہیں بازار میں بیٹھ گیا اور بیٹھے بیٹھے مسجد کی سیڑھیوں پر پہنچا اور حضور کی تقریر سُنی " (سیرت المہدی حصہ سوئم صفحہ ۷۴۱ ) (۲) حضرت خلیفہ اول بیان کرتے فرمایا کرتے تھے کہ ”جب میں جموں کی ملازمت سے فارغ ہو کر بھیرہ آیا تو میں نے بھیرہ میں ایک بڑا مکان تعمیر کرانا شروع کیا.اور اس کے واسطے کچھ سامان عمارت خریدنے کے لیے لاہور آیا.لاہور آ کر مجھے خیال آیا کہ چلو قادیان بھی ایک دن ہوتے آویں.خیر میں یہاں آیا.حضرت صاحب سے ملا تو حضور نے فرمایا.مولوی صاحب اب تو آپ ملازمت سے فارغ ہیں.امید ہے.کچھ دن یہاں ٹھیریں گے میں نے عرض کیا ہاں حضور ٹھیروں گا.پھر چند دن کے بعد فرمانے لگے مولوی صاحب آپ کو اکیلے تکلیف ہوتی ہوگی اپنے گھر والوں کو بھی یہاں بلا لیں.میں نے گھر والوں کو بھیرہ خط لکھ دیا کہ
اخلاق احمد......عمارت بند کرادو اور یہاں چلے آؤ.پھر ایک موقعہ پر حضرت صاحب نے مجھے فرمایا.مولوی صاحب اب آپ اپنے پچھلے وطن بھیرہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں فرمایا میں دل میں بہت ڈرا کہ یہ تو ہو سکتا ہے کہ میں وہاں بھی نہ جاؤں یہ مگر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میرے دل میں بھی بھیرہ کا خیال نہ آوے.مگر فر مایا کہ خدا کا ایسا فضل ہوا کہ آج تک میرے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ بھیرہ بھی میرا وطن ہوتا تھا.“ (سیرت المہدی حصّہ اوّل صفحه ۱۰۳) (۳) میاں عبداللہ صاحب مرحوم نے بیان کیا کہ ”میں شروع میں حقہ بہت پیا کرتا تھا.شیخ حامد علی بھی پیتا تھا.کسی دن شیخ حامد علی نے حضرت صاحب سے ذکر کر دیا کہ یہ حقہ بہت پیتا ہے.اس کے بعد میں جو صبح کے وقت حضرت صاحب کے پاس گیا اور حضور کے پاؤں دبانے بیٹھا تو آپ نے شیخ حامد علی سے کہا کہ کوئی حقہ اچھی طرح تازہ کر کے لاؤ.جب شیخ حامد علی حقہ لایا تو حضور نے مجھ سے فرمایا پیوئیں شرمایا مگر حضرت صاحب نے فرمایا جب تم پیتے ہو تو شرم کی کیا بات ہے.پیو کوئی حرج نہیں میں نے بڑی مشکل سے رُک رُک کر ایک گھونٹ پیا پھر حضور نے فرمایا ” میاں عبداللہ مجھے اس سے طبعی نفرت ہے.‘ میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے.بس میں نے اسی وقت سے حقہ ترک کر دیا.اور اس ارشاد کے ساتھ ہی میرے دل میں اس کی نفرت پیدا ہوگئی.(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه ۱۱۳) (۴) مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ راولپنڈی سے ایک غیر احمدی آیا جو اچھا متمول آدمی تھا.اُس نے حضرت صاحب سے درخواست کی کہ میرا فلاں عزیز بیمار ہے حضور حضرت مولوی نورالدین صاحب کو اجازت دیں کہ میرے ساتھ راولپنڈی تشریف لے چلیں اور اس کا علاج کریں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم مولوی صاحب کو یہ بھی کہیں کہ آگ میں کھس جاؤ یا پانی میں گو د جاؤ تو اُن کو کوئی عذر نہیں ہوگا.لیکن ہمیں بھی تو مولوی صاحب کے آرام کا خیال چاہئے میں راولپنڈی جانے کے لیے نہیں کہہ سکتا.“ دین کی راہ میں تکالیف (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه ۲۸۵) دنیا کا دستور ہے کہ ہر سچائی کی مخالفت کی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی حضور کے رشتہ دار ناروا سلوک کرتے جسے حضور اور حضور کے خدام نہایت صبر سے برداشت کرتے حضور جو شیلے اصحاب کو صبر کی تلقین بھی فرماتے رہے.اس کی چند ایک مثالیں ذیل میں
اخلاق احمد درج کی جاتی ہیں.(۱) حضرت میرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے بیان کیا کہ ابتدائی ایام میں قادیان کے لوگوں کی طرف سے جماعت کو سخت تکلیف دی جاتی تھی.مرزا امام الدین و مرزا نظام الدین وغیرہ کی انگیخت سے قادیان کی پبلک خصوصا سکھ سخت ایذارسانی پر تلے ہوئے تھے.اور صرف باتوں تک ایذارسانی محدود نہ تھی بلکہ دنگا فساد کرنے اور زدو کوپ تک نوبت پہنچی ہوئی تھی.اگر کوئی احمدی مہاجر بُھولے سے کسی زمیندار کے کھیت میں رفع حاجت کے واسطے چلا جاتا تھا تو وہ بدبخت اُسے مجبور کرتا تھا کہ وہ اپنے ہاتھ سے اپنا پا خانہ وہاں سے اُٹھائے.کئی دفعہ معزز احمدی ان کے ہاتھ سے پٹ جاتے تھے اگر کوئی احمدی ڈھاب میں سے کچھ مٹی لینے لگتا تو یہ لوگ مزدوروں سے ٹوکریاں اور کرالیں چھین کر لے جاتے اور ان کو وہاں سے نکال دیتے تھے اور اگر کوئی سامنے سے بولتا تو گندی اور مخش گالیوں کے علاوہ اُسے مارنے کے واسطے ختیار ہو جاتے مگر آپ ہمیشہ یہی فرماتے کہ صبر کرو.“ (سیرت المہدی حصّہ اوّل صفحه ۱۴۰) (۲) حضرت میرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے بیان کیا کہ ”جب مولوی عبدالطیف صاحب مرحوم کی شہادت کی خبر آئی تو ایک طرف تو حضرت صاحب کو سخت صدمہ پہنچا کہ ایک مخلص دوست جُدا ہو گیا اور دوسری طرف آپ کو پرلے درجہ کی خوشی ہوئی کہ آپ کے متبعین میں سے ایک شخص نے ایمان و اخلاص کا یہ اعلی نمونہ دکھایا کہ سخت سے سخت دُکھ اور مصائب جھیلے اور بالآخر جان دے دی مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ چھوڑا.“ (۳) مائی حیات بی بی صاحبہ والدہ حافظ محد شفیع صاحب قاری ساکن سیالکوٹ نے بیان کیا کہ مرزا صاحب جب تیسری دفعہ (سیالکوٹ) آئے (تو) لوگوں نے آپ پر گوڑا ڈالا.نیز حافظ صاحب نے اس موقعہ پر بتلایا کہ ” اس محلہ کے مولوی حافظ سلطان نے جو میرے اُستاد تھے.لڑکوں کی جھولیوں میں راکھ ڈلوا کر انہیں چھتوں پر چڑھا دیا اور انہیں سکھایا کہ جب مرزا صاحب گزریں تو یہ راکھ ان پر ڈالنا.چنانچہ انہوں نے ایسا کیا سیرت المہدی حصہ سوم صفحه) (۴) حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں جو گندے اشتہارات گالیوں کے شائع ہوا کرتے تھے ان کو حضور ایک الگ بستے میں رکھتے رہتے تھے چنانچہ ایسے اشتہاروں کا ایک بڑا بستہ بن گیا تھا جو ہمیشہ آپ کے کمرے میں کسی طاق میں یا صندوق میں محفوظ رہتا تھا.“ (سیرت المہدی حصّہ اوّل صفحه ۶۵۹) (ذکر حبیب صفحه ۴۰)
اخلاق ا......دینی غیرت (1) شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سفر میں تھے اور لاہور کے ٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضو فرمارہے تھے.اس وقت پنڈت لیکھرام حضور سے ملنے کے لیے آیا اور آکر سلام کیا مگر حضرت صاحب نے کچھ جواب نہیں دیا.اس نے اس خیال سے کہ شاید آپ نے سنا نہیں دوسری طرف سے ہو کر پھر سلام کہا.مگر آپ نے پھر بھی توجہ نہیں کی اس کے بعد حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ حضور ! پنڈت لیکھرام نے سلام کیا تھا.آپ نے فرمایا ”ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا " (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه ۲۸۱) (۲) حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ”جب دسمبر 1962ء میں آریوں نے وچھو والی لاہور میں جلسہ کیا اور دوسروں کو بھی دعوت دی تو حضرت صاحب نے بھی ان کی درخواست پر ایک مضمون لکھ کر حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول کی امارت میں اپنی جماعت کے چند آدمیوں کو لاہور شرکت کے لیے بھیجا مگر آریوں نے خلاف وعدہ اپنے مضمون میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سخت بدزبانی سے کام لیا اس کی رپورٹ جب حضرت صاحب کو پہنچی تو حضرت صاحب اپنی جماعت پر سخت ناراض ہوئے کہ ہماری جماعت کے لوگ اس مجلس سے کیوں نہ اُٹھ آئے اور فرمایا کہ یہ پرلے درجہ کی بے غیرتی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو ایک مجلس میں بُرا کہا جاوے اور ایک مسلمان وہاں بیٹھا ر ہے اور غصہ سے آپ کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور آپ سخت ناراض ہوئے کہ کیوں ہمارے آدمیوں نے غیرت دینی سے کام نہ رلیا.جب انہوں نے بدزبانی شروع کی تھی تو فوراً اس مجلس سے اٹھ آنا چاہیئے تھا.حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں اس وقت اُٹھنے بھی لگا تھا.مگر پھر مولوی صاحب کی وجہ سے ٹھر گیا.“ مهمان نوازی (سیرت المہدی حصّہ اوّل صفحہ ۱۹۶) (۱) میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیت الفکر میں لیٹے ہوئے تھے اور میں پاؤں دبا رہا تھا کہ حجرہ کی کھڑکی پر لالہ شرمیت یا شاید لالہ ملا وامل نے دستک دی.میں اُٹھ کر کھڑ کی کھولنے لگا.مگر حضرت صاحب نے بڑی جلدی اُٹھ کر تیزی سے جا کر مجھ سے پہلے زنجیر کھول دی اور پھر اپنی جگہ جا کر بیٹھ گئے اور فرمایا
اخلاق احمد 10.آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مہمان کا اکرام کرنا چاہیئے.." (سیرت المہدی حصہ اوّل ۸۹) (۲) قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں اور عبدالرحیم خان صاحب مسجد مبارک میں کھانا کھا رہے تھے جو حضرت صاحب کے گھر سے آیا تھا.ناگاہ میری نظر کھانے میں ایک مکھی پر پڑی میں نے کھانا ترک کر دیا.اس پر حضرت (صاحب) کے گھر کی ایک خادمہ کھانا اُٹھا کر واپس لے گئی....حضرت اقدس اندرونِ خانہ کھانا تناول فرما رہے تھے.خادمہ نے حضرت صاحب سے یہ ماجرا عرض کر دیا حضرت نے فوراً اپنے سامنے کا کھانا اٹھا کر اس خادمہ کے حوالہ کر دیا کہ پر لے جاؤ اور اپنے ہاتھ کا نوالہ بھی برتن میں چھوڑ دیاوہ خادمہ خوشی خوشی ہمارے پاس وہ کھانا لائی اور کہا کہ لوحضرت صاحب نے اپنا تبرک دے دیا ہے.“ (۳) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سے مروی ہے کہ ”مولوی محمد علی صاحب ایم اے کے لیے خود حضرت اقدس صبح کے وقت گلاس میں دودھ ڈال کر اور پھر اس میں مصری حل کر کے خاص اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے.“ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۳۳۶) (سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ ۳۷۷) (۴) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سے روایت ہے کہ ایک دفعہ لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے حضرت صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ معہ کچھ ناشتہ ان سے ملنے کے لیے مسجد میں تشریف لائے ان دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں.آپ نے فرمایا سفر میں روزہ ٹھیک نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی رخصت پر عمل کرنا چاہیئے.چنانچہ ان کو ناشتہ کروا کے اُن کے روزے تڑوا دیئے.“ (۵) حافظ نبی بخش صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان آیا تو ان ایام میں ایک چھوٹی چارپائی بیت الفکر میں موجود رہتی تھی اور کمرہ میں قہوہ تیا رہتا اور پاس ہی مصری موجود ہوتی تھی.میں جتنی دفعہ دن میں چاہتا قہوہ پی لیتا.حضور فرماتے اور پیو اور پیو.“ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۳۷۸) (سیرت المہدی حصہ سوئم صفحه ۵۴۴) (1) خواجہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے روایت کی کہ ان کے والد صاحب نے بیان کیا کہ ابتدا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر ایک ہی دستر خوان پر جملہ اصحاب کے ساتھ مل کر کھانا تناول فرماتے تھے اس صورت میں کشمیری اصحاب کو بھی اسی مقدار میں کھا نا ملتا تھا جتنا که دیگر اصحاب کو.اس پر ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کھانے کے منتظم کو حکم دیا کہ
اخلاق احمد 11 کشمیر کے لوگ زیادہ کھانے کے عادی ہوتے ہیں ان کو بہت کھانا دیا کرو.اسپر ہم کو زیادہ کھانا ملنے لگا.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۸۲۴) (۷) سیٹھی غلام نبی صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں بمعہ اہل و عیال قادیان آیا....اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کے مکان میں رہتا تھا.قریباً بارہ بجے رات کا وقت ہوگا کہ کسی نے دستک دی میں جب باہر آیا تو دیکھا کہ حضور ایک ہاتھ میں لوٹا اور گلاس اور ایک ہاتھ میں لیمپ لیے کھڑے ہیں فرمانے لگے کہ کہیں سے دودھ آ گیا تھا میں نے خیال کیا کہ بھائی صاحب کو بھی دے آؤں.“ ( سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۸۶۸) (۸) حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بیان کیا کہ ایک شب کا ذکر ہے کہ کچھ مہمان آئے جن کے واسطے جگہ کے انتظام کے لیے حضرت ام المؤمنین حیران ہو رہی تھیں کہ ان کو کہاں ٹھیرایا جائے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اکرام ضیف کا ذکر کرتے ہوئے پرندوں کا ایک قصہ سنایا اور فرمایا : - دیکھو ایک دفعہ جنگل میں ایک مسافر کو شام ہوگئی.رات اندھیری تھی قریب کوئی بستی اُسے دکھائی نہ دی اور نہ وہ ناچار ایک درخت کے نیچے رات گزارنے کے واسطے بیٹھ رہا.اس درخت کے اوپر ایک پرند کا آشیانہ تھا.پرندہ اپنی مادہ کے ساتھ باتیں کرنے لگا کہ دیکھو یہ مسافر جو ہمارے آشیانہ کے نیچے زمین پر آ بیٹھا ہے یہ آج رات ہمارا مہمان ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں مادہ نے اس کے ساتھ اتفاق کیا اور ہر دو نے مشورہ کر کے یہ قرار دیا کہ ٹھنڈی رات ہے اور اس ہمارے مہمان کو آگ تاپنے کی ضرورت ہے اور تو کچھ ہمارے پاس نہیں.ہم اپنا آشیانہ ہی تو ڑ کر نیچے پھینک دیں تا کہ وہ اُن لکڑیوں کو جلا کر آگ تاپ لے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور سارا آشیانہ تنکا تنکا کر کے نیچے پھینک دیا.اس کو مسافر نے غنیمت جانا اور اُن سب لکڑیوں اور تنکوں کو جمع کر کے آگ جلائی اور تاپنے لگا.تب درخت پر اس پرندوں کے جوڑے نے پھر مشورہ کیا کہ آگ تو ہم نے اپنے مہمان کو بہم پہنچائی اور اُس کے واسطے سیکنے کا سامان مہیا کیا.اب ہمیں چاہیئے کہ اُسے کچھ کھانے کو بھی دیں اور تو ہمارے پاس کچھ نہیں ہم خود ہی اس آگ میں جاگریں.اور مسافر ہمیں بُھون کر ہمارا گوشت کھالے چنانچہ ان پرندوں نے ایسا ہی کیا اور مہمان نوازی کا حق ادا کیا.“ (۹) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مد توں دونوں وقت کا کھانا مہمانوں کے ہمراہ باہر کھایا کرتے تھے کبھی مولوی عبدالکریم (ذکر حبیب صفحه ۸۶)
اخلاق ا 12.صاحب مرحوم کھانا کھاتے ہوئے کہتے کہ اس وقت اچار کو دل چاہتا ہے اور کسی ملازم کی طرف اشارہ کرتے.تو حضور فوراً دستر خوان سے اٹھ کر بیت الفکر کی کھڑکی میں سے اندر چلے جاتے اور اچار لے آتے “ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۷۹۹ ) (۱۰) سیٹھی غلام نبی صاحب نے بیان کیا کہ ”جب میں پہلے پہل قادیان گیا.....(حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالا خانہ میں تھے ) میں نے جا کر السلام علیکم عرض کیا حضرت صاحب نے سلام کا جواب دیا اور مصافحہ کر کے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ میں چار پائی پر بیٹھ گیا.حضرت جی نے صندوق کھولا اور مصری نکال کر گلاس میں ڈالی اور پانی ڈال کر قلم سے ہلا کر آپ نے دست مبارک سے یہ شربت کا گلاس مجھے دیا اور فرمایا کہ آپ گرمی میں آئے ہیں یہ شربت پی لیں.“ دوستوں سے سلوک (سیرت المہدی حصہ سوم ۸۶۸) (۱) مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ یوں تو حضرت صاحب اپنے سارے خدام سے ہی بہت محبت رکھتے تھے لیکن میں یہ محسوس کرتا تھا کہ آپ کو مفتی صاحب سے خاص محبت ہے جب بھی آپ مفتی صاحب کا ذکر فرماتے تو فرماتے ”ہمارے مفتی صاحب اور جب مفتی صاحب لاہور سے قادیان آیا کرتے تھے تو حضرت صاحب ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے..66 (سیرت المہدی حصّہ اوّل صفحه ۳۰۳) (۲) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ ”مولوی عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد ان کا کوئی مریدان کے کچھ بال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس قادیان لا یا.آپ نے وہ بال ایک کھلے منہ کی چھوٹی بوتل میں ڈال کر اور اس کے اندر کچھ مشک رکھ کر اس بوتل کو سر بمہر کر دیا.اور پھر اس شیشی میں تاکہ باندھ کر اسے اپنی بیت الدّعا کی ایک کھونٹی سے لٹکا دیا.اور یہ سارا عمل آپ نے ایسے طور پر کیا کہ گویا ان بالوں کو آپ ایک تبرک خیال فرماتے تھے اور نیز بیت الدعا میں اس غرض سے لٹکائے گئے ہونگے کہ دُعا کی تحریک رہے.“ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۳۶۸) (۳) سیٹھی غلام نبی صاحب نے بیان کیا کہ ”جب آئینہ کمالات اسلام چھپ رہی تھی تو ان دنوں میں میں قادیان آیا اور جب میں جانے لگا تو وہ اسی صفحہ تک چھپ چکی تھی.میں نے اس حصہ کتاب کو ساتھ لے جانے کے لیے عرض کیا اس پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم
اخلاق ا 13.نے اعتراض کیا کہ جب تک کتاب مکمل نہ ہودی نہیں جاسکتی.تب حضور نے فرمایا جتنی چھپ چکی ہے میاں غلام نبی صاحب کو دے دو اور لکھ لوکہ پھر اور بھیج دی جائے گی.اور مجھے فرمایا کہ اس کو مشتہر نہ کرنا.جب تک کہ مکمل نہ ہو جائے.“.(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۷ ۴۸) (۴) حافظ نبی بخش صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بیان کیا کہ ”میرالڑ کا عبدالرحمن ہائی اسکول میں تعلیم پاتا تھا وہ فوت ہو گیا.مجھے اطلاع ملی تو قادیان آیا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب سے نماز جنازہ پڑھائی اور اس سے فارغ ہو کر میں واپس فیض اللہ چک چلا گیا.پھر میں آئندہ جمعہ کے دن قادیان آیا مسجد مبارک میں گیا.جب حضور کی نظر شفقت مجھ پر پڑی تو حضور نے فرمایا آگے آجاؤ حضور کا فرمانا تھا کہ سب نے میرے لیے رستہ دے دیا.حضور نے میرے بیٹھتے ہی محبت کے انداز میں فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اپنے بچہ کی موت پر بہت صبر کیا ہے.میں نعم البدل کے لیے دُعا کروں گا.چنانچہ اس دُعائے نعم البدل کے نتیجہ میں خدا نے مجھے ایک اور بچہ دیا.(سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۵۰۱) (۵) مفتی محمد صادق صاحب بیان کرتے ہیں کہ ”ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آیا اور میری والدہ صاحبہ مرحومہ بھی میرے ساتھ تھیں جو بھیرے سے حضرت صاحب کی بیعت کے لیے تشریف لائی تھیں اور اسی سال انہوں نے حضرت صاحب کی بیعت کی تھی جب ہم واپس ہونے لگے تو حضرت صاحب ہمارے یکہ پر سوار ہونے کی جگہ تک ساتھ تشریف لائے اور ہمارے لیے کھانا منگوایا کہ ہم ساتھ لے جائیں وہ کھا نالنگر والوں نے کسی کپڑے میں باندھ کر نہ بھیجا تھا تب حضرت صاحب نے اپنے عمامہ میں سے قریب ایک گز لمبا کپڑا پھاڑ کر اس میں روٹی کو باندھ دیا.“ تحفہ کا شکریہ (ذکر حبیب صفحه ۴۵) (۱) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے لیے جب کوئی شخص تحفہ لاتا تو آپ بہت شکر گزار ہوتے تھے.اور گھر میں بھی اس کے اخلاص کے متعلق ذکر فرمایا کرتے اور اظہار کیا کرتے تھے کہ فلاں شخص نے یہ چیز بھیجی ہے.(سیرت المہدی حصہ سوم محی۷۱۳) دشمنوں سے سلوک (۱) حضرت ام المؤمنین سے روایت ہے کہ ایک دفعہ مرزا نظام الدین صاحب کو سخت بخار ہوا.جس کا دماغ پر بھی اثر تھا.اس وقت کوئی اور طبیب یہاں نہیں تھا.مرز انظام الدین صاحب
اخلاق احمد رض 14.کے عزیزوں نے حضرت کو اطلاع دی اور آپ فوراً وہاں تشریف لے گئے.اور مناسب علاج کیا جس سے فائدہ ہو گیا.اس وقت باہمی سخت مخالفت تھی.(سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۵۱) (۲) مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ مارن کلارک مقدمہ میں ایک شخص مولوی فضل الدین لاہوری حضور کی طرف سے وکیل تھایہ شخص غیر احمدی تھا....جب مولوی محمد حسین بٹالوی حضرت صاحب کے خلاف شہادت میں پیش ہوا تو مولوی فضل الدین نے حضرت صاحب سے پوچھا کہ اگر اجازت ہو تو میں مولوی محمد حسین صاحب کے حسب و نسب کے متعلق کوئی سوال کے کمروں حضرت صاحب نے سختی سے منع فرمایا کہ میں اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اور فرما یالا يُحِبُّ اللَّهُ الجَهْرَ بِالسُّوءِ....اس پر اس بات کا بڑا اثر ہوا تھا.“ خیرات (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ ۲۴۸) (۱) مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سے روایت ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت صاحب باہر سے اندرونِ خانہ تشریف لے جارہے تھے کسی فقیر نے آپ سے کچھ سوال کیا مگر اس وقت لوگوں کی باتوں میں آپ فقیر کی آواز کو صاف طور پر سن نہیں سکے تھوڑی دیر کے بعد آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کسی فقیر نے سوال کیا تھا وہ کہاں ہے لوگوں نے اُسے تلاش کیا مگر نہ پایا لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ فقیر خود بخود آ گیا اور آپ نے اسے کچھ نقدی دے دی.اس وقت آپ محسوس کرتے تھے کہ گویا آپ کی طبیعت پر سے ایک بھاری بوجھ اُٹھ گیا ہے اور آپ نے فرمایا کہ میں نے دُعا بھی کی تھی.کہ اللہ تعالیٰ اس فقیر کو واپس لاوے (سیرت المہدی حصہ اول صفحہ ۲۹۸) (۲) مائی حیات بی بی صاحبہ والدہ حافظ محمد شفیع صاحب قاری نے بیان کیا کہ...جب آپ پہلے پہلے سیالکوٹ تشریف لائے اور یہاں ملازمت کے زمانہ میں رہے تو جو تنخواہ مرزا صاحب لاتے محلہ کی بیوگان اور محتاجوں کو تقسیم کر دیتے.کپڑے بنوا دیتے یا نقد دے دیتے.اور صرف کھانے کا خرچ رکھ لیتے تھے.“ دیانتداری (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۶۲۵) (۱) میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب قادیان کے لے مولوی محمد حسین بٹالوی کے نسب میں بعض معیوب باتیں کبھی جاتی تھیں.واللہ اعلم.جن کو وکیل اپنے سوال سے ظاہر کرنا چاہتا تھا مگر ا حضرت صاحب نے روک دیا در اصل حضرت صاحب اپنے ہاتھ سے کسی دشمن کی بھی ذلت نہیں چاہتے تھے.ہاں جب خدا کی طرف سے کسی کی ذلت کا سامان پیدا ہوتا تھا تو وہ ایک نشانِ الہی ہوتا تھا جسے آپ ظاہر فرماتے تھے.منہ
اخلاق احمد 15.شمالی جانب سیر کے لیے تشریف لے گئے میں اور شیخ حامد علی (صاحب) ساتھ تھے راستہ پر ایک کھیت کے کنارے ایک چھوٹی سی بیری تھی اور اسے بیر لگے ہوئے تھے اور ایک بڑا عمدہ پکا ہوا لال بیر راستہ میں گرا ہوا تھا میں نے چلتے چلتے اُسے اُٹھالیا اور کھانے لگا.حضرت صاحب نے فرمایا نہ کھاؤ اور وہیں رکھ دو آخر یہ کسی کی ملکیت ہے میاں صاحب موصوف بیان کرتے کہ اس دن سے آج تک میں نے کسی بیری کے بیر بغیر اجازت مالک اراضی کے نہیں کھائے کیونکہ جب میں کسی بیری کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے یہ بات یاد آ جاتی ہے.سیرت المہدی حصہ اول صفر ۱۹) بدھنی سے بچو (1) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بندہ کو چاہیئے کہ ہمیشہ اپنے خدا پر نیک ظن رکھے.تمام غلط عقائد کی جڑ اللہ تعالیٰ پر بدظنی ہے.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے ذلِكُمُ ظُنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدِيكُمْ.یعنی اے کا فرو! تم نے جو بدظنی خدا پر کی اُسی نے تم کو ہلاک کیا.اسی طرح حدیث شریف میں آیا ہے اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح میرا بندہ میرے متعلق گمان کرتا ہے میں اُس کے ساتھ اُسی طرح کا سلوک کرتا ہوں.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۷۸۴) عام مخلوق پر رحم (1) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں ( یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) دالان کے دروازے بند کر کے چڑیاں پکڑ رہے تھے کہ حضرت صاحب نے جمعہ کی نماز کے لیے باہر جاتے ہوئے ان کو دیکھ لیا اور فرمایا.میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑ ا کرتے جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں.“ (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه (۱۷۸) (۲) خواجہ عبد الرحمن صاحب متوطن کشمیر سے روایت ہے کہ ایک دفعہ بڑا موٹا کتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں گھس آیا اور ہم بچوں نے اُسے دروازے بند کر کے مارنا چاہا.لیکن جب کتنے نے شور مچایا تو حضرت صاحب کو بھی پتہ لگ گیا اور آپ ہم پر ناراض ہوئے چنانچہ ہم نے دروازے کھول کر کتے کو چھوڑ دیا.(سیرت المہدی حصہ دوم صفحه (۳۴۱) بچہ کو ہر وقت کسی نہ کسی کام میں لگائے رکھنا چاہیے“ ارشاد حضرت خلیفہ المسح الثانی رضی الہ تعالی عنہ فرموده ا مارچ ۱۹۳۹ء)
اخلاق احمد 16 (۳) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور سے کسی بچہ نے پوچھا کہ کیا طوطا حلال ہے مطلب یہ تھا کہ کیا ہم طوطا کھانے کے لیے مارلیا کریں.حضور نے فرمایا میاں حلال تو ہے مگر کیا سب جانور کھانے کے لیے ہی ہوتے ہیں؟ مطلب یہ تھا کہ خدا نے سب جانور صرف کھانے ہی کے لیے پیدا نہیں کیے.بلکہ بعض دیکھنے کے لیے اور دُنیا کی زینت اور خوبصورتی کے لیے بھی پیدا کیے ہیں.“ اپنے ہاتھ سے کام کرنا (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۴۸۵) (1) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ ”حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گھر کا کوئی کام کرنے سے سے بھی عار نہ تھی.چار پائیاں خود بچھا لیتے تھے فرش کر لیتے تھے.بسترہ کرلیا کرتے تھے.کبھی یکدم بارش آجاتی تو چھوٹے بچے تو چار پائیوں پر ہوتے رہتے.حضور ایک طرف سے خود اُن کی چار پائیاں پکڑتے دوسری طرف سے کوئی اور شخص پکڑتا اور اندر برآمدہ میں کروا لیتے اگر کوئی شخص ایسے موقعہ پر یا صبح کے وقت بچوں کو جھنجھوڑ کر جگانا چاہتا تو حضور منع کرتے اور فرماتے کہ اس طرح یکدم ہلانے اور چیخنے سے بچہ ڈر جاتا ہے.آہستہ سے آواز دیکر اُٹھاؤ.(سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۵۵۹) (۲) میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے بیان کیا کہ حضرت اقدس دستِ مبارک سے زنانہ مکان سے کھانا لے آتے تھے اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر تناول فرماتے تھے.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۷۲۷ ) صفائی (1) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب مسواک بہت پسند فرماتے تھے.تازہ کیکر کی مسواک کیا کرتے تھے.وضو کے وقت صرف اُنگلی سے ہی مسواک کر لیا کرتے تھے مسواک کئی دفعہ کہ کر مجھ سے بھی منگائی ہے اور دیگر خادموں سے بھی منگوالیا کرتے تھے اور بعض اوقات نماز اور وضو کے وقت کے علاوہ بھی استعمال کرتے تھے.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۶۳۹) (۲) ڈاکٹر صاحب موصوف ہی بیان کرتے ہیں کہ ”میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اترے ہوئے کپڑوں کو ناک کے ساتھ لگا کر سونگھا ہے مجھے بھی بھی ان میں پسینہ کی یو نہیں آئی..66 ( یعنی غیر معمولی صفائی اور طہارت کی وجہ سے.ناقل ) (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۳۲۶)
اخلاق احمد 17.......(۳) خواجہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں جب رفع حاجت کے لیے پاخانہ میں جاتے تو پانی کا لوٹا لا ز ما ساتھ لے جاتے تھے اور اندر طہارت کرنے کے علاوہ پاخانہ سے باہر آ کر بھی ہاتھ صاف کرتے تھے.نیز حضرت میرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے بیان کیا کہ حضرت صاحب کا طریق تھا کہ طہارت سے فارغ ہو کر ایک دفعہ سادہ پانی سے ہاتھ دھوتے تھے اور پھر مٹی مل کر دوبارہ صاف کرتے تھے.“ سادگی (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۸۴۱) (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۳۳۰) (۱) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ مجھے پچھتیس سال تک حضرت مسیح موعود ہ السلام کے عادات واطوار اور شمائل کو بغور دیکھنے کا موقعہ ملا ہے.گھر میں بھی اور باہر بھی میں نے اپنی ساری عمر میں آج تک کامل طور پر تصنع سے خالی سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی کو نہیں دیکھا.حضور کے کسی قول یا فعل یا حرکت وسکون میں بناوٹ کا شائبہ تک تبھی میں نے کبھی محسوس نہیں کیا.“ (۲) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کبھی گھر میں ننگے پیر بھی پھر لیتے تھے.خصوصاً اگر پختہ فرش ہوتا تھا تو بعض اوقات ننگے پاؤں ٹہلتے بھی رہتے تھے اور تصنیف بھی کرتے جاتے تھے.“ (۳) منشی عبدالعزیز صاحب او جلوی نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ آج ہم باغ کی طرف سیر کے لیے جائیں گے.چنانچہ اسی وقت چل پڑے.باغ میں دو چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں.باغ کے رکھوالے دو بڑے ٹوکرے شہتوتوں سے بھرے ہوئے لائے اور حضور کے سامنے رکھ دیئے سب دوست چار پائیوں پر بیٹھ گئے بے تکلفی کا یہ عالم تھا کہ حضور پائنتی کی طرف بیٹھے ہوئے تھے اور دوست سرہانے کی طرف سب (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۸۱۹) (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۶۰۶) دوست شہتوت کھانے لگے ، (۴) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ ایک دن سخت گرمی کے موسم میں چند احباب دو پہر کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اندر حاضر ہوئے جہاں حضور تصنیف کا کام کر رہے تھے پنکھا بھی اس کمرہ میں نہ تھا.بعض دوستوں نے عرض کیا کہ حضور کم از کم پنکھا تو لگوالیں تا کہ اس سخت گرمی میں حضور کو کچھ آرام تو ہو.حضور نے فرمایا کہ اس
اخلاق احمد 18.کا یہی نتیجہ ہو گا کہ تا کہ آدمی کو نیند آنے لگے اور وہ کام نہ کر سکے.ہم تو وہاں کام کرنا چاہتے ہیں جہاں گرمی کے مارے لوگوں کا تیل نکلتا ہو.“ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ ۳۹۷) (۵) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ ”جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام معہ چند خدام کے باوا صاحب کا چولہ دیکھنے کے لیے ڈیرہ بابا نا تک تشریف لے گئے تو وہاں ایک بڑ کے درخت کے نیچے کچھ کپڑے بچھا کر جماعت کے لوگوں معہ حضور کے بیٹھ گئے.مولوی محمد احسن صاحب بھی ہمراہ تھے.گاؤں کے لوگ حضور کی خبر سُن کر وہاں جمع ہونے لگے تو ان میں سے چند آدمی جو پہلے آئے تھے مولوی محمد احسن صاحب کو مسیح موعود خیال کر کے ان کے ساتھ مصافحہ کر کے بیٹھ گئے.تین چار آدمیوں کے مصافحہ کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ ان کو دھوکا ہوا ہے.اس کے بعد مولوی محمد احسن صاحب ہر ایسے شخص کو جو ان کے ساتھ مصافحہ کرتا تھا حضور کی طرف متوجہ کر دیتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ ہیں.(سیرت المہدی حصہ دوم صفحه۳۹۸).نوٹ: بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بھی ایسا دھوکا لگ جاتا تھا.چونکہ انبیاء کی مجلس بالکل سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے پاک ہوتی ہے اور سب لوگ محبت کے ساتھ باہم ملے جلے بیٹھے رہتے ہیں اس لیے اجنبی آدمی بعض اوقات عارضی طور پر دھوکا کھا جاتا ( ناقل) ہے.(1) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ وہ کتابیں جو اکثر حضرت صاحب کی زیر نظر رہتی تھیں.نیز تصنیف کے تمام کاغذات بستوں میں بندھے رہتے تھے.ایک ایک وقت میں اس قسم کے تین تین بستے جمع ہو جاتے تھے عموماً دو بستے تو ضرور رہتے تھے.یہ بستے سلے ہوئے نہیں ہوتے تھے.بلکہ صرف ایک چورس کپڑا ہوتا تھا.جس میں کاغذ اور کتا بیں رکھ کر دونوں طرف سے گانٹھیں دے لیا کرتے تھے.تصنیف کے وقت آپ کا سارا دفتر آپ کا پلنگ ہوتا تھا.“ مزاح (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۶۹۸) انبیاء علیہم السلام کو روحانی اوصاف کے علاوہ دنیاوی خوبیوں سے بھی ایک وافر حصہ ملتا ہے گویا وہ ہر لحاظ سے اپنے متبعین کے لیے نمونہ ہوتے ہیں.انہیں خوبیوں میں سے ایک مزاح کی خوبی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں زندہ دلی قائم رہتی ہے اور اُن کی روحوں میں بشاشت پیدا ہوتی ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی احادیث میں ذکر ہے کہ
اخلاق 19 رَسُولُ اللَّهِ صَلْعَمَ يُمَازِحُ وَلَا يَقُولُ إِلَّا الْحَقَّ.یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مزاح کیا کرتے تھے مگر مزاح میں حق بات ہی کہتے یہ نہیں کہ تہذیب کو خیر باد کہہ کر تمسخر و استہزاء کا طریق اختیار کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت میں بھی ہمیں ہنسی دل لگی اور مزاح کی مثالیں ملتی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :- (۱) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ بعض اوقات حضور علیہ السلام کسی جنسی کی بات پر ہنستے تھے اور خوب ہنستے تھے یہاں تک میں نے دیکھا ہے کہ ہنسی کی وجہ سے آپ کی آنکھوں میں پانی آجاتا تھا جسے آپ اُنگلی یا کپڑے سے پونچھ دیتے تھے.مگر آپ کبھی بیہودہ بات یا تمسخر یا استہزاء والی بات پر نہیں ہنتے تھے بلکہ اگر ایسی بات کوئی آپ کے سامنے کرتا تو منع کر دیتے تھے.چنانچہ میں نے ایک دفعہ ایک تمسخر کا نا مناسب فقرہ کسی سے کہا.آپ پاس ہی چار پائی پر لیٹے تھے.ہوں ہوں کر کے منع کرتے ہوئے اُٹھ بیٹھے اور فرمایا ” یہ گناہ کی بات ہے.(سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۵۸۸) (۲) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میں ابھی بچہ تھا ہماری والدہ صاحبہ یعنی حضرت ام المؤمنین نے مجھ سے مزاح کے رنگ میں بعض پنجابی الفاظ بتا کر اُن کے اردو مترادف پوچھنے شروع کیے.اس وقت میں یہ سمجھتا تھا کہ شائد حرکت کے لمبا کرنے سے ایک پنجابی لفظ اُردو بن جاتا ہے.اس خود ساختہ اصول کے ماتحت میں جب اُوٹ پٹانگ جواب دیتا تھا تو والدہ صاحبہ بہت ہنستی تھیں اور حضرت صاحب بھی پاس کھڑے ہوئے ہنتے جاتے تھے.اسی طرح حضرت صاحب نے بھی مجھ سے ایک دو پنجابی الفاظ بتا کر اُن کی اُردو پوچھی اور پھر میرے جواب پر بہت ہنسے.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ اس وقت میں نے سکتا“ کی اردو گوتا بتایا تھا اور اس پر حضرت صاحب بہت ہنستے تھے.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ۵۸۸) (۳) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت با مذاق طبیعت رکھتے تھے اور بعض اوقات تو خود ابتداء مزاح کے طور پر کلام فرماتے تھے.“ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۳۴۷) (۴) حضرت میرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہمارے گھر میں ایک خادمہ عورت رہتی تھی جس کا نام "مہر و " تھا.وہ بیچاری ! گاؤں کی رہنے والی تھی اور ان الفاظ کو نہ بجھتی تھی جو ذرا زیادہ ترقی یافتہ تمدن میں مستعمل ہوتے ہیں چنانچہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے اسے فرمایا کہ ایک خلال لا ؤ وہ جھٹ گئی اور
اخلاق اح 20.ایک پتھر کا ادویہ کوٹنے والا کھرل اُٹھا لائی جسے دیکھ کر حضرت صاحب بہت ہنسے اور ہماری والدہ صاحبہ ( یعنی حضرت ام المؤمنین) سے ہنستے ہوئے فرمایا کہ دیکھو کہ میں نے اس سے خلال مانگا تھا اور یہ کیا لے آئی ہے.اسی عورت کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ میاں غلام محمد کا تب امرتسری نے دروازہ پر دستک دی اور کہا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کرو کہ کا تب آیا ہے.یہ پیغام لے کر وہ حضرت صاحب کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ حضور قاتل دروازے پر کھڑا ہے اور بُلاتا ہے.حضرت صاحب بہت ہنسے.“ (۵) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ ”حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کبھی اپنے بچوں کو پیار سے چھیڑا بھی کرتے تھے اور وہ اس طرح سے کہ بھی بچہ کا پہنچہ پکڑ لیا.اور کوئی بات نہ کی خاموش ہور ہے یا بچہ لیٹا ہوا ہو تو اس کا پاؤں پکڑ کر اس کے تلوے کو سہلانے لگے ( نیز حضرت میرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے بیان کیا کہ یہ پہنچے پکڑ کر خاموش ہو جانے کا واقعہ میرے ساتھ بھی کئی دفعہ گزرا ہے.“ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۳۳۸) (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۳۳۱) (۶) حافظ نور محمد صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میں اور حافظ نبی بخش صاحب حضرت صاحب کی ملاقات کے لیے گئے تو آپ نے عشاء کے بعد حافظ نبی بخش صاحب سے مخاطب ہو کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ”میاں نبی بخش آپ کہاں لیٹیں گے؟ میاں نور محمد تو لحد کی مشق کر رہے ہیں؟ بات یہ تھی کہ اس وقت میں جہاں لیٹا ہوا تھا میرے نیچے ایک ٹکڑا سرکنڈے کا پڑا تھا جو قد آدم لمبا تھا.اسے دیکھ کر آپ نے بطور مزاح ایسا فرمایا کیونکہ دستور ہے که مردہ کو کسی سرکنڈے سے ناپ کر لحد کو اس کے مطابق درست کیا کرتے ہیں.“ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۳۴۷) دوسروں کی انتہائی دلداری اور انکی دل شکنی سے بچنا (۱) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق میں بعض باتیں خاص طور پر نمایاں تھیں اور ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپ کبھی کسی کی پشکنی کو پسند نہیں فرماتے تھے اور اس سے بہت ہی بچتے تھے.اور دوسروں کو بھی منع فرماتے تھے.نیز حضرت میرزا بشیر احمد صاحب نے بیان کیا کہ آپ کی سیرت کا یہ ایک خاص نمایاں پہلو تھا کہ حتی الوسع دوسروں کی انتہائی دلداری فرماتے اور دشکنی سے بچتے تھے.(سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۵۰) (۲) سید محمد علی شاہ صاحب نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ میرے ایک شاگرد نے مجھے شیشم کی
اخلاق احمد 21 ایک چھڑی بطور تحفہ دی میں نے خیال کیا کہ میں اس چھڑی کو حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کروں گا.چنانچہ خاکسار نے قادیان پہنچ کر بوقت صبح جبکہ حضور سیر سے واپس تشریف لائے وہ چھڑی پیش کر دی حضور کے دست مبارک کی چھڑی میری پیش کردہ چھڑی سے بدرجہا خوبصورت و نفیس تھی لہذا مجھے اپنی کو تہ خیالی سے یہ خیال گذرا کہ شائد میری چھڑی قبولیت کا شرف حاصل نہ کر سکے.مگر حضور نے کمال شفقت سے اُسے قبول فرما کر دُعا کی.بعد ازاں تین چار روز حضور علیہ السلام میری چھڑی کو لیکر سیر کو تشریف لے جاتے تھے جسے دیکھ کر میرے دل کو تسکین و اطمینان حاصل ہوا..(سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۵۴۹) (۳) منشی عبد العزیز صاحب او جلوی نے بیان کیا کہ ایک روز کا واقعہ ہے کہ ایک دودھ کا بھراہوالوٹا حضور کے سرہانے رکھا ہوا تھا خاکسار نے اسے پانی سمجھ کر ہلا کر جیسے لوٹے کو دھوتے وقت کرتے ہیں پھینک دیا جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ دودھ تھا تو مجھے سخت ندامت ہوئی.لیکن حضور نے بڑی نرمی اور دلجوئی سے فرمایا اور بار بار فرمایا کہ بہت اچھا ہوا کہ آپ نے اسے پھینک دیا.یہ دودھ اب خراب ہو چکا تھا.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۵۶۷) (۴) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ ابتدائی ایام کا ذکر ہے کہ والد بزرگوار (یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم) نے اپنا ایک بانات کا کوٹ جو مستعمل تھا ہمارے خالہ زاد بھائی سید محمد سعید کو جو ان دنوں میں قادیان میں تھا کسی خادم عورت کے ہاتھ بطور ہدیہ بھیجا.محمد سعید نے نہایت حقارت سے وہ کوٹ واپس کر دیا اور کہا کہ میں مستعمل کپڑا نہیں پہنتا.جب وہ خادمہ یہ کوٹ واپس لا رہی تھی راستہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے اس نے جواب دیا کہ میر صاحب نے یہ کوٹ محمد سعید کو بھیجا تھا مگر اس نے واپس کر دیا ہے کہ میں اُتر ا ہوا کپڑا نہیں پہنتا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ اس سے میر صاحب کی دشمنی ہوگی تم یہ کوٹ ہمیں دے جاؤ ہم پہنیں گے اور ان سے کہہ دینا کہ میں نے رکھ لیا ہے.“ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۳۳۲) (۵) ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ لا ہور احمد یہ بلڈ نلس میں حضور تشریف فرما تھے کہ شر قبور بھینی سے ایک ضعیف العمر نا تواں شخص مستقیم نام حضور کی خدمت میں زیارت نماز اور پھر باجماعت نماز اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں میں سے ایک فضل ہے“ ارشاد حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ فرموده ۲۳/ اپریل ۱۹۴۱ء)
اخلاق احمد 22.کے لیے آیا احباب کے جھرمٹ میں وہ حضور تک نہ پہنچ سکا اور بلند آواز سے بولا حضور میں تو زیارت کے لیے آیا ہوں.حضور نے فرمایا.بابا جی کو آگے آنے دو.لیکن وہ اچھی طرح اُٹھ نہ سکا.اس پر حضور نے فرمایا.بابا جی کو تکلیف ہے اور پھر حضور خود اُٹھ کر اُس کے پاس آبیٹھے.“ تعلیم وتعلم (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۷۴۰ ) (۱) میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ ”جب ابھی حضور نے سلسلہ بیعت شروع نہ فرمایا تھا.میں نے ایک دفعہ حضرت سے عرض کیا کہ حضور میری بیعت لیں.آپ نے فرمایا پیر کا کام بھنگی کا سا کام ہے اسے اپنے ہاتھ سے مرید کے گند نکال نکال کر دھونے پڑتے ہیں اور مجھے اس کام سے کراہت آتی ہے.میں نے عرض کیا حضور تو پھر کوئی تعلق تو ہنا چاہیئے.میں آتا ہوں اور اوپرا اوپر چلا جاتا ہوں.حضور نے فرمایا اچھا تم ہمارے شاگرد بن جاؤ اور ہم سے قرآن شریف کا ترجمہ پڑھ لیا کرو حضور مجھے ایک ہفتہ کے بعد ایک آیت کے سادہ معنے پڑھا دیا کرتے تھے اور کبھی کسی آیت کی تھوڑی سی تفسیر بھی فرما دیتے تھے.ایک دن فرمایا.میاں عبد اللہ میں تم قرآن شریف کے حقائق و معارف اس لیے نہیں بتاتا کہ میں تم میں ان کے برداشت کرنے کی طاقت نہیں دیکھتا.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ اس کا مطلب میں یہ سمجھا ہوں.کہ اگر مجھے اس وقت بتائے جاتے تو میں مجنون ہو جاتا.مگر میں اس سادہ ترجمہ کا ہی جو میں نے آپ سے نصف پارہ کے قریب پڑھا ہو گا اب تک اپنے اندر فہم قرآن کے متعلق (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ ۱۱۱) ایک خاص اثر دیکھتا ہوں.“ (۲) مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کے آدمیوں کو چاہئے کہ کم از کم تین دفعہ ہماری کتابوں کا مطالعہ کریں اور فر ماتے تھے کہ جو ہماری کتب کا مطالعہ نہیں کرتا اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے.(سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۲۷) (۳) قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بیان کیا کہ ”میں جب شروع میں قادیان گیا تو ایک شخص نے اپنے لڑکے کو حضرت صاحب کے سامنے ملاقات کے لیے پیش کیا.جس وقت وہ لڑکا حضرت صاحب کے مصافحہ کے لیے آگے بڑھا تو اظہار تعظیم کے لیے حضرت کے پاؤں کو ہاتھ لگانے لگا.جس پر حضرت صاحب نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اُسے ایسا کرنے سے روکا.اور میں نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا.اور آپ نے بڑے جوش میں فرمایا کہ انبیاء
اخلاق احمد 23.دنیا میں شرک مٹانے آتے ہیں اور ہمارا کام بھی شرک مٹانا ہے نہ کہ شرک قائم کرنا.“.(سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۳۱۸) (۴) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حکیم فضل دین صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور مجھے قرآن پڑھایا کریں آپ نے فرمایا اچھا.وہ چاشت کے قریب مسجد مبارک میں آجاتے اور حضرت صاحب ان کو قرآن مجید کا ترجمہ تھوڑا سا پڑھا دیا کرتے تھے یہ سلسلہ چند روز ہی جاری رہا پھر بند ہو گیا.عام درس نہ تھا صرف سادہ ترجمہ پڑھاتے تھے یہ ابتدائی زمانہ مسیحیت کا واقعہ ہے.(سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۶۲۵۳) السلام علیکم کہنا (۱) قاضی محمد یوسف صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلام کا اس قدر خیال تھا کہ خاکسار نے کئی بار دیکھا کہ حضو اگر چند لمحوں کے لئے بھی جماعت سے اُٹھ کر گھر جاتے اور پھر واپس تشریف لاتے تو ہر بار جاتے بھی اور آتے بھی السلام علیکم کہتے.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۵۲۳) (۲) مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے کسی حوالہ وغیرہ کا کام میاں معراج دین صاحب عمر لا ہوری اور دوسرے لوگوں کے سپر د کیا.چنانچہ اس ضمن میں میاں معراج دین صاحب چھوٹی چھوٹی پر چیوں پر لکھ کر بار بار حضرت صاحب سے کچھ دریافت کرتے تھے اور حضرت صاحب جواب دیتے تھے کہ یہ تلاش کرو یا فلاں کتاب بھیجو وغیرہ.اسی دوران میں میاں معراج دین صاحب نے ایک پرچی حضرت صاحب کو بھیجی اور حضرت صاحب کو مخاطب کر کے بغیر السلام علیکم لکھے اپنی بات لکھ دی اور چونکہ بار بار ایسی پر چیاں آتی جاتی تھیں اس لیے جلدی میں ان کی توجہ اس طرف نہ گئی کہ السلام علیکم بھی لکھنا چاہئے حضرت صاحب نے جب اندر سے اس کا جواب بھیجا تو اس کے شروع میں لکھا کہ آپ کو السلام علیکم لکھنا چاہیے تھا.“ (۳) حضرت میرزا بشیر احمد صاحب ایم اٹے نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ دستور تھا کہ آپ اپنے تمام خطوط میں بسم اللہ اور السلام علیکم لکھتے تھے اور خط کے نیچے دستخط کر کے تاریخ بھی ڈالتے تھے.میں نے کوئی خط آپ کا بغیر بسم اللہ اور سلام اور تاریخ کے نہیں دیکھا.“ (سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۲۹۹) (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه ۲۹۹)
اخلاق احمد 24..(۴) میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں میں نے ایک خاص بات دیکھی کہ جتنی مرتبہ حضور باہر تشریف لاتے میں دوڑ کر السلام علیکم کہتا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتا.حضور فوراً اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں اس طرح دے دیتے کہ گویا اس ہاتھ میں بالکل طاقت نہیں ہے یا یہ کہ وہ خاص اس لیے میرے سپر د کیا گیا ہے کہ جو چاہو اس ہاتھ سے برتاؤ کر لو.میں اس ہاتھ کو لے کر خوب چومتا اور آنکھوں سے لگا تا اور سر پر پھیر تا مگر حضور کچھ نہ کہتے.بیسیوں مرتبہ دن میں ایسا کرتا مگر ایک مرتبہ بھی حضور نے نہیں فرمایا کہ تجھے کیا ہو گیا ابھی تو مصافحہ کیا ہے پانچ پانچ منٹ بعد مصافحہ کی ضرورت نہیں.“ (سیرت المهیدی حصہ سوم صفحه ۵۳۵) (۵) خواجہ عبد الرحمن صاحب ساکن کشمیر نے بیان کیا کہ ” جب کبھی کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو السلام علیکم کہتا تو حضور عموماً اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھتے اور محبت سے سلام (سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۶۰۷) کا جواب دیتے.“ (۶) مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ میرے ساتھ شفا خانہ میں ایک انگریز لیڈی ڈاکٹر کام کرتی ہے اور وہ بوڑھی عورت ہے وہ بھی بھی میرے ساتھ مصافحہ کرتی ہے اس کے متعلق کیا حکم ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ تو جائز نہیں.آپ کو عذر کر دینا چاہیئے کہ ہمارے مذہب میں یہ جائز نہیں.“ استقلال اور صدق وصفا (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۴۰) (۱) رسالہ ”اندر“ لاہور نے جو آریوں کا ایک اخبار تھا آپ کی وفات پر لکھا ہے :.اگر ہم غلطی نہیں کرتے تو مرزا صاحب اپنی ایک صفت میں محمد صاحب (صلعم) سے بہت مشابہت رکھتے تھے اور وہ صفت ان کا استقلال تھا.خواہ وہ کسی مقصود کو لے کر تھا.اور ہم خوش ہیں کہ وہ آخری دم تک اس پر ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغزش نہیں کھائی.“ (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه ۲۹۵) (۲) آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۲۹۷ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام محکمہ ڈاک کی طرف وه بچو ! تم اسلام کا کامل نمونہ بنو ارشاد حضرت خلیفہ انبیع الثانی رضی اللہ تعالی عنہ فرموده ۱۳۰ اپریل ۱۹۳۸ء)
اخلاق احمد سے دائر کردہ مقدمہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.25.اس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیا رام تھا اور وہ وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کے لیے تاکید بھی تھی ایس لیے وہ عیسائی مخالفت مذہب کی وجہ سے افروختہ ہوا اور اتفاقا اس کو دشمنانہ حملہ کے لیے یہ موقع ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانونا ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کی رُو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے.سو اُس نے مختبر بن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرا دیا..اس جرم میں صدر ضلع گورداسپور میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لیے مشورہ لیا گیا.انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغگوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خطا نہیں ڈالا رلیا رام نے خود ڈال دیا ہوگا.اور نیز بطور تسلّی دہی کے کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہو جائے گا.اور دو چار جھوٹے گواہ دیکر بریت ہو جائے گی ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں.مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا جو ہو گا سو ہوگا.تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاک خانجات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے تب میں نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسائی محصول کے لیے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی حج کی بات تھی.اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا اور میرے مقابل پر افسر ڈاک خانجات نے بہت شور مچایا.اور بھی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا مگر اس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو نو کر کے اُس کی سب باتوں کو رد کر دیتا تھا.انجام کار جب وہ افسر مدعی
26.......اخلاق آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۹۷ تا ۲۹۸) اپنے تمام وجوہ پیش کر چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شائد سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا اچھا آپ کے لیے رخصت.یہ سُن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجالایا میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالٰی نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی.“ (۳) آئینہ کمالات اسلام میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.” میرے بیٹے سلطان احمد نے ایک ہندو پر بدیں بنیاد نالش کی کہ اُس نے ہماری زمین پر مکان بنالیا ہے اور مسماری مکان کا دعوی تھا اور ترتیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا جس کے ثبوت سے وہ مقدمہ ڈسمس ہونے کے لائق ٹھہرتا تھا اور مقدمہ کے ڈیمس ہونے کی حالت میں نہ صرف سلطان احمد کو بلکہ مجھ کو بھی نقصان تلف ملکیت اُٹھانا پڑتا تھا.تب فریق مخالف نے موقعہ پا کر میری گواہی لکھا دی اور میں بٹالہ میں گیا.اس وقت سلطان احمد کا وکیل میرے پاس آیا کہ اب پیشی مقدمہ ہے آپ کیا اظہار دینگے میں نے کہا کہ وہ اظہار ڈونگا جو واقعی امر اور سچ ہے تب اس نے کہا کہ پھر آپ کے کچہری جانے کی کیا ضرورت ہے میں جاتا ہوں تا مقدمہ سے دست بردار ہو جاؤں سو وہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایت صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو ابْتَغَاءَ لَمَرْضَاتِ اللهِ مقدم رکھ کر ملی نقصان کو نیچ غض بصر " ( آئینہ کمالات اسلام صفحه ۳۰۰) (۱) مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ 'باہر مردوں میں بھی حضرت صاحب کی یہی عادت تھی کہ آپ کی آنکھیں ہمیشہ نیم بند رہتی تھیں اور ادھر ادھر آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی آپ کو عادت نہ تھی بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ سیر میں جاتے ہوئے آپ کسی خادم کا ذکر غائب کے صیغہ میں فرماتے تھے حالانکہ وہ آپ کے ساتھ ساتھ جارہا ہوتا تھا اور پھر کسی کے جتلانے پر آپ کو پتہ چلتا تھا کہ وہ شخص آپ کے ساتھ ہے.“ (۲) مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب مع چند خدام کے فوٹو کھچوانے لگے.تو فوٹو گرافر آپ سے عرض کرتا تھا کہ حضور ذرا آنکھیں کھولکر رکھیں ورنہ تصویر اچھی نہیں آئیگی اور آپ نے اس کے کہنے پر ایک دفعہ تکلف کے ساتھ آنکھوں کو کچھ زیادہ کھولا بھی مگر وہ پھر اسی طرح نیم بند ہو گئیں.“ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۴۰۳) (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۴۰۴ )
اخلاق ا 27 شیر خدا (۱) مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے بیان کیا کہ جن دنوں میں گورداسپور میں کرم دین کے ساتھ مقدمہ تھا.حضور نے تاریخ سے دو روز پہلے مجھے گورداسپور بھیجا...جب ہم گوداسپور مکان پر آئے تو نیچے سے ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب مرحوم کو آواز دی کہ وہ نیچے آئیں اور دروازہ کھولیں ہمارے آواز دینے پر ڈاکٹر صاحب نے بے تاب ہوکر رونا اور چلانا شروع کر دیا آخر تھوڑی دیر کے بعد وہ آنسو پونچھتے ہوئے نیچے آئے ہم نے سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ محمد حسین منشی آیا اور اس نے مجھے کہا کہ آجکل یہاں آریوں کا جلسہ ہوا ہے بعض آر یہ اپنے دوستوں کو بھی جلسہ میں لے گئے جلسہ کی عام کارروائی کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ اب لوگ چلے جائیں کچھ ہم نے پرائیویٹ باتیں کرنی ہیں میں بھی جانے لگا مگر میرے آریہ دوست نے کہا کہ اکٹھے چلیں گے چنانچہ میں وہاں ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا پھر اُن آریوں میں سے ایک شخص اُٹھا اور مجسٹریٹ کو مرزا صاحب کا نام لے کر کہنے لگا کہ یہ شخص ہمارا سخت دشمن اور ہمارے لیڈ لیکھرام کا قاتل ہے اب وہ آپ کے ہاتھ میں شکار ہے اور ساری قوم کی نظر آپ کی طرف ہے اگر آپ نے اس شکار کو ہاتھ سے جانے دیا تو آپ قوم کے دشمن ہونگے اس پر مجسٹریٹ نے جواب دیا کہ میرا تو پہلے سے خیال ہے کہ ہو سکے تو نہ صرف مرزا کو بلکہ اس مقدمہ میں جتنے بھی اس کے ساتھی اور گواہ ہیں سب کو جہنم میں پہنچا دوں مگر کیا کیا جائے کہ مقدمہ ایسی ہوشیاری سے چلایا جا رہا ہے کہ کوئی ہاتھ ڈالنے کی جگہ نہیں ملتی لیکن اب میں عہد کرتا ہوں خواہ کچھ ہو اس پہلی پیشی میں ہی عدالتی کارروائی عمل میں لے آؤں گا..محمد حسین مجھ سے کہتا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مجسٹریٹ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ شروع یا دوران مقدمہ میں جب چاہے ملزم کو بغیر ضمانت قبول کیسے گرفتار کر کے حوالات میں دیدے.....پھر حضرت صاحب گورداسپور چلے آئے میں نے سارا قصہ سنایا کہ کس طرح ہم نے یہاں آکر ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب کو روتے ہوئے پایا پھر کس طرح ڈاکٹر صاحب نے منشی رہے.محمد حسین کے آنے کا واقعہ سنایا اور پھر محمد حسین نے کیا واقعہ سُنا یا حضور خاموشی سے سنتے جب میں شکار کے لفظ پر پہنچا تو یک لخت حضرت صاحب اُٹھ کر کر بیٹھ گئے اور آپ کی آنکھیں چمک اُٹھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا.اور آپ نے فرمایا میں اس کا شکار ہوں میں شکار نہیں ہوں میں شیر ہوں اور شیر بھی خدا کا شیر.وہ بھلا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ ایسا کر کے تو
اخلا 28.دیکھے حضور نے کئی دفعہ خدا کے شیر کے الفاظ دُہرائے اور اُس وقت آپ کی آنکھیں جو ہمیشہ جھکی ہوئی اور نیم بند رہتی تھیں واقعی شیر کی آنکھوں کی طرح کھل کر شعلہ کی طرح چمکتی تھیں...پھر آپ نے فرمایا میں کیا کروں میں نے تو خدا کے سامنے پیش کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھ اور پاؤں میں لوہا پہنے کو تیار ہوں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں میں تجھے ذلت سے بچاؤں گا اور عزت کے ساتھ بری کروں گا.“ وقار (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ ۱۰۷) (1) میرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ایک عام عادت تھی کہ صبح کے وقت باہر سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے اور خدام آپ کے ساتھ ہوتے تھے اور ایک ایک میل دو دو میل چلے جاتے تھے اور آپ کی عادت تھی کہ بہت تیز چلتے تھے مگر بایں ہمہ آپ کی رفتار میں پو را پو را وقار ہوتا تھا.“ (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ اے ) تنگ نہ پڑنا (۱) سیٹھی غلام نبی صاحب نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے فرمایا کہ لوگ حضرت صاحب کو تنگ کرتے ہیں اور بار بار دُعا کے لیے رقعہ لکھ کر اوقات گرامی میں حارج ہوتے ہیں.میں نے خیال کیا کہ میں ہی حضور کو بہت تنگ کرتا ہوں شائد رُوئے سخن میری ہی طرف ہو.سو میں اسی وقت حضور کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اگر حضور ہماری ان باتوں سے تنگ ہوتے ہوں تو ہم انہیں چھوڑ دیں.حضور نے فرمایا نہیں نہیں بلکہ بار بار لکھو جتنازیادہ یاد دہانی کراؤ گے اتنا ہی بہتر ہوگا.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۵۲۴ ) (۲) میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں میں نے ایک خاص بات دیکھی کہ جتنی مرتبہ حضور باہر تشریف لاتے میں دوڑ کر السلام علیکم کہتا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتا.حضور فوراً اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیدیتے.بیسیوں مرتبہ دن میں ایسا کرتا.مگر ایک مرتبہ بھی حضور نے نہیں فرمایا کہ تجھے کیا ہو گیا.ابھی تو مصافحہ کیا ہے.پانچ پانچ منٹ بعد مصافحہ کی ضرورت نہیں.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۵۳۵) کسی کو تو نہ کہنا (۱) حافظ نبی بخش صاحب سا کن فیض اللہ چک نے بیان کیا کہ حضور کی عادت میں داخل تھا کہ خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا کسی کو تو “ کے لفظ سے خطاب نہ کرتے تھے حالانکہ میں چھوٹا
اخلاق احمد 29.......بچہ تھا مجھے بھی حضور نے تو “ سے مخاطب نہ کیا تھا.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۵۴۳) دُعا کا طریق (۱) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ ”جب حضرت صاحب مجلس میں بیعت کے بعد یا کسی کی درخواست پر دُعا فرمایا کرتے تھے.تو آپ کے دونوں ہاتھ منہ کے نہایت قریب ہوتے تھے اور پیشانی و چہرہ مبارک ہاتھوں سے ڈھک جاتا تھا اور آپ آلتی پالتی مار کر دُعا نہیں کیا کرتے تھے.بلکہ دوزانو ہو کر دعا فرماتے تھے اگر دوسری طرح بھی بیٹھے ہوں تب بھی دُعا کے وقت دوزانو ہو جایا کرتے تھے.یہ دُعا کے وقت حضور کا ادب الہی تھا.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۷۳۶) گاڑی میں مسافروں کے لیے جگہ خالی کر دینا (۱) مولوی غلام حسین صاحب ڈنگوی نے بیان کیا کہ ایک دفعہ مجھے حضور کے ساتھ ریل میں سفر کرنے کا اتفاق نصیب ہوا جیسا کہ عام لوگ ریل میں سوار ہوکر باہر سے آنے والے مسافروں سے ترش روئی کے ساتھ پیش آتے ہیں.اس وقت بھی بعض اصحاب نے یہ رویہ اختیار کیا.ان میں سے یہ نا چیز بھی تھا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسافر کے لیے جگہ خالی کر دی اور مجھے یوں مخاطب کیا کہ اخلاق دکھانے کا یہی موقعہ ہے اس پر میں بہت شرمسار ہوا.یہ آپ کے اخلاق فاضلہ میں سے ایک عام مثال ہے.(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۶۶۷) قادیان میں بار بار آنے کی تاکید ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ ” حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان میں بار بار آنے کی تاکید فرماتے رہتے تھے.“ جامع اخلاق (سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۸۸۸) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اخلاق میں کامل تھے.یعنی آپ نہایت رؤف و رحیم تھے.تھی تھے.مہمان نواز تھے.امجمع الناس تھے ابتلاؤں کے وقت جب لوگوں کے دل بیٹھے جاتے تھے.آپ شیر نر کی طرح آگے بڑھتے تھے عفو چشم پوشی - فیاضی - دیانت - خاکساری - صبر - شکر-استغناء-حیا-غض بصر-عفت.محنت- قناعت- وفاداری- بے تکلفی - سادگی - شفقت- ادب الہی.ادب رسول و بزرگان دین- حلم - میانہ روی - ادا ئیگی حقوق - ایفائے وعدہ.پستی.ہمدردی.اشاعتِ دین.
اخلاق احمد 30.......تربیت.حسنِ معاشرت- مال کی نگہداشت- وقار - طہارت- زندہ دلی اور مزاح - راز داری.غیرت-احسان- حفظ مراتب - حسن ظنی.ہمت اور اولوالعزمی-خودداری- خوش روئی.اور کشادہ پیشانی - نظم غیظ انتظام - اشاعت علم و معرفت- خدا اور اس کے رسول کا عشق.کامل اتباع رسول - مختصر آپ کے اخلاق و عادات تھے.بے صبری - کینہ - حسد - ظلم.عداوت- گندگی.حرص دُنیا.بدخواہی.پردہ دری.غیبت - کذب ناشکری - تکبر - کم ہمتی - بخل - ترش روئی و سمج خلقی.بُزدلی.چالا کی.فحشاء.بغاوت- عجز - کسل- ناامیدی- ریا.دل دُکھانا تمسخر بدظنی.بے غیرتی.تہمت لگانا.دھوکا - اسراف بے احتیاطی.چغلی.لگائی بجھائی.بے استقلالی- لجاجت.بے وفائی.....وقت کو ضائع کرنا.ان باتوں سے آپ کوسوں دُور تھے.“ دو " آپ نماز جماعت کی پابندی کرنے والے.تہجد گزار- دُعا پر بے حد یقین رکھنے والے.سوائے مرض یا سفر کے ہمیشہ روزہ رکھنے والے.سادہ عادات والے.سخت مشقت برداشت کرنے والے.ساری عمر جہاد میں گذارنے والے تھے.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۹۷۵) تعداد دو ہزار ۲۰۰۰ بار ناشر مجلس اطفال الاحمد یہ بھارت سن اشاعت اپریل ۲۰۰۴ء کمپوزنگ مطبع کریسنٹ پبلشر، قادیان 9872318868 پرنٹ ویل امرتسر ملنے کا پته دفتر اطفال الاحمدیہ بھارت ، ایوان خدمت ، قادیان پنجاب - ۱۴۳۵۱۶ (بھارت)