Aitrazat Ka Ilmi Jaiza

Aitrazat Ka Ilmi Jaiza

جماعت احمدیہ پر اعتراضات کا علمی جائزہ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

جماعت احمدیہ نے روز اول سے ہر نوع اور ہر مذہب  و فرقہ کے مخالفین و معاندین کی طعن و تشنیع اور اعتراضات کا  سامنا کیا ہے۔ ان مخالفین کا گوآپس میں کتنا ہی گہرا اختلاف اور تضاد ہو، جماعت احمدیہ کے مقابل پر یہ سب لوگ یکساں قوت اور جذبے سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس کتاب کے مصنف نے غیر احمدی مسلمان علماء اور عیسائی منادوں کے یکساں اعتراضات اور متحد کوششوں کا تذکرہ کرکے 15 مختلف اعتراضات درج کرکے ان کا علمی جواب اور جائزہ پیش کیا ہے۔ صدسالہ جشن تشکر 1989ء کے موقع پر احمد اکیڈمی ربوہ کی طرف سے شائع کردہ اس کتاب کے 80 صفحات ہیں۔


Book Content

Page 1

VA جماعت کا دید پر اعتراضات ں جائزہ دوست محمد شاهد

Page 2

41756 1.4.89 جماعت احمدیہ پر اعتراضات عا علمی جائزہ مولا ناد دوست محمد صاحب شاید مورخ احمدیت احمد اکیڈمی ربوہ ۲۳ مارچ شده اید تا ۲۳ مارچ شده ودیو درد احمدیه صدسالہ جشن تشکر مبارک ہو !

Page 3

i تعاون میرا خدا شمس جامعه احمدیه احمدت ناشر : جمال الدین انجیم مطبوعہ : لاہور آرٹ پریس لاہور

Page 4

: بِسْرِ اللَّهِ السَّرَّحْمَنِ الرَّحِيرة جماعت احمدیہ پراعتراضات کا على جائزة یہ دنیا مادہ پرستوں اور خدا والوں کے دو الگ الگ کیمپوں میں بیٹی ہوئی ہے.خدا والوں کے لئے رت حکیم کا یہ حکم ہے کہ ان کا ایمان دلائل اور براہین پر مبنی ہونا چاہئیے.ایمان وہی ہے جسکی بنیاد بصیرت پر ہو اور وہ کھلی آنکھوں اور کھلے کانوں کے ساتھ اختیار کیا جائے.چنانچہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے :- وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمَّا وَعُمْيَانًا ) الفرقان : ۷۴ یعنی عباد الرحمن کی یہ خصوصیت ہے کہ جب انکے رب کی آیات کا ذکر کیا جائے تو وہ اُن سے بہروں اور اندھوں کا سا معاملہ نہیں کرتے بلکہ کان اور آنکھیں کھول کر ربانی آیتوں کو سنتے اور ان پر روحانی بصیرت کیساتھ نظر ڈالتے ہیں.سوره مومنون رکوع ۳ سے ثابت ہے کہ آسمانی مصلح اور مامو میبی آیات الہیہ میں شامل ہیں.لہذا ان کی آواز پر لیک کہنے والوں کا درین فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے عقائد کے بارہ میں حقیقی معرفت حاصل کریں کیونکہ ا

Page 5

سی سے دین پر ثبات حاصل ہوتا ہے اور اسی سے قرب الہی کی برکات نصیب ہوئی ہیں.عباد الرحمن کی اس مثالی خصوصیت اور شاندار روایت کو قیامت تک زندہ رکھنا مالک عالم کے تمام احمدیوں کا اولین فرض ہے.کیونکہ وہ تحریک احمدیت سے وابستگی کا شرف رکھتے ہیں.جو خالص علمی ، مذہبی اور آفاقی تحریک ہے اور جس کے محکم نظریات کی رفعتوں کے مقابل ہمالیہ کی سر بفلک چوٹیوں کی اتنی بھی حیثیت نہیں ، جتنی نسبت ذرہ کو آفتاب سے یا قطرہ کو بحر ذخار سے ممکن ہے.اس کھلی صداقت کو آزمانے اور پرکھنے کاسب سے آسان اور دلچسپ طریق وہی ہو سکتا ہے جسکی نشاندہی ہمارے آقا و مولیٰ خاتم الانبیاء حضرت احمد مجتبی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ GALANGUAGE خَزَائِنُ وَمِفْتَاحُهَا السُّوالُ لك علم کے خندانوں کی چابی سوال ہے " العـ " اس با برکت ارشاد نبوی کی تعمیل میں اسوقت عقائد احمدیت پر بعض سوالات اور اعتراضات کا جائزہ لینا مقصود ہے.لیکن قبل اس کے کہ اصل نوع شروع کیا جائے یہ بنانا ضروری ہے کہ عقائد احمدیت کیا ہیں اور ان کے خلاف شدید رد عمل اور اعتراضات کا واقعاتی پس منظر کیا ہے ؟؟ " الدور المنتشرة " للسيوطي صفحه ۱۱۵

Page 6

بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود فرماتے ہیں: " یہ عاجز تو محض اس غرض سے بھیجا گیا تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کیلئے دروازه لا إِلهَ الا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہے قرآن مجید نے توحید اور رسالت محمدیہ کے خلاف سب سے بڑا خطرہ فتنہ تثلیث کو قرار دیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.تَكَادُ السَّبُوتُ يَتَفَكَّرُنَ مِنْهُ وَتَنْشَقٌ الاَرْضُ وَتَخِرُ الْجِبَالُ هَدَّاه اَن دَعَوا لِلرَّحْمَانِ وَلَدًاه ) مریم ۹۱-۹۲) قریب ہے کہ آسمان پھٹ کر گر جائیں اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر جاپڑیں.اس لیے کہ ان لوگوں نے خدائے رحمن کا بیٹا قرار دیا ہے اس قرآنی فیصلہ کے مطابق حضرت بانی احمدیت اس فتنہ کیخلاف عمر بھر جہاد کرتے رہے نیز فرمایا : " ہمارے نزدیک ہندوستان دارالحرب ہے.ملجا و قلم کے ن " حجة الاسلام" صفحه ۱۲ - ۱۳

Page 7

پادری لوگوں نے اسلام کے خلاف ایک خطر ناک جنگ شروع کی ہوئی ہے.اس میدان جنگ میں وہ نیزہ ہائے قلم لیکر نکلے ہیں نہ ستان و تفنگ لے کر.اس لئے اس میدان میں ہم کو جو ہتھیار لے کر نکلنا چاہیے وہ قلم اور صرف قلم ہے.....اللہ اور اس کے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ دل آثار حملے کئے جاتے ہیں کہ ہمارا تو جیگر پھٹ جاتا اور دل کانپ اٹھتا ہے “ اہل تسلیت کی اس یلغار کے پس پشت برطانیہ اور دوسری استعماری طاقتیں کار فرما تھیں اور تحریک احمدیت کے ظہور سے قبل پادری عماد الدین، پادری را نکلین، پادری را مچندر ، پادری را جرس وغیرہ عیسائی مصنفوں کا نہایت دل آزار لٹریچر پورے بر صغیر میں بارودی شکل اختیار کر چکا تھا اور بر صغیر کے کروڑوں نہتے اور بے بس مسلمان پادریوں کی اس آتشیں جنگ کی پیٹ میں آگئے تھے.اور جیسا کہ مشہور مناد اور پادری بیروز نے انکشاف کیا کہ اصل سازش یہ تھی کہ ہندوستان ہی نہیں نعوذ باالله مکہ معظمہ پر بھی صلیبی جھنڈا لہرایا جائے ہے اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے نئے مشنوں کا جال بچھا دیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا نیر سے تیز تر d.لمفوظات جلد ا ص ۲۱۷ صفحه BY TOWN HENRY BARROWS ) واحد ٣٢١ BARROWS LECTURES ریورنڈ مولوی عماد الدین کا خط شکاگو (۱۸۹۳ء) میں لکھا " محمدی و غیر اس قدر شکست خوردہ ہیں کہ قیامت تک سر نہ اٹھا سکیں گے ، ص ۲۰۰۱ مطبوعہ نیشنل پریس امرتی و

Page 8

ہوتا گیا.لاکھوں صفحوں کے مسیحی لٹریچر میں سے صرف تین اقتباسات ملاحظہ ہوں 1 - " قرآن کو علیحدہ بالائے طاق رکھ دو اور انجیل مقدس کو قبول کرو کیونکہ -1 صرف اس ہی کے وسیلے سے نجات کا راستہ ظاہر کیا گیا ہے " ۲ -" محمد صاحب نے کبھی کوئی معجزہ نہیں دکھایا پر مسیح نے بہت عجیب M غریب کام کئے جس نے اندھوں کو آنکھیں عطا فرمائیں اور مردوں کو زندگی بخشی.وہی آپکو گناہ کے بُرے اثر سے بچا سکتا ہے.آخرالامر محمد صاب موت کا شکار ہو گئے اور اُن کا جسم خاک ہو گیا.لیکن یسوع مسیح اگر چہ ایک دفعہ مر گیا اور گناہ کا کفارہ ہوا تو بھی وہ مردوں میں سے جی اٹھا.آسمان پر چڑھ گیا اور اپنے لوگوں کو بچانے کیلئے ابدالآباد تک زندہ ہے اور گنہگاروں کی سفارش کرتا ہے.اگر محمد صاحب آپ کی سفارش کریں تو بالکل بے فائدہ ہے ایک گنہگار کو دوسرے گنہگار کی سفارش سے کیا حاصل ؟ کیا کوئی بھی پسند کر دیگا کہ اس کے سامنے کوئی چور کسی چور کی ٹے سفارش کرے ،، سے میسج " اسلام ابراہیمی کا ختم المرسلین ہے.اور اسلام ابراہیمی کا اصلی اور جائز طور سے وارث ہے ، سے ۱۲ ن "قرآن" ص - ناشر کو سچن لٹریچہ سوسائٹی لدھیانہ ١٩٠٠ء " مسیح یا محمد ص ۱۲-۱۳ - ناشر کرسچن ٹریچر سوسائٹی لدھیانہ ۱۹۰۰ ء ن س الفرقان حصہ دوم صفحه ۴۴ دیادری غلام میسج پاسٹر انبالہ شہر چیپ هواء י

Page 9

کا سر صلیب حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود کے قلب مبارک کو ان اخلاق سوز کارروائیوں نے تڑپا دیا چنانچہ حضور اپنی باطنی کیفیت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں : ت.-: یہ درد ناک نظارہ کہ ایسے لوگ دنیا میں چالیس کروڑ سے بھی کچھ زیادہ پائے جاتے ہیں جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا سمجھ رکھا ہے.میرے دل پر اسقدر صدمہ پہنچا تا رہا ہے کہ میں گمان نہیں کر سکتا کہ مجھ پر تمام زندگی ہیں اس سے بڑھ کر کوئی غم گذرا ہو.بلکہ مستم و غم سے مرنا میرے لئے ممکن ہوتا تو یہ غم مجھے ہلاک کر دیتا.....ایک زمانہ گزر گیا کہ میرے پنجوقت کی یہی دعائیں ہیں کہ خدا انت لوگوں کو آنکھ بخشے اور وہ اسکی وحدانیت پر ایمان لاوین اور اس کے رسول کی شناخت کرلیں " سے نیز پیشگوئی فرمائی کہ : مسیح موعود کے وجود کی علت خالی احادیث نبویہ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ....صلیبی خیالات کو پاش پاش کر کے دکھلا دے گا......ضرور خیلیبی مذہب کی بنیاد گرے گی اور اس کا گرتا نہایت ہولناک ہوگا " ہے " تبلیغ رسالت جلد ، ص ۷۲۰ س "كتاب البرية " (حانیه ص ۲۶۲-۲۶۳) L

Page 10

٩ تمام ط حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے صلیب کے پرستاروں کو للکارنا اور اس نشان سے دلائل و براہین کی رو سے ان پر حجت تمام کی کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے بقول عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پر نچے اڑ گئے جو سلطنت کے زیر سایہ ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اسکی جان تھا اور عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا " نے اور مولانا نور محمد صاحب نقشبندی چشتی مالک اصح المطابع دہلی کے الفاظ میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے پیش فرمودہ نظریہ وفات مسیح کے نتیجہ میں ہندوستان سے لیکر ولایت تک کے پادریوں کو شکست ہوئی " ڑے پادریوں نے اس شکست فاش کا انتقام لینے اور مسلمانوں کو اپنے دام تزویر میں پھنسانے کیلئے اس پہلو پر زور دینا شروع کیا کہ مرزا صاحب کو کا ذب سمجھنے میں ہم سب عیسائی مسلمانوں کے ساتھ متفق ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد کے لئے چشم براہ ہیں.چنانچہ ۱۹۰۷ ء میں مشہور پادری اکبر مسیح نے اسی بناء پر اپنی کتاب 19-6 منارۃ البیضاء " صر-۳ میں مسلمانوں کو دعوتِ اتحاد دی جس کے بعد مسیحی مصنفوں نے احمدیت کے خلاف اعتراضوں کو پھیلانے کیلئے باقاعدہ اخبار وکیل " امر نشر جون ۱۹۰۸ ء ہے.دیبا بچه بر ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی

Page 11

" مہم شروع کی اور ان علماء کو زیر دست خراج تحسین پیش کیا جانے لگا جن کی کتب سے یہ اعتراضات جمع کئے گئے تھے.اس دعوی کا واضح ثبوت جناب سموئیل احمد حسن کی کتاب " تخصیص “ اور پادری کے ایل ناصر کی حقیقت مرزا " ہے.موخر الذکر کتاب کے شروع میں انتساب کے زیر عنوان لکھا ہے کہ سے " میں اس مجموعہ کو مندرجہ ذیل علمائے کرام کے نام سے منسوب کرتا ہوں جنہوں نے مرزائیت کی حقیقت کو بے نقاب کر کے ہند و پاکستان میں مسیحیوں اور مسلمانوں کی ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دی ہیں “ " اس کے بعد عیسائی مؤلف نے جن ممتاز اور محسن " علماء کا نام شامل فہرست کیا ہے ان میں جناب مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری پروفیسر الیاس برنی صاحب اور مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی جیسی شخصیات بھی شامل ہیں.مسیحی ہائی کمان کی اس پالیسی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ پچھلے چند سالوں سے جہاں کانگریسی علماء کی طرف سے احمدیوں کے خلاف جارحانہ سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہاں یہ مسیحی پراپیگنڈہ بھی پاکستان میں بہت زور پکڑ چکا ہے کہ : -۱ حضرت عیسی.......رسول گر تھے لے تے " مسیح کی شان ، ص۱-۳۳ ایف ایم نجم الدین صاحب اخوت اندریا سیہ پنجاب بار تم اپریل -1945 اپریل ۶۱۹۸۰

Page 12

H ع d.بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ہ مسیح خداوند کلمتہ اللہ وجہ تخلیق کائنات ہے " " - گنہگاروں کا واحد نجات دہندہ ہے جس طرح خدا با پ آسمان پر زندہ ہے اسی طرح خدا کا اکلوتا بیٹا آسمان پر زندہ ہے ، سلے اس ضمن میں یہ حقیقت بھی کھل سامنے آچکی ہے کہ عیسائیت اب صیہونیت کے تابع رہ کر طور صیہونی ایجنٹ خدمات بجا لا رہی ہے حد یہ ہے کہ حال ہی میں پاکستان کی ایک مذہبی درسگاہ سے لمحہ فکریہ کے زیر عنوان ایک پمفلٹ میں اپنے مسیحی بھائیوں کو پرز در تحریک کی گئی ہے کہ تم تو حضرت عیسی کو خدا کا بیٹا کہتے آئے ہو.آؤ ہمارے ساتھ اُن کے دیعنی احمدیوں ( ناقل ) خلاف جہاد کرو " سے حالانکہ فرمان الہی ہے کہ جو شخص یہود و نصاری کو اپنا رفیق بناتا ہے وہ انہیں میں شمار ہوگا ( المائدة : ۵۱) ایک اور " دینی ادارے کا یہ تازہ کارنامہ ہے کہ اس نے ایک MARTIN ) کی کتاب محمد (MOHAMMED) مستشرق مارٹن لنگزر ١٩١٤-٣٣ " MARTIN LINGS ا - مسیح کی شان ، ص ۳۲ اپریل تشدید الفايم نجم الدین صاب اخوت اندريا سير پنجاب بارتم شم " راے 14-9 " از لی محبوب خدا صد - ۱۶ پادری اسے برکت خان رکن بشارتی کمیٹی سیالکوٹ ۱۹۰۳ء " ے اسلام کے خلاف صیہونی سازش " من " ( ڈاکٹر حمد محی الدین ایڈوکیٹ ہائی کورٹ صدر مؤتمر " عالم اسلامی سرگودہا مٹی سشوار نے ناشر مدرسہ جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جامع مسجد گنبد والی جہلم شہرت " سہیل اکیڈمی لاہور"

Page 13

۱۲ شائع کی ہے جس کے صفحہ ۲۱۲ - ۲۱۳ پر نہایت بے شرمی سے معصوموں کے بادشاہ ، شفیع المذنبین ، تاج المرسلین ، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس پر شرمناک بہتان تراث گیا ہے.اس کے صفحہ ۲۰۰ پر یہ افترائے عظیم کیا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ کے دوسرے بت تو ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے مگر حضرت عیسی اور حضرت مریم کے بتوں کو توڑنے کی بجائے ہاتھ تک نہیں لگایا.اِنَّا للهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن.یہ کتاب ۱۹۸۳ء کی قومی سیرت کا نفرنس اسلام آباد کے انگریزی مقابلوں میں اول قرار پائی تھی اور مصنف کو اس پر پانچ ہزار پاؤنڈ کا انعام پیش کیا گیا تھا.ہے اس ہولناک صورتِ حال کا دوسرا پہلو اور بھی زیادہ تشویش ناک " ہے اور وہ یہ کہ کینیڈا کے مشہور کرسچن جریدہ " پراسپکٹر -PROS) ( PECTOR - کے شمارہ اکتوبر ۱۹۵۸ء کی رپورٹ کے مطابق تقسیم ہند اگست ۱۹۴۷ء) کے وقت پورے پاکستان میں عیسائی آبادی صرف استی بزار پر مشتمل مفتی مگر پاکستان نیشنل کرسچن لیگ کے صدر نے ستمبر ۱۹۷۱ء میں یہ بیان دیکر پاکستان کے عوام کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ اب جدید پاکستان میں مسیحی اقلیت کی تعداد ساٹھ لاکھ تک جاپہنچی ہے.انہوں نے اب ے جناب پروفیسر بیع اللہ اس کا سایا اور پانی لانے کامطالبہ ترا د جنگ لاہور ۱۳ نومبر ۱۹۸۴ء ص ۲)

Page 14

۱۳ انتباہ کیا کہ : " اگر ملکی سالمیت کے تحفظ کیلئے قادیانی اقلیتی فرقہ کی کڑی نگرانی نہ کی گئی اور.....ساٹھ لاکھ بھاری محب وطن اہلِ کتاب مسیحی اقلیت کے حقوق مفادات کا تحفظ نہ کیا گیا تو ملک کی بنیادیں ہل جائیں گی اور قادیانی فرقہ کو اقلیت قرار دینے کے پاداش میں پاکستان کی مسلم اکثریت کو اپنی خوش فہمی کا خمیازہ بھگتنا پڑیگان اس مسیحی راہنما نے دنیا کی تمام عیسائی حکومتوں کے سربراہوں سے بھی اپیل کی کہ : " مرزائیوں کے توہین آمیز لٹریچر کو فوراً ضبط کر لیں ملے رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانہ میں c مشترکہ محاذ اور متحدہ مخالفت کی یہ وہ فضا ہے جس نے عقائد احمد کے خلاف بہت سے اعتراضات کو جنم دیا.جن کی بازگشت آج مختلف حلقوں میں سنائی دیتی ہے.ک شام کے مشہور عالم اور نامور محقق ڈاکٹر مصطفے سبائی " المستشرقون والاسلام" میں یورپین مستشرقین اور پادریوں ل روزنامه امن ، کراچی ۲۹ ار ستمبر ۱۹۷۴ء ص بحوالہ "دام" تثلیث " صدا از جناب سعید بن وحید مل بی.اے.علیگ کراچی.سٹے روزنامہ امن کراچی ۲۹ ستمبر ۱۹۷۴ درصد بحواله دلم تثلیث حصد از جناب سعید بن وحید بی.اسے علیگ کر اچھے.ء

Page 15

IN کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- " ان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اسلام کو اپنے اعتراضات کا نشانہ بنا کر مجروح کیا جائے اسکی حسین و معصوم تصویر کو بگاڑا جائے اس کے حقائق میں تحریف ہو.بھولے بھالے عوام انکی دینی بزرگی اور قیادت کے آگے سر ٹیک دیں ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تحریک احمدیت پر تنقہ کے پیچھے بھی بالکل یہی ذہنیت کار فرما ہے.بہر حال اب میں نمونہ بعض اعتراضوں کے مختصر جوابات عرض کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خداوند کریم جانشا نہ میرے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اپنی جناب سے برکت بخشے اور ان تمام تاثیرات سے معمور فرمادے جو آسمانی صداقتوں کیلئے ازل سے مقدر ہیں.آمین.ہم تہی دست تیرے در پہ چلے آئے ہیں لطف سے اپنے عطا کر ید بیضا ہم کو پہلا اعتراض : ا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے سیدنا حضرت مسیح علیہ السلام کی معاذ اللہ بے ادبی کی ہے L جوار یہ ایک بے بنیاد الزام ہے جو محض عیسائی دنیا " اسلام اور مستشرقین " صدا ۳ ۳۲۰ ) ادارہ اسلامیات ۱۹۰ - انار کلی لاہور) نے

Page 16

10 کی خوشنودی کیلئے تراث گیا ہے.حضرت اقدس فرماتے ہیں :- " ہم اس بات کیلئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نہیں مانیں اور انکی نبوت پر ایمان لاویں.سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں جو انکی شان بزرگ کے بر خلاف ہو ، لے جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ حضرت اقدس نے موجودہ اناجیل کی رُو سے پادریوں کے خیالی اور مزعومہ خداوند مسیح کا فوٹو پیش کیا ہے تو اسکی تمام نز ذمہ داری انیسویں صدی کے پادریوں پر عائد ہوتی ہے جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں : " ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کوئی کچھ غرض نہ تھی.انہوں نے ناحق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ نہ.نبی وسلم کو گالیاں دیگر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے لیسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر واضح کریں." ہے نیز فرمایا : ڑے " هذَا مَا كَتَبْنَا مِنَ الاَنَا جِيْل عَلى سبيل الالزام وانانكرِهُ المَسِيم وَنَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ تَقِيَّا وَمِنَ الأَنْبِيَاءِ الكَرَام سے نے " ایام صلح " سرورق صٹ سے قیمہ انجام آنختم " کاشیہ مت سے ملاحظہ ہو آپ کی 19 تصنيف" ترعب المومنین" ص حاشیہ

Page 17

ترجمہ :.ہم نے یہ سب باتیں از روئے انجیل الزامی جواب کے رنگ میں لکھی ہیں ورنہ ہم تو حضرت مسیح کی عزت کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ آپ پارسا اور برگزیدہ نبیوں میں سے تھے.روت سر عاشق رسول کے نزدیک ان الزامی جوابات کو جہاد بالنسان کا درجہ حاصل ہے.یہی وجہ ہے کہ فتنہ تثلیث کی سرکوبی کیلئے حضرت مولوی آل حسن صاحب له ، حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی کی ، حضرت مولانا رحمت الله (کیرانوی قرشی عثمانی دہلوی کی ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم ہے دیوبند اور مناظر اسلام حضرت حافظ ولی اللہ صاحب لاہور میں رحمهم الله تعہ جیسے اکابر بزرگوں نے اس کا استعمال ضروری سمجھا اور اسی سے ثابت ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جری اور غیور فرزند جلیل بھی تھے اور اپنے دور کے مجاہد اعظم بھی.ا استفسار" ح ۳۳٩،٣٣٦،١٣٣،١٠ ،۴۱۶،۳۴۹، ۴۱۷، 041-046 سے رود کوثر م ۵۶-۵۶۸ شیخ محمد اکرم ایم اسے مورخ پاکستان) سے "ازالة الاوبام" فارسی ۳۵-۳۷۰ ) از مولانا رحمت الله " اظہار الحق ، فارسی جلده صدا دانه مولانا رحمت اللہ مطبوعہ ترکی (۱۳۰۵ھ) کے بدیة الشیعة ص ۲۴ - ۲۴۵ را از حضرت مولانا شه محمد قاسم نانوتوی نے مباحثه دینی مع تکملہ (حضرت حافظ ولی اللہ اور پادری ث JALN عماد الدین کا مباحثہ امرتد هم مارچ ۷.۱۸۸۷ء مطبع مصطفائی لاہور شہ)

Page 18

۱۷ دوسرا اعتراض : احادیث نبوی سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کا دوباره نزول نبی مقرر ہو کہ آنے والے شخص کی حیثیت سے نہیں ہو گا نہ ان پر وحی ہوگی سٹ جواب :.خدا کے مقدس نبی ہرگز عہدہ نبوت سے معزول نہیں ہو سکتے اور حضرت مسیح ابن مریم کے لیے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسلم شریف کتاب الفتن میں چار مرتبہ نبی اللہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے در پیشگوئی فرمائی ہے کہ آپ پر وحی بھی نازل ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن مجید نے قیامت تک کیلئے حضرت عیسی علیہ السلام کا یہ بیان سورة اور مریم رکوع ۲ میں ریکارڈ کر دیا ہے کہ :.وَجَعَلْنِي نَبِيَّاه وجَعَلْنِي مُبَارَكًا اَيْنَ مَا كُنتُ ، میں جہاں کہیں بھی ہوں اللہ نے مجھے نہبی اور بابرکت ترجمہ - -: بنایا ہے.الغرض عقل، حدیث اور قرآن کی آسمانی روشنی کے سامنے یہ تاریک خیال ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں ٹھہر سکتا.اب اس سوال کا جواب دوسری کے ذمہ ہے کہ اگر یہودی امت کے میچ نبی اللہ ہی دوبارہ تشریف لائے اہے اسلام کے خلاف صیہونی خفیہ سازش » ص ۴۲ ، ڈاکٹر محی الدین قاضی پی ایچ ڈی امریکہ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ صدر موتمر عالم اسلامی سرگودہا پاکستان مئی ۱۹۸۲ ء

Page 19

IA تو " غیر مشروط آخری نبی “ کون ہوگا.تیسرا اعتراض : نبی کے آنے سے امت بھی بدل جاتی ہے لہذا احمدی ایک مستقل اور جدا گانہ امت میں اور ان کا دوسروں کو کافر کہتا بھی اسی وجہ سے ہے.جواب : اعتراض ایک ہے مگر مغالطے تین ہیں.اول -: امت صرف نئی شریعت کے ظہور سے بدلتی ہے ورنہ نبیوں کی طرح امتوں کی تعداد بھی ایک لاکھ چوبیس ہزار ہوگی.قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لیکر حضرت شعیب تک جن انبیاء کا ذکر ہے ان میں سے کوئی بھی کسی نئی امت کا پانی نہیں تھا.حضرت موسیٰ ایک شارع نبی تھے اسی لئے ان کے ذریعہ ایک جدید امت کا قیام ہوا لیکن نہ صرف آپ کے ہم عصر نبی حضرت ہارون" آپ کی امت میں شامل تھے بلکہ سورۃ المائدہ آیت : ۴۵ کے مطابق حضرت موسیٰ کے بعد بھی متعدد ایسے نبی ہوئے جو تورات کے کے تابع فرمان تھے.دوم -: محمدت امت حضرت امام علی القاری شارح مشکوۃ کے نزدیک آیت خاتم النبیین کے معنی ہی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ ہم..-3- L 64% لے ایک دیوبندی عالم فرماتے ہیں کہ کیا اب دوبارہ حضرت علی امام الانبیاء کے امتی بن کر آئیں گے یا اپنے کام رسالت کو سرانجام دینے آئیں گے.اگر وہ امام الانبیاء کے امتی بن کر آئیں گے تو پہلا کام ادھورا رہ گیا....اور اگر اس کو پورا کریں گے توختم نبوت کا انکار لازم آیا منعقده مناظرہ جھنگ ص ۲۳) مکتبه فریدیہ ساہیوال رو داد مناظره ۲۷ اگست ۱۹۷۹ ء -

Page 20

کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کے دین کو منسوخ کرے کا امتی نہ ہوئے.اور یہ حقیقت سورج کی طرح بالکل واضح اور نمایاں ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعومی " نبی کا نہیں " امتی نبی " کا ہے اور آپ کا عقیدہ ہے کہ :- " نوع انسان کیلئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم " " آپ کا مشہور شعر ہے کہ : یک قدم دوری از اں روشن کتاب نزد ما کفر است و خسران و تیاب سه اس روشن کتاب قرآن سے ایک قدم بھی دور رہنا ہمارے نزدیک کفر و زیاں اور ہلاکت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتے ہیں :- اقتدائے قول او در جان ماست هرچه زو ثابت شود ایمان ما است که ك سے کشتی نوح ص! موضوعات کبیر مثه - ۵۹ مطبع مجتبائی ۱۳۱۵ هـ سے "راج میر"

Page 21

٢٠ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ارشاد کی پیروی ہماری فطرت میں ہے آنحضور کے ہر ایک فرمان پر سہارا پورا پورا ایمان ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو اس عقیدہ و مسلک کے باوجود اگر ایک الگ اور منتقل امت کا بانی قرار دیا جائے تو اس کے منطقی نتیجہ کے طور پر ما تنا پڑیگا کہ اس زمانہ میں ملتِ اسلامیہ کا فرد صرف وہی ہے جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے برعکس نظریہ رکھے اور قرآن و سنت کا باغی ہو ؟ دوستو اک نظر خدا کیلئے سید الخلق مصطفے کے لئے سوم : حدیث نبوی ہے : - فَمَنْ خَرَجَ مِنَ الْجَمَاعَةِ -:- :- قيد شبرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبقَةَ الإِسْلَامِ مِنْ رَأْسِهِ ، که جو شخص ایک بالشت بھر بھی الجماعت سے خروج کرتا ہے وہ اپنے سر سے اسلام کا رسہ اتار پھینکتا ہے.حضرت امام احمد بن حنبل نے یہ حدیث اپنی مسندیں درج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ارشاد فرمایا تو کسی شخص نے دریافت کیا کہ خواہ وہ نماز روزہ کا بھی پابند ہو ؟ فرمایا خواہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے لیکن ساتھ ہی یہ ہدایت فرمائی :- وَلكِنْ تَسَمُّوا باسم الله الذى سماكم عباد الله : المسلمين المؤمنين، ل فرمایا لیکن تم انہیں اسی نام سے یاد کرو جس سے اللہ نے تم کو موسوم کیا ہے ن مسند احمد بن حنبل جلد ۵ ص ۳۴۲

Page 22

۲۱ یعنی اللہ تعالیٰ کے مسلم و مومن بندے.حضرت مسیح موعود کا لٹریچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک کی عکاسی کرتا ہے.آپ کی کتابوں میں اُن تمام مسلمانوں کو جو جماعت احمدیہ میں شامل نہیں مسلمان کہہ کر ہی خطاب کیا گیا ہے.اور امتی نبی کی حیثیت سے آپکو یہی ریبانی حکم ملا ہے چنانچہ آپکو الہام ہوا اع مسلمان را مسلمان بازه کردند ما را 1 E " ٠٢ سے رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّةَ مُحَمَّدٍ "." سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرد علی دِيْن وَاحِدٍ " سے حضرت بانی سلسلہ کو خدا اور مصطفی کے ان ارشادات کی تعمیل کے "جرم" میں بیگانوں نے آپ کو تختہ دار پر لٹکا دینے کا منصوبہ باندھا اور اپنوں نے " قنادی تکفیر" سے استقبال فرمایا.کا فرو ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غم قلمت میں رکھا یا ہم نے 1.6 تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہے ت حقیقة الوحی ص ۱ مطبوعہ ۱۹۰۷ ء ہے.براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ حاشیه در حاشیه را مطبوعه ۶۱۸۸۲ سے السدر والحکم ۲۴ نومبر ۶۱۹۰۵.

Page 23

٢٢ وه نچوتھا اعتراض :- احمدیوں کا کلمہ " WAT TALWANALT الله احمد رسول اللہ ہے اور جب محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں تو اس سے انکی مراد مزا صاحب کا وجود ہوتا ہے.قادیانی فرقہ نے کلمہ طیبہ کے ساتھ " ان عبدك المسیح الموعود کا اضافہ کر دیا ہے سے جواب :.قطع نظر اس کے کہ یہ عجیب و غریب اعتراض متعدد تضادات کا ملغوبہ ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر احمدیوں کا کلمہ واقعی جدا یا اضافہ شدہ ہے تو اسے مٹانے کی ہمارے محسن اور کرم فرماؤں کو ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس طرح یہ دعوی کہ حضرت بانی سلسلہ یا جماعت احمدیہ کے نزدیک کلمہ طیبہ میں " محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سے مراد نعوذ باللہ مرزا صاحب کی ذات ہے یہ محض ایک مفروضہ ہے جسکا مقصد دنیا کے ایک کروڑ کلر گو اور زخم رسیدہ احمدیوں کی نمک پاشی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ؟ -: حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں جتنے نبی اُس نے بھیجے.انکی خدمت یہی معنی کہ لا الہ الا اللہ کا مضمون زمین میں چھکے جیسا کہ وہ آسمان پر چمکتا ہے.ان سب اشتہار شائع کردہ مجلس تحفظ ختم نبوت 198ء سے اخبار" جنگ " لاہور 9 نومبر 1 کالم ۴ سکے." فرقے اور مسالک " ص ۲۹۳ از بلال زبیری ناشهر دینی اکادمی جهنگ صدر اگست ۱۹۷۳ء

Page 24

۲۳ میں بڑا وہ ہے جس نے اس مضمون کو بہت چسکا یا جس نے پہلے الہوں کی کمزوری ثابت کی اور علم اور طاقت کی رو سے اُن کا پیچے ہونا ثابت کیا اور جب سب کچھ ثابت کر چکا تو پھر اس فتح نمایاں کی ہمیشہ کیلئے یاد گار چھوڑ دی کہ لا اله الا الله محمد رسول الله - اس نے صرف بے ثبوت رَسُولٌ و عوامی کے طور پر لا الہ الا اللہ نہیں کہا بلکہ اس نے پہلے ثبوت دیکر اور باطل کا بطلان دکھا کر پھر لوگوں کو اس طرف توجہ دی کہ دیکھو اُس خدا کے سوا اور کوئی خدا نہیں جس نے تمہاری تمام قوتیں توڑ دیں اور تمام شیخیاں نابود کردیں.سو اس ثابت شدہ بات کو یاد دلانے کیلئے ہمیشہ کیلئے یہ مبارک کہ کلمہ سکھلایا کہ لا إله الا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله پس یہ مبارک کلمہ دنیا بھر کے احمدیوں کے دل پر نقش ہے اور انکی روح اور جان ہے.عرب و عجم اور مشرق و مغرب کا ہر - احمدی آروں سے چیزا جانا تو گوارا کر سکتا ہے مگر اس مقدس کلمہ کی بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتا اور نہ مندرجہ ذیل حعلی اور خود ساختہ کلموں پر ایمان لا سکتا ہے.نے مسیح ہندوستان میں" ص ۵۵

Page 25

۲۴ ۴ "لا إله الا الله چشتی رَسُول الله " الت الة " لا إلهَ مَنْ كَانَ الاّ الله تن كانَ ، " لا اله الا الله نور پاک محمد مهدی رسول الله له ١- : لا إله الا الله انگریز رسُول الله پانچواں اعتراض: مرزا صاحب نے قادیان کی سر زمین کو مکہ کی سرزمین کے مساوی قرار دیا " اپنی مسجد کو مسجد اقصٰی قرار دیا ہے.انہوں نے صاحبزادہ عبداللطیف کو قادیان بھیجا کہ وہ حج کرے ہے.اپنے دعوی کے مطابق وہ نبی اکرم کے برابر تھے لکھے.ان کا دعوی ہے کہ ان پر تین لاکھ آیات کی وحی اتری جن میں سے پچاس ہزار مختلف ذرائع سے روپیہ حاصل کرنے سے متعلق تھیں نے ن جواب : کتاب اللہ کی آسمانی عدالت کا صریح حکم ہے کہ حسنات العارفین ص ۳۲ د شهزاده محمد دارا شکوه قادری ناشر منزل نقستند یک کشمیری بازار لاہور ۱۳ " سے حق نمائے اردو ترجمہ نورالہدی تصنیف حضرت سلطان باہو جائینہ مترجم نور محمد سروری طبع پنجم -41960 سے " ذکری مذہب " ص" ( مولانا عبدالمجید قصرقندی) ناشر تنظیم اصلاح المسلمین مرتب مکران بلوچستان شراء کے رسالہ " سلسبیل " لا ہور نومبر ۱۹۷۶ء ص ٣ اخبار جنگ از نومبر ۱۹۸۴ء ص

Page 26

۲۵ يَايُّهَا الَّذِيْنَ المَنُوا لَا يَجْرِمَنْكُمْ شَعَانُ قَوْمٍ عَلى اَنْ لاَ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى اے مومنو! کسی گروہ کی مخالفت نکو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم بے انصافی پر اتر آؤ.عدل و انصاف پر قائم رہو کہ یہی قرین تقوی ہے.اس فرمان شاہی کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ کسی تحریک یا مسلک کے خلاف قلم اٹھانے سے قبل اس کے لٹریچر کا براہ راست مطالعہ کیا جائے مگر جہاں تک احمدیت کا تعلق ہے عملاً اس کی تحقیق کا نقطہ معراج یہ سمجھا جارہا ہے کہ پروفیسر الیاس برنی صاحب کی کتاب " "قادیانی مذہبی " پر اندھا دھند ایمان لایا جائے جس کے متعلق بہ مغیر کے بعض چوٹی کے مبصرین اور ناقدین کی یہ بے لاگ رائے ہے کہ.جس حد تک بانی احمدیت کی زندگی و تعلیم احمدیت کا تعلق ہے وہ تلبیس و کتمان حقیقت کا سوا کچھ نہیں " سے اور ملک محمد جعفر خان مصنف کتاب " احمدیہ تحریک “ بیان ہے " مجھے سب سے زیادہ مایوسی پروفیسر الیاس برنی صاحب کی کتاب "قادیانی مذہب کے مطالعہ سے ہوئی.کئی لوگوں سے نے اس کتاب کا بصیرت افروز اور محققانہ جواب بشارت احمد اور " تصدیق احدیت کی صورت میں سید بشارت احمد صاحب وکیل حیدر آباد کے قلم سے مدت ہوئی چھپ چکا ہے سے ملاحظات نیاز فتح پوری صلاب (مرتبہ مولانا محمد اجمل شاہد ایم اے)

Page 27

MY میں نے اس کتاب کی تعریف سنی تھی پھر مصنف کی نسبت معلوم ہوا کہ وہ مولوی نہیں ہیں بلکہ کالج کے پروفیسر ہیں اور وہ بھی اقتصادیات کے.اس سے مجھے خیال پیدا ہوا کہ انہوں نے مولویوں کے طرز تحریر سے مختلف انداز اختیار کیا ہوگا اور متناز عمر امور پر مدلل اور سائینٹفک طریق پر بحث کی ہوگی.لیکن کتاب پڑھنے سے یہ خیال غلط نکلا...کتاب کے محاسن میں سب سے بڑی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ مصنف کہ نے اپنی طرف سے بہت کم لکھا ہے.بے شک یہ دعوی درست ہے پروفیسر صاحب نے صرف کہیں کہیں مختصر سی تنقید کی ہے......لیکن مصنف کے یہ چند جملے اور ابواب اور پیروں کے عنوان دل آزاری کے کامیاب نمونے ہیں.ہر حیثیت مجموعی یہ کتاب کسی قابل تعریف مقصد کو حاصل نہیں کرتی اور نہ یہ کسی ایسے مقصد کیلئے لکھی گئی معلوم ہوتی ہے.چنانچہ کتاب ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ بنیادی متنازعہ امور کی نسبت فیصلہ کیا درست ہے یا کم از کم اس تک پہنچنے کیلئے صحیح اندازِ فکر اور استدلال کیا ہے" اب واضح ہو کہ متذکرہ بالا اعتراض کے تمام اجزاء (بلکہ کئی اور اعتراضات بھی جن کا ذکر آگے آرہا ہے) اسی دل آزار کتاب سے لئے گئے ہیں ن احمدیہ تحریک ص ۱۳-۱۴ ناشهر سندھ ساگھر اکادمی لاہور ۱۹۵۸ء نماش

Page 28

۲۷ جسکی غرض و غایت ، تلیس و کتمان حقیقت کے سوا کچھ نہیں.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے جھوٹ گھڑے گئے ہیں جن کا بوجھ اگر ہمالیہ کی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر پڑتا تو وہ بھی زمین میں دھنس جاتی.حضرت مسیح موعود جیسے بیمثال عاشق رسول پر یہ الزام بھی اسی قبیل سے ہے کہ معاذ اللہ آپ نے قادیان کو مکہ کے مساوی قرار دیا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے.آپ ایک عربی قصیدہ میں اس مقدس ترین لیتی کا ذکر کس والہانہ انداز میں فرماتے ہیں :.شَمسُ الهُدى طَلَعَتْ بَنَا مِن مَكَةَ عَيْن النَّدَى تَبَعَتْ لَنَا بِخِرَاء ضَاهَتَ آيَاةُ الشَّمْسِ بَعْضَ ضِيَاءِ ا فَإِذَا رَائِيتُ فَهَاجَ مِنْهُ بُكَائي ، ترجمہ : آفتاب ہدایت ہمارے لیے مکہ سے طلوع ہوا اور چشمہ سخاوت ہمارے لئے غارِ حرا سے پھوٹا.مادی آفتاب کی شعاع اس کے بعض نور سے کچھ ہی مشابہت رکھتی ہے.لیکن اس آفتاب کے نور انوار کو جب میں دیکھتا ہوں تو زار و قطار رونے لگتا ہوں اس میں کلام نہیں کہ آپ کے ایک شعر میں قادیان کو ہجوم خلق کے باعث ارض حرم کہا گیا ہے.مگر ذوقِ سخن رکھنے والے بزرگ بخوبی جانتے ا " انجام آتھم " - درثمین عربی مترجم ص ۱۹ مطبوعہ کتاب گھر قادیان ۶۱۹۲۴

Page 29

ہیں.کہ حرم کا لفظ عربی اور اردو زبان میں محترم ، پاک اور مقدس چیز کے لئے مستعمل ہے.حتی کہ بیوی کو بھی حرام کہا جاتا ہے لیے کیا مسجد حضرت داتا گنج بخش لاہور کے دروازہ پر علامہ اقبال کا یہ قطعہ تاریخ آج تک کندہ ہے ه سال بنائے حرم مومناں خواه زجبر یل وز ہاتف مجو چشم به المسجد الاقصی نگن " الذی بار کہ " ہم بگو اقبال یہ بھی فرماتے ہیں :.سے گو تم کا جو وطن ہے جاپان کا حرم ہے.عیسی کے عاشقوں کا چھوٹا یروشلم ہے." حاجی امداد اللہ مہاجر مکی فرمایا کرتے تھے :.یہ فقیر جہاں رہے گا وہیں مکہ اور مدینہ اور روضہ ہے" سے حضرت مسیح موعود کے نزدیک اصطلاحی حج کا مقام خدا تعالیٰ نے ازل سے ابد تک خانہ کعبہ اور مکہ کو مقرر فرمایا ہے.حضرت المعجم الاعظمی - فرہنگ آصفیہ مطبوعہ شام سے باقیات اقبال، صفحه ۴۹۵ HAQL 1944 ناشر آئینہ ادب چوک مینار انار کلی لاہور طبع دوم کہ لاہور کے باقیات اقبال صفحه ۳۳۸ آه خیر الافادات و ملفوظات مولانا اشرف علی تھانوی) ناشر ادارہ اسلامیات لاہور (اشاعت اگست (۱۹۸۲)

Page 30

" ٢٩ خلیفہ المسیح الاول اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور دوسرے اکا بر حمات نے خدا کے اسی پہلے اور مقدس گھر کا حج کیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ” کی کتاب " تعمیر بیت اللہ کے تیٹس مقاصد “ اس سلسلہ میں شاہکار ہے.پس حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کو اصطلاحی حج کے لئے قادیان بھجوانے کا افسانہ محض ذہنی اختراع ہے.البتہ یہ مسلّمہ حقیقت ہے جس سے کوئی محقق دعارف انکار نہیں کر سکتا کہ صوفیاء صدیوں سے زیارت بزرگان دین کو لفظ حج سے ہی تعبیر کرتے آرہے ہیں مثلاً : حضرت غوث اعظم سید عبد القادر جیلانی قطب ربانی محبوب سبحانی قدس سرہ الفتح الربانی کی تالیسویں مجلس میں فرماتے ہیں :- جاہل پہلے میرا حج کو پھر بیت اللہ کا حج کر میں کعبہ کا دروازہ ہوں میرے پاس آ سلطان المشائخ پیشوائے شریعت و طریقت حضرت ابوالحسن خرقانی ” کا ارشاد ہے کہ :." ایک مومن کی زیارت کرنے کا ثواب مقبول ججوں میں نہ پاؤ گے یہ لے لے ظہیر الاصفیا ترجمہ اردو تذکرۃ اولیاء صفحه ۵۰۴ ناشر حاجی چراغ الدین سراج الدین تاجران 1916 کتاب کشمیری بازار لاہور ده

Page 31

مشہور کتاب ”تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک سید تھے جن کو ناصری کہتے تھے.ان کا ارادہ حج کا ہوا.جب بغداد پہنچے تو حضرت جنید بغدادی کی زیارت کو گئے.آپ کی عارفانہ باتوں کو سن کر رونے لگے اور عرض کیا میرا حج نہیں ہے مجھے خدا کی راہ بتا دیجئیے حضرت جنید نے فرمایا تمہارا یہ سینہ خدا کا حرم خاص ہے.کسی نامحرم کو جگہ نہ دو.سے شده : ایک بزرگ مشہور تابعی اور صوفی مرتاض حضرت ابو حازم مکی کی خدمت میں حج کا عزم کرکے پہنچے.دیکھا کہ آپ سو رہے ہیں.بیدار ہوئے تو فرمایا اس وقت میں نے پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے.حضور نے مجھے تمہیں یہ پیغام پہنچانے کا حکم دیا ہے کہ اپنی ماں کے حق کا خیال کرد تمہارے لئے یہ حج کرنے سے بہتر ہے.لوٹ جاؤ اور اُن کے دل کی رضا طلب کرو.چنانچہ وہ حج کرنے کی بجائے واپس لوٹ گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :- " مَنْ تَضى لأخَيْه الْمُسْلِمِ حَاجَةً كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْر كَمَنْ حَةٌ ، جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے اُسے حج کا ثواب ملتا ہے.ایضاً صفحه ۳۲۸ له جامع الصغير للسيوطى " جلد علا صفي ۲ ۱۷۸

Page 32

اب رہ گیا اعتراض کا یہ آخری جند که حضرت بانی سلسلہ سلہ احمدیہ کا دعویٰ ہے کہ ان پر تین لاکھ آیات کی وحی اتری جن میں سے پچاس ہزار مختلف ذرائع سے روپیہ حاصل کرنے سے متعلق تھیں.سو ایسی کوئی عبارت سرے سے آپ کی کتب میں پائی ہی نہیں جاتی.ہاں "حقیقة الوحی" صفحہ ۳۳۲ پر یہ ضرور لکھا ہے کہ " خدا تعالیٰ کی مجھ سے یہ عادت ہے کہ اکثر جو نقد روپیہ آنے والا ہو یا جو چیزیں تخالف کے طور پر ہوں ان کی خبر قبل از وقت بذریعہ الهام یا خواب مجھ کو دے دیتا ہے اور اس قسم کے نشان پچاس ہزار سے کچھ زیادہ ہوں گے “ اس عبارت پر شرعاً کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں " يَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَب " کی قرآنی صداقت کے بار بار ظہور کا تذکرہ ہے.میں یہ بھی کہوں گا کہ جو اذہان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو علم غیب کا یہ معجزہ دیا گیا تھا کہ آپ لوگوں کو بتا دیتے تھے کہ کیا کھا چکا ہے ؟ کل کیا کھائے گا ؟ اور کیا سٹور کرے گا ؟ اے انہیں تو حضرت بانی سلسلہ کے غیبی نشانات کو تختہ مشق بنانا زیب نہیں دیتا.وه چھٹا اعتراض شرعیت نے چودہ سو له حاشیه قرآن از مولانا سید نعیم الدین صاحب و مولنا سید مقبول احمد صاحب دہلوی زیر آیت آل عمران : ۵۴)

Page 33

۳۲ 1.سال قبل نبی اور رسول کا لفظ اصطلاحی معنی میں پیغمبر کے لئے مخصوص کر دیا ہے.اس لئے اب لغوی معنی میں بھی اس کا استعمال جائز نہیں.وضع اصطلاح کے بعد لغوی معنی متروک ہو جاتے ہیں اور متوازی نہیں چل سکتے.جواب یہ ایک نہایت اہم اور بنیادی اعتراض ہے.مگر چونکہ میرے مد نظر تنقید نہیں بلکہ خالصہ تحقیق ہے.اس لئے مناسب ہوگا کہ اس کا جواب دینے کی بجائے میں چودہ سو سالہ دینی لٹریچر سے چند حقائق پیش کر کے فیصلہ قارئین پر چھوڑ دوں.ہمیں کچھ کہیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ نبی کوئی جو پاک دل ہو وے دل و جاں اس پہ قرباں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادہ ابراہیم کی نسبت (آیت خاتم النبیین کے نزول کے تین سال بعد ) ارشاد فرمایا :- وو اما وَاللهِ اِنَّه لنبيَّ ابْنُ نَّبِي " له خدا کی قسم ! یہ نبی اور نبی کا بیٹا ہے -۲ فرقه امام فرقہ امامیہ کی تفسیر قت‎ میں ہے " هَذَا نَبِيَّ اَهْلِ الْكُوفَةِ له رقیمتی سه الفتاوی الحدیثیہ ، صفحہ ۱۶ تأليف "خاتمته الفقهاء والمحدثين الشيخ احمد شہاب الدین بن حجر 1961 الهشيمي المكي رح وفات نه جلد۲ صفحه ۲۸۱-۲۸۵

Page 34

یہ (حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام ) اہل کوفہ کے نبی ہیں.حضرت اکرم صابری اقتباس الانوار ، صفحہ ۳۳۱ پتر فرماتے ہیں کہ چشتی نبی ہند میں " حضرت شاہ فرید گنج شکر قطب عالم کا فرمان ہے :.-۴- ع من وليم من على و من نبي له پیر پیران حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی قدس سرہ کا ارشاد مبارک ہے: أوتي الأنباء اسم النبوة وَأُوتِينَا اللَّقَبَ وَيُسمى الْاَنْبِياءُ صَاحِبُ هَذَا الْمَقَامِ مِنَ انْبِيَاءِ الأَولِياءِ ".انبیا کو تو نبی کا نام دیا گیا ہے اور ہم امتی لقب نبوت پاتے ہیں.......یہ مقام رکھنے والا انسان انبیاء الاولیاء میں سے ہوتا ہے.حضرت مولانا روم فرماتے ہیں.کو نبی وقت خویش است اے مرید سے اے مرید ! پیر اپنے وقت کا نبی ہوتا ہے.صدیوں قبل کے ایک عرب ادیب و فاضل کا شعری کلام : له حقیقت گلزار صابری صفحه ۲۹۲ از حضرت مخدوم زمن شاه محمد حسن صاحب صابری چشتی " الیواقیت والجواہر جلدت صفحه ۴۲ - ۴۴ از حضرت امام عبد الوہاب شعرانی متوفی نشده سے مثنوی دفتر پنجم -

Page 35

۳۴ فَقُلْتُ لَهُ اصح لديك انى نبى العاشقين بلا مجال له شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال نے انجمن حمایت اسلام لاھور کے انیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ اپریل شاہ ) میں اکابر بر صغیر کے سامنے مولانا حالی کی نظم سنائی اور اس کے پڑھنے سے قبل فی البدیہ یہ رباعی پڑھی.مشہور زمانے میں ہے نامِ حالی معمور سے حق ہے ہے جام حالی میں کشور شعر کا نبی ہوں گویا.نازل ہے میرے لب پہ کلام حالی نے } ۹.سعودی عرب کے مدارس میں نصابی کتاب" القرأة الاعدادية" کا ایک شعر گاندھی سے متعلق :- نبی مثل کنفیوشس أَوْ مِنْ ذُلِكَ الْعَمْد له اہم لة " الروض النظر في ترجمة ادباء العصر الجزء الثانی صفحه ۴۳ تالیف حضرت علامہ عصام الدین عثمان بن علی بن مراد العمری متوفی 1 مطبع المجمع العلم العراقی ۱۳۹۵ 1960 1944 199ء ١٩٤٥/١٣٩٥ء " باقیات اقبال صفحه ۲۴ ناشر آئینہ ادب چوک مینار انارکلی لا مو طبع در اشاره ے.اخبار رضائے مصطفی " 10 صفر المظفر ۳۹ - صفحہ 2 k

Page 36

۳۵ گاندھی جی ) کنفیوشس کی طرح نبی ہیں یا اس عہد سے ہیں.روسی سائنسدان فنڈ لیف" نبی" اخبار الكويت (۱۵ اکتوبر ۱۹۷۰ء) میں جمال عبد الناصر صدرجمہوریہ مصر کی موت پر عربوں کے نامور شاعر نزار قبانی کا مرثیہ قَتَلْنَاكَ يَا آخَرَ الْأَنْيَاء تتناك اے آخری نبی ہم نے تجھے قتل کر دیا بے شک ہم نے تجھے قتل کر ڈالا.(ماہنامہ پیغام کراچی نومبر 19، صفحہ ملا پر اقبال کو آخری پیغمبر" کہا گیا ہے سورۃ یوسف رکوع علے میں ہے.قالَ الْمَلِكُ التُونِي بِهِ فَلَمَّا جَاءَة 66 الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلى ربّكَ " مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی کے الفاظ میں اس آیت کا ترجمہ یہ ہے جب پہنچا اس کے پاس بھیجا ہوا آدمی.کہا لوٹ جا اپنے خاوند کے پاس یہ " 440 لے رسالہ کاروان سائنس کراچی بلد شماره ۲ ( دوسری سرماسی له) سے بحوالہ رسالہ چٹان لاہور 9 نومبر 94 صفحہ (عکس الکویت مع ترجمہ) 196

Page 37

196 ۱۳ دار الشورى بیروت نے شاہ میں کرنل قذافی صدر لیبیا کی سوانح پر " میر ملا بیا نحو کی کتاب " القذافى رَسُولُ الصحراء کے نام سے شائع کی بیروت سے ہی ایک کتاب " محمد علی القائد الاعظم“ شائع ہوئی جس کے صفحوٹ پر قائد اعظم کو رسول التوفيق والسلام کے خطاب سے یاد کیا گیا یہ کتاب 1901ء میں شفیق نقاش کے قلم سے چھپی تھی.لم ١٩٥٢ء +1964 اخبار المنبر اکتوبر نہ میں جلالۃ الملک شاہ فیصل کو الرسول " کے لفظ سے یاد کیا گیا.1966 16 19ء میں پنڈت جواہر لال نهر و وزیر اعظم مہندوستان سعودی عرب کے دورہ پر جدہ گئے تو ان کا سرکاری سطح پر " رسول السّلام" کے نعروں سے استقبال کیا گیا ہے المومنين 14 مشہور مورخ علامہ مسل بن برہان الدین الحلبی (متوفی ۱۰۴۴) سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحہ ۱۳۹ پر لکھتے ہیں فيـ الله و رَسُولُ الله المؤمنين فَهُوَ اَوَّلُ مَنْ تَسَمَّى فِى الإِسْلامِ بِآمِير ال 1904 -4 له الاعتصام ۲۵ جنوری ۱۹۵۶ء صفحہ ۷۶ ،

Page 38

عُمْرَ ابْنِ الخطاب یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن حجش کو شکر کا سردار بنا کر بھیجا اور انہیں امیر المومنین کا نام دیا.پس اسلام میں امیرالمومنین کے نام سے اول نمبر پر حضرت عبد اللہ بن جحش اور پھر حضرت عمر بن الخطاب موسوم ہوئے.مقدمہ ابن خلدون : سے یہ حیرت انگیز انکشاف ہوتا ہے کہ عرب لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو امیر مکہ اور صحابہ کرام حضرت سعد بن ابی وقاص کو امیر المومنین کہتے تھے (اردو ترجمہ من ناشر نورمحمد اصح المط قدیم محدثین میں سے حضرت امام مالک ، حضرت سفیان ثوری حضرت امام بخاری ، حضرت امام دار قطنی رح ، حضرت شی من جای کارامونتین بن في الحديث يا اميرالمومنين في الروایت اور تحویلوں میں سے ابو حیان غرناطی کو امیر المومنین فی النحو" کے لقب سے یاد کیا گیا مہ اسلامی لڑیچر میں حضرت حسن بصری کو بھی امیر المومنین کہا گیات به تاریخ الحدیث ملت از پروفیسر عبدالصمد سالم الازہری ناشر امین الادب اردو بازار لاہور نه تهذیب التهذیب جلد مله مثلا از حضرت اما شیخ الاسلام ابن حجر العسقلانی و تذکرة الاولياء از حضرت فریدالدین عطاله باب " سے تاریخ الحدیث ملا" از پروفیسر عبدالصمد میارم الازہری کے السنن دار قطنی صفه ناشر است امام الماني المدن مرتب الطب محمد مس الحسن الصديقي دیا میرا عظیم آبادی شده حلیة الاولیاء ابونعیم جلدت صفحه ) ( جوالہ دائرہ معارف اسلامیہ انشگاه پنجاب) " ت نفح الطيب المقرى) صفحه ۸۲۶ شه سیرت نظامی -J

Page 39

۳۸ IN اموی اور عباسی خاندان کے بادشاہ " امیر المومنین کہلاتے تھے.اردو دائرہ معارف اسلامیہ (دانش گاہ پنجاب) کے مطابق شیعوں کا فرقہ امامیہ امیر المومنین" کا لقب صرف سید نا حضرت علی بن ابو طالب کے لئے مخصوص سمجھتا ہے.اسماعیلیوں کا ہر فرقہ یہ لقب اپنے مسلمہ خلفا کے لئے استعمال کرتا ہے.زیدی شیعوں کے نزدیک ہر وہ علوی جو بزور شمشیر اپنے اقتدار کو منوالے خود کو 19 میر المومینین کہلا سکتا ہے.-۱۹ حضرت سید احمد صاحب بریلوی اور حضرت سید محمد اسمعیل صاحب شہید دہلوی کی نسبت مولانا محمد جعفر صاحب تھانیسری نے سوانح احمدی میں متعدد بار امیر المومنین " کا لفظ استعمال کیا اور صفحہ ۱۲۰ پر اس کی وجہ یہ بتائی کہ لاکھوں لوگوں نے ان کی بعیت امامت کر کے اُن کو اپنا سردار بنالیا.پس اس روزہ سے آپ بلفظ امام یا امیر المومینین یا خلیفہ کے مشہور ہیں مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری استاذ الاساتذه و مدرس مدرسہ آرہ نے مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی کو امیر المومینین قرار دیتے ہوئے لکھا ” هو امام اهل الحديث في زمانه، اميرالمومنين في الحديث في أوانه ،، ت الحيات بعد الممات ص ۵۴۴ از حافظ عبد الغفار سلفی ناشر مکتبہ شعیب حدیث منزل کراچی نمبرا

Page 40

۲۱ - پروفیسر صلاح الدین محمد الیاس برنی ایم اے ایل ایل بی نے اپنی کتاب کا آغاز ہی نظام حیدر آباد دکن کو " امیر المومنین ، بتلاتے سے کیا ہے فرماتے ہیں : اس پر آشوب زمانے میں دیدہ آبادی فرخندہ بنیاد، حب نبی اور عظمت رسول کا مسکن و مامن بنا ہوا ہے اور کیوں نہ ہو کہ جو یہاں امیر المومنین ہے وہ سب سے بڑھ کر فدائے سید المرسلین " مسلمه با مسلمان قرآن مجید میں ہے کہ حضرت سلیمان نے ملکہ بلقیس کو خط لکھا اِنَّةَ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ اَلاَ تَعْلُوا عَلَى وَأتُونِي مُسْلِمِيْنَ مسلمین کے معنے من ) النحل ۳۲۳۱) اس آیت میں اسلام حضرت علامہ عبد الله بن محمد الشیرازی رحمہ اللہ نے اپنی معرکہ آراء "تفسیر " انوار التنزیل و اسرار التاویل " میں اور حضرت مصلح الدین سعدی اور حضرت شاہ عبد القادر دہلوی نے اپنے ترجمہ قرآن میں مطیع اور حکم بردار کے کئے ہیں.حک عہد حاضر کے علماء میں سے مولا نامی کیم مقبول احمد صاحب دہلوی مولانا محمود الحسن صاحب دیو بندی ، مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے بھی اس کے معنی فرمانبردار کے کئے ہیں.I

Page 41

-۲۳ - مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کی نسبت " الافاضات الیومیہ" حصہ دوم صدا میں یہ واقعہ درج ہے کہ." ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت بغیر کلمہ پڑھے ہی نمازہ فرض ہو جائے گی فرمایا کہ کلمہ پڑھے یا نہ پڑھے جب عزم کر لیا اور اطلاع کر دی کہ مسلمان ہے نمازہ فرض ہو گئی ہے.عرض کیا کہ عزم کر لینے سے مسلمان ہو جاتا ہے فرمایا جی ہاں عزم کر لینے سے مسلمان ہو جاتا ہے.“ ۲۴ - حدیث نبوی ہے.المُسلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِه.سے جس شخص کی زبان اور ہا تھ سے مسلمان محفوظ رہیں وہ مسلمان ہے -۲۵ شیخ الاسلام جناب مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی نے مسلم لیگ کا نفرنس میرٹھ میں فرمایا : مسلم لیگ کے اپنے دستور میں اعلان کر دیا ہے کہ ہماری مراد مسلم کے لفظ سے صرف اسقدر ہے کہ مجلس میں شریک ے ناشر کتب خانہ امدادیہ کراچی نمبر ۱۹ سے ترمذی ، نسائی ، مسند احمد بن حنبل صحیح ابن حبان بحوالہ جامع الصغیر للسیوطی 7 جلد ۲ ص ۱۸۵

Page 42

" ام ہونیوالا اسلام کا دعولی رکھتا ہو اور اس کا کلمہ پڑھتا ہو.“ (14-16 ) خطبہ صدارت صد ۱۵-۱۶) مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے ایک موقع پر فرمایا : فرمایا حدیث میں دجس کے الفاظ یہ ہیں من صلى صلواتنا واستقبل قبلتنا واكل ذبيحتنا فذالك المسلم الخ) ہوتا ہے کہ وہ ذبیحہ جو مخصوص ہو اہل أكل ذَبِيحَتَنا سے معلوم اسلام کے ساتھ اس کا کھانا بھی شعائر اللہ میں داخل ہے.نیز ایک لطیف اشارہ ہے اسطرف کہ آئندہ ایک زمانہ میں بعض لوگ نمازیں نہیں پڑھیں گے صرف گوشت کھانے سے مسلمان ہوں گے.انکے اسلام کی یہی علامت ہوگی ورنہ صلی صلوتنا کے بعد اس کی کیا ضرورت تھی عرض الیسوں کو بھی حقیر نہ سمجھئے.بات ماناش اقم المومنين ۲۶ - حضرت پیر پیران غوث اعظم کی والدہ کے ذکر میں ہے کہ ام المومنین یہ تقریر دلپسند جناب پیران پیر کی سُن کو سے نہایت خورسند ہوئیں." ہ اس حدیث کا ترجمہ جناب سید ابولاعلیٰ مودودی نے یہ کیا ہے کہ " میں شخص نے وہ منانہ ادا کی جود ہم کرتے ہیں ، اس قبلہ کی طرف رخ کیا جسکی طرف ہم رخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے.دوستوری سفارشات پر تن ۰۱۴ جس کیلئے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ ہے میں تم اللہ کے دیئے ہوئے دیتے ہیں اسکے ساتھ دن بازی نہ کرے لة " الافاضات اليومية من الافادات القومية حصّہ اوّل من ۲۳ ملفوظ نمبر ۳۲۲ س گلدسته کرامات (اردو) تالیف حضرت شیخ محمد صادق شیبانی صفحه ۱۸ مطبع افتخارہ دہلی

Page 43

۴۲ ۲۰ - حضرت جمال الدین ہانسوی خلیفہ مجاز حضرت فرید الدین شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ کی اہلیہ کی نسبت حضرت خواجہ غلام فرید چاچڑاں شریف کا بیان : " چوں حضرت خواجہ قطب جمال ہانسوی وصال کردند آن ام المومنین حضرت برهان الدین را که هفت ساله بودند برداشته بخدمت جناب شیخ شیوخ العالم گنج شکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسیده بیعت کنانید " -۲- سیر الاولیاء مؤلفہ حضرت سید محمد بن مبارک کرمانی فرماتے ہیں : شیخ جمال الدین ہانسوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کنیزک تھی شیخ شيوخ العالم (حضرت فرید الدین گنج شکر - تافل) اسے اتم المومنین کہتے تھتے ، کے جناب خلیق احمد نظامی نے نے بھی تاریخ مشائخ چشت کے صفحہ ۲۴ اپر لکھا ہے : " شیخ جمال الدین ” کی ایک خادمہ جو بڑی عابدہ اور صالحہ ہوتے کی وجہ سے ام المومنین کہلاتی تھیں ان (صوفی برھان الدین صاحب) کو بابا فرید کی خدمت میں لے گئیں.بابا صاحب نے ان پر بڑا ه ۶ انتشارات فریدی جلد ۲ صدا با سیر الاولیا مترجم غلام احمد به احمد بریاں مٹ س استاد شعبہ تاریخ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ رفیق ندوۃ المصنفین دہلی.ہے.مکینہ عارفین رقیہ بلڈنگ پاکستان چوک کراچی.

Page 44

۴۳ י انتفات و کرم فرمایا اور خلافت سے نوازا.ام المومنین نے ہندی زبان میں عرض کیا.خوجہ برہان الدین بالا ہے ، یعنی بچہ ہے ) صحابی " I : ۲۹ - تذکرۃ الاولیا (اردو) میں ہے کہ : ابن سیرین نے ایک صحابی سے پوچھا ہے مولانا نجم الحسن کترا روی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ذکر میں لکھتے ہیں." ایک دفعہ آپ کے صحابی ہشام بن حکم کے ذریعہ سوال کیا ۳۱- رساله " المنتظر لاہور ۱۵ جنوری ADATA صفحے کے ایک مضمون " ١٩٦٩ء ،، کا عنوان " تین اماموں کے مقدس صحابی ، ٣٢ مسجد اللہ جلشانہ فرماتا ہے : أنّ المَسَاجِدَ لِلّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدًاه ) سورۃ جن : (۱۹) (19 الفقیہ میں جناب امیر المومنین (حضرت علی علیہ السلام ) سے منقول ہے کہ المساجد سے مراد اعضائے سجدہ یعنی چہرہ دونوں ہتھیلیاں اسے صد موفقہ خواجہ فرید الدین عطاله (تا شتر منزل نقشبندیہ کشمیربازار لاہور ) سے چودہ ستارے ص۲۵۶ IAA

Page 45

۴۴ دونوں گھٹنے اور پاؤں کے دونوں انگوٹھے کافی ہیں ، جناب اہم جعفر صادق سے تفسیر عیاننی میں.جناب امام تقی سے نیز تغییر قی میں بھی یہی مضمون منقول ہے.“ (حاشیہ" قرآن مجید مترجم " ص" ص ۶۸ مولانا حکیم مقبول احمد صاحب دہلوی ناشر افتخار بکڈپو کرشن نگر لاہور ) علاوہ ازیں مختلف مکاتب تکمہ کے بزرگ متقدمین و متاخرین نے بھی یہاں المساجد کے اصطلاحی معنی کی بجائے وہ اعضاء مراد لیے ہیں جن پر سجدہ کیا جاتا ہے.چنانچہ حضرت علامہ عبداللہ بن عمر الشیرانی البیضاوی نے اس آیت کی تفسیر درج ذیل الفاظ میں فرائی ہے." وقيل المراد بالمساجد الأرض كلها لأنها جُعِلَتْ للنبي صلى الله عليه وسلم مسجدًا وقيل المسجد الحرام لانه قبلة المساجد ومواضع السجود على ان المراد النهي عن السجود لغير الله وأدابها السبعة والسجدات على انّه جمع مسجد 66 ) صفحه (۶۵) ۳۳ - حضرت علامہ حسین واعظ کی تفسیر حسینی میں مندرجہ بالا آیت کی یہ بہ تفسیر ہمیں ملتی ہے کہ : بعضوں نے کہا ہے اس مسجد سے تمام روئے زمین مراد

Page 46

ہے کہ حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم وعلیہم اجمعین کی مسجد ہے.اس واسطے کہ حضرت نے فرمایا جُعِلَتْ بی الْاَرْضُ مَسْجِدًا وطَهُورًا ہے یعنی کر دی میرے واسطے تمام زمین مسجد اور پاک ( ترجمه تفسیر حسینی جلد ۲ صدا ۵۸) ۳۴.عیسائی معبد کو بھی قرآن مجید میں مسجد کہا گیا ہے چنانچہ فرماتا ہے : " " وَقَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَّسْجِدًاه (كيف :۲۲) ذ : -۳۵ حدیث نبوی ہے : " لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قبُورَ اَنْبِيَاءِ هِمْ مَسَاجِدَ ، بخاری مصری جلد ۳ ص ۳) یہود اور نصاری پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنا دیا.66 ۳۶.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں : ” 66 " البيعَ مَسَاجِدُ اليَهُودِ " البيع بہبود کی مسجدیں ہیں ۳۷ - شیخ مولانا محمد علی بن علی التھانوی " موسوعة الاصطلاحات الاسلامیه جلد ۳ صفحہ ۶۳۹ پہ فرماتے ہیں ن بخاری مسلم - ابو داؤد - ترمذی.نسائی.ابن ماجہ - دارمی

Page 47

۴۶ مسجد در لغت سجده گاه را گویند ( اما در اصطلاح علماء پیس بفتح جیم موضع سجود را گویند هر جا که باشد و بکسر جیم مکان معین خاص کر برائے ادائے نمازہ وقف کنندم و در اصطلاح سالکان مظهر تجلتی خمالی را گویند و قبیل آستانه پیر و مرشد کذا فی کشف اللغات یعنی مسجد لغت میں سجدہ گاہ کو کہتے ہیں دلیکن اصطلاح علماء میں مسجد ہر وہ جگہ ہے جہاں سجدہ کیا جائے اور مسجد وہ معین مکان ہے جو ادائیگی نماز کیلئے وقف ہو) سالکوں کی اصطلاح میں تجلی جمالی کو مسجد کہا جاتا ہے.نیز آستانہ پیرو مرشد کو بھی جیسا کہ کشف اللغات میں ہے.اذان ۳۸ جیسا کہ جیسا کہ امام لغت حضرت علامہ راغب اصفہانی نے " المفردات فی لغات القرآن " میں تصریح فرمائی ہے لغت میں اذان کے معنی ' ندا ، پکار اور اعلان کے ہیں اور موڈن وہ ہے جو بلند آواز سے پکارے یا اعلان کرے اور یہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید میں نا اذان اور موذن کا لفظ اصطلاحی معنوں میں نہیں صرف لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے.جیسا کہ مندرجہ ذیل چار آیات اور حضرت شاہ عبد القادر کے ترجمہ سے ظاہر ہے.-۳۹- پہلی آیت : وَنَادَى اَصْحَبُ الْجَنَّةِ اصْحِبَ النَّارِ

Page 48

۴۷ اَنَ ان قد ووَجَدَنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَل وَجَدتُم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا قَالُوا نَعَمْ فَاذَنَ مُؤَذِّنُ بَيْنَهُمْ اَنْ تَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ (الاعراف: ۳۵) اور پکارا جنت والوں نے آپ والوں کو کہ ہم پا چکے جو ہم کو وعدہ دیا گیا تھا.ہمارے رب نے تحقیق سو تم نے بھی پایا جو تمہارے رب نے وعدہ دیا تھا ؟ تحقیق بولے ہاں پھر پکارا ایک پکارتے والا ان کے بیچ میں کہ لعنت ہے اللہ کی بے انصافوں پہ.دوسری آیت : وَاَذَانَ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَحِ الرِ انَّ اللهَ بَرَعَ مِنَ الْمُشْرِكِينَه (التوبه (۳) (٣ اور سنا دیتا ہے اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول سے لوگوں کو دن بڑے حج کے کہ اللہ الگ ہے مشرکوں سے.۴۱ - تیسری آیت : ثُمَّ اَذَنَ مُؤَكِّنَ اَيَّتُهَا الْعِيرِ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ یوسف (1) پھر پکارا پکارنے والے نے اسے قافلے والو ! تم مقررہ چور ہو.-۴۲- چوتھی آیت : اون فِي النَّاسِ بِاالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالاً وَعَلَى كُلّ

Page 49

ضَامِرِيَّاتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (الحج : ۲۸) پکار دے لوگوں کو حج کے واسطے کہ آؤئیں تیری طرف پاؤں چلتے اور سوار ہو کر ڈیلے ویلے اونٹوں پر چلے آنے راہوں دور سے کہ نہیں.یہ بیالیس واضح حقائق (جو نبی ، امیر المومنين، مسلم، ام المؤمنين صحابی، اذان اور موذن کی دینی اصطلاحات پر مشتمل ہیں) بفضلہ تعالیٰ یہ تجزیہ کرنے کیلئے کافی ہیں کہ شرعی اصطلاحوں کو ان کے لغوی معنوں میں استعمال نہ کرنے کا تجدید خیال کہاں تک درست ہے ؟ کھل گئی سچائی پھر اس کو مان لینا نیکوں کی ہے یہ خصلت را پیا ہی ہے ساتواں اعتراض احمدی کیوں پاکستان میں قانون شکنی نہیں کرتے ؟؟؟ جواب : اس لیے کہ قال اللہ اور قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ان کے دین اور عقیدہ کا جزو اعظم ہے چنانچہ شرائط بیعت میں چھٹی شرط یہ ہے کہ : " اتباع رسم اور متابوت ہواؤ ہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بلکلی اپنے سر پر قبول کرے گا

Page 50

۴۹ اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر یک راہ میں دستورالعمل قرار دیگا.“ (اشتہار حضرت مسیح موعود مورخه ۱۲از جنوری شهداء (١٩ مجموعہ اشتہارات حصّہ اوّل صن(19) قرآن مجید نے اسوۂ یوسفی کے پیرایہ میں ایک بین الا قوامی راہنما اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے.كَذلِكَ لِدْنَا لِيُوسُفَ مَا كَانَ لِيَأخُذَ اَخَاهُ في دِينِ الْمَلِكِ (يوسف : ( چونکہ حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہ مصر کے ملکی قانون کی رُو سے اپنے سگے بھائی کو اپنے پاس رکھنے کے مجاز نہ تھے.اس لیے خدا نے خود ایک تدبیر فرمائی.ثابت ہوا کہ قرآنی نظام کے مطابق قانون شکنی کسی کے لیے جائز نہیں خواہ فرعون مصر کی حکومت ہو اور مملکت میں لینے والا یوسف علیہ السلام جیسا اولو العزم پیغمبر.ہی کیوں نہ ہو.اب سنت نبوی کو لیجئے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ نبوی میں سفر طائف اختیار فرمایا.تو دستور عرب کے مطابق مکہ کے باشندے نہ رہے تھے اور خانہ کعبہ کا دروازہ جوابو جہل عنبہ اور شیبہ کے لیے کھلا تھا وہ مقصود کائنات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بند کر دیا گیا.طائف سے واپسی پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں تشریف لائے اور مگر کے ایک کا فررئیس + L

Page 51

مطعم بن عدی کے پاس پیغام بھیجا کہ مجھ کو اپنی حمایت میں ہے سکتے ہو ؟ مطعم بن عدی نے درخواست منظور کی اور اپنے بیٹوں کو بلا کر کہا کہ ر لگا کہ حرم میں جاؤ.رسولِ عربی صلی اللہ علیہ مکہ میں تشریف لائے.مطعم اونٹ پر سوار تھا حرم کے پاس پہنچ کر اس نے اعلان کیا کہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پناہ دی ہے.آنحضرت نے حرم کعبہ میں قدم مبارک رکھا نماز ادا کی اسطرح مکہ شریف میں قانونی اجازت عطا ہو نے کے بعد اپنے مقدس مکان میں تشریف لائے.اس موقع پر مطعم اور اس کے بیٹے آپ پر تلواروں کا سایہ کئے ہوئے تھے.) ابن سعد - مواہب اللدنیہ اسیرة النبی جلد اول ص ۲۵-۲۵۶ از علامہ شبلی نعمانی مرحوم ) قانونِ وقت کی اطاعت کے باب میں صلح حدیبیہ کا واقع مذہبی دنیا کی تاریخ میں مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ فریق ثانی سے معاہدہ کے دوران محض قانونی اور آئینی اغراض کو پورا کرنے کے لیے حضور نے رسول اللہ کا لفظ اپنے دست مبارک سے کاٹ دیا تھا.ك یہ فخر و سعادت آج تنہا عالمگیر جماعت احمدیہ کو حاصل ہے کہ وہ عالمی سطح پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان شاندار روایات کی ن بخاری کتاب المغازی باب عمرة القضاء مسلم (سیرت النبي جلد اول من الام)

Page 52

۵۱ امین اور پاسبان ہے اور گو بعض اذہان و قلوب اسے بھی قادیانیوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں میں شمار کریں گے مگر زمانہ کی نیرنگیاں اور زمان و مکان کی کوئی بڑی سے بڑی آزمائش کسی احمدی کو اسوہ محمدی کی اس شاہراہ پر چلنے سے روک نہیں سکتی.جیسا کہ سیدنا حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے انگریزی دور حکومت میں اعلان فرمایا : : "مذہب کی پابندی اتنی ضروری ہے کہ چاہیے ساری گورنمنٹ ہمارے مخالف ہو جائے اور جہاں کسی احمدی کو دیکھے اُسے صلیب پر لٹکانا شروع کر دے پھر بھی ہمارا یہ فیصلہ نہیں بدل سکتا کہ قانون شریعت اور قانونِ ملک کبھی توڑا نہ جائے اگر چہ اسکی وجہ سے ہمیں شدید ترین تکلیفیں بھی دی جائیں کہ ہم اسکے خلاف چلیں.“ ) الفضل ۲۰ اگست ۱۹۳۵ء ص ) ۱۹۳۸ء میں حضرت مصلح موعود نے اس اعلان کے بعد یہ پور قوت و شوکت پیشگوئی بھی فرمائی کہ : " ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس وقت ایک رہتی آزادی عطا کی ہے....جب ہمارے سامنے بعض حکام آتے ہیں تو ہم اس یقین اور وثوق کے ساتھ ان سے ملاقات کرتے ہیں کہ کل یہ نہایت ہی عجز اور انکسار کے ساتھ ہم استمداد کر رہے ہوں گے ہم انگریزی قوم کو عارضی طور پر

Page 53

۵۲ مسلمان پر غالب دیکھتے ہیں مگر مستقل طور پر اسے اسلام کا غلام دیکھ رہے ہیں.c " الفضل ۲۲ / اپریل ۱۹۳۸ء ص ) الحمد للہ ہمارے محبوب حضرت خلیفۃ السیح الرابع ایدہ اللہ کے دستِ مبارک سے حالیہ سفر انگلستان کے دوران اس عظیم انسان خبر کو جلد پورا کر نے کی بنیادی اینٹ رکھ دی گئی ہے.آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مردوں کی تاکہ زندہ والد کہتے ہیں تثلیث کو اب اہلِ دانش الوداع پھر ہوتے ہیں چشمہ توحید پر از جان نماید آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اسکا انتظار آٹھواں اعتراض.علامہ ڈاکٹرسہ محمد اقبال نے صرف ایک بیان سے مرزائیت کے کاغذی قلعے کی دھجیاں بکھیر دیں اور اس کی تفصیل ترجمان اقبال جناب پرویز کے حصے میں آئی ، جو حرف آخر ہے.جواب (ناظم ادارہ طلوی اسلام کراچی ) : حرف آخر کا لفظ سند (AUTHORITY ) کے مترادف

Page 54

" ۵۳ • و ہم معنی ہے اور اسلام میں خدا اور مصطفے کے سوا کوئی اتھارٹی نہیں یا مهدی موعود و مسیح موعود اتھارٹی ہیں جن کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم و عدل کا عدیم المثال منصب عطا کیا اور اسکی الہامی عدالت کی نسبت ارشاد فرمایا کہ رام يَقِفُ أَثْرِى وَلَا يخطى لك 7 یعنی مسیح موعود و مهدی موعود میرے قدم بقدم چلیں گے اور ذرا بھی خطا نہ کریں گے.شیخ الشیوخ عالم ربانی، غوت صمدانی علامہ سید عبد الوہاب شعرانی " المیزان " میں اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : " امام مہدی....کے ظہور کے بعد ان کے پہلے مذاہب کے اقوال پر عمل کی پابندی باطل ہو جائے گی.چنانچہ اہلِ کشف نے اس کی تصریح کی ہے اور امام مہدی علیہ السلام کو پورے طور پر شریعت محمدى على صاحبها الصلوة والسلام کے مطابق حکم کرنے کا الہام کیا جائے گا.یہاں تک کہ اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہوتے تو ان کے تمام جاری کردہ احکام کو تسلیم فرماتے " (مواہب حمانی ترجمہ اردو میزان شعرانی - حصہ اول (ص ت نور الابصار فی مناقب آل بيت النبي المختار ص ٣٧ از حضرت الشیخ سید شبلنجي المكتبة الملكية الازهر مصر

Page 55

۵۴ جہاں تک ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال صاحب کا تعلق ہے ان کو اتھارٹی یا سند فرد دینا شریعت محمدیہ پر ظلم عظیم اور شاعر مشرق سے بڑی زیادتی ہے کیونکہ انہوں نے زندگی بھر کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ خدا کی کی طرف سے ملت اسلامیہ کے لیے حکم و عدل مقرر ہوئے ہیں.آپ تو عمر بھر یہ آرزو اور تمنا لیے رہے کہ : " کاش کہ مولانا نظامی کی دعا اس زمانے میں مقبول ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لائیں اور ہندی یا مانا تے مسلمانوں پر اپنا دین ہے نصاب کو دوسری طرف اپنی نسبت یہ اظہار حق فرمایا کہ : " میری مذہبی معلومات کا دائرہ نہایت محدود ہے...میری ر زیادہ تر مغربی فلسفے کے مطالعہ میں گزری ہے اور نقطہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے.دانستہ یا نا دانستہ میں اسی نقطہ نگاہ سے میں حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں کا رے غالباً اسی بناء پر مولانا محمد یوسف بنوری صلوب نے اپنے رسالہ " البینات " میں ادارہ کی طرف سے یہ وضاحتی بیان شائع کرایا تھا کہ: ن اقبال نامہ حصہ اول صدام ناشر محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازار لاہور سن اقبال نامه صفحه ۴۶

Page 56

۵۵ جہاں تک علامہ اقبال مرحوم کا تعلق ہے بڑے بلند پایہ فلسفی تھے اسلام اور مسلمانوں کا گہر اور دان کے سینے میں موجزن تھا لیکن اسلامی مسائل میں انہیں کبھی اتھارٹی کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی " (ماہنامہ البینات " کراچی جولائی ) جامعہ رشید یہ سوال کے ترجمان ماہنامہ " الرشید نے اپنی ضروری مارچ شہداء کی اشاعت میں واضح کیا کہ : " ہم علامہ اقبال کے پورے احترام کے باوجود ان کو پیغمبر یا صحابی نہیں سمجھتے وہ مسلمانوں کے عظیم مفکر تھے ان کو ایک غلط بات پہنچی اور انہوں نے اس سے متاثر ہو کر فوراً ایک نظم لکھ دی.“ " 4966 اب " ترجمان اقبال غلام احمد صاحب پرویز کا نقطہ نگاہ ملاحظہ ہو.انہوں نے تصوف کی حقیقت " پر ایک مبسوط کتاب لکھی ہے جس میں کلام اقبال کے تضادات غلو اور قرآن و رسول کی تنقیص کی ایسی ایسی مثالیں دی ہیں کہ انسان واقعی محو حیرت رہ جاتا ہے اور اختتام ان لفظوں پر کیا ہے : " اقبال جس نے ساری عمر اس تصوف کے خلاف تنقید ہی نہیں بلکہ بغاوت میں صرف کی آخر الأمر خود اس سے منائی ہو گیا.میری یہی حیرت اس تنقید کی شکل میں ملبوس ہے اگر کسی شخصیت کی عقیدت یا احترام اظہار حق کے راستے

Page 57

۵۶ 1 میں رکاوٹ بن جائے تو یہ بھی عدالت خداوندی میں کچھ کم سنگین جرم نہیں.“ تصوف کی حقیقت ۱۳۸۲ ناشر ادارہ طلوع اسلام گلبرگ لاہور) مد ہزاروں بت میں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکم اذان لا الہ الا اللہ نواں اعتراض محکوم کے الہام سے الہ چاہیے غارت گر اقوام ہے وہ صورت چنگیز (اقبال) جواب ، جناب علامہ حافظ اسلم صاحب جیرا جیوری کے قلم سے اس شعر کا جواب عرض کرتا ہوں.فرماتے ہیں : " جیراجپوری یہ خالص شاعرانہ استدلال ہے غالب کی طرح جس نے کہا کیوں ردِ قدح کرے ہے زاہد ئے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے جیس طرح مگس کی قئے کہہ دینے سے شہد کی لطاقت اور شیرینی میں فرق نہیں آسکتا.اسی طرح حکومت کی نسبت سے الہام بھی اگر حق ہو تو غارت گر اقوام نہیں ہو سکتا.خود حضرت عیسی علیہ السلام رومی سلطنت کے محکوم تھے جن کی نسبت ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے.نگیوں کو عطا خاک سوریا تے کیا بني عفت و غمخواری و کم آزاری بی

Page 58

į : ۵۷ بلکہ اکثر انبیاء کرام علیهم السلام محکوم اقوام ہی میں مبعوث کیے گئے.جن کے خاص اسباب و علل تھے جن کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں.دراصل نبوت کی صداقت کا معیار حاکمیت یا محکومیت پر نہیں ہے بلکہ خود الہام کی نوعیت پر ہے.نوادرات ص۱۲۳-۱۲۴ از مولانا اسلم صاحب جیراجپوری) شاعر مشرق نے ایک نہایت حقیقت افروز نکته یه بیان فرمایا کہ " بانی احمدیت کے الہامات کی اگر دقیق النظری سے تحلیل کی جائے تو یہ ایک ایسا موثر طریقہ ہوگا جس کے ذریعہ سے ہم اسکی شخصیت اور اندرونی زندگی کا تجزیہ کر سکیں گے." احمدیت اور اسلام ص ۲۳ از علامه اقبال ناشر اداره طلوع اسلام کراچی) حقائقِ احمدیت کے مطالعہ کا یہ ایک انتہائی مفید اور فیصلہ کن طریق ہے جسکا جماعت احمدیہ نے ہمیشہ پر جوش خیر مقدم کیا ہے چنانچہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں : میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی ماہر نفسیات بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات کا تجزیہ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں کرے گا تو وہ لانہ ما احمدیت کی صداقت کا قائل ہو جائے گا لیس یہ نصیحت علامہ اقبال مرحوم کی ہمارے لیے نہایت مفید ہے.“ ر الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۵۷ء مت) در عـ مثلاً حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو ۱۸۸۳ء میں قیام جماعت سے چھ سال

Page 59

۵۸ قبل یہ الہام ہوا : " I SHALL GIVE YOU A LARGE PARTY 1 براین احمدیہ جلد حده حاشیه درحاشیه " OF ISLAM یعنی میں تمہیں ایک بڑا گر وہ اسلام کا دوں گا.اب قرآن مجید کی روشنی میں اس کا تجزیہ کیا جائے تو بڑے سے بڑا ماہر نفسیات لازما اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس الہام میں قرآنی ارشاد ولتكن منكم امة يَدْعُون إِلى الخير كى طرف اشارہ ہے جس کی واقعاتی تصدیق علامہ اقبال کے مندرجہ ذیل اعتراف سے ہوتی ہے : " اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے کئی طریق ہیں جن طریقوں پر اس وقت تک عمل ہوا ان کے علاوہ اور تھی طریق ہو سکتے ہیں میرے عقیدہ ناقص میں جو طریق مرزا صاحب نے اختیار کیا ہے وہ زمانہ حال کے طبائع کے لیے موزوں نہیں ہے ہاں اشاعت اسلام کا جوش جو انکی جماعت کے اکثر افراد میں پایا جاتا ہے قابل قدر ہے." 66 191 ) اقبال نامہ حصہ دوم ص ۲۳۲ مکتوب ، اپریل ۱۱۹۳۲) را دسواں اعتراض ، ڈاکٹر سر علامہ اقبال نے پروفیسر ا محمد الیاس صاحب کے نام لکھا کہ " قادیانی تحریک یا یوں کہیے کہ بانی تحریک کا یہ دعوئی مسئلہ بروز پر مبنی ہے.مسئلہ مذکور کی تاریخی لحاظ

Page 60

09 سے تحقیق از بس ضروری ہے.جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ مسئلہ عجبی مسلمانوں کی ایجاد ہے اور اصل اس کی آرین ہے.نبوت کا سامی تخیل اس سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے.میری رائے ناقص میں اس مسئلہ کی تاریخی تحقیق قادیانیت کا خاتمہ کرنے کیلئے کافی ہوگی." را قبال نامہ حصہ اول ۴۱۵-۴۲۰ مکتوب ۲۷ مئی (۱۹۳۶ء) جواب : یہ اعتراض دراصل حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی حقانیت کا ایک چمکتا ہوا نشان ہے.اس لیے قرآن مجید میں أخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهم (الجمعہ : ۴) کے ذریعہ آخرین میں بھی محمد رسول اللہ کے آنے کی پیشگوئی کی گئی تھتے جس کی تفسیر حضرت خاتم النبيين محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے یہ بیان فرمائی کہ اگر کسی زمانہ میں ایمان ثریا تک چلا گیا تو اہل فارس کی نسل سے ایک یا ایک سے زیادہ لوگ اسے واپس لے آئیں گے اور ایمان کو از سر تو دنیا میں قائم کردیں گے.الو كَانَ مُعَلَّقَا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ اَوْ رِجَالُ مِنْ فَارِسُ) · د بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة الجمعه یہی وہ بروزِ محمدی ہے جس کی نسبت نویں صدی ہجری کے صوفی حضرت عبد الرزاق قاشانی نے یہ خبر دی کہ : الْمَهْدِئُ الذِي يُجِى فى اخرِ الزَّمَانِ فَإِنَّهُ يَكُونُ فِي الْأَحْكَامِ الشَّرِعِيَّةِ تَابِعًا لِمُحَمَّدٍ صَلَّى

Page 61

الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْمَعَارِقِ وَالْعُلُومِ وَالْحَقِيقَةِ تَكُونُ جَمِيعِ الأَنْبِيَاءِ وَالْاَوْلِيَاءِ تَابِعِيْن لَهُ كُلَّهُمْ وَلاَ يُنَا قِصٌ مَا ذكرناه لِاَنَّ بَاطِنَهُ بَاطِنُ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم - اشرح فصوص الحکم مطبوعہ مصرحت (۳) یعنی مہدی جو آخری زمانہ میں آئے گا وہ احکام شرعیہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوگا اور معارف علوم اور حقیقت میں تمام انبیاء اور اولیاء سب اس کے تابع ہوں گے کیونکہ مہدی موعود کا باطن محمد رسول اللہ کا باطن ہوگا.اسی طرح امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ تحریر فرماتے ہیں.يَزُعم العَامَّةُ أنَّهُ إِذَا نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ كَانَ وَاحِدًا مِنَ الأُمَّةِ كَلَّا بَلْ هُوَ شَرْحُ لِلْإِسْمِ الجَامِعِ الْمُحَمَّدِى وسُخَةٌ مُنْتَسَحَةٌ مِنْهُ - " ( الخير الكثير) عوام سمجھتے ہیں کہ مسیح محمد می جب زمین پر نزول فرما ہوگا تو وہ محض ایک امتی ہو گا بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح اور اس کا دوسرا المنتخہ ہو گا.یہ ہے بروز محمد شی کا عارفانہ تخیل جس کی بنیاد قرآن وسنت اور بزرگانِ امت کے الہامی ارشادات پر ہے اور بیہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں کسی نے الہا یا اس کے مصداق ہونے کا دعوئی نہیں کیا تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی حقانیت میں کیا شبہ رہ

Page 62

I ۶۱ جاتا ہے ؟ اللہ ابن عباس میں ہے کہ ،، : اِنَّ اللّهَ خَلَقَ سَبْعَ اَرْضِينَ فِي كُلِّ اَرْضِ آدم كادمكُمْ وَلُوم كَنُوحِكُمْ وَإبْرَاهِيمُ كَابْرَاجِييكُمْ وَعِيشى كَعِيسَاكُمْ وَنَبِى كَنَتِكُمْ ) در منشور ابن عباس) یعنی اللہ تعالیٰ نے سات زمینیں تخلیق فرمائیں ہر زمین میں تمہارے آدم کی طرح ایک آدم ، تمہارے نوح کی طرح ایک نوح ، تمہارے ابراہیم کی طرح ایک ابراہیم ، تمہارے عیسی کی طرح ایک عیسی اور تمہارے نبی کی طرح ایک نبی ہے.لہ اگر اسے خدائی تصرف کہا جائے تو ہرگز مبالغہ نہ ہو گا کہ جناب اقبال کو عصری اکتشافات کی بنیاد پر بھی ایک بروزِ محمد متی کا امکان تسلیم کرنا پڑا ہے.چنانچہ آپ لکھتے ہیں : " حال کے ایک ہیئت دان کہتے ہیں کہ بعض سیاروں میں انسان یا انسانوں سے اعلیٰ تر مخلوق کی آبادی ممکن ہے.اگر ایسا ہو تو رحمتہ للعالمین کا ظہور وہاں بھی ضروری ہے.اس صورت میں کم از کم محمدیت کے لیے تناسخ یا بروز لازم آتا ہے.د اقبال نامہ حصّہ اوّل صدا عجیب بات یہ بھی ہے علامہ موصوف اپنے تئیں حافظ کا بروز سمجھتے ن حضرت مولانا قاسم نانوتوی فرماتے ہیں " میرا یہ عقیدہ ہے کہ حدیث مذکور صحیح اور معتبر ہے (تحذیر الناس من) ب

Page 63

تھے.فرماتے ہیں : 2 جب میرا ذوق جوش پر آتا ہے تو حافظ کی روح مجھ میں حلول کر جاتی ہے اور میں خود حافظ بن جاتا ہوں." (اقبال نامہ حصہ دوم (ص) گیارہواں اعتراض : آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کے بہت سے اسمائے مبارکہ میں سے ایک نام " العاقب " بھی ہے جیس کے معنے آنحضور نے یہ بیان فرمائے ہیں : وة وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَى د بخاری کتاب الفضائل باب اسماء النبی ) عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو.10.دیہ اعتراض سید ابواعلیٰ صاحب مودودی کی کتاب " ختم نبوت ، ص ۱۵ مطبوعہ مارچ ء میں کیا گیا ہے.ایضاً روزنامہ جنگ ہر نومیر شہ) 1941 جواب : یہ اعتراض سنکہ ایک عاشق رسول کا دل کانپ اٹھتا ہے.وجہ یہ ہے کہ " العاقب الذی لیس بعدہ نبیؐ کے الفاظ " ہر گز حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں بلکہ حضرت امام زہری کا قول ہے جیسا کہ مسند احمد بن حنبل جلد ۴ ص ۸۴ میں بالصراحت منقول ہے کہ : قَالَ مَعْمَرُ قُلْتُ لِلنُّهْرِى مَا الْعَاقِبُ ؟ قَالَ

Page 64

الَّذِى لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ » معمر فرماتے ہیں میں نے امام زھری سے " العاقب کی بابت پوچھا.کہا جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو.یہی وجہ ہے کہ صحیحین کے متن حدیث میں سرے سے یہ الفاظ ہی موجود نہیں البتہ مسلم شریف میں ان کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تشریح درج ہے کہ " اَنَا الْعَاقِبُ الَّذِى لَيْسَ بَعْدَهُ اَحَدُ " مسلم باب فی اسماء صلی اللہ علیہ وسلم ) لینی میں عاقب ہوں جس کے بعد کوئی نہیں ہے.العاقب کے ان روح پرور معنوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح مقام خاتمیت کی نشان دہی ہوتی ہے اور ماننا پڑتا ہے کہ ہمارے آقا رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہی نہیں آخری انسان بھی ہیں.اور یہی جماعت احمدیہ کا مسلک ہے اسی لیے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں ختم شد بر نفس پاکش سر کمال لا حرم شد ختم ہر پیغمبری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس پاک پر ہر کمال ختم ہوگیا بلاشبہ ہر پیغمبر ختم ہو گیا.! افسوس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ تشریح تو نہایت بیدردی سے چھوڑ دی گئی اور جو الفاظ آنحضور صلی اللہ علیہ

Page 65

۶۴ وسلم (فداہ ابی والی) کے نہیں ہیں ان کو زبر دستی نبیوں کے شہنشاہ کی طرف منسوب کیا جارہا ہے فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ بارہواں بار سوال اعتراض ، حدیث نبوی ہے.اَمَّا تَرْضى أَن تَكُونَ مِي بِمَنْزِلَةِ هُرُونَ مِنْ مُوسَى غَيْرَ أنَّهُ لا نَبِى بَعْدِى.) مسند احمد بن جنبل جلد ا ص (عن سعد بن وقاص) کیا تجھے پسند نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہ نسبت ہو جو حضرت موسیٰ کے ساتھ ہارون کی تھی مگر میرے بعد نبی نہیں ؟ الا نبى بَعْدِى جواب : اس حدیث کا تعلق سفر تبوک سے ہے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو اپنے بعد مدینہ کی عورتوں اور بچوں پیر امیر مقرر فرمایا.حضور کا منشاء " لانبی بعدی" کے الفاظ سے کیا تھا ؟ اس کی وضاحت حضورہ کے ان الفاظ مبارک سے ہو جاتی جو اس موقعہ پر موجود دوسرے اکابر صحابہ سے مروی ہیں.الا چنانچہ ایک مستند روایت میں TATAANONENTAL NET کی بجا TEDATA TO النبوة " اور دوسری روایت میں " الا انك لست بنتی ہے نا ۱۷۰ مسند احمد بن حنبل جلد ما عائشہ بنت سعد کے والد سے مروی) د ه مسند احمد بن حنبل جلد را صدا ۳۳ ) عن عبد الله بن عباس)

Page 66

کے الفاظ موجود ہیں جن کی روشنی میں اس فقرہ کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت علی المرتضیٰ کو نیابت رسوائے میں وہی شرف و اعزاز حاصل تھا جو ہارون کو حضرت موسیٰ کے بعد سفر طور کے موقع پر نصیب ہوا اس فرق کے ساتھ کہ حضرت ہارون نبی تھے مگر حضرت علی رضہ نبی نہیں تھے.اور جمات احمدیہ دوسرے تمام ارشادات رسول کی طرح اس فرمان نبوی پیر بھی دل و جان سے یقین رکھتی ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں نے سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے جان و دل اس راہ پر قربان - دے چکے دل اب تنِ خاکی رھا ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا تیرہواں اعتراض : حضرت مولانا » مولوی شاء الله مطلب نے مرزا صاحب سے مباہلہ قبول کیا جس کے نتیجہ میں مرزا صاحب ان کی زندگی میں ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو فوت ہو گئے اور مولوی صاحب ۴۰ سال تک زندہ رہے لیے (سیرت ثنائی صفحه ۱۷۱-۱۷۲ از مولوی عبدالمجید سوہدروی) " القادیانیہ " ص" الناشر رابطہ العالم الاسلامی مکة المکرمہ " قادیانی کا فرکیوں“ صده از ارشاد الحق اثری ناشد علوم اثریه منتشگیری بازار لائل پور و فیصل آباد اپریل ۱۹۷۵ ء.ن"

Page 67

44 جواب : اصل حقیقت کو بے نقاب کرنے کیلئے جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے اس تبصرہ کا مطالعہ ضروری ہے جو انہوں نے حضرت مسیح موعود کے مسودہ مباہلہ بعنوان " مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ لے کو پڑھ کر اپنی اخبارہ اہلحدیث" ۲۶ اپریل ۱۹۰۷ء میں شائع کیا تھا.تبصرہ کے چند فقر سے ملاحظہ ہوں ا.اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی اور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا " (ص ) " - میرا مقابلہ تو آپ سے ہے اگر میں مرگیا تو میرے سرنے سے اور لوگوں پر کیا حجت ہو سکتی ہے " صد " ۳.تمہاری یہ دعا کسی صورت میں فیصلہ کن نہیں ہو سکتی (20) ۴.خدا کے رسول چونکہ رحیم و کریم ہوتے ہیں اور انکی ہر وقت " یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہلاکت اور مصیبت میں نہ پڑے مگر اب کیوں آپ میری ہلاکت کی دعا کرتے ہیں.(ص) ۵ یہ دعا تمہاری منظور نہیں اور نہ کوئی داتا اسکو منظور کر سکتا ہے." (فت) یہ نبی یاد رہے کہ حضرت بائی سلسلہ احمدیہ نے اس دعوتِ نے آخری فیصلہ کی اصطلاح مباہلہ ہی کے لیے استعمال ہوتی ہے.ر فتاوی ثنائیہ جلد ۲ صفحه به طبع اوّل)

Page 68

1906w مباہلہ کے بعد ۲ اکتوبر شاه کو وضاحت فرما دی مفتی کمر : : " مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ نیچے کی زندگی میں ہلاک ہو جاتا ہے.....کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب اعداء انکی زندگی میں ہی ہلاک ہو گئے تھے بلکہ ہزاروں اعداء آپ کی وفات کے بعد زندہ رہ ہے ہاں جھوٹا مباہلہ کہ نیورالا پیچھے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوا کرتا ہے.ایسے ہی مخالف بھی ہمارے مرنے کے بعد زندہ رہیں گے." ( 19- ملفوظات جلد نهم مدت ۴۴ ، الحکم راکتوری شده) پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا اپنے الہامات کے مطابق میں انتقال فرمانا بھی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا نشان ہے اور جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کا چالیس سال تک زندہ رہتا بھی م اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار چودھواں اعتراض : حضرت بانی سلسلہ احمدیہ " آئینہ " کمالات اسلام ملا کہ ا کہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھاکہ میں خدا ہوں اور یقین کیا کہ میں وہی ہوں ، جواب : یہ محض خواب ہے اور خواب ہمیشہ تعبیر طلب ہوتی ہے.جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی یہ خواب قرآن میں ہے کہ آپ نے گیارہ ستاروں ، سورج اور چاند کو اپنے سامنے سجدہ کرتے

Page 69

YA } دیکھا رسورة يوسف رکوع 1 ) تعبیر الرویا کی مشہور کتاب تعطیر الانام “ میں لکھا ہے : را مَنْ رَأَى كَانَّهُ صَارَ الْحَقِّ سُبْحَانَهُ تَعَالَى " + اهْتَدى إلى الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ “ (ص) یعنی جو شخص خواب میں دیکھے کہ میں خدا ہو گیا ہوں اس کی تغییر یہ ہے کہ وہ صراط المستقیم تک پہنچ جائے گا.خود حضور نے اس خواب کی تعبیر آئینہ کمالات اسلام میں یہ بتائی کہ آسمانی اور زمینی تائیدات مجھے حاصل ہوں گی.نیز واضح فرمایا ہے کہ اس خواب کے یہ معنے نہیں کہ گویا میں خدا ہوں یا خدا مجھ میں حلول کر آیا ہے بلکہ یہ خواب دراصل اس حدیث قدسی کے عین مطابق ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نوافل پڑھنے والا بندہ میرے قترب میں اسقدر ترقی کرتا ہے کہ میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، آنکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے..( صحیح بخاری، کتاب الرقاق بات التواضع ص ۹۶ مطبع مجتبائی دہلی) امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فیوض الحرمین" میں فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں قائم الزمان ہوں یعنی اللہ تعالی جب کسی چیز کے نظام کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ اس

Page 70

۶۹ ارادہ کی تکمیل کے لیے مجھے اوزار یا آلہ کار بنالیتا ہے.الفرقان (بریلی، شاہ ولی اللہ تمبر م ا ) از مولانا محمد منظور نعمانی) بار دوم دہلی ) رح ۱۰ اسی طرح سلطان العارفين سيد الأقطاب حضرت الشيخ ابو محمد روز یہان " (مصنف تفسیر عرائض البیان) اپنا یہ مکاشفہ بیان فرماتے ہیں کہ : الْبَسَنِي لِبَاسًا مِنْ حُسْتِهِ وَجماله....ثُمَّ جَعَنِي مُتَّصِفًا بِصِفَاتِهِ ثُمَّ جَعَلْنِي مُتَحِدًا بِذَاتِهِ ثُمَّ رأيتُ نفسى كَائِي هُوَ " دکشف الاسرار صفحہ 11 مطبوعہ ترکی ۱۹۷۱ء ادبیات - EDEBIYAT) FAKULTESI MATBAASI MATBAASI IStanbul) اللہ جل شانہ نے مجھے اپنے حسن و جمال کا لباس پہنایا پھر مجھے اپنی صفات سے متصف کر کے اس طرح اپنی ذات سے متحد کر دیا کہ میں نے اپنے نفس کو دیکھا کہ گویا میں خدا ہی ہوں.سلوک کی اس منزل میں بعض اہل اللہ بے اختیار ہو کر " انا الحق " کہہ اٹھتے ہیں چنانچہ حضرت سیّد عبد القادر جیلانی غوت صمدانی " فتوح الغیب (مقالہ ۳ ، ۱۳ ، ۱۶) میں فرماتے ہیں کہ قرب نوافل کا وہ مرتبہ فنائیت ذاتی کا مقام ہے جس سے محققین کے نزدیک " انا الحق کا ظہور ہوتا ہے اور یوں بندہ ترقی کر کے แ

Page 71

แ خدا کی طرف سے " كُن فَيَكُون “ کے اختیارات کا حاصل ہو جاتا ہے منقول ہے کہ ایک گدڑی پوش حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا میں جنید وقت ہوں.میں شیلی وقت ہوں، میں بایزید وقت ہوں اسپر آپ نے فرمایا : میں خدائے وقت ہوں میں مصطفائے وقت ہوں" تذکرۃ الاولیاء اردو باب ۷، صفحه ۵۱۵ حضرت خواجه فرید الدین عطاری) اصل بات یہ ہے کہ اللہ والوں کا اپنے رب کریم سے ایک ترالا تعلق ہوتا ہے جس کا تصور بھی دنیا پرست آنکھ نہیں کر سکتی جہاں خدا تعالیٰ انہیں اپنی تجلیات خاصہ کا مشاہدہ کراتا ہے، وہاں یہ فانی فی اللہ لوگ تبھی بحر الوہیت میں گم ہو جاتے ہیں اور اپنی محبت اور پیار کی نرالی زبان استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے جسکا مقصود مشرک نہیں صرف والہانہ رنگ میں فنائیت تامہ ہیں کا اظہار ہوتا ہے بین اتنے پہ ہوا ہنگامہ دار د رسن بریا کہ کیوں آغوش میں لے آئینہ مہر و وشاں کو اور ان کا کمال روحانی یہ ہے کہ وہ مجاہدات اور فروتنی اور عاجزی کے ساتھ اپنے دل کو ایسا مصفی اور شفاف بنالیتے ہیں کہ ان میں عرش کے خدا کا عکس نظر آنے لگتا ہے جس کے بعد

Page 72

وہ دیوانہ وار اپنے رب کی طرف علی وجہ البصیرت دعوت دیتے ہیں جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں کہ : 梦 ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خرید نے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو....میں کیا کروں اور کس طرح اس خوش خبری کو دلوں میں بیٹھا دوں.کسی دت سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کیلئے لوگوں کے کان کھلیں " (کشتی نوح صد ۲۰۰۱ طبع اول) پندرہواں ہندر سہواں اعتراض : حضرت پانی سلسلہ احمدیہ کا دعوی ہے کہ انہیں بعض وہ آیات بھی الہام ہوئیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کیلئے مختص ہیں.جواب : یہ اعتراض صرف ایسے ذہن کی پیداوار ہے جیس کا نہ تو زندہ خدا کی زندہ قدرتوں پر ایمان ہے نہ اس کا خدا سے کوئی ذاتی تعلق ہے اور نہ وہ کوچۂ روحانیت سے آشنا ہے جیسے مکالمہ مخاطبہ الہیہ کی سیر روحانی مقصود ہو اسے چاہیے کہ

Page 73

۷۲ ان اولیاء واصفیاء کے دربار میں پہنچے جنہیں خدا سے ہمکلامی کا شرف حاصل تھا.حضرت خواجہ میر درد دہلوی نے " علم الکتاب" میں " تحدیث نعمته الرب" کے زیر عنوان وه قرآنی آیات درج کی ہیں جو آپ پر نازل ہوئیں.مثلاً "..واستَقَمْ كَمَا أُمِرْتَ » « انْذِرْ عَشِيبُرَكَ لاَقْرَبِيْنَ " " واَخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ الا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ" ان سب آیات میں براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہے.حضرت سید امیر الاطماتری نقشبندی مجدد صدی سیزدهم کو مندرجہ ذیل آیات رحین میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محاط بجھتے، الہام ہوئیں : عن إنما أنا بشر مثلكم " " يَاأَيُّهَا اللَّبِيُّ الى الله قُلْ إِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ لقَدْ كَانَ لَكُم فِي رَسُولِ اللَّهِ اسْوَةٌ حَسَنَة حضرت مولانا مولوی عبد اللہ صاحب عزنوی " پر آنحضرت صلی 14 نه سلك سير في نظم الدرر " ۱۵۳ ) مرتبہ حضرت علامه دهر مولانا صفی الله رحمہ مطبع فاروقی) ۲۹۵ حد

Page 74

۷۳ اللہ علیہ وسلم سے مخصوص آیات کا بکثرت نزول ہوا.مثلاً صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمَا، اَلَمْ نَشْرَحْ.لَكَ صَدْرَكَ ، وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضى ا " حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں : " خداوند کریم نے اس غرض سے کہتا ہمیشہ اس رسول مقبول کی برکتیں ظاہر ہوں اور تا ہمیشہ اس کے نور اور اس کی مقبولیت کی کامل شعاعیں مخالفین کو ملزم اور لاجواب کرتی رہیں اس طرح پر اپنی کمال حکمت اور رحمت سے انتظام کر رکھا ہے کہ بعض افراد امت محمدیہ کو جو بوجہ کمال عاجزی اور تذلل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اختیار کرتے ہیں اور خاکساری کے آستانہ پر پڑ کر بالکل اپنے نفس سے گئے گزرے ہوتے ہیں خدا ان کو فانی اور مصفے شیشہ کی طرح پا کر اپنے رسول مقبول کی برکتیں ان کے وجود بے نمود کے ذریعہ سے ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ منجانب اللہ ان کی تعریف کی جاتی ہے یا کچھ آثار اور برکات اور آیات ۳۷ ہے ، ہے.سوانح عمری مولوی عبد اللہ غزنوی مرحوم ص ۲۵ م ۳ مرتبہ مولانا عبدالجبار غزنوی مطبع قرآن و سنت امرته طبع اول

Page 75

1 ۷۴ + * ن سے ظہور پذیر ہوتی ہیں.حقیقت میں مرجع نام ان تمام تعریفوں کا اور مصدر کامل ان تمام برکات کا رسول کریم ہی ہوتا ہے اور حقیقی اور کامل طور پر وہ تعریفیں اسی کے لائق ہوتی ہیں اور وہی ان کا مصداق اتم ہوتا ہے.66 (براہین احمدیہ حصہ سوم ۳۳ ۲۳ حاشیه در حاشیه جو راز دیں تھے بھارے اسنے بنائے سارے دولت کا دینے والا فرماں روا یہی ہے اس نور پر فدا ہوں اسکا ہی میں ہوا ہوں + وہ ہے میں چیز کیا ہوں میں فیصلہ یہی ہے فرزندان احمدیت ! حق یہ ہے کہ تحریک احمدیت کی پشت پر

Page 76

هـ دلائل و بینات کا لشکر جرار موجود ہے.دنیا بھر کی تمام مملکتوں کے سپاہی اور ہتھیار شاید گنے جاسکیں مگر احمدیت کے تائیدی شواہد کا شمار ممکن نہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ پندرہ اعتراضوں کے انسے جوابات سے جو میں نے نمونے پیش کئے ہیں یہ حقیقت آفتاب نیمروز کی طرح روشن ہو جاتی ہے اور ہر احمدی کا دل اس یقین اور حرفت سے لبریز ہو جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس عظیم الشان بشارت کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے کہ : " میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی بیٹے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا.یہاں تک زمین پر محیط ہو جائے گا.“ (تجلیات الہیہ ملا) میں نے شروع میں حضرت مسیح موعود کے مبارک الفاظ میں بتایا تھا کہ جماعت احمدیہ کے قیام کی اصل عرض کلمہ طیبہ " لا اللہ الا الله محمد رسول الله " پر ایمان اور اسکی طرف دعوت ہے.یہ عاجزہ اس مضمون کے اختتام پر آپ کو دوبارہ اسی کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے.حضرت امام جعفر صادق کی مشہور پیشگوئی ہے إذَا قَامَ الْقَائِمُ الْمَهْدِى لَا يَبْقَى اَرْضُ الاَ +

Page 77

۷۶ وی تُؤْدِي فِيْهَا شَهَادَةٌ أن لا إله إلا الله وَانَّ مُحَمَّدَا رَسُولُ اللهِ " ديتا بيع المودة مؤلفہ حضرت شیخ سلیمان الشبلنجی طبع دوم مكتبة العرفان بيروت ، بحار الانوار جلد ۱۳ ص ۱۸ تهران ) یعنی جب حضرت قائم امام مہدی موعود علیہ السلام ظاہر ہوں گے تو دنیا کا گوشہ گوشہ اَشْهَدُ أن لا إله الا الله وَاَشْهَدُ ان اَتَ مُحَمَّدٌ رَّسُول الله کی پر شوکت آواز سے گونج اٹھے گا.سو الحمد للہ جماعت احمدیہ اس نصب العین کی جلد سے جلد تکمیل کے لیے دنیا کے ہر خطہ میں سرگرم عمل ہے.حال ہی میں اشبیلیہ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے ایک کتاب " اندلوسیہ کل اور آج " شائع کی ہے جس میں ایک باب اسلام پر ہے کتاب میں لکھا ہے کہ مسلمان پھر اندلس کو فتح کرنے کے منصوبے باندھ رہے ہیں خصوصاً جماعت احمدیہ جو ایک منظم جماعت ہے اور نہایت زور شور سے دین محمد (صلی اللہ علیہ وسلم).کی تبلیغ کر رہی ہے.مگر شفیع احمدیت کے پروانو ! یاد رکھو ہماری نظر صرف اندلس پر نہیں پوری دنیا پر ہے اور ہماری اصل جوبلی اس دن ہوگی ماسکو پیکنگ لندن اور نیو یارک جیسے بڑے بڑے شہروں کی جب سرکاری عمارتوں یونیورسٹیوں صنعتی اور جوہری توانائی کے مرکزوں

Page 78

LL г اور گرجا گھروں پر کلمہ طیبہ لکھا ہو گا.ے خدا کا نور ہیں ہم کو بجھا سکا نہ کوئی وہ نقش ہیں جیسے اب تک مٹا سکا نہ کوئی ہے ہم نے زمانے کو نور بطحا کا جو شمع ہم نے جلائی جلا سکا نہ کوئی لبوں یہ نشھد ان لا الہ الا الله سبق جو ہم نے سنا یا سنا سکا نہ کوئی پرویز پروازی) دنیا کے احمدیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے بڑی کوئی خواہش اور تمنا نہیں تھی کہ ساری دنیا کلمہ پڑھ لے.توحید و رسالت محمدی کی اشاعت کے سلسلہ میں آنحضور کتنی بے پناہ تڑپ اور بیمثال جذبہ رکھتے تھے اس کا کسی قدر اندازہ اس حیرت انگیز واقعہ سے ہوتا ہے کہ شوال شد (جنوری ضروری سہ میں غزوہ حنین سے واپسی پر اسلامی لشکر میں اذان دی گئی اس موقعہ پر مکہ کے دس غیر مسلم نوجوان بھی تھے جو آنحضرت سے شدید بغض رکھتے تھے انہوں نے اذان کا کھلا مذاق اڑایا اور محض استہزاء کے طور پر اذانیں دینا شروع کر دیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہایت خاموشی اور پیار سے ان کی اذانیں سنتے رہے پھر ارشاد فرمایا کہ ان میں ایک خوش الحان کی

Page 79

LA.آواز بھی میں نے سنی ہے اس پر سب غیر مسلم آنحضور کی بارگاہِ اقدس میں حاضر کئے گئے اور سب نے باری باری اذان دی آخری موذن کا نام ابو محذورہ تھا جس کی آواز آنحضرت کو بہت پیاری لگی آنحضرت نے اسے اپنے سامنے بٹھا لیا.اس کی پیشانی کو تین بار اپنے دستِ مبارک سے برکت بخشی اور اظہار خوشنودی فرماتے ہوئے چاندی سے بھری ہوئی ایک تحصیلی العام دی اور فرمایا جاؤ اور بیت اللہ کے پاس بھی اذان دو.اس پر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیسے اذان دوں.اس آنحضرت نے پوری اذان اور اقامت سکھلائی.یہ سارا واقعہ دار قطنی ، مسند احمد بن حنبل اور نسائی اور دوسری مستند احادیث میں موجود ہے L آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ نے خلیفہ الرسول حضرت ابو بکر صدیق کو توحید اور رسالت محمدی کا پرچم دے کر کھڑا کیا.آپ نے فتنہ ارتداد کے دوران پوری مملکت اسلامیہ میں یہ آرڈی نینس ، جاری فرمایا : ہمارا شعار اذان ہے جب مسلمان اذان دیں اور مرتدین بھی اذان دیں.خاموشی اختیار کی جائے.اگر وہ اذان نہ دیں فوراً ان کی خبر لی جائے اور اذان دینے کے بعد بھی ان سے دریافت کیا جائے کہ وہ کس مسلک پر ہیں اگر وہ اسلام سے انکار کریں فوراً اُن سے جنگ شروع کر دی جائے اور

Page 80

۷۹ اگر وہ اسلام کا اقرار کرلیں ، ان کے بیان کو قبول کر کے ان پر اسلام کی قدمت عائد کر دی جائے.لے معزز حضرات ! آج انسانیت تباہی اور بر بادی کے کنارے پر آن پہنچی ہے اور اقوام عالم کی نجات کی اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ فرش سے لے کر عرش تک فضاؤں کو محبت الہی کی خوشبوؤں سے بھر دیا جائے اور ہر دل پر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گاڑ دیا جائے.یہی وہ آسمانی نوبت خانہ ہے جس کا ذکر نہایت ولولہ انگیز رنگ میں حضرت مصلح موعود نے 1922ء کے جلسہ سالانہ پیر کیا اور فرزندانِ احمدیت کو مخاطب کرتے ہوئے ۱۹۵۳ ارشاد فرمایا : " اب خدا کی نوبت جوش میں آئی ہے اور تم کو ہاں تم کو ہاں تم کو خدا تعالیٰ نے اس نوبت خانہ کی ضرب سپرد کی ہے اسے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو ! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو !! اسے آسمانی بادشاہت کے موسیقار !!!! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجاؤ کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس فرنا میں بھر دو نه تاریخ طبری جلد یا حصہ ۴ اردو صدا تصنيف ابو جعفر محمد بن جریر الطبري ترجمہ مولانا سید محمد ابراہیم صاحب ایم اے سابق کارکن شعبه تالیف و ترجمہ جامعہ عثمانیہ لاء دار الطبع جامعہ عثمانیہ سر کار عالی حیدر آباد F -F

Page 81

۸۰.8 وه ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں پھر دو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اٹھیں تا کہ تمہاری درد ناک آوازیں اور تمہارے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادت توحید کی وجہ سے خدا تعالیٰ زمین پر آجائے اور پھر خدا تعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہو جائے.محمد رسول اللہ کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہے تم نے مسیح سے چھین کر پھر وہ تخت محمد رسول اللہ کو دیتا ہے اور محمد رسول اللہ نے وہ تخت خدا کے آگے پیش کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہوتی ہے پس میری سنو اور میری بات کے پیچھے چلو کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے میری آواز نہیں ہے.میں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں.تم میری مانو - خدا تمہارے ساتھ ہو خدا تمہارے ساتھ ہو خدا تمہارے ساتھ ہو اور تم دنیا میں بھی عزت پاؤ اور آخرت میں بھی عزت پاؤ." اسیر روحانی جلد سوم ص ۲۸۷۰۲۸) م فرزانوں نے دنیا کے شہروں کو اجاڑا ہے آباد کریں گے اب دیوانے یہ ویرانے PAL-PAY

Page 81