Aisha Siddiqa

Aisha Siddiqa

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ

اُمّ المؤمنین
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

Book Content

Page 1

بسلسلہ صد سالہ خلافت احمد یہ جوہلی أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما لجنہ اماءاللہ

Page 2

أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پیارے بچو! کیا ہی پیارا دور ہوگا ! جب ہمارے پیارے آقاع مکہ کی گلیوں میں چلتے پھرتے نظر آتے ہوں گے.اپنی پیاری بستی مکہ میں آپ نے اپنے اصحاب کے گھروں میں جاتے ان کی خیریت دریافت کرتے اُس دور کے خوش قسمت بچے آپ ﷺ کی سواری پر بیٹھتے ، آپ ﷺ ان کو سلام میں پہل کرتے.اس پیاری صحبت میں پروان چڑھتے ہوئے بچے جب بڑے ہوتے تو صحابہ کرام اور صحابیات کہلاتے.کیا ہی خوش قسمت لوگ تھے کہ خدا کا رسول اللہ خود ان کی تربیت فرما رہا تھا.روایات سے بڑے ہی پیارے واقعات ملتے ہیں.سنو ! ایک مرتبہ اسی طرح ہمارے پیارے آقاعﷺ اپنے ایک ساتھی کے گھر تشریف لے گئے ، کیا دیکھتے ہیں کہ بچیاں اپنے کھلونوں سے کھیل رہی ہیں.آپ سے بڑے پیار سے ان کے کھلونے دیکھنے لگے.ان کھلونوں میں گڑیاں بھی تھیں اور دوسرے کھلونے بھی ، درمیان میں

Page 5

أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ایک 2 ، گھوڑا رکھا تھا.جس کے کپڑے کے دو پر لگے ہوئے تھے.آپ میں اللہ نے دریافت فرمایا: وو ی تم نے گڑیوں کے ساتھ کیا رکھا ہوا ہے؟“ اس نے جواب دیا " گھوڑا ہے ! فرمایا: "کیا گھوڑوں کے کبھی پر بھی ہوتے ہیں؟ ذہین بچی فوراً بول اُٹھی ”حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے بھی تو پر تھے !“ (1) جانتے ہو یہ حاضر جواب بچی کون تھی؟ یہ عائشہ بنت ابو بکر صدیق میں.آپ نہ صرف حاضر جواب تھیں بلکہ انبیاء کی تاریخ سے واقفیت بھی رکھتی تھیں.اُس دور میں نہ اسکول تھے نہ ہی کتابیں پھر بھی علم کا شوق رکھنے والے بچے بچیاں تھیں.خدا تعالی چاہتا تھا کہ عرب، دنیا کے استاد بنیں اس لئے اُس نے اِس قوم کو بہترین حافظے اور ذہن عطا کئے.پھر اپنے سب سے بڑے رسول مہ کو ان میں بھیجا اور پھر سب سے بڑی کتاب قرآن کریم جو اپنے اندر علم کے خزانے رکھتی تھی اُن پر نازل کی اور اس طرح سُن سُن کر حافظے کی وجہ سے علم سیکھنے والوں نے سیکھ لیا اور پھر دُنیا کے استاد بن گئے.حضرت عائشہ بھی اُن خوش قسمت لوگوں میں سے تھیں.آپ

Page 6

أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 3 نے کچھ علم اپنے والد سے سیکھا اور پھر خدا تعالیٰ نے دنیا کے سب سے بڑے معلم مے کی زوجہ محترمہ بنے کا اعزاز عطا فرمایا.آپ نے دین سیکھا اور پھر صحابہ کو سکھایا اور اس طرح ہم تک وہ علوم پہنچ گئے.اسی لئے تو اللہ صل کے رسول ﷺ نے فرمایا:.آدھا دین عائشہ سے سیکھو آؤ ! آج حضرت عائشہ کا تعارف کرواتے ہیں اور تمہیں اُن کی سیرت کے کچھ واقعات سناتے ہیں.آپ کے گھر والوں نے آپ کا نام عائشہ رکھا جس میں یہ دعا تھی کہ یہ بچی لمبی عمر پائے.آپ سرخ اور سفید رنگ کی بہت ہی پیاری عادتوں والی بچی تھیں، ہمیشہ سچ بولتی تھیں اسی لئے لوگ آپ کو حمیرا اور صدیقہ بھی کہتے تھے.(2) صلى الله آنحضرت ﷺ سے شادی ہو جانے کی وجہ سے آپ کو اُم المؤمنین یعنی مومنوں کی ماں بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کی بیویوں کو اُس کے ماننے والوں کے لئے ایک ماں کا درجہ دیا ہے.حضرت عائشہ بچپن سے ہی بہت ذہین اور دوسرے بچوں مختلف تھیں.ہر بات کا آپ کے پاس بہت خوبصورت اور پیارا جواب ہوتا.اس لئے بڑوں کو بھی آپ کے ساتھ باتیں کر کے مزا آتا تھا اور

Page 7

أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کوئی آیت قرآنی آپ کے کانوں میں پڑ جاتی تو اس کو بھی یا درکھتی تھیں.جب آنحضرت مے اور آپ میلے کے سب سے پیارے دوست حضرت ابوبکر صدیق نے مکہ والوں کے ظلم سے تنگ آکر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی (ہجرت کا مطلب ہے اپنے مذہب کی خاطر لوگوں کے ظلم کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ کر کسی اور جگہ جا کر رہنا ) تو حضرت عائشہ کی عمر صرف آٹھ سال تھی.اس چھوٹی سی بچی کو ہجرت کے تمام واقعات بڑوں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ یاد تھے.جو آپ نے بیان فرمائے اب دیکھو یہ کتنا بڑا احسان ہے ورنہ ان باتوں کی تفصیل ہمیں کیونکر معلوم ہوتی.حضرت خدیجہ کے متعلق تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ وہ حضرت محمد دا اے کی پہلی بیوی تھیں.جو آنحضرت ﷺ کی سچی ہمدرد اور جان و مال کے لحاظ سے آپ ﷺ پر ہرلمحہ قربان ہونے والی بیوی تھیں.اُن کی وفات کے صلى الله بعد آنحضرت علی بہت اداس رہا کرتے تھے.صلى الله حضرت خولہ بنت حکیم آپ ﷺ کی اداسی اور پریشانی کو دیکھ کر ایک دن آپ ﷺ کے گھر آئیں اور کہنے لگیں کہ " اے اللہ کے رسول حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد آپ علی بہت اداس نظر آتے ہیں“ آپ ﷺ نے فرمایا ”ہاں گھر کا انتظام اور بچوں کی تربیت سب خدیجہ

Page 8

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 5 کے سپر د تھی.حضرت خولہ نے کہا کہ آپ مہ کو ایک ہمدرد ساتھی کی ضرورت ہے اگر اجازت ہو تو میں آپ مے کی دوسری شادی کے لئے سودہ بنت زمعہ اور عائشہ بنت ابو بکر صدیق کے لئے بات چیت کروں.صلى الله حضور ﷺ نے فرمایا.تم ان دونوں کے متعلق بات کرو.“ اس طرح حضرت عائشہ اور حضرت سودہ کے ساتھ آپ ﷺ کا نکاح ہو گیا.(3) آنحضرت علی سے حضرت عائشہؓ کا نکاح شوال کے مہینے میں ہوا اہل عرب جاہلیت کے زمانے میں اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے شوال کے مہینے میں طاعون پھیلا تھا جو ہزاروں لوگوں کی ہلاکت کا باعث بنا تھا.لیکن حضرت عائشہ کا نکاح بھی شوال میں ہوا اور رخصتی بھی چند سال بعد اسی مہینے میں ہوئی.آپ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ملنے کی بیویوں میں مجھ سے زیادہ کوئی بھی خوش قسمت نہ تھی کیونکہ میں آپ میے کو سب سے زیادہ محبوب تھی.آپ اس امر کو پسند فرماتی تھیں کہ لوگ خوشی اور مسرت کی تقریبات اسی مہینے یعنی شوال میں کریں.اس طرح آپ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ آپ کے نکاح کی برکت سے ماہ شوال کی نحوست کا وہم لوگوں کے دلوں سے دور ہوا.باوجود اس کے کہ حضرت ابو بکر صدیق خاصے مالدار تاجر تھے حضرت عائشہ کا نکاح انتہائی سادگی سے ہوا حضرت عائشہ اپنی سہیلیوں

Page 9

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 6 کے ساتھ گھر سے باہر کھیل رہی تھیں کہ ان کی خادمہ نے ان کو آواز دی اور اپنے پاس بلا کر ساتھ لے گئیں، گھر میں حضور میں نے تشریف رکھتے تھے، حضرت ابوبکر صدیق نے چار یا پانچ سو درہم حق مہر پر آپ کا نکاح پڑھایا.نکاح کو دو برس تین ماہ گزرے تھے کہ کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر الہی حکم کے تحت رسول ﷺ نے ہجرت کا ارادہ فرمایا.حضرت عائشہ صلى الله بیان کرتی ہیں کہ آپ علے روزانہ صبح یا شام کو حضرت ابو بکر کے گھر آیا کرتے تھے.ایک دن خلاف معمول چہرہ مبارک چادر سے لیے دو پہر کو تشریف لائے.حضرت ابو بکر صدیق کے پاس دونوں صاحبزادیاں حضرت عائشہ اور حضرت اسمام بیٹھی تھیں.آپ ﷺ تشریف لائے اور ہجرت کا خیال ظاہر فرمایا.حضرت عائشہ اور حضرت اسماء نے مل جُل کر سامان سفر درست کیا.حضرت نبی کریم نے اور حضرت ابو بکر صدیق نے مدینہ کی راہ لی اور تمام اہل وعیال کو مکہ ہی میں چھوڑ دیا.جس دن آپ ﷺ مدینہ منورہ پہنچے نبوت کا چودھواں سال تھا اور ربیع الاول کی بارہویں تاریخ تھی.مدینہ میں ذرا اطمینان ہوا تو آپ ﷺ نے اہل وعیال کو لانے کے لئے حضرت زید بن حارثہ اور اپنے غلام ابو رافع کو مکہ بھیجا.حضرت ابو بکر صدیق نے بھی اپنے بیٹے عبداللہ کو ساتھ بھیجا کہ اپنی والدہ اور دونوں

Page 10

أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ بہنوں کو لے آؤ.یہ مختصر قافلہ جب مدینہ پہنچا تو آ نحضور اللہ کے اہل و عیال مسجد نبوی کے احاطے میں جو مکانات بنوائے گئے تھے اُن میں ٹھہرے اور حضرت عائشہ مدینہ آنے کے بعد اپنے گھر والوں کے ساتھ بنو حارث کے محلہ میں صلى الله آٹھ ماہ تک رہیں.اکثر مہاجرین کو مدینہ کی ہوا موافق نہ آئی چنانچہ پہلے تو حضرت ابو بکر کو سخت بخار ہوا.حضرت عائشہ نے ان کی بیماری میں بہت خدمت کی ، آپ صحت یاب ہو گئے لیکن حضرت عائشہؓ خود بیمار ہوگئیں بیماری کی شدت سے آپ کے سر کے بال بھی گر گئے.صحت ٹھیک ہونے پر حضرت ابو بکر نے آنحضرت علیہ سے حضرت عائشہ کی رخصتی کی درخواست کی.(4) چنانچہ شوال 2 ہجری کو حضرت عائشہ کی شادی کی تاریخ مقرر ہوئی جبکہ آپ کی عمر تقریباً 12 سال تھی.اس چھوٹی عمر میں شادی کی کئی حکمتیں تھیں کہ آپ ملے شروع سے ہی ان کی تربیت اپنی مرضی کے مطابق کر سکیں اور اسلام کی تعلیمات کو جلد اور آسانی کے ساتھ اچھی طرح سمجھ کر دوسروں کو سمجھا سکیں اور اس بڑی ذمہ داری کو اُٹھا سکیں جو نبیوں کے صلى الله سردار ﷺ کی بیوی ہونے کے لحاظ سے ان پر تھیں.نیز عورتیں جو مسائل لے کر آئیں آپ ان کو رسول اللہ ملنے تک پہنچا سکیں.اس کے علاوہ کم عمر

Page 11

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 8 سلمان ہونے کی وجہ سے امید تھی کہ وہ لمبی عمر پائیں گی اور اس طرح انہیں مہ عورتوں میں درس و تدریس اور تبلیغ کا زیادہ موقعہ مل سکے گا.بچو! اب شادی کا حال سُنو ! مدینہ کے انصار کی عورتیں سُسرالی بن کر دلہن کو لینے کے لئے حضرت ابو بکر صدیق کے گھر آئیں.حضرت عائشہ اپنی سہلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھیں.ماں نے اپنی بیٹی کو بلا کر منہ دھلایا، بال سنوارے پھر ان کو اس کمرے میں لے گئیں جہاں انصار کی عورتیں دلہن کے ابھار میں بیٹھی تھیں (مدینہ کے پرانے رہنے والے مسلمانوں کو انصار کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں مدد کرنے والے چونکہ صلى الله آنحضرت ﷺ نے ایک ایک انصار کو ایک مہاجر کا بھائی بنا دیا اور انصار نے اپنے گھر اور گھروں کا آدھا سامان خوشی سے مہاجروں کو دے دیا.) دلہن جب کمرے میں داخل ہوئی تو مہمانوں نے یہ گیت گایا عَلَى الْخَيْرِ وَ الْبَرَكَةِ وَ عَلَى خَيْرِ طَائِرٍ یعنی تمہارا آنا بھلائی اور برکت والا ہو اور نیک شگون ہو یعنی شادی مبارک ہو رخصتی کے وقت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ پیش کیا گیا.آپ ﷺ نے اس میں سے تھوڑا سا دودھ پی کر پیالہ حضرت عائشہ کی طرف بڑھایا جس کو انہوں نے جھجکتے ہوئے قبول الله کیا.(5) (لیکن آج کل کے رواج کے مطابق نہ آنحضور ﷺ نے کسی کو

Page 12

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 9 دودھ پلانے کے بدلے میں پیسے دیئے اور نہ ہی کسی نے پیسے مانگے ) آپ فرماتی ہیں کہ میری رخصتی میں نہ کوئی اونٹ ذبح کیا گیا اور نہ کوئی بکری ہاں ایک کھانے کا پیالہ تھا جس کو سعد بن عبادہ نے حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا ہوا تھا.وہ گھر کیسا تھا ؟ حضرت عائشہ جس گھر میں رخصت ہو کر آئی تھیں وہ کوئی عالی شان عمارت نہ تھی.بنی نجار کے محلہ میں مسجد نبوی کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے کئی مجرے تھے ان ہی میں ایک حجرہ حضرت عائشہ کا گھر تھا جو مسجد کی مشرقی طرف تھا اس کا ایک دروازہ مسجد کے اندر مغربی رخ پر تھا جس سے مسجد نبوی اس کا مسکن بن گئی تھی ، آنحضرت میں نے اسی دروازے سے گزر کر مسجد میں داخل ہوتے تھے.حجرہ کی دیواریں مٹی کی تھیں.کھجور کے چوں اور ٹہنیوں کی چھت تھی جس پر کمبل ڈال دیا گیا تھا تا کہ بارش کا پانی چھت سے ٹپک نہ سکے.(6) گھر کی سادگی کا یہ حال تھا کہ اس میں صرف ایک چار پائی ، ایک چٹائی ، ایک بستر ، ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال (کھجور کے درخت کا چھلکا ) بھری تھی.آٹا اور کھجوریں رکھنے کے ایک دو برتن ، پانی کا ایک برتن اور پانی پینے کا ایک پیالہ تھا.(7) آپ کے گھر میں آنحضرت ﷺ اور حضرت عائشہ صرف دوافراد

Page 13

أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 10 تھے کچھ دنوں کے بعد بریرہ نام کی خادمہ بھی آپ کے گھر میں آگئیں.بچو! اتنا سادہ گھر ہونے کے باوجود یہ گھر برکتوں سے بھرا ہوا اور خدا تعالیٰ کے نور سے روشن تھا.یہی وہ مبارک گھر تھا جہاں حضور عے پر سب سے زیادہ اللہ تعالی کا کلام اُترا.یہی وجہ تھی کہ حضرت محمد می لانے کو حضرت عائشہ بہت پیاری تھیں.اس کے علاوہ یہ شادی بھی اللہ تعالیٰ کی خاص مرضی سے ہوئی تھی کیونکہ نکاح سے پہلے آپ ﷺ نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ آپ ﷺ کے سامنے ایک ریشمی رومال پیش کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ " یہ آپ کی بیوی ہے" آپ ع رومال کھولتے ہیں تو اس میں حضرت عائشہ کی تصویر ہوتی ہے.(8) حضرت عائشہ خود بھی بہت ذہین تھیں.آنحضرت ﷺ کی تربیت میں اُنہوں نے بہت جلد اور بہت زیادہ ترقی کی.آپ نے دینی مسائل کو سمجھ کر عورتوں کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کا وہ کام کیا کہ ان جیسا کام کسی عورت نے نہیں کیا.آپ ﷺ کے بعد مسلمانوں میں سے سب سے افضل شخص صلى الله حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی تھیں اسلام میں ہی ان کی پیدائش ہوئی تھی

Page 14

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 11 اس لئے ان کی تربیت بچپن سے ہی بہت اعلی اسلامی طور طریقوں کے مطابق ہوئی تھی سو وہ عورتوں کے لئے نمونہ بننے کے قابل تھیں.نیز احادیث کا وہ حصہ جو عورتوں سے متعلق تھا زیادہ تر آپ کے اقوال میں ملتا ہے.بڑے بڑے صحابہ بھی آپ سے بعض مسئلوں کے بارہ میں سوال پوچھا کرتے تھے اور آپ ان کو تسلی بخش جواب دیتیں.آنحضرت عمل ہمیشہ حضرت عائشہ سے نہایت نرمی ، مہربانی اور دلجوئی سے پیش آتے یعنی ان کا دل بہلاتے اور خوش رکھنے کی کوشش کرتے ، ان کے ناز اٹھاتے ، ہر شوق پورا کرتے بلکہ خود اس میں دلچسپی لیتے دوسروں کے سامنے بھی ان کی تعریف کرتے.اب آپ کو آنحضرت علیہ کے حسن سلوک کے کچھ مزے مزے کے واقعات بتاتے ہیں.آنحضرت علی ایک مرتبہ گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گڑیوں سے کھیل رہی تھیں.آپ ﷺ کو دیکھ کر ساری سہلیاں بھاگ گئیں تو حضور ﷺ باہر نکلے لڑکیوں کو بلایا اور کہا اندر آ جاؤ اور عائشہ کے ساتھ کھیلو.“ (9) آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ کے ساتھ ایک دفعہ دوڑ کا مقابلہ بھی کیا، حضرت عائشہ ان دنوں دبلی پتلی تھیں اس لئے دوڑ میں

Page 15

أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 12 الله آگے نکل گئیں.بعد میں جب حضرت عائشہ کچھ موٹی ہو گئیں تو حضور علے عروس نے ان کو دوڑ کا چیلنج دیا اور پھر دوڑ میں آپ میں سے آگے نکل گئے اور فرمایا عائشہ! تِلْكَ بِتِلْكَ" یہ اس کا بدلہ ہے جو تو نے مجھے اس وقت ہرایا تھا.الله آنحضرت نے کبھی کبھی پیار سے آپ کو عائش' کہہ کر بلایا کرتے تھے.ایک دفعہ سفر میں حضرت عائشہ کی سواری کا اونٹ پدک گیا ( ڈر گیا ) اور ان کو لے کر ایک طرف کو بھاگا.آنحضرت علی گھبرائے اور بے اختیار زبان مبارک سے نکل گیا.وائر وساء ہائے میری دلہن الله اور پھر جب اونٹ ٹھہر گیا تو آپ ملے پر سکون ہو گئے.(10) تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ : ”ایک دفعہ مسجد میں کچھ جنگی کرتب دکھائے گئے آپ مے نے حضرت عائشہ سے فرمایا :.کہ اگر دیکھنا چا ہو تو میرے پیچھے کھڑے ہو کر کندھوں کے اوپر سے دیکھ لو.چنانچہ حضرت عائشہ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور انہوں نے تمام جنگی کرتب دیکھے.“ (11) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عمرو بن العاص نے آپ میے سے دریافت کیا 'یا رسول اللہ دنیا میں سب سے زیادہ آپ کو کون

Page 16

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 13 ارا ہے !‘ رسول پاک علیہ نے فرمایا ” عائشہ ! حضرت عمرؓ نے عرض کی "یا رسول اللہ نے مردوں کی نسبت سوال ہے ؟ آپ ﷺ نے ہے؟ فرمایا ” عائشہ کا باپ ! کتنی بڑی خوش قسمتی تھی کہ حضرت عائشہ اور اُن الله کے والد کو انسان کامل حملے کا پیار نصیب ہوا.حضرت عائشہ کو بھی حضور علے جیسے محبت کرنے والے شوہر سے بے حد محبت تھی.آپ کے پاس ایک خادمہ بھی تھی لیکن عام طور پر گھر کا سارا کام اور حضور ﷺ کی تمام ضروریات کا خیال آپ خود ہی رکھتیں ، چکی پیتیں ( اس زمانے میں آٹا پینے کے لئے مشینیں نہیں ہوتی تھیں ) آٹا گوندھتیں ، کھانا تیار کرتیں، آنحضور ﷺ کا بستر ہمیشہ اپنے ہاتھ سے بچھا تیں اور اچھی طرح دیکھ لیتیں کہ صاف ستھرا ہے.اپنے ہاتھ سے آپ اللہ کے سر میں کنگھا کرتیں، کپڑوں پر عطر ملتیں.آپ ﷺ کے تمام کپڑے خود صلى الله دھوتیں جب حضور یہ رات کو آرام فرمانے کے لئے لیٹتے تو سر ہانے تہجد کے لئے پانی رکھتیں ، مسواک کو اچھی طرح پانی سے دھو کر صاف کر کے حضور علی کو دیا کرتیں.صد حضور میے کے مہمانوں کی خاطر مدارت کرتیں، آپ ع کے تمام حکموں کی پوری پوری اطاعت اور فرمانبرداری کرتیں.جنگوں میں نہایت شوق سے شریک ہوتیں اور بہادری کے ساتھ میدان جنگ میں

Page 17

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 14 زخمیوں کی خدمت اور مرہم پٹی فرما تھیں.حضرت فاطمۃ الزھراء کے ساتھ بھی آپ کا بہت پیار کا سلوک تھا.آپ فرماتی تھیں کہ ”میں نے فاطمہ سے بہتر ان کے باپ کے سوا کوئی انسان نہیں دیکھا کسی نے آپ سے پوچھا کہ آنحضرت مے کو سب سے زیادہ کس سے محبت تھی؟ فرمایا: ” فاطمہ سے میں نے فاطمہ سے زیادہ اُٹھنے بیٹھنے کے انداز میں آنحضرت ﷺ سے ملتا جلتا کسی کو نہیں دیکھا.صلى الله 2 ہجری میں حضرت فاطمہ کی شادی حضرت علیؓ کے ساتھ (جو آنحضرت ﷺ کے چچا کے بیٹے اور بچوں میں سے آنحضرت ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لائے تھے ) ہونا قرار پائی.بچو! یہ وہی حضرت علی ہیں جو الله آنحضرت علیہ کے چوتھے خلیفہ بنے..حضرت عائشہ نے دوسری بیویوں کے ساتھ مل کر سامان درست کیا.دولہا و دلہن نے جس مکان میں شادی کے بعد رہنا تھا اُس کی لپائی کی ، اپنے ہاتھوں سے کھجور کی چھال ڈھن کر سکیے بنائے لکڑی کا ایک اسٹینڈ تیار کیا تا کہ اس پر پانی کی مشک اور کپڑے لٹکائے جاسکیں.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ فاطمہ کے بیاہ سے اچھا کوئی بیاہ میں نے نہیں دیکھا.(12) آنحضرت علی کی ایک اور بیوی حضرت حفصہ جو مسلمانوں کے

Page 18

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 15 دوسرے خلیفہ حضرت عمرہ کی بیٹی تھیں ان کے ساتھ بھی حضرت عائشہ کا بہت نرمی اور پیار کا سلوک تھا گھر یلو معاملات میں دونوں کی رائے ایک ہوتی تھی.حضور ﷺ کی سب بیویوں کے ساتھ حضرت عائشہ کا بہت اچھا برتاؤ تھا اگر آپس میں کبھی ناراضگی ہو بھی جاتی تو اپنی غلطی مان کر جلد ایک دوسرے سے صلح بھی کر لیتیں اور دل میں ایک دوسرے کی خوبیوں کا اعتراف بھی کرتیں.ایک مرتبہ رسول پاک ﷺ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو یا ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتہ چل جاتا ہے.ناراض الله ہوتی ہو تو ابراہیم کے خدا کی قسم اور خوش ہوتی ہو تو محمد ے کے خدا کی قسم کھاتی ہو.حضرت عائشہ نے عرض کیا 66 یا رسول اللہ صرف زبان سے نام لینا چھوڑ دیتی ہوں.‘ (13) ایک دلچسپ واقعہ ہمیں تاریخ میں ملتا ہے.جب ایک مرتبہ آنحضرت یہ حضرت عائشہ کے گھر تشریف رکھتے تھے کسی اور بیوی کے گھر سے کچھ کھانا تحفہ آ گیا.حضرت عائشہ نے کچھ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہ کھانا گرا دیا جس سے پیالہ بھی ٹوٹ گیا.آنحضرت ﷺ کا پیارا اسود ( نمونہ ) دیکھو آپ زمین پر بیٹھ گئے

Page 19

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 16 اور اس پیالے کے ٹکڑے اپنے ہاتھوں سے اکٹھے کئے اور حضرت عائشہ کو حکم دیا کہ اب ویسا ہی پیالہ اپنے گھر سے بھجواؤ جیسا تم نے توڑا ہے.حضرت عائشہ نے فوراً اطاعت کی.اس واقعہ سے آنحضرت ﷺ کی تربیت کا پیارا انداز بھی ملتا ہے وہاں ایک اور پہلو سامنے آتا ہے کہ یہ حدیث خود حضرت عائشہ روایت فرما رہی ہیں اور یہی آپ کے تقویٰ کا صلى الله اعلیٰ معیار تھا اور ہم پر آپ کا یہ احسان ہے کہ رسول کریم ﷺ جو معلم اخلاق ہیں اُن کی تربیت کے سب انداز بیان کر دئے.آنحضرت ﷺ کی مدینہ آمد سے پہلے عبداللہ بن ابی سلول مدینہ کا بادشاہ بنا چاہتا تھا بلکہ اس کے لئے ایک تاج بھی تیار ہور ہا تھا جب اس نے مدینہ کے لوگوں کا آپ عہ سے بے انتہا عزت واحترام کا سلوک دیکھا اور یہ کہ مدینہ کے لوگ حضرت ابو بکر صدیق کی بھی بہت عزت صل الله کرتے ہیں.اس دنیا کی زندگی ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے.جو شخص اس دنیا میں الله آتا ہے اس نے ایک دن اللہ تعالی کے پاس جانا ہوتا ہے.حضرت محمد نے بے شک تمام نبیوں کے سردار تھے مگر آپ یہ بھی انسان تھے.جب آنحضرت ﷺ نے اپنی زندگی کا آخری حج کیا تو آپ میے نے ایک عظیم الشان خطبہ دیا اور اس میں اتنی پیاری نصیحتیں مسلمانوں کو کیں

Page 20

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 17 کہ قیامت تک ان کے عمل کے نتیجہ میں ساری دنیا امن وسکون سے بھر سکتی ہے اور دنیا کے تمام لوگ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک کے رہنے والے ہوں آپس میں محبت اور پیار سے رہ سکتے ہیں.آپ ﷺ کے اس خطبہ سے یہ الله بھی محسوس ہوتا تھا کہ گویا یہ آپ کا آخری پیغام ہے جو آپ پہلے اپنے پیاروں کو دے رہے ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ کی طبیعت تیرہ دن تک خراب رہی.حضرت عائشہ کو اس طرح یہ بھی اعزاز حاصل ہوا کہ آپ کا یہ آخری 8 دن حضرت عائشہ کے حجرہ میں رہے.حضور علیہ کی وفات سے ذرا پہلے حضرت عائشہ صلى الله کے بھائی حضرت عبد الرحمن آپ مے کا حال پوچھنے کے لئے آئے ان کے ہاتھ میں مسواک تھی حضور ﷺ نے مسواک کی طرف دیکھا تو حضرت عائشہ سمجھ گئیں کہ حضور نے مسواک کرنا چاہتے ہیں.آپ نے ان سے مسواک لے کر اپنے دانتوں سے نرم کی اور آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کی اور حضور علیہ نے مسواک کی.آپ کا ہاتھ حضرت عائشہ کے ہاتھ میں تھا.آپ ﷺ نے اپنا با برکت ہاتھ کھینچ لیا اور زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری ہو گئے.66 إلى الرفيق الا على “ کہ میں سب سے اعلیٰ مہربان دوست کی طرف جاتا ہوں.یہ

Page 21

أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 18 صلى الله فرماتے فرماتے آپ ﷺ وفات پا گئے یہ 12 ربیع الاول سوموار کا دن تھا.انا للہ وانا الیہ راجعون حضرت عائشہ کے حجرہ میں ہی آپ میﷺ کو دفن کیا گیا اس کی وجہ حضرت عائشہ یہ بیان کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے مرض الموت میں فرمایا: ”خدا یہود و نصاری پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ ﷺ کی قبر کھلے میدان میں ہوتی لیکن آپ ﷺ حجرہ میں دفن ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی قبر کو جدہ گاہ بننے سے بچالیا.آنحضرت ﷺ کی بیوی ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے صلى الله مطابق تمام مومنوں کی ماں تھیں اس لئے صحابہ کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ان کو حضرت عائشہ آسان حل بتا تیں.حضرت عائشہ کی کوئی اولاد نہ تھی چنانچہ رسول پاک ﷺ نے حضرت عبداللہ بن زبیر جو آپ کی بہن حضرت آسمان کے بیٹے تھے کے نام پر آپ کی کنیت ام عبداللہ رکھی.(14) آپ غزوہ بدر میں بھی شریک ہوئیں.جنگ اُحد میں زخمیوں کو پانی پلاتی رہیں.غزوہ خندق میں جب مسلمان قلعہ میں بند تھے آپ زنانہ

Page 22

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 19 قلعہ سے نکل کر جنگ کی حالت دیکھتیں اور پہرہ دیتیں.حضرت عائشہ خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کیلئے پانچوں نمازیں، نماز تہجد اور چاشت کی نماز پڑھا کرتیں.اکثر روزہ رکھا کرتیں کبھی وہ اور رسول ملے دونوں مل کر ایک ساتھ روزے رکھتے ( یہ رمضان کے روزوں کے علاوہ رکھے جانے والے روزے تھے ) رمضان کے آخری عشرہ میں آنحضرت معہ مسجد میں اعتکاف کرتے تھے کبھی آپ بھی اس فرض میں شریک ہو جاتیں.مسجد کے صحن میں خیمہ نصب کرا لیتیں.صبح کی نماز پڑھ کر آنحضرت یہ بھی تھوڑی دیر کو وہاں آ جاتے.حضرت عائشہ کی سب سے نمایاں خوبی سخاوت تھی جو کچھ آپ کے پاس ہوتا اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتیں ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک لاکھ درہم آئے شام ہوتے ہی سب خیرات کر دیئے اور اپنے لئے کچھ نہ رکھا.اس دن آپ نے روزہ رکھا ہوا تھا.خادمہ نے عرض کی افطار کے لئے کچھ نہیں ہے فرمایا ”پہلے کیوں نہ یاد دلایا.“ حضرت عائشہ غلاموں پر شفقت کرتیں اور ان کو خرید کر آزاد کرتیں.ان کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے.(15) آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ نے اپنی تمام زندگی قرآن وحدیث کی درس و تدریس میں گزاری صحابہ کرام اور صحابیات اپنے

Page 23

أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 20 مسائل کے حل کے لئے آپ کے پاس آتے.آپ کو مسائل کے سمجھنے اور احکام کا علم رکھنے اور باریک مسائل کے بارہ میں صحیح فتوی دینے کا خاص ملکہ حاصل تھا.ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ! وو عائشہ کو عورتوں پر اسی طرح فضیلت ہے جس طرح شرید کو تمام کھانوں پر ( خرید عربوں کا ایک پسندیدہ کھانا ہے جو شور بہ میں روٹی کے ٹکڑے ملا کر کھایا جاتا ہے) حضرت خلیفتہ اسیح الثانی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں."حضرت عائشہؓ کے متعلق تو یہاں تک ثابت ہے کہ آپ مردوں کو رسول ملے کی حدیثیں سنایا کرتی تھیں.بلکہ خود لڑائی کی بھی ایک دفعہ آپ نے کمان کی.غرض ان کو پوری عملی آزادی حاصل تھی صرف اس امر کا اُن کو حکم تھا کہ اپنے سرگردن اور منہ کے وہ حصے جو سر اور گردن کے ساتھ وابستہ ہیں اُن کو ڈھانپے رکھیں تا کہ وہ راستے جو گناہ پیدا کرتے ہیں بندر ہیں اور اس سے زیادہ احتیاط کر سکیں تو نقاب اوڑھ لیں.(16) حضرت عائشہ نے ایک انصاری لڑکی کی پرورش فرمائی ، اس کا ہر قسم کا خیال رکھا، اس کی اچھی تربیت کی اور پھر اس کی شادی کی اور چونکہ خود بھی سادگی سے رہتی تھیں.اس کو بھی سادگی سے رخصت کرنے لگیں.

Page 24

أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 21 کہ آپ علیہ باہر سے تشریف لائے تو بڑے پیار سے کہا.عائشہ گیت اور راگ تو ہے نہیں !" گویا آنحضرت ﷺ نے پسند فرمایا کہ خوشی کے موقعہ پر اچھے گیت گائے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں.آنحضرت می ﷺ کو علم تھا کہ انصار کی لڑکیاں اچھے گیت گا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا کرتی ہیں جیسا کہ انہوں نے مدینہ ہجرت کے موقعہ پر پیارا سا گیت گا کر آنحضرت علی کا استقبال کیا تھا.طَلَعَ الْبدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الوداع وجَبَ الشَّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَا للهِ دَاع چودھویں کا چاند ہم پر وداع کی گھاٹیوں سے نکلا ہے.ہم پر ہمیشہ کے لئے اللہ کا شکر فرض ہو گیا.حضرت ابو بکر سارے قریش میں علم انساب وشعر میں بہت ماہر تھے.آپ نے تاریخ وادب تو اپنے والد صاحب سے سیکھا اور طب کا علم ان عرب نمائندوں سے سیکھا جو آنحضرت علیہ کی خدمت میں ملاقات کرنے کے لئے آیا کرتے تھے.زندگی کے آخری دنوں میں جب حضور یہ بیمار ہوتے تھے تو حکیم جو دوائیں بتایا کرتے تھے حضرت عائشہ ان کو یاد کر لیا کر لیتیں اور اس طرح علم طب میں بھی آپ کو بہت زیادہ

Page 25

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ مہارت حاصل ہوگئی.22 22 مسجد نبوی میں آنحضرت ﷺ جو علمی مجالس لگایا کرتے تھے چونکہ ے حضرت عائشہ کا حجرہ مسجد کے ساتھ جڑا ہوا تھا.اس لئے آپ بھی ان میں شامل ہوتیں.اگر کوئی بات سمجھ نہ آتی تو بعد میں آنحضرت ﷺ سے پوچھ کر تسلی کر لیتیں.آپ نے عورتوں کی درخواست پر ایک خاص دن ان کو پڑھانے کے لئے مقرر کر رکھا تھا.آپ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت میں جوتی کو پیوند لگا رہے تھے اور میں چرخہ کات رہی تھی.میں نے دیکھا کہ آنحضور ﷺ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آرہا تھا اور اس پینے کے اندر ایک نور چمک رہا تھا جو ابھرتا جاتا تھا اور بڑھتا جاتا تھا.یہ ایک ایسا نظارہ تھا کہ میں سراپا حیرت بن گئی.حضور ﷺ کی نظر مبارک جب مجھ پر پڑی تو فرمایا عائشہ ! تو حیران سی کیوں ہے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ اللہ میں نے دیکھا کہ پیشانی پر پسینہ ہے اور پسینے کے اندر ایک چمکتا ہوا نور ہے...حضرت عائشہ نے اشعار پڑھے جن کا تر جمہ ہے کہ وہ شخص ولادت اور رضاعت کی آلودگیوں سے پاک تھا اور اس کے درخشندہ چہرہ کی شکنوں پر نظر کرو تو معلوم ہوگا کہ نورانی اور کھل کر چپکنے والی روشن تر بجلی سے بڑھ کر روشن ہے.

Page 26

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 23 صلى الله حضور علیہ نے جب حضرت عائشہ کے منہ سے یہ شعر سنے تو آپ فرماتی ہیں کہ جو کچھ آپ کے ہاتھ میں تھا وہ رکھ دیا.میری پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا: مَا سُرِرُتِ مِنّى كَسَرُورِى مِنْكِ تو مجھ سے اتنا خوش نہیں ہوئی جتنا میں تجھ سے خوش ہوا ہوں آپ حضور میلے کی وفات کے بعد قریباً 60 سال زندہ ر ہیں لیکن جو پاکیزہ زندگی آپ نے حضور ﷺ کے ساتھ گزاری وہ ایک خوبصورت یاد بن کر آپ کے ساتھ ساتھ رہی اور اس کا شکر آپ اس طرح ادا کرتی ر ہیں کہ حضور کے واقعات کثرت سے بیان فرماتی رہیں.حضور ملنے کے خلفاء بھی اُم المؤمنین کا احترام کرتے اور آپ سے فیض حاصل کرتے رہے.حضرت عمرہ کا طریق یہ تھا کہ جب کوئی خاص تحفہ آتا حضرت عائشہ کو بھجوایا کرتے.جب اسیران فتح ہوا تو وہاں سے آٹا پینے والی چکیاں لائی گئیں.حضرت عمر نے حکم دیا کہ پہلا پسا ہوا آنا حضرت عائشہ کو پیش کیا جائے.چنانچہ وہ بار یک میدہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا.ملازمہ نے گوندھ کر بار یک پھلکے تیار کئے.بچو المدینہ کی عورتیں جنہوں نے پہلی بار ایسا پسا ہوا آٹا دیکھا تھا حضرت عائشہ کے گھر جمع ہو گئیں.جب روٹی تیار ہوگئی تو

Page 27

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 24 24 عورتیں شوق کے مارے اپنی انگلیاں ان روٹیوں کو لگا تیں کہ کیا ہی عمدہ آٹا ہے کہ اس سے اچھا بھی دنیا میں ہوسکتا ہے.حضرت عائشہ نے لقمہ تو ڑا ساری عورتیں انتظار میں تھیں کہ اب آپ اس کی لذت کا اظہار کریں گی لیکن یہ کیا ہوا ؟ آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے.حضرت مصلح موعود اس واقعہ کا بڑا پیارا نقشہ کھینچتے ہیں." عورتوں نے کہا بی بی آنا تو بڑا اچھا ہے ، روٹی اتنی نرم ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں ! آپ کو کیا ہو گیا کہ اس کو نگل نہیں سکیں اور رو رہی ہیں حضرت عائشہ نے فرمایا ” آٹے میں کوئی نقص نہیں میں مانتی ہوں کہ بڑا ہی نرم پھلکا ہے مگر میری آنکھوں سے اس لئے آنسو نہیں ہے کہ اس آئے میں کوئی نقص صلى الله ہے بلکہ مجھے وہ دن یاد آ گئے جب حضور ﷺ اپنی آخری عمر سے گزر رہے تھے مگر ان دنوں بھی ہم پتھروں سے گندم کچل کر اس کی روٹیاں پکا کر آپ کو دیتے پھر فرمایا " وہ جس کے طفیل ہم کو یہ نعمتیں ملیں وہ تو ان نعمتوں سے محروم چلا گیا لیکن ہم جنہیں اُس کے طفیل سے یہ سب عزتیں مل رہی ہیں اور ہم وہ نعمتیں استعمال کر رہے ہیں.“ صلى الله 17 رمضان 58ھ میں امت کی یہ محسنہ رسول خدا ﷺ کی پیاری بیوی نے وفات پائی.حضرت ابو ہریرہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی.خدا کی رحمتیں آپ پر ہمیشہ نازل ہوتی رہیں.

Page 28

أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ -1 25 حوالہ جات ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا صفحه 100 دس بڑے مسلمان تحریر شیخ محمد اسماعیل پانی پتی صفحہ 184 صفحہ 432 3 -4 _5 -6 -7 _8 _9 سیرت خاتم النبین ازواج مطہرات و صحابیات صفحه 102-101 سیرت عائشہ صفحہ 32-31 ازواج مطہرات و صحابیات صفحہ 103-101 سیرت عائشہ صفحه 43 سیرت خاتم النبین صفحہ 432 سیرت عائشہ صفحه 22 -10 - ازواج مطہرات و صحابیات 11 - تفسير كبير سورة النور 12.سیرت عائشہ 13 - ازواج مطہرات و صحابیات 111-134 صفحه 83-68 صفحه 126 14.دس بڑے مسلمان تحریر شیخ محمد اسماعیل پانی پتی صفحہ 184 15 - سیرت صحابیات 16.تفسير كبير سورة النور صفحہ 48-47

Page 29

حضرت عائشہ صدیقہ (Hadhrat Ayesha Siddiqa"") Urdu Published in UK in 2009 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.

Page 29