Language: UR
جس شخص کے پاس یہ اشتہار پہنچے اس پر فرض ہے کہ گھر میں جا کر اپنے کنبے کی عورتوں کو تمام مضمون اس اشتہار کا اچھی طرح سمجھا کر سنا دے.اور ذہن نشین کر دے اور جو عورت خواندہ ہو اس پر بھی لازم ہے کہ ایسا ہی کرے.اشتہار بد رسوم سے انذار آج ہم کھول کر بآواز کہہ دیتے ہیں کہ سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے، یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ کر دین (حق) کی راہ اختیار کی جائے.اور جو کچھ اللہ جلشانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اس کے رسول نے ہدایت کی ہے اس راہ سے نہ بائیں طرف منہ پھیریں نہ دائیں.اور ٹھیک ٹھیک اسی راہ پر قدم ماریں.اور اس کے بر خلاف کسی راہ کو اختیار نہ کریں.ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ شادیوں میں صدہا روپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے.سو یا درکھنا چاہیے کہ شیخی اور بڑائی کے طور پر برادری میں بھاجی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا یہ دونوں باتیں عند الشرع حرام ہیں اور آتشبازی چلوانا اور کنجروں اور ڈوموں کو دینا یہ سب حرام مطلق ہے.ناحق روپیہ ضائع جاتا ہے.گناہ سر پر چڑھتا ہے.صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے ولیمہ کرے یعنی چند دوستوں کو کھانا پکا کر کھلا دیوے.(اشتہار حضرت مسیح موعود از مجموعه اشتہارات جلد 1 صفحه 87) سفارشات مجلس شوری 2009ء کی منظوری دیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: صرف احمدی احباب کے لیے ایک نیک نی نی کی یاد میں حضرت مسیح موعود کے الفاظ اگر خاص طور پر ہر عورت کے ذہن نشین لجنہ کروا دے تو ان بدعات سے چھٹکارہ پانے میں مدد ملے گی.اشاعت اصلاح دار شاهد مرکزی به
000 ربنا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا తెలు سیدنا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ( دین حق ) نے عورت کے حقوق و فرائض کی ادائیگی کی بھی اسی طرح تلقین فرمائی ہے جس طرح مردوں کے حقوق وفرائض کی.عورت ہی ہے جس کی گود میں آئندہ نسلیں پروان چڑھتی ہیں اور عورت ہی ہے جو قوموں کے بنانے یا بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود نے جس طرح کھول کر عورتوں کے حقوق وفرائض کے بارے میں فرمایا ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں جس طرح تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کے مطابق تربیت دینے کی طرف توجہ دلائی ہے، اگر عورتیں اس ذمہ داری کو سمجھ لیں تو احمدیت کے اندر بھی ہمیشہ حسین معاشرہ قائم ہوتا چلا جائے گا اور پھر اس کا اثر آپ کے گھروں تک ہی محدود نہیں رہے گا ، جماعت کے اندر تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا اثر گھروں سے باہر بھی ظاہر ہوگا.اس کا اثر جماعت کے دائرہ سے نکل کر معاشرہ پر بھی ظاہر ہوگا اور اس کا اثر گلی گلی اور شہر شہر والمملكة المتقين إماما اور ملک ملک ظاہر ہوگا.اور وہ انقلاب جو حضرت اقدس مسیح موعود ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ( دین حق ) کی جس خوبصورت تعلیم کا علم دے کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے اس تعلیم کو دنیا میں پھیلانے اور ( دین حق ) کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے میں اور جلد از جلد تمام دنیا کو آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرنے میں ہم ائے ہمارے رب ! ہم کو اپنے جیون ساتھیوں اور اولاد سے تبھی کامیاب ہو سکتے ہیں جب احمدی عورت اپنی ذمہ داری کو سمجھے، اپنے مقام کو سمجھ لے اور اپنے فرائض کو سمجھ لے اور اس کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کی آنکھوں کی ٹھنڈک عطا اگر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا.کوشش کرے.( الفرقان : 75) (خطاب جلسہ سالانہ ہالینڈ 3 جون 2004ء از الفضل انٹر نیشنل 22 جولائی 2005ء) ازال
2 1 پیش لفظ مجلس مشاورت پاکستان 1990ء کی رپورٹ پر حضرت خلیفتہ امسح الرائع نے بیاہ شادی کے موقع پر ہونے والی بد رسوم سے اجتناب کرنے اور دین حق کی بابرکت تعلیمات کو اپنانے کے بارے میں ایک تفصیلی ہدایت نامہ جاری فرمایا.جس میں آپ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ " مکرم محمد منور صاحب کی کتاب ” نیک بی بی کی یاد میں ایک اچھی چیز ہے جس کو بیاہ شادی کے موقع پر عام کرنا چاہیے." امسال مجلس مشاورت پاکستان منعقدہ 20 تا 22 /مارچ 2009ء کی تجویز نمبر 1 کی سفارش نمبر 8 حضور رحمہ اللہ کے اس ارشاد پرمشتمل ہے.اس کی تعمیل میں نظارت اصلاح وارشا د مرکز یہ اس کتاب کو از سرنو شائع کرنے کی توفیق پا رہی ہے.تا اس کو بیاہ شادی کے موقع پر عام کیا جائے.مکرم محمد منور صاحب مرحوم کے صاحبزادے مکرم مبارک احمد طاہر صاحب نے اس کتاب کی کاپی بغرض طباعت مہیا فرمائی ہے.مجز اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سب احباب جماعت کو اس کتاب سے استفادہ کی تو فیق عطا فرمائے.اور ہم سب نہ صرف بد رسوم سے اجتناب کرنے والے ہوں بلکہ حضرت مسیح موعود اور آپ کے خلفاء کی تمام ھدایات پر عمل کرنے والے ہوں.آمین والسلام خاکسار
4 3 رانستل : من لدن سلطانية لناه هنالك فكما مبينا لة ينذر جهان شد حضرت خلیفہ اصبح الرائع کا ایک مکتوب سم الة الصحة العالم نحمده وَتُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكريم پیارے عزیزم مبارک طاہر السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبركاته اپنی والدہ مرحومہ کی پاکیزہ یادوں پر مشتمل جو مختصر مضمون آپ نے اپنے والد صاحب کا مجھے بھجوایا اس پر بار بار آپ کا شکریہ ادا کرنے کو دل چاہا.یہ مضمون بھجوا کر آپ نے مجھ پر احسان کیا.جزاکم اللہ احسن الجزاء یہ ذکر خیر محض ایک پاک بی بی کی یاد میں نہیں بلکہ بہت سے پاکباز وجودوں کی یاد پر مشتمل ہے.کیسے کیسے سادہ.پاک.بے تکلف.بے ریا غیر اللہ سے تہی لوگ تھے.اللہ اور رسول سے سینوں کو منور کئے ہوئے قناعت کے شہزادے اور شہزادیاں.دل ذکر اللہ سے مطمئن.آنکھیں اس کی عطاء سے ٹھنڈی.سرتا پاشکر.مجسم حمد رَاضِيَةً مَّرْضِيَّة یہ آخرین تو اپنی مرادوں کو پاگئے اور اولین سے جاملے.اور اپنا حال یہ ہے کہ ستاری کے پردہ کی اوٹ میں عفو کی چادر میں لپٹ کر تحلیل ہو جانے کو جی چاہتا ہے.مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں نے آپ کو یا مکرم و محترم مولوی محمد منور صاحب کو تعزیت کا پیغام بھیج یا خط اپنے ہاتھ سے لکھا کہ نہیں.اگر نہیں تو سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے یہ سخت کو تا ہی ہوئی.کوشش تو پوری کرتا ہوں کہ سب حق والوں کے حق ادا کروں لیکن بعض دفعہ چوک جاتا ہوں تو شرمندگی میں بھیگی ہوئی بے بسی مجھے سزا دیتی ہے.آپ نے مضمون بھیجا تو احساس ندامت دعاؤں میں ڈھلنے لگا اور جذبات نے برس کر دل کی سب کدورت دھوڈالی اور تازہ دم اور ہلکا محسوس کرنے لگا.مگر ایک معمہ سمجھ نہیں آیا.اس مختصر سے مضمون نے اتنے لوگوں کی اتنی محبت میرے دل میں کیسے پیدا کر دی.اور وہ لوگ جو طمانیت اور رضا کے پیکر تھے اور اس خوف وحزن کی دنیا میں حفاظت یافتہ اور خلد آشیاں تھے ان کی یاد اتنی درد انگیز کیسے ہوگئی.کل رات کاموں سے فارغ ہو کر یہ مضمون پڑھا.آج کے دن کا آغاز یہ خط لکھ کر کر رہا ہوں.رات بھر یہ کیفیت اسی طرح زندہ اور تازہ رہی جیسے مضمون پڑھتے وقت تھی.اور اس وقت بھی ویسی ہی ہے.سوچتا ہوں کبھی آپ کی امی سے ملاقات ہوئی یا نہیں.شائد کبھی دفتر وقف جدید میں مجھ سے دوا لینے آئی ہوں.آئی بھی ہوں تو مجھے کیا پتہ لگ سکتا تھا کہ کون اور کیا ہیں.عزت تو میں سب کی کرتا تھا مگر ان کو اُٹھ ملتا.ان کا دل کی گہرائیوں سے احترام کر کے میں عزت پاتا.ان کو دعائیں دیتا.ان سے دعائیں لیتا.دل بھر کے آج آپ سب کا غم میں نے پی لیا ہے.مگر بانٹ نہیں سکتا.بانٹنے سے تو غم کم ہو جانے چاہئیں مگر انسان کے دُکھ بانٹنے کا قصہ تو برعکس اثر دکھاتا ہے.کاش میں آپ کا اور سب محروموں کا غم کم کر سکتا.لیکن انسان بڑا بے بس ہے.مکرم مولوی صاحب اور سب بزرگوں اور عزیزوں کو محبت بھرا سلام.میری دعائیں رحمت بن کر آپ پر برسیں.والسلام وزیر خلف الميم الرابع
5 6 عرض حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرا گھر جنت عرضی کی مثال بنا رہا ہے.میری پہلی شادی 1940ء میں ہوئی.ہمارے گھر کا ماحول نہایت خوشگوار رہا.بارہ سال بعد دوسری شادی ہوئی.اس کے بعد بھی اہلی زندگی بے حد پر سکون رہی.بچے بڑے ہوئے اور ان کی شادیوں کا مرحلہ آیا.تب بھی ہم میں باہم اتحاد و اتفاق رہا.عمر بھر ہم نے جہیز کا معاملہ گفتگو کا موضوع نہ بنایا.میری بیویاں میرے عزیزوں اور بزرگوں سے احترام سے پیش آتیں اور میں ان کے والدین کا پورا پورا ادب کرتا رہا.جب ہم گھر میں اکٹھے ہوتے تو ایک دوسرے پر جان شار کرتے اور جب میں خدمت دین کے لئے ملک سے باہر چلا جاتا تو بھی دلوں میں دوری کا خیال تک نہ آتا.والدہ مبارک احمد جن کا انتقال 16 جون 1992 ء کو ہوا میری زوجیت میں باون سال رہیں.میں نے حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ اس عرصہ میں 26 سال وہ مجھ سے دور رہیں.تنہائی میں عورتوں کو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے.لیکن خدا کی اس نیک بندی نے کبھی شکایت نہ کی.ایک دو بار صرف اس قدر رلکھا کہ افسوس ہے اپنی بیماری کی وجہ سے پردیس میں میں آپ کی کوئی خدمت نہیں کر رہی.ہر حال میں صبر کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہمیں زندگی بخشی ہے.جب اس کی مرضی ہوئی ہمیں با ہم اکٹھا کر دے گا.والدہ مبارک احمد محبت اور وفا کا مجسمہ تھیں اور حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ہے.ہماری جنت کے جو پانچ کونے تھے.دو بیویاں، دو بچے اور خاوند.ان میں سے ایک خدا تعالیٰ کے حکم سے الگ ہو گیا.ہم سب اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں.مجھے جب ان کی جدائی کا غم زیادہ دباتا ہے تو عالم خیال میں صوفی تبسم کا یہ شعر زبان پر آجاتا ہے.شاید تمہیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر شاید بات تم بھی گوارا نہ کر سکو ہمارے پیارے آقا کا یکم اگست 1992ء کا جلسہ سالانہ لندن کے دوسرے دن کا خطاب جس میں حضور انور نے احمدی خواتین کی قربانیوں کا ذکر فرمایا ہے.میرے لئے مہمیز (ایٹڈ یا تازیانہ لگانے کا باعث بن گیا ہے.ذیل کی سطور میں میں نے جدا ہونے والی حور صفت کے کچھ اوصاف حمیدہ ان کے لئے دعا کی درخواست کے ساتھ درج کئے ہیں.امید ہے جان سے پیارے آقا اور میرے تمام روحانی بہن بھائی ان کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کر کے مجھے ممنون فرمائیں گے اور میرے لئے بھی نیک انجام کی اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کرتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اجر عظیم عطا فرمائے.آمین کے اس شعر کی کامل مصداق کہ صادق آں باشد ایام بلا ے گزارد با محبت با وفا میں نے ان کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا ہے.ان کے دل میں سب کے لئے خیر ہی خیر اور ہمدردی ہی ہمدردی کے جذبات تھے.اس لئے ان کی وفات سے دل پر شدید چوٹ لگی
8 7 ایک نیک بی بی کی یاد میں میری پیدائش کے بعد ہی سے میرے لئے بہت سے رشتے آئے اکثر رشتوں کو بزرگوں نے خود ہی نا پسند ٹھہرا دیا.جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا تو پھر میری شادی کا چرچا ہوا.میں نے ابا جان کی خدمت میں انگریزی میں ایک عریضہ لکھا کہ مجھے تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے.میری شادی کا معاملہ فی الحال رہنے دیں.انہوں نے میری عرضداشت منظور کر لی.جب میں ایف اے سیکنڈ ائیر میں تھا تو پھر ایک رشتہ کی پیش کش ہوئی.میں نے دعا کے بعد قرآن مجید سے فال لی تو سورۃ یوسف کی وہ آیت سامنے آئی جس کا ترجمہ ہے " اور جو بھی تقوی اختیار کرے اور صبر کرے.تو اللہ تعالی محسنین کا اجر ضائع نہیں فرماتا." میں نے پھر شادی سے انکار کر دیا.جون 1939ء میں میں دینی تعلیم کے لئے قادیان گیا اور بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو گیا.انہی ایام میں ایک پختہ عمر کے بزرگ میرے پاس آئے اور انگریزی پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا.میں نے منظور کر لیا.وہ روزانہ میرے پاس آ کر تھوڑ اوقت انگریزی پڑھ لیتے تھے.بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دراصل میرے حالات و کوائف کی تفتیش کر رہے تھے.انگریزی پڑھنے کے بہانے وہ میرے کوائف حاصل کرتے رہے.ساری باتیں وہ اپنے برادر نسبتی برادرم محترم عبد الرحمان خاں صاحب کو لکھتے رہے.یہ کوائف راولپنڈی سے وہ اپنے والد محترم منشی محمد حیات خاں صاحب کو ملتان بجھواتے رہے.جناب محترم منشی محمد حیات خاں صاحب ملازمت سے فراغت کے بعد آنریری انسپکٹر بیت المال کے طور پر خدمات بجالا رہے تھے.1940ء میں جب میں گرمی کی تعطیلات گزار نے قادیان سے لودھراں گیا.تو معلوم ہوا کہ بیت المال کے ایک انسپکٹر صاحب دورے پر لودھراں تشریف لا رہے ہیں.مرکزی مہمانوں اور دوسرے احمدی احباب کا قیام بالعموم ہمارے ہاں ہوتا تھا.جب محترم خاں صاحب کی آمد کی اطلاع جماعت کو دی گئی تو ایک بزرگ نے ابا جان سے کہا کہ آپ مہربانی فرما کر جناب خاں صاحب کی خدمت میں ہماری طرف سے رشتہ کی درخواست پہنچا دیں.محترم خاں صاحب ابا جان کے پرانے ملنے والے تھے.جب وہ ہمارے ہاں تشریف لائے تو ان کی خدمت اور خاطر تواضع خاکسار کے سپرد ہوئی.ابا جان نے ایک دن ان صاحب کی درخواست محترم خاں صاحب کی خدمت میں پیش کر دی.جناب خان صاحب نے بڑی بے تکلفی سے پوچھا."بابو صاحب آپ دوسروں کی سفارش کرتے ہیں.اپنے بیٹے کے لئے کیوں رشتہ طلب نہیں کرتے ؟ ابا جان نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ تین چار سال قبل میرے چھوٹے بھائی کے ہاں بچی پیدا ہوئی ہے.قبلہ والد صاحب نے اسے میرے بیٹے سے منسوب کر دیا ہے.اس لئے یہ معاملہ اب ہمارے اختیار سے باہر ہے.اگر آپ پسند فرما ئیں تو ان سے ذکر کر دیکھیں.قتال پور کی جماعت بھی خاں صاحب کے حلقہ میں شامل تھی.دورہ کرتے کرتے وہاں پہنچے.اور باتوں باتوں میں رشتے کا ذکر بھی چل پڑا.حضرت دادا جان نے فرمایا کہ رشتہ تو طے ہو چکا ہے.لیکن بچوں کی عمر میں کافی فرق ہے.اگر آپ جلدی سے یہ کام کر سکتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں.جب بچی بڑی ہو جائے گی تو اس کا رشتہ بھی وہیں ہو جائے گا.محترم خاں صاحب نے صورتحال سے میرے والدین کو مطلع فرمایا اور رشتہ طے ہو گیا.فیصلہ یہ ہوا کہ اسی سال جلسہ سالانہ کے موقعہ پر نکاح اور رخصتانہ ہو جائے.جناب خان صاحب کے خلوص، سادگی اور میانہ روی نے میرے دل پر بھی گہرا اثر چھوڑا.میں نے بھی ہاں کر دی.رخصتوں کے بعد میں ہوسٹل جامعہ احمدیہ قادیان واپس آ گیا.جناب خاں صاحب اپنے سارے خاندان میں پہلے احمدی تھے.ان کی دو بیویاں فوت ہو چکی تھیں.آمد کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں تھا.انہوں نے میرے ابا جان سے کہا کہ اگر آپ پانچ سو روپے حق مہر کی رقم پہلے ادا کر دیں تو ہم اس سے شادی کی تیاری کر لیں گے.ابا جان نے ادائیگی کر دی.جلسہ سالانہ
10 9 کے موقع پر میرے والدین، چھوٹی خالہ اور میرے چچا جان جو بعد میں میرے خسر بھی بننے والے تھے.قادیان پہنچ گئے.برادرم عبدالرحمان خاں صاحب بھی اپنی چھوٹی ہمشیرہ آمنہ بی بی کو لے کر قادیان آگئے.25 / دسمبر 1940ء کو سیدنا حضرت مصلح موعود نے ہمارے نکاح کا بیت مبارک میں اعلان فرمایا.رخصتانہ کے لئے 29 / دسمبر کی تاریخ مقرر ہو گئی.جامعہ احمدیہ کی عمارت کے قریب ابا جان نے ایک نیا مکان کرائے پر لے لیا اور محترم خاں صاحب سے دریافت کیا کہ بارات میں کتنے افراد شامل کیے جائیں.حضرت خاں صاحب نے جواباً کہا بیٹی تو میں نے ایک ہی کو دینی ہے.آپ جتنے افراد شامل کرنا پسند کریں کرلیں.صرف افراد خانہ پر مشتمل چند افراد بارات کے ساتھ گئے.اور رخصتانہ لے آئے.میرے چا جان بھی اس شادی پر بہت خوش تھے.کیونکہ یہ معاملہ حضرت دادا جاں کی منظوری سے طے پایا تھا.اور ان کی اطاعت ہر حال میں ان پر واجب تھی.چند دن کے بعد جلسہ کی رخصتیں ختم ہو گئیں.میرے والدین اپنی بہو کو لے کر لودھراں چلے گئے اور میں ہوٹل جامعہ احمدیہ میں لوٹ آیا اور تعلیم حسب معمول جاری رہی.آئندہ سال ابا جان قادیان آئے اور محلہ دار الفضل میں ہمارے لئے ایک مکان خرید لیا.ہم بالا خانے میں رہنے لگے اور نچلا حصہ کرائے پر دے دیا گیا.تھوڑے دنوں کے بعد والدہ محترمہ بھی ہمارے پاس آگئیں.اپنی بھانجی کو بھی تعلیم کے لئے قادیان لے آئیں.جس نے بعد میں میری دوسری بیوی بننا تھا.میری پہلی بیوی ہم سب کی خدمت میں مصروف ہو گئی.اگلے سال میں نے درجہ ثانیہ کا امتحان دیا.جو پنجاب یونیورسٹی کا مولوی فاضل کا امتحان کہلاتا تھا.میں اپنی جماعت میں اول یونیورسٹی میں سوم اور فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوا.میری بیوی نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کو یہ پوزیشن میری وجہ سے ملی ہے.مجھے اس سے اختلاف کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی اور ان کی بات مان لی گئی.ہمارے مولوی فاضل کے امتحان کے بعد حضرت سید نا مصلح موعود نے مسلسل خطبات جمعہ میں جماعت کے نوجوانوں کو وقف زندگی کی طرف بلایا.میں نے بیوی سے مشورہ کیا.انہوں نے کہا.اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہوگی.میں نے وقف زندگی کا فارم پر کر دیا.وقف منظور ہو گیا.پہلے مہینے کے اختتام پر مجھے دس روپے الاؤنس ملا.ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی ، وقف بھی منظور اور ساتھ روپے بھی.مولوی فاضل پاس کرنے کے بعد میں نے مربیان کی کلاس میں داخلہ لے لیا جو دوسال کی ہوتی تھی.اس کے بعد ایک سال کے لئے صرف کا ایک خصوصی کورس کیا.اور 1946 ء کے آغاز میں مجھے مربی کے طور پر کانپور (یو.پی ) بھجوادیا گیا.جنوری 46 ء سے دسمبر 46 ء تک کا عرصہ ہم میاں بیوی نے الگ الگ گزارا اور یہ ہمارا کامیاب تجربہ ثابت ہوا.ابھی اس سے سخت امتحان آگے آنے والے تھے.گھریلو زندگی میں بچوں کی پیدائش ایک قدرتی معاملہ سمجھا جاتا ہے.جب کچھ سال شادی کے بعد یونہی گزر گئے تو میری والدہ محترمہ کو فکر دامن گیر ہوا.کئی جگہ سے علاج کرایا گیا.مگر کارگر نہ ہوا.بلکہ کہا گیا کہ اولاد ہو ہی نہیں سکتی.ایسے حالات میں دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ ہو جاتی ہے.بہت سے بزرگان سلسلہ سے دعا کی درخواست کی، مزنگ لاہور کے حضرت قاضی حبیب اللہ صاحب ( رفیق حضرت بانی سلسلہ ) ان دنوں قادیان میں تھے.ان سے بھی دعا کی التجا کی.تھوڑے دنوں بعد میری گھر والی نے ایک خواب دیکھا.اس کی تعبیر حضرت قاضی صاحب نے یہ فرمائی کہ ہمارے ہاں بیٹا ہوگا.مگر خاموشی بدستور قائم رہی.اور حالات جوں کے توں رہے.اتنے میں ہندوستان تقسیم ہو گیا.قادیان بھارت کا حصہ بن گیا.فسادات شروع ہو گئے اور ہم گھر بار، سامان (جس میں جہیز کا سامان بھی شامل تھا) چھوڑ کر بورڈ نگ تحریک جدید میں پناہ گزیں ہو گئے.بسوں کا ایک بڑا قافلہ قادیان سے پاکستان آیا.اس میں عورتیں بچے اور
12 11 بوڑھے پاکستان کے لئے روانہ ہو گئے.میری والدہ محترمہ، بیوی اور ہونے والی بیوی بھی اپنے وطن مانتان چلے گئے.ابا جان اور میں قادیان رہ گئے.تھوڑے دنوں کے بعد ابا جان کو بھی محکمہ ڈاک خانہ جات نے بلا لیا.اور میں درویش قادیان بننے کے لئے قادیان میں رک گیا.تھوڑے دنوں کے بعد مجھے حکم ملا کہ پاکستان سے باہر جانے کے لئے لاہور چلا جاؤں.چنانچہ وسط نومبر 47ء میں جو آخری قافلہ قادیان سے لاہور گیا میں اس میں شامل ہو گیا.میرا قیام لاہور میں تھا.بیوی ملتان شہر میں تھی.حضرت دادا جان والدہ محترمہ اور دوسرے رشتہ دار گاؤں میں تھے.ابا جان بصیر پور ضلع منٹگمری میں ملازمت پر تھے.اس اثناء میں وکالت تبشیر کی طرف سے ارشاد ملا کہ یکم جنوری 1848ء کو افریقہ کے لئے روانہ ہونا ہے.جماعت کی حالت نہایت بے سروسامانی کی تھی.اس کے باوجود ہمارے پیارے اولوالعزم آقا نے پانچ مربیوں کا قافلہ حسب پروگرام یکم جنوری 1948ء کو پر سوز دعا کے ساتھ لاہور ( رتن باغ) سے روانہ فرمایا.تین مغربی افریقہ کے لئے اور دو مشرقی افریقہ کے لئے.چونکہ جہازوں کا ملنا مشکل تھا.اس لئے سیٹیں بھی بک نہ کرائی گئیں.اور ہمیں حکم ہوا کہ کراچی پہنچ کر خود انتظام کریں.ہم نے اپنی وکالت کو بتا دیا تھا کہ ہمیں اپنے عزیزوں سے بھی ملنا ہے.اس کے بعد کراچی جانا ہوگا.مکرم مولانا عبدالکریم صاحب شرما اور خاکسار نے مشرقی افریقہ جانا تھا.ہم نے مشورہ کیا کہ ملتان اسٹیشن پر اتر کر اپنے رشتہ داروں سے مل کر جلد از جلد آگے روانہ ہو جا ئیں گے.خاکسار کے سسرال محلہ کوٹلہ تو لے خاں میں مقیم تھے.میری بیوی بھی وہیں تھیں.ایک رات وہاں گزاری اور وہی ملاپ بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری کے آثار کے ظہور کا موجب بن گیا.اگلے روز میں گاؤں روانہ ہو گیا.اور سب رشتہ داروں سے ملاقات کے بعد براستہ ملتان کراچی چلا گیا.کراچی سے ہمیں مارچ میں ایک بحری جہاز میں جگہ ملی.مگر وہ ہمیں بمبئی پہنچا کر واپس چلا آیا.بمبئی میں ایک ہفتہ قیام کے بعد ہمیں دوسرا جہاز ملا جو مولا نا شر ما صاحب اور خاکسار کو مشرقی افریقہ لے گیا.مولانا شر ما صاحب کو ٹا نگانیکا اور مجھے کینیا جانا تھا.یکم اپریل 1948ء کو میں نیروبی پہنچا.اور چند روز وہاں ٹھہرنے کے بعد مجھے صوبہ نیا ز ا میں تعینات کر دیا گیا.صوبہ نیا ز میں میرا قیام لواندا (LUANDA) میں تھا.وہاں اور بھی کئی مربی صاحبان موجود تھے.خدا تعالیٰ کے فضل سے خوب دل لگا کر کام کرنے کی توفیق پائی.وہیں مجھے ابا جان کا خط ملا کہ آپ کی بیوی کی طبیعت ملتان میں خراب رہتی تھی.اس لئے انہیں ہم اپنے پاس بصیر پور لے آئے ہیں.ساتھ ہی انہوں نے اپنا ایک خواب لکھا کہ محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب ہمارے ہاں آئے ہیں اور مٹھائی تقسیم ہو رہی ہے.اس کی تعبیر بھی انہوں نے لکھ دی کہ آپ کے ہاں بیٹا ہوگا اور اس کا نام مبارک احمد رکھیں گے.ابھی لوانڈا ہی میں تھا کہ 7 اکتوبر 48ء کو عزیز مبارک احمد کی پیدائش کی خوشخبری مل گئی.لیکن میں نے عزیز کو اس وقت دیکھا جب اس کی عمر قریباً چار سال ہو چکی تھی.اس وقت (یعنی 1952ء میں ) ابا جان منٹگمری ( موجودہ ساہیوال) میں مقیم تھے.1950ء میں ابا جان نے مطلع فرمایا کہ میرے چچا ( ان کے چھوٹے بھائی) نے لکھا ہے کہ ان کی بیٹی شادی کے قابل ہو گئی ہے.ان کی خواہش ہے کہ اعلان نکاح کر دیا جائے.میں نے جوا با عرض کیا میں تو واقف زندگی ہوں.اپنے بارے میں میں کچھ فیصلہ نہیں کر سکتا.پھر دوسری شادی کی حاجت بھی نہیں.بیوی اور بچہ موجود ہے.اس لئے اگر آپ ضروری سمجھیں تو حضور کی خدمت میں معاملہ پیش کر دیں.حضور نے رشتہ کرنے کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی شرط لگائی کہ دونوں بیویوں کو افریقہ بھیجنا ہوگا.جب وکالت تبشیر کی طرف سے مجھے اس مضمون کا خط ملا.تو طبعی طور پر پریشانی ہوئی لیکن مرتا کیا نہ کرتا.میں نے ابا جان کو وکالت نامہ بھجوادیا کہ وہ میری طرف سے رضا مندی کا اعلان کر دیں.چا جان نے خود ہی نکاح کا اعلان کر دیا اور مجھے اطلاع بھجوادی گئی.
14 13 نومبر 1952ء میں مجھے پاکستان آنے کی اجازت ملی.میرے پہنچنے سے پہلے میری دوسری بیوی ہمارے ہاں ساہیوال پہنچ چکی تھیں.لمبا عرصہ بیرون ملک رہنے کی وجہ سے میری صحت کافی خراب ہو چکی تھی.میں شادی کے موڈ میں نہیں تھا.لیکن ابا جان نے خود ہی 24 نومبر کی تاریخ مقرر فرما دی.شادی کے لئے کسی کو مدعو نہیں کیا گیا.دلہن کے والدین کو بھی اس تاریخ سے مطلع نہیں کیا گیا تھا.حتی کہ جماعت ساہیوال کے کسی فرد کو اس کا علم نہیں تھا.24 تاریخ کو والدین نے ہم دونوں کو ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا.اور شادی ہوگئی.بعد میں بذریعہ خط دلہن کے والدین کو اطلاع دے دی گئی کہ آپ کی بیٹی بیاہی گئی ہے.حضور کے فیصلے کے مطابق دونوں بیویوں کو افریقہ بھجوانا تھا.ان کے پاسپورٹ بنوائے گئے.اور اپریل 53ء میں عزیز مبارک احمد اور دونوں بیویوں کو ساتھ لے کر میں واپس نیر و بی پہنچ گیا.چند ماہ نیروبی ٹھہرنے کے بعد ہمیں صوبہ نیا زا بھجوادیا گیا.چونکہ کسوموں شہر میں جماعت کی ایک عبادت گاہ "بیت محمود " مکرم محمد اکرم خاں صاحب غوری نے اپنے خرچ پر تعمیر کروا دی تھی.اور دارالجماعۃ بھی تعمیر ہونے والا تھا.اس لئے چند ماہ ادھر ادھر رہائش کے بعد ہم مشن ہاؤس میں منتقل ہو گئے.1955ء میں مجھے جماعتی کاموں کے لئے نیروبی بلوایا گیا.چند ہی روز گزرے تھے کہ جناب غوری صاحب نے فون پر مجھے دوسری بیوی سے بچی کی ولادت کی خوشخبری سنائی.لیکن نیروبی میں ابھی کام ختم نہیں ہو پایا تھا.اس لئے مزید ایک ہفتہ قیام کر کے مجھے کسوموں واپس جانے کی اجازت مل گئی.صوبہ نیا نزا میں تین سال کام کرنے کے بعد ہماری تبدیلی نیروبی ہوگئی.کرائے کے مکانوں میں رہائش رہی.لیکن نیروبی کی آب و ہوا والدہ مبارک احمد کو راس نہ آئی.انہیں دمہ کی سخت تکلیف شروع ہو گئی.کسی علاج سے صحت حاصل نہ ہو سکی.آخر ڈاکٹر نے تبدیلی آب و ہوا کا مشورہ دیا.میں انہیں ایک ماہ کے لئے ساحلی شہر ممباسہ لے گیا.وہاں جاتے ہی ان کی صحت ٹھیک ہوگئی.ایک مہینہ کے بعد جب واپس نیر و بی آئے تو نیروبی ریلوے اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے ہی انہیں پھر دمہ کا عارضہ شروع ہو گیا.میری دوسری بیوی دن رات ان کی دیکھ بھال میں لگی رہتیں.اور مجھے دینی کام کرنے کے لئے کافی وقت مل جاتا.اگست 58ء میں مجھے دوماہ کے لئے کینیا سے باہر جانے کا حکم ملا.اس کے لئے میں بخوشی تیار ہو گیا.کیونکہ مجھے یقین تھا کہ میری غیر حاضری میں بھی دونوں بیویاں حسب معمول ایک دوسری کا بھی اور بچوں کا بھی عمدگی سے خیال رکھیں گی.فی الحقیقت ایسا ہی ہوا، جب میں شمالی روڈ یشیا ( موجودہ زیمبیا ) اور نیا سالینڈ ( موجودہ ملاوی ) کا دورہ مکمل کر کے واپس نیروبی پہنچا تو خدا تعالیٰ کے فضل سے سب کو امن وسکون سے رہتے ہوئے پایا.60 کے اواخر میں ہم پاکستان واپس لوٹے.ربوہ میں تحریک جدید کے پاس کوئی کوارٹر خالی نہیں تھا.حضرت منشی محمد حیات خاں صاحب محلہ دارالیمن میں مقیم تھے.مبارک احمد اور ان کی والدہ کو وہاں چھوڑا اور دوسری بیوی کو ان کے میکے پہنچا آیا.میں خود کبھی ربوہ اور بھی سرائے سدھو آتا جاتا رہا.حتی کہ ایک دن برادرم مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان کے محلہ فیکٹری ایریا میں ایک مکان برائے فروخت ہے.پانچ مرلہ زمین پر تعمیر شدہ ہے.گھر والوں سے مشورہ کے بعد اور ابا جان سے کچھ رقم حاصل کرنے کے بعد مکان کا سودا ہو گیا.میں محترم سیف صاحب کا جو میرے ہم جماعت اور بڑے محبت کرنے والے ہیں، کا ہمیشہ ممنون رہا ہوں کہ انہوں نے اس محلہ میں مجھے چھوٹا سا گھر دلوا کر صاحب جائیداد بنا دیا.اللہ تعالیٰ انہیں دونوں جہانوں میں اجر عظیم عطا فرمائے.61ء میں بچوں کو ربوہ چھوڑ کر واپس کینیا چلا گیا.وہاں سے مجھے ٹا نگانیکا مشن کا انچارج بنا کر دار السلام بھجوا دیا گیا.اور ہر مشن براہ راست مرکز ربوہ کے سامنے جوابدہ بن گیا.میری غیر حاضری میں بھی میری دونوں بیویوں کا باہم معاملہ غیر معمولی طور پر قابل تعریف رہا.کبھی جھگڑے کی نوبت نہ آئی.اس کی وجہ یہ تھی کہ صرف میں ہی واقف زندگی نہ تھا.میری دونوں بیویاں بھی عملاً اپنے آپ کو دینی خدمت کے لئے وقف کر چکی تھیں.ان کی ہمیشہ
16 15 یہ خواہش اور کوشش رہی کہ وہ مجھے خدمت دین کے لئے زیادہ سے زیادہ فرصت مہیا کریں.ہماری یہ حالت دیکھ کر بعض دفعہ نا واقف عورتیں والدہ مبارک احمد سے یہ دریافت کرتیں کہ کیا یہ آپ کی بیٹی ہیں.تو وہ کہتیں یہ مولوی صاحب کی دوسری بیوی ہیں.یہ سن کر وہ متعجب ہوتیں کہ بظاہر تو ایسا معلوم نہیں ہوتا.والدہ مبارک احمد نے کبھی سوت یا سوکن کا لفظ استعمال نہیں کیا.نہایت صبر و تحمل بلکہ محبت اور شفقت کا سلوک ایک دوسری سے کرتی رہیں.اللہ تعالیٰ انہیں اس نے نفسی کا احسن بدلہ دے.عزیزه امتہ الباسط ایاز صاحبہ نے والدہ مبارک احمد کی وفات کی خبر روز نامہ الفضل میں پڑھ کر لندن سے ہمیں تعزیتی خط لکھا ہے.اس میں بڑے افسوس کے اظہار کے علاوہ انہوں نے لکھا ہے کہ آپا آمنہ مثالی بیوی تھیں.اس بات میں شک ہی کیا ہے کہ عورت کی فطرت چاہتی ہے کہ اسے خاوند کی پوری محبت حاصل رہے.کسی قسم کی شراکت اسے کلیہ نا پسند ہوتی ہے.لیکن والدہ مبارک احمد ا کثر کہا کرتی تھیں کہ جب شریعت نے مرد کے لئے تعدد ازدواج کی گنجائش رکھی ہے.اور حضور نے بھی آپ کو دوسری شادی کی اجازت دے دی ہے.تو میں اسے نا پسند کیسے کرسکتی ہوں.گویا نفس بالکل ماردیا گیا تھا.صرف اسی پر بس نہیں.والدہ مبارک احمد مجھ سے انتہائی احترام کا سلوک کرتی تھیں.میاں بیوی میں محبت تو ہوتی ہے.لیکن ان میں ادب کا مادہ انتہا کو پہنچا ہوا تھا.باون سال کی ازدواجی زندگی میں انہوں نے کبھی میرے متعلق ایسے الفاظ استعمال نہیں کئے جن میں کسی قسم کی درشتی اور ہتک پائی جاتی ہو.میں سمجھتا ہوں کہ اس لحاظ سے بھی وہ مثالی بیوی تھیں.ورنہ عام انگریزی مقولہ ہے کہ محبت اور لڑائی میں سبھی کچھ جائز ہوتا ہے.والدہ مبارک احمد نے قرآن شریف پڑھانے میں بے حد کام کیا.32 سال تک وہ اس محلہ میں رہی ہیں.لجنہ کے دوسرے کاموں کے علاوہ بہت سے بچوں اور بچیوں کو انہوں نے قرآن مجید ناظرہ سکھایا.ان کے شاگرد ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں.چند روز پہلے عزیزم مظفر محمود احمد صاحب مربی سپین نے والدہ مبارک احمد کی وفات کی خبر سن کر لکھا وہ ہماری معلمہ تھیں.اور بچوں سے بہت پیار کرنے والی ہستی تھیں.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے.اور آپ سب کو صبر جمیل کی توفیق بخشے...غریب عورتوں کے ساتھ ان کا سلوک بھی مثالی تھا.کسی کو اپنے سامنے زمین پر بیٹھنے نہیں 66 دیتی تھیں.ہمیشہ چار پائی یا کرسی پیش کرتیں.اور نقد جنس یا کپڑوں سے ان کی مدد کر تیں.مالی قربانی یا چندوں کی ادائیگی میں بھی ان کا قدم بہت آگے تھا.پانچویں حصہ کی وصیت تو انہوں نے قادیان ہی میں کر دی تھی جو 16 جون 92 ء تک (جوان کا یوم وفات تھا ) با قاعدگی سے ادا کرتی رہیں.آخری رسید کی تاریخ 6 / جون ہی ہے.تحریک جدید ، وقف جدید اور لجنہ کے فرض اور طوعی چندہ جات بھی باقاعدگی سے ادا کرتی رہیں.گزشتہ رمضان میں ہمیں نے انہیں بتایا کہ ہمارے حلقہ کی بیت سلام کا برآمدہ بن رہا ہے.میں اس میں اپنا چندہ ادا کر آیا ہوں.یہ سنتے ہی پچاس روپے کا نوٹ مجھے دیا کہ میری طرف سے بھی ادا کر دیں.میں نے کہا کہ صدر صاحب محلہ ھذا نے اعلان کیا ہے کہ محلے والوں سے سوروپے کم از کم لئے جائیں اس پر وہ سو روپے لے آئیں.یہ آخری نفلی چندہ تھا جو خدا کے گھر کی تعمیر کے لئے انہوں نے دیا.ریٹائر ہونے کے بعد میں نے کوشش کی کہ ان کا وصیت کا چندہ فاضلہ رہے.کئی بار خدا تعالیٰ کے فضل سے دفتر بہشتی مقبرہ سے ہمیں فاضلہ کی اطلاع ملی میں نے دونوں بیویوں کی وصیت اسی لئے کرائی تھی کہ جس طرح ہم نے دنیا میں پر سکون اور خوشگوار زندگی گزاری ہے اگر پرس خدا تعالیٰ چاہے تو آخرت میں اس سے بھی بہتر ماحول میں زندگی گزرے.وہاں نہ بیماری ہو گی.نہ بڑھا پا اور نہ جنت سے نکالے جانے کا ڈر.وہاں تو موت قدم بھی نہ رکھ سکے گی بالخصوص والدہ مبارک احمد جیسی نیک صورت اور فرشتہ سیرت بی بی سے تو جدا ہونے کو ایک لمحہ کے لئے دل نہیں چاہتا تھا.خدا تعالیٰ کی مشیت نے عارضی طور پر ہمیں جدا کیا ہے.امید ہے کہ بہت جلد ہم
18 17 ان سے جاملیں گے.ان کی وفات پر کافی دن گزر گئے ہیں.پھر بھی کبھی کبھی دل سے آواز اٹھتی ہے کہ کسی نظر کو تیرا کہاں ہو تم کہ تیرا انتظار آج بھی ہے دل بے قرار آج بھی ہے والدہ مبارک احمد کی کئی نیک خواہشات اللہ تعالیٰ نے پوری فرما ئیں پہلی تو یہی بیٹا ہونے کی خواہش.جو سات سال کے بعد نہایت عمدہ رنگ میں پوری ہوئی.عزیز کی پیدائش سے پہلے ہی انہوں نے بچے کو دین کے لئے وقف کرنے کا ارادہ کیا ہوا تھا.اسی نیت سے انہوں نے اس کی اچھی تربیت کی اور ہر روز دعائیں کرتے ہوئے اسے پروان چڑھایا.جب عزیز نے ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کر لیا تو حضرت امام ثالث نے ان کا عارضی وقف قبول فرماتے ہوئے سیرالیون بھجوا دیا.پھر حضرت امام رابع ” نے ان کا مستقل وقف قبول فرمالیا اور تعلیمی فرائض کے ساتھ ساتھ دعوت الی اللہ کی خدمت بھی سپرد فرمائی.والدہ کے لئے یہ امر بڑے اطمینان کا باعث ہوا.سیرالیون سے واپس آنے میں جب عزیز موصوف نے دیر لگائی تو ممتا نے جوش مارا.اور اکلوتے بیٹے سے ملاقات کی خواہش دل میں بے قراری سے کروٹیں لینے لگی.مجھے بار بار کہتیں کہ مبارک کو منگوانے کے لئے درخواست کریں.ان کی بصارت کمزور ہو رہی تھی اور ڈرتی تھیں کہ اگر بہت دیر سے واپسی ہوئی تو شاید ان کی بے نور آنکھیں اپنے بیٹے کو دیکھ بھی نہ سکیں.میں نے عزیز کولکھا.پیارے حضور نے ان کو واپسی کی اجازت مرحمت فرمائی اور اپنی والدہ کی وفات سے قریباً پونے دو سال قبل وہ ربوہ آگئے.میری ان سے ملاقات بارہ سال کے بعد ہوئی.والدہ مبارک احمد کی چار پوتیاں ہیں.ان کے رشتوں کے بارہ میں انہیں فکر رہتا تھا اور ہر وقت دعاؤن میں لگی رہتی تھیں.کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے نیک ساتھی مہیا فرمائے.عزیز کی واپسی کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ بڑی تینوں پوتیاں نیک گھرانوں کے نیک نوجوانوں سے منسوب ہو گئیں.ان میں سے ایک کی تو جنوری 92ء میں شادی بھی ہو گئی.ان سب تقریبات میں بصد مسرت و انبساط شامل ہوئیں.والدہ مبارک احمد کی بڑی خواہش تھی کہ میری زندگی میں ان کی وفات ہو.اس خواہش کا اظہار انہوں نے شادی کے معا بعد کرنا شروع کر دیا تھا.شاید یہی دعا بھی کرتی ہوں گی.باون سال میری زوجیت میں گزارنے اور عمر میں مجھ سے چھوٹی ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے میں سبقت لے گئیں.ان کی خواہش اور دلی تمنا تو پوری ہوگئی.مگر مجھے سوگوار کر گئیں.جسم سلگا ہے تیری یاد میں ایندھن کی طرح آنکھ برسی ہے تیرے نام سے ساون کی طرح والدہ مبارک کو شوق تھا کہ جب وہ فوت ہوں تو میں ان سے راضی ہوں.انہوں نے سنا ہوا تھا کہ جس بیوی پر خاوند خوش ہو وہ جنتی ہوتی ہے.گزشتہ عید الفطر کے روز میری طبیعت سخت خراب تھی.اس عید سے پہلے ساری جماعت پر جو قیامت گزرگئی تھی اس نے مجھے سخت بے چین کر رکھا تھا.بار بار خیال آتا کہ ہمارے پیارے امام آج عید کیونکر منائیں گے.ذراسی حرکت سے بھی دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی اور پوری تیاری کے باوجود میں نے نماز عید کے لئے نہ جانے کا فیصلہ کیا ( یہ اکیلی نماز عید ہے جس سے میں محروم رہا ہوں ).والدہ مبارک کی طبیعت بھی خراب تھی.وہ بھی عید کے لئے نہ جاسکیں.معلوم نہیں.انہیں کیا خیال آیا کہ آہستگی سے مجھے کہا کہ زندگی کا اعتبار نہیں اس لئے بہتر ہے کہ ایک دوسرے کی غلطیاں معاف کر دیں.میں نے انہیں تسلی دلائی کہ ان کی طرف سے میرا دل ہمیشہ صاف رہا ہے.نہ اب نہ پہلے کبھی میں ان سے ناراض ہوا ہوں.خوشی سے ان کا چہرہ تمتما اٹھا.کیا معلوم تھا کہ وہ مجھ سے رخصت ہونے کی اجازت طلب کر رہی ہیں.کیونکہ اس معافی کے جلد بعد وہ یہ جہان فانی ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئیں.ان کی وفات سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا ایک عجیب پہلو سامنے آیا بڑی عید سے چند دن پہلے انہوں نے مجھ سے کہا کہ میرا برقعہ بوسیدہ ہو گیا ہے.میں نے پوچھا کہ پھر کیا ارادہ ہے.
20 19 کہنے لگیں نیا خریدنا چاہیے کتنا خرچ ہو گا؟ دوسوروپے.خوش قسمتی سے میری جیب میں پانچ سوکا نوٹ تھا وہ میں نے انہیں دے دیا اور کہا کہ عید سر پر آگئی ہے اور بھی جو کچھ لینا ہولے لیں.اگلے ہی روز وہ برقعہ کے لئے کپڑا اور کچھ اور کپڑے وغیرہ لے آئیں.اور اپنی بہو سے کہا کہ جلدی جلدی میرے لئے برقعہ سی دیں.باقی کپڑے توسل گئے.برقعہ کے صرف بٹن بنوانے باقی رہ گئے تھے کہ وہ عید سے پہلے ایک سفید و براق کپڑا کفن.زیب تن کر کے عید منانے چلی گئیں.میں نے اس کے بعد کئی بارسوچا ہے کہ اللہ تعالی کا فضل ہی ہے کہ ہم کئی اچھی اچھی چیزیں کھاتے اور پہنتے ہیں اور یہ محسوس بھی نہیں کرتے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہورہا ہے.ورنہ اگر وہ نہ چاہے تو ہم کسی چیز کے استعمال کا حق نہیں رکھتے.مجھے یاد آیا کہ والدہ مبارک میں شکر کا بھی بے انتہا جذبہ تھا اکثر کہا کرتیں کہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہاس کے فضل سے ہماری تمام ضروریات پوری ہو جاتی ہیں.کھانے کے لئے تمام پسندیدہ اشیا مل جاتی ہیں، پہننے کے لئے اچھا کپڑا مہیا ہو جاتا ہے.جب کسی شخص کے متعلق سنتیں کہ مالک مکان اپنے کرائے دار سے کرائے کا تقاضا کر رہا ہے اور وہ لیت ولعل کر رہا ہے یا مالک مکان اپنے کرائے دار سے مکان خالی کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے تو خدا تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرتیں کہ اس نے اپنے فضل سے ہمیں گھر عطا فرما دیا ہے.ہمیں نہ کرایہ ادا کرنے کا فکر نہ مکان خالی کرنے کے نوٹس کا خطرہ.والدہ مبارک ہمیشہ دعا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں چلتی پھرتی اس دنیا سے لے جائے.چار پائی پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا انہیں سخت ناپسند تھا.ان کی یہ خواہش بھی پوری ہوگئی.جمعہ کے روز صبح کے وقت انہوں نے سینے میں درد کی شکایت کی ہم نے سمجھا گیس کی شکایت کی وجہ سے ہے.اس کے ازالہ کے لئے جتنی ایلو پیتھی، یونانی اور ہومیو پیتھک دوا ئیں گھر میں موجود تھیں استعمال کروائیں مگر درد تھا کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا تھا عزیز مبارک احمد عزیزم ڈاکٹر خالد صاحب کو گھر بلا لائے انہوں نے بتایا کہ دل کا شدید حملہ ہوا ہے.فوراً ایمر جنسی وارڈ میں لے جائیں بلکہ وہ خود ایک کار میں ان کو اپنے ساتھ فضل عمر ہسپتال لے گئے.تمام ڈاکٹر اور نرسیں خدمت کے لئے حاضر ہو گئیں شام کو دوسرا حملہ ہوا صبح سات بجے تیسرا حملہ ہوا.ہمارے ڈاکٹر صاحبان تمام دوائیں جو اس حملے کو کمزور کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں کراتے رہے لیکن جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی خدا تعالیٰ نے والدہ مبارک کی دعا قبول کر لی اور وہ دیکھتے دیکھتے دنیا کے جھمیلوں سے پلہ چھڑا کر ہمیں حیران و پریشان چھوڑ گئیں.وہ ہمیشہ ہمیں اچھا مشورہ دیا کرتی تھیں اب ہمیں ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے.لیکن دعا کے سوا چارہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ خود ہماری دستگیری فرمائے.ان کے درجات بلند فرمائے اور دل بے قرار کو قرار عطا فرمائے.میں اپنی طرف سے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے فضل عمر ہسپتال کے تمام عملہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہماری مریضہ کے علاج میں کوئی کوتا ہی نہیں کی.اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے.دفتر وصیت و بہشتی مقبرہ نے بھی حساب کتاب نپٹانے میں جلدی کی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین کی اجازت مرحمت فرمائی.ان سب کے ہم ممنون ہیں.فیکٹری ایریا کے خدام و انصار نے خصوصی محبت و تعاون کا مظاہرہ کیا.سات جون کو رات کے ساڑھے تین بجے بیدار ہو کر پیدل جنازه بیت المبارک لے گئے جہاں نماز جنازہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے فجر کی نماز کے بعد پڑھائی.تمام نمازی اس میں شریک ہوئے.پھر خدام وانصار میت کو بہشتی مقبرہ لے گئے اور تدفین و آخری دعا میں شامل ہوئے جو محترم ناظر صاحب اصلاح وارشاد نے کرائی.ان تمام حضرات، علماء کرام اور عزیز نو جوانوں کے
22 21 ہم دل سے شکر گزار ہیں اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ راضی رہے.آمین وفات کی خبر پا کر چھوٹی آپا صاحبہ محترمہ ( اطال الله بقائها و حفظها و ایدها) اور دوسری مقدس خواتین غریب خانہ کو برکت دینے اور ہمارے دُکھتے دلوں پر دعاؤں کا مرہم رکھنے ہمارے ہاں تشریف لائیں.اللہ تعالیٰ ان سب کی پاک زندگیوں میں برکت دے اور دکھوں سے دورر کھے.جناب پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ تحریک جدید کے وکلاء حضرات، صدر انجمن کے ناظر صاحبان، مجالس انصار اللہ و خدام الاحمدیہ کے صدر صاحبان اور دیگر معزز کارکنان میرے پیارے مربی بھائی، اور بیرونی مشنوں سے واپس آئے ہوئے ڈاکٹر صاحبان، اساتذہ اور مربی صاحبان وقف جدیدا اور مجلس نصرت جہاں کے افسران اور خواتین یہاں تشریف لاکر ہمارا غم بانٹتے رہے.اللہ تعالیٰ ان سب کے دکھوں کا مداوا فر مائے اور خوشیوں سے ان کے آنگن بھر دے.محترم مولانا سیفی صاحب اور ان کے عملہ کے جناب یوسف سہیل شوق صاحب ہمارے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں کہ وہ نہ صرف یہاں تشریف لائے بلکہ وفات کی خبر کو بھی ہمارے مؤقر جریدہ الفضل میں بہت جلد شائع فرمایا.اس خبر سے علم پا کر اور بعض دیگر ذرائع سے معلوم ہونے پر اندرون ملک اور بیرون ملک ہمارے احباب مربی صاحبان اور دیگر حضرات اور نو جوانوں اور بچیوں نے ہمارے اس صدمہ پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے.اور ہم سب کو دعاؤں سے نوازا ہے.مشرقی و مغربی افریقہ، لندن، امریکہ اور دوسرے ملکوں سے ہمارے محبوں اور محسنوں نے خطوط و زبانی پیغامات اور ٹیلی فون کے ذریعہ ہمارا دُکھ بانٹا ہے.ہم ان تمام ملکی و غیر ملکی احباب و خواتین کا شکر یہ ادا کرتے ہیں.عزیزم مبارک احمد اور اس کی بچیوں کے لئے خصوصی درخواست کرنا چاہتا ہوں.سب نے اس صدمہ کو بڑی ہمت سے برداشت کیا ہے.سب احباب و خواتین دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کے اس اکلوتے اور چیتے واقف زندگی فرزند کوصبر و استقامت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دینی خدمات بجالانے توفیق بخشے.پیارے آقا سیدنا امام جماعت احمدیہ کے ارشادات کی فرمانبرداری اور حضور پر نور کی دعائیں حاصل کرنے کی سرفرازی بخشے.غیر از جماعت خواتین نے بھی گھر آکر بڑے دکھ کا اظہار کیا ہے.ایک غیر از جماعت خاتون ہمارے ہاں آئیں اور مجھے مخاطب کر کے کہا.آپ کی بیوی گھر میں چلتی پھرتی بہت خوبصورت لگتی تھیں.مگر کفن پہنے کے بعد تو یوں لگا کہ ان کے چہرے پر نور کی بارش ہورہی ہے.ان کی موت یقیناً ولیوں والی ( یعنی اولیاء اللہ کی ) موت تھی.ان تمام بہنوں کا بھی شکر یہ مولا کریم سب کو اپنا پیارا ور رضا حاصل کرنے کی توفیق بخشے اے اللہ تو ہماری دعائیں قبول فرما.آمین
24 23 سید نا حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: خاوندوں کی اور مردوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ ایک تو وہ اپنے عملی نمونے سے تقویٰ اور علم کا ماحول پیدا کریں پھر عورتوں اور بچوں کی دینی تعلیم کی طرف خود بھی توجہ دیں.کیونکہ اگر مردوں کا اپنا ماحول نہیں ہے ، گھروں میں وہ پاکیزہ ماحول نہیں ہے، تقویٰ پر چلنے کا ماحول نہیں.تو اس کا اثر بہر حال عورتوں پر بھی ہوگا اور بچوں پر بھی ہوگا.اگر مرد چاہیں تو پھر عورتوں میں چاہے وہ بڑی عمر کی بھی ہو جائیں تعلیم کی طرف شوق پیدا کر سکتے ہیں، کچھ نہ کچھ رغبت دلا سکتے ہیں.کم از کم اتنا ہو سکتا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں اس لئے جماعت کے ہر طبقے کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.“ خطبہ جمعہ 18 جون 2004ء) سیدنا حضرت خلیفقہ اصبح الاول نے فرمایا: ہم نو بھائی بہن تھے.میں اپنے تمام بھائی بہنوں سے چھوٹا ہوں.میں اپنے ماں باپ کی سب سے آخری اولاد ہوں.ہمارے باپ نے ہم سب کو پڑھانے کی بے حد کوشش کی.ہمارے ایک بڑے بھائی تھے جو ہم سب میں بڑے خوبصورت تھے.ہمارے باپ کے حکم کے موافق وہ مَدَن چند ایک جذامی کے پاس پڑھنے جاتے تھے.اس وقت فارسی زبان کا عام رواج تھا اور مَدَن چند فارسی کا ماہر تھا.شہر والوں نے کہا کہ آپ اپنے لڑکے کو کوڑھی کے پاس پڑھنے بھیجتے ہیں؟ ہمارے باپ نے فرمایا کہ کوڑھی ہو اور عالم ہو تو جاہل تندرست سے اچھا ہے.ہم سب بھائی بہن الحمد للہ پڑھے لکھے تھے.ہماری بہنیں بھی خوب لکھ پڑھ سکتی تھیں.ہمارے باپ علم کے بڑے ہی قدر دان تھے.جب ہماری سب سے بڑی بہن کی شادی ہوئی تو ہمارے باپ نے جہیز میں سب سے اوپر قرآن شریف رکھ دیا اور کہا کہ ہماری طرف سے یہی ہے.“ (مرقاة الیقین فی حیاة نورالدین صفحه 193 ) اس ارشاد کی روشنی میں سفارش ہے کہ اپنی بچیوں کو جہیز میں قرآن کریم بھی دینا چاہئے کہ علم و معرفت بڑھانے کا سب سے بڑا یہی ذریعہ ہے.نیز کتب سلسلہ بھی بچیوں کو جہیز میں دی جائیں.سفارشات مجلس مشاورت 2009، صفحہ 19, 20 شائع کردہ نظارت اصلاح وارشاد مرکزیہ )