Aik Haret Angaiz Inkishaf

Aik Haret Angaiz Inkishaf

ایک حیرت انگیز انکشاف

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا پیدا کردہ عظیم الشان لٹریچر قرآن کریم کے اصولوں  کی مکمل اتباع میں ہمہ گیر نوعیت کا ہے، جس میں علاوہ دیگر خصائص کے اسلامی عقائد و نظریات اور فقہی مسائل و مضامین اور دیگر تعلیموں اور اصولوں کی فلاسفی اور حکمت جس شان اور انداز میں بیان کی گئی ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ حضور علیہ السلام نے اپنے مخصوص اندازِ بیان سے تمام اسلامی مسائل کو ایسے آسان مگر پرشوکت طریق پر حل کیا ہے کہ شریعت اسلامی کا مغز اور اس کی حقیقت و عظمت دل پر نقش ہوجاتی ہے۔ حضور علیہ السلام کے اس بلند پایہ لٹریچر کو حق تعالیٰ نے ایسی مقبولیت بخشی کہ مختلف مکاتب فکر کے چوٹی کے دینی رہنماؤں اور پیشواؤں نے اس سے بھرپور استفادہ کرکے عملی طور پر اس کی فوقیت اور برتری کا اعتراف کیا ہے۔ جس کی ایک حیر ت انگیز مثال جناب مولانا محمد اشرف علی تھانوی کی کتاب ’’احکامِ اسلام عقل کی نظر میں‘‘ ہے جو پہلی بار تقسیم ملک سے قبل انڈیا سے چھپی تھی  اور پاکستان میں اس کی اشاعت مئی 1978 میں ہوئی تھی۔ اس کتاب کی اشاعت پر مرتب کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے اور اعلیٰ پایہ تصنیف پر مصنف کے لئے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے گئے۔ مورخ احمدیت مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے اپنی اس زیر نظر کتاب میں ثابت کیا ہے کہ تھانوی صاحب کی کتاب کا اولین اور اہم ترین ماخذ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا لٹریچر تھا جہاں سے بکثرت فقرے ہی نہیں بلکہ صفحات کے صفحات بھی خفیف سے تصرف کے ساتھ لفظاً لفظاً زینت کتاب ہوئے ہیں ۔اور معین طور پر بتایا ہے کہ پنجوقتہ نمازوں، اسلامی عبادات، اخلاق، حرمت خنزیر، اسلامی نکاح، قبولیت دعا وغیرہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آفاقی افکار کو مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب میں نام لئے بغیر سجایا ہے۔


Book Content

Page 1

مولانا دوست محمد شاہد مؤرخ احمدية J->

Page 2

اور خود احمد میں کچھ کیں نہیں بھائیو نصیرت ہے غریبانہ کوئی جو پاک دل ہوئے لے جالا اس پہ قرباں ہے انكش مولانا دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت 28-2-3 احمد اکیڈمی یہ توہ

Page 3

اسلام....ایسا چکتا ہوا میرا ہے جس کا ہرا کیسے گوشہ چکھے رہا ہے.ایک بڑے محل میں ہتھے سے چراغ ہونے اور کوٹھے چراغ کسی دور بچہ سے نظر آوے اور کوئی کسی کونہ سے.یہ حال اسلام کیا ہے کہ اس کی آسمانی روشنی صرف ایک طرف سے نظر نہیں آتی بلکہ ہر ایک طرف سے اس کے ابدی پرانے نمایاں ہیں اس کی تعلیم بجائے خود ایک ھے چراغ ہے اور جو شخص اس کی سچائے کے اظہار کے لیے خدا کی طرف سے آتا ہے وہ بھجھے ایک سے چراغ ہوتا ہے.پیام صلح صدا از حضرت بانی سلسلہ احمدی )

Page 4

عرض ناشر مکرم الحاج ڈاکٹر شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت ہائے احمدیہ کوٹ و بلوچستان نے اس کتاب کی اشاعت میں گراں قدر تعاون فرمایا ہے احباب کرام کی خدمت میں درخواست ہے کہ محترم شیخ محمد حنیف صاحب کے الدین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کریں نیز محرم شیخ صاحب کے اہل خانہ کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں ہر شکل دکھ اور تکلیف سے بچائے اور اپنے فضل سے دینی اور دنیاوی ترقیات سے نوازہ نا چلا جائے.آمین : خاکسار جمال الدین انجم

Page 5

دین اسلام واحد قانون آسمانی اور ابدی اور کامل ومکمل ضابطہ حیات ہے جس کا ہر حکم حتی وحکمت پر مبنی اور روحانی فلسفہ سے پر ہے اور اس کی پشت پر عقل ونیسم اور تدبیر و فقاہت کی افواج صف بستہ کھڑی میں جو دلی اور دماغی قومی کی حفاظت کر رہی ہیں اور سورہ جمعہ کے پہلے رکوع میں یہ خبر دی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے طفیل آخرین جہاں ربانی نشانوں کا مشاہدہ کریں گے، تزکیہ نفوس کا سامان ہوگا اور تعلیم کتاب کی برکت پائیں گئے وہاں کتاب اللہ کی حکمت اور فلسفہ بھی ان پر کھولا جائے گا اور بانی سلسلہ احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا پیدا کردہ عظیم الشان لٹریچر ان سب پہلوؤں پر مشتمل اور ھا دی ہے خصوصاً اسلامی عقائد و نظریات اور فقہی مسائل و مضامین اور دیگر تعلیموں اور ھولوں کی فلاسفی اور حکمت جس حکیمانہ شان سے اُجاگر کی ہے اس کی کوئی نظیر نہیں حضور نے اپنے مخصوص انداز بیان سے تمام اسلامی سال کو ایسے آسان مگر پر شوکت طریق پرحل کیا ہے کہ شریعت اسلامیہ کا مغز اور اس کی حقیقت و عظمت دل پر نقش ہو جاتی ہے اور زبان پرچین نظم فخر موجودت !

Page 6

م مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے در و دجاری ہو جاتا ہے.كل بركة من محمد صلى الله عليه وسلم فتبارك من علم وتعلمه جو را ز دیں تھے بھارے اس نے بتائے سارے دولت کا دینے والا فرمانروا یہی ہے سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مکہ تھا یہی ہے دور ر در مین حضرت اقدس کے بلند پایہ لٹریچر کو حق تعالیٰ نے ایسی مقبولیت بخشتی ہے کر مختلف مکاتیب فکر کے چوٹی کے دینی راہ نماؤں اور پیشواؤں نے اس سے بھر پور استفادہ کر کے عملی طور پر اس کی فوقیت اور برتری کا اعتراف کیا ہے جس کی ایک حیرت انگیز مثال جناب مولانا محمد اشرف علی صاحب تھانوی کی کتاب احکام اسلام عقل کی نظر میں ہے جو پہلی بار ۱۹۴۷ء سے قبل انڈیا میں چھپی اور پاکستان میں اس کی اشاعت مئی ۱۹۷۸ء میں ہوئی.جناب مولانا محمد رضی عثمانی صاحب نے جن کے زیر اہتمام پاکستانی ایڈیشن زیور طبع سے آراستہ ہوا ناشر کی حیثیت سے اس کے صفحہ ہم پر حسب ذیل نوٹ لکھا ہے:." حکیم الامت مجد والمامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کو اللہ تعالیٰ نے حقیقت میں امت کا نبض شناس اور ان کی اصلاح و علاج کیلئے حکیم

Page 7

بنایا تھا.اس حقیقت میں شبی وقت اور اس زور کے غزالی اور رازی تھے گزشتہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ میں آپکی مفید و مقبول تصانیف سے ملت اسلامیہ کو جو فوائد حاصل ہوئے وہ ہر دیندار مسلمان پر اظہر من شمس ہیں.....تصانیف کی طویل فہرست میں ایک بہت اہم اور مفید تصنيف المصالح العقليه لا حكام النقلیه ہے جس میں تمام شرعی احکام کی عقلی حکمتیں مصلحتیں اور احکام اللہ کے اسرار و رموز اور فلاسفی ظاہر کی گئی ہے اور عام فہم انداز میں ثابت کیا ہے کہ تمام احکام شرعیت عین عقل کے مطابق ہیں.کتاب کے تینوں حصوں کی ترتیب فقہی ابواب پر رکھی گئی ہے.یہ کتاب تقسیم ہند سے قبل ۳۲۸ احہ میں ادارہ اشرف العلوم (جو دارالاشاعت دیوبند یو پی انڈیا کا ذیلی ادارہ تھا) سے شائع ہو کر قبولیت عام حاصل کر چکی ہے، لیکن افسوس کہ پاکستان میں اس کی طباعت کا موقع نہ مل سکا اب خدا کا شکر ہے کہ یہ کتاب احکام استلا در عقل کی نظر میں" کے عام فہم نام کے ساتھ دارالاشاعت کراچی نمبرا اسے پھر شائع کی جارہی ہے یہ زیر نظر مختصر مقالہ میں یہ بتانا مقصود ہے کہ اس مقبول عام تصنیف کے اہم مآخذ میں سرفہرست حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر ہے جس کے بکثرت فقرے ہی نہیں ، صفحوں کے صفحے بھی تخفیف سے تصرف کے ساتھ لفظاً لفظاً زینت

Page 8

کتاب ہوئے ہیں اور اپنی قوت و شرکت سے انوار کی بد است ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں جیسا کہ آئندہ تفصیل سے عیاں ہوگا.مگر اس تفصیل میں جانے سے قبل یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ وہی مشبلی وقت اور غزالی دوراں ہیں جن کا عقیدہ ابتداء میں یہ تھا کہ احکام میں فلاسفی معلوم کرنا موجب المحاد ہوتا ہے اور عمل سے کورا کر دیتا ہے." خیر الافادات صفحه ۱۰۸ ناشر ادارہ اسلامیات لاہور ) پنجوقتہ نمازوں کا فلسفہ حضرت اقدس نے کشتی نوح صفحہ ۶۵۷۶۳ میں پنجوقتہ نمازوں کا حسب ذیل الفاظ میں نہایت لطیف فلسفه بیان فرمایا ہے.حضرت اقدس فرماتے ہیں :- پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں.وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر میں جو جا کے وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کے لیے ان کا وارد ہونا ضروری ہے.پہلے جبکہ تم مطلع کئے جاتے ہو کہ تم پر ایک ملا آنے والی ہے مثلا جیسے تمھا رے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہوا.یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری نسلی اور خوشحالی میں خلل ڈالا.سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے کیونکہ اس سے تمہاری خوشحالی میں زوال آنا شروع ہوا اس کے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی جس کا وقت زوالِ

Page 9

آفتاب سے شروع ہوتا ہے.دوسرا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے جبکہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کئے جاتے ہو.مثلاً جبکہ تم بذریعہ وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو.یہ وہ وقت ہے کہ جب نعون سے خون خشک ہو جاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے.سو یہ حالت تمہاری اُس وقت سے مشابہ ہے جبکہ آفتاب سے نور کم ہو جاتا ہے اور نظر اس پر جم سکتی ہے اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اس کا غروب نزدیک ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عصر مقرر ہوئی.تیسرا تغیر تم پر اس وقت آتا ہے جو اس بلا سے رہائی پانے کی بیتی امید منقطع ہو جاتی ہے.مثلاً جیسے تمہارے نام فرد قرار داد جرم مکھی جاتی ہے اور مخالفانہ گواہ تمہاری ہلاکت کے لیے گزر جاتے ہیں.یہ وہ وقت ہے کہ حسب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے نئیں ایک قیدی سمجھنے لگتے ہو سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جبکہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور تمام امیدیں دن کی روشنی کی ختم ہو جاتی ہیں.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز مغرب مقرر ہے.چوتھا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے کہ جب بلا تم پر وارد ہی ہو جاتی ہے اور اس کی سخت تاریکی تم پر احاطہ کرلیتی ہے.مثلاً جبکہ فرد قرار داد میریم اور

Page 10

شہادتوں کے بعد حکم منزائم کو سنا دیا جاتا ہے اور تقدیر کے لیے ایک پولیس مین کے تم حوالہ کئے جاتے ہو.سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جبکہ رات پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیرا پڑ جاتا ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عشاء مقرر ہے.-۵ پھر جب کہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریخی میں سبہ کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رحم تم پر جوش مارتا ہے اور تمہیں اس تاریکی سے نجات دیتا ہے.مثلاً جیسے تاریخی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے.سو اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز فجر مقرر ہے اور خدا نے تمہارے فطرتی تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچ نمازیں تمہارے لیے مقرر کیں.اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدہ کے لیے ہیں.پس اگر تم چاہتے ہو کہ ان بلاؤں سے بچے رہو تو پنج گانہ نمازوں کو ترک نہ کرو کہ وہ تمہارے اندرونی اور روحانی تغیرات کا ظل میں نماز میں آنے والی جوؤں کا علاج ہے.تم نہیں جانتے کہ نیا ون چڑھنے والا کس قسم کے قضاء و قدر تمہارے لیے لائے گا.پس قبل اس کے جو دن چڑھے تم اپنے مولیٰ کی جناب میں تضرع کرو کہ تمہارے لیے خیر و برکت کا دن چڑھے " رکشتی نوح صفحه ۶۳ - ۶۵ طبع اول شهر ) ۱۹۰۲ 46 یه سارا اقتباس کتاب " احکام اسلام صفحہ ہم سے اور تک درج ہے.

Page 11

اسلام کا فلسفہ اخلاق حضرت اقدس اپنی مشہور کتاب نسیم دعوت میں اسلام کے فلسفہ اخلاق پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ :- انسان کی فطرت پر نظر کر کے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو مختلف قومی اس غرض سے دیئے گئے ہیں کہ تا وہ مختلف وقتوں میں حسب تقاضا محل اور موقعہ کے ان قومی کو استعمال کرے.مثلاً انسان میں منجمد اور حلقوں کے ایک خلق بکری کی فطرت سے مشابہ ہے اور دوسرا خلق شیر کی صفت سے مشابہت رکھتا ہے.میں خدائے تعالیٰ انسان سے یہ چاہتا ہے کہ وہ بکری بننے کے محل میں نیکری بن جائے اور شہیر بننے کے محل میں دہ شیر ہی بن جائے اور جیسا کہ وہ نہیں چاہتا کہ ہر وقت انسان سوتا ہی رہے یا ہر وقت جاگتا ہی رہے یا ہردم کھاتا ہی رہے یا ہمیشہ کھانے سے منہ بند رکھے.اسی طرح وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ انسان اپنی اندرونی قوتوں میں سے صرف ایک قوت پر زور ڈالدے اور دوسری قوتیں جو خدا کی طرف سے اس کو ملی ہیں.اس کو لغو سمجھے.اگر انسان میں خدا نے ایک قوت علم اور نرمی اور درگزر اور صبر کی رکھی ہے تو اسی خدا نے اس میں ایک قوت غضب اور خواہش انتقام کی بھی رکھی

Page 12

ہے پس کیا مناسب ہے کہ ایک خدا داد قوت کو تو حد سے زیادہ استعمال کیا جائے اور دوسری قوت کو اپنی فطرت میں سے بکتی کاٹ کر پھینک دیا جائے اس سے تو خدا پر اعتراض آتا ہے کہ گویا اس نے بعض قوتیں انسان کو ایسی دی ہیں جو استعمال کے لائق نہیں.کیونکہ یہ مختلف قوتیں اسی نے تو انسان میں پیدا کی ہیں.پس یاد رہے کہ انسان میں کوئی بھی قوت بڑی نہیں ہے بلکہ ان کی بد استعمالی بُری ہے سو انجیل کی تعلیم نہایت ناقص ہے جس میں ایک ہی پہلو پر زور دیا گیا ہے.علاوہ اس کئے عویٰ.وایسی تعلیم کا ہے کہ ایک طرف طمانچہ کھ کر دوسری بھی پھیر دیں گر اس دعوی کے موافق عمل نہیں ہے مثلاً ایک پادری صاحب کو کوئی طمانچہ مار کر دیکھیے کہ پھر عدالت کے ذریعہ سے وہ کیا کارروائی کراتے ہیں.پس یہ تعلیم کس کام کی ہے جس پر نہ عدالتیں چل سکتی ہیں.نہ پادری چل سکتے ہیں.اصل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو حکمت اور موقعہ شناسی پر مبنی ہے مثلاً انجیل نے تو یہ کہا کہ ہر وقت تم لوگوں کے طمانچے کھاؤ اور کسی حالت میں نشتر کا مقابلہ نہ کر دیگر قرآن شریف اس کے مقابل پر یہ کہتا ہے جزاء سيّئة سيّئة مثلها فمن عفا واصلح ناجره

Page 13

على الله -.یعنی اگر کوئی تمھیں دکھ پہنچا دے مثلاً دانت توڑ دے یا آنکھ پھوڑ دے تو اس کی سزا اسی قدر بدی ہے جو اس نے کی لیکن اگر تم ایسی نے صورت میں گناہ معاف کردو کہ اس معافی کا کوئی نیک نتیجہ پیدا ہو اور اس سے کوئی اصلاح ہو سکے یعنی مثلاً محرم آئندہ اس عادت سے باز آجائے تو اس صورت میں معاف کرنا بھی بہتر ہے اور اس معاف کرنے کا خدا سے اجر ملے گا.اب دیکھو اس آیت میں دونوں پہلو کی رعایت رکھی گئی ہے اور عفو اور انتقام کو مصلحت وقت سے وابستہ کر دیا گیا.سوسی حکیمانہ مسلک ہے جس پر نظام عالم چل رہا ہے.رعایت محل اور وقت سے گرم اور سرد دونوں کا استعمال کرنا ہی عقلمندی ہے.جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ہم ایک ہی قسم کی غذا پر ہمیشہ زور نہیں ڈال سکتے بلکہ حسب موقع گرم اور سرو غذائیں بدلتے رہتے ہیں اور جاڑے اور گرمی کئے قوں میں کپڑے بھی مناسب حال بدلتے رہتے ہیں.پس اسی طرح ہماری اخلاقی حالت بھی حسب موقع تبدیلی کو چاہتی ہے ایک وقت رعب دکھلانے کا مقام ہوتا ہے وہاں نرمی اور درگزر سے کام بگڑتا ہے اور دوسرے وقت نرمی اور تواضع کا موقع ہوتا ہے

Page 14

۱۴ اور وہاں رعب دکھلانا سفلہ بن سمجھا جاتا ہے.غرض ہر ایک وقت اور ہرا یک مقام ایک بات کو چاہتا ہے.پس جو شخص رعایت مصالح اوقات نہیں کرتا.وہ حیوان ہے نہ انسان اور وہ وحشی ہے نہ مہذب ! ر نسیم دعوت صفحه ۷۱ ۲۰ ۷ طبع اول ۱۹۰۳ء ) به روح پرور مضمون مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کی کتاب " احکام اسلام عقل کی نظر میں" کے صفحہ ۱۲۳ اور ۲۲۴ میں اول سے آخر یک بعینہ نقل شدہ موجود ہے.حرمت خنزیر کا فلسفہ - کتاب احکام السلام صفحہ ۲۰ میں وجوہ حرمت ختر برا کے زیر عنوان " (۲۰۴) خنہ حسب ذیل عبارت مندرج ہے جو حضرت اقدس کی معرکہ آراء کتاب اسلامی اکھوان کی فلاسفی کے صفحہ ۲۴ (طبع اول ) سے مستعار لی گئی ہے.وا اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے عزت اور دیوث ہے.اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانون قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور یک جانور کے گوشت کا اثر بھی بدن اور روح پر بھی پلید ہی ہو کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذاؤں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہوتا ہے.پس اس میں کیا شک

Page 15

ہے کہ ایسے بد کا اثر بھی بد ہی پڑے گا جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت با خاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوٹی کو بڑھاتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی " " طبع اول ماه ) عفت کے اسلامی نکلی کا فلسفہ ام اسلامی اصول کی فلاسفی میں حضرت اقدس نے عفت کے اسلامی خلق اور اسلامی پردہ کی حقیقت و حکمت بھی نہایت و مساحت سے بیان فرمائی ہے جو مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے حضور کا حوالہ دیئے بغیر حضور ہی کے الفاظ میں شامل کتاب فرمائی ہے جو یہ ہے.قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا جَهُم ذيكَ أذكى لَهُمْ وَقُلُ لِلْمُؤْمِنَت يَغْضُضْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِ بْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ لَهُ وَلَا يَضْرِبْنَ بِادْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللهِ جَمِيعًا أَيُّهَا المُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ سورۃ نمبر ۲۴ : ۳۱ ه ۲۴ : ۳۲

Page 16

تُفْلِحُونَ وَلَا تَقْرَبُوا الزِنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلاً وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحا ورهبانية إبتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَا هَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوانِ اللهِ فَمَا دَعْوَهَا حَقَ دِمَايَتِهَا - له یعنی ایمانداروں کو جو مرد میں کمرے کی آنکھ کو نامحرم عورتوں کو دکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور پر سے نہ دکھیں جو شہوت کا محل ہو سکتی ہیں اور ایسے موقعوں پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بیچا ہیں.الیسا ہی کانوں کو نا محرموں سے بچا ویں یعنی بے گانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنے.ان کے حسن کے قصے نہ سنے.یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لیے عمدہ طریق ہے.ایسا ہی ایماندار عورتوں کو کہدے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نا محرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نا محرموں سے بچائیں یعنی ان کی پر شہوات آوازیں نہ شنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے ۲۸ I ل ۳۳:۱۷

Page 17

اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اور منی کو اس طرح سر پریس کہ گر بیان سے ہو کہ سر یہ آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر در کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں.یہ وہ تدبیر ہے کہ جس کی پابندی ٹھوکر سے بچا سکتی ہے.اور دوسرا طریق بیچنے کے لیے یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی طرف رجو ٹ کریں اور اس سے دعا کریں تا ٹھوکر سے بچا دے اور لغر بشوں سے نجات دے.زنا کے قریب مت جاؤ.یعنی ایسی تقریبوں سے دور ہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کئے قوع کا اندیشہ ہو.جو زنا کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے.زنا کی راہ بہت بُری ہے یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کے لیے سخت خطر ناک ہے اور جس کو نکاح میسر نہ آوے چاہیے کہ وہ اپنی عفت کو دوسرے طریقوں سے بچا دے.مثلاً روزہ رکھے یا کم کھا دے یا اپنی طاقتوں سے تن آزار کام نے اور لوگوں نے یہ طریق نکالے ہیں کہ وہ ہمیشہ عمل نکاح سے دست برداریہ ہیں یا خوجے نہیں اور کسی طریق سے رہبانیت اختیار کریں مگر ہم نے انسان پر یہ کم فرض نہیں کیسے اسی لیے وہ ان بدعتوں کو پورے طور پر نبھا نہ سکے.خدا کا یہ فرمانا کہ ہمارا یہ حکم نہیں کہ لوگ خوجے نہیں.یہ اس

Page 18

بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر خدا کا حکم ہوتا تو سب لوگ اس حکم پر عمل کرنے کے مجاز بنتے تو اس صورت میں بنی آدم کی قطع نسل ہو کر سبھی کا دنیا کا خاتمہ ہو جاتا اور نیز اگر اس طرح پر عفت حاصل کرنی ہو کہ حضور مردمی کاٹ دیں تو یہ در پردہ اس صانع پر اعتراض ہے جس نے وہ عضو بنایا اور نیز جبکہ ثواب کا تمام مدار اس بات میں ہے کہ ایک قوشت موجود ہو اور پھر انسان خدائے تعالی کا خوف کر کے اس قوت کے نعراب جذبات کا مقابلہ کرتا رہے اور اس کے منافع سے فائدہ اٹھا کر دو طور کا ثواب حاصل کرے پس ظاہر ہے کہ ایسے عضو کے ضائع کر دینے میں دنوں ثوابوں سے محروم رہا.ثواب توجد به مخالفانہ کے وجود اور پھر اس کے مقابلہ سے ملتا ہے یعنی جس میں بچہ کی طرح وہ قوت ہی نہیں رہی؟ اس کو کیا ثواب ملے گا با کیا بچہ کو اپنی عفت کا ثواب مل سکتا ہے.ان آیات میں خدا تعالیٰ نے خلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کے لیے صرف اعلی تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لیے پانچ علاج بھی بتلا دیتے ہیں یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظرڈالنے سے بچانا کا نوٹی کو نا محرموں کی آواز سننے سے بچانا نامحرموں کے قصے نہ سننا اور ایسی تمام تفریوں سے جن میں اس بد فعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ.اس جگہ ہم بڑے دھوئی کے ساتھ سکتے ہیں کہ یہ اعلی تعلیم ان سب تدبیروں کے

Page 19

ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام ہی سے خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا.یہی ہے کہ اس کے جذبات شہوت محل اور موقع پاکر بجوش مارنے سے رہ نہیں سکتے.یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں.اس لیے خدا تعالیٰ نے نہیں ی تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان تمام زینتوں پر نظر ڈالیں اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کریں لیکن پاک نظر سے لکھیں اور نہ ہ تعلیم میں دی ہے کہ ہم ان بیگا نہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں.اور ان کے حسن کے قصے بھی سناکر یں لیکن پاک خیال سے سنیں.بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زمیت کی جگہ کو ہرگز نہ رکھیں نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک خیال سے.بلکہ ہمیں چاہیے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے نا ٹھوکر نہ کھاویں کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آئیں.سوچونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لیے اس نے یہ اعلی درجہ کی تعلیم فرمائی.اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے اگر ہم ایک بھو کے گتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھدیں اور پھر ہم امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان رویوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں.سعو

Page 20

خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قومی کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے.اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آئے جس سے یہ خطرات جنبش کر سکیں.اسلامی پردہ کی یہی فلاسفی اور یہی ہدایت شرعی ہے.خدا تعالیٰ کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قید یوں کی حراست میں رکھا جائے.یہ ان نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زمیتوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے.بالآخر یہ بھی یاد رہے کہ خوابیده نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچالیا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا.اس طریق کو عربی میں غض بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پر ہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے ، اس کو نہیں چاہیے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف اہے بے محابا نظر اُٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لیے اس تمدنی زندگی میں غض بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے میں سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری مخلق کے رنگ میں آجائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا.یہی وہ تعلق ہے جس کو احصان اور عفت کہتے ہیں.د اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۲۷-۳۰ طبع اول شششاء )

Page 21

۲۱ اسلامی نکاح کا فلسفہ ۵.حضرت اقدس کی کتاب ار یہ دھرم کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں حضور نے متعدد مقامات پر اسلامی نکاح کی حقیقی فلاسفی پر سیر حاصل بحث کی ہے جس سے اسلام کے ازدواجی نظام کی برتری روز روشن کی طرح نمایاں ہو جاتی ہے اس سلسلہ میں آریہ دھرم کے تین اقتباسات پر یہ قارئین کرتا ہوں.ان میں اول الذکر دو اقتباس کتاب احکام اسلام کے صفحہ نمبر ۱۳۶ و ۱۳۷ پرور تبسیرا اقتباس ۱۵۷ و ۱۵۸ پر موجود ہے.پہلا اقتباس قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ شادی کے تین فائدے ہیں.ایک عفت اور پر ہیز گاری دوسری حفظ صحت تیری اولاد - اور پھر ایک اور جگہ فرماتا ہے :- وليستعفف الذين لا يجدون نكاها حتى يغنيهم الله مِنْ فَضْلِهِ والجزو نمبر ٨ ) سورة النور ) یعنی جو لوگ نکاح کی طاقت نہ رکھیں جو پر میز گار رہنے کا اصل ذریعہ ہے تو ان کو چاہیے کہ اور تدبیروں سے طلب عفت کریں.چنانچہ بخاری

Page 22

اور سلم کی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو نکاح کرنے پر قادر نہ ہو اس کے لیے پر مہیز گار رہنے کے لیے یہ تدبیر ہے کہ وہ روزے رکھا کرے اور حدیث یہ ہے.يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فانه اغض للبصر وا حصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فانه له وجاء (صحیح مسلم و بخاری) یعنی اے جوانوں کے گروہ جو کوئی تم میں سے نکاح کی قدرت رکھنا ہو تو چاہیے کہ وہ نکاح کرے کیونکہ نکاح آنکھوں کو خوب نیچا کر دیتا ہے اور شرم کے اعضاء کو زنا وغیرہ سے بچاتا ہے ورنہ روزہ رکھو کہ وہ خصی کر دیتا ہے.دارید دهرم ما طبع اول ۱۸۹۵ء دوسرا اقتباس محسنين غير مسافحين الجزء نمیرہ یعنی چاہیے کہ تمہارا نکاح اس نیت سے ہو کہ تا تم تقویٰ اور پرہیز گاری کے قلعہ میں داخل ہو جاؤ.ایسا نہ ہو کہ حیوات کی طرح محض نطفہ نکالنا ہی تمہارا مطلب ہو " ) آریہ دھرم صدا طبع اول ۱۸۹۵

Page 23

تغییر اقتباس مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک ملنی اور فرمانبرداری شرائط ضرور یہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں.ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہو جاتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خود بخود نکاح توڑنے کی مجاز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود بخود نکاح کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑا سکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو گرا سکتی ہے اور یہ کمی اختیار اس کی فطرتی شتاب کاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے لیکن مرد جیسا کہ اپنے اختیار سے معاہدہ نکاح کا باندھ سکتا ہے ایسا ہی عورت کی طرف سے شرائط ٹوٹنے کے وقت طلاق دینے میں بھی خود مختار ہے سو یہ قانون فطرتی قانون سے ایسی مناسبت اور مطابقت رکھتا ہے گویا کہ اس کی عکسی تصویر ہے کیونکہ فطرتی قانون نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ ہر ایک معاہدہ شرائط قرار داده کے فوت ہونے سے قابل فسخ ہو جاتا ہے اور اگر فریق ثانی فسخ سے مانع ہو ! تو وہ اس فریق پر ظلم کر رہا ہے جو فقدان شرائط کی وجہ سے صبح عید کا حق رکھتا

Page 24

تصقت معلوم ہے جب ہم سوچیں کہ نکاح کیا چیز ہے تو بھر اس کے اور کوئی مقبہ نہیں ہوتی کہ ایک پاک معاہدہ کی شرائط کے نیچے دو انسانوں کی زندگی بسر کرنا ہے اور جو شخص شرائط تسکنی کا مرتکب ہو وہ عدالت کی رو سے معاہدہ کے حقوق سے محروم رہنے کے لائق ہو جاتا ہے اور محرومی کا نام دوسرے لفظوں میں طلاق ہے.لہذا طلاق ایک پوری پوری جدائی ہے جس سے مطلقہ کی حرکات سے شخص طلاق و سندہ پر کوئی بد اثر نہیں پہنچتا یا دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک عورت کسی کی منکوحہ ہو کہ نکاح کے معاہدہ کوکسی اپنی بد چلنی سے توڑ دے تو وہ عضو کی طرح ہے جس کو کیڑے نے کھا لیا اور وہ اپنے شدید درد سے ہر وقت تمام بدن کوستاتا اور دکھ دیتا ہے تو اب حقیقت میں وہ دانت دانت نہیں ہے اور نہ وہ متعفن عضو حقیقت میں عضو ہے اور سلامتی اسی میں ہے کہ اس کو اکھیڑ دیا جائے یہ سب کارروائی قانون قدرت کے موافق ہے عورت کا مرد سے ایسا تعلق نہیں جیسے اپنے ہاتھ اور پیر پیر کا لیکن تاہم اگر که کا ہا تھ یا پیر کسی ایسی آفت میں مبتلا ہو جائے کہ اطباء اور ڈاکٹروں کی راستے اسی پر اتفاق کرے کہ زندگی اس کی کاٹ دینے میں ہے تو بھلا تم میں سے کون ہے کہ ایک جان بچانے کے لیے کاٹ دینے پر راضی نہ ہو پس ایسا ہی اگر تیری منکوحہ اپنی بد عینی اور کسی مہماں پاپ سے تیرے پر دبال لائے تو وہ ایسا عضو ہے کہ بگڑ گیا اور سڑ گیا اور اب وہ تیرا

Page 25

۲۵ عضو نہیں ہے اس کو جلد کاٹ دے اور گھر سے باہر پھینک دے.ایسا نہ ہو کہ اس کی زہر تیرے سارے بدن میں پہنچ جائے اور تجھے ہلاک کرے پھر اگر اس کاٹے ہوئے اور زہریے تقسیم کو کوئی پرند یا دورند کھالے تو تجھے اس سے کیا کام کیونکہ وہ جسم تو اسی وقت سے تیرا جسم نہیں رہا جبکہ تونے اس کو کاٹ کر ھینک دیا".) آریه و صر م صفحه ۳۲ ۳۳۱ طبع اول شششانه ) قبولیت دعا کا فلسفہ با سرسید احمد خان بانی علیگڑھ کالی دعاؤں کی قبولیت اور یہ شیر کے قائل نہیں تھے جیسا کہ ان کی تفسیروں اور لیکچروں اور مضامین سے ظاہر ہے.حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ عہد حاضر کی وہ منفرد شخصیت ہیں جنہوں نے عقلی و نقلی اور اپنے روحانی مشاہدات کی روشنی میں برکات الدعا“ جیسی لاجواب کتاب شپرد قلم فرمائی پوری کتاب مطالعہ کرنے کے لائق ہے بطور نمونہ اس کے دو اقتباس ملاحظہ ہوں.اول :- " اگر چہ دنیا کی کوئی خیر و شر متقدر سے خالی نہیں تاہم قدرت نے اس کے حصول کے لیے ایسے اسباب مقرر کر رکھتے ہیں جن کے صحیح اور بیچتے اثر میں کسی عقلمند کو کلام نہیں مثلاً اگر چه منقدر پر لحاظ کر کے دوا کا کرنا نہ کرنا درحقیقت ایسا ہی ہے جیسا کہ دعا یا ترک دعا.مگر کیا سید صاحب یہ رائے ظاہر کر سکتے

Page 26

ہیں کہ مثلاً علم طب سراسر باطل ہے اورحکیم حقیقی نے دعاؤں میں کچھ بھی اثر نہیں رکها به پھر اگر سید صاحب با وجود ایمان با تقدیر کے اس بات کے بھی قائل ہیں کہ دوائیں بھی اثر سے خالی نہیں تو پھر کیوں خدا تعالیٰ کے کیساں اور متشابہ قانون میں فتنہ اور تفریق ڈالتے ہیں ؟ کیا سید صاحب کا یہ مذہب ہے کہ خدا تعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ تریک اور سقمونیا اور سناء اور حب الملوک میں تو ایسا فوری اثر رکھ دے کہ ان کی پوری خوراک کھانے کے ساتھ ہی دست چھوٹ جائیں یا مثلا سم الفار اور بنیں اور دوسری ہلاہل زہروں میں وہ غضب کی تاثیر ڈال دی کہ ان کا کامل قدر شربت چند منٹوں میں ہی اس جہاں سے رخصت کر دے لیکن اپنے برگزیدوں کی توجہ اور عقد ہمت اور تضرع کی بھری ہوئی دعاؤں کو فقط مردہ کی طرح رہنے دے جن میں ایک ذرہ بھی اثر نہ ہو ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ نظام الہی میں اختلاف ہو اور وہ ارادہ جو خدا تعالیٰ نے دواؤں میں اپنے بندوں کی بھلائی کے لیے کیا تھا وہ دعاؤں میں مرغی نہ ہو ؟ نہیں نہیں ! ہرگزنہ نہیں ! بلکہ خود سید صاحب دعاؤں کی حقیقی فلاسفی سے بے خبر ہیں اور ان کی اعلی تاثیروں پر ذاتی تجربہ نہیں رکھتے اور ان کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی ایک مدت تک ایک پرانی اور سال خوردہ اور مسلوب القومی دوا کو استعمال کرے اور پھر اس کو بے اثر پا کر اس دوا پر عام حکم لگا دے کہ اس میں کچھ بھی برکات الدعا صفحه ۷-۸ ) تاثیر نہیں "

Page 27

۲۷ دوم : " میں کہتا ہوں کہ یہی حال دواؤں کا بھی ہے.کیا دواؤں نے موت کا دروازہ بند کر دیا ہے یا ان کا خطا جانا غیر ممکن ہے ؟ مگر کیا با وجود اس بات کے کوئی ان کی تاثیر سے انکار کر سکتا ہے ؟ یہ سچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہو رہی ہے.مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو یہ جسمانی اور روحانی اسباب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں مثلاً اگر ایک بیمار کی تقدیر نیک ہو اسباب تقدیر علاج پورے طور پر میسر آجاتے ہیں اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ وہ اُن سے نفع اٹھانے کے لیے مستعد ہوتا ہے تب دوانشانہ کی طرح جاگہ اثر کرتی ہے.یہی قاعدہ دعا کا بھی ہے.یعنی دعا کے لیے بھی تمام اسباب و شرائط قبولیت اسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں ارادہ الہی اس کے بركات الدعا صفحه ۱۱ و ۱۲ ) قبول کرنے کا ہے.جناب حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے برکات الدعا" کے مندرجہ بالا دونوں اقتباسات اگر چہ نہایت اہتمام کے ساتھ اپنی مقبولِ عام کتاب کے صفحہ ۸۴ ۸۵ پر حقیقت دعا و قضا کے عنوان سے قلمبند فرما دیتے ہیں مگر میں جس فقرے میں سرسید کا نام تھا اس کو کمال فطانت و ذہانت سے دوسرے الفاظ میں بدل ڈالا ہے.

Page 28

قبور سے تعلق ارواح -6 مندرجہ بالا عنوان سے احکام اسلام کے صفحہ ۲۶۲ سے ۲۶۵ تک ایک نہایت لطیف مضمون بیان ہوا ہے جو اوّل سے آخر تک براہ راست حضرت اقدس کے ان ملفوظات سے ماخوذ ہے جو آج سے قریباً چوراسی سال قبل اخبار الحکم میں شائع ہوئے تھے.حضور نے فرمایا :- گا اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ ارواح کے تعلیق قبور کے متعلق احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا ہے وہ بالکل سچ اور درست ہے.ہاں یہ دوسرا امر ہے اس کے تعلق کی کیفیت اور گنہ کیا ہے ، جس کے معلوم کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں.البتہ یہ ہمارا فرض ہوسکتا ہے کہ ہم یہ ثابت کر دیں کہ اس قسم کا تعلق قبور کے ساتھ ارواح کا ہوتا ہے اور اس میں کوئی محال عقل لازم نہیں آتا.اور اس کے لیے ہم اللہ تعالیٰ کے قانونِ قدرت میں ایک نظیر پاتے ہیں.در حقیقت یہ امر اسی قسم کا ہے جیسے ہم دیکھتے ہیں کالعض امور کی سچائی اور حقیقت مرت زبان ہی سے معلوم ہوتی ہے اور اس کو ذرا وسیع کرکے ہم یوں کہتے ہیں کہ حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقے رکھتے ہیں بعض خواص آنکھ کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں اور بعض صداقتوں کا پتہ صرف کا نہ لگاتا ہے اور بعض ایسی ہیں کہ نتیش مشترک سے ان کا سراغ چلتا ہے

Page 29

۲۹ اور کتنی ہی سچائیاں ہیں کہ وہ مرکز قوی یعنی دل سے معلوم ہوتی ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے صداقت کے معلوم کرنے کے لیے مختلف طریق اور ذریعے رکھتے ہیں مثلاً مصری کی ایک ڈلی کو اگر کان پر رکھیں تو وہ اس کا مزہ معلوم نہ کر سکیں گے اور نہ اس کے رنگ بتا سکیں گے.ایسا ہی اگر آنکھ کے سامنے کریں گے تو وہ اس کے ذائقہ کے متعلق کچھ نہ کہ سکے گی.اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے کے لیے مختلف قومی اور طاقتیں ہیں.اب آنکھ کے متعلق اگر کسی چیز کا ذائقہ معلوم کرنا ہو اور وہ آنکھ کے سامنے پیش ہو تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ اس چیز میں کوئی ذائقہ ہی نہیں.یا آواز نکلتی ہو اور کان بند کر کے زبان سے وہ کام لینا چاہیں تو کب ممکن ہے.آجکل کے فلسفی مزاج لوگوں کو یہ بڑا دھوکا لگا ہوا ہے کہ وہ اپنے عدم علم کی وجہ سے کسی صداقت کا انکار کر بیٹھتے ہیں.روزمرہ کے کاموں کا میں دیکھا جاتا ہے کہ سب کام ایک شخص نہیں کرتا بلکہ جدا گانہ خرقتیں مقرر ہیں.سقہ پانی پلاتا ہے.دھوبی کپڑے صاف کرتا ہے.باورچی کھانا پکاتا ہے.غرضیکہ تقسیم محنت کا سلسلہ ہم انسان کے خود ساختہ نظام میں بھی پاتے ہیں.پس اس اصل کو یاد رکھو کہ مختلف قوتوں کے مختلف کام ہیں.انسان بڑے قویٰ سے کر آیا ہے اور طرح طرح خدمتیں اس کی تکمیل کے لیے ہر ایک قوت کے سپرد ہیں.نادان فلسفی ہر بات کا فیصلہ اپنی

Page 30

عقل خام سے چاہتا ہے.حالانکہ یہ بات غلط محض ہے تاریخی امور تو تاریخ ہی سے ثابت ہوں گے اور خواص الاشیاء کا تجربہ بڑوں تجربہ صحیحہ کے کیونکر لگ سکے گا.امور قیاسیہ کا پتہ عقل دے گی.اسی طرح پر متفرق طور پر الگ الگ ذرائع ہیں.انسان دھوکہ میں مبتلا ہو کر حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے سے تب ہی محروم ہو جاتا ہے جبکہ وہ ایک ہی چیز کو مختلف امور کی تکمیل کا ذریعہ قرار دے لیتا ہے.میں اس اُصول کی صداقت پر زیادہ کہنا ضروری نہیں سمجھتا کیو نکہ ذرا سے فکر سے یہ بات خوب سمجھ میں آجاتی ہے اور روزمرہ ہم ان باتوں کی سچائی دیکھتے ہیں.پس جب روح جسم سے مفارقت کرتی ہے یا تعلق پکڑتی ہے تو ان باتوں کا فیصلہ عقل سے نہیں ہو سکتا.اگر ایسا ہوتا تو فلسفی اور حکما ء ضلالت میں مبتلا نہ ہوتے.اسی طرح قبور کے ساتھ جو تعلق ارواح کا ہوتا ہے.یہ ایک صداقت تو ہے مگر اس کا پتہ دینا اس کی آنکھ کا کام نہیں.یشفی آنکھ کا کام ہے کہ وہ دکھلاتی ہے.اگر محض عقل سے اس کا پتہ لگانا چاہو تو کوئی عقل کا پہلا اتنا ہی بتائے کہ روح کا وجود بھی ہے یا نہیں ؟ ہزار اختلاف اس مسئلہ پر موجود ہیں اور ہزار ہا فلاسفر دہریہ مزاج موجود ہیں جو منکر ہیں.اگر تری عقل کا یہ کام تھا تو پھر اختلاف کا کیا کام ؟ کیونکہ جب آنکھ کا کام دیکھنا ہے تو میں نہیں کر سکتا کہ زید کی آنکھ تو مفید چیز کو دیکھے اور بکر کی ویسی ہی آنکھ اس سفید چیز کا ذائقہ بتلائے.میرا مطلب

Page 31

یہ ہے کہ نری عقل روح کا وجود بھی یقینی طور پر نہیں بتلا سکتی.چہ جائیکہ اس کی کیفیت اور تعلقات کا علم پیدا کر سکے.فلاسفر تو روح کو ایک سبز لکڑی کی طرح مانتے ہیں اور وہ روح فی الخارج ان کے نزدیک کوئی چیز ہی نہیں.یہ تفاسیر روح کے وجود اور اس کے تعلق وغیرہ کی چشمہ نبوت سے لی ہیں اور ترے عقل والے تو دعوی ہی نہیں کر سکتے اگر کہو کہ بعض فلاسفروں نے کچھ لکھا ہے تو یاد رکھو کہ انہوں نے منقولی طور پر چشمہ نبوت سے کچھ لے کر کہا ہے.پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ روح کے متعلق علوم چشمہ نبوت سے ملتے ہیں تو یہ امرکہ ارواح کا قبور کے ساتھ تعلق ہوتا ہے، اسی چشم سے دیکھنا چاہیئے اور کشفی آنکھ نے بتلایا ہے کہ اس تو وہ خاک سے روح کا ایک تعلق ہوتا ہے اور السّلامُ عَلَیكُم یا اَهلَ الْقُبُورِ کہنے سے جواب ملتا ہے.پیپس جو آدمی ان قومی سے کام سے جن سے کشف قبور ہو سکتا ہے وہ ان تعلقات کو دیکھ سکتا ہے.ہم ایک بات مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ایک نمک کی ڈلی اور ایک مصری کی ڈلی رکھی ہو.اب عقل محض ان پر کیا فتوی دے سکے گی.ہاں اگر ان کو چکھیں گے تو جدا گانہ مزوں سے معلوم ہو جاوے گا کہ یہ نمک ہے اور وہ مصری ہے لیکن اگر میں انسان ہی نہیں تو نمکین اور شیریں کا فیصلہ کوئی کیا کریگا یا اس سہارا کام صرف دلائل سے کبھی دنیا ہے.آفتاب کے چڑھنے ہیں

Page 32

۳۲ جیسے ایک اندھے کے انکار سے فرق نہیں آسکتا اور ایک مسلوب القوة کے طریق استدلال سے فائدہ نہ اٹھانے سے ان کا ابطال نہیں ہوسکتا.اسی طرح پر اگر کوئی شخص کشفی آنکھ نہیں رکھتا تو وہ اس تعلق ارواح کو کیونکر دیکھ سکتا ہے ، پس اس کے انکار سے محض اس لیے کہ وہ دیکھ نہیں سکتا.اس کا انکار جائز نہیں ہے ایسی باتوں کا پتہ نرمی عقل اور قیاس سے کچھ نہیں لگتا.اللہ تعالیٰ نے اس لیے انسان کو مختلف قومی دیئے ہیں اگر ایک ہی سب کام دیتا تو پھر اس قدر قومی کے عطا کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ بعض کا تعلق آنکھ سے ہے اور بعض کا کان سے بعض زبان سے متعلق ہیں اور بعض ناک سے.مختلف قسم کی جیتیں انسان رکھتا ہے.قبور کے ساتھ تعلق ارواح کے دیکھنے کے لیے کشفی قوت اور حسین کی ضرورت ہے اگر کوئی کہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے.تو وہ غلط کہتا ہے.انبیاء علیهم السلام کی ایک کثیر تعداد کروڑ یا اولیاء وصلحاء کا سلسلہ دنیا میں گزرا ہے اور مجاہدات کرنے والے بے شمار لوگ ہو گزرے ہیں اور وہ سب اس امر کی زندہ شہادت میں گو اس کی اصلیت اور تعلقات کی وجہ علی طور پر ہم معلوم کر سکیں یا نہ ، مگر نفس تعلق سے انکار نہیں ہوسکتا.غرض کشفی دلائل ان ساری باتوں کا فیصلہ کیسے دیتے ہیں.کان اگر نہ دیکھ سکیں تو ان کا کیا قصور ہا وہ اور قوت کا کام ہے.ہم اپنے ذاتی تجربہ سے گواہ ہیں کہ روح کا تعلق قبر کے ساتھ ضرور ہوتا ہے.انسان میت سے کلام کر سکتا ہے.روح کا تعلق آسمان سے

Page 33

بھی ہوتا ہے جہاں اس کیلئے ایک مقام ملتا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے.ہندوؤں کی کتابوں میں بھی اس کی گواہی موجود ہے یہ مسئلہ عام طور پر مستمر مسئلہ سے بجز اس فرقہ کے جو نفی بقائے روح کرتا ہے.الحکم جلد نمبر ۳ صفحه ۳۰۲ پرچه ۲۳ جنوری شهداء) (51499) یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ حضرت اقدس کو جو کہ جناب الہی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی برکت سے شنی آنکھیں بخشیں اور آسمانی نور سے بہرہ ور فرمایا تھا.اس لیے آپ نے ارواح کے تعلق قبور کا ذکر کرتے ہوئے.بیانگ دہل اعلان فرمایا کہ ہم اپنے ذاتی تجریہ سے گواہ میں نا مگر کتاب حکام اسلام " کے مصنف کو ایسا کوئی دعوی نہیں تھا نہ ہو سکتا تھا اس لیئے انہوں نے اپنی کتاب میں حضرت اقدس کے ملفوظات کا طویل اقتباس نقل کرتے ہوئے اس کے بعض الفاظ قلمزن فرما دیئے جو بلاشبہ حق پسندی کا ایک قابل تعریف نمونہ ہے اسے کاش وہ کتاب احکام اسلام کے اصل ماخذ کے برملا اظہار کی جرات بھی فرما سکتے !!! خلاصہ مندرجہ بالا تفصیلی جائزہ اور موازن سے متعد و متفائق ہمارے سامنے آتے ہی شاد ا عہد حاضر میں اسلامی تعلیمات کے حقیقی فلسفہ کی نقاب کشائی کا اصل سہرا

Page 34

۳۴ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علی السلام کے سر ہے.۲.حضرت اقدس کے قلم مبارک سے نکلا ہوا بلند پایہ لٹریچر علمی اعتبار ہی سے نہیں ادبی حیثیت سے بھی عدیم المثال ہے یہی وجہ ہے کہ بعض بڑے بڑے قادر الکلام ادیب و خطیب یا صاحب تصانیف کثیرہ بھی آپ کے بیان فرمودہ اسرار و غوامض کو اپنے الفاظ میں ادا ہی نہیں کر سکتے اور انہیں قدم قدم پر آپ ہی کے الفاظ، محاورات اور فقرات کو بے دریغ استعمال کرنا اور ان کا مسلسل سہارا لینا پڑتا ہے.ممکن ہے ذہن اسے علمی سرقہ کا نام دینے کی جسارت کرے مگر میں تو اسے مجبوری و معذوری ہی سے تعبیر کروں گا.والطريقة كلها ادب.- قرآن مجید کی آیات کا جو با محاورہ اور سلیس اردو ترجمہ حضرت اقدسش کے قلم مبارک سے نکلا ہے وہ قرآنی مفہوم کی صحیح صحیح عکاسی کرتا ہے جس پر کتاب احکام اسلام" شاہد عادل ہے لہذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اس کے لفظ لفظ کو حرز جان بنائیں تا غیرمسلم دنیا قرآن اور اسلام کی صحیح تصویر سے واقف ہو اور اس کے حسن و احسان پر دل و جان سے فریفتہ ہوکر محسن انسانیت فخر دو عالم شہنشاہ دو عالم خاتم الانبیاء محمدمصطفی صلی اللہ علیہ ولم کے قدموں میں جمع ہو جائے خدا کرے کہ وہ کو دن جلد جائے.آمین :: الفضل ۵ و ۷ مٹی سه ناشر )

Page 35

ایک غیر از جماعت مبق کا مکتوب گرامی مقاله نویسی کے نام داله الرد من الرحيم عزت مآب صاحب الفضيلة لائق صد احترام مولانا دوست محمد مصاه شاهد السلام عليكم اور مائی لاء کے الفضل میں آپ کی تحقیق بے نظیر دیکھنے کا موقع ملا جو یقیناً چونکا دینے والی بات تھی اور ایک بہت فاضل آدمی کی علمیت کا پول کھولنے کے لیے کافی تھی.اس سلسلے میں جوابی کارروائی کے طور پر ماہنامہ الرشید ساہیوال میں مولوی خالد محمود صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں تین اہم دلائل دینے گئے ہیں.• ان کا پہلا دعویٰ یہ ہے کہ یہ کہیں سے ثابت نہیں کہ خود مولانا تھانوی صاحب نے مرزا صاحب کی کتب سے سرقہ کیا ہے.ایک اور مصنف جس نے مرزا صاحب سے سرقہ کیا ہو اُن سے مولانا نے وہ مضامین لیے ہوں.۳.ایک اور مصنف جس سے مرزا صاحب نے مضامین لیے ہوں اس سے مولانا اشرف علی صاحب نے بھی لیے ہوں.(۱) جہاں تک مولوی خالد محمود صاحب کی پہلی دلیل کا تعلق ہے کہ یہ کہیں سے ثابت نہیں ہوتا کہ خود مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے بانی سلسلہ احمدیہ

Page 36

مرزا غلام احمد صاحب کی کتب سے براہ راست یہ مضامین لیے ہیں.بالکل بے وزن دلیل ہے کیونکہ وہ اسی مضمون میں یہ اعتراف کر بھی چکے ہیں کہ حضرة تھانوی چاہتے تو اس مؤلف پر سرقہ کا الزام بھی لگا سکتے تھے لیکن اونچے درجہ کے بزرگ ان باتوں میں پڑنا مناسب نہیں سمجھتے اگر وہ ایسا کرتے تو پھر بہت ممکن ہے کہ یہ بات نکلتی کہ مرزا غلام احمد نے احکام اسلام کے مصالح عقلیہ اصولاً جن کتابوں سے لیے میں اس نے ان کتابوں کا حوالہ کیوں نہیں دیا ؟ آخر کیوں ہے کیا یہ سب باتیں مرزا غلام احمد کی اپنی طبع زاد ہیں یا اس نے بھی بھی قابل غور ہے.ناقل ) ہمارے اکابر سے ہی لی ہیں با رماہنامہ الرشید صد ، اس عبارت سے تو اظہر من الشمس کی طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ مولانا اشرت علی صاحب کو یہ معلوم تھا کہ یہ عبارات مرزا صاحب کی کتب میں موجود ہیں چونکہ احکام اسلام" کے مقدمہ میں وہ اس بات کی کھلی تا شید کر رہے ہیں ، مولانا فرماتے ہیں.چنانچہ اس وقت بھی ایک ایسی ہی کتاب جس کو کسی صاحب قلم نے لکھا ہے مگر علم وفضل کی ھی کے سب تمام تر رطب و یابس وخت د مین سے پر ہے ایک دوست کی بھیجی ہوئی میرے پاس دیکھنے کی غرض سے آئی ہوئی رکھی ہے......احقر نے غائت بے تعصبی سے اس میں بہت سے مضامین ، کتاب مذکورہ بالا سے بھی جو کہ موصوف بصحت تھے لیے ہیں " سے مکمل طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شخص جس کی کتاب سے مولانا نے مضامین لیے میں یقیناً ان کے

Page 37

نزدیک وہ مرزا صاحب ہی تھے کیونکہ جو مستعار عبارت ان کی کتاب کی زمینیت بنی ہوئی ہیں وہ کسی اور کتاب میں (سوائے مرزا صاحب کی کتب کے ) تو بہر حال موجود نہیں.اس لیے لاریب اس امر میں تو شک کی گنجائش کہ مولانا اشرف علی صاحب نے مرزا صاحب کی تصنیفات سے کسب نہیں کیا ہے اور مولانا خالد محمود صاحب کا یہ دعوی " لیکن یہ بات کہ حضرت تھانوی نے یہ مضامین مرزا صاحب کی کتابوں سے لیے ہیں کسی طرح لائق پذیرائی نہیں بالکل بے جان ہو کہ رہ جاتا ہے.(۲) فاضل مضمون نگار کی دوسری قیاسی دلیل کہ " یہ بھی ممکن ہے کہ اس مصنف نے مرزا صاحب کی کتابوں سے یہ مضامین حوالہ دیئے بغیر لیے ہیں اور احکام اسلام کے موافق معقل ہونے پر اپنے خیالات سے اور مرزا صاحب کے اقتباسات سے ایک نئی کتاب مرتب کر دی ہو اور پھر حضرت تھانوی نے اس کتاب سے یہ مضا مین اپنی اس تالیف میں لے لیے ہوں کا ماہنامہ الرشید صفحه ۲۵ )...یہ تو باز دکھی کر ناک پکڑنے والی بات ہے.(۳) تعمیری دلیل جو مولوی خالد محمود صاحب نے دی ہے اس کی بنیا دکھی اس طرح بنائی ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تصنیف ہے بدل میں یہ منسا مین موجود ہیں (مولانا اشرف علی صاحب تھانوی بھی اپنی کتاب کے مقدمے میں اسی خیال کی تائید ان الفاظ میں کرتے ہیں.اس مبحث میں ہمارے

Page 38

WA ” زمانے سے کسی قدر پہلے زمانہ میں حضرت مولانا شاء اللہ جب اللہ البالغہ کھو چکے ہیں اور بہت زیادہ حصہ ان مضامین کا حجتہ البالغہ سے ماخوذ تھا جیسا کہ بعد اخذ کے حجۃ اللہ البالغہ کے دیکھنے سے معلوم ہوا مٹا ) اسی سے مرزا غلام احمد صاب نے مضامین لیے ہوں اور اُسی سے مولانا اشرف علی صاحب نے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ قیاس بھی محض قیاس ہی ہے کیونکہ فاضل مضمون نگار اپنے اس دعوی کی تائید میں بھی کوئی دلیل پیش نہ کر سکے کہ یہ الہ البالعہ کی علال عبارت مرزا صاحب نے بلا حوالہ اپنی کتاب میں درج کی ہے اس لیے مولوی خالد محمود صاحب کی یہ دلیل بھی متاثر نہ کرسکی.اس سلسلہ میں دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ اشرف علی صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ کا اردو ترجمہ اس کتاب کی تصنیف تک تو دیکھ ہی نہیں تھا کیونکہ وہ احکام اسلام کے مقدمہ میں حجتہ البالغہ کے بارے میں لکھتے ہیں اس مبحث میں ہمارے زمانہ سے کسی قدر پہلے زمانہ میں حضرت شاہ ولی اللہ مصاحب حجة اللہ اب انوکھ چکے ہیں سُنا ہے کہ ترجمہ اس کا بھی ہو چکا ہے.ز خط کشیدہ جملے سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اشرف علی صاحب محض سنی سنائی بات کر رہے میں یہ نہیں کہ رہے کہ میں نے وہ ترجمہ دیکھا ہے اور اس میں کبھی وہی عبارات بعینہ موجود ہیں جو کہ میں رطب ویالیس اسے پڑ کتاب سے لے رہا ہوں.جناب خالد محمود صاحب کا مضمون پڑھکر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ

Page 39

۳۹ ان کے دلائل بے وزن تھے اور وہ ہرگز یہ ثابت نہیں کر سکے کہ مولانا اشرف علی صاحب نے یہ عبارات مرزا غلام احمد صاحب کی کتب کی بجائے فلاں فلاں کتب سے لی ہیں.لاریب اس میں کوئی کلام نہیں کہ مولانا اشرف علی صاب نے بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سے اکتساب فیض کیا ہے کیونکہ ہر حال احکام اسلام کے درتی درق پر مرزا غلام احمد صاحب کی عبارات موجود ہیں.ایک اور الزام جو کہ آپ پر لگایا گیا ہے جس میں بھی مولوی خالد محمود صاحب نے بھر پور دجل اور قریب سے کام لیا ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ آپ نے احکام اسلام کے مقدمے کی تحریر کو جان بوجھ کر چھپا یا ہے جس میں تھانوی صاحب نے کسی مصنف کی کسی تصنیف سے استفادہ کرنے کا اقرار کیا ہے حالانکہ آپ کا یہ اعتراض تو مشروع سے تھا ہی نہیں کیونکہ الفضل" کے مذکورہ مقالے میں یہ جملہ "مولانا اشرف علی صاحب نے کہیں بھول کر بھی ان کے متعلق ساری کتاب میں ذکر نہیں فرمایا کہ کسی مصنف کی تصنیف سے لیے ہیں.الرشید عن ) موجود نہیں.ہاں البتہ اس مقالے کی تلخیص او مٹی کو لاہور رسالے میں شائع ہوئی تھی مگر اس میں بھی یہ جملہ اس طرح موجود نہیں بلکہ تھوڑے سے لفظی تغیر کے ساتھ مث لاہور" صہ میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے اور کہیں بھول کر بھی ان کے متعلق ساری کتاب میں ذکر نہیں فرمایا کہ یہ کسی مصنف کی کسی تصنیف سے لیے ہیں.لفظ کسی کو کسی میں تبدیل کر دینے سے مفہوم

Page 40

یکی تبدیلی ہو جاتا ہے.کیونکہ عقد میں صنف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ لفظ کے محقق کو اس بات کا علم ہے کہ مولانا اشرف علی صاحب کسی مصنف سے اکتساب فیض کا اقرار کر لیتے ہیں.آپ کا سوال بالکل بجا ہے کہ اس مصنف اور اس کی تصنیف کا نام بتایا جائے اور واقعتاً آپ کے مقالے میں اصل سوال بھی یہی تھا کہ مولانا اشرف علی صاحب نے اس مصنف اور اس کی تصنیف کا نام ظاہر کرنے سے کیوں گریز کیا ؟ آخریه آپ کی اس مایہ نا نہ تحریر سے...دیوبندی مکتبہ فکر میں زلزلہ آگیا ہے ماہنامہ الرشید" میں مولوی خالد محمود صاحب دیو بندی کی تحریر گذر گنہ بدتر از گناہ کی واضح مثال ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو اور آپ کی اس مایہ ناز تحقیق پر خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے آمین..خاکسار جمیل احمد عدیل ۲۳ جولائی ۱۹۸۳ء عبد الماجد خوشنویسی نه بوه لاہور آرٹ پریس - انار کلی لاہور

Page 41

مصطفے پر ترا بیحد ہو سلام اور رحیمت ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکا یا ہم نے کوئی دیں دین محمد سانہ پا یا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشان کھلائے یہ شمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہی نور اٹھو دیکھیو سُنایا ہم نے اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے تھک گئے ہم تو انہی باتوں کو کتنے کتنے ہر طرف دعوتوں کا تیر چلایا ہم نے ازمائش کیلئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے یو نہی غفلت کے لحافوں میں پٹے سوتے ہیں وہ نہیں جاگتے سو بارہ جگایا ہم نے جل رہے ہیں یہ بھی نینوں میں اور کینوں میں باز آتے نہیں ہر چند ہٹایا ہم نے آؤ لو گویا کہ نہیں نورِ خدا پاؤ گے ؟؟ لو تمھیں طور تستی کا بتایا ہم نے آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے سے یہ نور ملا نور ہمیشہ سے ہمیں ذاسے حق کی وجود اپنا عملایا ہم نے مصطفے پر ترا بیجد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ نور کیا بار خدا یا ہم نے

Page 41