Ahmadiyyat Ki Imtiazi Shan

Ahmadiyyat Ki Imtiazi Shan

احمدیت کی امتیازی شان

Author: Other Authors

Language: UR

UR
احمدیت یعنی حقیقی اسلام

مکرم ومحترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مورخ احمدیت نے جلسہ سالانہ ربوہ 1976ء کے موقع پر احمدیت کی امتیازی شان کے موضوع پر زبردست تقریر فرمائی جسے بعد میں کتابی شکل دی گئی اور اس موضوع کی افادیت کی وجہ سے اس کتابچہ کے متعدد ایڈیشن شائع کئے گئے ۔ مولانا موصوف نے اپنے مخصوص انداز میں اس تقریرکے مواد  میں جہاں اپنوں کے لئے ازدیاد ایمان کا سامان بہم پہنچایا وہاں اغیار کو تبلیغ حق کے لئے نہایت صائب راہ اپنائی ہےاور اس مختصر گنجائش میں بھی کافی زیادہ علمی و ذوقی نکات جمع کر دیئے ہیں۔


Book Content

Page 1

احمد نت امتیازی شان - 3 مولنا دوست محمد شاهد مورخ احمدیت

Page 2

احمدیت کھ امتیازی شان تقرير مولانا دوست محمد صاحب شاهد مورخ احمدیت بر موقع جلسه سالانه ۴۱۹۷۶) الناشئ احمد اکیڈیمی راوه

Page 3

با حیازت نظارت اشاعت لڑ پھر وتصنیف - ربوہ جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں.! نام کتاب : احمدیت کی امتیازی شان مولانا دوست محمد شاهد مصنف :- جمال الدین انجم ناشد مطبع قیمت باراول -: محمد محسن لاہور آرٹ پریس انار کلی لاہو تین روپے پچاس پیسے تاریخ اشاعت :- ۳۱ مئی ۹۸ ۱۵ جون ۹۵ ۲۸ جون ۹۸ ۱۵ جولائی ۱۹۸ دسمبر ۱۹۸

Page 4

فهرس صفحه عنوان ا پیار بنیادی عقائد ایمان بالله احمد نیت اور علی وجہ البصیرت دعوت الی اللہ زندہ خدا کے اسلامی تصور کے خلاف نظریے ایک ایمان افروز واقعہ قبولیت دعا پر زنده ایمان احمدیت اور علمی و عملی توحید یوم آخرت پر ایمان ۹ ایمان بالملائکه ۱۰ ایمان بالكتب ۱۱ پانچ پہلو ۱۲ ایمان با لایسل ۲۰ ۲۵

Page 5

۴۳ FY ۴۹ ۵۲ ۵ DA ۶۰ ۲۳ 72 ۶۹ عنوان ۱۳ عصمت انبیاء کے خلاف دلخراش افسانے ۱۴ احمدیت کے ذریعہ عصمت انبیاء کا قیام ۱۵ حضرت سلیمان اور ملکہ بلقیس کا اصل واقعہ احمدیت میں عشق محمدؐ اور غیرت محمدؐ کے پیشے ۱ بعثت مهدی موعود کا حقیقی مدعا الگ نام رکھنے اور جماعت بنانے کی وجہ ۱۹ عقائد احمدیت کی پہچان کا فیصلہ کن معیار ۲۰ جماعت احمدیہ کی روح ایمانی اور غیر مسلم دنیا ۲۱ عشق رسول کے منافی خیالات اور احمدیت ۲۲ مقام محمد عربی سے بے خبری حضرت بانی احمدیت بے مثال عاشق رسول کی حیثیت سے ۲۴ رو سنہ نبوی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ۲۵ حضرت امیر خسرو اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ۲۶ معراج محمدیت کا ایمان افروز تصور احمد ثیت میں حقیقی اسلام کی تصویر بن جانے کا حکم مستقبل کی نسبت عظیم الشان پیشگوئی

Page 6

بسم الله الحر الحية احمدیت کی امتیازی شان اگر بنیادی عقائد حضرات ! اگر بیسویں صدی کا کوئی قصدا توس مسلمان حق اپنے ہاتھ میں قرآنی مشعل لے کر اُٹھے اور پھر تحریک احمدیت کے عقائد و نظریات اور دوسری تمام مسلم دنیا کے خیالات و افکار کا تقابلی مطالع کرے تو ا ، کے سامنے احمدیت کی منفرد اور مثالی شان کے بے شمار پہلو آئیں گے.اس حقیقت کے ثبوت میں بہت سی آیات کر یہ پیش کی جاسکتی ہیں مگر میری اس تقریر کی بنیا د سورۃ بقرہ کے آخری رکوع کی ایک معرکتہ الآراء آیت ہے جس کو قدیم وجدید مفسرین نے بالاتفاق اسلامی عقائد کا ھیں اور بہترین خلاصہ قرار دیا ہے ے

Page 7

صاف دل کو کثرت اعجاز کی حجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار اللہ جلشانہ فرماتا ہے :- أمن الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلَّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَيْكَ الْمَصِيرُه (بقره : ۲۸۶) جو کچھ بھی اس رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم) پراس کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اُس پر وہ (خود بھی) ایمان رکھتا ہے اور (دوسرے) مومن بھی (ایمان رکھتے ہیں) رسب کے سب) اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم اُس کے رسولوں میں سے ایک (دوسرے) کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ ہم نے (اللہ کا حکم باشن لیا اور ہم اس کے

Page 8

( دل سے) فرمانبردار ہو چکے ہیں.یہ لوگ دعائیں کرتے ہیں کہ اسے ہمارے رب ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اور تیری ہی طرف (ہمیں) کوٹنا ہے " ایمان بالله اس آیت میں جن چار عقائد کو اسلام و ایمان کی بنیاد قرار دیا گیا ہے ان میں اول نمبر پرایمان باللہ اللہ پر ایمان ہے جو اسلام کا نقطہ مرکزی ہے اور اسی کے گرد سارے مسائل چکر لگاتے ہیں.قرآن مجید میں ہے :- قل هذه سَبِيلِي ادْعُوا إِلَى اللهِ تف عَلَى قف بصيرة انا وَ مَنِ اتَّبَعَى وَسُبْحَنَ الله وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ.(بوست: ۱۱۹) تو کہ یہ میرا طریق ہے کہ میں تو اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور جنہوں نے نیچے طور پر میری پیروی اختیار کی ہے ہمیں اور وہ سب بصیرت پر قائم ہیں اور اللہ (سب قسم کے نقائص سے) پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں.

Page 9

احمدیت علی وجہ البصیرت عوت الی اللہ وجی کے بعد مگر حضرات اعلی وجہ البصیرت دعوت الی اللہ، الہام اور دی تھی.: نہیں.اسی لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر إذا تركت الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهَى عَنِ المُنْكَرِ حُرِمَتْ بَرَكَةِ الْوَحْي " (جامع الصغير للسيوطي ( جلد ا من ٣ ) یعنی میری اُمت جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کر دے گی تو وحی کی برکت سے محروم ہو جائیگی.پھر فرمایا :- "ما أنا عَلَيْهِ وَاَصْحَابي نمایی (ترمذی ابواب الایمان ) اس حدیث نبوی میں یہ بتایا گیا ہے کہ تہتر فرقوں میں سے نجات یافتہ (یعنی خدا کے نزدیک مسلمان فرقہ ) وہ ہوگا جو میرے اور نیر سے اصحاب کے طریق پر علی وجہ البصیرت، اللہ کی طرف یکا یا جائے گا.

Page 10

شیر خدا حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رض سے منقول ہے کہ : لِلّهِ عَن وَجَلٌ بِهَا كُنُوزَ لَيْسَتْ مِنْ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ وَلكِنَّ بِهَا رِجَالَ مُؤمِنُونَ عَرَفوا اللهَ حَقٌّ مَعْرِفَتِهِ وَهُمْ أَنْصَارُ الْمَهْدِى علَيْهِ السَّلَامُ فِي أَخِرِ الزَّمَانِ " كفايت الطالب في مناقب على ابن ابي طالب ص۴۹۲۷۷۹۱ از الامام محمد بن يوسف شافعی المطبعة الحيدريه نجف ١٣٩٠ هـ ) الله عز و جل کے ہاں سونے چاندی کے علاوہ اور بھی خزانے ہیں اور وہ مرد مومن ہیں مین کو اللہ تعالیٰ کا حقیقی عرفان حاصل ہو گا اور وہ مہدی آخر الزمان علیہ السّلام کے انصار ہوں گے “ چنانچہ بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :- " ہم اس بات کے گواہ ہیں اور تمام دنیا کے سامنے اس شہادت کو ادا کرتے ہیں کہ ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا.ہم نے اُس خدا کی آواز شنی اور اُس کے پرزور بازو کے نشان دیکھے

Page 11

جس نے قرآن کو بھیجا.سو ہم یقین لائے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے.ہمارا دل اس یقین سے ایسا پُر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے.سو ہم بصیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں.(کتاب البریہ مثلا ) پھر فرمایا :- " ۶۵ مجھے بھیجا گیا ہے تا میں ثابت کروں کہ ایک اسلام ہی ہے جو زندہ مذہب ہے.....آؤ ا ا میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہانی ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے ؟ وہ اسلام کے ساتھ ہے.اسلام اس وقت موسی کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے.وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہو گیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کر رہا ہے." (ضمیمہ انجام آتھم صل ) ے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے یہ ثمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے زندہ خدا کے اسلامی تصور کے خلاف نظریے زندہ خدا کے اس شاندار اسلامی تصور کے مقابل یہ نظریہ اختراع

Page 12

کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک خدا تعالیٰ سے براہ راست کوئی علم حاصل نہیں ہو سکتا حتی کہ سیتی خواب تک نہیں آسکتی کہ احمد به تحریک ۳ از ملک محمد جعفر خان) اور جن بزرگان سلف نے الہام و کشف کا دھوئی رکیا وہ عملاً منکر ختم نبوت تھے " ختم نبوت اور تاریک احمدیت از پرویز بلکہ ایک جماعت کے بانی نے اپنی جماعت کا تعارف ہی ان الفاظ میں کرایا کہ : رو دعووں اور خوابوں اور کشوت و کرامات شخصی تقدس کے تذکروں سے ہماری تحریک بالکل پاک ہے." (شہادت حق ص از مولانا مودودی) شیاء میں لاہور کا مشہور جلسہ اعظم مذاہب منعقد ہوا تو اس میں بانی جماعت احمدیہ نے زندہ مذہب اسلام کی تو جانی کا حق ادا کر دیا جبکہ اہلحدیث عالم جناب مولوی ابو سعید محمد مبین صاحب بٹالوی نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ :.امت محمدیہ کے بزرگ ختم ہو چکے.بے شک وہ وارث انبیاء ، ولی تھے، وہ کرامت رکھتے اور برکات

Page 13

رکھتے تھے لیکن وہ نظر نہیں آتے.زیر زمین ہو گئے.آج اسلام اُن کرامت والوں سے خالی ہے اور ہم کو گزشتہ اخبار کی طرف حوالہ کرنا پڑتا ہے تم نہیں دکھا سکتے.( رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب م۱۳ طبع دوم ) ص ے جس دیں کا صرف قصوں پہ سارا مدار ہے وہ دیں نہیں ہے ایک فسانہ گزار ہے پے دیں وہی کہ جس کا خدا آپ ہو عیاں خود اپنی قدرتوں سے دکھا دے کہ ہے کہاں ایک ایمان افروز واقعه حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی و جمالی بانسوی تحریه فرماتے ہیں کہ :- ایک صوفی سجادہ نشین نے مجھے خط لکھا کہ مجھے کشف میں بڑا تجربہ ہے.اگر مرزا صاحب کو بہ طاقت ہے کہ وہ اہل قبور سے باتیں کر اسکیں تو وہ میں قبر کو نئیں کہوں اس سے باتیں کر سکے اس کا حال دریافت کریں دار بتا دیں ورنہ میں نبت لا دوں گا.میں نے حضرت

Page 14

اقدس علیہ السلام سے عرض کیا اور وہ خط دکھایا.آپ اس خط کو ہاتھ میں لے کر بہت ہنسے اور فرمایا.جو حتی و قیوم خدا سے روز باتیں کرتا ہے اُس کو مردوں سے باتیں کرنے کی کیا غرض ہے یا یہ فرمایا کہ کیا مطلب ہے.مردوں سے مُردے باتیں کریں اور زندوں سے زندہے.ہم زندہ ہیں، ہمارا مذہب اسلام زندہ ہے.ہمارا خدا حی و قیوم، زندہ خدا ہے " ( تذكرة المهدی حصہ دوم من ۳۹۳) قبولیت دعا پر زنده ایمان زندہ خدا کے اس انقلابی تصور کے نتیجہ میں قبولیت دعا یہ ایک زندہ ایمان پیدا ہوتا ہے.یہ زندہ ایمان اس زمانہ میں اپنے ہزاروں ناقابل تردید روحانی مشاہدات و تجربات کو پیش کر کے حضرت بانی جماعت احمدیہ ہی نے پیدا کیا.آپ کو الهاماً بتایا گیا کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی سے ہوگا." ملفوظات جلد و من) حضور کی اکثر تصانیف مسئلہ دعا کی حقانیت سے لرزہ ہیں

Page 15

۱۲ بالخصوص "بركات الدعا اس موضوع پر حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے میں میں علیگڑھ تحریک کے بانی جناب سرسید مرحوم کے اس خیال کا رد کیا گیا ہے کہ دعا عبادت ضرور ہے مگر عملی طور پر اس کا ہر گز کوئی فائدہ نہیں ہے.آپ نے اس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ منصرف اولیاء امت کے عجائب و کرامات کا اصل منبع اور سر خیمہ دعا ہی ہے بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب عظیم بھی دعاؤں ہی کے نتیجہ میں رونما ہوا تھا چنانچہ فرماتے ہیں :- وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا و کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں ایک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے شنا کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا.وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اتنی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللھم

Page 16

۱۳ صل وسلم وبارك عليه واله بِعَدَدِهم؟ وغمه وحزنه لهذهِ الأُمَّةِ واَنْزِلْ عَلَيْهِ الْوَار رَحمَتِكَ إِلَى الْأَبَدِ " (بركات الدعا من ) اس سلسلہ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ نے پوری غیرمسلم دنیا کو یہ چیلینج بھی دیا :.w میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اسلام ایسے بدیہی طور پر سچا ہے کہ اگر تمام کفار روئے زمین، دعا کرنے کے لئے ایک طرف کھڑے ہوں اور ایک طرف میں اکیلا اپنے خدا کی جناب میں کسی امر کے لئے رجوع کروں تو خدا میری ہی تائید کرے گا....اس لئے کہ میں اس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں “ ) چشمہ معرفت ص ۳۲ - ۳۲۵) قبولیت دعا سے متعلق آپ کی تحریرات اتنی زور دار اور اثر انگیز ہیں کہ بر صغیر پاک و ہند کے نامور ادیب مصور فلم علامہ راشد الخیری نے اپنے ایک رسالہ کے دین انچے میں ان کا خاص طور پر تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ :

Page 17

IN " ” میری نگاہ سے اُس گروہ کی تصانیف جو دعا کا منکر ہے اورہ اس جماعت کی کتابیں جو دعا پر یقین رکھتی ہے دونوں گزری ہیں.اس سلسلہ میں سرسید علیہ الرحمہ اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دلائل خصوصیت سے قابل توجہ ہیں.متقدمین نے بھی اس مسئلہ پر کافی بحث کی ہے.خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ان پاک روحوں پر جو اس میدان کے تمام خس و خاشاک کو انبیا صاف و پاک کرگئیں کہ صداقت کی روشنی چاروں طرف جگمگا رہی ہے ، دعائیں مطلع پنجم ) ایک بار شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سرمحمد اقبال بالقابہ نے ایک نجی مجلس میں فرمایا :- W دعا کے بارے میں سرسید احمد خان اور میرا خضاب نے انتہا کر دی.سید احمد خان پر تو علت و معلول خیال راس در جه غالب تھا کہ اس وقت کے علوم طبعی کے زیر اثر انہوں نے نیچر کا جو تصور قائم کیا اس کی رو سے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ حوادث کی ترتیب میں کوئی رد و بدل ہو سکے...یوں سرسید کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا

Page 18

کہ دعا سے بجز تسکین قلب اور کچھ حاصل نہیں ہوتا.دوسری طرف مرزا صاحب تھے جن کا کہنا تھا کہ دعا سے سب کچھ ممکن ہے یہ جناب سید نذیر لکھتے ہیں :- مین شان انا احب جو اس نعت گو کے رسید نے دعا سے انکار کیا اور مرزا صاحب نے بات بات پر دعا کی اقبال کے حضور " جز داول - ۳۵۰ - ص ۳۹ - ص ۳۹ مطبوعہ اقبال اکیڈیمی کراچی پ جولائی ۱۹۷۱ء) احمدیت اور علمی و عملی توحید حضرات ! ! علی وجہ البصیرت دعوت کے لئے ذات باری کو نقص سے پاک اور ہر خوبی کا جامع ماننا اور شرک کی باریک ہوں سے بھی بچنا ضروری ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وسبحن اللهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينه سو الحمد لله الحم الحمد لله !! احمدیت خدا کی کسی صفت کو معطل قرار نہیں دیتی.اس کا عقیدہ ہے کہ خدا آسمان و زمین رویکہ ہر جگہ موجود ہے.پچھٹے یا ساتویں آسمان میں محمد و دنہیں.اسکے

Page 19

14 نزدیک عرش کوئی مادی چیز اور مخلوق نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے تنزیہ اور تقدس کے وراء الوراء مقام کا نام ہے.چشمہ معرفت منه) اسے یہ باطل نظر یہ ایک لمحہ کے لئے بھی گوارا نہیں کہ معاذ اللہ خدا تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے.(فتاوی رشیدیہ حنث - کامل مبتوب ناشر محمد سعید اینڈ سنز قرآن محل روڈ ، کراچی) بلا شبہ اللہ قادر ہے مگر اپنے تقدس اور برحق وعدوں کے خلاف نہیں کرتا.احمدیت صرف اللہ تعالی ہی کو حی و قیوم نعیب ان مرد سے زندہ کرنے والا اور پرندوں اور دوسری مخلوق کا خالق یقین کورتی ہے اور کسی کو ان صفات اللہ سے متصف سمجھنا توحید خالص کے سراسر منافی سمجھتی ہے.اسی طرح جدا گانہ قومیت کا معالق ، پروردگار شن اور رب معانی وغیرہ القاب و خطابات کا بندوں کے لئے استعمال بھی اس کی نگاہ میں خلاف توحید ہے.چیشان یکم نومبر ۶۱۹۷۶ متر ) ایک عقیدہ مسجد تعظیمی کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ غیرانہ کواحتراماً ވ سجدہ کیا جائے.اس تخیل کی بنیاد اسجد و الأدمر کے حکم پر رکھی گئی ہے (تاریخ الا نبیاء من از مولانا قاری احمد - ناشر محمد سعید قرآن محل کراچی ، حالانکہ عربی میں سجدہ کے معنی اطاعت کے بھی ہیں.اور اگر

Page 20

ظاہری سجدہ ہی مراد لیا جائے تو اس کے معنے یہ ہو سکتے ہیں کہ تخلیق آدم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر جاؤ.(تفسیر کبر جلد ص۳۲۲) حضرت علامہ ابن کثیر نے سورۃ یوسف کی آیت خَرُّوا لَهُ مُجد کی تشریح میں لکھا ہے کہ حضرت یعقوب اور اُن کے گیارہ بیٹے یوسف علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے.(تفسیر ابن کثیر (اردو) پارہ ۱۳ ناشر : نورمحمد کارخانه تجارت کتب آرام باغ کراچی) کشمیر کے ایک صاحب جو سجدہ تعظیمی کے قائل تھے شروع نشاہ میں قادیان آئے اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے اظہارِ محبت کے لئے اس کو ظاہری شکل میں پورا کرنا چاہا مگر حضور نے نہایت جلال بھرے انداز میں اُن کو اس حرکت سے منع کیا اور فرمایا :- یہ مشرکانہ باتیں ہیں ان سے پر ہیز کرنا چاہیئے.“ البدر ۱۸ار فروری ۶۱۹۰۵ بحوالہ ملفوظات حضرت مسیح موعود جلدی م۲۹) ص بانی سلسلہ احمدیہ کا حلفیہ بیان ہے کہ :: یکر کے جلشانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا خدا اور رسول پر وہ یقین ہے کہ اگر اس زمانہ کے تمام ایما نوں کو ترازو کے ایک پتہ میں رکھا جائے اور میرا ایمان دوسرے

Page 21

پر ہیں، تو بفضلہ تعالیٰ یہی پلہ بھاری ہوگا یہ (کرامات الصادقین مت ) یوم آخرت پر ایمان قرآن مجید کی رو سے ایمان باللہ کا لازمی تقاضا کو ہم آخرت پر ایمان ہے.سو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں :- " ہم ایمان لاتے ہیں کہ...بحشر اجساد حق ، او روز حساب حق ، اور جنت حق ، اور جہنم حتی ہے." ایام الصلح من اس سلسلہ میں جماعت احمد بعض مخصوص نظریات رکھتی ہے مثلاً حضرت مصلح موعودہؓ فرماتے ہیں کہ : ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر وہ شخص جو صداقت کے سمجھنے سے گریز کرتا ہے اور یہ کوشش کرتا ہے کہ صداقت اُس کے کان میں نہ پڑے تاکہ اُسے مانتی نہ پڑے یا جس پر حجت تمام ہو جائے مگرہ پھر بھی ایمان نہ لائے خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل مواخذہ ہے لیکن ایسے شخص کو بھی اگر خدا تعالیٰ چاہے تو معاف کر سکتا ہے.

Page 22

اس کی رحمت کی تقسیم ہمارے ہاتھ میں نہیں.ایک غلام اپنے آقا کو سخاوت سے باز نہیں رکھ سکتا خدا تعالیٰ ہمارا آقا ہے اور ہمارا بادشاہ ہے اور ہمارا خالق ہے اور ہمارا مالک ہے.اگر اس کی حکمت اور اس کا علم اور اس کی رحمت کسی ایسے شخص کو بھی بخشنا چاہے جس کی عام حالات کے مطابق بخشش ناممکن نظر آتی ہو تو ہم کون ہیں جو اس کے ہاتھ کو روکیں اور ہم کون ہیں جو اس کو بخشش نجات کے متعلق تو احمدیت کا عقیدہ اتنا وسیع ہے کہ اس کی وجہ سے بعض مولویوں نے احمدیوں پر کفر کا فتوی لگایا ہے.یعنی ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کوئی انسان بھی دائمی عذاب میں مبتلا نہیں ہو گا نہ ہی مومن نہ کا فر کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ـمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَی میری رحمت نے رحْمَتِي ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.اور فرماتا ہے کہ اے هاوية کافر اور دوزخ کی آپس کی نسبت ایسی ہی

Page 23

ہو گی جیسے عورت اور اس کے بچہ کی ہوتی ہے اور پھر فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا ليعبدونه (ذاریات ) تمام جن و انس کوئیں نے اپنا عبد بنانے کے پیدا کیا ہے.ان اور ایسی ہی بہت سی آیات کے ہوتے ہوئے ہم کیونکر مان سکتے ہیں کہ خدا تعالی کی رحمت آخر دوزخیوں کو نہیں ڈھانپ لے گی اور دوزخی جہنم کے رحم سے کبھی بھی خارج نہیں ہو گا اور وہ بندے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنا عبد بنانے کے لئے پیدا کیا تھا وہ دائمی طور پر شیطان کے عہد رہیں گے اور خدا تعالیٰ کے عبد نہیں نہیں گے اور خدا تعالیٰ کی محبت بھری آواز کبھی بھی اُن کو مخاطب کر کے یہ نہیں کہے گی که فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي أو میرے بندوں میں داخل ہو کر میری جنت میں داخل ( احمدیت کا پیغا م ص ۱۳) ہو جاؤ" ایمان بالملائکہ عقائد اسلامی کا دوسرا رکن ایمان بالملامه ، یعنی فرشتوں پر

Page 24

۲۱ ایمان ہے.افسوس یہ اہم رکن بھی افراط و تفریط کا شکار ہوچکا ہے بلکہ مسخ کر دیا گیا ہے.ایک طرف تو مدت سے یہ خیال پھیلایا جا رہا ہے کہ ملائکہ فرضی اور وہمی وجود ہیں جن کا وجود سرسید مرحوم کے الفاظ میں برہان عقلی یا قرآن مجید اور احادیث نبوی سے ثابت نہیں " ( مقالات سرسید حصہ سوم صد مرتبه مولا نا شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پیتی.ناشر: - توقی ادب کلب روڈ لاہور ).دوسری طرف راس عقیدہ نے دماغوں کو متاثر کر لیا ہے کہ فرشتے گناہ بھی کر لیتے ہیں.ابلیس، جس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور راندہ درگاہ الہی ہوا ، فرشتوں کا سردار تھا.(تفسیر مراح لسید جزء اول ملا از اشیخ محمد نووی سید العلماء حجاز، ناشر - دار الكتب العربية الكبرى) قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ ابلیس نے ساتوں آسمان پر ایک ایک ہزار سال تک عبادت کی.پھر چھ لاکھ برس کھڑا ہو کر گری داری کر تا رہا.بعد ازاں بہشت میں ایک منبر نور کا رکھوا کر درس و تدریس اور و حفظ و نصیحت کرتا رہا اور جبرائیل و میکائیل، اسرافیل و عزرائیل اور سب فرشتے اس منبر کے نیچے بیٹھ کر وعظ سنا کرتے تھے.ابلیس کا یہ سلسلہ تدریس و تعلیم بہشت میں ہزار برس تک

Page 25

۲۲ جاری رہا اور لکھا ہے کہ ایک دن اُس جہان کا اس جہان کے ہزار سال کے برابر ہے.(قصص الانبیاء ص ۱۴.ناشر :- ملک بشیر احمد تاجر کتب کشمیری بازار لاہور ) تفسیر احسن التفاسیر میں ہاروت و ماروت نامی دو فرشتوں کا یہ قصہ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ میں سے بڑے عابد دو فرشتے جن کا نام ہاروت ماروت تھا، چھانٹے اور انسان کی سب خواہشیں اُن میں پیدا کر کے گوفہ کی سر زمین پر جو ایک جگہ بابل ہے وہاں ان کو بھیجا اور وہاں وہ ایک عورت زہرہ نامی پارسن کی الفت میں مبتلا ہو کر اس کے کہنے سے شراب پی گئے اور شراب....میں زنا کے علاوہ شرک اور قتل نفس کا گناہ بھی اُن سے سرنہ و ہوا اور ان گناہوں کی سزائیں قیامت تک اُن پر طرح طرح کا عذاب نازل ہوتا رہے گا.( جلد احنا نل ا مولفہ مولانا احمد حسن صاحب محدث دہلوی.ناشر: المكتبة (السلفیہ مگرا حمد ثیت کا مسلک فرشتوں کی نسبت عین اسلامی تعلیم کے مطابق اور معتدل و متوازن ہے.اس کے نزدیک یہ سب کہانیاں وضعی یا اسرائیلیات کی قبیل سے ہیں.اللہ تعالے صاف فرماتا ہے :.

Page 26

۲۳ لا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ.(تحریم غ) فرشتے خدائی احکام کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور جن کاموں کا ان کو حکم دیا جاتا ہے انہیں وہ بجا لاتے ہیں.حضر بانی اسلسلہ احمد یا در حضر مصلح موعود کے روحانی مشاہدات ! حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے فرشتوں کی ضرورت، ان کے وجود کے دلائل، ان کے اقسام اور ان کے فرائض اور اثرات پر اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں ایسی معقول، مدلل اور بصیرت افروز روشنی ڈالی ہے کہ عہد نبوی کے بعد گزشتہ تیرہ صدیوں میں اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی.ایک مقام پر اپنے تجربہ و مشاہدہ کی بناء پر تحریر فرماتے ہیں کہ :.و تجھے قسم اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جو مفتری ، کذاب کو بغیر دلیل اور معذب کرنے کے نہیں چھوڑتا کہ میں اس بیان میں صادق ہوں کہ

Page 27

بار ہا عالم کشف میں میں نے ملائک کو دیکھا اور ان سے بعض علوم اخذ کئے ہیں اور ان سے گزشتہ یا آنے والی خبریں معلوم کی ہیں جو مطابق واقعہ تھیں.پھر میں کیونکر کہوں کہ فرشتے کسی کو نظر نہیں آ سکتے.بلاشبہ نظر آسکتے ہیں مگر اور آنکھوں سے.اور جیسے یہ لوگ ان باتوں پر ہنستے ہیں عارف ان کی حالتوں پر روتے آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۰۱۸ ۱۸ حاشیه ) ہیں.راسی طرح حضرت سیدنا المصلح الموعود نے فرمایا :- و ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے فرشتوں پر پورا ایمان رکھتے ہیں بلکہ احمدیت سے جو برکات ہمیں حاصل ہوئی ہیں ان کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ہم فرشتوں پر ایمان لاتے ہیں بلکہ ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ فرشتوں کے ساتھ قرآن کریم کی مدد سے تعلق بھی پیدا کیا جا سکتا ہے اور ان سے علوم روحانیہ بھی سیکھے جاسکتے ہیں.“ پھر فرمایا :- خود راقم الحروف نے کئی علوم فرشتوں سے سیکھے.مجھے ایک دفعہ ایک فرشتہ نے سورۃ فاتحہ کی تفص

Page 28

۲۵ پڑھائی اور اُس وقت سے لے کر اس وقت تک مورد فاتحہ کے اس قدر مطالب مجھ پر کھلے ہیں کہ ان کی بعد ہی کوئی نہیں اور میرا دعویٰ ہے کہ کسی مذہب و ملت کا آدمی روحانی علوم میں سے کسی مضمون کے متعلق بھی جو کچھ اپنی ساری کتاب میں سے نکال سکتا ہے اُس سے بڑھ کر مضامین خدا تعالیٰ کے فضل سے میں صرف سورہ فاتحہ سے نکال سکتا ہوں “ (احمدیت کا پیغام مث ) ایمان بالكتب ایمانیات کا تیسرار کن کتب سماویہ میں جن میں قرآن مجید کو اصل حیثیت حاصل ہے کیونکہ دوسری کتابوں پر ایمان صرف اصولی طور پر ہے ورنہ وہ نہ موجود ہیں اور نہ اُن پر موجود شکل میں عمل کرتے کا حکم ہے.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی آسمانی کتاب نہیں مگر قرآن - بج قرآن کے آسمان کے نیچے اور کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن ہمیں ہدایت دے سکے.خدا تک پہنچنے کے تمام دروازے بند ہیں مگر ایک دروازہ جو قرآن نے تھولا ہے اور جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں :-

Page 29

۲۶ "اسلام اس بات کا نام ہے کہ قرآن شریف کی اتباع سے خدا کو راضی کیا جائے.اسی لئے آپ فرماتے ہیں ے ( ملفوظات جلد ص۲۱۵ ) دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ مچھوں قرآن کے گرد گھوموں کعبہ مرامی ہے تحریک احمدیت نے قرآن مجید کے حسین اور دلکش چہرہ کو جس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور قلوب عالم میں اس کی عظمت کا سکہ جما دیا ہے میں اس وقت نمونہ اس کے صرف پانچ پہلوؤں پر روشنی ڈالوں گا.اول :- احمدیت کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ الحمد سے لیکر والناس تک سارا قرآن واجب العمل ہے.چنانچہ حضرت بانی احمدیت کا ارشاد ہے کہ :- ” جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہر گز در اخل نہیں ہو گا.سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریعت کا بھی تم پر گوا ہی نہ دے تا تم اس کے لئے پکڑے نہ جاؤ دکشتی نوح )

Page 30

۲۷ پھر فرماتے ہیں کہ :.کیسی کو مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا منسوخ کر سکے " پھر فرمایا : اشتهارات حضرت مسیح موعود جلد ۳ مش ۵۹) " قرآن کریم وہ یقینی او قطعی کلام الہی ہے جس میں انسان کا ایک نقطہ یا ایک شعشہ تک دخل نہیں اور وہ اپنے الفاظ اور معانی کے ساتھ خدائے تعالیٰ کا ہی کلام ہے.....اس کی ایک ایک آیت اعلیٰ درجہ کا تو اتر اپنے اندر رکھتی ہے.وہ وحی متلو ہے جس کے حرف حرف گئے ہوئے ہیں.وہ باعث اپنے اعجاز کے بھی تبدیل اور تحریف سے محفوظ ہے کہ (ازالہ اوہام ص۵۲) نیز فرمایا :- وو قرآن مجید قائم الطلب ہے.اس میں اب ایک شعشہ یا ایک نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں “ لیکچر لدخیا نہ مرا ) افسوس اسلامی لڑیچر میں صدیوں سے زور شور کے ساتھ

Page 31

۲۸ یہ عقیدہ پیش کیا جا رہا ہے کہ قرآن میں بہت سی آیات منسوخ ہو چکی ہیں.لبنان (اللہ تعالٰی اس کے مظلوم مسلمانوں کی حفاظت فرمائے ) کے ایک ڈاکٹر صبحی صالح نے اپنی کتاب علوم القرآن" میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ قائلین نسخ نے یہاں تک مبالغہ سے کام لیا ہے کہ عام آیات کو بھی منسوخات کے زمرہ میں شامل کر لیا ہے.ڈاکٹر بھی قائلین نسخ کی بعض منسوخ" آیات کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :- " اس میں شبہ نہیں کہ ایسی آیات کے نسخ کا تصور بھی بارگاہ ربانی میں گستاخی اور شور ادبی کا موجب ہے " ( علوم القرآن (اردو ص.ناشر ، ملک برادرز کار خانه بازار فیصل آباد ۶۱۹۶۶ احباب کرام ! آپ حیران ہوں گے کہ ڈاکٹر صبی جنوں نے اس عقیدہ پر زبردست تنقید کی ہے نہ صرف خود بھی ناسخ و منسوخ کے پر جوش مبلغ ہیں بلکہ اس کتاب میں انہوں نے شکوہ فرمایا ہے کہ اگرچہ مفسرین نے بہت سی آیات بلا دلیل منسوخ قرار دے دیں مگر بعض اہل اسلام محققین نے جلد بازی سے کام لے کر نسخ کا بالکل ہی کیوں انکار کر دیا ہے ؟

Page 32

۲۹ " مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ " میں آیات قرآنی کے نسخ کا ذکر تک نہیں بلکہ موسوی شریعت کے منسوخ ہونے کا تذکرہ کیا گیا ہے؟ جس کے خلاف یہودی تیرہ سو سال سے محبتم احتجاج بنے ہوئے ہیں مگر ڈاکٹر صبحی صاحب کو سیخ قرآن اس درجہ محبوب ہے کہ انہوں نے محض شکوہ کرنے تک ہی اکتفا نہیں فرما یا یک نسخ فی القرآن کا انکار کرنے والوں کو مثیل یہود تک کہہ ڈالا ہے.(علوم القرآن (اردو) صاح) غالباً وہ چاہتے ہیں کہ جب یہودی اپنی شریعت کی منسوخی پر ناراض ہیں تو مسلمانوں کو خود ہی کتاب اللہ کے منسوخ ہونے کا اعلان کر دینا چاہیے !! این چه بوالعجبی است ؟ دوم :- احمدیت نے اس نظریہ کو پیش کر کے بتائے تفسیر میں انقلاب عظیم بر پا کر دیا ہے کہ قرآن مجید خدا تعالیٰ کی فعلی کتاب ہے جس میں ایک خارق عادت اور محکم تر تیب کا حیرت انگیز نظام پایا جاتا ہے.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں :.اگر تمام قرآن اول سے آخر تک پڑھ جاؤ تو بجر چند مقامات کے جو بطور شاذو نادر کے ہیں باقی تمام

Page 33

قرآنی مقامات کو ظاہری ترتیب کی ایک زریں زنجیر پاؤ گے....قرآن کریم ظاہری ترتیب کا اشد التزام کھتا ہے اور ایک بڑا حصہ قرآنی فصاحت اسی سے متعلق ہے." نیز فرماتے ہیں :." قرآن شریف کی ظاہری ترتیب پر پوشخص دلی یقین رکھتا ہے اس پر صدہا معارفف کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور صدر با بار یک در باریک نکات تک پہنچنے کے لئے یہ ترتیب اس کو راہنما ہو جاتی ہے اور قرآن دانی کی ایک کنجی اس کے ہاتھ میں آجاتی ہے.گویا ترتیب ظاہری کے نشانوں سے قرآن خود اسے بتاتا جاتا ہے کہ دیکھو میرے اندر یہ خزانے ہیں لیکن جو شخص قرآن کی ظاہری ترتیب سے منکر ہے وہ بلاشبہ قرآن کے باطنی معارف سے بھی بے نصیب ہے.“ تریاق القلوب ملا حاشیه ) اس عارفانہ نظریہ کے برعکس جناب سید ابو الاعلیٰ صاحب مود و دی بانی جماعت اسلامی نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن" کے

Page 34

FI دیا چہ میں اپنا یہ نقطہ خیال پیش فرمایا ہے کہ :.اس (قرآن.ناقل ) میں نہ تصنیفی ترتیب پائی جاتی ہے اور نہ کتابی اسلوب یا (تفہیم القرآن جلد اصل ۲ طبع دوم) سوم : بعض قدیم بزرگوں نے سنت رسول کو قرآن پر قاضی ٹھرایا ہے."کتاب الميزان الجزء الاول من از السيد عبد الوهاب شعرانی مطبوعه ۱۳۵۲ هـ ) اور زمانہ حال کے بعض فاضل علماء کا عقیدہ ہے کہ :- حدیث صحیح اپنے منصب و خدمت تشریح وتفسیر میں قرآن سے مقدم ہے.اشاعة السنه جلد ۱۳ نمبر ا ط ۲ حاشیه ) مگر احمدی علم کلام میں قرآن مجید کو سنت و حدیث سے مقدم اور ہدایت کا اولین اور بنیادی ماخذ اور سن تسلیم کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی واضح تعلیم ہے کہ :.تم قرآن کو تدبیر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو.کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا الخَيرُ كُلَّهُ فِي الْقُرآنِ کہ

Page 35

۳۲ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.یہی بات پہنچ ہے.افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے (کشتی نوح (۲) ہیں.“ چہارم : احمدیت کا ایمان بالقرآن کے سلسلہ میں جو تھا اہم نظر یہ یہ ہے کہ جنت اور وصال الہی کے لئے قرآن شریف کی اتباع ضروری ہے جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے شہرہ آفاق لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی“ میں فرماتے ہیں :.و یکمیں سامعین کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ خدا جس کے ملنے میں انسان کی نجات اور دائمی خوشحالی ہے وہ بحجره قرآن شریف کی پیروی کے ہر گز نہیں مل سکتا یا ( اسلامی اصول کی فلاسفی ص ۱۲) یقینا سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر انکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کانوں کے سن سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں اسی طرح یہ بھی نہیں کہ بغیر قرآن کے اُس پیارے محبوب کا منہ دیکھ سکیں " " نیز فرمایا :- (اسلامی اصول کی فلاسفی ص۱۲۳)

Page 36

۳۳ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں.“ (کشتی نوح صلات طبع اول ) اب زیرا دنیائے احمدیت سے با ہر قدم رکھئے تومعلوم ہوگا کہ قرآن مجید کی تعلیم کو متروک و مجور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.میری مراد ان جعلی اور خود تراشیدہ وظائف اور اذکار سے ہے جو خدا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل کے نام پر اختراع کئے گئے ہیں اور جن کے پڑھنے پر جنت کے بڑے سے بڑے مدارج کی ضمانت دی گئی ہے.دعائے ماثورہ کا ثواب مثلاً دعائے ماثورہ المعروف بر گنجیته درحمت) کی نسبت لکھا ہے کہ حضرت جبرئیل نے آنحضرت کو خبر دی کہ : اگر کسی شخص نے تمام عمر میں سجدہ نہ کیا ہو اور اس دعا کو پڑھے تو تو اب اس کو اسی ہزار شہیدوں اور

Page 37

۳۴ صدیقوں کا ، لوح قلم کا اور عرش اور کرسی کا اور رسات زمین اور سات آسمان کا اور آٹھ جنتوں کا دیتا ہے اور جو کوئی تمام عمر میں ایک ہی مرتبہ پڑھے ، نظر سے دیکھے پائنے تو ثواب حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور موٹی اور نوح نبی اللہ اور عیسی روح الله اور یعقوب علیہ اسلام اور بہتر جبرائیل اور بہتر میکائیل اور بہتر عزرائیل کا دیتا ہے اور یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اور اس کے ماں باپ کو بخشوں گا اور یا محمدصلی اللہ علیہ ولم جس گھر میں یہ دعا ہوئے تو ہزار گھر تک برکت ہو وے اور آگ سے امن میں رہے گا اور اس کے پڑھنے والے کے واسطے جنت میں محل تیار ہوتے ہیں ایسے محل کہ اسی ہزارہ ندیاں اور ہر ندی میں اسی ہزار درخت اور ہر درخت پر اسی ہزار ڈالیاں میوہ دار کہ اُن کے گنے کا شمار اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے " ( دعائے ماثورہ المعروف گنجینه رحمت ما ) ) دھائے جمیلہ کا ثواب دعائے جید کا تواب یہ لکھا ہے.یہ

Page 38

۳۵ جو کوئی فجر کی نماز کے بعد اس دعا کو پڑھے تین سو حج کا ثواب پائے برابر حضرت آدم علیہ السلام کئے اور جو کوئی نماز ظہر کے بعد اس کو پڑھے پانچ سوچ کا ثواب پائے برا بر حضرت ابراہیم علیہ السلام کئے اور جو کوئی عصر کی نماز کے بعد اس کو پڑھے سو حج کا ثواب پاوے برا بر حضرت یونس علیہ السلام کے اور جو کوئی عشاء کی نماز کے بعد اس کو پڑھے ہزار حج کا ثواب پاوے برابر حضرت موسی علیہ السلام کے، اور جو کوئی اس کو تہجد کی نماز کے بعد پڑھے لکھ حج کا ثواب پائے برا بر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے.اگر کوئی شک کرے نفع نہ پائے.روایت ہے کہ ایک دن حضرت رسالت باب صلی اللہ علیہ وسلم مسجد مدینہ منورہ میں بیٹھے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا یا رسول اللہ ! حق تعالیٰ سلام فرماتا ہے اور یہ دعائے جمیلہ آپ کی اُمت کے لئے بھیجی ہے حضور نے دریافت فرمایا کہ اس کا

Page 39

۳۶ ثواب کتنا ہے ؟“ جبرائیل نے کہا کہ جو اس کو پڑھے یا اپنے پاس رکھے اگر چہ اس کے گناہ مانند گفت دریا یا مثل ریت جنگل یا موافق درختوں کے پتوں کے ہوں حق تعالی بخش دے گا....اگر ساری عمر میں ایک دفعہ پڑھے یا اپنے پاس رکھے قیامت کے دن آسانی سے پل صراط سے گزر کر جنت میں داخل ہو گا." درود مقدس کا ثواب دعائے جمیلہ مست ) پھر درود مقدس کی بابت لکھا ہے کہ جو کوئی اس کو اپنی تمام عمر میں ایک بار پڑھے گا تو اُس کو اُس شخص کا ثواب ہو گا جس نے دس لاکھ دنیار راہ خدا میں دیئے ہوں اور دس لاکھ اونٹ قربانی کئے ہوں اور دس لاکھ مرتبہ زیارت کعبتہ اللہ شریف کی ہو اور دس لاکھ مرتبہ شب قدر پائی ہو.دس لاکھ مرتبہ مدینہ منورہ کی مسجد بنائی ہو.نیز لکھا ہے :- و شخص اس درود مقدس کو پڑھے تو تیس پارہ کلام اللہ کامل شریف کا ثواب پاتے درود مقدس می

Page 40

۳۷ وقال الرَّسُولُ يَا رَبِّ اِن قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا القُرآنَ مَهْجُورًاه (الفرقان : ۳۸) ه مسلمانوں پر تب ادبار آیا کہ جب تعلیم قرآن کو بھلایا پنجم :- یورپ کے متعصب مستشرقین جن میں ولیم میور کارلائل ڈوزی ، بھارج سیل، ڈاکٹر اے سپر نگیر پیش پیش ہیں.قرآن اور اسلام پر جبر و تشدد کے پر چار کا ظالمان الزام لگاتے ہیں جو اگرچہ محض شرارت ہے اور جہاد کی مقدس قرآنی اصطلاح سے جہالت کی پیداوار ہے.مگر میں نہایت درد بھرے دل کے ساتھ یہ عرض کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ مستشرقین کی اس گمراہی اور فتنہ سامانی کا اصل ماخذ اور سریشمہ جہاد کی وہ غلط تعبیریں ہیں جو بد قسمتی سے اسلامی لٹریچر میں راہ بدہ پاگئی ہیں.یہ افسوسناک حقیقت ایک مثال سے واضح ہو جائیگی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارک ہے :- جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَانْفُسِكُهُ وَالْسِنَتِكُم (مشكوة ) یعنی مشرکوں سے اپنے مالوں مہمانوں اور زبانوں کے ساتھ

Page 41

۳۸ جهاد کرد.مشكورة مجتبائی کے حاشیہ میں اس فرمان نبوی کی یہ شرح کی گئی ہے کہ :."$ " بِاَنْ تَخَوَّفُوهُمْ وَتُوَعِدُ وهُم بِالقَتْلِ وَ الاخذ والنَّهْبِ وَنَحْوَذَلِكَ بِأَن تَذْمُوهُم وَتَسبُوهُم الخ (مشكوة مطبوع مجتبائی ص۳۳) یعنی زبان کا جہاد یہ ہے کہ مشرکوں کو نہ صرف قتل، پکڑ دھکڑ اور لوٹ مار کی دھمکیاں دو بلکہ اُن کی مذمت بھی کرو اور انہیں خوب گالیاں بھی دو.مگر حضرت بانی جماعت احمدیہ نے قرآنی جہاد کی ایسی دلکش اور معقول اور مدتل ترجمانی کی ہے کہ روح وجد کر اٹھتی ہے اور مخالفین اسلام اور عدوان محمدؐ کا منہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جاتا ہے.فرماتے ہیں :- ر میں نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اوز رکس سے سن لیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.خدا تو قرآن شریف میں فرماتا ہے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ یعنی دین اسلام میں جبر نہیں.تو پھر کس نے بھر کا حکم دیا؟ اور جبر کے کونسے سامان تھے اور کیا وہ لوگ جو جبر سے

Page 42

۳۹ مسلمان کئے جاتے ہیں ان کا یہی صدق اور بی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے کے باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں آدمیوں کا مقابلہ کریں اور جیب ہزار تک پہنچ جائیں تو کئی لاکھ دشمن کو شکست دیدیں اور دین کو دشمن کے حملہ سے بچانے کے لئے بھیڑوں بکریوں کی طرح سر کٹا دیں اور اسلام کی سچائی پر خون سے مہریں کردیں اور خدا کی توحید کے پھیلانے کے لئے ایسے عاشق ہوں کہ درویشانہ طور پر سختی اٹھا کر افریقہ کے ریگستان تک پہنچیں اور اس ملک میں اسلام کو پھیلا دیں اور پھر ہر یک قسم کی صعوبت اٹھ کر چین تک پہنچیں نہ جنگ کے طور پر بلکہ محض درویشانہ طور پر اور اس ملک میں پہنچ کر دعوت اسلام کو یں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے با برکت وعظ سے کئی کروڑ مسلمان اس زمین میں پیدا ہو جائیں اور پھر ٹاٹ پوش درویشوں کے رنگ میں ہندوستان میں آئیں اور بہت سے حصہ آریہ ورت کو اسلام سے مشرف کر دیں اور یورپ کی حدود تک لا اله الا الله کی آواز پہنچا دیں.تم ایما نا کہو کہ کیا یہ کام ان لوگوں کا

Page 43

۴۰ ہے جو جبراً مسلمان کئے جاتے ہیں جن کا دل کا فراور زبان مومن ہوتی ہے ؟ نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کے کام ہیں جن کے دل نورِ ایمان سے بھر جاتے ہیں اور جن کے دلوں میں خدا ہی خدا ہوتا ہے" (پیغام صلح ص۲۳۲۲) ایمان بالرسل ایمان کا چوتھار کن قرآن عظیم کے مطابق رسولوں پر ایمان ہے.اس اہم رکن کے بارے میں اصولی طور پر احمدیت تین مخصوص اور نفرد نظریات کی حامل ہے :- اول یہ کہ بہت سے مفترین ، محدثین اور تکلمین اور دیگر علماء اسلام کے یہاں نہیں اور رسول کی اصطلاحوں میں فرق رکیا جاتا ہے.وہ نئی شریعت لانے والے کو رسول اور پہلی شریعت کی تجدید و استحکام کرنے والے کو نبی کہتے ہیں.ان کی نگاہ میں ہر رسول نبی تو ہے مگرہ ہر نبی رسول نہیں.راس خطر ناک نظریہ سے یہ لازم آتا ہے کہ ایمان صرف رسولوں پر لانا ضروری ہے.نیز یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ خاتم الرسل کی بجائے خاتم النبیین کہا گیا

Page 44

۴۱ ہے اس لئے قرآنی شریعت منسوخ ہو سکتی ہے اور معاذ اللہ ایک رسول نئی شریعت لے کر آسکتا ہے.یہی وہ خوفناک نقطۂ خیال ہے میں نے بانیوں اور بھائیوں کے لئے مسلمانان عالم میں ایک نئی شریعت پر ایمان لانے اور ارتداد اختیار کرنے کی راہیں کھول دی ہیں.(خاتمیت " ما ۳۰ تالیف جعفر سبحانی تهران سلطانی لیکن احمدیت کے نزدیک نبی اور رسول ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.ماموروں کو خدا ہی بھیجتا ہے اس لئے وہ رسول کہلاتے ہیں اور چونکہ وہ بندوں کو خدا کی باتیں سُناتے ہیں اسلئے ان کا نام نبی رکھا جاتا ہے.(الفضل ۹ ربون ۱۹۴۴ء ص۳) قرآن کریم نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سورۃ مریم ع ۳ میں بیک وقت رَسُولًا نَّبِيًّا کہ کر اس نظریہ پر مُترتصدیق ثبت کردی ہے.احمدیت کا دوسرا مخصوص نظریہ یہ ہے کہ نبیوں کے تجزات کرامات حق اور خدا کی زندہ ہستی کا ثبوت ہوتے ہیں مگر عہد حاضر کے بعض عمائدین اسلام فرماتے ہیں کہ :

Page 45

۴۲ تمام جاہل و وحشی نا تربیت یافتہ ملک و قوم میں معجزے وکرامات کے خیال ہوتے ہیں مگر جب علم کی روشنی سے ملک و قوم روشن ہو جاتی ہیں تو یہ سب باتیں مٹتی جاتی ہیں.یہ اعتقاد مسلمانوں کی تہذیب کا بہت بڑا اور قومی مانع ہے اور نیز ٹھیٹھ مذہب اسلام کے بالکل بر خلاف ہے.خود مذہب اسلام اس امر کا جس کو لوگ معجزه و کرامت کہتے ہیں سخت مخالف ہے.....پس جب تک مسلمانوں میں سے معجزے اور کرامت کا اعتقاد نہیں جاتا ان کا کامل طور پر مہذب ہونا محالات سے ہے " ) مقالات سرسید حصہ اول ص ۱۲) احمدیت نے ایک مخصوص نظر یہ ایمان بالاریل کے تعلق ہیں یہ پیش کیا ہے کہ سب نبی پاک ، معصوم اور مقدس ہیں ان کی طرف کوئی گناہ منسوب نہیں کیا جا سکتا.حضرت بانی سلسل احمدیہ فرماتے ہیں ہے ہر رسولے آفتاب صدق بود اہر رسولی بود در مہر انور ترجمہ : ہر رسول سچائی کا سورج تھا.ہر رسول نہایت روشن

Page 46

۴۳ آفتاب تھا.ہر رسوئے بود نکلنے دیں پناہ ہر رسولے بود باغ مثمرے ترجمیا.ہر رسول دین کو پناہ دینے والا سایہ تھا اور ہر رسول ایک پھلدار باغ تھا.ه گر بدنیا تا در این قبیل پاک کار دیں ماندے سرا سرا بترسے ترجمہ :.اگر یہ پاک جماعت دنیا میں نہ آتی تو دین کا کام بالکل انتر رہ جاتا.اقبت ہرگز نبوده در جہاں کاند به آن نامد بوقتے مندرے ترجمہ :.ایسی کوئی دقت دنیا میں نہیں ہوئی جس میں کسی وقت ڈرانے والا نہ آیا ہو.هر که را علمی از توحید حق است ہست اصل علمش از پیغمبر سے ترجمہ : جس کسی کو توحید حق کا کچھ علم ہے اس کے علم کی اصل کسی پیغمبر سے ہے.

Page 47

۴۴ عصمت انبیائو کے خلاف الخراش افسانے اس نظریہ عصمت کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ ان توہین آمیز اور دلخراش قصتوں اور افسانوں سے لگ سکتا ہے جو ظہورِ احمدیت سے پیشتر اسلامی کتب میں شامل کر دیئے گئے تھے اور جن کی زد سے نبیوں کے مقدس اور مبارک گروہ کا کوئی فرد بھی محفوظ نہیں رہا تھا.(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر جلالین مصری.جامع البیان جلد ، اصل - جلد ۲۲ ۲۳ منٹ - ۷۱ - تفسیر مراح لبید ص جلد ۱ ص ۶۶۳، جلد ۲ ص ۸-۲۲ ، جلد ۵ ص ۴۳-۲۲ تفسیر جلالین مع کی الین ما تفسیر فتح البیان جلده مثا - جامع البیان جلد ، اما تفسیر خازن جلد ) V-A-2 حمدی کے ذریعہ عصمت انبیاء کا قیام مرام حق یہ ہے کہ احمدیت ہی بیسویں صدی کی وہ عالمگیر اسلامی اور اصلاحی تحریک ہے جس نے ان سب بیہودہ افسانوں اور کہانیوں کو بے بنیاد اور خلاف واقعہ ثابت کیا اور ایک لاکھ چو میں ہزار تانیوں کی عربات و حرمت پھر سے دنیا میں قائم کر دی بعض بے صلح موعود

Page 48

۴۵ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :- " خدا تعالیٰ کے تمام نبی معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں.وہ پہنچائی کا زندہ نمونہ اور وفا کی جیتی جاگتی تصویر ہوتے ہیں.وہ خدا تعالیٰ کی صفات کے منظر ہوتے ہیں اور اپنی صفائی اور خوبصورتی سے خدا تعالیٰ کی کستومیت اور قدوسیت اور اس کے بے عیب ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں.در حقیقت وہ ایک آئینہ ہوتے ہیں کہ جس میں بدکار بعض دفعہ اپنی شکل دیکھ کر اپنی بد صورتی اور نشت روٹی کو اُن کی طرف منسوب کر دیتا ہے.نہ آدم شریعت کا توڑنے والا تھا نہ نوح گندگا ر تھا.نہ ابرا ہیم نے کبھی جھوٹ بولا نہ یعقوب نے دھوکہ دیا.نہ یوسف نے بدی کا ارادہ کیا یا چوری کی یا فریب کیا.نہ موسی نے ناحق کوئی خون کیا نہ داؤد نے کسی کی بیوی ناحق چھینی.نہ سلیمان نے کسی مشترکہ کی محبت میں اپنے فرائض کو بھلایا یا گھوڑوں کی محبت میں نماز سے غفلت کی.نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ کیا.آپ کی ذات تمام عیو سے

Page 49

۴۶ پاک تھی اور تمام گنا ہوں سے محفوظ بصمون ہو آپ تی عیب شماری کرتا ہے وہ خود اپنے گند کو ظاہر کرتا ہے.یہ سب افسانے جو آپ کی نسبت مشہور ہیں بعض منافقوں کی روایات ہیں جو تاریخی طور پر ثابت نہیں ہو سکتے.آپ کی باقی زندگی ان روایات سے بالکل بر خلاف ہے اور میں قدر اس قسم کی باتیں آپ کی نسبت یا دوسرے انبیاء کی نسبت مشہور ہیں وہ یا تو منافقوں کے جھوٹے اتہامات کی بقیہ یادگاریں ہیں یا کلام الہی کے غلط اور خلاف مراد معنے کرنے سے پیدا ہوتی ہیں " ( دعوۃ الامیر ص ۱۴-۱۴۹) حضرت سلیمان اور ملکہ بلقیس کی اصل واقعہ احمدی نقطہ نگاہ سے اصل حقائق کیا ہیں ؟ اس کی وضاحت کے لئے بطور نمونہ حضرت سلیمان اور ملکہ بلقیس کا واقعہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں پیش کرتا ہوں.آپؐ فرماتے ہیں :- قرآن شریف میں ایک ملکہ کا قصہ لکھا ہے جو آفتاب پرست تھی اور اس کا نام بلقیس تھا اور اپنے ٹکٹ کی

Page 50

بادشاہ تھی.اور ایسا ہوا کہ اس وقت کے نبی نے اس کو دھمکی دے بھیجی کہ تجھے ہمارے پاس حاضر ہونا چاہیے ورنہ ہمارا لشکر تیرے پر چڑھائی کرے گا اور پھر تیری خیر نہیں ہوگی.پس وہ ڈر گئی اور اس نبی کے پاس حاضر ہونے کے لئے اپنے شہر سے روانہ ہوئی اور قبل اس کے کہ وہ حاضر ہو اُس کو متنبہ کرنے کے لئے ایک ایسا محل تیار کیا گیا جس پر نہایت مصفا شیشہ کا فرش تھا اور اس فرش کے نیچے نہر کی طرح ایک وسیع فندق طیار کی گئی تھی میں میں پانی بہتا تھا اور پانی میں مچھلیاں چلتی تھیں.جب وہ ملکہ اُس جگہ پہنچی تو اُس کو حکم دیا گیا کہ محل کے اندر آجا.تب اُس نے نزدیک جا کر دیکھا کہ پانی زور سے بہہ رہا ہے اور اس میں مچھلیاں ہیں.اس نظارہ سے اُس پر یہ اثر ہوا کہ اس نے اپنی پنڈلیوں پر سے کپڑا اٹھا لیا کہ ایسا نہ ہو کہ پانی میں تو ہو جائیں.تب اُس نبی نے اس ملکہ کو جس کا نام بلقیس تھا آواز دی کہ اسے بلقیس تو کسی غلطی میں گرفتار ہوگئی یہ تو پانی نہیں ہے جس سے ڈر کو تو نے پاجامہ اوپر اٹھالیا

Page 51

۴۸ یہ تو شیشہ کا فرش ہے اور پانی اس کے نیچے ہے.اس مقام میں قرآن شریف میں یہ آیت ہے.قَالَ اِنَّهُ صَرح ممرد مِّنْ قَوَارِ بر یعنی اس نبی نے کہا کہ اسے بلقیس تو کیوں دھوکا کھاتی ہے یہ تو شیش محل کے شیشے ہیں جو اوپر کی سطح پر بطور فرش کے لگائے گئے ہیں اور پانی جو زور سے بہہ رہا ہے وہ تو ان نبیوں کے نیچے ہے نہ کہ یہ خود پانی توان یہ ہیں تب وہ مجھ گئی کہ میری مذہبی غلطی پر مجھے ہوشیار کیا گیا ہے اور میں نے فی الحقیقت بجہالت کی راہ اختیار کر رکھی تھی جو سورج کی پوجا کرتی تھی.تب وہ خدائے واحد لا شریک پر ایمان لائی اور اُس کی یہ نکھیں کھل گئیں اور اُس نے یقین کر لیا کہ وہ طاقت معظمی جس کی پرستش کرنی چاہیے وہ تو اور ہے اور میں دھور کے ہیں رہی اور کھی چیز کو معبود ٹھرایا.اور اس نبی کی تقریرہ کا ماحصل یہ تھا کہ دنیا ایک شیش محل ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اور عناصر وغیرہ جوکچھ کام کر رہے ہیں یہ در اصل ان کے کام نہیں.یہ تو بطور شیشوں کے ہیں بلکہ اُن کے نیچے ایک مخفی طاقت ہے جو خدا ہے (نسیم دعوت خین اول من ۳۸۳) : ص

Page 52

۴۹ احمدیت میں عشق محمدؐ اور غیرت محمد کے پیشے معزز سامعین ! ایمان بالرسل کے دائرہ میں مرکز شخصیت مقدسوں کے قافلہ سالار، پاکوں کے سردار، قدوسیوں کے سرتاج، ستيد المطرين، فخر الأولين والآخرین، محبوب حضرت احدیت سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفے احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.یہی وجہ ہے کہ اگر انبیاء ورسل کی عزت و حرمت احمدیت کے ایمان کا جزو ہے تونبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کی فضیلت کل انبیاء پر اس کے ایمان کا منہ وہ اعظم اور اس کے رگ و ریشہ میں ملی ہوئی بات ہے اور اس کے اندر عشق محمدؐ اور غیرت محمدؐ کے بے شمار چشمے ابل رہے ہیں.چنانچہ حضرت بانی و سلسلہ عالیہ احمدیہ اپنے تئیں سید الرسل کے چاکر احقر الخادمین اور احقر الغلمان قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : اگر " خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کی

Page 53

w.سامنے قتل کر دیے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے جائیں...اور میری آنکھ کی تیلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹیوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر میرے لئے یہ صدفہ یادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں یا (ترجمه از آئینہ کمالات اسلام مثلا) حضرت مهدی موعود کے لخت جگر، خلیفہ ثانی سید نا حضرت المصلح الموعود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے عاشقانہ وعارفانہ تعلق محبت کا اظہار ان روح پرور الفاظ میں کیا ہے :- " وہ میری جان ہے، میرا دل ہے ، میری مراد ہے ، میرا مطلوب ہے.اس کی غلامی میری شکرت

Page 54

۵۱ کا باعث ہے اور اُس کی کفش برداری مجھے تخویش شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے.اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم نیچے ہے وہ خدا تعالیٰ کا پیارا ہے پھر میں کیوں اُس سے پیار نہ کرون؟ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر میں اُس سے کیوں محبت نہ کروں ؟ وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے پھر میں کیوں اُس کا قرب نہ تلاش کروں ؟ میرا حال مسیح موعود کے اس شعر کے مطابق ہے کہ و بعد از خدا بعشق محمد محترم گر کفر این بود بجد اسخت کا فرم اور یہی محبت تو ہے جو مجھے اس بات پر مجبور کرتی ہے.کہ باب نبوت کے بجلی بند ہونے کے عقیدہ کو جہاں تک ہو سکے باطل کروں کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے “ (حقیقۃ النبوت منش) راس آخری فقرہ کی وضاحت حضرت بانی سلسلہ عالیہ حمدیہ کی کتاب حقیقۃ الوحی سے ہوتی ہے جس میں حضور فرماتے ہیں :- یں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی

Page 55

۵۲ جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور سلام اس پریہ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں....وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اُس کو دی گئی ہے " (حقیقة الوحی مثلا - ما لا طبع اول: بعثت مہدی موعود کا حقیقی مدعا حضرت اقدس کے ملفوظات میں ہے کہ :.ہمارا مدعا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں جوش ڈالا ہے یہی ہے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قائم کی جائے جو ابد الآباد کے لئے خدا تعالٰی نے قائم کی ہے اور تمام چھوٹی نبوتوں کو پاش پاش کر دیا جائے.(عفونی جلد ما ۹-۹۲)

Page 56

۵۳ نیز لکھتے ہیں :- " ہمارا اصل منشاء اور مدعا آنحضرت صلی اللہ علیہ ولم کا جلال ظاہر کرنا ہے اور آپ کی عظمت کو قائم کرنا.ہما را ذکر تو ضمنی ہے اسلئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جذب اور افاضہ کی قوت ہے اور اسی افاضہ میں ہمارا ذکر ہے.(ایضاً جلد ۳ ص۲۶۹) نیز فرماتے ہیں ہے این چشمه روان که بخلق تعداد دهم یک قطرہ نہ بحر کمال محمد است یعنی معارف کا یہ دائمی چشمہ جو میں مخلوق خدا کو دیتا ہوں وہ میرے آقا و مولیٰ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی کمالات برکات کے غیر محدو د سمندر کا محض ایک قطرہ ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی چاکری غلامی اور کفش برداری کے طفیل مجھے حاصل ہوا ہے.پس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے مقابلہ میں میری کچھ بھی حیثیت نہیں.اُس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں میں فیصلہ یہی ہے

Page 57

۵۴ الگ نام رکھنے اور جماعت بنانے کی وجہ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مہدی موعود نے اپنے عالمگیر روحانی سلسلہ کے لئے " مسلمان فرقہ احمدیہ یا احمدی مذہب کے مسلمان اشتہارات حضرت مسیح موعود ) کا الگ نام کیوں تجویز فرمایا ؟ اس نہایت اہم سوال کے دو جواب ہیں :.پہلا جواب یہ ہے کہ یہ نام صداقت اسلام کا زندہ اور دائمی نشان ہے اور پاک نوشتوں کے عین مطابق ہے.چنانچہ فقہ حنفی کے مسلمہ امام اہلسنت اور شارح مشکوۃ شریف حضرت امام علی القاری (متونی تہتر فرقوں والی مشہور عالم حدیث " ) بوٹی کی شرح میں خبر دی کہ :- وَالْفِرَقَةُ النَّاجِيَةُ هُمْ اَهْلِ السُّنَّةِ الْبَيْضَاءِ الْمُحَمَّدِيَّةِ وَالطَّرِيقَةِ النَّقِيَّةِ الْأَحْمَدِيةِ اور ناجی فرقہ اہل سنت کا وہ فرقہ ہے جو مقدس طریقہ احمدیہ پر گامزن ہوگا.

Page 58

حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام علی القاری کے ہمعصر تھے.آپ پر اس سلسلہ میں مزید انکشاف ہوا اور آپ نے الہام الہی سے خبر پا کر اپنی کتاب مبدء ومعاد میں یہ عظیم الشان پیش گوئی فرمائی :." وأقولُ قَولًا عَجَبًا لَمْ يَسْمَعُهُ أَحَدُ ومَا أَخْبَرَ بِهِ مُخْبِرَ بِأَعْلَامِ اللهِ سُبْحَانَهُ وَالْهَامِهِ تَعَالَى إِيَّايَ بِفَضْلِهِ وَكَرَمِهِ آنکه بعد از هزار و چند سال از زمان رحلت آن سرو وآله الصلوات و التحیات زمان می آید که قیقت محمد می از مقام خود عروج فرماید و مقام حقیقت کعبه متحد گردد.این زمان حقیقت محمد ی حقیقت احمدی نام باید ترجمہ : یکی ایک عجیب بات کہتا ہوں جو اس سے پہلے نہ کسی نے شنی اور نہ کسی بتانے والے نے بھائی جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے صرف مجھے بتائی ہے اور مجھی پر الہام فرمائی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ سرور کائنات علیہ و علی آلہ الصلوات

Page 59

۵۶ والتسلیمات کی رحلت سے ایک ہزار اور چند سال بعد ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے کہ جب حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج فرمائے گی اور حقیقت کعبہ میں متحد ہو جائے گی.اُس وقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمدی ہو جائے گا.“ (مبدء و معاد مه ناشر، اداره مجد دید ناظم آبادت کراچی مثلا) دوسرا جواب خود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی زبان مبارک سے ۲۵ اکتوبر شہداء کو دہلی کی ایک مجلس میں دیا.حضور نے فرمایا :- " ہمارا کاروبار خدا کی طرف سے ہے....ہم مسلمان ہیں اور احمد می ایک امتیازی نام ہے.اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیوٹی کم ظاہر ہو ؟ خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے.بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے....احمد کیسے نام میں اسلام کے بانی احمد صلی اللہ علیہ وم کے ساتھ اتصال ہے اور یہ اتصال دوسرے ناموں

Page 60

میں نہیں.احمد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے.اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے....احمدی ایک امتیازی نشان ہے....خدا تعالیٰ کے نزدیک بجو مسلمان ہیں وہ احمدی ہیں؟ ( اخبار یاد کر جلد نمبر ۳۲ ص ۳) علامہ اکبر الہ آبادی کا مشہور شعر ہے مسلمان تو وہ ہیں جو ہیں مسلمان عظیم باری میں کروڑوں یوں تو ہیں لکھے ہوئے مرم شماری میں عقائد احمد ثبیت کی پہچان کا فیصلہ کن معیار معزز سامعین ! حضرت بانی احمدیت کی اِن سب واضح اور بصیرت افروز تصریحات سے عقائدہ احمدیت کے شناخت کرنے اور پہچاننے کا یہ فیصلہ کن معیار ہمارے ہاتھ میں آجاتا ہے کہ ہر وہ عقیدہ جس سے محبوب حضرت احدیت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان محمدیت کا اظہار ہوا احمدیت کا عقیدہ ہے، خواہ وہ کسی اسلامی مکتبہ فکر کی قدیم و جدید کتابوں یا بزرگوں اور محققوں کی زبان و قلم سے بیان ہو یا ہو.

Page 61

۵۸ ( كَلِمَة الْحِكْمَةِ صَالَةُ الْمُؤْمِنِ) مگر میں عقیدہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی وبے حرمتی کا ذرہ برابر بھی احتمال یا اندیشہ ہو وہ ہرگز ہر گیا احمدیت کا عقیدہ نہیں ہو سکتا اور میں ریت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کھا سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہو سکتا ہے، زمین اپنی رفتار ترک کر سکتی ہے، پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتے ہیں مگر ایک ستیا احمدی کبھی ایسا عقیدہ نہیں رکھ سکتا جو سشان محمدیت کو داغدار کرنے والا ہو.خاتمیت محمدی کا محافظ آسمانوں کا خدا ہے اور احمدی زمین پر حضرت خاتم النبیین اور آنحضور کی امت کے ادنی خادم ہیں.نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہے اور عشق رسول جماعت احمدیہ پر ختم ہے ہ تختم شد بر نفس پاکسش ہر کمال " لا جرم ش رختم ہر پیغمبرے جماعت احمدیہ کی شرح ایمانی اور غیر مسلم دنیا اور تاریخ احمدیت گواہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے اس آسمانی اعزاز کو برقرار رکھنے کے لئے کسی بڑی سے بڑی قربانی کو

Page 62

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں پیش کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا.جماعت احمدیہ کی روح ایمانی اور قوت استقامت کو دیکھ کر غیرمسلم طاقتیں بھی حیرت زدہ ہیں.چنانچہ ایک سکھ ایڈیٹر سردار دیوان سنگھ مفتون نے اخبار ریاست ۱۶ مارچ ۱۹۵۳ء میں لکھا تھا کہ :.جو لوگ احمدیوں کے مذہبی کیر کیر اور ان کے بلند شعار سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر دنیا کے تمام احمدی ہلاک ہو جائیں، ان کی تمام جائداد لوٹ لی جائے صرف ایک احمدی زندہ بیچے جائے اور اُس احمدی سے یہ کہا جائے کہ اگر تم بھی اپن مذہبی شعار تبدیل نہ کرو گے تو تمہارا بھی یہی حشر ہوگا تو یقیناً دنیا میں زندہ رہنے والا یہ واحد احمدی بھی پنے شعار کو نہیں چھوڑ سکتا مرنا اور تباہ ہونا قبول کرے گا یاں اخبار ریاست دہلی ۱۶ار مارچ ۶۱۹۵۳ عاشقوں کا شوق قربانی تو دیکھ خون کی اس اہ میں ارزانی تو دیکھ

Page 63

۶۰ ہے اکیلا کفر سے نہ وہ آزما احمدی کی روح ایمانی تو دیکھ (کلام محمود) عشق رسول کے منافی خیالات اور احمد تیت اس واضح حقیقت اور معیار کو ذہن نشین کر لینے کے بعد یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ جماعت احمدیہ ہی کو یہ منفرد اور ممتاز حیثیت حاصل ہے کہ وہ ان سب روایات کو شر انگیز ہے ـ اور جعلی سمجھتی ہے جن میں ستیدا المطر من ، سرد اپہ دو عالم ، فخر دو عالم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی شیطانی الہام کا ذکر ( جلالين مع کما لین ص۲۸۲) ہے.یا معاذ اللہ جن میں حضرت سیدہ زینب سے تعشق اور اپنے.نکاح میں لانے کے لئے " سبحان الله یا مقلب القلوب کی دعا وضع کی گئی ہے.(مراح لبید جلد۲ ص۱۳۲) ایسے ہی یہ وضعی اور جعلی کلمے مثلاً : لا إله إلا الله شبلى رسول الله لا إله إلا الله آدم صفی الله

Page 64

۶۱ لا إله إلا الله ابراهيم خليل الله لا اله الا الله موسى كليم الله لا إله إلا الله عيسى روح الله وغیرہ اس قسم کے کسی کلمہ کی تحریک احمدیت ہرگز قائل نہیں.(احمدیت کا پیغام وہ صرف لا اله الا الله محمد رسول الله پر ایمان رکھتی ہے جو سلسلہ انبیاء میں تنہا آ نحضرت صل اللہ علیہ لم کو خطا ہوا ہے اور قلعہ اسلامی میں داخلے کا واحد ہی دروازہ ہے.چنانچہ حدیث نبوئی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے پیدا ہوتے ہی سراٹھایا تو عرش کے یا یوں پر یہی کلا طبیب لکھا ہوا دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ خدا نے اپنے مقدس نام کے ساتھ ایسے ہی انسان کا نام ملایا ہو گا جو اس کی جناب میں یقیناً تمام مخلوق سے زیادہ محبوب ہوگا.دلائل بہیقی، حاکم، طبرانی بوالہ نشر الطیب ص ۱۳-۱۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار دعا فرمائی :- اللهم انك بعثتني بهذه الكلمة و امرتني بها ووعدتني عليها الجنّة وانت

Page 65

۶۲ لا تخلف الميعاد (الترغيب والترهيب جلد م) اے میرے اللہ ! تو نے ہی مجھے یہ مبارک کلمہ دے کر مبعوث فرمایا ہے.تو نے ہی اس کے پڑھنے اور پھیلانے کا حکم دیا ہے اور کھبی نے اس پر جنت کا وعدہ دیا ہے.تو سچے وعدوں والا خدا ہے.ایر میں ایک یوروپین مسٹر شومان نے حضرت شیخ الاسلام قسطنطنیہ کی خدمت میں لکھا کہ وہ اسلام است بیار کرنا چاہتا ہے اسے مسلمان ہونے کا طریق بتایا جائے.شیخ الاسلام کا جواب مسٹر آرنلڈ کی کتاب دعوت اسلام ) THE PREACHING OF ISLAM) میں موجود ہے.انہوں نے تحریر فرمایا :- اسلام کی بنیاد یہ ہے کہ خدا کو ایک مانے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا یقین کرے یعنی دل سے اس پر ایمان رکھے اور الفاظ میں اس کا اقرار کرے جیسے کہ کلمہ لا إله إلا الله محمد رسول الله کے الفاظ ہیں.یہ شخص اس کلمہ کا اقرار کرتا ہے وہ

Page 66

۶۳ مسلمان ہو جاتا ہے بغیر اس کے کہ وہ کسی کی منظوری حاصل کرے " خ ثر ( ترجمه من ۳ ناشر نفیس اکیڈمی کراچی) شیخ الکل جناب مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی کا فتوی ہے کہ اگر کوئی شخص حالت نزع میں کار را نشہادت کا مضمون ہی انگریزی میں ادا کر دے اور پھر فوت ہو جائے تو وہ بلا شبہ مسلمان سمجھا جائے گا.(فتاوی نذیر بہ جلد اول مٹہ ناشر - اہلحدیث اکاڈمی کشمیری بازار لاہور ) مقام محمد عربی سے بے خبری آه چشم فلک کو اس تاریک دور میں مقام محمدعربی سے بے خبری کے بھی کیسے کیسے لرزہ خیز نظر سے دیکھنے پڑے ہیں.چند سال ہوئے برصغیر میں ایک رسالہ دعائے ماثورہ گنجینہ رحمت چھپا جس میں یہ انتہائی شرمناک جعلی روایت درج تھی کہ یہ دعا اللہ تعالٰی نے سرسے پہلے ابلیس کو سکھائی اور پھر جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ (معاذ اللہ معاذ اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ اگر آپ جنت میں جانا چاہیں تو یہ دعا مبارک ید

Page 67

۶۴ سے میلی لیں.( دعائے ماثوره گنجینه رحمت هشته ناشران پیشین خلاقی) اینڈ سنز تاجران کتب کشمیری بازار لاہور) اسی طرز کی اخلاق سوز روایات ہی تھیں جن کو پڑھ کر بیسیویں صدی کے آغاز میں بٹیالہ کے ایک شخص نے یہ عقیدہ وضع کر لیا تھا کہ نجات اخروی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانا ضرور کی نہیں.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو علم ہوا تو آپ نے اسے فی الفور جماعت احمدیہ سے خارج کر دیا اور ارشاد فرمایا : " وہ خدا جو زمین و آسمان کا خالق ہے میرے بر ظاہر ہوا.....اور اسی نے میرے ساتھ ہمکلام مجھے یہ بتلایا کہ وہ نبی نہیں نے قرآن پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا.وہ پہچانی ہے اور وہی ہے جس کے قدموں کے نیچے نجات ہے.اور بجز اس کی متابعت کے ہرگز ہرگز جسی کو کوئی نور حاصل نہیں ہوگا اور جب میرے خدا نے اس نبی کی وقعت اور قدر اور عظمت میرے پر ظاہر کی تو میں کانپ اُٹھا اور میرے بدن پر لرزہ پڑگیا.کیونکہ جیسا کہ حضرت عینی

Page 68

۶۵ میخ کی تعریف میں لوگ حد سے بڑھ گئے یہاں تک کہ اُن کو خدا بنا دیا اسی طرح اس مقدرمیں نبی کا لوگوں نے قدر شناخت نہیں کیا جیسا کہ حق شناخت کرنے کا تھا اور جبیبیا کہ چاہیے لوگوں کو اب تک اس کی عظمتیں معلوم نہیں.وہی ایک نبی ہے جس نے توحید کا تخم ایسے طور پر بو یا کہ جو آج تک ضائع نہیں ہوا.وہی ایک نبی ہے جو ایسے وقت میں آیا جب تمام دنیا بگڑ گئی تھی اور ایسے وقت میں گیا جب ایک سمندر کی طرح توحید کو دنیا میں پھیلا گیا اور وہی ایک نبی ہے جس کے لئے ہر ایک زمانہ میں خدا اپنی غیرت دکھلاتا رہا ہے اور اس کی تصدیق اور تائید کے لئے ہزار ہا معجزات ظاہر کرتارہا.اسی طرح اس زمانہ میں بھی اس پاک نبی کی بہت تو ہین کی گئی اس لئے خدا کی غیرت نے جوش مارا اور سب گزشتہ زمانوں سے زیادہ جوش مارا اور مجھے اُس نے مسیح موعود کر کے بھیجا تا کہ میں اس کی نبوت کے لئے تمام دنیا میں گواہی دوں (مجموعه اشتہارات جلد ۳ ص ۵۳)

Page 69

۶۶ مصطفے پر تو بے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نور کیا بارخدایا ہم نے حضر بانی احمدیت بے مثال عاشق رسول کی حیثی سے صغیر پاک و ہند کے صاحب طرز ادیب جناب را فرحت الله بیگ صاحب کا ایک چشم دید واقعہ کالمی ڈائجسٹ، کراچی کے شمارہ اکتوبر ۱۹۶۸ء میں چھپ چکا ہے.آپ کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ بانی جماعت احمدیہ دہلی میں مقیم تھے.ایک دن میں مرزا غلام احمد صاحب کے یہاں جانے لگا تو میرے ایک فقیر منش چپ مرزا عنایت بیگ صاحب نے مجھ سے کہا کہ جن سے تم ملنے جارہے ہو اُن کی آنکھوں کو دیکھو کہ کس رنگ کی ہیں.یہ بیان کرنے کے بعد فرحت اللہ بیگ لکھتے ہیں کہ : " جب مرزا صاحب کے پاس گیا تو بڑے غور سے اُن کی آنکھوں کو دیکھتا رہا.میں نے دیکھا کہ اُن کی آنکھوں میں سبز رنگ کا پانی گردش کرتا معلوم ہوتا ہے....وہاں سے واپس آنے کے بعد میں نے چا صاحب قبلہ سے نامیرا نقابت، بیان کئے " فرحت لکھو اس

Page 70

۶۷ شخص کو بڑا کبھی نہ کہنا.فقیر ہے اور یہ حضرت رسوا.اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق ہیں.ہمیں نے کہا یہ آپ نے کیونکر جانا؟ فرمایا کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں ہر وقت فوق نتہا ہے اُس کی آنکھوں میں سبزی آجاتی ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ سبز رنگ کے پانی کی ایک اہران میں دوڑ گئی ہے.کہیں نے اُس وقت تو اُن سے اس کی وجہ نہیں پوچھی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ سب فقیر او راہل طریقت اس پر تفق ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ سبز ہے اسی کا عکس آپ کے زیادہ خیال کرنے سے آنکھوں میں جم جاتا ہے ؟ (رسالہ عالمی ڈائجسٹ" اکتوبر ۱۹۶۸ء) روضہ نبوی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ گنبد خضری کے ذکر پر مجھے اس وقت حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی یہ رقت بھری روایت یاد آگئی کہ ایک دفع حضرت میر ناصر نواب صاحب ( نانا جان نے کوئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کے لئے سفر اور رستے وغیرہ کی سہولت پیدا ہو رہی ہے حج

Page 71

۶۸ کو چلنا چاہیے.اس وقت زیارت حرمین شریفین کے تصور میں حضرت مسیح موعود کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور آپ اپنے ہاتھ کی انگلی سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے حضرت ناناجان کی بات سن کر فرمایا :- یہ تو ٹھیک اور ہماری بھی دلی خواہش ہے مگر یں سوچا کرتا ہوں کہ کیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا.دچار تقریر بی منت ۲ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) یہ تو ایک بے مثال عاشق رسول کے قلبی جذبات واردات ہیں لیکن آہ انگریزی عہد حکومت میں بعض ایسے مفتیان عظام اور مفکرین کرام بھی پیدا ہوئے جنہوں نے یا تو گنبد خضری کے حرام اور نا جائز ہونے کا فتویٰ دیا (فتاوی دار العلوم دیو بند مت) یا اسے غریبوں کے خلاف سرمایہ داروں کی سازش سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا کہ : سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے پاک مجرے کو گرایا اور اس پر پختہ عمارت تعمیر کر دی تاکہ سادگی پسند اور غریب کی اصل زندگی کی طرف مسلم عوام کا دھیان

Page 72

۶۹ ہی نہ جائے.اگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی قبر اصل حال میں ہوتی تو اس کی زیار سے سرایداروں کے خلاف مسلمانوں کی نفرت قائم رہتی اور اس طرح نظام سرمایہ داری کے چکنا چور ہو جانے کا اندیشہ تھا.تاریخ احمرار از چه پدری افضل من هنا اطلع دوم من شرتی سے خالی ہے دل عشق سے عاری ہے بیکار گئے اُن کے سب ساغر و پیمانے حضر امیر خسرو اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ و امت میں بے شمار عشاق رسول گزرے ہیں جن میں حضرت امیر خسرو کا مقام بہت بلند ہے.آپ فرماتے ہیں ہے حسن یوسف دم عیسی ید بیضا داری آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنها داری ( تذکرہ شعرائے پنجاب فارسی) مگر حضرت بانی سلسالا حمدیہ ، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جالو جلال کا نقشہ یوں بھینچتے ہیں : -:

Page 73

صد ہزاراں یوسفے بینم دریں چاہ ذقن وال شیخ ناصری شد از دریم او بے شمار فرماتے ہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہ ذقن (یعنی ٹھوڑی) میں لاکھوں لوست دیکھتا ہوں.اور حضور کے دم سے سو ہزار یا کروڑ نہیں بے شمار شیح پیدا ہو چکے ہیں ہے خاکنائے مصطفے بہتر ہے ہرا کبیر سے سینکڑوں عیسی بنے اس خاک کی تاثیر سے عیسی کے معجزوں نے مرد سے چلا دیئے محمد کے معجزوں نے کیسے بنا دیئے خاتم الانبیاء مجمع الانوار ہیں برصغیر پاک و ہند میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور یا بشر ہونے کا مسئلہ خاص اہمیت رکھتا ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے براہین احمدیہ حصہ سوم میں سورہ نور کی آیت الله نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ کی جو لطیف تفسیر بیان فرمائی ہے اس سے ہر نکتہ شناس عالم محقق اور عارف کے لئے علم و معرفت کے بہت سے گوشے بے نقاب ہو کر سامنے

Page 74

61 آجاتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے خدائے ذوالعجائب کے مظہر اتم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بے اختیار درو دجاری ہو جاتا ہے.اس مبسوط اور پر معارف مضمون کا خلاصہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے مبارک الفاظ میں یہ ہے کہ :.وجود مبارک حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں کئی نور جمع تھے.سو اُن نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود با جود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا." براہین احمدیہ جلد ۳ منشا حاشیه) اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى إِلى مُحَمَّدٍ قَ بارك وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ معراج محمدی ایمان فروز تصور احمدیت میں المختصر !! جس طرح بلا شبہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ہی بیان محمد ہیں اسی طرح احمدیت کی بُرہان بھی احمدیت ہی ہے.اب آخر میں اس کی ایک اور لطیف مثال دے کہ اس مضمون کو

Page 75

}} ختم کرتا ہوں.سورہ نجمہ کی آئینہ سافتد کی (نجم : 9) میں بالا تفاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور عالم سفر معراج کا ذکر ہے جود خوائی نبوت کے پانچویں سال میں ہوا سے فرش سے جا کر لیا دم نوش پر مصطفے کی سیر روحانی تو دیکھے.جناب سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی تفہیم القرآن میں د کی فَتَد ل کی کیفیت معراج ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ :."" پھر قریب آیا پھر اوپر معلق ہو گیا." لیکن حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے ملفوظات " فوائد الفواد میں ہے کہ :- آپ نے ایک بار فرمایا کہ ایک بزرگ نے کہا ہے میں نہیں جانتا کہ آیا شب معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نوکش و کرسی اور بہشت دوزخ کے پاس لے جایا گیا یا یہ سب چیزیں وہاں پہنچا دی کنیکیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رونق افروز

Page 76

تھے.یہ بتانے کے بعد حضرت نظام الدین اولیا نے ارشاد فرمایا کہ اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ سب چیزیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائی گئیں تو راس سے حضور کا مرتبہ بلند تر ہو جاتا ہے.یہی مذہب حضرت سرمد رحمہ اللہ علیہ کا تھا " حضرت سرمدد جو اسی عقیدہ کی بناء پر جامع مسجد دہلی کے سامنے شہید کئے گئے) پوری عمر پرچم حسین لہراتے ! پوری شان سے یہ فرماتے رہے کہ سرمد گوید فلک نه احمد در شد درود کوثر ج۳ ص۳۹ ) یعنی علماء ظواہر تو یہ کہتے ہیں کہ محمد مصطفے احمد مجتبے صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر تشریف لے گئے مگر سرمد کہتا ہے کہ خود آسمان حضور کی خدمت میں حاضر کئے گئے.لیکن تحریک احمدیت کا تصویر معراج اس سے بھی بہت بلند، بہت اعلیٰ اور بہت ارفع ہے.چنانچہ حضرت سیدنا المصلح الموعود آیت دنی فَتَدَلی کے تفسیری ترجمہ میں تحریر فرماتے ہیں :.

Page 77

" اور وہ ایعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بندوں کے اس اضطراب کو دیکھ کر اور اُن پر رحم کر کے خدا سے ملنے کے لئے) اس کے قریب ہوئے اور وہ (خدا) بھی (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے شوق میں، اوپر سے نیچے آگیا.“ ( تفسیر صغير سورة نجم : 9) بالفاظ دیگر حضرت نظام الدین اولیاء اور حضرت سرمد جیسے اکابر صوفیاء اور مقربان بارگاہ الہی کے نزدیک تو آسمان آنحضرت کے حضور حاضر ہوئے مگر تحریک احمدیت کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ آسمان اور جنت اور ہوش اور قلم ہی نہیں بلکہ رکش کا خدا بھی اپنے محبوب محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشوائی اور استقبال کے لئے نیچے اُتر آیا اور قلب محمد پر اس نے اپنے جمال و جلال کے تحت قائم کرلئے حضرت بانی جماعت احمدیہ را سی نکنه معرفت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں ے چه منسوبم کند کس سوئے الحاد و متلال چوں دل احمد نے بیم دگر روش عظیم خواہ کوئی مجھے ملحد اور گمراہ ہی کرے مگر میں تو

Page 78

احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دل سے بڑھ کر اور کوئی عش عظیم نہیں دیکھتا.حقیقی اسلام کی تصویر بن جانے کا حکم میرے قابل صدا احترام بزرگو ! احمدیت اس عدیم المثال تصور معراج کو پیش کر کے اپنے فرزندوں کو یہ حکم دیتی ہے کہ وہ صاحب المعراج خاتم المومنين، خاتم العارفین ، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو دل میں جگہ دیں اور حضور کے لائے ہوئے اصل اور حقیقی اسلام کی چلتی پھرتی تصویر بن جائیں.چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کا ارشاد مبارک ہے :- چاہیے کہ اسلام کی ساری تصویر تمہار ہے وجود میں نمودار ہو اور تمہاری پیشانیوں میں اثر سمجھہ د نظر آوے اور خدا تعالیٰ کی بزرگی تم میں قائم ہو.اگر قرآن اور حدیث کے مقابل پر ایک جهان عقلی دلائل کا دیکھو تو ہر گز اُس کو قبول نہ کرو از الدار بام حصہ دوم ص )

Page 79

اور حضرت مصلح موعود نے فرمایا :- ر تمہارا ایمان تو ایسا ہونا چاہیئے کہ اگر دس کروڑ بادشاہ بھی تمہیں آکر کہیں کہ ہم تمہارے لئے اپنی بادشاہتیں چھوڑنے کے لئے تیار ہیں تم ہماری صرف ایک بات مان لو جو اسلام کے خلاف ہے تو تم ا ان دس کروڑ بادشاہوں سے کہ دو کہ تف ہے تمہاری اس حرکت پر، میں تو محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بات کے مقابلہ میں تمہاری اور تمہارے باپ دادا کی بادشاہتوں پر جوتی بھی ہیں مارتا " الفضل ۳۰ جون ۱۹۴۲ وقت) مستقبل کی نسبت عظیم الشان پیشگوئی یہ ہے اور یہ ہے وہ حقیقی اسلام جس کے ذریعہ انشاء اللہ تو حید اتم کا قیام ہوگا.خانہ کعبہ اقوام عالم کا مرکز بنے گا.قرآن کو پوری دنیا کا آئین تسلیم کیا جائے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمگیر روحانی بادشاہت ہمیشہ کے لئے قائم ہو جائے گی.

Page 80

چنانچہ حضرت مہدی موعود نے قریباً پون صدی قبل عظیم الشان پیشگوئی فرمائی کہ :." دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دُنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہوگا.یہ باتیں انسان کی نہیں یہ اُس خدا کی ولی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں " (تحفہ گولڑو یہ طبع اول مت) پھر پندرھویں اور سولہویں صدی ہجری کی دنیا ئے احمدیت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا :- " اگر کوئی مرکز واپس آسکتا تو وہ دو تین

Page 81

LN صدیوں کے بعد دیکھ لینا کہ ساری دنیا احمدی قوم سے اُسی طرح پر ہے جس طرح سمت در قطرات سے پر ہوتا ہے " روایت مرزا بعقوب بیگ صاحب منقولها تشخید الاذہان جنوری ۶۱۹۱۳ ص۳۵) ه خدا خود جبر و استبداد کو برباد کر دے گا وہ ہر سُو احمد ی ہی احمدی آباد کر دے گا صداقت میرے آقا کی زمانے پر عیاں ہو گی جہاں میں احمدیت کامیاب و کامران ہو گی وأخر د عامنا ان الحمد لله رب العلمين :

Page 81