Ahmadiyyat Ka Paigham

Ahmadiyyat Ka Paigham

احمدیت کا پیغام

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ مسلمہ ہی حقیقی اسلام کی علمبردار اور دنیا کے کونے کونے میں تبلیغ و اشاعت اسلام کے کام میں مصروف ہے۔ مخالفین احمدیت اور فتنہ پرداز عناصر عام مسلمانوں کو جماعت احمدیہ کے عقائد کے بارہ میں غلط فہمیوں میں مبتلاء کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے عقائد و تعلیمات سے مکمل طور پر واقف ہونا ہم سب کے لئے نہایت ضروری ہے تاکہ دوسروں تک حقیقی اسلام کا پیغام احسن رنگ میں پہنچا سکیں۔ حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ’احمدیت کا پیغام‘ کے عنوان سے یہ مختصر تصنیف ۱۹۴۸ء میں رقم فرمائی جس میں احمدیت سے متعلق اس بنیادی سوال کہ ’احمدیت کیا ہے اور کس غرض سے اس کو قائم کیا گیا ہے؟‘  کا جواب تحریر فرمایا ہے جس میں نہایت ہی آسان پیرایہ میں جماعت احمدیہ کے عقائد کا تعارف کروایا گیا ہے۔ حضورؓ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں اور نہ ہی احمدیوں کا کوئی الگ کلمہ ہے، نیزختم نبوت، ملائک، نجات، احادیث، تقدیر، جہاد جیسے مسائل کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا نقطہء نظر بیان فرمایا۔


Book Content

Page 1

احمدیت کا پیغام از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسيح الثاني

Page 2

احمدیت کا پیغام از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثاني لله

Page 3

احمدیت کا پیغام تصنیف: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد، خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ Ahmadiyyat ka Paighaam (Urdu) Hazrat Mirza Bashir-ud-Din-Mahmud Ahmad, Khalifatul-Masih II, Allah be pleased with him First published in 1917 Several editions published since Fourteenth edition printed in India, 2012 (ISBN: 978-81-7912-343-0) Fifteenth edition printed in UK, 2019 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS Printed in the UK at: Raqeem Press, Farnham, Surrey For further information, please visit www.alislam.org Cover designed by Farhan Naseer ISBN: 978-1-84880-191-2 10987654321

Page 4

پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس زمانہ میں جماعت احمد یہ مسلمہ ہی حقیقی اسلام کی علمبر دار اور دنیا کے کونے کونے میں تبلیغ و اشاعت اسلام کے کام میں مصروف ہے.مخالفین احمدیت اور فتنہ پر داز عناصر عام مسلمانوں کو جماعت احمدیہ کے عقائد کے بارہ میں غلط فہمیوں میں مبتلاء کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.جماعت احمدیہ کے عقائد و تعلیمات سے مکمل طور پر واقف ہو نا ہم سب کے لئے نہایت ضروری ہے تاکہ دوسروں تک حقیقی اسلام کا پیغام احسن رنگ میں پہنچا سکیں.حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے احمدیت کا پیغام کے عنوان سے یہ مختصر تصنیف ۱۹۴۸ میں رقم فرمائی جس میں احمدیت سے متعلق اس بنیادی سوال کہ احمدیت کیا ہے اور کس غرض سے اس کو قائم کیا گیا ہے ؟ کا جواب تحریر فرمایا ہے جس میں نہایت ہی آسان پیرایہ میں جماعت احمدیہ کے عقائد کا تعارف کروایا گیا ہے.حضور نے یہ بھی واضح فرمایا کہ احمدیت کوئی نیا مذ ہب نہیں اور نہ ہی احمدیوں کا کوئی الگ کلمہ ہے، نیز ختم نبوت، ملائک، نجات، احادیث، تقدیر ، جہاد جیسے مسائل کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا نقطہ ء نظر بیان فرمایا.امسال یہ کتاب انگلستان سے طبع کی جارہی ہے.ہماری نئی نسل،نومبائعین اور زیر تبلیغ احباب کے لئے یہ مختصر کتاب نہایت مفید ہے.امید ہے کہ احباب اس سے خود بھی استفادہ فرمائیں گے اور دوسروں کو بھی پڑھنے کے لئے دیں گے.منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف فروری 2019

Page 5

Page 6

نمبر شمار 1 2 3 4 بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فهرست مضامین مضامین احمدیت کوئی نیا مذ ہب نہیں ختم نبوت کے متعلق احمدیوں کا عقیدہ قرآن کریم احمدیوں کا فرشتوں کے متعلق عقیدہ نجات کے متعلق احمدیوں کا عقیدہ احمدیوں کا احادیث پر ایمان احمدیوں کا تقدیر کے متعلق عقیدہ احمدیوں کا جہاد کے متعلق عقیدہ نئی جماعت بنانے کی وجہ جماعت احمدیہ کا پروگرام احمدیوں کو دوسری جماعتوں سے علیحدہ رکھنے کی وجہ صفحہ نمبر 3 9 10 11 13 15 18 19 21 29 255 31 15 6 7 8 9 10 11

Page 7

Page 8

اَعُوْذُ بِا اللَّهُ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خُدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ الله ماصر احمدیت کیا ہے اور کس غرض سے اس کو قائم کیا گیا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جو بہت سے واقفوں اور ناواقفوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے.واقفوں کا مطالعہ زیادہ گہرا ہوتا ہے اور نا واقفوں کے سوالات بہت سطحی ہوتے ہیں.بوجہ عدم علم کے بہت سی باتیں وہ اپنے خیال سے ایجاد کر لیتے ہیں اور بہت سی باتوں پر لوگوں سے سُن سُنا کر یقین کر لیتے ہیں.میں پہلے انہی لوگوں کی واقفیت کے لئے کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں جو عدم علم اور ناواقفیت کی وجہ سے احمدیت کے متعلق مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں.احمدیت کوئی نیا مذ ہب نہیں ان ناواقفوں میں سے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ احمدی لوگ کلمہ لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کے قائل نہیں اور احمدیت ایک نیا مذہب ہے یہ لوگ یا تو بعض دوسرے لوگوں کے بہکانے سے یہ عقیدہ رکھتے ہیں یا اُن کے دماغ یہ خیال کر کے کہ احمدیت ایک مذہب ہے اور ہر مذہب کے لئے کسی کلمہ کی ضرورت ہے سمجھ لیتے ہیں کہ احمدیوں کا بھی کوئی نیا کلمہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ احمدیت کوئی نیا مذہب ہے اور نہ

Page 9

مذہب کے لئے کسی کلمہ کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر میں یہ کہتا ہوں کہ کلمہ اسلام کے سوا کسی مذہب کی علامت نہیں.جس طرح اسلام دوسرے مذاہب سے اپنی کتاب کے لحاظ سے ممتاز ہے، اپنے نبی کے لحاظ سے ممتاز ہے، اپنی عالمگیری کے لحاظ سے ممتاز ہے اسی طرح اسلام دوسرے مذاہب سے کلمہ کے لحاظ سے بھی ممتاز ہے ، دوسرے مذاہب کے پاس کتابیں ہیں مگر کلام اللہ سوائے مسلمانوں کے کسی کو نہیں ملا.کتاب کے معنی صرف مضمون کے ہیں، فرائض کے ہیں، احکام کے ہیں لیکن کتاب کے مفہوم میں ہر گز یہ بات شامل نہیں کہ اس کے اندر بیان شدہ مضمون کا ایک ایک لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو مگر اسلامی کتاب کا نام کلام اللہ رکھا گیا یعنی اس کا ایک ایک لفظ بھی خدا تعالیٰ کا بیان کردہ ہے جس طرح اس کا مضمون خدا تعالیٰ کا بیان کردہ ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کا مضمون وہی تھا جو خُدا تعالیٰ نے بیان فرمایا تھا.حضرت عیسی علیہ السلام کی وہ تعلیم جو دُنیا کے سامنے وہ پیش کرتے تھے وہی تھی جو خدا تعالیٰ نے اُن کو دی تھی لیکن ان لفظوں میں نہ تھی جو خدا تعالیٰ نے استعمال فرمائے تھے.تورات، انجیل اور قرآن کو پڑھنے والا اگر اس مضمون کی طرف اس کی تو جہ کو پھیر دیا جائے تو دس منٹ کے مطالعہ کے بعد ہی یہ فیصلہ کر لے گا کہ تو رات اور انجیل کے مضامین خواہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اُن کے الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور اسی طرح وہ یہ بھی فیصلہ کر لے گا کہ قرآن کریم کے مضامین بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس کے الفاظ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.یا یوں کہہ لو کہ ایک ایسا شخص جو قرآن کریم تو رات اور انجیل پر ایمان نہیں رکھتا ان تینوں کتابوں کا چند منٹ مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگا کہ تورات اور انجیل کو پیش کرنے والے گو اس بات

Page 10

کے مدعی ہیں کہ یہ دونوں کتب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں لیکن اس بات کے ہرگز مدعی نہیں کہ ان دونوں کتب کا ایک ایک لفظ خدا تعالیٰ کا بولا ہوا ہے مگر قرآن کریم کے متعلق وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ اس کا پیش کرنے والا نہ صرف اس بات کا دعویدار ہے کہ قرآن کریم کا مضمون خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے بلکہ اس بات کا بھی دعویدار ہے کہ قرآن کریم کا ایک ایک لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اپنا نام علاوہ کتاب اللہ کے کلام اللہ بھی رکھا ہے لیکن تو رات و انجیل نے اپنا نا کلام اللہ نہیں رکھا، نہ قرآن کریم نے اُن کو کلام اللہ کہا ہے.پس مسلمان ممتاز ہے دوسرے مذاہب سے اس بات میں کہ دوسرے مذاہب کی مذہبی کتابیں کتاب اللہ تو ہیں لیکن کلام اللہ نہیں لیکن مسلمانوں کی کتاب نہ صرف یہ کہ کتاب اللہ ہے بلکہ کلام اللہ بھی ہے.اسی طرح سب ہی مذاہب کی ابتداء انبیاء کی ذات سے ہوئی ہے لیکن کوئی مذہب بھی ایسا نہیں جس نے ایسے نبی کو پیش کیا ہو جو تمام امور دینیہ کی حکمتوں کو بیان کرنے کا مدعی ہو اور جسے بنی نوع انسان کے لئے اسوہ حسنہ کے طور پر پیش کیا گیا ہو.عیسائیت جو سب سے قریب کا مذہب ہے وہ تو مسیح کو ابن اللہ قرار دے کر اس قابل ہی نہیں چھوڑتی کہ اس کے نقش قدم پر کوئی انسان چلے کیونکہ انسان خدا جیسا نہیں ہوسکتا.تو رات حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بطور اُسوہ حسنہ کے پیش نہیں کرتی.نہ تو رات اور انجیل حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہا السلام کو مذہبی حکمتوں کے بیان کرنے کا ذمہ دار قرار دیتی ہے لیکن قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَة یہ نبی تمہیں احکام الہیہ اور اُن کی حکمتیں بتاتا ہے.پس اسلام ممتاز ہے اس لے بقره: ۱۵۲

Page 11

بات میں کہ اس کا نبی دنیا کے لئے اُسوہ حسنہ بھی ہے اور جبر سے اپنے احکام نہیں منواتا بلکہ جب کوئی حکم دیتا ہے تو اپنے اتباع کے ایمانوں کو مضبوط کرنے اور اُن کے جوش کو زیادہ کرنے کے لئے یہ بھی بتاتا ہے کہ اس نے جو احکام دیئے ہیں اُن کے اندر ملت، افرادِ اُمت اور باقی بنی نوع انسان کے لئے کیا کیا فوائد مخفی ہیں اسی طرح اسلام ممتاز ہے دوسرے مذاہب سے اپنی تعلیم کے لحاظ سے.اسلام کی تعلیم چھوٹے اور بڑے ،غریب اور امیر عورت اور مردہ مشرقی اور مغربی ، کمزور اور طاقتور ،حاکم اور رعایا، آقا اور مزدور، خاوند اور بیوی، ماں باپ اور اولاد، بائع و مشتری ہمسائے اور مسافر سب کے لئے راحت ، امن اور ترقی کا پیغام ہے.وہ بنی نوع انسان میں سے کسی گروہ کو اپنے خطاب سے محروم نہیں کرتی.وہ اگلی اور پچھلی تمام اقوام کے لئے ایک ہدایت نامہ ہے جس طرح عالم الغیب خدا کی نظر پتھروں کے نیچے پڑے ہوئے ذروں پر بھی پڑتی ہے اور آسمان میں چمکنے والے ستاروں پر بھی.اسی طرح مسلمانوں کی مذہبی تعلیم غریب سے غریب اور کمزور سے کمزور انسانوں کی ضرورتوں کو بھی پورا کرتی ہے اور امیر سے امیر اور قوی سے قوی انسانوں کی احتیاجوں کو بھی دور کرتی ہے.غرض اسلام صرف گزشتہ مذاہب کی ایک نقل نہیں بلکہ وہ مذہب کی زنجیر کی آخری کڑی اور نظامِ روحانی کا سورج ہے اور اُس کی کسی بات سے دوسرے مذہب کا قیاس کرنا درست نہیں.مذہب کے نام میں بیشک سب شریک ہیں ، اسی طرح جس طرح ہیرا اور کوئلہ کار بن کے نام میں شریک ہیں لیکن ہیرا ہیرا ہی ہے اور کوئلہ کوئلہ ہی ہے.جس طرح پتھر کا نام کنکریلے پتھر اور سنگ مرمر دونوں پر بولا جا سکتا ہے لیکن کنکریلا پتھر کنکریلا پتھر ہی ہے اور سنگ مرمر سنگ مرمر ہی ہے پس یہ خیال کر لینا کہ چونکہ اسلام میں کلمہ پایا جاتا ہے اس لئے باقی مذاہب کا بھی کلمہ ہوتا ہوگا یہ محض نا

Page 12

واقفیت ہے اور قرآن کریم پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے اس سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ بعض لوگوں نے تو لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ اللهِ - لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُوسَى كَلِيمُ الله اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ عِيسَى رُوحُ اللہ کے کلمات بھی پیش کر دیئے ہیں اور کہا ہے کہ یہ پہلے مذاہب کے کلمے ہیں حالانکہ تو رات اور انجیل اور عیسائی لٹریچر میں ان کلموں کا کہیں نام و نشان بھی نہیں.مسلمانوں میں آج ہزاروں خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں لیکن کیا وہ اپنا کلمہ بھول گئے ہیں؟ پھر یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ عیسائی اور یہودی اپنا کلمہ بھول گئے ہیں.اگر وہ اپنا کلمہ بھول گئے ہیں اور ان کی کتابوں سے بھی یہ کلمے غائب ہو گئے ہیں تو مسلمانوں کو یہ کلمے کس نے بتائے ہیں.حق یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور نبی کا کلمہ نہیں تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ سارے نبیوں میں سے صرف آپ کو کلمہ ملا ہے اور کسی نبی کو کلمہ نہیں ملا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کلمہ میں اقرار رسالت کو اقرار توحید کے ساتھ ملادیا گیا ہے اور اقرار توحید ایک دائی صداقت ہے وہ کبھی مٹ نہیں سکتی.چونکہ پہلے نبیوں کی نبوت کے زمانہ نے کسی نہ کسی وقت ختم ہو جانا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ان میں سے کسی نبی کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کر نہیں بیان کیا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت نے چونکہ قیامت تک چلتے چلے جانا تھا اور آپ کا زمانہ کبھی ختم نہیں ہونا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی رسالت اور آپ کے نام کو کم یہ تو حید کے ساتھ ملا کر بیان کیا تا دنیا کو یہ بتا دے کہ جس طرح لا اله الا اللہ کبھی نہیں مٹے گا اسی طرح محمد رَسُولُ اللہ بھی کبھی نہیں مٹے گا.تعجب ہے کہ یہودی نہیں کہتا کہ موسیٰ علیہ السلام کا کوئی کلمہ تھا.عیسائی نہیں کہتا کہ عیسی علیہ السلام کا کوئی کلمہ تھا.صابی نہیں کہتا کہ ابراہیم علیہ السلام کا

Page 13

کوئی کلمہ تھا لیکن مسلمان جس کے نبی کی کلمہ خصوصیت تھا جس کے نبی کو اللہ تعالیٰ نے کلمہ سے ممتاز کیا تھا، جس کو کلمہ کے ذریعہ سے دوسری قوموں پر فضیلت دی گئی وہ بڑی فراخ دلی سے اپنے نبی کی اس فضیلت کو دوسرے نبیوں میں بانٹنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور جبکہ ان نبیوں کی اپنی امتیں کسی کلمہ کی دعویدار نہیں.یہ اُن کی طرف سے کلمے بنا کر آپ پیش کر دیتا ہے کہ یہودیوں کا یہ کلمہ تھا اور ابراہیمیوں کا یہ تھا اور عیسائیوں کا یہ کلمہ تھا.خلاصہ کلام یہ کہ ہر مذہب کے لئے کلمہ کا ہونا ضروری نہیں.اگر ضروری ہوتا تب بھی احمدیت کا کوئی نیا کلمہ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں.احمدیت صرف اسلام کا نام ہے.احمدیت اسی کلمہ پر ایمان رکھتی ہے جس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا.یعنی لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ احمدیوں کے نزدیک اس مادی جہان کا پیدا کرنے والا ایک خدا ہے جو وحدہ لاشریک ہے جس کی قوتوں اور طاقتوں کی کوئی انتہاء نہیں.جو رب ہے ، رحمن ہے ، رحیم ہے، مالک یوم الدین ہے.اُس کے اندر وہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور وہ اُن تمام باتوں سے منزہ ہے جن باتوں سے قرآن کریم نے اُسے منزہ قرار دیا ہے اور احمدیوں کے نزدیک محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب قرشی ملکی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول تھے اور سب سے آخری شریعت آپ پر نازل ہوئی.آپ بجھی اور عربی ، گورے اور کالے، تمام اقوام اور تمام نسلوں کی طرف مبعوث ہوئے.آپ کا زمادیہ نبوت ادعائے بنوت سے لے کر اُس وقت تک ممتد ہے جب تک کہ دنیا کے پردہ پر کوئی متنفس زندہ ہے، آپ کی تعلیم ہر انسان کے لئے واجب العمل ہے اور کوئی انسان ایسا

Page 14

نہیں جس پر حجت تمام ہوگئی ہو اور وہ آپ پر ایمان نہ لایا ہو اور وہ خدائی عذاب کا مستحق نہ ہو.ہر ایک شخص جس تک آپ کا نام پہنچا اور جس کے سامنے آپ کی صداقت کے دلائل بیان کئے گئے وہ مکلف ہے آپ پر ایمان لانے کے لئے اور بغیر آپ پر ایمان لائے وہ نجات کا حقدار نہیں اور بچی پاکیزگی محض آپ ہی کے نقش قدم پر چل کر حاصل ہو سکتی ہے.احمدیوں کے متعلق بعض شکوک کا ازالہ ختم نبوت کے متعلق احمد یوں کا عقیدہ مذکورہ بالا نا واقف گروہ میں سے بعض لوگ یہ خیال بھی کرتے ہیں کہ احمدی ختم ثبوت کے قائل نہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے.یہ محض دھو کے اور ناواقفیت کا نتیجہ ہے.جب احمدی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور کلمہ شہادت پر یقین رکھتے ہیں تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ وہ ختم نبوت کے منکر ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہ مانیں.قرآن کریم میں صاف طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النبي محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی جوان مرد کے باپ نہ ہیں نہ آئندہ ہوں گے لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ،قرآن کریم پر ایمان رکھنے والا آدمی اس آیت کا انکار کس طرح کر سکتا ہے.پس احمدیوں کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ خاتم النبیین نہیں تھے.جو کچھ احمدی کہتے ہیں وہ صرف یہ احزاب : ۴۱

Page 15

ہے کہ خاتم النبیین کے وہ معنی جو اس وقت مسلمانوں میں رائج ہیں نہ تو قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت پر چسپاں ہوتے ہیں اور نہ اُن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور شان اُس طرح ظاہر ہوتی ہے جس عزت اور شان کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور احمدی جماعت خاتم النبیین کے وہ معنی کرتی ہے جو عربی لغت میں عام طور پر متداول ہیں اور جن معنوں کی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ تائید کرتے ہیں اور جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور آپ کی منزلت بہت بڑھ جاتی ہے اور تمام بنی نوع انسان پر آپ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے.پس احمدی ختم نبوت کے منکر نہیں بلکہ ختم نبوت کے ان معنوں کے منکر ہیں جو عام مسلمانوں میں موجودہ زمانہ میں غلطی سے رائج ہو گئے ہیں ورنہ ختم نبوت کا انکار تو گفر ہے اور احمدی خدا تعالیٰ کے فضل سے مسلمان ہیں اور اسلام پر چلنا ہی نجات کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں.قرآن کریم انہی ناواقف لوگوں میں سے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ احمدی قرآن شریف پر پورا ایمان نہیں رکھتے بلکہ صرف چند سیپاروں کو مانتے ہیں چنانچہ مجھے حال میں کوئٹہ میں درجنوں آدمیوں نے مل کر بتایا کہ ہمیں علماء نے بتایا ہے کہ احمدی سارے قرآن کو نہیں مانتے یہ بھی ایک اتہام ہے جو احمدیت کے دشمنوں نے احمدیت پر لگایا ہے.احمدیت قرآن کریم کو ایک نہ تبدیل ہونے والی اور نہ منسوخ ہونے والی کتاب قرار دیتی ہے.احمدیت بسم اللہ کی سب سے لے کر والناس کے س تک ہر ایک حرف اور

Page 16

ہر ایک لفظ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھتی اور قابل عمل تسلیم کرتی ہے.احمدیوں کا فرشتوں کے متعلق عقیدہ انہی نا واقف لوگوں میں سے بعض لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ احمدی فرشتوں اور شیطان کے قائل نہیں یہ الزام بھی محض اتہام ہے.فرشتوں کا ذکر بھی قرآن کریم میں موجود ہے اور شیطان کا ذکر بھی قرآن کریم میں موجو د ہے.جن چیزوں کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے ، قرآن کریم پر ایمان کا دعوی کرتے ہوئے ان چیزوں کا انکار احمدیت کر ہی کس طرح سکتی ہے.ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے فرشتوں پر پورا ایمان رکھتے ہیں بلکہ احمدیت سے جو برکات ہمیں حاصل ہوئی ہیں اُن کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ہم فرشتوں پر ایمان لاتے ہیں بلکہ ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ فرشتوں کے ساتھ قرآن کریم کی مدد سے تعلق بھی پیدا کیا جا سکتا ہے اور اُن سے علوم روحانیہ بھی سیکھے جاسکتے ہیں.خود راقم الحروف نے کئی علوم فرشتوں سے سیکھے.مجھے ایک دفعہ ایک فرشتہ نے سورہ فاتحہ کی تفسیر پڑھائی اور اُس وقت سے لے کر اس وقت تک سورہ فاتحہ کے اس قدر مطالب مجھ پر کھلے ہیں کہ اُن کی حد ہی کوئی نہیں اور میرا دعوی ہے کہ کسی مذہب و ملت کا آدمی روحانی علوم میں سے کسی مضمون کے متعلق بھی جو کچھ اپنی ساری کتاب میں نکال سکتا ہے اس سے بڑھ کر مضامین خدا تعالیٰ کے فضل سے میں صرف سورہ فاتحہ سے نکال سکتا ہوں.مدتوں سے میں دنیا کو یہ چیلنج دے رہا ہوں مگر آج تک کسی نے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا.ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت، توحید الہی کا ثبوت، رسالت اور اس کی ضرورت ،شریعتِ کاملہ کی علامات اور بنی نوع انسان کے لئے اس کی ضرورت ، دعا، تقدیر، کشر ونشر، جنت و

Page 17

۱۲ دوزخ.ان تمام مضامین پر سورہ فاتحہ سے ایسی روشنی پڑتی ہے کہ دوسری کتب کے سینکڑوں صفحات بھی اتنی روشنی انسان کو نہیں پہنچاتے.پس فرشتوں کے انکار کا تو کوئی سوال ہی نہیں احمدی تو فرشتوں سے فائدہ اٹھانے کا بھی مدعی ہے باقی رہا شیطان.سو شیطان تو ایک گندی چیز ہے اس پر ایمان لانے کا تو سوال ہی کوئی نہیں.ہاں اس کے وجود کا علم ہمیں قرآن کریم سے حاصل ہوتا ہے اور ہم اس کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے ذمہ یہ کام لگایا ہے کہ ہم شیطان کی طاقت کو توڑیں اور اس کی حکومت کو مٹائیں.شیطان کو بھی میں نے خواب میں دیکھا ہے اور ایک دفعہ تو میں نے اس سے گشتی بھی کی ہے اور خدائے تعالیٰ کی مدد سے اور کلمات تعوذ کی برکت سے اس کو شکست بھی دی ہے، اور ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ جس کام کے لئے تم مقرر کئے جاؤ گے اس کے رستہ میں شیطان اور اسکی اولاد بہت سی روکیں ڈالے گی تم اس کی روکوں کی پرواہ نہ کرنا اور یہ فقرہ کہتے ہوئے بڑھتے چلے جانا کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ تب میں اس جہت کو چلا جس جہت کی طرف جانے کا خدا تعالیٰ نے مجھے ارشاد فرمایا تھا اور میں نے دیکھا کہ شیطان اور اس کی اولاد مختلف طریق سے مجھے دھمکانے اور ڈرانے کی کوشش کرنے لگی.بعض جگہ پر صرف سر ہی سر سامنے آ جاتے تھے اور مجھے ڈرانے کی کوشش کرتے تھے بعض جگہ خالی دھڑ آ جاتے تھے.بعض جگہ شیطان شیروں اور چیتوں کی شکل بدل کر یا ہاتھیوں کی شکل بدل کر آتا تھا مگر الہی حکم کے ماتحت میں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور یہی کہتے ہوئے بڑھتا چلا گیا کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ، خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ جب کبھی میں یہ فقرہ پڑھتا تھا شیطان اور اس کی اولا د بھاگ جاتی تھی اور میدان صاف ہو جاتا تھا مگر تھوڑی

Page 18

دیر کے بعد وہ پھر ایک نئی شکل اور نئی صورت میں میرے سامنے آتا تھا.مگر اس دفعہ بھی یہی حربہ اس کے مٹانے میں کامیاب ہو جاتا تھا حتی کہ منزل مقصود آگئی اور شیطان کلی طور پر میدان چھوڑ کر بھاگ گیا.اسی رؤیا کی بنا پر میں اپنی تمام اہم تحریروں پر سر نامہ سے او پر خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کا فقرہ لکھا کرتا ہوں.پس ہم ملائکہ پر ایمان رکھتے ہیں اور شیطان کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ احمدی لوگ معجزات کے منکر ہیں.یہ بھی واقعات کے خلاف ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تو الگ رہے ہم تو اس بات کے بھی قائل ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے اتباع کو بھی اللہ تعالیٰ معجزات عطا فرماتا ہے.قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات سے بھرا ہوا ہے اور ان کا انکارصرف ایک ازلی اور ابدی اندھا ہی کر سکتا ہے.نجات کے متعلق احمدیوں کا عقیدہ بعض لوگ احمدیت کے متعلق اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ احمد یہ عقیدہ کی رُو سے احمدیوں کے سوا باقی تمام لوگ جہنمی ہیں.یہ بھی محض ناواقفیت یا دشمنی کا نتیجہ ہے.ہمارا ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ احمدیوں کے سوا باقی تمام لوگ جہنمی ہیں.ہمارے نزدیک یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی احمدی ہو لیکن وہ جہنمی ہو جائے جس طرح یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی احمدی نہ ہو اور وہ جنت میں چلا جائے کیونکہ جنت صرف منہ کے اقرار کا نتیجہ نہیں.جنت بہت سی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے.اسی طرح دوزخ صرف منہ کے انکار کا نتیجہ نہیں بلکہ دوزخ کا شکار بننے کے لئے بہت سی شرطیں ہیں.کوئی انسان دوزخ میں نہیں جا

Page 19

۱۴ سکتا جب تک اُس پر حجت تمام نہ ہو.خواہ وہ بڑی سے بڑی صداقت کا منکر ہی کیوں نہ ہو.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بچپن میں مر جانے والے یا بلند پہاڑوں میں رہنے والے یا جنگلوں میں رہنے والے یا اتنے بڑھے جن کی سمجھ ماری گئی ہو یا پاگل جو عقل سے کورے ہوں ان لوگوں سے مؤاخذہ نہیں ہوگا بلکہ خدا تعالیٰ قیامت کے دن ان لوگوں کی طرف دوبارہ نبی مبعوث فرمائے گا اور اُن کو سچ اور جھوٹ کے پہچاننے کا موقع دیا جائے گا تب جس پر حجت تمام ہوگی وہ دوزخ میں جائے گا اور جو ہدایت قبول کرے گا وہ جنت میں جائے گا.پس یہ غلط ہے کہ احمدیوں کے نزدیک ہر وہ شخص جو احمدیت میں داخل نہیں ہوتا دوزخی ہے.نجات کے متعلق ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر وہ شخص جو صداقت کے سمجھنے سے گریز کرتا ہے اور یہ کوشش کرتا ہے کہ صداقت اس کے کان میں نہ پڑے تا کہ اسے ماننی نہ پڑے یا جس پر مجبت تمام ہو جائے مگر پھر بھی ایمان نہ لائے خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل مؤاخذہ ہے لیکن ایسے شخص کو بھی اگر خدا تعالیٰ چاہے تو معاف کر سکتا ہے اس کی رحمت کی تقسیم ہمارے ہاتھ میں نہیں.ایک غلام اپنے آقا کو سخاوت سے باز نہیں رکھ سکتا.خدا تعالیٰ ہمارا آقا ہے اور ہمارا بادشاہ ہے اور ہمارا خالق ہے اور ہمارا مالک ہے.اگر اس کی حکمت اور اس کا علم اور اس کی رحمت کسی ایسے شخص کو بھی بخشتا چاہے جس کی عام حالات کے مطابق بخشش ناممکن نظر آتی ہو تو ہم کون ہیں جو اس کے ہاتھ کو روکیں اور ہم کون ہیں جو اُس کو بخشش سے باز رکھیں.نجات کے متعلق تو احدیت کا عقیدہ اتنا وسیع ہے کہ اس کی وجہ سے بعض مولویوں نے احمدیوں پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے یعنی ہم لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کوئی انسان بھی دائمی عذاب میں مبتلا نہیں ہوگا، نہ مومن نہ کا فر.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ

Page 20

۱۵ تعالیٰ فرماتا ہے وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَى اے میری رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے اور پھر فرماتا ہے کہ فَأُتُهُ هَاوِيَةٌ 10 کافر اور دوزخ کی آپس کی نسبت ایسی ہی ہوگی جیسے عورت اور اس کے بچہ کی ہوتی ہے اور پھر فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ سے تمام جن و انس کو میں نے اپنا عبد بنانے کے لئے پیدا کیا ہے.ان اور ایسی ہی بہت سی آیات کے ہوتے ہوئے ہم کیوں کر مان سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت آخر دوزخیوں کو نہیں ڈھانپ لے گی اور دوزخی جہنم کے رحم سے کبھی بھی خارج نہ ہوگا اور وہ بندے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنا عبد بنانے کے لئے پیدا کیا تھا وہ دائمی طور پر شیطان کے عبد رہیں گے اور خد اتعالیٰ کے عبد نہیں بنیں گے اور خدا تعالیٰ کی محبت بھری آواز کبھی بھی اُن کو مخاطب کر کے یہ نہیں کہے گی کہ فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي " آؤ میرے بندوں میں داخل ہو کر میری جنت میں داخل ہو جاؤ! احمدیوں کا احادیث پر ایمان بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ احمدی حدیثوں کو نہیں مانتے اور بعض لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ احمدی ائمہ فقہاء کو نہیں مانتے.یہ دونوں باتیں غلط ہیں.احمدیت تقلید اعراف: ۱۵۷ القارعة : ١٠ الدريت : ۵۷ الفجر :۳۱،۳۰

Page 21

۱۶ وعدم تقلید کے مسئلہ میں بین بین راہ اختیار کرتی ہے.احمدیت کی تعلیم یہ ہے کہ جو بات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اس کے بعد کسی اور انسان کی آواز کو سننا محمد رسول اللہ کی ہتک ہے.آقا کے ہوتے ہوئے کسی غلام کی آواز نہیں سنی جاسکتی.اُستاد کی موجودگی میں کسی شاگرد سے سبق نہیں لیا جا سکتا.آئمہ فقہاء خواہ کتنے بڑے ہوں بہر حال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اُن کی تمام عزت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں تھی اور اُن کی تمام شان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں تھی.پس جب کوئی بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جائے اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ قول جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جائے قرآن کریم کے مطابق ہو تو وہ بات ایک آخری فیصلہ ہے، ایک نہ ٹلنے والا حکم ہے اور کوئی شخص اس بات کا حق نہیں رکھتا کہ وہ اس حکم کو ر ڈ کر دے یا اس کے خلاف زبان کھولے لیکن چونکہ حدیث کے راوی انسان ہیں اور ان میں نیک بھی ہیں اور بد بھی ہیں اور اچھے حافظوں والے بھی ہیں اور بُرے حافظوں والے بھی ہیں اور اچھے ذہن والے بھی ہیں اور کند ذہن والے بھی ہیں.اگر کوئی ایسی حدیث ہو جس کا مفہوم قرآن کریم کے خلاف ہو تو چونکہ ہر ایک حدیث قطعی نہیں بلکہ خود آئمہ حدیث کے مسلمات کے مطابق بعض حدیثیں قطعی ہیں اور بعض عام درجہ کی ہیں بعض مشکوک اور ظنی ہیں اور بعض وضعی ہیں اس لئے قرآن کریم جیسی قطعی کتاب کے مقابلہ میں جو حدیث آجائے گی اُس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا مگر جہاں قرآن کریم کی بھی کوئی نص صریح موجود نہ ہو اور حدیث بھی ایسے ذرائع سے ثابت نہ ہو جو یقین اور قطعیت تک پہنچاتے ہوں یا حدیث کے الفاظ ایسے ہوں کہ اُن سے کئی معنے نکل سکتے ہوں تو اس وقت یقیناً آئمہ فقہاء جنہوں نے اپنی

Page 22

۱۷ عمریں قرآن کریم اور احادیث پر غور اور تدبر کرنے میں صرف کر دی ہیں اجتہاد کرنے کے مستحق ہیں اور ایک عام آدمی جس نے نہ قرآن پر غور کیا ہے نہ حدیث پر غور کیا ہے یا جس کا علم اور تفقہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ غور کر سکے، اس کا حق نہیں کہ وہ یہ کہے کہ امام ابو حنیفہ یا امام احمد یا امام شافعی یا امالک یا دوسرے آئمہ دین کو کیا حق ہے کہ اُن کی بات کو مجھ سے زیادہ وزن دیا جائے.میں بھی مسلمان ہوں اور وہ بھی مسلمان.اگر ایک عام آدمی اور ایک ڈاکٹر کا مرض کے متعلق اختلاف ہو تو ایک ڈاکٹر کی رائے کو عام کی رائے پر ترجیح دی جاتی ہے اور قانون میں اختلاف ہو تو ایک وکیل کی رائے کو غیر وکیل کی رائے پر ترجیح دی جاتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ دینی معاملات میں ان آئمہ کی رائے کو تر جیح نہ دی جائے جنہوں نے اپنی عمریں قرآن کریم اور حدیث پر تدبر کرنے پر صرف کر دی ہوں اور جن کے ذہنی قوی بھی دوسرے لاکھوں آدمیوں سے اچھے ہوں اور جن کے تقویٰ اور جن کی طہارت پر خدائی سلوک نے مہر لگادی ہو.غرض احمدیت نہ گلی طور پر اہل حدیث کی بات کی تائید کرتی ہے نہ گلی طور پر مقلدین کی تائید کرتی ہے.احمدیت کا سیدھا سادھا عقیدہ اس بارہ میں وہی ہے جو حضرت امام ابو حنیفہ کا تھا کہ قرآن کریم سب سے مقدم ہے.اس سے اتر کر احادیث صحیحہ ہیں اور اس سے اتر کر ماہرین فن کا استدلال اور اجتہاد ہے.اس عقیدہ کے مطابق احمدی بعض دفعہ اپنے آپ کو حنفی بھی کہتے ہیں جس کے معنے یہ بھی ہوتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے جو اصل مذہب کا بیان فرمایا ہے ہم اس کو صحیح تسلیم کرتے ہیں اور بعض دفعہ احمدی اپنے آپ کو اہل حدیث بھی کہہ دیتے ہیں کیونکہ احمدیت کے نزدیک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول جب وہ ثابت اور روشن ہو تمام بنی نوع انسان کے اقوال پر فوقیت رکھتا ہے حتی کہ تمام آئمہ کے مجموعی اقوال پر بھی فوقیت رکھتا ہے.

Page 23

۱۸ احمدیوں کا تقدیر کے متعلق عقیدہ ان غلط فہمیوں میں سے جو نا واقفوں کو جماعت احمدیہ کے متعلق ہیں ایک غلط نہی یہ بھی ہے کہ احمدی لوگ تقدیر کے منکر ہیں.احمدی لوگ تقدیر کے ہرگز منکر نہیں.ہم لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر اس دُنیا میں جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی اور اس کی تقدیر کو کوئی بدل نہیں سکتا.ہم صرف اسبات کے خلاف ہیں کہ چور کی چوری، بے نماز کے ترک نماز ، جھوٹے کے جھوٹ ، دھو کے باز کے دھوکے، قاتل کے قتل اور بد کار کی بدکاری کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے اور اپنے منہ کی سیاہی خدا تعالیٰ کے منہ پر ملنے کی کوشش کی جائے.ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اس دینا میں تقدیر اور تدبیر کی دو نہریں ایک وقت میں چلائی ہیں اور بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا یبْغِین کے ارشاد کے مطابق ان دونوں کے درمیان ایک ایسی حد فاصل مقرر کر دی ہے کہ یہ کبھی آپس میں ٹکراتی نہیں.تدبیر کا میدان اپنی جگہ پر ہے.اور تقدیر کا میدان اپنی جگہ پر ہے جن امور کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنی تقدیر کو لازم قرار دیا ہے ان میں تدبیر کچھ نہیں کر سکتی اور جن امور کے لئے اس نے تدبیر کا رستہ کھولا ہے اُن میں تقدیر پر اُمید لگا کر بیٹھے رہنا اپنے پنے مستقبل کو خود تباہ کرنا ہے.پس ہم جس بات کے مخالف ہیں وہ یہ ہے کہ انسان اپنی بد اعمالیوں کو تقدیر کے پردہ میں چھپانے کی کوشش کرے اور اپنی ستیوں اور غفلتوں کا جواز تقدیر کے لفظ سے نکالے اور جہاں خدا تعالیٰ نے تدبیر کا حکم دیا ہے وہاں تقدیر پر آس لگائے بیٹھا رہے کیونکہ اس کا نتیجہ ہمیشہ خطرناک نکلتا الرحمن : ۲۱

Page 24

۱۹ ہے.مسلمان خدائی تقدیر پر نظر رکھ کر بیٹھے رہے اور اس جد و جہد کو انہوں نے ترک کر دیا جو قومی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دین سے تو گئے تھے دُنیا سے بھی گزر گئے.اگر وہ اس امر کو مد نظر رکھتے کہ جن کاموں کے لئے خدا تعالیٰ نے تدبیر کا دروازہ کھولا ہے ان میں تقدیر کو مدنظر رکھنے کی بجائے تدبیر کو مد نظر رکھنا چاہئے تو اُن کی حالت اتنی نہ گرتی اور وہ اتنے زبوں حال نہ ہوتے جتنے کہ اب ہیں.احمدیوں کا جہاد کے متعلق عقیدہ احمدیت کے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ احمدی جہاد کے منکر ہیں.یہ درست نہیں.احمدی جہاد کے منکر نہیں.احمدیوں کا عقیدہ صرف یہ ہے کہ جنگیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک جہاد اور ایک محض جنگ.جہاد صرف اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں مذہب کو بچانے کے لئے لڑائی کی جائے اور ایسے دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے جو مذہب کو تلوار کے زور سے مٹانا چاہتے ہیں اور جو شجر کی نوک سے عقیدہ تبدیل کروانا چاہتے ہیں، اگر دنیا میں ایسے واقعات ظاہر ہوں تو جہاد ہر مسلمان پر فرض ہو جاتا ہے مگر ایسے جہاد کے لئے ایک یہ بھی شرط ہے کہ اس جہاد کا اعلان امام کی طرف سے ہونا چاہئے تا مسلمانوں کو معلوم ہو سکے کہ ان میں سے کن کن کو جہاد میں شامل ہونا چاہئے اور کن کن کو اپنی باری کا انتظار کرنا چاہئے.اگر ایسا نہ ہو تو ایسے جہاد کے موقع کے آنے پر جو مسلمان بھی جہاد میں شامل نہ ہو گا وہ گنہگار ہو گا لیکن اگر امام ہو تو وہی مسلمان گنہ گار ہو گا جس کو جہاد کے لئے بلایا جائے اور وہ نہ آئے.جب احمدی جماعت کسی ملک میں جہاد کا انکار کرتی تھی تو اس لئے کرتی تھی کہ مذہب کو بزور شمشیر بدلوانے کی کوشش انگریز نہیں کر رہے

Page 25

تھے.اگر احمدی جماعت کا یہ خیال غلط تھا اور واقعہ میں انگریز شمشیر سے مذہب بدلوانے کی کوشش کر رہے تھے تو پھر یقیناً جہاد واجب تھا مگر سوال یہ ہے کہ کیا جہاد کے واجب ہو جانے کے بعد ہر مسلمان نے تلوار اٹھا کر انگریز کا مقابلہ کیا ؟ اگر نہیں کیا تو احمدی تو خدا تعالیٰ کو یہ جواب دیں گے کہ ہمارے نزدیک ابھی جہاد کا وقت نہیں آیا تھا اگر ہم نے غلطی کی تو ہماری غلطی اجتہادی تھی لیکن ان کے مخالف مولوی کیا جواب دیں گے؟ کیا وہ یہ کہیں گے کہ اے خدا جہاد کا وقت تو تھا اور ہم یقین رکھتے تھے کہ یہ جہاد کا وقت ہے اور ہم سمجھتے تھے کہ جہاد فرض ہو گیا ہے لیکن اے ہمارے خدا ہم نے جہاد نہیں کیا کیونکہ ہمارے دل ڈرتے تھے اور نہ ہم نے ان لوگوں کو جہاد کے لئے آگے بھجوایا جن کے دل نہیں ڈرتے تھے کیونکہ ہم ڈرتے تھے کہ ایسا کرنے سے بھی انگریز ہم کو پکڑ لیں گے میں یہ فیصلہ مُنصف مزاج لوگوں پر ہی چھوڑتا ہوں کہ ان دونوں جوابوں میں سے کون سا جواب خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ قابل قبول ہے.اب تک تو جو کچھ میں نے کہا وہ ان لوگوں کے وساوس کو دور کرنے کے لئے کہا ہے جو احمدیت کا سرسری مطالعہ بھی نہیں رکھتے اور جو احمدیت کے پیغام کو اس کے دشمن سے سنتے یا بغیر احمدیت کا مطالعہ کرنے کے اپنے دلوں سے احمدیت کے عقائد اور احمدیت کی تعلیم بنانا چاہتے ہیں.اب میں ان لوگوں کو مخاطب کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے احمدیت کا ایک حد تک مطالعہ کیا ہے اور جو جانتے ہیں کہ احمدی خدا تعالیٰ کی توحید پر یقین رکھتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر بھی یقین رکھتے ہیں ، قرآن کریم کو بھی مانتے ہیں ،حدیث کو بھی مانتے ہیں، نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، حج بھی کرتے ہیں، زکوۃ بھی دیتے ہیں، حشر ونشر اور جزا وسزا پر بھی ایمان رکھتے ہیں.لیکن وہ

Page 26

۲۱ حیران ہیں کہ جب احمدی دوسرے مسلمانوں کی طرح مسلمان ہیں تو پھر اس نئے فرقہ کو قائم کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ اُن کے نزدیک احمدیوں کا عقیدہ اور احمدیوں کا عمل قابل اعتراض نہیں لیکن اُن کے نزدیک ایک نئی جماعت بنا نا قابل اعتراض امر ہے کیونکہ جب فرق کوئی نہیں تو افتراق کرنے کی وجہ کیا ہوئی اور جب اختلاف نہیں تو دوسری مسجد بنانے کا مقصد کیا ہوا؟ نئی جماعت بنانے کی وجہ اس سوال کا جواب دو طرح دیا جا سکتا ہے.عقلی طور پر اور روحانی طور پر عقلی طور پر اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جماعت صرف تعداد کا نام نہیں.ہزار ، لاکھ یا کروڑ افراد کو جماعت نہیں کہتے بلکہ جماعت اُن افراد کے مجموعہ کو کہتے ہیں جو متحد ہو کر کام کرنے کا فیصلہ کر چکے ہوں اور ایک متحدہ پروگرام کے مطابق کام کر رہے ہوں ایسے افراد اگر پانچ سات بھی ہوں تو جماعت ہے اور جن میں یہ بات نہ ہو وہ کروڑوں بھی جماعت نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں نبوت کا دعوی کیا تو پہلے دن آپ پر صرف چار آدمی ایمان لائے تھے آپ پانچویں تھے ، باوجود پانچ ہونے کے آپ ایک جماعت تھے مگر منہ کی آٹھ دس ہزار کی آبادی جماعت نہیں تھی نہ عرب کی آبادی جماعت تھی.کیونکہ نہ اُنہوں نے متحد ہو کر کام کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور نہ ان کا کوئی متحدہ پروگرام تھا پس اس قسم کا سوال کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اس وقت مسلمان کوئی جماعت ہیں؟ کیا دنیا کے مسلمان تمام معاملات میں آپس میں مل کر کام کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں یا ان کا کوئی متحدہ پروگرام ہے؟ جہاں تک ہمدردی کا سوال ہے میں مانتا ہوں کہ

Page 27

۲۲ مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے متعلق ہمدردی ہے مگر وہ بھی سارے مسلمانوں میں نہیں.کچھ کے دلوں میں ہے اور کچھ کے دلوں میں نہیں.اور پھر کوئی ایسا نظام موجود نہیں جس کے ذریعہ سے اختلاف کو مٹایا جا سکے.اختلاف تو جماعت میں بھی ہوتا ہے بلکہ نبیوں کے وقت کی جماعت میں بھی ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی بعض دفعہ انصار اور مہاجرین کا اختلاف ہو گیا اور بعض دفعہ بعض دوسرے قبائل میں اختلاف ہو گیا لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرما دیا تو اس وقت سب اختلاف مٹ گیا.اسی طرح خلافت کے ایام میں بھی اختلاف پیدا ہو جاتا تھا لیکن جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تو خلفاء فیصلہ کرتے اور وہ اختلاف مٹ جاتا.خلافت کے ختم ہونے کے بعد بھی کوئی ستر سال تک مسلمان ایک حکومت کے نیچے رہے.جہاں جہاں بھی مسلمان تھے وہ ایک نظام کے تابع تھے.وہ نظام بُرا تھا یا اچھا تھا بہر حال اُس نے مسلمانوں کو ایک رشتہ سے باندھ رکھا تھا.اس کے بعد اختلاف ہوا اور مسلمان دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے.سپین کا ایک حلقہ بن گیا اور باقی دنیا کا ایک حلقہ بن گیا.یہ اختلاف تو تھا مگر بہت ہی محدود اختلاف تھا.دنیا کے مسلمانوں کا بیشتر حصہ پھر بھی ایک نظام کے نیچے چل رہا تھا مگر تین سو سال گزرنے کے بعد یہ انتظام ایسا ٹوٹا کہ تمام مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو گیا اور ان میں تشئت اور پراگندگی پیدا ہوگئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچ فرمایا تھا کہ خَيْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُوْنَهُمْ يَفْشُوا الْكَذِبُ سب سے اچھی صدی میری ہے ان سے اتر کر وہ لوگ ہوں گے جو دوسری صدی میں ہوں گے اور ان سے اتر کر وہ لوگ ہوں گے جو تیسری مسلم کتاب الفضائل في فضل الصحابة ثمّ الّذين يلونهم

Page 28

۲۳ صدی میں ہوں گے.پھر دُنیا میں سے سچائی مٹ جائے گی اور ظلم وتشد داور اختلاف کا دور دورہ ہو جائے گا اور ایسا ہی ہوا اور پھر یہ اختلاف بڑھتا ہی چلا گیا یہاں تک کہ گزشتہ تین صدیوں میں تو مسلمان اپنی طاقت بالکل کھو بیٹھے.گجاوہ وقت تھا کہ یورپ ایک ایک مسلمان بادشاہ سے ڈرتا تھا اور اب یورپ اور امریکہ کی ایک ایک طاقت کا مقابلہ کرنے کی سکت سارے عالم اسلام میں بھی نہیں.یہودیوں کی کتنی چھوٹی سی حکومت فلسطین میں بنی ہے.شام، عراق، لبنان ، سعودی عرب، مصر اور فلسطین کی فوجیں اس کا مقابلہ کر رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یو.این.اونے جو علاقہ یہودیوں کو دیا تھا اس سے بہت زیادہ اس وقت یہودیوں کے قبضہ میں ہے.یہ درست ہے کہ یہودی حکومت کی مدد امریکہ اور انگلستان کر رہے ہیں لیکن سوال بھی تو یہی ہے کہ کبھی تو مسلمانوں کی ایک ایک حکومت سارے مغرب پر غالب تھی اور اب مغرب کی بعض حکومتیں سارے مسلمانوں سے زیادہ طاقت ور ہیں.پس جماعت کا جو مفہوم ہے اس وقت اس کے مطابق مسلمانوں کی کوئی جماعت نہیں.حکومتیں ہیں جن میں سب سے بڑی پاکستان کی حکومت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب قائم ہوئی ہے لیکن اسلام پاکستان کا نام نہیں ، نہ اسلام مصر کا نام ہے، نہ اسلام شام کا نام ہے، نہ اسلام ایران کا نام ہے، نہ اسلام افغانستان کا نام ہے، نہ اسلام سعودی عرب کا نام ہے، اسلام تو اُس رشتہ وحدت کا نام ہے جس نے سارے مسلمانوں کو یکجا کر دیا تھا اور ایسا کوئی نظام اس وقت دنیا میں موجود نہیں.پاکستان کو افغانستان سے ہمدردی ہے افغانستان کو پاکستان سے ہمدردی ہے لیکن نہ پاکستان افغانستان کی ہر بات ماننے کے لئے تیار ہے نہ افغانستان پاکستان کی ہر بات ماننے کے لئے تیا رہے.دونوں کی سیاست الگ الگ ہے اور دونوں اپنے اندرونی معاملات

Page 29

۲۴ میں آزاد ہیں.یہی حال افراد کا ہے.افغانستان کے باشندے اپنی جگہ پر آزاد ہیں.پاکستان کے باشندے اپنی جگہ پر آزاد ہیں.مصر کے باشندے اپنی جگہ پر آزاد ہیں.ان کو ایک لڑی میں پرونے والی کوئی چیز نہیں.پس اس وقت مسلمان بھی ہیں مسلمانوں کی حکومتیں بھی ہیں اور ان میں سے بعض حکومتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے مضبوط ہو رہی ہیں لیکن پھر بھی مسلمان ایک جماعت نہیں.فرض کرو پاکستان کا بیڑا اتنا مضبوط ہو جائے کہ تمام بحر الہند میں حکومت کرنے لگ جائے.اس کی فوج اتنی مضبوط ہو جائے کہ ہندوستان یونین اس سے کانپنے لگ جائے.اس کی اقتصادی حالت اتنی بڑھ جائے کہ دُنیا کی منڈیوں پر اس کا قبضہ ہو جائے بلکہ اس کی اتنی طاقت بڑھ جائے کہ امریکہ کی طاقت سے بھی بڑھ جائے تو کیا ایران، شام، فلسطین اور مصر اپنے آپ کو پاکستان میں مدغم کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے؟ ظاہر ہے کہ نہیں.وہ پاکستان کی عظمت کا اقرار کرنے کے لئے تیار ہوں گے وہ اس سے ہمدردی کرنے کے لئے تیار ہوں گے مگر وہ اپنی ہستی کو اس میں مٹا دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے.پس گو خدا تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کی سیاسی حالت بہتر ہو رہی ہے اور بعض نئی اسلامی حکومتیں قائم ہو رہی ہیں لیکن باوجود اس کے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک اسلامی جماعت نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ مختلف سیاستوں میں بٹے ہوئے ہیں اور الگ الگ حکومتوں میں تقسیم ہیں.ان سب کی آواز کو ایک جگہ جمع کرنے والی کوئی طاقت نہیں مگر اسلام تو عالمگیر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.اسلام عرب کے مسلمانوں کا نام نہیں.اسلام شام کے مسلمانوں کا نام نہیں.اسلام ایران کے مسلمانوں کا نام نہیں.اسلام افغانستان کے مسلمانوں کا نام نہیں.جب دینا کے ہر ملک کے مسلمان اسلام کے نام کے نیچے جمع ہو جاتے ہیں تو اسلامی جماعت وہی ہوسکتی ہے جو

Page 30

۲۵ ان سارے گروہوں کو اکٹھا کرنے والی ہو اور جب تک ایسی جماعت دنیا میں قائم نہ ہو ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہم اس وقت مسلمانوں کو کوئی جماعت نہیں گو حکومت ہے اور سیاست ہے.اسی طرح متحدہ پروگرام کا سوال ہے جہاں ایسا کوئی نظام نہیں جو ساری دنیا کے مسلمانوں کو اکٹھا کر سکے وہاں مسلمانوں کا کوئی متحدہ پروگرام بھی نہیں نہ سیاسی ، نہ تمدنی نہ مذہبی.منفردانہ طور پر کسی کسی جگہ پر کسی مسلمان کا دشمنانِ اسلام سے مقابلہ کر لینا یہ اور چیز ہے اور متحدہ طور پر ایک مخصوص نظام کے ماتحت چاروں طرف سے دشمن کے حملہ کا جائزہ لے کر اس کے مقابلہ کی کوشش کرنا یہ الگ بات ہے.پس پروگرام کے لحاظ سے بھی مسلمان ایک جماعت نہیں.ایسی صورت میں اگر کوئی جماعت قائم ہو اور مذکورہ بالا دونوں مقاصد کو لے کر قائم ہوا تو اس پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایک نئی جماعت قائم ہوگئی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ پہلے کوئی جماعت نہیں تھی اب ایک جماعت بن گئی ہے.میں ان دوستوں سے جن کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ باوجود ایک نماز، ایک قبلہ ، ایک قرآن اور ایک رسول ہونے کے پھر احمدی جماعت نے الگ جماعت کیوں بنائی، کہتا ہوں کہ وہ اس نکتہ پر غور کریں اور سوچیں کہ اسلام کو پھر ایک جماعت بنانے کا وقت آچکا ہے اس کام کے لئے کب تک انتظار کیا جائے گا؟ مصر کی حکومت اپنی جگہ پر اپنا کام کر رہی ہے.ایران کی حکومت اپنی جگہ پر اپنا کام کر رہی ہے.افغانستان کی حکومت اپنی جگہ پر اپنا کام کر رہی ہے.دیگر اسلامی حکومتیں اپنی اپنی جگہ پر اپنا اپنا کام کر رہی ہیں لیکن ان کی موجودگی میں بھی ایک خلاء باقی ہے.ایک کمی باقی ہے اور اسی خلا اور اسی کمی کو پورا کرنے کے لئے احمد یہ جماعت قائم ہوئی ہے.

Page 31

۲۶ جب خلافت ترکیہ کو ترکوں نے ختم کر دیا تو مصر کے بعض علماء نے بعض راز داروں کے قول کے مطابق شاہ مصر کے اشارہ سے ) ایک تحریک خلافت شروع کی اور اس تحریک سے ان کا منشاء یہ تھا کہ شاہ مصر کو خلیفتہ المسلمین تصور کر لیا جائے اور اس طرح مصر کو دوسرے اسلامی ممالک پر فوقیت حاصل ہو جائے.سعودی عرب نے اس کی مخالفت شروع کی اور یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ یہ تحریک انگریزوں کی اٹھائی ہوئی ہے اگر کوئی شخص خلافت کا مستحق ہے تو وہ سعودی عرب کا بادشاہ ہے.جہاں تک خلافت کا تعلق ہے وہ یقیناً ایک ایسا رشتہ ہے جس سے سب مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن جب یہ خلافت کا لفظ کسی خاص بادشاہ کے ساتھ مخصوص ہونے لگا تو دوسرے بادشاہوں نے فوراً تاڑ لیا کہ ہماری حکومت میں رخنہ ڈالا جاتا ہے اور وہ مفید تحریک بے کار ہو کر رہ گئی لیکن اگر یہی تحریک عوام میں پیدا ہو اور مذہبی روح اس کے پیچھے کام کر رہی ہو تو سیاسی رقابت اس کے رستہ میں حائل نہیں ہوگی ،صرف جماعتی رقابت اس کے رستہ میں روک بنے گی.سیاسی رقابت کی وجہ سے ایسی تحریک اسی ملک میں محدود ہو کر رہ جائے گی جس کی حکومت اس کی تائید میں ہوگی لیکن جماعتی مخالفت کی صورت میں وہ کسی ملک میں محدود نہیں رہے گی ہر ملک میں جائے گی اور پھیلے گی اور اپنی جڑیں بنائے گی بلکہ ایسے ملکوں بھی میں جا کر کامیاب ہوگی جہاں اسلامی حکومت نہیں ہوگی کیونکہ سیاسی ٹکراؤ نہ ہونے کی وجہ سے ابتدائی زمانہ میں حکومتیں اس کی مخالفت نہیں کریں گی.چنانچہ احمدیت کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے.احمدیت کا منشاء محض مسلمانوں کے اندر اتحاد پیدا کرنا تھا.وہ بادشاہت کی طالب نہیں تھی ، وہ حکومت کی طالب نہیں تھی.انگریزوں نے اپنے ملک میں بعض دفعہ احمدیت کو تکلیفیں بھی پہنچائی ہیں لیکن اس کے خالص مذہبی ہونے کی وجہ سے اس سے کھلے

Page 32

۲۷ بندوں ٹکرانے کی ضرورت نہیں سمجھی.افغانستان میں ملانوں سے ڈر کر بعض دفعہ بادشاہوں نے سختیاں کیں لیکن پرائیویٹ ملاقاتوں میں اپنی معذوریاں بھی ظاہر کرتے رہے اور اظہار ندامت بھی کرتے رہے.اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک میں عوام الناس نے مخالفت کی.علماء نے مخالفت کی اور اُن سے ڈر کر حکومت نے بھی بعض دفعہ روکیں ڈالیں لیکن کسی حکومت نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ تحریک ہماری حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے قائم ہوئی ہے اور یہ ان کا خیال بالکل درست تھا.احمدیت کو سیاست سے کوئی غرض نہیں، احمدیت صرف اس غرض کے لئے کھڑی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کی دینی حالت کو درست کرے اور اُنہیں ایک رشتہ میں پروئے تا کہ وہ مل کر اسلام کے دشمنوں کا اخلاقی اور روحانی ہتھیاروں سے مقابلہ کر سکیں.اسی بات کو سمجھتے ہوئے امریکہ میں احمدی مبلغ گئے.جس حد تک وہ ایشیائیوں کی مخالفت کرتے تھے انہوں نے احمدی مبلغوں کی مخالفت کی.لیکن جہاں تک مذہبی تحریک کا سوال تھا اس کے مدنظر انہوں نے مخالفت نہیں کی.ڈچ حکومت نے انڈونیشیا میں بھی اسی طریق سے کام لیا.جب انہوں نے دیکھا کہ سیاست میں یہ ہمارے ساتھ نہیں ٹکراتے تو گو انہوں نے مخفی نگرانیاں بھی کیں، بے اعتنائیاں بھی کیں مگر کھلے بندوں احمدیت سے ٹکرانے کی ضرورت نہیں سمجھی اور اس رویہ میں وہ بالکل حق بجانب تھے.بہر حال ہم اُن کے مذہب کے خلاف تبلیغ کرتے تھے اس لئے ہم ان سے کسی ہمدردی کے امید وار نہیں تھے مگر ہم ان کی سیاست سے بھی براہ راست نہیں ٹکراتے تھے.اس لئے ان کا بھی یہ کوئی حق نہیں تھا کہ ہم سے براہ راست ٹکراتے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب جماعت احمدیہ قریباً ہر ملک میں قائم ہے.ہندوستان میں بھی، افغانستان میں بھی ، ایران میں بھی عراق میں بھی ،شام

Page 33

۲۸ میں بھی فلسطین میں بھی مصر میں بھی ، اٹلی میں بھی ، سوئٹزرلینڈ میں بھی، جرمنی میں بھی ، انگلینڈ میں بھی، یونائیٹیڈ سٹیٹس امریکہ میں بھی، انڈونیشیا، ملایا ،ایسٹ اور ویسٹ افریقہ، ایسے سینیا، ارجن ٹائن، غرض ہر ملک میں تھوڑی یا بہت جماعت موجود ہے لے اور ان ممالک کے اصلی شہریوں میں سے جماعت موجود ہے یہ نہیں کہ وہاں کے بعض ہندوستانی احمدی ہو گئے ہوں اور وہ ایسے مخلص لوگ ہیں کہ اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے قربان کر رہے ہیں.ایک انگریز لیفٹینٹ اپنی زندگی وقف کر کے اس وقت مبلغ کے طور پر انگلستان میں کام کر رہا ہے.باقاعدہ نمازی ہے،شراب وغیرہ کے قریب نہیں جاتا.خود محنت مزدوری سے پیسے کما کر ٹریکٹ وغیرہ شائع کرتا ہے یا جلسے کرتا ہے.ہم اسے گزارہ کے لئے اتنی قلیل رقم دیتے ہیں جس سے انگلستان کا ایک ٹچوہڑا بھی زیادہ کماتا ہے.اسی طرح جرمنی کے ایک شخص نے زندگی وقف کی ہے، وہ بھی فوجی افسر ہے بڑی جد و جہد سے وہ جرمنی سے نکلنے میں کامیاب ہوا ہے.ابھی اطلاع آئی ہے کہ وہ سوئٹزرلینڈ پہنچ گیا ہے اور وہاں ویزہ کا انتظار کر رہا ہے.یہ نوجوان اسلام کی خدمت کا بے انتہاء جوش اپنے دل میں رکھتا ہے اور اس لئے پاکستان آرہا ہے کہ یہاں اسلام کی تعلیم پوری طرح حاصل کر کے کسی غیر ملک میں اسلام کی تبلیغ کرے.جرمنی کا ایک اور نوجوان مصنف اور اس کی تعلیم یافتہ بیوی زندگی وقف کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں اور شاید عنقریب ہی وہ اس فیصلہ پر پہنچ کر پاکستان تعلیم اسلام کے لئے آجائیں گے.اسی طرح ہالینڈ کا ایک نوجوان اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے کا ارادہ کر یہ ۱۹۴۸ء کا مضمون ہے اس کے بعد کے عرصہ میں احمد یہ جماعت دُنیا کے مزید ممالک میں قائم ہو چکی ہے.ناشر

Page 34

۲۹ چکا ہے اور غالباً جلد ہی کسی نہ کسی ملک میں تبلیغ اسلام کے کام پر لگ جائے گا.بے شک جماعت احمد یہ تھوڑی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے جماعت اسلامی قائم ہو رہی ہے.ہر ملک میں کچھ نہ کچھ افراد اس میں شامل ہو کر ایک عالمگیر اتحاد کی بنیادرکھ رہے ہیں اور ہر سیاست کے ماننے والے لوگوں میں سے کچھ نہ کچھ آدمی اس میں شامل ہورہے ہیں.ایسی تحریکوں کی ابتداء شروع میں چھوٹی ہی ہوا کرتی ہے لیکن ایک وقت میں جا کر وہ ایک فوری قوت حاصل کر لیتی ہیں اور چند دنوں میں اتحاد اور اتفاق کا بیج بونے میں کامیاب ہو جاتی ہے.ظاہر ہے کہ سیاسی طاقت کے لئے سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے اور مذہبی اور اخلاقی طاقت کے لئے مذہبی اور اخلاقی جماعتوں کی ضرورت ہے.جماعت احمد یہ سیاست سے اسی لئے الگ رہتی ہے کہ اگر وہ ان باتوں میں دخل دے تو وہ اپنے کام میں سست ہو جائے.جماعت احمدیہ کا پروگرام دوسرا سوال پروگرام کا رہا.پروگرام کے لحاظ سے بھی جماعت احمد یہ ہی ایک متحدہ پروگرام رکھتی ہے اور کوئی جماعت متحدہ پروگرام نہیں رکھتی.جماعت احمدیہ عیسائیت کے حملہ کا پورا اندازہ لگا کر ہر ملک میں اس کا مقابلہ کر رہی ہے.اس وقت دنیا کا سب سے کمزور خطہ اور بعض لحاظ سے سب سے طاقت ور خطہ افریقہ ہے.عیسائیت نے اس وقت اپنی ساری طاقت سے افریقہ میں دھاوا بول دیا ہے اب تو کھلے بندوں وہ اپنے ان ارادوں کا اظہار کر رہے ہیں.اس سے پہلے صرف پادریوں کا ذہن ادھر جاتا تھا.پھر انگلستان کی کنسرویٹو پارٹی ادھر مائل ہوئی اور اب تو لیبر پارٹی نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ

Page 35

یورپ کی نجات کا دار و مدار افریقہ کی ترقی اور اس کی تنظیم پر ہے.مگر یورپ سمجھتا تھا کہ یہ ترقی اور تنظیم اسی صورت میں یورپ کے لئے مفید ہوسکتی ہے جبکہ اس کے باشندے عیسائی ہو جائیں.احمدیت نے اس راز کو چوبیس سال پہلے بھانپ لیا اور چوبیس سال پہلے اپنے مبلغ وہاں بھجوادیئے جہاں ہزاروں ہزار آدمی عیسائیت سے نکل کر مسلمان ہو گئے اور اس وقت افریقہ میں سب سے منظم اسلامی جماعت احمدیت کی ہے جس کا مقابلہ کرنے سے عیسائیوں نے گریز کرنا شروع کر دیا ہے اور اُن کے لٹریچر میں متواتر اس بات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ احمد یہ جماعت کی مساعی نے عیسائی مشنریوں کی کوششوں کو باطل کر دیا ہے.یہی تبلیغی سلسلہ مشرقی افریقہ میں بھی سالہا سال سے جاری ہے اور گو وہاں کام کی ابتداء ہے اور اس وجہ سے نتائج ابھی اتنے شاندار نہیں جتنے مغربی افریقہ میں ہیں.لیکن پھر بھی عیسائیوں میں سے کچھ لوگ مسلمان ہونے شروع ہو گئے ہیں اور امید ہے کہ چند سال میں یہاں بھی مبلغوں کی کوششیں اعلیٰ نتائج پیدا کرنے لگ جائیں گی.انڈونیشیا اور ملایا میں بھی ایک لمبے عرصہ سے مشن قائم ہیں اور اسلام کے بھاگتے ہوئے گروہوں کو ٹھہرانے جمع کرنے اور اکٹھا کر کے دشمن کے مقابلہ پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.یونائیٹیڈ سٹیٹس امریکہ عیسائی طاقتوں میں اب سب سے آگے آچکی ہے، وہاں بھی چوبیس سال سے احمدی مبلغ کام کر رہے ہیں اور ہزاروں باشندے امریکہ کے احمدی ہو چکے ہیں اور ہزار ہا روپیہ سالانہ تبلیغ اسلام پر خرچ کر رہے ہیں.امریکہ کی دولت کے مقابلہ میں یہ کچھ بھی نہیں اور وہاں کے پادریوں کی کوششوں کے مقابلہ میں یہ بالکل حقیر کوشش ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ مقابلہ شروع کر دیا گیا ہے اور فتح ہم کو ہورہی ہے کیونکہ ہم عیسائی جماعت کے آدمی چھین کر اپنی طرف لا رہے ہیں.عیسائی جماعت ہمارے

Page 36

۳۱ آدمی چھین کر نہیں لے جا رہی.پس یہ نہیں کہنا چاہئے کہ احمدیت نے ایک نئی جماعت کیوں قائم کی ہے کہنا یہ چاہئے کہ احمدیت نے ایک جماعت قائم کر دی جبکہ اس سے پہلے کوئی جماعت نہیں تھی اور کیا یہ قابل اعتراض بات ہے یا قابل تعریف بات ہے؟ احمدیوں کو دوسری جماعتوں سے علیحدہ رکھنے کی وجہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسی کسی جماعت کے بنانے کی ضرورت کیا تھی.یہی باتیں دوسرے مسلمانوں میں پھیلائی جانی چاہئے تھیں.اس کی منتقلی جواب یہ ہے کہ ایک کمانڈر انہی لوگوں کو لڑائی میں بھیج سکتا ہے جو فوج میں بھرتی ہو چکے ہوں.جو لوگ فوج میں بھرتی نہیں وہ اُن کو بھیج کس طرح سکتا ہے؟ اگر جماعت ہی کوئی نہ بنائی جاتی تو بانی سلسلہ احمدیہ کس سے کام لیتا اور کس کو حکم دیتا اور اُن کے خلفاء کس سے کام لیتے اور کس کو حکم دیتے ؟ کیا وہ بازار میں پھرنا شروع کرتے اور ہر مسلمان کو پکڑ کر کہتے کہ آج فلاں جگہ اسلام کے لئے ضرورت ہے تو وہاں جا اور وہ آگے سے یہ جواب دیتا کہ میں تو آپ کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں اور پھر وہ اگلے آدمی کو جا پکڑتے اور پھر اس سے اگلے آدمی کو جا پکڑتے.یہ ایک عقلی حقیقت ہے کہ جب کوئی منظم کام کرنا ہو تو اس کے لئے ایک جماعت کی ضرورت ہوتی ہے.بغیر ایسی جماعت کے کوئی منظم کام نہیں ہوسکتا.اگر کہو کہ جماعت تو بناتے لیکن سب میں ملے جلے رہتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جان کو جوکھوں میں ڈالنے والے کاموں کے لئے ہر شخص کہاں تیار ہوتا ہے.ایسے کام تو وہ دیوانے ہی کیا کرتے ہیں اور دیوانوں کو ہوشیاروں سے الگ رکھنا ضروری ہوتا ہے.اگر ہوشیار دیوانوں کو بھی اپنے جیسا بنالیں گے تو پھر ایسے کام کو کون کرے گا نیز دوسروں سے

Page 37

۳۲ الگ رہنا خود بخو دطبائع میں استعجاب پیدا کرتا ہے اور آپ ہی آپ لوگ اس کی گرید اور مجنس شروع کر دتے ہیں اور آخر ایک دن اسی چیز کا شکار ہو جاتے ہیں جس کو مٹانے کے لئے وہ آگے بڑھتے ہیں.پس یہ سارے اعتراضات قلتِ تدبر کا نتیجہ ہیں.اگر عقل سے کام لیا جائے تو سمجھ آ سکتا ہے کہ اصل میں وہی طریقہ درست ہے جو احمدیت نے اختیار کیا ہے.اسی صحیح طریقہ پر عمل کر کے وہ اسلام کے لئے قربانی کرنے والوں کی ایک جماعت پیدا کر سکی ہے اور جب تک وہ اس طریق پر عمل کرتی رہے گی روز بروز ایسے افراد کی تعداد کو بڑھاتی چلی جائے گی یہاں تک کہ کفر محسوس کرے گا کہ اب اسلام طاقت پکڑ گیا ہے اور وہ اسلام پر اپنی ساری طاقت کے ساتھ حملہ کرے گا، مگر حملے کا وقت گزر چکا ہوگا.میدان اسلام ہی کے ہاتھ رہے گا اور کفر شکست کھا جائے گا.ہم سیاسی جد و جہد کرنے والوں کے راستہ میں روک نہیں بنتے.ہم اُن سے کہتے ہیں کہ جب تک تمہاری سمجھ میں ہماری باتیں نہ آئیں تم اپنا کام کرتے چلے جاؤ لیکن ہم ان سے یہ بھی خواہش کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے راستہ سے نہ روکیں.اگر کسی کی سمجھ میں ان کا طریقہ اچھا معلوم ہوتا ہے تو وہ ان سے جاملے اور اگر کسی کی سمجھ میں ہمارا طریقہ اچھا معلوم ہوتا ہے تو وہ ہم میں آملے.ان کے طریقہ میں قربانی کم اور شہرت زیادہ ہے اور ہمارے طریقہ میں قربانی زیادہ اور شہرت کم ہے.ان کو ان کا حصہ ملتا رہے گا اور ہم کو ہمارا حصہ ملتا رہے گا.جن لوگوں کی نگاہ میں مغز اور حقیقت کے لحاظ سے اسلام کا قیام زیادہ ضروری ہوگا وہ ہم میں آملیں گے اور جو لوگ ظاہری بادشاہت کے شیدائی ہوں گے وہ اُن میں جاملیں گے.لیکن ہم لڑیں کیوں اور جھگڑیں کیوں؟ دونوں ہی غم ملتمیں تڑپ رہے ہیں، گو جدا جدا اعضاء میں ٹیس اٹھ رہی ہے.اُن کے دماغوں میں درد ہے.ہمارے دل

Page 38

۳۳ اذیت پارہے ہیں.یہ تو میں نے عقلی نقطہ نگاہ سے جواب دیا ہے اب میں روحانی نقطہ نگاہ سے جواب دیتا ہوں اور میرے نزدیک وہی حقیقی نقطہ نگاہ ہے.اس سوال کا روحانی جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی قدیم سے یہ سنت ہے کہ جب کبھی دنیا میں خرابی پھیل جاتی ہے ، روحانیت اس سے مفقود ہو جاتی ہے.لوگ دنیا کو دین پر مقدم کرنے لگ جاتے ہیں، تو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے آسمان سے کسی مامور کو مبعوث فرماتا ہے تا کہ اس کے کھوئے ہوئے بندوں کو پھر اس کی طرف واپس لائے اور اس کے بھیجے ہوئے دین کو پھر دنیا میں قائم کرے.بعض دفعہ یہ مامورین شریعت ساتھ لاتے ہیں اور بعض دفعہ کسی پہلی شریعت کو قائم کرنے کے لئے آتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی اس سنت پر خاص طور پر زور دیا گیا ہے اور بار بار بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کے اس رحم اور کرم کی شناخت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ بہت بڑی شان رکھتا ہے اور انسان اس کے مقابلہ میں ایک کیڑے سے بھی بدتر ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام کام حکمت سے پُر ہوتے ہیں اور وہ کوئی کام بھی بلا وجہ اور بغیر فائدہ کے نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَا خَلَقْنَا السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لعبین کا یعنی ہم نے یہ زمین اور آسمان یو نہی نہیں پیدا کئے بلکہ اُن کی پیدائش میں غرض رکھی ہے اور وہ غرض یہی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرے اور اس کا مظہر بن کر دنیا کے ان لوگوں کو جو بلند پروازی کی طاقت نہیں رکھتے خدا تعالیٰ سے روشناس الدخان :٣٩

Page 39

۳۴ کرے.ابتدائے آفرینش سے لے کر اس وقت تک خدا تعالیٰ کی یہی سنت جاری رہی ہے اور مختلف اوقات میں خدا تعالیٰ نے اپنے مختلف مظاہر اس دنیا میں مبعوث فرمائے.کبھی خدا تعالیٰ کی صفات آدم کے ذریعہ سے جلوہ گر ہوئیں کبھی نوح کے ذریعہ سے جلوہ گر ہوئیں.کبھی ابراہیمی جسم میں سے وہ ظاہر ہوئیں، تو کبھی موسوی جسم سے ہویدا ہوئیں، کبھی داؤد نے خدا تعالیٰ کا چہرہ دنیا کو دکھایا تو بھی مسیح نے اللہ تعالیٰ کے انوار کو اپنے وجود میں ظاہر کیا.سب سے آخر اور سب سے کامل طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو اجمالاً اور تفصیلاً انفرادی حیثیت سے بھی اور اجتماعی حیثیت سے بھی ایسی شان اور ایسے جلال کے ساتھ دنیا پر ظاہر کیا کہ پہلے انبیاء آپ کے شمسی وجود کے آگے ستاروں کی مانند ماند پڑ گئے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام شریعتیں ختم ہوگئیں اور تمام شریعت لانے والے انبیاء کی آمد کا رستہ بند کر دیا گیا.کسی جنبہ داری کی وجہ سے نہیں، کسی لحاظ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی شریعت لائے جو تمام ضرورتوں کی جامع اور تمام حاجتوں کو پورا کرنے والی تھی.جو چیز خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی تھی وہ تو پوری ہوگئی لیکن بندوں کے متعلق کوئی ضمانت نہیں تھی کہ وہ صحیح رستہ کو نہیں چھوڑیں گے اور اس سچی تعلیم کو نہیں بھولیں گے بلکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا تھا کہ يُدَبِرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُنَ أَلْفَ سَنَةٍ مَا تَعُدُّونَ يعنى اللہ تعالیٰ اپنے اس آخری کلام اور اپنی اس آخری شریعت کو آسمان سے زمین پر قائم کر دے گا اور لوگوں کی مخالفت اس کے رستہ میں روک نہیں بنے گی.مگر پھر ایک عرصہ کے السجدة: 1

Page 40

۳۵ بعد یہ کلام آسمان پر چڑھنا شروع ہوگا اور ایک ہزار سال میں یہ دنیا سے اٹھ جائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قیام دین کے زمانہ کو تین سوسال کا عرصہ قرار دیتے ہیں.جیسا کہ اوپر حدیث بیان کی جاچکی ہے اور قرآن کریم بھی السر کے ذریعہ سے دوسوا کہتر سال کا عرصہ اس زمانہ کو قرار دیتا ہے.اس کے ساتھ ہزار سال تک دین کے آسمان پر چڑھنے کے عرصہ کو ملایا جائے تو یہ ا۱۲۷ ہوتا ہے.گویا دینا سے اسلام کی روح کے غائب ہو جانے کا زمانہ قرآن کریم کی رو سے ۱۲۷۱ سال ہے یا تیرھویں صدی کا آخر.جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے.ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ضرور ایک ہادی اور راہنما آیا کرتا ہے تا کہ دُنیا ہمیشہ کے لئے شیطان کے قبضہ میں نہ چلی جائے اور خدا تعالیٰ کی حکومت ابدی طور پر دنیا سے مٹ نہ جائے.پس ضروری تھا کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی شخص آتا.وہ کوئی ہوتا مگر آنا ضرور تھا.یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ آدم کے اتباع میں جب کبھی خرابی پیدا ہوئی تو خدا تعالیٰ نے اُن کی خبر لی.نوع کے اتباع میں جب کبھی خرابی پیدا ہوئی تو خدا تعالیٰ نے ان کی خرب لی.ابراہیم کے اتباع میں جب کبھی خرابی پیدا ہوئی تو خدا تعالیٰ نے اُن کی خبر لی.موسیٰ“ کے اتباع میں جب کبھی خرابی پیدا ہوئی تو خدا تعالیٰ نے اُن کی خبر لی.عیسی کے اتباع میں جب کبھی خرابی پیدا ہوئی تو خدا تعالیٰ نے اُن کی خبر لی.لیکن سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں خرابی پیدا ہو تو خدا تعالیٰ اُس کی خبر نہ لے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے متعلق تو یہ پیشگوئی تھی کہ چھوٹے چھوٹے مفاسد کو دور کرنے کے لئے آپ کی اُمت میں ہر صدی کے سر پر ایک مجد دمبعوث ہوا کرے گا.کیا کوئی عقل اس کو تسلیم کر سکتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے مفاسد کو دور کرنے کے لئے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے

Page 41

۳۶ مجد دین ظاہر ہوتے رہیں.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہے کہ ان الله يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَّنْ يُجَيِّدُ لَهَا دِيْنَهَا ۖ لیکن اس عظیم الشان فتنہ کے موقع پر جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب سے دنیا میں انبیاء آنے لگے ہیں وہ اس فتنہ کی خبر دیتے چلے آئے ہیں.کوئی مامورنہ آئے ، کوئی بادی نہ آئے ، کوئی راہنما نہ آئے ، مسلمانوں کو دین حقہ پر جمع کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آواز بلند نہ کی جائے.مسلمانوں کو تاریکی اور ظلمت کے گڑھے سے نکالنے کے لئے آسمان سے کوئی رسی نہ گرائی جائے.وہ خدا جو ابتدائے عالم سے اپنے رحم و کرم کے نمونے دکھاتا چلا آیا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اس کے رحم اور کرم کے دریا میں مزید جوش پیدا ہو گیا ہے نہ کہ اس کا رحم اور کرم مٹ گئے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کبھی بھی رحیم تھا تو امت محمدیہ کے لئے اس کر پہلے سے زیادہ رحیم ہونا چاہئے.اگر خدا تعالیٰ کبھی بھی کریم تھا تو امت محمدیہ کے لئے اس کو پہلے سے زیادہ کریم ہونا چاہئے اور یقیناً وہ ایسا ہی ہے.قرآن کریم اور احادیث اس پر شاہد ہیں کہ امت محمدیہ میں جب کبھی خرابی پیدا ہوگی خدا تعالیٰ اپنی طرف سے ہادی اور راہنما بھجواتا رہے گا.خصوصاً اس آخری زمانہ میں جبکہ دجال کا فتنہ ظاہر ہوگا عیسائیت غالب آ جائے گی.اسلام ظاہری طور پر مغلوب ہو جائے گا اور مسلمان دین کو چھوڑ بیٹھیں گے اور دوسری اقوام کے رسم و رواج کو اختیار کر لیں گے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کامل مظہر ظاہر ہوگا اور اس زمانہ کی اصلاح کرے گا جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَ لَا يَبْقَى مِنَ اه ابوداؤد جلد ۲ صفحه ۲۴۱ کتاب الفتن واصول الکافی صفحه ۶۹۴

Page 42

۳۷ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسُمه لا یعنی اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کی صرف تحریر رہ جائے گی ، اسلام کا مغز کہیں نظر نہ آئے گا اور قرآن کے معنی کسی پر روشن نہ ہوں گے.پس اے عزیز و! سلسلہ احمدیہ کا قیام اسی سنت قدیمہ کے ماتحت ہوا ہے اور انہی پیشگوئیوں کے مطابق ہوا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے پہلے انبیاء نے اس زمانہ کے متعلق بیان فرمائی ہیں.اگر مرزا صاحب کا انتخاب اس کام کے لئے مناسب نہ تھا تو یہ خدا تعالیٰ پر الزام ہے.مرزا صاحب کا اس میں کیا قصور ہے.لیکن اگر خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے اور کوئی راز اس سے پوشیدہ نہیں اور اس کے تمام کام حکمتوں سے پر ہوتے ہیں تو پھر سمجھ لینا چاہئے کہ مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کا انتخاب ہی صحیح انتخاب تھا اور انہی کے ماننے میں مسلمانوں اور دنیا کی بہتری ہے.آپ کوئی نیا پیغام دنیا کے لئے نہیں لائے مگر وہی پیغام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو سنایا تھا مگر دنیا اُسے بھول گئی.وہی پیغام جو قرآن کریم نے پیش کیا تھا مگر دنیا نے اس کی طرف سے منہ موڑ لیا اور وہ یہی پیغام ہے کہ تمام کائنات کا پیدا کرنے والا ایک خدا ہے.اس نے انسان کو اپنی محبت اور تعلق کے لئے پیدا کیا ہے.اپنی صفات کو اس کے ذریعہ سے ظاہر کرنے کے لئے اسے بنایا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَبِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ " پس آدم اور اس کی نسل خدا تعالیٰ کی خلیفہ یعنی اس کی نمائندہ ہے.وہ خدا تعالیٰ کی صفات کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے پیدا کی گئی ہے.پس تمام بنی نوع انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کی صفات کے مطابق بنا ئیں اور جس طرح ایک نمائندہ اپنے تمام کاموں میں اپنے موگل کی طرف بار بار متوجہ ہوتا ہے اور ایک لے مشکوۃ.کتاب العلم الفصل الثالث صفحہ ۳۷، کنز العمال جلد ۶ صفحه ۴۳ سے سورۃ البقرہ:۳۱

Page 43

۳۸ غلام ہر نیا قدم اُٹھانے سے پہلے اپنے آقا کی طرف دیکھتا ہے اسی طرح انسان کا بھی فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق پیدا کرے کہ خدا تعالیٰ اس کی ہر دم اور ہر کام میں راہنمائی کرے اور تمام چیزوں سے زیادہ وہ اس کا محبوب ہو اور تمام باتوں میں وہ اس پر توکل کرنے والا ہو اور اسی فرض کو پورا کروانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں آئے.ان کا یہ کام تھا کہ وہ دنیا دار لوگوں کو دین دار بنائیں، اسلام کی حکومت دلوں پر قائم کریں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر اپنے روحانی تخت پر بٹھا ئیں جس تخت پر سے اتارنے کے لئے شیطانی طاقتیں اندرونی اور بیرونی حملے کر رہی ہیں.اس غرض کو پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مسلمانوں کو قشر کی بجائے مغز کی طرف توجہ دلائی اور اس بات پر زور دیا کہ احکام کا ظاہر بھی نہایت اہم اور ضروری ہے لیکن بغیر باطن کی طرف توجہ کرنے کے انسان کوئی ترقی نہیں کر سکتا.چنانچہ آپ نے ایک جماعت قائم کی اور عہد بیعت میں یہ شرط مقرر کی کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.در حقیقت یہی مرض تھی جو مسلمانوں کو گھن کی طرح کھا رہی تھی.باوجود اس کے کہ دنیا ان کے ہاتھوں سے چھوٹ چکی تھی پھر بھی دنیا ہی کی طرف ان کی توجہ جاتی تھی.اسلام کی ترقی کے معنے ان کے نزدیک بادشاہتوں کا حصول رہ گیا تھا اور اسلام کی کامیابی کے معنی ان کے نزدیک مسلمان کہلانے والوں کی تعلیم اور ان کی تجارت کی ترقی تھی حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں اس لئے نہیں آئے تھے کہ لوگ مسلمان کہلانے لگ جائیں بلکہ آپ لوگوں کو حقیقی مسلمان بنانے آئے تھے جس کی تعریف قرآن کریم نے یہ فرمائی ہے کہ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ وہ اپنے البقرہ: ۱۱۳

Page 44

۳۹ سارے وجود کو خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دے اور اپنی دنیوی حاجات کو دینی حاجات کے تابع کر دے.بظاہر یہ ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً اسلام اور دیگر ادیان میں یہی فرق ہے.اسلام یہ نہیں کہتا کہ تم علم حاصل نہ کرو، نہ یہ کہتا ہے کہ تم تجارتیں نہ کرو، نہ یہ کہتا ہے کہ صنعت و حرفت نہ کرو.نہ یہ کہتا ہے کہ تم اپنی حکومت کی مضبوطی کی کوشش نہ کرو.وہ صرف انسان کے نقطۂ نگاہ کو بدلتا ہے.دنیا میں تمام کاموں کے دو نقطہ نگاہ ہوتے ہیں ایک قشر سے مغز حاصل کرنے کا نقطۂ نگاہ ہوتا ہے.اور ایک مغز سے قشر حاصل کرنے کا نقطۂ نگاہ ہوتا ہے جو شخص قشر سے مغز حاصل کرنے کی امید رکھتا ہے ضروری نہیں کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے بلکہ اکثر وہ نا کام رہتا ہے لیکن جو شخص مغز حاصل کرتا ہے اس کو ساتھ ہی قشر بھی مل جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کے تمام جد و جہد دین کے لئے تھی لیکن یہ نہیں کہ وہ دنیوی نعمتوں سے محروم ہو گئے ہوں.یہ تو ایک طبعی امر ہے جن لوگوں کو دین ملے گا دنیا لونڈی کی طرح ان کے پیچھے دوڑتی آئے گی لیکن دنیا کے ساتھ دین کا ملنا ضروری نہیں.بسا اوقات وہ نہیں ملتا.بسا اوقات رہا سہا دین بھی ہاتھوں سے جاتا رہتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انبیاء کے طریق پر چلتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حکم سے دین پر زور دینا شروع کیا.جس وقت آپ ظاہر ہوئے مسلمانوں میں دو قسم کی تحریکیں جاری تھیں.ایک تحریک یہ تھی کہ مسلمان کمزور ہو چکے ہیں اس لئے انہیں دنیوی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.دوسری تحریک آپ نے چلائی کہ ہم کو دین کی طرف توجہ کرنی چاہئے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا اللہ تعالیٰ ہمیں خود بخود دے دے گا.

Page 45

بعض لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ آپ کی تحریک بھی ویسی ہی ہے جیسے آج کل کے صوفیاء وغیرہ کی تحریک ہوتی ہے کہ وہ ظاہری طور پر نماز روزہ پر زور دیتے ہیں اور اچھے بھلے آدمیوں خوخلوت میں بیٹھا کر پردہ نشین عورتوں کی طرح بنادیتے ہیں.اگر آپ ایسا کرتے تو یقیناً آپ بھی مغز کے نام سے ایک قشر کے حصول کی تحریک کرتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا.آپ نے جہاں دینی احکام پر زور دیا وہاں اس بات پر بھی زور دیا کہ دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس لئے آیا کرتا ہے کہ وہ انسان کے ذہن کو جلا بخشے اور اس کے دماغ کو منور کرے اور اس کی عقل کو تیز کرے.آپ نے کہا جوشخص بچے طور پر دین پر عمل کرتا ہے اور بناوٹ سے کام نہیں لیتا دین اس کے اندر اخلاق فاضلہ پیدا کرتا ہے، دین اس کے اندر قوت عملیہ پیدا کرتا ہے، دین اس کے اندر ایثار اور قربانی کا مادہ پیدا کرتا ہے.آپ نے فرمایا کہ تم دین کو اختیار کرو تم نمازیں پڑھو تم روزے رکھو، حج کرو ، زکوۃ دو لیکن وہ نمازیں پڑھو جو قرآن نے بتائی ہیں اور وہ روزے رکھو جو قرآن نے بتائے ہیں، اور وہ حج کرو جو قرآن نے بتایا ہے اور وہ زکوۃ دو جو قرآن نے بتائی ہے.قرآن کریم تم سے اُٹھک بیٹھک کا مطالبہ نہیں کرتا ، نہ وہ تم سے بھوکے رہنے کا مطالبہ کرتا ہے، نہ اپنا ملک بے فائدہ چھوڑنے کا مطالبہ کرتا ہے، نہ اپنا مال گنوانے کا مطالبہ کرتا ہے قرآن کریم تو نماز کے متعلق یہ فرماتا ہے کہ اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكُرُ الله اكبرُ ط وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ - نماز تم سے فحشاء اور منکر کو ترک کروا دیتی ہے.پس اگر وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو نماز کا قرآن کریم نے بتایا ہے تو تمہاری نماز نماز نہیں ہے.اور روزے کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ روزہ اس لئے ل العنكبوت : ۴۶ البقره: ۱۸۴

Page 46

۴۱ مقرر کیا گیا ہے تا تمہارے اندر تقویٰ اور اخلاق فاضلہ پیدا ہوں.پس اگر تم روزے رکھتے ہو اور یہ نتیجہ پیدا نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ تمہاری نیت درست نہیں اور تم روزہ نہیں رکھتے بلکہ تم اپنے آپ کو بھوکا رکھتے ہو اور خدا تعالیٰ کو تمہارا بھوکا رکھنا تو مطلوب نہیں اور حج کے لئے فرماتا ہے کہ یہ بغاوت کے خیالات کو روکنے اور باہمی جھگڑوں کو دور کرنے کا ذریعہ ہے.پس حج رفت اور فسق اور جدال کو روکنے کے لئے ہے اور زکوۃ کے لئے فرماتا ب خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهَّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها زکوة تزکیہ فر دو قوم اور تطہیر قلب و افکار کے لئے مقرر کی گئی ہے پس جب تک یہ نتائج پیدا نہ ہوں تمہارا حج اور تمہاری زکوۃ صرف دکھاوے کے ہیں.پس تم نماز پڑھو، روزہ رکھو، حج کرو، زکوۃ دومگر تمہاری نماز اور روزے اور حج کو میں تب تسلیم کروں گا جب ان کا نتیجہ نکلے اور تم فحشاء ومنکر سے بچو اور تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو اور رفث اور فسوق اور جدال سے گلی طور پر دور ہو جاؤ اور تزکیہ فرد و قوم اور تطہیر قلب و افکار تم کو حاصل ہو لیکن جس شخص کے اندر یہ نتیجہ پیدا نہیں ہوگا میں اسے اپنی جماعت میں نہیں سمجھوں گا کیونکہ اس نے قشر کو اختیار کیا مغز کو اختیار نہیں کیا جو خدا تعالیٰ کا مقصود تھا.اسی طرح تمام باقی عبادات کے متعلق آپ نے مغز پر زور دیا اور فرمایا کہ اسلام کا کوئی حکم ایسا نہیں جو حکمت کے بغیر ہو.خدا تعالیٰ آنکھوں کو نظر نہیں آتا، خدا تعالیٰ دل کو نظر سے آتا ہے.خدا تعالیٰ کو ہاتھوں سے نہیں چھوا جاتا،خدا تعالیٰ کو محبت چھوا جاتا ہے.پس مذہب کی غرض یہ نہیں کہ وہ صرف آنکھ اور ہاتھ پر حکومت کرے بلکہ جب بھی وہ آنکھ اور ہاتھ پر حکومت کرتا ہے تو وہ دل اور جذبات کو صاف کرنے کے لئے ل التوبه : ۱۰۳

Page 47

۴۲ حکومت کرتا ہے تا کہ وہ قوتیں انسان کے اندر پیدا ہوں کہ جن سے وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ سکے اور جن سے وہ خدا تعالیٰ کی چھو سکے اور وہ قوتیں پیدا ہوں جن سے وہ خدا تعالیٰ کو آواز کوسن سکے.غرض ان باتوں پر زور دے کر آپ نے ایک نیا راستہ اسلام کی ترقی کے لئے کھول دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ گو ایک چھوٹی سی جماعت پیدا ہوئی مگر ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی جس نے دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور اسلام کی روحانی ترقی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی بادشاہت کے قیام کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنی شروع کر دی.آپ لوگ سوچیں تو سہی کہ کہاں احمدیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت اور کہاں تمام مسلمانوں کا ایک عظیم الشان گروہ.لیکن اسلام کی اشاعت اور اس کی ترقی کے لئے جو کچھ احمد یہ جماعت کر رہی ہے کیا باقی مسلمان جو ان سے ہزاروں گنا زیادہ ہیں ان سے نصف یا چوتھا حصہ بھی کر رہے ہیں؟ آخر یہ تبدیلی کیوں ہوئی ؟ اسی لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے احمدیوں پر زور دیا تھا کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں.یہ حقیقت احمدیوں پر کھل گئی تو ان کے اعمال ایک نئے قسم کے اعمال ہو گئے.ایک بچے احمدی کی نماز وہ نماز نہیں جیسی ایک عام مسلمان نماز پڑھتا ہے.شکل وہی ہے کلمات وہی ہیں لیکن مغز اور ہے.احمدی نماز کو نماز کی خاطر پڑھتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق بڑھانے کے لئے پڑھتا ہے.شاید کوئی کہے کہ کیا باقی لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق بڑھانے کے لئے نماز نہیں پڑھتے؟ میرا جواب یہ ہے کہ ہر گز نہیں.اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس وقت مسلمانوں میں بدقسمتی سے یہ خیال پیدا ہو چکا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ براہ راست تعلق پیدا ہو ہی نہیں سکتا.مسلمانوں کو عام طور پر یہ غلطی لگ رہی ہے کہ نہ خدا تعالیٰ آج بندوں سے بولتا ہے اور نہ بندے خدا تعالیٰ سے کوئی بات منوا سکتے ہیں.ایک

Page 48

۴۳ صدی سے زیادہ عرصہ گزرا کہ الہام الہی کے نزول سے مسلمان منکر ہوں چکے ہیں.بے شک اس سے پہلے مسلمانوں میں وہ لوگ موجود تھے جو کلام الہی کے نازل ہوتے رہنے کے قائل تھے.قائل ہی نہیں، وہ اس بات کے بھی مدعی تھے کہ خدا تعالیٰ ان سے باتیں کرتا ہے لیکن ایک صدی سے مسلمانوں پر یہ آفت نازل ہوئی ہے کہ وہ کلی طور پر کلام الہی کے جاری رہنے سے منکر ہو گئے بلکہ بعض علماء نے تو اس حقیقت کے اظہار کوکفر قرار دے دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا کہ مجھے سے خدا تعالیٰ باتیں کرتا ہے اور مجھ سے ہی نہیں بلکہ جو شخص میری اتباع کرے گا اور میرے نقش قدم پر چلے گا اور میری تعلیم کو مانے گا اور میری ہدایت کو قبول کرے گا خدا تعالیٰ اس سے بھی باتیں کرے گا.اس نے متواتر خدائی کلام کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور اپنے ماننے والوں میں تحریک کی کہ تم بھی خدا تعالیٰ کے ان انعامات کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.آپ نے فرمایا مسلمان پانچ وقت خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگتا ہے کہ اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ اے خدا تو ہمیں سیدھا رستہ دکھا ان لوگوں کا رستہ جن پر تو نے انعام نازل کئے تھے یعنی سابق انبیاء کرام.پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس کی یہ دعا ہمیشہ ہمیش کے لئے رائیگاں جاتی اور خدا تعالیٰ مسلمانوں میں سے کسی کے لئے بھی وہ رستہ نہ کھولتا جو پہلے نبیوں کے لئے کھولا گیا تھا اور کسی شخص سے بھی اس طرح کلام نہ کرتا جس طرح پہلے نبیوں سے کلام کرتا تھا.اس طرح آپ نے اس جمود کو کلی طور پر دور کر دیا جو مسلمانوں کے دلوں پر طاری تھا.میں نہیں کہتا کہ ہر احمدی مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہر وہ احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقصد ے سورۃ الفاتحہ : ۷،۶

Page 49

۴۴ کو پوری طرح سمجھ گیا وہ نماز کو اس طرح نہیں پڑھتا کہ گویا وہ ایک فرض ادا کر رہا ہے.وہ نماز کو اس طرح پڑھتا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ سے کچھ لینے گیا ہے.وہ خدا تعالیٰ سے ایک نیک تعلق پیدا کرنے کے لئے گیا ہے اور اس ارادہ کے ساتھ جو شخص نماز پڑھے گا، سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اس کی نماز اور دوسرے لوگوں کی نماز یکساں نہیں ہوسکتی.آپ نے خدا تعالیٰ کے تعلق پر اس حد تک زور دیا کہ فرمایا، میرے دعوے کے ماننے کے لئے خدا تعالیٰ نے بہت سے دلائل دیئے ہیں، مگر میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم ان دلائل کو سوچو اور ان پر غور کرو.اگر تم ان دلائل پر سوچنے اور غور کرنے کا موقع نہیں پاتے یا اس کی ضرورت نہیں سمجھتے ، یا یہ خیال کرتے ہو کہ شاید ہماری عقل ان باتوں کے متعلق فیصلہ کرنے میں کوئی غلطی کر جائے تو میں تمہیں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ سے میرے متعلق دعا کرو اور خدا تعالیٰ سے ہدایت چاہو کہ اگر یہ سچا ہے کہ تو ہماری رہنمائی فرما اور اگر یہ جھوٹا ہے تو ہمیں اس سے دور رکھ اور فرمایا کہ اگر کوئی شخص سچے دل سے بغیر تعصب کے کچھ دن اس قسم کی دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کے لئے ہدایت کا رستہ کھولے گا اور میری صداقت اس پر روشن کر دے گا.سینکڑوں اور ہزاروں آدمی ہیں جنہوں نے اس طرح کوشش کی اور خدا تعالیٰ سے روشنی پائی.یہ کتنی بڑی روشن دلیل ہے.انسان اپنی عقل میں غلطی کر سکتا ہے لیکن خدا تو اپنی راہنمائی میں غلطی نہیں کر سکتا.اور کیسا یقین ہے اپنی سچائی پر اس شخص کو جو اپنی صداقت کے پہچاننے کے لئے اس قسم کا طریق فیصلہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.کیا کوئی جھوٹا یہ کہ سکتا ہے کہ جاؤ اور خدا تعالیٰ سے میرے متعلق پوچھو؟ کیا کوئی جھوٹا شخص یہ خیال کر سکتا ہے کہ اس قسم کا فیصلہ میرے حق میں صادر ہوگا ؟ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں لیکن اس قسم کے طریق فیصلہ کو تسلیم کرتا ہے وہ تو گویا

Page 50

۴۵ اپنے خلاف خود ہی ڈگری دے دیتا ہے اور اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیشہ ہی دنیا کے سامنے یہ بات پیش کی کہ میں اپنے ساتھ ہزاروں دلائل رکھتا ہوں لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر تمہاری ان دلائل سے تسلی نہیں ہوتی تو نہ میری سنو اور نہ میرے مخالفوں کی سنو ، خدا تعالیٰ کے پاس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ آیا میں سچا ہوں یا جھوٹا ہوں.اگر خدا تعالیٰ کہہ دے کہ میں جھوٹا ہوں تو بے شک جھوٹا ہوں لیکن اگر خدا تعالیٰ یہ کہے کہ میں سچا ہوں تو پھر تمہیں میری سچائی کے قبول کرنے سے کیا انکار ہے؟ اے عزیز وا یہ کتنا سیدھا اور راستبازی کا طریق فیصلہ تھا.ہزاروں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور تمام وہ لوگ جو اس طریق فیصلہ کو اب بھی قبول کریں، اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اس طریق فیصلہ میں در حقیقت یہی حکمت کارفرما تھی کہ آپ سمجھتے تھے کہ دین دنیا پر مقدم ہے، آپ فرماتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے مادی چیزوں کے دیکھنے کے لئے آنکھیں دی ہیں.مادی چیزوں کے سمجھنے کے لئے عقل بخشی ہے اور مادی اشیاء کو دکھانے کے لئے اس نے اپنا سورج پیدا کیا ہے اور ستارے پیدا کئے ہیں پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ روحانی ہدایتوں کے دکھانے کے لئے اس نے کوئی رستہ تجویز نہ کیا ہو.یقیناً جب کبھی بھی کوئی شخص اس سے روحانی چیزوں کو دیکھنے کی خواہش کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کے لئے رستہ کھول دیتا ہے وہ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَهُمْ سُبُلَنَا.جو لوگ بھی ہمارے ملنے کی خواہش رکھتے ہوئے جد و جہد سے کام لیتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنا رستہ دکھا دیتے ہیں.ل العنكبوت: ۷۰

Page 51

۴۶ خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا طریق اپنی جماعت کے لئے بھی کھولا اور اپنے منکروں کے سامنے بھی اس طریق کو پیش کیا.ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے، وہ اب بھی کارخانہ عالم چلا رہا ہے، دنیا کا بھی اور دین کا بھی.ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس سے تعلق پیدا کرے اور اس کے قریب ہوتا چلا جائے اور وہ شخص جس پر ہدایت ظاہر نہیں ہوئی اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ہی روشنی چاہے اور اسی کی مدد سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرے، پس اصل کام اور اصل پیغام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہی تھا کہ وہ دنیا کی اصلاح کریں اور بنی نوع انسان کو پھر خدا تعالیٰ کی طرف لے جائیں اور جولوگ خدا تعالیٰ کے ملنے سے مایوس ہیں ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی ملاقات کا یقین پیدا کریں اور اس قسم کی زندگی سے لوگوں کو روشناس کریں جو موسیٰ اور عیسی علیہا السلام اور دوسرے انبیاء کے زمانہ میں لوگوں کو نصیب تھی.اے عزیزو! پرانی کتابیں پڑھ کر دیکھو، پھر خود اپنے اسلاف کی تاریخ دیکھو، کیا ان لوگوں کی زندگیاں مادی تھیں؟ کیا ان کے کام صرف مادی تدابیر سے چلتے تھے؟ وہ لوگ خدا تعالیٰ کی محبت کے حاصل کرنے کے لئے رات دن تڑپتے تھے اور ان میں سے کامیاب لوگ خدا تعالیٰ کے معجزات اور نشانات سے حصہ پاتے تھے اور یہی وہ زندگی تھی جو ان کو دوسری قوموں کے لوگوں سے ممتاز کرتی تھی لیکن آج وہ کونسا امتیاز ہے جو مسلمانوں کو ہندوؤں اور عیسائیوں اور دوسری قوموں کے مقابلہ میں حاصل ہے؟ اگر کوئی ایسا امتیاز نہیں تو پھر اسلام کی ضرورت کیا ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا امتیاز ہے لیکن مسلمانوں نے اسے بھلا دیا اور وہ امتیاز یہ ہے کہ اسلام میں ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کا کلام جاری ہے اور ہمیشہ ہی خدا تعالیٰ کے ساتھ براہ راست تعلق پیدا کیا جاسکتا ہے رسول کریم

Page 52

۴۷ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان کے یہی تو معنے ہیں.آپ کے فیضان کے یہ معنی تو نہیں ہو سکتے کہ ہم بی.اے یا ایم.اے کا امتحان پاس کر لیں.کیا ایک عیسائی بی.اے یا ایم.اے نہیں ہوتا.آپ کے فیضان کے یہ معنی تو نہیں ہیں کہ ہم نے کوئی بڑا کارخانہ چلا لیا ہے.کیا عیسائی اور ہندو اور سکھ ایسے کارخانے نہیں چلاتے.آپ کے فیضان کے یہ معنی تو نہیں کہ کوئی بڑی تجارتی کوٹھی ہم نے کھول لی اور دور دراز ملکوں میں ہم نے تجارتی کاروبار جاری کر دیا ہے.یہ بھی سب ہندو اور عیسائی اور یہودی کر رہے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کے یہی معنے ہیں کہ آپ کے طفیل انسان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ براہِ راست تعلق قائم ہو جائے.انسان کا دل خدا تعالیٰ کو دیکھے اس کی روح کا اس سے اتحاد ہو جائے.وہ اس کا شیریں کلام سنے اور خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات اور آیات اس کے لئے ظاہر ہوں.یہ وہ چیز ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے بغیر کسی شخص کو دنیا میں نہیں مل سکتی اور یہی وہ چیز ہے جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع دوسری قوموں سے ممتاز ہیں.پس اسی کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلمانوں کو توجہ دلائی اور یہی چیز اپنے نہ مانے والوں کے سامنے پیش کی کہ خدا تعالیٰ نے یہ کھویا ہوا موتی مجھے دیا ہے اور یہ ضائع شدہ متاع مجھے بخشی ہے اور یہ سب کچھ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور آپ کی اتباع سے ملا ہے اور اس مقام پر آپ ہی کے فیضان نے مجھے پہنچایا ہے.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئے لیکن وہ سب جزوی حیثیت رکھتے ہیں، گو بہت اہم اور عظیم الشان ہیں لیکن اصل کام یہی تھا کہ آپ نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور مادیت پر روحانیت کو غالب کرنے کی مہم شروع کی اور یقیناً اسلام کو دوسرے ادیان پر غلبہ اسی رستہ سے ہوگا.ہم تو پوں اور بندوقوں سے اپنے ملکوں کا دفاع بھی کریں گے.ہم بعض بعض دشمنوں پر ان ذرائع سے غالب بھی آئیں گے لیکن ساری دنیا پر اسلام کو جو غلبہ حاصل ہوگا وہ اسی روحانی

Page 53

۴۸ طریقہ سے حاصل ہوگا جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے.جب مسلمان مسلمان ہو جائے گا، جب وہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے لگ جائے گا، جب وہ روحانی اشیاء کو مادی اشیاء پر فوقیت دینے لگے گا تو وہ عیا شانہ زندگی جو اس وقت مغربی اقوام کی وجہ سے ہمارے ملک میں رائج ہورہی ہے آپ ہی آپ مٹ جائے گی اور انسان کسی کے کہنے کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنے نفس کی خواہش کے ماتحت لغویات کو چھوڑ دے گا اور سنجیدہ زندگی بسر کرنے لگ جائے گا اور اسکی زبان میں تاثیر پیدا ہو جائے گی اور اس کا ہمسایہ اُس کے رنگ کو اختیار کرنے لگے گا اور عیسائی اور ہندو اور دوسرے ادیان کے لوگ بھی اسی طرح جس طرح کہ مکہ کے لوگوں نے کہا تھا یہ کہنا شروع کر دیں گے کہ لو كَانُوا مُسلمین کاش وہ مسلمان ہوتے اور پھر ہوتے ہوتے یہ قول ان کا مکہ کے لوگوں کی طرح عمل میں بدل جائے گا اور وہ مسلمان ہو جائیں گے کیونکہ کوئی شخص زیادہ دیر تک اچھی بات سے دور نہیں رہ سکتا، پہلے رغبت پیدا ہوتی ہے، پھر لالچ آتی ہے، پھر کوشش پیدا ہوتی ہے اور آخر انسان کھچا کھچا اس چیز کی طرف آہی جاتا ہے.یہی اب بھی ہوگا.پہلے اسلام مسلمان لوگوں کے دلوں میں داخل ہوگا پھر وہ ان کے جسموں پر جاری ہو جائے گا.پھر غیر مسلم لوگ خود بخود ایسے کامل مسلمانوں کی نقل کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے اور دنیا مسلمانوں سے بھر جائے گی اور اسلام سے معمور ہو جائے گی.اے عزیز و! اس چھوٹے سے مضمون میں میں تفصیلی دلائل بیان نہیں کر سکتا اور احمدیت کے پیغام کی تمام جزئیات کو آپ کے سامنے پیش نہیں کرسکتا.میں نے اجمالی طور پر احمدیت کی غرض اور اس کا مقصد آپ لوگوں کے سامنے رکھ دیا ہے اور میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس مضمون پر غور کریں اور سوچیں کہ دنیا میں کبھی بھی مذہبی تحریکیں صرف دنیوی الحجر :

Page 54

۴۹ ذرائع سے غالب نہیں ہوئیں.مذہبی تحریکیں اصلاح نفس تبلیغ ورقربانی ہی کے ساتھ ہمیشہ غالب آتی رہی ہیں.آدم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک جو نہیں ہوا وہ اب بھی نہیں ہوگا اور جس ذریعہ سے آج تک خدا تعالیٰ کے پیغام دنیا میں پھیلتے رہے ہیں اسی طرح اب بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا میں پھیلے گا.پس اپنی جانوں پر رحم کرتے ہوئے، اپنی اولادوں پر رحم کرتے ہوئے، اپنے خاندانوں اور اپنی قوموں پر رحم کرتے ہوئے ، اپنے ملک پر رحم کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے پیغام کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے دروازے آپ کے لئے جلد سے جلد کھل جائیں اور اسلام کی ترقی پیچھے نہ پڑتی چلی جائے ابھی بہت کام ہے جو ہم نے کرنا ہے مگر اس کے لئے ہم آپ کی آمد کے منتظر ہیں کیونکہ خدائی ترقیات علاوہ معجزات کے دین کی اشاعت کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں.آپ آئیں اور اس بوجھ کو ہمارے ساتھ مل کر اٹھا ئیں جس بوجھ کا اٹھانا اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہے.بے شک قربانی اور ایثار اور ملامت اور تعذیب ان سب چیزوں کا دیکھنا اس رستہ میں ضروری ہے مگر خدا تعالیٰ کی راہ میں موت ہی حقیقی زندگی بخشتی ہے اور اس موت کو اختیار کئے بغیر کوئی شخص خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا.اور اس موت کو اختیار کئے بغیر اسلام بھی غالب نہیں ہوسکتا.ہمت کریں اور موت کے اس پیالہ کومنہ سے لگالیں تا کہ ہماری اور آپ کی موت سے اسلام کو زندگی ملے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین پھر تر و تازہ ہو جائے اور اس موت کو قبول کر کے ہم بھی اپنے محبوب کی گود میں ابدی زندگی کا لطف اُٹھا ئیں.اللهمر امین.خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ ۲۷ اکتوبر ۱۹۴۸ء (الفضل ۶ نومبر ۱۹۴۸ء)

Page 55

Ahmadiyyat ka Paighaam (Urdu) The Message of Ahmadiyyat Ahmadiyyat ka Paighaam ["The Message of Ahmadiyyat"] was written to clarify the Ahmadiyya Muslim Community's beliefs in refutation of commonly propagated misinformation campaigns.It refutes the common allegation that Ahmadiyyat is a new religion and that its founder, Hazrat Mirza Ghulam Ahmad", rejected the belief in Khatm-e-Nabuwwat, claiming himself to be a Prophet equal in stature to the Holy Prophet Muhammads.The book also refutes the allegations that Ahmadi Muslims do not believe in the Kalimah and the doctrine of jihad.Such slanders are typical last resorts of enemies who realize they have no other means to interrupt the inevitable victory of Truth.As the opponents of Islam desperately resorted to false allegations in the times of the Holy Prophets, so would they resort to it in the times of the Promised Messiah (as).Meanwhile, Ahmadiyyat continues to prosper across the globe in fulfillment of the Latter Day prophecies.ISBN 978-1-84880-191-2 9781848 801912

Page 55