Ahmadiyya Taleemi Pocket Book

Ahmadiyya Taleemi Pocket Book

احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات
دنیائے مذہب

تبلیغ میں معاونت اور احمدی احباب کی علمی تربیت و ترقی کے لئے محترم قاضی محمد نذیر صاحب کی یہ نہایت مفید تصنیف احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک ہے،قبل ازیں اس کتاب کا حصہ اول 1969ء میں اور حصہ دوم 1970ء میں شائع کیاگیا تھا تب تیاری مسودہ  میں مولانا موصوف کی معاونت مکرم سید عبدالحئی شاہ صاحب اور مولوی محمد صدیق امرتسری نے کی تھی۔ بعد ازاں  اس مفید کتاب کا حصہ اول و دوم یکجائی طور پر 1977ء میں طبع ہوا تھا جس میں حصہ اول اور دوم میں بعض ضروری تبدیلیاں اور اضافے بھی کئے گئے تھے۔ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن  میں حوالہ جات کی ری چیکنگ وغیرہ کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔قریباً ساڑھے پانچ صد صفحات کی اس کتاب میں مسئلہ حیات و وفات مسیح ناصری علیہ السلام، نزول مسیح و ظہور مہدی ، مسئلہ ختم نبوت، صداقت مسیح موعود، آپ علیہ السلام کی پیش گوئیاں، متفرق اعتراضات کے جوابات کو نہایت تفصیل سے دیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک حصہ اول.دوم

Page 2

نام کتاب احمدی تعلیمی پاکٹ بک حصہ اول.دوم

Page 3

بسم اللہ الرحمن الرحیم عرض ناشر بار دوم احباب جماعت کی علمی تربیت اور دعوت الی اللہ میں معاونت کے لئے محترم قاضی محمد نذ یر صاحب لائک پوری نے ایک مفید تصنیف ”احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک“ کے نام سے مرتب فرمائی تھی.پاکٹ بک کا حصہ اوّل و دوم یکجائی طور پر 1977ء میں شائع ہوا تھا.ایک عرصہ سے یہ کتاب نایاب تھی اور اس کی طلب برقرار تھی.اس کے پیش نظر اس کو دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے تا احباب کرام احمد یہ علم کلام کے حوالہ سے اپنے علم میں اضافہ کرسکیں.اس کے موجودہ ایڈیشن میں حوالہ جات اصل مآخذ سے چیک کر کے دیئے گئے ہیں اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ جات روحانی خزائن سے جبکہ ملفوظات 2003 ایڈیشن ، تذکرہ 2004 ء ایڈیشن اور مجموعہ اشتہارات مطبوعہ بار دوم سے حوالے دیئے گئے ہیں.دیگر حوالہ جات بھی اصل کتب سے چیک کر کے دیئے گئے ہیں اور بعض مقامات پر ایڈیشن کی تبدیلی کی وجہ سے صفحات نمبر تبدیل ہوئے ہیں.اس ایڈیشن کی تیاری میں معاونت کرنے والے شکریہ کے مستحق ہیں.

Page 4

Page 5

بسم اللہ الرحمن الرحیم عرض حال جماعت احمدیہ کی علمی تربیت کے لئے احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک حصہ اول شائع شدہ 1969 ء اور حصہ دوم شائع شدہ 1970ء کو اکٹھا ایک جلد میں شائع کیا جا رہا ہے.اس کو مرتب کرنے میں سید عبدالحی صاحب فاضل ایم اے اور مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری فاضل نے میرے ساتھ کام کیا تھا.اب اس کی فاضل نے دیکھی ہیں.غلطیوں کی دوسری بیڑتال کاپیاں نے میرے ساتھ مل کر کی ہے.اس کے دوسرے حصہ میں کچھ سوالات کے جوابات کا اضافہ بھی کیا گیا ہے اور بعض جگہ ضروری تبدیلی بھی کی گئی ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس خدمت کو قبول فرمائے اور یہ جماعت کی تربیت کے لئے مفید ثابت ہو.اللھم آمین.

Page 6

صفحہ 3 3 3 5 00 6 8 10 12 14 15 16 16 17 19 20 21 22 22 فہرست مضامین حصہ اول مضامین (1) مسئلہ حیات و وفات عیسی بن مریم علیہ السلام آیات قرآنیہ سے وفات مسیح کا ثبوت آیت.فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي حضرت رسول کریم کا فیصلہ لفظ توفی کے متعلق تحقیق لغت عربی میں توفّی الله فلانا کے معنی توفی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اعلان آیت يَعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ سے وفات مسیح کا ثبوت علامہ زمخشری کے نزدیک اس آیت کے معنی امام رازی کا مذہب رفع کے لغوی معنی امام رازی کے نزدیک اس آیت میں رفع کے معنی رفع کا استعمال قرآن کریم میں آیت وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ سے وفات مسیح کا ثبوت آیت وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ سے وفات یح کا ثبوت خَلَا فُلانٌ کے معنی لغت میں موت ہیں آیات قرآنی میں خلا کا استعمال موت کے معنوں میں آیت استخلاف سے وفات مسیح پر استدلال نمبر شمار 1 ۴

Page 7

صفحہ 23 24 26 30 32 35 37 38 38 38 39 39 40 43 44 46 48 49 51 || مضامین سورہ فاتحہ سے وفات مسیح پر استدلال آیت هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا سے استدلال آيت ميثاق النبیین سے وفات مسیح پر استدلال ان آیات کی تفسیر جن سے حیات مسیح پر استدلال کیا جاتا ہے آیت وَمَاقَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ (النساء) کی تفسیر مولوی محمد ابراہیم سیالکوٹی کی توجیہ کا رو وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا کے معنی بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کی تغییر جسمانی رفع اللہ تعالیٰ کی طرف محال ہے رفع مسیح کے متعلق امام رازی کا مذہب علامه محمود شلتور الاستاذ مصطفى المراغى علامہ رشید رضا لسان العرب میں رفع کے معنی محاورہ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کا استعمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے معراج نبوی کی حقیقت مولوی محمد ابراہیم کے ایک اور استدلال کا ابطال مولوی محمد ابراہیم صاحب کا آخری نکتہ آیت وَإِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ کی تفسیر اس آیت کی دوسری قرأت آیت اِنْ اَرَادَ أَنْ يُهْلِكَ الْمَسِيحَ (المائدہ) کی تفسیر پستو ۶ 1

Page 8

صفحہ 53 33 56 66 56 57 58 60 63 63 III نمبر شمار 1 ۴ ۶ ۷ 1 مضامین آیت وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ کی تفسیر ج.وفات مسیح علیہ السلام از روئے حدیث عیسی علیہ السلام کی عمر لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ الحديث اختلاف حليتين وفات مسیح پر اجماع امت د - وفات مسیح پر بزرگان سلف کے اقوال حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ ابو عبد اللہ محمد بن یوسف علامہ جبائی وشیخ محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ علامه رشید رضا علامہ مفتی محمد عبده الاستاذ محمود شلتوت ہ.وفات مسیح اور علماء مصر 63 64 64 64 64 66 66 66 20 67 68 68 68 68

Page 9

IV الاستاذ احمد العجوز الاستاذ مصطفى المراغی الاستاذ عبدالکریم شریف الاستاذ عبدالوب النجار ڈاکٹر احمد ز کی ابوشادی مضامین و.وفات مسیح اور علماء ہند و پاکستان حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ مولانا عبید اللہ سندھی نواب اعظم یار جنگ سرسید احمد خان بانی علی گڑھ یونیورسٹی مولانا ابوالکلام آزاد علامہ اقبال صفحہ 70 70 71 71 72 73 73 73 74 78 79 79 79 80 80 82 82 82 83 84 84 علامہ مشرقی نمبر شمار ۶ 1 ۵ ۶ Δ 1 غلام احمد پرویز و سیدابوالاعلیٰ مودودی کا مذہب ز نزول مسیح و ظهور مهدی نزول مسیح کے متعلق احادیث حیح بخاری کی حدیث (وَ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ) صحیح مسلم کی حدیث (فَامَّكُم مِّنْكُمْ) مسند احمد بن حنبل کی حدیث (امَامًا مَّهْدِيَّا ) ابن ماجہ کی حدیث ( لا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسى بن مريم)

Page 10

صفحہ 85 8888 86 86 85 86 87 87 V مضامین اُمت محمدیہ میں عیسی علیہ السلام کے بروزی قائلین کے حوالہ جات خريدة العجائب کا حوالہ اقتباس الانوار کا حوالہ غاية المقصود کا حوالہ محی الدین ابن عربی ” کا مذہب بروز کی حقیقت محمد ا کرم صاحب صابری خواجہ غلام فرید چاچڑاں شریف حضرت سید عبدالقادر جیلانی مسیح موعود علیہ السلام کا بروزی نزول امام مہدی کے لئے ابن مریم کا نام بطور استعارہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نزول کا استعمال قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو استعارہ ”ذکر“ کہا گیا ہے کنیت بھی بطور استعارہ استعمال ہو سکتی ہے سیجی علیہ السلام ایلیا کے بروز نزول کی حقیقت (قرآن کریم کے حوالہ جات) کسی صحیح حدیث میں عیسی علیہ السلام کے نزول کے ساتھ سماء کا ذکر نہیں ابن مریم کے استعارہ کے قرینہ لفظیہ حیات مسیح پر اجماع کا دعویٰ باطل ہے احناف کے نزدیک پیشگوئیوں کے معنی پر اجماع نا جائز ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اعلان 87 87 88 88 89 89 90 91 92 93 93 94 95 95 نمبر شمار

Page 11

VI نمبر شمار مضامین صفحہ (۲) مسئلہ ختم نبوت الف.جماعت احمدیہ کا عقیدہ ب.خاتم النبیین کے معنی لازم المعنی کی وضاحت لغوی معنی 97 40 97 98 98 101 101 104 105 107 108 109 110 113 115 115 117 118 119 119 120 مفردات راغب کا حوالہ خاتمیت مرتبی 1 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک مقام خاتمیت کا مفہوم ج.آیات قرآنیہ خاتم النبیین کی تفسیر میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ مع کی بحث يبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلِئِكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ه وَإِذْ اَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا ۶ 1 آیت استخلاف د امت محمدیہ میں امکان نبوت از روئے حدیث أَبُو بَكْرٍ أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيٍّ نبِيُّهَا مِنْهَا

Page 12

VII نمبر شمار ۴ مضامین لَوْ عَاشَ (إِبْرَاهِيمُ) لَكَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا حدیث کی صحت وقوت ضعف روایت کی تردید درود مسنون سے امکان نبوت کا استنباط حدیث و اشوقاه الى اخوانی ابُو بَكْرٍ وَّ عُمَرُ سَيِّدَا كَهُولَ الْجَنَّةِ.إِلَّا النَّبِيِّينَ ه - انقطاع نبوت والی احادیث کا مفہوم صفح 121 122 123 126 127 128 130 از روئے اقوال بزرگان امام علی القاری علیہ الرحمة نواب نورالحسن خان حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا امام محمد طاہر علیہ الرحمة حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ امام شعرانی علیہ الرحمة حضرت عبدالکریم جیلانی علیہ الرحمۃ مولانا جلال الدین رومی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حضرت مجد دالف ثانی علیہ الرحمة مولوی عبدالحی لکھنوی مصنف غاية البرهان 130 130 131 131 132 132 134 135 135 136 137 138 138

Page 13

VIII نمبر شمار 1 ۶ مضامین و.انقطاع نبوت سے متعلقہ احادیث کی تشریح سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي مَثَلِي وَ مَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرُ إِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ختِمَ بِيَ النَّبيُّونَ إِنِّي أَخِرُ الْأَنْبِيَاءِ أَنَا الْعَاقِبُ صفحہ 139 139 142 143 144 145 146 147 148 150 150 151 152 153 164 164 166 167 168 إِنِّي أَخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَ أَنْتُمُ اخِرُ الْأُمَمِ اَنَا الْمُقَفَّى لَا نَبيَّ بَعْدِی کے متعلق ایک سوال اور اس کا جواب حديث لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتِ کا مفہوم الْمُبَشِّرَات نبوت کی جزء ذاتی ہی ہے ز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس قسم کی نبوت کا دعویٰ کیا؟ (۳) صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمُ عُمُرًا (الآية) فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى (الآية) كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِي (الآية) فَأَنْجَيْنَهُ وَ أَصْحَابَ السَّفِينَةِ (الآية) 1.11 1

Page 14

IX نمبر شمار مضامین ه وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلَ (الآية) ).لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ (الآية) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں ر لیکھرام کے متعلق جلسہ مذاہب اعظم کے متعلق ج ڈاکٹر جان الیگزنڈرڈوئی کے متعلق و و طاعون کی پیشگوئی آہ نادرشاہ کہاں گیا ؟“ تزلزل در ایوان کسری فتاد ز اہل بنگالہ کی دلجوئی ح سعد اللہ لدھیانوی کے متعلق ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت ی شہزادہ دلیپ سنگھ کے متعلق ک جنگ عظیم اول کے متعلق لمصلح موعود اور مبشر اولاد کے متعلق ۷ Λ ۹ کسوف و خسوف کا وقوع حدیث محد دین فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ۱۰ علمی مقابله کلام الامام صفحہ 169 172 174 174 177 181 185 189 191 192 194 196 197 199 202 207 209 210 212 214

Page 15

X نمبر شمار مضامین حصہ دوم پیشگوئیوں کے اصول حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ارض مقدس کا وعدہ اور اس کائل جانا وعیدی پیشگوئیاں مشروط ہوتی ہیں تفسیر کبیر رازی اور دوسرے حوالہ جات عذاب ادنی رجوع سے بھی ٹل سکتا ہے پیشگوئیوں کے سمجھنے میں اہم اجتہادی غلطی کر سکتا ہے حضرت نوح کا واقعہ قضا صدقہ اور دعا سے مل سکتی ہے حضرت یونس کی قوم کا واقعہ صلح حدیبیہ کا واقعہ صلح حدیبیہ کے متعلق مفسرین کے اقوال اجتہادی خطا کا ایک اور واقعہ تقدیر مبرم کی اقسام حضرت مجد دالف ثانی کا قول ایک واقعہ (مکتوبات مجد دالف ثانی) ایک اور واقعہ ( تفسیر روح البیان) تعبیر کا دوسرے رنگ میں ظہور پیشگوئی متعلق محمدی بیگم محمدی بیگم کے خاندان کی دینی حالت رشتہ داروں کا نشان طلب کرنا نشان طلب کرنے پر حضرت اقدس کی دعا اور خدا تعالیٰ کا جواب صفحہ 219 219 220 220 222 223 223 225 226 228 232 234 235 235 237 237 238 239 240 241 241

Page 16

مرشمار XI مضامین خاص پیشگوئی کے بارہ میں الہامات سلطان محمد کی تو بہ کا قطعی ثبوت انجام آتھم کے حوالہ کی روشنی میں تو بہ کا ثبوت مرزا سلطان محمد صاحب کا انٹرویو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد رضی اللہ عنہ کی شہادت مرزا سلطان محمد کے خط کا عکس مرزا اسحاق بیگ صاحب پسر مرزا سلطان محمد کی شہادت مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا کی شہادت پیشگوئی کے پانچ حصے پہلے تین حصوں کا اصل الفاظ میں ظہور پچھلے دو حصوں کے ظہور کا طریق یونس علیہ السلام کی پیشگوئی کا ٹلنا پیشگوئی زیر بحث میں خدائی سنت کا ظہور پیشگوئی میں اجتہادی خطا ( نوح علیہ السلام کا واقعہ ) پیشگوئی پر اعتراضات کے جوابات اعتراض اوّل اعتراض دوم مرزا احمد بیگ اور مرزا سلطان محمد کی موت میں اختلاف کی حکمت اعتراض نمبر ۳ اعتراض نمبر ۴ اعتراض نمبر ۵ صفحہ 242 245 246 247 248 250 251 251 253 254 254 256 256 257 262 262 263 264 265 266 268

Page 17

XII نمبر شمار خواب میں نکاح کی تعبیر مضامین مریم بنت عمران اور کلثوم اخت موسیٰ سے آنحضرت کا آسمان پر نکاح پیشگوئی کی صداقت کے متعلق مرزا محمد اسحاق کا بیان اعتراض نمبر 4.پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے کوشش پر اعتراض کا جواب اعتراض نمبرے.بہو کو طلاق کی دھمکی اعتراض نمبر ۸.پہلی بیوی کو طلاق دینے پر پیشگوئی متعلق عبد اللہ آتھم ۱۵ ماہ گزرنے پر مخالفین کا نا پسند یدہ رویہ صفح 269 269 270 270 272 273 275 280 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے آتھم کو دعوت مباہلہ مع انعام 280 ڈپٹی عبداللہ آتھم کے عذرات قسم اٹھانے کی صورت میں چار ہزار روپیا انعام کی پیشکش پیشگوئی پر اعتراضات کے جوابات اپنی وفات کے متعلق حضرت مسیح موعود کے الہامات اور ڈاکٹر عبدالحکیم کی پیشگوئی مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کا اعتراف اپنی عمر کے متعلق پیشگوئی عمر کے متعلق دیگر اندازے عمر کے متعلق مخالفین کی شہادت الہامات مسیح موعود علیہ السلام کی تشریح أَنْتَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْكَ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ وَلَدِى 285 287 289 294 297 299 302 302 303 303 306

Page 18

XIII مضامین أنْتَ مِنْ مَّاءِ نَا وَهُمْ مِّنْ فَشَلٍ أَسْمَعُ وَارَى رَبُّنَا عَاج صفحہ 308 309 310 310 312 312 313 314 321 321 327 336 337 346 346 347 348 348 351 354 357 362 أفْطِرُ وَ أَصُومُ أَسْهَرُ وَ أَنَامُ أُخْطِي وَيُصِيبُ يَحْمَدُكَ اللَّهُ مِنْ عَرْشِهِ يُرِيدُ وُنَ أَنْ يَّرَوُا طَمَثَكَ (مردوں کا حیض) مختلف اعتراضات کے جوابات نور الحق میں حضرت موسیٰ کی حیات کے ذکر پر اعتراض کا جواب خدائی کے دعوی کا الزام تشریعی اور مستقلہ نبوت کے ادعا کا الزام صاحب شریعت اور تشریعی نبی میں فرق کفر کی دو قسمیں ایک اور نکتہ یادرکھنے کے قابل آئینہ صداقت کا حوالہ دیگر اختلافی مسائل اختلافات میں مسیح موعود نے پہل نہیں کی نبی کریم پر دعوی فضیلت کا الزام تین ہزار معجزات اور تین لاکھ نشانات دو گر ہن مسیح موعود اسم محمدی کا جامع ہے نمبر شمار ۶ Λ ا.

Page 19

365 365 366 367 369 370 371 372 373 374 376 378 380 383 386 391 395 396 398 401 402 XIV مضامین امام مہدی کا مرتبہ ابن سیرین کے نزدیک قاضی اکمل صاحب کا شعر گالیوں کا التزام ذرية البغايا دشمنانِ اہل بیت اولا د بغایا ہیں نجم الہدی کے شعر کی تشریح یہودیوں کا بندر اور سو رہونا سخت الفاظ استعمال کرنے کی دو وجوہات ہم صالح علماء اور مہذب شرفاء کی ہتک نہیں کرتے جہاد کی منسوخی، انگریزوں کی خوشامد اور ان کی طرف سے کھڑا کئے جانے کا الزام صرف قتال ہی جہاد نہیں دینی کام کرنا بھی جہاد ہے اسلام بغاوت کی اجازت نہیں دیتا.آنحضرت کا نمونہ انگریزی حکومت کے متعلق مسلم اکابرین کی رائے انجمن حمایت اسلام کے ممبران کا اعلان اس زمانہ کا جہاد خوشامد کے الزام کے رد میں حضرت مسیح موعود کے بیانات خود کاشتہ پودا تو ہین مسیح علیہ السلام کا الزام الزامات کا مورد دراصل فرضی یسوع ہے حضرت مسیح کی دادیاں نانیاں الزامی جوابات کا طریق نمبر شمار

Page 20

صفحہ 406 407 408 413 414 416 416 418 420 420 423 423 424 425 429 430 436 436 438 442 447 455 XV نمبر شمار مضامین سیح کا شراب پینا عمل الترب انبیاء کے معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر شام کا پنیر امام مہدی کا ولد فاطمہ سے ہونا روایات میں تضاد حضرت مسیح موعود اولا د فاطمہ سے ہیں ایک کشف کی شہادت کہ آپ اولا د فاطمہ نہیں آپ کا خاندان دراصل فارسی ہے تو ہین اہل بیت کے الزام کارو کر بلائیست سیر ہر آنم علامہ نوعی کا شعر امام حسین کی شان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نگاہ میں کستوری اور گوہ کے ڈھیر سے مراد.تو حید اور شرک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی توہین کے الزام کا رو متفرق اعتراضات عدالت میں معاہدہ کی حقیقت نبی کا شعر کہنا وعدہ خلافی کی تردید ( متعلق براہین احمدیہ ) مشورہ سے دعوی مسیح موعود کے الزام کارو نبی کا استاد

Page 21

صفحہ 457 458 461 464 465 466 467 469 470 471 474 475 476 480 482 484 485 497 500 504 506 507 XVI نبی کا مرکب نام مضامین حج نہ کرنے کی وجہ اور ایک حدیث نبوی کی تشریح مالیخولیا مراقی کے اعتراض کی تردید غیر زبانوں میں الہامات کی وجوہ الہام ” قرآن مجید خدا کا کلام اور میرے منہ کی باتیں ہیں“ کی تشریح خدا کے غیر زبانوں میں کلام نہ کرنے کے متعلق آریوں کے خیال کو بے ہودہ قرار دیا گیا ہے نبی اعلیٰ خاندان سے آتا ہے نہ چوہڑے چماروں سے ایسا مسیح نہیں آسکتا جو قرآن کے حلال و حرام کی پرواہ نہ کرے مولوی محمد حسین بٹالوی کے ایمان لانے کا مفہوم بشیر الدولہ، عالم کباب کی پیشگوئی کا مصداق الهام بکر و ثیب کی تشریح خواتین مبارکه زلزلة الساعة کے متعلق اعتراض کا جواب الہام ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں“ کی تشریح الہام " تیر تخت سب سے اونچا بچھایا گیا“ کی تشریح مولوی ثناء اللہ کا مباہلہ سے انکار مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ کرم خاکی ہوں“ والے شعر کی تشریح هذا خليفة الله المهدی کا ثبوت احادیث نبوی سے تکفیر مسیح موعود کا ثبوت مجدد صاحب سرہندی کا حوالہ متعلقہ نبوت کسی صحیح حدیث میں نزول کے ساتھ السماء کا لفظ موجود نہیں نمبر شمار

Page 22

نمبر شمار XVII مضامین امام مہدی کے لئے رمضان میں کسوف و خسوف مریدوں کی تعداد کے بیان میں اختلاف کی وجہ دعویٰ نبوت کے انکار واقرار میں تطبیق قبر مسیح کے متعلق مسیح موعود کے بیانات حیات مسیح کا رسمی عقیدہ اور دعویٰ مسیح موعود دعویٰ مسیح موعود سے انکار اور اس کا مفہوم فضیلت بر مسیح کے عقیدہ میں تبدیلی کی وجہ محدث اور نبی اور تبدیلی عقیدہ احمدیوں کے دونوں فریق میں لفظی نزاع اعتراض ہشتم کا جواب.( چارسونبیوں کی پیشگوئی پورانہ ہونے سے متعلق ) اعتراض نہم کا جواب.( تورات و انجیل میں طاعون کی پیشگوئی ) اعتراض دہم کا جواب.( قرآن وحدیث سے طاعون کی پیشگوئی کا ثبوت ) صفحہ 509 511 512 514 520 522 525 527 534 540 541 542

Page 23

احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک حصہ اوّل مرتبه قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ناظر اشاعت و تصنیف

Page 24

Page 25

فلیمی پاکٹ بک 3 حصہ اول مسئلہ حیات و وفات عیسی بن مریم علیہ السّلام آیات قرآنیہ سے وفات مسیح ناصری علیہ السلام کا ثبوت وَإِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَ أَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأَقِيَ الهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَنَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِى بِحَقِّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِى وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ - مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِةٍ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ - (المائدة : 118,117) ترجمہ : اور جب کہا اللہ نے اے عیسیٰ بن مریم! کیا تو نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بناؤ خدا کے سوا.تو (عیسی نے ) کہا : پاک ہے تو ناممکن تھا میرے لئے کہ میں کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہ تھا اگر میں نے (ایسا) کہا ہوتو تجھے معلوم ہی ہوگا.تو جانتا ہے جو میرے نفس میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے نفس میں ہے یقینا تو غیوں کو خوب جاننے والا ہے میں نے اُن سے نہیں کہا مگر وہی جس کا تُو نے مجھے حکم دیا تھا.کہ عبادت کرو اللہ کی جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور میں ان پر نگران تھا ( اس وقت

Page 26

تعلیمی پاکٹ بک 4 حصہ اول تک ہی ) جب تک میں اُن میں موجود رہا.پس جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو ہی اُن پر نگران تھا اور تو ہر چیز پرنگران ہے.استدلال:- : 1 قیامت کے دن حضرت عیسی علیہ السلام کے جواب كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ سے ظاہر ہے کہ وہ جب تک اپنی قوم میں موجود رہے ان کی قوم نہیں بگڑی تھی کیونکہ اس وقت وہ اُن پر نگران تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کی تَوَفَّی کرلی تو پھر قیامت تک خدا ہی ان کی قوم کا نگران تھا حضرت عیسی علیہ السلام نے اس کے بعد ان کی نگرانی نہیں کی.اس بیان سے واضح ہے کہ ان کی قوم سے علیحدگی جب توفی کے ذریعہ ہوگئی تو تَوَفی کے بعد وہ قوم میں دوبارہ نہیں آئے ہوں گے بلکہ وہ قیامت تک قوم کے بارہ میں کوئی مشاہداتی علم نہیں رکھتے ہوں گے.2 : فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کے معنی ہیں جب تو نے مجھے وفات دے دی.تَوَفَّيْتَنِی کے معنی محاورہ عرب کے علاوہ سیاق کلام کے لحاظ سے بھی پورا پورا لینا بمع رُوح و جسم لے کر آسمان پر اٹھا لینا درست نہیں کیونکہ توفی کے بعد اُن کے دوبارہ قوم میں آنے کی كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمُ میں نفی کر دی گئی ہے پس زندہ اٹھا لینے کا جو یہ مقصد خیال کیا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ اصالتا قوم میں آئیں گے.اس کی كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهم میں تردید موجود ہے کیونکہ اس فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ پھر مجھے قوم کی نگرانی کا موقع نہیں ملا بلکہ اے خدا! پھر تو ہی ان کا نگران تھا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ سے اِشَارَةُ النَّص کے طور پر یہ امر ثابت ہے کہ توفی کے بعد وہ پھر قوم میں نہیں گئے.پس ان کا قوم میں دوبارہ آنا

Page 27

تعلیمی پاکٹ بک 5 حصہ اول جب ناممکن قرار پایا تو ان کو زندہ رکھنے کا کیا فائدہ! لہذا اس جگہ تَوَفَّيْتَنِی کے صحیح اور معروف معنی ( تو نے مجھے وفات دے دی ) ہی ضروری ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام کا قیامت کے دن قوم سے تَوَفِّی کے بعد سے قیامت کے دن تک مشاہداتی لا علمی کے متعلق یہ بیان چونکہ درست ہے کیونکہ وہ خدا کے نبی ہیں.لہذا ان کی وفات کی وجہ سے قوم میں دوبارہ نہ آنے اور قوم کو ان کی وفات کے بعد خدا کی نگرانی میں چھوڑ جانے کا اعتراف سچائی پر مبنی ہے.خدا کا نبی کبھی یہ جھوٹ نہیں بول سکتا کہ وہ قوم میں دوبارہ اصلاح کے لئے آیا ہو مگر خدا کو یہ کہے کہ قوم سے علیحدگی کے بعد مجھے ان کی نگرانی کا موقع نہیں ملا.بلکہ وہ خدا کی نگرانی میں ہی رہے.3 حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ حضرت امام بخاری کتاب التفسیر میں زیر آیت ھذا یہ حدیث لائے ہیں:.عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا......إِنَّهُ يُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي فَيُؤْخَذُبِهِمُ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ يَا رَبِّ! أَصَيْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ : وَ كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ - فَيُقَالُ إِنَّ هَؤُلَاءِ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِيْنَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ.(بخاری کتاب التفسير.باب وكنت عليهم شهيداً.......صلى الله ترجمہ : حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت علیہ نے فرمایا.کہ (قیامت کے دن ) میری اُمت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے اور انہیں بائیں طرف (جہنم کی طرف) لے جایا جائے گا.پس میں کہوں گا.اے میرے رب ! یہ تو میرے ساتھی ہیں تو کہا جائے گا تو نہیں جانتا کہ یہ تیرے

Page 28

تعلیمی پاکٹ بک 6 حصہ اول بعد کیا کچھ کرتے رہے ہیں.تو اس وقت میں اسی طرح کہوں گا جس طرح اس نیک بندے (حضرت عیسی) نے کہا کہ میں ان پر ( اس وقت تک ) نگران تھا جب تک میں ان میں موجود رہا.پس جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا.اس پر کہا جائے گا کہ یہ لوگ تیرے بعد مرتد ہی رہے.استدلال:.جو معنی تَوَفَّيْتَنِی کے اس حدیث میں نبی کریم ﷺ کے بیان کے لئے جاتے ہیں وہی معنی حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں لئے جائیں گے.کیونکہ رسول کریم علیہ کا اپنی وفات کے بعد قیامت کے دن حضرت عیسی علیہ السلام کے الفاظ میں بیان دینا واضح کرتا ہے کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی والا بیان حضرت عیسی علیہ السلام کا بھی وفات کے بعد ہوا.اور توفی کے بعد انہیں قوم میں اصالتاً دوبارہ آنے کا موقع نہیں ملا جس طرح آنحضرت ﷺ کو تَوَفِّی کے بعد اصالتاً قوم میں آنے کا موقع نہیں ملا.:4 تَوَفَّی کے متعلق تحقیق:.جن لوگوں کو اس آیت کی تفسیر میں فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کے معنی پورا پورا لے لیا تو نے مجھے یعنی روح و جسم کے ساتھ قبضہ میں لے لیا تو نے مجھے کے معنوں پر اصرار ہو ان پر فرض ہے کہ وہ ایسے استعمال کی عربی زبان سے کوئی مثال پیش کریں.جس میں تَوَفَّى باب تَفَعُل کا کوئی صیغہ استعمال ہوا ہو جس کا فاعل خدا اور مفعول به کوئی ذی روح ہو وہاں وفات دینے یا سلا دینے کے سوازی روح کے لئے قبض الجسم کا مفہوم لیا گیا ہو قرآن کریم میں تو ذی روح کے لئے توفی کا دو "

Page 29

تعلیمی پاکٹ بک معنوں میں حصر کر دیا گیا ہے.1 وفات دینا -1 2 سلا دینا چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.7 حصہ اول اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرى إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى.(الزمر: 43) ترجمہ: اللہ تعالیٰ قبض کرتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور جو جان نہ مرے اسے قبض کرتا ہے اس کی نیند میں پھر وہ رو کے رکھتا ہے اس جان کو جس پر اس نے موت کا فیصلہ کیا اور دوسری کو بھیج دیتا ہے مقررہ وقت تک کے لئے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ ہر جاندار کو توفی یا موت کی صورت میں ہوتی ہے یا نیند کی صورت میں.پہلا جملہ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا ثبت ہے اور دوسرا جملہ وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ منفی.اس طرح اثبات اور نفی کے ذریعہ ذی روح کے لئے تَوَفِّی کا دو معنوں میں حصر کر دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جس جس جان کی تَوَفِّی موت کے ذریعہ نہ ہوگی اس کی تَوَفّی صرف اور صرف نیند کی صورت میں ہی ہوگی.پس تَوَفّی کے معنی بیداری میں خدا کا جاندار کے روح و جسم کا قبضہ میں لے لینا از روئے قرآن مجید درست معنی نہیں کیونکہ یہ ایسے تیسرے معنی ہوں گے جس کا استعمال ذی روح کے لئے قرآن مجید تسلیم نہیں کرتا اور سُلانے کے معنی وہاں لئے جاتے ہیں جہاں نیند کے لئے قرینہ موجود ہو ورنہ قرآن کریم میں جہاں نیند کا قرینہ نہیں ہے وہاں ہر جگہ توفی کے صیغے خدا کے فاعل ہونے اور انسان کے مفعول

Page 30

تعلیمی پاکٹ بک 8 حصہ اوّل ہونے کی صورت میں وفات دینے کے معنوں میں استعمال ہوئے ہیں.پس اس طرح تَوَفّی کے معنی خدا کا انسان کو وفات دینا ایک قرآنی محاورہ ہے اسی محاورہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے تَوَفّی کا استعمال ہوا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق قرآنی محاورہ کے خلاف معنی نہیں لئے جاسکتے.5 لغت عربی میں تَوَفَّى اللهُ فُلَانًا کے معنی : 1: تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ : إِذَاقَبَضَ نَفْسَهُ (تاج العروس) ترجمہ : اس کو اللہ نے تَوَفِّی کر لیا اس وقت کہتے ہیں جب وہ اس کی جان کو قبض کرلے.2: الْوَفَاةُ الْمَوْتُ وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ : قَبَضَ رُوحَهُ (القاموس ) ترجمہ : وفات کے معنی موت ہیں اور اس کو اللہ نے تَوَفِّی کیا کے معنی ہیں اس نے اس کی روح قبض کر لی.3: تَوَفَّاهُ اللَّهُ أَيْ قَبَضَ رُوحَهُ - (صراح) ترجمہ : اللہ نے اس کو تَوَفّی کیا یعنی اس کی روح قبض کر لی.4 : تُوُفِّيَ فُلانٌ وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ : أَدْرَكَتْهُ الْوَفَاةُ - اساس البلاغة از علامه زمخشری.زیر لفظ.و.ف.ى) ترجمہ : فلاں تَوَفِّی کیا گیا اور اللہ نے اسے تَوَفِّی کیا کے معنی ہیں اسے وفات نے آلیا.5: الْوَفَاةُ المَوْتُ وَتُوُفِّيَ فُلَانٌ وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ إِذَا قَبَضَ نَفْسَهُ وَفِي الصَّحَاحِ إِذَا قَبَضَ رُوحَهُ.(لسان العرب) ترجمه : وفات کے معنی موت ہیں اور فلاں تَوَفِّی کیا گیا اور اللہ نے اسے توفی کیا تب کہتے ہیں جب وہ اس کی جان قبض کرے اور صحاح میں ہے

Page 31

تعلیمی پاکٹ بک 9 حصہ اوّل جب وہ اس کی روح قبض کرے.6 : تَوَفَّى اللهُ فُلَانًا أَى قَبَضَ رُوحَة- (الصحاح للجوهرى) ترجمہ : اللہ تعالی نے فلاں کو توفی کیا یعنی اس کی روح قبض کر لی.7 : التَّوَفَّى : الْإِمَاتَةُ وقَبْضُ الرُّوحِ وَعَلَيْهِ الْإِسْتِعْمَالُ الْعَامَّةُ - (کلیات ابى البقاء صفحه 129) ترجمه : تَوَفَّی کے معنی ماردینا اور قبض روح ہیں.اسی معنی کا عام استعمال ہے.عربی لغت کی کتابوں کے ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ توفی کے فعل کا فاعل جب خدا ہو اور انسان پر یہ فعل وارد ہورہا ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خدا نے اس کی جان قبض کر لی یا اس کی روح قبض کر لی.خدا کے فاعل اور انسان کے مفعول به ہونے کی صورت میں قبض جسم کے معنوں میں یہ لفظ عربی زبان میں استعمال نہیں ہوتا.لہذا قرآن مجید میں حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے جن دو مقامات میں مُتَوَفِّیک اور تَوَفَّيْتَنِی کے الفاظ وارد ہیں چونکہ ان میں خدا فاعل اور حضرت مسیح مفعول به ہیں لہذا ان دونوں جگہ تَوَفِّی کے ان صیغوں کے معنی وفات دینا ہی ہیں نہ کچھ اور.واضح رہے کہ لغت میں تَوَفِّی کے معنی قَبضُ الشَّيْءِ وَافِيَا شَيْئاً کا پورا پورا لینا بھی ہیں.چنانچہ جب تَوَفّی کا مفعول انسان نہ ہو بلکہ انسان کے علاوہ کوئی غیر ذی روح شے ہو اور فاعل بھی اس کا خدا نہ ہو تو تَوَفَّی کے معنی پورا پورا وصول کر لیتا ہوتے ہیں.جیسے تَوَفَّيْتُ مِنْهُ حَقِی وَ تَوَفَّيْتُ مِنْهُ مَالِی یعنی میں نے اس سے اپنا حق یا اپنا مال پورا پورا وصول کر لیا ہے لیکن جب توفّی کا فاعل خدا ہو اور انسان اس کا مفعول یہ ہو جیسا کہ پہلے مذکور ہوا تو اس جگہ ہمیشہ قبض روح کے معنی ہی ہو سکتے ہیں.جس کی دو صورتیں ہیں.

Page 32

تعلیمی پاکٹ بک 10 حصہ اوّل 1: وفات دینا.2: سُلا دینا.مگر سُلا دینے کے معنوں کے لئے قرینہ ہونا چاہئے.اگر سُلا دینے کے معنوں کا قرینہ نہ ہو تو اس جگہ حتمی طور پر موت کے معنی متعین ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ تینوں شرطیں کہ توفی باب تفعل سے ہو ، خدا اس کا فاعل ہو اور ذی روح اس کا مفعول به ہو اور نیند کا قرینہ موجود نہ ہو وفات کے معنی کی تعیین کے لئے حتمی قرینہ ہیں.کیونکہ یہ معنی عرفی ہیں اور حقیقت عرفیہ کے محل پر لغوی معنی مراد نہیں ہوا کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اعلان : بعض علمائے وقت کو اس بات پر سخت غلو ہے کہ مسیح ابن مریم فوت نہیں ہوا بلکہ زندہ ہی آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور حیات جسمانی دنیوی کے ساتھ آسمان پر موجود ہے اور نہایت بے باکی اور شوخی کی راہ سے کہتے ہیں کہ توفی کا لفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے اس کے معنے وفات دینا نہیں ہیں بلکہ پورا لینا ہے.یعنی یہ کہ روح کے ساتھ جسم کو بھی لے لینا.مگر ایسے معنے کرنا ان کا سراسر افتراء ہے قرآن کریم کا عموماً التزام کے ساتھ اس لفظ کے بارہ میں یہ محاورہ ہے کہ وہ لفظ قبض روح اور وفات دینے کے معنوں پر ہر یک جگہ اس کو استعمال کرتا ہے یہی محاورہ تمام حدیثوں اور جمیع اقوالِ رسول اللہ علی اللہ میں پایا جاتا ہے.جب سے دنیا میں عرب کا جزیرہ آباد ہوا ہے اور زبان عربی جاری ہوئی ہے کسی قول قدیم یا جدید سے ثابت نہیں ہوتا کہ توفی کا لفظ کبھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیا گیا ہو بلکہ جہاں کہیں توفّی کے لفظ کو خدا تعالیٰ ٹھہرا کر انسان کی نسبت استعمال کیا گیا ہے وہ صرف وفات دینے اور قبض روح کے معنی پر آیا ہے نہ کہ قبض جسم کے معنوں میں.کوئی کتاب لغت

Page 33

11 حصہ اوّل تعلیمی پاکٹ بک کی اس کے مخالف نہیں کوئی مثل اور قول اہل زبان کا اس کے مغائر نہیں.غرض ایک ذرہ احتمال مخالف کے گنجائش نہیں اگر کوئی شخص قرآن کریم یا کسی حدیث رسول اللہ صلعم سے یا اشعار وقصائد ونظم ونثر قدیم وجدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجز قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پا گیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرع کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کے کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کرلوں گا......اس اشتہار کے مخاطب خاص طور پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں جنہوں نے غرور اور تکبر کی راہ سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ توفی کا لفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے اس کے معنے پورا لینے کے ہیں یعنی جسم اور روح کو بہ ہیئت کذائی زندہ ہی اٹھا لینا اور وجود مرکب جسم اور روح میں سے کوئی حصہ متروک نہ چھوڑ نا بلکہ سب کو بحیثیت کذائی اپنے قبضہ میں زندہ اور صحیح سلامت لے لینا.سواسی معنی سے انکار کر کے یہ شرطی اشتہار ہے.(ازالہ اوھام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 602 تا604) ب: ایسے شخص کو صرف یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ حدیث جس کو وہ پیش کرتا ہے وہ حدیث صحیح نبوی ہے یا گزشتہ عرب کے شاعروں میں سے کسی ایسے شاعر کا قول ہے جو علم محاورات عرب میں مسلم الکمال ہے اور یہ ثبوت دینا بھی ضروری ہوگا کہ قطعی طور پر اس حدیث یا اس شعر سے ہمارے دعوی کے مخالف

Page 34

تعلیمی پاکٹ بک 12 حصہ اوّل معنے نکلتے ہیں اور ان معنوں سے جو ہم لیتے ہیں وہ مضمون فاسد ہوتا ہے یعنی وہ حدیث یا وہ شعران معنوں پر قطعیۃ الدلالت ہے کیونکہ اگر اس حدیث یا اس شعر میں ہمارے معنوں کا بھی احتمال ہے تو ایسی حدیث یا ایسا شعر ہرگز پیش کرنے کے لائق نہ ہوگا کیونکہ کسی فقرہ کو بطور نظیر پیش کرنے کے لئے اس مخالف مضمون کا قطعیۃ الدلالت ہونا شرط ہے.:2 (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 384) ط وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ.إِذْ قَالَ اللهُ يُعِيْنَى إِنِّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إلى يَوْمِ الْقِيمَةِ - آل عمران : 55 56 ترجمہ: اور ان (یہود نے) تدبیر کی اور اللہ نے بھی تدبیر کی اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سے بہتر ہے جب کہا اللہ نے اے عیسی ! میں (ہی) تجھے وفات دینے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف رفعت دینے والا ہوں اور تجھے ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا پاک کرنے والا ہوں اور بنانے والا ہوں ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ، غالب ان لوگوں پر جنہوں نے کفر کیا قیامت کے دن تک کے لئے.استدلال: یہود کی تدبیر یہ تھی کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر مارے جائیں.خدا کی تدبیران کو صلیب سے بچانا تھی.سوخدا نے انہیں اپنی تدبیر سے بچالیا نہ کہ زندہ آسمان پر اٹھانے کا معجزہ دکھا کر.کیونکہ آسمان پر زندہ اٹھالینا دشمنوں کے مقابلہ میں تدبیر نہیں اعجاز اور قدرت نمائی ہے.

Page 35

فلیمی پاکٹ بک 13 حصہ اوّل تفصیل کے لئے دیکھئے مفتی مصر علامہ محمود شلتوت کا مضمون The Ascension of" "Jesus - مجلة الازهر شمارہ فروری 1960ء) 2 خدا تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو صلیبی موت سے بچانے کے لئے تسلی دی اور ان سے چار وعدے کئے.وعدہ اوّل:.میں تجھے وفات دوں گا یعنی یہودی تجھے نہیں مار سکتے.وعدہ دوم:.میں تجھے عزت دینے والا ہوں یعنی یہودی تجھے صلیب پر مار کر ذلیل نہیں کر سکتے بلکہ بعد وفات تو مرفوع الی اللہ ہوگا نہ کہ ملعون جیسا کہ یہودی تجھے اپنی تدبیر سے ملعون ثابت کرنا چاہتے ہیں یادر ہے کہ رفع ، وضع کی ضد ہے وضع کے معنی ذلت اور رفع کے معنی عزت افزائی کے ہیں.اس جگہ یہ لفظ رفع الروح اور رفعِ روحانی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے کیونکہ پہلے وفات دینے کا وعدہ ہے پھر رفع دینے کا.وعدہ سوم : میں تجھے یہود کے الزامات سے پاک ٹھہراؤں گا.وعدہ چہارم : میں تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک تیرے منکرین پر غلبہ دوں گا.یہ چاروں وعدے خدا تعالیٰ نے علی الترتیب پورے کر دیئے.1.حضرت عیسی علیہ السلام کو یہودیوں کے ہاتھ سے بچا کر خود طبعی وفات دے دی.2 بعد از وفات ان کی روح کی اپنے حضور عزت افزائی کی اور ان کے مدارج کو بلند کیا.3 نبی کریم ﷺ کے ذریعہ ان کو یہودیوں کے الزامات سے پاک ٹھہرایا.4.ان کی پیروی کرنے والوں کو ان کے منکرین پر غالب کر دیا.علامہ زمخشری اپنی تفسیر الکشاف میں اس جگہ مُتَوَفِّیک کے

Page 36

تعلیمی پاکٹ بک معنوں میں لکھتے ہیں : 14 حصہ اوّل أَى مُسْتَوْفِي أَجَلَكَ وَمَعْنَاهُ : إِنِّي عَاصِمُكَ مِنْ أَنْ يَقْتُلَكَ الْكُفَّارُ.وَ مُمِيْتُكَ حَتْفَ أَنْفِكَ لَا قَتْلاً بِأَيْدِيهِمْ.یعنی میں تیری عمر پوری کرنے والا ہوں اور تجھے اس طرح قبضہ میں لے لینے والا ہوں کہ کفار تجھے قتل نہ کرسکیں اور تجھے طبعی موت دینے والا ہوں نہ ان کے ہاتھوں سے قتل ہوکر موت.تفسیر روح المعانی میں بھی یہی معنی لکھے ہیں.بعض مفسرین نے اس جگہ مُتَوَفِّیک کے معنی.میں تجھے وفات دینے والا ہوں لے کر رَافِعُكَ کے یہ معنی کئے ہیں.وفات دینے کے بعد تجھے زندہ کر کے آسمان پر اُٹھا لینے والا ہوں یہ معنی درست نہیں کیونکہ وفات دینے کے بعد زندہ کرنے اور آسمان پر اٹھانے کا کوئی ذکر اس جگہ موجود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے صرف وفات دینے کے بعد اپنی طرف اٹھا لینے کا ذکر کیا ہے پس اس سے رُوح کا خدا کی طرف اٹھایا جانا اور روحانی رفع دیا جانا یعنی مزید عزت بخشا جانا ہی مراد ہے.عزت دینا اور قرب عطا کرنا ہی رفع کے متعارف معنی ہیں.اور حضرت مسیح کا جسمانی رفع الی اللہ تو محال ہے کیونکہ خدا تعالیٰ جہات سے پاک ہے اور رفع جسمانی خدا تعالیٰ کے ذو جہت ہونے کو چاہتا ہے اور خدا کا ذو جہت ہونا محال ہے لہذا اس کی طرف رفع جسمانی محال ہے.بعض لوگوں نے یہ کہہ کر کہ وا جمع کے لئے ہوتی ہے نہ ترتیب کے لئے آیت میں تقدیم و تاخیر تسلیم کی ہے یعنی رفع پہلے کیا اور وفات بعد میں دے گا.اس طرح رَافِعُكَ اِلَی کے معنی مسیح کو آسمان پر مع جسم اٹھانے والا ہوں لیے ہیں.یہ معنی بھی بوجوہات ذیل درست نہیں.

Page 37

تعلیمی پاکٹ بک 15 حصہ اول امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں: إِذَا أَمْكَنَ حَمُلُ الْكَلَامِ عَلَى ظَاهِرِهِ كَانَ الْمَصِيرُ إِلَى التَّقْدِيمِ وَالتَّاخِيرِ غَيْرَ جَائِزِ (تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 177) کہ جب کلام کو ظاہر پر محمول کیا جا سکے تو تقدیم و تاخیر کی طرف جانا نا جائز ہوتا ہے.آیت ھذا میں صرف یہی بات نہیں پائی جاتی کہ اس کلام کا حمل ظاہر پر ممکن ہے بلکہ اس جگہ ترتیب کو ملحوظ نہ رکھنا امر محال ہے.اگر تقدیم و تاخیر کر کے رافِعُكَ کو پہلے رکھا جائے اور مُتَوَفِّیک کو اس کے بعد رکھا جائے تو مُتَوَفِّیک کے لفظ کو مُطَهَّرُکَ سے پہلے رکھنا محال ہے.کیونکہ تطھیر کا وعدہ تو رسول کریم ﷺ کے ذریعے پورا ہو چکا ہے.اور حیات مسیح کے قائلین کے نزدیک اس وقت تک بھی وفات مسیح واقع نہیں ہوئی تھی.اب مُتَوَفیت کے لفظ کو اٹھا کر جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوت سے پہلے بھی نہیں رکھ سکتے کیونکہ مسیح کے متبعین کو ان کے منکرین پر غلبہ بھی مل گیا اور قائلین حیات مسیح کے نزدیک ابھی تک حضرت مسیح کی وفات نہیں ہوئی....یہ غلبہ کا وعدہ قیامت کے دن تک کے لئے ہے.لہذا مُتَوَفِّيكَ كو إلى يَوْمِ الْقِمَةِ کے بعد رکھا جائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ قیامت کے دن جب دوسرے لوگ زندہ ہو رہے ہوں گے اس دن حضرت مسیح کی وفات ہورہی ہوگی.حالانکہ قیامت کا دن دوبارہ زندگی کا دن ہے.نہ کسی کی موت کا لہذا اس آیت میں ترتیب کا بدلنا محال ہے اور کلام کا عمل ظاہر پر ہی از بس ضروری ہے.پس حضرت مسیح کی وفات پہلے ہونے والی تھی اور رفع بعد میں لہذا اس جگہ روح کا رفع اور روحانی رفع ہی مراد ہوسکتا ہے.2 اگر پھر بھی کوئی ترتیب بدلنے پر مصر ہو تو واضح رہے کہ رَافِعُكَ اِلَی کو

Page 38

16 حصہ اوّل تعلیمی پاکٹ بک پہلے رکھنے سے بھی خدا تعالیٰ کی طرف حضرت مسیح کا رفع جسم مراد نہیں ہوسکتا.کیونکہ رفع جسمی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ خدا اوپر کی جہت میں ہو حالانکہ خدا تعالیٰ مقام اور جہت سے پاک ہے پس رفع جسم سے خدا تعالیٰ کا محدود المکان ہونا لازم آتا ہے اور یہ محال ہے.ماسوا اس کے رفع الی اللہ کے معنی صرف خوش بختی یا خدا کا قرب دیا جانا ہوتے ہیں.لغت میں ہے.الرَّفَعُ ضِدُّ الْوَضْع وَفِي أَسْمَاءِ اللَّهِ تَعَالَى الرَّافِعُ هُوَ الَّذِي يَرْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ بِالْاِ سُعَادِ وَأَوْلِيَاءَ هُ بِالتَّقْرِيبِ.(لسان العرب والقاموس کہ رفع وضع کی ضد ہے اور اللہ کے ناموں میں سے ایک نام الرافع (رفع دینے والا) ہے.یہ وہی ہے جو مومنوں کو خوش بختی اور اولیاء کو اپنا مقرب بنانے سے رفع دیتا ہے.انہی امور کے مدنظر تفسیر کبیر میں امام فخر الدین رازی نے رَافِعُكَ کے معنی لکھے ہیں.وَاعْلَمُ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ تَدُلُّ عَلَى أَنَّ رَفَعَهُ فِي قَوْلِهِ وَرَافِعُكَ إِلَى هُوَ الرّفْعَةُ بالدَّرَجَةِ وَالْمَنْقَبَةِ لَا بِالْمَكَانِ وَالْجِهَةِ.کہ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ رَافِعُكَ اِلَی میں رفع درجہ اور منقبت ( منقبت بمعنی شان ) میں ہے نہ کہ مکان اور جہت میں.3 - رفع الی اللہ کے ایک معنی باعزت وفات دینے کے بھی ہیں.حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.النَّقْمَةُ.اَكْرَمَ اللهُ نَبِيَّةَ أَنْ يُرِيَهُ فِي أُمَّتِهِ مَا يَكْرَهُ فَرَفَعَهُ إِلَيْهِ وَبَقِيَتِ البيهقى بحواله كيلي الموفى صفحه (28)

Page 39

تعلیمی پاکٹ بک 17 حصہ اول کہ خدا تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی یوں عزت افزائی فرمائی کہ آپ کی موجودگی میں اُمت کے لئے جو باتیں آپ کو نا پسند تھیں وہ ظاہر نہیں ہوئیں اور خدا نے آپ ﷺ کو اپنی اپنی طرف اُٹھالیا ( با عزت وفات دی) اور موجب عذاب باتیں بعد میں وقوع پذیر ہوئیں.:4 قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کے فاعل ہونے اور انسان کے مفعول ہونے کی صورت میں جہاں بھی رفع کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں قرب منزلت ہی مراد ہے نہ کہ جسم کا اٹھایا جانا.آیات قرآنیہ ): وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلَكِنَّةَ اَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الاعراف: 177) ب: مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجُتٍ.(البقرة: 254 ) ج : رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَتِ _ (الانعام : 166) : رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَتٍ - (الزخرف: 33 ) : نَرْفَعُ دَرَجُتٍ مَّنْ نَّشَاءُ - (الانعام : 84 ) د لا و : وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا ـ (مريم: 58) ز : يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَةٍ - (المجادلة:12) بعض لوگ کہتے ہیں کہ رفع کا صلہ جب الی ہو اور خدا فاعل ہواور مفعول انسان تو اس جگہ رفع جسمی مراد ہوتا ہے مگر یہ قاعدہ خودساختہ ہے اس کی کوئی شہادت اور مثال عربی زبان میں موجود نہیں.حضرت انس کی اوپر درج کردہ حدیث اس کی تردید کرتی ہے.وہاں تینوں شرطیں موجود ہیں مگر مراد وفات کے بعد قرب پانا ہے.پھر آیت زیر بحث میں اِلی کا لفظ بھی موجود ہے السَّمَاء کا لفظ موجود

Page 40

تعلیمی پاکٹ بک 18 حصہ اوّل نہیں مگر رفع الی اللہ سے مجاز حضرت مسیح کا رفع الى السماء مراد لینا بھی درست نہیں کیونکہ رفع کے بعد اگر السَّمَاء کا لفظ بھی موجود ہو اور السی کا صلہ بھی موجود ہو اور رفع کا فاعل خدا ہو اور کوئی ذی روح اس کا مفعول ہو تو عربی زبان میں اس صورت میں بھی رفع سے مراد درجہ کی بلندی ہوتی ہے نہ کہ جسم کا آسمان پر اُٹھایا جانا.چنانچہ حدیث نبوی میں آیا ہے.إِذَا تَوَاضَعَ رَفَعَهُ اللهُ بِالسِّلْسِلَةِ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ.(کنز العمال جلد 3 صفحه 117 باب التواضع ترجمه : جب بندہ عاجزی اختیار کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے ساتویں آسمان کی طرف اٹھالیتا ہے زنجیر کے ساتھ.:8 اس جگہ فروتنی اختیار کرنے والے کے لئے سلسلہ وار بلند مرتبہ پانے کا ذکر ہی ہے نہ کہ ظاہری طور پر مادی جسم کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا.بعض مفسرین نے آیت يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى میں ترتیب تو تسلیم کی ہے مگر انہوں نے مُتَوَفِّيكَ کے یہ معنی کئے کہ خدا نے کہا میں تجھے پورا پورا قبضے میں لے لینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں“ لہذا پہلے حضرت عیسی علیہ السلام کو مع روح و جسم زندہ قبضہ میں لے لیا اور پھر زندہ کو ہی آسمان پر اٹھالیا.ہم بتا چکے ہیں کہ توفی کے فعل کا جب اللہ تعالیٰ فاعل ہو اور انسان اس کا مفعول یہ ہوتو اس جگہ صرف قبض روح کے معنی مراد ہوتے ہیں.قبض روح کی از روئے قرآن مجید دو ہی صورتیں ہیں وفات دینا اور سُلا دینا.آیت زیر بحث میں صرف وفات دینے کے معنی ہی مراد ہو سکتے ہیں.کیونکہ سُلا دینے کے معنوں کے لئے کوئی قرینہ چاہیئے اور وہ اس جگہ موجود نہیں اور بلا قرینہ اس کے معنی سُلا دینا نہیں

Page 41

تعلیمی پاکٹ بک 19 حصہ اوّل ہوتے بلکہ خدا کے فاعل اور ذی روح کے مفعول ہونے کی صورت میں وفات دینا ہی ہوتے ہیں.:9 ماسوا اس کے جب ہر زندہ انسان ہر آن مع روح و جسم ہمیشہ خدا کے تصرف اور قبضہ میں ہے تو پھر متوفی کے لفظ سے حضرت مسیح علیہ السلام کو آئندہ خدا کے قبضہ میں لے لینے کا وعدہ تحصیل حاصل ہے کیونکہ جو چیز پہلے سے حاصل ہو اس کے متعلق یہ وعدہ کرنا کہ وہ آئندہ تمہیں حاصل ہوگی ایک لغو بات ہے.ہم یہ بھی بتا چکے ہیں کہ رفع کا فاعل جب خدا ہو اور انسان اس کا مفعول ہو تو اس کے معنی اس انسان کا جسم آسمان پر اٹھا لینے کے نہیں ہوتے خواہ رفع کے ساتھ السَّمَاء کا لفظ بھی موجود ہو جو یہاں موجود نہیں بلکہ اس کے معنی خدا تعالیٰ کا اُسے بلندی درجات دینا ہوتے ہیں.خواہ یہ درجات زندگی میں حاصل ہوں یا مرنے کے بعد حاصل ہوں.ہاں رفع کی تکمیل بعد از وفات ہی ہوتی ہے.پس مُتَوَفِّيكَ كے بعد وَرَافِعَكَ إِلَى کا وعدہ صرف یہ مفہوم رکھتا ہے کہ خدا نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اس وعدہ سے تسلی دی کہ یہودی تمہیں صلیب پر مار نہیں سکتے میں تمہیں طبعی وفات دوں گا اور تمہاری روح کا رفع کروں گا اور تمہارے درجات اپنے حضور بلند کروں گا..3 وَالَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ - اَمْوَاتُ غَيْرُ أَحْيَاء وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ - (النحل : 22،21) ترجمہ: اور اللہ کے سوا جن معبودان باطلہ کو وہ پکارتے ہیں وہ کچھ (بھی) پیدا نہیں کر سکتے اور وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں وہ (سب) مُردے ہیں نہ کہ زندہ اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے.

Page 42

تعلیمی پاکٹ بک استدلال: 20 20 حصہ اول 4 اس آیت سے ظاہر ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت خدا تعالیٰ کے سوا جن لوگوں کی پرستش ہو رہی تھی انہیں اموات کہہ کر مُردہ قرار دیا گیا ہے اور غَيْرُ احیاء کہہ کر ایسے مُردے قرار دیا جو زندہ نہ ہوں یعنی در حقیقت وفات پاچکے ہوں اور مَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ کہہ کر یہ ظاہر کیا کہ اب وہ قیامت کو دوبارہ زندہ ہوں گے.لیکن انہیں علم نہیں کہ قیامت کب ہوگی.چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام اور اُنکی والدہ کی اُس وقت پرستش کی جارہی تھی لہذا وہ دونوں اموات کہ میں داخل ثابت ہوئے اور وفات یافتہ قرار پائے اگر حضرت مسیح علیہ السلام زندہ ہوتے تو یہ حل تھا کہ ان کا أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاء کے بعد إِلَّا عِیسی کہہ کر استثناء کیا جاتا یعنی عیسی کے سوا باقی جن کی پرستش کی جاتی ہے مردہ ہیں زندہ نہیں لیکن اس استثناء کا موجود نہ ہونا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی اَمْوَاتٌ غَيْرُ احیاء میں داخل ہیں.پس یہ آیت بھی ان کی وفات پر روشن دلیل ہے.وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنُ ماتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (آل عمران : 140) ترجمہ : اور نہیں ہیں محمد علی مگر اللہ کے رسول.ان سے پہلے سب رسول گزر چکے ہیں اگر وہ مر جائیں یا قتل ہوں تو کیا تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے؟ استدلال: اس جگہ سب رسولوں کے گزر جانے سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلحم سے پہلے آنے والے تمام رسول وفات پاچکے ہیں کوئی ان میں سے زندہ نہیں.

Page 43

21 حصہ اوّل تعلیمی پاکٹ بک أَفَأَبِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ میں گزرنے کے دو ہی طریق بیان کئے گئے ہیں.موت اور قتل کیا جانا.آیت وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کیا جانے یا صلیب پر مارا جانے کی نفی کی گئی ہے پس ان کے لئے طبعی موت پانا ثابت ہوا.اگر وہ زندہ ہوتے تو قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ کے بعد إِلَّا عِيسَی بن مریم کہہ کر ان کا استثناء کیا جاتا.تا یہ استدلال ہوسکتا کہ وہ زندہ ہیں اور ان کے سوا باقی نبی گزر چکے ہیں.منطقی لحاظ سے اس آیت میں دلیل استقرائی سے کام لیا گیا ہے اور یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ جب پہلے تمام نبی وفات پاچکے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر معمولی عمر پانا ناممکن ہے اگر کوئی ایک رسول بھی آپ سے پہلے غیر معمولی عمر پانے والا ہوتا تو یہ دلیل چونکہ نقص سے پاک ہوتی ہے اور کمزور نہیں ہوتی اس لئے اس جگہ استقراء تام مراد ہو گا اور الرُّسُلُ کے لفظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تمام رسول مراد ہوں گے گویا الرُّسُلُ کا آل استغراق عرفی کے لئے قرار پائے گا.خلا فُلانٌ کے معنی لغت میں لکھے ہیں: :1 خَلَافُلانٌ : إِذَامَاتَ - (لسان العرب) خَلَا فُلان کے معنے ہیں آدمی مر گیا.:2 خَلَا الرَّجُلُ : أَى مَاتَ (اقرب الموارد) خَلَا الرَّجُلُ کے معنی ہیں آدمی مر گیا.:3 خَلَافُلانٌ : أَيْ مَاتَ.(تاج العروس) خَلافُلان کے معنی ہیں وہ مر گیا.قرآن کریم میں قَدْ خَلَتْ کا استعمال بغیر الی کےصلہ کے جن لوگوں

Page 44

تعلیمی پاکٹ بک 22 22 حصہ اوّل کے لئے بھی استعمال ہوا ہے وہاں ان کے گزر جانے سے ان کا وفات پا جانا اور اس دنیا میں دوبارہ اصالتاً نہ آنا ہی مراد ہے.آیات قرآنی میں خلا کا استعمال: : 5 1 تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ - 2 قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَا أُمَمٌ - (البقرة: 135) (الرعد: 31) في أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ - (الاحقاف : 19) :4 سُنَّةَ اللهِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ - (الاحزاب: 39) وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ أَمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمنا - الآية (النور: 56) ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لے آئے اور نیک عمل کئے کہ وہ ان کو زمین میں خلافت عطا کرے گا.جیسے ان سے پہلوں کو عطا کی اور وہ ان کے لئے ان کے اس دین کو جو اللہ نے ان کیلئے پسند کیا ہے تمکنت دے گا.اور وہ ضرور ان کے خوف کی حالت کو امن کی حالت سے بدل دے گا.استدلال: اس آیت سے ظاہر ہے کہ اس امت میں آنحضرت ﷺ کے خلیفہ ہونے کا شرف ان لوگوں کو ملے گا جو پہلے اُمت میں سے ایمان لا کر اعمالِ صالحہ بجا لائیں.پھر ایسے خلیفہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اسلام سے پہلے گزرے ہوئے

Page 45

تعلیمی پاکٹ بک 23 23 حصہ اوّل خلفاء میں سے کسی کے مشابہ ہو جس پر كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ کے الفاظ واضح دلالت کر رہے ہیں.عیسی موعود کو آنحضرت ﷺ نے أَلَا إِنَّهُ خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِي - (طبرانی) کہہ کر امت میں اپنا خلیفہ قرار دیا.لہذا حضرت عیسی بن مریم کے اصالتاً نازل ہو کر آنحضرت ﷺ کا خلیفہ بنے میں یہ آیت روک ہے.کیونکہ اس میں مشتبہ اور مثیل کے آنے کا وعدہ ہے نہ کہ پہلے خلفاء میں سے کسی کا جو مشتبہ یہ ہو.اگر حضرت عیسی علیہ السلام اصالتا آجائیں تو مشتبہ اور مشتبہ یہ کا عین ہونا لازم آتا ہے کیونکہ اس صورت میں خود عیسی بن مریم کو عیسی بن مریم کے مشابہ قرار دینا پڑتا ہے اور یہ محال ہے.پس پیشگوئیوں میں خبر مثیل عیسی کے آنے کی تسلیم کرنی پڑے گی اور اصل عیسی کو وفات یافتہ ماننا پڑے گا.: 6 اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحة : 7،6 ) ترجمہ: (اے اللہ) تو دکھا ہم کو سیدھا راستہ.راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا.نہ کہ اُن کا جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ گمراہوں کا.استدلال:.یہ دعا اللہ تعالیٰ نے خود رسول کریم ﷺ کو سکھائی ہے.پس یہ دعا آپ کے حق میں اور آپ کی اُمت کے حق میں ضرور قبول ہوئی.اگر یہودیوں کے منصوبہ کے مقابلہ میں کہ حضرت مسیح کو قتل کیا جائے یا صلیب دیا جائے خدا تعالیٰ نے انہیں زندہ خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھا لیا ہوتا تو پھر خدا تعالیٰ ضرور

Page 46

تعلیمی پاکٹ بک 24 حصہ اوّل آنحضرت ﷺ کو بھی اس وقت زندہ آسمان پر اٹھا لیتا جب مشرکین مکہ نے آنحضرت ﷺ کے قتل کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ یہ محال ہے کہ ایک دعا اللہ تعالیٰ خود آنحضرت عمے کو سکھائے اور پھر اسے قبول نہ کرے پس چونکہ آنحضرت علی سے ایسا معاملہ نہیں ہوا اس لئے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی ایسا معاملہ نہیں ہوا تھا گویا نہ حضرت عیسی علیہ السلام دو ہزار سال سے آسمان پر خا کی جسم کے ساتھ زندہ موجود ہیں اور نہ آنحضرت علی تیرہ سو سال سے آسمان پر خا کی جسم کے ساتھ زندہ موجود ہیں پس جس طرح آنحضرت علیہ کو دشمنوں کے ہاتھ سے بچا کر خدا تعالیٰ نے مدینہ منورہ میں ہجرت کروا کر عزت دی.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو کشمیر میں ہجرت کروا کر عزت دی بموجب آیت قرآنیہ وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّةَ ايَةً وَ أَوَيْنَهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ.(المومنون : 51) ترجمہ: یعنی ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو نشان بنایا اور ان دونوں کو :7 ایک بلند زمین آرام والی اور چشموں والی میں پناہ دی.وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَثْبُوعًا.أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجْرَ الْأَنْهَرَ خِللَهَا تَفْجِيْرًا اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَكَةِ قَبِيْلًا.أَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتُ مِنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقُ فِي السَّمَاءِ ۖ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لرقِيْكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتبًا نَقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًارَّسُوْلًا.(بنی اسرائیل : 91 تا 94 ترجمہ: اور انہوں نے کہا کہ ہم ہرگز تیری کوئی بات نہیں مانیں گے جب تک ایسا نہ ہو کہ تو ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری کرے.یا تیرا کھجوروں

Page 47

تعلیمی پاکٹ بک 25 حصہ اول اور انگوروں کا باغ ہو اور تو اس کے اندر نہریں جاری کرے یا جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے.تو ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرائے یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کھڑا کرے یا تیرا سونے کا کوئی گھر ہو یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور ہم تیرے (آسمان پر چڑھ جانے پر بھی ایمان نہیں لائیں جب تک تو (اوپر جا کر) ہم پر کوئی کتاب نہ اتارے جسے ہم خود پڑھیں.تو (انہیں) کہہ کہ میرا رب ( ایسی بے ہودہ باتوں کے اختیار کرنے سے) پاک ہے میں تو صرف بشر رسول ہوں.استدلال: کفار نے آنحضرت ﷺ سے مندرجہ بالا خود تجویز کردہ معجزات طلب کئے.آخری مطالبہ ان کا یہ تھا کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور وہاں سے ان پر کتاب اتاریں.خدا تعالیٰ نے ان مطالبات کے جواب میں فرمایا قُل سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا - کہ اے رسول ! تُو اُن سے کہہ دے کہ خدا ہر عیب سے پاک ہے اور میں صرف ایک بشر رسول ہوں.اس سے ظاہر ہے کہ کوئی بشر خا کی جسم کے ساتھ جیسا کہ کفار کا مطالبہ تھا آسمان پر نہیں چڑھ سکتا اور اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک ہے کہ کسی بشر کو خا کی جسم کے ساتھ آسمان پر لے جائے اور پھر اس کے ذریعہ کتاب اُتارے.حضرت مسیح بھی چونکہ بشر رسول تھے اس لئے ان کا بھی خا کی جسم کے ساتھ آسمان پر جانا محال ہے.اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ معراج نبوی ﷺ ایک روحانی اور کشفی سیر تھا.صحیح بخاری کتاب التوحيد باب قـولـه و كـلـم الله موسى تكليما کی روایت وَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ فِى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) کہ آپ کی

Page 48

تعلیمی پاکٹ بک 26 حصہ اول غنودگی جاتی رہی اور آپ ﷺ مسجد حرام میں تھے ) بھی اس بات پر روشن دلیل ہے کہ معراج نبوی علی ایک روحانی امر تھا.:8 تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر کبیر حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ.سورۃ بنی اسرائیل) وَإِذْ اَخَذَ اللَّهُ مِيْثَاقَ النَّبِيِّنَ لَمَا أَتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَبٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَ لَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ اِصْرِى قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّهِدِينَ.(آل عمران : 82) ترجمہ: اور جب خدا نے نبیوں کا عہد لیا کہ جو بھی کتاب اور حکمت میں تمہیں دوں پھر تمہارے پاس کوئی ایسا رسول آئے جو اس کلام کو پورا کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور ہی اس پر ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا اور فرمایا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے ذمہ داری قبول کرتے ہو اور انہوں نے کہا ہاں ہم قرار کرتے ہیں.فرمایا اب تم گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں.استدلال: اس آیت کے دو معنی کئے جاتے ہیں اول یہ کہ تمام نبیوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور ان کی مدد کرنے کا عہد لیا گیا.دوم یہ کہ ہر پہلے نبی سے پچھلے نبی پر ایمان لانے اور اس کی نصرت کرنے کا عہد لیا گیا.یہ عہد انبیاء سے ان کی قوموں کے لئے لیا گیا کہ وہ اپنی قوموں کو ہدایت کر جائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا آئندہ آنے والے نبی پر ایمان لائیں اور اس کی نصرت کریں.کیونکہ نبی بوجہ امام ہونے کے قوم کا بھی نمائندہ ہوتا ہے.اگر عہد کرنے والا نمائندہ خود موجود ہو تو اس کا اور اس کی قوم کا یہ اخلاقی اور شرعی فرض ہوتا ہے

Page 49

تعلیمی پاکٹ بک 27 حصہ اول کہ اس عہد کی پابندی کریں.اوپر کے دونوں معنوں کے لحاظ سے یہ امر واضح ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان پر ایمان لانے اور ان کی نصرت کرنے کا ضرور عہد لیا گیا.پس اگر حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہوتے تو اس عہد کے مطابق جوان سے اللہ نے لیا تھا ان کا فرض تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں شامل ہو کر آپ کی مدد کرتے اور خدا کیلئے جس نے عہد لیا تھا یہ واجب تھا کہ وہ انہیں ضرور نصرت کے لئے بھجوا دیتا چونکہ وہ کسی غزوہ میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شامل نہیں ہوئے اس لئے یہ امران کے وفات یافتہ ہونے پر روشن دلیل ہے ورنہ معاذ اللہ انہیں بدعہد ماننا پڑے گا.جو محال ہے.اگر یہ کہا جائے کہ انہیں خدا تعالیٰ نے روک رکھا تھا تو پھر خدا پر الزام آتا ہے کہ نصرت کا عہد لینے کے بعد جب کہ ضرورت حقہ موجود تھی اس نے مسیح کو کیوں روک رکھا.دوسرے انبیاء تو غزوات نبوی ﷺ میں اس لئے شامل نہیں ہوئے کہ وہ وفات یافتہ تھے پس عیسی علیہ السلام کے شامل نہ ہو سکنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ وہ بھی وفات پاچکے تھے.ان آیات کی تفسیر جن سے حیات مسیح پر استدلال کیا جاتا ہے 1.وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللهِ وَ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْافِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّنِ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينَا.بَلْ رفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا.وَإِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا

Page 50

فلیمی پاکٹ بک 88 28 لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا.(النساء : 158 تا 160) حصہ اول ترجمہ: اور ان کے اس قول کے سبب (انہیں سزا ملی ) کہ یقینا ہم نے قتل کر دیا ہے مسیح عیسی بن مریم اللہ کے رسول کو حالانکہ نہ انہوں نے اُسے قتل کیا اور نہ انہوں نے اسے صلیب پر لٹکا کے مارا بلکہ وہ ان کے لئے مقتول ومصلوب کے مشابہ بنایا گیا اور جن لوگوں نے اس معاملہ میں اختلاف کیا ہے وہ ضرور اس معاملہ میں شک میں پڑے ہوئے ہیں.انہیں اس کے متعلق کوئی علم نہیں بجز وہم کی پیروی کے اور انہوں نے اسے یقیناً قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اسے اپنے حضور رفعت دی ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے اور اہل کتاب میں سے کوئی بھی نہیں مگر وہ اس واقعہ پر اپنی موت سے پہلے ایمان لاتا رہے گا اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا.تفسیر : یہودیوں نے یہ کہا تھا کہ بے شک ہم نے مسیح عیسی بن مریم رسول اللہ کوقتل کر دیا ہے یہ فقرہ ان کا بطور طنز و تحقیر کے تھا کیونکہ وہ عیسی بن مریم کو نہ مسیح مانتے تھے نہ رسول اللہ بلکہ اُن کی مراد یہ تھی کہ عیسی بن مریم جو مسیح اور رسول اللہ بنا بیٹھا تھا.اسے ہم نے مار ڈالا ہے کیونکہ وہ (معاذ اللہ ) مفتری تھا اور تورات میں نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کی یہی سزا ہے.(استثناء باب 13 آیت 5) بعض یہودی یہ کہتے تھے کہ میچ کو سنگسار کر کے بعد میں صلیب پر لٹکایا گیا اور بعض یہ کہتے تھے کہ میسیج کو صلیب پر لٹکا کر مار دیا گیا ہے اور عیسائی بھی اسی دوسرے عقیدہ پر قائم ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ کہہ کر مطلق قتل کیا جانے کی بھی تردید کر دی اور صلیب پر مارا جانے کی بھی تردید کر دی اور فرما دیا کہ یہودیوں نے نہ مسیح کو قتل کیا ہے نہ صلیب پر مارا ہے لیکن وہ ان کے لئے فرما دیا

Page 51

تعلیمی پاکٹ بک 29 29 حصہ اوّل مقتول اور مصلوب کے مشابہ کئے گئے ہیں یعنی یہودیوں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے کہ وہ مار ڈالے گئے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی موت واقع نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ یہودیوں کے لئے بوجہ نشی ، مُردہ کے مشابہ دکھائی دیئے اور ان کی غشی سے انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ اُن کی موت واقع ہو گئی ہے اور پھر وہ ان کے مار ڈالنے کو یقین کے ساتھ بیان کرنے لگ گئے.واضح ہو کہ شبه لهم جملہ فعلیہ خبر یہ ہے کہ اس میں شبہ فعل ماضی مجہول ہے جس کا اسناد سیاق کلام کے لحاظ سے یا مسیح کی طرف ہو سکتا ہے.یاقتل وصاب کے معاملہ کی طرف یعنی شبہ کی ضمیر واحد غائب مستتر یا حضرت مسیح کی طرف پھرتی ہے یا واقعہ قتل کی طرف تیسرا کوئی امر یا شخص مذکور نہیں جو اس ضمیر کا مرجع بن سکے.دونوں صورتوں کا مال یہ ہے کہ حضرت عیسی کے قتل کا معاملہ یہود پر مشتبہ ہو گیا.پہلی صورت میں تقدیر کلام وَلكِنْ شُبِّهَ الْمَسِيحُ لَهُمْ ہوگی.اور اس صورت میں مسیح مشتبہ ہوگا اور مطلق مقتول و مصلوب نہ کہ کوئی معین مقتول ومصلوب مشبہ بہ اور دوسری صورت میں تقدیر کلام یوں ہوگی شُبِّهَ اَمْرُ الْقَتْلِ وَالصُّلْبِ لَهُمُ کر قتل کئے جانے اور صلیب دیئے جانے کا معاملہ یہود پر مشتبہ ہوگیا اور انہوں نے غیر مقتول اور غیر مصلوب کے مقتول ومصلوب ہونے کا گمان کر لیا.ایک غلط توجیه : بعض مفسرین جن میں مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوئی بھی شامل ہیں یہ توجیہ کی ہے کہ شبعَ لَهُمْ کے یہ معنی ہیں کہ کوئی اور آدمی مسیح کا ہم شکل اور مشابہ بنا دیا گیا اور اسے مقتول و مصلوب کر دیا گیا اور حضرت عیسی کو خدا نے زندہ آسمان پر اٹھالیا.اس تفسیر کے درست ہونے کے متعلق ان کی دلیل یہ ہے کہ ولکن سے پہلے

Page 52

تعلیمی پاکٹ بک 30 حصہ اوّل اگر منفی جملہ آئے تو پہلے جملہ کا مثبت فعل ولکن کے بعد محذوف ماننا پڑے گا اور اس صورت میں تقدیر کلام یوں ہوگی مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ قَتَلُوهُ وَصَلَبُوهُ منْ شُبّه لهم (ملاحظہ ہو ان کی تصنیف شهادة القرآن صفحہ 50) اس توجیہ کا ترجمہ مولوی صاحب نے یوں لکھا ہے کہ لیکن انہوں نے اس شخص کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا جو ان کے لئے مسیح کے مشابہ بنایا گیا تھا.توجیہ کی تردید : مولوی صاحب کی یہ توجیہ اور ان کے ساتھ بعض مفسرین کی اسی قسم کی تو جیہات صرف اس وجہ سے ہیں کہ انہوں نے یہ عقیدہ اختیار کر رکھا تھا کہ نہ صرف یہ کہ میچ کی موت صلیب پر واقع نہیں ہوئی بلکہ وہ صلیب پر چڑھائے بھی نہیں گئے اور اُس روایت کو قبول کر لیا جو پرانے معدوم عیسائیوں کے ایک حصہ میں چلی آتی تھی کہ مسیح کی جگہ دوسرا شخص شمعون قرینی یا یہوداہ اسکر یولی مسیح کا ہمشکل ہونے کی وجہ سے صلیب دیا گیا اور حضرت مسیح درمیان سے غائب ہو گئے.اس روایت کی توثیق کسی حدیث نبوی مرفوع متصل سے نہیں ہوتی.یہ روایت محض جعلی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اگر حضرت مسیح کو خدا نے بقول مولوی محمد ابراہیم صاحب آسمان پر زنده اٹھا لیا ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ کوکسی دوسرے شخص کو مسیح کا ہمشکل بنا کر صلیب دلوانے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس طریق کے اختیار کرنے سے یہودی ہمیشہ کی گمراہی میں مبتلا رہ سکتے تھے کیونکہ انسان شکل ہی سے پہچانا جا سکتا ہے.جب حضرت مسیح کی شکل دوسرے شخص کو دی گئی تو پھر خدا تعالیٰ نے خود ہمیشہ کیلئے یہود کی گمراہی کا سامان کیا کہ وہ کہتے رہیں کہ ہم نے عیسی بن مریم کو مارڈالا.ایسی چال خدا کی شان کے منافی ہے.اگر خدا تعالیٰ نے بالفرض حضرت مسیح کو زندہ آسمان پر اٹھانا ہوتا تو پھر وہ

Page 53

تعلیمی پاکٹ بک 31 حصہ اوّل انہیں لوگوں کے دیکھتے ہوئے ان کے درمیان سے آسمان پر اٹھالیتا تا یہ معجزہ دیکھ کر یہود ایمان لے آتے اور کسی دوسرے شخص کو حضرت مسیح کا ہمشکل بنا کر صلیب دینے کی ضرورت نہ ہوتی جس سے یہود کو حضرت عیسی بن مریم کے مصلوب ہونے کا یقین پیدا ہوتا پھر اگر دوسرا شخص حضرت مسیح کا ہمشکل بنا کر صلیب پر چڑھا دیا جاتا تو وہ اور اس کے اقرباء ضرور شور کرتے کہ وہ تو عیسی نہیں.پھر وہ مارا بھی جاتا تو منظم رومی حکومت میں شور پڑ جاتا کہ اصل مجرم کی جگہ حکومت کے کارندوں نے دوسرا آدمی مارڈالا ہے اور مقتول و مصلوب کے ورثاء حکومت سے اپیل کرتے اور تحقیقات پر حقیقت کھل جاتی کہ بے گناہ انسان مارا گیا ہے.حکومت کے کارندوں کو حکومت سزا دیتی اور وارثوں کو تاوان اور یہودیوں کا یہ شبہ مٹا دیا جاتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام مقتول و مصلوب ہوئے.پھر اسرائیلیوں کی ایسی روایات میں بھی اختلاف ہے.بعض شمعون قرینی کا صلیب دیا جانا بتاتے ہیں اور بعض یہوداہ اسکر یوطی کا.پس یہ خیال نہایت کمزور، باطل بلکہ سٹنٹ ہے.یہودیوں اور عیسائیوں کے مسیح علیہ السلام کے واقعہ صلیب کے متعلق ایسے ہی تمام اختلافات کے پیش نظر وَ لكِنُ شُبِّهَ لَهُمْ کے بعد خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.إِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّنِّ - کہ یقیناً جن لوگوں نے بھی مسیح کے قتل اور صلیب کے واقعہ میں اختلاف کیا ہے ( خواہ یہ کہا کہ وہ مقتول ہوئے یا یہ کہا کہ وہ صلیب پر مارے گئے یا یہ کہا کہ کوئی دوسرا شخص ان کا ہم شکل مصلوب ہوا ) وہ سب اصل واقعہ سے شک میں مبتلا ہیں.انہیں اس کا (یعنی اصل حقیقت کا ) علم نہیں ہے.وہ صرف ظن کی پیروی کر رہے ہیں.

Page 54

تعلیمی پاکٹ بک 32 حصہ اول پس اللہ تعالیٰ نے مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ کہہ کر اس کے بعد معاملہ کو یہود پر مشتبہ قرار دے کر صاف طور پر بتا دیا ہے کہ یقینی بات یہی ہے کہ مسیح کو قتل وصلیب سے بچالیا گیا ہے اور اس واقعہ کے متعلق جس قدر بھی اختلافات ہیں جن سے لوگوں پر حضرت مسیح کا معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے وہ محض اٹکل پچو خیالات کا نتیجہ ہیں ان کی بنیاد کسی یقینی بات پر نہیں.گویا یہودیوں اور عیسائیوں کے تمام اختلافات کو اس آیت کے ذریعہ مردود قرار دیا گیا ہے کہ مسیح کی موت واقع ہوگئی یا کوئی دوسرا آدمی اُن کا ہم شکل صلیب پر مارا گیا.اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مَا قَتَلُوهُ يَقِينًا کہہ کر مسیح کے مارا جانے کے بارہ میں یہودیوں وغیرہ کے خیالات کو قطعاً غلط قراردے دیا ہے.مَا قَتَلُوهُ يَقِينا کے دو معانی ہو سکتے ہیں.اول یہ کہ یہودیوں نے مسیح کو یقینا قتل نہیں کیا.اس جگہ یہ نہیں کہا کہ انہوں نے کسی دوسرے شخص کو قتل کیا ہے.یہ معنی لفظ قتل کے حقیقی معنی کے لحاظ سے ہیں لیکن اس آیت میں قتل کے مجازی معنی بھی مراد لیے گئے ہیں یعنی پورے طور پر جاننا.چنانچہ مفردات راغب میں لکھا ہے.مَا قَتَلُوهُ يَقِيناً أَي مَا عَلِمُوا كَوْنَهُ مَصْلُوباً عِلْماً يَقِيناً.یعنی حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کو انہوں نے یقینی علم کے ساتھ نہیں جانا یہ معنی بھی اختلافات کے وہم ہونے پر بطور دلیل موزوں معنی ہیں.اب رہ گئی یہ بات کہ مولوی ابراہیم صاحب کا یہ قاعدہ نحو اس جگہ کیوں چسپاں نہیں ہو سکتا؟ سو اس کی وجہ یہ ہے کہ منفی جملہ کے بعد جب وَلكِن آجائے تو پہلے فعل کو مثبت صورت میں اُس وقت محذوف مانا جاتا ہے جبکہ اس کے بعد جملہ خبریہ نہ ہو بلکہ مفرد ہو یا مرکب ناقص ہو یا ایسا جملہ ہو جو بحکم مفرد ہو جیسے جملہ انشائیہ مقولہ کے طور پر واقع ہو.

Page 55

تعلیمی پاکٹ بک 33 33 مولوی صاحب کی استشہاد میں پیش کردہ مثالیں یہ ہیں.1 : مَا قامَ زَيْدٌ وَلكِنُ عَمْرُو میں (وَلَكِنُ قَامَ عَمُرُو) حصہ اول 2 : ما كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللہ میں ( وَلَكِنْ كَانَ رَسُولَ اللَّهِ) ان دونوں مثالوں میں واقعی مولوی صاحب کا پیش کردہ قاعدہ جاری ہے کیونکہ پہلی مثال میں عمر و مفرد ہے اور دوسری مثال میں رسول اللہ مرکب اضافی ہے جو خود جملہ نہیں اس لئے پہلی مثال میں فعل قام محذوف ہوگا اور دوسری مثال میں كَانَ فعل محذوف.لیکن وَلَكِنْ شُيْءَ لَهُمْ میں شُبِّهَ لَهُم جملہ خبر یہ ہے لہذا ان دو مثالوں پر جو قاعدہ چسپاں ہے وہ ولكِن شبه لَهُمْ پر چسپاں نہیں ہوتا.مولوی صاحب نے تیسری مثال قرآنی آیت مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ الله الكِتَبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا تِي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَ لَكِنَّ كُونُوا رَبينَ.(آل عمران : 78) دی ہے اور وَلكِن كُونُوا رَبَّنِيْنَ کی تقدیر عبارت وَلكِنْ يَقُولُ كُونُوا رَبَّانِيِّين لکھی ہے.اس جگہ بے شک ولکن کے بعد يَقُولُ فعل مقدر ما نا پڑتا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ وَلَكِنْ كُوْنُوا رَبَّنِينَ جملہ خبریہ نہیں بلکہ جملہ انشائیہ بصورت امر ہے کہ تم ربانی بن جاؤ.اس لئے اس سے قبل يَقُولُ فعل کا مقدر مانا ضروری ہے اور یہ جملہ يَقُولُ کا مقولہ بن کر مفعول یہ ہوکر مفرد کے حکم میں ہے اور جملہ خبریہ نہیں.ماسوا اس کے وَلكِنْ شُبّهَ لَهُمُ کی تقدیر كلام وَلَكِنْ قَتَلُوا وَصَلَبُوا مَنُ شُبِّهَ لَهُمُ اس لئے بھی جائز نہیں کہ اس میں ایک لفظ مَنْ داخل کیا گیا ہے جس کو قَتَلُوا وَصَلَبُوا کا مفعول بنا کر مشتبہ قرار دیا گیا ہے.حالانکہ قرآن شریف میں اس جگہ

Page 56

تعلیمی پاکٹ بک 34 حصہ اول کسی دوسرے آدمی کا ذکر نہیں صرف حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو قرآن مجید نے ہماری پہلی توجیہ کے لحاظ سے مشتبہ قرار دیا ہے نہ کہ مشتبه به.قرآن مجید کے پیش کردہ مشتبہ کو مشبہ بہ بنادینا اور وہ بھی ایسے آدمی کو جس کا کوئی ذکر قرآن مجید میں موجود نہیں قرآن مجید کی معنوی تحریف کے مترادف ہے.قرآن کریم میں جن آیات میں ولکن کے بعد جملہ خبریہ استعمال ہوا ہے ان میں پہلے منفی فعل کو ولکن کے بعد مثبت صورت میں محذوف نہیں مانا جا تا.ذیل میں تین مثالیں دی جاتی ہیں.:1 مَا كُنتَ تَدْرِى مَا الْكِتَبُ وَلَا الْإِيْمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَهُ نُوْرًا نَّهْدِى بِهِ مَنْ نَّشَاءُ (الشورى : 53) اس آیت میں لکن کے بعد جملہ خبریہ مذکور ہے اور اس میں ولکن کے بعد كُنتَ تَدْرِی محذوف نہیں مانا جاتا.:2 وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنْتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُمْ مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُمْ مَّنْ گفت.(البقرة : 254) اس آیت میں بھی ولکن کے بعد اِخْتَلَفُوا جملہ فعلیہ خبریہ ہے.اس لئے وَلكِن کے بعد اقتتل کا فعل محذوف نہیں مانا جا سکتا: : 3 وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ.حم السجدة (23) اس آیت میں بھی ولکن کے بعد جملہ خبریہ ہے اس لئے ولین کے بعد كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ کو محذوف نہیں قرار دیا جا سکتا:

Page 57

تعلیمی پاکٹ بک 35 حصہ اول اگر مولوی ابراہیم صاحب کا پیش کردہ قاعدہ نحوی ولکن کے بعد جملہ خبر یہ آنے کی صورت میں پہلے منفی فعل کو ولیکن کے بعد مثبت رنگ میں محذوف ماننا جائز ہوتا تو مندرجہ بالا تینوں قرآنی امثلہ میں بھی یہ قاعدہ جاری ہوتا.اللہ تعالی کا طریق یہ ہے کہ اگر وہ ولکن سے پہلے منفی فعل استعمال کرے اور پھر ولکن اس جگہ استدراک کی خاطر اپنے بعد اس فعل کے مثبت صورت میں استعمال کا تقاضا کرے اور اس طرح ولکن کے بعد ایک جملہ فعلیہ کا تقاضا ہو تو پھر خدا تعالیٰ ولکن کے بعد مثبت فعل کو مقدر نہیں رکھتا بلکہ اس کا لفظ ذ کر کرتا ہے.ایسے فعل کو مقد روہاں کیا جاتا ہے جہاں ولکن کے بعد مفرد لایا جائے یا ایسا مرکب جو مفرد کے حکم میں ہو نہ کہ خود جملہ خبریہ ہو.4 : بَلْ رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ - (النساء : 159) یہودی اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللهِ.کہہ کر یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام ) کو ہم نے قتل کر دیا ہے اس لئے وہ بموجب تو رات دعویٰ نبوت میں مفتری تھا.جو گروہ مسیح کے مصلوب ہونے کا قائل تھا.وہ یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ یہودی علماء کے فتویٰ پر صلیبی موت سے مرنے والا خدا کا ملعون ہوتا ہے.چونکہ ملعون خدا سے دور ہوتا ہے لہذا اس کے مرنے کے بعد خدا کی طرف اس کا رفع نہیں ہوتا.پس یہودی خواہ وہ مسیح کے مقتول ہونے کے قائل تھے خواہ مصلوب ہونے کے وہ اس کے نتیجہ میں حضرت مسیح کو ملعون قرار دینے میں ان کے روحانی رفع کے منکر تھے اور اب تک منکر ہیں کیونکہ وہ انہیں اپنے دعوی میں جھوٹا قرار دیتے ہیں لہذا یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مومنوں کی طرح ان کا رفع خدا کی طرف نہیں ہوا.یہ وہ امر تھا جس کا فیصلہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں

Page 58

تعلیمی پاکٹ بک 36 36 حصہ اوّل ان کا یہ قول نقل کیا کہ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللهِ.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پہلے تو ان کے قول کے الفاظ کی تردید میں فرمایا.مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبُه لَهُمْ که یهودی نه مسیح کو قتل کر سکے اور نہ صلیب پر مار سکے.بلکہ وہ درحقیقت خودشبہ میں ہیں.مسیح کو خدا نے بچالیا مگر انہوں نے اسے مردہ خیال کرلیا.اس کے بعد ان کے اس قول اور دعویٰ کے نتیجہ کی تردید کہ مسیح ملعون ہوا، وہ کافر تھا، گویا مومنوں کی طرح اس کا رفع نہیں ہوا یہ کہہ کر فرما دی بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کہ یہودی حضرت مسیح کو مار نہیں سکے بلکہ طبعی موت کے بعد ان کا رفع الی اللہ مومنوں کی طرح ہوا جیسا کہ آیت يُعِيْسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَى کے وعدہ الہی سے ظاہر ہے کہ طبعی وفات کے بعد ان کا رفع الی اللہ موعود تھا.یعنی یہودیوں کی تدبیر کے بالمقابل اس آیت میں وعدہ تھا کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح کو اُن کے ہاتھ سے بچالے گا اور ان کی عمر پوری کر کے انہیں طبعی وفات دے گا اور پھر مومنوں کی طرح ان کا اپنی طرف رفع کرے گا یعنی ان کی روح کو بعد از وفات اپنی حضوری کا شرف عطا فرمائے گا جیسا کہ اس کا طریق مومنوں کے متعلق ہے.خلاصہ کلام یہ کہ یہودی یہ کہتے تھے کہ عیسیٰ کا فر وملعون مر گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں یہ سمجھتے تھے کہ اس کا اللہ تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ نے گویا اس کا یہ جواب دیا ہے بَلْ مَاتَ مُؤْمِناً مَرْفُوعًا إِلَى اللَّهِ حسب آیت يُعِيْنَى اِنّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ اِلَى.لہذا اس آیت میں بل کا لفظ یہودیوں کے اس غلط عقیدہ کی تردید میں ہے کہ مسیح کے صلیب پر مرنے اور ملعون ہو جانے کی وجہ سے مومنوں کی طرح ان کا رفع الی اللہ نہیں ہوا کیونکہ یہود نے گمان کر لیا تھا کہ مسیح در حقیقت ان کے علماء کے فتوے سے مارا گیا ہے اس لئے وہ رفع الی اللہ سے محروم

Page 59

تعلیمی پاکٹ بک 37 حصہ اوّل رہ گیا ہے پس خدا تعالیٰ نے مسیح کے مقتول ومصلوب ہونے کی نفی بھی فرما دی اور بل رَّفَعَهُ الله الله - کہہ کر یہودیوں کے مزعومہ نتیجہ کی تردید بھی فرما دی کہ وہ ملعون ہو گیا ہے.یہودیوں کا یہ اعتقاد نہ تھا کہ جوصلیبی موت سے بچ جائے اس کا جسم آسمان کی طرف اٹھایا جاتا ہے اگر ایسا خیال ہوتا تو پھر بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ.کے یہ معنی قرار دینے کا امکان ہوتا کہ خدا نے تو حضرت مسیح کے جسم کو آسمان پر اٹھالیا ہے پس سیاق آیت اس بات پر روشن دلیل ہے کہ آیت بَلْ رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ میں مسیح کے جسم کا اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھایا جانا مراد نہیں.جسمانی رفع اللہ تعالیٰ کی طرف محال ہے: ماسواس کے واضح رہے کہ کسی شخص کے جسم کا خدا تعالیٰ کی طرف اٹھایا جانا تو محال ہے کیونکہ اس صورت میں خدا تعالیٰ کو محدود المکان ماننا پڑتا ہے حالانکہ وہ جہات سے پاک ہے اور اس کو کسی جہت میں محصور قرار دینا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.اسلامی تعلیم کی رو سے تو ہر وقت خدا تعالیٰ انسان کے ساتھ ہوتا ہے بموجب آیت نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ( ق : 17) خدا تعالیٰ اور بندے کے درمیان اس آیت کی روشنی میں کوئی بعد یا فاصلہ اس لئے تجویز نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ جہات ستۃ سے پاک اور منزہ ہے اور اس کو کسی خاص جہت میں قرار دینا عقیدہ کفریہ ہے اور رفع جسمی دو چیزوں میں فاصلے اور سفر طے کرنے کے بغیر متصورنہیں ہوسکتا چونکہ بموجب تعلیم اسلامی حضرت مسیح اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی فاصلہ اور بعد تجویز نہیں کیا جا سکتا اس لئے حضرت مسیح کا اللہ تعالیٰ کی طرف رفع جسمی مستلزم محال ہونے کی وجہ سے محال ہے کیونکہ رفع جسمی خدا تعالیٰ کے ذو جہت ہونے کو چاہتا ہے

Page 60

تعلیمی پاکٹ بک 88 38 اور خدا کا ذوجہت ماننا عقیدہ کفریہ ہے یہی وجہ ہے کہ محقق علماء نے یہ لکھا ہے: (1) امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں: حصہ اول اِعْلَمُ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ تَدُلُّ عَلَى أَنَّ رفعه في قوله (ورافعک إِلَيَّ) هُوَ الرِّفْعَةُ بِالدَّرَجَةِ وَالْمَنْقَبَةِ لَا بِالْمَكَانِ وَالْجِهَةِ.(تفسیر کبیر الرازی زیر تفسیر سورة آل عمران : 56) یعنی اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو کہ حضرت مسیح کو جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے رَافِعُكَ اِلی اس سے مرا در فع درجہ اور منزلت ہے کسی جہت اور جگہ کی طرف رفع مراد نہیں.( 2 ) علامہ محمود شلتوت مرحوم سابق مفتی مصرور یکٹر از ہر یو نیورسٹی لکھتے ہیں.ظَاهِرًا أَنَّ الرَّفْعَ الَّذِي يَكُونُ بَعْدَ التَوَقِّيَّةِ هُوَرَفُعُ الْمَكَانَةِ لَا رَفْعُ الْجَسَدِ.(الفتاوی صفحه (56) ترجمہ : ظاہر ہے کہ رفع جو توئی کے بعد ہے وہ مرتبہ کا رفع ہے نہ جسم کا رفع.( 3 ) الاستاذ المصطفے المراغی لکھتے ہیں: التَّوَقِى هُوَ الاِ مَاتَةُ العَادِيَةُ وَ أَنَّ الرَّفْعَ بَعْدَهُ لِلرُّوح.وَالْمَعْنى إِنِّي مُمِيْتُكَ وَجَاعِلُكَ بَعْدَ الْمَوْتِ فِي مَكَانٍ رَفِيْعِ عِنْدِي.(تفسیر مراغی جلد 1زیر تفسیر سورة آل عمران : (56) یعنی توفی مار دینے کو کہتے ہیں اور جان لو رفع اس کے بعد رُوح کا ہے اور معنی آیت یہ ہیں میں تجھے مارنے والا ہوں اور تجھے موت کے بعد اپنے حضور بلند جگہ دینے والا ہوں.

Page 61

تعلیمی پاکٹ بک 39 (4) علامہ رشید رضا سابق مفتی مصر لکھتے ہیں : حصہ اول عَلَى الْقَوْلِ بِأَنَّ التَّوَفِّى اَلْاِمَاتَةُ لَا يُظْهِرُ لِلرَّفْعِ مَعْنَى إِلَّا رفعُ الرُّوح - تفسير المنار صفحه 20 زیر آیت النساء: 158) اس بات کی وجہ سے کہ توفی کے معنی مار دینے کے ہوتے ہیں رفع کے معنی صرف روح کا رفع ہی ہو سکتے ہیں.یہ امر بھی واضح رہے کہ جب خدا تعالیٰ الرافع یعنی رفع دینے والا ہو تو اس سے ہمیشہ یہی مراد ہوتی ہے کہ خدا مومنوں کو سعادت عطا فرماتا ہے اور اپنے پیاروں کو اپنے قرب سے نوازتا ہے جیسا کہ لغت کی کتاب لسان العرب میں لکھا ہے: وَفِي أَسْمَاءِ اللَّهِ تَعَالَى الرَّافِعُ هُوَ الَّذِي يَرْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ بِالْإِسْعَادِ وَأَوْلِيَاءَ بِالتَّقْرِيبِ.یعنی اللہ کے ناموں میں سے ایک نام الرافع ہے یہ وہ ذات ہے جو مومنوں کو خوش نصیبی اور اپنے پیاروں کو قرب دینے کے ذریعہ رفع دیتی ہے.پس خدا کے مقرب ہونے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ قرب پانے والا کوئی مادی مسافت طے کر کے خدا کے پاس پہنچا ہے بلکہ اس سے مراد خدا تعالیٰ کے حضور میں درجہ کی بلندی ہوتی ہے لہذا کمال رفع کا حصول موت کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے گو رفع کے ابتدائی درجے اس دنیا میں بھی مومنین اور اولیاء کو حاصل ہوتے ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی آیت بَلْ رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ.کے مطابق ان کی شان کے مطابق کامل رفع خدا تعالیٰ کے حضور ان کی وفات کے بعد ہی ہوا.حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے.

Page 62

تعلیمی پاکٹ بک التَّقْمَةُ 40 حصہ اول أَكْرَمَ اللَّهُ نَبِيَّةَ أَنْ يُرِيَهُ فِي أُمَّتِهِ مَايَكْرَهُ فَرَفَعَهُ إِلَيْهِ وَبَقِيَتِ بيهقى بحواله كيل الموفى صفحه (28) کہ خدا تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یوں عزت افزائی فرمائی.کہ آپ کی موجودگی میں اُمت کے لئے جو باتیں آپ کو نا پسند تھیں وہ ظاہر نہیں ہوئیں اور خدا نے آپ کو اپنی طرف اٹھا لیا اور موجب عذاب با تیں بعد میں وقوع پذیر ہوئیں.اس حدیث میں آنحضرت عالیہ کے بارہ میں وہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو حضرت مسیح کے لیے آیت بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ میں وارد ہیں.حضرت انس کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات باعزت رنگ میں ہوئی جس کی وجہ سے حضور ﷺ نے اپنی شان کے مطابق خدا تعالیٰ کی حضوری حاصل کی.ان معنوں میں رَفَعَهُ الله إِلَيْهِ کے محاورہ کا استعمال اہل سنت و اہل تشیع میں معروف ہے.چنانچہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تصنیف ماثبت بالسنة مطبوعہ مطبع مجتبائی صفحه ۹۲ پر آنحضرت ﷺ کی شان میں لکھا ہے.كَانَ الْحِكْمَةُ فِي بَعْثِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هِدَايَةَ الْخَلْقِ وَتَتْمِيْمَ مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَتَكْمِيلَ مَبَانِي الدِّينِ فَحِيْنَ حَصَلَ هذَا الاَمُرُوَتَمَّ هَذَا الْمَقْصُودُ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيهِ وَتَوَفَّاهُ اللهُ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَّسِتِّينَ سَنَةٌ.کہ رسول کریم ﷺ کو بھیجنے کی حکمت مخلوق کی ہدایت مکارم اخلاق کو پورا کرنا اور دین کی تکمیل تھی جب یہ امر حاصل ہو گیا اور یہ مقصد پورا ہوگیا تو خدا نے آپ کو اپنی طرف اٹھا لیا اور آپ کو وفات دے دی 63 سال کی عمر میں.

Page 63

ی پاکٹ بک 41 حصہ اوّل اسی طرح شیعہ کتب میں روایت ہے.دَعَا اللَّهُ نَبِيَّةَ وَرَفَعَهُ إِلَيْهِ (الکافى كتاب الروضة و تفسیر صافی صفحه 113) یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو بلا لیا اور اسے اپنی طرف اٹھا لیا.یعنی با عزت وفات دے کر آپ کے مدارج کو بلند کیا.پس رفع کا کمال مومن کو وفات کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے خواہ قبل از وفات بھی اسے خدا تعالیٰ کے حضور میں مقامات رفیعہ حاصل ہوں.قرآن کریم کی آیت عَامِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يُخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ.(الملک: 17) کے پیش نظر مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی حضرت مسیح کے متعلق رفع الی اللہ سے مراد تا ویلا رفع الی السماء قرار دیتے ہیں حالانکہ انہیں خود یہ مسلم ہے کہ خدا تعالیٰ کو کسی جہت میں ماننا کفر ہے اور مَنْ فِي السَّمَاءِ کی تشریح میں لکھتے ہیں.کہ اس کے لئے جہت فوق ماننا تقاضائے فطرت ہے جس کے یہ معنی ہوئے کہ حقیقت میں اس کے لئے جہت فوق بھی نہیں مگر فطرت انسانی اس کو استعارةً او پر تصور کرتی ہے.واضح رہے رفع الی اللہ کی تاویل رفع الی السماء ماننے کی صورت میں بھی رفع کے معنوں میں رفع جسمی مراد نہیں ہوسکتی کیونکہ خدا تعالیٰ کا جہت فوق میں ہونا ایک استعارہ ہے نہ کہ حقیقت اور اسم الہی الرافع کا تقاضا مراتب میں رفعت دینا ہے نہ کسی کے جسم کا اٹھانا جیسا کہ قبل ازیں لغت کے حوالہ سے ثابت کیا جا چکا ہے.پس حضرت مسیح کی روح کا رفع تو آسمان کی طرف مانا جاسکتا ہے تا اسے

Page 64

تعلیمی پاکٹ بک 42 حصہ اول اللہ تعالیٰ سے قرب کا وہ مقام حاصل ہو جو پہلے انہیں حاصل نہ تھا.یہ رفع الی السماء تو ہر نبی کو حاصل ہوا ہے چنانچہ اسی لئے معراج میں آنحضرت ﷺ نے انبیاء کرام کو مختلف آسمانوں میں دیکھا اور بموجب حدیث صحیح بخاری حضور ﷺ نے حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی خالہ کے بیٹے حضرت سکیٹی کو اکٹھے دوسرے آسمان پر دیکھا جو وہاں برزخی زندگی گزار رہے ہیں اور حضرت موسی کو سا تو میں آسمان پر دیکھا اور خود حضور ﷺ نے اپنا مقام حضرت موسی سے بھی آگے بڑھا ہوا مشاہدہ فرمایا.حضرت عیسی علیہ السلام کا حضرت یحییٰ علیہ السلام کے ساتھ ہونا جو شہید ہوکر دوسرے آسمان پر پہنچے ہوئے تھے اور عالم برزخ کی زندگی گزار رہے تھے خود اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی بعد از وفات طبعی عالم برزخ میں رکھے گئے عالم برزخ کا مشاہدہ انسان یا تو عالم خواب و کشف میں کرتا ہے یا وفات کے بعد وہاں پہنچ کر کرتا ہے عالم برزخ میں انسان کا مادی وجود ساتھ نہیں ہوتا بلکہ روح کو ایک لطیف روحانی جسم عطا کیا جاتا ہے جس کے ساتھ وہ عالم برزخ کا مشاہدہ کرتا ہے یا خود اس میں پہنچ جاتا ہے.حدیث نبوی عملے میں رفع کے ساتھ اِلَی السَّمَاءِ کا لفظ بھی موجود ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ انسان کو دفع صرف درجات کی بلندی کی صورت میں دیتا ہے اس لئے حدیث نبوی ﷺ میں رفع الی السماء سے مراد کسی خاص آسمان میں درجہ کی بلندی ہوتا ہے نہ کہ رفع جسم.حدیث نبوی ﷺ کے الفاظ یہ ہیں.إِذَا تَوَاضَعَ رَفَعَهُ اللهُ بِالسّلْسِلَةِ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ.(كنز العمال جلد 3 صفحه 117 باب التواضع جب بندہ (خدا کے حضور ) عاجزی اور انکسار کرتا ہے تو خدا اُسے ساتویں آسمان پر ایک زنجیر کے ساتھ اُٹھالیتا ہے.

Page 65

43 حصہ اول تعلیمی پاکٹ بک یعنی تواضع اور انکساری سے سلسلہ وار انسان کو قرب منزلت حاصل ہوتی ہے نہ یہ کہ انکساری کرنے والے کا جسم آسمان کی طرف اٹھایا جاتا ہے.انکساری کرنے والا عبد تو بقید حیات رُوح و جسم کے ساتھ انکساری کرتا ہے مگر مراد حدیث میں روحانی رفعت ہی ہے نہ کہ عبد کا کسی آسمان پر جسمانی رفع ہوتا ہے.معراج نبوی کی حقیقت : ہماری اس بحث سے کہ خدا کی طرف رفع جسمی محالات میں سے ہے کیونکہ اس سے خدا کا ذوجہت ہونالازم ہوتا ہے یہ بھی ظاہر ہے کہ آنحضرت علی کا معراج بھی مادی جسم کے ساتھ نہ تھا بلکہ ایک لطیف نورانی مثالی جسم کے ساتھ تھا.اور جو نظارے حضور علی کو دکھائے گئے وہ بھی مثالی جسم کے ساتھ آپ کے سامنے پیش ہوئے جیسا کہ دنیا آپ کو ایک بڑھیا کی صورت میں دکھائی گئی اور دجلہ وفرات مثالی وجود میں آسمان پر دکھائے گئے اور جنت و دوزخ کو مثالی وجود میں دکھایا گیا اور بعض روایات کی رو سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آپ نے جنت میں مثالی وجود میں مشاہدہ فرمایا جبکہ بلال خود زندہ زمین پر موجود تھے.پس آنحضرت ﷺ کی یہ سیر روحانی ایک مثالی نورانی جسم کے ساتھ تھی اسی لیے شاہ ولی اللہ جیسے علماء محققین نے بھی معراج کے واقعات کی آنحضرت علی کے زمانہ نبوت میں ظاہر ہونے والے واقعات سے تعبیر کی ہے.اور چونکہ یہ لطیف ترین کشف تھا اسی لئے صحیح بخاری کتاب التوحيــد بـاب مـا جـاء في قوله وكلم الله موسى تكلیما میں واقعہ معراج کے بعد وَ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ فِى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کے الفاظ ہیں کہ پھر آنحضرت عله حالت کشفی سے بیدار ہوئے اور آپ مسجد حرام میں تھے.

Page 66

تعلیمی پاکٹ بک 44 حصہ اول خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح کے رفع الی اللہ کی تعبیر رفع الی السماء کرنے سے بھی ان کا رفع جسمی ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ رفع کا فاعل خدا ہے اور خدا تعالیٰ کے رفع دینے سے مراد رفع جسمی نہیں ہوتی بلکہ رفع روحانی ہی ہوتی ہے.مولوی ابراہیم صاحب کے استدلال کا ابطال مولوی صاحب شہادۃ القرآن صفحہ 166 پر لکھتے ہیں: د قتل وصاب کے قابل جسم ہے نہ روح اس لئے مزعوم یہود قتل جسد ہوا نه قتل روح - بنابر آن وَمَا صَلَبُوهُ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِيْناً میں نفی قتل وصلب جسم ہی سے کی گئی ہے پس چونکہ جملہ ضمائر منصوب و متصل جو افعال منفیه وفعل مثبت کے ساتھ ہیں یعنی جو وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ اور وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينَاً بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ میں واقع ہیں ان سب کا مرجع امسیح ہے اس لئے لا محالہ جد مسیح مرفوع ماننا پڑے گا بنا بر اتحاد مرجع.66 مولوی صاحب کی یہ بحث نہایت کمزور ہے قتل اور صلب کے فعل سے صرف جسم ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ روح بھی متاثر ہوتی ہے لیکن رفع کا فعل جب خدا اس کا فاعل ہو جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے رفع درجات کا مفہوم رکھتا ہے خواہ رفع درجات زندگی میں ہو یا بعد از ممات اور رفع درجات کا تعلق روح کی رفعت سے ہے نہ جسم سے.پس مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ کی ضمائر کا مرجع خالی مسیح کا جسم نہیں کیونکہ قتل اور صاب محض ایسے جسم پر وارد نہیں ہوسکتا جس میں روح موجود نہ ہو بلکہ ان کا اطلاق زندہ انسان (جو مجموعہ روح و جسم ہے) کے مارے جانے پر ہوتا ہے جس

Page 67

تعلیمی پاکٹ بک 45 حصہ اوّل سے روح جسم سے الگ ہو جاتی ہے اور رفع کے خدا کا فاعل ہونے کی صورت میں رفع جسمی محالات میں سے ہے جیسا کہ پہلے ثابت کیا جا چکا ہے تو لہذا بَلْ زَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ مِن رَفَعَہ کی ضمیر کا مرجع گوا صیح ہے مگر مراد اس سے رفع الروح اور روحانی رفع ہے کیونکہ خالی ارواح بھی جب جسم سے الگ ہوں تو انہیں ان کے نیک اعمال کے مطابق ایک نورانی لطیف جسم دیا جاتا ہے اور پھر اس روح کا بھی وہی نام ہوتا ہے جو جسمانی مادی وجود میں رکھا گیا تھا.پس مولوی ابراہیم صاحب کا یہ کہنا پورے طور پر درست نہیں کہ ارواح مجردہ بغیر تعلق بالبدن کے قابل تسمیہ نہیں ہوتے اور نہ جسم بے روح حامل اسم ہوتا (شهادة القرآن صفحه 166 تا168) ہے.66 اصل حقیقت یہ ہے کہ ارواح جب مادی بدن سے مجرد ہوں تو انہیں اعمال کے مطابق فوراً ایک نورانی یا ظلمانی جسم عطا ہوتا ہے اور وہ ارواح مع اس جسم جدید کے قابل تسمیہ ہوتی ہے.چنانچہ معراج کی حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انبیاء کرام علیہم السلام کو دیکھنا ان کے انہی لطیف اجسام کی صورت میں تھا اسی لئے آپ نے آدم، ابراہیم ، موسیٰ عیسی و یحیی علیہم السلام کے ناموں سے ہی ان کا ذکر نہیں کیا بلکہ حضرت ابراہیم موسیٰ ، اور عیسی علیہم السلام کے حلیے بھی بیان فرما دئیے مجرد روح تو کوئی حلیہ نہیں رکھتی.پس آیت بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کی تفسیر يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفَّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَى کے مطابق چونکہ حضرت مسیح کا رفع کامل بعد از وفات ہو لہذا رَفَعَهُ اللہ کی ضمیر کا مرجع حضرت مسیح کی روح مع جسم لطیف ہے جو قابل تسمیہ ہے اور اسے انتشار ضمائر نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ یہ امر صنعت استخدام کی ذیل میں آتا ہے جس سے کلام میں حسن پیدا ہوتا ہے نہ نقص.آیت آمَاتَهُ فَأَقْبَرَہ میں اسی

Page 68

تعلیمی پاکٹ بک 46 حصہ اول حقیقت کو ملحوظ رکھا گیا ہے.دیکھئے موت جسم و روح کے مجموعہ پر وارد ہوئی اسکے بعد قبر میں صرف جسم کو رکھا جاتا ہے اور اگر برزخی قبر مراد ہو تو اس میں صرف روح کو رکھا جاتا ہے نہ کہ جسم مادی مع الروح کو.مولوی ابراہیم صاحب کا آخری نکتہ یہ ہے کہ: چونکہ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ میں رفع کو بصیغہ ماضی تعبیر کیا ہے اور ظاہر ہے کہ زمانہ کی ماضویت واستقبال اضافی امور سے ہے ذاتی نہیں یعنی ایک ہی زمانہ بنسبت ایک کے ماضی ہو سکتا ہے اور بنسبت دوسرے کے استقبال.اس لئے رفع کی ماضویت بھی کسی کی نسبت سے ہوگی اور وہ ماقبل بل ہے یعنی واقعہ صلیبی....اور چونکہ واقعہ صلیبی کے پیشتر حیات مسیح علیہ السلام عند انخصم بھی مسلم ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہدِ حضرت روح اللہ کو آسمان پر زندہ اٹھالیا اور یہود کے ہاتھ میں ہر گز نہ آنے دیا اور یہی امتنان باری آیه وافي هدايه "وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِی اِسْرَاعِيلَ عَنْكَ “ میں مذکور ہے.شهادة القرآن صفحه 166 167) الجواب: 66 آیت بَلْ أَفَعَهُ اللهُ مِیں رَفَع کی ماضویت کا اضافی ہونا ہمیں مسلّم ہے مگر رفع کی ماضویت کی اضافت اس جگہ واقعہ صلیبی سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے قرآنی بیان وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ سے ہے اور خدا تعالیٰ کے اس بیان میں کہ میسی مقتول اور مصلوب نہیں ہوا اس بیان سے پہلے پہلے مسیح کا رفع الی اللہ ہو جانا بیان ہوا ہے نہ کہ واقعہ صلیب سے پہلے رفع الی اللہ ہونا.

Page 69

تعلیمی پاکٹ بک 47 حصہ اول خدا یہ بتا رہا ہے کہ واقعہ صلیب کے پیش آنے سے یہود نے اُن کو ( حضرت مسیح کی غشی کے مُردہ سے مشابہت شدیدہ کی وجہ سے ) مردہ سمجھ لیا اور یہ کہنا شروع کر دیا اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ اب خدا قرآن میں بتاتا ہے کہ مَا قَتَلُوهُ يَقِينا کہ یہودی حضرت مسیح کو قتل نہیں کر سکے.پس ان کا یہ قول بھی غلط ہے اور اس کا نتیجہ عدم رفع کا جو وہ نکالتے ہیں وہ بھی درست نہیں بلکہ واقعہ صلیبی کے بعد جس سے مسیح کو بچالیا گیا ہمارے اس تردیدی بیان سے پہلے پہلے کہ مسیح مصلوب و مقتول نہیں ہوا.حضرت مسیح علیہ السلام کا رفع حسب آیت إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ ہو چکا ہے.آیت وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَاوِيْلَ عَنك میں اسی بات کا ذکر ہے کہ یہودی مسیح کو قتل کرنے اور صلیب پر مارنے پر قادر نہیں ہو سکے.خدا کی تدبیر نے ان کے قادر ہونے میں روک پیدا کر دی.اور خدا کی تدبیر کا ایک حصہ یہ تھا کہ مسیح کوشی کی حالت میں صلیب سے اتار لیا گیا اور یہودیوں نے غلطی سے انہیں مردہ سمجھ کر یہ دعویٰ کر دیا کہ ہم نے مسیح کو مار دیا ہے اب قرآن کریم ما قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ کہ کر انہیں اس غلط عقیدے سے بچانا چاہتا ہے کہ (حضرت) عیسی نے لعنتی موت کے بعد خدا کی حضوری اور قرب کا شرف حاصل نہیں کیا.واضح رہے کہ لغت عرب میں طلب کے معنی صلیب پر مار دینا ہیں نہ کہ صرف صلیب پر لٹکا نا.لغت عربی میں لکھا ہے اَلصُّلْبُ : الْقِتْلَةُ الْمَعْرُوفَةُ (لسان العرب) کہ صلیب کے معنی ہیں معروف طریق پر مار دینا اس پر قرآن کی آیت إِنَّمَا جَزَ وُا الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا (المائدة:34) بھی روشنی ڈالتی ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ

Page 70

تعلیمی پاکٹ بک 48 حصہ اوّل اللہ و رسول علیہ سے لڑنے والوں کو محض صلیب پر لٹکا کر زندہ ہی اتار لیا جائے بلکہ یہ مراد ہے کہ صلیب پر لٹکا کر مارا جائے.:3 وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيِّمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا.(النساء : 160) یہ آیت بَلْ زَفَعَهُ الله کے بعد آتی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اہل کتاب میں سے ہر ایک اس واقعہ قتل وصلب کو مانتا ر ہے گا.اپنی موت سے پہلے پہلے اور قیامت کے دن مسیح ایسا ماننے والوں پر گواہ ہو گا ( کہ وہ نہ اس کو قتل کر سکے تھے نہ صلیب پر ہی مار سکے تھے بلکہ وہ طبعی وفات کے بعد مرفوع الی اللہ ہوئے تھے.نہ جیسا کہ ان کا زعم تھا کہ وہ مارے گئے اور ملعون ہوئے ) اس آیت میں سیاق کلام کے لحاظ سے ضمیر یہ کا مرجع یہودیوں کا مزعوم واقع قتل وصلیب ہے اور موتہ کی ضمیر کا مرجع ہر اہل کتاب ہے جو مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ کے قرآنی اعلان کے سُن لینے کے بعد بھی ضد سے اپنی زندگی میں یہی عقیدہ رکھے کہ مسیح قتل ہو گیا ہے یا صلیب پر مارا گیا ہے اور يَكُونُ کا فاعل مسیح علیہ السلام ہیں جو قیامت کے دن ان منکرین کے خلاف مندرجہ بالا شہادت دیں گے.بعض مفسرین نے لیو مِنَنَّ بِہ میں بہ اور موت ہر دو کی ضمیروں کا مرجع حضرت مسیح کو قرار دے کر اس آیت کے یہ معنی لئے ہیں کہ حضرت مسیح کی موت اُس وقت تک واقع نہ ہوگی جب تک سب اہل کتاب ان پر ایمان نہ لے آئیں.اور چونکہ ابھی کئی اہل کتاب ان پر ایمان نہیں لائے لہذا ابھی حضرت مسیح کی موت واقع نہیں ہوئی.یہ استدلال بدیں وجود باطل ہے:.اول.اگر مسیح کی موت سے پہلے ہر اہل کتاب کے متعلق اس آیت

Page 71

تعلیمی پاکٹ بک 49 حصہ اوّل میں حضرت مسیح پر ایمان لانے کی پیشگوئی کی گئی ہے تو پھر اس آیت کے نزول کے بعد کیوں اب تک لاکھوں یہودی حضرت مسیح پر ایمان لائے بغیر مر رہے ہیں؟ اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ اس پیشگوئی کا وقوع مسیح کے آخری زمانہ میں نزول کے وقت ہوگا اور اُس وقت سب یہود بلا استثناء آپ پر ایمان لائیں گے تو یہ معنی بھی دیگر نَصِ قرآنی کے خلاف ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ پیشگوئی فرمائی ہے: وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِمَةِ - (آل عمران : 56 کہ اے مسیح! میں تیرے متبعین کو تیرے منکرین پر قیامت کے دن تک غالب رکھنے والا ہوں.پس اس آیت کی رُو سے مسیح کے منکرین کا وجود قیامت تک موجود رہنا موعود ہونے کی وجہ سے ضروری ہوا تو یہ بات باطل ہوئی کہ ان کے نزول کے وقت آخری زمانہ میں سب یہودی اُن پر ایمان لائیں گے.دوم.اس آیت کی دوسری قراءت وَإِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِمُ بھی حضرت ابی بن کعب سے مروی ہے.(ملاحظہ ہو تفسیر ثنائی از مولوی ثناء اللہ صاحب پانی پتی و دیگر تفاسیر ) انہوں نے اور بعض دوسرے مفسرین نے بھی قرآتِ ثانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے موتہ کی ضمیر کا مرجع ہر اہل کتاب کو قرار دیا ہے پس جب موتہ کی ضمیر کا مرجع اہل کتاب ہوئے تو مسیح کی زندگی کا استدلال باطل ہوا.اور ویسے بھی کسی نبی پر ایمان لانے کے لئے اس نبی کی جسمانی زندگی بوقت ایمان ضروری نہیں ہوتی.

Page 72

تعلیمی پاکٹ بک 50 50 حصہ اول سوم - وَيَوْمَ الْقِيِّمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (النساء : 160) اس بات پر نص صریح ہے کہ حضرت مسیح اب اس دنیا میں دوبارہ آکر اہل کتاب کے ان خیالات کو باطل نہیں کریں گے.بلکہ وہ قیامت کو ہی اُن پر گواہی دیں گے کہ ان کے خیالات باطل تھے.پس جب حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی اس آیت سے نفی ثابت ہوئی تو ان کی زندگی اور اصالتا آمد خانی کا خیال ہی باطل ثابت ہوا.چهارم.مفسرین اس بات سے پریشان ہوئے ہیں کہ بہ کا مرجع مسیح کو کس طرح قرار دیا جائے.اسکے اصل مرجع واقعہ قتل وصلیب کی طرف ان کا ذہن نہیں پھر اس لئے انہوں نے یہ تاویل کی کہ اہل کتاب کی اس وقت تک جان نہیں نکلتی جب تک فرشتے ان سے یہ اقرار نہیں لے لیتے کہ میں عیسی پر ایمان لایا ہوں مگر وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ان یہودیوں کو یہ ایمان کوئی فائدہ نہیں دے گا.اگر مفسرین کی یہ توجیہ درست مان لی جائے تو پھر بھی موتہ کا مرجع اہل کتاب کے ثابت ہو جانے کے بعد جیسا کہ قراءت ثانیہ سے ظاہر ہے اس آیت سے حضرت مسیح کی حیات جسمانی کا قطعاً استدلال نہیں ہوسکتا کیونکہ اس صورت میں ہر کتابی کے لئے اپنی اپنی موت سے پہلے حضرت مسیح پر ایمان لانا ضروری قرار پایا نہ کہ حضرت مسیح کی موت سے پہلے.مفسرین کی اس تفسیر پر تلج قلب حاصل نہیں ہوتا.کیونکہ یہودیوں کا نزع کے وقت ایمان لانا انسانی مشاہدہ سے ثابت نہیں اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا ذکر بے فائدہ ثابت ہوتا ہے جبکہ یہ ایمان فائدہ بخش بھی تسلیم نہیں کیا گیا.لیکن اگر به کا مرجع یہودونصاری کے زعم کے مطابق واقعہ قتل و صلیب لیا جائے تو یہ حقیقت مشاہداتی ہے کہ یہودی اور عیسائی دونوں تو میں حضرت مسیح کو مقتول یا مصلوب مانتی ہیں اور عجیب بات ہے کہ دونوں قو میں آپ کو (معاذ اللہ )

Page 73

تعلیمی پاکٹ بک 51 ملعون بھی مانتی ہیں.یہودی ہمیشہ کے لئے اور عیسائی وقتی طور پر.حصہ اول اس سے قبل کی آیت قرآنیہ اإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفَوافِيهِ لَفِي شَءٍ مِّنْهُ مَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ کی ضمائر کا واقع قبل وصلیب کی طرف پھیر نامسلمات میں سے ہے پس صحیح تفسیر یہ ہے کہ لیو مِنَنَّ بِہ کی ضمیر کا مرجع بھی یہی واقعہ قتل وصلیب قرار دیا جائے گو سیخ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی تدبیر سے قتل وصلیب سے نجات دی یہ تفسیر واقعاتی شہادت سے صحیح ثابت ہوتی ہے اور واقعات ہی بہترین تفسیر ہوتے ہیں.پس آیت هذا کا ٹکڑا وَيَوْمَ الْقِيِّمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا.(النساء : 160) بطور اشارة النص حضرت مسیح کی وفات پر ہی دلیل ہے نہ کہ زندگی پر.لہذا یہ آیت بھی مسیح کی وفات پر ہی دلیل ہے نہ کہ حیات پر اور بَل زَفَعَهُ الله کے بعد حیات مسیح کا ذکر یوں بھی بے محل تھا کیونکہ رفع کا کمال وفات کے بعد ہی ہوتا ہے اور قرآن کریم نے اس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ یہ کمال حضرت عیسی علیہ السلام مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ کے اعلان قرآنی سے پہلے حاصل کر چکے ہیں..4 لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوا إِنَّ اللهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ قُلْ فَمَنْ (المائده : 18) يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا.ترجمہ : ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح بن مریم ہے تو کہہ دے کہ کون اللہ سے مقابلہ کی قدرت رکھتا ہے.اگر وہ ارادہ کرے کہ تباہ و برباد کرے مسیح بن مریم اور اس کی ماں کو اور ان سب کو جوز مین میں بستے ہیں.اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ مسیح نے ابھی تک وفات نہیں پائی اور وہ بقید حیات ہیں لیکن یہ استدلال بدیں وجہ درست نہیں کہ پھر مریم علیہا السلام کو بھی زندہ اور بقید حیات ماننا پڑے گا حالانکہ کوئی مسلمان بلکہ عیسائی بھی مریم علیہا السلام

Page 74

تعلیمی پاکٹ بک کی زندگی کا قائل نہیں.52 حصہ اول پس اس آیت میں آئندہ مریم کے اہلاک سے ارادہ الہی میں مراد ان کی حیثیت کو مٹا دینا ہے جو رومن کیتھولک عیسائیوں نے انہیں خدا کی ماں قرار دے کر دے رکھی ہے.کیونکہ جب مسیح اللہ ہوا تو مریم اللہ کی ماں ہوئی.اب خدا تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ اگر میں مسیح کی الوہیت کی حیثیت اور مریم کے خدا کے بیٹے کی ماں کی حیثیت مٹا ڈالوں تو تم میں سے کون مجھے ایسی تباہی و بربادی پیدا کرنے سے روک دینے کی قدرت رکھتا ہے جب کہ میں زمین کے تمام لوگوں کی تباہی اور بربادی کی قدرت رکھتا ہوں.اس آیت کا پہلا فقرہ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسَيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ.اس بات پر روشن دلیل ہے کہ اس جگہ مسیح کی جسمانی زندگی زیر بحث نہیں بلکہ مسیح کی الوہیت زیر بحث ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مسیح کی الوہیت کی تردید میں نازل فرمائی اور ایک پیشگوئی فرمائی کہ وہ دن آتا ہے جب روئے زمین سے مسیح اور مریم کی معبودانہ حیثیت مٹادی جائے گی خواہ قائلین کو عذاب میں مبتلا کر کے یا ان کے دلوں سے اس عقیدہ کو مٹا کر اور ان کی غلط استعدادوں پر فتاوار دکر کے.پس اس آیت میں حضرت مسیح اور مریم کی اس غلط حیثیت کو مٹانا ہی مراد ہے جو انہیں دینی صورت میں غلط طور پر دی گئی ہے کہ وہ دونوں معبود ہیں.اس آیت سے مسیح کی جسمانی حیات پر استدلال اس لئے جائز نہیں کہ حضرت مسیح کی وفات تو آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی سے بھی ثابت ہے اور آیت ما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اور آیت أَمْوَاتٌ غَيْرُ احیاء بھی حضرت مسیح کی وفات پر روشن دلائل ہیں جو قبل ازیں مذکور ہو چکے ہیں.

Page 75

تعلیمی پاکٹ بک 53 حصہ اول (2) اهلاک بر وزن افعال مصدر مزید فیہ کے معنے عذاب سے تباہ و برباد کرنا ہوتے ہیں نہ کہ محض وفات دینا.البتہ ہلاکت کے معنی جو مصدر ثلاثی مجرد ہے وفات کے ہوتے ہیں.اھلاک کا یہ استعمال قرآن و احادیث کے محاورہ سے ثابت ہے لہذا اس آیت کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ مسیح اور اس کی والدہ اور رُوئے زمین کے سب لوگوں کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو اسے کون روکنے کی قدرت رکھتا ہے پس اس طرح جب خود حضرت مسیح اور حضرت مریم اور روئے زمین کے تمام لوگ خدا تعالیٰ کی قدرت کے مقابلہ میں عاجز ہیں اور اس کے افعال میں روک نہیں ہو سکتے تو پھر ایک عاجز انسان کو خدا کا مقام اور اس کی والدہ کو خدا کی ماں کا مقام دینا کفر نہیں تو اور کیا ہے اس طرح خدا تعالیٰ نے اس آیت میں تو عیسائیوں کو سمجھایا ہے کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق ایسے کفریہ عقائد سے باز آجائیں.عیسائی اس کے جواب میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا تعالیٰ مسیح کو عذاب میں مبتلا کرنے پر قادر نہیں جب کہ وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ مسیح مصلوب ہوا اور صلیبی موت کا مسیح کے لئے ما نالا محالہ اہلاک و تعذیب کی صورت ہے جو عیسائیوں کو پہلے سے مسلّم ہے.5 وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ (الزخرف : 62) ترجمہ: یقیناً قرآن البتہ قیامت کا علم دینے والا ہے پس تم قیامت میں شک نہ کرو اور میری پیروی کرو.اس آیت میں انگہ کی ضمیر کا مرجع بعض لوگوں نے حضرت مسیح کو قرار دے کر یہ معنی کئے ہیں کہ حضرت مسیح قیامت کی نشانی ہیں یعنی وہ زندہ ہیں اور قیامت سے پہلے دوبارہ آئیں گے.یہ معنی بدیں وجوہ باطل ہیں.

Page 76

لیمی پاکٹ بک 54 حصہ اول اوّل.عِلم کے معنی نشان کئے گئے ہیں حالانکہ اس کے لئے علم استعمال ہوتا ہے.دوم اگر بالفرض مجازاً عِلْمٌ بمعنی عَلَم ہو اور حضرت مسیح کے آخری زمانہ میں دوبارہ آنے کو نشان قرار دینا مقصود ہوتا تو پھر فقرہ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا ان معنوں سے مناسبت نہیں رکھتا.اس کے تو یہ معنی ہوئے کہ نشان تو ابھی دکھایا نہیں اور زور یہ دیا جا رہا ہے کہ چونکہ حضرت مسیح قیامت کا نشان ہے اس لئے قیامت کا ابھی یقین کرلو.ی محض محکم کی راہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان کے مناسب نہیں لہذا یہ معنی باطل ہیں.سوم.اگر بالفرض ان کی ضمیر کا مرجع حضرت مسیح ہوں تو ان کی تعلیم کو ان کے زمانہ کے لوگوں کے لئے بلکہ بعد والوں کے لئے بھی جو حضرت مسیح پر ایمان لے آئیں قیامت کے علم کا موجب قرار دیا گیا ہے لہذا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو بھی یہ تلقین کی گئی ہے کہ دیکھو مجھ سے پہلا نبی بھی قیامت کی تعلیم دیتارہا اس لئے تم قیامت میں شک نہ کرو.اس صورت میں علم جو مصدر ہے بطور مبالغہ حضرت مسیح کے لئے بطور وصف سمجھا جائے گا جیسے کہتے ہیں زَيْدٌ عَدْلٌ یعنی زید بڑا عادل ہے.چهارم.اَلسَّاعَةُ سے مراد نبیوں کے منکرین پر عذاب کی گھڑی بھی ہوتی ہے اگر ان کی ضمیر کا مرجع حضرت مسیح ہوں تو اس صورت میں یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ حضرت مسیح کی ولادت بنی اسرائیل کے لئے موعود عذاب کا نشان تھی اور اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور آپ کے منکرین کے لئے بھی موعود عذاب کا نشان ہوگا.اس لئے آپ کے منکرین کو اپنے زمانہ میں آنے والی عذاب کی گھڑی پر یقین رکھنا چاہئے اور اس عذاب کی گھڑی کے آنے میں کسی کو شک نہیں کرنا چاہئے.پس ان تو جیہات میں سے کسی توجیہ میں بھی حضرت عیسی کی جسمانی حیات

Page 77

فلیمی پاکٹ بک 55 حصہ اول کا کوئی ثبوت نہیں البتہ صحیح معنی اس آیت کے وہ ہیں جو حضرت حسن بصری اور ان کے تابعین نے بیان کئے ہیں کہ ان کی ضمیر کا مرجع اس جگہ میسج نہیں.بلکہ قرآن مجید ہے اور قرآن مجید میں ساعت موعودہ کے علمی دلائل بیان ہوئے ہیں لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے منکرین کو ساعت موعودہ کے متعلق کوئی شک نہیں کرنا چاہئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی چاہئے.

Page 78

فلیمی پاکٹ بک 56 وفات مسیح از روئے حدیث حصہ اوّل (1) احادیث میں حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کی معین عمر ایک سو بیس سال مذکور ہے.چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے.عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ الَّذِى تُوُفِّيَ فِيهِ لِفَاطِمَةَ أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُنِي الْقُرْآنَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً وَإِنَّهُ عَارَضَنِى الْقُرْآنَ الْعَامَ مَرَّتَيْنِ وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ لَمْ يَكُنُ نَبِيٍّ إِلَّا عَاشَ نِصْفَ الَّذِى قَبْلَهُ وَاَخْبَرَنِي أَنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِينَ وَ مَائَةَ سَنَةٍ وَلَا أَرَانِي إِلَّا ذَاهِبًا عَلَىٰ رَأْسِ السِّيِّينَ.حجج الكرامه صفحه 428) ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس مرض میں جس میں آپ کی وفات ہوئی حضرت فاطمہ سے فرمایا که جبریل ہر سال ایک مرتبہ میرے ساتھ قرآن کریم دُہراتے تھے اور اس سال انہوں نے دو دفعہ میرے ساتھ قرآن دُہرایا ہے اور انہوں نے مجھے خبر دی ہے.ہر نبی اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر ضرور زندہ رہا ہے اور انہوں نے مجھے یہ بھی خبر دی ہے کہ عیسی بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے اور میں اپنے آپ کو نہیں سمجھتا مگر صرف ساٹھ سال کی عمر کے سرے پر جانے والا.(2) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں دو آدمیوں کے سہارے مسجد میں آکر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:.إِنَّكُمْ تَخَافُونَ مِنْ مَوْتَ نَبِيِّكُم هَلْ خَلَدَ نَبِيٌّ قَبْلِي فِيْمَنُ

Page 79

57 حصہ اول تعلیمی پاکٹ بک بُعِثَ إِلَيْهِ فَاخْلُدُ فِيُكُمُ - المواهب اللدنيه جلد 2صفحه 368) کہ اے لوگو ! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم اپنے نبی کی موت سے ڈرتے ہو.بتاؤ کیا مجھ سے پہلے کسی نبی نے ہمیشہ کی زندگی ان لوگوں کے درمیان پائی ہے جن کی طرف وہ مبعوث ہوئے کہ میں تم میں ہمیشہ کی زندگی پاؤں گا.ان روایات سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک سو بیس سال زندہ رہے.(3) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِي - الیوقیت والجواہر مصنفہ عبدالوہاب الشعرانی رحمۃ اللہ علیہ جلد 2 صفحہ 22 مطبوعہ مصر ) اگر موسیٰ اور عیسی دونوں زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا.اس حدیث کو ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر جلد 2 صفحہ 246 پر نقل کیا ہے اور اسی حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے.لَوْ كَانَ مُوسَىٰ وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَكَانَا مِنْ أَتْبَاعِهِ.(مدارج السالکین مصنفہ امام ابن قیم جلد 2 صفحہ 356 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت) کہ اگر موسیٰ اور عیسیٰ علیہا السلام زندہ ہوتے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں سے ہوتے.اس حدیث کو اہل سنت کے علماء کے علاوہ شیعہ علماء نے بھی قبول کیا ہے.لکھتے ہیں:.نیز خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرموده است لَوْ كَانَ مُوسَىٰ وَ عِيسَى فِي حَيَاتِهِمَا لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِی - یعنی اگر موسیٰ و عیسی در

Page 80

تعلیمی پاکٹ بک 58 دنیا می بودند ممکن نمی بود ایشاں را مگر آنکه متابعت من کردند.(رسالہ بشارات احمد یہ مصنفہ علی حائری صفحہ 24 حصہ اوّل اور شرح فقہ اکبر مطبوعہ مصر حاشیہ صفحہ 112 ( مطبوعہ 1955ء) پر یہ حدیث یوں لکھی ہے : لَوْ كَانَ عِيسَى حَيًّا مَا وَسِعَهُ إِلَّا اتَّبَاعِى.کہ اگر عیسی علیہ السلام زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کے سوا چارہ نہ ہوتا.پہلی حدیثوں میں حضرت موسیٰ اور عیسی دونوں نبیوں کے زندہ نہ ہونے کا ذکر ہے اور شرح اکبر مطبوعہ مصر کی حدیث میں صرف عیسی علیہ السلام کے زندہ نہ ہونے والی حدیث بیان ہوئی ہے.علی حائری کا فِی حَيَاتِهِمَا کا ترجمه در دنیا می بودند درست نہیں بلکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ اگر موسیٰ اور عیسیٰ علیہا السلام دونوں حیات میں یعنی زندہ ہوتے تو ان کے لئے میری اطاعت کے سوا کوئی چاہ نہ ہوتا.(4) اختلافِ حُليتين صحیح بخاری میں دو احادیث ایسی ہیں جن میں عیسی علیہ السلام کا خلیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے.ایک حدیث تو وہ ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء گزشتہ کو کشفی رنگ میں دیکھا.اس میں حضور فرماتے ہیں.رَأَيْتُ عِيسَى وَمُوسَىٰ وَ إِبْرَاهِيمَ فَأَمَّا عِيسَىٰ فَأَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيضُ الصَّدْرِوَاَمَّا مُوسى فَادَمُ جَسَيْمٌ سَبُطُ كَأَنَّهُ مِنْ رِّجَالِ الرُّط - (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب واذكر في الكتاب مريم......کہ میں نے عیسی ، موسیٰ اور ابراہیم علیھم السلام کو دیکھا حضرت عیسی سُرخ رنگ

Page 81

تعلیمی پاکٹ بک 59 حصہ اوّل کے اور گھنگریالے بالوں والے اور چوڑے سینے والے تھے اور حضرت موسیٰ گندم گوں، جسم اور سیدھے بالوں والے تھے گویا زُط قبیلے کے مردوں میں سے ہوں اور حضرت ابراہیم کو دیکھنا ہو تو اپنے ساتھی کو یعنی مجھے دیکھو.اس سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کشف میں گزشتہ فوت شدہ انبیاء کو دیکھا تھا جن میں عیسی علیہ السلام بھی شامل تھے.دوسری حدیث میں ایسے کشف کا بیان ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آئندہ کے حالات دکھائے گئے اور حضور ﷺ نے دجال وغیرہ کو دیکھا.اس میں حضور عملہ نے امت میں سے آنے والے مسیح موعود کو بھی دیکھا اور اس کا جو خلیہ بیان فرمایا وہ پہلے حلیہ سے قطعی مختلف ہے.اس سے ثابت ہوا کہ آنے والے مسیح موعود کو عیسی بن مریم کا نام شدید مماثلت کی وجہ سے دیا گیا نہ یہ کہ پہلا مسیح اور وہ ایک ہی شخصیت ہے.حضور فرماتے ہیں.بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ اَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ فَاذَا رَجُلٌ آدَمُ سَبْطُ الشَّعْرِ فَقُلْتُ مَنْ هذَا قَالُوا هَذَا الْمَسِيحُ بْنُ مَرْيَمَ.(صحیح بخاری کتاب الفتن باب ذكر الدجال) کہ اس حالت میں کہ میں سویا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ میں کعبہ کا طواف کر رہا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں ، ایک آدمی گندم گوں ،سید ھے بالوں والا ہے، میں نے پوچھا یہ کون ہے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ عیسی بن مریم ہے.اسی حدیث میں آگے چل کر ذکر ہے کہ آنحضرت نے دجال کو بھی دیکھا جس سے واضح ہے کہ یہ حلیہ آنے والے مسیح کا ہے جیسا کہ واقعات نے ثابت بھی کر دیا.

Page 82

تعلیمی پاکٹ بک اجماع امت 60 60 حصہ اول اہل اسلام کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم ، سنتِ نبوی اور حدیث کے بعد چوتھے درجہ پر اجماع ایک شرعی حجت ہے جس کا ماننا ہر مسلمان پر فرض ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات صحابہ کے لئے ایک نا قابل برداشت صدمہ تھا اور ان میں سے بعض فرط محبت سے اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے چنانچہ حضرت عمرؓ اُن صحابہ میں سے تھے جو آنحضرت ﷺ کو وفات یافتہ تصورہی نہیں کر پائے تھے چنانچہ لکھا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: مَامَاتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَمُوتُ حَتَّى يَقْتُلَ اللهُ الْمُنَافِقِينَ.(درمنثور للامام جلال الدين السيوطی جلد 4 صفحہ 318 زیر آیت و ما جعلنا لبشر : الانبياء:35) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے اور اس وقت تک وفات نہیں پائیں گے جب تک اللہ تعالیٰ منافقین کو قتل نہیں کر دیتا.اس نازک موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کھڑا کیا.آپ نے تمام غمزدہ صحابہ کرام کو ایک جگہ جمع فرمایا.منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا اور صحابہ کرام کو عموماً اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خصوصاً مخاطب کر کے فرمایا:.أَيُّهَا الرَّجُلُ ارْبَعُ عَلَى نَفْسِكَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ اَلَمْ تَسْمَعُ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيْتُونَ وَ قَالَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرِ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَأَبِنْ مِتَ فَهُمُ الْخَلِدُونَ...ثُمَّ تَلَا وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَّاتَ أوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (تفسیر درمنثور تفسير سورة الانبياء : 36)

Page 83

لیمی پاکٹ بک 61 حصہ اول ترجمہ: اے شخص! اپنے آپ پر قابورکھ.یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں کیا تم نے قرآن کریم کی یہ آیت نہیں سُنی اِنَّكَ مَيِّتٌ و إِنَّهُمْ مَّيْتُونَ ) کہ تُو بھی مرنے والا ہے اور یہ بھی مرنے والے ہیں ) اور اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی.کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تو تو وفات پائے اور وہ ہمیشہ ( زندہ ) رہیں.اس کے بعد حضرت ابو بکڑ نے یہ آیت پڑھی.وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ الخ - كم محمد الله صرف اللہ کے رسول ہیں ان سے پہلے سب رسول گزر چکے ہیں.اگر آپ وفات پائیں یا قتل ہوں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ نے فرمایا.اور بخاری شریف میں اس واقعہ کا ذکر یوں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ أَمَّا بَعْدُ مَنْ كَان مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْمَاتَ وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَقٌّ لَا يَمُوتُ قَالَ اللهُ تَعَالَى وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُول قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى قَوْلِهِ الشَّاكِرِينَ.صلى الله (بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي علم) ترجمہ : کہ تم میں سے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتے تھے وہ سن لیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو وفات پاگئے ہیں.اور جو تم میں سے اللہ کی عبادت کرتے تھے تو اللہ زندہ ہے اور وہ نہیں مرتا.پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں ہیں محمد علی مگر ایک رسول ان سے پہلے سب رسول گزر چکے ہیں.

Page 84

تعلیمی پاکٹ بک 62 حصہ اول بخاری میں آتا ہے کہ یہ آیت حضرت عمرؓ اور صحابہ نے سنی تو انہیں یوں محسوس ہوا کہ یہ آج نازل ہوئی ہے اور انہیں یقین ہو گیا کہ واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بشر تھے ایک رسول تھے اور بشری تقاضے کے ماتحت آج تک جتنے رسول آئے وہ جب وفات پاگئے تو آنحضرت کیوں فوت نہیں ہو سکتے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اس آیت سے استدلال کرنا صاف دلالت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک تمام انبیاء گزشتہ بشمول حضرت عیسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اگر واقعہ یہ ہوتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام با وجود محض رسول ہونے کے اس وقت تک زندہ ہوتے یا صحابہ کرام انہیں زندہ سمجھتے تو ان کے سامنے یہ آیت قابل استدلال ہی نہ ہوتی اور وہ صحابہ جو آنحضرت ﷺ کی وفات کے صدمہ سے زخمی تھے وہ ضرور بول اٹھتے کہ جب عیسی علیہ السلام رسول ہو کر اب تک زندہ ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وفات پا نا کیونکر ضروری ٹھہرا.مگر کسی صحابی کا اعتراض مروی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.یہ دلیل جو حضرت ابو بکر نے تمام گزشتہ نبیوں کی وفات پر پیش کی کسی صحابی سے اس کا انکار مروی نہیں.حالانکہ اس وقت سب صحابی موجود تھے اور سب سُن کر خاموش ہو گئے.اس سے ثابت ہے کہ اس پر تمام صحابہ کا اجماع ہو گیا تھا اور صحابہ کا اجماع حجت ہے جو کبھی ضلالت پر نہیں ہوتا.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 461 حاشیہ) صحابہ کرام کا پہلا اجماع ہے جو اس بات پر ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیاء وفات پاگئے ہیں.سو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وفات پاچکے ہیں.نہ کہ ان پر کوئی خاص حالت زندگی میں طاری ہے جس سے ان کی وفات پانے کا شبہ ہوسکتا ہے.

Page 85

فلیمی پاکٹ بک 80 63 وفات مسیح کے متعلق بزرگانِ امت کے اقوال (1) حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات پر فرمایا: حصہ اوّل أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ قُبِضَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ لَمْ يَسْبِقُهُ الْأَوَّلُونَ وَلَا يُدْرِكُهُ الْآخِرُونَ.وَلَقَدْ قُبِضَ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي عُرِجَ فِيهَا بِرُوحٍ عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ.(الطبقات الكبرى لابن سعد.الجزء الثالث صفحه 39،38 مطبع دار صادر بیروت ) ترجمه : لوگو ! آج رات ایک ایسے شخص کی روح قبض کی گئی ہے جس سے پہلے بھی آگے نہ بڑھ سکے اور پچھلے بھی اس کے مقام کو نہ پاسکیں گے اور آپ کی روح اس رات قبض کی گئی ہے جس رات عیسی بن مریم کی روح اٹھائی گئی یعنی رمضان کی ستائیسویں رات کو.اس روایت سے ثابت ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ستائیسویں رمضان کو عیسی علیہ السلام مع جسم آسمان پر نہیں چڑھائے گئے بلکہ صرف آپ کی روح کو اُٹھایا گیا.

Page 86

تعلیمی پاکٹ بک (2) ابن عباس رضی اللہ عنہ 64 آیت إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَی کی تفسیر میں لکھا.قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ مَعْنَاهُ إِنِّي مُمِيْتُكَ - حصہ اول ( تفسیر خازن مصنفہ علامہ علاءالدین علی بن محمد جلد 1 صفحہ 251 مطبوعہ بیروت زیر تفسیر سورة آل عمران: 56) نیز بخاری کتاب التفسیر میں لکھا ہے مُتَوَفِّيكَ مُمِيتُكَ کہ ابن عباس نے فرمایا ہے کہ اس کے معنی ہیں کہ میں تجھے ماردینے والا ہوں.(3) امام مالک رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے:.وَالَا كُثَرُ أَنَّ عِيسَى لَمْ يَمُتُ وَقَالَ مَالِكٌ مَاتَ - ( مجمع البحار ) کہ اکثر کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام نے وفات نہیں پائی ،لیکن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں.(4) امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یوں لکھا ہے:.تَمَسَّكَ ابْنُ حَزْمٍ بِظَاهِرِ الْآيَةِ فَقَالَ بِمَوْتِهِ.(جلالین حاشیه صفحه 111 زیر آیت فلما توفیتنی) کہ علامہ ابن حزم نے آیت کے ظاہری معنوں کو اختیار کیا ہے اور وہ عیسی علیہ السلام کی موت کے قائل تھے.(5) حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:.وَأَمَّا مَا يُذكَرُ عَنِ الْمَسِيحَ أَنَّهُ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ وَلَهُ ثَلَاثَةٌ وَثَلَاثُونَ سَنَةً فَهَذَا لَا يُعْرَفُ لَهُ اَثَرٌ مُتَّصِلٌ يُجِبُ الْمَصِيرُ إِلَيْهِ - (زادالمعاد جلد اول صفحه 20 مطبوعہ مطبعة الميمنية مصر فصل في مبعثه صلى الله عليه وسلم.....

Page 87

تعلیمی پاکٹ بک 59 65 حصہ اوّل کہ یہ جو حضرت مسیح کے بارے میں ذکر کیا جاتا ہے کہ وہ آسمان کی طرف اٹھائے گئے اور ان کی عمر 33 سال تھی اس کی کوئی متصل سند ایسی نہیں ملتی جس کی طرف رجوع واجب ہو.نیز آپ زادالمعاد میں تحریر فرماتے ہیں.لَمَّا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَقَامِ خَرُقِ الْعَوَائِدِ حَتَّى شُقَّ بَطْنُهُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَتَالَّمُ بِذلِكَ عُرِجَ بِذَاتِ ، رُوحِهِ الْمُقَدَّسَةِ حَقِيْقَةً مِنْ غَيْرِ إِمَاتَةٍ وَمَنْ سَواهُ لَا يَنَالُ بِذَاتِ رُوْحِهِ الصَّعُودُ إِلَى السَّمَاءِ إِلَّا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْمَفَارَقَةِ فَالْانْبِيَاءُ إِنَّمَا اسْتَقَرَّتْ اَرُوَاحُهُمْ هُنَاكَ بَعْدَ مُفَارَقَةِ الْأَبْدَانِ وَرُوحُ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَتْ إِلَى هُنَاكَ فِي حَالِ الْحَيَاةِ ثُمَّ عَادَتْ وَبَعْدَ وَفَاتِهِ اسْتَقَرَّتْ فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى مَعَ أَرْوَاحِ الْأَنْبِيَاءِ.(زاد المعاد جلد 3صفحه 36 الجهاد والمغازى.تحقيق القول في أن الاسراء كان بجسده...) چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرق عادات کے مقام پر تھے یہاں تک کہ آپ کا پیٹ پھاڑا گیا اس حال میں کہ آپ زندہ رہے اور اس سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچی اور پھر حضور کو اپنی مقدس روح کے ساتھ حقیقت موت کے بغیر معراج ہوا اور آپ کے سوا کوئی اور شخص اپنی روح کے ساتھ آسمان کی طرف صعود صرف موت اور مفارقت بدن کے بعد ہی حاصل کرتا ہے.پس تمام انبیاء کی ارواح نے آسمان پر موت اور مفارقت بدن کے بعد ہی قرار پکڑا ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس روح نے زندگی کے عالم میں ہی آسمان پر صعود کیا.پھر واپس آئی اور آپ کی وفات کے بعد رفیق اعلیٰ میں

Page 88

تعلیمی پاکٹ بک 66 حصہ اوّل نبیوں کی روحوں کے ساتھ ممکن ہوگئی.(6) علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ زیر آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی لکھتے ہیں:.قِيْلَ هَذَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ تَوَفَّاهُ قَبْلَ أَنْ يَّرْفَعَهُ - (فتح القدير صفحه 90 زیر آیت تفسير سورة المائدة : ١١٨) ترجمہ: کہا گیا ہے کہ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کا رفع کرنے سے پہلے انہیں وفات دیدی تھی.(7) ابو عبد الله محمد بن یوسف زیر آیت ہذا لکھتے ہیں:.يُرْفَعَهُ قِيْلَ هَذَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّهُ تَوَفَّاهُ وَفَاتَ الْمَوْتِ قَبْلَ أَنْ بحر محیط جزء 4 صفحه (61) ترجمہ : انہوں نے کہا کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ نے انہیں موت والی وفات ان کا رفع کرنے سے پہلے دی.نوٹ از ناشر: علامہ شوکانی رحمتہ اللہ علیہ اور ابو عبد اللہ محمد بن یوسف خود حیات مسیح کا قائل ہونے کے باوجود اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ علماء کا ایک طبقہ وفات مسیح کا قائل ہے.(8) علامه جبائی مشہور شیعہ مفتر زیرآیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی لکھتے ہیں:.وَفِي هَذِهِ الْآيَةِ دَلَا لَةٌ عَلَى أَنَّهُ أَمَاتَ عِيسَى وَتَوَفَّاهُ ثُمَّ رَفَعَهُ إِلَيْهِ.تفسير مجمع البیان جلد اوّل زیر تفسیر سورة المائدة : 118) ترجمہ : اس آیت میں یہ دلالت ہے کہ اللہ نے عیسی کو موت دی اور پھر ان کا رفع اپنی طرف کیا.

Page 89

تعلیمی پاکٹ بک 67 حصہ اوّل (9) شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ آیت بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ الخ کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں :.رَفَعُ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ اِتِّصَالُ رُوحِهِ عِنْدَ الْمُفَارَقَةِ عَنِ الْعَالَمِ السّفْلِيّ بِالْعَالَمِ الْعَلَوِيِّ وَكَوْنُهُ فِي السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ إِشَارَةٌ أَنَّ مَصْدَرَ فَيُضَانِ رُوحِهِ رُوحَانِيَّةُ فَلَكِ الشَّمْسِ الَّذِي هُوَ بِمَثَابَةِ قَلْبِ الْعَالَمِ وَمَرْجِعُهُ إِلَيْهِ وَتِلْكَ الرُّوحَانِيَّةُ نُورٌ يُحَرِّكُ ذَلِكَ الْفَلَكَ بِمَعْشُوقِيَّتِهِ وَإِشْرَاقُ أَشِعَتِهِ عَلَى نَفْسِهِ الْمُبَاشَرَةِ لِتَحْرِيكِهِ وَلَمَّا كَانَ مَرْجِعُهُ إِلَى مَقَرِّهِ الَا صَلِي وَلَمْ يَصِلُ إِلَى الْكَمَالِ الْحَقِيقِ وَجَبَ نُزُولُه فِي آخِرِ الزَّمَانِ بِتَعَلَّقِهِ بَبَدَنِ اخَرَ.(تفسیر حضرت ابن عربی صفحه 296 زیر تفسير سورة النساء: 159) کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع کا مطلب یہ ہے کہ مفارقت کے وقت آپ کی روح عالم سفلی سے نکل کر عالم علوی سے متصل ہو گئی اور ان کے چوتھے آسمان پر ہونے میں اس طرف اشارہ ہے کہ آپ کی روح کے فیضان کا جائے صدور اس سورج کے آسمان کی روحانیت ہے جو دنیا جہان کے دل سے مشابہ ہے اور آپ کا مرجع بھی اسی کی طرف ہے اور وہ روحانیت ایک نور ہے جو اس آسمان کو اپنے عشق سے منور کرتا ہے اور اس کے نفس پر شعاعوں کا چمکنا اسی کی تحریک سے ہے اور چونکہ حضرت عیسی کا مرجع اس کی اصل جائے قرار کی طرف ہے اور اپنے کمال حقیقی تک رسائی نہیں پا سکتا لہذا آپ آخری زمانہ میں کسی دوسرے وجود کے ساتھ نزول فرمائیں گے.

Page 90

فلیمی پاکٹ بک 68 80 وفات مسیح اور علماء مصر حصہ اوّل (1) علامہ رشید رضا سابق مفتی مصر وایڈیٹر رسالہ المنار الْقَوْلُ بِهِجْرَةِ الْمَسِيحِ إِلَى الْهِنْدِ وَمَوْتِهِ فِي بَلْدَةِ سِرِيُنكر فِي كَشمیر کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں.فَفِرَارُه إِلَى الْهِنْدِ وَمَوْتُهُ فِي ذَلِكَ الْبَلْدَةِ لَيْسَ بِبَعِيدٍ عقلا ونقلا - رساله المنار جلد 6 زير تفسير سورة النساء : 158) ترجمه: مسیح کا ہندوستان جانا اور ان کی اس شہر ( سرینگر ) میں موت عقل و نقل کی رو سے بعید نہیں.(2) علامہ مفتی محمد عبده معنوں کی تائید میں لکھا ہے : آپ نے آیت إِنِّي مُتَوَفِّیک کی تفسیر میں حضرت ابن عباس کے التَّوَفِّى عَلَى مَعْنَاهُ الظَّاهِرُ الْمُتَبَادِرُ وَ هُوَ الْإِمَاتَةُ - (المنار جلد3 زیر تفسير سورة آل عمران : 56) کہ یہاں تَوَفَّی سے موت مراد ہے اور ظاہر اور متبادر انہم یہی معنی ہیں.(3) الاستاذ محمود شلتوت سابق مفتی مصر و ریکٹر الا زہر یونیورسٹی، قاہرہ نے اپنے فتوئی میں تفصیلی طور پر وفات مسیح کے تمام پہلوؤں پر بحث کی ہے اور بڑی

Page 91

تعلیمی پاکٹ بک 69 69 حصہ اول وضاحت سے لکھا ہے کہ وفات مسیح کے قائل مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا قطعا جائز نہیں بحث کے آخر پر لکھتے ہیں : 1 - إِنَّهُ لَيْسَ فِى الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ وَلَا فِي السُّنَّةِ الْمُطَهَّرَةِ مُسْتَنَدٌ يَصْلَحُ لِتَكْوَيْنِ عَقِيدَةٍ يَطْمَئِنُّ إِلَيْهَا الْقَلْبُ بِأَنَّ عِيسَى رُفِعَ بِجَسَدِهِ إِلَى السَّمَاءِ وَ إِنَّهُ إِلَى الأَن فِيهَا.2.إِنَّ كُلَّ مَا تُفِيدُ الْآيَاتُ الْوَارِدَةُ فِي هَذَا الشَّانِ هُوَ وَعْدُ اللَّهِ عِيسَى بِأَنَّهُ مُتَوَفِّيْهِ أَجَلَهُ وَرَافِعَهُ إِلَيْهِ وَعَاصِمَهُ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَأَنَّ هَذَا الْوَعْدَ قَدْ تَحَقَّقَ فَلَمْ يَقْتُلُهُ أَعْدَاءُ هُ وَلَمْ يَصْلُبُوهُ وَلَكِن وَفَّاهُ اللهُ اَجَلَهُ وَرَفَعَهُ إِلَيْهِ.یہ فتویٰ سب سے پہلے الرسالة 15 مئی 1942 ء جلد 1 صفحہ 642 میں شائع ہوا اور بعد میں الفتاویٰ کے نام سے مجموعہ فتاوی علامہ شلتوت میں الادارة العامة للثقافة الاسلامية بالازهر کے زیر اہتمام شائع ہوا).ترجمه: - 1- قرآن کریم اور سنت مطہرہ میں کوئی ایسی مستند نص نہیں ہے جو اس عقیدہ کی بنیاد بن سکے اور جس پر دل مطمئن ہو سکے کہ عیسی علیہ السلام مع اپنے جسم کے آسمان پر اُٹھائے گئے اور وہ اب تک وہاں موجود ہیں.2.اس بارے میں جتنی آیات ( قرآن کریم میں ) وارد ہیں ان کا مفاد صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عیسی علیہ السلام سے وعدہ تھا کہ وہ خود ان کی عمر پوری کر کے وفات دے گا اور ان کا اپنی طرف رفع کرے گا اور انہیں ان کے منکرین سے محفوظ رکھے گا اور یہ وعدہ پورا ہو چکا ہے چنانچہ ان کے دشمنوں نے انہیں نہ قتل کیا نہ صلیب دے سکے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مقدر عمر پوری کی اور پھر ان کا رفع اپنی طرف کیا.

Page 92

تعلیمی پاکٹ بک 70 حصہ اول نوٹ :.اس فتویٰ کے علاوہ علامہ موصوف نے مسیح علیہ السلام کی وفات اور رفع کے متعلق ایک مبسوط مضمون از ہر یونیورسٹی کے رسالہ مجلة الازهر فروری 1960ء کے انگریزی حصہ میں THE ASCENSION OF JESUS کے عنوان سے شائع کروایا تھا.جس کا ترجمہ نظارت اصلاح وارشاد نے رفع عیسی کے نام سے شائع کیا ہے.(4) الاستاذ احمد العجوز اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ جس کا عکس ہمارے پاس موجود ہے.أَنَّ السَّيِّدَ الْمَسِيحَ قَدُمَاتَ فِي الْأَرْضِ حَسُبَ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ اَى مُمِيتُكَ وَالْمَوْتُ أَمْرٌ كَائِنْ لَا مَحَالَةَ إِذْ قَالَ اللهُ عَنْ لِسَانِهِ وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ اَمُوْتُ.ترجمه: یقیناً سیدنا مسیح زمین میں وفات پاچکے ہیں.اللہ تعالیٰ کے قول انِي مُتَوَفِّيكَ کے مطابق ( اور اس کے معنی ہیں ) کہ میں تجھے موت دینے والا ہوں اور موت بہر حال واقع ہونے والی چیز ہے.جبکہ اللہ تعالیٰ نے مسیح کی زبان سے فرمایا کہ سلامتی ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا.(5) الاستاذ مصطفیٰ المراغی اپنی تفسیر میں زیر آیت يَعِيسى انى مُتَوَفِّیک لکھتے ہیں.وَفِي هَذَا بِشَارَةٌ بِنَجَاتِهِ مِنْ مَكْرِهِمْ وَاسْتِيْفَاءِ أَجَلِهِ وَأَنَّهُمْ لَا يَنَالُونَ مِنْهُ مَا كَانُوايُرِيدُونَ بِمَكْرِهِمْ وَخُبُثِهِمْ وَأَنَّ التَّوَفِّى هُوَ الْاِمَاتَةُ الْعَادِيَةُ وَأَنَّ الرَّفْعَ بَعْدَهُ لِلرُّوحِ.....وَالْمَعْنَى إِنِّي مُمِيْتُكَ وَجَاعِلُكَ بَعْدَ الْمَوْتِ فِي مَكَانٍ رَفِيْعِ عِنْدِي كَمَا قَالَ

Page 93

تعلیمی پاکٹ بک 71 فِي إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيّاً.(تفسير المراغی جلد اول زیر تفسیر سورة آل عمران : 56) حصہ اول ترجمہ اس آیت میں اس امر کی بشارت ہے کہ مسیح (اپنے دشمنوں کی ) تدابیر سے نجات پائے گا اور اپنی عمر کی مدت حاصل کر لے گا اور یہ کہ اس کے دشمن اپنے خبث اور تدابیر کے بل پر اس سے جو حاصل کرنا چاہتے تھے اس میں وہ کامیاب نہیں ہوں گے.اور توفی سے روزمرہ کی موت مراد ہے اور رفع موت کے بعد روح کیلئے ہے اور معنی یہ ہیں کہ میں تجھے موت دوں گا اور موت کے بعد تجھے اپنے حضور بلند مرتبہ پر فائز کروں گا جیسا کہ اور میں علیہ السلام کے بارے میں بھی فرمایا ہے وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا کہ ہم نے اُس کو بلند مقام دیا.(6) الاستاذ عبدالکریم الشریف تحریر فرماتے ہیں.وَالْمَسِيحُ عَلَيْهِ السَّلَامُ طَبْعًا كَمَا يَذْكُرُ الْقُرْآنُ قَدْ تَوَفَّاهُ اللَّهُ وَرَفَعَهُ إِلَيْهِ وَطَهَّرَهُ مِثْلَ مَا يَتَوَفَّانَا وَيَرْفَعُنَا إِلَيْهِ- (النفحة من التاويل) ترجمہ اور مسیح علیہ السلام بھی طبعا جیسا کہ قرآن کریم نے ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دی اور پھر ان کا اپنی طرف رفع فرمایا اور ان کو پاک کیا جیسا کہ وہ ہمیں وفات دیتا ہے اور ہمیں اپنی طرف اٹھاتا ہے.(7) الاستاذ عبدالوب النجار حضرت عیسی علیہ السلام کی سوانح میں آیت قرآنی وَ كُنتُ عَلَيْهِمُ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي کا ذکر کر کے لکھتے ہیں: وَإِنَّهُ كَانَ يُرَاقِبُهُمْ وَيُسَدِّدُهُمْ بِالنَّصَائِحِ إِلَى وَفَاتِهِ وبَعْدَ

Page 94

تعلیمی پاکٹ بک 72 حصہ اوّل ذلِكَ كَانَ اللهُ الرَّقِيبَ عَلَيْه (قصص الانبياء صفحه 468 زیر عنوان موقف المسيح في اليوم الآخر) ترجمہ : اور مسیح علیہ السلام اپنی وفات تک اپنی قوم کی نگرانی فرماتے رہے اور نصائح کے ذریعہ اپنی وفات تک انہیں سیدھا کرتے رہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر نگران تھا.(8) ڈاکٹر احمد زکی ابو شادی ارجنٹائن کے مشہور عربی رسالہ المواهب میں اپنے تحقیقی مضمون ”هل القرآن معجزة ؟“ میں لکھتے ہیں: وَالْإِسْلَامُ يَعْرِفُ أَنَّ اللَّهَ فِي كُلِّ مَكَانٍ وَأَنَّهُ نُورُ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ فَعِبَارَةُ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ لَيْسَتْ لِمَعْنَا هَا الْمَادِيِّ أَيْ رَفْعُهُ إِلَى السَّمَاءِ حَسْبَ تَفْكِيْرِ الْمَسِيحِيِّينَ.....فَالرَّفْعُ هُنَا بِمَعْنِي الْأَخْذِ وَالتَّكْرِيمِ خُفْيَةً بِعَكْسِ حِقَارَةِ الْمَوْتِ صُلْبَاً كَمَا يُقْتَلُ الْمُجْرِمُونَ وَالتَّفَاسِيرُ الْأُخْرَى الَّتِي اَخَذَ بِهَا بَعْضُ شُرَّاحِ الْمُسْلِمِينَ هِيَ أَقْرُبُ إِلَى التَّفَاسِيرِ الشَّعْرِيَّةِ مِنْهَا إِلَى الْمَنْطِقِ السَّلِيمِ لَأَنَّ ثِقَا هَةَ أَصْحَابِهَا العِلْمِيَّةَ مَحْدُودَةٌ.(المواهب 1955ء ) ترجمہ اسلام کا معروف عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے اور وہ آسمان و زمین کا نور ہے پس رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ اپنے مادی معنوں میں نہیں ہے کہ اللہ نے مسیح کو آسمان پر عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق اٹھالیا..بلکہ رفع کے معنی یہاں بچانا اور اعزاز دینا ہے برعکس حقیر صلیبی موت کے جو مجرموں کو دی جاتی ہے.اور دوسری تفاسیر جنہیں بعض مسلمان مفسرین نے بھی اختیار کیا ہے وہ منطق سلیم کی بجائے شاعرانہ تفاسیر ہیں.اور ان مفسرین کی ثقاہت علمی نہایت محدود ہے.

Page 95

فلیمی پاکٹ بک 73 وفات مسیح اور علمائے ہند و پاکستان حصہ اول (1) حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :.پیغمبر گفت اندر شبِ معراج آدم صفی الله و يوسف صدیق و موسیٰ کلیم الله و هارون حلیم الله و عیسی روح الله و ابراهیم خلیل الله صلوات الله عليهم اجمعين على نبينا و عليهم اندر آسمانها دیدم لا محاله آن ارواح ایشان بود.(کشف المحجوب باب فى فرق فرقهم في مذاهبهم.الكلام في الروح ) اس کا مطبوعہ ترجمہ یوں کیا گیا ہے:.اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے معراج کی رات آدم صفی اللہ اور یوسف صدیق.موسی کلیم اللہ اور ہارون اور عیسی روح اللہ اور ابراہیم خلیل اللہ صلوۃ اللہ علیہم اجمعین کو آسمان پر دیکھا.ضرور وہ ان کی روحیں ہوں گی.(کشف المحجوب مترجم اردو فصل ششم.روح کے بیان میں صفحہ 294 مطبوعہ مطبع عزیزی لا ہور 2 132ھ ) (2) مولانا عبید اللہ سندھی تحریر فرماتے ہیں:.وَمَعْنى مُتَوَفِّيْكَ مُمِيْتُكَ وَأَمَّا مَا شَاعَ بَيْنَ النَّاسِ مِنْ حَيَاةِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ فَهِيَ أَسْطُورَةٌ يَهُورِيَّةٌ وَصَابِيَّةٌ.....وَلَا

Page 96

74 حصہ اول تعلیمی پاکٹ بک يَخْفى أَنَّ مَرْجِعَ الْعُلُومِ الْإِسْلَامِيَّةِ.....هُوَ الْقُرْآنُ الْعَظِيمُ وَلَيْسَ فِيْهِ آيَةٌ تَدُلُّ صَرَاحَةً عَلَى أَنَّ عِيسَى لَمْ يَمُتُ وَأَنَّهُ حَيٌّ سَيَنزِلُ إِلَّا الْإِسْتِنْبَاطَاتِ وَتَفْسِيرَاتِ مِنَ الْبَعْضِ وَلَا يَخْلُو ذِلِكَ مِنْ شَكُورٍ وَشُبَهِ وَمَا كَانَ بِهِذِهِ الْمَثَابَةِ كَيْفَ يُمْكِنُ أَنْ نَتَّخِذَهُ مَبُنى بِعَقِيدَةٍ إِسْلَامِيَّةٍ.الهام الرحمان فى تفسير القرآن الجزء الثاني زير تفسير سورة آل عمران : 56 (3 ترجمه : مُتَوَفِّیک کے معنی ہیں میں تجھے موت دوں گا.اور عیسی علیہ السلام کی زندگی کے بارہ میں جو کچھ لوگوں میں مشہور ہے وہ ایک یہودی اور صابی افسانہ ہے...یہ بات مخفی نہیں کہ علوم اسلامی کا مرجع قرآن عظیم ہے اور اس میں ایک آیت بھی ایسی نہیں جو صراحت کے ساتھ ثابت کرتی ہو کہ عیسی علیہ السلام نے وفات نہیں پائی اور کہ وہ زندہ ہیں اور عنقریب نازل ہوں گے.سوائے ( بعض لوگوں کے ) استنباط اور استدلالات اور تفاسیر کے اور یہ آراء و استدلالات شک وشبہ سے بالا نہیں ہیں.پس ان کو ایک اسلامی عقیدہ کی بنیاد کس طرح مانا جاسکتا ہے.3 نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی صاحب لکھتے ہیں.وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ.دو طرح سے آدمیوں کو مار ڈالنے کا دستور تھا.ایک صلیب پر لٹکا رہنے دینے سے.یہ سزاسنگین جرائم کے مرتکبوں اور غلاموں کو دی جاتی تھی.جو تین چار روز صلیب پر لٹکے ہوئے بھوک پیاس کی شدت اور زخموں کے درد اور دھوپ کی تپش اور دورانِ خون کی سُوء مزاجی سے مرجاتے تھے اور دوسری قسم دفعہ

Page 97

تعلیمی پاکٹ بک 75 حصہ اول جان سے مارڈالنے کی تھی اور وہ دو طرح سے تھی :.(1) سنگسار کرنا.(2) تلوار سے قتل کرنا.اس لیے قرآن مجید میں دونوں قسموں کی موت سے انکار ہوا ہے کہ نہ تو حضرت عیسی کو پتھراؤ کر کے یا تلوار سے مارا اور نہ صلیب پر چڑھا کے مارا.یہ بات یا درکھنی چاہیے کہ یہود کا ایسا بیان ہے کہ پہلے حضرت عیسی سنگسار کر لئے گئے.چنانچہ یہود کی کتاب شنا اور تالمود یوروشلم اور تالمود بائبل سنہد ریم کے بیان میں ایسا ہی لکھا ہے (دیکھوار بسط بیان کا تذکرہ مسیح باب 25 صفحہ 284) اور عیسائیوں کا بیان ہے کہ وہ صلیب پر مارے گئے اس لئے قرآن میں ان دونوں باتوں پر اشارہ ہے وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ یعنی قتل بذریعہ سنگساری ہوا اور نہ قتل بذریعہ صلیب ہوا.نہ یہ کہ وہ مطلق صلیب پر چڑھائے ہی نہیں گئے کیونکہ مطلق صلیب کی نفی کچھ مفید نہیں ہے کیونکہ صلیب پر ہاتھوں میں میخ ٹھوکنے اور پیر باندھ دینا اور پھر تین گھنٹے بعد اُتار لینا مار ڈالنے کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ تصلیب کی نفی سے صلیبی موت مراد ہے.وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ مگر صورت بنادی گئی اور اس طور کہ حضرت عیسی ان لوگوں کو جو صلیب کا اہتمام کر رہے تھے مُردہ نظر آئے کیونکہ وہ تمام شب کے جاگنے اور صدمات کی برداشت اور میخوں کی اذیت سے غشی یا بے ہوشی میں آگئے تھے.اس سے انہوں نے سمجھا کہ یہ مر گئے مگر چونکہ اس وقت موسم اچھا تھا یعنی ابر چھا رہا تھا (متی 27/45.مارق 10/23 لوق 23/44) دھوپ کی تکلیف نہ تھی اور پھر وہ جلدی ہی اُتار لئے گئے اس وجہ سے زیادہ صدمہ نہیں پہنچا.

Page 98

76 حصہ اوّل تعلیمی پاکٹ بک حشویہ اور عامہ مفسرین نے اس جملے کی تفسیر میں یہ معنی لگائے ہیں کہ حضرت عیسی کی صورت ایک اور شخص پر القاء کی گئی یہ محض ایک سفسطہ ہے ورنہ ہم اپنے مخاطبوں یا مخالفوں کو ایسا ہی سمجھ سکتے ہیں کہ جب ہم ان میں ایک شخص مخصوص کو دیکھیں اور وہ دراصل وہ نہ ہو بلکہ کسی اور کی صورت اس پر القاء ہوئی ہو تو اس سے تو معاملات پر سے اعتبار جاتا رہتا ہے اور نکاح و طلاق اور ملک پر وثوق نہیں رہتا.اگر ہم شبہ کو سیخ کی طرف مُسند کرتے ہیں جیسا کہ عامہ مفسرین کرتے ہیں تو یہ غلط ہے کیونکہ وہ مشبہ بہ ہیں نہ کہ مشتبہ اور اگر اس خیالی اور غیر واقعی شخص کی طرف، جو مقتول ہوا بتلاتے ہیں، مسند کرتے ہیں تو اس کا ذکر کچھ قرآن میں نہیں.وَإِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتبَاعَ الظَّنِ.اور جو لوگ اس میں یعنی ان کی صلیبی موت کی نسبت باتیں نکالتے ہیں وہ اس جگہ شبہ میں پڑ جاتے ہیں اور کچھ نہیں.ان کو اس کی خبر مگر انکل پر چلنا.ہم نے دفعہ 16 میں بیان کیا ہے کہ یہ اختلاف کیا تھا.یعنی ایک تو یہود کا قول کہ ہم نے قتل کیا.دوسرے عام عیسائیوں کا عقیدہ کہ وہ قتل ہوئے.تیسرے فرقہ با سالید یاں اور سرن تہیان کا قول کہ ان کی جگہ یوسف شمعون قتل ہوئے تھے چوتھے برنباس کا قول کہ ان کی جگہ یہودا اسکر یوطی قتل ہوا.ان سب کو قرآن نے فرمایا ہے کہ انکل پر چلتے ہیں.اس میں سے کسی بات کا ان کو قطعی علم نہیں ہے چنانچہ حضرت مسیح کا صلیب پر نہ مرنا تو ہم نے مقدمات 7-8.9 میں ثابت کیا ہے اور کسی اور کا اُن کی جگہ مصلوب ہو جانا ایک بے ثبوت بات ہیں اور قرائن اس کے خلاف ہے کیونکہ شمعون قرینی بعد

Page 99

تعلیمی پاکٹ بک 77 حصہ اول میں عرصہ تک زندہ رہا اور عیسائیوں کی جماعت میں شامل اور شریک رہا اور یہودا اسکر یوطی کا حال بھی معلوم ہے کہ وہ بعد میں مر گیا.وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا اور اس کو اچھی طرح سے قتل نہیں کیا یعنی جیسا قتل کرنے کا حق تھا و یا قتل نہیں کیا یا یقیناً قتل نہیں کیا.اور کیونکر وہ یقینا قتل ہو سکتے تھے حالانکہ وہ صرف تخمیناً تین گھنٹے صلیب پر رہے اور وہ موت کے لئے کافی نہیں ہے.بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ بلکہ خدا نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا.خدا کی طرف جانا یا اُٹھا لیا جانا ایسا ہی ہے جیسے حضرت ابراہیم نے فرمایا: انِي ذَاهِب إلى رَبِّي سَيَهْدِيْنِ - (صفت : 100) اور مہاجروں کی نسبت کہا وَمَنْ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إلى الله - (النساء : 101) یہ بات تعظیم و تشریف و تــفـخـیـم کے طور پر کہی جاتی ہے نہ یہ کہ وہ در حقیقت آسمان کی طرف بادلوں میں اُڑتے ہوئے نظر آئے اور کسی آسمان پر جا بیٹھے.ان باتوں کی ہمارے ہاں کوئی اصل نہیں ہے بعد میں حضرت عیسیٰ یقیناً مر گئے جس کی خبر قرآن مجید میں دوسری جگہ دی گئی ہے.إِذْ قَالَ اللهُ يُعِيْنَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى - (آل عمران : 56 جس کی تفسیر میں مفسرین نے بہت کچھ پس و پیش کیا ہے بلکہ اس کو بالکل الٹ دیا ہے وہ یوں پڑھتے ہیں: رَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُتَوَفِّيْكَ

Page 100

تعلیمی پاکٹ بک 78 حصہ اوّل مگر اصلی قرآن کی تو یہ عبارت نہیں ہے اگر مفسرین نے کوئی نیا قرآن بنایا ہو تو اس میں ہوگی.پھر دوسری جگہ اور بھی صاف ہے:.فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ - (المائدة : 118) کہ حضرت عیسی جناب باری سے عرض کریں گے جب تو نے مجھے وفات دے دی تب تو اُن پر نگہبان رہا.ان دونوں آیتوں میں وفات کا ذکر ہے اور یہ موت کی دلیل ہے.اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا.(الزمر : 43) پس ان کی وفات کی خبر بہت صاف ہے مگر یہ بات کہ وہ کب مرے اور کہاں مرے معلوم نہیں.جیسے کہ حضرت مریم کا حال پھر کچھ معلوم نہ ہوا حالانکہ حضرت عیسی نے ان کو یوحنا حواری کے سپرد کیا تھا اور یوحنا حواری صاحب تصنیف بھی تھے پھر بھی کچھ حال ان کا نہیں لکھا اور حضرت مسیح تو دشمنوں سے پوشیدہ دُور کے دیہات میں چلے گئے تھے.انتخاب مضامین تہذیب الاخلاق جلد سوم صفحہ 211 تا 222 مطبوعہ 1896ء) (4) سرسید احمد خان بانی علی گڑھ یونیورسٹی آپ اپنی تفسیر میں وفات مسیح پر تفصیل سے بحث کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.اب ہم کو قرآن مجید پر غور کرنا چاہئے کہ اس میں کیا لکھا ہے قرآن مجید میں حضرت عیسی کی وفات کے متعلق چار جگہ ذکر آیا ہے.....پہلی تین آیتوں سے حضرت عیسی کا اپنی موت سے وفات پانا علانیہ ظاہر ہے مگر چونکہ علماء اسلام نے بہ تقلید بعض فرق نصاری کے قبل اس کے کہ مطلب قرآن مجید پر غور کریں یہ تسلیم کر لیا تھا کہ حضرت عیسی زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اس لئے انہوں نے ان آیتوں کے بعض

Page 101

تعلیمی پاکٹ بک 79 الفاظ کواپنی غیر حق تسلیم کے مطابق کرنے کو بے جا کوشش کی ہے.( پوری تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر احمدی مصنفہ سرسید احمد خان جلد 2 صفحہ 47،46) (5) مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم حصہ اول آپ ڈاکٹر انعام اللہ خان سالاری ، بلوچستان کے ایک استفسار مرقومه 6/ اپریل 1956 ء کے جواب میں لکھتے ہیں: وفات مسیح کا ذکر خود قرآن مجید میں ہے مرزا صاحب کی تعریف اور بُرائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.( ملفوظات آزاد مرتبہ محمد اجمل خان صفحه 129 ، 130 مطبوعہ مکتبہ ماحول کراچی) (6) شاعر مشرق علامہ اقبال جہاں تک میں نے اس تحریک کی منشاء کو سمجھا ہے احمدیوں کا یہ اعتقاد کہ مسیح کی موت ایک عام فانی انسان کی موت تھی اور رجعت مسیح گویا ایسے شخص کی آمد ہے جو روحانی حیثیت سے اس کا مشابہ ہو، اس خیال سے یہ تحریک معقولی رنگ رکھتی ہے.(خطبات مدراس) (7) علامہ محمد عنایت اللہ المشرقی بانی خاکسار تحریک آپ اپنی مشہور تصنیف تذکرہ میں تفصیل سے وفات مسیح علیہ السلام پر تاریخی شہادات پر بحث کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں اس میں یہ عبرت انگیز سبق موجود ہے کہ حضرت عیسی کی موت بھی اسی سنت اللہ کے مطابق واقع ہوئی تھی.جس کی بابت قرآن نے کہا ہے.فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا - (فاطر: 44) تذکرہ جلد اوّل حاشیہ دیباچہ صفحہ 16 ، 17 )

Page 102

تعلیمی پاکٹ بک 80 (8) غلام احمد صاحب پرویز ایڈیٹر ماہنامہ طلوع اسلام دو -1 حصہ اول آپ نے وفات مسیح پر اپنی تصانیف میں سیر حاصل بحث کی ہے.شعلہء مستور“ میں آپ لکھتے ہیں.تصریحات بالا سے یہ حقیقت سامنے آ گئی کہ قرآن کریم نے کس طرح یہودیوں اور عیسائیوں کے اس خیال اور باطل عقیدہ کی تردید کر دی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب دیا گیا تھا.باقی رہا عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ آپ زندہ آسمان پر اٹھالئے گئے تھے تو قرآن سے اس کی بھی تائید نہیں ہوتی بلکہ اس میں ایسے شواہد موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے دوسرے رسولوں کی طرح اپنی مدت عمر پوری کرنے کے بعد وفات پائی.شعله مستور شائع کرده اداره طلوع اسلام لا ہور صفحہ 80 زیر عنوان وفات مسیح) حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسی کے زندہ آسمان پر اُٹھالئے جانے کا تصوّر مذہب عیسائیت میں بعد کی اختراع ہے.یہودیوں نے مشہور کر دیا ( اور بظاہر نظر بھی ایسا ہی آتا تھا ) کہ انہوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر قتل کر دیا ہے حواریوں کو معلوم تھا کہ حقیقت حال یہ نہیں لیکن وہ بھی بہ تقاضائے -2 مصلحت اس کی تردید نہیں کر سکتے تھے.(شعله مستور صفحه 90 زیر عنوان رفع الى السماء ) (9) سید ابوالاعلیٰ مودودی نے وفات مسیح کا اقرار تو نہیں کیا لیکن وہ لکھتے ہیں:.قرآن کی رُو سے زیادہ مطابقت اگر کوئی طرز عمل رکھتا ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ رفع جسمانی کی تصریح سے بھی اجتناب کیا جائے اور موت کی تصریح سے بھی بلکہ مسیح علیہ السلام کے اٹھائے جانے کو اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ کا

Page 103

تعلیمی پاکٹ بک 81 حصہ اول ایک غیر معمولی ظہور سمجھتے ہوئے اس کی کیفیت کو اسی طرح مجمل چھوڑ دیا جائے جس طرح خود اللہ تعالیٰ نے مجمل چھوڑ دیا ہے.“ (مولانا مودودی پر اعتراضات کا علمی جائزہ مصنفہ مولوی محمد یوسف حصہ اول صفحہ 169)

Page 104

فلیمی پاکٹ بک 88 82 نزول مسیح وظهور مهدی حصہ اوّل احادیث نبویہ میں ابن مریم کے نزول کی جو پیشگوئی وارد ہے ہمارے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ اُمت محمدیہ کا امام مہدی آخری زمانہ میں حضرت عیسی بن مریم کے رنگ میں رنگین ہو کر دنیا کی اصلاح کے لئے آنے والا تھا.گویا ابن مریم کا لفظ احادیث نبویہ میں اس بات کے لئے ایک استعارہ تھا کہ ایک شخص اُمت محمدیہ میں سے حضرت عیسی علیہ السلام کا ہم صفت اور مثیل ہو کر ظاہر ہو گا کسی لفظ کے بطور استعارہ استعمال کے اگر ضروری قرائن موجود ہوں تو اس لفظ کو بطور مستعار سمجھا جائے گا اور اگر قرائن موجود نہ ہوں تو اس کا استعمال بطور حقیقت ہو گانہ کہ بطور استعارہ.نزول مسیح کی چند حدیثیں درج ذیل ہیں:.(1).بخاری شریف.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ.(بخاری کتاب احادیث الانبياء باب نزول عيسى ) ترجمہ: اے مسلمانو ! تمہاری کیسی حالت ہوگی جب تمہارے درمیان ابن مریم نازل ہوگا اس حال میں کہ وہ تم میں سے تمہارا امام ہوگا.(2).حضرت ابو ہریرہ سے ہی مروی ہے: لَيُوشِكُنَّ أَنْ يَنزِلَ فِيُكُمُ بُنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْحَرُبَ.(بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم مطبوعه مجتبائی )

Page 105

تعلیمی پاکٹ بک 83 حصہ اول ترجمہ : قریب ہے کہ تم میں ابن مریم حکم و عدل کی حیثیت میں نازل ہواور صلیب کو توڑے اور خنزیر کو قتل کرے اور جنگ کو روکے.(3) صحیح مسلم.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم علی نے فرمایا:.كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَانَزَلَ بْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ فَأَمَّكُمُ مِنْكُمْ.(صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ ابن مریم....) دوسری روایت میں جو اس روایت سے بعد درج ہے متن حدیث کے یہی الفاظ ظاہر کر کے لکھا ہے.قَالَ بْنُ أَبِي ذَتُبٍ تَدْرِي مَا أَمَّكُمُ مِنْكُمْ قُلْتُ تُخْبِرُنِي قَالَ فَأَمَّكُمْ بِكِتَابِ رَبِّكُمْ عَزَّوَجَلَّ وَسُنَّةِ نَبِيِّكُمُ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - (صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ ابن مریم....) ترجمہ : ابن ابی ذئب نے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ فَلَمَّكُمُ مِنْكُمُ کے کیا معنی ہیں؟ میں نے کہا آپ ہی بتا ئیں تو انہوں نے کہا کہ مسیح تمہارے رب کی کتاب اور تمہارے نبی کی سنت کے مطابق امامت کریں گے.(4) ابو ہریرہ کی یہ روایت بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:.لَيَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيْبَ وَلَيَقْتُلَنَّ.الْخِنْزِيرَ وَلَيَضَعَنَّ الْجِزْيَةَ وَلَيْتُرَ كُنَّ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَىٰ عَلَيْهَا.( صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی ابن مریم....مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 494 مطبوعہ بیروت) ترجمه : ضرور نازل ہوگا ابن مریم حکم و عدل کی حیثیت میں پھر وہ صلیب کو ضرور توڑے گا.اور خنز بر وضر ورقتل کرے گا اور جزیہ کوضرور موقوف کر دے گا اور اونٹنیوں کو ضرور چھوڑ دیا جائے گا پس وہ ضروری مہمات کیلئے استعمال

Page 106

تعلیمی پاکٹ بک 84 حصہ اول نہیں کی جائیں گی.( گویا نئی سواریاں نکل آئیں گی اس لئے تیز رفتاری کا کام اونٹنیوں سے نہیں لیا جائے گا ) صحیح مسلم میں نواس بن سمعان سے روایت میں آنے والے مسیح کے لئے عیسی نبی اللہ کے الفاظ چار مرتبہ استعمال ہوئے ہیں فَيَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِیسَی.(5) مسند احمد بن جنبل میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمُ أَنْ يُلْقَى عِيسَى بُنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَّهْدِيّاً وَّ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الخِنْزِيرَ....الخ (مسند احمد حنبل جلد 2 صفحه 411 مطبوعه بيروت) ترجمه : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا : قریب ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کرے در آنحالیکہ وہ امام مہدی اور حکم و عدل ہوگا پس وہ صلیب کو توڑے گا اور خنزیر مارے گا.اس حدیث سے ظاہر ہے کہ امام مہدی اور مسیح موعود ایک ہی شخص ہو گا اور اس کے مختلف کاموں کے لحاظ سے اس کے دو نام ہوں گے.(6) محمد بن خالد الجندی سے مروی ہے:.لا يَزْدَادُ الامْرُ إِلَّا شِدَّةٌ وَلَا الدُّنْيَا إِلَّا إِدْبَارًا وَّلَا النَّاسُ الَّا شُحاً....وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى بْن مَرْيَمَ - (ابن ماجه کتاب الفتن باب شدة الايمان ) ترجمه : معاملات میں شدت اور دنیا میں ادبار اور لوگوں میں بخل بڑھ جائے گا....اور عیسی بن مریم کے سوا کوئی مہدی نہیں.اس حدیث سے ظاہر ہے کہ مہدی اور عیسی موعود دو شخص نہیں.لیکن ان دو احادیث کے باوجود ابن مریم یا عیسی بن مریم کے الفاظ سے

Page 107

تعلیمی پاکٹ بک 85 حصہ اوّل بعض علماء میں یہ غلط فہمی ہوئی کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے خا کی جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں اتریں گے اور اسی غلط فہمی کی وجہ سے انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق وفات کے معنی پر مشتمل الفاظ مُتَوَفِّيكَ اور تَوَفَّيْتَنِی کی تاویل کی اور ان کے معنی روح اور جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر اُٹھا لینا کر لئے حالانکہ یہ آیات وفات مسیح پر نص صریح ہیں.خود مفسرین کو انہی احادیث کی بناء پر وفات کی یہ تاویل کرنا مسلم ہے: إِنَّمَا احْتَاجَ الْمُفَسِّرُونَ إِلَى تَأْوِيلِ الْوَفَاةِ بِمَا ذُكِرَ لِاَنَّ الصَّحِيحَ اَنَّ اللهَ رَفَعَهُ إِلَى السَّمَاءِ مِنْ غَيْرِ وَفَاةٍ.فتح البیان جلد 2 صفحه 246 زیر تفسیر آل عمران : 56) ترجمه مفترین ( مسیح کے بارے میں ) الوفاۃ کی تاویل کرنے میں مجبور تھے.جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے.کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسی کو آسمان پر بغیر وفات کے اٹھالیا ہے.ایک دوسرا گروہ جس نے آیات قرآنیہ کی تاویل نہ کی اور ان کو اصل معنی پر رکھ کر یہ گروہ وفات مسیح کا قائل تھا اس نے آیات قرآنیہ کی تاویل کی بجائے احادیث نبویہ کی تاویل کی اور عیسی بن مریم کے نزول سے حضرت عیسی علیہ ا کے ایک ہم صفت شخص کا ظہور تسلیم کیا.یا نزول عیسی بن مریم سے مراد امام مہدی میں مسیح کا بروزی ظہور تسلیم کیا.چنانچہ امام سراج الدین ابن الوردی نے مسیح کے اصالتاً نزول کی تصدیق کے بعد ایک دوسرے گروہ کا عقیدہ یوں لکھا ہے: السلام قَالَتْ فِرْقَةٌ مِّنْ نُزُولِ عِيسَى حَرُوجُ رَجُلٍ يُشْبِهُ عِيسَى فِي الْفَضْلِ وَالشَّرَفِ كَمَا يُقَالُ لِلرَّجُلِ الْخَيْرِ مَلَكٌ وَالشَّرِيرِ شَيْطَانٌ تَشْبِيْهَا بِهِمَا وَلَا يُرَادُ الْأَعْيَان (خريدة العجائب وفريدة الرغائب صفحه 263 مطبوعه مصر)

Page 108

تعلیمی پاکٹ بک 86 98 حصہ اوّل ترجمہ : ایک گروہ نے نزول عیسی سے ایک ایسے شخص کا ظہور مراد لیا ہے جو فضل و شرف میں عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ ہوگا.جیسے تشبیہ دینے کے لئے نیک آدمی کو فرشتہ اور شریر کو شیطان کہتے ہیں مگر اس سے مراد فرشتہ یا شیطان کی ذات نہیں ہوتی.واضح رہے کہ جماعت احمدیہ کا بھی یہی عقیدہ ہے.محمد اکرم صاحب صابری اقتباس الانوار میں لکھتے ہیں: بعض بر آنند که روح عیسی در مهدی بروز کند ونزول عبارت از این بروز است مطابق ایس حدیث لا مهدی الا عیسی ابن مریم.(صفحہ 52) ترجمہ: بعض کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسی کی روحانیت مہدی میں بروز (ظہور ) کرے گی اور حدیث میں لفظ نزول سے مراد یہ بروز ہی ہے مطابق اس حدیث کے کہ نہیں ہے مہدی مگر عیسی بن مریم.علا مہ میبذی نے بھی شرح دیوان میں لکھا ہے.روح عیسی علیہ السلام در مہدی علیہ السلام بروز کند و نزول عیسی ایں بروز است - (غاية المقصود صفحه 21) حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں:.وَجَبَ نُزُولُه فِي آخِرِ الزَّمَانِ بِتَعَلَّقِهِ بَبَدَنِ اخَرَ.(تفسیر عرائس البيان جلد 1 صفحه 262 مطبوعه نول کشور) کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول آخری زمانہ میں ایک دوسرے بدن ( وجود ) کے ساتھ ضروری ہے.

Page 109

تعلیمی پاکٹ بک بروز کی حقیقت 87 حصہ اوّل (1) شیخ محمد اکرم صابری اسی جگہ بروز کے معنی یہ بیان فرماتے ہیں:.روحانیت كَمَّل گا ہے برار باب ریاضت چناں تصرف می فرماید فاعل افعال او می گردد و این مرتبه را صوفیه بروز می گویند - : (اقتباس الانوار صفحہ 51) ترجمه کامل لوگوں کی روحانیت ارباب ریاضت پر ایسا تصرف کرتی ہے کہ وہ روحانیت ان کے افعال کی فاعل ہو جاتی ہے اس مرتبہ کو صوفیاء بروز کہتے ہیں.(2).خواجہ غلام فرید آف چاچڑاں شریف فرماتے ہیں.وَالْبُرُوزُ اَنْ يُفِيُضَ رُوحٌ مِنْ أَرْوَاحِ الْكُمَّلِ عَلَى كَامِلٍ كَمَا يُفِيضُ عَلَيْهِ التَّجَلّيَاتُ وَهُوَ يَصِيرُ مَظْهَرَهُ وَيَقُولُ أَنَا هُوَ - اشارات فریدی حصه دوم صفحه (110) ترجمه : بروز یہ ہے کہ کاملین کی ارواح میں سے کوئی روح کسی کامل انسان پر افاضہ کرے جیسا کہ اس پر تجلیات کا افاضہ ہوتا ہے اور وہ اس کا مظہر بن جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں وہی ہوں.(3).حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز قرار دے کر کہتے ہیں.هذَا وَجُودُ جَدَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا وَجُودَ عَبْدِ الْقَادِرِ.گلدسته کرامات صفحہ 8 مؤلفہ مفتی غلام سرور صاحب مطبوعه افتخار دہلوی)

Page 110

تعلیمی پاکٹ بک 8 88 حصہ اوّل ترجمه : میرا وجود میرے دادا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے عبد القادر کا وجود نہیں.اس عبارت میں حضرت شیخ عبدالقادر علیہ الرحمۃ نے اپنا فنا فی الرسول ہونے کا مقام بیان کیا ہے گویا کہ فنافی الرسول کا مقام حاصل کرنے کی وجہ سے آپ کا وجود بروزی طور پر آنحضرت ﷺ کا وجود بن گیا نہ کہ اصالتاً.چونکہ آنحضرت ﷺ کی وفات ثابت ہے اس لئے یہ امر استعارہ کے لئے قرینہ حالیہ ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر علیہ الرحمۃ نے اپنے آپ کو فنافی رسول ہونے کی وجہ سے بروزی طور پر استعارة محمد علی قرار دیا ہے.مسیح موعود علیہ السلام کا بروزی نزول اس طرح چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات نصوص قرآنیہ و حدیثیہ سے ثابت ہے اس لئے نزول ابن مریم کا مفہوم یہی ہو سکتا ہے کہ امت محمدیہ کا امام مہدی ہی عیسی علیہ السلام کا بروز ہو گا اور اسے حدیثوں میں عیسی علیہ السلام کا مشابہ اور مثیل ہونے کی وجہ سے ابن مریم اور عیسی بن مریم کا نام دیا گیا.امام مہدی کیلئے ابن مریم کا نام بطور استعارہ مسند احمد بن حنبل اور ابن ماجہ کی ہر دو احادیث اس بات کی مؤید ہیں کہ عیسی بن مریم امت محمدیہ کے امام مہدی کا ہی صفاتی نام ہے جو اسے بطور استعارہ دیا امام فخر الدین رازی نے لکھا ہے:.إِطْلَاقُ إِسْمِ الشَّيْءِ عَلَى مَايُشَابِهُهُ فِى أَكْثَرِ خَوَاصِهِ وَصِفَاتِهِ جَائِزٌ حَسَنٌ - تفسير كبير جلد 2صفحه 689)

Page 111

ا پاکٹ بک 89 حصہ اوّل یعنی کسی چیز کا نام دوسری چیز پر جو اس کی اکثر خواص اور صفات میں مشابہت رکھے اطلاق کرنا جائز اور مستحسن ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن مجید میں وارد ہے.قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُوْلًا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ أَيْتِ اللَّهِ مُبَيِّنَتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ.(الطلاق: اا) اس آیت میں آنحضرت ﷺ کے نزول کی خبر دی گئی ہے جبکہ آپ اپنی والدہ کے بطن سے پیدا ہوئے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا اس لئے اجلال اور اکرام کے طور پر آپ کے لئے نزول کا لفظ استعمال فرمایا.اسی طرح احادیث نبویہ میں مثیل عیسی کے لئے نزول کا لفظ اکراماً استعمال کیا گیا ہے جبکہ بحیثیت امام مہدی اُمت میں وہ اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہونے والا تھا.دوسری بات اس آیت سے یہ ظاہر ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم سے مشابہ ہونے کی وجہ سے استعارہ ذکر قرار دیا گیا ہے.علامہ محمد اسماعیل حقی اپنی تفسیر روح البیان میں لکھتے ہیں.اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذِکر سے جو قرآن مجید میں ہے شدید ملابست ( شدید تعلق) کی وجہ سے تشبیہ دی گئی ہے فأطلق عَلَيْهِ اِسْمُ الْمُثَبَّهِ بِهِ إِسْتِعَارَةً تَصْرِيحِيَّةً.اس طرح مشبه كوجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مشبه به کانام استعاره تصریحیہ کے طور پر دیا گیا ہے.اس سے یہ واضح ہوا کہ آنحضرت ﷺ حقیقتاذکر نہیں.استعارہ اور مجاز کے طور پر آپ کو ذِکر قرار دیا گیا ہے.ویسے ہی پیشگوئی میں عیسی بن مریم کا لفظ

Page 112

تعلیمی پاکٹ بک 90 حصہ اول امت محمدیہ کے مسیح موعود کے لئے استعارہ ہے.حقیقتا مسیح بن مریم کا آسمان سے اترنا مراد نہیں.کنیت بھی بطور استعارہ استعمال ہو سکتی ہے علامہ زمخشری نے آیت لهذا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ کی تفسیر میں لکھا ہے.مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ قیامت کو جو رزق ملے گا یہ اس رزق کی مانند ہے جو ہمیں پہلے دیا گیا.نہ کہ حقیقت وہی رزق.ناقل ) اور دلیل (یعنی قرینہ ) اس کا وَاتُوا بِهِ مُتَشَابِهَا ہے ( یعنی وہ دنیا کے رزق سے ملتا جلتا رزق دیئے جائیں گے ).ناقل اس کی مثال میں علامہ زمخشری لکھتے ہیں: هذَا كَقَوْلِكَ اَبُوْ يُوْسُفَ أَبُو حَنِيْفَةَ تُرِيدُ أَنَّهُ لِاسْتِحْكَامِ الشَّبُهِ كَانَ ذَاتَهُ ذَاتُهُ.(تفسير الكشاف جلد 1 صفحه 261 زیر تفسير سورة البقرة : 26) : ترجمہ قیامت کے رزق کو دنیا کا رزق قرار دینا تیرے اس قول کی مانند ہے کہ ابو یوسف ابوحنیفہ ہیں اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ دونوں کے درمیان مستحکم مشابہت کی وجہ سے گویا ابو یوسف کی ذات کو ابوحنیفہ کی ذات ہی قرار دیا گیا ہے.اس لئے ابو یوسف کہنے کی بجائے ابو حنیفہ کہہ کر مرا دا بو یوسف لیا جاتا ہے.علامہ عبید اللہ بن مسعود حنفی اپنی کتاب التوضیح میں لکھتے ہیں.اسْتِعَارَةِ اِسْمِ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهَ تَعَالَى لِرَجُلٍ عَالِمٍ فَقِيْهِ مُتَّقٍ.التوضيح صفحه (184) یعنی ایک عالم متقی فقیہ شخص کو استعارہ کے طور پر ابوحنیفہ کہا جاتا ہے.اس طرح صحیح بخاری کی حدیث میں مذکور ہے کہ ہر قل قیصر روم کے دربار

Page 113

تعلیمی پاکٹ بک 91 میں ابوسفیان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں یہ فقرہ کہا.لَقَدْ أَمِرَ اَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبُشَةَ يَخَافُهُ، مَلِكَ بَنِي أَصْفَرِ.حصہ اول (بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحي ) کہ ابن ابی کبشہ کا کام تو خوب بن گیا کہ رومیوں کا بادشاہ بھی اس سے ڈرتا ہے.اس فقرہ میں اعلانِ توحید میں ابن ابی کبشہ سے مشابہت کی وجہ سے ابوسفیان نے استعارہ کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابن ابی کبشہ قرار دیا ہے حالانکہ آپ محمد بن عبداللہ تھے.حیی علیہ السلام ایلیا کے بُروز بائبل میں ایلیا (الیاس علیہ السلام) کے آنے کی پیشگوئی کو حضرت عیسی علیہ السلام نے یوحنا ( یحیی علیہ السلام) کے وجود میں پورا ہونا قرار دیا ہے جس سے یہی مراد ہے کہ وہ بیٹی علیہ السلام کو ایلیا کا بر وز قرار دیتے ہیں.تفصیل اس کی یوں ہے : کتاب ملا کی باب 4 آیت 5 میں لکھا ہے : دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشر میں ایلیا نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا.اس سے یہودی یہ سمجھتے تھے کہ ایلیا کا سچے مسیح سے پہلے آسمان سے آنا ضروری ہے.کتاب سلاطین کے مطابق ان کا عقیدہ تھا کہ ایلیا رتھ سمیت بگولے میں سوار ہو کر آسمان پر چلا گیا.2.سلاطین باب 2 آیت 12) مسیح سے سوال کیا گیا کہ اگر تم سچے ہو تو ایلیا کہاں ہے؟ مسیح نے یوحنا کو ایلیا قرار دیتے ہوئے جواب دیا.

Page 114

تعلیمی پاکٹ بک 92 حصہ اول سب نبیوں اور توریت نے یوحنا کے وقت تک آگے کی خبر دی اور ایلیا جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو.جس کے کان سُننے کے ہوں سنے.متی باب 11 آیت 13 ،14) نزول کی حقیقت : ہم بتا چکے ہیں کہ نزول کا لفظ مجاز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بطور ا کرام استعمال کیا گیا.قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر شے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل ہوتی ہے مراد یہ ہے کہ آسمانی یعنی خدائی فیصلے کے نتیجہ میں ہی سب اشیاء کا ظہور ہوتا ہے مندرجہ ذیل آیات اس پر شاہد ہیں.1 - وَإِنْ مِنْ شَيْ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَابِنُهُ وَمَا نُنَزِّلَةَ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ - اس آیت میں ہر چیز کا آسمان سے نازل ہونا مذکور.2 يُنَزِّلُ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاءِ رِزْقًا.رزق زمین پر پیدا ہوتا ہے.(الحجر:22) ہے.(المومن : 14 ) اس آیت میں ہر رزق کا آسمان سے نزول ہونا مذکور ہے.حالانکہ بظاہر 3 - وَلَوْ بَسَط اللهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلكِنْ يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ اس آیت میں بھی رزق کا نزول مذکور ہے.4 - وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمُنِيَةَ أَزْوَاجِ - اس آیت میں چارپایوں کا نزول مذکور ہے.(الشورى : 28) (الزمر : 7) 5- يُبَنِى أَدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْاتِكُمْ وَرِيْشًا.(الاعراف : 27)

Page 115

تعلیمی پاکٹ بک 93 93 حصہ اول اس آیت میں لباس کا نزول مذکور ہے حالانکہ وہ زمین پر تیار ہوتا ہے.6 - وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيْهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ.(الحديد : 26) اس آیت میں لوہے کا نزول مذکور ہے حالانکہ وہ زمینی کانوں سے نکلتا ہے.کسی صحیح حدیث میں عیسیٰ ابن مریم کے لئے نزول کے ساتھ سماء کا لفظ موجود نہیں.لیکن اگر سماء کا لفظ مذکورہ بھی ہوتا تب بھی اس سے مراد ابن مریم کا اصالتاً آنا نہ لیا جا سکتا کیونکہ عیسی بن مریم کی وفات نصوص قرآنیہ سے ثابت ہے جو اس بات کیلئے قرینہ حالیہ ہے کہ وہ اصالتاً نازل نہیں ہوں گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَيُمْسِ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ (الزمر: 43) کہ جس روح کو موت کے ذریعہ قبض کر لیا جائے اُسے خدا رو کے رکھتا ہے یعنی دوبارہ دنیا میں نہیں بھیجتا.ویسے ہر شے اور بالخصوص موعودا شیاء آسمان سے ہی آتی ہیں ان معنی میں کہ ان کے ظہور میں آسمانی اسباب کا دخل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَ فِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوعَدُونَ گئے ہو.(الذريات: 23) کہ آسمان میں تمہارا رزق ہے اور ہر وہ شے جس کا تم وعدہ دیئے پس وہ مسیح جس کے آخری زمانہ میں آنے کا وعدہ دیا گیا وہ ایک رنگ میں آسمان سے ہی آیا ہے.ابن مریم کے استعارہ کے لئے قرینہ، لفظیہ ابن مریم کے بروزی نزول کے متعلق وفات مسیح کے حالیہ قرینہ کی موجودگی کے علاوہ احادیث نبویہ میں قرینہ لفظیہ بھی موجود ہے.جو اِمَامُكُمْ مِنْكُمُ اور فَأَمَّكُمُ مِنْكُمُ اور عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اِمَامًا مَهْدِيَّا کے الفاظ ہیں اور پھر طبرانی

Page 116

تعلیمی پاکٹ بک 94 حصہ اوّل کی حدیث کے یہ الفاظ بھی کہ أَلَا إِنَّهُ خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِی کہ وہ میری اُمت میں میرا خلیفہ ہے.ان سب حدیثوں میں یہ مذکور ہے کہ مسیح موعود امت محمدیہ کا امام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوگا.لیکن ہو گا اُمت سے.باہر سے نہیں آئے گا.کیونکہ آیت استخلاف میں یہ وعدہ ہے کہ اس اُمت کے ائمہ وخلفاء امت میں سے ہی ہوں گے البتہ وہ اس اُمت سے پہلے گزرے ہوئے خلفاء سے مشابہ ہوں گے.پس حضرت عیسی علیہ السلام کے مشابہ تو کوئی خلیفہ آ سکتا ہے خود حضرت عیسی علیہ السلام کا اصالتاً نزول آیت استخلاف کی رُو سے محال اور ممتنع ہے کیونکہ اس سے مشبہ اور مشبہ بہ کا عین ہونا لازم آتا ہے جو محال ہے.حیات سیخ پر اجماع کا دعوی باطل ہے اوپر کی بحث سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ میچ کی حیات اور وفات کے متعلق دو خیال مسلمانوں میں موجو د رہے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ حیات مسیح کے عقیدہ پر امت میں کبھی اجماع نہیں ہوا.البتہ جیسا کہ ہم نے ثابت کر دیا ہے وفات مسیح پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ثابت ہے پس وفات مسیح کے عقیدہ کو ہی اجماعی دلیل ہونے کا حق حاصل ہے.اسی طرح نزول ابن مریم کے بارہ میں بھی دو خیال کے مسلمان موجود رہے ہیں.ایک گروہ ابن مریم کے اصالتا نزول کا قائل رہا اور دوسرا بروزی صورت کا قائل.لہذا حضرت مسیح علیہ السلام کے اصالتا آسمان سے نازل ہونے پر بھی اجماع ثابت نہیں.لہذا مفسرین کے جو اقوال اس بارہ میں منفر دا نہ حیثیت کے ہیں وہ حجت اور دلیل نہیں بن سکتے ماسوائے اس کے فقہ حنفیہ کی رُو سے آئندہ ہونے والے امور

Page 117

تعلیمی پاکٹ بک 95 حصہ اول کے متعلق جو پیشگوئیاں ہوں اُن کے کسی خاص معنی اور مفہوم پر اجماع نہیں ہوسکتا.چنانچہ شیخ محب اللہ بن عبدالشکور اپنی کتاب مسلم الثبوت میں لکھتے ہیں:.أَمَّا فِى الْمُسْتَقْبِلَاتِ كَاَشْرَاطِ السَّاعَةِ وَأُمُورِ الْآخِرَةِ فَلَا (اجُمَاعَ) عِنْدَ الْحَنْفِيَّةِ لِاَنَّ الْغَيْبَ لَا مَدْخَلَ فِيْهِ لِلِاجْتِهَادِ.(مسلم الثبوت مع شرح صفحه 521 الاصل الثالث الاجماع) یعنی جو باتیں مستقبل سے تعلق رکھتی ہیں جیسے علامات قیامت ترجمه (جن میں نزول ابن مریم بھی شامل ہے.ناقل ) اور امور آخرت ان میں حنفیوں کے نزدیک اجماع نہیں ہوسکتا.کیونکہ امور غیبیہ میں اجتہاد اور رائے کو کوئی دخل نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے:.ر مسیح موعود کا آسمان سے اترنا محض جھوٹا خیال ہے.یاد رکھو کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولا د جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر اولاد کی اولا د مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں

Page 118

تعلیمی پاکٹ بک 96 96 حصہ اول گے.اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور 66 پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ (تذكرة الشهادتين.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 67)

Page 119

فلیمی پاکٹ بک 40 97 مسئلہ ختم نبوت حصہ اول جماعت احمدیہ کا اس بات پر ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی سورۃ الاحزاب کے مطابق خاتم النبیین ہیں اور یہ وصف اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے سوا کسی اور نبی کو نہیں ملا.مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین قرار دیا گیا ہے جیسا کہ لکھا ہے.صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ مُحَمَّدٍ سَيِّدِ وُلْدِ آدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ.تذکرہ صفحہ 60 مطبوعہ 2004ء) ترجمه درود بھیج محمد اور آل محمد پر جو سر دار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے.( صلی اللہ علیہ وسلم ) پس بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق اگر کوئی یہ کہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے تو اس کا یہ محض اتہام ہو گا جس کی تغلیط آپ کے الہامات اور وہ سینکڑوں حوالہ جات کرتے ہیں جن میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین قرار دیا ہے چنانچہ آپ ازالہ اوھام میں تحریر فرماتے ہیں:.ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سید نا ومولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین و خیرالمرسلین ہیں.

Page 120

تعلیمی پاکٹ بک 98 حصہ اول جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 169 ، 170) ہے.پھر اپنی جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا: عقیدہ کے رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور پر محمد یت کی چادر کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15، 16 ) پہنائی گئی.ان دونوں عبارتوں سے ظاہر ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کی جماعت خاتم النبیین کی آیت کی نص کی مصدق ہے نہ کہ مکذب.خاتم النبیین کے معنی آیت خاتم النبیین کے دو معنی ہیں.-1.ایک معنی بلحاظ لغت و محاورہ عرب وسیاق کلام.2.دوسرے معنی وہ عرفی معنی ہیں جو دراصل حقیقی لغوی معنی کولا زم ہیں.لازم المعنی کی وضاحت اور تعیین فقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام ومحدث حضرت امام علی القاری یوں فرماتے ہیں:.اَلْمَعْنى أنَّه لَا يَأْتِي نَبِيٌّ بَعْدَهُ يَنْسَخُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُنُ مِنْ أُمَّتِه.(موضوعات كبير صفحه 59 مطبوعه مطبع مجتبائی دهلی) ترجمه ( خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کی ملت ( شریعت ) کو منسوخ کر دے اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.

Page 121

تعلیمی پاکٹ بک 99 حصہ اول اس سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نئی شریعت لانے والا نبی آ سکتا ہے جو پہلی شریعت کو منسوخ کرے اور نہ امت محمدیہ سے باہر عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوؤں وغیرہ میں کوئی نبی آ سکتا ہے یہ معنی خاتمیت زمانی کہلاتے ہیں.وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِہ کے الفاظ میں اشارہ ہے کہ امت میں سے نبی کا ہونا آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں.لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی کا یہ مفہوم ہوا کہ آپ آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہیں ان معنی پر ساری امت کا اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع نبی اور آخری مستقل نبی ہیں اور جماعت احمدیہ ان معنوں سے پورا اتفاق رکھتی ہے یہ معنی خاتم النبین کے حقیقی لغوی معنی کو لازم ہیں.اہلسنت کے تمام فرقوں نے انہی معنوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانا ہے ان فرقوں میں سے کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلق آخری نبی نہیں مانا.کیونکہ ان سب کا عقیدہ ہے کہ آخری زمانہ میں حضرت عیسی علیہ السلام بحیثیت نبی اللہ اور امتی کے نازل ہوں گے.چنانچہ اس عقیدہ کی نمائندگی میں امام علی القاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں.لَا مُنَافَاةَ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ نَبِيًّا وَأَنْ يَكُونَ مُتَابِعًا لِنَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيَان اَحْكَامٍ شَرِيعَتِهِ وَالْقَانِ طَرِيقَتِهِ وَلَوْ بِالْوَحْيِ إِلَيْهِ كَمَا يُشِيرُ إِلَيْهِ قُوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا اتِّبَاعِى أَى مَعَ وَصْفِ النُّبُوَّةِ وَالرِّسَالَةِ وَإِلَّا مَعَ سَلْبِهِمَا فَلَا يُفِيدُ زِيَادَةَ الْمَزِيَّةِ.(مرقاة شرح مشكواة كتاب المناقب باب مناقب علی بن ابی طالب)

Page 122

تعلیمی پاکٹ بک 100 حصہ اوّل ترجمہ : حضرت عیسی علیہ السلام کے نبی ہونے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہونے میں کوئی منافاة ( تضاد ) نہیں اس صورت میں کہ وہ آپ کی شریعت کے احکام بیان کریں.اور اس شریعت کی طریقت کو پختہ کریں خواہ وہ یہ کام اپنی وحی کے ذریعہ کریں جیسا کہ حدیث لَوْ كَانَ مُوسَىٰ حَيًّا لَمَا وَسِعَه إِلَّا اتَّبَاعِی (اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا ) اس طرف اشارہ کر رہی ہے ( کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع نبی کا آنا ممتنع نہیں.ناقل ) مراد اس حدیث سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہے کہ موسیٰ وصف نبوت اور رسالت کے ساتھ زندہ ہوتے ورنہ نبوت اور رسالت چھن جانے کے ساتھ (ان کا تابع ہونا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کو کوئی فائدہ نہیں دیتا.پس جماعت احمد یہ اہل سنت کے تمام فرقوں سے اس بات میں اصولی طور پر متفق ہے کہ امت محمدیہ کا مسیح موعود نبی اللہ ہوگا.اگر اختلاف ہے تو اس پہلو میں کہ جماعت احمدیہ اور بعض اور لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آیت استخلاف کے الفاظ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النور: 56) کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام اُمتِ محمدیہ میں اصالتا نہیں آ سکتے بلکہ ان کا مثیل نبی اللہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہونے والا ہے اور یہ اختلاف جزوی ہے جن لوگوں پر وفات مسیح کی حقیقت کھل جائے ان کو بالآخر ہمارے ساتھ اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ حدیثوں کا موعود عیسی اُمتِ محمدیہ کا ایک فرد ہونا چاہئے.امام علی القاری کی طرح حضرت بانی سلسلہ احمدیہ بھی فرماتے ہیں.شریعت والا نبی کوئی نہیں آ سکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر 66 وہی جو پہلے امتی ہو.(تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 412)

Page 123

تعلیمی پاکٹ بک خاتم النبیین کے لغوی معنی 101 حصہ اوّل مفردات راغب میں جو قرآن مجید کی مستند لغت ہے لفظ ختم کے نیچے لکھا ہے:.اَلْحَتُمُ وَالطَّبْعُ يُقَالُ عَلَى وَجْهَيْنِ مَصْدَرُ خَتَمْتُ وَطَبَعْتُ وَهُوَ تَاثِيرُ الشَّيْءِ كَنَقْشِ الْخَاتَمِ وَالطَّابِعِ وَالثَّانِي اَلْاثْرُ الْحَاصِلُ عَنِ النَّقْشِ وَيُتَجَوَّزُ بِذلِكَ تَارَةً فِي الْإِسْتِيُثَاقِ مِنَ الشَّيْءِ وَالْمَنْعِ مِنْهُ اِعْتِبَارًا بِمَا يَحْصُلُ مِنَ الْمَنْعِ بَالْخَتُمِ عَلَى الْكُتُبِ وَالْاَبْوَابِ نَحْوُخَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَتَارَةً فِي تَحْصِيلِ اثْرِ عَنْ شَيْءٍ اِعْتِبَارًا بِالنَّقْشِ الْحَاصِلِ وَتَارَةً يُعْتَبَرُ مِنْهُ بَلَوْعَ الْأَخِرِ.وَمِنْهُ قِيلَ خَتَمُتُ الْقُرْآنَ أَى انْتَهَيْتُ إِلَى آخِرِه.(مفردات راغب مصنّفه امام راغب اصفهانی زیر لفظ ختم) ترجمه : ختم اور طبع کی دوصورتیں ہیں.پہلی صورت ( جو حقیقی لغوی معنی کی صورت ہے ) یہ ہے کہ یہ دونوں لفظ مصدر ہیں اور ان کے معنے خاتم (مہر) کے نقش پیدا کرنے کی طرح تاثیراشی ، ہیں.یعنی دوسری شے میں کسی شے کا اپنے اثرات پیدا کرنا ) اور دوسری صورت ختم اور طبع کی اس نقش کی تاثیر کا اثر حاصل ہے اور یہ لفظ مجازا بھی تو ختم عَلَى الْكُتُبِ والأبواب (کتابوں اور بابوں پر مہر لگنے ) کے لحاظ سے شے کی بندش اور روک کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسے ختم اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَ خَتَم عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ ( میں ) اس کا استعمال مجازی معنی میں ہوا ہے اور کبھی اس کے مجازی معنی نقش حاصل کے لحاظ سے کسی شے سے اثر پیدا کرانا ہوتے ہیں

Page 124

102 حصہ اول تعلیمی پاکٹ بک (جیسے خَتَمَ الزّراعة جبکہ بیج ڈالنے اور پانی دینے پر کھیتی آگ آئے اور کبھی اس کے مجازی معنی آخر کو پہنچنے کے ہوتے ہیں اور انہی معنی میں خَسَمت الْقُرْآنَ کہا گیا ہے کہ میں تلاوت قرآن میں اس کے آخر تک پہنچ گیا.ما حصل اس کا یہ ہے کہ ختم اور طبع کے پہلے معنی جو تا شیر انشئی اور اثر حاصل میں لغوی مصدری معنی ہیں اور باقی سارے معنی مجازی ہیں جن پر يُتَجَونُ کا لفظ دلالت کرتا ہے.واضح رہے کہ اثر نقش حاصل بھی حقیقی معنی نہیں بلکہ مجازی معنی ہیں جن کے آگے تَحْصِیلُ اثْرِ عَنْ شَیءٍ کے معنوں کا قیاس کیا گیا ہے اگر اثرِ نقش حاصل امام راغب کے نزدیک حقیقی معنی ہوتے تو ایک مجازی معنی کا ان پر قیاس نہ ہوتا.لفظ خاتم ، ختم سے اسم آلہ ہے اور خاتم اسم فاعل ہے خاتم کے معنی ہوں گے تاثیر کا ذریعہ یا آلہ اور خاتم کے معنی ہوں گے تاخیر کرنے والا.مآل دونوں معنوں کا مؤثر وجود ہو گا.جب اسے جمع کی طرف مضاف کیا جائے جیسے خاتم الاولیاء، خاتم الشعراء، خاتم الحکام وغیرہ تو معنی اس کے ہوں گے ایسا وجود جس کی تاثیر سے اولیاء یا شعراء یا حاکم وجود میں آئیں.اس لحاظ سے خاتم النبین کے بلحاظ لغت عربی ومحاورہ زبان عربی معنی ہوں گے.ایسا نبی جس کی مہر یعنی تاثیر سے انبیاء ظہور میں آئیں.ایسے نبی کیلئے ضروری ہے کہ وہ مرتبہ میں تمام انبیاء سے بڑھ کر ہو.ان معنی کو حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے آنحضرت ﷺ کی ذات میں تسلیم کر کے خاتمیت مرتبی قرار دیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں: عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں

Page 125

تعلیمی پاکٹ بک 103 حصہ اول مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخیر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے.(تحذیرالناس صفحہ 3 مطبوعہ سرکار پریس سہارنپور ) صحیح معنی آپ کے نزدیک یہ ہیں: 66 آنحضرت یہ موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور سوا آپ کے اور نبی موصوف بوصف نبوت بالعرض.اوروں کی نبوت آپ کا فیض ہے پر آپ کی نبوت کسی اور کا فیض نہیں.آپ پر سلسلہ نبوت مختم ہو جاتا ہے غرض 66 جیسے آپ نبی اللہ ہیں ویسے ہی نبی الانبیاء بھی.“ تحذیر الناس صفحہ 4 مطبوعہ سر کار پریس سہارنپور ) پھر مولا نا موصوف سیاق آیت اور لغت عربی کوملحوظ رکھتے ہوئے خاتم النبین کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:.جیسے خـاتـم بـفـتـح النساء کا اثر اور نقش مختوم علیہ میں ہوتا ہے ایسے موصوف بالذات (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کا اثر موصوف بالعرض ( دوسرے تمام انبیاء) میں ہوتا ہے.حاصل مطلوب آیه کریمه (وَ لكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ) اس صورت میں یہ ہوگا کہ ابوتِ معروفہ (جسمانی باپ ہونا ) تو رسول اللہ صلعم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوتِ معنوی (روحانی باپ ہونا ) امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے.انبیاء کی نسبت تو فقط آیت خاتم النبین شاہد ہے کیونکہ اوصاف معروض (مثلاً دیگر انبیاء کی نبوتیں ) وموصوف بالعرض (مثلاً دیگر انبیاء ) موصوف بالذات (مثلاً خاتم النبین ) کے فرع ہوتے ہیں.اور موصوف بالذات اوصاف عرضیہ کی اصل ہوتا ہے اور وہ اس کی نسل.......اور امتیوں کی

Page 126

تعلیمی پاکٹ بک 104 66 نسبت لفظ رَسُولَ اللهِ میں غور کیجئے.“ حصہ اوّل ( تحذیر الناس صفحہ 11،10 مطبوعہ سرکار پریس سہارنپور ) خاتم النبین کے ان مرتبی معنوں کا نتیجہ مولانا موصوف یہ بیان کرتے ہیں.ہاں اگر خاتمیت بمعنی اتصاف ذاتی بوصف نبوت لیجئے جیسا اس ہیچمدان نے عرض کیا ہے تو سوارسول اللہ صلعم اور کسی کو افراد مقصود بالخلق میں مماثل نبوی صلم نہیں کہہ سکتے.بلکہ اس صورت میں انبیاء کی افراد خارجی (انبیاء سابقین.ناقل ) ہی پر آپ کی افضیلت ثابت نہ ہوگی.افراد مقدره ( جن انبیاء کا آئندہ آنا تجویز کیا جائے.ناقل ) پر بھی آپ کی افضلیت ثابت ہو جائے گی بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا.“ استدلال: ( تحذیر الناس صفحہ 28 مطبوعہ سرکار پریس سہارنپور ) خاتمیت محمدی ، خاتمیت زمانی اور خاتمیت مرتبی دونوں کی جامع ہے.خاتمیت مرتبی کا تقاضا یہ ہے کہ آئندہ بھی نبی پیدا ہو سکتا ہے اگر خاتمیت زمانی کے ان کے نزدیک یہ معنی ہوتے کہ آئندہ کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا.تو پھر وہ یہ فقرہ نہ لکھتے کہ تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا.کیونکہ اس صورت میں تو خاتمیت زمانی ٹوٹ جاتی اور خاتمیت محمدی میں فرق آجاتا اور مولانا کا یہ فقرہ محض جھوٹ قرار پاتا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں خاتم النبین کے دو متضاد معنی پائے جانے کے قائل قرار پاتے جبکہ وہ دونوں معنی ایک دوسرے کے نقیض ہوتے.چونکہ اجتماع النقيضين یا اجتماع الضدين محال ہے اس لئے خاتمیت زمانی مولانا کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطلق آخری نبی ہونے کا مفہوم نہیں رکھتی

Page 127

تعلیمی پاکٹ بک 105 حصہ اول بلکہ آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہونے کا مفہوم رکھتی ہے اور اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع نبی پیدا ہوسکتا ہے اس سے خاتمیت مرتبی بھی قائم رہتی ہے اور خاتمیت زمانی بھی اور اجتماع النقيضين لازم نہیں آتا جو محال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دَنی فَتَدَلَّی کی تفسیر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات کا نقطہ ء مرکز یہ قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: 1 بجز ایک نقطہ مرکز کے اور جس قدر نقاط وتر ہیں ان میں دوسرے انبیاء ورسل وارباب صدق وصفا بھی شریک ہیں اور نقطہ مرکز اس کمال کی صورت ہے جو صاحب وتر کو بہ نسبت جمیع دوسرے کمالات کے اعلیٰ وارفع واخص وممتاز طور پر حاصل ہے جس میں حقیقی طور پر مخلوق میں سے کوئی اس کا شریک نہیں ہاں احتباع و پیروی سے ظلمی طور پر شریک ہوسکتا ہے.اب جاننا چاہئے کہ دراصل اسی نقطہ وسطی کا نام حقیقت محمدیہ ہے جو اجمالی طور پر جمیع حقائق عالم کا منبع واصل ہے.غرض سر چشمه رموز غیبی و مفتاح کنوز لا ریبی اور انسان کامل دکھلانے کا آئینہ یہی نقطہ ہے اور تمام اسرار مبدء ومعاد کی علت غائی اور ہر یک زیر و بالا کی پیدائش کی لیمیت یہی ہے جس کے تصور بالکنہ وتصور بکنہ سے تمام عقول و افہام بشریہ عاجز ہیں اور جس طرح ہر یک حیات خدائے تعالیٰ کی حیات سے مستفاض اور ہر یک وجود اس کے وجود سے ظہور پذیر اور ہر یک تعین اس کے تعین سے خلعت پوش ہے ایسا ہی نقطہ محمد یہ جمیع مراتب اکوان اور خطائر امکان میں باذنه تعالی حسب استعدادات مختلفه وطبائع متفاوته مؤثر ہے.سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 267 تا 271 حاشیہ )

Page 128

تعلیمی پاکٹ بک 106 حصہ اوّل اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ تمام انبیاء و اولیاء بلکہ تمام کائنات کی علت غائی ہیں.نیز تحریر فرماتے ہیں:.2.اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبین ٹھہرا.یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 100 حاشیہ) نیز تحریر فرماتے ہیں:.اور وہ خاتم الانبیاء بنے مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے بجز اس کی مُہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا ہے......سوخدا نے ان معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا لہذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص سچی پیروی سے اپنا امتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجود ھونہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پاسکتا ہے اور نہ کامل ملہم ہوسکتا ہے کیونکہ مستقل نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی ہے مگر ظلی نبوت جس کے معنی ہیں کہ محض فیض محمدی سے وحی پانا وہ قیامت تک باقی رہے گی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بند نہ ہو اور تا یہ نشان دنیا سے مٹ نہ جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت نے قیامت تک یہی چاہا ہے کہ مکالمات اور مخاطبات الہیہ کے دروازے کھلے رہیں اور معرفت الہیہ جو مدار نجات ہے مفقود نہ ہو جائے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 29، 30 )

Page 129

تعلیمی پاکٹ بک 107 بلحاظ سیاق آیت خاتم النبین تحریر فرماتے ہیں : حصہ اول خدا تعالیٰ نے جس جگہ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم الانبیاء ہیں اسی جگہ یہ اشارہ بھی فرما دیا ہے کہ آنجناب اپنی روحانیت کی رُو سے اُن صلحاء کے حق میں باپ کے حکم میں ہیں جن کی بذریعہ متابعت تکمیل نفوس کی جاتی ہے اور وحی الہی اور شرف مکالمات کا اُن کو بخشا جاتا ہے جیسا کہ وہ جــل شــانــه قرآن شریف میں فرماتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِینَ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ ہے اور خاتم الانبیاء ہے.اب ظاہر ہے کہ لکن کا لفظ زبان عرب میں استدراک کے لئے آتا ہے یعنی تدراک مافات کے لئے.سواس آیت کے پہلے حصے میں جوا مرفوت شدہ قرار دیا گیا تھا یعنی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے نفی کی گئی تھی وہ جسمانی طور سے کسی مرد کا باپ ہونا تھا سولکین کے لفظ کے ساتھ ایسے فوت شدہ امر کا اس طرح تدارک کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد براہِ راست فیوضِ نبوت منقطع ہو گئے اور اب کمال نبوت صرف اُسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مُہر رکھتا ہوگا.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 214،213) آیات قرآنیہ خاتم النبیین کی تفسیر میں قرآن مجید کی یہ شان ہے کہ وہ اپنی تفسیر آپ کرتا ہے لہذا جب آیت خاتم النبین کی تفسیر آیات قرآنیہ سے تلاش کی جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقی

Page 130

108 حصہ اوّل تعلیمی پاکٹ بک لغوی معنی میں بھی خاتم النبین نظر آتے ہیں جنہیں مولانامحمد قاسم خاتمیت مرتبی قرار دیتے ہیں اور خاتمیت زمانی کے معنی بھی خاتمیت مرتبی کو لازم دکھائی دیتے ہیں.آیت قرآنی الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدة:4) سے ظاہر ہے کہ اسلام ایک کامل شریعت ہے اور پھر شریعت قرآنیہ کے متعلق فرمایا ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ.(الحجر: 10) کہ بے شک ہم نے ہی ذکر (قرآن) نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.پس قرآنی شریعت کامل بھی ہے اور تا قیامت محفوظ بھی لہذا کوئی نئی شریعت لانے والا نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آ سکتا.آپ آخری شارع نبی ہیں اور یہ خاتمیت زمانی کے مفہوم کا پہلو ہے جو خاتم النبیین کے حقیقی معنی (نبیوں کیلئے مؤثر وجود ) کولازم ہے.خاتم النبین کے حقیقی معنی از روئے قرآن کریم: 1 : سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے دُعا سکھائی ہے: اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.ترجمہ: ہمیں سیدھی راہ پر چلا.ان لوگوں کی راہ پر جن پر تو نے انعام کیا نہ اُن کی راہ پر جن پر غضب نازل کیا گیا اور نہ گمراہوں کی راہ پر.استدلال:- اس آیت میں مَغضُوبِ عَلَيْهِمُ اور اَلضَّالِّين کے رستے سے بچنے کی دُعا سکھائی گئی ہے تا کہ ہم مغضوب اور ضال نہ بن جائیں اور انعام یافتہ لوگوں کے رستے پر چلنے کی دعا سکھائی گئی ہے تا کہ ہم بھی انعام یافتہ بن جائیں.

Page 131

تعلیمی پاکٹ بک 109 حصہ اول انعام یافتہ خدا تعالیٰ کے نزدیک چار گروہ ہیں چنانچہ فرماتا ہے اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيْنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ.(النساء:70) اس آیت میں نبیوں ،صدیقوں ،شہیدوں اور صالحین کے چار گروہوں کو انعام یافتہ قرار دیا گیا ہے.پس اس دعا کے سکھانے میں ایک پیشگوئی مدنظر ہے کہ امت محمدیہ میں چاروں گروہ کے افراد پیدا ہو سکتے ہیں نبی بھی، صدیق بھی، شہید بھی اور صالح بھی..2 وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَيكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيْنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أو لَكَ رَفِيقًا.ذلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللهِ وَكَفَى بِاللهِ عَلِيمًا.(النساء : 70، 71) ترجمہ: جو لوگ اللہ اور اس رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں ، صدیقوں، شہداء اور صالحین میں اور یہ لوگ بہت ہی اچھے رفیق ہیں.یہ فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ بہت جاننے والا ہے.استدلال: اس آیت میں آئندہ نبی ، صدیق ، شہید اور صالح بننے کے لئے اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو شرط قرار دیا گیا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت، صد یقیت ، شہادت اور صالحیت کی چاروں نعمتیں آپ کی اطاعت سے وابستہ ہیں اور نبی ، صدیق ، شہید اور صالح بننے کے لئے آپ کی اطاعت شرط ہے گو یہ چاروں مرتبے ملتے خدا کے فضل سے ہی ہیں.

Page 132

تعلیمی پاکٹ بک 110 حصہ اوّل اس آیت سے ظاہر ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا مستقل نبی نہیں آ سکتا جس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت شرط نہ ہو.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی رُو سے جہاں نبیوں کے آنے کے لئے مؤثر وجود قرار دیئے گئے ہیں وہاں آپ کی اطاعت کو شرط قرار دے کر مستقل اور شارع انبیاء کا انقطاع بھی بطور اشارۃ النص بیان کر دیا گیا ہے گویا اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی دونوں کا مصداق قرار دیا گیا ہے.ہاں نبیوں کے لئے موثر وجود بطور عبارۃ النص اور آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہونے کا ثبوت بطور اشارۃ النص بیان کیا گیا ہے.لفظ مع : لفظ مع عربی زبان میں فِی اور مِنْ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جس کا مفہوم اگلے گروہ میں شامل کرنا ہوتا ہے چنانچہ امام راغب الاصفہانی اپنی لغت مفردات القرآن میں فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِینَ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: أَى اجْعَلْنَا فِي زُمْرَتِهِمْ أَيْ إِشَارَةٌ إِلَىٰ قَوْلِهِ أُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ - ترجمه: (مفردات زیر لفظ كَتَبَ) فَاكْتُبْنَا مَعَ الشُّهِدِينَ کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں شاہدین کے زمرہ میں داخل کر دے اور شاھدین کے لفظ میں خدا کے قول او ليك مع الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَيْكَ رَفِيقًا کی طرف اشارہ ہے.گویا چاروں قسم کے مراتب پانے کا امت میں امکان ہے.نبی بھی، صدیق بھی ، شہدا ء بھی اور صالحین بھی.

Page 133

111 حصہ اول قرآن مجید میں ذیل کی آیات میں لفظ مَعَ مِنْ یا فی کے معنی میں تعلیمی پاکٹ بک استعمال ہوا ہے.1 - وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ - ہمیں ابرار کے زمرہ میں داخل کر کے وفات دینا.-2 (آل عمران: 194) إِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَاخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُونَكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ.(النساء: 147،146) ترجمہ : بے شک منافق جہنم کی گہرائی کے سب سے نچلے حصہ میں ہوں گے اور تو ہرگز کسی کو اُن کا مددگار نہیں پائے گا.سوائے ان منافقوں کے جنہوں نے توبہ کرلی اور اصلاح کرلی اور اللہ کے ذریعہ حفاظت چاہی اور اپنی عبادت کو اللہ کے لئے خالص کر دیا سو یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں (یعنی مومنوں میں شامل ہیں ) فَأُولَبِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ بھی جملہ اسمیہ ہے پہلی آیت میں فاوتيك مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ بھی جملہ اسمیہ ہے جملہ اسمیہ استمرار پر دلالت کرتا ہے اس سے ظاہر ہے کہ جس طرح تو بہ کرنے والے اسی دنیا میں مومنوں میں شامل ہو جاتے ہیں اسی طرح اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے اسی دنیا میں ان چاروں گروہوں میں سے کسی نہ کسی گروہ میں شامل ہوں گے.پس اس جگہ نہ معیت مکانی مراد ہو سکتی ہے نہ معیت زمانی کیونکہ یہ اطاعت کرنے والے اس دنیا میں نہ پہلے گزرے ہوئے نبیوں، صدیقوں شہیدوں اور صالحین کا زمانہ پاسکتے ہیں اور نہ اس دنیا میں اُن کے ساتھ ایک جگہ اکٹھے ہو سکتے ہیں پس معیت زمانی و مکانی تو اس جگہ محال ہے اور یہ بات قرینہ ہے کہ اس جگہ معیت فی الدرجہ مراد

Page 134

تعلیمی پاکٹ بک 112 حصہ اوّل ہے یعنی وہی درجہ پانا مراد ہے.تفسیر بحر المحیط میں زیر آیت طذ اعلامہ ابوحیان لکھتے ہیں :.وَالظَّاهِرُ اَنَّ قَوْلَه مِنَ النَّبِيِّينَ تَفْسِيرٌ لِلَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ فَكَأَنَّهُ قِيْلَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ مِنْكُمُ الْحَقَهُ اللهُ بِالَّذِينَ قَدَّمَهُمُ مِمَّنْ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمُ.البحر المحيط.تفسير سورة النساء : 69) یہاں تک قول علامہ ابو حیان کا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے.یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول مِنَ النَّبِيِّنَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ کی تفسیر ہے گویا یہ کہا گیا ہے کہ جو تم میں سے اللہ اور رسول کی اطاعت کرے اللہ تعالیٰ نے اُسے اُن لوگوں سے ملا دیا ہے جو انعام یافتہ لوگوں میں سے ان سے پہلے بھیجے.اس سے آگے امام راغب اصفہانی کا قول لکھتے ہیں: قَالَ الرَّاغِبُ مِمَّنْ اَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ الْفِرَقِ الْأَرْبَعِ فِي الْمَنْزِلَةِ وَالثَّوَابِ النَّبِيَّ بِالنَّبِيِّ وَالصِّدِّيقَ بِالصِّدِيقِ وَالشَّهِيدَ بِالشَّهِيدِ وَالصَّالِحَ بِالصَّالِحِ.(البحر المحيط.تفسير سورة النساء: 69) ترجمه : راغب نے کہا ہے یعنی ان چار گروہوں میں درجہ اور ثواب میں شامل کر دے گا جن پر اس نے انعام کیا ہے اس طرح کہ اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر کے نبی بننے والے کو نبی کے ساتھ شامل کر دے گا اور اطاعت کر کے صدیق بننے والے کو صدیق کے ساتھ شامل کر دے گا اور اسی طرح شہید کو شہید کے ساتھ ملا دے گا اور صالح کو صالح کے ساتھ ملا دے گا.

Page 135

113 حصہ اول تعلیمی پاکٹ بک پس اگر اس آیت کا یہ مفہوم قرار دیا جائے کہ یہ اطاعت کرنے والے نبی نہیں بن سکتے تو چونکہ النَّبيِّين اور اَلصِّدِّيقُین اور اَلشُّهَدَاءِ اور الصَّالِحِيْنَ ایک دوسرے کے ساتھ واؤ عاطفہ سے وابستہ ہیں.اس لئے معیت کا مفہوم چاروں کے لئے ایک ہی لینا پڑے گا.لہذا آیت کا مفہوم یہ بن جائے گا کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے والے نبی نہیں بن سکتے بلکہ صرف بظاہر نبیوں کے ساتھ ہوں گے.صدیق نہیں بن سکتے بلکہ بظاہر صدیقوں کے ساتھ ہوں گے.شہداء کا مرتبہ نہیں پاسکتے بظاہر شہیدوں کے ساتھ ہوں گے اور صالحین کا مرتبہ نہیں پاسکتے صرف بظاہر صالحین کے ساتھ ہوں گے.ایسے معنی اللہ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بزرگ کے منافی ہیں.کیونکہ اس طرح آیت کے یہ معنی بن جاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے کوئی آدمی نیک بھی نہیں بن سکتا صدیق، شہید تو کجا.اس آیت کا صحیح مفہوم یہی ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں نبوت ،صدیقیت ، شہادت اور صالحیت کے چاروں درجے مل سکتے ہیں.نبوت کی نعمت قومی ہے اور صدیقیت ،شہادت اور صالحیت شخصی افضال ہیں.نبوت کی نعمت قومی اس لئے ہے کہ نبی دنیا میں ضرورت پر آتا ہے.اگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں اس دنیا میں مقامِ نبوت نہ مل سکتا ہوتا بلکہ صرف صدیقیت ، شہادت اور صالحیت کا مقام ہی حاصل ہو سکتا تو پھر خدا یوں فرماتا.اُو لَكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصُّلِحِينَ.يُبَنِي أَدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَقُضُونَ عَلَيْكُمْ التِي -3

Page 136

فلیمی پاکٹ بک 114 حصہ اول فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا، (الاعراف : 36) ترجمہ: اے بنی آدم ! جب آئندہ تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں اور بیان کریں تم پر میری آیتیں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کریں اور اپنی اصلاح کر لیں نہ انہیں آئندہ کے متعلق کوئی خوف ہوگا نہ وہ ماضی کے متعلق غمگین ہوں گے.استدلال: لفظ يَأْتِيَنَّ پر نون تاکید رسولوں کے بھیجا جانے کو زمانہ مستقبل سے وابستہ کر رہا ہے اِما حرف شرط تاکید کا فائدہ دے رہا ہے یہ خطاب آئندہ زمانہ کے بنی آدم کو ہے پہلی ساری آیات مستقبل کیلئے قرینہ ہیں چنانچہ ایک آیت میں ہے: يبَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوْاوَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ.(الاعراف : 32) ترجمہ: اے بنی آدم ! ہر عبادت کے وقت زینت اختیار کرو (لباس پہن کر عبادت کرو) اور کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو کیونکہ خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.واضح ہو کہ عرب کے لوگ ننگے بدن طواف کعبہ کرتے تھے اس لئے یہ آیت نازل ہوئی.تفسیر اتقان میں لکھا ہے.هَذَا خِطَابٌ لِاهْلِ ذَلِكَ الزَّمَانِ وَلِكُلِّ مَنْ بَعْدَ هُمُ کہ یہ خطاب اس زمانہ کے لوگوں کیلئے ہے اور ان لوگوں کے لئے بھی جو ان کے بعد آنے والے ہیں.اس جگہ رسل کا لفظ عام مخصوص بالبعض ہے کیونکہ آیت وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ (النساء : 70) آئندہ رسول

Page 137

تعلیمی پاکٹ بک 115 حصہ اول کے لئے امتی ہونا شرط قرار دیتی ہے پس لفظ رُسل اس آیت میں اتنی نبی کیلئے مخصوص ہوگا.-4 بصير ترجمه اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَكَةِ رُسُلًا وَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيع (الحج : 76) اللہ چنتا ہے فرشتوں میں سے رسول اور لوگوں میں سے بھی.یقیناً اللہ تعالیٰ خوب سننے والا ، خوب دیکھنے والا ہے استدلال: اس آیت میں فرشتوں اور انسانوں میں سے رسول بھیجے جانے کے متعلق خدائی قانون بیان ہوا ہے وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ( خدائی سنت میں تم ہرگز تبدیلی نہیں پاؤ گے.) يَصْطَفى مضارع کا صیغہ ہے جو اس جگہ قانون بیان کرنے کی وجہ سے استمرار تجد دی کا فائدہ دیتا ہے.مضارع کے معنی حال کے بھی ہوتے ہیں اور مستقبل کے بھی._5 وَإِذْ أَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّنَ لَمَا أَتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَبٍ و حِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ - قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ اِمْرِى قَالُوا أَقْرَرْنَا - قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشُّهِدِينَ - (ال عمران: 82) ترجمہ : یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا البتہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت دی ہے پس اگر کوئی رسول تمہاری تعلیمات کا مصدق تمہارے پاس آئے تو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا.خدا نے پوچھا کیا تم

Page 138

تعلیمی پاکٹ بک 116 حصہ اول اقرار کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم گواہ رہو میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں.استدلال :- اس آیت سے ظاہر ہے کہ ہر نبی سے قوم کی نمائندگی میں بعد میں آنے والے نبی کے متعلق ایمان لانے اور نصرت کرنے کے لئے عہد لیا گیا یا یہ عہد ہر نبی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لیا گیا.قرآن مجید میں ہے کہ اسی قسم کا عہد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی لیا گیا چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيظًا لِيَسْتَلَ الصَّدِقِينَ عَنْ صِدْقِهِمْ ۚ وَأَعَدَّ لِلْكُفِرِينَ عَذَابًا أَلِيمًا - (الاحزاب : 9،8) ترجمہ یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے ان کا پختہ عہد لیا اور تجھ سے بھی اور نوح، ابراہیم ، موسیٰ اور عیسی ابن مریم علیہم السلام سے بھی اور ہم نے ان سب سے مضبوط عہد لیا تا کہ خدا تعالیٰ صادقوں سے ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے اور اس نے کافروں کیلئے درد ناک عذاب تیار کیا ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی نبیوں والا عہد لیا گیا ہے تا مسلمان آئندہ آنے والے رسول پر ایمان لائیں اور اس کی مدد تفسیر حسینی میں ہے:.وَإِذْ اَخَذْنَا یاد کرا سے کہ لیا ہم نے مِنَ النَّبِيِّنَ پیغمبروں سے مِینَاقَهُمُ عہد اُن کا اس بات پر کہ خدا کی عبادت کریں اور خدا کی عبادت کی

Page 139

تعلیمی پاکٹ بک 117 حصہ اول طرف بلائیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کریں...یا ہر ایک کو بشارت دیں اس پیغمبر کی کہ اُن کے بعد ہوں گے.اور یہ عہد پیغمبروں سے روز الست میں لیا تھا.وَمِنگ اور لیا ہم نے تم سے بھی عہداے محمدؐ.( تفسیر حسینی اُردو جلد 2 صفحه زیر تفسیر سورۃ الاحزاب: 8) 6 - وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا - (بنی اسرائیل : 16) ترجمه : خدا فرماتا ہے، ہم اُس وقت تک عذاب بھیجنے والے نہیں جب تک ہم رسول مبعوث نہ کریں.آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِنْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيِّمَةِ أَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيدًا كَانَ ذلِكَ فِي الْكِتَبِ مَسْطُورًا.(بنی اسرائیل : 59) ترجمه قیامت سے پہلے ہم ہر بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں یا سخت عذاب دینے والے ہیں.یہ امر کتاب ( تقدیر الہی) میں مقرر ہے.استدلال:- پہلی آیت سے ظاہر ہے کہ عذاب سے پہلے اتمام حجت کے لئے رسول کا آناضروری ہے اور دوسری آیت بتاتی ہے کہ قیامت سے پہلے عالمگیر عذاب آئے گا پس اس موقع پر ایک رسول کا آنا ضروری ثابت ہوا تا حجت پوری ہو اور نا فرمان لوگ یہ نہ کہ سکیں رَبَّنَا لَوْ لَا اَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ أَيْتِكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزُى - (طه: 135 ) یعنی اے ہمارے رب ! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اس سے پہلے کہ ہم ذلیل اور رُسوا ہوں.

Page 140

تعلیمی پاکٹ بک 118 حصہ اوّل -7 وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ - (النور: 56) ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ جو لوگ تم میں سے ایمان لا کر نیک عمل کریں گے وہ ضروان لوگوں کو خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو اُن سے پہلے گزر چکے اور ضرور ان کیلئے ان کا دین (خلافت کے ذریعہ ) مضبوط کرے گا.استدلال:.كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس اُمت کے خلفاء پہلی امتوں میں گزرے ہوئے خلفاء کے مثیل اور ان کے مشابہ ہوں گے.چونکہ پہلے گزرے ہوئے خلیفے دو قسم کے ہوئے ہیں بعض نبی اور بعض غیر نبی لہذا اس خلافتِ موعودہ منصوصہ میں بھی دونوں قسم کے خلفاء ہونے ضروری ہیں.غیر نبی خلفاء تو خلفائے راشدین اور مجد دین اُمت ہیں.مگر عیسی موعود کو حدیث میں نبی اور رسول بھی قرار دیا گیا ہے.اور أَلَا إِنَّهُ خَلِیفَتِي فِي أُمَّتِی کہہ کر اُمت میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بھی قرار دیا گیا ہے.(ملاحظہ ہو المعجم الاوسط للطبرانی جز نمبر 5 من اسمه عیسی حدیث نمبر 4898)

Page 141

فلیمی پاکٹ بک 119 امت میں امکان نبوت حصہ اول از روئے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خاتم النبیین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.1 - أَبُو بَكْرِ أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيٍّ.كنوز الحقائق في حديث خیر الخلائق صفحہ 4) :ترجمہ: ابوبکر اس اُمت میں سب سے افضل ہیں بجز اس کے کہ کوئی نبی امت میں پیدا ہو.2- ابُو بَكْرٍ خَيْرُ النَّاسِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيٌّ الجامع الصغير للسیوطی علیہ الرحمۃ جلد 1 حرف الهمز ، صفحہ 11 - دار الكتب العلمیة بیروت لبنان) ترجمه: ابوبکر (آئندہ کے لئے) سب لوگوں سے بہتر ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی پیدا ہو.استدلال:.يَكُونُ کا مصدر کون ہے جس کے معنی ہیں نیست سے ہست ہونا یا عدم سے وجود میں آنا حسب آیت.إِنَّمَا أَمْرُةَ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ.(يس: 83) ترجمه : خدا کا حکم تو ایسا ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اُسے کہتا ہے كُن ( ہوجا) تو وہ نیست سے ہست ہو جاتی ہے.

Page 142

تعلیمی پاکٹ بک استدلال:.120 حصہ اول إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيٌّ كا استثناء اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اُمت میں نبی پیدا ہونے کا امکان تھا اگر امکان نہ ہوتا تو استثناء کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی.واضح رہے کہ اس حدیث میں گان تامہ ہے نہ کہ نا قصہ.اسی لئے نَبِيٌّ کا لفظ استعمال ہوا ہے نہ کہ نَبِیاً.گان تامہ ہونا آئندہ نبی کے امکان پر روشن دلیل ہے.3 حدیث نبوی میں وارد ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے خواہش کی انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا نبی بنا دیا جائے.چنانچہ انہوں نے خدا کے حضور عرض کی.اجْعَلْنِي نَبِيَّ تِلْكَ الْأُمَّةِ.” مجھے اس امت کا نبی بنادیجئے“ خدا تعالیٰ نے جواب میں فرمایا:.نَبِيُّهَا مِنْهَا کہ اس اُمت کا نبی اس اُمت میں سے ہی ہوگا.پس اُمتِ محمدیہ میں نہ موسیٰ علیہ السلام بطور امتی نبی کے آسکتے ہیں نہ عیسی علیہ السلام بلکہ صرف امت میں سے ہی نبی ہونے کا امکان بیان کیا گیا ہے.(تفصیل کے لئے دیکھئے کفایة اللبيب فى خصائص الجيب المعروف بالخصائص الكبرى مرتبه امام جلال الدین السیوطی بروایت حضرت انس بن مالک نیز المواهب اللدنيه للقسطلاني صفحه 425) اس حدیث کو مولوی اشرف علی تھانوی نے بھی نشر الطیب کے صفحہ 262 پر درج کیا ہے اور ترجمان السنة میں مولوی بدر عالم میرٹھی نے اسے درج کر کے اس کی توثیق کی ہے کتاب الرحمة المهداة میں بھی یہ حدیث آئی ہے.(صفحہ 338)

Page 143

تعلیمی پاکٹ بک 121 حصہ اوّل -4 حدیث نبوی میں اپنے بیٹے صاحبزادہ ابراہیم علیہ السلام کی وفات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے حق میں فرمایا: لَوْعَاشَ إِبْرَاهِيمُ) لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا.(ابن ماجه كتاب الجنائز باب ماجاء في الصلاة على ابن رسول الله......ترجمه اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضر ور سچا نبی ہوتا.یہ فقرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا جبکہ اس سے پانچ سال پہلے آیت خاتم النبیین نازل ہو چکی تھی اس فقرہ سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آیت خاتم النبیین صاحبزادہ ابراہیم کے بالفعل نبی بننے میں روک نہ تھی.بلکہ صاحبزادہ موصوف کی وفات ان کے بالفعل نبی بننے میں روک ہوئی.اگر آیت خاتم النبیین اُن کے نبی بنے میں روک ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس فقرہ کی بجائے یہ فرماتے: لَوْعَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَمَا كَانَ نَبِيًّا لَاتِي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ.یعنی اگر ابراہیم زندہ بھی ہوتا تو بھی نبی نہ ہوتا کیونکہ میں خاتم النبیین ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فقرہ لَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا - ظاہر کرتا ہے کہ آیت خاتم النبین ان کے نبی بننے میں روک نہ تھی.دیکھئے اگر بالفرض یو نیورسٹی ایم.اے کا امتحان بند کر دے اور ایک شخص کا لائق لڑکا بی.اے تک پہنچ جائے اور وفات پا جائے تو اس وقت اس کا باپ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر میرا بیٹا زندہ رہتا تو وہ ایم.اے ہوتا.کیونکہ اس صورت میں یہ فقرہ جھوٹ بن جاتا کیونکہ اگر وہ زندہ بھی رہتا تو ایم.اے نہ ہو سکتا.پس مخبر صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقرہ بھی اسی وجہ سے صحیح قرار پاتا ہے کہ خاتم النبین کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 144

تعلیمی پاکٹ بک 122 حصہ اول کے نزدیک نبی کا آنا ممکن تھا اور آیت خاتم النبین آپ کے ماتحت نبی کے آنے میں روک نہ تھی.حدیث کی صحت وقوت بعض لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف قرار دے کر رڈ کرنے کی کوشش کی ہے.اور بعض نے اس کے یہ معنی لے کر کہ گویا صاحبزادہ ابراہیم اسی لئے فوت ہو گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا تھا.ان معنی میں اسے قبول کیا ہے.حضرت امام علی القاری ان لوگوں کے خیالات کو ر ڈ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.لَوْعَاشَ وَصَارَ نَبِيًّا وَكَذَا لَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِيًّا لَكَانَا مِنْ أَتْبَاعِةٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ.ترجمه: اگر صاحبزاده ابراهیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے اور اسی طرح اگر حضرت عمر نبی ہو جاتے تو وہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں سے ہوتے.یہ لکھ کر آگے اس اعتراض کا جواب کہ کیا ان کا نبی ہو جانا خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا یوں دیتے ہیں.فَلَا يُنَا قِضُ قَوْلُهُ تَعَالَى خَاتَمَ النَّبِيِّينَ إِذَا الْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَأْتِي نَبِيٌّ بَعْدَهُ يَنْسَخُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِه.(موضوعات كبير صفحه 58، 59 مطبوعه مطبع مجتبائی دهلی) ترجمه صاحبزادہ ابراہیم کا نبی ہو جانا آیت خاتم النبیین کے خلاف اس لئے نہ ہوتا کیونکہ خاتم النبین کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 145

تعلیمی پاکٹ بک 123 حصہ اول بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو.(گویا امت محمدیہ میں نبی ہونے میں آیت خاتم النبین مانع نہیں.دوسری امتوں میں نبی ہونے میں مانع ہے یا شارع نبی کے آنے میں مانع ہے.) ضعف روایت کی تردید ضعف روایت کی تردید میں لکھتے ہیں.لَهُ طُرُقٌ ثَلَاثَةٌ يُقَوَّى بَعْضُهَا بِبَعْضٍ.(موضوعات كبير صفحه 58 مطبوعه مطبع مجتبائی دهلی کہ یہ حدیث تین طریقوں سے مروی ہے جو آپس میں ایک دوسرے کو قوت دے رہے ہیں.نیز اُوپر کے معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے جن سے امکان نبوت ثابت ہے.تحریر فرماتے ہیں.يُقَوِّى حَدِيثُ لَوْ كَانَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامِ حَيًّا لَّمَا وَسِعَهُ إِلَّا اتِبَاعِي (موضوعات کبیر صفحه 59 مطبوعه مطبع مجتبائی دهلی ) یعنی ان معنی کو قوت وہ حدیث بھی دے رہی ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اگر موسیٰ زندہ ہوتا تو اُسے میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا.بعض نے راوی ابن ابی شیبہ کو ضعیف قرار دے کر اس حدیث کو ر ڈ کرنے کی کوشش کی لیکن تہذیب التہذیب اور اکمال الا کمال میں اس راوی کے متعلق لکھا ہے: قَالَ يَزِيدُ ابْنُ هَارُونَ مَا قَضَى رَجُلٌ أَعْدَلَ فِي الْقَضَاءِ مِنْهُ

Page 146

لیمی پاکٹ بک 124 حصہ اول وَقَالَ ابْنُ عَدِي لَهُ أَحَادِيتْ صَالِحَةٌ وَهُوَ خَيْرٌ مِنْ أَبِي حَيَّةَ.تهذيب التهذيب جلد 1 صفحه 35) ترجمہ : ”ابن ہارون نے کہا ہے کہ راوی ابن ابی شیبہ ابراہیم بن عثمان عیسی سے بڑھ کر کسی نے قضاء میں عدل نہیں کیا اور ابن عدی کہتے ہیں کہ اس کی احادیث اچھی ہیں اور وہ ابی حیہ سے بہتر راوی ہے.ابی حیہ کے متعلق لکھا ہے : ”وَثَقَهُ دَارُ قُطْنِي وَقَالَ النَّسَائِيُّ ثِقَةٌ.“ تهذيب التهذيب جلد 1صفحه 13) ترجمه : دار قطنی نے ابی حیہ کو ثقہ راوی قرار دیا ہے اور نسائی بھی اسے ثقہ کہتے ہیں.بیضاوی کے حاشیہ الشهاب علی البیضاوی میں اس حدیث کے متعلق لکھا ہے :.أَمَّا صِحَّةُ الْحَدِيثِ فَلَا شُبُهَةَ فِيْهَا.ترجمه: لیکن اس حدیث کی صحت میں شبہ نہیں.نووی نے اس حدیث کو باطل قرار دیا تھا لیکن علامہ شوکانی نووی کے خیال کو یہ کہہ کر رد کرتے ہیں: هُوَ عَجِيْبٌ مِّنَ النَّوَوِى مَعَ وَ رُوُدِهِ عَنْ ثَلَاثَةٍ مِّنَ الصَّحَابَةِ وَكَانَّهُ لَمْ يَظْهَرْلَهُ تَأْوِيْلُهُ.(الفوائد المجموعه صفحه 141) ترجمه : نووی کا اس حدیث کو باطل قرار دینا حیران کن بات ہے باوجود یکہ یہ حدیث تین صحابہ سے وارد ہوئی ہے ( گویا تین صحابہ کے طریق سے ثابت ہے) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نووی پر اس کی تاویل نہیں کھلی.

Page 147

تعلیمی پاکٹ بک 125 حصہ اوّل بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث تعلیق بالمحال کے طور پر ہے اور حرف کو سے یہ مسئلہ فرضی طور پر بیان کیا گیا ہے.عنهم یہ تو ٹھیک ہے کہ مسئلہ فرضی طور پر بیان ہوا ہے لیکن امر محال کو فرض نہیں کیا گیا بلکہ امر ممکن کو فرض کیا گیا ہے اور صاحبزادہ ابراہیم کا نبی ہونا زندگی کی شرط نہ پایا جانے کی وجہ سے محال قرار دیا گیا ہے ورنہ اپنی ذات میں اتنی نبی کا ہونا آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں جیسا کہ امام علی القاری نے بیان کیا ہے.بے شک آیت لَوْ كَانَ فِيْهِمَا أَلِهَةٌ إِلَّا اللهُ لَفَسَدَتَا (الانبياء : 23) میں آلِهَةٌ کا ہونا محال ہے اور آیت میں تعلیق بالمحال کی صورت ہے.اسی طرح لَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ هُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام: 89) میں انبیاء سے شرک سرزد نہ ہونے کی وجہ سے تعلیق بالمحال نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول آیت قرآنیہ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَسُّوبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ خَيْرٌ (البقرة: 104) کی طرح ہے یعنی اگر یہود ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ان کے لئے بہتر ثواب ہوتا.مراد یہ ہے کہ چونکہ وہ ایمان نہیں لائے اس لئے ثواب سے محروم ہیں.ور نہ ان کے ایمان نہ لانے سے دوسرے ایمان لانے والے ثواب سے محروم نہیں پس اپنی ذات میں ثواب پانے کا امکان ہے لیکن اس آیت میں یہودیوں کیلئے جو ایمان نہ لا ئیں بہتر ثواب پانا محال قرار دیا گیا ہے اسی طرح حدیث ھذا کی رو سے اپنی ذات میں آنحضرت عملے کے بعد امتی نبی کا ہونا آیت خاتم النبین کے منافی نہیں بلکہ ممکن ہے اور صاحبزادہ ابراہیم کی زندگی کے محال ہونے پر ان کیلئے بالفعل نبی ہونا محال قرار دیا گیا ہے نہ اپنی ذات میں.

Page 148

تعلیمی پاکٹ بک 126 حصہ اول 5.احادیث نبویہ سے ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ نے درود بھیجنے کا طریق یہ بتایا ہے:.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ترجمہ : اے اللہ ! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر رحمت بھیج جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور اُن کی آل پر رحمت بھیجی.بیشک تو تعریف کیا گیا اور بزرگ شان والا ہے اور اے اللہ تو محمد رسول اللہ اور آپ کی آل کو برکت دے جس طرح تو نے ابراہیم اور اُن کی آل کو برکت دی.بے شک تو تعریف کیا گیا اور بزرگ شان والا ہے.استدلال:.چونکہ آل ابراہیم کو ولایت ، امامت اور نبوت کی برکات سے حصہ ملتا رہا اس لئے ضروری ہے کہ درود شریف کی دُعا کی برکت سے آل محمد کو بھی ولایت، امامت اور نبوت سے حصہ ملتا رہے.آل سے مراد متبعین بھی ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں.وَاعْلَمُ اَنَّ الَ الرَّجُلِ فِى لُغَةِ الْعَرَبِ هُمُ خَاصَّتُهُ الْأَقْرَبُونَ إِلَيْهِ وَخَاصَّةُ الأَنْبِيَاءِ وَالُهُمْ هُمُ الصَّالِحُونَ الْعُلَمَاءُ بِاللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ.فتوحات مکیه جلد اوّل صفحه 545 مطبوعه دار صادر بیروت)

Page 149

تعلیمی پاکٹ بک 127 حصہ اوّل ترجمه جان لو کہ عربی زبان میں ایک آدمی کی آل سے مراد اُس کے خاص اقارب ہوتے ہیں اور انبیاء کے خواص اور اُن کی آل مومنوں میں سے علماء صالحین ہوتے ہیں.درود شریف کی تشریح میں شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں:.فَكَانَ مِنْ كَمَالِ رَسُولِ اللَّهِ أَنْ الْحَقَ الَهُ بِالْأَنْبِيَاءِ فِي الرُّتُبَةِ وَزَادَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ بِأَنَّ شَرْعَهُ لَا يُنْسَخُ.ترجمه : یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال ہے کہ آپ نے دُرود شریف کی دعا کے ذریعہ اپنی آل کو رتبہ میں انبیاء سے ملا دیا اور حضرت ابراہیم سے بڑھ کر آپ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آپ کی شریعت منسوخ نہ ہوگی.پھر آگے چل کر فرماتے ہیں: قَطَعْنَا اَنَّ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ مَنْ لَحِقَتْ دَرَجَتُهُ دَرجَةَ الْأَنْبِيَاءِ فِي النُّبُوَّةِ عِنْدَ اللَّهِ لَا فِي التَّشْرِيعِ.فتوحات مکیه جلد اوّل صفحه 569 ، 570 مطبوعه دار صادر بیروت ترجمہ : ہم نے درود شریف سے قطعی طور پر جان لیا ہے کہ اس امت میں وہ شخص بھی ہیں جن کا درجہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نبوت میں انبیاء سے مل گیا ہے نہ کہ شریعت لانے میں.6.نبی کریم علیہ فرماتے ہیں.وَأَشَوْقَاهُ إِلَى إِخْوَانِيَ الَّذِينَ يَأْتُونَ بَعْدِي.الانسان الكامل جلد 2 صفحه 85 مطبوعه (مصر) اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ آنے والی امت کو جس نے آپ کو نہیں دیکھا.بھائی قرار دیتے ہوئے اُن کے متعلق

Page 150

تعلیمی پاکٹ بک 128 حصہ اول اشتیاق کا اظہار فرمایا ہے سید عبدالکریم جیلانی علیہ الرحمۃ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:.فَهَؤُلَاءِ أَنْبِيَاءُ الْاَوْلِيَاءِ يُرِيدُ بِذلِكَ نُبُوَّةَ الْقُرُبِ وَالْإِعْلَامِ وَالْحِكَمِ الْإِلهِي لَا نُبُوَّةَ التَّشْرِيعِ لَانَّ نُبُوَّةَ التَّشْرِيعِ انْقَطَعَتْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.الانسان الكامل جلد 2 صفحه 85 مطبوعه مصر) ترجمہ : یہ اخوان انبیاء الاولیاء ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس نُبُوَّةَ الْقُرُبِ وَالْإِعْلَامِ وَالْحِكَمِ الْإِلَهِی مراد لیتے ہیں (یعنی وہ نبوت جو قرب الٹی کا درجہ ہے اور جس میں اخبار غیبیہ اور الہی حکمتوں کا اظہار ہوتا ہے.ناقل ) نہ کہ تشریعی نبوت کیونکہ تشریعی نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد منقطع ہو گئی ہے.7.حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُوْلِ اَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ.(مشكوة.كتاب المناقب باب مناقب قریش و ذکر القبائل ترجمه : ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والے آدمیوں میں سے سب پہلوں اور پچھلوں کے سردار ہیں سوائے نبیوں اور رسولوں کے.اس حدیث سے ظاہر ہے کہ جیسے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے پہلے لوگوں میں انبیاء اور مرسلین آئے جن سے انہیں افضل قرار نہیں دیا گیا اسی طرح ان سے پچھلوں میں بھی کسی نبی اور مرسل کا آنا مقدر تھا.تب ہی انہیں اُن سے پیچھے آنے والے نبیوں اور مرسلین سے افضل قرار نہیں دیا گیا.

Page 151

یمی پاکٹ بک 129 حصہ اول مسیح موعود کا نبی اللہ اور امتی ہونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بروایت حضرت ابو بکر سے ثابت ہے چنانچہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.فِي أُمَّتِي.أَلَا إِنَّهُ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ وَلَا رَسُولٌ وَأَلَا إِنَّهُ خَلِيفَتِي (المعجم الاوسط للطبراني جزء 5 من اسمه عیسی حدیث نمبر 4898) ترجمه: سُن لو! میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہیں اور سُن لو کہ وہ میری اُمت میں میرا خلیفہ ہے.

Page 152

تعلیمی پاکٹ بک 130 حصہ اول انقطاع نبوت والی احادیث کا مفہوم از روئے اقوال بزرگان تمام آیات قرآنیہ جو مذکورہ ہوئیں اور احادیث نبویہ جو امت میں امتی نبی کے امکان پر روشن دلیل ہیں.ان کے علاوہ جن حدیثوں میں نبوت کے منقطع ہونے یا لا نبی بعدی کے الفاظ وارد ہیں.وہ صرف یہ محدود مفہوم رکھتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی اور مستقل نبی نہیں آسکتا نہ یہ کہ کوئی امتی نبی بھی نہیں آ سکتا بلکہ اپنے بعد مسیح موعود کے امتی نبی اللہ ہونے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خبر دی ہے اور کسی حدیث میں نہیں فرمایا کہ امتی نبی بھی نہیں آ سکتا.بلکہ جیسا کہ مذکورہ ہوا حضرت انس والی روایت میں آنحضرت علی نے فرما دیا نَبِيُّهَا مِنْهَا کہ اس کا نبی امت میں سے ہوگا.واضح ہولا نَبِيَّ بَعْدِی کا یہ مفہوم لینا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا یا کوئی نبی نہیں آئے گا.محققین علماء کے نزدیک درست نہیں بلکہ محققین کے نزدیک حدیث لا نَبِيَّ بَعْدِی کے یہ معنی لئے گئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شارع نبی نہیں آئے گا چنانچہ امام علی القاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں.وَرَدَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي مَعْنَاهُ عِندِ الْعُلَمَاءِ لَا يَحُدُثُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ بِشَرُعٍ يَنْسَخُ شَرْعَهُ.الا شاعة في اشراط الساعة صفحه 149.دار الكتب العلمية بيروت) ترجمه : حدیث میں لا نَبِيَّ بَعْدِی کے جو الفاظ آئے ہیں اس کے

Page 153

تعلیمی پاکٹ بک 131 حصہ اوّل معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ کوئی نبی ایسی شریعت کو لے کر پیدا نہیں ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرتی ہو.نواب نور الحسن خان ابن نواب صدیق حسن لکھتے ہیں :.حديث لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِى بے اصل ہے البتہ لا نَبِيَّ بَعْدِی آیا ہے اس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہیں لاوے گا.اقتراب الساعة صفحه (162) حضرت اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:.قُولُوا خَاتَمَ النَبِيِّينَ وَ لَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ.(درمنثور تفسیر سورة الاحزاب : 42) اور دوسری جگہ یوں مروی ہے: قُولُوا إِنَّه خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ تكمله مجمع البحار جلد 4 صفحه 85 مطبوعه مطبع نول کشور اگره ترجمہ : اے لوگو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین یا بروایت دیگر خاتم الانبیاء تو کہو مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.حضرت اُم المومنین نے لا نَبِيَّ بَعْـدَه کہنے سے اس لئے منع فرمایا کہ تا اُمت غلط معنوں پر قائم نہ ہو جائے کیونکہ ان الفاظ کا محل وقوع مختلف حدیثوں میں یہ ظاہر کرنے کے لئے نہیں آیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مطلق کوئی نبی نہیں آ سکتا.نوٹ: تفسیر درمنثور سے ظاہر ہے کہ اس روایت کی تخریج ابن ابی شیبہ محدث نے حضرت اُم المومنین عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہا سے کی ہے.

Page 154

تعلیمی پاکٹ بک 132 حصہ اول اس حدیث کی تشریح میں امام محمد طاہر علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے: هذَا نَاظِرٌ إِلى نُزُولِ عِيسَى وَهَذَا أَيْضًا لَا يُنَافِي حَدِيثَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي لِأَنَّهُ أَرَادَلَا نَبِيَّ يَنْسَخُ شَرُعَهُ.تكمله مجمع البحار صفحه 85 مطبوعه مطبع نول کشور آگره) ترجمه : حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول عیسی کے نزول کے پیش نظر ہے اور یہ قول حدیث لا نبی بعدی کے بھی خلاف نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد لا نَبِيَّ بَعْدِئی سے بھی کہ کوئی نبی آپ کی شریعت کو نسخ کرنے والا نہیں آئے گا.نوٹ: حضرت اُم المومنین کا یہ قول اگر بالفرض نزول عیسی کو پیش نظر رکھنے کی وجہ سے بھی ہو تو یادر ہے کہ آپ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کی قائل تھیں جیسا کہ مستدرک میں ان سے روایت ہے:.إِنَّ عِيسَى بْنَ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِينَ وَمِائَةَ سَنَةٌ.(ديكهو حجج الكرامه صفحه 428) که عیسی بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے.پس وہ عیسی کے بروزی نزول کی قائل ہی سمجھی جاسکتی ہیں نہ اصالتا نزول کی کیونکہ وہ قرآن مجید خوب جانتی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ (الزمر:43) کہ جس نفس پر موت وارد ہو جائے اسے خدا دوبارہ دنیا میں نہیں بھیجتا.الشیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ حدیث لا نَبِيَّ بَعْدِی کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں:.فَمَا ارْتَفَعَتِ النُّبُوَّةُ بِالْكُلِيَّةِ وَلِهَذَا قُلْنَا إِنَّمَا ارْتَفَعَتْ نُبُوَّةُ

Page 155

تعلیمی پاکٹ بک 133 حصہ اوّل التَّشْرِيحِ فَهَذَا مَعْنَى لَا نَبِيَّ بَعْدَه.فتوحات مکیه جلد 2 صفحه 58 مطبوعه دار صادر بیروت ترجمہ : نبوت کلی طور پر بند نہیں ہوئی اس لئے ہم نے کہا صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے پس لا نَبِيَّ بَعْدِی کے یہی معنی ہے.نیز تحریر فرماتے ہیں:.إِنَّ النُّبُوَّةَ الَّتِي انْقَطَعَتْ بِوَجُودِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هِيَ نُبُوَّةُ التَّشْرِيعِ لَا مُقَامُهَا فَلَا شَرُعَ يَكُونُ نَاسِخًا لِشَرْعِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَزِيدُ فِي حُكْمِهِ شَرُعًا اخَرَوَهذَا مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِى وَلَا نَبِيَّ أَي لَا نَبِيَّ يَكُونُ عَلَى شَرُعٍ يُخَالِفُ شَرْعِى بَلْ إِذَا كَانَ يَكُونُ تَحْتَ حُكْمِ شَرِيعَتِى.(فتوحاتِ مکیه جلد 2 صفحه 3 مطبوعه دار صادر بیروت) ترجمہ : وہ نبوت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے منقطع ہوئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت.پس اب کوئی شرع نہ ہوگی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرع کی ناسخ ہوا اور نہ آپ کی شرع میں کوئی نیا حکم بڑھانے والی شرع ہوگی اور یہی معنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے ہیں کہ رسالت اور نبوت منقطع ہو گئی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا نہ نبی.یعنی مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے یہ ہے کہ اب ایسا نبی کوئی نہیں ہو گا جو میری شریعت کے مخالف شریعت پر ہو.بلکہ جب کبھی کوئی نبی ہوگا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہوگا.

Page 156

تعلیمی پاکٹ بک 134 حصہ اوّل اس ماتحت نبوت کو شیخ اکبر علیہ الرحمۃ مخلوق میں قیامت تک کیلئے جاری قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: فَالنُّبُوَّةُ سَارِيَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فِي الْخَلْقِ وَإِنْ كَانَ التَّشْرِيعُ قَدِ انْقَطَعَ فَالتَّشْرِيعُ جُزْءٌ مِّنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ.فتوحات مکیه جلد 2 صفحه 73) ترجمہ: نبوت مخلوق میں قیامت تک جاری ہے اگر چہ شریعت کالا نا منقطع ہو گیا.پس شریعت کا لانا نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے.امام شعرانی لکھتے ہیں:.اِعْلَمُ.أَنَّ مُطْلَقَ النُّبُوَّةِ لَمْ يَرْتَفِعُ وَإِنَّمَا ارْتَفَعَ نُبُوَّةُ التشريع.(اليواقيت والجواهر جلد 2 صفحه 24 مطبوعه مطبع منشی نول کشور اگره) ترجمه یا د رکھو کہ مطلق نبوت نہیں اُٹھی ، صرف شریعت والی نبوت اُٹھ : گئی ہے.پھر وہ لکھتے ہیں:.فَلا تَخُـلُـوَ الْاَرْضُ مِنْ رَّسُولٍ حَيِّ بِحِسْمِهِ إِذْ هُوَ قُطْبُ الْعَالَمِ الْإِنْسَانِي وَلَوْ كَانُوافِى الْعَدَدِ اَلْفَ رَسُولٍ فَإِنَّ الْمَقْصُودَ مِنْ هَؤُلَاءِ هُوَ الْوَاحِدُ.الیواقیت والجواھرا مبحث نمبر 45 جلد 2 صفحہ 80، 81 مطبوعہ مطبع منشی نول کشور آگرہ) ترجمه : زمین کبھی مجسم زندہ رسول سے خالی نہ رہے گی خواہ ایسے رسول شمار میں ہزار ہوں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عالم انسانی کے قطب ہیں اور ان رسولوں سے مقصود خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی واحد شخصیت

Page 157

لیمی پاکٹ بک 135 حصہ اول ہے ( یعنی ان رسولوں کی آمدظلی طور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی آمد ہے).پھر آگے لکھتے ہیں: فَمَا زَالَ الْمُرْسَلُونَ وَلَا يَزَالُونَ فِي هَذِهِ الدَّارِ لَكِنْ مِنْ بَاطِنِيَّةِ شَرُعٍ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (اليواقيت والجواهر جلد 2 مبحث نمبر 45 صفحه 81) ترجمہ: پہلے بھی مرسلین دنیا میں رہے اور آئندہ بھی اس دنیا میں رہیں گے لیکن یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی باطنیت سے ہوں گے ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی پیروی سے مرسل بنیں گے ) لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں.عارف ربانی حضرت عبدالکریم جیلانی لکھتے ہیں: فَانْقَطَعَ حُكْمُ نُبُوَّةِ التَّشْرِيعِ بَعْدَهُ وَكَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ لَأَنَّهُ جَاءَ بِالْكَمَالِ وَلَمْ يَجِيءُ أَحَدٌ بذلک (الانسان الكامل جلد 1 صفحه 69 مطبوعه مصر) ترجمه : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تشریعی نبوت کا حکم منقطع ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین قرار پائے کیونکہ آپ ایسی کامل شریعت لے کر آئے جو کوئی اور نبی نہیں لایا.حضرت مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں: مکر گن در راه نیکو خدمتے تا نبوت یابی اندر امح ( مثنوی مولانا روم دفتر پنجم صفحه 57 مطبوع الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور )

Page 158

تعلیمی پاکٹ بک 136 حصہ اول ترجمه نیکی کی راہ میں خدمت کی ایسی تدبیر کر کہ تجھے اُمت کے اندر نبوت : مل جائے.خاتم کے معنے یوں بیان کرتے ہیں:.بہر ایں خاتم شد است او که بجود مثل اونے کودنے خواهند بود (مثنوی مولانا روم دفتر ششم صفحہ 30 مطبع الفصل اردو بازار لاہور ) ترجمہ : یعنی آپ خاتم اس لئے ہوئے ہیں کہ فیض روحانی کی بخشش میں آپ کی مثیل نہ کوئی نبی پہلے ہوا ہے اور نہ ایسا آئندہ ہوگا.پھر فرماتے ہیں:.چونکہ در صنعت برد استاد دست تو نہ گوئی ختم صنعت بر تو است ترجمہ: جب کوئی استاد صنعت اور دستکاری میں دوسروں سے سبقت لے جاتا ہے تو کیا اے مخاطب ! تو یہ نہیں کہتا کہ تجھ پر صنعت و دستکاری ختم ہے ( یعنی تجھ جیسا کوئی صنعت گر اور دست کار نہیں.) پس آپ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین فیض نبوت پہنچانے کے لحاظ سے ہیں نہ کہ فیض نبوت بند کرنے کے لحاظ سے.حضرت ولی اللہ شاہ محدث دہلوی و محبت دصدی دواز دہم تحریر فرماتے ہیں:.خُتِمَ بِهِ النَّبِيُّونَ أَى لَا يُوجَدُ بَعْدَهُ مَنْ يَأْمُرُهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ -1 بِالتَّشْرِيع عَلَى النَّاسِ - تفهيمات الهيه جلد 2 صفحه 85 ترجمه : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبی اس طرح ختم کئے گئے ہیں کہ ایسا شخص نہیں پایا جائے گا جسے اللہ لوگوں پر نئی شریعت دے کر مامور کرے.

Page 159

تعلیمی پاکٹ بک پھر فرماتے ہیں: 137 امْتَنَعَ أَنْ يَكُونَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ مَسْتَقِلْ بِالتَّلَقَّى.الخير الكثير صفحه 266 مطبوعه مطبع سعیدی کراچی ) حصہ اول ترجمه: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مستقل با تلقی ( یعنی شارع نبی) نہیں آسکتا.ج.حدیث نبوی لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةَ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ کی روشنی میں تحریر فرماتے ہیں.لانَّ النُّبُوَّةَ تَتَجَزَى وَجُزْءٌ مِّنْهَا بَاقٍ بَعْدَ خَاتَمِ الْأَنْبِيَاءِ.(المسوّى شرح مؤطا امام مالک جلد 2 صفحه 216 مطبوعه دهلی) ترجمہ: نبوت قابل تقسیم ہے اور نبوت کی ایک جزء ( قسم ) حضرت خاتم الانبیا کے بعد باقی ہے.مسیح موعود کی شان میں لکھتے ہیں: يَزْعَمُ الْعَامَّةُ أَنَّهُ إِذَا نَزَلَ فِي الْأَرْضِ كَانَ وَاحِدًا مِّنَ الْأُمَّةِ كَلَّا بَلْ هُوَ شَرُحٌ لِلِاسْمِ الْجَامِعِ الْمُحَمَّدِي وَنُسْخَةٌ مُنتَسِخَةٌ مِنْهُ فَشَتَّانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحَدٍ مِّنَ الْأُمَّةِ.الخير الكثير صفحه 237 مطبوعه مطبع سعیدی کراچی ) ترجمه عوام یہ گمان کرتے ہیں کہ مسیح موعود جب زمین کی طرف نازل ہوگا تو اس کی حیثیت محض ایک امتی کی ہوگی.ایسا ہر گز نہیں.بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح اور اس کا دوسرا نسخہ ہو گا ( یعنی کامل ظل محمد ہو گا ) پس اس کے درمیان اور ایک امتی کے درمیان بڑا فرق ہے.مجد دالف ثانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:.

Page 160

تعلیمی پاکٹ بک 138 حصہ اول حصول کمالات نبوّت مرتابعان را بطریق تبعیت و وراثت بعد از بعثتِ خاتم الرسل على جميع الانبياء والرسل الصلواة والتحيات منافی خاتمیت او نیست علیه و علی آله الصلواة والسلام فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِينَ.(مکتوباتِ امام ربانی مجدد الف ثانی جلد 1 مکتوب نمبر 301صفحه 432) ترجمه : خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام کے مبعوث ہونے کے بعد خاص متبعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور پیروی اور وراثت کمالات نبوت کا حاصل ہونا آپ کے خاتم الرسل ہونے کے منافی نہیں پس اس میں شک مت کر.مولوی عبدالحی صاحب لکھنوی تحریر فرماتے ہیں:.ل بعد آنحضرت کے یا زمانے میں آنحضرت کے مجر دکسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہونا البتہ منع ہے.نیز لکھتے ہیں : دافع الوسواس فی اثر ابن عباس صفحہ 16 بار دوم گردید ) علمائے اہل سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت کے عصر میں کوئی نبی صاحب شرع جدید نہیں ہوسکتا اور نبوت آپ کی تمام مکلفین کو شامل ہے اور جو نبی آپ صلعم کے ہمعصر ہوگا وہ متبع شریعتِ دافع الوسواس صفحہ 29 نیا ایڈیشن و تحذیر الناس) محمد یہ ہوگا.علامہ حکیم صوفی محمد حسن مصنف غایۃ البرہان لکھتے ہیں:.الغرض اصلاح میں نبوت بخصوصیت الہیہ خبر دینے سے عبارت ہے.وہ دو قسم کی ہے.ایک نبوت تشریعی جوختم ہوگئی.دوسری نبوت بمعنی خبر دادن ہے.وہ غیر منقطع ہے پس اس کو مبشرات کہتے ہیں اپنے اقسام کے ساتھ اس میں سے رویا بھی ہے.الكواكب الدرية صفحه 148،147)

Page 161

فلیمی پاکٹ بک 139 حصہ اوّل انقطاع نبوت سے متعلقہ احادیث کی تشریح حدیث اول :.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّه سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.(صحیح بخاری) ترجمه : یقیناً عنقریب میری امت میں تمھیں کذاب ہوں گے ہر ایک ان میں سے نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا اور میں خاتم النبین ہوں.میرے مقابل کوئی نبی نہیں ہو سکتا.تشریح: (1) اُمتِ محمدیہ کا مسیح موعود اس حدیث کا مصداق نہیں ہوسکتا کیونکہ اُسے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَه نَبِيٌّ فرما کر نبی قرار دیا ہے.پس یہ تمیں کذاب وہی ہو سکتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کے درمیانی زمانہ میں امت میں سے نبوت مستقلہ کا دعوی کریں اور ان تیں مدعیانِ نبوت کا ذبہ کی تعداد مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ تک پوری ہو چکی تھی.چنانچہ شرح مسلم اکمال الاکمال میں لکھا ہے: هذَا الْحَدِيثُ ظَهَرَ صِدْقُهُ فَإِنَّهُ لَوْعُدَّ مَنْ تَنَبَّأَ مِنْ زَمَنِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْآنَ لَبَلَغَ هَذَا الْعَدَدَ وَيَعْرِفُ ذَالِكَ

Page 162

140 حصہ اوّل تعلیمی پاکٹ بک مَنْ يَطالِعُ التَّارِيخَ اكمال الاكمال جلد 7 صفحه 458مصری) ترجمہ : اس حدیث کی سچائی ظاہر ہو چکی ہے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کو گنا جائے تو یہ تعداد پوری ہو چکی ہے اور جو شخص تاریخ کا مطالعہ کرے اسے جان لے گا.نوٹ: اس کتاب کے مؤلف 828ھ میں فوت ہوئے.2 خاتم النبیین کے معنی امام علی القاری نے یہ کئے ہیں کہ : امته..الْمَعْنى أَنَّهُ لَا يَأْتِي نَبِيٌّ بَعْدَهُ يَنْسَخُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ موضوعاتِ كبير صفحه 59 مطبوعه مطبع مجتبائی دهلی) یعنی خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہو سکتا جو آپ کے دین کو منسوخ کرے اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.اور حدیث لا نَبِيَّ بَعْدِی کی تشریح میں لکھتے ہیں :.وَرَدَلَا نَبِيَّ بَعْدِي مَعْنَاهُ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ لَا يَحْدُثُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ بِشَرُعٍ يَنْسَخُ شَرْعَهُ.الاشاعة في اشراط الساعة صفحه 149.دار الكتاب العلمية بيروت ) ترجمه: لا نَبِيَّ بَعْدِی کے معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ آئندہ کوئی ایسا نبی پیدا نہیں ہو گا جو ایسی شریعت کے ساتھ ہو جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے.پس حدیث زیر بحث میں اُمت میں سے تمیں ایسے اشخاص کا ذکر ہے جو تشریعی اور مستقلہ نبوت کا دعوی کریں جس سے یہ لازم آئے کہ وہ امتی نہیں رہتے ایک پہلو سے امتی ہونے کا دعوی اس حدیث کے منافی نہیں اور مسیح موعود کا دعویٰ یہی تھا.چنانچہ اسی مضمون کا ایک دوسری حدیث میں ایسی نبوت کے دعوئی کرنے

Page 163

تعلیمی پاکٹ بک 141 حصہ اوّل والے کا استثناء بھی مذکور ہے چنا نچہ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں :.سَيَكُونُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَدْعَى أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي الْإِمَاشَاء الله : (نبر اس شرح الشرح العقائد النسفی صفحه 445) ترجمه میری امت میں تمہیں آدمی ہوں گے اُن میں سے ہر ایک نبوت کا دعوی کرے گا اور تحقیق میرے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اس نبی کے جسے اللہ چاہے.اس روایت کے متعلق بشرط صحت صاحب نبر اس لکھتے ہیں کہ الا کے استثناء کا تعلق مسیح موعود سے ہے.نیز نبراس کے حاشیے میں لکھا ہے: وَالْمَعْنى لَا نَبِيَّ بِنُبُوَّةِ التَّشْرِيعِ بَعْدِي إِلَّا مَاشَاءَ اللَّهُ مِنْ أَنْبِيَاءِ الْاَوْلِيَاءِ.نبر اس حاشیه صفحه 445) ترجمه : حدیث کے فقرہ لا نَبِيَّ بَعْدِی کے معنی یہ ہیں کہ کوئی نبی تشریعی نبوت کے ساتھ میرے بعد نہیں ہوگا إِلَّا مَا شَاءَ الله کے استثناء سے مراد أَنْبِيَاءِ الْاَوْلِيَاء.ہیں یعنی وہ اولیاء جو امت میں سے مقام نبوت پانے والے ہیں.حدیث دوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک پر جانے کے موقع پر حضرت علی کو پیچھے خلیفہ مقرر کرنے اور حضرت علی کے یہ فقرہ کہنے پر کہ اتترُ كُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصَّبْيَانِ یعنی کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر چھوڑ رہے ہیں.یعنی آپ مجھے جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دے رہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 164

تعلیمی پاکٹ بک حضرت علیؓ سے فرمایا: 142 حصہ اول اَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزَلَةِ هَارُونَ مِنْ مُّوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي.(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة تبوک) ترجمہ : اے علی ! کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تو مجھ سے اُس مرتبہ پر ہو جو موسیٰ کی غیر حاضری میں ہارون کو حاصل تھا.مگر حقیقت یہ ہے کہ میری اس غیر حاضری میں میرے سوا کوئی نبی نہیں.تشریح: حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کی تشریح میں تحریر فرمایا ہے :.باید دانست که مدلول این آیت نیست الا استخلاف علی بر مدینه در غزوه تبوک و تشبیه دادن این استخلاف باستخلاف موسیٰ ہارون را در وقت سفر خود بجانب طور و معنی بَعْدِی اینجا غیری است - چنانچه در آیت فَمَنْ يُهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللهِ گفته اند نہ بُعد بَیتِ زمانی.قرة العينين في تفصيل الشيخين صفحه 206) ترجمہ: جاننا چاہئے کہ اس حدیث کا مدلول صرف غزوہ تبوک میں حضرت علیؓ کا مدینہ میں نائب یا مقامی امیر بنایا جانا اور حضرت ہارون سے تشبیہ دیا جاتا ہے جبکہ موسیٰ نے طور کی جانب سفر کیا اور بعدی کے معنی اس جگہ غَیرِى ( اس وقت میرے سوا کوئی نبی نہیں ) نہ بعد یت زمانی جیسا کہ آیت فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللهِ کے معنی اللہ کے سوا ہیں.پس اس حدیث سے بعد یت زمانی کا استنباط حضرت شاہ ولی اللہ کے نزدیک جائز نہیں کیونکہ وہ آگے لکھتے ہیں: زیرا کہ حضرت ہارون بعد حضرت موسی نماندند تا ایشاں را بعدیت

Page 165

تعلیمی پاکٹ بک 143 زمانہ ثابت بود واز حضرت مرتضی آن را استثناء کنند.حصہ اوّل یعنی بعد یت زمانی اس لئے مراد نہیں کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ کے بعد زندہ نہیں رہے کہ حضرت علیؓ کے لئے بعد یت زمانی ثابت ہو اور حضرت علی سے بعد یت زمانی کا استثناء کریں.اس بارہ میں ایک روایت بالمعنی یوں وارد ہے:.غَيْرَ أَنَّكَ لَسْتَ نَبِيًّا.(طبقات سعد جلد 5 صفحه 15) یعنی غزوہ تبوک کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ سے غیر حاضری پر آپ حضرت علیؓ سے فرماتے ہیں کہ تو اس غیر حاضری میں ہارون کی طرح میرا خلیفہ تو ہے مگر تو نبی نہیں.حدیث سوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِن زَاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَه وَيَقُولُونَ : هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ: فَأَنَا اللَّبَنَةُ أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ.(بخارى كتاب المناقب باب خاتم النبيين ) ترجمہ : میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا اور اُس کو بہت آراستہ پیراستہ کیا مگر اس کے گوشوں میں سے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی.لوگ اُسے دیکھنے آتے اور خوش ہوتے اور کہتے کہ یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی.آپ نے فرمایا میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبین ہوں.

Page 166

تشریح: 144 حصہ اوّل علامہ ابن حجر اس کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں.الْمُرَادُ هُنَا النَّظُرُ إِلَى الْأَكْمَلِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الشَّرِيعَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ مَعَ مَا مَضَى مِنَ الشَّرَائِع الْكَامِلَةِ.: (فتح الباری جلد 2 صفحه 380) ترجمه مراد اس تکمیل عمارت سے یہ ہے کہ شریعت محمد یہ پہلے گزری ہوئی کامل شریعتوں کی نسبت ایک اکمل شریعت ہے.واضح رہے کہ اس حدیث میں مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِی کہہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مثال صرف پہلے گزرے ہوئے انبیاء سے دی ہے جو تشریعی یا مستقل نبی تھے.بلاشبہ نبوت تشریعیہ یا نبوت مستقلہ کی عمارت حضرت آدم سے شروع ہوئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی تکمیل ہوگئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والا امتی نبی اس جگہ زیر بحث نہیں آ سکتا کیونکہ مسیح موعود کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی بھی قرار دیا ہے اور امتی بھی.حدیث چهارم لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرُ.هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.( ترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب عمر بن الخطاب) یعنی خدا نے مجھے نبی بنا دیا ہے اگر اس زمانہ میں میرے سوا کوئی نبی ย ہونا ہوتا تو حضرت عمر ہوتے.یہ حدیث غریب ہے.امام ترمذی نے لکھا ہے: هذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.یعنی یہ حدیث غریب ہے

Page 167

تعلیمی پاکٹ بک 145 حصہ اول امام سیوطی نے الجامع الصغیر میں اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے.ذیل کی روایات بالمعنی اس کی تشریح کرتی ہیں.1 - لَوْ لَمْ أُبْعَثْ لَبُعِثْتَ يَاعُمَرُ - ( مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد 5 صفحہ 539 و حاشیہ مشکوۃ مجتبائی باب مناقب) ترجمه : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں مبعوث نہ کیا جاتا تو اے عمر تو مبعوث کیا جاتا.یہ حدیث صحیح ہے.(دیکھو تعقبات سیوطی صفحہ 671) لَوْ لَمْ أُبْعَثُ فِيْكُمْ لَبُعِثَ عُمَرُ فِيْكُمْ - ( كنوز الحقائق جلد 2 صفحہ 73 حاشیہ ) یعنی اگر میں تم میں مبعوث نہ ہوتا تو عمر تم میں مبعوث ہوتا.پس چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہوکر مبعوث ہو گئے اس لئے حضرت عمرؓ نبی نہ بنے.یہی مفہوم ترمذی کی حدیث کا ہے کہ اگر میں نبی نہ بنایا جا تا تو پھر حضرت عمرؓ کا حق تھا کہ وہ نبی بنائے جاتے.نوٹ: مسیح موعود کو تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی قرار دیا ہے اور امتی بھی.ترندی کی حدیث میں امتی نبی کا وجود زیر بحث نہیں بلکہ تشریعی نبی کا وجود زیر بحث ہے.تشریعی نبوت یہاں اس لئے مراد ہے کہ روایات بالمعنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما دیا ہے کہ اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو حضرت عمر مبعوث ہوتے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریعی نبی تھے اس لئے اگر آپ مبعوث نہ ہوتے تو حضرت عمرؓ تشریعی نبی کے طور پر ہی مبعوث ہوتے.حدیث پنجم إِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ.(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب ماذكر عن بنی اسرائیل)

Page 168

لٹ بک تشریح: 146 حصہ اول اس حدیث میں سَيَكُونُ خُلَفَاءُ کے الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عنقریب غیر نبی خلفاء ہونے والے تھے مگر مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی بھی قرار دیا ہے اور اپنا خلیفہ بھی.چنانچہ طبرانی کی حدیث میں ہے.أَلَا إِنَّهُ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ وَلَا رَسُولٌ وَأَلَا إِنَّهُ خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِي.(طبراني في الاوسط والكبير) کہ سُن لو! مسیح موعود اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور سُن لو کہ وہ میری اُمت میں میرا خلیفہ ہے.اسی طرح صحیح مسلم کی نواس بن سمعان والی روایت میں جو خروج دجال کے بارہ میں وارد ہے عیسی موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چار دفعہ نبی قرار دیا ہے.يُحْصَرُ نَبِيُّ اللهُ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ...فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ...ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ حدیث ششم (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذكر الدجال ) أُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ.(صحیح مسلم كتاب الصلاة باب المساجد و مواضع الصلاة) ترجمہ: میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں اور میرے ذریعہ شریعتِ جدیدہ لانے والے نبی ختم کر دیئے گئے ہیں.

Page 169

تعلیمی پاکٹ بک فرماتے ہیں: 147 حصہ اوّل چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی اس کی تشریح میں خُتِمَ بِهِ النَّبِيُّونَ أَى لَا يُوجَدُ مَنْ يَّأْمُرُهُ اللهُ سُبْحَانَهُ بِالتَّشْرِيعِ إِلَى النَّاسِ.تفهيمات الهيه صفحه (72) ترجمه: خُتِمَ بِهِ النَّبِيُّونَ سے یہ مراد ہے کہ آئندہ کوئی ایسا شخص نہیں پایا جائے گا جسے خدائی شریعت دے کر لوگوں پر مامور کرے.مسیح موعود کے متعلق وہ فرماتے ہیں کہ وہ صرف امتی ہی نہیں ہوگا اسم جامع محمدی کی مکمل شرح اور اس کا دوسرا نسخہ ہوگا، گو یا ظلی نبی ہوگا.(الخير الكثير مترجم صفحه 237 مطبوعہ مطبع سعیدی کراچی) حدیث ہفتم اِنّى اخِرُ الأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدِى آخِرُ الْمَسَاجِدِ.(صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوة بمسجدى مكة و مدينة ) کہ میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد ( نئے طریق عبادت کے لحاظ سے) آخری مسجد ہے.تشریح: ا.جس طرح مسجد نبوی کے تابع سینکڑوں مساجد بننے کے باوجود وہ آخری رہتی ہے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع نبی کا آنا آپ کے آخری نبی ہونے میں روک نہیں چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود شریعت لانے والے نبی تھے اس لیے آپ شریعتِ جدیدہ کے ساتھ آخری نبی ہیں نہ کہ مطلق آخری نبی.اور آپ کی مسجد نئے طریق عبادت کے لحاظ سے آخری ہے نہ کہ مطلق آخری مسجد.

Page 170

حصہ اوّل یمی پاکٹ بک 148 بعض کہتے ہیں کہ ایک حدیث میں آخِرُ الْمَسَاجِدِ الْأَنْبِيَاءِ کے الفاظ وارد ہیں کہ مسجد نبوی انبیاء کی مسجدوں میں سے آخری ہے مگر یہ حدیث ضعیف ہے صحیح حدیث مسلم کی ہی ہے تا ہم آخر کے معنی عربی زبان میں افضل کے بھی ہوتے ہیں.لہذا اس حدیث کے معنی ہوں گے مسجد نبوی انبیا ء کی مساجد سے افضل ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں.چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے شرى وُدِّى وَ شُكْرِى مِنْ بَعِيدٍ الأخرِ غَالِبِ أَبَداً رَبِيعِ (حماسه باب الادب) ترجمه : ربیع بن زیاد نے میری دوستی اور شکر کو دور بیٹھے ایسے شخص کے لئے جو بنی غالب میں سے آخری یعنی ہمیشہ کے لئے عدیم المثال ہے خرید لیا ہے.پس آخر کے معنی سب سے افضل اور عدیم المثال کے بھی ہوتے ہیں.لہذا حدیث کے معنی یہ ہوئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں سے افضل اور عدیم المثال ہیں اور آپ کی مسجد سب مسجدوں سے افضل اور عدیم المثال ہے (خواہ انبیاء کی مساجد ہوں یا غیر انبیاء کی پہلے کی ہوں یا بعد کی ، لیکن خانہ کعبہ کوسب سے افضلیت حاصل ہے کیونکہ وہ بیت اللہ ہے) حمد بہث ہشتم اَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ.(ترمذی کتاب الاداب باب ماجاء فی اسماء النبی) ترجمه : میں العاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہیں.

Page 171

پاکٹ بک تشریح: 149 حصہ اول اگر چہ اس جگہ لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ نہیں بلکہ یہ امام زہری کے الفاظ ہیں اور اس طرح پیش کئے گئے ہیں کہ روایت مدلس ہو گئی ہے تاہم مراد امام زہری کی یہی ہوسکتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شریعت لانے والا نبی نہیں اور شریعت لانے والے نبیوں میں سے آپ سب سے پیچھے آنے والے نبی ہیں ماسوا اس کے صحیح معنی العاقب کے ایسا شخص ہوتے ہیں جو بھلائیوں میں اپنے سے پہلوں کا جانشین ہو چنانچہ امام علی القاری نے اس حدیث کے بارہ میں تحریر فرمایا ہے : الظَّاهِرُ أَنَّ هَذَا تَفْسِيرٌ لِلصَّحَابِي أَوْمَنُ بَعْدَهُ وَفِي شَرُحٍ مُسْلِمٍ قَالَ ابْنُ الْأَعْرَابِي الْعَاقِبُ الَّذِي يُخْلِفُ فِي الْخَيْرِ مَنْ كَانَ قَبْلَه.صلى الله (مرقاة شرح مشكوة جلد 5 صفحه 576 باب اسماء النبي علم الفصل الاول) ترجمه : بظاہر لَيْسَ بَعْدَه، نَبِی کے معنی یا صحابی کی تفسیر ہے یا کسی بعد کے راوی کی شرح مسلم میں ہے کہ ابن اعرابی نے کہا ہے.الْعَاقِب و شخص ہوتا ہے جو بھلائی میں اپنے سے پہلوں کا جانشین ہو.شمائل ترمذی مجتبائی میں بین السطور لکھا ہے:.هذَا قَوُلُ الزُّهرُى کہ یہ الفاظ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں بلکہ یہ امام زہری کا قول ہے.پس یہ حدیث مدلس ہے یعنی اس میں راوی نے خلط ملط کیا ہے.نوٹ: بہر حال العاقِب کے ایسے ہی معنی لینے چاہئیں جن سے مسیح موعود کی نبوت تضاد اور تناقص نہ رکھ کیونکہ مسیح موعود کی نبوت احادیث نبویہ سے ثابت ہے.

Page 172

حدیث نهم 150 حصہ اوّل إِنِّي أَخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتُمُ اخِرُ الْأُمَمِ.اس حدیث کے راوی الرحمن بن محاربی اور اسمعیل بن رافع ضعیف ہیں.( ملاحظہ ہو میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 115 و تہذیب جلد 6 صفحہ 266) تا ہم اس روایت کو انہی معنوں میں قبول کیا جا سکتا ہے کہ اس جگہ لفظ آخر دونوں جگہ بمعنی افضل استعمال ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں سے افضل ہیں اور آپ کی اُمت تمام امتوں سے افضل ہے.آخر سے مراد اس جگہ نبیوں کا مطلق آخری فرد نہیں ہوسکتا.کیونکہ مسیح موعود کی نبوت احادیث نبویہ سے ثابت ہے.قرآن مجید نے اُمت محمدیہ کو خیر امت قرار دیا ہے اسی مضمون کو حدیث کے الفاظ انْتُمُ اخِرُ الاُمَم میں بیان کیا گیا ہے.اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ نئی اُمت بنانے والا کوئی نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا اور مسیح موعود کو ایسا نبی مانا گیا ہے جو نبی بھی ہے اور امتی یعنی وہ کوئی نئی اُمت بنانے والا نہیں.حدیث دہم حدیث میں آیا ہے:.أَنَا الْمُقَفَّى جس کے معنی بعض لوگ آخری نبی کرتے ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ یہ معنی کرنے والے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلق آخری نبی نہیں مانتے کیونکہ یہ لوگ مسیح موعود کے نبی ہونے کے قائل ہیں.صحیح معنی

Page 173

تعلیمی پاکٹ بک 151 حصہ اول الْمُقَفی کے وہی ہیں جو اکمال الا کمال جلد 6 صفحہ 143 پر یوں لکھتے ہیں:.مَعْنَاهُ الْمُتَّبَعُ لِلنَّبِيِّينَ.(اکمال) الاكمال شرح مسلم جلد 6 صفحه (143) ترجمه : معنی اس کے وہ شخص ہے کہ نبی جس کی پیروی کریں.پس یہ حدیث تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں انبیاء کے آنے پر روشن دلیل ہے نہ کہ نبوت کے بکلی انقطاع پر.تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ.لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے متعلق ایک سوال اگر کوئی یہ کہے کہ لا اس فقرہ میں نفی جنس کا ہے اور نبی کا لفظ عام ہے لہذا اس حدیث کی رو سے مطلق نبی کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے کی نفی ہو جاتی ہے تو پھر کیوں اس حدیث سے حضرت امام ملا علی القاری وغیرہ علماء کی طرف شارع نبی کی نفی مراد لی جائے.الجواب: اس کا جواب یہ ہے کہ فقہ کے اصول کے مطابق بعض جگہ لفظ بظاہر اپنے مفہوم میں عام ہوتا ہے لیکن مراد اس سے مفہوم خاص لیا جاتا ہے اصطلاح اصولِ فقہ میں ایسے لفظ کو عام مخصوص بالبعض قرار دیتے ہیں.البتہ ضروری ہوتا ہے کہ تخصیص کرنے والی کوئی نص موجود ہو.چونکہ علماء متقین کے نزدیک مسیح موعود کا نبی اللہ کی حیثیت میں آنا اور ایک پہلو سے اُس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بھی ہونا احادیث نبویہ کی نصوص کی رو سے محقق اور مسلم امر ہے اس لئے یہ احادیث نبویہ لا نَبِيَّ بَعْدِی میں نبی کے عمومی مفہوم کی مخصص قرار دی جاتی ہیں اور مراد لَا نَبِيَّ بَعْدِی

Page 174

152 حصہ اول تعلیمی پاکٹ بک میں نبی سے شارع نبی لیا جاتا ہے کیونکہ مسیح موعود کی حیثیت امت محمدیہ میں مبعوث ہونے پر امتی نبی کی تسلیم کی گئی ہے نہ کہ شارع نبی کی.اس لحاظ سے یہ سمجھنا چاہئے کہ لَا نَبِيَّ بَعْدِی کا لا نفی جنس نفی کمال کیلئے ہے نہ نبی کی شخصیت کی نفی کے لئے.آنحضرت صلعم کے بعد ایک نبی کی شخصیت کا اُمت میں مبعوث ہونا تو احادیث نبویہ کی رُو سے مسلّم ہے اس حدیث میں لَا نَبِيَّ بَعْدِی کا لَا حدیث نبوی لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ کی طرح ہے.اس حدیث میں فتح مکہ کے بعد مطلق ہجرت کی نفی نہیں بلکہ مکہ سے مدینہ کی طرف مخصوص ہجرت کی نفی ہے.یہ حدیث درج کر کے تفسیر کبیر میں لکھا ہے فَالْمُرَادَ الْهِجْرَةُ الْمَخْصُوصَةُ (ملاحظه هو تفسير كبير للرازي جلد 4 صفحه 580 مطبوعه مصر) حالانکہ ہجرت کا بظاہر لفظ عام ہے اور اس سے پہلے کا نفی جنس بھی مذکور ہے حدیث نبوی إِذَا هَلَكَ کسری فَلا كِسُراى بَعْدَهُ وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَر فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ (صحیح بخاری كتاب الايمان والنذور باب كيف كانت يمين النبی ) میں بھی لا نفی کمال کے لئے ہے کیونکہ قیصر و کسری کے بعد بھی اُن کے بیٹے قیصر و کسری ہوئے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ آپ کے زمانہ کے قیصر و کسری جیسے قیصر وکسریٰ آئندہ کوئی نہیں ہوں گے.اسی طرح لَا نَبِيَّ بَعْدِی کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کامل نبی جو تشریعی نبی ہو یا مستقل نبی ہو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نہیں ہوگا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریعی اور مستقل نبی ہیں.یہی مفہوم حدیث نبوی لَمْ يَبْقَ مِنَ النَّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ کا ہے کہ نبوت میں سے الْمُبَشِّرَات کے سوا کچھ باقی نہیں رہا.اس حدیث سے ظاہر ہے کہ نبوت کا کلیپ نفی نہیں ہوئی بلکہ اس کا ایک جزء جو المُبَشِّرَات ہیں، باقی ہے اور ظاہر ہے که مسیح موعود کو امت میں نبی اللہ انہی الْمُبَشِّرَاتُ کی وجہ سے قرار دیا جا سکتا ہے

Page 175

153 حصہ اول تعلیمی پاکٹ بک جو رسول کریم صلعم کی پیروی کے نتیجے میں ملیں.اُسے تشریعی اور مستقل نبی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ایسی نبوت تو لَم يَبْقَ کی ذیل میں آکر منقطع ہو گئی ہے.اس حدیث کی ترکیب لَمُ يَبْقَ مِنَ الْمَالِ إِلَّا الدَّرَاهِمُ يَا لَمْ يَبْقَ مِنَ الطَّعَامِ إِلَّا الْحُجُزُ کی طرح ہے کہ مال میں سے دراہم کے سوا کچھ باقی نہیں رہایا کھانے میں سے روٹی کے سوا کچھ باقی نہیں رہا.ظاہر ہے کہ دراہم اور روٹی مال اور طعام بھی ہیں اور مال اور طعام کا حصہ بھی.اسی طرح الْمُبَشِّرَاتُ عَلى وَجْهِ الكَمَالِ ہوں تو نبوت بھی ہیں اور نبوت کا حصہ بھی مسیح موعود کو المُبَشِّرَاتُ کا حصہ علی وجہ الکمال ملنے سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نبی کا نام دیا جاسکتا تھا.واضح رہے کہ الْمُبَشِّرَاتُ ہی نبوت کی جزء ذاتی ہے.شریعت کا لا نا نبوت کی جزء ذاتی نہیں بلکہ جزءِ عارض ہے اسی طرح بعض انبیاء کو نئی شریعت ملتی رہی اور بعض انبیاء پہلی شریعت کے تحت رہے اور قوم میں اُس شریعت کے ساتھ حکم تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرِيةً فِيهَا هُدًى وَنُوْرٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوالِلَّذِيْنَ هَادُوا.(المائدة : 45 ) ترجمه یعنی ہم نے توریت نازل کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور اس : توریت کے ذریعہ کئی نبی جو خدا کے فرمانبردار تھے.یہودیوں کے لئے بطور حکم کے کام کرتے تھے.شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی تحریر فرماتے ہیں:.عَلِمْنَا أَنَّ التَّشْرِيعَ فِي النُّبُوَّةِ أَمْرٌ عَارِضٌ بِكَوْنِ عِيسَى

Page 176

154 تعلیمی پاکٹ بک عَلَيْهِ السَّلَامُ يَنْزِلُ فِيْنَا حَكَمًا مِنْ غَيْرِ تَشْرِيْعٍ وَهُوَنَبِيٌّ بِلا شَكٌ.حصہ اول فتوحات مکیہ جلد اول صفحه 545 مطبوعہ دار صادر بیروت ) ترجمه: ہم نے جان لیا ہے کہ شریعت کالا نا امرِ عارض ہے.یعنی نبوت کی جزء ذاتی نہیں اسی وجہ سے کہ عیسی علیہ السلام ہم میں حکم کی صورت میں بغیر نئی شریعت کے نازل ہوں گے اور وہ بلا شک نبی بھی ہوں گے.پس نبوت کی جزء ذاتی الْمُبَشِّرَاتُ ہی قرار پاتی ہیں جو مخالفوں کے لئے منذرات کا مفہوم رکھتی ہیں اور رسولوں کی یہی شان بیان کی گئی ہے کہ رُسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ که رسول تبشیر و انذار کر نیوالے تھے پس مسیح موعود بلاشک غیر تشریعی نبی بھی مانا جاتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بھی.اور اہلِ عالم کے لئے حکم و عدل بھی.واضح رہے کہ حضرت محی الدین ابن عربی حضرت عیسی علیہ السلام کے بُروزی نزول کے قائل ہیں نہ کہ اصالتا آمد کے جیسا کہ وفات مسیح کے مضمون میں حضرت شیخ اکبر کے حوالہ سے تفصیلاً بیان کیا جا چکا ہے کہ ان کا نزول آخری زمانہ میں کسی دوسرے بدن کے تعلق سے واجب ہے اور وہ نبوت کی تعریف میں لکھتے ہیں : وَلَيْسَتِ النُّبُوَّةُ بِأَمْرٍ زَائِدِ عَلَى الْأَخْبَارِ الْإِلَهِی.(فتوحات مکیه جلد 2 صفحه 375 مطبوعه دار صادر بیروت) ترجمه : نبوت خدا سے غیب کی خبریں ملنے سے زیادہ کوئی امر نہیں.البتہ قرآن شریف نے اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ نبی کے لئے اخبار غیبیہ کو بکثرت پانا شرط ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.عَلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةَ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ (الجن : 27 ، 28)

Page 177

تعلیمی پاکٹ بک 155 حصہ اوّل ترجمہ : خدا عالم الغیب ہے وہ کسی کو اپنے غیب پر ( دوسرے ملہموں کے مقابلہ میں ) غلبہ نہیں بخشتا بجز اس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو.عقلاً بھی کثرت مکالمه مخاطبه مشتمل بر امور غیبیہ کے بغیر نبی کا نام نہیں مل سکتا بر جیسے ایک دو روپیہ رکھنے والے کو کوئی مالدار نہیں کہہ سکتا جب تک اس کے پاس اتنا مال نہ ہوکر وہ صاحب نصاب بن جائے.نوٹ: اگر کوئی یہ کہے کہ لَا نَبِيَّ بَعْدِی کی رُو سے کوئی نبی آئندہ پیدا نہیں ہوسکتا.لیکن پہلا نبی جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام ہیں امت محمدیہ میں آسکتا ہے تو واضح ہو کہ: الف.یہ بھی لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے مفہوم عام کی تخصیص ہوگی اور تاویل ہوگی مفہوم عام کے لحاظ سے نہ کوئی پہلا نبی آنحضرت ﷺ کے بعد آ سکتا ہے اور نہ بعد میں کوئی نبی ظاہر ہوسکتا ہے..اگر بفرض محال حضرت عیسی علیہ السلام کا اصالتاً دوبارہ آنا مان لیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ مستقل نبی کی حیثیت میں نہیں آئیں گے یا آکر انجیل کی طرف دعوت نہیں دیں گے بلکہ اُمتی نبی کی حیثیت میں آئیں گے اور قرآن کریم کی طرف دعوت دیں گے اور اُن کی نبوت میں یہ تغیر ایک نئی قسم کی نبوت کے حدوث ( پیدا ہونے) پر دال ہوگا کیونکہ ہر تغیر حدوث کو چاہتا ہے اور جب نئی قسم کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوسکتی ہے تو نئی قسم کا نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کیوں نہیں ہوسکتا ؟ جماعت احمدیہ بموجب احادیث نبویہ وَاِمَامُكُمُ مِنْكُمُ ( صحیح بخاری) اور فَلَمَّكُمُ مِنْكُمْ ( صحیح مسلم) نازل ہونے والے ابن مریم کو امت محمدیہ میں سے ہی پیدا ہونے والا اُمت کا امام یقین کرتی ہے کیونکہ آیت استخلاف (سورۃ النور ) کی رو سے جیسا کہ پہلے بیان ہوا حضرت عیسی علیہ السلام کا کوئی مثیل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوسکتا ہے خود حضرت عیسی علیہ السلام امت محمدیہ میں

Page 178

تعلیمی پاکٹ بک 156 حصہ اوّل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ نہیں ہو سکتے پس احادیث میں ابن مریم کا نزول اس کے بروز کے ظہور کے لئے استعارہ تصریحیہ ہے.اگر کوئی شخص حضرت عیسی علیہ السلام میں نئی نبوت کا حدوث تسلیم نہ کرے اور ان کا اپنی پہلی نبوت کے ساتھ جو مستقلہ تھی امت محمدیہ میں آنا تسلیم کرے تو پھر تو حضرت عیسی علیہ السلام مستقل آخری نبی کے معنوں میں خاتم النبین قرار پا جاتے ہیں حالانکہ خاتم النبین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وصف ہے اور مراد اس سے نبیوں کے لئے مؤثر وجود ہے جسے آخری تشریعی نبی ہونا لازم ہے.ضروری نوٹ: خاتم النبیین کے وصف اور لَا نَبِيَّ بَعْدِی کی حدیث میں ایک پیشگوئی ہے اور پیشگوئی کی پوری حقیقت ہمیشہ اس کے وقوع پر ہی کھلتی ہے.پیشگوئیوں کے بارے میں کسی کا اجتہاد حجت نہیں ہوسکتا.وہ محض ایک شخص کی ذاتی رائے کی حیثیت رکھتا ہے جس کو دوسروں پر ٹھونسا نہیں جا سکتا.لہذا پیشگوئی کے مفہوم کے بارہ میں اجماع کا دعویٰ بھی نہیں کیا جا سکتا خواہ سب لوگ اُس پیشگوئی کے ایک ہی مفہوم پر متفق بھی ہو جائیں کیونکہ امور غیبیہ میں اجتہاد کا کوئی دخل نہیں اور یہ امرفقہ حنفیہ میں مسلّم ہے چنانچہ اصول فقہ کی کتاب مسلم الثبوت میں لکھا ہے: أَمَّا فِي الْمُسْتَقْبِلَاتِ كَا شُرَاطِ السَّاعَةِ وَأُمُورِ الْآخِرَةِ فَلَا (إِجْمَاعَ) عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ لَاَنَّ الْغَيْبَ لَا مَدْخَلَ فِيهِ لِلِاجْتِهَادِ.(مسلم الثبوت مع شرح صفحه (246) ترجمه آئندہ سے تعلق رکھنے والے امور میں جیسے علامات قیامت اور امور آخرت میں احناف کے نزول اجماع نہیں ہوسکتا کیونکہ امور غیبیہ میں اجتہاد کا کوئی دخل نہیں.

Page 179

ما پاکٹ بک 157 حصہ اول چونکہ مسیح موعود کا ظہور امت محمدیہ میں ہو چکا ہے اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا یہ دعوی ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں اور ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے امتی ، اس لئے واقعات کی شہادت یہ ہے کہ اُمتی نبی کے آنے میں آیت خاتم النبین اور حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِی روک نہیں جیسا کہ بعض آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ بھی اسے روک قرار نہیں دیتیں جن کا ذکر قبل از میں آچکا ہے.

Page 180

لیمی پاکٹ بک 158 حصہ اوّل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس قسم کی نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ ذیل میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند تحریریں پیش کرتے ہیں جن سے ظاہر ہے کہ آپ کا دعوی نہ تشریعی نبوت کا ہے نہ مستقلہ نبوت کا بلکہ آپ کا صرف یہ دعویٰ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پا کر اور آپ کا ظلت ہو کر آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے امتی.یا بالفاظ دیگر آپ ظلی نبی ہیں نہ کہ مستقل نبی.آپ کے نزدیک قرآن مجید آخری شریعت ہے اور تا قیامت اس میں ترمیم و تنسیخ نہیں ہو سکتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان معنوں میں بھی خاتم النبین ہیں کہ آپ کے فیوض تا قیامت جاری رہیں گے، کبھی منقطع نہیں ہوں گے اور مسیح موعود نے بھی ہر ایک کمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کی برکت سے ہی پایا ہے.حوالہ جات: 1.”میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ میں نعوذ باللہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعوی کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں صرف مُراد میری نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الہیہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے سو مکالمہ ومخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں.پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ ومخاطبہ رکھتے ہیں میں اُس کی کثرت کا نام بموجب حکم الہی

Page 181

تعلیمی پاکٹ بک 159 حصہ اوّل 66 نبوت رکھتا ہوں.وَلِكُلِّ ان يصطلح “ تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 503) 2.یادر ہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نام سن کر دھو کہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اُس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا.اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی اور میری نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت.اسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیسا کہ میرا نام نبی رکھا گیا ایسا ہی میرا نام امتی بھی رکھا ہے تا معلوم ہو کہ ہر ایک کمال مجھ کو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 154 حاشیہ ) 3 قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رسُونِ سے ظاہر ہے پس مصفی غیب پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہوا اور آیت أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ گواہی دیتی ہے کہ اس مصفی غیب سے یہ امت محروم نہیں اور مصفی غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے اور وہ طریق براہ راست بند ہے اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ اس موہبت کیلئے محض بروز اور ظلمیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے.“ (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 209 حاشیہ)

Page 182

تعلیمی پاکٹ بک 160 حصہ اوّل 4.”میں رسول اور نبی نہیں ہوں یعنی با عتبار نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے اور میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کا ملہ کے میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور حمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے.“ ( نزول امسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 381 حاشیہ) 5." جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا.(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 211،210) 6.اور لعنت ہے اُس شخص پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے علیحدہ ہو کر نبوت کا دعوی کرے مگر یہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہے نہ کوئی نئی نبوت اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اسلام کی حقانیت دنیا پر ظاہر کی جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی دکھلائی جائے.“ (چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 341) 7.یہ خوب یاد رکھنا چاہیے کہ نبوت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطل کرے بلکہ اس کا عمل قیامت تک ہے.“ (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 311 حاشیہ)

Page 183

تعلیمی پاکٹ بک 161 حصہ اوّل 8.”ہم بارہ لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ کوئی شریعت ہے اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو بلاشبہ وہ بے دین اور مردود ہے.“ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 340 حاشیہ) 9 خدا اُس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے 66 اور محمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے.“ (چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 340) 10.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ایک خاص فخر دیا گیا ہے کہ وہ ان معنوں سے خاتم الانبیاء ہیں کہ ایک تو تمام کمالات نبوت اُن پر ختم ہیں اور دوسرے یہ کہ اُن کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا رسول نہیں اور نہ کوئی ایسا نبی ہے جو اُن کی اُمت سے باہر ہو بلکہ ہر ایک کو جو شرف مکالمہ البہیہ ملتا ہے وہ انہیں کے فیض اور انہیں کی وساطت سے ملتا ہے اور وہ امتی کہلاتا ہے نہ کوئی مستقل (چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 380) نبی.“ 11.اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو.“ تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 412) 12 - ”خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمدیت کی چادر پہنائی گئی کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جلد انہیں اور نہ شاخ اپنی پیج سے جُدا ہے پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر خدا سے نبی کا لقب

Page 184

تعلیمی پاکٹ بک 162 حصہ اول پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہوا گر چہ بظاہر دو نظر آتے ہیں صرف ظل اور اصل کا فرق ہے.سوایسا ہی خدا نے مسیح موعود میں چاہا.“ کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15 ، 16 ) 13.”نبی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو.یہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری شریعت لاوے کیونکہ شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک اس کو امتی بھی نہ کہا جائے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اُس نے آنحضرت کی پیروی سے پایا ہے نہ براہِ راست (تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 401 حاشیہ) 14.غرض اس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس اُمت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس اُمت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط اُن میں پائی نہیں جاتی اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی صفائی سے پوری ہو جاتی کیونکہ اگر دوسرے صلحاء جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں وہ بھی اسی قدر مکالمہ و مخاطبہ الہیہ اور امور غیبیہ سے حصہ پالیتے تو وہ نبی کہلانے کے مستحق ہو جاتے تو اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی میں ایک رخنہ واقع ہو جاتا اس لئے خدا تعالیٰ کی

Page 185

تعلیمی پاکٹ بک 163 حصہ اول جائے.مصلحت نے ان بزرگوں کو اس نعمت کو پورے طور پر پانے سے روک دیا تا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا وہ پیشگوئی پوری ہو (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 407،406) 15.یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنے ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں.یہ الزام صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعویٰ نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر ایک کتاب میں ہمیشہ میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعوی نہیں یہ سراسر میرے پر تہمت ہے اور جس بنا پر میں اپنے تئیں نبی کہلا تا ہوں وہ صرف اس قدر ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ہم کلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے اور انہی امور کی کثرت کی وجہ سے اُس نے میرا نام نبی رکھا سو میں خدا کے حکم، کے موافق نبی ہوں اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا.اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر اس سے انکار کر سکتا ہوں.میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں.“ آخری مکتوب اخبار عام 26 مئی 1908ء)

Page 186

تعلیمی پاکٹ بک معیار صداقت 164 حصہ اول دلیل اول: صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:.فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمُ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.(يونس : 17) ترجمه : پس بے شک میں تم میں ٹھہرا ہوں ایک عمر (چالیس برس ) اس سے پہلے.پس کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے.استدلال:.یعنی خدا تعالی آنحضرت ﷺ کی صداقت ثابت کرنے کیلئے فرماتا ہے کہ لوگوں سے آپ کہہ دیں کہ میرے دعوئی سے پہلے کی عمرکی پاکیزگی اس بات پر شاہد ناطق ہے کہ میں اپنے دعوی میں صادق ہوں.اس سے ظاہر ہے کہ مدعی کی پہلی زندگی کی پاکیزگی اور طہارت اور افتراء کذب سے احتراز اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ یہ مدعی اپنے دعوئی میں سچا ہے اور یہ دلیل عقل سلیم کے مطابق ہے اسی لئے فرمایا أَفَلَا تَعْقِلُونَ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر الہام ہوا وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمُ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلا تَعْقِلُونَ ( تذکره صفحه 70 مطبوعہ 2004 ء ) اور اس الہام سے خدا نے تصدیق کی کہ آپ کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی بھی عقلی طور پر اس بات کی راہنما ہے

Page 187

تعلیمی پاکٹ بک 165 حصہ اول کہ آپ اپنے دعوئی میں صادق ہیں نہ کہ مفتری علی اللہ.چنانچہ آپ نے بڑی تحدی سے یہ اعلان فرمایا.تم کوئی عیب ، افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی تاتم اس نے جھوٹ بولا ہو گا کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے.پس یہ خدا کا فضل ہے جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ دلیل ہے.“ ( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 64) آپ کی پاکیزہ زندگی کے متعلق شہادات : 1 مولوی سراج الدین صاحب والد مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر ”زمیندار“ آپ کی پہلی زندگی کے متعلق اپنی چشم دید شہادت یوں تحریر فرماتے ہیں:.”مرزا غلام احمد صاحب 1860ء، 1861ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے.اس وقت آپ کی عمر 22، 23 سال کی ہوگئی اور ہم چشم دید شہادت سے کہتے ہیں کہ جوانی میں نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.زمیندار 8 جون 1908ء) 2.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ایڈووکیٹ اہل حدیث آپ کی پہلی زندگی کے متعلق لکھتے ہیں.” مؤلف براہین احمدیہ مخالف اور موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے وَالله حَسِیبُه شریعت محمدیہ پر قائم و پر ہیز گار اور صداقت شعار ہیں.“ (اشاعة السنة جلد 7 نمبر 9)

Page 188

تعلیمی پاکٹ بک 166 حصہ اوّل آپ کی تصنیف ”براہین احمدیہ کی تعریف کے سلسلہ میں لکھتے ہیں اس کا مؤلّف بھی اسلام کی مالی و جانی قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے کہ جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے.(اشاعة السنة جلد 6 نمبر 7) افسوس ہے کہ یہ مولوی صاحب معیار قرآنی کو نظر انداز کر کے آپ کے دعوی مسیح موعود کے بعد آپ کی تکفیر کرنے لگے.3 مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر رسالہ ” اہل حدیث اپنی کتاب تاریخ مرزا‘ کے صفحہ 53 پر لکھتے ہیں:.براہین تک میں مرزا صاحب سے حسن ظن رکھتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ جب میری عمر کوئی سترہ اٹھارہ سال کی تھی میں بشوق زیارت پا پیادہ تنہا قادیان گیا.“ دلیل دوم : - ) فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِايْتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ.(يونس:18) ترجمہ : اس سے کون زیادہ ظالم ہے جو اللہ تعالیٰ پر افتراء کرے یا اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرے یقیناً مجرم کامیاب نہیں ہوتے.لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ ۚ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرى.(طه: 62) ترجمہ : اے لوگو! اللہ پر جھوٹ مت باندھو ( ایسا کرو گے ) تو وہ تم کو عذاب سے ہلاک کر دے گا.اور بے شک مفتری ناکام رہتا ہے.

Page 189

تعلیمی پاکٹ بک استدلال:.167 حصہ اول ان ہر دو آیات میں مخالفین اسلام کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ کی کامیابی کو آپ کی صداقت کی دلیل قرار دیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے شدید مخالفین کے مقابلہ میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ آپ کے دعویٰ کی صداقت کی روشن دلیل ہے.آپ کے مخالف ہر پہلو میں آپ کے مقابلہ میں نا کام رہے کفر کے فتوے لگا کر بھی ، عدالتوں میں مقدمات قائم کر کے بھی اور آپ کے خلاف جھوٹ پھیلا کر اور غلط فہمیاں پیدا کر کے بھی کامیاب نہیں ہو سکے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو حسب وعدہ مسلمانوں کی ایک عظیم جماعت عطا فرمائی جو خدمت اسلام کے لئے جوش اور ولولہ رکھتی ہے اور تبلیغ اسلام کر کے غیر مسلموں کو مسلمان بنانے میں زبردست کامیابی حاصل کر رہی ہے اور تمام دنیا میں اشاعت قرآن کا فریضہ ادا کر رہی ہے.دلیل سوم : : كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَ آنَا وَرُسُلِى.(المجادلة : 22) ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے لکھ رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب آتے رہیں گے.ب: وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ.وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغُلِبُونَ - (الصافات: 172 تا 174) ترجمہ اور بے شک ہمارا فیصلہ ہمارے بندوں یعنی رسولوں کے لئے پہلے گزر چکا ہے (جو یہ ہے ) کہ یقیناً وہی مدد یافتہ ہوں گے اور بے شک ہمارا لشکر ( مومنوں کا گروہ) ہی غالب آنے والا ہے.

Page 190

168 حصہ اوّل تعلیمی پاکٹ بک ج أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۖ أَفَهُمُ الْغُلِبُونَ - (الانبياء: 45) ترجمہ : کیا (کفار) نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے کم کرتے آ رہے ہیں ( یعنی آنحضرت ﷺ کے ماننے والے آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں اور منکرین کم ہورہے ہیں ) کیا کفار پھر بھی غالب آئیں گے.استدلال:- ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور ان کی جماعت منکرین پر ضرور غالب آتے ہیں اور ہر طرح انہیں خدا کی طرف سے نصرت دی جاتی ہے اور یوں ہوتا ہے کہ مخالفین ہر طرف سے گھٹنے لگ جاتے ہیں.اور خدا کے مرسل کی جماعت بتدریج بڑھتی چلی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کی آپ کے منکرین کی طرف سے شدید مخالفت ہوئی ہے مگر دشمن کے ہر حربہ استعمال کرنے کے باوجود مسیح موعود اور ان کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے نصرت اور غلبہ عطا فرمایا ہے اور وہ دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں.دلیل چهارم فَانْجَيْنَهُ وَأَصْحِبَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَهَا ايَةً لِلْعَلَمِينَ.(العنكبوت : 16) ترجمہ: پس ہم نے اسے ( نوح کو ) اور کشتی والوں کو ( سیلاب میں غرق ہونے سے ) نجات دی اور ہم نے اس (کشتی) کو تمام جہانوں کے لئے ایک نشان بنا دیا.

Page 191

تعلیمی پاکٹ بک استدلال :.169 حصہ اوّل نوح علیہ السلام کے زمانے میں ان کے منکرین پر سیلاب کا عذاب آیا لیکن مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پیشگوئیوں کے مطابق طاعون کا عذاب آیا جس میں ہزاروں گھرانے ملیا میٹ ہو گئے اور طاعون کے زمانہ میں شہر اور گاؤں ویران ہو گئے لوگ جنگلوں میں پناہ لے رہے تھے کیونکہ گھر طاعون کے جراثیم کا مرکز بنے ہوئے تھے اور طاعون کا سیلاب ہر طرف تباہی مچارہا تھا.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہام کیا کہ وہ اپنا گھر نہ چھوڑیں.إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ ( تذكر، صفحہ 350 مطبوعہ 2004ء) اس گھر کی چار دیواری میں سب رہنے والوں کی میں حفاظت کروں گا.نیز فرمایا وَأَحَافِظُكَ خَاصَّةً ( تذکره صفحه 350 مطبوعہ 2004ء) کہ تیری خاص طور پر حفاظت کروں گا.چنانچہ یہ نشان صفائی سے ظاہر ہوا اور اپنے اندر نوح کی کشتی سے زیادہ شوکت رکھتا تھا کیونکہ کشتی تو بہر حال پانی سے بچانے کے لئے ہوتی ہے لیکن اس کے برخلاف طاعون کے سیلاب کے وقت گھر ہلاکت کا ذریعہ ہوتے ہیں مگر مسیح موعود علیہ السلام کے لئے خدا تعالیٰ نے ہلاکت کے ذریعہ کو اپنے فضل سے حفاظت کا ذریعہ بنا دیا.طاعون کے زمانہ میں اسی کے قریب افراد اس مکان میں رہتے تھے اردگرد کے گھروں میں طاعون سے اموات ہوئیں مگر دار مسیح میں ایک متنفس بھی طاعون سے ہلاک نہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے بڑی شان سے اپنی حفاظت کا وعدہ پورا فرمایا.دلیل پنجم وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ.فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَجِزِيْنَ.(الحاقه : 45 تا 48)

Page 192

تعلیمی پاکٹ بک : 170 حصہ اول ترجمه اگر یہ مدعی بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کرتا تو ہم اس کو داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی شہ رگ کاٹ دیتے اور پھر تم میں سے کوئی اس کو بچانہ سکتا.استدلال: اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے وحی والہام کو مخلوق کے سامنے پیش کرنے کے بعد تئیس سال کی لمبی مہلت پانا اور اتنا لمبا عرصہ ہلاکت سے بچے رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اپنے وحی والہام کے دعوی میں جھوٹے نہیں.چونکہ دلیل کی قوت عام ہوتی ہے گو مدلول اس کا اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اس لئے ہر وہ شخص جو بناوٹ سے خدا کی طرف وحی منسوب کر کے دنیا کے سامنے پیش کرتا رہے وہ تئیس سال کی مہلت نہیں پاسکتا بلکہ جان سے مارا جاتا ہے اور بناوٹی وحی کا دعوی اتنا خطرناک ہے کہ اگر کوئی بعض باتیں بھی خدا کی طرف منسوب کرے تو وہ پکڑا جاتا ہے اور خدا کی اس گرفت سے بچ نہیں سکتا.اگر اس دلیل کو صرف آنحضرت کے منکرین کے لئے حجت قرار دیا جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس معیار پر نہ پر کھا جائے تو مخالفین اسلام کے سامنے اس دلیل کا کوئی وزن نہیں رہتا اور وہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی جھوٹا دعویٰ الہام کر کے تئیس سال سے بھی زیادہ مہلت پاچکے ہیں تو پھر یہ دلیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی کیسے ہو سکتی ہے؟ پس اس دلیل کے ہوتے ہوئے مسیح موعود علیہ السلام کا انکار قرآن مجید کے ماننے والوں کو جائز نہیں.

Page 193

ا پاکٹ بک 171 حصہ اول حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب اربعین میں بڑی تحدّی سے وو اس دلیل کولوگوں کے سامنے پیش کیا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: اگر یہ بات صحیح ہے کہ کوئی شخص نبی یا رسول اور مامورمن اللہ ہونے کا دعوی کر کے اور کھلے کھلے طور پر خدا کے نام پر کلمات لوگوں کو سُنا کر پھر با وجود مفتری ہونے کے برابر تئیس برس تک جو زمانہ وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے زندہ رہا ہے تو میں ایسی نظیر پیش کرنے والے کو بعد اس کے جو مجھے میرے ثبوت کے موافق یا قرآن کے ثبوت کے موافق ثبوت دے دے پانسور و پیہ نقد دے دوں گا.“ اربعین نمبر 3.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 402) اس آیت کی تفسیر میں علامہ فخر الدین الرازی تحریر فرماتے ہیں:.هذَا ذِكْرُهُ عَلَى سَبِيلِ التَّمْثِيلِ بِمَا يَفْعَلُهُ الْمُلُوكُ بِمَنْ يَّتَكَذَّبُ عَلَيْهِمْ فَإِنَّهُمْ لَا يُمْهِلُونَهُ بَلْ يَضْرِبُونَ رَقَبَتَهُ فِي الْحَالِ.( تفسیر کبیر جلد 8 زیر آیت ھذا صفحه 291) ترجمہ : اس آیت میں مفتری کی حالت تمثیلاً بیان کی گئی ہے کہ اس سے وہی سلوک ہوگا جو بادشاہ ایسے شخص سے کرتے ہیں جو ان پر جھوٹ باندھتا ہے.وہ اس کو مہلت نہیں دیتے بلکہ فی الفور قتل کرواتے ہیں ( گویا یہی حال مفتری علی اللہ کا ہوتا ہے اس کو لمبی مہلت نہیں ملتی.ناقل ) ج اہل سنت کی مستند کتاب شرح عقائد نسفی میں لکھا ہے : فَإِنَّ الْعَقْلَ يَجْزِمُ بِاِمْتِنَاعِ اجْتِمَاعِ هَذِهِ الْأُمُورِ فِي غَيْرِ الْأَنْبِيَاءِ فِى حَقٌّ مَنْ يَعْلَمُ أَنَّهُ يَفْتَرِى عَلَيْهِ ثُمَّ يُمْهِلُهُ ثَلَاثًا وَّ عِشْرِينَ سَنَةً.(شرح عقائد نسفی مجتبائی صفحه 100

Page 194

تعلیمی پاکٹ بک 172 حصہ اول ترجمه: عقل اس بات پر کامل یقین رکھتی ہے کہ یہ امور ( معجزات اور اخلاق عالیہ وغیرہ) غیر نبی میں نہیں پائے جاتے.نیز یہ بھی کہ اللہ تعالی یہ باتیں کسی مفتری میں جمع نہیں کرتا اور یہ بھی کہ پھر اس کو تئیس برس مہلت نہیں دیتا.و علامہ امام ابن قیم علیہ الرحمہ نے ایک عیسائی کے سامنے یہی دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا: وَهُوَ مُسْتَمِرٌّ فِي الْإِفْتِرَاءِ عَلَيْهِ ثَلَاثَةٌ وَّ عِشْرِينَ سَنَةٌ وَّهُوَ مَعَ ذَلِكَ يُؤَيِّدُهُ.(زاد المعاد جلد 1صفحه 500) ترجمہ : یہ کس طرح ممکن ہے کہ جسے تم مفتری قرار دیتے ہو وہ مسلسل تنیس برس تک اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتار ہے اور اللہ تعالیٰ بائیں ہمہ اس کو ہلاک کرنے کی بجائے اس کی تائید کرے.نوٹ : تَقَوَّل کا لفظ باب تفعل سے ہے اس کے مصدر تقول میں بناوٹ کا خاصہ پایا جاتا ہے.پس مجنون اور ماؤف الدماغ کی باتیں جو وہ خدا کی طرف منسوب کر کے کہے تقول کے ذیل میں نہیں آتیں.مجنون سے خدا کا یہ معاملہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی باتوں میں ناکام اور نا مرادر ہتا ہے اور دنیا میں کوئی نیک انقلاب پیدا نہیں کر سکتا.اسی طرح مدعیان الوہیت کیلئے بھی یہ معیار نہیں.دلیل ششم عَلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ.(الجن : 28،27) ترجمہ: اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے.پس وہ اپنے غیب پر کسی کو ( دوسرے لوگوں کے مقابل ) کمیت و کیفیت میں غلبہ نہیں دیتا.بجز اس شخص کے جو اس

Page 195

تعلیمی پاکٹ بک کا برگزیدہ رسول ہو.173 حصہ اول غیبہ سے مراد خالص غیب ہے جس کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں ہوتا.اسی غیب کے متعلق وہ فرماتا ہے.وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ (الانعام: 60 ) یعنی غیب کی کنجیاں خدا تعالیٰ کے پاس ہیں اور غیب کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا.پس جس شخص کو خالص غیب پر جسے صرف اللہ ہی جانتا ہے اطلاع دی جائے صاف ظاہر ہو گا کہ اس کے لئے غیب کا خزانہ غیب کی چابیوں سے خدا نے خود کھولا ہے کوئی شخص ایسے خزانے کو خدا سے چر انہیں سکتا.پس جس شخص کو بکثرت امور غیبیہ پر اطلاع دی جائے اور وہ خبریں بھی عظیم الشان ہوں اور آفاق و انفس سے تعلق رکھتی ہوں اور وہ وقوع میں بھی آجائیں تو یہ امور غیبیہ یا بالفاظ دیگر پیشین گوئیاں اس شخص کے منجانب اللہ ہونے پر الہی شہادت ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.سَنُرِيهِمْ أَيْتَنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَيْكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ.(حم السجدة : 54) ترجمہ: ہم ان لوگوں کو تمام اطراف عالم میں بھی ضرور اپنے نشان دکھائیں گے اور خود ان کی جانوں (خاندانوں) میں بھی یہاں تک کہ ان کے لئے بالکل ظاہر ہو جائے گا کہ یہ ( قرآنی وحی ) حق ہے.کیا تیرے رب کا ہر چیز پر نگران ہونا ان کے لئے کافی نہیں.پس مامور من اللہ کے ذریعہ نشانات دو قسم کے ظاہر ہوتے ہیں.کچھ اطراف عالم سے تعلق رکھتے ہیں کچھ نفوسِ انسانی سے.

Page 196

لیمی پاکٹ بک 174 حصہ اول مسیح موعود علیہ السلام کو دونوں قسم کے نشانات دیئے گئے جن میں سے بارہ نشانات جو امور غیبیہ پر مشتمل ہیں ہم ذرا تفصیل سے لکھ رہے ہیں ویسے آپ کے ذریعہ صد با غیب کی اخبار دی گئی ہیں جو اپنے وقت پر پوری ہو کر خدا تعالیٰ کی ہستی اور آپ کی صداقت پر گواہ ہوئیں اور ہو رہی ہیں.ان کے مطالعہ کے لئے حقیقۃ الوحی، تریاق القلوب اور نزول اسیح کی کتب بہت مفید ہیں.پہلی پیشگوئی: لیکھرا.رام ایک نہایت ہی گندہ دہن ،مفسد اور خدا اور اسکے رسول کا شدید دشمن آریہ پنڈت تھا جو آریہ سماج کا مذہبی لیڈر سمجھا جاتا تھا.سرور انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تحقیر کرنا اور حضور علیہ السلام کو گالیاں دینا اس کا اہم ترین مشغلہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے کئی مرتبہ سمجھایا اور تنبیہ کی کہ وہ اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی اور کتاب اللہ یعنی قرآن کریم کی توہین وتحقیر اور استہزاء سے باز آ جائے مگر اس نے آپ کی تنبیہات اور نصائح سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا اور اپنی گندہ دینی اور اسلام دشمنی میں دن بدن بڑھتا چلا گیا.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک الہامی تنبیہ اور وارنگ کےطور پر اُسے مخاطب کر کے فرمایا : الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغ بران محمد یعنی اے نادان اور گمراہ دشمن ! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کاٹنے والی تلوار سے ڈر.مگر اس نے اس وعید سے بھی کوئی فائدہ نہ اٹھایا اور بدستور بد زبانی اور اسلام

Page 197

تعلیمی پاکٹ بک 175 حصہ اوّل دشمنی میں مصروف رہا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غیر مسلموں کو نشان نمائی کی دعوت دی تو پنڈت لیکھرام بھی مقابلہ کے لئے قادیان آیا مگر کچھ عرصہ مخالفوں کے پاس قیام کر کے اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ میرے حق میں جو چاہو پیشگوئی شائع کر دو.میری طرف سے اجازت ہے.(اشتہار 20 فروری 1893ء) چنانچہ حضرت اقدس نے اس کی شوخ طبیعت اور نشان نمائی کے مطالبہ کے پیش نظر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ سے خاص دعا فرمائی جس کے جواب میں یہ الہام ہوا:.عِجُلٌ جَسَدٌ لَهُ خُوَارٌ لَهُ نَصَبٌ وَّعَذَابٌ یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لئے ان گستاخیوں اور بد زبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کو مل کر رہے گا.“ (اشتہار 20 فروری 1893ء) اس کے بعد جب حضرت اقدس علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے اس پر اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر ظاہر فرمایا " آج کی تاریخ سے جو 20 فروری 9 8 1ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بد زبانیوں کی سزا میں یعنے اُن بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں.عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا.66 (اشتہار 20 فروری 1893ء) آپ کو اس کے متعلق ایک الہام بھی ہوا کہ:.يُقضى أَمْرُهُ فِي سِتّ.(استفتاء اردو - روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 125 حاشیہ ) کہ اس کا معاملہ چھ میں ختم ہو جائے گا.“

Page 198

تعلیمی پاکٹ بک 176 حصہ اول پھر 2 اپریل 1893ء کو حضور نے تحریر فرمایا:." آج جو 2 اپریل 1893 ء مطابق 14 ماہ رمضان 1310ھ ہے.صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں.اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اس کے چہرہ سے خون ٹپکتا ہے.میرے سامنے کھڑا ہو گیا.میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے...اور میں اس کو دیکھتا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے.تب میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھر ام اور اُس دوسرے شخص کی سزا دہی کے لئے مامور کیا گیا ہے.مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون بركات الدعا روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 33) ہے.66 اسی طرح آپ نے اپنی کتاب کرامات الصادقین میں لکھا وَبَشَّرَنِي رَبِّي وَقَالَ مُبَشِّرًا سَتَعُرِفُ يَوْمَ الْعِيدِ وَالْعِيْدُ اقْرَبُ یعنی مجھے لیکھرام کی موت کی نسبت خدا نے بشارت دی اور کہا کہ عنقریب تو اس عید کے دن کو پہچان لے گا اور اصل عید کا دن بھی اس عید کے قریب ہوگا.پنڈت لیکھرام نے آپ کی ان پیشگوئیوں اور وعید سے نہ صرف کوئی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ اپنی شوخی اور شرارت میں بڑھتا گیا اور اس نے خود اپنی طرف سے بھی حضرت اقدس علیہ السلام کے متعلق پیشگوئی شائع کر دی کہ :.یہ شخص تین سال کے اندر ہیضہ سے مر جائے گا کیونکہ (نعوذ باللہ )

Page 199

تعلیمی پاکٹ بک کذاب ہے.177 تکذیب براہین احمدیہ صفحہ 311) حصہ اول لیکن ہوا وہی جو اسلام کے سچے خدا نے اپنے مسیح پر الہام کیا تھا یعنی خدا کے مامور کی پیشگوئی پوری ہوئی اور پیشگوئی کی میعاد کے اندر جیسا کہ الہام میں بتایا گیا تھا يُقْضَى أَمْرُهُ فِی سِت یعنی پنڈت لیکھرام کا معاملہ چھ سال کے اندر اندر ختم کر دیا جائے گا.وہ عید الاضحیہ کے دوسرے روز 6 مارچ 1897ء کو شام کے چھ بجے کسی نامعلوم قوی ہیکل شخص کے ہاتھ سے گویا کہ وہ ملائک شد ادوغلا ظ میں سے تھا قتل ہو گیا.عین چھ بجے شام کو قاتل نے اسے کاری زخم لگایا اور اس کی انتڑیوں میں ایسے چھرا گھمایا کہ وہ یک لخت ایک گوسالہ کی طرح ہائے ہائے کرتا ہوا چلا یا جس کے بعد پھر اس پر آپریشن کی چھری بھی پھیری گئی اور آخر کار ساری رات دردناک عذاب میں مبتلا رہ کر صبح کو مر گیا اور اس طرح پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر گواہ ٹھہرا.دوسری پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اصل کام اسلام کو جملہ مذاہب عالم پر غالب کر دکھانا تھا.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کئی مواقع بہم پہنچائے اور آپ نے مختلف طریقوں سے دنیا پر اسلام کی حقانیت اور سچائی اور برتری ثابت کر دکھائی.عرصہ سے حضرت اقدس کی خواہش تھی کہ بڑے وسیع پیمانے پر کسی ایسے عالمگیر جلسے کا انعقاد ہو جس میں تمام مذاہب کے لیڈر اپنے اپنے مذاہب کی خوبیاں بیان کریں تا کہ دنیا یہ معلوم کر سکے کہ کونسامذ ہب فی الحقیقت برتر اور دیگر مذاہب کے مقابل پر افضل واعلیٰ ہے.چنانچہ حضور کی اس خواہش کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ

Page 200

تعلیمی پاکٹ بک 178 حصہ اول نے ایک زریں موقع اس طرح مہیا فرما دیا کہ 1896ء میں لاہور کے بعض معززین نے ایک مذہبی کانفرنس منعقد کرنے کا انتظام کر کے حضرت اقدس علیہ السلام کو بھی اس میں شمولیت اور اسلام کی خوبیاں بیان کرنے کی دعوت دی.تقریروں کے لئے حسب ذیل پانچ سوالوں کے جوابات تجویز کئے گئے.1 انسان کی جسمانی ، اخلاقی اور روحانی حالتیں 2 انسان کی دنیوی زندگی کے بعد کی حالت 3: دنیا میں انسان کی ہستی کی غرض کیا ہے اور وہ غرض کس طرح پوری ہوسکتی ہے.4 کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتا ہے.علم یعنی گیان و معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں؟ جلسہ کے انعقاد کے لئے لاہور میں انتظام کیا گیا.26، 27، 28 دسمبر تاریخیں مقرر کی گئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس میں شرکت کی دعوت قبول فرما کر ایک لمبا مضمون اسلام کی حقانیت پر لکھنا شروع کیا.ابھی آپ مضمون لکھ ہی رہے تھے کہ آپ کو الہاماً بتایا گیا کہ آپ کا مضمون سب سے بالا رہے گا اور دیگر مذاہب کے وہاں پڑھے جانے والے سب مضامین پر غالب رہے گا.چنانچہ آپ نے اس وحی الہی اور بشارت کی اشاعت کے لئے مورخہ 21 دسمبر 1896ء کو ( یعنی جلسہ مذاہب سے پانچ چھ روز قبل ) ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں یہ پیشگوئی فرمائی کہ مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ کہ حاضر ہوں اور اس کو اول سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی اور ہرگز قادر نہیں ہوں گے کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلا سکیں خواہ

Page 201

179 حصہ اول تعلیمی پاکٹ بک وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ، خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس پاک کتاب (قرآن کریم) کا جلوہ ظاہر ہو.میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نور ساطعہ نکلا جوار دگر د پھیل گیا اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی پڑی.تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھاوہ بلند آواز سے بولا الله اکبـر خـربـت خـیـبـر اس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول وحلول انوار ہے اور وہ نورانی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذہب ہیں جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی...سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائیگا.اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کر لے.پھر میں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا إِنَّ اللهَ مَعَكَ إِنَّ اللهَ يَقُومُ أَيْنَمَا قُمْتَ یعنی خدا تیرے ساتھ ہے اور خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہو یہ حمایت الہی کے لئے ایک استعارہ ہے.تبلیغ رسالت حصہ پنجم صفحه 78 79 اشتہار مورخہ 21 دسمبر 1896ء) یہ اشتہار جو ایک زبر دست پیشگوئی پر مشتمل تھا تمام ہندوستان میں پھیلایا گیا اور لاہور میں اسکی خاص طور پر زیادہ سے زیادہ اشاعت کی گئی اور جلسہ شروع ہونے سے پہلے پہلے سب متعلقہ مقررین اور منتظمین تک بھی پہنچادیا گیا جن میں سے اکثر غیر مسلم اور اسلام کے مخالف تھے.جلسہ میں حضرت اقدس کی تقریر کے لئے وقت ڈیڑھ بجے بعد دو پہر سے

Page 202

تعلیمی پاکٹ بک 180 حصہ اول ساڑھے تین بجے تک تھا.آپ کے صحابی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے مضمون پڑھنا شروع کیا.سامعین پر عجیب کیفیت طاری تھی ہر طرف سے تحسین و آفرین کے نعرے بلند ہونے لگے.جب تقریر کا مقررہ وقت گزر گیا اور تقریر ختم نہ ہوئی تو ہزاروں کی تعداد میں جمع شدہ سب حاضرین نے یک زبان ہو کر کہا کہ اس مضمون کو ختم کرنے کے لئے وقت بڑھایا جائے کیونکہ اسے ہم نے ضرور سننا ہے خواہ اس کے لئے کا نفرنس کا ایک دن زائد کرنا پڑے.چنانچہ منتظمین مجبور ہو گئے کہ محض اس مضمون کی خاطر 29 دسمبر کا دن بڑھا دیں.اس کے لئے اگلے دن بھی سنائے جانے کا اعلان کیا گیا.چنانچہ دوسرے روز سامعین کی تعداد پہلے سے بھی زیادہ تھی جنہوں نے نہایت شوق اور انہماک سے ساری تقریرسنی.تقریر کے آخر پر کانفرنس کے صدر صاحب ( جو کہ ایک ہندو لیڈر تھے ) کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ ” یہ مضمون تمام مضمونوں سے بالا رہا.“ اس کے علاوہ لا ہور کے مختلف اخبارات نے بھی تسلیم کیا کہ حضرت اقدس کا یہ مضمون سب مضمونوں پر غالب و بالا رہا ہے.چنانچہ مشہور انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اس عالمی کانفرنس کی روئداد میں لکھا کہ : سب مضمونوں میں سے زیادہ توجہ اور دلچسپی سے مرزا غلام احمد قادیانی کا مضمون سنا گیا جو اسلام کے بڑے بھاری موید اور عالم ہیں اس لیکچر کو سننے کے لئے ہر مذہب وملت کے لوگ کثرت سے جمع تھے مضمون قریباً ساڑے تین گھنٹے تک پڑھا گیا اور گویا ابھی پہلا سوال ہی ختم ہوا تھا.لوگوں نے اس مضمون کو ایک وجد اور محویت کے عالم میں سنا اور پھر کمیٹی نے اس کے لئے جلسہ کی تاریخوں میں 29 دسمبر کی زیادتی کر دی.“

Page 203

تعلیمی پاکٹ بک تیسری پیشگوئی: 181 حصہ اوّل امریکہ میں ایک شخص ڈاکٹر جان الیگزنڈرڈوئی کے نام سے مشہور تھا جس نے 1899ء میں پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا اور بزعم خود یورپ اور امریکہ کی عیسائی اقوام کی اصلاح اور انہیں سچا عیسائی بنانے کا بیڑا اٹھایا.یہ امریکہ کا ایک مشہور اور متمول شخص تھا اس نے 1901ء میں ایک شہر میحون (ZION ) آباد کیا جو اپنی خوبصورتی ، وسعت اور عمارات کے لحاظ سے تھوڑے ہی عرصہ میں امریکہ کے مشہور شہروں میں شمار ہونے لگا.جہاں سے ڈوئی کا اپنا اخبار لیوز آف ہیلنگ بڑی شان اور آب و تاب سے نکلنا شروع ہو گیا.اس اخبار نے ڈوئی کی شہرت اور نیک نامی کو چار چاند لگا دیئے اور لوگ جوق در جوق اس کے مرید ہونے لگے اور تھوڑے ہی عرصہ میں اس نے اس قدر شہرت اور اہمیت حاصل کر لی کہ شکاگو کے پروفیسر فرینکلن جانسن ڈوئی کے حالات زندگی کی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں و گزشتہ بارہ برس کے زمانے میں کم ہی ایسے شخص گزرے ہیں جنہوں نے امریکن اخباروں میں اس قدر جگہ حاصل کی جس قدر کہ جان الیگزنڈر ڈوئی نے“ الغرض ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی کو امریکہ میں جلد ہی بہت شہرت کا مقام حاصل ہو گیا.یہ شخص اسلام اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا اور ہمیشہ اس فکر میں رہتا تھا کہ جس طرح سے بھی ہو سکے اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دے.چنانچہ اس نے اپنے اخبار میں لکھا :.میں امریکہ اور یورپ کی عیسائی اقوام کو خبر دار کرتا ہوں کہ اسلام مردہ نہیں ہے اسلام طاقت سے بھرا ہوا ہے مگر اسلام کو ضرور نا بود ہونا

Page 204

تعلیمی پاکٹ بک 182 حصہ اوّل مانتے ہیں.“ چاہیے.محمدن ازم کو ضرور تباہ ہونا چاہیے مگر اسلام کی بربادی نہ تو مضمحل لاطینی عیسویت کے ذریعہ ہو سکے گی اور نہ بے طاقت یونانی عیسویت کے ذریعہ اور نہ ان لوگوں کی تھکی ماندی عیسویت کے ذریعہ سے جو مسیح کو صرف برائے نام لیوز آف ہیلنگ 25 اگست 1900ء) مطلب اس کا یہ تھا کہ اسلام کی تباہی خود اس کے ذریعہ سے ہوگی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو جب اس شخص کے دعاوی کا علم ہوا تو آپ نے 8 را گست 1902ء کو ایک چٹھی لکھی جس میں حضرت مسیح کی وفات اور سرینگر کشمیر میں ان کی قبر کا ذکر کرتے ہوئے اسے مباہلہ کا چیلنج دیا اور لکھا کہ:.غرض ڈوئی بار بار کہتا ہے کہ عنقریب یہ سب ہلاک ہو جائیں گے بجز اس گروہ کے جو یسوع مسیح کی خدائی مانتا ہے اور ڈوئی کی رسالت.اس صورت میں یورپ و امریکہ کے تمام عیسائیوں کو چاہیے کہ وہ بہت جلد ڈوٹی کو مان لیں تا ہلاک نہ ہو جا ئیں...ہم ڈوئی کی خدمت میں بہ ادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کو مارنے کی کیا ضرورت ہے ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ڈوئی کا خدا سچا خدا ہے یا ہمارا خدا.وہ بات یہ ہے کہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو بار بار موت کی پیشگوئی نہ سنائیں بلکہ ان میں سے صرف مجھ اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کریں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے.ریویوآف ریلجنزاردو دسمبر 1902ء) ڈوئی نے تو حضرت اقدس کے اس چیلنج مباہلہ کا کوئی جواب نہ دیا مگر امریکہ کے اخبارات نے اس چیلنج کا ذکر اچھے ریمارکس کے ساتھ کیا.چنانچہ ایک اخبار ارگوناٹ سان فرانسسکو نے یکم دسمبر 1902ء کی اشاعت میں بعنوان ”اسلام

Page 205

تعلیمی پاکٹ بک 183 حصہ اوّل و عیسائیت کا مقابلہ دعا لکھا کہ : ”مرزا صاحب کے مضمون کا خلاصہ جو انہوں نے ڈوئی کولکھا یہ ہے کہ.ہم میں سے ہر ایک اپنے خدا سے یہ دعا کرے کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے خدا اسے ہلاک کرے.یقیناً یہ ایک معقول اور منصفانہ تجویز ہے.“ جب ڈوئی نے حضور کو کوئی معقول جواب نہ دیا اور مباہلہ پر آمادگی کا اظہار بھی نہ کیا تو حضور نے 1903 ء میں ایک چٹھی کے ذریعہ اپنے مباہلہ کے چیلنج کو پھر دہرایا اور لکھا کہ:.میں عمر میں ستر برس کے قریب ہوں اور وہ جیسا کہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے جو میری نسبت گویا ایک بچہ ہے، لیکن میں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پرواہ نہیں کی کیونکہ اس مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہوگا بلکہ وہ خدا جوزمین و آسمان کا مالک اور احکم الحاکمین ہے وہ اس کا فیصلہ کرے گا اور اگر مسٹر ڈوئی اس مقابلہ سے بھاگ گیا....پس یقین سمجھو کہ اس کے صحون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے.66 (اشتہار مورخہ 23 اگست 1903 ء.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه 607 مطبوعه نظارت اشاعت ربوہ) مسیح موعود علیہ السلام کے اس چیلنج کا تذکرہ امریکہ کے بہت سے اخبارات میں ہوا جن میں سے 32 اخبارات کے مضامین کا خلاصہ حضرت اقدس نے تتمہ حقیقۃ الوحی میں درج فرمایا ہے.آخر جب پبلک نے ڈولی کو بہت تنگ کیا اور جواب دینے پر مجبور کیا تو اس نے اپنے اخبار کے دسمبر کے پرچے میں لکھا کہ:.”ہندوستان کا ایک بے وقوف محمدی مسیح مجھے بار بار لکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو کیوں اس شخص کو جواب نہیں دیتا مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں

Page 206

تعلیمی پاکٹ بک 184 گا.اگر میں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو ان کو کچل کر مارڈالوں گا.“ حصہ اول حضرت اقدس علیہ السلام کو جب ڈوئی کی اس گستاخی اور بے ادبی اور شوخی اور شرارت کی اطلاع ملی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور اس فیصلہ میں کامیابی کیلئے زیادہ توجہ اور الحاح سے دعائیں کرنا شروع کر دیں.اس دوران ڈوئی امریکہ و یورپ میں بہت شہرت اور ناموری حاصل کرتا جارہا تھا اور صحت کے لحاظ سے بھی وہ بھرے جلسوں میں اکثر اپنی شاندار صحت، جوانی اور عروج پر فخر کیا کرتا تھا مگر اسلام کا خدا اسے تمام دنیا میں مشہور کرنے کے بعد ذلیل ورسوا کرنا چاہتا تھا تا دنیا کو پتہ لگ جائے کہ خدا کے ماموروں کے مقابلہ پر آنے والوں کا خواہ وہ کتنی ہی عظیم شخصیت کے مالک ہوں کیا حشر ہوتا ہے؟ آخر کار خدائی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ کا غضب اور قہر اس پر شدید فالج کی صورت میں نازل ہوا اور اس پر عین اس وقت فالج کا حملہ ہوا جبکہ وہ اپنے عالی شان و خوبصورت شہر صیحون میں ہزاروں کے مجمع کو مخاطب کر رہا تھا اور اپنے شہر کے مالی بحران کو دور کرنے کیلئے میکسیکو میں کوئی بہت بڑی جائیدادخریدنے کا منصوبہ اپنے مریدوں کے سامنے رکھ رہا تھا تا کہ ان سے قرض حاصل کر کے وہ منصوبہ مکمل چنانچہ دوران تقریر میں ہی خدائے منتقم اور قادر و قیوم نے اس کی اس زبان کو بند کر دیا جس سے وہ آنحضرت کے خلاف بد زبانی کیا کرتا تھا آخر اس نے بحالی صحت کے لئے بہت ہاتھ پاؤں مارے.شہر بہ شہر پھر کر علاج کرواتا رہا مگر جس شخص کو وہ صیحون میں اپنا نائب مقرر کر گیا تھا اسی نے بعد میں اعلان کر دیا کہ ڈوئی چونکہ غرور تعلی ، فضول خرچی اور عیاشی اور لوگوں کے پیسوں پر تعیش کی زندگی بسر کرنے کا مجرم ہے اس لئے وہ اب ہمارے چرچ کی قیادت کرنے کیلئے قطع نا اہل

Page 207

تعلیمی پاکٹ بک 185 حصہ اول ہے.میحون شہر اور اس کی رونق بھی آہستہ آہستہ کم ہونے لگی اور ڈوئی پر کئی لاکھ روپے کے غبن کا الزام لگایا گیا اور چرچ سے اس کو کلیتا بے دخل اور علیحدہ کر دیا گیا.جس کے نتیجہ میں اس کی صحت دن بدن اور بھی خراب ہوتی چلی گئی اور بقول اس کے ایک مرید مسٹر لنڈ ز کے ان دنوں وہ نہ صرف فالج بلکہ دماغی فتور اور کئی اور بیماریوں کا شکار ہو گیا.بیماری کے دنوں میں اسے نہ صرف اس کے مریدوں بلکہ اس کے اہل وعیال نے بھی اسے چھوڑ دیا اور صرف دو تنخواہ دار حبشی اس کی دیکھ بھال کیا کرتے اور ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ لے جاتے تھے.جس کے دوران اس کا پتھر جیسا بھاری جسم کبھی کبھی ان کے ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین پر جا گرتا تھا.ڈوئی اس قسم کی ہزاروں مصیبتیں سہتا ہوا آخر 19 مارچ 1907ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق نہایت ذلت کی حالت میں اس جہان سے رخصت ہوا.اس کے بیوی بچے اس سے اس قدر بدظن اور بے رغبت ہوئے کہ اس کے جنازے میں بھی شامل نہ ہوئے اور اس کی موت کے بعد اس کے گھر سے شراب کی بوتلیں اور کنواری لڑکیوں سے عاشقانہ رنگ کی خط وکتابت بھی برآمد ہوئی.غرضیکہ پیشگوئی کے مطابق بڑی ذلت ورسوائی سے اس کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا ایک بہت بڑا دشمن اپنے کیفر کردار کو پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر گیا.چوتھی پیشگوئی ------ طاعون :- وو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 6 فروری 1898ء کو کشف میں دیکھا کہ :.خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں اور وہ درخت نہایت بد شکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک

Page 208

تعلیمی پاکٹ بک 186 حصہ اول اور چھوٹے قد کے ہیں.66 آگے حضور فرماتے ہیں کہ تذکر و صفحه 262 مطبوعہ 2004ء) میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں تذکرہ صفحہ 262 مطبوعہ 2004ء) پھیلنے والی ہے.“ اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے آپ نے اسی روز ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں لوگوں کو یہ مشورہ دیا کہ چونکہ اس پیشگوئی کے مطابق عنقریب نہایت وسیع پیمانے پر طاعون پھیلنے والی ہے اس لئے طاعون کے ایام میں بہتر ہوگا کہ لوگ اپنی بستیوں سے باہر کھلے میدان میں قیام کریں.چونکہ اس اشتہار کے شائع ہونے کے وقت ملک میں طاعون کا نام ونشان بھی نہیں تھا اور بظاہر اس کے پھیلنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا اس لئے علماء حضرات اور حضور کے مکذبین اور مکفرین کو حضور کے خلاف شور مچانے اور استہزاء کرنے کا ایک اور موقع میسر آ گیا.چنانچہ تحریر و تقریر کے ذریعہ اس پیشگوئی کے خلاف خوب ہنسی اڑائی گئی.پیسہ اخبار نے جو اس وقت کے مشہور اخباروں میں سے تھا لکھا:.”مرزا اسی طرح سے لوگوں کو ڈرایا کرتا ہے.دیکھ لینا خود اسی کو طاعون ہوگی“ آخر حضور کی پیشگوئی کے مطابق اس کے چند ماہ کے بعد پہلے جالندھر اور ہوشیار پور کے اضلاع میں طاعون پھوٹی اور پھر اس نے اس قدر زور پکڑا کہ گورنمنٹ کو انتظام کرنا مشکل ہو گیا.لیکن چونکہ ابھی اس نے دوسرے علاقوں میں پوری طرح زور نہیں پکڑا تھا اس لئے شقی القلب علماء اور عوام نے بجائے اس وعید سے فائدہ اٹھانے اور توبہ واستغفار سے کام لینے کے تکذیب و تمسخر کی راہ اختیار کی جس پر کچھ عرصہ بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے از راہ ہمدردی پھر ایک اشتہار

Page 209

تعلیمی پاکٹ بک 187 حصہ اول طاعون کے عنوان سے 17 مارچ 1901ء کو شائع فرمایا جس میں اپنی مذکورہ بالا پیشگوئی یاد دلانے کے بعد حضور نے لکھا:.”سواے عزیزو! اسی غرض سے پھر یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ سنبھل جاؤ اور خدا سے ڈرو اور ایک پاک تبدیلی دکھلاؤ تا خدا تم پر رحم کرے اور وہ بلا جو بہت نزدیک آ گئی ہے خدا اس کو نابود کرے.اے غافلو ! یہ نسی اور ٹھٹھے کا وقت نہیں ہے.یہ وہ بلا ہے جو آسمان سے آتی اور صرف آسمان کے خدا کے 66 حکم سے دور ہوتی ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 500.اشتہار مورخہ 17 مارچ 1901ء) آخر جب آپ کی ان تنبیہات سے لوگوں نے کچھ فائدہ نہ اٹھایا اور نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ نہ ہوئے بلکہ اپنی سرکشی اور بے باکی میں.بڑھتے گئے تو خدائے ذوالجلال کا غضب اور بھڑ کا اور 1902ء میں طاعون نے اس قدر زور پکڑا کہ لوگ کتوں کی طرح مرنے لگے اور گھروں کے گھر خالی ہو گئے اور لاشیں گھروں میں سڑنے لگیں کیونکہ طاعون کی دہشت کی وجہ سے کوئی انہیں اٹھا کر دفن کرنے کی جرات نہ کرتا تھا اور جو جرات کرتا بھی تھا تو وہ کثرت وشدت مرض کی وجہ سے ایک انار اور صد بیمار کا مصداق ہوتا تھا.یہ حالات دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رحیم و کریم دل میں پھر خلق خدا کی بھلائی نے جوش مارا اور ایک مرتبہ پھر حضور نے ہدایات الہیہ کی روشنی میں دافع البلاء ومعیار اہل الاصطفاء کے نام سے ایک رسالہ شائع فرمایا جس میں ایک تو ظاہری صفائی کی تلقین فرمائی اور دوسرے طاعون کے حملوں کے اصل اور حقیقی علاج کی طرف توجہ دلائی کہ وہ لوگ اپنے گناہوں اور شرارتوں سے تو بہ کر کے اپنے خالق و مالک حقیقی سے بچی صلح کریں.اسی کتاب میں آپ نے لوگوں کو وہ الہام بھی

Page 210

تعلیمی پاکٹ بک 188 حصہ اول یاد دلایا جسے آپ 26 مئی 1898ء کے اشتہار میں شائع فرما چکے تھے کہ :.إنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُ وا مَا بِأَنْفُسِهُم إِنَّهُ اوَى الْقَرْيَةَ.یعنی خدا نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس بلائے طاعون کو ہرگز دور نہیں کرے گا جب تک لوگ ان خیالات کو دور نہ کر لیں جو ان کے دلوں میں ہیں یعنی جب تک وہ خدا کے مامور اور رسول کو مان نہ لیں تب تک طاعون دور نہیں ہوگی اور وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا تا تم سمجھو کہ قادیان اسی لیے محفوظ رکھی گئی ہے کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا.دافع البلاء روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 225 ، 226) غور کا مقام ہے کہ ایک شخص جسے لوگ نعوذ باللہ کذاب اور دجال کہتے تھے وہ ملک میں طاعون کی آمد سے چار سال قبل جبکہ اس موذی مرض کا نام ونشان بھی اس ملک میں موجود نہ تھا طاعون کی خبر دیتا ہے پھر ایسے وقت میں جب کہ مرض پوری شدت کے ساتھ ملک میں پھیل گئی اور لوگ کتوں کی طرح مرنے لگے اپنی اور اپنے اہل وعیال اور اپنے گھر اور اپنے مولد ومسکن کی عصمت و حفاظت کی الہامی خبران الفاظ میں دیتا ہے اِنّى أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ....وَ أَحَافِظُكَ خَاصَّةً - ( تذکرہ صفحہ 350 مطبوعہ 2004 ء ) جولوگ تیرے گھر کی چاردیواری میں ہوں گے میں انکی خود حفاظت کروں گا اور تیری خاص طور پر حفاظت کروں گا.پھر یہی نہیں بلکہ اپنے مخالفین کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر ان کا بھی خدا تعالیٰ سے کچھ تعلق ہے تو وہ بھی اس قسم کا دعوی شائع کر کے دیکھ لیں اگر ان کے مساکن طاعون سے محفوظ رہے تو میں ان کو اولیاء اللہ میں سمجھ لوں گا مگر ہوا وہی جس کی اللہ تعالیٰ نے پہلے خبر دی تھی.یعنی خود آپ اور آپ کے اہل وعیال اور آپ کے

Page 211

تعلیمی پاکٹ بک 189 حصہ اول گھر میں رہنے والے 80 کے قریب افراد حضوڑ کی پیشگوئی کے مطابق طاعون سے محفوظ رہے اور قادیان کو بھی طاعون کی خوفناک تباہی سے خدا تعالیٰ نے نسبتاً محفوظ رکھا اور دوسری طرف آپ کے مخالفین میں سے کسی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ اس میدانِ مقابلہ میں قدم رکھے.پس یہ پیشگوئی بھی آپ کے مامور من اللہ ہونے کی واضح اور بین دلیل ہے.پانچویں پیشگوئی ------ آو نادر شاہ کہاں گیا:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 3 مئی 1905ء کو ایک رؤیا ہوا: فرمایا:.صبح کے وقت لکھا ہوا دکھایا گیا آہ نادر شاہ کہاں گیا.“ ( تذکره صفحه 461 مطبوعہ 2004ء) یہ عظیم الشان پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ جب 1903ء میں اور اس کے بعد افغانستان کے شاہی خاندان کے حکم سے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب اور ان کے شاگر درشید حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب حضرت اقدس علیہ السلام کی پیشگوئی شاتان تُذْبَحَان کے مطابق محض احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے ناحق اور بلا سبب کابل میں شہید کر دیئے گئے تو اس ظلم کی پاداش میں تمام افغانستان کو اور خصوصاً حکمران طبقہ کو خطرناک ہیضہ کی وباء سے دو چار ہونا پڑا اور وہاں ہزاروں باشندے موت کا شکار ہو گئے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر ایک الہام کے 66 ذریعہ حضرت اقدس کو اطلاع دی ” تین بکرے ذبح کئے جائیں گئے.“ تذکرہ صفحہ 501 مطبوعہ 2004ء) چنانچہ یہ الہام 1924ء میں آکر پورا ہوا جب کہ افغانستان کے اسی حکمران شاہی خاندان کے آخری تاجدار امیر امان اللہ خان کے حکم سے اس زمانے میں جماعت احمدیہ کے مخلص فرد حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب اور

Page 212

تعلیمی پاکٹ بک 190 حصہ اوّل حضرت مولوی عبد الحلیم صاحب اور ملانور علی صاحب اسی جرم یعنی احمدیت کی وجہ سے شہید کر دئیے گئے.ان واقعات کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ پسند نہ کیا کہ ملک افغانستان کی عنانِ حکومت اس خاندان کے ہاتھ میں رہے جس نے پانچ بے گناہ اور معصوم احمدیوں کو شہید کیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس خاندان کو مٹانے کیلئے ایک نہایت ہی معمولی انسان حبیب اللہ المعروف بچہ سقہ کو اس تباہی و بربادی کے لئے کھڑا کر دیا اور اس نے صرف تین سو افراد پر مشتمل جمعیت کے ساتھ امان اللہ کو ایسی خطرناک شکست دی کہ وہ بری طرح ناکام ہو کر افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہو گیا.اب آہ نادر شاہ کہاں گیا کی پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ جب بچہ ستقہ نے بغاوت کی تو جرنیل نادر خان جو بعض وجوہ مرض وغیرہ کی بنا پر 1923ء میں یورپ چلے گئے تھے افغانستان کی تباہی کو برداشت نہ کر سکے اور مریض ہونے کے باوجود کابل واپس آگئے اور بچہ سقہ کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے چاہا کہ اہل افغانستان جس کو چاہیں بادشاہ بنالیں مگر انہوں نے آپ ہی کو بادشاہ بنانا منظور کیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کو چونکہ مذکورہ بالا پیشگوئی کا پورا کرنا منظور تھا اس لئے الہی مشیت کے ماتحت ملک کے قدیم دستور کے خلاف انہوں نے یہ اعلان کیا کہ آئندہ کے لئے انہیں نادر خان یا شاہ نادر خان کے نام سے نہ پکارا جائے بلکہ نادرشاہ کہہ کر پکارا جائے.چنانچہ آپ نادر خان سے نادر شاہ کہلانے لگے.چونکہ الہی نوشتے پورے ہونے تھے اس لئے نادرشاہ کہلانے کے ٹھیک چار سال کے بعد جبکہ وہ اپنے ملک کے ایک محبوب و مقتدر ہر دلعزیز بادشاہ تسلیم کئے جانے لگے تو 8 نومبر 1933ء کوجبکہ وہ اپنے محل دلکشا میں طالب علموں کو ایک کھیل کے مقابلہ کے نتیجہ میں انعامات تقسیم کر رہے تھے ان پر طالب علموں میں سے ہی

Page 213

یمی پاکٹ بک 191 حصہ اول ایک طالب علم عبد الخالق نامی نے ایک گز کے فاصلہ سے متواتر تین فائر کر دئیے جن سے وہ جاں بحق ہو گئے اور یکدم وہ مجمع طرب مجمع عزا بن گیا اور لوگ بدحواس ہو کر یہ کہتے ہوئے بازاروں کی طرف دوڑ پڑے کہ نادر شاہ فوت ہو گئے اور کوئی شخص اپنے محبوب بادشاہ کو موت کے حملہ سے نہ بچا سکا.اس غیر متوقع اور اچانک موت کے نتیجہ میں ملک بھر میں صف ماتم بچھ گئی اور لوگوں نے زبان حال سے کہا کہ آہ نادر شاہ کہاں گیا 1905ء میں جب حضرت اقدس نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی.نادر شاہ کا بحیثیت بادشاہ کوئی وجود نہ تھا مگر عین اٹھائیس سال بعد خدائے علیم وخبیر نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ یہ پیشگوئی نہایت شان اور حیرت انگیز طور پر پوری ہوئی اور آپ کے منجانب اللہ ہونے پر گواہ ٹھہری.چھٹی پیشگوئی......تزلزل در ایوان کسری فتاد حضرت اقدس کو 15 جنوری 1906ء کو الہام ہوا:.تزلزل در ایوان کسری فتاد " ( تذکرہ صفحہ 503 مطبوعہ 2004ء) ایران ایک بہت پرانا تاریخی ملک ہے.عرصہ دراز سے اس ملک کے بادشاہوں کا لقب کسری چلا آتا تھا جس وقت مذکورہ بالا الہام شائع ہوا اس وقت ایران پرشاہ مظفر الدین قاچار شاہ ایران حکمران تھے.اس الہام کے صرف چند ماہ قبل 1905ء میں باشندگان ملک کے مطالبات کو قبول کر کے شاہ مظفر الدین پارلیمنٹ کے قیام کا اعلان کر چکے تھے اور لوگ اس اعلان سے خوش بھی تھے.لیکن شاہ مظفرالدین قاچارا چانک 1907ء میں وفات پاگئے اور انکا ولی عہد مرزا محمد علی قا چار کسری اپنے باپ کی جگہ تخت نشین ہوا مگر ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ ملک میں

Page 214

تعلیمی پاکٹ بک 192 حصہ اوّل بغاوت اور بادشاہ اور مجلس پارلیمنٹ میں اختلاف اور مخالفت شروع ہو گئی اور حالات اتنے بگڑ گئے کہ ایران کے دارالمبعوثین یعنی پارلیمنٹ ہاؤس کا ایک حصہ توپ خانہ سے اڑا دیا گیا اور بادشاہ نے پارلیمنٹ کو موقوف کر دیا.بادشاہ کے اس فعل سے ملک میں عام بغاوت بڑی شدت سے پھیل گئی اور آخر کار بادشاہ کی خاص باڈی گارڈ فوج بھی جس پر بادشاہ کو بڑا ناز تھا اس کے باغیوں کے ساتھ مل گئی اور اس طرح مرزا محمد علی قا چار شاہ کسری ایران کے ایوان میں ایسا تزلزل پڑا کہ اسے 15 جولائی 1909ء کو اپنے حرم سمیت روسی سفارت خانہ میں پناہ لینی پڑی.نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت پھر ہمیشہ کے لئے اس خاندان کے ہاتھ سے نکل گئی اور کسری کا وجود دنیا سے مٹ گیا اور خدا کی مقدس وحی " تزلزل در ایوان کسری فتاد پوری ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدا کی طرف سے ہونے پر شاہد ناطق ثابت ہوئی.ساتویں پیشگوئی ------اہل بنگال کی دلجوئی حضرت اقدس کو 11 فروری 1906ء کو الہام ہوا کہ :.66 پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہوگی.“ (بدر 16 فروری 1906 ، صفحہ 2.تذکرہ صفحہ 508 مطبوعہ 2004ء) اس پیشگوئی کی تفصیل یہ ہے کہ اکتوبر 1905ء میں ہندوستان کے وائسرائے لارڈ کرزن نے بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک حصہ مشرقی بنگال اور آسام پر مشتمل تھا اور دوسرا حصہ مغربی بنگال جس میں بہار اور اڑیسہ بھی شامل تھے.ہندوؤں نے اس تقسیم کو اپنے حق میں نقصان دہ سمجھ کر بہت شور مچایا ، جلسے کئے جلوس نکالے ،سرکاری عمارات کو نقصان پہنچایا، ٹرینوں پر بم پھینکے بعض انگریز افسروں کو قتل بھی کیا اور اس تقسیم کی منسوخی کیلئے پوری کوشش میں کوئی دقیقہ

Page 215

تعلیمی پاکٹ بک 193 فروگذاشت نہ کیا مگر گورنمنٹ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا.حصہ اول لارڈ کرزن کی مدت ختم ہونے پر اس کی جگہ لارڈ منٹو آئے مگر انہوں نے بھی ہندوؤں کی ایک نہ مانی اور تقسیم قائم رہی اور پختہ سمجھ لی گئی اور جب اس میں ردو بدل کا بظاہر کوئی امکان نہ رہا تب مذکورہ بالا الہام تقسیم کی منسوخی کے متعلق ہوا جسے حضرت اقدس علیہ السلام نے شائع فرما دیا.لوگوں نے اس پر طرح طرح کے اعتراضات کئے.مضحکہ اڑایا.پھبتیاں کسیں کہ جب سارے مراحل طے ہو چکے اور تقسیم اپنی جگہ قائم رہی تو اب اس کے خلاف الہام شائع کرنا کیا معنی رکھتا ہے.1910ء میں لارڈ منٹو بھی واپس چلے گئے اور لارڈ ہارڈنگ وائسرائے بن کر آگئے ان کے زمانے میں 1911 ء میں شاہ انگلستان جارج پنجم کی ہندوستان میں رسم تاج پوشی کے انتظامات ہونے لگے تو لا رڈ ہارڈنگ نے از خود ہی ایک تجویز وزیر ہند کو پیش کر دی جس میں لکھا کہ اہل بنگال کی دلجوئی ہونی چاہیے اور بنگال کی تقسیم منسوخ کر دی جائے چنانچہ اس کے مطابق شہنشاہ جارج پنجم جب تاج پوشی کیلئے ہندوستان آئے اور دہلی میں دربار کا انعقاد ہوا جس میں ہندوستان بھر کے امراء ، نواب، رؤسا، عمائد اور والیان ریاست سب جمع تھے بادشاہ نے بذات خود اس تقسیم کی منسوخی کا اعلان کر کے بنگالیوں کی دل جوئی کر دی اور منسوخی کے اعلان میں پیشگوئی کے مطابق یہ الفاظ بھی استعمال کئے کہ یہ تنسیخ محض اہل بنگال کی دلجوئی کے لئے کی گئی ہے اور اس طرح بظاہر انتہائی مخالف حالات میں اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو پورا فرما کر مضحکہ اڑانے اور استہزاء کرنے والے مخالفوں کو شرمندہ کیا اور اپنے پیارے مسیح کی صداقت ثابت کی.

Page 216

تعلیمی پاکٹ بک 194 حصہ اوّل آٹھویں پیشگوئی سعد اللہ لدھیانوی کے متعلق لدھیانہ میں ایک شخص سعد اللہ نامی نو مسلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں ہمیشہ پیش پیش رہا کرتے تھے انہوں نے حضرت اقدس کی مخالفت میں ایک کتاب ”شہاب ثاقب بر مسیح کا ذب“ کے نام سے لکھی جس میں فارسی اشعار میں حضرت اقدس کو مخاطب کر کے لکھا:.اخذیمین و قطع و تین است بهر تو ہے روقی وسلسلہ ہائے مزوری اکنون به اصطلاح شما نام ابتلا است آخر بروز حشر وبائیں دار خاسری یعنی ”خدا کی طرف سے تیرے لئے مقدر ہو چکا ہے کہ خدا تجھے پکڑے گا اور تیری رگ جان کاٹ دے گا.تب تیری موت کے بعد تیرا سلسلہ جو سراسر جھوٹا ہے تباہ و برباد کر دیا جائے گا اور اگر چہ تم کہتے ہو کہ ابتلاء بھی آیا کرتے ہیں مگر آخر تو حشر کے روز بھی اور اس دنیا میں بھی خائب 66 وخاسر اور نا مرادر ہے گا.“ اس کے بعد وہ گندہ دہانی میں بڑھتا چلا گیا آخر اس نے 16 ستمبر 1897ء کو حضور کے متعلق ایک نہایت گندی اور ناپاک تحریر شائع کی جس میں حضرت اقدس کو بہتر بھی لکھا.حضرت اقدس نے اس کی اس کارروائی کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر کے دعا کی اور اللہ تعالیٰ کے اس کی نسبت انکشاف فرمانے پر آپ نے اپنی کتاب انوار الاسلام میں اسے لکھا:.ر حق سے لڑتا رہ آخر اے مردار دیکھے گا کہ تیرا کیا انجام ہوگا.اے عدو اللہ تو مجھ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے لڑ رہا ہے بخدا مجھے اسی وقت 29 ستمبر 1894ء کو تیری

Page 217

195 حصہ اول تعلیمی پاکٹ بک نسبت یہ الہام ہوا ہے إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَر.اس الہامی عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ سعد اللہ جو تجھے ابتر کہتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تیرا ( حضرت اقدس کا.ناقل ) سلسلہ اولاد اور دوسری برکات کا منقطع ہو جائے گا ایسا ہر گز نہیں ہوگا بلکہ وہ خود ابتر رہے گا.(انوار الاسلام روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 86،85 واشتہار 15اکتوبر 1894ء) گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کی دعا کے نتیجہ میں اپنا فیصلہ صادر فرما دیا کہ آپ نہیں بلکہ سعد اللہ ابتر رہے گا اور اس کی پیشگوئی جھوٹی ثابت ہوگی.چنانچہ ان تحریروں اور پیشگوئیوں کی اشاعت کے بعد حضرت اقدس کے ہاں تین لڑکے پیدا ہوئے مگر سعد اللہ نومسلم کے ہاں کوئی لڑکا یا لڑ کی پیدا نہ ہوئے اور جو اولا داس کے ہاں پہلے پیدا ہو چکی تھی وہ پہلے ہی مر چکی تھی سوائے صرف ایک چودہ پندرہ سالہ محمود نامی بیٹے کے جس نے ایک چھوڑ دو شادیاں بھی حضرت اقدس کے مخالفین کے آمادہ کرنے پر کیں مگر اس کے ہاں بھی کوئی اولاد نہ ہوئی.سعد اللہ خود بھی اس پیشگوئی کی اشاعت کے بعد 12 سال زندہ رہا لیکن کوئی اولا داس کے ہاں نہ ہوئی اور اسکی سالہا سال کی گریہ وزاری اور دعاؤں کا کوئی اثر نہ ہوا اور اسے اولاد کی حسرت ہی رہی.چنانچہ مرنے سے پہلے اس نے فارسی میں مناجات ” قاضی الحاجات“ نامی میں ذیل کے شعروں میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ بھی کیا کہ اسے اولاد سے محروم رکھا گیا ہے.جگر گوشہ ہادا دی اے بے نیاز ولے چند زا نها گرفتی تو بار دل من بنعم البدل شاد کن بلطف از غم وغصه آزاد کن یعنی ”اے بے نیاز تو نے مجھ کو اولا د دی تھی مگر ان میں سے بعض کو تو نے واپس لے لیا.اب میرے دل کو ان کے عوض میں اور اچھی اولاد دے کر شاد کر اور اپنے لطف کے ساتھ مجھے رنج و غم سے آزاد کر “

Page 218

تعلیمی پاکٹ بک 196 حصہ اوّل اس کے ان دردناک شعروں پر نظر ڈال کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اولا دنہ ہونے اور مرجانے سے کس قدر حسرتیں اس کے دل میں بھری ہوئی تھیں اور وہ اس دردو غم میں کس قدر بے تاب تھا.لیکن وہ اس غم وہم سے نجات نہ پاسکا اور اس کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی اس کے ایک ہی لڑکے کی شادی 29 سال کی عمر میں اس کی زندگی میں ہوئی اور بڑے اہتمام سے سعد اللہ نے خود اس شادی کا سب انتظام کرایا مگر اس میں شریک ہونے کا موقع خدا تعالیٰ نے اُسے نہ دیا اور پہلے 3 جنوری 1907ء کو طاعون میں مبتلا ہو کر اس جہاں سے چل بسا.ایک مدت گزر جانے کے بعد مولوی ثناء اللہ وغیرہ مخالفین نے اس کے لڑکے کی دوسری شادی بھی کروائی مگر اس سے اسکے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی اور وہ بھی 12 جولائی 1926ء کو اپنے باپ کی طرح ابتر ہی مرگیا اور خدا کی بات پوری ہوئی.فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ! نوس پیشگوئی - ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت : کوریا کا ملک ایک جزیرہ نما ملک ہے جو جاپان کے عین سامنے واقع ہے 1904 ء تک یہ چین کے ماتحت تھا اور اس قدر غیر معروف ملک تھا کہ عام پڑھے لکھے لوگ بھی اس کے نام سے نا آشنا تھے اس زمانہ میں تقریباً جون 1904ء میں حضرت اقدس کو الہام ہوا: 66 ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت “ ( تذکره صفحه 429 مطبوعہ 2004ء) قادیان کی چھوٹی سی بستی میں بیٹھا ہوا ایک دنیوی سیاست سے ناواقف شخص جس کا کسی بڑے شہر سے بھی اتصال نہیں تھا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے الہام بتایا ہے کہ مشرق میں ایک طاقت پیدا ہوگی جس کی وجہ سے کوریا کی حالت

Page 219

تعلیمی پاکٹ بک 197 حصہ اول نازک ہو جائے گی.اس کا یہ دعویٰ ظاہری لحاظ سے یقیناً تعجب انگیز ہے اور پورا ہونے کی صورت میں یقیناً معجزانہ رنگ رکھتا ہے.تاریخ دان جانتے ہیں کہ 1904ء میں ساری بڑی بڑی سلطنتیں اور طاقتیں مغرب تک ہی محدود تھیں اور مشرق میں کوئی طاقت اس وقت موجود نہیں تھی جو اہمیت کی حامل ہو یا جسے طاقت کہا جاسکے.جاپان اس وقت ایک بالکل چھوٹی سی سلطنت تھی اور حضرت اقدس کے اس الہام کے بعد ہی مشرق میں ایک عظیم طاقت مانی جانے لگی تھی.روس یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح کور یا پر قبضہ کر لے مگر جاپان کو ریا پر روس کے قبضہ کو اپنی موت سمجھتا تھا.آخر 1905ء میں اسی بات پر دونوں ملکوں یعنی روس اور جاپان میں خونریز جنگ شروع ہو گئی.اس زمانے میں روس اور جاپان کا مقابلہ کوئی مقابلہ نہیں تھا بلکہ باز کا چڑیا کے ساتھ لڑنا تصور کیا جاتا تھا کیونکہ جاپان روس کے مقابل پر کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا تھا.مگر خدا کا فرمودہ بہر حال پورا ہونا تھا اس جنگ میں دنیا کے اندازوں اور امیدوں کے صریح خلاف روس باوجود اپنی بہت بڑی جنگی قوت کے جاپان کے مقابلہ میں حیرت انگیز طور پر شکست کھا گیا اور اس کا مایہ ناز جنگی بیڑا جاپان کے سمندر میں تباہ ہو گیا اور اس طرح کو ریا پر جاپان کا تسلط و قبضہ تسلیم ہوکر حضرت اقدس کی پیشگوئی ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت نہایت آب و تاب کے ساتھ پوری ہوئی...دسویں پیشگوئی ------ شہزادہ دلیپ سنگھ کے متعلق:.جب پنجاب کو انگریزوں نے فتح کیا تو مصالح ملکی کے ماتحت راجہ دلیپ سنگھ صاحب جو اس وقت وارث تخت پنجاب سمجھے جاتے تھے مگر ابھی چھوٹی عمر کے تھے انگلستان لے جائے گئے چنانچہ وہ وہیں رہے ،وہیں جوان ہوئے مگر انہیں

Page 220

تعلیمی پاکٹ بک 198 حصہ اوّل ہندوستان واپس آنے کی اجازت نہ دی گئی یہاں تک کہ پنجاب پر انگریزی تسلط پوری طرح ہو گیا.غدر کے بعد دہلی کی مغلیہ حکومت بھی کلیہ مٹ گئی اور کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ رہا.اس وقت راجہ دلیپ سنگھ نے پنجاب آنے کا ارادہ کیا اور اجازت بھی مل گئی اور عام طور پر مشہور ہو گیا کہ وہ عنقریب آنے والے ہیں اس وقت حضرت اقدس کو الہاما بتایا گیا کہ وہ اس ارادے میں کامیاب نہیں ہوں گے.چنانچہ آپ نے بہت سے لوگوں کو خصوصاً ہندوؤں کو اس کے متعلق اطلاع دے دی اور ایک اشتہار میں بھی اشارتاً لکھ دیا کہ ایک نو وار در کیس پنجاب کو ابتلا ء پیش آئے گا.چنانچہ حضور نے لکھا :.اشتہار 20 فروری 1886ء جس میں لکھا ہے کہ امیر نو وارد پنجابی الاصل کے متعلق متوحش خبریں.....اس سے مراد دلیپ سنگھ ہے.اس کے بعد اشتہا ر واجب الاظہار میں لکھا :.”ہم نے صدہا ہندوؤں اور مسلمانوں کو مختلف شہروں میں بتلا دیا تھا کہ اس شخص پنجابی الاصل سے مراد دلیپ سنگھ ہے جس کے پنجاب میں آنے کی خبر مشہور ہورہی ہے، لیکن اس ارادہ سکونت پنجاب میں وہ ناکام رہے گا بلکہ اس سفر میں اس کی عزت آسائش یا جان کا خطرہ ہے بالآخر اس کو مطابق اسی پیشگوئی کے بہت حرج اور تکلیف اور سبکی اور خجالت اٹھانی پڑی اور وہ اپنے مد عاسے محروم رہا.‘“ جب حضور نے یہ پیشگوئی شائع کی اور مختلف ہندوؤں اور مسلمانوں کو بتائی اس وقت کسی کو یہ خیال بھی نہ تھا کہ دلیپ سنگھ ہندوستان آنے سے روک دیئے جائیں گے بلکہ اس کے برعکس یہ خبر گرم تھی کہ وہ ہندوستان آرہے ہیں اور عنقریب پہنچنے والے ہیں مگر اسی عرصہ میں گورنمنٹ کو احساس ہوا کہ راجہ دلیپ سنگھ صاحب کا

Page 221

تعلیمی پاکٹ بک 199 حصہ اوّل ہندوستان آنا حکومت کے مفاد کے خلاف ہوگا اور اس سے سیاسی فتنے اور بغاوت کا خطرہ ہے لہذا انہیں راستے ہی سے یعنی عدن تک پہنچنے کے بعد روک دیا گیا اور یہ روک دیئے جانے کی خبر اس وقت معلوم ہوئی جبکہ لوگ یہ سمجھ چکے تھے کہ وہ چند ہی روز میں داخل ہندوستان ہوا چاہتے ہیں اگر چہ سکھوں کی امیدوں کو اس سے سخت صدمہ پہنچا لیکن خدائے عالم الغیب ذوالجلال کا جلال ظاہر ہوا اور اس کے مامور کی پیشگوئی پوری ہو کر اس کی صداقت پر مہر ثبت کر گئی.گیارھویں پیشگوئی ------ پہلی جنگ عظیم:..حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان پیشگوئیوں میں ایک پیشگوئی ۱۹۱۴ء والی پہلی جنگ عظیم کے متعلق ہے جو اپنی تمام علامات کے ساتھ بڑی شان سے پوری ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی ہستی اور حضرت اقدس کی صداقت کا زبردست ثبوت ہے.یہ پیشگوئی 1905 ء میں شائع کی گئی تھی.اور وہ الہامات جن میں اس جنگ کی خبر دی گئی تھی یہ ہیں :.تازه نشان - تازہ نشان کا دھکہ - زَلْزَلَةُ السَّاعَةِ - قُوا أَنْفُسَكُمْ.نَزَلْتُ لَكَ.لَكَ نُرِى آيَاتٍ وَنَهْدِمُ مَا يَعْمَرُوُ نَ.قُلْ عِنْدِي شَهَادَةٌ مِّنَ اللَّهِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُؤْمِنُونَ ( تذکرہ صفحہ 450، 451 ایڈیشن 2004ء) ترجمه: قیامت کا نمونہ زلزلہ اپنی جانوں کو بچاؤ.میں تیری خاطر نازل ہوا.ہم تیری خاطر بہت سے نشان دکھا ئیں گے.اور جو کچھ وہ تعمیر کر رہے ہیں ہم منہدم کردیں گے.مذکورہ بالا الہامات میں جو نشانیاں اور علامات اس زلزلہ یا مصیبت عظمی کی بیان کی گئی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سے مراد کوئی ظاہری اور معمولی

Page 222

تعلیمی پاکٹ بک 200 حصہ اول زلزلہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی ہمہ گیر آفت ہے جس سے دنیا پر ہولناک تباہی آئے گی.حضرت اقدس نے خودان الہامات کی تشریح میں لکھا ہے کہ :.زلزلہ کے الفاظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا ممکن ہے یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھا دے جس کی نظیر کبھی اس زمانہ نے نہ دیکھی ہو اور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 151 حاشیہ ) مذکورہ بالا الہاموں کے علاوہ اسی عرصہ میں آپ کو یہ الہام بھی ہوئے کشتیاں چلتی ہیں تا ہوں کشتیاں، لنگر اٹھادو“ جو کہ صریح طور پر جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہیں نیز اس زلزلے کی آفتِ عظیمہ کی تشریح حضور نے اپنی ایک نظم میں بھی ایسی ہی فرمائی ہے جو صاف طور پر جنگِ عظیم پر صادق آتی ہے.آوے.حضور فرماتے ہیں اک نشاں ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد جس سے گردش کھائیں گے دیہات و شہر اور مرغزار آئے گا قہر خدا سے خلق پر اک انقلاب اک بر ہنہ سے نہ یہ ہوگا کہ تا باندھے ازار اک جھپک میں یہ زمین ہو جائے گی زیر وزبر نالیاں خون کی چلیں گی جیسے آب رودبار رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگ یاسمن صبح کر دے گی انہیں مثل درختان چنار

Page 223

تعلیمی پاکٹ بک 201 حصہ اوّل ہوش اڑ جائیں گے انسان کے پرندوں کے حواس بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار خون سے مردوں کے کوہستان کے آب رواں سرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شراب انجبار مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن وانس زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی با حال زار اک نمونہ قہر کا ہو گا وہ ربانی نشان آسمان حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار وحی حق کی بات ہے ہو کر رہے گی بے خطا کچھ دن صبر کر ہو کر متقی اور بردبار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 151 ، 152 ) مذکورہ بالا تمام الہامات اور پیشگوئیوں پر مجموعی نظر ڈالنے سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ اس آفت ،اس زلزلہ اور عالمگیر مصیبت سے مراد 1914 ء والی جنگ عظیم تھی.پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ وہ زلزلہ کسی خاص علاقہ پر نہیں بلکہ ساری دنیا پر محیط ہوگا اس میں بڑے بڑے بحری بیڑے استعمال میں آئیں گے جنہیں لنگر اٹھانے کا حکم ہوگا.اور یہ مصیبت معمولی نہیں ہوگی بلکہ قیامت کا نظارہ پیش کرے گی جس کی نظیر زمانے نے کبھی نہ دیکھی ہوگی اور اس کے نتیجہ میں بعض حکومتیں مٹ جائیں گی بعض کمزور ہو جائیں گی مگر بعض حکومتیں طاقت پکڑ جائیں گی.کئی پہاڑ اور آبادیاں اور بستیاں ،شہر ، عمارتیں ،محلات وغیرہ گولہ باری سے اڑا دیئے جائیں گے.کھیت اور باغ اور چرند و پرند ، دریا ،سمند ر غرض کہ

Page 224

202 حصہ اوّل تعلیمی پاکٹ بک کوئی چیز بھی اس جنگ سے محفوظ نہیں ہوگی.بڑے بڑے بادشاہ حتی کہ زار روس“ جو کہ دنیا کا عظیم ترین بادشاہ سمجھا جاتا ہے وہ بھی اس جنگ کے نتیجہ میں ملیا میٹ کر دیا جائے گا.زمین الٹ پلٹ ہو جائے گی یعنی گولہ باری اور جنگی مہلک سامانوں سے اس میں غاریں اور گڑھے پڑ جائیں گے.خون کی نالیاں چلیں گی.پس ان سب علامات اور پیش خبریوں کے مطابق 1914ء میں جرمنی اور اتحادیوں کے درمیان بے مثال ہولناک جنگ چھڑی جس نے ساری دنیا اور تمام کرہ ارضی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ایسی خوفناک تباہی آئی جو تمام نوع بشر بلکہ جاندار و غیر جاندار چیز کے لیے ایک عظیم زلزلہ اور عذاب عظیم کا موجب بن گئی اور اس طرح 1914ء سے 1918 ء تک یہ البی نوشتے مِن وعَنُ پورے ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا موجب ہوئے.اس جنگ میں سب سے زیادہ واضح اور عبرت آفرین شہنشاہ زار روس کی حالت زار اور اس کا ہولناک انجام ہے جو کہ پیشگوئی کے عین مطابق ظہور میں آیا اور خدائی نوشتہ ” زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار ظاہر وباہر طور پر پورا ہوتا دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کیونکہ زار روس کی سلطنت باغیوں کے ہاتھوں مٹ گئی.بارھویں پیشگوئی...مصلح موعود اور مبشر اولاد کے متعلق :- اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بشارت دی کہ آپ کے ذریعہ جو سلسلہ حمایت و غلبہ اسلام کے لئے قائم کیا گیا ہے وہ آپ کی وفات کے بعد ہمیشہ کے لئے قائم رہے گا اور ترقی کرتا چلا جائے گا اور آپ کی جماعت خاندان اور مبشر اولاد کے ذریعہ حمایت اسلام کی ایک خاص بنیاد پڑے گی جو دنیا میں آئندہ اسلام کی سچائی اور خاص شان و شوکت کے اظہار کا موجب ہوگی اور یہ بشارت نہ صرف

Page 225

203 حصہ اول تعلیمی پاکٹ بک حضرت اقدس کو ہی دی گئی بلکہ آج سے چودہ سو سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسیح موعود کے متعلق پیشگوئی کے طور پر فرمایا يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُلَهُ (مشكوة باب نزول عیسی کہ جب مسیح موعود کا آخری زمانے میں ظہور ہو گا تو وہ شادی کرے گا اور اس کے سلسلہ کی تقویت و ترقی کیلئے اس کے ہاں اولاد ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے متعلق اس بشارت کے ذکر میں فرمایا ہے:.خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا.اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا.جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہو گا.اس لئے اُس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دُنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے.اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا.اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی.اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاول کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیا دڈالی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اُس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 275) اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا پیشگوئی کے متعلق حضرت اقدس فرماتے ہیں:.مسیح موعود کی خاص علامتوں میں یہ لکھا ہے کہ وہ...بیوی کرے گا

Page 226

204 حصہ اول تعلیمی پاکٹ بک اور اس کی اولاد ہوگی.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا اس کی نسل سے ایک ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو اس کا جانشین ہوگا اور دینِ اسلام کی حمایت کرے گا جیسا کہ میری بعض پیشگوئیوں میں یہ خبر آ چکی ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 320 تا325) حضرت اقدس کے اس جانشین اور دین اسلام کی خاص حمایت کرنے والے پسر موعود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے الہامی طور پر جو خبر میں حضور کو دیں وہ اپنے اصل الفاظ میں درج ذیل ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک ز کی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہوگا.......اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا.....دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْاَوَّلِ وَ الْآخِرِ - مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ - جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.(تذکرہ.صفحہ 109 تا 111 مطبوعہ 2004ء)

Page 227

تعلیمی پاکٹ بک 205 حصہ اوّل اس موعود اور خاص فرزند کے متعلق حضور علیہ السلام تحفہ گولڑویہ میں فرماتے ہیں:.خدا نے مجھے وعدہ دیا ہے کہ تیری برکات کا دوبارہ نور ظاہر کرنے کے لئے تجھ سے ہی اور تیری ہی نسل میں سے ایک شخص کھڑا کیا جائے گا جس میں روح القدس کی برکات پھونکوں گا.وہ پاک باطن اور خدا سے نہایت پاک تعلق رکھنے والا ہوگا اور مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ ہوگا گویا خدا آسمان سے نازل ہوا.(تحفہ گولر و یه، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 181 ، 182 ) چنانچہ خدا کے فضل وکرم سے یہ مسیحی صفت اور مصلح موعود بیٹا مذکورہ بالا پیشگوئیوں اور ربانی خبروں کے عین مطابق 12 جنوری 1889ء کو عالم وجود میں آیا.اس کا نام نامی بشیر الدین محمود احمد الہامات کے مطابق رکھا گیا.چونکہ اس موعود کا ایک الہامی نام فضل عمر بھی تھا اس لئے حضرت خلیفتہ اسی الاول کی وفات کے بعد 1914ء میں آپ حضرت عمرؓ کی طرح دوسرے خلیفتہ اسیح الثانی مقرر ہوئے اور تقریباً نصف صدی تک آپ نے حمایت اسلام کے بے نظیر کارنامے سرانجام دے کر ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کا نظام قائم کر دیا.الـلـهـم اغـفـر لـه وارفع - درجاته في اعلی علیین اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے تین بیٹے بھی الہی بشارتوں اور پیشگوئیوں کے مطابق پیدا ہوئے جنہیں حضرت اقدس نے ان میں سے ہر ایک کی پیدائش سے پہلے واضح طور پر شائع فرما دیا تھا.چنانچہ حضور اپنے جملہ بیٹوں کی پیدائش کی بشارتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان چاروں لڑکوں ( یعنی مصلح موعود سمیت) کے پیدا ہونے کی نسبت پیشگوئی کی تاریخ اور پھر پیدا ہونے کے وقت پیدائش کی تاریخ یہ ہے

Page 228

206 حصہ اوّل تعلیمی پاکٹ بک کہ محمود جو میرا بڑا بیٹا ہے.اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی 1888ء میں اور نیز اشتہار یکم دسمبر 1888ء میں جو سبز رنگ کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا.پیشگوئی کی گئی اور سبز رنگ کے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمود رکھا جائے گا....جب کہ اس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی...تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے 12 جنوری 1889ء کو مطابق 19 جمادی الاوّل 1306ھ میں بروز شنبہ محمود پیدا ہو اور میرا دوسرا لڑکا جس کا نام بشیر احمد ہے.اس کے پیدا ہونے کی پیشگوئی آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ 266 میں کی گئی ہے پھر جب یہ کتاب...جس کا دوسرا نام دافع الوساوس بھی ہے.فروری 1893ء میں شائع ہوگئی تو 20 اپریل 1893ء کو...اس پیشگوئی کے مطابق وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بشیر احمد رکھا گیا....اور میرا تیسرا لڑکا جس کا نام شریف احمد ہے اس کے پیدا ہونے کی پیشگوئی میرے رسالہ انوار الاسلام صفحہ 39 کے حاشیہ پر درج ہے.اور یہ رسالہ ستمبر 1894ء میں شائع ہوا تھا.یہ لڑکا یعنی شریف احمد 24 مئی 1895ء کو مطابق 27 ذیقعدہ 1312ھ پیدا ہوا....اور میرا چوتھا لڑکا جس کا نام مبارک احمد ہے.اس کی نسبت پیشگوئی اشتہار 20 فروری 1886ء میں کی گئی.اور پھر انجام آتھم کے صفحہ 183 میں بتاریخ 14 ستمبر 1896 ء یہ پیشگوئی کی گئی.اور رسالہ انجام آتھم صفحہ 58 میں اس شرط کے ساتھ پیشگوئی کی گئی کہ عبد الحق غزنوی جو امرتسر میں مولوی عبدالجبار غزنوی کی جماعت میں رہتا ہے نہیں مرے گا جب تک یہ چوتھا بیٹا پیدا نہ ہوئے.اور اس صفحہ 58 میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ اگر عبدالحق غزنوی ہماری مخالفت میں حق پر ہے اور جناب

Page 229

تعلیمی پاکٹ بک 207 حصہ اول الحق الہی میں قبولیت رکھتا ہے تو اس پیشگوئی کو دُعا کر کے ٹال دے....سوخدا تعالیٰ نے میری تصدیق کے لئے اور تمام مخالفوں کی تکذیب کیلئے اور عبداً غزنوی کو متنبہ کرنے کے لئے اس پسر چہارم کی پیشگوئی کو 14 جون 1899 ء میں بروز چارشنبہ پورا کر دیا یعنے وہ مولود مسعود چوتھا لڑکا تاریخ مذکورہ میں پیدا ہو گیا.چنانچہ اصل غرض اس رسالہ کی تالیف سے یہی ہے کہ تا وہ عظیم الشان پیشگوئی جس کا وعدہ چار مرتبہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو چکا تھا.اس کی ملک میں اشاعت کی جائے کیونکہ یہ انسان کو جرات نہیں ہوسکتی کہ یہ منصوبہ سوچے کہ اول تو مشترک طور پر چارلڑکوں کے پیدا ہونے کی پیشگوئی کرے...اور پھر ہر ایک لڑکے کے پیدا ہونے سے پہلے اُس کے پیدا ہونے کی پیشگوئی کرتا جائے اور اس کے مطابق لڑکے پیدا ہوتے جائیں.یہاں تک کہ چار کا عدد جو پہلی پیشگوئیوں میں قرار دیا تھا وہ پورا ہو جائے.....کیا ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ مفتری کی ایسی مسلسل طور پر مدد کرتا جائے.کیا کبھی مفتری کی تائید خدا نے ایسی کی یا صفحہ دُنیا میں اس کی کوئی نظیر بھی ہے؟ کہ فلاں شخص نہیں مرے گا جب تک وہ پسر چہارم پیدانہ ہولے.پس اس کے قول کے مطابق پسر چہارم بھی پیدا ہو جاتا ہے....اور کیا آسمان کے نیچے یہ قوت کسی کو دی گئی ہے کہ اس زور شور کی مسلسل پیشگوئیاں میدان میں کھڑا ہو کر شائع کرے اور پھر وہ برابر پوری ہوجائیں.( ضمیمه تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 219، 222) دلیل ہفتم : حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.صحیح دارقطنی میں ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں ان

Page 230

208 حصہ اوّل تعلیمی پاکٹ بک لمهدينا ايتين لم تكونا منذ خلق السموات والارض ينكسف 66 القمر لاوّل ليلة من رمضان وتنكسف الشمس في النصف منه ترجمه : یعنی ہمارے مہدی کے لئے دونشان ہیں اور جب سے کہ زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا یہ دو نشان کسی اور مامور اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے.ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کا گرہن اُس کی اوّل رات میں ہو گا یعنی تیرھویں تاریخ میں اور سورج کا گرہن اُس کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں ہوگا.یعنی اسی رمضان کے مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کو اور ایسا واقعہ ابتدائے دُنیا سے کسی رسول یا نبی کے وقت میں کبھی ظہور میں نہیں آیا صرف مہدی معہود کے وقت اُس کا ہونا مقدر ہے.اب تمام انگریزی اور اردو اخبار اور جملہ ماہرین ہیئت اس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانہ میں ہی جس کو عرصہ قریباً بارہ سال کا گذر چکا ہے اسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا ہے...اور چونکہ اس گرہن کے وقت میں مہدی معہود ہونے کا مدعی کوئی زمین پر بجز میرے نہیں تھا اور نہ کسی نے میری طرح اس گرہن کو اپنی مہدویت کا نشان قرار دے کر صد ہا اشتہار اور رسالے اُردو اور فارسی اور عربی میں دنیا میں شائع کئے اس لئے یہ نشان آسمانی میرے لئے متعین ہوا....یہ عظیم الشان نشان ہے جو مجھ سے پہلے ہزاروں علماء اور محد ثین اس کے وقوع کے اُمیدوار تھے اور منبروں پر چڑھ چڑھ کر اور رو رو کر اس کو یاد دلایا کرتے تھے چنانچہ سب سے آخر مولوی محمد لکھو کے والے اسی زمانہ میں اسی گرہن کی نسبت اپنی کتاب احوال الآخرت میں ایک شعر لکھ گئے ہیں جس میں مهدی موعود کا وقت بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے:.

Page 231

تعلیمی پاکٹ بک 209 تیرھویں چند ستیہو میں سورج گرہن ہوسی اُس سالے اندر ماہ رمضانے لکھیا ہک روایت والے حصہ اوّل (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 202 تا 205) یہ گرہن 1311ھ مطابق 1894ء میں لگے.نیز فرماتے ہیں:.یہ پیشگوئی چار پہلو رکھتی ہے.(1) یعنی چاند کا گرہن اس کی مقررہ راتوں میں سے پہلی رات میں ہونا.(2) سورج کا گرہن اس کے مقررہ دنوں میں سے بیج کے دن میں ہونا.(3) تیسرے یہ کہ رمضان کا مہینہ ہونا.(4) چوتھے مدعی کا موجود ہونا جس کی تکذیب کی گئی ہو.پس اگر اس پیشگوئی کی عظمت کا انکار ہے تو دنیا کی نظیر میں سے اس کی نظیر پیش کرو.تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 136) دلیل ہشتم ابوداؤد کی حدیث میں روایت ہے :.إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مِّنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا.(ابو داؤد كتاب الملاحم باب ما يذكر في قدر قرن المائة) ترجمه : بے شک اللہ تعالیٰ اس اُمت کے لئے ہر صدی کے سر پر ایسے شخص کو مبعوث فرماتا رہے گا جو اس امت کے لئے اس کے دین کی تجدید کرتا رہے.اس حدیث کی روشنی میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا یہ دعوی ہے کہ آپ ہی چودہویں صدی کے مجدد ہیں.آپ کے زمانہ میں کسی اور شخص

Page 232

210 حصہ اوّل تعلیمی پاکٹ بک نے مجد دمن اللہ ہونے کا دعویٰ تک نہیں کیا.لہذا یہ امر اس بات کی روشن دلیل ہے کہ فی الوقع آپ ہی تجدید اسلام کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں یہ عجیب بات ہے کہ آپ کے زمانہ میں کسی نے مجددیت کا جھوٹا دعوی بھی نہ کیا حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ اگر آپ معاذ اللہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتے تو خدا تعالیٰ آپ کے بالمقابل کسی اور شخص سے اپنی مجددیت کا اعلان کروا تا اور پھر وہ مقابلہ کر کے آپ کو شکست دے دیتا.دلیل نہم :- :.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہود کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:.قُلْ يَايُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ (الجمعة : 7).ترجمہ : اے رسول کہہ دے اے لوگو جو یہودی ہوئے اگر تمہارا یہ دعوی ہے کہ تم اللہ کے پیارے ہو سوائے ان لوگوں کے ( جو مسلمان ہیں) تو تم موت کی تمنا کروا گر تم صادق ہو.اس آیت سے ظاہر ہے کہ موت کی تمنا کرنے والا اگر اس تمنا کے بعد جلد ہلاک ہونے سے بچ جائے تو یہ امر اس بات کی صداقت پر گواہ ہوگا اگر کوئی غلط فہمی سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا پیارا سمجھتا ہو اور موت کی تمنا کر بیٹھے تو پھر اس کی موت نشان بن جاتی ہے جیسے ابو جہل نے جنگ بدر میں یہ تمنا کی کہ اے خدا جو ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے اس کو اسی جگہ موت دیدے چنانچہ وہ جنگ بدر میں مارا گیا اور اس کی موت اسلام کی صداقت کا نشان بن گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جھوٹا سمجھتے ہوئے اور مقابلے میں اپنے

Page 233

تعلیمی پاکٹ بک 211 حصہ اول آپ کو سچا سمجھتے ہوئے جن جن لوگوں نے آپ کیلئے بددعا کی اور آپ کے سچا ہونے کی صورت میں از خود اپنی موت چاہی وہ سب کے سب ہلاک ہوئے.حضرت مسیح موعود نے لوگوں کو یہ یقین دلانے کیلئے کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں بارگاہ الہی میں یہ دعا کی:.اے قدیر و خالق ارض و سما اے رحیم و مهربان و رہنما اے کہ میداری تو بردلہا نظر اے کہ از تو نیست چیزے مستتر گر تو می بینی مرا پُر فسق و شر گر تو دید استی که هستم بد گہر پاره پاره کن من بد کار را شاد گن این زمرہ اغیار را بر دل شاں ابرِ رحمت ہا ببار ہر مراد شاں بفضل خود برآر آتش افشان بر در و دیوار من د منم باش و تبه کن کار من در مرا از بند گانت یافتی قبله من آستانت یافتی در دل من آں محبت دیده کر جہاں آں راز را پوشیده با من از روئے محبت کارکن اند کے افشاء آں اسرار کن (حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 434) ترجمه : اے قادر اور آسمان وزمین کو پیدا کرنے والے! اے رحیم مہربان اور رہنما! اے وہ کہ جو دلوں پر نظر رکھتا ہے ! اے وہ ہستی کہ تجھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.اگر تو مجھے نا فرمانی اور شرارت سے بھرا ہوا دیکھتا ہے.اگر تو نے مجھے دیکھ لیا ہے کہ میں بداصل ہوں تو مجھے بدکار کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈال اور میرے مخالفوں کے گروہ کو خوش کر دے.ان کے دلوں پر اپنی رحمت کا بادل برسا اور اپنے فضل سے ان کی ہر مراد پوری کر دے اور میرے در و دیوار پر آگ برسا.میرا دشمن ہو جا اور میرا کاروبار تباہ کر دے.لیکن اگر تو نے مجھے

Page 234

تعلیمی پاکٹ بک 212 حصہ اول اپنا فرمانبردار پایا ہے اور میرے دل میں وہ محبت دیکھی ہے جس کا بھید تو نے دنیا سے پوشیدہ رکھا ہے تو مجھ سے محبت کی روح سے پیش آ اور ان اسرار کو تھوڑا سا ظاہر کر دے.اس دعا کے بعد آپ کے ہاتھ پر کئی نشان ظاہر ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں قبولیت بخشی اور آپ کی تباہی کی بجائے آپ کو ہر رنگ میں ترقی دے کر اپنی نصرت اور محبت کا ثبوت دے دیا.اس میں سوچنے والوں کے لئے ایک بڑا نشان ہے.دلیل دہم......علمی مقابلہ:.قرآن کریم میں مخالفین اسلام کو بالمقابل فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ كا چیلنج دیا گیا ہے کہ اس کی مثل ایک سورۃ بنا کر پیش کرو اور ساتھ ہی یہ پیشگوئی فرما دی اور ہدایت دی فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَفِرِينَ.(البقرة : 25) کہ اگر تم ایسا نہ کر سکو گے اور تم ہرگز ایسا نہیں کر سکو گے تو تم اس آگ سے بچاؤ کرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں.پھر خدا نے یہ سمجھایا کہ فَالمُ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا انْزِلَ بِعِلْمِ الله ـ (هود:15 ) کہ اگر مخالفین تمہیں اس چیلنج کا جواب نہ دیں تو پھر جان لو کہ یہ قرآن خدا تعالیٰ کے علم سے اتارا گیا ہے.مخالفین اسلام کا قرآن کی اس دعوت کے جواب میں عاجز رہ جانا اور صرف یہ اثر خالی کرنا لَو نَشَاءُ نَقُلْنَا مِثْلَ هَذَا إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ - (الانفال:32 ) ( کہ اگر ہم چاہتے تو اس کی مثل بنالا تے.یہ قرآن تو پرانے لوگوں کی کہانیاں ہے.) اس بات کی روشن دلیل ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور

Page 235

تعلیمی پاکٹ بک 213 حصہ اول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دعوی میں صادق ہیں کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں اور اسی نے آپ کو یہ علمی معجزہ عطا فرمایا ہے جس کے مقابلہ سے دنیا عاجز ہے.چونکہ مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند اور آپ کے ظلّ کامل ہیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلیت میں آپ کو علمی رنگ کا معجزہ اس وقت عطا کیا گیا جبکہ بعض لوگوں نے کہا کہ آپ عربی زبان پر قدرت نہیں رکھتے.آپ نے خدا تعالی کی تائید و نصرت سے دو کتا ہیں انجاز مسیح اور اعجاز احمدی شائع فرما ئیں اور اپنے زمانہ کے علماء کو ان کا مثل لانے کی دعوت دی.ان میں سے ہر کتاب کے ساتھ یہ پیشگوئی تھی کہ لوگ اس جیسی کتاب لانے پر قادر نہیں ہوں گے.اعجاز امسیح سورۃ الفاتحہ کی تفسیر پر مشتمل ہے جس میں حقائق و معارف کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے اس کے بارے میں آپ کو الہام ہوا مَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَتَنَمَّرَ فَسَوْفَ يَرَى أَنَّهُ تَنَدَّمَ وَتَدَمَّرَ ( ٹائیٹل پیج اعجاز مسیح ) یعنی جو اس کے جواب کے لئے کھڑا ہوگا وہ جلد دیکھ لے گا کہ وہ نادم ورسوا ہو گیا ہے.اعجاز اسیح کے جواب پر کوئی قادر نہ ہو سکا.اعجاز احمدی کا جواب لکھنے کے بارے میں مولوی ثناء اللہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی کہ وہ اس کے جواب پر قادر نہیں ہوں گے.

Page 236

تعلیمی پاکٹ بک 214 حصہ اوّل وو کلام الامام حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی صداقت کے سلسلہ میں تحریر فرماتے ہیں:.” میرے پر ایسی رات کو ئی کم گزرتی ہے جس میں مجھے یہ تسلی نہیں دی جاتی کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور میری آسمانی فوجیں تیرے ساتھ ہیں اگر چہ جولوگ دل کے پاک ہیں مرنے کے بعد خدا کو دیکھیں گے لیکن مجھے اُسی کے منہ کی قسم ہے کہ میں اب بھی اُس کو دیکھ رہا ہوں.دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے.اور سراسر بدقسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہودا اسکر یوطی اور ابو جہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے.اے لوگو! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دُعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہرگز تمہاری دُعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے.اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہونگے.اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کا ذبوں کے اور منہ

Page 237

تعلیمی پاکٹ بک 215 حصہ اول ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا.میں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افتراء کے ساتھ ہو.اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے.وہ خدمت جو عین وقت پر خداوند قدیر نے میرے سپرد کی ہے اور اسی کے لئے مجھے پیدا کیا ہے ہرگز ممکن نہیں کہ میں اس میں سستی کروں.اگر چہ آفتاب ایک طرف سے اور زمین ایک طرف سے باہم مل کر کچلنا چاہیں.انسان کیا ہے محض ایک کیڑا.اور بشر کیا ہے محض ایک مضغہ.پس کیونکر میں حتىی و قیوم کے حکم کو ایک کیڑے یا ایک مُضْغَہ کے لئے ٹال دوں.جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا.خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم.پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑو ! یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو.“ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 50،49) تمت بالخير وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

Page 238

Page 239

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک حصّہ دوم مرتبه قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ناظر اشاعت و تصنیف

Page 240

Page 241

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 219 حصہ دوم پیشگوئیوں کے اصول (1) پیشگوئیاں دو قسم کی ہوتی ہیں.بعض وعدہ پر مشتمل ہوتی ہیں اور بعض وعید یعنی کسی عذاب کی خبر پر.(1) جو پیشگوئیاں کسی وعدہ پر مشتمل ہوتی ہیں اگر اس کے ساتھ کوئی شرط مذکور نہ ہو تو وہ وعدہ لفظاً لفظاً پورا کر دیا جاتا ہے.لیکن اگر وہ وعدہ مشروط ہو اور جس شخص یا قوم کے متعلق وعدہ ہو وہ اس شرط کو پورا نہ کرے جس شرط سے یہ وعدہ مشروط ہے تو وہ وعدہ پورا نہیں کیا جاتا اس میں تاخیر ڈال دی جاتی ہے.چنانچہ قوم موسیٰ علیہ السلام کو کنعان کی سرزمین دینے کا ان الفاظ میں وعدہ کیا گیا تھا کہ:.يُقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَسِرِينَ - (المائدة:22) و یعنی اے قوم! ارض مقدسہ ( کنعان ) میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے اور (اس کام سے ) پشت نہ پھیر لینا ورنہ نامراد 66 لوٹو گے.“ یہ وعدہ پشت نہ پھیرنے سے مشروط تھا.چونکہ بنی اسرائیل نے یہ کہہ کر پشت پھیر دی کہ :.يُمُوسَى إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ...إِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيْهَا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا

Page 242

ندی علیمی پاکٹ بک 220 حصہ دوم فعِدُونَ.(المائدة: 23تا25) یعنی اے موسٰی ! اس بستی میں ایک زبر دست قوم رہتی ہے.جب تک وہ اس میں ہیں ہم اس میں داخل نہیں ہو نگے تم اور تمہارا خدا جا کر لڑائی کرو ہم یہاں ہی بیٹھتے ہیں.“ اس پر اللہ تعالیٰ نے وہ علاقہ اُن پر چالیس برس کے لئے حرام کر دیا.جیسا فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِيْنَ سَنَةً يَتِيْهُونَ فِي که فرمایا الْأَرْضِ (المائدة: 27) د یعنی وہ زمین ( کنعان ) اُن پر چالیس سال کے لئے حرام کر دی گئی.وہ زمین میں بھٹکتے رہے.“ وعید کی تمام پیشگوئیاں عدم عفو کی شرط سے مشروط ہوتی ہیں.چنانچہ عقائد میں یہ مسلم ہے کہ: إِنَّ جَمِيعَ الْوَعِيدَاتِ مَشْرُوْطَةٌ بِعَدَمِ الْعَفْوِ فَلَا يَلْزِمُ مِنْ تَرْكِهَا دُخُولُ الْكِذَبِ فِي كَلَامِ اللَّهِ.(تفسیر کبیر رازی جلد2صفحه 409 مصری) د یعنی وعیدی پیشگوئیوں میں یہ شرط ہوتی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے معاف نہ کر دیا تو لفظاً لفظاً پوری ہوتی ہیں.لہذا اگر وعیدی پیشگوئی پوری نہ ہو تو اس سے خدا کے کلام کا جھوٹا ہونا ثابت نہیں ہوتا.“ عقائد کی کتاب مسلم الثبوت کے صفحہ 28 میں ہے کہ :."إِنَّ الْإِيْعَادَ فِي كَلَامِهِ تَعَالَى مُقَيَّدٌ بِعَدَمِ الْعَفْوِ.“ کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر وعید میں عدم عضو کی شرط ہوتی ہے.“

Page 243

ندی تعلیمی پاکٹ بک تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ:.221 إِنَّ وَعِيدَ الْفُسَّاقِ مَشْرُوطٌ بِعَدَمِ الْعَفْوِ - " حصہ دوم (بیضاوی تفسیر آل عمران ع زیر آیت إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ ) کہ فاسقوں کے متعلق عذاب کی پیشگوئی کا پورا ہونا اس شرط سے مشروط ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ معاف نہ کرے.یہ اصول وعیدی پیشگوئی کے متعلق حدیث نبوی سے ماخوذ ہے.چنانچہ تفسیر روح المعانی جلد دوم صفحہ 55 مصری میں لکھا ہے:."إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَجُوزُ اَنْ يُخْلِفَ الْوَعِيدَ وَإِن امْتَنَعَ أَنْ يُخْلِفَ الْوَعْدَ وَ بِهَذَا وَرَدَتِ السُّنَّةُ فَفِي حَدِيثِ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ وَعَدَهُ اللَّهُ عَلَى عَمَلِهِ ثَوَابًا فَهُوَ مُنْجِرٌ لَهُ وَمَنْ اَوْعَدَهُ عَلَى عَمَلِهِ عِقَابًا فَهُوَ بِالْخَيَارِ وَمِنْ اَدْعِيَةِ الائِمَّةِ الصَّادِقِينَ يَا مَنْ إِذَا وَعَدَ وَفَا وَإِذَا تَوَعْدَ عَفَا.“ یعنی خدا تعالیٰ کے لئے جائز ہے کہ وہ وعید ( یعنی عذاب کی پیشگوئی ) میں مختلف کرے اگر چہ وعدہ کے خلاف کرنا ممتنع ہے.اور اسی طرح سنت میں بھی وارد ہوا ہے.چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اگر خدا تعالیٰ انسان کے عمل پر کسی ثواب (انعام) کا وعدہ کرے تو اُسے پورا کرتا ہے اور جس سے اُس کے کسی عمل پر عذاب کی وعید کرے اُسے اختیار ہے(چاہے تو اُسے پورا کرے چاہے تو معاف کر دے) اور ائمہ صادقین کی دُعاؤں میں سے ایک دعا یوں ہے کہ اے وہ اللہ کہ جب وعدہ کرے تو پورا کرتا ہے اور جب وعید کرے تو معاف کرتا ہے.“

Page 244

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 222 عذاب ادفی رجوع سے بھی مل سکتا ہے حصہ دوم قرآن مجید بھی اس اصل کا مؤید ہے کہ توبہ استغفار بلکہ ادنی رجوع سے بھی عذاب الہی مل جاتا ہے.چنانچہ سورہ زخرف میں ہے کہ جب قوم فرعون پر موعود عذاب آیا تھا.تو وہ کہتے تھے کہ:.يَايُّهَ السُّحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ.فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِذَا هُمْ يَنْكُثُونَ.(الزخرف: 50-51) د یعنی انہوں نے کہا اے جادوگر! ہمارے لئے اپنے رب سے دُعا کر.اس عہد کی وجہ سے جو اُس نے تجھ سے کیا ہے ہم یقیناً ہدایت پانے والے ہیں.اور جب ہم نے ان سے عذاب دُور کر دیا تو وہ معاً وعدہ توڑ دیتے تھے.“ اس آیت سے ظاہر ہے کہ عذاب ادنی رجوع سے بھی مل جاتا ہے.قوم فرعون حضرت موسی علیہ السلام کو جادو گر کہتی ہے مگر صرف دُعا کی درخواست کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ اُن سے عذاب کو دور کر دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ لوگ عہد شکنی کریں گے.پھر قرآن کریم میں ہے کہ:.وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ.(الانفال : 34) کہ خدا تعالیٰ انہیں عذاب دینے والا نہیں درآنحالیکہ وہ استغفار کر رہے ہوں.“

Page 245

ی علیمی پاکٹ بک 223 پیشنگوئیوں میں ملہم اجتہاد میں غلطی کر سکتا ہے حصہ دوم (2) ملہم اپنے الہام کا بعض اوقات اپنے اجتہاد سے ایک مفہوم سمجھتا ہے لیکن اس کا یہ اجتہادی خیال درست نہیں ہوتا.اس لئے اس کے اپنے اجتہادی معنوں میں تو وہ خبر غیب پوری نہیں ہوتی.البتہ اصل الہام کے الفاظ میں بہر حال پوری ہو جاتی ہے اور واقعات الہامی الفاظ کی صحیح تعبیر کر دیتے ہیں.قرآن کریم میں ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا کہ میں تیرے اہل کو غرق ہونے سے بچالوں گا.جب اُن کا بیٹا غرق ہونے لگا.تو انہوں نے خدا تعالے کو اس کا وعدہ اِن الفاظ میں یاد دلایا کہ:.اِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ - (هود: 46) یعنی بے شک میرا بیٹا میرے اہل سے ہے اور تیرا وعدہ ( کہ میں تیرے اہل کو بچاؤں گا ) سچا ہے.“ ان الفاظ میں اپنے بیٹے کے لئے بچائے جانے کی درخواست تھی.اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ : إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا تَتَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَهِلِينَ.(هود: 47) یعنی یقیناً وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ عمل کے لحاظ سے صالح نہیں.یا تیرا ایسی درخواست کرنا مناسب نہیں.پس تو ایسی بات کے لئے جس کا تجھے علم نہیں مجھ سے درخواست مت کر.میں تجھے (اس لئے) نصیحت کرتا ہوں کہ (مبادا) تم نادانوں میں سے ہو جاؤ.“

Page 246

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 224 حصہ دوم ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے غرق ہونے والے بیٹے کو خدا کی پیشگوئی میں مذکور لفظ اہل میں داخل سمجھا.کیونکہ جسمانی لحاظ سے وہ بہر حال آپ کے اہل میں داخل تھا.لیکن علم الہی میں اہل کے بچایا جانے کے وعدہ میں وہ داخل نہ تھا.کیونکہ خدا کے نزدیک وہ اہل مراد تھے جو روحانی لحاظ سے بھی ”اہل ہوں.اس لئے نوح علیہ السلام نے اجتہادی غلطی سے بچائے جانے والے اہل کے وعدہ میں اسے داخل سمجھا حالانکہ وہ خدا کے وعدہ میں شامل نہ تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے نوح کو اس کے بچایا جانے کی درخواست پر ان کی غلطی سے متنبہ کر دیا.پس ضروری نہیں کہ لہم الہام کے جو معنی سمجھے وہ ضرور درست ہوں یا جس امر کو وہ خدائی وعدہ سمجھے وہ ضرور خدائی وعدہ ہو اور اس میں تخلف جائز نہ ہو.ایسے خیالی وعدہ کو پورا کرنے کا خدا تعالیٰ ذمہ وار نہیں ہوتا.اسلامی عقائد کی کتابوں میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ: إِنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْيَجُتَهِدُ فَيَكُونُ خَطاً - نبراس شرح الشرح لعقائد النسفی جلد دوم صفحه 392) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اجتہاد کرتے تو اس میں خطا ہو جاتی.آگے اس کے ثبوت میں حدیث نبوی ان الفاظ میں درج کی ہے:.الْمُجْتَهِدُ يُخْطِئُ وَيُصِيبُ فَإِنْ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِنْ اَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ وَاحِدٌ.(نبراس) کہ مجتہد اجتہاد میں غلطی بھی کرتا ہے اور درست اجتہاد بھی کرتا ہے.اگر اس کا اجتہاد درست ہو تو اُسے دو اجر ملتے ہیں (ایک اجتہاد کرنے کا اور دوسرا اجتہاد درست ہونے کا ) اور اگر وہ غلطی کرے تو اُسے ایک اجر ( یعنی صرف اجتہاد کرنے کا ) ملتا ہے.

Page 247

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 225 حصہ دوم لہذا بعض اوقات ملہم ایک وعیدی پیشگوئی کو قضائے مبرم سمجھ لیتا ہے لیکن عنداللہ وہ قضائے معلق ہوتی ہے.ایسی مبرم سمجھی جانے والی قضاء بعض اوقات صدقہ اور دُعا وغیرہ سے مل جاتی ہے.چنانچہ حدیث میں ہے:.أَكْثِرُ مِنَ الدُّعَاءِ فَإِنَّ الدُّعَاءَ يَرُدُّ الْقَضَاءَ الْمُبْرَمَ.(کنز العمال جلد 2 الباب الثامن من الدعاء....حديث نمبر 3120) کہ کثرت سے دُعا کرو.کیونکہ دُعا تقدیر مبرم (مبرم سمجھی ہوئی ) کو بھی ٹال دیتی ہے.اسی طرح صدقہ کے بارے میں ہے کہ:."إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الصَّدَقَةَ تَدْفَعُ الْبَلاءَ الْمُبْرَمَ النَّازِلَ مِنَ السَّمَاءِ.(روض الرياضين بر حاشيه قصص الانبياء صفحه (364) یعنی ” صدقہ و خیرات اس بلاء کو دُور کر دیتا ہے جو مبرم طور پر آسمان سے نازل ہونے والی ہو.( یعنی جسے بظاہر مبرم سمجھا جاتا ہو ) اسلام میں خدا کے دربار سے کوئی شخص مایوس نہیں لوٹتا.اس لئے وہ فرماتا ہے:.قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيْعًا.(الزمر: 54) ”اے میرے بندو! جنہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا تم خدا کی رحمت سے مایوس مت ہو.بیشک اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو بخش دے گا.اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے.“

Page 248

احمد یتعلیمی پاکٹ بک 226 حصہ دوم حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم پر چالیس دنوں کے اندر عذاب نازل ہونے کی پیشگوئی فرمائی (در منثور وغیرہ) اور اپنی پیشگوئی کے متعلق انہیں اتنا یقین تھا کہ شہر سے باہر ڈیرہ ڈال کر عذاب کا انتظار کرنے لگے.مگر قوم نے ٹاٹ پہن لئے.اور عورتوں ، بچوں ، جانوروں اور چارپایوں کو بھوکا رکھ کر خدا تعالیٰ کے حضور واویلا کیا تو خدا نے قوم کے رجوع کی وجہ سے اس سے عذاب ٹال دیا.لیکن حضرت یونس علیہ السلام اس خیال سے بھاگ کھڑے ہوئے کہ میری پیشگوئی پوری نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مجھے جھٹلائیں گے.اور اس بھاگنے کی وجہ سے اُن پر گرفت ہوئی اور انہیں تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہنا پڑا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ مَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيْمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا امَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ (يونس: 99) کہ کیوں کوئی اور بستی ایمان نہ لائی سوائے یونس کی بستی کے.جب اس بستی کے رہنے والے ایمان لے آئے تو ہم نے اُن سے عذاب دُور کر دیا.“ عَلَيْهِ اور یونس علیہ السلام کے متعلق ایک اور جگہ آیا ہے کہ:.وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ (الانبياء : 88) کہ ذا التون ( مچھلی والا.یونس ) قوم سے ناراض ہو کر چل نکلا اور اس نے یہ گمان کیا کہ ہم اس پر کوئی تنگی نہیں کریں گے.‘ (لیکن اس پر تنگی وارد ہوئی یعنی اُسے مچھلی کے پیٹ میں رہنا پڑا.)

Page 249

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 227 حصہ دوم حضرت یونس علیہ السلام سے یہ اجتہادی غلطی سرزد ہوئی تھی کہ وہ اس وجہ سے بھاگ نکلے کہ میری عذاب کی پیشگوئی لفظاً پوری نہیں ہوئی حالانکہ یہ پیشگوئی وعیدی پیشگوئیوں کے قاعدہ کے ماتحت قوم کے تو بہ اور رجوع سے ٹل گئی تھی اور یونس علیہ السلام پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا تھا.مگر چونکہ وہ ایک اجتہادی خطا سے بھاگ نکلے تھے اس لئے خدا تعالیٰ حضرت یونس علیہ السلام کے اس بلا وجہ بھاگ نکلنے کے واقعہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت فرماتا ہے کہ آپ بھی کسی وعیدی پیشگوئی کے متعلق ایسا نمونہ نہ دکھا ئیں جو یونس علیہ السلام نے دکھایا تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی غرض سے مخاطب کر کے فرماتا ہے:.فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظُوْم.(القلم: 49) ترجمہ.اے نبی ! وعیدی پیشگوئیوں میں خوب انتظار کرنا اور مچھلی والے یعنی یونس کی طرح نہ بنا جب اس نے خدا کو پکارا اس حال میں کہ وہ غم سے بھرا ہوا تھا ( کہ میری پیشگوئی کیوں پوری نہ ہوئی).اور قرآن مجید اس واقعہ کو بیان کر کے اُمتِ محمدیہ کے ملہمین کو بھی اللہ تعالیٰ بالواسطہ نصیحت کرتا ہے کہ وعیدی پیشگوئیاں اگر لفظاً پوری نہ ہوں اور جس کے بارہ میں پیشگوئی ہو اس کے توبہ کر لینے سے اگر پیشگوئی مل جائے تو یہ گھبراہٹ کی جگہ نہیں.اور اُمت کے علماء اور دوسرے لوگوں کو اس واقعہ کے ذکر سے متنبہ کیا ہے کہ وہ وعیدی پیشگوئیوں پر بلاوجہ کسی ملہم پر زبان طعن دراز نہ کریں کیونکہ وعیدی پیشگوئیاں ہمیشہ تو بہ کی شرط سے مشروط ہوتی ہیں اور توبہ کر لینے والوں سے ان میں بیان کردہ عذاب ٹل جایا کرتا ہے.اس لئے یہ بات محلّ اعتراض نہیں.

Page 250

احمد یہ تعلیمی یا کہ پاکٹ بک 228 صلح حدیبیہ کا واقعہ حصہ دوم صلح حدیبیہ کا واقعہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ انبیاء سے اجتہادی خطا کے واقع ہونے میں خدا تعالیٰ کو خاص حکمتیں اور مصلحتیں بھی مد نظر ہوتی ہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے رویا میں دکھایا کہ مسلمان بے خوف ہوکر بالکل امن سے خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اور سرمنڈوا کر احرام کھول رہے ہیں.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق چودہ سو صحابہ کی جماعت کے ساتھ عمرہ (چھوٹے حج) کے لئے روانہ ہو گئے.جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو مشرکین مکہ نے آپ کا داخلہ روک دیا.چونکہ رویا بتاتی تھی کہ مکہ میں داخلہ امن سے ہوگا اور کوئی خوف نہیں ہوگا.اس لئے صحابہ کو تلوار کے علاوہ دیگر اسلحہ ساتھ لے جانے کی اجازت نہ تھی.حدیبیہ کے مقام پر مشرکین مکہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومشرکین کی خواہش پر ایک صلح کا معاہدہ کرنا پڑا جس میں شرط تھی کہ مسلمان اگلے سال آئیں تو اجازت دی جائے گی.صلح کی شرائط میں مشرکین نے یہ شرط بھی پیش کی کہ اگر مکہ کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو اُسے واپس کرنا پڑے گا.اور اگر مدینہ سے کوئی مکہ آئے گا تو اُسے واپس نہیں کیا جائے گا.یہ شرط مساویانہ نہ تھی.اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ مسلمان اگر اس شرط کو قبول کرلیں تو گویا وہ مشرکین سے دب کر صلح کرنے والے ہوں گے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منشاء الہی سے یہ شرطیں مان لیں اور مشرکین سے صلح کا معاہدہ ہو گیا.اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالیٰ نے منکشف فرمایا کہ یہ شرائط مسلمانوں کے لئے کوئی نقصان دہ نہیں.چنانچہ بالآخر یہی شرائط خود مشرکین کے لئے وبال بن گئیں.انہوں نے اس معاہدہ کی

Page 251

229 حصہ دوم احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک خلاف ورزی کی اور اس کے نتیجہ میں مکہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چڑھائی کی اور مکہ فتح ہو گیا.لیکن چونکہ بظاہر شرائط سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ صلح دب کر کی جارہی ہے اس لئے بعض صحابہ کرام پر یہ معاہدہ بہت شاق گزرا.چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی گفتگو کی جس کا وہ بعد میں کفارہ دیتے رہے.چنانچہ صحیح بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الفتح جلد 3 صفحہ 137 مصری میں حدیث ہے:.جَاءَ عُمَرُ فَقَالَ اَلَسُنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ.أَلَيْسَ قَتُلانَا فِى الْجَنَّةِ وَهُمْ فِى النَّارِ.قَالَ بَلَى قَالَ فَفِيمَ أُعْطِيَ الدَّنِيَّةُ فِى دِيْنِنَا وَ نَرْجِعُ وَلَمَّايَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِيَ اللَّهُ أَبَدًا فَرَجَعَ مُتَغَيِّفًا - کہ حضرت عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم سچائی پر اور وہ لوگ ( مشرکین مکہ ) باطل پر نہیں ؟.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں (یعنی ہم حق پر ہیں اور وہ باطل پر ) حضرت عمرؓ نے یہ بھی کہا کہ ہمارے مقتولین جنتی اور اُنکے مقتولین ناری نہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ہاں.(یعنی ہمارے مقتولین جنتی اور اُن کے ناری ہیں ) حضرت عمر نے کہا تو پھر کس وجہ سے ہمارے دین کے معاملہ میں کمزوری دکھائی گئی ہے ( یعنی جنگ نہیں کی جارہی اور ایسی شرائط پر صلح کی جارہی ہے جس میں مشرکین کی طرف سے ہم پر نا جائز دباؤ ڈالا گیا ہے ) اور ہم واپس جارہے ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان کوئی فیصلہ نہیں کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے ابن خطاب ! میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا.پس حضرت عمرؓ ناراض ہونے کی حالت میں واپس ہوئے.“

Page 252

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 230 حصہ دوم پھر اُن کی یہ گفتگو صحیح بخاری کتاب الشـــروط بـاب الـشـرط في الجهاد والمصالحة جلد 2 صفحہ 81 مطبوعہ مصر میں یوں درج ہے:.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا.اَلَسْتَ نِبيَّ اللهِ حَقًّا.کیا آپ نیچے نبی نہیں ؟ آپ نے فرمایا بلی.ہاں میں سچا نبی ہوں.پھر کہا کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ؟.آپ نے فرمایا.ہاں ( یعنی ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر ہے ) میں نے کہا فَلِمَ نُعْطِی الدَّنِيَّةَ فِی دِینِنَا إِذَا کہ پھر ہم اپنے دین میں کیوں کمزوری دکھائیں (یعنی کیوں دب کر صلح کریں ).آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اس کی نافرمانی کرنے والا نہیں وہ میر امددگار ہے.میں نے کہا اَوَلَيْسَ كُنتَ تُحَدِّثُنَا إِنَّا سَنَأْتِي الْبَيْتَ فَنَطُوفَ - کہ آپ ہم سے بیان نہیں کرتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ میں آئیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا.ہاں تو کیا میں تمہیں یہ خبر دیتا تھا کہ ہم اسی سال ہی آئیں گے؟ میں نے کہا نہیں.تو آپ نے فرمایا تم بیت اللہ میں آنے والے ہو.اور اس کا طواف کرنے والے ہو.اس کے بعد اسی مضمون کی گفتگو حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر سے بھی کی اور انہوں نے ایسے ہی جوابات دیئے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیئے تھے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں اس گفتگو کے بعد مجھے کئی اعمال کرنے پڑے.(یعنی کفارہ ادا کرنا پڑا) زاد المعاد میں امام ابن قیم یہ روایت بھی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے کہا:.مَا شَكَكْتُ مُنْذُ أَسْلَمْتُ إِلَّا يَوْمَئِذٍ - (زادالمعاد جلد اوّل صفحہ 376) کہ میں جب مسلمان ہوا مجھے صرف اسی دن شک پیدا ہوا.“

Page 253

231 حصہ دوم ندی تعلیمی پاکٹ بک پھر آگے بخاری کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اُٹھو قربانی دو.پھر سر منڈواؤ ( یعنی احرام کھول دو) راوی کہتا ہے.فَوَ اللَّهِ مَا قَامَ مِنْهُمْ رَجُلٌ حَتَّى قَالَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ.کہ خدا کی قسم کوئی صحابہ سے نہ اُٹھا یہانتک کہ آپ نے تین دفعہ یہ حکم دیا.جب کوئی بھی نہ اٹھا تو آپ حضرت اُم سلمہ اپنی زوجہ ) کے پاس گئے اور لوگوں کے اس معاملہ کا ذکر کیا.اُم سلمہ نے کہا.اے نبی اللہ کیا آپ ایسا چاہتے ہیں؟ آپ ان میں سے کسی سے ایک کلمہ بھی نہ کہیے.اپنی قربانی دیکھیئے.پھر سر مونڈنے والے کو بلائیے کہ وہ آپ کا سرمونڈ دے.آپ نے ایسا ہی کیا.باہر نکلے.کسی سے کلام نہ کی.اپنی قربانی دی اور سرمنڈ ایا.جب صحابہ نے یہ دیکھا تو وہ بھی اُٹھے اور انہوں نے قربانیاں دیں اور بعض بعض کا سر مونڈنے لگے.حَتَّى كَادَ بَعْضُهُمُ يَقْتُلُ بَعْضًا عَمَّا کہ قریب تھا کہ غم کے مارے(یعنی بدحواسی میں) ایک دوسرے کو قتل کر دیں ( کیونکہ ان کے دل ان شرائط کی وجہ سے مغموم تھے ) پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رویال کے بعد عمرہ کے لئے چلے جانا محض اپنے اجتہاد کی بناء پر تھا.آپ نے تعبیر یہی خیال کی تھی کہ عمرہ امن سے ہو جائے گا.گو اس سال تو عمرہ نہ ہو سکا مگر یہ اجتہادی سفر بھی ایک لطیف حکمت کا حامل ثابت ہوا.گو اس سال طواف و زیارت کعبہ تو نہ ہو سکی مگر لے یہ رویا طواف کعبہ کے متعلق تھی.اس کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گلے سال اس کے پورا ہونے کی شرط سے اطلاع نہیں دی گئی تھی ہاں اللہ تعالیٰ کے مدنظر یہی تھا کہ صلح واقعہ ہو جانے کے بعد اگلے سال یہ رویا پوری ہوگی.اس شرط پر اطلاع نہ دیا جانے کی وجہ سے ہی لوگوں کو ابتلا پیش آیا.اس سے ظاہر ہے بعض اوقات وعدہ عند اللہ مشروط ہوتا ہے مگر ماہم کو خاص مصلحت کے ماتحت شرط سے آگاہ نہیں کیا جاتا.

Page 254

232 حصہ دوم مشرکوں سے صلح کا معاہدہ ہو گیا جس کے نتیجہ میں بالآخر مشرکین کے خود معاہدہ کی شرائط تو ڑ دینے پر یہ معاہدہ فتح مکہ پر منتج ہوا.چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.لَقَدْ صَدَقَ اللهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ (الفتح: 28) کہ خدا تعالیٰ نے رسول کو جور و یا دکھائی تھی اسے سچا کر دکھایا ہے کہ تم ضرور مسجد حرام میں امن سے داخل ہو گے.اپنے سر منڈاتے ہوئے یا تراشتے ہوئے اور کسی سے نہ ڈرتے ہوئے فَعَلِمَ مَالَمْ تَعْلَمُوا.اللہ تو اس سے وہ کچھ جانتا تھا ( یعنی وقت میں تاخیر کی مصلحت ) جو تمہارے علم میں نہ تھا تو خدا تعالیٰ نے قریب ہی کے زمانہ میں فتح دے دی.پس نبی کی اجتہادی خطا میں بھی بعض اوقات خدا تعالیٰ کی کوئی لطیف حکمت ہوتی ہے.گو اس اجتہادی خطا کے نتیجہ سے مسلمانوں کے دل ٹوٹ گئے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کو بھی سخت دھکا لگا تھا.مگر آخر خدا کی حکمت ظاہر ہوئی اور اس کے رسول کی بات بھی پوری ہوئی اور اس صلح کے نتیجہ میں جو مسلمانوں کا دل توڑ رہی تھی خدا تعالیٰ نے مکہ فتح کرا دیا.چونکہ یہ وعدہ کی پیشگوئی تھی اس لئے ٹل نہیں سکتی تھی.صلح حدیبیہ کے متعلق مفسرین کے اقوال (1) امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ تفسیر جلالین تفسیر سورة الفتح صفحه 424 میں سورۃ فتح کے شان نزول میں لکھتے ہیں:.رأى رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عليهِ وسَلَّم فِي النَّومِ عَامَ الحديبية قَبْلَ خُرُوجِهِ أَنَّهُ يَدْخُلُ مَكَّةَ هُوَ وَاَصْحَابُهُ آمِنِيْنَ يُحَلَّقُونَ وَيُقَصِرُونَ فَاَخْبَرَ بِذلِكَ الصَّحَابَةَ فَفَرِحُوا فَلَمَّا خَرَجُوا مَعَهُ وَصَدَّهُمُ الْكُفَّارُ بِالحُدَيْبِيَّةِ رَجَعُوا وَشَقَّ عَلَيْهِمْ

Page 255

ندی علیمی پاکٹ بک 233 حصہ دوم بِذلِكَ وَ رَابَ بعض المَنَافِقِينَ فَنَزَلَتْ.کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والے سال (سفر پر ) باہر نکلنے سے پہلے خواب میں دیکھا کہ آپ معہ صحابہ مکہ میں امن سے داخل ہوئے ہیں.سرمنڈاتے یا تراشتے ہوئے.تو آپ نے اس امر کی صحابہ کو خبر دی جس پر وہ خوش ہوئے.پس جب وہ آپ کے ساتھ نکلے اور کفار نے انہیں حدیبیہ پر روک دیا تو وہ ایسی حالت میں واپس ہوئے کہ یہ امران پر شاق تھا.اور بعض منافقوں نے شک کیا تو سورۃ فتح نازل ہوئی.“ (2) امام ابن قیم آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:.أَخْبَرَ سُبْحَانَهُ أَنَّهُ صَدَقَ رَسُوْلَهُ رُؤْيَاهُ فِي دُخُولِهِمُ الْمَسْجِدَ آمِنِينَ وَانَّهُ سَيَكُونُ وَلَابُدَّ وَلَكِن لَّمْ يَكُنُ قَدْ آنَ وَقْتُ ذَلِكَ فِي الْعَامِ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ عَلِمَ مِنْ مَّصْلَحَةِ تَأْخِيرِهِ إِلَى وَقْتِهِ مَالَمُ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ فَا نَتُمُ أَحْبَبْتُمُ اسْتِعْجَالَ ذَلِكَ وَالرَّبُّ تَعَالَى فَانتُم يَعْلَمُ مَصْلَحَةَ التَّأْخِير.اللہ سبحانہ نے اپنے رسول کو سچی خواب دکھائی جو اُن کے مسجد (حرام) میں امن سے داخل ہونے کے متعلق تھی کہ ایسا عنقریب ہوگا.یہ ضرور واقع ہوگا لیکن اس سال ابھی اس کا وقت نہ آیا تھا.اور اللہ سبحانہ اس کے وقت کی تاخیر کی مصلحت جانتا تھا جو تم لوگوں نے نہ جانی.پس تم نے تو اس بات کا جلدی وقوع میں آنا چاہا اور خدا تعالیٰ اس میں تاخیر کی مصلحت جانتا (زادالمعاد جلد اوّل صفحہ 384) (3) تفسیر روح البیان جلد 4 صفحہ 501 میں لکھا ہے:.انّ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلَّمَ رأى فِي المَنَامِ أَنَّهُ

Page 256

234 حصہ دوم مد یتعلیمی پاکٹ بک دخَلَ مكَّةَ واصحابُهُ آمنين.....وَاَخْبَرَ بذلك الصحابةَ فَفَرِحُوا ثُمَّ أَخْبَر اصحابَهُ إِنَّهُ يُرِيدُ الْخُرُوجَ لِلْعُمُرِةِ....كَانَ المسلمون لا يَشُكُون فِي دَخُولِهم مكَّةَ وطوافهم البيت ذلك العامِ لِلرُّؤْيَا التي رأيها النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلّم فلما رأوا الصلحَ دَخَلَهُمْ مِنْ ذلك أَمُرْ عَظِيمٌ.کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ اور صحابہ مکہ میں امن سے داخل ہورہے ہیں.آپ نے اس کی خبر صحابہ کو دی وہ خوش ہوئے.پھر آپ نے بتایا کہ آپ عمرہ کے لئے جانا چاہتے ہیں.مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس رویا کی وجہ سے اسی سال مکہ میں داخل ہونے اور بیت اللہ کا طواف کرنے کے بارہ میں کوئی شک نہ تھا.جب انہوں نے صلح ( کا وقوع ) دیکھا تو اس سے انہیں سخت صدمہ ہوا.پس اس اجتہادی غلطی سے گو مسلمانوں کو بہت سخت صدمہ ہوا.لیکن اجتہادی غلطی کوئی قابلِ اعتراض امر نہیں.اجتہادی خطا کا ایک اور واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَهَاجِرُ مِنْ مَّكَّةَ إِلَى أَرْضِ بِهَا نَخْلٌ فَذَهَب وَهُلِى إِلَى أَنَّهَا اليَمَامَةُ أَوْهَجَرُ فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ يَتْرَبَ.(بخاری کتاب مناقب الانصار باب هجرة النبي) کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایک کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں تو میرا خیال (اجتہادا) اس طرف گیا کہ یہ سرزمین یمامہ یا ہجر ہوگی.لیکن اچانک وہ زمین مدینہ یثرب نکلی.

Page 257

ندی تعلیمی پاکٹ بک 235 حصہ دوم پس اجتہادی غلطی اگر نبی سے سرزد ہو تو یہ نبوت میں حارج نہیں.اور اس پر اعتراض کرنا دیانتداری نہیں.تقدیر مبرم کی اقسام وہ تقدیر مبرم جس کے دُعا وصدقہ سے ٹل جانے کا ذکر احادیث نبویہ کی رُو سے قبل ازیں پیش کیا جا چکا ہے ایسی تقدیر مبرم ہوتی ہے جو دراصل خدا کے نزدیک تو مبرم نہیں ہوتی بلکہ معلق ہی ہوتی ہے.لیکن ملہم پر اسکا معلق ہونا ظاہر نہیں کیا جاتا اور وہ اجتہاد اس کے قطعی مبرم ہونے کا حکم ہی لگا دیتا ہے اور پھر خبر کے پورا نہ ہونے پر پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ دراصل معلق تھی.چنانچہ حضرت مجد دالف ثانی علیہ الرحمہ مکتوبات جلد اول مکتوب نمبر 217 میں لکھتے ہیں : باید دانست اگر پرسند که سبب چیست که در بعضی از کشوف کونی که از اولیاء اللہ صادر می گردد غلط واقع مےشود وخلاف بظہو ر مے آید.مثلاً خبر کردند که فلان بعد از یکماه خواهد مرد یا از سفر بوطن مراجعت خواهد نمود اتفاقاً بعد از یکماه از میں دو چیز بیچ کدام بوقوع نیامد - در جواب گوئم کہ حصول آں مکشوف و مخبر عنه مشروط بشرائط بوده است که صاحب کشف در آن وقت به تفصیل اطلاع نیافته وحکم کرده بحصول آں شئی مطلقاً یا آنکه گوئم حکمی از احکام لوح محفوظ بر عارفے ظاہر شدہ کہ آں حکم فی نفسه قابل محوداثبات است و از قبیل قضائے معلق اما آن عارف را از تعلیق و قابلیت محووے خبر نے دریں صورت 66 اگر بمقتضائے علم خود حکم کند نا چار احتمال تختلف خواهد داشت.“ کہ جاننا چاہئیے اگر یہ سوال کریں کہ اس بات کا کیا سبب ہے کہ بعض آئندہ ہونے والے واقعات کی خبر دینے سے متعلق بعض کشوف جو خدا

Page 258

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 236 حصہ دوم کے پیاروں سے صادر ہوتے ہیں.غلط واقع ہو جاتے ہیں اور اُن کے خلاف ظہور میں آتا ہے.مثلاً خبر دیتے ہیں کہ فلاں شخص ایک ماہ میں مر جائے گا یا سفر سے وطن واپس آجائے گا.اتفاقاً ایک ماہ کے بعد دونوں میں سے کوئی بات وقوع میں نہیں آتی.اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ یہ کشف اور اس کی خبر مشروط بشرائط ہوتی ہے جس پر اس وقت صاحب کشف کو ان شرائط کی تفصیل سے اطلاع نہیں ملتی وہ اس کے مطلق پورے ہونے کا حکم لگا دیتا ہے یا یہ کہ لوح محفوظ کے احکام کلی طور پر اس عارف پر ظاہر نہیں ہوئے کہ وہ حکم فی نفسہ محو واثبات کے قابل ہے اور قضائے معلق میں سے ہے.لیکن اس عارف کو اس کی تعلیق اور محو کی قابلیت کی خبر نہیں ہوتی.اس صورت میں اپنے علم کے تقاضا کے مطابق وہ حکم لگا دیتا ہے.ناچار ایسی خبر کے پورا نہ ہونے کا احتمال ہوگا.“ مکتوبات جلد اوّل صفحہ 122-123 مکتوب نمبر 217 مطبوعہ رؤف اکیڈیمی لاہور ) اسی مکتوب میں اگلے صفحہ پر قضائے معلق کی دو قسمیں یوں بیان کرتے ہیں کہ :- قضائے معلق بر دو گونه است قضائ است که تعلیق او را در لوح محفوظ ظاہر ساخته اند و ملائکه را بر آن اطلاع داده و قضائے کہ تعلیق او نزد خدا است حبلت شانه و بس و در لوح محفوظ صورت قضائے مبرم دارد و این قسم اخیر از قضائے معلق نیز احتمال دارد در تبدیل رنگ قسم اول.مکتوبات جلد اوّل صفحه 124 مکتوب نمبر 217 مطبوعہ رؤف اکیڈیمی لاہور ) کہ قضائے معلق کی دو قسمیں ہیں.ایک قضائے معلق وہ ہے جس کا معلق ہونا لوح محفوظ میں ظاہر کر دیا گیا ہوتا ہے اور فرشتوں کو اس (تعلیق ) پر اطلاع دے دی جاتی ہے.اور ایک قضائے معلق وہ ہے جس کا معلق ہونا

Page 259

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 237 حصہ دوم صرف خدا تعالیٰ جل شانہ ہی جانتا ہے.اور لوح محفوظ میں وہ قضائے مبرم کی صورت میں ہوتی ہے.یہ آخری قسم قضائے معلق کی بھی (جوصورۃ مبرم ہوتی ہے) پہلی قسم کی قضا کی طرح تبدیلی کا احتمال رکھتی ہے“.ایک واقعہ اس جگہ حضرت مجد دالف ثانی علیہ الرحمۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ایک واقعہ اور حضرت جبریل علیہ السلام کی پیشگوئی بھی درج کرتے ہیں جس میں ایک شخص کی موت کی خبر دی گئی تھی.مگر وہ صدقہ دینے کی وجہ سے بچ گیا.(مکتوبات جلد اوّل صفحہ 232) ایک اور واقعہ تفسیر روح البیان مطبوعہ مصر جلد 1 صفحہ 257 میں آتا ہے:.إِنَّ قَصَّارًا مَرَّ عَلَى عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ مَعَ جَمَاعَةٍ مِّنَ الْحَوَارِيِّينَ فَقَالَ لَهُمْ عِيسَى احْضُرُوا جَنَازَةَ هَذَا الرَّجُلِ وَقْتَ الظُّهْرِ فَلَمْ يَمُتْ فَنَزَلَ جِبْرِيلُ وَقَالَ أَلَمْ تُخْبِرُنِي بِمَوْتِ هذَا الْقَصَّارِ فَقَالَ نَعَمْ وَلَكِنْ تَصَدَّقَ بَعْدَ ذَلِكَ بِثَلَاثَةِ أَرْغِفَةٍ فَنَجَا مِنَ الْمَوْتِ.“ کہ ایک دھوبی حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس سے جب ایک حواریوں کی جماعت اُن کے ساتھ تھی گزرا.حضرت عیسی علیہ السلام نے حواریوں سے کہا کہ اس آدمی کے جنازہ پر ظہر کے وقت حاضر ہو جانا.وہ نہ مرا تو جبریل نازل ہوا.حضرت عیسی علیہ السلام نے اُسے کہا کیا تو نے مجھے اس دھوبی کی موت کی خبر نہ دی تھی؟ جبریل نے کہا ہاں.لیکن اُس نے تین

Page 260

238 حصہ دوم روٹیاں صدقہ میں دے دیں تو موت سے نجات پا گیا.“ پس صدقہ اور دُعا سے جیسا کہ احادیث میں وارد ہے.مبرم تقدیر بھی ٹل جاتی ہے.یہ وہی مبرم تقدیر ہوتی ہے جو دراصل تو معلق ہوتی ہے لیکن مہم اُسے مبرم سمجھتا ہے.کیونکہ اسے اُس کے معلّق ہونے کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے وضاحت نہیں ہوتی.تعبیر کا دوسرے رنگ میں ظہور ایک اصل پیشگوئیوں کا یہ بھی ہے کہ کبھی ایک بات دکھائی جاتی ہے مگر وہ پوری کسی اور رنگ میں ہوتی ہے.چنانچہ تاریخ انمیں جلد 2 صفحہ 121 پر لکھا ہے:.قال اسمعيلي قال اهل التعبيراَنَّ رسول الله صلى الله عليه وسلّم رأى فى المنام اسيد بن ابي العيص واليا على مكة مسلمًا فمات على الكفر وكانت الرؤيا لولده عتاب أَسْلَمَ.کہ اسماعیلی نے کہا ہے کہ اہل تعبیر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں اسید بن ابی العیص کو مسلمان ہونے کی حالت میں مکہ کا والی دیکھا.وہ تو کفر پر مر گیا اور رویا اسکے بیٹے عتاب کے حق میں پوری ہوئی جو مسلمان ہو گیا.“ پھر بخاری کتاب التعبیر میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.بينا انا نائم البارحةَ إِذْ أُتِيتُ بمفاتيح خزائِنِ الارضِ حَتَّى وُضِعَتْ فِى يَدَيَّ قال ابوهريرة فَذَهَبَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم وانتم تَنتَقِلُونَها - (بخارى كتاب التعبير باب رؤيا الليل) کہ میں سو رہا تھا کہ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں

Page 261

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 239 حصہ دوم یہاں تک کہ وہ میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئیں ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو تشریف لے گئے.اب تم (اے صحابہ ) ان خزانوں کولا رہے ہو.پیشگوئی متعلق محمدی بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے ذریعہ جس کی ہم وضاحت کریں گے.خدا تعالیٰ آپ کے اُن رشتہ داروں کو جو دہریہ اور دینِ اسلام سے تمسخر کرنے والے تھے ایک نشان دکھانا چاہتا تھا.تا جو لوگ اُن میں سے اس نشان کورڈ کر دیں وہ سزا پائیں اور دوسرے اس سے تنبیہ حاصل کریں.یہی اِس پیشگوئی کی اصل غرض تھی اور یہی حکمتِ الہی اور مصلحت اس میں مضمر تھی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود تحریر فرماتے ہیں:.ہمیں اس رشتہ ( محمدی بیگم صاحبہ کے رشتہ ) کی درخواست کی کچھ ضرورت نہ تھی.سب ضرورتوں کو خدا نے پورا کر دیا تھا.اولا د بھی عطا کی اور ان میں سے وہ لڑکا بھی جو دین کا چراغ ہوگا.بلکہ ایک اور لڑ کا قریب مدت میں ہونے کا وعدہ دیا جس کا نام محمود احمد ہوگا.وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم نکلے گا.پس یہ رشتہ جس کی درخواست محض بطور نشان ہے تا خدا تعالیٰ اس کنبہ کے منکرین کو محجوبۂ قدرت دکھائے.اگر وہ قبول کریں تو برکت اور رحمت کے نشان اُن پر نازل کرے اور اُن بلاؤں کو دفع کرے جو نزدیک ہیں.لیکن اگر وہ رڈ کر دیں تو اُن پر قہری نشان نازل کر کے اُن کو متنبہ کرے.“ (اشتہار 15 جولائی 1888ء) ان رشتہ داروں کی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب

Page 262

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 240 حصہ دوم آئینہ کمالات اسلام میں یوں بیان کرتے ہیں:.” خدا تعالیٰ نے میرے چچیرے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں (احمد بیگ وغیرہ) کو ملحدانہ خیالات اور اعمال میں مبتلا اور رسوم قبیحہ اور عقائد باطلہ اور بدعات میں مستغرق پایا اور اُن کو دیکھا کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے تابع ہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر اور فسادی ہیں.( ترجمه عربی عبارت از آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 566) پھر فرماتے ہیں:.ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص میرے پاس روتا ہوا آیا.میں اس کے رونے کو دیکھ کر خائف ہوا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کسی کے مرنے کی اطلاع ملی ہے؟ اُس نے کہا نہیں.بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت بات ہے.میں اُن لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا.جو دینِ خداوندی سے مُرتد ہو چکے ہیں.پس اُن میں سے ایک نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت گندی گالی دی.ایسی گالی کہ میں نے اس سے پہلے کسی کافر کے منہ سے بھی نہیں سنی تھی اور میں نے انہیں دیکھا کہ وہ قرآن مجید کو اپنے پاؤں تلے روند تے اور ایسے کلمات بولتے ہیں جن کے نقل کرنے سے زبان کا نپتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دُنیا میں کوئی خدا نہیں.خدا کا وجود محض ایک مفتریوں کا جھوٹ ہے.میں نے اس شخص سے کہا کہ کیا میں نے تمہیں اُن کے پاس بیٹھنے سے منع نہیں کیا تھا.( ترجمه عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 569)

Page 263

مدی تعلیمی پاکٹ بک رشتہ داروں کا نشان طلب کرنا: 241 پھر حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں:.حصہ دوم ان لوگوں نے خط لکھا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کو گالیاں دیں اور وجود باری عز اسمہ کا انکار کیا اور اس کے ساتھ ہی مجھ سے میری سچائی اور وجود باری تعالیٰ کے نشانات طلب کئے.اور اس خط کو انہوں نے دنیا میں شائع کر دیا اور ہندوستان کے غیر مسلموں کی بہت مدد کی اور انتہائی سرکشی دکھائی.ترجمه از عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 568) نوٹ :.( یہ خط عیسائی اخبار چشمہ نور اگست 1887ء میں شائع ہوا تھا).نشان طلب کرنے پر حضرت اقدس کی دُعا: نشان طلب کرنے پر حضرت مسیح موعود نے دُعا کی جو آپ نے اپنی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ 559 پر بدیں الفاظ درج فرمائی ہے:.قُلْتُ يَارَبِّ انْصُرُ عَبْدَكَ وَاخْذُلُ أَعْدَائِكَ.الحَ ترجمہ : میں نے کہا اے میرے خدا! اپنے بندے کی مدد کر اور اپنے دشمنوں کو ذلیل کر.خدا تعالیٰ کا جواب: اس دُعا کے جواب میں خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ: میں نے اُن کی بد کرداری اور سرکشی دیکھی ہے.پس میں عنقریب اُن کو مختلف قسم کے آفات سے ماروں گا.اور آسمان کے نیچے انہیں ہلاک کرونگا.اور عنقریب تو دیکھے گا کہ میں اُن سے کیا سلوک کرتا ہوں اور ہم ہر

Page 264

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 242 حصہ دوم چیز پر قادر ہیں.میں اُن کی عورتوں کو بیوائیں اُن کے بچوں کو یتیم اور گھروں کو ویران کر دونگا تا کہ وہ اپنے کئے کی سزا پائیں.لیکن میں انہیں یک دم ہلاک نہیں کرونگا.بلکہ آہستہ آہستہ تا کہ وہ رجوع کریں اور تو بہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں اور میری لعنت اُن پر اور اُن کے گھر کی چاردیواری پر اُن کے بڑوں پر اور اُن کے چھوٹوں پر اُنکی عورتوں اور اُن کے مردوں پر اور ان کے مہمانوں پر جو ان کے گھروں میں اُتریں گے نازل ہونے والی ہے.سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائیں اور اُن سے قطع تعلق کریں اور اُن کی مجلسوں 66 سے دُور ہوں وہ رحمت الہی کے تحت ہوں گے.( ترجمه عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 569-570) خاص پیشگوئی کے بارہ میں الہامات: یہ الہام جواو پر مذکور ہوا.محمدی بیگم صاحبہ کے سلسلہ میں ایک ایسا الہام تھا جو رشتہ داروں کے متعلق عمومی رنگ رکھتا تھا.حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں:.انہی ایام میں مرزا احمد بیگ والد محمدی بیگم صاحبہ نے ارادہ کیا کہ اپنی ہمشیرہ کی زمین کو جس کا خاوند کئی سال سے مفقود الخبر تھا اپنے بیٹے کے نام ہبہ کرائے.لیکن بغیر ہماری مرضی کے وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا.اس لئے کہ وہ ہمارے چا زاد بھائی کی بیوہ تھی.اس لئے احمد بیگ نے ہماری جانب بعجز وانکساررجوع کیا.اور قریب تھا کہ ہم اس ہبہ نامہ پر دستخط کر دیتے لیکن حسب عادت استخارہ کیا تو اس پر وحی الہی ہوئی.جس کا ترجمہ یوں ہے.اس شخص کی بڑی لڑکی کے رشتہ کے لئے تحریک کر اور اس سے کہہ کہ وہ تجھ سے پہلے دامادی کا تعلق قائم کرے اور اس کے بعد تمہارے نور سے روشنی حاصل کرے.نیز اس سے کہو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ زمین جو تو نے مانگی ہے دے

Page 265

243 حصہ دوم دوں گا.اور اس کے علاوہ کچھ اور زمین بھی ، نیز تم پر کئی اور رنگ میں احسان کروں گا بشرطیکہ تم اپنی بڑی لڑکی کا مجھ سے رشتہ کر دو.اور یہ تمہارے اور میرے درمیان عہد و پیمان ہے.جسے تم اگر قبول کرو گے تو مجھے بہترین طور پر قبول کرنے والا پاؤ گے اور اگر تم نے قبول نہ کیا تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس لڑکی کا کسی اور شخص سے نکاح نہ اس لڑکی کے حق میں مبارک ہوگا اور نہ تمہارے حق میں اور اگر تم اس ارادہ سے باز نہ آئے تو تم پر مصائب نازل ہوں گے اور آخری مصیبت تمہاری موت ہوگی اور تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مرجاؤ گے.بلکہ تمہاری موت قریب ہے جو تم پر غفلت کی حالت میں وارد ہو گی.اور ایسا ہی اس لڑکی کا شوہر بھی اڑھائی سال کے اندر مرجائے گا.اور یہ قضاء الہی ہے“.پس تم جو کچھ کرنا چاہو کرو میں نے تمہیں 66 نصیحت کر دی ہے“.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 572-573) خدا تعالیٰ کے حضور توجہ کرنے پر اس بارہ میں آپ کو یہ الہام بھی ہوا:.كَذَّبُوا بِآتِنَا وَكَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِءُ وُنَ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَيَرُدُّهَا إِلَيكَ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللهِ.(اشتہار 10 جولائی 1888 ء.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 137 بار دوم.تذکرہ صفحہ 126 مطبوعہ 2004ء) ترجمہ:.ان لوگوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا ہے اور ان کے ساتھ ٹھٹھا کرتے رہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ ان کے مقابلہ میں تیرے لئے کافی ہوگا ( یعنی انہیں عذاب دے گا ) اور اس عورت کو تیری طرف لوٹائے گا خدا کے کلمات بدل نہیں سکتے“.15 جولائی 1888 ء کے اشتہار میں ایک اور الہام بھی تحریر فرماتے ہیں جو

Page 266

یتعلیمی پاکٹ بک 244 حصہ دوم محمدی بیگم صاحبہ کی واپسی کو مشروط کر رہا ہے.اس الہام کے متعلق آپ تحریر فرماتے ہیں کہ آپ نے کشف میں محمدی بیگم صاحبہ کی نانی کو دیکھا کہ اس کے چہرہ پر رونے کی علامات ہیں تو آپ نے اُسے کہا:.أَيَّتُهَا الْمَرْءَةُ تُوُبِى تُوُبِي فَإِنَّ الْبَلَاءَ عَلَى عَقِيكِ وَالْمُصِيبَةُ نَازِلَةٌ عَلَيْكِ يَمُوتُ وَيَبْقَى مِنْهُ كَلَابٌ مُتَعَدِّدَةٌ.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه 140 حاشیه (بار دوم) تتمہ اشتہار 10 جولائی 1888ء) ترجمہ: اے عورت تو بہ کر تو بہ کر کیونکہ بلا تیری اولاد اور اولاد در اولاد پر پڑنے والی ہے اور تجھ پر مصیبت نازل ہونے والی ہے ایک شخص مرے گا اور اس سے بہت سے ایسے معترض باقی رہ جائیں گے جو زبان درازی سے کام لیں گے.یہ الہام بتا تا ہے کہ محمدی بیگم صاحبہ کی نانی کی لڑکی اور لڑکی کی لڑکی یعنی محمدی بیگم صاحبہ پر بلاء نازل ہونے والی تھی.جس سے محمدی بیگم صاحبہ کی نانی مصیبت میں مبتلا ہونے والی تھی.اور یہ بلاء اور مصیبت تو بہ سے مل سکتی تھی.یہ الہام ایک شخص کا مرنا اور ایسے معترضین کا پیدا ہونا بھی بتاتا ہے جو ناواجب طریق سے اعتراض کے لئے زبان کھولنے والے تھے.پس اس امر کو بنیادی طور پر یاد رکھنا چاہئیے کہ الهام يَرُدُّهَا إِلَيْكَ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ تو بہ نہ کرنے کی شرط سے مشروط ہے اور تو بہ کے وقوع میں آنے پر پیشگوئی کا یہ حصہ جو محمدی بیگم صاحبہ کی واپسی سے تعلق رکھتا ہے مل سکتا تھا.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب محمدی بیگم کے باپ نے اُن کا نکاح دوسری جگہ کر دیا تو پیشگوئی کے مطابق محمدی بیگم صاحبہ کا والد مرزا احمد بیگ نکاح کرنے کے بعد چھ ماہ کے عرصہ میں پیشگوئی کی میعاد کے اندر ہلاک ہو گیا اور اس کی ہلاکت کا کنبہ پر شدید اثر پڑا اور محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند نے بھی تو بہ اور رجوع الی اللہ سے کام لیا.اور اس وجہ سے محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند کی موت تو بہ اور

Page 267

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 245 حصہ دوم رجوع الی اللہ کی وجہ سے ٹل گئی.چونکہ محمدی بیگم صاحبہ کی حضرت اقدس کی طرف واپسی کی پیشگوئی عدم تو بہ کی شرط سے مشروط تھی اور اسکے خاوند کے مرنے اور محمدی بیگم صاحبہ کے بیوہ ہونے کے بعد ہی یہ واپسی ممکن تھی اس لئے نکاح کی پیشگوئی غیر مشروط نہ تھی.چونکہ خاوند نے شرط تو بہ سے فائدہ اُٹھایا اور اس طرح وہ پیشگوئی کی میعاد کے اندر مرنے سے بچ گیا.اس لئے نکاح جو اُس کی موت سے معلق تھا ضروری الوقوع نہ رہا.یہ ہے خلاصہ اس پیشگوئی کا جس پر معترضین اعتراض کرتے ہیں کہ محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.حالانکہ یہ پیشگوئی سلطان محمد صاحب خاوند محمدی بیگم صاحبہ کے تو بہ کر لینے پر اُن کی موت واقع نہ ہونے کی وجہ سے ٹل چکی تھی.لہذا کسی معترض کو یہ اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں کہ محمدی بیگم صاحبہ بیوہ ہو کر کیوں حضرت اقدس کے نکاح میں نہیں آئیں ؟ معترضین زیادہ سے زیادہ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ سلطان محمد کی موت کیوں واقع نہیں ہوئی ؟ اور ہماری طرف سے اس کا جواب یہ ہے کہ وعید کی پیشگوئی چونکہ عدم تو بہ کی شرط سے مشروط ہوتی ہے خواہ شرط نہ بھی بیان کی گئی ہو.اس لئے وہ تو بہ اور رجوع پرٹل جاتی ہے اور یہاں تو الہام نے صاف طور پر تو بہ کی شرط بیان بھی کر دی تھی اس لئے محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند کی تو بہ اور رجوع الی اللہ سے نکاح کی پیشگوئی ٹل گئی ہے.پس خدا تعالیٰ کے الہامات پر کسی شخص کو یہ اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں کہ نکاح کیوں وقوع میں نہ آیا.سلطان محمد کی تو بہ کا قطعی ثبوت جب بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ سلطان محمد کی موت پیشگوئی کے

Page 268

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 246 حصہ دوم مطابق واقع نہیں ہوئی.اس لئے پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.تو اس کے جواب میں حضرت اقدس نے انجام آتھم کے حاشیہ صفحہ 32 پر تحریر فرمایا کہ:.(الف) فیصلہ تو آسان ہے احمد بیگ کے داماد سلطان محمد سے کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے.اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں“.(ب) اور ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اس سے تھمی رہے جب تک وہ گھڑی نہ آ جائے کہ اُس کو بیباک کر دے.سواگر جلدی کرنا ہے تو اُٹھو اس کو بے باک اور مکذب بناؤ اور اُس سے اشتہار دلاؤ اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو.انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 32 حاشیہ ) ان دونوں حوالوں سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کے اس چیلنج کے بعد اگر مرز ا سلطان محمد خاوند محمدی بیگم صاحبہ کسی وقت شوخی اور بے با کی دکھاتے یا مخالفین اُن سے تکذیب کا اشتہار دلانے میں کامیاب ہو جاتے.تو پھر اس کے بعد مرزا سلطان محمد صاحب کی موت کے لئے میعاد مقرر کی جاتی وہ قطعی تقدیر مبرم ہوتی اور اس کے مطابق مرزا سلطان محمد صاحب کی موت ضرور وقوع میں آتی اور اس کے بعد محمدی بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت اقدس سے ضروری اور اٹل ہو جاتا.پس کوئی معترض یہ جرات نہیں رکھتا کہ یہ کہہ سکے کہ اس پیشگوئی کے بارہ میں حضرت اقدس کا کوئی الہام چھو ٹا نکلا.سلطان محمد صاحب کی تو بہ کا ثبوت اس بات کا ثبوت کہ سلطان محمد صاحب تو بہ کر چکے تھے اور پیشگوئی کے مصدق تھے اور اس کی تصدیق پر حضرت مسیح موعود کی زندگی تک قائم رہے یہ ہے کہ حضرت اقدس کے انجام آتھم میں مذکورہ بالا چیلنج شائع کرنے پر آریوں اور

Page 269

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 247 حصہ دوم عیسائیوں میں سے بعض لوگ مرزا سلطان محمد صاحب کے پاس پہنچے اور انہیں لاکھ لاکھ روپیہ دینے کا وعدہ کیا.تاوہ حضرت اقدس پر نالش کر دیں.لیکن جیسا کہ اُن کے انٹرویو سے ظاہر ہے.چونکہ وہ تو بہ کر چکے تھے اور پیشگوئی کی صداقت کے قائل تھے اس لئے وہ اس گراں بہالا لنچ دیئے جانے پر بھی کسی قسم کی بے باکی اور شوخی کے لئے تیار نہ ہوئے.مرزا سلطان محمد صاحب کا انٹرویو محترم حافظ جمال احمد صاحب فاضل مبلغ سلسلہ احمدیہ نے ایک دفعہ مرزا سلطان محمد صاحب خاوند محمدی بیگم صاحبہ کا انٹرویو لیا جو اخبار الفضل جون 9 13 1921ء میں مرزا سلطان محمد کے زمانہ حیات میں ہی ”مرزا سلطان محمد کا ایک انٹرویو کے عنوان سے شائع ہوا ہے حافظ جمال احمد صاحب لکھتے ہیں :.” میں نے مرزا سلطان محمد سے کہا اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں حضرت مرزا صاحب کی نکاح والی پیشگوئی کے متعلق کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں.جس کے جواب میں انہوں نے کہا.آپ بخوشی بڑی آزادی سے دریافت کریں.اس انٹرویو میں مرزا سلطان محمد صاحب نے کہا :.” میرے خسر مرزا احمد بیگ صاحب واقعہ میں عین پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے ہیں.مگر خدا تعالیٰ غفور و رحیم بھی ہے اور اپنے دوسرے بندوں کی بھی سنتا اور رحم کرتا ہے“.اس آخری فقرہ میں مرزا سلطان محمد صاحب نے اپنی توبہ واستغفار کا اظہار کیا ہے اور پہلے فقرہ میں پیشگوئی کی تصدیق کی ہے.اس کے باوجو د مزید وضاحت کیلئے حافظ جمال احمد صاحب نے اُن سے سوال کیا.

Page 270

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 248 حصہ دوم آپ کو مرزا صاحب کی پیشگوئی پر کوئی اعتراض ہے؟ یا یہ پیشگوئی آپ کے لئے کسی شک وشبہ کا باعث ہوئی ؟“ اس کے جواب میں مرزا سلطان محمد صاحب نے کہا:.یہ پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کے بھی شک وشبہ کا باعث نہیں ہوئی“.اور یہ بھی کہا :.میں قسمیہ کہتا ہوں کہ جو ایمان و اعتقاد مجھے حضرت مرزا صاحب پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کر چکے ہیں اتنا نہیں ہوگا“.اس پر حافظ جمال احمد صاحب نے سوال کیا کہ آپ بیعت کیوں نہیں کرتے ؟ مرز اسلطان محمد نے جواباً کہا:.اس کی وجوہات کچھ اور ہیں جن کا اس وقت بیان کرنا میں مصلحت کے خلاف سمجھتا ہوں.اور اس سلسلہ میں یہ بھی کہا:.” میرے دل کی حالت کا آپ اس سے بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے وقت آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آتھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ دینا چاہا تا کہ میں مرزا صاحب پر نالش کروں.اگر وہ روپیہ میں لے لیتا تو امیر کبیر بن سکتا تھا.مگر وہی ایمان و اعتقاد تھا جس نے مجھے اس فعل سے روکا.صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کی شہادت اس بارہ میں صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی شہادت یہ ہے:.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مرزا سلطان محمد صاحب ایک دفعہ قادیان

Page 271

249 9 13 حصہ دوم احمدیہ علیمی پاکٹ بک آئے.اُن کے ساتھ اُن کا ایک لڑکا بھی تھا.وہ شہر کی طرف سے ہائی سکول کی طرف جارہے تھے تو مجھے سے اُن کے لڑکے نے تعارف کرایا.دورانِ گفتگو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر بھی آ گیا.اس پر مرزا سلطان محمد صاحب نے کم و بیش وہی بیان دیا جو حافظ جمال احمد صاحب نے جون 1921 ء کے الفضل میں انٹرویو کے طور پر شائع کروایا ہے.اور انہوں نے دورانِ گفتگو میں اس بات کی بڑے زور سے تائید کی کہ انہیں کبھی بھی حضرت مرزا صاحب کی صداقت کے متعلق شبہ نہیں ہوا.اُن کے منہ پر داڑھی تھی اور ایک ٹانگ سے لڑائی میں زخمی ہونے کی وجہ سے لنگڑاتے تھے.(دستخط حضرت مرزا شریف احمد صاحب) (ماخوذ از پیشگوئی دربارہ مرزا احمد بیگ اور اس کے متعلقات کی وضاحت صفحہ 58-59) اسی طرح خود سلطان محمد صاحب محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند نے اپنے ایک خط میں حضرت اقدس کی تصدیق کی تھی جس کا عکس ملاحظہ ہو:.خط کا مضمون حسب ذیل ہے.از انبالہ چھاؤنی 21/3/13 برادرم سلمه نوازش نامہ آپ کا پہنچا یادآوری کا مشکور ہوں.میں جناب مرزا جی صاحب مرحوم کو نیک.بزرگ.اسلام کا خدمت گزار شریف النفس.خدا یاد پہلے بھی اور اب بھی خیال کر رہا ہوں.مجھے ان کے مریدوں سے کسی قسم کی مخالفت نہیں ہے.بلکہ افسوس کرتا ہوں کہ چند ایک امورات کی وجہ سے ان کی زندگی میں ان کا شرف حاصل نہ کر سکا.نیاز مند سلطان محمد از انبالہ رسالہ نمبر 9

Page 272

ندی علیمی پاکٹ بک 250 حصہ دوم عکس خط مرز اسلطان محمد صاحب آف پیٹی : اشارہ جھادیے 22/3/15 اسلام علیکم.نوازش نامہ اس کا پونچا یا داوری کا یرا درو شعر السلام نمونے میں جناب مرزا جی حجاب مرحم کو نیک - بزرگ اسلام کا خرمگذار سران غیر خدا یار پہلے بہی اور اب بھی خیال کرنا ہونا بھی زون کے فرموں سے کرے تقسیم ہے تخا لفت نہیں تھے بلکہ افسوس کرتا ہوں پیکر خود ایک سورات درجہ کر او نے زندگے میں اور شرف حاصل نہ کر کے نیاز دو عطا محمد از انها به رساله ۹۶ اس خط سے ظاہر ہے کہ مرزا سلطان محمد صاحب بانی سلسلہ احمدیہ کو خادم اسلام سمجھتے رہے ہیں.1888ء میں پیشگوئی کئے جانے کے وقت حضرت اقدس کو صرف اسلام کا خدمت گزار ہونے کا دعوی تھا.مسیح موعود کا دعوی آر نے 1890ء کے آخر میں کیا ہے.پس اس وقت سلطان محمد صاحب کے عذاب سے بچنے کے لئے اتنی تصدیق کافی تھی جس کا ذکر اس خط میں موجود ہے.

Page 273

251 حصہ دوم مرزا اسحاق بیگ صاحب پسر مرز اسلطان محمد صاحب کی شہادت علاوہ ازیں مرزا اسحاق بیگ صاحب پسر مرزا سلطان محمد صاحب ومحمدی بیگم صاحبہ خدا کے فضل سے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں.وہ اپنے خط میں جو اخبار الفضل میں شائع ہوا لکھتے ہیں:.اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہو گئے اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجہ ہو گیا.جس کا نا قابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیت قبول کر لی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت غفور و رحیم کے ماتحت قہر کو رحم میں بدل دیا.( اخبار الفضل 26 فروری 1923 ءصفحہ 9) مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا کی حلفیہ شہادت مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا سے جب خاکسار قاضی محمد نذیر نے اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کیا تو انہوں نے ذیل کی شہادت بیان کی اور پھر میری درخواست پر یہ شہادت حلفا لکھ کر دے دی.شہادت کا مضمون یہ ہے:.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُود حلفیہ شہادت پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے کافی عرصہ پہلے غالباً 34-33ء میں مجھ کو پیٹی میں تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں جانے کا اتفاق ہوا.وہاں مرزا سلطان محمد صاحب داماد مرزا احمد بیگ صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا.انہوں نے دورانِ گفتگو میں حضرت مسیح موعود علیہ وآلہ السلام سے

Page 274

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 252 حصہ دوم اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری میرے پاس پٹی آئے میں نے آتے ہی اُن کے لئے پانی وغیرہ پلانے کا انتظام کرنا شروع کیا.جس پر انہوں نے کہا کہ میں سب سے پہلے اپنا ایک مقصد آپ سے پورا کرانا چاہتا ہوں اس کے بعد میں پانی وغیرہ پیوں گا.اور وہ یہ کہ آپ مرزا غلام احمد صاحب کے خلاف ایک تحریر مجھ کو دے دیں اور وہ یہ کہ ان کی پیشگوئی دربارہ محمدی بیگم غلط ثابت ہوئی ہے.مرزا سلطان محمد صاحب کہنے لگے کہ میں نے ان کو کہا کہ آپ ابھی تو آئے ہیں یہ مہمان نوازی کے آداب میں ہے کہ آنے والے کو پہلے اچھی طرح بٹھا کر اور پانی وغیرہ پلا کر پھر کسی اور طرف متوجہ ہوں مگر مولوی ثناء اللہ صاحب یہی رٹ لگاتے رہے جس پر میں نے ایسی تحریر دینے سے صاف طور پر انکار کر دیا.اور وہ بے نیل مرام واپس چلے گئے.یہ واقعہ سُنا کر انہوں نے کہا یہ حضرت مرزا صاحب کے متعلق میری عقیدت ہی تھی جس کی وجہ سے میں نے ان کی ایک نہ مانی.نیز انہوں نے یہ بھی کہا کہ عیسائی اور آریہ قوم کے بڑے بڑے لیڈروں نے بھی مجھ سے اس قسم کی تحریر لینے کی خواہش کی مگر میں نے کسی کی نہ مانی اور صاف ایسی تحریر دینے سے ان کو انکار کرتا رہا.بلکہ جہاں تک مجھ کو یاد پڑتا ہے.انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو عقیدت مجھ کو اُن سے ہے وہ آپ میں سے کئی احمدیوں کو بھی نہیں ہے“.گواه شد سید عبدالحی بقلم خود خاکسار گواه شد: محمود احمد مختار (شاہد ) ظہور حسین سابق مبلغ روس 20/04/59 ربوه 20/04/59 ربوه (ماخوز از پیشگوئی دربارہ مرزا احمد بیگ اور اس کے متعلقات کی وضاحت صفحہ 187 تا 189)

Page 275

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 253 حصہ دوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.” جب احمد بیگ فوت ہو گیا تو اس کی بیوہ عورت اور دیگر پسماندوں کی کمر ٹوٹ گئی.وہ دُعا اور تضرع کی طرف بدل متوجہ ہو گئے.(حجة الله روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 159 ) پیشگوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ کی وفات ہو جانے پر اس خاندان کے بعض افراد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خط بھی لکھے اور دعا کی درخواست کی ان خطوط کا ذکر حضرت مسیح موعود نے اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ حقیقۃ الوحی صفحہ 187 پر کیا ہے.پیشگوئی کے پانچ حصے اس پیشگوئی کے پانچ حصے ہیں جن میں سے پہلے تین حصے لفظاً پورے ہو چکے ہیں اور پچھلے دوحصے مرزا سلطان محمد صاحب کی تو بہ اور رجوع الی اللہ کی وجہ سے وعیدی پیشگوئیوں کی سنت کے مطابق جن کا پورا ہونا عدم تو بہ کی شرط سے مشروط ہوتا ہے ٹل گئے ہیں.اس لئے پیشگوئیوں کے اصول اور ان کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کی جو سنت ہے اُس کے رُو سے نفس پیشگوئی پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا.پیشگوئی کے یہ پانچ حصے جو حضرت اقدس کی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام “ و”شہادۃ القرآن صفحہ 81 سے ماخوذ ہیں.درج ذیل ہیں:.حصہ اوّل:.اگر مرزا احمد بیگ صاحب اپنی بڑی لڑکی کا نکاح حضرت اقدس سے نہیں کریں گے تو پھر وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے کہ اپنی اس لڑکی کا نکاح کسی دوسری جگہ کریں.حصہ دوم :.نکاح تک وہ لڑ کی بھی زندہ رہے گی.حصہ سوم:.دوسری جگہ نکاح کرنے کے بعد مرزا احمد بیگ صاحب تین سال

Page 276

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 254 حصہ دوم کے اندر بلکہ بہت جلد ہلاک ہو جائیں گے.حصہ چہارم: دوسری جگہ نکاح کے بعد اس لڑکی کا خاوند اڑھائی سال کے عرصہ میں ہلاک ہو جائے گا (بشرطیکہ تو بہ وقوع میں نہ آئے.کیونکہ وعیدی :.پیشگوئی مشروط بعدم تو بہ ہوتی ہے ).حصہ پنجم.خاوند کی ہلاکت کے بعد وہ لڑکی بیوہ ہوگی.اور پھر حضرت اقدس کے نکاح میں آئے گی.گویا یہ آخری حصہ پیشگوئی کا اس لڑکی کے خاوند کی موت سے مشروط تھا.نشان اوّل: پیشگوئی کا پہلا حصہ بطور نشان اوّل پورا ہو گیا.اگر محمدی بیگم صاحبہ کا باپ محمدی بیگم صاحبہ کا نکاح کرنے سے پہلے وفات پا جاتا تو پیشگوئی کا حصہ اوّل پورا نہ ہوتا.مگر یہ صفائی سے پورا ہوا.نشان دوم :- نشان سوم :- پیشگوئی کے دوسرے حصہ کے مطابق لڑکی نکاح تک زندہ رہ کر نشان بنی.اگر یہ لڑکی نکاح سے پہلے مرجاتی تو پیشگوئی کا دوسرا حصہ بھی پورا نہ ہوتا.مگر یہ حصہ بھی نہایت صفائی سے پورا ہو کر نشان بنا.دوسری جگہ نکاح کے بعد لڑکی کا باپ چھ ماہ کے عرصہ میں ہلاک ہو گیا.اگر اس کی موت تین سال سے تجاوز کر جاتی تو یہ پیشگوئی کا حصہ بھی پورا نہ ہوتا مگر یہ حصہ بھی نہایت صفائی سے پورا ہو گیا.اس طرح یہ تینوں حصے پورے ہو کر عظیم الشان نشان بن گئے.پچھلے دوحصوں کے ظہور کا طریق پچھلے دو حصے اس طرح ظہور پذیر ہوئے کہ محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند پر اپنے خسر کی موت سے سخت ہیبت طاری ہوئی اور اُس نے تو بہ اور استغفار کی طرف رجوع کیا اور وعیدی پیشگوئی کی شرط تو بہ کے مطابق تو بہ سے فائدہ اُٹھا کر موت سے

Page 277

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 255 حصہ دوم بچ گیا اور پیشگوئی کا یہ حصہ شرط تو بہ سے فائدہ اُٹھانے کی وجہ سے ٹل گیا.جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے تو بہ کرنے پر وہ عذاب ٹل گیا تھا جس کے چالیس دن میں پورے ہونے کی پیشگوئی حضرت یونس علیہ السلام نے فرمائی تھی.چونکہ مرزا سلطان محمد صاحب کی تو بہ اور رجوع سے ان کی موت کی پیشگوئی ٹل گئی اور حضرت اقدس سے نکاح محمدی بیگم صاحبہ کے بیوہ ہونے سے مشروط تھا.اس لئے اب اس کا وقوع میں آنا ضروری نہ رہا اور پیشگوئی کے یہ آخری دو حصے شرط تو بہ سے فائدہ اُٹھانے کی وجہ سے دوسرا رنگ پکڑ گئے.اب نکاح کا وقوع صرف اس بات سے معلق ہو کر رہ گیا کہ سلطان محمد صاحب از خود حضرت اقدس کی زندگی میں کسی وقت بیا کی اور شوخی دکھا ئیں اور پیشگوئی کی تکذیب کریں اس تکذیب کا صرف امکان ہی تھا یہ ضروری الوقوع نہ تھی اور نکاح کے اس طرح معلق ہونے کی حد حضرت اقدس کی زندگی تک تھی مگر محمدی بیگم کا خاوند اس کے بعد حضرت اقدس کی زندگی میں تو بہ پر قائم رہا اور خاندان کے دوسرے افراد نے بھی اصلاح کرلی تو اس وعیدی پیشگوئی کی اصل غرض جو اس خاندان کی اصلاح تھی پوری ہوگئی.کیونکہ اس خاندان کے افراد نے الحاد اور دہریت کے خیالات کو ترک کر دیا اور اسلام کی عظمت کے قائل ہو گئے اور اُن میں سے اکثر نے احمدیت قبول کر لی.وعیدی پیشگوئی کی اصل غرض چونکہ تو بہ اور استغفار کی طرف رجوع دلانا اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا سکہ دلوں پر بٹھانا ہوتی ہے اس لئے جب یہ شرط پوری ہو جائے تو پھر سُنت اللہ کے مطابق عذاب بالکل ٹل جایا کرتا ہے بشر طیکہ متعلقین پیشگوئی اپنی تو بہ پر قائم رہیں.اور اگر انہوں نے تو بہ پر قائم نہ رہنا ہو تو پھر سنت اللہ یوں ہے کہ عذاب میں اس وقت تک تاخیر ہو جاتی ہے کہ وعیدی پیشگوئی کے متعلقین پھر بے با کی دکھا ئیں اور اپنی تو بہ توڑ دیں.

Page 278

احمدی تعلیمی پاکٹ بک یونس علیہ السلام کی پیشگوئی کا ملنا 256 حصہ دوم تفاسیر میں قوم یونٹس کے متعلق لکھا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ :.إِنَّ أَجَلَكُمْ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً - لیکن قوم نے تو بہ کر لی اور عذاب ٹل گیا.چنانچہ لکھا ہے:.تَضَرَّعُوا إِلَى اللهِ تَعَالَى فَرِحِمَهُمْ وَكَشَفَ عَنْهُمُ ( تفسیر کبیر امام رازی جلد 5 صفحہ 42 تفسیر فتح البیان جلد 8 صفحہ 89 ) یعنی وہ لوگ خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑائے تو اُس نے اُن پر رحم کیا اور اُن سے عذاب دُور کر دیا.چونکہ یہ لوگ تو بہ پر قائم رہے اس لئے عذاب بھی اُن سے ٹلا رہا اور خدا تعالیٰ نے اس قوم سے اپنی پہلی سنت کے مطابق معاملہ کیا.لیکن آل فرعون جب عذاب آنے پر حضرت موسی علیہ السلام سے دُعا کی درخواست کرتی تھی اور ایمان لانے کا وعدہ کرتی تھی تو خدا تعالیٰ اُن سے عذاب ٹال دیتا تھا.مگر چونکہ وہ اپنے وعدہ پر قائم نہیں رہتی تھی اس لئے عذاب میں پکڑی جاتی تھی.بالآخر آل فرعون مع فرعون تو بہ پر قائم نہ رہنے کی وجہ سے حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرئیل کا تعاقب کرنے پر سمندر میں غرق ہوگئی.اس قوم سے خدا تعالیٰ نے اپنی دوسری سنت تاخیر عذاب کے مطابق سلوک کیا.پیشگوئی زیر بحث میں خدا کی سنت کا ظہور اس پیشگوئی میں مرزا احمد بیگ صاحب حضرت اقدس سے اپنی لڑکی کا نکاح نہ کرنے کی وجہ سے پیشگوئی کی میعاد میں پکڑے گئے اور ہلاک ہوئے.اس سے

Page 279

257 حصہ دوم احمدیہ علیمی پاکٹ بک کنبہ پر ہیبت طاری ہوگئی.اور سلطان محمد صاحب خاوند محمدی بیگم صاحبہ کی تو بہ اور استغفار پر ان کی وعیدی موت ٹل گئی.کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.مَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ.(الانفال : 34) یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب دینے والا نہیں ہے اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں.“ سلطان محمد صاحب کی موت کی پیشگوئی تو بہ کی وجہ سے ٹل جانے پر اب حضرت اقدس سے نکاح ضروری نہ رہا.اب سلطان محمد صاحب پر عذاب صرف اسی صورت میں نازل ہوسکتا تھا کہ وہ تو بہ کو توڑ دیتے اور پیشگوئی کی تکذیب کر دیتے اور پھر ان کی موت کے لئے نئی میعاد خدا کی طرف سے مقرر ہوتی.اس لئے انجام آتھم کے صفحہ 32 پر حضرت اقدس نے نکاح کی پیشگوئی کو سلطان محمد صاحب کے آئندہ اس پیشگوئی کی تکذیب کرنے اور بے باکی اور شوخی دکھانے سے اور اس کے لئے نئی میعاد مقرر ہونے سے معلق قرار دے دیا اور ایسا ہی ہونا ضروری تھا.کیونکہ امکان تھا کہ مرزا سلطان محمد کسی وقت تکذیب کر دیتے تو پیشگوئی میں لوگوں کے لئے اشتباہ پیدا ہو جاتا.پیشگوئی میں اجتہادی خطا پیشگوئیوں میں بعض دفعہ اجتہادی خطا بھی شرط کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مذکور نہ ہونے کی وجہ سے یا شرط کی طرف سے بھول ہو جانے کی وجہ سے واقع ہو سکتی ہے.اور یہ امر قابل اعتراض نہیں.حضرت نوح علیہ السلام سے وحی الہی کے سمجھنے میں اجتہادی غلطی ہو گئی تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:.حَتَّى إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلُ فِيهَا مِنْ كُلَّ

Page 280

یتعلیمی پاکٹ بک 258 حصہ دوم زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ أَمَنَ.(هود: 41) یعنی یہاں تک کہ جب ہمارا عذاب کا حکم آجائے اور چشمے پھوٹ کر بہ پڑیں تو ہم کہیں گے کہ ہر ایک قسم کے جانوروں میں سے ایک جوڑا ( یعنی دو ہم جنس فردوں کو ) اور اپنے اہل و عیال کو بھی سوائے اس فرد کے جس کی ہلاکت کے متعلق اس عذاب کے آنے سے پہلے ہی ہمارا فرمان جاری ہو چکا ہے.اور نیز ان کو سوار کر لے جو تجھ پر ایمان لائے ہیں.اس سے قبل نوح علیہ السلام کو یہ حکم دیا جا چکا تھا:.وَلَا تُخَاطِبُنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوْا ۚ إِنَّهُمْ مُّغْرَقُونَ.(هود: 38) کہ مجھے ظالموں کے بارے میں خطاب نہ کرنا بے شک وہ غرق ہونے والے ہیں.حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا جب غرق ہونے لگا.تو انہوں نے خدا تعالیٰ کو اس کا وعدہ یاد دلایا اور کہا:.رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ - (هود: 46) اے میرے رب بے شک میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اور بے شک تیرا وعدہ سچا ہے.( یعنی اسے وعدہ کے مطابق بچنا چاہیے ).یہ وعدہ یاد دلانے میں حضرت نوح علیہ السلام کو پیشگوئی کی اس شرط سے ذہول ہو گیا جو :.إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ اور وَلَا تُخَاطِبُنِي فِي الَّذِيْنَ

Page 281

ندی تعلیمی پاکٹ بک 259 حصہ دوم ظَلَمُوْا ۚ إِنَّهُمْ مُّغْرَقُونَ.(هود: 41 و 38) کے الفاظ میں بیان ہوئی تھی.اور وہ غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ خدائی وعدہ کے مطابق میرا یہ بیٹا بھی غرق ہونے سے بچنا چاہیے.لیکن ان کا یہ اجتہاد درست نہ تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کے وعدہ یاد دلانے پر انہیں یہ جواب دیا کہ:.إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَهِلِينَ - (هود:47) کہ یہ بیٹا تیرے اہل سے نہیں ہے یہ تو مجسم غیر صالح ہے.اس لئے مجھ سے ایسی درخواست مت کرو جوتم لاعلمی سے کر رہے ہو.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ نادانوں کی طرح کوئی کام نہ کیجیو.پس شرط کا نظر انداز ہو جانا اس بات کی دلیل نہیں کہ پیشگوئی کرنے والا اپنے دعاوی میں منجانب اللہ نہیں.حضرت اقدس نے اس پیشگوئی کی مرزا سلطان محمد صاحب کے متعلق اڑھائی سالہ میعاد گزر جانے کے بعد پیشگوئی کی شرط تو بہ والے الہام ذیل :.أَيَّتُهَا الْمَرْأَةُ تُوُبِى تُوبِى فَإِنَّ الْبَلَاءَ عَلَى عَقِبِكِ يَمُوتُ وَ يَبْقَى مِنْهُ كِلَابٌ مُّتَعَدِّدَةٌ کے نظر انداز ہو جانے کی وجہ سے اصل پیشگوئی کے الہامی الفاظ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ الله کے پیش نظر اجتہاد کیا کہ پیشگوئی میں تاخیر ڈالی گئی ہے یہ ٹلی نہیں.اس لئے آپ نے اس قسم کی عبارتیں یقین اور وثوق پر مشتمل تحریر فرمائیں کہ محمدی بیگم کا خاوند ضرور مرے گا اور وہ بیوہ ہو کر میرے نکاح میں آئے گی.

Page 282

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 260 حصہ دوم یہ عبارتیں کسی جدید الہام کا نتیجہ نہ تھیں کیونکہ پیشگوئی کی اڑھائی سالہ میعاد گزر جانے کے بعد 1906 ء تک آپ کو اس بارہ میں کوئی جدید الہام نہیں ہوا اور الہام :- لا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ جس اشتہار میں درج تھا اس تتمہ میں پیشگوئی کی الہامی شرط تو بہ بھی أَيَّتُهَا الْمَرْأَةُ تُوُبِى تُوبِى والے الہام میں درج تھی.مگر اس شرط کی طرف عدم توجہ کی وجہ سے حضرت اقدس نے یہی اجتہاد کیا کہ سلطان محمد صاحب کسی وقت ضرور تو بہ توڑ دیں گے اور پھر اس کے بعد وہ ہلاک ہوں گے اور اس کے بعد محمدی بیگم صاحبہ ضرور نکاح میں آئیں گی.یہ اجتہاد کرنے کا آپ کو بہر حال حق تھا کہ اگر سلطان محمد نے کسی وقت تو بہ توڑ دی تو وہ ہلاک ہوں گے اور اس کے بعد محمدی بیگم کا نکاح میں آنا ضروری ہوگا.مگر حضرت اقدس نے اس سے بڑھ کر یہ اجتہاد فرمایا کہ تو بہ کا توڑ نا ضروری ہے اور سلطان محمد کی موت میں صرف تاخیر ہوگئی ہے.یہ پیشگوئی ٹلی نہیں.مگر خدا تعالیٰ نے اپنی سُنت مستمرہ کے مطابق آپ کو اس اجتہاد پر قائم نہ رہنے دیا.اور 16 فروری 1906ء کو آپ پر ان الفاظ میں الہام نازل فرمایا:.تَكْفِيكَ هَذِهِ الْاِمْرَأَةُ تذكره صفحه 509مطبوعه2004ء) کہ تمہارے لئے یہ عورت ( جو تمہارے نکاح میں ہے ) کافی ہے.اس الہام کے نازل ہونے پر آپ نے اپنے پہلے اجتہاد میں اصلاح فرمالی اور تمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 570 میں صاف لکھ دیا کہ:.” جب ان لوگوں نے اس شرط ( تو بہ.ناقل ) کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا.“

Page 283

ندی تعلیمی پاکٹ بک 261 حصہ دوم اس جدید اجتہاد سے جو الہام جدید کی روشنی میں کیا گیا.اب حضرت اقدس کا درمیانی زمانہ کا اجتہاد جس میں آپ محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند کے تو بہ توڑنے کو اور اس کے بعد نکاح کو ضروری قرار دیتے تھے.قابل حجت نہ رہا.پس یہ پیشگوئی اپنی الہامی شرط کے مطابق ظہور پذیر ہو چکی ہے اور اس پیشگوئی کے الہامات پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا.اسی طرح حضرت اقدس کا آخری اجتہاد بھی سنت اللہ کے مطابق درست تھا.اس پر بھی کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا.اس جدید الہام کی وجہ سے درمیانی زمانہ کی عبارتیں جو سلطان محمد صاحب کی موت کو ضروری اور اس کے بعد نکاح کو مبرم قرار دیتی تھیں.اس شرط سے مشروط سمجھی جائیں گی کہ اگر سلطان محمد از خود تو بہ توڑ دیں تو ان کی ہلاکت اور ا کے بعد حضرت اقدس سے نکاح کا وقوع ضرور ہوگا ورنہ نہیں.پس جدید اجتہاد کی بنا پر پیش کردہ عبارتیں اوپر کی شرط سے مشروط ہوگئی ہیں.عبارتیں یوں پڑھی جائیں لہذا اب یہ عبارتیں یوں پڑھی جانی چاہیئیں :.(1) (اگر مرزا سلطان محمد کسی وقت تو بہ تو ڑ کر پیشگوئی کی تکذیب کرے تو ) اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی کیونکہ اس کے لئے الہام الہی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ یعنی میری یہ بات ہر گز نہیں ملے گی.پس اگر ٹل جائے تو خدا تعالیٰ کا کلام باطل ہوتا ہے.(اعلان 6 ستمبر 1894 ء مندرجہ تبلیغ رسالت جلد سوم صفحہ 115 - مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 399 بار دوم ) (2) ایک حصہ پیشگوئی کا یعنی احمد بیگ کا میعاد کے اندر فوت ہو جانا حسب منشاء پیشگوئی صفائی سے پورا ہوگیا اور دوسرے کی انتظار ہے.(بشرطیکہ مرزا سلطان محمد

Page 284

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 262 حصہ دوم تو بہ توڑ دے اور پیشگوئی کی تکذیب کرے) تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 64) (3) ( ''اگر کسی وقت سلطان محمد تو بہ تو ڑ کر میری زندگی میں پیشگوئی کی تکذیب کرے تو ) یا درکھو کہ اس کی دوسری جزو پوری نہ ہوئی تو میں ہر یک بد سے بدتر ٹھہروں گا.اے احمقو! یہ انسان کا افتراء نہیں.یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں.یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے.ؤ ہی خدا جس کی باتیں نہیں ملتیں.ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 338) (4) ( اگر کسی وقت میری زندگی میں سلطان محمد نے تو بہ تو ڑ دی تو ) ” جس وقت یہ سب باتیں پوری ہو جائیں گی.اس دن...نہایت صفائی - (مخالفین کی ) ناک کٹ جائے گی اور ذلت کے سیاہ داغ اُن کے منحوس 66 چہروں کو بندروں اور سؤروں کی طرح کر دیں گے.“ ނ ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 337) (5) وحی الہی میں یہ نہیں تھا کہ دوسری جگہ بیاہی نہیں جائے گی بلکہ یہ تھا کہ ضرور ہے کہ اوّل دوسری جگہ بیاہی جائے....خدا پھر اُس کو تیری طرف لائے گا“ (بشرطیکہ اُس کا خاوند تو بہ نہ کرے یا تو بہ کر کے توڑ دے.) اعتراض اوّل ( الحکم 30 جون 1905 ء صفحہ 2) پیشگوئی پر اعتراضات کے جوابات ایک اعتراض جو اس پیشگوئی پر مخالفین کی طرف سے کیا جاتا ہے یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے ازالہ اوہام میں 1891 ء میں لکھا کہ خدائے تعالیٰ ہر طرح سے اس کو ( یعنی محمدی بیگم کو تمہاری طرف لائے گا با کرہ ہونے کی حالت

Page 285

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 263 حصہ دوم میں یا بیوہ کر کے اور ہر یک روک کو درمیان سے اُٹھا دے گا.اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا.کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 305) تو ایسا لکھنے کے باوجود کیوں درمیانی روکیں اٹھائی نہ گئیں.باکرہ ہونے کی حالت میں اس وجہ سے نکاح میں نہ آئی کہ اس کے باپ نے شوخی کی راہ اختیار کر کے اپنی بیٹی کا نکاح مرزا سلطان محمد ساکن پٹی سے کر دیا اور پیشگوئی کے مطابق یہ سزا پائی کہ چھ مہینے کے اندر ہلاک ہو گیا.اس سے محمدی بیگم کے خاوند پر پیشگوئی کی ہیبت طاری ہوگئی اور اس نے تو بہ اور استغفار سے کام لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اپنی اس تو بہ پر قائم رہا اس لئے اس کے شرط تو بہ سے فائدہ اٹھانے کی وجہ سے نکاح والا حصہ منسوخ ہو گیا.یہ حضرت مسیح موعود کا اجتہاد تھا کہ سب روکیں اٹھادی جائیں گی نہ کہ الہام.اعتراض دوم مرزا صاحب اسی کتاب میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ:.اس کے بعد اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی یہاں تک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی.بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیت بھی کر دی گئی.اس وقت گویا یہ پیشگوئی آنکھوں کے سامنے آگئی اور یہ معلوم ہور ہا تھا کہ اب آخری دم ہے کل جنازہ نکلنے والا ہے.تب میں نے اس پیشگوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنی ہوں گے جو میں سمجھ نہیں سکا.تب اسی حالت قریب الموت میں مجھے الہام ہوا.اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ.یعنی یہ بات تیرے رب کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 306)

Page 286

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 264 حصہ دوم اس سے ظاہر ہے کہ اس الہام نے تصدیق بھی کر دی تھی کہ نکاح ضرور ہوگا.مگر پھر کیوں نکاح وقوع میں نہ آیا ؟ الجواب.مقصود اس الہام سے صرف یہ ہے کہ پیشگوئی کا الہ تعالی کی طرف سے ہونا برحق امر ہے مشکوک نہیں.لہذا آپ کو چاہیے کہ نفس پیشگوئی میں جو مشروط بھی تھی شک نہیں کرنا چاہیے.اس الہام سے یہ ظاہر کرنا مقصود نہ تھا کہ پیشگوئی کا ظہور کس رنگ میں ہوگا.کیونکہ ازالہ اوہام 1891 ء کی کتاب ہے.اس کے بعد احمد بیگ ہلاک ہو گیا.اور پیشگوئی کے اس حصہ کا برحق ہونا روز روشن کی طرح ثابت ہو گیا.دوسرا حصہ الها می شرط کو پورا کیا جانے کی وجہ سے پیشگوئیوں کے اصول کے مطابق مل گیا.مرزا احمد بیگ اور مرزا سلطان محمد کی موت کی میعاد میں اختلاف کی حکمت آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 573 پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مرزا احمد بیگ کو مخاطب کر کے لکھا ہے آخر المصائب موتک فتموت بعد النكاح الى ثلاث سنین بل موتک قریب“.کہ آخری مصیبت تیری موت ہے اور تو نکاح کے بعد تین سال بلکہ اس سے قریب مدت میں مرجائے گا.اور اسی جگہ محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند کے لئے اڑھائی سال کی مدت بیان کی گئی ہے.واقعات کے لحاظ سے موتک قریب کا الہام یوں پورا ہوا کہ مرزا احمد بیگ اپنی لڑکی کا نکاح سلطان محمد سے کرنے کے بعد چھ ماہ کے عرصہ میں ہی ہلاک ہو گیا.یہ نتیجہ تھا اس کی بیبا کی اور شوخی میں بڑھ جانے کا.ورنہ ممکن تھا کہ اس کا داماد پہلے مرجاتا نیز اس میں اشارہ تھا کہ اگر مرزا احمد بیگ کی موت اپنے داماد سے پہلے

Page 287

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 265 حصہ دوم واقع ہو جائے تو پھر مرزا سلطان محمد تو بہ کر کے ضرور بچ جائے گا اور ان کے بارہ میں پیشگوئی ٹل جائے گی اور میعاد گزر جانے کے بعد اس کی حضرت اقدس کی زندگی میں موت اب اس وقت واقعہ ہو سکے گی.اگر وہ کسی وقت تو بہ توڑ دے، اگر وہ تو بہ تو ڑے تو اس کے بعد اس کی موت کے متعلق نئی میعاد کا تقر رحسب بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ انجام آتھم صفحہ 32، 33 ضروری ہوگا.اور اس میعاد کے اندر مرنے کے بعد حضرت اقدس کا نکاح محمدی بیگم سے ضروری قرار پائے گا.اعتراض سوم ازالہ اوہام میں لکھا تھا:.” خدائے تعالیٰ ہر طرح سے اس کو تمہاری طرف لائے گا.باکرہ ہونے کی حالت میں یا بیوہ کر کے.اور ہر یک روک کو درمیان سے اُٹھاوے گا.اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا.کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 305) نہیں آیا.اعتراض یہ ہے کہ درمیانی روکیں کیوں نہیں اٹھیں اور کیوں نکاح وقوع میں الجواب :.یہ عبارت اجتہادی ہے نہ کہ الہامی.اصل پیشگوئی مندرجہ اشتہار دہم جولائی 1888ء شرطی تھی.تتمہ اشتہار میں تُوبِى تُوُبِی والا الہام بھی درج تھا.لہذا تو بہ کی شرط پورا کر لینے کے بعد روکوں کا اٹھانا خدا کے ذمہ نہ تھا.ہاں اگر سلطان محمد صاحب تو بہ شکنی کرتے اور پیشگوئی کی تکذیب کا اعلان کرتے تو اس صورت میں روکوں کا اٹھایا جانا ضروری ہوتا.تو بہ کی روک کا جبراً اٹھانا خدا کی شان کے منافی ہے.کیونکہ یہ ظلم ہے.وَإِنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ.

Page 288

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک اعتراض چهارم 266 حصہ دوم حضرت مرزا صاحب ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 306 میں اپنی ایک بیماری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.اس کے بعد اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی.یہاں تک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی.بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیت بھی کر دی گئی.اس وقت گویا یہ پیشگوئی آنکھوں کے سامنے آگئی اور یہ معلوم ہورہا تھا کہ اب آخری دم ہے اور کل جنازہ نکلنے والا ہے.تب میں نے اس پیشگوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنی ہوں گے جو میں سمجھ نہیں سکا.تب اسی حالت قریب الموت میں مجھے الہام ہوا.اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِين.یعنی یہ بات تیرے رب کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے“.اس پر اعتراض یہ ہے کہ الہام نے تصدیق کر دی تھی کہ پہلے معنی درست نہیں تو پیشگوئی کیوں ٹل گئی.الجواب :.اس الہام میں اشارہ تھا کہ اس مرض سے آپ کی وفات نہیں ہوگی.اور نفس پیشگوئی کا برحق ہونا آپ دیکھیں گے لہذا پیشگوئی مشکوک نہیں.اس الہام سے یہ ظاہر کرنا مقصود نہیں تھا کہ پیشگوئی کس رنگ میں پوری ہوگی بلکہ صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ نفس پیشگوئی برحق ہے.اور چونکہ پیشگوئی شرطی تھی اس لئے شرط کے مطابق وقوع میں آئے گی.اس الہام کا یہ ظاہر کرنا مقصود نہ تھا کہ اس بارے میں آپ کا اجتہاد درست ہے یا نہیں؟ اس بیماری میں حضرت اقدس کا یہ خیال کہ شاید اس کے کچھ اور معنی ہوں جو میں سمجھ نہیں سکا اس پر اس الہام کا نزول یہ ظاہر کرتا ہے کہ 1891ء میں جب کہ

Page 289

267 حصہ دوم احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک ابھی پیشگوئی کا کوئی مرحلہ پیش نہیں آیا تھا.آپ نے جو کچھ اس پیشگوئی کے متعلق سمجھا ہے وہ غلط نہیں.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت آپ کسی اجتہادی غلطی میں بھی مبتلا نہیں تھے.ابھی تو پیشگوئی کا کوئی مرحلہ بھی سامنے نہیں آیا تھا.اور اس بات کو تو آپ خوب سمجھتے تھے کہ پیشگوئی شرطی ہے.لہذا آپ کو شرائط کے مطابق اس کا وقوع دیکھنا چاہیے.سوخدا نے آپ کو اس بیماری سے بچالیا.اور اس کے بعد مرزا احمد بیگ کے اس لڑکی کا نکاح دوسری جگہ کرنے پر پیشگوئی کے مطابق اسکی موت کا وقوع آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.اور اس کے بعد یہ بھی دیکھا کہ مرزا سلطان محمد تو بہ کر کے موت سے بچ گیا اور شرط کے مطابق اس کے بچ جانے کی وجہ سے نکاح والا حصہ منسوخ ہو گیا.کیونکہ پیشگوئیوں میں محوداثبات حسب آیت يَمْحُوا الله مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ہوتا رہتا ہے.نوٹ:.بیماری کے ذکر سے قبل ازالہ اوہام میں یہ ذکر موجود ہے:.” جب یہ پیشگوئی معلوم ہوئی اور ابھی پوری نہیں ہوئی تھی.جیسا کہ اب تک جو 16 اپریل 1891 ء ہے پوری نہیں ہوئی تو اس کے بعد اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی.پروفیسر الیاس برنی نے اپنی کتاب ” قادیانی مذہب کے صفحہ 390 پر اس عبارت کو نقل کرتے ہوئے 1891 ء کی بجائے 1896 ء لکھ دیا ہے.تا وہ یہ دھوکہ دے سکیں کہ گویا محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند مرزا سلطان محمد کی تو بہ کے بعد حضرت مرزا صاحب کو یہ الہام ہوا تھا.حالانکہ سلطان محمد کی تو بہ کے بعد اس پیشگوئی کے بارہ میں 1906 ء تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کوئی الہام نہیں ہوا.ثبوت برگردن منکر.

Page 290

ندی علیمی پاکٹ بک اعتراض پنجم 268 حصہ دوم نکاح آسمان پر پڑھا جا چکا تھا.تو تاخیر میں کیسے پڑ گیا؟ الجواب :.حضرت اقدس کے الفاظ ” نکاح آسمان پر پڑھا گیا الہام زوجنگھا کا یہ مفہوم ظاہر کرنے کے لئے کہے گئے تھے کہ نکاح اس وعیدی پیشگوئی کا ایک حصہ ہے.اگر سلطان محمد تو بہ کرنے کے بعد کسی وقت تو بہ تو ڑ دے.تو پھر یہ نکاح پیشگوئی کے لحاظ سے مقدر ہوگا.اور جب تک تو بہ نہ توڑے پیشگوئی معلق رہے گی.سلطان محمد کی توبہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اجتہاداً اسے مبرم سمجھتے رہے.یعنی یہ امر ہ وہ تو بہ توڑ دے گا.حالانکہ اس بارہ میں آپ پر کوئی جدید الہام نہیں ہوا تھا.آخری الہام جو ہو اوہ تکفیک هذِهِ الْاِمْرَءَ ةُ تھا.کہ یہ عورت جو آپ کے نکاح میں ہے آپ کے لئے کافی ہے.اس سے یہ قومی احساس پیدا ہو گیا.کہ نکاح کا وقوع منسوخ ہو گیا ہے.چونکہ پھر بھی تکذیب اور تو بہ توڑنے کا عقلی امکان اب بھی باقی تھا.اس لئے آپ نے تتمہ حقیقۃ الوحی میں یہ توجیہ کی کہ نکاح فسخ ہو گیا ہے یا تاخیر میں پڑ گیا.واقعات نے یہ شہادت دی کہ عنداللہ یہ پیشگوئی مل چکی ہے.چنانچہ بعد میں اخبار بدر 23 اپریل 1908ء میں آپ نے خود بھی لکھ دیا.کہ یہ پیشگوئی ٹل گئی ہے.اور وعیدی پیشگوئی کاٹل جانا آیت يَمْحُوا اللهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ مطابق ہوا ہے.ماسوا اس کے زوجنکھا کے الہام کا مفہوم گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ قرار دیا کہ بعد واپسی کے ہم نے اس سے تیرا نکاح کر دیا ( انجام آتھم صفحہ 60) اور یہ نکاح سلطان محمد کی تو بہ کی وجہ سے وقوع میں نہ آیا.تا ہم ایک دوسری تعبیر سے بھی یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہو چکی ہے کہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 291

269 حصہ دوم کو مسیح موعود‘ کا منصب جلیل عطا کیا گیا.نکاح کے تعبیری معنی منصب جلیل کا ملنا ہوتے ہیں تعطیر الا نام میں لکھا ہے:.النِّكَاحُ فِي الْمَنَامِ يَدُلُّ عَلَى الْمَنْصَبِ الْجَلِيْلِ“ یعنی خواب میں نکاح کسی بڑے منصب کے ملنے پر دلالت کرتا ہے.ماسوا اس کے طبرانی اور ابن عسا کرنے ابوامامہ سے مرفوعاً روایت کی ہے:.اِنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِخَدِيجَةَ اما شعرت اَنَّ الله زوجنى مريم ابنة عمران وكلثوم اختَ موسى وامرأة فرعون قالت هنيئًا لَكَ يا رسولَ اللهِ ( تفسیر فتح البیان جلد 7 صفحه 100 مطبوعہ مصر ) ترجمہ :.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ نے میرا نکاح (حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ مریم بنت عمران - موسی علیہ السلام کی بہن کلثوم اور فرعون کی بیوی کے ساتھ کر دیا ہے.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا یا رسول اللہ ! آپ کو مبارک ہو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ تینوں نکاح آسمانی تھے.جن کی تعبیر اس رنگ میں پوری ہوئی.کہ ان عورتوں کے خاندانوں کے بہت سے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے.اسی طرح مرزا احمد بیگ کے خاندان کے بہت سے افراد اس پیشگوئی پر ایمان لاچکے ہیں.جن میں سے مندرجہ ذیل افراد خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں:.1 - محمد اسحاق پسر مرز اسلطان محمد 2.والدہ محمدی بیگم صاحبہ یعنی اہلیہ مرزا احمد بیگ

Page 292

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 3 محمودہ بیگم ہمشیرہ محمدی بیگم 270 4.عنایت بیگم ہمشیرہ محمدی بیگم 5.مرزا احمد حسن داماد مرزا احمد بیگ 6.مرزا محمد بیگ پسر مرزا احمد بیگ حصہ دوم اسی طرح اس خاندان کے دوسرے بہت سے افراد بھی ایمان لائے.محمدی بیگم صاحبہ کے پسر مرزا محمد اسحاق بیگ ایک خط میں لکھتے ہیں:.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ( حضرت مرزا صاحب ) وہی مسیح موعود ہیں جن کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی.(ماخوذ از اعلان احمدیت مندرجہ الفضل 26 فروری 1931ء) پس جس خاندان کے ساتھ اس پیشگوئی کا براہ راست تعلق تھا وہ تو اس پیشگوئی کے مصدق ہیں اور انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں تو دوسروں کو اعتراض کا کیا حق ہے.اعتراض ششم یہ پیشگوئی الہامی تھی.نکاح کے لئے حضرت مرزا صاحب نے خطوط وغیرہ کے ذریعہ سے کوشش کیوں کی ؟ الجواب :.پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے کوشش کرنا انبیاء کی سنت کے مطابق ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ بدر کی فتح کا وعدہ تھا لیکن اس کے باوجود مقابلہ کی ہرممکن کوشش کی.اور حضور نے اس کے لئے خضوع اور (الف) خشوع کے ساتھ جنگ سے ایک طرف ہو کر دعائیں بھی فرمائیں.موسی علیہ السلام سے خدا نے وعدہ کیا تھا کہ کنعان کی زمین انہیں دی جائے گی.اس کے لئے قوم نے کوشش نہ کی جو نا پسندیدہ امر

Page 293

ندی تعلیمی پاکٹ بک 271 حصہ دوم تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ زمین ان پر چالیس سال کے لئے حرام کر دی گئی.موسی علیہ السلام نے فرمایا تھا.يُقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ - (المائدة : 22) اے قوم ! ارض مقدسہ میں داخل ہو جاؤ.جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے.( یعنی ارض کنعان) كَتَبَ الله لَكُمْ کے الفاظ صریح پیشگوئی پر دلالت کرتے ہیں.مگر قوم کے جواب فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا فَعِدُونَ (المائدة:25) کہ اے موسی تو اور تیرا خدا دونوں جا کر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں.اس پر خدا تعالیٰ نے ان کے رویے کو نا پسند کرتے ہوئے فرمایا.قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيَهُونَ فِي الْأَرْضِ _ (المائدة: 27) كه بے شک یہ زمین ان کے لئے چالیس سال کے لئے حرام کر دی گئی ہے.وہ زمین میں سرگرداں پھرتے رہیں گے.کیا معترضین یہود کے اس جواب کو ” کہ تو اور تیرا خدا جا کر لڑو اور خود کوشش نہ کرنے کو پسندیدہ امر سمجھتے ہیں؟ اس بارہ میں قرآن کریم مترجم مولانامحمود الحسن صاحب دیو بندی کے صفحہ 177 فائدہ نمبر 2 کے تحت یہود کے اس جواب پر لکھا ہے:.اسباب مشروعہ کا ترک کرنا تو کل نہیں.تو کل تو یہ ہے کہ کسی نیک مقصد کے لئے انتہائی کوشش اور جہاد کرے اور پھر اس کے مثمر اور منتج ہونے کے لئے خدا پر بھروسہ رکھے اور اپنی کوشش پر نازاں اور مغرور نہ ہو.باقی اسباب مشروعہ کو چھوڑ کر خالی امیدیں باندھتے رہنا تو کل نہیں بلکہ تعطل ہے“.

Page 294

یتعلیمی پاکٹ بک اعتراض ہفتم 272 حصہ دوم مرز افضل احمد کو بیوی چھوڑنے اور محروم الارث ہونے کا نوٹس کیوں دیا گیا اُن کا کیا قصور تھا؟ الجواب :.چونکہ مرزافضل احمد کی بیوی کا تعلق مخالفین سے تھا اور وہ خود بھی مخالفین میں شامل تھی.اور الہام الہی بتا تا تھا کہ جولوگ ایسے مخالفین سے علیحدہ نہ ہوں اور ان سے تعلقات رکھیں اُن پر عذاب الہی نازل ہوگا.لہذا حضرت اقدس کو اپنے بیٹے پر شفقت مجبور کرتی تھی کہ وہ بیٹے کو اپنی بیوی سے قطع تعلق کرنے کا مشورہ دیں تا وہ بھی عذاب کا مورد نہ بنیں.احادیث نبویہ سے ثابت ہے کہ اگر باپ اپنی بہو کوکسی خلاف شرع بات کی وجہ سے نا پسند کرتا ہو تو وہ بیٹے کو طلاق دینے پر مجبور کر سکتا ہے.حدیث کے الفاظ یہ ہیں:.عن ابن عمر قال كَانَتْ تَحْتى امرءة احبها وكان ابي يَكْرَهُهَا فَامَرَنِى اَنْ أُطَلَّقَهَا فَأَبَيْتُ فذكرت ذلك للنبي صلّى الله عليه وسلّم فقال يا عبد الله بن عمر طلق امرء تک.(ترمذی کتاب الطلاق باب ماجاء في الرجل يسأله ابوه ان يطلق زوجته) ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میری ایک بیوی تھی جس سے مجھے بہت محبت تھی لیکن میرے والد کو اس سے سخت نفرت تھی.انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دوں.میں نے بات نہ مانی اور اس بات کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا.تو آپ نے فرمایا کہ اے عبد اللہ بن عمر ا پنی بیوی کو طلاق دے دو حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گھر آئے تو ان کی بیوی کے ذریعہ اُن کو پیغام دے گئے.غَيْرُ عَتْبَة بابک کہ اپنے دروازے دو.

Page 295

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 273 حصہ دوم کی دہلیز بدل دو.جب حضرت اسماعیل علیہ السلام گھر آئے تو اُن کی بیوی نے اُن کو حضرت ابراہیم کا پیغام دیا تو آپ نے فرمایا:.ذَاكَ أَبِي وَقَدْ أَمَرَنِي أَنْ أُفَارِقَكِ الْحِقِي بِأَهْلِكِ فَطَلَّقَهَا وَتَزَوَّجَ مِنْهُمْ أُخْرى - ترجمہ :.وہ میرے والد ابراہیم تھے.وہ مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تجھے چھوڑ دوں.پس تو اپنے والدین کے پاس چلی جا.پس آپ نے اُسے طلاق دے کر بنو جرہم کی ایک اور عورت سے شادی کر لی.اموال آنے پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے ان اموال میں سے کچھ طلب کیا.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند فرمایا اور خدا نے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ آیات نازل کیں جن کا ترجمہ یہ ہے:.”اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دو.کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و آرائش کا سامان چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں یہ سامان دے کر اچھی طرح رخصت کر دوں.اور اگر تم خدا اور رسول اور دار آخرت کو چاہتی ہو تو خدا نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لئے بڑا اجر مقرر کر رکھا ہے“.(الاحزاب: 29، 30 ) پس نا پسندیدہ امر کے صدور پر طلاق دینا یا دلوانا اسلام کے نزدیک کوئی قابل اعتراض امر نہیں.اعتراض هشتم پہلی بیوی کو طلاق کیوں دی اور اپنے لڑکے سلطان احمد کے متعلق کیوں اشتہار نکالا کہ وہ محروم الارث ہو گا.الجواب :.اشتہار میں اس کی وجہ مذکور ہے کہ مرزا سلطان احمد اور آپ کی اہلیہ کا مخالفین سے جوڑ تھا.اور وہ ایسے لوگوں کی مجالس ترک نہیں کر رہے تھے جو مورد

Page 296

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 274 حصہ دوم عذاب بننے والے تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود اس اشتہار میں تحریر فرماتے ہیں:.اس کام ( محمدی بیگم کے دوسری جگہ نکاح) کے مدارالمہام وہ ہو گئے جن پر اس عاجز کی اطاعت فرض تھی اور ہر چند سلطان احمد کو سمجھایا اور بہت تاکیدی خط لکھے کہ تو اور تیری والدہ اس کام سے الگ ہوجائیں ورنہ میں تم سے جدا ہو جاؤں گا اور تمہارا کوئی حق نہ رہے گا.مگرانہوں نے میرے خط کا جواب تک نہ دیا اور بکلی مجھ سے بیزاری ظاہر کی.اگر ان کی طرف سے تیز تلوار کا بھی مجھے زخم پہنچتا تو بخدا میں اس پر صبر کرتا.لیکن انہوں نے دینی مخالفت کر کے اور دینی مقابلہ سے آزار دے کر مجھے بہت ستایا اور اس حد تک میرے دل کو تو ڑ دیا.کہ میں بیان نہیں کر سکتا.اور عمد چاہا کہ میں سخت ذلیل کیا جاؤں.....اس لئے میں نہیں چاہتا کہ اب ان کا کسی قسم کا تعلق مجھ سے باقی رہے.اور ڈرتا ہوں کہ ایسے دینی دشمنوں سے پیوند رکھنے میں معصیت نہ ہو.(اشتہار مورخہ 2 رمئی 1891 تبلیغ رسالت جلد 2 صفحہ 9.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 186 ، 187 (بار دوم ) دیکھئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ازواج کا اموال طلب کرنا کوئی معصیت نہ تھا جب کہ دوسروں کو اموال میں سے حصہ مل رہا تھا.ہاں رسول اللہ اور اللہ تعالیٰ اُن کا کردار اس سے بلند دیکھنا چاہتے تھے.اور ان کے دلوں کو دنیا کی محبت سے خالی کرنا چاہتے تھے.اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اس مطالبہ پر قائم رہنے کی صورت میں طلاق دینے کی اجازت دیدی.اگر ازواج مطہرات اپنے اس مطالبہ پر قائم رہتیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور طلاق دیتے.لیکن انہوں نے اپنا مطالبہ ترک کر دیا اور نہایت شاندار کردار کا مظاہرہ کیا.اس لئے حضور کو طلاق نہ دینا پڑی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیوی اور بیٹے کا کردار اس وقت سنگین جرم کے

Page 297

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 275 حصہ دوم مترادف تھا اس صورت میں حضور کا ان سے تعلق رکھنا معصیت الہی میں داخل تھا.نوٹ:.اس پیشگوئی پر ہم نے اصولی بحث کر دی ہے اور اہم اعتراضات کے جوابات بھی دے دئے ہیں لوگوں کے بعض ضمنی اور غیر معقول اعتراضات کے جوابات میں میں نے اپنی تین کتب ” پیشگوئی مرزا احمد بیگ اور اس کے متعلقات“ تحقیق عارفانہ اور احمدیہ تحریک پر تبصرہ میں دے دیئے ہیں.پیشگوئی متعلق عبد اللہ آتھم 22 مئی 1893 ء سے 5 جون 1893 ء تک امرتسر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پادریوں سے 15 دن کے لئے ایک تحریری مباحثہ الوہیت مسیح کے موضوع پر ہوا.یہ مباحثہ تحریری تھا اور اس کے پرچے روزانہ مجلس میں سُنا دیئے جاتے تھے.پادریوں کی طرف سے ڈپٹی عبد اللہ آتھم مباحثہ کے لئے پیش ہوتے رہے.اس بحث میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عیسائیت پر کھلا کھلا غلبہ عطا فرمایا.چونکہ پادری عبد اللہ آتھم نے اپنی کتاب ”اندرونہ بائیبل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ دجال“ لکھا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے آپ پر ایک پیشگوئی کا انکشاف فرمایا.اس پیشگوئی کو آپ نے اپنے آخری پر چہ میں ان الفاظ میں تحریر فرمایا:." آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جب کہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الہی میں دُعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے.تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور بچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا

Page 298

- 276 حصہ دوم بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی 15 - ماہ تک ہادیہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی.بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.اور جو شخص سچ پر ہے اور بچے خدا کو مانتا ہے.اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی.اور اس وقت جب یہ پیشگوئی ظہور میں آوے گی بعض اندھے سو جا کھے کئے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سُننے لگیں گے.( جنگ مقدس آخری پر چه روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 291-292) الہامی الفاظ ہادیہ میں گرایا جائے گا“ کا مفہوم اسی وقت اجتہاد کی رُو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سمجھا کہ عبداللہ انتم بسزائے موت ہاویہ (دوزخ) میں گرایا جائے گا.چنانچہ آپ اسی پیشگوئی کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:.میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ آج کی تاریخ سے پندرہ ماہ میں بسزائے موت ہاو یہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا اُٹھانے کے لئے تیار ہوں.مجھے ذلیل کیا جائے.روسیاہ کیا جائے.میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے.مجھ کو پھانسی دی جائے میں ہر سزا اُٹھانے کو تیار ہوں“.اس پیشگوئی سے ڈپٹی عبداللہ آتھم پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ :.اُس نے فوراً زبان باہر نکالی اور کانوں پر ہاتھ رکھے.رنگ زرد ہو گیا.آنکھیں پتھرا گئیں اور سر ہلا کر کہا کہ میں نے تو ایسا نہیں لکھا.(یعنی 66 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دجال کا لفظ استعمال نہیں کیا.“ (رساله نور احمد صفحہ 32) یہ اس کی طرف سے رجوع الی الحق کا آغاز تھا.اس کے بعد مرتے دم تک

Page 299

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 277 حصہ دوم اس نے ایک لفظ بھی اسلام یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہ لکھا.ماسوا اسکے وہ دل سے عام عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت مسیح کے ساتھ متفق نہ رہا اور اس اسلامی پیشگوئی کی ہیبت اس پندرہ ماہ کے عرصہ میں اسکے دل پر عجب طور سے طاری رہی.چنانچہ نہایت سراسیمگی کی حالت میں وہ جگہ بہ جگہ پھرتارہا اور اسے ایک شہر میں قرار نہیں تھا.اسکے رجوع الی الحق کے بارے میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان الفاظ میں اطلاع دی :.اِطَّلَعَ الله عَلى هَمِّه وغَمِّهِ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَا تَعْجَبُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الاعْلَوْنَ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ وَ بِعِزَّتِي وَجَلَالِي إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى وَنُمْزِقُ الْأَعْدَاءَ كُلَّ مُمَزَّقٍ وَمَكْرُ أولئِكَ هُوَ يَبُورُإِنَّا نَكْشِفُ السِّرَّ عَنْ سَاقِهِ يَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ.(انوار الاسلام روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 2) کہ خدا تعالیٰ نے اُس ( عبد اللہ آتھم ) کے هستم و غم پر اطلاع پائی اور اس کو مہلت دی جب تک کہ وہ بے باکی اور سخت گوئی اور تکذیب کی طرف میل کرے.اور خدا تعالیٰ کے احسان کو بھلا دے ( یہ معنی فقرہ مذکورہ کے تفہیم الہی سے ہیں ) اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے اور تو ربانی سنتوں میں تغیر اور تبدل نہیں پائے گا.اس فقرہ کے متعلق یہ تفہیم ہوئی کہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ کسی پر عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ایسے کامل اسباب پیدا نہ ہو جائیں جو غضب الہی کو مشتعل کریں.اور اگر دل کے کسی گوشہ میں بھی کچھ خوف الہی مخفی ہو اور کچھ دھڑ کہ شروع ہو جائے.تو عذاب نازل نہیں ہوتا اور دوسرے وقت پر جاپڑتا ہے.اور پھر فرمایا کہ کچھ تعجب مت کرو اور غمناک مت ہو اور غلبہ تمہیں کو

Page 300

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 278 حصہ دوم بھی.ہے اگر تم ایمان پر قائم رہو.یہ اس عاجز کی جماعت کو خطاب ہے.اور پھر فرمایا کہ ہم دشمنوں کو پارہ پارہ کر دیں گے یعنی اُن کو ذلت پہنچے گی اور انکا مکر ہلاک ہو جائے گا.اس میں یہ تفہیم ہوئی.کہ تم ہی فتح یاب ہو نہ دشمن.اور خدا تعالی بس نہیں کرے گا اور نہ باز آئے گا.جب تک دشمنوں کے تمام مکروں کی پردہ دری نہ کرے اور ان کے مکر کو ہلاک نہ کر دے یعنی جو مکر بنایا گیا اور مجسم کیا گیا اس کو توڑ ڈالے گا.اور اس کو مردہ کر کے پھینک دے گا.اور اسکی لاش لوگوں کو دکھا دے گا.اور پھر فرمایا کہ ہم اصل بھید کو اس کی پنڈلیوں میں سے ننگا کر کے دکھا دیں گے یعنی حقیقت کو کھول دیں گے اور فتح کے دلائل بینہ ظاہر کریں گے اور اُس دن مومن خوش ہو نگے.پہلے مومن بھی اور پچھلے مومن (انوار الاسلام روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 2-3 ) پس اس الہام سے ظاہر ہے کہ عبداللہ آتھم نے پیشگوئی کے الہامی الفاظ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے“ سے حق کی طرف رجوع کرلینے کی وجہ سے یہ فائدہ اٹھایا کہ وہ پندرہ ماہ کے اندر نہ مرا.اور اس عرصہ میں انتہائی ہم و غم میں مبتلا رہا.جس کے واقعات بھی گواہ ہیں کہ اسلامی پیشگوئی کا اس کے دل پر ہولناک اثر پڑا.اور گھبراہٹ اور دیوانہ پن کی حالت اس پر طاری رہی.حضور فرماتے ہیں:.الہامی پیشگوئی کے رعب نے اس کے دل کو ایک کچلا ہوا دل بنادیا.یہاں تک کہ وہ سخت بے تاب ہوا اور شہر بہ شہر اور ہر ایک جگہ ہراساں اور ترساں پھرتا رہا اور اس مصنوعی خدا پر اس کا تو کل نہ رہا.جس کو خیالات کی کجی اور ضلالت کی تاریکی نے الوہیت کی جگہ دے رکھی ہے.وہ کتوں سے ڈرا اور سانپوں کا اس کو اندیشہ ہوا اور اندر کے مکانوں سے بھی اسکو خوف آیا اس پر خوف اور وہم اور دلی سوزش کا غلبہ ہوا.اور پیشگوئی کی پوری ہیبت اس پر

Page 301

279 حصہ دوم ی علیمی پاکٹ بک طاری ہوئی اور وقوع سے پہلے ہی اس کا اثر اس کو محسوس ہوا.اور بغیر اسکے کہ کوئی امرتسر سے اس کو نکالے آپ ہی ہراساں اور ترساں اور پریشاں اور بے تاب ہو کر شہر بہ شہر بھاگتا پھرا.اور خدا نے اس کے دل کا آرام چھین لیا اور پیشگوئی سے سخت متاثر ہوکر سراسیموں اور خوفزدوں کی طرح جا بجا بھٹکتا پھرا.اور الہام الہی کا رعب اور اثر اس کے دل پر ایسا مستولی ہوا کہ اس کی راتیں ہولناک اور دن بے قراری سے بھر گئے.اس کے دل کے تصوروں نے عظمت اسلامی کو رڈ نہ کیا بلکہ قبول کیا اس لئے وہ خدا جو رحیم و کریم اور سزا دینے میں دھیما ہے اور انسان کے دل کے خیالات کو جانچتا اور اسکے تصورات کے موافق اس سے عمل کرتا ہے.اس نے اس کو اس صورت پر بنایا جس صورت میں فی الفور کامل ہادیہ کی سزا یعنی موت بلا توقف اس پر نازل ہوتی.اور ضرور تھا کہ وہ کامل عذاب اس وقت تک تھما ر ہے.جب تک کہ وہ بے باکی اور شوخی سے اپنے ہاتھ سے اپنے لئے ہلاکت کے اسباب پیدا کرے اور الہام الہی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا تھا کیونکہ الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذاب موت کے آنے کا وعدہ تھا نہ مطلق بلا شرط.(انوار الاسلام روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 4-5) یہ غیر ممکن ہے کہ خدا اپنی قرار دادہ شرطوں کو بھول جائے.کیونکہ شرائط کا لحاظ رکھنا صادق کے لئے ضروری ہے.اور خدا اصدق الصادقین ہے.ہاں جس وقت مسٹر عبد اللہ آتھم اس شرط کے نیچے سے اپنے تئیں باہر کرے اور اپنے لئے اپنی شوخی اور بے باکی سے ہلاکت کے سامان پیدا کرے تو وہ دن نزدیک آجائیں گے اور سزائے ہاویہ کامل طور پر نمودار

Page 302

ندی تعلیمی پاکٹ بک 280 حصہ دوم ہوگی.اور پیشگوئی عجیب طور پر اپنا اثر دکھائے گی.(انوار الاسلام روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 5) نوٹ :.یہ عبارت عبد اللہ آتھم کے لئے رجوع کر لینے کے بعد بے با کی دکھانے کی صورت میں پیشگوئی کی معین اور آخری صورت ہے جو یہ ہے کہ بے باکی اور شوخی کے ظہور پر یعنی رجوع الی الحق کے ماننے سے انکار کرنے پر یا رجوع الی الحق کی صورت کو کسی تدبیر سے مشتبہ بنانے کی صورت میں اسکی ہلاکت کے دن نزدیک آجائیں گے.اور پھر موت کے ذریعہ سزائے ہادیہ کا وہ جلد شکار ہو جائے گا.اور پیشگوئی کا اثر غیر معمولی رنگ میں ظاہر ہوگا.گویا اب یہ پیشگوئی ڈپٹی عبداللہ آتھم کی بے باکی اور شوخی سے معلق ہوگئی.مخالفین کا شور وشر جب مسٹر عبد اللہ آتم رجوع الی الحق کی شرط سے فائدہ اُٹھا کر پندرہ ماہ کے اندر مرنے سے بچ گیا.تو عیسائیوں نے اپنی جھوٹی فتح کا نقارہ بجایا.جلوس نکالے اور خوب شور وشر اور ہنگامہ آرائی کی اور مسیح موعود کی شان میں گستاخانہ رویہ اختیار کیا بعض سادہ لوح مسلمان یا حضور سے تعصب رکھنے والے مسلمان بھی اُن کے ہمنوا ہو گئے تو ان کی حالت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ سے الہام پا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عبد اللہ آتھم کو مباہلہ کا چیلنج دیا.اور اس دعوت مباہلہ کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کا انعام بھی رکھا.دعوت مباہلہ والے اشتہار میں آپ نے لکھا:.اگر عیسائی صاحبان اب بھی جھگڑیں اور اپنی مکارانہ کارروائیوں کو کچھ چیز سمجھیں یا کوئی اور شخص اس میں شک کرے.تو اس بات کے تصفیہ کے لئے کہ فتح کس کو ہوئی آیا اہل اسلام کو جیسا کہ در حقیقت ہے.یا عیسائیوں کو جیسا کہ وہ ظلم کی راہ سے خیال کرتے ہیں.تو میں ان کی پردہ دری کے لئے

Page 303

عدی تعلیمی پاکٹ بک 281 حصہ دوم مباہلہ کے لئے تیار ہوں.اگر وہ دروغ گوئی اور چالاکی سے باز نہ آئیں تو مباہلہ اس طور پر ہوگا کہ ایک تاریخ مقرر ہو کر ہم فریقین ایک میدان میں حاضر ہوں.اور مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کھڑے ہو کر تین مرتبہ ان الفاظ کا اقرار کریں کہ اس پیشگوئی کے عرصہ میں اسلامی رُعب ایک طرفۃ العین کے لئے بھی میرے دل پر نہیں آیا اور میں اسلام اور نبی اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ناحق پر سمجھتارہا اور سمجھتا ہوں.اور صداقت کا خیال تک نہیں آیا.اور حضرت عیسی کی ابنیت اور الوہیت پر یقین رکھتا رہا اور رکھتا ہوں.اور ایسا ہی یقین جو فرقہ پروٹسٹنٹ کے عیسائی رکھتے ہیں اور اگر میں نے خلاف واقعہ کہا ہے اور حقیقت کو چھپایا ہے.تو اے خدائے قادر ! مجھ پر ایک برس میں عذاب موت نازل کرے.اس دعا پر ہم آمین کہیں گے اور اگر دعا کا ایک سال تک اثر نہ ہوا اور وہ عذاب نازل نہ ہوا جو جھوٹوں پر نازل ہوتا ہے تو ہم ہزار روپیہ مسٹرعبداللہ آتھم صاحب کو بطور تاوان کے دیں گے.چاہیں تو پہلے کسی جگہ جمع کرالیں اور اگر وہ ایسی درخواست نہ کریں تو یقیناً سمجھو کہ وہ کا ذب ہیں اور غلو کے وقت اپنی سزا پائیں گے“.بالآخر حضور تحریر فرماتے ہیں:.(انوارالاسلام روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 6) پس یقیناً سمجھو کہ اسلام کو فتح حاصل ہوئی اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ بالا ہوا اور کلمہ اسلام اونچا ہوا اور عیسائیت نیچے گری“.مسٹر عبد اللہ آتم اس مؤکد بعذاب قسم کھانے کیلئے آمادہ نہ ہوئے تو حضور نے دوسرا اشتہار دو ہزار روپے کے انعام کے ساتھ شائع کیا اور اس میں تحریر فرمایا:.حضرت یہ تو دو خداؤں کی لڑائی ہے.اب وہی غالب ہو گا جو سچا خدا ہے.

Page 304

ند یتعلیمی پاکٹ بک 282 حصہ دوم جبکہ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے خدا کی ضرور یہ قدرت ظاہر ہوگی کہ اس قسم والے برس میں ہم نہیں مریں گے.لیکن اگر آتھم صاحب نے جھوٹی قسم کھالی تو ضرور فوت ہوجائیں گے.تو جائے انصاف ہے کہ آتھم صاحب کے خدا پر کیا حادثہ نازل ہوگا کہ وہ ان کو بچانہیں سکے گا اور نجی ہونے سے استعفیٰ دے دے گا.غرض اب گریز کی کوئی وجہ نہیں.یا تو مسیح کو قادر خدا کہنا چھوڑیں یا قسم کھا لیں.ہاں اگر عام مجلس میں یہ اقرار کر لیں کہ ان کے مسیح ابن اللہ کو برس تک زندہ رکھنے کی تو قدرت نہیں مگر برس کے تیسرے حصہ یا تین دن تک البتہ قدرت ہے.اور اس مدت تک اپنے پرستار کوزندہ رکھ سکتا ہے.تو ہم اس اقرار کے بعد چار مہینہ یا تین دن ہی تسلیم کرلیں گے“.(اشتہا ر انعامی دو ہزار روپیہ 20 ستمبر 1894 ء.مندرجہ تبلیغ رسالت جلد سوم صفحہ 135 ، 136 - مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه 414 بار دوم ) عبد اللہ آتھم انعامی رقم ڈبل کیا جانے پر بھی اس روحانی مقابلہ پر آمادہ نہ ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین ہزار روپے کا انعامی اشتہار دیا.اور اس میں اس سوال کا کہ ایک سال کی میعاد کی کیا ضرورت ہے خدا ایک دن میں بھی جھوٹے کو مارسکتا ہے.یہ جواب دیا:.”ہاں بے شک خدائے قادر ذوالجلال ایک دن میں کیا بلکہ ایک طرفۃ العین میں مارسکتا ہے.مگر جب اس نے الہامی تفہیم سے اپنا ارادہ ظاہر کر دیا.تو اسکی پیروی کرنا لازم ہے.کیونکہ وہ حاکم ہے...کیا ان کا (عیسائیوں کا ) وہ مصنوعی خدا ایک سال تک آتھم صاحب کو بچا نہیں سکتا.حالانکہ ان کی عمر بھی کچھ ایسی بڑی نہیں ہے بلکہ میری عمر سے صرف چند سال ہی زیادہ ہیں.پھر اس مصنوعی خدا پر کونسی ناتوانی طاری ہو جائے گی کہ ایک

Page 305

ندی علیمی پاکٹ بک 283 حصہ دوم سال تک بھی ان کو بچا نہ سکے گا ایسے خدا پر نجات کا بھروسہ رکھنا بھی سخت خطرناک ہے جو ایک سال کی حفاظت سے بھی عاجز ہے.کیا ہم نے عہد نہیں کیا کہ ہمارا خدا اس سال میں ضرور ہمیں مرنے سے بچائے گا.اور آتھم صاحب کو اس جہان سے رخصت کر دے گا.کیونکہ وہی قادر اور سچا خدا ہے جس سے بدنصیب عیسائی منکر ہیں اور اپنے جیسے انسان کو خدا بنا بیٹھے ہیں.( انعامی اشتہار تین ہزار روپیہ 5 را کتوبر 1894ء.مندرجہ تبلیغ رسالت جلد سوم صفحہ 144 ،145.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 420) اس اشتہار میں حضرت اقدس نے بطور چٹھی عبد اللہ آتھم صاحب کو لکھا:.از طرف عبدالله الاحد احمد عافاہ اللہ وائید.آتھم صاحب کو معلوم ہو کہ میں نے آپ کا وہ خط پڑھا جو آپ نے ”نور افشاں‘ 21 /ستمبر 1894ء کے صفحہ 10 میں چھپوایا ہے مگر افسوس کہ آپ اس خط میں دونوں ہاتھ سے کوشش کر رہے ہیں کہ حق ظاہر نہ ہو.میں نے خدا تعالیٰ سے سچا اور پاک الہام پا کر یقینی اور قطعی طور پر جیسا کہ آفتاب نظر آجاتا ہے معلوم کر لیا ہے کہ آپ نے میعاد پیشگوئی کے اندر اسلامی عظمت اور صداقت کا سخت اثر اپنے دل پر ڈالا اور اسی بناء پر پیشگوئی کے وقوع کا ہم و غم کمال درجہ پر آپ کے دل پر غالب ہوا.میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بالکل صحیح ہے اور خدا تعالیٰ کے مکالمہ سے مجھ کو یہ اطلاع ملی ہے اور اس پاک ذات نے مجھے یہ اطلاع دی ہے کہ جو انسان کے دل کے تصورات کو جانتا اور اس کے پوشیدہ خیالات کو دیکھتا ہے اور اگر میں اس بیان میں حق پر نہیں تو خدا مجھ کو آپ سے پہلے موت دے.پس اسی وجہ سے میں نے چاہا کہ آپ مجلس عام میں قسم غلیظ مؤکد

Page 306

284 حصہ دوم بعذ اب موت کھاویں ایسے طریق سے جو میں بیان کر چکا ہوں تا میرا اور آپ کا فیصلہ ہو جائے اور دنیا تاریکی میں نہ رہے.اور اگر آپ چاہیں گے تو میں بھی ایک برس یا دو برس یا تین برس کے لئے قسم کھالوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ سچا ہر گز بر باد نہیں ہوسکتا.بلکہ وہی ہلاک ہوگا جس کو جھوٹ نے پہلے سے ہلاک کر دیا ہے اگر صدق الہام اور صدق اسلام پر مجھے قسم دی جائے تو میں آپ سے ایک پیسہ نہیں لیتا.لیکن آپ کے قسم کھانے کے وقت تین ہزار کے بدرے پہلے پیش کئے جائیں گے جبکہ میں بھی قسم کھا چکا اور آپ بھی کھائیں گے.تو جو شخص ہم دونوں میں جھوٹا ہوگا.وہ دنیا پر اثر ہدایت ڈالنے کے لئے اس جہاں سے اُٹھا لیا جائے گا.اگر آپ چونسٹھ برس کے ہیں تو میری عمر بھی قریباً ساٹھ کے ہو چکی.دو خداؤں کی لڑائی ہے.ایک اسلام کا اور ایک عیسائیوں کا.پس جو سچا اور قادر خدا ہوگا وہ ضرور اپنے بندہ کو بچالے گا.اگر آپ کی نظر میں کچھ عزت اس مسیح کی ہے جس نے مریم صدیقہ سے تولد پایا تو اس عزت کی سفارش پیش کر کے پھر میں آپ کو خدا وند قادر مطلق کی قسم دیتا ہوں کہ آپ اس اشتہار کے منشاء کے موافق عام مجلس میں قسم مؤکد بعذاب موت کھاویں.یعنی یہ کہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں نے پیشگوئی کی میعاد میں اسلامی عظمت اور صداقت کا کچھ اثر اپنے دل پر نہیں ڈالا اور نہ اسلامی پیشگوئی کی حقانی ہیبت میرے دل پر طاری ہوئی.اور نہ میرے دل نے اسلام کو حقانی مذہب خیال کیا بلکہ میں درحقیقت مسیح کی ابنیت اور الوہیت اور کفارہ پر یقین کامل کے ساتھ اعتقاد رکھتا رہا.اگر میں اس بیان میں جھوٹا ہوں تو اے قادر خدا! جو دل کے تصورات کو جانتا ہے اس بے باکی کے عوض میں سخت ذلت اور دُکھ کے ساتھ عذاب موت ایک سال کے اندر میرے پر

Page 307

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 285 حصہ دوم نازل کر.اور یہ تین مرتبہ کہنا ہوگا.اور ہم تین مرتبہ آمین کہیں گے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کو مسیح کی عزت کا کچھ بھی پاس ہے یا نہیں“.(اشتہا رانعامی تین ہزار روپیہ 5 اکتوبر 1894 ء.مندرجہ تبلیغ رسالت جلد سوم صفحہ 157 تا 161 مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 430 تا 432) ڈپٹی عبد اللہ آتھم کے عذرات مسٹر عبد اللہ آتھم نے دو عذر کئے.اول یہ کہ قسم کھانا اُن کے مذہب میں ممنوع ہے.دوم یہ کہ پیشگوئی کے زمانہ میں وہ ڈرے تو ضرور ہیں مگر پیشگوئی کے اثر سے نہیں بلکہ اس لئے کہ کہیں ان کو قتل نہ کروا دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے دونوں عذرات اپنے آخری اشتہار میں جس میں چار ہزار انعام دینے کا وعدہ کیا تھا توڑ دیئے اور پادری عبداللہ آکھتم اس اشتہار کا کوئی جواب نہ دے سکا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دلائل سے ثابت فرمایا کہ انجیل کی رُو سے صرف آسمان یاز مین یا یروشلم یا اپنے سر کی قسم کھانا ممنوع ہے.(متی 34-5/35) ورنہ قسم پطرس حواری نے بھی کھائی.( متی 26/72) پولوس رسول نے بھی کھائی (کرنتھیوں 11/10 ).بلکہ پولوس رسول نے تو لکھا کہ ہر ایک مقدمہ کی حد قسم ہے (عبرانیوں 6/16) بائبیل میں خدا.فرشتوں اور نبیوں کی قسمیں موجود ہیں.اور انجیل میں عیسی کی قسم.پطرس کی قسم اور پولوس کی قسمیں درج ہیں.اس جہت سے علماء عیسائیت نے جواز قسم پر فتویٰ دیا ہے.(دیکھئے تفسیر انجیل.مصنفہ پادری کلارک و پادری عمادالدین مطبوعہ 1875ء) علاوہ ازیں عیسائی سلطنت میں پارلیمنٹ کے ممبروں اور تمام متعہد عیسائی

Page 308

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 286 حصہ دوم ملازموں حتی کہ گورنر جنرل سے بھی قسم لی جاتی ہے.پھر آپ نے تحریر فرمایا :.پھر اب سوچنا چاہیے جب کہ پطرس نے قسم کھائی.پولس نے قسم.کھائی مسیحیوں کے خدا نے قسم کھائی.فرشتوں نے قسم کھائی.نبیوں نے قسمیں کھائیں اور تمام پادری ذرہ ذرہ مقدمہ پر قسمیں کھاتے ہیں پارلیمنٹ کے ممبر قسم کھاتے ہیں ہر ایک گورنر جنرل قسم کھا کر آتا ہے تو پھر آتھم صاحب ایسے ضروری وقت میں کیوں قسم نہیں کھاتے.حالانکہ وہ خود اپنے اس اقرار سے کہ میں پیشگوئی کے بعد ضرور موت سے ڈرتا رہا ہوں.ایسے الزام کے نیچے آگئے ہیں کہ وہ الزام بجر قسم کھانے کے کسی طرح ان کے سر پر سے اُٹھ نہیں سکتا.کیونکہ ڈرنا جورجوع کی ایک قسم ہے اُن کے اقرار سے ثابت ہوا.پھر بعد اس کے وہ ثابت نہ کر سکے کہ وہ صرف قتل کئے جانے سے ڈرتے تھے.نہ انہوں نے حملہ کرتے ہوئے کسی قاتل کو پکڑا.نہ انہوں نے یہ ثبوت دیا کہ ان سے پہلے کبھی اس عاجز نے چند آدمیوں کا خون کردیا تھا جس کی وجہ سے اُن کے دل میں بھی دھڑکا بیٹھ گیا کہ اسی طرح میں بھی مارا جاؤں گا.بلکہ اگر کوئی نمونہ ان کی نظر کے سامنے تھا تو بس یہی کہ ایک پیشگوئی موت کی یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی موت ان کے سامنے ظہور میں آئی تھی لہذا جیسا کہ الہام الہی نے بتلایا ضرور وہ پیشگوئی کی عظمت سے ڈرے اور یہ بات روئداد موجودہ سے بالکل برخلاف ہے کہ وہ پیشگوئی کی صداقت تجربہ شدہ سے نہیں ڈرے بلکہ ہمارا خونی ہونا جو ایک تجربہ کی رُو سے ایک تحقیقی امر تھا اس سے ڈر گئے.پس اس الزام سے وہ بجز اس کے کیونکر بری ہو سکتے ہیں کہ بحیثیت شاہد کے قسم کھا ئیں اور بموجب قول پولس رسول کے جو ہر ایک مقدمہ کی حد قسم ہے.اس مشتبہ امر کا فیصلہ کر لیں.لیکن یہ نہایت درجہ کی مکاری اور بددیانتی

Page 309

287 حصہ دوم ہے کہ قسم کی طرف تو رجوع نہ کریں اور یونہی حق پوشی کے طور پر جابجا خط بھیجیں اور اخباروں میں چھپوا ئیں کہ میں عیسائی ہوں اور عیسائی تھا.“ (اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ مورخہ 27 /اکتوبر 1894.مندرجہ تبلیغ رسالت جلد سوم صفحہ 172 ، 173 - مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 442،441) پھر حضور تحریر فرماتے ہیں: اب بتلاؤ کہ آتھم صاحب کا یکطرفہ بیان جو صرف دعوئی کے طور پر اغراض نفسانیہ سے بھرا ہوا اور روئداد موجودہ کے مخالف ہے کیونکر قبول کیا جائے.اور کونسی عدالت اس پر اعتماد کر سکتی ہے یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ صرف ہمارے الہام پر مدار نہیں رہا بلکہ آتھم صاحب نے خودموت کے خوف کا اقرار اخباروں میں چھپواد یا اور جا بجا خطوط میں اقرار کیا.اب یہ بوجھ آتھم صاحب کی گردن پر ہے کہ اپنے اقرار کو بے ثبوت نہ چھوڑیں بلکہ قسم کے طریق سے جو ایک سہل طریق ہے اور جو ہمارے نزدیک قطعی اور یقینی ہے ہمیں مطمئن کر دیں کہ وہ پیشگوئی کی عظمت سے نہیں ڈرے بلکہ وہ فی الحقیقت ہمیں ایک خونی انسان یقین کرتے اور ہماری تلواروں کی چمک دیکھتے تھے.اور ہم انہیں کچھ بھی تکلیف نہیں دیتے بلکہ اس قسم پر چار ہزار روپیہ بشرائط اشتہار 9 رستمبر 1894 و 20 ستمبر 1894 ان کی نذر کریں گے.اس اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا آخری الہام درج فرمایا:.” خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ میں بس نہیں کرونگا جب تک اپنے قوی ہاتھ کو نہ دکھلاؤں اور شکست خوردہ گروہ کی سب پر ذلت ظاہر نہ کروں“.اور اس الہام پر یہ تشریحی نوٹ لکھا:.اب اگر اہتم صاحب قسم کھا لیں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس

Page 310

288 حصہ دوم کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے.اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا.جس نے حق کا اخفاء کر کے دنیا کو دھوکہ دینا چاہا.لیکن ہم اس مؤخر الذکرشق کی نسبت ابھی صرف اتنا کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے نشان کو ایک عجیب طور پر دکھلا نا ارادہ کیا ہے جس سے دنیا کی آنکھ کھلے اور تاریکی دُور ہو.اور وہ دن نزدیک ہیں دُور نہیں.مگر اس وقت اور گھڑی کا علم جب دیا جائے گا تب اس کو شائع کر دیا جائے گا“.(اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ 27 اکتوبر 1894ء.مندرجہ تبلیغ رسالت جلد سوم صفحہ 174 تا 177 مجموعہ اشتہارات جلد اول 442 تا 445) اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ کے بعد مسٹر عبداللہ انقسم قسم کھانے پر تو آمادہ نہ ہوئے مگر ان کا قسم سے انکار کمال کو پہنچ گیا.کیونکہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یکے بعد دیگرے تین اور اشتہار دئے اور آخری اشتہار 30/ دسمبر 1895 ء کو دیا گیا.جس میں حضور فرماتے ہیں:.اگر پادری صاحبان ملامت کرتے کرتے اُن ( آتھم ) کو ذبح بھی کر ڈالیں.تب بھی وہ میرے مقابل پر قسم کھانے کے لئے ہرگز نہیں آئیں گے کیونکہ وہ دل میں جانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہوگئی.میری سچائی کے لئے یہ نمایاں دلیل کافی ہے کہ آتھم صاحب میرے مقابلہ پر میرے مواجہ میں ہر گز فتم نہیں اُٹھا ئیں گے.اگر چہ عیسائی لوگ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں.اگر وہ قسم کھالیں تو یہ پیشگوئی بلاشبہ دوسرے پہلو پر پوری ہو جائے گی.خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں.(اشتہار 30 دسمبر 1895ء.مندرجہ تبلیغ رسالت جلد چہارم صفحہ 70.مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ 539) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آٹھم کو قسم کھانے کے علاوہ نالش کرنے کی بھی ترغیب دی تھی.لیکن آتھم نے نہ قسم کھائی اور نہ نالش کی اور اس طریق سے بتادیا کہ ضرور اُس نے رجوع بحق کیا تھا.اور چونکہ اُس نے علانیہ طور پر زبان سے اس

Page 311

289 حصہ دوم رجوع کا اظہار نہیں کیا اس لئے خدا نے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑا.اور اخفائے حق کی سزا میں آخری اشتہار سے جو 30 / دسمبر 1895 ء کو شائع ہوا.سات ماہ کے اندر گرفت الہی میں آ گیا اور 26 جولائی 1896ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہلاک ہو کر عیسائیوں کی شکست کو ظاہر کر گیا.پیشگوئی پر اعتراضات کے جوابات مولوی غلام جیلانی برق نے اعتراض کیا ہے کہ آتھم اور اسکے فریق نے پیشگوئی کی شرط رجوع الی الحق کو قبول نہیں کیا تھا.بلکہ وہ اپنے طغیان اور تمر دپر ڈٹے ہوئے تھے..عبداللہ انتم اسلام اور مرزا صاحب کے خلاف مسلسل لکھتا رہا.اس کی ایک نہایت زہریلی کتاب ” خلاصہ مباحثہ جس میں تثلیت پر پر زور دلائل ہیں اور توحید کا مضحکہ اُڑایا گیا ہے اور جناب مرزا صاحب پر بے پناہ پھبتیاں کسی گئی ہیں.اسی زمانے پندرہ ماہ کی تصنیف ہے.ہم نے جناب برق صاحب سے خط و کتاب کی جسکی تفصیل میری کتاب تحقیق عارفانہ صفحہ 465 تا صفحہ 467 تک میں درج ہے.جناب برق صاحب عبداللہ آم کی طرف سے ” خلاصہ مباحثہ “ لکھا جانے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے.وہ تو میعاد کے اندر سرگرداں و سراسیمہ تھا.اور دن رات روتا رہتا تھا.اسکی حالت نیم دیوانہ کے مشابہ تھی اور اسکی قوت متخیلہ میں اُسے ایسے حملہ آور دکھائی دیتے تھے جن کا ذکر کرنے پر عیسائیوں نے اُسے حضرت مرزا صاحب پر نالش کرنے کو کہا اور یہاں تک پیشکش کی کہ تم صرف کاغذ پر دستخط ہی کر دو مقدمہ ہم دائر کریں گے.مگر وہ آمادہ نہ ہوا.بھلا اس سراسیمگی کی حالت میں وہ خلاصہ مباحثہ کیسے لکھ سکتا تھا.ہماری نظر سے کوئی ایسا رسالہ نہیں گذرا.اگر عبداللہ آتھم نے ایسا کوئی رسالہ ان ایام میں لکھا ہوتا تو وہ اسے قسم کھانے کی دعوت کے مقابلہ میں بطور

Page 312

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 290 حصہ دوم وجہ شہادت پیش کرتے کہ دیکھو میں نے کوئی رجوع نہیں کیا اور ان کو ضرورت نہ تھی کہ کچے عذرات سے قسم کو ٹال دیتے.دبی زبان سے تو اُس نے رجوع کا اعتراف بھی کرلیا تھا.چنانچہ وہ نورافشاں‘ 21 ستمبر 1894ء میں حضرت اقدس کے ذکر میں لکھتا ہے:.میں عام عیسائیوں کے عقیدہ ابنیت اور الوہیت کے ساتھ متفق نہیں اور نہ میں ان عیسائیوں سے متفق ہوں جنہوں نے آپ کے ساتھ بیہودگی کی“.جب وہ عیسائیوں کے ساتھ ساتھ عقیدہ تثلیث میں متفق نہ رہے تو پیشگوئی کی میعاد میں وہ تثلیث پر پُر زور دلائل کیسے لکھ سکتے تھے.اور جب وہ عیسائیوں کی بیہودگی کو نا پسند کرتا تھا تو وہ حضرت مرزا صاحب پر پھبتیاں کیسے کس سکتے تھے.برق صاحب نے حرف محرمانہ صفحہ 271 پر تسلیم کیا ہے کہ رجوع الی الحق کا مفہوم ایک ہی ہو سکتا ہے یعنی تثلیث سے تائب ہوکر تو حید قبول کرنا.جب آٹھم صاحب نے عام عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث سے رجوع کر لیا جس کا خود انہوں نے اعتراف کیا ہے تو انکا ایسا کرنا تو حید کے عقیدہ کو مستلزم ہے.اعتراض دوم حضرت مرزا صاحب نے کشتی نوح صفحہ 6 پر لکھا ہے:.مرے گا.پیشگوئی میں یہ بیان تھا کہ فریقین میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے نیز تحفہ گولڑویہ میں لکھا ہے: میں نے ڈپٹی عبد اللہ آتھم کے مباحثہ میں قریباً ساٹھ آدمیوں کے رو برو یہ کہا تھا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا.سو آتھم اپنی

Page 313

احمد یتعلیمی پاکٹ بک 291 حصہ دوم موت سے میری سچائی کی گواہی دے گیا.اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ پیشگوئی میں پہلے اور پیچھے کا کوئی ذکر نہیں.وہاں صرف اس قدر ذکر ہے کہ جھوٹا پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا.( حرف محرمانہ از ڈاکٹر غلام جیلانی برق.بار اول صفحہ 283 علمی پرنٹنگ پریس لاہور ) الجواب کرے“.پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کا مفہوم یہی ہو سکتا ہے کہ دونوں فریق میں سے جو جھوٹا ہے وہ پندرہ ماہ تک مرکر دوزخ میں پڑے گا.کیونکہ ہاویہ کے معروف معنی دوزخ ہی ہیں.چنانچہ حضرت اقدس کی اس پیشگوئی میں ساتھ ہی یہ الفاظ بھی موجود ہیں:.اور جو شخص سچ پر ہے اور بچے خدا کو مانتا ہے.اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی“.تذکرہ صفحہ 192 مطبوعہ 2004ء) جس کے یہ معنی ہیں کہ سچا فریق میعاد پیشگوئی میں زندہ رہے گا اور وہ فریق ثانی سے پہلے نہیں مرے گا.خود آگے چل کر حضرت اقدس تشریحی الفاظ میں فرماتے ہیں:.میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ آج کی تاریخ سے پندرہ ماہ میں بسزائے موت ہادیہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا اُٹھانے کے لئے تیار ہوں“.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اُسے پندرہ ماہ تک بسزائے موت ہادیہ میں پڑنا چاہیے اور بچے کو اس عرصہ میں نہیں مرنا چاہیے.جب عبد اللہ آتھم رجوع کر لینے کی وجہ سے پندرہ ماہ کے اندر نہ مرا.کیونکہ.

Page 314

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 292 حصہ دوم اُس نے بچ جانے کی شرط پوری کر لی تو اب یہ پیشگوئی مطلق صورت میں معلق ہوگئی.چنانچہ حضرت اقدس نے تحریر فرمایا:.جس وقت مسٹر عبداللہ آتھم اس شرط (رجوع.ناقل ) کے نیچے سے اپنے تئیں باہر کرے اور اپنے لئے اپنی شوخی اور بے باکی سے ہلاکت کے سامان پیدا کرے تو وہ دن نزدیک آجائیں گے.اور سزائے ہادیہ کامل طور پر نمودار ہوگی اور پیشگوئی عجیب طور پر اپنا اثر دکھائے گی“.(انوار الاسلام روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 5) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ پندرہ ماہ گزر جانے کے بعد حضرت اقدس کے نزدیک پیشگوئی مطلق صورت میں جھوٹے کے بچے کی زندگی میں مرنے پر قائم ہے.چنانچہ قسم والے اشتہار انعامی میں بھی حضور نے لکھا:.ہمارے خدا کی ضرور یہ قدرت ظاہر ہوگی کہ اس قسم والے برس میں ہم نہیں مریں گے.لیکن اگر آتھم صاحب نے جھوٹی قسم کھالی تو ضرور فوت ہو جائیں گے“.پھر تین ہزار روپیہ کے انعامی اشتہار میں تحریر فرماتے ہیں:.کیا ہم نے نہیں کہا کہ ہمارا خدا اس سال ہمیں ضرور مرنے سے بچائے گا.اور آتھم صاحب کو اس جہاں سے رخصت کرے گا“.پھر فرماتے ہیں:.جبکہ میں بھی قسم کھا چکا اور آپ بھی کھا ئیں گے تو جو شخص ہم دونوں میں جھوٹا ہوگا.وہ دُنیا پر اثر ہدایت ڈالنے کے لئے اس جہاں سے اُٹھا لیا جائے گا“.اشتہار انعامی 3 ہزار روپیہ.5 اکتوبر 1894ء.مندرجہ تبلیغ رسالت جلد سوم صفحہ 160.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 432)

Page 315

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 293 حصہ دوم ان حوالہ جات سے ثابت ہے کہ جھوٹے کے بچے کی زندگی میں مرنے کا روحانی مقابلہ ایک لمبے عرصہ تک جاری رہا.اور چونکہ عبداللہ آتھم نے رجوع کے بارے میں اخفائے حق سے کام لیا.اس لئے حضرت اقدس کے آخری اشتہار مورخہ 30 دسمبر 1895ء کے بعد سات ماہ کے عرصہ میں حضرت اقدس کی زندگی میں ہلاک ہو کر حضرت اقدس کی سچائی اور اپنے جھوٹے ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر گیا.لہذا کشتی نوح اور تحفہ گولڑویہ کا بیان درست ہے کہ پیشگوئی جھوٹے کے سچے کی زندگی میں مرنے کے متعلق پہلے الہام میں ہی موجود تھی جو آخر تک قائم رہی.

Page 316

یتعلیمی پاکٹ بک 294 حصہ دوم پیشگوئی اپنی وفات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور ڈاکٹر عبدالحکیم کی پیشگوئی دسمبر 1905ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات سے اڑھائی سال قبل اپنی وفات کے قریب ہونے کے متعلق الہامات ہوئے جو آپ نے اپنے رسالہ الوصیت کے شروع میں درج کئے ہیں:.قَرُبَ اَجَلُكَ المُقَدَّرُ وَلَا تُبقِى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكرًا.قَلَّ مِيُعَادُ رَبِّكَ وَلَا نُبُقِى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ شَيْئًا.ترجمہ :.تیری اجل قریب آگئی ہے اور ہم تیرے متعلق ایسی باتوں کا نام ونشان نہیں چھوڑیں گے جن کا ذکر تیری رسوائی کا موجب ہو.تیری نسبت خدا کی میعاد مقررہ تھوڑی رہ گئی ہے اور ہم ایسے تمام اعتراض دُور اور دفع کر دیں گے اور کچھ بھی ان میں سے باقی نہیں رکھیں گے جن کے بیان سے تیری رسوائی مطلوب ہو.پھر آگے چل کر اُردو زبان میں یہ الہام ہوا:.بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.اُس دن سب پر اداسی چھا جائے گی.یہ ہوگا ، یہ ہوگا ، یہ ہو گا بعد اس کے تمھارا واقعہ ہوگا.تمام حوادث اور عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا.“ ( تذکرہ صفحہ 496 ایڈیشن 2004ء)

Page 317

ند یتعلیمی پاکٹ بک 295 حصہ دوم پھر ریویو 12 / دسمبر 1905 ء میں آپ کا ایک رؤیا درج ہوا:.ایک کوری ٹنڈ میں کچھ پانی مجھے دیا گیا ہے.پانی صرف دو تین گھونٹ باقی اس میں رہ گیا ہے لیکن بہت مصفی اور مقطر پانی ہے.اس کے ساتھ الہام تھا:.” آب زندگی (تذکرہ صفحہ 486 مطبوعہ 2004ء) ان الہامات اور رویا سے ظاہر ہورہا تھا کہ آپ کی زندگی کے صرف دو تین سال ہی باقی ہیں.ان الہامات کے اڑھائی سال بعد آپ کی وفات ہوگئی.ڈاکٹر عبدالحکیم کی پیشگوئی ڈاکٹر عبدالحکیم جسے مسیح موعود علیہ السلام نے بعض وجوہ سے اپنی جماعت سے خارج کر دیا تھا اور اب وہ آپ کا دشمن ہو چکا تھا.الوصیت کے شائع ہو جانے کے بعد 12 جولائی 1906 کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین سال میں مرنے کی پیشگوئی کردی.اس پر 16 راگست 1906 کو مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار بنام ”خدا بچے کا حامی ہو شائع فرمایا.اور اس میں اپنا یہ الہام درج کیا:.خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں.ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا.فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے پر تو نے وقت کو نہ پہچانا.نہ دیکھا نہ جانا.“ ( تذکرہ صفحہ 531 مطبوعہ 2004ء) رَبِّ فَرِّقَ بَيْنَ صَادِقٍ وَكَاذِبٍ وَأَنْتَ تَرَى كُلَّ مُصْلِحِ وَصَادِقٍ - ڈاکٹر عبدالحکیم کی نئی پیشگوئی اس پر ڈاکٹر صاحب نے اپنی سہ سالہ پیشگوئی کو منسوخ کر کے یہ لکھ دیا:.سہ سالہ میعاد میں سے جو 11 جولائی 1909 ء کو پوری ہوئی تھی.دس وو

Page 318

296 حصہ دوم مہینے اور گیارہ دن کم کر دئے اور مجھے یکم جولائی 1907 کو الہاماً فرمایا.مرزا آج سے چودہ ماہ تک بسزائے موت ہادیہ میں گرایا جائے گا.اعلان الحق واتمام الحجة و تكمله) اس کے جواب میں حضرت اقدس نے 5 رنومبر 1907ء کو تبصرہ نامی اشتہار میں اپنا الہام شائع فرمایا:.اپنے دشمن کو کہہ دے کہ خدا تجھ سے مواخذہ لے گا.میں تیری عمر کو بھی بڑھاؤں گا“.تذکرہ صفحہ 624 مطبوعہ 2004ء) ڈاکٹر عبدالحکیم نے اس پر چودہ ماہ کی میعاد میں تبدیلی کر دی.اور لکھا:.الہام 16 فروری 1908 مرزا 21 ساون سمت 1965 مطابق 4 /اگست 1908 تک ہلاک ہو جائے گا.(اعلان الحق) اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام چشمہ معرفت تصنیف فرما رہے تھے.حضور نے ڈاکٹر عبدالحکیم کی یہ پیشگوئی چشمہ معرفت میں نقل فرما کر تحریر فرمایا کہ:.میں اس کے شر سے محفوظ رہوں گا“.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 337) خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے شر سے محفوظ رکھنے کا یہ سامان کیا کہ عبدالحکیم نے 4 راگست 1908 والی پیشگوئی کو یہ لکھ کر منسوخ کر دیا:.ایک موقع پر میری زبان سے یہ بدد عانکلی اے خدا! اس ظالم کو جلد غارت کر.....اس لئے 4 / اگست 1908 ء مطابق 21 رساون سمت 1965 کی میعاد بھی منسوخ کی گئی.اعلان الحق واتمام الحجة وتكمله ) پھر 8 رمئی 1908 ء کے خط میں جو پیسہ اخبار اور اہلحدیث میں شائع ہوا.ڈاکٹر صاحب نے لکھا:.

Page 319

مد یتعلیمی پاکٹ بک ممنون فرما دیں.297 حصہ دوم ”مرزا قادیانی کے متعلق میرے الہامات ذیل آپ شائع کر کے (1) مرزا 21 ساون سمت 1965 ( 4 /اگست 1908ء) کو مرض مہلک میں مبتلا ہوکر ہلاک ہو جائے گا.(2) مرزا کے کنبہ میں سے ایک بڑی معرکۃ الآراء عورت مر جائے گی“.(اہلحدیث 15 رمئی 1908ء) اس پیشگوئی میں ڈاکٹر عبدالحکیم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی موت کا دن معین کیا.اور بتایا کہ آپ 4 راگست 1908ء کو وفات پائیں گے.اس پیشگوئی میں عبدالحکیم کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے اب اللہ تعالیٰ کو حضور کی عمر بڑھانے کی ضرورت نہ رہی.اس لئے اللہ تعالی نے 26 رمئی 1908 ء کو وفات دے کر عبدالحکیم کو اس پیشگوئی میں جھوٹا ثابت کر کے آپ کو اسکے شر سے محفوظ کر دیا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوگئی تو مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے لکھا:.”ہم خدا لگتی کہنے سے رک نہیں سکتے کہ ڈاکٹر صاحب اگر اسی پر بس کرتے یعنی چودہ ماہ پیشگوئی کر کے مرزا کی موت کی تاریخ مقرر نہ کر دیتے جیسا کہ انہوں نے کیا.چنانچہ 15 مئی 1908ء کے اہلحدیث میں اُن کے الہامات درج ہیں.کہ 21 ساون یعنی 4 راگست کو مرزا مرے گا.تو آج وہ اعتراض نہ ہوتا.جو معزز ایڈیٹر ہے پیسہ اخبار نے 27 کے روزانہ پیسہ اخبار میں ڈاکٹر صاحب کے اس الہام پر چبھتا ہوا کیا ہے کہ 21 ساون کو“ کی بجائے 21 ساون’ تک ہوتا تو خوب ہوتا“.(اہلحدیث 12 رجون 1908 ، صفحہ 7 کالم نمبر 1) تبصرہ میں حضور کا یہ تحریر فرمانا کہ میرا دشمن میرے سامنے اصحاب فیل کی

Page 320

298 حصہ دوم احمد یتعلیمی پاکٹ بک طرح نیست و نابود ہو جائے گا.حضرت اقدس کا ایک اجتہاد تھا جو آپ نے اپنے الهام اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحَابِ الْفِيلِ سے کیا حالانکہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب فیل کا واقعہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا.اسی طرح یہ منشاء نہ تھا کہ وہ آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جائے گا.شرح نبر اس صفحہ 392 میں لکھا ہے:.كان النبيُّ صلى الله عليه وسلم قد يجتهد فيكون خطأ كما ذكره الاصولیون.(النبر اس شائع کردہ شاہ عبدالحق اکیڈمی دارالعلوم مظہر یہ امدادیہ بندیال سرگودھا) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اجتہاد فرماتے لیکن وہ واقعہ کے خلاف ہوتا.جیسا کہ اصولیوں نے ذکر کیا ہے.اس اصول کے ثبوت میں آگے یہ حدیث نبوی بھی درج ہے:.ما حدثتكم عن الله سُبْحَانَهُ فهو حق وما قلت فيه من قبل نَفْسِى فَانّما أنا بشر اخطى واصيب - کہ جو بات میں نے تمہیں خدا کی طرف سے سُنائی ہو وہ تو درست اور حق ہوگی.مگر جو بات اس کی تشریح میں اپنی طرف سے کہی ہو تو میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں.میں خطا بھی کر جاتا ہوں اور دُرست بھی کہتا ہوں.پیشگوئی کی الہامی غرض یہ تھی کہ آپ عبدالحکیم کے شر سے محفوظ رہیں گے.اور خدا سچے اور جھوٹے میں فرق دکھلائے گا.سوخدا نے آپ کو اس کے شر سے محفوظ رکھا.اور اس کی پیشگوئی کو جھوٹا ثابت کر دیا.اور حضور کو خدا نے اپنے الہامات کے مطابق وفات دی.

Page 321

یتعلیمی پاکٹ بک 299 حصہ دوم اپنی عمر کے متعلق پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے فرمایا:.ثمانين حولا أو قريبًا من ذلك که تیری عمر اسی برس یا اس کے قریب ہوگی اس کے بارے میں حضور نے فرمایا:.جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو چوہتر اور چھیاسی سال کے اندراندر عمر کی تعیین کرتے ہیں“.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 259) چنانچه خود حضور کو ان الفاظ میں بھی الہام ہوا:.”استی یا اس پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چارکم (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 100 ) چنانچہ اس کے مطابق حضور کی عمر 75 سال 6ماہ دس دن ہوئی ( پیدائش 1250 ہجری.وفات 1326 ہجری) حضور کی تاریخ پیدائش کسی کتاب میں درج نہیں.کیونکہ حضور کی پیدائش جس زمانہ میں ہوئی اسکی یاد داشت نہیں رکھی گئی.سرکاری رجسٹروں کا بھی رواج نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 365 پر لکھا ہے:.عمر کا اصل اندازہ تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے اب اس وقت تک جوسن ہجری 1323 ہے میری عمر 70 برس کے قریب ہے.واللہ اعلم تحقیقات کرنے کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ

Page 322

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 300 حصہ دوم قرائن سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ حضور کی تاریخ پیدائش 13 فروری 1835 ء مطابق 14 شوال 1250 ہجری بروز جمعہ ثابت ہوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب میں اپنی عمر اندازاً لکھتے رہے ہیں.کتاب البریہ میں تحریر فرمایا ہے کہ:.”میری پیدائش 1839 ء یا 1840ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے اور میں 1857ء میں 16 برس کا یا سترھویں برس میں تھا.کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 177 حاشیہ صفحہ 34) حضور کی وفات اپنے الہامات مندرجہ الوصیت و کشف مندرجہ ریویو دسمبر 1905ء کے مطابق مئی 1908ء میں ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک 1290 ھجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ ومخاطبہ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 208) پاچکا تھا.پھر فرماتے ہیں:.”جب میری عمر چالیس برس تک پہنچی تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف کیا“.( تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 283) براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 135 میں فرماتے ہیں:.تھا برس چالیس کا میں اس مسافر خانہ میں جبکہ میں نے وحی ربانی سے پایا افتخار ان ہر دو بیانات سے ظاہر ہے کہ 1290ھ میں حضور کی عمر چالیس سال کی تھی.گویا سن پیدائش 1250ھ بنا.

Page 323

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 301 حصہ دوم 24 ربیع الثانی 1326 ہجری مطابق 1908 ء میں آپ کا وصال ہوا.گویا آپ کی عمر ساڑھے پچھتر سال ہوئی.حضور نے فرمایا تھا:.یہ 66 یہ عاجز بروز جمعہ چاند کی چودھویں تاریخ میں پیدا ہوا ہے.تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 281 حاشیہ ) حضور نے یہ بھی فرمایا تھا کہ:.”میری پیدائش کا مہینہ پھاگن تھا.چاند کی چودھویں تاریخ تھی جمعہ کا دن تھا“.(ذکر حبیب صفحہ 238، 239) ماہ بھا گن میں جمعہ کو چاند کی چودھویں تاریخ صرف دو (2) سالوں میں آئی ہے.17 فروری 1832ء و 13 فروری 1835 ءمطابق 14 شوال 1250 ہجری.اس لحاظ سے 13 فروری 1835ء مطابق 14 شوال 1250ھ زیادہ صحیح تاریخ پیدائش ہے.جو حقیقۃ الوحی اور تریاق القلوب کی مندرجہ بالاتحریروں کے عین مطابق ہے.لہذا آپ کی عمر 75 سال 6 ماہ دس دن قرار پاتی ہے.اور الہامی وعدہ کے مطابق پوری ہوگئی.مخالفین کا اعتراض حضرت اقدس کے انداز اپنا سن پیدائش بعض جگہ 1839ء یا 1840ء لکھنے سے بعض لوگوں نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ آپ کی عمر 8 6 یا 69 سال ہوئی ہے.جو اسی سے 11-12 سال کم ہے.یعنی عمر کے متعلق آپ کی پیشگوئی جھوٹی نکلی.الجواب :.ہم ثابت کر آئے ہیں کہ حضرت اقدس نے 40-39 سن پیدائش

Page 324

302 حصہ دوم محض اندازے سے لکھا ہے ورنہ آپ کی ہی بیان کردہ دوسری علامات کو مد نظر رکھ کر 13 فروری 1835ء مطابق 14 شوال 1250ھ تاریخ پیدائش قرار پاتی ہے.جس سے ظاہر ہے کہ آپ کی وفات آپ کی پیشگوئی کے مطابق ہوئی.دیگر اندازے حضور تحریر فرماتے ہیں:.(1) ”میری طرف سے 23 اگست 1903 ء کو ڈوئی کے مقابل پر انگریزی میں یہ اشتہار شائع ہوا تھا جس میں یہ فقرہ ہے کہ میں عمر میں ستر برس کے قریب ہوں.اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے.تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 506 حاشیہ ) جب 23 اگست 1903 ء کو حضور کی عمر ستر برس کے قریب تھی تو اس کے پانچ سال بعد 1908 ء میں جب حضور کی وفات ہوئی تو آپ کی عمر پچھتر سال کی ثابت ہوتی ہے.(2) حضرت مسیح موعود علیہ السلام عبداللہ آتھم کی زندگی میں اُسے مخاطب کر کے فرماتے ہیں:.اگر آپ چونسٹھ برس کے ہیں تو میری عمر بھی قریباً ساٹھ کے ہو چکی“.(اشتہار 15 اکتوبر 1894 ء مندرجہ تبلیغ رسالت جلد 3 صفحہ 160) اس اشتہار کے چودہ سال بعد حضور کی وفات ہوئی.گویا 60+14=74 سال شمسی اور 76 سال قمری آپ کی عمر ہوئی جو پیشگوئی کے مطابق ہے.مخالفین کی شہادت مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری لکھتے ہیں:.”مرزا صاحب.....کہہ چکے ہیں کہ میری موت عنقریب اسی سال

Page 325

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 303 حصہ دوم سے کچھ نیچے اوپر ہے.جس کے سب زینے غالباً آپ طے کر چکے ہیں.اہلحدیث 3 مئی 1907 ء صفحہ 6 کالم نمبر 2) اس کے ایک سال بعد حضور کی وفات ہوئی.الہامات مسیح موعود علیہ السلام کی تشریح (1) أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ - (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 47) اس الہام کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں“.معترضین کی طرف سے اس الہام کا یہ ترجمہ کہ تو میرا بیٹا ہے اور میں تیرا بیٹا ہوں“.خود ہم کے منشاء اور محاورات زبان عربی کے خلاف ہے.ملہم نے اس کی تشریح میں لکھا ہے:.اس (الہام) کا پہلا حصہ تو بالکل صاف ہے کہ تو جو ظاہر ہوا یہ میرے فضل اور کرم کا نتیجہ ہے.اور جس انسان کو خدا تعالیٰ مامور کر کے دنیا میں بھیجتا ہے.اُس کو اپنی مرضی اور حکم سے مامور کر کے بھیجتا ہے.جیسے حکام کا بھی یہ دستور اور قائدہ ہے.اب اس الہام میں جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے أنا منک اس کا یہ مطلب اور منشاء ہے کہ میری توحید، میرا جلال اور میری عزت کا ظہور تیرے ذریعہ سے ہوگا.اخبار الحکم جلد 6 نمبر 40 صفحہ 15 کالم نمبر 1 ،2) ملہم کی اس تشریح سے ظاہر ہے کہ اس الہام میں مقام مظہر بیت بیان ہوا ہے جو اتحاد فی المقاصد پر دلالت کرتا ہے عربی محاورہ کے لحاظ سے یہاں ”من“ اتصالیہ ہے.احادیث نبویہ میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی شان

Page 326

ندی تعلیمی پاکٹ بک میں فرمایا:.304 حصہ دوم إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَامِنْهُ “.(مشكوة كتاب المناقب باب مناقب علی بن ابی طالب) کہ علی مجھ سے ہے اور میں اُس سے.اس کے یہ معنی نہیں کہ علی میرا بیٹا ہے اور میں اُس کا بیٹا.اسی طرح حضرت حسین کے متعلق فرماتے ہیں:.66 حُسَيْنٌ مِّنِّى وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ “ (مشكوة كتاب المناقب باب مناقب اهل بيت النبي) که حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے.اور قبیلہ اشعریہ کے متعلق فرماتے ہیں:.دودی، هم منى وانا منهم بخاری کتاب المغازى باب قدوم الاشعريين واهل اليمن کہ وہ مجھ سے ہیں اور میں اُن سے ہوں“.ان تمام حدیثوں سے اتحاد فی المقاصد مراد ہے یعنی علمی اور میرا مقصد ایک ہے.اسی طرح حسین اور میرا مقصد ایک ہے.اسی طرح میرے اور قبیلہ اشعریہ کے مقصد میں اتحاد ہے.آخری حدیث کی تشریح میں صحیح بخاری کے حاشیہ میں درج ہے:.كَلِمَةُ " مِنْ هِيَ اللَا تُصَالِيَّةُ أَيْ هُم مُّتَّصِلُونَ بِي ” دو ( حاشیہ صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 629 مطبوعہ مطبع ہاشمی میرٹھ ) اس جگہ من اتصالیہ ہے اور مراد یہ ہے کہ وہ مجھ سے اتصال رکھتے ہیں.مجھ سے کنارہ کش نہیں.

Page 327

ندی تعلیمی پاکٹ بک 305 حصہ دوم عربی زبان کا ایک شاعر عمر بن شاس اپنی بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:.إِنْ كُنْتِ مِنِّى أَوْ تُرِيدِينَ صُحْبَتِي فَكُوْنِي لَهُ كَالسَّمْنِ رُبَّتُ لَهُ الْآدَمُ (حماسه مجتبائی صفحه (77) اس جگہ اِنْ كُنتِ مِنی کے یہ معنی ہیں.اگر تو مجھ سے موافقت رکھتی ہے.مطلب شعر کا یہ ہے کہ اگر تو مجھ سے موافقت رکھتی ہے اور میرے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو میرے پہلے بیٹے کے ساتھ اچھی طرح مل جل کر رہ.قرآن مجید میں ہے کہ طالوت نے اپنے لشکروں سے کہا کہ :.فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَّمْ يَطْعَمُهُ فَإِنَّهُ مِنِّى - (البقرة: 250) ترجمہ :.جو شخص اس نہر سے پئے گا.وہ مجھ سے نہیں یعنی میرے مقاصد سے اتحاد نہیں رکھتا.اور جس نے اس سے نہ پیا تو بے شک وہ مجھ سے ہے یعنی میرے ساتھ متحد ہے.قرآن مجید میں دوسری جگہ ہے کہ حضرت ابرہیم علیہ السلام نے فرمایا :.فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّى - (ابراهيم: 37) یعنی جو شخص میری اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہے یعنی میرے ساتھ مقاصد میں اتحاد رکھتا ہے.پس ”من اتصالیہ اتحاد کا مفہوم رکھتا ہے اور یہی مفہوم زیر بحث الہام میں مراد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو تلقین فرماتے ہیں:.وو وہ یقین کریں کہ ان کا ایک قادر اور قیوم اور خالق الکل خدا ہے جو اپنی صفات میں ازلی ابدی اور غیر متغیر ہے نہ وہ کس کا بیٹا نہ کوئی اس کا بیٹا.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 10 )

Page 328

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 306 الہام نمبر 2: - اَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ وَلَدِى (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 89) کہ تو مجھ سے میرے بیٹے کے بجا ہے.حصہ دوم معترض کہتا ہے کہ اس الہام میں بانی سلسلہ احمد یہ خدا کا بیٹا مانتے ہیں.الجواب :.واضح ہو کہ اس الہام کا ترجمہ یہ ہے کہ تو میری طرف سے میرے بیٹے کے مرتبہ پر ہے.اور مراد یہ ہے کہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کے مرتبہ پر ہے اور ان کامثیل ہے جنہیں عیسائی میرا بیٹا قرار دیتے ہیں.اس الہام میں ولد کی اضافت یائے متکلم کی طرف اضافت بادنی ملا بست عیسائیوں کے زعم کے لحاظ سے ہے.قرآن مجید میں اس کی مثال اَيْنَ شُرَكَاءی “ (النحل: 28) آیت میں پائی جاتی ہے.دیکھئے خدا کا درحقیقت کوئی شریک نہیں.لیکن خدا مشرکوں سے قیامت کے دن کہے گا.کہ میرے شریک کہاں ہیں؟ مراد یہ ہے کہ جن کو تم میرا شریک بناتے ہو وہ کہاں ہیں؟ اس جگہ بھی اضافت شرکاء کی یاء متکلم کی طرف ادنیٰ ملا بست کی وجہ سے ہے جو مشرکین کے زعم باطل کے لحاظ سے ہے.اسی طرح ولدی“ کی اضافت کا حال ہے.خدا کی کوئی اولاد نہیں.لیکن عیسائی انہیں خدا کا بیٹا ٹھہراتے ہیں.ولد کا لفظ اس الہام میں بطور مجاز اور استعارہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے.اس صورت میں یہ اضافت ولد مجاز کی یائے متکلم کی طرف ہوگی.صوفیوں نے اولیاء اللہ کو مجازی طور پر ہی خدا کے بیٹے قرار دیا ہے نہ حقیقی طور پر.چنانچہ مثنوی مولانا روم میں ہے:.اولیاء اطفال حق اند اے پسر ( مثنوی مولانا روم دفتر سوم قصه خورندگان...صفحه 386 ناشر انتشارات طلوع)

Page 329

حمدی تعلیمی پاکٹ بک 307 حصہ دوم یعنی اے بیٹے اولیاء خدا کے اطفال ہیں.صوفیاء کا یہ اولیاء اللہ کو مجاز أخدا کے بیٹے قرار دینا حدیث نبوی الخَلْقُ عَيَالُ الله “ (مشکوۃ باب الشفقت ) کے عین مطابق ہے.اس حدیث میں مجاز امخلوق کو خدا کا کنبہ قرار دیا گیا ہے.حالانکہ خدا بیوی بچوں سے پاک ہے.پس مخلوق کو عیال اللہ قرار دینا بطور مجاز اور استعارہ کے ہے نہ بطور حقیقت کے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس الہام کی تشریح میں فرماتے ہیں:.(الف) خدا تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے اور یہ کلمہ بطور استعارہ کے ہے چونکہ اس زمانہ میں ایسے ایسے الفاظ سے نادان عیسائیوں نے حضرت عیسی کو خدا ٹھہرا رکھا ہے اسلئے مصلحت الہی نے یہ چاہا کہ اس سے بڑھ کر الفاظ اس عاجز کے لئے استعمال کرے تا عیسائیوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ سمجھیں کہ وہ الفاظ جن سے مسیح کو خدا بناتے ہیں اس اُمت میں بھی ایک ہے جس کی نسبت اس سے بڑھ کر ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 89 حاشیہ) (ب) یاد رہے کہ خدا تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے نہ اس کا کوئی شریک ہے اور نہ بیٹا ہے اور نہ کسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں.لیکن یہ فقرہ اس جگہ قبیل مجاز اور استعارہ میں سے ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہا تھ قرار دیا ہے اور فرمایا:.يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ “ ایسا ہی بجائے قُلْ يَا عِبَادَ اللهِ کے قُلْ لِعِبَادِي....پس اس خدا کے کلام کو ہوشیاری اور احتیاط سے پڑھو اور از قبیل متشابہات سمجھ کر ایمان لاؤ.اور اس کی کیفیت میں دخل نہ دو.اور

Page 330

عمدی تعلیمی پاکٹ بک 308 حصہ دوم حقیقت حوالہ بخدا کرو اور یقین رکھو کہ خدا اتخاذ ولد سے پاک ہے تاہم متشابہات کے رنگ میں بہت کچھ اس کے کلام میں پایا جاتا ہے.پس اس سے بچو کہ متشابہات کی پیروی کرو اور ہلاک ہو جاؤ.اور میری نسبت بینات میں سے یہ الہام ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرآن“.) کہہ دو کہ میں تو صرف تمہاری طرف ایک بشر ہوں.میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے اور ہر ایک بھلائی قرآن میں موجود دافع البلاء روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 287 حاشیہ ) ہے.ناقل ) 66 الهام نمبر 3: أَنْتَ مِنْ مَّاءِنَا وَهُمْ مِنْ فَشَلٍ “ اربعین نمبر 2 روحانی خزائن جلد 17 صفحه 385 ) تو ہمارے پانی سے ہے اور دوسرے لوگ فشل سے.مخالف اس کا یہ ترجمہ کرتا ہے کہ تو ہمارے نطفہ سے ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنہیں یہ الہام ہوا اسکی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں:.یہ جو فرمایا کہ تو ہمارے پانی میں سے ہے اور وہ لوگ فشل سے.اس جگہ پانی سے مراد ایمان کا پانی ، استقامت کا پانی ،تقویٰ کا پانی ، وفا کا پانی ، صدق کا پانی ، حب اللہ کا پانی ہے جو خدا سے ملتا ہے.اور فشل بُزدلی کو کہتے ہیں جو شیطان سے آتی ہے اور ہر یک بے ایمانی اور بدکاری کی جڑ بُزدلی اور نا مرادی ہے.انجام آنتم روحانی خزائن جلد 11 حاشیہ صفحہ 56) ماء اللہ کے اسی مفہوم میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں:.66 فَإِنْ شِئْتَ مَاءَ اللَّهِ فَاقْصُدُ مَنَاهَلِي فَيُعْطِيكَ مِنْ عَيْنِ وَ عَيْنٌ تَنوّرُ کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 81)

Page 331

احمد یتعلیمی پاکٹ بک 309 حصہ دوم کہ اگر تو خدا کا پانی چاہتا ہے تو میرے گھاٹوں کا قصد کر.پس وہ خدا تمہیں ایک چشمہ سے دیے گا.اور آنکھ روشن ہو جائے گی.پس ماء الله سے مراد الہام میں مجازی طور پر ایمان واستقامت اور تقویٰ وغیرہ روحانی برکات ہیں.جو خدا سے ملتی ہیں.الہام نمبر 4: أَسْمَعُ وَأَرَى“ اس الہام کا ترجمہ یہ ہے کہ میں خدا ستا اور دیکھتا ہوں.اس الہام کو غلطی سے کتاب البشری جلد اوّل صفحہ 59 پر مرتب کتاب با بو منظور الہی صاحب نے أسمع ولدی کے الفاظ میں بدل کر لکھ دیا تھا اور اس کا ترجمہ لکھ دیا تھا:.”اے میرے بیٹے سُن“.اس کے لئے حوالہ مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ 23 کا دیا تھا.اصل حقیقت یہ ہے کہ مکتوبات احمد یہ جلد اوّل صفحہ 23 پر اسمع ولدی کی بجائے اَسْمَعُ وَاری کے الفاظ درج ہیں کہ میں جو خدا ہوں سُننا بھی ہوں اور دیکھتا بھی ہوں.بابو منظور الہی صاحب کو جب اس غلط اندراج کی طرف توجہ دلائی گئی.تو انہوں نے معذرت کے ساتھ اس کی تصحیح الفضل میں کرا دی اور لکھا:.البشراى جلد اوّل صفحہ 49 سطر 10 میں حضرت مسیح موعود کا ایک الہام غلطی سے اسمع واری کی بجائے اسمع ولدی چھپا ہے اور ترجمہ بھی اے میرے بیٹے سُن غلط کیا گیا ہے.افسوس کہ آج تک کسی دوست نے اس کی طرف توجہ نہ دلائی.میں اپنے ایک مہربان برادر کا بہت مشکور ہوں کہ انہوں نے اس کی طرف مجھے توجہ دلائی.حوالہ مندرجہ البشری اصل کے ساتھ مقابلہ کرنے سے معلوم ہوا کہ اصل الہام اسمع واری ہے جن احباب کے پاس البشریٰ ہو.وہ اس غلطی کی اصلاح کرلیں“.الفضل جلد 9 نمبر 96 مورخہ 8 جون 1922 ، صفحہ 2 کالم نمبر (3)

Page 332

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 20 الہام نمبر 5: ” رَبُّنَا عَاج“ 310 حصہ دوم تشریح:.اس الہام میں لفظ عاج نہیں جس کے معنی ہاتھی دانت کے ہوتے ہیں.بلکہ عالج ہے.ج کی تشدید سے ہے.اور عائج کے معنے پکارنے والا یا آواز دینے والا.مراد یہ ہے کہ ہمارا خدا دنیا کو اپنی طرف بآواز بلند دعوت دینے والا ہے.عائج کے معنے دودھ کے ذریعہ غذا دینے والے کے بھی ہیں.اس صورت میں مراد یہ ہے کہ اللہ مخلوق کو ان کی بیکسی کی حالت میں روحانی دودھ یا غذا پہنچانے والا ہے.یہ دونوں معنے بلحاظ لغت درست ہیں.اگر یہ لفظ عج.عَجَّا وَعَجِيْجًا سے مشتق سمجھا جائے تو اس کے معنے بلند آواز سے پکارنے والا ہو نگے.چنانچہ حدیث میں ہے کہ افـضـل الـحـج الـعـج کہ حج میں افضل ترین آواز تلبیہ اور لبیک کہنا ہے.اگر عاج ناقص واوی عَجَا يَعْجُوا سے اسم فاعل سمجھا جائے تو اس کے معنے ہوں گے دودھ پلانے والا.چنانچہ کہتے ہیں.عَجَتِ الأمُّ الْوَلَدَ - أَى سَقَتْهُ اللبن یعنی ماں نے بچہ کو دودھ پلایا.اَلْعَجْوَةُ کے معنے قاموس میں لکھے ہیں.لَبَنٌ يُعَالَجُ بِهِ الصَّبِيُّ الْيَتِيمُ أَى يُغَذِّى یعنی وہ دودھ مراد ہے جس سے یتیم بچہ کی پرورش کی جاتی ہے.یعنی وہ اسے بطور غذا دیا جاتا ہے.الهام نمبر 6: أفَطِرُ وَ اَصُومُ یعنی خدا کہتا ہے کہ میں روزہ کھول بھی دیتا ہوں اور رکھ بھی لیتا ہوں.تشریح :.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس الہام کی تشریح میں فرماتے ہیں:.ظاہر ہے کہ خدا روزہ رکھنے اور افطار کرنے سے پاک ہے.اور یہ الفاظ اپنے اصلی معنوں کی رُو سے اس کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے.پس یہ صرف ایک استعارہ ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی میں اپنا قہر نازل کروں

Page 333

311 حصہ دوم گا، اور کبھی کچھ مہلت دونگا.اس شخص کی مانند جو کبھی کھاتا ہے اور کبھی روزہ رکھ لیتا ہے اور اپنے تئیں کھانے سے روکتا ہے اور اس قسم کے استعارات خدا کی کتابوں میں بہت ہیں.جیسا کہ ایک حدیث میں لکھا ہے کہ قیامت کو خدا کہے گا.میں بیمار تھا.میں بھوکا تھا، میں ننگا تھا.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 107 ) رسالہ دافع البلاء میں اس کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں :.میں اپنے وقتوں کو تقسیم کر دوں گا کہ کچھ حصہ برس کا تو میں افطار کروں گا.یعنی طاعون سے لوگوں کو ہلاک کروں گا اور کچھ حصہ برس کا میں روزہ رکھوں گا یعنی امن رہے گا اور طاعون کم ہو جائے گی یا بالکل نہیں رہے گی.دافع البلاء روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 227-228) حقیقۃ الوحی کی عبارت میں جس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے صحیح مسلم میں ان الفاظ میں مندرج ہے:.عن ابي هريرة قال قال رَسُولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الله عَزَّوَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي يَابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمُنِي يَابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي - (مسلم) كتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض) ترجمہ :.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کو کہے گا.اے ابن آدم میں بیمار تھا تو نے میری تیمار داری نہ کی.اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا.اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے نہ پلایا.

Page 334

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 312 حصہ دوم اس حدیث میں مریض کی عیادت نہ کرنے اور سائل کو کھانا کھلانے اور پانی پلانے سے رکنے کو استعارہ کے طور پر یوں بیان کیا گیا ہے کہ گویا انسان کی بجائے خدا کی تیمار درای نہیں کی گئی اور اسے کھانا نہیں کھلایا گیا اور اسے پانی نہیں پلایا گیا.الهام نمبر 7 : أَسْهَرُ وَأَنَامُ میں بیدار ہوتا ہوں اور سو بھی جاتا ہوں“.تشریح :.یہ الہام بھی بطور مجاز اور استعارہ کے ہے.خدا تعالی در حقیقت سونے سے پاک ہے.اس جگہ سونے سے یہ مراد ہے کہ خدا تعالیٰ بعض گنہگاروں سے چشم پوشی کرتا ہے.اور مراد جاگنے سے یہ ہے کہ بعض اوقات سزا بھی دیتا ہے.الهام نمبر 8: أُخْطِئُ وَأصِيبُ تشریح:.خدا تعالیٰ خطا کرنے سے پاک ہے.اس جگہ اُخْطِئُ کا لفظ مجازی استعمال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس الہام کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ:." اپنے ارادہ کو کبھی چھوڑ بھی دوں گا.اور کبھی ارادہ پورا کروں گا.جیسا کہ احادیث میں لکھا ہے کہ میں مومن کے قبض روح کے وقت تر ڈد میں پڑتا ہوں.حالانکہ خدا تر ڈد سے پاک ہے.اسکے یہ معنے ہیں کہ کبھی میں اپنی تقدیر اور ارادہ کو منسوخ کر دیتا ہوں.اور کبھی وہ ارادہ جیسا کہ چاہا ہوتا ہے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 106 وحاشیہ صفحہ 106) اوپر کے اقتباس میں جس حدیث کی طرف اشارہ ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:."وَمَا تَرَدْدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِى عَنْ نَفْسٍ الْمُؤْمِنِ “.(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع

Page 335

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 313 حصہ دوم یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے کسی شے متعلق کبھی اتنا ر ڈ نہیں کیا جتنا ایک مومن کی روح قبض کرنے کے وقت مجھے تر ڈر ہوتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ خدا تردد سے پاک ہے اور مراد اس جگہ تر ڈو سے ملتی جلتی حالت ہچکچاہٹ ہے نہ کہ در حقیقت شک وشبہ.قرآن مجید میں خدا تعالیٰ نے اپنی طرف نسیان کو بھی منسوب کیا ہے.جیسے فرمایا:.فَالْيَوْمَ نَنْسُهُمْ كَمَا نَسُوا لِقَاءَ يَوْمِهِمْ هَذَا - (الاعراف: 52) کہ آج ہم انہیں بھلا دیں گے جیسا کہ انہوں نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیا.اللہ تعالیٰ خطاء اور نسیان سے پاک ہے.اس جگہ مجاز انسیان سے ملتی جلتی حالت مراد ہے.یعنی بھولنے کا نتیجہ چھوڑ دینا مراد ہے.یعنی بے تعلقی اور اپنے قرب سے محروم رکھنا.پس جو الہامات از قسم متشابہات ہوں ان کا مفہوم محکمات کے مطابق لینا چاہیے اور مجاز کو حقیقت پر محمول کرنا بد ذوقی کی علامت ہوگی.الہام نمبر 2: يَحْمَدُكَ اللَّهُ مِنْ عَرُشِهِ تشریح :.معترض کہتا ہے کہ حمد کا لفظ خدا کے سوا کسی پر نہیں بولا جاتا ہے لیکن عجیب بات ہے کہ خدا تعالیٰ مرزا صاحب کی حمد کرتا ہے.الجواب :.یہ معترض کی ناواقفی ہے کہ حد کا لفظ خدا کے سواکسی کے لئے استعمال نہیں ہوتا ”حمد سچی تعریف کو کہتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد ہے.صفاتی لحاظ سے اس کے معنے ہیں بہت حمد کیا گیا.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مقام کے بارہ میں فرمایا ہے:.علَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا.(بنی اسرائیل: 80) یعنی قریب ہے کہ تیرا رب تجھے ایک قابل حمد مقام پر کھڑا کرے.

Page 336

احمد یتعلیمی پاکٹ بک 314 لغت کی کتاب مجمع البحار میں لکھا ہے:.و, تَحْمِدُ الرَّجُلَ عَلَى صِفَاتِهِ الذَّاتِيَّةِ وَعَلَى عَطَائِهِ حصہ دوم مجمع البحار جلد 1 صفحہ 300 مطبوعہ مطبع نول کشور ) کہ ہر شخص کی صفات ذاتیہ پر اور بخشش پر لفظ حد کا استعمال کر سکتے ہیں.امام بیضاوی زیر آیت الحَمدُ لِلہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :.حَمِدَتُ زَيْدًا عَلَى كَرَمِهِ وَعِلْمِهِ.یعنی میں نے زید کی حمد کی اُسکے علم اور کرم پر.بخاری جلد 1 صفحہ 169 مصری میں ہے:.كَأَنَّهُ حَمَدَهُ ، گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سائل کی حمد کی.بالآخر یہ واضح رہے کہ حمد کا اصل مستحق تو خدا ہی ہے لہذا دوسرے لوگوں کی جو حمد ہو اس کا مرجع بھی دراصل خدا تعالیٰ ہی ہوتا ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعجاز مسیح میں فرمایا ہے:.وَلَهُ الْحَمْدُ فِي هَذِهِ الدَّارِ وَتِلْكَ الدَّارِ وَالَيْهِ يَرْجِعُ كُلُّ حَمْدٍ يُنْسَبُ إِلَى الْأَغْيَارِ“ ترجمہ : اس دنیا اور آخرت میں حقیقی حمد خدا تعالیٰ کی ہی ہے اور ہر حمد جو غیروں کی ہوتی ہے وہ بھی دراصل خدا کی طرف راجع ہے.پس کسی بندے یا مقام کی حمد کا مرجع بھی درحقیقت خدا تعالیٰ ہی ہوتا ہے.الہام نمبر 10 : اربعین نمبر 4 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 452 حاشیہ پر ایک الہام درج ہے:.يُرِيدُونَ أَنْ يَرَوْا طَمَتَكَ وَاللَّهُ يُرِيدُ انْ يُرِيَكَ اَنْعَامَهُ.الْإِنْعَامَاتُ الْمُتَوَاتِرَةُ “ 66

Page 337

احمد یتعلیمی پاکٹ بک 315 حصہ دوم ترجمہ :.وہ تیرا حیض دیکھنا چاہتے ہیں اور اللہ چاہتا ہے کہ تجھے اپنا انعام دکھائے متواتر انعامات.اس الہام کی بناء پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مرزا صاحب کو حیض آتا تھا.پس وہ عورت ہوئے نہ مرد؟ الجواب : اس جگہ طَمث کا لفظ مجاز آنا پا کی یا پلیدی کیلئے استعمال ہوا ہے جب مرد کے لئے حیض کا لفظ استعمال ہو تو اس سے مراد نا پا کی اور پلیدی ہوتا ہے اس لحاظ سے اس الہام کے یہ معنی ہیں کہ مخالف آپ میں کسی نا پا کی اور پلیدی پر اطلاع پانا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تجھے اپنا انعام دکھائے گا اور انعامات پے در پے ہوں گے.تفسیر روح البیان میں لکھا ہے:.كَمَا اَنَّ لِلنِّساءِ محِيْضًا فِي الظاهر وهو مُوجِبُ نقصان ايمانهنّ لمنعهنَّ عن الصلوة والصوم فكذلك للرجال محيض فِي الْبَاطِنِ وَهُوَ مُوجِبُ نُقْصَانِ إِيْمَانِهِمْ لِمَنْعِهِمْ عَنْ حَقِيقَةِ الصلوة (روح البیان جلد 1 صفحه (236) ترجمہ: جس طرح عورتوں کو ظاہر میں حیض آتا ہے جو ان کے ایمان میں نقصان کا موجب ہوتا ہے.انہیں نماز اور روزہ سے روکنے کی وجہ سے.اسی طرح مردوں کو بھی باطن میں حیض آتا ہے.وہ ان کے ایمان میں ان کو نماز کی حقیقت سے ناواقف کرنے کے سبب اُن کے ایمان میں نقص پیدا کرتا ہے.دیلمی میں ایک حدیث ہے:.وو 66 الْكَذِبُ حَيْضُ الرَّجُلِ وَالْإِسْتِغْفَارُ طَهَارَتُهُ “- کہ جھوٹ بولنا مرد کا حیض ہے اور استغفار کرنا اس کی پاکیزگی ہے.

Page 338

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 316 حصہ دوم اس لحاظ سے الہام کا مطلب یہ ہے کہ دشمن تجھ کو جھوٹ یا کسی بدی میں مبتلا دیکھنا چاہتا ہے.لیکن خدا کے فضل سے تجھ میں کوئی بدی نہیں.خدا تو تجھ پر انعام پر انعام کرنا چاہتا ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اربعین میں الہام درج کرتے ہوئے ترجمہ میں لکھا ہے:.یہ لوگ خون حیض تجھ میں دیکھنا چاہتے ہیں یعنی ناپاکی ، پلیدی اور خباثت کی تلاش میں ہیں“.پس یہ الہام آپ کے وجود میں حیض یعنی ناپاکی کی نفی کرتا ہے نہ کہ اثبات.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ابن مریم بننے کی حقیقت کو کشتی نوح میں یوں بیان کیا ہے:.وو ” جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے.دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی اور پردے میں نشو ونما پاتا رہا.اور پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ براہین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 496 میں درج ہے مریم کی طرح عیسی کی رُوح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخری کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصّہ چہارم صفحہ 556 میں درج ہے مجھے مریم سے عیسی بنایا گیا.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 50) اس عبارت پر یعنی مخالفین ہنسی اُڑاتے ہیں کہ مرزا صاحب عورت بن گئے اور پھر حاملہ ہوئے.حالانکہ کشتی نوح کی عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مریم بنا ایک استعارہ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ شروع میں آپ مریمی صفات کے حامل تھے.اور پھر نفخ رُوح سے استعارہ آپ کو حاملہ ٹھہرایا گیا اور اس

Page 339

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 317 حصہ دوم طرح دس ماہ کے بعد صفات مریمی سے صفات عیسوی کی طرف انتقال ہوا.حضور نے کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 کے صفحہ 48 پر لکھا ہے:.” خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں آیت اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں بشارت دی کہ اس اُمت کے بعض افراد انبیائے گزشتہ کی نعمت بھی پائیں گے نہ یہ کہ نرے یہود ہی بنیں یا عیسائی بنیں اور ان قوموں کی بدی تو لے لیں مگر نیکی نہ لے سکیں.اسی کی طرف سورۃ تحریم میں بھی اشارہ کیا ہے کہ بعض افراد امت کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ مریم صدیقہ سے مشابہت رکھیں گے.جس نے پارسائی اختیار کی تب اس کے رحم میں عیسی کی رُوح پھونکی گئی اور عیسی اس سے پیدا ہوا.اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس امت میں ایک شخص ہوگا کہ پہلے مریم کا مرتبہ اُس کو ملے گا.پھر اُس میں عیسی کی رُوح پھونکی جاوے گی.تب مریم میں سے عیسی نکل آئے گا.یعنی وہ مریکی صفات سے عیسوی صفات کی طرف منتقل ہو جائے گا.گویا مریم ہونے کی صفت نے عیسی ہونے کا بچہ دیا اور اس طرح پر وہ ابن مریم کہلائے گا.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ اس جگہ کوئی جسمانی حمل مراد نہیں بلکہ ایک رُوحانی کیفیت کو حمل قرار دیا گیا ہے اور اس ولادت سے جسمانی ولادت مراد نہیں بلکہ ولادت معنویہ مراد ہے.ولادت معنوی کا محاورہ علماء اور صوفیاء میں استعمال ہوتا ہے.امام الطائفہ شیخ سہر وردی فرماتے ہیں:.يصير المريد جزء الشَّيْحَ كَمَا انَّ الوَلَدَجُزء الوالد في الوِلَادَة الطبعية وتصير هذِهِ الْوِلَادَةُ انِفَاوِلَادَةً مَعْنَوِيَّةً.“ ترجمہ:.مرید شیخ کا حصہ بن جاتا ہے جیسا کہ بیٹا ولادت طبعیہ میں باپ کا جزء ہوتا ہے.یہ ولادت کبھی معنوی بھی ہوتا ہے.(عوارف المعارف الجزء الاوّل الباب العاشر في شرح رتبة المشيخة جلد 1 صفحہ 45)

Page 340

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 318 حضرت مولانا روم مثنوی میں فرماتے ہیں:.ہیچو مریم جاں ز آسیب حبیب حامله شد از مسیح دلفریب حصہ دوم کہ مریم کی طرح جان حبیب کے سائے سے حاملہ ہوئی اور اُس نے دلفریب مسیح کو حمل میں لیا.اس جگہ بھی جان کے مریم بنے اور پھر ترقی کر کے مسیح کے مقام تک پہنچنے کو روحانی حمل کے ذریعہ مریمی مقام سے عیسوی مقام کی طرف انتقال قرار دیا ہے.ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:.جان با دراصل خود عیسی دم اند یک زماں زخم اند دیگر مر هم اند گر حجاب از جان با برخواستے گفت ہر جانے مسیح آسا استے یعنی جانیں اپنے اصل کے لحاظ سے عیسی دم ہی ہیں کبھی وہ زخم ہوتی ہیں اور کبھی مرہم.اگر جانوں سے حجاب اُٹھ جائے تو ہر جان ہی کہنے لگے کہ میں مثیل مسیح ہوں.مقصود یہ ہے کہ تمام انسانوں کی ارواح کا سرچشمہ خدا ہے اور اُن پر کچھ حجاب ہوتا ہے.اگر وہ حجاب اُٹھ جائے تو سب یہی کہنے لگیں گے کہ ہم مسیح ہیں.کیونکہ اصل میں ساری جانیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نفخ رُوح کے ذریعہ داخل ہوتی ہیں.اور جسم کی زندگی کا موجب ہوتی ہیں.نفخ رُوح کا معاملہ سب انسانوں سے متعلق ہے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو استعارہ کے طور پر حاملہ قرار دیا گیا اور مسیح کی ولادت کے وقت مریم کو درد زہ بھی ہوا تھا اس لئے الہامی طور پر

Page 341

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 319 حصہ دوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر فَا جَاءَ هَ الْمُمَخَاضُ إِلى جِذْعِ النَّخْلَةِ ( مريم: 24) کی آیت بھی نازل ہوئی.یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ مریم سے مسیح بننے پر آپ کو بہت سی تکالیف سے گزرنا پڑے گا.کشتی نوح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں:.” جب کہ خدا نے مجھے پہلے مریم کا خطاب دیا اور پھر نفخ رُوح کا الہام کیا پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا تھا.فأجاءها المخاض الى جذع النخلة قالت ياليتني مت قبل هذا وكنت نسيا منسيا.یعنی پھر مریم کو جو مراد اس عاجز سے ہے دروزہ نہ کھجور کی طرف لے آئی یعنی عوام الناس اور جاہلوں اور بے سمجھ علماء سے واسطہ پڑا جن کے پاس ایمان کا پھل نہ تھا جنہوں نے تکفیر و توہین کی اور گالیاں دیں اور ایک طوفان برپا کیا.تب مریم نے کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مرجاتی اور میرا نام ونشان باقی نہ رہتا.یہ اس شور کی طرف اشارہ ہے جو ابتداء میں مولویوں کی طرف سے بہ ہیئت مجموعی پڑا اور وہ اس دعوی کی برداشت نہ کر سکے اور مجھے ہر ایک حیلہ سے انہوں نے فنا کرنا چاہا.تب اس وقت جو کرب اور قلق نا سمجھوں کا شور و غوغا دیکھ کر میرے دل پر گزرا اس کا اس جگہ خدا تعالیٰ نے نقشہ کھینچ دیا ہے.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 51) صفاتی رنگ میں مریم اور ابن مریم بننے کا ذکر ایک حدیث نبوی میں بھی آیا ہے.حدیث کے الفاظ یہ ہیں :.مَا مِنْ مَوْلُودِ يُولَدُ إِلَّا والشَّيطان يمسَهُ حِينَ يُولَدُ فَيَسْتَهِل صارحًا من مس الشيطان اياه الامريم وابنها ( بخاری کتاب التفسیر سوره آل عمران باب و انی اعیدها بک........

Page 342

ندی تعلیمی پاکٹ بک 320 حصہ دوم ترجمہ : ”ہر پیدا ہونے والے بچہ کو بوقت ولادت شیطان مست کرتا ہے.پس وہ بچہ مست شیطان سے چیختا چلاتا ہے مگر مریم اور ابن مریم کو مست شیطان نہیں ہوتا“.علامہ زمخشری نے تفسیر کشاف میں لکھا ہے:.مَعْنَاه ان كلَّ مولُودٍ يطمع الشيطانُ في اغوائه الامريم وابنها فَإِنّهما كانا معصومين و كذلك كل من كان في 66 صفتهما.اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ :.شیطان ہر بچہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے سوائے مریم اور ابن مریم کے.کیونکہ وہ دونوں پاک تھے اسی طرح ہر بچہ مست شیطان سے محفوظ رہتا ہے جو مریم یا ابن مریم کا ہم صفت ہو.ان معنی سے ظاہر ہے کہ علامہ زمخشری کے نزدیک مریم اور ابن مریم کے الفاظ سے صرف اصلی مریم اور ابن مریم ہی مراد نہیں بلکہ بطور کنایہ ان کے ہم صفات لوگ بھی مراد ہیں جو معنوی طور پر مریم اور ابن مریم ہوتے ہیں.اگر اس حدیث کے یہ معنی نہ لئے جائیں تو تمام انبیاء کو مس شیطان سے غیر محفوظ ماننا پڑے گا.حالانکہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں.یہ بھی واضح رہے کہ حدیث میں جس ولادت کا ذکر ہے اس سے مراد ولادت معنوی ہی ہے.جب کہ انسان دین کی باتوں کو سمجھنے لگ جائے.اسی موقع پر شیطان اس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے.اور مریم وابن مریم کی صفات رکھنے والے اولیاء اور انبیاء شیطان کی گمراہی سے محفوظ رہتے ہیں.ورنہ جسمانی ولادت کے وقت تو ہر بچہ روتا ہے اور چیختا چلاتا ہے اور یہ چیخنا اور چلانا تو زندگی کی علامت ہوتا ہے اور یہ چیخنا چلانا مس شیطان سے نہیں ہوتا بلکہ ایک طبعی امر ہے.

Page 343

یتعلیمی پاکٹ بک 321 حصہ دوم مختلف اعتراضات کے جوابات حضرت موسی کی حیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب نورالحق میں لکھا ہے:.هَذَا هُوَ مُوسَى فَتَى اللَّهِ الَّذِي أَشَارَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ إِلَى حَيَاتِهِ وَفَرَضَ عَلَيْنَا اَنُ نُؤْمِنَ بِأَنَّهُ حَيٌّ فِى السَّمَاءِ وَلَمْ يَمُتُ وَلَيْسَ مِنَ الْمَيِّتِينَ " نور الحق حصه اول روحانی خزائن جلد 8 صفحه 68-69) ترجمہ : ” یہی موسی اللہ کا جوان ہے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں اس کی زندگی کا اشارہ کیا ہے اور ہم پر فرض کیا ہے کہ ہم ایمان لائیں کہ وہ آسمان میں زندہ ہے وہ مرا ہوا نہیں اور مرنے والوں میں سے نہیں.“ 66 اس عبارت کی بناء پر معترضین کہتے ہیں کہ جب حضرت موسی علیہ السلام کو بانی سلسلہ احمدیہ نے مُردہ نہیں بلکہ آسمان میں زندہ مانا ہے تو حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ ماننا کس طرح ناممکن ہے؟ الجواب :.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک تمام انبیاء اپنی روحانی زندگی کے ساتھ بعد از وفات آسمان میں زندہ موجود ہیں.اور ان میں سے آپ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سب سے زیادہ فوقیت رکھتی ہے اور بے مثال ہے.آپ حضرت موسی علیہ السلام کی اس عبارت میں روحانی موت کی نفی کر رہے ہیں نہ جسمانی موت کی نفی.اُن کی جسمانی موت کا ذکر نور الحق کے اگلے

Page 344

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 322 حصہ دوم پیرا گراف میں موجود ہے.جس میں آپ فرماتے ہیں:." مَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا تُوُفِّيَ وَقَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِ عِيسَى الرُّسُلُ “ ( نور الحق حصہ اول.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 70) ترجمہ :.ہر ایک رسول نے وفات پائی ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے سب رسول گزر چکے ہیں.اس عبارت میں تمام انبیاء کے وفات پانے کا ذکر موجود ہے جس میں حضرت موسی علیہ السلام بھی شامل ہیں.نور الحق کے اقتباس میں لَيْسَ مِنَ الميّتين ( کہ وہ آئندہ مرنے والوں میں سے نہیں ہیں) کے الفاظ بھی اس بات کے لئے قوی قرینہ ہیں کہ اس جگہ حضرت موسی علیہ السلام کی خا کی جسم کے ساتھ زندگی زیر بحث نہیں.بلکہ بعد از وفات رُوحانی زندگی کا ہی ذکر ہے.کیونکہ مادی جسم پر موت کا وارد ہونا بموجب آیت قرآنی " كُل نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ از بس ضروری ہے.دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام واضح طور پر حضرت موسی علیہ السلام کے وفات پانے کا ذکر ان الفاظ میں فرما چکے ہیں :.ایسا ہی حضرت موسی علیہ السلام کے وقت میں ہوا جبکہ حضرت موسی مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا دیں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں اُن کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا جیسا کہ تو رات میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسی کی ناگہانی جُدائی سے چالیس دن تک روتے رہے.(الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305) اس سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ

Page 345

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 323 حصہ دوم حضرت موسی علیہ السلام نے وفات نہیں پائی.نور الحق میں جو مضمون مجمل بیان ہوا ہے.اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حمامۃ البشریٰ کے صفحہ 34، 35 پر مفصل طور پر بیان فرمایا ہے.نور الحق میں تو حضور نے یہ لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی کی طرف اشارہ کیا ہے.اور حمامۃ البشری میں از روئے حدیث نبوی معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام انبیاء علیہم السلام سے ملنا بیان فرماتے ہیں.آدم کو پہلے آسمان میں اور حضرت عیسی علیہ السلام اور اُس کے خالہ زاد بھائی حضرت یحیی علیہ السلام کو دوسرے آسمان میں اور حضرت موسی علیہ السلام کو پانچویں آسمان میں اور اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ تمام انبیاءکا رفع ہوا.اور فرماتے ہیں کہ جو لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات اور رفع کے قائل ہیں وہ معراج کی حدیث پڑھتے ہیں اور پھر اُس کو بھول جاتے ہیں.پھر آگے لکھتے ہیں :.أعِيسَى حَيٌّ وَمَاتَ الْمُصْطَفَى تِلْكَ إِذَا قِسْمَةٌ ضِيُرَى إِعْدِلُوا هُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَإِذَا ثَبَتَ أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ كُلَّهُم أَحْيَاءٌ فِي السَّمَوَاتِ فَأَيُّ خُصُوصِيَّةٍ ثَابِتَةٌ لِحَيَاتِ الْمَسِيحِ أَهُوَ يَأْكُلُ وَيَشْرَبُ وَهُمْ لَا يَأْكُلُونَ وَلَا يَشْرَبُونَ بَلْ حَيَاةُ كَلِيمِ اللَّهِ ثَابِتٌ بِنَصِ الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ اَلَا تَقْرأُ فِي الْقُرْآنِ مَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى عَزَّوَجَلَّ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَابِهِ.وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِى مُوسَى فَهِيَ دَلِيْلٌ صَرِيحٌ عَلَى حَيَاةِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ لَأَنَّهُ لَقِيَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْاَمْوَاتُ لَا يُلَا قُوْنَ الْاَحْيَاءَ وَلَا تَجِدُ مِثْلَ هَذِهِ الْآيَاتِ فِي شَأْنٍ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام - نَعَمُ جَاءَ ذِكْرُ وَفَاتِهِ فِي مَقَامَاتٍ شَتَّى

Page 346

ی علیمی پاکٹ بک 324 فَتَدَبَّرُ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَدَبِرِينَ (حمامة البشرى روحانی خزائن جلد 7 صفحه 221-222 حصہ دوم ترجمہ :.”کیا عیسی زندہ ہے اور مصطفے وفات پاگئے ہیں.یہ تو بڑی بھونڈی تقسیم ہے.انصاف سے کام لو کہ انصاف تقویٰ سے زیادہ قریب ہے.جب ثابت ہو گیا کہ انبیاء سارے کے سارے آسمانوں میں زندہ ہیں تو حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کو کیا خصوصیت حاصل ہے.کیا وہ کھاتے اور پیتے ہیں؟ اور دوسرے سب نبی نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں.اس سے بڑھ کر کلیم اللہ کی زندگی تو قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے.کیا تم قرآن میں نہیں پڑھتے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:.فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَابِه (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو اس سے ملاقات کے بارہ میں شک نہ کرنا ) اور تم جانتے ہو کہ یہ آیت حضرت موسی علیہ السلام کے بارہ میں نازل ہوئی.پس یہ موسی علیہ السلام کی زندگی پر صریح دلیل ہے کیونکہ موسٰی علیہ السلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور مُردے زندوں سے ملاقات نہیں کرتے.اور تم اس جیسی آیات عیسی علیہ السلام کے بارہ میں نہیں پاؤ گے.ہاں ان کی وفات کا ذکر مختلف مقامات میں آیا ہے.پس تدبر سے کام لو.بے شک اللہ تعالیٰ تدبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے.اس بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک تمام انبیاء علیہم السلام آسمانوں میں زندہ ہیں جیسا کہ حدیث معراج سے ثابت ہوا.اور موسی علیہ السلام کی زندگی پر نص قرآنی بھی موجود ہے جو بتاتی ہے کہ معراج کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت موسی علیہ السلام سے جو ملاقات

Page 347

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 325 حصہ دوم ہوئی.شکی امر نہ تھا بلکہ یہ ملاقات یقینی تھی.انبیاء کی اس زندگی کو جو آسمانوں میں پائی جاتی ہے حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی سے مختلف قسم کی قرار نہیں دیا.بلکہ اس زندگی کو روحانی زندگی ہی تسلیم کیا ہے جو انبیاء کو بعد از وفات ملتی ہے.66 پھر آپ آئینہ کمالات اسلام کے اشتہار ”قیامت کی نشانی“ میں جسے صفحہ 604 کےآگے شائع کیا ہے صفحہ اور پر تحریر فرماتے ہیں:.انبیاء تو سب زندہ ہیں.مُردہ تو اُن میں سے کوئی بھی نہیں.معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی لاش نظر نہ آئی.سب زندہ تھے.دیکھئے اللہ جل شانہ اپنے نبی کریم کو حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی کی قرآن کریم میں خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے.فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَابِه (السجدة: 24) اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہونے کے بعد اپنا زندہ ہو جانا اور آسمان پر اُٹھائے جانا اور رفیق اعلیٰ کو جاملنا بیان فرماتے ہیں.پھر حضرت مسیح کی زندگی میں کونسی انوکھی بات ہے جو دوسروں میں نہیں.معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کو برابر زندہ پایا اور حضرت عیسی کو حضرت یحیی کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا.خدا تعالیٰ مولوی عبدالحق محدث دہلوی پر رحم کرے وہ ایک محدث وقت کا قول لکھتے ہیں کہ ان کا یہی مذہب ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہو کر کسی دوسرے نبی کی حیات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات سے قوی تر سمجھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یا شاید یہ لکھا ہے کہ قریب ہے کہ وہ کافر ہو جائے“.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 610-611) پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام کی آسمانی

Page 348

326 حصہ دوم زندگی اور دوسرے انبیاء علیہ السلام کی آسمانی زندگی میں کوئی فرق نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آسمانی زندگی کو دوسرے انبیاء کی آسمانی زندگی سے قوی تر جاتے ہیں اور آیت فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِّنْ لِقَابِہ کے مطابق حضرت موسی علیہ السلام کو آسمان میں اسی طرح زندہ مانتے ہیں جس طرح دیگر انبیاءکو.ان سب حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ یہ سراسر معترض کا مغالطہ ہے کہ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک حضرت موسی علیہ السلام اپنے خاکی وجود کے ساتھ آسمان میں زندہ موجود ہیں.

Page 349

یتعلیمی پاکٹ بک 327 حصہ دوم خدائی کے دعوی کا الزام اعتراض :.مرزا صاحب نے آئینہ کمالات اسلام میں اپنے آپ کو عین اللہ قرار دے کر الوہیت کا دعویٰ کیا ہے.اور نئی زمین اور نیا آسمان بنانے کا ذکر کیا ہے.الجواب: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام میں محض اپنی ایک رؤیا لکھی ہے جو یوں ہے:.رائيتُنى فى المنام عَيْنَ اللهِ وَتَيَقَّنُتُ انَّنِي هُوَ وَلَمْ يَبْقَ لِى إرَادَةٌ وَلَا خَطْرَةٌ وَلَا عَمَلٌ مِنْ جِهِةِ نَفْسِي.....وَأَعْنِي بِعِينِ الله رَجُوعَ الظَّلَّ إِلَى أَصْلِهِ وَغَيْبُوبَتُهُ فِيْهِ كَمَا يَجْرِى مثل هذه - الحالات في بعض الاوقات على المحبين ـ و تفصيل ذلك ان الله اذا اراد شيئًا من نظام الخير جعلني من تجلياته الذاتية بمنزلة مشيّته وعلمه وجوارحه و توحیده و تفريده لا تمام مراده و تکمیل مواعيده كما جرت عادته بالابدال والاقطاب والصديقين.فرئيتُ اَنَّ رُوحَه احاط عَلَيَّ واستوى على جسمى وَلَفَّنِي في ضمن وجوده حتـى مـابـقى مِنّى ذرة وكنتُ من الغائبين.......وبينما انا في هذه الحالة كنتُ اقول انا نريد نظامًا جديدًا.وسماءً جديدةً وأَرْضًا جديدةً فخلقت السموات والارض أو لا بصورة إجمالية لا تفريق فيها ولا ترتيب ثُمَّ فرقتها ورتبتها بوضع هو مراد الحق وكنتُ اجد نفسي على خلقها كالقادرين.....وَألْقِيَ في قلبي أنَّ هذا الخلقَ الذي رئيتُه

Page 350

328 حصہ دوم اشارة الى تائيدات سماويّة وارضيَّة.....ولا نَعْنِى بهذه الواقعة كما يُعنى فى كُتُبِ اَصْحَابِ وحدة الوجودِ وما نَعْنِی بذالک ماهومذهب الحلوليين بل هذه الواقعة تُوافِقُ حديث النبي صلى الله عليه وسلم أغنى بذالک حدیث البخاري فی بیان مرتبة قرب النوافل لعباد الله الصالحين آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه 564 تا 566) ترجمہ: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں اور میرا اپنا کوئی ارادہ کوئی خیال اور کوئی عمل نہیں رہا...عین اللہ سے مراد میری ظل کا اپنے اصل کی طرف رجوع کرنا اور اس کی طرف غائب ہوجانا ہے.جیسا کہ اس قسم کے حالات خدا کے پیاروں پر بعض اوقات جاری ہوتے ہیں.اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ایک اچھے نظام کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اُس نے مجھے اپنی ذاتی تجلی سے بمنزلہ اپنی مشیت اپنے علم اور اپنے جوارح اور بمنزلہ اپنی تو حید و تفرید کے بنالیا.اپنی مراد کو پورا کرنے اور اپنے وعدوں کی تکمیل کے لئے جیسا کہ اس کی عادت ابدال اور اقطاب اور صدیقوں کے لئے جاری ہے.پس میں نے دیکھا کہ اس کی روح نے میرا احاطہ کر لیا ہے اور اس نے میرے جسم پر مستولی ہو کر اپنے وجود میں مجھے پنہاں کر لیا ہے.یہاں تک کہ میرا کوئی ذرہ بھی باقی نہیں رہا اور میں غائبین میں سے ہو گیا...اس اثناء میں کہ میں اس حالت میں تھا میں کہتا تھا کہ ہم ایک نیا نظام ، نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں.پس میں نے آسمانوں اور زمین کو پہلے اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی تفریق اور ترتیب موجود نہ تھی.پھر میں نے منشاء حق کے موافق اس

Page 351

329 حصہ دوم کی ترتیب اور تفریق کی اور میں دیکھتا تھا کہ میں اس کے خلق پر قادر ہوں.میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ یہ پیدائش جسے میں نے دیکھا ہے.آسمانی اور ارضی تائیدات کی طرف اشارہ ہے....اور ہم اس واقعہ سے وہ مراد نہیں لیتے جو وحدت الوجود ماننے والوں کی کتابوں میں مراد لیا جاتا ہے.اور نہ اس واقعہ کو حلول کے قائل لوگوں کے مذہب کے مطابق مانتے ہیں.بلکہ یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ہے.میری مراد اس سے بخاری کی وہ حدیث ہے جو کہ خدا کے نیک بندوں کے لئے قرب نوافل کے مرتبہ کے بیان پر مشتمل ہے.اس رویا کی تشریح جو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کردی ہے.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک کشفی واقعہ تھا جو آپ کے اس طرح فانی فی اللہ ہونے کو ظاہر کرنے والا تھا جس طرح اولیاء.ابدال اور اقطاب خدا تعالیٰ کی ذات میں فانی ہوتے ہیں.اور ان پر بعض اوقات ایسی حالت طاری ہو جاتی ہے کہ اُن کا اپنا وجود مخفی ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تجلیات ذاتیہ وارد ہو کر اسے اپنی ذات عین خدا نظر آتی ہے مگر وہ درحقیقت خدا نہیں بن جا تا بلکہ مراد اس سے صرف یہ ہوتا ہے کہ ظل نے اپنے اصل کی طرف رجوع کیا ہے.اور فل پر اصل مستولی ہو گیا ہے اور ظل اصل میں غائب ہو گیا ہے.جیسا کہ صیح بخاری کی حدیث میں وارد ہے:.” ما زال عبدي يتقرب الى بالنوافل حتى أحْبَبْتُهُ فكنتُ سمعه الذي يسمع به وبصره الذى يبصر به ويده التي يبطش بها ورجله التي يمشي بھا“.(بخارى كتاب الرقاق باب التواضع حدیث نمبر 6137) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.کہ نفل گزار بندہ میرے قرب میں ترقی کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اس

Page 352

330 حصہ دوم سے محبت کرنے لگتا ہوں پس جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اُس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے.اُسکی آنکھ بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے.اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اُس کا پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ رویا بخاری شریف کی مذکورہ حدیث سے موافق ہے جس میں خدا کے اپنے محبوب بندے کے کان، آنکھ، ہاتھ اور پاؤں بن جانے کا ذکر ہے اور یہ دراصل وحدت شہودی کا مقام ہوتا ہے نہ کہ وحدت الوجود کا.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف فرما دیا ہے کہ اس واقعہ سے نہ وحدت الوجود مراد ہے اور نہ خدا کا بندے میں حلول کر جانا.حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی اس مرتبہ کے متعلق فرماتے ہیں:.و آں مرتبہ قرب نوافل که مقام فناء صفات است و نزد فنه و محققین اَنَا الحَقُّ ناشی ازیں شہود.فتوح الغیب فارسی مقالہ نمبر 3 صفحہ 17 ) ترجمہ :.قرب نوافل کا وہ مرتبہ جو اپنی صفات کو فناء کرنے کا مقام ہے اور اس سے محققین کے نزدیک آنا الحق کا شہود پیدا ہوتا ہے.کئی بزرگان اُمت کو وحدت کا یہ مقام حاصل ہوا.چنانچہ حضرت شیخ فریدالدین عطار فرماتے ہیں:.من خدایم من خدايم من خدا فارغ از کینه و از کبر و ہوا کہ کینہ اور کبر اور حرص سے فارغ ہوکر میں خدا ہوں میں خدا ہوں میں خدا ہوں.فوائد فرید یہ مترجم با ر اول صفحہ 85 مکتبہ معین الادب جا مع مسجد شریف ڈیرہ غازی خان )

Page 353

تعلیمی پاکٹ بک 331 حصہ دوم (2) حضرت شبلی علیہ الرحمہ نے فرمایا:.میں کہتا ہوں اور میں ہی سنتا ہوں.دونوں جہاں میں میرے سوا کوئی اور نہیں“.فوائد فریدیہ مترجم صفحہ 77 مکتبہ معین الادب جامع مسجد شریف مطبوعہ ڈیرہ غازیخاں) (3) حضرت معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ اسی فنافی اللہ کے ذکر کی حالت کے متعلق فرماتے ہیں:.نہ عصیاں ماند نے طاعت شدم محو اندر آن ساعت چناں گشتم در آن حالت کہ وے من گشت و منم وے ( دیوان معین الدین ) دو یعنی حالت فناء میں نہ نا فرمانی رہی نہ فرمانبرداری.میں اس گھڑی اُس ذات باری میں ایسا محو ہو گیا کہ وہ میں ہو گیا اور میں وہ.بعض صوفیاء نے تو یہاں تک فرمایا ہے:.سُبْحَانِي مَا أَعْظَمَ شَانِي ( قول ابو یزید.کشف المحجوب صفحہ 287 أردو) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس کشف پر جب آپ کی زندگی میں مخالفین نے اعتراض کیا.تو آپ نے اسکے جواب میں لکھا:.ایک دفعہ کشفی رنگ میں میں نے دیکھا.کہ میں نے نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا ہے اور پھر میں نے کہا کہ آؤ اب انسان کو پیدا کریں.اس پر نادان مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو ، اب اس شخص نے خدائی کا دعوی کیا

Page 354

مدی تعلیمی پاکٹ بک 332 حصہ دوم حالانکہ اس کشف سے یہ مطلب تھا.کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے.اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے.(چشمہ مسیحی روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 375-376 حاشیہ ) پھر تحریر فرماتے ہیں:.وہ کیا ہے نیا آسمان؟ اور کیا ہے نئی زمین؟ نئی زمین وہ پاک دل ہیں.جن کو خدا اپنے ہاتھ سے تیار کر رہا ہے.جو خدا سے ظاہر ہوئے اور خدا اُن سے ظاہر ہوگا.اور نیا آسمان وہ نشان ہیں جو اُس کے بندے کے ہاتھ سے اُسی کے اذن سے ظاہر ہو رہے ہیں.لیکن افسوس کہ دُنیا نے خدا کی اِس نئی تجلی سے دشمنی کی.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 7) پھر اصولی طور پر لکھتے ہیں:.ہر ایک عظیم الشان مصلح کے وقت میں رُوحانی طور پر نیا آسمان اور نئی زمین بنائی جاتی ہے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 102 حاشیہ) نئی زمین اور نیا آسمان بنانے کا محاورہ اہلِ علم میں مشہور ہے.شاعرِ مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال لکھتے ہیں :.زنده دل سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر خواب میں دیکھتا ہے عالم نو کی تصویر اور جب بانگ اذاں کرتی ہے بیدار اُسے کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دُنیا تعمیر ( ضرب کلیم زیر عنوان ”عالم نو ، صفحہ 130 طبع ہفتم 1947 ء) سیدابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں :.” شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کے لیڈر اپنے خیالات کے

Page 355

ندی علیمی پاکٹ بک 333 حصہ دوم مطابق خود کوئی عملی تحریک اُٹھاتے ہیں اور بگڑی ہوئی دُنیا کو توڑ موڑ کر اپنے ہاتھوں سے نئی دُنیا بنانے کے لئے میدان میں نکل آتے ہیں.تجدید و احیائے دین بحوالہ آفتاب صفحہ 71 مرتبہ خورشید الاسلام علی گڑھ ) ہم اس بحث کو تعطیر الا نام کے اس حوالہ پر ختم کرتے ہیں.اس میں لکھا ہے:.مَنْ رَأَى كَأَنَّهُ صَارَ الْحَقَّ سُبْحَانَهُ تَعَالَى اهْتَدَى إِلَى الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيم تعطير الانام الجزء الاوّل صفحه 10) کہ اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ وہ خدا بن گیا ہے.تو اس کی تعبیر یہ ہوگی کہ اس شخص کو سیدھی راہ کی ہدایت مل گئی.“ پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے اس کشف کی تعبیر یہی ہے کہ آپ صراطِ مستقیم پر ہیں اور معترضین حق پر ہیں.واضح رہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے رویا میں دیکھا تھا.جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:." إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَجِدِينَ (يوسف: 9) حضرت یوسف باپ کو خواب بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ چاند اور سورج اور گیارہ ستارے مجھے سجدہ کر رہے ہیں.دوسری طرف سورۃ حج میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اَلَمْ تَرَاَنَّ اللهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ - (الحج : 19) و یعنی کیا تو نے دیکھا نہیں کہ جو کوئی بھی آسمان میں ہے وہ اللہ تعالیٰ

Page 356

334 حصہ دوم کے حضور سجدہ کر رہا ہے اور جو کوئی زمین میں ہے وہ بھی اور سورج، چاند ،ستارے، پہاڑ، درخت اور چار پائے بھی اور لوگوں میں سے بھی بہت سے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ سجدہ صرف خدا کو کیا جاتا ہے.اُدھر حضرت یوسف علیہ السلام کی رؤیا ہے کہ سُورج چاند اور گیارہ ستارے مجھے سجدہ کر رہے ہیں.تو کیا اس سے ان کی خدائی کا دعوی لا زم آئے گا.کوئی بے وقوف ہی ایسا خیال کر سکتا ہے.کیونکہ خواب ہمیشہ تعبیر ہوتے ہیں چنانچہ جب مصر میں حضرت یوسف کے والدین اور گیارہ بھائی آئے اور انہوں نے یوسف کی عظمت کا اظہار کیا تو اس موقع پر حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا :.هذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّ حَقًّا.(يوسف: 101) کہ یہ میری اس خواب کی تعبیر ہے جسے میرے رب نے سچا کر دکھایا.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فرمایا ہے:.وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى - (الانفال : 18) کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جنگ بدر میں کنکروں کی جو ٹھی تو نے دشمنوں کی طرف پھینکی تھی وہ تو نے نہیں پھینکی تھی اللہ نے پھینکی تھی.یہ آیت قرآنیہ تصوف کی جان ہے اور اس میں بظاہر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فعل کو اللہ کا فعل قرار دیا ہے اور بڑا ہی بے وقوف وہ شخص ہوگا جو اس سے یہ نتیجہ نکالے.کہ اس آیت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائی کا دعویٰ کر دیا.اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو

Page 357

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 335 حصہ دوم اس جگہ منفی قرار دے کر جو کام آپ نے کیا اس کی اپنی طرف نسبت دی ہے.اس لئے کہ آپ فنافی اللہ کے اتم درجہ پر پہنچے ہوئے تھے.اور سر سے پاؤں تک اللہ تعالیٰ آپ میں مخفی تھا.اسی قسم کی کیفیت بعض اوقات خدا کے برگزیدہ پر طاری ہو جاتی ہے.اور وہ یہ کہ اُٹھتا ہے:.سر سے لے کر پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار جنگ بدر میں اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ایک الہی فعل تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ کی نصرت اس طرح شامل حال ہوئی کہ کنکروں کی مٹھی ایک تیز آندھی میں مبدل ہو گئی جس کا رُخ دشمنانِ اسلام کی طرف تھا اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے تیر نہایت تیزی سے کافروں کونشانہ بنارہے تھے اور کافروں کا کوئی تیر مسلمانوں تک پہنچ نہیں سکتا تھا.لہذا اس معجزانہ الہی قوت نے جنگ بدر میں ایسا نشان دکھایا کہ دشمن اسلام مسلمانوں سے تین گنا زیادہ جمعیت اور ساز و سامان رکھنے کے باوجود ذلت آمیز شکست کھا گیا.اولیاء پر کبھی کبھی ایسی حالت طاری ہوتی ہے اور وہ کہہ اُٹھتے ہیں.جیسا کہ سید عبدالقادر جیلانی پیر پیران نے کہا.لَیسَ فِی - سِوَى اللَّهِ 66 ( مکتوب امام ربانی مجددالف ثانی دفتر اول حصہ پنجم مکتوب نمبر 272 رؤف اکیڈیمی لاہور ) ترجمہ:.کہ میرے پیرا ہن میں اللہ کے سوا اور کچھ نہیں“.اسی فنافی اللہ کی حالت میں دراصل اولیاء اللہ سے ایسی کرامات صادر ہوتی ہیں جن میں الہی تصرف نظر آتا ہے.

Page 358

یتعلیمی پاکٹ بک 336 حصہ دوم تشریعی اور مستقلہ نبوت کے ادعا کا الزام مولوی ابوالحسن صاحب ندوی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ الزام دیا ہے کہ:.”مرزا صاحب کی تصنیفات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے نبی مستقل صاحب شریعت ہونے کے بھی قائل تھے.انہوں نے اربعین میں تشریعی یا صاحب شریعت نبی کی تعریف کی ہے کہ جس کی وحی میں امر و نہی ہو.اور وہ کوئی قانون مقرر کرے.اگر چہ یہ امر و نہی کسی نبی سابق کی کتاب میں پہلے آچکے ہوں.اُن کے نزدیک صاحب شریعت نبی کے لئے اس کی شرط نہیں کہ وہ بالکل جدید احکام لائے.پھر وہ صاف صاف دعوی کرتے ہیں کہ وہ اس تعریف کے مطابق صاحب شریعت اور مستقل نبی ہیں“.( قادیانیت صفحه 95،94 باراول مکتبہ دینیات لاہور ) الجواب: - مولوی ابوالحسن صاحب کا یہ الزام درست نہیں.ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تحریر میں یہ دعوئی موجود نہیں کہ وہ مستقل نبی ہیں.آپ کا دعویٰ صرف یہ ہے کہ آپ ایک پہلو سے اُمتی ہیں اور ایک پہلو سے نبی ہیں.اور یہ مقام آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضئہ روحانی سے حاصل کیا ہے.اربعین کا جو حوالہ مولوی ابوالحسن صاحب نے پیش کیا ہے.اس میں ہرگز ایسے الفاظ موجود نہیں کہ آپ مستقل نبی ہیں یا صاحب شریعت جدیدہ نبی ہیں.اربعین سے ایک سال بعد کی تصنیف اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں فرماتے ہیں:.و جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان

Page 359

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 337 حصہ دوم معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں.اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اُس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں.مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.(ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 210-211) تشریعی نبی آپ کے نزدیک وہ ہوتا ہے جو شریعتِ جدیدہ لائے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.یہ خوب یا درکھنا چاہیے کہ نبوت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اسکی پیروی معطل کرے بلکہ اس کا عمل قیامت تک ہے“.نی تحریر فرماتے ہیں :.الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 311 حاشیہ) ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید و مولا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ کوئی شریعت ہے.اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو بلا شبہ وہ بے دین اور مردود ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 340 حاشیہ ) یہ سب عبارتیں اربعین سے بعد کی ہیں ان سے ظاہر ہے کہ آپ پر تشریعی نبوت اور مستقلہ نبوت کے دعویٰ کا الزام سرا سر مردود ہے.اربعین کی عبارت کو ان حوالہ جات کی روشنی میں پڑھنا چاہیے حضرت مسیح موعود پر شریعت اسلامیہ کے بعض

Page 360

338 حصہ دوم احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک اوامر اور نواہی کا نزول بطور تجدید شریعت ہے نہ بطور شریعت جدیدہ اور تشریعی نبی آپ اسے ہی قرار دیتے ہیں جو شریعت جدیدہ لائے اور شریعت سابقہ کے کسی حکم کو منسوخ یا معطل کرے پس بالواسطہ صاحب شریعت ہونا اور بات ہے اور مستقل طور پر تشریعی نبی ہونا اور بات ہے.صاحب شریعت تو ایک معنی میں ہر مومن ہوتا ہے.لہذا مجد ددین بدرجہ اولیٰ صاحب شریعت ہوتا ہے.اگر مسجد ددین پر اس کی مسلّمہ شریعت کے بعض اوامر اور نواہی بذریعہ الہام نازل ہوں تو وہ اوامر اور نوا ہی تو شریعت ہی ہوں گے.لیکن جس پر نازل ہوں ان سے وہ مستقل صاحب شریعت نہیں بن جاتا.ان اوامر و نواہی کے نزول کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں مجد د کے لئے ان باتوں پر زور دینا ضروری ہے.علماء امت کو یہ مسلم ہے کہ مسیح موعود پر شریعت محمدیہ کا نزول ہوگا.چنانچہ امام عبدالوہاب شعرانی حضرت محی الدین ابن العربی کا مذہب یوں لکھتے ہیں :."يُرْسَلُ وَلِيًّا ذَا نُبُوَّةٍ مُطْلَقَةٍ وَيُلُهَمُ بِشَرْعِ مُحَمَّدٍ“ یعنی مسیح موعود ایسے ولی کی صورت میں بھیجا جائے گا.جو نبوت مطلقہ کا حامل ہوگا اور اس پر شریعت محمدیہ الہاما نازل ہوگی.الیواقیت والجواہر جلد 2 صفحہ 89 بحث 47 طبع اولی مطبوعہ مصر ) فتوحات مکیہ جلد 2 صفحہ 287 پر لکھا ہے:.تَنَزَّلُ الْقُرْآن عَلى قُلُوبِ الْاَوْلِيَاءِ مَا انْقَطَعَ مَعْ كَوْنِهِ مَحْفُوظًا لَهُمْ وَلَكِنْ لَهُمْ ذَوقُ الْإِنْزَالِ وَهَذَا لِبَعْضِهِمْ - کہ قرآن کریم کا نزول اولیاء کے قلوب پر منقطع نہیں باوجود یکہ وہ ان کے پاس اپنی اصلی صورت میں محفوظ ہے.لیکن اولیاء اللہ کو نزول قرآنی کے ذوق کی خاطر قرآن ان پر نازل ہوتا ہے اور یہ نشان بعض کی عطا کو جاتی ہے.

Page 361

ندی تعلیمی پاکٹ بک 339 حصہ دوم اسی شان کا بالواسطہ صاحب شریعت مسیح موعود کو سمجھنا چاہیے نہ کہ شریعت مستقلہ کا حامل جس سے تشریعی نبی ہونا لازم آتا ہے.افسوس ہے کہ مولوی ابوالحسن صاحب نے اربعین کا حوالہ پورا پیش نہیں کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آگے لکھتے ہیں :.”میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے.(اربعین نمبر 4.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 435 حاشیہ) پھر اربعین میں زیر بحث حوالہ کے ساتھ یہ بھی لکھتے ہیں:.”ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے.تاہم خدا تعالیٰ نے اپنے نفس پر یہ حرام نہیں کیا کہ تجدید کے طور پر کسی مامور کے ذریعہ یہ احکام صادر کرے کہ جھوٹ نہ بولو.جھوٹی گواہی نہ دو.زنانہ کرو.خون نہ کرو.اور ظاہر ہے کہ ایسا بیان کرنا شریعت ہے.جو مسیح موعود کا بھی کام ہے.اربعین نمبر 4.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 436) پس مسیح موعود ان معنوں میں صاحب شریعت ہیں کہ اُن کے ذریعہ بیانِ شریعت مقدر تھا نہ اتیانِ شریعت مستقلہ (شریعت لا نا ).پس مولوی ابوالحسن صاحب ندوی جیسے عالم کا اربعین کی عبارت سے مسیح موعود علیہ السلام پر تشریعی اور مستقلہ نبوت کا الزام دینا تعجب انگیز ہے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے کسی معاون نے ادھورے حوالے اُن کے سامنے پیش کئے ہیں.اب ہم اربعین کے حوالے کو پیش کر کے اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ حضور نے اپنے تئیں کیوں صاحب شریعت لکھا.سو واضح ہو کہ اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی صداقت کی نسبت آیت ” لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا

Page 362

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 340 حصہ دوم بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ - کی روشنی میں یہ دلیل دی تھی کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی والہام کے دعویٰ کے بعد 23 سال کی لمبی عمر پائی جو آپ کی سچائی کی دلیل ہے.اسی طرح میرے دعوی وحی والہام پر بھی 23 سال کا عرصہ گزر چکا ہے.سوخدا نے مجھے ہلاک نہیں کیا.حالانکہ اس آیت کی رُو سے خدا کا قانون ہے کہ وہ جھوٹے نبی کو اتنی مہلت نہیں دیتا جتنی مہلت اُس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی.بلکہ اس مدت سے پہلے ہی اس کو ہلاک کر دیتا ہے.اس پر بعض حلقوں کی طرف سے یہ اعتراض ہوا کہ خدا تعالیٰ کی یہ وعید جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے اس کا تعلق اس وحی سے ہے جو شریعت کے اوامر ونواہی پر مشتمل ہو.اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اربعین کی وہ عبارت لکھی ہے جسے مولوی ابوالحسن صاحب ندوی نے ادھورا پیش کیا.وہ عبارت یہ ہے:.ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا.وہی صاحب الشریعۃ ہو گیا.پس اس تعریف کی رُو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں.کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی.مثلاً یہ الہام قـل لـلـمـؤمـنـيـن يغضوا من ابصارهم ويحفظوا فروجهم ذلک از کی لھم.یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی.اور اس پر تئیس برس کی مدت بھی گزر گئی.اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور اربعین نمبر 4.روحانی خزائن جلد صفحہ 435-436) واضح ہو یہ ساری عبارت بطور الزام خصم کے ہے کہ اگر لَوْ تَقُولَ والی وعید نہیں بھی.

Page 363

341 حصہ دوم احمد ی تعلیمی پاکٹ بک کو اوامر اور نواہی سے مخصوص کیا جائے جن میں بناوٹ کا دخل ہو تو پھر مدعی پکڑا جاتا ہے.حضور نے مخالفین پر حجت ملزمہ قائم کر دی ہے کہ تم صاحب شریعت کی یہ تعریف کرو کہ اُس کی وحی میں اوامر و نواہی ہوتے ہیں تو میری وحی میں اوامر بھی ہیں اور نواہی بھی اور ان پر تئیس برس کا عرصہ بھی گزر گیا ہے تو اب تم پر فرض ہو گیا ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں مجھے سچا جانو.پھر آگے لکھا ہے کہ:.اگر کہو شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولى صُحُفِ ابر هِيمَ وَمُوسَى - الاعلى: 19-20) یعنی قرآنی تعلیم تو رات میں بھی - موجود ہے اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی.غرض یہ سب خیالات فضول اور کو تاہ اندیشیاں ہیں.(اربعین نمبر 4.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 436) اس جگہ تعریف شریعت مطلقہ کی ہورہی ہے نہ شریعتِ جدیدہ کی جو شریعت مطلقہ کی ایک مقیّد صورت ہے اور جو شریعت سابقہ میں ترمیم و تنسیخ کا نام ہے یا اوامر و نواہی جدیدہ کا نام ہے.اسی کا حامل حضرت مرزا صاحب کے نزدیک تشریعی نبی کہلاتا ہے.محض شریعت مطلقہ کا حامل جس کا نزول تجدید دین اور بیان شریعت کے طور پر ہو تشریعی نبی نہیں ہوتا خواہ اُس پر اوامر ونواہی ہی نازل ہوں.یہی حضرت مسیح موعود کا مذہب ہے.کیونکہ وہ اوامر ونواہی صرف تجدید دین اور بیانِ شریعت کے طور پر ہونگے نہ شریعت مستقلہ لانے کے طور پر.اور ایسا ملہم بالواسطہ صاحب شریعت ہوگا نہ براہ راست.لہذا وہ تشریعی نبی نہیں کہلا سکتا.اور نہ مستقل صاحب شریعت نبی کہلا سکتا ہے.خلاصہ بحث یہ ہے کہ تجدید دین کے طور پر شریعت سابقہ کے اوامر و نواہی کا

Page 364

مدی تعلیمی پاکٹ بک 342 حصہ دوم نزول گو شریعت ہی ہے اور اس کا حامل بیانِ شریعت کے واسطہ سے صاحب شریعت کہلا سکتا ہے.مگر تشریعی نبی یا نبوت مستقلہ کا حامل ہر گز نہیں کہلا سکتا.اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں آپ نے جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے.مستقل شریعت لانے یا مستقل نبی ہونے سے صاف انکار کیا ہے.پس آپ پر جو شریعت کے احکام نازل ہوئے وہ بالاستقلال نہیں.اس لئے اربعین کے حوالہ کی بناء پر آپ کو مستقل صاحب شریعت قرار نہیں دیا جاسکتا.ایسا الزام سراسر بے بنیاد ہے جس کی تردید پر حضوڑ کی تصنیفات گواہ ہیں.مولوی اوی ابوالحسن صاحب ندوی اپنے الزام کو مضبوط کرنے کے لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ تشریعی نبی ہونے کا تھا.تریاق القلوب صفحہ 130 کے حاشیہ کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں:.یہ نکتہ یا در کھنے کے لائق ہے کہ اپنے دعویٰ سے انکار کرنے والے کو کا فر کہنا یہ صرف اُن نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے احکام جدیدہ اور شریعت لاتے ہیں.لیکن صاحب شریعت کے ماسوا جس قدر اہم اور محدث ہیں گو وہ کیسے ہی جناب الہی میں اعلیٰ شان رکھتے ہوں اور خلعت مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے سرفراز ہوں اُن کے انکار سے کوئی کا فرنہیں بن سکتا.“ ہیں:.پھر اس کے مقابل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض عبارتیں پیش کی 1." مجھے الہام ہوا ہے.کہ جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا جہنمی ہو گا“.( معیار الا خیار صفحہ 8) 2.خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک وہ شخص جس کو میری

Page 365

_3 ندی علیمی پاکٹ بک 343 حصہ دوم دعوت پہنچی ہے.اور اُس نے مجھے قبول نہیں کیا ہے وہ مسلمان نہیں ہے“.( الذكر الحکیم نمبر 2 صفحہ 24) کفر دو قسم پر ہے.(اول ) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا.( دوم ) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود تمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے.پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے کافر ہے.اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں.کیونکہ جو شخص باوجود شناخت کر لینے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا وہ بموجب نصوص صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 185-186) افسوس ہے کہ ابوالحسن صاحب ندوی نے اگلی عبارت درج نہیں کی جو آپ کے مذہب کی وضاحت کرتی ہے.اور وہ یہ ہے:.”اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اول قسم کفریا دوسری قسم کفر کی نسبت اتمام حجت ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مؤاخذہ کے لائق ہوگا.اور جس پر خدا کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا اور وہ مکذب اور منکر ہے تو گوشریعت نے (جس کی بناء ظاہر پر ہے ) اس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اس کو باتباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں.مگر پھر بھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیت لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا قابل مواخذہ نہیں ہوگا.ہاں ہم اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ ہم اس کی

Page 366

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 344 حصہ دوم نسبت نجات کا حکم دیں.اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ہمیں اس میں دخل نہیں اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں.یہ علم محض خدا تعالیٰ کو ہے کہ اسکے نزدیک با وجود دلائل عقلیہ اور نقلیہ اور عمدہ تعلیم اور آسمانی نشانوں کے کس پر ابھی تک اتمام حجت نہیں ہوا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 186 ) اور حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 185 پر یہ لکھتے ہیں:.” بہر حال کسی کے کفر اور اس پر اتمام حجت کے بارے میں فرد فرد کا حال دریافت کرنا ہمارا کام نہیں ہے.یہ اس کا کام ہے جو عالم الغیب ہے ہم اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے نزدیک جس پر اتمام حجت ہو چکا ہے اور خدا کے نزدیک جو منکر ٹھہر چکا ہے وہ مؤاخذہ کے لائق ہوگا.صفحہ 179 اور صفحہ 180 کی ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک جہنمی صرف وہ کافر ہے جس پر اتمام حجت ہو چکا ہو.اور پھر آپ کو جھوٹا جانتا ہو.ورنہ اگر کسی شخص پر اتمام حجت نہیں ہوا اور وہ آپ کا مکذب اور منکر ہے.تو وہ قابل مواخذہ یعنی جہنمی نہیں ہو گا.دوسری عبارت میں جو یہ لکھا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہے.اس سے مُراد یہ ہے کہ وہ کامل مسلمان نہیں ہے.اس جگہ نفی علی الاطلاق مراد نہیں بلکہ نئی کمال مراد ہے.جس پر آپ کا الہام مسلماں را مسلماں باز کردند جو مسلمان کو پورا مسلمان کرنے کے ذکر پر مشتمل ہے.شاہد ناطق ہے.آپ کے اس الہام میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے منکرین مسلمانوں کا نام مسلمان ہی رکھا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا آپ کے خلفاء نے بھی آپ کا انکار کرنے والے مسلمانوں کو کہیں بھی غیر مسلم یا غیر مسلموں کی طرح کا فرقرار نہیں دیا.تریاق القلوب کی جو عبارت مولوی ابوالحسن صاحب ندوی نے پیش کی

Page 367

345 حصہ دوم احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک ہے.اس سے ان الفاظ کا منطوق کہ اپنے دعویٰ سے انکار کرنے والوں کو کافر کہنا یہ صرف اُن نبیوں کا کام ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لاتے ہیں.حقیقۃ الوحی کی پیش کردہ عبارت کی روشنی میں کا فرقتم اول ہے نہ کا فرقتم دوم اور مسیح موعود کا انکار کفر قسم اول قرار نہیں دیا گیا.کیونکہ آپ شریعت جدیدہ لانے والے نہیں.بلکہ کفر قسم دوم قرار دیا گیا ہے.اور ہمارے نزدیک کفر قسم دوم سے کلمہ گو مسلمان کا فرقتم اوّل یا غیر مسلم نہیں ہو جاتے.بلکہ ملت اسلامیہ کی ظاہری چاردیواری میں داخل ہی سمجھے جاتے ہیں.قسم دوم کی وجہ کفر پایا جانے کے باوجود ہم انہیں مسلمان ہی کہتے ہیں نہ غیر مسلموں کی طرح کا فر.صرف شریعت جدیدہ لانے والے انبیاء کا انکار ہی کفر قسم اول ہوگا.اس لئے یہی تریاق القلوب میں مراد ہے.کیونکہ مسیح موعود شریعت جدیدہ لانے والے نبی نہیں ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے.چونکہ آپ غیر تشریعی اُمتی نبی ہیں اس لئے آپ کا منکر مسلمانوں میں سے امتی کا فر ہوگا نہ کہ غیر مسلم.دونوں قسم کے کفر کو ایک قسم کا کفر اطلاق جنس کے لحاظ سے قرار دیا گیا ہے نہ حقیقت کے لحاظ سے.انواع میں دونوں قسم کے منکرین گفر میں ہم مسلم اور غیر مسلم کا فرق کریں گے.رہا باطن کا معاملہ سواسکی حقیقت اللہ ہی جانتا ہے.دونوں قسم کے کفر میں جس شخص پر اتمام حجت ہو چکا ہوگا وہ قابل مؤاخذہ ہوگا.اور جس پر اتمام حجت نہیں ہوا ہوگا وہ قابل مواخذہ نہیں ہوگا.اورا اتمام حجت کا علم بموجب قول حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کو ہے جو عالم الغیب ہے.پس فرد فرد کے جہنمی ہونے کا فتویٰ ہم نہیں دے سکتے.جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکذب اور منکر قرار پاچکا ہے خواہ غیر مسلم ہو یا مسلم ،منکر مسیح موعود ہی قابل مواخذہ ہوگا.یہ ہے مفہوم اس عبارت کا کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل

Page 368

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 346 حصہ دوم ہیں ورنہ حقیقت میں دو قسموں کا ایک قسم ہونا محال ہے.کیونکہ قِسْمین میں باہم تخالف اور تائین ہوتا ہے.پس جب حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ اپنے مکفرین اور مکذبین کو کا فرقتم اول قرار نہیں دیتے اور آپ کے نزدیک کا فرقتم اول وہ ہوتا ہے جو سرے سے اسلام کا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہو.پس مولوی ابوالحسن صاحب کا پیش کردہ نتیجہ سرا سر غلط ہے کہ مرزا صاحب شریعت مستقلہ لانے والے نبی ہیں.بالفرض مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کا مزعوم مسیح اگر آجائے تو اس کا منکر کا فر ہوگا یا نہیں؟ اور اس کے منکر کو اگر وہ کا فرقرار دیں تو کیا وہ شریعت مستقلہ لانے کا مدعی ہوگا اور قرآن مجید کے بعد وہ ایک نئی شریعت لانے والا نبی ہوگا؟ اگر نہیں تو فقہی طور پر آپ کو یہی کہنا پڑے گا کہ مسیح موعود کا منکر کا فر قسم دوم ہوگا نہ کا فرقتم اول تبھی ان کا مزعوم مسیح موعود شریعت جدیدہ لانے کے دعوی کے الزام سے بچ سکتا ہے.ایک اور نکتہ یا درکھنے کے قابل حقیقۃ الوحی کی عبارت میں دوسری قسم کا کا فر حقیقہ اس شخص کو قرار دیا گیا ہے جو باوجود اتمام حجت کے مسیح موعود کو جھوٹا جانتا ہو.کیونکہ آپ کے الفاظ یہ ہیں:.دوسرے یہ کفر کہ مثلاًہ وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو با وجود اتمامِ حجت کے جھوٹا جانتا ہے“.پس جس پر اتمام محبت نہ ہوا ہو.اس میں گفر قسم دوم کی وجہ عنداللہ نہیں پائی جائے گی.ہاں چونکہ شریعت کی بناء ظاہر پر ہے اور اتمام حجت کا علم محض خدا تعالیٰ کو ہے.اس لئے منکرین مسیح موعود مسلمانوں کے متعلق حجت پوری ہونے یا نہ ہونے

Page 369

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 347 حصہ دوم کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے.اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ فلاں شخص پر اتمام حجت نہیں ہوا.بلکہ ایسے لوگوں کو منکرین مسیح موعود کے زمرہ میں ہی شمار کیا جاسکتا ہے.ہاں جماعت احمد یہ ایسے مسلمانوں کو ہرگز غیر مسلموں کی طرح کا فرقتم اول نہیں جانتی اور جماعت احمدیہ کے کسی خلیفہ نے ایسے مسلمانوں کو جو منکر مسیح موعود ہوں کبھی غیر مسلم بھی قرار نہیں دیا.حضرت خلیفہ المسح الثانی رضی اللہ عنہ کا بیان جو آئینہ صداقت سے ابوالحسن صاحب نے نقل کیا ہے کہ : کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے.خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا.وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں.یہ آخری فقرہ بطور تغلیظ ہے اور مراد اس سے صرف یہ ہے کہ وہ حقیقت اسلام کو پانے سے محروم ہیں.ورنہ انہیں اس جگہ مسلمان ہی کہا گیا ہے جس پر کل مسلمان“ کے الفاظ شاہد ناطق ہیں.انہیں غیر مسلم قرار نہیں دیا گیا.آپ کا یہ فقرہ اس حدیث نبوی کے مفہوم میں ہے جس میں آنحضرت نے فرمایا:.مَنْ مَشَى مَعَ ظَالِمٍ لِيُقَوِّيَهُ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ.کہ جو ظالم کی تائید کے لئے کھڑا ہو وہ اسلام سے نکل گیا.اس سے یہی ہے کہ اس کا یہ فعل حقیقت اسلام سے عاری ہے نہ یہ کہ وہ غیر مسلم ہو جاتا ہے.تحقیقاتی کمیشن کے سامنے خلیفہ اسیح الثانی نے اس عبارت کی ایسی ہی تشریح کی تھی.کیونکہ آپ کا مذہب یہ ہے:." کافر کے ہم ہر گز یہ معنے نہیں لیتے کہ ایسا شخص جو کہتا ہو کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہوں اُسے کون کہہ سکتا ہے کہ تو انہیں نہیں

Page 370

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 348 حصہ دوم مانتا.یا کافر کے ہم ہرگز یہ معنے نہیں لیتے کہ ایسا شخص خدا تعالیٰ کا منکر ہوتا ہے.جب کوئی شخص کہتا ہو کہ میں خدا تعالیٰ کو مانتا ہوں.تو اسے کون کہہ سکتا ہے کہ تو خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا.ہمارے نزدیک اسلام کے اصول میں سے کسی اصل کا انکار کفر ہے جس کے بغیر کوئی شخص حقیقی طور پر مسلمان نہیں کہلا سکتا.ہمارا یہ عقیدہ ہر گز نہیں کہ کافر جہنمی ہوتا ہے.ہوسکتا ہے کہ ایک کافر ہو اور وہ جنتی ہو.مثلاً منکر ہے وہ ناواقفیت کی حالت میں ساری عمر رہا ہو.اور اس پر اتمام حجت نہ ہوئی ہو.پس گو ہم ایسے شخص کے متعلق یہی کہیں گے کہ وہ کا فر ہے مگر خدا تعالیٰ اُسے دوزخ میں نہیں ڈالے گا کیونکہ اسے حقیقی دین کا کچھ علم نہ تھا اور خدا ظالم نہیں کہ وہ بے قصور کو سزا دے“.خطبه جمعه فرمودہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ مندرجہ الفضل یکم مئی 1935 ، صفحہ 8 کالم نمبر 3) مولوی ابوالحسن صاحب نے احمدی کے غیر احمدی کولڑ کی نہ دینے کا معاملہ اور غیر احمدی کے پیچھے نماز کی ممانعت کا معاملہ اور غیر احمدی کے جنازے کا معاملہ بھی پیش کیا ہے.مگر ان معاملات میں جماعت کی یہ کارروائی جوابی ہے.جو دراصل غیر احمدی علماء کے فتاویٰ کفریہ کا رد عمل ہے جن میں احمدیوں سے مناکحت حرام.احمدیوں کو امام بنانا حرام قرار دیا گیا.ان کے جنازے پڑھنے کی ممانعت کی گئی ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے فتویٰ تکفیر میں ہرگز ابتداء نہیں کی اور نہ باقی فتاویٰ میں ابتداء کی ہے.آپ حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں:.پھر اس جھوٹ کو تو دیکھو کہ ہمارے ذمہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم نے نہیں کروڑ مسلمان اور کلمہ گوکو کافر ٹھہرایا.حالانکہ ہماری طرف سے تکفیر میں کوئی سبقت نہیں ہوئی.خود ہی اُن کے علماء نے ہم پر کفر کے فتوے لکھے اور تمام پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں اور نادان لوگ

Page 371

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 349 حصہ دوم ان فتووں سے ایسے ہم سے متنفر ہو گئے کہ ہم سے سیدھے منہ سے کوئی نرم بات کرنا بھی اُن کے نزدیک گناہ ہو گیا.کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا.اگر کوئی ایسا کاغذ ، یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتوائے کفر سے پہلے شائع ہوا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہو تو وہ پیش کریں.ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹھہرا دیں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاویں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے.اس قدر خیانت اور جھوٹ اور خلاف واقعہ تہمت کس قدر دل آزار ہے.ہر ایک عظمند سوچ سکتا ہے.اور پھر جبکہ ہمیں اپنے فتووں کے ذریعے سے کافر ٹھہر اچھکے اور آپ ہی اس بات کے قائل بھی ہو گئے کہ جو شخص مسلمان کو کافر کہے تو گفر الٹ کر اُسی پر پڑتا ہے.تو اس صورت میں کیا ہمارا حق نہ تھا کہ بموجب انہی کے اقرار کے ہم ان کو کافر کہتے“.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 123-124 ) پس کفر کے فتووں میں نماز اور مناکحت اور جنازہ وغیرہ کے فتووں میں تقدیم ( پہل ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے نہیں ہوئی.آپ کے فتاوی جوابی ہیں اور وہ بھی قرآن مجید کی آیت جَزَ و سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا کی روشنی میں نہ کسی شریعت جدیدہ کے ماتحت.لہذا آپ پر شریعت مستقلہ کا الزام سراسر دروغ بے فروغ ہے.بالآخر یہ عرض ہے کہ باوجود مسلمان علماء کے جماعت احمدیہ پر کفر کا فتویٰ لگانے کے ہم انہیں ملتِ اسلامیہ کے افراد ہی جانتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہمارے پیارے آقا ومولا سیدالانبیاء فخر المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم

Page 372

ندی علیمی پاکٹ بک 350 حصہ دوم کے نام لیوا ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرماتے ہیں:.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کاخر کنند دعواي حُبّ پیمبرم درشین فارسی صفحه 107 مطبوعه نظارت اشاعت ربوہ )

Page 373

یتعلیمی پاکٹ بک 351 حصہ دوم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت کے دعوا می کا الزام دعوی مخالفین کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الزام کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہونے کا دعویٰ کیا ایک سراسر بے بنیادالزام ہے.جو اس لئے دیا جاتا ہے کہ لوگوں کے دل میں آپ کے لئے نفرت کا جذبہ پیدا کر کے انہیں احمدیت کو قبول کرنے سے باز رکھا جائے ورنہ حضرت بانی سلسلہ احمد یہ تو اپنے تئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خادم ہی جانتے ہیں اور آپ کو جو برکات بھی حاصل ہیں ان کے متعلق آپ کو یہ الہام ہوا تھا:.كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّم تذکرہ صفحہ 35 ایڈیشن 2004ء) ترجمہ :.یہ تو تمام برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے پس بہت برکت والا ہے جس نے اس بندہ کو تعلیم دی (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) اور بہت برکت والا ہے جس نے تعلیم پائی.( یعنی مسیح موعود ) نیز تحریر فرماتے ہیں:.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 99) پس میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو

Page 374

352 حصہ دوم احمدیہ علیمی پاکٹ بک دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا.اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مراد ہیں اس کی زندگی میں اس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے.وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے.کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے.اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے.جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم از لی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے پائی.اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں ، اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے.اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 118-119) اسی جگہ حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں :.یہ عجیب بات ہے کہ دنیا ختم ہونے کو ہے مگر اس کامل نبی کے فیضان کی شعاعیں اب تک ختم نہیں ہوئیں اگر خدا کا کلام قرآن شریف مانع نہ ہوتا تو فقط یہی نبی تھا جس کی نسبت ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اب تک مع جسم عنصری زندہ آسمان پر موجود ہے.کیونکہ ہم اس کی زندگی کے صریح آثار پاتے ہیں.اس کا دین زندہ ہے.اس کی پیروی کرنے والا زندہ ہو جاتا ہے

Page 375

353 حصہ دوم احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک اور اس کے ذریعہ سے زندہ خدا مل جاتا ہے.ہم نے دیکھ لیا ہے کہ خدا اس سے اور اس کے دین سے اور اس کے محبت سے محبت کرتا ہے.اور یادر ہے کہ در حقیت وہ زندہ ہے اور آسمان پر سب سے اس کا مقام برتر ہے.لیکن یہ جسم عصری جو فانی ہے یہ نہیں ہے بلکہ ایک اور نورانی جسم کے ساتھ جو لا زوال ہے اپنے خدائے مقتدر کے پاس آسمان پر ہے.“ 66 (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 118-119 حاشیہ ) اسی طرح آپ اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت فرماتے ہیں:.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سوتم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو.اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یا درکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی.بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے.اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہء تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھا.کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی سلسلہ کے

Page 376

یتعلیمی پاکٹ بک 354 حصہ دوم تھا.لئے ایک مسیج روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13-14) سُرمہ چشم آریہ میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفسی نقطہ کو کائنات کے ظہور کی علت غائی قرار دیا ہے.تعجب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام انبیاء پر فضیلت کے بارہ میں ان حوالہ جات کی موجودگی میں معترضین آپ کی بعض عبارتوں کو غلط معنی دے کر آپ کے خلاف یہ نا جائز پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہونے کا دعوی کیا ہے حالانکہ آپ یہ بھی فرما چکے ہیں :.اوّل:.وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے سب پاک ہیں پیمبراک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے جن عبارات سے مخالفین غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین ہزار مجزے ظہور میں آئے.تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 153) دوم اُس نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں.(تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 503) ان ہر دو عبارتوں سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ مرزا صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تو تین ہزار مجزات تسلیم کرتے ہیں اور اپنے تین لاکھ تک قرار دیتے ہیں.

Page 377

ندی تعلیمی پاکٹ بک 355 حصہ دوم الجواب: معجزہ اور نشان میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے.یعنی ہر معجزہ نشان تو ہوتا ہے مگر ہر نشان معجز نہیں کہلا سکتا پس ایک معجزہ کئی نشانوں پر مشتمل ہوسکتا ہے مگر ایک نشان کئی معجزوں پر مشتمل نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.ایک جلسہ کرو اور ہمارے معجزات اور پیشگوئیاں سنو.اور ہمارے گواہوں کی شہادت رؤیت جوحلفی شہادت ہوگی قلم بند کرتے جاؤ اور پھر اگر آپ کے لئے ممکن ہو تو باستثناء ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں کسی نبی یا ولی کے معجزات کو ان کے مقابل پیش کرو.(نزول المسيح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 462) پھر آپ تحریر فرماتے ہیں:.اس نے میرا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے اس قدر معجزات دکھائے ہیں کہ بہت ہی کم نبی ایسے آئے ہیں کہ جنہوں نے اس قدر معجزات دکھائے ہوں.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اس قدر معجزات کا دریا رواں کر دیا ہے کہ باستثناء ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی تمام انبیاء علیہم السلام میں ان کا ثبوت اس کثرت کے ساتھ قطعی اور یقینی طور پر محال ہے.تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 547) مندرجہ بالا دونوں حوالوں سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل میں اپنے معجزات کم قرار دے رہے ہیں.جس پر ” باستثناء ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ دونوں حوالوں میں شاہد ناطق ہیں.ایک اور عبارت ملاحظ ہو.آپ تحریر فرماتے ہیں:.و کسی نبی سے اس قدر معجزات ظاہر نہیں ہوئے جس قدر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیونکہ پہلے نبیوں کے معجزات ان کے مرنے کے ساتھ

Page 378

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 356 حصہ دوم ہی مر گئے.مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اب تک ظہور میں آرہے ہیں.اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گئے.( تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 468-469) نوٹ:.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تین ہزار معجزات کا ذکر تحفہ گولڑویہ میں اُن معجزات سے تعلق رکھتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ظاہر ہوئے.ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا تو ایک دریا رواں ہے جس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا.اس لحاظ سے آپ کے معجزات شمار سے باہر ہیں.اب رہ گئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات سو آپ ان کے متعلق بھی تحریر فرماتے ہیں:.” جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے، دراصل وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہیں.تمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 469) پس افضیلت کا الزام معجزات کی بناء پر سراسر جھوٹا الزام ہے.تحفہ گولڑویہ میں جن تین ہزار معجزات کا ذکر آیا ہے ان سے مراد صرف وہ معجزات ہیں جو صحابہ کرام کی شہادتوں سے ثابت ہیں.ملاحظہ ہو تصدیق النبی صفحہ 20.فرماتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تو چاروں طرف سے چمک رہے ہیں.کیونکر چھپ سکتے ہیں.صرف وہ معجزات جو صحابہ کی شہادتوں سے ثابت ہیں وہ تین ہزار معجزہ ہے اور پیشگوئیاں تو دس ہزار سے بھی زیادہ ہوں گی جو اپنے وقتوں پر پوری ہوتی جاتی ہیں.“ اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں معجزات

Page 379

357 حصہ دوم احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک کے علاوہ ہیں.پھر جب ان معجزات اور پیشگوئیوں کی تصدیق کرنے والوں کا شمار کیا جائے تو ہر ایک مصدق ان پیشگوئیوں اور معجزات کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک نشان ہے.اور ہمارے زمانہ میں بھی جو لوگ آپ کے معجزات اور پیشگوئیوں کے مصدق ہیں اور قیامت تک مصدقین پیدا ہوتے چلے جائیں گے وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا نشان ہیں.پس آپ کے نشانوں کی تو کوئی حد بسط ہی نہیں ہوسکتی.وہ تو شمار سے باہر ہیں.خود قرآن کریم ہی ایک ایسا معجزہ ہے جس کو کروڑوں آدمی قبول کر کے اس کی صداقت کی گواہی دیتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور رسالت کے ثبوت میں درحقیقت گواہ ہیں اور وہ کروڑوں انسان نشانوں کی حیثیت رکھتے ہیں.اسی طرح مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر جو نشان ظاہر ہورہے ہیں یہ بھی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی افاضہ ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.یہ سہولت کامل ( نشر واشاعت کی) پہلے کسی نبی یا رسول کو ہرگز نہیں ہوئی.مگر ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم اس سے باہر ہیں.کیونکہ جو کچھ مجھے دیا گیا وہ انہیں کا ہے.( نزول مسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 401 حاشیہ ) حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ بھی تحریر فرماتے ہیں :.کرامات اولیاء سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہیں.( کشف المجوب مترجم اردو.باب 14 - فرق معجزات و کرامات صفحہ 257 شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز علی پریس) دو گرہن : معترض کہتا ہے کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک نشان گرہن کا ظاہر ہوا تھا.اور میرے لئے دونشان گرہن کے ظاہر ہوئے.چنانچہ ان کا شعر ہے:.

Page 380

358 لَهُ خَسَفَ الْقَمَرُ الْمُنِيرُوَ إِنَّ لِى غَسَا الْقَمَرَانِ المُشْرِقَانِ أَتُنْكَرُ حصہ دوم اس شعر سے یہ نتیجہ نکالنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل قرار دیتے ہیں سراسر نادانی ہے.کیونکہ مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جو چاند اور سورج کو گرہن لگا.یہ اگر چہ امام مہدی کے ظہور کی تصدیق کے لئے لگا.مگر دراصل یہ دونوں گرہن حدیث دار قطنی کی ایک پیشگوئی کی بناء پر ہیں.پس وہ پیشگوئی جو عظیم الشان دو نشانوں پر مشتمل تھی.اس کا ظہور گوامام مہدی کے دعوئی کی صداقت کی دلیل ہے مگر ساتھ ہی یہ دونوں گرہن در حقیقت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے بھی متین نشان ہیں اس طرح حضرت امام مہدی کی صداقت کے لئے دو آسمانی نشان ظاہر ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر تین آسمانی نشان گواہ ہو گئے.اب بتاؤ پلہ کدھر بھاری رہا؟ نوٹ:.یادر ہے کہ خسف کا لفظ خسوف یعنی گرہن کے معنوں میں بھی آتا ہے اور کسی گرے کی زمین کے پھٹ کر ھنس جانے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خسف القمر کے نشان سے مراد شق القمر کے معجزہ کا ظہور ہے.قرآن مجید میں گرہ ارضی کے متعلق آیا ہے کہ فرعون کے زمانہ میں قارون کا گھر خسف ارض سے زمین میں ھنس گیا.جیسا کہ فرماتا ہے:.فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ - (القمر: 81) اس سلسلہ میں مولوی ابوالحسن صاحب ندوی نے اپنی کتاب ” قادیانیت“ میں بحوالہ خطبہ الہامیہ یہ بیان کیا ہے کہ مرزا صاحب کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتیں تھیں.بعثت اول آدم سے پانچویں ہزار میں ہوئی اور دوسری بعثت مسیح موعود کی بروزی صورت اختیار کر کے چھٹے ہزار کے آخر میں ہوئی اور ایک

Page 381

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 359 حصہ دوم عبارت کی بناء پر یہ خیال آپ کی طرف منسوب کیا ہے کہ کمالات نبوت اور کمالات روحانیت نے زمانہ کے ساتھ ساتھ ترقی کی ہے اور ان کا ظہور ان کی ذات میں ہوا ہے.جس عبارت سے وہ یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے:.اسی طرح ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے پانچویں ہزار میں اجمالی صفات کے ساتھ ظہور فرمایا اور وہ زمانہ اس روحانیت کی ترقی کا منتہی نہ تھا.بلکہ اس کے کمالات کے معراج کے لئے پہلا قدم تھا.پھر اسی روحانیت نے چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی اس وقت پوری طرح سے تجلی فرمائی.جیسا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں احسن الخالقین خدا کے اذن سے پیدا ہوا اور خیر الرسل کی روحانیت نے اپنے ظہور کے کمال کے لئے اور اپنے نور کے غلبہ کے لئے ایک مظہر اختیار کیا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کتاب مبین میں وعدہ فرمایا ہے.پس میں وہی مظہر ہوں اور وہی نور معہود ہوں.اس عبارت کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے کہ مسیح موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کے کامل ظہور کے لئے اور آپ کے نور کے دنیا میں غالب کرنے کے لئے ایک مظہر کی حیثیت دی ہے.یعنی یہ ظاہر کیا ہے کہ آپ کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کے اہل کا دنیا پر کامل ظہور ہوگا اور آپ کے نور کا انتشار غالب آئے گا.یہ روحانیت دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان ہوئی ہے.اور مسیح موعود کو اس روحانیت اور نورانیت کے انتشار کے لئے بطور مظہر ایک در میانی واسطہ کی حیثیت دی گئی ہے.پس روحانیت اور نور تو اصل کا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کامل روحانیت اور نور کے انتشار کے لئے محض ایک آلے اور خادم کی حیثیت رکھتے

Page 382

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 360 حصہ دوم ہیں.کیونکہ ظل اپنے اصل سے کمالات میں بڑھ نہیں سکتا اور مقام ظلیت میں اسے جو کچھ بھی حاصل ہوتا ہے وہ اپنے اصل سے مستفاض ومكتسب ہوتا ہے.خطبہ الہامیہ کا یہ مضمون سورۃ صف کی آیت سے وَاللهُ مُتِمُّ نُورِہ اور آیت لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّم پہلی آیت میں نور نبوی یعنی روحانیت کے انتشار کا اتمام مقصود ہے اور دوسری میں نور ہدایت کے ادیان پر غلبہ کا ذکر ہے جو مفسرین کے بیان کے مطابق مسیح موعود کے ذریعہ ہونے والا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ہے.حضرت مسیح موعود اشتہار ایک غلطی کے ازالہ میں تحریر فرماتے ہیں:.مورد بروز حکم نفی وجود کا رکھتا ہے.“ 66 یعنی کمالات کے ظہور میں مورد بروزنی ذات منفی ہوتی ہے اور معدوم محض ہوتی ہے.کیونکہ وہ فانی فی الاصل ہو کر اپنے اصل کے کمالات کے ظہور کے لئے آئینہ بن جاتا ہے.اس کے کمالات ذاتی نہیں ہوتے بلکہ اس سے جو کمالات ظاہر ہوتے ہیں ان کا مرجع حقیقت میں اصل ہی ہوتا ہے جس کا وہ مورد بروز بروز ہوتا ہے.پس مورد بروز زیادہ سے زیادہ آئینے کی طرح اصل کے کمالات ظاہر کرنے کے لئے ایک آلے کی حیثیت رکھتا ہے اور کمالات کے ظہور میں اس کا وجود منفی سمجھا جانا چاہیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتیں تو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغۃ جلد اوّل کے باب ” حقيقة النبوة و خواصها “ میں بھی تسلیم کی ہیں چنانچہ فرماتے ہیں:.وَأَعْظَمُ الْأَنْبِيَاءِ شَانًا مَنْ لَهُ نَوْعٌ آخَرَ مِنَ الْبَعْثِ شَــانــامَـنْ أَيْضًا وَ ذَلِكَ أَنْ يَكُونَ مُرَادُ اللَّهِ تَعَالَى فِيْهِ سَبَبًا لِخُروج النَّاسِ مِنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّورِوَانُ يَكُونَ قَوْمُهُ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ فَيَكُونُ بَعْتُهُ يَتَناوَلُ بَعْثًا آخَرَ ،

Page 383

361 حصہ دوم ترجمہ :.شان میں سب سے بڑا نبی وہ ہے جس کی ایک دوسری قسم کی بعثت بھی ہو.اور وہ اس طرح ہے کہ مراد اللہ تعالیٰ کی دوسری بعثت میں یہ ہے کہ وہ تمام لوگوں کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لانے کا سبب ہو.اور اس کی قوم خیر امت ہو جو تمام لوگوں کے لئے نکالی گئی ہو.لہذا اس نبی کی پہلی بعثت دوسری 66 بعثت کو بھی لئے ہوئے ہوگی.“ اور امت سے جو کمالات ظاہر ہوتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ ثانیہ ہی کا مقصود ہیں.گویا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی روحانیت کا انتشار ہوتا ہے اور مسیح موعود کی شان میں وہ فرماتے ہیں.يَزْعَمُ الْعَامَّةُ أَنَّهُ إِذَا نَزَلَ فِي الْأَرْضِ كَانَ وَاحِدًا مِنَ الْأُمَّةِ كَلَّا بَلْ هُوَ شَرُحٌ لِلاِسْمِ الْجَامِعِ الْمُحَمَّدِي وَنُسُخَةٌ مُنتَسِخَةٌ مِّنْهُ فَشَتَّانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحَدٍ مِّنَ الْأُمَّةِ (الخير الكثير صفحه 72 مطبوعه بجنور مدینہ پریس) ترجمہ :.عوام کا خیال ہے کہ مسیح جب زمین کی طرف نازل ہوگا تو وہ صرف ایک امتی ہوگا.ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح ہو گا ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل ظلت اور بروز ہوگا ) اور آپ ہی کا دوسرا نسخہ ہوگا.جو آپ کے فیض سے مکتب ہوگا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی بعثت ثانیہ ہوگا.پھر آپ اسی جگہ فرماتے ہیں :.حقِّ لَّهُ أَنْ يُنْعَكِسَ فِيهِ اَنْوَارُ سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ کہ مسیح موعود کا حق ہوگا کہ اس میں سید المرسلین کے انوار منعکس ہوں.اس سے ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک مسیح موعود کی حیثیت آئینہ کی طرح ہے

Page 384

362 حصہ دوم احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک جس کے کمالات ذاتی نہیں ہوں گے بلکہ انعکاسی ہوں گے.اور ان کمالات کا مرجع دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں گے.سورج کا انعکاس کرنے والے آلات کو سورج کے مخالف یا اس سے افضل قرار دینا نادانی ہے.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جامع جمیع کمالات انبیاء تھے.اور مسیح موعود حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے بیان کے مطابق ان کے اسم جامع محمدی کی پوری شرح ہے.اس لئے اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ کہے:.آنچه داد است ہرنبی را جام داد آن جام را مرا بتمام انبیاء گرچه بوده اند بسے من بعرفاں نہ کم تر زکے 2 آدمم نیز احمد مختار در برم جامہ ہمہ ابرار اس کے باوجود وہ یہ فرماتے ہیں:.لیک آئینه ام زرب غنی از پیئے صورت مدنی کہ میں رب غنی کی طرف سے ماہِ مدنی کے سامنے ایک آئینہ کی حیثیت رکھتا ہوں.افسوس ہے کہ مولوی ابوالحسن صاحب ندوی نے اپنی کتاب قادیانیت میں اس شعر کو عمد اچھپایا ہے.پس انعکاسی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ ہونے کی وجہ سے مسیح موعود کا حق تھا کہ وہ کہتا زنده شد ہر نبی بآمدنم ہر رسولے نہاں پیراہنم

Page 385

ندی تعلیمی پاکٹ بک 363 اور اسے حق تھا کہ یہ اعلان کرتا :.روضہء آدم کہ تھاوہ نامکمل اب تلک میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ وبار حصہ دوم کیونکہ مسیح موعود کی آمد اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے مقدر تھی اور یہ نشاۃ اس غایت درجہ کو پہنچنے والی ہے کہ تمام ملتیں ہلاک ہو جائیں اور اسلام دنیا میں غالب آجائے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.يُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَام“ کہ اللہ تعالیٰ اس کے زمانے میں سب ملتوں کو بجر اسلام کے ہلاک کر دے گا.دلائل کے ساتھ تو ملل باطلہ کی ہلاکت ہو چکی حسب آیت :.لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيْنَةٍ - (الانفال : 43) اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت اور نور کے انتشار کے ذریعہ جو مسیح موعود کی جماعت کے ہاتھوں اکناف عالم میں ہور ہے انشاء اللہ اسلام ظاہری طور پر بھی غالب آجائے گا اور روضہء آدم کی تکمیل ہو جائے گی.اس جگہ ایک لطیف نکتے کا یا درکھنا ضروری ہے.خطبہ الہامیہ کے اقتباس میں یہ لکھا ہے کہ پانچویں ہزار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجمالی صفات کے ساتھ ظہور ہوا.اور اس کی تکمیل اور تجلی چھٹے ہزار میں علی وجہ الکمال مقدر تھی.جس کے یہ معنی ہیں کہ یہ تکمیل اجمالی کمالات کے کامل انتشار اور تجلیات کے لحاظ سے ہے جیسے اللہ تعالیٰ کو ساری کائنات کا اجمالی علم حاصل ہے لیکن واقعات کے ظہور پر اس اجمال کی تفصیل ہو جاتی ہے.پس اس تکمیل نور اور روحانیت کا مرجع خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں نہ کہ مرزا غلام احمد کا وجود.

Page 386

ندی علیمی پاکٹ بک 364 حصہ دوم مرزا غلام احمد مسیح موعود ہو کر صرف ان اجمالی کمالات آنحضرت کی تجلیات سے متجلی ہو کر جو آنحضرت کے وجود میں کمال تام حاصل کر چکی ہیں بمنزلہ آلہ کے ہیں.اس میں کیا شک ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقیات روحانیہ غیر محدود ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات لا زوال ، غیر محدود اور ابدی ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ سے آنحضرت پر فیوض الہیہ کا نزول بھی لازوال اور ابدی ہے اور آپ اپنی شان میں ہر آن بڑھ رہے ہیں.اگر آپ نے ایک مقام پر منجمد ہوکر رہ جانا ہوتا.تو پھر درود شریف کی اُمت کو تلقین کیوں کی جاتی کہ اے اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی خاص رحمتیں نازل کرتارہ اور آپ کو سلامتی پر سلامتی عطا کرتا جا.اگر دینا دلانا کچھ نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے درود شریف کا سکھانا ایک عبث فعل ہوتا.پس سچی بات یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کمالات میں ہر آن ترقی کر رہے ہیں.اور اس ترقی کی کوئی انتہا نہیں.بلکہ ہر آنے والے زمانہ میں خدا تعالیٰ سے فیوض حاصل کرنے کی وجہ سے آپ کی روحانیت ہمیشہ ترقی پاتی رہے گی.اور اس کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا.اولیاء امت نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ حقیقت محمدیہ ترقی پذیر رہے گی.چنانچہ مجد دالف ثانی تحریر فرماتے ہیں:.فقیر در رساله مبدء و معادنوشته است که حقیقت محمدی از مقام خود عروج نموده بمقام حقیقت کعبه که فوق اوست رسیده ممند گردد و حقیقت محمدی حقیقت احمدی نام یابد.آں حقیقت کعبہ ظل از اظلال این حقیقت بوده.(مکتوبات امام ربانی) ترجمہ :.فقیر نے اپنے رسالہ مبدء ومعاد میں لکھا ہے کہ حقیقت محمدی اپنے مقام سے حقیقت کعبہ کے مقام کی طرف عروج اختیار کر کے پہنچے گی جو اس سے بالا ہے.اور اُس وقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمدی ہوگا.اور حقیقت کعبہ حقیقت محمدی کے اظلال میں سے ایک ہے.

Page 387

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 365 حصہ دوم اور یہ امر امام مہدی کے لئے تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ بعض انبیاء سے بھی افضل ہوگا.چنانچہ ابن سیرین فرماتے ہیں:.قَالَ يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ خَلِيفَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ قِيْلَ خَيْرٌ مِنْهُمَا قَالَ قَدْ كَادَ يَفْضُلُ عَلَى بَعْضِ الْآنَبِيَاءِ“ حجج الكرامة صفحه 386 ) ترجمہ : ” کہا کہ اس امت میں ایک خلیفہ ہوگا جو حضرت ابو بکر و عمر سے بہتر ہوگا.کہا گیا کیا ان دونوں سے بہتر ہوگا.تو انہوں نے فرمایا کہ قریب ہے کہ وہ بعض انبیاء سے بھی افضل ہو.“ اور امام مہدی کے متعلق شرح فصوص الحکم میں لکھا ہے :.الْمَهْدِيُّ الَّذِي يَجِيءُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَإِنَّهُ يَكُونُ فِي الْأَحْكَامِ الشَّرِيعَةِ تَابِعًا لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْمَعَارِفِ وَالْعُلُومِ وَالْحَقِيقَةِ تَكُونُ جَمِيعُ الْأَنْبِيَاءِ وَالْاَوْلِيَاءِ تَابِعِينَ لَهُ كُلُّهُمْ وَلَا يُنَاقِضُ مَا ذَكَرْنَاهُ لِأَنَّ بَاطِنَهُ بَاطِنُ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلام (شرح فصوص الحکم مصری صفحه (35) ترجمہ:.آخری زمانہ میں جو الامام المهدی آئے گاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے احکام کا تابع ہوگا.اور معارف و علوم اور حقیقت میں تمام انبیاء اور اولیاء اس کے تابع ہوں گے.اور یہ بات ہمارے مذکورہ بیان کے نقیض نہیں.کیونکہ امام مہدی کا باطن محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی باطن ہوگا.بعض لوگ قاضی اکمل صاحب کا شعر پیش کرتے ہیں :.محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں

Page 388

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 366 حصہ دوم کیونکہ اس شعر سے فی الواقعہ غلط نہی ہوسکتی ہے.اس لئے میں نے یہ شعر حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اگست 1934ء میں پیش کیا.اور نیز ڈاکٹر شاہ نواز صاحب کی ایک عبارت بھی پیش کی جو میرے نزدیک قابلِ اعتراض تھی.اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اس شعر کی نسبت تحریر فرمایا:.ایسے لفظ پھر بھی ناپسندیدہ اور بے ادبی کے ہیں.اور ڈاکٹر صاحب کے الفاظ کو بھی حضور نے نا پسندیدہ اور نامناسب قرار دیا.(دیکھو الفضل 19 اگست 1934 ، صفحہ 5 کالم نمبر (1-2) پھر میں نے قاضی اکمل سے اس شعر کا مطلب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میری مراد یہ ہے کہ مسیح موعود باقی مجددین امت سے بڑھ کر ہیں اور یہ ہر ایک مجدد اپنے زمانہ میں بروز محمد تھا.گالیوں کا الزام اعتراض :.مرزا صاحب نے اپنے مخالفوں کو گالیاں دیں.چنانچہ آ کمالات اسلام میں لکھا ہے:."كُلُّ مُسْلِمٍ....يَقْبِلُنِي وَيُصَدِّقُ دَعْوَتِي إِلَّا ذُرِّيَّةَ الْبَغَايَا “ نیز لکھا ہے:.إِنَّ الْعِدَا صَارُوا خَنَازِيرَ الْفَلَا وَنِسَاتُهُمْ مِنْ دُونِهِنَّ الَا كُلَبُ ( نجم الحدی)

Page 389

ند یتعلیمی پاکٹ بک 367 حصہ دوم پہلی عبارت میں مخالفین کو ذرية البغایا یعنی کنجریوں کی اولا د کہا ہے.اور دوسری عبارت میں اپنے مخالفین کو سور اور ان کی عورتوں کو کتیوں سے بدتر کہا ہے؟ الجواب:.(الف) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 547-548 کی عبارت میں دراصل ایک پیشگوئی ہے.ترجمہ اس کا یہ ہے کہ سارے مسلمان مجھے قبول کر لیں گے.سوائے ذریۃ البغایا کے“.جیسا کہ حدیث میں وارد ہے کہ لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى أَشْرَارِ النَّاسِ “ یعنی قیامت صرف شریر لوگوں پر ہی قائم ہوگی.گویا نیک لوگ اس سے پہلے اُٹھا لیے جائیں گے.جب آپ نے یہ فقرہ لکھا.اس وقت بہت تھوڑے مسلمانوں نے آپ کو قبول کیا تھا.اور یہ امراس بات پر قرینہ حالیہ ہے کہ اس فقرہ کا تعلق کسی آئندہ زمانہ سے ہے جب کہ ایسا کوئی مسلمان نہ رہے گا جس نے آپ کو قبول نہ کیا ہو.اور آپ کا مصدق نہ ہو.وہ وقت آتا ہے کہ جب آپ کا غیر مصدق کوئی مسلمان نہیں ہوگا.بلکہ غیر مسلموں میں سے جو لوگ سرکش طبیعت کے مالک ہیں وہی آپ کے مکذب ہوں گے.پس الا کا استثناء اس جگہ بطور استثناء منقطع کے ہے.یعنی یہ ظاہر کرنے کے لئے ہے کہ ذریۃ البغایا وہ غیر مسلم ہوں گے جنہوں نے آپ کو قبول نہیں کیا ہوگا نہ کہ مسلمان.پس اس عبارت کو خواہ مخواہ اس زمانہ کے مسلمانوں کے متعلق سمجھنا جنہوں نے آپ کو قبول نہیں کیا قرینہ حالیہ کے خلاف ہے.کیونکہ عبارت میں "كُلُّ مُسلِم “ کا لفظ بتاتا ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں رہے گا.جس نے آپ کو قبول نہ کیا ہو.الا کے استثناء منقطع ہونے کی مثال قرآن مجید میں بھی موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَسَجَدَ الْمَلَيْكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُوْنَ إِلَّا إِبْلِيسَ “ کہ تمام ملائکہ نے آدم کی خاطر سجدہ کیا سوائے ابلیس کے.اس جگہ الا کا لفظ استثناء منقطع کے لئے ہے.

Page 390

368 حصہ دوم کیونکہ ابلیس ملائکہ میں سے نہ تھا اس کے متعلق دوسری جگہ صاف لکھا ہے:.كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ - (الكهف: 51) کہ وہ جنوں میں سے تھا.پس اُس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی.ذُريّة البـغـايـا “ کا لفظ اس فقرہ میں اپنے حقیقی معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے.اور قرینہ لفظیہ اس پر اگلا فقرہ الَّذِينَ خَتَمَ اللهُ عَلى قُلُوبِهِمُ “ ہے کہ ذرية البغایا سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جن کے دلوں پر مُہر لگ چکی ہو.اور قرینہ حالیہ یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ منکر مامورین کا نسب ضرور گندا ہو.پس اس جگہ روحانی طور پر ذُرّيّة البغایا مراد ہیں نہ کہ جسمانی طور پر.اور روحانی طور پر ذُريّة البغایا سے مراد ایسے سرکش لوگ ہوتے ہیں جن کا ایمان نہ لانا مقدر ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے ایک مخالف کو مخاطب کرتے ہوئے نظم میں کہا:.اذَ يُتَنِي حُبُثًا فَلَسْتُ بِصَادِقٍ اِنْ لَمْ تَمُتُ بِالْخِزْيِ يَابْنَ بِغَاءِ اور خود اس کا ترجمہ یہ لکھتے ہیں (انجام آتھم میں اس شعر کا ترجمہ مولوی عبدالکریم صاحب نے لفظی کر دیا ہے.مگر مراد وہی ہوسکتا ہے جو ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود کیا ہے:.خباثت سے تو نے مجھے ایذاء دی ہے.پس اگر تو اب رسوائی سے ہلاک نہ ہوا تو میں اپنے دعوی میں سچا نہ ٹھہروں گا.اے سرکش انسان.الحکام جلد 11 نمبر 7 مورخہ 24 فروری 1907 ، صفحہ 12 کالم نمبر 2) جس طرح ابن بغایا سے مراد کنجری کا بیٹا نہیں اسی طرح ذرية البغایا سے

Page 391

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 369 حصہ دوم مراد کنجریوں کی اولاد نہیں کیونکہ محل مجازی استعمال کا ہے.جیسے حضرت امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:.مَنْ شَهِدَ عَلَيْهَا بِالزِّنَاءِ فَهُوَوَلَدُ الزِّنَاءِ ( کتاب الوصیت مطبوعہ حیدرآباد صفحه 39) کہ جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر زنا کی تہمت لگائے وہ ولد الزنا یعنی حرام زادہ ہے.اس جگہ یہ الفاظ بھی بطور مجاز کے ہیں یعنی وہ شخص روحانیت سے محروم ہے.فرزند اسلام نہیں.ذرية البغایا کے الفاظ انہیں معنوں میں حضرت امام ابو جعفر علیہ السلام نے استعمال فرمائے ہیں.چنانچہ ابوحمزہ سے مروی ہے:.عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَالَ قُلْتُ لَهُ إِنَّ بَعْضَ أَصْحَابِنَا يَفْتَرُونَ وَيَقْذِفُونَ مَنْ خَالَفَهُمْ فَقَالَ الْكَقُ عَنْهُمْ اَجْمَلُ ثُمَّ قَالَ وَاللهِ يَا اَبَا حَمْزَةَ! إِنَّ النَّاسَ كُلُّهُمْ اَوْلَادُ بَغَايَا مَا خَلَا شِيعَتِنَا “ (فروع كافى جلد 3 كتاب الروضة صفحه 135 مطبوعہ نول کشور ) ابوحمزہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت باقر علیہ السلام سے کہا کہ بعض لوگ اپنے مخالفین پر افتراء باندھتے اور بہتان لگاتے ہیں.آپ نے فرمایا ایسے لوگوں سے بچ کر رہنا اچھا ہے.پھر آپ نے فرمایا.اے ابوحمزہ ! خدا کی قسم ہمارے گروہ کے سوا باقی تمام لوگ اولاد بغایا ہیں.مراد یہ ہے کہ دشمنانِ اہلِ بیت سرکش ہیں.اخبار مجاہد لا ہور 3 مارچ 1936ء میں لکھا گیا تھا کہ:./ / ولد البغایا ، ابن الحرام اور ولد الحرام ، ابن الحلال بنت الحلال

Page 392

ندی علیمی پاکٹ بک 370 حصہ دوم وغیرہ.یہ سب عرب کا اور ساری دنیا کا محاورہ ہے جو شخص نیکوکاری کو ترک کر کے بدکاری کی طرف جاتا ہے اس کو باوجود یکہ اس کا حسب ونسب درست ہو.صرف اعمال کی وجہ سے ابن الحرام ولد الحرام کہتے ہیں.اس کے خلاف جو نیک کار ہوتے ہیں.ان کو ابن حلال کہتے ہیں.اندریں حالات امام علیہ السلام کا اپنے مخالفین کو اولاد بغایا کہنا بجا اور درست ہے“ پس آئینہ کمالات اسلام کی عبارت میں ذریۃ البغایا سے مراد ہدایت سے دور یا سرکش انسان ہی ہیں نہ کہ حقیقت میں کنجریوں کی اولاد عربی زبان میں بغیه رشد کی نقیض ہے ملاحظہ ہو لسان العرب.بغی کے معنی لونڈی کے بھی ہیں فاجرہ ہو یا نہ.(ب) نجم الهدی کے شعر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مد نظر مسلمان مخالفین نہیں بلکہ مراد اعداء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ لکھتے ہیں:." بے شک دشمن (نہ کہ مخالفین ) جنگل کے سور بن گئے اور اُن کی وو عورتیں ایسی ہیں کہ کتیاں بھی اُن سے کم تر “.اگلا شعر اس پر قرینہ ہے.چنانچہ لکھتے ہیں:.سَبُوا وَ مَا أَدْرِى لِأَيِّ جَرِيمَةٍ سَبُّوا أَنعُصِى الْحِبَّ اَوْ نَتَجَنَّبُ کہ اُنہوں نے گالیاں دی ہیں (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ) اور میں نہیں جانتا کہ آپ کے کس جرم کی وجہ سے ایسا کیا ہے.انہوں نے گالیاں تو دی ہیں تو کیا ہم اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نافرمان ہو جائیں گے.یعنی ان کے اعتراضوں اور گالیوں سے ایسا ہونا محال ہے کہ ہم ان کی گالیوں کی وجہ سے کنارہ کش ہو جائیں.صاف ظاہر ہے کہ ان شعروں میں وہ لوگ مُراد نہیں جو مسلمانوں میں سے آپ کے مخالف ہیں بلکہ وہ غیر مسلم مرد اور عورتیں مراد ہیں.جو

Page 393

371 حصہ دوم احمدیہ علیمی پاکٹ بک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں.جنگل کے سور اور کتیوں سے کم تر کے الفاظ ضرور ایسے لوگوں کے مناسب حال ہیں جو سید الانبیاء فخر المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں.کیونکہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہیں دے سکتے.قرآن کریم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر یہودیوں کو بندر اور سؤر.شیطان کے پرستار اور شر البرية تک قرار دیا ہے یعنی تمام مخلوق میں سے بدتر یعنی کتوں اور سؤروں اور کیڑوں اور مکوڑوں سے بدتر اور پھر انہیں گمثَل الحمار بھی کہا ہے.ان کے متعلق یہ بھی لکھا ہے:.وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ أو الك شر مكانا.نیز فرمایا:.(المائدة: 61) اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتُبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خُلِدِينَ فِيهَا أُولَبِكَ هُمُ شَرُّ الْبَرِيَّةِ - (البيِّنة : 7) کہ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا ہے اہل کتاب اور مشرکوں میں سے وہ رہتے چلے جائیں گے جہنم کی آگ میں.وہی لوگ بدترین خلائق ہیں.اور یہود کی شان میں کہا ہے مَثَلُ الَّذِينَ حَمِلُوا التَّوْرِيةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا - ( الجمعة : 6) کہ جن لوگوں پر تو رات کی اطاعت واجب کی گئی مگر باوجود اس کے انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا.ان کی مثال گدھے کی ہے جس نے بہت ساری کتابیں اٹھائی ہوئی ہیں.

Page 394

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 372 حصہ دوم ہے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ سخت الفاظ کا اپنے محل پر استعمال عند الشرع جائز لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ - (النساء: 149) آیت سے ظاہر ہے کہ مظلوم جواب میں اعلانیہ سخت الفاظ استعمال کر سکتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ سخت الفاظ اپنے محل پر بعض خاص مصالح کے ماتحت ہیں.چنانچہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام خود تحریر فرماتے ہیں:.سخت الفاظ استعمال کرنے کی وجہ مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی تھی.لیکن وہ ابتدائی طور پرسختی نہیں ہے بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں.مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دُشنام دہی کے رنگ میں تھے جن کے مقابل پر کسی قدر سختی مصلحت تھی.اس کا ثبوت اس مقابلہ سے ہوتا ہے.جو میں نے اپنی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کے سخت الفاظ اکٹھے کر کے کتاب مسل مقدمہ مطبوعہ کے ساتھ شامل کیے ہیں.جس کا نام میں نے کتاب البریہ رکھا ہے.بایں ہمہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں.ابتد اختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے اور میں مخالفوں کے سخت الفاظ پر بھی صبر کر سکتا تھا لیکن دو مصلحت کے سبب سے میں نے جواب دینا مناسب سمجھا تھا.اول یہ کہ تا مخالف لوگ اپنے سخت الفاظ کا سختی میں جواب پا کر اپنی روش بدلا لیں اور آئندہ تہذیب سے گفتگو کریں.دوم یہ کہ تا مخالفوں کی نہایت ہتک آمیز اور غصہ دلانے والی تحریروں سے عام مسلمان جوش میں نہ آئیں اور سخت الفاظ کے جواب بھی کسی قدر سخت

Page 395

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 373 حصہ دوم پا کر اپنی پُر جوش طبیعتوں کو اس طرح سمجھا لیں کہ اگر اس طرف سے سخت الفاظ استعمال ہوئے تو ہماری طرف سے بھی کسی قدر سختی سے جواب ان کو مل گیا“.( کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 11) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریروں میں جو سخت استعمال کئے ہیں.وہ مظلومانہ حالت میں کئے ہیں اور وہ بھی انتہائی صبر کے بعد اور اس رنگ میں انتقام لینا اسلامی تعلیم کے خلاف نہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جَزْؤُا سَيْئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا.برائی کا بدلہ اس کے مثل دیا جا سکتا ہے.جب کہ مصلحت کا تقاضا بدلہ دینے کا ہو.ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.نَعُوذُبِ اللهِ مِنْ هَتَكِ الْعُلَمَاءِ الصَّالِحِيْنَ وَقَدْحِ الشُّرَفَاءِ المُهَذِبِينَ سَوَاءٌ كَانُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَوِ الْمَسِيحِيِّينَ أَوِ الْآرِيَّةِ لجة النور - روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 409) ترجمہ:.ہم صالح علماء کی ہتک سے اور مہذب شرفاء کی شان گرانے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں.خواہ مسلمانوں میں سے ہوں یا آریوں میں سے.نیز فرماتے ہیں:.لَيْسَ كَلَا مُنَاهَذَا فِي أَخْيَارِهِمْ بَلْ فِي أَشْرَارِهِمْ - (الهدى و التبصرة لمن يرى.روحانی خزائن جلد 18 صفحه 3) ترجمہ:.ہمارا یہ کلام ان کے بھلوں کے متعلق نہیں بلکہ ان کے شریروں کے متعلق ہے.

Page 396

374 حصہ دوم جہاد کی منسوخی ، انگریزوں کی خوشامد اور ان کی طرف سے کھڑا کئے جانے کا الزام الجواب: -1 اس الزام کے جواب میں واضح ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کو جو قرآن میں مسلمانوں کے لئے فرض قرار دیا گیا ہے، ہرگز منسوخ نہیں کیا.جہاد کا مادہ جہد بمعنی کوشش کرنا ہے.اور دین کی راہ میں ہر وہ کوشش جو کی جائے یہ مجاہدہ جهاد فی سبیل اللہ ہی ہے.کیونکہ جہاد مکہ میں فَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَجَاهِدُهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا - (الفرقان: 55) کے ذریعہ ان معنوں میں فرض ہو چکا تھا کہ قرآن کی اشاعت کرو.جہاد بمعنی قال (جنگ).مدینہ منورہ میں آیت جہاد فی سبیل اللہ کو صرف قتال یعنی جنگ میں محدود قرار دینا از روئے قرآن مجید درست نہیں.کیونکہ قتال مدینہ میں جا کر فرض ہوا تھا جبکہ یہ آیت نازل ہوئی:.أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (الحج: 40) مدافعت کے لئے فرض ہوا اور صاف طور پر ہدایت کی گئی قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ - (البقرة: 190) اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں.اور زیادتی نہ کرو اور یاد رکھو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں سے ہرگز محبت نہیں رکھتا.

Page 397

ندی علیمی پاکٹ بک 375 حصہ دوم آیت 193 میں فرمایا:.والا ہے.فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ـ (البقرة: 193) کہ اگر وہ باز آجائیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے اس آیت کی رُو سے مسلمان جنگ میں ابتداء نہیں کر سکتے.کیونکہ یہ امر زیادتی کا ہوگا اور زیادتی سے خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہے.جنگ کی صورت میں یہ بھی ہدایت ہے کہ :.وَإِنْ جَنَحُوْ الِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا - (الانفال : 62) اے نبی ! اگر وہ صلح کی طرف مائل ہو جائیں.تو تو بھی صلح کی طرف مائل ہو جا.اور سورۃ ممتحنہ میں فرمایا:.لَا يَنْهَكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ - ( الممتحنة: 9).یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں سے نیکی کرنے اور عدل کا معاملہ کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دینی اختلاف کی وجہ سے نہیں لڑے اور جنہوں نے تم کو دینی اختلاف کی وجہ سے تمہارے گھروں سے نہیں نکالا.اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.پس قتال جو جہاد فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے اس کی اجازت اضطراری حالت میں دین کی مدافعت کی خاطر دی گئی ہے.مسلمانوں کو دینی لڑائی میں ابتدا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی.

Page 398

یتعلیمی پاکٹ بک 376 حصہ دوم جہاد کی ایک تیسری قسم جهاد بالنفس ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگ سے واپس آئے تو آپ نے فرمایا:.66 رَجَعْنَامِنَ الْجِهَادِ الْاَصْغَر اِلَى الْجِهَادِ الْاَكْبَرِ.(تفسير الرازی،سورة الحج آیت 78) کہ ہم نے چھوٹے جہاد سے جہادا کبر (بڑے جہاد ) کی طرف رجوع کیا.یعنی غزوات میں فی سبیل اللہ قتل ہونا یہ چھوٹا جہاد سمجھا گیا.اور اپنی نفسانی خواہشوں کا توڑ نا بڑا جہاد قرار پایا:.قِيلَ يَارَسُولَ اللَّهَ مَا الْجِهَادُ الاكْبَرُ قَالَ أَلَا وَهِيَ مُجَاهَدَةُ النَّفْسِ“.یعنی پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ! جہادا کبر کیا ہے؟ فرمایا کہ یہ نفس پر قہر کرنا ہے.(كشف المحجوب مترجم اردو شائع کردہ شیخ الہی بخش ومحمد جلال الدین 1322 ھ صفحہ (221) اس قسم میں اصلاح نفس کے علاوہ دین کے کاموں کے لئے زندگی وقف کرنا بھی داخل ہے.مولوی ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں:.”جہاد کی حقیقت کی نسبت سخت غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں.بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاد کے معنے صرف لڑنے کے ہیں.....حالانکہ ایسا سمجھنا اس عظیم الشان مقدس حکم کی عملی وسعت کو بالکل محدود کر دینا ہے.جہاد کے معنے کمال درجہ کی کوشش کرنے کے ہیں.قرآن وسنت کی اصطلاح میں اس کمال درجہ سعی کو جو ذاتی اغراض کی جگہ حق پرستی اور سچائی کی راہ میں کی جائے جہاد کے لفظ سے تعبیر کیا ہے.یہ سعی زبان سے بھی ہے.مال سے بھی

Page 399

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 377 حصہ دوم ہے.انفاق وقت و عمر سے بھی ہے محنت و تکالیف برداشت کرنے سے بھی ہے اور دشمنوں کے مقابلے میں لڑنے اور اپنا خون بہانے سے بھی ہے.جس سعی کی ضرورت ہو اور جو سعی جس کے امکان میں ہو اس پر فرض ہے اور جہاد فی سبیل اللہ میں لغت و شرع دونوں اعتبار سے داخل.یہ بات نہیں کہ جہاد سے مقصود مجر دلڑائی ہی ہو...سورۃ فرقان میں ہے.فَلَا تُطِعِ الْكَفِرِيْنَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا.یعنی کفار کے مقابلہ میں بڑے سے بڑا جہاد کرو.سورۃ فرقان بالاتفاق مکی ہے اور معلوم ہے کہ جہاد بالسیف یعنی لڑکی کا حکم ہجرت مدینہ کے بعد ہوا.پس غور کرنا چاہئے کہ کی زندگی میں کون سا جہاد تھا جس کا اس آیت میں حکم دیا جا رہا ہے.جہاد بالسیف تو ہو نہیں سکتا.یقیناً وہ حق کی استقامت اور اس کی راہ میں تمام مصیبتیں اور شدتیں جھیل لینے کا جہاد تھا.مسئلہ خلافت و جزیرۂ عرب صفحه 147-148 شائع کردہ سویرا آرٹ پریس لاہور ) مولوی سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:.”جہاد کے معنے عموماً قتال اور لڑائی کے سمجھے جاتے ہیں.مگر مفہوم کی ی تنگی قطعاً غلط ہے...اس کے معنے محنت اور کوشش کے ہیں.اسی کے قریب قریب اسی کے اصطلاحی معنے بھی ہیں یعنی حق کی بلندی اور اس کی اشاعت اور حفاظت کے لئے ہر قسم کی جد و جہد.قربانی اور ایثار گوارا کرنا.اور ان تمام جسمانی و مالی و دماغی قوتوں کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو ملی ہیں اس کی راہ میں صرف کرنا.یہاں تک کہ اس کے لئے اپنی، اپنے عزیز وقریب کی ، اہل وعیال کی ، خاندان وقوم کی ، جان تک کو قربان کر دینا اور حق کے مخالفوں اور دشمنوں کی کوششوں کو توڑنا ان کی تدبیروں کو رائیگاں کرنا ان کے

Page 400

ندی تعلیمی پاکٹ بک 378 حصہ دوم حملوں کو روکنا اور اس کے لئے جنگ کے میدان میں اگر ان سے لڑنا پڑے تو اس کے لئے بھی پوری طرح تیار رہنا یہی جہاد ہے.اور یہ اسلام کا ایک رکن اور بہت بڑی عبادت ہے.افسوس ہے کہ مخالفوں نے اتنے اہم اور اتنے ضروری اور اتنے وسیع مفہوم کو جس کے بغیر دنیا میں کوئی تحریک نہ کبھی سرسبز ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے.صرف ” دین کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کے تنگ میدان میں محصور کر دیا.یہاں ایک شبہ کا ازالہ کرنا ضروری ہے کہ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جہاد اور قتال دونوں ہم معنی ہیں حالانکہ ایسا نہیں...بلکہ ان دونوں میں عام و خاص کی نسبت ہے یعنی ہر جہاد قتال نہیں ہے بلکہ جہاد کی مختلف قسموں میں سے ایک قبال اور دشمنوں سے لڑنا بھی ہے.(سیرت النبی جلد پنجم صفحہ 210-211 زیر عنوان ” جہاد ) مفسرین نے جَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا کی آیت میں جہاد بالقرآن بھی مراد لیا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:." كَلِمَةُ حَقِّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ الْجِهَادُ الْأَفْضَلُ ( نسائی کتاب البيعت باب فضل من تكلم بالحق عند امام جائر ) یعنی سچی بات ظالم حاکم کے سامنے کہنا جہادا کبر ہے.-2 کسی ملک میں بطور رعیت رہتے ہوئے اس حکومت کے خلاف اسلام بغاوت کی اجازت نہیں دیتا.کیونکہ الْبَغْئُ بِغَيْرِ الْحَقِّ “ کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے.البتہ اگر وہ حکومت جس کی رعایا کے طور پر مسلمان زندگی بسر کر رہے ہوں مداخلت فی الدین کرے یعنی انہیں عبادات سے رو کے اور دینی تعلیم پر چلنے نہ دے

Page 401

379 حصہ دوم احمدیہ علیمی پاکٹ بک تو پھر سنت نبوی کے مطابق وہاں سے ہجرت ضروری ہو جاتی ہے نہ کہ قتال.ہجرت کرنے کے بعد اگر دشمن حملہ آور ہو.تو پھر اس کا مقابلہ بوجہ مظلومیت کرنا ضروری ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے.جب دشمن نے آپ کے ماننے والوں کو جبر امذ ہب چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہا تو آپ نے مسلمانوں کو ہجرت کرنے کا حکم دیا.مگر خود اس وقت تک ہجرت نہ فرمائی جب تک دشمن نے آپ کے قتل کا منصوبہ نہ کیا.جب عربوں نے آپ کے اعدام کا فیصلہ کیا.تو خدائی حکم کے ماتحت اس وقت آپ نے ہجرت فرمائی.قرآن کریم کی ہدایت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہی امور ثابت ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کرام کو حبشہ میں ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی تھی جہاں کا بادشاہ عیسائی تھا.انہیں یہ ہدایت نہیں دی تھی کہ وہ جا کر اس بادشاہ سے جنگ کریں بلکہ اس امید پر انہیں بھیجا تھا کہ وہ بادشاہ انہیں امن دے گا اور یہ مسلمان وہاں مستاً من کی حیثیت سے رہیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ملکی حکم کے احترام کی اتنی اہمیت تھی کہ جب آپ نے مکہ کے مشرکین کی اسلام کی طرف سے لا پرواہی دیکھی.اور آپ نے طائف میں جا کر پیغامِ حق سنایا اور انہوں نے مکہ والوں سے بھی بڑھ کر آپ سے وحشیانہ سلوک کیا تو آپ نے مکہ واپس آنا چاہا.لیکن مکہ کی حکومت نے آپ سے شہریت کے حقوق غصب کر لیے اور آپ کو داخلہ کی اجازت نہ دی.تو آپ نے ظالم حکومت کے اس علاقائی قانون کو توڑا نہیں.بلکہ ایک مشرک حاتم بن عدی کی حمایت سے آپ مکہ میں داخل ہوئے اور اس کی وساطت سے آپ نے مکہ کی شہریت کے حقوق پھر سے حاصل کئے اور مکہ والوں نے جب آپ کے قتل کا منصوبہ کیا.تو پھر آپ مدینہ کی طرف ہجرت فرما گئے.آپ کی یہ سنت اس بات کی روشن

Page 402

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 380 حصہ دوم دلیل ہے کہ کسی حکومت میں رہتے ہوئے پر امن طریق سے زندگی بسر کرنی چاہیے اور جب اس حکومت کا ظلم نا قابل برداشت حد تک پہنچ جائے تو اس ملک کو چھوڑ دینا چاہئے.بغاوت کا طریق اختیار کرنا سنتِ نبوی کے خلاف ہے.ہاں اگر ملکی نظام ہجرت کی اجازت بھی نہ دے اور دین میں بھی مداخلت جاری رکھے تو پھر بغاوت کرنا خلاف حق نہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے 1889ء میں جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی.اس سے پہلے انگریزی حکومت ہندوستان میں قائم ہو چکی ہوئی تھی اور مسلمان بطور مستأمن انگریزوں کی سلطنت میں زندگی بسر کر رہے تھے.اور اپنے پرسنل لا ء کی آزادی کے ساتھ انہوں نے انگریزوں کی رعایا ہونا قبول کر رکھا تھا چنانچہ..(الف) مولوی ابوالاعلیٰ صاحب مودودی رقم طراز ہیں:.”ہندوستان اس وقت بلا شبہ دارالحرب تھا.جب انگریزی حکومت یہاں اسلامی سلطنت کو مٹانے کی کوشش کر رہی تھی.اس وقت مسلمانوں کا فرض تھا کہ یا تو اسلامی سلطنت کی حفاظت میں جانیں لڑاتے یا اس میں نا کام ہونے کے بعد یہاں سے ہجرت کر جاتے.لیکن جب وہ مغلوب ہو گئے، انگریزی حکومت قائم ہو چکی اور مسلمانوں نے اپنے پرسنل لاء (مذہبی قوانین.ناقل ) پر عمل کرنے کی آزادی کے ساتھ یہاں رہنا قبول کرلیا.تو اب یہ ملک دار الحرب نہیں رہا.(سود حصہ اوّل حاشیه صفحه 77 شائع کردہ مکتبہ جماعت اسلامی لاہور طبع اول) (ب) مولوی حسین احمد صاحب مدنی جیسے سیاسی لیڈر تحریر فرماتے ہیں:.اگر کسی ملک میں سیاسی اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہر حال اس اقتدار میں شریک ہوں اور ان کے مذہبی

Page 403

381 حصہ دوم و دینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب ( حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدّث قدس سرہ.ناقل ) کے نزدیک بے شبہ دارالاسلام ہوگا اور از روئے شرع مسلمانوں کا فرض ہوگا کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لئے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں“.نقش حیات جلد 2 صفحہ 11 مطبوعہ الجمعیۃ پریس دہلی ) (ج) مولانا شبلی نعمانی بھی انگریزوں سے جہاد جائز نہیں سمجھتے تھے.دیکھئے تلخیص از مقالات شبلی جلد اول صفحه 163 مطبوعہ جنرل بائنڈنگ کارپوریشن پریس لاہور ) (1) شمس العلماء مولانا نذیر احمد صاحب دہلوی مترجم قرآن کریم نے فرمایا تھا:.”ہندؤوں کی عملداری میں مسلمانوں پر طرح طرح کی سختیاں رہیں.اور مسلمانوں کی حکومت میں بعض ظالم بادشاہوں نے ہندؤوں کو ستایا.الغرض یہ بات خدا کی طرف سے فیصل شدہ ہے کہ سارے ہندوستان کی عافیت اسی میں ہے کہ کوئی اجنبی حاکم اس پر مسلط رہے ، جو نہ ہندوہو نہ مسلمان ہی ہو.کوئی سلاطین یورپ میں سے ہو مگر خدا کی بے انتہاء مہربانی اس کی مقتضی ہوئی کہ انگریز بادشاہ ہوئے.“ ( مولانا کے لیکچروں کا مجموعہ.باراول مطبوعہ 1890 ءصفحہ 5،4) (ه) سرسید احمد خان مرحوم لکھتے ہیں:.” جب کہ مسلمان ہماری گورنمنٹ کے مستامن تھے.کسی طرح گورنمنٹ کی عملداری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے.“ ( اسباب بغاوت ہند.صفحہ 31 شائع کردہ سنگ میل پبلی کیشنز لا ہور ) (1) مولوی نواب صدیق حسن خان صاحب بھوپالوی اہل حدیث رقم طراز ہیں:.علماء اسلام کا اسی مسئلہ میں اختلاف ہے کہ ملک ہند میں جب سے حکام والا مقام فرنگ فرمانروا ہیں.اس وقت سے یہ ملک دارالحرب ہے یا دارالاسلام.حنفیہ جن سے یہ ملک بالکل بھرا ہوا ہے.ان کے عالموں اور

Page 404

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 382 حصہ دوم مجہتدوں کا تو یہی فتویٰ ہے کہ یہ دارالاسلام ہے.اور جب یہ ملک دار الاسلام ہوا تو پھر یہاں جہاد کرنا کیا معنی؟ بلکہ عزم جہاد ایسی جگہ ایک گناہ ہے بڑے گناہوں سے اور جن لوگوں کے نزدیک یہ دارالحرب ہے.جیسے بعض علماء دہلی وغیرہ.ان کے نزدیک بھی اس ملک میں رہ کر اور یہاں کے حکام کی رعایا اور امن و امان میں داخل ہو کر کسی سے جہاد کرنا ہرگز روا نہیں جب تک کہ یہاں سے ہجرت کر کے کسی دوسرے ملک اسلام میں جا کر مقیم نہ ہو.غرض یہ کہ دار الحرب میں رہ کر جہاد کرنا اگلے پچھلے مسلمانوں میں سے کسی کے نزدیک ہرگز جائز نہیں.( ترجمان وہابیہ صفحہ 15 مطبع محمدی لاہور ) (ز) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ایڈووکیٹ اہل حدیث اپنے رسالہ اشاعۃ السنة“ میں لکھتے ہیں :.وو سلطان (روم) ایک اسلامی پادشاه ولیکن امنِ عام وحسنِ انتظام کی نظر سے ( مذہب سے قطع نظر ) برٹش گورنمنٹ بھی ہم مسلمانوں کے لئے کچھ کم فخر کا موجب نہیں ہے اور خاص کر گروہ اہل حدیث کے لئے تو یہ سلطنت بلحاظ امن و آزادی اس وقت کی تمام اسلامی سلطنتوں (روم، ایران ، خراسان) سے بڑھ کر فخر کا محل ہے.(رسالہ اشاعة السنة جلد 6 صفحه 292 پھر اسی رسالہ کے صفحہ 293 پر لکھتے ہیں:.اس امن و آزادی عام وحسن وانتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہل حدیث ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیں.اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں.اور جہاں کہیں وہ رہیں یا جائیں ( عرب میں خواہ روم میں خواہ اور کہیں ) کسی اور ریاست کا محکوم ور عایا ہونا نہیں چاہتے.(رسالہ اشاعۃ السنة جلد 6 صفحہ 293)

Page 405

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 383 انجمن حمایت اسلام کے جملہ ممبران کا اعلان حصہ دوم عنایات گورنمنٹ کے عوض میں ہمارا فرض ہے کہ ہم گورنمنٹ کے وفادار رعایا بنے رہیں.اور مسلمانوں کو تو دہرا فائدہ ہے.رعایا ہونے کا حق علیحدہ اور ثواب کا ثواب.کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں تعلیم دی.اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمُ “ خدا ایسی سلطنت کو مدت تک ہمارے سر پر قائم رکھے جس کے سایہ عاطفت میں اتنا آرام پایا اور ہمیشہ ہم کو اس کا تابعدار رکھے.اعلان مطبوعہ رپورٹ انجمن حمایت اسلام 1903ء) (ح) شیعانِ ہند کے مجہتد علامہ سید علی الحائری لکھتے ہیں:.”ہم کو ایسی سلطنت کے زیر سایہ ہونے کا فخر حاصل ہے جس کی حکومت میں انصاف پسندی اور مذہبی آزادی قانون قرار پا چکی جس کی نظیر اور مثال دنیا کی کسی اور سلطنت میں نہیں مل سکتی.......اس لئے نیابتا تمام شیعوں کی طرف سے برٹش سلطنت کا صمیم قلب سے میں شکریہ ادا کرتا ہوں.اس ایثارکا جو وہ اہلِ اسلام کی تربیت میں بے دریغ مرعی رکھتی ہے.خاص کر کے ہمارا فرقہ شیعہ جو تمام اسلامی سلطنتوں میں تیرہ سو برس کے نا قابل برداشت مظالم کے بعد آج اس انصاف پسند عادل سلطنت کے زیر حکومت اپنے تمام مذہبی فرائض اور مراسم تو تی و بر ا کو بپابندی قانون اپنے اپنے محل وقوع میں ادا کرتے ہیں.اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہر شیعہ کو اس احسان کے عوض میں ( جو آزادی مذہب کی صورت میں انہیں حاصل ہے ) صمیم قلب سے برٹش حکومت کا رہین احسان اور شکر گزار رہنا چاہئے.اور اس کے لئے شرع بھی اس کو مانع نہیں ہے.کیونکہ پیغمبر اسلام علیہ وآلہ السلام

Page 406

ی علیمی پاکٹ بک 384 حصہ دوم نے نوشیروان عادل کے عہد سلطنت میں ہونے کا ذکر مدح اور فخر کے رنگ میں بیان فرمایا ہے.( موعظہ تحریف قرآن.اپریل 1922ء) (ط) سید احمد صاحب بریلوی علیہ الرحمۃ مجد دصدی سیز دہم نے یہ سوال پیدا ہونے پر کہ آپ انگریزوں سے کیوں جہاد نہیں کرتے فرمایا:.”ہمارا اصل کام اشاعت توحید الہی اور احیائے سُننِ سید المرسلین ہے.سو ہم بلا روک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں.پھر ہم سرکار انگریزی پر کس سبب سے جہاد کریں.سوانح احمدی صفحه 71 از مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری صوفی پر نٹنگ کمیٹی.بہاؤ الدین) (ی) مولوی عبدالحئی صاحب حنفی لکھنوی اور مولوی احمد رضا خان صاحب حنفی بریلوی.ہندوستان کو اس زمانہ میں دار الاسلام قرار دیتے تھے.(دیکھو مجموعہ فتاوی مولوی عبدالحی لکھنوی جلد 2 صفحہ 235 مطبوعہ 1311ھ ونصرت الابرار صفحہ 29 مطبوعہ مطبع صحافی لا ہورا پیچی سن گنج ) اس کے علاوہ مفتیانِ مکہ:.1 - جمال دین ابن عبد اللہ شیخ عمر حنفی مفتی مکہ معظمہ.2 حسین بن ابراہیم مالکی مفتی مکہ معظمہ.3 - احمد بن شافعی مفتی مکہ معظمہ.نے بھی ہندوستان کے دارالاسلام ہونے کا فتویٰ دیا تھا.( سید عطاء اللہ شاہ بخاری مؤلفه شورش کا شمیری صفحہ 141 چٹان پرنٹنگ پریس لا ہور نومبر 1973ء) (ک) مولانا ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار لکھتے ہیں:.زمیندار اور اس کے ناظرین گورنمنٹ برطانیہ کو سایۂ خدا سمجھتے ہیں

Page 407

385 حصہ دوم احمدیہ علیمی پاکٹ بک اور اس کی عنایات شاہان اور انصاف خسروانہ کو اپنی دلی ارادت اور قلبی عقیدت کا کفیل سمجھتے ہوئے اپنے بادشاہ عالم پناہ کی پیشانی کے ایک قطرے کی بجائے اپنے جسم کا خون بہانے کے لئے تیار ہیں.اور یہی حالت ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی ہے.( زمیندار 9 نومبر 1911 ء) پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوئی سے پہلے بھی اور دعوئی کے بعد بھی علماء ہند کا جن میں حنفی ، اہلحدیث اور شیعہ شامل ہیں.یہی فتویٰ تھا کہ انگریزوں سے جہاد کرنا حرام ہے.اور مفتیانِ مکہ معظمہ بھی ہندوستان کو اس زمانہ میں دار الاسلام قرار دے رہے تھے.تو انگریزوں کو کیا ضرورت پڑ گئی تھی کہ وہ حضرت مرزا صاحب سے مسیح موعود اور مہدی معہود کا دعوی کراتے اور ان سے یہ فتویٰ دلاتے کہ انگریزوں سے جہاد حرام ہے.انگریزوں سے جہاد کو تو سب علماء اسلام حرام قرار دے چکے ہوئے تھے.اس لئے انگریزوں کو ایسے آدمی کو کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی جو مسیح موعود ہونے کا دعوی کر کے تثلیث کے ستون کو پاش پاش کرنے کی کوشش کرتا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اگر انگریزوں کی عقل و دانش اور نظام حکومت کی تعریف کی ہے تو عین اُس اسلامی تعلیم کے مطابق ہے جس پر علمائے ہند کی مذکورہ تحریرات شاہد ناطق ہیں.پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے دعوی کے بعد جو یہ فتویٰ دیا کہ انگریزوں سے جہاد حرام ہے تو یہ فتویٰ عین شریعت غزاء کے مطابق تھا.چنانچہ آپ تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں:."إِنَّ وَجُوهَ الْجِهَادِ مَعْدُومَةٌ فِى هَذَا الزَّمَن وَهَذِهِ الْبَلَادِ“ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 82)

Page 408

ندی تعلیمی پاکٹ بک 386 حصہ دوم کہ جہاد بالسیف کی وجوہ اس زمانہ میں اور اس ملک میں پائی نہیں جاتیں“ جس نظم میں آپ نے فرمایا:.اب چھوڑ دو اے دوستو جہاد کا خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال اسی نظم میں آپ فرماتے ہیں:.فرما چکے ہیں سید کونین مصطفیٰ عیسی مسیح جنگوں کا کر دے گا التواء اس سے ظاہر ہے کہ جہاد بالسیف کو آپ نے علی الاطلاق حرام نہیں کہا بلکہ اپنے زمانہ اور ملک میں اس کی شرائط نہ پایا جانے کی وجہ سے اسے صرف ملتوی قرار دیا ہے.اور یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کے مطابق ہے جو مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق يَضَعُ الحَرب کے الفاظ میں ہے.یعنی کہ وہ جنگ کو روک دے گا.(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی مطبوعہ میرٹھ نیز مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی) اس زمانہ کا جہاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے کہ اعلائے کلمہ اسلام میں کوشش کریں.مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں.دینِ اسلام کی خوبیاں دُنیا میں پھیلا دیں.آنحضرت کی سچائی دنیا پر ظاہر کریں.یہی جہاد ہے جب تک کہ خدا کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کر دئے.( مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام میر ناصر نواب صاحب، مندرجہ رسالہ درود شریف مؤلفہ مولانامحمد اسماعیل صاحب فاضل صفحه 113)

Page 409

387 حصہ دوم احمدیہ علیمی پاکٹ بک اس تحریر سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک جہاد بالسیف منسوخ نہیں بلکہ ملتوی ہوا ہے اور اگر آئندہ کبھی اس کی شرائط پیدا ہو جائیں تو یہ بھی فرض ہو جائے گا.جس جہاد کو بصورت اعلائے کلمہ، اسلام آپ فرض سمجھتے تھے.اس کا آپ نے پورا حق ادا کر دیا ہے.یہاں تک کہ آپ نے ملکہ معظمہ کو جس کی آپ رعایا تھے.مندرجہ ذیل الفاظ میں دعوت اسلام دی:.اے ملکہ توبہ کر اور اس ایک خدا کی اطاعت میں آجا.جس کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ شریک.اور اس کی تمجید کر.کیا تو اس کے سوا اور کوئی معبود پکڑتی ہے جو کچھ پیدا نہیں کر سکے بلکہ خود مخلوق ہیں.اے زمین کی ملکہ اسلام کو قبول کر.تا تو بچ جائے.آمسلمان ہو جا.( ترجمه آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 532 تا 534) جہاد کو منسوخ کرنے کا الزام درست نہیں.جس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وقتی طور پر جہاد بالسیف کو حرام قرار دیا.اس وقت ساری مسلمان رعایا.الا ماشاء اللہ انگریزوں کی خیر خواہ تھی اور ان کی شکر گزار بالخصوص پنجاب کے رہنے والے.کیونکہ انگریزوں نے پنجاب کو فتح کر کے مسلمانوں کو جلتے ہوئے تنور سے نجات دی تھی جو سکھوں کی حکومت نے ان کے لئے بھڑ کا رکھا تھا.سکھوں نے مسلمانوں کو سیاسی غلام بنا رکھا تھا.ان کی ثقافت اور تمدن کو تباہ کر دیا تھا.مسلمان جاگیرداروں کی جاگیریں چھین لیں.جو مسلمان صنعت و حرفت اور تجارت پر قابض ہونے کی وجہ سے خوش حال تھے انہیں اقتصادی طور پر تباہ کیا.خود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے خاندان کی جائیداد بھی چھین لی.مسلمانوں کی مذہبی آزادی بھی چھین لی.کسی مسلمان کو اذان دینے کی اجازت نہ تھی.مساجد سکھوں کے اصطبلوں

Page 410

تعلیمی پاکٹ بک 388 حصہ دوم میں تبدیل کر دی گئیں تھیں اور مدر سے اور اوقاف ویران ہو گئے تھے.قومی عصم بھی سکھوں کے رحم و کرم پر تھی.مسلمان قوم کی بیٹیوں کی عزت محفوظ نہ تھی.ان حالات میں جب انگریز نے 1853ء میں سکھوں کو شکست دے دی.تو اس نے مسلمانوں سے حکومت نہیں چھینی تھی.انگریزوں نے مسلمانوں کو محمڈن پرسنل لا کی آزادی دی.ملک میں طوائف الملو کی اور لاقانونیت کی جگہ ایک مضبوط عادلانہ حکومت قائم کر دی.مسلمانوں کے اوقاف اور مذہبی ادارے پھر سے زندہ ہونے لگے.مذہبی تعلیم پر سے ناروا پابندیاں اٹھائی گئیں.اس طرح پنجاب کے مسلمانوں نے جو ایک عرصہ سے سکھوں کے ظلم وستم کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے.اب انہوں نے انگریز کی سلطنت میں سکھ کا سانس لیا اور انگریزی حکومت کو ایک نعمت سمجھا.ان حالات میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام انگریز کی مخالفت کیسے کر سکتے تھے؟ مسلمانوں نے اب جو آزادی انگریزوں سے حاصل کی ہے.وہ بھی جہاد بالسیف کے ذریعہ سے حاصل نہیں کی.بلکہ آئینی طریق سے حاصل کی ہے.سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کو اعتراف ہے:.”1857ء کے ہنگامے میں علماء شریک ہوئے اور نا کامی کے بعد مارے گئے.کچھ قید ہوئے.ہزاروں انسان قتل ہوئے.شہزاد کے قتل ہوئے.ان کا خون کیا گیا.ان مصیبتوں کے بعد ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا.اسلامی حکومت قائم کرنے کا خیال شکست کھا گیا.اس کے بعد پھر 1914ء میں علماء کی ایک جماعت نے اسی خیال سے یعنی مسلم راج قائم کرنے کے خیال سے تحریک شروع کی اور اس میں بھی شکست کھائی.اس کے بعد 1920ء میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیو بند مالٹا سے رہا ہو کر تشریف لائے.دہلی میں

Page 411

389 حصہ دوم ی علیمی پاکٹ بک ملک کے مختلف حصوں سے پانچ سو سے زائد علماء کا اجتماع ہوا اور وہاں یہ طے پایا کہ تشدد کا یہ راستہ غلط ہے.موجودہ دور میں اسلامی حکومت کا قیام تقریباً ناممکن ہے.لہذا کانگریس کے ساتھ شامل ہوکر ہندوستان کی تمام قومیں مل کر ملک کا انتظام کریں اور جمہوری حکومت بنا ئیں.چنانچہ اس وقت تک ہم اسی ( احرار ) عقیدے پر قائم ہیں اور ہم اسی راستہ کو صحیح سمجھتے ہیں“.سوانح حیات سید عطاءاللہ شاہ بخاری مؤلفہ خان کا بلی صفحہ 120 بار اول مطبوعہ ہندوستانی کتب خانہ لاہور ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریزوں کے ماتحت رہتے ہوئے بھی غلامانہ ذہنیت نہیں رکھتے تھے.وہ اس یقین پر قائم تھے کہ سارا یورپ ایک دن مسلمان ہو جائے گا.وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس یقین پر قائم کئے گئے تھے.چنانچہ آپ نے بڑے پر شوکت الفاظ میں یہ اعلان فرمایا:.وہ دن نزدیک آتے ہیں جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا ، نہ گند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی کچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں.ملکوں میں پھیلے گی.اُس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا.لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد رُوحوں کو روشنی عطا کرنے سے ، اور پاک دلوں پر ایک ٹو راتارنے سے.تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی.( تذکرہ صفحہ 244 ایڈیشن چہارم مطبوعہ 2004ء الاشتهار مستقينا بوحى الله القهار مؤرخه ۱۴ / جنوری ۱۸۹۷ء مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 8،7)

Page 412

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 390 حصہ دوم یہ ہے وہ شخصیت جس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اُسے انگریزوں نے اپنی جماعت کے لئے کھڑا کیا تھا اور اس سے دعوی کرایا تھا.کہ وہ خدا کی طرف سے مامور ہیں انگریزوں کو ایسی حمایت کرنے کی کیا ضرورت تھی جب کہ وہ شروع سے جانتے تھے کہ صلیب پرستی کے خلاف آپ شدید جوش رکھتے ہیں.پس یہ الزام سراسر بے بنیاد ہے.آپ نے انگریزوں کی جو حمایت کی وہ شریعت کے عین مطابق تھی.اور تمام علمائے ہند اُس وقت انگریزوں کے حامی تھے.آپ نے انگریزوں کی حمایت کر کے اور ان کی اطاعت کی تعلیم دے کر مسلمانوں کو دائگی غلامی کی تعلیم نہیں دی.کیونکہ جیسا کہ آپ کے مندرجہ بالا اعلان سے ظاہر ہے.آپ کا دل اس یقین سے لبریز تھا کہ اسلام کی فتح کا زمانہ قریب آرہا ہے.اور کفر کی صف جلد لپیٹ دی جائے گی اور دجال کا فتنہ پاش پاش ہو جائے گا.اور سب ملتیں بجز اسلام کے ہلاک ہو جائیں گی.اگر اس نے ایک عارضی وقت کے لئے ایک غیر ملکی مذہبی آزادی دینے والی حکومت سے تعاون کی ہدایت فرمائی تو یہ شرع شریف کے مطابق وقت کا عین تقاضا تھا.انبیاء کی سنت یہی ہے کہ غیر ملکی سلطنت میں رہتے ہوں تو اس کے خلاف باغیانہ خیالات نہ رکھے جائیں.کئی نبی جیسے حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام بُت پرست کا فر بادشاہوں کی حکومت میں زندگی گزارتے رہے ہیں.بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام تو مصر کے بُت پرست بادشاہ کے ماتحت کارکن بھی رہے ہیں.اور سب سے بڑھ کر سرور کائنات کا طرز عمل بھی یہ بتاتا ہے کہ آپ نے مکہ کی حکومت کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کی بلکہ جب اس کا ظلم انتہاء تک پہنچ گیا.تو آپ نے اور آپ کے ماننے والوں نے وہاں سے ہجرت فرمائی.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا فرض منصبی اشاعت اسلام کا جہاد تھا.انگریزوں

Page 413

عدی تعلیمی پاکٹ بک 391 حصہ دوم کی حکومت میں آپ کو اس بارہ میں پوری آزادی حاصل تھی اور انگریزوں نے چونکہ آپ سے عدل کا سلوک کیا.اس لئے انگریزی حکومت آپ کے شکریہ کی مستحق تھی.کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:.لَا يَشْكُرُ اللهَ مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسِ“ سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب في شكر المعروف) کہ جولوگوں کا شکر یہ ادا نہ کرے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا.3 خوشامد کے الزام کے رد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.(الف) بعض نادان مجھ پر اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ صاحب المنار نے بھی کیا ہے کہ یہ شخص انگریزوں کے ملک میں رہتا ہے اس لئے جہاد کی ممانعت کرتا ہے.یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر میں جھوٹ سے اس گورنمنٹ کو خوش کرنا چاہتا تو میں بار بار کیوں کہتا کہ عیسی بن مریم صلیب سے نجات پا کر اپنی موت طبعی سے بمقام سری نگر کشمیر مر گیا.اور نہ وہ خدا تھا اور نہ خدا کا بیٹا.کیا انگریز مذہبی جوش والے میرے اس فقرہ سے مجھ سے بیزار نہیں ہوں گے.پس سنواے نادانو ! میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دینِ اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلوار میں چلاتی ہے.قرآن شریف کی رو سے مذہبی جنگ کرنا حرام ہے.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 75 حاشیہ) (ب) یہ گورنمنٹ مسلمانوں کے خونوں اور مالوں کی حمایت کرتی ہے اور ہر ایک ظالم کے حملہ سے محفوظ کرتا ہے.میں نے یہ کام گورنمنٹ سے ڈر کر نہیں کیا اور نہ اس کے کسی انعام کا امیدوار ہو کر کیا ہے بلکہ یہ کام محض اللہ

Page 414

ندی علیمی پاکٹ بک 392 حصہ دوم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کیا ہے.نور الحق حصہ اول.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 40-41) ( ج ) بیشک جیسا کہ خدا نے میرے پر ظاہر کیا.صرف اسلام کو دنیا میں سچا مذہب سمجھتا ہوں.لیکن اسلام کی سچی پابندی اسی میں دیکھتا ہوں کہ ایسی گورنمنٹ جو در حقیقت محسن اور مسلمانوں کے خون و مال کی محافظ ہے اس کی سچی اطاعت کی جائے.میں گورنمنٹ سے ان باتوں کے ذریعہ سے کوئی انعام نہیں چاہتا.میں اس سے درخواست نہیں کرتا کہ اس خیر خواہی کی پاداش میں میرا کوئی لڑکا کسی معز زعہدہ پر ہو جائے“.(اشتہار 21 اکتوبر 1889 ء مندرجہ تبلیغ رسالت جلد 4 صفحہ 49) (د) ”میری طبیعت نے کبھی نہیں چاہا کہ ان متواتر خدمات کا اپنے حکام کے پاس ذکر بھی کروں.کیونکہ میں نے کسی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک حق بات کو ظاہر کرنا اپنا فرض سمجھا“.تبلیغ رسالت جلد 7 صفحہ 10 مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه 709) (ھ) میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا.جیسا کہ نادان لوگ خیال کرتے ہیں نہ اس سے کوئی صلہ چاہتا ہوں.بلکہ میں انصاف اور ایمان کے رو سے اپنا فرض دیکھتا ہوں کہ اس گورنمنٹ کی شکر گزاری کروں.تبلیغ رسالت جلد 10 صفحه 123 ) الفاظ میں تعریف کی وجہ اگر کوئی یہ کہے کہ بیشک جو کچھ آپ نے انگریزوں کی تعریف میں لکھا خلاف واقعہ نہ تھا.لیکن بار بار تعریف کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف

Page 415

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 393 حصہ دوم گورنمنٹ میں یہ مخبری کرتے تھے کہ یہ خطر ناک آدمی ہے یہ مہدی سوڈانی سے بھی زیادہ خطرناک ہے.اس لئے آپ کو بطور مدافعت اور ذب کے بھی زور دار الفاظ میں تعریف کی ضرورت پیش آئی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے جو انگریزوں کی زور دار تعریف کی وجہ سے حکومت کے منظور نظر تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل کے جواب میں عاجز آ کر آپ کے خلاف انگریزوں کے کان بھرنے شروع کئے اور آپ کو (معاذ اللہ ) دھوکہ باز ثابت کرنے کے لئے لکھا:.اس کے دھو کے پر یہ دلیل ہے کہ دل سے وہ گورنمنٹ غیر مذہب کی جان مارنے اور اس کا مال کو ٹنے کو حلال و مباح جانتا ہے.لہذا گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پُر حذر رہنا ضروری ہے ورنہ اس مہدی قادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے نہیں پہنچا.(رسالہ اشاعة السنة جلد 6 نمبر 6 حاشیہ صفحہ 161 بابت 11-1310ھ مطابق 1893ء) مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس قسم کی جھوٹی مخبری سے گورنمنٹ سے کئی مرتبعے زمین حاصل کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے راستے میں کانٹے بچھانے کی کوشش کی.اسی طرح ایک شخص منشی محمد عبد اللہ نے اپنی کتاب ”شہادتِ قرآنی“ مطبوعہ 1905 ء میں لکھا:.”ایسے ہی دیگر آیات قرآنیہ اپنے چیلوں کو سنا سنا کر گورنمنٹ کے خلاف مستعد کرنا چاہتا ہے“.واضح ہو کہ گورنمنٹ پہلے ہی آپ کو مہدویت کے دعویٰ کی وجہ سے

Page 416

ندی تعلیمی پاکٹ بک 394 حصہ دوم مشتبہ نظروں سے دیکھ رہی تھی اور اس نے خفیہ پولیس مقرر کر رکھی تھی جو آپ کی ہر نقل و حرکت کی گورنمنٹ کو اطلاع دیتی رہتی تھی اور جو مہمان آپ کے ہاں آتے تھے.اُن کے متعلق بھی بہت پوچھ گچھ کی جاتی تھی.اور اگر معز زین اور رؤسا میں سے کوئی احمدی ہو جاتا تھا تو انگریزی حکام اُسے اشارہ کہہ دیتے تھے کہ گورنمٹ تو اس سلسلہ کو مشتبہ نظروں سے دیکھتی ہے.ایسی حالت میں ایسے لوگوں کی مخبری جلتی پر تیل کا کام کر سکتی تھی.لہذا رد عمل کے طور پر اس کی تردید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے از بس ضروری ہوگئی.کیونکہ آپ سچے دل سے حکومت کے وفادار تھے.لہذا اس پرا پیگنڈا کے بُرے اثر کو زائل کرنے کے لئے آپ کو بار بار اپنی کتابوں میں لکھنا پڑا کہ آپ اور آپ کی جماعت گورنمنٹ انگریزی کی کچی وفادار ہے.مقصود آپ کا ان تحریروں سے صرف یہ تھا.مخبروں کی جھوٹی مخبری کی وجہ سے گورنمنٹ کی طرف سے تبلیغ اسلام کے کام میں ، جس کا بیڑا آپ نے اٹھایا ہے، کوئی روک پیدا نہ ہو.باوجود اس ذبّ اور تردید کے گورنمنٹ 1907 ء تک اس مخالفانہ پراپیگنڈا سے متاثر رہی.حتی کہ سرا بٹس گورنر ہو کر آئے اور انہوں نے تمام حالات کا جائزہ لے کر اور حضور کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد گورنمنٹ کو رپورٹ کی کہ اس جماعت کے ساتھ یہ سلوک نامناسب ہے یہ بڑی ناشکری کی بات ہے کہ جس شخص نے امن قائم کیا اور جو امن پسند جماعت قائم کر رہا ہے، اس پر پولیس چھوڑی گئی ہے.یہ بڑی احسان فراموشی ہے اور میں اسے ہٹا کر چھوڑوں گا“.(افضل 18 فروری 1959 صفحہ 6 کالم اول خطبہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) اس مخالفانہ اثر کو زائل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے

Page 417

395 حصہ دوم 24 فروری 1898 ء میں گورنر پنجاب کی خدمت میں ایک عرضی بھیجی تھی.جس میں اپنی جماعت کے متعلق لکھا:.غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ اور مور د مراحم گورنمنٹ ہیں یا وہ لوگ جو میرے اقارب یا خدام میں سے ہیں.ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد علماء کی ہے جنہوں نے میری اتباع میں اپنے وعظوں سے ہزاروں دلوں میں گورنمنٹ کے احسانات جما دیئے ہیں“.( تبلیغ رسالت جلد 7 صفحہ 18 مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 197) واضح ہو کہ اس عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تین قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے.ان لوگوں کا بھی جو گورنمنٹ کے ملازم ہیں اور نیک نام ہیں نیز آپ کی جماعت میں شامل ہیں.اور ان کا بھی جو آپ کے اقارب یا خاندان میں سے ہیں اور اس کے بعد اپنی جماعت کے وعظوں کا.خود کاشتہ پودا اس کے ایک صفحہ بعد آپ نے حاسدین گورنمنٹ کی جھوٹی مخبر یوں کا ذکر کرنے کے بعد تحریر فرمایا:.صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جان شار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معز زحکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سر کا رانگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں.اس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لئے.(اشتہار 24 رفروری1898ء مندرجہ تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ 19 مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 198 )

Page 418

396 حصہ دوم ندی تعلیمی پاکٹ بک اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو خود کاشتہ پودا قرار نہیں دیا بلکہ آپ کا یہ فقرہ اپنے خاندان کے متعلق ہے.انگریزی گورنمنٹ تو شروع دعوئی سے آپ کو اور آپ کی جماعت کو مشتبہ نظروں سے دیکھ رہی تھی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی وغیرہ نے گورنمنٹ کے طلبہ کو مزید تقویت دینے کی کوشش کی تھی.تو کون عظمند یہ خیال کر سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت احمدیہ کو انگریزوں کا خود کاشتہ پودا قرار دے سکتے تھے.ہاں آپ کے خاندان نے سکھوں کے اثر کے زائل کرنے کے لئے انگریزوں کو جو مدد دی تھی.اس کا ذکر کر کے آپ گورنمنٹ کو اس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ میرا خاندان جب تمہارا وفادار رہا ہے تو پھر میں تمہاری حکومت کے متعلق کس طرح باغیانہ خیالات رکھ سکتا ہوں اور ایک ایسی جماعت بنا رہا ہوں جس کو میں کسی وقت گورنمنٹ انگریزی کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں.تو بین مسیح علیہ السلام کا الزام الزام یہ ہے کہ مرزا صاحب نے حضرت عیسی علیہ السلام کے حق میں جو خدا کے نبی اور رسول تھے.نازیبا الفاظ استعمال کر کے اور ان کی دادیوں نانیوں کو زنا کار قرار دے کر ان کی توہین کی ہے.جس کی کسی مسلمان سے توقع نہیں کی جاسکتی.کیونکہ مسلمانوں کے لئے سب انبیاء پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے.الجواب: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کا مفہوم یہ ہے کہ آپ مثیل مسیح ہیں تو پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ آپ حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں:." جس حالت میں مجھے دعوی ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور حضرت

Page 419

یتعلیمی پاکٹ بک 397 حصہ دوم عیسی علیہ السلام سے مجھے مشابہت ہے.تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ میں اگر نعوذ باللہ حضرت عیسی علیہ السلام کو برا کہتا تو اپنی مشابہت ان سے کیوں بتلاتا کیونکہ اس سے تو خود میرابر اہونا لازم آتا ہے.(اشتہار 27 دسمبر 1898 مندرجہ تبلیغ رسالت جلد 7 صفحہ 70 حاشیہ.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 257) اصل حقیقت یہ ہے کہ عیسائی پادریوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بڑے بڑے گستاخانہ کلمات لکھے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں بار بار سمجھایا کہ اس طریق سے باز آئیں.مگر گستاخی میں بڑھتے گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اپنی گستاخی کو انتہا تک پہنچا دیا.چنانچہ پادری عمادالدین اور پادری فتح مسیح نے ایسی ایسی گندی باتیں آپ کی شان میں لکھیں جن کو پڑھ کر مسلمانوں کا سینہ پھٹ جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان پر ناپاک حملے کئے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی گندے الزام لگائے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دیکھ کر کہ یہ لوگ اس گندے طریق سے باز نہیں آرہے.الزامی رنگ میں انہیں بائبل کی رُو سے بعض جوابات دے کر اُن کا منہ بند کر دیا.تا وہ آئندہ ہوش سے کام لیں.یہ الزامی جوابات دیتے ہوئے آپ نے یہ احتیاط بھی کی ہے کہ یہ الزامات اس نبی اور رسول کے متعلق نہیں ہیں جن کا نام قرآن میں عیسی بیان ہوا ہے.بلکہ اس یسوع کے متعلق ہیں جنہیں عیسائی خدا اور خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور حقیقت میں ایسا کوئی یسوع موجود نہ تھا جس نے خدائی کا دعوی کیا.پس یہ الزامات بھی دراصل عیسائیوں کے فرضی یسوع پر لگائے گئے نہ کہ عیسی علیہ السلام پر جو خدا کے نبی اور رسول تھے.چنانچہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.حضرت مسیح کے حق میں کوئی بے ادبی کا کلمہ میرے منہ سے نہیں

Page 420

پیتعلیمی پاکٹ بک 398 حصہ دوم نکلا.یہ سب مخالفوں کا افتراء ہے.ہاں چونکہ در حقیقت ایسا کوئی یسوع مسیح نہیں گزرا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا ہو.اور آنے والے نبی خاتم الانبیاء کو جھوٹا قرار دیا ہو.اور حضرت موسی کو ڈاکو کہا ہو.اس لئے میں نے فرض محال کے طور پر اس کی نسبت ضرور بیان کیا ہے کہ ایسا مسیح جس کے یہ کلمات ہوں راستباز نہیں ٹھہر سکتا لیکن ہمارا مسیح ابن مریم جو اپنے تئیں بندہ اور رسول کہلاتا ہے اور خاتم الانبیاء کا مصدق ہے اُس پر ہم ایمان لاتے ہیں.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 305 حاشیہ) نیز تحریر فرماتے ہیں:.یادر ہے کہ یہ ہماری رائے اس یسوع کی نسبت ہے جس نے خدائی کا دعوی کیا اور پہلے نبیوں کو چور اور بٹمار کہا اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بجز اس کے کچھ نہیں کہا کہ میرے بعد جھوٹے نبی آئیں گے.ایسے یسوع کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں“.(انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 13) اسی طرح فرماتے ہیں:.بالآخر ہم لکھتے ہیں کہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی.انہوں نے ناحق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا کچھ تھوڑ اسا حال اُن پر ظاہر یں اور مسلمانوں پر واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا.اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع و شخص تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور حضرت موسی کا نام ڈاکو اور بٹمار رکھا اور آنے والے مقدس نبی کے وجود سے انکار کیا اور کہا میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے.پس ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر

Page 421

399 حصہ دوم راستبازوں کے دشمن کو ایک بھلا مانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے چہ جائیکہ اس کو نبی قرار دیں.نادان پادریوں کو چاہئے کہ بدزبانی اور گالیوں کا طریق چھوڑ دیں.ورنہ نامعلوم خدا کی غیرت کیا کیا ان کو دکھلائے گی.(ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 292-293) نیز تحریر فرماتے ہیں:.چونکہ پادری فتح مسیح متعین فتح گڑھ ضلع گورداسپور نے ہماری طرف ایک خط نہایت گندہ بھیجا.اور اس میں ہمارے سید ومولی صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگائی.اور سوا اس کے اور بہت سے الفاظ بطریق سب وشتم استعمال کئے.اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اس کے خط کا جواب شائع کر دیا جائے.لہذا یہ رسالہ لکھا گیا.اُمید کہ پادری صاحبان اس کو غور سے پڑھیں.اور اسکے الفاظ سے رنجیدہ خاطر نہ ہوں.کیونکہ یہ تمام پیرایہ میاں فتح مسیح کے سخت الفاظ اور نہایت ناپاک گالیوں کا نتیجہ ہے.تاہم حضرت مسیح علیہ السلام کی شانِ مقدس کا بہر حال لحاظ ہے اور صرف فتح مسیح کے سخت الفاظ کے عوض ایک فرضی مسیح کا بالمقابل ذکر کیا گیا ہے اور وہ بھی سخت مجبوری سے.کیونکہ اس نادان (فتح مسیح) نے بہت ہی شدت سے گالیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالی ہیں اور ہمارا دل دُکھایا ہے“.( نور القرآن نمبر 2.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 376) پھر آپ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13 پر لکھتے ہیں :.یہود تو حضرت عیسی کے معاملہ میں اور ان پیشگوئیوں کے بارے میں ایسے قومی اعتراض رکھتے ہیں کہ ہم بھی ان کا جواب دینے میں حیران ہیں بغیر اسکے کہ یہ کہہ دیں کہ ضرور عیسی نبی ہے کیونکہ قرآن نے اُن کو نبی قرار دیا

Page 422

400 حصہ دوم ہے اور کوئی دلیل ان کی نبوت پر قائم نہیں ہو سکتی.بلکہ ابطال نبوت پر کئی دلائل قائم ہیں.یہ احسان قرآن کا اُن پر ہے کہ اُن کو بھی نبیوں کے دفتر میں ہی لکھ دیا.اس وجہ سے ہم اُن پر ایمان لائے کہ وہ بچے نبی ہیں اور برگزیدہ ہیں تہمتوں سے معصوم ہیں جو اُن پر اور اُن کی ماں پر لگائی گئی ہیں.پھر آپ تحریر فرماتے ہیں:.ہم اس بات کو افسوس سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کے مقابل پر یہ نمبر نورالقرآن کا جاری ہوا جس نے بجائے مہذبانہ کلام کے ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت گالیوں سے کام لیا ہے اور اپنی ذاتی خباثت سے اس امام الطیبین وسید المطہرین پر سراسر افتراء سے ایسی تہمتیں لگائی ہیں کہ ایک پاک دل انسان کا ان کے سُننے سے بدن کانپ جاتا ہے.لہذا محض ایسے یاوہ گو لوگوں کے علاج کیلئے جواب ترکی بہ ترکی دینا پڑا.ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام پر نہایت نیک عقیدہ ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے سچے نبی اور اُس کے پیارے تھے.اور ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ وہ جیسا کہ قرآن شریف ہمیں خبر دیتا ہے اپنی نجات کے لئے ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم پر دل و جان سے ایمان لائے تھے.اور حضرت موسی کی شریعت کے صد ہا خادموں میں سے ایک مخلص خادم وہ بھی تھے.پس ہم ان کی حیثیت کے موافق ہر طرح ان کا ادب ملحوظ رکھتے ہیں.لیکن عیسائیوں نے جو ایک ایسا یسوع پیش کیا ہے جو خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اور بجز اپنے نفس کے تمام اولین اور آخرین کو معنی سمجھتا تھا.یعنی ان بدکاریوں کا مرتکب خیال کرتا تھا جن کی سز ا لعنت ہے.ایسے شخص کو ہم بھی رحمت الہی سے بے نصیب سمجھتے ہیں.ہم نے اپنی کلام میں ہر جگہ عیسائیوں

Page 423

401 حصہ دوم احمدیہ علیمی پاکٹ بک کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدائے تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسی ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے“.( نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 374-375 بعنوان ناظرین کے لئے ضروری اطلاع ) ان تحریرات سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنی عیسی علیہ السلام کی شان میں کوئی نازیبالفظ استعمال نہیں کیا.بلکہ آپ انہیں خدا کا نبی برگزیدہ اور راستباز جانتے ہیں.آیت قرآنی وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلهُ مِنْ دُونِهِ فَذلِكَ نَجْزِيْهِ جَهَنَّمَ کی رو سے عیسائیوں کو ایسا الزامی جواب دینا جائز ہے جو یسوع مسیح کو خدائی کا دعوے دار قرار دیتے ہیں.حضرت مسیح کی دادیاں نانیاں : عیسائیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان پر نا پاک حملے کئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بطور الزامی جواب بائبل سے دکھا دیا کہ یسوع کے خاندان میں تین ایسی عورتیں جو آپ کی دادیاں نانیاں قرار پاتی ہیں زنا کار اور کسی تھیں.اس طرح آپ نے ہمیشہ کے لئے عیسائیوں کا منہ بند کر دیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان پر نا پاک حملے کر کے آپ کی طرف نا پا کی کی نسبت کرنے کی جرات کرتے تھے بائبل کے حوالہ جات سے تمر.راحاب اور بنت سبع کو جو حضرت مسیح کی ایک لحاظ سے دادیاں اور ایک لحاظ سے نانیاں تھیں، بد کار ثابت کر دیا.چنانچہ (الف) را حاب کی نسبت لکھا ہے کہ وہ کسی تھی (بیشوع 2-1) (ب) تمر حرام کار تھی.( پیدائش 31-16 تا 30)

Page 424

ند یتعلیمی پاکٹ بک 402 حصہ دوم (ج) بنت سبع بھی بد کار تھی.(2 سموایل 11 باب ، آیات 3 تا 6) خود پادری عمادالدین انجیل متی میں ان بد کار عورتوں کو مسیح کے شجرہ نسب میں موجود پا کر اپنی تفسیر متی کے صفحہ 3 پر یہ لکھنے کے لئے مجبور ہوئے.” یہاں سے ظاہر ہے کہ مسیح خداوند نے گنہگاروں کے سلسلہ میں آنے سے نفرت نہیں کی..پس یہ امر عیسائیوں کے مسلمات میں سے ہے کہ یہ تینوں عورتیں جن کا یسوع کے شجرہ نسب میں ذکر ہے بدکاری کی وجہ سے گنہگار تھیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں:.” ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری والدہ سے لے کر تو اتک میری ماؤں کے سلسلہ میں کوئی عورت بدکار اور زانیہ نہیں ، نہ مردزانی اور بدکار ہے لیکن بقول عیسائیوں کے اُن کے خدا صاحب کی پیدائش میں تین زنا کار عورتوں کا خون ملا ہوا ہے.ست بچن.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 292 حاشیہ) الزامی جوابات کا طریق علماء اہل سنت میں سے جن کو عیسائیوں سے گفتگو کا واسطہ پڑا ہے.ان کی نامناسب روش کو دیکھ کر انہیں بھی ایسے ہی الزامی جوابات دینے پڑے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیئے ہیں.چنانچہ مولوی آل حسن نے اپنی کتاب استفسار میں اور مولوی رحمت اللہ صاحب مہاجر مکی نے اپنی کتاب اظہار الحق میں ایسے ہی بہت سے الزامی جوابات دیئے ہیں.حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت لکھا ہے کہ ایک دفعہ

Page 425

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 403 حصہ دوم ایک پادری شاہ صاحب کی خدمت میں آیا اور سوال کیا.کیا آپ کے پیغمبر حبیب اللہ ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں.وہ کہنے لگا.تو پھر انہوں نے بوقت قتل امام حسین فریاد نہ کی یا یہ فریاد سنی نہ گئی ؟ اس پر شاہ صاحب نے کہا.فریاد تو کی.لیکن انہیں جواب آیا کہ تمہارے نواسے کو قوم نے ظلم سے شہید کیا ہے.لیکن ہمیں اس وقت اپنے بیٹے عیسی کا صلیب پر چڑھنا یاد آ رہا ہے.رود کوثر از شیخ محمد اکرم ایم.اے صفحہ 68،67) جناب مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں :.نصاری ایسے کو خدا کہتے ہیں جو مسیح کا باپ ہے.ایسے کو جو یقیناً دغا باز ہے.پچھتاتا بھی ہے.تھک جاتا بھی ہے.(العطايا النبويه في الفتاوى الرضويه صفحه 740-741 رسالہ نمبر 25 باب العقائد والكلام ) حافظ قمر الدین صاحب سجاد نشین آستانہ عالیہ سیال شریف نے بھی کتاب پیدائش 38/13 کے حوالہ سے تامار کی بد فعلی سے دو تو ام بچے پیدا ہونے کا ذکر کیا ہے اور متی 3-1/16 کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ایک لڑکا ان میں سے جس کا نام فارض تھا ، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان حضرت یسوع کے جد امجد ہیں یہ تمر انبیاء بنی اسرائیل اور یسوع مسیح کی جد ہ محترمہ ہیں“ ( کتاب عیسائی مذہب صفحہ 4، 5 شائع کردہ دار التبلیغ سیال شریف مطبوعہ کراچی) اخبار اہلحدیث امرتسر اس قسم کے الزامی جوابات سے بھرا پڑا ہے.مثلاً :.-1 مسیح خود اپنے اقرار کے مطابق کوئی نیک انسان نہ تھے.اہلحدیث امرتسر صفحہ 8.31 / مارچ 1939 ء) 2- انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسیح نے اجنبی عورتوں سے اپنے سر پر عطر ڈلوایا.(دیکھو) متی 26/6، مرقس 14/3 ، یوحنا 12/6 اہلحدیث امرتسر 31 مارچ 1939)

Page 426

ندی تعلیمی پاکٹ بک 404 حصہ دوم اور اس پر ا پنا نوٹ یہ دیا کہ:.اس قسم کے کام شریعتِ الہیہ کے صریح خلاف ہیں.3 مسیح کے متعلق لکھا ہے کہ :.-4 (ملاحظہ ہوا اہلحدیث مذکور ) شراب جیسی اُم الخبائث چیز کا بنانا اور شادی کی دعوت کے لئے اسی شراب کو پیش کرنا اور خود شرابی اہلِ مجلس کی دعوت میں مع والدہ کے شریک ہونا.اسی یوحنا میں موجود ہے حالانکہ شراب عہد عتیق کی کتابوں میں قطعی حرام قرار پا چکی تھی.اس پر نوٹ لکھا ہے:.اہلحدیث 31 / مارچ 1939ء) ان حالات میں مسیح کی شراب سازی خلاف شریعت فعل ہے“.(اخبار مذکور ) انجیل کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے کذب کو روا رکھا.(اخبار مذکور صفحه 9) -5 " مسیح نے خلاف واقعہ شہادت دی.(ایضاً صفحہ 9) جھوٹ بولنے اور کتمان حق کی اجازت دی.اپنی والدہ کی تعظیم نہیں کرتے تھے“ (ايضاً) (ایضاً) 8 ” اپنی والدہ کو سیدھے منہ ماں کہنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے (ایضاً) اس پر یہ نوٹ دیا ہے:.” جب مسیح نے ماں کی تحقیر اور بے عزتی ظاہر کر کے شرائع سابقہ کے تاکیدی احکام بلکہ خود اپنے ہی قول کے خلاف کہا.تو ان کے غیر معصوم اور غیر محفوظ ہونے میں کیا شک رہا.(اخبار اہلحدیث 3 /مارچ 1939ء صفحہ 9)

Page 427

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 405 حصہ دوم 9 - انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے یہود کے علماء کے حق درشت الفاظ اور نہایت سخت کلمات کا استعمال کیا ہے“.(متی 23) بے ایمانوں کو مسیح نے کتا کہا.دیکھو کنعانی عورت کا قصہ.(متی 15/16) 10 مسیح نے اپنے عہدے کا مقصد بھی پورا نہ کیا.(ایضاً صفحہ 10) -11 مولوی ابوالمحمود صاحب سوہدروی نے اپنی کتاب ”اسلام اور عیسائیت“ کے صفحہ 122 پر لکھا ہے:." حضرت مسیح علیہ السلام کی تین نانیاں، دادیاں کسی ، زانی اور بدکار تھیں، اور چارنا نے دادے بھی بد تھے.پھر لکھتے ہیں:.زانی اور زانیہ کے اتنے طویل سلسلہ میں آنے والے شخص کا اپنا کیرکٹر یا اپنی پوزیشن کیا ہے گی.....الخ ( اسلام اور عیسائیت صفحہ 122 باب نهم فصل اول) مولوی ابوالاعلی صاحب مودودی بھی عیسائیوں کے یسوع مسیح کی بابت لکھتے ہیں:.حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ( یعنی عیسائی ) اُس تاریخی مسیح کے قائل ہی نہیں ہیں جو عالم واقعہ میں ظاہر ہوا تھا.بلکہ انہوں نے خود اپنے وہم وگمان سے ایک خیالی مسیح تصنیف کر کے اس خدا بنا لیا ہے.(تفهيم القرآن جلد 1 صفحه 491) بانی مدرسه دیو بند مولانامحمد قاسم صاحب نانوتوی لکھتے ہیں :.نصاری جود عولی محبت حضرت عیسی علیہ السلام کرتے ہیں تو حقیقت

Page 428

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 406 حصہ دوم میں ان سے محبت نہیں کرتے کیونکہ دار و مدار ان کی محبت کا خدا کا بیٹا ہونے پر ہے.سو یہ بات حضرت عیسی میں تو معلوم البتہ ان کے خیال میں تھی.اپنی خیالی تصویر کو پوجتے ہیں اور اسی سے محبت رکھتے ہیں.حضرت عیسی کو خداوند کریم نے ان کے واسطہ داری سے برطرف رکھا ہے.رساله هدیۃ الشیعہ صفحہ 245،244) اس تمام بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک خیالی اور فرضی یسوع پر مسلمات خصم سے عیسائیوں کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت گستاخیاں کرنے پر الزامی جوابات کا طریق اختیار کیا ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو بار باران الزامات سے پاک قرار دیا ہے اور انہیں خدا کا نبی اور رسول اور راست باز بندہ قرار دیا ہے اور صاف لکھ دیا ہے کہ وہ ان مخاطبات میں مد نظر نہیں ہے.مسیح کا شراب پینا یورپ کے لوگوں کو جس قد ر شراب نے نقصان پہنچایا ہے.اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسی علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے.شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے“.معترضین کشتی نوح صفحہ 65 کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں اور اس عبارت کو حضرت عیسی علیہ السلام کی تو ہین قرار دیتے ہیں.اور عجیب بات یہ ہے کہ سیاق کلام اس کا پیش نہیں کرتے.حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کو جو یورپ کی تقلید میں شراب پیتے ہیں.ہدایت فرما رہے ہیں کہ یورپ کے لوگ تو شراب پینے کے لئے اپنے زعم میں ایک یہ وجہ ء جواز رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح شراب پیتے تھے.لیکن اسلام میں تو اس کے لئے کوئی وجہ ء جواز نہیں.پس تم کس بناء پر شراب پیتے ہو؟

Page 429

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 407 حصہ دوم اس نصیحت کو تو نظر انداز کیا جاتا ہے اور مسیح کی تو ہین کا الزام لگایا جاتا ہے.حالانکہ مسیح کے زمانہ میں شراب حرام نہ تھی کہ اس کا پینا معصیت ہوتا.اس لئے عیسائیوں کے مذہب میں عشاء ربانی کی رسم میں شراب کا استعمال ایک مذہبی رسم ہے جسے وہ مسیح کے ذریعہ جاری شدہ خیال کرتے ہیں.اور حضرت مسیح کا ایک مجلس کے لئے معجزہ سے شراب بنانا خود انجیلوں میں مذکور ہے.ہاں اگر شراب اُس زمانہ میں حرام ہوتی تو پھر مسیح کے لئے اس کا استعمال ناجائز ہوتا.حضرت مسیح موعود نے تو اس جگہ دو تو جیہیں بھی بیان کر دی ہیں کہ یا وہ بیماری کی وجہ سے شراب پیتے تھے یا پرانی عادت کی وجہ سے.گویا اس جگہ آپ کے نزدیک مسیح نے اضطرار اشراب پی تھی جس حد تک ان کی شریعت میں جائز تھی.عمل الترب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں مسیح کے معجزات کے متعلق یہ لکھا ہے:.یہ بات قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم باذن و حکم الہی السبیع نبی کی طرح اس عمل الترب میں کمال رکھتے تھے گوالیع کے درجہء کاملہ سے کم رہے ہوئے تھے.کیونکہ البیع کی لاش نے بھی معجزہ دکھایا کہ اس کی ہڈیوں کے لگنے سے ایک مُردہ زندہ ہو گیا.مگر چوروں کی لاشیں مسیح کے جسم سے لگنے سے ہرگز زندہ نہ ہوسکیں یعنی وہ دو چور جو مسیح کے ساتھ مصلوب ہوئے تھے بہر حال مسیح کی یہ تربی کارروائیاں زمانہ کے مناسب حال بطور خاص مصلحت کے تھیں.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں.اگر یہ عاجز اس عمل

Page 430

408 حصہ دوم کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا.تو خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان مجو بہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا.لیکن مجھے وہ روحانی طریق پسند ہے جس پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم مارا ہے.حضرت مسیح نے بھی اس عمل جسمانی کو یہودیوں کے جسمانی اور پست خیالات کی وجہ سے جو ان کی خدمت میں مرکوز تھے باذن وحکم الہی اختیار کیا تھا.ورنہ دراصل مسیح کو بھی یہ عمل پسند نہ تھا.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 257-258 حاشیہ) اس عبارت کو بھی باعث تو ہین سمجھا جاتا ہے.اس وجہ سے کہ آپ نے اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت لکھا ہے.مگر یہ عمل تو مکروہ اور قابل نفرت شریعت اسلامیہ کی رو سے ہے نہ کہ شریعت سابقہ توراۃ کی رو سے.اور حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے ذوق کے لحاظ سے اس کو نا پسندیدہ سمجھتے ہوئے اس زمانہ کے لوگوں کے پست خیالات کی وجہ سے باذن و حکم الہی اختیار کیا تھا تا یہودی ہدایت پاسکیں.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت عیسی علیہ السلام کے اس عمل کو جو اسلامی شریعت میں ناپسندیدہ اور خود حضرت مسیح کے ذوق کے بھی خلاف تھا.پست فطرت یہودیوں کے جسمانی خیالات کی وجہ سے اختیار کرنا قرار دیا ہے.پھر اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُس زمانہ کے لوگوں کی فطرت کے لحاظ سے ایک عقلی معجزہ ہی قرار دیتے ہیں.چنانچہ آپ لکھتے ہیں:.(1) سو واضح ہو کہ انبیاء کے معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں:.ایک وہ جو محض سماوی امور ہوتے ہیں.جن میں انسان کی تدبیر اور عقل کو کچھ دخل نہیں ہوتا.جیسا شق القمر جو ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا.اور خدا تعالیٰ کی غیر محدود قدرت نے ایک راستباز

Page 431

(2) یتعلیمی پاکٹ بک 409 حصہ دوم اور کامل نبی کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے اُسے دکھایا تھا.دوسرے عقلی معجزات ہیں جو اس خارقِ عادت عقل کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں.جو الہام الہی سے ملتی ہے.جیسے حضرت سلیمان کا وہ معجزه صَرْحُ مُّمَرَّدُ مِنْ قَوَارِيرَ ہے.جس کو دیکھ کر بلقیس کو ایمان نصیب ہوا.اب جاننا چاہیئے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت مسیح کا معجزہ حضرت سلیمان کے معجزہ کی طرح صرف عقلی تھا.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 253-254 حاشیہ) اب یہ کس قدر ظلم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو حضرت مسیح کی تربی کاروائیوں کو باذنِ الہی آپ کا معجزہ قرار دیتے ہیں.لیکن معترضین معمل التر ب کے ذکر کو حضرت مسیح کی تو ہین قرار دیتے ہیں.پس خلاصہ بحث یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کی کوئی تو ہین نہیں کی.بلکہ عیسائیوں کو بطور الزام خصم انجیل کی رو سے اپنے اعتراضات میں ملزم گردانا ہے.چنانچہ مسیح کا قول انجیل متی 7/1 میں یہ لکھا ہے:.عیب نہ لگاؤ تا تم پر عیب نہ لگایا جائے“.عیسائیوں کے اس قول کے ہوتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر گندے الزامات لگائے.تو ضروری تھا کہ یسوع مسیح کی اس پیشگوئی کے مطابق عیسائیوں کے لئے بھی وہی پیمانہ استعمال کیا جاتا جو وہ استعمال کر رہے تھے.پس از روئے تعلیم یسوع مسیح بھی مسلمانوں کی طرف سے مدافعت کے اس طریق کا استعمال ضروری تھا.چنانچہ اس کا یہ اثر ہوا.کہ اس کے بعد عیسائیوں نے اسلام اور بانی ء اسلام علیہ السلام پر نا پاک حملوں کا طریق چھوڑ دیا اور ان کی روش بدل گئی اور

Page 432

410 حصہ دوم انہوں نے اس میں خاصی اصلاح کرلی.اگر عیسائیوں کے گندے اعتراضات کے الزامی جوابات نہ دیئے جاتے.تو ملک میں سخت فتنے کا دروازہ کھل جاتا اور مسلمانوں کو سخت مصیبت سے دوچار ہونا پڑتا.کیونکہ مسلمان اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف گندے اعتراضات نہیں سُن سکتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کے سامنے یہودیوں کے اعتراضات پیش کر کے مسلمانوں کے جوش کو ٹھنڈا کر دیا.اور اس طرح مسلمان قوم کو ایک سخت تباہی اور کشت و خون سے بچا لیا.مدافعت کا یہ طریق اضطراراً جَزْوَاسَيْئَةٍ سَيْئَةٌ مِّثْلُهَا کے عام اسلامی قانون کے ماتحت اختیار کیا گیا.اپنی نیت کو صحیح رکھتے ہوئے اس قسم کی تنقید جو دشمن کا منہ بند کرنے والی ہو اس آیت کے ماتحت جائز ہے.اسی لئے علماء اسلام بھی عیسائیوں کو بالمقابل الزامی جوابات دیتے رہے.جن میں صرف فرضی یسوع مدنظر تھا نہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام.آپ تحریر فرماتے ہیں:.موسی کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا.اور محمدی تسلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں سوئیں اس کی عزت کرتا ہوں.جس کا ہم نام ہوں.اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 17-18 ) الزام: بعض پیشہ ور مناظر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے.حالانکہ مشہور تھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے.یہ مناظر کہتے ہیں کہ یہ مرزا صاحب کا جھوٹ

Page 433

یتعلیمی پاکٹ بک 411 حصہ دوم ہے.کسی حدیث میں ایسا نہیں لکھا.الجواب: اس بارہ میں حدیث تو ہم بعد میں پیش کریں گے.جس سے انشاء اللہ معترض کا اعتراض هَبَاءً مَّنثُورًا ہو جائے گا.اولاً ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ عبارت اس سیاق میں واقع ہے کہ محض شک وشبہ اور وسوسہ کی بناء پر بعض امور کو حرام نہیں سمجھ لینا چاہیئے تفصیل اس کی یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان سے 25 رنومبر 1903 ء کو ایک صاحب کے استفسار کے جواب میں مندرجہ ذیل خط لکھا:.آپ کا خط مجھ کو ملا.آپ اپنے گھر میں سمجھا دیں کہ اس طرح شک وشبہ میں پڑنا بہت منع ہے.شیطان کا کام ہے جو ایسے وسوسے ڈالتا ہے.ہرگز وسوسہ میں نہیں پڑنا چاہیئے.گناہ ہے.اور یادر ہے کہ شک کے ساتھ غسل واجب نہیں ہوتا اور نہ صرف شک سے کوئی چیز پلید ہو سکتی ہے.ایسی حالت میں بیشک نماز پڑھنا چاہیئے اور میں انشاء اللہ دعا بھی کروں گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب و ہمیوں کی طرح ہر وقت کپڑا صاف نہیں کرتے تھے.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اگر کپڑا پر مٹی گرتی تھی تو ہم اس مٹی خشک شدہ کو صرف جھاڑ دیتے تھے کپڑا نہیں دھوتے تھے.اور آپ ایسے کنواں سے پانی پیتے تھے جس میں حیض کے لئے پڑتے تھے.ظاہری پاکیزگی سے معمولی حالت پر کفایت کرتے تھے.عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے.حالانکہ مشہور تھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے.اصول یہ ہے کہ جب تک یقین نہ ہو.ہر ایک چیز پاک ہے.محض شک سے کوئی چیز پلید نہیں ہوتی.اگر کوئی شیر خوار بچہ کسی کپڑے پر پیشاب کر دے.تو اس کپڑے کو دھوتے نہیں تھے.محض پانی کا ایک چھینٹا اس پر ڈال دیتے تھے.

Page 434

412 حصہ دوم احمدیہ علیمی پاکٹ بک اور بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ رُوح کی صفائی کرو.صرف جسم کی صفائی اور کپڑے کی صفائی بہشت میں داخل نہیں کرے گی.اور فرمایا کرتے تھے کپڑوں کے پاک کرنے میں وہم سے بہت زیادہ مبالغہ کرنا اور وضوء پر بہت پانی خرچ کرنا اور شک کو یقین کی طرح سمجھ لینا.یہ سب شیطانی کام ہیں اور سخت گناہ ہیں.صحابہ رضی اللہ عنہم کسی مرض کے وقت میں اونٹ کا پیشاب بھی پی لیتے تھے.فقط خوابوں کی تفصیل اور تعبیر کرنے کی گنجائش نہیں.اتنا لکھنا کافی ہے کہ سب خوا ہیں اچھی ہیں.بشارتیں ہیں.کوئی بُری نہیں.والسلام.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان“.( منقول از اخبار الفضل قادیان 22 فروری 1944 صفحہ 9) اس خط کے منقول سے ظاہر ہے کہ اسلام نے شک و شبہ کو اہمیت نہیں دی.صرف یقین کو اہمیت دی ہے.جب تک یقین نہ ہو بعض اشیاء کا ترک واجب نہیں ہے.انہیں میں وہ پنیر تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھا لیتے تھے.حالانکہ مشہور تھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرزِ عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک یقین نہ ہو ہر ایک چیز پاک ہے محض شک سے کوئی چیز حرام نہیں ہوتی.اپنے طرز عمل سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت پر عظیم الشان احسان فرمایا ہے.تا امت پر تنگی وارد نہ ہو.اور دین میں آسانی رہے.اصولی ہدایت آپ کی یہی ہے کہ الدِّينُ يُسر کہ دین آسان ہے.قرآن کریم میں بھی یہی ہدایت کی گئی ہے.کہ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِى مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا کہ ظنيات پر بنیاد نہ رکھی جائے بلکہ یقین پر کسی عمل کی بنیاد رکھی جائے.کیونکہ یقین کے مقابل پر ظن کی کوئی حیثیت نہیں.اس سلسلہ میں جو روایات ہیں.ان میں سے ایک روایت میں پنیر میں

Page 435

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 413 حصہ دوم مُردار ڈالا جانے کا ذکر ہے.اور دوسری میں یہ ذکر ہے کہ پنیر کے متعلق یہ مشہور تھا کہ اس میں سور کی چربی پڑتی ہے.یہ دونوں حدیثیں درج ذیل ہیں:.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا فَتَحَ مَكَةَ رَأَى جُبْنَةً قَالَ مَا هَذا فَقَالُوا طَعَامٌ يُصْنَعُ بِأَرْضِ الْعَجُمِ فَقَالَ ضَعُوا فِيْهِ السِّكِّيْنَ وَكُلُوا وَرَوَى أَحْمَدُ وَالْبَيْهِقُى عَنْهُ أُوتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجُبْنَةٍ بِغَزْوَةِ تَبُوكَ فَقَالَ أَيْنَ صُنِعَتُ هذه.قَالُوُ بِفَارِسَ وَنَحْنُ نَرَى أَنْ يُجْعَلَ فِيْهَامَيْتَةٌ فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَطْعِمُوا وَفِي رِوَايَةٍ ضَعُوا فِيهَا السَّكِيْنَ وَاذْكُرُواسْمَ اللَّهِ تَعَالَى وَكُلُوا.قَالَ الْخَطَّابِيُّ اَبَاحَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ظَاهِرِ الْحَالِ وَلَمْ يَمْتَنِعُ مِنْ أَكْلِه“.زرقانی شرح المواہب اللہ نیہ جلد 4 صفحہ 335) ترجمہ:.حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو آپ نے پنیر دیکھ کر فرمایا.یہ کیا ہے؟ صحابہ نے کہا یہ کھانا ہے جو عجمی علاقہ میں تیار کیا جاتا ہے.حضور نے فرمایا.اس میں چھری رکھو اور اسے کھاؤ ( یعنی چھری سے کاٹ کر کھاؤ اور احمد اور بیہقی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غزوہ تبوک میں پنیر پیش کیا گیا.تو آپ نے پوچھا.یہ کہاں تیار ہوا ہے.صحابہ نے کہا.فارس میں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ اِس میں مُردار ڈالا جاتا ہے.(یعنی مُردار کی چربی ) حضور نے فرمایا کھاؤ.اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا.اس میں چھری رکھو اور اللہ کا نام لے کر کھاؤ“.ان حدیثوں کی بنا پر خطابی نے کہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 436

یتعلیمی پاکٹ بک 414 حصہ دوم اس پنیر کو اس کی ظاہری حالت کی بناء پر مباح ( جائز ) ٹھہرایا ہے اور اس کے کھانے سے ممانعت نہیں فرمائی.اب خاص سور کی چربی والی روایت ملاحظہ ہو :.حضرت شیخ زین الدین بن عبد العزیز اپنی کتاب «فتح المعين شرح قرة العین میں زیر عنوان ”باب الصلوۃ “ زیر قاعدہء مہمہ مطبوعہ مصر مؤلّفہ 982ھ میں لکھتے ہیں :.وَجُوخٌ اِشْتَهَرَ عَمَلُهُ بِشَحْمِ الْخِنْزِيرِ وَجُبُنٌ شَامِيٌّ اشْتَهَرَ عَمَلُهُ بِأَنْفِحَةِ الْخِنْزِيرِ وَقَدْ جَاءَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُبْنَةٌ مِنْ عِنْدِهِمْ فَأَكَلَ مِنْهَا وَلَمْ يَسْئَلُ عَنْ ذَلِكَ.ذَكَرَهُ شَيْخُنَا فِي شَرح الْمِنْهَاجِ“.اسی حدیث کی روشنی میں خان احمد شاہ صاحب قائم مقام اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر ہوشیار پور نے 1875ء میں رسالہ 'اظہار الحق دربارہ جواز طعام اہل کتاب“ کے نام سے ایک فتویٰ شائع کیا ہے.اس رسالہ میں مولوی نذیرحسین صاحب وغیرہ علماء غیر مقلد کی مہریں موجود ہیں ، اور اس کے چھپوانے میں مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے بڑی کوشش فرمائی.اس فتویٰ مہری کو مولوی عطاء محمد صاحب نے مندرجہ کتاب اظہار الحق ، مطبوعہ اتالیق ہنڈ“ لاہور کے صفحہ 17 ،18 پر ”قرة العین “ کی شرح «فتح المعین “ کی عربی عبارت مندرجہ بالا درج کرنے کے بعد ترجمہ یوں کیا اور لکھا:.” اور جو خ جو مشہور ہے بنانا اس کا ساتھ چربی سور کے اور پنیر شام کا جو مشہور ہے بنانا اس کا ساتھ پنیر مائع سؤر کے اور آیا جناب سرور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پنیر اُن کے پاس سے لیا.پس کھایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 66

Page 437

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 415 حصہ دوم اُس سے اور نہ پو چھا اُس سے ( یعنی اس کی بابت “.فتویٰ اظہار الحق صفحہ 17، 18 مطبوعہ 1875ء) اب معترضین کا صرف ایک اعتراض باقی رہ جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے اس روایت کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کیا ہے اور حضرت عائشہ کی کوئی روایت اس مضمون کی موجود نہیں.یہ محض مغالطہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے خط میں یہ نہیں لکھا کہ پنیر کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت صرف یہ ہے جیسا کہ خط سے ظاہر ہے:." کہ کپڑا پر منی کرتی تھی.تو ہم اس منی خشک شدہ کو جھاڑ دیتے تھے.کپڑا نہیں دھوتے تھے“.پنیر والی روایت کے متعلق یہ الفاظ نہیں لکھے کہ وہ حضرت عائشہ الصدیقہ سے مروی ہے.بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے بعد صرف مسئلہ کو سمجھانے کے لئے دوسری روایت کا ذکر آ گیا ہے جس میں راوی کا نام درج نہیں کیا گیا.اس کے بعد بھی بعض باتیں احادیث کی رُو سے بیان ہوئی ہیں وہ بھی حضرت عائشہ الصدیقہ سے مروی نہیں ہیں.پس پنیر والی روایت کو حضرت عائشہ الصدیقہ کی طرف منسوب سمجھ لینا معترضین کی غلط نہی ہے.پنیر والی حدیث کا ذکر ”ستارہ محمدی صفحہ 14/15 "شمس الہدی صفحہ 3 ” لفتح المبین “ بجواب الظفر المبین “ کے صفحہ 50 پر بھی موجود ہے.اعتراض امام مہدی از روئے احادیث نبویہ حضرت فاطمہ کی اولاد سے ہونا چاہیے.لیکن مرزا صاحب تو مغل ہیں.وہ کس طرح مہدی ہوئے؟

Page 438

ی علیمی پاکٹ بک الجواب: 416 جیسا کہ ابوداؤد کی روایت میں ہے:.الْمَهْدِيُّ مِنْ عِتْرَتِى مِنْ وُلْدِ فَاطِمَةَ“ (کنز العمال باب خروج المهدی) حصہ دوم واضح ہو کہ امام مہدی کے متعلق جو روایات ہیں ان میں بہت سا اختلاف موجود ہے.علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمے میں ان روایات کو نقل کر کے ان پر جرح کی ہے.اور اپنی تنقید کا نتیجہ یہ بیان فرمایا ہے:.فَهَذِهِ جُمْلَةُ الْأَحَادِيثِ الَّتِي اَخْرَجَهَا الْأَئِمَّةُ فِي شَانٍ الْمَهْدِيّ وَخَرُوجِهِ آخِرَ الزَّمَانِ وَهِيَ كَمَا رَأَيْتَ لَمْ يَخْلُصُ مِنَ النَّقْدِ إِلَّا الْقَلِيْلَ الاَقَلَّ مِنْهُ.یعنی یہ وہ تمام احادیث ہیں جنہیں ائمہ نے مہدی اور اس کے آخری زمانہ میں خروج کے متعلق نکالا ہے.اور یہ احادیث جیسا کہ آپ نے (جرح سے ) معلوم کر لیا ہے سوائے قلیل الاقل کے تنقید سے خالی نہیں.روایات میں تضاد بعض احادیث میں مہدی کو اولاد فاطمہ سے قرار دیا گیا ہے.بعض سے حضرت حسنؓ کی اولاد سے مہدی ہونا سمجھا گیا.بعض حضرت حسین کی اولاد سے مہدی قرار دیتے ہیں.بعض حضرت عباس کی اولاد سے.بعض حضرت عمرؓ کی اولاد سے اور بعض احادیث میں ہے کہ مہدی مجھ سے ہے یا میری اُمت میں سے نکلے گا.روایات میں یہ اختلاف سیاسی وجوہ سے پیدا ہوا.خلافتِ راشدہ کے بعد انتشار کے زمانہ میں ہر گروہ نے دوسرے گروہ پر اپنی برتری ظاہر کرنے کے لئے

Page 439

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 417 حصہ دوم روایات میں تصرف سے کام لیا ہے.اس لئے ان سب روایات سے اعتبار اٹھ گیا ہے جن میں مہدی کا کسی خاص خاندان میں پیدا ہونے کا ذکر ہے.اور صرف وہی روایات قابلِ قبول رہتی ہیں جن میں حضرت امام مہدی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے ہونا مذکور ہے.ایسی روایات ہی سیاسی وجوہ کے ہونے سے پاک معلوم ہوتی ہیں.واضح رہے کہ اکثر روایات میں مہدی کے ساتھ امام کا لفظ بھی موجود نہیں.اگر یہ روایات درست بھی ہوں تو مہدی کئی ہو سکتے ہیں.لیکن بخاری اور مسلم میں اور اسی طرح مسند احمد بن حنبل کی روایات میں نازل ہونے والے ابن مریم کو ہی الامام یا الامام المہدی قرار دیا گیا ہے.ملاحظہ ہو بخاری باب نزول عیسی ومسند احمد بن حنبل کی حدیث :.يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمُ اَنْ يَّلْقَى عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَهْدِيَّا وَحَكَمًا عَدَلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الجزيَةَ وتَضَعُ الْحَرُبُ اَوْزَارَهَا “.(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 411 مطبوع بيروت بروایت ابو ہریرہ) ترجمہ :.” قریب ہے کہ جو تم سے زندہ ہو.عیسی بن مریم سے اس کے امام مہدی ہونے کی حالت میں ملاقات کرے اور وہ حکم وعدل ہوگا.پس صلیب کو توڑے گا.اور خنزیر کو مارے گا.اور جزیہ کو موقوف کر دے گا.اور لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے گی“.بخاری اور مسلم کی روایتوں میں نازل ہونے والے عیسی بن مریم کے لئے على الترتيب وَاِمَامُكُمْ مِنْكُمُ اور فَأَمَّكُمُ مِنْكُمُ کے الفاظ وارد ہیں.ان حادیث میں نازل ہونے والے عیسی بن مریم کو امت کا ایک فرد قرار دیا گیا ہے.اس سے

Page 440

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 418 حصہ دوم ظاہر ہے امام مہدی کو ابن مریم کا نام حضرت عیسی سے مماثلت رکھنے کی وجہ سے بطور شیعوں کی حدیث بحارالانوار میں ابوالدرداء کی روایت سے امام مہدی کے استعارہ دیا گیا ہے.متعلق بیان ہے کہ:.66 اشْبَهُ النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ “ کہ وہ سب لوگوں سے بڑھ کر عیسی بن مریم سے مشابہ ہو گا.ایک روایت میں ہے:.وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ “ (ابن ماجه كتاب الفتن باب اشراط الساعة) اس کی روشنی کے مطابق اقتباس الانوار از شیخ محمد اکرم صابری صفحہ 52 میں لکھا ہے:.روح عیسی در مهدی بروز کنند و نزول عبارت از این بروز است مطابق این حدیث لَا الْمَهْدِى الَّا عِيسَی ابن مریم “.کہ مسیح کی روحانیت مہدی میں بروز کرے گی اور یہی مفہوم ہے لا المَهدِى إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ کا.واقعات نے ان حدیثوں کی تائید کی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ایک ہی شخص کو امت میں سے عیسی بن مریم کا نام دے کر مامور کیا ہے.حضرت مسیح موعود اولا د فاطمہ سے ہیں عجیب اتفاق ہے کہ:.مِن وُلْدِ فَاطِمَة “ والی حدیث حضرت مسیح موعود پر صادق آتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں:.سادات کی جڑ یہی ہے کہ وہ بنی فاطمہ ہیں.سو میں اگر چہ علوی تو نہیں ہوں مگر بنی فاطمہ میں سے ہوں.میری بعض دادیاں مشہور اور صحیح النسل

Page 441

ندی تعلیمی پاکٹ بک 419 حصہ دوم سادات میں سے تھیں.اور ہمارے خاندان میں یہ طریق جاری رہا ہے کہ کبھی سادات کی لڑکیاں ہمارے خاندان میں آئیں اور کبھی ہمارے خاندان کی لڑکیاں اُن کے گئیں.نزول مسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحه 426 حاشیه در حاشیه ) تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں:.” میرے وجود میں ایک حصہ اسرائیلی ہے اور ایک حصہ فاطمی.اور میں دونوں مبارک پیوندوں سے مرتب ہوں اور احادیث اور آثار کو دیکھنے والے خواب جانتے ہیں کہ آنے والے مہدی آخرالزمان کی نسبت یہی لکھا ہے کہ وہ مرکب الوجود ہو گا.(تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 118) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا:.وَجَعَلَ لَكُمُ الصِّهْرَ وَ النَّسَبَ ، آپ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:.66 الهام اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصِّهْرَ وَ النَّسَبَ سے ایک لطیف استدلال میرے بنی فاطمہ ہونے پر پیدا ہوتا ہے.کیونکہ صفر اور نسب اس الہام میں ایک ہی جَعَل کے نیچے رکھے گئے ہیں اور ان دونوں کو قریباً ایک ہی درجہ کا امر قابل حمد ٹھہرایا گیا ہے اور یہ صریح دلیل اس بات پر ہے کہ جس طرح صهر یعنی دامادی کو بنی فاطمہ سے تعلق ہے اسی طرح نسب میں بھی فاطمیت کی آمیزش والدات کی طرح سے ہے.اور صھر کو نسب پر ے حاشیہ:.ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ:.لَوْنُهُ لَوُنْ عَرَبِيٌّ وَجِسُمُهُ جِسُمٌ إِسْرَائِيُلِيُّ “ 66 ( النجم الثاقب مصنفہ میرزاحسین طبری صفحه 69)

Page 442

420 حصہ دوم مقدم رکھنا اسی فرق دکھلانے کیلئے ہے کہ صھر میں خالص فاطمیت ہے اور نسب میں اس کی آمیزش.(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 117 حاشیہ) ایک کشف کی شہادت کہ آپ حضرت فاطمہ کی اولاد ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ کشف براہین احمدیہ میں یوں مذکور ہے:.اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے.سو اس میں بھی یہی بستر ہے کہ افاضئہ انوارالہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے.جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے.وہ انہیں طیبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے.اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے.اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غیبت حسن سے جو خفیف سے نشا سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے ایک دفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی.جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے.پھر اُسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے.یعنی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علی و حسنین و فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور ایک نے اُن میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مهربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا.پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے.جس کو علی نے تالیف کیا ہے اور اب علی وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے“.براہین احمدیہ جلد چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 598-599 حاشیه در حاشیہ نمبر 3) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فاطمتہ الزاہراء سے

Page 443

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 421 حصہ دوم فرزند کی نسبت رکھتے ہیں اور وہ ان کے لئے مادر مہربان کی.چنا نچہ اس کشف کو آپ نے تحفہ گولڑویہ میں بالا ختصار درج کر کے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ:.غرض میرے وجود میں ایک حصہ اسرائیلی اور ایک حصہ فاطمی“.تحفہ گولڑ و بی روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 118) یہی اس کشف کی صحیح تعبیر ہے جو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے.میلہم کے اپنی بیان کردہ تعبیر کے علاوہ اس کشف کے کوئی اور معنے لینا یا تاویل کرنا ہرگز جائز نہیں.حضرت امام مہدی علیہ السلام کا نام گوسرکاری کاغذات میں مغل لکھا ہوا ہے.لیکن درحقیقت آپ فارسی الاصل ہیں اور پیشگوئی: هؤلاء لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ اَورَجُلٌ مِنْ (بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الجمعة - باب قوله وآخرين منهم لمايلحقوا بهم) کے مصداق ہیں.جو در حقیقت امام مہدی سے ہی متعلق ہے.اور اسے فارسی الاصل قرار دیتی ہے.کیونکہ یہ کہتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی پر ہاتھ رکھا تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے الہامات نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ آپ فارسی الاصل ہیں.چنانچہ آپ پر الہام ہوا :.إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ رَدَّ عَلَيْهِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ شَكَرَ اللَّهُ سَعْيَهُ -

Page 444

ندی تعلیمی پاکٹ بک 422 حصہ دوم جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور خدا تعالیٰ کی راہ کے مزاحم ہوئے ان کا ایک مرد فارسی الاصل نے رڈلکھا ہے.اس کی سعی کا خدا شاکر ہے.( تذکره صفحه 57 مطبوعہ 2004ء) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھی اعتراف ہے کہ :.66 مؤلّف قریشی نہیں.فارسی الاصل ہے.(اشاعة السنة جلد 7 صفحه 193 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.یادر ہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے...اب خدا کی کلام سے یہ معلوم ہوا کہ دراصل ہمارا خاندان فارسی خاندان کیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کسی دوسرے کو ہرگز معلوم نہیں.اسی کا علم صحیح اور یقینی ہے اور دوسروں کا ھنگی اور ظنی“.اربعین نمبر 2 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 365 حاشیہ ) ہے..پھر لکھتے ہیں :.اس عاجز کا خاندان دراصل فارسی ہے نہ مغلیہ نہ معلوم کس غلطی سے مغلیہ خاندان کے ساتھ مشہور ہو گیا...معلوم ہوتا ہے کہ میرزا اور بیگ کا لفظ کسی زمانہ میں بطور خطاب کے ان کو ملا تھا.جس طرح خان کا نام بطور خطاب دیا جاتا ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 81 حاشیہ) کتاب ”میڈیول انڈیا انڈر ممدن رول مصنفہ سٹینلے لین پول میں لکھا ہے:.لفظ مغل ہندوستان کے کالے باشندوں سے وسطی ایشیاء کے ہر گورے شریف آدمی کو میز کرنے کے لئے بولا جاتا ہے.مختلف حملہ آور یا حکمران مسلمان ترک مغل، پٹھان اور مغل کچھ اس طرح مل جل گئے کہ ان

Page 445

423 حصہ دوم سب کو بلا امتیاز مغل کے نام سے پکارا جانے لگا.(میڈیول انڈیا مطبوعہ ٹی فشر.پندرھواں ایڈیشن صفحہ 197) تو ہین اہل بیت کے الزام کارڈ اعتراض :.مرزا صاحب نے ایک شعر لکھا ہے جس میں امام حسین بھی توہین کی ہے:.کربلائیست سیر ہر آ الجواب صدحسین است در گریبانم یہ شعر ہر گز تو ہین پر مشتمل نہیں بلکہ اپنی اور امام حسین کی مظلومیت کے ذکر پر مشتمل ہے.اہل بیت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو زبر دست عقیدت تھی چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم شار کوچہء آل محمد است کہ میری جان و دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال پر فدا ہے اور میری خاک آل محمد کے کوچہ پر شار ہے.اہلِ بیت کا ایسا عقیدت مند کبھی ان کی توہین کا مرتکب نہیں ہوسکتا.لہذا اعتراض میں پیش کردہ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک لطیف پیرایہ میں اپنی مشکلات کا ذکر فرمایا ہے جو مخالفین اسلام کی طرف سے چاروں طرف سے اسلام پر حملہ کر کے آپ کو در پیش تھیں.شعر کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ میں ہر آن کربلا سے گزرتا ہوں اور حضرت امام حسین کی طرح سینکڑوں

Page 446

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 424 حصہ دوم مشکلات میں گھرا ہوا ہوں.عموماً شعراء کربلا اور حسین سے مشکلات مراد لیتے ہیں.علامہ نوعی تحریر فرماتے ہیں:.کر بلاء عشقم ولب تشنہ سرتا پائے من صدحسینے کشته در ہر گوشہ صحرائے من ( دیوان علامه نوعی ) اس شعر میں صدحسین سے صدر با مشکلات مراد لی گئی ہیں.ترجمہ اس کا یہ ہے کہ عشق کی وجہ سے میں کربلا میں ہوں.اور سرتا پا تشنہ لب ہوں.نو کشتہ حسین میرے صحرا کے ہر ایک گوشہ میں موجود ہیں.گویا شاعر اپنے عشق کی راہ میں شدائد کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ سینکڑوں حسین یعنی مشکلات اسے صحرائے عشق کے ہر گوشہ میں پیش آرہی ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر میں بھی ”صد حسین است“ کے الفاظ میں مشکلات کا ہی ذکر ہے.در گریبانم “ کے الفاظ میں گریبان سے مراد بطور مجاز مرسل بوجہ مجاورت دل مراد لیا جاتا ہے.جیسے کہتے ہیں.اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو.مراد یہ ہوتی ہے.کہ اپنی قلبی حالت کا مشاہدہ کرو.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ بتارہے ہیں کہ اسلام پر دشمنانِ اسلام کے حملوں کی وجہ سے میرا دل صد با مشکلات و مصائب میں گھرا رہتا ہے.مجاز مرسل کو نہر جاری ہے“ کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے.کہ دراصل نہر تو اپنی جگہ کھڑی رہتی ہے.البتہ اس میں پانی جاری ہوتا ہے.

Page 447

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 425 حصہ دوم امام حسین کی شان حضرت مسیح موعود کی نگاہ میں بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ط میں اس شتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک نا پاک طبع دنیا کا کیڑا اور ظالم تھا.اور جن معنوں کے رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے.مومن بننا کوئی سہل امر نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے:.اسْلَمْنَا قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلَكِنْ قُوْلُوْا (الحجرات: 15) مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال اُن کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں.جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے ہیں.اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں.اور ہر ایک چیز جو بت کی طرح خدا سے روکتی ہے.خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو.سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں.لیکن بد نصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں.دنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا.مگر حسین رضی اللہ عنہ ظاہر مطہر تھا اور بلا شبہ ان برگزیدوں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کرتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلپ ایمان ہے.اور اس امام کا تقویٰ اور محبت اور صبر اور کے اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے تو ان سے کہہ دے کہ تم حقیقتاً ایمان نہیں لائے.لیکن تم یہ کہا کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر فرمانبرداری قبول کر لی ہے.“

Page 448

426 حصہ دوم استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اُس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی.تباہ ہو گیا وہ دل جو اُس کا دشمن ہے.اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اُس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے.جیسا کہ ایک صاف آئینہ ایک خوبصورت انسان کا نقش.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں کون جانتا ہے ان کی قدر مگر وہی جو انہی میں سے ہے.دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں.یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی محبت کی جاتی.غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسین یا کسی اور بزرگ کی جو ائمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف ان کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے.جو شخص مجھے بُرا کہتا ہے یا لعن طعن کرتا ہے اس عوض میں کسی برگزیدہ اور محبوب الہی کی نسبت شوخی کا لفظ زبان پر لانا سخت معصیت ہے.ایسے موقعہ پر درگزر کرنا اور نادان دشمن کے حق میں دعا کرنا بہتر ہے.کیونکہ اگر وہ لوگ مجھے جانتے ہیں کہ میں کس کی طرف سے ہوں.تو ہر گز بُرا نہ کہتے.وہ مجھے ایک دجال اور مفتری خیال کرتے ہیں.میں نے جو کچھ اپنے مرتبہ کی نسبت کہا وہ میں نے نہیں کہا بلکہ خدا نے کہا.پس مجھے کیا ضرورت ہے.کہ ان بحثوں کو طول دوں.اگر میں در حقیقت مفتری اور دجال ہوں.اور اگر در حقیقت میں اپنے ان

Page 449

427 حصہ دوم مراتب کے بیان کرنے میں جو میں خدا کی وحی کی طرف ان کو منسوب کرتا ہوں کا ذب اور مفتری ہوں.تو میرے ساتھ اس دنیا اور آخرت میں خدا کا وہ معاملہ ہو گا جو کا ذبوں اور مفتریوں سے ہوا کرتا ہے.کیونکہ محبوب اور مردود یکساں نہیں ہوا کرتے.سوائے عزیز و! صبر کرو کہ آخر وہ امر جو خفی ہے کھل جائے گا.خدا جانتا ہے کہ میں اس کی طرف سے ہوں اور وقت پر آیا ہوں مگر وہ دل جو سخت ہو گئے اور وہ آنکھیں جو بند ہو گئیں میں ان کا کیا علاج کر سکتا ہوں.خدا میری نسبت اشارہ کر کے فرماتا ہے کہ:.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.پس جب کہ خدا نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ وہ زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کرے گا تو اس صورت میں کیا ضرورت ہے کہ کوئی شخص میری جماعت میں سے خدا کا کام اپنے گلے ڈال کر میرے مخالفوں پر نا جائز حملے شروع کرے.نرمی کرو اور دعا میں لگے رہو.اور بچی تو بہ کو اپنا شفیع ٹھہراؤ اور زمین پر آہستگی سے چلو.خدا کسی قوم کا رشتہ دار نہیں ہے.اگر تم نے اس کی جماعت کہلا کر تقویٰ اور طہارت کو اختیار نہ کیا اور تمہارے دلوں میں خوف اور خشیت پیدا نہ ہوا تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہیں مخالفوں سے پہلے ہلاک کرے گا.کیونکہ تمہاری آنکھ کھولی گئی اور پھر بھی تم سو گئے.اور یہ مت خیال کرو کہ خدا کو تمہاری کچھ حاجت ہے.اگر تم اس کے حکموں پر نہیں چلو گے.اگر تم اُس کی حدود کی عزت نہیں کرو گے تو وہ تمہیں ہلاک کرے گا.اور ایک اور قوم تمہارے عوض لائے گا جو اُس کے حکموں پر چلے گی.اور میرے آنے کی غرض صرف یہی نہیں کہ میں ظاہر کروں کہ حضرت عیسی علیہ السلام

Page 450

428 حصہ دوم احمدیہ علیمی پاکٹ بک فوت ہو گئے ہیں.یہ تو مسلمانوں کے دلوں پر سے ایک روک کا اُٹھانا اور سچا واقعہ ان پر ظاہر کرنا ہے.بلکہ میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ تا مسلمان خالص توحید پر قائم ہو جاویں اور اُن کو خدا سے تعلق پیدا ہو جاوے.اور اُن کی نمازیں اور عبادتیں ذوق اور احسان سے ظاہر ہوں اور اُن کے اندر سے ہر ایک قسم کا گند نکل جائے.اور اگر مخالف سمجھتے تو عقائد کے بارے میں مجھ میں اور اُن میں کچھ بڑا اختلاف نہ تھا.مثلاً وہ کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام مع جسم آسمان پر اُٹھائے گئے.سو میں بھی قائل ہوں کہ جیسا کہ آیت انی مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى - (آل عمران:56) کا منشاء ہے بے شک حضرت عیسی علیہ السلام بعد وفات مع جسم آسمان پر اُٹھائے گئے.صرف فرق یہ ہے کہ وہ جسم عصری نہ تھا بلکہ ایک نورانی جسم تھا جو ان کو اس طرح خدا کی طرف سے ملا جیسا آدم اور ابراہیم اور موسی اور داؤد اور یحیی اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیہم الصلوات و السلام کو ملا تھا.ایسا ہی ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ضرور دنیا میں دوبارہ آنے والے تھے جیسا کہ آگئے.صرف فرق یہ ہے کہ جیسا کہ قدیم سے سنت اللہ ہے.اُن کا آنا صرف بروزی طور پر ہوا.جیسا کہ الیاس بھی دوبارہ دنیا میں بروزی طور پر آیا تھا.پس سوچنا چاہیئے.کہ اس قلیل اختلاف کی وجہ سے جو ضرور ہونا چاہیئے تھا.اس قدر شور مچانا کس قدر تقویٰ سے دُور ہے.آخر جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم بن کر آیا ضرور تھا کہ جیسا کہ لفظ حکم کا مفہوم ہے کچھ غلطیاں اس قوم کی ظاہر کرتا جن کی طرف وہ بھیجا گیا.ورنہ اس کا حکم کہلانا باطل ہوگا.اب زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.لے اُس وقت کو یاد کرو جب اللہ نے کہا.اے عیسی ! میں تجھے ( طبعی طور پر ) وفات دوں گا اور تجھے اپنے حضور میں عزت بخشوں گا“.

Page 451

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 429 حصہ دوم میں اپنے مخالفوں کو صرف یہ کہہ کر کہ اعْمَلُوْا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ يا (انعام:136) اس اعلان کو ختم کرتا ہوں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى “.(فتاوی احمدیہ حصہ دوم صفحہ 79 تا 81) امام حسین کی یہ شان بیان کرنے والا شخص کبھی ان کی تو ہین کا ارتکاب نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسی جیسے راستباز پر بدزبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا اور وعید مَنْ عَــادَ وَلِيًّا لِی دست بدست اس کو پکڑ لیتا ہے“.اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 149) عجیب بات ہے کہ اسی اعجاز احمدی کے ایک شعر کو انصاف کا خون کر کے بعض مخالف مناظرین کی طرف سے تو ہین کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعجاز احمدی کے مشہور قصیدہ میں امام حسین علیہ السلام کے متعلق بعض مشرکانہ عقیدہ رکھنے والے لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:.نَسيتُمُ جَلَالَ اللَّهِ وَالْمَجُدَ وَالْعُلَى وَمَا وِرُدُ كُمْ إِلَّا حُسَيْنًا أَتُنكِرُ فَهَذَا عَلَى الْإِسْلَامِ إِحْدَى الْمَصَائِبِ لَدَى نَفْحَاتِ الْمِسْكِ قَذْرٌ مُقَنْطَر تم نے خدا کے جلال اور مجد اور بزرگی کو بھلا دیا اور تمہارا ور دصرف لے اے قوم! تم اپنے طریق پر عمل کرو میں بھی اپنے طریق پر عمل کروں گا پھر تم جلدی معلوم کر لو گے کہ اس گھر ( یعنی دنیا ) کا انجام کس کے حق میں ہوتا ہے.

Page 452

ندی تعلیمی پاکٹ بک 430 حصہ دوم حسین ہے کیا تو انکار کرتا ہے.پس یہ ( یعنی شرک ) اسلام پر ایک مصیبت ہے.کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ کا ڈھیر ہے.اس آخری مصرعے میں قَذْرٌ مُقَنْطَرُ کے الفاظ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق نہیں بلکہ اس مصرعے میں کستوری کی خوشبو سے مراد تو حید الہی ہے اور قَذْرٌ مُقَنْطَر یعنی گوہ کے ڈھیر کے الفاظ مشر کا نہ فعل کے متعلق ہیں.چنانچہ اگلے شعر میں فرماتے ہیں:.وَإِنْ كَانَ هَذَا الشَّرْكُ فِي الدِّينِ جَائِزًا فَبِاللَّغْوِ رُسُلُ اللَّهِ فِي النَّاسِ بُعْثِرُوا اور اگر یہ شرک دین میں جائز ہے پس خدا کے پیغمبر بیہودہ طور پر لوگوں میں بھیجے گئے.اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 194 ) معترض کہتا ہے کہ مرزا صاحب نے کہا تھا:.تمہارے درمیان ایک زندہ علی موجود ہے، اور تم اسے چھوڑ کر مردہ علی کو تلاش کر رہے ہو.الجواب یہ فقرہ حضرت علی کی تو ہین پر مشتمل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہرگز حضرت علی کی تو ہین کا ارتکاب نہیں کر سکتے تھے.اس فقرہ کو اگر اس کے سیاق میں دیکھا جائے تو ہر گز کسی تو ہین کا موجب نہیں بلکہ اس میں حدیث نبوی مَنْ لَمْ يَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدْ مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً لَی روشنی میں امام الزماں کی شناخت پر زور دیا گیا ہے.کیونکہ حضور کے یہ ملفوظات جو بصورت ڈائری الحکم میں شائع ہوئے ہیں.حضرت علیؓ کے متعلق ایک غلق رکھنے والے شخص سے گفتگو کے سلسلہ میں ہیں.جو حضرت علی کی خلافت بلا فصل کا حامی

Page 453

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 431 تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ ہدایت کر رہے ہیں کہ :.حصہ دوم ” جب تک یہ اپنا طریق چھوڑ کر مجھ میں ہو کر نہیں دیکھتے یہ حق پر ہرگز نہیں پہنچ سکتے.....اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ میرے پاس آؤ.میری سنو تا کہ تمہیں حق نظر آوے.میں تو سارا ہی چولا اتارنا چاہتا ہوں.کچی تو بہ کر کے مومن بن جاؤ پھر جس امام کے تم منتظر ہو میں کہتا ہوں وہ میں ہوں.اس کا ثبوت مجھ سے لو.اس لئے اس خلیفہ بلا فصل کے سوال کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھا....دیکھوستی ان کی حدیثوں کو لغو قرار دیتے ہیں.یہ اپنی حدیثوں کو مرفوع متصل اور ائمہ سے مروی ٹھہراتے ہیں.ہم کہتے ہیں یہ سب جھگڑے فضول ہیں.اب مردہ باتوں کو چھوڑو.اور ایک زندہ امام کو شناخت کرو کہ تمہیں زندگی ملے.اگر تمہیں خدا کی تلاش ہے تو اس کو ڈھونڈ و جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے...میں تو بار بار یہی کہتا ہوں کہ ہمارا طریق تو یہ ہے کہ نئے سر سے مسلمان بنو.پھر اللہ تعالیٰ اصل حقیقت خود کھول دے گا.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر وہ امام جن کے ساتھ یہ اس قدر غلو کرتے ہیں.زندہ ہوں تو ان سے سخت بیزاری ظاہر کریں.جب ہم ایسے لوگوں سے اعراض کرتے ہیں.پھر کہتے ہیں ہم نے ایسا اعتراض کیا جس کا جواب نہ آیا.اور پھر بعض اوقات اشتہار دیتے پھرتے ہیں.مگر ہم ایسی باتوں کی کیا پرواہ کر سکتے ہیں.ہم کو تو وہ کرنا ہے جو ہمارا کام ہے.اس لئے یاد رکھو کہ پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑ دو.اب نئی خلافت لو.ایک زندہ علی تم میں موجود ہے اس کو چھوڑتے ہو.اور مردہ علی کو تلاش کرتے ہو“.(الحکم 17 /نومبر 1900 صفحہ 2) اقتباس کا آخری فقرہ جس پر اعتراض کیا جاتا ہے اپنے منطوق میں واضح

Page 454

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 432 حصہ دوم ہے کہ اب نئی خلافت کا دور ہے.جو آپ کے ذریعہ قائم ہوئی اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے علی قرار دیا ہے اور آپ زندہ موجود ہیں.اس لئے آپ کو چھوڑ کر وفات یافتہ علی کی طرف رجوع کرنا اور ان کی خلافت بلا فصل پر زور دینا اور مسیح موعود کو امام مہدی تسلیم نہ کرنا ایک ایسا امر ہے جو منشاء ایزدی کے خلاف ہے.اس عبارت میں حضرت علیؓ کی کوئی تو ہین اور تحقیر مقصود نہیں بلکہ حقیقت الامر کا بیان کرنا مقصود ہے کہ زندہ خلیفہ کی موجودگی میں وفات یافتہ خلیفہ کا معاملہ لے بیٹھنا اور اس کی خلافت پر زور دینا اور زندہ امام کی خلافت کو ر ڈ کرنا پسندیدہ بات نہیں.اس عبارت میں جو مردہ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ تحقیر کے لئے نہیں بلکہ اس واقعہ کے اظہار کے لئے ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جسمانی لحاظ سے مرچکے ہیں.لہذا اب ان کی خلافت کا معاملہ زندہ امام کی موجودگی میں ختم کر دینا چاہیئے اور امام الزمان کو حکم عدل مان کر اپنی اصلاح کرنی چاہیئے.یہ امر محال ہے کہ حضرت الامام المہدی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی تحقیر کریں.کیونکہ ان کے نزدیک حضرت علی کی شان بہت بلند ہے.چنانچہ آپ اپنی کتاب ستر الخلافہ میں تحریر فرماتے ہیں:."كان رضي الله عنه تَقِيَّانَقِيَّا من الذين هم احبّ الناس الى الرحمن ومن نخب الجيل وسادات الزمان.اسد الله الغالب و فتى الله الحنان ندالكف طيب الجنان و كان شجاعًا وحيدًا لا يزايل مركزه في الميدان.و لو قابله فوج من اهل العدوان.ومن انکر کماله فقد سَلَكَ مَسْلَكَ الْوَقَاحَةِ.....وكان من عباد الله المقربين ومع ذلك كان من السابقين في ارتضاع

Page 455

د تعلیمی پاکٹ بک 433 حصہ دوم كأس الفرقان وَأُعْطِيَ لَهُ فَهُمْ عجيب لادراک دقائق القرآن“.(سر الخلافة_روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 358) ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ تھی اور تقی تھے ان لوگوں میں سے جو رحمن خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہیں اور منتخب خاندان میں سے تھے.اپنے زمانے کے سرداروں میں سے ، خدا کے غالب شیر تھے.اور خدائے حتان کے جوان تھے.سخی ، خوش دل اور یگانہ بہادر تھے جو میدان سے نہیں ہٹتے تھے خواہ ان کے مقابلہ میں دشمنوں کی ایک فوج ہو اور جس نے آپ کے کمالات کا انکار کیا تو وہ بُرے طریق پر چلا آپ خدا کے مقرب بندوں میں سے تھے اور اس کے ساتھ ہی اُن سابقین میں سے تھے جنہوں نے فرقان کا پیالہ چوس کر پیا اور آپ کو قرآنی دقائق کا عجیب فہم عطا کیا گیا تھا“.اسی سلسلہ میں سرالخلافہ صفحہ 359 پر آپ تحریر فرماتے ہیں:.وَلِى مُنَاسَبَةٌ لَطِيفَةٌ بِعَلِيِّ وَالْحَسْنَيْنِ ولا يعلم سرَّهَا إِلَّا رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَالْمَغْرِبَيْنِ وَإِنِّى أُحِبُّ عَلِيًّا وَابْنَاهُ وَأَعَادِي مَنْ عَادَاهُ یعنی مجھے حضرت علی اور حسنین سے ایک لطیف مناسبت ہے اور اس کے راز کو صرف دو مشرقوں اور مغربوں کا رب ہی جانتا ہے.اور میں علی اور اس کے دونوں بیٹوں سے محبت رکھتا ہوں اور جو آپ سے دشمنی رکھے اُس کا دشمن ہوں“.ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت علیؓ کے لئے مُردہ کا لفظ وفات یافتہ کے معنوں میں استعمال کر رہے تھے نہ تحقیر کے معنوں میں.اور وفات کے معنوں میں یہ لفظ انبیاء کے حق میں بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے.جیسا کہ فرمایا:.

Page 456

ندی علیمی پاکٹ بک 434 حصہ دوم وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ آفَابِنُ مِتَ فَهُمُ الْخَلِدُونَ - (الانبياء: 35) کہ ہم نے کسی بشر کو تجھ سے پہلے ہمیشہ کی زندگی نہیں دی.پس کیا اے نبی اگر تو مر جائے.تو یہ لوگ ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں! نیز فرمایا:.إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَّيْتُوْنَ.(الزمر: 31) کہ بے شک تو بھی مر جانے والا ہے اور یہ لوگ بھی مرجانے والے ہیں.پس جسمانی موت سے کسی نبی اور ولی کو مفر نہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک تمام اصفیاء روحانی لحاظ سے آسمان میں زندہ ہیں جیسا کہ حمامۃ البشری میں تحریر فرماتے ہیں:.تم اعلموا أيها الاعزة ان حيات رسُولنا صلى الله عليه وسلّم ثابت بنصوص حديثية وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلّم اني لا أُترك مَيْتًا في قبرى الى ثلاثة ايام او اربعين باختلاف الرواية بل أحْيَا وأَرْفَعُ الى السماءِ وأَنْتَ تَعْلَمُ انّ جسمه العنصري مدفون في المدينة فما معنى هذا الحديث الا الحيات الروحاني ورفع الروحاني الذي هو سُنّة الله باصفيائه بعد ما توفَّاهُمُ كما قال يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ.....وقد جَرَتْ عادت الله تعالى انه يرفع اليه عباده الصالحين بعد 66 موتِهم ويُؤويهم فى السموات بحسب مراتبهم.(حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 220-221) ترجمہ:.اے پیارو! جان لو کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی

Page 457

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 435 حصہ دوم نصوص حدیثیہ سے ثابت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ بے شک میں اپنی قبر میں (مردہ) نہ چھوڑا جاؤں گا تین دن تک یا چالیس دن تک باختلاف روایت ( دیکھئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے مردہ کا لفظ استعمال فرماتے ہیں جو تحقیر کے لئے نہیں بلکہ اظہارِ حقیقت کے لئے ہے.اسی طرح اقتباس میں حضرت علی کے لئے مردہ کا لفظ استعمال ہوا) بلکہ میں زندہ کیا جاؤں گا اور آسمان کی طرف اُٹھایا جاؤں گا.حالانکہ اے مخاطب ! تُو جانتا ہے کہ آپ کا جسم عصری مدینہ میں مدفون ہے.پس اس حدیث کے معنے بجز روحانی زندگی اور روحانی رفع کے جو خدا تعالیٰ کی اپنے اصفیاء سے ان کو وفات دینے کے بعد سنت ہے اور کچھ نہیں ہو سکتے.جیسا کہ اللہ عز وجل نے فرمایا ہے کہ اے نفس مطمئنہ ! تو اپنے رب کی طرف لوٹ آ...اور اللہ کی یہ جاری عادت ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کا ان کی موت کے بعد اپنی طرف رفع کرتا ہے اور انہیں آسمانوں میں ان کے مرتبہ کے مطابق جگہ دیتا ہے.سر الخلافہ میں آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عباد المقربین میں سے قرار دیا ہے اور حمامة البشری میں عباد الله الصالحین کو مرفوع الی اللہ قرار دیتے ہوئے روحانی لحاظ سے آسمان میں زندہ قرار دیا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ اقتباس زیر بحث میں حضرت علیؓ کے لئے مردہ کا لفظ تحقیر استعمال نہیں ہوا بلکہ اس حقیقت کے اظہار کے لئے استعمال ہوا ہے کہ جسمانی لحاظ سے آپ زندہ نہیں.پس ان کی خلافت کو زیر بحث لانا اور امام وقت الامام المہدی کا انکار کرنا بے وقت کی راگنی ہے.

Page 458

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 436 حصہ دوم اعتراض نمبر 1 متفرق اعتراضات عدالت میں معاہدہ کی حقیقت مرزا صاحب نے مجسٹریٹ سے ڈر کر عدالت میں لکھ دیا کہ میں کوئی ایسی پیشگوئی جو کسی کی موت کے متعلق ہو.بغیر فریق ثانی کی اجازت کے شائع نہ کروں گا.ڈر کر ایسا کرنے کا اعتراض درست نہیں کیونکہ یہ معاہدہ تو حضرت اقدس کے پرانے دستور کے مطابق ہوا تھا کیونکہ اس معاہدہ سے تیرہ سال پہلے آپ نے اشتہار 20 رفروری 1886 ء میں بعض لوگوں کے ذکر میں لکھا تھا:.اگر کسی صاحب پر کوئی ایسی پیشگوئی شاق گزرے تو وہ مجاز ہیں کہ یکم مارچ 1886 ء سے یا اس تاریخ سے جو کسی اخبار میں پہلی دفعہ یہ مضمون شائع ہو ٹھیک ٹھیک دو ہفتہ کے اندر اپنی دستخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں تا وہ پیشگوئی جس کے ظہور سے وہ ڈرتے ہیں اندراج رسالہ سے علیحدہ رکھی جائے.اور موجب دل آزاری سمجھ کر کسی کو اس پر مطلع نہ کیا جاوے اور کسی کو اس کے وقتِ ظہور سے خبر نہ دی جائے.(اشتہار مذکور مندرجه تبلیغ رسالت جلد 1 صفحہ 58 مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 95) پھر خاص عدالتی معاہدہ کے متعلق لکھتے ہیں :.یہ ایسے دستخط نہیں ہیں جن سے ہمارے کاروبار میں کچھ بھی حرج ہو.بلکہ مدت ہوئی کہ میں کتاب انجام آتھم کے صفحہ اخیر میں بتفریح اشتہار

Page 459

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 437 حصہ دوم دے چکا ہوں کہ ہم آئندہ ان لوگوں کو مخاطب نہیں کریں گے جب تک خودان کی طرف سے تحریک نہ ہو.بلکہ اس بارے میں ایک اشتہار بھی شائع کر چکا ہوں جو میری کتاب آئینہ کمالات اسلام میں درج ہے....مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ ان لوگوں نے محض شرارت سے یہ بھی مشہور کیا ہے کہ اب الہام کے شائع کرنے کی ممانعت ہو گئی اور ہنسی سے کہا کہ اب الہام کے دروازے بند ہو گئے.مگر ذرہ حیاء کو کام میں لا کر سوچیں کہ اگر الہام کے دروازے بند ہو گئے تھے تو میری بعد کی تالیفات میں کیوں الہام شائع ہوئے.اسی کتاب تریاق القلوب کو دیکھیں کہ کیا اس میں الہام کم ہیں“.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 314 حاشیہ ) پھر اس معاہدہ سے چھ سال قبل حضور نے تحریر فرمایا:.اس عاجز نے اشتہار 20 فروری 1886ء میں....اندر من مراد آبادی اور لیکھر ام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ خواہشمند ہوں تو ان کی قضاء وقدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں.سواس اشتہار کے بعد اندرمن نے تو اعراض کیا اور کچھ عرصہ کے بعد فوت ہو گیا.لیکن لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چا ہو شائع کر دو میری طرف سے اجازت ہے“.(اشتہار 20 فروری 1893 تبلیغ رسالت جلد 3 صفحہ 4 مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 304) پھر 20 فروری 1899 ء کے اشتہار میں یعنی معاہدہ عدالت کے چار دن پہلے سے جو 24 فروری 1899ء کو ہوا تحریر فرماتے ہیں:.”میرا ابتداء ہی سے یہ طریق ہے کہ میں نے کبھی کوئی انداری

Page 460

ند یتعلیمی پاکٹ بک 438 پیشگوئی بغیر رضا مندی مصداق پیشگوئی کے شائع نہیں کی.حصہ دوم ( تبلیغ رسالت جلد 8 صفحہ 28 ) پس جو احتیاط حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انذاری پیشگوئیوں کے متعلق پہلے سے کر رکھی تھی.بالکل اسی کے مطابق عدالت میں معاہدہ ہوا ہے تو پھر عدالت سے ڈر کر معاہدہ کرنے کا الزام باطل ہوا.اعتراض نمبر 2 الجواب الفاظ : شعر کہنے پر اعتراض نبی شاعر نہیں ہوتا.جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے:.وَمَا عَلَّمْنَهُ الشَّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ - (يس: 70) چونکہ مرزا صاحب نے شعر کہے.اس لئے وہ نبی نہیں ہو سکتے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:.کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اِس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے آيت وَ مَا عَلَّمْنَهُ الشِّعرَ وَمَا يَنْبَغِى لَهُ - (يس: 70) اپنے سیاق کے لحاظ سے قرآن کریم کے متعلق ہے.جس پر آیت کے اگلے إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَ قُرْآنٌ مُّبِينٌ - (يس: 70 ) روشن دلیل ہیں.

Page 461

439 حصہ دوم.ترجمہ:.یہ ہے کہ ہم نے اس نبی کو کافروں کے خیال کے مطابق شعر نہیں سکھایا.یہ تو نصیحت اور قرآنِ مبین ہے.کافروں کا یہ اعتراض تھا کہ قرآن مجید ان معنوں میں شعر ہے کہ وہ ایک جذباتی کلام ہے اور جھوٹ پر مشتمل ہے.خدا نے فرمایا کہ قرآن مجید ان کے مزعومہ معنی میں شعر نہیں ہے.بلکہ یہ تو نصیحت ہے اور ایسی کتاب ہے جو بار بار پڑھی جائے گی.اور مضمون کو کھول کر بیان کرنے والی ہے.بیشک شعر گوئی کوئی اچھا پیشہ نہیں جیسا کہ بعض شاعروں نے اسے اختیار کر رکھا ہوتا ہے.ایسے ہی شعراء کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:.وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُنَ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُوْنَ وَأَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَذَكَرُوا اللهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا - (الشعراء: 225 تا 228) ترجمہ :.اس کا یہ ہے کہ عام شاعر وہ ہیں جن کے پیچھے گمراہ لوگ چلتے ہیں.کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور وہ باتیں کہتے ہیں جو خود نہیں کرتے.مگر مومن شعراء ایسے نہیں جو اعمال صالحہ بجالائے اور انہوں نے اللہ کا ذکر کیا اور مظلوم ہونے پر بدلہ لیا.چونکہ مومنوں کے شعر اللہ تعالیٰ کے ذکر اور مناجات اور دینی نصائح پر مشتمل ہوتے ہیں یا مظلوم ہونے کے بعد جوابی صورت میں کہے گئے ہوتے ہیں.اس لئے ایسے اشعار ممنوع نہیں.پاکیزہ اشعار خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنا کرتے تھے اور بعض دفعہ حضرت حسان کو فہمائش کر کے شعروں میں قریش کی ہجو کرائی اور انہیں یہ تسلی دی کہ رُوح القدس تمہارے ساتھ ہے اور ایک موقع پر

Page 462

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 440 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لبید کا یہ شعر: وَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ حصہ دوم اس مصرع کو پڑھ کر پسند فرمایا ہے.اور جنگ کے موقع پر یہ دو شعر موزوں کئے ہیں.جنگ حنین میں فرمایا :.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ (بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى ويوم حنين اذ اعجبتكم كثرتكم......) ایک موقع پر اپنی انگلی زخمی ہو جانے پر فرمایا:.هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبُعٌ دَمِيةٍ وَفِي سَبِيْلِ اللَّهِ مَا لَقِيتِ (بخاری کتاب الجهاد و السيرباب ما يجوز من الشعر والرجز......) کہ تو تو صرف ایک انگلی ہے جس سے خون بہہ پڑا ہے اور تو نے اللہ کی راہ میں یہ تکلیف اُٹھائی ہے.شمس العلماء خواجہ الطاف حسین حالی نے شعر کے متعلق لکھا ہے:.جو شخص معمولی آدمیوں سے بڑھ کر کوئی مؤثر اور دلکش تقریر کرتا تھا.اس کو شاعر جانتے تھے.جاہلیت کی قدیم شاعری میں زیادہ تر اسی قسم کے برجستہ اور دل آویز فقرے اور مثالیں پائی جاتی ہیں جو عرب کی عام بول چال سے فوقیت اور امتیاز رکھتی تھیں.یہی سبب تھا کہ جب قریش نے قرآن مجید کی نرالی اور عجیب عبارت سنی تو جنہوں نے اس کو کلام الہی نہ مانا.وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر کہنے لگے حالانکہ قرآن شریف میں وزن کا مطلق التزام نہ تھا.( مقدمہ شعر و شاعری صفحہ 36 ، 37 از مولنا الطاف حسین حالی مطبوعہ سٹار بکڈ پوار دو بازار لاہور2)

Page 463

حمدی تعلیمی پاکٹ بک 441 حصہ دوم ہے کہ:.امام راغب اصفہانی ” نے اپنی مشہور لغت میں شعر کے متعلق لکھا ہے :- الشَّعُرُ يُعَبَّرُ بِهِ عَنِ الْكِذَبِ“ کہ شعر کا لفظ جھوٹ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.سچ یہ ہے کہ انہی معنوں کے لحاظ سے قرآن کریم کے متعلق کہا گیا ہے کہ :.وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ » 66 که قرآن شاعر کا کلام نہیں یعنی وہ جھوٹ پر مشتمل نہیں.غالبا مومنوں کے اشعار کے پیش نظر ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا إِنَّ مِنَ الشَّعْرِ لَحِكْمَةَ - (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الشعر 3755) کہ بعض شعر حکمت پر مشتمل ہوتے ہیں.پس جو شعر حکمت پر مشتمل ہوں وہ منافی نبوت نہیں.داؤد علیہ السلام کی زبور ایسے ہی اشعار پر مشتمل تھی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی الہام ہوا ہے:.در کلام تو چیزی است که شعراء را در آن دخلی نیست کہ تیرے کلام میں وہ بات پائی جاتی ہے جس میں شعراء کو دخل نہیں.

Page 464

یتعلیمی پاکٹ بک اعتراض نمبر 3 442 وعدہ خلافی کا الزام حصہ دوم الزام یہ ہے کہ مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کا اشتہار دیا اور لوگوں سے روپیہ وصول کیا کہ تین سو دلائل پچاس جلدوں میں لکھوں گا.مگر وعدہ پورا نہ کیا اور لوگوں کا روپیہ کھا گئے.الجواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا ارادہ تو پچاس جلد میں براہین احمدیہ لکھنے کا ہی تھا مگر ابھی چار حصے ہی لکھنے پائے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اصلاح دنیا کے لئے مامور فر ما دیا اور پھر آپ نے اتنی کے قریب کتابیں اسلام کی حقانیت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت میں شائع کیں جن میں اپنے سینکڑوں نشانات درج کئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تبدیلی حالات کا ذکر براہین احمدیہ حصہ چہارم کے ٹائٹل پیج پر یوں کیا ہے:.ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی.پھر بعد اس کے قدرت الہیہ کی نا گہانی تحلبی نے اس احقر عباد کو موسی کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے اِنِّی اَنَا رَبُّكَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی.سواب اس کتاب کا متوتی اور مہتم ظاہر و باطنا حضرت رب العالمین ہے.اور کچھ معلوم نہیں کہ

Page 465

443 حصہ دوم کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے.اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اُس نے جلد چہارم تک انوار حقیقت اسلام کے ظاہر کئے ہیں.یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں اور اس کے فضل و کرم سے امید کی جاتی ہے کہ وہ جب تک شکوک اور شبہات کی ظلمت کو بکھی دور نہ کرے اپنی تائیدات غیبیہ سے مددگار رہے گا.آگے چل کر لکھتے ہیں:.اس جگہ اُن نیک دل ایمانداروں کا شکر ادا کرنا لازم ہے جنہوں نے اس کتاب کے طبع ہونے کے لئے آج تک مدد دی ہے.خدا تعالیٰ ان سب پر رحم کرے.اور جیسا انہوں نے اس کے دین کی حمایت میں اپنی دلی محبت سے ہر یک دقیقہ کوشش کے بجالانے میں زور لگایا ہے خداوند کریم ایسا ہی ان پر فضل کرے.بعض صاحبوں نے اس کتاب کو محض خرید وفروخت کا ایک معاملہ سمجھا ہے اور بعض کے سینوں کو خدا نے کھول دیا اور صدق اور ارادت کو ان کے دلوں میں قائم کر دیا ہے.ہوئی ہے.( براہین احمدیہ چہار تخصص روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 673) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وعدہ میں تبدیلی حالات کی تبدیلی سے حالات کی تبدیلی سے وعدہ میں تبدیلی کا ثبوت (حدیث اول): عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ قَالَتِ الْيَهُودُ لِقُرَيْشِ اسْتَلُوهُ عَنِ الرُّوح وَعَنْ أَصْحَابِ الْكَهْفِ وَذِى الْقَرْنَيْنِ فَسَتَلُوهُ فَقَالَ إِيْتُونِي غَدًا أُخْبِرُكُمْ وَلَمْ يَسْتَثْنِ فَابْطَأَ عَنْه الْوَحْيُ بِضْعَةَ عَشَرَيَوْمًا حَتَّى شَقَّ

Page 466

444 حصہ دوم عَلَيْهِ وَكَذَّبَتْهُ قُرَيْسٌ ( تفسیر کمالین بر حاشیه جلالین صفحہ 241 مجتبائی) ترجمه : مجاہد سے مروی ہے یہودیوں نے قریش سے کہا اس نبی سے روح، اصحاب کہف اور ذی القرنین کے متعلق سوال کرو.پس انہوں نے سوال کیا تو نبی کریم نے فرمایا.کل آنا میں تمہیں بتاؤں گا.اور کوئی استثناء نہ کیا تو وحی چند دن تک رکی رہی.یہاں تک کہ یہ امر آپ پر شاق گزرا اور قریش نے آپ کو جھٹلایا.( حدیث دوم ) مشكواة كتاب التصاوير صفحہ 385 مجتبائی دہلی میں ہے کہ جبریل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کو آنے کا وعدہ کیا.مگر حسب وعدہ نہ آئے.دوسرے دن جب آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:.لَقَدْ كُنْتَ وَعَدْتَنِي أَنْ تَلَقَّانِي فِي الْبَارِحَةِ قَالَ أَجَلُ وَلَكِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيْهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ آپ تو کل آنے کا وعدہ کر گئے تھے.جبریل نے کہاہاں وعدہ تو کیا تھا مگر ہم ایسے مکان میں داخل نہیں ہوا کرتے جس میں کتا یا تصویر ہو.پہلی روایت سے ظاہر ہے کہ وحی نہ آنے کی وجہ سے جس میں خدا کی کوئی مصلحت تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگلے دن تینوں سوالوں کا کوئی جواب نہ دے سکے.اور دوسری روایت سے بھی ظاہر ہے کہ تبدیلی حالات کی وجہ سے جبریل وعدہ ایفاء نہ کر سکے.پس جب وعدہ کرنے والا اپنی کسی بدنیتی سے وعدہ پورا نہ کر سکے تو تب قابل مواخذہ ہوتا ہے ورنہ نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ میں مشیت الہی

Page 467

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 445 حصہ دوم حائل ہوئی اور مسیح موعود علیہ السلام کے وعدہ میں بھی مشیت الہی حائل ہوئی.پس پچاس جلد میں نہ لکھنے کا الزام جائز نہیں.حضور علیہ السلام نے ایک عرصہ کے بعد براہین کی پانچویں جلد تحریر فرمائی اور اس وقت تصنیف فرمائی جب کہ پہلی کتاب کی پیشگوئیاں آپ کے حق میں پوری ہوئیں.اس طرح یہ پانچ جلدیں پچاس کے قائم مقام قرار پائیں.جیسے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج میں پچاس نمازوں کا حکم ہوا جو بار بار کی تخفیف کی درخواست پر کم ہو کر پانچ رہ گئیں.اور پھر خدا نے فرمایا :.هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ.(بخارى كتاب الصلواة باب كيف فرضت الصلوات في الاسراء) یعنی یہ پانچ بھی ہیں اور پچاس بھی مراد یہ ہے کہ یہ پانچ ہی پچاس کے برابر ہوں گی اور پانچ پر پچاس کا ثواب ملے گا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ کی پانچ جلدیں پچاس کا کام کر گئیں.انہی معنی میں آپ نے یہ فرمایا ہے:.پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا.مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیا گیا اور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطے کا فرق ہے.اس لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہو گیا.دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 9) مراد یہ ہے کہ یہ پانچ جلدیں نتیجہ کے لحاظ سے پچاس کے برابر ہیں.

Page 468

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 446 حصہ دوم روپیہ کھانے کا الزام بعض لوگوں نے بدگمانی اور بدگوئی سے کام لیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعلان فرمایا:.”ایسے لوگ جو آئندہ کسی وقت جلد یا دیر سے اپنے روپیہ کو یاد کر کے اس عاجز کی نسبت کچھ شکوہ کرنے کو تیار ہیں یا اُن کے دل میں بھی بدظنی پیدا ہو سکتی ہے.وہ براہ مہربانی اپنے ارادہ سے مجھ کو بذریعہ خط مطلع فرما دیں اور میں ان کا روپیہ واپس کرنے کے لئے یہ انتظام کروں گا کہ ایسے شہر میں یا اس کے قریب اپنے دوستوں میں سے کسی کو مقرر کر دوں گا کہ تا چاروں حصے کتاب کے لے کر روپیہ اُن کے حوالے کرے اور میں ایسے صاحبوں کی بد زبانی اور بدگوئی اور دُشنام دہی کو بھی محض اللہ بخشتا ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی میرے لئے قیامت میں پکڑا جائے.اور اگر ایسی صورت ہو کہ خریدار کتاب فوت ہو گیا ہو اور وارثوں کو کتاب بھی نہ ملتی ہو.تو چاہیئے کہ وارث چار معتبر مسلمانوں کی تصدیق خط میں لکھوا کر کہ اصلی وارث وہی ہے.وہ خط میری طرف بھیج دے تو بعد اطمینان وہ روپیہ بھی بھیج دیا جائے گا“.تبلیغ رسالت جلد 3 صفحہ 35 ، 36 مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 332) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.جن لوگوں نے قیمتیں دی تھیں اکثر نے گالیاں بھی دیں اور قیمت بھی واپس لی.(دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 7) پھر تحریر فرماتے ہیں:.ہم نے...دو مرتبہ اشتہار دے دیا کہ جو شخص براہین احمدیہ کی

Page 469

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 447 حصہ دوم قیمت واپس لینا چاہے وہ ہماری کتابیں ہمارے حوالے کرے اور اپنی قیمت لے لے.چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس قسم کی جہالت اپنے اندر رکھتے تھے.انہوں نے کتابیں بھیج دیں اور قیمت واپس لے لی.اور بعض نے تو کتابوں کو بہت خراب کر کے بھیجا.مگر پھر بھی ہم نے قیمت دے دی....خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایسے دنی الطبع لوگوں سے خدا تعالیٰ نے ہمیں فراغت ایام اصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 421-422) بخشی.تین سو دلائل کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں:.میں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثبات حقیت اسلام کے لئے تین سو دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں.لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ دو ستم ( اعلی تعلیمات وزندہ معجزات ) کے دلائل ہزار ہا نشانوں کے قائم مقام ہیں.پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے کے لئے مجھے شرح صدر عنایت کیا“.(دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 6) یہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے اتنی کے قریب کتب لکھی ہیں.ان میں صداقت اسلام کے تین سو سے زیادہ دلائل موجود ہیں.اعتراض نمبر 4 مشورہ سے مسیح موعود کے دعوی کا الزام اور اُس کا رڈ مولوی ابوالحسن صاحب ندوی اپنی کتاب ” قادیانیت“ کے صفحہ 66 پر لکھتے ہیں:.اسی سال ( 1891ء) کے آغاز میں حکیم صاحب (حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ.ناقل ) نے ایک خط میں مرزا صاحب کو

Page 470

ندی تعلیمی پاکٹ بک 448 حصہ دوم مشورہ دیا کہ وہ مسیح موعود ہونے کا دعوی کریں“.اور یہ بھی لکھا کہ :.ہم کو حکیم صاحب کا اصل خط تو نہیں مل سکا لیکن مرزا صاحب نے اس خط کا جو جواب لکھا ہے اس میں حکیم صاحب کے اس مشورہ کا حوالہ ہے.اور مولوی ندوی صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ :.اس سے اس تحریک کے فکری سر چشمہ کا اور اس کے اصل مجوز اور مصنف کا علم ہوتا ہے“.قادیانیت از ابوالحسن ندوی صفحہ 67 بار اول مکتبہ دینیات لاہور ) آگے مولوی ندوی صاحب نے خط کا اقتباس درج کیا ہے جو یوں ہے:.جو کچھ آنمخدوم نے تحریر فرمایا ہے.اگر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیل مسیح کا دعویٰ ظاہر کیا جائے تو اس میں حرج کیا ہے.در حقیقت اس عاجز کو مثیل مسیح بننے کی کچھ حاجت نہیں.یہ بنا چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے عاجز اور مطیع بندوں میں داخل کر لیوے.لیکن ہم ابتلاء سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے.خدا تعالیٰ نے ترقیات کا ذریعہ صرف ابتلاء ہی کو رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے:.أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا أَمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ - ( مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 98-99 مکتوب نمبر 63 مطبوعہ اپریل 2008ء) اس خط سے ظاہر ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کے اس مشورہ کو جو انہوں نے دمشقی حدیث کے ابتلاء پیدا ہونے کے خطرہ کے ماتحت از خود یا قبول نہیں فرمایا.اور اپنے آپ کو دمشقی حدیث کا مصداق قرار دینے سے جو ابتلا پیش آسکتی تھی اس ابتلا کو ترقیات کا ذریعہ قرار دیا.پس اس خط

Page 471

449 حصہ دوم ی علیمی پاکٹ بک سے ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے حضرت مولوی نور الدین صاحب کے مشورہ سے مسیح موعود کا دعوی کیا.مسیح موعود کا دعویٰ تو ہو چکا تھا اور حضرت مولوی صاحب کو اس پر اطلاع ہو چکی تھی.اس اطلاع ہی پر تو حضرت مولوی صاحب یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ دمشقی حدیث کا اپنے تئیں مصداق قرار نہ دیں مگر اُن کا یہ مشورہ آپ نے رڈ کر دیا.عجیب بات ہے کہ مولوی ندوی صاحب کو خود اس بات کا اعتراف ہے کہ مرزا صاحب نے حکیم صاحب کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت کی.چنانچہ وہ لکھتے ہیں:.”مرزا صاحب نے جس انداز میں حکیم صاحب کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت کی ہے اور ان کے خط سے جس کسر نفسی ، تواضع اور خشیت کا اظہار ہوتا ہے وہ بڑی قابل قدر چیز ہے.اور اس سے مرزا صاحب کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے.قادیانیت از ابوالحسن ندوی صفحہ 70 بار اول مکتبہ دینیات لاہور ) اس عبارت تک ندوی صاحب نے مستشرقین کی طرز پر حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے حضرت مولوی نورالدین کے مشورہ کو قبول کرنے کا ذکر کر کے آپ کی تعریف کی ہے.اور اب دیکھئے وہ مٹھاس میں کس طرح زہر ملاتے ہوئے لکھتے ہیں:.لیکن ان کی کتابوں کا تاریخی جائزہ لینے کے بعد یہ تاثر اور عقیدت جلد ختم ہو جاتی ہے.اچانک یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب نے حکیم صاحب کی اس تجویز کو قبول کر لیا اور تھوڑے ہی دنوں میں انہوں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ اور اعلان کر دیا.( قادیانیت از ابوالحسن ندوی صفحہ 70 بار اول مکتبہ دینیات لاہور )

Page 472

450 حصہ دوم احمدی تعلیمی پاکٹ بک واضح ہو کہ مولوی ندوی صاحب کو مسلّم ہے.کہ وہ مکتوب جو انہوں نے نقل کیا ہے.اس پر 24 /جنوری 1891 ء کی تاریخ درج ہے.ملاحظہ ہو قادیانیت صفحہ 67.تجویز قبول کر لینے کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ 1891ء کی تصنیف ”فتح اسلام میں :.ہم پہلی مرتبہ ان کا یہ دعوی پڑھتے ہیں وہ مثیل مسیح اور مسیح موعود ہیں“.مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے جو خط مسیح موعود علیہ السلام کولکھا ہے وہ آپ کے اس دعوی مسیح موعود پر اطلاع پانے کے بعد لکھا ہے.اور اس اطلاع پر حضرت مولوی صاحب نے از خود یہ مشورہ دیا ہے کہ مشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر مثیل مسیح کا دعویٰ کیا جائے.حضرت مولوی نورالدین صاحب کو یہ لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اب مثیل مسیح کا دعوی بطور مسیح موعود کر چکے تھے ورنہ مثیل مسیح کا دعوی علی الاطلاق تو اس سے بہت پہلے آپ براہین احمدیہ میں پیش کر چکے ہوئے تھے.حضرت مولوی صاحب کا مشورہ یہ نہ تھا کہ آپ مثیل مسیح کا دعوی کریں بلکہ مشورہ یہ تھا کہ اپنے آپ کو دمشقی حدیث کا مصداق ظاہر نہ کریں.یہ مشورہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ہرگز قبول نہیں کیا.اور مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کا یہ لکھنا بالکل غلط ہے کہ :.اچانک یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب نے حکیم صاحب کی اس تجویز کو قبول کرلیا.( قادیانیت از ابوالحسن ندوی صفحه 70 بار اول مکتبہ دینیات لاہور ) پھر غور سے مکتوب پڑھیئے.حضرت مولوی صاحب کے خط میں تجویز یہ نہیں تھی کہ مثیل مسیح کا دعوی کریں.بلکہ تجویز یہ تھی کہ دمشقی حدیث کا اپنے تئیں مصداق ظاہر نہ کریں.اور اسے چھوڑ کر مثیل مسیح یعنی مسیح موعود کا دعوی کریں.دمشقی حدیث

Page 473

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 451 حصہ دوم کا مصداق ظاہر کرنے پر حضرت مولوی صاحب کے نزدیک ابتلا کا ڈر تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس خط سے ظاہر ہے کہ آپ اس ابتلا سے نہیں ڈرے بلکہ اس کو ترقیات کا ذریعہ قراردیا ہے.اسی وجہ سے تو مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کو یہ لکھنا پڑا کہ:.کی ہے“.”مرزا صاحب نے حکیم صاحب کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت خط کے منطوق سے معذرت ہی ظاہر ہوتی ہے.جس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے مشورہ قبول نہیں کیا.اب اگر بقول مولوی ابوالحسن صاحب ندوی فتح اسلام کی اشاعت کے وقت آپ نے حضرت مولوی صاحب کا مشورہ قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا.پھر چاہیے تو یہ تھا کہ آپ 1891ء میں اپنے آپکو مشقی حدیث کا مصداق قرار نہ دیتے.لیکن ہم اسکے برعکس یہ دیکھتے ہیں کہ 1891ء کی تصنیف ازالہ اوہام میں آپ نے دمشقی حدیث کا اپنے تئیں مصداق قرار دیا ہے.جس پر ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 134-135 کا حاشیہ شاہد ناطق ہے.ذیل کا اقتباس ملاحظہ ہو:.صحیح مسلم میں یہ جولکھا ہے کہ حضرت مسیح مشق کے مینارہ سفید شرقی کے پاس اترینگے دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبہ کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزید الطبع اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں.آگے ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 حاشیہ صفحہ 138 پر لکھتے ہیں :.قادیان کی نسبت مجھے یہ بھی الہام ہوا کہ أُخْرِجَ مِنْهُ الْيَزِيدِيُّون یعنی اس میں یزیدی لوگ پیدا کئے گئے ہیں.

Page 474

ندی تعلیمی پاکٹ بک 452 اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الہام :.إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قَرِيبًا مِّنَ الْقَادِيَانِ“ درج کر کے لکھا ہے:.حصہ دوم ’اب جو ایک نئے الہام سے یہ بات بہ پایہ ثبوت پہنچ گئی کہ قادیان کو خدائے تعالیٰ کے نزدیک دمشق سے مشابہت ہے.پھر آگے اس کی تفسیر میں یہ بھی لکھا ہے:.66 پر ہے.اس کی تفسیر یہ ہے إِنَّا اَنْزَلْنَاهُ قَرِيبًا مِّنُ دِمَشْقَ بِطَرُفٍ شَرْقِيٌّ عِندَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ کیونکہ اس عاجز کی سکونتی جگہ قادیان کے شرقی کنارہ ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 139 حاشیہ) ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دمشقی حدیث کو اپنے اوپر چسپاں کیا ہے اور قادیان کو بطور استعارہ دمشق سے تعبیر کیا ہے.اس بات کا ثبوت کہ مثیل مسیح کا دعوی فتح اسلام سے بھی پہلے موجود تھا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ازالہ اوہام میں تحریر فرماتے ہیں :.میں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ میں مسیح بن مریم ہوں.جو شخص یہ الزام میرے پر لگا وے وہ سراسر مفتری اور کذاب ہے.بلکہ میری طرف سے عرصہ سات یا آٹھ سال سے برابر یہی شائع ہورہا ہے کہ میں مثیل مسیح (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 192) ہوں.اس سے ظاہر ہے کہ 1891ء سے جب کہ ازالہ اوہام شائع ہوئی سات آٹھ سال پہلے سے آپ کا دعویٰ مثیل مسیح کا موجود تھا چنانچہ یہ دعوی براہین احمدیہ میں بھی موجود ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت با ہم نہایت متشابہ واقع ہوئی

Page 475

453 حصہ دوم ہے.گویا ایک ہی جو ہر کے دوٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی بار یک امتیاز ہے...سو چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتداء سے اس عاجز کو بھی شریک کر رکھا ہے.66 براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 593-594 حاشیه در حاشیہ نمبر 3) اس سے ظاہر ہے کہ ازالہ اوہام میں حضور کا یہ لکھنا بالکل بجا تھا کہ سات آٹھ سال پہلے سے آپ کا مثیل مسیح کا دعویٰ موجود تھا.اس عبارت سے تو یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ مسیح کی آمد کی پیشگوئی میں شریک ہیں مگر اسکے باوجود آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعوی نہ کیا.کیونکہ رہی عقیدہ کے طور پر آپ خود بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات اور اُن کی دوبارہ اصالتا آمد کے قائل تھے.1890-91ء میں آپ کے دعوئی مثیل مسیح کے ساتھ آپ پر الہاما مسیح موعود ہونے کا انکشاف ہوا.اور آپ نے کھلے لفظوں میں اپنے تئیں مثیل مسیح ہونے کو بطور مسیح موعود قرار دیا اور مسیح ناصری کی اصالتاً آمد کے خیال کو ترک فرما دیا.کیونکہ اس بارہ میں آپ کو یہ الہام ہو چکا تھا کہ:.مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.وَكَانَ وَعدُ اللهِ مَفْعُولًا “.نیز آپ پر الہام ہو گیا تھا:.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 402) جَعَلْنَاكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ“.کہ ہم نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا.( یعنی استعارہ کے طور پر ) (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 442)

Page 476

454 حصہ دوم ابوالحسن صاحب ندوی مثیل مسیح کے دعوی کو 1891ء سے قرار دیتے ہیں.حالانکہ یہ دعویٰ براہین احمدیہ میں موجود ہے.پس مثیل مسیح کے دعوی کو ترک نہیں کیا گیا.بلکہ 1891ء میں اپنے مثیل مسیح ہونے کو ہی مسیح موعود الہامات جدیدہ کی روشنی میں قرار دیا گیا ہے.پس مولوی ابوالحسن صاحب کا یہ قول بالکل غلط ہے کہ:.یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب نے حکیم صاحب کی اس تجویز کو قبول کر لیا اور تھوڑے ہی دنوں میں انہوں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ اور اعلان کر دیا.( قادیانیت از سیدابوالحسن ندوی صفحہ 70 ناشر مکتبہ د بنیات لاہور باراؤل) قارئین پر واضح ہو کہ مثیل مسیح کا دعویٰ تو سات آٹھ سال پہلے موجود تھا.اب اعلان یہ ہوا ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں اور مسیح موعود کے لئے مثیل مسیح ہونا ضروری تھا.لہذا عیسی بن مریم کا اصالتاً آمد کا خیال درست نہیں.پس یہ اعلان آپ نے الہامات کی روشنی میں کیا ہے نہ کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے.بلکہ جومشورہ انہوں نے ابتلاء سے ڈر کر دیا ہے.اُسے تو آپ نے رڈ کر دیا ہے اور ابتلاء کوترقیات کا ذریعہ ٹھہرایا ہے.لہذا ابوالحسن صاحب کو اپنے یہ الفاظ دل و جان سے قبول کر لینے چاہئیں:.ان کے ( یعنی حضرت مرزا صاحب ) خط سے جس کسر نفسی ، تواضع اور خشیت کا اظہار ہوتا ہے.وہ بڑی قابل قدر چیز ہے.اور اس سے مرزا صاحب کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کے قلم سے خود ایک حوالہ براہین احمدیہ سے قادیانیت کے صفحہ 47 پر درج کرا دیا ہے جو اس بات پر شاہد ناطق

Page 477

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 455 حصہ دوم ہے کہ براہین میں آپ نے مسیح سے مماثلت کا دعوی کیا تھا.پیش کردہ عبارت کے الفاظ یہ ہیں:.یہ عاجز ( مؤلّف براہین احمدیہ ) حضرت قادر مطلق جل شانہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کے طرز پر کمال مسکینی وفروتنی و غربت و تذلل وتواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے“.تبلیغ رسالت مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 11.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 25 اشتہار نمبر 13) اعتراض نمبر 5 نبی کا اُستاد نبی کا کوئی اُستاد نہیں ہوتا.مگر مرزا صاحب کے اُستاد تھے.جن سے انہوں نے لکھنا پڑھنا سیکھا ؟ الجواب یہ تو درست ہے کہ روحانی امور میں نبی کا اُستادخدا تعالیٰ ہوتا ہے.اور اگر نبی تابع ہو تو متبوع نبی کی شریعت بھی روحانیت میں اس کا اُستاد ہوتی ہے.لیکن اس بارہ میں کوئی دلیل موجود نہیں کہ ہر نبی کے لئے امی ( ان پڑھ ) ہونا ضروری ہے.انبیاء میں سے یہ شرف صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ آپ آتی تھے.حسب آیت الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيُّ الْأُمِي الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَيةِ وَالْإِنْجِيلِ (الاعراف: 158) توریت کے بعد سینکڑوں نبی آئے لیکن ان میں سے کسی کو امی نہیں کہا

Page 478

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 456 حصہ دوم گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی خاص علامات میں سے اُمی نبی ہونا ہے.چنانچہ حضرت موسق کا حضرت خضر علیہ السلام سے تعلیم پانا قرآن کریم کی سورۃ کہف میں موجود ہے.حالانکہ موسی علیہ السلام صاحب شریعت نبی تھے.اور حضرت خضر کی نبوت مختلف فیہا ہے.تغییر حسینی میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت داؤد علیہا السلام پر کتاب جو ایک بار اتری تو وہ لکھتے پڑھتے تھے اور ہمارے حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُمی تھے.( تفسیر حسینی مترجم اردو جلد 2 صفحه 140 زیر آیت وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلا - الفرقان:۳۳) اسی طرح بیضاوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھا ہے: کان امتیا“.اور حضرت موسی علیہ السلام حضرت داؤڈ اور حضرت عیسی کے متعلق لکھا ہے:.وو كَانُوا يَكْتُبُونَ“ کہ وہ لکھے پڑھے تھے.تفسیر بیضاوی میں زیر آیت هَلْ اتَّبِعُكَ (سُورۃ کہف) لکھا ہے:.وَلَا يُنَا فِي نُبُوَّتَهُ وَ كَوْنَهُ صَاحِبَ شَرِيعَةٍ أَنْ يَتَعَلَّمَ مِنْ غَيْرِهِ مَالَمْ يَكُنْ شَرُطًا فِي أَبْوَابِ الدِّينِ (تفسیر بیضاوی جلد 1 تفسیر سورة الكهف زیر آیت: 66 - مطبع دار احیاء التراث العربی ) یعنی حضرت موسی کا کسی غیر سے ایسا علم سیکھنا جو امور دین میں سے نہ ہوان کی نبوت اور ان کے صاحب شریعت ہونے کے منافی نہیں ہے.پھر تفسیر حسینی میں ہے کہ رسول ایسا چاہیئے.کہ جن کی طرف بھیجا گیا ہے ان سے ان اصول و فروع دین کا عالم زیادہ ہو جو اُن کی طرف لایا ہے اور جو علم اس قبیل سے نہیں اس کی تعلیم امور نبوت کے منافی نہیں اور انتُم أَعْلَمُ بِأُمُورِ

Page 479

یتعلیمی پاکٹ بک 457 حصہ دوم دُنْيَا كُمُ ( تفسیر حسینی مترجم اردو موسومه تفسیر قادری جلد 1 صفحہ 638 سورۃ کہف) حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق صحیح بخاری میں مروی ہے:.إِذَكَانَ بِهَا أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِّنْهُمْ وَشَبَّ الْغُلَامُ وَتَعَلَّمَ الْعَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ (بخاری کتاب احادیث الانبياء باب ( يَزِقُون) الصافات: ۹۴ النَّسَلَانُ فِي الْمشي) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس وقت اُن ( بنو جرحم ) میں سے کچھ گھر والے جمع ہو گئے.وہ بچہ (حضرت اسماعیل ) جوان ہوا اور اس نے اُن سے عربی زبان کا علم حاصل کیا.اعتراض نمبر 6 نبی کا مرتب نام نبی کا نام مُرکب نہیں ہوتا.مرزا صاحب کا نام مرکب تھا ؟ الجواب :.نبی کا نام نہ صرف مرکب بلکہ مرکب اضافی بھی ہوسکتا ہے.قرآن مجید میں ایک نبی کا نام ” الکفل مذکور ہے جو مرکب اضافی ہے.پھر اسماعیل بھی مرکب نام ہے.اسمع “ اور ”ایل “ سے.قرآن کریم میں حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق آیا ہے:.اسْمُهُ المَيْحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ “ عیسی ابن مریم بھی مرکب نام ہے اور پھر مسیح کے لفظ سے اس کو مزید ترکیب دی گئی ہے اور سارے نام کو اسمه " کہا گیا ہے.حضرت یونس علیہ السلام کا ایک نام ” ذُو النُّون“ بھی ہے جو مرکب ہے.

Page 480

احمدیہ علیمی پاکٹ بک اعتراض نمبر 7 458 حج نہ کرنے کی وجہ اور حديث لَيُهِلَّنَّ ابْنُ مَرْيَمَ کی تشریح مرزا صاحب نے حج کیوں نہیں کیا.جب کہ یہ اسلام کا ایک رکن ہے؟ الجواب:.حج کے لئے کچھ شرائط ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.لِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا “.حصہ دوم (آل عمران: 97) ان شرائط میں رستہ کا امن اور صحت بھی داخل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ دونوں شرطیں حاصل نہ تھیں.کیونکہ مکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے رستہ کے امن کی شرط ثابت ہے.کیونکہ جب آپ طواف کعبہ کے لئے گئے اور حدیبیہ کے مقام پر روک دیئے گئے تو آپ واپس چلے آئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ر کے رہے.البتہ حدیث نبوی کے مطابق آپ کا حج بدل کرایا گیا.حدیث نبوی میں جو یہ وارد ہے:.لَيْهِنَّ ابْنُ مَرْيَمَ بِفَحِ الرَّوْحَاءِ حَاجًا اَوْ مُعْتَمِرًا “الخ ( مسلم كتاب الحج باب اهلال النبي وهديه) اس حدیث میں در حقیقت عیسائی دنیا کو یہ بتانا مقصود تھا کہ تمہارا مسیح بیت اللہ کا حج کرے گا.پس تمہارا فرض ہے کہ شریعت محمدیہ پر ایمان لاؤ.اس حدیث کا

Page 481

459 حصہ دوم تعلق امت محمدیہ کے مسیح موعود سے نہیں.یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی پوری ہوگئی.چنانچہ حدیث نبوی میں ہے کہ :.إِنَّهُ مَرَّ بِالصَّخْرَةِ مِنَ الرَّوْحَاءِ سَبْعُونَ نَبِيَّاحُفَاتًا عَلَيْهِمُ الْعَبَاءُ يَطُوفُونَ الْبَيْتَ الْعَتِيْقَ (شَرْحُ التَّعَرُّق صفحه 7 ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روحاء کی چٹان کے پاس سے ستر نبیوں نے ننگے پاؤں چادریں اوڑھے خانہ کعبہ کا طواف کیا ہے.صحیح مسلم کی روایت میں ہی یہ بھی ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم هَرُشی گھائی کے پاس آئے تو فرمایا:.كَأَنِّى أَنْظُرُ إِلى يُونُسَ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ عَلَيْه جُبَّةٌ.مَارَّابِهَذَا الْوَادِي مُلَبِيًّا“.(مسلم کتاب الایمان باب الاسراء برسول الله.....و مشكوة مجتبائی صفحه 561) و ترجمہ :.اس کا یہ ہے کہ حضور نے فرمایا.گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ یونس نبی ایک سُرخ اونٹنی پر سوار صوف کا جبہ پہنے اس وادی سے تلبیہ کرتے ہوئے گزار رہے ہیں.اس حدیث سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں حضرت یونس علیہ السلام کو حج کرتے دیکھا ہے.پس انبیاء سابقین کی ارواح بعد از وفات اپنے نورانی جسم کے ساتھ جو انہیں بعد از وفات ملتا ہے.خانہء کعبہ کا حج کرتے رہتے ہیں.جیسا کہ پہلی حدیث میں ستر نبیوں کے حج کرنے کا ذکر آیا ہے اسی طرح حضرت عیسی بھی حج یا عمرہ کر چکے ہیں.حضرت انس فرماتے ہیں محنت اَطُرُقْ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَوْلَ الْكَعْبَةِ إِذْ رَأَيْتُهُ صَافَحَ شَيْئًا وَلَمْ أَرَاهَ قُلْنَا يَارَسُوْلَ الله رَتَيْنَاكَ صَافَحْتَ شَيْئًا وَلَا نَرَاهُ - قَالَ

Page 482

یتعلیمی پاکٹ بک 460 حصہ دوم لِكَ أَخِي عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ انْتَظَرْتُهُ حَتَّى قَضَى طَوَافَهُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ - (الفتاوى الحديثية للامام ابن حجر الهيثمی صفحه 154مصری) ترجمہ: راوی کہتا ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کعبہ کا طواف کر رہا تھا.میں نے دیکھا کہ حضور نے کسی سے مصافحہ کیا ہے جو مجھے نظر نہیں آیا میں نے کہا یا رسول اللہ ہم نے آپ کو کسی سے مصافحہ کرتے دیکھا ہے اور اس شخص کو نہیں دیکھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ میرا بھائی عیسی بن مریم تھا.میں نے اس کے طواف کرنے کا انتظار کیا اور پھر میں نے اسے سلام کیا ہے.پس عیسی علیہ السلام کے حج کی پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پوری ہو چکی ہے فج الروحا.وفات یافتہ لوگوں کا میقات احرام ہے.

Page 483

اعتراض نمبر 8 461 مالیخولیا مراقی کے اعتراض کی تردید حصہ دوم مرزا صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ انہیں مراق تھا.لہذا اُن کے دعاوی، مالیخولیا کا نتیجہ تھے؟ الجواب :.انبیاء کو پہلے بھی لوگ مجنون کہتے رہے ہیں.چنانچہ منکرین یہ کہتے آئے ہیں:.أَبِنَّا لَتَارِكُوا الِهَتِنَا لِشَاعِ مَجْنُونٍ (الصافات: 37) ترجمہ: ” کیا ہم ایک شاعر مجنون کے لئے اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دیوانہ کہا گیا تو خدا تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا:.نَ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونِ وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ - فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ بِأَيْكُمُ الْمَفْتُونَ.(القلم : 2 تا 7) ترجمہ :.دوات اور قلم اور جو کچھ لکھ رہے ہیں.وہ شاہد ہیں کہ تو اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں اور تجھے خدا کی طرف سے ایسا بدلہ ملے گا جو کبھی ختم نہیں ہوگا اور تو نہایت اعلیٰ اخلاق پر قائم ہے.پس جلدی ہی تو بھی دیکھ لے گا اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون آزمائش میں ڈالا گیا ہے.( یعنی کس کو خدا کی مددلتی ہے اور کون خدا کی نصرت سے محروم رہتا ہے) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر جگہ اپنی دو بیماریوں کا ذکر فرمایا ہے.جن میں سے ایک دورانِ سر اور دوسری کثرت بول کی بیماری ہے.اور مالیخولیا مراقی کی بیماری سے جو صریح طور پر جنون کی ایک قسم ہے، آپ نے صریح انکار کیا ہے.ڈائری میں جو مراق کا لفظ آیا ہے.اس سے مراد مالیخولیا مراقی نہیں بلکہ

Page 484

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 462 حصہ دوم پردہ مراق کی بیماری دورانِ سر ہے.دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.ایسا ہی خدا تعالیٰ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر کوئی خبیث مرض دامنگیر ہو جائے.جیسا کہ جذام اور جنون اور اندھا ہونا اور مرگی.تو اس سے یہ لوگ نتیجہ نکالیں گے کہ اس پر غضب الہی ہو گیا.اس لئے پہلے سے اُس نے مجھے براہین احمدیہ میں بشارت دی کہ ہر ایک خبیث عارضہ سے تمہیں محفوظ رکھوں گا اور اپنی نعمت تجھ پر پوری کروں گا“.اربعین نمبر 3 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 419 حاشیہ ) طب اکبر میں مراق کی تین قسمیں لکھی ہیں.صداع مراقی ، دوار مراقی اور مالیخولیا مراقی.ان میں سے صرف مالیخولیا مراقی کے ڈانڈے جنون سے ملتے ہیں اور باقی دو قسمیں پردہ مراق کی دماغی محنت کرنے والوں کو عارض ہو جاتی ہیں.ان دونوں قسموں کا جنون سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.بلکہ صرف پردۂ مراق سے بخارات اُٹھ کر دماغ کی طرف جاتے ہیں جن سے سر درد یا دورانِ سر لاحق ہو جاتا ہے.پس پردۂ مراق کے ماؤف ہونے سے دوار کا عارضہ آپ کو ضرور تھا.سیرت المہدی میں حضرت اُم المومنین کی روایت میں جو ہسٹیریا کا لفظ آیا ہے اس سے بھی دوران سر ہی مراد ہے.ہسٹیر یا مالیخولیا مراقی نہیں ہوتا.یہ تو الگ بیماری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں مخالفین کی نکتہ چینیوں کے ذیل میں لکھا ہے :.دوسری نکتہ چینی یہ ہے کہ مالیخولیا یا جنون ہو جانے کی وجہ سے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر دیا.اس کا جواب یہ ہے کہ یوں تو میں کسی کے مجنون کہنے یا دیوانہ نام رکھنے سے ناراض نہیں ہوسکتا بلکہ خوش ہوں کیونکہ ہمیشہ سے ناسمجھ

Page 485

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 463 حصہ دوم لوگ ہر ایک نبی اور رسول کا بھی ان کے زمانہ میں یہی نام رکھتے آئے ہیں.اور قدیم سے ربانی مصلحوں کو قوم کی طرف سے یہی خطاب ملتا رہا ہے.اور نیز اس وجہ سے بھی مجھے خوشی پہنچی ہے کہ آج وہ پیشگوئی پوری ہوئی.جو براہین میں طبع ہو چکی ہے کہ تجھے مجنون بھی کہیں گے.لیکن حیرت تو اس بات میں ہے کہ اس دعویٰ میں کون سے جنون کی بات پائی جاتی ہے.کون سی خلاف عقل بات ہے جس سے معترضین کو جنون ہو جانے کا شک پڑ گیا.اس بات کا فیصلہ ہم معترضین کی ہی کانشنس اور عقل پر چھوڑتے ہیں.اور ان کے سامنے اپنے بیانات اور اپنے مخالفوں کی حکایات رکھ دیتے ہیں کہ ہم دونوں گروہ میں سے مجنون کون سا ہے اور عقلِ سلیم کس کی طرزِ تقریر کو مجانین کی باتوں کے مشابہ سمجھتی ہے اور کس کے بیانات کو قول موجہ قرار دیتی ہے.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 121)

Page 486

اعتراض نمبر 9 464 غیر زبانوں میں الہامات کی وجوہ غیر زبانوں میں الہامات کیوں ہوئے؟ الجواب:.حصہ دوم (1) اس زمانہ میں عیسائیوں، برہمو سما جیوں اور سرسید احمد خان کا یہ نظر یہ تھا کہ الہام الفاظ میں نازل نہیں ہوتا.بلکہ ماہم کے دل میں خیال پیدا کیا جاتا ہے جسے وہ اپنے لفظوں میں بیان کر دیتا ہے.اسی نظریہ کی تردید کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ ام پر غیر زبانوں میں الہامات ہوئے.جن سے آپ واقف نہیں تھے.تا یہ ثابت ہو کہ الہام الفاظ میں بھی نازل ہوتے ہیں.ان میں سے بعض الہامات پیشگوئیوں پر مشتمل ہیں جو اسرار سر بستہ کی حیثیت رکھتے تھے اور وقت پر ان کی السلام حقیقت کھولی گئی.(2) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض ہوتا تھا کہ بعثت آپ کی ساری دنیا کی طرف ہے اور الہام آپ کو صرف عربی زبان میں ہوتا ہے.اس لئے مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ ہیں.عربی زبان کو اُم الالسنہ ثابت کیا گیا.اور دوسری زبانوں میں بعض الہامات نازل کئے.قرآن کریم کے نزول کے وقت غیر زبانوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر الہامات نازل کرنے کی ضرورت نہ تھی.کیونکہ ابھی مواصلات کا سلسلہ وسیع نہیں ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب مواصلات کا سلسلہ وسیع ہو گیا تو غیر زبانوں میں الہامات نازل کر کے اس طرف توجہ دلائی کہ خدا تعالیٰ ہر زبان میں کلام کرتا ہے.اس لئے اس سے تعلق پیدا کرنے والی قو میں اس کے لذیذ کلام کو اپنی

Page 487

یتعلیمی پاکٹ بک زبان میں سُن سکتی ہیں.465 حصہ دوم عیسائیوں اور برہموسما جیوں وغیرہ کے اسی غلط نظریہ کی تردید میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الہام نازل ہوا کہ:.اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خُدا کی کتاب اور میرے (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 87) منہ کی باتیں ہیں“ قرآن مجید خُدا کے منہ کی باتیں ہیں ! ”میرے منہ کی باتیں ہیں“ سے مراد یہ ہے کہ یہ خدا کے منہ کی باتیں ہیں.یعنی خدا بتا رہا ہے کہ قرآن لفظاً نازل ہوا ہے نہ یہ کہ اس کا مفہوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ڈالا گیا.جو آپ نے اپنے الفاظ میں بیان کیا.بعض لوگ بے سمجھی سے اس الہام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے قرآن مجید کو اپنے منہ کی باتیں کہا ہے.حالانکہ یہ فقرہ مرزا صاحب علیہ السلام کا اپنا کلام ہے ہی نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے.ان کو مغالطہ اس سے لگا ہے کہ پہلے فقرہ میں خدا کا ذکر بصیغہ غائب ہے اور دوسرے فقرہ میں بصیغہ متکلم.الہامی زبان میں خدا کا یہ طریق ہے کہ کبھی وہ غائب سے متکلم کی طرف بھی التفات کرتا ہے.چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَاللهُ الَّذِى اَرْسَلَ الرِّيحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنُهُ إِلَى بَلَدٍ مَّيْتٍ - (فاطر: 10) یعنی خداوہ ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے.پس وہ بادل کو اُٹھاتی ہیں.پھر ہم (یعنی خدا) اسے مُردہ علاقہ کی طرف ہانک دیتے ہیں.دیکھئے اس آیت میں غائب سے متکلم کی ضمیر کی طرف التفات ہے.

Page 488

466 حصہ دوم یہ آریوں کا خیال ہے کہ خدا انسانوں کی زبان میں کلام نہیں کرتا اعتراض نمبر 10 مرزا صاحب نے کہا ہے:.”بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی اور ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس میں تکلیف مالا طاق ہے.(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 218) جب یہ بات ہے تو پھر مرزا صاحب کو غیر زبانوں میں کیوں الہام ہوا؟ الجواب :.یہ عبارت آریوں کے اس خیال کے رڈ میں ہے کہ خدا انسان کی زبان میں نہیں بولتا اور اس نے اپنے رشیوں پر ویدا اپنی زبان میں نازل کئے جسے رشی نہیں جانتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس امر کو بیہودہ اور غیر معقول قرار دیتے ہیں کہ خدا کا کلام ایسی زبان میں ہو جس کو کوئی سمجھتا ہی نہیں.اسی عبارت کے بعد مرزا صاحب نے خود فرمایا ہے کہ مجھے مختلف زبانوں میں الہامات ہوئے.ملاحظہ ہو چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 218) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو ایسے الہامات ہوئے ہیں وہ ایسی زبانوں میں ہوئے ہیں جو دنیا میں سمجھی جاتی ہیں اور اُن کے بولنے والے دُنیا میں موجود ہیں.پس آپ نے ایسی زبان میں الہام نازل ہونے کو بیہودہ اور غیر معقول قرار دیا ہے جس کو دُنیا میں کوئی نہ جانتا ہو.

Page 489

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 467 حصہ دوم چوہڑے اور چمار نبی نہیں ہو سکتے نبی اعلیٰ خاندان سے آتا ہے اعتراض نمبر 11 تریاق القلوب کی ایک عبارت کی بناء پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے یہ کہا ہے کہ چوہڑے اور چمار بھی نبی ہو سکتے ہیں.الجواب : ایسے لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے:.اب خدا تعالیٰ کی قدرت پر خیال کر کے ممکن تو ہے کہ وہ اپنے کاموں سے تائب ہو کر مسلمان ہو جائے اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا ایسا فضل اس پر ہو کہ وہ رسول اور نبی بھی بن جائے.اور اسی گاؤں کے شریف لوگوں کی طرف دعوت کا پیغام لیکر آوے اور کہے کہ جو شخص تم میں سے میری اطاعت نہیں کرے گا.خدا اُسے جہنم میں ڈالے گا.لیکن باوجود اس امکان کے جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے کبھی خدا نے ایسا نہیں کیا.کیونکہ ایسا کرنا اسکی حکمت اور مصلحت کے خلاف ہے.اور وہ جانتا ہے کہ لوگوں کے لئے یہ ایک فوق الطاقت ٹھوکر کی جگہ ہے.کہ ایک ایسا شخص جو پشت در پشت سے رذیل چلا آتا ہے...اب اگر لوگوں سے اس کی اطاعت کرائی جائے تو بلاشبہ لوگ اسکی اطاعت سے کراہت کریں گے.کیونکہ ایسی جگہ میں کراہت کرنا انسان کے لئے ایک طبعی امر ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کا قدیم قانون اور سُنت اللہ یہی ہے کہ وہ صرف اُن لوگوں کو منصب دعوت یعنی نبوت وغیرہ پر مامور کرتا ہے جو اعلیٰ خاندان میں سے ہوں اور ذاتی طور پر بھی چال چلن اچھے رکھتے ہوں.کیونکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ قادر ہے حکیم بھی ہے اور اس کی حکمت

Page 490

ی علیمی پاکٹ بک 468 حصہ دوم اور مصلحت چاہتی ہے کہ اپنے نبیوں اور ماموروں کو ایسی اعلیٰ قوم اور خاندان اور ذاتی نیک چال چلن کے ساتھ بھیجے تا کہ کوئی دل ان کی اطاعت سے کراہت نہ کرے.یہی وجہ ہے جو تمام نبی علیہم السلام اعلیٰ قوم اور خاندان میں سے آتے رہے ہیں.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 280-281) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چوہڑوں اور چماروں کا نبی بنا اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت اور قدیم قانون اور سنت الہی کے خلاف قرار دیا ہے.اور اس جگہ جو امکان بیان ہوا ہے.وہ صرف امکانِ عقلی ہے جس میں خدا کی صفت قدرت کو مد نظر رکھا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ قادر کی قدرت کے آگے تو یہ ممکن ہے کہ وہ کسی چوہڑے اور چمار کو نبی بنا سکے لیکن چونکہ خدا حکیم بھی ہے.اس لئے اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ نبی ہمیشہ اعلیٰ خاندان سے بنائے جائیں تا ان لوگوں کو ان کے احماء کے قبول کرنے میں کراہت نہ ہو اور یہی اسکی سنتِ جاریہ رہی ہے.پس اس عبارت سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی حکمت کے تقاضا کے لحاظ سے کسی چوہڑے چمار کا نبی بننا اس کی سنت کے خلاف ہے.امکان صرف عقلی بیان ہوا ہے نہ کہ عادی.پس آدھی عبارت لے لینا اور باقی عبارت کو چھوڑ دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ قرآنی آیت کا ٹکڑا لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ “ کو تو لے لے اور آگے وَاَنْتُمْ سُکری کو چھوڑ دے اور کہے کہ قرآن میں لکھا ہے 66 کہ نماز کے قریب بھی نہ جاؤ.حالانکہ وہاں تو یہ لکھا ہوا ہے کہ سکر کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ.

Page 491

ی علیمی پاکٹ بک 469 حصہ دوم ایسا مسیح نہیں آسکتا جو قرآن کے حلال و حرام کی پرواہ نہ کرے اعتراض نمبر 12 مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام اگر آجائیں تو وہ شراب پیئیں گے اور خنزیز کھائیں گے.(دیکھو حقیقۃ الوحی صفحہ 29) الجواب :.وہاں تو یہ لکھا ہے کہ:.یہ بالکل غیر معقول بات ہے کہ جب لوگ نماز کیلئے مساجد کی طرف دوڑیں گے تو وہ کلیسا کی طرف بھاگے گا.اور جب لوگ قرآن شریف پڑھیں گے تو وہ انجیل کھول بیٹھے گا.اور جب لوگ عبادت کے وقت بیت اللہ کی طرف منہ کریں گے تو وہ بیت المقدس کی طرف متوجہ ہوگا اور شراب پیئے گا اور سور کا گوشت کھائے گا.اور اسلام کے حلال وحرام کی کچھ پرواہ نہیں رکھے گا“.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ (31) یہ خیالات عیسائیوں کے ہیں نہ مسلمانوں کے.اسی لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو غیر معقول قرار دیا ہے.مگر تعجب ہے کہ مخالف اسے اعتراض کی صورت میں پیش کرتا ہے.حالانکہ نہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسلمات میں سے ہے اور نہ دوسرے مسلمانوں کے مسلمات میں سے.اس قسم کے خیالات تو عیسائیوں کے ہیں.چنانچہ اسی جگہ حاشیہ میں لکھا ہے:." حضرت عیسی کے دوبارہ آنے کا مسئلہ عیسائیوں نے محض اپنے فائدہ کے لئے گھڑا تھا.کیونکہ ان کی پہلی آمد میں اُن کی خدائی کا کوئی نشان ظاہر نہ ہوا.

Page 492

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 470 حصہ دوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام اِس جگہ عیسائیوں کے خیال کا ہی رڈ کر رہے ہیں.اور اسے غیر معقول قرار دے رہے ہیں.اعتراض نمبر 13 مولوی محمد حسین بٹالوی کا ایمان مرز اصاحب نے لکھا ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی ایمان لائے گا؟ الجواب: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام استفتاءاردو صفحہ 22 حاشیہ میں فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کشف ظاہر کر رہا ہے کہ وہ ( محمد حسین بٹالوی) بالآخر ایمان لائے گا.مگر مجھے معلوم نہیں کہ وہ ایمان فرعون کی طرح صرف اسی قدر ہوگا کہ ا مَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي أُمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرَاءِ يْلَ یا پر ہیز گار لوگوں کی طرح.واللہ اعلم.یہ پیشگوئی بجائے کھلے اعتراف کے اس رنگ میں پوری ہوئی.کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لالہ دیو کی نند صاحب مجسٹریٹ درجہ اول وزیر آباد کی عدالت میں مقدمہ نمبر 313 میں حلفا بیان کیا کہ میں احمدی جماعت کو مسلمان سمجھتا ہوں.حالانکہ وہی علماء میں سے سب سے پہلے فتویٰ کفر تیار کرنے والے تھے.ان کے خیالات میں یہ تبدیلی اُن کی قلمی تبدیلی پر گواہ ہے.

Page 493

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 471 بشیر الدولہ عالم کباب کی پیشگوئی کا مصداق اعتراض نمبر 14 مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ :.حصہ دوم وحی الہی ہوئی تھی کہ وہ زلزلہ جو نمونہ قیامت ہوگا بہت جلد آنے والا ہے.بہت جلد آنے والا ہے.اس کے لئے یہ نشان دیا گیا تھا کہ پیر منظور محمد صاحب کی بیوی محمدی بیگم کولڑ کا پیدا ہو گا.(حقیقۃ الوحی صفحہ 100) مگر ایسا کوئی لڑکا پیدا نہیں ہوا.الجواب.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ آگے اپنی التجا اور اس کی قبولیت کے ذکر میں لکھتے ہیں:.اس زلزلہ نمونہ قیامت میں کچھ تاخیر ڈال دی جائے....خدا نے دُعا قبول کر کے اس زلزلہ کو کسی اور وقت پر ڈال دیا ہے اس لئے ضرور تھا کہ لڑکا پیدا ہونے میں بھی تاخیر ہوتی “.(حقیقۃ الوحی صفحہ 101 حاشیه در حاشیه روحانی خزائن جلد 103 حاشیه در حاشیه ) اصل حقیقت یہ ہے.کہ منظور محمد سے ” پیر منظور محمد مراد لینا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ایسا اجتہاد تھا جس میں اس کے خلاف احتمال بھی موجود تھا.چنانچہ آپ نے لکھا تھا.19 فروری 1906 ء کو ر ڈ یا دیکھا کہ منظور محمد کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے اور دریافت کرتے ہیں کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے.تب خواب سے حالت الہام کی طرف چلی گئی اور یہ معلوم ہوا بشیر الدولہ فرمایا کئی آدمیوں کے واسطے دعا کی جاتی ہے معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کس کی طرف اشارہ ہے.( بدر جلد 2 نمبر 8 مکاشفات صفحہ 46 تذکرہ صفحہ 510 مطبوعہ 2004ء)

Page 494

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 472 حصہ دوم گویا حضرت اقدس نے صاف فرما دیا ہے کہ اس منظور محمد کی الہاما تعیین نہیں کی گئی.پس یہ صرف مخالف احتمال کے ساتھ آپ کا ایک اجتہاد ہی تھا کہ پیر منظور محمد کی بیوی محمدی بیگم صاحبہ سے لڑکا پیدا ہوگا.لہذا معنوی لحاظ سے اس رویا کی تعبیر میں منظور محمد سے مراد خدا کے نزدیک وہ شخص ہو سکتا ہے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا منظور نظر ومحبوب ہو.الہام بتاتا ہے کہ ایسا لڑکا زلزلة الساعۃ سے پہلے پیدا ہوگا.اور یہ زلزلہ کیلئے بطور علامت کے ظاہر ہونے والا تھا.اسی لڑکے کے نام الہامات میں کلمتہ اللہ خاں کلمة العزيز - هذا يوم مبارک.بشیر الدولہ.ناصر الدین.شادی خان بھی رکھے گئے ہیں.( تذکرہ صفحہ 537 مطبوعہ 2004ء) میر اوجدان یہ ہے کہ اس پیشگوئی کے مصداق در اصل حضرت خلیفہ اسیح الثانی بطور منظور محمد کے ہیں اور ان کے صاحبزادہ حضرت مرزا ناصر احمد سلمہ رتبہ ، بشیر الدولہ و عالم کباب کی پیشگوئی کے مصداق ہیں جو اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ ثالث ہیں اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہی صفاتی نام پیشگوئی میں ناصرالدین اور فاتح الدین مذکور ہیں اور عالم کباب آپ اس طرح ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے:.عالم کباب سے یہ مراد ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد چند ماہ تک یا جب تک کہ وہ اپنی برائی بھلائی شناخت کرے دنیا پر ایک سخت تباہی آئے گی.الحام 10 جون 1906 ، صفحہ 1 کالم نمبر 2) اس پیشگوئی کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب 1909ء میں پیدا ہوئے.اور 1914ء میں چار سال بعد زلزلہ عظیمہ بطور علامت جنگِ عظیم کی شکل میں دنیا پر ایک سخت تبا ہی لایا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جو صفاتی رنگ میں منظور محمد ہیں

Page 495

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 473 حصہ دوم آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے عہد میں اپنے ایک خط میں ایک دوست کو تحریر فرمایا تھا:.” مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں ایک ایسا لڑکا دوں گا.جو دین کا ناصر ہوگا.اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہوگا“.(الفضل 8 اپریل 1915 ، صفحہ 5) یہ خط 26 رستمبر 1909 ء کو لکھا گیا تھا اور اس کے بعد 15 نومبر 1909ء کو حضرت مرزا ناصر احمد صاحب آپ کے ہاں پیدا ہوئے.اس خط کا عکس تاریخ احمدیت جلد چہارم مؤلفہ مولوی دوست محمد شاہد صاحب فاضل کے صفحہ 320 پر شائع ہو چکا ہے.جس پر اس خط کے لکھا جانے کی تاریخ 26 /ستمبر 1909 ء درج ہے.الہامات میں فاتح الدین بھی اس لڑکے کا نام آیا ہے.اور عجیب بات ہے کہ خود حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جن کے آپ صاحبزادے ہیں آپ کو جب فرقان بٹالین قائم کی گئی.اس بٹالین کے اشارات میں فاتح الدین کے نام سے موسوم فر مایا.( تلخیص از تاریخ احمد بیت جلد 6 صفحہ 667 مؤلفه مولوی دوست محمد شاہد فاضل )

Page 496

یتعلیمی پاکٹ بک 474 حصہ دوم اعتراض نمبر 15 الهام بكروتيب مرزا صاحب نے لکھا ہے:.”خدا کا ارادہ ہے کہ دو عورتیں میرے نکاح میں لائے گا.ایک بگـر ( کنواری) اور دوسری بیوہ.چنانچہ یہ الہام جو بکر کے متعلق تھا پورا ہو گیا اور اس وقت بفضلہ 66 چار پسر اس بیوی سے ہیں.اور بیوہ کے الہام کا انتظار ہے.( تریاق القلوب صفحہ 34) مگر آخر وقت تک کوئی بیوہ آپ کے نکاح میں نہیں آئی ؟ الهام دراصل بِكْرٌ وَثَيِّب“ کے دو لفظوں میں نازل ہوا تھا.تریاق القلوب کی مندرجہ بالا عبارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس الہام کے متعلق اپنا اجتہاد ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:.الْمُجْتَهِدُ يُخْطِئُ وَيُصِيبُ فَإِنْ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِنْ اَخَطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ وَّاحِدٌ.کہ مجتہد اجتہاد میں غلطی بھی کرتا ہے اور اس کا اجتہاد درست بھی ہوتا ہے.اگر اس کا اجتہاد درست ہو تو اُسے دو اجر ملتے ہیں اور اگر درست نہ ہو تو اسے ایک اجر ملتا ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس اجتہاد پر قائم نہیں رکھا تھا کہ بیوہ تمہارے نکاح میں آئے گی.بلکہ 16 فروری 1906ء کو الہام کیا تکفیک

Page 497

ی علیمی پاکٹ بک 475 حصہ دوم هذِهِ الْاِمْرَأَةُ“ کہ تیرے لئے یہی عورت ( جو تیرے نکاح میں ہے ) کافی ہے.(ملاحظہ ہو تذکرہ صفحہ 509 مطبوعہ 2004ء) پس جب بیوہ کا انتظار اس الہام کے بعد نہ رہا.تو اب اس الہام کی تشریح واقعات کے رُو سے کی جائے گی.واقعات نے یہ بتایا ہے کہ یہ الہام دونوں پہلوؤں سے حضرت اُم المؤمنین سیدہ نصرت جہان بیگم رضی اللہ عنہا کی ذات میں پورا ہوا ہے جو بکر کی صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقد میں آئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پہلے ہوگئی اور آپ ٹیب ( بیوہ) رہ گئیں.خواتین مبارکه اعتراض نمبر 16 مرزا صاحب نے لکھا ہے:.اس عاجز نے 20 فروری 1886ء کے اشتہار میں یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے بیان کی تھی کہ اُس نے مجھے بشارت دی ہے کہ بعض با برکت عورتیں اس اشتہار کے بعد بھی تیرے نکاح میں آئیں گی اور اُن سے تبلیغ رسالت جلد 1 صفحہ 89، باراوّل) اولاد پیدا ہوگی“.اس پر اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ام المومنین نصرت جہان بیگم رضی اللہ عنہ کے بعد آپ کے نکاح میں کوئی اور خاتون نہیں آئی ؟ الجواب تبلیغ رسالت جلد 1 صفحہ 89 کی عبارت کے الفاظ اجتہادی ہیں نہ کہ الہامی.الہامی الفاظ جو 20 فروری 1886 ء کے اشتہار میں درج ہیں یوں ہیں:.” اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے بعض کو اس کے بعد پائے گا.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 113 بار دوم

Page 498

ی علیمی پاکٹ بک 476 حصہ دوم تیری نسل بہت ہوگی.ان الہامی الفاظ میں یہ ہرگز معتین نہیں کیا گیا تھا کہ یہ خواتین مبارکہ آپ کے نکاح میں آئیں گی.نکاح میں آنا صرف آپ کا اجتہاد تھا جس کی تصحیح 16 فروری 1906ء کے الہام تکفیک هذِهِ الْاِمْرَأَةُ “ نے کر دی.کہ اور کوئی عورت آپ کے نکاح میں نہیں آئے گی.پس یہ خواتین مبارکہ از روئے واقعات اس الہام کی روشنی میں وہ خواتین مبارکہ ہیں جو آپ کی زندگی میں آپ کی اولاد کے گھر آئیں.جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی نسل کو بہت بڑھایا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ.زَلْزَلَةُ السَّاعَةِ کے متعلق اعتراض کا جواب اعتراض نمبر 17 مرزا صاحب نے ایک زلزلہ نمونہ قیامت کی پیشگوئی کی تھی.پھر اس کے متعلق اپنا ایک الہام بتایا تھا.رَبِّ آخِرُ وَقَتَ هَذَا أَخْرَهُ اللَّهُ إِلَى وَقْتِ مُسمى “.کہ اے خدا بزرگ زلزلہ کے ظہور میں کسی قدر تاخیر کر دے.خدا نمونہ قیامت زلزلہ کے ظہور میں ایک وقت مقرر تک تاخیر کر دے گا.(حقیقۃ الوحی صفحہ 100 ) اور پھر یہ بھی الہام بتایا تھا: رَبِّ لَا تُرِنِي زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ “.تذکرہ صفحہ 513 مطبوعہ 2004ء) یہ الہام 9 / مارچ 1906ء کو ہوا.پھر اس کے بعد 19اپریل 1906 ء کا الہام بتایا ہے: رَبِّ اَرِنِى زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ.يُرِيكُمُ اللهُ

Page 499

477 حصہ دوم زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ.أُرِيْكَ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ“ ( تذکره صفحه 521 مطبوعہ 2004ء) گو زلزلہ میں تاخیر ہوگئی تھی.مگر اس آخری الہام کے مطابق یہ زلزلہ مرزا صاحب کی زندگی میں آنا چاہیے تھا.اعتراض یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں کوئی ایسا زلزلہ نہیں آیا ؟ الجواب:.وہ زلزلہ جس کے نہ دیکھنے کے متعلق الہام ہوا تھا اور جس میں تاخیر ڈال دی گئی تھی وہ ایسا زلزلہ تھا جس کا تعلق عینی رویت سے تھا.اس کے ظہور کے وقت کو خدا نے أَخَّرَهُ اللهُ إِلَى وَقتٍ مُسَمًّى “ کہہ کر غیر معین کر دیا.اور ” رَبِّ لَا تُرنی “ کے الہامی الفاظ سے یہ بتا دیا کہ اس میں اتنی تاخیر ہو جائے گی کہ آپ اسے اپنی ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھیں گے.پس ان الہامات کے بعد 9 را پریل کو جس زلزلہ کے رَبِّ أَرِنِى زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ اُرِيْكَ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ “ کے الفاظ میں دکھانے کا وعدہ تھا.اس کا تعلق رویت کشفی سے تھا.اور آپ کو وہ زلزلہ کشفا دکھایا گیا.چنانچہ 11 جون 1906ء کے الہامات میں درج ہے:.ایک زلزلہ کا نظارہ دکھائی دیا اور ساتھ ہی اس کے الہام ہوا.لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 66 ( تذکره صفحه 536 مطبوعہ 2004ء) کشفی نظارہ میں جو زلزلہ آپ کو دکھایا گیا تھا.وہ ایک تعبیر چاہتا تھا.لہذا ” يُرِيْكُمُ اللَّهُ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ “ کے الہام میں قوم کے لئے اس زلزلہ کو ظاہری آنکھوں سے دیکھنے کی پیشگوئی تھی.چنانچہ یہ زلزلہ عظیمہ بصورت جنگ عظیم

Page 500

478 حصہ دوم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگوں نے مشاہدہ کیا.اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نظم میں لکھا تھا:.وحی حق کے ظاہری لفظوں میں ہے وہ زلزلہ لیک ممکن ہے کہ ہو کچھ اور ہی قسموں کی مار ( تذکره صفحه 455 مطبوعہ 2004ء) اور تذکرہ صفحہ 454 مطبوعہ 2004ء پر نظم مذکور میں لکھا ہے:.مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن وانس زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی با حال زار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 152 ) اس زلزلہ کے متعلق آپ نے یہ نوٹ بھی دیا:.”خدا تعالیٰ کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے اور فرمایا کہ ایسا زلزلہ ہوگا جو نمونہ قیامت ہوگا لیکن میں ابھی تک اس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا.ممکن ہے کہ یہ معمولی زلزلہ نہ ہو.بلکہ کوئی شدید آفت ہو جو قیامت کا نمونہ دکھا دے جس کی نظیر کبھی اس زمانہ نے نہ دیکھی ہو.اور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے.ہاں اگر ایسا فوق العادت نشان ظاہر نہ ہو.اور لوگ گھلے طور پر اپنی اصلاح بھی نہ کریں تو اس صورت میں میں کاذب ٹھہروں گا“.(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 151 حاشیہ) نظم میں زلزلہ کی یہ پیشگوئی ان اشعار میں 15 اپریل 1905 ء کو کی گئی.اور ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 258-259 میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق لکھا کہ:.اگر خدا تعالیٰ نے اس آفت شدیدہ کے ظہور میں بہت ہی تاخیر

Page 501

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 479 حصہ دوم ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ سولہ سال ہیں...بہر حال وہ سولہ سال سے تجاوز نہیں کرے گی.18 /اکتوبر 1905ء کو حضور نے رویا دیکھا:.ایک شخص نے مجھے کنویں کی ایک کوری ٹنڈ میں ٹھنڈا پانی دیا.پھر الہام ہوا ” آب زندگی اس کے بعد الہام ہوا قَلَّ مِيْعَادُ رَبِّكَ “ پھر الہام ہوا.خدا کی طرف سے سب پر اُداسی چھا گئی.الحكم 24 اکتوبر 1905 ، صفحہ 1 کالم نمبر 1) پھر ریویو دسمبر 1905 ء صفحہ 480 پر یہی رؤیا یوں درج ہوئی:.چند روز کا رویا ہے کہ ایک کوری ٹنڈ میں کچھ پانی مجھے دیا گیا.پانی صرف دو تین گھونٹ باقی اس میں رہ گیا ہے لیکن بہت مصفی اور مقطر پانی ہے.اس کے ساتھ الہام تھا آپ زندگی“.1905ء کی اس رویا اور الہامات میں بتایا گیا ہے کہ آپ کی وفات قریب ہے.صرف دو تین سال عمر کے باقی ہیں.اس کے بعد 26 رمئی 1908ء کو آپ وفات پاگئے.یہ الہامات بتاتے ہیں کہ یہ زلزلہ عظیمہ جس کا سولہ سال میں ہونا آپ نے ظاہر فرمایا تھا.آپ کی زندگی میں آنے والا نہ تھا.اگر زندگی میں آنے والا ہوتا.تو میعاد تین سال تک ہی بتائی جاتی.جیسا کہ رویا میں دو تین گھونٹ پانی دکھایا گیا.اور اُسے آپ زندگی کہا گیا اور بتایا گیا کہ آپ کی وفات کا وقت قریب آ رہا ہے.پس یہ زلزلہ جس میں تاخیر ڈالی گئی.آپ کی وفات والے الہامات سے ظاہر ہے کہ آپ کی زندگی میں اس کا دکھایا جانا مقدر نہ تھا.اسی لئے آپ کو یہ تفہیم ہوئی کہ یہ 1905ء سے لے کر سولہ سال کے عرصہ سے تجاوز نہیں کرے گا.چنانچہ

Page 502

480 حصہ دوم یہ زلزلہ 1914ء میں آ گیا اور تین سال تک جاری رہا.دیکھو یہ خدا کا کتنا عظیم الشان نشان ہے.جس میں زار روس کی تباہی کی پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہو گئی.اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کر دگار ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں اعتراض نمبر 18 مرزا صاحب نے کہا تھا کہ:.ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں مگر اُن کی وفات لاہور میں ہوئی.لہذا یہ کتنا جھوٹ ہوا کہ ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں“.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی قول نہیں بلکہ الہام ہے.اس دن تین الہام ہوئے :.(1) كَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِي (2) سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِيم (3) ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں.ان کے ترجمہ اور تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں:.-1 " خدا نے ابتداء سے مقدر کر چھوڑا ہے کہ وہ اور اس کے رسول غالب رہیں گئے.

Page 503

481 حصہ دوم 2 ” خدائے رحیم کہتا ہے کہ سلامتی ہے.یعنی خائب و خاسر کی طرح تیری موت نہیں ہے.اور یہ کلمہ کہ ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں اس کے یہ معنی ہیں کہ قبل از موت مگی فتح نصیب ہوگی.جیسا کہ وہاں دشمنوں کو قہر کے ساتھ مغلوب کیا گیا تھا.اسی طرح یہاں بھی دشمن قہری نشانوں سے مغلوب کئے جائیں گے.دوسرے یہ معنی ہیں کہ قبل از موت مدنی فتح نصیب ہوگی.خود بخو دلوگوں کے دل ہماری طرف مائل ہو جائیں گے.فقرہ كَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی.مکہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فقرہ سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیم مدینہ کی طرف“.( بدر 19 جنوری 1906 ء صفحہ 2 کالم نمبر 1 - 2 - تذکرۃ صفحہ 503 مطبوعہ 2004ء) کسی الہام کی تشریح میں ملہم کی اپنی تشریح کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.اس جگہ مکہ اور مدینہ کے لفظ مجازاً استعمال ہوئے ہیں نہ حقیقہ.اور مجازی استعمال میں بڑی وسعت ہے.مجاز میں کبھی جگہ کا ذکر کر کے اس کے مکین مُراد ہوتے ہیں اور کبھی جگہ کا ذکر کر کے اس جگہ کی حالت مُراد ہوتی ہے.یہ دونوں صورتیں مجاز کی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.تِلْكَ الْقُرَى نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَابِهَا (الاعراف : 102) کہ ان بستیوں کی یعنی ان بستیوں کے مکینوں کی آئندہ کی حالت تجھے پر بیان کرتے ہیں.اس آیت میں قریہ سے مکین قریہ مراد ہیں.دوسری آیت میں فرماتا ہے:.وَسُلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ - (الاعراف: 164) اور مراد یہ نہیں کہ قریہ والوں سے پوچھو.بلکہ قریہ بول کر دراصل قریہ

Page 504

ندید تعلیمی پاکٹ بک 482 حصہ دوم والوں کی حالت کا دریافت کرنا مراد ہے.اس مثال میں جگہ بول کر جگہ والوں کی حالت مراد ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.أنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ“ میں علم کا شہر ہوں“.مُراد یہ ہے کہ شہر کی بھر پور حالت کی طرح میری علمی حالت ہے یعنی میں علم سے بھر پور ہوں.کبھی کر بلا کا لفظ بول کر کربلا کی حالت یعنی مصیبت مراد ہوتی ہے.جیسا کہ علامہ نوعی کہتے ہیں :.کر بلائے عشقم ولب تشنہ سرتا پائے من صد حسینی گشتہ در ہر گوشہء صحرائے من کہ میں عشق کی کربلا ہوں سرتا پا تشنہ لب سوحسین میرے صحرا کے ہر گوشہ میں موجود ہیں.اعتراض نمبر 19 الجواب ☆ معترض کہتے ہیں کہ حقیقۃ الوحی میں مرزا صاحب کا الہام لکھا ہے:.آسمان سے کئی تخت اُترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا.اس طرح تمام نبیوں سے افضل ہونے کا دعویٰ کیا گیا ؟ اس الہام میں نبیوں سے افضل ہونے کا دعوی نہیں کیا گیا بلکہ اپنے زمانے (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 92)

Page 505

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 483 حصہ دوم کے ذوی الاقتدار لوگوں سے اور سربراہان مملکت سے روحانی اقتدار میں بڑھ کر ہونے کا دعوی ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ زمانے کے امام کی روحانی حکومت اس زمانہ کی تمام مادی حکومتوں سے اپنی شان میں بڑھ کر ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور الہام ہے جو اس کا مؤید ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ:.میں تجھے برکت پر برکت دوں گا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.بركات الدعا روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 35 و تذکرہ صفحہ 8 مطبوعہ 2004ء) پھر فرماتے ہیں:.عالم کشف میں مجھے وہ بادشاہ دکھلائے گے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور کہا گیا کہ یہ ہیں جو اپنی گردنوں پر تیری اطاعت کا جوا اُٹھائیں گے اور خدا انہیں برکت دے گا“.تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 حاشیہ صفحہ 409) ان الہامات کی روشنی میں زیر بحث تخت والا الہام اپنے اندر پیشگوئی کی شان بھی رکھتا ہے اور اس میں اشارہ ہے کہ بہت سے ملکوں کے بادشاہ آپ کے روحانی اقتدار کے نیچے آجائیں گے.اور آپ کی بیعت میں داخل ہوجائیں گے.اس سے ثابت ہو جائے گا کہ آپ کا تخت سب سے اونچا بچھایا گیا.سچ فرمایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے:.ملک روحانی کی شاہی کی نہیں کوئی نظیر گو بہت دنیا میں گزرے ہیں امیر و تاجدار ( در شین اردو صفحہ 140)

Page 506

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 484 حصہ دوم مولوی ثناء اللہ صاحب کا مباہلہ کرنے سے انکار اعتراض نمبر 20 بعض مخالفین احمدیت کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے بددعا کی تھی کہ خدا مجھ میں اور مولوی ثناء اللہ میں فیصلہ کر دے اور جھوٹے کو بچے کی زندگی میں ہلاک کر دے.اور اس دعا کے متعلق یہ بھی ظاہر کیا کہ مجھے الہام ہوا ہے:.أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ“ الہذا مرزا صاحب کا مولوی ثناء اللہ صاحب پہلے وفات پا جانا ان کے اپنے دعوی میں جھوٹے ہونے کی دلیل ہے؟ الجواب واضح ہو کہ جس خط کی تحریر کا ایسے معترضین ذکر کرتے ہیں وہ اس سے پہلے بیانات کے سلسلہ کے لحاظ سے دعائے مباہلہ کا مسودہ تھی نہ کہ یک طرفہ دعا.کیونکہ اس میں سنت اللہ کے موافق خدا تعالیٰ سے یہ فیصلہ چاہا گیا تھا کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں ہلاک ہو.اس لئے اس خط کے بعد جو خط مولوی ثناء اللہ صاحب کی طرف لکھا گیا تھا.اس کا عنوان ” مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ“ قرار دیا تھا نہ کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق کے آخری فیصلہ.آخری فیصلہ بذریعہ بددعا اسلام میں مباہلہ کی صورت میں ہی ہوتا ہے.جس میں دوسرے فریق کی منظوری اور اس کی طرف بد دعا کا ہونا ضروری ہوتا ہے.مولوی ثناء اللہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس خط کو اپنے اخبار اہلحدیث 26 اپریل 1907ء میں شائع کر کے اس کی منظوری سے انکار

Page 507

485 حصہ دوم کر دیا.لہذا یہ یک طرفہ تحریر اب مولوی ثناء اللہ صاحب کے اس بیان کردہ طریق فیصلہ کو منظور نہ کرنے کی وجہ سے حجت نہیں رہی.لہذا اعتراض باطل ہے.اس خط کا مضمون یہ ہے:.مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ: بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب السَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى مدت سے آپ کے پرچہ اہلحدیث میری تکذیب تفسیق کا سلسلہ جاری ہے.ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پر چہ میں مردود، کذاب، دجال ، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذاب اور دجال ہے اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے سراسر افتراء ہے.میں نے آپ سے بہت دُکھا اٹھایا اور صبر کرتا رہا.مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لئے مامور ہوں اور آپ بہت سے افترا میرے پر کر کے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں.اور مجھے ان گالیوں اور اُن تہمتوں اور اُن الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہوسکتا اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی نا کام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے تا خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے.اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خُدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے

Page 508

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 486 حصہ دوم امید رکھتا ہوں کہ سُنّت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے.پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں.آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئی تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے.اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم وخبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے.اگر یہ دعوی مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افتراء ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افتراء کرنا میرا کام ہے.تو اے میرے پیارے مالک !میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے اُن کو اور اُن کی جماعت کو خوش کر دے.آمین.مگر اے میرے کامل اور صادق خدا! اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں.تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے.بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے رو برو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بد زبانیوں سے تو بہ کرے جن کو وہ فرضِ منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دُکھ دیتا ہے.آمین یا رب العالمین.میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بد زبانی حد سے گزرگئی.وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی بدتر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لئے سخت نقصان رساں ہوتا ہے.

Page 509

487 حصہ دوم ندی علیمی پاکٹ بک اور انہوں نے ان تہمتوں اور بد زبانیوں میں آیت لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (بنی اسرائیل :37) پر بھی عمل نہیں کیا.اور تمام دنیا سے مجھے بدتر سمجھ لیا.اور دور دور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلا دیا ہے کہ یہ شخص در حقیقت مفسد اور ٹھگ اور دوکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے.سو اگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بداثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا.مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ انہیں تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تو نے اے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے، اپنے ہاتھ سے بنائی ہے.اس لئے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتیجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما.اور وہ جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اُٹھا لے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر.اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر.آمین ثم آمین.رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفَرِحِينَ.(الاعراف: 90) آمین.بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اسکے نیچے لکھ دیں.اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے.ـراق عبد اللہ الصمد میرزا غلام احمد امسیح الموعود عافاه الله واید - مرقوم تاریخ 15 اپریل 1907 ء مطابق یکم ربیع الاول 1325 ہجری روز دوشنبه ( مجموعہ اشتہارات جلد 2، صفحہ 705 ، 706) (ملاحظہ ہو اہلحدیث 26 اپریل 1907 صفحہ 4-5)

Page 510

احمد یتعلیمی پاکٹ بک 488 حصہ دوم خط کے آخر میں لکھا گیا تھا کہ ”مولوی ثناء اللہ صاحب جو چاہیں اسکے نیچے لکھ دیں.اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے.مراد یہ تھی کہ منظور کر لیں.تو مباہلہ کی سنت کے مطابق خدا تعالیٰ فیصلہ فرمادے گا.میں لکھا:.اس خط کو اپنے اخبار میں چھاپنے کے بعد مولوی صاحب نے اپنے جواب ا.اس دُعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی اور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا“.۲.یہ کہ اس مضمون کو بطور الہام کے شائع نہیں کیا بلکہ یہ کہا ہے کہ یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں بلکہ محض دُعا کے طور پر ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر تم مر گئے تو تمہارے دام افتادہ خس کم جہاں پاک“ کہہ کر یہ عذر دیں گے کہ حضرت صاحب کا یہ الہام نہیں تھا بلکہ محض دعا تھی.یہ بھی کہہ دیں گے کہ دعا ئیں تو بہت سے نبیوں کی بھی قبول نہیں ہوتیں.دیکھو حضرت نوح کی دعا قبول نہ ہوئی“.یہ کہ میرا مقابلہ تو آپ سے ہے.اگر میں مرگیا تو میرے مرنے سے اور لوگوں پر کیا حجت ہو سکتی ہے.جب کہ (بقول آپ کے ) مولوی غلام دستگیر قصوری مرحوم مولوی اسماعیل علیگڑھی مرحوم اور ڈاکٹر ڈوئی امریکن اسی طرح سے مرگئے ہیں تو کیا لوگوں نے آپ کو سچا مان لیا ہے ٹھیک اسی طرح اگر یہ واقعہ بھی ہو گیا تو کیا نتیجہ.اسی مضمون میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے آخر میں یہ بھی لکھا:.مختصر یہ کہ میں تمہاری درخواست کے مطابق حلف اُٹھانے کو تیار دو ہوں اگر تم اس حلف کے نتیجے سے مجھے اطلاع دو.اور یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اس کو منظور کر سکتا ہے.

Page 511

489 حصہ دوم ندی تعلیمی پاکٹ بک ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے تجویز کردہ فیصلہ کو کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں ہلاک ہو“.قبول نہیں کیا تھا اور اُسے بے نتیجہ قرار دیا تھا.اور مضمون کے شروع میں اہلحدیث کے صفحہ 3 پر صاف لکھا تھا:.کرشن جی نے خاکسار کو مباہلہ کے لئے بلایا.جس کا جواب اہلحدیث 19 را پریل میں مفصل دیا گیا.جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میں حسب اقرار خود تمہارے کذب پر حلف اُٹھانے کو تیار ہوں بشرطیکہ تم یہ پہلے بتلا دو کہ اس حلف کا نتیجہ کیا ہوگا.اس کے جواب میں کرشن جی نے ایک اشتہار دیا جو بقول شخصے سوال از آسماں جواب از یسماں.پھر اس پر طرہ یہ کہ اس اشتہار کو اہلحدیث میں درج کرنے کی ہم سے درخواست کی.مولوی ثناء اللہ صاحب کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ اس اشتہار سے پہلے فریقین میں مباہلہ کی گفتگو جاری تھی.اور مولوی ثناء اللہ صاحب مباہلہ یعنی بالمقابل بددعا سے گریز کر رہے تھے اور صرف حلف اُٹھانے کو تیار ہورہے تھے.اور جب پندرہ اپریل کا خط انہوں نے 26 اپریل 1907 ء کے اہلحدیث میں شائع کیا تو بددعا کے ذریعہ طریق فیصلہ کو فیصلہ کن نہ جانا اور اس کی منظوری نہ دی.خط کا عنوان ”مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ چاہتے تھے کہ مولوی صاحب اس کا جواب دیں تا کہ باہمی فیصلہ ہو.چونکہ مولوی صاحب نے اس کو منظور کرنے سے انکار کر دیا.اس لئے اب اس خط کو فیصلہ کن قرار نہیں دیا جاسکتا.کیونکہ اگر اس کے مطابق فیصلہ ہو اور مولوی ثناء اللہ صاحب کی وفات پہلے ہو جاتی تو ان کی ہوا خواہ فورا یہ کہہ سکتے تھے کہ ہمارے مولوی صاحب نے تو اس طریق فیصلہ کو مانا ہی نہیں.لہذا یہ ہم پر کیسے حجت ہو سکتا ہے.اہلحدیث

Page 512

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 490 حصہ دوم کے نائب ایڈیٹر نے خط کا مضمون پڑھ کر بعض قرآنی آیت پیش کر کے لکھا:.” خدا تعالیٰ جھوٹے ، دغا باز، مفسد اور نافرمان لوگوں کو لمبی عمر میں دیا کرتا ہے.تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کر لیں.پھر تم کیسے من گھڑت اصول بتلاتے ہو کہ ایسے لوگوں کو بہت عمر نہیں ملتی.اہلحدیث 26 اپریل 1907 ، صفحہ 4 حاشیہ) نائب ایڈیٹر کی یہ تحریر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کو فیصلہ کن قرار دینے سے انکار پر مشتمل ہے.مولوی ثناء اللہ صاحب کو یہ تحریر مسلم ہے.پس جب دوسرے فریق نے اس طریق فیصلہ کو مانا ہی نہیں بلکہ اس کو رڈ کر دیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام قَرُبَ اَجَلُكَ الْمُقَدَّر “ کے مطابق وفات دے کر اپنے حضور بلالیا اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو ان کے نائب ایڈیٹر کے پیش کردہ مضمون کے مطابق مہلت دے دی.عجیب بات ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں یہ طریق فیصلہ کن نہیں تھا.لیکن جب آپ کی وفات اپنے الہامات کے مطابق وقوع میں آگئی.تو اب مولوی ثناء اللہ صاحب کے نزدیک 15 اپریل 1907 ء والا خطبہ فیصلہ کن بن گیا.حالانکہ وہ پہلے لکھ چکے تھے کہ :.ا سے کوئی دانا منظور نہیں کر سکتا.اب یہ فیصلہ کرنا سلیم الفطرت اصحاب پر منحصر ہے کہ مولوی صاحب کی پہلی تحریریں دانائی پر مشتمل تھیں یا بعد کی تحریریں دانائی پر مشتمل ہیں ہم تو صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی نا منظوری کی وجہ سے یہ تحریر فیصلہ کن نہیں رہی تھی.اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات آپ کی دوسری پیشگوئیوں کے مطابق ہوئی ہے.اس تحریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف لکھ دیا تھا

Page 513

ندی علیمی پاکٹ بک 491 حصہ دوم کہ یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں بلکہ سنت اللہ کے مطابق فیصلہ چاہا گیا تھا.اور سنت اللہ میں فیصلہ کن طریق مباہلہ ہی ہوسکتا ہے.لہذا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر اس تحریر کو یکطرفہ دعا قرار دینا انصاف کا خون کرنا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اسی سلسلہ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا:.یہ کہاں لکھا ہے کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں مرجاتا ہے...کیا آنحضرت صلعم کے سب اعداء ان کی زندگی میں ہی ہلاک ہوگئے تھے؟ بلکہ ہزاروں اعداء آپ کی وفات کے بعد زندہ رہے.ہاں جھوٹا مباہلہ کرنے والا بچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوا کرتا ہے.ایسے ہی ہمارے مخالف بھی ہمارے مرنے کے بعد زندہ رہیں گے ہم تو ایسی باتیں سن کر حیران ہوتے ہیں.دیکھو ہماری باتوں کو کیسے اُلٹ پلٹ کر کے پیش کیا جاتا ہے.اور تحریف کرنے میں وہ کمال حاصل کیا ہے کہ یہودیوں کے بھی کان کاٹ دیئے ہیں.کیا یہ کسی نبی ، ولی، قطب،غوث کے زمانہ میں ہوا کہ اس کے سب اعداء مر گئے ہوں بلکہ کافر منافق باقی رہ ہی گئے تھے.ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ بچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ کرتے ہیں تو وہ بچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوتے ہیں.ایسے اعتراض کرنے والے سے پوچھیں کہ یہ ہم نے کہاں لکھا ہے کہ بغیر مباہلہ کرنے کے ہی جھوٹے بچے کی زندگی میں تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں.وہ جگہ تو نکالو.جہاں یہ لکھا ہے“.(الحام 10 اکتوبر 1907 ، صفحہ 9) یہ عبارت مولوی ثناء اللہ صاحب کے نام 15 اپریل 1907ء کے خط سے بعد کے زمانہ کی ہے.اس سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس صرف مباہلہ واقعہ ہونے کی حالت میں کاذب کا صادق کی زندگی میں مرنا ضروری قرار دیتے ہیں.ورنہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو یہ حقیقت مسلّم ہے کہ صادق کے وفات

Page 514

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 492 حصہ دوم پاجانے کے بعد ا کثر منکر باقی رہتے ہیں.چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے انکار از مباہلہ اور عدم منظوری کی وجہ سے مباہلہ وقوع میں نہ آیا.اس لئے حضرت اقدس کا 15 اپریل 1907ء والا خط محض مباہلہ کے لئے ایک ڈرافٹ (مسودہ) کی حیثیت رکھتا ہے.اور اس میں مذکورہ دعا صرف اس صورت میں فیصلہ کن اور نتیجہ خیز قرار دی جاسکتی تھی کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اس طریق فیصلہ کو منظور کر لیتے.لیکن انہوں نے منظور نہیں کیا.پس اس خط والی تحریر کو اب زیر بحث لانا ہرگز درست نہیں.یہ کوئی یکطرفہ دعائے ہلاکت نہ تھی اور نہ ہلاکت کی کوئی پیشگوئی تھی.مولوی ثناء اللہ صاحب کو خود مسلّم ہے (جیسا کہ پہلے بیان ہوا) کہ یہ کسی وحی یا الہام کی بناء پر پیشگوئی نہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے 14 اپریل 1907ء کے ایک الہام أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ “ کو معترضين اس خط سے متعلق قرار دے رہے ہیں.حالانکہ اس الہام کا مطلب یہ تھا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق 14 اپریل 1907 ء سے پہلے جو کچھ لکھا جا چکا ہے اس کے مطابق اگر وہ اس فیصلہ پر مستعد ہوئے کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں مرجائے تو وہ ضرور پہلے مریں گے.مگر وہ تو اس پر مستعد ہی نہ ہوئے.حالانکہ اس سے پہلے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ علم ہوا کہ وہ ایسے فیصلہ کے لئے تیار ہیں تو آپ نے اپنی کتاب اعجاز احمدی میں لکھا:.”میں نے سنا ہے بلکہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کی دستخطی تحریر میں نے دیکھی ہے جس میں وہ یہ درخواست کرتا ہے کہ میں ( ثناء اللہ ) اس طور کے فیصلہ کے لئے بدل خواہشمند ہوں کہ فریقین یعنی میں اور وہ یہ دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ بچے کی زندگی میں ہی مرجائے....پس میں اس سے کوئی انکار نہیں کہ وہ ایسا چیلنج دیں.بلکہ ہماری طرف سے ان کو اجازت ہے.

Page 515

493 حصہ دوم کیونکہ ان کا چیلنج ہی فیصلہ کے لئے کافی ہے.مگر شرط یہ ہوگی کہ کوئی موت قتل کے رو سے واقع نہ ہو.بلکہ محض بیماری کے ذریعہ سے ہو.مثلاً طاعون سے یا ہیضہ سے یا اور کسی بیماری سے تا ایسی کارروائی حکام کیلئے تشویش کا موجب نہ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 121-122 ) ٹھہرے“.پس 14 اپریل 1907ء والے الہام أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لکھنا:.ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے.دراصل یہ ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہی اس کی بنیا درکھی گئی.کا تعلق ان پہلی تحریروں سے ہے جو مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق لکھی گئی تھیں.ان کے مطابق اگر مباہلہ وقوع میں آجا تا تو پھر دونوں فریق میں سے کسی کی ہلاکت اس کے خلاف فیصلہ گن ہوتی.جب مولوی ثناء اللہ صاحب نے حضرت مرزا صاحب کو مباہلہ کے لئے مستعد پایا.تو جان بچانے کی خاطر لکھا:.چونکہ یہ خاکسار نہ واقعہ میں اور نہ آپ کی طرح نبی یا رسول یا ابن اللہ یا الہامی ہے.اس لئے ایسے مقابلہ کی جرات نہیں کر سکتا.(الہامات مرزا بار دوم صفحه 85) جب مولوی ثناء اللہ صاحب کے اپنوں نے دیکھا کہ وہ چیلنج سے پھر گئے ہیں.جسے حضرت اقدس نے اعجاز احمدی میں قبول کرلیا تھا.اور ان کے ساتھیوں نے ان پر کچھ گرفت کی تو ان کی آنکھوں میں خاک جھونکنے کے لئے پھر 29 / مارچ 1907ء کو اپنے پر چہ اہلحدیث میں لکھا:.”مرزائیو! سچے ہو تو آؤ اور اپنے گرو کو ساتھ لا و...انہیں ہمارے

Page 516

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 494 حصہ دوم سامنے لاؤ.جس نے ہمیں رسالہ انجام آتھم میں دعوت مباہلہ دی ہوئی ہے.اس پر بدر کے ایڈیٹر صاحب نے اخبار بدر 4 را پریل میں لکھا:.میں مولوی ثناء اللہ صاحب کو بشارت دیتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے ان کے اس چیلنج کو منظور کر لیا ہے.وہ بے شک قسم کھا کر بیان کریں کہ یہ شخص اپنے دعوی میں جھوٹا ہے.اور بے شک یہ بات کہیں کہ اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو لَعَنَتُ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ.اور اس کے علاوہ ان کو اختیار ہے کہ اپنے جھوٹے ہونے کی صورت میں ہلاکت وغیرہ کے جو عذاب اپنے لئے چاہیں خدا سے مانگیں.اگر آپ اس بات پر ہی راضی ہیں کہ بالمقابل کھڑے ہو کر زبانی مباہلہ ہو تو پھر آپ قادیان آسکتے ہیں اور اپنے ہمراہ دس تک آدمی لا سکتے ہیں اور ہم آپ کا زادِ راہ آپ کے یہاں آنے اور مباہلہ کرنے کے بعد پچاس روپیہ تک دے سکتے ہیں.لیکن یہ امر ہر حالت میں ضروری ہوگا.کہ مباہلہ ہونے سے پہلے فریقین میں شرائط تحریر ہو جاویں گے اور الفاظ مباہلہ تحریر ہو کر اس تحریر پر فریقین اور ان کے ساتھ گواہوں کے دستخط ہو جاویں گئے.( بدر 4 را پریل 1907 صفحہ 4-5) اس کے جواب میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے 12 اور 19 را پریل 1907ء کے پرچہ میں ( اکٹھا شائع ہوا) لکھا:.میں نے آپ کو مباہلہ کے لئے نہیں بلایا.میں نے تو قسم کھانے پر آمادگی کی ہے.مگر آپ اس کو مباہلہ کہتے ہیں.حالانکہ مباہلہ اس کو کہتے ہیں کہ فریقین مقابلہ پر قسمیں کھائیں.میں نے حلف اُٹھانا کہا ہے مباہلہ نہیں کہا قسم اور ہے.اور مباہلہ اور.دیکھئے مولوی ثناء اللہ صاحب پھر مباہلہ سے فرار کر رہے ہیں.حالانکہ

Page 517

ی علیمی پاکٹ بک 495 انہوں نے اپنے پینج میں صاف لکھا تھا:.حصہ دوم انہیں ہمارے سامنے لاؤ.جس نے ہمیں رسالہ انجام آتھم میں دعوت مباہلہ دی ہوئی ہے“.مگر جب حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف سے مباہلہ کا چیلنج منظور کیا گیا.تو وہ طرح دے گئے کہ میں نے قسم کھانے پر آمادگی کی ہے نہ کہ مباہلہ پر.مباہلہ میں تو فریقین قسم کھاتے ہیں.حضرت اقدس نے اُن کے اِس طریق کار سے یہ تاثر لیا.کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نہ تو کھل کر مباہلہ سے انکار کرتے ہیں.اور نہ اس کے لئے آمادہ نظر آتے ہیں.اس لئے آپ نے مولوی ثناء اللہ صاحب کی اس پوزیشن کو واشگاف کرنے کے لئے 15 اپریل 1907ء کو ایک کھلی چٹھی بعنوان ”مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے نام لکھی.اور اس میں اپنی سنت اللہ کے موافق اپنی طرف سے دعائے مباہلہ کا مضمون لکھ دیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں طاعون ، ہیضہ وغیرہ امراض سے ہلاک ہو.مولوی ثناء اللہ صاحب نے مباہلہ میں بد دعا کے طریق فیصلہ کو کھلے طور پر نا منظور کر کے واضح کر دیا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بالمقابل مباہلہ کرنے کے لئے تیار نہیں.اور اس طریق فیصلہ سے پورے طور پر گریز کر چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات جب آپ کے الہامات مندرجہ الوصیت وغیرہ کے مطابق ہو گئی تو اب اس خط کے مضمون کو مولوی ثناء اللہ صاحب کی نا منظوری کے باوجود آپ کے خلاف حجت قرار دینا صریح انصاف کا خون ہے.

Page 518

496 حصہ دوم میر ناصر نواب صاحب کی روایت اس موقع پر حضرت اقدس کی وفات کے موقع پر میر ناصر نواب صاحب کی ایک روایت بھی نقل کرتے ہیں:.” جب میں حضرت اقدس کے پاس پہنچا.اور آپ کا حال دیکھا.تو آپ نے مجھے فرمایا :.میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے“.یہ خبر واحد صحیح نہیں.کیونکہ یہ واقعات کے صریح خلاف ہے.واضح ہو کہ آپ کی وفات پر آپ کے معالج ڈاکٹر سدر لینڈ پرنسپل میڈیکل کالج لاہور نے اپنے سرٹیفکیٹ میں لکھا تھا کہ آپ کی وفات اعصابی اسہال کی بیماری سے ہوئی ہے.جو اطبا آپ کے معالج تھے.وہ سب ڈاکٹر سیدر لینڈ کی رائے سے متفق تھے.لہذا روایت میں یہ غلطی معلوم ہوتی ہے کہ میر ناصر نواب صاحب نے وبائی ہیضہ کے متعلق حضرت اقدس کے استفہامیہ جملے کو جملہ خبر یہ سمجھ لیا ہو گا.اور آپ یہ فقرہ کہہ ہی نہیں سکتے تھے.کیونکہ لاہور میں اُن دنوں وبائی ہیضہ نہ تھا.لہذا یہ جملہ بطور جملہ خبر یہ میچ نہیں ہوسکتا.کیونکہ یہ ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق نہیں.پس آپ کی بیماری کی صحیح تشخیص وہی ہے.جو ڈاکٹروں نے کی.اور وہ پرانی اعصابی تکلیف کا دورہ تھا جس کے نتیجہ میں اسہال سے آپ کی وفات ہوئی.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

Page 519

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 497 کرم خاکی ہوں والے شعر کی تشریح اعتراض نمبر 21 حصہ دوم مرزا صاحب نے اپنے آپ کو انسان بھی قرار نہیں دیا.بلکہ کرم خا کی کہا ہے.اور جائے نفرت بھی.تو وہ نبی کیسے ہو گئے.ان کا مشہور شعر ہے کرم خا کی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں الجواب ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار یہ شعر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انکسار اور تواضع کی منہ بولتی تصویر ہے.عجیب بات ہے کہ تواضع اور انکسار تو مومن کا ہنر ہے.مگر عیب چین نگاہ اُسے اپنے عدم بصیرت کی وجہ سے قابلِ اعتراض ٹھہراتی ہے.اسی قسم کے انکسار کا اظہار حضرت داؤدعلیہ السلام کی مناجات میں بھی موجود ہے.چنانچہ زبور نمبر 22 آیت 6 میں لکھا ہے:.پر میں کیڑا ہوں نہ انسان آدمیوں کا ننگ ہوں اور قوم کی عار کیا معترض حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق بھی زبان درازی کرے گا کہ وہ تو انسان ہی نہ تھے؟ خود حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:.مَا تَوَاضَعَ عَبْدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ - جو بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کا اظہار کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اُس کا

Page 520

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 498 درجہ بلند کرتا ہے.نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.حصہ دوم لَا يَكْمَلُ إِيمَانُ الْمَرْءِ حَتَّى يَكُوْنَ النَّاسَ عِنْدَهُ كَالَا بَاعِرِ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى نَفْسِهِ فَيَرَاهَا أَصْغَرَ صَاغِرٍ“.ترجمہ:.مومن کا ایمان کمال کو نہیں پہنچتا.یہاں تک کہ تمام لوگ اس کے نزدیک مینگنیوں کی طرح ہوں.پھر وہ جو اپنے نفس کی طرف رجوع کرے.تو اُسے سب سے چھوٹی چیزوں میں سے چھوٹا پائے“.(دیکھو عوارف المعارف الجزء الثاني.الباب الثالث والستون صفحه 127) مینگنی تو کرم خاکی سے بھی حقیر ہے.بلکہ اس میں تو کئی کرم خا کی جنم لیتے ہیں.اور اس حدیث کے مطابق اگر مومن انکسار کرے اور اپنے آپ کو حقیر سے حقیر چیز سمجھے تو یہ اس کی رفعت درجات کا موجب ہوتا ہے نہ ذلت کا.دیا ہے.حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنے آپ کو خدا کے حضور میں عبد ذلیل قرار (دیکھو تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 181 مطبوعہ مصر ) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ملا حظہ ہو:.إِنِّي ذَلِيْلٌ فَاعَزْنِي“ کہ میں ذلیل ہوں مجھے عزت دے.(مستدرک للحاكم بحواله جامع الصغير للسيوطى جلد 1 باب الكاف مصرى) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پیدائش سے پہلی حالت کے پیش نظر صرف اپنے تئیں ہی کرم خا کی نہیں لکھا بلکہ آپ تو اپنے ایک شعر میں لکھتے ہیں:.إِنَّ الْمُهَيْمِنَ لَا يُحِبُّ تَكَبُّرًا مِنْ خَلْقِهِ الضُّعَفَاءِ دُودَ فَنَاءٍ انجام آنقم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 271)

Page 521

ند یتعلیمی پاکٹ بک 499 حصہ دوم کہ خدا تعالیٰ اپنی ضعیف مخلوق سے تکبر پسند نہیں کرتا جو فانی کیڑے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کرم خاکی والے شعر کا مطلب حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح اپنی پیدائش سے پہلے کی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ہے کہ میں کرم خاکی ہوں بلحاظ اصل وضع کے انسان بھی نہیں ہوں اور اس کرم خا کی ہونے کی حالت میں قابلِ نفرت وجود ہوں اور قابلِ شرم.پھر خدا کے فضل کا ذکر کرتے ہوئے آگے فرماتے ہیں:.یہ سراسر فضل واحساں ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار براہین احمدیہ جلد پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 127) اور کرم خا کی والے شعر سے پہلے لکھتے ہیں:.تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے کریم کس عمل پر دی ہے مجھ کو خلعت قرب وجوار ان اشعار سے ظاہر ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے حضور بصورت مناجات ہیں.ایک دوسرے شعر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا ہے:.کر سکے بُودم مرا کردی بشر من عجب تر از مسیح به پدر کہ اے خدا ! میں تو ایک کیڑا تھا.تو نے مجھے بشر بنا دیا.اور میرا 66 معاملہ تو بے باپ مسیح سے بھی عجیب تر ہے.اس شعر سے ظاہر ہے کہ آپ کرم سے بشر بن گئے.اور اوپر کے شعروں سے ظاہر ہے کہ آپ بشر بھی ایسے بنے کہ خدا نے آپ کو خلعتِ قرب و جوار دی.کرم خا کی والی نظم میں ہی فرماتے ہیں :.

Page 522

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 500 حصہ دوم لطیفہ میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر میں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار ایک مولوی صاحب نے ایک گفتگو میں کہا کہ مرزا صاحب تو نبی چھوڑ انسان بھی نہیں.اور پھر یہ شعر پیش کیا گیا.تو میں نے کہا کہ آپ نے اس شعر کے نئے معنی پیدا کر دیئے ہیں.آپ لوگ تو کہتے ہیں کہ مرزا صاحب انسان بھی نہیں.اور حضرت مرزا صاحب خدا کے حضور شکایت کرتے ہیں کہ یہ لوگ تو مجھے انسان بھی نہیں سمجھتے اور مجھے محلِ نفرت سمجھتے ہیں اور میرے وجود کو قوم کے لئے قابلِ شرم خیال کرتے ہیں.لیکن تیرے فضل و احسان نے مجھے پسند کر لیا.اور مجھے نُو رِخدا بنا دیا ہے.حديث هَذَا خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِى اعتراض نمبر 22 مرزا صاحب نے شہادت القرآن صفحہ اوّل پر هَذَا خَلِيفَةُ اللَّهِ المَهْدِى کی حدیث کو بخاری کی طرف منسوب کیا ہے.یہ حدیث بخاری میں موجود نہیں.الجواب حدیث کا حوالہ دینے میں بے شک سہو ہوا ہے مگر یہ حدیث مستدرک للحاکم میں انہی الفاظ میں موجود ہے.نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھی بیج الکرامہ صفحہ 366 پرا سے درج کیا ہے.پس ان الفاظ کا حدیث میں ہونا جھوٹ نہیں صحیح بخاری کی طرف منسوب ہونا البتہ سہو ہے.

Page 523

ندی تعلیمی پاکٹ بک 501 حصہ دوم علامہ سندھی اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:.كَمَا ذَكَرَهُ السُّيُوطِيُّ وَفِي الزَّوَائِدِ هَذَا أَسْنَادٌ صَحِيحٌ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ رَوَاهُ حَاكِمُ فِي الْمُسْتَدِرَكِ وَقَالَ هَذَا صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْن ( حاشیہ ابن ماجہ مطبوعہ مصر جلد 2 صفحہ 269) ترجمہ :.سیوطی نے بھی اس روایت کا ذکر کیا ہے اور الزوائد میں ہے کہ اس کی سند صحیح ہے اور راوی ثقہ ہیں.پھر امام حاکم نے اپنی مستدرک میں بھی اس کو روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق بھی صحیح ہے.اس سے ظاہر ہے کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم دونوں کی شرطوں کے مطابق صحیح ہے.لہذا بخاری کی طرف منسوب کرتے ہوئے اس کی جو قوت ہو سکتی ہے اُن میں کوئی کمی دونوں اماموں کی شرائط کے مطابق ہونے کی وجہ سے قرار نہیں دی جاسکتی.ہو کو جھوٹ قرار دینا ظلم عظیم ہے.جھوٹ بولنے میں تو کوئی غرض مد نظر ہوتی ہے.جب یہ روایت شیخین کی شرط پر صحیح ہے.تو بخاری کی طرف نسبت سے اس کی جو غرض ہو سکتی ہے.اس میں تو کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا.حوالہ دینے میں اس قسم کا سہو تو کئی ائمہ اور علماء سے بھی سرزد ہوا ہے.علامہ سعد الدین تفتازانی ، علامہ خسرو.ملا عبدالحکیم تینوں نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ حدیث يَكْثَرُ لَكُم الْحَدِيثُ بَعْدِي.الى آخر “ امام بخاری نے اپنی صحیح میں درج کی ہے ( تلویح شرح توضیح جلد 1 صفحہ 261 ) مگر یہ حدیث صحیح بخاری میں موجود نہیں چونکہ حدیث در اصل موجود ہے گو بخاری میں نہیں اس لئے ان تینوں بزرگوں کو حوالہ دینے میں سہو کا مرتکب تو قرار دیا جاسکتا ہے کا ذب اور مفتری قرار نہیں دیا جاسکتا.

Page 524

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 502 حصہ دوم اس سے بھی عجیب تر واقعہ امام ابن الربیع سے پیش آیا.امام ملاعلی القاری موضوعات کبیر مترجم اردو صفحہ 209 مطبوعہ قرآن محل کراچی پر لکھتے ہیں :.خَيْرُ السُّوْدَانِ ثَلَاثَةٌ لُقْمَانُ وَ بِلَالٌ وَ مُهْجَعٌ مَوْلَى رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.رَوَاهُ الْبُخَارِي فِي صَحِيحِهِ عَنْ وَاثِلَةَ ابْنِ الْأَسْقَعِ بِهِ مَرْفُوعًا كَذَا ذَكَرَهُ ابْنُ الرَّبِيعِ لَكُنْ قَوْلَ الْبُخَارِى سَهُوُ قَلَمِ إِمَّامِنَ النَّاسِخِ اَوْمِنَ الْمُصَنِّفِ فَإِنَّ الْحَدِيث لَيْسَ مِنَ الْبُخَارِى وَالَّذِى فِى الْمَقَاصِد إِنَّمَا هُوَ مَارَواهُ الْحَاكِمُ یعنی حدیث خَيْرُ السُّودَانِ ثَلاثَةٌ.الخ“ کے متعلق امام ابن الربيع نے یہ بیان کیا ہے کہ اسے بخاری نے روایت کیا ہے(امام ملاعلی القاری فرماتے ہیں) لیکن بخاری کی طرف یہ بات منسوب کرنا سہو قلم ہے خواہ وہ ناقل کی طرف سے ہو یا مصنف کی طرف سے کیونکہ یہ حدیث صحیح بخاری میں نہیں ہے بلکہ جیسا کہ المقاصد میں مذکور ہوا اس حدیث کو صرف حاکم نے بیان کیا.جب یہ حوالہ جات پیش کئے جائیں تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ غیر نبی کا سہو ہے مرزا صاحب تو نبی تھے.جواب اس کا یہ ہے کہ نسیان اور سہوانبیاء سے بھی سرزد ہو جاتا ہے خضر اور موسٰی کے واقعہ میں موسی علیہ السلام خود اقرار کرتے ہیں:.لَا تُؤَاخِذْنِى بِمَا نَسِيتُ (الكهف: 74) کہ میں بھول گیا ہوں مجھے مواخذہ نہ کرو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ أَنْسى كَمَا تَنْسَوْنَ“.(بخاری کتاب الصلوة باب التوجه نحو القبلة حيث كان )

Page 525

ی علیمی پاکٹ بک 503 حصہ دوم کہ میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں تمہاری طرح بھول بھی جاتا ہوں.صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز دورکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا اس پر ذوالیدین کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا:.أقُصِرَتِ الصَّلَوةُ يَارَسُولَ الله أَمُ نَسِيتَ کہ یا رسول اللہ نماز کی قصر ہوگئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.كُلُّ ذَالِكَ لَمْ يَكُنُ “ کہ دونوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہوئی.اس پر ذوالیدین نے عرض کیا:.قَدْ كَانَ بَعْضُ ذَالِكَ يَارَسُولَ الله کہ اے رسول اللہ ان میں سے کچھ تو ہوا ہے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا:.أَصَدَقَ ذُواليَدَيْنِ “.کیا والیدین نے صحیح کہا ہے.صحابہ نے کہا:.نَعَمُ يَا رَسُولَ الله “ کہ ہاں یا رسول اللہ.ذوالیدین نے سچ کہا ہے.حدیث میں ہے:.فَأَتَمَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَقِيَ مِنَ الصَّلوةِ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ التَّسْلِيم“.مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاة باب السهو في الصلاة والسجود له) یعنی اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی نماز پوری کی.پھر سلام کے بعد بیٹھے ہوئے دو سجدے کئے.حضور گا دو سجدے کرنے کا عمل سہو واقع ہونے کا عملی اعتراف ہے.لہذا كُلُّ ذَلِكَ لَمْ يَكُنُ کا فقرہ بھی سہو پر ہی مبنی قرار دینا پڑے گا.(دیکھئے صحیح بخاری کتاب الصلوۃ باب تشبیک الاصابع)

Page 526

احمدیہ علیمی پاکٹ بک اعتراض نمبر 23 504 حدیث سے تکفیر مسیح کا ثبوت حصہ دوم مرزا صاحب نے انجام آتھم صفحہ 3 پر لکھا ہے کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ مسیح موعود کو کافر ٹھہرایا جائے گا.ایسی کوئی حدیث موجود نہیں.الجواب یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بعض حدیثوں سے استنباط ہے.چنانچہ شہادۃ القرآن صفحہ 11 پر بھی آپ لکھتے ہیں:.پھر فرمایا ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ) کہ اس امت پر ایک آخری زمانہ آئے گا کہ اکثر علماء اس اُمت کے یہود کے مشابہ ہو جائیں گے اور دیانت اور تقویٰ اُن میں سے جاتی رہے گی اور جھوٹے فتوے اور مکاریاں اور منصوبے اُن کا (شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 306) اس اقتباس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں ایک زمانہ میں امت کے یہود سے پورے طور پر مشابہ ہو جانے کا ذکر ہے.چنانچہ ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.شیوہ ہوگا“.لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبُرًا بِشِبُرِ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ سَلَكُوَاجُحْرَضَةٍ لَسَلَكْتُمُوهُ قُلْنَايَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى قَالَ فَمَنْ“.( بخاری کتاب احادیث الانبياء باب ما ذكر عن بني اسرائيل) ترجمہ :.تم لوگ ضرور پہلے لوگوں کے طریق پر چلو گے جس طرح بالشت

Page 527

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 505 حصہ دوم بالشت کے مطابق اور ہاتھ ہاتھ کے مطابق ہوتا ہے یہاں تک کہ اگر اُن میں سے کوئی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا ہے تو تم ان کی اتباع کرو گے.ہم نے کہا یا رسول اللہ! یہود اور نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا اور کون.یہود نے اپنے زمانہ کے مسیح کا انکار کیا تھا.ان کی تکفیر کی تھی.انہیں مرتد قرار دیا تھا.اور بالآخر ان کو صلیب پر چڑھانے کی کوشش کی تھی.اس سے ظاہر ہے کہ یہود سے مشابہت میں مسلمان علماء کی طرف سے بھی اپنے زمانہ کے مسیح کی تکفیر ہونے والی تھی.غالباً ایسی ہی حدیثوں سے استنباط کر کے نواب صدیق حسن خان صاحب نے لکھا ہے:.چوں مہدی علیہ السلام مقاتله بر احیائے سنت و امانت بدعت فرمائد علماء وقت که خوگر تقلید فقهاء واقتداء مشائخ و آباء خود باشند.گوئند ایں مردخانه برانداز دین و ملت ما است و بمخالفت برخیزند وحسب عادت خود حکم بتکفیر تضلیل دے کنند“.(حجج الكرامه صفحه 363) کہ جب امام مہدی سنت کو زندہ کرنے کے لئے اور بدعت کو مٹانے کے لئے جدو جہد کریں گے تو علماء وقت جو فقہاء اور مشائخ اور اباء کی تقلید کے عادی ہوں گے کہیں گے، یہ شخص ہمارے دین و مذہب کا گھر برباد کرنے والا ہے اور مخالفت میں اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی عادت کے مطابق اُسے کافر اور گمراہ قرار دیں گے.“

Page 528

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 506 مجد دصاحب سرہندی کا حوالہ متعلق نبوت اعتراض نمبر 24 حصہ دوم مرزا صاحب نے ” حقیقۃ الوحی صفحہ 390 پر مجد دصاحب سرہندی کے حوالہ سے یہ مضمون لکھا ہے جس سے کثرت مکالمہ مخاطبہ ہو.اُس کو نبی کہتے یں ایک ایسی کوئی عبارت موجود ہیں.ہیں.اُن کی ایسی کوئی عبارت موجود نہیں.مکتوبات جلد اول دفتر اول حصہ پنجم مکتوب نمبر 310 میں وہ عبارت موجود ہے جس کا مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کے مطابق ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:.متشابه ( یعنی متشابهت قرآنی ) خدا تعالیٰ کے نزدیک تاویل پر محمول ہیں اور ظاہر سے پھر گئے ہیں.اور علمائے راسخین کو خدا تعالیٰ اس تاویل کے علم سے ایک حصہ وافر عطا فرماتا ہے.چنانچہ علم غیب جو خدا تعالیٰ سے مخصوص ہے اس پر خالص رسولوں کو اطلاع بخشتا ہے.اس تاویل کو ایسی تاویل خیال نہ کرنا.جس رنگ میں ید ( ہاتھ ) کی تاویل قدرت.اور وجہ (چہرہ) کی تاویل ذات ہے.حَاشَاوَ كَلَّا یہ تاویل اسرار میں سے ہے.جس کا علم 66 اخص خواص کو ہی عطا فرماتا ہے.اس جگہ فارسی الفاظ یہ ہیں :.می بخشد.چنانچه بر علم غیب که مخصوص با دست سبحانه تعالی خلص رسل را اطلاع

Page 529

507 حصہ دوم واضح ہو کہ حقیقۃ الوحی صفحہ 390 پر جو دو باتیں مذکور تھیں انہی دو باتوں کا ذکر اس حوالہ میں بھی مذکور ہے.اول.بعض افراد امت کو مکالمہ مخاطبہ الہیہ نصیب ہونا.دوم.رسولوں کی یہ خصوصیت کہ انہیں خدا کے خاص غیب پر اطلاع دی جاتی ہے.رسولوں کی یہ خصوصیت آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ سے ہی اخذ کردہ معلوم ہوتی ہے.جس میں رسول کے لئے اظہار علی الغیب یعنی کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دیا جانا ضروری قرار دیا گیا ہے.اظہار علی الغیب کا صلہ جب علی ہو.اس سے مراد غلبہ دینا ہوتا ہے.پس رسول کو دوسرے م مہمین کے مقابل خدا اُمور غیبیہ پر غلبہ دیتا ہے.یعنی ان کے مقابلہ میں رسولوں کو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دیتا ہے.گو مکتوبات میں کثرت کا لفظ نہیں.لیکن ”چنانچہ برعلم غیب کہ مخصوص بادست سُبحانہ تعالیٰ کے فقرہ سے بکثرت اطلاع دیا جانا ہی مراد ہو سکتی ہے.کیونکہ جس آیت سے یہ مضمون لیا گیا ہے.اس میں کثرت شرط ہے.کسی صحیح حدیث میں مسیح کے نزول کے ساتھ اعتراض نمبر 25 السَّماء کا لفظ موجود نہیں مرزا صاحب نے حمامۃ البشری میں دعوی کیا ہے کہ مسیح کے متعلق کسی حدیث میں یہ لفظ نہیں کہ وہ آسمان سے اُترے گا.ان کی یہ بات غلط ہے کیونکہ احادیث میں مسیح کے نزول کے ساتھ آسمان کا لفظ بھی موجود ہے.

Page 530

یتعلیمی پاکٹ بک 508 حصہ دوم حمامة البشریٰ صفحہ 54 پر درج عبارت کا ترجمہ یہ ہے:.پھر اس قوم پر سخت تعجب ہے کہ نزول مسیح سے یہی خیال کرتی ہے کہ وہ آسمان سے اُترے گا.اور آسمان کا لفظ اپنی طرف سے ایزاد کرتے ہیں.اور کسی صحیح حدیث میں اس کا اثر و نشان نہیں“.(حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد 7 صفحه 197حاشیه) حمامة البشریٰ کے اس ترجمہ سے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے.یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے مطلق حدیث میں آسمان کا لفظ موجود ہونے کا انکار نہیں فرمایا.بلکہ کسی صحیح حدیث میں آسمان کا لفظ موجود ہونے سے انکار فرمایا ہے.حمامة البشری کے اس نسخہ کا حصہ اوّل ضیاء الاسلام پر لیس قادیان سے شائع ہوا تھا.ازالہ اوہام میں بھی حضور تحریر فرماتے ہیں:.لکھتے ہیں:.صحیح حدیثوں میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں اور تحفہ گولڑویہ صفحہ 75،74 پر کسی صحیح حدیث میں نزول کے ساتھ آسمان کا لفظ موجود نہیں".پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک کسی صحیح حدیث میں نزول کے پیٹ میں نزول.ساتھ سماء کا لفظ نہیں.پس کسی بھی شخص کا کنز العمال کی حدیث :- يَنْزِلُ أَخِي عِيسَى مِنَ السَّمَاءِ عَلَى جَبَلٍ أَفِيقٍ “ کو ہمارے سامنے صحیح حدیث کی صورت میں پیش کرنا درست نہیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حمامة البشری کے ترجمہ اور تحفہ گولڑویہ اور ازالہ اوہام میں کسی صحیح حدیث میں

Page 531

509 حصہ دوم احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک نزول کے ساتھ آسمان کے لفظ کے موجود ہونے کے خیال کو رڈ کرتے ہیں.کنز العمال کی حدیث میں السماء کا لفظ کسی راوی نے اپنی طرف سے اپنی سمجھ کے مطابق بطور تشریح کے زیادہ کر دیا ہے.اسی لئے آپ نے حمامۃ البشری میں حدیث درج کرتے ہوئے السماء کا لفظ روایت سے حذف کر دیا ہے.اسی طرح امام بیہقی نے بھی نزول کے ساتھ السَّماء کا لفظ اپنی حدیث میں خود بڑھا دیا ہوا ہے.کیونکہ وہ اس حدیث کے متعلق صحیح بخاری کا حوالہ دیتے ہیں.مگر صحیح بخاری میں اَلسَّماء کا لفظ ہرگز موجود نہیں.امام مہدی کے لئے رمضان میں کسوف و خسوف اعتراض نمبر 26 مرزا صاحب لکھتے ہیں :.د کسی دوسرے مدعی مہدویت کے وقت میں کسوف خسوف رمضان میں آسمان پر نہیں ہوا.(تحفہ گولڑویہ صفحہ 28) یہ بیان کر کے معترضین اسے اَلذِّكُرُ الْحَکیم کے صفحہ 6 کی رُو سے جس میں مدعیان مہدویت کی ایک طویل فہرست درج کر کے لکھا گیا ہے کہ اُن کے زمانے میں سورج اور چاند کو گرہن ہوا.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان کو جھوٹ قرار دیتے ہیں.الجواب ڈاکٹر عبدالحکیم کے ایسے مہدیوں کی فہرست پیش کر دینے سے کیا بنتا ہے جبکہ انہوں نے اس فہرست کو کسی دلیل کے ساتھ پیش نہیں کیا.چاہیے تو یہ تھا کہ ان کی

Page 532

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 510 حصہ دوم طرف سے کسی مدعی مہدویت کا دعوی اس کی اپنی کتاب سے دکھایا جاتا.پھر یہ دکھایا جاتا کہ اس کے دعوی کے بعد رمضان میں چاند اور سورج کو انہی تاریخوں میں گرہن لگا تھا.اور اس مدعی نے اسے اپنے لئے بطور نشان پیش کیا تھا.حدیث دارقطنی کے الفاظ :.إِنَّ لِمَهْدِيَّنَا آيَتَيْنِ “ میں لَام إِفَادَہ کا ہے.جس سے ظاہر ہے کہ مہدی ان دونوں نشانوں سے فائدہ اٹھائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام چشمہ معرفت کے صفحہ 315،314 کے حاشیہ میں اس کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں:.ہمیں اس بات سے بحث نہیں کہ ان تاریخوں میں کسوف و خسوف رمضان کے مہینہ میں ابتدائے دنیا سے آج تک کتنی مرتبہ واقع ہوا ہے.ہمارا مد عاصرف اس قدر ہے کہ جب سے نسلِ انسانی دنیا میں آئی ہے نشان کے طور یہ خسوف کسوف صرف میرے زمانہ میں میرے لئے واقع ہوا ہے اور مجھ سے پریہ پہلے کسی کو یہ اتفاق نصیب نہیں ہوا کہ ایک طرف تو اس نے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور دوسری طرف اس کے دعوی کے بعد رمضان کے مہینہ میں مقررہ تاریخوں میں خسوف کسوف بھی واقع ہو گیا ہو اور اس نے اس خسوف کسوف کو اپنے لئے ایک نشان ٹھہرایا ہو.(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 329 ، 330 حاشیہ ) آگے چل کر لکھتے ہیں:.پس جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ پہلے بھی کئی دفعہ خسوف کسوف ہو چکا ہے.اس کے ذمہ یہ بار ثبوت ہے کہ وہ ایسے مدعی مہدویت کا پتہ دے جس نے اس کسوف خسوف کو اپنے لئے نشان ٹھہرایا ہو.اور یہ ثبوت یقینی اور قطعی چاہیے.اور یہ صرف اس صورت میں ہوگا کہ ایسے مدعی کی کوئی کتاب پیش کی

Page 533

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 511 حصہ دوم جائے جس نے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہو.اور نیز یہ لکھا ہو کہ خسوف کسوف جو رمضان میں دار قطنی کی مقرر کردہ تاریخوں کے موافق ہوا ہے وہ میری سچائی کا نشان ہے“.مزعومہ تناقضات کی تردید بعض لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں تناقضات دکھانے کی کوشش کی ہے اور پھر کہا ہے کہ تناقض جھوٹے کے کلام میں ہوتا ہے.اس امر کا اصولی جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں ہر گز کوئی حقیقی تناقض موجود نہیں.مخالفین کو جو اختلافات نظر آتے ہیں وہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہیں.مُریدوں کی تعداد کے بیان میں بظاہر اختلاف کی وجہ اعتراض اوّل مرزا صاحب نے پہلے اپنے مریدوں کی تعداد پانچ ہزار بیان کی لیکن جب ایک سال کے بعد انکم ٹیکس کا سوال ہوا تو جھٹ لکھ دیا کہ میرے مریدوں کی تعداد دوظد ہے.الجواب اُس وقت چندہ دینے والوں کی تعداد دو ضد ہی تھی اور انکم ٹیکس کا سوال چونکہ چندہ ہی سے متعلق تھا.لہذا جب کل تعداد بیان کی تو بیوی بچے شامل کر کے بیان کی تھی.لیکن انکم ٹیکس لگانے والوں کو تو اپنی کمائی سے چندہ دہندگان کی فہرست ہی مطلوب تھی.اسی لئے اس فہرست میں دو ضد کی تعداد بتائی جو چندہ دہندگان تھے.

Page 534

اعتراض دوم 512 دعوی نبوت کے انکار و اقرار میں تطبیق حصہ دوم مرزا صاحب نے کئی جگہ نبی ہونے سے انکار کیا ہے اور دعویٰ نبوت کو کفر قرار دیا ہے.لیکن کئی جگہ اپنے آپ کو نبی کی صورت میں پیش کیا ہے.الجواب چونکہ نبی کی اقسام ہیں: تشریعی اور غیر تشریعی.اس لئے پہلی قسم کا نبی ہونے سے آپ نے انکار کیا.اور دوسری قسم کا نبی ہونے کا اس شرط کے ساتھ اقرار کیا ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بھی ہیں.چنانچہ آپ اپنے آخری خط میں جو اخبار عام مورخہ 26 رمئی 1908ء میں شائع ہوا لکھتے ہیں:.یہ الزام جو میرے پر لگایا جاتا ہے.کہ میں اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں سمجھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعتِ اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں یہ الزام میرے پر صحیح نہیں.بلکہ ایسا دعویٰ میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ ہمیشہ سے اپنی ہر کتاب میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعوی نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے.اس کے بعد اپنی نبوت کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں :.جس بناء پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں، وہ صرف اس قدر ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ہم کلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں

Page 535

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 513 حصہ دوم میرے پر ظاہر کرتا ہے اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اسکے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا اور انہی امور کی کثرت کی وجہ سے اُس نے میرا نام نبی رکھا ہے.سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کر سکتا ہوں.میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں گا“ خط مندرجہ اخبار عام 26 رمئی 1908ء) اور اشتہار ایک غلطی کے ازالہ میں فرماتے ہیں:.جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا.بلکہ انہیں معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے.سواب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا“.ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 210-211) اور پھر نزول المسیح حاشیہ صفحہ 3 پر تحریر فرماتے ہیں:.اس نکتہ کو یا درکھو کہ میں رسول اور نبی نہیں ہوں یعنی با عتبارنی شریعت اور نئے دعوئی اور نئے نام کے.اور میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کا ملہ کے.میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل

Page 536

ند یتعلیمی پاکٹ بک انعکاس ہے“.514 حصہ دوم (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 381 حاشیہ) پس نبوت کے اقرار اور انکار میں وجوہ مختلف ہیں.لہذا اس میں کوئی تناقض نہیں.قبر مسیح کے متعلق مسیح موعود کے بیانات اعتراض سوم مرزا صاحب نے حضرت عیسی کی قبر دست بچن، صفحہ 63 پر یروشلم میں بتائی ہے اور ازالہ اوہام میں لکھا ہے "مسیح اپنے وطن گلیل میں جاکر فوت ہو گیا.اور ”ست بچن ، صفحہ 164 پر یہ بھی لکھا ہے کہ بلاد شام میں حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر کی پرستش ہوتی ہے.پھر اسی جگہ حاشیہ میں یہ لکھا ہے.کہ اب تک 66 کشمیر میں مسیح کی قبر موجود ہے.الجواب (ست بچن صفحه 164 ) بلادشام میں جس قبر کی پرستش ہوتی ہے، انجیل کی رُو سے وہ وہی قبر ہے جس میں واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح کو بے ہوشی کی حالت میں رکھا گیا.اور یروشلم والی قبر اور بلا دشام والی قبر ایک ہی ہے.کیونکہ یروشلم بلا دیشام میں واقعہ تھا.حدیث نبوی میں بھی حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر کا موجود ہونا مذکور ہے.جس کی پرستش ہوتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں:.”ہاں بلاد شام میں حضرت عیسی کی قبر کی پرستش ہوتی ہے اور مقررہ تاریخوں پر ہزار ہا عیسائی سال بسال اس جگہ پر جمع ہوتے ہیں.سواس

Page 537

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 515 حصہ دوم حديث ( يعنى لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَاءِ هِمُ مَسَاجِدَ ).(بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي ووفاته) سے ثابت ہے.کہ درحقیقت وہ قبر حضرت عیسی علیہ السلام کی ہی قبر ہے.جس میں مجروح ہونے کی حالت میں وہ رکھے گئے تھے.ست بچن روحانی خزائن جلد 10 صفحه 309) پس یہ وہ قبر ہے.جس میں حضرت مسیح مُردہ ہونے کی حالت میں دفن نہیں کئے گئے تھے بلکہ مجروح ہونے کی حالت میں رکھے گئے.اور چونکہ واقعہ صلیب سروشلم میں پیش آیا تھا.اس لئے ست بچن روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 309 پر یروشلم کی جس قبر کا ذکر ہے.وہ وہی ہے جس میں حضرت مسیح مجروح ہونے کی حالت میں رکھے گئے تھے.اور ست بچن روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 309 کے حاشیہ میں جس قبر مسیح کا سرینگر میں بیان ہونا مذکور ہے.وہ وہ قبر ہے جس میں آپ طبعی وفات پانے کے بعد دفن ہوئے.اور تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح نے کشمیر میں ہجرت فرمائی تھی اور اسی سال سے زائد عمر وہاں بسر کی تھی.اور پھر وفات پا کر خانیار کے محلہ میں دفن ہوئے تھے جہاں آج تک یو ز آصف نبی کے نام سے اُن کی قبر موجود ہے.گلیل میں حضرت مسیح کے طبعی وفات پانے کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجیلی بیانات کے رُو سے کیا ہے.چنانچہ ازالہ اوہام میں تحریر فرماتے ہیں:.یہ تو سچ ہے کہ مسیح اپنے وطن گلیل میں جا کر فوت ہو گیا لیکن یہ ہرگز سچ نہیں کہ وہی جسم جو دفن ہو چکا تھا پھر زندہ ہو گیا.بلکہ اسی باب کی تیسری آیت ظاہر کر رہی ہے کہ بعد فوت ہو جانے کے کشفی طور پر مسیح چالیس دن تک

Page 538

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 516 حصہ دوم اپنے شاگردوں کو نظر آتا رہا.اس جگہ کوئی یہ نہ سمجھ لیوے کہ مسیح بوجہ مصلوب ہونے کے فوت ہوا.کیونکہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے صلیب سے مسیح کی جان بچائی تھی بلکہ یہ تیسری آیت باب اول اعمال کی مسیح کی طبعی موت کی نسبت گواہی دے رہی ہے.جو گلیل میں اس کو پیش آئی.اس موت کے بعد مسیح چالیس دن تک کشفی طور پر اپنے شاگروں کو نظر آتا رہا.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 353-354) اس سے ظاہر ہے کہ پادریوں کو انجیل کی رُو سے لا جواب کرنے کیلئے آپ نے کتاب اعمال کے باب اول آیت تین کی رُو سے مسیح کے گلیل میں طبعی وفات پانے کا ذکر کیا ہے.جس سے ثابت کرنا مقصود ہے کہ عیسائیوں کا یہ خیال غلط ہے کہ مسیح خا کی جسم کے ساتھ مرنے کے بعد آسمان پر اُٹھائے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعمال کے بیان کو سچ ،عیسائیوں کے لئے ان کی کتاب کے لحاظ سے قرار دیا تھا نہ اس لحاظ سے کہ حضور خود بھی اس بیان کو سچا جانتے ہیں.آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عیسائیوں کو اپنی مسلمہ کتاب کا یہ بیان سیچ مان لینا چاہیے اور دفن ہو کر زندہ ہونے کے خیال کو چھوٹ جاننا چاہیے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے وجدان کی رو سے مسیح کا گلیل میں طبعی وفات پانا ایک مشکوک امر تھا.اس لئے آپ نے اسی جگہ ازالہ اوہام میں فرما دیا:.یادر ہے کہ یہ تاویلات اس حالت میں ہیں کہ ہم ان عبارتوں کو صحیح اور غیر محرف قبول کر لیں.لیکن اس کے قبول کرنے میں بڑی دقتیں ہیں“.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 356 ) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجدان میں حضرت مسیح علیہ السلام کا

Page 539

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 517 حصہ دوم کلیل میں فوت ہوکر دفن ہونا اور پھر چالیس دن تک کشفی طور پر ملتے رہنا ثابت نہیں.بلکہ اس کے قبول کرنے میں آپ کے نزدیک بڑی دقتیں ہیں.کشمیر میں حضرت مسیح کا جانا اور وفات پانا آپ کے نزدیک محقق امر ہے.چنانچہ آپ اسی ست بچن میں تحریر فرماتے ہیں:.ہاں ہم نے کسی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح کی بلا دشام میں ( مراد گلیل.ناقل ) قبر ہے.مگراب صحیح تحقیق ہمیں اس بات کے لکھنے پر مجبور کرتی ہے کہ واقعی قبر وہی ہے جو کشمیر میں ہے“.ست بچن روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 307 حاشیہ ) پھر راز حقیقت روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 172 پر تحریر فرماتے ہیں:.”خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے...اس راقم کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ جوسری نگر میں محلہ خانیار میں یوز آسف کے نام سے قبر موجود ہے وہ در حقیقت بلا شک وشبہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے.حضرت مسیح کا حواریوں کو جسمانی زندگی کے ساتھ ملنا "مسیح ہندوستان میں“ روحانی خزائن جلد 15 صفحه 21-22 پر مذکور ہے.اس جگہ لکھا ہے:.مسیح قبر سے نکل کر گلیل کی طرف گیا.آخر ان گیاراں حواریوں کو ملا جب کہ وہ کھانا کھارہے تھے اور اپنے ہاتھ اور پاؤں جو زخمی تھے دکھائے.انہوں نے گمان کیا کہ شاید یہ رُوح ہے تب اس نے کہا مجھے چھوڑ اور دیکھو کیونکہ رُوح کو جسم اور ہڈی نہیں جیسا کہ مجھ میں دیکھتے ہو ان سے ایک بھنی ہوئی مچھلی کا ٹکڑا اور شہد کا ایک چھتا لیا اور ان کے سامنے کھایا.دیکھو مرقس باب 16 آیت 14 اور لوقا باب 24 آیت 39 اور 40 اور 41 اور 42.

Page 540

518 حصہ دوم ان آیات سے یقیناً معلوم ہوتا ہے کہ مسیح ہر گز آسمان پر نہیں گیا بلکہ قبر سے نکل کر جلیل کی طرف گیا اور معمولی جسم اور معمولی کپڑوں میں انسانوں کی طرح تھا اگر وہ مر کر زندہ ہوتا تو کیونکر ممکن تھا کہ جلالی جسم میں صلیب کے زخم باقی رہ جاتے“.اس بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام.حضرت مسیح علیہ السلام کا شاگردوں کو کشفی طور پر ملنا تسلیم نہیں کرتے بلکہ اپنی جسمانی زندگی میں ملنا ثابت کرتے ہیں.چنانچہ اس بات پر کہ مسیح مرکر جی اُٹھا اور یہ معجزہ سرزد ہوا حضور تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.” کیوں یسوع نے جس کا یہ فرض تھا کہ اپنے اس معجزہ کی یہودیوں میں اشاعت کرتا اس کو مخفی رکھا بلکہ دوسروں کو بھی اس کے ظاہر کرنے سے منع کیا.اگر یہ کہو کہ اس کو پکڑے جانے کا خوف تھا تو میں کہتا ہوں کہ جب ایک دفعہ خدائے تعالیٰ کی تقدیر اس پر وارد ہو چکی اور وہ مرکز پھر جلالی جسم کے ساتھ زندہ ہو چکا تو اب اس کو یہودیوں کا کیا خوف تھا.کیونکہ اب یہودی کسی طرح بھی اس پر قدرت نہیں پاسکتے تھے.اب تو وہ فانی زندگی سے ترقی پا چکا تھا.افسوس ہے کہ ایک طرف تو اس کا جلالی جسم سے زندہ ہونا اور حواریوں کو ملنا اور جلیل کی طرف جانا اور پھر آسمان پر اٹھائے جانا بیان کیا گیا ہے اور پھر بات بات میں اس جلالی جسم کے ساتھ بھی یہودیوں کا خوف ہے اس ملک سے پوشیدہ طور پر بھاگتا ہے کہ تا کوئی یہودی دیکھ نہ لے اور جان بچانے کے لئے ستر کوس کا سفرجلیل کی طرف کرتا ہے.بار بارمنع کرتا ہے کہ یہ واقعہ کسی کے ساتھ بیان نہ کرو.کیا یہ جلالی جسم کے پچھن اور علامتیں ہیں؟ نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی جلالی اور نیا جسم نہ تھا وہی زخم آلودہ

Page 541

ندی تعلیمی پاکٹ بک 519 حصہ دوم جسم تھا جو جان نکلنے سے بچایا گیا اور چونکہ یہودیوں کا پھر بھی اندیشہ تھا اس لئے بر عایت ظاہر اسباب مسیح نے اس ملک کو چھوڑ دیا.اس کے مخالف جس قدر باتیں بیان کی جاتی ہیں وہ سب کی سب بیہودہ اور خام خیال ہیں“.مسیح ہندوستان میں روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 48-49) کشمیر کی تاریخ سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ راجہ گو پانند کے عہد میں یو ز آسف نبی بیت المقدس سے وادی کشمیر میں مرفوع ہوئے اور وہاں انہوں نے باقی عمر گزار دی اور وفات پا کر سری نگر کے محلہ خانیار کے مقام انز مرہ میں دفن ہوئے.قرآن کریم بھی گواہ ہے کہ مسیح اور ان کی والدہ نے یروشلم سے ہجرت کی چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّةَ ايَةً وَأَوَيْنَهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (المؤمنون: 51) کہ ہم نے ابن مریم اور ان کی ماں کو نشان بنایا اور اُن کو اونچی جگہ پر پناہ دی جو آرام والی اور چشموں والی ہے.تحقیقات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ کشمیر کا علاقہ تھا جہاں انہیں پناہ دی گئی.حدیث نبوی میں وارد ہے:.أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى أَنْ يَّا عِيسَى انْتَقِلُ مِنْ مَكَانٍ إِلَى مَكَانٍ لِئَلَّا تُعْرَفَ فَتُؤْذِى“.(كنز العمال جلد 3 خوف العافية من الاكمال حديث نمبر 5955) یعنی خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو وحی کی کہ اب ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جاؤ تا کہ تم پہچان نہ لئے جاؤ اور پھر دیکھ نہ دیئے جاؤ.

Page 542

یتعلیمی پاکٹ بک 520 حصہ دوم حیات مسیح کا رسمی عقیدہ اور دعویٰ مسیح موعود اعتراض چہارم براہین احمدیہ کے پہلے حصوں کے صفحہ 498 پر مرزا صاحب نے حضرت مسیح علیہ السلام کی دوبارہ اصالتا آمد تسلیم کی.لیکن بعد میں ان کی وفات کے قائل ہو گئے اور خود مسیح موعود کا دعویٰ کر دیا.جیسا کہ فتح اسلام اور ازالہ اوہام وغیرہ سے ظاہر ہے.الجواب ان دونوں قسم کی عبارتوں میں اس وجہ سے تناقض قرار نہیں دیا جا سکتا کہ پہلا عقیدہ آپ کا رسمی تھا اور دوسرا عقیدہ آپ نے وحی الہی کے ماتحت اختیار کیا جس میں آپ کو خبر دی گئی کہ:.و مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.وَكَانَ وَعْدُ اللهِ مَفْعُولًا “.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 402) اس الہام نے آپ پر کھول دیا کہ آپ ہی امت محمدیہ کے مسیح موعود ہیں.ور نہ مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ تو آپ کا اُسی جگہ براہین احمدیہ میں موجود تھا.دونوں عقیدوں میں تناقض تب قرار دیا جاسکتا ہے اگر آپ کی عبارتوں میں ٹکراؤ ہوتا مگر پہلے عقیدے میں تبدیلی تو آپ نے الہام سے کی.حدیث نبوی میں وارد ہے:.كَانَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيْمَالَمُ يُؤْمَرُبِهِ - کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کے عقیدہ اور عمل سے موافقت پسند کرتے تھے.ان امور میں جن میں وحی نہ ہوئی ہوتی.لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وحی

Page 543

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 521 حصہ دوم ہو جانے پر آپ پہلے عقیدہ اور عمل کو بدل دیتے تھے.ایسی تبدیلی پر تحویل قبلہ شاہد ناطق ہے اب اگر کوئی تحویل قبلہ کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقائد اور اعمال میں تناقض قرار دے تو وہ ظالم ہوگا.کیونکہ آپ کے پہلے عقیدہ اور عمل میں تبدیلی وحی سے ہوئی تھی اس لئے خدا کی وحی سے جو تبدیلی عقیدہ اور عمل میں پیدا ہو تو وہ تبدیلی حقیقی تناقض کے ذیل میں نہیں آتی جو قابلِ اعتراض ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اس اعتراض کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :.میں نے براہین میں جو کچھ مسیح بن مریم کے دوبارہ دنیا میں آنے کا ذکر لکھا ہے وہ ذکر صرف ایک مشہور عقیدہ کے لحاظ سے ہے جس کی طرف آج کل ہمارے مسلمان بھائیوں کے خیالات جھکے ہوئے ہیں.سواسی ظاہری اعتقاد کے لحاظ سے میں نے براہین میں لکھ دیا تھا کہ میں صرف مثیل موعود ہوں اور میری خلافت صرف رُوحانی خلافت ہے.لیکن جب مسیح آئے گا تو اس کی ظاہری اور جسمانی دونوں طور پر خلافت ہوگی.یہ بیان جو براہین میں درج ہو چکا ہے صرف اس سرسری پیروی کی وجہ سے ہے جو ملہم کو قبل از جو انکشاف اصل حقیقت اپنے نبی کے آثار مرویہ کے لحاظ سے لازم ہے کیونکہ جو لوگ خدائے تعالیٰ سے الہام پاتے ہیں وہ بغیر بلائے نہیں بولتے اور بغیر سمجھائے نہیں سمجھتے اور بغیر فرمائے کوئی دعویٰ نہیں کرتے اور اپنی طرف سے کسی قسم کی دلیری نہیں کر سکتے.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 196-197)

Page 544

احمد یہ تعلیمی پاکٹ بک 522 دعویٰ مسیح موعود سے انکار اور اُس کا مفہوم اعتراض پنجم حصہ دوم مرزا صاحب نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے اور مسیح موعود ہونے سے انکار بھی کیا ہے.یہ دونوں باتیں ازالہ اوہام میں موجود ہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں :.اس عاجز نے جومثیل موعود ہونے کا دعوی کیا ہے جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں.یہ کوئی نیا دعویٰ نہیں جو آج ہی میرے منہ سے سنا گیا ہو.(ازالہ اوہام صفحہ 190) اور ازالہ اوہام صفحہ 179 میں لکھتے ہیں:.واضح ہو کہ یہ بات نہایت صاف اور روشن ہے کہ جنہوں نے اس عاجز کا مسیح موعود ہونا مان لیا ہے وہ لوگ ہر ایک خطرہ سے محفوظ اور معصوم ہیں اور کئی طرح کے ثواب اور اجر اور قوت ایمانی کے وہ مستحق ٹھہر گئے ہیں“.الجواب پس تناقض ظاہر ہے.حضرت مرزا صاحب نے مسلمانوں کے خیالی مسیح موعود ہونے سے انکار کیا ہے نہ کہ احادیث کے مصداق مسیح موعود سے.مسلمانوں کا خیالی مسیح موعود حضرت عیسی علیہ السلام اصالتا ہیں اور مسیح موعود کا دعوی اس خیالی مسیح کے مثیل موعود ہونے کا ہے.پس مثیل موعود ہو کر آپ اُمت محمدیہ کے لئے مسیح موعود ہیں.دلیل اس بات کی کہ اس جگہ مسلمانوں کے خیالی مسیح موعود ہونے سے انکار کیا ہے.یہ ہے کہ آپ چند سطر میں آگے تحریر فرماتے ہیں:.میں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں جو شخص یہ

Page 545

523 حصہ دوم الزام میرے پر لگاوے وہ سراسر مفتری اور کذاب ہے“.مسلمان حقیقی ابن مریم کا آنا خیال کرتے تھے اور اُسے مسیح موعود جانتے تھے اس لئے اس جگہ ان کے مزعوم اور خیالی مسیح موعود ہونے سے انکار کیا گیا ہے نہ کہ حدیثوں کے مصداق مسیح موعود سے چنانچہ آگے چل کر فرماتے ہیں :.میری زندگی کو مسیح ابن مریم سے اشد مشابہت ہے اور یہ بھی میری طرف سے کوئی نئی بات ظہور میں نہیں آئی کہ میں نے ان رسالوں میں اپنے تئیں وہ موعود ٹھہرایا ہے جس کے آنے کا قرآن شریف میں اجمالاً اور احادیث میں تصریح بیان کیا گیا ہے.کیونکہ میں تو پہلے بھی براہین احمدیہ میں بتفریح لکھ چکا ہوں کہ میں وہی مثیل موعود ہوں جس کے آنے کی خبر روحانی طور پر قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں پہلے سے وارد ہو چکی ہے.(ازالہ اوہام صفحہ 190 روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 192 ) چونکہ آپ کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام کا مثیل موعود ہی امت محمدیہ کے لئے حقیقی مسیح موعود ہے اس لئے آپ نے ازالہ اوہام کے دوسرے مقامات میں اپنے تئیں مسیح موعود قرار دیا ہے.مگر اپنی تصریح کے مطابق نہ کہ مخالفین کے خیال کے مطابق.نیز آپ کے مسیح موعود ہونے کے یہ معنی بھی نہیں کہ آپ میں حضرت عیسی کی روح حلول کر آئی ہے.جیسا کہ بعض کم فہموں نے آپ کے متعلق یہ خیال کر لیا کہ مرزا صاحب بطور تناسخ عیسی ابن مریم ہونے کے مدعی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام علماء کے ذکر میں فرماتے ہیں:.ان کی یہ خاص مراد کشف والہاماً وعقلاً وفرقانا مجھے پوری ہوتی نظر نہیں آتی

Page 546

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 524 حصہ دوم کہ وہ لوگ سچ سچ کسی دن حضرت مسیح بن مریم کو آسمان سے اترتے دیکھ لیں گئے.اور یہ بھی لکھا:.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 198 ) یہ خیال کہ تناسخ کے طور پر حضرت مسیح بن مریم دنیا میں آئیں گے سب سے زیادہ رڈی اور شرم کے لائق ہے.(ازالہ اوہام صفحہ 87 روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 147) پس آپ لوگوں کے خیالی مسیح موعود نہیں ( یعنی حقیقی ابن مریم نہیں ) اور نہ بطور تناسخ مسیح ابن مریم ہونے کے مدعی ہیں.بلکہ آپ مسیح موعود ہیں بطور بروز.پس اعتراض میں پیش کردہ دونوں باتوں میں کوئی تناقض نہیں.کیونکہ مسیح موعود ہونے سے انکار کی وجہ مسیح موعود ہونے کے اقرار سے مختلف ہے اور جب اقرار وانکار کے اعتبارات ووجوہ مختلف ہوں تو موضوع بدل جانے کی وجہ سے تناقض اُٹھ جاتا ہے.کیونکہ تناقض پایا جانے کے لئے موضوع ایک ہی ہونا بھی ضروری شرط ہے.لَوْلَا الْاِعْتِبَارَاتُ لَبَطَلَتِ الْحِكْمَةُ.

Page 547

یتعلیمی پاکٹ بک 525 فضیلت بر مسیح کے عقیدہ میں تبدیلی کی وجہ اعتراض ششم حصہ دوم تریاق القلوب کے صفحہ 157 پر حضرت عیسی علیہ السلام پر جزوی فضیلت کا عقیدہ درج ہے اور ریو یو جلد اول نمبر 6 میں اس کے برخلاف حضرت عیسی علیہ السلام سے تمام شان میں بڑھ کر ہونے کا ذکر ہے.الجواب پہلا عقیدہ اجتہادی تھا اور دوسرا عقیدہ الہامی اس لئے دونوں میں کوئی تناقض نہیں.جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام سے نبوت میں اپنی نسبت نہیں سمجھتے تھے اس وقت تک ایسے الہامات سے جن میں حضرت مسیح کی فضلیت کا ذکر تھا اجتہاد أجزوی فضیلت مراد لیتے تھے.لیکن وحی الہی کی صراحت سے جب آپ پر یہ انکشاف ہو گیا کہ آپ نبی ہیں مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی اور اسی زمانہ میں یہ الہام بھی ہوا.کہ مسیح محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 17 ) تو آپ نے اپنے عقیدہ میں اس الہامی انکشاف سے تبدیلی فرمالی.پس آپ کے کلام میں کوئی حقیقی تناقض موجود نہیں.اختلاف صرف آپ کے پہلے اجتہاد اور بعد کے الہام میں ہے اور اجتہاد میں کسی الہام سے تبدیلی کوئی قابل اعتراض امر نہیں بلکہ وہ اجتہاد درست نہ ہو.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.مَا حَدَّثْتُكُمْ عَنِ اللَّهِ سُبحَانَهُ وَتَعَالَى فَهَوَحَقٌّ وَمَاقُلْتُ فِيْهِ

Page 548

ندی تعلیمی پاکٹ بک 526 حصہ دوم مِنْ قِبَلِ نَفْسِى فَإِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ أُخْطِئُ وَأصِيبُ، (نبراس شرح الشرح العقائد النسفى صفحه (392) کہ جو بات میں تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے بتلاؤں وہ حق ہے اور جو اجتہاداً اپنی طرف سے کہوں تو میں انسان ہوں خطا بھی کرسکتا ہوں.اور درست بات بھی کہتا ہوں.فضلیت کے مسئلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقیدہ میں بھی تبدیلی ہوئی تھی.ایک وقت آپ فرماتے تھے:.لا تَخَيَّرُونِي عَلَى مُوسَى“.( صحیح بخاری کتاب الخصومات باب ما يذكر في الاشخاص......) یعنی مجھے موسیٰ پر فوقیت نہ دو.لیکن جب آپ کو خاتم النبیین قرار دیا گیا تو اس الہامی انکشاف پر جو تمام انبیاء پر آپ کی فضیلت کو ظاہر کرتا تھا آپ نے یہ اعلان فرما دیا:.فضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍ“.(صحیح مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاة) کہ مجھے چھ باتوں میں تمام نبیوں پر فضیلت دی گئی ہے اور آخری بات یہ بتائی کہ خُتِمَ بِي النَّبِيُّون کہ میرے بعد تشریعی انبیاء کا آنا منقطع ہو گیا ہے.اور غالباً اس آیت کے نزول کے بعد ہی آپ نے فرمایا کہ آنَاسَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ “ کہ میں تمام بنی نوع کا سردار ہوں اور یہ کوئی فخر یہ بات نہیں (یعنی یہ اظہار حقیقت ہے ) اور یہ بھی فرمایا کہ أنَا سَيِّدُ النَّبِيِّينَ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخَرِينَ (دیلمی) کہ میں سب پہلے اور پچھلے نبیوں کا سردار ہوں کیونکہ خاتم النبیین کا یہ بھی

Page 549

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 527 حصہ دوم ایک مفہوم ہے.اور نیز یہ فرمایا:.أَنَا قَائِدُ المُرْسَلِين “ کہ میں سب نبیوں کا لیڈر ہوں اور پھر یہ بھی فرما دیا.لوكَانَ مُوسَى حَيًّا لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا اتَّبَاعِی که اگر موسی زنده ہوتے تو میری پیروی کے بغیر انہیں چارہ نہ ہوتا.(مرقاة -مشکوۃ جلد 5 صفحہ 564) کجا یہ انکسار اور تواضع تھی کہ حضرت موسی علیہ السلام پر بھی اپنی فضیلت قرار نہیں دیتے تھے اور کجا یہ شان ہے کہ اب اپنے تئیں تمام نبیوں سے افضل اور ان کا سردار قرار دیتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ اگر موسی زندہ ہوتا تو باوجود نبوت کے بھی میرا خادم ہوتا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ - اعتراض ہفتم محدث اور نبی مرزا صاحب نے ازالہ اوہام میں لکھا ہے.نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعوی ہے جو خدا کے حکم سے کیا گیا.اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں لکھتے ہیں:.چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعوی کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا.حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں“.پھر لکھتے ہیں :.(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 1) جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ من جانب اللہ ظاہر ہوں گے کے ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 206

Page 550

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 528 حصہ دوم بالضرورت اس پر مطابق آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبة کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 4 روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 208) پھر آگے لکھتے ہیں :.یا درکھنا چاہیے کہ ان معنوں (بروزی معنوں) کے رُو سے مجھے نبوت اور رسالت سے انکار نہیں ہے اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا گیا.اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو اس کا نام محدّث رکھنا چاہیے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے.مگر نبوت کے معنی اظہار مرغیب ہے.(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 7 - روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 209) دونوں عبارتوں میں تناقض ظاہر ہے.ایک جگہ محدث ہونے کا دعوئی.دوسری جگہ محدث ہونے سے انکار.اور نبی ہونے کا اعلان کیا ہے.الجواب بیشک اشتہار ایک غلطی کے ازالہ سے پہلے یعنی 1901ء سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معروف اصطلاح کی رُو سے نبوت کے دعوئی سے انکار کیا ہے.اور اپنی نبوت کی تاویل محدث کے لفظ سے کی ہے مگر محدثیت کو بھی اس وقت کوئی معمولی مرتبہ نہیں سمجھا.بلکہ یہ لکھنے کے بعد کہ نبوت کا دعوی نہیں محدثیت کا دعوی ہے جو خدا کے حکم سے کیا گیا ہے“ آگے لکھا ہے:.اس میں کیا شک ہے کہ محدثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہے“.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 320)

Page 551

ندی تعلیمی پاکٹ بک 529 حصہ دوم نیز ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 478 پر علامات مسیح موعود کے ضمن میں لکھتے ہیں: از انجملہ ایک یہ ہے کہ مسیح موعود جو آنے والا ہے اس کی علامت یکھی ہے کہ وہ نبی اللہ ہو گا یعنی خدائے تعالیٰ کی طرف سے وحی پانے والا لیکن اس جگہ نبوت تامہ کا ملہ مراد نہیں کیونکہ نبوت تامہ کاملہ پر مہر لگ چکی ہے بلکہ وہ نبوت مُراد ہے جو محدثیت کے مفہوم تک محدود ہے.جو مشکوۃ نبوت محمدیہ سے نور حاصل کرتی ہے سو یہ نعمت خاص طور پر اس عاجز کو دی گئی ہے.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 478) پس محدث کو ازالہ اوہام میں آپ نے مِنْ وَجْہِ نبی قرار دیا ہے.اور اس سے نبوت تامہ کاملہ کی نفی قرار دی ہے جو تشریعی نبوت ہوتی ہے.نبوت جزئیہ کی نفی نہیں کی بلکہ نبوت جزئیہ کا جاری رہنا حسب حدیث لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبوَةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ“ آپ نے اپنی کتاب توضیح مرام میں جو ازالہ اوہام سے بھی پہلے کی ہے.بیان کیا ہے.اور اس کی تشریح میں لکھا ہے:.أَى لَمْ يَبْقَ مِنْ أَنْوَاعِ النُّبُوَّةِ إِلَّا نَوْعٌ وَّاحِدٌ وَّهِيَ الْمُبَشِّرَاتُ توضیح مرام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 60) یعنی نبوت کی اقسام میں سے صرف ایک قسم باقی ہے وہ الْمُبَشِّرَاتُ ہیں.اسی نبوت کو محدث کی صفات بیان کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ مغز شریعت اُس پر کھولا جاتا ہے اور بعینہ انبیاء کی طرح مامور ہو کر آتا ہے.اور اس کے آگے لکھا ہے کہ.پائے جائیں“.نبوت کے معنی بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ امور متذکرہ بالا اس میں توضیح مرام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 60)

Page 552

530 حصہ دوم پس 1900 ء سے پہلے محدثیت کے پیرایہ میں آپ کو نبوت کا دعویٰ تھا لیکن نبوت تامہ کا ملہ سے انکار تھا جو وحی شریعت کا حامل ہوتی ہے.چنانچہ توضیح مرام میں فرماتے ہیں:.إِنَّ النُّبُوَّةَ التَّامَّةَ الْحَامِلَةَ لِوَحْيِ الشَّرِيعَةِ قَدِ انْقَطَعَتْ وَلَكِنَّ النُّبُوَّةَ الَّتِي لَيْسَ فِيهَا إِلَّا الْمُبَشِّرَاتِ فَهِيَ بَاقِيَةٌ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ لَا انْقِطَاعَ لَهَا أَبَدًا توضیح مرام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 61) کہ نبوت تامہ جو وحی شریعت کی حامل ہوتی ہے منقطع ہو گئی ہے.لیکن وہ نبوت جس میں صرف المبشرات ہوتی ہیں.قیامت کے دن تک باقی ہے اس کا کبھی انقطاع نہیں ہوا.پس جس نبوت کا آپ نے انقطاع مانا ہے.کبھی آپ نے اپنے آپ کو اس کا مصداق قرار نہیں دیا.بیشک 1901ء تک آپ کو بہ پیرا یہ محدثیت نبوت غیر تشریعیہ پانے کا دعویٰ رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے براہین احمدیہ کے زمانہ میں آپ پر یہ بھی الہام کیا تھا:.انْتَ مُحَدَّثُ اللَّهِ فِيْكَ مَادَّةٌ فَارُوقِيَّةٌ.اس سے آپ نے یہ اجتہاد کیا کہ آپ کی نبوت سے مراد خدا تعالیٰ کے نزدیک محمد حمیت ہے اور یہی خدا کا حکم یعنی فیصلہ ہے اپنے لئے نبی اور رسول کی تاویل محدث کی.پس اپنی نبوت کو محد ثیت تک محدود قرار دینا ایک اجتہادی امر تھا.لیکن 1901ء کے قریب آپ پر یہ انکشاف ہو گیا کہ آپ کو اب اس تاویل کی ضرورت نہیں بلکہ آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے صریح طور پر نبی کا خطاب دیا گیا ہے.جب یہ حقیقت آپ پر منکشف ہوئی تو آپ نے اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں یہ اعلان فرما دیا کہ آپ کو محض محدث قرار دینے سے آپ کی پوری شان کا

Page 553

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 531 حصہ دوم اظہار نہیں ہوتا.کیونکہ محدث کے معنی اظہار ا مرغیب نہیں بلکہ نبی کے لفظ سے ہی آپ کی پوری شان کا اظہار ہوتا ہے.اس زمانہ میں آپ پر منکشف ہو گیا کہ آپ کو محدث خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں معنوں میں قرار دیا گیا تھا.جن معنوں میں ہر نبی محدث ہوتا ہے.یعنی خدا کی ہمکلامی کا شرف رکھنے والا ، چنانچہ حمامۃ البشریٰ میں آپ نے صاف یہ لکھا تھا:.اس بات کا کہنا جائز ہے کہ نبی علی وجہ الکمال محدث ہے.اسی طرح جائز ہے کہ ہم کہیں محدث استعداد باطنی کی وجہ سے نبی ہے کیونکہ محدث بالقوہ نبی ہے اور کمالات نبوت سب محدثیت میں مخفی اور مضمر ہوتے ہیں“.( ترجمه عربی عبارت حمامة البشری روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 300) پس اس تبدیلی عقیدہ کے بعد بھی آپ آپ کو محدث علی وجہ الکمال کہنا جائز ہے.البتہ آپ کی نبوت کو محد ثیت تک محدود رکھنا جائز نہیں.پس یہ تبدیلی جو واقع ہوئی ہے یہ بھی خدا تعالیٰ سے صریح طور پر نبی کا خطاب پانے کے انکشاف کے باعث ہے.لہذا آپ کے کلام میں کوئی حقیقی اور معنوی تناقض موجود نہیں.صرف ایک تاویل کا لفظی اختلاف پایا جاتا ہے.اسی لئے آپ نے ایک اشتہار ایک غلطی کے ازالہ میں یہ بھی تحریر فرمایا :.جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا.بلکہ انہی معنوں سے

Page 554

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 532 حصہ دوم خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے.(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 210-211) اس سے ظاہر ہے کہ دونوں زمانوں کی عبارتوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت ورسالت میں معنوی طور پر توافق اور تطابق ہے کوئی اختلاف نہیں.(اختلاف صرف محدث کی تاویل اختیار کرنے میں ہے.اور وہ بھی وحی الہی کے باعث اس قسم کا تدریجی انکشاف کسی مامور من اللہ کے دعوئی میں ہرگز قابل اعتراض نہیں ہوتا.چنانچہ حضرت مجددالف ثانی علیہ الرحمۃ انبیاء کا تدریجی طور پر مقام نبوت پانا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.راه دیگر آنست که بتوسط حصول ایں کمالات ولایت وصول بکمالاتِ نبوت میسر می گردد و این راه دوم شاهراه است واقرب است بوصول و هر که بکمالات نبوت رسیده است الا ماشاء اللہ تعالی بایں راه رفته است از انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام و از اصحاب کرام ایشان به تبعیت و وراثت.مکتوبات مجد دالف ثانی جلد اوّل مکتوب 301 صفحہ 141 مطبوعہ رؤف اکیڈیمی لاہور ) یعنی دوسری راہ کمالات نبوت پانے کی یہ ہے کہ کمالات ولایت حاصل کرنے کے واسطہ سے کمالات نبوت کا حاصل کرنا میسر ہو یہ شاہراہ ہے اور کمالِ نبوت تک پہنچنے میں قریب ترین راہ ہے.والا ماشاء اللہ.اسی راہ پر بہت سے انبیاء اور ان کے اصحاب ان کی پیروی اور وراثت سے چلے ہیں.پس جب پہلے ولایت کے مقام پر پہنچ کر ولایت یعنی محدثیت حاصل کرنے کے بعد کئی انبیاء (بقول مجدد الف ثانی ) نبوت کے مقام پر پہنچے ہیں اور اسی طرح مقام نبوت انہوں نے تدریجاً حاصل کیا ہے تو اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اپنی نبوت کی پوری شان ظاہر ہونے میں تدریج پائی گئی تو یہ کیونکر قابل اعتراض ٹھہر سکتی

Page 555

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 533 حصہ دوم ہے.جب کہ مصلحت اور حکمت الہی کا تقاضا یہ تھا کہ فیضان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال ثابت کیا جائے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا.”خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضۂ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کیلئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی.اور میری نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلت ہے نہ کہ اصلی نبوت ( یعنی تشریعی نبوت.ناقل ) اسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیسا کہ میرا نام نبی رکھا گیا ایسا ہی میرا نام امتی بھی رکھا ہے تا معلوم ہو کہ ہر ایک کمال مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی 66 اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 154 حاشیہ)

Page 556

534 حصہ دوم احمدیوں کے دونوں فریق میں لفظی نزاع احمدیوں کے لاہوری فریق سے ہمارا اتحاد نہایت آسانی سے ہوسکتا ہے.کیونکہ ہم میں اور اُن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے بارہ میں صرف ایک لفظی نزاع ہے دونوں فریق میں اس بارہ میں میرے نزدیک کوئی حقیقی نزاع نہیں.دونوں آپ کو اپنے دعاوی میں صادق مانتے ہیں.نزاع کے لفظی ہونے کی وجہ درج ذیل ہے:.-1 -2 -3 -4 لاہوری فریق اس بات کا قائل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کی وجہ سے آپ کے بعد کوئی تشریعی نبی نہیں آسکتا.اس بارہ میں ہمارا اُن سے پو را تفاق ہے.لاہوری فریق یہ مانتا ہے کہ آیت خاتم النبین کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی مستقل نبی نہیں آسکتا.ہم اس بات میں بھی ان سے پورے متفق ہیں.لا ہوری فریق کو اس بات کا اعتراف ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کے الہامات میں نبی اور رسول کہا گیا ہے اور ہم ان سے اس بات میں بھی متفق ہیں.لاہوری فریق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نبی اور رسول ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ مامور من اللہ ہیں اور آپ پر بکثرت امور غیبیہ کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اظہار ہوتا رہا ہے.ہم لا ہوری فریق سے نبی کے ان معنی میں بھی پورے طور پر متفق ہیں.

Page 557

535 حصہ دوم _5 لا ہوری فریق یہ کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ہیں نہ کہ صرف نبی ہم اس بارہ میں بھی لا ہوری فریق سے پورا اتفاق رکھتے ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت ورسالت اور اس کے معنی اور کیفیت کے متعلق دونوں فریق ایک ہی عقیدہ رکھتے ہیں.جزوی اختلاف ہم دونوں فریق میں صرف ایک جزوی اختلاف پایا جاتا ہے.جو یہ ہے کہ:.لا ہوری فریق یہ کہتا ہے کہ آپ نبوت کا شعبہ قویہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور حدیث صحیح مسلم کا لفظ نبی اللہ آپ پر صادق آتا ہے مگر آپ کی نبوت محد ثیت تک محدود ہے اور ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ علی وجہ الکمال محدث ہیں جو نبی ہی ہوتا ہے.لہذا آپ کا مقام نبوت محض محدث کے مقام سے بالا ہے.یہ محض لفظی نزاع ہے.کیونکہ ہم دونوں فریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی اور رسول بھی جانتے ہیں اور ہمیں اس نبی اور رسول کے معنی میں بھی اتفاق ہے اور ہم دونوں فریق آپ کو تشریعی اور مستقل نبی نہیں جانتے بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی جانتے ہیں.مگر اشتہار ایک غلطی کا ازالہ کی روشنی میں ہم آپ کی نبوت کو محض محدثیت نہیں سمجھتے کیونکہ ایسا کہنے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منع فرمایا ہے.اور اپنا مقام یہ قرار دیا ہے:.”خود حدیثیں پڑھتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں اسرائیلی نبیوں کے مشابہ لوگ پیدا ہوں گے اور ایک ایسا ہوگا کہ ایک پہلو سے نبی ہوگا اور ایک پہلو سے امتی.وہی مسیح موعود کہلائے گا“.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 104 حاشیہ )

Page 558

احمدی تعلیمی پاکٹ بک 536 حصہ دوم نیز فرماتے ہیں:.اس امت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی“.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 30 حاشیہ) نیز حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 406-407 پر لکھتے ہیں:.غرض اس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزرچکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں.کیونکہ کثرتِ وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی صفائی سے پوری ہو جاتی کیونکہ اگر دوسرے صلحاء جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں وہ بھی اسی قدر مکالمہ و مخاطبہ الہیہ اور امور غیبیہ سے حصہ پالیتے تو وہ نبی کہلانے کے مستحق ہو جاتے.تو اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی میں ایک رخنہ واقع ہو جاتا اس لئے خدا تعالیٰ کی مصلحت نے اُن بزرگوں کو اس نعمت کو پورے طور پر پانے سے روک دیا تا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا وہ پیشگوئی پوری ہو جائے“.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 406-407) ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کا مقام نبوت ایک مخصوص مقام ہے جو کہ اب تک کسی محدث امت کو حاصل نہیں ہوا.بلکہ صرف آپ

Page 559

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 537 کو ہی ساری امت میں سے اس وقت تک یہ مقام حاصل ہوا ہے.حصہ دوم پس ہمارے نزدیک یہ مقام نبوت محدثیت والی جزوی نبوت سے بالا ہے.کیونکہ آپ کے نزدیک اس وقت تک ایسا نبی جو ایک پہلو سے امتی بھی ہو صرف ایک ہی شخص گزرا ہے جو سیح موعود ہے اور دوسرے صلحاء میں نبی کا نام پانے کی شرط جو امور غیبیہ کو بکثرت پانا ہے پورے طور پر پائی نہیں گئی لہذا اگر دوسرے صلحاء نبی کا نام پالیتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی میں رخنہ واقع ہو جاتا.پس ان حوالہ جات کی روشنی میں آپ کو عام محدثین کی طرح محض محدث سمجھنا جائز نہیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ میں فرمایا ہے:.امتِ محمدیہ میں محدثیت کا منصب اس قدر بکثرت ثابت ہوتا ہے.جس سے انکار کرنا بڑے غافل اور بے خبر کا کام ہے.اس امت میں آج تک ہزار ہا اولیاء اللہ صاحب کمال گزرے ہیں جن کی خوارق اور کرامات بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ثابت اور محقق ہو چکی ہیں.( براہین احمدیہ چہار حصص روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 653 حاشیہ ) پس اولیاء اللہ یا بالفاظ دیگر محد ثین تو امت محمدیہ میں ہزار ہا گزرے ہیں اور ان میں سے امور غیبیہ بکثرت پانے کی وجہ سے صرف مسیح موعود علیہ السلام کو خدا اور رسول کی طرف سے نبی کا نام دیا گیا ہے.الہذا یہ امر اس بات کی روشن دلیل ہے کہ مسیح موعود کا مقام نبوت میں محض محدث سے بالا ہے.یہ وہ بات ہے جس سے ہمارے لا ہوری دوستوں کو انکار نہیں کرنا چاہیے.خلاصہ کلام یہ کہ ہمارے اور لاہوری فریق کے درمیان محض ایک لفظی نزاع ہے.ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بوجہ نبوت علی وجہ الکمال محدث جانتے ہیں اور

Page 560

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 538 حصہ دوم لاہوری فریق آپ کی نبوت کو محد ثیت تک محدود قرار دیتا ہے.اگر ہمارے یہ دوست مندرجہ بالا عبارتوں سے صحیح استفادہ کریں تو بے شک وہ مسیح موعود علیہ السلام کو محدث کہیں مگر انہیں نبوت میں آپ کا مقام تمام محدثین امت سے بالا سمجھنا چاہیے.آخر علی وجہ الکمال محدث تو ہر نبی ہوتا ہے.پس ہم میں اور ان میں لفظی جھگڑا رہ گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی ہونے کی وجہ سے علی وجہ الکمال محدث ہیں یا آپ کی نبوت محض محد ثیت تک محدود ہے.اس سے بالا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اپنے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان بھی جو ابھی آپ کو نہیں مانتے نبوت کے بارہ میں ایک لفظی نزاع ہی قرار دیا ہے.جیسا کہ آپ تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 503 پر تحریر فرماتے ہیں:.یہ کہنا کہ نبوت کا دعویٰ ( یعنی صرف نبی ہونے کا.ناقل ) کیا ہے کس قدر جہالت کس قدر حماقت اور کس قدر حق سے خروج ہے.اے نادانو میری مراد نبوت سے یہ نہیں کہ میں نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں.صرف مراد میری نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الہیہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے (یعنی یہ فرمارہے ہیں کہ میرا دعویٰ ایسی نبوت کا ہے جس کے لئے امتی ہونا ضروری ہے.ناقل ) پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی.یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الہی نبوت رکھتا ہوں.وَلِكُلّ أَنْ يُصْطَلِحَ “.تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 503) پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان مسئلہ نبوت میں صرف ایک لفظی نزاع قرار دیتے ہیں.نہ کہ حقیقی نزاع تو

Page 561

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 539 حصہ دوم لا ہوری فریق سے ہماری بدرجہ اولی لفظی نزاع ہوئی کیونکہ وہ ہماری طرح اس بات کے قائل ہیں.حضرت مسیح موعود خدا تعالیٰ کی طرف سے یعنی مامور من اللہ ہونے کے دعویٰ میں بچے ہیں اور امت کے لئے مہدی معہو دو مسیح موعود ہیں اور خدا تعالیٰ نے آپ کا نام نبی اور رسول بھی رکھا ہے.مندرجہ بالا حوالہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل نبی ہونے کا نہیں بلکہ اتباع نبوی میں خدا کے حکم سے نبوت پانے کا دعویٰ ہے.پھر چشمہ معرفت میں آپ فرماتے ہیں:.” خدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے“.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 341) الہذا خدا کی اصطلاح میں آپ نبی ہیں مگر مسلمانوں کی معروف اصطلاح میں آپ کا نبوت کا کوئی دعوی نہیں.اس اصطلاح کے متعلق آپ نے لکھا ہے:.اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں یا نھی سابق کی امت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفادہ کسی نبی کے خدا سے تعلق رکھتے ہیں“ ( مکتوب 17 راگست 1899) ان معنی میں نبی ہونے سے آپ کو شروع دعوی سے لے کر آخر تک ہمیشہ انکار رہا ہے اور اس جگہ اسلام کی اصطلاح سے مراد مسلمانوں کی عرفی اصطلاح ہے نہ کہ خدا کی اصطلاح.خدا کی اصطلاح میں تو آپ اپنے تئیں نبی قرار دیتے ہیں اور در حقیقت اسلام کی کوئی اصطلاح خدا کی اصطلاح سے مختلف نہیں ہو سکتی.کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے لاہوری فریق کے دوست دیر تک روٹھے رہنے

Page 562

540 حصہ دوم احمدی تعلیمی پاکٹ بک کے بعد آپس میں مل جائیں آخر وہ چھ سال تک حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کو حضرت مسیح موعود کے بعد واجب الاطاعت خلیفہ تسلیم کرتے رہے ہیں.تو اب حضرت خلیفتہ اسیح الثالث سے آملنے میں کوئی روک نہیں ہونی چاہیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت میں خلافت کو قدرتِ ثانی کا نام دیا ہے اور بطور مثال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر فرمایا.اور جماعت احمدیہ میں سنت قدیمہ کے مطابق اس قدرت ثانی کے لئے یہ پیشگوئی کی کہ اس کے کئی مظاہر ہوں گے اور اس کا سلسلہ قیامت تک چلے گا.پس ان بھائیوں کو بھی قدرت ثانی کے تمام مظاہر کو مان لینا چاہیے تا سب اکٹھے ہو کر خدمتِ اسلام کریں.خدا کی قدرت ثانی کارڈ کرنا محرومی ہے.انہیں اس محرومی سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے.خدا تعالیٰ انہیں اس کی توفیق دے.اللهُمَّ آمِین.اعتراض ہشتم مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ تو رات میں ہے کہ ایک مرتبہ چارسو نبیوں کو شیطانی الہام ہوا یہ نبی بعل بُت کے پجاری تھے نہ کہ ایماندار.الجواب (1.سلاطین باب 16 ) حضرت مسیح موعود نے بعل بُت کے پجاری نبیوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ تحریر فرمایا ہے:.مجموعہ تو رات میں سلاطین اول باب بائیس آیت انیس میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اس کی فتح کے بارے میں پیشگوئی کی وہ جھوٹے ہوئے اور بادشاہ کو شکست ہوئی.“ (ازالہ اوہام طبع سوم صفحہ 257)

Page 563

ند یتعلیمی پاکٹ بک 541 حصہ دوم پھر اپنی کتاب ضرورۃ الامام میں انہی چار سونبیوں کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے.بائیبل میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چارسو نبی کو شیطانی الہام ہوا تھا اور ایک پیغمبر کو جبرائیل سے الہام ہوا تھا.سو یہ خوشخبری سچی نکلی اور ان چار سونبیوں کی پیشگوئی جھوٹی نکلی.“ ( ضرورة الامام صفحہ ۱۷، ۱۸) یہ سب کچھ سلاطین باب 22 آیت 19 میں لکھا ہوا موجود ہے.بائیبل کے محاورہ میں پیشگوئی کو نبوت کہتے ہیں اور انہیں پیشگوئی کرنے والے معنوں میں نبی کہہ دیا گیا ہے.واضح ہو کہ باب 16 والےبعل کے پجاری نبی 400 نہ تھے 18 22 بلکہ 450 تھے (ملاحظہ ہو 1.سلاطین پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا ذکر نہیں فرمایا.اعتراض نہیم تورات و انجیل میں طاعون کی پیشگوئی مرزا صاحب نے کشتی نوح میں لکھا ہے کہ تورات وانجیل میں مسیح کی آمد کے وقت طاعون کی پیشگوئی کا ذکر ہے اس کا حوالہ دیا جائے.الجواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے لئے انجیل متی اے کا حوالہ دیا ہے.انجیل مطبوعہ 1857ء میں متی 2 میں مسیح کی ایک نشانی ”مری پڑنا بھی بیان کی گئی ہے لیکن افسوس بعد میں عیسائیوں نے اس عبارت کو اردو انجیل متی سے نکال 21 10 دیا مگر انگریزی ایڈیشن میں یہ عبارت موجود ہے.انجیل لوقا 2 پر بھی یہ پیشگوئی -

Page 564

ندی تعلیمی پاکٹ بک 542 حصہ دوم موجود ہے کہ جابجا کال اور مری پڑے گی.توریت میں بھی زکریاہ 12 میں میں طاعون کی پیشگوئی موجود ہے.انگریزی بائیبل میں تو لفظ پلیگ PLAGUE بھی موجود ہے لکھا ہے:.AND THIS SHALL BE THE PLAGUE WHERE WITH THE LORD WILL SMITE THE PEOPLE.یعنی پلیگ ہوگی جس سے خدا تعالیٰ کے گھر کے خلاف لڑائی کرنے والوں کو خدا ہلاک کر دے گا.اعتراض دہم قرآن و حدیث میں طاعون کی پیشگوئی کا کوئی ذکر نہیں مگر مرزا صاحب نے قرآن وحدیث میں بھی طاعون کی پیشگوئی موجود ہونے کا ذکر کیا ہے.قرآن مجید میں ہے وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ ـ (النمل: 83 ) یعنی جب اتمام حجت ہو جائے گی تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک کیڑا نکالیں گے جو ان کو کاٹے گا.كَلَّمَهُ تَكْلِيمًا کے معنی لغت عربی میں جرَّحَہ بھی ہیں یعنی اس نے اسے زخمی کیا.(المنجد ) قَالَ أَبُو عَبْدُ اللَّهِ وَقرء تَكْلِمُهُمُ مِنَ الْكَلِمِ وَهُوَ الْجُرُحُ وَالْمُرَادُ بِهِ الْوَسُمُ - امام باقر فرماتے ہیں کہ اس آیت میں قراءۃ تکلم سے مراد ہے کہ وہ کیڑا ان کو کاٹے گا اور زخم پہنچائے گا.(بحارالانوارجلد 13 صفحہ 232) حدیث میں ہے فَيَرُغَبُ نَبِيُّ اللهِ عِيسَى وَ أَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ

Page 565

احمدیہ علیمی پاکٹ بک 543 حصہ دوم عَلَيْهِمُ النَّغْفَ فِى رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرُسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ - (مسلم جلد نمبر 2 کتاب الفتن ذكر صفتة الدجال صفحہ 277 مصری) یعنی خدا کا نبی مسیح موعود اور اس کے صحابی خدا کی طرف متوجہ ہوں گے تو خدا تعالیٰ ان کے مخالفوں کی گردنوں میں ایک پھوڑا ظاہر کرے گا.وہ صبح کو ایک آدمی کی موت کی طرح ہو جائیں گے.بحارالانوار میں ایک حدیث ہے قدام القائم موتان موت أحمر و موت أبيض.الْمَوْتُ الأَحْمَرُ السَّيْفُ وَ الْمَوْتُ الْأَبْيَضُ الطَّاعُونُ - ( بحار الانوار جلد 13 صفحہ 156) یعنی امام مہدی کی علامات میں ہے کہ اس کی عام قبولیت سے پہلے دو موتیں ہوں گی سرخ موت اور سفید موت.سرخ موت تو تلوار ہے اور سفید موت طاعون ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.” یہی طاعون ہے اور یہی وہ دابة الارض ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے اور وہ لوگوں کو اس لئے کاٹے گا کہ وہ ہمارے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِايْتِنَا لَا يُوقِنُونَ.اور جب مسیح موعود کے بھیجنے سے خدا کی حجت اُن پر پوری ہو جائے گی تو ہم زمین میں سے ایک جانور نکال کر کھڑا کریں گے وہ لوگوں کو کاٹے گا اور زخمی کرے گا اس لئے کہ لوگ خدا کے نشانوں پر ایمان نہیں لائے تھے.( نزول المسیح - روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 416،415) ل النمل:83

Page 566

ی علیمی پاکٹ بک 544 حصہ دوم ایضاً صفحہ 43 پر ہے:.یہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ وہ دابة الارض یعنی طاعون کا کیڑا زمین میں سے نکلے گا اس میں یہی بھید ہے کہ تا وہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ وہ اُس وقت نکلے گا کہ جب مسلمان اور ان کے علماء زمین کی طرف جھک کر خود دابة الارض بن جائیں گے.ہم اپنی بعض کتابوں میں یہ لکھ آئے ہیں کہ اس زمانہ کے ایسے مولوی اور سجادہ نشین جو متقی نہیں ہیں اور زمین کی طرف جھکے ہوئے ہیں یہ دابة الارض ہیں اور اب ہم نے اس رسالہ میں یہ لکھا ہے کہ دابۃ الارض طاعون کا کیڑا ہے.ان دونوں بیانوں میں کوئی شخص تناقض نہ سمجھے.قرآن شریف ذ والمعارف ہے اور کئی وجوہ سے اس کے معنی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد نہیں.“ ( نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 421) پھر فرماتے ہیں:.یادر ہے کہ اہل سنت کی صحیح مسلم اور دوسری کتابوں اور شیعہ کی کتاب اکمال الدین میں بتصریح لکھا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑے گی بلکہ اکمال الدین جو شیعہ کی بہت معتبر کتاب ہے اُس کے صفحہ ۳۴۸ میں لکھا ہے کہ بی بھی اس کے ظہور کی ایک نشانی ہے کہ قبل اس کے کہ قائم ہو یعنی عام طور پر قبول کیا جائے دنیا میں سخت طاعون پڑے گی.“ نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 397،396) تمت بالخير

Page 566